Language: UR
<p>یہ رسالہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ماہ ستمبر ۱۸۹۸ءمیں تالیف فرمایا۔ اور صرف ڈیڑھ دن میں لکھا۔ اس رسالہ کے لکھنے کی وجہ ایک دوست کی اجتہادی غلطی تھی جس پر اِطلاع پانے سے آپؑ نے ایک نہایت درد ناک دل کے ساتھ یہ رسالہ لکھا۔ اُس دوست نے اپنے الہامات اور خوابیں سنائیں اور ایک خواب ایسا سُنایا جس سے یہ ظاہر ہوا کہ وہ آپ کو مسیح موعود نہیں مانتے اور نیز یہ کہ وہ مسئلہ امامت حقہ سے بے خبر ہیں۔ لہٰذا آپؑ کی ہمدردی نے یہ تقاضا کیا کہ امامت حقہ سے متعلق یہ رسالہ لکھیں اور بیعت کی حقیقت تحریر کریں۔</p><p>اِس رسالہ میں آپؑ نے یہ بتایا کہ امام الزمان کون ہوتا ہے؟ اور اُس کی علامات کیا ہیں اور اس کو دوسرے ملہموں اور خواب بینوں اور اہلِ کشف پر کیا فوقیت حاصل ہوتی ہے اور امام الزمان کو ماننا کیوں ضروری ہے۔ امت مسلمہ کی تمام تر ترقیات خواہ ہوہ دنیاوی ہوں یا روحانی، امام سے وابستگی کے ساتھ منحصر ہیں۔ اِس رسالہ کے آخر میں مقدمہ انکم ٹیکس کی روئیداد بھی درج کی گئی ہے۔</p><p>الٰہی وعدوں اور نبی کریم ؐ کی پیشگوئیوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی ؑ کو مسیح موعود و مہدی معہود اور اس زمانہ کا امام بناکر مبعوث فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو ہدایت دے اور امام آخر الزمان کوپہچاننے اور آپؑ کی بیعت کرکے روحانی فیوض وبرکات سے مستفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین</p>
472 ضَرُوْرَۃُ الامَام 3 الحمد للّٰہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفٰی اما بعد واضح ہو کہ حدیث صحیح*سے ثابت ہے کہ جو شخص اپنے زمانہ کے امام کو شناخت نہ کرے اس کی موت جاہلیت کی موت ہوتی ہے.یہ حدیث ایک متقی کے دل کو امام الوقت کا طالب بنانے کے لئے کافی ہو سکتی ہے کیونکہ جاہلیت کی موت ایک ایسی جامع شقاوت ہے جس سے کوئی بدی اور بدبختی باہر نہیں.سو بموجب اس نبوی وصیت کے ضروری ہوا کہ ہر ایک حق کا طالب امام صادق کی تلاش میں لگا رہے.یہ صحیح نہیں ہے کہ ہر ایک شخص جس کو کوئی خواب سچی آوے یا الہام کا دروازہ اس پر کھلا ہو وہ اس نام سے موسوم ہو سکتا ہے بلکہ امام کی حقیقت کوئی اور امر جامع اور حالت کاملہ تامہ ہے جس کی وجہ سے آسمان پر اس کا نام امام ہے؟ اور یہ تو ظاہر ہے کہ صرف تقویٰ اور طہارت کی وجہ سے کوئی شخص امام نہیں کہلا سکتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 3 ۱ پس اگر ہر ایک * حدثنا عبداللّٰہ حدثنا ابی حدثنا اسود بن عامر اناابوبکر عن عاصم عن ابی صالح عن معاویۃ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من مات بغیر امام مات میتۃ جاھلیۃ صفحہ نمبر۹۶ جلدنمبر۴ مسند احمد و اخرجہ احمد والترمذی و ابن خزیمۃ و ابن حبان و صححہ من حدیث الحارث الاشعری بلفظ من مات ولیس علیہ امام جماعۃ فان موتتہ موتۃ جاھلیۃ.ورواہ الحاکم من حدیث بن عمرو من حدیث معاویۃ و رواہ البزّار من حدیث ابن عباس.
473 متقی امام ہے تو پھر تمام مومن متقی امام ہی ہوئے اور یہ امر منشاء آیت کے برخلاف ہے اور ایسا ہی بموجب نص قرآن کریم کے ہر ایک ملہم اور صاحب رؤیا صادقہ امام نہیں ٹھہر سکتا کیونکہ قرآن کریم میں عام مومنین کے لئے یہ بشارت ہے کہ 3.۱ یعنی دنیا کی زندگی میں مومنین کو یہ نعمت ملے گی کہ اکثر سچی خوابیں انہیں آیا کریں گی یا سچے الہام ان کو ہوا کریں گے.پھر قرآن شریف میں ایک دوسرے مقام میں ہے.33.۲ یعنی جو لوگ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور پھر استقامت اختیار کرتے ہیں فرشتے ان کو بشارت کے الہامات سناتے رہتے ہیں اور ان کو تسلی دیتے رہتے ہیں جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ماں کو بذریعہ الہام تسلی دی گئی.لیکن قرآن ظاہر کر رہا ہے کہ اس قسم کے الہامات یا خوابیں عام مومنوں کے لئے ایک روحانی نعمت ہے خواہ وہ مرد ہوں یا عورت ہوں اور ان الہامات کے پانے سے وہ لوگ امام وقت سے مستغنی نہیں ہو سکتے اور اکثر یہ الہامات ان کے ذاتیات کے متعلق ہوتے ہیں اور علوم کا افاضہ ان کے ذریعہ سے نہیں ہوتا اور نہ کسی عظیم الشان تحدّی کے لائق ہوتے ہیں اور بہت سے بھروسے کے قابل نہیں ہوتے بلکہ بعض وقت ٹھوکر کھانے کا موجب ہو جاتے ہیں.اور جب تک امام کی دستگیری افاضہ علوم نہ کرے تب تک ہرگزہرگزخطرات سے امن نہیں ہوتا.اس امر کی شہادت صدراسلام میں ہی موجود ہے.کیونکہ ایک شخص جو قرآن شریف کا کاتب تھااس کو بسا اوقات نور نبوت کے قرب کی وجہ سے قرآنی آیت کا اس وقت میں الہام ہو جاتا تھا جبکہ امام یعنی نبی علیہ السلام وہ آیت لکھوانا چاہتے تھے.ایک دن اس نے خیال کیا کہ مجھ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کیا فرق ہے.مجھے بھی الہام ہوتا ہے.اس خیال سے وہ ہلاک کیا گیا.اور لکھا ہے کہ قبر نے بھی اس کو باہر پھینک دیا.جیسا کہ بلعم ہلاک کیا گیا.مگر عمر رضی اللہ عنہ کو بھی الہام ہوتا تھا.انہوں نے اپنے تئیں کچھ چیز نہ سمجھا.اور امامتِ حقہ جو آسمان کے خدا نے زمین پر قائم کی تھی اس کا شریک بننا نہ چاہا.بلکہ ادنیٰ چاکر
474 اور غلام اپنے تئیں قرار دیا.اس لئے خدا کے فضل نے ان کو نائب امامتِ حقہ بنا دیا.اور اویس قرنی کو بھی الہام ہوتا تھا اس نے ایسی مسکینی اختیار کی کہ آفتاب نبوت اور امامت کے سامنے آنا بھی سوء ادب خیال کیا.سیدنا حضرت محمد* مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بارہا یمن کی طرف منہ کر کے فرمایا کرتے تھے کہ اَجِدُ رِیْحَ الرَّحْمٰنِ مِنْ قِبَلِ الْیَمَن.یعنی مجھے یمن کی طرف سے خدا کی خوشبو آتی ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اویس میں خدا کا نور اترا ہے.مگر افسوس کہ اس زمانہ میں اکثر لوگ امامت حقّہ کی ضرورت کو نہیں سمجھتے اور ایک سچّی خواب آنے سے یا چند الہامی فقروں سے خیال کرلیتے ہیں کہ ہمیں امام الزمان کی حاجت نہیں کیا ہم کچھ کم ہیں؟ اور یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ ایسا خیال سراسر معصیت ہے کیونکہ جب کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امام الزمان کی ضرورت ہر ایک صدی کیلئے قائم کی ہے اور صاف فرما دیا ہے کہ جو شخص اس حالت میں خدا تعالیٰ کی طرف آئے گا کہ اس نے اپنے زمانہ کے امام کو شناخت نہ کیا وہ اندھا آئے گا اور جاہلیت کی موت پر مرے گا.اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ملہم یاخواب بین کا استثناء نہیں کیا جس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ملہم ہو یا خواب بین ہو اگر وہ امام الزمان کے سلسلہ میں داخل نہیں ہے تو اس کا خاتمہ خطرناک ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ اس حدیث کے مخاطب تمام مومن اور مسلمان ہیں اور ان میں ہر ایک زمانہ میں ہزاروں خواب بین اور ملہم بھی ہوتے آئے ہیں.بلکہ سچ تو یہ ہے کہ امّت محمدیہ میں کئی کروڑ ایسے بندے ہوں گے جن کو الہام ہوتا ہوگا.پھر ماسوا اس کے حدیث اور قرآن سے یہ ثابت ہے کہ امام الزمان کے وقت میں اگر کسی کو کوئی سچی خواب یا الہام ہوتا ہے تو وہ درحقیقت امام الزمان کے نور کا ہی پرتوہ ہوتا ہے جو مستعد دلوں پر پڑتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ جب دنیا میں کوئی امام الزمان آتا ہے تو ہزارہا انوار اس کے ساتھ آتے ہیں اور آسمان میں ایک صورت انبساطی پیدا ہو جاتی ہے اور انتشار روحانیت اور نورانیت ہوکر نیک استعدادیں جاگ اٹھتی ہیں پس جو شخص الہام کی استعداد رکھتا ہے اس کو سلسلہ الہام شروع ہو جاتا ہے اور جو شخص فکر اور غور کے ذریعہ * ایڈیشن اول میں محمد کا لفظ کاتب سے سہواً رہ گیا ہے.ناشر
475 سے دینی تفقہ کی استعداد رکھتا ہے اس کے تدبّر اور سوچنے کی قوت کو زیادہ کیا جاتا ہے اور جس کو عبادات کی طرف رغبت ہو اس کو تعبد اور پرستش میں لذت عطا کی جاتی ہے.اور جو شخص غیر قوموں کے ساتھ مباحثات کرتا ہے اس کو استدلال اور اتمام حجت کی طاقت بخشی جاتی ہے.اور یہ تمام باتیں درحقیقت اسی انتشار روحانیت کا نتیجہ ہوتا ہے جو امام الزمان کے ساتھ آسمان سے اترتی اور ہر ایک مستعد کے دل پر نازل ہوتی ہے.اور یہ ایک عام قانون اور سنت الٰہی ہے جو ہمیں قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کی رہنمائی سے معلوم ہوا اور ذاتی تجارب نے اس کا مشاہدہ کرایا ہے مگر مسیح موعود کے زمانہ کو اس سے بھی بڑھ کر ایک خصوصیت ہے اور وہ یہ ہے کہ پہلے نبیوں کی کتابوں اور احادیث نبویہ میں لکھا ہے کہ مسیح موعود کے ظہور کے وقت یہ انتشار نورانیت اس حد تک ہوگا کہ عورتوں کو بھی الہام شروع ہو جائے گا اور نابالغ بچے نبوت کریں گے.اور عوام الناس روح القدس سے بولیں گے.اور یہ سب کچھ مسیح موعود کی روحانیت کا پرتوہ ہوگا.جیسا کہ دیوار پر آفتاب کا سایہ پڑتا ہے تو دیوار منور ہو جاتی ہے.اور اگر چونہ اور قلعی سے سفید کی گئی ہو تو پھر تو اور بھی زیادہ چمکتی ہے.اور اگر اس میں آئینے نصب کئے گئے ہوں تو ان کی روشنی اس قدر بڑھتی ہے کہ آنکھ کو تاب نہیں رہتی.مگر دیوار دعویٰ نہیں کر سکتی کہ یہ سب کچھ ذاتی طور پر مجھ میں ہے.کیونکہ سورج کے غروب کے بعد پھر اس روشنی کا نام و نشان نہیں رہتا.پس ایسا ہی تمام الہامی انوار امام الزمان کے انوار کا انعکاس ہوتا ہے.اور اگر کوئی قسمت کا پھیر نہ ہو اور خدا کی طرف سے کوئی ابتلا نہ ہو تو سعید انسان جلد اس دقیقہ کو سمجھ سکتا ہے اور خدانخواستہ اگر کوئی اس الٰہی راز کو نہ سمجھے اور امام الزمان کے ظہور کی خبر سن کر اس سے تعلق نہ پکڑے تو پھر اول ایسا شخص امام سے استغنا ظاہر کرتا ہے اور پھر استغنا سے اجنبیت پیدا ہوتی ہے اور پھر اجنبیت سے سوء ظن بڑھنا شروع ہو جاتا ہے اور پھر سوء ظن سے عداوت پیدا ہوتی ہے اور پھر عداوت سے نعوذ باللہ سلب ایمان تک نوبت پہنچتی ہے.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت ہزاروں راہب ملہم اور اہل کشف تھے اور نبی آخر الزمان کے قرب ظہور کی بشارت سنایا کرتے تھے لیکن جب انہوں نے امام الزمان کو جو خاتم الانبیاء تھے قبول نہ کیا
476 تو خدا کے غضب کے صاعقہ نے ان کو ہلاک کر دیا اور ان کے تعلقات خدا تعالیٰ سے بکلی ٹوٹ گئے اور جو کچھ ان کے بارے میں قرآن شریف میں لکھا گیا اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں.یہ وہی ہیں جن کے حق میں قرآن شریف میں فرمایا گیا 33.۱ اس آیت کے یہی معنے ہیں کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ سے نصرت دین کیلئے مدد مانگا کرتے تھے اور ان کو الہام اور کشف ہوتا تھا اگرچہ وہ یہودی جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نافرمانی کی تھی خدا تعالیٰ کی نظر سے گرگئے تھے لیکن جب عیسائی مذہب بوجہ مخلوق پرستی کے مرگیا اور اس میں حقیقت اور نورانیت نہ رہی تو اس وقت کے یہود اس گناہ سے بری ہوگئے کہ وہ عیسائی کیوں نہیں ہوتے تب ان میں دوبارہ نورانیت پیدا ہوئی اور اکثر ان میں سے صاحب الہام اور صاحب کشف پیدا ہونے لگے اور ان کے راہبوں میں اچھے اچھے حالات کے لوگ تھے اور وہ ہمیشہ اس بات کا الہام پاتے تھے کہ نبی آخر زمان اور امام دوران جلد پیدا ہوگا اور اسی وجہ سے بعض ربانی علماء خدا تعالیٰ سے الہام پاکر ملک عرب میں آ رہے تھے اور ان کے بچہ بچہ کو خبر تھی کہ عنقریب آسمان سے ایک نیا سلسلہ قائم کیا جائے گا.یہی معنے اس آیت کے ہیں کہ 33۲.یعنی اس نبی کو وہ ایسی صفائی سے پہچانتے ہیں جیسا کہ اپنے بچوں کو.مگر جب کہ وہ نبی موعود اس پر خدا کا سلام ظاہر ہوگیا.تب خود بینی اور تعصب نے اکثر راہبوں کو ہلاک کر دیا اور ان کے دل سیہ ہوگئے.مگر بعض سعادتمند مسلمان ہوگئے اور ان کا اسلام اچھا ہوا پس یہ ڈرنے کا مقام ہے اور سخت ڈرنے کا مقام ہے خدا تعالیٰ کسی مومن کی بلعم کی طرح بدعاقبت نہ کرے.الٰہی تو اس امت کو فتنوں سے بچا اور یہودیوں کی نظریں ان سے دور رکھ.آمین ثم آمین.اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے قبائل اور قومیں اس غرض سے بنائیں کہ تا اس جسمانی تمدن کا ایک نظام قائم ہو اور بعض کے بعض سے رشتے اور تعلقات ہو کر ایک دوسرے کے ہمدرد اور معاون ہوجاویں.اسی غرض سے اس نے سلسلہ نبوت اور امامت قائم کیا ہے کہ تا امت محمدیہ میں روحانی تعلقات پیدا ہو جائیں اور بعض بعض کے شفیع ہوں.اب ایک ضروری سوال یہ ہے کہ امام الزمان کس کو کہتے ہیں اور اس کی علامات کیا ہیں اور اس کو دوسرے
477 ملہموں اور خواب بینوں اور اہل کشف پر ترجیح کیا ہے.اس سوال کا جواب یہ ہے کہ امام الزمان اس شخص کا نام ہے کہ جس شخص کی روحانی تربیت کا خدا تعالیٰ متولی ہوکر اس کی فطرت میں ایک ایسی امامت کی روشنی رکھ دیتا ہے کہ وہ سارے جہان کی معقولیوں اور فلسفیوں سے ہر ایک رنگ میں مباحثہ کر کے ان کو مغلوب کرلیتا ہے وہ ہر ایک قسم کے دقیق در دقیق اعتراضات کا خدا سے قوت پاکر ایسی عمدگی سے جواب دیتا ہے کہ آخر ماننا پڑتا ہے کہ اس کی فطرت دنیا کی اصلاح کا پورا سامان لے کر اس مسافر خانہ میں آئی ہے اس لئے اس کو کسی دشمن کے سامنے شرمندہ ہونا نہیں پڑتا.وہ روحانی طور پر محمدی فوجوں کا سپہ سالار ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے کہ اس کے ہاتھ پر دین کی دوبارہ فتح کرے اور وہ تمام لوگ جو اس کے جھنڈے کے نیچے آتے ہیں ان کو بھی اعلیٰ درجہ کے قویٰ بخشے جاتے ہیں اور وہ تمام شرائط جو اصلاح کے لئے ضروری ہوتے ہیں.اور وہ تمام علوم جو اعتراضات کے اٹھانے اور اسلامی خوبیوں کے بیان کرنے کے لئے ضروری ہیں اس کو عطا کئے جاتے ہیں.اور بایں ہمہ چونکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس کو دنیا کے بے ادبوں اور بد زبانوں سے بھی مقابلہ پڑے گا.اس لئے اخلاقی قوت بھی اعلیٰ درجہ کی اس کو عطا کی جاتی ہے اور بنی نوع کی سچی ہمدردی اس کے دل میں ہوتی ہے اور اخلاقی قوت سے یہ مراد نہیں کہ ہر جگہ وہ خواہ نخواہ نرمی کرتا ہے کیونکہ یہ تو اخلاقی حکمت کے اصول کے برخلاف ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ جس طرح تنگ ظرف آدمی دشمن اور بے ادب کی باتوں سے جل کر اور کباب ہو کر جلد مزاج میں تغیر پیدا کر لیتے ہیں اور ان کے چہرہ پر اس عذاب الیم کے جس کا نام غضب ہے نہایت مکروہ طور پر آثار ظاہر ہو جاتے ہیں اور طیش اور اشتعال کی باتیں بے اختیار اوربے محل منہ سے نکلتی چلی جاتی ہیں.یہ حالت اہل اخلاق میں نہیں ہوتی.ہاں وقت اورمحل کی مصلحت سے کبھی معالجہ کے طور پر سخت لفظ بھی استعمال کر لیتے ہیں.لیکن اس استعمال کے وقت نہ ان کا دل جلتا نہ طیش کی صورت پیدا ہوتی ہے نہ منہ پر جھاگ آتی ہے ہاں کبھی بناوٹی غصّہ رعب دکھلانے کیلئے ظاہر کر دیتے ہیں اور دل آرام اور انبساط اور سرور میں ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ اگرچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اکثرسخت لفظ اپنے مخاطبین کے حق میں استعمال کئے ہیں جیسا کہ سور ،کتے ،بے ایمان، بدکار وغیرہ وغیرہ.لیکن ہم نہیں کہہ سکتے
478 کہ نعوذ باللہ آپ اخلاق فاضلہ سے بے بہرہ تھے کیونکہ وہ تو خود اخلاق سکھلاتے اور نرمی کی تاکید کرتے ہیں بلکہ یہ لفظ جو اکثر آپ کے منہ پر جاری رہتے تھے یہ غصہ کے جوش اور مجنونانہ طیش سے نہیں نکلتے تھے بلکہ نہایت آرام اور ٹھنڈے دل سے اپنے محل پر یہ الفاظ چسپاں کئے جاتے تھے.غرض اخلاقی حالت میں کمال رکھنا اماموں کیلئے لازمی ہے.اور اگر کوئی سخت لفظ سوختہ مزاجی اور مجنونانہ طیش سے نہ ہو اور عین محل پر چسپاں اور عندالضرورت ہو تو وہ اخلاقی حالت کے منافی نہیں ہے اور یہ بات بیان کر دینے کے لائق ہے کہ جن کو خدا تعالیٰ کا ہاتھ امام بناتا ہے ان کی فطرت میں ہی امامت کی قوت رکھی جاتی ہے اور جس طرح الٰہی فطرت نے بموجب آیت کریمہ 3 ۱.ہر ایک چرند اور پرند میں پہلے سے وہ قوت رکھ دی ہے جس کے بارے میں خدا تعالیٰ کے علم میں یہ تھا کہ اس قوت سے اس کو کام لینا پڑے گا اسی طرح ان نفوس میں جن کی نسبت خدا تعالیٰ کے ازلی علم میں یہ ہے کہ ان سے امامت کا کام لیا جاوے گا منصب امامت کے مناسب حال کئی روحانی ملکے پہلے سے رکھے جاتے ہیں اور جن لیاقتوں کی آئندہ ضرورت پڑے گی.ان تمام لیاقتوں کا بیج ان کی پاک سرشت میں بویا جاتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ اماموں میں بنی نوع کے فائدے اور فیض رسانی کے لئے مندرجہ ذیل قوتوں کا ہونا ضروری ہے: اول.قوت اخلاق.چونکہ اماموں کو طرح طرح کے اوباشوں اور سفلوں اور بدزبان لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے اس لئے ان میں اعلیٰ درجہ کی اخلاقی قوت کا ہونا ضروری ہے تا ان میں طیش نفس اور مجنونانہ جوش پیدا نہ ہو اور لوگ ان کے فیض سے محروم نہ رہیں.یہ نہایت قابل شرم بات ہے کہ ایک شخص خدا کا دوست کہلا کر پھر اخلاق رزیلہ میں گرفتار ہو اور درشت بات کا ذرہ بھی متحمل نہ ہو سکے اور جو امام زمان کہلا کر ایسی کچی طبیعت کا آدمی ہو کہ ادنیٰ ادنیٰ بات میں منہ میں جھاگ آتا ہے.آنکھیں نیلی پیلی ہوتی ہیں وہ کسی طرح امام زمان نہیں ہو سکتا.لہٰذا اس پر آیت 3۲.کا پورے طور پر صادق آ جانا ضروری ہے.دوم.قوت امامت ہے جس کی وجہ سے اس کا نام امام رکھا گیا ہے یعنی نیک باتوں
479 اور نیک اعمال اور تمام الٰہی معارف اور محبت الٰہی میں آگے بڑھنے کا شوق یعنی روح اس کی کسی نقصان کو پسند نہ کرے اور کسی حالت ناقصہ پر راضی نہ ہو.اور اس بات سے اس کو درد پہنچے اوردکھ میں پڑے کہ وہ ترقی سے روکا جاوے یہ ایک فطرتی قوت ہے جو امام میں ہوتی ہے اور اگر یہ اتفاق بھی پیش نہ آوے کہ لوگ اس کے علوم اور معارف کی پیروی کریں اور اس کے نور کے پیچھے چلیں تب بھی وہ بلحاظ اپنی فطرتی قوت کے امام ہے.غرض یہ دقیقہ معرفت یاد رکھنے کے لائق ہے کہ امامت ایک قوت ہے کہ اس شخص کے جوہر فطرت میں رکھی جاتی ہے جو اس کام کیلئے ارادہ الٰہی میں ہوتا ہے.اور اگر امامت کے لفظ کا ترجمہ کریں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ قوت پیشروی.غرض یہ کوئی عارضی منصب نہیں جو پیچھے سے لگ جاتا ہے بلکہ جس طرح دیکھنے کی قوت اور سننے کی قوت اور سمجھنے کی قوت ہوتی ہے اسی طرح یہ آگے بڑھنے اور الٰہی امور میں سب سے اول درجہ پر رہنے کی قوت ہے اور انہی معنوں کی طرف امامت کا لفظ اشارہ کرتا ہے.تیسری قوت بسطت فی العلم ہے جو امامت کیلئے ضروری اور اس کا خاصہ لازمی ہے.چونکہ امامت کا مفہوم تمام حقائق اور معارف اور لوازم محبت اور صدق اور وفا میں آگے بڑھنے کو چاہتا ہے.اسی لئے وہ اپنے تمام دوسرے قویٰ کو اسی خدمت میں لگا دیتا ہے اور 3.۱ کی دعا میں ہر دم مشغول رہتا ہے اور پہلے سے اس کے مدارک اور حواس ان امور کے لئے جوہر قابل ہوتے ہیں.اسی لئے خدا تعالیٰ کے فضل سے علوم الٰہیہ میں اس کو بسطت عنایت کی جاتی ہے اور اس کے زمانہ میں کوئی دوسرا ایسا نہیں ہوتا جو قرآنی معارف کے جاننے اور کمالات افاضہ اور اتمام حجت میں اس کے برابر ہو اس کی رائے صائب دوسروں کے علوم کی تصحیح کرتی ہے.اور اگر دینی حقائق کے بیان میں کسی کی رائے اس کی رائے کے مخالف ہو تو حق اس کی طرف ہوتا ہے کیونکہ علوم حقہ کے جاننے میں نور فراست اس کی مدد کرتا ہے.اور وہ نور ان چمکتی ہوئی شعاعوں کے ساتھ دوسروں کو نہیں دیا جاتا وَذالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ پس جس طرح مرغی انڈوں کو اپنے پروں کے نیچے لے کر ان کو بچے بناتی ہے اور پھر بچوں کو پروں کے نیچے رکھ کر اپنے جوہر ان کے اندر
480 پہنچا دیتی ہے اسی طرح یہ شخص اپنے علوم روحانیہ سے صحبت یابوں کو علمی رنگ سے رنگین کرتا رہتا ہے اور یقین اور معرفت میں بڑھاتا جاتا ہے مگر دوسرے ملہموں اور زاہدوں کیلئے اس قسم کی بسطت علمی ضروری نہیں کیونکہ نوع انسان کی تربیت علمی ان کے سپرد نہیں کی جاتی.اور ایسے زاہدوں اور خواب بینوں میں اگر کچھ نقصان علم اور جہالت باقی ہے تو چنداں جائے اعتراض نہیں کیونکہ وہ کسی کشتی کے ملّاح نہیں ہیں بلکہ خود ملاح کے محتاج ہیں.ہاں ان کو ان فضولیوں میں نہیں پڑنا چاہئے کہ ہم اس روحانی ملاح کی کچھ حاجت نہیں رکھتے ہم خود ایسے اور ایسے ہیں.اور ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ ضرور ان کو حاجت ہے جیسا کہ عورت کو مرد کی حاجت ہے.خدا نے ہر ایک کو ایک کام کے لئے پیدا کیا ہے.پس جو شخص امامت کے لئے پیدا نہیں کیا گیا اگر وہ ایسا دعویٰ زبان پر لائے گا تو وہ لوگوں سے اسی طرح اپنی ہنسی کرائے گا جیسا کہ ایک نادان ولی نے بادشاہ کے روبرو ہنسی کرائی تھی اور قصہ یوں ہے کہ کسی شہر میں ایک زاہد تھا جو نیک بخت اور متقی تو تھا مگر علم سے بے بہرہ تھا اور بادشاہ کو اس پر اعتقاد تھا اور وزیر بوجہ اس کی بے علمی کے اس کا معتقد نہیں تھا.ایک مرتبہ وزیر اور بادشاہ دونوں اس کے ملنے کیلئے گئے اور اس نے محض فضولی کی راہ سے اسلامی تاریخ میں دخل دے کر بادشاہ کو کہا کہ اسکندر رومی بھی اس امت میں بڑا بادشاہ گذرا ہے تب وزیر کو نکتہ چینی کا موقعہ ملا اور فی الفور کہنے لگا کہ دیکھئے حضور فقیر صاحب کو علاوہ کمالات ولایت کے تاریخ دانی میں بھی بہت کچھ دخل ہے.سو امام الزمان کو مخالفوں اور عام سائلوں کے مقابل پر اس قدر الہام کی ضرورت نہیں جس قدر علمی قوت کی ضرورت ہے.کیونکہ شریعت پر ہر ایک قسم کے اعتراض کرنے والے ہوتے ہیں.طبابت کے رو سے بھی ہیئت کے رو سے بھی، طبعی کے رو سے بھی، جغرافیہ کے رو سے بھی اور کتب مسلمہ اسلام کے رو سے بھی اور عقلی بناء پر بھی اور نقلی بناء پر بھی اور امام الزمان حامی بیضۂ اسلام کہلاتا ہے.اور اس باغ کا خدا تعالیٰ کی طرف سے باغبان ٹھہرایا جاتا ہے اور اس پر فرض ہوتا ہے کہ ہر ایک اعتراض کو دور کرے اور ہر ایک معترض کا منہ بند کر دے اور صرف یہ نہیں بلکہ یہ بھی اس کا فرض ہوتا ہے کہ نہ صرف اعتراضات دور کرے بلکہ اسلام کی خوبی اور خوبصورتی بھی دنیا پر ظاہر کردے.پس
481 ایسا شخص نہایت قابل تعظیم اور کبریت احمر کا حکم رکھتا ہے.کیونکہ اس کے وجود سے اسلام کی زندگی ظاہر ہوتی ہے اور وہ اسلام کا فخر اور تمام بندوں پر خدا تعالیٰ کی حجت ہوتا ہے اور کسی کیلئے جائز نہیں ہوتا کہ اس سے جدائی اختیار کرے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے ارادہ اور اذن سے اسلام کی عزت کا مربی اور تمام مسلمانوں کا ہمدرد اور کمالات دینیہ پر دائرہ کی طرح محیط ہوتا ہے.ہر ایک اسلام اور کفر کی کشتی گاہ میں وہی کام آتا ہے اور اسی کے انفاس طیبہ کفرکش ہوتے ہیں.وہ بطور کل کے اور باقی سب اس کے جز ہوتے ہیں او چو کل و تو جزئی نے کلی تو ہلاک استی اگر از وے بگسلی چوتھی قوت عزم ہے جو امام الزمان کیلئے ضروری ہے اور عزم سے مراد یہ ہے کہ کسی حالت میں نہ تھکنا اور نہ نوامید ہونا اور نہ ارادہ میں سست ہو جانا.بسا اوقات نبیوں اور مرسلوں اور محدثوں کو جو امام الزمان ہوتے ہیں ایسے ابتلا پیش آجاتے ہیں کہ وہ بظاہر ایسے مصائب میں پھنس جاتے ہیں کہ گویا خدا تعالیٰ نے ان کو چھوڑ دیا ہے اور ان کے ہلاک کرنے کا ارادہ فرمایا ہے اور بسا اوقات ان کی وحی اور الہام میں فترت واقع ہو جاتی ہے کہ ایک مدت تک کچھ وحی نہیں ہوتی اور بسا اوقات ان کی بعض پیشگوئیاں ابتلا کے رنگ میں ظاہر ہوتی ہیں اور عوام پر ان کا صدق نہیں کھلتا اور بسا اوقات ان کے مقصود کے حصول میں بہت کچھ توقف پڑ جاتی ہے اور بسا اوقات وہ دنیا میں متروک اور مخذول اور ملعون اور مردود کی طرح ہوتے ہیں.اور ہر ایک شخص جو ان کو گالی دیتا ہے تو خیال کرتا ہے کہ گویا میں بڑا ثواب کا کام کر رہا ہوں.اور ہر ایک ان سے نفرت کرتا اور کراہت کی نظر سے دیکھتا ہے اور نہیں چاہتا کہ سلام کا بھی جواب دے.لیکن ایسے وقتوں میں ان کا عزم آزمایا جاتا ہے.وہ ہرگز ان آزمائشوں سے بے دل نہیں ہوتے اور نہ اپنے کام میں سست ہوتے ہیں یہاں تک کہ نصرت الٰہی کا وقت آجاتا ہے.پانچویں قوت اقبال علی اللہ ہے جو امام الزمان کیلئے ضروری ہے.اور اقبال علی اللہ سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگ مصیبتوں اور ابتلاؤں کے وقت اور نیز اس وقت کہ جب سخت دشمن سے مقابلہ
482 آ پڑے اور کسی نشان کا مطالبہ ہو.اور یا کسی فتح کی ضرورت ہو اور یا کسی کی ہمدردی واجبات سے ہو.خدا تعالیٰ کی طرف جھکتے ہیں اور پھر ایسے جھکتے ہیں کہ ان کے صدق اور اخلاص اور محبت اور وفا اور عزم لاینفکسے بھری ہوئی دعاؤں سے ملاء اعلیٰ میں ایک شور پڑ جاتا ہے اور ان کی محویت کے تضرعات سے آسمانوں میں ایک دردناک غلغلہ پیدا ہوکر ملائک میں اضطراب ڈالتا ہے.پھر جس طرح شدت کی گرمی کی انتہا کے بعد برسات کی ابتداء میں آسمان پر بادل نمودار ہونے شروع ہو جاتے ہیں اسی طرح ان کے اقبال علی اللہ کی حرارت یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سخت توجہ کی گرمی آسمان پر کچھ بنانا شروع کر دیتی ہے اور تقدیریں بدلتی ہیں اور الٰہی ارادے اور رنگ پکڑتے ہیں یہاں تک کہ قضاء و قدر کی ٹھنڈی ہوائیں چلنی شروع ہو جاتی ہیں.اور جس طرح تپ کا مادہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی پیدا ہوتا ہے.اور پھر مسہل کی دوا بھی خدا تعالیٰ کے حکم سے ہی اس مادّہ کو باہر نکالتی ہے.ایسا ہی مردان خدا کے اقبال علی اللہ کی تاثیر ہوتی ہے آں دعائے شیخ نے چوں ہر دعاست فانی است و دستِ او دستِ خداست اور امام الزمان کا اقبال علی اللہ یعنی اس کی توجہ الی اللہ تمام اولیاء اللہ کی نسبت زیادہ تر تیز اور سریع الاثر ہوتی ہے جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام اپنے وقت کا امام الزمان تھا اور بلعم اپنے وقت کا ولی تھا جس کو خدا تعالیٰ سے مکالمہ اور مخاطبہ نصیب تھا اور نیز مستجاب الدعوات تھا.لیکن جب موسیٰ سے بلعم کا مقابلہ آپڑا تو وہ مقابلہ اس طرح بلعم کو ہلاک کر گیا کہ جس طرح ایک تیز تلوار ایک دم میں سر کو بدن سے جدا کر دیتی ہے اور بدبخت بلعم کو چونکہ اس فلاسفی کی خبر نہ تھی کہ گو خدا تعالیٰ کسی سے مکالمہ کرے اور اس کو اپنا پیارا اور برگزیدہ ٹھہراوے مگروہ جو فضل کے پانی میں اس سے بڑھ کر ہے جب اس شخص سے اس کا مقابلہ ہوگا تو بے شک یہ ہلاک ہو جائے گا اور اس وقت کوئی الہام کام نہیں دے گا اور نہ مستجاب الدعوات ہونا کچھ مدد دے گا.اور یہ تو ایک بلعم تھا مگر میں جانتا ہوں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں اسی طرح ہزاروں بلعم ہلاک ہوئے جیسا کہ یہودیوں کے
483 راہب عیسائی دین کے مرنے کے بعد اکثر ایسے ہی تھے.چھٹے کشوف اور الہامات کا سلسلہ ہے جو امام الزمان کیلئے ضروری ہوتا ہے.امام الزمان اکثر بذریعہ الہامات کے خدا تعالیٰ سے علوم اور حقائق اور معارف پاتا ہے اور اس کے الہامات دوسروں پر قیاس نہیں ہو سکتے.کیونکہ وہ کیفیت اور کمیّت میں اس اعلیٰ درجہ پر ہوتے ہیں جس سے بڑھ کر انسان کے لئے ممکن نہیں.اور ان کے ذریعہ سے علوم کھلتے ہیں اور قرآنی معارف معلوم ہوتے ہیں.اور دینی عقدے اور معضلات حل ہوتے ہیں اور اعلیٰ درجہ کی پیشگوئیاں جو مخالف قوموں پر اثر ڈال سکیں ظاہر ہوتی ہیں.غرض جولوگ امام الزمان ہوں ان کے کشوف اور الہام صرف ذاتیات تک محدود نہیں ہوتے.بلکہ نصرت دین اور تقویت ایمان کیلئے نہایت مفید اور مبارک ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ ان سے نہایت صفائی سے مکالمہ کرتا ہے اور ان کی دعا کا جواب دیتا ہے اور بسا اوقات سوال اور جواب کا ایک سلسلہ منعقد ہو کر ایک ہی وقت میں سوال کے بعد جواب اور پھر سوال کے بعد جواب اور پھر سوال کے بعد جواب ایسے صفا اور لذیذ اور فصیح الہام کے پیرایہ میں شروع ہوتا ہے کہ صاحب الہام خیال کرتا ہے کہ گویا وہ خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے.اور امام الزمان کا ایسا الہام نہیں ہوتا کہ جیسے ایک کلوخ انداز درپردہ ایک کلوخ پھینک جائے اور بھاگ جائے اور معلوم نہ ہو کہ وہ کون تھا اور کہا ں گیا بلکہ خدا تعالیٰ ان سے بہت قریب ہو جاتا ہے اور کسی قدر پردہ اپنے پاک اور روشن چہرہ پر سے جو نور محض ہے اتار دیتا ہے.اور یہ کیفیت دوسروں کومیسر نہیں آتی بلکہ وہ تو بسا اوقات اپنے تئیں ایسا پاتے ہیں کہ گویا ان سے کوئی ٹھٹھا کر رہا ہے.اور امام الزمان کی الہامی پیشگوئیاں اظہار علی الغیب کا مرتبہ رکھتی ہیں.یعنی غیب کو ہر ایک پہلو سے اپنے قبضہ میں کرلیتی ہیں.جیسا کہ چابک سوار گھوڑے کو قبضہ میں کرتا ہے اور یہ قوت اور انکشاف اس لئے ان کے الہام کو دیا جاتا ہے کہ تا ان کے پاک الہام شیطانی الہامات سے مشتبہ نہ ہوں اور تا دوسروں پر حجت ہو سکیں.واضح ہو کہ شیطانی الہامات ہونا حق ہے اور بعض ناتمام سالک لوگوں کو ہوا کرتے ہیں.اور حدیث النفس بھی ہوتی ہے جس کو اضغاث احلام کہتے ہیں اور جو شخص اس سے انکار کرے وہ
484 قرآن شریف کی مخالفت کرتا ہے کیونکہ قرآن شریف کے بیان سے شیطانی الہام ثابت ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تک انسان کا تزکیہ نفس پورے اور کامل طور پر نہ ہو تب تک اس کو شیطانی الہام ہو سکتا ہے اور وہ آیت 3 ۱.کے نیچے آ سکتا ہے مگر پاکوں کو شیطانی وسوسہ پر بلاتوقف مطلع کیا جاتا ہے.افسوس کہ بعض پادری صاحبان نے اپنی تصنیفات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت اس واقعہ کی تفسیر میں کہ جب ان کو ایک پہاڑی پر شیطان لے گیا.اس قدر جرأت کی ہے کہ وہ لکھتے ہیں کہ یہ کوئی خارجی بات نہ تھی جس کو دنیا دیکھتی اور جس کو یہودی بھی مشاہدہ کرتے بلکہ یہ تین مرتبہ شیطانی الہام حضرت مسیح کو ہوا تھا جس کو انہوں نے قبول نہ کیا مگر انجیل کی ایسی تفسیر سننے سے ہمارا تو بدن کانپتا ہے کہ مسیح اور پھر شیطانی الہام.ہاں اگر اس شیطانی گفتگو کو شیطانی الہام نہ مانیں اور یہ خیال کریں کہ درحقیقت شیطان نے مجسم ہوکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات کی تھی تو یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ اگر شیطان نے جو پرانا سانپ ہے فی الحقیقت اپنے تئیں جسمانی صورت میں ظاہر کیا تھا اور وجود خارجی کے ساتھ آدمی بن کر یہودیوں کے ایسے متبرک معبد کے پاس آکر کھڑا ہوگیا تھا جس کے اردگرد صدہا آدمی رہتے تھے تو ضرور تھا کہ اس کے دیکھنے کیلئے ہزاروں آدمی جمع ہو جاتے بلکہ چاہئے تھا کہ حضرت مسیح آواز مار کر یہودیوں کو شیطان دکھلا دیتے جس کے وجود کے کئی فرقے منکر تھے.اور شیطان کا دکھلا دینا حضرت مسیح کا ایک نشان ٹھہرتا جس سے بہت آدمی ہدایت پاتے اور رومی سلطنت کے معزز عہدہ دار شیطان کو دیکھ کر اور پھر اس کو پرواز کرتے ہوئے مشاہدہ کر کے ضرور حضرت مسیح کے پیرو ہو جاتے مگر ایسا نہ ہوا.اس سے یقین ہوتا ہے کہ یہ کوئی روحانی مکالمہ تھا جس کو دوسرے لفظوں میں شیطانی الہام کہہ سکتے ہیں مگر میرے خیال میں یہ بھی آتا ہے کہ یہودیوں کی کتابوں میں بہت سے شریر انسانوں کا نام بھی شیطان رکھا گیا ہے.چنانچہ اسی محاورہ کے لحاظ سے مسیح نے بھی ایک اپنے بزرگ حواری کو جس کو انجیل میں اس واقعہ کی تحریر سے چند سطر ہی پہلے بہشت کی کنجیاں دی گئی تھیں
485 شیطان کہا ہے.پس یہ بات بھی قرین قیاس ہے کہ کوئی یہودی شیطان ٹھٹھے اور ہنسی کے طور پر حضرت مسیح علیہ السلام کے پاس آیا ہوگا اور آپ نے جیسا کہ پطرس کا نام شیطان رکھا اس کو بھی شیطان کہہ دیا ہوگااور یہودیوں میں اس قسم کی شرارتیں بھی تھیں.اور ایسے سوال کرنا یہودیوں کا خاصہ ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ سب قصہ ہی جھوٹ ہو جو عمداً یا دھوکہ کھانے سے لکھ دیا ہو.کیونکہ یہ انجیلیں حضرت مسیح کی انجیلیں نہیں ہیں اور نہ ان کی تصدیق شدہ ہیں بلکہ حواریوں نے یا کسی اور نے اپنے خیال اور عقل کے موافق لکھا ہے.اسی وجہ سے ان میں باہمی اختلاف بھی ہے.لہٰذا کہہ سکتے ہیں کہ ان خیالات میں لکھنے والوں سے غلطی ہوگئی.جیسا کہ یہ غلطی ہوئی کہ انجیل نویسوں میں سے بعض نے گمان کیا کہ گویا حضرت مسیح صلیب پر فوت ہوگئے ہیں*.ایسی غلطیاں حواریوں کی سرشت میں تھیں کیونکہ انجیل ہمیں خبر دیتی ہے کہ ان کی عقل باریک نہ تھی.ان کے حالات ناقصہ کی خود حضرت مسیح گواہی دیتے ہیں کہ وہ فہم اور درایت اور عملی قوت میں بھی کمزور تھے.بہرحال یہ سچ ہے کہ پاکوں کے دل میں شیطانی خیال مستحکم نہیں ہو سکتا.اور اگر کوئی تیرتا ہوا سرسری وسوسہ ان کے دل کے نزدیک آبھی جائے تو جلد تر وہ شیطانی خیال دور اور دفع کیا جاتا ہے اور ان کے پاک دامن پر کوئی داغ نہیں لگتا قرآن شریف میں اس قسم کے وسوسہ کو جو ایک کم رنگ اور ناپختہ خیال سے مشابہ ہوتا ہے طائف کے نام سے موسوم کیا ہے اور لغت عرب میں اس کا نام طائف اور طَوف اور طَیّف اور طَیْف بھی ہے.اور اس وسوسہ کا دل سے نہایت ہی کم تعلق ہوتا ہے گویا نہیں ہوتا.یا یوں کہو کہ جیسا کہ دور سے کسی درخت کا سایہ بہت ہی خفیف سا پڑتا ہے ایسا ہی یہ وسوسہ ہوتا ہے اور ممکن ہے کہ شیطان لعین نے حضرت مسیح علیہ السلام کے دل میں اسی قسم کے خفیف وسوسہ کے ڈالنے کا ارادہ کیا ہو.اور انہوں نے قوت نبوت سے اس وسوسہ کو دفع کر دیا ہو.اور ہمیں یہ کہنا اس مجبوری سے پڑا *عیسائیوں کی بہت سی انجیلوں میں سے ایک انجیل اب تک ان کے پاس وہ بھی ہے جس میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح مصلوب نہیں ہوئے.یہ بیان صحیح ہے کیونکہ مرہم عیسیٰ اس کی تصدیق کرتی ہے جس کا ذکر صدہا طبیبوں نے کیا ہے.منہ
486 ہے کہ یہ قصہ صرف انجیلوں میں ہی نہیں ہے بلکہ ہماری احادیث صحیحہ میں بھی ہے.چنانچہ لکھا ہے: عن محمد بن عمران الصیرفی قال حدثنا الحسن بن علیل العنزی عن العباس بن عبدالواحد.عن محمد بن عمرو.عن محمد بن مناذر.عن سفیان بن عیینۃ عن عمرو بن دینار.عن طاؤس عن ابی ھریرۃ قال جاء الشیطٰن الٰی عیسَی.قال الست تزعم انک صادق قال بلٰی قال فاوف علی ھذہ الشاھقۃ فالق نفسک منھا فقال ویلک الم یقل اللّٰہ یا ابن ادم لا تبلنی بھلاکک فانی افعل ما اشاء*.یعنی محمد بن عمران صیرفی سے روایت ہے اور انہوں نے حسن بن علیل عنزیسے روایت کی اور حسن نے عباس سے اور عباس نے محمد بن عمرو سے اور محمد بن عمرو نے محمد بن مناذر سے اور محمد بن مناذر نے سفیان بن عیینہ سے اور سفیان نے عمرو بن دینار سے اور عمرو بن دینار نے طاؤس سے اور طاؤس نے ابوہریرہ سے کہا شیطان عیسیٰ کے پاس آیا اور کہا کہ کیا تو گمان نہیں کرتا کہ تو سچا ہے.اس نے کہا کہ کیوں نہیں شیطان نے کہا کہ ا گر یہ سچ ہے تو اس پہاڑ پر چڑھ جا اور پھر اس پر سے اپنے تئیں نیچے گرادے.حضرت عیسیٰ نے کہا کہ تجھ پر واویلا ہو کیا تو نہیں جانتا کہ خدا نے فرمایا ہے کہ اپنی موت کے ساتھ میرا امتحان نہ کر کہ میں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں.اب ظاہر ہے کہ شیطان ایسی طرز سے آیا ہوگا جیسا کہ جبرائیل پیغمبروں کے پاس آتا ہے.کیونکہ جبرائیل ایسا تو نہیں آتا جیسا کہ انسان کسی گاڑی میں بیٹھ کر یا کسی کرایہ کے گھوڑے پر سوار ہو کر اور پگڑی باندھ کر اور چادر اوڑھ کر آتا ہے بلکہ اس کا آنا عالم ثانی کے رنگ میں ہوتا ہے.پھر شیطان جو کمتر اور ذلیل تر ہے کیونکر انسانی طور پر کھلے کھلے آ سکتا ہے.اس تحقیق سے بہرحال اس بات کو ماننا پڑتا ہے جو ڈریپر نے بیان کی ہے لیکن یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے قوّت نبوت اور نورِحقیقت کے ساتھ شیطانی القا کو ہرگز ہرگز نزدیک آنے نہیں دیا اور اس کے ذب اور دفع میں فوراً مشغول ہوگئے.اور جس طرح نور کے مقابل پر ظلمت ٹھہر نہیں سکتی اسی طرح شیطان ان کے مقابل پر ٹھہر نہیں سکا اور بھاگ گیا.یہی3 * الاغانی ، لابی الفرج الاصفہانی، اخبار ابن مناذر و نسبہ ، جز ۱۸ صفحہ۲۰۷.مطبوعہ دار احیاء التراث العربی.بیروت (ناشر)
487 3.۱کے صحیح معنے ہیں.کیونکہ شیطان کا سلطان یعنی تسلط درحقیقت ان پر ہے جو شیطانی وسوسہ اور الہام کو قبول کرلیتے ہیں.لیکن جو لوگ دور سے نور کے تیر سے شیطان کو مجروح کرتے ہیں اور اس کے منہ پر زجر اور توبیخ کا جوتہ مارتے ہیں اور اپنے منہ سے وہ کچھ بکے جائے اس کی پیروی نہیں کرتے وہ شیطانی تسلط سے مستثنیٰ ہیں مگر چونکہ ان کو خدا تعالیٰ ملکوت السمٰوات والارضدکھانا چاہتا ہے اور شیطان ملکوت الارض میں سے ہے اس لئے ضروری ہے کہ وہ مخلوقات کے مشاہدہ کا دائرہ پورا کرنے کے لئے اس عجیب الخلقت وجود کا چہرہ دیکھ لیں اور کلام سن لیں جس کا نام شیطان ہے اس سے ان کے دامن تنزہ اور عصمت کو کوئی داغ نہیں لگتا.حضرت مسیح سے شیطان نے اپنے قدیم طریقہ وسوسہ اندازی کے طرز پر شرارت سے ایک درخواست کی تھی سو ان کی پاک طبیعت نے فی الفور اس کو رد کیا اور قبول نہ کیا.اس میں ان کی کوئی کسر شان نہیں.کیا بادشاہوں کے حضور میں کبھی بدمعاش کلام نہیں کرتے.سو ایسا ہی روحانی طور سے شیطان نے یسوع کے دل میں اپنا کلام ڈالا.یسوع نے اس شیطانی الہام کو قبول نہ کیا بلکہ رد کیا.سو یہ تو قابل تعریف بات ہوئی اس سے کوئی نکتہ چینی کرنا حماقت اور روحانی فلاسفی کی بے خبری ہے لیکن جیسا کہ یسوع نے اپنے نور کے تازیانہ سے شیطانی خیال کو دفع کیا اور اس کے الہام کی پلیدی فی الفور ظاہر کر دی.ہر ایک زاہد اور صوفی کا یہ کام نہیں.سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ شیطانی الہام مجھے بھی ہوا تھا.شیطان نے کہا کہ اے عبدالقادر تیری عبادتیں قبول ہوئیں اب جو کچھ دوسروں پر حرام ہے تیرے پر حلال اور نماز سے بھی اب تجھے فراغت ہے جو چاہے کر.تب میں نے کہا کہ اے شیطان دور ہو.وہ باتیں میرے لئے کب روا ہو سکتی ہیں جو نبی علیہ السلام پر روا نہیں ہوئیں.تب شیطان مع اپنے سنہری تخت کے میری آنکھوں کے سامنے سے گم ہوگیا.اب جبکہ سیّد عبدالقادر جیسے اہل اللہ اور مرد فرد کو شیطانی الہام ہوا تو دوسرے عامۃ الناس جنہوں نے ابھی اپنا سلوک بھی تمام نہیں کیا.وہ کیونکر اس سے
488 بچ سکتے ہیں.اور ان کو وہ نورانی آنکھیں کہاں حاصل ہیں تا سید عبدالقادر اور حضرت مسیح علیہ السلام کی طرح شیطانی الہام کو شناخت کرلیں.یاد رہے کہ وہ کاہن جو عرب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے بکثرت تھے ان لوگوں کو بکثرت شیطانی الہام ہوتے تھے اور بعض وقت وہ پیشگوئیاں بھی الہام کے ذریعہ سے کیا کرتے تھے.اور تعجب یہ کہ ان کی بعض پیشگوئیاں سچی بھی ہوتی تھیں.چنانچہ اسلامی کتابیں ان قصوں سے بھری پڑی ہیں.پس جو شخص شیطانی الہام کا منکر ہے وہ انبیاء علیہم السلام کی تمام تعلیموں کا انکاری ہے اور نبوت کے تمام سلسلہ کا منکر ہے.بائبل میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ چار سو نبی کو شیطانی الہام ہوا تھا اور انہوں نے الہام کے ذریعہ سے جو ایک سفید جن کا کرتب تھا ایک بادشاہ کی فتح کی پیشگوئی کی.آخر وہ بادشاہ بڑی ذلت سے اسی لڑائی میں مارا گیا اور بڑی شکست ہوئی اور ایک پیغمبر جس کو حضرت جبرائیل سے الہام ملا تھا اس نے یہی خبر دی تھی کہ بادشاہ مارا جائے گا اور کتے اس کا گوشت کھائیں گے اور بڑی شکست ہوگی.سو یہ خبر سچی نکلی.مگر اس چار سو نبی کی پیشگوئی جھوٹی ظاہر ہوئی.اس جگہ طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کہ اس کثرت سے شیطانی الہام بھی ہوتے ہیں تو پھر الہام سے امان اٹھتا ہے اور کوئی الہام بھروسہ کے لائق نہیں ٹھہرتا.کیونکہ احتمال ہے کہ شیطانی ہو خاص کر جبکہ مسیح جیسے اولی العزم نبی کو بھی یہی واقعہ پیش آیا تو پھر اس سے تو ملہموں کی کمر ٹوٹتی ہے تو الہام کیا ایک بلا ہو جاتی ہے.اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بیدل ہونے کا کوئی محل نہیں.دنیا میں خدا تعالیٰ کا قانون قدرت ایسا ہی واقع ہوا ہے کہ ہر ایک عمدہ جوہر کے ساتھ مغشوش چیزیں بھی لگی ہوئی ہیں.دیکھو ایک تو وہ موتی ہیں جو دریا سے نکلتے ہیں اور دوسرے وہ سستے موتی ہیں جو لوگ آپ بنا کر بیچتے ہیں.اب اس خیال سے کہ دنیا میں جھوٹے موتی بھی ہیں سچے موتیوں کی خریدوفروخت بند نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ جوہری جن کو خدا تعالیٰ نے بصیرت دی ہے ایک ہی نظر سے پہچان جاتے ہیں کہ یہ سچا اور
489 یہ جھوٹا ہے.سو الہامی جواہرات کا جوہری امام الزمان ہوتا ہے.اس کی صحبت میں رہ کر انسان جلد اصل اور مصنوعی میں فرق کر سکتا ہے.اے صوفیو!!! اور اس مہوّسی کے گرفتارو.ذرہ ہوش سنبھال کر اس راہ میں قدم رکھو اور خوب یاد رکھو کہ سچا الہام جو خالص خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے مندرجہ ذیل علامتیں اپنے ساتھ رکھتا ہے:.(۱) وہ اس حالت میں ہوتاہے کہ جب کہ انسان کا دل آتش درد سے گداز ہو کر مصفا پانی کی طرح خدا تعالیٰ کی طرف بہتا ہے.اسی طرف حدیث کا اشارہ ہے کہ قرآن غم کی حالت میں نازل ہوا لہٰذا تم بھی اس کو غمناک دل کے ساتھ پڑھو.(۲) سچا الہام اپنے ساتھ ایک لذت اور سرور کی خاصیت لاتا ہے اور نامعلوم وجہ سے یقین بخشتا ہے اور ایک فولادی میخ کی طرح دل کے اندردھنس جاتاہے اور اس کی عبارت فصیح اور غلطی سے پاک ہوتی ہے.(۳) سچے الہام میں ایک شوکت اور بلندی ہوتی ہے اور دل پر اس سے مضبوط ٹھوکر لگتی ہے اور قوت اور رعبناک آواز کے ساتھ دل پر نازل ہوتا ہے.مگر جھوٹے الہام میں چوروں اور مخنثوں اور عورتوں کی سی دھیمی آواز ہوتی ہے کیونکہ شیطان چور اور مخنث اور عورت ہے.(۴) سچا الہام خدا تعالیٰ کی طاقتوں کا اثر اپنے اندر رکھتا ہے اور ضرور ہے کہ اس میں پیشگوئیاں بھی ہوں اور وہ پوری بھی ہو جائیں.(۵) سچا الہام انسان کو دن بدن نیک بناتا جاتا ہے اور اندرونی کثافتیں اور غلاظتیں پاک کرتا ہے اور اخلاقی حالتوں کو ترقی دیتا ہے.(۶) سچے الہام پر انسان کی تمام اندرونی قوتیں گواہ ہو جاتی ہیں اور ہر ایک قوت پر ایک نئی اور پاک روشنی پڑتی ہے اور انسان اپنے اندر ایک تبدیلی پاتا ہے اور اس کی پہلی زندگی مر جاتی ہے اور نئی زندگی شروع ہوتی ہے.اور وہ بنی نوع کی ایک عام ہمدردی کا ذریعہ ہوتا ہے.(۷) سچا الہام ایک ہی آواز پر ختم نہیں ہوتا کیونکہ خدا کی آواز ایک سلسلہ رکھتی ہے.وہ
490 نہایت ہی حلیم ہے جس کی طرف توجہ کرتا ہے اس سے مکالمت کرتا ہے اور سوالات کا جواب دیتا ہے اور ایک ہی مکان اور ایک ہی وقت میں انسان اپنے معروضات کا جواب پا سکتا ہے گو اس مکالمہ پر کبھی فترت کا زمانہ بھی آجاتا ہے.(۸) سچے الہام کا انسان کبھی بزدل نہیں ہوتا اور کسی مدعی الہام کے مقابلہ سے اگرچہ وہ کیسا ہی مخالف ہو نہیں ڈرتا.جانتا ہے کہ میرے ساتھ خدا ہے اور وہ اس کو ذلت کے ساتھ شکست دے گا.(۹) سچا الہام اکثر علوم اور معارف کے جاننے کا ذریعہ ہوتا ہے.کیونکہ خدا اپنے ملہم کو بے علم اور جاہل رکھنا نہیں چاہتا.(۱۰) سچے الہام کے ساتھ اور بھی بہت سی برکتیں ہوتی ہیں اور کلیم اللہ کو غیب سے عزت دی جاتی ہے اور رعب عطا کیا جاتا ہے.آج کل کا ایک ایسا ناقص زمانہ ہے کہ اکثر فلسفی طبع اور نیچری اور برہمو اس الہام سے منکر ہیں.اسی انکار میں کئی اس دنیا سے گذر بھی گئے.لیکن اصل امر یہ ہے کہ سچائی سچائی ہے گو تمام جہان اس کا انکار کرے اور جھوٹ جھوٹ ہے گو تمام دنیا اس کی مصدق ہو.جو لوگ خدا تعالیٰ کو مانتے اور اس کو مدبر عالم خیال کرتے ہیں اور اس کو بصیر اور سمیع اور علیم جانتے ہیں.ان کی یہ حماقت ہے کہ اس قدر اقراروں کے بعد پھر خدا تعالیٰ کے کلام سے منکر رہیں.کیا جو دیکھتا ہے جانتا ہے اور بغیر ذریعہ جسمانی اسباب کے اس کا علم ذرہ ذرہ پر محیط ہے وہ بول نہیں سکتا.اور یہ کہنا بھی غلطی ہے کہ اس کی قوت گویائی پہلے تو تھی اور اب بند ہوگئی.گویا اس کی صفت کلام آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہے.لیکن ایسا کہنا بڑی نومیدی دیتا ہے.اگر خدا تعالیٰ کی صفتیں بھی کسی زمانہ تک چل کر پھر مفقود ہو جاتی ہیں اور کچھ بھی ان کا نشان باقی نہیں رہتا تو پھر باقی ماندہ صفتوں میں بھی جائے اندیشہ ہے.افسوس ایسی عقلوں اور ایسے اعتقادوں پر کہ جو خدا تعالیٰ کی تمام صفات مان کر پھر چھری ہاتھ میں لے بیٹھتے ہیں.اور ان میں سے ایک ضروری حصہ کاٹ کر پھینک دیتے ہیں.افسوس کہ آریوں نے تو وید تک ہی خدا تعالیٰ کے کلام پر مہر لگا دی تھی مگر
491 عیسائیوں نے بھی الہام کو بے مہر رہنے نہ دیا.گویا حضرت مسیح تک ہی انسانوں کو ذاتی بصیرت اور معرفت حاصل کرنے کیلئے چشم دید الہاموں کی حاجت تھی.اور آئندہ ایسی بدقسمت ذریت ہے کہ وہ ہمیشہ کیلئے محروم ہیں.حالانکہ انسان ہمیشہ چشم دید ماجرا اور ذاتی بصیرت کا محتاج ہے.مذہب اسی زمانہ تک علم کے رنگ میں رہ سکتا ہے جب تک خدا تعالیٰ کی صفات ہمیشہ تازہ بتازہ تجلی فرماتی رہیں ورنہ کہانیوں کی صورت میں ہوکر جلد مر جاتا ہے.کیا ایسی ناکامی کو کوئی انسانی کانشنس قبول کر سکتا ہے.جب کہ ہم اپنے اندر اس بات کا احساس پاتے ہیں کہ ہم اس معرفت تامہ کے محتاج ہیں جو کسی طرح بغیر مکالمہ الٰہیہ اور بڑے بڑے نشانوں کے پوری نہیں ہو سکتی تو کس طرح خدا تعالیٰ کی رحمت ہم پر الہامات کا دروازہ بند کر سکتی ہے.کیا اس زمانہ میں ہمارے دل اور ہوگئے ہیں یا خدا اور ہوگیا ہے.یہ تو ہم نے مانا اور قبول کیا کہ ایک زمانہ میں ایک کا الہام لاکھوں کی معرفت کو تازہ کر سکتا ہے اور فرد فرد میں ہونا ضروری نہیں.لیکن یہ ہم قبول نہیں کر سکتے کہ الہام کی سرے سے صف ہی الٹ دی جائے.اور ہمارے ہاتھ میں صرف ایسے قصے ہوں جن کو ہم نے بچشم خود دیکھا نہیں.ظاہر ہے کہ جب ایک امر صدہا سال سے قصے کی صورت میں ہی چلا جائے اور اس کی تصدیق کیلئے کوئی تازہ نمونہ پیدا نہ ہو تو اکثر طبیعتیں جو فلسفی رنگ اپنے اندر رکھتی ہیں.اس قصے کو بغیر قوی دلیل کے قبول نہیں کر سکتیں.خاص کر جبکہ قصے ایسی باتوں پر دلالت کریں کہ جو ہمارے زمانہ میں خلاف قیاس معلوم ہوں.یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد ہمیشہ فلسفی طبع آدمی ایسی کرامتوں پر ٹھٹھا کرتے آئے ہیں اور شبہ کی حد تک بھی نہیں ٹھہرتے.اور یہ ان کا حق بھی ہوتا ہے کیونکہ ان کے دل میں گذرتا ہے کہ جب کہ وہی خدا ہے اور وہی صفات اور وہی ضرورتیں ہمیں پیش ہیں تو پھر الہام کا سلسلہ کیوں بند ہے.حالانکہ تمام روحیں شور ڈال رہی ہیں کہ ہم بھی تازہ معرفت کے محتاج ہیں.اسی وجہ سے ہندوؤں میں لاکھوں انسان دہریہ ہوگئے.کیونکہ بار بار پنڈتوں نے ان کو یہی تعلیم دی کہ کروڑہا سال سے الہام اور کلام کا سلسلہ بند ہے.اب ان کو یہ شبہات دل میں گذرے کہ وید کے زمانہ
492 کی نسبت ہمارا زمانہ پرمیشر کے تازہ الہامات کا بہت محتاج تھا.پھر اگر الہام ایک حقیقت حقہ ہے تو وید کے بعد اس کا سلسلہ کیوں قائم نہیں رہا.اسی وجہ سے آریہ ورت میں دہریت پھیل گئی.اسی لئے صدہا فرقے ہندوؤں میں ایسے پاؤ گے جو وید سے ٹھٹھا کرتے اور اس سے انکاری ہیں.چنانچہ ان میں سے ایک جین مت کا فرقہ ہے اور درحقیقت سکھوں کا فرقہ بھی انہی خیالات کی وجہ سے ہندوؤں سے الگ ہوا ہے.کیونکہ ایک تو ہندو مذہب میں دنیا کی صدہا چیزوں کو خدا کے ساتھ شریک کیا گیا ہے اور اس قدر شرک کا انبار ہے جس میں پرمیشر کا کچھ پتہ نہیں ملتا اور پھر جو وید کے الہامی ہونے کا دعویٰ ہے.یہ محض بلا ثبوت ایک قصہ ہے جس کو لاکھوں برسوں کی طرف حوالہ دیا جاتا ہے.تازہ ثبوت کوئی نہیں.اسی سبب سے جو پورے سکھ ہیں وہ وید کو نہیں مانتے.چنانچہ اخبار عام لاہور ۲۶؍ ستمبر ۱۸۹۸ ء میں ایک سکھ صاحب کا ایک مضمون اسی بارے میں شائع ہوا ہے اور انہوں نے اس بات کی تائید میں کہ خالصہ کا گروہ وید کو نہیں مانتا اور ان کو گوروؤں کی طرف سے ہدایت ہے کہ وید کو ہرگز نہ مانیں.گرنتھ کے شبد یعنی شعر بھی لکھے ہیں جن کا ماحصل یہی ہے کہ وید کو ہرگز نہ ماننا اور اقرار کیا ہے کہ ہم لوگ وید کے ہرگز پیرو نہیں ہیں اور نہ اس کو قبول کرتے ہیں.ہاں اس نے قرآن شریف کی پیروی کا بھی اقرار نہیں کیا مگر اس کا یہ سبب ہے کہ سکھوں کو اسلام کی واقفیت نہیں ہے اور وہ اس نور سے بے خبر ہیں.جو خدائے قادر قیوم نے اسلام میں رکھا ہوا ہے اور بباعث بے علمی اور تعصب کے ان کو ان نوروں پر اطلاع بھی نہیں ہے کہ جو قرآن شریف میں بھرے پڑے ہیں بلکہ جس قدر قومی طور پر ہندوؤں سے ان کے تعلق ہیں مسلمانوں سے یہ تعلقات نہیں ہیں.ورنہ ان کے لئے یہی کافی تھا کہ اس وصیت پر چلتے کہ جو چولہ صاحب میں باوا نانک صاحب تحریر فرما گئے ہیں کیونکہ چولہ صاحب میں باوا صاحب یہ لکھ گئے ہیں کہ اسلام کے سوا کوئی مذہب صحیح اور سچا نہیں ہے.پس ایسے بزرگ کی اس ضروری وصیت کو ضائع کر دینا نہایت قابل افسوس بات ہے خالصہ صاحبوں کے ہاتھ میں صرف ایک چولہ صاحب ہی ہے جو
493 باوا صاحب کے ہاتھوں کی یادگار ہے.اور گرنتھ کے شبد تو بہت پیچھے سے اکٹھے کئے گئے ہیں جس میں محققوں کو بہت کچھ کلام ہے.خداجانے اس میں کیا کیا تصرفات ہوئے ہیں اور کن کن لوگوں کے کلام کا ذخیرہ ہے.خیر یہ قصہ اس جگہ کے لائق نہیں ہے.ہمارا اصل مطلب تو یہ ہے کہ بنی نوع انسان کا ایمان تازہ رکھنے کیلئے تازہ الہامات کی ہمیشہ ضرورت ہے.اور وہ الہامات اقتداری قوت سے شناخت کئے جاتے ہیں.کیونکہ خدا کے سوا کسی شیطان جن بھوت میں اقتداری قوت نہیں ہے.اور امام الزمان کے الہام سے باقی الہامات کی صحت ثابت ہوتی ہے.ہم بیان کر چکے ہیں کہ امام الزمان اپنی جبلّت میں قوت امامت رکھتا ہے اور دست قدرت نے اس کے اندر پیشروی کا خاصہ پھونکا ہوا ہوتا ہے.اور یہ سنت اللہ ہے کہ وہ انسانوں کو متفرق طور پر چھوڑنا نہیں چاہتا بلکہ جیسا کہ اس نے نظام شمسی میں بہت سے ستاروں کو داخل کر کے سورج کو اس نظام کی بادشاہی بخشی ہے ایسا ہی وہ عام مومنوں کو ستاروں کی طرح حسب مراتب روشنی بخش کر امام الزمان کو ان کا سورج قرار دیتا ہے اور یہ سنت الٰہی یہاں تک اس کی آفرینش میں پائی جاتی ہے کہ شہد کی مکھیوں میں بھی یہ نظام موجود ہے کہ ان میں بھی ایک امام ہوتا ہے جو یعسوب کہلاتا ہے.اور جسمانی سلطنت میں بھی یہی خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ ایک قوم میں ایک امیر اور بادشاہ ہو.اور خدا کی لعنت ان لوگوں پر ہے جو تفرقہ پسند کرتے ہیں اور ایک امیر کے تحت حکم نہیں چلتے.حالانکہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے.33.۱ اُوْلِی الْاَمْر سے مراد جسمانی طور پر بادشاہ اور روحانی طور پر امام الزمان ہے.اور جسمانی طور پر جو شخص ہمارے مقاصد کا مخالف نہ ہو اور اس سے مذہبی فائدہ ہمیں حاصل ہو سکے وہ ہم میں سے ہے.اسی لئے میری نصیحت اپنی جماعت کو یہی ہے کہ وہ انگریزوں کی بادشاہت کو اپنے اُوْلِی الْاَمْرمیں داخل کریں اور دل کی سچائی سے ان کے مطیع رہیں
494 کیونکہ وہ ہمارے دینی مقاصد کے حارج نہیں ہیں بلکہ ہم کو ان کے وجود سے بہت آرام ملا ہے اور ہم خیانت کریں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ انگریزوں نے ہمارے دین کو ایک قسم کی وہ مدد دی ہے کہ جو ہندوستان کے اسلامی بادشاہوں کو بھی میسر نہیں آ سکی کیونکہ ہندوستان کے بعض اسلامی بادشاہوں نے اپنی کوتاہ ہمتی سے صوبہ پنجاب کو چھوڑ دیا تھا.اور اُن کی اس غفلت سے سکھوں کی متفرق حکومتوں کے وقت میں ہم پر اور ہمارے دین پر وہ مصیبتیں آئیں کہ مساجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا اور بلند آواز سے اذان دینا بھی مشکل ہوگیا تھا اور پنجاب میں دین اسلام مر چکا تھا.پھر انگریز آئے اور انگریز کیا ہمارے نیک طالع پھر ہماری طرف واپس ہوئے اور انہوں نے دین اسلام کی حمایت کی اور ہمارے مذہبی فرائض میں ہمیں پوری آزادی بخشی اور ہماری مسجدیں واگذار کی گئیں.اور پھر مدت دراز کے بعد پنجاب میں شعار اسلام دکھائی دینے لگا.پس کیا یہ احسان یاد رکھنے کے لائق نہیں؟ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ بعض سُست ہمت اسلامی بادشاہوں نے تو اپنی غفلتوں سے کفرستان میں ہمیں دھکہ دیا تھا اور انگریز ہاتھ پکڑ کر پھر ہمیں باہر نکال لائے.پس انگریزوں کے برخلاف بغاوت کی کھچڑی پکاتے رہنا خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو فراموش کرنا ہے.پھر اصل کلام کی طرف عود کر کے کہتا ہوں کہ قرآن شریف نے جیسا کہ جسمانی تمدن کے لئے یہ تاکید فرمائی ہے کہ ایک بادشاہ کے زیر حکم ہوکر چلیں.یہی تاکید روحانی تمدن کے لئے بھی ہے اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ یہ دعا سکھلاتا ہے 33.۱ پس سوچنا چاہئے کہ یوں تو کوئی مومن بلکہ کوئی انسان بلکہ کوئی حیوان بھی خدا تعالیٰ کی نعمت سے خالی نہیں مگر نہیں کہہ سکتے کہ ان کی پیروی کے لئے خدا تعالیٰ نے یہ حکم فرمایا ہے.لہذا اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ جن لوگوں پر اکمل اور اتم طور پر نعمت روحانی کی بارش ہوئی ہے ان کی راہوں کی ہمیں توفیق بخش کہ تاہم ان کی پیروی کریں.سو اس آیت میں یہی اشارہ ہے کہ تم امام الزمان کے ساتھ ہو جاؤ.
495 یاد رہے کہ امام الزمان کے لفظ میں نبی، رسول، محدث، مجدد سب داخل ہیں.مگر جو لوگ ارشاد اور ہدایت خلق اللہ کیلئے مامور نہیں ہوئے اور نہ وہ کمالات ان کو دئیے گئے.وہ گو ولی ہوں یا ابدال ہوں امام الزمان نہیں کہلا سکتے.اب بالآخر یہ سوال باقی رہا کہ اس زمانہ میں امام الزمان کون ہے جس کی پیروی تمام عام مسلمانوں اور زاہدوں اور خواب بینوں اور ملہموں کو کرنی خدا تعالیٰ کی طرف سے فرض قرار دیا گیا ہے.سو میں اس وقت بے دھڑک کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل اور عنایت سے وہ امام الزمان میں ہوں اور مجھ میں خدا تعالیٰ نے وہ تمام علامتیں اور تمام شرطیں جمع کی ہیں اور اس صدی کے سر پر مجھے مبعوث فرمایا ہے جس میں سے پندرہ برس گذر بھی گئے.اور ایسے وقت میں میں ظاہر ہوا ہوں کہ جب کہ اسلامی عقیدے اختلافات سے بھر گئے تھے.اور کوئی عقیدہ اختلاف سے خالی نہ تھا.ایسا ہی مسیح کے نزول کے بارے میں نہایت غلط خیال پھیل گئے تھے اور اس عقیدے میں بھی اختلاف کا یہ حال تھا کہ کوئی حضرت عیسیٰ کی حیات کا قائل تھا اور کوئی موت کا اور کوئی جسمانی نزول مانتا تھا اور کوئی بروزی نزول کا معتقد تھا اور کوئی دمشق میں ان کو اتار رہا تھا اور کوئی مکہ میں اور کوئی بیت المقدس میں اور کوئی اسلامی لشکر میں اور کوئی خیال کرتا تھا کہ ہندوستان میں اتریں گے.پس یہ تمام مختلف رائیں اور مختلف قول ایک فیصلہ کرنے والے حَکَم کو چاہتے تھے سو وہ حَکَم مَیں ہوں.میں روحانی طور پر کسر صلیب کے لئے اور نیز اختلافات کے دور کرنے کیلئے بھیجا گیا ہوں.ان ہی دونوں امروں نے تقاضا کیا کہ میں بھیجا جاؤں میرے لئے ضروری نہیں تھا کہ میں اپنی حقیت کی کوئی اور دلیل پیش کروں کیونکہ ضرورت خود دلیل ہے.لیکن پھر بھی میری تائید میں خدا تعالیٰ نے کئی نشان ظاہر کئے ہیں اور میں جیسا کہ اور اختلافات میں فیصلہ کرنے کے لئے حکم ہوں.ایسا ہی وفات حیات کے جھگڑے میں بھی حَکَم ہوں.
496 اور میں امام مالک اور ابن حزم اور معتزلہ کے قول کو مسیح کی وفات کے بارے میں صحیح قرار دیتا ہوں اور دوسرے اہل سنت کو غلطی کا مرتکب سمجھتا ہوں.سو میں بحیثیت حکم ہونے کے ان جھگڑا کرنے والوں میں یہ حکم صادر کرتا ہوں کہ نزول کے اجمالی معنوں میں یہ گروہ اہل سنت کا سچا ہے کیونکہ مسیح کا بروزی طور پر نزول ہونا ضروری تھا.ہاں نزول کی کیفیت بیان کرنے میں ان لوگوں نے غلطی کھائی ہے.نزول صفت بروزی تھانہ کہ حقیقی.اور مسیح کی وفات کے مسئلہ میں معتزلہ اور امام مالک اور ابن حزم وغیرہ ہمکلام ان کے سچے ہیں کیونکہ بموجب نصِ صریح آیت کریمہ یعنی آیت فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کے مسیح کا عیسائیوں کے بگڑنے سے پہلے وفات پانا ضروری تھا.یہ میری طرف سے بطور حکم کے فیصلہ ہے.اب جو شخص میرے فیصلہ کو قبول نہیں کرتا وہ اس کو قبول نہیں کرتا جس نے مجھے حکم مقرر فرمایا ہے.اگر یہ سوال پیش ہو کہ تمہارے حکم ہونے کا ثبوت کیا ہے؟ اس کا یہ جواب ہے کہ جس زمانہ کیلئے حکم آنا چاہئے تھا وہ زمانہ موجود ہے.اور جس قوم کی صلیبی غلطیوں کی حکم نے اصلاح کرنی تھی وہ قوم موجود ہے.اور جن نشانوں نے اس حَکَم پر گواہی دینی تھی وہ نشان ظہور میں آ چکے ہیں.اور اب بھی نشانوں کا سلسلہ شروع ہے.آسمان نشان ظاہر کر رہا ہے زمین نشان ظاہر کر رہی ہے اور مبارک وہ جن کی آنکھیں اب بند نہ رہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ پہلے نشانوں پر ہی ایمان لاؤ بلکہ میں کہتا ہوں کہ اگر میں حَکَم نہیں ہوں تو میرے نشانوں کا مقابلہ کرو.میرے مقابل پر جو اختلاف عقائد کے وقت آیا ہوں اور سب بحثیں نکمی ہیں.صرف حَکَم کی بحث میں ہر ایک کا حق ہے جس کو میں پورا کر چکا ہوں.خدا نے مجھے چار نشان دئیے ہیں.(۱) میں قرآن شریف کے معجزہ کے ظل پر عربی بلاغت فصاحت کا نشان دیا گیا ہوں.کوئی نہیں کہ جو اس کا مقابلہ کر سکے.(۲) میں قرآن شریف کے حقائق معارف بیان کرنے کا نشان دیا گیا ہوں.کوئی نہیں کہ
497 جو اس کا مقابلہ کرسکے.(۳) میں کثرت قبولیت دعا کا نشان دیا گیا ہوں.کوئی نہیں کہ جو اس کا مقابلہ کر سکے.میں حلفاًکہہ سکتا ہوں کہ میری دعائیں تیس ہزار کے قریب قبول ہو چکی ہیں اور ان کا میرے پاس ثبوت ہے.(۴) میں غیبی اخبار کا نشان دیا گیا ہوں کوئی نہیں کہ جو اس کا مقابلہ کر سکے.یہ خدا تعالیٰ کی گواہیاں میرے پاس ہیں.اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں میرے حق میں چمکتے ہوئے نشانوں کی طرح پوری ہوئیں.آسماں بارد نشان الوقت مے گوید زمین این دو شاہد از پئے تصدیق من استادہ اند مدت ہوئی کسوف خسوف رمضان میں ہوگیا.حج بھی بند ہوا.اور بموجب حدیث کے طاعون بھی ملک میں پھیلی اور بہت سے نشان مجھ سے ظاہر ہوئے جس کے صدہا ہندو اور مسلمان گواہ ہیں جن کو میں نے ذکر نہیں کیا.ان تمام وجوہ سے میں امام الزمان ہوں اور خدا میری تائید میں ہے اور وہ میرے لئے ایک تیز تلوار کی طرح کھڑا ہے اور مجھے خبر دی گئی ہے کہ جو شرارت سے میرے مقابل پر کھڑا ہوگا وہ ذلیل اور شرمندہ کیا جائے گا.دیکھو میں نے وہ حکم پہنچا دیا جو میرے ذمّہ تھا.اور یہ باتیں اپنی کتابوں میں کئی مرتبہ لکھ چکا ہوں.مگر جس واقعہ نے مجھے ان امور کے مکرر لکھنے کی تحریک کی وہ میرے ایک دوست کی اجتہادی غلطی ہے جس پر اطلاع پانے سے میں نے ایک نہایت دردناک دل کے ساتھ اس رسالہ کو لکھا ہے.تفصیل اس واقعہ کی یہ ہے کہ ان دنوں میں یعنی ماہ ستمبر ۱۸۹۸ء میں جو مطابق جمادی الاول ۱۳۱۶ھ ہے.ایک میرے دوست جن کو میں ایک بے شر انسان اور نیک بخت اور متقی اور پرہیزگار جانتا ہوں اور ان کی نسبت ابتدا سے میرا بہت نیک گمان ہے وَاللّٰہُ حَسِیْبُہٗ.مگر بعض خیالات میں غلطی میں پڑا ہوا سمجھتا ہوں.اور اس غلطی کے ضرر سے ان کی نسبت اندیشہ بھی رکھتا ہوں وہ تکالیف سفر اٹھا کر اور ایک اور میرے عزیز دوست کو ہمراہ لے کر قادیان میں میرے پاس پہنچے.اور بہت سے الہامات اپنے مجھ کو سنائے.پس اس سے مجھ کو بہت خوشی ہوئی کہ خدا تعالیٰ نے ان کو الہامات کا شرف بخشا ہے مگر انہوں نے سلسلہ الہامات میں ایک یہ خواب بھی اپنی مجھے سنائی کہ میں نے
498 آپ کی نسبت کہا ہے کہ میں ان کی کیوں بیعت کروں بلکہ انہیں میری بیعت کرنی چاہئے.اس خواب سے معلوم ہوا کہ وہ مجھے مسیح موعود نہیں مانتے اور نیز یہ کہ وہ مسئلہ امامت حقہ سے بے خبر ہیں.لہذا میری ہمدردی نے تقاضا کیا کہ تا میں ان کیلئے امامت حقہ کے بیان میں یہ رسالہ لکھوں اور بیعت کی حقیقت تحریر کروں سو میں امام حق کے بارے میں جس کو بیعت لینے کا حق ہے.اس رسالے میں بہت کچھ لکھ چکا ہوں.رہی حقیقت بیعت کی سو وہ یہ ہے کہ بیعت کا لفظ بیع سے مشتق ہے.اور بیع اس باہمی رضا مندی کے معاملہ کو کہتے ہیں جس میں ایک چیز دوسری چیز کے عوض میں دی جاتی ہے.سو بیعت سے غرض یہ ہے کہ بیعت کرنیوالا اپنے نفس کو مع اس کے تمام لوازم کے ایک رہبر کے ہاتھ میں اس غرض سے بیچے کہ تا اس کے عوض میں وہ معارف حقہ اور برکات کاملہ حاصل کرے جو موجب معرفت اور نجات اور رضامندی باری تعالیٰ ہوں.اس سے ظاہر ہے کہ بیعت سے صرف توبہ منظور نہیں.کیونکہ ایسی توبہ تو انسان بطورخود بھی کر سکتا ہے بلکہ وہ معارف اور برکات اور نشان مقصود ہیں جو حقیقی توبہ کی طرف کھینچتے ہیں.بیعت سے اصل مدعا یہ ہے کہ اپنے نفس کو اپنے رہبر کی غلامی میں دے کر وہ علوم اور معارف اور برکات اس کے عوض میں لیوے جن سے ایمان قوی ہو اور معرفت بڑھے.اور خدا تعالیٰ سے صاف تعلق پیدا ہو اور اسی طرح دنیوی جہنم سے رہا ہو کر آخرت کے دوزخ سے مخلصی نصیب ہو اور دنیوی نابینائی سے شفا پاکر آخرت کی نابینائی سے بھی امن حاصل ہو.سو اگر اس بیعت کے ثمرہ دینے کا کوئی مرد ہو تو سخت بدذاتی ہوگی کہ کوئی شخص دانستہ اس سے اعراض کرے.عزیزمن! ہم تو معارف اور حقائق اور آسمانی برکات کے بھوکے اور پیاسے ہیں اور ایک سمندر بھی پی کر سیر نہیں ہو سکتے.پس اگر ہمیں کوئی اپنی غلامی میں لینا چاہے تو یہ بہت سہل طریق ہے کہ بیعت کے مفہوم اور اس کی اصل فلاسفی کو ذہن میں رکھ کر یہ خرید و فروخت ہم سے کرلے اور اگر اس کے پاس ایسے حقائق اور معارف اور آسمانی برکات ہوں جو ہمیں نہیں دئیے گئے اور یا اس پر وہ قرآنی علوم کھولے گئے ہوں جو ہم پر نہیں کھولے گئے.تو بسم اللہ وہ بزرگ ہماری غلامی اور اطاعت کا ہاتھ لیوے اور وہ روحانی معارف اور قرآنی حقائق اور آسمانی برکات ہمیں عطا کرے.میں تو زیادہ تکلیف دینا ہی
499 نہیں چاہتا.ہمارے ملہم دوست کسی ایک جلسہ میں سورۂ اخلاص کے ہی حقائق معارف بیان فرماویں جس سے ہزار درجہ بڑھ کر ہم بیان نہ کر سکیں.تو ہم ان کے مطیع ہیں.ندارد کسے باتو ناگفتہ کار و لیکن چو گفتی دلیلش بیار بہرحال اگر آپ کے پاس وہ حقائق اور معارف اور برکات ہیں جو معجزانہ اثر اپنے اندر رکھتے ہیں.تو پھر میں کیا میری تمام جماعت آپ کی بیعت کرے گی اور کوئی سخت بدذات ہوگا کہ جو ایسا نہ کرے.مگر میں کیا کہوں اور کیا لکھوں معافی مانگ کر کہتا ہوں کہ جس وقت میں نے آپ کے الہامات لکھے ہوئے سنے تھے ان میں بھی بعض جگہ صرفی اور نحوی غلطیاں تھیں.آپ ناراض نہ ہوں میں نے محض نیک نیتی سے اور غربت سے دینی نصیحت کے طور پر یہ بھی بیان کر دیا ہے.باایں ہمہ میرے نزدیک اگر الہامات میں کسی ناواقف اور ناخواندہ کے الہامی فقروں میں نحوی صرفی غلطی ہو جائے تو نفس الہام قابل اعتراض نہیں ہو سکتا.یہ ایک نہایت دقیق مسئلہ ہے اور بڑے بسط کو چاہتا ہے جس کا یہ محل نہیں ہے.اگر ایسی غلطیاں سن کر کوئی خشک ملّا جوش میں آجاوے تو وہ بھی معذور ہے کیونکہ روحانی فلاسفی کے کوچہ میں اس کو دخل نہیں.لیکن یہ ادنیٰ درجہ کا الہام کہلاتا ہے جو خدا تعالیٰ کے نور کی پوری تجلی سے رنگ پذیر نہیں ہوتا کیونکہ الہام تین طبقوں کا ہوتا ہے ادنیٰ اور اوسط اور اعلیٰ.بہرحال ان غلطیوں سے مجھے شرمندہ ہونا پڑا.اور میں اپنے دل میں دعا کرتا تھا کہ میرے معزز دوست کسی شریر خشک ملا کو یہ الہامات جو بظاہر قابل اعتراض ہیں نہ سناویں کہ وہ خواہ نخواہ ٹھٹھا اور ہنسی کرے گا.جو الہام حقائق معارف سے خالی ا ور غلطیوں سے بھی پر ہو کسی موافق یا مخالف کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا خاص کر اس زمانہ میں بلکہ بجائے فائدہ نقصان کا اندیشہ ہے.میں ایمان سے اور سچائی سے حلفاًکہتا ہوں کہ یہ بات سراسر سچ ہے.میرے عزیز دوست توجہ* الی اللہ کی طرف زیادہ ترقی کریں کہ جیسے جیسے دل کی صفائی بڑھے گی ایسا ہی الہام میں فصاحت کی *میرا یقین ہے کہ اگر یہ معزز دوست زیادہ توجہ فرمائیں گے.تو جلد تر ان کے الہامات میں ایک کامل رنگ پیدا ہو جائیگا.منہ
500 صفائی بڑھے گی.یہی بھید ہے کہ قرآن کی وحی دوسرے تمام نبیوں کی وحیوں سے علاوہ معارف کے فصاحت بلاغت میں بھی بڑھ کر ہے کیونکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ دل کی صفائی دی گئی تھی.سو وہ وحی معنوں کے رو سے معارف کے رنگ میں اور الفاظ کے رو سے بلاغت فصاحت کے رنگ میں ظاہر ہوئی.میرے دوست یہ بھی یاد رکھیں کہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بیعت ایک خریدوفروخت کا معاملہ ہے اور میں حلفاًکہتا ہوں کہ جس قدر ہمارے دوست فاضل مولوی عبدالکریم صاحب وعظ کے وقت قرآن شریف کے حقائق معارف بیان کرتے ہیں مجھے ہرگز امید نہیں کہ ان کا ہزارم حصہ بھی میرے عزیز دوست کے منہ سے نکل سکے.اس کی یہی وجہ ہے کہ الہامی طریق ابھی ناقص اور کسبی طریق بکلّی متروک.نہ معلوم کسی محقق سے قرآن سننے کا بھی اب تک موقعہ ہوا یا نہیں.*آپ برائے خدا ناراض نہ ہوں.آپ نے اب تک بیعت کی حقیقت نہیں سمجھی کہ اس میں کیا دیتے اور کیا لیتے ہیں.ہماری جماعت میں اور میرے بیعت کردہ بندگان خدا میں اک مرد ہیں جو جلیل الشان فاضل ہیں اور وہ مولوی حکیم حافظ حاجی حرمین نورالدین صاحب ہیں جو گویا تمام جہان کی تفسیریں اپنے پاس رکھتے ہیں اور ایسا ہی ان کے دل میں ہزارہا قرآنی معارف کا ذخیرہ ہے.اگر آپ کو فی الحقیقت بیعت لینے کی فضیلت دی گئی ہے.تو ایک قرآن کا سپارہ ان ہی کو مع حقائق معارف کے پڑھاویں.یہ لوگ دیوانے تو نہیں کہ انہوں نے مجھ سے ہی بیعت کرلی اور دوسرے ملہموں کو چھوڑ دیا.اگر آپ حضرت مولوی صاحب موصوف کی پیروی کرتے تو آپ کیلئے بہتر ہوتا.آپ سوچیں کہ فاضل موصوف جو خانماں چھوڑ کر میرے پاس آ بیٹھے ہم انکار نہیں کرتے کہ آپ پر لدنی علم کے چشمے کھل جائیں مگر ابھی تو نہیں.خوابوں اور کشفوں پر استعارات اور مجازات غالب ہوتے ہیں.مگر آپ نے اپنے خواب کو حقیقت پر حمل کرلیا.مجدد صاحب سرہندی نے ایک کشف میں دیکھا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی طفیل خلیل اللہ کا مرتبہ ملا اور اس سے بڑھ کر شاہ ولی اللہ صاحب نے دیکھا تھا کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی ہے مگر انہوں نے بباعث بسطت علم کے وہ خیال نہ کیا.جو آپ نے کیا.بلکہ تاویل کی.منہ
501 اور کچے کوٹھوں میں تکلیف سے بسر کرتے ہیں کیا وہ بغیر کسی بات کے دیکھنے کے دانستہ اس تکلیف کو گوارا کئے ہوئے ہیں؟ ہمارے عزیز اور دوست ملہم صاحب یاد رکھیں کہ وہ ان خیالات میں سخت درجہ کی غلطی میں مبتلا ہیں.اگر وہ اپنی الہامی طاقت سے پہلے مولوی صاحب موصوف کو قرآن دانی کا نمونہ دکھلاویں اور اس خارق عادت کی چمکار سے نوردین جیسے عاشق قرآن سے بیعت لیں تو پھر میں اور میری تمام جماعت آپ پر قربان ہے.کیا چند ناشناختہ الہامی فقروں کیساتھ کہ وہ بھی اکثر صحیح نہیں.یہ مرتبہ حاصل ہو سکتا ہے کہ انسان اپنے تئیں امام الزمان خیال کرلے.عزیز من امام الزمان کے لئے بہت سی شرائط ہیں تبھی تو وہ ایک جہان کا مقابلہ کر سکتا ہے.ہزار نکتۂ باریک تر زمو اینجاست نہ ہرکہ سر بتراشد قلندری داند میرے عزیز ملہم اس دھوکہ میں نہ رہیں کہ فقرات الہامی اکثر ان پر وارد ہوتے ہیں میں سچ سچ کہتا ہوں کہ میری جماعت میں اس قسم کے ملہم اس قدر ہیں کہ بعض کے الہامات کی ایک کتاب بنتی ہے.سید امیر علی شاہ ہر ایک ہفتہ کے بعد الہامات کا ایک ورق بھیجتے ہیں اور بعض عورتیں میری مصدق ہیں جنہوں نے ایک حرف عربی کا نہیں پڑھا اور عربی میں الہام ہوتا ہے.میں نہایت تعجب میں ہوں کہ آپ کی نسبت اس کے الہامات میں غلطی کم ہوتی ہے.۲۸؍ ستمبر ۱۸۹۸ء کو ان کے چند الہامات مجھ کو بذریعہ خط ان کے برادر حقیقی فتح محمد بزدار کے ملے.ایسا ہی کئی ملہم ہماری جماعت میں موجود ہیں.ایک لاہور میں ہی تشریف رکھتے ہیں.مگر کیا ایسے الہامات سے کوئی شخص امام الزمان کی بیعت سے مستغنی ہو سکتا ہے.اور مجھے تو کسی کی بیعت سے عذر نہیں.مگر بیعت سے غرض افاضہ علوم روحانیہ اور تقویت ایمان ہے.اب فرمائیے کہ آپ بیعت میں کونسے علوم سکھلائیں گے اور کون سے قرآنی حقائق بیان فرمائیں گے.آپ آئیے اور امامت کا جوہر دکھلائیے ہم سب بیعت کرتے ہیں.حضرتِ ناصح گر آئیں دیدہ و دل فرش راہ پر کوئی مجھ کو تو سمجھائے کہ سمجھائیں گے کیا میں نقارہ کی آواز سے کہہ رہا ہوں کہ جو کچھ خدا نے مجھے عطا فرمایا ہے وہ سب بطور نشان امامت ہے جو شخص اس نشان امامت کو دکھلائے اور ثابت کرے کہ وہ فضائل میں مجھ سے بڑھ کر ہے.میں اس کو
502 دست بیعت دینے کو طیار ہوں.مگر خدا کے وعدوں میں تبدیلی نہیں.اُس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.آج سے قریباً بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں یہ الہام درج ہے : الرحمٰن علّم القرآن.لتنذر قوما ما انذر آباؤھم ولتستبین سبیل المجرمین قل انی امرت و انا اول المومنین.اس الہام کے رو سے خدا نے مجھے علوم قرآنی عطا کئے ہیں.اور میرا نام اول المومنین رکھا.اور مجھے سمندر کی طرح معارف اور حقائق سے بھر دیا ہے.اور مجھے بار بار الہام دیا ہے کہ اس زمانہ میں کوئی معرفت الٰہی اور کوئی محبت الٰہی تیری معرفت اور محبت کے برابر نہیں.پس بخدا میں کُشتی کے میدان میں کھڑا ہوں جو شخص مجھے قبول نہیں کرتا عنقریب وہ مرنے کے بعد شرمندہ ہوگااور اب حجۃ اللہ کے نیچے ہے.اے عزیز کوئی کام دنیا کا ہو یا دین کا بغیر لیاقت کے نہیں ہو سکتا.مجھے یاد ہے کہ ایک انگریز حاکم کے پاس ایک خاندانی شخص پیش کیا گیا کہ اس کو تحصیلدار بنا دیا جائے.اور جس کو پیش کیا وہ محض جاہل تھا اردو بھی نہیں آتی تھی.اس انگریز نے کہا کہ اگر میں اس کو تحصیلدار بنادوں تو اس کی جگہ مقدمات کون فیصلہ کرے گا.میں اس کو بجز پانچ روپیہ کے مذکوری کے اور کوئی نوکری دے نہیں سکتا.اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی فرماتا ہے.3.۱ کیا جس کے پاس ہزاروں دشمن دوست سوالات اور اعتراضات لے کر آتے ہیں اور نیابت نبوت اس کے سپرد ہوتی ہے.اس کی یہی شان چاہئے کہ صرف چند الہامی فقرے اس کی بغل میں ہوں اور وہ بھی بے ثبوت.کیا قوم اور مخالف قوم اس سے تسلی پکڑ سکتے ہیں.اب میں اس مضمون کو ختم کرنا چاہتا ہوں اور اگر اس میں کوئی گراں لفظ ہو تو ہر ایک صاحب اور نیز اپنے دوست ملہم صاحب سے معافی مانگتا ہوں.کیونکہ میں نے سراسر نیک نیتی سے چند سطریں لکھی ہیں اور میں اس عزیز دوست سے بدل و جان محبت رکھتا ہوں.اور دعا کرتا ہوں.کہ خدا ان کے ساتھ ہو.فقط خاکسار میرزا غلام احمد از قادیاں ضلع گورداسپور
503 مولوی عبدالکریم صاحب کا خط ایک دوست کے نام* بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم.الحمد لولیہ والصلٰوۃ والسلام علی نبیہٖ امابعد من عبدالکریم الی اخی وحبّی نصراللہ خان سلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ آج میرے دل میں پھر تحریک ہوئی ہے کہ کچھ درد دل کی کہانی آپ کو سناؤں ممکن ہے کہ آپ بھی میرے ہمدرد بن جائیں.اتنی مدت کے بعد یہ تحریک خالی از مصالح نہ ہوگی.محرک قلوب اپنے بندوں کو عبث کام کی ترغیب نہیں دیا کرتا.چوہدری صاحب! میں بھی ابن آدم ہوں ضعیف عورت کے پیٹ سے نکلا ہوں ضرور ہے انسانی کمزوری.تعلقات کی کششیں اور رقت مجھ میں بھی ہو.بطن عورت سے نکلا ہوا اگر اور عوارض اسے چمٹ نہ جائیں تو سنگدل نہیں ہو سکتا.میری ماں بڑی رقیق قلب والی بڑھیا دائم المرض موجود ہے.میرا باپ بھی ہے (اللّٰہم عافہ و والہ و وفقہ للحسنیٰ) میرے عزیز اور نہایت ہی عزیز بھائی بھی ہیں.اور تعلقات بھی ہیں تو پھر کیا میں پتھر کا کلیجہ رکھتا ہوں جو مہینوں گذر گئے یہاں دھونی رمائے بیٹھا ہوںیا کیا میں سودائی ہوں اور میرے حواس میں خلل ہے.یا کیا میں مقلد کور باطن اور علوم حقہ سے نابلد محض ہوں یا کیا میں فاسقانہ زندگی بسر کرنے میں اپنے کنبہ اور محلہ اور اپنے شہر میں مشہور ہوں.یا کیا میں مفلس نادار پیٹ کی غرض سے نت نئے بہروپ بدلنے والا قلاش ہوں.یعلم اللّٰہ والملا ئکۃ یشہدونکہ میں بحمداللہ ان سب معائب سے بری ہوں.وَلا اُزَکِّیْ نَفْسِیْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَآءُ.تو پھر کس بات نے مجھ میں ایسی استقامت پیدا کر رکھی ہے جو ان سب تعلقات پر غالب آگئی ہے.بہت صاف بات اور ایک ہی لفظ میں ختم ہو جاتی ہے اور وہ یہ ہے امام زمان کی شناخت.اللہ اللہ یہ *اس خط پر اتفاقاً میری نظر پڑی جس کو اخویم مولوی عبدالکریم صاحب نے اپنے ایک دوست کی طرف لکھا تھا سو مَیں نے ایک مناسبت کی وجہ سے جو اِس رسالہ کے مضمون سے اس کو ہے چھاپ دیا.منہ
504 کیا بات ہے جس میں ایسی زبردست قدرت ہے جو سارے ہی سلسلوں کو توڑ تاڑ دیتی ہے.آپ خوب جانتے ہیں میں بقدر استطاعت کے کتاب اللہ کے معارف و اسرار سے بہرہ مند ہوں اور اپنے گھر میں کتاب اللہ کے پڑھنے اور پڑھانے کے سوا مجھے اور کوئی شغل نہیں ہوتا.پھر میں یہاں کیا سیکھتا ہوں کیا وہ گھر میں پڑھنا اور ایک معتدبہ جماعت میں مشارالیہ اور مطمح انظار بننا میری روح یا میرے نفس کے بہلانے کو کافی نہیں.ہرگز نہیں.واللّٰہ ثم تاللّٰہ ہرگز نہیں.میں قرآن کریم پڑھتا لوگوں کو سناتا.جمعہ میں ممبر پر کھڑا ہو کر بڑی پراثر اخلاقی وعظیں کرتا اور لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈراتا اور نواہی سے بچنے کی تاکیدیں کرتا مگر میرا نفس ہمیشہ مجھے اندر اندر ملامتیں کرتا کہ3.۱ میں دوسروں کو رُلاتا پر خود نہ روتا.اوروں کو ناکردنی اور ناگفتنی امور سے ہٹاتا پر خود نہ ہٹتا.چونکہ معتمد ریاکار اور خودغرض مکار نہ تھا.اور حقیقتاً حصول جاہ و دنیا میرا قبلہء ہمت نہ تھا.میرے دل میں جب ذرا تنہا ہوتا ہجوم کر کے یہ خیالات آتے مگر چونکہ اپنی اصلاح کے لئے کوئی راہ و روئے نظر نہ آتا اور ایمان ایسے جھوٹے خشک عملوں پر قانع ہونے کی اجازت بھی نہ دیتا.آخر ان کشاکشوں سے ضعف دل کے سخت مرض میں گرفتار ہوگیا.بارہا مصمم ارادہ کیا کہ پڑھنا پڑھانا اور وعظ کرنا قطعاً چھوڑ دوں.پھر لپک لپک کر اخلاق کی کتابوں.تصوف کی کتابوں اور تفاسیر کو پڑھتا.احیاء العلوم اور عوارف المعارف اور فتوحات مکیہ ہر چہار جلد اور اور کثیر کتابیں اسی غرض سے پڑھیں اور بتوجہ پڑھیں اور قرآن کریم تو میری روح کی غذا تھی اور بحمداللہ ہے.بچپن سے اور بالکل بے شعوری کے سن سے اس پاک بزرگ کتاب سے مجھے اس قدر انس ہے کہ میں اس کا کم و کیف بیان نہیں کر سکتا.غرض علم تو بڑھ گیا اور مجلس کے خوش کرنے اور وعظ کو سجانے کے لئے لطائف و ظرائف بھی بہت حاصل ہوگئے.اور میں نے دیکھا کہ بہت سے بیمار میرے ہاتھوں سے چنگے بھی ہوگئے.مگر مجھ میں کوئی تبدیلی پیدا نہ ہوتی تھی.آخر بڑے حیص بیص کے بعد مجھ پر کھولا گیا کہ زندہ نمونہ یا اس زندگی کے چشمہ پر پہنچنے کے سوا جو اندرونی آلائشوں کو دھو سکتا ہو یہ میل اترنے والی نہیں.ہادئ کامل خاتم الانبیاء صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَ سَلَامُہٗ نے کس طرح صحابہ کو منازل سلوک ۲۳برس میں طے کرائیں.قرآن علم تھا اور آپ اس کا سچا عملی نمونہ تھے.قرآن کے احکام کی
505 عظمت و جبروت کو مجرد الفاظ اور علمی رنگ نے فوق العادہ رنگ میں قلوب پر نہیں بٹھایا بلکہ حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عملی نمونوں اور بے نظیر اخلاق اور دیگر تائیدات سماویہ کی رفاقت اور پیاپے ظہور نے ایسا لازوال سکہ آپ کے خدام کے دلوں پر جمایا.خدا تعالیٰ کو چونکہ اسلام بہت پیارا ہے اور اس کا اَ بْدُالدَّھر تک قائم رکھنا منظور ہے.اس لئے اس نے پسند نہیں کیا کہ یہ مذہب بھی دیگر مذاہب عالم کی طرح قصوں اور فسانوں کے رنگ میں ہوکر تقویم پارینہ ہو جائے.اس پاک مذہب میں ہر زمانہ میں زندہ نمونے موجود رہے ہیں.جنہوں نے علمی اور عملی طور پر حامل قرآن علیہ صلوات الرحمن کا زمانہ لوگوں کو یاد دلایا.اسی سنت کے موافق ہمارے زمانہ میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود اَیَّدَہُ اللّٰہُ الْوُدُوْد کو ہم میں کھڑا کیا کہ زمانہ پر وہ ایک گواہ ہوجائے.میں نے جو کچھ اس خط میں لکھنا چاہا تھا حضرت اقدس امام صادق علیہ السلام کے وجود پاک کی ضرورت پر چند وجدانی دلائل تھے.اس اثنا میں بعض تحریکات کی وجہ سے خود حضرت اقدس نے ’’ضرورت امام‘‘ پر پرسوں ایک چھوٹا سا رسالہ لکھ ڈالا ہے جو عنقریب شائع ہوگا.ناچار میں نے اس ارادے کو چھوڑ دیا.بالآخر میں اپنی نیکی سے بھری ہوئی صحبتوں کو آپ کے باقاعدہ حسن ارادت کے ساتھ درس کتاب اللہ میں حاضر ہونے کو آپ کے اپنی نسبت کمال حسن ظن کو اور ان سب پر آپ کی نیک دل اور پاک تیاری کو آپ کو یاد دلاتا اور آپ کی ضمیر روشن اور فطرت مستقیمہ کی خدمت میں اپیل کرتا ہوں کہ آپ سوچیں وقت بہت نازک ہے.جس زندہ ایمان کو قرآن چاہتا ہے اور جیسی گناہ سوز آگ قرآن سینوں میں پیدا کرنی چاہتا ہے وہ کہاں ہے.میں خدائے ربّ عرش عظیم کی قسم کھا کر آپ کو یقین دلاتا ہوں.وہی ایمان حضرت نائب الرسول مسیح موعود کے ہاتھ میں ہاتھ دینے اور اس کی پاک صحبت میں بیٹھنے سے حاصل ہوتا ہے.اب اس کارخیر میں توقف کرنے سے مجھے خوف ہے کہ دل میں کوئی خوفناک تبدیلی پیدا نہ ہو جائے.دنیا کا خوف چھوڑ دو اور خدا کیلئے سب کچھ کھودو کہ یقیناً سب کچھ مل جائے گا.والسلام ۱.اکتوبر ۱۸۹۸ ء عاجز عبدالکریم از قادیاں
506 نحمدہ و نصلی عَلٰی رسولہ الکریم انکم ٹیکس اور تازہ نشان صدق را ہر دم مددآید ز ربّ العٰلمین ہر بلا کز آسماں بر صادقے آید فرود صادقاں را دستِ حق باشد نہاں در آستیں آخرش گردد نشانے از برائے طالبیں ہمارے بعض نادان دشمن ڈاکٹر کلارک کے مقدمہ میں اپنے ناکام رہنے سے بہت مغموم اور کوفتہ خاطر تھے.کیونکہ ان کو ایک ایسے مقدمہ میں جس کا اثر اس راقم کی جان اور عزت پر تھا.باوجود بہت سی کوشش کے فاش شکست اٹھانی پڑی اور نہ صرف شکست بلکہ اس مقدمہ کے متعلق وہ الہامی پیشگوئی بھی پوری ہوئی جس کے دو سو سے زیادہ ثقہ اور معزز لوگوں کو خبر دی گئی تھی اور جس کو پبلک میں پیش از وقت بخوبی شائع کر دیا گیا تھا.مگر افسوس کہ ان مخالفوں کی بدظنی اور شتاب کاری سے ایک دوسری شکست بھی ان کو نصیب ہوئی.اور وہ یہ کہ جب کہ ان دنوں میں سرسری طور پر بغیر کسی عدالت کی باضابطہ تحقیق کے اس راقم پر مبلغ 3انکم ٹیکس مشخص ہو کر اس کا مطالبہ ہوا تو یہ لوگ جن کے نام لکھنے کی حاجت نہیں (عقلمند خود ہی سمجھ جائیں گے) اپنے دلوں میں بہت ہی خوش ہوئے اور یہ خیال کیا کہ اگر ہمارا پہلا نشانہ خطا گیا تھا.تو غنیمت ہے کہ اس مقدمہ میں اُس کی تلافی ہوئی.لیکن کبھی ممکن نہیں کہ بد اندیش اورنفسانی آدمی فتح یاب ہو سکیں کیونکہ کوئی فتحیابی اپنے منصوبوں اور مکاریوں سے نہیں ہو سکتی بلکہ ایک ہے جو انسانوں کے دلوں کو دیکھتا اوران کے اندرونی خیالات کو جانچتا اور ان کے نیات کے موافق آسمان پر سے حکم کرتا ہے.سو اس نے ان تیرہ خیالات لوگوں کی یہ مراد بھی پوری نہ ہونے دی اور بعد تحقیقات کامل بتاریخ ۱۷؍ ستمبر ۱۸۹۸ ء انکم ٹیکس معاف کیا گیا.اس مقدمہ کے یک دفعہ پید ا ہوجانے میں
507 ایک یہ بھی حکمت الٰہی مخفی تھی کہ تا خدا تعالیٰ کی تائید میری جان اور آبرو اور مال کے متعلق یعنی تینوں طرح سے اور تینوں پہلوؤں سے ثابت ہو جائے کیونکہ جان اور آبرو کے متعلق تو ڈاکٹر کلارک کے مقدمہ میں نصرت الٰہی بپایۂ ثبوت پہنچ چکی تھی.مگر مال کے متعلق امر تائید ہنوز مخفی تھا.سو خدا تعالیٰ کے فضل اور عنایت نے ارادہ فرمایا کہ پبلک کو مال کے متعلق بھی اپنی تائید دکھلاوے.سو اس نے یہ تائید بھی ظاہر فرما کر تینوں قسم کی تائیدات کا دائرہ پورا کر دیا.سو یہی بھید ہے کہ یہ مقدمہ برپا کیا گیا اور جیسا کہ ڈاکٹر کلارک کا مقدمہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس لئے برپا نہیں ہوا تھا کہ مجھ کو ہلاک یا ذلیل کیا جائے بلکہ اس لئے برپا ہوا تھا کہ اس قادر کریم کے نشان ظاہر ہوں.ایسا ہی اس میں بھی ہوا اور جس طرح میرے خدا نے جان اور عزت کے مقدمہ میں پہلے سے الہام کے ذریعہ سے یہ بشارت دی تھی کہ آخر میں بریت ہوگی اور دشمن شرمسار ہوں گے.ایسا ہی اس نے اس مقدمہ میں بھی پہلے سے خوشخبری دی کہ انجام کار ہماری فتح ہوگی اور حاسد بدباطن ناکام رہیں گے.چنانچہ وہ الہامی خوشخبری اخیر حکم کے نکلنے کے پہلے ہی ہماری جماعت میں خوب اشاعت پا چکی تھی.اور جیسا کہ ہماری جماعت نے جان اور آبرو کے مقدمہ میں ایک آسمانی نشان دیکھا تھا اس میں بھی انہوں نے ایک آسمانی نشان دیکھ لیا جو ان کے ایمان کی زیادت کا موجب ہوا.فالحمد للّٰہ علٰی ذالک.مجھے بڑا تعجب ہے کہ باوجودیکہ نشان پر نشان ظاہر ہوتے جاتے ہیں مگرپھر بھی مولویوں کو سچائی کے قبول کرنے کی طرف توجہ نہیں.وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ ہر میدان میں خدا تعالیٰ ان کو شکست دیتا ہے اور وہ بہت ہی چاہتے ہیں کہ کسی قسم کی تائید الٰہی ان کی نسبت بھی ثابت ہو مگر بجائے تائید کے دن بدن انکا خذلان اور ان کا نامراد ہونا ثابت ہوتا جاتا ہے.مثلاً جن دنوں میں جنتریوں کے ذریعہ سے یہ مشہور ہوا تھا کہ حال کے رمضان میں سورج اور چاند دونوں کو گرہن لگے گا اور لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ یہ امام موعود کے ظہور کا نشان ہے تو اس وقت مولویوں کے دلوں میں یہ دھڑکہ شروع ہوگیا تھا کہ مہدی اور مسیح ہونے کا مدعی تو یہی ایک شخص میدان میں کھڑا ہے.ایسا نہ ہو کہ لوگ اس کی طرف جھک جائیں.تب اس
508 نشان کے چھپانے کے لئے اول تو بعض نے یہ کہنا شروع کیا کہ اس رمضان میں ہرگز کسوف خسوف نہیں ہوگا بلکہ اس وقت ہوگا کہ جب ان کے امام مہدی ظہور فرما ہوں گے اور جب رمضان میں خسوف کسوف ہو چکا تو پھر یہ بہانہ پیش کیا کہ یہ کسوف خسوف حدیث کے لفظوں کے مطابق نہیں.کیونکہ حدیث میں یہ ہے کہ چاند کو گرہن اول رات میں لگے گا اور سورج کو گرہن درمیان کی تاریخ میں لگے گا.حالانکہ اس کسوف خسوف میں چاند کو گرہن تیرھویں رات میں لگا اور سورج کو گرہن اٹھائیس تاریخ کو لگا.اور جب ان کو سمجھایا گیا کہ حدیث میں مہینے کی پہلی تاریخ مراد نہیں.اور پہلی تاریخ کے چاند کو قمر نہیں کہہ سکتے اس کا نام تو ہلال ہے.اور حدیث میں قمر کا لفظ ہے نہ ہلال کا لفظ.سو حدیث کے معنے یہ ہیں کہ چاند کو اس پہلی رات میں گرہن لگے گا جو اس کے گرہن کی راتوں میں سے پہلی رات ہے یعنی مہینہ کی تیرھویں رات.اور سورج کو درمیان کے دن میں گرہن لگے گا یعنی اٹھائیس تاریخ جو اس کے گرہن کے دنوں میں سے درمیانی دن ہے*.تب یہ نادان مولوی اس صحیح معنے کو سن کر بہت شرمندہ ہوئے اور پھر بڑی جانکاہی سے یہ دوسرا عذر بنایا کہ حدیث کے رجال میں سے ایک راوی اچھا آدمی نہیں ہے.تب ان کو کہا گیا کہ جب کہ حدیث کی پیشگوئی پوری ہوگئی تو وہ جرح جس کی بنا شک پر ہے.اس یقینی واقعہ کے مقابل پر جو حدیث کی صحت پر ایک قوی دلیل ہے کچھ چیز ہی نہیں.یعنی پیشگوئی کا پورا ہونا یہ گواہی دے رہا ہے کہ یہ صادق کا کلام ہے.اور اب یہ کہنا کہ وہ صادق نہیں بلکہ کاذب ہے بدیہیات کے انکار کے حکم میں ہے اور ہمیشہ سے یہی اصول محدثین کا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ *یہ قانون قدرت ہے کہ چاند گرہن کیلئے مہینہ کی تین رات مقرر ہیں یعنی تیرھویں چودھویں پندرھویں اور ہمیشہ چاند گرہن ان تین راتوں میں سے کسی ایک میں لگتا ہے.پس اس حساب سے چاند گرہن کی پہلی رات تیرھویں رات ہے جس کی طرف حدیث کا اشارہ ہے اور سورج گرہن کے دن مہینہ کی ستائیسویں اور اٹھائیسویں اور انتیسویں تاریخ ہے پس اس حساب سے درمیانی دن سورج گرہن کا اٹھائیسواں ہے.اور انہیں تاریخوں میں گرہن لگا.منہ
509 شک یقین کو رفع نہیں کر سکتا.پیشگوئی کا اپنے مفہوم کے مطابق ایک مدعی مہدویت کے زمانہ میں پوری ہوجانا اس بات پر یقینی گواہی ہے کہ جس کے منہ سے یہ کلمات نکلے تھے اس نے سچ بولا ہے.لیکن یہ کہنا اس کی چال چلن میں ہمیں کلام ہے.یہ ایک شکی امر ہے اور کبھی کاذب بھی سچ بولتا ہے.ما سوا اس کے یہ پیشگوئی اور طرق سے بھی ثابت ہے اور حنفیوں کے بعض اکابر نے بھی اس کو لکھا ہے تو پھر انکار شرط انصاف نہیں ہے بلکہ سراسرہٹ دھرمی ہے اور اس دندان شکن جواب کے بعد انہیں یہ کہنا پڑا کہ یہ حدیث تو صحیح ہے اور اس سے یہی سمجھا جاتا ہے کہ عنقریب امام موعود ظاہر ہوگا مگر یہ شخص امام موعود نہیں ہے بلکہ وہ اور ہوگا جو بعد اس کے عنقریب ظاہر ہوگا.مگر یہ انکا جواب بھی بودا اور باطل ثابت ہوا کیونکہ اگر کوئی اور امام ہوتا تو جیسا کہ حدیث کا مفہوم ہے وہ امام صدی کے سر پر آنا چاہئے تھا.مگر صدی سے بھی پندرہ برس گذر گئے اور کوئی امام ان کا ظاہر نہ ہوا.اب ان لوگوں کی طرف سے آخری جواب یہ ہے کہ یہ لوگ کافر ہیں ان کی کتابیں مت دیکھو.ان سے ملاپ مت رکھو.ان کی بات مت سنو کہ ان کی باتیں دلوں میں اثر کرتی ہیں.لیکن کس قدر عبرت کی جگہ ہے کہ آسمان بھی ان کے مخالف ہوگیا اور زمین کی حالت موجودہ بھی مخالف ہوگئی.یہ کس قدر ان کی ذلت ہے کہ ایک طرف آسمان ان کے مخالف گواہی د ے رہا ہے اور ایک طرف زمین صلیبی غلبہ کی وجہ سے گواہی دے رہی ہے.آسمان کی گواہی دارقطنی وغیرہ کتابوں میں موجود ہے یعنی رمضان میں خسوف کسوف اور زمین کی گواہی صلیبی غلبہ ہے جس کے غلبہ میں مسیح موعود کا آنا ضروری تھا اور جیسا کہ صحیح بخاری میں یہ حدیث موجود ہے.یہ دونوں شہادتیں ہماری مؤید اور ان کی مکذب ہیں.پھر لیکھرام کی موت کا جو نشان ظاہر ہوا اس نے بھی ان کو کچھ کم شرمندہ نہیں کیا.ایسا ہی مہوتسو جلسہ یعنی قوموں کا مذہبی جلسہ جس میں ہمارا مضمون بطور نشان غالب رہا تھا کچھ کم ندامت کا موجب نہیں ہوا.کیونکہ اس میں نہ صرف ہمارا مضمون غالب رہا بلکہ یہ واقعہ پیش از وقت الہام ہو کر بذریعہ اشتہارات شائع کر دیا گیا.کاش اگر
510 آتھم ہی زندہ رہتا.تو میاں محمد حسین بٹالوی اور اس کے ہم جنسوں کے ہاتھ میں جھوٹی تاویلوں کی کچھ گنجائش رہتی مگر آتھم بھی جلد مر کر ان لوگوں کو برباد کر گیا.جب تک وہ چپ رہا زندہ رہا اور پھر منہ کھولتے ہی الہامی شرط نے اس کو لے لیا.خدا تعالیٰ نے الہامی شرط کے موافق اس کو عمر دی اور جبھی سے کہ اس نے تکذیب شروع کی اسی وقت سے عوارض شدیدہ نے اُس کو ایسا پکڑ لیا کہ بہت جلد اس کی زندگی کا خاتمہ کر دیا.لیکن چونکہ یہ ذلت بعض نادان مولویوں کو محسوس نہیں ہوئی تھی اور شرطی پیشگوئی کو محض شرارت سے انہوں نے یوں دیکھا کہ گویا اس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہ تھی اور آتھم کی سراسیمگی اور زبان بند زندگی سے جو پیشگوئی کے ایام میں بدیہی طور پر رہی انہوں نے دیانتداری سے کوئی نتیجہ نہ نکالا اور جو آتھم قسم کیلئے بلایا گیا اور نالش کیلئے اکسایا گیا اور وہ انکار سے کانوں پر ہاتھ رکھتا رہا ان تمام امور سے ان کوکوئی ہدایت نہ ہوئی.اس لئے خدا نے جو اپنے نشانوں کو شبہ میں چھوڑنا نہیں چاہتا لیکھرام کی پیشگوئی کو جس کے ساتھ کوئی شرط نہ تھی اور جس میں تاریخ اور دن اور صورت موت یعنی کس طریق سے مرے گا سب بیان کیا گیا تھا اتمام حجت کیلئے کمال صفائی سے پورا کیا.مگر افسوس کہ سچائی کے مخالفوں نے اس کھلیکھلے خدا تعالیٰ کے نشان سے بھی کوئی فائدہ نہ اٹھایا.ظاہر ہے کہ اگر میں جھوٹا ہوتا تو لیکھرام کی پیشگوئی میرے ذلیل کرنے کیلئے بڑا عمدہ موقعہ تھا کیونکہ اس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہ تھی اور اس میں صاف طور پر پیشگوئی کے ساتھ ہی میں نے اپنا اقرار لکھ کر شائع کر دیا تھا کہ اگر یہ پیشگوئی جھوٹی نکلی تو میں جھوٹا ہوں اور ہر ایک سزا اور ذلت کا سزاوار ہوں.سو اگر میں جھوٹا ہوتا تو ایسے موقعہ پر جب کہ قسمیں کھا کر یہ پیشگوئی جو کوئی شرط نہیں رکھتی تھی شائع کی گئی تھی ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ مجھ کو رسوا کرتا اور میرا اور میری جماعت کا نام و نشان مٹا دیتا.سو خدا نے ایسا نہ کیا بلکہ اس میں میری عزت ظاہر کی.اور جن لوگوں نے نادانی سے آتھم کے متعلق کی پیشگوئی کو نہیں سمجھا تھا ان کے دلوں میں بھی اس پیشگوئی سے روشنی ڈالی.کیا یہ سوچنے کا مقام نہیں ہے کہ ایسی پیشگوئی میں جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہیں تھی اور جس کے خطا جانے سے میری تمام
511 کشتی غرق ہوتی تھی خدا نے کیوں میری تائید کی اور کیوں اس کو پوری کر کے صدہا دلوں میں میری محبت ڈال دی.یہاں تک کہ بعض سخت دشمنوں نے روتے ہوئے آکر بیعت کی.اگر یہ پیشگوئی پوری نہ ہوتی تو میاں بٹالوی صاحب خود سوچ لیں کہ کس شدومد سے وہ اشاعۃ السنہ میں تکذیب کے مضامین لکھتے اور کیا کچھ ان کا دنیا پر اثر ہوتا کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ خدا نے ایسے موقعہ پر کیوں بٹالوی اور اس کے ہم خیال لوگوں کو شرمندہ اور ذلیل کیا.کیا قرآن میں نہیں ہے کہ خدا لکھ چکا ہے کہ وہ مومنوں کو غالب کرتا ہے.کیا اگر یہ پیشگوئی جو ایک ذرہ بھی شرط اپنے ساتھ نہیں رکھتی تھی اورایک بھاری مخالف کے حق میں تھی جو مجھ پر دانت پیستا تھا جھوٹی نکلتی تو کیا اس صاف فیصلہ کے بعد میرا کچھ باقی رہ جاتا اور کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ اس پیشگوئی کے جھوٹے نکلنے پر شیخ محمد حسین بٹالوی کو ہزار عید کی خوشی ہوتی اور وہ طرح طرح کے ٹھٹھے اور ہنسی کا اپنے کلام کو رنگ دے کر رسالہ کو نکالتا اور کئی جلسے کرتا لیکن اب پیشگوئی کے سچی نکلنے پر اس نے کیا کیا.کیا یہ سچ نہیں کہ اس نے خدا کے ایک عظیم الشان کام کو ایک ردّی چیز کی طرح پھینک دیا اور اپنے منحوس رسالہ میں یہ اشارہ کیا کہ لیکھرام کا یہی شخص قاتل ہے.سو میں کہتا ہوں کہ میں کسی انسانی حربہ کے ساتھ قاتل نہیں ہاں آسمانی حربہ کے ساتھ یعنی دعا کے ساتھ قاتل ہوں اور وہ بھی اس کے الحاح اور درخواست کے بعد.میں نے نہیں چاہاکہ اس پر بددعا کروں مگر اس نے آپ چاہا سو مَیں اس کا اسی طرح قاتل ہو ں جس طرح ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خسرو پرویز شاہ ایران کے قاتل تھے.غرض لیکھرام کامقدمہ محمد حسین پر خدا تعالیٰ کی حجت پوری کر گیا اور ایسا ہی اس کے اور بھائیوں پر.پھر بعد اس کے ڈاکٹر کلارک کے مقدمہ میں خدا کا نشان ظاہر ہوا اور وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو اخیر حکم سے پہلے صدہا لوگوں میں پھیل چکی تھی.اس مقدمہ میں شیخ بٹالوی کو وہ ذلت پیش آئی کہ اگر سعادت یاوری کرتی تو بلاتوقف توبہ نصوح کرتا.اس پر خوب کھل گیا کہ خدا نے کس کی تائید کی.یاد رہے کہ کلارک کے مقدمہ میں محمد حسین نے عیسائیوں کے ساتھ شامل ہو کر میری تباہی
512 کے لئے ناخنوں تک زور لگایا تھا اور میرے ذلیل کرنے کے لئے کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا تھا آخر میرے خدا نے مجھے بری کیا.اور عین کچہری میں کرسی مانگنے پر وہ ذلت اس کے نصیب ہوئی جس سے ایک شریف آدمی مارے ندامت کے مر سکتا ہے.یہ ایک صادق کی ذلت چاہنے کا نتیجہ ہے.کرسی کی درخواست پر اس کو صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے جھڑکیاں دیں اور کہا کہ کرسی نہ کبھی تجھ کو ملی اور نہ تیرے باپ کو اور جھڑک کر پیچھے ہٹایا اور کہا کہ سیدھا کھڑا ہوجا.اور اُس پر موت پر موت یہ ہوئی کہ ان جھڑکیوں کے وقت یہ عاجز صاحب ڈپٹی کمشنر کے قریب ہی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا.جس کی ذلت دیکھنے کیلئے وہ آیا تھا.اور مجھے کچھ ضرورت نہیں کہ اس واقعہ کو بار بار لکھوں.کچہری کے افسر موجود ہیں ان کا عملہ موجود ہے ان سے پوچھنے والے پوچھ لیں.اب سوال تو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا قرآن شریف میں وعدہ ہے کہ وہ مومنوں کی تائید کرتا ہے اور انہیں عزت دیتا ہے اور جھوٹوں اور دجالوں کو ذلیل کرتا ہے پھر یہ الٹی ندی کیوں بہنے لگی کہ ہر ایک میدان میں محمد حسین کو ہی ذلت اور رسوائی اور بے عزتی نصیب ہوتی گئی.کیا خدا تعالیٰ کی اپنے پیاروں سے یہی عادت ہے.اب ٹیکس کے مقدمہ میں شیخ بٹالوی صاحب کی یہ خوشی تھی کہ کسی طرح ٹیکس لگ جائے تا اسی مضمون کو لمبا چوڑا کر کے اشاعۃ السنہ کو رونق دیں تا پہلی ذلتوں کی کسی قدر پردہ پوشی ہوسکے.سو اس میں بھی وہ نامراد ہی رہا اور صاف طور پر معافی کا حکم آگیا.خدا نے اس مقدمہ کو ایسے حکام کے ہاتھ میں دیا جنہوں نے سچائی اور ایمانداری سے عدالت کو پورا کرنا تھا.سو بدنصیب بد اندیش اس حملہ میں بھی محروم ہی رہے.خدا تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس نے حکام با انصاف پر اصل حقیقت کھول دی.اوراس جگہ ہمیں جناب مسٹر ٹی ڈیکسن صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپورہ کا شکر کرنا چاہئے.جن کے دل پر خدا تعالیٰ نے واقعی حقیقت منکشف کر دی.اسی وجہ سے ہم ابتداء سے انگریزی حکومت اور انگریزی حکام کے شکر گذار اور مداح اور ثنا خوان ہیں کہ وہ انصاف کو بہرحال مقدم رکھتے ہیں.کپتان ڈگلس صاحب سابق کمشنر نے ڈاکٹر کلارک کے مقدمہ فوجداری میں اور مسٹر ٹی ڈیکسن صاحب نے اس انکم ٹیکس کے مقدمہ میں ہمیں انگریزی
513 عدالت اور حق پسندی کے دو ایسے نمونے دئیے ہیں جن کو ہم مدت العمر میں کبھی بھول نہیں سکتے.کیونکہ کپتان ڈگلس صاحب کے سامنے وہ نازک مقدمہ آیا تھا جس کا فریق مستغیث ایک معزز عیسائی تھا اور جس کی تائید میں گویا پنجاب کے تمام پادری تھے.لیکن صاحب موصوف نے اس بات کی کچھ بھی پرواہ نہیں کی کہ یہ مقدمہ کس گروہ کی طرف سے ہے اور پورے طور پر عدالت سے کام لیا اور مجھے بری کیا.اور جو مقدمہ اب مسٹر ٹی ڈیکسن صاحب کے زیر تجویز آیا.یہ بھی نازک تھاکیونکہ ٹیکس کی معافی میں سرکار کا نقصان ہے.سو صاحب مؤخر الذکر نے بھی سراسر معدلت اور انصاف پسندی اور محض عدل سے کام لیا.میری دانست میں اس قسم کے حکام گورنمنٹ کی رعایا پروری اور نیک نیتی اور اصول انصاف کے روشن نمونے ہیں.اور واقعی امر یہی تھا جس امر تک مسٹر ٹی ڈیکسن صاحب کا روشن خیال پہنچ گیا.سو ہم شکر بھی کرتے ہیں اور دعا بھی.اور اس جگہ محنت اور تفتیش منشی تاج الدین صاحب تحصیلدار پر گنہ بٹالہ قابل ذکر ہے جنہوں نے انصاف اور احقاق حق مقصود رکھ کر واقعات صحیحہ کو آئینہ کی طرح حکام بالادست کو دکھلا دیااور اس طرح پر ٹھیک ٹھیک اصلیت تک پہنچنے کیلئے اعلیٰ حکام کو مدد دی.اب وہ مقدمہ یعنی تحصیلدار صاحب کی رائے اور صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کا اخیر حکم ذیل میں لکھا جاتا ہے.نقل رپورٹ منشی تاج الدین صاحب تحصیلدار پرگنہ بٹالہ ضلع گورداسپور بمقدمہ عذر داری ٹیکس مشمولہ مثل اجلاسی مسٹر ٹی ڈیکسن صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر مرجوعہ ۲۷؍جون ۹۸ء فیصلہ ۱۷؍ ستمبر ۹۸ء نمبر بستہ از محکمہ نمبر مقدمہ ۴۶۵۵ مثل عذرداری انکم ٹیکس مسمی مرزا غلام احمد ولد غلام مرتضیٰ ذات مغل سکنہ قادیاں تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور بحضور جناب والا شان جناب صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر ضلع گورداسپور جناب عالی.مرزا غلام احمد قادیانی پر اس سال3 انکم ٹیکس تشخیص ہوا تھا اس سے
514 پیشتر مرزا غلام احمد پر کبھی ٹیکس تشخیص نہیں ہوا.چونکہ یہ ٹیکس نیا لگایا تھا.مرزا غلام احمد نے اس پر عدالت حضور میں عذرداری دائر کی جو بنا بر دریافت سپرد محکمہ ہذا ہوئی.پیشتر اس کے کہ انکم ٹیکس کے متعلق جس قدر تحقیقات کی گئی ہے اس کا ذکر کیا جائے.بہتر معلوم ہوتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا کچھ ذکر گوش گذار حضور کیا جاوے تاکہ معلوم ہو کہ عذردار کون ہے اور کس حیثیت کا آدمی ہے.مرزا غلام احمد ایک پرانے معزز خاندان مغل میں سے ہے جو موضع قادیان میں عرصہ سے سکونت پذیر ہے اس کا والد مرزا غلام مرتضیٰ ایک معزز زمیندار تھا اور موضع قادیان کا رئیس تھا.اس نے اپنی وفات پر ایک معقول جائیداد چھوڑی.اس میں سے کچھ جائداد تو مرزا غلام احمد کے پاس اب بھی ہے اور کچھ مرزا سلطان احمد پسر مرزا غلام احمد کے پاس ہے جو اس کو مرزا غلام قادر مرحوم کی بیوی کے توسل سے ملی ہے.یہ جائیداد اکثر زرعی مثلاً باغ، زمین اور تعلقہ داری چند دیہات ہے اور چونکہ مرزا غلام مرتضیٰ ایک معزز رئیس آدمی تھا ممکن ہے اور میری رائے میں اغلب ہے کہ اس نے بہت سی نقدی اور زیورات بھی چھوڑے ہوں لیکن ایسی جائیداد غیر منقولہ کی نسبت قابل اطمینان شہادت نہیں گذری.مرزا غلام احمد ابتدائی ایام میں خود ملازمت کرتا رہا ہے اور اس کا طریق عمل ہمیشہ سے ایسا رہا ہے کہ اس سے امید نہیں ہو سکتی کہ اس نے اپنی آمدنی یا اپنے والد کی جائیداد نقدی و زیورات کو تباہ کیا ہو.جو جائیداد غیر منقولہ اس کو باپ سے وراثتاً پہنچی ہے وہ تو اب بھی موجود ہے.لیکن جائیداد غیر منقولہ کی نسبت شہادت کافی نہیں مل سکی.لیکن بہرحال مرزا غلام احمد کے حالات کے لحاظ سے یہ طمانیت کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ وہ بھی اس نے تلف نہیں کی.کچھ مدت سے مرزا غلام احمد نے ملازمت وغیرہ چھوڑ کر اپنے مذہب کی طرف رجوع کیا اور اس امر کی ہمیشہ سے کوشش کرتا رہا کہ وہ ایک مذہبی سرگروہ مانا جاوے اس نے چند مذہبی کتابیں شائع کیں رسالہ جات لکھے اور اپنے خیالات کا اظہار بذریعہ اشتہارات کیا.چنانچہ اس کل کارروائی کا یہ نتیجہ ہوا کہ کچھ عرصہ سے ایک متعدد اشخاص کا گروہ جن کی فہرست (بحروف انگریزی) منسلک ہذا ہے اس کو اپنا سرگروہ ماننے لگ گیا اور بطور ایک علیحدہ فرقہ کے قائم ہوگیا.اس فرقہ میں حسب فہرست منسلکہ ہذا (۳۱۸) آدمی ہیں.جن میں
515 بلاشبہ بعض اشخاص جن کی تعداد زیادہ نہیں معزز اور صاحب علم ہیں.مرزا غلام احمد کا گروہ جب کچھ بڑھ نکلا تو اس نے اپنی کتب ’’فتح اسلام‘‘ اور ’’توضیح مرام‘‘ میں اپنے اغراض کے پورا کرنے کیلئے اپنے پیروؤں سے چندہ کی درخواست کی اور ان میں پانچ مدات کا ذکر کیا جن کے لئے چندہ کی ضرورت ہے.چونکہ مرزا غلام احمد پر اس کے مریدان کا اعتقاد ہوگیا.رفتہ رفتہ انہوں نے چندہ بھیجنا شروع کیا اور اپنے خطوط میں بعض دفعہ تو تخصیص کر دی کہ ان کا چندہ ان پانچ مدوں میں سے فلاں مد پر لگایا جاوے اور بعض دفعہ مرزا غلام احمد کی رائے پر چھوڑ دیا کہ جس مد میں وہ ضروری خیال کریں صرف کریں چنانچہ حسب بیان مرزا غلام احمد عذردار اور بروئے شہادت گواہان چندہ کے روپیہ کا حال اسی طرح ہوتا ہے.الغرض یہ گروہ اس وقت بطور ایک مذہبی سوسائٹی کے ہے جس کا سرگروہ مرزا غلام احمد ہے اور باقی سب پیروان ہیں اور چندہ باہمی سے اپنے سوسائٹی کے اغراض کو بہ سلوک پورا کرتے ہیں.جن پانچ مدات کا اوپر ذکر ہوا ہے وہ حسب ذیل ہیں.اول۱ مہمان خانہ.جس قدر لوگ مرزا غلام احمد کے پاس قادیان میں آتے خواہ وہ مرید ہوں یا نہ ہوں لیکن وہ مذہبی تحقیقات کیلئے آئے ہوں ان کو وہاں سے کھانا ملتا ہے اور حسب بیان تحریری مختار مرزا غلام احمد اس مد کے چندہ میں سے مسافروں، یتیموں اور بیواؤں کی بھی امداد کی جاتی ہے.دوم۲ مطبع.اس میں مذہبی کتابیں اور اشتہارات چھاپے جاتے ہیں اور بعض دفعہ لوگوں میں مفت تقسیم ہوتے ہیں.سوم۳ مدرسہ.مرزا غلام احمد کے مریدوں کی طرف سے ایک مدرسہ قائم کیا گیا ہے لیکن اس کی ابھی ابتدائی حالت ہے اور اس کا اہتمام مولوی نور الدین کے سپرد ہے جو مرزا غلام احمد کا ایک مرید خاص ہے.چہارم۴ سالانہ اور دیگر جلسہ جات.اس گروہ کے سالانہ جلسے بھی ہوتے ہیں اور ان جلسوں کے سرانجام دینے کے لئے چندہ فراہم کیا جاتا ہے.
516 پنجم ۵ خط و کتابت.حسب بیان تحریری مختار مرزا غلام احمد اور شہادت گواہان اس میں بہت سا روپیہ خرچ ہوتا ہے.مذہبی تحقیقات کے متعلق جس قدر خط و کتابت ہوتی ہے اس کیلئے مریدوں سے چندہ لیا جاتا ہے.الغرض حسب بیان گواہان ان پانچ مدوں میں چندہ کا روپیہ خرچ ہوتا ہے اور ان ذرائع سے مرزا غلام احمد مع اپنے مریدوں کے اپنے خیالات مذہبی کی اشاعت کرتا ہے.یہ سوسائٹی ایک مذہبی گروہ ہے اور چونکہ حضور کو اس گروہ کی نسبت پیشتر سے علم ہے اس لئے اسی مختصر خاکہ پر اکتفا کی جاتی ہے.اور اب اصل درخواست عذرداری کے متعلق گذارش کی جاتی ہے.مرزا غلام احمد پر امسال ۷۲۰۰ روپیہ اس کی سالانہ آمدنی قرار دے کر 3 انکم ٹیکس قرار دیا گیا.اس کی عذرداری پر اس کا اپنا بیان خاص موضع قادیان میں جبکہ کمترین بتقریب دورہ اس طرف گیا لیا گیا.اور تیراں کس گواہان کی شہادت قلم بند کی گئی.مرزا غلام احمد نے اپنے بیان حلفی میں لکھوایا کہ اس کو تعلقہ داری، زمین اور باغ کی آمدنی ہے.تعلقہ داری کی سالانہ تخمیناً3کی زمین کی تخمیناً تین سو روپیہ سالانہ کی اور باغ کی سالانہ تخمیناً دو سو تین سو روپیہ چار سو اور حد درجہ پانسو روپیہ کی آمدنی ہوتی ہے.اس کے علاوہ اس کو کسی قسم کی اور آمدنی نہیں ہے.مرزا غلام احمد نے یہ بھی بیان کیا کہ اس کو تخمیناً پانچ ہزار دو سو روپیہ سالانہ مریدوں سے اس سال پہنچا ہے ورنہ اوسط سالانہ آمدنی قریباً چار ہزار روپیہ کے ہوتی ہے وہ پانچ مدوں میں جن کا ذکر اوپر کیا گیا خرچ ہوتی ہے اور اس کی ذاتی خرچ میں نہیں آتی.خرچ اور آمدنی کا حساب باضابطہ کوئی نہیں ہے.صرف یادداشت سے تخمیناً لکھوایا ہے.مرزا غلام احمد نے یہ بھی بیان کیا کہ اس کی ذاتی آمدنی باغ، زمین اور تعلقہ داری کی اس کے خرچ کیلئے کافی ہے اور اس کو کچھ ضرورت نہیں ہے کہ وہ مریدوں کا روپیہ ذاتی خرچ میں لاوے.شہادت گواہان بھی مرزا غلام احمد کے بیان کی تائید کرتی ہے اور بیان کیا جاتا ہے کہ مریدان بطور خیرات پانچ مدات مذکورہ بالا کے لئے روپیہ مرزا غلام احمد کو بھیجتے ہیں.اور ان ہی مدات میں خرچ ہوتا ہے.مرزا غلام احمد کی اپنی ذاتی آمدنی سوائے آمدنی تعلقہ داری، زمین اور باغ کے اور نہیں ہے جو قابل ٹیکس ہو.گواہان میں سے چھ گواہ گو معتبر
517 اشخاص ہیں لیکن مرزا صاحب کے مرید ہیں اور اکثر مرزا غلام احمد کے پاس رہتے ہیں.دیگر سات گواہ مختلف قسم کے دوکاندار ہیں جن کو مرزا صاحب سے کچھ تعلق نہیں ہے.بالعموم یہ سب گواہان مرزا غلام احمد کے بیان کی تائید کرتے ہیں اور اس کی ذاتی آمدنی سوائے آمدنی تعلقہ داری، زمین اور باغ کے اور کسی قسم کی نہیں بتلاتے.میں نے موقعہ پر بھی خفیہ طور سے مرزا غلام احمد کی ذاتی آمدنی کی نسبت بعض اشخاص سے دریافت کیا.لیکن اگرچہ بعض اشخاص سے معلوم ہوا کہ مرزا غلام احمد کی ذاتی آمدنی بہت ہے اور یہ قابل ٹیکس ہے لیکن کہیں سے کوئی بین ثبوت مرزا صاحب کی آمدنی کا نہ مل سکا.زبانی تذکرات پائے گئے.کوئی شخص پورا پورا ثبوت نہ دے سکا.میں نے موضع قادیاں میں مدرسہ اور مہمان خانہ کا بھی ملاحظہ کیا.مدرسہ ابھی ابتدائی حالت میں ہے اور اکثر بعمارت خام بنا ہوا ہے.اور کچھ مریدوں کیلئے بھی گھر بنے ہوئے ہیں.لیکن مہمان خانہ میں واقعی مہمان پائے گئے اور یہ بھی دیکھا گیا کہ جس قدر مرید اس روز قادیاں میں موجود تھے انہوں نے مہمان خانہ سے کھانا کھایا.کمترین کی رائے ناقص میں اگر مرزا غلام احمد کی ذاتی آمدنی صرف تعلقہ داری اور باغ کی قرار دی جائے جیسا کہ شہادت سے عیاں ہوا اور جس قدر آمدنی مرزا صاحب کو مریدوں سے ہوتی ہے اس کو خیرات کا روپیہ قرار دیا جائے جیسا کہ گواہان نے بالعموم بیان کیا تو مرزا غلام احمد پر موجودہ انکم ٹیکس بحال نہیں رہ سکتا.لیکن جب کہ دوسری طرف یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مرزا غلام احمد ایک معزز اور بھاری خاندان سے ہے اور اس کے آباء و اجداد رئیس رہے ہیں اور ان کی آمدنی معقول رہی ہے اور مرزا غلام احمد خود ملازم رہا ہے اور آسودہ حال رہا ہے تو ضرور گمان گذرتا ہے کہ مرزا غلام احمد ایک مالدار شخص ہے اور قابل ٹیکس ہے.مرزا صاحب کے اپنے بیان کے مطابق حال ہی میں اس نے اپنا باغ اپنی زوجہ کے پاس گرو رکھ کر اس سے چار ہزار روپیہ کا زیور اور ایک ہزار روپیہ نقد وصول پایا ہے.تو جس شخص کی عورت اس قدر روپیہ دے سکتی ہو اس کی نسبت گمان گذرتا ہے کہ وہ مالدار ہوگا.کمترین نے جس قدر تحقیقات کی ہے.وہ شامل مثل ہذا ہے.اور بہ تعمیل حکم حضور رپورٹ ہذا ارسال خدمت حضور ہے.المرقوم ۳۱؍اگست ۱۸۹۸ ء
518 کمترین تاج الدین تحصیلدار بٹالہ مکرر آنکہ مختار وکیل مرزا غلام احمد کو حضور کی عدالت میں حاضر ہونے کے لئے ۳؍ ستمبر ۱۸۹۸ء کی تاریخ دی گئی ہے.تحریر بتاریخ صدر.دستخط حاکم نقل حکم درمیانی بصیغہ عذرداری ٹیکس اجلاسی ٹی ڈیکسن صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر گورداسپور مثل عذرداری انکم ٹیکس مسمی مرزا غلام احمد ولد غلام مرتضیٰ ذات مغل سکنہ موضع قادیاں.تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور آج یہ کاغذات پیش ہو کر رپورٹ تحصیلدار صاحب سماعت ہوئی.فی الحال یہ مثل زیر تجویز رہے.شیخ علی احمد وکیل اور مختار عذردار حاضر ہیں.ان کو اطلاع دیا گیا.تحریر ۹۸.۹.۳ دستخط حاکم نقل ترجمہ حکم اخیر بصیغہ عذرداری ٹیکس اجلاسی مسٹر ٹی ڈیکسن صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور ترجمہ حکم یہ ٹیکس جدید تشخیص کی گئی ہے اور مرزا غلام احمد کا دعویٰ ہے کہ تمام اس کی آمدنی اس کے ذاتی کاروبار پر خرچ نہیں ہوتی.بلکہ اس فرقہ کے اخراجات پر صرف ہوتی ہے کہ جو اس نے قائم کیا ہے.وہ تسلیم کرتا ہے کہ اس کے پاس اور جائیداد بھی ہے لیکن اس نے تحصیلدار کے سامنے بیان کیا کہ وہ آمدنی بھی کہ جو از قسم آمدنی اراضی و زراعت کی ہے اور زیر دفعہ ۵ (ب) مستثنیٰ ہے مذہبی اخراجات میں جاتی ہے.ہمیں اس شخص کی نیک نیتی پر شبہ کرنے کے لئے کوئی وجہ معلوم نہیں کرتے.اور ہم اس کی آمدنی کو جواز چندہ ہا ہے وہ/=۵۲۰۰ روپیہ بیان کرتا ہے معاف کرتے ہیں.کیونکہ زیر دفعہ (۵) (E) محض مذہبی اغراض کے لئے وہ صرف کی جاتی ہے.لہذا حکم ہوا کہ بعد تعمیل ضابطہ کاغذات ہذا داخل دفتر کئے جاویں.تحریر ۹۸.۹.۱۷ مقام ڈلہوزی دستخط حاکم اس جگہ ہم اصل انگریزی اخیر حکم کی نقل بھی معہ ترجمہ کر دیتے ہیں:.
519 In the Court of F.T.Dixon Esquire Collector of the District of Gurdaspur.Income Tax objection case No.46 of 1898.Mirza Ghulam Ahmad son of Mirza Ghulam Murtaza, caste Mughal, resident of mauzah Qadian Mughlan, Tahsil Batala, Distt.of Gurdaspur objector ORDER This tax is a newly imposed one and Mirza Ghulam Ahmad claims that all his income is applied not to his personal but to the expenses of sect he has founded.He admits that he has other property but he stated to the Tahsildar that even the proceeds of that which is classed as land and the proceeds of agriculture and is exempt under 5 (b) go to his religious expenses.I see no reason to doubt the bona fides of this man, whose sect is well known, and I exempt his income from subscriptions which he states as 5200/- Under Sec 5 (c) as being solely employed in religious purposes.Sd/T.Dixon 17-9-1898 Collector ترجمہ بعدالت ٹی ڈیکسن صاحب بہادر کلکٹر ضلع گورداسپور مقدمہ نمبر ۴۶ بابت ۹۸ء عذر داری انکم ٹیکس مرزا غلام احمد صاحب ولد مرزا غلام مرتضیٰ قوم مغل ساکن موضع قادیان مغلاں تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور عذردار حُکم یہ ٹیکس اب کے ہی لگایا گیا ہے اور مرزا غلام احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ
520 تمام آمدنی میری جماعت کے لئے خرچ ہوتی ہے.میرے ذاتی خرچ میں نہیں آتی.وہ اس بات کو بھی قبول کرتے ہیں کہ میری اور بھی جائیداد ہے.لیکن تحصیل دار صاحب کے سامنے انہوں نے بیان کیا ہے کہ اس میری جائیداد کی آمدنی بھی جو از قسم زمین ہے.اور پیداوار زراعت ہے اور زیر دفعہ ۵ (ب) انکم ٹیکس سے بری ہے.دینی مصارف میں ہی کام آتی ہے.اس شخص کے اظہار نیک نیتی میں مجھے شک کرنے کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی.جس کی جماعت کو ہر ایک جانتا ہے میں ان کی چندوں کی آمدنی کو جس کی تعداد وہ 3(۵۲۰۰ )بیان کرتے ہیں اور جو محض دینی کاموں میں خرچ ہوتی ہے.زیر دفعہ ۵ (ای) انکم ٹیکس سے بری کرتا ہوں.دستخط ٹی ڈیکسن صاحب بہادر کلکٹر ۱۷؍ ستمبر ۹۸ء *** جس کتاب پر دستخط مصنف و مہر نہ ہو تو وہ کتاب مسروقہ ہوگی راقم مرزا غلام احمد مورخہ ۲۰؍ اکتوبر ۱۸۹۸ء
01 انڈیکس روحانی خزائن جلدنمبر۱۳ مرتبہ :مکرم محمد محمود طاہر صاحب زیر نگرانی سید عبد الحی آیات قرآنیہ ۳ احادیث نبویہ ﷺ ۵ الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷ مضامین ۸ اسماء ۳۱ مقامات ۵۸ کتابیات
03 آیات قرآنیہ الفاتحۃ اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم (۶.۷) ۴۹۴ البقرۃ ختم اللّٰہ علٰی قلوبھم (۸) ۴۷ وکانوا من قبل یستفتحون (۹۰) ۴۷۶ یعر فونہ کما یعرفون ابنآء ھم (۱۴۷) ۴۷۶ لا اکراہ فی الدین (۲۵۷) ۳۱۹ ربنا و لا تحملنا ما لا طاقۃ لنا بہ واعف عنا واغفر لنا (۲۸۷) ۱۱۴ آ ل عمران وجیھا فی الدنیا وا لآخرۃ ومن المقربین (۴۶) ۱۱۵ انی متوفیک ورافعک الیّ (۵۶) ۲۳،۲۴،۳۶۲ ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر (۱۰۵) ۳۹۱،۴۱۲ کنتم خیر امۃ اخرجت للناس (۱۱۱) ۳۸۹ قد خلت من قبلہ الرسل (۱۴۵) ۲۲۱ لتبلون فی اموالکم و انفسکم (۱۸۷) ۳۱۸،۳۹۰ یٰایّھا الذین اٰمنوا اصبر وا وصابروا و رابطوا (۲۰۱) ۳۹۱ النساء اطیعوا اللّٰہ واطیعواالرسول و اولی الامر منکم (۶۰) ۴۹۳ ما قتلو ہ وما صلبوہ و لکن شبہ لھم (۱۵۸) ۲۳،۲۲۷ح، ۲۲۸ح،۲۳۳ح بل رفعہ اللّٰہ (۱۵۹) ۲۳،۲۴،۲۲۷ح،۲۲۸ح، ۲۳۳ح المائدۃ انا انزلنا التوراۃ فیھا ھدًی و نور (۴۵) ۱۱۳ فلما توفیتنی (۱۱۸) ۲۴،۲۱۹ح،۴۹۶، الانعام اللّٰہ اعلم حیث یجعل رسالتہ (۱۲۵) ۵۰۲ الاعراف فیھا تحیون و فیھا تمومون و منھا تخرجون (۲۶) ۲۳۸ح، ۲۲۳ح لا تفتح لھم ابواب السماء (۴۱) ۲۳۷ح ربنا افتح بیننا و بین قومنا بالحق (۹۰) ۴۲۰ التوبۃ ان اللّٰہ لا یضیع اجر المحسنین (۱۲۰) ۱۱۳ یونس لھم البشرٰی فی الحیٰوۃ الدنیا (۶۵) ۴۷۳ افانت تکرہ الناس حتیٰ یکونوا مومنین (۱۰۰) ۳۱۹ ھود انّ الحسنات یذھبن السیئات (۱۱۵) ۸۱ الرعد ان اللّٰہ لا یخلف المیعاد (۳۲) ۴۱ الحجر انّ عبادی لیس لک علیھم سلطان (۴۳) ۴۸۶،۴۸۷ النحل ان اللّٰہ یا مر بالعدل والاحسان و ایتآئ ذ ی القربیٰ (۹۱) ۸۴ ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ...(۱۲۶) ۱۱۶،۳۱۷، ۳۷۶، ۳۷۸، ۳۸۵، ۳۹۱، ۴۱۲ بنی اسرائیل ما کنا معذّ بین حتّٰی نبعث رسولا (۱۶)
04 ولا تقف ما لیس لک بہ علم (۳۷) ۳۲۶ حملنا ھم فی البر والبحر (۷۱) ۲۲۶ح من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الآخرۃ اعمٰی (۷۳) ۶۵، ۸۰ قل سبحان ربی ھل کنت الا بشراً رسولاً (۹۴) ۲۲۴ح،۲۴۱ح مریم رفعناہ مکاناً علیّا (۵۸) ۲۳۷ح طٰہٰ اعطیٰ کلّ شیء خلقہ (۵۱) ۴۷۸ رب زدنی علماً (۱۱۵) ۴۷۹ فنسی ولم نجدلہ عزماً (۱۱۷) ۱۱۷ الانبیاء لا یسئل عمّا یفعل و ھم یسئلون (۲۴) ۴۰ الفرقان واجعلنا للمتقین اماماً (۷۵) ۴۷۲ الشعراء تنزلعلی کلّ افّاک اثیم (۲۲۳) ۴۸۴ العنکبوت لا تجادلوا اھل الکتاب الابالّتی ھی احسن(۴۷)۳۱۷ الاحزاب ماکان محمد ابا احد من رجالکمولکن رسول اللّٰہ و خاتم النبیین (۴۱) ۲۱۸ح سبا ولقد صدق علیھم ابلیس ظنہ (۲۱) ۴۲۵ الزمر فیمسک الّتی قضٰی علیھا الموت (۴۳) ۲۳۹ح قل یا عبادی الذین اسرفواعلی انفسہم(۵۴) ۱۰۵ المؤمن ان یّک کاذباً فعلیہ کذبہ (۲۹) ۱۱۶ حم السجدۃ انّ الّذین قالو ا ربنا اللّٰہ ثم استقامو ا (۳۱) ۴۷۳ الشوریٰ جزاء سیءۃ سیءۃ مثلھا (۴۱) ۸۸ الحجرات انّ بعض الظن اثم (۱۳) ۳۲۶ النجم و ما ینطق عن الھوٰی ان ھو الا وحی یوحٰی (۴.۵) ۱۰۵ الصف لم تقولون ما لا تفعلون کبرمقتاً عنداللہ ان تقولوا مالا تفعلون (۳.۴) ۵۰۴ فلمّا زاغوا ازاغ اللہ قلوبھم (۶) ۴۷ الجمعۃ آخرین منھم لمّا یلحقوا بھم (۴) ۲۵۶ح ذالک فضل اللّٰہ یُؤتیہ من یشاء (۵) ۴۷۹ القلم انّک لعلی خلق عظیم (۵) ۴۷۸ القیٰمۃ وجوہ یومئذ ناضرۃ الی ربھا ناظرۃ (۲۳.۲۴) ۷۲ الفجر یایتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربّک راضیۃً مرضیۃً (۲۹) ۳۶۲ الھمزۃ نار اللّٰہ الموقدۃ الّتی تطلع علی الافئدۃ (۷.۸) ۸۲ النصر ید خلون فی دین اللّٰہ افواجاً (۳) ۴۲۲ الاخلاص قل ھو اللّٰہ احد...ولم یکن لہ کفوا احد ۲.۵
05 اجدر یح الرحمان من قبل الیمن ۴۷۴ اذا وقع العبد فی لھانیۃ الرب و مھیمنیۃ الصدیقین...۳۳۶ امامکم منکم ۲۱۴ح،۳۰۱ح،۳۱۸ جاء الشیطن الی عیسیٰ قال الست تزعم انک صادق قال بلی ۴۸۶ فامکم منکم ۲۱۵ح،۳۱۸ح لا نبی بعدی ۲۱۷ح.۲۱۸ح لا مہدی الّا عیسٰی ۳۰۸ح لو کان الدین عندالثریا لذھب بہ رجل من فارس ۳۰۸ح لیسوا منی ولست منھم ۲۲۲ح من مات بغیر امام مات میتۃ جاھلیہ ۴۷۲ واومیٰ الی المشرق ۲۵۹ح یجددلھا ۳۰۳ح یکسر الصلیب ویقتل الخنزیر ۲۵۹ح احادیث بالمعنی آنے والا مسیح اسی امت میں سے ہو گا ۲۲۰ح اس امت کے لئے ہر ایک صدی کے سر پر مجدد پیدا ہو گا جو ان کی ضرورتوں کے موافق تجدید دین کرے گا ۳۰۲ح مسیح موعود چودھویں صدی کے سر پر ظہور کریگا ۲۰۶ح امت محمدیہ کے بھی اتنے فرقے ہو جائیں گے جس قدر یہود کے فرقے ہوئے تھے اور ہرایک دوسرے کی تکذیب و تکفیر کرے گا ۲۵۶ح عیسائیت کے فتنہ کو دور کرنے والا صدی کے سر کا مجدد ہی مسیح ہوگا ۲۱۶ح مسیح موعود اور مسیح اسرائیلی کے دو الگ الگ حلیوں کا بیان مسیح موعود کے گندمی رنگ اور سیدھے بال جبکہ مسیح اسرائیل کا سرخ رنگ اور گھنگھریالے بال ۲۱۹ح،۳۰۱ح آنے والے امام موعود کی تکفیر ہو گی ۲۰۳ مسیح موعود کی تلوار اس کے انفاس طیبہ ہیں یعنی کلمات حکمیہ ۳۱۲ح وہ مسیح موعود نہ ہتھیار اٹھائے گا اور نہ لڑائی کرے گا ۳۰۹ح مسیح موعود تمہارا امام اور خلیفہ ہے اور اس پر خدا اور اس کے نبی کا سلام ہے ۳۲۸ مسیح موعود کی علامت کہ وہ صدی کا مجدد ہو گا اور اس کا کام یہ ہوگا کہ وہ کسر صلیب کرے ۳۰۳ح مسیح موعود کے ظہور سے پہلے زمین ظلم اور جور سے بھری ہو گی پھر مہدی موعود عدل وانصاف سے زمین کو پُر کرے گا وہ روشن پیشانی اور اونچی ناک والا ہو گا ۳۰۶ح صلیبی غلبہ کے وقت مسیح موعود آئے گا
06 مسیح موعود کو اپنا بازو قرار دیا، سلام بھیجا اور اس کا نام حکم عدل امام اور خلیفۃ اللہ رکھا ہے ۳۲۸ مہدی موعود ایسے قصبہ کا رہنے والا ہو گا جس کا نام کدعہ یا کدیہ ہو گا ۲۶۱ح دجال نبوت کاد عویٰ کریگا اور خدائی کا دعویٰ کریگا ۲۴۳ح مسلم کی دمشقی حدیث میں منارہ شرقی کا ذکر کر کے مسیح موعود کے ظہور کے لئے مشرق کی طرف ہی اشارہ کیا گیا ۲۶۰ مسیح موعود عیسائی قوم کے دجل کو دور کرے گا اور ان کے صلیبی خیالات کو پاش پاش کرے گا ۲۶۲ح مسیح موعود صلیب کے غلبہ کے وقت آئے گا ۲۰۷ح جو شخص اپنے زمانہ کے امام کو شناخت نہ کرے اس کی موت جاہلیت کی موت ہوتی ہے ۴۷۲ حضرت عیسیٰ 120سال زندہ رہے.۲۱۵ح، ۲۷۸ح *...*...*
07 عربی الہامات اردت ان استخلف فخلقت آدم ۱۰۵ اناّ خلقنا الانسان فی احسن تقویم ۱۰۵ الرحمن علم القرآن لتنذر قوما ما انذر آباء ھم...۱۰۵،۲۰۱ح اصحاب الصفۃ و ما ادراک ما اصحاب الصفۃ ۳۰۹ح القیت علیک محبۃ منی ۳۰۸ح الیس اللہ بکاف عبدہ ۱۹۴ح املوا ۳۰۹،۳۱۰ح ان الّذین کفروا ردّ علیھم رجل من فارس ۱۶۳ح ح انّا زیّنا السماء الدنیا بمصابیح ۱۰۵ انّا فتحنا لک فتحامبینا...۳۰۹،۳۱۰ح انی مع الافواج آتیک بغتۃً ۱۱۱ انی مھین من اراد اھانتک ۳۰، ۴۴، ۱۱۰ ترٰی اعینھم تفیض من الدمع ۳۱۰ح خذوا التوحید ، التوحید یا ابناء الفارس۱۶۲ح،۳۰۹ح ربنا انناسمعنا منادیا ینادی للایمان ۳۰۹،۳۱۰ح سبحان اللہ تبارک و تعالیٰ زاد مجدک ینقطع آبائک و یبدء منک ۱۷۹ح قد ابتلی المومنون ۱۱۰ شکراللّٰہ سعیہ ۱۶۳ح قل انی امرت وانا اول المومنین ۲۰۱ح،۵۰۲ح لو کان الایمان معلقاً بالثریا لنا لہ رجل من فارس ۱۶۳ح،۳۰۹ح نصرت بالرعب ۳۰۸ح واتل علیھم مااوحی الیک ولا تصعر لخلق اللّٰہ و لا تسئم من الناس ۳۰۹ح و داعیاً الی اللہ وسراجا منیرا...۳۰۹،۳۱۰ح والسماء والطارق ۱۹۳ح وبشّر الّذین اٰمنوا ان لھم قدم صدق ۲۰۹ح یا احمد فاضت الرحمۃ علی شفتیک ۳۰۹ح یصلّون علیک ابدال الشام...۳۱۰ح ینقطع آباء ک و یبدء منک ۱۷۹ح اردو الہامات تیرا مضمون بالا رہے گا ۵۸، ۵۹ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا...۳۲۹ ہم ایک نیا نظام اور نیا آسمان نئی زمین چاہتے ہیں ۱۰۴ *...*...*
08 مضامین آ.۱ آریہ دھرم وید تک ہی خدا کے کلام پر مہر لگا دی ۴۹۰ اسلام، بانی اسلام اور قرآن کے بارہ میں آریوں کی بدزبانی ۱۳۱ آریہ سماج ۳۹۳ آزادی مذہب مذہبی آزادی اور اہل کتاب کی طرف سے دکھ دئیے جانے کی پیشگوئی ۳۱۸ ہمیں اس حکومت کے سایہ میں ہر قسم کی آزادی حاصل ہے جس پر ہم اس کے مشکور ہیں ۴۴۱،۴۴۲ انگریزی دور میں مذہبی آزادی حاصل ہوئی جو اس سے پہلے دور میں نہ تھی ۳۴۴،۴۴۹،۴۵۰ انگریزی گورنمنٹ نے دینی امور میں مکمل آزادی دی ہے اور اس پیاری چیز کی خبر پا کر دوسرے ممالک بھی اس گورنمنٹ کو چاہتے ہیں ۴۰۱ ہمارے ادب کا تقاضا ہونا چاہئے کہ ہم اپنی مذہبی آزادی کو ایک طفیلی آزادی تصور کریں ۳۹۲ اجماع صحابہؓ کا وفات مسیح پر اجماع ہوا ۲۲۰ح حیات مسیح اجماعی عقیدہ نہیں ہے بڑے بڑے ائمہ، محدثین مفسرین اور اکابرین وفات مسیح کے قائل ہیں ۲۲۱ح،۲۲۲ح احمدیت ؍جماعت احمدیہ میری جماعت میں ملہم اس قدر ہیں کہ بعض کے الہامات کی ایک کتاب بنتی ہے ۵۰۱ جماعت میں بڑے بڑے معزز اسلام داخل ہیں ۱۴ میری جماعت اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ علوم مروجہ حاصل کرنے والے اور چال چلن اور اخلاق فاضلہ میں بڑی ترقی کی ہے ۳۴۸ جماعت کے اصول پاک صاف امن بخش اور صلحکاری کے ہیں جن کی نظیر دوسرے فرقوں میں نہیں ملے گی ۳۴۶ فرقہ جدید(جماعت احمدیہ) گورنمنٹ کے لئے ہرگز خطرناک نہیں ہے ۳۴۶ح حضورؑ اور جماعت کے حالات پر مبنی درخواست محررہ ۲۴؍فروری ۱۸۹۸ء بنام لیفٹیننٹ گورنر بہادر ۳۳۷تا۳۵۷ حضور کا اپنے مریدوں کی فہرست گورنمنٹ کو فراہم کرنا کہ یہ مخلصین اور خیرخواہوں کی جماعت ہے ۳۴۹ مخلصین سلسلہ کی فہرست جو گورنمنٹ کو ارسال کی گئی ۳۵۰تا۳۵۷ جماعت کو حضور کی نصیحت کہ انگریزوں کو اولی الامر میں داخل کرتے ہوئے ان کے مطیع رہیں کیونکہ وہ ہمارے دین میں حارج نہیں ۴۹۳،۴۹۴ حضور کی جماعت کو نصائح ۱۳،۱۴ ہماری تمام نصیحتوں کا خلاصہ تین امر ہیں حقوق اللہ حقوق العباد اور گورنمنٹ کی سچی خیر خواہی
09 حضورکی احمدیوں اور مسلمانوں کو نصیحت کہ طریق سخت گوئی سے بچیں اور حملوں کا نرم الفاظ میں جواب دیں ۳۱۲ زٹلی کی بدگوئی پر گورنمنٹ کو جماعت کی طرف سے میموریل بھیجنے کا مقصد ۳۹۱ح مقدمہ قتل اور اس سے بریت سے جماعت کو مختلف نشانات کے ذریعہ فائدہ پہنچا ۴۴ اخلاق تمام اخلاق ذمیمہ بداستعمالی یا افراط تفریط کی وجہ سے ذمیمہ ہوتے ہیں حدّ اعتدال اور موقع محل پر استعمال کریں تو اخلاق فاضلہ ہو جاتے ہیں ۶۷ ارتداد اسلام سے مرتد ہو کر عیسائیت قبول کرنے والے پنجاب اور ہندوستان میں ایک لاکھ کے قریب ہونگے ۳۹۳ اسلام سے مرتد ہو کر عیسائی ہونے والے یہ اسلام اور آنحضرتؐ کے بارے میں زیادہ بدزبانی دکھلارہے ہیں ۳۷۹ اسلام سچا اور صحیح مذہب صرف اسلام ۱۵۵ح زندہ مذہب وہی ہوتا ہے جس پر ہمیشہ کے لئے زندہ خدا کا ہاتھ ہو سو وہ اسلام ہے ۹۲ اسلام اپنے آسمانی نشانوں کی وجہ سے کسی زمانے کے آگے شرمندہ نہیں ۹۲ جس قدر اولیاء کرام اسلام میں اسلام کی تائید اور آنحضورؐ کی سچائی کی گواہی میں گزرے ہیں اس کی نظیر دوسرے مذاہب میں نہیں ملتی ۹۲ اسلام میں گزرنے والے اولیاء کرام جنہوں نے آسمانی نشانات کے ذریعہ غیر قوموں کو ہدایت بخشی ۹۱،۹۲ آنحضورؐ سے آج تک ایسے باخدا لوگ گزرتے رہے جو آسمانی نشانات کے ذریعہ غیر قوموں کو ہدایت دیتے رہے ۹۱ اسلام نہایت پاک اصول رکھتا ہے ۳۸۱ اسلامی اصول کے موافق گزشتہ انبیاء کی تکذیب نہیں ہے ۱۶ اسلامی توحید سب کی مانی منائی ہے ۵۴ چولہ صاحب میں باوا صاحب لکھ گئے ہیں کہ اسلام کے سوا کوئی مذہب سچا نہیں ۴۹۲ اسلام کا نورانی اور مبارک چہرہ لوگوں کو دکھائیں یہ سچی ہمدردی اسلام ہے ۳۸۳ تقریباً تیرہویں صدی ہجری سے اسلام کی نسبت بدگوئی کا دروازہ کھلا ۳۱۸ اعتراضات کے ردّ کے ساتھ اسلامی تعلیم کی عمدگی اور خوبی اور فضیلت بھی بیان کی جاوے ۳۸۱ موجودہ اسلامی ذریت کو سم قاتل سے بچانے کیلئے جملہ مخالفین کے اعتراضات کا جواب دیا جائے گا ۳۹۸ اسلام کی خوبیاں اور اعتراضات کا جامع ردّ تین زبانوں اردو عربی اور فارسی میں لکھا جائے ۳۹۵ اسلام کی خوبصورت تعلیم پھیلانا اور زہریلی ہواؤں سے بچانا اسلام کے لئے اس زمانہ میں حقیقی کام ہے ۳۹۳،۳۹۴ پادریوں کی طرف سے اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دیا جانا چاہئے تا لوگ گمراہی سے بچیں ۳۷۸ تائید اسلام کے دعویٰ میں جا بجا انجمنیں قائم ہیں لاہور میں بھی تین انجمنیں قائم ہیں ۳۹۲ عیسائیت کے مقابل پر اسلامی کتب کی اشاعت کس قدر ہوئی؟ ۴۱۳ اسلام پادریوں، فلسفہ جدیدہ، آریہ ، برہمو سماج اور دہریوں طبیعوں کے حملوں کے نیچے دبا ہوا ہے ۴۰۳ اسلام کے خلاف عیسائیت اور آریوں وغیرہ کی طرف سے تین ہزار تک اعتراضات پہنچ چکے ہیں ۳۹۳ اس قدر تحقیر اور گالیاں پہلے کبھی اہل اسلام کو نہیں دی گئیں جیسی کہ اس زمانہ میں ۳۸۴
10 اسلام سے مرتد ہونے والے عیسائی اسلام پر زیادہ بدزبانی کر رہے ہیں مثلاً عمادالدین، صفدر علی اور مصنف امہات المومنین وغیرہ ۳۷۹ اسلام کے بارہ میں عیسائیوں اور ہندوؤں کی بدزبانی اور گستاخی ۱۲۲تا ۱۴۵ اسلامی بادشاہ ہندوستان کے بعض اسلامی بادشاہوں نے صوبہ پنجاب کو چھوڑ دیا تھا اور سکھ حکومت کے مظالم شرو ع ہوئے ۴۹۴ اشتہار؍ اشتہارات اشتہار ۱۲جنوری ۱۸۸۹ء بعنوان تکمیل تبلیغ مع شرائط بیعت ۹،۳۴۷ اشتہار ۲۵ جون ۱۸۹۷ء ۹،۳۲۵تا۳۳۶ اشتہار ۱۵جولائی ۱۸۹۷ء بابت درخواست کہ علماء میری تصدیق یا تکذیب کے لئے اللہ سے توجہ کریں ۳۵۸تا۳۶۶ اشتہار واجب الاظہار ۲۰ ستمبر۱۸۹۷ء ۱ اشتہار ۲۲اپریل ۱۸۹۸ء بابت جلسہ طاعون قادیان ۳۱۴ اشتہار ۱۰دسمبر ۱۸۹۴ء ۹ اشتہار ۲۷ فروری ۱۸۹۵ء ۹ اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۹۷ء ۹ اشتہار ۷ جون ۱۸۹۷ء ۹ اشتہار ۲۳جون۱۸۹۷ء ۹ تائید گورنمنٹ میں حضورکے بعض اشتہارات ۳۴۲ عبدالحق غزنوی، مولوی محمد، مولوی عبداللہ اور مولوی عبدالعزیز لدھیانویان کے اشتہارات جس میں حضور کے بارہ بدزبانی کی گئی ہے ۱۴۹ اصحاب الصفہ حضور کے الہامات میں اصحاب الصفہ کا ذکر اور ان سے مراد وہ لوگ جو اکثر پاس رہیں گے اور خدا ان سے پیار کرے گا ۳۰۹ح،۳۱۲ح اصول حدیث حدیث کی پیشگوئی کا پورا ہونا حدیث کی سچائی کیلئے کافی ہے ۵۰۸ اطاعت اولی الامر سے مراد جسمانی طور پر بادشاہ اور روحانی طور پر امام الزمان ہے ۴۹۳ میری جماعت کو نصیحت ہے کہ وہ انگریزوں کی بادشاہت کو اپنے اولی الامر میں داخل کریں اور دل کی سچائی سے ان کے مطیع رہیں ۴۹۳ اعتراض ؍اعتراضات مباحثات میں بہتر ہو گا کہ کسی مذہب پر بیہودہ طور پر اعتراض نہ کریں ۱۵ اسلام کے خلاف اصل اعتراضات کا جواب دینا ہمارے ذمہ ہے ۳۷۸ پادریوں کے اعتراضات کو جڑ سے اکھاڑنا چاہئے ۳۹۲ سلطان روم سے کینہ اور انگریزوں کی خوشامد کے اعتراض کا جواب ۳۲۵ ایڈیٹر پیسہ و ابزرور کے اعتراضات اور ان کے جوابات ۴۰۶ اللہ جلّ جلالہٗ قرآن سے ہم نے حقیقی خدا کو پہنچانا اور پایا ۶۵ خداشناسی کے تین ذرائع ۵۱تا ۵۳ ہماری تمام سعادت خدا شناسی میں ہے کہ وہ معرفت کاملہ ہے ۶۲ یقین ہستی باری تعالیٰ انسان کو خدا ترسی کی آنکھ بخشتا ہے ۶۳ جو شخص خدا کی جلالی تجلیات کے نیچے زندگی بسر کرتا ہے اس کی شیطنت مر جاتی ہے اور اس کے سانپ کا سر کچلا جاتا ہے ۶۳ نفسانی جذبات کا سیلاب بجز خدا کے یقین کے تھم نہیں سکتا ۶۲ متفق علیہ عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تولد بھوک پیاس اور عجز عدم قدرت اور تجسم سے پاک ہے
11 اللہ تعالیٰ کی طرف سے قدیم سے ہدایت کی تین راہیں اور اسباب و وسائل ۴۹ اللہ نے ہر زمانہ میں کامل اور مقدس نشان دکھلانے کیلئے کسی نہ کسی کو بھیجا ہے اس زمانہ میں مسیح موعود کے نام سے مجھے بھیجا ہے ۱۵۷ح توراۃ اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کیلئے جمع کا صیغہ اس کی طاقت اور قدرت کے اظہار کیلئے استعمال ہواہے ۹۴،۹۵ صفات الٰہیہ جس مذہب میں اللہ کی صفات تازہ بتازہ تجلی فرماتی رہیں وہ علم کے رنگ میں زندہ رہتا ہے ورنہ کہانیوں کی صورت میں مر جاتا ہے ۴۹۱ صفت ایثار قادر مطلق خدا کی طرف منسوب نہیں ہو سکتی کیونکہ اس میں ضعف ،درماندگی اور عدم استطاعت شرط ہے ۹۹ خدا تعالیٰ کی اصل صفت رحم ہے اور عدل عقل اور قانون عطا کرنے کے بعد پیدا ہوتا ہے حقیقت میں وہ بھی ایک رحم ہے ۷۴ عیسائیت کے خدا کو عدل کی کچھ بھی پرواہ نہیں کہ یسوع پر ناحق تمام جہان کی لعنت ڈال دی ۷۲ عیسائی وسوسہ کہ عدل اور رحم خدا کی ذات میں جمع نہیں ہو سکتے ۷۳ خدا کا عدل بجائے خود ہے اور رحم بجائے خود ہے ۷۳ اللہ تعالیٰ کا عدل بھی تو ایک رحم ہے ۷۳ اللہ تعالیٰ کی صفت کافی اور متکفل ۱۹۵ح اللہ تعالیٰ کی صفت کلام مفقود نہیں ہوئی.ایسا اعتقاد رکھا جائے تو باقی صفات میں بھی جائے اندیشہ ہے ۴۹۰ انجیل یا وید اس خدا کا ہمیں کیا پتہ بتلاتی ہے اس کا چہرہ دکھانے میں کونسا آئینہ تھماتی ہے ۶۲ اگر خدا بننے کا قاعدہ ہے کہ کوئی بے گناہ ہو تو یسوع سے پہلے جو بے گناہ تھے ان کے لئے یہ اتفاق ممکن ہے ۶۹ الہام ؍وحی الہامات یا خوابیں مومنوں کیلئے ایک روحانی نعمت ہے ۴۷۳ سچا الہام جو خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے اس کی دس علامات ۴۸۹ الہام تین طبقوں کا ہوتا ہے ادنیٰ اوسط اور اعلیٰ ۴۹۹ الہامی جواہرات کا جوہری امام الزمان ہوتا ہے ۴۸۹ امام الزمان اپنی جبلت میں قوت امامت رکھتا ہے ۴۹۳ امام الزمان کے الہامات محض ذاتیات پر مبنی نہیں ہوتے بلکہ نصرت دین اور تقویت ایمان کیلئے نہایت مفید ہوتے ہیں ۴۸۳ جیسے جیسے دل کی صفائی بڑھے گی ایسا ہی الہام میں فصاحت کی صفائی بڑھے گی ۴۹۹ ہر ایک ملہم جو امام الزمان کے سلسلہ میں داخل نہیں وہ ہلاک ہو گا ۴۷۴ ہر ملہم امام نہیں ہوتا حضرت موسیٰ کی ماں کو بھی الہام ہوا ۴۷۳ مسیح موعود کے وقت عورتوں کو بھی الہام ہو گا ۴۷۵ جماعت میں کثرت سے ملہمین کا ہونا ۵۰۰ عمراویسؓ کو بھی الہام ہوتا تھا ۴۷۳ اویس قرنی کو بھی الہام ہوتا تھا ۴۷۴ شیطانی الہامات بھی ہوتے ہیں جب تک انسان کا تزکیہ نفس کامل طور پر نہ ہو شیطانی الہام ہو سکتا ہے ۴۸۴ سید عبدالقادر جیلانی کا کہنا کہ ایک دفعہ شیطانی الہام مجھے بھی ہوا ۴۸۷ جو شخص شیطانی الہام کا منکر ہے وہ انبیاء کی تمام تعلیموں کا انکاری ہے ۴۸۸ الہام کا سلسلہ بند ماننے سے لاکھوں ہندو دہریہ ہو گئے ۴۹۱ آجکل کے فلسفی طبع اور نیچری اور برہمو الہام سے منکر ہیں ۴۹۰
12 امام ؍امام الزمان امام وقت کے لئے قوت اور بسطت فی العلم ضروری ہے ۴۷۹ امام الزمان اس شخص کا نام ہے جس کی روحانی تربیت کا خدا تعالیٰ متولی ہو کر اس کی فطرت میں امامت کی روشنی رکھ دیتا ہے ۴۷۷ امام الزمان کس کو کہتے ہیں اور اس کی علامات کیا ہیں ۴۷۶،۴۷۷ امام الزمان کے لفظ میں نبی رسول محدث مجدد سب داخل ہیں ۴۹۵ امام میں بنی نوع انسان کے فائدے اور فیض رسانی کیلئے جن چھ قوتوں کا ہونا ضروری ہے ۴۷۸تا۴۸۳ جب دنیا میں کوئی امام الزمان آتا ہے تو ہزارہا انوار اس کے ساتھ آتے ہیں ۴۷۴ اخلاقی حالت میں کمال رکھنا اماموں کیلئے لازمی ہے ۴۷۸ صرف تقویٰ یا طہارت یا سچی خواب آنے سے کوئی امام نہیں کہلا سکتا ۴۷۲ الہامی جواہرات کا جوہری امام الزمان ہوتا ہے ۴۸۹ آنحضورؐ کی وصیت کے مطابق ہر ایک حق کا طالب امام صادق کی تلاش میں لگا رہے ۴۷۲ آنحضورؐ نے امام الزمان کی ضرورت ہر ایک صدی کیلئے قائم کی ہے ۴۷۴ اس زمانے کا امام الزمان خدا کے فضل اور عنایت سے میں ہوں ۴۹۵ امن قیام امن کیلئے حکومت کا فرض ہے کہ وہ مذہبی پیشواؤں کی توہین کے خلاف قانون جاری کرے ۱۲ انجمن تائید اسلام کے دعویٰ میں کئی انجمنیں قائم ہو چکی ہیں.عیسائیوں کی کروڑوں کتابوں اور اعتراضات کا جواب دینا ان کا فرض تھا ۳۹۲ یہ انجمنیں اپنے فرائض سے غافل ہیں ۳۹۳ انجمن حمایت اسلام لاہور ۴۰۶،۴۱۰،۴۱۵،۴۲۰،۴۲۱،۴۲۲ کتاب امہات المومنین کی اشاعت پر شکایت کیلئے گورنمنٹ کو میموریل بھیجنا ۳۷۶ انجمن موجودہ یہ لیاقت ہی نہیں رکھتی کہ دین کے معظمات امور میں زبان ہلا سکے یا عیسائی اعتراضات کا ردّ تالیف کر سکے ۳۷۷ جو ایک لاکھ عیسائی ہوئے کیا ان کو اتنی بھی تعلیم نہیں ملی تھی جو اب انجمن یتیموں اور دوسرے طالب علموں کو دے رہی ہے ۳۹۳ ان کا حضورؑ کے بارہ میں اعتراض کہ تمام سخت الفاظ اسلام کی طرف سے آپؑ سے ظہور میں آئے ہیں ۳۸۷ کوئی ممبر یا ایڈیٹر ابزور یہ خیال کرتا ہے کہ میں بدگوئی کی بنیاد ڈالنے والا ہوں تو اس کو تاوان کے طور پرہزار روپیہ دینے کے لئے تیار ہوں ۳۸۸ انجمن حمایت اسلام اور اس کے حامیوں کو کیا کہیں جنہوں نے اسلام کا کچھ بھی لحاظ نہ رکھا اس قدر سچائی کا خون کیا ۴۲۰ انجیل ۱.شملر نے لکھا ہے کہ یوحنا کی انجیل کے سوا باقی تینوں انجیلیں جعلی ہیں ۹۳ ۲.ڈاڈویل نے لکھ ہے کہ دوسری صدی کے وسط تک موجودہ چاروں انجیلوں کا نشان دنیا میں نہیں تھا ۹۳ ۳.پادری ایولسن نے لکھا ہے کہ متی کی یونانی انجیل دوسری صدی مسیحی میں ایسے شخص نے لکھی ہے جو یہودی نہ تھا ۹۳ ۴.سیملر نے لکھا ہے کہ اناجیل نیک نیتی کے بہانہ سے مکّاری کے ساتھ دوسری صدی میں لکھی گئیں ۹۳ انسانیت کمال انسانیت یہ ہے کہ ہم حتی الوسع گالیوں کے مقابل پر اعراض اور درگزر کی خواختیار کریں
13 انگریز حکومت ؍برطانوی حکومت ۴۳۷،۴۳۹ اس گورنمنٹ کی پناہ ہمارے لئے بالواسطہ خدا تعالیٰ کی پناہ ہے ۳۳۴ ایسی محسن گورنمنٹ کے زیر سایہ ہمیں رکھا یہ خدا کا فضل اور احسان ہے ۴۰ انگریزوں نے ہمارے دین کو ایک قسم کی وہ مدد دی ہے کہ جو ہندوستان کے اسلامی بادشاہوں کو بھی میسر نہیں آ سکی ۴۹۲ اس حکومت نے دین اسلام کی حمایت کی اور ہمارے مذہبی فرائض میں ہمیں پوری آزادی بخشی ۴۹۴ واجب الاطاعت اور شکر گزاری کے لائق ہے جس کے زیر سایہ امن کے ساتھ میں آسمانی کارروائی کر رہا ہوں ۳۲۰ اس دور میں ہمیں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہوئی جو اس سے پہلے نہ تھی ۳۴۳،۴۴۹،۴۵۰ ہمیں اس حکومت میں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے جس کے لئے ہم اس کے مشکور ہیں ۴۰۰،۴۴۱،۴۴۲ گورنمنٹ عالیہ کے اصول انصاف پرور اور عدل گستری پر مبنی ہیں ۴۳۱ ہم یقیناًجانتے ہیں کہ ہماری گورنمنٹ مذہبی امور میں ہرگز پادریوں کی رعایت نہیں کریگی ۱۵۶ گورنمنٹ محسنہ کیلئے حضور کی دعائے خیر ۳۴۱ ملکہ قیصرہ کے حق میں دعا ۴۵۳ سکھ مظالم سے مسلمانوں کو انگریزوں نے نجات دلائی یہ ان کا احسان ہے ۳۴۱ حکومت کا شکر ہم پر واجب ہے ۴۴۳،۴۴۶ مقدمہ قتل میں انصاف دینے پر گورنمنٹ کا شکر اد اکرنا ۳۱۰ سترہ برس سے حضور نے اپنی تحریرات میں حکومت کی اطاعت اور ہمدردی کی ترغیب دی ۶،۷ مسلمانوں میں میں نے یہ اعتقاد پھیلایا ہے کہ انہیں اپنی محسن گورنمنٹ انگریزی کی سچی اطاعت اور وفاداری کرنی چاہئے ۳۴۰ گورنمنٹ انگریزی کی تائید میں حضور کی تحریرات کی تفصیل ۳۴۲ حضور پر انگریزوں کی خوشامد کا اعتراض اورجواب ۳۲۵ پادریوں اور آریوں کی طرف سے سختی اور دل آزاری کی گورنمنٹ کوشکایت اور دادرسی ۱۱۹ اشتہار واجب الاظہار جو گورنمنٹ عالیہ قیصرہ ہند توجہ سے ملاحظہ فرمائے ۱ ۱۸۵۷ء کے غدر میں میرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے سرکار انگریز کی طاقت سے بڑھ کر مدد کی ۴ انگریز قوم ایک انگریزمحقق کا کہنا کہ اگر ۱۸۵۷ء کا غدر دوبارہ ممکن ہوا تو اس کا سبب پادری عمادالدین کی تحریریں ہوں گی ۴۳۱ اولیا ء اللہ با خدالوگ جو آسمانی نشانوں سے غیر قوموں کو ہدایت دیتے رہے ان کے اسماء ۹۱،۹۲ جس قدر اسلام کی تائید اور آنحضورؐ کی سچائی میں اولیاء اللہ گزرے ہیں دوسرے مذاہب میں ان کی نظیر نہیں ملتی ۹۲ اولی الامر اولی الامر سے مراد جسمانی طور پر بادشاہ اور روحانی طور پر امام الزمان ہے ۴۹۳ میری جماعت کو نصیحت ہے کہ وہ انگریزوں کی بادشاہت کو اپنے اولی الامر میں داخل کریں ۴۹۳ اہل بیت آنحضورؐ مع حسنین و علیؓ وفاطمہؓ کوحضور نے عین بیداری میں دیکھا ۱۹۸ح خواب میں پاک معمر بزرگ کا ذکر کرنا کہ روزے رکھنا سنت خاندان نبوت ہے چنانچہ حضور نے اس سنت اہل بیت کو بجالائے ۱۹۷ح
14 ایثار ایثار عاجز انسان کی صفات محمودہ میں سے ہے لیکن خدا کی طرف منسوب نہیں ہو سکتی ۹۷ صفت ایثار میں ایثار کنندہ کا ضعف اور درماندگی اور عدم قدرت اور عدم استطاعت شرط ہے لہٰذا یہ صفت خدائے قادر مطلق کی طرف منسوب نہیں ہو سکتی ۹۹ سر فلپ سڈنی کے جذبہ ایثار کی مثال ۹۶ ب.پ.ت بدی ؍برائی بدی میں ایک زہریلی خاصیت ہے کہ وہ ہلاکت تک پہنچاتی ہے ۸۱ بروز مسیح کا بروز کے طور پر نازل ہونے کو تمام محقق مانتے چلے آئے ہیں ۴۸ حضرت عیسیٰؑ کے نزول کی پیشگوئی بروزی طور پر پوری ہو گئی ۲۱۶ح برہمو سماج ۳۹۳ بنی اسرائیل توریت سے انجیل تک تمام کتب کی مخاطب قوم بنی اسرائیل ہے ۸۵ ان میں قدیم سے رسم تھی کہ جرائم پیشہ اور قتل کے مجرموں کو بذریعہ صلیب ہی ہلاک کیا کرتے تھے اسی وجہ سے صلیبی موت لعنتی شمار کی گئی ۲۳۲ح بہشت ؍جنت بہشت کے بارہ میں قرآنی تعلیم اور اسلامی نظریہ ۷۰ قرآن بہشتیوں کیلئے جا بجا روحانی لذات کا ذکر کرتا ہے ۷۲ عیسائیوں کا یہ عقیدہ درست نہیں کہ بہشت صرف ایک امر روحانی ہو گا ۷۰ تعجب ہے کہ کیوں پادری صاحبان بہشت کی جسمانی لذات سے منکر ہیں ۷۲ بیاضیہ فرقہ حضرت علیؓ کو برے الفاظ اور توہین اور گالی سے یاد کرتا ہے ۴۱۶ بیعت بیعت کی حقیقت ۴۹۸ متفرق شرائط بیعت مندرجہ تکمیل تبلیغ مع شرائط بیعت ۳۴۷ شرائط بیعت میں شرط چہارم میں گورنمنٹ کی اطاعت اور بنی نوع کی سچی ہمدردی کی تعلیم ہے ۱۰،۱۳ کشف میں شاہ ولی اللہ دہلوی نے دیکھا کہ آنحضورؐ نے ان کی بیعت کی ہے ۵۰۰ح پیشگوئی ؍پیشگوئیاں پیشگوئیوں کی حقیقت اور شرائط ۴۱،۴۲ پیشگوئیوں میں استعارات غالب ہوتے ہیں ان کی تکذیب میں جلدی نہیں کرنی چاہئے ۴۳ پیشگوئیوں پر اکثر مجازات اور استعارات غالب ہوتے ہیں ۲۱۲ح وعید ی پیشگوئیوں کے ساتھ موقوف ہونے کی شرط ہے ۴۱ پیشگوئیوں میں تناقض عقائد کی وجہ سے انسانی عقل پیشگوئی کا انکار کر دیتی ہے ۲۰۹ح یہ عادت اللہ ہے کہ بعض پیشگوئیاں مامورین کی جہلا اور سفہاء اور کوتہ اندیشوں پر مشتبہ ہو جاتی ہے ۴۲ جہاں تعلیم اور پیشگوئی کا تناقض معلوم ہو وہاں تعلیم کو مقدم رکھا جائے
15 مسیحؑ نے پیشگوئیوں کی تاویلات کیں جس سے یہود نے ٹھوکر کھائی ۲۱۳ مسیح کو کہنا پڑا کہ آنے والا فارقلیط اس نقصان یعنی انجیل کے نقص کا تدارک کرے گا ۶۶ مسیح موعود آنے کی پیشگوئی میں بہت تواتر پایا جاتا ہے ۲۰۶ح مذہبی آزادی اور اہل کتاب وغیرہ کی طرف سے دکھ دئیے جانے کی قرآنی پیشگوئی ۳۱۸ لدھیانہ کے ایک پیر مرد کریم بخش نے اپنے مرشد کی پیشگوئی حضورؑ کے بارہ میں شائع کی ۱۰۹ حضورکی پیشگوئیاں بابت آتھم، احمد بیگ، لیکھرام دیانند ،سر سید احمد خاں ۱۷۶ آتھم کے بارہ دوسری پیشگوئی یہ تھی کہ اگر سچائی کو چھپائے گا تو جلد فوت ہو جائے گا ۵۸ جلسہ مذاہب عالم میں کامیابی کے بارہ پیشگوئی پوری ہوئی ۵۸،۵۹ بعض لوگوں کا افترا کہ ڈپٹی کمشنر بہادر نے آئندہ پیشگوئیاں خاص کر ڈرانے والی پیشگوئیاں کرنے سے منع کر دیا ہے ۱۰ح آئندہ جو انذاری پیشگوئیوں کی درخواست کرے گا اور مجسٹریٹ سے تحریری اجازت پیش کرے گا توپھر شائع کی جائے گی ۱۱ تاریخ مذہبی مباحثات کیلئے علم تاریخ کا آنا ضروری ہے ۳۷۳ تثلیث تثلیث کا عقیدہ عقل کے موافق نہیں ۵۲ عیسائی لفظ الوہیم سے تثلیث کی طرف اشارہ مراد لیتے ہیں حالانکہ یہ ان کی نادانی ہے ۹۳،۹۴ جمع کے صیغہ سے صرف تثلیث مراد لینا درست نہیں جمع کا صیغہ تو صدہا پر اطلاق ہو سکتا ہے ۹۵ تورایت میں پیدائش باب ۲۶؍۱کی عبارت سے تثلیث کے بارہ عیسائی استدلال غلط ہے ۹۵ دمشق تثلیث کے خبیث درخت کا اصل منبت ہے لہٰذا مسیح کا نور دمشق کی طرف سے پھیلے گا ۳۶۰ ترک حکومت ترک حکومت کی تباہی کی پیشگوئی ۱۱۴ ترکی سلطنت آجکل تاریکی سے بھری ہوئی ہے اور شامت اعمال بھگت رہی ہے ۳۲۰ سلطان روم کی خیرخواہی اس میں ہے کہ اس کیلئے دعا کریں نہ کہ میری دشنام دہی ۳۲۶ سلطان روم کی نسبت کچھ نکتہ چینی کرنا بھی میرا حق ہے کیونکہ مجھے اسلامی دنیا کے لئے حکم بنا کر بھیجا گیا ہے ۳۳۵ سلطان کے سفیر حسین کامی کو حضور کا کہنا کہ سلطان کی سلطنت کی اچھی حالت نہیں اور میں کشفی طریق سے اس کے ارکان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا ۳۲۱ حسین کامی کا بدگوئی کے ساتھ واپس جانا یہ دلیل ہے کہ زوال کی علامات موجود ہیں ۳۲۱ توحید اسلامی توحید سب کی مانی منائی ہے ۵۴ کامل توحید جو مدار نجات ہے وہ قرآن میں پائی جاتی ہے ۸۳ توحید کے مراتب کے حوالہ سے قرآن کی اعلیٰ تعلیم اور توحید کے تین درجے ۸۳ پادریوں کا یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ قرآن توحید اور احکام کی کونسی چیز لایا جو توراۃ میں نہ تھی ۸۳ توہین مذہبی پیشواؤں کی توہین کے خلاف حکومت کا فرض ہے کہ وہ قانون جاری کرے تا امن قائم رہے ۱۲
16 ج.ح.خ جلسہ جلسہ اعظم مذاہب( مہوتسو )کی شائع شدہ تقاریر سے اندازہ لگ سکتا ہے کہ اسلام کے دفاع کے لئے کون موزوں ہے ۴۰۴ جماعت ا حمدیہ دیکھئے احمدیت جہاد امر ممانعت جہاد کو عام کرنے کے بارہ میں حضور کی سعی ۷ جہنم یونانی لفظ ہاوس جسے عبرانی میں ہاؤث کہتے ہیں عربی لفظ ہاویہ سے لئے گئے ہیں ۲۸۵ جین مت ۴۹۲ حسد نہایت بری چیز ہے لیکن اگر برے طور پر استعمال نہ کریں تو رشک کے رنگ میں آجاتی ہے ۶۷ حق شناخت حق کے تین ذرائع ۵۱،۵۲ حقوق اللہ جماعت کو پہلی نصیحت حقوق اللہ کی ادائیگی کریں ۱۴ حقوق العباد جماعت کو دوسری نصیحت بنی نوع کی سچی ہمدردی کریں ۱۴ حکومت حکومت کی سچی خیر خواہی کرنا حضور کی تیسری بنیادی نصیحت ۱۴ ہم اس گورنمنٹ سے دلی اخلاص رکھتے ہی اور دلی وفادار اور دلی شکر گزار ہیں کیونکہ ہم امن کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۳۲۱ یہ حکومت کا فرض ہے کہ مذہبی پیشواؤں کی توہین کے خلاف قانون جاری کرے تا امن قائم رہے ۱۲ گورنمنٹ کو درست حالات سے آگاہی کیلئے اپنے اور جماعت پر مبنی حالات ۳۳۷تا۳۵۷ حواری مسیح نے اپنے ایک حواری پطرس کو شیطان کہا ۴۸۴،۴۸۵ حیات بعد الموت بہشت و دوزخ بارے انجیل کی ناقص تعلیم ۷۱ حیات مسیح عقیدہ حیات مسیح رکھنے والوں نے چار جگہ قرآن شریف کی مخالفت کی ہے ۲۲۲ح خواب ؍رؤیا حضورکو خواب میں اپنے والد صاحب کی وفات کا بتلایا گیا آپ اس وقت لاہور میں تھے چنانچہ جلد قادیان پہنچے ۱۹۲ح خواب میں پاک معمر بزرگ کا ذکر کرنا کہ روزے رکھنا سنت خاندان نبوت ہے ۱۹۷ح حضور کے والد صاحب کی روایت کہ انہوں نے آنحضورؐ کو خواب میں دیکھا اور رؤیا کی تعبیر کرنا ۱۹۰ح د.ر دجال دجال کے معنی دھوکہ دہی کے پیشہ کو کمال کی حد تک پہنچانا ۲۴۳ح لغت کی رو سے دجال اس گروہ کو کہتے ہیں جو اپنے تئیں امین اور متدین ظاہر کرے مگر دراصل نہ امین ہو نہ متدین ۲۴۴ آنحضورؐ نے مسیح موعود کے ساتھ دجال کا ذکر کیا عیسیٰ بن مریم اسرائیلی کے ساتھ دجال کا ذکر نہیں کیا ۳۰۲ح دجال کا مستقر اور مقام مشرق ہے تو مسیح موعود بھی مشرق سے ظہور کر ے گا ۲۶۰ح پادری اور یورپین فلاسفر ہی دجال ہیں ۲۵۲ح پادری اور یورپین فلاسفر دجال کے دو جبڑے ہیں جن سے وہ ایک اژدھا کی طرح لوگوں کے ایمان کو کھاتا جاتا ہے ۲۵۲ح
17 پادریوں کا گروہ انجیل محرف کر کے نبوت کا دعویٰ کر رہا ہے او ریورپ کے فلاسفر ایجادات کے ذریعہ گویا خدائی کا دعویٰ کر رہے ہیں ۲۴۴ح دجال کے بارہ میں مسلمانوں کے موہوم خیالات ۲۴۰ح دجال کو خدائی کا پورا جامہ پہنانے کا گناہ علماء کی گردن پر ہے ۲۴۲ دلوں پر فتنہ دجال محیط ہو گیا ہے کہ خدا کی محبت ٹھنڈی ہو گئی ہے ۲۵۳ح دعا دعاؤں کی قبولیت کا طریق حضور کو عطا کیا گیا جو مسلمانوں کے ایمان کو تقویت دینے کا الٰہی طریق ہے ۲۹۶ح قبولیت دعا کے نمونہ کے نشان کی طلبی ۳۳۲ پنجاب اور ہندوستان کے مشائخ اکیس روز تک دعا کرکے میرے سچا یا مفتری ہونے کے بارہ میں اللہ سے اطلاع پائیں ۳۶۴ دہریہ ؍دہریت دہریہ بھی صحت نیت سے ہماری مجلس میں رہے گا تو اللہ پر ایمان لے آئے گا ۵۵ علوم جدیدہ طبیعہ وغیرہ کے پھیلنے سے بہتیرے تعلیم یافتہ دہریوں اور ملحدوں کے رنگ میں نظر آتے ہیں ۳۸۰ الہام کا سلسلہ بند ماننے سے ہندوؤں میں لاکھوں انسان دہریہ ہو گئے ۴۹۱ راہب آنحضورؐ کے ظہور کے وقت کئی راہب اہل کشف تھے جو قرب نبی الزمان کی بشارت دیتے تھے ۴۷۵،۴۷۶ رفع الی اللہ رفع الی اللہ کی حقیقت ۲۳ح،۲۴ قرآن میں رفع الی اللہ کا ذکر ہے رفع الی السماء کا نہیں ۲۲۷ح قرآن نے لکھا ہے کہ اللہ نے بلعم کا رفع کرنا چاہا تھا لیکن وہ زمین کی طرف جھک گیا ۲۳۶ح،۲۳۷ح یہودو نصاریٰ مسیح کو ملعون قرار دیتے ہیں اس کی براء ت کے لئے رفع کے الفاظ قرآن میں آئے ۲۳۴ح یہود اور نصاریٰ کا حضرت عیسیٰ کی نسبت اختلاف ان کے رفع روحانی کے بارہ میں ہے ۲۲۸ح رفع الی السماء جسمانی کی حدیث پیش کرنے والے کو بیس ہزار روپیہ کا تاوان دینے کا چیلنج ۲۲۵ح روح روح کی یہ حالت ہے کہ وہ جسم کے ادنیٰ خلل سے اپنے کمال سے فی الفور نقصان کی طرف عود کرتی ہے ۷۰ دنیا میں انسان نیکی اور بدی کے لئے اپنی روح اور جسم دونوں سے کام لیتا ہے ۷۱ روحانیت ؍روحانی زندگی ہماری روحانی زندگی کی طرز ہماری جسمانی زندگی کی طرز سے نہایت مشابہ ہے ۶۶ منبت اعصاب میں خلل پیدا ہونے سے بہت سے روحانی قویٰ میں خلل پیدا ہو جاتا ہے ۷۰ انسان کے روحانی قویٰ بغیر جسم کے جوڑ کے ہر گز ظہور پذیر نہیں ہوتے ۷۱ روزہ حضور کو خواب میں بزرگ کا ذکر کرنا کہ روزے انوار سماوی کی پیشوائی کے لئے رکھنا سنت خاندان نبوت ہے چنانچہ آپ نے کچھ عرصہ روزے رکھے ۱۹۷ح روزے رکھنے سے حضور پر مکاشفات کھلے اور اپنے نفس کو ایسا پایا کہ میں وقت ضرورت فاقہ کشی پر زیادہ سے زیادہ صبر کر سکتا ہوں ۱۹۹ح حضور کے روزوں کی بجز خدا کے کسی کو خبر نہ تھی اور تمام دن صرف چند تولہ روٹی پر گزارا کرتے.اس روحانی تجربہ سے لطیف مکاشفات کھلے اور زیارت رسول ؐ ہوئی ۱۹۸ح
18 موسیٰ نے کوہ سینا پر روزے رکھے ۸۰ عیسائیوں کے فرضی خدا نے چالیس روزے رکھے.س.ش.ص.ط سکھ حکومت سکھوں کی متفرق حکومتوں کے وقت میں ہم پر اورہمارے دین پر وہ مصیبتیں آئیں کہ نماز پڑھنا اور اذان دینا مشکل ہو گیا ۴۹۴ مرزا عطا محمد صاحب کے وقت سکھ غالب آ گئے اور صرف قادیان قبضہ میں رہ گیا ۱۷۳.۱۷۴ح قادیان پر قبضہ کرنے کے بعدسکھوں نے بہت تباہی مچائی ۱۷۵ح رنجیت سنگھ نے چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو دبا کر بڑی ریاست بنا لی ۱۷۵ح سکھوں کے ایام میں پنجاب میں مسلمانوں کے سخت حالات اور اذان پر پابندی ۳۴۰،۳۴۳ سکھوں کے دور میں مسلمانوں پر ظلم ہوئے اور آزادی مذہب چھین لی گئی ۴۵۲ حکومت کے مظالم کا ذکر اور انگریزوں کا ان سے نجات دلانا ۴۵۲ سکھ مت باوا صاحب چولہ صاحب میں لکھ گئے ہیں کہ اسلام کے سوا کوئی مذہب سچا نہیں ۴۹۲ سکھ مت اور دوسرے فرقوں کا ہندوؤں سے الگ ہونے کی وجہ ۴۹۲ اخبار عام لاہور میں ایک سکھ صاحب کا مضمون شائع ہوا کہ ان کو گوروؤں کی ہدایت ہے کہ وید کو ہرگز نہ مانو ۴۹۲ سوانح نویسی سوانح نویسی کے مقاصد ۱۵۹تا۱۶۲ح شکر شکر ادا کرنا قرآن کریم کے احکامات میں سے ہے ۴۴۵ گورنمنٹ کے احسانوں پر شکر ادا کرنا ضروری ہے ۴۴۴ شہد شہد کی مکھیوں میں امام کا نظام ہوتا وہ امام یعسوب کہلاتا ہے ۴۹۳ شیطان جو شخص خدا کی تجلیات کے نیچے زندگی بسر کرتا ہے اس کی شیطنت مر جاتی ہے اور اس کے سانپ کا سر کچلا جاتا ہے ۶۳ قرآن شریف نے شیطانی وسوسے کا نام طائف رکھا ہے ۴۸۵ یہودیوں کی کتابوں میں بہت ہی شریر انسان کا نام بھی شیطان رکھا گیا ہے ۴۷۴ عیسائیوں کے نزدیک شیطان مسیح کو پہاڑی پر لے گیا اور مسیح کو شیطانی الہام بھی ہوا ۴۸۴ احادیث میں بھی ذکر ہے کہ شیطان حضرت عیسیٰ کے پاس آیا ۴۸۶ مسیح نے اپنے ایک حواری پطرس کو شیطان کہا ۴۸۴،۴۸۵ حضرت سید عبدالقادر جیلانی کا کہنا کہ ایک دفعہ شیطانی الہام مجھے بھی ہوا ۴۸۷ صبر اسلام کی اعلیٰ درجہ کی صبر کی تعلیم ۳۸۹ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کمزوری کے زمانہ میں ظلم کے مقابل پر صبر کی وصیت کی ۳۹۰ قرآن مسلمانوں کو عیسائی پادریوں کے شر کے مقابلہ پر صبر کی تلقین کرتا ہے ۳۸۴ صحابہ رسول ؐ صحابہ کا وفات مسیح پر اجماع ہوا ۲۲۰ح صحابہ مسیح موعود مقدمہ قتل کے بارہ الہامات کے گواہ چند صحابہ
19 صلح صلحکاری پھیلانے کیلئے اس سے بہتر اور کوئی تدبیر نہیں کہ کچھ عرصہ کے لئے مخالفانہ حملے روک دئیے جائیں ۳۴۶ صلیب توریت میں لکھا ہے جو صلیب پر کھینچا جائے وہ لعنتی ہے ۲۳۱ بنی اسرائیل میں قدیم سے رسم تھی کہ جرائم پیشہ اور قتل کے مجرموں کو بذریعہ صلیب ہی ہلاک کیا کرتے تھے اسی وجہ سے صلیبی موت لعنتی شمار کی گئی ۲۳۲ح مصلوب توریت کے حکم کی رو سے رفع الی اللہ سے بے نصیب ہوتا ہے ۳۶۰ طاعون طاعون سے بچاؤ کیلئے ہدایات دینے کیلئے قادیان میں جلسہ کے انعقاد کیلئے اشتہار ۳۱۴ طبابت حضورؑ نے طبابت کی بعض کتب اپنے والد صاحب سے پڑھیں جو حاذق طبیب تھے ۱۸۱ح ع.غ عبرانی زبان عیسائیوں کے ساتھ مقابلہ کیلئے بائیبل کی پیشگوئیوں وغیرہ کے حصے عبرانی میںیاد ہوں ۳۷۲ لفظ الوھیم گو جمع ہے مگر ہر جگہ واحد کے معنی دیتاہے ۹۴ لفظ الوھیم خدا کے علاوہ فرشتہ کیلئے ،قاضی کیلئے، موسیؑ ٰ کیلئے بھی آیا ہے ۹۴ عبرانی لفظ نعسہ عربی کے نصنع سے ملتا ہے ۹۵ عدل عدل اور رحم دو نہریں ہیں جو اپنی اپنی جگہ چل رہی ہیں ۷۳ خدا کے عدل اور رحم میں کوئی جھگڑا نہیں اس کا عدل بھی ایک رحم ہے ۷۳ عدل اور رحم میں تناقض سمجھنا جہالت ہے ۷۴ مخالفوں نے سخت الفاظ کی روش نہ بدلی تو ہمیں حق ہو گا کہ بذریعہ عدالت چارہ جوئی کریں ۱۵ مقدمہ قتل از مارٹن کلارک کی عدالتی کارروائی کا سلسلہ وار بیان ۱۵۶ مارٹن کلارک کے قتل کے الزام کا مقدمہ ڈپٹی کمشنر گورداسپور کی عدالت نے خارج کر دیا ۱ عذاب عذاب ایک سلبی چیز ہے کیونکہ راحت کی نفی کا نام عذاب ہے ۸۱ عذاب دینا خدا تعالیٰ کا فعل ہے جو انسان کے اپنے ہی فعل سے پیدا ہوتا ہے ۸۲ عذاب کا اصل تخم اپنے وجود کی ہی ناپاکی ہے جو عذاب کی صورت میں متمثل ہوتی ہے ۸۲ عربی زبان مناظرات مذہبیہ کیلئے عربی کا راسخ علم ضروری ہے ۳۷۰ اپنے عظیم الشان کام کو مشتہر کرنے کیلئے اور بلاد عربیہ تک پہنچانے کیلئے عربی اور فارسی میں تحریر ۴۳۳ عربی اور عبرانی میں عظمت دینے کیلئے ھم یعنی جمع کا صیغہ استعمال کرتے ہیں ۹۵ عزم امام الزمان میں قوت عزم ہونا ضروری ہے یعنی کسی حالت میں نہ تھکنا او رنہ مایوس ہونا ۴۸۱ عقل شناخت حق کا دوسرا ذریعہ عقل ہے ۵۲ عقلی عقیدے سب کلیت کے رنگ میں ہوتے ہیں کیونکہ قواعد کلیہ سے ان کا استخراج ہوتا ہے
20 عقل عیسائی عقیدہ کو دور سے دھکے دیتی ہے ۵۲ یورپ کے علوم عقلیہ کے ماہر عیسائیت کے عقیدہ پر ٹھٹھہ کرتے ہیں ۵۳ علم امام الزمان کیلئے قوت اوربسطت فی العلم ضروری ہے ۴۷۹ مذہبی مناظرات کیلئے جن علوم کا آنا ضروری ہے ۳۷۰تا۳۷۵ شرط ہشتم بیان شدہ کتاب فریاد درد میں مختلف علوم کی کتب کی فہرست: حدیث، تفسیر، صرف ونحو ، معانی بیانی ادب، لغت، تاریخ ، الاصول، فقہ، کلام ، منطق، اخلاق و تصوف، طب ،مذاہب علوم مختلفہ ۴۵۸تا۴۶۹ عیسائیت عقائد و تعلیمات شناخت حق کے تینوں ذرائع پر یہ مذہب پورا نہیں اترتا ۵تا۵۳ عقل عیسائی عقیدہ کو دور سے دھکے دیتی ہے ۵۲ عیسائیوں کے محقق اس بات کے بھی مقر ہیں کہ ایک عیسائی اپنے مذہب کی رو سے انسانی سوسائٹی میں نہیں رہ سکتا ۹۳ اپنے مذہب کی روحانی برکات پادری صاحبان ثابت نہیں کر سکے ۶۰،۶۱ اقنوم ثانی یسوع کے بارہ عیسائی عقیدہ اور اس کا بطلان ۶۸،۶۹ صلیبی عقیدہ تمام بے قیدیوں اور آزادیوں کی جڑ ہے ۳۰۴ح عیسائی وسوسہ کہ عدل اور رحم دونوں خدا تعالیٰ کی ذات میں جمع نہیں ہو سکتے ۷۳ عیسائیت کے خدا کو عدل کی ذرا بھی پرواہ نہیں کہ یسوع پر ناحق تمام جہاں کی لعنت ڈال دی ۷۲ نجات کے لئے اعمال کو غیر ضروری ٹھہرانے کا خیال سراسر غلطی ہے ۸۰ عیسائیوں نے اپنی حماقت سے حضرت عیسیؑ ٰ کو معلون قرار دیا ۲۳۳ح یہود کے اعتراض کہ مسیح مصلوب ہو کر لعنتی ہوا عیسائیوں نے یسوع کے آمان پر جانے کا عقیدہ بنا لیا ۲۶۵ح،۲۷۴ح،۳۶۱ عیسائی عقیدہ کہ تین دن تک جو لعنت کے دن تھے حضرت عیسیٰ نعوذ باللہ جہنم میں رہے ۲۷۰ح عیسائی عقیدہ کے مطابق یسوع کا جہنم میں جانا جن کتب سے ثابت ہوتا ہے ان کی تفصیل ۲۸۳ح تا۲۸۸ح مدت تک عیسائیوں کا یہی عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیؑ ٰ فوت ہو گئے ہیں ۲۶۴ح عیسائیوں نے یسوع کا مع جسم اٹھائے جانا قرار دے کر اپنے عقیدہ کو غلطیوں اور تناقضوں سے پُر کر دیا ہے ۲۷۳ح عیسائی جس تعلیم کو سچی اور منجاب اللہ سمجھتے ہیں وہی تعلیم ان کے جدید عقیدہ کی مکذب ہے ۵۱ انجیل کی تعلیم کو پادریوں نے بگاڑ دیا ہے ۵۶ انجیل کی تعلیم نہایت ہی ناقص ہے اس لئے مسیح نے فارقلیط کے بارہ میں کہا وہ اس کا تدارک کرے گا ۶۶ انجیل کی تفصیلات کیلئے دیکھئے کتابیات زیر لفظ ’’انجیل ،، عیسائی حضرت مسیح تک ہی سلسلہ الہامات مانتے ہیں ۴۹۱ پیشگوئیوں کے وہ معنی کئے جو تعلیم کے سراسر مخالف ہیں ۵۱ عیسائیت کی تعلیم یہودیوں کی مسلسل تین ہزار برس کی تعلیم کے مخالف ہے ۶۰ کوئی سچا عیسائی فوج میں داخل نہیں ہو سکتا کیونکہ انجیل میں دشمن سے محبت کرنے کا حکم ہے ۹۳ عیسائیوں کے نزدیک شیطان مسیح کو پہاڑی پر لے گیا اور مسیح کوتین مرتبہ شیطانی الہام ہوا ۴۸۴ عقیدہ کفارہ کا باطل ہونا ۶۰ عیسائی اصول کہ انسان اور تمام حیوانات کی موت آدم کے گناہ کا پھل ہے.اس اصول کابطلان ۷۴ کفارہ کے ذریعہ نعوذباللہ تا قیامت غیر منقطع سلسلہ لعنت یسوع کے سر ڈال دیا گیا ۶۴ یسوع کو نعوذباللہ کروڑہا کے گناہوں کے نیچے دبا دیا گیا اور لعنتوں کا مجموعہ بنا دیا گیا ۶۳،
21 عقیدہ کفارہ کیلئے مزید دیکھئے کفارہ عقیدہ تثلیثدیکھئے تثلیث الوہیت مسیح اے عیسائیویاد رکھو کہ مسیح ابن مریم ہرگز ہرگز خدا نہیں ۵۵ مسیح کی خدائی کا دعویٰ توریت اور دوسرے نبیوں کی تعلیم کے خلاف تھا ۵۱ الوہیت مسیح کے عقیدہ پر عیسائیوں کو ملزم کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے چار گواہ ابطال کھڑے کئے ہیں ۵۴ عیسائیت کا عقیدہ الوہیت مسیح عقل کے خلاف ہے عیسائیت کے خدا کو کوڑے پڑے اس کے منہ پر تھوکا گیا، دعا قبول نہ ہوئی وغیرہ ۸۶ عیسائیوں کے فرضی خدا نے چالیس روزے رکھے ۸۰ اگر یسوع میں خدا کی روح تھی وہ کیوں کہتا ہے کہ مجھے قیامت کی خبر نہیں اور اس کی دعا قبول نہ ہوئی ۷۰ اگر خدا بننے کیلئے بے گناہ ہونے کا قاعدہ ہے تو یسوع سے پہلے جو بے گناہ تھے کیا ان کیلئے بھی یہ اتفاق ممکن ہے ۶۹ اقنوم ثانی، ابن اللہ تین دن مرا رہا تو اس عرصہ میں دنیا کا انتظام کون کرتا ہو گا ۱۰۰ تمام مدار عیسائیت کا ان کے خدا کی لعنتی موت پر ہے ایسا خدا نہایت ہی قابل رحم ہے ۶۸ مخالفت اسلام ہندوستان میں عیسائیوں کی طرف سے نو کروڑ ایسی کتاب شائع کی گئی ہو گی جس میں مسلمانوں اورد وسرے اہل مذاہب پر حملہ ہے ۴۰۹ عیسائیوں کی طرف سے دس کروڑ کے قریب مخالفانہ کتابیں اور رسائل نکل چکے ہیں اور تین ہزار اعتراضات شائع ہو چکے ہیں ۳۹۲ اسلام سے مرتد ہونے والے عیسائی اسلام کے خلاف زیادہ بدزبانی کر رہے ہیں ۳۷۹ پادری عماد الدین کی زہر یلی تحریروں کی نسبت ایک انگریز محقق نے کہا کہ اگر ۱۸۵۷ء کا غدر دوبارہ ممکن ہوا تو اس کا سبب عمادالدین کی تحریر یں ہوں گی ۴۳۱ کسر صلیب اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھ پر عیسائی مذہب کے اصول کا خاتمہ کر دیا ۲۶۲ح مسیح موعودصلیب کے غلبہ کے وقت آئیگا ۲۰۷ح عیسائیت کے فتنہ کو دور کرنے کیلئے ظاہر ہونے والا مجدد مسیح ہو گا ۲۱۶ح میری تقریر کا ماحصل یہ ہے کہ عیسائیوں نے جو حضرت عیسیٰ کو خدا بنا رکھا ہے وہ سراسر غلط فہمی ہے ۱۰۷ عیسائیوں کے یسوع کا انجیل میں نقشہ قابل اعتراض ہے ۴۵۱ موجودہ انجیلوں پر حضورؑ کا اعتراض کہ یہ انسان کی تمام قوتوں کی مربی نہیں ہو سکتی ۸۷ یسوع کے الہامات کی نسبت آنحضورؐ اور میرے الہامات میں زیادہ خدائی ثابت ہوتی ہے ۱۰۵ حضور کی طرف سے عیسائیوں کو توبہ اور نشان نمائی کی دعوت ۱۰۸ میرے نشانات کے ذریعہ پادری صاحبان شرمندہ ہو گئے ہیں اس کے مقابل پر پادریوں کے پاس بجز پرانے قصوں کے کچھ نہیں ۱۰۸ عیسائی پادریوں کے ردّ میں اور مدافعت میں تحریرات اور اشاعت کتب ۳۴۴ ردّ عیسائیت میں حضور نے عمدہ کتب محفوظ کیں ۵۹ عیسائی پادریوں اور فلاسفروں کے وساوس سے جو زمانہ تباہ ہو رہا ہے اس کا حل ان کے وساوس کا جواب دینا ہے ۳۷۷،۳۷۸ دوسری پیشگوئی کے مطابق اخفاحق کی وجہ سے آتھم جلد فوت ہو گیا جس سے عیسائیوں کو شرمندگی دامنگیر ہوئی
22 یحییٰ نبی کا ایک فرقہ بلاد شام میں پایا جاتا ہے جو عیسائیوں کے عقیدہ کے خلاف ہے ۵۲ عقیدہ وفات مسیح کیلئے دیکھئے ’’وفات مسیح ،، متفرق پادری انجیل کے بے اصل تراجم کو شائع کر کے گویا نبوت کا دعویٰ کر رہے ہیں ۲۴۵ح پادریوں نے اصل انجیل کو چھپایا اور بے اصل کے تراجم شائع کر رہے ہیں ۲۴۶ح یہود اور نصاریٰ میں حضرت عیسیٰ کی نسبت اختلاف ان کے رفع روحانی کے بارہ میں ہے ۲۲۸ح حضورکے خلاف مقدمہ قتل ایک عیسائی جماعت کی طرف سے تھا ۲ نصاریٰ کی تواریخ سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ گندم گوں نہیں تھے بلکہ شامیوں کی طرح سرخ رنگ کے تھے ۳۰۲ح مسیح کی پیشگوئیاں جھوٹی نکلیں نہ ایلیا آسمان سے آیا پھر مسیح کیونکر سچا ہو سکتا ہے (یہودی فاضل) ۴۲ فاحشہ عورت کا یسوع کو عطر لگانا ۴۵۱ مقدمہ قتل میں محمد حسین بٹالوی عیسائی پادریوں کا رفیق بنا اور حضور کے خلاف گواہی کیلئے آیا ۳۶ غار ثور ثور کے معنی ۲۵ ہجرت مکہ کے وقت آنحضورؐ صدیق اکبر کے ساتھ ثور غار میں چھپ گئے ۲۵ ف.ق.ک.گ فارسی اپنے عظیم الشان کام کو مشتہر کرنے اور بلاد عربیہ و ایران کابل بخارا تک پہنچانے کیلئے حضور کی عربی و فارسی میں تحریر ات ۴۳۳ فارسی الاصل حضور کے فارسی الاصل ہونے کے بارہ میں الہامات ۱۶۲،۱۶۳ح فرشتہ توراۃ میں الوھیم کا لفظ فرشتے کیلئے بھی آیا ہے ۹۴ فساد آجکل دو طرح کا فساد ہے جو طبائع خراب کرتا جا رہا ہے (i)پادریوں کا زہر(ii)علوم جدیدہ طبعیہ کے ذریعہ لوگ دہریہ ہو رہے ہیں ۳۸۰ فیج اعوج وسط زمانہ جس میں بہت سے بگاڑ اور غلط عقائد پیدا ہوئے آنحضور ؐ نے اس زمانے کا نام فیج اعوج رکھا ۲۲۲ح قانون خدا کا ایک قانون ہے جسے دوسرے الفاظ میں مذہب کہتے ہیں ۳۹۷ گورنمنٹ کا فرض ہے کہ وہ مذہبی پیشواؤں کے خلاف سخت الفاظ کے استعمال پر قانون جاری کرے تا امن قائم رہے ۱۲ قانون قدرت قانون قدرت ہے کہ ادنیٰ اعلیٰ پر قربان ہوتا ہے ۹۵تا۹۷ قبر عذاب قبر یا آرام قبر کے بارہ میں انجیلی اور اسلامی نظریہ ۷۰،۷۱ قرآن کریم سلسلہ کتب ایمانیہ میں قرآن مخزن اَتم اور اَکمل ہے ۴۹ قرآن کی وحی دوسرے تمام نبیوں کی وحیوں سے علاوہ معارف کے فصاحت بلاغت میں بھی بڑ ھ کر ہے ۵۰۰ ہم نے اس حقیقت کو جو خدا تک پہنچاتی ہے قرآن سے پایا
23 قرآن میں دو نہریں اب تک موجود ہیں ایک دلائل عقلیہ کی.دوسرے آسمانی نشانوں کی نہر لیکن انجیل دونوں سے بے نصیب اور خشک رہی ۹۳ کامل توحید جو مدار نجات ہے وہ صرف قرآن میں پائی جاتی ہے ۸۳ مراتب توحید کے بارہ کی اعلیٰ تعلیم اور توحید کے تین درجے ۸۳ قرآن میں وہ انواع واقسام کی خوبیاں جمع کیں کہ وہ انسانی طاقتوں سے بڑھ کر معجزہ کی حد تک پہنچ گیا ۹۱ ہمیشہ کیلئے بشارت دی کہ اس دین کی کامل طور پر پیروی کرنے والے ہمیشہ آسمانی نشان پاتے رہیں گے ۹۱ توحید اور مخلوق کے حقوق کے بارہ اعلیٰ تعلیم ۸۴ ضرورت قرآن پہلی کتابیں توریت سے انجیل تک صرف بنی اسرائیل کو اپنا مخاطب ٹھہراتی ہیں جبکہ قرآن تمام دنیا کی اصلاح کیلئے آیا ہے ۸۵ قرآن اور توریت کی تعلیمات کا موازنہ اور قرآن کی افضلیت ۸۴،۸۵ آفتاب کے آنے سے جیسے ستارے مضمحل ہو جاتے ہیں اور آنکھوں سے غائب ہو جاتے ہیں یہی حالت انجیل کی قرآن شریف کے مقابل پر ہے ۶۷ حضرت مسیح موعود کے ذریعہ قرآنی حقائق و معارف ظاہر ہوئے جس سے قرآن من جانب اللہ ثابت ہوا ۲۹۵ح قرآن شریف کے مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ یہود اور نصاریٰ کے اختلافات کاحق اور راستی کے ساتھ فیصلہ کرے ۲۲۷ح قرآنی احکام دیوانی، فوجداری اور مال کے متعلق دو قسم کے ہیں ۸۷ قرآن کی رو سے مامور من اللہ کے دعویٰ کے تین پہلو سے ثبوت ۲۹۹ح،۳۰۰ح قرآن نے فرمایا ہے کہ مسیح ابن مریم درحقیقت سچا نبی اور وجیہ اور خدا کے مقربوں میں سے تھا ۲۳۳ح قرآن اگر گواہی نہ دیتا تو ہر محقق کیلئے حضرت عیسیٰ کو سچا سمجھانا ممکن نہ تھا ۱۵۵ح صبر سکھانے کی قرآن شریف کی اعلیٰ درجہ کی پر حکمت تعلیم ۳۸۹ قرآن کریم میں بیان شدہ امام اور مقتدا اور صاحب الامر بنانے کے لائق لوگوں کی خوبیاں ۴۲۱ یہود اور عیسائیوں کے درمیان فیصلہ قرآن نے کر دیا مسیح مصلوب نہیں ہوا بلکہ رفع روحانی ہو گیا ۳۶۲ مذہبی آزادی اور اہل کتاب وغیرہ کی طرف سے دکھ دئیے جانے کی پیشگوئی ۳۱۸ پادریوں کا یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ قرآن توحید اور احکام میں نئی چیز کونسی لایا جو توریت میں نہ تھی ۸۳ قرآن کی گستاخی اور قرآن کے بارہ آریوں اور ہندوؤں کی گالیاں ۱۳۱ قرآن کے بارہ میں اندر من مراد آبادی کی گستاخی ۱۳۸ مارک بے اور دوسرے انگریزی مقننوں کے قرآن پر اعتراض ۸۷ح قسم کھانا حضور نے قسم دیکر بزرگان دین کی خدمت میں بیان فرمایا کہ اللہ نے مجھے چودہویں صدی کے سر پر اصلاح خلق کیلئے مجدد بنا کر بھیجا ہے اور میرا نام مسیح موعود رکھا ۳۵۸ مسیح نے بھی قسم کھائی، پولوس بھی قسم کھایا کرتاتھا ۵۶ عیسائیت میں قسم کھانا منع نہیں بلکہ مقدمہ قتل میں کلارک اور دوسرے عیسائیوں نے جھوٹی قسم بھی کھائی ۵۶ قوت ؍قویٰ امام الزمان میں پائی جانے والی چھ قوتیں قوت اخلاق امامت ، بسطت فی العلم ، عزم ، اقبال علی اللہ او رکشوف و الہام ۴۷۹تا۴۸۳ کسر صلیب نیز دیکھئے عیسائیت کسر صلیب کے تین ہتھیار حضرت مسیح موعود کو دئیے گئے ہیں (۱) حجج عقلیہ (۲)آیا ت سماویہ (۳)دعا ۳۰۵ح
مجھے وہ آسمانی حربہ عطا کیا گیا ہے جس سے میں صلیبی مذہب توڑ سکوں ۳۵۹ کون سی کسر صلیب اب تک حضورؑ کے ذریعہ ہوئی مولویوں کے اس سوال کا جواب ۳۰۶ح کسوف وخسوف چاند سورج گرہن کیلئے قانون قدرت میں تین دن رات مقرر ہیں ۵۰۸ح نشان کسوف و خسوف پر مولویوں کے اعتراض ۵۰۸ کشف؍رؤیا نیز دیکھئے الہام ابن عربی کا کشف مسیح موعود کے بارہ میں کہ وہ خاتم الولایۃ ہو گا، توام پیدا ہوگا اور چینی ہو گا ۳۱۳ح مجدد صاحب سرہندی اور شاہ ولی اللہ کا کشف میں آنحضورؐ کو دیکھنا اور آنحضورؐ کا بیعت کرنا ۵۰۰ح کفار کفار کی سزا کیلئے اللہ نے دوسرا عالم رکھا ہے ۳۲۷ کفارہ عقیدہ کفارہ اور اس کا باطل ہونا ۶۰ عیسائی کفارہ قانون قدرت کے مخالف ہے کیونکہ سنت اللہ ہے کہ ادنیٰ چیز اعلیٰ پر قربان ہوتی ہے ۹۵ کفارہ کی وجہ سے کوئی بھی گناہ سے نہ بچ سکا ۶۰ انجیل میں کہیں نہیں لکھا کہ یسوع کے کفارہ سے چوری ڈاکہ، خون، جھوٹی گواہی دینا جائز اور حلال ہو جاتے ہیں بلکہ جرم کیلئے سزا ہے ۷۳ کفارہ نے کن سزاؤں سے نجات بخشی.حقوق تلف کرنے پر سزائیں مقرر ہیں جن کو مسیح کا کفارہ دور نہیں کرسکا ۷۳ عیسائیوں کا یہ عقیدہ کہ خدا تعالیٰ کا عدل بغیر کفارہ کے کیونکر پورا ہو بالکل مہمل ہے ۷۲ کفارہ کی بے قیدی نے یورپ کی قوموں کو شراب خوری اور ہر ایک فسق و فجور پر دلیر کیا ۳۰۴ گرہن چاند اور سورج گرہن کیلئے مہینہ کی تین رات دن قانون قدرت میں مقرر ہیں ۵۰۸ح گناہ عربی لفظ جناح کو پارسیوں نے مبدل کر کے گناہ بنالیا ۷۹ گناہ اور غفلت کی تاریکی دور کرنے کیلئے نور کا پانا ضروری ہے ۸۰ گناہ اس لئے ہوا کہ انسان اعراض کر کے اس مقام کو چھوڑ دیتا ہے جو الٰہی روشنی پڑنے کا مقام ہے ۷۹ گواہی اخفاء شہادت بھی ایک معصیت ہے ۳۵۸ ل.م.ن لعنت لعنت کا لفظ رفع کے لفظ کی نقیض ہے ۲۳۳ح لغت کی رو سے لعنت کا مفہوم یہ ہے کہ شخص ملعون خدا سے مرتد ہو گیا ہے ۲۳۲ح ملعون سے مراد وہ شخص ہے جس کی روح کو خدا کے قرب میں جگہ نہ ملے اور خدا کی طرف نہ اٹھایا جائے ۲۶۷ح لعین شیطان کا نام ہے ۲۳۳ح لعین اس حالت میں کسی کو کہا جاتا ہے کہ جب شیطان کی تمام خصلتیں اس کے اندر آجاتی ہیں ۲۸۶ح توراۃ کے نزدیک جو لکڑی پر لٹکایا جائے یعنی مصلوب ہو وہ لعنتی ہے ۲۶۷ح مجاہدات ایک رؤیا کی بنا پر حضور کا ایک عرصہ تک روزے رکھنا اور آپ پر مکاشفات کھلنا ۱۹۹ح انسان اپنے تئیں مجاہدہ شدیدہ میں نہ ڈالے اور دین العجائز اختیار رکھے ۲۰۰ح
آجکل کے اکثر نادان فقیر جو مجاہدات سکھلاتے ہیں ان کا انجام اچھا نہیں ہوتا.پس ان سے پرہیز کرنا چاہئے ۲۰۰ح مجدد جو شخص عیسائیت کے فتنہ کے وقت عیسیٰ پرستی کے فتنہ کو دور کرنے کیلئے صدی کے سر پر بطور مجدد کے ظاہر ہوگا اسی مجدد کا نام مسیح ہے ۲۱۶ح چودھویں صدی کا مجدد مسیح موعود ہونا چاہئے ۳۰۳ح چودھویں صدی کے مجدد کا بڑا فرض کسر صلیب اور عیسائیت کی حجتوں کو نابود کرنا ہے وہی مسیح موعود ہے ۳۰۳ح مجدد بطور طبیب کے ہے.چودھویں صدی کا مجدد کا سرالصلیب مسیح موعود ہے ۳۰۵ح قسم دے کر بیان فرمایا کہ اللہ نے مجھے چودھویں صدی کے سر پر اصلاح خلق کیلئے مجدد بنا کر بھیجا ۳۵۸ مذہب خدا کے قانون کو دوسرے الفاظ میں مذہب کہتے ہیں ۳۹۷ زندہ مذہب وہی ہوتا ہے جس پر ہمیشہ کیلئے زندہ خدا کا ہاتھ ہو سو وہ اسلام ہے ۹۲ سچے مذہب کیلئے ضروری ہے کہ ہمیشہ اس میں نشان دکھلانے والے پیدا ہوتے رہیں ۳۷۵ مذہب کے حامیوں کو اخلاقی حالت دکھلانے کی بہت ضرورت ہے ۴۰۲ مذہب اس زمانہ تک ہی علم کے رنگ میں رہ سکتا ہے جب تک خدا کی صفات ہمیشہ تازہ بتازہ تجلی فرماتی رہیں ورنہ کہانیوں کی صورت میں مر جاتا ہے ۴۹۱ حضرت موسیٰ یا عیسیٰ کا کوئی نیا مذہب نہیں تھا بلکہ وہی تھا جو ابراہیم اور نوح کو ملا تھا ۳۹۷ مذہبی آزادی دیکھئے آزادی مذہب مرہم عیسیٰ مرہم عیسیٰ مسیح کے مصلوب نہ ہونے کی تصدیق کرتی ہے ۴۸۵ مسلمان مسلمانوں کا فرض ہونا چاہئے کہ تمام قوموں کے نبیوں کو جن کا الہام کا دعویٰ ہے سچے رسول مان لیں ۱۷ سچا مسلمان وہی ہے جو اسلام کی حالت پر کچھ ہمدردی دکھاوے ۴۰۳ طوفان ضلالت میں مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دیں اس کے ساتھ اسلامی تعلیم کی خوبی اور عمدگی کا بھی بیان کریں ۳۸۱ مسلمانوں کے ادنیٰ ادنیٰ قصور پر اسی دنیا میں تنبیہ کی جاتی ہے جبکہ کفار کی سزا کیلئے اللہ نے عالم آخر رکھا ہے ۳۲۷ مسلمانوں کو اللہ نے کمزوری اور ضعف کی حالت میں قوموں کے ظلم کے مقابل پر صبر کی وصیت کی ۳۹۰ مسلمانوں کے ایمان کو قوی کرنے کے دو طریق حضرت مسیح موعود کو عطا کئے گئے ۲۹۴، ۲۹۶ح عام مسلمانوں کا جوش دبانے کیلئے معاندین اسلام کی تحریرات کے مقابل پر حضورنے سخت الفاظ کا استعمال کیا ۱۱، ۱۲ مسلمان عیسائی عقیدہ پر اعتراض کرے تو حضرت عیسیٰ کی شان اور عظمت کا پاس کرے ۱۶ عیسیٰ کے نزول کے بارہ میں یہودیوں کے خطرناک انجام بابت نزول ایلیا سے ڈرنا چاہئے ۴۳ مسلمانوں کا کسی خونی مسیح اور خونی مہدی کا انتظار کرنا یہ سب بے ہودہ قصے ہیں ۳۲۱ سکھوں کے دور میں پنجاب کے مسلمانوں کے سخت حالات اور اذان پر پابندی اور انگریزوں نے اس دور سے نجات دلائی ۳۴۰ مسلمانوں کو اپنی محسن گورنمنٹ کی سچی اطاعت کرنی چاہئے ۳۴۰
مسیح موعود (علامات و ظہور) نصوص حدیثیہ میں مسیح موعود کے متعلق بیان شدہ علامات اور ان کا پور اہونا ۳۰۶ح، ۳۰۷ح مسیح موعود کی علامت روشن پیشانی اور اونچی ناک کا مطلب ۳۰۷ح مسیح موعود عیسائیوں کی طاقت اور قوت کے وقت پیدا ہو گا.اس کے وقت میں ریل ہوگی، نہریں نکالی جائیں گی، پہاڑ چیرے جائیں گے.۳۱۲ح اس کے وقت میں اس قدر انتشار نورانیت ہو گا کہ عورتوں کو بھی الہام شروع ہو جائیگا اور نابالغ بچے نبوت کریں گے ۴۷۵ مسیح موعود فارسی الاصل ہو گا ۳۰۸، ۳۰۹ح آنحضورؐ نے مسیح موعود کو اپنا ایک بازو قرا ر دیا ۳۲۸ آنے والا مسیح موعود گندم گوں اور ہندی ہے ۳۰۲ح مسیح موعود کے ظہور کی علامات حضور کے وقت میں ظہور پذیر ہوئیں ۲۹۸ح مسیح موعود اور مسیح اسرائیلی کا آنحضورؐ کی طرف سے بیان شدہ الگ الگ حلیہ ۳۰۱ چودھویں صدی کا مجدد مسیح موعود ہونا چاہئے ۳۰۳ح قرآن اور احادیث سے اس بات کا کافی ثبوت ملتا ہے کہ آنے والا مسیح چودھویں صدی میں ظہور کرے گا ۲۵۸ح کدعہ یا کدیہ احادیث میں آیا کہ وہاں مہدی مبعوث ہو گا یہ دراصل قادیان کا مخفف ہے ۲۶۱ح میں اس مسیح موعود کا ادعا کرتا ہوں جو عیسیٰ علیہ السلام کی طرح غربت کے ساتھزندگی بسر کرے گا ۳۴۷ مسیح موعود ہونے پر کیا دلیل ہے اس کا جواب ۲۵۵ح چودھویں صدی کے سر پر اللہ نے مجھے مبعوث کر کے پیشگوئی مسیح موعود کی معقولیت کو کھول دیا ۲۱۱ح بخاری کی حدیث میں ہے کہ مسیح موعود صلیب کے غلبہ کے وقت آئے گا ۲۰۷ آنحضورؐ نے مسیح موعود کے ساتھ دجال کا ذکر کیا ہے لیکن حضرت عیسیٰ بنی اسرائیلی کے ساتھ دجال کا ذکر نہیں ۳۰۲ مسیح موعود کے وجود کی علت غائی احادیث میں یہ بیان کی گئی کہ وہ عیسائی قوم کے دجل کو دور کریگا اور ان کے صلیبی خیالات کوپاش پاش کرے گا ۲۶۲ح صلیب کے باطل خیالات کو توڑنے کیلئے آسمانی مسیح اللہ تعالیٰ پیدا کرے گا ۲۱۷ح جو شخص عیسائیت کے فتنہ کو دور کرنے کیلئے صدی کے سرپر مجدد ظاہر ہو گا وہی مجدد مسیح ہو گا ۲۱۶ح احادیث سے مسیح موعود کیلئے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ممالک مشرقیہ سے مبعوث ہو گا ۲۵۹ح دجال کا مستقر اور مقام مشرق ہے تو مسیح موعود بھی مشرق سے ظہور کرے گا ۲۶۰ح دمشقی حدیث میں جو مسلم میں ہے منارہ مشرقی کا ذکر کرکیمسیح موعود کے ظہور کیلئے مشرق کی طرف ہی اشارہ کیا گیا ہے ۲۶۰ح مسیح موعود کے زمانہ کی حالت ۳۰۶، ۳۰۷ح مسیح موعود کو کن وسائل سے کسر صلیب کرنا چاہئے؟ (۱) حجج عقلیہ (۲)آیات سماویہ (۳) دعا سے اس فتنہ کو فرو کرے ۳۰۵ح چودھویں صدی کے مجدد کا سب سے بڑا فرض کسر صلیب ہے ۳۰۳ح مسیح موعود کی تلوار اس کے انفاس طیبہ یعنی کلمات حکمیہ ہیں سو ان انفاس سے ملل باطلہ ہلاک ہوجائیں گی ۳۱۲ح مسیح کا دوبارہ دنیا میں آنا اسی رنگ اور طریق سے مقدر تھا جیسا کہ ایلیا نبی کا دوبارہ دنیامیں آنا ۲۱۱ح فصوص الحکم میں شیخ ابن العربی نے اپنا ایک کشف یہ لکھا ہے کہ مسیح موعود خاتم الولایۃ ہوگااور وہ توام پیدا ہو گا ۳۱۳ح مولویوں نے ناقص فہم کی وجہ سے پیشگوئی مسیح موعود میں تناقص پیدا کیا ہے ۲۰۸، ۲۰۹ح
معرفت الٰہی معرفت کا ملہ یہی ہے کہ خد اکا پتہ لگ جائے ۶۲ نفسانی جذبات کا سیلاب بجز خدا پر یقین کے تھم نہیں سکتا ۶۲ ہم نے اس حقیقت کو جو خدا تک پہنچاتی ہے قرآن سے پایا ۶۵ معجزہ ؍معجزات قرآنی دلائل اور انواع و اقسام کی خوبیاں انسانی طاقتوں سے بڑھ کر معجزہ کی حدتک پہنچ گئے ۹۱ آنحضورؐ کے نشان اور معجزات دو قسم کے ہیں ۱۵۴ح آنحضورؐ کے ذریعہ ظاہر ہونے والے ایک قسم کے معجزات کی تعداد تین ہزار کے قریب ہو گی ۱۵۴ح آنحضورؐ کے معجزات محض قصوں کے رنگ میں نہیں بلکہ ہم آپ کی پیروی کر کے خود ان نشانوں کو پالیتے ہیں ۱۵۶ح معجزات نبیؐ کے سچا ہونے کے بارہ میں جناب ریلینڈ صاحب کا اپنی کتاب میں گواہی دینا ۹۰ حضرت عیسیٰ کی خدائی ثابت کرنے کیلئے انجیل میں جس قدر معجزات لکھے گئے ہیں وہ معجزات ہرگز ثابت نہیں ہیں ۸۵ عیسائی مؤلف کا کہنا کہ جس قدر معزز گواہیاں اور سندیں نبی اسلام کیلئے پیش کی جا سکتی ہیں ایک عیسائی کی قدرت نہیں کہ ایسی گواہیاں یسوع کے معجزات کے ثبوت میں عہدنامہ جدید سے پیش کر سکے ۹۱ مقدمہ ؍مقدمہ قتل مقدمہ ہنری مارٹن کلارک ۱۰ مقدمہ مارٹن کلارک کی کارروائی کا سلسلہ وار بیان ۱۵۶ اگر میں نے عبدالحمید کو خون کرنے کیلئے بھیجا تھا تو پھر میں اس کی چال چلن سے کیونکر ڈاکٹر کلارک کو متنبہ کرتا ۳۰۴ مقدمہ قتل کے حوالہ سے حضرت مسیح موعود کی حضرت عیسیٰ کے ساتھ مشابہتیں ۴۵، ۴۶ مکتوبات ؍خطوط حضور کی تائید میں اخبار چودھویں صدی میں چھپنے والا ایک بزرگ کا خط ۱۱۳ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا خط نصراللہ خان صاحب کے نام ۵۰۳ ناظم الہند ۱۵مئی ۱۸۹۷ء میں حسین کامی کا حضور کے نام خط جو لاہور سے حضور کی ملاقات کی درخواست کیلئے بھیجا تھا ۳۲۳ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کے نام سرکاری حکام کے خوشنودی کے مراسلے ۴تا۷ رابرٹ کسٹ کمشنر لاہور کا حضرت مرزا غلام مرتضیٰصاحب کے نام مراسلہ ۳۳۸ مسٹر ولسن صاحب کمشنر لاہور کا حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کے نام خط ۳۳۹ رابرٹ ایجرٹن فنانشل کمشنر بہادر کا مرزا غلام قادر صاحب کے نام مراسلہ ۳۳۸ مناظرہ ؍مباحثہ مناظرات مذہبیہ یا مخالفوں کے رد میں تالیفات کرنے کے لئے چند شرائط جو ضروری ہونی چاہئیں چند علوم جو آنے ضروری ہیں ۳۷۰ کسی مخالف عیسائی کا رد لکھنا چاہیں یا زبانی مباحثہ کریں اس کے لئے ضروری دس شرائط ۳۷۰تا۳۷۵ بحث کرنے والوں کیلئے یہ بہتر طریق ہو گا کہ کسی مذہب پر بیہودہ طور پر اعتراض نہ کریں ۱۵ مخالفین بھی اپنی روش بدلیں اور مباحثات میں سخت الفاظ استعمال نہ کریں ۱۵ حضور کی وہ کتب جو مناظرات کے حق میں تالیف ہوئی ہیں ۴۰۵
حضور کی اپنے مریدوں کو تاکید کہ مباحثات میں سخت اشتعال انگیز الفاظ کے استعمال سے پرہیز کریں ۱۳ ہمارے حکام ہمیں مناظرات و مباحثات سے منع نہیں کرتے ۴۴۲ مولوی فیج اعوج کے علماء کے عقائد میں قابل شرم تناقضات پائے جاتے ہیں ۲۰۶ح مسیح اور مہدی کے بارہ میں عقائد میں تناقض ۲۰۸ح نشان پر نشان ظاہر ہوتے جاتے ہیں مگر پھر بھی مولویوں کو سچائی کے قبول کرنے کی طرف توجہ نہیں ۵۰۷ دجال کو خدائی کا جامہ پہنانے کا گناہ علماء کی گردن پر ہے ۲۴۲ح اس زمانہ کے مولویوں کو بار بار قرآن اور احادیث سے دکھلایا گیا کہ حضرت عیسیٰ فوت ہو گئے مگر انہوں نے قبول نہ کیا ۵۰ یہود کی تمنا جس طرح پوری نہیں ہوئی مولویوں کی تمنا کیسے پوری ہو سکتی ہے کہ وہ عیسیٰ کو آسمان سے نازل ہوتا دیکھیں ۲۱۴ح عدالت میں مولویوں کا جھوٹی گواہی دینا ۳۴ میموریل حضور کی طرف سے گورنمنٹ کو میموریل کہ ہم کتاب امہات المومنین پر پابندی کے حق میں نہیں بلکہ اس کے اعتراضات کا جواب دیں گے ۳۱۵ تا۳۱۹ کتاب امہات المومنین پر گورنمنٹ کو میموریل بھیج دینا کافی نہیں ۳۷۷، ۳۸۳ گورنمنٹ کی طرف کتاب امہات المومنین کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے انجمن حمایت اسلام کا میموریل درست قدم نہیں میں اپنی جماعت اور دیگر مسلمانوں سمیت اس کا سخت مخالف ہوں ۳۱۵ زٹلی کی بد گوئی پر جماعت کی طرف سے میموریل بھیجنے کا مقصد ۳۹۱ح زٹلی کے خلاف میموریل پر اعتراض کا جواب ۴۲۶ نبی ؍انبیاء سچا نبی اس کا نام ہے جس کی سچائی ہمیشہ تازہ بہار نظر آئے سو وہ ہمارے نبی صلعم ہیں ۱۵۶ح تمام قوموں کے انبیاء جن کا الہام کا دعویٰ تھااور مقبول خلائق ہو گئے انہیں اسلامی اصول کے مطابق سچا مان لیا جائے ۱۷ آدم سے لے کر آخر تک کوئی سچا نبی مصلوب نہیں ہوا ۳۶۱ تیسرا سلسلہ آسمانی نشانوں کا جس کا سر چشمہ نبیوں کے بعد ہمیشہ امام الزمان اور مجدد الوقت ہوتا ہے ۴۹ نجات خدا کی توحید پر علمی اور عملی طور پر قائم ہونے والے سب نجات پائیں گے ۸۲، ۸۳ کامل توحید جو مدار نجات ہے وہ صرف قرآن میں پائی جاتی ہے ۸۳ راحت اور خوشحالی کے دوبارہ حاصل ہو جانے کا نام نجات ہے ۸۱ نجات کیلئے اعمال کو غیر ضروری ٹھہرانے کا عیسائی خیال سراسر غلطی ہے ۸۰ نزول مسیح ؍نزول عیسیٰ نزول مسیح کے معنی ۲۲۵ح، ۲۲۶ح عیسیٰ علیہ السلام کے نازل ہونے سے ختم نبوت اور خاتم الکتب کی فضیلت ختم ہو جائے گی ۲۱۷ح نصیحت ؍نصائح حضور کی جماعت کو نصائح ۱۳، ۱۴ ہماری تمام نصیحتوں کا خلاصہ تین امر ہیں حقوق اللہ حقوق العباد اور گورنمنٹ کی سچی خیر خواہی ۱۴
حضورکی احمدیوں اور مسلمانوں کو نصیحت کہ طریق سخت گوئی سے بچیں اور حملوں کا نرم الفاظ میں جواب دیں ۳۱۲ نور حقیقی نور تسلی بخش نشانوں کے رنگ میں آسمان سے اترتا ہے اور اطمینان بخشتا ہے ۶۵ گناہ کی غفلت اور تاریکی دور کرنے کیلئے نورکا پانا ضروری ہے ۸۰ نیکی نیکی میں ایک تریاقی خاصیت ہے کہ وہ موت سے بچاتی ہے ۸۱ و.ہ.ی وقائع نویسی وقائع نویسی کیلئے ضروری شرائط ۸۵، ۸۶ انجیل نویسوں نے بطور وقائع نویس کے معجزات لکھے اور وقائع نویسی کی شرائط ان میں متحقق نہیں ۸۵ وفات مسیح ؍عیسٰیؑ قرآن کریم صریح لفظوں میں وفات عیسیٰ علیہ السلام ظاہر کرتا ہے ۲۲۲ح آیت فلما توفیتنی نے صاف طور پر خبر دے دی کہ حضرت عیسٰیؑ فوت ہو گئے ۲۱۵ح صحیح بخاری اور ابن عباس نے توفی کے معنی مار دینے کے کئے ہیں ۲۱۹ح اللہ تعالیٰ نے کشف اور الہام کے ذریعہ مجھے وفات عیسیٰ کی اطلاع دی ۳۶۳ امام مالک، امام بخاری، ابن حزم، ابن قیم، ابن تیمیہ، ابن عربی اور اکابرین معتزلہ وفات مسیح کے قائل ہیں ۲۲۱ح میں حکم ہوں اور امام مالک، ابن حزم اور معتزلہ کے قول کو مسیح کی وفات کے بارہ میں صحیح قرار دیتا ہوں ۳۵۹، ۴۹۶ مولویوں کے سامنے وفات مسیح کے عقلی و نقلی دلائل ثابت کئے لیکن انہوں نے قبول نہ کیا ۵۰ ہدایت خدا تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کے تین اسباب اور وسائل ۴۹ ہندو؍ ہندو مت الہام کا سلسلہ بند ماننے سے لاکھوں ہندو دہریہ ہو گئے ۴۹۱ ہندوؤں اور آریوں کی اسلام، بانی اسلام اور قرآن کے بارہ میں بد زبانی ۱۳۱ عیسائیوں کے مسلمانوں کے خلاف بدزبانی کرنے سے ہندوؤں کے منہ بھی کھل گئے ۴۱۳ یہود ؍یہودیت ۵۰، ۵۴ حضرت عیسیٰ کی نافرمانی کی وجہ سے خدا کی نظر سے گر گئے ۴۷۶ کوئی مسلمان نہیں جو یہود کو حضرت عیسیٰ کے مقابل پر سچا قرار دے ۲۱۵ح ان کا عقیدہ ہے کہ سچامسیح تب آئے گا جب ایلیا نبی ملاکی کی پیشگوئی کے موافق آئے گا ۲۲۸ یہود، مسیح سے پہلے ایلیا کے بذاتہ آنے کے منتظر ہیں ۲۱۱ح یہودیوں کی ایلیا کو آسمان سے اتر تا دیکھنے کی تمنا آج تک پوری نہیں ہوئی ۲۱۴ح یہود کو مسیح کا دعویٰ خلاف نصوص صریحہ معلوم ہوا ۲۲۹ح یہودنے عیسائیوں کے مقابل پر تعلیم کو پیشگوئیوں پر مقدم رکھا ۵۱ مسیح کی تاویلات سے یہودنے ٹھوکر کھائی ۲۱۳ح مسیح کے بارہ میں پیشگوئی تھی کہ وہ بادشاہ ہو گا یہود نے اس سے بھی ٹھوکر کھائی ۲۱۲ح یہود مسیح کو صلیب پر چڑھا کر اسے ملعون سمجھتے ہیں ۲۴، ۲۸۸ح
حضرت عیسیٰ کو کافر ٹھہرانے کیلئے یہود کے ہاتھ میں یہ دلیل تھی کہ وہ سولی دیا گیا ہے ۳۶۰ یہود کا مسیح کی نسبت اعتراض یہ تھا کہ وہ ان کو ملعون ٹھہرا کر اس مقام قرب اور رحمت سے بے نصیب ٹھہراتے جہاں اسرائیلی انبیاء تھے ۲۶۷ح یہودیوں نے عیسائیوں کو تنگ کرنا شروع کر دیا کہ یسوع نعوذباللہ لعنتی ہے ۲۷۳ح، ۲۷۴ح اپنی شرارت کی وجہ سے عیسٰیؑ کو ملعون قرار دیا ۲۳۳ح یہود اور نصاریٰ میں حضرت عیسیٰ کی نسبت اختلاف ان کے رفع روحانی کے بارہ میں ہے ۲۲۸ح ایک یہودی فاضل نے کتاب لکھی ہے جس میں مسیح کی ان پیشگوئیوں کی فہرست دی جو جھوٹی نکلیں ۴۲ مسیح نے یہودیوں کو کہا کہ ہیکل۴۶ برس میں بنائی گئی مگر یہودی کتب میں لکھا ہے کہ چھ برس میں بنائی گئی ۹۰ یہودیوں کی کتابوں میں بہت سے شریر انسانوں کا نام بھی شیطان رکھا گیا ہے ۴۸۴
31 اسماء آ.۱ آدم علیہ السلام آدم سے پہلے بھی مخلوقات دنیا میں موجود تھی ۷۴ آتھم ،پادری عبداللہ ۴۱،۵۶،۱۱۰،۱۱۱،۱۶۳،۱۶۹،۱۷۰،۱۷۱،۱۷۲،۱۷۶،۱۷۷،۱۸۷،۱۸۸ ۱۹۶،۱۹۸،۲۰۱،۲۰۴،۲۰۶،۳۳۰،۵۱۰ اپنی کتاب اندرونہ بائبل میں آنحضورؐ کی شان میں گستاخی کرنا ۱۲۱،۱۲۴ قسم سے گریز کرتا رہا حالانکہ اس کو چار ہزار روپیہ کا انعام بھی دینا کیا تھا ۵۷ اسلامی عظمت سے ڈر گیا تھا اور اپنی مضطربانہ حالت سے ہمارے الہام کی تصدیق کر دی ۵۷ سچی گواہی کو چھپائے گا تو پھر جلد فوت ہو جائیگا یہ دوسری پیشگوئی تھی چنانچہ ایسا ہی ہوا ۵۸ پیشگوئی کے مطابق آخری اشتہار کے بعد چھ ماہ کے اندر مر گیا ۴۱۱ح اس کی نا سعادتی ہے کہ ہراساں ہو کر بھی معذرت نہ کی ۱۱۷ آتھم کی نسبت ،پیشگوئی پر ایڈیٹر پیسہ اخبار نے اعتراض کیا تھا ۴۱۰ح بقول آتھم اقنوم ثانی کا تیس برس تک یسوع سے تعلق نہ تھا ۶۹ ابراہیم علیہ السلام ۲۶۷ح،۳۹۷ ابن تیمیہ وفات مسیح کے قائل ہیں ۲۲۱ح ابن حزم، امام ۳۵۹،۴۹۶ وفات مسیح کے قائل ہیں ۲۲۱ح ابن عباسؓ توفی کے معنی مار دینے کے کئے ہیں ۲۱۹ح ابن عربی ، محی الدین ۹۲ وفات مسیح کے قائل ہیں ۲۲۱ح مسیح کے بروز کے نازل ہونے کو تسلیم کرتے ہیں ۴۸ نزول مسیح کی حقیقت بیان کی کہ وہ بروزی طور پر نازل ہو گا ۲۲.۲۳ح مسیح موعود کے بارہ کشف کہ وہ خاتم الولایت ہو گا اور توام پیداہو گا اور چینی ہو گا ۳۱۳ح ابن قیم وفات مسیح کے قائل ہیں ۲۲۱ح ابو الحسن خرقانی ؒ ۹۲ ابوالحمید صاحب مولوی ،وکیل ہائیکورٹ حیدر آباد دکن ۳۵۳ ابوبکر صدیق ؓ ۴۱۶ آنحضورؐ کا ایک وفادار رفیق ۲۵ وفات رسولؐ کا اعلان فرمایا اور ساتھ ہی سب نبیوں کی وفات کا قرآنی اعلان بھی سنایا ۲۲۰،۲۲۱ح ابو عبدالعزیز محمد صاحب مولوی، دفتر پنجاب یونیورسٹی ۳۵۲ ابو یزید بسطامی ؒ ۹۲ احمدسر ہندی شیخ ۹۲ احمد الدین صاحب حکیم نقل نویس سیالکوٹ ۳۵۷ احمد الدین صاحب منشی نقشہ نویس ملٹری آفس پشاور ۳۵۱ احمد اللہ خان صاحب حاجی حافظ، قادیان ۳۵۶
32 احمد بیگ ہوشیار پوری ۱۱۰،۱۷۲،۱۷۴،۱۷۶،۱۸۸ اس کے بارہ میں پیشگوئی کا پورا ہونا ۴۱ احمد جان صاحب حاجی منشی لدھیانوی ۳۵۵ احمد جان صاحب خیاط ۳۵۷ احمد جان صاحب مولوی مدرس گوجرانوالہ ۳۵۲ احمد حسین صاحب سیدطبیب گوالیار ۳۵۶ احمد خان، سر سید ۱۱۲،۲۵۲ح،۴۲۶ تین باتوں میں میرے موافق رہے (۱) وفات عیسیٰ (۲) انگریزی حکومت کے حقوق (۳)کتاب امہات المومنین کے رد لکھنے میں مؤقف ۴۰۲ نیز عیسائیوں کے اعتراضات کا ردّ لکھنا ۴۰۱ امہات المومنین کا رد لکھنا ۴۱۰ کاش آج سر سید زندہ ہوتے تو میری اس رائے (یعنی مخالف کے اعتراضات کے رد لکھنے) کی کھلی کھلی تائید کرتے ۴۰۲ بہادر زیرک اور ان کاموں میں فراست رکھنے والا آدمی تھا انہوں نے آخری وقت بھی کتاب امہات المومنین کا رد لکھنا ضروری سمجھا ۴۲۵ آپ کے بارے پیشگوئی کی گئی تھی کہ آفت آئیگی ۱۷۶ احمد دین صاحب تاجر ملتان ۳۵۵ احمد سر ہند ی شیخ ؒ ۹۲ کشف میں آنحضورؐ کو دیکھنا ۵۰۰ احمد شاہ عیسائی ،ڈاکٹرمؤلف امہات المومنین ۳۱۵ احمد علی شاہ صاحب سیدسفید پوش سیالکوٹ ۳۵۶ احمد عبدالرحمن صاحب سیٹھ مدراس ۳۵۵ احمد علی صاحب نمبردار وزیر چک گورداسپور ۳۵۶ ادریس علیہ السلام آپ کی قبر بھی موجود ہے ۲۳۸ح اروڑا صاحب حضرت منشی،کپورتھلوی ۳۵۲ اسحاق حاجی محمد صاحب سیٹھ تاجر مدراس ۳۵۴ اسماعیل آدم صاحب سیٹھ بمبئی ۳۵۴ افتخار احمد صاحب لدھیانوی صاحبزادہ ۳۵۵ اکبر بیگ صاحب مرزا سارجنٹ درجہ اول حصار ۳۵۲ الزبتھ ، ملکہ ۹۶ اللہ دادصاحب منشی سیالکوٹی یورپین ٹیچر سیالکوٹ ۳۵۳ اللہ دتہ صاحب منشی ۳۵۷ اللہ دیا صاحب میاں واعظ لدھیانہ ۳۵۷ اما م الدین صاحب تاجر سیکھواں ۳۵۵ امام الدین صاحب کمپونڈرلالہ موسیٰ ۳۵۶ امام الدین صاحب منشی پٹواری لوچپ ۳۵۶ امام الدین میاں پروپرائٹر و تاجر ۳۵۵ امام بخش خان صاحب سوار رسالہ نمبر۱۲سرحد ۳۵۱ امانت خان صاحب منشی نادون کانگڑہ ۳۵۳ امیر الدین راولپنڈی ۲۱۹،۲۲۰ امیر علی شاہ صاحب سیدملازم پولیس سیالکوٹ ۳۵۱ حضور کو اپنے الہامات ہفتہ وار بھیجنا ۵۰۱ امین بیگ صاحب مرزا سوار ریاست جے پور ۳۵۱ اندر من مراد آبادی ۱۱،۳۸۶تا۳۸۸،۴۱۷،۴۱۹ آنحضورؐ ،انبیاء اور مسلمانوں کی شان میں گستاخی کی مثالیں ۱۳۱
33 اویس قرنی ؓ ان کو الہام ہوتا تھا.آنحضور ؐ نے فرمایا مجھے یمن کی طرف سے خدا کی خوشبو آتی ہے ۴۷۴ ایلیا نیز دیکھئے یحییٰ علیہ السلام ۴۲ ایلیا کے دوبارہ آنے کی پیشگوئی اور اس کا پورا ہونا ۲۱۱ح ایلیا کا نزول یوحنا یعنی یحییٰ کی صورت میں ہوا ۳۶۲ ایلیا کے دوبارہ آنے کی تاویل کی جائے تو حضرت عیسیٰ سچے نبی ٹھہرتے ہیں ۲۲۸ح،۲۱۲ح ایوب بیگ صاحب مرزا،کلانور ۳۵۴ ایولسن، پادری آف انگلستان اس کا کہنا کہ متی کی یونانی انجیل دوسری صدی مسیحی میں ایک ایسے آدمی نے لکھی تھی جو یہودی نہ تھا ۹۳ ب.پ.ت.ٹ بخاری ،امام وفات مسیح کے قائل ہیں ۲۲۱ح برہان الدین غازی جہلمی مولوی ۱۵۹،۱۶۰،۱۶۲،۱۸۳،۱۸۹،۱۹۵،۲۰۷،۲۰۸،۲۱۶،۳۵۴ بلعم ۴۷۳ ولی تھا لیکن موسیٰ کے مقابل پر آیا او رہلاک ہو گیا ۴۸۲ اللہ نے اس کا رفع کرنا چاہا لیکن وہ زمین کی طرف جھک گیا ۲۳۶،۲۳۷ح بنی اسرائیل توریت سے انجیل تک تمام کتب کی مخاطب قوم بنی اسرائیل ہے ۸۵ ان میں قدیم سے رسم تھی کہ جرائم پیشہ اور قتل کے مجرموں کو بذریعہ صلیب ہی ہلاک کیا کرتے تھے اسی وجہ سے صلیبی موت لعنتی شمار کی گئی ۲۳۲ح بوڑے خان صاحب ڈاکٹر.قصور ۳۵۱،۳۵۷ بھگت رام ۲۰۹،۲۲۵،۲۲۹ پایندہ خان صاحب راجہ رئیس دارا پور جہلم ۳۵۳ پرسونم داس عیسائی ۳۴۵ح پریم داس، عیسائی ۵۶،۱۹۲ کپتان ڈگلس کی عدالت میں اس کا بیان بطور گواہ مستغیث ۲۳۸ پربھدیال ولد رام چند کپتان ڈگلس کی عدالت میں مستغیث کے گواہ اس کا بیان ۲۵۶ پطرس مسیح نے اپنے حواری پطرس کو شیطان کہا ۴۸۵ پولوس(Paul) ۵۶ پیلاطوس ۴۵ تاج الدین تحصیلدار پرگنہ بٹالہ ڈپٹی کمشنر کے نام حضور کے ٹیکس کے بارہ میں اس کی انصاف پسند رپورٹ ۵۱۳ تاج الدین صاحب منشی اکاؤنٹنٹ ریلوے لاہور ۳۵۱ تاج محمد خان صاحب کلرک میونسپل کمیٹی لدھیانہ ۳۵۵ تفضل حسین صاحب سید مولوی ڈپٹی کلکٹر علیگڑھ ۳۵۰ ٹھاکر داس، پادری ۳۱۹ اس کی طرف سے آنحضور ؐ کی دشنام طرازی ۱۲۰،۱۲۳،۱۲۶ ج.چ.ح.خ جان محمد صاحب میا ں قادیان ۳۵۳ جبرائیل علیہ السلام ۴۸۶،۴۸۸
34 جعفر زٹلی دیکھئے زٹلی کے تحت جلال الدین صاحب منشی،پنشنر منشی رجمنٹ نمبر۱۲ ۳۵۲ جمال مستری صاحب،مالک کا رخانہ روئی.بھیرہ ۳۵۷ جمال الدین صاحب تاجر سیکھواں ۳۵۵ جمال الدین صاحب مولوی سید والا منٹمگری ۳۵۷ جمال الدین صاحب خواجہ پرنسپل سری رنبیر کالج جموں ۳۵۱ جندر سنگھ رائے (مباہلہ کیلئے بلایا گیا) ۱۷۷ جنید بغدادیؒ ۹۲ جیون بٹ صاحب میاں سوداگر پشمینہ امر تسر ۳۵۵ جیون علی صاحب سیدالٰہ آباد ۳۵۲ چراغ الدین صاحب میاں ٹھیکیدار گجرات ۳۵۵ چراغ الٰہ دین صاحب میاں رئیس لاہور ۳۵۰ چراغ دین صاحب بابو سٹیشن ماسٹر لیہ ۳۵۱ چراغ علی صاحب شیخ تھہ غلام نبی گورداسپور ۳۵۴ حافظ محمد صاحب جموں ۳۵۲ حامد شاہ، حضرت سیدسیالکوٹی ۴۴،۳۵۳ حامد علی صاحب شیخ تھہ غلام نبی گورداسپور ۳۵۶ حبیب الرحمن صاحب منشی رئیس حاجی پور کپور تھلہ ۳۵۴ حبیب اللہ صاحب محافظ دفتر پولیس جہلم ۳۵۲ حبیب شاہ صاحب سید حکیم ، خوشاب ۳۵۵ حسام الدین صاحب سید حکیم سیالکوٹ ۳۵۴ حسن علی صاحب مولوی بھاگلپوری ۳۵۷ حسین کامی سفیر سلطان روم حضور سے ملاقات کے لئے قادیان آنا ۹ حضور کے نام ملاقات کی درخواست کیلئے لکھا گیا خط ۳۲۳ شیعہ اخبار ناظم الہند لاہور میں اس کے خط کی اشاعت کہ ہم قادیان سے مکدر اور ملول خاطر واپس آئے ۳۲۰ ترک سلطنت اور سلطان کے بارہ حضور کی باتوں کا برا منانا ۳۲۱ ناظم الہند لاہور حسین کامی کے خط کی نقل ۳۲۳ حمید الدین صاحب منشی ملازم پولیس لدھیانہ ۳۵۱ محمد صاحب حافظ ڈپٹی انسپکٹر پولیس جموں ۳۵۲ خادم حسین صاحب منشی مدرس راولپنڈی ۳۵۶ خان ملک صاحب مولوی کھیوال جہلم ۳۵۶ خدا بخش، حضرت مرزا ایچ پی سابق متریم چیف کورٹ پنجاب حال تحصیلدار مالیر کوٹلہ ۴۴،۳۵۰ خدا بخش صاحب پیر جی تاجر ڈیرہ دون ۳۵۴ خسرو پرویز شاہ ایران ۵۱۱ خواجہ علی صاحب قاضی ٹھیکیدارشکرم لدھیانہ ۳۵۴ خوشحال خان صاحب رئیس باریکاب راولپنڈی ۳۵۶ خیر الدین صاحب تاجر سیکھواں ۳۵۵ د.ڈ.ذ.ر.ز دال جی لال جی صاحب سیٹھ جنرل مرچنٹ مدراس ۳۵۵ دلدار علی ، سید الٰہ آباد ۳۵۲ دیال چند ۱۹۲ دیانند ، پنڈت ۱۲،۱۷۶،۳۸۶،۳۸۷،۴۱۹ اللہ تعالیٰ، آنحضور ؐ اور قرآن کریم کے بارہ میں اس کی بدزبانی ۱۳۸تا۱۴۱
35 ڈاڈویل ، مستشرق اس کا کہنا کہ دوسری صدی کے وسط تک چاروں انجیلوں کا وجود نہ تھا ۹۳ ڈریپر ، مستشرق ۴۸۶ ڈکسن ، ایف ٹی ڈپٹی کمشنر گورداسپور ایف ٹی ڈکسن کی طرف سے مقدمہ انکم ٹیکس میں حضور کو بری کرنے کا حکم ۵۱۲،۵۱۳،۵۱۹ ڈگلس ، ایم ڈبلیو ، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ضلع گورداسپور ۳۲،۴۵،۱۱۹ حضور کے خلاف جھوٹا مقدمہ قتل خارج کرنا ۱ ان کا فیصلہ ہمیشہ صفحہ تاریخ کے لئے یادگار رہے گا ۲ مقدمہ قتل کے لئے عدالت میں حاضر ہونے کا سمن ۱۶۷،۱۶۸ مقدمہ قتل کا تجزیہ اور فیصلہ بحق حضور ۲۸۳تا۳۰۲ اس نے حضور سے پوچھا کہ کیا تم ان پر نالش کرنا چاہتے ہوحضور نے کہا نہیں ۳۸۴ مقدمہ میں حضور کو بری کیا ۵۱۲ ذوالفقار علی صاحب میرضلعدار نہر سنگرور ۳۵۲ ذوالنون مصری ؒ ۹۲ رابرٹ ایجرٹن(Robert Egerton) فنانشل کمشنر پنجاب مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کی وفات پرمرزا غلام قادر صاحب کے نام تعزیتی مراسلہ ۷،۳۳۸ رابرٹ کاسٹ(Robert Cast) بہادر کمشنر لاہور ان کا میرزا غلام مرتضیٰ صاحب کے نام مراسلہ ۵ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کے نام رابرٹ کٹ کا مراسلہ ۱۸۵۷ء میں ساتھ دینے پرشکریہ ۳۳۸ راجرس پادری آنحضورؐ کی شان میں گستاخی کرنا ۱۲۰،۱۲۹ راجندر سنگھ ایڈیٹر مالک اخبار خالصہ بہادر آنحضور ؐ کے بارے میں اس کی بدزبانی ۱۵۱ رام بھج لالہ، وکیل استغاثہ ۲۰۴ رام چندر ، راجہ ۶۱،۴۱۹ رام چندر، ماسٹر، آنحضورؐ کی شان میں گستاخی کی ۱۲۰،۱۲۳ رانکلین پادری رسالہ دافع البہتان میں آنحضور ؐ کی شان میں دشنام طرازی ۱۲۰،۱۲۲ رجب الدین صاحب خلیفہ تاجر لاہور ۳۵۴ رجب علی صاحب منشی الٰہ آباد ۳۵۳ رحمت اللہ گجراتی، حضرت شیخ ۴۴،۲۲۰،۳۵۴ کپتان ڈگلس کی عدالت میں آپ کا بیان گواہ منجانب حضور ۲۴۷ رحمت علی صاحب ڈاکٹر ،ممباسہ یوگنڈا ۳۵۲ رحمان شاہ صاحب ناکپور ضلع چاندہ ۳۵۶ رحیم الدین صاحب منشیحبیب والا ضلع بجنور ۳۵۶ رحیم اللہ صاحب مولوی لاہور ۳۵۶ رحیم بخش صاحب منشی میونسپل کمشنر لدھیانہ ۳۵۴ رحیم بخش.محمد حسین بٹالوی کا باپ وہ اپنے بیٹے پر سخت ناراض تھا ۲۹،۳۳،۳۴ رستم علی صاحب چودھری کورٹ انسپکٹر دہلی ۳۵۳ رسول بیگ صاحب مرزارئیس کلانور ۳۵۴ رشید الدین صاحب خلیفہ ڈاکٹر ۳۵۱ رکن الدین احمد صاحب، شاہ سجادہ نشین کڑہ ضلع الٰہ آباد ۳۵۵
36 رلیا رام گھوہاٹی، لالہ ۱۲۷ رمضان علی صاحب سیدڈپٹی انسپکٹر الٰہ آباد ۳۵۱ رنجیت سنگھ ۱۷۵ح روشن دین صاحب منشی سٹیشن ماسٹر ڈنڈوت جہلم ۳۵۲ ریلینڈ اپنی کتاب اکاؤنٹ آف محمڈنزم میں لکھا کہ محمد ؐ کے معجزات نہایت مشہور عالم پرہیز گار محققوں نے تحقیق کے بعد لکھے ہیں کہ ان پر شک نہیں ہو سکتا ۹۰ زٹلی ۴۲۷ زٹلی کی بدگوئی پر گورنمنٹ اور پبلک کو اس کا چہرہ دکھانے کیلئے جماعت کی طرف سے میموریل بھیجنا ۳۹۱ح اس کی تحریر میں علمی رنگ میں کوئی اعتراض نہیں تھا کہ اسے دفع کیا جاسکتا اس نے صرف تمسخر سے گندی گالیاں دیں ۴۲۸ اس کے خلاف میموریل میں ہرگز سزا دینے کیلئے درخواست نہیں کی گئی ۴۲۹ زین الدین محمد ابراہیم منشی انجینئر ممبئی ۳۵۳ زین العابدین صاحب قاضی خانپور ریاست پٹیالہ ۳۵۵ س.ش.ص.ض سراج الحق جمالی نعمانی صاحب رئیس سرساوہ ۳۵۴ سراج الدین صاحب منشی ترمل کھیڑی کلرک مدراس ۳۵۳ سراج الدین صاحب میاں ۳۵۳،۳۵۷ سراج الدین صاحب نواب از خاندان ریاست لوہارو ۳۵۴ سردار محمد صاحب مولوی برادر زادہ مولانا حکیم نور الدین صاحب ۳۵۷ سعد اللہ لدھیانوی حضور کے بارے میں بدزبانی ۱۵۰ سلطان احمد ، مرزاابن حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۱۴ سلطان بخش صاحب میاں تاجر و روب میکر لاہور ۳۵۵ سلطان محمد، داماد مرزا احمد بیگ ۱۸۷،۱۸۸ح سلطان محمود صاحب مولوی میلا پور مدراس ۳۵۲ سلطان محمود، والد عبدالحمید مدعی مقدمہ قتل ۱۵۷،۲۳۰ سیمرل اس کا کہناہے انجیلیں نیک نیتی کے بہانہ سے مکاری کے ساتھ دوسری صدی کے آخر میں لکھی گئیں ۹۳ شاہ دین صاحب منشی سٹیشن ماسٹر دینا ضلع جہلم ۳۵۲ شرف الدین صاحب میاں نمبر دارکوٹلہ فقیر جہلم ۳۵۴ شملر، عیسائی محقق اس کا کہنا کہ یوحنا کے علاوہ باقی تینوں انجیلیں جعلی ہیں ۹۳ شہاب الدین صاحب چودھری بی اے ایل ایل بی کلاس لاہور ۳۵۳ شہاب الدین صاحب میاں باجہ والا لدھیانہ ۳۵۷ شیر محمد خان صاحب رئیس بھکر محمڈن کالج علیگڑھ ۳۵۴ صادق حسین صاحب وکیل اٹاوہ ۳۵۲ صادق حسین صاحب منشی مختار عدالت اٹاوہ ۳۵۳ صادق علی بیگ صاحب مرزا ، حیدر آباد دکن ۳۵۲ صالح محمد صاحب سیٹھ تاجر مدراس ۳۵۴
37 صدق سالم ملک مسیح سے پہلے گزرا اور گناہ سے پاک تھا پہلا حق خدا بننے کا اس کو حاصل تھا ۶۸ صفدر علی عیسائی اس کے مرتد ہونے کی وجہ ۳۷۹ صفدر علی صاحب مولوی مہتمم محکمہ تعمیرات حیدر آباد دکن ۳۵۲ ظ.ع.غ ظفر احمد صاحب منشی ،کپورتھلوی ۳۵۳ ظہور اللہ احمدصاحب ڈاکٹرسول سرجن حیدر آباد دکن ۳۵۲ ظہور علی صاحب مولوی سیدوکیل ہائی کورٹ حیدر آباد دکن ۳۵۳ عبدالجبار غزنوی حضور کے بارہ میں اس کی بد زبانی ۱۴۸ عبدالحق صاحب ٹیچر بٹالہ ۳۵۶ عبدالحق صاحب مولوی ایڈیٹر نسیم صبابنگلور ۳۵۵ عبدالحق غزنوی ۱۷۳،۱۹۹ حضور کے بارہ میں اس کی بد زبانی ۱۴۹ عبدالحکیم خان صاحب ڈاکٹر اسسٹنٹ سول سرجن پٹیالہ ۳۵۱ عبدالحکیم صاحب مولوی دہاروار علاقہ بمبئی ۳۵۶ عبدالحمید، مقدمہ قتل کا مدعی ۱،۲،۳،۲۹،۱۶۱،۱۶۲،۱۶۴،۱۶۵،۱۶۷،۱۸۲،۱۸۷،۱۸۸،۱۸۹،۱۹۰ ۱۹۱،۱۹۲،۱۹۳،۱۹۴،۱۹۶،۲۰۴،۲۰۷ گجرات میں پہلے عیسائی رہ چکا تھا ۴۶ گجرات کے مشن سے بوجہ بدچلنی نکالا گیا اس لئے اس نے اپنا نام بدلا ۳۰۶ پہلے سلطان محمود کو باپ کہا اور پھر لقمان کو ۲۱۵ مقدمہ قتل کے لئے عدالت اے ای مارٹینو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرتسر میں بیان ۱۵۷ عدالت میں اس کا بیان انگریزی زبان کا ترجمہ ۱۵۷ کپتان ڈگلس کی عدالت میں اس کا بیان ۲۰۷ ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس کے آگے بطور سرکاری گواہ جو بیان دیا ۲۵۷ عبدالخالق صاحب میاں دکاندار امرتسر ۳۵۵ عبدالرحمن صاحب بابو کلرک دفتر لو کو ریلوے لاہور ۳۵۰ عبدالرحمن صاحب پٹواری ۳۵۶ عبدالرحمن حاجی سیٹھ اللہ رکھا ساجن کمپنی ۳۵۴ عبدالرحمن صاحب حاجی لدھیانہ ۳۵۶ عبدالرحمن صاحب حافظ وکیل مدرسہ انوارالرحمن ملتان ساکن پٹیالہ ۳۵۶ عبدالرحمن خان صاحب قزلباش لاہور ۳۵۴ عبدالرحمن صاحب ڈاکٹر ایل ایم ایس سول سرجن چکراتہ ۳۵۱ عبدالرحمن صاحب شیخ مترجم ڈویژنل کورٹ ملتان ۳۵۲ عبدالرحمن صاحب منشی ملازم ریا ست کپور تھلہ ۳۵۲ عبدالرحمن صاحب منشی سنوری پٹواری پٹیالہ ۳۵۴ عبدالرحمن صاحب مولوی ملازم دفترجھنگ ۳۵۲،۳۵۶ عبدالرحیم، عیسائی ۳۳،۵۶،۱۹۲،۲۲۴،۲۲۵ عدالت ڈگلس میں اس کا بیان گواہ منجاب مستغیث ۲۳۲ عبدالرحیم صاحب مولوی بنگلور ۳۵۶ عبدالرحیم صاحب شیخ سابق لیس دفعدار رسالہ نمبر۱۲ ۳۵۲
38 عبدالشکور صاحب ڈاکٹر سرسہ ۳۵۱ عبدالصمد ابن عبداللہ غزنوی حضور کے بارہ میں اس کی بدزبانی ۱۴۸ عبدالعزیز خان صاحب قز لباش سردار ۳۵۴ عبدالعزیز لدھیانوی مولوی ۱۴۹ عبدالعزیز صاحب منشی محکمہ...گورداسپور ۳۵۱،۳۵۳ عبدالعلی صاحب حافظ محمڈن کالج علیگڑھ ۳۵۴ عبدالقادر جیلانی سیدؒ ۹۱ آپ کا کہنا کہ ایک بار شیطانی الہام مجھے بھی ہوا ۴۸۷ عبدالقادر خان صاحب مدرس ضلع لدھیانہ ۳۵۲ عبدالقادر مولوی مدرس جمال پور لدھیانہ عبدالقادر صاحب مولوی لدھیانہ ۳۵۶ عبدالکریم مولوی ، خلف الرشید میاں محمد سلطان صاحب میونسپل کمشنر لودھیانہ ۳۵۴ عبدالکریم سیالکوٹی ، حضرت مولوی لدھیانہ ۴۴ وعظ کے وقت قرآن شریف کے حقائق ومعارف بیان کرتے ہیں ۵۰۰ آپ کا خط اپنے دوست نصراللہ خان صاحب کے نام ۵۰۳ عبداللہ آتھم دیکھئے آتھم عبداللہ غزنوی ان کے بیٹے عبدالصمدکی حضور کے خلاف بدزبانی ۱۴۸ عبداللہ خان صاحب راجہ رئیس ہریانہ ۳۵۴ عبداللہ دیوان چند صاحب شیخ ، ناظم شفاخانہ حمایت اسلام لاہور ۳۵۷ عبداللہ لدھیانوی، مولوی ۱۴۹ عبداللہ صاحب مولوی پروفیسر مہندر کالج ریاست پٹیالہ ۳۵۲ عبداللہ صاحب میاں پٹواری ریاسٹ پٹیالہ ۳۵۱ عبداللہ صاحب میاں زمیندار ٹھٹھہ سفیر کامنٹگمری ۳۵۷ عبدالمجید صاحب محرر لوکل فنڈ پٹھان کوٹ ۳۵۷ عبدالمجید خان صاحب شہزادہ لدھیانہ نائب قاضی ضلع بلاسپور ممالک متوسط ۳۵۴ عبدالوہاب خان صاحب قاضی سب اوورسیئر ملٹری ورکس سولن ۳۵۶ عبدالہادی صاحب سیدتاجر لاہور ۳۵۱ عزیز الدین صاحب خواجہ تاجر لاہور ۳۵۵ عزیز اللہ صاحب منشی پوسٹ ماسٹرنادون ضلع کانگڑہ ۳۵۱ عزیز بخش صاحب مولوی بی اے ریکارڈ کیپر ضلع ڈیرہ اسماعیل خان ۳۵۲ عصمت اللہ صاحب حاجی مستر ی لدھیانہ ۳۵۶ عطا محمد مرزا ، حضور کے دادا ۱۶۲ح آپ کے وقت سکھ غالب آ گئے تھے ۱۷۲ح عطا محمد صاحب منشی سب اوورسیئر فیلڈ فوسٹ فرنٹیئر ۳۵۱،۳۵۳ عطاء محمد صاحب منشی تاجر و سٹامپ فروش چنیوٹ ۳۵۵ عطاء اللہ خان صاحب راجہ رئیس باڑی پورہ کشمیر ۳۵۴ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ، حضرت ۱۱۶،۴۱۶ علی احمد صاحب بابوریلوے آفس لاہور ۳۵۳ علی محمد صاحب سیٹھ حاجی اللہ رکھا بنگلور ۳۵۵ علاء الدین صاحب حافظ کامل پور راولپنڈی ۳۵۶ عماد الدین، پادری ۱۲،۱۷۳،۲۸۳ح،۲۸۶ح،۳۱۹،۳۸۶
39 عماد الدین امرتسری پادری آنحضورؐ کو گالیاں دینے میں بڑھا ہوا ہے ۱۲۰،۱۳۱ اس کی تحریریں زہریلا اثر رکھتی تھیں چنانچہ ایک محقق انگریز نے کہا کہ اگر دوبارہ ۱۸۵۷ء کا غدر ممکن ہوا تو اس کا سبب پادری عمادالدین کی تحریریں ہوں گی ۴۳۱ اس کے مرتد ہونے کی وجہ ۳۷۹ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ،حضرت ۴۱۶ آپ کو بھی الہام ہوتا تھا لیکن اپنے تئیں کچھ نہ سمجھا ۴۷۳ عنایت اللہ صاحب مولوی مدرس مانانوالہ ۳۵۳ عیسیٰ علیہ السلام ۴۱،۴۳،۵۴،۵۵،۳۹۷ ہم عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا سچا نبی سمجھتے ہیں ۱۱۹،۱۵۴ قرآن نے آپ کی سچائی کی گواہی دی ۱۵۵ح قرآن نے فرمایا کہ مسیح ابن مریم سچا نبی وجیہ اور خدا کے مقربوں میں تھا ۲۳۳ح یسوع ابن مریم ایک عاجز بندہ تھا اس کو نبی سمجھو جس کو خدا نے بھیجا تھا ۱۰۸ آنحضورؐ نے آپ کا حلیہ سرخ رنگ اور گھنگھریالے بال بیان فرمایا ۳۰۱ح حضور ؑ سے مشابہتیں حضرت مسیح موعود کی حضرت عیسیٰ کے ساتھ سات مشابہتیں ۴۵ حضور نے کشف میں دیکھا کہ میں اور حضرت عیسیٰ ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے ہیں ۱۰۳ حضرت موسیٰ سے تیرہ سو سال بعد چودھویں صدی میں پیدا ہوئے اسی طرح امت محمدیہ میں حضور ؑ مبعوث ہوئے ۲۵۸ح داؤد کی نسل سے ہونے کی وجہ سے نام کی شہزادگی آپ کے پاس تھی حضور سے مشابہت کہ حضور بھی رئیس خاندان سے تھے ۱۷۸ح ستارہ ذوالسنین آپ کے وقت میں بھی نکلا حضور کے وقت بھی نکلا ۱۱۰ الوہیت و وفات مسیح میری تقریر کا ماحصل یہ ہے کہ عیسائیوں نے جو حضرت عیسیٰ کو خدا بنا رکھا ہے یہ سراسر ان کی غلط فہمی ہے ۱۰۷ عیسائیوں کے فرضی خدا نے چالیس روزے رکھے تھے ۸۰ انجیل سے ثابت ہے کہ مسیح کی والدہ کا گھر تھا اور مسیح مالدار آدمی تھا جس کے پا س ہر وقت پیسوں کی تھیلی رہتی تھی ۷۵ قرآن کریم صریح لفظوں میں وفات عیسیٰ ظاہر کرتا ہے ۲۲۲ح، ۲۱۹ح آیت فلما توفیتنی نے صاف طور پر خبر دے دی کہ حضرت عیسیٰ فوت ہو گئے ۲۱۵ح،۲۱۹ح جسم عنصری کے ساتھ آسماں پر جانا صحیح نہیں بلکہ قرآن ان کی وفات بتاتا ہے.اس طرح اکابر علماء بھی وفات مسیح کے قائل ہیں ۳۵۹ آپ کی عمر ۱۲۰ برس تھی ۲۷۷ ۳۳ برس کی عمر میں صلیب دئیے گئے ۲۷۸ حضرت عیسٰی کی قبر موجود ہے ۲۳۸ح آپ کی وفات اور نزول کے بارہ میں علماء کے عقائد میں تناقضات ۲۰۷ح مدت تک عیسائیوں کا یہی عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ در حقیقت فوت ہو گئے ہیں ۲۶۴ح اللہ تعالیٰ نے مجھے کشف اور الہام کے ذریعہ اطلاع دی کہ حضرت عیسیٰ درحقیقت فوت ہو گئے ہیں ۳۶۳ وفات عیسیٰ اس زمانے کے مولویوں کو عقلی و نقلی طریق سے ثابت کی لیکن انہوں نے قبول نہ کیا ۵۰ رفع الی اللہ وآمدثانی رفع الی السماء کی حقیقت ۲۴،۲۵ قرآن نے یہود اور نصاریٰ کے درمیان فیصلہ کر دیا کہ مسیح مصلوب نہیں ہوا بلکہ وفات پا کر رفع روحانی ہوا ۳۶۲
40 اللہ نے عیسیٰ کو شر اعداء سے بچا لیا ۲۵ میں نے خدا سے علم پا کر ثابت کر دیا کہ مسیح کا رفع جسمانی بالکل جھوٹ ہے ۲۶۴ح رفع الی السماء کے الفاظ نہ قرآن میں ہیں اور نہ کسی متصل مرفوع حدیث میں ۲۲۵ح آپ کا رفع روحانی ہوا اور ایک سو بیس سال برس کے بعد رفع روحانی ہوا اور وہ صلیب کے بعد ۸۷ برس زندہ رہے ۲۷۷ح یہوداور نصاریٰ میں حضرت عیسیٰ کے نسبت اختلاف ان کے رفع روحانی کے بارہ میں ہے ۲۲۸ح یسوع کا آسمان پر مع جسم جانا ایک جھوٹا مسئلہ ہے جو عیسائیوں نے بنایا ہے ۲۸۸ح جسمانی رفع عیسیٰ اور پھر نزول کے بارہ میں حدیث پیش کرنے والے کو چیلنج ۲۲۵ح نزول عیسیٰ کے جو معنی میں نے کئے ہیں وہ اس سے پہلے عیسیٰ کر چکے ہیں ۲۱۳ح نزول عیسیٰ بروزی ہوگا (محی الدین ابن عربی) ۲۳ح آپ کے بارہ مولویوں کا یہ عقیدہ کہ وہ نبوت سے معطل ہو کر آئے گا انتہائی بے حیائی اور گستاخی کا کلمہ ہے ۲۱۸ح متفرق رومی سلطنت کے ماتحت مامور ہوئے اور یہ تعلیم دی کہ ضعف کی حالت میں شر کا مقابلہ نہ کرنا ۳۹۰ لعنتی موت جس پر تمام مواد صلیبی نجات کا ہے وہ کسی طرح حضرت عیسیٰ کی طرف منسوب نہیں ہو سکتی ۲۶۲ح عیسائیوں نے اپنی حماقت سے اور یہودیوں نے اپنی شرارت سے حضرت عیسیٰ کو ملعون قرار دیا ۲۳۳ح عیسائی عقیدہ کہ حضرت عیسیٰ تین دن تک جو لعنت کے دن تھے نعوذ باللہ جہنم میں رہے ۲۷۰ح یسوع کا جہنم میں جانا جن کتب عیسائیت سے ثابت ہوتا ہے ان کی تفصیل ۲۸۳ح تا۲۸۸ح مسیح نے اپنے تئیں یونس سے مثال دی ۴۶ مسیح نے اپنے قصہ کویونس کے مشابہ قرار دیا.قبر میں نہ مرا جس طرح یونس مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہا ۲۵ یونس کی طرح تین دن قبر میں رہوں گا ۲۸۷ح عیسائیوں کے نزدیک آپ کو شیطان پہاڑی پر لے گیا او ر آپ کو شیطانی الہام ہوا ۴۸۴ احادیث میں بھی ذکر ہے کہ شیطان حضرت عیسیٰ کے پاس آیا ۴۸۶ اپنے دشمنوں کے لئے سخت الفاظ کا بھی استعمال کیا ۴۷۷ حضرت عیسیٰ کو کافر ٹھہرانے کے لئے یہود کے ہاتھ میں یہ دلیل تھی کہ وہ سولی دیا گیا ہے ۳۶۰ مسیح کے بارہ پیشگوئی تھی کہ وہ بادشاہ ہو گا.ظاہری بادشاہت کی وجہ سے یہود نے ٹھوکر کھائی ۲۱۲ح حضرت عیسیٰ کا مسیح ہونے کا دعویٰ یہود کو خلاف نصوص صریحہ معلوم ہوا اور وہ آپ کے مخالف ہو گئے ۲۲۹ح ایک انجیل میں لکھا کہ مسیح مصلوب نہیں ہوئے اور مرہم عیسیٰ اس کی تصدیق کرتی ہے ۴۸۵ح عیسائی مؤلف کا کہنا کہ جو گواہیاں نبی اسلام کے لئے پیش کی جا سکتی ہیں وہ عیسائی کی قدرت میں نہیں کہ وہ یسوع کے معجزات کے لئے پیش کر سکے ۹۱ اپنے ایک حواری پطرس کو شیطان کہا ۴۸۴،۴۸۵ ایلیاء کے دوبارہ آنے کی تاویل کی جائے تو حضرت عیسیٰ سچے نبی ٹھہرتے ہیں ۲۱۲ح غلام احمد ، حضرت مرزا ،مسیح موعود و مہدی معہو د علیہ السلام ۱۵۷،۱۶۱،۱۶۲،۱۶۵،۱۶۹،۱۷۱،۲۰۶،۲۱۲ بعثت اور دعاوی بعثت کا مقصد ۲۹۳،۲۹۴ح آپ کے دعویٰ کے ثبوت ۳۰۰ح زمانے کا امام الزمان میں ہوں اللہ نے مجھے صدی کے سر پر مبعوث فرمایا ہے ۴۹۵ قرآن نے مامور من اللہ کے دعویٰ کے تین پہلو سے ثبوت دئیے ہیں سو تینوں وجوہ کی رو سے میرا دعویٰ ثابت ہے ۳۰۰ح
41 اللہ نے مجھے کھڑا کیا اور مجھے حکم دیا کہ میں لوگوں کو بتاؤں کہ ابن مریم کو خدا ٹھہرانا ایک باطل راہ ہے ۵۵ اللہ تعالیٰ نے میرا نام غلام احمد قادیانی رکھ کر اس کی طرف اشارہ فرمایا کہ وقت بعثت ہو گیا ہے.اس کے اعداد تیرہ سو بنتے ہیں ۲۵۸ح اسلامی دنیا کیلئے مجھے خدا نے حکم بنا کر بھیجا ہے جس میں سلطان روم بھی داخل ہے ۲۵۷ح،۳۳۵ میں حکم ہوں اور کسر صلیب نیز اختلافات دور کرنے کیلئے بھیجا گیا ہوں ۴۹۵ میں ایسے وقت میں ظاہر ہوا کہ جبکہ اسلامی عقیدے اختلاف سے بھر گئے تھے ۴۹۵ عیسائیوں کی غلطیوں سے اللہ نے مجھے مطلع کیا تا میں گمراہوں کو متنبہ کروں ۲۹۰ح عیسیٰ کے زمانہ میں یہود کی اخلاقی حالت بہت خراب ہو گئی تھی اب میرے زمانہ میں بھی یہی حالت ہے.سو میں بھیجا گیا ہوں تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے ۲۹۳ح مسلمانوں کے غلط خیالات بابت فرضی دجال، فرضی مسیح اور ختم نبوت کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے ۲۹۱ح میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ رکھتا ہوں ۲۰۵،۳۲۸ دعویٰ مسیح ہونے پر دلیل ۲۱۶ح مسیح نے مسیح کے دوبارہ آنے کی خبردی تھی اور’’ وہ میں ہوں ،، ۱۰۷ میں انجیل کی پیشگوئی کے مطابق آیا ہوں ۱۰۸ خدا نے چودھویں صدی کے سر پر لوگوں کی اصلاح کے لئے مسیح موعود کے نام پر مجھے بھیجا ہے اور مجھے آسمانی نشان دئیے ہیں ۱۵۸ح اللہ نے اس زمانہ میں کامل نشانات دکھلانے کے لئے مسیح موعود کے نام سے مجھے بھیجا ہے ۱۵۷ح مسیح موعود کی علامات اور ان کا آپ کے زمانہ میں آپ کے ذریعہ پورا ہو نا ۳۰۶،۳۰۷ح میرے دعویٰ مسیحیت کے وقت میں عجیب طور کا شور علماء میں پھیلا اور میری تکفیر کی ۲۰۳ح براہین احمدیہ میں وہ الہام بھی ہیں جن میں خدا تعالیٰ نے میر انام عیسیٰ اور مسیح موعود رکھا ہے ۲۰۳ح ایک کشف میں دیکھا کہ میں اور حضرت عیسیٰ ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے ہیں ۱۰۳ جس طرح حضرت عیسیٰ حضرت موسیٰ سے تیرہ سو سال بعد چودھویں صدی میں پیدا ہوئے اسی طرح حضور ؑ بھی چودھویں صدی میں مبعوث ہوئے.۲۵۸ح قسم دے کر بزرگان دین کو بتایا کہ اللہ نے مجھے چودھویں صدی کے سر پر اصلاح خلق کے لئے مجدد بنا کر بھیجا ہے اور میرا نام مسیح موعود رکھا ۳۵۸ دعویٰ مسیح موعود پر دلیل ۲۵۵ح میرا یہ دعویٰ کہ میں مسیح موعود ہوں اس دعویٰ کے ظہور کی طرف مسلمانوں کے تمام فرقوں کی آنکھیں لگی ہوئی تھیں ۲۰۵ح حضرت عیسیٰ کے ساتھ ایک مشابہت کہ وہ بھی بوجہ داؤد کی نسل سے نام کی شہزادگی رکھنا ایسے حضورؑ بھی رئیسوں کی اولاد میں سے ہیں ۱۷۸ مقدمہ قتل اور اس بریت کے حوالہ سے حضورؑ کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے مشابہتیں ۴۵،۴۶ تیرھویںی صدی کا اخیر اور چودھویں صدی کا ظہور ہوا تو خدا نے مجھے الہام کے ذریعہ خبر دی تو اس صدی کا مجدد ہے ۲۰۱ح براہین احمدیہ کے زمانہ تک اکثر علماء نے میرے دعویٰ مجددیت کی تصدیق کی ۲۰۲ح عقائد و تعلیمات ہماری روح سے یہ گواہی نکلتی ہے کہ سچا اور صحیح مذہب اسلام ہے ۱۵۵ح ہمارا ایمان ہے کہ ہمارے سید ومولیٰ حضرت محمد مصطفی خاتم الانبیاء ہیں اور ہم فرشتوں اور معجزات اور تمام عقائد اہل سنت کے قائل ہیں اور نزول عیسیٰ کی پیشگوئی بروزی طور پر پوری ہو گئی ۲۱۶ح
42 ہم یقیناًجانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا سب سے بڑا نبی اور سب سے زیادہ پیارا جناب محمد مصطفی ﷺ ہیں ۱۵۵ح میرے بڑے بڑے اصول پانچ ہیں (۱)خدا کو واحد لا شریک جاننا (۲)آنحضور ؐ کو حقیقی نجات دہندہ یقین رکھنا (۳)اسلام کی دعوت دلائل عقلیہ اور آسمانی نشانوں سے کرنا (۴)گورنمنٹ کی اطاعت (۵)بنی نوع سے ہمدردی ۳۴۸ میرے اصولوں اور اعتقادوں اور ہدایتوں میں کوئی امر جنگجوئی اور فساد کا نہیں ۳۴۷ میں کسی خونی مہدی کاقا ئل نہیں جو زمین کو کفار کے خون سے بھر دے گا بلکہ مسیح موعود کا دعویٰ ہے جو عیسیٰ کی طرح غربت کے ساتھ زندگی بسر کرے گا ۳۴۷ حضرت عیسیٰ کو ایک صادق اور سچا نبی سمجھتے ہیں ۱۱۹،۱۵۴ ہم اس بات کو نہیں مانتے کہ نعوذ باللہ کسی وقت حضرت عیسیٰ ملعون بھی ہو گئے تھے بلکہ ان کا رفع ہوا اور صلیب کے بعد ۸۷ برس زندہ رہے ۲۷۶ح،۲۷۷ح مریدوں کو تاکید کہ مباحثات میں سخت الفاظ کے استعمال سے پرہیز کریں ۱۳ آپ کی تمام نصیحتوں کا خلاصہ تین امر ہیں ۱۴ ہر ایک مفسدہ اور فتنہ کے طریق سے مجتنب رہیں ۱۴ اپنی جماعت کو خصوصاً اور تمام مسلمانوں کو عموماً کہتا ہوں کہ وہ طریق سخت گوئی سے بچیں ۳۱۲ انگریزی حکومت واجب الاطاعت اور شکر گزاری کے لائق ہے کہ جس کے زیر سایہ امن کے ساتھ آسمانی کارروائی کر رہا ہوں ۳۲۰ سترہ برس سے اپنی تحریرات میں سرکارانگریزی کی اطاعت اور ہمدردی کے لئے ترغیب دینا ۶،۷ ۲۴ کتب کا تذکرہ جن میں سرکار انگریزی کی خیر خواہی اور اطاعت کا ذکر ہے ۸ ممانعت جہاد کو عام کرنے کے لئے سعی ۷ خدمت دین نوکری کے بعد والد صاحب کی خدمت میں آجانے کے بعد اکثر حصہ تدبر قرآن ، تفسیروں اور حدیثوں کے دیکھنے میں صرف ہوتا اور والد صاحب کو وہ کتابیں سنایا بھی کرتا تھا ۱۸۷ح قرآنی اعجاز ، معارف ، خوبیاں بیان کرنے سے قرآن شریف کا منجانب اللہ ہونا میرے ذریعہ ثابت کیا گیا ۲۹۵ح کسر صلیب کیلئے تین ہتھیار دئیے گئے ہیں (۱) حجج عقلیہ (۲)آیات سماویہ (۳)دعا.یہ کام تدریجاً ہو گا کچھ ہماری حیات میں اور کچھ بعد میں ہو گا ۳۰۵ح کونسی کسر صلیب اب تک ہوئی (۱) نشان ظاہر ہوئے (۲)پیشگوئیاں ظہور میں آئیں (۳) پادریوں کا منہ بند کیا گیا (۴)قرآنی تعلیم سے لوگوں کا سر جھکا دیا ۳۰۶ح میرے ہاتھ پر اللہ نے عیسائی مذہب کے اصول کا خاتمہ کر دیا ۳۶۲ح میں نے خدا سے علم پا کر ثابت کر دیا کہ مسیح کا رفع جسمانی بالکل جھوٹ ہے ۲۶۴ح ردّ عیسائیت میں عمدہ کتب کی تالیف کیں ۵۹ عیسائی تعلیمات اور نظریات کے نقائص اور حضور کے ان پر اعتراضات ۷۲تا۱۰۰ انجیلوں پر حضورؑ کے اعتراضات ۷۵،۷۶ تحریروں میں سختی کی ابتدا کبھی میری طرف سے نہیں ہوئی بلکہ عیسائی پادریوں کی طرف سے ہوئی.مجسٹریٹ کے سامنے بیان ۳۱۱ عیسائیوں کے خلاف مقابلہ کے لئے عبداللہ آتھم صرف ایک جزو تھے کل فریق عیسائی تھے ۲۲ آپ کی وہ کتب جو مناظرات کے حق میں تالیف ہوئی ہیں ۴۰۵ مخالفین کے کل اعتراضات کا جواب دینے کا ارادہ اور مسلمان صاحب حیثیت لوگوں سے تعاون کی درخواست ۳۹۸
43 امہات المومنین کے خلاف حکومتی پابندی لگانے کی بجائے ہم اس کتاب کا جواب دیں گے کیونکہ جو ضرر ہمیں پہنچنا تھا وہ پہنچ چکا ۳۱۶ میری تقریر کا ماحصل یہ ہے کہ عیسائیوں نے جو حضرت عیسیٰ کو خدا بنا رکھا ہے یہ سراسر ان کی غلط فہمی ہے ۱۰۷ مارٹن کلارک نے غلط بیانی سے کام لیا کہ حضور نے اس کے خلاف سخت الفاظ استعمال کئے ہیں ۱۳ تحریرات میں سختی کی دو وجوہات.اول تا مخالف اپنی روش بدلیں دوم عام مسلمان جوش میں نہ آویں ۱۱ تحریروں میں کسی قدر سختی مخالفوں کے سخت حملوں کے جواب میں آئی تھی ۱۱ قوموں میں صلح کاری پھیلانے کیلئے حضور کی تجویز ۳۴۶ حسین کامی کی آپ سے قادیان میں ملاقات اوراسے ترک سلطنت کی خراب حالت پر آگاہ کرنا ۳۲۱ نصرت الٰہی اور نشانات اس زمانہ میں اس عاجز کے ذریعہ خدا تعالیٰ نشان دکھلا رہا ہے ۱۵۴ح مسلمانوں کے ایمان کو تقویت دینے کے دو طریق آپ کو عطا کئے گئے (۱) قرآنی معارف (۲) تائیدات سماوی وقبولیت دعا ۲۹۴،۲۹۶ح خدا نے مجھے چار نشانات دئیے ہیں (۱) عربی بلاغت وفصاحت (۲)قرآنی حقائق و معارف (۳)قبولیت دعا (۴)غیبی اخبار کا نشان ۴۹۶،۴۹۷ آپ کی تائید ونصرت کے لئے نشانات ارضی و سماوی کا ظہور ہوا ۲۹۸ح،۳۳۰،۴۹۷،۵۰۹ اللہ تعالیٰ نے میری تائید میں چاند سورج کو گرہن لگایا ۳۶۳ آپ کی تائید میں نو نشانات کا ظہور ۱۱۰ آپ کی تائید میں پانچ غیبی افعال کا ظاہر ہونا ۳۱،۳۲ میری کوئی پیشگوئی جھوٹی نہیں نکلی ۴۱ حضرت یوسف کی طرح محض نیک نیتی سے اپنی نسبت یہ بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ علم اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے عنایت کیا ہے ۴۰۵ مجھے وہ آسمانی حربہ عطا کیا گیا ہے جس سے میں صلیبی مذہب کو توڑ سکوں ۳۵۹ راولپنڈی کے ایک بزرگ کو حضور کی قبولیت دعا کے بارہ میں الہام ہوا تھا ۱۱۷ لدھیانہ کے پیر مرد کریم بخش نے اپنے مرشد کی پیشگوئی میرے بارہ شائع کی کہ مسیح موعود پیدا ہو گیا اور اس کا نام غلام احمد ہو گا ۱۰۹ مقدمہ قتل کی بریت کی خبر قبل از وقت اللہ نے دی اور اسے جماعت میں شائع بھی کر دیا گیا ۳۰۸ مقدمہ قتل کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے الہاماً بتایا اور اس کی بریت کے بارہ میں بھی یہ الہامات میں نے تقریباً سو آدمیوں کو بیان کئے ۴۴ مقدمہ قتل کا کپتان ڈگلس کی طرف سے آپ کے حق میں فیصلہ ۲۸۳تا۳۰۲ مقدمہ قتل میں اعجازی بریت.امرتسر کے مجسٹریٹ کے جاری کردہ وارنٹ مدت تک گورداسپور نہ پہنچ سکے اور پھر ورانٹ کی منسوخی ۲۷ مقدمہ قتل میں شکست کے بعد مقدمہ انکم ٹیکس میں بھی مارٹن کلارک کو شکست ہوئی.حضور کا انکم ٹیکس معاف کر دیا گیا ۵۰۶ ایف ٹی ڈکسن کی طرف سے آپ کو انکم ٹیکس سے بری کرنے کا حکم ۵۱۹ مقدمہ کے وقت آپ کیلئے کرسی بچھائی گئی اور محمد حسین بٹالوی کی ذلت ہوئی ۲۸ کچہری میں عزت افزائی کہ کرسی دی گئی اور مخالفین کی ذلت ہوئی ۳۰ آتھم، احمد بیگ اور لیکھرام کے بارہ میں پیشگوئیاں پوری ہونا ۴۱ آتھم پیشگوئی کے مطابق مرا ۴۱۱ح
44 آتھم کے بارہ دوسری پیشگوئی یہ تھی کہ اگر سچ کو چھپائے گا تو جلد ہلاک ہو گا چنانچہ ایسا ہی ہوا ۵۸ لیکھرام کی بدزبانی سے باز نہ آنے پر اس کے لئے نشان مانگا ۴۰۸ح لیکھرام کا قتل اللہ کی طرف سے بہت بڑا نشان تھا ۳۹ لیکھرام بارے پیشگوئی خدا کی طرف سے تھی ۳۷ دشمن کے تمام ناپاک منصوبوں میں اللہ نے آپ کی بریت فرمائی مثلاً مقدمہ لیکھرام، مکان کی تلاشی، مقدمہ قتل وغیرہ ۳۵،۳۶ اللہ کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے ہمیں ایسی محسن گورنمنٹ کے زیر سایہ رکھا ۴۰ ہماری جماعت اس وقت دس ہزار سے کم نہیں جو پشاور سے بمبئی، کلکتہ ، کراچی ،حیدر آباد دکن، مدارس، آسام ، بخارا، عراق ،مکہ مدینہ و شام میں پھیلی ہوئی ہے ۴۲۲ آپ کے الہامات(نیز دیکھئے انڈیکس کی ابتداء میں ) ۱۰۰تا۱۰۳ میرے الہامات براہین احمدیہ ، آئینہ کمالات اسلام ازالہ اوہام اور تحفہ بغداد وغیرہ میں شائع ہو چکے ہیں اور میں قریباً ۲۵سال سے ان کو شائع کر رہا ہوں ۱۰۰ح میں نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں ۱۰۳تا ۱۰۵ اللہ تعالیٰ نے کشف اور الہام کے ذریعہ مجھے حضرت عیسیٰ کی وفات بتائی ۳۶۳ آپ کی پیدائش کے بعد آپ کے والد صاحب کا تنگی کا زمانہ فراخی میں بدل گیا ۱۷۸ح آپ کو بذریعہ خواب والد صاحب کی وفات کا بتلایا گیا والد محترم کی وفات کے لئے الہام ہوا والسماء والطارق کہ شام کو حادثہ پیش ہوگا ۱۹۳ح الیس اللہ بکاف عبدہ کے الہام نے عجیب سکینت اور اطمینان بخشا اور فولادی میخ کی طرح میرے دل میں دھنس گیا ۱۹۴ح خدا میرا ایسا متکفل ہوا کہ کبھی کسی کا باپ ہرگز ایسا متکفل نہیں ہوگا ۱۹۵ح الیس اللہ بکاف عبدہ کی انگوٹھی بنوانا ۱۹۵ح مخالفین کو چیلنج جسم عنصری کے ساتھ مسیح کے آسمان پر جاکر پھر واپس آنے کی حدیث پیش کرنے پر بیس ہزار روپیہ دینے کو تیار ہیں ۲۲۵ح میرے الہامات اور یسوع کے الہامات کا مقابلہ کر لیں کہ کس سے زیادہ خدائی ثابت ہوتی ہے اور منصف پادری حلفاً گواہی دے دیں کہ یسوع کی خدائی زیادہ صاف ثابت ہوتی ہے تو میں بطور تاوان ہزار روپیہ ان کو دے سکتا ہوں ۱۰۶،۱۰۷ اگر کوئی عیسائی میری صحبت میں رہے تو ابھی ایک برس نہیں گزرے گا کہ وہ کئی نشان دیکھے گا ۱۰۸ صادق یا کاذب ہونے کے لئے قبولیت دعا کے ذریعہ طریق فیصلہ ۳۳۳ تمام مشائخ اور فقرا اور صلحاء پنجاب اور ہندوستان کو اپنے سچے یا مفتری ہونے کے بارہ میں اکیس روز تک دعا کرنے کا چیلنج اور طریق فیصلہ ۳۶۴ جو خیال کرتا ہے کہ بدگوئی کی بنیاد ڈالنے والا میں ہوں ایسے شخص کو ہزار روپیہ نقد تاوان دینے کو طیار ہوں ۳۸۸ آتھم کو قسم کھانے پر چار ہزار روپیہ بھی دینا کیا تھا ۵۷ جھوٹے الہامات کے الزام میں محمد حسین بٹالوی کو طریق آزمائش کہ بذریعہ گورنمنٹ نشان طلب کرے نہ پورا ہو تو میں جھوٹا ۳۸ ہمارے ملہم دوست کسی ایک جلسہ میں سورۂ اخلاص کے ہی حقائق معارف بیان فرما دیں جس سے ہزار درجہ ہم بیان نہ کرسکیں تو ہم ان کے مطیع ہیں ۴۹۹ اخبار چودھویں صدی میں مذکور بزرگ کیلئے آسمانی نشان طلب کرنا ۳۳۱ اشتہارات اشتہار۱۲جنوری ۱۸۸۹ء تکمیل تبلیغ مع شرائط بیعت ۹،۳۴۷ اشتہار ۲۵جون ۱۸۹۷ء ۹،۳۲۵تا۳۳۶ اشتہار ۱۵ جولائی ۱۸۹۷ء ۳۵۸تا
45 اشتہار ۱۵جولائی ۱۸۹۷ء ۳۵۸تا۳۶۶ اشتہار واجب الاظہار ۲۰ستمبر۱۸۹۷ء ۱ اشتہار ۲۲ اپریل ۱۸۹۸ء بابت جلسہ طاعون قادیان ۳۱۴ اشتہار ۱۰ دسمبر ۱۸۹۴ء ۹ اشتہار ۲۷ فروری ۱۸۹۵ء ۹ اشتہار ۲۴ مئی ۱۸۹۷ء ۹ اشتہار ۷ جون ۱۸۹۷ء ۹ اشتہار ۲۳ جون ۱۸۹۷ء ۹ تائید گورنمنٹ میں حضور کے بعض اشتہارات ۳۴۲ ابتدائی و خاندانی حالات حاجی محمد اسماعیل خان رئیس دتا ولی کی طرف سے اپنی کتاب کے لئے حضور کو اپنے سوانح لکھنے کی درخواست اور حضور کا اثبات ۱۵۸ح سر لیپل گریفن نے اپنی کتاب تاریخ رئیسان پنجاب میں آپ کے خاندان کا تذکرہ کیا ہے ۳۳۹ اپنے سوانح لکھنے سے قبل سوانح نویسی کے مقصد کے بارہ تمہیدی نوٹ ۱۵۹ح آپ کے خود نوشت سوانح اور خاندانی حالات ۱۶۲تا۲۰۵ح مجھے الہاماً بتایا گیا کہ میرے باپ دادے فارسی الاصل ہیں ۱۶۲ح ہماری قوم مغل برلاس ہے اور ہمارے بزرگ سمرقندسے آئے تھے ۱۶۲ح آپ کا شجرہ نسب ۱۷۲ح آپ کے پردادا نامور رئیس تھے اور۸۵گاؤں کے مالک تھے.سکھوں کے حملوں سے وہ گاؤں قبضہ سے نکلتے گئے ۱۶۵ح سکھوں کے قبضہ قادیان کے وقت تباہی مچی اور افراد خاندان ہجرت کر کے دوسری ریاست میں پناہ گزین ہوئے ۱۷۵ح آپ کے ذاتی سوانح.سن پیدائش اور ابتدائی حالات ۱۷۷ح آپ توام پیدا ہوئے.آپ کے ساتھ پیدا ہونے والی لڑکی چند روز بعد فوت ہو گئی ۱۷۷ح آپ کی ابتدائی تعلیم اور آپ کے اساتذہ ۱۸۰،۱۸۱ح اللہ نے نیا سلسلہ قائم کرنے کے لئے میرے اجداد کی ریاست کی صف لپیٹ دی ۱۷۸،۱۷۹ح والد صاحب کی طرف سے حصول جائیداد کے مقدمات کی پیروی کرنا ۱۸۲ح آپ کے والد صاحب نے آپ کو زمینداری امور کی نگرانی پر لگایا لیکن آپ اس طبیعت اور فطرت کے آدمی نہ تھے ۱۸۲ح چند سال طبع کراہت کے ساتھ نوکری میں بسر ہوئے اور پھر والد صاحب کے حکم اور اپنی منشا سے استعفیٰ دے کر والد صاحب کی خدمت میں حاضر ہو گیا ۱۸۴،۱۸۵ح ہمارا خاندان گورنمنٹ کا پکا خیر خواہ ہے ۴ محمد حسین بٹالوی کا اقرار کہ حضور سرکار انگریزی کے خیرخواہ ہیں ۱۰ آپ کے بارہ میں منشی تاج الدین تحصیلدار کی انکم ٹیکس کے حوالہ سے تشخیصی رپورٹ ۵۱۳ سیرۃ طیبہ اور قوت قدسیہ مجھے بار بار الہام ہوا ہے کہ اس زمانہ میں کوئی معرفت الٰہی اور کوئی محبت الٰہی تیری معرفت اور محبت کے برابر نہیں ۵۰۲ فطرتاً میرے دل کو خدا تعالیٰ کی طرف وفاداری کے ساتھ ایک کشش ہے.یہ اس کی عنایت ہے ۱۹۶ح آپ کو خواب میں سنت اہل بیت کے تحت روزے رکھنے کی تفہیم ہونا اور پھر روزے رکھنا ۱۹۷ح تواترسے روزے رکھنے سے کئی مکاشفات کھلے اور یہ فائدہ حاصل ہوا کہ وقت ضرورت فاقہ کشی پر زیادہ صبر کر سکتا ہوں ۱۹۹ح آنحضورؐ کی شان میں گستاخی کر کے پادری صاحبان نے ہمارے دل کو بہت دکھ دیا ہے ۱۱۹ ہم نے اس حقیقت کو جو خدا تک پہنچاتی ہے قرآن سے پایا ۶۵ جھوٹے مقدمہ قتل پرکپتان ڈگلس نے پوچھا کہ کیا تم ان پر نالش کرنا چاہتے ہو میں نے کہا نہیں ۳۸۴ ہماری مجلس خدا نما مجلس ہے.جو صحت نیت سے ہماری مجلس میں رہے گا دہریہ بھی ہو گا تو خدا پر ایمان لے آئیگا ۵۵ ہمارے گروہ کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی ترقی دی ہے اور وہ پارسا خدا ترس اور دین کے لئے بدل وجان کوشش کرنے
46 والے ہیں ۲۰۵ح ہمارے گروہ میں عوام کم اور خواص زیادہ ہیں.بہت سے سرکاری عہدے داران بھی شامل ہیں ۲۰۴ح میری جماعت میں بڑے بڑے معزز اسلام داخل ہیں ۱۴ح آپ کے مریدوں اور ماننے والوں کی دس ہزار تعداد مندرجہ کتاب البلاغ ۴۲۲ پشاور سے لے کر بمبئی کلکتہ اور حیدر آباد دکن اور بعض دیار عرب تک ہمارے پیرو دنیا میں پھیل گئے ۲۰۴ح مخلصین سلسلہ کے اسماء جن کی فہرست گورنمنٹ کو ارسال کی گئی ۳۵۰تا۳۵۷ ہماری تو یہی دعا ہے کہ خدا اس گورنمنٹ محسنہ کو جزائے خیر دے اور اس سے نیکی کرے ۳۴۱ انصاف پسند حکام کے لئے دعا ۳ راولپنڈی کے بزرگ جس نے معذرت کا خط لکھا اس کے لئے دعا خیر اور معافی کا اعلان ۱۱۸ مارٹن کلارک کے آزار کو حوالہ خدا کرتا ہوں ۳ مخالفت و اعتراضات آنحضورؐ کے بعد کم ہی کسی کو میرے جتنا حصہ تکفیر و آزار ملا ۲۰۱ح فتنہ تکفیر سے آنحضورؐ کی پیشگوئی پوری ہوئی کہ امام موعود کی تکفیر ہو گی ۲۰۳ح آپ کی مخالفت اور شان میں گستاخی کرنے والوں کا ذکر اور مثالیں ۱۴۶تا۱۵۲ قتل لیکھرام کا الزام از محمد حسین بٹالوی ۳۹،۴۰ محمد حسین بٹالوی مباحثہ لدھیانہ میں میرے سے عاجز آ گیا جس کی وجہ سے مقدمہ قتل میں عیسائیوں کا ساتھ دیا ۱۰۹ انجمن حمایت اسلام اور ان کے حامیوں کا کہنا کہ سخت الفاظ آپ کی طرف سے ظہور میں آئے ہیں ۳۸۷ ایڈیٹر پیسہ اخبار اور ابزرور نے آپ پر الزام لگانا چاہا کہ گویا مذہبی تفرقہ کی تخمریزی آپ کی طرف سے ہوئی ۴۰۶ح پیسہ اخبار ۱۴مئی ۱۸۹۸ء میں حضور کی نسبت بتائید میموریل انجمن حمایت اسلام چند خلاف واقعہ باتیں لکھیں ان کی وضاحت ۴۰۶ مرزا صاحب نے اگرسرمہ چشم آریہ نہ لکھا ہوتا تو لیکھرام تکذیب براہین احمدیہ میں سخت گوئی نہ کرتا اعتراض اور اس کا جواب ۴۱۷ کتاب امہات المومنین روکنے کی درخواست گورنمنٹ کو کی اس اعتراض کا جواب ۴۱۶ مرزا صاحب کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں کہ وہ ایک ملا یا مولوی یا مناظر یا مجادل ہیں انہیں مسلمانوں کا معتمد علیہ بننے کا کوئی حق حاصل نہیں ۴۲۰ ڈاکٹر مارٹن کلارک کے قتل کے الزام کا مقدمہ ۲۳.اگست ۱۸۹۷ء کو خارج کیا گیا ۱ اخبار چودھویں صدی میں حضور کا استہزاء کیا گیا ۳۳۱ انگریزی گورنمنٹ کی خیرخواہی اور خوشامد کا اعتراض اور اس کا جواب ۳۳۴ زٹلی کے خلاف میموریل بھیجنے کا اعتراض از پنجاب ابزرور ۴۲۶ سلطنت انگریزی کو سلطان روم پر ترجیح دینے کا الزام ۱۰ سلطان روم سے کینہ اور انگریزوں کی خوشامد کے اعتراض کا جواب ۳۲۵ ڈاکٹر مارٹن کلارک کا الزام کہ حضور کا وجود گورنمنٹ کے لئے خطرناک ہے ۳ بعض مخالفین کا افترا کہ ڈپٹی کمشنر بہادر نے آئندہ پیشگوئیاں کرنے سے خاص ڈرانے والی سے منع کر دیا ہے ۱۰ح کتب(جن کا ذکر اس جلد میں ہے) آریہ دھرم ۸،۳۱۳،۳۴۲ آسمانی فیصلہ ۳۱۳ آئینہ کمالا ت اسلام ۸،۱۰۰،۱۰۳،۱۷۶،۳۱۳،۳۴۲ اتمام الحجۃ ۳۱۳،۳۴۲،۴۰۵ ازالہ اوہام ۱۰۰،۱۱۵،۳۱۳
47 البلاغ (فریا د درد) ۳۶۷ انجام آتھم ۹،۱۷۶،۱۹۵،۳۴۲ ایام الصلح ۴۰۵ براہین احمدیہ ۸،۱۰۰،۱۰۳،۱۶۲ح،۱۷۹ح، ۲۰۲،۲۰۳، ۳۰۸ح، ۳۰۹ح، ۳۱۰ح، ۳۱۳،۳۳۰،۳۴۲،۳۸۶،۳۸۷،۴۰۵ برکات الدعا ۳۱۳ تحفہ بغداد ۱۰۰،۳۱۳ تحفہ قیصریہ ۹، ۳۱۳، ۳۴۲ توضیح مرام ۳۱۳،۵۱۵ حمامۃ البشریٰ ۹،۳۱۳،۳۴۲،۴۰۵ ست بچن ۹،۱۵۲،۳۱۳ح،۳۴۲ سراج منیر ۹،۳۱۳ح،۳۴۳،۳۶۳ سرالخلافہ ۹،۳۱۳ح،۳۴۲،۴۰۵ سرمہ چشم آریہ ۳۱۳ح،۴۰۵،۴۱۷تا۴۱۹ شحنہ حق ۳۱۳ح شہادۃ القرآن ۹،۳۱۳ح،۳۴۲ ضرورۃ الامام ۴۷۱ فتح اسلام ۳۱۳،۵۱۵ کتاب البریہ ۱،۱۱،۴۰۵،۴۲۸ کرامات الصادقین ۴۰۵ نشان آسمانی ۳۱۳ نور الحق ۸،۳۴۲،۴۰۵ نور القرآن ۳۱۳،۴۰۵ حضور کی طرف سے شائع ہونے والی کتب کی تفصیل بیان شدہ کتاب البریہ ۳۱۳ح آپ کی کتب موجودہ کی فہرست مع قیمت ۳۲۴ متفرق کپتان ڈگلس کی عدالت میں حضور کا بیان ۲۰۶،۲۷۹ مقدمہ قتل میں انصاف ملنے پر محسن گورنمنٹ کا شکر ادا کرنا ۳۱۰ اپنے اور جماعت کے حالات پر مبنی تحریر جو لیفٹیننٹ گورنر بہادر کو بھجوائی گئی ۳۳۷تا۳۵۷ گورنمنٹ انگریزی کی تائید میں حضور کی تحریرات کی تفصیل ۳۴۲ سر سید احمد خان تین باتوں میں میرے موافق رہے (۱)وفات مسیح (۲) انگریزی گورنمنٹ کے حقوق (۳) کتاب امہات المومنین کے رد لکھنے میں ۴۰۲ حضور کے نام حسین کامی کا خط جس میں ملاقات کیلئے درخواست کی گئی ۳۲۳ تکمیل تبلیغ مع شرائط بیعت میں مندرج بعض شرائط ۳۴۷ اشتہار ۲۵ جون ۱۸۹۷ء ۳۲۵تا۳۳۶ آپ کے اشعار چوں مرا حکم از پئے قوم مسیحی دادہ اند ۲۵۵ح غلام امام صاحب مولوی عزیز الواعظین منی پور آسام ۳۵۶ غلام نبی صاحب شیخ تاجر راولپنڈی ۳۵۵ غلام حسین صاحب رہتاسی، میاں ، قادیان ۳۵۶ غلام حسین صاحب قاضی کلرک دفتر ایگزیمنر ریلوے لاہور ۳۵۶ غلام حسین صاحب مولوی سب رجسٹرار پشاور ۳۵۳ غلام حسین صاحب مولوی ، لاہور ۳۵۷ غلام حیدر خان صاحب راجہ رئیس یاڑی پورہ کشمیر ۳۵۷ غلام حیدر صاحب منشی ڈپٹی انسپکٹر نارووال ۳۵۲ غلام دستگیر صاحب میاں، سلوتری میلاپور مدراس ۳۵۴ غلام رسول صاحب مرزا ٹیلی گراف آفس کراچی ۳۵۱ غلام علی صاحب مولوی ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ بندوبست ۳۵۲ غلام قادر مرزا ، برادر حضور اقدسؑ ۳۳۸،۳۳۹،۳۴۹،۵۱۴
48 سرکار انگریزی کی طرف سے لڑائی میں شریک ۵ رابرٹ ایجرٹن فنانشل کمشنر پنجاب کی طرف سے آپ کو آپ کے والد کی وفات پر تعزیتی خط ۷ غلام قادر صاحب میاں پٹواری مرحوم، سنور ۳۵۷ غلام محمد صاحب بابوسٹیشنری کلرک ریلوے لاہور ۳۵۱ غلام محمد صاحب ماسٹربی ا.ے سیالکوٹ ۳۵۱ غلام محمد صاحب منشی دفتر پولیٹیکل ایجنٹ گلگت ۳۵۲ غلام محی الدین صاحبعرضی نویس جہلم ۳۵۶ غلام محی الدین صاحب بابو گڈز کلرک پھلور ۳۵۱ غلام محی الدین صاحب حافظ بھیروی قادیان ۳۵۷ غلام محی الدین خان صاحب خلف ڈاکٹر بوڑے خان صاحب قصور ۳۵۷ غلام محی الدین صاحب خواجہ سوداگر پشمینہ کلکتہ ۳۵۵ غلام مرتضیٰ صاحب قاضی پنشنر اکسٹرا اسسٹنٹ مظفرگڑھ ۳۵۱ غلام مرتضیٰ ، حضرت مرزا ، والد حضرت اقدس ؑ ۱۶۲ح،۳۴۹،۵۱۴ رؤیا میں آنحضورؐ کو دیکھنا ۱۹۰ح اپنے بیٹے کو دلی یقین سے برّاًبِالْوَالِدَین جانتے تھے اور صرف رحم کے طور پر دنیاوی امور کی طرف توجہ دلاتے ۱۸۴ح آپ حاذق طبیب تھے.حضور نے بھی آپ سے طبابت کی بعض کتب پڑھیں ۱۸۱ح آپ نے بہت مصائب دیکھے.ایک دفعہ ہندوستان کا پیادہ پا سیر بھی کیا ۱۷۷ح آپ کا کہنا کہ جس قدر سعی میں نے پلید دنیا کے لئے کی اگر دین کیلئے کرتا تو شاید آج قطب وقت یا غوث وقت ہوتا ۱۸۸ح اپنے والد صاحب کا شعر پڑھنا کہ جب تدبیر کرتا ہوں تو پھر تقدیر ہنستی ہے ۱۹۰ح رقت کے ساتھ اپنے شعر بھی پڑھا کرتے تھے کہ از در تو اے کس ہر بیکسے ۱۸۹ح اپنی خاندانی جائیداد حاصل کرنے کے لئے مقدمات کئے ۱۸۲ح مقدمات میں ناکامیوں کی وجہ سے اکثر مغموم و مہموم رہتے تھے ۱۸۷ح پیروی مقدمات میں ستر ہزار کے قریب روپیہ خرچ کیا جس کاانجام آخر ناکامی تھی ۱۸۷ح حضور کی پیدائش کے بعد آپ کی تنگی کا زمانہ فراخی میں بدل گیا ۱۷۸ح رنجیت سنگھ کی سلطنت کے آخری زمانہ میں واپس قادیان آئے اور پانچ گاؤں واپس ملے ۱۷۵ح سرکار کے سچے وفادار اور نیک نام رئیس تھے ۳۳۸،۳۳۹ ۱۸۵۷ء میں انہوں نے سرکار انگریزی کی خدمت گزاری میں پچاس گھوڑے مع پچاس سواروں کے اپنی گرہ سے خرید کر دئیے تھے ۴،۱۷۷ح مشہور رئیس تھے اور گورنر جنرل کے دربار میں بزمرہ کرسی نشین رئیسوں میں ہمیشہ بلائے جاتے تھے ۴، ۱۷۶ح،۳۳۹ آپ کی وفات پر رابرٹ ایجرٹن فنانشل کمشنر کا مرزا غلام قادر صاحب کے نام مراسلہ ۳۳۸ کمشنر بہادر لاہور رابرٹ کسٹ کا مراسلہ آپ کے نام اس کی نقل ۵،۶ جے.ایم ولسن کی طرف سے آپ کے نام مراسلہ کی نقل ۴ح وفات سے چھ ماہ قبل مسجد تعمیر کروائی اور وصیت کی کہ مسجد کے ایک گوشہ میں میری قبر ہو تا خدا کا نام میرے کان میں پڑتا رہے ۱۹۱ح مسجد مکمل ہونے پر چند روز بیمار رہ کر وفات پائی ۱۹۱ح غلام مصطفی صاحب مولوی پروپرائٹر شعلہ نور پریس بٹالہ ۳۵۶ غیا ث الدولہ سلطنت مغلیہ کا وزیر جو قادیان آیا اور مرزا گل محمد کے زہد و تقویٰ سے متاثر ہو کر گیا اور کہا کہ اس کو تخت دہلی پر بٹھایا جائے ۱۶۸ح
49 ف.ق.ک.گ فارقلیط ۶۶ فتح الدین صاحب حافظ نمبر دار مرار ریاست کپور تھلہ ۳۵۴ فتح محمد صاحب بزدار منشی اسسٹنٹ پوسٹ ماسٹر ڈیرہ اسماعیل خان ۳۵۲،۵۰۱ فتح محمد صاحب شیخ ڈپٹی انسپکٹر کشتواڑ(کشمیر) ۳۵۲ فتح محمد صاحب مولوی مدرس خانقاہ ڈوگراں ۳۵۳ فرزند علی صاحب سید ملازم پولس الٰہ آباد ۳۵۲ فرید الدین گنج شکر.پاک پٹن ۹۲ فضل احمد بچپن میں حضور کے عربی کے استاد ۱۸۰ح فضل احمد صاحب حافظ ایگزیمنر آفس لاہور ۳۵۲ فضل الدین صاحب حاجی حافظ رئیس بھیرہ ۳۵۴ فضل الدین حضرت حکیم بھیروی ۴۴،۲۲۱ فضل الرحمن صاحب مفتی رئیس بھیرہ ۳۵۴ فضل الٰہی بچپن میں حضور کے قرآن شریف اور فارسی کے استاد ۱۸۰ح فضل الٰہی صاحب حکیم رئیس کوٹ بھوانی داس ۳۵۴ فضل الٰہی صاحب میاں نمبردار فیض اللہ چک ۳۵۶ فضل بیگ صاحب مرزا ،مختار عدالت قصور ۳۵۳ فضل حسین صاحب مولوی احمد آبادی.جہلم ۳۵۶ فضل شاہ صاحب سید ٹھیکیدار دومیل سڑک کشمیر ۳۵۵ فضل محمد صاحب مولوی ہرسیاں گورداسپور ۳۵۷ فضیلت علی شاہ صاحب ڈپٹی انسپکٹر گوجرانوالہ ۳۵۱ فلپ سڈنی، سر ۹۸ الزبتھ کے زمانہ میں قلعہ ذٹفن ملک ہالینڈ کے محاصرہ میں زخمی ہوا تو پانی کے بارہ میں ایثار کا نمونہ ۹۶ فنڈ ل پادری ۳۱۸،۳۸۸ فیض احمد صاحب ڈاکٹر ۳۵۶ فیض قادر صاحب ڈاکٹر ، ویٹرنری اسسٹنٹ کپورتھلہ ۳۵۲ فیاض علی صاحب منشی کپورتھلوی ۳۵۱ قادر بخش صاحب حافظ حکیم ۳۵۶ قادر بخش صاحب ماسٹر مدرس لدھیانہ ۳۵۱ قادر علی صاحب منشی کلرک مدراس ۳۵۳ قائم الدین صاحب منشی بی.اے سیالکوٹ ۳۵۱ قطب الدین صاحب ، میاں مس گر.ا مرتسر ۳۵۵ قطب الدین ۲۱۳،۲۱۷،۲۲۳،۲۲۹ قطب الدین صاحب میاں کوٹلہ فقیر جہلم ۳۵۶ قطب الدین صاحب مولوی واعظ اسلام بدوملی ۳۵۵ قطب الدین بختیار کاکی ۹۲ قمر الدین صاحب پیرزادہ تحصیلدار راولپنڈی ۳۵۱ قمر الدین صاحب منشی مدرس آریہ سکول لدھیانہ ۳۵۴ کرشن علیہ السلام ۶۱،۴۱۸ کرم الٰہی صاحب شیخ کلرک ریلوے پٹیالہ ۳۵۳ کرم الٰہی شیخ ایجنٹ شیخ محمد رفیع برادر جنرل مرچنٹ لاہور
50 کرم الٰہی صاحب قاضی ڈاکٹر ، لاہور ۳۵۳ کرم الٰہی صاحب منشی مدرس نصرت اسلام لاہور ۳۵۶ کرم الٰہی صاحب میاں کانسٹیبل پولیس لدھیانہ ۳۵۶ کریم بخش صاحب ڈاکٹرہاسپیٹل اسسٹنٹ ۳۵۷ کریم اللہ صاحب میاں سارجنٹ پولیس جہلم ۳۵۲ کریم بخش صاحب میاں جمالپوری ۳۵۷ کریون، پادر ی مہتمم شمس الاخبار لکھنو ۱۳۱ کلارک، ڈاکٹر ہنری مارٹن ۱،۱۰،۳۲،۳۳،۴۵،۴۶،۱۲۱،۱۵۲،۱۵۷،۱۵۸،۱۵۹،۱۶۰،۱۶۵ ۱۶۷،۱۶۹،۲۰۲، ۲۰۸، ۲۱۶،۵۱۱ محض ظلم اور جھوٹ کی راہ سے اپنے بیان میں حضور کے چال چلن پر حملہ کیااور حضور ک گورنمنٹ کے خلاف خطرناک قرار دیا ۳ اس کی غلط بیانی کہ حضور نے اس کے خلاف سخت الفاظ استعمال کئے ہیں ۱۳ عدالت میں حضور کے بارہ میں شکایت کی کہ سخت الفاظ سے ہم پر حملہ کرتا ہے ۱۵۳ مقدمہ قتل میں انجیل کی جھوٹی قسمیں کھائیں اور مقدمہ آتھم میں کہا کہ ہمارے مذہب میں قسم کھانا درست نہیں ۵۶،۵۷ اے ای مارٹینو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرتسر کی عدالت میں بیان ۱۶۱ کپتان ایم ڈبلیو ڈگلس کی عدالت میں مقدمہ قتل کے سلسلہ میں بیان ۱۶۹،۲۷۱ ۲۳.اگست ۱۸۹۳ء کو کلارک نے بیان کیا کہ وہ مقدمہ قتل میں مستغیث ہونے سے دستبردار ہوتا ہے ۲۸۲ مقدمہ قتل میں محمد حسین بٹالوی کلارک کا گواہ بن گیا ۲۷ کمال الدین ، خواجہ بی.اے ایل ایل بی پلیڈر ۴۴،۳۵۳ کنھیالعل الکھ دھاری ۳۸۶ گامے خان صاحب سوار رسالہ نمبر۱۲سرحد ۳۵۱ گرے، پادری ۴۶،۳۰۵ گل محمد مرزا، حضور ؑ کے پردادا ۱۶۲ح مشائخ وقت بزرگ لوگوں میں سے اور صاحب خوارق و کرامات تھے ۱۶۷ح سلطنت مغلیہ کا وزیر غیاث الدولہ جو قادیان آیا اور آپ کے زہد سے متاثر ہوا اس نے کہا ان کو تخت دہلی پر بٹھایا جائے ۱۶۸ح خود مختار رئیس تھے پانچ سوآدمی ان کے دستر خوان پر روٹی کھاتے اور ایک سو کے قریب علماء ، صلحا اور حفاظ ان کے پاس تھے ۱۶۵،۱۶۶ح آپ کے ۸۵ گاؤں تھے جو سکھوں کے حملوں سے ان کے قبضہ سے نکل گئے ۱۶۵ح ہچکی کی بیماری میں بعض اطباء نے کہا کہ تھوڑی سی شراب سے شفا ہو سکتی ہے آپ نے اس پلید چیز کو استعمال سے انکار کر دیا.اسی بیماری سے آپ کی وفات ہوئی ۱۶۹،۱۷۰ح گل علی شاہ حضور کے استاد جن سے آپ نے نحو منطق اور حکمت پڑھی ۱۸۱ح گلاب خان صاحب منشی.سب اوورسیر ۳۵۲ گلاب دین صاحب منشی رہتاس.جہلم ۳۵۱ گلاب شاہ صاحب مجذوب ۳۵۷ گنگا بشن ۱۷۷ گوہر علی صاحب منشی سب پوسٹ ماسٹر جالندھر ۳۵۱ ل.م.ن لقمان عبدالحمید مدعی قتل کا چچا ۱۶۰،۲۰۸،۲۱۰،۲۱۱،
51 لیپل گریفن، سر ۳۴،۳۴۹ اپنی کتاب تاریخ رئیسان پنجاب میں حضور کے خاندان کا تذکرہ ۳۳۹ کتاب رئیسان پنجاب میں حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کا ذکر کیا ہے ۱۷۷ح لیکھرام پشاوری ، پنڈت ۱۱،۳۵،۳۸،۴۰،۴۱،۱۱۰،۱۱۱،۱۶۴،۱۷۲،۱۷۴،۱۷۵،۱۷۶،۱۷۷،۱۷۸ ۱۸۸،۱۹۸، ۲۰۳، ۲۰۶،۳۳۰، ۳۸۸،۴۱۷،۵۰۹،۵۱۰،۵۱۱ اللہ تعالیٰ،آنحضور ؐ اور قرآن واحادیث کے بارہ میں لیکھرام کی بدزبانی ۱۴۱تا۱۴۵ ہماری لیکھرام سے کوئی ذاتی عداوت نہ تھی.یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا نشان تھا جو ظاہر ہوا ۳۹ قادیان تقریباً ایک ماہ رہا اور ایک دن بھی بدزبانی سے باز نہ آیا ۴۰۷ح لیکھرام کے بارہ جو پیشگوئی کی گئی اس کا باعث وہ خود تھا ۴۰۶ح اس کی بدزبانی اور آنحضورؑ کی گستاخی سے باز نہ آنے پر اللہ سے اس کے لئے نشان مانگا ۴۰۸ لیکھرام نے حضورؐ کی نسبت اشتہار شائع کیا کہ تین سال میں ہیضہ سے موت ہو گی ۴۰۹ح مجھ سے کوئی نشان اور معجزہ مانگتا اور ٹھٹھہ کرتا ۴۰۸ح اگر کسی مرید سے قتل کروایا تو کیا ایسا شخص پھر مرید رہ سکتا ہے ۳۹ محمد حسین بٹالوی اگر ہندوؤں کا خیرخواہ ہے تو لیکھرام کے قاتل کا نام ہندو ملہمین سے معلوم کرے ۳۷ لیمار چنڈ ، کپتان ڈی ایس پی گورداسپور ۲ عدالت ڈگلس میں اس کا بیان ۲۷۲ عقلمندی سے فی الفور سمجھ گیاکہ مقدمہ قتل ایک جھوٹا منصوبہ ہے ۳۱۱ مارٹن کلارک دیکھئے کلارک مارٹینو اے.ای ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرتسر ۱۶۱ جس کی عدالت میں حضور کے خلاف مقدمہ قتل کا ابتدائی بیان ہوا ۱۵۷ حضور کے وارنٹ جاری کرنا اور پھر وارنٹ روک دینا کہ یہ میرے اختیار میں نہیں ۱۶۵،۱۶۶ مارک بے انگریز مصنف ۸۷ح مالکؒ ، امام ۳۵۹،۴۹۶ آپ وفات مسیح کے قائل ہیں ۲۲۱ح مبارک علی صاحب ، ابویوسف ، چھاؤنی سیالکوٹ ۳۵۵ محبوب علی صاحب ڈاکٹر ، ہاسپیٹل سیالکوٹ ۳۵۳ محمد مصطفی احمد مجتبیٰﷺ قرآن کریم نے آ پ کا نام خاتم النبیین رکھا ہے ۲۱۹ح خدا تعالیٰ کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ پیارا جناب محمد مصطفےٰؐ ہے ۱۵۵ آپؐ مثیل موسیٰ ہیں.آپؐ کا سلسلہ خلافت حضرت موسیٰ کے سلسلہ کے مشابہ ہے ۲۵۵ح آپؐ کو سب سے زیادہ دل کی صفائی دی گئی تھی ۵۰۰ آپؐ کے ظہور کے وقت ہزاروں راہب اور اہل کشف تھے جو نبی آخر الزمان کے قرب ظہور کی بشارت سنایا کرتے تھے ۴۷۵ عیسائی مؤلف کا کہنا کہ جس قدر معزز گواہیاں اور سندیں نبی اسلامؐ کے لئے پیش کی جا سکتی ہیں ایسی گواہیاں یسوع کے معجزات کے لئے نہیں پیش کی جا سکتیں ۹۱ آپؐ کے وعظ اور تعلیم نے ہزاروں مردوں میں توحید کی روح پھونک دی اور ہزارہا آسمانی نشان دکھائے ۱۵۴ آپ کی سچائی ہمیشہ تازہ اور کبھی نہ خشک ہونے والی کرامات ہیں ۱۵۶،۱۵۷ح آسمان سے نشان ظاہر ہو رہے ہیں اور یہ سب برکات ہمارے نبی ﷺ کی ہیں ۱۵۷ آپؐ کے زمانہ سے آج تک ہر صدی میں ایسے باخدا لوگ ہوتے رہے جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ غیر قوموں کو آسمانی نشان دکھا کر ہدایت دیتا رہا ہے
52 قرآن کریم نے آنحضرت ؐ کو خاتم الانبیاء قرار دیا ہے جبکہ مخالفین حضرت عیسیٰؑ کو خاتم الانبیاء ٹھہراتے ہیں ۲۲۴ح علماء کا عقیدہ کہ آپ خاتم الانبیاء بھی ہیں اور آپ کے بعد ایک نبی عیسیٰ بھی آئے گا ۲۰۷ح یسوع کی نسبت الہامات سے آپؐ کی خدائی بدرجہ اولیٰ ثابت ہوتی ہے ۱۰۵ آپؐ نے آنے والے موعود کیلئے پیشگوئی کی تھی کہ اس کی تکفیر ہو گی ۲۰۳ح آپؐ کی پیشگوئی کہ صلیبی خیالات کے بطلان اور ان کو توڑنے کے لئے اللہ تعالیٰ آسمانی مسیح پیدا کرے گا ۲۱۷ح آپؐ کی پیشگوئی کہ مسیح موعود چودھویں صدی کے سر پر ظہور کرے گا ۲۰۷ آپؐ کے معجزات کی دو اقسام اول آپؐ کے ذریعہ ظہور ہونے والے معجزات دوسرے آپؐ کی امت کے ذریعہ ظاہر ہونے والے معجزات ۱۵۴ح آپؐ کے معجزات صرف قصوں کے رنگ میں نہیں بلکہ ہم آپؐ کی پیروی کر کے خود ان نشانوں کو پالیتے ہیں اور مشاہدہ کے ذریعہ حق الیقین تک پہنچ جاتے ہیں ۱۵۶ح آپؐ کے ذریعہ ظاہر ہونے والے معجزات کی تعداد تین ہزار کے قریب ہو گی ۱۵۴ح واقعہ غار ثور جب آپؐ اعجازی طور پر دشمن سے محفوظ رہے ۲۶ آپؐ سے سچی محبت اس میں ہے کہ ہم آپؐ کا دامن اعتراضوں سے پاک کریں ۳۸۳ آپؐ کی شان میں گستاخی سے ہمارے دل کو بہت دکھ پہنچا ہے ۱۱۹ آپؐکی شان میں پادریوں کی گستاخیاں اور گالیاں ۱۲۰تا۱۲۲ آپؐ کی شان میں ہندوؤں اور آریوں کی گستاخی اور بدزبانی ۱۳۱ پادریوں اور آریوں کی طرف سے آپؐ کی شان میں گستاخی اور دل آزاری کی حکومت کو شکایت ۱۲۰ عیسائی پادریوں نے آپؐ کے خلاف انتہائی سخت اور گندے الفاظ استعمال کئے ۳۸۵ کتاب امہات المومنین میں آپؐ کے خلافت سخت زبان استعمال کی گئی ۳۴۵ راجندر سنگھ ایڈیٹر و مالک اخبار خالصہ بہادر کی آنحضورؐ کے بارہ میں بدزبانی ۱۵۱ پادریوں اور آریوں کی طرف سے تحقیر کے کلمات پر مشتمل کتب شائع کر کے طلبہ کو پڑھنے کے لئے دی جاتی ہیں ۱۵۲ محمد صاحب بابو.کلر ک محکمہ انہار انبالہ ۳۵۱ محمد لدھیانوی، مولوی ۱۴۹ محمد ابراہیم صاحب منشی تاجر گبرون لدھیانہ ۳۵۵ محمد ابراہیم صاحب ، مولوی آف آرہ ۳۶۹ محمد احسن صاحب امرو ہوی ،سید ، مولوی ۳۵۳ محمد اسحاق صاحب حافظ اوورسیئر یوگنڈ ا ریلوے ۳۵۱ محمد اسماعیل خان حاجی ، رئیس دتا ولی حضور کو اپنی کتاب کیلئے مختصر سوانح لکھنے کی درخواست ۱۵۸ح محمد اسماعیل خان صاحب ڈاکٹر مشرقی افریقہ ۳۵۱ محمد اسماعیل صاحب شیخ نقشہ نویس ریلوے دہلی ۳۵۲ محمد اسماعیل صاحب منشی نقشہ نویس کالکا ریلوے ۳۵۱ محمد اسماعیل صاحب مولوی وکیل فتح گڑھ ضلع فرخ آباد ۳۵۳ محمد اسماعیل صاحب میاں سوداگر پشمینہ امرتسر ۳۵۵ محمد اسماعیل صاحب میاں، سرساوہ ۳۵۷ محمد افضل صاحب بابوکلرک ممباسہ یوگنڈا ریلوے ۳۵۲ محمد افضل خان صاحب سوار رسالہ نمبر۱۲سرحد ۳۵۱ محمد افضل صاحب مولوی گملہ مولوی گجرات ۳۵۶
53 محمد اکبر صاحب ٹھیکیدار ، چوب میاں، بٹالہ ۳۵۴ محمد اکبر خان صاحب ،سنور پٹیالہ ۳۵۷ محمد اکبر خان صاحب سردار سابق تحصیلدار کانگڑہ ۳۵۴ محمد اکرم صاحب مولوی گملہ ضلع گجرات ۳۵۶ محمد الدین صاحب ملازم پولیس سیالکوٹ ۳۵۱،۳۵۷ محمد الدین صاحب منشی پٹواری بلانی تحصیل کھاریاں ۳۵۳ محمد امیر خان صاحب حاجی، مہتمم گاڑی شکرم سہارنپور ۳۵۶ محمد امین صاحب تاجر کتب جہلم ۳۵۵ محمد انوار حسین صاحب سید رئیس شاہ آباد ۳۵۴ محمد باقر خان صاحب قزلباش سردار ۳۵۴ محمد بخش صاحب تاجر ملتان ۳۵۵ محمد جان صاحب منشی تاجر وزیر آباد ۳۵۵ محمد جعفر تھانیسری، منشی حضورؐ کے بارہ میں بدزبانی ۱۴۹ محمد جلال الدین خان صاحب سردار آنریری مجسٹریٹ گوجرانوالہ ۳۵۳ محمد حسن خان صاحب رئیس سنور پٹیالہ ۳۵۷ محمد حسین بٹالوی، مولوی ابو سعید ۴۵،۴۷،۵۹،۱۱۰،۱۶۹ ۱۷۵،۱۷۶،۱۷۷،۱۹۸،۱۹۹،۲۲۹،۳۱۵، ۵۱۰تا۵۱۲ ایک خشک ملا بلکہ نیم ملا ہے ۳۳ اس کے والد رحیم بخش کا ذکر ۳۴ کپتان ڈگلس کی عدالت میں اس کا بیان گواہ منجانب مستغیث ۲۵۰ اپنی ناپاک حرکتوں سے تمام مولویوں کو بدنام کیا ۳۵ بٹالوی اگر میرے الہامات کو افترا سمجھتا ہے تو طریق آزمائش گورنمنٹ کے ذریعہ کروا لے کہ کوئی نشان مانگے اگر پیشگوئی وقت پر پوری نہ ہو تو گورنمنٹ یقین کر لے کہ میں جھوٹا ہوں ۳۸ اگر ہندوؤں کا خیر خواہ ہے تو لیکھرام کے قاتل کا نام ہندو ملہمین سے معلوم کرے ۳۷ اس کا ظلم کہ اللہ کے معجزہ بابت لیکھرام کو انسانی منصوبہ قرار دیا ۳۹ ہمیشہ گورنمنٹ کو دھوکہ دینے کیلئے جھوٹی باتیں لکھتا رہا ۴۰ یہ بالکل درست نہیں کہ غیر مقلد سب محمد حسین کے مقلد ہیں بلکہ بہت سے لوگ اس کے مخالف ہیں ۲۹ح ڈپٹی کمشنر کے سامنے لیکھرام کے قتل کا قصہ شروع کرنا ۳۷ حضور کی شان میں گستاخی اور بدزبانی کی مثالیں ۱۴۶،۱۴۷ حلفی شہادت کے مقام پر کھڑا ہو کر دو جھوٹ بولے ۳۳ ڈپٹی کمشنر نے لکھا کہ یہ شخص مرزا صاحب کا سخت دشمن ہے ۳۶ افسوس کہ بٹالوی نے مسلمان کہلا کر جھوٹے مقدمہ قتل کی تائید کی اور بڑے جوش سے کلارک کا گواہ بنا اور ذلت اٹھائی ۳۱۱ عیسائی پادریوں کی طرف سے ان کا رفیق بن کر حضور کے خلاف گواہی دینے آیا ۳۶ عیسائیوں کی طرف سے گواہی دینے میں اللہ کی دو حکمتیں ۳۶ مقدمہ قتل میں عیسائیوں کی کامیابی کا حریص تھا اور مارٹن کلارک کا گواہ بن گیا ۲۷ مقدمہ مارٹن کلارک کے دوران اقراری بیان کہ حضور انگریزی سرکار کے خیرخواہ ہیں ۱۰ اسے بد اندیشی کی سزا ملنا اورکچہری میں ذلیل ہونا ۳۰،۳۱ کچہری میں ذلت پہنچنا ۳۲،۳۳ عدالت میں کرسی نہ مل کر ذلت ہوئی پھر جس شخص کی چادر پر زمین پر بیٹھا اس نے اپنی چادر کھینچ لی ۳۵ عدالت میں کرسی کی بجائے جھڑکیاں ملیں ۳۷
54 اس کا کہنا کہ مجھے بھی کرسی ملتی ہے اور میرے باپ رحیم بخش کو بھی ملتی تھی.اس پر ڈپٹی کمشنر سخت ناراض ہوا اور کہا کہ بک بک مت کر ۲۹ محمد حسین یا اس کے باپ کو کبھی کرسی نہیں ملی ۳۴ پادریوں کے بھروسے پر بہت سبکی اٹھائی.میرے ساتھ بحث میں عاجز آنے کی وجہ سے مخالف ہو گیا ۱۰۹ ڈاکٹر کلارک نے بٹالوی کیلئے ڈپٹی کمشنر کو کرسی کیلئے درخواست کی لیکن منظور نہ ہوئی ۲۹ مقدمہ قتل میں گواہی کے وقت حضرت مسیح موعود کیلئے کرسی بچھائی گئی جبکہ بٹالوی کی ذلت ہوئی ۲۸ محمد حسین صاحب حکیم بھائی درواز ہ لاہور ۳۵۳ محمد حسین حکیم طبیب گوالیار ۳۵۶ محمد حسین صاحب مولوی ریاست کپور تھلہ ۳۵۶ محمد حیات صاحب سارجٹ پولیس سیالکوٹ ۳۵۷ محمد خان صاحب محرر جیل راولپنڈی ۳۵۷ محمد خان صاحب میاں ملازم ریاست کپورتھلہ ۳۵۱ محمد خان صاحب نمبردار جستروال ضلع امرتسر ۳۵۴ محمد دین صاحب میاں تاجر پرو پرائٹر شو میکنگ جموں ۳۵۵ محمد رضا الشیرازی الفروی شیعی حضور کے بارہ میں اس کی بدزبانی ۱۵۰ محمد رضوی صاحب سید وکیل ہائیکورٹ حیدرآباد دکن ۳۵۳ محمد رفیع شیخ برادر جنرل مرچنٹ لاہور ۳۵۵ محمد سعید صاحب منشی ٹیلیگراف ماسٹر ۳۵۳ محمد سعید میر ۱۷۳،۱۹۷ محمد سلطان صاحب چودھری تاجر و میونسپل کمشنر سیالکوٹ ۳۵۴ محمدسلطان صاحب میاں رئیس اعظم لاہور ۳۵۴ محمد صادق صاحب مفتی رئیس بھیرہ ۳۵۴ محمد صادق صاحب مولوی ملازم ہائی سکول جموں ۳۵۲ محمد صدیق صاحب مخدوم رئیس ضلع شاہ پور ۳۵۴ محمد عسکری خان صاحب سید مولوی رئیس کڑا ضلع الٰہ آباد ۳۵۰ محمد عظیم صاحب بابوکلرک دفتر ریلوے لاہور ۳۵۳ محمد علی ایم.اے مولوی ۴۴،۳۹۱ محمد علی خان صاحب نواب مالیر کوٹلہ ۳۵۰ محمد علی شاہ صاحب مدرس ۳۵۷ محمد علی صاحب منشی صوفی ملازم ریلوے لاہور ۳۵۱ محمد عمر صاحب میاں تاجر و رئیس شوپیاں کشمیر ۳۵۵ محمد فضل صاحب چنگوی مولوی ،راولپنڈی ۳۵۶ محمد قاری صاحب حافظ جہلم ۳۵۷ محمد ناظر حسین سید (ناظم الہند) ۳۲۳ محمد نصیر الدین صاحب منشی پیشکار ریونیو بورڈ حیدر آباد دکن ۳۵۱ محمد نواب خان صاحب میاں تحصیلدار جہلم ۳۵۱،۳۵۴ محمدیعقوب صاحب معلم یورپین ڈیرہ دون ۳۵۳ محمد یوسف بیگ صاحب مرزارئیس سامان پٹیالہ ۳۵۴ محمد یوسف خان عیسائی ۱۷۳،۱۷۴،۱۸۳،۱۹۵،۱۹۷،۲۱۹ محمد یوسف صاحب سیٹھ حاجی اللہ رکھا مدراس ۳۵۵ محمد یوسف صاحب قاضی ، قاضی کوٹ گوجرانوالہ ۳۵۶ محمد یوسف صاحب منشی نائب تحصیلدار کوہاٹ ۳۵۳
55 محمد یوسف صاحب مولوی مدرس سنور پٹیالہ ۳۵۷ محمو د حسن خان صاحب مولوی مدرس پٹیالہ ۳۵۴ مراد بخش صاحب ڈاکٹر، نیو میڈیکل ہال لاہور ۳۵۵ مردان علی صاحب میر مہتمم دفتر اکاؤنٹنٹ جنرل حیدر آباد دکن ۳۵۳ مرلی دھر ڈرائنگ ماسٹر ۴۱۸ مریم علیہ السلام ۸۹ مسیح اللہ خان صاحب ملازم ایگزیکٹو انجینئر ملتان ۳۵۷ مظاہر الحق صاحب سید رئیس اٹاوہ ۳۵۷ معراج الدین صاحب میاں رئیس لاہور ۳۵۴ معین الدین چشتی ۹۲ ملاکی نبی ۲۱۴،۲۲۸ح ایلیا کے دوبارہ آنے کی پیشگوئی کرنا ۲۱۱ح منصب علی صاحب سیدپنشنر الٰہ آباد ۳۵۱ منظور محمد صاحب پیر ، صاحبزادہ ۳۵۵ موسیٰ علیہ السلام ۴۲ کوہ سینا پر روزے رکھے ۸۰ توراۃ میں موسیٰؑ کے لئے الوہیم کا لفظ بھی آیا ہے ۹۴ آپ کوئی نیا مذہب نہیں لائے تھے بلکہ وہی تھا جو حضرت ابراہیم ؑ کو دیا گیا تھا ۳۹۷ آپ کی کتاب کے مخاطب صرف بنی اسرائیل ہیں ۸۵ آنحضورؐ مثیل موسیٰ ہیں اور آپؐ کا سلسلہ خلافت حضرت موسیٰ کے سلسلہ خلافت سے بالکل مشابہ ہے ۲۵۵ح آپ کو تائیدکیلئے حضرت عیسیٰؑ کی آمد کا وعدہ ملنا ۲۵۵.۲۵۶ح حضرت یوسف کی ہڈیاں ان کی وفات کے چار سوبرس بعد کنعان کی طرف لے گئے ۲۶۶ح آپ کی والدہ کو بھی الہام ہوا ۴۷۳ بلعم جو کہ ولی تھا لیکن آپ کے مقابل آ کر ہلاک ہو گیا ۴۸۲ موسیٰ صاحب سیٹھ جنرل مرچنٹ وکیشن ایجنٹ ۳۵۵ مولا بخش صاحب شیخ سوداگر چرم ڈنگہ ۳۵۵ مولا بخش صاحب منشی کلرک ریلوے لاہور ۳۵۲ مولا داد صاحب میاں سروئیر ریلوے ۳۵۳ مہا دیو ۶۱ مہتاب الدین صاحب بابو ریلیونگ سٹیشن ماسٹر نارتھ ویسٹرن ریلوے ۳۵۳ مہر علی رئیس، شیخ ہوشیارپور ۱۷۸،۴۱۸ مہدی بغدادی صاحب حاجی انڈیگو مرچنٹ مدراس ۳۵۵ ناصر شاہ صاحب سید سب اوورسیئر کشمیر ۳۵۱ ناصر نواب صاحب میر پنشنر نقشہ نویس ۳۵۳ نانک، باوا گورو ۴۱۹ چولہ صاحب میں باوا صاحب لکھ گئے ہیں کہ اسلام کے سوا کوئی مذہب صحیح اور سچا نہیں ۴۹۲ نبی بخش صاحب چودھری سارجنٹ پولیس سیالکوٹ ۳۵۱ بخش صاحب چوہدری رئیس بٹالہ ۳۵۴ نبی بخش صاحب منشی ہیڈ دفتر ایگزیمز ریلوے لاہور ۳۵۰ نبی بخش صاحب میاں تاجرپشمینہ و رفو گرامرتسر ۳۵۴ نجم الدین صاحب میاں تاجر کتب بھیرہ ۳۵۷ نذیرحسین دہلوی مولوی ۳۳ حضرت مسیح موعو د کے بارہ میں بدزبانی اور فتاویٰ تکفیر ۱۴۶ نظام الدین دہلوی
56 نظام الدین صاحب ملاکتب فروش لدھیانہ ۳۵۷ نظام الدین صاحب مولوی رنگ پور ضلع مظفرگڑھ ۳۵۷ نعمت علی صاحب خطیب اپیل نویس بٹالہ ۳۵۶ نواب الدین صاحب منشی ہیڈ ماسٹر دینانگر ۳۵۲ نوح علیہ السلام ۳۹۷ نور احمد صاحب بابو اسٹیشن ماسٹر ٹائی پور ۳۵۱ نور احمد صاحب شیخ سوداگر چرم مدراس ۳۵۵ نور الدین، حضرت حافظ حکیم مولانا ۴۴،۱۶۰،۱۸۱،۱۸۶،۱۹۳،۲۰۴،۲۰۷،۲۰۹،۲۲۱،۲۲۴،۳۵۴، ۳۵۷، ۵۱۵ آپ کی بیعت کی فضیلت اور آپ کے دل میں ہزارہا قرآنی معارف کا ذخیرہ ہے اور اخلاص کا تذکرہ ۵۰۰ ہمارے معزز دوست مولوی حکیم نور الدین صاحب کا تمام کتب خانہ ہمارے ہاتھ میں ہے ۳۷۴ آپ کی کتب فصل الخطاب اور تصدیق براہین احمدیہ اور ان کی قیمت ۳۲۴ کپتان ڈگلس کی عدالت میں آپ کا بیان ۲۴۲ نور الدین صاحب بابونقشہ نویس پبلک ورکس گوجرانوالہ ۳۵۶ نور الدین جموں، حضرت خلیفہ ۴۴،۳۵۵ نور الدین صاحب منشی ڈرافٹسمین گوجرانوالہ ۳۵۱ نور الدین عیسائی ۴۶ کپتان ڈگلس کی عدالت میں بطور گواہ مستغیث ۲۸۱ نور محمد صاحب حافظ فیض اللہ چک ۳۵۷ نور محمد صاحب ڈاکٹر ایڈیٹر رسالہ ہمدرد صحت لاہور ۳۵۵ نور محمد صاحب حکیم مولوی مالک شفاخانہ نوری، لاہور ۳۵۵ نیاز بیگ صاحب مرزا پنشنر ضلعدار رئیس کلانور ۳۵۲ نیاز علی صاحب منشی سارجنٹ پولیس سیالکوٹ ۳۵۷ و.ہ.ی وارث دین عیسائی ۳۳،۵۶،۱۹۲ مقدمہ قتل کی سازش میں شریک ۲۷ کپتان ڈگلس کی عدالت میں اس کا حلفیہ بیان ۲۷۴ وارث دین شیخ ۲۵۵ واشنگٹن ارونگ آنحضور کی شان میں گستاخی کرنا ۱۲۱،۱۲۷ وزیر خان صاحب منشی سب اوورسیئر بلب گڑھ ۳۵۲ وزیر الدین صاحب مولوی مدرس کانگڑہ ۳۵۲ ولسن ، جے.ا یم کمشنر لاہور آپ کا مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کے نام مراسلہ ۴،۳۳۹ ولی اللہ شاہ دہلوی ۹۲ کشف میں آنحضور ؐ کو دیکھنا ۵۰۰ح ولیم پادری ریواڑی مصنف ’’محمد کی تاریخ کا اجمال،، ۱۲۵ ہادی بیگ مرزا مورث اعلیٰ حضرت مسیح موعود ؑ ۱۷۲ ہاشم علی صاحب منشی، برنالہ ۳۵۶ ہدایت اللہ صاحب شیخ تاجر پشاور ۳۵۶ ہنٹرولیم.سرسید نے اس کے اعتراضا ت کا جواب دیا ۴۰۱ یحییٰ علیہ السلام نیز دیکھئے ایلیا ۴۳،
57 ذکریا کے بیٹے مثیل ایلیا تھے ۲۱۲ح مسیح نے تاویل کی کہ ایلیا یوحنا یعنی ذکریا کا بیٹا ہے ۲۳۰ح ایلیا کا نزول یحییٰ کی صورت میں ہوا ۳۶۲ آپ کا ایک فرقہ بلادشام میں موجود ہے جو عیسائی عقیدہ کے مخالف ہے ۵۲ یعقوب علیہ السلام ۳۸،۲۶۸ح یعقوب بیگ مرزا صاحب ڈاکٹر ہاوس سرجن ۳۵۲ یعقوب علی صاحب شیخ ایڈیٹر اخبار الحکم قادیان ۳۵۵ یوسف علیہ السلام ۴۰۵،۴۲۴ حضرت موسیٰ آپ کی ہڈیاں آپ کی وفات کے چار سو برس بعد کنعان کی طرف لے گئے ۲۶۶ح یوسف خان، عیسائی ۵۶ کپتان ڈگلس کی عدالت میں بطو ر گواہ ۲۷۷ یوسف علی صاحب قاضی ملازم پولیس ۳۵۱ یونس علیہ السلام ۴۱،۴۶،۲۸۷ح حضرت مسیح نے اپنے قصہ کو یونس کے مشابہ قرار دیا ۲۵ یہودا اسکریوطی یسوع کے خزانہ کا خزانچی تھا
58 مقامات آ.ا آرہ ۳۶۹ آسام ۳۵۶ اٹاوہ ۳۵۲،۳۵۳،۳۵۷ احمد آباد (ضلع جہلم) ۳۵۶ استنبول (اسلام بول)(ترکی) ۳۲۱ اسلام پور قادیان کا پرانا نام ۱۶۳ افریقہ مشرقی ۳۵۱ افغانستان ۸ الٰہ آباد ۳۵۰،۳۵۱،۳۵۲،۳۵۳،۳۵۵،۴۰۱ امرتسر ۱،۲۷،۳۱،۴۵،۱۱۸،۱۵۷،۱۵۸،۱۵۹،۱۶۰، ۱۶۳،۱۷۰،۱۷۹،۱۸۵،۱۸۹،۲۰،۲۰۱،۲۰۸،۲۱۳،۲۱۷، ۲۲۱،۲۲۲،۲۲۶،۳۲۳،۳۵۴،۳۵۵ امروہہ ۳۵۳ انبالہ ۱۶۳،۳۵۱ ایران ۴۳۲،۳۵۱ ایشیا ۳۸۳ ب.پ.ت.ٹ باریکاب (ضلع راولپنڈی) ۳۵۶ بٹالہ ۳۴،۱۶۱،۱۶۲،۱۶۷،۱۷۹،۱۸۰، ۱۸۲،۱۹۹،۳۵۴،۳۵۶،۵۱۳ بجنور ضلع ۳۵۶ بخارا ۴۳۲ بدوملہی ۳۵۵ برنالہ (ریاست پٹیالہ) ۳۵۶ بغداد ۸ بلاسپورضلع ۳۵۶ بلانی (تحصیل کھاریاں) ۳۵۳ بلب گڈہ ۳۵۲ بمبئی ۲۰۴،۳۵۳،۳۵۴،۳۵۶ بندرعباس (ایران) ۳۵۱ بنگلور ۳۵۵،۳۵۶ بھاٹی دروازہ (لاہور) ۳۵۳ بھکر ۳۵۴ بھوپال ۳۵۰،۳۵۳ بھیرہ ۳۵۴،۳۵۷ بیاس ۱۶۲،۱۹۱،۱۹۲،۲۰۹،۲۱۹،۲۲۴،۲۲۵ بیت المقدس ۶۱،۴۹۵ پٹنہ ۳۵۷ پٹھا ن کوٹ
59 پٹیالہ ۳۵۱،۳۵۲،۳۵۳،۳۵۴،۳۵۵،۳۵۷ پشاور ۱۷۵،۲۰۴،۳۵۱،۳۵۳،۳۵۶،۳۵۷ پنجاب ۱۵۲،۳۳۷،۳۵۰،۳۵۲،۳۵۵، ۳۵۸،۳۶۴،۳۶۹،۴۰۴،۴۱۵،۴۳۱،۴۹۴ یہاں سے قریباً ایک لاکھ مسلمان مرتد ہو کر عیسائی ہو گئے ہیں ۳۹۳ ملک ہند خاص کر پنجاب مکہ معظمہ سے مشرق کی جانب واقعہ ہے ۲۶۰ح پھلور ۳۵۱ تھہ غلام نبی (ضلع گورداسپور) ۳۵۴،۳۵۶ ٹاٹی پور ۳۵۱ ٹھٹھہ سفیر کا(منٹگمری) ۳۵۷ ج.چ.ح.خ جالندھر ۳۵۱ جستروال (ضلع امرتسر) ۳۵۴ جمال پور(لدھیانہ) ۳۵۳ جموں ۳۵۱،۳۵۲،۳۵۴،۳۵۵ جہلم ۱۵۷،۱۵۹،۱۶۲،۲۰۴،۲۰۸،۲۱۰،۲۱۱،۲۲۰ ۳۵۱،۳۵۲،۳۵۳،۳۵۴،۳۵۵،۳۵۶،۳۵۷ جھنگ ۳۵۲ جھونسی کہنہ(الہ آباد) ۳۵۳ جیب والہ (ضلع بجنور) ۳۵۶ جے پور ریاست ۳۵۱ جیند ریاست ۳۵۱ چاندہ ضلع ۳۵۶ چکراتہ ۳۵۱ چنیوٹ ۳۵۵ چین ابن عربی نے مسیح موعود کو چینی قرار دیا ہے حضور کے بزرگ سمر قند میں رہتے تھے جو چین سے تعلق رکھتا ہے ۳۱۳ح حاجی پور(کپورتھلہ) ۳۵۴ حدیبیہ ۴۲ حصار ۳۵۲ حیدرآباد دکن ۲۰۴ح،۳۵۱،۳۵۲،۳۵۳ خان پور(ریاست پٹیالہ) ۳۵۵ خانقاہ ڈوگراں ۳۵۳ خوشاب ۳۵۵ د.ڈ.ر داراپور(ضلع جہلم) ۳۵۳ دمشق ۳۵۹،۴۹۵ دمشق تثلیث کے خبیث درخت کا اصل منبت ہے اسی جگہ سے اس خراب عقیدہ کی پیدائش ہوئی اس لئے مسیح کا نور نزول وہاں سے مشرق میں ہو گا ۳۵۹ دہار وار(علاقہ بمبئی) ۳۵۶ دہلی ۲۰۴،۳۵۲،۳۵۳ دینا (ضلع جہلم)
60 دینانگر ۳۵۲ ڈنڈوت (ضلع جہلم) ۳۵۲ ڈنگہ (ضلع گجرات) ۲۲۰،۳۵۵ ڈیرہ اسماعیل خاں ۳۵۲ ڈیرہ دون ۳۵۳،۳۵۴ راولپنڈی ۱۱۷،۳۵۱،۳۵۵،۳۵۶،۳۵۷ رنگ پور (ضلع مظفر گڑھ) ۳۵۷ روم ۸ رہتاس (ضلع جہلم) ۳۵۱ ریواڑی ۱۲۵ س.ش.ع سرساوہ ۳۵۴،۳۵۷ سرسہ ۳۵۱ سرہند ۳۵۷ سمرقند ۱۶۳ح،۱۶۴ح حضرت مسیح موعود ؑ کے بزرگ سمرقندمیں رہتے تھے جو چین سے تعلق رکھتا ہے ۳۱۳ح سنام (ریاست پٹیالہ) ۳۵۶ سنگرور ۳۵۲ سنور ۳۵۷ سہارنپور ۳۵۶ سیالکوٹ ۳۵۱،۳۵۲،۳۵۳،۳۵۴،۳۵۵،۳۵۶،۳۵۷ سیکھواں (نزد قادیان) ۳۵۵ سیّدوالہ ۳۵۷ شام ۸،۵۲،۵۴،۳۴۳ شاہ پور ۳۵۳،۳۵۴ شاہ آباد(ضلع ہردوئی) ۳۵۴ شوپیاں (کشمیر) ۳۵۵ عرب ۸،۲۰۴ح،۳۴۳،۴۳۲ علی گڈہ(ضلع فرخ آباد) ۳۵۰،۳۵۴ علی گڑھ ۴۰۱ ف.ق.ک.گ فتح گڈہ (ضلع فرخ آباد) ۳۵۳ فرخ آباد ۳۵۰،۳۵۳ فیروز پور ۱۱۸،۱۶۳،۱۷۰ فیض اللہ چک (گودراسپور) ۳۵۶،۳۵۷ قادیان ۱۰۹،۱۵۹،۱۶۰،۱۷۵،۱۷۹، ۱۸۴،۱۸۸،۱۹۳،۱۹۷،۲۰۷،۲۰۹،۲۱۱ ۲۱۵،۲۲۰،۲۲۳،۳۵۳،۳۵۵،۳۵۶،۳۵۷ ۴۰۶ح،۴۰۷ح،۴۰۸ح،۴۱۰ح ۴۲۲،۴۹۷ احادیث میں بیان شدہ کدعہ یا کدیہ دراصل قادیان کے لفظ کا مخفف ہے ۲۶۱ح پرانا نام اسلام پور اور پھر قاضی ماجھی اور پھر قاضی سے قادی اور قادیاں بن گیا ۱۶۴ح قادیان قلعہ کی صورت تھی اس کے چار برج اور برجوں میں فوج کے آدمی رہتے تھے اور چند توپیں تھیں ۱۷۳ح
61 مرزا گل محمد صاحب کے وقت میں قادیان میں اسلامی علوم و روایات کی ترویج اور شوکت اور مسلمانوں کی پناہ گاہ تھی ۱۶۶ح حضور کے دادا مرزا عطا محمد صاحب کے وقت سکھ غالب آ گئے اور ریاست میں صرف قادیان باقی رہ گئی ۱۷۴ح سکھوں نے قبضہ کیا تو سب کچھ لوٹ لیا مساجد مسمارکیں کتب خانہ جلایا گیا اور باغوں کو کاٹا گیا ۱۷۴،۱۷۵ح قادیان میں عید الاضحی کے موقع پر جلسہ طاعون منعقد کرنے کیلئے اشتہار ۳۱۴ حسین کامی سفیر روم کا قادیان آنا ۳۲۰ لیکھرام کا قادیان آ کر ایک ماہ رہنا ۴۰۷ قاضی کوٹ ۳۵۶ قسطنطنیہ ۴۳۲ قصور ۳۵۱،۳۵۳،۳۵۷ کابل ۴۳۲ کامل پور(راولپنڈی) ۳۵۶ کانگڑہ ضلع ۳۵۱،۳۵۲،۳۵۳،۳۵۴ کپورتھلہ ریاست ۳۵۱،۳۵۲،۳۵۳،۳۵۴،۳۵۶ کراچی (کرانچی) ۳۵۱ کڑہ (ضلع الہ آباد) ۳۵۰،۳۵۵ کشتواڑ(کشمیر) ۳۵۲ کشمیر ۳۵۱،۳۵۴،۳۵۵،۳۵۷ کلانور ۳۵۲،۳۵۴ کلکتہ ۲۰۴ح،۳۵۵ کنعان ۲۶۶ح کوٹ بھوانی داس ۳۵۴ کوٹلہ فقیر(ضلع جہلم) ۳۵۴،۳۵۶ کوہاٹ ۳۵۳ کھاریاں(ضلع گجرات) ۳۵۳ کھیوال موضع (ضلع جہلم) ۳۵۶ گجرات ۴۶،۱۶۲،۱۸۳،۱۸۴،۱۹۴،۲۰۷،۲۲۰،۲۴۷،۲۴۹،۳۰۶،۳۵۵،۳۵۶ گلگت ۳۵۲ گملہ(ضلع گجرات) ۳۵۶ گوالیار ۳۵۶ گوجرانوالہ ۳۱۵،۳۵۱،۳۵۲،۳۵۳،۳۵۶ مشن پریس گوجرانوالہ سے کتاب امہات المومنین کی اشاعت ۳۴۵ گورداسپور ۱،۲۸،۲۹،۳۱،۴۵،۱۱۹،۱۵۷،۱۶۷،۱۶۸، ۱۸۰،۱۹۵،۵۱۲،۵۱۳،۳۵۱،۳۵۴،۳۵۶،۳۵۷ ل.م.ن لالہ موسیٰ ۳۵۶ لاہور ۵۸،۱۱۴،۱۱۵،۱۶۳ح،۱۶۴ح،۱۷۵ح ،۲۲۰،۳۲۳،۳۵۰،۳۵۱،۳۵۲،۳۵۳،۳۵۴، ۳۵۵،۳۵۶،۳۵۷،۳۷۶ ۳۷۷،۴۰۴،۵۰۱ تائید اسلام کے دعویٰ میں لاہور میں بھی تین انجمنیں قائم ہیں ۳۹۲ لدھیانہ ۱۰۹،۱۱۸،۱۷۰،۱۷۵ح،۳۵۱، ۳۵۲،۳۵۳،۳۵۴،۳۵۵،۳۵۶ لوچپ
62 لوہارو ریاست ۳۵۴ لیّہ ۳۵۱ مالا کنڈ (صوبہ سرحد) ۱۲۵ مالیر کوٹلہ ۳۵۰ مانانوالہ ۳۵۳ رمدرس ۳۵۲،۳۵۳،۳۵۴،۳۵۵ مصر ۸،۳۹،۴۲۴ مظفر گڑھ ۳۵۱،۳۵۷ مکہ مکرمہ ۲۵،۲۶،۲۶۰ح،۴۹۵ ملتان ۲۰۴،۳۵۲،۳۵۵،۳۵۶،۳۵۷ ممباسہ (کینیا) ۳۵۲ منٹگمری(ساہیوال) ۳۵۷ منی پور(آسام) ۳۵۶ موکل(ضلع لاہور) ۳۵۵ مونگ رسول(ضلع گجرات) ۲۰۷ میلاپور ۳۵۲،۳۵۴ نادون(ضلع کانگڑہ) ۳۵۱،۳۵۳ نارووال ۳۵۲ ناصرہ(فلسطین) ۷۵ ناگ پور(ضلع چاندہ) ۳۵۶ و.ہ.ی وزیرآباد ۳۵۵ وزیر چک(گورداسپور) ۳۵۶ ہالینڈ ۹۶ ہردوئی ضلع ۳۵۴ ہرسیاں موضع (گورداسپور) ۳۵۷ ہزارہ ۳۵۶ ہندوستان ۱۵۲،۲۰۴ح،۲۶۰ح،۳۳۷،۳۵۸، ۳۶۴،۳۶۹،۴۰۴،۴۰۹،۴۱۵،۴۱۹،۴۹۴،۴۹۵ ہوشیار پور ۴۱۸ یاڑی پور(کشمیر) ۳۵۴،۳۵۷ یمن ۲۶۱ح یورپ ۵۳،۳۷۹،۳۸۳ یورپ کے فلاسفروں کی عظمت لوگوں کے دلوں میں بیٹھ گئی ہے اور وہ خدا کی قدرتوں سے انکار کر رہے ہیں ۲۵۰ یورپ کے فلاسفر ایجادوں میں اتنے بڑھ گئے گویا وہ خدا کی قدرت پر ایمان کو ضروری نہیں سمجھتے اور خدائی کا دعویٰ کر رہے ہیں ۲۴۵ح،۲۴۶ح شراب خوری، زناکاری میں یورپ سب سے بڑھا ہوا ہے اور کفارہ کی بے قیدی نے یورپ کو شراب خوری اور فسق و فجور پر دلیر کیا ۳۰۴ح یورپ کے خواص و عوام میں ہر قسم کے گناہ موجود ہیں ۶۰ یوگنڈا ۳۵۱،۳۵۲
63 کتابیات آریہ دھرم (تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ) ۸،۳۱۳،۳۴۲ آسمانی فیصلہ(تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ) ۳۱۳ آئینہ کمالات اسلام (تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ) ۸، ۱۰۰،۱۰۳،۱۷۶،۳۱۳،۳۴۲ ابو داؤد، سنن ۳۰۲ح،۳۰۶ح اتمام الحجۃ(تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ) ۹،۳۱۳،۳۴۲،۴۰۵ ازالہ اوہام (تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ) ۱۰۰،۱۱۵،۳۱۳ ایام الصلح (تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ) ۴۰۵ اکاؤنٹ آف محمڈنزم از ریلینڈ ۹۰ البلاغ(تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ) حضور کی کتاب البلاغ جس کا دوسرا نام فریاد درد ہے ۳۶۷ امہات المومنین(تصنیف ڈاکٹر احمد شاہ ) ۳۱۵،۳۱۸،۳۱۹،۳۴۵،۳۷۵،۳۷۹،۳۸۲،۳۸۸،۳۹۴،۴۰۱ ۴۰۲،۴۰۶ ۴۰۸،۴۱۰،۴۱۶،۴۱۷،۴۲۹،۴۳۰،۴۳۵ اس رسالہ کی اصل غرض اعتراض کرنا ہے ۴۲۸ ہر قسم کی سب وشتم اس میں کی گئی ۴۵۴ کتاب امہات میں سب و شتم ہے اور مسلمانوں کو مفت تقسیم کی گئی ۴۳۶ مسلمانوں کی طرف مفت بھجوائی گئی اور دل دکھایا ۳۴۵ اس کتاب نے پنجاب اور ہندوستان کے چھ کروڑ مسلمانوں کا دل دکھایا ۳۶۹ ایک فریق نے گورنمنٹ کو شکایت کی اور ایک فریق اس کتاب کا رد لکھنا چاہتا ہے ۴۳۸ انجمن حمایت اسلام کے وکیل ایڈیٹرابزرور کا کہنا کہ کتاب امہات المومنین کا جواب لکھنا ہرگز مصلحت نہیں ۳۷۷ جماعت احمدیہ امہات المومنین کے اعتراضات کا جواب دے گی ۳۱۹ کتاب کے مصنف کا دعویٰ کہ کوئی مسلمان اس کا جواب نہیں دے سکے گا ۴۲۴ اس کی اشاعت ہو چکی، مفت تقسیم ہو چکی اب میموریل کے ذریعہ کونسی اشاعت باقی ہے جس کو روکا جائے ۴۳۰ اندر بجراز اندر من مراد آباد ی ۳۸۷،۴۱۹ اندرونہ بائبل از آتھم ۱۲۱،۱۲۴ انجام آتھم(تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ) ۹،۱۷۶،۱۹۵،۳۴۲ انجیل ۵۵،۵۶،۲۴۴،۲۴۵،۲۴۶ مختص الزمان اور مختص القوم قانون کی طرح تھی جس کو عیسائیوں نے عام ٹھہرا دیا ۹۳ انجیل کی اخلاقی تعلیم توراۃ اور طالمود سے لی گئی ہے مگر بہت بے ٹھکانہ اور بے سروپا ہے ۸۹ عیسائیوں کا یہ بیان کہ انجیل نے قوانین کی باتوں کو انسانوں کی سمجھ پر چھوڑدیا ہے جائے فکر نہیں بلکہ جائے انفعال اور ندامت ہے ۸۸ ناقص تعلیم ہے اس لئے مسیح کو کہنا پڑا کہ آنے والا فارقلیط اس کا تدارک کرے گا ۶۶ قرآن میں دلائل عقلیہ اور آسمانی نشان دونوں نہریں اب تک موجود ہیں لیکن انجیل دونوں سے بے نصیب اور خشک رہی ۹۳ آفتاب کے آنے سے جیسے ستارے آنکھوں سے غائب ہو جاتے ہیں ایسی حالت انجیل کی قرآن شریف کے مقابل پر ہے ۶۷
64 انجیل کے تمام معجزات ثابت نہیں ہوتے ۸۵ انجیل انسان کی تمام قوتوں کی مربی نہیں ہو سکتی جو اخلاقی حصہ ہے وہ توریت کا انتخاب ہے ۸۷ دوزخ اور بہشت کے بارہ میں انجیل کی ناقص تعلیم ۷۱ انجیل میں کہیں نہیں لکھا کہ کفارہ سے گناہ حلال ہوتے ہیں بلکہ جرم کی سزا ہے ۷۳ انجیل سے امیر بننے اور کل کی فکر کرنے سے منع کیا گیا ہے یوں ایک عیسائی انسانی سوسائٹی میں نہیں رہ سکتا ۹۳ ایک انجیل میں لکھا ہے کہ مسیح مصلوب نہیں ہوئے ۴۸۵ح انجیل میں یسوع کو فاحشہ عورتوں سے رغبت بتائی گئی ہے ۴۵۱ انجیل لوقا کا خود تراشیدہ قصہ ۸۹ انجیل نویسوں نے بحیثیت ایک وقائع نویس کے معجزات کو لکھا اور وقائع نویس کی شرائط بھی ان میں متحقق نہیں ۸۵ غلط بیانیوں اور جھوٹ کی مثالیں ۸۹،۹۰ انجیل نویسوں نے اپنی انجیلوں میں عمداً جھوٹ بولا ہے اس کی مثالیں ۸۶ یسوع کی پہلے کی زندگی کے بارہ میں بھی انجیل لکھنے والوں نے عمداً جھوٹ بولا ۹۸ انجیلیں قابل اعتبار نہیں کیونکہ جھوٹ سے بہت کام لیا گیا ہے ۷۵ یہ انجیلیں مسیح کی نہیں ہیں ۴۸۵ پادری ایولسن کا کہنا ہے کہ متی کی یونانی انجیل دوسری صدی مسیحی میں ایک ایسے آدمی نے لکھی جو یہودی نہ تھا ۹۳ محقق شملرکا کہنا کہ یوحنا کے علاوہ تینوں انجیلیں جعلی ہیں ۹۳ ڈاڈویل کا کہنا کہ دوسری صدی کے وسط تک چاروں انجیلوں کا وجود نہ تھا ۹۳ سیمرل کا کہنا ہے کہ انجیلیں مکاری سے دوسری صدی کے آخر میں لکھی گئیں ۹۳ بائیبل ۴۸۸،۳۷۲ بخاری صحیح ۲۰۷ح،۲۱۴ح، ۲۱۸ح،۲۱۹ح،۳۰۰، ۳۰۱ح، ۳۵۹ براہین احمدیہ (تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ) ۸،۱۰۰،۱۰۳،۱۶۲ح،۱۷۹.ؑ ،۲۰۲،۲۰۳،۳۰۸ح،۳۰۹ح ۳۱۰ح،۳۱۳،۳۳۰،۳۴۲،۳۸۶،۳۸۷،۴۰۵ کتاب لکھنے کی وجہ ۴۲۰ اس کی تالیف سے قبل اسلام کے خلاف عیسائیوں اور آریوں کی طرف سے سخت اور پر فحش تحریریں اور کتابیں شائع ہو چکی تھیں.یہ ان کے جواب میں لکھی گئی تھی.۳۸۶ برکات الدعا (تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ) ۳۱۳ پاداش اسلام از اندر من مراد آبادی ۱۳۱،۳۸۷،۴۱۹ تاریخ رئیسان پنجاب از سرلیپل گریفن ۱۷۷ح،۳۳۹،۳۴۹ تائید آسمانی از منشی محمد جعفر تھانیسری ۱۴۹ تحفۃ الاسلام ۴۱۹ تحفہ بغداد (تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ) ۱۰۰،۳۱۳ تحفہ قیصریہ (تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ) ۹،۳۱۳،۳۴۹ تذکرۃ الابرار ۲۸۶ح تصدیق براہین احمدیہ(تصنیف حضرت حکیم نو رالدین) ۳۲۴ تفتیش الاسلام از پادری راجرس ۱۲۰،۱۲۹ تکذیب براہین احمدیہ از لیکھرام پشاوری ۱۴۳ توراۃ ۵۱،۸۳،۸۹،۲۲۹،۲۳۱،۲۶۹ح ۲۷۰ح، ۲۷۹ح، ۲۸۰ح،۲۸۳ح،۳۶۰،۳۶۱ قرآن اور توریت کی تعلیمات کا موازنہ اور قرآن کی فضیلت ۸۴،
65 الٰہیات کا بہت سا حصہ ایسا ہے کہ توراۃ میں اس کا نام و نشان نہیں ۸۳ بہشت اور دوزخ کا کچھ ذکر نہیں پایا جاتا اور نہ ہی اللہ کی صفات کاملہ کا ذکر ہے ۸۴ توراۃ میں الوھیم کا لفظ اللہ ، فرشتے، موسیٰ، اور قاضی کے لئے بھی آیا ہے ۹۴ توراۃ نے صلیب پر مرنے والوں کو روحانی رفع سے محروم ٹھہرایا ہے ۲۳۶ح توراۃ کے نزدیک جو شخص لکڑی پر لٹکایا جائے یعنی مصلوب ہو وہ لعنتی ہے ۲۶۷ح توضیح مرام (تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ) ۳۱۳،۵۱۵ ثبوت تناسخ از لیکھرام پشاوری ۱۴۵ جا معۃ الفرائض ۲۸۴ح،۲۸۷ح چودھویں صدی ۳۳۱،۳۳۳ چہل حدیث از مولوی محمد احسن صاحب امروہوی ۳۱۳ح حمامۃ البشریٰ (تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ) ۹،۳۱۳،۳۴۲،۴۰۵ خبط قادیانی از راجندر سنگھ ۱۵۱ خزانۃ الاسرار از پادری عمادالدین ۲۸۳ح دارقطنی ۵۰۹ دافع البہتان از پادری رانکلین ۱۲۰،۱۲۲ راہ زندگی (مطبوعہ الہٰ آباد ۱۸۵۰ء) ۲۸۸ح ریویو براہین احمدیہ از پادری ٹھاکر داس ۱۲۰،۱۲۶ ریویو براہین احمدیہ از محمد حسین بٹالوی ۲۵۳ زبور ۹۴ ست بچن (تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ) ۹،۱۵۲،۳۱۳ح،۳۴۲ ستیارتھ پرکاش ازپنڈت دیانند ۱۳۸،۲۰۳،۳۸۶،۳۸۷،۴۱۹ سراج منیر(تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ) ۹،۳۱۳،۳۴۳،۳۶۳ سرالخلافہ(تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ) ۹،۳۱۳ح،۳۴۲،۴۰۵ سرمہ چشم آریہ ۳۱۳ح،۴۰۵،۴۱۷تا۴۱۹ سوانح عمری محمد صاحب از واشنگٹن ارونگ ۱۲۱،۱۲۷ سیرۃ المسیح از پادری ٹھاکر داس ۱۲۰،۱۲۳ شہادۃ القرآن (تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ) ۹،۳۱۳ح،۳۴۲ شحنہ حق (تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ) ۳۱۳ ضرورۃ الامام (تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ) ۴۷۱ رسالہ ضرورۃ الامام لکھنے کی وجہ ۴۹۷،۴۹۸ طالمود ۸۹ فتح اسلام (تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ) ۳۱۳،۵۱۵ فصل الخطاب (تصنیف حضرت حکیم نور الدین ) ۳۲۴ فصوص الحکم از حضرت محی الدین ابن عربی ۳۱۳ح قرآن کریم (دیکھئے کلید مضامین) کتاب البریہ (تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ) ۱،۱۱،۴۰۵،۴۲۸ کرامات الصادقین (تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ) ۴۰۵ کنزالعمال ۳۱۳ح گرنتھ صاحب ۴۹۲،۴۹۳ محمد کی تواریخ کااجمال از پادری ولیم ۱۲۵ مستدرک ۳۰۲،۳۰۶ح مسلم صحیح ۲۱۵ح،۲۱۸ح،۲۲۴ح،۳۰۸ح،۳۰۹ح مسندامام احمد ۳۱۳ح مسیح الدجال از ماسٹر رام چندر ۱۲۰،
66 مشکوٰۃ ۳۰۶ح معمودیۃ البالغین ۲۸۵ح منن الرحمن (تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ) ۳۷۲ نبی معصوم مصنفہ امریکن ٹریکٹ سوسائٹی ۱۲۰،۱۳۱ نسخہ خبط احمدیہ ازلیکھرام پشاوری ۱۴۱ نشان آسمانی ۳۱۳ نور الحق (تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ) ۸،۳۴۲،۴۰۵ نور القرآن (تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ) ۳۱۳،۴۰۵ وید ۴۹۰،۴۹۱،۴۹۲ متفرق حضور کی کتب کی فہرست مع قیمت ۳۲۴ کتب عربی ادب کی فہرست بابت شرط ہشتم کتاب ۴۶۱ کتب اخلاق و تصوف کی فہرست بابت شرط ہشتم ۴۶۶ کتب الاصول کی فہرست بابت شرط ہشتم ۴۶۳ کتب تاریخ کی فہرست بابت شرط ہشتم ۴۶۱ کتب تفسیر کی فہرست بابت شرط ہشتم ۴۵۹ کتب حدیث کی فہرست بابت شرط ہشتم ۴۵۸ کتب صرف ونحو کی فہرست بابت شرط ہشتم ۴۶۰ کتب طب کی فہرست بابت شرط ہشتم کتاب ۴۶۷ کتب علم کلام کی فہرست بابت شرط ہشتم ۴۶۵ علوم مختلفہ کے رسائل کی فہرست بابت شرط ہشتم ۴۶۹ کتب فقہ کی فہرست بابت شرط ہشتم ۴۶۳ کتب لغت کی فہرست بابت شرط ہشتم ۴۶۱ کتب مذاہب کی فہرست بابت شرط ہشتم ۴۶۹ کتب معانی و بیان کی فہرست بابت شرط ہشتم ۴۶۰ کتب منطق کی فہرست بابت شرط ہشتم ۴۶۶ اخبارات ورسائل آفتاب پنجاب لاہور ۱۳۱ اخبار عام لاہور ۲۰۳،۴۹۲ اشاعۃ السنۃ ۳۲،۳۷،۳۹،۱۴۶،۵۱۱،۵۱۲ الحکم (اخبار) ۳۵۵ پایو نیر ۲۰۳ پنجاب ابزور ۴۰۲،۴۰۳،۴۰۶،۴۱۰ح، ۴۱۵،۴۲۳،۴۲۶،۴۲۸،۴۲۹ اس کے ایڈیٹر کا لکھنا کہ کتاب امہات المومنین کا جواب لکھنا ہرگز مصلحت نہیں ۳۷۷ انجمن حمایت اسلام لاہور اس کے حامیوں کا ابزور میں لکھنا کہ تمام سخت الفاظ اسلام کے ایک گروہ یعنی حضورؑ کی طرف سے ظہور میں آئے ہیں ۳۸۷،۳۸۸ پیسہ اخبار ۴۰۶،۴۱۰ح،۴۱۵،۴۲۵ ٹریبیون ۲۰۳ چودھویں صدی ، راولپنڈی ۱۱۱تا۱۱۲ خالصہ بہادر ۱۵۱ سماچار ۲۰۳ سول اینڈ ملٹری گزٹ ۵۹ شمس الاخبار لکھنو ۱۳۱ مخبردکن ۳۱۸ ناظم الہند لاہور ۳۲۰،۳۲۲ نسیم صبا (ایڈیٹر مولوی عبد الحق) ۳۵۵ نور افشاں لدھیانہ ۱۲،۳۱۹ آنحضورﷺ کی شان میں گستاخی کرنا ۱۲۱،۱۲۸ نورالاسلام ۳۵۷ ہندو پرکاش امرتسر