Tuhfa Bughdad

Tuhfa Bughdad

تحفہٴ بغداد

Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR
Ruhani Khazain

یہ رسالہ آپ نے محرم ۱۳۱۱ھ مطابق جولائی ۱۸۹۳ء میں تالیف فرمایا۔ وجہ تصنیف یہ ہوئی کہ ایک شخص سید عبدالرزاق قادری بغدادی نے حیدرآباد دکن سے ایک اشتہار اور ایک خط عربی زبان میں بھیجا جس میں اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعویٰ کو خلاف شریعت اور ایسے مدعی کو واجب القتل اور 'التبلیغ' کو معارض قرآن قرار دیا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے ان کے اشتہار اور خط کو نیک نیتی پر محمول کر کے محبت آمیز طریقہ سے جواب دیا اور اپنے دعویٰ مامورریت اور وفات مسیح ناصریؑ کا ثبوت اور امت محمدؐیہ میں مکالمات الہیہ اور سلسلہ مجددین کے جاری رہنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس مکتوب کے لکھنے سے غرض یہ ہے کہ آپ اپنے خیالات کی اصلاح کریں اور اگر کسی بات کی حقیقت آپ پر ظاہر نہ ہو تو اس کے متعلق مجھ سے دریافت کریں۔ نیز لکھا کہ مولویوں کے فتاویٰ تکفیر سے دھوکا نہ کھائیں بلکہ میرے پاس آئیں اور بچشم خود حالات دیکھیں تا حقیقت کو پا سکیں اور اگر آپ لمبے سفر کی تکلیف برداشت نہ کر سکیں تو اللہ تعالی سے میرے بارہ میں ایک ہفتہ تک استخارہ کریں۔ استخارہ کا طریق بتا کر فرمایا کہ استخارہ شروع کرنے کے وقت سے مجھے بھی اطلاع دیں تا میں بھی اس وقت دعا کروں اور رسالہ کہ آخر میں دو قصیدے بھی تحریر فرمائے۔


Book Content

Page 1

Page 2

Page 3

Page 4

Page 5

Page 6

Page 7

Page 8

Page 9

Page 10

Page 11

Page 12

Page 13

Page 14

Page 15

Page 16

Page 17

ترتیب روحانی خزائن جلد ۷ تحفۂ بغداد...............۱ کرامات الصادقین.........۴۱ حما مۃ البشریٰ............۱۶۵

Page 18

Page 19

نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم تعارف (از حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس) روحانی خزائن کی یہ جلد ہفتم ہے جو مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی تالیفات تحفہ بغداد کرامات الصادقین اور حمامۃ البشریٰ پر مشتمل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام کا عربی اعجازی کلام مذکورہ بالا تینوں کتابیں چونکہ عربی زبان میں ہیں اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عربی کلام سے متعلق ایک مختصر نوٹ لکھ دیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کسی کالج یا مشہور و معروف مدرسہ میں یا کسی مشہور اُستاد سے دینی یا عربی علمِ ادب کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی بلکہ بعض غیر معروف اساتذہ سے عربی کی چند کتب پڑھی تھیں.حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی تعلیم سے متعلق اپنی تصنیف ’’کتاب البریّہ‘‘ ۱؂ میں فرماتے ہیں کہ آپ چھ سال کے تھے جب آپ کے والد ماجد نے آپ کی تعلیم کے لئے ایک فارسی خوان معلم نوکر رکھا جن کا نام فضل الٰہی تھا.اُن سے آپ نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں پڑھیں اور جب آپ کی عمر قریباً دس سال کی ہوئی تو ایک اَور استاد جن کا نام مولوی فضل احمدؐ تھا آپ نے صرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحو پڑھے.جب آپ سترہ یا اٹھارہ سال کے ہوئے تو آپ کی تعلیم کے لئے مولوی سیّد گل علی شاہ صاحب بٹالوی کو قادیان بُلایا گیا.اُن سے آپ نے علمِ نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علومِ مروجہ کی چند کُتب پڑھیں مولوی سید گل علی شاہ صاحب کچھ عرصہ قادیان رہے.پھر بعض مجبوریوں کی وجہ سے واپس بٹالہ چلے گئے.اس لئے

Page 20

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی کچھ عرصہ کے لئے ان کے پاس بٹالہ رہنا پڑا.اس عرصہ میں مولوی محمد حسین بٹالوی بھی آپ کے رفیقِ تعلیم بن گئے جس کا ذکر مولوی صاحب مذکور نے اپنے رسالہ اشاعۃ السّنۃ جلد ۷ میں بایں الفاظ کیا ہے:.’’مؤلف براہین احمدیہ کے حالات و خیالات سے جس قدر ہم واقف ہیں ہمارے معاصرین میں سے ایسے واقف کم نکلیں گے.مؤلف صاحب ہمارے ہم وطن ہیں.بلکہ اوائل عمر کے (جب ہم قطبی و شرح ملاّ پڑھتے تھے) ہمارے ہم مکتب تھے.اُس زمانہ سے آج تک ہم میں اور ان میں خط و کتابت و ملاقات و مراسلت برابر جا ری ہے.‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ اِسی زمانہ کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو مخاطب کرتے ہوئے اشارہ فرمایا ہے ؂ قَطَعْتَ وَدَادًا قَدْ غَرَسْنٰہُ فِی الصَّبَا وَ لَیْسَ فُؤَادِیْ فِی الْوَدَادِ یُقَصِّرٗ‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۳۵) تُونے اُس دوستی کو کاٹ دیا جس کا درخت ہم نے ایام کودکی میں لگایا تھا.مگر میرے دل نے دوستی میں کوئی کوتاہی نہیں کی.اُس زما نہ میں سب سے بڑا مرکز علومِ شرقیہ کے حاصل کرنے کا دہلی تھا جہاں اور بہت سے معروف و مشہور اکابر علماء کے علاوہ شیخ الکل مولوی نذیر حسین صاحب سکونت پذیر تھے جن کی شاگردی کا فخر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو حاصل تھا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مذکورہ بالا تین غیر معروف اساتذہ سے مروجہ علوم کی چند کتابیں اور اپنے والد ماجد سے چند کتابیں علمِ طب کی پڑھنے کے علاوہ اور کہیں تعلیم نہ پائی تھی.اس لئے کسی شخص کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ آ سکتی تھی کہ آپ معمولی عربی زبان میں کوئی کتاب یا رسالہ تالیف کر سکتے ہیں چہ جائیکہ فصیح و بلیغ عربی میں پُراز معارف و حقائق ضخیم کتب لکھ سکیں.یہی وجہ تھی کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور دیگر مولویوں نے آپ سے متعلق یہ مشہور کر دیا کہ آپ علومِ عربیّہ سے جاہل ہیں اور حقیقت یہی تھی کہ آپ کا اکتسابی علم ایسا نہ تھا کہ آپ فصیح و بلیغ عربی میں کوئی

Page 21

مضمون یا رسالہ یا کتاب تحریر فرما سکیں.مگر عربی زبان کا علم آپ کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا تھا اور اعجازی رنگ میں ہوا تھا.اِس لئے آپ نے نہایت فصیح و بلیغ عربی میں بیس سے زیادہ رسالے اور کتابیں لکھیں اور مخالفین علماء کو ہزار ہا روپیہ کے انعامات مقرر کر کے مقابلہ کے لئے بلایا.لیکن کسی کو بالمقابل کتاب یا رسالہ لکھنے کی جرات نہ ہوئی.عربی زبان کا علم وہبی تھا عربی زبان کا علم آپ کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا تھا.چنانچہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی کتاب ’’ انجام آتھم‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:.’’وان کمالی فی اللسان العربی مع قلّۃ جھدی و قصور طلبی اٰیۃ واضحۃ من ربّی لیظھر علی الناس علمی و ادبی...وانّی مع ذٰلک علمت اربعین الفا من اللغات العربیۃ.واعطیت بسطۃ کاملۃ فی العلوم الادبیۃ.‘‘ (انجام آتھم.روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ ۲۳۴) یعنی عربی زبان میں باوجود میری کمی کوشش اور کوتاہی جستجو کے جو مجھے کمال حاصل ہے وہ میرے ربّ کی طرف سے ایک کھلا نشان ہے تا وہ لوگوں پر میرے علم اور میرے ادب کو ظاہر کرے.پس کیا مخالفوں کے گروہوں میں سے کوئی ہے جو میرے مقابلہ پر آوے؟ اور اس کے ساتھ مجھے یہ فخر بھی حاصل ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مجھے چالیس ہزار مادہ عربی زبان کا سکھایا گیا ہے.اور مجھے ادبی علوم پر پوری وسعت عطا کی گئی ہے.اور ’’ضرورت الامام ‘‘ میں فرماتے ہیں:.’’مَیں قرآن شریف کے معجزہ کے ظل پر عربی بلاغت فصاحت کا نشان دیا گیا ہوں.کوئی نہیں کہ جو اس کا مقابلہ کر سکے.‘‘ (ضرورۃ الامام.روحانی خزائن جلد۱۳ صفحہ ۴۹۶) اور ’’ لُجّۃُ النور‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:.’’کلما قلت من کمال بلاغتی فی البیان فھو بعد کتاب اﷲ القراٰن.‘‘ (لُجّۃ النور.روحانی خزائن جلد۱۶ صفحہ ۴۶۴)

Page 22

یعنی جو کچھ مَیں نے اپنی کمال بلاغتِ بیانی سے کہا ہے تو وہ کتاب قرآن مجید سے دوسرے درجہ پر ہے.پھر انشا پردازی کے وقت تائید الٰہی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.’’یہ بات بھی اس جگہ بیان کر دینے کے لائق ہے کہ مَیں خاص طور پر خدا تعالیٰ کی اعجاز نمائی کو انشاء پردازی کے وقت بھی اپنی نسبت دیکھتا ہوں کیونکہ جب مَیں عربی میں یا اردو میں کوئی عبارت لکھتاہوں تو مَیں محسوس کرتا ہوں کہ کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے اور ہمیشہ میری تحریر گو عربی ہو یا اردو یا فارسی دو حصّہ پر منقسم ہوتی ہے.(۱) ایک تو یہ کہ بڑی سہولت سے سِلسلہ الفاظ اور معا نی کا میرے سامنے آ جاتا ہے اور مَیں اُس کو لکھتا جاتا ہوں اور گو اس تحریر میں مجھے کوئی مشقت اٹھانی نہیں پڑتی مگر دراصل وہ سِلسلہ میری دماغی طاقت سے کچھ زیادہ نہیں ہوتا یعنی الفاظ اور معانی ایسے ہوتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کی ایک خاص رنگ میں تائید نہ ہوتی تب بھی اس کے فضل کے ساتھ ممکن تھا کہ اس کی معمولی تائید کی برکت سے جو لازمۂ فطرت خواص انسانی ہے کسی قدر مشقت اٹھا کر اور بہت سا وقت لے کر اُن مضامین کو مَیں لکھ سکتا.واﷲ اعلم.(۲) دوسرا حصہ میری تحریر کا محض خارق عادت کے طور پر ہے اور وہ یہ ہے کہ جب مَیں مثلاً ایک عربی عبارت لکھتا ہوں اور سلسلہ عبارت میں بعض ایسے الفاظ کی حاجت پڑتی ہے کہ وہ مجھے معلوم نہیں ہیں تب اُن کی نسبت خدا تعالیٰ کی وحی رہنمائی کرتی ہے اور وہ لفظ وحی متلو کی طرح رُوح القدس میرے دل میں ڈالتا ہے اور زبان پر جاری کرتا ہے ا ور اُس وقت مَیں حِسّ سے غائب ہوتا ہوں مثلاً عربی عبارت کے سِلسلۂ تحریر میں مجھے ایک لفظ کی ضرورت پڑی جو ٹھیک ٹھیک بسیارئ عیال کا ترجمہ ہے اور وہ مجھے معلوم نہیں اور سِلسلۂ عبارت اس کا محتاج ہے تو فی الفور دل میں وحی متلو کی طرح لفظ ضفف ڈالا گیا جس کے معنے ہیں بسیارئ عیال.یا مثلاً سِلسلۂ تحریر میں مجھے ایسے لفظ کی ضرورت ہے جس کے معنے ہیں غم و غصہ سے چُپ ہو جانا اور مجھے وہ لفظ معلوم نہیں تو فی الفور دل پر وحی ہوئی کہ’’ وجوم‘‘ ایسا ہی عربی فقرات کا حال ہے.عربی تحریروں کے

Page 23

وقت میں صد ہا بنے بنائے فقرات وحی متلو کی طرح دل پر وارد ہوتے ہیں اور یا یہ کہ کوئی فرشتہ ایک کاغذ پر لکھے ہوئے وہ فقرات دکھا دیتا ہے اور بعض فقرات آیاتِ قرآنی ہوتے ہیں یا اُن کے مشابہ کچھ تھوڑے تصرّف سے.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۴۳۴،۴۳۵) پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلا م کا فصیح و بلیغ عربی میں کتابیں لکھنا تائید الٰہی سے تھا آپ کے اکتسابی علم کا نتیجہ نہ تھا.یہی وجہ ہے کہ مخالفین علماء نے آپ کے اس چیلنج کو کہ وہ بھی آپ کے مقابلہ میں آپ جیسے رسائل و کتب لکھیں قبول کرنے کی بجائے ویسے ہی اعتراضات کئے جیسے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مخالفین نے قرآنی چیلنج کے جواب میں کئے تھے کیونکہ وہ بھی جانتے تھے کہ ایسا فصیح و بلیغ اور پُراز حقائق و دقائق کلام آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جیسے امّی شخص کا کام نہیں ہو سکتا.اِس لئے ایک طرف تو انہوں نے کہا ’’انّما یعلّمہ بشر‘‘کہ اسے کوئی اور بشر سکھاتا ہے.’’واعانہ علیہ قوم اٰخرون‘‘ یعنی دوسرے اَور لوگ ہیں جو قرآن کی تالیف میں آپ کی اعانت کررہے ہیں.اور دوسری طرف یہ کہا کہ’’لونشاء لقلنا مثل ھٰذا.ان ھٰذا الاّ اساطیر الاوّلین‘‘ یعنی اگر ہم چاہیں تو ہم ایسا کلام کہہ سکتے ہیں لیکن ہم اس لئے اس طرف توجہ نہیں دیتے کہ اِس میں پہلوں کے قصّوں اور سٹوریوں کے سوا رکھا ہی کیا ہے.اور بعد میں آنے والے مخالف عیسائیوں نے یہ بھی لکھنا شروع کیا کہ قرآن مجید تو فصیح و بلیغ بھی نہیں اور اس میں نحوی و صرفی بہت سی غلطیاں پائی جاتی ہیں.مثال کے طور پر عیسائیوں کی ایک مصر میں بزبان عربی طبع شدہ کتاب سے چند اغلاط کا ذکر کرتا ہوں.(۱) قرآن مجید میں ایسا کلام موجود ہے جو نہ فصیح ہے نہ بلیغ جیسے الم اعہد الیکم کیونکہ اِس میں تنافر پایا جاتا ہے.غریب الفاظ کی مثال جیسے کوثر کہ اس کے معنے صحابہؓ کو معلوم نہ تھے.اور قیاس کے مخالف جیسے انبتکم من الارض نباتا کیونکہ قیاس اِنْبَاتًاچاہتا ہے.پھر جو سُننے میں اچھا نہ لگے جیسے ضِیْزٰی جو جَرْشٰی کی طرح ہے.(۲) نحوی لحاظ سے آیت والموفون بعہدھم اذا عاہدوا والصٰبرین میں الصابرون اور آیت وامرأتہ حمالۃَ الحطب میں حمالۃ منصوب کی بجائے مرفوع اور ان الذین اٰمنوا والذین ھادوا والصابؤن (المائدہ) میں اِنّ کا اسم ہونے کی وجہ سے والصابئین ہونا چاہئے.اِسی طرح آیت ولٰکن البّر من اٰمن میں ان تؤمنوا.اور آیت قطعنا ھم اثنتی عشرۃ اسباطاً اممًا میں عام نحوی

Page 24

قاعدہ کے مطابق کہ عدد مذکر اور معدود مفرد ہو.قطعنا ھم اثنی عشر سبطاً اور آیت والمطلقات یَتَرَبَّصْنَ بانفسھن ثلاثۃ قروءٍ میں اقرءٍ یا اقراءٍ جمع قلّت کا صیغہ استعمال ہونا چاہئے تھا.اِسی طرح ایامًا معدودات کی بجائے ایامًا معدودۃ.(۳) ضمائر کی غلطیاں جیسے آیت ہٰذان خصمان اختصموا میں اختصما.اور اسروا النجوی الذین ظلموا میں اَسَرَّ.اور آیت وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا میں اقتتلا اور آیت ان لکم فی الانعام لعبرۃ نسقیکم مما فی بطونہ میں بطونھا ہونا چاہئے.(۴) پھر بعض آیتیں پہلوں کے اقوال سے ماخوذ ہیں.مثلاً آیت فاذا انشقت السماء فکانت وردۃ کالدھان عنتر کے شعر.وان ام الارض صارت وردۃ مثل الدھان سے اور آیت خلق الانسان من صلصال کالفخار.امیہ بن الصلت کے شعر ؂ کیف الجحود و انما خلق الفتی من طین صلصال لہ فخار سے ماخوذ ہے.۱؂ الغرض عیسائیوں نے قرآن مجید کو غیر فصیح اور نحوی و صرفی غلطیوں سے غیر مبّرا قرار دے کر اس کے کلامِ الٰہی ہونے سے انکار کیا ہے.ہمارے نزدیک ان کے یہ سب اعتراضات لغو اور باطل ہیں اور اصح اور افصح اور ابلغ عربی زبان وہی ہے جو قرآن مجید کی زبان ہے.اور عربی زبان سے متعلق اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو تحریر فرمایا ہے وہ بالکل صحیح اور درست ہے.حضورؑ فرماتے ہیں:.’’بعض نادانوں نے قرآن شریف پر بھی اپنی مصنوعی نحو کو پیش نظر رکھ کر اعتراض کئے ہیں مگر یہ تمام اعتراض بے ہودہ ہیں.زبان کا علمِ وسیع خدا کو ہے نہ کسی اور کو.اور زبان جیسا کہ تغیّر مکانی سے کسی قدر بدلتی ہے.ایسا ہی تغیر زمانی سے بھی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں.آج کل کی عربی زبان کا اگر محاورہ دیکھا جائے جو مصر اور مکّہ اور مدینہ اور دیارِ شام وغیرہ میں بولی جاتی ہے تو گویا وہ محاورہ صرف و نحو کے تمام قواعد کی بیخ کنی کر رہا ہے اور ممکن ہے کہ اس قسم کا محاورہ کسی زمانہ میں پہلے بھی گذر چکا ہو......

Page 25

لُغتِ عرب جو صرف و نحو کی اصل کُنجی ہے وہ ایک ایسا ناپیدا کنار دریا ہے جو اُس کی نسبت امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ کا یہ مقولہ بالکل صحیح ہے کہ لایعلمہ الاّنبیّ یعنی اس زبان کو اور اس کے انواع اقسام کے محاورات کو بجز نبی کے اَور کوئی شخص کامل طور پر معلوم ہی نہیں کر سکتا.اس قول سے بھی ثابت ہوا کہ اس زبان پر ہریک پہلو سے قدرت حاصل کرنا ہر ایک کا کام نہیں بلکہ اس پر پورا احاطہ کرنا معجزاتِ انبیاء علیہم السَّلام سے ہے.‘ ‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۴۳۶،۴۳۷) اِسی طرح جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مخالف علماء کو جو آپؐ کو جاہل اور خود کو عالم خیال کرتے تھے مقابلہ کے لئے دعوت پر دعوت دی اور چیلنج پر چیلنج کیا تو اُن کا جواب بھی وہی تھا جو مخالفینِ قرآن مجید نے دیا تھا.مخالف علماء کا جواب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عربی کلام کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.’’حقیقت شناس اس عبارت سے اس کا جاہل ہونا اور کوچۂ عربیت سے اس کا نابلد ہونا اور دعویٰ الہام میں کاذب ہونا نکالتے ہیں اور وہ خوب سمجھتے ہیں کہ یہ عبارت عرب کی عربی نہیں اور اس کی فقرہ بندی محض بے معنی تُک بندی ہے.اِس میں بہت سے محاورات و الفاظ کادیانی نے از خود گھڑلئے ہیں.عرب عرباء سے وہ منقول نہیں اور جو اس کے عربی الفاظ و فقرات ہیں اُن میں اکثر صرف و نحو و ادب کے اصول و قواعد کی رُو سے اس قدر غلطیاں ہیں کہ ان اغلاط کی نظر سے اُن کو مسخ شدہ عربی کہنا بے جا نہیں.اور ان کے راقم کو عربی سے جاہل اور الہام و کلامِ الٰہی سے مشرف و مخاطب ہونے سے عاطل کہنا زیبا ہے.‘‘ (اشاعۃ السنّۃ.جلد۱۵ نمبر۱۳ صفحہ ۳۱۶ نیز دیکھو اشاعۃ السنّۃ.جلد۱۵ نمبر۸ صفحہ ۱۹۱)

Page 26

واعانہ علیہ قوم اٰخرون کا اعتراض پھر مخالفین نے آپؑ پر یہ اعتراض بھی کیا کہ جو کتابیں عربی زبان میں آپ تصنیف فرماتے ہیں.وہ دوسروں سے لکھواتے ہیں اور ایک شامی عرب اپنے پاس رکھا ہے جو آپ کو لکھ کر دیتا ہے اور آپ اپنے نام پر شائع کر دیتے ہیں.اور یہ اعتراض جس بے ہودہ رنگ میں انہوں نے کیا یقیناًمخالفینِ اسلام نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر اس رنگ میں نہیں کیا ہو گا.جھوٹ بولنا آسان ہوتا ہے لیکن اُس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے کئی اور جھوٹ بولنے پڑتے ہیں.مَیں اس جگہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے اصل الفاظ نقل کر دیتا ہوں تا آئندہ آنے والے لوگ آپ کے مخالفین کی اِن مذبوحی حرکات اور اِن افتراؤں کا اندازہ لگا سکیں جو وہ مقابلہ سے بچنے اور عوام الناس کو آپ سے دُور رکھنے کے لئے تراشا کرتے تھے.نیز اُن کے پاس اِس اعتراض کا جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی متعدد کُتب میں کیا ہے.ایک ثبوت ہو جائے.شیخ بٹالوی صاحب لکھتے ہیں:.’’امرتسر کے گلی کوچہ میں یہ خبر مشہور تھی کہ اس قصیدۂ ہمزیہ ۱؂ کے صِلہ میں کادیانی نے شامی صاحب کو دو سو روپے دیئے ہیں.مَیں نے شامی صاحب سے اس خبر کی حقیقت دریافت کی تو انہوں نے اِس سے انکار کیا اور ان کے بیان سے یہ معلوم ہوا کہ اس مدح و تائید کے صلہ میں کادیانی نے کسی خوبصورت عورت سے نکاح کرا دینے کا ان کو وعدہ دیا تھا وہ اس وعدہ کے بھروسہ پر قادیان میں چار مہینے کے قریب رہے.اس عرصہ میں کادیانی نے اُن سے عربی نظم و نثر میں بہت کچھ لکھوایا اور گو دودھ بالائی آم مرغ کھلانے سے اُن کی اچھی مدارات کی مگر اُن کے اصل مطلوب نکاح سے اُن کو محروم رکھا اور وہ وعدہ پورا نہ کیا.ایک عورت فاحشہ سے اُن کا نکاح کرانا چاہا مگر اُس کے فاحشہ ہونے کا اُن کو علم ہو گیا اِس لئے اُس کے نکاح سے انہوں نے انکار کیا اور دو تین عورتیں اور اُن کو دکھائیں مگر وہ خوبصورت نہ ہونے کی وجہ سے اُن کو پسند نہ آئیں آخر وہ قادیان سے سخت ناراض ہو کر چلے گئے جاتے ہوئے خاکسار کو ملے تو کادیانی

Page 27

پر بہت ناراضگی ظاہر کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ اب میں ایک رسالہ موسومہ بکراماتِ کادیانی لکھوں گا.اس میں کادیانی کی مکّاری کا خوب اظہار کروں گا اور انہوں نے مجھ سے اس امر کی درخواست کی کہ مَیں اُن کی یہ سرگذشت و پرحسرت کیفیت مشتہر کردوں اور اِس پر کادیانی کی اس بے وفائی اور وعدہ خلافی پر افسوس ظاہر کروں.اس درخواست کی وجہ سے یہ چند سطور لکھے گئے ہیں اور نیز اس سے عامہ خلائق کی ہدایت و صیانت مقصود مدّنظر ہے تاکہ عام لوگ کادیانی کے دامِ فریب سے واقف ہو جائیں اور اس دام سے اپنے آپ کو بچائیں.’’اِس مضمون کے لکھے جانے کے بعد ہم نے سُنا ہے کہ کادیانی کے درپردہ پیرو مرشد و بحسبِ ظاہر مرید حکیم نور الدین صاحب بھیروی نے شامی کا نکاح کہیں کرا دیا ہے اور اس خبر کے سُننے سے ہم کو خوشی ہوئی اور افسوس.نیز خوشی اس لئے کہ مظلوم شامی کی حق رسی ہوئی.افسوس اس لئے کہ اب شامی صاحب کی طرف سے رسالہ ’’کرامات کادیانی‘‘ کی اشاعت چندے ملتوی رہے گی.شامی صاحب کے نکاح کی یہ تجویز خاکسار کہیں کرا دیتا تو اُن سے جس قدر چاہتا کادیانی کے ردّ و مذمت میں نظم و نثر (جیسی اُن کو آتی ہے) لکھوا لیتا ولیکن یہ پیشہ دلالی کادیانی صاحب کا ہی خاصہ ہے جس کے ذریعہ سے انہوں نے کئی نامی مریدوں کودامِ مریدی میں پھنسایا ہوا ہے جس کے نام نامی اور القابِ گرامی مولوی حکیم وغیرہ وغیرہ سے اکثر سکنائے پنجاب واقف ہیں اور ایسے باطل اور ناجائز ذرائع سے کام نکالنا ہی ان کا شیوہ معجزہ ہے.لہٰذا یہ جرأت مجھ سے نہ ہو سکی اور مَیں نے اُن کو اس طرح کی اُمید نہ دلائی.۱؂ ‘‘ یاد رہے کہ جس شامی عرب سے متعلق بٹالوی صاحب نے مذکورہ بالا بے ہودہ خیالات کا اظہار کیا ہے.وہ وہ شخص ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عربی تالیف ’’التبلیغ‘‘ کو پڑھ کر بے ساختہ کہا ’’واﷲ ایسی عبارت عرب بھی نہیں لکھ سکتا‘‘ اور جب اس کے آخر میں شائع شدہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان اقدس میں مدحیہ قصیدہ دیکھا تو وہ پڑھ کر بے اختیار رونے لگے.اور کہا ’’خدا کی قسم! مَیں نے اس زمانہ کے عربوں کے اشعارکو کبھی پسند نہیں کیا...مگر اِن اشعار کو حفظ کروں گا.‘‘ ۲؂ اور اتنے

Page 28

متاثر ہوئے کہ آخر کار قادیان آ کر آپ کی بیعت کر لی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ۱۸۹۷ء ؁ میں ’’ضمیمہ انجام آتھم‘‘ مطبوعہ ۱۸۹۷ء ؁میں اپنے مخلص ۳۱۳ صحابہؓ کی فہرست میں نمبر ۵۵ پر اُن کا نام لکھا ہے.۱؂ غور کرو.اگر بٹالوی صاحب کا مذکورہ بالا بیان درست ہے تو کیا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں رہ سکتے تھے؟ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایسے شخص کو عربی ممالک کے لئے بطور مبلغ تجویز فرما سکتے تھے؟ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس سے متعلق فرماتے ہیں کہ مَیں نے اُسے ’’اس نور اور الہام کے ساتھ دیکھا جو مجھ کو عطا کیا گیا ہے.سو مَیں نے مشاہدہ کیا کہ وہ حقیقت میں نیک ہے اور متانت عقلی اس کو حاصل ہے اور آدمی نیک بخت ہے جس نے جذباتِ نفس پر لات ماری اور اُن کو الگ کر دیا ہے اور ریاضت کش انسان ہے.پھر خدا نے اُس کو کچھ حصّہ میری شناخت کا عطا کیا سو وہ بیعت کرنے والوں میں داخل ہو گیا اور اﷲ تعالیٰ نے ہماری معرفت کی باتوں سے ایک عجیب دروازہ اُس پر کھول دیا اور اُس نے ایک کتاب تالیف کی جس کا نام ایقاظ الناس رکھا اور وہ کتاب اُس کی وسعتِ معلومات پر دلیل واضح ہے اور اس کی رائے صائب پر ایک روشن حجّت ہے اور وہ کتاب ہر ایک مباحث کے لئے ہر ایک میدان میں کفایت کرتی ہے.‘‘ (نورالحق حصہ اول.روحانی خزائن جلد۸ ، صفحہ ۲۲.ترجمہ از عربی عبارت) اِسی طرح اعتراض کا ذکر کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:.’’پھر ان علماء کے اعتراضات اور شبہات میں سے جو انہوں نے جاہلوں میں پھیلا رکھے ہیں ایک یہ ہے ’’ان ھٰذا الرجل لایعلم شیءًا من العربیۃ‘‘ کہ یہ شخص عربی کا ذرہ علم نہیں رکھتا بلکہ وہ تو فارسی زبان سے بھی کوئی حصہ نہیں دیا گیا اور اپنے متعلق کہتے ہیں کہ ہم متجر علماء ہیں اور کہتے ہیں کہ اس نے جو عمدہ ، رنگین، دلکش عبارات اور اچھوتے قصائد عربی زبان میں لکھے ہیں وہ اس کے اپنے نہیں ’’بل الفھا رجل من الشامیین و أخذ علیہ کثیر من المال کاالمستأجرین فلیکتب الاٰن بعدذھابہ ان کان من الصادقین‘‘ بلکہ ایک شامی عرب نے تالیف کئے ہیں اور بہت سامال اس کے عوض میں اُجرت کے طور پر لیا ہے.پس اگر

Page 29

وہ صادق ہے تو اُس کے چلے جانے کے بعد اب لکھ کر دکھائے.‘‘ (انجام آتھم.روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ ۲۳۱.ترجمہ از عربی عبارت) آپ نے ’’انجام آتھم‘‘ کے عربی حصّہ کے مقابلہ میں لکھنے کے لئے بھی علماء کو بُلایا اور اس پر انعام مقرر کیا لیکن کسی کو مقابل پر آنے کی جرأت نہ ہوئی.غلطیوں کے اعتراض کا جواب غلطیوں کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے حضور علیہ السلام نے فرمایا:.’’جو شخص عربی یا فارسی میں مبسوط کتابیں تالیف کرے گا ممکن ہے کہ حسب مقولہ قلّما سَلِمَ مِکثارٌ کوئی صرفی یا نحوی غلطی اُس سے ہو جائے اور بباعث خطاء نظر کے اس غلطی کی اصلاح نہ ہو سکے اور یہ بھی ممکن ہے کہ سہو کاتب سے کوئی غلطی چھپ جائے اور بباعث ذہول بشریت مؤلف کی اُس پر نظر نہ پڑے.‘ ‘ (کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلد۷ صفحہ ۴۷) مولوی بٹالوی کو جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:.’’ان کتبی مُبََرَّأَ ۃٌ مما زعمت و منزہۃ عَمَّا ظننت اِلاّسہوالکاتبین او زیغ القلم بتغافل منی لاکجھل الجاھلین.فان قدرت ان تثبت فیھا عثارا فخذمنّی بحذاء کل لفظ غلط دینارا واجمع صریفاً و نضارًا و کن من المتمولین.‘‘ (انجام آتھم.روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ۲۴۱،۲۴۲) یعنی میری کتابیں ایسی غلطیوں سے جیسا کہ تیرا خیال ہے مبّرا اور منزہ ہیں.ہاں سہو کاتب کی غلطیاں یا لغزش قلم سے جو بے خبری میں ایک مؤلف سے بعض وقت صادر ہو جاتی ہیں ان میں پائی جا سکتی ہیں.لیکن وہ ایسی غلطیاں نہیں جو ایک جاہل زبان سے صادر ہوتی ہیں.اگر تم کوئی ایسی غلطی بتا سکو تو مَیں ہر لفظی غلطی پر ایک دینار دوں گا اِس طرح تم سونا چاندی جمع کرکے مال دار بھی بن سکتے ہو.

Page 30

اِسی طرح حضور علیہ السلام مخالفین کے ان اعتراضوں کا ذکر کر کے کہ ان کتابوں کی عربی زبان فصیح نہیں اور یہ کہ وہ عرب اور دوسرے ادیبوں کی لکھی ہوئی ہیں اور ایک عرب گھرمیں پوشیدہ رکھا ہوا ہے وہی عرب صبح شام لکھ کر دیتا ہے فرماتے ہیں:.؂ انظر الٰی اقوالھم و تناقض سلب العناد اصابۃ ا لْاٰرءٖ طورا الی عرب عزوہ و تارۃ قالوا کلام فاسد الاملاءٖ ھٰذا من الرحمٰن یاحزب العداء لافعل شامی ولا رفقائی (انجام آتھم.روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ ۲۷۵) یعنی ان باتوں کو دیکھو اور ان کے تناقض پر غور کرو.عناد سے سچی اور اصابت رائے اِ ن سے سلب ہو گئی ہے.کبھی تو میرے کلام کو عرب کی طرف منسوب کرتے ہیں اور کبھی کہتے ہیں کہ یہ کلام اچھا نہیں اور غیر فصیح اور غلطیوں سے پُر ہے.سو اے گروہ دشمنان! سنو!! یہ رحمن خدا کی توفیق و تائید سے لکھا گیا ہے.نہ یہ کسی شامی عرب کا کام ہے اور نہ میرے رفیقوں کا.سرقہ کے اعتراض کا جواب پیر مہر علی شاہ گولڑوی اور مولوی محمد حسن صاحب فیضی وغیرہ نے یہ اعتراض بھی کیا کہ آپ نے مقامات حریری اور مقامات ہمدانی وغیرہ کتب سے فقرے سرقہ کر کے اپنی کتابوں میں لکھے ہیں.حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس اعتراض کے جواب میں فرماتے ہیں:.ہمارا تو یہ دعویٰ ہے کہ معجزہ کے طور خدا تعالیٰ کی تائید سے اِس انشا پردازی کی ہمیں طاقت ملی ہے تا معارف و حقائقِ قرآنی کو اِس پیرایہ میں بھی دنیا پر ظاہر کریں.اور وہ بلاغت جو ایک بے ہودہ اور لغو طور پر اسلام میں رائج ہو گئی تھی اُس کو کلامِ الٰہی کا خادم بنایا جائے اور جبکہ ایسا دعویٰ ہے تو محض انکار سے کیا ہو سکتا ہے جب تک کہ اس کی مثل پیش نہ کریں....یوں تو بعض شریر اور بدذات انسانوں نے قرآن شریف پر بھی یہ الزام لگایا ہے کہ اِس کے مضامین توریت اور انجیل میں سے مسروقہ ہیں اور اس کی امثلہ قدیم عرب کی امثلہ ہیں جو بالفاظہا سرقہ کے طور پر قرآن شریف میں داخل کی

Page 31

گئی ہیں.( اس مضمون پر انگریزی اور عربی اور اردو زبان میں پادریوں کی طرف سے کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں.ناقل) ایسا ہی یہودی بھی کہتے ہیں کہ انجیل کی عبارتیں طالمود میں سے لفظ بلفظ چُرائی گئی ہیں.چنانچہ ایک یہودی نے حال میں ایک کتاب بنائی ہے جو اِس وقت میرے پاس موجود ہے اور بہت سی عبارتیں طالمود کی پیش کی ہیں جو بجنسہٖ بغیر کسی تغیّر تبّدل کے انجیل میں موجود ہیں اور یہ عبارتیں صرف ایک دو فقرے نہیں ہیں بلکہ ایک بڑا حصّہ انجیل کا ہے اور وہی فقرات اور وہی عبارتیں ہیں جو انجیل میں موجود ہیں.........اِن دنوں میں ایک اَور شخص نے تالیف کی ہے جس سے وہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ توریت کی کتابِ پیدائش جو گویا توریت کے فلسفہ کی ایک جڑھ مانی گئی ہے ایک اَور کتاب میں سے چُرائی گئی ہے جو موسٰیؑ کے وقت میں موجود تھی گویا ان لوگوں کے خیال میں موسٰیؑ اور عیسٰی ؑ سب چور ہی تھے.یہ تو انبیاء علیہم السلام پر شک کئے گئے ہیں مگر دوسرے ادیبوں اور شاعروں پر نہایت قابلِ شرم الزام لگائے گئے ہیں.متنبّی جو ایک مشہور شاعر ہے اُس کے دیوان کے ہر شعر کی نسبت ایک شخص نے ثابت کیا ہے کہ وہ دوسرے شاعروں کے شعروں کا سرقہ ہے.غرض سرقہ کے الزام سے کوئی بچا نہیں.نہ خدا کی کتابیں اور نہ انسانوں کی کتابیں.اب تنقیح طلب یہ امر ہے کہ کیا درحقیقت ان لوگوں کے الزامات صحیح ہیں؟ اس کا جواب یہی ہے کہ خدا کے ملہموں اور وحی یابوں کی نسبت ایسے شبہات دل میں لانا تو بدیہی طور پر بے ایمانی ہے اور لعنتیوں کا کام کیونکہ خدائے تعالیٰ کے لئے کوئی عار کی جگہ نہیں کہ بعض کتابوں کی بعض عبارتیں یا بعض فقرات اپنے ملہموں کے دل پر نازل کرے بلکہ ہمیشہ سے سنت اﷲ اس پر جاری ہے.رہی یہ بات کہ دوسرے شاعروں اور ادیبوں کی کتابوں پر بھی یہی اعتراض آتا ہے کہ بعض کی عبارتیں یا اشعار بلفظہا یا بتغیّر مابعض کی تحریرات میں پائے جاتے ہیں تو اِس کا جواب جو ایک کامل تجربہ کی روشنی سے ملتا ہے یہی ہے کہ ایسی صورتوں کو بجز توارد کے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے.کیونکہ جن لوگوں نے ہزار ہا جزیں اپنی بلیغ عبارت کی پیش کر

Page 32

دیں ان کی نسبت یہ ظلم ہو گا کہ اگر پانچ سات یا دس بیس فقرات اُن کی کتابوں میں ایسے پائے جائیں کہ وہ یا اُن کے مشابہ کسی دوسری کتاب میں بھی ملتے ہیں تو ان کی ثابت شدہ لیاقتوں سے انکار کر دیا جائے.اِسی طرح ان لوگوں کو انصاف سے دیکھنا چاہئے کہ اب تک ہماری طرف سے بائیس۲۲ کتابیں عربی فصیح بلیغ میں بطلب مقابلہ تصنیف و شائع ہو چکی ہیں اور عربی کے اشتہارات اِس کے علاوہ ہیں (کتابوں کے نام لکھ کر فرماتے ہیں) اِس قدر تصانیف عربیہ جو مضامینِ دقیقہ علمیہ حکمیہ پر مشتمل ہیں بغیر ایک کامل علمی وسعت کے کیونکر انسان ان کو انجام دے سکتا ہے.کیا یہ تمام علمی کتابیں حریری یا ہمدانی کے سرقہ سے تیار ہو گئیں اور ہزار ہا معارف اور حقائق دینی و قرآنی جو ان کتابوں میں لکھے گئے ہیں وہ حریری اور ہمدانی میں کہاں ہیں.اِس قدر بے شرمی سے منہ کھولنا کیا انسانیت ہے؟ یہ لوگ اگر کچھ شرم رکھتے ہوں تو اس شرمندگی سے جیتے ہی مر جائیں کہ جس شخص کو جاہل اور علمِ عربی سے قطعاً بے خبر کہتے تھے اُس نے تو اِس قدر کتابیں فصیح بلیغ عربی میں تالیف کر دیں.مگر خود ان کی استعداد اور لیاقت کا یہ حال ہے کہ قریباً دس برس ہونے لگے برابر اُن سے مطالبہ ہو رہا ہے کہ ایک کتاب ہی بالمقابل اِ ن کتابوں کے تالیف کر کے دکھلائیں مگر کچھ نہیں کر سکے صرف مکّہ کے کفّار کی طرح یہی کہتے رہے کہ لَوْنَشَآءُ لَقُلْنَا مِثْلَ ہٰذا......اگر علمی اور دینی کتابیں جو ہزار ہا معارف اور حقائق پر مندرج ہوتی ہیں صرف فرضی انسانوں کی عبارتوں کے سرقہ سے تالیف ہو سکتی ہیں تو اس وقت تک کس نے آپ لوگوں کا منہ بند کر رکھا ہے.کیا ایسی کتابیں بازاروں میں ملتی نہیں ہیں جن سے سرقہ کر سکو؟ ان لعنتوں کو کیوں آپ لوگوں نے ہضم کیا جو در حالت سکوت ہماری طرف سے آپ کے نذر ہوئیں اور کیوں ایک سورہ کی بھی تفسیر عربی بلیغ فصیح میں تالیف کر کے شائع نہ کر سکے تا دنیا دیکھتی کہ کس قدر آپ عربی دان ہیں.اگر آپ کی نیت بخیر

Page 33

ہوتی تو میرے تفسیر لکھنے کے لئے ایک مجلس میں بیٹھ جاتے تا دروغ گو بے حیا کا منہ ایک ہی ساعت میں سیاہ ہو جاتا.خیر تمام دنیا اندھی نہیں ہے.آخر سوچنے والے بھی موجود ہیں.ہم نے کئی مرتبہ یہ بھی اشتہار دیا کہ تم ہمارے مقابلہ پر کوئی عربی رسالہ لکھو.پھر عربی زبان جاننے والے اس کے منصف ٹھہرائے جائیں گے پھر اگر تمہارا رسالہ فصیح بلیغ ثابت ہوا تو میرا تمام دعویٰ باطل ہو جائے گا اور مَیں اب بھی اقرار کرتا ہوں کہ بالمقابل تفسیر لکھنے کے بعد اگر تمہاری تفسیر لفظاً و معناً اعلیٰ ثابت ہوئی تو اس وقت اگر تم میری تفسیر کی غلطیاں نکالو تو فی غلطی پانچ روپیہ انعام دوں گا.غرض بے ہودہ نکتہ چینی سے پہلے یہ ضروری ہے کہ بذریعہ تفسیر عربی اپنی عربی دانی ثابت کرو.کیونکہ جس فن میں کوئی شخص دخل نہیں رکھا اس فن میں اس کی نکتہ چینی قبول کے لائق نہیں ہوتی......ادیب جانتے ہیں کہ ہزار ہا فقرات میں سے اگر دوچار فقرات بطور اقتباس ہوں تو اُن سے بلاغت کی طاقت میں کچھ فرق نہیں آتا.بلکہ اس طرح کے تصرفات بھی ایک طاقت ہے.دیکھو سبع معلّقہ کے دو شاعروں کا ایک مصرع پر توارد ہے اور وہ یہ ہے ایک شاعر کہتا ہے ع یقولون لا تہلک اٰسیً وتجمّلٖ اور دوسرا شاعر کہتا ہے ع یقولون لا تہلک اسیً وتَجَلّدٖ اب بتلاؤ کہ ان دونوں میں سے چور کون قرار دیا جائے.نادان انسان کو اگر یہ بھی اجازت دی جاوے کہ وہ چرا کر ہی کچھ لکھے تب بھی وہ لکھنے پر قادر نہیں ہو سکتا کیونکہ اصلی طاقت اس کے اندر نہیں مگر وہ شخص جو مسلسل اور بے روک آمد پر قادر ہے اُس کا تو بہرحال یہ معجزہ ہے کہ امور علمیہ اور حکمیہ اور معارف حقائق کو بِلا توقف رنگین اور بلیغ فصیح عبارتوں میں بیان کر دے.‘‘ (نزول المسیح.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ۴۳۷.۴۴۳) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ تجویز کہ ’’میرے مخالف میرے مقابل پر تفسیر لکھنے کے

Page 34

لئے ایک مجلس میں بیٹھ جاتے تا دروغ گو بے حیا کا منہ ایک ہی ساعت میں سیاہ ہو جاتا.‘‘ ایسی تجویز ہے جس سے معترضین کے تمام اعتراضات لغو اور باطل ہو جاتے ہیں.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فی الواقع عربی زبان کا علم نہ رکھتے اور دوسروں سے لکھواتے اور اپنے نام پر شائع کرتے تھے تو آپ مجلس میں بیٹھ کر فصیح و بلیغ عربی زبان میں نئے حقائق و معارف پر مشتمل تفسیر ہرگز نہ لکھ سکتے.اور اس طرح مخالف علماء کے اعتراضوں کی صداقت بآسانی لوگوں پر واضح ہو جاتی لیکن اُن کے اِس طرف رُخ نہ کرنے اور ہر دفعہ عذر اور بہانے بنا کر دعوتِ مقابلہ کو قبول نہ کرنے سے صاف ظاہر ہو گیا کہ اُن کے تمام اعتراضات لغو اور باطل تھے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اﷲ تعالیٰ نے عربی زبان کا علم عطا فرمایا تھا.اور یہی وجہ تھی کہ مخالفین کو آپ کے مقابلہ میں آنے کی جرأت نہ ہوتی تھی.تحفۂ بغداد یہ رسالہ آپ نے محرم ۱۳۱۱ھ مطابق جولائی ۱۸۹۳ء میں تالیف فرمایا.وجہ تصنیف یہ ہوئی کہ ایک شخص سید عبدالرزاق قادری بغدادی نے حیدر آباد دکن سے ایک اشتہار اور ایک خط عربی زبان میں آپ کو بھیجا جس میں اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ کو خلافِ شریعت اور ایسے مدعی کو واجب القتل اور ’’التبلیغ‘‘ کو معارضِ قرآن قرار دیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُن کے اشتہار اور خط کو نیک نیتی پر محمول کر کے محبت آمیز طریقہ سے جواب دیا اور اپنے دعویٰ ماموریت اور وفات مسیح ناصریؑ کا ثبوت اور اُمّت محمدؐیہ میں مکالماتِ الٰہیہ اور سِلسلۂ مجددین کے جاری رہنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس مکتوب کے لکھنے سے غرض یہ ہے کہ آپ اپنے خیالات کی اصلاح کریں اور اگر کسی بات کی حقیقت آپ پر ظاہر نہ ہو تو اس کے متعلق مجھ سے دریافت کریں.نیز لکھا کہ مولویوں کے فتاویٰ تکفیر سے دھوکا نہ کھائیں بلکہ میرے پاس آئیں اور بچشمِ خود حالات دیکھیں تاحقیقت کو پا سکیں اور اگر آپ لمبے سفر کی تکلیف برداشت نہ کر سکیں تو اﷲ تعالیٰ سے میرے بارہ میں ایک ہفتہ تک استخارہ کریں.استخارہ کا طریق بتا کر فرمایا کہ استخارہ شروع کرنے کے وقت سے مجھے بھی اطلاع دیں تا مَیں بھی اس وقت دُعا کروں اور رسالہ کے آخر میں دو ۲ قصیدے بھی تحریر فرمائے.

Page 35

کرامات الصادقین مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ایک مضمون کا جو انہوں نے ۹؍ جنوری ۱۸۹۳ء کو لکھ کر اپنے رسالہ اشاعۃ السنۃ جلد ۱۵ نمبر ۱ بابت ماہ جنوری ۱۸۹۳ء میں شائع کیا تھا.۳۰؍ مارچ ۱۸۹۳ء کو جواب دیتے ہوئے حضور علیہ السلام نے تحریر فرمایا کہ ’’میاں محمد حسین کو اس پر سخت اصرار ہے کہ یہ عاجز عربی علوم سے بالکل بے بہرہ اور کودن اور نادان اور جاہل ہے.اور علمِ قرآن سے بالکل بے خبر ہے.اور خدا تعالیٰ سے مدد پانے کے تو لائق ہی نہیں کیونکہ کذّاب اور دجّال ہے اور ساتھ اسکے ان کو اپنے کمالِ علم اور فضل کا بھی دعویٰ ہے.‘‘ (آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۶۰۳) اِس اشتہار میں آپ نے صدق و کذب جانچنے کے لئے یہ تجویز تحریر فرمائی کہ ایک مجلس میں بطور قرعہ اندازی ایک سورۃ نکال کر اس کی فصیح زبان عربی اور مقفّٰی عبارت میں تفسیر لکھی جائے اور اس تفسیر میں ایسے حقائق اور معارف لکھے جائیں جو دوسری کتابوں میں نہ پائے جاتے ہوں.نیز اس کے آخر میں سو۱۰۰ شعر بلیغ اور فصیح عربی میں در نعت و مدح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بطور قصیدہ درج ہوں.اور فریقین کو اس کام کے لئے چالیس دن کی مہلت دی جائے.پھر جلسۂ عام میں فریقین اپنی اپنی تفسیر اور اپنے اشعار سُنا دیں.اگر شیخ محمد حسین اس مقابلہ میں غالب رہے یا اس عاجز کے برابر رہے تو اُسی وقت یہ عاجز اپنی خطا کا اقرار کرے گا اور اپنی کتابیں جلا دے گا.لیکن اگر یہ عاجز غالب ہوا تو پھر میاں محمد حسین اُسی مجلس میں کھڑے ہو کر اِ ن الفاظ سے توبہ کرے.نیز آپ نے فرمایا کہ’’ شیخ بٹالوی کو اختیار ہو گا کہ میاں شیخ الکل اور دوسرے تمام متکبّر ملّاؤں کو ساتھ ملا لے‘‘.(آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۶۰۳) ’’ اگر اس کا جواب یکم اپریل سے دو ہفتہ کے اندر نہ آیا تو آپ کی گریز سمجھی جائے گی.‘‘ (آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد۵ صفحہ ۶۰۴.حاشیہ) اِس کے جواب میں بٹالوی صاحب نے اشاعۃ السنۃ جلد ۱۵ نمبر ۸ صفحہ ۱۹۰.۱۹۱ میں یہ لکھ کر کہ عربی

Page 36

زبان میں بالمقابل تفسیر نویسی کے لئے ’’مَیں حاضر ہوں.حاضر ہوں.حاضر ہوں‘‘ لکھ کر مقابلہ سے اپنی جان بچانے کے لئے وہ رکیک شرطیں لگائیں جن کا ذکر حضورؑ نے روحانی خزائن جلد ہذا کے صفحہ ۶۴.۶۵ پر کیا ہے.جن سے دانشمند سمجھ گئے کہ بٹالوی صاحب میدانِ مقابلہ سے گریز کر رہے ہیں.حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ مجھے اُن کے اس قسم کے تعصبات کو دیکھ کر پہلے تو دل میں یہ خیال آیا کہ اب ہمیشہ کے لئے ان سے اعراض کیا جائے لیکن عوام کا یہ غلط خیال دُور کرنے کے لئے کہ گویا میاں محمد حسین بطالوی یا دوسرے مخالف مولوی جو اس بزرگ کے ہم مشرب ہیں علمِ ادب اور حقائق تفسیر کلام الٰہی میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں قرین مصلحت سمجھا گیا کہ اب آخری دفعہ اتمامِ حجت کے طور پر بطالوی صاحب اور ان کے ہم مشرب دوسرے علماء کی عربی دا نی اور حقائق شناسی کی حقیقت ظاہر کرنے کے لئے یہ رسالہ (کرامات الصادقین.ناقل) شائع کیا جائے.(کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلد۷ صفحہ ۴۷،۴۸) یہ رسالہ چار قصائد اور تفسیر سورۂ فاتحہ پر مشتمل ہے اور یہ قصائد صرف ایک ہفتہ کے اندر حضورؑ نے لکھے اور وہ بھی اُس وقت جب آپ آتھم کے ساتھ مباحثہ سے فارغ ہو کر امرتسر میں مقیم تھے.مگر آپ نے بٹالوی صاحب اور اُن کے ہم مشرب مخالفوں کے لئے محض اتمامِ حجّت کی غرض سے پورے ایک ماہ کی مہلت دی اور فرمایا:.’’اور اگر اس رسالہ کے مقابل پر میاں بطالوی یا کسی اور اُن کے ہم مشرب نے سیدھی نیّت سے اپنی طرف سے قصائد اور تفسیر سورۂ فاتحہ تالیف کر کے بصورت رسالہ شائع کر دی تو مَیں سچے دل سے وعدہ کرتاہوں کہ اگر ثالثوں کی شہادت سے یہ ثابت ہو جاوے کہ اُن کے قصائد اور اُن کی تفسیر جو سورۂ فاتحہ کے دقائق اور حقائق کے متعلق ہو گی میرے قصائد اورمیری تفسیر سے جو اس سورۂ مبارکہ کے اسرارِ لطیفہ کے بارہ میں ہے ہر پہلو سے بڑھ کر ہے تو مَیں ہزار روپیہ نقد ان میں سے ایسے شخص کو دوں گا جو روز اشاعت سے ایک ماہ کے اندر ایسے قصائد اور ایسی تفسیر بصورت رسالہ شائع کرے اور نیز یہ بھی اقرار کرتا ہوں کہ بعد بالمقابل قصائد اور تفسیر شائع کرنے کے اگر اُن کے قصائد اور اُن کی تفسیر نحوی و صرفی اور علم بلاغت کی غلطیوں سے مبّرا نکلے اور میرے قصائد اور تفسیر سے بڑھ کر نکلے تو پھر باوصف اپنے اس کمال کے اگر میرے قصائد اور

Page 37

تفسیر بالمقابل کے کوئی غلطی نکالیں گے تو فی غلطی پانچ روپیہ انعام بھی دوں گا.......تفسیر لکھنے کے وقت یہ یاد رہے کہ کسی دوسرے شخص کی تفسیر کی نقل منظور نہیں ہو گی بلکہ وہی تفسیر لائق منظوری ہو گی جس میں حقائق و معارفِ جدیدہ ہوں.بشرطیکہ کتاب اﷲ اور فرمودۂ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم سے مخالف نہ ہوں.‘‘ (کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلد۷ صفحہ ۴۹) اس مقابلہ کے بارے میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ’’کرامات الصادقین‘‘ میں ہی یہ بھی تحریر فرمایا:.’’ہم فراستِ ایمانیہ کے طور پر یہ پیشگوئی کر سکتے ہیں کہ شیخ صاحب اِس طریق مقابلہ کو بھی ہرگز قبول نہیں کریں گے اور اپنی پُرانی عادت کے موافق ٹالنے کے لئے کوشش کریں گے.......مگر اب شیخ صاحب کے لئے طریق آسان نکل آیا ہے کیونکہ اس رسالہ میں صرف شیخ صاحب ہی مخاطب نہیں بلکہ وہ تمام مکفر مولوی بھی مخاطب ہیں جو اِس عاجز متبع اﷲ اور رسولؐ کو دائرۂ اسلام سے خارج خیال کرتے ہیں.سو لازم ہے کہ شیخ صاحب نیاز مندی کے ساتھ اُن کی خدمت میں جائیں اور اُن کے آگے ہاتھ جوڑیں اور رو ویں اور اُن کے قدموں پر گِریں......لیکن مشکل یہ ہے کہ اِس عاجز کو شیخ جی اور ہر یک مکفّر بد اندیش کی نسبت الہام ہو چکا ہے کہ انّی مھین من اراد اھانتک اس لئے یہ کوششیں شیخ جی کی ساری عبث ہوں گی اور اگر کوئی مولوی شوخی اور چالاکی کی راہ سے شیخ صاحب کی حمایت کے لئے اٹھے گا تو منہ کے بل گرایا جائے گا.خدا تعالیٰ اِن متکبر مولویوں کا تکبّر توڑے گا اور انہیں دکھلائے گا کہ وہ کیونکر غریبوں کی حمایت کرتا ہے.‘‘ (کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلد۷ صفحہ۶۶،۶۷) اور ایسا ہی ہوا.نہ شیخ محمد حسین بٹالوی کو ہمت ہوئی اور نہ ہی دوسرے مکفرین کو کہ وہ اِس رسالہ کے مقابلہ پر رسالہ لکھ کر اپنی عربی اور قرآن دانی کا ثبوت دیتے.

Page 38

حمامۃ البشریٰ ایک عرب صاحبِ علم و فضل محمد بن احمد مکّی شعب عامر مکّہ معظمہ کے رہنے والے تھے وہ ہندوستان کی سیاحت کر رہے تھے جب انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کی خبر پہنچی وہ قادیان تشریف لائے اور حضورؑ کے دستِ مبارک پر بیعت کی اور کچھ عرصہ قادیان میں آپ کی صحبت میں رہ کر مکّہ معظمہ واپس پہنچے تو آپ نے ۲۰؍ محرم ۱۳۱۱ھ مطابق ۴؍ اگست ۱۸۹۳ء حضورؑ کی طرف ایک خط لکھا.جس میں اپنے بخیریت مکہ معظمہ پہنچنے اور مختلف لوگوں سے حضورؑ کا ذکر کرنے اور ان کے مختلف تاثرات کے ذکر کے بعد یہ خوشخبری لکھی کہ مَیں نے اپنے دوست علی طائع کو جو شعبِ عامر کے رئیس اور تاجر ہیں حضورؑ کے دعویٰ سے مفصّل خبر دی تو وہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے کہا کہ میں حضورؑ کی خدمت میں عرض کروں کہ حضورؑ اپنی کتابیں اُن کے پتہ پر بھیجیں اور وہ انہیں شرفاء اور علماء مکّہ مکرمہ میں تقسیم کریں گے.اِس خط کے ملنے پر حضورؑ نے تبلیغ حق کا ایک غیبی سامان سمجھتے ہوئے رسالہ ’’حمامۃ البشریٰ‘‘ عربی زبان میں تصنیف فرمایا یہ رسالہ حضورؑ نے ۱۸۹۳ء میں رقم فرمایا.لیکن اس کی اشاعت فروری ۱۸۹۴ء میں ہوئی.اِس رسالہ میں آپ نے اپنے دعوی ئ مسیحیت اور اس کے دلائل خوب وضاحت سے لکھے اور خروجِ دجّال اور وفاتِ مسیحؑ اور نزولِ مسیح اور ان سے متعلّقہ امور پر سیر کن بحث کی اور مکفرین علماء کی طرف سے آپ کے عقائد اور آپ کے دعویٰ پر جو اعتراضات کئے جاتے تھے ان کے تفصیلی جوابات دیئے.الغرض یہ کتاب عربی ممالک کے لئے ایک نہایت مفید کتاب ثابت ہوئی.خاکسار جلال الدین شمس

Page 39

Page 40

Page 41

Page 42

Page 43

Page 44

Page 45

الحمد للّٰہ والسلام علی عبادہ الذین اصطفی، وبعد: فإنی رأیت فی ہذہ الأیام اشتہارا ومکتوبًا أَرسل إلیَّ السید عبدالرزاق القادری البغدادی من حیدرآباد دکن.فلما قرأت الاشتہار إذا ہو من أخ مؤمن یخوّفنی کما یخوّف الملِکُ المقتدرُ المرتدَّ الکافرَ الفجّارَ ویسل لقتلی السیف البتّار وقد صال علیَّ کرجل یہجم علی رجل فزفر زفرۃ القیظ وکاد یتمیّز من الغیظ ونظر إلیَّ کالمحملقین.ورأیت أنہ ما مسَّ وسائل العرفان وما دنا أواصر تحقیق البیان وکفّرنی وسبّنی وحسبنی من الذین کفروا أو ارتدوا فأراد أن یکون أوّلَ اللاعنین والقاتلین.وإنہ قد فتن قلوب بعض الناس وأدناہم من شر الوسواس فسنح لی أن أکتب فی ہذہ الرسالۃ ما ینفعہ وینفع عرب الحرمَین ویسرّ الناظرین.فالآن نکتب أوّلًا اشتہارہ ومکتوبہ ثم نکتب جوابہ ونہذّب أسلوبہ.فأیہا القارئ! انظُرْ فیہ بنظر الوداد زادک اللّٰہ فی الصلاح والسداد وہُنِّیتَ بما أُوتیتَ ومُلِّیتَ بما أُولِیتَ وما توفیقی إلا باللّٰہ النصیر المعین.الاشتہار من السیّد البغدادی رحمہ اللّٰہ وہداہ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم الحمد للّٰہ وحدہ ،والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ ، وعلی

Page 46

آلہ وصحبہ وحزبہ وبعد: فمما لا یخفی علی أساطین الدین المتین وعلماء أئمۃ المسلمین ما ظہر ظہور الشمس وما بان بیان الأمس من خرافات وکفریات المرزا غلام أحمد القادیانی الپنجابی وما ادّعاہ من أنہ المسیح بن مریم وأنہ یُلقَی إلیہ الإلہامات من حضرۃ الحق سبحانہ وتعالٰی ویُوحِی إلیہ ویُکلّمہ کفاحًا ویُخا طبہ شفاہًا وأن اللّٰہ أرسلہ لکسر الصلیب وقتل الخنزیر وإقامۃ الحدود الشرعیۃ واللّٰہ تعالی یُخاطبہ ویُناجیہ بقولہ: یا عیسی بن مریم إنی أرسلتک للناس کافّۃً فاصدَعْ بما تؤمر وأعرِضْ عن الجاہلین وأن بیعتہ حق وأن عیسی توفّاہ اللّٰہ ولیس بحیّ وأنہ ہو عیسی بذاتہ وغیر ذلک مما ترتجّ منہ الأضالع وتستکّ منہ المسامع کما رأیتہ مسطورا فی کتابہ المسمی بمرآۃ کمالات الإسلام الذی عارض بہ القرآنَ وہتَک بہ شریعۃ سیّدِ وُلْدِ عدنان علاوۃ علی ما ذکرہ فی کتبہ السابقۃ من أساطیرہ الکاذبۃ.وہذا مما لا یطیق الصبر علیہ إلا مَن طمس اللّٰہ بصرہ وطبع علی بصیرتہ.والعجب العجاب أن فی دیار الہند عامّۃً وفی ریاسۃ حیدر آباد خاصّۃ مِن فحول العلماء وأشبال الفضلاء ما یضیق عن کثرتہم نطاق الحصر ہذا مع کونہم علموا واطّلعوا علی شقاشق ذلک الدّجال المضلّ الضالّ البطّال الذی لا یُطہّرہ فی الدنیا إلا السیف البتّار ولا فی الآخرۃ إلا النّار فلم أر مَن شمّر عن ساعدِ جِدِّہ وأَرْوی فی مجال میدان الحق فِرَنْدَہ وکفَحہ بصارمِ ہمّتہ وبیانہ وطعَنہ بسنان قلمہ وتبیانہ وردَّ أقوالہ وأوقفَہ علی شؤم أفعالہ وأنقذ عباد اللّٰہ المؤمنین من شر فتنتہ ونصر دین رسول اللّٰہ صلعم وشریعتہ.فوا أسفاہ! ووا أسفاہ! ثم وا أسفاہ علی أہل ہمّۃ البطون إنَّا للّٰہ وإنَّا

Page 47

إلیہ راجعون.وحیث إنی اطلعت علی کل صفحات کتاب ذلک الضال الممسوخ الدجّال وما ہتَک بہ شریعۃ سیّد الأنام وما تعدّی بالازدرآء علی سیدنا عیسٰی علیہ السلام ووقفتُ علی تمام عباراتہ التی لا یتفوّہ بہا إلا کل مخذول أو زندیقًا شاکًّا فی رسالۃ الرسول مع تناقُض أقوالہ عن بعضہا بعض التزمت وباللّٰہ أستعین إذ ہو الناصر والمعین أن أرُدّ کتابہ حرفًا بحرفٍ وصفًّا بصفٍّ بکتاب أسمّیہ ’’کشف الضلال والظلام عن مرآۃ کمالات الإسلام‘‘ ردًّا یسرّ إن شاء اللّٰہ نظر الناظر ویشرح بفضل اللّٰہ القلب والخاطر.ثم عزمت أن أرسل کتاب المر دود علیہ إلی العراق وبغداد لیحکمون العلماء الأعلام علی مُصنفہ کونَہ من أہل الزیغ والإلحاد فأکون إن شاء اللّٰہ السبب الأقوی لحسم مادّۃ ہذا الفساد وجلاء تلک الغُمّۃ المدلہمّۃ عن سائر العباد خدمۃً منی للشریعۃ الأحمدیۃ وغیرۃً علی ناموس الْمِلّۃ المحمدیۃ.وأؤمل والأمل باللّٰہ قوی أن یکون إکمال ہذا الردّ علی المردود بظرف ثلاثۃ أشہر فوجب أوّلًا شہرُ الحال بوجہ الاشتہار لکافّۃ مَن وقف علیہ أن یعلموا علمًا یقینًا لا مِریۃ فیہ مِن أن ہذا الممسوخ وأمثالہ یُطلَق علیہم قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم دجّالون کذّابون یأ تونکم بالأحادیث بما لم تسمعوا أنتم ولا آباؤکم فإیاکم وإیاہم لا یُضلّونکم ولا یفتنونکم.ہذا واللّٰہ الہادی إلی سواء السبیل فہو حسبنا ونعم الوکیل فقط.المشتہر السید عبد الرزاق القادری النقشبندی الرفاعی البغدادی وارد حال بلدۃ حیدر آباد.

Page 48

مکتوب السّید البغدادی رحمہ اللّٰہ وہداہ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم الحمد للّٰہ والصّلاۃ والسلام علی رسول اللّٰہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ.الوصیّۃ لی ولإخوانی بتقوی اللّٰہ من العبد المُفتقر إلی رحمۃ الملِک الحنّان المدعو بالسید عبد الرزاق القادری النقشبندی البغدادی أنالہ اللّٰہ شفاعۃ نبیہ الہادی وحفِظہ من کید الشیاطین والأعادی إلی خدمۃ الأجلّ والمطاع المبجّل العالم الفاضل والمجتہد الکامل حلّالُ رموز المشکلات بألطف المعانی وأظرف الترصیف والمبانی المولوی مرزا غلام أحمد القادیانی حفظہ اللّٰہ من زلۃ القدم وعثرۃ اللسان والقلم بحُرمۃ النبی الأکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم آمین.أما بعد فالسلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ.لا یخفی أنہ قد اطلعتُ علی کتابکم المسمی بمرآۃ کمالات الإسلام وعلِمت بما فیہ وأحطت فہمًا بمعانیہ وفحاویہ ونکاتہ ومبانیہ والجواب ما نری لا ما تسمع ولو لم تقسمون علی من اطّلع علی ذلک الکتاب بأن یردّ خطأہ ویوضِّح لفظہ لما صرفنا عِنان القلم إلی ردّہ.وقد جرت سُنّۃ أہل العلم من قدیم الزمان وحادثہ فی الردّ علی الباطل وبالتزییف علی العاطل.ولعل ورَدکم الاشتہار فی ہذا الباب فلا تکونوا بالوجل وارفعوا عنکم نقاب الخجل.فلعل أن لا یتیسر طبع کتابنا لقرب سفرنا إلی الوطن لکن أرجو أن تتحفونی بنسخۃ من مرآتکم فإن النسخۃ التی ہی عندی عاریۃ بشرط أن تُسرعون بإرسالہا فی البرید والسلام خیر الختام.ملتمسہ السیّد عبد الرزاق القادری النقشبندی البغدادی غفر اللّٰہ لہ مؤرخۃ ۲۸ ذی الحجۃ سنۃ ۱۳۱۰ھ

Page 49

جواب الاشتہار والمکتوب بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم الحمد للّٰہ ربّ العالمین والصلاۃ والسّلام علی رسولہ محمد سیّد النبیّین وخاتم المرسلین وفخر الأولین والاٰخرین ومنبع کل فہم وحزم ونور وہدی وسراج منیر للسالکین المتّبعین وعلی آلہ الہادین وأصحابہ الذین شادوا الدّین وعلی کل من تبعہ من الأولیاء والشہداء والصلحاء أجمعین.السّلام علیکم أیہا الصلحاء المعزَّرون الموقَّرون المعظَّمون مِن إخوانکم المحقَّرین المکفَّرین المطرودین المہجورین.وبعد فإنہ قد بلغنی مکتوبک واشتہارک یا أخی بقریتی ’’قادیان‘‘ فأشکرک وأدعو لک فإنک ذکّرتنی وذاکرتنی سُبُلا تحسبہا مستقیمۃ ولُمْتَنی غیرۃً علی دین اللّٰہ ورسولہ کالمغضبین فجزاک اللّٰہ أحسن الجزاء وأحسن إلیک وہو خیر المحسنین.وأری أنّک رجل صالح طیّب فإنک ما صبرت علی ما حاک فی صدرک ولم تألُ نُصحًا ولم تداہن قولا وکذلک سِیَرُ الصالحین.ولکن أیہا الخِلُّ الودود والحِبُّ المودود عفا اللّٰہ عنک قد استعجلتَ وحسبت أخاک المؤمن باللّٰہ ورسولہ وکتابہ مرتدًّا ومن الکافرین.ولوّمتنی ورمَیتنی بالسِّہام قبل أن تُفتِّش حقیقۃ الأمر وتفہم سرّ الکلام أو تستفسر منی کدأب المحققین.والعجب منک ومن مثلک رجل صالح تقیّ نقیّ حلیم کر یم أنک تکتب فی اشتہارک أن جزاء ہذا الرجل المرتد أن یُقتَل بالسّیف البتّار أو یُلقی فی النار کما ہو جزاء المرتدین.أیہا الأخ الصالح أسرّک اللّٰہ ورعاک وحفظک وحماک وفتح

Page 50

عینک وہداک لا تخوّفنی من سیفٍ بتّارٍ ولا رُمح ولا نار وقد قُتلنا قبل سیفک بسیفٍ لا تعلمہ وذُقنا طعم نارٍ لا تعرفہا وإنّا إن شاء اللّٰہ بعد ذلک من المنعمین.أیہا العزیز إن الذین أخلصوا قلوبہم للّٰہ وأسلموا وجوہہم للّٰہ وشربوا کأسًا من حُبّ اللّٰہ فلا یضیّعہم اللّٰہ ربّہم ولا یترکہم مولاہم ولو عاداہم کلّ ورق الأشجار وکل قطرۃ البحارِ وکل ذرۃ الأحجار وکلّ ما فی العالمین.بل الذین یطیعونہ ولا یبتغون إلا مرضاتہ ہم قوم لا یحزنہم إلا فراقہ وإذا وجدوا ما ابتغوا فلا یبقی لہم ہمٌّ ولا غمٌّ بعد ذلک ولو قُتلوا وأُحرقوا ولا یضرّہم سبُّ قوم ولا لعنُ فرقۃ ویجعل اللّٰہ کلَّ لعنۃٍ برکۃً علیہم وکلَّ سبٍّ رحمۃً فی حقہم.ألا یعلم ربنا ما فی صدورنا؟ أأنت أعلم منہ؟ فلا تکن من المستعجلین.یا أخِی ما ترکتُ السبیل وما عاصیتُ الرب الجلیل.ولیس کتابنا إلا الفرقان الکریم ولیس نبیّنا ومحبوبنا إلا المصطفی الرحیم ولعنۃ اللّٰہ علی الذین یخرجون عن دینہ مثقال ذرّۃ فہم یدخلون جہنم ملعونین.ولکن یا أخی إن فی کتاب اللّٰہ نِکاتًا ومعارف لا یزاحمہا عقیدۃ ولا یناقضہا حکمٌ ولا یُلقّاہا من الأمم إلا الذی وجد وقت ظہورہا وکان من المنقطعین المبعوثین.وللّٰہ أسرارٌ وأسرارٌ وراء أسرارٍ لا تطلع نجومہا إلا فی وقتہا فلا تجادل اللّٰہ فی أسرارہ.أتجترء علی ربک وتقول لما فعلت کذا ولم ما فعلت کذا؟ یا أخِی فوِّضْ غیب اللّٰہ إِلی اللّٰہ ولا تدخل فی غیوبہ ولا تزخّ دقائق المعارف التی دقّ مأخذہا فی ظواہر الشرع ولا تَقْفُ ما لیس لک بہ علم وثبِّتْ نفسک علی سبیل المتقین.ما کان إیمان الأخیار من الصحابۃ والتابعین بنُزول المسیح

Page 51

علیہ السلام إلا إجمالیا وکانوا یؤمنون بالنُزول مجملا ویفوّضون تفاصیلہا إلی اللّٰہ خالق السماوات والأرضین.وکیف یجوز نزول المسیح علیہ السلام علی المعنی الحقیقی واللّٰہُ قد أخبر فی کتابہ العزیز أنہ تُوفِّی ومات؟ یعنی ماتوا کلہم کما استدل بہ الصِّدّیق الأکبر عند وفاۃ النبی صلی اللّہ علیہ وسلم فما بقی شک بعد ذٰلک فی وفاۃ المسیح وامتناع رجوعہ إن کنتم باللّٰہ وآیاتہ مؤمنین.وقد ختم اللّٰہ برسولنا النبیین وقد انقطع وحی النبوۃ فکیف یجیء المسیح ولا نبی بعد رسولنا؟ أیجیء معطَّلا من النبوۃ کالمعزولین؟ وقد بشّرنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن المسیح الاٰتی یظہر من أمتہ وہو أحدٌ من المسلمین.وفی الصحاح أحادیث صحیحۃ مرفوعۃ متصلۃ شاہدۃ علی وفاۃ عیسی علیہ السلام خصوصًا فی البخاری ۶؂ بیان مصرح فی ہذا الأمر.فالعجب کل العجب علی فہم رجل یشکّ فی وفاتہ بعد کتاب اللّٰہ ورسولہ

Page 52

ویتذبذب کالمرتابین.وبأیِّ حدیث بعد اللّٰہ وآیاتہ نترک متواترات القرآن؟ أنُؤْثِر الشکّ علی الیقین؟ والقوم لا یتفق علی صعود المسیح حیًّا إلی السماء بل لہم آراءٌ شتّی بعضہم یقول بالوفاۃ وبعضہم بالحیاۃ.ولن تجد من النصوص الفرقانیۃ والأحادیث النبویۃ دلیلا علی حیاتہ بل تسمع من الأخبار والآثار ومن کل جہۃ نعیَ الموت.وقد تُوفّی رسولنا صلی اللّٰہ علیہ وسلم أہو خیرٌ منہ أم ہو لیس من الفانین؟ ورآہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی لیلۃ المعراج فی الموتی من الأنبیاء علیہم السلام أفتظن أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخطأ فی رؤیتہ أو قال ما یُخالف الحق؟ حاشا بل إنہ أصدق الصادقین.فہذا ہو السبب الذی ألجأنا إلی اعتراف وفاۃ المسیح وشہد علیہ إلہامی المتواتر المتتابع من اللّٰہ تعالی.وما نری فی ہذہ العقیدۃ مخالفۃ بقول رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا بعقیدۃ الصحابۃ ولا التابعین.والصحابۃ کلہم کانوا یؤمنون بوفاۃ المسیح وکذلک الذین جاؤوا بعدہم من عباد اللّٰہ المتبصّرین.ألا تنظر صحیح البخاری کیف فسّر فیہ عبد اللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہ آیۃ 33 فقال: متوفّیک : ممیتُک.وأشار الإمام البخاری إلی صحّۃ ہذا القول بإیرادہ آیۃ إِنِّی مُتَوَفِّیکَ فی غیر محلّہ وہذہ عادۃ البخاری عند الاجتہاد وإظہار مذہبہ کما لا یخفی علی الماہرین.أیہا الأخ الصالح! انظُرْ کیف أشار البخاری رحمہ اللّٰہ إلی مذہبہ بجمع الآیتین فی غیر المحلّ وإراء ۃ تظاہُرہما.واعترف بأن المسیح

Page 53

قد مات فتدبَّرْ فإن اللّٰہ یحب المتدبّرین.وما کان لی منفعۃٌ وراحۃٌ فی ترک کتاب اللّٰہ وسُنن رسولہ وحملِ أوزار خسران الدنیا والآخرۃ وسماع لعن اللاعنین.أیہا الأخ الکریم! لَلحقُّ أحقُّ أن یُتّبع والصدق حقیق بأن یُقبَل ویُستمَع وید الحق تصدع رداء الشک والحق ہو الجوہر الذی یظہر عند السبک ویتلألأ فی وقتہ الذی قدّر اللّٰہ لہ ولکل نبأٍ مستقرٌّ ولکل نجمٍ مَطلعٌ ولا تُعرف الأسرار إلا بعد وقوعہا.فطوبٰی لمن فہم ہذا السر وأدرک الأمر کالعاقلین.وإنّی أتیقّن أن مثلک مع کمال فضلک وتقواک لو کان مُطّلعًا علی معارف اطّلعتُ علیہا لکفَّ لسانہ من لعنی وطعنی ولَقَبِلَ ما قلتُ من معارف الملّۃ والدّین ولکنی أظنّک ما فہمتَ حقیقۃ مقالی وما علمتَ صورۃ محالی وما ظنی فیک إلا الخیر وأسأل اللّٰہ لک فضلہ ورحمتہ وہو أرحم الرّاحمین.یا قُرّۃ أرضٍ مبارکۃٍ وسُلالۃَ أہلہا! أنت بحمد اللّٰہ تقیّ ونقیّ وزکیّ وإنی أحبّک وأصافیک کا لمخلصین.وأُوتیکَ مُوثقًا من اللّٰہ علی أنی أُوافقک وأقبل قولک إن تُرِنی آیاتِ الفرقان علی صحۃ زعمک وتأتِنی بسُلطان مبین.وما أبتغی إلا الحق وقد شققتُ عصا الشِقاق وارتضعتُ أفاویق الوفاق فجادِلْنی بالحکمۃ وآیات کتاب اللّٰہ السبّاق وستجدنی إن شاء اللّٰہ من المنصفین.وإن کنت أن تشتہی أن تسبّنی أو تلعننی أو تکذّبنی أو تقتلنی بسیف بتّار أو تلقینی فی نارٍ فاصنع ما شئت وما أرُدّ علیک إلا دعاء الخیر والعافیۃ.یا أہل البیت یرحمکم اللّٰہ فی الدنیا والآخرۃ وآواکم فی المرحومین.

Page 54

أیہا الشیخ! دعِ النزاع وما ینبغی النزاع فاتّق اللّٰہ وأدرِکْ فرصۃ لا تُضاع وارتحلْ إلیّ رحلۃ الصادق المُعِدّ وسِرْ نحوی سیر المُجِدّ وتفضَّلْ وتجشَّمْ إلی بیتی وکُلْ إلی شہرین من قرصی وزیتی سیُریک اللّٰہ حالاً لا ینکشف عن ید غیری من أہل البلدان وجَوّابتہا ولا من تألیفاتٍ محدودۃ البیان فتعرفنی بعین الیقین.وإن تقصدنی مُخلِصًا فأدعولک فی آناء اللیل وأطراف النہار وأرجو أن یطمئن قلبک وأری آثار الاستجابۃ وتنجاب غشاوۃ الاسترابۃ واللّٰہ قدیر ونصیر ومُعین.أیہا الأخ الشریف الصالح! لا تنظُرْ إلی تکفیر العلماء وتکذیبہم فإنی أعلم من اللّٰہ ما لا یعلمون وقد علمتُ حقیقۃ الأمر من ربّی وہم من الغافلین.ولا تنظر إلی ذلّتی وہوانی وحقارتی فی أعین إخوانی فإن لی من اللّٰہ تعالی فی کل یوم نظرۃً.أُقلَّبُ نحو الشمال ونحو الیمین وأتقلّبُ فی الحالَین بؤس ورَخاء وأُنقَلُ مع الریحَین زعزع ورُخاء والعاقبۃ خیر لی إن شاء اللّٰہ وإنی من المبشَّرین.الیوم یحقّرون ویکذّبون ویکفّرون وأراہم علیَّ حریصین لو کانوا قادرین وسیأتی زمان یظہر صدقی فیہ ویُرِی اللّٰہُ عبادَہ آیات فضلہ علیَّ فیجتلون أنوار عنایاتہ ومطارف تفضّلاتہ فیأتوننی مُنکسرین.فطو بٰی لعین رأتنی قبل وقتی وطوبٰی لسعید جاء نی کالمخلصین.أیہا الشیخ! الوقت قد دنٰی ومعظم العمر قد فنی فأْتنی علی شریطۃ الصبر والتوقّف وقبول الہُدیٰ وعُدْ إلی الحق ودعِ العداء ولا تنس حقک فی العُقبی ولا تُبارز المولی وسارِعْ إلیَّ مُرتدعًا لیغفر لک اللّٰہ ما سلف وما مضی وطاوِعِ الحق وکن من المطاوعین.

Page 55

وإن کنت لا تقدر علی ہذا السفر البعید فلک طریق أُخرٰی.فإن کنت فاعِلَہا فأخرِجْ أوّلًا مِن صدرک کلَّ ما دخل فیہ من سوء الظن ثم قُمْ وتوضّأْ وصلِّ رکعتین وصلِّ وسلِّمْ واستغفرْ استغفار التائبین ثم اضطجعْ مستقبلا علی مُصلاک وتَخَلَّ بمُناجاۃ مولاک واسأل اللّٰہ لاستکشاف حالی وحقیقۃ مقالی ثم نَمْ قائلا: یا خبیر أخبِرْنی فی أمر أحمد بن غُلام مرتضٰی القادیانی أہو مردودٌ عندک أو مقبول؟ أہو ملعون عندک أو مقرون؟ إنک تعلم ما فی قلوب عبادک ولا تُخطی عینک وأنت خیر الشاہدین.ربنا آتنا من لدنک علمًا جاذبًا إلی الحق ونظرًا حافظًا من نقل الخطوات إلی خطط الخطیّات وأدخِلْنا فی الموفَّقین.ما کان لنا أن نُقدّم بین یدیک أو نتصرّف فی سرائر عبادک ربنا اغفرلنا ذنوبنا وإسرافنا فی أمرنا وافتح عیوننا ولا تجعلنا من الذین یُعادون أولیاء ک أو یحبّون المفسدین.آمین ثم آمین.واستخِرْ یا أخی من جمعۃ إلی جمعۃٍ أُخری وعقِّبْ تہجُّدَک بہذہ الرکعتین وأخبِرْنی إذا أردت أن تشرع فی ہذا لأُرافقک فی دُعائک وأدعو لک فی ابتغائک وأرجو أن یسمع ربی ندائی ویقبل دُعائی إنہ کان بی حفیًّا وإنہ نور عینی وقوۃ أعضائی واللّٰہ إنی لمن المقبَّلین.أیہا العزیز! أراک فتیً صالحًا فأرجو أن تقبل ما قُلتُ لک وأرجو أن تُدرکک رِقّۃٌ علی دین سیّدی وسیّدک وجدّک صلی اللّٰہ علیہ وسلم وتسلُک مسلک العارفین.تَذ کَّرْ یا أخی یوم التنادی وتُبْ قبل الرحیل إلی المعادِ

Page 56

فأخرِجْ کلَّ حقدک مِن جَنانٍ وزَکِّ النفس من سمّ العنادِ وخَفْ قہر المہیمنِ عند ذنبٍ وقِفْ ثم انتہِجْ سُبُل الرشادِ وأُقسِم أننی یا ابن الکرامِ لقد أُرْسلِتُ من رب العبادِ وقد أُعطیتُ علمًا بعد علمٍ وکأسًا بعد کأس مِن جوادی وحِبِّی کل حین یجتبینی ویُدنینی ویعطینی مرادی فما أُشقٰی بلعن اللاعنینا وصدقی سوف یذکر فی البلادِ وکأسٍ قد شربنا فی وِہادٍ وأُخرٰی نشربَنْ فوق المصادِ ولست أخاف من موتی وقتلی إذا ما کان موتی فی الجہادِ وآثرْنا الحبیب علی حیاۃ وقمنا للشہادۃ بالعَتَادِ وما الخسران فی موتٍ بتقوی وخسرُ المرء فی سبل الفسادِ وإنی قد خرجت إلی ذُکاءٍ ففارت عینُ نورٍ من فؤادی بحمد اللّٰہ إن الحِبّ معنا وما یرمی متاعی بالکسادِ ویدنینی بحضرتہ بلطفٍ ویسقینی مدام الاتّحادِ وإنّ ہدایۃ الفرقان دینی وأدعوکم إلی نہج السَّدادِ فقُمْ إن شئت کالأحباب طوعًا وإما شئت فاجلِسْ فی الأعادی وقد بارا العدو بعزمِ حربٍ وبارزْنا فیا قومی بدادِ وکان نصیحۃ للّٰہ فرضی فقد بلّغتُ فرضی بالودادِ أیہا الأخ العزیز! ما جئتُ کطارق لیل أو غثاء سیل إن جئتُ إلا فی وقت الضرورۃ وعلی رأس الماءۃ وجعلنی اللّٰہ لہذہ الماءۃ مجدِّدًا لأجدّد الدین وقد جاء فی الأخبار الصحیحۃ أن اللّٰہ یبعث لہذہ الأمّۃ علی رأس کل ماءۃ من یجدد دینہا فتحسَّسْ مَن مجدّد

Page 57

ہذہ الماءۃ؟ وتفکَّرْ فإن اللّٰہ یؤیّد المتفکّرین.وقد جاء فی أخبار أُخْریٰ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لما تُوفی صاحت الأرض فقالت: یا رب بقیت خالیۃ إلی یوم القیامۃ من أقدام الأنبیاء صلاۃ اللّٰہ علیہم أجمعین.فأوحی اللّٰہ تعالی إلیہا وقال: إنی أخلق علیک أُناسًا قلوبہم کقلوب الأنبیاء منہم الأقطاب ومنہم الأبدال ومنہم الغوث ومنہم دون ذلک وکلٌ من المکلَّمین الملہَمین ومنہم من یکون قلبہ کقلب نوح وإبراہیم وموسی ومنہم الذی کان قلبہ کقلب عیسٰی ویجیؤن علی أقدام النبیین.فانظر یا أخی آثارَ رحمۃ اللّٰہ کیف أکرم ہذہ الأمّۃ وجعلہم بأنبیاء بنی إسرائیل مُشابہین.وإن تعجَب فعجبٌ قول الذین یقولون: کیف جاء مثیل المسیح وإنْ ہذہ إلا کلمۃ الکفر؟ ولا ینظرون إلی ما قال اللّٰہ ورسولہ ولا یتفکرون فی الآیات والآثار ویعیشون کالنائمین.یا أخی انظر فی البخاری وغیرہ من الصحاح کیف بشّر نبیّنا ورسولنا صلی اللّٰہ علیہ وسلم وقال: إنہ سیکون فی أمّتہ قوم یکلَّمون مِن غیر أن یکونوا أنبیاء ویُسمَّون محدَّثین.وقال اللّٰہ جلّ شأنہ 3.333 ۱؂وحثَّ عبادہ علی دعاء: 33333 ۲؂فما معنی الدعاء لو کُنّا من المحرومین؟ وأنت تعلم أن الذین أنعم اللّٰہ علیہم أوّلًاہم الأنبیاء والرسل وما کان الإنعام مِن قسمِ درہم ودینار بل من قسم علوم و

Page 58

معارف ونزول برکاتٍ وأنوار کما تَقرّرَ عند العارفین.وإِذا أُمرنا بہذہ الدعاءِ فی کل صلاۃ فما أمَرَنا ربُّنا إلا لیُستجاب دعاؤنا ونُعطَی ما أُعطیَ من الإنعامات للمرسلین.وقد بشّرنا عزّ اسمہ بعطاء إنعاماتٍ أنعم علی الأنبیاء والرُّسُل من قبلنا وجعلنا لہم وارثین.فکیف نکفر بہذہ الإنعامات ونکون کقوم عمین؟ وکیف یمکن أن یُخلِف اللّٰہ مواعیدہ بعد توکیدہا ویجعلنا من المخیَّبین؟ أنت تعلم یا أخِی أن سراۃ الْمُنعَمین علیہم ہم الأنبیاء والرسل وقد بشّرنا اللّٰہ بعطاء ہُداہم وبصیرتہم الکاملۃ التی لا تحصل إلا بعد مکالمۃ اللّٰہ تعالی أو رؤیۃ آیاتہ.عفا اللّٰہ عنک کیف زعمت أن أولیاء اللّٰہ محرومون من مُکالمۃ اللّٰہ ومخاطباتہ ولیسو ا من المکلََّمین؟ یا أخی أنت تعلم أن کتب القوم مملوّۃ من ذکر مکالمات اللّٰہ بأولیاۂ ومخاطبات حضرۃ الحق بعبادہ المقرّبین وہو الکریم الذی یُلقی الروح علی من یشاء من عبادہ ویزید من یشاء فی الإیمان والیقین.أما قرأت فی ’’فتوح الغیب‘‘ الذی لسیدی الشیخ عبد القادر الجیلانیؓ کیف ذکر حقیقۃ المکالمات؟ وقال: إن اللّٰہ تعالی یکلّم أولیاء ہ بکلام بلیغ لذیذ وینبۂم من أسرار ویخبرہم من أخبار ویعطیہم عِلم الأنبیاء ونور الأنبیاء وبصیرۃ الأنبیاء ومعجزات الأنبیاء ولکن وراثۃً لا أصالۃ ویجعلہم متصرّفین فی الأرض والسماوات وفی جمیع ملکوت اللّٰہ.فانظُرْ إلی مراتبہم ولا تتعجب فإن اللّٰہ فیّاضٌ یعطی عبادہ ما یشاء ولیس بضنین.واللّٰہُ قصّ علینا قصص الملہَمین فی کتابہ العزیز وأنبأنا أنہ کلَّم أُمَّ موسی علیہ السلام وکلَّم ذا القرنین

Page 59

وکلَّم الحواریّین.وما کان أحدٌ منہم نبیًّا ولا رسولًا ولکن کانوا من عبادہ المحبوبین.ألیس من أعجب العجائب أن یکلّم اللّٰہ نساء بنی إسرائیل ویعطی لہُنّ عِزّۃَ مکالماتہ وشرف مخاطباتہ وما یعطی لرجال ہذہ الأمّۃ نصیبا منہا وہی أمّۃ خیر المرسلین؟ وقد سمّاہا خیر الأمم وختَم بہا الأمم کلہا وقال: ثُلَّۃٌ مِّنَ الآخِرِینَ یعنی فیہا کثیر من المکمّلات والمکمّلین.وأنت تری یا أخی عافاک اللّٰہ فی الدارین کیف اشتدت الحاجۃ فی ہذہ الأیام إلی ظہور مجدّد یؤیّد الدین ویقیم البراہین ویرجم الشیاطین.ألا تری أن الضلالۃ قد غلبت وغارات الکافرین عمّت وأحاطت وکم من أمم تبّت وہلکت؟ ألا تنظر ہذہ المفاسد؟ ألست من المتألّمین علی مصائب الإسلام؟ ألم تأتک أخبارہا أو أنت من الغافلین؟ أما تکاثرت فتن الکفّار؟ أما جاء وقت ظہور الآثار؟ أما عمّت الفتن فی البراری والبلاد والدیار؟ أما جاء وقت رحمۃ أرحم الراحمین؟ أما عَنَّ لنا فی زمننا ہذا قِبَلُ الذیاب فی لیلۃ فتیّۃ الشباب غُدافیّۃ الإہاب وصرنا کالمحصورین؟ أُنظُرْ یا أخی کیف أحاط بالناس ظلام وظلم ومظلمۃ وخُوّفنا من کلّ طرف بأنواع النباح وارتفعت الأصوات بالأرنان والنیاح وضُربت علینا المسکنۃ بالاکتساح وصال الکُفار کالحَیْن المجتاح وعفَتْ آثار التقوی والصلاح وصُبَّت علینا مصائب لو صُبّت علی الجبال لدکّتہا وکسّرتہا کالرداح وامتلأت الأرض شِرکًا وکذبا وزورًا ومن الأفعال القِباح وتراء ت صفوف الطالحین.

Page 60

وکنت أبکی بکاء الماخض علی ضعف الإسلام فی تلک الأیام وأری مسالک الہُلْک وأنظر إلی عون اللّٰہ العلام فإذا العنایۃ تراء ت وہبّتْ نسیم ألطاف اللّٰہ القسّام وبُشِّرتُ بأعلی مراتب الإلہام وأصفی کأس المُدام کما تُبشَّرُ الحامل عند مخاضہا بالغلام فصرت من المسرورین.فأُمِرتُ أن أُفرِّق خیری علی رِفقتی وکان علی اللّٰہ ثقتی فکفّرونی ولعنوا وسبّوا وأَضْرَوا بی الخطوبَ وألّبوا وأُوذیت من ألسنۃ القاطنین والمتغرّبین.ورأیت أکثر العلماء أساری فی أیدی أنفسہم وأہواۂم ورأیتہم کغلام علیہ سملٌ وفی مشیہ قزلٌ وفی آذانہ وقرٌ وعلی عینہ غشاوۃ وفی قلبہ مرض وہو کَلٌّ علی مولاہ ولیس فیہ خیر یسرّ المشترین.یُظہرون علی الإخوان شَباءۃَ اعتداۂم وینسون صولۃ أعداۂم وأری قلوبہم مائلۃ إلی الصِّلات لا إلی الصَّلاۃ ویستعجلون للاستہداء لا للاستہداء ویُؤْثِرون ثوب الخیلاء علی ثواب مواساۃ الأخلاء ویأبرون إخوانہم کالعقارب ولو کانوا من الأقارب لا یخافون رب الأرباب ولا یتّقونہ فی أسالیب الاکتساب ویسعون إلی باب الأمراء وینسون حضرۃ الکبریاء ثم یکفِّرون إخوانہم ویحسبون أنہم من المحسنین.والذین یؤثرون اللّٰہ علی نفوسہم وأعراضہم وأموالہم لا یضرّہم إکفار المکفرین ولا تکذیب المکذبین.ألیس اللّٰہ بکاف عبدہ؟ ومن یُصافی مثلہ بالمصافین؟ سبقت رحمتہ حسنات العاملین ولا یضیع فضلہ سعی المجاہدین.أیہا الأخ المکرّم! ارفقْ فإن الرفق رأس الخیرات ومن علامات الصالحین.وعلیک أن تَعرِض علیّ شُبُہاتک لکی أعطیک ما فاتک وستجدنی إن شاء اللّٰہ صدیقًا صادقا ورفیق الطریق کالخادمین.وقد أعطانی اللّٰہ

Page 61

من لدنہ قوۃ فأَدرَأُ بہا عن قلوب الناس شبہۃ وفتح علیَّ أبواب تعلیم الخلق وإتمام الحجّۃ وإراء ۃ الحق وإنی من فضلہ لمن المؤیَّدین.ولکن الذین لا یبتغون الحق فہم لا یعرفوننی وقد رأوا آیاتٍ من اللّٰہ تعالی ثم ہم من المنکرین.یصُولون ویسُبّون ویُحَمْلِقون وکادوا یتمیَّزون من الغیظ ولا یفکّرون کالمسترشدین.وواللّٰہ إنی صادق ولست من المفترین.وواللّٰہ إنی لست خاطِبَ الدنیا الدنیّۃ وجیفتِہا فیا حسرۃ علی الظّانین ظنّ السوء ویا حسرۃ علی المسرفین! إنما مثلی کمثل رجل آثَرَ حِبًّا علی کل شیء وتبتّلَ إلیہ وسعی فی میادین الاقتراب واقتعد للقاۂ غارب الاغتراب وترک تراب الوطن وصحبۃ الأ تراب وقصد مدینۃ حبیبہ وذہب وترَک لِحِبِّہ البیتَ والفضۃ والذہب وترَک النفس لمحبوبہ حتی صار کالفانین.وبعزّۃ اللّٰہ وجلالہ إنی آثرت وجہ ربّی علٰی کل وجہ وبابہ علی کل باب ورضاء ہ علی کل رضاء.وبعزّتہ إنہ معی فی کل وقتی وأنا معہ فی کل حین.وآثرت دولۃ الدین وہی تکفینی ولو لم یکن حبّۃٌ لتجہیزی وتکفینی.وإنی منعم مع ید الإملاق وفارغٌ من الأنفس والآفاق وشغَفنی ربی حُبًّا وأُشرِبَ فی قلبی وجہہ وأنا منہ بمنزلۃ لا یعلمہا أحد من العالمین.أیہا العزیز! کان بعض الأسرار فی أوائل الزمان مستورًا وکذلک کان قدرا مقدورًا ثم فی زماننا تبیّنَ القضاء وبرِ ح الخفاء وظہر خطأ العاسفین.وکذلک فعل ربنا لیقُمّ المتکبرین من علماء السوء ولیُظہر قدرتہ علی رغم أنف المتعصّبین.وإن مثل نزول المسیح کمثل نزول إیلیا قد وعد اللّٰہ لنزولہ ثم جاء یحیی مقامہ إنّ فی ذلک لہُدًی للمتفکرین.

Page 62

وإن کنت لا تعلم فاسأل الیہود والنصاری وقد تواترت ہذہ القصۃ عندہم وما اختلف فیہا اثنان ففتِّشْ ولا تکن من المتقاعسین.أیہا الأخ العزیز! إن قصۃ إیلیا من المتواترات القطعیۃ الیقینیۃ فی أہل الکتاب وکشف اللّٰہ تلک الحقیقۃ علی أنبیاۂم فبہداہم اقْتَدِہْ ولا تکن من المبدعین.ثم اعلم أننا قد اعتصمنا وتمسّکنا بمثال قد انجلی من قبل ولا مثال لکم فأی فریق أحقّ بالأمن؟ فلا تجترء وا علی المحدَثات واسألوا أہل الذکر إن کنتم لا تعلمون سنن اللّٰہ إن کنتم من الطالبین.وإنَّا أریناکم سنّۃ اللّٰہ فی الذین خلوا من قبلکم وما بیَّنتم مِن سنّۃ علی دعواکم ولن تجدوا لسُنن اللّٰہ تبدیلا فلا تُخالفوا کالمجترئین.وأنتم تعلمون أن اللّٰہ قد ردّ علی أقوالکم فی کتابہ وذکر موت المسیح بلفظ التوفّی کما ذکر موتَ نبیّنا بذلک اللفظ فأنتم تؤوّلون ذلک اللفظ فی المسیح وأما فی سیدنا فلا تؤوّلونہ فتلک إذًا قسمۃ ضیزی وخیانۃ فی دین اللّٰہ ولکنکم لا تتّقونہ ولا تجیبون تدبّرًا بل تذرِقون کطائر فی وقت طیرانہ ولا تنزلون لتصفیۃٍ ولا تخافون حَبْضَ قیاس الصادقین.وإن کنتم علی حق مبین فلم لا تأتوننی بآیۃ شاہدۃ علی حیاۃ المسیح ونزولہ وعلی سُنّۃٍ خلت من قبل؟ وکیف نقبل بِدْعاتکم التی تُخالف کتاب اللّٰہ وسُنن رسولہ وسُنن الصادقین الذین خلوا من قبل؟ أنقبل قولکم ونذَر قول أصدق المعلمین؟ فأیہا الشیخ الصالح! لا تکذّبوا آیات اللّٰہ ولا تغمِطوا نِعَمَہ بعد نزولہا ولا تزدہوا المأمورین.وإن الذین یُنوَّرون من نور ربہم لا یخافون

Page 63

أحدًا إلا اللّٰہ فلا تُسمِّ أحدًا منہم وجِلا ولا خجِلا ولا تبارز اللّٰہ ولا تجترءْ علی رب السماوات والأرض ولا تقفُ ظنونًا لا تعلم حقیتہا وإن الظن لا یغنی من الحق شیئا فیظہر الحق وتکون من المتندّمین.إنْ أَ کُ کاذبًا فعلیَّ وبال کذبی وإن أ کُ صادقا فاللّٰہ یعیننی وینصرنی ویُرِی الخَلْق صدقی ونوری واللّٰہ لا یضیع عبادہ الصادقین.وقد کُفِّر مثلی کثیر من الأولیاء والأقطاب والأئمۃ فبعضہم صُلبوا وقتلوا وبعضہم أُخرجوا من أوطانہم ودیارہم وأُوذوا حتی جاء ہم نصر اللّٰہ فما أُضیعوا وما خُیِّبوا وزادہم اللّٰہ برکۃً وعزّۃ وجعل کثیرا من أفئدۃٍ تہوی إلیہم وبلّغ آثار برکاتہم إلی قرن آخرین وکذلک بشَّرنی ربّی وقال: ’’إنی سأُوتیکَ* بَرَکۃً وأُجلِّی أَنوارَہا حتی یتبرک بثیابک الملو کُ والسلاطینُ.‘‘ وقال: ’’إنی مُہینٌ مَن أراد إہانتَک وإنّا کفیناک المستہزئین.یا أحمدُ بارَکَ اللّٰہُ فیک ما رمیتَ إذ رمیتَ ولکن اللّٰہ رمٰی لتُنذِرَ قومًا ما أُنذِرَ آباؤہم ولِتستبینَ سبیل المجرمین.قُلْ إنی أُمِرتُ وأنا أوّلُ المؤمنین.قُلْ جاء الحق وزہق الباطل إن الباطل کان زہوقا.کلُّ برکۃ مِن محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم * (الحاشیۃ) من کان یؤمن باللّٰہ وآیاتہ فقد وجب علیہ أن یؤمن بأن اللّٰہ یوحی إلی من یشاء من عبادہ رسولا کان أو غیر رسول ویکلّم من یشاء نبیًّا کان أو من المحدَّثین.ألا تری أن اللّٰہ تعالی قد أخبر فی کتابہ أنہ کلَّم أُمَّ موسی وقال

Page 64

فتَبا رَکَ مَن علَّم وتعلَّمَ.وقل إنِ افتریتُہ فعلیّ إجرامی ویمکُرون ویمکُر اللّٰہ واللّٰہ خیر الماکرین.ہو الذی أرسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیُظہِرہ علی الدین کلہ.لا مبدِّلَ لکلمات اللّٰہ.إنی معک فکُنْ معی أینما کنتُ.کُنْ مع اللّٰہ حیثما کنتَ.أینما تُولّوا فثَمَّ وجہُ اللّٰہ.کنتم خیرَ أُمّۃ أُخْرجتْ للناس وفخرًا للمؤمنین.ولا تیأَسْ مِن رَوح اللّٰہ.ألا إن روح اللّٰہ قر یب.ألا إن نصر اللّٰہ قریب.یأتیک مِن کلّ فَجٍّ عمیقٍ.ینصرک اللّٰہ مِن عندہ.ینصرک رجالٌ نوحی إلیہم من السماء.لا مبدِّلَ لکلمات اللّٰہ وإنک الیوم لدینا مَکینٌ أمین.وقالوا إنْ ہذا إلا اختلاق.قُل اللّٰہ ثم ذَرْہم فی (بقیۃ الحاشیۃ) 3.۱؂ وکذلک أوحی إلی الحواریین وکلّم ذا القرنین وأخبَرنا بہ فی کتابہ ثم بشّر لنا وقال:3.3۲؂ وفی ہذہ الآیۃ أشار إلی أن ہذہ الأمّۃ یُکلَّم کما کُلِّمت الأمم من قبل فمن کان لہ صدق رغبۃ فی الا تّعاظ بالقرآن فلا یتردد بعد بیان کتاب اللّٰہ ولا یکون من المرتابین.ومن لم یبال امتثالَ أوامرہ وانتہاء نواہیہ فما آمن بہ وما کان من المؤمنین.وقد اتفق الأولیاء کلّہم علی أن للّٰہ تعالی مخاطباتٍ ومکالماتٍ بالمحدَّثین کما قال سیدی وحبیبی الشیخ عبد القادر الجیلا نی رضی اللّٰہ عنہ فی کتابہ ’’الفتوح‘‘ تعلیما للسالکین.ومن ملخصات کلامہ أنہ قال: إن لأہل اللّٰہ علاماتٍ یُعرَفون بہا فمنہا الخوارق والکشوف ومکا لمات اللّٰہ تعالی

Page 65

خوضہم یلعبون.ومَن أظلم ممن افتری علی اللّٰہ کذبا.وإنّ علیک رحمتی فی الدنیا والدین وإنک لمن المنصورین.بُشرٰی لک یاأ حمدی أنت مرادی ومعی غرَستُ کرامتک بیدی.أکان للناس عجبًا قُلْ ہو اللّٰہ عجیب.یجتبی من یشاء من عبادہ لا یُسأل عما یفعل وہم یُسألون.وتلک الأیام نداولہا بین الناس.وإذا نصر اللّٰہ المؤمنَ جعَل لہ الحاسدین.تَلطَّفْ بالناس وتَرحَّمْ علیہم أنت فیہم بمنزلۃ موسی فاصبر علی جور الجائرین.أحسِب الناس أن یُترَکوا أن یقولوا آمنّا وہم لا یُفتَنون.الفتنۃ ہنا فاصبر کما صبر أولوا العزم.ألا إنہا فتنۃ من اللّٰہ لیحبّ حبًّا جَمًّا.وفی اللّٰہ (بقیۃ الحاشیۃ) وخوف اللّٰہ وخشیتہ وإیثارہ علی غیرہ وکلما یجب للمتقین.وقال: إذا مِتَّ عن الخَلْق قیل لک: رحمک اللّٰہ وأَمَاتَک عن إرادتک ومُناک وإذا مِتَّ عن الإرادۃ ومُناک قیل لک: رحمک اللّٰہ وأَحْیَاک فکنت من المرحومین.فحینئذ تُحیٰی حیاۃ لا موت بعدہا وتُغنَی غناءً لا فَقْرَ بعدہ وتُعطَی عطاءًً لا منع بعدہ وتُراحُ براحۃٍ لا شقاء بعدہا وتنعم بنعیم لا بؤس بعدہ وتُعلَّم علمًا لا جہل بعدہ وتُؤَمَّن أمنًا لا تخاف بعدہ وتسعد فلا تشقی وتُعَزّ فلا تُذلّ وتُقرَّب فلا تُبعَد وتُرفَع فلا تُوضَع وتُعظَّم فلا تُحقَّر وتُطہَّر فلا تُدنَّس ونجّاک اللّٰہ وطہّرک من أدناس طرق الفاسقین.فیتحقق فیک الأمانی وتصدُق فیک الأقاویل فتکون کِبْریتًا أحمرَ فلا تکاد تُری وعزیزًا فلا تُماثَل وفریدًا فلا تُشارَک ووحیدًا فلا تُجانَس وتکون عند ربک من أہل

Page 66

أجرک ویرضی عنک ربک ویتم اسمک.وإن یتخذونک إلا ہُزوًا قل: إنی من الصادقین فانتظِروا آیاتی حتی حین.الحمد للّٰہ الذی جعَلک المسیحَ ابن مریم.قل ہذا فضل ربی وإنی أجرّد نفسی من ضروب الخطاب وإنی أحد من المسلمین.یریدون أن یطفؤا نور اللّٰہ بأفواہہم واللّٰہُ یُتمّ نورہ ویحیی الدین.نرید أن نُنزِّل علیک آیات من السماء ونمزّق الأعداء کل ممزَّق.حُکم اللّٰہِ الرحمن لخلیفۃ اللّٰہ السلطان.فتوکّل علی اللّٰہ واصنَعِ الفُلْکَ بأعیننا ووحینا إن الذین یبایعونک إنما یبایعون اللّٰہ یدُ اللّٰہ فوق أیدیہم وأممٌ حَقَّ علیہم العذاب.ویمکرون (بقیۃ الحاشیۃ) السماء لا من أہل الأرضین.فردُ الفردِ وترُ الوتر غیب الغیب سرّ السرّ فحینئذٍ تکون وارثَ کل رسول ونبیّ وصِدّیق فتُعطَی کلَّ ما أُعْطُوا من الأنوار والأسرار والبرکات والمخاطبات والوحی والمکالمات وغیرہا من آیات رب العالمین.وبِکَ تُختَم الولایۃ وإلیک تصدُر الأبدال وبک تنکشف الکروب وبک تُسقَی الغیوث وبک تنبت الزروع وبک تُدفَع البلایا والمحن من الخاص والعام وأہل الثغور والراعی والرعایا والأئمۃ والأُمّۃ وسائر البرایا فتکون شِحْنۃَ البلاد والعباد ومن المأمورین.فینطلق إلیک الأرجلُ بالسعی والترحال والأیدی بالبذل والعطاء والخدمۃ بإذن خالقِ الأشیاء فی سائر الأحوال والألسنُ بالذکر الطیّب والحمد والثناء فی جمیع المحالّ ولا یختلف إلیک اثنان من أہل الإیمان وتہوی إلیک

Page 67

واللّٰہ خیر الماکرین.قُلْ عندی شہادۃ من اللّٰہ فہل أنتم مؤمنون.قل عندی شہادۃ من اللّٰہ فہل أنتم مسلمون.إن معی ربی سیہدین.رب أَرِنی کیف تحیی الموتٰی.رب اغفر وارحم من السماء.رب لا تذَرْنی فردًا وأنت خیر الوارثین.رب أَصْلِحْ أمّۃ محمد.ربنا افتح بیننا وبین قومنا بالحق وأنت خیر الفاتحین.ویخوِّفونک مِن دونہ إنک بأعیننا.سمّیتُک المتوکّل.یحمدک اللّٰہ مِن عرشہ.نحمدک ونصلّی.یا أحمد یتمّ اسمک ولا یتمّ اسمی.کن فی الدنیا کأنک غریب أو عابرُ سبیل وکن من الصالحین الصدّیقین.أنا اخترتُک وألقیت علیک محبّۃ منی.خذوا التوحیدَ (بقیۃ الحاشیۃ) أفئدۃ من العُلماء والأُمّیّین ویدعوک لسانُ الأزل ویُعلّمک ربُّ المُلک ویکسوک أنوارًا منہ والحُلل ویُنزِلک منازلَ مَن سلَف من أولی العلم الأُوَل من الأنبیاء والصدّیقین.فحینئذٍ یُضاف إلیک التکوین وخرق العادات فیُرَی ذلک منک فی ظاہر العقل والحکم وہو فعل اللّٰہ وإرادتہ حقًّا فی العلم فتدخل حینئذٍ فی قومٍ مُوجَعٍ وفی زمرۃ المنکسرین الذین انکسرت قلوبہم وکُسرت إراداتہم البشریۃ وأُزیلت شہواتہم الطبیعیۃ فاستُؤنفتْ لہم إرادۃ ربّانیۃ وشہوات وظیفیۃ وکانوا من المبدَّلین.ویُکشَف للأولیاء والأبدال من أفعال اللّٰہ ما یبہر العقول ویخرِق العادات والرسوم ویکلّمہم اللّٰہ تعالی بالکلام اللذیذ والحدیث الأنیس والبشارۃ بالمواہب الجِسام والمنازل العالیۃ والقُرب منہ مما

Page 68

التوحیدَ یا أبناء الفارس.وبَشِّرِ الذین آمنوا أن لہم قدمَ صدقٍ عند ربہم.ولا تصعِّرْ لخَلْقِ اللّٰہ ولا تسأَمْ من الناس واخفِضْ جناحک للمسلمین.أصحاب الصفّۃِ وما أدراک ما أصحاب الصفّۃ؟ تری أعینَہم تفیض من الدمع یصلّون علیک ربنا إننا سمعنا منادیًا ینادی للإیمان ربنا آمنا فاکتبنا مع الشاہدین.شأنک عجیب وأجرک قریب ومعک جند السماوات والأرضین.أنت منی بمنزلۃ توحیدی وتفریدی فحان أن تُعانَ وتُعرَف بین الناس.بورکت یا أحمد وکان ما بارک اللّٰہ فیک حقًّا فیک.أنت وجیہٌ فی حضرتی.اخترتُک لنفسی وأنت منی بمنزلۃ لا یعلمہا الخلق.وما کان (بقیۃ الحاشیۃ) سیؤول أمرُہم إلیہ وجفَّ بہ القلمُ من أقسامہم فی سابق الدہور فضلا منہ ورحمۃ وإثباتًا منہ لہم فی الدنیا إلی بلوغ الأجل وہو الوقت المقدَّر لہم من أرحم الراحمین.وقال اللّٰہ تعالی فی بعض کتبہ: یابن آدم أنا اللّٰہ لا إلہ إلا أنا.أقول لشیء : کُن فیکون.أَطِعْنی أجعَلْک تقول للشی ء : کُنْ فیکون.قد جعل اللّٰہ أولیاء ہ أوتادَ الأرض وجعل الدنیا لہم جنّۃَ المأوی فلہم جنّتان: الدنیا والآخرۃ.وہم کالجبل الذی رسا تفرّدوا فی الصدق والوفاء والتقوی فتَنَحَّ عن طریقہم ولا تُزاحِمْ یا مسکین.الرجال الذین ما قیّدہم أحد عن قصد الحق من الآباء والأمہات والبنات والبنین فہم خیرُ مَن خلَق ربّی وبَثَّ فی الأرض وذرَأ فعلیہم سلام اللّٰہ وتحیاتہ وبرکاتہ أجمعین.أیہا السالک! إذا قوِی علمک و

Page 69

اللّٰہ لیترکک حتی یمِیز الخبیثَ من الطیّب.انظُرْ إلی یوسف وإقبالہ واللّٰہُ غالب علی أمرہ ولکن أکثر الناس لا یعلمون.أردتُ أن أَستخلِفَ فخلقتُ آدمَ لیقیم الشریعۃ ویحیی الدین.کتاب الولیِّ ذوالفقار علی ولو کان الإیمان معلقا بالثریا لنالہ رجل من أبناء الفارس.یکاد زیتہ یضیء ولو لم تمسسْہ نار.جَرِیُّ اللّٰہِ فی حُلل المرسلین.قل إن کنتم تحبّون اللّٰہ فاتبعونی یحببکم اللّٰہ.وصلَِّ علی محمد وآل محمد سیِّدِ وُلْدِ آدم وخاتَمِ النبیین.یرحمک ربک ویعصمک من عندہ وإن لم یعصمک الناس.یعصمک اللّٰہ مِن عندہ وإن لم یعصمک أحد من أہل الأرضین.تبّتْ یدا أبی لہب (بقیۃ الحاشیۃ) یقینک وشرح صدرک وقوی نور قلبک وزاد قربُک من مولاک ومکانُک لدیہ وأمانتُک عندہ وأہلیّتُک لحفظ الأسرار فعُلِّمتَ من لدنہ ویأتیک قِسْمُک قبل حین.وتلک کرامۃٌ لک وإجلالٌ لحرمتک فضلا منہ ومنّۃً وموہبۃً ثم یَرِدُ علیک التکوین فتُکَوَّن بالإذن الصریح الذی لا غُبار علیہ والدلالات اللائحۃ کالشمس المنیرۃ وبکلامٍ لذیذ ألذّ من کل لذیذٍ وإلہامٍ صدقٍ مِن غیر تلبُّسٍ مُصفًّی من ہواجس النفس ووساوس الشیطان اللعین.تمَّ کلام السیّد الجلیل قُطب الوقت إمام الزمان رضی اللّٰہ عنہ وقد کتبناہ بتلخیصٍ منَّا فارجع إلی کتابہ: ’’فتوح الغیب‘‘ إن کنتَ من المرتابین.وقد ظہر من کلام الإمام الموصوف أن الوحی کما ینزل علی الأنبیاء کذلک ینزل علی الأولیاء

Page 70

وتبّ ما کان لہ أن یدخل فیہا إلا خائفا.وما أصابک فمن اللّٰہ واعلم أن العاقبۃ للمتقین.وأَنذِرْ عشیرتک الأقربین إنا سنُریہم آیۃ من آیاتنا فی الثیِّبۃ ونردّہا إلیک أمرٌ من لدنا إنا کنا فاعلین.إنہم کانوا یکذّبون بآیاتی وکانوا بی من المستہزئین.فبشری لک فی النکاح الحقُّ من ربک فلا تکوننّ من الممترین.إنا زوّجْناکَہا لا مبدِّلَ لکلمات اللّٰہ وإنا رادُّوہا إلیک إن ربک فعّالٌ لما یرید فضلٌ من لدنا لیکون آیۃ للناظرین.شاتانِ تُذبَحان وکل من علیہا فان.ونریہم آیاتنا فی الآفاق وفی أنفسہم ونریہم جزاء الفاسقین.إذا جاء نصر اللّٰہ والفتح وانتہی أمر الزمان (بقیۃ الحاشیۃ) ولا فرْق فی نزول الوحی بین أن یکون إلی نبیٍّ أو ولیٍّ ولکلٍّ حظٌّ من مکالمات اللّٰہ تعالی ومخاطباتہ علی حسب المدارج.نعم لوحی الأنبیاء شأنٌ أتمّ وأکمل.وأقوی أقسامِ الوحی وحیُ رسولنا خاتم النبیین.وقال المجدّد الإمام السرہندی الشیخ أحمد رضی اللّٰہ عنہ فی مکتوب یکتب فیہ بعض الوصایا إلی مریدہ محمد صدّیق: اعلم أیہا الصدیق أن کلامہ سبحانہ مع البشر قد یکون شفاہًا وذلک الأفراد من الأنبیاء وقد یکون ذلک لبعض الکُمَّلِ مِن متابعیہم وإذا کثُر ہذا القسم من الکلام مع واحد منہم یُسمّی مُحدَّثًا وہذا غیر الإلہام وغیر الإلقاء فی الروع وغیر الکلام الذی مع المَلَک إنما یُخاطَب بہذا الکلام الإنسانُ الکامل واللّٰہ یختص برحمتہ من یشاء.تمَّ کلامہ فارجعْ إلی کلامہ إن کنت من المنکرین.واذکُرْ قصۃ من قال:

Page 71

إلینا ألیس ہذا بالحق بل الذین کفروا فی ضلال مبین.کنتُ کنزًا مخفیًّا فأحببتُ أن أُعرَف.إن السماوات والأرض کانتا رَتْقًا ففتَقْنا ہما.قل إنما أنا بشرٌ یوحٰی إلیّ أنما إلہکم إلہٌ واحدٌ والخیر کلہ فی القرآن لا یمسّہ إلا المطہَّرون.ولقد لبثتُ فیکم عمرًا مِن قبلہ أفلا تعقلون.قل إن ہدی اللّٰہ ہو الہدی وإن معی ربی سیہدین.رب اغفر وارحم من السماء.رب إنی مغلوب فانتصِرْ.إیلی إیلی لما سبقتانی.یا عبد القادر إنی معک أسمع وأری.غرستُ لک بیدی رحمتی وقدرتی وإنک الیوم لدینا مَکینٌ أمین.أنا بُدُّک اللازم أنا محییک نفختُ فیک من لدنی روحَ الصّدق.(بقیۃ الحاشیۃ)3 ۱؂ وما کان من المرسلین.واذکُرْ ما قال اللّٰہ تعالی: فانظُرْ کیف کلَّم مَلَکُ اللّٰہ مریمَ وما کانت نبیّۃً فاتّقِ اللّٰہ ولا تکن من المعتدین.وقد جاء فی الحدیث الصحیح عن عمرو بن الحارث قال: بینما عمرُ یخطب یوم الجمعۃ إذا ترک الخُطبۃ ونادی یا ساریۃُ الجبل مرتین أو ثلا ثا ثم أقبلَ علی خطبتہ.فقال نا سٌ من أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إنہ لمجنون ترَک خطبۃ ونادی

Page 72

وألقیت علیک محبۃ منی ولتُصنَع علی عینی کزرعٍ أخرجَ شَطْأَہ فآزَرَہ فاستغلظ فاستوی علی سوقہ.إنا فتحنا لک فتحا مبینا لیغفر لک اللّٰہ ما تقدَّمَ من ذنبک وما تأخر فکنْ من الشاکرین.ألیس اللّٰہ بکاف عبدہ.ألیس اللّٰہ علیمًا بالشاکرین.فقبِل اللّٰہ عبدَہ وبرّأہ مما قالوا وکان عند اللّٰہ وجیہا.فلما تجلّٰی ربہ للجبل جعلہ دَکًّا واللّٰہ مُوہِنُ کید الکافرین.ولنجعلہ آیۃ للناس ورحمۃ منا ولنعطیہ مَجْدًا من لدنا کذلک نجزی المحسنین.أنت معی وأنا معک.سرُّک سرّی.لا تحاط أسرار الأولیاء إنک علی حق مبین.وجیہًا فی الدنیا والآخرۃ ومن المقربین.لا یصدِّق السفیہ إلا ضربۃ الإہلاک.عدوٌّ لی وعدو لک عجلٌ جسدٌ لہ خُوار.قل أتی أمر اللّٰہ فلا تکن من (بقیۃ الحاشیۃ) ’’یا ساریۃ الجبل‘‘.فدخل علیہ عبد الرحمن بن عوف وکان ینبسط علیہ فقال: یا أمیر المؤمنین! تجعل للناس علیک مقالا؟ بینما أنت فی خطبتک إذ نادیتَ: ’’یا ساریۃُ الجبلَ‘‘.أیُّ شیء ہذا؟ قال: واللّٰہ ما ملکتُ ذٰلک حین رأیتُ ساریۃَ وأصحابہ یقاتلون عند جبل ویُؤتَون مِن بین أیدیہم ومن خلفہم فلم أملِکْ أن قلتُ: ’’یا ساریۃُ الجبلَ‘‘ لیلحقوا بالجبل.فلم تمض الأیام حتی جاء رسولُ ساریۃ بکتابہ أن القوم لقُونا یوم الجمعۃ فقاتلناہم مِن حین صلّینا الصبح إلی أن حضرت الجمعۃُ فسمعنا صوتَ منادٍ یُنادی: الجبلَ مرتین فلحقنا بالجبل فلم نزل لعدوّنا قاہرین حتی ہزمہم اللّٰہ تعالی وتراء ی فتح مبین.۱۲ المؤلف

Page 73

المستعجلین.یأتیک قمرُ الأنبیاء وأمرُک یتأتّی وکان حقا علینا نصر المؤمنین.یوم یجیء الحق وینکشف الصدق ویخسر الخاسرون.وتری الغافلین یخرّون علی المساجد ربنا اغفرلنا إنا کنا خاطئین.لا تثریب علیکم الیوم یغفر اللّٰہ لکم وہو أرحم الراحمین.تموت وأنا راض منک.سلام علیکم طِبتم فادخلوہا آمنین.‘‘ وأمّا عقائدنا التی ثبّتنا اللّٰہ علیہا فاعلم یا أخی أنّا آمنّا باللّٰہ ربًّا وبمحمدٍ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نبیًّا وآمنّا بأنہ خاتم النبیین.وآمنَّا بالفرقان أنہ من اللّٰہ الرحمن ولا نقبل کل ما یُعارض الفرقان ویُخالف بیّناتہ ومُحکماتہ وقصصہ ولو کان أمرًا عقلیًّا أو کان من الآثار التی سمّاہا أہلُ الحدیثِ حدیثًا أو کان من أقوال الصحابۃ أو التابعین؛ لأن الفرقان الکریم کتابٌ قد ثبت تواترُہ لفظًا لفظًا وہو وَحْیٌ مَتلُوٌّ قطعیّ یقینیّ ومَن شکّ فی قطعیتہ فہو کافر مردود عندنا ومن الفاسقین.والقرآن مخصوص بالقطعیۃ التامّۃ ولہ مرتبۃ فوق مرتبۃ کل کتاب وکل وحی ما مسَّہ أیدی الناس وأما غیرہ من الکتب والآثار فلا یبلغ ہذا المقام ومَن آثرَ غیرہ علیہ فقد آثرَ الشک علی الیقین.وکم مِن فِرق الإسلام یُخالف بعضہم بعضا فی أخذ بعض الأحادیث أو ترکہا فالأحادیث التی یقبلہا الشافعیۃ لا یقبل أکثرہا الحنفیۃُ والتی یقبلہا الحنفیۃ لا یقبلہا الشافعیۃ وکذلک حال فِرق أُخری من المسلمین.وکم من حدیث ذکر ہ الإمام البخاری فی صحیحہ.وہو أصحُّ الکتب عند أہل الحدیث بعد کتاب اللّٰہ ولکن

Page 74

لا یقبل الفرقۃ الحنفیۃ أکثر أحادیثہ کحدیث قراء ۃ الفاتحۃ خلف الإمام والتأمینِ بالجَہر وغیرہ ولا یکونون إلی تلک الأحادیث من الملتفتین.ولکن ما کان لأحد أن یسمّیہم کافرین أو یحسبہم من الذین أضاعوا الصلاۃ ومن المبتدعین.فالحق أن الأحادیث أکثرہا آحادٌ ولو کانت فی البخاری أو فی غیرہ ولا یجب قبولہا إلا بعدَ التحقیق والتنقید وشہادۃِ کتاب اللّٰہ بأن لا یُخالفہا فی بیّناتہ ومُحکماتہ وبعدَ النظرِ إلی تعامُل القوم وعِدّۃ العاملین.فإذا کان الأمر کذلک فکیف یُکفَّرُ أحدٌ لترک حدیثٍ یعارِض القرآنَ أو لأجل تأویلٍ یجعل الحدیث مطابقًا بالقرآن ویُنجّی المسلمین من أیدی المعترضین؟ وکیف تکفِّرون المؤمن باللّٰہ ورسولہ وکتابہ لأجل حدیث من الآحاد الذی یُحتمل فیہ شائبۃ کذب الکاذبین؟ فانظر مثلا إلی مسألۃ وفاۃ المسیح علیہ السلام فإنہا قد ثبت ببیّنات کتاب اللّٰہ المتواتر الصحیح وتشہد علی وفاتہ قریبًا من ثلا ثین آیۃ بالتصریح قد کتبناہا فی کتابنا: ’’إزالۃ الأوہام‘‘ إفادۃً للطالبین.فإن تذکرتَ بعد ذلک حدیثًا دمشقیًّا الذی ذُکر فی ’’ مسلم‘‘ فاعلم أنہ فُسّر علی ظاہرہ ولا شک أنہ یُعارض الفرقان علی تفسیرہ الظاہر ویُخالف بیّناتہ ویخالف أحادیث أُخری قد ذکرناہا فی ’’الإزالۃ‘‘ ولا یرضی مسلم أن یترک القرآن الیقینی القطعی بحدیث واحد لا یبلغ إلی مرتبۃ الیقین.ولو فعلنا کذلک وآثرنا الآحاد علی کتاب اللّٰہ لفسد الدین وبطلت الملۃ ورُفع الأمان وتزلزل الإیمان واشتدت علینا صولۃ الکافرین.نعم نؤمن بالقدر المشترک الذی لا یُخالف القرآن وہو أنہ یجیء

Page 75

المسیح الموعود مجدّدًا علی رأس الماءۃ عند غلبۃ النصاری علی ظہر الأرض ویخرج فی أرض أفسدوہا وجعلوا مسلمی أہلہا متنصّرین فیکسر صلیبہم ویقتل خنازیرہم ویُدخل السعادۃ فی الباقین.وإن حاکَ فی صدرک شیء من لفظ نزولٍ عند منارۃ دمشق فقد أثبتنا أن النزول من السماء محال باطل لا یصدّقہ الفرقان بل یکذّبہ بقول مبین.فإن کنت تؤمن بالفرقان وتؤثرہ علی غیرہ فآمِنْ بوفاۃ المسیح وعدم نزولہ من السماء کما تقرأ فی کلام رب العالمین.والعجب أن لفظ النزول من السماء لا یوجد فی حدیثٍ وإن ہو إلا فِرْیۃ المفترین.والأحادیث کلہا قد اتفقت علی أن المسیح الموعود من ہذہ الأمۃ فإن النبوۃ قد خُتِمَت وإن رسولنا خاتم النبیین.والنزول فی الحدیث بمعنی نزول المسافر من مکان إلی مکان فإن النَزیل ہو المسافر فلو سلم صحۃ الحدیث فیثبت أن المسیح الموعود أو أحدٌ من خلفاۂ یسافر من أرض وینزل بدمشق فی وقتٍ من الأوقات فلم یبکون الناس علی لفظ دمشق؟ بل یثبت من لفظ النزول عند منارۃ دمشق أن وطن المسیح الموعود الذی یخرج فیہ ہو مُلکٌ آخر وإنما ینزل بدمشق بطریق المسافرین.ہذا إذا سلّمنا الحدیث بألفاظہ وفیہ کلام لأن الأحادیث من الظنیات إلا الحصۃ التی ثبتت من تعامل المؤمنین.ولو کانت الآثار المدونۃ فی البخاری وغیرہ من الیقینیات کالقرآن الکریم للزم مِن إنکار ہا الکفرُ کلزوم الکفر من إنکار آیات القرآن کما لا یخفی علی الماہرین فی الشرع المتین.فحینئذٍ یلزم أن یکون المسلمون کلہم کافرین ویلزم أن لا ینجو من ورطۃ الکفر أحد من أکابر المسلمین وأصاغرہم بل من الأئمۃ السابقین المتقدمین؛ لأن ترک

Page 76

بعض الأحادیث وإنکار بعضہا بلاءٌ عام أحاطت الفقہاء والأئمۃ والمحدثین أجمعین.ومع ذلک.إذا کان نبیّنا صلی اللّٰہ علیہ وسلم خاتم الأنبیاء فلا شک أنہ مَن آمنَ بنزول المسیح الذی ہو نبی من بنی إسرائیل فقد کفَر بخاتم النبیین.فیا حسرۃ علی قومٍ یقولون إن المسیح عیسی بن مریم نازلٌ بعد وفاۃ رسول اللّٰہ ویقولون إنہ یجیء وینسخ من بعض أحکام الفرقان ویزید علیہا وینزل علیہ الوحی أربعین سنۃ وہو خاتم المرسلین.وقد قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’لا نبی بعدی‘‘ وسمّاہ اللّٰہ تعالی خاتم الأنبیاء فمِن أین یظہر نبی بعدہ؟ ألا تتفکرون یا معشر المسلمین؟ تتبعون الأوہام ظلما وزورًا وتتخذون القرآن مہجورًا وصرتم من البطّالین.وإنَّا نؤمن بملا ئکۃ اللّٰہ ومقاماتہم وصفوفہم ونؤمن أن نزولہم کنزول الأنوار لا کترحُّل الإنسان من الدیار إلی الدیار لا یبرحون مقاماتہم ومع ذلک کانوا نازلین وصاعدین.وہم جند اللّٰہ وجِیرۃُ السماوات وخلطاؤہا لا یُفارقون مقاماتہم وإنْ منہم إلا لہ مقام معلوم یفعلون ما یؤمرون ولا یشغلہم شأن عن شأن ویؤدّون طاعۃ رب العالمین.ولو کان مدار انصرام مہماتہم تباعُدَہم من مقاماتہم لما جاز أن تُتوفَّی الأنفس فی آنٍ واحد بل وجب أن لا یموت میّت فی المشرق فی الآن الذی قدّر اللّٰہ لہ قبل أن یفرغ مَلَکُ الموت مِن قبض نفس رجلٍ فی المغرب الذی ہو شریک بالمائت الأوّل فی الآن المذکور وقبل أن یرحل إلی المشرق وإنْ ہذا إلا کذب مبین.إنما أمرہم

Page 77

إذا أرادوا شیئا بِحُکْمِ اللّٰہ أن یقولوا لہ کن فیکون وما کان لہم أن ینزلوا بشِقّ الأنفس وصرف الوقت ونقل الخطوات وترکِ مکان کسکّان الأرضین.ونؤمن بأن حشر الأجساد حق والجنۃ حق والنار حق وکل ما جاء فی القرآن حق وکلّ ما علّمَنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حق وہو خیر الأنبیاء وختم المرسلین.ومن عزا إلینا ما یُخالف الشرع والفرقان مثقال ذرۃ فقد افتری علینا وأتی ببہتان صریح کالمفترین.ألا إنّا بریؤن من کل أمرٍ یُنافی قول رسولنا صلی اللّٰہ علیہ وسلم وإنّا مؤمنون بجمیع أمورٍ أخبر بہا سیّدنا ونبیُّنا وإن لم نعلم حقیقتہا أو نُودَع معارفہا بإلہام مبین.وإنّا بریؤن من کل حقیقۃ لا یشہدہا الشرع واعتصمنا بحبل اللّٰہ بجمیع قلبنا وجمیع قوتنا وجمیع فہمنا وأسلمنا الوجہَ لک ربَّنا فاجعلْنا من المحسنین.ربنا أفرِغْ علینا صبرًا علی ما نُؤذَی وتوفَّنا مسلمین.وما أُفَضِّلُ روحی علی أرواح إخوانی ولکن اللّٰہ قد منَّ علیَّ وجعلنی من المنعمین.فمن آلاۂ أنہ أنعم علیَّ بالمکالمات والمخاطبات وعلّمنی من أسرارٍ ما کنت أن أعلمہا لو لا أن یعلّمنی اللّٰہ وجعلنی للأنبیاء من الوارثین.ومِن آلاۂ علیَّ أنہ وجد قوم النصاری یفسدون فی الأرض ویتّخذون العبد إلہًا بغیر الحق ویُضلّون عباد اللّٰہ فبعثنی لأکسر صلیبہم وأمزّق بعیدہم وقریبہم وأَجُذّ ہامَ المجرمین.ومن آلاۂ أنہ آتانی آیاتٍ من السماء وأتمّ الحجّۃ علی الأعداء وخجَّل کل بخیل وضنین.فوعِزّتِہ وجلالِہ إنی علی حق مبین.وتری کالوابل آیاتِ صدقی إن تصاحبنی کالطالبین.وواللّٰہ ثم تاللّٰہ إن جاء نی أحد علی قدم الصدق والطلب لرأی شیئا من آیات ربی إلی أربعین.وأکفَرَنی

Page 78

الحسداء قبل أن یبارونی للنضال ویتوازنوا فی الکمال ویتحاذوا فی الفعال وعیّرونی طاغین.ولما رأوا الآیات قالوا إنْ ہذا إلا سحرٌ مبین أو جَفْرٌ ونجومٌ فمشوا خبطَ عشواءَ وکانوا قومًا عمین.أشرقت الشمس وما کان معہا غیمٌ ولکن لا ینفع العُمْیَ نورٌ ولا ضوء واستخلصہم الشیطان لنفسہ فہو لہم قرین.یا أخی تحسبنی کافرًا وإنی مؤمنٌ موحِّدٌ أتبع رسولی وسیدی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وجعلنی اللّٰہ وارثًا لعلومہ وباعِہ وبَعاعِہ وأرجو أن یشیّع نعشی فی اتّباعہ ومع ذلک أخضع لک بالکلام وأستنزل منک رفق الکرام فلا تغلُظْ علیَّ ولا تُشمِتْ بی الکُفّارَ ولا تُرِنی النارَ ولا تسلُلْ سیفک البتّارَ والمؤمن ہَیْنٌ لَیْنٌ والصالحون یحملون أوزار إخوانہم ویسارعون إلی تسلیۃ قلوبہم وتسریۃ کروبہم ولا یریدون أن یقتلوہم تقتیلاً وأن یجعلوہم عضین.والاختلاف فی فِرق الإسلام کثیرۃ ولکن لا تنہضُ فرقۃ لقتل فرقۃ وقد قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : إن اختلاف أمّتی رحمۃ.فأَطْفِءْ یا أخی نارَک وأَغْمِدْ بتّارَک واقتدِ بسنن الصالحین.لِمَ تؤذی من یحبُّ خیر الوری؟ أَتَسُرُّ بہ روحَ المصطفٰی؟ أو تُرضی بہ ربَّنا الأعلی؟ فاعلم أن اللّٰہ ورسولہ بریّانِ من الذین یُعادون أولیاء ہما فإن کنت ترجو شفاعۃ رسولنا فلا تؤذ المحبّین المصافین واتق اللّٰہ ثم اتق اللّٰہ ثم اتق اللّٰہ لیغفر ذنوبک ویُحِلَّک مقعد المنعَمین.أیہا الإنسان الضعیف المحتاج إنّ مَقْتَ اللّٰہ أکبر من مقتک فخَفْ فأسہ وکن من المرتعشین

Page 79

.ہَدَاک اللّٰہ ہَل قَتْلی یُباحُ وہَل مِثْلی یُدمَّرُ أو یُجاحُ وہل فی مذہب الإسلام أنی أری خزیًا ولم یَثبُتْ جُناحُ وصدقی بَیّنٌ للناظرینا کتابُ اللّٰہ یشہدُ والصِّحاحُ وما کان الأذی خُلقَ الکرامِ ولکن ہکذا ہبّتْ ریاحُ وإنّ الحُرَّ یفہم قولَ حُرٍّ وتشفی صدرَہ الکَلِمُ الفِصَاحُ ولا أخشی العدا فی سُبل ربی وأرض اللّٰہ واسعۃ بَدَاحُ لنا عند المصائب یا حبیبی رضاءٌ ثم ذوقٌ وارتیاحُ فلا تقفُ الہوی وانظُرْ مآلی وربّی إنّہ نُصحٌ قَراحُ ومِن عجب أُشرّفکم وأدعو ومنک المَشْرفیّۃُ والرِّماحُ وبَلْدتُکم حدیقۃُ کلّ خیرٍ فمنکم سیّدی یُرجی الصلاحُ کمثلک سیّدٌ یؤذینِ عجبٌ! وفی بغدادَ خیراتٌ کِفاحُ أری یا حِبِّ تذکُرنی بسبٍّ فما ہذا؟ وسِیرتکم سماحُ أخذْنا کلَّ ما أعطیتَ تحفًا وصافینا و زاد الاِنشراحُ فخُذْ منی جوابی کالہدایا ولکن کان منک الا فتتاحُ إذا اعتلقَتْ أظافیری بخصمٍ فمرجِعہُ نَکالٌ أو طُلاحُ وإنْ وافیتنی حبًّا وسلمًا فلِلزُّوّارِ بُشری والنجاحُ وإن لم تقرَبَنْ أنہارَ ماءٍ فلا تعطیک مِن ماءٍ ریاحُ ورشحُ الصلد سہلٌ عند جہدٍ ویوبقکم قُعودٌ وانسطاحُ وما نألوک نصحًا یا حَبِیبِی وجاہَدْنا لیرتبط النَصاحُ ونُصحی خالص لا نوعَ ہزلٍ وجِدٌّ لا یخالِطُہ المُزاحُ فیا حِبّی تَفکَّرْ فی کلامی فإن الفکر للتقوی وِشاحُ

Page 80

ولی وجدٌ لقومی فوق وجدٍ وما وجدُ الثواکل والنِّیاحُ إلیکم یا أولی مجدٍ إلیکمْ وإن لم تنتہوا فالوقت لاحُ ولی قدرٌ عظیم عند ربّی وسُؤلی لا یُرَدُّ ولا یُزاحُ ومثلی حین یبکی فی دعاءٍ فیسعی نحوہ فضلٌ مُتاحُ وکادت تلمَعَنْ أنوارُ شمسی فیَتْبَعہا الوری إلا الوَقاحُ و یأتی یومُ ربّی مِثلَ بَرْقٍ فلا تبقی الکِلا بُ ولا النُباحُ ولی مِن لُطف ربی کل یومٍ مراتبُ للعدا فیہا افتضاحُ ونورٌ کامل کالبدر تامٌ ووجہٌ یستنیر ولا یُلاحُ ونحن الیوم نُسقَی مِن غَبوقٍ وبعد اللیل عیدٌ واصطباحُ وأعطانی المہیمن کل نورٍ ولی مِن فضلہ رَوحٌ وراحُ أتقتلنی بغیر ثبوت جرمٍ فقُلْ ما یصدُرَنْ منی جُناحُ؟ قتلنا الکافرین بسیف حُججٍ فلا یُرجی لقاتِلنا فلاحُ ولیس لنا سوی الباری ملاذٌ ولا تُرْسٌ یصون ولا السِّلاحُ أ تعلم کیف یَسفَعُ بالنواصی ملیکٌ لا یناوحہ الطِّماحُ یَہُدُّ الربّ ذروۃَ کلّ طَودٍ وتتبَعہ الأسنّۃ والصِّفاحُ أ تقتلنی بسیف یا خصیمی؟ وقتلی عندکم أمرٌ مُباحُ وقد مِتْنا بسیف من حبیبٍ علی ذرّاتنا تسفی الرِّیاحُ وأَیْن سیوفکم یا شیخَ قومٍ وحلَّ بقاعکم حزبٌ شِحاحُ وصال الحزب واختلسوا کذئبٍ ولم یکُ أمرہم إلا اکتساحُ وقد صُبّتْ علیکم کلُّ رُزْءٍ فما فی بیتکم إلا الرَّداحُ وکم مِن مسلمٍ ذَابُوا بجوعٍ وعاشوا جائعین وما استراحوا

Page 81

وبحر العلم یعرِف موج بحری ولکن عندکم ماءٌ وَجاحُ نظمت قصیدتی من ارتجالٍ وأین الفضل لولا الاِقتراحُ فخُذْ منی بعفوٍ کالکرامِ ودونک ما ہو الحقّ الصُّراحُ و إن بارزتنی من بعد نُصحی فتعلم أننی بطلٌ شَناحُ یا أخی حفظک اللّٰہ! إنی قد کتبت ہذا المکتوب ترحّمًا علی حالک وإصلاحًا لخیالک فاستشِفَّ لآلِیَہ وَالْمَحِ السرّ المودَع فیہ وقد أسمع أن أخلاقک تُحَبُّ وبِعَقْوَتِک یُلَبُّ وأنت باذلٌ خِرْقٌ ذو سماحۃٍ وفتوّۃ من المحسنین.فلا أظن فیک أن تَرِدَ موردَ مأثمۃ وتَقِفَ موقفَ مندمۃ وتتَّبِعَ سبلَ تبعۃٍ ومعتبۃٍ بل أظن أن تمیل إلی معذرۃٍ عن بادرۃ.وظنی فیک جلیل فحَقِّقْ حسن ظنی واتق اللّٰہ إنی أراک مِن وُلْدِ الصالحین.وإن کنت فی شک مما کتبنا فی کُتُبِنا فأیُّ حرج علیک من أن تسألنی کل ما لا تعرف حقیقتہ ولا تفہم ماہیتہ وعسی أن تحسب کلمۃً من الکفر وہو من معارف کتاب اللّٰہ وحقائق الدین.والعاقل یتأہّب دائما لمزایلۃ مرکزہ عند وجدان الحق المبین.فقُمْ وأَفْعِم لک سَجْلا من مائنا المَعین.وآخر دعوانا أن الحمد للّٰہ رب العالمین.

Page 82

Page 83