Language: UR
حضور علیہ السلام کا یہ رسالہ مارچ ۱۹۰۶ء کی تصنیف ہے۔ لیکن پہلی بار ۱۹۲۲ء میں شائع ہوا۔ اس میں حضور کے الہام ’چمک دکھلاؤں گا تم کو اس نشان کی پنج بار‘ کے مطابق آئندہ پانچ دہشت ناک زلازل کی پیش گوئی فرمائی ہے اس رسالہ میں حضورؑ نے قہری نشانات کے نازل ہونے کی حکمت بھی بیان فرمائی ہے۔
نحمدہ ونصلی علٰے رسولہِ الکریم * ۵پانچ زلزلوں کے آنے کی نسبت خدا تعالیٰ کی پیشگوئی جس کے الفاظ یہ ہیں ’’چمک دکھلاؤں گا تم کو اِس نشاں کی پنج بار‘‘ T اِس وحی الٰہی کا یہ مطلب ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ محض اس عاجز کی سچائی پر گواہی دینے کیلئے اور محض اس غرض سے کہ تا لوگ سمجھ لیں کہ مَیں اُس کی طرف سے ہوں ۵پانچ دہشت ناک زلزلے ایک دوسرے کے بعد کچھ کچھ فاصلہ سے آئیں گے تا وہ میری سچائی کی گواہی دیں اور ہر ایک میں اُن میں سے ایک ایسی چمک ہوگی کہ اس کے دیکھنے سے خدایاد آجائے گا.اور دلوں پر اُن کا ایک خوفناک اثر پڑے گا اور وہ اپنی قوت اور شدّت اور نقصان رسانی میں غیر معمولی ہوں گے.جن کے دیکھنے سے انسانوں کے ہوش جاتے رہیں گے.یہ سب کچھ خدا کی غیرت کرے گی.کیونکہ ؔ لوگوں نے وقت کو شناخت نہیں کیا اور خدا فرماتا ہے کہ مَیں پوشیدہ تھا مگر اب مَیں اپنے تئیں ظاہر کروں گا اور مَیں اپنی چمکار دکھاؤں گا اور اپنے بندوں کو رہائی
دوں گا.اُسی طرح جس طرح فرعون کے ہاتھ سے موسیٰ نبی اور اُس کی جماعت کو رہائی دی گئی اور یہ معجزات اُسی طرح ظاہر ہوں گے کہ جس طرح موسیٰ نے فرعون کے سامنے دکھلائے.اور خدا فرماتا ہے کہ مَیں صادق اور کاذب میں فرق کر کے دکھلاؤں گا اور مَیں اُسے مدد دوں گا جو میری طرف سے ہے اور مَیں اس کا مخالف ہو جاؤں گا جو اس کا مخالف ہے.* سو اے سُننے والو! تم سب یاد رکھو کہ اگر یہ پیشگوئیاں صرف معمولی طور پر ظہور میں آئیں توتم سمجھ لو کہ مَیں خدا کی طرف سے نہیں ہوں.لیکن ان پیشگوئیوں نے اپنے پورے ہونے کے وقت دنیا میں ایک تہلکہ برپا کر دیااور شدّت گھبراہٹ سے دیوانہ سا بنا دیا اور اکثر مقامات میں عمارتوں اور جانوں کو نقصان پہنچایا تو تم اس خدا سے ڈرو جس نے میرے لئے یہ سب کچھ کر دکھایا.وہ خدا جس کے قبضہ میں ذرّہ ذرّہ ہے اُس سے انسان کہاں بھاگ سکتا ہے.وہ فرماتا ہے کہ مَیں چوروں کی طرح پوشیدہ آؤں گا.یعنی کسی جوتشی یا ملہم یا خواب بین کو اُس وقت کی خبر نہیں دی جائے گی بجز اس قدر خبرؔ کے کہ جو اُس نے اپنے مسیح موعود کو دے دی یا آئندہ اس پر کچھ زیادہ کرے.اِن نشانوں کے بعد دنیا میں ایک تبدیلی پیدا ہوگی اور اکثر دل خدا کی طرف کھینچے جائیں گے اور اکثر سعید دلوں پر دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو جائے گی اور غفلت کے پردے درمیان سے اُٹھا دیئے جائیں گے اور حقیقی اسلام کا شربت انہیں پلایا جائے گا.جیسا کہ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے:.چو دَورِ خسروی آغاز کردند مسلماں را مسلماں بازکردند دَورِ خسروی سے مراد اس عاجز کا عہدِ دعوت ہے مگر اس جگہ دنیا کی بادشاہت مراد نہیں بلکہ آسمانی بادشاہت مراد ہے جو مجھ کو دی گئی.خلاصہ معنی اس الہام کا یہ ہے تھوڑی غنودگی کی حالت میں خدا تعالیٰ نے ایک کاغذ پر لکھا ہوا مجھے یہ دکھلایا کہ.تلک اٰیات الکتاب المبین.یعنی قرآن شریف کی سچائی پر یہ نشان ہوں گے.منہ
کہ جب دَورِ خسروی یعنی دَورِ مسیحی جو خدا کے نزدیک آسمانی بادشاہت کہلاتی ہے ششم ہزار کے آخر میں شروع ہوا جیسا کہ خدا کے پاک نبیوں نے پیشگوئی کی تھی تو اس کا یہ اثر ہوا کہ وہ جو صرف ظاہری مسلمان تھے وہ حقیقی مسلمان بننے لگے جیسا کہ اب تک چار لاکھ کے قریب بن چکے ہیں.اور میرے لئے یہ شکر کی جگہ ہے کہ میرے ہاتھ پر چار لاکھ کے قریب لوگوں نے اپنے معاصی اور گناہوں اور شرک سے توبہ کی.اور ایک جماعت ہندوؤں اور انگریزوں کی بھی مشرف باسلام ہوئی.چنانچہَ کل کے دن ہی ایک ہندو میرے ہاتھ پر مشرف باسلام ہوا جس کا نام محمد اقبال رکھا ؔ گیا.اور مَیں کل کے دن چند دفعہ اس الہام الٰہی کو پڑھ رہا تھا کہ یک دفعہ میری رُوح میں یہ عبارت پھونکی گئی جو پہلے الہام کے بعد میں ہے.مقامِ او مبیں از راہِ تحقیر بدورانش رسولاں ناز کردند ایسا ہی خدا تعالیٰ نے اِس وحی الٰہی میں جو لکھی جاتی ہے میرے ہاتھ پر دینِ اسلام کے پھیلانے کی خوشخبری دی جیسا کہ اُس نے فرمایا:.یاقمر یا شمس انت منّی وانا منک.یعنی اے چاند اور اے سورج ! تو مجھ سے ہے اور مَیں تجھ سے ہوں.اِس وحی الٰہی میں ایک دفعہ خدا تعالیٰ نے مجھے چاند قرار دیا اور اپنا نام سورج رکھا.اِس سے یہ مطلب ہے کہ جس طرح چاند کا نور سورج سے فیضیاب اور مستفاد ہوتا ہے اِسی طرح میرا نور خدا تعالیٰ سے فیضیاب اور مستفاد ہے.پھر دوسری دفعہ خدا تعالیٰ نے اپنا نام چاند رکھا اور مجھے سورج کرکے پکارا اس سے یہ مطلب ہے کہ وہ اپنی جلالی روشنی میرے ذریعہ سے ظاہر کرے گا.وہ پوشیدہ تھا.اب میرے ہاتھ سے ظاہر ہو جائے گا.اور اُس کی چمک سے دنیا بے خبر تھی مگر اب میرے ذریعہ سے اس کی جلالی چمک دنیا کی ہر ایک طرف پھیل جائے گی.اور جس طرح تم بجلی کو دیکھتے ہو کہ ایک طرف سے روشن ہو کر ایک دم میں تمام سطح آسمان کی روشن کر دیتی ہے.اسی طرح اِس زمانہ میں بھی ؔ ہوگا.خدا تعالیٰ مجھے مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تیرے لئے مَیں زمین پر اُترا اور تیرے لئے میرا نام چمکا اور
مَیں نے تجھے تمام دنیا میں سے چُن لیااور فرماتا ہے.قال ربّک انہ نازلٌمن السّمآء مَا یُرْضیک.یعنی تیرا خدا کہتا ہے کہ آسمان سے ایسے زبردست معجزات اُتریں گے جن سے تو راضی ہو جائے گا.سو اُن میں سے اس ملک میں ایک طاعون اور د۲و سخت زلزلے تو آچکے جن کی پہلے سے مَیں نے خدا تعالیٰ سے الہام پاکر خبر دی تھی.مگر اب خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ۵پانچ زلزلے اور آئیں گے.اور دنیا اُن کی غیر معمولی چمک کو دیکھے گی اور اُن پر ثابت کیا جائے گا کہ یہ خدا تعالیٰ کے نشان ہیں جو اُس کے بندے مسیح موعودؑ کے لئے ظاہر ہوئے.افسوس اِس زمانہ کے منجم اور جوتشی اِن پیشگوئیوں میں میرا ایسا ہی مقابلہ کرتے ہیں جیسا کہ ساحروں نے موسیٰ نبی کا مقابلہ کیا تھا اور بعض نادان ملہم جو تاریکی کے گڑھے میں پڑے ہوئے ہیں وہ بلعم کی طرح میرے مقابلہ کے لئے حق کو چھوڑتے اور گمراہوں کو مدد دیتے ہیں مگر خدا فرماتا ہے کہ مَیں سب کو شرمندہ کروں گا اور کسی دوسرے کو یہ اعزاز ہرگز نہیں دوں گا.اِن سب کے لئے اب وقت ہے کہ اپنے نجوم یا الہام سے میرا مقابلہ کریں اور اگر کسیؔ حملہ کو اب اٹھا رکھیں تو وہ نامرد ہیں اور خدا فرماتا ہے کہ مَیں ان سب کو شکست دوں گا اور مَیں اس کا دشمن بن جاؤں گا جو تیرا دشمن ہے.اور وہ فرماتا ہے کہ اپنے اسرار کے اظہار کیلئے مَیں نے تجھے ہی برگزیدہ کیا ہے اور زمین اور آسمان تیرے ساتھ ہے جیسا کہ میرے ساتھ ہے.اور تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میرا عرش.اِسی کے مطابق قرآن شریف میں یہ آیت ہے جو خدا کے برگزیدہ رسولوں کو غیروں سے ممتاز کرتی ہے.اور وہ یہ ہے.3 33 ۱.یعنی کھلا کھلا غیب صرف برگزیدہ رسول کو عطا کیا جاتا ہے.غیر کو اس میں حصّہ نہیں.سو ہماری جماعت کو چاہیئے جو ٹھوکر نہ کھاویں اور ان غیروں کو جو میرے مقابل پر ہیں اور میری بیعت کرنے والوں میں داخل نہیں ہیں کچھ بھی چیز نہ سمجھیں ورنہ خدا کے غضب کے نیچے آئیں گے.ہر ایک بیہودہ گو جو پیشگوئی کرتا ہے خدا ایسے لوگوں سے سچے ایمانداروں کو آزماتا ہے کہ کیا وہ غیر کو وہ وقعت اور عزّت دیتے ہیں جو خدا اور اس کے رسول کو دینی چاہیئے اور دیکھتا ہے کہ کیا وہ اُس
سچائی پر قائم ہیں یا نہیں جو ان کو دی گئی.اور یاد رہے کہ جب یہ ۵ پانچ زلزلے آچکیں گے اور جس قدر خدا نے تباہی کا ارادؔ ہ کیا ہے وہ پورا ہو چکے گا تب خدا کا رحم پھر جوش مارے گا اور پھر غیر معمولی اور دہشت ناک زلزلوں کا ایک مدت تک خاتمہ ہو جائے گا.اور طاعون بھی ملک میں سے جاتی رہے گی.جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا.یَاْتِیْ عَلٰی جَھَنَّمَ زَمَانٌ لَےْسَ فِیْھَا اَحَدٌ یعنی اِس جہنّم پر جو طاعون اور زلزلوں کا جہنّم ہے ایک دن ایسا زمانہ آئے گا کہ اس جہنم میں کوئی فرد بشر بھی نہیں ہوگا.یعنی اس ملک میں اور جیسا کہ نوحؑ کے وقت میں ہوا کہ ایک خلقِ کثیر کی موت کے بعد امن کا زمانہ بخشا گیا ایسا ہی اس جگہ بھی ہوگا.اور پھر اس الہام کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ثم یغاث الناس ویعصرون.یعنی پھر لوگوں کی دُعائیں سُنی جائیں گے اور وقت پر بارشیں ہوں گی اور باغ اور کھیت بہت پھل دیں گے اور خوشی کا زمانہ آجائے گا اور غیر معمولی آفتیں دُور ہو جائیں گی.تا لوگ یہ خیال نہ کریں کہ خدا صرف قہار ہے رحیم نہیں ہے اور تا اس کے مسیح کو منحوس قرار نہ دیں*.یاد رہے کہ مسیح موعود کے وقت میں موتوں کی کثرت ضروری تھی اور زلزلوں اور طاعون کا آنا ایک مقدّر امر تھا.یہی معنے اس حدیث کے ہیں کہ جو لکھا ہے کہ مسیح موعود کے دم سے لوگ مریں گے اور جہاں تک مسیحؑ کی نظر جائے گی اس کا قاتلانہ دم اثر کرے گا.پسؔ یہ نہیں مسیح موعود کے لئے ابتدا سے یہی مقدر ہے کہ پہلے تو وہ قہاری رنگ میں ظاہر ہوگا اور جہاں تک اس کی نظر کام کرتی ہے اس کے دم سے لوگ مریں گے یعنی وہ زمانہ جہاد اور تلوار سے لڑنے کا زمانہ نہیں ہوگاصرف مسیح موعود کی رُوحانی توجہ تلوار کا کام دکھلائے گی اور قہری نشان آسمان سے نازل ہوں گے جیسے طاعون اور زلزلے وغیرہ آفات.تب اس کے بعد خدا کا مسیح نوع انسان کو رحم کی نظر سے دیکھے گا اور آسمان سے رحم کے آثار ظاہر ہوں گے اور عمروں میں برکت دی جائے گی اور زمین میں سے رزق کا سامان بکثرت پیدا ہوگا.منہ
سمجھنا چاہیئے کہ اس حدیث میں مسیح موعود کو ایک ڈائن قرار دیا گیا ہے جو نظر کے ساتھ ہر ایک کا کلیجہ نکالے گا بلکہ معنے حدیث کے یہ ہیں کہ اُس کے نفحاتِ طیّبات یعنی کلمات اس کے جہاں تک زمین پر شائع ہوں گے تو چونکہ لوگ اُن کا انکار کریں گے اور تکذیب سے پیش آئیں گے اور گالیاں دیں گے اس لئے وہ انکار موجب عذاب ہو جائے گا*.یہ حدیث بتلا رہی ہے کہ مسیح موعود کا سخت انکار ہوگا جس کی وجہ سے ملک میں مری پڑے گی اور سخت سخت زلزلے آئیں گے اور امن اُٹھ جائے گا.ورنہ یہ غیر معقول بات ہے کہ خواہ نخواہ نیکو کار اور نیک چلن آدمیوں پر طرح طرح کے عذاب کی قیامت آوے.یہی وجہ ہے کہ پہلے زمانوں میں بھی نادان لوگوں نے ہر ایک نبی کو منحوس قدم سمجھا ہے اور اپنی شامتِ اعمال اُن پر تھاپ دی ہے.مگر اصل بات یہ ہے کہ نبی عذاب کو نہیں لاتا بلکہ عذاب کا مستحق ہو جانا اتمام حجت کے لئے نبی کو لاتاہے.اور اُس کے قائم ہونے کے لئے ضرورت پیدا کرتا ہے.اور سخت عذاب بغیر نبی قائم ہونے کے آتا ہی نہیں.جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اس حدیث سے بھی ثابت ہے کہ مسیح کے وقت میں جہاد کا حکم منسوخ کر دیا جائے گا جیسا کہ صحیح بخاری میں بھی مسیح موعود کی صفات میں لکھا ہے کہ یضع الحرب یعنی مسیح موعود جب آئے گا تو جنگ اور جہاد کو موقوف کردے گا.اس میں حکمت یہ ہے کہ جب مسیح کی روحانی توجہ سے قہری نشان ظاہر ہوں گے اور لاکھوں انسان طاعون اور زلازل وغیرہ سے مریں گے تو پھر تلوار کے ذریعہ سے کسی کو قتل کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی.اور خدا اس سے رحیم تر ہے کہ د۲و قسم کے شدید عذاب ایک ہی وقت میں کسی قوم پر نازل کرے یعنی ایک قہری نشانوں کا عذاب اور دوسرا انسانوں کے ذریعہ سے تلوار کا عذاب.اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں صاف فرما دیا ہے کہ یہ د۲و قسم کے عذاب ایک وقت میں جمع نہیں ہو سکتے.منہ
پھر یہ کیا بات ہے کہ ایک طرف تو طاعون ملک کو کھارہی ہے اور دوسری طرف ہیبت ناک زلزلے پیچھاؔ نہیں چھوڑتے.اے غافلو! تلاش تو کرو شاید تم میں خدا کی طرف سے کوئی نبی قائم ہوگیا ہے*.جس کی تم تکذیب کررہے ہو.اب ہجری صدی کا بھی چوبیسو۲۴اں سال ہے بغیر قائم ہونے کسی مرسلِ الٰہی کے یہ وبال تم پر کیوں آگیا جو ہر سال تمہارے دوستوں کو تم سے جُدا کرتا اور تمہارے پیاروں کو تم سے علیحدہ کر کے داغِ جدائی تمہارے دلوں پر لگاتا ہے آخر کچھ بات تو ہے کیوں تلاش نہیں کرتے اور تم کیوں اس آیت موصوفہ بالا میں غور نہیں کرتے جو خدا تعالیٰ فرماتا ہے 3 ۱.یعنی ہم کسی بستی پر غیر معمولی عذاب نازل نہیں کرتے جب تک ہم اُن پر اتمام حجت کیلئے ایک رسول نہ بھیج دیں.اب تم خود سوچ کر دیکھ لو کہ کیا یہ غیر معمولی عذاب نہیں جو تم کئی سال سے بھگت رہے ہو.تم وہ مصیبتیں دیکھ رہے ہو جن کا تمہارے باپ دادوں نے نام بھی نہیں سُنا تھا اور جن کی ہزاروں برس تک اس ملک میں نظیر نہیں پائی جاتی.اور جس طاعون اور جس زلزلہ کو اب تم دیکھتے ہو میں اپنے کشفی عالم میں پچیس۲۵ برس سے اسے دیکھ رہا ہوں.اگر خدا نے مجھے یہ تمام خبریں پہلے سے نہیں دیں تو مَیں جھوٹا ہوں.لیکن اگر یہ خبریں پچیس۲۵ برس سے میری کتابوں میںؔ مندرج ہیں اور متواتر مَیں قبل از وقت خبرخ دیتا رہا ہوں تو تمہیں ڈرنا چاہیئے نبی کے لفظ سے اس زمانہ کے لئے صرف خدا تعالیٰ کی یہ مراد ہے کہ کوئی شخص کامل طور پر شرف مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ حاصل کرے اور تجدید دین کے لئے مامور ہو.یہ نہیں کہ وہ کوئی دوسری شریعت لاوے کیونکہ شریعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی پر نبی کے لفظ کا اطلاق بھی جائز نہیں جب تک اس کو امّتی بھی نہ کہا جائے جس کے یہ معنی ہیں کہ ہر ایک انعام اُس نے آنحضرت ؐ کی پیروی سے پایا ہے نہ براہِ راست.منہ خ انہیں سخت زلزلوں کی خبریں میری کتاب براہین احمدیہ میں آج سے پچیس برس پہلے شائع ہوچکی ہیں.منہ
ایسا نہ ہو کہ تم خدا کے الزام کے نیچے آجاؤ.تم سُن چکے ہو کہ ۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء کے زلزلہ کی پیشگوئی ایک برس پہلے مَیں نے اخباروں میں شائع کی تھی.اور اس میں صرف یہی لفظ نہیں تھا کہ ’’زلزلہ کا دھکا‘‘ بلکہ یہ الہام بھی تھا کہ عفت الدیار محلھا ومقامھا یعنی ملک پنجاب کے بعض حصوں کی عمارتیں تباہ اور ناپدید ہو جائیں گی.سو اب مجھے اس بات کے لکھنے کی ضرورت نہیں کہ کس صفائی سے وہ پیشگوئی پوری ہوگئی.پھر بعد اس کے اُسی اپریل کے مہینہ میںیہ دوسری پیشگوئی خدا تعالیٰ کی وحی سے مَیں نے شائع کی تھی کہ جیسا کہ یہ زلزلہ ۴؍اپریل ۱۹۰۵ء کا موسمِ بہار میں آیا ایسا ہی ایک دوسرا زلزلہ موسم بہار میں ہی آئے گا اور اس سے پہلے نہیں آئے گا اور ضروری ہے کہ ۲۵؍ فروری ۱۹۰۶ء تک وہ زلزلہ نہ آوے.سو گیارہ مہینہ تک کوئی زلزلہ نہ آیا اور جب ۲۵؍ فروری ۱۹۰۶ء گزر گئی تب ۲۷؍ فروری ۱۹۰۶ء کی رات کو عین وسط بہار میں ایک بجے کے وقت ایسا سخت زلزلہ آیا کہ انگریزی اخبارات سِول وغیرہ کو بھی اقرار کرنا پڑا کہ یہ زلزلہ ۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء کے زلزلہ کے برابر تھا.اور رام پور شہر علاؔ قہ شملہ اور بہت سے اور مقامات میں جانوں اور عمارتوں کا نقصان ہوا.یہ وہی زلزلہ تھا جس کی نسبت گیارہ مہینے پہلے خدا تعالیٰ کی وحی نے یہ خبردی تھی کہ ’’پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی‘‘* افسوس کہ بعض متعصب مولوی محض ہٹ دھرمی سے اس کھلی کھلی پیشگوئی پر گرد ڈالنا چاہتے ہیں اور لوگوں کو دھوکا دے کر یہ کہتے ہیں کہ آئندہ زلزلہ کی نسبت تو یہ لکھا گیا تھا کہ وہ قیامت کا نمونہ ہوگا مگر یہ زلزلہ تو قیامت کا نمونہ نہیں.اس کے جواب میں بجز اس کے کیا کہیں کہ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین مَیں بار بار اپنے رسالوں اور اشتہارات میں یہ پیشگوئی شائع کر چکاہوں کہ کئی زلزلے آئیں گے.اور ایک قیامت کا نمونہ ہوگا یعنی اُس میں بہت سی جانوں کا نقصان ہوگا.مگر ایک زلزلہ بہار میں آئے گا جیسا کہ ۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء کا زلزلہ بہار کے دنوں میں آیا تھا اور اس کی نسبت یہ الہام تھا.
سو اسی کے مطابق موسم بہار میں یہ زلزلہ آیا.اب سوچ کر دیکھ لو کہ یہ بجز خدا کے کس کی طاقت ہے کہ اس تصریح کے ساتھ پیشگوئی کر سکے.میرے ہاتھ میں تو زمین کے طبقات نہیں تھے کہ مَیں گیار۱۱ہ مہینے تک ان کو تھام رکھتا اور پھر ۲۵؍ فروری ۱۹۰۶ء کے بعد ایک زور کا دھکا دے کر زمین کو ہلا دیتا.سو اے عزیزو! جبکہ تم نے یہ دونوں زلزلے اپنی آنکھوں سے دیکھ لئے تو اب تمہیں اس بات کا سمجھناسہل ہے کہ آئندہ پنج زلزلوں کی خبر بھی کوئی گپ نہیں ہے.اور تم یہ بھی سمجھ سکتے ہو کہ جیسا کہ یہ یقین کرنا انسانی طاقت سے باہر تھا کہ گیار۱۱ہ ماہ تک اپریل کے زلزلہ کی مانند کوئی زلزلہ نہیں آئے گا بلکہ عین بہار میں ۲۵؍ فروری ۱۹۰۶ء کے بعد آئے گا.ایسا ہی یہ یقین کرنا بھی انسانی طاقت سے باہر ہے کہ اب بعد اس کے ۵پانچ شدید زلزلے آئیں گے جن کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ اپنے چہرہ کی چمکار دکھلائے گا یہاں تک کہ ان کو جو خدا کی ہستی کے قائل نہیں اقرار کی طرف کھینچے گا.اور پھر بعد اس کے امن ہوؔ جائے گا اور دنیا اپنی معمولی حالت پر آجائے گی.اور ایک مدّت تک ایسے زلزلے پھر کبھی نہیں آئیں گے.آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ کوئی علم طبقات الارض کا اس تصریح اور تفصیل کو بتلا نہیں سکتا بلکہ وہ خدا جو زمین اور آسمان کا خدا ہے وہ اپنے خاص رسولوں کو یہ اسرار بتلاتا ہے نہ ہر ایک کو تا دنیا کے لوگ کفر اور انکار سے بچ جائیں اور تا وہ ایمان لائیں اورجہنم کے عذاب سے نجات پائیں.سو دیکھو مَیں زمین و آسمان کو گواہ کرتا ہوں کہ آج مَیں نے پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی.سو ۲۸؍ فروری ۱۹۰۶ء کا زلزلہ عین بہار میں آیا جس سے آٹھ آدمی مر گئے اور انیس ۱۹ مجروح ہوئے اور صدہا مکان گر گئے.اور اسی زلزلہ کے بارے میں پیسہ اخبار ۱۶؍ مارچ ۱۹۰۶ء صفحہ ۵ تیسرے کالم میں لکھا ہے کہ ۲۸؍ فروری ۱۹۰۶ء کی شب کے بھونچال میں موضع دودہ پور ضلع انبالہ تحصیل جگادھری کے سارے آدمی رات کو سوئے ہوئے مر گئے.صرف تین آدمی بچے اور نیرہ ضلع سہارنپور میں زلزلہ کی رات کو ایک سوکھا کنواں پانی سے بھر گیا.منہ
وہ پیشگوئی جو ۵پانچ زلزلوں کے بارے میں ہے بتصریح بیان کر دی ہے تا تم پر حجت ہو اور تا تمہاری گمراہی پر موت نہ ہو.اے عزیز! خدا سے مت لڑو کہ اس لڑائی میں تم ہرگز فتح یاب نہیں ہو سکتے.خدا کسی قوم پر ایسے سخت عذاب نازل نہیں کرتا اور نہ کبھی اُس نے کئے جب تک اُس قوم میں اُس کی طرف سے کوئی رسول نہ آیا ہو.یعنی جب تک اُس کا بھیجا ہوا اُن میں ظاہر نہ ہوا ہو.سو تم خدا کے قانونِ قدیم سے فائدہ اُٹھاؤ اورتلاش کرو کہ وہ کون ہے جس کے لئے تمہاری آنکھوں کے روبرو آسمان پر رمضان کے مہینہ میں کسوف خسوف ہوا اور زمین پر طاعون پھیلی اور زلزلے آئے.اور یہ پیشگوئیاں قبل از وقت کسؔ نے تم کو سُنائیں اور کس نے یہ دعویٰ کیا کہ مَیں مسیح موعود ہوں.اُس شخص کو تلاش کرو کہ وہ تم میں موجود ہے اور وہ یہی ہے کہ جو بول رہا ہے.3 3 3 ۱.مَیں نے اِس جگہ تک مضمون کو ختم کیا تھا کہ آج پھر ۱۵؍ مارچ ۱۹۰۶ء کو بروزپنج شنبہ وقت صبح یہ الہام ہوا.خدا نکلنے کو ہے انت منّی بمنزلۃ بروزی.وعد اللّٰہ اِنّ وعداللّٰہ لا یُبدّل.یعنی خدا اِن پانچ زلزلوں کو لانے سے اپنا چہرہ ظاہر کرے گا.اور اپنے وجود کو دکھلا دے گا.اور تُومجھ سے ایسا ہے جیسا کہ مَیں ہی ظاہر ہوگیا.یعنی تیرا ظہور بعینہٖ میرا ظہور ہوگا یہ خدا کا وعدہ ہے کہ پا۵نچ زلزلوں کے ساتھ خدا اپنے تئیں ظاہر کرے گا.اور خدا کا وعدہ نہیں ٹلے گا اور وہ ضرور ہو کر رہے گا.یاد رہے کہ پیشگوئی دو قسم کی ہوتی ہے.ایک صرف وعید کی جس سے مقصود صرف سزا دینا اور عذاب دینا ہوتا ہے.ایسی پیشگوئی اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو تو کسی کے ڈرنے اور توبہ اور استغفار یا صدقہ دُعا سے ٹل سکتی ہے جیسا کہ یونس نبی کی پیشگوئی ٹل گئی اور ظہور میں نہ آئی کیونکہ یونس نبی کو وعید کے طور پر بتلایا ؔ گیا تھا کہ چالیس۴۰ دن تک تیری قوم پر عذاب نازل ہو جائے گا اور یہ پیشگوئی قطعی طور پر بغیر کسی شرط کے تھی مگر تب بھی
جب یونسؑ کی قوم نے توبہ اور استغفار کیا اور اُن کے دل ڈر گئے تو خدا تعالیٰ نے اس عذاب کا وارد کرنا موقوف رکھا اوروہ قطعی پیشگوئی ٹل گئی جس کی وجہ سے یونس نبی کو بڑی مصیبت پیش آئی اور اُس نے نہ چاہا کہ کذّاب کہلا کر پھر اپنی قوم کو مُنہ دکھاوے.اور وعید کی پیشگوئی کا توبہ استغفار یا صدقہ سے ٹل جانا ایک ایسا بدیہی امر ہے کہ کسی فرقہ یا قوم کو اس سے انکار نہیں کیونکہ تمام انبیاء علیہم السلام کے اتفاق سے یہ بات مسلّم ہے کہ توبہ استغفار اور صدقہ خیرات سے بَلا ردّ ہو سکتی ہے.اَب ظاہر ہے کہ جس بَلا کو خدا نے کسی پر وارد کرنا چاہا ہے اگر نبی کو پیش از وقت اُس بَلا کا علم دیا جائے تو وہی وعید کی پیشگوئی کہلائے گی.اور اگر کسی نبی کو پیش از وقت اس کا علم نہ دیا جائے تو صرف خدا تعالیٰ کا مخفی ارادہ ہوگا.اس جگہ ان نادان مولویوں کی کس قدر پردہ دری ہوتی ہے جو مجھ پر اعتراض کر کے کہتے ہیں کہ ڈپٹی عبداللہ آتھم پند۱۵رہ مہینے کی میعاد میں نہیں مرا بلکہ چند ماہ بعد مرا.اور نہیں جانتے کہ وہ وعید کی پیشگوئی تھی اور باوجود اس کے یونسؑ کی پیشگوئی کی طرح صرف قطعی نہ تھی بلکہؔ اس کے ساتھ یہ لفظ تھے کہ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے.یعنی اُس حالت میں پندر۱۵ہ مہینے کے اندر مرے گا کہ جب اس کے دل نے حق کی طرف رجوع نہ کیا ہو.لیکن یہ بات عیسائیوں کی شہادت سے بھی ثابت شدہ ہے کہ اُس نے اُسی مجلس میں جب یہ پیشگوئی سُنائی گئی تھی حق کی طرف رجوع کر لیا تھا اور ڈر گیا تھا کیونکہ جب مَیں نے مباحثہ کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد سا۶۰ٹھ یا ستّر ۷۰گواہوں کے روبرو جس میں سے بعض مسلمان اور بعض عیسائی تھے ڈاکٹر مارٹن کلارک کی کوٹھی پر بلند آواز سے یہ کہا کہ آپ نے اپنی فلاں کتاب میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دجّال رکھا ہے ا س لئے خدا نے ارادہ کیا ہے کہ پندرہ مہینے کے اندر وہ آپ کو ہلاک کرے گا بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرو.تب وہ اس پیشگوئی کوسُنتے ہی ڈر گیا اور اس کا رنگ زرد ہوگیا اور اُس نے اپنی زبان باہر نکالی اور دونوں ہاتھ اپنے کانوں پر رکھے.اور
اُس کا بدن خوف سے کانپ اُٹھا اور توبہ کرنے والے کی شکل بنا کر کہا کہ مَیں نے آنحضرتؐ کو ہرگز دجّال نہیں کہا.میرے خیال میں اس وقت تیس۳۰ سے زیادہ اس جلسہ میں عیسائی موجود ہوں گے جن میں سے ایک ڈاکٹر مارٹن کلارک بھی تھے جو اب تک زندہ موجود ہیں.اگر اُن سے حلفًا ؔ دریافت کیا جائے تو مَیں امید نہیں رکھتا کہ وہ خلاف واقعہ بیان کر سکیں یا اس واقعہ کا اخفا کر سکیں.پھر باوجود اس کے یہ امر بھی ثابت ہے کہ اس پیشگوئی کے سُنتے ہی ڈپٹی عبداللہ آتھم کے دل پر سخت بے چینی اور بے قراری طاری ہوگئی اور وہ پیشگوئی کے اثر سے دیوانہ کی طرح ہوگیا اور اکثر روتا تھا اور بعد اس کے دین اسلام کے ردّ میں ایک سطر بھی اُس نے شائع نہ کی یہاں تک کہ صرف چند ماہ بعد فوت ہوگیا اور مَیں نے متواتر اشتہاروں سے اس پر حجت پوری کی.اور اشتہاروں میں لکھا کہ اگر اُس نے پیشگوئی کی شرط کے موافق اپنے دل میں حق کی طرف رجوع نہیں کیا تو وہ حلفًا بیان کرے تو مَیں وعدہ کرتا ہوں کہ مَیں چار ہزار روپیہ اس حلف کے بعد بلا توقف اس کو دوں گا مگر باوجود عیسائیوں کے اصرار کے (کہ حلف اُٹھالے) اُس نے قسم نہ کھائی.اور اس طرح ٹال دیا کہ قسم کھانا ہمارے مذہب میں منع ہے حالانکہ انجیل سے ثابت ہے کہ پطرس نے قسم کھائی.پولوس نے قسم کھائی اور خود حضرت مسیحؑ نے قسم کھائی.پھر منع کیونکر ہوگئی.اور اب تک عدالتوں میں عیسائی گواہوں کو قسم دی جاتی ہے.بلکہ دوسروں کے لئے اقرار صالح اور عیسائیوں کے لئے خاص طور پر قسم ہے.غرض باوجود اس حیلہ بہانہ کے پھر موتؔ سے بچ نہ سکا.اور جیسا کہ مَیں نے اشتہارات میں شائع کیا تھامیرے آخری اشتہار سے صرف چند مہینے بعد مر گیا.اور موت کی بیماری تو اُنہیں دنوں میں اس کو شروع ہوگئی تھی.یہ ہیں ہمارے مخالف مولویوں کے اعتراض جنہوں نے علم قرآن اور حدیث کا پڑھ کر ڈبودیا.اب تک انہیں معلوم نہیں کہ وعید کی پیشگوئی اور وعدہ کی پیشگوئی میں فرق کیا ہے؟ اور اب تک یونس نبی کے قصّہ سے بھی بے خبر ہیں جو دُرَِّ منثور میں بھی تفصیل سے مندرج ہے
چونکہ اُن کی نیّتیں درست نہیں اس لئے اعتراض کے وقت اُن کو وہ پیشگوئیاں یاد نہیں رہتیں جو دس ہزار سے بھی زیادہ مجھ سے وقوع میں آگئی ہیں.اور جیسا کہ خدا نے فرمایا تھا ویسا ہی ظہور میں آئیں.اور اگر کوئی وعید کی پیشگوئی جو کسی شخص کے عذاب پرمشتمل تھی اپنے وقت سے ٹل گئی ہو تو اس پر شور مچاتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو خدا تعالیٰ کی کتابوں پر ایمان ہی نہیں.اور میرے پرحملہ کرنے کے جوش سے تمام نبیوں پر حملہ کرتے ہیں.یہ نادان نہیں جانتے کہ اگر ڈپٹی آتھم پندرہ مہینے میں نہیں مرا تو آخر چند ماہ بعد میری زندگی میں ہی مرگیا.اور پیشگوئی میں صاف یہ لفظ تھے کہ جھوٹا سچے کی زندگی میں مر جائے گا.اُس کا دعویٰ تھا کہ عیسائی مذہب سچا ہے اور میرا دعویٰ تھا کہ اسلام سچا ہے پسؔ خدا نے میری زندگی میں اُس کو ہلاک کر دیا اور مجھے سچا کیا.پند۱۵رہ مہینے کو بار بار بیان کرنا اور ان امور کا ذکر نہ کرنا کیا یہی ان مولویوں کی دیانتداری ہے؟ نہیں سوچتے کہ یونس نبی کی تو قطعی عذاب کی پیشگوئی تھی جس کی نسبت خبر دی گئی تھی کہ چالیس۴۰ دن تک بہر حال اس قوم پر عذاب وارد ہو جائے گا مگر وہ عذاب اُن پر وارد نہ ہوا یہاں تک کہ یونسؑ اُن میں سے بہتوں کی زندگی میں ہی فوت ہوگیا.ہائے افسوس! اگر ان لوگوں کی نیّت درست ہوتی تو آتھم کے واقعہ کے بعد جو پیشگوئی لیکھرام کی نسبت کی گئی تھی جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہ تھی اور جس میں صاف طور پر وقت اور قسم موت بتلائی گئی تھی اسی پر غور کرتے کہ کیسی صفائی سے وہ پوری ہوئی.مگر کون غور کرے جب تعصب سے دل اندھے ہوگئے.اور اگر ایک ذرّہ دلوں میں انصاف ہوتا تو ایک نہایت سہل طریق اُن کے لئے مہیّا تھا کہ جن پیشگوئیوں کے نہ پورے ہونے پر اُن کو اعتراض ہے وہ لکھ کر میرے سامنے پیش کرتے کہ وہ کس قدر ہیں اور پھر مجھ سے اس بات کا ثبوت لیتے کہ وہ پیشگوئیاں جو پوری ہوگئیں وہ کس قدر ہیں تو اس امتحان سے اُن کے تمام پردے کھل جاتے اور مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ محلِّ اعتراض اُن کے پاس صرف ایکؔ دو
وعید کی پیشگوئیاں ہیں جن کے ساتھ شرط بھی تھی جن میں خوف اور ڈرنے کی وجہ سے تاخیر ہو گئی.اور جن کی نسبت خدا تعالیٰ کا قدیم قانون ہے کہ وہ توبہ استغفار اور صدقہ اور دُعا سے ٹل سکتی ہیں.لیکن اُن کے مقابل پر وہ پیشگوئیاں پوری ہوئیں جو دس ہزار سے بھی زیادہ ہیں جن کی سچائی کے لئے کئی لاکھ انسان گواہ ہیں.اور صرف ایک فرقہ نہیں بلکہ تمام فرقے.کیا مسلمان اور کیا ہندو اور کیا عیسائی ان کی سچائی کی شہادت دینے کے لئے مجبور ہیں پس کیا یہ ایمانداری تھی کہ پیشگوئیوں کی ایک عظیم الشان فوج کو جن کی سچائی پر لاکھوں انسان گواہ ہیں کالعدم سمجھ کر ان سے کچھ فائدہ نہ اٹھانا.اور وعید کی ایک دو پیشگوئیوں کو جو خدا کے قدیم قانون کے موافق تاخیر پذیر ہوگئیں بار بار پیش کرنا.اگر یہی حال ہے تو کسی نبی کی نبوّت قائم نہیں رہ سکتی کیونکہ ان واقعات کا ہر ایک نبوت میں نمونہ موجود ہے اِسی لئے مَیں کہتا ہوں کہ یہ لوگ دین اور سچائی کے دشمن ہیں.اور اگر اب بھی ان لوگوں کی کوئی جماعت دلوں کو درست کر کے میرے پاس آوے تو مَیں اب بھی اِس بات کے لئے حاضر ہوں کہ اُن کے لغو اور بیہودہ شبہات کا جواب دوں اور ان کو دکھلاؤں کہ کس قدر خدا نے ایک فوجِ کثیر کی طرح میری ؔ شہادت میں پیشگوئیاں مہیّا کر رکھی ہیں جو ایسے طور سے اُن کی سچائی ظاہر ہوئی ہے جیسا کہ دن چڑھ جاتا ہے.یہ نادان مولوی اگر اپنی آنکھیں دیدہ و دانستہ بند کرتے ہیں تو کریں.سچائی کو ان سے کیا نقصان؟ لیکن وہ زمانہ آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ بہتیرے فرعون طبع ان پیشگوئیوں پر غور کرنے سے غرق ہونے سے بچ جائیں گے.خدا فرماتا ہے کہ مَیں حملہ پر حملہ کروں گا یہاں تک کہ مَیں تیری سچائی دلوں میں بٹھا دوں گا.پس اے مولویو! اگر تمہیں خدا سے لڑنے کی طاقت ہے تو لڑو.مجھ سے پہلے ایک غریب انسان مریم کے بیٹے سے یہودیوں نے کیا کچھ نہ کیا اور کس طرح اپنے گمان میں اُس کو سولی دے دی.مگر خدا نے اس کو سولی کی موت سے بچایا.اور یا تو وہ
زمانہ تھاکہ اُس کو صرف ایک مکّار اور کذّاب خیال کیا جاتا تھا اور یا وہ وقت آیا کہ اس قدر اُس کی عظمت دلوں میں پیدا ہوگئی کہ اب چالیس۴۰ کروڑ انسان اس کو خدا کر کے مانتا ہے.اگرچہ ان لوگوں نے کُفر کیا کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنایا مگر یہ یہودیوں کا جواب ہے کہ جس شخص کو وہ لوگ ایک جھوٹے کی طرح پَیروں کے نیچے کُچل دینا چاہتے تھے وہی یسوع مریم کا بیٹا اس عظمت کو پہنچا کہ اب چالیس۴۰ کروڑ انسان اُس کو سجدہ کرتے ہیں.اورؔ بادشاہوں کی گردنیں اُس کے نام کے آگے جھکتی ہیں.سو مَیں نے اگرچہ یہ دُعا کی ہے کہ یسوع ابن مریم کی طرح شرک کی ترقی کا مَیں ذریعہ نہ ٹھہرایا جاؤں اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ایسا ہی کرے گا.لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا.اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا.اور میرے فرقہ کے لوگ اِس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا مُنہ بند کر دیں گے.اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلا آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھادے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا.اور خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ مَیں تجھے برکت پربرکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے*.سو اے سُننے والو! اِن باتوں کو یاد رکھو.اور اِن پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں عالم کشف میں مجھے وہ بادشاہ دکھلائے گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے.اور کہا گیا کہ یہ ہیں جو اپنی گردنوں پر تیری اطاعت کا جُوَا اُٹھائیں گے اور خدا انہیں برکت دے گا.منہ
میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا.مَیں اپنے نفس میں کوئی نیکیؔ نہیں دیکھتا.اور مَیں نے وہ کام نہیں کیا جو مجھے کرنا چاہئے تھا.اور مَیں اپنے تئیں صرف ایک نالائق مزدور سمجھتا ہوں.یہ محض خدا کا فضل ہے جو میرے شامل حال ہوا.پس اُس خدائے قادر اور کریم کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس مُشتِ خاک کو اس نے باوجود ان تمام بے ہنریوں کے قبول کیا.عجب دارم ازلطفت اے کردگار پذیرفتہۂ چوں منِ خاکسار پسندیدگانے بجائے رسند ز ما کہترانت چہ آمد پسند چو از قطرۂ خلق پیدا کنی ہمیں عادت اینجا ہویدا کنی یہ بات لکھنے سے رہ گئی کہ مذکورہ بالا الہام میں جو یہ لفظ ہیں انّ وعداللّٰہ لایُبدّل.یعنی خدا کا وعدہ ٹل نہیں سکتایہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پانچ۵ زلزلوں کا آنا خدا تعالیٰ کا ایک وعدہ ہے جو ضرور ہو کر رہے گا ہاں جو شخص توبہ استغفار کرے گا اور ابھی سے خدا تعالیٰ سے صلح کرے گا اور کوئی سرکشی کی آگ اس میں باقی نہیں رہے گی خدا اس پر رحم کرے گا.مگر اس پر رحم کرنے سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ یہ پا۵نچ زلزلے نہیں آویں گے.وہ تو ضرور آویں گے مگر ایسا شخص اُن کے صدمہ سے بچ جائے گا کیونکہ یہ خدا ؔ تعالیٰ کا وعدہ ہے وہ اپنے وعدہ میں تخلّف نہیں کرتا.اُس کا وعید ٹل سکتا ہے.مگر وعدہ نہیں ٹل سکتا.جیسا کہ ہم ابھی پہلے بیان کر چکے ہیں.ایک اور بات اس جگہ ذکر کے لائق ہے کہ اس جگہ طبعًا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جبکہ اس سے پہلے صدہا نشان میری تصدیق کے لئے کھلے کھلے ظاہر ہو چکے تھے اور ہزارہا تک نوبت پہنچ گئی تھی تو پھر اس مہلک طاعون اور اِن تباہی افگن زلازل کی کیا ضرورت تھی.کیا وہ صدہا نشان کافی نہ تھے؟
اس سوال کا جواب د۲و طور سے ہے.اوّ.۱ل یہ کہ انسانی فطرت میں یہ داخل ہے کہ وہ رحمت کے نشانوں سے بہت ہی کم فائدہ اُٹھاتا ہے.اور ایسا ہی تعصّب کی وجہ سے دوسری قسم کے چھوٹے چھوٹے نشانوں کے ٹالنے کے لئے بھی کوئی نہ کوئی حیلہ نکالتا ہے تا کسی طرح دولت قبول سے محروم رہے.چنانچہ اس جگہ بھی ایسا ہی ہوا کہ باوجود ہزارہا نشانوں کے ظاہر ہونے کے قوم کے دلوں پر ایک ذرّہ اثر نہ پڑا.اگر آپ میری کتاب ’’نزول المسیح‘‘ کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ خدا نے نشانوں کے دکھلانے میں کوئی فرق نہیں کیا.دوستوں کے لئے بھی نشان ظاہر ہوئے اور دشمنوؔ ں کی تنبیہ کے لئے بھی.اور میری ذات کے متعلق بھی.اور ایسا ہی میری اولاد کے متعلق بھی نشان ظہور میں آئے.اور جس طرح زمین کا ایک بڑا حصّہ سمندر سے بھرا ہوا ہے ایسا ہی یہ سلسلہ خدا کے نشانوں سے بھر گیا.کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس میں کوئی نہ کوئی نشان ظاہر نہ ہو.اور ہر ایک پیشگوئی کسی نہ کسی نشان پر مشتمل ہوتی ہے اور مَیں نے اس رسالہ میں دس ہزار نشان کا صرف نمونہ کے طور پر ذکر کیا ہے ورنہ اگر وہ سب تحریر کئے جائیں تو وہ کتاب جس میں وہ قلمبند ہوں ہزار جزو سے بھی زیادہ ہو جائے گی.کیا اس قدر غیب کا موج در موج ظاہر ہونا کسی مفتری کے کاروبار میں ممکن ہے.میرے نادان مخالفوں کو خدا روز بروز انواع و اقسام کے نشان دکھلانے سے ذلیل کرتا جاتا ہے.اور مَیں اُسی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جیسا کہ اُس نے ابراہیمؑ سے مکالمہ مخاطبہ کیا اور پھر اسحٰق ؑ سے اور اسمٰعیلؑ سے اور یعقوبؑ سے اور یوسفؑ سے اور موسٰیؑ سے اور مسیحؑ ابن مریم سے اور سب کے بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہمکلام ہوا کہ آپ پر سب سے زیادہ روشن اور پاک وحی نازل کی ایسا ہی اُس نے مجھے بھی اپنے مکالمہ مخاطبہ کا شرف بخشا.مگر یہ شرف مجھے محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پَیروؔ ی سے حاصل ہوا.اگر مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت نہ ہوتا اور آپ کی پیروی
نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی مَیں کبھی یہ شرف مکالمہ مخاطبہ ہر گز نہ پاتا کیونکہ اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے اُمّتی ہو.پس اِسی بنا پر مَیں اُمتی بھی ہوں اور نبی بھی.اور میری نبوت یعنی مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ایک ظلّ ہے اور بجز اس کے میری نبوت کچھ بھی نہیں وہی نبوت محمدؐیہ ہے جو مجھ میں ظاہر ہوئی ہے.اور چونکہ مَیں محض ظلّہوں اور اُمّتی ہوں اس لئے آنجنابؐ کی اِس سے کچھ کسرِ شان نہیں.اور یہ مکالمہ الٰہیہ جو مجھ سے ہوتا ہے یقینی ہے.اگر مَیں ایک دم کے لئے بھی اِس میں شک کروں تو کافر ہوجاؤں اور میری آخرت تباہ ہو جائے.وہ کلام جو میرے پر نازل ہوا یقینی اور قطعی ہے.اور جیسا کہ آفتاب اور اس کی روشنی کو دیکھ کرکوئی شک نہیں کر سکتا کہ یہ آفتاب اور یہ اس کی روشنی ہے ایسا ہی مَیں اس کلام میں بھی شک نہیں کر سکتا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے پر نازل ہوتا ہے اور مَیں اس پر ایسا ہی ایمان لاتاؔ ہوں جیسا کہ خدا کی کتاب پر.یہ تو ممکن ہے کہ کلام الٰہی کے معنے کرنے میں بعض مواضع میں ایک وقت تک مجھ سے خطا ہو جائے.مگر یہ ممکن نہیں کہ مَیں شک کروں کہ وہ خدا کا کلام نہیں.اور چونکہ میرے نزدیک نبی اُسی کو کہتے ہیں جس پر خدا کا کلام یقینی و قطعی بکثرت نازل ہو جو غیب پر مشتمل ہو اس لئے خدا نے میرا نام نبی رکھا مگر بغیر شریعت کے.شریعت کا حامل قیامت تک قرآن شریف ہے.پس وہ خدا کا کلام جو میرے پر نازل ہوتا ہے ایک خارق عادت کیفیت اپنے اندر رکھتا ہے اور اپنی نورانی شعاعوں سے اپناچہرہ دکھلاتا ہے.وہ فولادی میخ کی طرح دل کے اندر دھنس جاتا ہے اور اپنی رُوحانی قوتوں کے ساتھ مجھے پُر کر دیتا ہے.وہ لذیذ اور فصیح اور راحت بخش ہے اور ایک الٰہی ہیبت اپنے اندر رکھتا ہے اور غیب کے بیان کرنے میں بخیل نہیں بلکہ غیب کی
نہریں اس میں چل رہی ہیں.لیکن بعض ہمارے مخالف جو الہام کا دعویٰ کرتے ہیں اوّل تو یہ امواجِ غیبیہ اور ایک دریا اسرار الٰہیہ کا اُن کے الہامات میں نہیں.اور خدائی طاقت اور شوکت اُن کو چُھو بھی نہیں گئی.علاوہ اِس کے وہ خود اس بات کے قائل ہیں کہ انہیں معلوم نہیں کہ یہ الہامات اُن کے رحمانی ہیں یا شیطانی ہیںؔ.اِسی وجہ سے اُن کا عام عقیدہ ہے کہ ان کے الہام امورِ ظنّیہ میں سے ہیں.نہیں کہہ سکتے کہ ایسے القاء خدا سے ہیں یا شیطان سے.پس ایسے الہاموں پر فخر کرنا جائے شرم ہے جن میں اس قدر بھی چمک نہیں جس سے پتہ لگ سکے کہ وہ ضرور خدا کی طرف سے ہیں نہ شیطان کی طرف سے.خدا پاک ہے اور شیطان پلید ہے.پس یہ عجیب الہام ہیں کہ ان سے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ پاک چشمہ سے نکلے ہیں یا پلید چشمہ سے اور دوسری مصیبت یہ کہ اگر کوئی کسی الہام کو خدا کا الہام سمجھ کر اس پر کاربند ہوا اور دراصل وہ شیطان کا الہام ہو تو وہ تو ہلاک ہوگیا یا اگر شیطان کا الہام سمجھ کر خدا کے الہام پر کاربند نہ ہوا تو وہ بھی ہلاکت کے گڑھے میں گرا.تو یہ الہام کیا ہوئے؟ ایک خوفناک مصیبت ہوئی جس کا انجام موت ہے.اور نیز یہ اسلام پر بھی ایک داغ ہے کہ بنی اسرائیل میں تو ایسے یقینی الہام ہوتے تھے جن کی وجہ سے حضرت موسیٰ ؑ کی ماں نے اپنے معصوم بچے کو دریا میں ڈال دیا اور اس الہام کی سچائی میں کچھ شک نہ کیا اورظنّی نہ سمجھا.اور خضر نے ایک بچہ کو قتل بھی کر دیا.مگر اس اُ مت مرحومہ کو وہ مرتبہ بھی نہ ملا جو بنی اسرائیل کی عورتوں کو مل گیا.پھر اس آیت کے کیا معنے ہوئے کہ3 3 ۱.کیا اُنہیں ظنّی الہاموں کا نام انعام ہے جو شیطان اور رحمن میں مشترک ہیں.جائے شرم.اور مذکورہ بالا سوال کا دوسرا جواب یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے واقعات
کی پیشگوئیاں اگرچہ خدا کے مرسلوں کی صداقت کی وہ بھی ایک کافی دلیل ہیں کیونکہ مقدار اور کیفیت کے لحاظ سے ان پیشگوئیوں میں بھی دوسرے لوگ ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے تا ہم جن لوگوں پر وسوسہ اور وہم غالب ہے وہ کسی نہ کسی وہم میں گرفتار ہو جاتے ہیں.مثلاً اگر کسی مامور من اللہ کی دُعا سے کسی کے گھر میں لڑکا پیدا ہو یا وہ مامور لڑکا پیدا ہونے کی خبر دے اور لڑکا پیدا ہو جائے تو بہت سے لوگ بول اُٹھتے ہیں کہ یہ کوئی خاص نشان نہیں بہتیری عورتوں کو بھی اپنی نسبت یا ہمسایہ عورت کی نسبت خوابیں آجاتی ہیں کہ اس کے گھر میں لڑکا پیدا ہوگا.تو پھر لڑکا بھی پیدا ہو جاتا ہے تو کیا اُس عورت کو خدا کا نبی یا رسول یا محدّث مان لیا جائے؟ اور گو ایسے تو ہمات میں یہ لوگ جھوٹے ہیں مگر جاہلوں کی زبان کون بند کرے؟ اور جھوٹے اس لئے ہیں کہ ہم یہ تو نہیں کہتے کہ کسی ایک قول اور شاذ و نادر واقعہ سے کسی کا منجانب اللہ ہوناؔ ثابت ہو جاتا ہے تا ہر ایک خواب دیکھنے والا خدا کا برگزیدہ سمجھا جائے بلکہ اوّل دعویٰ چاہیئے پھر ایسی پیشگوئیاں چاہئیں جو اپنی اپنی کمیّت اور کیفیّت کی رُو سے اُس حد تک پہنچ چکی ہوں کہ جو معمولی انسانوں کی خوابوں یا الہاموں کی شراکت اُن کے ساتھ ممتنع ہو.جیسا کہ ایسی پیشگوئیاں چھوٹے چھوٹے واقعات کے متعلق جو میرے ذریعہ سے خدا نے پوری کیں اُن کا عدد کئی ہزار تک پہنچتا ہے اَور کون ہے جس نے تعداد اور صفائی کے لحاظ سے اُن کا مقابلہ کر کے دکھلایا.چند سال ہوئے ہیں کہ ایک بدقسمت نادان نے اعتراض کیا تھا کہ مولوی حکیم نورالدین صاحب جو اِس قدر اخلاص رکھتے ہیں اُن کا لڑکا فوت ہوگیا ہے.یہ اعتراض اگرچہ نِرا تعصّب اور جہالت کی وجہ سے تھا کیونکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گیارہ لڑکے فوت ہوئے تھے مگر میری دُعا پر خدا نے مجھ پر ظاہر کیا کہ مولوی حکیم نورالدین صاحب کے گھر میں لڑکا پیدا ہوگا اور اس کے بدن پر پھوڑے نمودار ہو جائیں گے تا اس بات کا نشان ہو
کہ یہ وہی لڑکا ہے جو دُعا کے ذریعہ سے پیدا ہوا.پس ایسا ہی وقوع میں آیا.اور تھوڑے ہی دنوں کے بعد مولوی صاحب کے گھر میں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام عبدالحی رکھا گیا.اور ؔ اُس کی پیدائش کے زمانہ کے قریب ہی بہت سے پھوڑے اُس کے بدن پر نکل آئے جن کے داغ اب تک موجود ہیں.یہ پھوڑے خدا نے اس لئے اُس کے بدن پر پیدا کئے تا کسی کو یہ وہم پیدا نہ ہو کہ یہ اتفاقی معاملہ ہے دُعا کا اثر نہیں.اور نہ اس کو پیشگوئی پر دلالت قطعی ہے جیسا کہ بعض اوقات ایسا اتفاق ہو جاتا ہے کہ چند آدمی ایک کسی غائب دوست کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ اس وقت آتے تو اچھا تھا اور ابھی وہ ذکر شروع ہی ہوتا ہے کہ وہ خود بخود آجاتے ہیں.تب لوگ کہتے ہیں.آیئے صاحب ابھی ہم آپ کا ذکر ہی کررہے تھے کہ آپ آہی گئے.سو خدا نے اِس پیشگوئی کے ساتھ پھوڑوں کا نشان بتلا دیا تا معلوم ہو کہ وہ لڑکا دُعا کے اثر سے پیدا ہوا ہے نہ اتفاقی طور پر.ایسے ہی ہزارہا میرے پاس نمونے ہیں مگر افسوس مَیں اس مختصر رسالہ میں ان کا ذکر نہیں کر سکتا.جیسا کہ مَیں ابھی بیان کر چکا ہوں چھوٹے چھوٹے واقعات کی پیشگوئیاں جبکہ ہزاروں تک ان کی تعداد پہنچ جائے تو اس بات کی قطعی دلیل ٹھہرتی ہیں کہ جس شخص کے ہاتھ پر وہ پیشگوئیاں ظاہر ہوئی ہیں اور جو منجانب اللہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے وہ درحقیقت منجانبؔ اللہ ہے.لیکن جن کے دلوں میں شک اور وسوسہ کی مرض ہے وہ پھر بھی شبہات سے باز نہیں آتے اورفی الفور کہہ دیتے ہیں کہ فلاں فقیر نے بھی تو ایسی ہی کرامت دکھلائی تھی اور فلاں جوتشی صاحب نے بھی کچھ ایسا ہی فرمایا تھا جو سچ سچ نکلا.اور اس طرح پر نہ وہ صرف خود گمراہ ہوتے ہیں بلکہ لوگوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں.اور یہ نادان آنکھ تو رکھتے ہیں مگر وہ آنکھ ہر ایک گوشہ کو دیکھ نہیں سکتی.اور دل تو رکھتے ہیں مگر وہ دل ہر ایک پہلو کو سوچ نہیں سکتا.ہم نے کب اور کس وقت کہا کہ
بجز ہمارے اَور کسی کو کوئی خواب نہیں آتی اور نہ کوئی الہام ہوتا ہے بلکہ ہمارا تجربہ تو یہاں تک ہے کہ بعض وقت ایک کنجری کو بھی جس کا دن رات زناکاری پیشہ ہے سچے خواب آسکتے ہیں.ایک چور بھی جس کا پیشہ بیگانہ مال کا سرقہ ہے بذریعہ خواب کسی سچے واقعہ پر اطلاع پا سکتا ہے.ہمارا دعویٰ جس کو ہم بار بار لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایسی خوابیں اور ایسے الہام جو کمیّت اور کیفیّت کے لحاظ سے ہزاروں تک اُن کی نوبت پہنچ گئی ہو اور کوئی اُن کا مقابلہ نہ کرسکتا ہو یہ مرتبہ صرف ان لوگوں کو ملتا ہے جن کو عنایت الٰہی نے خاص طور پر اپنا برگزیدہ کر لیا ہے دوسرے کو ہرگز نہیں ملتا اوریہ کہ دوسروؔ ں کو شاذ و نادر طور پر کوئی سچی خوابیں آتی ہیں یا الہام ہوتا ہے.یہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے نوع انسان کی بھلائی کے لئے ہے کیونکہ اگر وحی اور الہام کا دوسرے لوگوں پرقطعاً دروازہ بند رہتا تو خدا کے رسولوں پر کامل طور پر یقین کرنا اُن کے لئے مشکل ہو جاتا اور وہ ہرگز سمجھ نہ سکتے کہ درحقیقت اِن نبیوں پر وحی نازل ہوتی ہے یا فریب ہے یا صرف وساوس میں مبتلا ہیں کیونکہ انسان کی یہ عادت ہے کہ جس بات کا اس کو نمونہ نہیں دیا جاتا وہ پورے طور پر اس بات کو سمجھ نہیں سکتا اور آخر بدظنّی پیدا ہو جاتی ہے.اسی وجہ سے شراب خوار قومیں یورپ اور امریکہ کی جن کے دماغ بباعث شراب کے خراب ہو جاتے ہیں اکثر سچّی خواب کے وجود سے بھی منکر ہیں کیونکہ اپنے پاس نمونہ نہیں رکھتے.پس اِسی مصلحت سے کوئی سچی خواب اور کوئی سچا الہام نمونہ کے طور پر لوگوں کو عام طور پر دیا گیا تا جس وقت اُن میں کوئی نبی ظاہر ہو تو دولتِ قبول سے محروم نہ رہیں اور اپنے دلوں میں سمجھ لیں کہ یہ ایک واقعی حقیقت ہے جس سے چاشنی کے طور پر ہمیں بھی کچھ دیا گیا ہے.صرف اتنا فرق ہے کہ یہ معمولی لوگ ایک گدا پیشہ کی مانند ہیں جس کے پاس چند روپے یا چند پیسے ہیں.مگر خدا کے مُرسل اور خدا کے نبی وہ رُوحانی ملک کے*