Tuhfa-e-Qaisiria

Tuhfa-e-Qaisiria

تحفۂ قیصریہ

Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR
Ruhani Khazain

چونکہ آپؑ کی بعثت کا مقصد اشاعت توحید الہی اور تبلیغ پیغام خداوندی تھا۔ اس لیے آپؑ نے ملکہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی کی تقریب پر بھی جو ماہ جون ۱۸۹۷ء میں بڑی دھوم دھام سے منائی جانے والی تھی تبلیغ اسلام کا ایک پہلو نکال لیا۔ اور 'تحفۂ قیصریہ' کے نام سے ایک رسالہ ۲۵؍مئی۱۸۹۷ء کو شائع فرما دیا۔ اس رسالہ میں جوبلی کی تقریب پر مبارکباد کے علاوہ نہایت لطیف پیرایہ اور حکیمانہ انداز میں آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی صداقت کا اظہار اور ان اصولوں کا ذکر فرمایا گیا ہے جو امن عالم اور اخوت عالمگیر کی بنیاد بن سکتے ہیں اور اسلامی تعلیم کا خلاصہ بیان کر کے ملکۂ معظّمہ کو لنڈن میں ایک جلسۂ مذاہب منعقد کرانے کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ اس سے انگلستان کے باشندوں کو اسلام کے متعلق صحیح معلومات حاصل ہوں گی۔ پھر آپؑ نے عیسائیوں کے اس عقیدہ کی کہ مسیح صلیب پر مر کر ان کے لیے ملعون ہوا شناعت و قباحت ظاہر کر کے ملکۂ معظّمہ سے درخواست کی ہے کہ پیلاطوس نے یہودیوں کے رعب سے ایک مجرم قیدی کو تو چھوڑ دیا اور یسوع کو جو بے گناہ تھا نہ چھوڑا۔ مگر اے ملکہ! اس شصت سالہ جوبلی کے وقت جو خوشی کا وقت ہے تو یسوع کو چھوڑنے کے لیے کوشش کر۔ اور یسوع مسیح کی عزت کو اس لعنت کے داغ سے جو اس پر لگایا جاتا ہے اپنی مردانہ ہمت سے پاک کر کے دکھلا۔ اور آپؑ نے اپنے دعویٰ کی صداقت میں ملکہ موصوفہ کو نشان دکھانے کا وعدہ کیا بشرطیکہ نشان دیکھنے کے بعد آپؑ کا پیغام قبول کر لیا جائے۔ اور نشان ظاہر نہ ہونے کی صورت میں اپنا پھانسی دے دیا جانا قبول کر لیا اور فرمایا۔ اگر کوئی نشان ظاہر نہ ہو اور میں جھوٹا نکلوں تو میں اس سزا پر راضی ہوں کہ حضور ملکۂ معظّمہ کے پایۂ تخت کے آگے پھانسی دیا جاؤں اور یہ سب الحاح اس لیے ہے کہ کاش ہماری محسنہ ملکہ معظّمہ کو آسمان کے خدا کی طرف خیال آجائے جس سے اس زمانے میں عیسائی مذہب بے خبر ہے۔


Book Content

Page 288

Page 289

3 نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم یہ عریضۂ مبارکبادی اس شخص کی طرف سے ہے جو یسوع مسیح کے نام پر طرح طرح کی بدعتوں سے دنیا کو چھڑانے کیلئے آیا ہے.جس کا مقصد یہ ہے کہ امن اور نرمی کے ساتھ دنیا میں سچائی قائم کرے اور لوگوں کو اپنے پیدا کنندہ سے سچی محبت اور بندگی کا طریق سکھائے.اور اپنے بادشاہ ملکہ معظمہ سے جس کی وہ رعایا ہیں سچی اطاعت کا طریق سمجھائے.اور بنی نوع میں باہمی سچّی ہمدردی کرنے کا سبق دیوے.اور نفسانی کینوں اور جوشوں کو درمیان سے اٹھائے اور ایک پاک صلح کاری کو خدا کے نیک نیّت بندوں میں قائم کرے جس کی نفاق سے ملونی نہ ہو اور یہ نوشتہ ایک ہدیہ شکر گذاری ہے کہ جو عالی جناب قیصرہ ہند ملکہ معظمہ والی انگلستان و ہند دام اقبالہا بالقابہا کے حضور میں بتقریب جلسہ جوبلی شصت سالہ بطور مبارکباد پیش کیا گیا ہے.مبارک! مبارک!! مبارک!!!

Page 290

اس خدا کا شکر ہے جس نے آج ہمیں یہ عظیم الشان خوشی کا دن دکھلایا کہ ہم نے اپنی ملکہ معظمہ قیصرہ ہند و انگلستان کی شصت سالہ جوبلی کو دیکھا.جس قدر اس دن کے آنے سے مسرت ہوئی کون اس کو اندازہ کر سکتا ہے؟ ہماری محسنہ قیصرہ مبارکہ کو ہماری طرف سے خوشی اور شکر سے بھری ہوئی مبارکباد پہنچے.خدا ملکہ معظمہ کو ہمیشہ خوشی سے رکھے! وہ خدا جو زمین کو بنانے والا اور آسمانوں کو اونچا کرنے والا اور چمکتے ہوئے سورج اور چاند کو ہمارے لئے کام میں لگانے والا ہے.اس کی جناب میں ہم دعا کرتے ہیں کہ وہ ہماری ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کو جو اپنی رعایا کی مختلف اقوام کو کنار عاطفت میں لئے ہوئے ہے جس کے ایک وجود سے کروڑہا انسانوں کو آرام پہنچ رہا ہے تادیرگاہ سلامت رکھے اور ایسا ہو کہ جلسۂ جوبلی کی تقریب پر (جس کی خوشی سے کروڑہا دل برٹش انڈیا اور انگلستان کے جوش نشاط میں ان پھولوں کی طرح حرکت کر رہے ہیں جو نسیم صبا کی ٹھنڈی ہوا سے شگفتہ ہوکر پرندوں کی طرح اپنے پروں کو ہلاتے ہیں) جس زور شور سے زمین مبارکبادی کیلئے اچھل رہی ہے ایسا ہی آسمان بھی اپنے آفتاب و ماہتاب اور تمام ستاروں کے ساتھ مبارکبادیاں دیوے! اور عنایت صمدی ایسا کرے کہ جیسا کہ ہماری عالی شان محسنہ ملکہ معظمہ والی ہندو انگلستان اپنی رعایا کے تمام بوڑھوں اور بچوں کے دلوں میں ہردلعزیز ہے ویسا ہی آسمانی فرشتوں کے دلوں میں بھی ہردلعزیز ہو جائے.وہ قادر جس نے بیشمار دنیوی برکتیں اسکو عطا کیں دینی برکتوں سے بھی اسے مالامال کرے.وہ رحیم جس نے اس جہان میں اسکو خوش رکھا اگلے جہان میں بھی خوشی کے سامان اس کیلئے عطا کرے.خدا کے کاموں سے کیا بعید ہے کہ ایسا مبارک وجود جس سے کروڑ ہا بلکہ بے شمار نیکی کے کام ہوئے اور ہو رہے ہیں اس کے ہاتھ سے یہ آخری نیکی بھی ہو جائے

Page 291

کہ انگلستان کو رحم اور امن کے ساتھ انسان پرستی سے پاک کر دیا جائے تا فرشتوں کی روحیں بھی بول اٹھیں کہ اے موحّدہ صدیقہ تجھے آسمان سے بھی مبارکباد جیسا کہ زمین سے!! یہ دعاگو کہ جو دنیا میں عیسیٰ مسیح کے نام سے آیا ہے اسی طرح وجود ملکہ معظمہ قیصرہ ہند اور اس کے زمانہ سے فخر کرتا ہے جیسا کہ سیّدالکونین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم نے نوشیروان عادل کے زمانہ سے فخر کیا تھا.سو اگرچہ جلسۂ جوبلی کی مبارک تقریب پر ہر ایک شخص پر واجب ہے کہ ملکہ معظمہ کے احسانات کو یاد کر کے مخلصانہ دعاؤں کے ساتھ مبارکباد دے اور حضور قیصرہ ہند و انگلستان میں شکرگذاری کا ہدیہ گذرانے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ مجھ پر سب سے زیادہ واجب ہے.میرے لئے خدا نے پسند کیا کہ میں آسمانی کارروائی کیلئے ملکہ معظمہ کی پُرامن حکومت کی پناہ لوں.سو خدا نے مجھے ایسے وقت میں اور ایسے ملک میں مامور کیا جس جگہ انسانوں کی آبرو اور مال اور جان کی حفاظت کیلئے حضرت قیصرہ مبارکہ کا عہد سلطنت ایک فولادی قلعہ کی تاثیر رکھتا ہے.جس امن کے ساتھ میں نے اس ملک میں بودوباش کرکے سچائی کو پھیلایا اس کا شکر کرنا میرے پر سب سے زیادہ واجب ہے.اور اگرچہ میں نے اس شکرگزاری کیلئے بہت سی کتابیں اردو اور عربی اور فارسی میں تالیف کر کے اور ان میں جناب ملکہ معظمہ کے تمام احسانات کو جو برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے شامل حال ہیں اسلامی دنیا میں پھیلائی ہیں اور ہر ایک مسلمان کو سچی اطاعت اور فرمانبرداری کی ترغیب دی ہے.لیکن میرے لئے ضروری تھا کہ یہ تمام کارنامہ اپنا جناب ملکہ معظمہ کے حضور میں بھی پہنچاؤں.سو اسی بناء پر آج مجھے جناب ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کی جوبلی کے مبارک موقعہ پر جو سچی وفادار رعایا کیلئے بیشمار شکر اور خوشی کا محل ہے اس

Page 292

دلی مدعا کے پورا کرنے کیلئے جرأت ہوئی ہے.میں اس بات کو ظاہر کرنا بھی اپنی روشناسی کرانے کی غرض سے ضروری دیکھتا ہوں کہ میں حضرت ملکہ معظمہ کی رعایا میں سے پنجاب کے ایک معزز خاندان میں سے ایک شخص ہوں جو میرزا غلام احمد قادیانی کے نام سے مشہور ہوں.میرے والد کا نام میرزا غلام مرتضیٰ اور ان کے والد کا نام میرزاعطا محمد اور ان کے والد کا نام میرزا گل محمد تھا.یہ آخرالذکر اس زمانہ سے پہلے والیان ملک میں سے تھے.مجھے خدا نے جیسا کہ آگے بیان ہوگا اپنی خدمت میں لے لیا اور جیسا کہ وہ اپنے بندوں سے قدیم سے کلام کرتا آیا ہے مجھے بھی اس نے اپنے مکالمہ اور مخاطبہ کا شرف بخشا.اور مجھے اس نے نہایت پاک اصولوں پر جو نوع انسان کیلئے مفید ہیں قائم کیا.چنانچہ منجملہ ان اصولوں کے جن پر مجھے قائم کیا گیا ہے ایک یہ ہے کہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے کہ دنیا میں جس قدر نبیوں کی معرفت مذہب پھیل گئے ہیں اور استحکام پکڑ گئے ہیں اور ایک حصۂِ دنیا پر محیط ہوگئے ہیں اور ایک عمر پاگئے ہیں اور ایک زمانہ ان پر گذر گیا ہے ان میں سے کوئی مذہب بھی اپنی اصلیت کے رو سے جھوٹا نہیں اور نہ ان نبیوں میں سے کوئی نبی جھوٹا ہے.کیونکہ خدا کی سنت ابتدا سے اسی طرح پر واقع ہے کہ وہ ایسے نبی کے مذہب کو جو خدا پر افترا کرتا ہے اور خدا کی طرف سے نہیں آیابلکہ دلیری سے اپنی طرف سے باتیں بناتا ہے کبھی سرسبز ہونے نہیں دیتا.اور ایسا شخص جو کہتا ہے کہ میں خدا کی طرف سے ہوں.حالانکہ خدا خوب جانتا ہے کہ وہ اس کی طرف سے نہیں ہے.خدا اس بے باک کو ہلاک کرتا ہے اور اس کا تمام کاروبار درہم برہم کیا جاتا ہے.اور اس کی تمام جماعت متفرق کی جاتی ہے.اور اس کا پچھلا حال پہلے سے بدتر ہوتا ہے.کیونکہ اس نے خدا پر جھوٹ بولا.اور دلیری سے خدا پر

Page 293

افتر ا کیا.پس خدااُس کووہ عظمت نہیں دیتا جو راستبازوں کو دی جاتی ہے.اور نہ وہ قبولیت اور استحکام بخشتا ہے جو صادق نبیوں کیلئے مقرر ہے.اور اگر یہ سوال ہو کہ اگر یہی بات سچ ہے تو پھر دنیا میں ایسے مذہب کیوں پھیل گئے جن کی کتابوں میں انسانوں یا پتھروں یا فرشتوں یا سورج اور چاند اور ستاروں اور یا آگ اور پانی اور ہوا وغیرہ مخلوق کو خدا کر کے مانا گیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسے مذہب یا توان لوگوں کی طرف سے ہیں جنہوں نے نبوّت کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ الہام اور وحی کے مدعی ہوئے بلکہ اپنی فکر اور عقل کی غلطی سے مخلوق پرستی کی طرف جھک گئے.اور یا بعض مذہب ایسے تھے کہ درحقیقت خدا کے کسی سچّے نبی کی طرف سے ان کی بنیاد تھی لیکن مرور زمانہ سے ان کی تعلیم لوگوں پر مشتبہ ہوگئی.اور بعض استعارات یا مجازات کو حقیقت پر حمل کر کے وہ لوگ مخلوق پرستی میں پڑ گئے.لیکن دراصل وہ نبی ایسا مذہب نہیں سکھاتے تھے.سو ایسی صورت میں ان نبیوں کا قصور نہیں کیونکہ وہ صحیح اور پاک تعلیم لائے تھے بلکہ جاہلوں نے بدفہمی سے ان کی کلام کے الٹے معنی کئے.سو جن جاہلوں نے ایسا کیا انہوں نے یہ دعویٰ تو نہیں کیا کہ ہم پر خدا کا کلام نازل ہوا ہے اور ہم نبی ہیں بلکہ نبوت کی کلام کو اجتہاد کی غلطی سے انہوں نے الٹا سمجھا.سو یہ غلطیاں اور گمراہیاں اگرچہ گناہ میں داخل ہیں اور خدا تعالیٰ کی نظر میں مکروہ ہیں مگر ان کے پھیلنے کو خدا تعالیٰ اس طرح پر نہیں روکتا جس طرح اس مفتری کی کارروائی کو روکتا ہے جو خدا پر افترا کرتا ہے.کوئی سلطنت خواہ زمینی ہے خواہ آسمانی ایسے مفتری کو مہلت نہیں دیتی جو ایک جھوٹا قانون بنا کر پھر سلطنت کی طرف منسوب کرتا ہے کہ وہ قانون اس گورنمنٹ سے پاس ہوکر نکلا ہے.اور نہ کوئی سلطنت جائز رکھتی ہے کہ کوئی شخص جھوٹے طور پر سرکاری

Page 294

ملاز م بن کر ناجائز حکومت کو عمل میں لاوے.اور ایسا ظاہر کرے کہ وہ گورنمنٹ کا کوئی عہدہ دار ہے.حالانکہ وہ عہدہ دار کیا کسی ادنیٰ درجہ کا ملازم بھی نہیں.سو یہی قانون خدا تعالیٰ کی قدیم سنت میں داخل ہے کہ وہ نبوت کے جھوٹا دعویٰ کرنے والے کو مہلت نہیں دیتا.بلکہ ایسا شخص جلد پکڑا جاتا اور اپنی سزا کو پہنچ جاتا ہے.اس قاعدہ کے لحاظ سے ہمیں چاہئے کہ ہم ان تمام لوگوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں اور ان کو سچا سمجھیں جنہوں نے کسی زمانہ میں نبوت کا دعویٰ کیا اور پھر وہ دعویٰ ان کا جڑ پکڑگیا اور ان کا مذہب دنیا میں پھیل گیا.اور استحکام پکڑ گیا اور ایک عمر پاگیا اور اگر ہم ان کے مذہب کی کتابوں میں غلطیاں پائیں یا اس مذہب کے پابندوں کو بدچلنیوں میں گرفتار مشاہدہ کریں تو ہمیں نہیں چاہئے کہ وہ سب داغ ملالت ان مذاہب کے بانیوں پر لگاویں.کیونکہ کتابوں کا محرف ہو جانا ممکن ہے.اجتہادی غلطیوں کا تفسیروں میں داخل ہو جانا ممکن ہے.لیکن یہ ہرگز ممکن نہیں کہ کوئی شخص کھلا کھلا خدا پر افترا کرے اور کہے کہ میں اس کا نبی ہوں اور اپنا کلام پیش کرے اور کہے کہ ’’یہ خدا کا کلام ہے‘‘.حالانکہ وہ نہ نبی ہو اور نہ اس کا کلام خدا کا کلام ہو.اور پھر خدا اس کو سچوں کی طرح مہلت دے.اور سچوں کی طرح اس کی قبولیت پھیلائے.لہٰذا یہ اصول نہایت صحیح اور نہایت مبارک اور باوجود اس کے صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا ہے کہ ہم ایسے تمام نبیوں کو سچے نبی قرار دیں.جن کا مذہب جڑ پکڑ گیا اور عمر پاگیا اور کروڑ ہا لوگ اس مذہب میں آگئے.یہ اصول نہایت نیک اصول ہے اور اگر اس اصل کی تمام دنیا پابند ہو جائے تو ہزاروں فساد اور توہین مذہب جو مخالف امن عامہ خلائق ہیں اٹھ جائیں.یہ تو ظاہر ہے کہ جو لوگ کسی مذہب کے پابندوں کو

Page 295

ایک ایسے شخص کا پیرو خیال کرتے ہیں جو ان کی دانست میں دراصل وہ کاذب اور مفتری ہے تو وہ اس خیال سے بہت سے فتنوں کی بنیاد ڈالتے ہیں.اور وہ ضرور توہین کے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں اور اس نبی کی شان میں نہایت گستاخی کے الفاظ بولتے ہیں اور اپنے کلمات کو گالیوں کی حد تک پہنچاتے ہیں اور صلح کاری اور عامہ خلائق کے امن میں فتور ڈالتے ہیں.حالانکہ یہ خیال ان کا بالکل غلط ہوتا ہے.اور وہ اپنے گستاخانہ اقوال میں خدا کی نظر میں ظالم ہوتے ہیں.خدا جو رحیم و کریم ہے وہ ہرگز پسند نہیں کرتاجو ایک جھوٹے کو ناحق کا فروغ دے کر اور اسکے مذہب کی جڑ جما کر لوگوں کو دھوکہ میں ڈالے.اور نہ جائز رکھتا ہے کہ ایک شخص باوجود مفتری اور کذّاب ہونے کے دنیا کی نظر میں سچے نبیوں کا ہم پلّہ ہو جائے.پس یہ اصول نہایت پیارا اور امن بخش اور صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا اور اخلاقی حالتوں کو مدد دینے والا ہے کہ ہم ان تمام نبیوں کو سچا سمجھ لیں جو دنیا میں آئے.خواہ ہند میں ظاہر ہوئے یا فارس میں یا چین میں یا کسی اور ملک میں اور خدا نے کروڑہا دلوں میں ان کی عزت اور عظمت بٹھادی اور ان کے مذہب کی جڑ قائم کردی.اور کئی صدیوں تک وہ مذہب چلا آیا.یہی اصول ہے جو قرآن نے ہمیں سکھلایا.اسی اصول کے لحاظ سے ہم ہر ایک مذہب کے پیشوا کو جن کی سوانح اس تعریف کے نیچے آگئی ہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں گو وہ ہندوؤں کے مذہب کے پیشوا ہوں یا فارسیوں کے مذہب کے یا چینیوں کے مذہب کے یا یہودیوں کے مذہب کے یا عیسائیوں کے مذہب کے.مگر افسوس کہ ہمارے مخالف ہم سے یہ برتاؤ نہیں کر سکتے اور خدا کا یہ پاک اور غیر متبدّل قانون ان کو یاد نہیں کہ وہ جھوٹے نبی کو وہ برکت

Page 296

اور عزت نہیں دیتا جو سچے کو دیتا ہے اور جھوٹے نبی کا مذہب جڑ نہیں پکڑتا اور نہ عمر پاتا ہے جیسا کہ سچے کا جڑ پکڑتا اور عمر پاتا ہے.پس ایسے عقیدہ والے لوگ جو قوموں کے نبیوں کو کاذب قرار دے کر برا کہتے رہتے ہیں ہمیشہ صلح کاری اور امن کے دشمن ہوتے ہیں.کیونکہ قوموں کے بزرگوں کو گالیاں نکالنا اس سے بڑھ کر فتنہ انگیز اور کوئی بات نہیں.بسا اوقات انسان مرنا بھی پسند کرتا ہے مگر نہیں چاہتا کہ اس کے پیشوا کو بُرا کہا جائے.اگر ہمیں کسی مذہب کی تعلیم پر اعتراض ہو تو ہمیں نہیں چاہئے کہ اس مذہب کے نبی کی عزت پر حملہ کریں.اور نہ یہ کہ اس کو برے الفاظ سے یاد کریں بلکہ چاہئے کہ صرف اس قوم کے موجودہ دستورالعمل پر اعتراض کریں.اور یقین رکھیں کہ وہ نبی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے کروڑہا انسانوں میں عزت پاگیا اور صدہا برسوں سے اس کی قبولیت چلی آتی ہے یہی پختہ دلیل اس کے منجانب اللہ ہونے کی ہے.اگر وہ خدا کا مقبول نہ ہوتا تو اس قدر عزت نہ پاتا.مفتری کو عزت دینا اور کروڑہا بندوں میں اس کے مذہب کو پھیلانا اور زمانہ دراز تک اس کے مفتریانہ مذہب کو محفوظ رکھنا خدا کی عادت نہیں ہے.سو جو مذہب دنیا میں پھیل جائے اور جم جائے اور عزت اور عمر پا جائے وہ اپنی اصلیت کے رو سے ہرگز جھوٹا نہیں ہو سکتا.پس اگر وہ تعلیم قابل اعتراض ہے تو اس کا سبب یا تو یہ ہوگا کہ اس نبی کی ہدایتوں میں تحریف کی گئی ہے.اور یا یہ سبب ہوگا کہ ان ہدایتوں کی تفسیر کرنے میں غلطی ہوئی ہے.اور یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خود ہم اعتراض کرنے میں حق پر نہ ہوں.چنانچہ دیکھا جاتا ہے کہ بعض پادری صاحبان اپنی کم فہمی کی وجہ سے قرآن شریف کی ان باتوں پر اعتراض کر دیتے ہیں جن کو توریت میں صحیح اور خدا کی تعلیم مان چکے ہیں.سو ایسا اعتراض خود اپنی غلطی یا شتاب کاری ہوتی ہے.

Page 297

خلا صہ یہ کہ دنیا کی بھلائی اور امن اور صلح کاری اور تقویٰ اور خداترسی اسی اصول میں ہے کہ ہم ان نبیوں کو ہرگز کاذب قرار نہ دیں جن کی سچائی کی نسبت کروڑہا انسانوں کی صدہا برسوں سے رائے قائم ہو چکی ہو.اور خدا کی تائیدیں قدیم سے ان کے شامل حال ہوں.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ایک حق کا طالب خواہ وہ ایشیائی ہویا یوروپین ہمارے اس اصول کو پسند کرے گا اور آہ کھینچ کر کہے گا کہ افسوس ہمارا اصول ایسا کیوں نہ ہوا.میں اس اصول کو اس غرض سے حضرت ملکہ معظمہ قیصرہ ہند و انگلستان کی خدمت میں پیش کرتا ہوں کہ امن کو دنیا میں پھیلانے والا صرف یہی ایک اصول ہے جو ہمارا اصول ہے اسلام فخر کر سکتا ہے کہ اس پیارے اور دلکش اصول کو خصوصیت سے اپنے ساتھ رکھتا ہے.کیا ہمیں روا ہے کہ ہم ایسے بزرگوں کی کسر شان کریں جو خدا کے فضل نے ایک دنیا کو ان کے تابعدار کر دیا اور صدہا برسوں سے بادشاہوں کی گردنیں ان کے آگے جھکتی چلی آئیں؟ کیا ہمیں روا ہے کہ ہم خدا کی نسبت یہ بدظنی کریں کہ وہ جھوٹوں کو سچّوں کی شان دے کر اور سچوں کی طرح کروڑہا لوگوں کا ان کو پیشوا بنا کر اور ان کے مذہب کو ایک لمبی عمر دے کر اور ان کے مذہب کی تائید میں آسمانی نشان ظاہر کر کے دنیا کو دھوکا دینا چاہتا ہے؟ اگر خدا ہی ہمیں دھوکا دے تو پھر ہم راست اور ناراست میں کیونکر فرق کر سکتے ہیں؟ یہ بڑا ضروری مسئلہ ہے کہ جھوٹے نبی کی شان و شوکت اور قبولیت اور عظمت ایسی پھیلنی نہیں چاہئے جیسا کہ سچّے کی.اور جھوٹوں کے منصوبوں میں وہ رونق پیدا نہیں ہونی چاہئے جیسا کہ سچّے کے کاروبار میں پیدا ہونی چاہئے.اسی لئے سچے کی اول علامت یہی ہے کہ خدا کی دائمی تائیدوں کا سلسلہ اسکے شامل حال ہو اور خدا اسکے مذہب کے پودہ کو کروڑہا دلوں میں لگا دیوے اور عمر بخشے.پس جس نبی کے مذہب

Page 298

میں ہم یہ علامتیں پاویں ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی موت اور انصاف کے دن کو یاد کر کے ایسے بزرگ پیشوا کی اہانت نہ کریں بلکہ سچی تعظیم اور سچی محبت کریں.غرض یہ وہ پہلا اصول ہے جو ہمیں خدا نے سکھلایا ہے جس کے ذریعہ سے ہم ایک بڑے اخلاقی حصہ کے وارث ہوگئے ہیں.اور دوسرا اصول جس پر مجھے قائم کیا گیا ہے وہ جہاد کے اس غلط مسئلہ کی اصلاح ہے جو بعض نادان مسلمانوں میں مشہور ہے.سو مجھے خدا تعالیٰ نے سمجھا دیا ہے کہ جن طریقوں کو آج کل جہاد سمجھا جاتا ہے وہ قرآنی تعلیم سے بالکل مخالف ہیں.بے شک قرآن شریف میں لڑائیوں کا حکم ہوا تھا جو موسیٰ کی لڑائیوں سے زیادہ معقول اور یشوع بن نون کی لڑائیوں سے زیادہ پسندیدگی اپنے اندر رکھتا تھا.اور اس کی بنا صرف اس بات پر تھی کہ جنہوں نے مسلمانوں کے قتل کرنے کیلئے ناحق تلواریں اٹھائیں اور ناحق کے خون کئے اور ظلم کو انتہا تک پہنچایا ان کو تلواروں سے ہی قتل کیا جائے.مگر پھر بھی یہ عذاب موسیٰ کی لڑائیوں کی طرح بہت سختی اپنے اندر نہیں رکھتا تھا.بلکہ جو شخص قبول اسلام کے ساتھ اگر وہ عربی ہے یا جزیہ کے ساتھ اگر وہ غیر عربی ہے پناہ لیتا تھا تو وہ عذاب ٹل جاتا تھااور یہ طریق بالکل قانون قدرت کے موافق تھا.کیونکہ خدا تعالیٰ کے عذاب جو وباؤں کے رنگ میں دنیا پر نازل ہوتے ہیں وہ صدقہ خیرات اور دعا اور توبہ اور خشوع اور خضوع کے ساتھ بیشک زوال پذیر ہو جاتے ہیں.اسی وجہ سے جب شدت سے وبا کی آگ بھڑکتی ہے تو طبعاً دنیا کی تمام قومیں دعا اور توبہ اور استغفار اور صدقہ خیرات کی طرف مشغول ہو جاتی ہیں اور خدا کی طرف رجوع کرنے کیلئے ایک طبعی حرکت پیدا ہو جاتی ہے.پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عذاب کے نزول کے وقت طبائع

Page 299

انسا نیہ کا اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا ایک طبعی امر ہے.اور توبہ اور دعا کرنا عذاب کے وقتوں میں انسان کیلئے فائدہ مند ثابت ہوا ہے.یعنی توبہ اور استغفار سے عذاب ٹل بھی جاتا ہے جیسا کہ یونس نبی کی قوم کا عذاب ٹل گیا.ایسا ہی حضرت موسیٰ کی دعا سے کئی دفعہ بنی اسرائیل کا عذاب ٹل گیا.سو خدا تعالیٰ کا ان کفار کو جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں پر بہت سختی کی تھی یہاں تک کہ عورتیں اور بچے بھی قتل کئے تھے.تلوار کے عذاب سے شکنجہ میں گرفتار کرنا اور پھر ان کی توبہ اور رجوع اور حق پذیری سے نجات دے دینا یہ وہی خدا کی قدیم عادت ہے جس کا مشاہدہ ہر زمانہ میں ہوتا چلا آیا ہے.غرض ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت میں اسلامی جہاد کی جڑ یہی تھی کہ خدا کا غضب ظلم کرنے والوں پر بھڑکا تھا.لیکن کسی عادل گورنمنٹ کے سایہ معدلت کے نیچے رہ کر جیسا کہ ہماری ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کی سلطنت ہے پھر اس کی نسبت بغاوت کا قصد رکھنا اس کا نام جہاد نہیں ہے بلکہ یہ ایک نہایت وحشیانہ اور جہالت سے بھرا ہوا خیال ہے.جس گورنمنٹ کے ذریعہ سے آزادی سے زندگی بسر ہو اور پورے طور پر امن حاصل ہو اور فرائض مذہبی کماحقہٗ ادا کر سکیں اسکی نسبت بدنیتی کو عمل میں لانا ایک مجرمانہ حرکت ہے نہ جہاد.اسی لئے ۱۸۵۷ء میں مفسدہ پرداز لوگوں کی حرکت کو خدا نے پسند نہیں کیا اور آخر طرح طرح کے عذابوں میں وہ مبتلا ہوئے.کیونکہ انہوں نے اپنی محسن اور مربی گورنمنٹ کا مقابلہ کیا.سو خدا تعالیٰ نے مجھے اس اصول پر قائم کیا ہے کہ محسن گورنمنٹ کی جیسا کہ یہ گورنمنٹ برطانیہ ہے سچی اطاعت کی جائے اور سچی شکرگزاری کی جائے.سو میں اور میری جماعت اس اصول کے پابند ہیں.چنانچہ میں نے اس مسئلہ پر عملدرآمد کرانے کیلئے بہت سی کتابیں عربی اور فارسی اور اردو میں تالیف کیں اور ان میں

Page 300

تفصیل سے لکھا کہ کیونکر مسلمانان برٹش انڈیا اس گورنمنٹ برطانیہ کے نیچے آرام سے زندگی بسر کرتے ہیں اور کیونکر آزادگی سے اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے پر قادر ہیں اور تمام فرائض منصبی بے روک ٹوک بجالاتے ہیں.پھر اس مبارک اور امن بخش گورنمنٹ کی نسبت کوئی خیال بھی جہاد کا دل میں لانا کس قدر ظلم اور بغاوت ہے.یہ کتابیں ہزارہا روپیہ کے خرچ سے طبع کرائی گئیں اور پھر اسلامی ممالک میں شائع کی گئیں.اور میں جانتا ہوں کہ یقیناً ہزارہا مسلمانوں پر ان کتابوں کا اثر پڑا ہے.بالخصوص وہ جماعت جو میرے ساتھ تعلق بیعت و مریدی رکھتی ہے وہ ایک ایسی سچی مخلص اور خیرخواہ اس گورنمنٹ کی بن گئی ہے کہ میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ اُن کی نظیر دوسرے مسلمانوں میں نہیں پائی جاتی.وہ گورنمنٹ کیلئے ایک وفادار فوج ہے جن کا ظاہر و باطن گورنمنٹ برطانیہ کی خیرخواہی سے بھرا ہوا ہے.میں نے اپنی تالیف کردہ کتابوں میں اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ جو کچھ نادان مولوی تلوار کے ذریعہ سے حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ امر سچے مذہب کیلئے دوسرے رنگ میں گورنمنٹ برطانیہ میں حاصل ہے.یعنی ہر ایک شخص بتمام ترآزادی اپنے مذہب کا اثبات اور دوسرے مذہب کا ابطال کر سکتا ہے.اور میری رائے میں مسلمانوں کیلئے مذہبی خیالات کے اظہار میں قانونی حد تک وسیع اختیارات ہونے میں بڑی پُرخیر مصلحت ہے کیونکہ وہ اس طور سے اپنی اصل غرض کو پاکر جنگجوئی کی عادات کو جو کتاب اللہ کی غلط فہمی سے بعضوں میں پائی جاتی ہیں بھلا دیں گے.وجہ یہ کہ جیسا کہ ایک منشّی چیز کا استعمال کرنا دوسری منشّی چیز سے فارغ کر دیتا ہے.ایسا ہی جب ایک مقصد ایک پہلو سے نکلتا ہے تو دوسرا پہلو خود سست ہو جاتا ہے.انہیں اغراض سے میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ مذہبی مباحثات کے بارے میں

Page 301

انگر یزی آزادی سے فائدہ اٹھاؤں اور نیز اسلامی جوش کے لوگوں کو اس جائز امر کی طرف توجہ دے کر ناجائز خیالات اور جوشوں سے ان کے جذبات کو روک دوں.مسلمان لوگ ایک خونی مسیح کے منتظر تھے اور نیز ایک خونی مہدی کی بھی انتظار کرتے تھے.اور یہ عقیدے اس قدر خطرناک ہیں کہ ایک مفتری کاذب مہدی موعود کا دعویٰ کر کے ایک دنیا کو خون میں غرق کر سکتا ہے.کیونکہ مسلمانوں میں اب تک یہ خاصیت ہے کہ جیسا کہ وہ ایک جہاد کی رغبت دلانے والے فقیر کے ساتھ ہو جاتے ہیں.شاید وہ ایسی تابعداری بادشاہ کی بھی نہیں کر سکتے.پس خدا نے چاہا کہ یہ غلط خیالات دور ہوں اس لئے اس نے مجھے مسیح موعود اور مہدی معہود کا خطاب دے کر میرے پر ظاہر فرمایا کہ کسی خونی مہدی یا خونی مسیح کی انتظار کرنا سراسر غلط خیال ہے.بلکہ خدا ارادہ فرماتا ہے کہ آسمانی نشانوں کے ساتھ سچ کو دنیا میں پھیلاوے.سو میرا اصول یہ ہے کہ دنیا کے بادشاہوں کو اپنی بادشاہیاں مبارک ہوں ہمیں ان کی سلطنت اور دولت سے کچھ غرض نہیں ہمارے لئے آسمانی بادشاہی ہے.ہاں نیک نیتی سے اور سچی خیرخواہی سے بادشاہوں کو بھی آسمانی پیغام پہنچانا ضروری ہے.لیکن اس گورنمنٹ برطانیہ کی نسبت نہ صرف اس قدر ہے بلکہ چونکہ ہم اس دولت کے سایہ عاطفت کے نیچے بَامَنْ زندگی بسر کر سکتے ہیں اس لئے اس دولت کیلئے ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ اس کی دنیا اور آخرت کیلئے دعا بھی کریں.افسوس کہ جس وقت سے میں نے ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ خبر سنائی ہے کہ کوئی خونی مہدی یا خونی مسیح دنیا میں آنے والا نہیں ہے بلکہ ایک شخص صلح کاری کے ساتھ آنے والا تھا جو میں ہوں اس وقت سے یہ نادان مولوی مجھ سے بغض رکھتے ہیں اور مجھ کو کافر اور دین سے خارج ٹھہراتے ہیں.عجیب بات ہے

Page 302

کہ یہ لوگ بنی نوع کی خونریزی سے خوش ہوتے ہیں.مگر یہ قرآنی تعلیم نہیں ہے اور نہ سب مسلمان اس خیال کے ہیں.یہ پادریوں کی بھی خیانت ہے کہ ناحق دائمی جہاد کے مسئلہ کو قرآن شریف کی طرف منسوب کرتے ہیں.اور اس طرح پر بعض نادانوں کو دھوکہ میں ڈال کر نفسانی جوشوں کی طرف ان کو توجہ دیتے ہیں.اور میں نہ اپنے نفس سے اور نہ اپنے خیال سے بلکہ خدا سے مامور ہوں کہ جس گورنمنٹ کے سایہ عطوفت کے نیچے میں امن کے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہوں اس کیلئے دعا میں مشغول رہوں اور اس کے احسانات کا شکر کروں اور اس کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھوں.اور جو کچھ مجھے فرمایا گیا ہے نیک نیتی سے اس تک پہنچاؤں.لہٰذا اس موقعہ جوبلی پر جناب ملکہ معظمہ کے ان متواتر احسانات کو یاد کر کے جو ہماری جان اور مال اور آبرو کے شامل حال ہیں.ہدیہ شکرگزاری پیش کرتا ہوں اور وہ ہدیہ دعائے سلامتی و اقبال ملکہ ممدوحہ ہے جو دل سے اور وجود کے ذرّہ ذرّہ سے نکلتی ہے.اے قیصرہ و ملکہ معظمہ! ہمارے دل تیرے لئے دعا کرتے ہوئے جناب الٰہی میں جھکتے ہیں اور ہماری روحیں تیرے اقبال اور سلامتی کیلئے حضرت احدیّت میں سجدہ کرتی ہیں.اے اقبال مند قیصرہ ہند! اس جوبلی کی تقریب پر ہم اپنے دل اور جان سے تجھے مبارکباد دیتے ہیں.اور خدا سے چاہتے ہیں کہ خدا تجھے ان نیکیوں کی بہت بہت جزا دے جو تجھ سے اور تیری بابرکت سلطنت سے اور تیرے امن پسند حکام سے ہمیں پہنچی ہیں.ہم تیرے وجود کو اس ملک کیلئے خدا کا ایک بڑا فضل سمجھتے ہیں اور ہم ان الفاظ کے نہ ملنے سے شرمندہ ہیں جن سے ہم اس شکر کو پورے طور پر ادا کر سکتے.ہر ایک دعا جو ایک سچا شکرگزار تیرے لئے کر سکتا ہے ہماری طرف سے تیرے

Page 303

حق میں قبول ہو.خدا تیری آنکھوں کو مرادوں کے ساتھ ٹھنڈی رکھے اور تیری عمر اور صحت اور سلامتی میں زیادہ سے زیادہ برکت دے اور تیرے اقبال کا سلسلہ ترقیات جاری رکھے اور تیری اولاد اور ذرّیت کو تیری طرح اقبال کے دن دکھاوے.اور فتح اور ظفر عطا کرتا رہے.ہم اس کریم و رحیم خدا کا بہت بہت شکر کرتے ہیں جس نے اس مسرت بخش دن کو ہمیں دکھایا.اور جس نے ایسی محسنہ رعیّت پرور داد گُستر بیدار مغز ملکہ کے زیر سایہ ہمیں پناہ دی.اور ہمیں اس کے مبارک عہد سلطنت کے نیچے یہ موقعہ دیا کہ ہم ہر ایک بھلائی کو جو دنیا اور دین کے متعلق ہو حاصل کر سکیں.اور اپنے نفس اور اپنی قوم اور اپنے بنی نوع کیلئے سچی ہمدردی کے شرائط بجا لا سکیں.اور ترقی کی ان راہوں پر آزادی سے قدم مار سکیں.جن راہوں پر چلنے سے نہ صرف ہم دنیا کی مکروہات سے محفوظ رہ سکتے ہیں بلکہ ابدی جہان کی سعادتیں بھی ہمیں حاصل ہو سکتی ہیں.جب ہم سوچتے ہیں کہ یہ تمام نیکیاں اور انکے وسائل جناب قیصرہ ہند کی عہد سلطنت میں ہم کو ملی ہیں.اور یہ سب خیر اور بھلائی کے دروازے اسی ملکہ معظمہ مبارکہ کے ایام بادشاہت میں ہم پر کھلے ہیں تو اس سے ہمیں اس بات پر قوی دلیل ملتی ہے کہ جناب قیصرہ ہند کی نیّت رعایا پروری کیلئے نہایت ہی نیک ہے.کیونکہ یہ ایک مسلّم مسئلہ ہے کہ بادشاہ کی نیت رعایا کے اندرونی حالات اور انکے اخلاق اور چال چلن پر بہت اثر رکھتی ہے.یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب کسی حصہ زمین پر نیک نیّت اور عادل بادشاہ حکمرانی کرتا ہے تو خدا تعالیٰ کی یہی عادت ہے کہ اس زمین کے رہنے والے اچھی باتوں اور نیک اخلاق کی طرف توجہ کرتے ہیں.اور خدا اور خلقت کے ساتھ اخلاص کی عادت ان میں پیدا ہوجاتی ہے.سو یہ امر ہر ایک آنکھ کو بدیہی طورپر نظر آرہا ہے کہ برٹش انڈیا

Page 304

میں اچھی حالتوں اور اچھے اخلاق کی طرف ایک انقلاب عظیم پیدا ہو رہا ہے اور وحشیانہ جذبات ملکوتی حالات کی طرف انتقال کر رہے ہیں.اور نئی ذرّیت نفاق کی جگہ اخلاص کو زیادہ پسند کرتی جاتی ہے.اور لوگوں کی استعدادیں سچائی کے قبول کرنے کیلئے بہت نزدیک آتی جاتی ہیں.انسانوں کی عقل اور فہم اور سوچ میں ایک بڑی تبدیلی پیدا ہوگئی ہے اور اکثر لوگ ایک سادہ اور بے لوث زندگی کیلئے طیار ہو رہے ہیں.مجھے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عہد سلطنت ایک ایسی روشنی کا پیش خیمہ ہے جو آسمان سے اتر کر دلوں کو روشن کرنے والی ہے.ہزاروں دل اس طرح پر راستی کے شوق میں اچھل رہے ہیں کہ گویا وہ ایک آسمانی مہمان کیلئے جو سچائی کا نور ہے پیشوائی کے طور پر قدم بڑھاتے ہیں.انسانی قویٰ کے تمام پہلوؤں میں اچھے انقلاب کا رنگ دکھائی دیتا ہے اور دلوں کی حالت اس عمدہ زمین کی طرح ہو رہی ہے جو اپنا سبزہ نکالنے کیلئے پھول گئی ہو.ہماری ملکہ معظمہ اگر اس بات سے فخر کریں تو بجا ہے کہ روحانی ترقیات کیلئے خدا اسی زمین سے ابتدا کرنا چاہتا ہے جو برٹش انڈیا کی زمین ہے.اس ملک میں کچھ ایسے روحانی انقلاب کے آثار نظر آتے ہیں کہ گویا خدا بہتوں کو سفلی زندگی سے باہر نکالنا چاہتا ہے.اکثر لوگ بالطبع پاک زندگی کے حاصل کرنے کیلئے میل کرتے جاتے ہیں اور بہت سی روحیں عمدہ تعلیم اور عمدہ اخلاق کی تلاش میں ہیں اور خدا کا فضل امید دے رہا ہے کہ وہ اپنی ان مرادوں کو پائیں گے.اگرچہ اکثر قومیں ابھی ایسی کمزور ہیں کہ سچائی کی گواہی صفائی کے ساتھ دے نہیں سکتیں بلکہ سچائی کو سمجھ نہیں سکتیں اور ان کی تحریر اور تقریر میں کم و بیش تعصب کی رنگ آمیزی پائی جاتی ہے مگر دیکھا جاتا ہے کہ انصاف پسند انسانوں میں حق شناسی کی قوت بڑھ گئی ہے.وہ راستی کی چمک کو بہت سے پردوں میں سے بھی دیکھ لیتے ہیں.یہ ایک بڑی قابل قدر

Page 305

بات ہے کہ اکثر لوگ عرفانی روشنی کی تلاش میں لگ گئے ہیں.ہاں تلاش کی دُھن میں غلطیوں میں بھی پڑ رہے ہیں.اور غیر معبود کو حقیقی معبود کی جگہ بھی دیتے ہیں.مگر کچھ شک نہیں کہ ایک حرکت پیدا ہوگئی ہے.اور باتوں کی حقیقت اور اصلیت اور جڑ تک پہنچنا اور سطحی خیالات تک رکے نہ رہنا قابل تعریف خلق سمجھا گیا ہے جس سے آئندہ کی امیدیں مضبوط ہوگئی ہیں.پس اس میں کیا شک ہے کہ یہ بھی بادشاہ وقت کا ایک پرتوہ ہے اور کچھ شک نہیں کہ یہ گورنمنٹ ہندوستان میں داخل ہوتے ہی ایک روحانی سرگرمی اور حق کی تلاش کا اثر ساتھ لائی ہے اور بلاشبہ یہ اس ہمدردی کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے جو ہماری ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کے دل میں برٹش انڈیا کی رعیت کی نسبت مرکوز ہے.اور اگرچہ میں ان احسانوں کا بھی بدرجہ غایت قدر کرتا ہوں جو جسمانی طورپر جناب ملکہ معظمہ کی توجہات سے شامل حال مسلمانان ہند ہیں.لیکن ایک بڑا حصہ عنایات حضرت قیصرہ ہند کا یہی ہے کہ انکے ایام دولت میں ہندوستان کی بہت سی وحشیانہ حالتیں روبہ اصلاح ہوگئی ہیں اور ہر ایک شخص نے روحانی ترقیات کا بڑا موقعہ پایا ہے.ہم صریح دیکھتے ہیں کہ گویا زمانہ ایک سچی اور پاک صلاحیت کے نزدیک آتا جاتا ہے اور دلوں کو حقیقت شناسی کی طرف توجہ پیدا ہوتی جاتی ہے.مذہبی امور میں بوجہ تبادل خیالات کے ہر ایک حق کی تلاش کرنیوالے کو آگے قدم رکھنے کی جرأت ہوگئی ہے.اور وہ سچا اور اکیلا خدا جو بہتوں کی نظر سے پوشیدہ تھا اب اپنی تجلّیات کے دکھلانے کیلئے صریح ارادہ کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے.میرے خیال میں یہ بھی گزرتا ہے کہ اس سے پہلے اس ملک کی فارغ البالی اور دولتمندی اسکی روحانی ترقی کی بہت مانع تھی اور ہرایک مال اور دولت رکھنے والا عیاشی اور آرام پسندی کی طرف اعتدال سے زیادہ جھک گیا تھا.اگر ہندوستان کی وہی صورت رہتی تو آج شاید

Page 306

اس ملک کے رہنے والے وحشیوں سے بھی بدتر ہوتے.یہ اچھا ہوا کہ بہ سبب احسن تدبیر گورنمنٹ برطانیہ کے اس ملک کے اسباب تنعم و آرام طلبی کچھ مختصر کئے گئے تا لوگ فنون اور علوم کی طرف متوجہ ہوں اور روحانی ترقیات کا بھی دروازہ کھلے اور نفسانی جذبات کے وسائل کم ہو جائیں.سو یہ سب کچھ عہد سعادت مہد ملکہ معظمہ قیصرہ ہند میں ظہور میں آیا.میں خوب جانتا ہوں کہ مصیبت اور محتاجگی بھی انسان کی انسانیت کیلئے ایک کیمیا ہے بشرطیکہ انتہا تک نہ پہنچے اور تھوڑے دن ہو.سو ہمارا ملک اس کیمیا کا بھی محتاج تھا.میرا اس میں ذاتی تجربہ ہے کہ ہم نے اس کیمیا سے بہت فائدہ اٹھایا ہے اور بہت سے روحانی جواہرات ہم کو اس ذریعہ سے ملے ہیں.میں پنجاب کے ایک ایسے خاندان میں سے ہوں جو سلاطین مغلیہ کے عہد میں ایک ریاست کی صورت میں چلا آتا تھا اور بہت سے دیہات زمینداری ہمارے بزرگوں کے پاس تھے اور اختیارات حکومت بھی تھے.پھر سکھوں کے عروج سے کچھ پہلے یعنی جبکہ شاہان مغلیہ کے انتظام ملک داری میں بہت ضعف آگیا تھا.اور اس طرف طوائف الملوک کی طرح خودمختار ریاستیں پیدا ہوگئی تھیں.میرے پڑدادا صاحب میرزا گل محمد بھی طوائف الملوک میں سے تھے اور اپنی ریاست میں من کل الوجوہ خود مختار رئیس تھے.پھر جب سکھوں کا غلبہ ہوا تو صرف اسی۰۸ گاؤں ان کے ہاتھ میں رہ گئے.اور پھر بہت جلد اسی۸۰ کے عدد کا صفر بھی اڑگیا.اور پھر شاید آٹھ یا سات گاؤں باقی رہے.رفتہ رفتہ سرکار انگریزی کے وقت میں تو بالکل خالی ہاتھ ہوگئے.چنانچہ اوائل عملداری اس سلطنت میں صرف پانچ گاؤں کے مالک کہلاتے تھے اور میرے والد میرزا غلام مرتضیٰ صاحب دربار گورنری میں کرسی نشین بھی تھے اور سرکار انگریزی کے ایسے خیر خواہ اور دل کے بہادر تھے کہ مفسدہ ۱۸۵۷ء میں پچاس گھوڑے اپنی گرہ سے خرید کر اور پچاس جوان جنگجو بہم پہنچا کر اپنی حیثیت سے زیادہ اس گورنمنٹ عالیہ

Page 307

کو مدد دی تھی.غرض ہماری ریاست کے ایام دن بدن زوال پذیر ہوتے گئے یہاں تک کہ آخری نوبت ہماری یہ تھی کہ ایک کم درجہ کے زمیندار کی طرح ہمارے خاندان کی حیثیت ہوگئی.بظاہر یہ بات بہت غم دلانے والی ہے کہ ہم اوّل کیا تھے اور پھر کیا ہوگئے.لیکن جب میں سوچتا ہوں تو یہ حالت نہایت قابل شکر معلوم ہوتی ہے کہ خدا نے ہمیں بہت سے ان ابتلاؤں سے بچالیا کہ جو دولت مندی کے لازمی نتائج ہیں جن کو ہم اس وقت اس ملک میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں.مگر میں اس ملک کے امیروں اور رئیسوں کے نظائر پیش کرنا نہیں چاہتا جو میری رائے کی تائید کرتے ہیں.اور میں مناسب نہیں دیکھتا کہ اس ملک کے سست اور کاہل اور آرام پسند اور دین و دنیا سے غافل اور عیاشی میں غرق امیروں اور دولتمندوں کے نمونے اپنی تائید دعویٰ میں پیش کروں کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ کسی کے دل کو دکھ دوں.اس جگہ میرا مطلب صرف اس قدر ہے کہ اگر ہمارے بزرگوں کی ریاست میں فتور نہ آتا تو شاید ہم بھی ایسی ہی ہزاروں طرح کی غفلتوں اور تاریکیوں اور نفسانی جذبات میں غرق ہوتے.سو ہمارے لئے جناب باری تعالیٰ جلّ جلالہٗ نے دولت عالیہ برطانیہ کو نہایت ہی مبارک کیا کہ ہم اس بابرکت سلطنت میں اس ناچیز دنیا کی صدہا زنجیروں اور اس کے فانی تعلقات سے فارغ ہوکر بیٹھ گئے.اور خدا نے ہمیں ان تمام امتحانوں اور آزمائشوں سے بچالیا کہ جو دولت اور حکومت اور ریاست اور امارت کی حالت میں پیش آتے اور روحانی حالتوں کا ستیاناس کرتے ہیں یہ خدا کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں ان گردشوں اور طرح طرح کے حوادث میں جو حکومت کے بعد تحکم کے زمانہ سے لازم حال پڑی ہوئی ہیں برباد کرنا نہیں چاہابلکہ زمین کی ناچیز حکومتوں اور ریاستوں سے ہمیں نجات

Page 308

دے کر آسمان کی بادشاہت عطا کی جہاں نہ کوئی دشمن چڑھائی کرسکے اور نہ آئے دن اس میں جنگوں اور خونریزیوں کے خطرات ہوں اور نہ حاسدوں اور بخیلوں کو منصوبہ بازی کا موقعہ ملے.اور چونکہ اس نے مجھے یسوع مسیح کے رنگ میں پیدا کیا تھا اور توارد طبع کے لحاظ سے یسوع کی روح میرے اندر رکھی تھی اس لئے ضرور تھا کہ گم گشتہ ریاست میں بھی مجھے یسوع مسیح کے ساتھ مشابہت ہوتی سو ریاست کا کاروبار تباہ ہونے سے یہ مشابہت بھی متحقق ہوگئی جس کو خدا نے پورا کیا.کیونکہ یسوع کے ہاتھ میں داؤد بادشاہ نبی اللہ کے ممالک مقبوضہ میں سے جس کی اولاد میں سے یسوع تھا ایک گاؤں بھی باقی نہیں رہا تھا صرف نام کی شہزادگی باقی رہ گئی تھی.ہرچند میں اس قدر تو مبالغہ نہیں کر سکتا کہ مجھے سر رکھنے کی جگہ نہیں.لیکن میں شکر کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے ان تمام صعوبتوں اور شدتوں کے بعد جن کا اس جگہ ذکر کرنا بے محل ہے مجھے ایسے طور سے اپنی مہربانی کی گود میں لے لیا جیسا کہ اس نے اس مبارک انسان کو لیا تھا جس کا نام ابراہیم تھا.اس نے میرے دل کو اپنی طرف کھینچ لیا اور وہ باتیں میرے پر کھولیں جو کسی پر نہیں کھل سکتیں جب تک اس پاک گروہ میں داخل نہ کیا جائے جن کو دنیا نہیں پہچانتی.کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور اور دنیا ان سے دور ہے.اس نے میرے پر ظاہر کیا کہ وہ اکیلا اور غیر متغیر اور قادر اور غیر محدود خدا ہے جسکی مانند اور کوئی نہیں اور اس نے مجھے اپنے مکالمہ کا شرف بخشا.اور اس نے بلاواسطہ اپنے راہ کی مجھے تعلیم دی ہے.اور مرور زمانہ سے جو قوموں کے عقیدہ میں غلطیاں واقع ہوئیں ان سب پر مجھے مطلع فرمایا ہے.اس نے مجھے اس بات پر بھی اطلاع دی ہے کہ درحقیقت یسوع مسیح خدا کے نہایت پیارے اور نیک بندوں میں سے ہے.اور ان میں سے ہے جو خدا کے برگزیدہ لوگ ہیں اور ان میں سے ہے جن کو خدا اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنے نور کے سایہ کے نیچے

Page 309

رکھتا ہے.لیکن جیسا کہ گمان کیا گیا ہے خدا نہیں ہے.ہاں خدا سے واصل ہے اور ان کاملوں میں سے ہے جو تھوڑے ہیں.اور خدا کی عجیب باتوں میں سے جو مجھے ملی ہیں ایک یہ بھی ہے جو میں نے عین بیداری میں جو کشفی بیداری کہلاتی ہے یسوع مسیح سے کئی دفعہ ملاقات کی ہے اور اس سے باتیں کر کے اس کے اصل دعویٰ اور تعلیم کا حال دریافت کیا ہے.یہ ایک بڑی بات ہے جو توجہ کے لائق ہے کہ حضرت یسوع مسیح ان چند عقائد سے جو کفّارہ اور تثلیث اور ابنیّت ہے ایسے متنفر پائے جاتے ہیں کہ گویا ایک بھاری افترا جو ان پر کیا گیا ہے وہ یہی ہے.یہ مکاشفہ کی شہادت بے دلیل نہیں ہے بلکہ میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر کوئی طالب حق نیّت کی صفائی سے ایک مدت تک میرے پاس رہے اور وہ حضرت مسیح کو کشفی حالت میں دیکھنا چاہے تو میری توجہّ اور دعا کی برکت سے وہ ان کو دیکھ سکتا ہے ان سے باتیں بھی کر سکتا ہے اور ان کی نسبت ان سے گواہی بھی لے سکتا ہے.کیونکہ میں وہ شخص ہوں جس کی روح میں بروز کے طور پر یسوع مسیح کی روح سکونت رکھتی ہے.یہ ایک ایسا تحفہ ہے جو حضرت ملکہ معظمہ قیصرہ انگلستان و ہند کی خدمت عالیہ میں پیش کرنے کے لائق ہے.دنیا کے لوگ اس بات کو نہیں سمجھیں گے کیونکہ وہ آسمانی اسرار پر کم ایمان رکھتے ہیں لیکن تجربہ کرنے والے ضرور اس سچائی کو پائیں گے.میری سچائی پر اور بھی آسمانی نشان ہیں جو مجھ سے ظاہر ہو رہے ہیں اور اس ملک کے لوگ ان کو دیکھ رہے ہیں.اب میں اس آرزو میں ہوں کہ جو مجھے یقین بخشا گیا ہے.وہ دوسروں کے دلوں میں کیونکر اتارا جائے.میرا شوق مجھے بیتاب کر رہا ہے

Page 310

کہ میں ان آسمانی نشانوں کی حضرت عالی قیصرہ ہند میں اطلاع دوں.میں حضرت یسوع مسیح کی طرف سے ایک سچے سفیر کی حیثیت میں کھڑا ہوں.میں جانتا ہوں کہ جو کچھ آجکل عیسائیت کے بارے میں سکھایا جاتا ہے یہ حضرت یسوع مسیح کی حقیقی تعلیم نہیں ہے.مجھے یقین ہے کہ اگر حضرت مسیح دنیا میں پھر آتے تو وہ اس تعلیم کو شناخت بھی نہ کر سکتے.ایک اور بڑی بھاری مصیبت قابل ذکر ہے اور وہ یہ ہے کہ اس خدا کے دائمی پیارے اور دائمی محبوب اور دائمی مقبول کی نسبت جس کا نام یسوع ہے یہودیوں نے تو اپنی شرارت اور بے ایمانی سے لعنت کے برے سے برے مفہوم کو جائز رکھا.لیکن عیسائیوں نے بھی اس بہتان میں کسی قدر شراکت اختیار کی.کیونکہ یہ گمان کیا گیا ہے کہ گویا یسوع مسیح کا دل تین دن تک لعنت کے مفہوم کا مصداق بھی رہا ہے.اس بات کے خیال سے ہمارا بدن کانپتا ہے اور وجود کے ذرہ ذرہ پر لرزہ پڑ جاتا ہے.کیا مسیح کا پاک دل اور خدا کی لعنت!!! گو ایک سیکنڈ کے لئے ہی ہو.افسوس! ہزار افسوس کہ یسوع مسیح جیسے خدا کے پیارے کی نسبت یہ اعتقاد رکھیں کہ کسی وقت اس کا دل لعنت کے مفہوم کا مصداق بھی ہوگیا تھا.اس وقت ہم یہ عاجزانہ التماس کسی مذہبی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک کامل انسان کی حفظ عزت کیلئے پیش کرتے ہیں اور یسوع کی طرف سے رسول کی طرح ہوکر جس طرح کشفی عالم میں اس کی زبان سے سنا حضور قیصرہ ہند میں پہنچا دیتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ جناب ممدوحہ اس غلطی کی اصلاح فرمائیں.یہ اس زمانہ کی ایک فاحش غلطی ہے کہ جبکہ لوگوں نے لعنت کے مفہوم پر غور نہیں کی تھی.لیکن اب ادب تقاضا کرتا ہے کہ نہایت جلدی اس غلطی کی اصلاح کر دی جائے اور خدا کے اس اعلیٰ درجہ کے پیارے اور برگزیدہ کی عزت کو بچایا جائے.کیونکہ زبان عرب اور عبرانی میں لعنت کا لفظ خدا سے دور اور برگشتہ ہونے کیلئے آتا ہے.اور کسی شخص کو اس وقت لعین کہا جاتا ہے کہ جب

Page 311

وہ بالکل خدا سے برگشتہ اور بے ایمان ہو جائے.اور خدا اس کا دشمن اور وہ خدا کا دشمن ہو جائے.اسی لئے لُغت کے رو سے لعین شیطان کا نام ہے یعنی خدا سے برگشتہ ہونے والا اور اس کا نافرمان.پس یہ کیونکر ممکن ہے کہ خدا کے ایسے پیارے کی نسبت ایک سیکنڈ کیلئے بھی تجویز کر سکیں کہ نعوذ باللہ کسی وقت دل اس کا درحقیقت خدا سے برگشتہ اور اس کا نافرمان اور دشمن ہوگیا تھا؟ کس قدر بے جا ہوگا کہ ہم اپنی نجات کا ایک فرضی منصوبہ قائم کرنے کیلئے خدا کے ایسے پیارے پر نافرمانی کا داغ لگاویں اور یہ عقیدہ رکھیں کہ کسی وقت وہ خدا سے باغی اور برگشتہ بھی ہوگیا تھا.اس سے بہتر ہے کہ انسان اپنے لئے دوزخ قبول کرے مگر ایسے برگزیدہ کی پاک عزت اور بے لوث زندگی کا دشمن نہ بنے.جس قدر عیسائیوں کو حضرت یسوع مسیح سے محبت کرنے کا دعویٰ ہے وہی دعویٰ مسلمانوں کو بھی ہے.گویا آنجناب کا وجود عیسائیوں اور مسلمانوں میں ایک مشترک جائیداد کی طرح ہے اور مجھے سب سے زیادہ حق ہے کیونکہ میری طبیعت یسوع میں مستغرق ہے اور یسوع کی مجھ میں.اسی دعویٰ کی تائید میں آسمانی نشان ظاہر ہو رہے ہیں اور ہر ایک کو بلایا گیا ہے کہ اگر چاہے تو نشانوں کے ذریعہ سے اس دعویٰ میں اپنی تسلی کرے.اور اس جگہ اس قدر لکھنے کی میں نے اس لئے جرأت کی ہے کہ حضرت یسوع مسیح کی سچی محبت اور سچی عظمت جو میرے دل میں ہے اور نیز وہ باتیں جو میں نے یسوع مسیح کی زبان سے سنیں اور وہ پیغام جو اس نے مجھے دیا ان تمام امور نے مجھے تحریک کی کہ میں جناب ملکہ معظمہ کے حضور میں یسوع کی طرف سے ایلچی ہو کر بادب التماس کروں کہ جس طرح خدا تعالیٰ کی طرف سے جناب ممدوحہ کروڑہا انسانوں کی جان و مال و آبرو کی محافظ ٹھہرائی گئی ہیں بلکہ چرندوں اور پرندوں کے آرام کے لئے بھی حضرت موصوفہ نے قوانین جاری کئے ہیں کیا خوب ہوکہ جناب کو اس چھپی ہوئی توہین پر بھی نظر ڈالنے کیلئے توجہ پیدا ہو جو یسوع مسیح کی شان میں کی جاتی ہے.کیا خوب ہوکہ جناب ممدوحہ دنیا کی تمام لغات کے رو سے عموماً اور عربی اور عبرانی کے رو سے خصوصاً لفظ

Page 312

لعنت کے مفہوم کی تفتیش کریں اور تمام لغات کے فاضلوں کی اس امر کیلئے گواہیاں لیں کہ کیا یہ سچ نہیں کہ ملعون صرف اس حالت میں کسی کو کہا جائے گا جب کہ اس کا دل خدا کی معرفت اور محبت اور قرب سے دور پڑگیا ہو اور جبکہ بجائے محبت کے اس کے دل میں خدا کی عداوت پیدا ہوگئی ہو.اسی وجہ سے لغت عرب میں لعین شیطان کا نام ہے.پس کس طرح یہ ناپاک نام جو شیطان کے حصہ میں آگیا ایک پاک دل کی طرف منسوب کیا جائے.میرے مکاشفہ میں مسیح نے اپنی بریت اس سے ظاہر کی ہے اور عقل بھی یہی چاہتی ہے کہ مسیح کی شان اس سے برتر ہے.لعنت کا مفہوم ہمیشہ دل سے تعلق رکھتا ہے اور یہ نہایت صاف بات ہے کہ ہم خدا کے مقرب اور پیارے کو کسی تاویل سے ملعون اور لعنتی کے نام سے موسوم نہیں کر سکتے.یہ یسوع مسیح کا پیغام ہے جو میں پہنچاتا ہوں.اس میں میرے سچے ہونے کی یہی نشانی ہے جو مجھ سے وہ نشان ظاہر ہوتے ہیں جو انسانی طاقتوں سے برتر ہیں.اگر حضور ملکہ معظمہ قیصرہ ہند و انگلستان توجہ کریں تو میرا خدا قادر ہے کہ ان کی تسلی کے لئے بھی کوئی نشان دکھاوے.جو بشارت اور خوشی کا نشان ہو بشرطیکہ نشان دیکھنے کے بعد میرے پیغام کو قبول کرلیں اور میری سفارت جو یسوع مسیح کی طرف سے ہے اس کے موافق ملک میں عملدرآمد کرایا جائے مگر نشان خدا کے ارادہ کے موافق ہوگا نہ انسان کے ارادہ کے موافق ہاں فوق العادت ہوگا اور عظمت الٰہی اپنے اندر رکھتا ہوگا.* حضور ملکہ معظمہ اپنی روشن عقل کے ساتھ سوچیں کہ کسی کو خدا سے برگشتہ اور خدا کا دشمن اگر حضور ملکہ معظمہ میرے تصدیق دعویٰ کیلئے مجھ سے نشان دیکھنا چاہیں تو میں یقین رکھتا ہوں کہ ابھی ایک سال پورا نہ ہو کہ وہ نشان ظاہر ہو جائے.اور نہ صرف یہی بلکہ دعا کر سکتا ہوں کہ یہ تمام زمانہ عافیت اور صحت سے بسر ہو.لیکن اگر کوئی نشان ظاہر نہ ہو اور میں جھوٹا نکلوں تو میں اس سزا میں راضی ہوں کہ حضور ملکہ معظمہ کے پایہ تخت کے آگے پھانسی دیا جاؤں.یہ سب الحاح اس لئے ہے کہ کاش ہماری محسنہ ملکہ معظمہ کو اس آسمان کے خدا کی طرف خیال آجائے جس سے اس زمانہ میں عیسائی مذہب بے خبر ہے.منہ

Page 313

نام رکھنا جو لعنت کا مفہوم ہے.کیا اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی اور بھی توہین ہوگی؟ پس جس کو خدا کے تمام فرشتے مقرّب مقرّب کہہ رہے ہیں اور جو خدا کے نور سے نکلا ہے اگر اسکا نام خدا سے برگشتہ اور خدا کا دشمن رکھا جائے تو اسکی کس قدر اہانت ہے؟!! افسوس اس توہین کو یسوع کی نسبت اس زمانہ میں چالیس کروڑ انسان نے اختیار کر رکھا ہے.اے ملکہ معظمہ! یسوع مسیح سے تُو یہ نیکی کر خدا تجھ سے بہت نیکی کرے گا.میں دعا مانگتا ہوں کہ اس کارروائی کیلئے خدا تعالیٰ آپ ہماری محسنہ ملکہ معظمہ کے دل میں القا کرے.پیلاطوس نے جس کے زمانہ میں یسوع تھا ناانصافی سے یہودیوں کے رعب کے نیچے آکر ایک مجرم قیدی کو چھوڑ دیا اور یسوع جو بے گناہ تھا اس کو نہ چھوڑا.لیکن اے ملکہ معظمہ قیصرہ ہند ہم عاجزانہ ادب کے ساتھ تیرے حضور میں کھڑے ہوکر عرض کرتے ہیں کہ تو اس خوشی کے وقت میں جو شصت سالہ جوبلی کا وقت ہے یسوع کے چھوڑنے کیلئے کوشش کر.اس وقت ہم اپنی نہایت پاک نیّت سے جو خدا کے خوف اور سچائی سے بھری ہوئی ہے تیری جناب میں اس التماس کیلئے جرأت کرتے ہیں کہ یسوع مسیح کی عزت کو اس داغ سے جو اس پر لگایا جاتا ہے اپنی مردانہ ہمت سے پاک کرکے دکھلا.بیشک شہنشاہوں کے حضور میں ان کی استمزاج سے پہلے بات کرنا اپنی جان سے بازی ہوتی ہے لیکن اس وقت ہم یسوع مسیح کی عزت کے لئے ہر ایک خطرہ کو قبول کرتے ہیں اور محض اس کی طرف سے رسالت لے کر بحیثیت ایک سفیر کے اپنے عادل بادشاہ کے حضور میں کھڑے ہوگئے ہیں.اے ہماری ملکہ معظمہ! تیرے پر بیشمار برکتیں نازل ہوں.خدا تیرے وہ تمام فکر دور کرے جو تیرے دل میں ہیں.جس طرح ہو سکے اس سفارت کو قبول کر.تمام مذہبی مقدمات میں یہی ایک قانون قدیم سے چلا آیا ہے کہ جب کسی بات میں دو فریق تنازعہ کرتے ہیں تو اول منقولات کے ذریعہ سے اپنے تنازعہ کو فیصلہ کرنا چاہتے ہیں.اور جب منقولات سے وہ فیصلہ نہیں ہو سکتا تو معقولات کی طرف توجہ کرتے ہیں اور عقلی دلائل سے تصفیہ کرنا چاہتے ہیں.اور جب کوئی مقدمہ عقلی دلائل سے بھی طے ہونے میں نہیں آتا تو آسمانی فیصلہ کے خواہاں

Page 314

ہوتے ہیں.اور آسمانی نشانوں کو اپنا حَکَم ٹھہراتے ہیں لیکن اے مخدومہ ملکہ معظمہ یسوع مسیح کی بریّت کے بارے میں یہ تینوں ذریعے شہادت دیتے ہیں.منقول کے ذریعہ سے اس طرح کہ تمام نوشتوں سے پایا جاتا ہے کہ یسوع دل کا غریب اور حلیم اور خدا سے پیار کرنے والا اور ہردم خدا کے ساتھ تھا پھر کیونکر تجویز کیا جائے کہ کسی وقت نعوذ باللہ اس کا دل خدا سے برگشتہ اور خدا کا منکر اور خدا کا دشمن ہو گیا تھا جیسا کہ لعنت کا مفہوم دلالت کرتا ہے اور عقل کے ذریعہ سے اس طرح پر کہ عقل ہرگز باور نہیں کرتی کہ جو خدا کا نبی اور خدا کا وحید اور اسکی محبت سے بھرا ہوا ہو اور جس کی سرشت نور سے مخمّر ہو اس میں نعوذ باللہ بے ایمانی اور نافرمانی کی تاریکی آجائے.یعنی وہی تاریکی جس کو دوسرے لفظوں میں لعنت کہتے ہیں.اور آسمانی نشانوں کے رو سے اس طرح پر کہ خدا اب آسمانی نشانوں کے ذریعہ سے خبر دے رہا ہے کہ مسیح کی نسبت جو قرآن نے بیان کیا کہ وہ لعنت سے محفوظ رہا اور ایک سیکنڈ کے لئے بھی اس کا دل لعنتی نہیں ہوا یہی سچ ہے.وہ نشان اس عاجز کے ذریعہ سے ظاہر ہو رہے ہیں اور بہت سے نشان ظاہر ہو چکے ہیں اور بارش کی طرح برستے ہیں.سو اے ہماری عالم پناہ ملکہ خدا تجھے بے شمار فضلوں سے معمور کرے.اس مقدمہ کو اپنی قدیم منصفانہ عادت کے ساتھ فیصلہ کر.میں بادب ایک اورعرض کرنے کیلئے بھی جرأت کرتا ہوں کہ تواریخ سے ثابت ہے کہ قیاصرہ روم میں سے جب تیسراقیصر روم تخت نشین ہوا اور اس کا اقبال کمال کو پہنچ گیا تو اسے اس بات کی طرف توجہ پیدا ہوئی کہ دو مشہور فرقہ عیسائیوں میں جو ایک موَحّد اور دوسرا حضرت مسیح کو خدا جانتا تھا باہم بحث کراوے.چنانچہ وہ بحث قیصر روم کے حضور میں بڑی خوبی اور انتظام سے ہوئی اور بحث کے سننے کیلئے معزز ناظرین اور ارکان دولت کی صدہا کرسیاں بلحاظ رتبہ و مقام کے بچھائی گئیں اور دونوں فریق کے پادریوں کی چالیس دن تک بادشاہ کے حضور میں بحث ہوتی رہی.اور قیصر روم بخوبی فریقین

Page 315

کے دلائل کو سنتا رہا اور ان پر غور کرتا رہا.آخر جو مؤحّد فرقہ تھا اور حضرت یسوع مسیح کو صرف خدا کا رسول اور نبی جانتا تھا وہ غالب آگیا اور دوسرے فرقہ کو ایسی شکست آئی کہ اسی مجلس میں قیصر روم نے ظاہر کر دیا کہ میں نہ اپنی طرف سے بلکہ دلائل کے زور سے مؤحد فرقہ کی طرف کھینچا گیا.اور قبل اس کے جو اس مجلس سے اٹھے توحید کا مذہب اختیار کرلیا.اور اُن مؤحّد عیسائیوں میں سے ہوگیا جن کا ذکر قرآن شریف میں بھی ہے.اور بیٹا اور خدا کہنے سے دستبردار ہوگیا اور پھر تیسرے قیصر تک ہر ایک وارث تخت روم موَحّد ہوتا رہا.اس سے پتہ لگتا ہے کہ ایسے مذہبی جلسے پہلے عیسائی بادشاہوں کا دستور تھا اور بڑی بڑی تبدیلیاں ان سے ہوتی تھیں.ان واقعات پر نظر ڈالنے سے نہایت آرزو سے دل چاہتا ہے کہ ہماری قیصرہ ہند دام اقبالہا بھی قیصر روم کی طرح ایسا مذہبی جلسہ پایہ تخت میں انعقاد فرماویں کہ یہ روحانی طور پر ایک یادگار ہوگی.مگر یہ جلسہ قیصر روم کی نسبت زیادہ توسیع کے ساتھ ہونا چاہئے.کیونکہ ہماری ملکہ معظمہ بھی اس قیصر کی نسبت زیادہ وسعت اقبال رکھتی ہیں.اور اس التماس کا ایک یہ بھی سبب ہے کہ جب سے کہ اس ملک کے لوگوں نے امریکہ کے جلسہ مذاہب سے اطلاع پائی ہے طبعاً دلوں میں یہ جوش پیدا ہوگیا ہے کہ ہماری ملکہ معظمہ بھی خاص لندن میں ایسا جلسہ منعقد فرمائیں تاکہ اس تقریب سے اس ملک کی خیر خواہ رعایا اور ان کے رئیسوں اور عالموں کے گروہ خاص لندن پایہ تخت میں شرف لقاء حضور حاصل کرسکیں اور اس تقریب سے ملکہ معظمہ کو بھی اپنے برٹش انڈیا کی وفادار رعایا کے ہزار ہا چہروں پر یکدفعہ نظر پڑ سکے اور چند ہفتہ تک لندن کے کوچوں اور گلیوں میں ہندوستان کے معزز باشندے سیر کرتے ہوئے نظر آئیں.ہاں یہ ضروری ہوگا کہ اس جلسہ مذاہب میں ہر ایک شخص اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے دوسروں سے کچھ تعلق نہ رکھے.اگر ایسا ہوا تو یہ جلسہ بھی ہماری ملکہ معظمہ کی طرف سے ہمیشہ کیلئے ایک روحانی یادگار ہوگا.اور انگلستان جس کے کانوں تک بڑی خیانتوں

Page 316

کے ساتھ اسلامی واقعات پہنچائے گئے ہیں ایک سچے نقشہ پر اطلاع پاجائیگا.بلکہ انگلستان کے لوگ ہر ایک مذہب کی سچی فلاسفی سے مطلع ہو جائیں گے.یہ بات بھروسہ کرنے کے لائق نہیں ہے کہ پادریوں کے ذریعہ سے ہندوستان کے مذاہب کی حقیقت انگلستان کو پہنچتی رہتی ہے کیونکہ پادریوں کی کتابیں جن میں وہ دوسرے مذاہب کا ذکر کرتے ہیں اس کثیف نالی کی طرح ہیں جس کا پانی بہت سی میل کچیل اور خس و خاشاک ساتھ رکھتا ہے پادری صاحبان سچائی کی حقیقت کو کھولنا نہیں چاہتے بلکہ چھپانا چاہتے ہیں.اور انکی تحریروں میں تعصب کی ایسی رنگ آمیزی ہے جس کی وجہ سے انگلستان تک مذاہب کی اصل حقیقت پہنچنا مشکل بلکہ محال ہے.اگر ان میں نیک نیتی ہوتی تو وہ قرآن پر ایسے اعتراض نہ کرتے جو موسیٰ کی توریت پر بھی ہو سکتے ہیں.اگر ان کو خدا کا خوف ہوتا تو وہ ان کتابوں کو اعتراض کے وقت تمسّک بہا نہ ٹھہراتے.جو مسلمانوں کے نزدیک غیر مسلّم اور یقینی سچائیوں سے خالی ہیں.اس لئے انصاف یہی حکم دیتا ہے کہ اگر سارا یورپ فرشتہ سیرت بھی ہو مگر پادری اس سے مستثنیٰ ہیں.یورپ کے عیسائی جو اسلام کو نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اس کا یہی سبب ہے کہ قدیم سے یہی پادری صاحبان خلاف واقعہ قصوں کو پیش کر کے تحقیر کا سبق ان کو دیتے چلے آئے ہیں.ہاں میں قبول کرتا ہوں کہ بعض نادان مسلمانوں کا چال چلن اچھا نہیں اور نادانی کی عادات ان میں موجود ہیں.جیسا کہ بعض وحشی مسلمان ظالمانہ خونریزیوں کا نام جہاد رکھتے ہیں اور انہیں خبر نہیں کہ رعیت کا عادل بادشاہ کے ساتھ مقابلہ کرنا اس کا نام بغاوت ہے نہ کہ جہاد.اور عہد توڑنا اور نیکی کی جگہ بدی کرنا اور بے گناہوں کو مارنا اس حرکت کا مرتکب ظالم کہلاتا ہے نہ غازی.سویہ خیالات پادریوں کی بدفہمی سے پیدا ہوئے ہیں خدا کی کتاب میں اسکا نشان نہیں.خدا کاکلام ظالمانہ تلوار اٹھانے والوں کیلئے تلوار کی سزا بیان فرماتا ہے نہ کہ امن قائم کرنے والوں، رعیت پرور اور ہر ایک قوم کو آزادی کے حقوق دینے والوں

Page 317

کی نسبت سرکشی کی تعلیم کرتا ہے.خدا کی کلام کو بدنام کرنا یہ بددیانتی ہے.لہٰذا انسانوں کی بھلائی کے لئے یہ بات نہایت قرین مصلحت ہے کہ جناب قیصرہ ہند کی طرف سے اصلیت مذاہب شائع کرنے کے لئے جلسہ مذاہب ہو.یہ بھی عرض کر دینے کے لائق ہے کہ اسلامی تعلیم کے رو سے دین اسلام کے حصے صرف دو ہیں یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ تعلیم دو بڑے مقاصد پر مشتمل ہے.اول ایک خدا کو جاننا.جیسا کہ وہ فی الواقعہ موجود ہے.اور اس سے محبت کرنا اور اسکی سچی اطاعت میں اپنے وجود کو لگانا جیسا کہ شرط اطاعت و محبت ہے.دوسرا مقصد یہ ہے کہ اس کے بندوں کی خدمت اور ہمدردی میں اپنے تمام قویٰ کو خرچ کرنا اور بادشاہ سے لے کر ادنیٰ انسان تک جو احسان کرنیوالا ہو شکر گزاری اور احسان کے ساتھ معاوضہ کرنا.اسی لئے ایک سچا مسلمان جو اپنے دین سے واقعی خبر رکھتا ہو اس گورنمنٹ کی نسبت جس کی ظل عاطفت کے نیچے امن کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے ہمیشہ اخلاص اور اطاعت کا خیال رکھتا ہے اور مذہب کا اختلاف اس کو سچی اطاعت اور فرمانبرداری سے نہیں روکتا.لیکن پادریوں نے اس مقام میں بھی بڑا دھوکہ کھایا ہے اور ایسا سمجھ لیا ہے کہ گویا اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس کا پابند دوسری قوموں کا بدخواہ اور بد اندیش بلکہ انکے خون کا پیاسا ہوتا ہے.ہاں یہ قبول کر سکتے ہیں کہ بعض مسلمانوں کی عملی حالتیں اچھی نہیں ہیں.اور جیسا کہ ہر ایک مذہب کے بعض لوگ غلط خیالات میں مبتلا ہو کر نالائق حرکات کے مرتکب ہو جاتے ہیں اسی قماش کے بعض مسلمان بھی پائے جاتے ہیں.مگر جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے یہ خدا کی تعلیم کا قصور نہیں ہے بلکہ ان لوگوں کی سمجھ کا قصور ہے جو خدا کی کلام میں تدبّر نہیں کرتے اور اپنے نفس کے جذبات کے تابع رہتے ہیں.خاص کر جہاد کا مسئلہ جو بڑے نازک شرائط سے وابستہ تھا بعض نادانوں اور کم عقلوں نے ایسا الٹا سمجھ لیا ہے کہ اسلامی تعلیم سے بہت ہی دور جا پڑے

Page 318

ہیں.اسلام ہمیں ہرگز یہ نہیں سکھلاتا کہ ہم ایک غیر قوم اور غیر مذہب والے بادشاہ کی رعایا ہوکر اور اسکے زیر سایہ ہر ایک دشمن سے امن میں رہ کر پھر اسی کی نسبت بد اندیشی اور بغاوت کا خیال دل میں لاویں.بلکہ وہ ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ اگر تم اس بادشاہ کا شکر نہ کرو جس کے زیر سایہ تم امن میں رہتے ہو تو پھر تم نے خدا کا شکر بھی نہیں کیا.اسلام کی تعلیم نہایت پُرحکمت تعلیم ہے اور وہ اسی نیکی کو حقیقی نیکی قرار دیتا ہے جو اپنے موقعہ پر چسپاں ہو.وہ صرف رحم کو پسند نہیں کرتا جب تک انصاف اس کے ساتھ نہ ہو.اور صرف انصاف کو پسند نہیں کرتا جب تک اس کا ضروری نتیجہ رحم نہ ہو.اس میں کچھ شک نہیں کہ قرآن نے ان باریک پہلوؤں کا لحاظ کیا ہے جو انجیل نے نہیں کیا.انجیل کی تعلیم ہے کہ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری بھی پھیر دی جائے.مگر قرآن کہتاہے.33 ۱؂ یعنی اصول انصاف یہی ہے کہ جس کو دکھ پہنچایا گیا ہے وہ اسی قدر دکھ پہنچانے کا حق رکھتا ہے.لیکن اگر کوئی معاف کردے اور معاف کرنا بے محل نہ ہو بلکہ اس سے کوئی اصلاح پیدا ہوتی ہو تو ایسا شخص خدا سے اجر پائے گا.ایسا ہی انجیل کہتی ہے کہ کسی نامحرم کی طرف شہوت سے مت دیکھ‘‘.مگر قرآن کہتا ہے کہ نامحرم کی طرف ہرگز نہ دیکھ نہ شہوت سے اور نہ غیر شہوت سے.کیونکہ پاک دل رہنے کیلئے اس سے عمدہ تر کوئی ذریعہ نہیں ہے.اسی طرح قرآن عمیق حکمتوں سے پُر ہے.اور ہر ایک تعلیم میں انجیل کی نسبت حقیقی نیکی کے سکھلانے کیلئے آگے قدم رکھتا ہے.بالخصوص سچّے اور غیر متغیر خدا کے دیکھنے کا چراغ تو قرآن ہی کے ہاتھ میں ہے.اگر وہ دنیا میں نہ آیا ہوتا تو خدا جانے دنیا میں مخلوق پرستی کا عدد کس نمبر تک پہنچ جاتا.سو شکر کا مقام ہے کہ خدا کی وحدانیت جو زمین سے گم ہوگئی تھی.دوبارہ قائم ہوگئی.

Page 319

اور پھر دوسرا شکر یہ ہے کہ وہ خدا جو کبھی اپنے وجود کو بے دلیل نہیں چھوڑتا وہ جیسا کہ تمام نبیوں پر ظاہر ہوا اور ابتدا سے زمین کو تاریکی میں پاکر روشن کرتا آیا ہے اس نے اس زمانہ کو بھی اپنے فیض سے محروم نہیں رکھا.بلکہ جب دنیا کو آسمانی روشنی سے دور پایا تب اس نے چاہا کہ زمین کی سطح کو ایک نئی معرفت سے منوّر کرے اور نئے نشان دکھائے اور زمین کو روشن کرے.سو اس نے مجھے بھیجا اور میں اس کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایک ایسی گورنمنٹ کے سایۂ رحمت کے نیچے جگہ دی جس کے زیر سایہ میں بڑی آزادی سے اپنا کام نصیحت اور وعظ کا ادا کر رہا ہوں.اگرچہ اس محسن گورنمنٹ کا ہر ایک پر رعایا میں سے شکر واجب ہے مگر میں خیال کرتا ہوں کہ مجھ پر سب سے زیادہ واجب ہے کیونکہ یہ میرے اعلیٰ مقاصد جو جناب قیصرہ ہند

Page 320

کی حکومت کے سایہ کے نیچے انجام پذیر ہو رہے ہیں ہرگز ممکن نہ تھا کہ وہ کسی اور گورنمنٹ کے زیر سایہ انجام پذیر ہو سکتے.اگرچہ وہ کوئی اسلامی گورنمنٹ ہی ہوتی.اب میں حضور ملکہ معظمہ میں زیادہ مصدع اوقات ہونا نہیں چاہتا.اور اس دعا پر یہ عریضہ ختم کرتا ہوں.کہ اے قادر و کریم اپنے فضل و کرم سے ہماری ملکہ معظمہ کو خوش رکھ جیسا کہ ہم اس کے سایۂ عاطفت کے نیچے خوش ہیں.اور اس سے نیکی کر جیسا کہ ہم اس کی نیکیوں اور احسانوں کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں.اور ان معروضات پر کریمانہ توجہ کرنے کے لئے اس کے دل میں آپ الہام کر کہ ہر ایک قدرت اور طاقت تجھی کو ہے.آمین ثم آمین الملتمس خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ضع گورداسپورہ پنجاب

Page 321

3 نَحْمَدہٗ وَ نُصَلِّیْ جلسۂ احباب برتقریب جشن جوبلی بغرض دعا و شکر گذاری جناب ملکہ معظمہ قیصرہ ہند دَام ظِلّہا ہم بڑی خوشی سے اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ جناب ملکہ معظمہ قیصرہ ہند دام ظلّہا کے جشن جوبلی کی خوشی اور شکریہ کے ادا کرنے کے لئے میری جماعت کے اکثر احباب دور دور کی مسافت قطع کر کے ۱۹؍ جون ۱۸۹۷ء کو ہی قادیان میں تشریف لائے اور یہ سب ۲۲۵ آدمی تھے.اور اس جگہ کے ہمارے مرید اور مخلص بھی ان کے ساتھ شامل ہوئے جن سے ایک گروہ کثیر ہوگیا اور وہ سب ۲۰؍جون ۱۸۹۷ء کو اس مبارک تقریب میں باہم مل کر دعا اور شکر باری تعالیٰ میں مصروف ہوئے اور جیسا کہ اشتہار وائس پریذیڈنٹ جنرل کمیٹی اہل اسلام ہند جناب خانصاحب محمد حیات خان صاحب سی ایس آئی میں اس بارے میں ہدایتیں تھیں.بفضلہ تعالیٰ اسی کے موافق سب مراسم خوشی عمدہ طور پر ظہور میں آئیں چنانچہ ۲۰؍ جون ۱۸۹۷ء کو ہماری طرف سے مبارکباد کی تار برقی بحضور وائسرائے گورنر جنرل کشور ہند بمقام شملہ روانہ کی گئی اور اسی روز سے ۲۲؍جون ۱۸۹۷ء تک غریبوں اور درویشوں کو برابر کھانا دیا گیا.مگر ۲۱؍جون ۱۸۹۷ء کو اس خوشی کے اظہار کے لئے