Language: UR
<p>حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ کتاب ۱۹۰۳ء کی تصنیف ہے۔ اِس کے دو حصے ہیں۔ حصّہ اردو حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ رئیس اعظم خوست افغانستان اور ان کے شاگرد رشید حضرت میاں عبدالرحمن صاحبؓ کی شہادت کے واقعات پر مشتمل ہے۔ حصّہ عربی تین رسائل پر مشتمل ہے۔ پہلا رسالہ ’الوقت وقت الدعاء لاوقت الملاحم و قتل الاعداء‘ دوسرا رسالہ ’ذکر حقیقت الوحی و ذرایع حصولہ‘ اور تیسرا رسالہ ’علامات المقربین‘ کے نام سے شامل ہے۔</p><p>تذکرۃ شہادتین کا بنیادی موضوع جماعت کے پہلے دو شہداء حضرت میاں عبدالرحمن اور حضرت صاحبزادہ عبداللطیف رضی اللہ تعالی عنہما کے واقعات قبولِ احمدیت و حالات واقعہ شہادت ہے۔ شہادت کے یہ دونوں واقعات حضور علیہ السلام کے الہامات مندرجہ براہین احمدیہ شاطان تذبحان کل من علیھا فان کے مطابق ظہور میں آئے۔ اس لحاظ سے یہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا بہت بڑا نشان ہیں۔ حضور علیہ السلام نے اس ضمن میں ان تمام دلائل کی تفصیل بھی بیان فرمائی ہے جو حضرت صاحبزادہ صاحب رضی اللہ عنہ کی قبول احمدیت کا باعث بنے۔ خاص طور پر حضرت عیسیؑ بن مریم کی سولہ خصوصیات میں اپنی مشابہت کا تفصیلاً ذکر فرمایا ہے۔</p><p>شہادت کے دلگراز واقعات بیان فرمانے کے بعد حضور علیہ السلام نے اپنی جماعت کو نصیحت فرماتے ہوئے اخروی زندگی کی تیاری کرنے اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور ساتھ ہی ان عقائد کا ایک اختصار کے ساتھ ذکر ہے جو جماعت احمدیہ کا امتیازی نشان ہیں۔</p>
ترتیب روحانی خزائن جلد ۲۰ ۱.تذکرۃ الشہادتین............۱ ۲.سیرۃ الابدال...............۱۲۹ ۳.لیکچر لاہور..................۱۴۵ ۴.اسلام (لیکچر سیالکوٹ)............۲۰۱ ۵.لیکچر لدھیانہ...............۲۴۹ ۶.رسالہ الوصیت...............۲۹۹ ۷.چشمہ مسیحی..................۳۳۳ ۸.تجلیاتِ الٰہیہ...............۳۹۳ ۹.قادیان کے آریہ اور ہم.........۴۱۷ ۱۰.احمدی اور غیراحمدی میں کیا فرق ہے...۴۶۱
نحمدہ و نصلی علٰی رسولہ الکریم تعارف (از سید عبدالحی صاحب فاضل ایم اے) روحانی خزائن کی جلدنمبر۲۰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی مندرجہ ذیل تصانیف پر مشتمل ہے.۱.تذکرۃ الشہادتین ۲.سیرت الابدال ۳.لیکچر لاہور ۴.لیکچر سیالکوٹ ۵.لیکچر لدھیانہ ۶.الوصیت ۷.چشمۂ مسیحی ۸.تجلیات الٰہیہ ۹.قادیان کے آریہ اور ہم ۱۰.احمدی اور غیراحمدی میں کیا فرق ہے.ذیل میں ان کتب کا مختصر تعارف بھی پیش کیا جاتا ہے.۱.تذکرۃ الشہادتین حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ کتاب ۱۹۰۳ء کی تصنیف ہے.اِس کے دو حصے ہیں.حصّہ اردو حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ رئیس اعظم خوست افغانستان اور ان کے شاگرد رشید حضرت میاں عبدالرحمن صاحبؓ کی شہادت کے واقعات پر مشتمل ہے.حصّہ عربی تین رسائل پر مشتمل ہے.پہلا رسالہ ’’الوقت وقت الدعاء لا وقت الملاحم و قتل الاعداء‘‘ دوسرا رسالہ ’’ذکر حقیقۃ الوحی و ذرائع حصولہ ‘‘ اور تیسرا رسالہ ’’علامات المقربین‘‘ کے نام سے شامل ہے.تذکرۃ الشہادتین کا بنیادی موضوع جماعت کے پہلے د۲و شہداء حضرت میاں عبدالرحمن و حضرت صاحبزادہ عبداللطیف رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے واقعات قبولِ احمدیت و حالات واقعۂ شہادت ہے.شہادت کے یہ دونوں واقعات حضور علیہ السلام کے الہامات مندرجہ براہین احمدیہ شاتان تذبحان کل من علیھا فان کے مطابق ظہور میں آئے.اس لحاظ سے یہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا بہت بڑا نشان ہیں.حضور علیہ السلام نے اس ضمن میں ان تمام دلائل کی تفصیل بھی بیان فرمائی ہے جو حضرت صاحبزادہ صاحب رضی اﷲ عنہ کی قبول احمدیت کا باعث بنے.خاص طور پر حضرت عیسیٰ ؑ بن مریم کی سولہ خصوصیات میں اپنی مشابہت کا تفصیلاً ذکر فرمایا ہے.
شہادت کے دلگداز واقعات بیان فرمانے کے بعد حضور علیہ السلام نے اپنی جماعت کو نصیحت فرماتے ہوئے اخروی زندگی کی تیاری کرنے اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور ساتھ ہی ان عقائد کا اختصار کے ساتھ ذکر ہے جو جماعت احمدیہ کا امتیازی نشان ہیں.حضور علیہ السلام نے جہاں اپنی صداقت کے بہت سے دلائل بیان فرمائے ہیں وہاں قرآنی دلیل 3 ۱ کی پیروی میں بڑی تحدی کے ساتھ فرمایا:.’’تم کوئی عیب افترا یا جھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے تاتم یہ خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افترا کا عادی ہے یہ بھی اس نے جھوٹ بولا ہو گا.کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے؟ پس یہ خدا کا فضل ہے کہ جو اس نے ابتداء سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے.(تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد نمبر۲۰ صفحہ ۶۴ ) پھر حضور علیہ السلام سِلسلہ احمدیہ کے روشن مستقبل کے متعلق پیشگوئی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.’’اے تمام لوگو سُن رکھوکہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا وے گا اور حجت اور برہان کے رُو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزّت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.‘‘ (تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۶۶) ’’تذکرۃ الشہادتین‘‘ کا عربی حصہ تین رسائل پر مشتمل ہے.۱.الوقت وقت الدعاء لاوقت الملاحم و قتل الاعداء اس رسالہ میں حضور علیہ السلام نے اس امر کو پیش فرمایا ہے کہ اسلام کی اشاعت تلوار کی محتاج نہیں.خاص طور پر اس زمانہ میں اﷲ تعالیٰ نے مسیح موعود کے لئے دعا کو آسمانی حربہ قرار دیا ہے اور انبیاء کی پیشگوئیاں بھی ہیں کہ مسیح موعود دعا سے فتح پائے گا اور اس کے ہتھیار براہین و دلائل ہوں گے.حضور علیہ السلام
نے اس کی تائید میں یہ امر بھی پیش فرمایا ہے کہ اگر خدا تعالےٰ کا منشاء یہی ہوتا کہ اس زمانہ میں مسلمان مذہبی لڑائیاں کریں تو وہ اسلحہ سازی اور حربی فنی علوم میں مسلمانوں کو باقی اقوام پر برتری بخشتا.حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:.’’انّھا ملحمۃ سلاحھا قلم الحدید لا السیف و المدیٰ‘‘ (تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد نمبر۲۰ صفحہ ۸۸ ) کہ شیطان سے اس آخری جنگ کا ہتھیار تلوار نہیں بلکہ قلم ہے.حضور علیہ السلام نے اس رسالہ میں اپنے دعویٰ مسیح موعود اور دعویٰ نبوت کو بھی پیش فرمایا ہے دعویٰ ء نبوت کے سِلسلہ میں حضور علیہ السلام نے ایک خاص اعتراض کا ذکر فرمایا ہے.یہ سوال حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید رضی اﷲ عنہ نے بھی دریافت فرمایا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ امتِ محمدیہ میں سوائے مسیح موعود کے خلفائے راشدین و غیرھم کو نبی کا نام نہیں دیا گیا؟ حضورؑ فرماتے ہیں کہ خلفاء کو نبی کا نام نہ دیئے جانے کی وجہ یہ تھی کہ ختمِ نبوت کی حقیقت لوگوں پر مشتبہ نہ ہو جائے.لیکن جب ایک زمانہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت پر گذر گیاتو اﷲ تعالیٰ نے سِلسلۂ محمدیہ کو سِلسلۂ موسویہ سے تشبیہ تام دینے کی خاطر مسیح موعود کو نبی کا نام دے کر مبعوث فرمایا.(تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد نمبر۲۰ صفحہ۸۷ترجمہ) ۲.دوسرا رسالہ ’’ذکر حقیقۃ الوحی و ذرائع حصولہ‘‘ کے نام سے مختصر سا رسالہ ہے جس میں حضور علیہ السلام نے وحی کی حقیقت اور اس کے حصول کے ذرائع بیان فرماتے ہوئے ان صفات کا تفصیل سے ذکر فرمایا ہے جو صاحبِ وحی و الہام میں پائی جانی ضروری ہیں.۳.تیسرا رسالہ ’’علامات المقربین‘‘ بھی دراصل دوسرے عربی رسالہ کا تسلسل ہی ہے اس میں حضور علیہ السلام نے مقربین بارگاہ الٰہی کی جملہ صفات کو نہایت فصیح و بلیغ عربی میں تفصیل سے بیان فرمایا ہے.حضور نے اس رسالہ میں بھی مسیح موعود اور ذوالقرنین ہونے کا دعویٰ پیش فرمایا ہے.۲.سیرۃ الابدال عربی زبان میں یہ کتاب دسمبر ۱۹۰۳ء کی تصنیف ہے اور اپنے مضمون میں یہ رسالہ ’’علامات المقربین‘‘
کا ہی تسلسل ہے.اس کتاب میں بھی حضورؑ نے مامورین و مصلحین ربّانی کی جملہ صفات، اخلاق عالیہ اور برکات کی تفصیل بیان فرمائی ہے جو مامورین کی صداقت کے ابدی معیارہیں اور یہ تمام امور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اپنی ذات پاک میں بدرجۂ اتم پائے جاتے ہیں.’’سیرۃ الابدال‘‘ عربی زبان کا ایک بے نظیر شاہکار ہے جو اپنی فصاحت و بلاغت اور محاسن لفظی و معنوی میں بے مثل ہے.۳.لیکچر لاہور اسلام اور اس ملک کے دوسرے مذاہب یہ حضور علیہ السلام کا ایک لیکچر ہے جو ۳؍ ستمبر ۱۹۰۴ء کو لاہور کے ایک عظیم الشان جلسہ میں پڑھا گیا تھا.یہ ’’لیکچر لاہور‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہے.اِس لیکچر میں حضور نے اسلام ، ہندو مذہب اور عیسائیت کی تعلیمات کا مو ازنہ پیش فرما کر اسلامی تعلیمات کی برتری ثابت فرمائی ہے.حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ موجودہ زمانہ میں گناہ کی کثرت کا اصل سبب معرفتِ الٰہیہ کی کمی ہے.اِس کا علاج نہ عیسائیوں کے کفارہ سے ممکن ہے نہ وید کی بیان کردہ تعلیمات سے.اور معرفت کاملہ جو حقیقتاً خدا تعالیٰ کے مکالمہ و مخاطبہ سے ہی حاصل ہونی ممکن ہے اور اسلام کے سوا کسی دوسرے مذہب میں نہیں مل سکتی کیونکہ ہندوؤں اور عیسائیوں کے نزدیک وحی و الہام کا دروازہ بند ہو چکا ہے.مذہب کے د۲و حصّے ہوتے ہیں.عقائد اور اعمال.عقائد میں سے بنیادی عقیدہ اﷲ تعالیٰ کی ذات اور صفات کا عقیدہ ہے.حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسلام کا یہ بنیادی عقیدہ پیش فرما کر عیسائیت کی پیش کردہ تثلیث اور ویدوں کے عقیدہ رُوح و مادہ کے ازلی اور غیر مخلوق ہونے کی تردید فرمائی ہے.اعمال کے متعلق قرآن کریم کی آیت 3 3 ۱ کو جامع قرار دیتے ہوئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حقوق العباد کے تین مراتب بیان فرمائے ہیں اور بتایا ہے کہ یہ تعلیم دوسرے مذاہب میں نہیں ہے.حضور علیہ السلام نے مثال کے طور پر اسلام اور عیسائیت کی عفو و انتقام کے متعلق تعلیمات کا باہمی موازنہ فرما کر انجیلی تعلیمات کا غیر معقول ہونا ثابت فرمایا ہے اور آریوں کے عقیدہ تناسخ اور عیسائیوں کے عقیدہ جہنم کے دائمی ہونے کا ردّ فرما کر حضورؑ نے اسلامی تعلیمات کی برتری اور اسلام کے محاسن کو نہایت
خوبصورت انداز میں پیش فرمایا ہے.آخر میں حضورؑ نے اپنے دعویٰ اور دلائل اور اپنی پیشگوئیوں کا ذکر فرمایا ہے جو پوری ہو گئیں.۴.اسلام (لیکچر سیالکوٹ) یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک لیکچر ہے جو ۲؍ نومبر ۱۹۰۴ء سیالکوٹ کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے ایک کثیر مجمع میں پڑھا گیا.یہ ’’لیکچر سیالکوٹ‘‘ کے نام سے موسوم ہے.اِس لیکچر میں حضور علیہ السلام نے اسلام اور دوسرے مذاہب کا موازنہ کرتے ہوئے اسلام کی حقانیت اور زندگی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ تمام مذاہب ابتداء میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہی تھے لیکن اسلام کے ظہور کے بعد اﷲ تعالیٰ نے باقی تمام مذاہب کی نگہداشت چھوڑ دی ہے جبکہ اسلام میں مجددین و مصلحین کا سِلسلہ برابر جاری ہے.چنانچہ اِسی سِلسلہ میں اﷲ تعالیٰ نے چودھویں صدی میں بھی دینِ اسلام کی تجدید کے لئے ایک مامور کو مبعوث فرمایا ہے.حضور علیہ السلام نے اس لیکچر میں پہلی مرتبہ ہندوؤں کے لئے کرشن ہونے کا دعویٰ پیش فرمایا ہے.اور راجہ کرشن کا ذکر ان الفاظ میں حضورؑ فرماتے ہیں:.’’ راجہ کرشن جیسا کہ میرے پر ظاہر کیا گیا ہے درحقیقت ایک ایسا کامل انسان تھا جس کی نظیر ہندوؤں کے کسی رشی اور اوتار میں نہیں پائی جاتی اور اپنے وقت کا اوتار یعنی نبی تھاجس پر خدا کی طرف سے رُوح القدس اُترتا تھا.‘‘ (لیکچر سیالکوٹ.روحانی خزائن جلد نمبر۲۰صفحہ ۲۲۸) پھر آپ نے بحیثیت کرشن آریہ صاحبان کو ان کی چند بنیادی غلطیوں کی طرف توجہ دلائی ہے جن میں سے سب سے پہلی یہ ہے کہ وہ ارواح اور مادہ کے ذرّات کو ازلی اور غیر مخلوق مانتے ہیں.حضورؑ فرماتے ہیں کہ ایسا ماننے سے خدا تعالیٰ کے وجود کی کوئی عقلی دلیل ہاتھ میں نہیں رہتی کیونکہ اگر رُوح و مادہ غیر مخلوق ہیں تو ان کا باہم اتصال و انفصال بھی خود بخود ممکن ہے پھر کسی خدا کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے.دوسری غلطی یہ ہے کہ آریوں نے نجات کو عارضی اور تناسخ کو دائمی قرار دیا ہے.یہ امور خدا تعالیٰ کی صفات قدرت ، رحم و عدل کے سراسر خلاف ہیں.آخر میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے دعاوی کی صداقت کے چند دلائل بیان فرمائے ہیں
جن میں سب سے پہلے وہ علامات ذکر فرمائی ہیں جو قرآن کریم اور احادیث میں مسیح موعود کے ظہور کے لئے مقدّر تھیں اور پھر اپنے الہامات اور پیشگوئیوں کا ذکر فرمایا ہے جو انتہائی مخالف حالات میں دنیا کے سامنے پیش کی گئیں اور آج وہ سب پوری ہو گئی ہیں.اس تقریر کے آخر میں حضورؑ لکھتے ہیں:.’’ہم جنابِ الٰہی میں دُعا کرتے ہیں کہ اس تقریر کو بہتوں کے لئے موجب ہدایت کرے.‘‘ (لیکچر سیالکوٹ.روحانی خزائن جلد نمبر۲۰ صفحہ ۲۴۶) ۵.لیکچر لدھیانہ یہ لیکچر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ۴؍ نومبر ۱۹۰۵ء کو لدھیانہ میں دیا.یہ لدھیانہ وہی شہر ہے جہاں سب سے پہلے حضورؑ کے خلاف فتوٰئے کفر جاری کیا گیا تھا.حضور علیہ السلام نے اِس امر کو اپنی صداقت کا نشان ٹھہرایا ہے کہ علماء نے مل کر اس سِلسلہ کو مٹانے کی کوششیں کیں مگر ان کی کوششوں کا نتیجہ اُلٹ نکلا اور اﷲ تعالیٰ کے الہامات کے مطابق اﷲ تعالیٰ کی تائید و نصرت سِلسلہ کے ساتھ ہی رہی.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:.’’میں اس شہر میں چود۱۴ہ برس کے بعد آیا ہوں اور مَیں ایسے وقت اِس شہر سے گیا تھا جبکہ میرے ساتھ چند آدمی تھے اور تکفیر تکذیب اور دجّال کہنے کا بازار گرم تھا......اِن لوگوں کے خیال میں تھا کہ تھوڑے ہی دنوں میں یہ جماعت مردود ہو کر منتشر ہو جائے گی اور اس سِلسلہ کا نام و نشان مٹ جائے گا.چنانچہ اس غرض کے لئے بڑی بڑی کوششیں اور منصوبے کئے گئے اور ایک بڑی بھاری سازش میرے خلاف یہ کی گئی کہ مجھ پر اور میری جماعت پر کفر کا فتویٰ لکھا گیا اور سارے ہندوستان میں اس فتویٰ کو پھرایا گیا......مگر مَیں دیکھتا ہوں اور آپ دیکھتے ہیں کہ وہ کافر کہنے والے موجود نہیں اورخدا تعالیٰ نے مجھے اب تک زندہ رکھا اور میری جماعت کو بڑھایا.‘‘ (لیکچرلدھیانہ.روحانی خزائن جلد نمبر۲۰ صفحہ ۲۴۹.۲۵۰)
اِس کے بعد حضورؑ تحدّی سے فرماتے ہیں:.’’مَیں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ حضرت آدمؑ سے لے کر اس وقت تک کے کسی مفتری کی نظیر دو جس نے ۲۵ برس پیشتر اپنی گمنامی کی حالت میں ایسی پیشگوئیاں کی ہوں.اگر کوئی شخص ایسی نظیر پیش کر دے تو یقیناً یاد رکھو کہ یہ سارا سِلسلہ اور کاروبار باطل ہو جائے گا.‘‘ (لیکچرلدھیانہ.روحانی خزائن جلد نمبر۲۰ صفحہ۲۵۵) اس لیکچر میں مخاطب اکثر مسلمان تھے اس لئے حضور علیہ السلام نے اپنا اور اپنی جماعت کا اِسلام کے بنیادی عقائد پر ایمان لانے کا اقرار فرمایا ہے اور تفصیل کے ساتھ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی وفات کو کتاب و سنت ، اجماع اور قیاس سے ثابت فرمایا ہے.آخر میں حضور علیہ السلام نے اہل اسلام کو اسلام کے تابناک مستقبل کی خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا ہے:.’’اب وقت آ گیا ہے کہ پھر اسلام کی عظمت شوکت ظاہر ہو اور اِسی مقصد کو لے کر مَیں آیا ہوں...مَیں بڑے زور سے اور پورے یقین اور بصیرت سے کہتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ دوسرے مذاہب کو مٹا دے اور اسلام کو غلبہ اور قوت دے.‘‘ (لیکچرلدھیانہ.روحانی خزائن جلد نمبر۲۰ صفحہ ۲۹۰) ۶.الوصیّۃ یہ دسمبر ۱۹۰۵ء کی تصنیف ہے.اس رسالہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وہ تمام الہامات درج فرمائے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی وفات قریب ہے.نبی کی وفات سے اس کی قوم میں جو زلزلہ پیدا ہوتا ہے اُس کے متعلق حضورؑ نے جماعت کو تسلّی دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اﷲتعالیٰ کی قدیم سے یہ سنّت ہے کہ وہ دو۲ قدرتیں دکھلاتا ہے.(۱)پہلی قدرت نبی کا وجود ہوتا ہے (۲) اور نبی کی وفات کے بعد قدرتِ ثانیہ کا ظہور ہوتا ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو کھڑا کیاجنہوں نے اسلام کو نابود ہوتے ہوئے تھام لیا.گویا حضور علیہ السلام نے جہاں اپنی وفات کی خبر دی وہاں ساتھ ہی
خلافت کے ایک دائمی سِلسلہ کی اپنی جماعت میں جاری ہونے کی بشارت بھی دی.حضورؑ نے نہایت واضح الفاظ میں حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی مثال دینے کے بعد فرمایا:.’’وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک مَیں نہ جاؤں.لیکن مَیں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی.‘‘ (الوصیت.روحانی خزائن جلد نمبر۲۰ صفحہ ۳۰۵) ۲.اس رسالہ میں حضور علیہ السلام نے الٰہی منشاء کے ماتحت اشاعتِ اسلام اور تبلیغ احکام قرآ ن کے مقاصد کے لئے ایک دائمی اور مستقل اور روز افزوں نظام کے قیام کا اعلان فرمایا ہے جو نظام الوصیت کے نام سے مشہور ہے.اور یہی آئندہ دنیا کے مختلف اقتصادی نظاموں میں ’’نظامِ نو‘‘ ثابت ہو گا.جس کی رُو سے اشاعتِ اسلام کی خاطر ہر وصیت کرنے والے کو اپنی آمد اور جائیداد کا کم از کم ۱۰.۱ حصہ سِلسلہ کو دینا ہو گا.وصیت کنندہ کا ذاتی طور پر متقی، محرمات سے پرہیز کرنا اور شرک و بدعت سے مجتنب اور سچا اور صاف ہونا بھی شرط ہے.حضور علیہ السلام نے الٰہی منشاء کے تحت ایسے وصیت کرنے والوں کے لئے ایک مقبرہ تجویز فرمایااور فرمایا:.’’مَیں دعا کرتا ہوں کہ خدا اِس میں برکت دے اور اِسی کو بہشتی مقبرہ بنادے اور یہ اس جماعت کے پاک دل لوگوں کی خواب گاہ ہو جنہوں نے درحقیقت دین کو دنیا پر مقدّم کر لیااوردنیا کی محبت چھوڑ دی اور خدا کے لئے ہو گئے اور پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کر لی اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اصحاب کی طرح وفاداری اور صدق کا نمونہ دکھلایا.آمین یا ربّ العالمین‘‘ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰ ، صفحہ ۳۱۶ ) الوصیۃ کے رسالہ کے ساتھ ایک ضمیمہ بھی شامل ہے جس میں وصیت اور بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے کے تفصیلی قواعد خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے درج ہیں.اور آخر میں صدر انجمن احمدیہ قادیان کے اجلاس اوّل منعقدہ ۲۹؍ جنوری ۱۹۰۶ء کی روئیداد بھی درج ہے جو نظام الوصیت کے متعلق ہی ہے.
۷.چشمۂ مسیحی یہ کتاب مارچ ۱۹۰۶ء کی تصنیف ہے.حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بانس بریلی کے ایک مسلمان کی ترغیب پر عیسائیوں کی مشہور کتاب ’’ینابیع الاسلام‘‘ کا جواب تحریر فرمایا ہے.ینابیع الاسلام کے مصنف نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن کریم میں کوئی نئی تعلیم نہیں بلکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے (نعوذ باﷲ) گذشتہ انبیاء کی کتب مقدسہ سے سرقہ کرکے قرآن شریف کو مرتب کیا ہے.حضور علیہ السلام نے جواباً اس میں یہودی علماء کے حوالوں سے یہ ثابت فرمایا ہے کہ انجیل لفظاً بلفظٍ طالمود سے نقل ہے.ایک ہندو نے یہ ثابت کیا ہے کہ انجیل بدھ کی تعلیم کا سرقہ ہے اور خود یورپ کے عیسائی محققین نے لکھا ہے کہ انجیل کی بہت سی عبارتیں اور تمثیلیں یوز آسف کے صحیفہ سے ملتی ہیں.تو کیا اب مسیح کی تعلیمات کو بھی مسروقہ ہی قرار دے دیا جائے.حضور علیہ السلام نے لکھا ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم کا اگر کوئی حصہ قدیم نوشتوں سے ملتا ہے تو یہ وح ئ الٰہی میں توارد ہے ورنہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تو محض اُمّی تھے اور عربی بھی نہیں پڑھ سکتے تھے چہ جائیکہ یونانی یا عبرانی.قرآن کریم ایک زندہ معجزہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس میں جو گذشتہ خبریں اور قصّے ہیں وہ بھی اپنے اندر پیشگوئیوں کا رنگ رکھتے ہیں اور پھر اس کی فصاحت و بلاغت بھی ایسا معجزہ ہے کہ آج تک کوئی اس کی نظیر پیش نہیں کر سکا.اس کے بعد حضور علیہ السلام نے موجودہ عیسائیت کے عقائد تثلیث ، الوہیت مسیح ؑ اورکفارہ وغیرہ کا رد پیش کیا ہے اور اسلام اور عیسائیت کی تعلیمات دربارہ عفو و انتقام کا موازنہ پیش فرمایا ہے.چشمۂ مسیحی کے خاتمہ کے طور پر ایک رسالہ نجاتِ حقیقی کے نام سے شامل ہے جس میں حضور علیہ السلام نے یہ ثابت فرمایا ہے کہ عیسائیوں کے نزدیک نجات کے معنے یہ ہیں کہ انسان گناہ کے مؤاخذہ سے رہائی پا جائے.یہ محدود اور منفی معنے ہیں دراصل نجات اس دائمی خوشحالی کے حصول کا نام ہے جو خدا تعالیٰ کی محبت اور معرفت اور تعلق سے حاصل ہوتی ہے.معرفت کی بنیاد اس امر پر ہے کہ خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کا صحیح علم ہو.عیسائیت کے عقائد تثلیث اور الوہیت مسیح معرفت حقیقی کے خلاف ہیں.حضور علیہ السلام نے ثابت فرمایا ہے کہ عیسائیت کے موجودہ عقائد کا خدا کے نبی عیسیٰ بن مریم علیہ السلام سے کوئی تعلق نہیں یہ سب پولوس کی ذہنی تخلیق ہیں.
۸.تجلّیاتِ الٰہیہ حضور علیہ السلام کا یہ رسالہ مارچ ۱۹۰۶ء کی تصنیف ہے.لیکن پہلی بار ۱۹۲۲ء میں شائع ہوا.اِس میں حضور کے الہام ’’چمک دکھلاؤں گا تم کو اس نشان کی پنج بار‘‘ کے مطابق آئندہ پانچ دہشت ناک زلازل کی پیشگوئی فرمائی ہے.اس رسالہ میں حضورؑ نے قہری نشانات کے نازل ہونے کی حکمت بھی بیان فرمائی ہے.۹.قادیان کے آریہ اور ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ کتاب جنوری ۱۹۰۷ء میں تحریر فرمائی اس کتاب کے تحریر فرمانے کی وجہ یہ تھی کہ حضورؑ نے دسمبر ۱۹۰۶ء کے سالانہ جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے یہ بیان فرمایا تھا کہ قادیان کے تمام ہندو خاص طور پر لالہ شرمپت اور لالہ ملاوامل میرے بیسیوں نشانات کے گواہ ہیں اور بہت ساری پیشگوئیاں جو آج سے پینتیس ۳۵ برس پہلے ان کے سامنے کی گئی تھیں آج پوری ہوئی ہیں.قادیان کے آریوں کی طرف سے ایک اخبار ’’شبھ چنتک‘‘ نکلا کرتا تھا اس میں ہمیشہ ہی اسلام اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف نہایت ناشائستہ زبان استعمال کی جاتی تھی.اس اخبار میں لالہ شرمپت اور لالہ ملاوامل کی طرف منسوب کر کے ایک اعلان شائع کیا گیا کہ ہم مرزا صاحب کے کسی بھی نشان کے گواہ نہیں ہیں.حضور علیہ السلام نے اس رسالہ میں اپنے بہت سے ایسے نشانات کی تفصیل بیان فرمائی ہے جن کا تعلق مذکورہ دونوں آریہ صاحبان سے ذاتی طور پر تھا یا کم از کم وہ ان کے عینی گواہ تھے.حضور علیہ السلام نے یہ نشانات پیش فرما کر لکھا:.’’مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ سب بیان صحیح ہے اور کئی دفعہ لالہ شرمپت سُن چکا ہے اور اگر مَیں نے جھوٹ بولا ہے تو خدا مجھ پر اور میرے لڑکوں پر ایک سال کے اندر اس کی سزا نازل کرے.آمین و لعنۃ اﷲ علی الکاذبین.ایسا ہی شرمپت کو بھی چاہئے کہ وہ بھی میری اس قسم کے مقابل پر قسم کھاوے اور یہ کہے کہ اگر مَیں نے اس قسم میں جھوٹ بولا ہے تو خدا مجھ پر اور میری اولا دپر ایک سال کے اندر اس کی سزا وارد کرے.آمین و لعنۃ اﷲ علی الکاذبین.‘‘ (قادیان کے آریہ اور ہم ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۴۲ )
ایسا ہی مطالبہ حضور علیہ السلام نے لالہ ملاوامل سے بھی فرمایا ہے.(صفحہ ۴۴۳جلد۲۰) آخر میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آریوں کے پرمیشر اور اس کی صفات کے متعلق عقائد پر جرح فرمائی ہے اور سب سے آخر میں اسلام کی صداقت اور آریہ مذہب کی حقیقی تصویر کو اپنی ایک نظم میں پیش فرمایا ہے.۱۰.احمدی اور غیر احمدی میں کیا فرق ہے اعلیٰ حضرت حجۃ اللہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک تقریر ہے جو آپ نے ۲۷؍دسمبر ۱۹۰۵ء کو بعد نماز ظہر و عصر مسجد اقصیٰ میں فرمائی.۲۶؍دسمبر ۱۹۰۵ء کی صبح کو مہمان خانہ جدید کے بڑے ہال میں احباب کا ایک بڑا جلسہ اس غرض کے لئے منعقد ہوا تھا کہ مدرسہ تعلیم الاسلام کی اصلاح کے سوال پر غور کریں.اس میں بہت سے بھائیوں نے مختلف پہلوؤں پر تقریریں کیں.ان تقریروں کے ضمن میں ایک بھائی نے اپنی تقریر کے ضمن میں کہا کہ ’’جہاں تک میں جانتا ہوں حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ و السلام کے سلسلہ اور دوسرے مسلمانوں میں صرف اسی قدر فرق ہے کہ وہ مسیح ابن مریم کا زندہ آسمان پر جانا تسلیم کرتے ہیں اور ہم یقین کرتے ہیں کہ وہ وفات پا چکے ہیں.اس کے سوا اور کوئی نیا امر ایسا نہیں جو ہمارے اور ان کے درمیان اصولی طور پر قابل نزاع ہو‘‘ اس سے چونکہ کامل طور پر سلسلہ کی بعثت کی غرض کا پتہ نہ لگ سکتا تھا بلکہ ایک امر مشتبہ اور کمزور معلوم ہوتا تھا.اس لئے ضروری امر تھا کہ آپؑ اس کی اصلاح فرماتے.چونکہ اس وقت کافی وقت نہ تھا اس لئے ۲۷؍دسمبر کو بعد ظہروعصر آپ نے مناسب سمجھا کہ اپنی بعثت کی اصل غرض پر کچھ تقریر فرمائیں.آپ کی طبیعت بھی ناساز تھی.محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ نے احمدی اور غیراحمدی میں فرق کے بارے میں تقریر فرمائی.خاکسار سید عبد الحی
اس زمانہ میں اگرچہ آسمان کے نیچے طرح طرح کے ظلم ہورہے ہیں مگر جس ظلم کو ابھی میں ذیل میں بیان کروں گا وہ ایک ایسا دردناک حادثہ ہے کہ دل کو ہلا دیتا ہے.اور بدن پر لرزہ ڈالتا ہے.اس امر کو باترتیب بیان کرنے کے لئے پہلے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے زمانہ کی موجودہ حالت کو دیکھ کر اور زمین کوطرح طرح کے فسق اور معصیت اور گمراہی سے بھرا ہوا پاکر مجھے تبلیغ حق اور اصلاح کے لئے مامور فرمایا.اور یہ زمانہ بھی ایسا تھا کہ....اس دنیا کے لوگ تیرھویں صدی ہجری کو ختم کر کے چودھویں صدی کے سرپر پہنچ گئے تھے.تب میں نے اُس حکم کی پابندی سے عام لوگوں میں بذریعہ تحریری اشتہارات اور تقریروں کے یہ ندا کرنی شروع کی کہ اس صدی کے سر پر جو خدا کی طرف سے تجدید دین کے لئے آنے والا تھا وہ میں ہی ہوں تا وہ ایمان جو زمین پر سے اُٹھ گیا ہے اُس کو دوبارہ قائم کروں اور خدا سے قوت پاکر اُسی کے ہاتھ کی کشش سے دنیا کو صلاح اور تقویٰ اور راستبازی کی طرف کھینچوں اور ان کی اعتقادی اور عملی غلطیوں کو دور کروں اور پھر جب اس پرچند سال گزرے تو بذریعہ وحی الٰہی میرے پر بتصریح کھولا گیا کہ وہ مسیح جو اس اُمت کے لئے ابتدا سے موعود تھا.اور وہ آخری مہدی جو تنزل اسلام کے وقت اور گمراہی کے پھیلنے کے
زمانہ میں براہ راست خدا سے ہدایت پانے والا اور اُس آسمانی مائدہ کو نئے سرے انسانوں کے آگے پیش کرنے والا تقدیر الٰہی میں مقرر کیا گیا تھا.جس کی بشارت آج سے تیرہ۱۳۰۰ سو برس پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی.وہ میں ہی ہوں.اور مکالمات الٰہیہ اور مخاطبات رحمانیہ اس صفائی اور تواتر سے اس بارے میں ہوئے کہ شک و شبہ کی جگہ نہ رہی.ہر ایک وحی جو ہوتی تھی ایک فولادی میخ کی طرح دِل میں دھنستی تھی اور یہ تمام مکالمات الٰہیہ ایسی عظیم الشان پیشگوئیوں سے بھرے ہوئے تھے کہ روز روشن کی طرح وہ پوری ہوتی تھیں.اور اُن کے تواتر اور کثرت اور اعجازی طاقتوں کے کرشمہ نے مجھے اِس بات کے اقرار کے لئے مجبور کیا کہ یہ اُسی وحدہٗ لاشریک خدا کا کلام ہے جس کا کلام قرآن شریف ہے.اور میں اس جگہ توریت اور انجیل کا نام نہیں لیتا کیونکہ توریت اور انجیل تحریف کرنے والوں کے ہاتھوں سے اس قدر محرف و مبدل ہوگئی ہیں کہ اب ان کتابوں کو خدا کا کلام نہیں کہہ سکتے.غرض وہ خدا کی وحی جو میرے پر نازل ہوئی ایسی یقینی اور قطعی ہے کہ جس کے ذریعہ سے میں نے اپنے خدا کو پایا.اور وہ وحی نہ صرف آسمانی نشانوں کے ذریعہ مرتبہ حق الیقین تک پہنچی بلکہ ہر ایک حصہ اُس کا جب خدا تعالیٰ کے کلام قرآن شریف پر پیش کیا گیا تو اس کے مطابق ثابت ہوا اور اس کی تصدیق کے لئے بارش کی طرح نشان آسمانی برسے.انہیں دنوں میں رمضان کے مہینہ میں سورج اور چاند کا گرہن بھی ہوا جیسا کہ لکھا تھا کہ اس مہدی کے وقت میں ماہ رمضان میں سورج اور چاند کا گرہن ہوگا.اور انہیں ایام میں طاعون بھی کثرت سے پنجاب میں ہوئی جیسا کہ قرآن شریف میں یہ خبر موجود ہے.اور پہلے نبیوں نے بھی یہ خبر دی ہے کہ ان دنوں میں مری بہت پڑے گی اور ایسا ہوگا کہ کوئی گاؤں اور شہر اُس مری سے باہر نہیں رہے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ہورہا ہے.اور خدا نے اُس وقت کہ اِس ملک میں طاعون کا نام و نشان نہ تھا قریباً بائیس۲۲ برس طاعون کے پھوٹنے سے پہلے مجھے اُس کے پیدا ہونے کی خبر دی.پھر اس بارہ میں الہامات بارش کی طرح ہوئے اور تکرار اِن فقرات کا مختلف پیرایوں میں ہوا چنانچہ مندرجہ ذیل وحی میں اِس طرح پر مجھے مخاطب کر کے فرمایا.اتٰی امر اللہ فلا تستعجلوہ بشارۃ تلقاھا النبیون.ان اللّٰہ مع الذین اتقوا
والذین ھم محسنون.انہ قوی عزیز.وانہ غالب علی امرہ ولکن اکثرالناس لایعلمون.انما امرہ اذا اراد شیئًا ان یقول لہ کن فیکون.اتفرّون منی وانا من المجرمین منتقمون.یقولون ان ھذا الا قول البشر و اعانہ علیہ قوم اٰخرون.جاھل او مجنون.قل ان کنتم تحبون اللّٰہ فاتبعونی یحببکم اللّٰہ.انا کفیناک المستھزئین.انی مھین من اراد اھانتک.وانی معین من اراد اعانتک.وانی لایخاف لدیّ المرسلون.اذا جاء نصراللّٰہ والفتح وتمت کلمۃ ربک ھذا الذی کنتم بہ تستعجلون.واذا قیل لھم لا تفسدوا فی الارض قالوا انما نحن مصلحون.الا انہم ھم المفسدون.وان یتخذونک الاھزوا اھٰذا الذی بعث اللّٰہ بل اتیناھم بالحق فہم للحق کارھون.وسیعلم الذین ظلموا ایّ منقلبٍ ینقلبون.سبحانہٗ وتعالٰی عمایصفون.ویقولون لست مرسلا.قل عندی شہادۃ من اللّٰہ فہل انتم تؤمنون.انت وجیہٌ فی حضرتی.اخترتک لنفسی.اذا غضبتَ غضبتُ وکلما احببتَ احببتُ.یحمدک اللّٰہ من عرشہ.یحمدک اللّٰہ ویمشی الیک.انت منی بمنزلۃ لَا یعلمھا الخلق.انت منی بمنزلۃ توحیدی وتفریدی.انت من ماء نا وھم من فشل.الحمدللّٰہ الذی جعلک المسیح ابن مریم.وعلمک مالم تعلم.قالوا انّٰی لک ھٰذا قل ھواللّٰہ عجیب لارآدّ لفضلہٖ.لایسئل عمایفعل وھم یسئلون.ان ربک فعّال لما یرید خلق اٰدم فاکرمہ.اردت ان استخلف فخلقت اٰدم.وقالوا اتجعل فیھا من یفسد فیھا قال انی اعلم ما لا تعلمون.یقولون ان ھذا الااختلاق.قل اللّٰہ ثم ذرھم فی خوضہم یلعبون.وبالحق انزلناہ وبالحق نزل.وماارسلناک الارحمۃ للعالمین.یا احمدی انت مرادی ومعی.سرّک سرّی.شانک عجیب واجرک قریب.انی انرتک واخترتک یاتی علیک زمن کمثل زمن موسٰی.ولا تخاطبنی فی الّذین ظلموا انہم مغرقون.ویمکرون ویمکراللّٰہ واللّٰہ خیرالماکرین.انہ کریم تمشّی امامک وعادی لک من عادی وسوف یعطیک ربّک فترضٰی.انا نرث الارض ناکلھا من اطرافہا.لتنذرقومًا ما انذراٰباء ھم
ولتستبین سبیل المجرمین.قل انی امرت وانا اوّل المومنین.قل یوحٰی الیّ انما اِلٰھکم الٰہ واحد.والخیرکلہ فی القراٰن.لایمسہ الا المطھرون.فبایّ حدیث بعدہ تؤمنون یریدون ان لایتم امرک.واللّٰہ یابی الاان یتم امرک.وماکان اللّٰہ لیتر.کک حتّٰی یمیز الخبیث من الطیب.ھوالذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ وکان وعداللّٰہ مفعولا.انّ وعداللّٰہ اتی.ور.کل ور.کی.یعصمک اللّٰہ من العدا.ویسطو بکل من سطا.حلّ غضبہ علی الارض.ذٰلک بما عصوا وکانوا یعتدون.الامراض تشاع والنفوس تضاع.امرمن السمائِ.امرمن اللّٰہ العزیز الاکرم.ان اللّٰہ لایغیّرما بقومٍ حتّٰی یغیروا ما بانفسہم.انہ اوی القریۃ.لَاعَاصم الیوم الااللّٰہ.اصنع الفلک باعیننا ووحینا.انہ معک ومع اھلک.انی احافظ کل من فی الدار.الاالذین علوا من استکبار واحافظک خاصۃ.سلام قولًا من رب رّحیم.سلام علیکم طبتم.وامتازوا الیوم ایھاالمجرمون.انی مع الرسول اقوم وافطر و اصوم والوم من یلوم.واعطیک مایدوم.واجعل لک انوار القدوم.ولن ابرح الارض الی الوقت المعلوم.انی انا الصاعقۃ وانی انا الرحمٰن ذواللطف والندیٰ.ترجمہ : خدا کا امر آرہا ہے.پس تم جلدی مت کرو.یہ خوشخبری ہے جو قدیم سے نبیوں کو ملتی رہی ہے.خدا اُن کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں یعنی ادب اور حیا اور خوف الٰہی کی پابندی سے اُن ظنی راہوں کو بھی چھوڑتے ہیں.جن میں معصیت اور نافرمانی کا گمان ہو سکتا ہے.اور دلیری سے کوئی قدم نہیں اُٹھاتے بلکہ ڈرتے ڈرتے کسی فعل یا قول کے بجا لانے کا قصد کرتے ہیں.اور خدا اُن کے ساتھ ہے جو اس کے ساتھ اخلاص اور اُس کے بندوں سے نیکی بجا لاتے ہیں.وہ قوی اور غالب ہے.وہ ہریک امر پر غالب ہے مگر اکثرلوگ نہیں جانتے.جب وہ ایک بات کو چاہتا ہے تو کہتا ہے کہ ہو.پس وہ بات ہو جاتی ہے.کیا تم مجھ سے بھاگ سکتے ہو.اور ہم مجرموں سے انتقام لیں گے.کہتے ہیں کہ یہ تو صرف انسان کا قول ہے.اور ان باتوں میں دوسروں نے اس شخص کی مدد کی ہے.یہ تو جاہل ہے یا مجنون ہے.ان کو کہہ دے کہ اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو آؤ
میری پیروی کرو تا خدا بھی تمہیں دوست رکھے.اور جو لوگ تجھے ٹھٹھا کرتے ہیں ہم اُن کے لئے کافی ہیں.میں اس شخص کی اہانت کروں گا جو تیری اہانت کے در پے ہے.اور مَیں اُس شخص کی مدد کروں گا جو تیری مدد کرنا چاہتا ہے.میں ہوں جو میرے پاس ہو کر میرے رسول ڈرا نہیں کرتے.جب خدا کی مدد اور فتح آئے گی اور تیرے رب کا کلمہ پورا ہو جائے گا تو کہا جائے گا کہ یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی کرتے تھے.اور جب اُن کو کہا جاتا ہے کہ زمین پر فساد مت کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرتے ہیں.خبردار ر ہو کہ وہی مفسد ہیں.اور تجھے انہوں نے ہنسی اور ٹھٹھے کی جگہ بنا رکھا ہے.اور ٹھٹھا مار کر کہتے ہیں کہ کیا یہ وہی شخص ہے کہ جو خدا نے مبعوث فرمایا.یہ تو ان کی باتیں ہیں.اور اصل بات یہ ہے کہ ہم نے ان کے سامنے حق پیش کیا.پس وہ حق کے قبول کرنے سے کراہت کررہے ہیں.اور جن لوگوں نے ظلم کیا ہے وہ عنقریب جان لیں گے کہ وہ کس طرف پھیرے جائیں گے.خدا ان تہمتوں سے پاک اور برتر ہے جو اُس پر لگارہے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو خدا کی طرف سے بھیجا ہوا نہیں.ان کو کہہ دے کہ خدا کی میرے پاس گواہی موجود ہے.پس کیا تم ایمان لاتے ہو.تو میری درگاہ میں وجیہ ہے میں نے اپنے لئے تجھے چن لیا.جب تو کسی پر ناراض ہو تو میں اُس پر ناراض ہوتا ہوں اور ہر ایک چیز جس سے تو پیار کرتا ہے میں بھی اُس سے پیار کرتا ہوں.خدا اپنے عرش سے تیری تعریف کرتا ہے.خدا تیری تعریف کرتا ہے اور تیری طرف چلا آتا ہے.تو مجھ سے اُس مرتبہ پر ہے جس کو دنیا نہیں جانتی.تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید.تو ہمارے پانی سے ہے اور وہ لوگ فشل سے.اُس خدا کو حمد ہے جس نے تجھے مسیح ابن مریم بنایااور تجھے وہ باتیں سکھلائیں جن کی تجھے خبر نہ تھی.لوگوں نے کہا کہ یہ مرتبہ تجھے کہاں سے اور کیونکر مل سکتا ہے.ان کو کہہ دے کہ میرا خدا عجیب ہے اس کے فضل کو کوئی ردّ نہیں کر سکتا.جو کام وہ کرتا ہے اُس سے پوچھا نہیں جاتاکہ ایسا کیوں کیا مگر لوگ اپنے اپنے کاموں سے پوچھے جاتے ہیں.تیرا ربّ جو چاہتا ہے کرتا ہے.اُس نے اِس آدم کو پیدا کر کے اُس کو بزرگی دی.میں نے اس زمانہ میں ارادہ کیا کہ اپنا ایک خلیفہ زمین پر قائم کروں.پس میں نے اِس آدم کو پیدا کیا.اور لوگوں نے کہا کہ کیا تو ایسا شخص اپنا خلیفہ بناتا ہے جو زمین پر فساد کرتا ہے یعنی پھوٹ ڈالتا ہے تو خدا نے انہیں کہا کہ جن باتوں کا مجھے علم ہے تمہیں وہ باتیں معلوم نہیں.اور کہتے ہیں کہ یہ ایک بناوٹ ہے.کہہ خدا ہے جس نے یہ سلسلہ قائم کیا.پھر یہ کہہ کر ان کو اپنے لہو و لعب میں چھوڑ دے.
اور ہم نے حق کے ساتھ اس کو اُتارا اور ضرورت حقہ کے موافق وہ اُترا.اور ہم نے تجھے تمام دنیا کے لئے ایک عام رحمت کر کے بھیجا ہے.اے میرے احمد تو میری مراد ہے.اور میرے ساتھ ہے.تیرا بھید میرا بھید ہے.تیری شان عجیب ہے اور اجر قریب ہے.میں نے تجھے روشن کیا اور میں نے تجھے چنا.تیرے پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جیسا کہ موسیٰ پر زمانہ آیا تھا.اور تو ان لوگوں کے بارے میں میری جناب میں شفاعت مت کر جو ظالم ہیں کیونکہ وہ غرق کئے جائیں گے اور یہ لوگ مکر کریں گے اور خدا بھی اُن سے مکر کرے گا اور خدا تعالیٰ بہتر مکر کرنے والا ہے.وہ کریم ہے جو تیرے آگے آگے چلتا ہے اور اُس کو وہ اپنا دشمن قرار دیتا ہے جو تجھ سے دشمنی کرتا ہے.اور وہ عنقریب تجھے وہ چیزیں دے گا جن سے تو راضی ہو جائے گا.ہم زمین کے وارث ہوں گے.اور ہم اُس کو اُس کے طرفوں سے کھاتے جاتے ہیں تاکہ تو اس قوم کو ڈراوے جن کے باپ دادے ڈرائے نہیں گئے اور تاکہ مجرموں کی راہ کھل جائے.کہہ میں مامور ہوں اور میں سب سے پہلے مومن ہوں.کہہ میرے پر یہ وحی نازل ہوتی ہے کہ تمہارا خدا ایک خدا ہے اور تمام خیر قرآن میں ہے.اس کے حقائق معارف تک وہی لوگ پہنچتے ہیں جو پاک کئے جاتے ہیں.پس تم اُس کے بعد یعنی اُس کو چھوڑ کر کس حدیث پر ایمان لاؤگے.یہ لوگ ارادہ کرتے ہیں کہ کچھ ایسی کوشش کریں کہ تیرا امرنا تمام رہ جائے لیکن خدا تو یہی چاہتا ہے کہ تیری بات کو کمال تک پہنچاوے.اور خدا ایسا نہیں ہے کہ قبل اس کے جو پاک اور پلید میں فرق کر کے دکھلاوے تجھے چھوڑ دے.خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو (یعنی اس عاجز کو) ہدایت اور دین حق دے کر اس غرض سے بھیجا ہے تا وہ اس دین کو تمام دینوں پر غالب کرے اور خدا کا وعدہ ایک دن ہونا ہی تھا.خدا کا وعدہ آگیا اور ایک پَیر اُس نے زمین پر مارا اور خلل کی اصلاح کی.خدا تجھے دشمنوں سے بچائے گا اور اُس شخص پر حملہ کرے گا کہ جو ظلم کی راہ سے تیرے پر حملہ کرے گا.اُس کا غضب زمین پر اُتر آیا کیونکہ لوگوں نے معصیت پر کمر باندھی اور وہ حد سے گزر گئے.بیماریاں ملک میں پھیلائی جائیں گی اور طرح طرح کے اسباب سے جانیں تلف کی جائیں گی.یہ امر آسمان پر قرار پاچکا ہے.یہ اُس خدا کا امر ہے جو غالب اور بزرگ ہے.جو کچھ قوم پر نازل ہوا.خدا اُس کو نہیں بدلائے گا.جب تک کہ وہ لوگ اپنے دِلوں کی حالتیں نہ بدلا لیں.
وہ اُس گاؤں کو جو قادیان ہے کسی قدر ابتلا کے بعد اپنی پناہ میں لے لے گا٭.آج خدا کے سوا کوئی بچانے والا نہیں.ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی سے کشتی بنا.وہ قادر خدا تیرے ساتھ اور تیرے لوگوں کے ساتھ ہے.میں ہر ایک کوجو تیرے گھر کے اندر ہے بچاؤں گا مگر وہ لوگ جو میرے مقابل پر تکبر سے اپنے تئیں نافرمان اور اونچا رکھتے ہیں یعنی پورے طور پر اطاعت نہیں کرتے.اور خاص کر میری حفاظت تیرے شامل حال رہے گی.خدائے رحیم کی طرف سے سلامتی ہے.تم پر سلامتی ہے تم پاک نفس ہو.اور اے مجرمو! آج تم الگ ہو جاؤ.میں اس رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا اور افطار کروں گا اور روزہ بھی رکھوں گا اور اُس کو ملامت کروں گا جو ملامت کرتا ہے اور تجھے وہ نعمت دوں گا جو ہمیشہ رہے گی اور اپنی تجلی کے نور تجھ میں رکھ دوں گا اور میں اس زمین سے وقت مقدر تک علیحدہ نہیں ہوں گا یعنی میری قہری تجلی میں فرق نہ آئے گا.میں صاعقہ ہوں اور میں رحمان ہوں صاحب لطف اور بخشش.ذکر واقعہ شہادتین انہیں دنوں میں جبکہ متواتر یہ وحی خدا کی مجھ پر ہوئی اور نہایت زبردست اور قوی نشان ظاہر ہوئے اور میرا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا دلائل کے ساتھ دنیا میں شائع ہوا.خوست علاقہ حدود کابل میں ایک بزرگ تک جن کا نام اخو ندزادہ مولوی عبداللطیفہے کسی اتفاق سے میری کتابیں پہنچیں.اور وہ تمام دلائل جو نقل اور عقل اور تائیدات سماوی سے میں نے اپنی کتابوں میں لکھے تھے وہ سب دلیلیں اُن کی نظر سے گزریں اور چونکہ وہ بزرگ نہایت پاک باطن اور اہل علم اور اہل فراست اور خدا ترس اور تقویٰ شعار تھے.اس لئے اُن کے دل پر ان دلائل کا قوی اثر ہوا اور ان کو اس دعوے کی تصدیق میں کوئی دقت پیش نہ آئی.اور اُن کی پاک کانشنس نے بلا توقف مان لیا کہ یہ شخص منجانب اللہ اور یہ دعویٰ صحیح ہے.تب انہوں نے میری کتابوں کو نہایت محبت سے دیکھنا شروع کیا اور اُن کی روح جو نہایت صاف اور مستعد تھی میری طرف کھینچی گئی یہاں تک کہ ان کے لئے بغیر ملاقات کے دور بیٹھے رہنا نہایت دشوار ہوگیا.آخر اس زبردست کشش اور محبت اور اخلاص کا اٰویٰ کالفظ زبان عرب میں ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے کہجب کسی شخص کو کسی قدر مصیبت یا ابتلاکے بعد اپنی پناہ میں لیا جائے.اور کثرت مصائب اور تلف ہونے سے بچایا جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۱؎ اسی طرح تمام قرآن شریف میں آویٰ اور اوَی کا لفظ ایسے ہی موقعوں پر استعمال ہوا ہے کہ جہاں کسی شخص یا کسی قوم کو کسی قدر تکلیف کے بعد پھر آرام دیا گیا.منہ
نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے اس غرض سے کہ ریاست کابل سے اجازت حاصل ہو جائے حج کے لئے مصمم ارادہ کیا اور امیر کابل سے اِس سفر کے لئے درخواست کی.چونکہ وہ امیر کابل کی نظر میں ایک برگزیدہ عالم اور تمام علماء کے سردار سمجھے جاتے تھے.اس لئے نہ صرف اُن کو اجازت ہوئی بلکہ امداد کے طور پر کچھ روپیہ بھی دیا گیا.سو وہ اجازت حاصل کر کے قادیان میں پہنچے.اور جب مجھ سے اُن کی ملاقات ہوئی تو قسم اس خدا کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے ان کو اپنی پیروی اور اپنے دعوے کی تصدیق میں ایسا فنا شدہ پایا کہ جس سے بڑھ کر انسان کے لئے ممکن نہیں.اور جیسا کہ ایک شیشہ عطر سے بھرا ہوا ہوتا ہے.ایسا ہی میں نے ان کو اپنی محبت سے بھرا ہوا پایا.اور جیسا کہ اُن کا چہرہ نورانی تھا ایسا ہی اُن کا دل مجھے نورانی معلوم ہوتا تھا.اس بزرگ مرحوم میں نہایت قابل رشک یہ صفت تھی کہ درحقیقت وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتا تھا.اور وہ درحقیقت اُن راستبازوں میں سے تھا جو خدا سے ڈر کر اپنے تقویٰ اور اطاعت الٰہی کو انتہا تک پہنچاتے ہیں اور خدا کے خوش کرنے کے لئے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنی جان اور عزت اور مال کو ایک ناکارہ خس و خاشاک کی طرح اپنے ہاتھ سے چھوڑ دینے کو طیار ہوتے ہیں.اُس کی ایمانی قوت اِس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ اگر میں اُس کو ایک بڑے سے بڑے پہاڑ سے تشبیہ دوں تو میں ڈرتا ہوں کہ میری تشبیہ ناقص نہ ہو.اکثر لوگ باوجود بیعت کے اور باوجود میرے دعوے کی تصدیق کے پھر بھی دنیا کو دین پر مقدم رکھنے کے زہریلے تخم سے بکلّی نجات نہیں پاتے بلکہ کچھ ملونی اُن میں باقی رہ جاتی ہے.اور ایک پوشیدہ بخل خواہ وہ جان کے متعلق ہو خواہ آبرو کے متعلق اور خواہ مال کے اور خواہ اخلاقی حالتوں کے متعلق ان کے نامکمل نفسوں میں پایا جاتا ہے.اسی وجہ سے ان کی نسبت ہمیشہ میری یہ حالت رہتی ہے کہ میں ہمیشہ کسی خدمت دینی کے پیش کرنے کے وقت ڈرتا رہتا ہوں کہ ان کو ابتلا پیش نہ آوے.اور اس خدمت کو اپنے پر ایک بوجھ سمجھ کر اپنی بیعت کو الوداع نہ کہہ دیں لیکن میں کن الفاظ سے اس بزرگ مرحوم کی تعریف کروں جس نے اپنے مال اور آبرو اور جان کو میری پیروی میں یوں پھینک دیا کہ جس طرح کوئی ردّی چیز پھینک دی جاتی ہے.اکثر لوگوں کو میں دیکھتا ہوں کہ ان کا اوّل اور آخر برابر نہیں ہوتا اور ادنیٰ سی ٹھوکر یا شیطانی وسوسہ یا بدصحبت سے وہ گر جاتے ہیں مگر اس جوانمرد مرحوم کی استقامت کی تفصیل میں کن الفاظ سے بیان کروں کہ وہ نورِ یقین میں دمبدم ترقی کرتا گیا اور جب وہ میرے پاس
پہنچا تو میں نے اُن سے دریافت کیا کہ کن دلائل سے آپ نے مجھے شناخت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ سب سے پہلے قرآن ہے جس نے آپ کی طرف میری رہبری کی اور فرمایا کہ میں ایک ایسی طبیعت کا آدمی تھا کہ پہلے سے فیصلہ کر چکا تھا کہ یہ زمانہ جس میں ہم ہیں.اِس زمانہ کے اکثر مسلمان اسلامی روحانیت سے بہت دور جا پڑے ہیں.وہ اپنی زبانوں سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے مگر اُن کے دِل مومن نہیں.اور اُن کے اقوال اور افعال بدعت اور شرک اور انواع و اقسام کی معصیت سے پُر ہیں.ایسا ہی بیرونی حملے بھی انتہا تک پہنچ گئے ہیں.اور اکثر دل تاریک پردوں میں ایسے بے حس و حرکت ہیں کہ گویا مر گئے ہیں.اور وہ دین اور تقویٰ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے جس کی تعلیم صحابہ رضی اللہ عنہم کو دی گئی تھی اور وہ صدق اور یقین اور ایمان جو اس پاک جماعت کو ملا تھا بلاشبہ اب وہ بباعث کثرت غفلت کے مفقود ہے اور شاذنا درحکم معدوم کا رکھتا ہے.ایسا ہی میں دیکھ رہا تھا کہ اسلام ایک مردہ کی حالت میں ہورہا ہے اور اب وہ وقت آگیا ہے کہ پردہ غیب سے کوئی منجانب اللہ مجدد دین پیدا ہو.بلکہ میں روز بروز اس اضطراب میں تھا کہ وقت تنگ ہوتا جاتا ہے.انہیں دنوں میں یہ آواز میرے کانوں تک پہنچی کہ ایک شخص نے قادیان ملک پنجاب میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور میں نے بڑی کوشش سے چند کتابیں آپ کی تالیف کردہ بہم پہنچائیں.اور انصاف کی نظر سے ان پر غور کر کے پھر قرآن کریم پر ان کو عرض کیا تو قرآن شریف کو ان کے ہر ایک بیان کا مصدق پایا.پس وہ بات جس نے پہلے پہلے مجھے اس طرف حرکت دی وہ یہی ہے کہ میں نے دیکھا کہ ایک طرف تو قرآن شریف بیان کررہا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے اور واپس نہیں آئیں گے.اور دوسری طرف وہ موسوی سلسلہ کے مقابل پر اس امت کو وعدہ دیتا ہے کہ وہ اس امت کی مصیبت اور ضلالت کے دنوں میں ان خلیفوں کے رنگ میں خلیفے بھیجتا رہے گا جو موسوی سلسلہ کے قائم اور بحال رکھنے کے لئے بھیجے گئے تھے.سو چونکہ ان میں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک ایسے خلیفے تھے جو موسوی سلسلہ کے آخر میں پیدا ہوئے اور نیز وہ ایسے خلیفے تھے کہ جو لڑائی کے لئے مامور نہیں ہوئے تھے اِس لئے خدا تعالیٰ کے کلام سے ضرور یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کے رنگ پر بھی اِس اُمت میں آخری زمانہ میں کوئی پیدا ہو.اِسی طرح بہت سے کلمات معرفت اور دانائی کے اُن کے منہ سے میں نے سنے جو بعض یاد رہے اور بعض بھول گئے اور وہ کئی مہینے تک میرے پاس رہے.اور اس قدر اُن کو میری باتوں میں دلچسپی ہوئی کہ انہوں نے میری باتوں کو
حج پر ترجیح دی اور کہا کہ میں اس علم کا محتاج ہوں جس سے ایمان قوی ہو اور علم عمل پر مقدم ہے.سو میں نے اُن کو مستعد پاکر جہاں تک میرے لئے ممکن تھا اپنے معارف اُن کے دل میں ڈالے اور اس طرح پر اُن کو سمجھایا کہ دیکھو یہ بات بہت صاف ہے.کہ اللہ جلّ شانہٗ قرآن شریف میں فرماتا ہے. ۱؎ جس کے یہ معنی ہیں کہ ہم نے ایک رسول کو جو تم پر گواہ ہے یعنی اس بات کا گواہ کہ تم کیسی خراب حالت میں ہو تمہاری طرف اسی رسول کی مانند بھیجا ہے جو فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا.سو اس آیت میں اللہ جلّ شانہٗ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسیٰ ٹھہرایا ہے.پھر سورۂ نورمیں سلسلہ خلافت محمدیہ کو سلسلہ خلافت موسویہ کا مثیل ٹھہرا دیا ہے.سو کم سے کم تحقق مشابہت کے لئے یہ ضروری ہے کہ دونوں سلسلوں کے اوّل اور آخر میں نمایاں مشابہت ہو یعنی یہ ضروری ہے کہ اس سلسلہ کے اوّل پر مثیل موسیٰ ہو اور اس سلسلہ کے آخیر میں مثیل عیسٰی.اور ہمارے مخالف علماء یہ تو مانتے ہیں کہ سلسلہ ملت اسلامیہ مثیل موسیٰ ؑ سے شروع ہوا مگر وہ سراسر ہٹ دھرمی سے اس بات کو قبول نہیں کرتے کہ خاتمہ اس سلسلہ کا مثیل عیسیٰ پر ہوگا.اور اس صورت میں وہ عمداً قرآن شریف کو چھوڑتے ہیں کیا یہ سچ نہیں ہے کہ قرآن شریف نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسیٰ قرار دیا ہے اور کیا یہ سچ نہیں ہے کہ قرآن کریم نے نہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسٰیؑ قرار دیا بلکہ آیت ۲؎ میں تمام سلسلہ خلافت محمدیہ کوسلسلہ خلافت موسویہ کا مثیل قراردے دیا ہے.پس اس صورت میں قطعاً و وجوباً لازم آتا ہے کہ سلسلۂ خلافت اسلامیہ کے آخر میں ایک مثیل عیسٰیؑ پیدا ہو اور چونکہ اوّل اور آخر کی مشابہت ثابت ہونے سے تمام سلسلہ کی مشابہت ثابت ہو جاتی ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے پاک نبیوں کی کتابوں میں جابجا انہیں دونوں مشابہتوں پر زور دیا گیا ہے بلکہ اوّل اور آخر کے دشمنوں میں بھی مشابہت ثابت کی گئی ہے جیسا کہ ابوجہل کو فرعون سے مشابہت دی گئی ہے اور آخری مسیح کے مخالفین کو یہود مغضوب علیہم سے اور آیت میں یہ بھی اشارہ کر دیا ہے کہ آخری خلیفہ اس امت کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایسے زمانہ میں آئے گا جو وہ زمانہ اپنی مدت میں
اس زمانہ کی مانند ہوگا جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آئے تھے یعنی چودھویں صدی کیونکہ کما کا لفظ جس مشابہت کو چاہتا ہے اس میں زمانہ کی مشابہت بھی داخل ہے تمام فرقے یہودیوں کے اس بات پر متفق ہیں کہ عیسٰیؑ بن مریم نے جس زمانہ میں دعوٰے نبوت کیا وہ زمانہ حضرت موسیٰ ؑسے چودھویں صدی تھی.اور عیسائیوں میں سے پروٹسٹنٹ مذہب والے خیال کرتے ہیں.کہ پندرھو۱۵۰۰یں صدی موسوی سے کچھ سال گزر چکے تھے جب حضرت عیسٰیؑ نے دعوٰے نبوت کیا.اور پروٹسٹنٹ کا قول یہودیوں کے متفق علیہ قول کے مقابل پر کچھ چیز نہیں اور اگر اس کی صحت مان بھی لیں تو اس قدر قلیل فرق سے مشابہت میں کچھ فرق نہیں آتا بلکہ مشابہت ایک قلیل فرق کو چاہتی ہے.ایسا ہی قرآن شریف کی رو سے سلسلہ محمدیہ سلسلہ موسویہ سے ہر یک نیکی اور بدی میں مشابہت رکھتا ہے.اسی کی طرف ان آیتوں میں اشارہ ہے کہ ایک جگہ یہود کے حق میں لکھا ہے. ۱؎.دوسری جگہ مسلمانوں کے حق میں لکھا ہے.۲؎.ان دونوں آیتوں کے یہ معنے ہیں کہ خداتمہیں خلافت اور حکومت عطا کر کے پھر دیکھے گا کہ تم راستبازی پر قائم رہتے ہو یا نہیں.ان آیتوں میں جو الفاظ یہود کے لئے استعمال کئے ہیں وہی مسلمانوں کے لئے یعنی ایک ہی آیت کے نیچے ان دونوں کو رکھا ہے.پس ان آیتوں سے بڑھ کر اِس بات کے لئے اور کونسا ثبوت ہوسکتا ہے کہ خدا نے بعض مسلمانوں کو یہود قرار دیدیا ہے اور صاف اشارہ کر دیا ہے کہ جن بدیوں کے یہود مرتکب ہوئے تھے یعنی علماء اُن کے.اس اُمت کے علماء بھی انہیں بدیوں کے مرتکب ہوںگے.اور اسی مفہوم کی طرف آیت ۳؎ میں بھی اشارہ ہے کیونکہ اس آیت میں باتفاق کل مفسرین مغضوب علیہم سے مُراد وہ یہود ہیں جن پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے انکار کی وجہ سے غضب نازل ہوا تھا.اور احادیث صحیحہ میں مغضوب علیہم سے مراد وہ یہود ہیں جو موردِ غضب الٰہی دنیا میں ہی ہوئے تھے.اور قرآن شریف یہ بھی گواہی دیتا ہے کہ یہود کو مغضوب علیہم ٹھہرانے کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان پر لعنت جاری ہوئی تھی.پس یقینی اور قطعی طور پر مغضوب علیہم سے مراد وہ یہود ہیں جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر ہلاک کرنا چاہا تھا.اب خدا تعالیٰ کا یہ دعا سکھلانا کہ خدایا ایسا کر کہ ہم وہی یہودی نہ بن جائیں جنہوں نے عیسٰیؑ کو قتل کرنا چاہا تھا صاف بتلا رہا ہے کہ اُ مت محمدؐیہ
میں بھی ایک عیسیٰؑ پیدا ہونے والا ہے.ورنہ اس دعا کی کیا ضرورت تھی.اور نیز جبکہ آیات مذکورہ بالاسے ثابت ہوتا ہے کہ کسی زمانہ میں بعض علماء مسلمان بالکل علمائِ یہود سے مشابہ ہو جائیں گے اور یہود بن جائیں گے.پھر یہ کہنا کہ ان یہودیوں کی اصلاح کے لئے اسرائیلی عیسیٰؑ آسمان سے نازل ہوگا بالکل غیرمعقول بات ہے کیونکہ اوّل تو باہر سے ایک نبی کے آنے سے مُہر ختم نبوت ٹوٹتی ہے اور قرآن شریف صریح طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء ٹھہراتا ہے.ماسوا اس کے قرآن شریف کے رُو سے یہ اُمت خیر الامم کہلاتی ہے.پس اس کی اس سے زیادہ بے عزتی اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ یہودی بننے کے لئے تو یہ اُمت ہو مگر عیسیٰ باہر سے آوے.اگر یہ سچ ہے کہ کسی زمانہ میں اکثر علماء اس اُمت کے یہودی بن جائیں گے یعنی یہود خصلت ہو جائیں گے.تو پھریہ بھی سچ ہے کہ ان یہود کے درست کرنے کے لئے عیسیٰ باہر سے نہیں آئے گا بلکہ جیسا کہ بعض افراد کا نام یہود رکھا گیا ہے.ایسا ہی اس کے مقابل پر ایک فرد کا نام عیسیٰ بھی رکھا جائے گا.اس بات کا انکار نہیں ہوسکتا کہ قرآن اور حدیث دونوں نے بعض افراد اس اُمت کا نام یہود رکھا ہے.جیسا کہ آیت ۱؎ سے بھی ظاہر ہے کیونکہ اگر بعض افراد اس اُمت کے یہودی بننے والے نہ ہوتے تو دُعا مذکورہ بالا ہرگز نہ سکھلائی جاتی.جب سے دنیا میں خدا کی کتابیں آئی ہیں.خدا تعالیٰ کا ان میں یہی محاورہ ہے کہ جب کسی قوم کو ایک بات سے منع کرتا ہے کہ مثلاً تم زنانہ کرو.یا چوری نہ کرو.یا یہودی نہ بنو.تو اس منع کے اندر یہ پیشگوئی مخفی ہوتی ہے کہ بعض ان میں سے ارتکاب ان جرائم کا کریں گے.دنیا میں کوئی شخص ایسی نظیر پیش نہیں کر سکتا کہ ایک جماعت یا ایک قوم کو خدا تعالیٰ نے کسی ناکردنی کام سے منع کیا ہو.اور پھر وہ سب کے سب اس کام سے باز رہے ہوں بلکہ ضرور بعض اس کام کے مرتکب ہو جاتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے توریت میں یہودیوں کو یہ حکم دیا کہ تم نے توریت کی تحریف نہ کرنا سو اس حکم کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعض یہودنے توریت کی تحریف کی مگر قرآن شریف میں خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو کہیں یہ حکم نہیں دیا کہ تم نے قرآن کی تحریف نہ کرنا بلکہ یہ فرمایا کہ ۲؎.یعنی ہم نے ہی قرآن شریف کو اتارا اور ہم ہی اس کی محافظت کریں گے.اِسی وجہ سے قرآن شریف تحریف سے محفوظ رہا.غرض یہ قطعی اور یقینی اور مسلّم سنت الٰہی ہے کہ جب خدائے تعالیٰ کسی کتاب
میں کسی قوم یا جماعت کو ایک بُرے کام سے منع کرتا ہے یا نیک کام کے لئے حکم فرماتا ہے تو اُس کے علم قدیم میں یہ ہوتا ہے کہ بعض لوگ اس کے حکم کی مخالفت بھی کریں گے پس خدا تعالیٰ کا سورہ فاتحہ میں یہ فرمانا کہ تم دعا کیا کرو کہ تم وہ یہودی نہ بن جاؤ جنہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دینا چاہا تھا جس سے دنیا میں ہی اُن پر غضب الٰہی کی مار پڑی.اس سے صاف سمجھا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے علم میں یہ مقدر تھا کہ بعض افراد اس اُمت کے جو علمائِ اُمت کہلائیں گے اپنی شرارتوں اور تکذیب مسیح وقت کی وجہ سے یہودیوں کا جامہ پہن لیں گے ورنہ ایک لغو دعا کے سکھلانے کی کچھ ضرورت نہ تھی یہ تو ظاہر ہے کہ علماء اِس اُمّت کے اس طرح کے یہودی نہیں بن سکتے کہ وہ اسرائیل کے خاندان میں سے بن جائیں اور پھر اس عیسیٰؑ بن مریم کو جو مدت سے اس دنیا سے گزر چکا ہے سولی دینا چاہیں کیونکہ اب اس زمانہ میں نہ وہ یہودی اس زمین پر موجود ہیں نہ وہ عیسیٰؑ موجود ہے.پس ظاہر ہے کہ اس آیت میں ایک آئندہ واقعہ کی طرف اشارہ ہے اور یہ بتلانا منظور ہے کہ اس اُمت میں عیسیٰ مسیحؑ کے رنگ میں آخری زمانہ میں ایک شخص مبعوث ہوگا اور اس کے وقت کے بعض علماء اسلام ان یہودی علماء کی طرح اس کو دکھ دیں گے جو عیسیٰ علیہ السلام کو دکھ دیتے تھے اور ان کی شان میں بدگوئی کریں گے بلکہ احادیث صحیحہ سے یہی سمجھا جاتا ہے کہ یہودی بننے کے یہ معنی ہیں کہ یہودیوں کے بداخلاق اور بدعادات علمائِ اسلام میں پیدا ہو جائیں گی اور گو بظاہر مسلمان کہلائیں گے مگر اُن کے دل مسخ ہو کر ان یہودیوں کے رنگ سے رنگین ہو جائیں گے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دکھ دے کر مورد غضب الٰہی ہوئے تھے پس جبکہ یہودی یہی لوگ بنیں گے جو مسلمان کہلاتے ہیں تو کیا یہ اس امت مرحومہ کی بے عزتی نہیں کہ یہودی بننے کے لئے تو یہ مقرر کئے جائیں مگر مسیح جو ان یہودیوں کودرست کرے گا وہ باہر سے آوے یہ تو قرآن شریف کے منشاء کے سراسر برخلاف ہے.قرآن شریف نے سلسلہ محمدیہ کو ہریک نیکی اور بدی میں سلسلہ موسویہ کے مقابل رکھا ہے نہ صرف بدی میں.ماسوا اس کے آیت ۱؎ کاصریح یہ منشاء ہے کہ وہ لوگ یہودی اس لئے کہلائیں گے کہ خدا کے مامور کو جو ان کی اصلاح کے لئے آئے گا بنظر تحقیر و انکار دیکھیں گے اور اس کی تکذیب کریں گے اور اس کو قتل کرنا
چاہیں گے اور اپنے قویٰ غضبیہ کو اس کی مخالفت میں بھڑکائیں گے.اِس لئے وہ آسمان پر مغضوب علیہمکہلائیں گے اُن یہودیوں کی مانند جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مکذب تھے جس تکذیب کا آخر کار نتیجہ یہ ہوا تھا کہ سخت طاعون یہود میں پڑی تھی اور بعد اس کے طیطوس رومی کے ہاتھ سے وہ نیست و نابود کئے گئے تھے.پس آیت غیر المغضوب علیہم سے ظاہر ہے کہ دنیا میں ہی کوئی غضب اُن پر نازل ہوگا کیونکہ آخرت کے غضب میں تو ہر ایک کافر شریک ہے اور آخرت کے لحاظ سے تمام کافر مغضوب علیہم ہیں پھر کیا وجہ کہ خدا تعالیٰ نے اس آیت میں خاص کر کے اُن یہودیوں کا نام مغضوب علیہم رکھا جنہوں نے حضرت عیسٰیؑ کو سولی دینا چاہا تھا بلکہ اپنی دانست میں سولی دے چکے تھے.پس یاد رہے کہ ان یہودیوں کو مغضوب علیہم کی خصوصیت اس لئے دی گئی کہ دنیا میں ہی اُن پر غضب الٰہی نازل ہوا تھا اور اسی بنا پر سورہ فاتحہ میں اس اُمت کو یہ دعا سکھلائی گئی کہ خدایا ایسا کر کہ وہی یہودی ہم نہ بن جائیں یہ ایک پیشگوئی تھی جس کا یہ مطلب تھا کہ جب اس اُمت کا مسیح مبعوث ہوگا تو اس کے مقابل پر وہ یہود بھی پیدا ہو جائیں گے جن پر اِسی دنیا میں خدا کا غضب نازل ہوگا.پس اس دعا کا یہ مطلب تھا کہ یہ مقدّر ہے کہ تم میں سے بھی ایک مسیح پیدا ہوگا اور اس کے مقابل پر یہود پیدا ہوں گے جن پر دنیا میں ہی غضب نازل ہوگا.سو تم دعا کرتے رہو کہ تم ایسے یہودنہ بن جاؤ.یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ یوں تو ہر ایک کافر قیامت میں مورد غضب الٰہی ہے لیکن اِس جگہ غضب سے مراد دنیا کا غضب ہے جو مجرموں کے سزا دینے کے لئے دنیا میں ہی نازل ہوتا ہے اور وہ یہودی جنہوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو دکھ دیا تھا اور بموجب نصّ قرآن کریم ان کی زبان پر لعنتی کہلائے تھے وہ وہی لوگ تھے جن پر دنیا میں ہی عذاب کی مار پڑی تھی یعنی اوّل سخت طاعون سے وہ ہلاک کئے گئے تھے اور پھر جو باقی رہ گئے تھے وہ طیطوس رومی کے ہاتھ سے سخت عذاب کے ساتھ ملک سے منتشر کئے گئے تھے.پس غیر المغضوب علیہم میں یہی عظیم الشان پیشگوئی مخفی ہے کہ وہ لوگ جو مسلمانوں میں سے یہودی کہلائیں گے وہ بھی ایک مسیح کی تکذیب کریں گے جو اُس پہلے مسیح کے رنگ پر آئے گا یعنی نہ وہ جہادکرے گا اور نہ تلوار اُٹھائے گا
بلکہ پاک تعلیم اور آسمانی نشانوں کے ساتھ دین کو پھیلائے گا اور اس آخری مسیح کی تکذیب کے بعد بھی دنیا میں طاعون پھیلے گی اور وہ سب باتیں پوری ہوں گی جو ابتدا سے سب نبی کہتے چلے آئے ہیں.اور یہ وسوسہ کہ آخری زمانہ میں وہی مسیح ابن مریم دوبارہ دنیا میں آجائے گا.یہ تو قرآن شریف کے منشاء کے سراسر برخلاف ہے جو شخص قرآن شریف کو ایک تقویٰ اور ایمان اور انصاف اور تدبر کی نظر سے دیکھے گا اُس پر روز روشن کی طرح کھل جائے گا کہ خدا وند قادر کریم نے اس اُمت محمدیہ کو موسوی اُمت کے بالکل بالمقابل پیدا کیا ہے.ان کی اچھی باتوں کے بالمقابل پر اچھی باتیں دی ہیں اور اُن کی بُری باتوں کے مقابل پر بُری باتیں.اِس اُمت میں بعض ایسے ہیں جو انبیاء بنی اسرائیل سے مشابہت رکھتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو مغضوب علیہم یہود سے مشابہت رکھتے ہیں.اس کی ایسی مثال ہے جیسے ایک گھر ہے جس میں عمدہ عمدہ آراستہ کمرے موجود ہیں جو عالیشان اور مہذب لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ ہیں اور جس کے بعض حصے میں پائخانے بھی ہیں اور بدر رو بھی اور گھر کے مالک نے چاہا کہ اس محل کے مقابل پر ایک اور محل بناوے کہ تا جو جو سامان اس پہلے محل میں تھا اس میں بھی موجود ہو.سو یہ دوسرا محل اسلام کا محل ہے اور پہلا محل موسوی سلسلہ کا محل تھا.یہ دوسرا محل پہلے محل کا کسی بات میں محتاج نہیں.قرآن شریف توریت کا محتاج نہیں اور یہ اُمت کسی اسرائیلی نبی کی محتاج نہیں.ہر ایک کامل جو اِس اُمت کے لئے آتا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے پرورش یافتہ ہے اور اس کی وحی محمدی وحی کی ظل ہے.یہی ایک نکتہ ہے جو سمجھنے کے لائق ہے.افسوس ہمارے مخالف حضرت عیسٰیؑ کو دوبارہ لاتے ہیں نہیں سمجھتے کہ مطلب تو یہ ہے کہ اسلام کو فخر مشابہت حاصل ہو نہ یہ ذ لت کہ کوئی اسرائیلی نبی آوے تا اُ مت اصلاح پاوے.علاوہ اس کے یہ نہایت بیہودہ خیال ہے کہ ایسے لغو اعتقاد پر زور دیا جاوے جس کی خدا کی کتاب میں کوئی نظیر نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آسمان پر چڑھنے کی درخواست کی گئی جیسا کہ قرآن شریف میں مذکور ہے مگر وہ یہ کہہ کر نامنظور کی گئی کہ ۱؎.تو کیا عیسٰیؑ بشر نہ تھا کہ اُس کو بغیر درخواست کے آسمان پر چڑھایا گیا.پھر قرآن شریف سے تو صرف رفع الی اللّٰہ ثابت ہے جو ایک روحانی امر ہے نہ رفع الی السّماء اور یہودیوں کا اعتراض تو یہ تھا کہ جو شخص لکڑی پر لٹکایا جاوے اُس کا رفع روحانی دوسرے نبیوں کی طرح خدا تعالیٰ کی طرف نہیں ہوتا اور یہی اعتراض دفع
کرنے کے لائق تھا.پس قرآن شریف نے کہاں اس اعتراض کو دفع کیا ہے یعنی اس تمام نزاع کی بنیاد یہ تھی کہ یہودی کہتے تھے کہ عیسٰیؑ مصلوب ہوگیا ہے اور جو شخص مصلوب ہو اُس کا خدا تعالیٰ کی طرف رفع نہیں ہوتا اس لئے عیسٰیؑ کا اور نبیوں کی طرح خدا تعالیٰ کی طرف رفع روحانی نہیں ہوا لہٰذا وہ مومن نہیں ہے اور نہ نجات یافتہ ہے اور چونکہ قرآن اِس بات کا ذمہ وار ہے کہ پہلے جھگڑوں کا تصفیہ فرماوے لہٰذا اُس نے یہ فیصلہ فرمایا کہ عیسٰیؑ کا بھی دوسرے نبیوں کی طرح رفع ہوا ہے.خدا نے تو ایک جھگڑے کا فیصلہ کرنا تھا.پس اگر خدا تعالیٰ نے ان آیتوں میں یہ فیصلہ نہیں کیا تو پھر بتلاؤ کہ کس مقام میں یہ فیصلہ کیا.کیانعوذ باللہ اس طرح کی بدفہمی خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہو سکتی ہے کہ جھگڑا تو یہود کی طرف سے روحانی رفع کا تھا اور خدا یہ کہے کہ عیسٰیؑ مع جسم دوسرے آسمان پر بیٹھا ہے.ظاہر ہے کہ نجات کے لئے مع جسم آسمان پر جانا شرط نہیں صرف روحانی رفع شرط ہے.پس اس جگہ اس جھگڑے کے فیصلہ کے لئے یہ بیان کرنا تھا کہ نعوذ باللہ عیسٰیؑ لعنتی نہیں ہے بلکہ ضرور رفع روحانی اس کو نصیب ہوا ہے.ماسوا اِس کے قرآن شریف میں جو رفع کے پہلے توفّی کا لفظ لایا گیا ہے یہ صریح اس بات پر قرینہ ہے کہ یہ وہ رفع ہے جو ہر ایک مومن کو موت کے بعدنصیب ہوتا ہے.اور توفّیکے یہ معنی کرنا کہ زندہ آسمان پر حضرت عیسٰیؑ اٹھائے گئے یہ بھی یہودیوں کی طرح قرآن شریف کی تحریف ہے.قرآن شریف اور تمام حدیثوں میں توفّی کا لفظ قبض روح کے بارہ میں استعمال پاتا ہے کسی مقام میں ان معنوں پر استعمال نہیں ہوا کہ کوئی شخص مع جسم زندہ آسمان پراُٹھایا گیا.ماسوا اس کے ان معنوں سے تو اقرار کرنا پڑتا ہے کہ قرآن شریف میں عیسٰیؑ کی موت کا کہیں ذکر نہیں اور اس نے کبھی مرنا ہی نہیں کیونکہ جس جگہ اور جس مقام میں حضرت عیسٰیؑ کی نسبت توفّی کا لفظ ہوگا وہاں یہی معنی کرنے پڑیں گے کہ مع جسم آسمان پر چلا گیا یا جائے گا.پھر موت اس کی کس طرح ثابت ہوگی.علاوہ اس کے اگر دنیا میں دوبارہ انسان آسکتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ نے حضرت عیسٰیؑ کو یہودیوں کے سامنے شرمندہ کیوں کیا کیونکہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دعویٰ مسیحیت کیا تو یہودیوں نے یہ حجت پیش کی تھی کہ تجھے ہم سچا مسیح نہیں مان سکتے کیونکہ ملا کی نبی کی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ سچا مسیح
جس کے آنے کا وعدہ دیا گیا ہے جب وہ آئے گا تو ضرور ہے کہ اُس سے پہلے الیاس نبی دوبارہ دنیا میں آوے مگر الیاس نبی اب تک دوبارہ دنیا میں نہیں آیا اِس لئے ہم تجھے سچا نہیں سمجھ سکتے.تب حضرت مسیح نے اُن کو یہ جواب دیا کہ وہ الیاس جو آنے والا تھا وہ یوحنا نبی ہے جس کو اہل اسلام یحییٰ کر کے پکارتے ہیں.اِس جواب پر یہود سخت ناراض ہوگئے اور حضرت عیسٰیؑ کو مفتری اور کاذب قرار دیا چنانچہ اب تک وہ اپنی کتابوں میں جو بعض میرے پاس موجود ہیں حضرت عیسٰی علیہ السلام کی تکذیب کرتے ہیں اور اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ قیامت کے دن ہمیں پوچھے گا کہ اس شخص کو تم نے قبول نہیں کیا تو ہم ملا کی نبی کی کتاب اُس کے آگے رکھ دیں گے اور عرض کریں گے کہ یا الٰہی جبکہ تو نے صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ جب تک الیاس نبی دوبارہ دنیا میں نہ آوے وہ سچا مسیح جس کا بنی اسرائیل سے وعدہ ہے مبعوث نہیں ہوگا.پس الیاس نبی دوبارہ دنیا میں نہ آیا اس لئے ہم نے اس شخص کو قبول نہ کیا.ہمیں یہ نہیں کہا گیاتھا کہ جب تک الیاس کا مثیل نہ آوے سچا مسیح نہیں آئے گا بلکہ ہمیں کہا گیا تھا کہ سچے مسیح کے پہلے سچ مچ الیاس کا دوبارہ آنا ضروری ہے سو وہ بات پوری نہ ہوئی.پھر اس کے بعد یہ فاضل یہودی جس کی کتاب میرے پاس ہے اپنی اس دلیل پر بڑا فخر کر کے پبلک کے سامنے اپیل کرتا ہے کہ کیا ایسے مفتری کو کوئی قبول کر سکتا ہے جو تاویلوں سے کام لیتا ہے اور اپنے استاد یوحنا کو خواہ نخواہ الیاس ٹھہراتا ہے.پھر اس کے بعد اس نے بڑا جوش ظاہر کیا ہے اور ایسے تحقیر کے الفاظ سے حضرت مسیح کو یاد کرتا ہے جن کی نقل ہم اس جگہ کر نہیں سکتے.اور اگر قرآن نازل نہ ہوا ہوتا تو اس حجت میں بظاہر یہود حق بجانب معلوم ہوتے تھے کیونکہ ملاکی نبی کے صحیفہ میں درحقیقت یہ الفاظ نہیں ہیں کہ سچے مسیح کے پہلے مثیل الیاس آئے گا بلکہ صاف لکھا ہے کہ اس مسیح سے پہلے خود الیاس کا دوبارہ آنا ضروری ہے.اس صورت میں اگرچہ عیسائی حضرت مسیح کی خدائی کے لئے روتے ہیں مگر نبوت بھی ثابت نہیں ہو سکتی.اور یہودی سچے معلوم ہوتے ہیں.پس یہ احسان قرآن شریف کا عیسائیوں پر ہے کہ حضرت مسیح کی سچائی ظاہر کردی.اس جگہ ایک سوال باقی رہتا ہے اور وہ یہ کہ جس حالت میں ملاکی نبی کے صحیفہ میں صاف لفظوں
میں لکھا ہے کہ جب تک الیاس نبی دوبارہ دنیا میں نہ آوے تب تک وہ سچا مسیح جس کا بنی اسرائیل کو وعدہ دیا گیا ہے دنیا میں نہیں آوے گا تو پھر اس صورت میں یہود کا کیا قصور تھا جو اُنہوں نے حضرت مسیح کو قبول نہیں کیا اور اس کو کافر اور مرتد اور ملحد قرار دیا.کیا ان کی صحت نیت کے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ کتاب اللہ کی نص کے موافق انہوں نے عملدرآمد کیا.ہاں اگر ملاکی نبی کے صحیفہ میں مثیل الیاس کے دوبارہ آنے کا ذکر ہوتا تو اس صورت میں یہود ملزم ہو سکتے تھے کیونکہ یہ امر زیادہ بحث کے لائق نہیں تھا کہ یحییٰ نبی کو مثیل الیاس قرار دیا جاوے.اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہود خوب جانتے تھے کہ خدائے تعالیٰ کی یہ عادت نہیں ہے کہ کوئی شخص دوبارہ دنیا میں آوے اور اس کی کوئی نظیر پہلے سے موجودنہیں تھی لہٰذا یہ صرف ایک استعارہ تھا جس طرح اور صدہا استعارات خدائے تعالیٰ کی کتابوں میں استعمال پاتے ہیں اور ایسے استعارات سے یہود بے خبر نہ تھے.پھر علاوہ اس کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تائیدات الٰہیہ بھی شامل تھیں اور فراست صحیحہ کے لئے کافی ذخیرہ تھا کہ یہود ان کو شناخت کر لیتے اور ان پر ایمان لاتے مگر وہ دن بدن شرارت میں بڑھتے گئے اور وہ نور جو صادقوں میں ہوتا ہے وہ ضرور انہوں نے حضرت عیسیٰ میں مشاہدہ کر لیا تھا مگر تعصب اور بخل اور شرارت نے ان کو نہ چھوڑا.لیکن یاد رہے کہ یہ سوال تو صرف یہود کے بارہ میں ہوتا ہے جن کو پہلے پہل یہ ابتلا پیش آیا تھا مگر مسلمان اگر تقویٰ کو اختیار کرتے تو قرآن شریف نے اس ابتلا سے اُن کو بچا لیا تھا کیونکہ صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ عیسیٰ فوت ہوگیا.اور نہ صرف یہی بلکہ سورہ مائدہ میں صاف طور پر سمجھا دیا تھا کہ وہ دوبارہ نہیں آئے گا کیونکہ آیت ۱؎ میں یہی ذکر ہے.کہ اللہ تعالیٰ قیامت کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھے گا کہ کیا تو نے ہی کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا کر کے ماننا تو حضرت عیسیٰ جواب دیں گے کہ یا الٰہی اگر میں نے ایسا کہا ہے تو تجھے معلوم ہوگا کیونکہ تیرے علم سے کوئی چیز باہر نہیں.میں نے تو صرف وہی کہا تھا جو تو نے فرمایا تھا پھر جبکہ تونے مجھے وفات دے دی تو پھر صرف تو ہی ان کا نگہبان تھا مجھے اُن کے حال کا کیا علم تھا.اب ظاہر ہے کہ اگر یہ بات سچ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے دوبارہ دنیا میں آئیں گے اور چالیس برس دنیا میں ٹھہریں گے اور صلیب کو توڑ یں گے اور عیسائیوں کے ساتھ لڑائیاں کریں گے تو وہ قیامت کو خدائے تعالیٰ کے حضور میں کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ جب تو نے مجھے وفات
دی تو اس کے بعد مجھے کیا علم ہے کہ عیسائیوں نے کونسی راہ اختیار کی.اگر وہ یہی جواب دیں گے کہ مجھے خبر نہیں تو ان سے بڑھ کر دنیا میں کوئی جھوٹا نہیں ہوگا کیونکہ جس شخص کو یہ علم ہے کہ وہ دنیا میں دوبارہ آیا تھا اور عیسائیوں کو دیکھا تھا کہ اس کو خدا سمجھ رہے ہیں اور اس کی پرستش کرتے ہیں اور ان سے لڑائیاں کیں اور پھر وہ خدا تعالیٰ کے روبرو انکار کرتا ہے کہ مجھے کچھ بھی خبر نہیں کہ میرے بعد انہوں نے کیا کیا اس سے زیادہ کاذب کون ٹھہر سکتا ہے.جو اب صحیح تو یہ تھا کہ ہاں میرے خداوند مجھے عیسائیوں کی گمراہی کی خوب خبر ہے کیونکہ میں دوبارہ دنیا میں جاکر چالیس برس تک وہاں رہا اور صلیب کو توڑا پس میرا کچھ گناہ نہیں ہے.جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ مشرک ہیں تو میں اُسی وقت ان کا دشمن ہوگیا بلکہ ایسی صورت میں کہ جبکہ قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام چالیس۴۰ برس تک دنیا میں رہ چکے ہوں گے اور اُن سب کو سزائیں دی ہوں گی جو اُن کو خدا سمجھتے تھے خدا تعالیٰ کا ایسا سوال اُن سے ایک لغو سوال ہوگا کیونکہ جبکہ خدا تعالیٰ کے علم میں یہ بات ہے کہ اُس شخص نے اپنے معبود ٹھہرائے جانے کی اطلاع پاکر ایسے لوگوں کو خوب سزا دی تو پھر ایسا سوال کرنا اس کی شان سے بعید ہے.غرض جس قدر مسلمانوں کو خدا تعالیٰ نے یہ کھول کر سنا دیا ہے کہ عیسیٰ فوت ہوگیا ہے اور پھر دنیا میں نہیں آئے گا.ہاں اس کا مثیل آنا ضروری ہے.اگر اس قسم کی تصریح ملاکی نبی کے صحیفہ میں ہوتی تو یہود ہلاک نہ ہوتے.پس بلاشبہ وہ لوگ یہود سے بدتر ہیں کہ جو اس قدر تصریحات خدا تعالیٰ کے پاک کلام میں پاکر پھر حضرت عیسیٰ کے دوبارہ آنے کے منتظر ہیں.ماسوا اس کے ہمارے مخالف مولوی لوگوں کو دھوکہ دے کر یہ کہا کرتے ہیں کہ قرآن شریف سے اگرچہ نہیں مگر حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئیں گے مگر ہمیں معلوم نہیں کہ حدیثوں میں کہاں اور کس جگہ لکھا ہے کہ وہی اسرائیلی نبی جس کا عیسیٰ نام تھا جس پر انجیل نازل ہوئی تھی باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے کے پھر دنیا میں آجائے گا.اگر صرف عیسیٰ یا ابن مریم کے نام پر دھوکہ کھانا ہے تو قرآن کریم کی سورۃتحریم میں اس امت کے بعض افراد کا نام عیسیٰ اور ابن مریم رکھ دیا گیا ہے.ایماندار کے لئے اس قدر کافی ہے کہ اس امت کے بعض افراد کا نام بھی عیسیٰ یا ابن مریم رکھا گیا ہے کیونکہ جب خدا تعالیٰ نے سورۂ موصوفہ میں بعض افرادِ اُمت کو مریم سے مشابہت دی اور پھر اس میں نفخ روح کا ذکر کیا تو صاف ظاہر ہے کہ وہ روح جو مریم میں پھونکی
گئی وہ عیسیٰ تھا.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اِس اُمت کا کوئی فرداوّل اپنے خداداد تقویٰ کی وجہ سے مریم بنے گا اور پھر عیسیٰ ہو جائے گا جیسا کہ براہین احمدیہ میں خدائے تعالیٰ نے پہلے میرا نام مریم رکھا اور پھرنفخ روح کا ذکر کیا اور پھر آخر میں میرا نام عیسیٰ رکھ دیا.اور حدیثوں میں تو صاف لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات میں حضرت عیسیٰ کو مردہ روحوں میں ہی دیکھا.آپ عرش تک پہنچ گئے مگر کوئی عیسیٰ نام ایسا نظر نہ آیا جو معہ جسم عنصری علیحدہ تھا.دیکھا تو وہی روح دیکھی جو یحییٰ وفات یافتہ کے پاس تھی ظاہر ہے کہ زندوں کو مُردوں کے مکان میں گزر نہیں ہوسکتا.غرض خدا نے اپنے قول سے حضرت عیسیٰ کی وفات پر گواہی دی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فعل سے یعنی رویت سے وہی گواہی دے دی.اگر اب بھی کوئی نہ سمجھے تو پھر اس سے خدا سمجھے گا.ما سوا اس کے یہود سے زیادہ اُن کو تجربہ ہو چکا ہے کہ خدا تعالیٰ کی عادت نہیں ہے کہ دوبارہ دنیا میں لوگوں کو بھیجا کرے ورنہ ہمیں تو عیسیٰ کی نسبت حضرت سیدنا محمد مصطفیٰؐ کے دوبارہ دنیا میں آنے کی زیادہ ضرورت تھی اور اسی میں ہماری خوشی تھی مگر خدا تعالیٰ نے ۱؎ کہہ کر اس امید سے محروم کر دیا.یہ بات سوچنے کے لائق ہے کہ اگر دوبارہ دنیا میں آنے کا دروازہ کھلا تھا تو خدا تعالیٰ نے کیوں چند روز کے لئے الیاس نبی کو دوبارہ دنیا میں نہ بھیجا اور اس طرح پر لاکھوں یہودیوں کو واصل جہنم کیا.آخر حضرت مسیح نے آپ ہی یہ فیصلہ دیا کہ دوبارہ آنے سے کسی مثیل کا آنا مراد ہے.یہ فیصلہ اب تک انجیلوں میں لکھا ہوا موجود ہے.پھر جو بات ایک مرتبہ طے پا چکی ہے اور جو راہ خطرناک ثابت ہو چکا ہے اسی راہ پر پھر قدم مارنا عقلمندوں کا کام نہیں ہے.یہودیوں نے اس بات پر ضد کر کے کہ الیاس نبی دوبارہ دنیا میں آئے گا بجز کفر اور روسیاہی کے کیا فائدہ اُٹھایا تا اِس زمانہ کے مسلمان اُس فائدہ کی توقع رکھیں.جس سوراخ سے ایک بڑا گروہ کاٹا گیا اور ہلاک ہو چکا ہے پھر کیوں یہ لوگ اسی سوراخ میں ہاتھ ڈالتے ہیں.کیا حدیث لا یلدغ المؤمن من جحرواحد مرّتین یاد نہیں.اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے مرنا بھلا دیا ہے.وہ لوگ جس سورت کو پانچ وقت اپنی نمازوں میں پڑھتے ہیں یعنی ۲؎ کیوں اس کے معنوں میں غور نہیں کرتے اور
کیوں یہ نہیں سوچتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر بھی بعض صحابہ کو یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ دنیا میں آئیں گے مگر حضرت ابوبکر نے یہ آیت پڑھ کر کہ ۱؎ اس خیال کو رفع دفع کر دیا.اور اس آیت کے یہ معنے سمجھائے کہ کوئی نبی نہیں جو فوت نہیں ہو چکا پس اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی فوت ہو جائیں تو کوئی افسوس کی جگہ نہیں یہ امر سب کے لئے مشترک ہے.ظاہر ہے کہ اگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے دلوں میں یہ خیال ہوتا کہ عیسیٰ آسمان پر چھ سو برس سے زندہ بیٹھا ہے تو وہ ضرور حضرت ابوبکر کے آگے یہ خیال پیش کرتے لیکن اس روز سب نے مان لیا کہ سب نبی مر چکے ہیں اور اگر کسی کے دل میں یہ خیال بھی تھا کہ عیسیٰؑ زندہ ہے تو اُس نے اس خیال کو ایک ردّی چیز کی طرح اپنے دل سے باہر پھینک دیا.یہ میں نے اس لئے کہا کہ ممکن ہے کہ عیسائی مذہب کے قرب و جوار کے اثر کی وجہ سے کوئی ایسا شخص جو غبی ہو اور جس کی درایت صحیح نہ ہو یہ خیال رکھتا ہو کہ شاید عیسیٰ اب تک زندہ ہی ہے مگر اس میں کچھ شک نہیں کہ اس وعظ صدیقی کے بعد کل صحابہ اس بات پر متفق ہوگئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے جتنے نبی تھے سب مرچکے ہیں اور یہ پہلا اجماع تھا جو صحابہ میں ہوا.اور صحابہ رضی اللہ عنہم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں محو تھے کیوں کر اس بات کو قبول کر سکتے تھے کہ باوجودیکہ ان کے بزرگ نبی نے جو تمام نبیوں کا سردار ہے چو سٹھ برس کی بھی پوری عمر نہ پائی مگر عیسیٰ چھ سو برس سے آسمان پر زندہ بیٹھا ہے.ہرگز ہرگز محبت نبوی فتویٰ نہیں دیتی کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت بالتخصیص ایسی فضیلت قائم کرتے.لعنت ہے ایسے اعتقاد پر جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین لازم آوے.وہ لوگ تو عاشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے.وہ تو اس بات کے سننے سے زندہ ہی مر جاتے کہ اُن کا پیارا رسول فوت ہوگیا مگر عیسیٰ آسمان پر زندہ بیٹھا ہے.وہ رسول نہ اُن کو بلکہ خدا تعالیٰ کو بھی تمام نبیوں سے زیادہ پیارا تھا.اسی وجہ سے جب عیسائیوں نے اپنی بدقسمتی سے اس رسول مقبول کو قبول نہ کیا اور اُس کو اتنا اُڑایا کہ خدا بنا دیا تو خدا تعالیٰ کی غیرت نے تقاضا کیا کہ
ایک غلام غلمان محمدی سے یعنی یہ عاجز اس کا مثیل کر کے اس اُمت میں سے پیدا کیا اور اس کی نسبت اپنے فضل اور انعام کا زیادہ اُس کو حصّہ دیا تا عیسائیوں کو معلوم ہو کہ تمام فضل خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے.غرض عیسیٰ بن مریم کے مثیل آنے کی ایک یہ بھی غرض تھی کہ اُس کی خدائی کو پاش پاش کر دیا جائے.انسان کا آسمان پر جاکر مع جسم عنصری آباد ہونا ایسا ہی سنت اللہ کے خلاف ہے جیسے کہ فرشتے مجسم ہو کر زمین پر آباد ہو جائیں. ۱؎.پھر یہ نادان قوم نہیں سوچتی کہ جس حالت میں صلیب دینے کے وقت ابھی تبلیغ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ناتمام تھی اور ابھی دس قومیں یہود کی دوسرے ملکوں میں باقی تھیں جو اُن کے نام سے بھی بے خبر تھیں تو پھر حضرت عیسیٰ کو یہ کیا سوجھی کہ اپنا منصبی کام ناتمام چھوڑ کر آسمان پر جا بیٹھے.پھر تعجب کہ اسلامی کتابوں میں تو حضرت عیسیٰ کو نبی سیاح لکھا ہے مگر وہ تو صرف ساڑھے تین برس اپنے ہی گاؤں میں رہ کر راہیء ملک سماوی ہوئے.ظاہر ہے کہ جبکہ صرف بیہودہ قصوں پر بھروسہ کر کے حضرت عیسیٰ کو خدا مانا جاتا ہے پھر اگر وہ یہ کرشمہ بھی دکھلاویں کہ آسمان سے معہ فرشتوں کے اُتریں تو اس وقت کیا حال ہوگا.یاد رہے کہ جو شخص اترنے والا تھا وہ عین وقت پر اُتر آیا اور آج تمام نوشتے پورے ہوگئے تمام نبیوں کی کتابیں اسی زمانہ کا حوالہ دیتی ہیں.عیسائیوں کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ اسی زمانہ میں مسیح موعود کا آنا ضروری تھا اُن کتابوں میں صاف طور پر لکھا تھا کہ آدم سے چھٹے ہزار کے اخیر پر مسیح موعود آئے گا.سو چھٹے ہزار کا اخیر ہوگیا.اور لکھا تھا کہ اس سے پہلے ذوالسنین ستارہ نکلے گا.سو مدت ہوئی کہ نکل چکا.اور لکھا تھا کہ اس کے ایام میں سورج اور چاند کو ایک ہی مہینہ میں جو رمضان کا مہینہ ہوگا گرہن لگے گا.سو مدت ہوئی کہ یہ پیشگوئی بھی پوری ہو چکی اور لکھا تھا کہ اس کے زمانہ میں ایک بڑے جوش سے طاعون پیدا ہوگی اس کی خبر انجیل میں بھی موجود ہے سو دیکھتا ہوں کہ طاعون نے اب تک پیچھا رس سے آسمان پر زندہ بیٹھا ہے.ہرگز ہرگز محبت نبوی فتویٰ نہیں دیتی کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت بالتخصیص ایسی فضیلت قائم کرتے.لعنت ہے ایسے اعتقاد پر جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین لازم آوے.وہ لوگ تو عاشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے.وہ تو اس بات کے سننے سے زندہ ہی مر جاتے کہ اُن کا پیارا رسول فوت ہوگیا مگر عیسیٰ آسمان پر زندہ بیٹھا ہے.وہ رسول نہ اُن کو بلکہ خدا تعالیٰ کو بھی تمام نبیوں سے زیادہ پیارا تھا.اسی وجہ سے جب عیسائیوں نے اپنی بدقسمتی سے اس رسول مقبول کو قبول نہ کیا اور اُس کو اتنا اُڑایا کہ خدا بنا دیا تو خدا تعالیٰ کی غیرت نے تقاضا کیا کہ
نہیں چھوڑا.اور قرآن شریف اور احادیث اور پہلی کتابوں میں لکھا تھا کہ اس کے زمانہ میں ایک نئی سواری پیدا ہوگی جو آگ سے چلے گی اور انہیں دنوں میں اونٹ بیکار ہو جائیں گے اور یہ آخری حصہ کی حدیث صحیح مسلم میں بھی موجود ہے سو وہ سواری ریل ہے جو پیدا ہوگئی.اور لکھا تھا کہ وہ مسیح موعود صدی کے سرپر آئے گا.سو صدی میں سے بھی اکیس برس گزر گئے.اب ان تمام نشانوں کے بعد جو شخص مجھے رد کرتا ہے وہ مجھے نہیں بلکہ تمام نبیوں کو رد کرتا ہے اور خدا تعالیٰ سے جنگ کررہا ہے اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اس کے لئے بہتر تھا.خوب یاد رکھو کہ تمام خرابی اور تباہی جو اسلام میں پیدا ہوئی یہاں تک کہ اسی ملک ہندوستان میں ۲۹ لاکھ انسان مرتد ہو کر عیسائی ہوگیا.اس کا سبب یہی تھا کہ مسلمان حضرت عیسیٰ کی نسبت بے جا اور مبالغہ آمیز امیدیں رکھ کر اور ان کو ہریک صفت میں خصوصیت دے کر قریب قریب عیسائیوں کے پہنچ گئے.یہاں تک کہ جو کچھ بعض انسانی صفات وہ حضرت سیدنا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت تجویز کرتے ہیں اگر کسی تاریخی کتاب میں اسی قسم کے صفات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت لکھے ہوں تو توبہ توبہ کر اُٹھتے ہیں.مثلاً ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات بیمار بھی ہو جاتے تھے اور آپ کو تپ بھی آجاتا تھا اور آپ دوا بھی کرتے تھے اور بسا اوقات سنگیاں پچھ کے ساتھ لگواتے تھے لیکن اگر اسی کے مشابہ حضرت مسیح کی نسبت لکھا ہو کہ وہ تپ میں یا کسی اور بیماری میں گرفتار ہوگئے اور ان کو اٹھا کر کسی ڈاکٹر کے پاس لے گئے تو فی الفور چونک اُٹھیں گے کہ یہ مسیح کی شان سے بعید ہے حالانکہ وہ صرف ایک عاجز انسان تھا اور تمام انسانی ضعفوں سے پورا حصہ رکھتا تھا اور وہ اپنے چار بھائی حقیقی اور رکھتا تھا جو بعض اس کے مخالف تھے.اور اس کی حقیقی ہمشیرہ دو تھیں.کمزور سا آدمی تھا جس کو صلیب پر محض دو میخوں کے ٹھوکنے سے غش آگیا.ہائے افسو س اگر مسلمان حضرت عیسیٰ کی نسبت قرآن شریف کے قول پر چلتے اور ان کو وفات یافتہ یقین رکھتے اور جیسا کہ قرآن کا منشا ہے ان کا دوبارہ آنا ممتنع سمجھتے تو اسلام میں یہ تباہی نہ آتی جوآگئی اور عیسائیت کا جلد تر خاتمہ ہو جاتا.شکر للہ کہ اس وقت خدا نے آسمان سے اسلام کا ہاتھ پکڑ لیا.یہ وہ باتیں تھیں جو میں نے صاحبزادہ مولوی عبداللطیف صاحب سے کیں اور وہ امر جو آخر میں ان کو سمجھایا وہ یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں مذہبی پہلو کے رو سے سو۱۶لہ خصوصیتیں ہیں (۱)اوّل یہ کہ وہ بنی اسرائیل کے لئے ایک موعودنبی تھا جیسا کہ اس پر اسرائیلی نبیوں کے صحیفے گواہ ہیں.(۲)دوسری یہ کہ مسیح
ایسے وقت میں آیا تھا جبکہ یہودی اپنی سلطنت کھو چکے تھے یعنی اس ملک میں یہودیوں کی کوئی سلطنت نہیں رہی تھی گو ممکن تھا کہ کسی اور ملک میں جہاں بعض فرقے یہود کے چلے گئے تھے کوئی حکومت ان کی قائم ہوگئی ہو جیسا کہ سمجھا جاتا ہے کہ افغان اور ایسا ہی کشمیری بھی یہودمیں سے ہیں جن کا اسلام قبول کرنے کے بعد سلاطین میں داخل ہونا ایک ایسا واقعہ ہے جس سے انکار نہیں ہوسکتا.بہرحال حضرت مسیح کے ظہور کے وقت اس حصہ ملک سے یہود کی سلطنت جاتی رہی تھی اور وہ رومی سلطنت کے ماتحت زندگی بسر کرتے تھے اور رومی سلطنت کو انگریزی سلطنت سے بہت مشابہت تھی (۳)تیسری یہ کہ وہ ایسے وقت میں آیا تھا کہ جبکہ یہودی بہت سے فرقوں پر منقسم ہوچکے تھے اور ہریک فرقہ دوسرے فرقہ کا مخالف تھا اور ان سب میں باہم سخت عناد اور خصومتیں پیدا ہوگئی تھیں اور توریت کے اکثر احکام بباعث ان کے کثرت اختلافات کے مشتبہ ہوگئے تھے صرف وحدانیت الٰہی میں وہ باہم اتفاق رکھتے تھے باقی اکثر مسائل جزئیہ میں وہ ایک دوسرے کے دشمن تھے اور کوئی واعظ ان میں باہم صلح نہیں کرا سکتا تھا اور نہ ان کا فیصلہ کر سکتا تھا.اس صورت میں وہ ایک آسمانی حَکَم یعنی فیصلہ کنندہ کے محتاج تھے جو خدا سے جدید وحی پاکر اہل حق کی حمایت کرے اور قضاء و قدر سے ایسی ضلالت کی ملونی ان کے کل فرقوں میں ہوگئی تھی جو خالص طور پر ان میں ایک بھی اہل حق نہیں کہلا سکتا تھا.ہر ایک فرقہ میں کچھ نہ کچھ جھوٹ اور افراط و تفریط کی آمیزش تھی.پس یہی وجہ پیدا ہوگئی تھی کہ یہود کے تمام فرقوں نے حضرت مسیح کو دشمن پکڑ لیا تھا اور ان کی جان لینے کی فکر میں ہوگئے تھے کیونکہ ہر یک فرقہ چاہتا تھا کہ حضرت مسیح پورے طور پر ان کا مصدق ہو اور ان کو راستباز اور نیک چلن خیال کرے اور ان کے مخالف کو جھوٹا کہے اور ایسا مداہنہ خدا تعالیٰ کے نبی سے غیر ممکن تھا.(۴)چہارم یہ کہ مسیح ابن مریم کے لئے جہاد کا حکم نہ تھااور حضرت موسٰیؑ کا مذہب یونانیوں اور رومیوں کی نظر میں اِس وجہ سے بہت بدنام ہو چکا تھا کہ وہ دین کی ترقی کے لئے تلوار سے کام لیتا رہا ہے گو کسی بہانہ سے.چنانچہ اب تک ان کی کتابوں میں موسٰیؑ کے مذہب پر برابر یہ اعتراض ہیں کہ کئی لاکھ شیر خوار بچے اس کے حکم اور نیز اس کے خلیفہ یشوع کے حکم سے جو اس کا جانشین تھا قتل کئے گئے اور پھر داؤدؑ اور دوسرے نبیوں کی لڑائیاں بھی اس اعتراض کو چمکاتی تھیں
پس انسانی فطرتیں اس سخت حکم کو برداشت نہ کر سکیں اور جب یہ خیالات غیر مذہب والوں کے انتہا تک پہنچ گئے تو خدا تعالیٰ نے چاہا کہ ایک ایسا نبی بھیج کر جو صرف صلح اور امن سے مذہب کو پھیلائے توریت پر سے وہ نکتہ چینی اُٹھادے جو غیر قوموں نے کی تھی.سو وہ صلح کا نبی عیسٰیؑ ابن مریم تھا (۵) پانچویں یہ کہ حضرت عیسٰیؑ کے وقت میں یہودیوں کے علماء کا عموماً چال چلن بہت بگڑ چکا تھا اور اُن کا قول اور فعل باہم مطابق نہ تھا.ان کی نمازیں اور ان کے روزے محض ریاکاری سے پُر تھے اور وہ جاہ طلب علماء رومی سلطنت کے نیچے ایسے دنیا کے کیڑے ہو چکے تھے کہ تمام ہمتیں ان کی اسی میں مصروف ہوگئی تھیں کہ مکر سے یا خیانت سے یا دغا سے یا جھوٹی گواہی سے یا جھوٹے فتووں سے دنیا کما ویں.ان میں بجز زاہدانہ لباس اور بڑے بڑے جُبّوں کے ایک ذرہ روحانیت باقی نہیں رہی تھی.وہ رومی سلطنت کے حکام سے بھی عزت پانے کے بہت خواہاں تھے اور طرح طرح کے جوڑ توڑ اور جھوٹی خوشامد سے سلطنت سے عزت اور کسی قدر حکومت حاصل کرلی تھی اور چونکہ ان کی دنیا ہی دنیا رہ گئی تھی اس لئے وہ اس عزت سے جو توریت پر عمل کرنے سے آسمان پر مل سکتی تھی بالکل لاپروا ہو کر دنیا پرستی کے کیڑے بن گئے تھے اور تمام فخر دنیا کی وجاہت میں ہی سمجھتے تھے اور اسی وجہ سے معلوم ہوتاہے کہ اس ملک کے گورنر پر جو رومی سلطنت کی طرف سے تھا کسی قدر ان کا دباؤ بھی تھا کیونکہ ان کے بڑے بڑے دنیا پرست مولوی دور دراز سفر کر کے قیصر کی ملاقات بھی کرتے تھے اور سلطنت سے تعلقات بنا رکھے تھے اور کئی لوگ ان میں سے سلطنت کے وظیفہ خوار بھی تھے اسی بنا پر وہ لوگ اپنے تئیں سلطنت کے بڑے خیر خواہ جتلاتے تھے اس لئے وہ اگرچہ ایک نظر سے زیر نگرانی بھی تھے مگر خوشامدانہ طریقوں سے انہوں نے قیصر اور اس کے بڑے حکام کو اپنی نسبت بہت نیک ظن بنا رکھا تھا.انہیں چال بازیوں کی وجہ سے علماء ان میں سے سلطنت کے حکام کی نظر میں معزز سمجھے جاتے تھے اور کرسی نشین تھے.لہٰذا وہ غریب گلیل کا رہنے والا جس کا نام یسوع بن مریم تھا.ان شریر لوگوں کے لئے بہت کوفتہ خاطر کیا گیا.اس کے منہ پر نہ صرف تھوکا گیا بلکہ گورنر کے حکم سے اس کو تازیانے بھی مارے گئے.وہ
چوروں اور بدمعاشوں کے ساتھ حوالات میں دیا گیا حالانکہ اس کا ایک ذرہ قصور نہ تھا.صرف گورنمنٹ کی طرف سے یہودیوں کی ایک دل جوئی تھی کیونکہ سلطنت کی حکمت عملی کا یہ اصول ہے کہ گروہ کثیر کی رعایت رکھی جائے سو اس غریب کو کون پوچھتا تھا.یہ عدالت تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آخر وہ یہودیوں کے مولویوں کے سپرد ہوا اور انہوں نے اس کو صلیب پر چڑھا دیا ایسی عدالت پر خدا جو زمین و آسمان کا مالک ہے لعنت کرتا ہے مگر افسوس ان حکومتوں پر جن کی آسمان کے خدا پر نظر نہیں.یوں بگفتن پیلاطوس جو اس ملک کا گورنر تھا مع اپنی بیوی کے حضرت عیسٰیؑ کا مرید تھا اور چاہتا تھا کہ اسے چھوڑ دے مگر جب زبردست یہودیوں کے علماء نے جو قیصر کی طرف سے بباعث اپنی دنیاداری کے کچھ عزت رکھتے تھے اس کو یہ کہہ کردھمکایا کہ اگر تو اس شخص کو سزا نہیں دے گا تو ہم قیصر کے حضورمیں تیرے پر فریاد کریں گے تب وہ ڈر گیا کیونکہ بزدل تھا.اپنی ارادت پر قائم نہ رہ سکا.یہ خوف اس لئے اس کے دامن گیر ہوا کہ بعض معزز علماء یہودنے قیصر تک اپنی رسائی بنا رکھی تھی اور پوشیدہ طور پر حضرت عیسیٰ کی نسبت یہ مخبری کرتے تھے کہ یہ مفسد اور درپردہ گورنمنٹ کا دشمن ہے اور اپنی ایک جمعیت بنا کر قیصر پر حملہ کرنا چاہتا ہے بظاہر یہ مشکلات بھی پیش تھیں کہ اس سادہ اور غریب انسان کو قیصر اور اس کے حکام سے کچھ تعلق نہ تھا اور ریاکاروں اور دنیا طلبوں کی طرح ان سے کچھ تعارف نہ تھا اور خدا پر بھروسہ رکھتا تھا اور اکثر علمائے یہود اپنی دنیا پرستی اور چالبازی اور خوشامدانہ وضع سے سلطنت میں دھنس گئے تھے وہ سلطنت کے درحقیقت دوست نہ تھے مگر معلوم ہوتا ہے کہ سلطنت اس دھوکے میں ضرور آگئی تھی کہ وہ دوست ہیں اس لئے ان کی خاطر سے ایک بے گناہ خدا کا نبی ہر ایک طرح سے ذلیل کیا گیا مگروہ جو آسمان سے دیکھتا اور دلوں کا مالک ہے وہ تمام شرارت پیشہ اس کی نظر سے محجوب نہ تھے آخر انجام یہ ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر چڑھا دیئے جانے کے بعد خدا نے مرنے سے بچالیا اور ان کی وہ دعا منظور کرلی جو انہوں نے دردِ دل سے باغ میں کی تھی جیسا کہ لکھا ہے کہ جب مسیح کو یقین ہوگیا کہ یہ خبیث یہودی میری جان کے دشمن ہیں اور مجھے نہیں چھوڑتے تب وہ ایک باغ میں رات کے وقت جاکر زار زار رویا اور دعا کی کہ یا الٰہی اگر تو یہ پیالہ مجھ سے ٹال دے تو تجھ سے بعیدنہیں تو جو چاہتا ہے کرتا ہے.اس جگہ عربی انجیل میں یہ عبارت لکھی ہے.فبکـٰی بدموع جاریۃ و عبرات متحدّرۃ فسُمِع لتقواہ یعنی یسوع مسیح اس قدر رویا کہ دعا
کرتے کرتے اس کے منہ پر آنسورواں ہوگئے اور وہ آنسو پانی کی طرح اُس کے رخساروں پر بہنے لگے اور وہ سخت رویا اور سخت دردناک ہوا تب اُس کے تقویٰ کی وجہ سے اس کی دعا سنی گئی اور خدا کے فضل نے کچھ اسباب پیدا کر دیئے کہ وہ صلیب پر سے زندہ اُتارا گیا اور پھر پوشیدہ طور پر باغبانوں کی شکل بنا کر اس باغ سے جہاں وہ قبر میں رکھا گیا تھا باہر نکل آیا اور خدا کے حکم سے دوسرے ملک کی طرف چلاگیا اور ساتھ ہی اس کی ماں گئی جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے. ۱؎ یعنی اس مصیبت کے بعد جو صلیب کی مصیبت تھی ہم نے مسیح اور اس کی ماں کو ایسے ملک میں پہنچا دیا جس کی زمین بہت اونچی تھی اور صاف پانی تھا اور بڑے آرام کی جگہ تھی.اور احادیث میں آیا ہے کہ اس واقعہ کے بعد عیسٰیؑ ابن مریم نے ایک سو بیس برس عمر پائی اور پھر فوت ہو کر اپنے خدا کو جاملا اور دوسرے عالم میں پہنچ کر یحییٰ ؑ کا ہم نشین ہوا کیونکہ اس کے واقعہ اور یحییٰ نبی کے واقعہ کو باہم مشابہت تھی.اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ نیک انسان تھااور نبی تھا مگر اسے خدا کہنا کفر ہے.لاکھوں انسان دنیا میں ایسے گزر چکے ہیں اور آئندہ بھی ہوں گے.خدا کسی کے برگزیدہ کرنے میں کبھی نہیں تھکا اور نہ تھکے گا (۶)چھٹی خصوصیت یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیصر روم کی عملداری کے ماتحت مبعوث ہوئے تھے.(۷) ساتویں خصوصیت یہ ہے کہ رومی سلطنت کو مذہب عیسوی سے مخالفت تھی مگر اخیری نتیجہ یہ ہوا کہ مذہب عیسائی قیصری قوم میں گھس گیا یہاں تک کہ کچھ مدت کے بعد خود قیصر روم عیسائی ہوگیا.(۸)آٹھویں خصوصیت یہ ہے کہ یسوع مسیح کے وقت میں جس کو اہل اسلام عیسٰیؑ کہتے ہیں ایک نیا ستارہ نکلا تھا(۹)نویں خصوصیت یہ ہے کہ جب اس کو صلیب پر چڑھایا گیا تو سورج کو گرہن لگا تھا (۱۰)دسویں خصوصیت یہ ہے کہ اس کو دکھ دینے کے بعد یہودیوں میں سخت طاعون پھیلی تھی (۱۱)گیارہویں خصوصیت یہ ہے کہ اس پر مذہبی تعصب سے مقدمہ بنایا گیا اور یہ بھی ظاہر کیا گیا کہ وہ سلطنت روم کا مخالف اور بغاوت پر آمادہ ہے (۱۲)بارہویں خصوصیت یہ ہے کہ جب وہ صلیب پر چڑھایا گیا تو اس کے ساتھ ایک چور بھی صلیب پر لٹکایا گیا (۱۳) تیرھویں خصوصیت یہ ہے کہ جب وہ پیلاطوس کے سامنے سزائے موت کے لئے پیش کیا گیا تو پیلاطوس نے کہا کہ میں اس کا کوئی گناہ نہیں ـپاتاؔ.(۱۴) چودھویں خصوصیت یہ کہ اگرچہ وہ باپ کے نہ ہونے کی وجہ سے بنی اسرائیل میں سے نہ تھا مگر ان کے سلسلہ کا آخری پیغمبر تھا
جو موسیٰ ؑ کے بعد چودھویں صدی میں ظاہر ہوا.(۱۵) پندرھویں خصوصیت یہ کہ یسوع بن مریم کے وقت میں جو قیصر تھا اس کے عہد میں بہت سی نئی باتیں رعایا کے آرام اور ان کے سفر و حضر کی سہولت کے لئے نکل آئی تھیں.سڑکیں بنائی گئی تھیں اور سرائیں تیار کی گئی تھیں اور عدالت کے نئے طریقے وضع کئے گئے تھے جو انگریزی عدالت سے مشابہ تھے (۱۶) سولہویں خصوصیت مسیح میں یہ تھی کہ بن باپ پیدا ہونے میں آدم سے مشابہ تھے.یہ سولہ خصوصیتیں ہیں جو موسوی سلسلہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں رکھی گئی تھیں.پھر جبکہ خدا تعالیٰ نے موسوی سلسلہ کو ہلاک کر کے محمدی سلسلہ قائم کیا جیسا کہ نبیوں کے صحیفوں میں وعدہ دیا گیا تھا تو اس حکیم و علیم نے چاہا کہ اس سلسلہ کے اوّل اور آخر دونوں میں مشابہت تامہ پیدا کرے تو پہلے اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرما کر مثیل موسٰیؑ قرار دیا جیسا کہ آیت ۱؎ سے ظاہر ہے.حضرت موسٰیؑ نے کافروں کے مقابل پر تلوار اُٹھائی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس وقت جبکہ مکہ سے نکالے گئے اور تعاقب کیا گیا مسلمانوں کی حفاظت کے لئے تلوار اُٹھائی.ایسا ہی حضرت موسٰیؑ کی نظر کے سامنے سخت دشمن ان کا جو فرعون تھا غرق کیا گیا.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے سخت دشمن آپ کا جو ابوجہل تھا ہلاک کیا گیا.ایسا ہی اور بہت سی مشابہتیں ہیں جن کا ذکر کرنا موجب طول ہے.یہ تو سلسلہ کے اوّل میں مشابہتیں ہیں مگر ضروری تھا کہ سلسلہ محمدیؐ کے آخری خلیفہ میں بھی سلسلہ موسویہ کے آخری خلیفہ سے مشابہت ہو تا خدا تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ سلسلہ محمدیہ باعتبار امام سلسلہ اور خلفاء سلسلہ کے سلسلہ موسویہ سے مشابہ ہے ٹھیک ہو اور ہمیشہ مشابہت اوّل اور آخر میں دیکھی جاتی ہے اور درمیانی زمانہ جو ایک طویل مدت ہوتی ہے گنجائش نہیں رکھتا کہ پوری پوری نظر سے اس کو جانچا جائے مگر اوّل اور آخر کی مشابہت سے یہ قیاس پیدا ہو جاتا ہے کہ درمیان میں بھی ضرور مشابہت ہوگی گو نظر عقلی اس کی پوری پڑتال سے قاصر رہے اور ابھی ہم لکھ چکے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں مذہبی پہلو کے رو سے سولہ خصوصیتیں تھیں جن کا اسلام کے آخری خلیفہ میں پایا جانا
ضروری ہے تا اس میں اور حضرت عیسیٰ ؑ میں مشابہت تامہ ثابت ہو.پس اوّل موعود ہو نے کی خصوصیت ہے.اسلام میں اگرچہ ہزارہا ولی اور اہل اللہ گزرے ہیں مگر ان میں کوئی موعودنہ تھا لیکن وہ جو مسیحؑ کے نام پرآنے والا تھا وہ موعود تھا.ایسا ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پہلے کوئی نبی موعودنہ تھا صرف مسیحؑ موعود تھا.دو۲م.خصوصیت سلطنت کے برباد ہوچکنے کی ہے.پس اس میں کیا شک ہے کہ جیسا کہ حضرت موسٰیؑ بن مریم سے کچھ دن پہلے اس ملک سے اسرائیلی سلطنت جاتی رہی تھی ایسا ہی اس آخری مسیح کی پیدائش سے پہلے اسلامی سلطنت بباعث طرح طرح کی بدچلنیوں کے ملک ہندوستان سے اُٹھ گئی تھی اور انگریزی سلطنت اس کی جگہ قائم ہوگئی تھی.سو۳م.خصوصیت جو پہلے مسیحؑ میں پائی گئی وہ یہ ہے کہ اس کے وقت میں یہود لوگ بہت سے فرقوں پر منقسم ہوگئے تھے اور بالطبع ایک حَکَم کے محتاج تھے تا ان میں فیصلہ کرے ایسا ہی آخری مسیح کے وقت میں مسلمانوں میں کثرت سے فرقے پھیل گئے تھے.چہار۴م خصوصیت جو پہلے مسیح میں تھی وہ یہ ہے کہ وہ جہاد کے لئے مامور نہ تھا.ایسا ہی آخری مسیح جہاد کے لئے مامور نہیں ہے اور کیونکر مامور ہو زمانہ کی رفتار نے قوم کو متنبہ کر دیا ہے کہ تلوار سے کوئی دل تسلی نہیں پا سکتا اور اب مذہبی اُمور کے لئے کوئی مہذب تلوار نہیں اُٹھاتا.اور اب زمانہ جس صورت پر واقع ہے خود شہادت دے رہا ہے کہ مسلمانوں کے وہ فرقے جو مہدی خونی یا مسیح خونی کے منتظر ہیں وہ سب غلطی پر ہیں.اور ان کے خیالات خدا تعالیٰ کی منشاء کے برخلاف ہیں اور عقل بھی یہی گواہی دیتی ہے کیونکہ اگر خدا تعالیٰ کا یہ منشاء ہوتا کہ مسلمان دین کے لئے جنگ کریں تو موجودہ وضع کی لڑائیوں کے لئے سب سے فائق مسلمان ہوتے وہی توپوں کی ایجاد کرتے وہی نئی نئی بندوقوں کے موجد ٹھہرتے اور انہیں کو فنون حرب میں ہریک پہلو سے کمال بخشا جاتا.یہاں تک کہ آئندہ زمانہ کے جنگوں کے لئے انہیں کو غبارہ ـ بنانے کی سوجھتی اور وہی آب دوز کشتیاں جو پانی کے اندر چوٹیں کرتی ہیں بناتے اور دنیا کو حیران کرتے حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ دن بدن عیسائی ان باتوں میں ترقی کررہے ہیں اس سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کا یہ منشاء نہیں ہے کہ لڑائیوں کے ذریعہ
سے اسلام پھیلے ہاں عیسائی مذہب دلائل کے رو سے دن بدن سُست ہوتا جاتاہے اور بڑے بڑے محقق تثلیث کے عقیدہ کو چھوڑتے جاتے ہیں یہاں تک کہ جرمن کے بادشاہ نے بھی اس عقیدہ کے ترک کی طرف اشارہ کر دیا ہے.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ محض دلائل کے ہتھیار سے عیسائی تثلیث کے عقیدہ کو زمین پر سے نابود کرنا چاہتا ہے.یہ قاعدہ ہے کہ جو پہلو ہونہار ہوتا ہے پہلے سے اس کے علامات شروع ہو جاتے ہیں.سو مسلمانوں کے لئے آسمان سے حربی فتوحات کی کچھ علامات ظاہر نہیں ہوئیں.البتہ مذہبی دلائل کی علامات ظاہرہوئی ہیں.اور عیسائی مذہب خودبخود پگلتا جاتا ہے.اور قریب ہے کہ جلد تر صفحہ دنیا سے نابود ہو جائے.(۵)پنجم خصوصیت جو پہلے مسیح میں تھی وہ یہ ہے کہ اس کے زمانہ میں یہودیوں کا چال چلن بگڑگیا تھا.بالخصوص اکثر ان کے جو علماء کہلاتے تھے وہ سخت مکار اور دنیا پرست اور دنیا کے لالچوں میں اور دنیوی عزتوں کی خواہشوں میں غرق ہوگئے تھے.ایسا ہی آخری مسیح کے وقت میں عام لوگوں اور اکثر علماء اسلام کی حالت ہورہی ہے مفصل لکھنے کی کچھ حاجت نہیں.(۶) چھٹی خصوصیت یعنی یہ کہ حضرت مسیح قیصر روم کے ماتحت مبعوث ہوئے تھے سو اس خصوصیت میں آخری مسیح کا بھی اشتراک ہے.کیونکہ میں بھی قیصر کی عملداری کے ماتحت مبعوث ہوا ہوں یہ قیصر اس قیصر سے بہتر ہے جو حضرت مسیح کے وقت میں تھا کیونکہ تاریخ میں لکھا ہے کہ جب قیصر روم کو خبر ہوئی کہ اس کے گورنر پیلاطوس نے حیلہ جوئی سے مسیح کو اس سزا سے بچا لیا ہے کہ وہ صلیب پر مارا جائے اور روپوش کر کے کسی طرف فراری کر دیا ہے تو وہ بہت ناراض ہوا اور یہ ثابت شدہ امر ہے کہ یہ مخبری یہودیوں کے مولویوں نے ہی کی تھی کہ پیلاطوس نے ایک قیصر کے باغی کوـ مفرور کرا دیا ہے تو اس مخبری کے بعد فی الفور پیلاطوس قیصر کے حکم سے جیل خانہ میں ڈالا گیا اور آخری نتیجہ یہ ہوا کہ جیل خانہ میں ہی اس کا سر کاٹا گیا اور اس طرح پر پیلاطوس مسیح کی محبت میں شہید ہوا.اس سے معلوم ہوا کہ اہل حکم اور سلطنت اکثر دین سے محروم رہ جاتے ہیں.اس نادان قیصر نے یہودیوں کے علماء کو بہت معتبر سمجھا اور ان کی عزت افزائی کی اور اُن کی باتوں پر عمل کیا اور حضرت مسیح کے قتل کئے جانے کو مصلحت ملکی قرار دیا مگر جہاں تک میرا خیال ہے اب زمانہ بہت بدل گیا ہے اس لئے ہمارا قیصر بمراتب اس قیصر سے بہتر ہے جو ایسا جاہل اور ظالم تھا.
(۷) ساتویں خصوصیت یہ کہ مذہب عیسائی آخر قیصری قوم میں گھس گیا.سو اس خصوصیت میں بھی آخری مسیح کا اشتراک ہے کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ یورپ اور امریکہ میں میرے دعویٰ اور دلائل کو بڑی دلچسپی سے دیکھا جاتا ہے اور ان لوگوں نے خود بخود صدہا اخبار میں میرے دعویٰ اور دلائل کو شائع کیا ہے اور میری تائید اور تصدیق میں ایسے الفاظ لکھے ہیں کہ ایک عیسائی کے قلم سے ایسے الفاظ کا نکلنا مشکل ہے یہاں تک کہ بعض نے صاف لفظوں میں لکھ دیا ہے کہ یہ شخص سچا معلوم ہوتا ہے.اور بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ درحقیقت یسوع مسیح کو خدا بنانا ایک بھاری غلطی ہے.اور بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس وقت مسیح موعود کا دعویٰ عین وقت پر ہے اور وقت خود ایک دلیل ہے.غرض اُن کے اِن تمام بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ وہ میرے دعوے کے قبول کرنے کے لئے تیاری کررہے ہیں.اور ان ملکوں میں سے دن بدن عیسائی مذہب خود بخود برف کی طرح پگلتا جاتا ہے.(۸)آٹھویں خصوصیت مسیح میں یہ تھی کہ اُس کے وقت میں ایک ستارہ نکلا تھا.اِس خصوصیت میں بھی میں آخری مسیح بننے میں شریک کیا گیا ہوں کیونکہ وہی ستارہ جو مسیح کے وقت میں نکلا تھا دوبارہ میرے وقت میں نکلا ہے.اس بات کی انگریزی اخباروں نے بھی تصدیق کی ہے اور اس سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ مسیح کے ظہور کا وقت نزدیک ہے (۹)نویں خصوصیت یسوع مسیح میں یہ تھی کہ جب اس کو صلیب پر چڑھایا گیا تو سورج کو گرہن لگا تھا سو اس واقعہ میں بھی خدا نے مجھے شریک کیا ہے کیونکہ جب میری تکذیب کی گئی تو اس کے بعدنہ صرف سورج بلکہ چاند کو بھی ایک ہی مہینہ میں جو رمضان کا مہینہ تھا گرہن لگا تھا اور نہ ایک دفعہ بلکہ حدیث کے مطابق دو دفعہ یہ واقعہ ہوا.ان دونوں گرہنوں کی انجیلوں میں بھی خبر دی گئی ہے اور قرآن شریف میں بھی یہ خبرہے اور حدیثوں میں بھی جیسا کہ دار قطنی میں (۱۰)دسویں خصوصیت یہ ہے کہ یسوع مسیح کو دکھ دینے کے بعد یہودیوں میں سخت طاعون پھیلی تھی سو میرے وقت میں بھی سخت طاعون پھیل گئی (۱۱)گیارہویں خصوصیت یسوع مسیح میں یہ تھی کہ یہودیوں کے علماء نے کوشش کی کہ وہ باغی قرار پاوے اور اس پر مقدمہ بنایا گیا اور زور لگایا گیا کہ اُس کو سزائے موت دی جائے سو اس قسم کے مقدمہ میں بھی قضاء و قدر الٰہی نے مجھے شریک کر دیا
کہ ایک خون کا مقدمہ مجھ پر بنایا گیا اور اسی کے ضمن میں مجھے باغی بنانے کی کوشش کی گئی.یہ وہی مقدمہ ہے جس میں فریق ثانی کی طرف سے مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی گواہ بن کرآئے تھے (۱۲)بارھویں خصوصیت یسوع مسیح میں یہ تھی کہ جب وہ صلیب پر چڑھایا گیا تو اُس کے ساتھ ایک چور بھی صلیب پر لٹکایا گیاتھا سو اس واقعہ میں بھی میں شریک کیا گیا ہوں کیونکہ جس دن مجھ کو خون کے مقدمہ سے خدا تعالیٰ نے رہائی بخشی.اور اس پیشگوئی کے موافق جو میں خدا تعالیٰ سے وحی یقینی پاکر صدہا لوگوں میں شائع کر چکاتھامجھ کو بری فرمایا اس دن میرے ساتھ ایک عیسائی چوربھی عدالت میں پیش کیا گیا تھا.یہ چور عیسائیوں کی مقدس جماعت مکتی فوج میں سے تھا جس نے کچھ روپیہ چرا لیا تھا.اس چور کو صرف تین مہینہ کی سزا ملی.پہلے مسیح کے رفیق چور کی طرح سزائے موت اس کو نہیں ہوئی (۱۳) تیرھویں خصوصیت مسیح میں یہ تھی کہ جب وہ پیلاطوس گورنر کے سامنے پیش کیا گیا اور سزائے موت کی درخواست کی گئی تو پیلاطوس نے کہا کہ مَیں اس کا کوئی گناہ نہیں پاتا جس سے یہ سزا دوں.ایسا ہی کپتان ڈگلس صاحب ضلع مجسٹریٹ نے میرے ایک سوال کے جواب میں مجھ کو کہا کہ میں آپ پر کوئی الزام نہیں لگاتا.میرے خیال میں ہے کہ کپتان ڈگلس اپنی استقامت اور عادلانہ شجاعت میں پیلاطوس سے بہت بڑھ کر تھا کیونکہ پیلاطوس نے آخر کار بزدلی دکھائی اور یہودیوں کے شریر مولویوں سے ڈرگیا مگر ڈگلس ہرگز نہ ڈرا.اس کو مولوی محمد حسین نے کرسی مانگ کر کہا کہ میرے پاس صاحب لفٹنٹ گورنر بہادر کی چٹھیاں ہیں مگر کپتان ڈگلس نے اس کی کچھ پروا نہ کی.اور میں باوجودیکہ ملزم تھا مجھے کرسی دی اور اس کو کرسی کی درخواست پر جھڑک دیا اور کرسی نہ دی اگرچہ آسمان پر کرسی پانے والے زمین کی کرسی کے کچھ محتاج نہیں ہیں مگر یہ نیک اخلاق اس ہمارے وقت کے پیلاطوس کے ہمیشہ ہمیں اور ہماری جماعت کو یاد رہیں گے اور دنیا کے اخیر تک اس کا نام عزت سے لیا جائے گا.
(۱۴)چودھویں خصوصیت یسوع مسیح میں یہ تھی کہ وہ باپ کے نہ ہونے کی وجہ سے بنی اسرائیل میں سے نہ تھا مگر باایں ہمہ موسوی سلسلہ کا آخری پیغمبر تھا.جو موسیٰ کے بعد چودھویں صدی میں پیدا ہوا.ایسا ہی میں بھی خاندان قریش میں سے نہیں ہوں اور چودھویں صدی میں مبعوث ہوا ہوں اور سب سے آخر ہوں.(۱۵)پندرھویں خصوصیت حضرت مسیح میں یہ تھی کہ اُن کے عہد میں دنیا کی وضع جدید ہوگئی تھی.سڑکیں ایجاد ہوگئی تھیں.ڈاک کا عمدہ انتظام ہوگیا تھا.فوجی انتظام میں بہت صلاحیت پیدا ہوگئی تھی اور مسافروں کے آرام کے لئے بہت کچھ باتیں ایجاد ہوگئی تھیں اور پہلے کی نسبت قانون معدلت نہایت صاف ہوگیا تھا.ایسا ہی میرے وقت میں دنیا کے آرام کے اسباب بہت ترقی کر گئے ہیں.یہاں تک کہ ریل کی سواری پیدا ہوگئی جس کی خبر قرآن شریف میں پائی جاتی ہے.باقی امور کو پڑھنے والا خود سمجھ لے.(۱۶)سو لہویں خصوصیت حضرت مسیح میں یہ تھی کہ بن باپ ہونے کی وجہ سے حضرت آدم سے وہ مشابہ تھے ایسا ہی میں بھی توام پیدا ہونے کی وجہ سے حضرت آدم سے مشابہ ہوں اور اس قول کے مطابق جو حضرت محی الدین ابن عربی لکھتے ہیں کہ خاتم الخلفاء صینی الاصل ہوگا یعنی مغلوں میں سے اور وہ جوڑہ یعنی توام پیدا ہوگا.پہلے لڑکی نکلے گی بعد اس کے وہ پیدا ہوگا.ایک ہی وقت میں اسی طرح میری پیدائش ہوئی کہ جمعہ کی صبح کو بطور توام میں پیدا ہوا.اوّل لڑکی اور بعدہٗ میں پیدا ہوا.نہ معلوم کہ یہ پیشگوئی کہاں سے ابن عربی صاحب نے لی تھی جو پوری ہوگئی.ان کی کتابوں میں اب تک یہ پیشگوئی موجود ہے.یہ سولہ مشابہتیں ہیں جو مجھ میں اور مسیح میں ہیں.اب ظاہر ہے کہ اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا تو مجھ میں اور مسیح ابن مریم میں اس قدر مشابہت ہرگز نہ ہوتی.یوں توتکذیب کرنا قدیم سے ان لوگوں کا کام ہے جن کے حصہ میں سعادت نہیں مگر اس زمانہ کے مولویوں کی تکذیب عجیب ہے.میں وہ شخص ہوں جو عین وقت پر ظاہر ہوا.جس
کے لئے آسمان پر رمضان کے مہینہ میں چاند اور سورج کو قرآن اور حدیث اور انجیل اور دوسرے نبیوں کی خبروں کے مطابق گرہن لگا.اور میں وہ شخص ہوں جس کے زمانہ میں تمام نبیوں کی خبر اور قرآن شریف کی خبر کے موافق اس ملک میں خارق عادت طور پر طاعون پھیل گئی.اور میں وہ شخص ہوں جو حدیث صحیح کے مطابق اس کے زمانہ میں حج روکا گیا.اور میں وہ شخص ہوں جس کے عہد میں وہ ستارہ نکلا جو مسیح ابن مریم کے وقت میں نکلا تھا.اور میں وہ شخص ہوں جس کے زمانہ میں اس ملک میں ریل جاری ہو کر اونٹ بیکار کئے گئے.اور عنقریب وہ وقت آتا ہے بلکہ بہت نزدیک ہے جبکہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ریل جاری ہو کر وہ تمام اُونٹ بیکار ہو جائیں گے جو تیرہ سو برس سے یہ سفر مبارک کرتے تھے.تب اس وقت ان اُونٹوں کی نسبت وہ حدیث جو صحیح مسلم میں موجود ہے.صادق آئے گی یعنی یہ کہ لیترکنّ القلاص فلا یُسْعٰی علیھا یعنی مسیح کے وقت میں اُونٹ بیکار کئے جائیں گے اور کوئی اُن پر سفر نہیں کرے گا.ایسا ہی میں وہ شخص ہوں جس کے ہاتھ پر صدہا نشان ظاہر ہوئے.کیا زمین پر کوئی ایسا انسان زندہ ہے کہ جو نشان نمائی میں میرا مقابلہ کر کے مجھ پر غالب آسکے.مجھے اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اب تک دو لاکھ سے زیادہ میرے ہاتھ پر نشان ظاہر ہو چکے ہیں اور شاید دس ہزار کے قریب یا اس سے زیادہ لوگوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور آپ نے میری تصدیق کی اور اس ملک میں جو بعض نامی اہل کشف تھے جن کا تین تین چار چار لاکھ مرید تھا.اُن کو خواب میں دکھلایا گیا کہ یہ انسان خدا کی طرف سے ہے.اور بعض ان میں سے ایسے تھے کہ میرے ظہور سے تیس برس پہلے دنیا سے گزر چکے تھے.جیسا کہ ایک بزرگ گلاب شاہ نام ضلع لدہانہ میں تھا.جس نے میاں کریم بخش مرحوم ساکن جمال پور کو خبر دی تھی کہ عیسیٰ قادیان میں پیدا ہوگیا اور وہ لدہانہ میں آئے گا.میاں کریم بخش ایک صالح موحد اور بڈھا آدمی تھا.
اُس نے مجھ سے لدہانہ میں ملاقات کی اور یہ تمام پیشگوئی مجھے سنائی.اس لئے مولویوں نے اُس کو بہت تکلیف دی مگر اُس نے کچھ پروا نہ کی.اُس نے مجھے کہا کہ گلاب شاہ مجھے کہتا تھا کہ عیسیٰ بن مریم زندہ نہیں وہ مرگیا ہے.وہ دنیا میں واپس نہیں آئے گا.اِس اُمت کے لئے مرزا غلام احمد عیسیٰ ہے.جس کو خدا کی قدرت اور مصلحت نے پہلے عیسیٰ سے مشابہ بنایا ہے اور آسمان پر اس کا نام عیسیٰ رکھا ہے اور فرمایا کہ اے کریم بخش جب وہ عیسیٰ ظاہر ہوگا تو تو دیکھے گا کہ مولوی لوگ کس قدر اُس کی مخالفت کریں گے وہ سخت مخالفت کریں گے لیکن نامراد رہیں گے.وہ اس لئے دنیا میں ظاہر ہوگا کہ تا وہ جھوٹے حاشیے جو قرآن پر چڑھائے گئے ہیں اُن کو دُور کرے اور قرآن کا اصل چہرہ دنیا کو دکھاوے.اِس پیشگوئی میں اس بزرگ نے صاف طور پر یہ اشارہ کیا تھا کہ تو اِس قدر عمر پائے گاکہ اس عیسٰی کو دیکھ لے گا.اب باوجود ان تمام شہادتوں اور معجزات اور زبردست نشانوں کے مولوی لوگ میری تکذیب کرتے ہیں اور ضرور تھا کہ ایسا ہی کرتے تا پیشگوئی آیت ۱؎ کی پوری ہو جاتی.یاد رہے کہ اصل جڑھ اس مخالفت کی ایک حماقت ہے اور وہ یہ کہ مولوی لوگ یہ چاہتے ہیں کہ جو کچھ ان کے پاس رطب و یابس کا ذخیرہ ہے وہ سب علامتیں مسیح موعود میں ثابت ہونی چاہئیں اور ایسے مدعی مسیحیت یا مہدویت کو ہرگز نہیں ماننا چاہئے کہ ان کی تمام حدیثوں میں سے گو ایک حدیث اس پر صادق نہ آوے حالانکہ قدیم سے یہ امرغیر ممکن چلا آیا ہے.یہود نے جو جو علامتیں حضرت عیسیٰ کے لئے اپنی کتابوں میں تراش رکھی تھیں وہ پوری نہ ہوئیں.پھر انہیں بدبخت لوگوں نے ہمارے سیّد و مولیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جو جو علامتیں تراشی تھیں اور مشہور کررکھی تھیں وہ بھی بہت ہی کم پوری ہوئیں.اُن کا خیال تھا کہ یہ آخری نبی بنی اسرائیل سے ہوگا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسماعیل میں پیدا ہوئے.اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو توریت میں لکھ دیتا کہ اس نبی کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم
ہوگا اور باپ کا نام عبداللہ اور دادا کا نام عبدالمطلب اور مکہ میں پیدا ہوگا اور مدینہ اُس کی ہجرت گاہ ہوگی مگر خدا تعالیٰ نے یہ نہ لکھا کیونکہ ایسی پیشگوئیوں میں کچھ امتحان بھی منظور ہوتا ہے.اصل حقیقت یہ ہے کہ مسیح موعود کے لئے پہلے سے خبر دی گئی ہے کہ وہ اسلام کے مختلف فرقوں کے لئے بطور حَکَم کے آئے گا.اب ظاہر ہے کہ ہرایک فرقہ کی جدا جدا حدیثیں ہیں.پس یہ کیونکر ممکن ہو کہ سب کے خیالات کی وہ تصدیق کرے.اگر اہل حدیث کی تصدیق کرے تو حنفی ناراض ہوں گے.اگر حنفیوں کی تصدیق کرے تو شافعی بگڑ جائیں گے.اور شیعہ جدا یہ اصول ٹھہرائیں گے کہ اُن کے عقیدہ کے موافق وہ ظاہر ہو.اس صورت میں وہ کیونکر سب کو خوش کر سکتا ہے.علاوہ اس کے خود حَکَم کا لفظ چاہتا ہے کہ وہ ایسے وقت میں آئے گا کہ جب تمام فرقے کچھ نہ کچھ حق سے دور جا پڑیں گے.اِس صورت میں اپنی اپنی حدیثوں کے ساتھ اُس کو آزمانا سخت غلطی ہے بلکہ قاعدہ یہ چاہیے کہ جو نشان اور قراردادہ علامتیں اس کے وقت میں ظاہر ہو جائیں اُن سے فائدہ اُٹھائیں اور باقی کو موضوع اور انسانی افترا سمجھیں، یہی قاعدہ ان نیک بخت یہودیوں نے برتا جو مسلمان ہوگئے تھے کیونکہ جو جو باتیں مقرر کردہ احادیث یہود وقوع میں آگئیں اور آنحضرت پر صادق آگئیں.ان حدیثوں کو انہوں نے صحیح سمجھا اور جو پوری نہ ہوئیں ان کو موضوع قرار دیا.اگر ایسا نہ کیا جاتا تو پھر نہ حضرت عیسیٰ کی نبوت یہودیوں کے نزدیک ثابت ہو سکتی نہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت.جو لوگ مسلمان ہوئے تھے انہیں یہود کی صدہا جھوٹی حدیثوں کو چھوڑنا پڑا.جب انہوں نے دیکھا کہ ایک طرف بعض علامات قرار دادہ پوری ہوگئیں اور ایک طرف تائیدات الٰہیہ کا خدا کے رسول میں ایک دریا جاری ہے تو انہوں نے ان حدیثوں سے فائدہ اُٹھایا جو پوری ہوگئیں اگر ایسا نہ کرتے تو ایک شخص بھی اُن میں سے مسلمان نہ ہو سکتا.یہ تمام وہ باتیں ہیں کہ کئی دفعہ اور کئی پیرایوں میں مَیں نے مولوی عبداللطیف صاحب کو سنائی تھیں اور تعجب کہ انہوں نے میرے پاس بیان کیا کہ یہ باتیں پہلے سے میرے علم میں ہیں اور بہت سے ایسے عجیب دلائل حضرت مسیح کی وفات اور اِس بات پر سُنائے کہ اسی زمانہ میں اور
اسی اُمت سے مسیح موعود ہونا چاہیے جس سے مجھے بہت تعجب ہوا اور اس وقت شعر حسن زبصرہ بلال از حبش یاد آیا.اور اکثر ان کا استدلال قرآن شریف سے تھا اور وہ بار بار کہتے تھے کہ کیسے نادان وہ لوگ ہیں جن کا خیال ہے کہ مسیح موعود کی پیشگوئی صرف حدیثوں میں ہے حالانکہ جس قدر قرآن شریف سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عیسیٰ فوت ہوگیا اور مسیح موعود اسی اُمت میں سے آنے والا ہے اس قدر ثبوت حدیثوں سے نہیں ملتا.غرض خدا تعالیٰ نے اُن کے دل کو حق الیقین سے پُر کر دیا تھا اور وہ پوری معرفت سے اِس طرح پر مجھے شناخت کرتے تھے جس طرح درحقیقت ایک شخص کو آسمان سے اُترتا مع فرشتوں کے دیکھا جاتا ہے.اس وقت سے مجھے یہ خیال آیا ہے کہ حدیثوں میں جو مسیح موعود کے نزول کا ذکر ہے اگرچہ یہ لفظ اکرام اور اعزاز کے لئے محاورہ عرب میں آتا ہے جیسا کہ کہتے ہیں کہ فلاں لشکر فلاں جگہ اُترا ہے اور جیسا کہ کسی شہر کے نووارد کو کہا جاتا ہے کہ آپ کہاں اُترے ہیں اور جیسا کہ قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے ہی اس رسول کو اُتارا ہے اور جیسا کہ انجیل میں آیا ہے کہ عیسیٰ اور یحییٰ آسمان سے اُترے لیکن باایں ہمہ یہ نزول کا لفظ اِس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ اس قدر اُس مسیح کی سچائی پر دلائل جمع ہو جائیں گے کہ اہلِ فراست کو اس کے مسیح موعود ہونے میں یقین تام ہو جائے گا گویا وہ ان کے روبرو آسمان سے ہی اُترا ہے.چنانچہ ایسے یقین کامل کا نمونہ شہزادہ مولوی عبداللطیف شہیدنے دکھا دیا.جان دینے سے بڑھ کر کوئی امر نہیں اور ایسی استقامت سے جان دینا صاف بتلارہا ہے کہ انہوں نے مجھے آسمان سے اُترتے دیکھ لیا اور دوسرے لوگوں کے لئے بھی یہ امر صاف ہے کہ میرے دعویٰ کے تمام پہلو آفتاب کی طرح چمک رہے ہیں.اوّل قرآن شریف نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ عیسیٰ بن مریم فوت ہوگیا ہے اور پھر دنیا میں نہیں آئے گا.اور اگر بفرضِ محال قرآن کریم کے مخالف ایک لاکھ حدیث بھی ہو وہ سب باطل اور جھوٹ اور کسی باطل پرست کی بناوٹ ہے.حق وہی ہے جو قرآن نے فرمایا.اور حدیثیں وہ ماننے کے لائق ہیں جو اپنے قصوں میں قرآن کے بیان کردہ قصوں سے مخالف نہیں پھر بعد اس کے یہ فیصلہ بھی قرآن شریف نے ہی سورۃ نور میں ـ لفظ منکم کے ساتھ ہی کر دیا ہے کہ اس دین کے
تمام خلیفے اسی اُمت میں سے پیدا ہوں گے اور وہ خلفاء سلسلہ موسوی کے مثیل ہوں گے اور صرف ایک اُن میں سے سلسلہ کے آخر میں موعود ہوگا جو عیسیٰ بن مریم کے مشابہ ہوگا باقی موعودنہیں ہوں گے یعنی نام لے کر اُن کے لئے کوئی پیشگوئی نہیں ہو گی اور یہ منکم کا لفظ بخاری میں بھی موجود ہے اور مسلم میں بھی ہے جس کے یہی معنے ہیں کہ وہ مسیح موعود اسی اُمّت میں سے پیدا ہوگا.پس اگر ایک غور کرنے والا اس جگہ پورا غور کرے اور طریق خیانت اختیار نہ کرے تو اس کو ان تین منکم کے لفظوں پر نظر ڈالنے سے یقین ہو جائیگا کہ یہ امر قطعی فیصلہ تک پہنچ چکا ہے کہ مسیح موعود اسی اُمت میں سے پیدا ہوگا.اب رہا میرا دعویٰ سو میرے دعویٰ کے ساتھ اس قدر دلائل ہیں کہ کوئی انسان نِرا بے حیا نہ ہو تو اُس کے لئے اس سے چارہ نہیں ہے کہ میرے دعویٰ کو اسی طرح مان لے جیسا کہ اُس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو مانا ہے.کیا یہ دلائل میرے دعوٰے کے ثبوت کے لئے کم ہیں کہ میری نسبت قرآن کریم نے اس قدر پورے پورے قرائن اور علامات کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ ایک طور سے میرا نام بتلادیا ہے اور حدیثوں میں کدعہ کے لفظ سے میرے گاؤں کا نام موجود ہے اور حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اس مسیح موعود کی تیرھویں صدی میں پیدائش ہوگی اور چودھویں صدی میں اُس کا ظہور ہوگا.اور صحیح بخاری میں میرا تمام حلیہ لکھا ہے اور پہلے مسیح کی نسبت جو میرے حلیہ میں فرق ہے وہ ظاہر کردیا ہے اور ایک حدیث میں صریح یہ اشارہ ہے کہ وہ مسیح موعود ہند میں ہو گا کیونکہ دجال کابڑا مرکز مشرق یعنی ہند قرار دیا ہے.اور یہ بھی لکھا ہے کہ مسیح موعود دمشق سے مشرق کی طرف ظاہر ہوگا.سو قادیان دمشق سے مشرق کی طرف ہے اور پھر دعویٰ کے وقت میں اور لوگوں کی تکذیب کے دنوں میں آسمان پر رمضان کے مہینہ میں کسوف خسوف ہونا.زمین پر طاعون کا پھیلنا.حدیث اور قرآن کے مطابق ریل کی سواری پیدا ہو جانا.اونٹ بیکار ہو جانے.حج روکا جانا.صلیب کے غلبہ کا وقت ہونا.میرے ہاتھ پر صدہا نشانوں کا ظاہر ہونا.نبیوں کے مقرر کردہ وقت مسیح موعود کے لئے یہی وقت ہونا.صدی کے سر پر میرا مبعوث ہونا.ہزارہا نیک لوگوں کا میری تصدیق کے لئے خوابیں دیکھنا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن شریف کا یہ فرمانا کہ وہ مسیح موعود میری اُمت میں سے پیدا ہوگا اور خدا تعالیٰ کی تائیدات کا میرے شامل حال ہونا اور ہزارہا لوگوں کا دو لاکھ کے قریب میرے ہاتھ پر بیعت کر کے راستبازی اور پاکدلی اختیار کرنا.اور میرے وقت میں عیسائی مذہب میں ایک عام تزلزل پڑنا یہاں تک کہ تثلیث کی طلسم کا برف کی طرح گداز ہونا شروع
ہو جانا اور میرے وقت میں مسلمانوں کا بہت سے فرقوں پر منقسم ہو کر تنزل کی حالت میں ہونا اور طرح طرح کی بدعات اور شرک اور میخواری اور حرامکاری اور خیانت اور دروغگوئی دنیا میں شائع ہو کر ایک عام تغیر دنیا میں پیدا ہو جانا اور ہر ایک پہلو سے انقلاب عظیم اس عالم میں پیدا ہو جانا.اور ہر ایک دانشمند کی شہادت سے دنیا کا ایک مصلح کا محتاج ہونا.اور میرے مقابلہ سے خواہ اعجازی کلام میں اور خواہ آسمانی نشانوں میں تمام لوگوں کا عاجز آجانااور میری تائید میں خدا تعالیٰ کی لاکھوں پیشگوئیاں پوری ہونا.یہ تمام نشان اور علامات اور قرائن ایک خدا ترس کے لئے میرے قبول کرنے کے لئے کافی ہیں.بعض جاہل اس جگہ اعتراض کرتے ہیں کہ بعض پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں جیسا کہ آتھم کے مرنے کی اور احمد بیگ کے داماد کی پیشگوئی مگر اُن کو خدا تعالیٰ سے شرم کرنی چاہیے کیونکہ جس حالت میں کئی لاکھ پیشگوئی روز روشن کی طرح پوری ہوچکی ہے اور دن بدن نئے نئے نشان ظاہر ہوتے جاتے ہیں تو اس صورت میں اگر ایک دو پیشگوئیاں ان کی سمجھ میں نہیں آئیں تو یہ ان کی سراسر شقاوت ہے کہ بباعث اس بدفہمی کے جس میں خود ان کا قصور ہے خدا تعالیٰ کے ہزارہا نشانوں اور دلیلوں اور معجزات سے انکار کردیں.اور اگر اسی طرح پر انکار ہو سکتا ہے تو پھر ہمیں کسی پیغمبر کا پتہ بتلاویں جس کی بعض پیشگوئیوں کے پورا ہونے کی نسبت انکار نہیں کیا گیا.چنانچہ ملاکی نبی کی پیشگوئی اپنے ظاہری معنوں کے رو سے اب تک پوری نہیں ہوئی.کہاں الیاس نبی دنیا میں آیا جس کا یہود کو آج تک انتظار ہے حالانکہ مسیح آچکا ہے جس سے پہلے اُس کا آنا ضروری تھا.کہاں یہ پیشگوئی مسیح کی پوری ہوئی کہ اس زمانہ کے لوگ ابھی زندہ ہی ہوں گے کہ میں واپس آجاؤں گا.کہاں اس کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ پطرس کے ہاتھ میں آسمان کی کنجیاں ہیں.کہاں اُس کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ وہ داؤد کا تخت قائم کرے گا.اور کب یہ پیشگوئی ظہور میں آئی کہ اس کے بار۱۲ہ حواری بار۱۲ہ تختوں پر بیٹھیں گے.کیونکہ یہودااسکر یوطی مرتد ہوگیا اور جہنم میں جا پڑا اور اس کی بجائے جس کے لئے تخت کا وعدہ تھا ایک نیا حواری تراشا گیا جو مسیح کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا.ایسا ہی حدیثوں میں لکھا ہے.چنانچہ درمنثور میں بھی ہے کہ یونس نبی نے یہ پیشگوئی قطعی طور پر بغیر کسی شرط کے کی تھی کہ نینوہ کے رہنے والوں پر چالیس دن کے اندر عذاب نازل ہوگا جو اُن کو اس میعاد کے اندر ہلاک کر دے گا مگر کوئی عذاب نازل نہ ہوا اور نہ وہ ہلاک ہوئے.آخر یونس کو
شرمندہ ہو کر اُس جگہ سے بھاگنا پڑا.یہ پیشگوئی بائبل میں یونہ نبی کی کتاب میں بھی موجود ہے جس کو عیسائی خدا تعالیٰ کی طرف سے سمجھتے ہیں.پھر باوجود ان سب باتوں کے مسلمان اِن پیغمبروں پر ایمان بھی لاتے ہیں اور ان چند اعتراضات کی کچھ پروا نہیں کرتے اور وہ دو۲ پیشگوئیاں مذکورہ بالا جن کی نسبت اُن کا اعتراض ہے یعنی آتھم کے متعلق اور احمد بیگ کے داماد کے متعلق اُن ـ کی نسبت ہم بارہا لکھ چکے ہیں کہ آتھم کی موت کی پیشگوئی تمام تر صفائی سے پوری ہوگئی.اب تلاش کرو آتھم کہاں ہے.کیا وہ زندہ ہے یا مر گیا.پیشگوئی کا ماحصل یہ تھا کہ ہم دونوں فریق میں سے جو جھوٹا ہے وہ سچے سے پہلے مرے گا سو مدت ہوئی کہ آتھم مر گیا اور یہ فقرہ جو اِس پیشگوئی میں موجود تھا کہ آتھم پندرہ مہینہ کے اندر مرے گا.اس کے ساتھ یہ شرط بھی شائع کی گئی تھی کہ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے مگر آتھم نے اُسی مجلس بحث میں اپنی بے ادبی سے رجوع کر لیا تھا کیونکہ جب میں نے اُس کو کہا کہ یہ پیشگوئی اس لئے کی گئی ہے کہ تم نے آنحضرت صلعم کو اپنی کتاب میں دجال لکھا ہے تو سنتے ہی اُس کا چہرہ زرد ہوگیا اور نہایت تضرع سے اُس نے اپنی زبان منہ سے باہر نکالی اور دونوں ہاتھ کانوں پر رکھ لئے اور کہا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہرگز ایسا نہیں کہا.اور بڑی عاجزی اور تضرع ظاہر کی.اُس وقت سا۶۰ٹھ سے زیادہ مسلمان اور عیسائی وغیرہ موجود تھے.کیا یہ ایسا لفظ نہیں تھا جس کو شوخی اور بے ادبی سے رجوع سمجھا جائے اور پھر وہ پند۱۵رہ مہینہ تک مخالفت سے بالکل چپ رہا اور اکثرگریہ وبکا میں رہا اور اپنی حالت اُس نے بالکل بدل لی.پس ایک نیک دل ایماندار کے لئے یہ کافی ہے کہ اُس نے پندرہ مہینہ کے اندر کسی حد تک اپنی تبدیلی کرلی تھی.اور چونکہ اُس نے خدا تعالیٰ سے خوف کھا کر نرمی اور تضرع اختیار کیا اور قطعاً شوخی اور گستاخی چھوڑ دی بلکہ امرتسر میں جو ایسے لوگوں کی صحبت اُسے میسر تھی اُس صحبت کو ترک کرکے اور وہ مکان چھوڑ کر وہ فیروزپور میں جاکر مقیم ہوگیا.پس ضرور تھا کہ وہ اس قدر خوف سے فائدہ اُٹھاتا.پس اگرچہ اِس بات سے محفوظ نہ رہا کہ میرے پہلے بہت جلد اُنہیں دنوں میں مرگیا مگر کسی قدر شرط کے پورا کرنے سے فائدہ اُٹھالیا.اُس کے مقابل لیکھرام تھا جس نے پیشگوئی کی میعاد میں کوئی تضرع اور خوف ظاہر نہ کیا بلکہ پہلے سے بھی زیادہ گستاخ ہو کر بازاروں اور کوچوں
اور شہروں اور دیہات میں توہین اسلام کرنے لگا تب وہ میعاد کے اندر ہی اپنی اس بداعمالی کی وجہ سے پکڑا گیا اور وہ زبان اُس کی جو گالی اور بدزبانی میں چھری کی طرح چلتی تھی اُسی چھری نے اس کا کام تمام کردیا.رہا احمدبیگ کا داماد پس ہر ایک شخص کو معلوم ہے کہ یہ پیشگوئی دو شخصوں کی نسبت تھی.ایک احمدبیگ کی نسبت اور دوسری اُس کے داماد کی نسبت.سو ایک حصہ اس پیشگوئی کا میعادکے اندر ہی پورا ہوگیا یعنی احمد بیگ میعاد کے اندر مر گیا اور اس طرح پر ایک ٹانگ پیشگوئی کی پوری ہوگئی.اب دوسری ٹانگ جو باقی ہے اس کی نسبت جو اعتراض ہے افسوس کہ وہ دیانت کے ساتھ پیش نہیں کیا جاتا اور آج تک کسی معترض کے منہ سے میں نے یہ نہیں سنا کہ وہ اس طرح پر اعتراض کرے کہ اگرچہ اس پیشگوئی کا ایک حصہ پورا ہو چکا ہے اور ہم بصدق دل اعتراف کرتے ہیں کہ وہ پورا ہوا مگر دوسرا حصہ اب تک پورا نہیں ہوا بلکہ یہودیوں کی طرح پورا ہونے والا حصہ بالکل مخفی رکھ کر اعتراض کرتے ہیں.کیا ایسا شیوہ ایمان اور حیا اور راستبازی کے مطابق ہے؟ اب قطع نظر ان کی خائنانہ طرز گفتگو کے جواب یہ ہے کہ یہ پیشگوئی بھی آتھم کی پیشگوئی کی طرح مشروط بشرط ہے یعنی یہ لکھا گیا تھا کہ اس شرط سے وہ میعاد کے اندر پوری ہوگی کہ ان دونوں میں سے کوئی شخص خوف اور خشیت ظاہر نہ کرے سو احمد بیگ کو یہ خوفناک علامت پیش نہ آئی اور وہ پیشگوئی کو خلاف واقعہ سمجھتا رہا مگر احمد بیگ کے داماد اور اُس کے عزیزوں کو یہ خوفناک حالت پیش آگئی کیونکہ احمد بیگ کی موت نے ان کے دلوں پر ایک لرزہ ڈال دیا جیسا کہ انسانی فطرت میں داخل ہے کہ سخت سے سخت انسان نمونہ دیکھنے کے بعد ضرور ہراساں ہو جاتا ہے سو ضرور تھا کہ اس کو بھی مہلت دی جاتی.سو یہ تمام اعتراضات جہالت اور نابینائی اور تعصب کی وجہ سے ہیں نہ دیانت اور حق طلبی کی وجہ سے جس شخص کے ہاتھ سے اب تک دس لاکھ سے زیادہ نشان ظاہر ہو چکے ہیں اور ہورہے ہیں.کیا اگر ایک یا دو پیشگوئیاں اُس کی کسی جاہل اور بدفہم اور غبی کو سمجھ میں نہ آویں تو اِس سے یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ وہ تمام پیشگوئیاں صحیح نہیں.میں یہ بات حتمی وعدہ سے لکھتا ہوں کہ اگر کوئی مخالف خواہ عیسائی ہو خواہ بگفتنمسلمان.میری پیشگوئیوں کے
مقابل پر اُس شخص کی پیشگوئیوں کو جس کا آسمان سے اُترنا خیال کرتے ہیں.صفائی اور یقین اور بداہت کے مرتبہ پر زیادہ ثابت کرسکے تو میں اُس کو نقد ایک ہزار روپیہ دینے کو طیار ہوں مگر ثابت کرنے کا یہ طریق نہیں ہوگا کہ وہ قرآن شریف کو پیش کرے کہ قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبی مان لیا ہے اور یا اس کو نبی قرار دے دیا ہے کیونکہ اس طرح پر تو میں بھی زور سے دعویٰ کرتا ہوں کہ قرآن شریف میری سچائی کا بھی گواہ ہے.تمام قرآن شریف میں کہیں یسوع کا لفظ نہیں ہے مگر میری نسبت منکم کا لفظ موجود ہے اور دوسرے بہت سے علامات موجود ہیں بلکہ اس جگہ میرا صرف یہ مطلب ہے کہ قرآن شریف سے قطع نظر کر کے محض میری پیشگوئیوں اور یسوع کی پیشگوئیوں پر عدالتوں کی عام تحقیق کے رنگ میں نظر ڈالی جائے اور دیکھا جائے کہ ان دونوں میں سے کون سی پیشگوئیاں یا اکثر حصہ اُن کا بحکم عقل کمال صفائی سے پورا ہوگیا اور کون سا اس درجہ پر نہیں یعنی یہ تحقیقات اور مقابلہ ایسے طور سے ہونا چاہیے کہ اگر کوئی شخص قرآن شریف سے منکر ہو تو وہ بھی رائے ظاہر کر سکے کہ ثبوت کا پہلو کس طرف ہے.ماسوا اس کے اس جگہ مجھے افسوس آتا ہے کہ ہمارے مخالف مسلمان توکہلاتے ہیں لیکن اسلام کے اُصول سے بے خبر ہیں.اسلام میں یہ مسلّم امر ہے کہ جو پیشگوئی وعید کے متعلق ہو اس کی نسبت ضروری نہیں کہ خدا اس کو پورا کرے یعنی جس پیشگوئی کا یہ مضمون ہو کہ کسی شخص یا گروہ پر کوئی بلا پڑے گی.اس میں یہ بھی ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ اس بلا کوٹال دے جیسا کہ یونس کی پیشگوئی کو جو چالیس دن تک محدود تھی ٹال دیا لیکن جس پیشگوئی میں وعدہ ہو یعنی کسی انعام اکرام کی نسبت پیشگوئی ہو وہ کسی طرح ٹل نہیں سکتی.خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ ۱؎ مگر کسی جگہ یہ نہیں فرمایا کہ اِنَّ اللّٰہ لا یخلف الوعید.پس اِس میں راز یہی ہے کہ وعید کی پیشگوئی خوف اور دعا اور صدقہ خیرات سے ٹل سکتی ہے.تمام پیغمبروں کا اس پر اتفاق ہے کہ صدقہ اور دعا اور خوف اور خشوع سے وہ بلا جو خدا کے علم میں ہے جو کسی شخص پر آئے گی وہ ردّ ہو سکتی ہے.اب
سوچ لو کہ ہر ایک بلا جو خدا کے علم میں ہے اگر کسی نبی یاولی کو اس کی اطلاع دی جائے تو اس کا نام اُس وقت پیشگوئی ہوگا جب وہ نبی یا ولی دوسروں کو اُس بلا سے اطلاع دے اور یہ ثابت شدہ بات ہے کہ بلا ٹل سکتی ہے.پس ضرورتاً یہ نتیجہ نکلا کہ ایسی پیشگوئی کے ظہور میں تاخیر ہو سکتی ہے جو کسی بلا کی پیش خبری کرے.پھر ہم اپنے پہلے کلام کی طرف رجوع کر کے لکھتے ہیں کہ مولوی صاحبزادہ عبداللطیف صاحب جب قادیان میں آئے تو صرف ان کو یہی فائدہ نہ ہوا کہ انہوں نے مفصل طور پر میرے دعوے کے دلائل سنے بلکہ اُن چند مہینوں کے عرصہ میں جووہ قادیان میں میرے پاس رہے اور ایک سفر جہلم تک بھی میرے ساتھ کیا.بعض آسمانی نشان بھی میری تائید میں انہوں نے مشاہدہ کئے.ان تمام براہین اور انوار اور خوارق کے دیکھنے کی وجہ سے وہ فوق العادت یقین سے بھرگئے.اور طاقت بالا اُن کو کھینچ کرلے گئی.میں نے ایک موقعہ پر ایک اعتراض کا جواب بھی اُن کو سمجھایا تھا جس سے وہ بہت خوش ہوئے تھے.اور وہ یہ کہ جس حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ ہیں.اور آپ کے خلفاء مثیل انبیاء بنی اسرائیل ہیں تو پھر کیا وجہ کہ مسیح موعود کا نام احادیث میں نبی کر کے پکارا گیا ہے مگر دوسرے تمام خلفاء کو یہ نام نہیں دیا گیا.سومیں نے اُن کو یہ جواب دیا کہ جب کہ آنحضرت صلی اللہ خاتم الانبیاء تھے اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں تھا.اس لئے اگر تمام خلفاء کو نبی کے نام سے پکارا جاتا تو امر ختم نبوت مشتبہ ہو جاتا اور اگر کسی ایک فرد کو بھی نبی کے نام سے نہ پکارا جاتا تو عدم مشابہت کا اعتراض باقی رہ جاتا کیونکہ موسٰیؑ کے خلفاء نبی ہیں.اس لئے حکمت الٰہی نے یہ تقاضا کیا کہ پہلے بہت سے خلفاء کو برعایت ختم نبوت بھیجا جائے اور اُن کا نام نبی نہ رکھا جائے اور یہ مرتبہ ان کو نہ دیا جائے تاختم نبوت پر یہ نشان ہو.پھر آخری خلیفہ یعنی مسیح موعود کو نبی کے نام سے پکارا جائے تا خلافت کے امر میں دونوں سلسلوں کی مشابہت ثابت ہو جائے.اور ہم کئی دفعہ بیان کر چکے ہیں کہ مسیح موعود کی نبوت ظلی طور پر ہے کیونکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز کامل ہونے کی وجہ سے نفس نبی سے مستفیض ہو کر نبی کہلانے کا مستحق ہوگیا ہے.جیسا کہ ایک وحی میں خدا تعالیٰ نے مجھ کو مخاطب کرکے فرمایا تھا.یا احمد جُعلتَ مُرسلا.اے احمد تو مرسل بنایا گیا یعنی جیسے کہ تو بروزی رنگ میں احمد کے نام کا مستحق ہوا حالانکہ تیرا نام غلام احمد تھا سو اسی طرح بروز کے رنگ میں نبی کے نام کا مستحق ہے.
کیونکہ احمدنبی ہے.نبوت اس سے منفک نہیں ہو سکتی.اور ایک دفعہ یہ ذکر آیا کہ احادیث میں ہے کہ مسیح موعود دو زرد رنگ چادروں میں اترے گا.ایک چادر بدن کے اوپر کے حصہ میں ہوگی اور دوسری چادر بدن کے نیچے کے حصہ میں.سو میں نے کہا کہ یہ اس طرف اشارہ تھاکہ مسیح موعود دو بیماریوں کے ساتھ ظاہر ہوگا کیونکہ تعبیر کے علم میں زرد کپڑے سے مراد بیماری ہے.اور وہ دونوں بیماریاں مجھ میں ہیں یعنی ایک سر کی بیماری اور دوسری کثرت پیشاب اور دستوں کی بیماری.ابھی وہ اسی جگہ تھے کہ بہت سے یقین اور بھاری تبدیلی کی وجہ سے اُن پر الہام اور وحی کا دروازہ کھولا گیا.اور خدا تعالیٰ کی طرف سے کھلے لفظوں میں میری تصدیق کے بارے میں اُنہوں نے شہادتیں پائیں جن کی وجہ سے آخرکار اُنہوں نے اس شہادت کا شربت اپنے لئے منظور کیا جس کے مفصل لکھنے کے لئے اب وقت آگیا ہے.یقینایاد رکھو کہ جس طرز سے انہوں نے میری تصدیق کی راہ میں مرنا قبول کیا اِس قسم کی موت اسلام کے تیرہ سو برس کے سلسلہ میں بجز نمونہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اور کسی جگہ نہیں پاؤگے.پس بلاشبہ اس طرح ان کا مرنا اور میری تصدیق میں نقد جان خدا تعالیٰ کے حوالہ کرنا یہ میری سچائی پر ایک عظیم الشان نشان ہے مگراُن کے لئے جو سمجھ رکھتے ہیں.انسان شک و شبہ کی حالت میں کب چاہتا ہے کہ اپنی جان دے دے اور اپنی بیوی اور اپنے بچوں کو تباہی میں ڈالے.پھر عجب تریہ کہ یہ بزرگ معمولی انسان نہیں تھا بلکہ ریاست کابل میں کئی لاکھ کی ان کی اپنی جاگیر تھی اور انگریزی عملداری میں بھی بہت سی زمین تھی.اور طاقت علمی اس درجہ تک تھی کہ ریاست نے تمام مولویوں کا ان کو سردار قرار دیا تھا.وہ سب سے زیادہ عالم علم قرآن اور حدیث اور فقہ میں سمجھے جاتے تھے اور نئے امیر کی دستاربندی کی رسم بھی انہیں کے ہاتھ سے ہوتی تھی.اور اگر امیر فوت ہو جائے تو اُس کے جنازہ پڑھنے کے لئے بھی وہی مقرر تھے.یہ وہ باتیں ہیں جو ہمیں معتبر ذریعہ سے پہنچی ہیں.اور اُن کی خاص زبان سے میں نے سنا تھا کہ ریاست کابل میں پچاس ہزار کے قریب اُن کے معتقد اور ارادت مند ہیں جن میں سے بعض ارکان ریاست بھی تھے.غرض یہ بزرگ ملک کابل میں ایک فرد تھا.اور کیا علم کے لحاظ سے اور کیا تقویٰ کے لحاظ سے اور کیا جاہ اور مرتبہ کے لحاظ سے اور کیا خاندان کے لحاظ سے اُس ملک میں اپنی نظیر نہیں رکھتا تھا.اور علاوہ مولوی کے خطاب کے صاحبزادہ اور اخون زادہ اور شاہزادہ کے لقب سے اُس ملک میں مشہور تھے.اور شہید مرحوم ایک بڑا کتب خانہ حدیث اور
تفسیر اور فقہ اور تاریخ کا اپنے پاس رکھتے تھے.اور نئی کتابوں کے خریدنے کے لئے ہمیشہ حریص تھے.اور ہمیشہ درس تدریس کا شغل جاری تھا.اور صدہا آدمی اُن کی شاگردی کا فخر حاصل کر کے مولویت کا خطاب پاتے تھے ـ لیکن باایں ہمہ کمال یہ تھا کہ بے نفسی اور انکسار میں اس مرتبہ تک پہنچ گئے تھے کہ جب تک انسان فنا فی اللہ نہ ہو یہ مرتبہ نہیں پاسکتا.ہر ایک شخص کسی قدر شہرت اور علم سے محجوب ہو جاتا ہے.اور اپنے تئیں کچھ چیز سمجھنے لگتا ہے.اور وہی علم اور شہرت حق طلبی سے اُس کو مانع ہو جاتی ہے مگر یہ شخص ایک ایسا بے نفس تھا کہ باوجودیکہ ایک مجموعہ فضائل کا جامع تھا مگر تب بھی کسی حقیقت حقہ کے قبول کرنے سے اُس کو اپنی علمی اور عملی اور خاندانی وجاہت مانع نہیں ہو سکتی تھی.اور آخر سچائی پر اپنی جان قربان کی اور ہماری جماعت کے لئے ایسا نمونہ چھوڑ گیا جس کی پابندی اصل منشاء خدا کا ہے.اب ہم ذیل میں اس بزرگ کی شہادت کے واقعہ کو لکھتے ہیں کہ کس دردناک طریق سے وہ قتل کیا گیا اور اس راہ میں کیا استقامت اُس نے دکھلائی کہ بجز کامل قوتِ ایمانی کے اس دارالغرور میں کوئی نہیں دکھلا سکتا.اور بالآخر ہم یہ بھی لکھیں گے کہ ضرور تھا کہ ایسا ہی ہوتا کیونکہ آج سے تئیس۲۳ برس پہلے اُن کی شہادت اور ان کے ایک شاگرد کی شہادت کی نسبت خدا تعالیٰ نے مجھے خبردی تھی جس کو اُسی زمانہ میں مَیں نے اپنی کتاب براہین احمدیہ میں شائع کیا تھا.سو اس بزرگ مرحوم نے نہ فقط وہ نشان دکھلایا جو کامل استقامت کے رنگ میں اُس سے ظہور میں آیا بلکہ یہ دوسرا نشان بھی اُس کے ذریعہ سے ظاہر ہوگیا جو ایک مدّت دراز کی پیشگوئی اس کی شہادت سے پوری ہوگئی جیسا کہ ہم انشاء اللہ اخیرمیں اس پیشگوئی کو درج کریں گے.واضح رہے کہ براہین احمدیہ کی پیشگوئی میں دو شہادتوں کا ذکر ہے.اور پہلی شہادت میاں عبدالرحمن مولوی صاحب موصوف کے شاگرد کی تھی.جس کی تکمیل امیر عبدالرحمن یعنی اس امیر کے باپ سے ہوئی.اِس لئے ہم بلحاظ ترتیب زمانی پہلے میاں عبدالرحمن مرحوم کی شہادت کا ذکر کرتے ہیں.بیان شہادت میاں عبدالرحمن مرحوم شاگرد مولوی صاحبزادہ عبداللطیف صاحب رئیس اعظم خوست ملک افغانستان مولوی صاحبزادہ عبداللطیف صاحب مرحوم کی شہادت سے تخمیناً دو برس پہلے اُن کے ایما اور ہدایت سے
میاں عبدالرحمن شاگرد رشید اُن کے قادیان میں شاید دو یا تین دفعہ آئے اور ہریک مرتبہ کئی کئی مہینہ تک رہے اور متواتر صحبت اور تعلیم اور دلائل کے سننے سے اُن کا ایمان شہداء کا رنگ پکڑ گیا اور آخری دفعہ جب کابل واپس گئے تو وہ میری تعلیم سے پورا حصہ لے چکے تھے اور اتفاقاً اُن کی حاضری کے ایام میں بعض کتابیں میری طرف سے جہاد کی ممانعت میں چھپی تھیں جن سے اُن کو یقین ہوگیا تھا کہ یہ سلسلہ جہاد کا مخالف ہے.پھر ایسا اتفاق ہوا کہ جب وہ مجھ سے رخصت ہو کر پشاور میں پہنچے تو اتفاقاً خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر سے جو پشاور میں تھے اور میرے مرید ہیں ملاقات ہوئی.اور اُنہیں دنوں میں خواجہ کمال الدین صاحب نے ایک رسالہ جہاد کی ممانعت میں شائع کیا تھا.اس سے اُن کو بھی اطلاع ہوئی.اور وہ مضمون ایسا اُن کے دل میں بیٹھ گیا کہ کابل میں جاکر جابجا اُنہوں نے یہ ذکر شروع کیا کہ انگریزوں سے جہاد کرنا درست نہیں کیونکہ وہ ایک کثیرگروہ مسلمانوں کے حامی ہیں اور کئی کروڑ مسلمان امن و عافیت سے اُن کے زیر سایہ زندگی بسر کرتے ہیں.تب یہ خبر رفتہ رفتہ امیر عبدالرحمن کو پہنچ گئی.اور یہ بھی بعض شریر پنجابیوں نے جو اس کے ساتھ ملازمت کا تعلق رکھتے ہیں.اس پر ظاہر کیاکہ یہ ایک پنجابی شخص کا مرید ہے جو اپنے تئیں مسیح موعود ظاہر کرتا ہے.اور اُس کی یہ بھی تعلیم ہے کہ انگریزوں سے جہاد درست نہیں بلکہ اس زمانہ میں قطعاً جہاد کا مخالف ہے.تب امیر یہ بات سن کر بہت برافروختہ ہوگیا اور اُس کو قید کرنے کا حکم دیا تامزید تحقیقات سے کچھ زیادہ حال معلوم ہو.آخر یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ ضرور یہ شخص مسیح قادیانی کا مرید اور مسئلہ جہاد کا مخالف ہے.تب اُس مظلوم کو گردن میں کپڑا ڈال کر اور دم بند کر کے شہید کیا گیا.کہتے ہیں کہ اس کی شہادت کے وقت بعض آسمانی نشان ظاہر ہوئے.یہ تو میاں عبدالرحمن شہید کا ذکر ہے.اب ہم مولوی صاحبزادہ عبداللطیف کی شہادت کا دردناک ذکر کرتے ہیں اور اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ اِس قسم کا ایمان حاصل کرنے کے لئے دعا کرتے رہیں کیونکہ جب تک انسان کچھ خدا کا اور کچھ دنیا کا ہے تب تک آسمان پر اُس کا نام مومن نہیں.
ـ بیان واقعہ ہائلہ شہادت مولوی صاحبزادہ عبداللطیف صاحب مرحوم رئیس اعظم خوست علاقہ کابل غفر اللہ لہٗ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ مولوی صاحب خوست علاقہ کابل سے قادیان میں آکر کئی مہینہ میرے پاس اور میری صحبت میں رہے.پھر بعد اس کے جب آسمان پر یہ امر قطعی طور پرفیصلہ پاچکا.کہ وہ درجہ شہادت پاویں تو اُس کے لئے یہ تقریب پیدا ہوئی کہ وہ مجھ سے رخصت ہو کر اپنے وطن کی طرف واپس تشریف لے گئے.اب جیسا کہ معتبر ذرائع سے اور خاص دیکھنے والوں کی معرفت مجھے معلوم ہوا ہے قضا وقدر سے یہ صورت پیش آئی کہ مولوی صاحب جب سرزمین علاقہ ریاست کابل کے نزدیک پہنچے تو علاقہ انگریزی میں ٹھہر کربرگیڈیر محمد حسین کوتوال کو جو اُن کا شاگرد تھاایک خط لکھا کہ اگر آپ امیر صاحب سے میرے آنے کی اجازت حاصل کر کے مجھے اطلاع دیں تو امیر صاحب کے پاس بمقام کابل میں حاضر ہو جاؤں.بلااجازت اس لئے تشریف نہ لے گئے کہ وقت سفر امیر صاحب کو یہ اطلاع دی تھی کہ میں حج کو جاتا ہوں مگر وہ ارادہ قادیان میں بہت دیر تک ٹھہرنے سے پورا نہ ہوسکا اور وقت ہاتھ سے جاتا رہا.اور چونکہ وہ میری نسبت شناخت کر چکے تھے کہ یہی شخص مسیح موعود ہے.اس لئے میری صحبت میں رہنا اُن کو مقدم معلوم ہوا.اور بموجب نص ۱؎ حج کا ارادہ انہوں نے کسی دوسرے سال پر ڈال دیا.اور ہر ایک دل اس بات کو محسوس کر سکتا ہے کہ ایک حج کے ارادہ کرنے والے کے لئے اگر یہ بات پیش آ جائے کہ وہ اس مسیح موعود کو دیکھ لے جس کا تیرہ سو۱۳۰۰ برس سے اہل اسلام میں انتظار ہے.توبموجب نص صریح قرآن اور احادیث کے وہ بغیر اس کی اجازت کے حج کو نہیں جا سکتا.ہاں باجازت اس کے دوسرے وقت میں جا سکتا ہے.غرض چونکہ وہ مرحوم سیدالشہداء اپنی صحت نیت سے حج نہ کر سکا اور قادیان میں ہی دن گزر گئے.تو قبل اس کے کہ وہ سرزمین کابل میں وارد ہوں اور حدود ریاست کے اندر قدم رکھیں احتیاطاً قرین مصلحت سمجھا کہ انگریزی علاقہ میں رہ کر امیر کابل پر اپنی سرگذشت کھول دی
جائے کہ اس طرح پر حج کرنے سے معذوری پیش آئی.سو اُنہوں نے مناسب سمجھاکہ برگیڈیر محمد حسین کو خط لکھاتا وہ مناسب موقعہ پر اصل حقیقت مناسب لفظوں میں امیر کے گوش گذار کردیں.اور اس خط میں یہ لکھا کہ اگرچہ میں حج کرنے کے لئے روانہ ہوا تھا مگر مسیح موعود کی مجھے زیارت ہوگئی.اور چونکہ مسیح کے ملنے کے لئے اور اس کی اطاعت مقدم رکھنے کے لئے خداو رسول کا حکم ہے.اس مجبوری سے مجھے قادیان میں ٹھہرنا پڑا.اور میں نے اپنی طرف سے یہ کام نہ کیا بلکہ قرآن اور حدیث کی رو سے اسی امر کو ضروری سمجھا.جب یہ خط برگیڈیر محمد حسین کوتوال کو پہنچا تو اس نے وہ خط اپنے زانو کے نیچے رکھ لیااور اُس وقت پیش نہ کیا مگر اس کے نائب کو جو مخالف اور شریر آدمی تھا کسی طرح پتہ لگ گیا کہ یہ مولوی صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کا خط ہے.اور وہ قادیان میں ٹھہرے رہے تب اس نے وہ خط کسی تدبیر سے نکال لیا اور امیر صاحب کے آگے پیش کردیا.امیر صاحب نے برگیڈیرمحمد حسین کوتوال سے دریافت کیا کہ کیا یہ خط آپ کے نام آیا ہے.اُس نے امیر کے موجودہ غیظ و غضب سے خوف کھا کر انکار کر دیا.پھر ایسا اتفاق ہوا کہ مولوی صاحب شہیدنے کئی دن پہلے خط کے جواب کا انتظار کر کے ایک اور خط بذریعہ ڈاک محمد حسین کوتوال کو لکھا.وہ خط افسر ڈاکخانہ نے کھول لیا اور امیر صاحب کو پہنچا دیا.چونکہ قضا و قدر سے مولوی صاحب کی شہادت مقدر تھی.اور آسمان پر وہ برگزیدہ بزمرۂ شہداء داخل ہو چکا تھا.اس لئے امیر صاحب نے اُن کے بلانے کے لئے حکمت عملی سے کام لیا اور اُن کی طرف خط لکھا کہ آپ بلاخطرہ چلے آؤ.اگر یہ دعویٰ سچا ہوگا تو میں بھی مرید ہو جاؤں گا.بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ خط امیر صاحب نے ڈاک میں بھیجا تھا یا دستی روانہ کیا تھا.بہرحال اس خط کو دیکھ کر مولوی صاحب موصوف کابل کی طرف روانہ ہوگئے اور قضا و قدر نے نازل ہونا شروع کر دیا.راویوں نے بیان کیا ہے کہ جب شہید مرحوم کابل کے بازار سے گزرے تو گھوڑے پر سوار تھے.اور ان کے پیچھے آٹھ سرکاری سوار تھے اور اُن کی تشریف آوری سے پہلے عام طور پر کابل میں مشہور تھاکہ امیر صاحب نے اخوند زادہ صاحب کو دھوکہ دے کر بلایا ہے.اب بعد اس کے دیکھنے والوں کا یہ بیان ہے کہ جب اخوند زادہ صاحب مرحوم ـ بازار سے
گزرے تو ہم اور دوسرے بہت سے بازاری لوگ ساتھ چلے گئے.اور یہ بھی بیان کیا کہ آٹھ سرکاری سوار خوست سے ہی اُن کے ہمراہ کئے گئے تھے کیونکہ اُن کے خوست میں پہنچنے سے پہلے حکم سرکاری اُن کے گرفتار کرنے کے لئے حاکم خوست کے نام آچکا تھا.غرض جب امیر صاحب کے روبرو پیش کئے گئے تو مخالفوں نے پہلے سے ہی اُن کے مزاج کو بہت کچھ متغیرکر رکھا تھا.اس لئے وہ بہت ظالمانہ جوش سے پیش آئے اور حکم دیا کہ مجھے ان سے بو آتی ہے.ان کو فاصلہ پر کھڑا کرو.پھر تھوڑی دیر کے بعد حکم دیا کہ ان کو اس قلعہ میں جس میں خود امیر صاحب رہتے ہیں قید کردو اور زنجیر غر اغراب لگا دو.یہ زنجیر وزنی ایک من چوبیس سیر انگریزی کا ہوتاہے.گردن سے کمر تک گھیر لیتا ہے.اور اس میں ہتھکڑی بھی شامل ہے.اور نیز حکم دیا کہ پاؤں میں بیڑی وزنی آٹھ۸ سیر انگریزی کی لگادو.پھر اس کے بعد مولوی صاحب مرحوم چار مہینہ قید میں رہے اور اس عرصہ میں کئی دفعہ ان کو امیر کی طرف سے فہمائش ہوئی کہ اگر تم اس خیال سے توبہ کرو کہ قادیانی درحقیقت مسیح موعود ہے تو تمہیں رہائی دی جائے گی مگر ہر ایک مرتبہ انہوں نے یہی جواب دیا کہ میں صاحب علم ہوں اور حق اور باطل کی شناخت کرنے کی خدا نے مجھے قوت عطا کی ہے.میں نے پوری تحقیق سے معلوم کر لیا ہے کہ یہ شخص درحقیقت مسیح موعود ہے.اگرچہ میں جانتا ہوں کہ میرے اس پہلو کے اختیار کرنے میں میری جان کی خیر نہیں ہے.اور میرے اہل و عیال کی بربادی ہے مگر میں اس وقت اپنے ایمان کو اپنی جان اور ہر ایک دنیوی راحت پر مقدم سمجھتا ہوں.شہید مرحوم نے نہ ایک دفعہ بلکہ قید ہونے کی حالت میں بارہا یہی جواب دیا.اور یہ قید انگریزی قید کی طرح نہیں تھی جس میں انسانی کمزوری کا کچھ کچھ لحاظ رکھا جاتا ہے.بلکہ ایک سخت قید تھی جس کو انسان موت سے بدتر سمجھتا ہے.اس لئے لوگوں نے شہید موصوف کی اس استقامت اور استقلال کو نہایت تعجب سے دیکھا.اور درحقیقت تعجب کا مقام تھا کہ ایسا جلیل الشان شخص کہ جوکئی لاکھ روپیہ کی ریاست کابل میں جاگیر رکھتا تھا اور اپنے فضائل علمی اور تقویٰ کی وجہ سے گویا تمام سرزمین کابل کا پیشوا تھا.اور قریباً پچاس برس کی عمر تک تنعم اور آرام میں زندگی بسر کی تھی.اور بہت سا اہل و عیال اور عزیز فرزند رکھتا تھا.پھر یک دفعہ وہ ایسی سنگین قید میں ڈالا گیا جو موت سے ـ بدتر تھی اور جس کے تصور سے بھی انسان کے بدن پر لرزہ
پڑتا ہے.ایسا نازک اندام اور نعمتوں کا پرور دہ انسان وہ اُس روح کے گداز کرنے والی قید میں صبر کر سکے اور جان کو ایمان پر فداکرے.بالخصوص جس حالت میں امیر کابل کی طرف سے بار بار اُن کو پیغام پہنچتا تھا کہ اُس قادیانی شخص کے تصدیق دعویٰ سے انکار کر دو تو تم ابھی عزت سے رہا کئے جاؤگے مگر اُس قوی الایمان بزرگ نے اس بار بار کے وعدہ کی کچھ بھی پروا نہ کی اور بار بار یہی جواب دیا کہ مجھ سے یہ امید مت رکھو کہ میں ایمان پر دنیا کو مقدم رکھ لوں.اور کیونکر ہو سکتا ہے کہ جس کو میں نے خوب شناخت کرلیا اور ہر ایک طرح سے تسلی کرلی اپنی موت کے خوف سے اُس کا انکار کردوں.یہ انکار تو مجھ سے نہیں ہوگا.میں دیکھ رہا ہوں کہ میں نے حق پالیا.اس لئے چند روزہ زندگی کے لئے مجھ سے یہ بے ایمانی نہیں ہوگی کہ میں اُس ثابت شدہ حق کو چھوڑ دوں.میں جان چھوڑنے کے لئے طیار ہوں اور فیصلہ کر چکا ہوں مگر حق میرے ساتھ جائے گا.اُس بزرگ کے باربار کے یہ جواب ایسے تھے کہ سرزمین کابل کبھی اُن کو فراموش نہیں کرے گی اور کابل کے لوگوں نے اپنی تمام عمرمیں یہ نمونہ ایمانداری اور استقامت کا کبھی نہیں دیکھا ہوگا.اس جگہ یہ بھی ذکر کرنے کے لائق ہے کہ کابل کے امیروں کا یہ طریق نہیں ہے کہ اس قدر بار بار وعدہ معافی دے کر ایک عقیدہ کے چھوڑانے کے لئے توجہ دلائیں لیکن مولوی عبداللطیف صاحب مرحوم کی یہ خاص رعایت اس وجہ سے تھی کہ وہ ریاست کابل کا گویا ایک بازو تھا اور ہزارہا انسان اُس کے معتقد تھے اور جیسا کہ ہم اوپر لکھ چکے ہیں وہ امیر کابل کی نظر میں اس قدر منتخب عالم فاضل تھا کہ تمام علماء میں آفتاب کی طرح سمجھا جاتا تھا.پس ممکن ہے کہ امیر کو بجائے خود یہ رنج بھی ہو کہ ایسا برگزیدہ انسان علماء کے اتفاق رائے سے ضرورقتل کیا جائے گا اور یہ تو ظاہر ہے کہ آج کل ایک طور سے عنان حکومت کابل کی مولویوں کے ہاتھ میں ہے.اور جس بات پر مولوی لوگ اتفاق کرلیں پھر ممکن نہیں کہ امیر اُس کے برخلاف کچھ کر سکے.پس یہ امر قرین قیاس ہے کہ ایک طرف اس امیرکو مولویوں کا خوف تھا اور دوسری طرف شہید مرحوم کو بے گناہ دیکھتا تھا.پس یہی وجہ ہے کہ وہ قید کی تمام مدت میں یہی ہدایت کرتا رہا کہ آپ اس شخص قادیانی کو مسیح موعود مت مانیں.اور ـ اس عقیدہ سے توبہ کریں
تب آپ عزت کے ساتھ رہا کر دیئے جاؤگے.اور اسی نیت سے اس نے شہید مرحوم کو اس قلعہ میں قید کیا تھا جس قلعہ میں وہ آپ رہتا تھا تا متواتر فہمایش کا موقعہ ملتا رہے.اور اس جگہ ایک اور بات لکھنے کے لائق ہے.اور دراصل وہی ایک بات ہے جو اس بلا کی موجب ہوئی اور وہ یہ ہے کہ عبدالرحمن شہید کے وقت سے یہ بات امیر اور مولویوں کو خوب معلوم تھی کہ قادیانی جو مسیح موعود کا دعویٰ کرتا ہے جہاد کا سخت مخالف ہے.اور اپنی کتابوں میں بار بار اس بات پر زور دیتا ہے کہ اس زمانہ میں تلوار کا جہاد درست نہیں اور اتفاق سے اس امیر کے باپ نے جہاد کے واجب ہونے کے بارے میں ایک رسالہ لکھا تھا جو میرے شائع کردہ رسالوں کے بالکل مخالف ہے اور پنجاب کے شرانگیز بعض آدمی جو اپنے تئیں موحدیا اہل حدیث کے نام سے موسوم کرتے تھے امیر کے پاس پہنچ گئے تھے.غالباً اُن کی زبانی امیر عبدالرحمن نے جو امیر حال کا باپ تھا میری اُن کتابوں کا مضمون سن لیا ہوگا اور عبدالرحمن شہید کے قتل کی بھی یہی وجہ ہوئی تھی کہ امیر عبدالرحمن نے خیال کیا تھا کہ یہ اُس گروہ کا انسان ہے جو لوگ جہاد کو حرام جانتے ہیں.اور یہ بات یقینی ہے کہ قضا و قدر کی کشش سے مولوی عبداللطیف مرحوم سے بھی یہ غلطی ہوئی کہ اس قید کی حالت میں بھی جتلادیا کہ اب یہ زمانہ جہاد کا نہیں اور وہ مسیح موعود جو درحقیقت مسیح ہے اس کی یہی تعلیم ہے کہ اب یہ زمانہ دلائل کے پیش کرنے کا ہے تلوار کے ذریعہ سے مذہب کوپھیلانا جائز نہیں.اور اب اس قسم کا پودہ ہرگز بارور نہیں ہوگا بلکہ جلد خشک ہوجائے گا.چونکہ شہید مرحوم سچ کے بیان کرنے میں کسی کی پروا نہیں کرتے تھے.اور درحقیقت اُن کو سچائی کے پھیلانے کے وقت اپنی موت کا بھی اندیشہ نہ تھا.اس لئے ایسے الفاظ اُن کے منہ سے نکل گئے اور عجیب بات یہ ہے کہ اُن کے بعض شاگرد بیان کرتے ہیں کہ جب وہ وطن کی طرف روانہ ہوئے تو بار بار کہتے تھے کہ کابل کی زمین اپنی اصلاح کے لئے میرے خون کی محتاج ہے.اور درحقیقت وہ سچ کہتے تھے کیونکہ سرزمین کابل میں اگر ایک کروڑ اشتہار شائع کیا جاتا.اور دلائل قویہ سے میرا مسیح موعود ہونا اُن میں ثابت کیا جاتا تو اُن اشتہارات کا ہرگز ایسا اثر نہ ہوتا جیسا کہ اس شہید کے خون کا اثر ہوا.کابل کی سرزمین پر یہ خون اُس تخم کی مانند پڑا ہے جو تھوڑے عرصہ میں بڑا درخت بن جاتا ہے.اور ہزار ہا ـ پرندے اس پر اپنا بسیرا
لیتے ہیں.اب ہم اس دردناک واقعہ کا باقی حصہ اپنی جماعت کے لئے لکھ کر اس مضمون کو ختم کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جب چار مہینے قید کے گزر گئے.تب امیر نے اپنے روبرو شہید مرحوم کو بلا کر پھر اپنی عام کچہری میں توبہ کے لئے فہمائش کی اور بڑے زور سے رغبت دی کہ اگر تم اب بھی قادیانی کی تصدیق اور اُس کے اصولوں کی تصدیق سے میرے روبرو انکار کرو تو تمہاری جان بخشی کی جائے گی اور تم عزت کے ساتھ چھوڑے جاؤگے.شہید مرحوم نے جواب دیا کہ یہ تو غیر ممکن ہے کہ میں سچائی سے توبہ کروں.اس دنیا کے حکام کا عذاب تو موت تک ختم ہوجاتا ہے لیکن میں اُس سے ڈرتا ہوں جس کا عذاب کبھی ختم نہیں ہو سکتا.ہاں چونکہ میں سچ پر ہوں اس لئے چاہتاہوں کہ ان مولویوں سے جو میرے عقیدہ کے مخالف ہیں میری بحث کرائی جائے.اگر میں دلائل کے رو سے جھوٹا نکلا تو مجھے سزا دی جائے.راوی اس قصہ کے کہتے ہیں کہ ہم اس گفتگو کے وقت موجود تھے.امیر نے اس بات کو پسند کیا اور مسجد شاہی میں خان ملّا خان اور آٹھ مفتی بحث کے لئے منتخب کئے گئے.اور ایک لاہوری ڈاکٹرجو خود پنجابی ہونے کی وجہ سے سخت مخالف تھا بطور ثالث کے مقرر کر کے بھیجا گیا.بحث کے وقت مجمع کثیر تھا اور دیکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اُس بحث کے وقت موجود تھے.مباحثہ تحریری تھا صرف تحریر ہوتی تھی.اور کوئی بات حاضرین کو سنائی نہیں جاتی تھی.اس لئے اُس مباحثہ کا کچھ حال معلوم نہیں ہوا.سات بجے صبح سے تین بجے سہ۳ پہر تک مباحثہ جاری رہا.پھر جب عصر کا آخری وقت ہوا تو کفر کا فتویٰ لگایا گیا.اور آخر بحث میں شہید مرحوم سے یہ بھی پوچھا گیا کہ اگر مسیح موعود یہی قادیانی شخص ہے تو پھر تم عیسٰی علیہ السلام کی نسبت کیا کہتے ہو.کیا وہ واپس دنیا میں آئیں گے یا نہیں تو انہوں نے بڑی استقامت سے جواب دیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اب وہ ہرگز واپس نہیں آئیں گے.قرآن کریم اُن کے مرنے اور واپس نہ آنے کا گواہ ہے.تب تو وہ لوگ ان مولویوں کی طرح جنہوں نے حضرت عیسٰیؑ کی بات کو سن کر اپنے کپڑے پھاڑ دیئے تھے گالیاں دینے لگے اور کہا اب اس شخص کے کفر میں کیا شک رہا.اور بڑی غضبناک حالت میں یہ کفر کا فتویٰ لکھا گیا.پھر بعد اس کے اخوند زادہ حضرت شہید مرحوم اسی طرح پابزنجیر ہونے کی حالت میں قید خانہ میں بھیجے گئے اور اس جگہ یہ بات بیان کرنے سے رہ گئی ہے کہ جب شاہزادہ مرحوم کی اُن
بد قسمت مولویوں سے بحث ہورہی تھی تب آٹھ۸ آدمی برہنہ تلواریں لے کر شہید مرحوم کے سر پر کھڑے تھے.پھر بعد اس کے وہ فتویٰ کفر رات کے وقت امیر صاحب کی خدمت میں بھیجا گیا اور یہ چالاکی کی گئی کہ مباحثہ کے کاغذات ان کی خدمت میں عمداً نہ بھیجے گئے اور نہ عوام پر اُن کا مضمون ظاہر کیا گیا.یہ صاف اس بات پر دلیل تھی کہ مخالف مولوی شہید مرحوم کے ثبوت پیش کردہ کا کوئی ردنہ کر سکے مگر افسوس امیر پر کہ اُس نے کفر کے فتویٰ پر ہی حکم لگا دیا اور مباحثہ کے کاغذ طلب نہ کئے حالانکہ اُس کو چاہیے تو یہ تھا کہ اُس عادلِ حقیقی سے ڈر کر جس کی طرف عنقریب تمام دولت و حکومت کو چھوڑ کر واپس جائے گا خود مباحثہ کے وقت حاضر ہوتا.بالخصوص جبکہ وہ خوب جانتا تھا کہ اس مباحثہ کا نتیجہ ایک معصوم بے گناہ کی جان ضائع کرنا ہے تو اس صورت میں مقتضا خدا ترسی کا یہی تھا کہ بہرحال اُفتاں وخیزاں اُس مجلس میں جاتا اور نیز چاہیے تھا کہ قبل ثبوت کسی جرم کے اس شہید مظلوم پر یہ سختی روا نہ رکھتا کہ ناحق ایک مدت تک قید کے عذاب میں ان کو رکھتا اور زنجیروں اور ہتھکڑیوں کے شکنجہ میں اُس کو دبایا جاتا اور آٹھ سپاہی برہنہ شمشیروں کے ساتھ اس کے سر پرکھڑے کئے جاتے اور اس طرح ایک عذاب اور رعب میں ڈال کر اُس کو ثبوت دینے سے روکا جاتا.پھر اگر اُس نے ایسا نہ کیا تو عادلانہ حکم دینے کے لئے یہ تو اُس کا فرض تھا کہ کاغذات مباحثہ کے اپنے حضور میں طلب کرتا بلکہ پہلے سے یہ تاکید کر دیتا کہ کاغذات مباحثہ کے میرے پاس بھیج دینے چاہئیں.اور نہ صرف اس بات پرکفایت کرتا کہ آپ ان کاغذات کو دیکھتا بلکہ چاہیے تھا کہ سرکاری طور پر ان کاغذات کو چھپوا دیتا کہ دیکھوکیسے یہ شخص ہمارے مولویوں کے مقابل پر مغلوب ہوگیا اور کچھ ثبوت قادیانی کے مسیح موعود ہونے کے بارے میں اور نیز جہاد کی ممانعت میں اور حضرت مسیحؑ کے فوت ہونے کے بارے میں نہ دے سکا.ہائے وہ معصوم اس کی نظر کے سامنے ایک بکرے کی طرح ذبح کیا گیا اور باوجود صادق ہونے کے اور باوجود پورا ثبوت دینے کے اور باوجود ایسی استقامت کے کہ صرف اولیاء کو دی جاتی ہے پھر بھی اُس کا پاک جسم پتھروں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا.اور اُس کی بیوی اور اُس کے یتیم بچوں کو خوست سے گرفتار کر کے بڑی ذلت اور عذاب کے ساتھ کسی اور جگہ حراست میں بھیجا گیا.اے نادان! کیا مسلمانوں میں اختلاف مذہب اور رائے کی یہی سزا ہوا کرتی ہے.تو نے کیا سوچ کر ـیہ ؔخون کر دیا.
سلطنت انگریزی جو اس امیر کی نگاہ میں اور نیز اُس کے مولویوں کے خیال میں ایک کافر کی سلطنت ہے کس قدر مختلف فرقے اس سلطنت کے زیر سایہ رہتے ہیں.کیا اب تک اس سلطنت نے کسی مسلمان یا ہندو کو اس قصور کی بنا پر پھانسی دے دیا کہ اس کی رائے پادریوں کی رائے کے مخالف ہے.ہائے افسوس آسمان کے نیچے یہ بڑا ظلم ہوا کہ ایک بے گناہ معصوم باوجود صادق ہونے کے باوجود اہل حق ہونے کے اور باوجود اس کے کہ وہ ہزارہا معزز لوگوں کی شہادت سے تقویٰ اور طہارت کے پاک پیرایہ سے مزین تھا.اس طرح بے رحمی سے محض اختلاف مذہب کی وجہ سے مارا گیا.اس امیر سے وہ گورنر ہزارہا درجہ اچھا تھا جس نے ایک مخبری پر حضرت مسیحؑ کو گرفتار کرلیا تھا یعنی پیلاطوس جس کا آج تک انجیلوں میں ذکر موجود ہے کیونکہ اس نے یہودیوں کے مولویوں کو جبکہ انہوں نے حضرت مسیحؑ پر کفر کا فتویٰ لکھ کر یہ درخواست کی کہ اس کو صلیب دی جائے یہ جواب دیا کہ اس شخص کا میں کوئی گناہ نہیں دیکھتا.افسوس اس امیر کوکم سے کم اپنے مولویوں سے یہ تو پوچھنا چاہیے تھا کہ یہ سنگساری کا فتویٰ کس قسم کے کفر پر دیا گیا.اور اس اختلاف کو کیوں کفر میں داخل کیا گیا اور کیوں انہیں یہ نہ کہا گیا کہ تمہارے فرقوں میں خود اختلاف بہت ہیں.کیا ایک فرقہ کو چھوڑ کر دوسروں کو سنگسار کرنا چاہیے.جس امیر کا یہ طریق اور یہ عدل ہے نہ معلوم وہ خدا کوکیا جواب دے گا.بعد اس کے کہ فتویٰ کفر لگا کر شہید مرحوم قید خانہ میں بھیجا گیا.صبح روز شنبہ کو شہید موصوف کو سلام خانہ یعنی خاص مکان دربار امیر صاحب میں بلایا گیا.اُس وقت بھی بڑا مجمع تھا.امیر صاحب جب ارک یعنی قلعہ سے نکلے تو راستہ میں شہید مرحوم ایک جگہ بیٹھے تھے اُن کے پاس ہو کر گزرے اور پوچھا کہ اخوندزادہ صاحب کیا فیصلہ ہوا.شہید مرحوم کچھ نہ بولے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان لوگوں نے ظلم پر کمر باندھی ہے مگر سپاہیوں میں سے کسی نے کہا کہ ملامت ہوگیا یعنی کفر کا فتویٰ لگ گیا.پھر امیر صاحب جب اپنے اجلاس پر آئے تو اجلاس میں بیٹھتے ہی پہلے اخوندزادہ صاحب مرحوم کو بلایا اور کہاکہ آپ پر کفر کا فتویٰ لگ گیا ہے.اب کہو کہ کیا توبہ کروگے یا سزا پاؤگے تو انہوں نے صاف لفظوں میں انکار کیا اور کہا کہ میں حق سے توبہ نہیں کر سکتا.کیا میں جان کے خوف سے
باطل کو مان لوں.یہ مجھ سے نہیں ہوگا.تب امیر نے دوبارہ توبہ کے لئے کہا اور توبہ کی حالت میں بہت امید دی اور وعدہ معافی دیا مگر شہید موصوف نے بڑے زور سے انکار کیا اور کہا کہ مجھ سے یہ امید مت رکھو کہ میں سچائی سے توبہ کروں.ان باتوں کو بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ یہ سنی سنائی باتیں نہیں بلکہ ہم خود اس مجمع میں موجود تھے اور مجمع کثیر تھا.شہید مرحوم ہرایک فہمائش کا زور سے انکار کرتاتھا اور وہ اپنے لئے فیصلہ کرچکا تھا کہ ضرور ہے کہ میں اس راہ میں جان دوں تب اُس نے یہ بھی کہا کہ میں بعد قتل چھ۶ روز تک پھر زندہ ہو جاؤں گا.یہ راقم کہتا ہے کہ یہ قول وحی الٰہی کی بنا پر ہوگا جو اس وقت ہوئی ہوگی کیونکہ اس وقت شہید مرحوم منقطعین میں داخل ہو چکا تھا اور فرشتے اس سے مصافحہ کرتے تھے.تب فرشتوں سے یہ خبر پاکر ایسا اُس نے کہا اور اس قول کے یہ معنے تھے کہ وہ زندگی جو اولیاء اور ابدال کو دی جاتی ہے چھ ۶روز تک مجھے مل جائے گی اور قبل اس کے جو خدا کا دن آوے یعنی ساتواں دن میں زندہ ہو جاؤں گا اور یاد رہے کہ اولیاء اللہ اور وہ خاص لوگ جو خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہوتے ہیں وہ چند دنوں کے بعد پھر زندہ کئے جاتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۱؎ یعنی تم ان کو مردے مت خیال کرو جو اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں وہ تو زندے ہیں.پس شہید مرحوم کا اسی مقام کی طرف اشارہ تھا اور میں نے ایک کشفی نظر میں دیکھا کہ ایک درخت سرو کی ایک بڑی لمبی شاخ جو نہایت خوبصورت اور سرسبز تھی ہمارے باغ میں سے کاٹی گئی ہے اور وہ ایک شخص کے ہاتھ میں ہے تو کسی نے کہا کہ اس شاخ کو اس زمین میں جو میرے مکان کے قریب ہے اُس بیری کے پاس لگا دو جو اس سے پہلے کاٹی گئی تھی اور پھر دوبارہ اُگے گی اور ساتھ ہی مجھے یہ وحی الٰہی ہوئی کہ کابل سے کاٹا گیا اور سیدھا ہماری طرف آیا.اس کی میں نے یہ تعبیر کی کہ تخم کی طرح شہید مرحوم کا خون زمین پر پڑا ہے اور وہ بہت بار وَر ہوکر ہماری جماعت کو بڑھاوے گا.اس طرف میں نے یہ خواب دیکھی اور اس طرف شہید مرحوم نے کہا کہ چھ روز تک میں زندہ کیا جاؤں گا.میری خواب اور شہید مرحوم کے اس قول کا مآل ایک ہی ہے.شہید مرحوم نے مرکر میری جماعت کو ایک نمونہ دیا ہے اور درحقیقت میری جماعت
ایک بڑے نمونہ کی محتاج تھی.اب تک ان میں ایسے بھی پائے جاتے ہیں کہ جو شخص ان میں سے ادنیٰ خدمت بجا لاتا ہے وہ خیال کرتا ہے کہ اس نے بڑا کام کیا ہے اور قریب ہے کہ وہ میرے پر احسان رکھے حالانکہ خدا کا اس پر احسان ہے کہ اس خدمت کے لئے اس نے اس کو توفیق دی.بعض ایسے ہیں کہ پورے زور اور پورے صدق سے اس طرف نہیں آئے اور جس قوت ایمان اور انتہا درجہ کے صدق و صفا کا وہ دعویٰ کرتے ہیں آخر تک اس پر قائم نہیں رہ سکتے اور دنیا کی محبت کے لئے دین کو کھودیتے ہیں اور کسی ادنیٰ امتحان کی بھی برداشت نہیں کر سکتے.خدا کے سلسلے میں بھی داخل ہو کر اُن کی دنیا داری کم نہیں ہوتی لیکن خدا تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ ایسے بھی ہیں کہ وہ سچے دل سے ایمان لائے اور سچے دل سے اس طرف کو اختیار کیا اور اس راہ کے لئے ہر ایک دکھ اُٹھانے کے لئے طیار ہیں لیکن جس نمونہ کو اس جواں مردنے ظاہر کردیا اب تک وہ قوتیں اس جماعت کی مخفی ہیں.خدا سب کووہ ایمان سکھاوے اور وہ استقامت بخشے جس کا اس شہید مرحوم نے نمونہ پیش کیا ہے.یہ دنیوی زندگی جو شیطانی حملوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے کامل انسان بننے سے روکتی ہے اور اس سلسلہ میں بہت داخل ہوں گے مگر افسوس کہ تھوڑے ہیں کہ یہ نمونہ دکھائیں گے.پھرہم اصل واقعہ کی طرف رجوع کرکے لکھتے ہیں کہ جب شہید مرحوم نے ہر ایک مرتبہ توبہ کرنے کی فہمائش پرتوبہ کرنے سے انکار کیا تو امیر نے اُن سے مایوس ہو کر اپنے ہاتھ سے ایک لمبا چوڑا کاغذ لکھا اور اس میں مولویوں کا فتویٰ درج کیا اور اس میں یہ لکھا کہ ایسے کافر کی سنگسار کرنا سزا ہے.تب وہ فتویٰ اخوندزادہ مرحوم کے گلے میں لٹکادیا گیا اور پھر امیر نے حکم دیا کہ شہید مرحوم کے ناک میں چھید کر کے اس میں رسّی ڈال دی جائے اور اُسی رسی سے شہید مرحوم کو کھینچ کر مقتل یعنی سنگسار کرنے کی جگہ تک پہنچایا جائے.چنانچہ اس ظالم امیر کے حکم سے ایسا ہی کیا گیا اور ناک کو چھید کر سخت عذاب کے ساتھ اُس میں ـ رسی ڈالی گئی.تب اُس رسی کے ذریعہ سے شہید مرحوم کو نہایت ٹھٹھے ہنسی اور گالیوں اور لعنت کے ساتھ مقتل تک لے گئے اور امیر اپنے تمام مصاحبوں کے ساتھ اور مع قاضیوں، مفتیوں اور دیگر اہلکاروں کے یہ دردناک نظارہ دیکھتا ہوا مقتل تک
پہنچا اور شہر کی ہزارہا مخلوق جن کا شمارکرنا مشکل ہے اس تماشا کے دیکھنے کے لئے گئی.جب مقتل پر پہنچے تو شاہزادہ مرحوم کو کمر تک زمین میں گاڑ دیا اور پھر اس حالت میں جبکہ وہ کمر تک زمین میں گاڑ دیئے گئے تھے امیر اُن کے پاس گیا اور کہا کہ اگر تو قادیانی سے جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے انکار کرے تو اب بھی میں تجھے بچا لیتا ہوں.اب تیرا آخری وقت ہے اور یہ آخری موقعہ ہے جو تجھے دیا جاتا ہے اور اپنی جان اور اپنے عیال پر رحم کر.تب شہید مرحوم نے جواب دیا.کہ نعوذ باللہ سچائی سے کیونکر انکار ہو سکتا ہے اور جان کیا حقیقت ہے اور عیال و اطفال کیا چیز ہیں جن کے لئے میں ایمان کو چھوڑ دوں.مجھ سے ایسا ہرگز نہیں ہوگا اور میں حق کے لئے مروں گا.تب قاضیوں اور فقیہوں نے شور مچایا کہ کافر ہے کافر ہے اس کو جلد سنگسار کرو.اس وقت امیر اور اُس کا بھائی نصراللہ خاں اور قاضی اور عبدالاحد کمیدان یہ لوگ سوار تھے اور باقی تمام لوگ پیادہ تھے.جب ایسی نازک حالت میں شہید مرحوم نے بار بار کہہ دیا کہ میں ایمان کو جان پر مقدم رکھتا ہوں.تب امیر نے اپنے قاضی کو حکم دیا کہ پہلا پتھر تم چلاؤ کہ تم نے کفر کا فتویٰ لگایا ہے.قاضی نے کہا کہ آپ بادشاہ وقت ہیں آپ چلاویں.تب امیر نے جواب دیا کہ شریعت کے تم ہی بادشاہ ہو اور تمہارا ہی فتویٰ ہے اس میں میرا کوئی دخل نہیں.تب قاضی نے گھوڑے سے اُتر کر ایک پتھر چلایا جس پتھر سے شہید مرحوم کو زخم کاری لگا اور گردن جھک گئی.پھر بعد اس کے بدقسمت امیر نے اپنے ہاتھ سے پتھر چلایا.پھر کیا تھا اس کی پیروی سے ہزاروں پتھر اس شہید پر پڑنے لگے.اور کوئی حاضرین میں سے ایسا نہ تھا جس نے اس شہید مرحوم کی طرف پتھر نہ پھینکا ہو.یہاں تک کہ کثرت پتھروں سے شہید مرحوم کے سر پر ایک کوٹھہ پتھروں کا جمع ہوگیا.پھر امیر نے واپس ہونے کے وقت کہا کہ یہ شخص کہتا تھا کہ میں چھ روز تک زندہ ہو جاؤں گا.اس پر چھ روز تک پہرہ رہنا چاہیے.بیان کیا گیا ہے کہ یہ ظلم یعنی سنگسار کرنا ۱۴؍ جولائی کو وقوع میں آیا.اس بیان میں اکثر حصہ اُن لوگوں کا ہے جو اس سلسلہ کے مخالف تھے جنہوں نے یہ بھی اقرار کیا کہ ہم نے بھی پتھر مارے تھے اور بعض ایسے آدمی بھی اس بیان میں داخل ہیں کہ شہید مرحوم کے پوشیدہ شاگرد تھے.معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اس سے زیادہ دردناک ہے جیسا کہ
بیان کیا گیا ہے کیونکہ امیر کے ظلم کو پورے طور پر ظاہر کرنا کسی نے روا نہیں رکھا اور جو کچھ ہم نے لکھا ہے بہت سے خطوط کے مشترک مطلب سے ہم نے خلاصۃً لکھا ہے.ہر ایک قصّہ میں اکثر مبالغہ ہوتا ہے لیکن یہ قصہ ہے کہ لوگوں نے امیر سے ڈر کر اُس کا ظلم پورا پورا بیان نہیں کیا اور بہت سی پردہ پوشی کرنی چاہی.شاہزادہ عبداللطیف کے لئے جو شہادت مقدر تھی وہ ہو چکی.اب ظالم کا پاداش باقی ہے. ۱؎ افسوس کہ یہ امیر زیر آیت ۲؎ داخل ہو گیا اور ایک ذرہ خدا تعالیٰ کا خوف نہ کیا.اور مومن بھی ایسا مومن کہ اگر کابل کی تمام سرزمین میں اُس کی نظیر تلاش کی جائے تو تلاش کرنا لاحاصل ہے.ایسے لوگ اکسیر احمر کے حکم میں ہیں جو صدق دل سے ایمان اور حق کے لئے جان بھی فدا کرتے ہیں اور زن و فرزند کی کچھ بھی پروا نہیں کرتے.اے عبداللطیف تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا اور جو لوگ میری جماعت میں سے میری موت کے بعد رہیں گے میں نہیں جانتاکہ وہ کیا کام کریں گے.آں جواں مرد و حبیبِ کردگار جوہر خود کرد آخر آشکار نقد جاں از بہر جاناں باختہ دل ازیں فانی سرا پرداختہ پُر خطر ہست ایں بیابانِ حیات صد ہزاراں اژدہائش در جہات صد ہزاراں آتشے تا آسماں صد ہزاراں سیل خوں خوار و دماں صد ہزاراں فرسخے تا کوئے یار دشت پُرخار و بلائش صد ہزار بنگر ایں شوخی ازاں شیخ عجم ایں بیاباں کرد طے از یک قدم ایں چنیں باید خدا را بندۂ سر پئے دلدار خود افگندۂ
او پئے دلدار از خود مردہ بود از پئے تریاق زہرے خوردہ بود تا نہ نوشد جام ایں زہرے کسے کے رہائی یابد از مرگ آں خسے زیر ایں موت است پنہاں صد حیات زندگی خواہی بخور جام ممات تو کہ گشتی بندۂ حرص و ہوا ایں طلب در نفس دون تو کجا دل بدیں دنیائے دوں آویختی آبرو از بہر عصیاں ریختی صد ہزاراں فوج شیطاں در پست تا بسوزد در جہنم چوں خست از پئے امید یا بہر خطر مے شود ایمان تو زیر و زبر از برائے ایں سرائے بے وفا مے نہی دین خدا را زیر پا دیں بود دین فدائے آں نگار اے سیہ باطن ترا با دیں چہ کار پست ہستی لاف اِستعلا مزن وز گلیم خویش بیروں پا مزن خویشتن را نیک اندیشیدۂ اے ہداک اللہ چہ بد فہمیدۂ خوش نہ گردد دلستاں از قیل و قال تا نمیری زندگی باشد محال کبر و کیں را ترک کن اے بدخصال تا بتابد بر تو نورِ ذوالجلال ایں چنیں بالا ز بالا چوں پری یا مگر زاں ذات بے چوں منکری کاخ دنیا را چہ دیداستی بنا کت خوشت افتاد ایں فانی سرا دل چرا عاقل بہ بندد اندریں نا گہاں باید شدن بیروں ازیں از پئے دنیا بریدن از خدا بس ہمیں باشدنشانِ اشقیا چوں شود بخشائش حق بر کسے دل نمے ماند بدنیائش بسے خوشترش آید بیابانِ تپاں تا در و نالد زِ بہر دلستاں پیش از مردن بمیرد حق شناس زینکہ محکم نیست دنیا را اساس ہوش کن ایں جائیگہ جائے فناست با خدا مے باش چوں آخر خداست
زہر قاتل گر بدستِ خود خوری من چساں دانم کہ تو دانشوری بیں کہ ایں عبداللطیف پاک مرد چوں پئے حق خویشتن برباد کرد جاں بصدق آں دلستان را دادہ است تا کنوں در سنگہا افتادہ است ایں بود رسم و رہِ صدق و وفا ایں بود مردانِ حق را انتہا از پئے آں زندہ از خود فانی اند جاں فشاں بر مسلک ربّانی اند فارغ اُفتادہ زِ نام و عز و جاہ دِل ز کف و ز فرق افتادہ کلاہ دور تر از خود بہ یار آمیختہ آبرو از بہر روئے ریختہ ذکر شاں ہم مے دہد یاد از خدا صدق ورزاں در جنابِ کبریا گر بجوئی ایں چنیں ایمان بود کار بر جوئندگاں آسان بود لیک تو افتادہ در دنیا اسیر تا نمیری کے رہی زیں دار و گیر تا نمیری اے سگ دنیا پرست دامنِ آں یار کے آید بدست نیست شو تا بر تو فیضانے رسد جاں بیفشاں تا دِگر جانے رسد تو گذاری عمر خود در کبر و کیں چشم بستہ از رہ صدق و یقیں نیک دل با نیکواں دارد سرے بر ُگہر تف مے زند بد گوہرے ہست دیں تخم فنا را کاشتن وز سر ہستی قدم برداشتن چوں بیفتی با دو صد درد و نفیر کس ہمے خیزد کہ گردد دستگیر با خبر را دل تپد بر بے خبر رحم بر کورے کند اہل بصر ہم چنیں قانونِ قدرت او فتاد مر ضعیفاں را قوی آرد بیاد
اپنی جماعت کے لئے بعض نصائح اے میری جماعت خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو.وہ قادر کریم آپ لوگوں کو سفر آخرت کے لئے ایسا طیار کرے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب طیار کئے گئے تھے.خوب یاد رکھو کہ دنیا کچھ چیز نہیں ہے.لعنتی ہے وہ زندگی جو محض دنیا کے لئے ہے اور بدقسمت ہے وہ جس کا تمام ہم و غم دنیا کے لئے ہے.ایسا انسان اگر میری جماعت میں ہے تو وہ عبث طور پر میری جماعت میں اپنے تئیں داخل کرتا ہے کیونکہ وہ اس خشک ٹہنی کی طرح ہے جو پھل نہیں لائے گی.اے سعادتمند لوگو تم زور کے ساتھ اس تعلیم میں داخل ہو جو تمہاری نجات کے لئے مجھے دی گئی ہے.تم خدا کو واحد لا شریک سمجھو اور اُس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرو نہ آسمان میں سے نہ زمین میں سے.خدا اسباب کے استعمال سے تمہیں منع نہیں کرتا لیکن جو شخص خدا کو چھوڑ کر اسباب پر ہی بھروسہ کرتا ہے وہ مشرک ہے.قدیم سے خدا کہتا چلا آیا ہے کہ پاک دل بننے کے سوا نجات نہیں.سو تم پاک دل بن جاؤ اور نفسانی کینوں اور غصوں سے الگ ہو جاؤ.انسان کے نفس امارہ میں کئی قسم کی پلیدیاں ہوتی ہیں مگر سب سے زیادہ تکبر کی پلیدی ہے.اگر تکبر نہ ہوتا تو کوئی شخص کافر نہ رہتا سو تم دل کے مسکین بن جاؤ.عام طور پر بنی نوع کی ہمدردی کرو جبکہ تم انہیں بہشت دلانے کے لئے وعظ کرتے ہو.سو یہ وعظ تمہارا کب صحیح ہو سکتا ہے اگر تم اس چند روزہ دنیا میں ان کی بدخواہی کرو.خدا تعالیٰ کے فرائض کو دلی خوف سے بجا لاؤ کہ تم اُن سے پوچھے جاؤگے.نمازوں میں بہت دعا کرو کہ تا خدا تمہیں اپنی طرف کھینچے اور تمہارے دلوں کو صاف کرے کیونکہ انسان کمزور ہے.ہرایک بدی جو دور ہوتی ہے وہ خدا تعالیٰ کی قوت سے دور ہوتی ہے اور جب تک انسان خدا سے قوت نہ پاوے کسی بدی کے دور کرنے پر قادر نہیں ہو سکتا.اسلام صرف یہ نہیں ہے کہ رسم کے طور پر اپنے تئیں کلمہ گو کہلاؤ بلکہ اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ تمہاری روحیں خدا تعالیٰ کے آستانہ پر گر جائیں اور خدا اور اس کے احکام ہر ایک پہلو کے رو سے تمہاری دنیا پر تمہیں مقدم ہو جائیں.
اے میری عزیز جماعت یقینا سمجھو کہ زمانہ اپنے آخر کو پہنچ گیا ہے اور ایک صریح انقلاب نمودار ہوگیا ہے.سو اپنی جانوں کو دھوکہ مت دو اور بہت جلد راستبازی میں کامل ہو جاؤ.قرآن کریم کو اپنا پیشوا پکڑو اور ہر ایک بات میں اس سے روشنی حاصل کرو اور حدیثوں کو بھی ردی کی طرح مت پھینکو کہ وہ بڑی کام کی ہیں اور بڑی محنت سے اُن کا ذخیرہ طیار ہوا ہے لیکن جب قرآن کے قصوں سے حدیث کا کوئی قصہ مخالف ہو تو ایسی حدیث کو چھوڑ دو تاگمراہی میں نہ پڑو.قرآن شریف کو بڑی حفاظت سے خدا تعالیٰ نے تمہارے تک پہنچایا ہے سو تم اس پاک کلام کا قدر کرو اس پر کسی چیز کو مقدم نہ سمجھو کہ تمام راست روی اور راستبازی اسی پر موقوف ہے.کسی شخص کی باتیں لوگوں کے دلوں میں اُسی حد تک مؤثر ہوتی ہیں جس حد تک اس شخص کی معرفت اور تقویٰ پر لوگوں کو یقین ہوتا ہے.اب دیکھو خدا نے اپنی حجت کو تم پر اس طرح پر پورا کر دیا ہے کہ میرے دعویٰ پر ہزار ہا دلائل قائم کر کے تمہیں یہ موقعہ دیا ہے کہ تا تم غور کرو کہ وہ شخص جو تمہیں اس سلسلہ کی طرف بلاتا ہے وہ کس درجہ کی معرفت کا آدمی ہے اور کس قدر دلائل پیش کرتا ہے اور تم کوئی عیب افترا یاجھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے تا تم یہ خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افترا کا عادی ہے یہ بھی اُس نے جھوٹ بولا ہوگا.کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے.پس یہ خدا کا فضل ہے کہ جو اس نے ابتدا سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے.پھر ماسوا اس کے میرے خدا نے عین صدی کے سر پر مجھے مامور فرمایا اور جس قدر دلائل میرے سچا ماننے کے لئے ضروری تھے وہ سب دلائل تمہارے لئے مہیا کر دیئے اور آسمان سے لے کر زمین تک میرے لئے نشان ظاہر کئے اور تمام نبیوں نے ابتدا سے آج تک میرے لئے خبریں دی ہیں.پس اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا تو اس قدر دلائل اس میں کبھی جمع نہ ہو سکتے.علاوہ اس کے خدا تعالیٰ کی تمام کتابیں اس بات پر گواہ ہیں کہ مفتری کو خدا جلد پکڑتا ہے اور نہایت ذلت سے ہلاک کرتا ہے مگر تم دیکھتے ہو کہ میرا دعویٰ منجانب اللہ ہونے کا تئیس برس سے بھی زیادہ کا ہے جیسا کہ براہین احمدیہ کے پہلے حصہ پر نظر ڈال کر تم سمجھ سکتے ہو پس ہر ایک عقلمند سوچ
سکتا ہے کہ کیا کبھی خدا کی یہ عادت ہوئی اور جب سے انسان کو اُس نے پیدا کیا ہے کیا کبھی اُس نے ایسا کام کیا کہ جو شخص ایسا بدطینت اور چالاک اور گستاخ اور مفتری ہے کہ تئیس برس تک ہر روز نئے دن اور نئی رات میں خدا تعالیٰ پر افترا کر کے ایک نئی وحی اور نیا الہام اپنے دل سے تراشتا ہے اور پھر لوگوں کو یہ کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ وحی نازل ہوئی ہے.اور خدا تعالیٰ بجائے اس کے کہ ایسے شخص کو ہلاک کرے اپنے زبردست نشانوں سے اس کی تائید کرے اُس کے دعویٰ کے ثبوت کے لئے آسمان پر چاند اور سورج کو پیشگوئی کے موافق گرہن میں ڈالے اور اس طرح پر وہ پیشگوئی جو پہلی کتابوں اور قرآن شریف اور حدیثوں میں اور خود اس کی کتاب براہین احمدیہ میں تھی پوری کر کے دنیا میں دکھاوے اور سچوں کی طرح عین صدی کے سر پر اُس کو مبعوث کرے اور عین صلیبی غلبہ کے وقت میں جس کے لئے کاسر صلیب مسیح موعود آنا چاہیے تھا اُس کو اس دعویٰ کے ساتھ کھڑا کر دے اور ہر ایک قدم میں اس کی تائید کرے اور دس۱۰ لاکھ سے زیادہ اس کی تائید میں نشان دکھاوے اور اس کو دنیا میں عزت دے اور زمین پر اُس کی قبولیت پھیلاوے اور صدہا پیشگوئیاں اُس کے حق میں پوری کرے اور نبیوں کے مقرر کردہ دنوں میں جو مسیح موعود کے ظہور کے لئے مقرر ہیں اس کو پیدا کرے اور اُس کی دعائیں قبول فرماوے اور اُس کے بیان میں تاثیر ڈال دے اور ایسا ہی ہر ایک پہلو سے اُس کی تائید کرے حالانکہ جانتا ہے کہ وہ جھوٹا ہے اور ناحق عمداً اُس پر افترا کررہا ہے.کیا بتا سکتے ہو کہ یہ کرم و فضل کا معاملہ پہلے مجھ سے خدا تعالیٰ نے کسی مفتری سے کیا.پس اے بندگانِ خدا غافل مت ہو اور شیطان تمہیں و ساوس میں نہ ڈالے.یقینا سمجھو کہ یہ وہی وعدہ پورا ہوا ہے جو قدیم سے خدا کے پاک نبی کرتے آئے ہیں.آج خدا کے مرسل اور شیطان کا آخری جنگ ہے اور یہ وہی وقت اور وہی زمانہ ہے جیسا کہ دانیال نبی نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا تھا.میں ایک فضل کی طرح اہل حق کے لئے آیا پر مجھ سے ٹھٹھا کیا گیا اور مجھے کافر
اور دجال ٹھہرایا گیا اور بے ایمانوں میں سے مجھے سمجھا گیا.اور ضرور تھا کہ ایسا ہی ہوتا تا وہ پیشگوئی پوری ہوتی جو آیت ۱؎ کے اندر مخفی ہے کیونکہ خدا نے منعم علیہم کا وعدہ کر کے اس آیت میں بتا دیا ہے کہ اس امت میں وہ یہودی بھی ہوں گے جو یہود کے علماء سے مشابہ ہوں گے جنہوں نے حضرت عیسٰیؑ کو سولی دینا چاہا اور جنہوں نے عیسٰیؑ کو کافر اور دجال اور ملحد قرار دیا تھا.اب سوچو کہ یہ کس بات کی طرف اشارہ تھا.اسی بات کی طرف اشارہ تھا کہ مسیح موعود اس امت میں سے آنے والا ہے اس لئے اس کے زمانہ میں یہود کے رنگ کے لوگ بھی پیدا کئے جائیں گے جو اپنے زعم میں علماء کہلائیں گے.سو آج تمہارے ملک میں وہ پیشگوئی پوری ہوگئی.اگریہ علماء موجودنہ ہوتے تو اب تک تمام باشندے اس ملک کے جو مسلمان کہلاتے ہیں مجھے قبول کر لیتے.پس تمام منکروں کا گناہ ان لوگوں کی گردن پر ہے.یہ لوگ راستبازی کے محل میں نہ آپ داخل ہوتے ہیں نہ کم فہم لوگوں کو داخل ہونے دیتے ہیں.کیا کیا مکر ہیں جو کررہے ہیں اور کیا کیا منصوبے ہیں جو اندر ہی اندر اُن کے گھروں میں ہورہے ہیں مگر کیا وہ خدا پر غالب آجائیں گے اور کیا وہ اُس قادر مطلق کے ارادہ کو روک دیں گے جو تمام نبیوں کی زبانی ظاہر کیا گیا ہے.وہ اس ملک کے شریر امیروں اور بدقسمت دولت مند دنیا داروں پر بھروسا رکھتے ہیں مگر خدا کی نظر میں وہ کیا ہیں.صرف ایک مرے ہوئے کیڑے.اے تمام لوگو سن رکھو کہ یہ اُس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلادے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد رکھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی.اگر اب مجھ سے ٹھٹھا کرتے ہیں تو اس ٹھٹھے سے کیا نقصان کیونکہ کوئی نبی نہیں جس سے ٹھٹھا نہیں کیا گیا.پس ضرور تھا کہ مسیح موعود سے بھی ٹھٹھا کیا جاتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
۱؎ پس خدا کی طرف سے یہ نشانی ہے کہ ہر ایک نبی سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے مگر ایسا آدمی جو تمام لوگوں کے روبرو آسمان سے اُترے اور فرشتے بھی اُس کے ساتھ ہوں اُس سے کون ٹھٹھا کرے گا.پس اس دلیل سے بھی عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ مسیح موعود کا آسمان سے اُترنا محض جھوٹا خیال ہے.یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اُترے گا.ہمارے سب مخالف جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی اُن میں سے عیسیٰ ؑ بن مریم کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گا.اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور اُن میں سے بھی کوئی آدمی عیسیٰ ؑ بن مریم کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولاد کی اولاد مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گی.تب خدا اُن کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا.اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسٰیؑ اب تک آسمان سے نہ اُترا.تب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے.اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسیٰ کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.مَیں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اُس کو روک سکے.اور یہ خیال مت کرو کہ آریہ یعنی ہندو دیانندی مذہب والے کچھ چیز ہیں.وہ صرف اُس زنبور کی طرح ہیں جس میں بجزنیش زنی کے اور کچھ نہیں.وہ نہیں جانتے کہ توحید کیا چیز ہے اور روحانیت سے سراسر بے نصیب ہیں.عیب چینی کرنا اور خدا کے پاک رسولوں کو گالیاں دینا اُن کا کام ہے اور بڑا کمال ان کا یہی ہے کہ شیطانی وساوس سے اعتراضات کے ذخیرے جمع کر رہے ہیں اور تقویٰ اور طہارت کی روح اُن میں نہیں.یا درکھو کہ بغیر روحانیت کے کوئی مذہب چل نہیں سکتا.اور مذہب بغیر روحانیت کے کچھ بھی چیز نہیں.جس مذہب میں روحانیت نہیں
اور جس مذہب میں خدا کے ساتھ مکالمہ کا تعلق نہیں اور صدق و صفا کی روح نہیں اور آسمانی کشش اُس کے ساتھ نہیں اور فوق العادت تبدیلی کا نمونہ اس کے پاس نہیں وہ مذہب مردہ ہے.اس سے مت ڈرو.ابھی تم میں سے لاکھوں اور کروڑوں انسان زندہ ہوں گے کہ اس مذہب کو نابود ہوتے دیکھ لو گے کیونکہ یہ مذہب آریا کا زمین سے ہے نہ آسمان سے اور زمین کی باتیں پیش کرتا ہے نہ آسمان کی.پس تم خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کہ خدا تمہارے ساتھ ہے اگر تم صدق اور ایمان پر قائم رہوگے تو فرشتے تمہیں تعلیم دیں گے اور آسمانی سکینت تم پر اُترے گی اور روح القدس سے مدد دیئے جاؤگے اور خدا ہرایک قدم میں تمہارے ساتھ ہوگا.اور کوئی تم پر غالب نہیں ہو سکے گا.خدا کے فضل کی صبر سے انتظار کرو.گالیاں سنو اور چپ رہو.ماریں کھاؤ اور صبر کرو اور حتی المقدور بدی کے مقابلہ سے پرہیز کرو تا آسمان پر تمہاری قبولیت لکھی جاوے.یقینا یاد رکھو کہ جو لوگ خدا سے ڈرتے ہیں اور دل اُن کے خدا کے خوف سے پگھل جاتے ہیں اُنہیں کے ساتھ خدا ہوتا ہے اور وہ اُن کے دشمنوں کا دشمن ہو جاتا ہے.دنیا صادق کو نہیں دیکھتی پر خدا جو علیم وخبیر ہے وہ صادق کو دیکھ لیتا ہے.پس اپنے ہاتھ سے اُس کو بچاتا ہے.کیا وہ شخص جو سچے دل سے تم سے پیار کرتا ہے اور سچ مچ تمہارے لئے مرنے کو بھی طیار ہوتا ہے اور تمہاری منشاء کے موافق تمہاری اطاعت کرتا ہے اور تمہارے لئے سب کچھ چھوڑتا ہے.کیا تم اُس سے پیار نہیں کرتے اور کیا تم اُس کو سب سے عزیز نہیں سمجھتے.پس جبکہ تم انسان ہوکر پیار کے بدلہ میں پیار کرتے ہو پھر کیونکر خدا نہیں کرے گا.خدا خوب جانتا ہے کہ واقعی اس کا وفادار دوست کون ہے اور کون غدار اور دنیا کو مقدم رکھنے والا ہے.سو تم اگر ایسے وفادار ہو جاؤگے تو تم میں اور تمہارے غیروں میں خدا کا ہاتھ ایک فرق قائم کرکے دکھلائے گا.
ذکر اُس پیشگوئی کا جو براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۱۱ میں درج ہے مع اس پیشگوئی کے جو براہین کے صفحہ ۵۱۰ میں مندرج ہے یعنی وہ پیشگوئی جو صاحبزادہ مولوی محمد عبداللطیف صاحب مرحوم اور میاں عبدالرحمن مرحوم کی شہادت کی نسبت ہے اور وہ پیشگوئی جو میرے محفوظ رہنے کی نسبت ہے واضح ہو کہ براہین احمدیہ کے صفحہ پانچسو د۵۱۰س اور صفحہ پانچسو ۵۱۱گیارہ میں یہ پیشگوئیاں ہیں:.وان لم یعصمک الناس یعصمک اللہ من عندہ.یعصمک اللّٰہ من عندہ وان لم یعصمک الناس.شاتان تذبحان.وکلّ من علیھا فان.ولا تھنوا ولا تحزنوا.الیس اللّٰہ بکافٍ عبدہ.الم تعلم انّ اللّٰہ علٰی کلّ شَیْ ئٍ قدیر.وجئنابک علی ھٰؤلاء شھیدا.وفی اللّٰہ اجرک.ویرضٰی عنک ربّک.ویتمّ اسمک وعسٰی ان تحبّوا شیئا وھوشرّلکم.وعسی ان تکرھوا شیئا وھو خیر لکم واللّٰہ یعلم وانتم لا تعلمون.ترجمہ.اگر چہ لوگ تجھے قتل ہونے سے نہ بچائیں لیکن خدا تجھے بچائے گا.خدا تجھے ضرور قتل ہونے سے بچائے گا اگرچہ لوگ نہ بچائیں.یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ لوگ تیرے قتل کے لئے سعی اور کوشش کریں گے خواہ اپنے طور سے اور خواہ گورنمنٹ کو دھوکہ دے کر مگر خدا اُن کو اُن کی تدبیروں میں نامراد رکھے گا.یہ ارادہ الٰہی اس غرض سے ہے کہ اگر چہ قتل ہونا مومن کے لئے شہادت ہے لیکن عادت اللہ اسی طرح ہے کہ دو قسم کے مرسل من اللہ قتل نہیں ہوا کرتے.(۱) ایک وہ نبی جو سلسلہ کے اول پر آتے ہیں جیسا کہ سلسلہ موسویہ میں حضرت موسیٰ اور
سلسلہ محمدیہ میں ہمارے سید و مولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (۲) دوسرے وہ نبی اور مامور من اللہ جو سلسلہ کے آخر میں آتے ہیں جیسے کہ سلسلہ موسویہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور سلسلہ محمدیہ میں یہ عاجز.یہی راز ہے کہ جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت قرآن شریف میں یعصمک اللّٰہ کی بشارت ہے ایسا ہی اس خدا کی وحی میں میرے لئے یعصمک اللّٰہکی بشارت ہے اور سلسلہ کے اوّل اور آخر کے مرسل کو قتل سے محفوظ رکھنا اس حکمت الٰہی کے تقاضا سے ہے کہ اگر اوّل سلسلہ کا مرسل جو صدر سلسلہ ہے شہید کیا جائے تو عوام کو اس مرسل کی نسبت بہت شبہات پیدا ہو جاتے ہیں کیونکہ ہنوز وہ اس سلسلہ کی پہلی اینٹ ہوتا ہے پس اگر سلسلہ کی بنیاد پڑتے ہی اس سلسلہ پر یہ پتھر پڑیں کہ جو بانی سلسلہ ہے وہی قتل کیا جائے تو یہ ابتلا عوام کی برداشت سے برتر ہوگا اور ضرور وہ شبہات میں پڑیں گے اور ایسے بانی کو نعوذ باللہ مفتری قرار دیں گے مثلاً اگر حضرت موسیٰ فرعون کے رو برو جاکر اُسی روز قتل کئے جاتے یا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس روز جس دن قتل کے لئے مکہ میں آپ کے گھر کا محاصرہ کیا گیا تھا کافروں کے ہاتھ سے شہید کئے جاتے تو شریعت اور سلسلہ کا وہیں خاتمہ ہو جاتا اور بعد اس کے کوئی نام بھی نہ لیتا.پس یہی حکمت تھی کہ باوجود ہزاروں جانی دشمنوں کے نہ حضرت موسیٰ شہید ہو سکے اور نہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو سکے.اور اگر آخر سلسلہ کا مُرسل شہید کیا جائے تو عوام کی نظر میں خاتمہ سلسلہ پر ناکامی اور نامرادی کا داغ لگایا جائے گا اور خدا تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ خاتمہ سلسلہ کا فتح اور کامیابی کے ساتھ ہو کیونکہ حکم خواتیم پر ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کا منشاء ہرگز نہیں ہے کہ خاتمہ سلسلہ پر دشمن ملعون کو کوئی خوشی پہنچے جیسا کہ اس کا منشاء نہیں ہے کہ سلسلہ کی ابتدا میں ہی پہلی اینٹ کے ٹوٹنے سے ہی دشمن لعنتی خوشی سے بغلیں بجاویں.پس اس لئے حکمت الٰہیہ نے سلسلہ موسویہ کے آخر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب کی موت سے بچالیا.اور سلسلہ محمدیہ کے آخر میں بھی اسی غرض سے کوشش کی گئی یعنی خون کا دعویٰ کیا گیا تا محمدی مسیح کو صلیب پر کھینچا جائے مگر خدا کا فضل پہلے مسیح کی نسبت بھی اس مسیح پر زیادہ جلوہ نما ہوا اور سزائے موت سے اور ہر ایک سزا سے محفوظ رکھا.غرض چونکہ اوّل اور آخر سلسلہ کے دو دیواریں ہیں اور دو پشتیبان ہیں اس لئے عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ اول سلسلہ اور آخر سلسلہ کے مرسل کو قتل سے محفوظ رکھتا
ہے.اگر چہ شریر اور خبیث آدمی بہت کوشش کرتے ہیں کہ قتل کردیں مگر خدا کا ہاتھ اُن کے ساتھ ہوتا ہے.بعض وقت نادان دشمن دھوکہ سے یہ خیال کرتا ہے کہ کیا مَیں نیک نہیں ہوں اور کیا میں نماز اور روزہ کا پابندنہیں جیسا کہ یہود کے فقیہوں اور فریسیوں کو یہی خیال تھا بلکہ بعض اُن میں سے حضرت عیسٰیؑ کے وقت میں ملہم ہونے کا بھی دعویٰ کرتے تھے مگر ایسا نادان یہ نہیں جانتا کہ جو خدا کے صادق بندے ہوتے ہیں اور گہرے تعلق اُس کے ساتھ رکھتے ہیں وہ اُس صدق اور وفا اور محبت الٰہیہ سے رنگین ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کو اُن کا ساتھ دینا پڑتا ہے اور اُن کے دشمن کو ہلاک کرتا ہے جیسا کہ بلعم نے تکبر اور غرور سے یہ خیال کیا کہ کیا موسیٰ مجھ سے بہتر ہے مگر موسیٰ کا خدا کے ساتھ ایک تعلق تھا جس کو لفظ ادا نہیں کر سکتے اور جو بیان کرنے میں نہیں آسکتا.اس لئے اندھا بلعم اس تعلق سے بے خبر رہا اور جو اپنے سے بہت بڑا تھا اُس کا مقابلہ کر کے مارا گیا.سو ہمیشہ یہ امر واقع ہوتا ہے کہ جو خدا کے خاص حبیب اور وفادار بندے ہیں.اُن کا صدق خدا کے ساتھ اُس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ یہ دنیا دار اندھے اُس کو دیکھ نہیں سکتے.اس لئے ہر ایک سجادہ نشینوں اور مولویوں میں سے اُن کے مقابلہ کے لئے اُٹھتا ہے اور وہ مقابلہ اُس سے نہیں بلکہ خدا سے ہوتا ہے.بھلا یہ کیونکر ہو سکے کہ جس شخص کو خدا نے ایک عظیم الشان غرض کے لئے پیدا کیا ہے اور جس کے ذریعہ سے خدا چاہتا ہے کہ ایک بڑی تبدیلی دنیا میں ظاہر کرے ایسے شخص کو چند جاہل اور بزدل اور خام اور ناتمام اور بے وفا زاہدوں کی خاطر سے ہلاک کر دے.اگر دو کشتیوں کا باہم ٹکراؤ ہو جائے جن میں سے ایک ایسی ہے کہ اُس میں بادشاہِ وقت جو عادل اور کریم الطبع اور فیاض اور سعید النفس ہے مع اپنے خاص ارکان کے سوار ہے.اور دوسری کشتی ایسی ہے جس میں چند چوہڑے یا چمار یا ساہنسی بدمعاش بدوضع بیٹھے ہیں.اور ایسا موقع آپڑا ہے کہ ایک کشتی کا بچاؤ اس میں ہے کہ دوسری کشتی مع اس کے سواروں کے تباہ کی جائے تو اب بتلاؤ کہ اس وقت کون سی کارروائی بہتر ہوگی.کیا اُس بادشاہ عادل کی کشتی تباہ کی جائے گی یا ان بدمعاشوں کی کشتی کہ جو حقیر و ذلیل ہیں تباہ کر دی جائے گی.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ بادشاہ کی کشتی بڑے زور اور حمایت سے بچائی جائے گی اور اُن چوہڑوں چماروں کی کشتی تباہ کر دی جائے گی اور وہ بالکل لاپرواہی سے ہلاک کر دیئے جائیں گے اور اُن کے ہلاک ہونے میں خوشی ہوگی کیونکہ دنیا کو بادشاہ عادل کے وجود کی بہت ضرورت ہے اور اس کا مرنا ایک
عالم کا مرنا ہے.اگر چند چوہڑے اور چمار مر گئے تو اُن کی موت سے کوئی خلل دنیا کے انتظام میں نہیں آسکتا.پس خدا تعالیٰ کی یہی سنت ہے کہ جب اُس کے مرسلوں کے مقابل پر ایک اور فریق کھڑا ہو جاتا ہے تو گووہ اپنے خیال میں کیسے ہی اپنے تئیں نیک قراردیں انہیں کو خدا تعالیٰ تباہ کرتا ہے اور اُنہیں کی ہلاکت کا وقت آجاتا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ جس غرض کے لئے اپنے کسی مرسل کو مبعوث فرماتا ہے اس کو ضائع کرے کیونکہ اگر ایسا کرے تو پھر وہ خود اپنی غرض کا دشمن ہوگا اور پھر زمین پر اُس کی کون عبادت کرے گا.دنیا کثرت کو دیکھتی ہے اور خیال کرتی ہے کہ یہ فریق بہت بڑا ہے.سو یہ اچھا ہے.اور نادان خیال کرتا ہے کہ یہ لوگ ہزاروں لاکھوں مساجد میں جمع ہوتے ہیں کیا یہ بُرے ہیں مگر خدا کثرت کو نہیں دیکھتاوہ دلوں کو دیکھتا ہے.خدا کے خاص بندوں میں محبت الٰہی اور صدق اور وفاکا ایک ایسا خاص نور ہوتا ہے کہ اگر میں بیان کر سکتا تو بیان کرتا لیکن میں کیا بیان کروں جب سے دنیا ہوئی اس راز کو کوئی نبی یا رسول بیان نہیں کر سکا.خدا کے باوفابندوں کی اس طور سے آستانہ الٰہی پر روح گرتی ہے کہ کوئی لفظ ہمارے پاس نہیں کہ اس کیفیت کو دکھلا سکے.اب بعد اس کے بقیہ ترجمہ کر کے اس مضمون کوختم کرتا ہوں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگرچہ میں تجھے قتل سے بچاؤں گا مگر تیری جماعت میں سے دو بکریاں ذبح کی جائیں گی اور ہر ایک جو زمین پر ہے آخر فنا ہوگا یعنی بے گناہ اور معصوم ہونے کی حالت میں قتل کی جائیں گی.یہ خدا تعالیٰ کی کتابوں میں محاورہ ہے کہ بے گناہ اور معصوم کو بکرے یا بکری سے تشبیہ دی جاتی ہے اور کبھی گائیوں سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے.سو خدا تعالیٰ نے اس جگہ انسان کا لفظ چھوڑ کر بکری کا لفظ استعمال کیا کیونکہ بکری میں دو ہنر ہیں وہ دودھ بھی دیتی ہے اور پھر اُس کا گوشت بھی کھایا جاتا ہے اور یہ پیشگوئی شہید مرحوم مولوی محمد عبداللطیف اور اُن کے شاگر د عبدالرحمن کے بارے میں ہے کہ جوبراہین احمدیہ کے لکھے جانے کے بعد پورے تئیس۲۳ برس بعد پوری ہوئی.اب تک لاکھوں کروڑوں انسانوں نے اس پیشگوئی کو میری کتاب براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۱۱ میں پڑھا ہوگا اور ظاہر ہے کہ جیسا کہ ابھی میں نے لکھا ہے بکری کی صفتوں میں سے ایک دودھ دینا ہے اور ایک اُس کا گوشت ہے جو کھایا جاتا ہے.یہ دونوں بکری کی صفتیں مولوی عبداللطیف صاحب مرحوم کی شہادت سے پوری ہوئیں کیونکہ مولوی صاحب موصوف نے مباحثہ کے وقت انواع اقسام
کے معارف اور حقائق بیان کر کے مخالفوں کو دودھ دیا.گو بدقسمت مخالفوں نے وہ دودھ نہ پیا اور پھینک دیا اور پھر شہید مرحوم نے اپنی جان کی قربانی سے اپنا گوشت دیا اور خون بہایا.تا مخالف اس گوشت کو کھاویں اور اس خون کو پیویں یعنی محبت کے رنگ میں اور اس طرح اُس پاک قربانی سے فائدہ اُٹھاویں اور سوچ لیں کہ جس مذہب اور جس عقیدہ پر وہ قائم ہیں اور جس پر اُن کے باپ دادے مر گئے کیا ایسی قربانی کبھی انہوں نے کی.کیا ایسا صدق اور اخلاص کبھی کسی نے دکھلایا.کیا ممکن ہے کہ جب تک انسان یقین سے بھر کر خدا کو نہ دیکھے وہ ایسی قربانی دے سکے.بے شک ایسا خون اور ایسا گوشت ہمیشہ حق کے طالبوں کو اپنی طرف دعوت کرتا رہے گا جب تک کہ دنیا ختم ہو جاوے.غرض چونکہ صاحبزادہ مولوی عبداللطیف صاحب کو ان دو صفتوں کی وجہ سے بکری سے بہت مشابہت تھی اور میاں عبدالرحمن بھی بکری سے مشابہت رکھتا تھا اس لئے ان کو بکری کے نام سے یاد کیا گیا اور چونکہ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ اس راقم اور اس کی جماعت پر اس ناحق کے خون سے بہت صدمہ گزرے گا اس لئے اس وحی کے مابعد آنے والے فقروں میں تسلّی اور عزا پُرسی کے رنگ میں کلام نازل فرمایا جو ابھی عربی میں لکھ چکا ہوں جس کا یہ ترجمہ ہے کہ اس مصیبت اور اُس سخت صدمہ سے تم غمگین اور اُداس مت ہو کیونکہ اگر دو آدمی تم میں سے مارے گئے تو خدا تمہارے ساتھ ہے.وہ دو کے عوض ایک قوم تمہارے پاس لائے گا اور وہ اپنے بندہ کے لئے کافی ہے.کیا تم نہیں جانتے کہ خدا ہر ایک چیز پر قادر ہے اور یہ لوگ جو ان دو مظلوموں کو شہید کریں گے ہم تجھ کو ان پر قیامت میں گواہ لائیں گے اور کہ کس گناہ سے انہوں نے شہید کیا تھا اور خدا تیرا اجر دے گا اور تجھ سے راضی ہوگا اور تیرے نام کو پورا کرے گا یعنی احمد کے نام کو جس کے یہ معنے ہیں کہ خدا کی بہت تعریف کرنے والا اور وہی شخص خدا کی بہت تعریف کرتا ہے جس پر خدا کے انعام اکرام بہت نازل ہوتے ہیں.پس مطلب یہ ہے کہ خدا تجھ پر انعام اکرام کی بارش کرے گا اس لئے تو سب سے زیادہ اس کا ثنا خواں ہوگا.تب تیرا نام جو احمد ہے پورا ہو جائے گا پھر بعد اس کے فرمایا کہ ان شہیدوں کے مارے جانے سے غم مت کرو.ان کی شہادت میں حکمت الٰہی ہے اور بہت باتیں ہیں جو تم چاہتے ہو کہ وہ وقوع میں آویں حالانکہ ان کا واقع ہونا تمہارے لئے
اچھا نہیں ہوتا.اور بہت امور ہیں جو تم چاہتے ہو کہ وہ واقع نہ ہوں حالانکہ اُن کا واقع ہونا تمہارے لئے اچھا ہوتا ہے اور خدا خوب جانتا ہے کہ تمہارے لئے کیا بہتر ہے مگر تم نہیں جانتے اس تمام وحی الٰہی میں یہ سمجھایا گیا ہے کہ صاحبزادہ مولوی عبداللطیف مرحوم کا اس بے رحمی سے مارا جانا اگرچہ ایسا امر ہے کہ اس کے سننے سے کلیجہ منہ کو آتا ہے (وما رئینا ظلمًا اغیظ من ھذا) لیکن اس خون میں بہت برکات ہیں کہ بعد میں ظاہر ہوں گے اور کابل کی زمین دیکھ لے گی کہ یہ خون کیسے کیسے پھل لائے گا.یہ خون کبھی ضائع نہیں جائے گا.پہلے اس سے غریب عبدالرحمن میری جماعت کا ظلم سے مارا گیا اور خدا چپ رہا مگر اس خون پر اب وہ چپ نہیں رہے گا اور بڑے بڑے نتائج ظاہر ہوں گے.چنانچہ سنا گیا ہے کہ جب شہید مرحوم کو ہزاروں پتھروں سے قتل کیا گیا تو انہیں دنوں میں سخت ہیضہ کابل میں پھوٹ پڑا اور بڑے بڑے ریاست کے نامی اس کا شکار ہوگئے اور بعض امیر کے رشتہ دار اور عزیز بھی اس جہان سے رخصت ہوئے مگر ابھی کیا ہے یہ خون بڑی بے رحمی کے ساتھ کیا گیا ہے اور آسمان کے نیچے ایسے خون کی اس زمانہ میں نظیر نہیں ملے گی.ہائے اس نادان امیر نے کیا کیا کہ ایسے معصوم شخص کو کمال بے دردی سے قتل کر کے اپنے تئیں تباہ کرلیا.اے کابل کی زمین تو گواہ رہ کہ تیرے پر سخت جرم کا ارتکاب کیا گیا.اے بدقسمت زمین تو خدا کی نظر سے گر گئی کہ تو اس ظلم عظیم کی جگہ ہے.ایک جدید کرامت مولوی عبداللطیف صاحب مرحوم کی جب میں نے اس کتاب کو لکھنا شروع کیا تو میرا ارادہ تھا کہ قبل اس کے جو ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۰۳ء کو بمقام گورداسپور ایک مقدمہ پر جاؤں جو ایک مخالف کی طرف سے فوجداری میں میرے پر دائر ہے یہ رسالہ تالیف کرلوں اور اس کو ساتھ لے جاؤں تو ایسا اتفاق ہوا کہ مجھے درد گردہ سخت پیدا ہوا.میں نے خیال کیا کہ یہ کام ناتمام رہ گیا صرف دو چار دن ہیں.اگر میں اسی طرح درد گردہ میں مبتلا رہا جو ایک مہلک بیماری ہے تو یہ تالیف نہیں ہو سکے گا تب خدا تعالیٰ نے مجھے دعا کی طرف توجہ دلائی.میں نے رات
کے وقت میں جبکہ تین گھنٹے کے قریب بارہ بجے کے بعد رات گزر چکی تھی اپنے گھر کے لوگوں سے کہا کہ اب میں دعا کرتا ہوں تم آمین کہو.سو میں نے اُسی دردناک حالت میں صاحبزادہ مولوی عبداللطیف کے تصور سے دعا کی کہ یا الٰہی اس مرحوم کے لئے میں اس کو لکھنا چاہتا تھا تو ساتھ ہی مجھے غنودگی ہوئی اور الہام ہوا.سلامٌ قولًا من ربّ رحیم یعنی سلامتی اور عافیت ہے یہ خدائے رحیم کا کلام ہے.پس قسم ہے مجھے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ابھی صبح کے چھ نہیں بجے تھے کہ میں بالکل تندرست ہوگیا اور اُسی روز نصف کے قریب کتاب کو لکھ لیا.فالحمد للّٰہ علٰی ذالک.ایک ضروری امر اپنی جماعت کی توجہ کے لئے اگرچہ میں خوب جانتا ہوں کہ جماعت کے بعض افراد ابھی تک اپنی روحانی کمزوری کی حالت میں ہیں یہاں تک کہ بعض کو اپنے وعدوں پر بھی ثابت رہنا مشکل ہے لیکن جب میں اس استقامت اور جانفشانی کو دیکھتا ہوں جو صاحبزادہ مولوی محمد عبداللطیف مرحوم سے ظہور میں آئی تو مجھے اپنی جماعت کی نسبت بہت امید بڑھ جاتی ہے کیونکہ جس خدا نے بعض افراد اس جماعت کو یہ توفیق دی کہ نہ صرف مال بلکہ جان بھی اس راہ میں قربان کر گئے اُس خدا کا صریح یہ منشاء معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہت سے ایسے افراد اس جماعت میں پیدا کرے جو صاحبزادہ مولوی عبداللطیف کی روح رکھتے ہوں.اور ان کی روحانیت کا ایک نیا پودہ ہوں جیسا کہ میں نے کشفی حالت میں واقعہ شہادت مولوی صاحب موصوف کے قریب دیکھا کہ ہمارے باغ میں سے ایک بلند شاخ سرو کی کاٹی گئی ٭ اور میں نے کہا کہ اس شاخ کو ٭ اس سے پہلے ایک صریح وحی الٰہی صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف صاحب مرحوم کی نسبت ہوئی تھی جبکہ وہ زندہ تھے بلکہ قادیان میں ہی موجود تھے اور یہ وحی الٰہی میگزین انگریزی ۹؍فروری۱۹۰۳ء میں اور الحکم ۱۷؍جنوری ۱۹۰۳ء اور البدر ۱۶؍جنوری ۱۹۰۳ء کالم د۲و میں شائع ہو چکی ہے جو مولوی صاحب کے مارے جانے کے بارے میں ہے اور وہ یہ ہے کہ قُتِلَ خَیْبَۃً وَ زِیْدَ ھَیْبَۃً یعنی ایسی حالت میں مارا گیا کہ اس کی بات کو کسی نے نہ سنا اور اس کا مارا جانا ایک ہیبت ناک امر تھا یعنی لوگوں کو بہت ہیبت ناک معلوم ہوا.اور اس کا بڑا اثر دلوں پر ہوا.منہ
زمین میں دوبارہ نصب کر دو تا وہ بڑھے اور پھولے.سو میں نے اس کی یہی تعبیر کی کہ خدا تعالیٰ بہت سے اُن کے قائم مقام پیدا کردے گا.سو میں یقین رکھتا ہوں کہ کسی وقت میرے اس کشف کی تعبیر ظاہر ہو جائے گی مگر ابھی تک یہ حال ہے کہ اگر میں ایک تھوڑی سی بات بھی اس سلسلہ کے قائم رکھنے کے لئے جماعت کے آگے پیش کرتا ہوں تو ساتھ ہی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ مبادا اس بات سے کسی کو ابتلا پیش نہ آوے.اب ایک ضروری بات جو اپنی جماعت کے آگے پیش کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ لنگر خانہ کے لئے جس قدر میری جماعت وقتاً فوقتاً مدد کرتی رہتی ہے وہ قابل تعریف ہے.ہاں اس مدد میں پنجاب نے بہت حصہ لیا ہوا ہے.اس کا سبب یہ ہے کہ پنجاب کے لوگ اکثر میرے پاس آتے جاتے ہیں.اور اگر دلوں میں غفلت کی وجہ سے کوئی سختی آجائے تو صحبت اور پے در پے ملاقات کے اثر سے وہ سختی بہت جلد دور ہوتی رہتی ہے اس لئے پنجاب کے لوگ خاص کر بعض افراد اُن کی محبت اور صدق اور اخلاص میں ترقی کرتے جاتے ہیں.اور اسی وجہ سے ہر ایک ضرورت کے وقت وہ بڑی سرگرمی دکھلاتے ہیں اور سچی اطاعت کے آثار ان سے ظاہر ہوتے ہیں.اور یہ ملک دوسرے ملکوں سے نسبتاًکچھ نرم دل بھی ہے.باایں ہمہ انصاف سے دور ہوگا اگر میں تمام دور کے مریدوں کو ایسے ہی سمجھ لوں کہ وہ ابھی اخلاص اور سرگرمی سے کچھ حصہ نہیں رکھتے کیونکہ صاحبزادہ مولوی عبداللطیف جس نے جاں نثاری کا یہ نمونہ دکھایا وہ بھی تو دور کی زمین کا رہنے والا تھا جس کے صدق اور وفا اور اخلاص اور استقامت کے آگے پنجاب کے بڑے بڑے مخلصوں کو بھی شرمندہ ہونا پڑتا ہے اور کہنا پڑتا ہے کہ وہ ایک شخص تھا کہ ہم سب سے پیچھے آیا اور سب سے آگے بڑھ گیا.اسی طرح بعض دور دراز ملک کے مخلص بڑی بڑی خدمت مالی کر چکے ہیں اور اُن کے صدق و وفا میں کبھی فتور نہ آیا جیسا کہ اخویم سیٹھ عبدالرحمن تاجر مدراس اور چند ایسے اور دوست لیکن کثرت تعداد کے لحاظ سے پنجاب کو مقدم رکھا گیا ہے کیونکہ پنجاب میں ہر ایک طبقہ کے آدمی خدمت دینی سے بہت حصہ لیتے جاتے ہیں اور دور کے اکثر لوگ اگرچہ ہمارے سلسلہ میں داخل تو ہیں مگر بوجہ اس کے کہ ان کو صحبت کم نصیب ہوتی ہے اُن کے دل بکلّی دنیا کے گند سے صاف نہیں ہیں.امر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یا تو آخرکار
وہ گند سے صاف ہو جائیں گے اور یا خدا تعالیٰ ان کو اس پاک سلسلہ سے کاٹ دے گا اور ایک مردار کی طرح مریں گے.بڑی غلطی انسان کی دنیا پرستی ہے.یہ بدبخت اور منحوس دنیا کبھی خوف دلانے سے اور کبھی امید دینے سے اکثر لوگوں کو اپنے دام میں لے لیتی ہے اور یہ اُسی میں مرتے ہیں.نادان کہتا ہے کہ کیا ہم دنیا کو چھوڑدیں اور یہ غلطی انسان کونہیں چھوڑتی جب تک کہ اس کو بے ایمان کر کے ہلاک نہ کرے.اے نادان کون کہتا ہے کہ تو اسباب کی رعایت چھوڑ دے مگر دل کو دنیا اور دنیا کے فریبوں سے الگ کر ورنہ تو ہلاک شدہ ہے اور جس عیال کے لئے تو حد سے زیادہ بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ خدا کے فرائض کو بھی چھوڑتا ہے اور طرح طرح کی مکاریوں سے ایک شیطان بن جاتا ہے.اس عیال کے لئے تو بدی کا بیج بوتا ہے اور ان کو تباہ کرتا ہے.اس لئے کہ خدا تیری پناہ میں نہیں کیونکہ تو پارسا نہیں.خدا تیرے دل کی جڑھ کو دیکھ رہا ہے.سو تو بے وقت مرے گا اور عیال کو تباہی میں ڈالے گا لیکن وہ جو خدا کی طرف جھکا ہوا ہے اُس کی خوش قسمتی سے اُس کے زن و فرزند کو بھی حصہ ملے گا اور اس کے مرنے کے بعد کبھی وہ تباہ نہیں ہوں گے.جو لوگ مجھ سے سچا تعلق رکھتے ہیں وہ اگرچہ ہزار کوس پر بھی ہیں تاہم ہمیشہ مجھے لکھتے رہتے ہیں اور دعائیں کرتے رہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ انہیں موقعہ دے تا وہ برکات صحبت حاصل کریں مگر افسوس کہ بعض ایسے ہیں کہ میں دیکھتا ہوں کہ قطع نظر ملاقات کے سالہا سال گزر جاتے ہیں اور ایک کارڈ بھی اُن کی طرف سے نہیں آتا اس سے میں سمجھتا ہوں کہ اُن کے دل مر گئے ہیں اور اُن کے باطن کے چہرہ پر کوئی داغ جذام ہے.میں تو بہت دعا کرتا ہوں کہ میری سب جماعت اُن لوگوں میں ہو جائے جو خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور نماز پر قائم رہتے ہیں اور رات کو اُٹھ کر زمین پر گرتے ہیں اور روتے ہیں اور خدا کے فرائض کو ضائع نہیں کرتے اور بخیل اور ممسک اور غافل اور دنیا کے کیڑے نہیں ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ یہ میری دعائیں خدا تعالیٰ قبول کرے گا اور مجھے دکھائے گا کہ اپنے پیچھے میں ایسے لوگوں کوچھوڑتا ہوں لیکن وہ لوگ جن کی آنکھیں زنا کرتی ہیں اور جن کے دل پاخانہ سے بدتر ہیں اور جن کو مرنا ہرگز یاد نہیں ہے.میں اور میرا خدا اُن سے بیزار ہیں.میں بہت خوش ہوں گا اگر ایسے لوگ اس پیوند کو قطع کرلیں کیونکہ خدا اس جماعت کو ایک ایسی قوم بنانا
چاہتا ہے جس کے نمونہ سے لوگوں کو خدا یاد آوے اور جو تقویٰ اور طہارت کے اوّل درجہ پر قائم ہوں اور جنہوں نے درحقیقت دین کو دنیا پر مقدم رکھ لیا ہو لیکن وہ مفسد لوگ جو میرے ہاتھ کے نیچے ہاتھ رکھ کر اور یہ کہہ کر کہ ہم نے دین کو دنیا پر مقدم کیا.پھروہ اپنے گھروں میں جاکر ایسے مفاسد میں مشغول ہوجائیں کہ صرف دنیا ہی دنیا اُن کے دلوں میں ہوتی ہے.نہ ان کی نظر پاک ہے نہ اُن کا دل پاک ہے اور نہ اُن کے ہاتھوں سے کوئی نیکی ہوتی ہے اور نہ ان کے پیر کسی نیک کام کے لئے حرکت کرتے ہیں اور وہ اُس چوہے کی طرح ہیں جو تاریکی میں ہی پرورش پاتا ہے اور اُسی میں رہتا اور اُسی میں مرتا ہے وہ آسمان پر ہمارے سلسلہ میں سے کاٹے گئے ہیں.وہ عبث کہتے ہیں کہ ہم اس جماعت میں داخل ہیں کیونکہ آسمان پروہ داخل نہیں سمجھے جاتے.جو شخص میری اس وصیت کو نہیں مانتا کہ درحقیقت وہ دین کو دنیا پر مقدم کرے اور درحقیقت ایک پاک انقلاب اُس کی ہستی پر آجائے اور درحقیقت وہ پاک دل اور پاک ارادہ ہو جائے اور پلیدی اور حرامکاری کا تمام چولہ اپنے بدن پر سے پھینک دے اور نوع انسان کا ہمدرد اور خدا کا سچا تابعدار ہو جائے اور اپنی تمام خودروی کو الوداع کہہ کر میرے پیچھے ہولے.میں اُس شخص کو اُس کتے سے مشابہت دیتا ہوں جو ایسی جگہ سے الگ نہیں ہوتا جہاں مردار پھینکا جاتا ہے اور جہاں سڑے گلے مُردوں کی لاشیں ہوتی ہیں.کیا میں اس بات کا محتاج ہوں کہ وہ لوگ زبان سے میرے ساتھ ہوں اور اس طرح پر دیکھنے کے لئے ایک جماعت ہومیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر تمام لوگ مجھے چھوڑ دیں اور ایک بھی میرے ساتھ نہ رہے.تو میرا خدا میرے لئے ایک اور قوم پیدا کرے گا جو صدق اور وفا میں ان سے بہتر ہوگی.یہ آسمانی کشش کام کررہی ہے جو نیک دل لوگ میری طرف دوڑتے ہیں.کوئی نہیں جو آسمانی کشش کو روک سکے.بعض لوگ خدا سے زیادہ اپنے مکر اور فریب پر بھروسہ رکھتے ہیں شاید اُن کے دلوں میں یہ بات پوشیدہ ہوکہ نبوتیں اور رسالتیں سب انسانی مکر ہیں.اور اتفاقی طور پر شہرتیں اور قبولیتیں ہو جاتی ہیں.اس خیال سے کوئی خیال پلید تر نہیں اور ایسے انسان کو اس خدا پر ایمان نہیں جس کے ارادہ کے بغیر ایک پتہ بھی گر نہیں سکتا.لعنتی ہیں ایسے دل اور ملعون ہیں ایسی طبیعتیں خدا اُن کو ذلت سے مارے گا کیونکہ وہ خدا کے کارخانہ کے دشمن ہیں.ایسے لوگ درحقیقت دہریہ اور خبیث باطن ہوتے ہیں.وہ جہنمی زندگی کے دن گزارتے ہیں اور مرنے کے بعد بجز جہنم کی آگ کے اُن کے حصہ میں کچھ نہیں.
اب مختصر کلام یہ ہے کہ علاوہ لنگر خانہ اور میگزین کے جو انگریزی اور اُردو میں نکلتا ہے جس کے لئے اکثر دوستوں نے سرگرمی ظاہر کی ہے ایک مدرسہ بھی قادیان میں کھولا گیا ہے.اس سے یہ فائدہ ہے کہ نو عمربچے ایک طرف تو تعلیم پاتے ہیں اور دوسری طرف ہمارے سلسلہ کے اصولوں سے واقفیت حاصل کرتے جاتے ہیں.اس طرح پر بہت آسانی سے ایک جماعت طیار ہو جاتی ہے بلکہ بسا اوقات اُن کے ماں باپ بھی اس سلسلہ میں داخل ہو جاتے ہیں لیکن ان دنوں میں ہمارا یہ مدرسہ بڑی مشکلات میں پڑا ہوا ہے اور باوجودیکہ محبّیعزیزی اخویم نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ اپنے پاس سے ا۸۰سی روپیہ ماہوار اس مدرسہ کی مدد کرتے ہیں مگر پھر بھی اُستادوں کی تنخواہیں ماہ بماہ ادا نہیں ہو سکتیں صدہا روپیہ قرضہ سر پر رہتا ہے.علاوہ اس کے مدرسہ کے متعلق کئی عمارتیں ضروری ہیں جواب تک طیار نہیں ہو سکیں.یہ غم علاوہ اور غموں کے میری جان کو کھارہا ہے.اس کی بابت میں نے بہت سوچا کہ کیا کروں آخر یہ تدبیر میرے خیال میں آئی کہ میں اس وقت اپنی جماعت کے مخلصوں کو بڑے زور کے ساتھ اس بات کی طرف توجہ دلاؤں کہ وہ اگر اس بات پر قادرہوں کہ پوری توجہ سے اس مدرسہ کے لئے بھی کوئی ماہانہ چندہ مقرر کریں تو چاہیے کہ ہرایک اُن میں سے ایک مستحکم عہد کے ساتھ کچھ نہ کچھ مقرر کرے جس کے لئے وہ ہرگز تخلف نہ کرے مگر کسی مجبوری سے جو قضاء وقدر سے واقع ہو اور جو صاحب ایسا نہ کر سکیں ان کے لئے بالضرورت یہ تجویز سوچی گئی ہے کہ جو کچھ وہ لنگر خانہ کے لئے بھیجتے ہیں اس کا چہارم حصہ براہ راست مدرسہ کے لئے نواب صاحب موصوف کے نام بھیج دیں.لنگر خانہ میں شامل کر کے ہرگز نہ بھیجیں بلکہ علیحدہ منی آرڈر کرا کر بھیجیں.اگرچہ لنگر خانہ کا فکر ہر روز مجھے کرنا پڑتا ہے اور اس کا غم براہ راست میری طرف آتا ہے اور میری اوقات کو مشوش کرتا ہے لیکن یہ غم بھی مجھ سے دیکھا نہیں جاتا.اس لئے میں لکھتا ہوں کہ اس سلسلہ کے جوانمرد لوگ جن سے میں ہرطرح امید رکھتا ہوں کہ وہ میری اس التماس کو ردی کی طرح نہ پھینک دیں اور پوری توجہ سے اس پر کاربند ہوں.میں اپنے نفس سے کچھ نہیں کہتا بلکہ وہی کہتا ہوں جو خدا تعالیٰ میرے دل میں ڈالتا ہے.مَیں نے خوب سوچا ہے اور بار بار مطالعہ کیا ہے میری دانست میں اگر یہ مدرسہ قادیان کا قائم رہ جائے تو بڑی برکات کا موجب ہوگا اور اُس کے ذریعہ سے ایک فوج نئے تعلیم یافتوں کی ہماری طرف آسکتی ہے اگرچہ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اکثر طالب علم
نہ دین کے لئے بلکہ دنیا کے لئے پڑھتے ہیں اور اُن کے والدین کے خیالات بھی اسی حد تک محدود ہوتے ہیں مگر پھر بھی ہر روز کی صحبت میں ضرور اثر ہوتا ہے.اگر بیس۲۰ طالب علموں میں سے ایک بھی ایسا نکلے جس کی طبیعت دینی امور کی طرف راغب ہو جائے اور وہ ہمارے سلسلہ اور ہماری تعلیم پر عمل کرنا شروع کرے تب بھی میں خیال کروں گا کہ ہم نے اس مدرسہ کی بنیاد سے اپنے مقصد کو پالیا.آخر میں یہ بھی یاد رہے کہ یہ مدرسہ ہمیشہ اس سقم اور ضعف کی حالت میں نہیں رہے گا بلکہ یقین ہے کہ پڑھنے والوں کی فیس سے بہت سی مدد مل جائے گی یا وہ کافی ہو جائے گی.پس اس وقت ضروری نہیں ہوگا کہ لنگر خانہ کی ضروری رقوم کاٹ کر مدرسہ کو دی جائیں.سو اس وسعت کے حاصل ہونے کے وقت ہماری یہ ہدایت منسوخ ہو جائے گی اور لنگر خانہ جو وہ بھی درحقیقت ایک مدرسہ ہے اپنے چہارم حصہ کی رقم کو پھر واپس پالے گا اور یہ مشکل طریق جس میں لنگر خانہ کو حرج پہنچے گا محض اس لئے میں نے اختیار کیا کہ بظاہر مجھے معلوم ہوتا ہے کہ جس قدر مدد کی ضرورت ہے شاید جدید چندہ میں وہ ضرورت پوری نہ ہو سکے لیکن اگر خدا کے فضل سے پوری ہو جائے تو پھر اس قطع بُرید کی ضرورت نہیں اور میں نے یہ جو کہا کہ لنگر خانہ بھی ایک مدرسہ ہے.یہ اس لئے کہا کہ جو مہمان میرے پاس آتے جاتے ہیں جن کے لئے لنگر خانہ جاری ہے وہ میری تعلیم سنتے رہتے ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جو لوگ ہر وقت میری تعلیم سنتے ہیں خدا تعالیٰ اُن کو ہدایت دے گا اور ان کے دلوں کو کھول دے گا.اب میں اسی قدر پر بس کرتا ہوں اور خدا تعالیٰ سے چاہتا ہوں کہ جو مدعا میں نے پیش کیا ہے میری جماعت کو اُس کے پورا کرنے کی توفیق دے اور ان کے مالوں میں برکت ڈالے اور اس کارخیر کے لئے ان کے دلوں کو کھول دے.آمین ثم آمین والسّلام علٰی من اتّبع الھُدٰی.۱۶؍ اکتوبر ۱۹۰۳ء
الوقتُ وقتُ الدّعاءِ لَا وقت الملاحمِ وقتل الأعداء اعلموا أرشدکم اللہ أن الأمر قد خرج من أن یتہیّأ القوم للجہاد ، ویُہلّوا لہ أہل الاستعداد، ویستحضروا الغزو ، من الحضر والبدو ، ویفوزوا فی استنجاد الجنود ، واستحشاد الحشود ، وإصحار الأسود.فإنّا نری المسلمین أضعف الأقوام، فی مُلکِنا ہذا والعرب والروم والشام، ما بقیت فیہم قوۃ الحرب، ولا عِلْمُ الطعن والضرب، وأمّا الکفّار فقد استبصروا فی فنون القتال، وأعدّوا للمسلمین کلّ عدّۃ لِلْاِستیصال ، ونریٰ أن العِدا من کل حدَبٍ ینسلون ، وما یلتقی جمعان إلا وہم یغلبون.فظہر ممّا ظَھَرَ أن الوقت وقت الدعاء ، والتضرّع فی حضرۃ الکبریاء لا وقت الملاحم وقتل الأعداء ، ومن لا یعرف الوقت فیُلقِی نفسہ إلی التہلکۃ ، ولا یری إلّا أنواع النّکبۃ والذلۃ.وقد نُکّست أعلام حروب المسلمین ألا تریٰ؟ و أین رجال الطعن والسیف والْمُدیٰ ؟ السیوف أُغمِدَت ، وَالرّماح
کُسّرؔ ت، وأُلقِیَ الرعب فی قلوب المسلمین، فتراہم فی کل موطنٍ فارّین مدبرین.وإنّ الحرب نہبت أعمارہم، وأضاعت عسجدہم وعقارہم ، وما صلح بہا أمر الدین إلی ھذا الحین، بل الفتن تموّجت وزادت ، وصراصر الفساد أہلکت الملّۃ وأبادت ، وترون قصر الإسلام قد خرّت شَعفاتہ ، وعُفّرت شَرَفاتہ ، فأی فائدۃ ترتّبت من تقلّد السیف والسنان ، وأی مُنیۃ حصلت إلی ہذا الأوان، من غیر أن الدماء سُفکت، والأموال أُنفِدَت ، والأوقات ضُیّعت، والحسرات أُضعفت.ما نفعکم الخمیس ، ووُطِئتم إذا حمی الوطیس.فاعلموا أن الدعاء حَرْبَۃٌ أُعطیت من السماء لِفتح ہذا الزمان، ولن تغلبوا إلّا بہذہ الحربۃ یا معشر الخلّان، وقد أخبر النبیّون من أوّلہم إلی آخرہم بہذہ الحربۃ، وقالوا إنّ المسیح الموعود ینال الفتح بالدعاء والتضرع فی الحضرۃ ، لا بالملاحم وسفک دماء الأمّۃ.إنّ حقیقۃ الدعاء.الإقبال علی اللّٰہ بجمیع الہمّۃ، والصدق والصبر لدفع الضرّاء ، وإن أولیاء اللّٰہ إذا توجّہوا إلی ربہم لدفع موذٍ بالتضرّع والابتہال، جرت عادۃ اللّٰہ أنہ یسمع دعاء ہم ولو بعد حین أو فی الحال، وتوجّہت العنایۃ الصمدیۃ لیدفع ما نزل بہم من البلاء والوبال، بعد ما أقبلوا علی اللّٰہ کل الاقبال، وإنّ أعظم الکرامات استجابۃ الدعوات، عند حلول الآفات.فکذالک قُدِّرَ لآخر الزمان، أعنی زمن المسیح الموعود المرسل من الرحمان، إن صفّ المصاف یُطویٰ ، وتُفتح القلوب بالکَلِمِ وتُشرَح الصّدُورُ بالہُدیٰ، أو یُنقل النّاس إلی المقابر من الطاعون أو قارعۃٍ أخریٰ ، وکذالک اللہ قضٰی، لیجعل الہزیمۃ علی الکفر ویُعلی فی الأرض دینًا ہو فی السماء علا، وإن قدمی ہذہ علی مصارع المنکرین ، وسأُنصَرُ من ربی ویُقْضی الأمر ویتمّ قول ربّ العالمین.
و ؔ ہذہ ہی حقیقۃ نزولی من السماء ، فإنی لا أغلب بالعساکر الأرضیۃ بل بملائکۃ من حضرۃ الکبریاء.قیل ما معنی الدعاء بعد قدرٍ لا یُردّ، وقضاءٍ لا یُصَدّ؟ فاعلم أنّ ہذا السرّ مَوْرٌ تضلّ بہ العقول، ویغتال فیہ الغول، ولا یبلغہ إلّا من یتوب، ومن التوبۃ یذوب، فلا تزیدوا الخصام أیہا اللئام، وتلقّفوا منّی ما أقول، فإنی علیم ومن الفحول ، ولیس لکم حظّ من الإسلام إلَّا مِیْسمہ ، أولبوسہ ورسمہ، فمن أرہف أُذنہ لسمع ہذہ الحقائق، وحفد إلینا کاللہیف الشائق ، فسأخفرہ بما یَسْرُو ریبتہ، ویَمْلأ عیبتہ ، وہو أنّ اللہ جعل بعض الأشیاء معلّقًا ببعضہا من القدیم، وکذالک علّق قدرَہ بدعوۃ المضطر الألیم.فمن نہض مُہرولًا إلی حضرۃ العزّۃ ، بعبرات متحدّرۃ ودموع جاریۃ من المقلۃ ، وقلب یضجر کأنہ وُضع علی الجمرۃ ، تحرک لہ موج القبول من الحضرۃ، ونُجّیَ من کرب بلّغ أمرہ إلی الہلکۃ ، بید أن ہذا المقام، لا یحصل إلا لمن فنی فی اللہ وآثر الحبیب العلّام، وترک کُلما یُشابہ الأصنام، ولبّٰی نداء القرآن، وحضر حریم السلطان ، وأطاع المولی حتی فنٰی ، ونہی النفس عن الہویٰ ، وتیقّظ فی زمنٍ نعس النّاس، وعاث الوسواس ، ورضی عن ربہ وما قضٰی، وألقی إلیہ العُرَی ، وما دَنّس نفسہ بالذنوب ، بعد ما أُدخِلَ فی دیار المحبوب، بقلبٍ نقیّ، وعزمٍ قویّ، وصدقٍ جلیّ، أولئک لا تُضاع دعواتہم، ولا تُردّ کلماتہم، ومن آثر الموت لِرَبّہ یُرَدّ إلیہ الحیاۃُ، ومن رضی لہ ببخسٍ ترجع إلیہ البرکات، فلا تتمنّوہ وأنتم تقومون خارج الباب، ولا یُعطی ہذا العلم إلّا لمن دخل حضرۃ ربّ الأرباب، ثم یُؤخذ ہذا الیقین عن التجاریب ، والتجربۃ شیء یفتح علی الناس باب الأعاجیب، والذی لا یقتحم تنوفۃ السلوک، ولا یجوب موامی الغربۃ لرؤیۃ ملک الملوک، فکیف تُکشَف علیہ أسرار الحضرۃ، مع عدم العلم وعدم التجربۃ؟ وأمّا من سلک مسلک العارفین،
فسوؔ ف یری کل أطروفۃ من رب العالمین.و مِنْ أحسنِ ما یُلمِحُ السالکُ ہو قبولُ الدعاء ، فسبحان الذی یُجیبُ دعوات الأولیاء ، ویکلمّہم ککلام بعضکم بعضًا بل أصفی منہ بالقوۃ الروحانیۃ، ویجذبہم إلی نفسہ بالکلمات اللذیذۃ البہیّۃ، فیرتحلون عن عرسہم وغرسہم إلی ربہم الوحید، راکبین علی طِرْفٍ لا یشمس ولا یحید.إنّہم قوم عاہدوا اللّٰہ بِحَلفَۃٍ أن لا یؤثروا إلّا ذاتہ ، وأن لا یطلبوا إلّا آیاتہ، وأن لا یتّبعوا إلّا آیاتہ، فإذ اری اللہ أنہم وفق شرطہ فی کتابہ الفرقان، کشف علیہم کل بابٍ من أبواب العرفان.ثم اعلم أنّ أعظم ما یزید المعرفۃ ہو من العبد باب الدعاء ، ومن الرب باب الإیحاء ، فإن العیون لا تنفتح إلاّ برؤیۃ اللہ بإجابتہ عند الدعاء ، وعند التضرّع والبکاء ، ومن لم یُکشف علیہ ہذہ الباب فلیس ہو إلّا مغترّا بالأباطیل ، ولا یعلم ما وجہ الرب الجلیل.فلذالک یترک ربّہ ویعطف إلی مراتب الدنیا الدنیّۃ ، ویشغف قلبہ بالأمتعۃ الفانیۃ ، ولا یتنبّہ علی انقراض العمر وعلی الحسرات عند ترک الأمانی، والرحلۃ من البیت الفانی، ولا یذکر ہادِمًا یجعل رَبعہ دار الحرمان والحسرۃ ، وأوہن مِن بیت العنکبوت وأبعد من أسباب الراحۃ.وإذا أراد اللہ لعبدٍ خیرا یہتف فی قلبہ داعی الفلاح، فإذا اللیل أبرق من الصباح ، وکل نفسٍ طُہّرَت ہی صنیعۃ إحسان الرب الکریم ، ولیس الإنسان إلّا کدودۃ من غیر تربیۃ الخلّاق الرحیم.وأوّل ما یبدأ فی قلوب الصالحین، ہو التبرّی من الدنیا والانقطاع إلی رب العالمین.وإن ہذا ہو مرادٌ أنقض ظہر السالکین ، وأمطر علیہم مطر الحزن والبکاء والأنین، فإن النفس الأمّارۃ ثعبان تبسط شَرک الہوی، ویہلک الناس کلہم إلّا من رحم ربُّہ وبسط علیہ جناحہ باللطف والہدی.وإن الدعاء بذرٌ ینمّیہ اللہ عند الزِراعۃ بِالضراعۃ ، ولیس عند العبد بضاعۃ من دون ہذہ البضاعۃ، وإنہ من أعظم دواعی تُرْجٰی منہا النجاۃ
و ؔ تُدفعُ الآفات.ومن کان زیرًا للأبدال، وأذنًا لأہل الحال ، تُفتح عینہ لرؤیۃ ہذا النور، ویُشاہد ما فیہ من السرّ المستور.ولا یشقی جلیس أولیاء الجناب ، ولو کان کالدواب.أو فی غلواء الشباب ، بل یُبَدّلُ ویُجعَلُ کالشیخ المذاب.فطوبی للذین لا یبرحون أرض المقبولین، ویحفظون کلمہم کخلاصۃ النضّ ویجمعونہا کالممسکین.و الذین یُشجّعون قلوبہم لتحقیر عباد الرحمان، ویقولون کل ما یخطر فی قلوبہم من السبّ والشتم والہذیان ، إنہم قوم أہلکوا أنفسہم وأزواجہم وذراریہم بہٰذہ الجرأۃ ، ویموتون ولا یترکون خلفہم إلا قلادۃ اللعنۃ.یُریدون أن یُطفؤا نور اللہ وکیف شمس الحق تجب ؟ وکیف ضیاء اللہ یحتجب؟ یسعون لکتمان الحق وہل لنور اللہ کتمٌ؟ أکذب ہٰذا أم علٰی قلوبہم ختم؟ وإنّ الذین لا یقبلوننی ویقولون إنّا نحن علماء ہذا الزمان، إن ہم إلّا أعداء الرحمان، لا یقربون إلا سُخط الدیّان.یتفوّہون بماءۃ کلمۃ ما أُسّس أحدٌ منہا علی التقوی، ہذہ سیرۃ قوم یقولون إنّا نحن العلماء ویُعادون الحق والہدٰی، ولا ینتہجون إلا سُبُل الرّدٰی.فما أدراہم أنہم لا یموتون، وإلی اللہ لا یُرجعون، وعن الأعمال لایُسألون، وسیعلم الذین ظلموا أی منقلبٍ ینقلبون.فقوموا أیہا العباد، قبل یومٍ یسوقکم إلی المعاد ، فادعوا ربّکم بصوت رقیق، وزفیر وشہیق، وأبرزوا بالتوبۃ إلی الرب الغفور، قبل أن تبرزوا إلی القبور، ولا تلقوا عصا التسیار فی أرض الأشرار ، ولا تقعدوا إلّا مع الأبرار، وکونوا مع الصادقین، وتوبوا مع التوّابین.ولا تیأسوا من رَوْحِ اللہ ، ولا تمدّوا ظنونکم کالکافرین، ولا تُعرضوا إعراض المتکبّرین، ولا تُصرّوا علی الکذب کالأرذلین.اَ لَا ترون إن کنتُ علی الحق ولا تقبلوننی فکیف مآل المنکرین؟ وإنی أفوّض أمری إلی اللہ.ہو یعلم ما فی قلبی وما فی قلوبکم.وإنّا أو إیّاکم لعلی ہُدًی أو فی ضلال مبین
.وإنیؔ أری أن العِدا لا ینکروننی إلّا علوّا وفسادًا ، وإنہم رأوا آیات ربّی فما زادوا إلّا عنادًا، ألا یرون الحالۃ الموجودۃ، والبرکات المفقودۃ؟ أفلا یدعو الزمان بأیدیہ مصلحًا یُصلح حالہ ویدفع ما نالہ؟ أما ظہرت البیّنات وتجلّت الآیات، وحان أن یُؤتٰی ما فات؟ بل قلوبہم مظلمۃ ‘وصدورہم ضیّقۃ، قوم فظاظ غلاظ ، خُلُقُہم نار یسعّر فی الألفاظ ، وکلِمُہُم تتطایر کالشواظ ، ما بقی فیہم أثر رقّۃ، وما مس خدودہم غروب مسکنۃ ، یُکفّروننی وما أدری علی ما یُکفّروننی؟ وما قلتُ إلّا ما قیل فی القرآن، وما قرأت علیہم إلا آیات الرحمان، وما کان حدیث یُفتری، بل واقعۃ جلّاہا اللہ لأوانہا ، ویعرفہا من یعرف رحمۃ الرب مع شأنہا.وکان اللہ قد وعد فی البراہین ، الذی ہو تألیف ہذا المسکین، أن الناس یأتوننی أفواجًا وعلیّ یجمعون، وإلیّ الہدایا یُرسلون، ولا أُترَکُ فردًا بل یسعی إلیّ فوج من بعد فوج ویقبلون، وتُفتح علیّ خزائن من أیدی الناس ومما لا یعلمون، وأُعصَم من شر الأعداء وما یمکرون، وأُعطٰی عمرًا أُکمّل فیہ کلّما أراد اللہ ولو یستنکف العدا ویکرہون ، ویُوضَع لی قبولٌ فی الأرض ویُفدینی قوم یہتدون، فتمّ کلما قال ربّی کما أنتم تنظرون.أفسحر ہذا أم أنتم لا تبصرون؟ ولو کان ہذا الأمر من عند غیر اللہ لما تمّ ہذہ الأنباء ولہلَکْتُ کما یہلک المفترون.وترون أن جماعتی فی کل عام یتزایدون، وما ترک الأعداء دقیقۃ فی إطفاء نور اللہ فتمّ نور اللہ وہم یفزعون، فانسابوا إلی جحورہم وما ترکوا الغلّ وہم یعلمون.أہذا من عند غیر اللہ.ما لکم لا تستحیون ولا تتأمّلون؟ أتحاربون اللہ بأسلحۃٍ منکسرۃ وأیدٍی مغلولۃ ؟ ویلٌ لکم ولما تفعلون.أ ہٰذا فعل مفتری کذّاب؟ أو مثل ذالک أُیّد الکاذبون؟ أہذہ الکلم من کذّاب ما لکم لا تتقون.
اَ لَاؔ تُردّون إلی اللہ أو تُترکون فیما تشتہون؟ وکلّما أوقدوا نارًا أطفأہا اللہ ثم لا یتدبّرون.وقالوا لولا سُمّی خلفاء نبیّنا أنبیاء کما أنتم تزعمون، کذالک لئلا یشتبہ علی الناس حقیقۃ ختم النبوۃ.ولعلّہم یتأدّبون، ثم لمّا مرّ علی ذالک دہرٌ أراد اللہ أن یُظہر مشابہۃ السلسلتین فی نبوّۃ الخلفاء لئلا یعترض المعترضون، ولیزیل اللہ وساوس قوم یریدون أن یّروا مشابہۃً فی النبوۃ وکذالک یُصرّون، فأرسلنی وسمّانی نبیّا بمعنًی فصّلتہ من قبل.لا بمعنی یظن المفسدون، ودفع الاعتراضین ورعَی جنب ہذا وذالک.إن فی ہذہ لہدًی لقومٍ یتفکّرون.وإنی نبی من معنی، وفرد من الأمّۃ بمعنی، وکذالک ورد فی أمری أفلا یقرء ون؟ ألا یقرء ون فیما عندہم أنّہ منکم وإنہ نبیّ؟ أہاتان صفتان توجدان فی عیسٰی أو ذُکرتا لہ فی القرآن؟ فأرونا إن کنتم تَصْدُقون.بل آثرتم الکفر علی الإیمان، فکیف أہدی قومًا نبذوا الفرقان وراء ظہرہم ولا یُبالون؟ وکان اللہ قد قدّر کسر الصلیب علٰی ید المسیح فقد ظہرت آثارہا فالعجب أنّ المعترضین لا یتنبّہون.ألا یرون أنّ النصرانیۃ تذوب فی کلّ یوم ویترکہا قوم بعد قومٍ؟ ألا یأتیہم الأخبار أو لا یسمعون؟ إنّ العلماء ھم یُقوّضون بأیدیہم خیامہم، وتہدی إلی التوحید کرامہم، ویذوب مذہبہم کلّ یوم وتنکسر سہامہم، حتی إنّا سمعنا أن قیصرجرمن ترک ہذہ العقیدۃ، وأری الفطرۃ السعیدۃ، وکذالک علماؤہم المحققون، یُخربون بیوتہم بأیدیہم وکما دخلوا یخرجون، فوَیْل لعیون لا تُبصر وآذان لا تَسمع.ووَیْل للذین یقرء ون کتاب اللہ ثم لا یفہمون.أینزل عیسٰی من السماء وقد حبسہ القرآن؟ ہیہات ہیہات لما تزعمون ، إنّ حبس القرآن أشدّ من حبس الحدید، فویلٌ للعُمی الذین لا یتدبّرون کتاب اللہ ولا یخشعون، وإنّ موتہ خیر لہم ولدینہم لو کانوا یعلمون.قد جاء کم رسول اللہ
صلیؔ اللہ علیہ و سلم بعد عیسٰی فی ماءۃٍ سابعۃٍ، وجئتکم فی ماءۃ ہی ضعفہا إن فی ذالک لبشری لقوم یتفقّہون، فاعلموا أن اللہ إذ بعث الحَکَمَ الکبیر.أعنی نبیّناصلی اللہ علیہ و سلم فی ماءۃٍ سابعۃٍ بعد عیسٰی، فأی استبعاد یأخذکم أن یُرسل فی ضعفہا ہذا الحَکَمَ لیصلح فسادًا عمّ الورَی ، ففکروا یا أولی النُّھٰی.وتعلم أن فساد ہذا العصر عمّ جمیع الأمم مسلمًا وغیر مسلمٍ کما ترٰی، فہو أکبر من فسادٍ ظہر فی النصاری الذین ضلّوا قبل نبیّنا المجتبٰی ، بل تجدہم الیوم أضلّ وأخبث ممّا مضٰی، فإن زماننا ہذا زمان طوفان کل بدعۃ وشرک وضلالۃ کما لا یخفٰی.وإنّی ما أرسلتُ بالسیف ومع ذالک أُمِرتُ لملحمۃٍ عُظمٰی.و ما ادراک ما ملحمۃ عظمٰی، إنہا ملحمۃ سلاحہا قلم الحدید لا السیف ولاالمُدٰی، فتقلّدنا ہذا السلاح وجئنا العدا، فلا تنکروا من جاء کم علٰی وقتہ من اللہ ذی الجبروت والعزۃ والعُلٰی.أَاأفتریتُ علی اللہ؟ وقد خاب من افتری.أتلوموننی بترک الجہاد بالکفّار وترک قتلہم بالسیف البتّار ؟ ما لکم لا ترون الوقت وتنطقون کمن ہَذَی؟ ثم أنتم عند اللہ أوّل کفرۃ.ترکتم کتاب اللہ وآثرتم سبلا أُخرٰی، فإن کان الجہاد واجبًا کما ھو زعمکم یا أیہا الرّاضون بالصّرَی ، فأنتم أحقّ أن تُقتلوا بما عصیتم نبی اللہ ولیس عندکم حجّۃ من کتاب اللہ الأجلٰی.وأی شیءٍ بقی فیکم من دینکم یا أہل الہوٰی؟ وأی شیء ترکتموہ من الدنیا ومن ہٰذہ الجیفۃ الکبرٰی ؟ إنّکم تستَقْرُون حِیَلًا لتقرّبکم إلی الحکام زُلفٰی ، ونسیتم ملیککم الذی خلق الأرض والسماوات العُلٰی، فکیف تقربون رضا الحضرۃ الأحدیّۃ وقد قدّمتم علی الملّۃ ہذہ الحیاۃ الدنیا؟ وما بقی فیکم إلّا رسم المشاعر الإسلامیۃ، و نسیتم ما أمر اللہ ونہٰی، وہدّمتم بأیدیکم بنیان الإسلام والملّۃ الحنیفیۃ‘ بما خالفتم طرق المسکنۃ والانزواء والغربۃ، وقصدتم عُلُوًّا عند الناس وأکلتم سمّ ہذہ الدنیا،
وتمایلتم علی الأہواء والریاء والنخوۃ ، وسَرّکم قُرب الملوک وطلب الدرجات منہم والمرتبۃ، وما ترکتم عادۃ من عادات الیہود وقد رأیتم مآلہم یاأولی الفطنۃ، أتحاربون الکفار مع ہذہ العِفّۃ؟ فلاؔ تفرحوا إنّ اللّٰہ یریٰ.ولو کانت إرادۃ اللہ أن تحاربوا الکفّار لأعطاکم أزیَدَ ممّا أعطاہم ولغلبتم کل من بارزکم وبارا، وترون ان فنون الحرب کلّہا أُعطیتہا الکفرۃ من الحکمۃ الإلٰہیۃ، ففاقوکم فی مصافّ البحر والبرّ ، ولستم فی أعینہم إلا کالذرّۃ‘ فلیس لکم أن تسدّوا ما کشف اللہ أو تفتحوا ما أغلق، فادخلوا رحمۃ اللہ من أبوابہا ولا تکونوا کمن أغضب ربّہ وأحنق ، ولا تکونوا کمن حارب اللہ وعصی، ولا تنتظروا مسیحًا ینزل من السماء ویسفک دماء الورٰی، ویُعطیکم غنائم من فتوحات شَتّٰی.أتضاہؤن الذین ظنوا کمثل ذالک قبلکم؟ ومِنْ خُلُق المؤمن أن یعتبر بغیرہ وینتفع ممّا رأی، ولا یقتحم تنوفۃً ہلک فیہا نفس أُخرٰی.ألم یکفِکم أن اللہ بعث فیکم ومنکم مسیحکم فی الأیام المنتظرۃ؟ وکنتم علی شفا حفرۃ فأراد أن یُنجیکم من الحفرۃ، وأدرککم بمنّۃ عُظمٰی.ألا تنظرون کیف نزلت الآیات وجُمعت العلامات؟ أتزدری أعینکم آیات اللہ أو تعرضون من الحق إذا أتٰی؟ أعجبتم أن جاء کم منذر منکم وکفرتم وما شکرتم لربکم الأعلٰی؟ وما آمنتم بحجج اللہ وکذلک سلکہا اللہ فی قلوب قوم آثروا الشقا.وکنتم ضلّ رأیکم فی إمامٍ أَتٰی، وخِلْتُم أَنّہ من الیہود وما ظننتم أَنّہ منکم فما أرداکم إلا ہذا العمٰی، وکذالک ہَلَکَت أحزابٌ من قبلکم وجاء تکم الأخبار فنسیتموہا وسلکتم مسلکہم لیتمّ قول ربنا فیکم کمن مضٰی، وما منع الناس أن یؤمنوا إذ جاء ہم الہدٰی محدَثًا إلّا أنْ قالوا إنّا لا نجد فیہ کُلّما بلغنا من الأوّلین، فلن نؤمن إلا بمن یأتی وفق ما أوتینا ولا نتّبع المبتدعین، ہذہ ہی عادۃ السابقین واللاحقین، أتواصوا بہ؟ بل ہم قوم لا یؤمنون بالمرسلین.وإذا قیل لہم آمنوا بمن بعث اللہ وبما أعطاہ من العلم قالوا أنؤمن
بما خالف علماؤنا من قبل؟ ولو کان علماؤہم من الخاطئین؟ إنہم قوم اطمئنوا بالحیاۃ الدنیا وما کانوا خائفین.وقالوا لستَ مرسلًا ‘ وسیعلم الذین ظلموا یومؔ یُردّون إلی اللہ کیف کان عاقبۃ الظالمین.وقالوا إنْ ہذا إلّا اختلاق، کَلَّا بل ران علی قلوبہم ما کسبوا فزادوا فی شقاق، وما کانوا مستبصرین.وإنّ علاجہم أن یقوموا فی آناء اللیالی لصلوا تہم، ویخلّوا لہم فناء حجرا تہم، ویُغلّقوا الأبواب ویُرسلوا عبراتہم، ویضجروا لنجاتہم ویصلّوا صلاۃ الخاشعین ، ویسجدوا سجدۃ المتضرّعین، لعلّ اللہ یرحمہم وہو أرحم الراحمین.وأنّٰی لہم ذالک وإنہم یؤثرون الضحک والاستہزاء علی الخشیۃ والبکاء ، وکذّبوا کِذَّابًا، ویُنادون من بعیدٍ فلا یقرع اذنہم حرف من النداء ، لایرون إلٰی مصائب صُبّت علی الملّۃ، وإلی جروحٍ نالت الدین من الکفرۃ، وإن مَثَل الإسلام فی ہذہ الأیام کمثل رجلٍ کان أجمل الرجال وأقواہم، وأحسن النّاس وأبہاہم، فرمی تقلّب الزمان جفنہ بالعمش ، وخدّہ بالنمش ، وأزالت شنب أسنانہ قلوحۃ عِلّتہا، وعِلّۃٌ قبّحتہا، فأراد اللہ أن یمنّ علی ہذا الزمان، بردّ جمال الإسلام إلیہ والحُسن واللمعان.وکان الناس ما بقی فیہم روح المخلصین، ولا صدق الصالحین، ولا محبّۃ المنقطعین ، وأفرطوا وفرّطوا وصاروا کالدہریّین ، وما کان إسلامہم إلا رسومٌ أخذوہا عن الآباء ، من غیر بصیرۃ ومعرفۃ وسکینۃ تنزل من السماء.فبعثنی ربی لیجعلنی دلیلًا علی وجودہ، ولیُصیّرنی أزہر الزہر من ریاض لطفہ وجودہ، فجئتُ وقد ظہر بی سبیلہ، وا تّضح دلیلہ، وعلمتُ مجاہلہ، ووردت مناہلہ.إنّ السماوات والأرض کانتا رتقًا ففُتقتا بقدومی، وعُلّم الطلباء بعلومی، فأنا الباب للدخول فی الہُدٰی، وأنا النور الذی یُرِی ولا یُرٰی، وإنی من أکبر نعماء الرحمان، وأعظم آلاء الدیّان.رُزقتُ من ظواہر الملۃ وخوافیہا ، وأُعطیتُ علم
الصحف المطَہّرۃ وما فیہا، ولیس أحدٌ أشقی من الذی یجہل مقامی، ویُعرض عنؔ دعوتی وطعامی.وما جئتُ من نفسی بل أرسلنی ربی لِأُمَوّن الإسلام ، وأُراعی شؤونہ والأحکام، وأُنزِلتُ وقد تقوّضت الآراء ، وتشتت الأہواء ، واُختیر الظلام وتُرِک الضیاءُ ، وتری الشیوخ والعلماء کرجل عاری الجلدۃ ، بادی الجردۃ ، ولیس عندہم إلا قشرٌ من القرآن، وفتیلٌ من الفرقان.غاض دَرّہم ، وضاع دُرّہم، ومع ذالک أعجبنی شدّۃ استکبارہم مع جہلہم ونتن عُوارہم ، یؤذون الصادق بسبّ وتکذیب وبہتان عظیم ، ویحسبون أنّ أجرہ جنّۃ النعیم، مع اَنّہ جاء ہم لینجّیہم من الخنّاس ، ویخلّص الناس من النعاس.یتُوقون إلٰی مناصب ، ویترکون العلیم المُحاسب، یُعرضون عن الذی جاء من اللہ الرحیم، وقد جاء کالأُساۃِ إلی السقیم ، یلعنونہ بالقلب القاسی، ذالک أجرہم للمواسی.یُحبّون أَن یُکرموا عند الملوک بالمدارج العلیۃ، وقد أُمِروا أن یرفضوا علا ئق الدنیا الدنیّۃ ، وینفضوا عوائق الملّۃ البہیّۃ.یجفلون نحو الأمانی إجفال النعامۃ ، وألقوا فیہا عصا الإقامۃ.قد أُمِروا أن یمرّوا علی الدنیا کعابر سبیل، ویجعلوا أنفسہم کغریب ذلیل، فالیوم تراہم یبتغون العزّۃ عند الحکّام، وما العزّۃ إلّا من اللہ العلّام، وبینما نحن نُذکّر الناس أیام الرحمان، ونجذبہم إلی اللہ من الشیطان، إذ رأیناہم یصولون علینا کصول السرحان ، ویُخوّفوننا بفحیحہم کالثعبان ، وما حضروا قطّ نادینا بصحّۃ النیّۃ وصدق الطویّۃ.ثم مع ذالک یعترضون کاعتراض العلیم الخبیر، فلا نعلم ما بالہم وأی شیء أصبرہم علی السعیر ؟ لا یشبعون من الدنیا وفی قلبہم لہا أسیس ، مع أنّ حظّہم من الدین خسیس.یقرء ون 3 ۱ ثم یسلکون
مسلک سخط الرحمان، کأنّہم آلوا أن لا یطیعوا من جاء ہم من الدیّان.ولم أزل أتأوّہؔ لکفرہم بالحق الذی أتٰی، ثم یُکفّروننی من العمٰی، فیا للعجب! ما ہذا النّہٰی ؟ واللہ ہو القاضی وہو یرٰی امتعاضی وحرّار تماضی.یدعون ربہم لاستیصالی، وما یعلمون ما فی قلبی وبالی، وما دعاؤہم إلا کخبط عشواء ، فیُرَدُّ علیہم ما یبغون علیّ من دائرۃ ومن بلاء.أیُستجابُ دعاؤہم فی أمر شجرۃ طیبۃ غُرست بأیدی الرحمن لیأوی إلیہا کل طائر یرید ظلہا وثمرتہا کالجوعان، ویرید الأمن من کل صقر مثیل الشیطان؟ أیؤمنون بالقرآن؟ کلّا إنّہم قوم رضوا بخضرۃ الدنیا ونضرتہا واللمعان، وصعدوا إلیہا وغفلوا مما یصیبہم من ہذا الثعبان.یجرّون ذیل الطرب عند حصول الأمانی الدنیویۃ، ویذکرونہا بالخیلاء والکلم الفخریۃ ، ولا یتألّمون علی ذہاب العمر و فوت المدارج الأخرویۃ، وإن الدنیا ملعونۃ وملعون ما فیہا، وحُلُوّ ظواہرہا وسمّ خوافیہا.فیاحسرۃ علیہم! إنہم یبیعون الرطب بالحطب ، وینسون فی البیوت ما یقرء ون واعظین فی الْخُطب، ویقولون ما لا یفعلون، ویؤتون النّاس ما لا یمسّون، ویہدون إلی سُبل لا یسلکونہا، وإلی مہجّۃٍ لا یعرفونہا ، ویعظون لإیثار الحق ولایؤثرون، یسقطون علی الدنیا کالکلاب علی الجیفۃ، ویحبّون أن یُحمدوا بمالم یفعلوا من الأہواء الخسیسۃ، ویریدون أن یُقال أنہم من الأبدال وأہل التقوی والعفّۃ، ولن یُجمعُ الدنیا مع الدین ولا الملا ئکۃ مع الشیاطین.ومن آخر وصایا أردتُہا للمخالفین، وقصدتُہا لدعوۃ المنکرین، ہو إظہار أمرٍ ابتلی اللّٰہ بہٖ من قبل الیہود، فضلّوا وسوّدوا القلب المردود، فإن اللہ وعدہم لإرجاع إلیاس إلیہم من السماء ، فما جاء ہم قبل عیسٰی فکذّبوا عیسٰی لہٰذا الا.ِ بتلاء ، فلو فرضنا أن معنی النزول من السّماء ہو النزول فی الحقیقۃ، فما کان عیسٰی إلّا کاذبًا ونعوذ باللہ من ہذہ التُّہمۃ.فأعجبنی أن أعداء نا من العلماء ، لِمَ
یسلکون مسلک الیہود، وکیف نسوا قصّۃ تلک القوم ونزول الغضب علیہم من اللہ الودود؟ أ یرؔ یدون أن یُلعَنوا علی لسانی کما لُعن الیہود علی لسان عیسٰی؟ أوَجَب عندہم نزول عیسٰی حقیقۃ وما وجب نزول إلیاس فیما مضٰی؟ تِلک إذًا قِسْمَۃٌ ضِیْزٰی.أَ لَا یقرء ون القرآن کیف قال حکایۃ عن نبیّنا المصطفٰی.3َ 3 ۱، فما زعمکم ألم یکن عیسٰی بشرًا فصعد إلی السماء ومُنِع نبیّنا المُجتبٰی؟ وکل من عارض خبر نزول المسیح بخبر نزول إلیاس فلم یبق لہ فی اتّحاد معناہما شک والتباس ، فاسألوا أہل الکتاب: أَ أُنزِل إلیاس فی زمان المسیح؟ واتقوا اللہ ولا تُصرّوا علی الکذب الصریح.لیس فی عادۃ اللہ اختلاف، فالمعنی واضح لیس فیہ خلاف، وما نزل من بدو آدم إلی ہذا الزمان أحدٌ من السماء ، وما نزل إلیاس مع شدۃ حاجۃِ نزولہ لرفع الشک وظن الافتراء.وإن فرّقنا بین ہذا النزول وذالک النزول، وسلکنا فی موضعٍ مسلک قبول الاستعارۃ وفی آخر مسلک عدم القبول، فہذا ظلم لا یرضی بہ العقل السلیم، ولا یُصدّقہ الطبع المستقیم.وکیف یُنسب إلی اللہ أنہ أضلّ الناس بأفعالٍ شتّی، وأراد فی مقامٍ أمرًا وفی مقامٍ سُنّۃً أخری؟ ففکّر إن کنتَ تطلب الحق وما أخال أن تتفکّر إن کنتَ من العِدا، وما لک تقدم بین یدی اللہ ورسولہ من غیر علم نالک، أَوَکان عندک من یقین أجلٰی؟ أہذا طریق التقوی؟ والہزیمۃ خیر لک من فتحٍ تریدہ إن کنتَ من أہل التّقی.وما فی یدیک من غیر آثار معدودۃ لیس علیہا ختم اللہ ولا ختم رسولہ، وإن ہی إلا قراطیس أُملئت بعد قرونٍ من سید الورٰی.ولا نؤمن بقِصصہا التی لم توافق بقصص کتاب ربنا الأعلٰی.وقد ضلّت الیہود بہذہ العقیدۃ من قبل، فلا تضعوا أقدامکم علی أقدامہم ولا تتبعوا طرق الہوٰی ، واتقوا أن یحلّ علیکم غضب اللہ من ربکم ومن حلّ علیہ غضبہ فقد ہوٰی
.ولاؔ شک أن الیہود کان عندہم کتابٌ من اللہ ذی العزّۃ فاتّبعوہ بزعمہم واتّبعوا ما فہموا من الآیۃ.وقالوا لن نصرف آیات اللہ من ظواہرہا من غیر القرینۃ ، فقد نحتوا لأنفسہم معذرۃ ہی خیر من معاذیرکم بالبداہۃ ، فإنہم وجدوا کلّما وجدوا من کتاب اللہ بالصراحۃ.ولیس عندکم کتاب بل کتاب اللہ یُکذّبکم ویلطم وجوہکم بالمخالفۃ، ولذالک تتخذونہ مہجورًا وتنبذونہ وراء ظہورکم من الشقوۃ ، وإن الیہود لم ینبذوا الکتاب ظہریّا ولم یأتوا فیما دوّنوہ أمرًا فریًّا ، ولذالک صدّق قولہم عیسٰی بید أنہ أوّل قولہم وقال النازل قد نزل وہو یحیٰی، وأما أنتم فتصرّون علی قول یخالف کتاب اللہ الودود، فلا شک أنکم شر مکانًا من الیہود.وأقل ما یُستفاد من تلک القصّۃ ہو معرفۃ سُنّۃ اللہ فی ھذہ الأمور المتنازعۃ.فما لکم لا تخافون ربًّا جلیلًا؟ أَ وجدتم فی سُنّۃ اللہ تبدیلا ؟ وما لکم لا تبکون فی حجراتکم ولا تُکثرون عویلا ، لیرحمکم اللہ ویُریکم سبیلا؟ وإن اللہ سیفتح بینی وبینکم فلا تستعجلوہ واصبروا صبرًا جمیلًا.أیہا الناس ما لکم لا تتّقون ولا تُعالجون داءً ا دخیلا ؟ أتظنون انّی افتریتُ علی اللہ؟ ما لکم لا تخافون یومًا ثقیلا ؟ إن الذین یفترون علی اللہ لا یکون لہم خیر العاقبۃ، ویُعادیہم اللہ فیُقَتَّلون تقتیلًا، ویُطوَی أمرُہم بأسرع حین فلا تسمع ذکرہم إلّا قلیلا، وأما الذین صدقوا وجاء وا من ربّہم فمن ذا الذی یقتلہم أو یجعلہم ذلیلا؟ إن ربہم معہم فی صباحہم وضحاہم وہجیرہم وإذا دخلوا أصیلا ، وأمّا الذین کذّبوا رسل اللہ وعادوا عبدًا اتخذہ اللہ خلیلا ، أولئک الذی لیس لہم فی الآخرۃ إلّا النار ولا یرون ظلّا ظلیلا، وإذا دخلوا جہنم یقولون ما لنا لا نری رجالًا کُنّا نعدّہم من ال أشرار فیُفصّل لہم الأمر تفصیلا
.ثم نرجع إلی الأمر الأول ونقول ان قصۃ نزول إلیاس، ثم قصۃ تأویل عیسٰی عند الأناس، أمرقد اشتہر بین فِرَقِ الیہود کلہم والنصارٰی، وما نازؔ ع فیہ أحدٌ منہم وما باریٰ، بل لکلہم فیہا اتّفاق، من غیر اختلافٍ وشقاق، وما من عالم منہم یجہل ہذہ القصۃ، أو یخفی فی قلبہ الشک والشبہۃ، فانظروا ان الیہود مع أنہم کانوا عُلّموا من الأنبیاءِ ، ما جاء علیہم زمن إلّا کان معہم نبی من حضرۃ الکبریاء ، ثم مع ذالک جہلوا حقیقۃ ہذہ القصّۃ، وما فہموا السرّ وحملوہا علی الحقیقۃ.ولمّا جاء ہم عیسی لم یجدوا فیہ علامۃ ممّا کان منقوشًا فی أذہانہم، ومُنقّشًا فی جَنانہم ، فکفروا بہ وظنّوا أنہ من الکاذبین.وفعلوا بہ ما فعلوا وأدخلوہ فی المفترین.فلو کان معنی النزول ہوالنزول فی نفس الأمر و فی الحقیقۃ، فعلی ذالک لیس عیسٰی صادقا ویلزم منہ أن الحقّ مع الیہود الذین ذکرہم اللہ باللعنۃ.ہذا بال قومٍ أصرّوا علی نصّ الکتاب والقول الصریح الواضح من ربّ الأناس، فما بالکم فی عقیدۃ نزول عیسٰی ولیس عندکم إلا أخبار ظنیۃ مختلطۃ بالأدناس ، ومخالفۃ لقول رب الناس؟ ما لکم تتّبعون الیہود وتُشبہون فطرتکم بفطرتہم؟ أتبغون نصیبا من لعنتہم؟ توبوا ثم توبوا وإلی اللہ ارجعوا، وعلی ما سبق تندّموا، فإنّ الموت قریب، واللہ حسیب.أیہا الناس قد أخذکم بلاء عظیم فقوموا فی الحجرات، وتضرّعوا فی حضرۃ ربّ الکائنات، واللہ رحیم کریم، وسبق رحمتہ غضبہ لمن جاء بقلب سلیم.وإن شئتم فاسألوا یہود ہذا الزمان، أو أتونی بقدم التقوی واعرضوا علیّ شبہۃ یأخذ الجنان، ما لکم لا تخافون ہذا الابتلاء ، وتترکون سُنّۃ اللہ من غیر برہان من حضرۃ الکبریاء؟ وتصرّون علی أقوال ما نزل معہا من برہان، وما وجدتموہا فی القرآن.اعلموا أنکم لا تتّبعون إلّا ظنونا، وإنّ الظنّ لا یُغنی من الحق شیئا ولا یحصل
بہ اطمئنان.أتریدون أن یتّبع حَکَمُ اللہ ظنونکم بعد ما أُوتی علمًا من اللہ؟ ما لکم جاوزتم الحد من العدوان؟ وقد ترکتم الیقین للشکّ، أہذا ہو الإیمان؟ وإنما الدؔ نیا لہو ولعب فلا تغرّنکم عیشۃ الصحۃ والأمن والأمان، ویتقضّی الموتُ مُفاجءًا ولو کنتم فی بروج مشیّدۃ ، وما یُنجیکم نصیر من أیدی الدیّان.أ تقدّمون الشکوک علی القرآن؟ بئسما أخذتم سبیلا، وعُمّیت أَبْصَارُکم فما ترون ما جاء من الرحمان.وإنی جُعلتُ مسیحًا منذ نحو عشرین أعوام من ربّ علّام، وما کنتُ أرید أن أُجتبٰی لذالک، وکنتُ أکرہ من الشہرۃ فی العوام ، فأخرجنی ربّی من حجرتی کرہًا، فأطعتُ أمر ربّی العلّام، وہذا کلہ من ربی الوہّاب، وإنی أُجرّد نفسی من أنواع الخطاب.وما لی وللشہرۃ وکفانی ربّی، ویعلم ربّی ما فی عیبتی و ہو جُنّتی وجَنّتی ، فی ہذہ وفی یوم الحساب.و إنی کتبتُ قصّۃ نزول إلیاس لقوم یوجد فیہم العقل والقیاس، وقد اجتمعتُ ببعض العلماء المخالفین، وعرضتُ علیہم ما عرضتُ علیکم فی ہذا الحین، فوجموا کل الوجوم ، وما تفوّہوا بکلمۃ من العلوم، وبُہِتوا وفرّوا کالمتندّم الملوم.
ذکرؔ حقیقۃ الوحی و ذرائع حصولہ الآن نختم ھذہ الرسالۃ علی ذکر سُبْحات الوحی و فضائلہ.و نقاب حصولہ و وسائلہ.فاعلم ھداک اللہ انّ الوحی شمس من کلم الحضرۃ تطلع من افق قلوب الابدال.لیزیل اللہ بھا ظلمۃ خزعبیل الضلال.و ھو عین لا تنفد سواعدھا.ولا تنقطع انشاجھا.و منارۃ لاینطفی من عدوٍّ سراجھا.و قلعۃ متسلّحۃ لا تعد افواجھا و ارض مقدسۃ لا تعرف فجاجھا.وروضۃ یزیدبھا قرۃ العین وابتھاجھا.ولاینالہ الّا الذین طھّروا من الادناس البشریّۃ.ورزقوا من الاخلاق الالٰھیۃ.والّذین اَثّلوا التقویٰ و ما مزقوھا.وضَفّروا اشعار التقاۃ و ما شعثوھا.و الذین نوّروا و اثمروا کالشجرۃ الطیبۃ.وسارعوا الی ربھم کالعیھلۃ.و الذین ما فرّطوا و ماافرطوا فی سبل الرحمان.وتخشعوا خوفا منہ و جعلوا لہ حلم اللسان وقایۃ ما فی الجنان.والذین تشمروا فی سبل اللہ بالھمۃ القویّۃ.و تکأکأوا علی الحق بجمیع القوی الانسیۃ.و قصموا ظھر وساوس و قصدوا فلاۃً عوراء للمیاہ السماویۃ.والّذین لایتثائبون فی اللہ و لایتردّدون.و یمشون فی الارض ھونا و لایتبخترون.والّذین ما یقنعون علی الحتامۃ و یطلبون.و یُقدمون فی موطن الدین ولایحجمون.و الذین لا تحتدم صدورھم و تجد فیھم تؤدۃ و ھم لایستعجلون.ولیس نطقھم کآجنٍ و اذا نطقوا یجدّون.و الّذین تبتّلوا الی اللہ و صمتوا و لاینطقون الا بعد ما یُستنطقون.و لیسوا کَبَسِیْلٍ بل ھم یتلأ لأون.والذین لایختأھم قارع عن حبّ اللہ و کل لمح الی اللہ یجلوذون.وخذیء لہ قلبھم و عینھم و اذنھم ففی اثرہ یدأدء ون.و اَدفأھم اللّہ ما یدفع البرد فھم فی کل آن یُسخّنون و الذین یُداکِأُوْن ابلیس و یردء ون
بالحق ولہ ینتصرون.و مارطأوا الدنیا و ما نشفوا من ماء ھا و حسبوھا کَقَمِیْ ءٍ و ماکانوا الیھا ینظرون.و الذین ما رمأوا نفوسھم بما کانت علیھا بل کل آن الی اللہ یحفدون و یتزازء ون من اللہ و لہ یتصاغرون.و الذین زنّأوا علی نفوسھم حَبْلھا و ضیّقوا باب عیشتھا ولایُوسّعون.والذین اذا دُعوا الی شواظٍ من ربّھم فھم لایبعلون.و ما اجبأوا زرعھم بل ھم یحرسون.و الذین یجاھدون فی اللہ و یبتھلون.ولایخافون الثکل ولوجفأ تھم البلیۃ و للہ یجسأون.والّذین عندھم غمرٌ و لیس علمھم کثمیلۃ و اوتوا معارف و فیھا یتزایدون.و غلبوا الدنیا و جعفلوھا و جمأوا علیھا و قصموھا بکرتیم۱ فھم عن زھزمتھا مبعدون.و الّذین تری ھممھم کجنعدلٍ یجوبون موامی ولایلغبون.لایَتَجَأّلون عن امر ربھم و ھم لہ مسلمون.والّذین حنأت ارضھم و التفت نبتھا باللہ فھم علی شجرۃ القدس یداومون.و خبأت رداء اللہ صورھم فھم تحت رداء ہ متسترون.والّذین یبذء ون الدنیا و ما فیھا و یبدَّلون کصبی ابدء و لایترکون.لایوجد فیھم غشمٌ ولاسخفٌ و لاغیھقۃ و عند کل کرب الی اللہ یرجعون.و الذین لایمغثون عرضًا بغیرحق ولاباَحَدٍ یھجرون.ولایخافون عقبۃ نطّاءَ و لا فلاۃً عوراءَ.ولاھم یحزنون.والذین یعلھضون قارورۃ الفطرۃ لیستخرجوا ما یخزنون استوکثوا من الدنیا فلایبالون قریح زمن و جابر زمن و یتخذون اللہ عضدا و علیہ یتوکلون.والذین جاحوا من بواطنھم اصول النفسانیۃ و تجدفیھم شعوؔ ذۃ و الی اللہ یسارعون.مُلؤا من ارج اللہ و محبّتہ الذاتیۃ.تحسبھم ایقاظًا و ھم ینامون.والذین عُصموا من شصاص العفۃ الرسمیۃ و صُبّغوا بالتقاۃ الحقیقیۃ و افنتھم نارالمحبۃ و لیسوا کالذین یضبحون.و الذین لیس مقولھم کشفرۃ اذوذٍ و اذا نزل بھم اُفُرَّۃٌ فھم یصبرون.و یحسنون الی من
آذی من الفجرۃ.و لوکان من زمر القرافصۃ.و یمکثون بحضرۃ اللہ و لایبرحون بل ھم یمکدون.و الذین علٰی ایمانھم یخافون و یحسبون انہ اخف طیرورۃً من العصفور.و الخوف ابلغ انقاءً من الیَسْتعور فلایقنعون علی رُذاذٍ و یعبّدون عَرُوْنَۃً بجرآء لیجعلوھا بھرۃ.و کذالک یجرذون.والّذین یخافون ثائب الابتلاء اذا ادلجوا و حین یدلّجون و یبکون بعین سُھُدٍ و قلبٍ حِجْزٍ حین یُمسون و حین یُصبحون.و الذین یؤاسون ولایقترون و یخلصون غریمھم و لایخلسون.و الذین لیسوا کَضَبْسٍ ولاکھقلس و لاھم یتفجّسون.والذین یجتنبون اللطث.و النکث ولاتجد فیھم وثوثۃ فی الدین ولاھم یداھنون.والذین سلکوا و فی السلوک اجرھدّوا و الرحال للحبیب شدّوا.و قطعوا عُلَق الدّنیا و فی اللہ یرغبون.و ما یقعدون کالذین یئسوا من الآخرۃ و الی اللہ یھرولون.و الذین لایحطّون الرحال و لایریحون الجمال و یجتنبون الوبد ولا یر.کدون.ویبیتون لربھم سجدًا وقیامًا و لایتنعّمون.و الذین یضجرون لکشف الحجب و رؤیۃ الحق و یسعون کل السعی لعلھم یُرحمون.و مایحجأون فی اللہ بالنفس و لو یُسْفکون.و حضأوا فی نفوسھم نارا فکل آنٍ یوقدون.واحکأوا عُقدۃ الوفاء فھم علیہ ولویقتّلون.اولٰئک الذین رحمھم اللہ واراھم وجھہ من کل باب ورزقھم من حیث لایحتسبون.بماکانوا یحبّون اللہ ویتّقونہ حق تقاتہ و بما کانوا یفرقون.ان الذین تجانأوا علی حُذّۃ الدنیا وصراھا و یئسوا من جَزْح اللہ.اولئک الذین لایکلمھم اللہ و یلقون فی فلاۃٍ بدیدٍ و یموتون و ھم عمون.انھم لایفتحون العیون مع أیَاۃٍ اجبأ علیھم ولاھم یصأصأون کانّ الشمس ما صمأت علیھم وکانّھم لایعلمون.وکذالک جرت عادۃ اللہ لایستوی عندہ من جاء ہ یبغی الرضا.و من عَصَا وغَوٰی انہ لایبالی الغافلین.و انہ یھرول الی من یمشی الیہ و انہ یحب المتقین.ولہ سنۃ
لا تُخبأ کَخُثّ مخلّف.الا ان السنۃ لَیَاحٌ یُرٰی فی کل حین.الکاذب تبّ.و الصادق صعد و ثبّ.فطوبٰی للذی الیہ باء و ابّ.و تناء بعتبتہ و ایّاہ احبّ.انہ یحبّ من دق لہ ولایحبّ الببّ.فویل للذین قعدوا کجلذٍ وکثرت وساوسھم کامرۃٍ اضنأت.مابقی لھم ظمأ فی طلب اللہ و انواع بَغْر الدنیا علی القلب طسأت.ضعفت نفوسھم فشق عبأ الایمان و ھم مثقلون.و لایزالون یذکرون الدنیا و ھم لھا یقلقون.یکادون اَنْ یفسّأوا ثوب الدّین و یزھفون الی اللہ احادیث و ھم یتعمدون فقأوا عیونھم بمکر آثروہ ثم یقولون نحن قومٌ مُبصرون.و قد سطحوا الفطنۃ ثم ذبحوھا و یُصفدھم القرآن فھم عنہ معرضون.انما مثلھم کمثل ارضٍ قفأت.او کنبتٍ کَدَء واراد اللہ ان یزیدھم علمًا فنسوا ما یدرسون.او مثلھم کمثل رجل قعد فی مقنوءۃٍ فطلعت الشمس حتّٰی جاء ت علٰی رأسہ و ھو من الذین یغتھبون.و قوم آخرون رضوا بالحماذی.وقع بعضھم لبعض کالمحاذی.و انی انا الاحوذی کذی القرنین.وجدتُ قومًا فی اُوارٍ و قومًا آخرین فی زمھریرٍ و عین کدرۃٍ لفقد العین.و اِنّی انا الغیذان و من اللہ اریٰ.و اعلم ان القدر اخرج سہمہ وقذا.فاذکروا اللہ بعینٍ ثرۃ یا اولی النہٰی لعلکم تجدوا حِتْرًا وکَثِیْرًا من الندیٰ.و السّلام علٰی من اتّبع الھدیٰ و انا العبد المفتقر الی اللہ الاحد.غلام احمدؐ القادیانی المسیح الربّانی
أیہا الناس احشدوا فإنی سأقرأ علیکم علامات المقرّبین.إنہم قوم حفظ اللہ غضوضۃ روحہم ولیسوا کجامس ولا کَأَفِین، تجدہم حسن الحِبر والسِبر وکشابٍ بہکن ولا تجدہم کمن نُخِشَ وصار کالمدقوقین.قوم شُرِحَتْ صدورہم.وأُزِّرت ظہورہم، ونُضّر نورہم، فأسلموا وجوہہم للہ وما بَالوا أذًی فی اللہ ولو قُطع حبل المتین، ولا یحائصون الموت إلّا لِرَبّ العالمین.یُربَّی الخلقُ من ألبانہم، وتُقوّی القلوب من فیضانہم، ولیسوا کشاۃٍ مُمغرٍ، ولا کرجل مُشَتّرٍ، و یُبعثون فی أرضٍ مزبرۃٍ ومعقرۃٍ وَمَثْعَلۃ وعند کثرۃ الباغزین.تجدہم أکثر قزازۃً ولا تجد فیہم کزازۃً ولاتراہم کضنین.وتجدہم یبیعون أنفسہم لِلّٰہِ ولمصافاتہ، ویواسون خلقہ لمرضاتہ، ولا تجد أنفسہم کالْمُبَرْطِسِین، یحسبہم الزَوْشُ العِنْقَاشُ من المخترصین، وإن ہم إلا نور السماء وأمان الأرض وائمۃ الصادقین.تعافُ الأرض لُقْیانہم وتُنیر السماء برہانہم، وإنہم حجۃ اللہ علی من عصٰی من المخلوقین.وإنہم عاہدوا اللہ بحلفۃٍ أن لا یُحبّوا ولا یُعادوا بأمر أنفسہم، وانصلتوا منہا انصلات الفارین.وأحضروا ربہم ظاہرہم و
باطنہم وجاء وہ منقطعین.وأفنوا أنفسہم لاستثمار السعادۃ وماتوا لتجدید الولادۃ، وأرضوا ربہم باقتحام الأخطار والصبر تحت مجارؔ ی الأقدار، وأدّوا کلما یقتضی الخلوص وما ہو من شروط المخلصین.إنہم قوم أخفاہم اللہ کما أخفٰی ذاتہ، وذرّ علیہم لمعاتہ، ومع ذالک یُعرفون من سَمتہم ومن جباہہم ومن سیماہم، ونور اللہ یتلألأ علی وجوہہم ویُری من رواۂم ولہم بصیص یخزی الخاطلین.ومن شِقوۃ أعداۂم أنھم یظنون فیہم ظن السَّوْء ولایحقّون ما ظنّوا وما کانوا متقین.إن ہم إلا کأخْوَص أو أعْمَی ولیسوا من المبصرین.لہم جبہَۃٌ خشباء ونفس کعوجاء وقلوبہم مُسودّۃ ولو ابیضّ إزارہم کخرجاء ، ولیسوا إلا کتنّین.یُعادون أہل اللہ ولا یظلمون إلا أنفسہم، فلو لم یتولّدوا کان خیرا لہم، لم یعرفوا إمام زمانہم، ورضوا بمیتۃ الجاہلیۃ فتعسًا لقوم عمین.غرّتہم رضاضۃ التنعّم فنسوا عَلَزَ القلقِ وغصص الجَرَضِ، ولم یصبہم داہیۃ من حَبَضِ الدہر فلذالک یمشون فی الأرض فرحین، ویمرّون بعباد الرحمن مختالین متکبّرین.إن أولیاء اللہ لا یُریدون مُخَرْفَجًا فی الحیاۃ الدنیا ویؤثرون للہ خصاصۃ ویُطہّرون نفوسہم ویشوصُون، ویقبلون دواہی ہذہ ویتقون نہابر الآخرۃ ولہا یجاہدون، ولا یأتی علیہم أُبْضٌ إلا وہم فی العرفان یتزایدون.ولا تطلع علیہم شمس إلا وتجد یومہم أمثل من أمسہم، ولاینکصون وفی کل آنٍ یُقدِمون.ویزیدہم اللہ نورًا علی نورٍ حتی لایُعرفون.ویحسبہم الجاہل بشرًا متلطخا وہم عن أنفسہم یُبعدون.وإذا مسّہم طائف من الشیطان أقبلوا علی اللہ مُتضرّعین، وسعوا إلی
کہفہٖ فإذا ہم مبصرون.ولا یقومون إلی الدعاء کسالٰی بل کادوا أن یموتوا فی دعاۂم فیُسمع لتقواہم ویُدرکون.وکذالک یُعطَون قوۃً بعد ضعفٍ عند الدعاء وتنزل علیہم السکینۃ وتقوّیہم الملا ئکۃ فیُعصمون من کل خطیءۃ ویُحفظون، ویصعدون إلی اللہ ویغیبون فی مرضاتہ فلا یعلمہم غیر اللہ وہم من أعینہم یُسترون.قومٌ أخفیاء فلذالک ہلک فی أمرہم الہالکون.ینظر إلیہم عُمیُ ہذہ الدنیا وہم یستہزء ون.أہذا الذی بعثہؔ اللہ بل ہم قومٌ عمون.ولہم علامات یُعرفون بہا ولا یعرفہم إلا المتفرّسون المتطہّرون.فمن علاماتہم أنہم یُبعدون عن الدنیا، ویُضرب علی الصماخ، لاتبقی الدنیا فی قلوبہم مثقال ذرّۃ ویکونون کالسحاب المنضاخ، وفی اللہ ینفقون.ولا یمسّہم وَسْخٌ ولا درنٌ منہا وکل آنٍ من النور یُغسلون.ومن علاماتہم أن اللہ یُودع قلوبہم الجذب، فالخلق إلیہم یُجذبون، ویکونون کعینٍ نَضّاخۃٍ باردٌ ماؤہا فالخلق إلیہم یُہرولُون.وینتضخ علیہم ماء وحی الرحمان فالناس من ماء ہم یشربون.ومن علاماتہم أنہم لا یعیشون کَہَبِیَّخٍ بل فی بحار البلاء یسبحون.ویتہیأ للنحر وریدہم وبہ تُفْضخ عناقیدہم فالخلق منہا یعصرون.ومن علاماتہم أنہم یُسَبِّحون للہ ویسبحون فی ذکرہ کحوت رضراض، ویُقبلون علیہ کل الاقبال ویصرخون کصرخۃ الحبلی عند المخاض، وبہ یتلذّذون.ومن علاماتہم تزجیۃ عیشۃ الدنیا ببذاذۃٍ وتصالجٍ علی الأغیار وصارخۃ المستصرخین، والذکر کغادرات الاو.کار و بہ یَتضمّخُون.ومن علاماتہم تنزّہہم من کل صَنْخَۃٍ وصلاخٍ، وکونہم فتیان
المواطن لا کلابسات الفتاخ، بما یفسخون عنہم ثوب الجُبن ویُبلّغون الحق ولا یخافون.ومن علاماتہم أنّہم یُربّون من بایعہم مخلصا تربیۃ الأفراخ، ویُنجّونہم من الفخاخ، ویقومون ویسجدون لہم فی لیلۃٍ قاخ، فیدرکہم غیث الرحمۃ ویُرحَمون.ومن علاماتہم أنہم لا یُتَوَفَّوْن إلّا بعد ما أَفْرخ أمرہم واجتمعت زُمرہم وتبیّن الحق کالفَرُّوْخ، ومُلِا ءَ دلوہم ولم یبق ماؤہ کالوَضُوخ، فظہروا بالجسد الممضوخ، وکَمَّلوا زینتہم کعتیدۃ العرائس لینظر الخلق إلیہم فَیُحْمَدُون.ومن علاماتہم أن الدنیا لا تُفَنِّخہُم بأفکار ہا، بَلْ ہم یَقْفَخُونَہا ویزیلون شفرؔ ۃ أوزارہا وعلی اللہ یتوکّلون.ومن علاماتہم أنّہم یقومون فی لیالٍ کاخٍ ابتغاء رضا الحضرۃ، ویزرعون بذر الحسنات ویتخذون تقواہم کوخًا لحفاظۃ تلک الزراعۃ، فیحصدون فی ہذہ وبعدہا ما یزرعون.ومن علاماتہم أنّہم لا یُقطّبون ولا یتشزّنون ولا یُصَعّرون للناس.ولایُخرّجون مرعی الہُدٰی ولا یکونون کأرضٍ مخرّجۃٍ ، ولا یوَلّون الدُّبر عند العماس ولو مشوا فی العماس، ولا یفرّون ولو یُقتّلون.ومن علاماتہم أنّہم لایمطخون عِرضًا بغیر الحق، ویُغمِدون اللسان ولا یمتلخون، ولا یُمْلخون بالباطل ویمیخ غضبہم ولو یوقدون، وإذا بلغہم قول یؤذیہم لا یَنْبَخُونَ نَبُوخ العجین، ولا ینتخون الاستقامۃ بل علیہا یُحافظون.ولا تجدہم کمُنَدّخٍ بل ہم قوم غیَارٰی وعن أخلاق اللہ یستنسخون.و یستنسخون عن أخلاق نبیہم کَاِکْتِتَابِکُمْ کتابا عن کتاب وکذالک یفعلون
.ومن علاماتہم أنّہم یشابہون عامّۃ الناس من جہۃ ظاہر الصورۃ، ویغایرونہم فی الجواہر المستورۃ، ویجعل اللہ لہم فرقانا کنفخاء رابیۃ، فی بلادٍ خاویۃ، ویُخضّرون ویُثمرون.وکشجرۃ النہداء یرتفعون.ومن علاماتہم أنّہم یُعطون نُقاخ الأخلاق کلہا من غیر مزاج الریاء ، ویُنوّخ اللہ ارض قلوبہم طروقۃً لذالک الماء ویُعرفون بالرواءِ ویُطیّبون ویُعطّرون.ومن علاماتہم أنّہم یکونون کُمَشَاءَ الموطن ولا یکونون کرجل وَخْوَاخ، وتجذبہم القوۃ السماویۃ فیُزَکّون من الأوساخ، وَیَنْقَخُ أہواء ہم ضربٌ من اللہ فیودّعُوْنہا من النُّقاخ، فلا یمسّہم لوثٌ من الدنیا ولا یتألّمون بتر.کہا ولا ہم یتخزّبون.ومن علاماتہم أنّ صحبتہم حرزٌ حافظ لأہل الأرض من السماء عند نزوؔ ل البلاء ، ودواء لقساوۃٍ تتولّد من أمانی الدنیا والأہواء ، وکما یعلو الجِلد درنٌ من قلّۃ التعہّد بالماء ، کذالک تتّسخ القلوب من قلّۃ صحبۃ الأولیاء ، ویعلمہا العالمون.ومن علاماتہم أنّ صحبتہم تُحی القلوب، وتقلّل الذنوب، وتُقوّی الوَشْخَ اللغوب، فیثبت الناس بہم علی المنہاج ولا یتقدّدون.ومن علاماتہم أنّہم لا یناضلون أعداء ہم کإبلٍ تواضَخَتْ، ولایکون وَضاخَہم إلا إذا الحرب عند ربّہم حُتِمت، ولا یجادلون إلا إذا الحقیقۃ ائتَلَخَتْ، ولا یؤذون ظالمًا بغیر الإذن و إنْ یُمَوَّتُوْا کشاۃٍ عُبِطَتْ، وبأخلاق اللہ یتخلّقون.ومن علاماتہم أنّہم یتّقون الکذب والشحناء ، والأہواء والریاء ، والسبّ والإیذاء ، ولا یُحرّکون یدًا
ولا رِجْلًا إلا بأمر ربہم ولا یجترء ون.لا یُبالون لعنۃ الدنیا ویتّقون افتضاحًا ہو عند ربہم، ویستغفرونہ حین یُمسون وحین یُصبحون، وإذا اتّسخوا بغفلۃ فبذکرہ یَبْتَرِدُون.لباسہم التقوی فإیّاہ یُبَیّضون، ویعافون أثوابًا جُرودًا وفی التُّقٰی یُجَرْہِدُون.ویتأبّدون من صحبۃ الأغیار ولایبرحون حضرۃ العزّۃ ولا یُفارقون، وما شجّعہم علی ترک الدنیا وأہلہا إلَّا الوجہ الذی لہ یَسْہدُون.ومن علاماتہم أنّہم لا ینطقون بآبدۃٍ ولا یَہْذَرُون، ویتّقون الہزل ولایستہزء ون.ویزجّون عیشتہم محزونین، ویخافون حبط أعمالہم بقول یتفوّہون، أو بفعلٍ یفعلون.ولا یکون نطقہم إلّا کبناءٍٍ مؤجّد ولا یَخطلون.ومن علاماتہم أنّک تراہم آجدہم اللّٰہ بعد ضعفٍ وأوجدہم بعد فقر وہم لایُترکون.ومن علاماتہم أنّہم یرون إدَدًا و اَوَدًا من أیدی الناس ویتراء ی الیاس من کل طرفٍ ثم یُدرکہم اللہ ویُعصمون، وإذا نزلت بہم آفۃ رزقوا من عندؔ اللہ صبرًا یُعجب الملا ئکۃ ثم ینزل الفضل فیُخلَّصون.ومن علاماتہم أنّہم لا یتّکؤن علی طِرفٍ ولا تالد ولا ابن ولا والدٍ وعلی اللہ ربہم یتّکؤن.ولا یسرّہم إلّا مستودعاتہ من المعارف وکل آنٍ منہا یُرزَقون.ویسأمون تکالیف فی سبل اللہ مُتَنَشِّطِین ولا یَتَجَشَّمون.ویشکرون للہ ولو لم یُعطوا ثَعدًا ولا مَعْدًا وبحب اللہ یَفْر.حُون.ذالک بأنہم یُعطون معارف کَثَفَافِیدَ، ویُرزَقُون لہا مقالیدَ، فمن کل باب یدخلون.
ویُعطیہم اللہ قلوبًا کأنہارٍ تتفَجَّر، لا کثَمَدٍ یر.کد فی الرکایا ویتکدّر ولاینقطع المدد وفی کل آنٍ یُنصرون.ومن علاماتہم أنّہم یُعطون رُعْبًا من ربہم فتفرّ العِدا من مباراتہم، ویخفون وینکرون أنفسہم عند ملاقاتہم ویہربون.ویتستّرون کمثل رجل جُدِعَت ثندؤتہ للجریمۃ فیعاف اللُّقیان لوصمۃ الروثۃ، ہٰذا رعب من اللہ لقومٍ لہ یکونون.ومن علاماتہم أنّہم قومٌ یسعون فی سُبل اللہ کثوہدٍ فَوْہَدٍ وإذا قاموا لأوامرہ فہم ینشطون، ولا ترٰی فیہم کسلًا ولاوہنًا ولا ہم یتردّدُون، وتُشرق الأرض بنورہم ولا یجہل مقامہم إلاالمتجاہلون، ولا ینکرونہم أعداؤہم بل ہم یجحدون.ومن علاماتہم أنّہم قوم یقربہم جُدّۃ فیوض اللہ فکل ساعۃ منہا یغترفون، ویسارعون إلیہ کأجالید ولا یمسّہم من لغوب ولا یضعفون، وإذا أخذہم قَبْضٌ تألّموا ولا کجلدات المخاض، وترٰی قلوبہم کَأَرْضٍ مَجْلُودَ ۃٍ من علومٍ یُفَاض، ومن علاماتہم أنہم إذا مرّوا برجلٍ جَلَنْدَدٍ یمرّون وہم یستغفرون، ولا تزدری أعینہم أحدًا من التقوٰی ولاھم یستکبرون.یعیشون کغریبٍ ویرضون بنَکَدٍ ویقنعون علٰی جُہدٍ وجَندٍ، أولئک قومٌ آثروا ربّہم ورجالٌ مُسَدِّدُون.ومنؔ علاماتہم أنّہم قوم لا یجہد عیشہم ولا یُعذّبون بمعیشۃٍ ضَنْکٍ ویُرزقون من حیث لا یحتسبون، ویجیدہم اللہ معارف فہم بہا یفرحون.ومن علاماتہم أنّہم لا یرضون ببضاعۃٍ
مُزجاۃٍ وقلیل مما یعملون، وإذا رکبوا أجْوَدُوا وإذا عملوا کمّلوا، ویتَجَنّبون ثَعْط العمل وخداجہ، ولکشف الحجب یخبطون، وإذا عادوا أو أحبّوا أجہدوا ولا ینافقون.ومن علاماتہم أنّ قلوبہم أرضٌ جِیدَتْ، ولہم فراسۃٌ زیدَت، یُعصمون من ضلالٍ وفسادٍ، وما وقعوا فی أبی جَاد، ویُبعدون من کُلّ دَجْوٍ و یُنَوّرون.ومن علاماتہم أنّ رقابہم تحمل أعباءَ أمانات اللہ أکثر من کل حامل أمانۃٍ، ثم لا تتأوّدُ رقابہم بل تجعلہم کامرأۃٍ جَیْدانۃٍ، ویتراء ی منہ حسن الاستقامۃ، ویُرَی کالکرامۃ، فعند اللہ والناس یُکرَمُون.ومن علاماتہم أنّہم یُوفّقون لارتداعہم عن کل أمرٍ حَدَدٍ، ویُعْطَوْنَ أَسِدَّۃً لدفع الوساوس ویردف لہم مددٌ خلف مَدَدٍ، ذالک بأنہم قومٌ مُنْحردون، وإلی اللہ مُنْقَطِعون.یُجَرّدون أنفسہم ویَسْعون إلی اللہ وُحْدانا، ولا ترٰی مثلہم حَرْدانًا، وتسفت حَرافدہُم إلٰی حِبِّہم ویُقدّمون علی کل شیء لُقیانًا، ومن خوف الہجر یذوبون.الحکمۃ تنبت من حَرْقدتہم، والفراسۃ تتلألأ من جَبہتہم، وکَالْقُلَیْذَمِ یفیضون.ومن علاماتہم أنّہم یتدہکمون للہ ولا یُحْجِمُون، ولا یوجد لہم حَتْنٌ فی ذالک وہم فیہ یتفرّدون.ولا یُضاہیہم فردٌ من المحجوبین ولو یحرصون، ولولا حتامتہم لہلکت الناس، ولولااحتدامہم لبردت محبّۃ اللہ من قلوب الأناس، ولحفدوا إلی الخنّاس، ولقطع اللہ عَسْب العارفین ولہُدِم الإیمان من الأساس، فذالک فضل اللہ علی خلقہ أنہم یُبْعَثون.وإنّ الناس کُلّہم کَعِلْبٍ ویُصلحہم ہؤلاء ، ومن فقدہم فہوکَیَتِیْمٍ، ومن فقد الفطرۃ فہو کعَجِیٍّ، ومن فقدہما
فہوؔ کلطیم ومن الأشقیاء ، فطوبٰی للذین یُعطون الکلّ ویجمعون.ومن علاماتہم أنّہم یجتنبون الحسد الذی یشابہ الحَسْدَل، ذالک بأنہم یتمصّخون من روْحٍ من ربہم فتُشرَحُ صدُورُہم ویرفَعون إلی العُلٰی فلا یہوون، ویعصمون من أَسفل ویُحفَظون.ومن علاماتہم أنّہم یُبعَثون فی وقت یکون الناس کالیتامی ولا یُواسِیْہم أحدٌ لاحتباکہم، ویہلک الناس بموت الکفر والفسق ویُغَبِّبُ علماء السوء عن ہلاکہم ولا یبالون، وکل ذالک یظہر علی عدّانہم وبہ یُعرفون.فإذا رأیتم أن الناس یَغتہبون ویکذبون ویشرکون باللہ ویفسقون ویزنون ویخرجون من الدین ولا ینتہون، فاعلموا أن وقت بعث رسولٍ أتٰی، وجاء وقت التذکیر لمن نسی الہدٰی، فطوبٰی لقوم یسمعون.ومن علاماتہم أنّ القوم إذا اتخذوا سُبُلہم شَذَرَ مَذَرَ فہناک ہم یُرسلون، والذین یمئرون علیہم یُعادیہم اللہ فینخرون ویُطردون من الحضرۃ ویُمترون، وإن لم ینتہوا فیُدمّرون ویُہلکون.ویجعل اللہ جذبًا فی قلوب أولیاۂ فیَکْفَتُونَ الناس وإلی أنفسہم یجلبون، ولو لم یتبعہم الناس لتبعتہم الحجارۃ والمدارۃ، وجُعلت أناسًا فللحق یشہدون.ومن علاماتہم أنّہم قومٌ لہم عُلقٌ شدیدۃ باللہ لا تُثقّب فیہا مدریَّۃٌ ولا سمہریۃٌ، ولا سیف جائبٌ ولا سھمٌ صائبٌ، ولا یموتون إلا وہم مسلمون.ومن علاماتہم أنّہم یتکرّمون عمّا یشینہم، ویُکْرَمون بکل ما یزینہم، ویُبعَدون عن الشائنات، ویُؤَیّدون بالآیات، وتقوم لہم السماء والأرض للشہادات، وتبکیان علیہم
عند الوفاۃ، وکذالک یُبْجَلون.ومن علاماتہم أنّ اللہ یجعل بر.کاتٍ فی بیوتہم وثیابہم وفی عمائمہم وقُمصہم وجلبابہم وفی شفاہھم وأیدیہم واصلابہم، وکذالک فی جمیع آرابہم وفی حتامتہم والثمد الذی یبقی بعد تشرابہم، ویکون معہم عند ہَوْنہم و ؔ عند اجلعبابہم، ویُجیبُ دعواتہم فلا یخطیءُ ما یُرمٰی من جعابہم، ولا یمسّہم فقرٌ ویُدخل بأیدیہ مالًا فی جرابہم، ویُکرمہم عند مَشِیبِہِم أَزیَدَ مما کان یُکرم فی عدّانِ شبابہم، ویخلق فیہم جذبًا قویًّا ویُرجِع خلقًا کثیرًا إلی جنابہم، وإذا سألوا قام لجوابہم، ویُعینہم لیُعرفوا بتحاببہ ولتنشرح الصدور لاستحبابہم، ویوغرہ تحریبہم، ویُہیّج رُحمہ اضطرابہم، فسبحان الذی یرفع عبادہ الذین إلیہ یَتَبَتَّلُوْن.ومن علاماتہم أنّہم یحسبون ربہم خزینۃً لا تنفد، وعینًا لا ترکد، وحفیظًا لا یرقد، وخفیرًا لا یَعْنُدُ، وملِکًا لا یُفْردُ، وحبیبًا لایُفقَدُ، ومَخْدومًا لا یَکْنَد، وعَلیًّا لا یَلبُدُ، ومحیطًا لا یمکد، وحیًّا لاینکد، وقویًّا لا یُہوِّد، ودیَّانًا یرسل الرسل ویُوفِد، ویرون أن الخلق خُلقوا من کلمہ وإلیہ یَرجعون.ومن علاماتہم أنّہم یبتلون ذات المرار، ثم یُنجّیہم ربّہم ویُنصرون، وما کان ابتلاؤہم إلّا لیظہر فضل اللہ علیہم ولیعلم الجاہلون.ومن علاماتہم أنّہم یتمزّرُون من شرابٍ طہور، وتُمْلَ أُ قلوبہم من نور، وترٰی فی وجہہم أثر إکرام اللہ وحُبورٍ، ومن أیدی اللہ یُنَعّمون
.ومن علاماتہم أنّہم بَیِّن المَزْأَرَۃ یقتحمون موامی لایقتحمہا إلا رجل مزیر، وینحرون نفوسہم ابتغاء مرضات اللہ القدیر، ولا تجدہم علی ما فعلوا کحسیر، بل یوقنون أنہم یکنزون أموالہم فی السماء ، وہناک لایسرق سارق ولا یُنْہبون.ومن علاماتہم أنّہم قوم کالمستفشار، المعتصر بأیدی الغفّار، یتلقّون من ربہم من غیر وساطۃ الأغیار، ویُعطَون ما یشتہون.أو کالمشیرۃ التی یمتشرہا الراعی بمحجنہ لا کَتَفْرَاتٍ تتساقط من غیر تضمّنہ وینظرون إلٰی ربّہم ولا یُحْجَبون.و ؔ من علاماتہم أنّہم یسعون حق السعی فی اللہ ولا زمام ولا خزام، وتحتدم نار فی قلوبہم فیَقْتَدون الضرام، ویکابدون بہا الأمور العظام، ویفعلون بقوۃ نارہم أفعالًا تخرق العادۃ وتعجب الأنام، وتُحیّر العقول وال أَفْہام، وتری الحَذْم فی أعمالہم ولا کسل ولا اِلْحام، فإن غَرَوْتَ أیہا السامع فلستَ من الذین یُبصرون.ومن علاماتہم أنّہم لا یُعَذّبون، ویُجعَلُ لہم الإیلام کالإنعام فلا یتألّمون.وتُفتح لہم أبواب الرحمۃ ویرزقون من حیث لَا یحتسبون، ذالک بأنّ لہم زُلفٰی ومقام فی حرم الجلیل الجبّار، فکیف یُلقی الحِرمیّ فی النار، وکیف یُعذّبون.ولا یُعذّب أولادہم بل أولاد أولادہم وکل واحد منہم یُرحمون، ویجعل اللہ برکۃً فی نسلہم فکل یومٍ یزیدون.ونحن نُخْبرُ بالعلّۃ التی أوجب اللہ من أجلہا ہذہ المراعات، وأراد أن یُکثر أبناء ہم وأبناء أبناۂم ویریحہم ویجتنب الإعنات فکان ذالک بأنّھُمْ یبذلون نفوسہم لوجہ اللہ ویحبّون أن یموتوا فی سبیلہ
ولا یریدون الحیاۃ، فاقتضی کرم اللہ أن یردّ إلیہم ما آتوا مع زیادۃ من عندہ، ویوصل ما کانوا یحسمون.وکذالک جرت سُنّتہ فی عبادہ أنہ لایضیع أجر قومٍ یحسنون، ولا یضرب الذلّۃ علی الذین یتذللون لہ بل ہم یُکرمون.ومن صافا ربّہ ووفّٰی، وستر أمرہ وأخفٰی، ما کان اللہ لیتر.کہ فی زوایا الکتمان، بل یکرمہ ویُعزّہ ویفور لطفہ لإکرامہ بین الناس والإخوان.ویحب رفع ذکرہ إلی أقاصی البلدان کما ینہم الجوعان، وإنّ العبد المقرّب یقنع علی بُلسَنٍ ویعاف التنَعّم والادّمان، فیخالفہ ربہ ویُعطیہ العناقید والرُّمّان، وإنہ یختار حجرۃ الاختفاء لیعیش مستورًا إلی یوم الفناء، فیخرجہ اللہ من حجرتہ بالإیحاء ، ویرجع مخلوقہ إلی حضرتہ فیأتونہ بالہدایا والنعماء ویخدمون.ویوضع لہ القبول فی الأرض ویُنَادٰی فی أہل السماء إنہ من الذین یُحبّہم اللہ ویحبونہ ولہ یخلصون.ویکون اللہ عینہ التی یبصر بہا وأذنہ التی یسمع بہا ویدہ التی یبطش بہا، ہذؔ ا أجر قوم یکونون للہ بجمیع وجودہم ولا یشرکون، ویقضون الأمر انہم لہ ثم بعد ذالک لا یبدّلون القول حتی یموتوا وإلیہ یرجعون.ومن علاماتہم أنّہم ینسلخون من نفوسہم کما تنسلخ الحَیواتُ من جلودہا، وتَنْطَفِیءُ نیرانہا بعد وقودہا، ثم تجدّد فیہم الأمانی المطہّرۃ، وتُعدّ لہم ما تشتہیہا نفوسہم المطمئنۃ، وتُہَیّأُ لہم فی زمَنٍ ماحِلٍ المآدب الروحانیۃ، فیأکلون کلَّما وُضِع لہم بل یتحطّمون، ویجمعون الخیر کامرأۃ مُمْغِلٍ ویجتنبون الغیث۱ ولایقربون، یبدء ون من أرض إلی أرض أخری ولا یترکون النفس
کَأَدْلَمَ بل یبیّضون.ومن علاماتہم أنّہم لا ینکرون کلمۃ الحق وإمام الزمان ولو یُلقَون فی النّیران، ولا یُضیّعون إیمانہم ولویُقتّلون بالسیوف المصقولۃ أو یُرجمون، یُعجب الملا ئکۃ صدقہم وفی السماءِ یُحمدون.أولئک قوم سبقوا کل ہُدٍّ ولیسوا کَہِدٍّ، ودعثروا قصر وجودہم لِحِبٍّ یؤثرون.إن اللہ وملائکتہ یصلّون علیہم والصلحاء والأبدال أجمعون.صدقوا فیما عاہدوا، وقضوا نحبہم لوجہ اللہ، فالإیمان ذالک الإیمان، فطوبٰی لقوم بہ یتّصفون.إن مثلہم کمثل عبد اللطیف الذی کان من حزبی وکان من أرض بلدۃ کابل، وکان زعیم القوم وسیّدہم وأمثلہم وأعلمہم وأتقاہم وأشجعہم وبَدْؤہم فی السؤدد وأبہاہم، إنہ أرَی ہذا الإیمان.وہدّدُوہ بوعید الرّجم لیترک الحق فآثر الموت وأرضی الرحمان، ورُجِم بحکم الأمیر فرفعہ اللہ إلیہ، إن فی ذالک لنموذجًا لقوم یُغبطون.إنّ الذین یُقتلون فی سبیل اللہ لا تحسبوہم أمواتا بل أحیاءٌ عند اللہ یُرزقون، ومن قتل مؤمنًا متعمّدًا فجزاؤہ جہنّم خالدًا فیہا وغضب اللہ علیہ ولعنہ وأعدّ لہ عذابًا ألیما، وسیعلم الذین ظلموا أیّ منقلب ینقلبون.إن السّماء بکت لذاؔ لک الشہید وأبدت لہ الآیات، وکان قدرًا مفعولًا من اللہ خالق السمٰوات، وقد أنبأنی ربی فی أمرہ قبل ہذا بِوَحْیِہِ المبین، کما أنتم تقرء ونہ فی البراہین أو تسمعون، وعسٰی أن تکرہوا شیئا وہو خیر لکم واللہ یعلم وأنتم لا تعلمون.ولمّا رحل الشہید المرحوم من دار الفناء ، وسلّم روحہ إلی ربّہ
بطیب النفس والرضاء ، فما أصبح الظالمون إلا وابتُلوا برجزٍ من السماء وہم نائمون، وجعلوا یفرّون من ارض بلدۃ کابل فأُخِذوا أینما ثقفوا وأین تفرّ الفاسقون.إنّ فی ذالک لعبرۃ لقوم یحذرون.ومن علاماتہم أنّ الملائکۃ تنزل علیہم بالبرکات، ویُکرمہم اللہ بالمکالمات والمخاطبات، ویوحی إلیہم أنہم من سُراۃ الجنّات وأنہم مقرّبون.ولہم فیہا ما تدّعی أنفسہم ولہم فیہا ما تشتہون.۱ ویُنزل علیہم کلام لذیذ من الحضرۃ وکلم أُفصِحت مِن لدن ربّ العزّۃ، ویُنَبّأون بکل نباأ عظیم، وانباء الغیب من القدیر الکریم، ویُغاث الناس بہم عند اسناتہم ویُنجّون من آفاتہم، ویُغَیَّرُ ما بقومٍ بتضرّعاتہم، وتُستجاب کثیر من دعواتہم، وتظہر الخوارق لإنجاح حاجاتہم، مع إعلامٍ من اللہ وبشارۃٍ بتعذیب قومٍ لایألتون أنفسہم من فأتہم وکذالک یُؤَیّدون، ویُبَشّرون ویُنصرون، ویُنَوّرون ویثمرون، ویُہلَکون مرارًا ثم یُذرء ون حتی یروا ربّہم وہم یستیقنون، ولا تطلع علیہم شمس ولاتجنّ علیہم لیلۃٌ إلّا ویُقرّبون إلی اللہ ویزیدون فی علمہم أکثر ممّا کانوا یعلمون.وإذا بلغوا الشیب یکمل شبابہم فی الإیمان، فیتراء ون کرجلٍ مُطہّمٍ کأنّہم فتیان مراہقون، وکذالک یزید إیمانہم وعرفانہم بزیادۃ أعمارہم، ویزیدون فی التقوٰی حتی لایبقی منہم شیء ولا من آثارہم، و یبدّلون کل آن، ویُنقَلون من عرفان إلٰی عرفانٍ آخر.ہو أقوی من الأول فی اللمعان، وکذالک یُربّیہم ربّہم بفضل وإحسان، ولا یترکہم کسَہْمٍ نِضْوٍ بل یُجدّدہم بتجدید نور الجنان، ویُقلّبہم
ذات الیمین وذاؔ ت الشمال، وتجری علیہم شہوات النفس وہم تتز۱اورون عنہا بمشاہدۃ الجمال، وتحسبہم أیقاظًا وہم رقودٌ فی مہد الوصال، ولا یُترکون سُدًی بل یجعلون عناقید من القُعال، ویُبدّلون ویُغیّرون ویُبعَدون عن الدنیا ویبلغون من مقامات إلٰی أرفع منہا بحکم اللہ الفعّال، وآخر ما ینتہی إلیہ أمرہم أنہم یُحیَون بعد مماتہم ویوصلون بعد انفتاتہم، ویَرِدُ علیہم موتٌ بعد موتٍ ثم یُعطَون حیاۃً سرمدًا لمصافاتہم، ویُحفَظون من عُواء إبلیس وممن یعشو عن ذکر اللہ ومن معاداتہم، وإذا بلغوا غایاتہم یُعطَون مقامًا لا یعلمہ الخلق وینأون عن عَرَصاتہم، ویکونون نورًا تخسأ منہ العیون، وفی نور اللہ یُغَیّبون.ولا یعرفہم إلا الذی یُعرّفہ اللہ ویکونون غیب الغیب وروح الروح وأخفی من کل أخفی، یرجع البصر منہم خاسءًا ولا یری.وإذا تمّ اسمہم الذی فی السماء وعند ربہم الأعلی، وکمل أمرہم الذی أراد اللہ وقضٰی، نُودِی فی السّماء لرجوعہم إلی السّماء ، فإلی ربہم یبوء ون.وتخرج نفوسہم إلی اللہ راضیۃً مرضیّۃً فتندلق من أجسامہا کما یندلق السیف من جفنہ، ویترکون الدنیا وہم لا یشجبون.یرون الدنیا کشاۃٍ بکیءۃٍ أو میْتۃٍ تعفّن لحمہا، فلا تُمَدّ عینہم إلیہا ولا ہم یتأسّفون، ویتبوّء ون دار حِبِّہم فبالمرہفات لا یترکون، ولا یلومہم إلّا مجہبٌ ولا ینکرہم إلا قوم عمین.ویلٌ للعضابین فإنہم یُہلکون.ویلٌ للمغتہبین فإنہم یُنہبون.ویلٌ للمفترین فإنہم یُسألون.ویلٌ للذین تَبْذء عینہم عباد الرحمن فإنہم یموتون وہم عمون.ویلٌ للذین یَتْفَأُوْن إذا سمعوا الحق
فإنہم بنارہم یُحرقون.ومن علاماتہم أنّہم یُعطَون کلماتٍ تُفصَحُ من عند ربہم، فما کان لبشر أن یقول کمثلہا ولا یُبارزون.وإن عباد الرحمن قد یتمنَّون کَلِمًا فصیحۃً کما یتمنون معارف ملیحۃ فیُرزقون کُلّمَا یطلبون.وکذالک جرت عادۃ اللہ فی أولیاۂ أنہم یُعطَوؔ ن لسانًا کما یُعطَون جنانًا، ویُنطقہم اللہ فبإنطاقہ ینطقون.وکما أن المرأۃ إذا وحمت یُعدِّ لہا بعلہا مااشتہت، فکذالک إذا نُفخ الروح فیہم خُلِقَتْ فیہم أمانی من اللہ لا من النفس الأمّارۃ، فتُعطَی أمانیّہم ولا یُخیّبون.وکذالک أُ عطِیتُ کلامًا من اللہ فأتوا بمثل کتابنا ہذا إن کنتم ترتابون.ومن علاماتہم أنّہم ینزلون من السماء کغیثٍ یساق إلٰی أرضٍ جُرُزٍ فیدعون الناس إلی ماء ہم وہم یُثوّبون.وینتزعون القلوب من الصدور جذبا من عندہم فیہرول الناس إلیہم وہم یُغَسْلَبون.ومن علاماتہم أنّہم لیسوا کضنین فی إفاضۃ النور، ولا کالنّاقۃ الْمَصُور ولا ہم یبخلون.قومٌ لَا یَشقٰی جلیسہم ولا یخزی أنیسہم مبارکون من أنفسہم و یُبَارکُون الناس ویُسعدون.یُخَضِّرون أرضا أَمْعَرَت، ویحیون قلوبًا ماتت، ویعیدون دُوَلًا ذہبت، و یُردّون بلایا أقبلت، ویوصلون عُلَقًا قُطِعَت، ویسجرون أنہارًا نزف ماؤہا وتخلّت، وکلّما خرب من الدین یعمرون.لہم صدورٌ مُلِئت من النور و قلوب مُلِءَت من السرور ، وإنہم نجوم السماء ، وبحار الغبراء ، وأرواح الأجساد، وللأرض کالأوتاد، لا یُبدّلون عہدًا عقدوا مع اللہ
وہم یُبَدّلون.وإنہم أبدالٌ یُبَدّلہم اللہ وإنہم أقطابٌ لا یتزلزلون.وإنہم مصطخمون لِلّٰہِ صلموا الأمّارۃ من أصلہا وعلی أمر اللہ قائمون.یزجّون الحیاۃ فی ہمومٍ، ولا یعیشون کَعَیْصُومٍ، ولا یقنعون بظاہر الغسل کَعَیْشُومٍ، بل یسابقون إلی معین یُطہّر نفوسہم ولا یتضیّحون.وإنہم حفظۃ اللہ علی الناس عند البأس، ولوجود الخلق کالرأس، وفی بحر خلق اللہ کالدرّ المکنون، یفتحون الملحمۃ العظمی التی ہی بالنفس الأمّارۃ، فیفتحون القلوب بعدہ بإذن اللہ ذی العزّۃ ویغلبون.ویُحیون بعد الموت ویعافہم الناس فہم یمضخون.لا تجد بوصیًا کمثلہم إذا طما الماء واشتد البلاء ، واؔ رتفع الزفیر والبکاء ، وعند ذالک ہم الشفعاء بإذن اللہ الذی منہ یُرسَلون.وإذا بلغت القلوب الحناجر قاموا وہم یتضرّعون وخرّوا وہم یسجدون.ہناک تملأ السماءَ دعاؤہم، ویبکی الملا ئکۃ بکاؤہم، ویُسمع لہم لتقواہم، فیُنَجَّی الناس من بلاءٍ بہ یَقْلقون.وإنہم قومٌ یضمجون بالأرض ویضبجُون بتوالی السجدات عند توالی الآفات، ویبلونہا بالعبرات، ویقومون أمام اللہ دافع البلیّات فی اللیالی المظلمات، ویقبلون إلی ربّہم بصدق یُرضی خالق الکائنات، ویموتون لإحیاء قومٍ کانوا علی شفا الممات، فیبدّلون القدر وبالموت یشفعون، وبالنَّصَبِ یُریحون، وبالتّألّم یبسؤن.یواسون خلق اللہ ویتخونونہم عند الداہیات، ویعملون عملًا یعجب الملا ئکۃ فی السماوات، ویسبقون فی الصالحات، وتُشجّع قلوبہم فیمشون فی المائرات، ولو جعلت سرمدًا إلٰی یوم المکافات، ولا یتخوّفون.ولاینتتمون علی أحدٍ بقولٍ سوءٍ وعند فُحش النّاس یجمون ویکظمون.
ولا یتمایلون علی جیفۃ الدُّنیا ویتر.کونہا للکلاب، ویحسبونہا حَفْنَۃً من عظامٍ بل وَنِیْم الذباب، فلا یرتد طَرْفہم إلیہا ولا یلتفتون.ویجعلون أنفسہم کشجرۃ شَعْوَاءَ، فیأکل الجوعان ثمارہم من کل طرف جاء ، نعم الأضیاف ونعم المضیّفون.قومٌ مُطَہّمون، ویدفعون بالحسنۃ السیّءۃ ویخدمون الوری ولا یؤذون من آذیٰ، ومن تمخّٰی إلیہم فیقبلون.وإذا لقوا من أعداۂم الأزابی دفعوہ بالمنّ ویجتنبون التّساب ولا یعسمون.یدعون لأعداۂم دعاء الخیر والسلامۃ والصحۃ والعافیۃ والہدایۃ من اللہ، ولا یترکون لأحدٍ فی صدورھم مثقال ذرّۃ من الغلّ ویدعون لمن قفاہم وازدریٰ، ویُؤوُون إلی عصاہم من عصٰی، فیتجلی اللہ علیہم بما کانوا آثروہ ورحموا عبادہ، وبما کانوا یخلصون.أولئک ہم الأبدال وأولیاء اللہ حقًّا.وأولئک ہم المفلحون.تُبارک الأرض بقدومہم، ویُنجّی الناس عند ہمومہم، فطوبٰی لقومٍ بہم یرؔ تبطون.رب اجعلنی منہم وکن لی ومعی إلی یوم یُحشر الناس ویُحضرون.ربّ لا تؤاخذ من عادانی فإنہم لا یعرفوننی ولا یبصرون.ربّ فارحمہم من عندک واجعلہم من الذین یہتدون.وما یفعل اللہ بعذابکم ان شکرتم وآمنتم أیّہا المنکرون.ألا تشکرون للہ وقد أدرککم فی وقتٍ تُہلَکون فیہ وتُخطفون؟ وإن شکرتم لیزیدنّکم، وتُعطَون کلّمَا تتمنّون وتشتہون.وإن تکفروا فإن جہنم حصیر لقوم یکفرون.ومن علاماتہم أنّہم لا یؤذون ذرّۃ ولا نملۃ وعلی الضعفاء یترحّمون.ولا یقطعون کل القطع ولوعاداہم الأشرار الذین یؤذون من کل نوع ویعتدون، بل یدعون لأعداۂم لعلّہم یہتدون، ولا
تجدہم کَفَظٍّ غلیظ القلب ولا تجد کمثلہم ارحم وأنصح للنّاس ولو شَرّقت أو کنت من الذین یُغرّبون.یدعون للذین اصابتہم مصیبۃ حتی یلقون أنفسہم إلی التہلکۃ، فإذا وقع الأمر علی أنفسہم یُسمع دعاؤہم فی الحضرۃ وبہا ینبّؤن، ذالک بأنہم یُبلّغون دعواتہم إلی منتہاہا ویُتمّون حق المواساۃ ولایألتون.یُذیبون أنفسہم ویلقونہا إلی الدمار، فینجّون بہا نفوسًا کثیرۃ من التبار، وکذالک تُعطٰی لہم فطرۃٌ وکذالک یفعلون.یقومون فی لیل دامسٍ والناس ینامون، ویرون نور أعمالہم فی ہذہ الدنیا وکل یوم فی نورہم یزیدون، ویرون نضارۃ ما قدّموا لأنفسہم ولا یکونون کمہلوسین، ویجتنبون کل معصیۃٍ ولو کانت صغیرۃ فلا یقربونہا ولا یغتمصون، ویُمزّزون العمل الصالح ولا یزدرون.وإنی بفضل اللہ من أولیاء ہٖ أفلا تعرفون؟ وقد جئتکم مع آیاتٍ بیّناتٍ أفلا تنظرون؟ أما خُسف القمران؟ أما تُرِکَ القلاص فی جمیع البلدان، ما لکم لا تتفکّرون؟ وقد جاء ت بیّنات من الرحمان، ونزل منہ السلطان، فأی شکّ بعد ذالک یختلج فی الجنان، أو أی عذر بقی عندکم أیہا المعرضون؟ أما أُشیع الطاعون وکثر المنون؟ وشاع الکذب والفسق وغلب قوم مشرکون، وبدٰی انقلاب عظیم فی العالم و ؔ ظہر أکثر ما تنتظرون، فما لکم لا تحسنون الظنون وتعتدون؟ أیّہا الناس لم قدمتم بین یدی اللہ وحَکَمِہ إن کنتم تتّقون؟ أہٰذہ تقاتکم أنّکم کفّرتمونی وما علمتم حق العلم وما تسألون بقلوبٍ سلیمۃ وإن سُءِلَ عنکم تتوقّدون؟ أ شق علیکم أنّ اللہ بعثنی علی رأس الماءۃ واختارنی لأجدّد دین اللہ صَلَاحًا وأُفْحِم قومًا زاد غُلوّہم
فی اتّخاذ عیسٰی إلٰہًا، وأکسر صلیبا یعلونہ ویعبدون؟ أوأغضبکم ما خالفکم ربی فی وحیہ؟ وکذالک غضب الیہود من قبل فما لکم لا تعتبرون؟ أیہا الناس إنی أنا المسیح الذی جاء فی أوانہ، ونزل من السماء مع برہانہ، و اراکم آیات اللہ فیکم و فی نفسہ و فی اعوانہ و شھد الزمان لہ بلسانہ وشہد اللہ لہ فی قرآنہ، فبأی حدیث تؤمنون بعد شہادۃ اللہ وبیانہ؟ ألم یأن أن تتقوا اللہ ویوم لُقیانہ؟ وان تتّقوا یومًا یُذیب الجلُود بنیرانہ؟ ألا تتفکّرون فی آیات اللہ؟ وأی شہادۃ أکبر من فرقانہ؟ ألا ترون إن کنتُ من اللہ وتنکروننی فکیف یصیبکم حظّ من أمانہ؟ ألا تقرء ون قصص الیہود.کیف جُعلوا من القرود.ألم تکن عندہم معاذیر کما أنتم تعتذرون؟ فارحموا أنفسکم إلٰی ما تجترء ون؟ ولا تحاربوا اللہ أیہا الجاہلون.ما لکم لا تذکرون موتکم ولا تتقون؟ إن الغیور الذی ارسلنی وعصیتموہ إنہ ہو الصاعقۃ ولا یُردّ بأسہ عن قومٍ یجرمون.إنہ یسمع ما تتفوّہون بہ ویریٰ نجواکم ویری کلّما تمکرون.وسیعلم الذین ظلموا أی منقلب ینقلبون.ویلٌ للذین لا یُفرّقون بین الصادق والکاذب ولا یَفْرُقون.ولا یعرفون الصادقین من وجوہہم ولایتفرّسون.ولا یذوقون الکلمات ولا ینتفعون من الآیات، ختم اللہ علی قلوبہم فہم لا یتفقّہون.أیہا الناس لِمَ تستعجلون فی تکذیبی فما لکم لا تسلکون کالمتّقین، وتہذون ولا تتزمّتون؟ ما لکم لا تُمعِنُون فی قولہ عزّوجل حکایۃً عن عیسٰی: 3 ۱ أو لا تتوفّون وتخلدون؟ أم رأیتم عیسٰی إذ صعد إلی السماء فقلتم کیف نترک ما رأینا وإنّا مشاھدون.
تعسًاؔ لکم لم تضلّون زُمع الناس بغیر علم ولا تتقون الذی إلیہ تُرجعون.تصرّون علی الکذب وتعلمون أنکم تکذبون، ثم علی الزور تجترء ون.ولو کنت لا أُبعث فیکم لکنتم معذورین، ولکن ما بقی عندکم عذر بعد ما بعثنی اللہ فما لکم لا تخافون؟ بئسما فعلتم بِحَکَمٍ مِّن اللہ وبئسما تفتعلون.یا حسراتٍ علیکم ما عرفتم الزمان وما تذکرتم ما قال النبیّون، وقد منّ اللہ علیکم بآیات من عندہ فما نظرتم إلیہا وتصاممتم وتعامیتم، وصرتم من الذین یموتون.وما تر.کتم ذرّۃ من ضلالاتکم بل علیہا تُصرّون.إنّ اللہ قد صرّح لکم وقت مسیحہ وما ترک من أدلّۃ، ولقد نصر.کم اللہ ببدرٍ وأنتم أذلّۃ، فما لکم لا تفہمون ہذا السرّ ولا تتوجّہون؟ ألیست ہذہ الماءۃ ماءۃ البدر فما لکم لا تقدرون آی اللہ حقّ القدر ولا بہا تنتفعون؟ وقالت السفہاء کیف نتّبع الذی شذّ وکیف نترک سوادًا أعظم؟ وما جاء نبی إلا کان من الشاذّین وکان عن الضلال تکرّم، انظر کیف نزیل وساوسہم ثم انظر کیف یتعامون.إنہم نسوا یومًا یرجعون إلیہ فُرادٰی ثم یُسألون عما کانوا یعملون.مالھم لایوانسون موسٰی وعیسٰی ونبیّنا الأکرم، کیف بُعِثوا شاذّین فی أوائلہم ثم اجتمع علیہم فوج من الصلحاء ، وکل صدّق وسلّم وأمنوا بمن شذّ وتر.کوا سوادہم الأعظم، إلّا الذی ذُرِءَ لجہنم.فَوَیْلٌ لِلذین تر.کوا مبعوث وقتہم أولٰئک ہم الذین شذّوا وسمّاہم نبیّنا فیْجًا أعوج وأشأم.وقال إنہم لیسوا منّی ولستُ منہم، فہم الشاذون کما تقدم
.إذا جاء ہم حَکَمٌ من ربّہم فقأوا عیونہم وأصمّوا آذانہم وما سألوا عنہ وصاروا کأبکم.وإن اللہ بعثنی علٰی رأس ہٰذہ الماءۃ، بما رأی الإسلام فی وہاد الغربۃ، ورآہ کأرضٍ حشاۃٍ سوداء أو کَحشیٍّ مِمّا یُنْبِتُون.أو کلحمٍ نتنٍ وکاد أن یکون کَنَیْتُون.ورأی النصارٰی أنہم یُضلّون أہل الحق ویُنَصّرون، ویسبّون نبیّنا ظلما و زورا ولا ینتہون.ورؔ أی العلماء ما بقیت فیہم قوۃ الإفحام ولا فصاحۃ الکلام ولا یحتکأُ نطقہم فی نفس بمالاینطقون بروحٍ من اللہ ولا ہم یُفصِحون، بل یوجد فیہم تکنّع ویفطفطون.ذالک بما عصوا ربّہم بقولٍ لا یُقارنہ فعل وبما کانوا یُراء ون، ولما جئتہم من ربّی أعرضوا وقالوا کاذب أو مجنون، وما جئتُہم إلّا وہم یَسْہون فی الصالحات وعن الصالحات، وینبذون السُّعْدۃ وبالنَّیْتُونِ یفرحون.وأملیتُ لہم رسائل فیہا آیات بیّنات لعلہم یتفکّرون، فما کان جوابہم إلا الہُزء والسُّخر وکذّبوا بآي اللہ وہم یعلمون.وقالوا إن ہو إلّا افتری وأعانہ علیہ قوم آخرون.وقال بعضہم دہریّ لا یؤمن باللہ فاقرأ أیہا النّاظر ما کتبنا وأشعنا ثم انظر کیف یہذرون، وإن السمع والبصر والفؤاد کل أولٰئک کان عنہ مسؤلا، فویلٌ لہم یوم یلقون اللہ ویُسألون.ومن أظلم ممن افتری علی اللہ کذبا أو کذّب بآیاتہ إنہ لا یُفح الظالمون.وقالوا ما جئتَ بسلطانٍ من عند اللہ بل لہم أعین لا یبصرون بہا، وقلوب لایفقہون بہا وآذان لا یسمعون بہا وإن ہم إلّا کسارحۃ
یتیہون خلیع الرسن ویرتعون، وتبیّن الحق وہم یعرضون.یکتبون رسائل لیستروا الحق، وإنّا اقتتبنا أیدیہم فما یکتبون.وإنی اَقتَبْتُہُم یمینًا وقلتُ بارزونی إن کنتم تصدقون، فلکأوا بمکانہم وما خرجوا، کأنّ الأرض تلمّأت بہم وکأنّہم من الذین یَعدمون.ثمّ إنّی قمتُ لہم فی لیالٍی مبارکۃٍ ودعوتُ لہم فی أسعاۂا لعلہم یرحمون.وما کان اللہ لیتوب علی أحدٍ إلا علٰی قومٍ یتوبون.منہم قومٌ اعتدوا ومنہم کشیءٍٍ مقارب ولیسوا علی طریق ناہجۃٍ، ولا یستنہجون.ومن تقرّب إلی اللہ شبرًا یتقرّب إلیہ ذراعًا ولکن الظالمین لا یتوجّہُون.قر.ضبوا عُلقَ اللہ وہم علی الدُّنیا یتمایلون، وأصابہم زمہریر الغفلۃ فاقر.عبّوا وہم منہ کل آنٍ یُقَرْ.طَبون.قَشّبوا صالحًا بما فسد وقضَّبوا کَرَمَ الإیمان ولا یُبالون.وإذا قیل لہم إن اللہ قد اصطخم لکم وأرسل الطاعون، قالوا مرض یأتی ویذہب ولا یأخذنا المنون، انظر کیف یُنبّہون ثم انظر کیف یتناعسون.یرؔ ون الموت ولا یتّعظون، تراہم یلہجون بزخارف الدنیا ولا یشبعون.وإذا قُرء علیہم ما أنزل اللہ ازّوّروا مُہرولین وہم یشتمون.تراہم جیفۃ لیلہم وقُطرب نہارہم، یہیمون لدنیاہم وعن الآخرۃ یغفلون، ولا تترکہم صواکم الدہر ثم مع ذالک لایتنبّہون.وإذا عُرضت علیہم کلم الحق سمعوہا وہم یتأقّون، ویعافون ما یسمعون ویبذءُ وْن ما یُقرءُ ون.یعلمون أنہم میّتون ثم یتعامشون.یبکون للدّنیا کالأعمش، وہم عن الآخرۃ غافلون.زیّن الشیطان لہم أہواء ہم فعُنّشوا الیہا فأحبط اللہ أعمالہم،
وأفسل علیہم متاعہم، ولُعِنوا وہم لایعلمون.یختارون ثَمَدًا حَمِأَ وَصَرِیَ ویترکون غَمْرًا غیر غَشَشٍ ذالک بأنہم أفشال فعلی الأدنٰی یقنعون.یترکون لونًا لا شِیَۃ فیہا ویختارون الرقش ویقعدون بین الضِّحّ والظِّلّ ولا یترکون مقاعد إبلیس ولا ینتہون.وحَبابُہم أن تُفتَح علیہم أبواب الدُّنیا ویُعطوا فیہا کلّ ثمرۃ من ثمارہا ویُسَمَّغُون.یُکفّروننی ولا أَدری علٰی ما یکفّروننی، وآلتناہم بیمین أن یقولوا ما یسترون، فما تفوّہوا بقول وشُدَّ وکاء قربتہم فلا یترشحون.یحسبون وقت نزول المسیح کناقۃٍ مُمْجرٍ ویرون أن الأشراط قد ظہرت ثم لا یتیقّظون.أما کُسف القمران، وکان الکسف فی رمضان؟ ألا ینظرون کیف تظہر أثقال الأرض وتجری الوابورۃ وتمخر السفائن، وتُزَوّج النفوس وتُترک القلاص وتُبدّل الظعائن، وظہر کلّما یأمتون.وإن مرہم عیسٰی آیۃٌ بیّنۃ علٰی موتہ، فما لہم لا یفکرون فی ہٰذہ الآیۃ ولابہ ینتفعون؟ وإنما مثل المسیح الموعود کمثل ذی القرنین، وإلیہ أشار القرآن یا أولی العینین، فکفاکم ہذا المثل إن کنتم تتأمّلون.وإنی أنا ال أَحْوَذِیّ کَذِی القرنین، وجُمعت لی الأرض کلہا بتزویج النفوس، فکمّلتُ أمر سیاحتی وما برحتُ موضع ہاتین القدمین.ولاسیاحۃ فی الإسلام ولا شدّ الرحال من غیر الحرؔ مین.فرُزِق لی السَّیْحانُ بہذا الطریق من ربّ الکونین.ووجدتُ فی سیاحتی قومین متضادین.قومٌ صمخت علیہم الشمس ولفحت وجوہہم نار أُوارٍ فر.جعوا
بِخُفَّی حُنین.وقومٌ آخرون فی زمہریر وعین حَمِءَۃٍ لفقد العین.ذالک مثل الذین یقولون إنّا نحن مسلمون ولیس لہم حظّ من شمس الإسلام، یحرقون أبدانہم من غیر نفع ویلفحون، ومثل الذین ما بقی عندہم من ضوء شمس التوحید واتخذوا عیسٰی إلٰہًا واستبدلوا المیت بالذی ہوحیّ، ویظنون أنہم إلیہ یتحوّجون.ہٰذان مثلان لقوم جعلوا أنفسہم کعبادید ما نفعہم ضوء الشمس من غیر أن تُلفح وجوہہم حرّہا فہم یہلکون.ومثل لقومٍ فرّوا من ضوۂا فنُہبوا وہم یغتہبون.وإنی أدرکتُ القرنین من السنوات الہجریّۃ وکذالک من سنی عیسٰی ومن کل سَنۃٍ بہا یُحاسبون.فلذالک سُمّیتُ ذا القرنین فی کتاب اللہ، إن فی ذالک لآیۃ لقوم یتدبّرون.وما جئت إلّا فی وقت فُتحت یأجوج ومأجوج فیہ وہم من کلّ حَدَبٍ یَنْسلون، فبُعثتُ لأصون المسلمین من صولہم بآیاتٍ بیّناتٍ وأدعیۃ تجذب الملائکۃ إلی الأرض من السماوات، ولأجعل سدًّا لقومٍ یُسلمون.الحمد للہ الذی أرسل عبدہٗ علی أوانہ، وأنزلہ من السّماء عند فساد الزمان وخُذلانہ، فہل منکم من یردّ قضاء ہ ویہدّ بناء ہ؟ سبحانہ وتعالٰی عمّا تزعمون.وکفّرتمونی وما ظلمتم إلّا أنفسکم، وإنّی أفوّض أمری إلی اللہ فسوف تعلمون.تَمَّ الکِتَاب بِعَوْنِ اللّٰہِ الوَہّاب
بقیہؔ حالات حضرت صاحبزادہ مولوی عبداللطیف صاحب مرحوم میاں احمد نور جو حضرت صاحبزادہ مولوی عبداللطیف صاحب کے خاص شاگرد ہیں آج ۸؍نومبر۱۹۰۳ ء کو مع عیال خوست سے قادیان میں پہنچے.ان کا بیان ہے کہ مولوی صاحب کی لاش برابر چالیس ۴۰ دن تک ان پتھروں میں پڑی رہی جن میں وہ سنگسار کئے گئے تھے بعد اس کے میں نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر رات کے وقت ان کی نعش مبارک نکالی اور ہم پوشیدہ طور پر شہر میں لائے اور اندیشہ تھا کہ امیر اور اس کے ملازم کچھ مزاحمت کریں گے مگر شہر میں وبائے ہیضہ اس قدر پڑ چکا تھا کہ ہر ایک شخص اپنی بلا میں گرفتار تھا اس لئے ہم اطمینان سے مولوی صاحب مرحوم کا قبرستان میں جنازہ لے گئے اور جنازہ پڑھ کر وہاں دفن کر دیا.یہ عجیب بات ہے کہ مولوی صاحب جب پتھروں میں سے نکالے گئے تو کستوری کی طرح ان کے بدن سے خوشبو آتی تھی اس سے لوگ بہت متاثر ہوئے.اس واقعہ سے پہلے کابل کے علماء امیر کے حکم سے مولوی صاحب کے ساتھ بحث کرنے کے لئے جمع ہوئے تھے.مولوی صاحب نے اُن کو فرمایا کہ تمہارے دوخدا ہیں کیونکہ تم امیر سے ایسا ڈرتے ہو جیسا کہ خدا تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے.مگر میرا ایک خدا ہے اس لئے میں امیر سے نہیں ڈرتا.اور جب گھر میں تھے اور ابھی گرفتار نہیں ہوئے تھے اور نہ اس واقعہ کی کچھ خبر تھی اپنے دونوں ہاتھوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے میرے ہاتھو! کیا تم ہتکڑیوں کی برداشت کر لو گے.ان کے گھر کے لوگوں نے پوچھا کہ یہ کیا بات آپ کے منہ سے نکلی ہے.تب فرمایا کہ نماز عصر کے بعد تمہیں معلوم ہو گا کہ یہ کیا بات ہے.تب نماز عصر کے بعد حاکم کے سپاہی آئے اور گرفتار کر لیا اور گھر کے لوگوں کو انہوں نے نصیحت کی کہ میں جاتا ہوں اور دیکھو ایسا نہ ہو کہ تم کوئی دوسری راہ اختیار کرو.جس ایمان اور عقیدہ پر میں ہوں چاہئے کہ وہی تمہارا ایمان اور عقیدہ ہو.اور گرفتاری کے بعد راہ میں چلتے وقت کہا کہ میں اس مجمع کا نوشاہ
ہوںؔ.بحث کے وقت علماء نے پوچھا کہ تو اس قادیانی شخص کے حق میں کیا کہتا ہے جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے.تو مولوی صاحب نے جواب دیا کہ ہم نے اُس شخص کو دیکھا ہے اور اُس کے امور میں بہت غور کی ہے اُس کی مانند زمین پر کوئی موجود نہیں اور بیشک اور بلاشبہ وہ مسیح موعود ہے اور وہ ُ مردوں کو زندہ کر رہا ہے.تب ملانوں نے شور کر کے کہا کہ وہ کافر اور تو بھی کافر ہے اور ان کو امیر کی طرف سے بحالت نہ توبہ کرنے کے سنگسار کرنے کے لئے دھمکی دی گئی اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اب میں مروں گا تب یہ آیت پڑھی.33 3 ۱.یعنی اے ہمارے خداہمارے دل کو لغزش سے بچا اور بعد اس کے جو تو نے ہدایت دی ہمیں پھسلنے سے محفوظ رکھ اور اپنے پاس سے ہمیں رحمت عنایت کر کیونکہ ہر ایک رحمت کو توہی بخشتا ہے.پھر جب ان کو سنگسار کرنے لگے تو یہ آیت پڑھی.3 3 ۲ یعنی اے میرے خداتو دنیا اور آخرت میں میرا متولی ہے مجھے اسلام پر وفات دے اور اپنے نیک بندوں کے ساتھ ملادے.پھر بعد اس کے پتھر چلائے گئے اور حضرت مرحوم کو شہید کیا گیا.اِنّا لِلّٰہ و اِنّا اِلَیْہ راجعون.اور صبح ہوتے ہی کابل میں ہیضہ پھوٹ پڑا اور نصراللہ خان حقیقی بھائی امیر حبیب اللہ خان کا جو اصل سبب اس خونریزی کا تھا اس کے گھر میں ہیضہ پھوٹا اور اس کی بیوی اور بچہ فوت ہو گیا اور چار سو۴۰۰ کے قریب ہر روز آدمی مرتا تھا اور شہادت کی رات آسمان سرخ ہو گیا.اور اس سے پہلے مولوی صاحب فرماتے تھے کہ مجھے باربار الہام ہوتا ہے.اِذھب الٰی فرعون انّی معک أسمع و أرٰی و أنت محمّد معنبر معطّر.اور فرمایا کہ مجھے الہام ہوتا ہے کہ آسمان شور کر رہا ہے اور زمین اس شخص کی طرح کانپ رہی ہے جو تپ لرزہ میں گرفتار ہو.دنیا اس کو نہیں جانتی یہ امر ہونے والا ہے اور فرمایا کہ مجھے ہر وقت الہام ہوتا ہے کہ اس راہ میں اپنا سردیدے اور دریغ نہ کر کہ خدا نے کابل کی زمین کی بھلائی کے لئے یہی چاہا ہے.
اور ؔ میاں احمد نور کہتے ہیں کہ مولوی صاحب موصوف ڈیڑھ ماہ تک قید میں رہے.اور پہلے ہم لکھ چکے ہیں کہ چار ماہ تک قید میں رہے یہ اختلاف روایت ہے اصل واقعہ میں سب متفق ہیں.وَ السّلام علٰی من ا تّبع الھدٰی.