Language: UR
یہ کتاب فصیح و بلیغ عربی زبان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تصنیف فرمائی۔ اور جولائی۱۸۹۴ء میں شائع ہوئی۔ اس میں آپ نے مسئلہ خلافت پر جو اہل سنّت اور شیعوں میں صدیوں سے زیر بحث چلا آتا ہے سیر کن بحث کی ہے۔ اور دلائل قطعیہ سے ثابت کر دیا ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم اگرچہ چاروں خلیفہ برحق تھے لیکن حضرت ابوبکرؓ سب صحابہ سے اعلٰی شان رکھتے تھے اور اسلام کے لیے وہ آدم ثانی تھے۔ اور بنظر انصاف دیکھا جائے تو آیت استخلاف کے حقیقی معنوں میں وہی مصداق تھے۔ چنانچہ اس امر کو آپ نے اس کتاب میں شرح و بسط سے ذکر فرمایا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ پر شیعہ صاحبان کی طرف سے غصب وغیرہ کے جو اعتراضات کیے جاتے ہیں ان کے مدلل اور مسکت جوابات بھی دیے ہیں۔ نیز ان کے اور باقی صحابہؓ کے فضائل کا بھی ذکر فرمایا ہے اور شیعوں کی غلطی کو قرآنی آیات کی روشنی میں الم نشرح کیا ہے۔ پھر اہل سنت اور شیعوں کے آپس کے جھگڑوں کا جن میں اکثر لڑائی اور مقدمات تک نوبت پہنچتی ہے ذکر کر کے فیصلہ کا ایک یہ طریق پیش کیا ہے کہ ہم دونوں فریق ایک میدان میں حاضر ہو کر خدا تعالی سے نہایت تضرع اور الحاح سے دعا کریں۔ اور لعنت اللہ علی الکاذبین کہیں۔ پھر اگر ایک سال تک فریق مخالف پر میری دعا کا اثر ظاہر نہ ہو تو میں ہر عذاب اپنے لیے قبول کروں گا۔ اور اقرار کروں گا کہ میں صادق نہیں۔ اور علاوہ ازیں ان کو پانچ ہزار روپیہ بھی انعام دوں گا۔ اور یہ روپیہ اگر چاہیں تو میں گورنمنٹ کے خزانے میں جمع کرا سکتا ہوں یا جس کے پاس وہ چاہیں۔ لیکن اس مقابلہ کے لیے جو حاضر ہو وہ عام آدمی نہ ہو۔ اور ایسے شخص کے لیے یہ ضروری ہوگا کہ پہلے وہ میرے اس رسالہ کی طرح عربی زبان میں رسالہ لکھے تا معلوم ہو کہ وہ اہل علم و فضل سے ہے۔ نیز آپ نے اس کتاب میں عقیدہ ظہور مہدی کا ذکر کر کے اپنے دعوی مہدویت پر شرح و بسط سے بحث کی ہے۔ الغرض مسئلہ خلافت پر یہ ایک پیش بہا کتاب ہے۔
نکتہ چینوں کے لئے ہدایت اور واقعی غلطی کی شناخت کے لئے ایک معیار اکثر جلد باز نکتہ چین خاص کر شیخ محمد حسین صاحب بٹالوی جو ہماری عربی کتابوں کو عیب گیری کی نیت سے دیکھتے ہیں بباعث ظلمت تعصب کا تب کے سہو کو بھی غلطی کی مد میں ہی داخل کر دیتے ہیں لیکن درحقیقت ہماری صرفی یا نحوی غلطی صرف وہی ہو گی جس کے مخالف صحیح طور پر ہماری کتابوں کے کسی اور مقام میں نہ لکھا گیا ہو.مگر جب کہ ایک مقام میں کسی اتفاق سے غلطی ہو اور وہی ترکیب یا لفظ دوسرے دس۱۰ بیس۲۰ یا پچاس۵۰ مقام میں صحیح طور پر پایا جاتا ہو تو اگر انصاف اور ایمان ہے تو اس کو سہو کاتب سمجھنا چاہیئے نہ غلطی حالانکہ جس جلدی سے یہ کتابیں لکھی گئی ہیں اگر اس کو ملحوظ رکھیں تو اپنے ظلم عظیم کے قائل ہوں اور ان تالیفات کو خارق عادت سمجھیں.قرآن شریف کے سوا کسی بشر کا کلام سہو اور غلطی سے خالی نہیں.بٹالوی صاحب خود قائل ہیں کہ لوگوں نے کلام امرء القیس اور حریری کی بھی غلطیاں نکالیں مگر کیا ایسا شخص جس نے اتفاقاً ایک غلطی پکڑی حریری یا امرء القیس کے مرتبہ پر شمار ہو سکتا ہے.ہرگز نہیں.نکتہ آوری مشکل ہے اور نکتہ چینی ایک ادنیٰ استعداد کا آدمی بلکہ ایک غبی محض کر سکتا ہے.ہماری طرف سے حمامۃ البشریٰ اور نور الحق کے بالمقابل رسالہ لکھنے کے لئے اخیر جون ۱۸۹۴ ء تک میعاد تھی وہ گذرگئی.مگر کسی مولوی نے بالمقابل رسالہ لکھنے کی غرض سے انعام جمع کرانے کے لئے درخواست نہ بھیجی اور اب وہ وقت جاتا رہا ہاں انہوں نے نکتہ چینی کے لئے جو ہمیشہ نالائق اور حاسد طبع لوگوں کا شیوہ ہے بہت ہاتھ پیر مارے اور بعض خوش فہم آدمی چند سہو کاتب یا کوئی اتفاقی غلطی نکال کر انعام کے امیدوار ہوئے اور ذرہ آنکھ کھول کر یہ بھی نہ دیکھا کہ فی غلطی انعام دینے کے لئے یہ شرط ہے کہ ایسا شخص اوّل بالمقابل رسالہ لکھے ورنہ حاسد نکتہ چین جو اپنا ذاتی سرمایہ علمی کچھ بھی نہیں رکھتے دنیا میں ہزاروں بلکہ لاکھوں ہیں کس کس کو انعام دیا جائے.چاہیئے کہ اوّل مثلاً اس رسالہ سر الخلافہ کے مقابل پر رسالہ لکھیں اور پھر اگر ان کا رسالہ غلطیوں سے خالی نکلا اور ہمارے رسالہ کا بلاغت فصاحت میں ہم پلّہ ثابت ہوا تو ہم سے علاوہ انعام بالمقابل رسالہ کے فی غلطی دو روپیہ بھی لیں جس کے لئے ہم وعدہ کر چکے ہیں ورنہ یونہی نکتہ چینی کرنا حیا سے بعید ہو گا.والسلام علی من اتبع الھدی.خاکسار غلام احمد
سِرُّ الخلافۃ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ یا مُعطیَ الإیمان والعقل والفکر، نحضُر عتبتک بطیّبات الحمد والشکر، ونُدانی حضرتک بتحیات التمجید والتقدیس والذکر، ونطلب وجہک بقصوی الطلب، ونسعی إلیک فی الطرب والکرب.نحفد إلیک ولا نشکو الأین، ونؤمن بک ولا نأخذ فی کیف وأین.وجئناک منقطعین من الأسباب، ومستبطنین أحزانا للقاعدین علی السراب، والغافلین عن الماء المَعین وطرق الصواب والمستکبرین، الذین یبلعون الریق، ویرفضون الکأس والإبریق، ویُعادون الصادقین.یترکون الحقائق لأوہام، وما کانت ظنونہم إلا کمُخْلِفۃ أو جَہام، ولا یجیؤن أہل المعارف إلا متکاسلین، ولا ینظرون الحق إلّا لاعبین.وہجمَتْہم أوہامہم کالبلاء المفاجی فی اللیل الداجی، فصار العقل کالظلف الواجی، فسقطوا علی أنفسہم مُکبّین.والتحصہم تعصّبُہم إلی الإنکار، وأسفوا علی الواعظین، وولّوا الدبر کالفرار.وامتلأوا حشنۃ وحقدًا، ونقضوا عہدًا وعقدًا، وطفقوا یسبّون الناصحین.وما کان فیہم إلا مادّۃُ غباوۃ، رُکِّبَ بإثاوۃ، فأداروا رحی الفتن من عداوۃ، وسفَا تُرْبَہم ریحُ شقاوۃ، فبعدوا عن حق وحلاوۃ، وجلَوا عن أوطان الصدق تاۂین.کثرت الفتن من حؤول طبائعہم، وخُدع النا س من اختداعہم.ربِّ فارحم أُمّۃ محمد وأصلِحْ حالہم، وطہِّرْ بالہم وأَزِلْ بَلبالہم، وصلّ وسلّم وبارِک علی نبیّک وحبیبک محمد خاتم النبیین، وخیر المرسلین، وآلہ الطیبین الطاہرین، وأصحابہ عمائد الملّۃ والدین، وعلی جمیع عبادک الصالحین.آمین.أما بعد فاعلم أیہا الأخ الفطن، أن ہذہ الأیام أیامٌ تتولد فیہ الفتن
کتولُّد الدود فی الجیفۃ المنتنۃ، وتضطرم فیہ الأہواء کاضطرام النیران من الخُشُب الیابسۃ.وأری الإسلام فی خطرات من إعصار ہذا الزمان، وصراصر ہذا الأوان.قد انقلب الزمن واشتدت الفتن، وازورّت مُقْلتا الکاذبین مغضبین علی الصادقین، واحمرّت وجنتا الطالحین علی الصالحین.وما کان تعبُّسہم إلا لعداوۃ الحق وأہلہ، فإن أہل الحق یفضح الخؤونَ ویُنجی الخلق مِن وَحْلہ، ولا یصبر علی کلمات الظالم وجورِہ، بل یرد علیہ من فورہ، ویصول علی کل مریب لتکشیفِ مَعیبٍ، وہتکِ سترِ المدلّسین.وکذٰلک کنتُ ممن أسلمَتْہم محبّۃُ الحق إلی طعن المعادین، وانجرَّ أمرہم من حمایۃ الصدق إلی تکفیر المکفرین.وتفصیل ذٰلک أن اللّٰہ إذا أمرنی وبشّرنی بکونی مجدّدَ ہذہ الماءۃ، والمسیحَ الموعود لہذہ الأُمۃ، وأخبرتُ المسلمین عن ہذہ الواقعۃ، فغضبوا غضبا شدیدا کالجہَلۃ، وساء وا ظنًا من العجلۃ، وقالوا کذّاب ومن المفترین.وکلما جئتُہم بثمار من طیبات الکَلِم، أعرضوا إعراض البَشِم، حتی غلظوا لی فی الکلام، ولسعونی بحُمَۃ الملام.ونصحت لہم وبلّغت حق التبلیغ مرارا، وأعلنتُ لہم وأسررت لہم إسرارًا، فلم تزل سحبُ نصاحتی تبدو کالجَہام، ونخبُ مواعظی تزید شقوۃ اللئام، حتی زادوا اعتداءً وجفاءً، وطبع اللّٰہ علٰی قلوبہم فاشتدوا دناء ۃً وداءً ، وکانوا علی أقوالہم مصرّین.ولعنونی وکذّبونی وکفّرونی وافتروا من عند أنفسہم أشیاء ، ففعل اللّٰہ ما شاء ، وأرَی المکذّبین أنہم کانوا کاذبین.وطردنی کل رجل وَحْدانی، إلا الذی دعانی وہدانی، فحفظنی بلمحاتِ ناظرِہ، وربّانی بعنایات خاطرہ، وجعلنی من المحفوظین.وبینما أنا أفرّ من سہام أہل السُنّۃ، وأسمع منہم أنواع الطعن واللعنۃ، إذ وصلنی بعض المکاتیب من بعض أعزۃ الشیعۃ وعلماء تلک الفرقۃ
وسألونی عن أمر الخلا فۃ، وأمارات خاتم الأئمّۃ، وکانوا من طلباء الحق والاہتداء بل بعضہم یظنون بی ظن الأحبّاء ، ویتخذوننی من النصحاء ، ویذکروننی بخلوص أصفی وقلب أزکی، فکتبوا المکاتیب بشوقٍ أَبْہٰی وحِرّۃٍ عُظمٰی، وقالوا حَیَّ ہَلْ بکتاب أشفٰی، یشفینا ویروینا ویہب لنا برہانا أقوی.ثم أرسلوا إلیّ خطوطا تتریٰ، حتی وجدتُ فیہا ریح کبدٍ حَرّیٰ، فتذکرتُ قصّتی الأولی، وانثنیتُ أقدِّم رِجلا وأؤخّر أخریٰ، حتی قوّانی ربی الأغنٰی، وألقٰی فی روعی ما ألقٰی، فنہضتُ لشہادۃ الحق الأجلٰی، ولا أخاف إلا اللّٰہ الأعلٰی، واللّٰہ کاف لعبادہ المتوکلین.واعلم أن أہل السُنۃ عادَونی فی شَرْخ شأنی، والشیعۃ کلّمونی فی إقبال زمانی، وإنی سمعتُ من الأولین کلمات کبیرۃ، وسأسمع من الآخرین أکبر منہا، وسأصبر إن شاء اللّٰہ حتی یأتینی نصر ربّی، ہو معی حیثما کنتُ؛ یرانی ویرحمنی وہو أرحم الراحمین.ورأیت أکثر أحزاب الشیعۃ لا یخافون عند تطاوُل الألسنۃ ولا یتّقون دیّان الآخرۃ، ولا یجمعون نشوب الحقیقۃ، ولا یذوقون لبوب الطریقۃ، ولا یفکرون کالصلحاء ، ولا یتخیرون طرق الاہتداء ، فرأیتُ تفہیمہم علی نفسی حقًّا واجبًا ودَینًا لازمًا، لا یسقط بدون الأداء.فکتبتُ ہذہ الرسالۃ العُجالۃ، لعلّ اللّٰہ یصلح شأنہم ویُبدل الحالۃ، ولأبیّن لہم ما اختلفوا فیہ، وأخبرہم عن سرّ الخلافۃ، وإن کان تألیفی ہذا کولد الإصافۃ، وما ألّفتُہا إلا ترحّمًا علی الغافلین والغافلات، وإنّما الأعمال بالنیات.وأتیقن أن ہذہ الرسالۃ تُحفِظ کثیرا من ذوی الحرارۃ، فإن الحق لا تخلو من المرارۃ، وسأسمع من علماء الشیعۃ أنواع اللعنۃ، کما سمعتُ من أہل السُنۃ.فیا ربّ لا توکُّلَ إلّا علیک، ولا نشکو إلّا إلیک، ولا ملجأ إلّا ذاتک، ولا بضاعۃ إلّا آیاتک، فإن کنتَ أرسلتنی بأمرک لإصلاح زُمرک، فأدرِکْنی بنصرک، وأیِّدْنی کما تُؤیّد الصادقین.وإن کنتَ تحبّنی وتختارنی فلا تُخزِنی کالملعونین
المخذولین.وإن ترکتنی فمن الحافظ بعدک وأنت خیر الحافظین؟ فادرَأْ عنی الضرّاء ، ولا تُشمت بی الأعداء ، وَانْصرنی علی قوم کافرین.أمّا الرّسالۃ فہی مشتملۃ علی تمہید وبابَین، وفیہا ہدایات لذوی العینین ولقوم متّقین.واسأل اللّٰہ أن یضع فیہا بَرَکۃ، ویضمّخہا بعطر التأثیر رحمۃ، ولا علم لنا إلا ما علّمَنا وہو خیر المعلّمین.اَلتَّمْہِیْد أیہا الأعزۃ اعلموا، رحمکم اللّٰہ، أنی امرؤٌ عُلّمتُ من حضرۃ اللّٰہ القدیر، ویسّرنی ربی لکل دقیقۃ، ونجانی من اعتیاص المسیر، وعافانی وصافانی وأسرَا بی من بیت نفسی إلی بیتہ العظیم الکبیر.فلما وصلتُ القِبلۃ الحقیقیۃ بعد قطع البراری والبحار.وتشرفت بطواف بیتہ المختار، وخصّصنی لطفُ ربی بتجدید المدارک وإدراک الأسرار، وکان ربی خِدْنی ووَدُودی، واستودعتُہ کلَّ وجودی، وأخذتُ من لدنہ کلَّ علم من الدقائق والأسرار، وصُبّغتُ منہ فی جمیع الأنظار والأفکار، صرفتُ عنان التوجہ إلی کل نزاع کان بین فِرَق القوم والملۃ، وفتّشتُ فی کل أمر من السبب والعلۃ، وما ترکتُ موطنا من مواطن البحث والتدقیق، إلا واستخرجتُ أصلہ علی وجہ التحقیق.وعرفتُ أن الناس ما أخطأوا فی فصل القضایا، وما وقعوا فی الخطایا، إلا لمیلہم إلی طرف مع الذہول عن طرف آخر، فإنہم کبّروا جہۃ واحدۃ بغیر علم وحسبوا ما خالفہا أصغر وأحقر.وکان من عادات النفس أنہا إذا کانت مغمورۃ فی حُبّ شیء من المطلوبات، فتنسٰی أشیاء یخالفہ، ولا تسمع نصاحۃ ذوی المواساۃ، بل ربّما یعادیہم ویحسبہم کالأعداء ، ولا یحاضر مجالسہم
ولا یصغی إلی کلماتہم لشدۃ الغطاء.ولہذہ المفاسد علل وأسباب وطرق وأبواب، وأکبر عللہ قساوۃ القلوب، والتمایل علی الذنوب، وقلۃ الالتفات إلی محاسبات المَعادِ، وصحبۃ الخادعین والکاذبین من أہل العناد، وإذا رسخوا فی جہلہم فتدخُل العثرات فی العادات، وتکون للنفوس کالمرادات، فنعوذ باللّٰہ من عثرات تنتقل إلی عادات وتُلحق بالہالکین.وربما کانت ہذہ العادات مستتبعۃ لتعصبات راسخۃ من مجادلات.والمجادلات النفسانیۃ سمٌّ قاتِل لطالب الحق والرشاد، وقلما ینجو الواقع فی ہذہ الوہاد.وقد تکون العلل المفسدۃ والموجبات المضلِّۃ مستترۃ، ومن العیون مخفیۃ، حتی لا یراہا صاحبہا ویحسب نفسہ من المصیبین المنصفین.وحینئذ یسعی إلی المشاجرات، ویشتد فی الخصوصات*، وربما یحسب خیالا طفیفا ورأیا ضعیفا کأنہ حجۃ قویۃ لا دحوض لہا، فیمیس کالفرحین.وسبب کل ذٰلک قلّۃُ التدبر وعدم التبصّر، والخلوُّ عن العلوم الصادقۃ، وانتقاشُ صُورِ الرسوم الباطلۃ، والانتکاسُ علی شہوات النفس بکمال الجنوح والحرمان من مذوقات الروح وعجزُ النظر عن الطموح والإخلادُ إلی الأرض والسقوط علیہا کعَمِین.وہذہ ہی العلل التی جعلت الناس أحزابا، فافترقوا وأکثرہم تخیّروا تبابًا، وکذّبوا الحق کِذّابًا، بل لعنوا أہلہ کالمعتدین، وصالوا کخریجِ مارِق علی المحسنین، ونظروا إلی أہل الحق بتشامخ الأنوف، وتغیظ القلب المؤوف، وحسبوا أنفسہم من العلماء والأدباء ، وسحبوا ذیل الخیلاء ، وما کانوا من المفلقین.ومنہم الذین نالہم من اللّٰہ حظٌّ من المعرفۃ، ورزق من الحق والحکمۃ، وفتَح اللّٰہ عیونہم وأزال ظنونہم، فرأوا الحقائق محدقین.ومنہم قوم أخطأوا فی کل قدم، وما فرّقوا بین وجود وعدم، وما کانوا مُستبصرین.أصرّوا علی مرکوزات خطراتہم، وخطوات خطیّاتہم، ولباس سیّءَاتہم
وکانوا قومًا مفسدین.وإذا نزعوا عن المِراس بعد ما نزعوا لاء* البأس، ویئسوا من الجِحاس، مالوا میلۃ واحدۃ إلی الإیذاء بالتحقیر والازدراء، وبنحت البہتان والافتراء والتوہین.وکلما خضعتُ لہم بالکلام مالوا إلی الإرہاق والإیلام، وکادوا یقتلوننی لو لم یعصمنی ربی الحفیظ المعین.فلما زاغوا أزاغ اللّٰہ قلوبہم وزاد ذنوبہم، وترکہم فی ظلمات متخبطین.فنہضتُ بأمر اللّٰہ الکریم، وإذن اللّٰہ الرحیم، لأزیل الأوہام وأداوی السقام، فاستشاطوا من جہلہم غضبًا، وأوغلوا فی أثری زرایۃً وسبًّا، وفتحوا فتاوی التکفیر ودفاتر الدقاریر، وصالوا علیّ بأنواع التزویر، ولدغونی بلسان نضناض، وداسونی کرضراض.وطالما نصحتُ فما سمعوا، وربما دعوتُ فما توجہوا، وإذا ناضلوا ففرّوا، وإذا أخطأوا فأصرّوا وما أقرّوا، وما کانوا خائفین.واجترء وا علی خیانات فما ترکوہا وما ألغوہا، حتی إذا الحقائق اختفت، وقضیۃ الدین استعجمت، وشموس المعارف أفَلتْ وغرَبتْ، ومعارف الملۃ اغتربت وتغرّبت، والدواہی اقتربت ودنت وغلبت، وبیتُ الدین والدیانۃ خلا، والأمن والإیمان أجفلا، ورأیت أن الغاسق قد وقب، ووجہ المحجّۃ قد انتقب، فألّفتُ کُتبًا لتأیید الدین، وأترعتُہا من لطائف الأسرار والبراہین، فما انتفعوا بشیء من العظات، بل حسبوہا من الکلِم المُحفِظات، وما کانوا منتہین.ثم إذا رأوا أن الحجۃ وردت، والنار المضرمۃ بردت، وما بقی جمرۃٌ من جمر الشبہات، فرکنوا إلی أنواع التحقیرات، وقالوا مِن أشراط المجدّد الداعی إلی الإسلام، أن یکون من العلماء الراسخین والفضلاء الکرام، وہذا الرجل لا یعلم حرفا من العربیۃ، ولا شیءًا من العلوم الأدبیۃ، وإنا نراہ من الجاہلین، وکانوا فی قولہم ہذا من الصادقین.فدعوتُ ربی أن یُعلّمنی إن شاء ، فاستجاب لی الدعاء ، فأصبحتُ بفضلہ عارف اللسان، وملیح البیان،
ومن الماہرین.ثم ألّفتُ کتابَین فی العربیۃ مأمورًا من الحضرۃ الأحدیۃ، وقلتُ یا معشر الأعداء ، إن کنتم من العلماء والأدباء ، فأْتوا بمثلہا یا ذوی الدعاوی والریاء إن کنتم صادقین.ففرّوا واختفوا کالذی ادّان عند صفر الیدین، وما أفاق إلا بعد إنفاق العین، فما قدر علی الأداء بعد التطوق بالدَّین، ولازَمہ مستحقّہ وجدَّ فی تقاضی اللُجَین، فما کان عندہ إلّا مواعید المَین؛ کذلک یخزی اللّٰہ قومًا متکبرین.والعجب أنہم مع ہذا الخزی والذلّۃ، وہتک الأستار والنکبۃ، ما رجعوا إلی التوبۃ والانکسار، وما اختاروا طریق الأبرار والأخیار، وما صلح القلب المؤوف وما تقوضت الصفوف، وما سعوا إلی الحق نادمین، بل لوَوا عنی العِذار، وأبدوا التعبس والازورار، وکانوا إلی الشر مبادرین.ورأیتہم فی سلاسل بخلہم کالأسیر، وما نصحتُ لہم نصحا إلا رجعتُ یائسا من التأثیر، حتی تذکرتُ قصۃ القردۃ والخنازیر، واغرورقت عینای بالدموع إذ رأیتُ ذوی الأبصار کالضریر، وإنی مع ذلک لستُ من الیائسین.وقیّض القدر لہتک أستارہم وجزاء فجّارہم أنہم عادَوا الصادقین وآذَوا المنصورین، وحسبوا الجدّ عبثًا والحق باطلًا، فکانوا من المعرضین.وإنی أراہم فی لددٍ وخصامٍ مُذْ أعوامٍ، وما أری فیہم أثر التائبین.فأردتُ أن أترکہم وأُعرض عن الخطاب، وأطوی ذکرہم کطیّ السجلّ للکتاب، وأتوجہ إلی الصالحین.ولو أن لی ما یوجّہہم إلی الحق والصواب لفعلتُہ، ولکنی ما أری تدبیرا فی ہذا الباب، وکلما دعوتہم فرجعوا متدہدہین، وکلما قدتہم فقہقروا مقہقہین.بید أنی أری فی ہذہ الأیام أن بعض العلماء من الکرام رجعوا إلی وا نتثرت عقود الزہام، وزال قلیل من الظلام، وتبرء وا من خُبث أقوال الأعداء ، وأدہشہم الإدلاج فی اللیلۃ اللیلاء ، وجاء ونی کالسعداء
فقلت بَخْ بَخْ لہٰذا الاہتداء ، وہداہم ربّہم إلٰی عین الصواب من ملامح السراب، فوافَونی مخلصین، وشربوا من کأس الیقین، وسُقوا من ماء معین، وأرجو أن یکمل اللّٰہ رشدہم ویجعلہم من العارفین.کذلک أدعو لنظّارۃ ہذا الکتاب، أن یوفقہم اللّٰہ لہم لتخیُّر طرق الصواب، ومَن بلغ أشُدَّہ فی نشأۃ روحانیۃ، فسیقبل دعوتی بتفضلات ربّانیۃ، وقد سوّیت کلماتی لکل من یصغی إلی عظاتی، واللّٰہ یعلم مجالبہا ویدری طالبہا، ولا تتخطی نفس فطرتہا، ولا تترک قریحۃ شاکلتہا، ولا یہتدی إلا من کان من المہتدین.اعلموا، رحمکم اللّٰہ، أن قومًا من الذین قالوا نحن أتباع أہل البیت ومن الشیعۃ قد تکلموا فی جماعۃٍ من أکابر الصحابۃ وخلفاء رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأئمۃ الملّۃ، وغلَوا فی قولہم وعقیدتہم، ورموہم بالکفر والزندقۃ، ونسبوہم إلی الخیانۃ والغضب والظلم والغیّ، وما انتہوا إلی ہذا الزمان وما فاءَ مَنشَرُہم إلی الطیّ، وما کانوا منتہین.بل استحلَوا ذِکرَ سبِّہم، وتخیَّروہ فی کل خبّہم، وحسبوہ من أعظم الحسنات بل من ذرائع الدرجات، ولعنوہم واستجادوا ہٰذا العمل وشدوا علیہ الأمل، وظنوا أنہ من أفضل أنواع الصالحات والقربات، وأقرب الطرق لابتغاء مرضاۃ اللّٰہ وأکبر وسائل النجاۃ للعابدین.وإنی لبِثتُ فیہم بُرہۃً من الزمان، ویسّر لی ربّی کل وقت الامتحان، وکنتُ أتوجس ما کانوا یُسرّون فی ہذا الباب، وأُصغی إلی کل طرق الاختلاب.وقیّض القدر لحسن معرفتی أن عالما منہم کان من أساتذتی، فکنت فیہم لیلا ونہارًا، وجادلتہم مرارًا، وما کان أن تتواری عنی خبیئتہم أو یخفی علی رؤیتہم، فوجدتُ أنہم قوم یُعادون أکابر الصحابۃ، ورضوا بغشاوۃ الاسترابۃ.ورأیت کل سعیہم فی أن یفرُط إلی الشیخَین ذمٌّ، أو یلحقہما وصمٌ، فتارۃ کانوا یذکرون للناس قصۃ القرطاس، وتارۃ یشیرون إلی
قضیۃ الفَدَک، ویزیدون علیہ أشیاء من الإفک، وکذلک کانوا مجترئین علی افتراۂم وسادرین فی غلواۂم، وکنتُ أسمع منہم ذمّ الصحابۃ وذمّ القرآن وذمّ أہل اللّٰہ وجمیع ذوی العرفان، وذ مّ أُمّہات المؤمنین.فلما عرفت عُود شجرتہم وخبیءۃ حقیقتہم أعرضتُ عنہم وحُبِّبَ إلیّ الانزواء ، وفی قلبی أشیاء.وکنتُ أتضرع فی حضرۃ قاضی الحاجات، لیزیدنی علمًا فی ہذہ الخصومات، فعُلِّمتُ رشدًا من الکریم الحکیم، وہُدیتُ إلی الحق من اللّٰہ العلیم، وأخذتُ عن رب الکائنات وما أخذتُ عن المحدثات، ولا یکمل رجل فی مقام العلم وصحۃ الاعتقادات إلا بعدما یلقی العلوم من لدن خالق السماوات، ولا یَعصمُ من الخطأ إلا الفضل الکبیر من حضرۃ الکبریاء ، ولا یبلغ أحدٌ إلی حقیقۃ الأمور ولو أفنی العمر فیہا إلی الدہور، إلا بعد ہبوب نسیم العرفان من اللّٰہ الرحمن، وہو المعلِّم الأعظم والحکیم الأعلم، یُدخل من یشاء فی رحمتہ، ویجعل من یشاء من العارفین.وکذلک مَنَّ اللّٰہ علیّ ورزقنی من العلوم النخب، وجعل لی نورًا یتبع الشیاطین کالشہب، وأخرجنی من لیلۃ حالکۃ الجلباب إلٰی نہار ما غشّاہ قطعۃ من الرَباب، وطرَد کلّ مانع عن الباب، فأصبحت بفضلہ من المحفوظین.وأُعطیتُ مِن فہمٍ یخرق العادۃ، ومِن نور ینیر الفطرۃ، ومِن أسرار تعجب الطالبین.وصبّغ اللّٰہ علومی بلطائف التحقیق، وصفاہا کصفاء الرحیق، وکل قضیۃ قضی بہا وجدانی أرانیہا اللّٰہ فی کتابہ لیزید اطمینانی، ویتقوّی إیمانی، فأحاطت عینی ظہر الآیات وبطنہا وظعاینہا وظعنہا، وأُعطیتُ فراسۃ المحدّثین.وأعطانی ربی أنواع فہم جدید لکل زکی وسعید، لیصلح المفاسد الجدیدۃ ویہدی الطبائع السعیدۃ، ومن یہدی إلا ہو، وہو أرحم الراحمین.نظر الزمان ووجد أہلہ قد أضاعوا الإیمان، واختاروا الکذب والبہتان، مَن ائتُمن منہم خان، ومن تکلم مان، فنفخ فی روعی أسرارًا عظیمۃ، وکلمات
قدیمۃ، وجعلنی من ورثاء النبیین، وقال إنک من المأمورین لتنذر قوما ما أُنذر آباؤہم ولتستبین سبیل المجرمین.الباب الأول فی الخلافۃ اعلم، سقاک اللّٰہ کأس الفکر العمیق، أنی عُلّمتُ من ربی فی أمر الخلافۃ علی وجہ التحقیق، وبلغتُ عمق الحقیقۃ کأہل التدقیق، وأظہر علیّ ربی أن الصِدّیق والفاروق وعثمان، کانوا من أہل الصلاح والإیمان، وکانوا من الذین آثرہم اللّٰہ وخُصّوا بمواہب الرحمان، وشہد علی مزایاہم کثیر من ذوی العرفان.ترکوا الأوطان لمرضاۃ حضرۃ الکبریاء ، ودخلوا وطیس کل حرب وما بالوا حَرَّ ظہیرۃ الصیف وبرد لیل الشتاء ، بل ماسوا فی سبل الدین کفتیۃ مترعرعین، وما مالوا إلٰی قریب ولا غریب، وترکوا الکل للّٰہ ربّ العالمین.وإن لہم نشرًا فی أعمالہم، ونفحات فی أفعالہم، وکلہا ترشد إلی روضات درجاتہم وجنات حسناتہم.ونسیمہم یُخبر عن سرّہم بفوحاتہا، وأنوارہم تظہر علینا بإناراتہا.فاستدِلُّوا بتأرُّجِ عَرفہم علی تبلُّج عُرفہم، ولا تتبِعوا الظنون مستعجلین.ولا تتکأوا علی بعض الأخبار، إذ فیہا سمّ کثیر وغلوّ کبیر لا یلیق بالاعتبار، وکم منہا یشابہ ریحًا قُلّبًا، أو برقًا خُلّبًا، فاتّقِ اللّٰہ ولا تکن من متّبعیہا، ولا تکن کمثل الذی یحب العاجلۃ ویبتغیہا، ویذَرُ الآخرۃ ویُلغیہا.ولا تترک سبل التقوی والحلم، ولا تَقْفُ ما لیس لک بہ علم، ولا تکن من المعتدین.واعلم أن الساعۃ قریب والمالک رقیب، وسیوضع لک المیزان، وکما تدین تُدان، فلا تظلم نفسک وکن من المتقین.ولا أجادلکم الیوم بالأخبار، فإنہا لہا أذیال کالبحر الذخار، ولا یُخرج منہا الدررَ إلّا ذوالأبصار، والناس یکذّبون بعضہم بعضا عند ذکر الآثار، فلا ینتفعون منہا إلا قلیل
من الأحرار، وإنما أقول لکم ما عُلّمتُ من ربی لعل اللّٰہ یہدیکم إلی الأسرار.وإنی أُخبرتُ أنہم من الصالحین، ومن آذاہم فقد آذی اللّٰہ وکان من المعتدین، ومن سبّہم بلسان سلیط وغیظ مستشیط، وما انتہی عن اللعن والطعن وما ازدجر من الفحش والہذیان، بل عزا إلیہم أنواع الظلم والغصب والعدوان، فما ظلم إلا نفسہ، وما عادیٰ إلا ربّہ، وإن الصحابۃ من المبرَّئین.فلا تجترؤا علی تلک المسالک، فإنہا من أعظم المہالک، ولیعتذر کل لعّان من فرطاتہ، ولیتّق اللّٰہ ویوم مؤاخذاتہ، ولیتّق ساعۃ تہیِّج أسف المخطئین، وتُرِی ناصیۃ العادین.وأَیمُ اللّٰہ إنہ تعالی قد جعل الشیخَین والثالث الذی ہو ذو النُّورَین، کأبواب للإسلام وطلائع فوج خیر الأنام، فمن أنکر شأنہم وحقّر برہانہم، وما تأدّب معہم بل أہانہم، وتصدی للسب وتطاوُل اللسان، فأخاف علیہ من سوء الخاتمۃ وسلب الإیمان.والذین آذوہم ولعنوہم ورموہم بالبہتان، فکان آخر أمرہم قساوۃ القلب وغضب الرحمان.وإنی جربتُ مرارا وأ ظہرتہا إظہارًا، أن بغض ہٰؤلاء السادات من أکبر القواطع عن اللّٰہ مظہرِ البرکات، ومن عاداہم فتُغلَق علیہ سُدَدُ الرحمۃ والحنان، ولا تُفتح لہ أبواب العلم والعرفان، ویترکہ اللّٰہ فی جذبات الدنیا وشہواتہا، ویسقط فی وہاد النفس وہوّاتہا، ویجعلہ من المبعدین المحجوبین.وإنہم أُوذوا کما أُوذی النبیون، ولُعنوا کما لُعن المرسلون، فحقّق بذٰلک میراثہم للرسل، وتحقّقَ جزاؤہم کأئمۃ النِحل والملل فی یوم الدّین.فإن مؤمنا إذا لُعن وکُفر من غیر ذنب، ودُعی بہجو وسبّ من غیر سبب، فقد شابہَ الأنبیاء وضاہی الأصفیاء ، فسیُجزی کما یُجزی النبیون، ویری الجزاء کالمرسلین.ولا شک أن ہؤلاء کانوا علی قدم عظیم فی اتباع خیر الأنبیاء ، وکانوا أُمّۃً وسطًا کما مدحہم ذو العزّ والعلاء ، وأیدہم بروح منہ کما أیّد کل أہل الاصطفاء.وقد
ظہرت أنوار صدقہم وآثار طہارتہم کأجلی الضیاء ، وتبین أنہم کانوا من الصادقین.ورضی اللّٰہ عنہم ورضوا عنہ، وأعطاہم ما لم یُعطَ أحد من العالمین.أَہُم کانوا منافقین؟ حاشا وکلا، بل جلّ معروفہم وجلی، وإنہم کانوا طاہرین.لا عیب کتطلُّب مثالبہم وعثراتہم، ولا ذنب کتفتیش معائبہم وسیئاتہم، واللّٰہ إنہم کانوا من المغفورین.والقرآن یحمدہم ویُثنی علیہم و یبشرہم بجنّات تجری من تحتہا الأنہار، ویقول إنہم أصحاب الیمین والسابقون والأخیار والأبرار، ویسلّم بسلام البرکات علیہم، ویشہد أنہم کانوا من المقبولین.ولا شک أنہم قوم أدحضوا المودّات للإسلام، وعادَوا القوم لمحبۃ خیر الأنام، واقتحموا الأخطار لمرضاۃ الرب العلام، والقرآن یشہد أنہم آثروا مولاہم وأکرموا کتابہ إکرامًا، وکانوا یبیتون لربّہم سُجّدًا وقیاما، فأی ثبوت قطعی علی ما خالفہ القرآن؟ والظن لا یُساوی الیقین أیہا الظانّ.أتقوم علی جہۃ یبطلہ الفرقان؟ فأَخْرِجْ لنا إن جاء ک البرہان ولا تتبع ظنون الظانین.وواللّٰہ إنہم رجال قاموا فی مواطن الممات لنصرۃ خیر الکائنات، وترکوا للّٰہ آباء ہم وأبناء ہم ومزّقوہم بالمرہفات، وحاربوا الأحبّاء فقطعوا الرؤوس، وأعطوا للّٰہ النفائس والنفوس، وکانوا مع ذلک باکین لقلۃ الأعمال ومتندمین.وما تمضمضت مُقلتہم بنوم الراحۃ، إلا قلیل من حقوق النفس للاستراحۃ، وما کانوا متنعمین.فکیف تظنون أنہم کانوا یظلمون ویغصبون، ولا یعدلون ویجورون؟ وقد ثبت أنہم خرجوا من الأہواء ، وسقطوا فی حضرۃ الکبریاء ، وکانوا قومًا فانین.فکیف تسبّون أیہا الأعداء ؟ وما ہذا الارتیاء الذی یأباہ الحیاء ؟ فاتقوا اللّٰہ وارجعوا إلی رفق وحلم، ستُسألون عما تظنون بغیر علم وبرہان مبین.لا تنظروا إلی ذلاقتی ومرارۃ مذاقتی، وانظروا إلی دلیل عرضتُ
علیکم وأمعِنوا فیہ بعینیکم، فإنکم تبعتم ظنون الظانین، وترکتم کتابا یہب الحق والیقین، وما بعد الحق إلّا ضلال مبین.وکیف یُنسَب إلی الصحابۃ ما یُخالف التقوی وسُبلہ، ویُباین الورع وحُللہ، مع أن القرآن شہد بأن اللّٰہ حبَّب إلیہم الإیمان، وکرَّہ إلیہم الکفر والفسوق والعصیان، وما کَفَّرَ أحدا منہم مع وقوع المقاتلۃ، فضلا عن المشاجرۃ، بل سمّی کلَّ أحد من الفریقین مسلمین، وقال.۱ فانظر إلی ما قال اللّٰہ وہو أصدق الصادقین.إنک تُکفِّر المؤمنین لبعض مشاجرات، وہو یسمّی الفریقین مؤمنین مع مقاتلات ومحاربات، ویُسمیہم إخوۃ مع بغی البعض علی البعض ولا یُسمی فریقا منہم کافرین، بل یغضب علی الذین یتنابزون بالألقاب، ویلمزون أنفسہم ولا یسترون کالأحباب، ویسخرون ویغتابون ویظنون ظن السوء ویمشون متجسّسین.بل یُسمی مرتکب ہذہ الأمور فسوقا بعد الإیمان، ویغضب علیہ کغضبہ علی أہل العدوان، ولا یرضی بعبادہ أن یسبّوا المؤمنین المسلمین، ہذا مع أنہ یُسمی فی ہذہ الآیات فریقًا من المؤمنین باغین ظالمین، وفریقا من الآخرین مظلومین، ولٰکن لا یسمی
أحدًا منہما مرتدین.وکفاک ہذہ الہدایۃ إن کنتَ من المتقین، فلا تُدخِل نفسک تحت ہذہ الآیات، ولا تبادر إلی المہلکات، ولا تقعد مع المعتدین.وقال اللّٰہ فی مقام آخر فی مدح المؤمنین.۱ فانظر کلمات رب العالمین.أتُسمِّی قوما فاسقین سماہم اللّٰہ متقین؟ ثم قال عزّ وجلّ فی مدح صحابۃ خاتم النبیین...۲ فانظر کیف سمّی کل من عاداہم کافرًا، وغضب علیہم، فاخش اللّٰہ واتق الذی یغیظ بالصحابۃ کافرین، وتدبَّرْ فی ہذہ الآیات وآیات أخری لعل اللّٰہ یجعلک من المہتدین.ومن تظنّٰی من الشیعۃ أن الصدّیق أو الفاروق غصَب الحقوق، وظلم المرتضٰی أو الزہراء ، فترَک الإنصاف وأحبَّ الاعتساف، وسلَک مسلک الظالمین.إن الذین ترکوا أوطانہم وخلانہم وأموالہم وأثقالہم للّٰہ ورسولہ، وأُوذوا من الکفار وأُخرِجوا من أیدی الأشرار، فصبروا کالأخیار والأبرار، واستُخلِفوا فما أترعوا بیوتہم من الفضۃ والعَین، وما جعلوا أبناۂم وبناتہم ورثاءَ الذہب واللُّجَین، بل ردّوا کل ما حصل إلی بیت المال، وما جعلوا أبناء ہم خلفاء ہم کأبناء الدنیا وأہل الضلال، وعاشوا فی ہذہ الدنیا فی لباس الفقر والخصاصۃ، وما مالوا إلی التنعم کذوی الإمرۃ والریاسۃ.أیُظَنّ فیہم أنہم کانوا ینہبون أموال الناس بالتطاولات ویمیلون إلی الغصب والنہب والغارات؟ أکان ہذا أثر صحبۃ رسول اللّٰہ خیرِ الکائنات
وقد حمد ہم اللّٰہ وأثنی علیہم رب المخلوقات؟ کلا بل إنہ زکّی نفوسہم وطہّر قلوبہم، ونوّر شموسہم، وجعلہم سابقین للطیبین الآتین.ولا نجد احتمالا ضعیفا ولا وہما طفیفا یُخبر عن فساد نیاتہم، أو یشیر إلی أدنی سیئاتہم، فضلا عن جزم النفس علی نسبۃ الظلم إلی ذواتہم، وواللّٰہ إنّہم کانوا قومًا مقسطین.ولو أنہم أُعطوا وادیا من مال من غیر حلال فما تَفَلوا علیہ وما مالوا کأہل الہویٰ، ولو کان ذہبا کأمثال الرُبٰی، أو کمقدار الأ رضین.ولو وجدوا حلالا من المال لأنفقوہ فی سبل ذی الجلال ومہمات الدین.فکیف نظن أنہم أغضبوا الزہراء لأشجار، وآذوا فلذۃ النبی کأشرار، بل للأحرار نیّات، ولہم علی الحق ثبات، وعلیہم من اللّٰہ صلوات، واللّٰہ یعلم ضمائر المتقین.وإن کان ہذا من نوع الإیذاء فما نجا أسد اللّٰہ الفتی من ہذا، بل ہو أحد من الشرکاء ، فإنہ اختطب بنت أبا الجہل وآذی الزہراء.فإیاک والاعتداء ، وخُذِ الاتقاء ودَعِ الاعتداء ولا تتناولْ فُضالۃ الذین زاغوا عن المحجّۃ، وأعرضوا عن الحق بعد رؤیۃ أنوار الحجّۃ، وکانوا علی الباطل مصرّین.وإنی أدلّک إلی صراط تنجیک من شبہات، فتدبَّرْ ولا ترکَنْ إلی جہلات.وأقول للّٰہ وأرجو أن تنیب، ولو أسمع من بعضکم التثریب، ولا یہتدی عبد إلّا إذا أراد اللّٰہ ہداہ، ولا یرتوی أحدٌ إلا من سُقیاہ.إنہ یری قلبی وقلوبکم، وینظر قدمی وأسلوبکم، ویعلم ما فی صدور العالمین.فاعلم أیہا العزیز أن حزبًا من علماء الشیعۃ ربما یقولون إن خلافۃ الأصحاب الثلاثۃ ما ثبت من الکتاب والسُنّۃ، وأما خلافۃ سیدنا المرتضٰی وأسد اللّٰہ الأتقی فثبت من وجوہ شتی وبرہان أجلی، فلزم من ذلک أن یکون الخلفاء الثلا ثۃ غاصبین ظالمین آلتین، فإن خلافتہم ما ثبتت من خاتم النبیین وخیر المرسلین:.
أما الجواب فلا یخفی علی المتدبرین الفارہین وعباد اللّٰہ المتقین، أن ادعاء ثبوت خلافۃ سیدنا المرتضی صلفٌ بحتٌ ما لحقہ من الصدق سنا وزورۃُ طیف، ولیس معہ شہادۃ من کتاب ربنا الأعلٰی، ولیس فی أیدی الشیعۃ شمّۃٌ علی ثبوت ہذا الدعوی، فلا شک أن خلافتہ عاری الجلدۃ من حلل الثبوت، وبادی الجردۃ کالسبروت، ولو کان علیٌّ بحرَ الأنوار ومستغنیا عن النعوت.فلا تُجادل من غیر حق، ولا تستثفر بفویطتک فی الریاغۃ، ولا تُرِنا تُرّہات البلاغۃ، ولا تقفُ طرق المتعسفین.وإنی واللّٰہ لطالما فکرت فی القرآن وأمعنتُ فی آیات الفرقان، وتلقیتُ أمر الخلافۃ بوسائل التحقیق، وأعددت لہ الأُہَبَ کلہا للتدقیق، وصرفتُ ملامح عینی إلی کل الأنحاء ، ورمیتُ مرامی لحظی إلی جمیع الأرجاء ، فما وجدتُ سیفًا قاطعًا فی ہذا المصافّ کآیۃ الاستخلاف، واستبنتُ أنہا من أعظم الآیات، والدلائل الناطقۃ للإ ثبات، والنصوص الصریحۃ من رب الکائنات، لکل من یرید أن یحکم بالحق کالقضاۃ، وأتیقن أنہ من طاب خِیمُہ، وأُشرِبَ ماء الإمعان أدیمُہ، یقبلہا شاکرا، ویحمد اللّٰہ ذاکرا، علی ما ہداہ وأخرجہ من الضالّین.وإن آیات الفرقان یقینیۃ وأحکامہا قطعیۃ، وأما الأخبار والآثار فظنیۃ وأحکامہا شکیۃ، ولو کانت مرویۃ من الثقات ونحاریر الرواۃ.ولا تنظروا إلی نضرۃ حلیتہا وخضرۃ دوحتہا، فإن أکثرہا ساقطۃ فی الظلمات، ولیست بمعصومۃ من مس أیدی ذوی الظلامات، وقد عسر اشتیارہا من مشار النحل، وإنما أُخذت من النہل.ہذا حال أکثر الأحادیث کما لا یخفی علی الطیّب والخبیث، فبأی حدیث بعد کتاب اللّٰہ تؤمنون؟ وإذا حصحص الحق فأین تذہبون؟ وماذا بعد الحق إلا الضلال، فاتقوا الضلال یا معشر المسلمین.وقد قلتُ من قبل
أن الآثار ما کفلت التزام الیقینیات، بل ہی ذخیرۃ الظنیات والشکیات، والوہمیات والموضوعات، فمن ترک القرآن واتکأ علیہا فیسقط فی ہُوۃ المہلکات ویلحق بالہالکین.إنما الأحادیث کشیخ بالی الریاش بادی الارتعاش، ولا یقوم إلا بہراوۃ الفرقان وعصا القرآن، فکیف یُرجی منہا اکتناز الحقائق وخزنُ نشبِ الدقائق من دون ہذا الإمام الفائق؟ فہذا ہو الذی یؤوی الغریب ویُطہّر المعیب، ویفتتح النطق بالدلائل الصحیحۃ والنصوص الصریحۃ، وکلہ یقین وفیہ للقلوب تسکین.وہو أقوی تقریرًا وقولا، وأَوْسع حفاوۃ وطولا، ومَن ترکہ ومال إلی غیرہ کالعاشق، فتجاوز الدّین والدّیانۃ ومرق مروق السہم الراشق، ومن غادر القرآن وأسقطہ من العین، وتبع روایات لا دلیل علی تنزُّہہا من المَیْن، فقد ضل ضلالا مبینا، وسیصطلی لظی حسرتین، ویریہ اللّٰہ أنہ کان علی خطأ مبین.فالحاصل أن الأمن فی اتباع القرآن، والتباب کل التباب فی ترک الفرقان.ولا مصیبۃ کمصیبۃ الإعراض عن کتاب اللّٰہ عند ذوی العینَین، فاذکروا عظمۃ ہذا الرزء وإن جلّ لدیکم رزءُ الحسَین، وکونوا طلاب الحق یا معشر الغافلین.والآن نذکر الآیات الکریمۃ والحجج العظیمۃ علی خلافۃ الصدّیق لنریک ثبوتہ علی وجہ التحقیق، فإن طریق الارتیاب قطعۃ من العذاب، ومن تبع الشبہات فأوقع نفسہ فی المہلکات، وأما قطع الخصومات فلا یکون إلا بالیقینیات، فاسمع منی ولا تبعد عنی، وأدعو اللّٰہ أن یجعلک من المتبصرین.قال اللّٰہ عزّ وجلّ فی کتابہ المبین.
....۱ ہذا ما بشّر ربّنا للمؤمنین، وأخبر عن علامات المستخلفین، فمن أتی اللّٰہ للاستماحۃ، وما سلک مسلک الوقاحۃ، وما شد جبائر التلبیس علی ساعد الصراحۃ، فلا بد لہ من أن یقبل ہذا الدلیل، ویترک المعاذیر والأقاویل، ویأخذ طرق الصالحین.وأما تفصیلہ لیبدو علیک دلیلہ فاعلموا یا أولی الألباب والفضل اللباب، أن اللّٰہ قد وعد فی ہذہ الآیات للمسلمین والمسلمات أنہ سیستخلفنّ بعض المؤمنین منہم فضلًا ورحمًا، ویبدّلنّہم من بعد خوفہم أمنًا، فہذا أمر لا نجد مصداقہ علی وجہ أتمَّ وأکملَ إلا خلافۃ الصدّیق، فإن وقت خلافتہ کان وقت الخوف والمصائب کما لا یخفی علٰی أہل التحقیق.فإن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لما تُوفّی نزلت المصائب علی الإسلام والمسلمین، وارتد کثیر من المنافقین، وتطاولت ألسنۃ المرتدین، وادعی النبوۃ نفرٌ من المفترین، واجتمع علیہم کثیر من أہل البادیۃ، حتی لحق بمسیلمۃ قریبٌ من ماءۃ ألف من الجہَلۃ الفجَرۃ، وہاجت الفتن وکثرت المحن، وأحاطت البلایا قریبا وبعیدا، وزُلزل المؤمنون زلزالا شدیدا.ہنالک ابتُلِیت کل نفس من الناس، وظہرت حالات مُخوفۃ مدہشۃ الحواسّ، وکان المؤمنون مضطرین کأن جَمْرًا أُضرمت فی قلوبہم أو ذُبحوا بالسکّین.وکانوا یبکون تارۃ من فراق خیر البریۃ، وأخری من فتن ظہرت کالنیران المحرقۃ، ولم یکن أثرًا من أمن، وغلبت المفتتنون کخضراءِ دِمْنٍ، فزاد المؤمنون خوفًا وفزعًا، وملئت القلوب دہشا وجزعا.ففی ذلک الأوان جُعِل أبو بکر رضی اللّٰہ عنہ حاکم الزمان وخلیفۃ خاتم النبیین.فغلب علیہ ہمٌّ وغمٌّ من أطوار رآہا، ومن آثار شاہدہا فی المنافقین والکافرین والمرتدین، وکان یبکی کمرابیع الربیع، وتجری عبراتہ
کالینابیع، ویسأل اللّٰہ خیر الإسلام والمسلمین.وعن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا قالت لما جُعل أبی خلیفۃ وفوّض اللّٰہ إلیہ الإمارۃ، فرأی بمجرد الاستخلاف تموُّجَ الفتن من کل الأطراف، ومَوْرَ المتنبئین الکاذبین، وبغاوۃ المرتدین المنافقین.فصُبّت علیہ مصائب لو صُبّت علی الجبال لانہدت وسقطت وانکسرت فی الحال، ولکنہ أُعطی صبرا کالمرسلین، حتی جاء نصر اللّٰہ وقُتل المتنبؤن وأُہلک المرتدون، وأُزیل الفتن ودفُع المحن، وقُضی الأمر واستقام أمر الخلافۃ، ونجّی اللّٰہ المؤمنین من الآفۃ، وبدّل من بعد خوفہم أمنا، ومکّن لہم دینہم وأقام علی الحق زمنا وسود وجوہ المفسدین، وأنجز وعدہ ونصر عبدہ الصدّیق، وأباد الطواغیت والغرانیق، وألقی الرعب فی قلوب الکفار، فانہزموا ورجعوا وتابوا وکان ہذا وعد من اللّٰہ القہار، وہو أصدق الصادقین.فانظر کیف تم وعد الخلافۃ مع جمیع لوازمہ وإماراتہ فی الصدّیق، وادْعُ اللّٰہ أن یشرح صدرک لہذا التحقیق، وتدبَّرْ کیف کانت حالۃ المسلمین فی وقت استخلافہ وقد کان الإسلام من المصائب کالحریق، ثم ردّ اللّٰہ الکرّۃ علی الإسلام وأخرجہ من البِیر العمیق، وقُتِل المتنبؤن بأشدّ الآلام، وأُہلکَ المرتدون کالأنعام، وآمن اللّٰہ المؤمنین من خوفٍ کانوا فیہ کالمیتین.وکان المؤمنون یستبشرون بعد رفع ہذا العذاب، ویہنّؤن الصدّیق ویتلقونہ بالترحاب، ویحمدونہ ویدعون لہ من حضرۃ ربّ الأرباب، وبادروا إلی تعظیمہ وآداب تکریمہ، وأدخلوا حبَّہ فی تامورہم، واقتدوا بہ فی جمیع أمورہم، وکانوا لہ شاکرین.وصقلوا خواطرہم، وسقوا نواضرہم، وزادوا حبًّا، وودّوا وطاوعوہ جہدًا وجِدًّا، وکانوا یحسبونہ مبارکًا ومؤیّدا کالنّبیین.وکان ہذا کُلّہٗ من صدق الصدّیق والیقین العمیق.
وواللّٰہ إنہ کان آدم الثانی للإسلام، والمظہر الأول لأنوار خیر الأنام، وما کان نبیا ولکن کانت فیہ قُوی المرسلین؛ فبصدقہ عادت حدیقۃ الإسلام إلی زخرفہ التام، وأخذ زینتَہ وقُرّتَہ بعد صدمات السہام، وتنوعت أزاہیرہ وطُہّرت أغصانہ من القَتام، وکان قبل ذلک کمیتٍ نُدِبَ، وشرید جُدِبَ، وجریح نُوِّبَ وذبیح جُوِّبَ، وألیمِ أنواعِ تعبٍ، وحریقِ ہاجرۃٍ ذاتِ لہبٍ، ثم نجّاہ اللّٰہ من جمیع تلک البلیّات، واستخلصہ من سائر الآفات، وأیّدہ بعجائب التأییدات حتی أَمَّ الملوکَ ومَلِکَ الرقاب، بعدما تکسَّرَ وافترش التراب، فزُمّتْ ألسنۃ المنافقین وتہلّلَ وجہ المؤمنین.وکل نفس حمدت ربہ وشکرت الصدّیق، وجاء تہ مطاوعًا إلّا الزندیق، والذی کان من الفاسقین.وکان کل ذلک أجرَ عبدٍ تخیَّرَہ اللّٰہ وصافاہ ورضی عنہ وعافاہ، واللّٰہ لا یضیع أجر المحسنین.فالحاصل أن ہذہ الآیات کلّہا مُخبرۃ عن خلافۃ الصدّیق، ولیس لہا محملٌ آخر فانظر علی وجہ التحقیق، واخش اللّٰہ ولا تکن من المتعصبین.ثم انظر أن ہذہ الآیات کانت من الأنباء المستقبلۃ لتزید إیمان المؤمنین عند ظہورہا، ولیعرفوا مواعید حضرۃ العزۃ، فإن اللّٰہ أخبر فیہا عن زمان حلول الفتن ونزول المصائب علی الإسلام بعد وفاۃ خیر الأنام، ووعد أنہ سیستخلف فی ذلک الزمن بعضا من المؤمنین ویؤمِنہم من بعد خوفہم، ویمکّن دینہ المتزلزل ویہلک المفسدین.ولا شک أن مصداق ہذا النبأ لیس إلا أبو بکر وزمانہ، فلا تنکر وقد حصحص بُرہانہ.إنہ وجد الإسلام کجدار یرید أن ینقضّ من شر أشرار، فجعلہ اللّٰہ بیدہ کحصن مشید لہ جدران من حدید، وفیہ فوج مطیعون کعبید.فانظر ہل تجد من ریب فی ہذا، أو یسوغ عندک إتیان نظیرہ من زُمر آخرین؟
وإنی أعلم أن بعض الشیعۃ یخاصم أہل السُنّۃ فی ہذا المقام، وقد تمادت أیام الخصام، وربما انتہی الأمر من مخاصمۃ إلی ملاکمۃ ومقاتلۃ، وأفضتْ إلی محاکمۃ ومرافعۃ.وأتعجب علی الشیعۃ وسوء فہمہم، وأتأوّہ لإفراطِ وہمہم، قد تجلّت لہم الآیات وظہرت القطعیات، فیفرّون ممتعضین ولا یتفکرون کالمنصفین.فہا أنا أدعوہم إلی أمرٍ یفتح عینہم، وسواء بیننا وبینہم، أن نحاضر فی مضمار، ونتضرع فی حضرۃ رب قہار، ونجعل لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین.فإن لم یظہر أثر دعائی إلی سَنۃ، فأقبل لنفسی کل عقوبۃ، وأُقرّ بأنہم کانوا من الصادقین، ومع ذلک أعطی لہم خمسۃ آلاف من الدراہم المروجۃ، وإن لم أُعطِ فلعنۃ اللّٰہ علیّ إلی یوم الآخرۃ.وإن شاء وا فأجمع لہم تلک الدراہم فی مخزن دولۃ البریطانۃ، أو عند أحد من الأعزّۃ.بید أنی لا أُخاطب کلّ أحد من العامّۃ، إلا الذی ینسج رسالۃ علی منوال ہذہ الرسالۃ.وما اخترتُ ہذا المنہج إلّا لأعلم أن المباہل المناضل من أہل الفضیلۃ والفطنۃ، لا من الجہَلۃ الغُمر الذین لیس لہم حظ وافر من العربیۃ، فإن الذی حل محلّ الأنعام لا یستحق أن یؤثَر للإنعام، والذی ہو کالجِمال، لا یلیق أن یجلس فی مجالس الحسن والجَمال، ومن تعرض للمنافثۃ لا بد لہ من المشابہۃ.فمن لم یکن مثلی أنبلَ الکُتّاب فلیس ہو عندی لائقا للخطاب.ثم لما بلغتُ قُنّۃَ ہذا المقام المنیع، فضلا من القدیر البدیع، أحبُّ أن أری مثلی فی ہذہ الکرامۃ، وأکرہ أن أناضل کل أحد من العامۃ، فإنہ فیہ کسر شأنی، وعار لعلوّ مکانی، فلا أکلّمہ أبدًا، بل أعرض عن الجاہلین.وعُلّمتُ أن الصدّیق أعظم شأنا وأرفع مکانا من جمیع الصحابۃ، وہو الخلیفۃ الأوّل بغیر الاسترابۃ، وفیہ نزلت آیات الخلافۃ، وإن کنتم
زعمتم یا عِدا الثقافۃ أن مصداقہا غیرہ بعد عصرہ فأْتوا بفصّ خبرہ إن کنتم صادقین.وإن لم تفعلوا ولن تفعلوا فلا تکونوا أعداء الأخیار، واقطعوا خصاما متطائر الشرار.وما کان لمؤمن أن یرکن إلی اشتطاط اللدد، ولا یدخل باب الحق مع انفتاح السدد.وکیف تلعنون رجلا أثبت اللّٰہ دعواہ، وإذا استَعْدی فأعْداہ وأری الآیاتِ لعَدْواہ*، وطَرَّ مکر الماکرین، وہو نجّی الإسلام من بلاءٍ ہاضَ وجورٍ فاضَ، وقتَل الأفعی النضناضَ، وأقام الأمن والأمان، وخیّب کل من مان، بفضل اللّٰہ رب العالمین.وللصدّیق حسنات أُخری وبرکات لا تُعدّ ولا تُحصٰی، ولہ مننٌ علی أعناق المسلمین، ولا ینکرہا إلا الذی ہو أوّل المعتدین.وکما جعلہ اللّٰہ موجبا لِأَمن المؤمنین ومِطفاءً لنیران الکافرین والمرتدین، کذٰلک جعلہ مِن أوّل حُماۃ الفرقان وخدام القرآن ومُشیعی کتاب اللّٰہ المبین.فبذل سعیہ حق السعی فی جمع القرآنِ واستطلاع ترتیبہ من محبوب الرحمنِ، وہملتْ عیناہ لمواساۃ الدین ولا ہمول عین الماء المعین.وقد بلغت ہذہ الأخبار إلی حد الیقین، ولکن التعصب تعقَّرَ فِطنَ المتدبرین.وإن کنت ترید أصل الواقعات ولبّ النکات، فاربأ بنفسک أن تنظر بحیث یغشاک درن التعصبات.وإیاک وطرق التعسفات، فإن النصَفَۃ مفتاح البرکات، ولا ترحض عن القلب قشف الظلمۃ إلّا نور العدل والنصفۃ.وإن العلوم الصادقۃ والمعارف الصحیحۃ رفیعۃ جدًّا کعرش حضرۃ الکبریاء ، والنصفۃ لہا کسُلّم الارتقاء ، فمن کان یرجو حل المشکلات وقُنیۃ النکات، فلیعمل عملًا صالحا ویتّق التعسّفَ والتعصبات وطرق الظالمین.ومن حسنات الصدّیق ومزایاہ الخاصۃ أنہ خُصّ لمرافقۃ سفر الہجرۃ، وجُعل شریک مضائق خیر البریۃ وأنیسہ الخاص فی باکورۃ المصیبۃ
لیثبت تخصّصہ بمحبوب الحضرۃ.وسرُّ ذلک أنّ اللّٰہ کان یعلم بأن الصدّیق أشجع الصحابۃ ومن التقاۃ وأحبّہم إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ومن الکُماۃ، وکان فانیا فی حُبّ سیّد الکائنات، وکان اعتاد من القدیم أن یمونہ ویراعی شؤونہ، فأسلی بہ اللّٰہ نبیَّہ فی وقتٍ عبوس وعیش بوسٍ، وخُصّ باسم الصدّیق وقربِ نبی الثقلَین، وأفاض اللّٰہ علیہ خلعۃ ثَانِیَ اثْنَیْنِ، وجعلہ من المخصوصین.ومع ذٰلک کان الصدّیق من المجربین ومن زمر المتبصّرین.رأی کثیرا من مغالق الأمور وشدائدہا، وشہد المعارک ورأی مکایدہا، ووطئ البوادی وجلامِدَہا، وکم من مہلکۃ اقتحمہا وکم من سبل العوج قومہا وکم من ملحمۃ قدمہا وکم من فتن عدمہا وکم من راحلۃ أنضاہا فی الأسفار، وطوی المراحل حتی صار من أہل التجربۃ والاختبار وکان صابرًا علی الشدائد ومن المرتاضین.فاختارہ اللّٰہ لرفاقتہ مورد آیاتہ، وأثنی علیہ لصدقہ وثباتہ، وأشار إلی أنہ کان لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أوّل الأحبّاء ، وخُلِقَ من طینۃ الحرّیۃ وتفوَّقَ درَّ الوفاء ، ولأجل ذلک اختُیرَ عند خطب خشَّی وخوف غشَّی، واللّٰہ علیم حکیم یضع الأمور فی مواضعہا، ویُجری المیاہ من منابعہا، فنظر إلی ابن أبی قحافۃ نظرۃً، ومنّ علیہ خاصۃ، وجعلہ من المتفردین، وقال وہو أصدق القائلین.فتدبَّرْ فی ہذہ الآیات فہما وحزما، ولا تُعرض عمدا وعزما، وأحسِنِ النظر
فیما قال رب العالمین.ولا تلج مقاحم الأخطار بسبّ الأخیار والأبرار وأحبّاء القہّار، فإن أنْفَسَ القربات تخیُّرُ طرق التقاۃ والإعراض عن المہلکات، وأمتنَ أسبابِ العافیۃ کفُّ اللسان والتجنب من السبّ والغیبۃ، والاجتناب من أکل لحم الإخوۃ.انظر إلی ہذہ الآیۃ الموصوفۃ، أتُثنی علی الصدّیق أو تجعلہ مورد اللوم والمعتبۃ ؟ أتعرف رجلا آخر من الصحابۃ الذی حُمد بہذہ الصفات بغیر الاسترابۃ ؟ أتعرف رجلا سُمّی ثَانِیَ اثْنَیْنِ وسُمی صاحبًا لنبی الثقلین، وأُشرِکَ فی فضل إِنّ اللّٰہَ مَعَنَا، وجُعِل أحدٌ من المؤیّدین؟ أتعلم أحدًا حُمّد فی القرآن کمثل ہذہ المحمدۃ، وسُفر زحام الشبہات عن حالاتہ المخفیۃ، وثبت فیہ بالنصوص الصریحۃ لا الظنیۃ الشکّیّۃ أنہ من المقبولین؟ وواللّٰہ، ما أری مثل ہذا الذکر الصریح ثابت بالتحقیق الذی مخصوص بالصدّیق لرجل آخر فی صحف رب البیت العتیق.فإن کنت فی شک ممّا قلت، أو تظن أنی عن الحق ملتُ، فأْت بنظیر من القرآن، وأرِنا لرجل آخر تصریحًا من الفرقان، إن کنت من الصادقین.واللّٰہ إن الصدّیق رجل أُعطی من اللّٰہ حلل الاختصاص، وشہد لہ اللّٰہ أنہ من الخواص، وعزا معیّۃَ ذاتِہ إلیہ، وحَمدَہ وشَکَرَہ وأثنی علیہ، وأشار إلی أنہ رجل لم یطبْ لہ فراق المصطفٰی، ورضی بفراق غیرہ من القربی، وآثر المولی وجاء ہ یسعی، فساق إلی الموت ذَوْدَ الرغبۃ، وأزجی کل ہوی المہجۃ.استدعاہ الرسول للمرافقۃ، فقام ملبّیا للموافقۃ، وإذ ہمّ القوم بإخراج المصطفٰی، جاء ہ النبی حبیب اللّٰہ الأعلٰی، وقال إنی أُمرتُ أن أہاجر وتہاجر معی ونخرج من ہذا المأوی، فحمدلَ الصدّیق علی ما جعلہ اللّٰہ رفیق المصطفٰی فی مثل ذلک البلویٰ، وکان ینتظر نصرۃ النبی المبغیِّ علیہ إلٰی أن آلت ہذہ الحالۃ إلیہ، فرافقہ فی شجون من جدّ ومجون، وما خاف قتل القاتلین.ففضیلتہ ثابتۃ من جلیّۃ
الحکم والنص المحکم، وفضلہ بیّن بدلیل قاطع، وصدقہ واضح کصبح ساطع.إنہ ارتضٰی بنعماء الآخرۃ وترک تنعم العاجلۃ، ولا یبلغ فضائلہ أحد من الآخرین.وإن سألت أن اللّٰہ لِمَ آثرَہ لصدر سلسلۃ الخلافۃ، وأیّ سر کان فیہ من ربّ ذی الرأفۃ، فاعلم أن اللّٰہ قد رأی أن الصدّیق رضی اللّٰہ عنہ وأرضی آمنَ مع رسول اللّٰہ صلعم بقلب أسلم فی قوم لم یسلم، وفی زمان کان نبی اللّٰہ وحیدًا، وکان الفساد شدیدا، فرأی الصدّیق بعد ہذا الإیمان أنواع الذلۃ والہوان ولعن القومِ والعشیرۃ والإخوان والخلّان، وأُوذی فی سبیل اللّٰہ الرحمان، وأُخرج من وطنہ کما أُخرج نبی الإنس ونبی الجان، ورأی مِحنًا کثیرۃ من الأعداء ، ولعنًا ولومًا من الأحباء ، وجاہدَ بمالہ ونفسہ فی حضرۃ العزّۃ، وکان یعیش کالأذلّۃ، بعدما کان من الأعزّۃ ومن المتنعمین.وأُخرج فی سبیل اللّٰہ، وأُوذی فی سبیل اللّٰہ، وجاہد بأموالہ فی سبیل اللّٰہ، فصار بعد الثراء کالفقراء والمساکین.فأراد اللّٰہ أن یُریہ جزاء الأیام التی قد مضت علیہ، ویبدّلہ خیرا مما ضاع من یدیہ، ویُریہ أجر ما رأی ابتغاءً لمرضاۃ اللّٰہ، واللّٰہ لا یُضیع أجر المحسنین.فاستخلفہ ربہ ورفع لہ ذکرہ وأسْلی، وأعزّہ رحمۃ منہ وفضلا، وجعلہ أمیر المؤمنین.اعلموا، رحمکم اللّٰہ، أن الصحابۃ کلہم کانوا کجوارح رسول اللّٰہ صلعم وفخر نوع الإنسان، فبعضہم کانوا کالعیون وبعضہم کانوا کالآذان، وبعضہم کالأیدی وبعضہم کالأرجل من رسول الرحمان، وکلّ ما عملوا من عمل أو جاہدوا من جہد فکانت کلہا صادرۃ بہذہ المناسبات، وکانوا یبغون بہا مرضاۃ رب الکائنات رب العالمین.فالذی یقول أن الأصحاب الثلاثۃ کانوا من الکافرین والمنافقین أو الغاصبین فلا یُکفّر إلا کلہم أجمعین
لأن الصحابۃ کلہم کانوا بایعوا أبا بکر ثم عمر ثم عثمان رضی اللّٰہ عنہم وأرضی، وشہدوا المعارک والمواطن بأحکامہم العظمی، وأشاعوا الإسلام وفتحوا دیار الکافرین.فما أری أجہلَ مِن الذی یزعم أن المسلمین ارتدوا کلہم بعد وفاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، کأنہ یکذب کل مواعید نصرۃ الإسلام التی مذکورۃ فی کتاب اللّٰہ العلام، سبحان ربنا حافظ الملۃ والدین.ہذا قول أکثر الشیعۃ، وقد تجاوزوا الحد فی تطاول الألسنۃ، وغضّوا من الحق عینہم، فکیف ینتظم الوفاق بیننا وبینہم؟ ! وکیف یرجع الأمر إلی ودادٍ، وإنہم لفی وادٍ ونحن فی وادٍ؟ واللّٰہ یعلم أنّا من الصادقین.یا حسرۃ علیہم إنہم لا یستفیقون من غَشْی التعصبات، ولا یکفکفون من البہتانات.أعجبنی شأنہم وما أدری ما إیمانہم، إنہم کفروا الأصحاب الثلاثۃ وحسبوہم من المنافقین المرتدین، مع أن القرآن ما بلغہم إلا من أیدی تلک الکافرین، فلزمہم أن یعتقدوا أن القرآن الموجود فی أیدی الناس لیس بشیء، بل ساقط من الأساس، ولیس کلام رب الأناس، بل مجموعۃ کلمات المحرفین.فإنہم کلہم کانوا خائنین وغاصبین بزعمہم، وما کان أحد منہم أمینا ومن المتدینین.فإذا کان الأمر کذلک فعلی ما عوّلوا فی دینہم؟ وأی کتاب من اللّٰہ فی أیدیہم لتلقینہم؟ فثبت أنہم قوم محرومون لا دین لہم ولا کتاب الدین.فإن قوما إذا فرضوا أن الصحابۃ کفروا ونافقوا وارتدوا علی أعقابہم وأشرکوا، واتّسخوا بوسخ الکفر وما تطہّروا، فلا بد لہم أن یُقرّوا بأنّ القرآن ما بقی علی صحتہ وحُرّف وبُدّل عن صورتہ وزِید ونُقص، وغُیّر من سحنتہ وقِیْدَ إلی غیر حقیقتہ، فإن ہذا الإقرار لزِمہم ضرورۃً بعد إصرارہم جرأۃً علی أن القرآن ما شاع من أیدی المؤمنین الصالحین، وأشاعہ قوم من الکافرین الخائنین المرتدین.وإذا اعتقدوا أن القرآن مفقود، وکل
مَن جمعہ فہو کافر مردود، فلا شکّ أنہم یئسوا مما نزل علی أبی القاسم خاتم النبیین، وغُلقت علیہم أبواب العلم والمعرفۃ والیقین، ولزمہم أن یُنکروا النوامیس کلہا، فإنہم محرومون من تصدیق الأنبیاء والإیمان بکتب المرسلین.وإذا فرضنا أنا* ہذا ہو الحق أن الصحابۃ ارتدوا کلہم بعد خاتم الأنبیاء ، وما بقی علی الشریعۃ الغرّاء إلا علي رضی اللّٰہ عنہ ونفر قلیلون معہ من الضعفاء ، وہم مع إیمانہم رکنوا إلی إخفاء الحقیقۃ، واختاروا تقیّۃً للدنیا الدنیۃ تخوّفًا من الأعداء ، أو لجذب المنفعۃ والحطام، فہذا أعظم المصائب علی الإسلام، وبلیۃ شدیدۃ علی دین خیر الأنام.وکیف تظن أن اللّٰہ أخلف مواعیدہ، وما أری تأییدہ، بل جعل أوّلَ الدَنِّ دُرْدِیًّا، وأفسد الدین من کید الخائنین.فنُشہِد الخلق کلہم أنّا بریؤن من مثل تلک العقائد، وعندنا ہی مقدمات الکفر وإلی الارتداد کالقائد، ولا تناسب فطرۃ الصالحین.أکفَر الصحابۃ بعد ما أفنوا أعمارہم فی تأیید الإسلام، وجاہدوا بأموالہم وأنفسہم لنصرۃ خیر الأنام، حتی جاء ہم الشیب وقرب وقت الحمام؟ فمن أین تولدت إرادۃ متجددۃ فاسدۃ بعد تودیعہا، وکیف غاضت میاہ الإیمان بعد جریان ینابیعہا؟ فویل للذین لا یذکرون یوم الحساب، ولا یخافون ربّ الأرباب، ویسبّون الأخیار مستعجلین.والعجبُ أن الشیعۃ یُقرّون بأن أبا بکر الصّدّیق آمن فی أیام کثرۃ الأعداء ، ورافقَ المصطفٰی فی ساعۃ شدّۃ الابتلاء ، وإذا خرج رسول اللّٰہ صلعم فخرج معہ بالصدق والوفاء ، وحمل التکالیف وترَک المألف والألیف، وترکَ العشیرۃ کلہا واختار الربّ اللطیف، ثم حضر کل غزوۃ وقاتل الکفار وأعان النبی المختار، ثم جُعل خلیفۃ فی وقت ارتدت جماعۃ
من المنافقین، وادعی النبوۃ کثیر من الکاذبین، فحاربہم وقاتلہم حتی عادت الأرض إلی أمنہا وصلاحہا وخاب حزب المفسدین.ثم مات ودُفن عند قبر سید النبیین وإمام المعصومین، وما فارقَ حبیبَ اللّٰہ ورسولہ لا فی الحیاۃ ولا فی الممات، بل التقیا بعد بینِ أیامٍ معدودۃ فتہادی تحیۃ المحبین.والعجب کلّ العجب أن اللّٰہ جعل أرض مرقد نبیہ بزعمہم مشترکۃ بین خاتم النبیین والکافرَین الغاصبَین الخائنَین وما نجّی نبیّہ وحبیبہ من أذیّۃ جوارہما بل جعلہما لہ رفیقَین مؤذیَین فی الدنیا والآخرۃ، وما باعدہ عن الخبیثین سبحان ربّنا عما یصفون، بل أَلحَقَ الطیبین بإمام الطیبین.إن فی ذلک لآیات للمتبصرین.فتفکر یا من تحلَّی بفہم، ولا ترکَنْ مِن یقین إلی وہم، ولا تجترء علی إمام المعصومین.وأنت تعلم أن قبر نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم روضۃ عظیمۃ من روضات الجنۃ، وتبوَّأَ کلَّ ذروۃ الفضل والعظمۃ، وأحاط کل مراتب السعادۃ والعزۃ، فما لہ وأہل النیران؟ فتفکر ولا تختر طرق الخسران، وتأدّبْ مع رسول اللّٰہ یا ذا العینین، ولا تجعل قبرہ بین الکافرَین الغاصبَین، ولا تُضِعْ إیمانک للمرتضی أو الحسَین، ولا حاجۃ لہما إلی إطرائک یا أسیر المَین، فاغمدْ عَضْبَ لسانک وکن من المتقین.أیرضی قلبک ویسرّ سِرْبک أن تُدفَن بین الکفار وکان علی یمینک ویسارک کافران من الأشرار؟ فکیف تجوّز لسیّد الأبرار ما لا تجوّز لنفسک یا مَورد قہر القہار؟ أتُنزل خیر الرسل منزلۃً لا ترضاہا، ولا تنظرُ مراتب عصمتہ وإیاہا؟ أین ذہب أدبک وعقلک وفہمک؟ أم اختطفتْہ جنُّ وہمک وترکتک کالمسحورین؟ وکما صُلتَ علی الصدّیق الأتقی کذلک صُلتَ علی علیّ المرتضی، فإنک جعلت علیًّا نعوذ باللّٰہ کالمنافقین، وقاعدا علی باب الکافرین، لیفیض شربہ الذی غاض
وینجبر مِن حالہ ما انہاض.ولا شک أن ہذہ السیر بعیدۃ من المخلصین، ولا توجد إلا فی الذی رضی بعادات المنافقین.وإذا سئل عن الشیعۃ المتعصّبین مَن کان أوّل مَن أسلم من الرجال البالغین وخرج من المنکرین المخالفین، فلا بدّ لہم أن یقولوا إنہ أبو بکر.ثم إذا سئل مَن کان أوّل من ہاجر مع خاتم النبیین ونبذ العلق وانطلق حیث انطلق، فلا بد لہم أن یقولوا إنہ أبو بکر.ثم إذا سئل من کان أول المستخلَفین ولو کالغاصبین، فلا بد لہم أن یقولوا إنہ أبو بکر.ثم إذا سئل من کان جامِعَ القرآن لیشاع فی البلدان، فلا بد لہم أن یقولوا إنہ أبو بکر.ثم إذا سئل من دُفن بجوار خیر المرسلین وسید المعصومین، فلا بد لہم أن یقولوا إنہ أبو بکر وعمر.فالعجب کل العجب أن کل فضیلۃ أُعطیت للکافرین المنافقین، وکل خیر الإسلام ظہرت من أیدی المعادین أیزعم مؤمن أن أول لبنۃ لإسلام* کان کافرا ومن اللئام؟ ثم أول المہاجرین مع فخر المرسلین کان کافرًا ومن المرتدین؟ وکذلک کل فضیلۃ حصلت للکفار حتی جوار قبر سید الأبرار، وکان علیٌّ من المحرومین، وما مال إلیہ اللّٰہ بالعدوی وما أجدی من جدوی، کأنہ ما عرفہ وأخطأ من التنکیر واحرورف فی المسیر، وإن ہذا إلا کذب مبین.فالحق أن الصدّیق والفاروق، کانا من أکابر الصحابۃ وما أَلَتَا الحقوق، واتخذا التقوی شرعۃ، والعدل نُجْعۃ، وکانا ینقّبان عن الأخبار ویفتّشان من أصل الأسرار، وما أرادا أن یُلْفِیا من الدنیا بُغْیۃ، وبذلا النفوس للّٰہ طاعۃً.وإنی لم ألقَ کالشیخَین فی غزارۃ فیوضہم وتأیید دین نبی الثقلَین.کانا أَسْرعَ من القمر فی اتّباع شمس الأمم والزمر، وکانا فی حُبّہ من الفانین.واستعذبا کل عذاب لتحصیل صواب، ورضوا بکل ہوان لنبی الذی لیس لہ ثان،
وظہرا کالأسود عند تَلقِّی القوافل والجنود من ذوی الکفر والصدود، حتی غلب الإسلام وانہزم الجمع، وانزوی الشرک وانقمع، وأشرقت شمس الملّۃ والدّین.وکانت خاتمۃ أمرہما جِوار خیر المسلمین، مع خدمات مرضیۃ فی الدین، وإحسانات ومنن علی أعناق المسلمین.وہذا فضل من اللّٰہ الذی لا تخفی علیہ الأتقیاءُ، وإن الفضل بید اللّٰہ یؤتیہ من یشاء ، من اعتلق بذیلہ مع کمال میلہ، فإن اللّٰہ لن یُضیعہ ولو عاداہ کل ما فی العالمین، ولا یری طالبہ خسرًا ولا عسرًا ولا یذَر اللّٰہ الصادقین.اللّٰہ أکبرما أعظمَ شأنَ سرِّہما وصدقہما دُفنوا فی مدفن لو کان موسی وعیسی حیَّین لتمناہا غبطۃ، ولکن لا یحصل ہذا المقام بالمنیۃ، ولا یعطی بالبغیۃ، بل ہی رحمۃ أزلیۃ من حضرۃ العزۃ، ولا تتوجہ إلا إلی الذین توجّہت العنایۃ إلیہم من الأزل، وحفّتْ بہم ملاحف الفضل.فقضیت العجب کل العجب أن الذین یُفضّلون علیًّا علی الصدیق لا یرجعون إلی ہذا التحقیق، ویتہافتون علی ثناء المرتضی ولا ینظرون مقام الصدّیق الأتقی.فاسأل الذین یکفّرون الصدّیق ویلعنون، وسیعلم الذین ظلموا بأی منقلب ینقلبون.إن الصدّیق والفاروق کانا أمیرا رکبٍ علوا للّٰہ قُننًا عُلی ودعوا إلی الحق أہل الحضارۃ والفلا، حتی سرت دعوتہم إلی بلاد قصوی، وقد أُودعت خلافتہما لفائف ثمر ات الإسلام، وضُمِّخت بالطِیب العمیم بأنواع فوز المرام.وکان الإسلام فی زمن الصدّیق متألّما بأنواع الحریق، وشارفَ أن تُشنّ علی سِرْبِہ فوج الغارات، وتَنَادَی عند نہبہ یا للثارات، فأدرکہ الرب الجلیل بصدق الصدّیق، وأخرج بَعاعہ من البئر العمیق، فرجع إلی حالۃ الصلاح من مَحْلۃٍ نازحۃ، وحالۃٍ رازحۃ، فأوجب لنا الإنصاف أن نشکر ہذا المعین ولا نُبالی المعادین.فإیاک أن تلوی عذارک عمن نصر سیدک ومختارک، وحفظ دینک ودارک، وقصد للّٰہ فلاحک وما
امتار سماحک.فیا للعجب الأظہر کیف یُنکَرُ مجدُ الصدّیق الأکبر، وقد برقت شمائلہ کالنیّر؟ ولا شک أن کل مؤمن یأکل أُکُلَ غَرْسہ، ویستفیض من علوم درسہ.أعطی لدیننا الفرقان، ولدنیانا الأمن والأمان، ومن أنکرہ فقد مان ولقی الشیط والشیطان.والذین التبس علیہم مقامہ فما أخطأوا إلا عمدًا، وحسبوا الغدق ثمدًا، فتوغروا غضبًا، وحقروا رجلًا کان أوّلَ المکرمین.وإن نفس الصدّیق کانت جامعۃ للرجاء والخوف، والخشیۃ والشوق، والأنس والمحبۃ.وکان جوہر فطرتہ أبلغ وأکمل فی الصفاء ، منقطعًا إلی حضرۃ الکبریاء ، مفارقا من النفس ولذاتہا، بعیدًا عن الأہواء وجذباتہا، وکان من المتبتلین.وما صدر منہ إلّا الإصلاح، وما ظہر منہ للمؤمنین إلا الفلاح.وکان مبرَّأً من تہمۃ الإیذاء والضیر، فلا تنظر إلی التنازعات الداخلیۃ، واحملہا علی محامل الخیر.ألا تُفکر أن الرجل الذی ما التفت من أوامر ربہ ومرضاتہ إلی بنیہ وبناتہ، لیجعلہم متمولین أو مِن أحد وُلاتہ، وما کان لہ من الدنیا إلا ما کان میرۃَ ضروراتہ، فکیف تظن أنہ ظلم آل رسول اللّٰہ مع أن اللّٰہ فضّلہ علی کلّہم بحسن نیاتہ، وجعلہ من المؤیدین.ولیس کل نزاع مبنیًّا علی فساد النیات کما زعم بعض متبعی الجہلات، بل رُبَّ نزاع یحدث من اختلاف الاجتہادات.فالطریق الأنسب والمنہج الأصوب أن نقول إن مبدأ التنازعات فی بعض صحابۃ خیر الکائنات کانت الاجتہادات لا الظلامات والسیئات.والمجتہدون معفوون ولو کانوا مخطئین.وقد یحدث الغلّ والحقد من التنازعات فی الصلحاء ، بل فی أکابر الأتقیاء والأصفیاء ، وفی ذلک مصالح للّٰہ ربّ العالمین.فکلّما جری فیہم أو خرج مِن فِیہم، فیجب أن یُطوی لا أن یُروَی، ویجب أن یُفوَّض أمورہم إلی اللّٰہ الذی ہو ولی الصالحین.وقد جرت سُنّتہ أنہ
یقضی بین الصالحین علی طریق لا یقضی علیہ قضایا الفاسقین، فإنہم کلّہم أحباؤہ وکلہم من المحبین المقبولین، ولأجل ذلک أخبرنا ربنا عن مآل نزاعہم وقال وہو أصدق القائلین..۱ ہذا ہو الأصل الصحیح، والحق الصریح، ولکن العامۃ لا یُحققون فی أمر کأولی الأبصار، بل یقبلون القِصص بغضّ الأبصار، ثم یزید أحدٌ منہم شیئا علی الأصل المنقول، ویتلقاہ الآخر بالقبول، ویزید علیہ شیئا آخر من عند نفسہ، ثم یسمعہ ثالث بشدۃ حرصہ، فیؤمن بہ ویُلحق بہ حواشی أُخری، وہلمّ جرّا، حتی تستتر الحقیقۃ الأولی، وتظہر حقیقۃ جدیدۃ تخالف الحق الأجلی، وکذلک ہلک الناس من خیانات الراوین.وکم من حقیقۃ تسترت، وواقعات اختفت وقِصص بُدّلت، وأخبار غُیّرت وحُرّفت، وکم من مفتریات نُسجت، وأمور زیدت ونُقصت، ولا تعلم نفس ما کانت واقعۃ أوّلًا ثُم ما صُیّرت وجُعلت.ولو أُحْیِیَ الأوّلون من الصحابۃ وأہل البیت وأقارب خیر البریۃ، وعُرضت علیہم ہذہ القِصص، لتعجبوا وحولقوا واسترجعوا من مفتریات الناس، ومما طوّلوا الأمر من الوسواس الخنّاس، وجعلوا قطرۃً کبحر عظیم، وأرَوا کجبالٍ ذرّۃَ عظمٍ رمیمٍ، وجاء وا بکذب یخدع الغافلین.والحق أن الفتن قد تموجت فی أزمنۃ وسطی، وماجت کتموُّج الریح العاصفۃ والصراصر العظمٰی.وکم من أراجیف المفترین قُبلت کأخبار الصادقین، فتَفطَّنْ ولا تکن من المستعجلین.ولو أُعطیتَ مما أفاض اللّٰہ علینا لقبلتَ ما قلتُ لک وما کنتَ من المعرضین.والآن لا أعلم أنک تقبلہ أو تکون من المنکرین.والذین کانت عداوۃ الشیخَین جوہرَ روحہم
وجزءَ طبیعتہم، ودیدنَ قریحتہم، لا یقبلون قولنا أبدا حتی یأتی أمر اللّٰہ، ولا یصدّقون کشوفا ولو کانت ألوفا، فلیتربصوا زمانا یُبدی ما فی صدور العالمین.أیہا الناس لا تظنوا ظن السوء فی الصحابۃ، ولا تُہلکوا أنفسکم فی بوادی الا سترابۃ، تلک أمۃ قد خلت ولا تعلمون حقیقۃً بعُدت واختفت، ولا تعلمون ما جری بینہم، وکیف زاغوا بعد ما نوّر اللّٰہ عینہم، فلا تتبعوا ما لیس لکم بہ علم واتقوا اللّٰہ إن کنتم خاشعین.وإن الصحابۃ وأہل البیت کانوا روحانیین منقطعین إلی اللّٰہ ومتبتلین، فلا أقبل أبدًا أنہم تنازعوا للدنیا الدنیّۃ، وأسرَّ بعضُہم غِلَّ البعض فی الطویّۃ، حتی رجع الأمر إلی تقاتُل بینہم وفساد ذات البین وعناد مبین.ولو فرضنا أن الصدّیق الأکبر کان من الذین آثروا الدنیا وزخرفہا، ورضوا بہا وکان من الغاصبین، فنضطر حینئذ إلی أن نقرّ أنّ علیًّا أسد اللّٰہ أیضا کان من المنافقین، وما کان کما نخالہ من المتبتلین؛ بل کان یکبّ علی الدنیا ویطلب زینتہا، وکان فی زخارفہا من الراغبین.ولأجل ذلک ما فارق الکافرین المرتدین، بل دخل فیہم کالمداہنین، واختار التقیّۃ إلی مدۃ قریبۃ من ثلاثین.ثم لما کان الصدّیق الأکبر کافرا أو غاصبًا فی أعین علیّ المرتضی رضی اللّٰہ تعالی عنہ وأرضٰی، فلِمَ رضی بأن یُبایعہ؟ ولِمَ ما ہاجر من أرض الظلم والفتنۃ والارتداد إلی بلاد أخری؟ ألم تکن أرض اللّٰہ واسعۃ فیہاجر فیہا کما ہی سُنّۃ ذوی التقی؟ انظر إلی إبراہیم الذی وفّی.کیف کان فی شہادۃ الحق شدید القوی، فلما رأی أن أباہ ضلّ وغوی، ورأی القوم أنہم یعبدون الأصنام ویترکون الرب الأعلی، أعرض عنہم وما خاف وما بالٰی، وأُدخِل فی النار وأوذی من الأشرار، فما اختار التقیّۃ خوفا من الأشرار.فہذا ہی سیرۃ الأبرار، لا یخافون السیوف ولا السنان، ویحسبون التقیۃ من کبائر الإثم والفواحش
والعدوان، وإن صدرت شمّۃٌ منہا کمثل ذلّۃ فیرجعون إلی اللّٰہ مستغفرین.ونعجب من علي رضی اللّٰہ عنہ کیف بایع الصدّیقَ والفاروق، مع علمہ بأنہما قد کفرا وأضاعا الحقوق، ولبث فیہما عمرًا واتّبعہما إخلاصا وعقیدۃ، وما لغِب وما وہَن وما أری کراہۃ، وما اضمحلّت الداعیۃ، وما منعتہ التقاۃ الإیمانیۃ، مع أنہ کان مطّلعا علی فسادہم وکفرہم وارتدادہم، وما کان بینہ وبین أقوام العرب بابا مسدودًا وحجابا ممدودًا وما کان من المسجونین.وکان واجبا علیہ أن یُہاجر إلی بعض أطراف العرب والشرق والغرب ویحث الناس علی القتال ویہیج الأعراب للنضال، ویُسخرہم بفصاحۃ المقال ثم یقاتل قوما مرتدین.وقد اجتمع علی المسیلمۃ الکذاب زہاء ماءۃ ألف من الأعراب، وکان علیٌّ أحقّ بہذہ النصرۃ، وأَولی لہذہ الہمۃ، فلِمَ اتّبع الکافرین، ووالی وقعد کالکسالی وما قام کالمجاہدین؟ فأیّ أمر منعہ من ہذا الخروج مع إمارات الإقبال والعروج؟ ولِمَ ما نہض للحرب والبأس وتأیید الحق ودعوۃ الناس؟ ألم یکن أفصح القوم وأبلغہم فی العظات ومن الذین ینفخون الروح فی الملفوظات؟ فما کان جمع الناس عندہ إلا فعل ساعۃ، بل أقلَّ منہا لقوۃ بلاغۃ وبراعۃ، وتأثیر جاذب للسامعین.ولما جمَعَ الناسَ الکاذبُ الدجالُ فکیف أسدُ اللّٰہ الذی کان مؤیِّدہ الرب الفعّال، وکان محبوبَ رب العالمین.ثم من أعجب العجائب وأظہر الغرائب أنہ ما اکتفی علیٌّ أن یکون من المبایعین، بل صلّی خلف الشیخَین کل صلاۃ، وما تخلف فی وقت من أوقات، وما أعرض کالشاکین.ودخل فی شُوراہم وصدّق دعواہم، وأعانہم فی کل أمر بجہد ہمتہ وسعۃ طاقتہ، وما کان من المتخلفین.فانظر.أہذا من علامات الملہوفین المکفرین؟ وانظر کیف اتبع الکاذبین مع علمہ
بالکذب والافتراء کأن الصدق والکذب کان عندہ کالسواء.ألم یعلم أن الذین یتوکلون علی قدیر ذی القدرۃ لا یؤثرون طریق المداہنۃ طرفۃ عین ولو بالکراہۃ، ولا یترکون الصدق ولو أحرقہم الصدق وألقاہم إلی التہلکۃ وجعلہم عِضِین؟ وإن الصدق مشرب الأولیاء ، ومن علامات الأصفیاء ، ولکن المرتضٰی ترک ہذہ السجیّۃ، ونحَت لنفسہ التقیّۃ، واتبع طریقا ذلیلا، وکان یحضر فِناء الکافرین بکرۃ وأصیلا، وکان من المادحین.وہلّا اقتدی بنبیّ الثقلین أو شجاعۃ الحُسین واتخذ طریق المحتالین؟ وأنشدک اللّٰہ أہذا من صفات الذین تطہرت قلوبہم من رجس الجبن والمداہنۃ، وأعطاہم إیمانُہم قوۃَ الجَنان والمہجۃ وزُکّوا من کل نفاق ومداہنۃ، وخافوا ربہم وفرغوا بعدہ من کل خشیۃ؟ کلا بل ہذہ الصفات توجد فی قوم آثروا الأہواء علی حضرۃ العزۃ، وقدّموا الدنیا علی الآخرۃ، وما قدروا اللّٰہ حق قدرہ، وما استناروا مِن بدرہ، وما کانوا مخلصین.وإنی عاشرت الخواص والعوام، ورأیت کل طبقۃ من الأنام، ولکنی ما رأیت سیرۃ التقیۃ وإخفاء الحق والحقیقۃ إلا فی الذین لا یُبالون علاقۃ حضرۃ العزۃ.و واللّٰہ، لا ترضی نفسی لطرفۃ عین أن أداہن فی الدین ولو قُطعتُ بالسکین، وکذلک کل من ہداہ اللّٰہ فضلا ورحما، ورزق من الإخلاص رزقا حسنا، فلا یرضی بالنفاق وسیر المنافقین.أما قرأتَ قصۃ قوم اختاروا الموت علی حیاۃ المداہنۃ وما شاء وا أن یعیشوا طرفۃ عین بالتقیۃ وقالوا.۱ فیا حسرۃ علی الشیعۃ إنہم اجترؤوا علی ذمّ المرتضی بما کان عندہم من منافرۃ للصدّیق الأتقی، وہفَتْ أحلامہم بتعصب أعمی.یتعامون مع المصباح المتّقد، ولا یتأملون تأمُّل المنتقد.وإنّی أری کلماتہم مجموعۃ
ریب، وملفوظاتہم رجم غیب، وما مسّہم ریح المحققین.أیہا الناظر فی ہذا الکتاب إن کنتَ من عشاق الحق والصواب، فکفاک آیۃ الاستخلاف لتحصیل تریاق الحق ودفع الذعاف، فإن فیہا برہانا قویا للمنصفین.فلا تحسب الأخیار کأہل فساد، ولا تُلحق ہُودًا بِعَاد، وتَفکَّرْ لساعۃ کالمحققین.وأنت تعلم أن الأنباء المستقبلۃ من اللّٰہ الرحمان تکون کقضاۃ لقضایا أہل الحق وأہل العدوان، أو کجنود اللّٰہ لفتح بلاد البغی والطغیان، فتُفرِّج ضیق المشکلات بِکرّاتِہا، حتی یُری ما کان ضنکًا رحیبًا بقوۃ صلا تہا.فتبارز ہذہ الأنباءُُ کل مناضل برمح خضیب، حتی تقود إلی الیقین کل مرتاب ومریب، وتقطع معاذیر المعترضین.وکذلک وقعت آیۃ الاستخلاف، فإنہا تَدُعّ کل طاعن حتی ینثنی عن موقف الطعن والمصافّ، وتُظہر الحق علی الأعداء ولو کانوا کارہین.فإن الآیۃ تُبشر الناس بأیام الأمن والاطمئنان بعد زمن الخوف من أہل الاعتساف والعدوان، ولا یصلح لِمِصْداقیّتہا إلا خلافۃ الصدّیق کما لا یخفی علی أہل التحقیق.فإن خلافۃ علیّ المرتضٰی ما کان مصداق ہذا العروج والعُلی والفوز الأجلی، بل لم یزل تبتزّہا عِداہا ما فیہ من قوۃ وحِدّۃ مداہا، وأسقطوہا فی ہوّۃ وترکوا حق أُخوّۃ، حتی أصاروہا کبیتٍ أوہنَ من بیت العنکبوت، وترکوا أہلہا کالمتحیر المبہوت.ولا شک أن علیّا کان نُجعۃَ الرُوّاد وقدوۃ الأجواد، وحجۃ اللّٰہ علی العباد، وخیرَ الناس من أہل الزمان، ونورَ اللّٰہ لإنارۃ البلدان، ولکن أیام خلافتہ ما کان زمن الأمن والأمان، بل زمان صراصر الفتن والعدوان.وکان الناس یختلفون فی خلافتہ وخلافۃ ابن أبی سفیان، وکانوا ینتظرون إلیہما کحیران، وبعضہم حسبوہما کفَرْقَدَی سماءٍ وکزَنْدَینِ فی وِعاءٍ.والحق أن الحق کان مع المرتضی، ومَن قاتَلَہ فی وقتہ فبغی وطغی، ولکن خلافتہ ما کان مصداق الأمن المبشَّر بہ
من الرحمٰن، بل أوذی المرتضی من الأقران، ودِیستْ خلافتہ تحت أنواع الفتن وأصناف الافتنان، وکان فضل اللّٰہ علیہ عظیما، ولکن عاش محزونا وألیما، وما قدر علی أن یشیع الدین ویرجم الشیاطین کالخلفاء الأولین، بل ما فرغ عن أسنّۃ القوم، ومُنع من کل القصد والرَّوْم.وما ألّبوہ بل أضبُّوا علی إکثار الجور، وما عَدَّوا عن الأذی بل زاحموہ وقعدوا فی المَور، وکان صبورا ومن الصالحین.فلا یمکن أن نجعل خلافتہ مصداق ہذہ البشارۃ، فإن خلافتہ کانت فی أیام الفساد والبغی والخسارۃ، وما ظہر الأمن فی ذلک الزمن، بل ظہر الخوف بعد الأمن، وبدأت الفتن، وتواترت المحن، وظہرت اختلالات فی نظام الإسلام، واختلافات فی أُمّۃ خیر الأنام، وفُتحت أبواب الفتن، وسُدِّدَ الحقد والضغن، وکان فی کل یوم جدید نزاعُ قوم جدید، وکثرت فتن الزمن، وطارت طیور الأمن، وکانت المفاسد ہائجۃ، والفتن مائجۃ، حتی قتل الحسین سید المظلومین.ومن تظنّی أن الخلافۃ کان أمرًا روحانیا من اللّٰہ رب العالمین، وکان مصداقہ المرتضٰی من أول الحین، ولکنہ أنِف واستحی أن یُجادل قومًا ظالمین، فہذا عذر قبیح، وما یتلفظ بہ إلا وقیح.بل الحق الذی یجب أن یُقبَل والصدق الذی لزم أن یُتقبل أن مصداق نبأ الاستخلاف ہو الذی کان جامِعَ ہذہ الأوصاف، وثبت فیہ أنہ فتح علی المسلمین أبواب أمن وصواب، ونجّاہم من فتن وعذاب، وفلَّ عن الإسلام حدَّ کل ناب، وشمّر تشمیر من لا یألو جہدًا، وما لغب وما وہن حتی سوّی غورًا ونجدًا، وأعاد اللّٰہ علی یدیہ الأمن المفقود، والإقبال الموؤود، فکان الناس بعد خوفہم آمنین.والأنباء المستقبلۃ إذا ظہرت علی صورہا الظاہرۃ فصرفُہا إلی معنی آخر ظلمٌ وفسق بعد المشاہدۃ، فإن الظہور یشفی الصدور، ویہب
الیقین ویلین الصخور، وإن فی فطرۃ الإنسان أنہ یُقدّم المشہود علی غیرہ من البیان، وہذا ہو المعیار لذوی العرفان.فانظُرْ مَن أماط عن الإسلام وعثاء ہ، وأعادہ إلی نضرتہ وأزال ضرّاء ہ، وأہلک المفسدین، وأباد المرتدین.ودعا إلی دین اللّٰہ کل فارّ، وأراہم الحق بأنوار، حتی اکتظت المساجد بالراجعین، وأحیا الأرض بعد موتہا بإذن رب العالمین، وأزال حُمّی الناس مع رحضاۂ، ورحض درن البغی مع خیلا ۂ بماء معین.ورحم اللّٰہ الصدّیق، أحیا الإسلام وقتل الزنادیق، وفاض بمعروفہ إلی یوم الدین.وکان بَکّاءً ومن المتبتلین.وکان من عادتہ التضرع والدعاء والاطّراح بین یدی المولٰی والبکاء والتذلّل علی بابہ، والاعتصام بأعتابہ.وکان یجتہد فی الدعاء فی السجدۃ، ویبکی عند التلاوۃ، ولا شک أنہ فخر الإسلام والمرسلین.وکان جوہرہ قریبًا من جوہر خیر البریّۃ، وکان أول المستعدّین لقبول نفحات النبوۃ، وکان أول الذین رأوا حشرا روحانیا مِن حاشرٍ مثیلِ القیامۃ، وبدّلوا الجلابیب المتدنسۃ بالملاحف المطہرۃ، وضاہی الأنبیاء فی أکثر سیر النبیین.ولا نجد فی القرآن ذکر أحد من دون ذکرہ قطعا ویقیناًإلا ظن الظانین، والظن لا یُغنی من الحق شیئا ولا یروی قومًا طالبین.ومن عاداہ فبینہ وبین الحق باب مسدود، لا ینفتح أبدًا إلا بعد رجوعہ إلی سیِّد الصدِّیقین.ولأجل ذلک لا نری فی الشیعۃ رجلا من الأولیاء ، ولا أحدًا من زمر الأتقیاء ، فإنہم علی أعمال غیر مرضیۃ عند اللّٰہ، وإنہم یُعادون الصالحین.
کلام موجز فی فضائل أبی بکر الصّدیق رضی اللّٰہ عنہ وأرضاہ کان رضی اللّٰہ عنہ عارفا تامَّ المعرفۃ، حلیم الخلق رحیم الفطرۃ، وکان یعیش فی زیّ الانکسار والغربۃ، وکان کثیر العفو والشفقۃ والرحمۃ، وکان یُعرف بنور الجبہۃ.وکان شدید التعلق بالمصطفٰی، والتصقت روحہ بروح خیر الوری، وغشیہٗ من النور ما غشّی مقتداہ محبوب المولی، واختفی تحت شعشعان نور الرسول وفیوضہ العظمی.وکان ممتازًا من سائر الناس فی فہم القرآن وفی محبۃ سید الرسل وفخر نوع الإنسان.ولما تجلی لہ النشأۃ الأخرویۃ والأسرار الإلہیۃ، نفَض التعلقات الدنیویۃ، ونبَذ العُلق الجسمانیۃ، وانصبغ بصبغ المحبوب، وترک کل مُراد للواحد المطلوب، وتجردت نفسہ عن کدورات الجسد، وتلونت بلون الحق الأحد، وغابت فی مرضاۃ ربّ العالمین.وإذا تمکن الحبُّ الصادق الإلہی من جمیع عروق نفسہ، وجذر قلبہ وذرات وجودہ، وظہرت أنوارہ فی أفعالہ وأقوالہ وقیامہ وقعودہ، سُمّی صدّیقًا وأُعطی علمًا غضا طریّا وعمیقا، من حضرۃ خیر الواہبین.فکان الصدق لہ ملکۃ مستقرۃ وعادۃ طبعیۃ، وبدئت فیہ آثارہ وأنوارہ فی کل قول وفعل، وحرکۃ وسکون، وحواس وأنفاس، وأُدخل فی المنعمین علیہم من رب السماوات والأرضین.وإنہ کان نُسخۃ إجمالیۃ من کتاب النبوۃ، وکان إمام أرباب الفضل والفتوۃ، ومن بقیۃ طین النبیین.ولا تحسب قولنا ہذا نوعًا من المبالغۃ ولا من قبیل المسامحۃ والتجوز، ولا من فور عین المحبۃ، بل ہو الحقیقۃ التی ظہرت علیَّ من حضرۃ العزۃ.وکان مشربہ رضی اللّٰہ عنہ التوکل علی رب الأرباب، وقلۃ الالتفات إلی
الأسباب، وکان کظلٍ لرسولنا وسیدنا صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی جمیع الآداب، وکانت لہ مناسبۃ أزلیۃ بحضرۃ خیر البریۃ، ولذلک حصل لہ من الفیض فی الساعۃ الواحدۃ ما لم یحصل للآخرین فی الأزمنۃ المتطاولۃ والأقطار المتباعدۃ.واعلم أن الفیوض لا تتوجہ إلی أحد إلا بالمناسبات، وکذلک جرت عادۃ اللّٰہ فی الکائنات، فالذی لم یُعطہ القسّام ذرۃ مناسبۃ بالأولیاء والأصفیاء ، فہذا الحرمان ہو الذی یُعبَّر بالشقوۃ والشقاوۃ عند حضرۃ الکبریاء.والسعید الأتم الأکمل ہو الذی أحاط عادات الحبیب حتی ضاہاہ فی الألفاظ والکلمات والأسالیب.والأشقیاء لا یفہمون ہذا الکمال کالأکمہ الذی لا یرٰی الألوان والأشکال، ولا حظ للشقی إلا من تجلیات العظموت والہیبۃ، فإن فطرتہ لا تری آیات الرحمۃ، ولا تشم ریح الجذبات والمحبۃ، ولا تدری ما المصافاۃ والصلاح، والأنس والانشراح، فإنہا ممتلءۃ بظلمات، فکیف تنزل بہا أنوار برکات؟ بل نفس الشقی تتموج تموُّجَ الریح العاصفۃ، وتشغلہ جذباتہا عن رؤیۃ الحق والحقیقۃ، فلا یجیء کأہل السعادۃ راغبا فی المعرفۃ.وأما الصدّیق فقد خُلق متوجّہا إلی مبدأ الفیضان، ومقبِلا علی رسول الرحمٰن، فلذلک کان أحق الناس بحلول صفات النبوۃ، وأولی بأن یکون خلیفۃ لحضرۃ خیر البریۃ، ویتحد مع متبوعہ ویوافقہ بأتم الوفاق، ویکون لہ مظہرًا فی جمیع الأخلاق والسیر والعادۃ وترک تعلقات الأنفس والآفاق، ولا یطرأ علیہ الانفکاک بالسیوف والأسنۃ، ویکون مستقرا علی تلک الحالۃ ولا یزعجہ شیء من المصائب والتخویفات واللوم واللعنۃ، ویکون الداخل فی جوہر روحہ صدقا وصفاء وثباتا واتقاء ، ولو ارتد العالم کلّہ لا یُبالیہم ولا یتأخر بل یقدم قدمہ کل حین.
ولأجل ذلک قَفَّی اللّٰہ ذِکر الصدّیقین بعد النبیین، وقال.۱ وفی ذلک إشارات إلی الصدّیق وتفضیلہ علی الآخرین، فإن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما سمی أحدًا من الصحابۃ صدّیقًا إلا إیاہ، لیُظہر مقامہ ورَیّاہ، فانظر کالمتدبرین.وفی الآیۃ إشارۃ عظیمۃ إلی مراتب الکمال وأہلہا لقوم سالکین.وإنا إذا تدبرنا ہذہ الآیۃ، وبلّغنا الفکر إلی النہایۃ، فانکشف أن ہذہ الآیۃ أکبر شواہد کمالات الصدّیق، وفیہا سرّ عمیق ینکشف علی کل من یتمایل علی التحقیق.فإن أبا بکر سُمّی صدّیقًا علی لسان الرسول المقبول، والفرقان أَلْحقَ الصدّیقین بالأنبیاء کما لا یخفی علی ذوی العقول، ولا نجد إطلاق ہذا اللقب والخطاب علی أحد من الأصحاب، فثبت فضیلۃ الصدّیق الأمین، فإن اسمہ ذُکر بعد النبیین.فانظر بالإنابۃ وفارِقْ غشاوۃ الاسترابۃ، فإن الأسرار الخفیۃ مطویّۃ فی إشارات القرآن، ومن قرأ القرآن فابتلع کل المعارف، ولو ما أحستہا بحاسۃٍ الوجدانُ.وتنکشف ہذہ الحقائق متجردۃً عن الألبسۃ علی نفوس ذوی العرفان، فإن أہل المعرفۃ یسقطون بحضرۃ العزۃ، فتمسّ روحہم دقائقَ لا تمسّہا أحدٌ من العالمین.فکلماتہم کلمات، ومن دونہا خرافات، ولکنہم یتکلمون بأعلی الإشارۃ حتی یتجاوزون نظر النظّارۃ، فیُکفّرہم کل غبی من عدم فہم العبارۃ.فإنہم قوم منقطعون لا یُشابہہم أحدٌ ولا یُشابہون أحدًا، ولا یعبدون إلا أحدًا، ولا ینظرون إلی المتلاعبین.کفَلہم اللّٰہ کرجل کفَل یتیما، ففوّضہ إلی مرضعۃ حتی صار فطیما، ثم ربّاہ وعلّمہ تعلیما، ثم جعلہ وارث ورثاۂ، ومنَّ علیہ منّا عظیما، فتبارک اللّٰہ خیر المحسنین.
فی فضائل علی رضی اللّٰہ عنہ اللّٰہم والِ مَن والاہ وعادِ مَن عاداہ کان رضی اللّٰہ عنہ تقیًّا نقیًّا و مِن الذین ہم أحب الناس إلی الرحمان، ومِن نخب الجیل وسادات الزمان.أسد اللّٰہ الغالب وفتی اللّٰہ الحنّان، ندیّ الکف طیب الجنان.وکان شجاعا وحیدًا لا یُزایل مرکزہ فی المیدان ولو قابلہ فوج من أہل العدوان.أنفد العمر بعیش أنکد وبلغ النہایۃ فی زہادۃ نوع الإنسان.وکان أول الرجال فی إعطاء النشب وإماطۃ الشجب وتفقُّد الیتامی والمساکین والجیران.وکان یجلّی أنواع بسالۃ فی معارک وکان مظہر العجائب فی ہیجاء السیف والسنان.ومع ذلک کان عذب البیان فصیح اللسان.وکان یُدخل بیانہ فی جذر القلوب ویجلو بہ صدأ الأذہان، ویجلی مطلعہ بنور البرہان.وکان قادرًا علی أنواع الأسلوب، ومن ناضلہ فیہا فاعتذر إلیہ اعتذار المغلوب.وکان کاملا فی کل خیر وفی طرق البلاغۃ والفصاحۃ، ومن أنکر کمالہ فقد سلک مسلک الوقاحۃ.وکان یندب إلی مواساۃ المضطرّ، ویأمر بإطعام القانع والمعترّ، وکان من عباد اللّٰہ المقربین.ومع ذٰلک کان من السابقین فی ارتضاع کأس الفرقان، وأُعطَی لہ فہم عجیب لإدراک دقائق القرآن.وإنی رأیتہ وأنا یقظان لا فی المنام، فأعطانی تفسیر کتاب اللّٰہ العلام، وقال ھذا تفسیری، والآن أُولِیْتَ فَہُنّیتَ بما أُوتِیتَ.فبسطتُ یدی وأخذت التفسیر، وشکرت اللّٰہ المعطی القدیر.ووجدتُہ ذا خَلْقٍ قویم وخُلقٍ صمیم، ومتواضعا منکسرا ومتہلّلا منوّرا.وأقول حلفًا إنہ لاقانی حُبًّا وأُلْفًا، وأُلقی فی روعی أنہ یعرفنی وعقیدتی، ویعلم ما أخالف الشیعۃ فی مسلکی ومشربی، ولکن ما شمخ بأنفہ عُنفًا، وما نأی بجانبہ أنفًا، بل وافانی وصافانی کالمحبین المخلصین، وأظہر المحبۃ کالمصافین الصادقین.وکان معہ الحسین بل الحسنینِ وسید الرسل
خاتم النبیین، وکانت معہم فتاۃ جمیلۃ صالحۃ جلیلۃ مبارکۃ مطہّرۃ معظّمۃ مُوَقرۃ باہرۃ السفور ظاہرۃ النور، ووجدتہا ممتلءۃ من الحزن ولکن کانت کاتمۃ، وأُلقی فی روعی أنہا الزہراء فاطمۃ.فجاء تنی وأنا مضطجع فقعدت ووضعت رأسی علی فخذہا وتلطفت، ورأیتُ أنہا لبعض أحزانی تحزن وتضجر وتتحنن وتقلق کأمّہات عند مصائب البنین.فعُلّمتُ أنی نزلتُ منہا بمنزلۃ الابن فی عُلَق الدّین، وخطر فی قلبی أن حزنہا إشارۃ إلی ما سأری ظلما من القوم وأہل الوطن والمعادین.ثم جائنی الحسنان، وکانا یبدئان المحبۃ کالإخوان، ووافیانی کالمواسین.وکان ہذا کشفًا من کشوف الیقظۃ، وقد مضت علیہ بُرْہۃ من سنین.ولی مناسبۃ لطیفۃ بعلیّ والحسین، ولا یعلم سرّہا إلا ربّ المشرقین والمغربین.وإنی أحبّ علیّا وابناہ، وأعادی من عاداہ، ومع ذٰلک لستُ من الجائرین المتعسفین.وما کان لی أن أعرض عما کشف اللّٰہ علیَّ، وما کنت من المعتدین.وإن لم تقبلوا فلی عملی ولکم عملکم، وسیحکم اللّٰہ بیننا وبینکم، وہو أحکم الحاکمین.الباب الثانی فی المہدی الذی ہو آدم الأُمّۃ وخَاتَم الأئمۃ اعلموا أن اللّٰہ الذی خلق اللیل والنہار، وأبدأ الظلامات والأنوار، قد جرت عادتہ من قدیم الزمان وأوائل الأزمنۃ والأوان، أنہ لا یتوجّہ إلی إصلاح إلا بعد رؤیۃ کمال طلاح، وإذا بلغت الآفۃ مداہا، وانتہت البلیۃ إلی منتہاہا، فتتوجہ العنایۃ الإلٰہیۃ إلی إماطتہا، وإلی خلق شیء یکون سببا لإزالتہا.وأما مثلہ فیوجد فی العالم الجسمانی أمثلۃ واضحۃ ونظائر بینّۃ جلیّۃ للذی اعترتہ شبہۃ أو کان من الغافلین.
فأکبر الأمثلۃ سُنۃ ربانیۃ توجد فی نزول الأمطار والمرابیع التی تنزل لتنضیر الزروع والأشجار، فإن المطر النافع لا ینزل إلّا فی أوقات الاضطرار، ویُعرف وقتہ عند شدۃ الحاجۃ وقرب الأخطار، فإذا الأرض یبست وہمدت، واصفر کل ما أنبتت وأخرجت، ومسّت الضرّاء أہلَہا والمصائب نزلت وسقطت، وظن الناس أنہم أُہلکوا، والدواہی قربت ودنت، وما بقی فی الأضَی قطرۃ ماء ، والغدر نتنت، فیُغاثون الناسُ فی ہذا الوقت ویُحیی اللّٰہ الأرض بعد موتہا، وتری البلدۃ اہتزّت وربَتْ، وتری کل زرع أخرج الشطَأَ وکل الأرض اخضرّت ونضرت، وصار الناس بعد الخطرات آمنین.وہذہ عادۃ مستمرۃ، وسُنۃ قدیمۃ، بل تزید الشدّۃ فی بعض الأوقات وتتجاوز حد المعمولات، وتری بلدۃ قد أمحلتْ ذاتَ العُوَیم، وما بقی من جَہام فضلا عن الغَیم، وما بقی بُلالۃ من الماء ولا عُلالۃ من ذخائر الشتاء ، وما نزلت قطرۃ من قطر مع طول أمد الانتظار، ولاحت آثار قہر القہار، وأحال الخوف صُورَ الناس، وغلب الخیب وظہر طیران الحواس، وصار الریف کأرض لیس فیہا غیر الہباء والغبار، وما بقی ورق من الأشجار، فضلا عن الأثمار، فیضطر الناس أشد الاضطرار، وکادوا أن یہلکوا من آثار الیأس والتبار؛ فتتوجہ إلیہم العنایۃ، ویدرکہم رحم اللّٰہ وتظہر الآیۃ، وتنضر أرضہم من الأمطار، ووجوہہم من کثرۃ الثمار، فیصبحون بفضل اللّٰہ مخصبین.ذلک مثل الذین أتت علیہم أیام الضلال، وحلّت بہم أسباب مضلّۃ حتی زاغوا عن محجّۃ ذی الجلال، فأدرکہم ذاتَ بکرۃ وابلٌ من مُزنِ رحمتہ، وبعث مجدد لإحیاء الدّین، فأخذ الظانّون ظنّ السوء یعتذرون إلی اللّٰہ ربّ العالمین.وآخرون یکذّبونہ ویقولون ما أنزل اللّٰہ من شیء ، وإن أنت إلا من المفترین.فینزل الوابل تترًا حتی لا یُبقی من سوء الظن أثرا، فیرجع الراجعون
إلی الحق متندمین.وأمّا الأشقیاء فما ینتفعون من وابل اللّٰہ شیئا، بل یزیدون بغیا وظلما وعسفا، وکانوا قومًا ظالمین.وما اغترفوا من ماء اللّٰہ وما شربوا، وما اغتسلوا وما توضأوا، وما کانوا أن یسقوا الحرث، وکانوا قوما محرومین، فما رأوا الحق لأنہم کانوا عمین، وإن فی ذٰلک لآیات لقوم مفکّرین.ومثل آخر لمرسل الخلاق وہو لیالی المحاق کما لا یخفی علی الممعِن الرمّاق وعلی المتدبرین.فإنہا لیال داجیۃ الظلم، فاحمۃ اللمم، تأتی بعد اللیالی المنیرۃ کالآفات الکبیرۃ، فإذا بلغ الظلام منتہاہ، وما بقی فی لیل سناہ، فیعشو اللّٰہ أن یزیل الظلام المرکوم، ویبرز النیر المغموم، فیبدأ الہلال ویملأ أمنًا ونورًا اللیلَ المہال، وکذلک جرت سُنّتہ فی أمور الدّین.فیا حسرۃ علی أہل الشقاق، إنہم یحکمون بقرب الہلال عند مجیء لیالی المحاق، ویرقبونہ کالمشتاق، ولکنہم لا ینتظرون فی ظلام الدین ہلالًا ولو بلغ الظلام کمالا.فالحق والحق أقول إنہم قوم حمقی، وما أُعطی لہم من المعقول حظ أدنٰی، وما کانوا مستبصرین.ہذا ما شہدتْ سُنّۃ اللّٰہ الجاریۃ لنوع الإنسان، وثبت أن اللّٰہ یُری مسالک الخلاص بعد أنواع المصائب والذوبان.فلما کان من عادات ذی الجلال والإکرام أنہ لا یترک عبادہ الضعفاء عند القحط العام فی الآلام، ولا یرید أن ینفکّ نظامٌ یتبعہ عطبُ الأجسام، فکیف یرضی بفکّ نظام فیہ موت الأرواح ونار جہنم للدوام؟ ثم إذا نظرنا فی القرآن فوجدناہ مؤیدًا لہذا البیان، وقد قال اللّٰہ تعالی ۱ وإن فی ذلک لبشری لکل من تزکّٰی، وإشارۃ إلٰی أن الناس إذا رأوا فی زمان ضرًّا وضیرًا، فیرون فی آخرَ نفعا وخیرا، ویرون رخاءًً بعد بلاء فی الدین والدنیا.وکذٰلک قال فی آیۃ أُخری لقوم یسترشدون.
۱ فأَمعِنوا فیہ إن کنتم تفکرون.فہذہ إشارۃ إلی بعث مجدد فی زمان مفسد کما یعلمہ العاقلون.ولا معنی لحفاظۃ القرآن من غیر حفاظۃ عطرہ عند شیوع نتن الطغیان، وإثباتہ فی القلوب عند ہبّ صراصر الطغیان، کما لا یخفی علی ذوی العرفان والمتدبرین.وإثبات القرآن فی قلوب أہل الزمان لا یمکن إلا بتوسط رجل مُطہَّر من الأدناس، ومخصوص بتجدید الحواس، ومُنوَّر بنفخ الروح من رب الناس، فہو المہدی الذی یہدی من رب العالمین، ویأخذ العلم من لدنہ ویدعو الناس إلی طعام فیہ نجاۃ المدعوین.وإنما ہو کإناء فیہ أنواع غذاء ، من لبن سائغٍ وشِِواءٍ، أو ہو کنار شتاءٍ، وللمقرور أشہٰی أشیاء ، أو کصحفۃ من الغَربِ فیہا حلواء القند والضرب، فمن جاء ہ أکَل الخبیص، ومن أعرض فأُخذ ولا محیص، وسیلقی السعیر ولو ألقی المعاذیر.فثبت أن وجود المہدیین عماد الدّین، وتنزل أنوارہم عند خروج الشیاطین، وتحیطہم کثیر من الزمر کہالات القمر.ولما کان أغلب أحوال المہدیین أنہم لا یظہرون إلا عند غلبۃ الضالین والمضلین، فسُمّوا بذلک الاسم إشارۃ إلی أن اللّٰہ ذا المجد والکرم طہّرہم من الذین فسقوا وکفروا، وأخرجہم بأیدیہ من الظلمات إلی النور، ومن الباطل إلی الحق الموفور، وجعلہم ورثاء علم النبوۃ وأعطاہم حظا منہ، ودقّق مدارکہم وعلّمہم من لدنہ، وہداہم سبلا ما کان لہم أن یعرفوا، وأراہم طرقا ما کان لہم أن ینظروا لولا أن أراہم اللّٰہ، ولذٰلک سُمّوا مہدیین.وأما المہدی الموعود الذی ہو إمام آخر الزمان، ومنتظَر الظہور عند ہبّ سموم الطغیان، فاعلم أن تحت لفظ المہدی إشارات لطیفۃ إلی زمان الضلالۃ
لنوع الإنسان، وکأنّ اللّٰہ أشار بلفظ المہدی المخصوص بالہدایۃ إلی زمان لا تبقی فیہ أنوار الإیمان، وتسقط القلوب علی الدنیا الدنیّۃ ویترکون سبل الرحمن، وتأتی علی الناس زمان الشرک والفسق والإباحۃ والافتتان، ولا تبقی برکۃ فی سلاسل الإفادات والاستفادات، ویأخذ الناس یتحرکون إلی الارتدادات والجہلات، ویزید مرض الجہل والتعامی، مع شوقہم فی سیر المعامی والموامی، ویُعرضون عن الرشاد والسداد، ویرکنون إلی الفسق والفساد، وتطیر جراد الشقاوۃ علی أشجار نوع الإنسان، فلا تبقی ثمر ولا لدونۃ الأغصان.وتری أن الزمان من الصلاح قد خلا، والإیمان والعمل أجفلا، وطریق الرشد عُلِّق بثریّا السماء.فیذکر اللّٰہ مواعیدہ القدیمۃ عند نزول الضرّاء ، ویری ضعف الدین ظاہرًا من کل الأنحاء ، فیتوجّہ لیُطفئ نار الفتنۃ الصمّاء ، فیخلق رجلا کخلق آدم بیدَی الجلال والجمال، وینفخ فیہ روح الہدایۃ علی وجہ الکمال.فتارۃ یُسمیہ عیسٰی بما خلقہ کخلق ابن مریم لإتمام الحجۃ علی النصاری، وتارۃ یدعوہ باسم مہدی أمین بما ہو ہُدِیَ من ربہ للمسلمین الضالین، وأُخرجَ للمحجوبین منہم لیقودہم إلی رب العالمین.ہذا ہو الحق الذی فیہ تمترون، واللّٰہ یعلم وأنتم لا تعلمون.أحیا عبدًا من عبادہ لیدعو الناس إلی طرق رشادہ، فاقبلوا أو لا تقبلوا، إنہ فعل ما کان فاعلا.أأنتم تضحکون ولا تبکون، وتنظرون ولا تبصرون.أیہا الناس لا تغلوا فی أہوائکم، واتقوا اللّٰہ الذی إلیہ تُرجعون.ما لکم لا تقبلون حکمَ اللّٰہ وکنتم تنتظرون؟ شہدت السماء فلا تبالون، ونطقت الأرض فلا تفکّرون.وقالوا إنا لا نقبل إلا ما قرأنا فی آثارنا ولو کانت آثارہم مبدَّلۃ أو وضعہا الواضعون؟ أیہا الناس انظروا ہٰہنا وہُنا فاترکوا الدَخَن واقبلوا ما بان ودنا، ولا تتبعوا الظنون أیّہا المتقون.قد عدل اللّٰہ بیننا فلا
تعدلوا عن عدلہ، ولا ترکنوا إلی الشقاء أیّہا المسلمون.یا ذراری الصالحین.لا تکونوا فی یدَی إبلیس مرتہَنین، ما لکم لا تتطہرون.واعلموا أن للّٰہ تدلّیات ونفحات، فإذا جاء وقت التدلّی الأعظم فإذا الناس یستیقظون، وکلّ نفس تتنبّہ عند ظہورہ إلا الفاسقون.ولکلّ تَدَلٍّی عنوانٌ وشأنٌ یعرفہ العارفون.وأعظم التدلیات یأتی بعلوم مناسبۃ لأہل الزمان، لیطفئ نائرۃ أہل الطغیان، فینکرہا الذین کانوا عاکفین علی أصنامہم فیسبّون ویکفرون، ولا یعلمون أنہا فایضۃ من السماء ، وأنہا شفاء للذین تَنفّروا من قول المخطئین الجاہلین وکانوا یتردّدون، فینزل اللّٰہ لہم علومًا ومعارف تناسب مفاسد الوقت فہم بہا یطمئنون، کأنہا ثمر غضٌّ طریٌّ وعین جاریۃ، فہم منہ یأکلون ومنہا یشربون.فحاصل البیان أن المہدی الذی ہو مجدد الصلاح عند طوفان الطلاح، ومبلِّغ أحکام ربّ الناس إلی حد الإبساس، سُمّی مہدیًا موعودًا وإماما معہودًا وخلیفۃ اللّٰہ رب العالمین.والسر الکاشف فی ہذا الباب أن اللّٰہ قد وعد فی الکتاب أن فی آخر الأیام تنزل مصائب علی الإسلام، ویخرج قوم مفسدون ۱ فأشار فی قولہ أنہم یملکون کل خصب وجدب، ویحیطون علی کل البلدان والدیار، ویُفسدون فسادًا عاما فی جمیع الأقطار، وفی جمیع قبائل الأخیار والأشرار، ویضلّون الناس بأنواع الحیل وغوائل الزخرفۃ، ویلوّثون عرض الإسلام بأصناف الافتراء والتہمۃ، ویظہر من کل طرف ظلمۃٌ علی ظلمۃ، ویکاد الإسلام أن یزہق بتبعۃ، ویزید الضلال والزور والاحتیال، ویرحل الإیمان وتبقی الدعاوی والدلال، حتی یخفی علی الناس الصراط المستقیم، ویشتبہ علیہم المَہْیَع القدیم.لا ینتہجون محجّۃ الاہتداء ، وتزلّ أقدامہم وتغلب سلسلۃ الأہواء ، ویکون المسلمون کثیر التفرقۃ والعناد، ومنتشرین کانتشار الجراد
لا تبقی معہم أنوار الإیمان وآثار العرفان، بل أکثرہم ینخرطون فی سلک البہائم أو الذیاب أو الثعبان، ویکونون عن الدین غافلین.وکل ذلک یکون من أثر یأجوج ومأجوج، ویشابہ الناس العضو المفلوج کأنہم کانوا میتین.ففی تلک الأیام التی یموج فیہا بحر الموت والضلال، ویسقط الناس علی الدنیا الدنیّۃ ویعرضون عن اللّٰہ ذی الجلال، یخلق اللّٰہ عبدًا کخلقہ آدم من کمال القدرۃ والربوبیۃ، مِن غیر وسائل التعالیم الظاہریۃ، ویُسمّیہ آدم نظرا علی ہذہ النسبۃ، فإن اللّٰہ خلق آدم بیدیہ وعلّمہ الأسماء کلہا، ومنّ منًّا عظیمًا علیہ وجعلہ مہدیا، وجعلہ من المستبصرین.وکذلک سماہ عیسٰی ابن مریم بالتصریح بما کان خلقہ وبعثہ کمثل المسیح، وبما کان سِرّہ کسرّہ المستور، وکانا فی علل الظہور من المتحدین.وتشابہت فتن زمنہما وصور إصلاحہما، وتشابہت قلوب أعداء الدین.فالعلامۃ العظمی لزمان المہدی ظلمۃ عظیمۃ من فتن قوم یأجوج ومأجوج إذا علوا فی الأرض وأکملوا العروج، وکانوا من کل حدب ناسلین.* وفی اسم المہدی إشارات إلی ہذہ الفتن لقوم متفکرین.فإن اسم المہدی یدل علی أن الرجل المسمی بہ أُخرج من قوم ضالین، وأدرکہ ہُدی اللّٰہ ونجاہ من قوم فاسقین.فلا شک أن ہذا الاسم یدل علی مفاسد الزمان بمُجمَلٍ مَطْویٍّ من البیان، ویذکر من زمن الظلمات ووقت الظلامات وأوان نزول الآفات * الحاشیۃ :.ھذہ ھی العلامۃ القطعیۃ لاٰخر الزمان و قرب القیامۃ کما جاء فی مسلم من خیر البریۃ قال قال رسول اللّٰہ صلعم تقوم القیامۃ والروم اکثر من سائر الناس و اراد من الروم النصاریٰ کما ھو مسلّم عند ذوی الادراس والاکیاس والمحدثین.منہ
ویشیر إلی شوائب الدہر ونوائبہ، وغرائب القادر وعجائبہ من تأیید المستضعفین.ویدل بدلالۃ قطعیۃ علی أن المہدی لا یظہر إلا عند ظہور الفتن المبیدۃ والظلمات الشدیدۃ، فإذا کثر الضلال وزاد اللدد والجدال، وعدم العمل الصالح وبقی القیل والقال، فیقتضی ہذا الحال أن یہدی رجلا الربُّ الفعّال، وتتضرع الظلمۃ فی الحضرۃ لینزل نورٌ لتنویر المحجّۃ، فتنزل الملا ئکۃ والروح فی ہذہ اللیلۃ الحالکۃ بإذن رب ذی القدرۃ الکاملۃ، فیُجعَلُ رجل مہدیا ویُلقَی الروح علیہ، ویُنوَّر قلبہ وعینیہ، ویُعطَی لہ السؤدد والمکرمۃ موہبۃ، ویُجعَل لہ التقویٰ حلیۃ، ویُدخَل فی عباد اللّٰہ المنصورین.فإن البغی إذا بلغ إلی انتہاء ، فہذا ہو یومُ حکم وقضاء وفصل وإمضاء ، وعون وإعطاء ، ولو لا دفعُ اللّٰہ الطلاحَ بأہل الصلاح لفسدت الأرض ولسُدّت أبواب الفلاح ولہلک الناس کلہم أجمعین.فلأجل ذلک جرت سُنۃ اللّٰہ أنہ لا یُظہِر لیلۃ لیلاء إلا ویُری بعدہا قمراء ، وإنہ جعل مع کل عسرٍ یُسرا، ومع کل ظلام نورا.ففکر فی ہذا النظام لیظہر علیک حقیقۃ المرام، وإن فی ذٰلک لآیات للمتوسّمین.واعلم أن ظلمۃ ہذا الزمان قد فاقت کل ظلمۃ بأنواع الطغیان، وطلعت علینا آثار مُخوفۃ وفتن مذیبۃ الجَنان، والکفار نسلوا من کل حدب کالسِّرحان ناہبین.فحان أن یُعان المسلمون ویُقوَّی المستضعفون، ویوہَن کید الدجّالین.ألم تمتلأ الأرض ظلاما، وسفہت النفوس أحلاما، ونحَت الناس أصناما، وغلب الکفر وحاق بہ الظفر وقلّ التخفّر، فزخرفوا الزور الکبیر وزیّنوا الدقاریر، وصالوا بکل ما کان عندہم من لطم، وما بقی علی کید من ختم، واتفق کل أہل الطلاح، وصاروا کالماء والراح، وطفق زمر الجہال یتبعون آثار الدجال، ومن یقبل مشرب ہذیانہم یکون خالصۃَ خُلصانہم.وواللّٰہ إن خباثتہم شدیدۃ، وأما حلمہم فمکیدۃ، بل ہو أحبولۃ من
حبائل ختلہم، ورَسَنٌ استمر من فتلہم، وستعرفون دجالیّتہم متلہّفین.وإنہم قوم تفور المکائد من لسانہم وعینیہم وأنفہم وأُذنیہم، ویدیہم وأصدریہم ورجلیہم ومِذروَیہم، وأری کل مضغۃ من أعضاۂم واثبۃ کالماکرین.فسد الزمان وعمّ الفسق والعدوان وتنصرت الدیار والبلدان؛ فاللّٰہ المستعان.والناس یُدلجون فی اللیلۃ اللیلاء ویعرضون عن الشمس والضیاء ، ویضیعون الإیمان للأہواء متعمدین.وأری القسیسین کالذی أکثبَہ قنصٌ، أو بدت لہ فرصٌ، وأجدہم بأنواع حیل قانصین.ومن مکائدہم أنّہم یأسُون جراح الموہوص، ویرِیشون جناح المقصوص، لعلہم یُسخّرون قوما طامعین.یُرغّبون ضُلًّا بنَ ضُلٍّ، ویفرِضون لہ مِن کلِّ کثیرٍ وقُلٍّ، لعلہم یحبسونہ بغُلٍّ، ثم یُسقطونہ فی ہوّۃ الہالکین.یُبادرون إلی جبر الکسیر وفکّ الأسیر ومواساۃ الفقیر، بشرط أن یدخل فی دینہم الذی ہو وقود السعیر، ویرغّبونہم إلی بناتہم وأنواع لذاتہم لیغترّ الخَلق بجہلا تہم ویجعلوہم کأ نفسہم مفسدین.فالناس لا یرجعون إلیہم بأناجیل متلوّۃ، بل بخطبۃ مجلوّۃ أو بمال مجّان کالناہبین.ولا یتنصرون لأعتاب الرؤوف البَرّ، بل یہرولون لاحتلاب الدرّ لکی یکونوا متنعمین.وکذلک أشاعوا الضلالات ومدّوا أطنابہا، وفتحوا من کل جہۃ بابہا، وأعدّوا شہوات الأجوفَینِ ودعوا طُلابہا، فإذا یُسِّرَ لأحد منہم العقد، أو أُعطِیَ لہ النقد، وآمَنوہ مِن عیشٍ أنکَد، فکأَنْ قَدْ.وکذٰلک کانت فخُّ سِیَرہم، وشِباکُ حِیَلہم، ولأجلہا اصطفّ لدیہم زُمر من الکسالٰی، لا یعلمون إلا الأکل والشرب والدلال، ولا یوجد صغوُہم إلا إلی شرب المدام أو إلی الغِید وأطایب الطعام، فیعیشون قریر العین بوصال العِین ووصول العَین.وکذلک
لا یألوا القسیسون جُہدًا فی إضلال العوام، ویُنعمون علی الذین ہم کالأنعام، وینفُضون علیہم أیادیَ الإنعام، ویوطنونہم أمنع مقام من الإکرام، وتراہم مکبّین علی الحطام، کأنہم ہُنَیدۃ مِن راغیۃ، أو ثُلّۃ من ثاغیۃ.فہؤلاء ہم الدجال المعہود، فلیَسْرِ عنک إنکارک المردود.وإن ہذہ الأیام أیام اقتحام الظلام، وأظلال خیام یوم القیام، وإنا اغتمدنا اللیل واقتحمنا السیل مختبطین.وفی منازلنا طرق یضلّ بہا خفیر، ویحار فیہا نحریر، وخوّفَنا یومنا الصعب الشدید، ورأینا ما کنا منہ نحید، ولیس لنا ما یشجّع القلب المزء ود، ویحدو النِضْوَ المجہود إلا ربنا رب العالمین.والناس قد استشرفوا تلفًا وامتلأوا حَزَنًا وأسفًا، ونسوا کل رزء سلَفَ وکل بلاء زلَفَ، ویستنشؤن ریح مُغیث ولا یجدون مِن غیر نتن خبیث، فہل بعد ہذا الشر شر أکبر منہ یُقال لہ الدجال؟ وقد انکشف الآثار وتبینت الأہوال، ورأینا حمارًا یجوبون علیہ البلدان، فیطِسّ بأخفافہ الظرّانَ، ویجعل سَنۃً کشہر عند ذوی العینین، ویجعل شہرا کیوم أو یومین، ویعجب المسافرین.إنہ مرکبٌ جوّاب لا تواہقہ رِکاب، ولا ثنیۃ ولا ناب، والسبل لہ جُدّدت، والأزمنۃ بظہورہ اقتربت، والعِشار عُطّلت، والصحف نُشرت،* والجبال دُکّت، والبحار فُجّرت، والنفوس زُوّجت، وجُعلت الأر ض کأنہا * الحاشیۃ:.اعلم ان القراٰن مملو من الانباء المستقبلۃ والواقعات العظیمۃ الاٰتیۃ ویقتاد الناس الی السکینۃ والیقین.و عشارہ تخور لحمل السالکین فی کل زمان و اعشارہ تفور لتغذیۃ الجائعین فی کل اوان و ھو شجرۃ طیبۃ یوتی اکلہ کل حین.و ذلّلت قطوفہ فی کل وقت للمجتنین.فما من زمن ما لہ من ثمر و لا تعطل شجرتہ کشجرۃ عِنبٍ و تمرٍ بل یُری ثمرا تہ فی کل امر و یطعم مستطعمین.و من اعظم معجزاتہ
مطویّۃ ومزلف طرفیہا، وتُرکت القِلاص فلا یُسعی علیہا.ولیس ہذا محلّ إلباس، بل أرصدہ اللّٰہ لخیر الناس، ولو کان من صنع الدجّالین.فہذہ المراکب جاریۃ مذ مُدّۃ، ولیست سواہا قعدۃ، وفیہا آیات للمتفطنین.فثبت من ہذا البیان أن ہذا ہو وقت ظہور المہدي ومسیح الزمان، فإن الضلالۃ قد عمّت، والأرض فسدت، وأنواع الفتن ظہرت، وکثرت غوائل المفسدین.وکل ما ذُکر فی القرآن من علامات آخر الزمان فقد انہ لا یغادر واقعۃ من الواقعات.التی کانت مفیدۃ للناس او مضرۃ ولکن کانت من المعظمات کما قال عزّ وجلّ ’’ ‘‘ ۱ و فی ھذا اشارۃ من رب علیم الی ان کل ما یفرق فی لیلۃ القدر من امر ذی بال فھو مکتوب فی القراٰن کتاب اللّٰہ ذی کل عظمۃ و جلال فانہ نزل فی لیلۃ القدر بنزول تام فبورک منہ اللیل باذن ربّ علّام فکلما یوجد من العجائب فی ھٰذہ اللیلۃ یوجد من برکات نزول ھٰذہ الصحف المبارکۃ فالقراٰن احقّ و اولٰی بھذہ الصفات فانہ مبدأ اول لھذہ البرکات و ما بورکت اللیلۃ الا بہ من ربّ الکائنات و لاجل ذالک یصف القراٰن نفسہ بأوصاف توجد فی لیلۃ القدر بل اللیلۃ کالھلال وھو کالبدر و ذٰلک مقام الشکر والفخر للمسلمین.و انی نظرت مرارا فوجدت القراٰن بحرا زخّارا و قد عظمہ اللّٰہ انواعا واطوارا فما للمخالفین لا یرجون لہ وقارًا و انکروا عظمتہ انکارا ویتکؤن علی احادیث ما طھر وجھھا حق التطھیر و یترکون الحق الخالص للدقاریر ولا یخافون رب العالمین.واذا قیل لھم تعالوا الٰی کتاب سواء بیننا و بینکم لتخلصوا من الظلام و تفتح اعینکم قالوا کفٰی لنا ما سمعنا من اٰباء نا الاوّلین.اولو کان اٰباء ھم لا یعلمون شیئا من حقایق الدین و انی فکرت حق الفکر فوجدت فیہ کل انواع الذکر و ما من رطب و لا یابس الا فی کتاب مبین.و من انباء ہ انہ
بدت کلہا للناظرین.والذین یرقبون ظہور المہدي من دیار العرب، أو من بلدۃ من بلاد الغرب، فقد أخطأوا خطأ کبیرًا وما کانوا مُصیبین.فإن بلاد العرب بلاد حفظہا اللّٰہ من الشرور والفتن ومفاسد کفار الزمن، ولا یُتوَقَّع ظہور الہادی إلا فی بلاد کثرت فیہا طوفان الضلال، وکذٰلک جرت سُنۃ اللّٰہ ذی الجلال.وإنا نری أن أرض الہند مخصوصۃ بأنواع الفساد، وفُتحت فیہا اخبر عن نشر الصحف فی اٰخر الزمان وکذٰلک ظھر الامر فی ھذا الاوان وقد بدت فی ھٰذا الزمن کتب مفقودۃ بل موؤدۃ حتی ان کثرتھا تعجب الناظرین.وظھرت کل وسایل الاشاعۃ والکتابۃ و لا بد من أن نقبل ھٰذا الأمر من غیر الاسترابۃ و ان کنت فی شک من ھٰذا فات نظیرہ من زمن الاوّلین.و من انباء العلیم القھار انہ اخبر من تعطیل العشار و تفجیر البحار وتزویج الدیار فظھر کما اخبر فتبارک عالم غیوب السمٰوات والارضین.واخبر عن قوم ذوی خصب ینسلون من کل حدب ویعلون علوا کبیرًا.ویفسدون فی الارض فسادًا مبیرا فرئینا تلک القوم باعیننا ورئینا غلوھم وغلبتھم بلغت مشارق الارض و مغاربھا تکاد السمٰوات یتفطرن من مفاسدھم یلبسون الحق بالباطل و کانوا قوما دجّالین.اتخذوا الحلم والاطماع والتحریف المنّاع شبکۃ الاضلال واھلکوا خلقا کثیرا من ھذا التثلیث کالمغتال وکل من یقصد منھم طرق الغول الخبیث فلا بد لہ من ھذا التثلیث فیھلکون بعض الناس بالحلم المبنی علی الاختداع بانواع الاطماع و بعضًا اٰخر بظلام التحریف الذی ھو عدو الشعاع وکذلک یضلون الخلق متعمّدین.وما نفعھم حدیث الاب والابن و رُوح القدس و ان ھو الا الحدیث ولٰکن نفعہم ھٰذا التثلیث ففازوا المطالب بالخبث والرجس فعجبت لھم کیف ایدوا من روح القدس و نسلوا من کل حدب فرحین.ولکل امر اجل فاذا جاء الاجل فلا ینفع الکایدین کیدھم ولا یطیقون قبل الصادقین.منہ
أبواب الارتداد، وکثر فیہا کل فسق وفجور، وظلم وزور، فلا شک أنہا محتاجۃ بأشدّ الحاجۃ إلی نصرۃ اللّٰہ ذی العزۃ والقدرۃ، ومجیءِ مہدیٍّ من حضرۃ العزّۃ.وواللّٰہ لا نری نظیر فساد الہند فی دیار أُخری، ولا فتنًا کفتن ہذہ النصاریٰ.وقد جاء فی الأحادیث الصحیحۃ أن الدجال یخرج من الدیار المشرقیۃ، والقرآن یشیر إلی ذلک بالقرائن البینۃ، فوجب أن نحکم بحسب ہذہ العلامات الثابتۃ البدیہۃ، ولا نتوجہ إلی إنکار المنکرین.والذین یرقبون المہدی فی مکۃ أو المدینۃ فقد وقعوا فی الضلالۃ الصریحۃ.وکیف، واللّٰہُ کفل صیانۃ تلک البقاع المبارکۃ بالفضل الخاص والرحمۃ، ولا یدخل رعب الدجال فیہا، ولا یجد أہلہا ریح ہذہ الفتنۃ.فالبلاد التی یخرج فیہا الدجال أحق وأولی بأن یرحم أہلَہا الربُّ الفعال، ویبعث فیہم من کان نازلا بالأنوار السماویۃ کما خرج الدجال بالقوی الأرضیۃ کالشیاطین.وأما ما قیل أن المہدی مُختفٍ فی الغار فہذا قول لا أصل لہ عند ذوی الأبصار، وہو کمثل قولہم أن عیسٰی لم یمت بل رُفع بجسمہ إلی السماء ، وینزل عند خروج الدجال والفتنۃ الصمّاء ، مع أن القرآن یُخبر عن وفاتہ ببیان صریح مبین.فالحق أن عیسی والإمام محمد أطرحا عنہما جلابیب أبدانہما وتوفاہما ربّہما وألحقَہما بالصّالحین، وما جعل اللّٰہ لعبد خُلدًا، وکل کانوا من الفانین.ولا تعجَب من أخبار ذُکر فیہا قصّۃ حیاۃ المسیح، ولا تلتفت إلی أقوال فیہا ذکر حیاۃ الإمام ولو بالتصریح، وإنہا استعارات وفیہا إشارات للمتوسّمین.والبیان الکاشف لہذہ الأسرار، والکلام الکامل الذی ہو رافع الأستار، أن للّٰہ عادۃ قدیمۃ وسُنّۃ مستمرۃ أنہ قد یُسمّی الموتی الصالحین أحیاء ، لیفہِّم بہ أعداءً أو یبشِّر بہ أصدقاءً ، أو یُکرم بہ بعض عبادہ المتقین، کما قال عزّ وجلّ فی الشہداء لا تحسبوہم أمواتا بل أحیاء ، ففی ہذا إیماء إلی أن الکافرین
کانوا یفرحون بقتل المؤمنین وکانوا یقولون إنّا قتلناہم وإنا من الغالبین.وکذٰلک کان بعض المسلمین محزونین بموت إخوانہم وخلانہم وآباۂم وأبناۂم مع أنہم قُتلوا فی سبیل ربّ العالمین، فسکّت اللّٰہ الکافرین المخذولین بذکر حیاۃ الشہداء ، وبشّر المؤمنین المحزونین أن أقاربہم من الأحیاء وأنہم لم یموتوا ولیسوا بمیتین.وما ذکر فی کتابہ المبین أن الحیاۃ حیاۃ روحانی ولیس کحیاۃ أہل الأرضین، بل أکد الحیاۃ المظنون بقولہ ۱ و ردَّ علی المنکرین.فکیف تعجب من قول لم یمت عیسی، وقد جاء مثل ہذا القول لقوم لحقوا بالموتی وماتوا بالاتفاق، وقُتلوا بالإہریاق، ودُفنوا بالیقین.أما یکفی لک حیاۃ الشہداء بنص کتاب حضرۃ الکبریاء مع صحۃ واقعۃ الموت بغیر التماری والامتراء ، فأیّ فضل وخصوصیۃ لحیاۃ عیسی مع أن القرآن یسمّیہ المتوفَّی، فتدبَّرْ فإنک تُسأل عن کلّ خیانۃ ونفاق فی یوم الدین.یومئذ یتندّم المبطِل علی ما أصرّ، وعلی ما أعرض عنہ وفرّ، ولکن لا ینفع الندم إذ الوقت مضٰی ومرّ، وکذلک تطلع نار اللّٰہ علی أفئدۃ الکاذبین.فویل للمزورین الذین لا ینتہون عن تَزیُّدِہم بل یزیدون کل یوم وکل حین.وکفی لخیانتک أن تتبع بغیر تحقیق کل قول رقیق بلغ آذانک، وما تطہِّر من الجہلات جنانک، وتسقط علی کل خضراء الدِمَن، کأہل الأہواء ومُحبّی الفتن، ولا تفتّش الطیب کالطیبین.وقد علمت أن إطلاق لفظ الأحیاء علی الأموات وإطلاق لفظ الحیاۃ علی الممات ثابت من النصوص القرآنیۃ والمحکمات الفرقانیۃ، کما لا یخفی علی المستطلعین الذین یتلون القرآن متدبّرین، ویصکّون أبوابہ مستفتحین.فینیر علیک مِن ہذہ الحقیقۃ الغرّاء اللیلُ الذی اکفہرَّ علی بعض العلماء
حتی انثنوا مُحْقَوقفین بعدما کانوا مستقیمین.ولعلّک تقول بعد ہذا البیان إنی فہمتُ حقیقۃ الحیاۃ کأہل العرفان، ولکن ما معنی النزول علی وجہ المعقول وعلی نہجٍ یطمئن قلوب الطالبین.فاعلم أنہ لفظ قد کثر استعمالہ فی القرآن، وأشار اللّٰہ الحمید فی مقامات شتّی من الفرقان أن کل حِبْرٍ وسِبْرٍ ینزل من السماء ، وما من شیء إلا ینال کمالَہ من العُلَی بإذن حضرۃ الکبریاء ، وتلتقط الأرض ما تنفض السماوات، ویصبّغ القرائح بتصبیغٍ من الفوق، فتُجعَل نفسٌ سعیدًا أو من الأشقیاء والمبعدین.فالذین سُعدوا أو شقوا یُشابہ بعضہم بعضا، فیزیدون تشابہًا یومًا فیومًا، حتی یُظَنّ أنہم شیء واحد، کذٰلک جرت سُنۃ أحسن الخالقین.وإلیہ یشیر عزّ وجلّ بقولہ ۱ فلیتفکر من أُعطی قوی المتفکرین.وقد یزید علی ہذا التشابہ شیء آخر بإذن اللّٰہ الذی ہو أکبر وأقدر، وہو أنہ قد یفسُد أُمّۃ نبیٍّ غایۃ الفساد، ویفتحون علی أنفسہم أبواب الارتداد، وتقتضی مصالح اللّٰہ وحِکمہ أن لا یعذّبہم ولا یُہلکہم بل یدعو إلی الحق ویرحم وہو أرحم الرّاحمین.فیفتح اللّٰہ عینَ نبیٍّ متوفّی کان أُرسِلَ إلی تلک القوم، فیصرف نظرہ إلیہم کأنہ استیقظ من النوم، ویجد فیہم ظلما وفسادا کبیرًا، وغُلوّا وضلالا مُبیرًا، ویری قلوبہم قد مُلِءَت ظلما وزورًا وفتنا وشرورًا، فیضجَر قلبہ، وتقلق مہجتہ، وتضطرّ روحہ وقریحتہ، ویعشو أن ینزل ویُصلح قومہ ویُفحمہم دلیلا، فلا یجد إلیہ سبیلا، فیُدرکہ تدبیر الحق ویجعلہ من الفائزین.ویخلق اللّٰہ مثیلا لہ یشابہ قلبُہ قلبَہ، وجوہرُہ جوہرَہ، ویُنزِل إراداتِ الممثَّل بہ علی المثیل، فیفرح الممثل بہ بتیسُّر ہذا السبیل، ویحسب نفسہ من النازلین، ویتیقن بتیقن تام
قطعی أنہ نزل بقومہ، وفاز برَوْمہ، فلا یبقی لہ ہمٌّ بعدہ ویکون من المستبشرین.فہذا ہو سرُّ نزول عیسی الذی ہم فیہ یختلفون.وختم اللّٰہ علی قلوبہم فلا یعرفون الأسرارولا یسألون.ومن تجرّدَ عن وسخ التعصبات وصُبِّغَ بأنوار التحقیقات، فلا یبقی لہ شک فی ہذہ النکات، ولا یکون من المرتابین.تلک قوم قد خلوا وذہبوا ورحلوا، فلا یرجعون إلی الدنیا ولا یذوقون موتَین إلا موتتہم الأولٰی، وتجد السُنۃ والکتاب شاہدَین علٰی ہذا البیان، ولکن بشرط التحقیق والإمعان وإمحاض النظر کالمنصفین.وقد جاء فی بعض الآثار من نبی اللّٰہ المختار أنہ قال ’’لو لم یبق من الدنیا إلا یوم لطوّل اللّٰہ ذلک الیوم حتی یبعث فیہ رجلا منی أو مِن أہل بیتی، یواطئ اسمُہ اسمی واسمُ أبیہ اسمَ أبی‘‘.أخرجہ أبو داود الذی کان من أئمۃ المحدثین.فقولہ ’’منی‘‘ و ’’یواطئ اسمہ اسمی‘‘ إشارۃ لطیفۃ إلی بیاننا المذکور، ففکِّرْ کطالب النور ،إن کنتَ ترید أن تنکشف علیک حقیقۃ السر المستور، فلا تمرّ غاضَّ البصر کالظالمین.واعلم أن المراد من مواطأۃ الاسمین مواطأۃ روحانیۃ لا جسمانیۃ فانیۃ، فإن لکل رجل اسم فی حضرۃ الکبریاء ، ولا یموت حتی ینکشف سرّ اسمہ سعیدًا کان أو من الأشقیاء والضالین.وقد یتفق توارُدُ أسماء الظا ہر کما فی ’’أحمد‘‘ و’’أحمد‘‘، ولکن الأمر الذی وجَدْنا أحقّ وأنشد، فہو أن الاتحاد اتحاد روحانی فی حقیقۃ الاسمین، کما لا یخفی علی عارفٍ ذی العینین.وقد کان مِن ہذا القبیل ما أُلہمتُ من الرب الجلیل وکتبتُہ فی کتابی البراہین، وہو أن ربی کلّمنی وخاطبنی وقال یَا أَحْمَدُ یَتِمُّ اسمُکَ، وَلا یَتِمُّ اسْمِی.فہذا ہو الاسم الذی یُعطَی للروحانیین، وإلیہ إشارۃ فی قولہ تعالی.۱ أی علّمہ حقائق الأشیاء کلہا، وجعلہ عالما مجملًا مثیل العالمین.
وأمّا توارد اسم الأبوین کما جاء فی حدیث نبیّ الثقلَین، فاعلم أنہ إشارۃ لطیفۃ إلی تطابُق السرَّین من خاتم النبیین.فإن أبا نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان مستعدّا للأنوار فما اتفق حتی مضی من ہذہ الدار، وکان نورُ نبیّنا موّاجًا فی فطرتہ، ولکن ما ظہر فی صورتہ، واللّٰہ أعلم بسرّ حقیقتہ، وقد مضی کالمستورین.وکذلک تشابہَ أبُ المہدی أبَ الرسول المقبول، ففکِّرْ کذوی العقول، ولا تمش معرضا کالمستعجلین.وأظن أن بعض الأئمۃ من أہل بیت النبوۃ، قد أُلہمَ من حضرۃ العزۃ، أن الإمام محمدًا قد اختفی فی الغار، وسوف یخرج فی آخر الزمان لقتل الکفار، وإعلاءِ کلمۃ الملۃ والدین.فہذا الخیال یُشابہ خیال صعود المسیح إلی السماء ونزولہ عند تموُّج الفتن الصمّاء.والسرّ الذی یکشف الحقیقۃ ویبین الطریقۃ، ہو أن ہذہ الکلمات ومثلہا قد جرت علی ألسنۃ الملہَمین بطریق الاستعارات، فہی مملوّۃ من لطائف الإشارات، فکأنّ القبر الذی ہو بیت الأخیار بعد النقل من ہذا الدار، عُبِّرَ منہ بالغار وعُبِّرَ خروج المثیل المتحد طبعًا وجوہرًا بخروج الإمام من المغارۃ، وہذا کلہ علی سبیل الاستعارۃ.وہذہ المحاورات شائعۃ متعارفۃ فی کلام رب العالمین، ولا یخفی علی العارفین.ألا تعرف کیف أنّب اللّٰہ یہود زمان خاتم النبیین، وخاطبہم وقال بقول صریح مبین.
ہٰذا ما جاء فی القرآن وتقرأونہ فی کتاب اللّٰہ الفرقان، مع أن ظاہر صورۃ ہذا البیان یُخالف أصل الواقعۃ، وہذا أمر لا یختلف فیہ اثنان.فإن اللّٰہ ما فَرَقَ بیہودِ زمانِ نبیِّنا بحرًا من البحار، وما أغرق آل فرعون أمام أعین تلک الأشرار، وما کانوا موجودین عند تلک الأخطار، وما اتخذوا العجل وما کانوا فی ذلک الوقت حاضرین، وما قالوا یا موسی لن نؤمن حتی نری اللّٰہ جہرۃ بل ما کان لہم فی زمان موسی أثرًا * وتذکرۃ، وکانوا معدومین.فکیف أخذتہم الصاعقۃ، وکیف بُعِثوا من بعد الموت وفارقوا الحِمام؟ وکیف ظلل اللّٰہ علیہم الغمام؟ وکیف أکلوا المن والسلوی، ونجّاہم اللّٰہ من البلوی، وما کانوا موجودین، بل وُلدُوا بعد قرون متطاولۃ وأزمنۃ بعیدۃ مبعدۃ، ولا تزر وازرۃ وزر أخرٰی، واللّٰہ لا یأخذ رجلا مکان رجل وہو أعدل العادلین.فالسرّ فیہ أن اللّٰہ أقامہم مقام آباۂم لمناسبۃٍ کانت فی آراۂم، وسماہم بتسمیۃ أسلافہم وجعلہم وُرثاء أوصافہم، وکذلک استمرت سُنۃ رب العالمین.وإن کنت تزعم کالجہلۃ أن المراد من نزول عیسی نزولُ عیسی علیہ السلام فی الحقیقۃ فیعسُر علیک الأمر وتخطئ خطأ کبیرا فی الطریقۃ، فإن تَوفِّی عیسی ثابت بنص القرآن، ومعنی التوفّی قد انکشف من تفسیر نبی الإنس ونبی الجانّ، ولا مجال للتأویل فی ہذا البیان، فالنزول الذی ما فسّرہ خا تم النبیین بمعنی یفید القطع والیقین بل جاء إطلاقہ علی معان مختلفۃ فی القرآن وفی آثار فخر المرسلین، کیف یعارض لفظَ التوفّی الذی قد حصحص معناہ وظہر بقول
النبی وابن العباس أنہ الإماتۃ ولیس ما سواہ؟ وما بقی فی معناہ شک ولا ریب للمؤمنین.وہل یستوی المتشابہات والبینات والمحکمات؟ کلا.لا تستوی أبدا، ولا یتبع المتشابہات إلا الذی فی قلبہ مرض ولیس من المطہّرین.فالتوفّی لفظ محکم قد صرح معناہ وظہر أنہ الإماتۃ لا سواہ، والنزول لفظ متشابہ ما توجّہَ إلی تفسیرہ خاتم الأنبیاء ، بل استعملہ فی المسافرین.ومع ذلک إن کنتَ یصعب علیک ذکرُ مجدّد آخر الزمان باسم عیسی فی أحادیث نبیّ الإنس ونبی الجانّ ویغلب علیک الوہم عند تعمیم المعنی، فاعلم أن اسم عیسی جاء فی بعض الآثار بمعانٍ وسیعۃ عند العلماء الکبار، وکفاک حدیث ذکَرہ البخاری فی صحیحہ مع تشریحہ من العلامۃ الزمخشری وکمال تصریحہ، وہو أن کل بنی آدم یمسّہ الشیطان یوم ولدتْہ أُمُّہ إلا مریم وابنہا عیسٰی.وہذا یُخالف نصَّ القرآنٌ ۱ وآیات أُخری، فقال الزمخشری إن المراد من عیسی وأُمِّہ کلُّ رجل تقیّ کان علی صفتہما وکان من المتقین المتورعین.فانظر کیف سمّی کلَّ تقی عیسی، ثم انظر إلی إعراض المنکرین.وإن قُلتَ أنّ الشہادۃ واحدۃ ولا بدّ أن تزید علیہ شاہدًا أو شاہدۃً، فاسمعْ وما أخال أن تکون من السامعین.اقرأ کتاب ’’التیسیر بشرح الجامع الصغیر‘‘ للشیخ الإمام العامل والمحدث الفقیہ الکامل عبد الرؤوف المناوی رحمہ اللّٰہ تعالی وغفر لہ المساوی وجعلہ من المرحومین.إنہ ذکر ہذا الحدیث فی الکتاب المذکور وقال ما جاء فی الحدیث المزبور من ذکر عیسی وأُمّہ فالمراد ہما ومَن فی معناہما.فانظر بإمعان العینین کیف صرح بتعمیم ہذین الاسمین، فما لک لا تقبل قول المحققین.وقد سمعتَ أن الإمام مالکًا وابن قیّم وابن تیمیّۃ والإمام
البخاری وکثیرًا من أکابر الأئمۃ وفضلاء الأُمّۃ، کانوا مُقرّین بموت عیسٰی ومع ذلک کانوا یؤمنون بنزول عیسی الذی أخبر عنہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، وما أنکر أحدٌ ہذین الأمرین وما تکلم، وکانوا یُفوّضون التفاصیل إلی اللّٰہ ربّ العالمین، وما کانوا فی ہذا مجادلین.ثم خلف من بعدہم خلفٌ وسوادٌ أقلَفُ وفیجٌ أعوجُ وأجوفُ، یجادلون بغیر علم ویفرّقون، ولا یرکنون إلی سِلم ویکفرون عباد اللّٰہ المؤمنین.فحاصل الکلام فی ہذا المقام أن اللّٰہ کان یعلم بعلمہ القدیم أن فی آخر الزمان یُعادی قوم النصاری صراط الدین القویم، ویصدّون عن سبل الرب الکریم، ویخرجون بإفک مبین.ومع ذلک کان یعلم أن فی ہذا الزمان یترک المسلمون نفائس تعلیم الفرقان، ویتبعون زخارف بدعات ما ثبتت من الفرقان، وینبذون أمورًا تُعین الدین وتحبّر حلل المؤمنین.وتسقطون* فی ہوۃ محدثات الأمور وأنواع الأہواء والشرور، ولا یبقی لہم صدق ولا دیانۃ ولا دین، فقدر فضلا ورحمۃ أن یرسِل فی ہذا الزمان رجلًا یُصلح نوعَی أہل الطغیان، ویتم حجۃ اللّٰہ علی المبطلین.فاقتضی تدبیرہ الحق أن یجعل المرسَلَ سَمِیَّ عیسٰی لإصلاح المتنصرین، ویجعلہ سَمِیَّ أحمدَؐ لتربیۃ المسلمین، ویجعلہ حاذیًا حذوَہما وقافیًا خطوَہما، فسماہ بالاسمین المذکورین، وسقاہ من الراحَین، وجعلہ دافِعَ ہمِّ المؤمنین ورافِعَ فتن المسیحیین.فہو عند اللّٰہ عیسٰی من جہۃ، وأحمدُ من جہۃ، فاترُکِ السبل الأخیاف وتجنَّبِ الخلاف والاعتساف، واقبل الحق ولا تکن کالضنین.والنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کما وصفہ بصفات المسیح حتی سماہ عیسی، کذلک وصفہ بصفات ذاتہ الشریف حتی سماہ أحمد ومشابہًا بالمصطفی، فاعلم أن ہذین الاسمین قد حصلا لہ باعتبار توجہ التام إلی الفرقتین، فسماہ أہل السماء عیسٰی باعتبار توجُّہہ
وتألمہ کمُواسی الأساری إلی إصلاح فرق النصاری، وسمَّوہ بأحمد باعتبار توجّہہ إلی أُمّۃ النبی توجّہًا أشد وأزید، وتألّمِہ من سوء اختلافہم وعیشہم أنکد.فاعلم أن عیسٰی الموعود أحمد، وأن أحمد الموعود عیسٰی، فلا تنبذ وراء ظہرک ہذا السرّ الأجلی.ألا تنظر إلی المفاسد الداخلیۃ وما نالنا من الأقوام النصرانیۃ؟ ألست تریٰ أن قومنا قد أفسدوا طرق الصلاح والدین، واتبعوا أکثرہم سبل الشیاطین، حتی صار علمہم کنار الحُباحِب، وحِبرہم کسراب السُباسِب، وصار تطبُّعُ الشرِّ طِباعًا، والتکلّفُ لہ ہوًی طباعًا، وأکبّوا علی الدنیا متشاجرین؟ یأبر بعضہم بعضا کالعقارب ولو کان المظلوم من الأقارب، وما بقی فیہم صدق الحدیث وإمحاض المصافات، وبدلّوا الحسنات بالسیئات.اشتغلوا فی تطلُّب مثالب الإخوان ونسوا إصلاح ذات البین وحقوق أہل الإیمان، وصالوا علی الإخوۃ کصول أہل العدوان.أدحضوا المودّات وأزالوا خلوص النیّات، وأشاعوا فیہم الفسق والعدوان، واتبعوا العثرات والبہتان.زالت نفحات المحبۃ کل الزوال، وہبّت ریاح النفاق والجدال.ما بقی سعۃ الصدر وصفاء الجنان، ودخلت کدوراتٌ فی الإیمان، وتجاوزوا حدود التورع والتقاۃ ، وتناسوا حقوق الإخوان والمؤمنین والمؤمنات.لا یتحامَون العقوق ولا یؤدّون الحقوق، وأکثرہم لا یعلمون إلا الفسق والنہات، وتغیَّرَ الزمان فلا ورع ولا تقویٰ ولا صوم ولا صلاۃ.قدّموا الدنیا علی الآخرۃ، وقدّموا شہوات النفس علی حضرۃ العزۃ، وأراہم لدنیاہم کالمصاب، ولا یبالون طرق الآخرۃ ولا یقصدون طریق الصواب.ذہب الوفاء وفقد الحیاء ، ولا یعلمون ما الاتقاء.أری وجوہًا تلمع فیہم أسرّۃ الغَدر، یحبّون اللیل* اللیلاء ویبزُقون علی البدر.یقرأون القرآن، ویترکون
الرحمان.لا یری منہم جارُہم إلا الجَور، ولا شریکُ حدبہم إلا الغَور، یأکلون الضعفاء ویطلبون الکَور.کثُر الکاذبون والنمّامون، والواشون والمغتابون، والظالمون المغتالون، والزانون الفاجرون، والشاربون المذنبون، والخائنون الغدّارون، والمایلون المرتشون.قست القلوب والسجایا، لا یخافون اللّٰہ ولا یذکرون المنایا.یأکلون کما یأکل الأنعام، ولا یعلمون ما الإسلام.وغمرتہم شہوات الدنیا، فلہا یتحرکون ولہا یسکنون، وفیہا ینامون وفیہا یستیقظون.وأہل الثراء منہم غریقون فی النعم ویأکلون کالنَّعم، وأہل البلاء یبکون لفقد النعیم أو من ضغطۃ الغریم، فنشکوا إلی اللّٰہ الکریم، ولا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ النصیر المعین.وأما مفاسد النصاری فلا تُعدّ ولا تُحصی، وقد ذکرنا شطرا منہا فی أوراقنا الأولٰی.فلما رأی اللّٰہ سبحانہ أن المفاسد فارت من الخارج والداخل فی ہذا الزمان، اقتضت حکمتہ ورحمتہ أن یُصلح ہذہ المفاسد برجُل لہ قَدمان قدمٌ علی قدم عیسی، وقدم علی قدم أحمدن المصطفٰی.وکان ہذا الرجل فانیا فی القدمین حتی سُمّی بالاسمین.فخذوا ہذہ المعرفۃ الدقیقۃ، ولا تخالفوا الطریقۃ، ولا تکونوا أول المنکرین.وإن ہذا ہو الحق وربِّ الکعبۃ، وباطل ما یزعم أہل التشیع والسُنۃ.فلا تعجلوا علیّ، واطلبوا الہدی من حضرۃ العزۃ، وأْتونی طالبین.فإن تُعرضوا ولا تقبلوا، فتعالوا ندع أبناء نا وأبناء کم، ونساء نا ونساء کم، ثم نبتہل فنجعل لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین.وہذا ہو الحق الذی کشف اللّٰہ علیّ بفضلہ العظیم وفیضہ القدیم.وقد تُوفّی عیسی، واللّٰہ یعلم أنہ المتوفَّی.وتُوفِّی إمامکم محمدن الذی ترقبونہ، وقائمُ الوقتِ الذی تنتظرونہ.وأُلہمتُ من ربی أنی أنا المسیح الموعود وأحمدن المسعود.أتعجبون ولا تفکّرون فی سُنن اللّٰہ، وتنکرون ولا تخافون؟ وحصحص الحق وأنتم تعرضون
و جاء الوقت وأنتم تبعدون.ومن سُنن اللّٰہ القدیم المستمرۃ الموجودۃ إلی ہذا الزمان التی لم تنکرہا* أحد من الجہلاء وذوی العرفان، أنہ قد یذکر شیءًا أو رجُلا فی أنباۂ المستقبلۃ، ویرید منہ شیءًا آخر أو رجُلا آخر فی الإرادۃ الأزلیۃ.وربما نری فی منام أن رجلا جاء من مقام فلا یجیء مَن رأیناہ بل یجیء مَن ضاہاہ فی بعض الصفات أو شابہَہ فی الحسنات أو السیئات.وأقص علیک قصۃً عجیبۃً وحکایۃً غریبۃً إن لی کان ابنا صغیرًا وکان اسمہ بشیرًا، فتوفاہ اللّٰہ فی أیام الرضاع، واللّٰہ خیر وأبقی للذین آثروا سبل التقوی والارتیاع.فأُلہمتُ من ربی إنا نردّہ إلیک تفضلًا علیک.وکذلک رأت أُمُّہ فی رؤیاہا أن البشیر قد جاء ، وقال إنی أعانقک أشد المعانقۃ ولا أفارق بالسرعۃ.فأعطانی اللّٰہ بعدہ ابنا آخر وہو خیر المعطین.فعلمتُ أنہ ہو البشیر وقد صدق الخبیر، فسمّیتہ باسمہ، وأری حُلْیۃ الأول فی جسمہ.فثبتت عادۃ اللّٰہ برأی العَین، أنہ قد یجعل شریکَ اسمٍ رجلَین.وأما جعلُ البعض سَمِیَّ بعضٍ فہی أسرار لتکمیل غرض لا یعلمہا إلا مُہجۃ العارفین.ولی صدیقٌ أحبُّ الأصدقاء وأصدق الأحبّاء ، الفاضل العلامۃ والنحریر الفہّامۃ، عالمُ رموز الکتاب المبین، عارفُ علوم الحِکم والدّین، واسمہ کصفاتہ المولوی الحکیم نور الدین.فاتفق فی ہذہ الأیام من قضاء اللّٰہ الحکیم العلام أن ابنہ الصغیر الأحد، الذی کان اسمہ محمد أحمد، مات بمرض الحصبۃ، فصبر ووافق ربَّہ ذا الحکمۃ والقدرۃ والرحمۃ، فرآہ رجل فی لیلۃ وفاتہ بعد مماتہ کأنہ یقول لا تحزنوا لہذہ الفرقۃ، فإنی أذہب لبعض الضرورۃ، وسأرجع إلیکم بقدم السرعۃ.وہذا یدل علی أنہ سیُعطی ابنا آخر، فیُضاہی الثانی الغابرَ.واللّٰہ قادر علی کل شیء ، ولکن أکثر الناس
لا یعلمون شؤون أحسن الخالقین.وکذٰلک فی ہذا الباب قصص کثیرۃ وشہادات کبیرۃ وقد ترکناہا خوفا من طول الکلام، وکثیرۃ منہا مکتوبۃ فی کتب تعبیر المنام، فارجع إلیہا إن کنتَ من الشاکّین.وکیف تشکّ وإن الأخبار تواترت فی ہذا الباب؟ ولعلک تکون أیضًا من المشاہدین لہذا العجاب.فما ظنک.أتعتقد أن رجلًا متوفّی إذا رآہ أحد فی المنام، أو أخبر عنہ فی الإلہام، وقال المتوفی إنی سأرجع إلی الدنیا وأُلاقی القربی، فہل ہو راجع علی وجہ الحقیقۃ.أو لہذا القول تأویل عند أہل الطریقۃ؟ فإن کنتم مؤوِّلین فی ہذا المقام، فما لکم لا تؤوّلون فی أنباء تُشابہہا بالوجہ التام؟ أتُفرّقون بین سُنن اللّٰہ یا معشر الغافلین؟ فتدبّرْ وما أخال أن تتدبّر إلا أن یشاء ربی ہادی الضالین.وقد عرفت أن علامات ظہور المسیح الذی ہو المہدی قد ظہرت، والفتن کثرت وعمّت، والمفاسد غلبت وہاجت وماجت، ویسبّون خیر البشر فی السکک والأسواق، وماتت الملۃ والتفّت الساق بالساق، وجاء وقت الفراق، فارحموا الدّین المُہان، فإنہ یرحل الآن.ونشدتکم اللّٰہ.ألا ترون ہذہ المفاسد بالعین؟ ألا یُترک عینُ زلالِ الإیمان للعَین؟ اشہدوا للّٰہ اشہدوا.أحقٌّ ہذا أو من المَین؟ وما زاوَلْنا أشدَّ مِن کید النصاری، وإنا فی أیدیہم کالأساری.إذا أرادوا التلبیس، فیُخجلون إبلیس.ظہر البأس، وحصحص الیأس.وقست قلوب الناس، واتبعوا وساوس الوسواس.وبعدوا عن التقوی، وخوف اللّٰہ الأعلٰی، بل عادَوا ہذا النمط، وضاہَوا السقط.وقلتُ قلیلا مما رأیتُ وما استقصیت.وواللّٰہ إن المصائب بلغت منتہاہا، وما بقی من الملۃ إلا رسمہا ودعواہا، وأحاطت الظلمات وعدم سناہا، ووطِئ زروعَنا الأوابد، فما بقی ماؤہا ومرعاہا، وکاد الناس أن یہلکوا من سیل الفتن
وطغواہا، فأُعطیتُ سفینۃً من ربی، وبسم اللّٰہ مجریہا ومرساہا.وتفصیل ذلک أن اللّٰہ وجد فی ہذا الزمان ضلالات النصاریٰ مع أنواع الطغیان، ورأی أنہم ضلّوا وأضلّوا خلقا کثیرا، وعلَوا عُلوًّا کبیرا، وأکثروا الفساد، وأشاعوا الارتداد، وصالوا علی الشریعۃ الغرّاء ، وفتحوا أبواب المعاصی والأہواء ، ففارت غیرۃ اللّٰہ ذی الکبریاء عند ہذہ الفتنۃ الصمّاء.ومع ذلک کانت فتنۃ داخلیۃ فی المسلمین، ومزّقوا باختلافاتٍ دینَ سید المرسلین، وصال بعضہم علی البعض کالمفسدین.فاختارنی اللّٰہ لرفع اختلافہم، وجعلنی حَکَما قاضیا لإنصافہم.فأنا الإمام الآتی علی قدم المصطفٰی للمؤمنین، وأنا المسیح متمم الحجۃ علی النصاری والمتنصرین.وجمع اللّٰہ فی وجودی الاسمَین کما اجتمعت فی زمانی نار الفتنتَین، وہذا ہو الحق وبالذی خلَق الکونَین.فجئتُ لأشیع أنوار برکاتہ، واختارنی ربی لمیقاتہ.وما کنتُ أن أردّ فضل اللّٰہ الکریم، وما کان لی أن أخالف مرضاۃ الرب الرحیم.وما أنا إلا کالمیت فی یدَی الغسّال، وأُقلَّبُ کلَّ طرفۃ بتقلیب الفعّال، وجئتُ عند کثرۃ بدعات المسلمین ومفاسد المسیحیین.وإن کنتَ فی شک فانظر بإمعان النظر کالمحقق الأریب، فی فتنِ بدعاتِ قومنا وجہلاتِ عبَدۃ الصلیب.أما تری فتنًا متوالیۃ؟ أسمعتَ نظیرہا فی قرون خالیۃ؟ فما لک لا تفکّر کالعاقلین، ولا تنظر کالمنصفین؟ وإن اللّٰہ یبعث علی کل رأس ماءۃ مجدّدَ الدّین، وکذلک جرت سُنۃ اللّٰہ المعین.أتظن أنہ ما أرسل عند ہذا الطوفان رجلا من ذوی العرفان، ولا تخاف اللّٰہ آخِذَ المجرمین؟ قد انقضت علی رأس الماءۃ إحدی عشر سنۃ فما نظرتَ، وانکسفت الشمس والقمر فما فکّرتَ، وظہرت الآیات فما تذکّرت، وتبینت الأمارات فما وقّرت، أأنت تنام أو کنتَ من المعرضین؟ أتقول لِمَ ما فعل الفعّال کما
کنتُ أخال؟ وکذلک زعم الذین خلوا من قبلک من الیہود، وما آمنوا بخیر الرسل وحبیب رب* المعبود، وقالوا ! یخرج منا خاتم الأنبیاء الموعود، وکذلک کان وعد ربنا بداوٗد، وقالوا إن عیسی لا یأتی إلا بعد نزول إیلیا من السماء.فکفروا بمحمد خیر الرسل وعیسی الذی کان من الأنبیاء ، وختم اللّٰہ علی قلوبہم فما فہموا الحقیقۃ، وما کانوا متدبّرین.وقست قلوبہم ونحتوا الدقاریر، حتی صاروا قردۃ وخنازیر، وکذلک یکون مآل تکذیب الصادقین.وإنہم کانوا علماء أحزابہم وأئمۃ کلابہم، وکانوا فقہاء ومحدثین وفضلاء ومفسّرین، وکان أکثرہم من الراہبین.فلما زاغوا أزاغ اللّٰہ قلوبہم، وما نفعہم علمُہم ولا نُخْرُوبُہم، وکانوا قوما فاسقین.فلا تُفرِطوا بجنب اللّٰہ ولیکن فیکم رفق وحلم، ولا تقْفُوا ما لیس لکم بہ علم، ولا تغلُوا ولا تعتدوا، ولا تعثوا فی الأرض ولا تفسدوا، واخشوا اللّٰہ إن کنتم متقین.قد سمعتم سُنّۃ تسمیۃ البعض بأسماء البعض، فلا تترکوا السُنن الثابتۃ من اللّٰہ القدیر، لأوہام لیس لہا عندکم من برہان ونظیر، وإن کنتم تُصرّون علیہا ولا تُعرضون عنہا فأنبؤنا بنظائر علی تلک السُنۃ إن کنتم صادقین.ولن تقدروا أن تأتوا بنظیر، فلا تبرزوا لحرب الرب القدیر، ولا تردّوا النعمۃ بعد نزولہا، ولا تدُعّوا الفضل بعد حلولہا، ولا تکونوا أوّل المعرضین.وإن کنتم فی شک من أمری، ولا تنظرون نور قمری، وتزعمون أن المہدی الموعود والإمام المسعود یخرج من بنی فاطمۃ لإطفاء فتن حاطمۃ، ولا یکون من قوم آخرین، فاعلموا أن ہذا وہم لا أصل لہ، وسہم لا نصل لہ، وقد اختلف القوم فیہ، کما لا یخفی علی عارفیہ، وعلی کمل المحدثین.وجاء فی بعض الروایات أن المہدی صاحب الآیات مِن وُلْدِ العبّاس، وجاء فی البعض أنّہ منّا أی مِن خیر الناس، وفی البعض أنہ من وُلْد
الحسن أو الحسین ، فالاختلاف لا یخفی علی ذوی العینین.وقد قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إن سلمان منا أہل البیت، مع أنہ ما کان من أہل البیت، بل کان من الفارسیّین.ثم اعلم أن أمر النسب والأقوام أمر لا یعلم حقیقتہ إلا علمُ العلام، والرؤیا التی کتبتُہا فی ذکر الزہراء تدل علی کمال تعلُّقی، واللّٰہُ أعلم بحقیقۃ الأشیاء.وفی کتاب ’’التیسیر‘‘ عن أبی ہریرۃ مَن أسلم من أہل فارس فہو قرشی.وأنا من الفارس کما أنبأنی ربی، فتفکر فی ہذا ولا تعجل کالمتعصبین.ثم الأصول المحکم والأصل الأعظم أن یُنظَر إلی العلامات ویُقدَّمَ البینات علی الظنیات، فإن کنت ترجع إلی ہذہ الأصول فعلیک أن تتدبّر بالنہج المعقول لیہدیک اللّٰہ إلی حق مبین، وہو أن النصوص القرآنیۃ والحدیثیۃ قد اتفقت علی أن اللّٰہ ذا القدرۃ قسّم زمان ہذہ الأمۃ بحکمۃ منہ ورحمۃ علی ثلاثۃ أزمنۃ، وسلّمہ العلماء کلہم من غیر مِرْیۃ.فالزمان الأوّل ہو زمانٌ أوّلُ من القرون الثلاثۃ مِن بُدُوِّ زمان خیر البریۃ، والزمان الثانی زمانُ حدوث البدعات إلی وقت کثرۃ شیوع المحدثات، والزمان الثالث ہو الذی شابہَ زمانَ خیر البریۃ، ورجَع إلی منہاج النبوۃ، وتطہَّرَ مِن بدعات ردیّۃ وروایات فاسدۃ، وضاہَی زمانَ خاتم النبیین، وسماہ آخرَ الزمان نبیُّ الثقلین، لأنہ آخِر من الزمانَین.وحمِد اللّٰہ تعالی العباد ’’الآخِرین‘‘ کما حمِد الأوّلین، وقالَ.۱ ولکلّ ثلّۃٍ إمام، ولیس فیہ کلام.فہذہ إشارۃ إلی خاتم الأئمۃ، وہو المہدی الموعود اللاحق بالصحابۃ، کما قال عزّ و جلّ ۲ وسئل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن حقیقۃ الآخرین فوضع یدہ علی کتف
سلمان کالموالین المحبین، وقال ’’لو کان الإیمان مُعلَّقًا بالثریّا أی ذاہبًا من الدنیا لنالہ رجل من فارس‘‘.وہذہ إشارۃ لطیفۃ من خیر البریّۃ إلی آخر الأئمّۃ، وإشارۃ إلی أن الإمام الذی یخرج فی آخر الزمان ویردّ إلی الأرض أنوار الإیمان یکون مِن أبناء فارس بحکم اللّٰہ الرحمٰن.فتفکّر وتدبّر، وہذا حدیث لا یبلغ مقامَہ حدیث آخر، وقد ذکرہ البخاری فی الصحیح بکمال التصریح.وإذا ثبت أن الإمام الآتی فی آخر الزمان ہو الفارسی لا غیرہ من نوع الإنسان، فما بقی لرجل آخر موضع قدم، وہذا من اللّٰہ ملیکِ وجودٍ وعدم، فلا تحاربوا اللّٰہ ولا تجادلوا کالمعتدین، وآخر دعوانا أنِ الحمد للّٰہ رب العالمین.القصیدۃ فی مدح أبی بکر الصدّیق وعمر الفاروق وغیرہما من الصّحابۃ رضی اللّٰہ عنہم أجمعین.رُوَیدَک لا تَہْجُ الصحابۃَ واحْذَرِ ولا تَقْفُ کلَّ مزوِّرٍ وتَبَصَّرِ ولا تتخیَّرْ سبلَ غیٍّ وشقوۃٍ ولا تلعَنَنْ قومًا أناروا کَنیِّرِ أولئک أہلُ اللّٰہ فَاخْشَ فِناءَ ہم ولا تقدَحَنْ فی عِرضہم بتہوُّرِ أولئک حزب اللّٰہ حُفَّاظُ دینہِ وإیذاؤہم إیذاءُ مولًی مُؤثِّرِ تَصدَّوا لدین اللّٰہ صدقًا وطاعۃً لکلّ عذابٍ محرِق أو مدمِّرِ و طہَّر وادی العشق بحر قلوبہم فما الزبدُ والغُثاء بعدَ التطہُّرِ وجاء وا نبیَّ اللّٰہ صدقا فنوّروا ولم یبقَ أثرٌ مِن ظلامٍِِِِِِِ مُکدِّرِ بأ جنحۃ الأشواق طاروا إطاعۃً وصاروا جوارحَ للنبیّ الموقَّرِ
ونحن وأنتم فی البساتین نرتَعُ وہم حضروا میدانَ قتلٍ کمَحشَرِ وترکوا ہوی الأوطان للّٰہ خالصًا وجاء وا الرّسولَ کعاشق متخَیِّرِ علی الضعف صوّالون مِن قوۃ الہدیٰ علی الجُرح سلّالون سیفَ التّشذُّرِ أتُکفر خلفاءَ النبیّ تجاسرًا أتلعَنُ مَن ہو مثلُ بدر منوَّرِ وإن کنتَ قد ساء تْک أمرُ خلافۃٍ فحارِبْ مَلِیکًا اجتباہم کمُشتری فبإذنہ قد وَقَعَ ما کان وَاقعًا فلا تَبْکِ بعد ظہور قَدَرٍ مقدَّرِ وما استخلفَ اللّٰہُ العلیمُ کذاہلٍ وما کان ربُّ الکائناتِ کمُہْتَرِ وقُضِیتْ أمورُ خلافۃ موعودۃٍ وفی ذاک آیاتٌ لقلبٍ مفکِّرِ وإنی أری الصدّیقَ کالشمس فی الضحی مآثرُہ مقبولۃٌ عندَ ہُوجرِ وکان لذات المصطفٰی مثلَ ظلِّہِ ومہما أشار المصطفی قام کالجَرِی وأَعطی لنصر الدّین أموالَ بیتہِ جمیعًا سِوی الشیء الحقیر المحقَّرِ ولمَّا دعاہ نبیُّنا لرفاقۃٍ علی الموت أقبلَ شائقا غیرَ مُدبِرِ ولیس محلَّ الطعن حسنُ صفاتہِ وإن کنتَ قد أزمعتَ جَورًا فعَیِّرِ أبادَ ہوی الدنیا لإحیاء دینہٖ وجاء رسولَ اللّٰہ مِن کلّ مَعبَرِ علیک بصُحف اللّٰہ یا طالبَ الہدی لتنظُر اوصاف العتیق المطہَّرِ وما إِنْ أری واللّٰہِ فی الصحب کلّہمْ کمثل ابی بکر بقلب معطَّرِ تخیّرَہ الأصحاب طوعًا لفضلہِ وللبحر سلطانٌ علی کلّ جعفرِ ویثنی علی الصدّیق ربٌّ مہیمنٌ فما أنت یا مسکین إن کنتَ تزدری لہ باقیات صالحات کشارقٍ لہ عینُ آیاتٍ لہذا التطہُّرِ تَصدَّی لنصر الدین فی وقت عسرہِ تَبدَّی بغارٍ بالرسول المؤزَّرِ مَکینٌ امین زاہد عند ربّہِ مخلِّصُ دینِ الحقّ مِن کلِّ مُہجِرِ
ومِن فتن یُخشی علی الدین شرُّہا ومِن محنٍ کانت کصخرٍ مکسِّرِ ولو کان ہذا الرجل رجلًا منافقًا فمَن للنبیّ المصطفٰی مِن معزِّرِ أتحسب صدّیقَ المہیمنِ کافرًا لقولِ غریقٍ فی الضلالۃ أَکْفَرِ وکان کقلب الأنبیاء جَنانُہُ وہمّتُہُ صوّالۃ کالغضنفرِ أریٰ نورَ وجہ اللّٰہ فی عاداتہِ وجلواتِہ کأنہ قِطعُ نَیِّرِ وإنّ لہ فی حضرۃ القدس درجۃً فویلٌ لألسنۃٍ حِدادٍ کخنجرِ وخدماتُہ مثلُ البدور منیرۃٌ وثمراتہ مثل الجنا المستکثَرِ وجاء لتنضیر الریاض مبشّرًا فلِلّہِ دَرُّ منضِّرٍ ومبشِّرِ* وشابَہَہُ الفاروق فی کل خطّۃٍ وساسَ البرایا کالملیک المدبّرِ سعٰی سَعْیَ إخلاص فظہرتْ عزّۃ وشأنٌ عظیم للخلافۃ فانظُرِ وصبّغ وجہَ الأرض مِن قتلِ کفرۃ فیا عجبًا مِن عزمہ المتشمِّرِ وصار ذُکاءً کوکبٌ فی وقتہِ فواہًا لہ ولوقتہ المتطہِّرِ وبارَی ملوکَ الکفر فی کل معرَکٍ وأہلکَ کلَّ مبارزٍ متکبّرِ أری آیۃ عظمٰی بأیدٍ قویۃٍ فواہًا لہذا العبقریّ المظفّرِ إمامُ أناسٍ فی بِجادٍ مرقَّعٍ ملیکُ دیار فی کساء مغبَّرِ وأُعطیَ أنوارًا فصارَ محدَّثًا وکلَّمہ الرحمن کالمتخیّرِ مآثرہ مملوّۃ فی دفاترٍ فضائلہ أجلی کبدرٍ أنورِ فواہًا لہ ولسعیہ ولجہدہِ وکان لدین محمدٍؐ خیرَ مِغفَرِ وفی وقتہ أفراسُ خیلِ محمّدٍؐ أثرنَ غبارًا فی بلاد التنصّرِ وکسَّر کسری عسکرُ الدین شوکۃً فلم یبق منہم غیرُ صُور التَّصوّرِ وکان بشوکتہ سلیمانَ وقتہِ وجُعلتْ لہ جِنُّ العِدا کالمسخَّرِ
رأیتُ جلالۃ شأنہ فذکرتُہُ وما أمدحُ المخلوق إلّا لجوہرِ وما إنْ أخاف الخَلقَ عند نصاحۃ وإن المرارۃ یلزَمَنْ قولَ مُنذِرِ فلما أجازت حُلَلُ قولی لُدونۃً وغارت دقائقُہ کبئرٍ مقعَّرِ فأفتوا جمیعا أنّ کُفرک ثابتٌ وقتلک عملٌ صالح لِلمکفِّرِ لقد زیّنَ الشیطانُ أوہامَہم لہم فترکوا الصلاحَ لأجل غیٍّ مُدْخِرِ وقد مسخَ القہّارُ صورَ قلوبہم وفقدوا من الأہواء قلبَ التدبُّرِ وما بقیتْ فی طینہم ریحُ عِفّۃٍ فذَرْہم یسبّوا کلَ بَرٍّ موقَّرِ وقد کُفِّرَتْ قبلی صحابۃُ سیّدی وقد جاء ک الأخبارُ من کل مُخْبِرِ یُسِرّون إیذائی لجبن قلوبہم وما إنْ أری فیہم خصیمًا ینبری یفرّون منی کالثعالب خشیۃً یخافون أسیافی ورمحی وخنجری ومنہم حِراصٌ للنضال عداوۃً غلاظٌ شدادٌ لو یطیقون عسکری قد استترتْ أنوارُہم من تعصّبٍ وإنی أراہم کالدَّمال المعَفَّرِ فأعرضْنا عنہم وعن أرجاۂم کأنّا دفنّاہم بقبرٍ مقَعَّرِ وواللّٰہ إنا لا نخاف شرورَہم نقلنا وَضِیئتَنا إلی بیتِ أقدرِ وما إن أخاف الخَلق فی حکم خالقی وقد خَوَّفوا واللّٰہُ کہفی ومَأْزَرِی وإن المہیمن یعلَمَنْ کلّ مُضْمَری فدَعْنی وربی یا خصیمی ومُکْفِری ولو کنتُ مفتریا کذوبا لضَرَّنی عداوۃُ قومٍ جرَّدوا کلّ خنجرِ بوجہ المہیمن لستُ رجلا کافرا وإن المہیمن یعلَمَنْ کلّ مُضْمَری ولستُ بکذّاب وربّی شاہدٌ و یعلمُ ربّی کلَّ ما فی تصوُّری وأُعطِیتُ أسرارًا فلا یعرفونہا وللناس آراءٌ بقدْرِ التبصُّر فسبحانَ ربِّ العرش عمّا تقوَّلوا علیہ بأقوال الضلال کمُفتَری
وما أنا إلا مسلمٌ تابعُ الہدیٰ فیا صاحِ لا تَعجَلْ ہوًی وتَدَبَّرِ ولکنْ علومی قد بدا لُبُّ لُبِّہا لِما رَدِفَتْہا ظُفْرُ کَشْفٍ مقَشِّرِ لقد ضلّ سعْیًا مَن أتانی مخالفًا وربی معی واللّٰہُ حِبِّی ومُوثِری ویعلو أولو الطغوی بأوّل أمرِہم وأہلُ السعادۃ فی الزمان المؤَخَّرِ ولو کنتَ من أہل المعارف والہدیٰ لصدَّقْتَ أقوالی بغیر تحیُّرِ ولو جئتَنی من خوفِ ربٍّ محاسِبٍ لأصبَحْتَ فی نعماۂ المستَکثَرِ ألا لا تُضِعْ وقتَ الإنابۃ والہُدیٰ صُدودُک سمٌّ یا قلیلَ التفکّرِ وإن کنت تزعمُ صبرَ جسمِک فی اللّظی فجرِّبْہُ تمرینًا بحرْقٍ مسَعِّرِ وما لک لا تبغی المعالِجَ خائفًا وإنک فی داءٍ عُضالٍ کمُحصَرِ فیا أیہا المُرخی عِنانَ تعصّبٍ خَفِ اللّٰہَ واقبَلْ تُحْفَ وعظِ المذکِّرِ وخَفْ نارَ یومٍ لا یَرُدُّ عذابَہا تدَلُّلُ شیخٍ أو تظاہُرُ مَعْشِرِ سءِمنا تکالیفَ التطاول مِن عِدا تمادتْ لیالی الجَور یا ربِّ فَانْصُرِ وأنتَ رحیم ذو حنان ورحمۃٍ فنَجِّ عبادَک من وبالٍ مدمِّرِ رأیتُ الخطایا فی أمور کثیرۃٍ وإسرافَنا فاغفِرْ وأیِّدْ وعَزِّرِ وأنتَ کریمُ الوجہِ مَولی مُجامِلٌ فلا تطرُدِ الغلمانَ بعد التخیُّرِ وجئناک کالموتٰی فأَحْیِ أمورَنا ونستغفِرَنْک مستغیثین فَاغْفِرِ إلٰی أیِّ باب یا إلٰہی تَرُدُّنی أتترکُنی فی کفِّ خصمٍ مُخسِّرِی إلٰہی فدَتْک النفسُ أنت مقاصدی تعالَ بفضلٍ من لدُنْک وبَشِّرِ أأعرضتَ عنّی لا تکلّمُ رحمۃً وقد کنتَ من قبلِ المصائبِ مُخبِری وکیف أظنُّ زوالَ حُبِّک طُرفۃً ویَأْطِرُ قلبی حبُّک المتَکثِّرِ وجد تُ السّعادۃ کلَّہا فی إطاعۃٍ فوَفِّقْ لآخَرَ من خلوصٍ ویَسِّرِ
إلہی بوجہک أَدْرِکِ العبدَ رحمۃً تعالَ إلی عبدٍ ذلیلٍ مُکفّرِ ومِن قبل ہذا کنتَ تسمع دعوتی وقد کنتَ فی المضمار تُرسی ومأْزَری إلٰہی أَغِثْنی یا إلٰہی أَمِدَّنی و بَشِّرْ مقصودی حنانًا وخَبِّرِ أَرِنی بنورک یا ملاذی ومَلجَئی نعوذ بوجہک من ظلامٍ مُدَعْثِرِ وخُذْ رَبِّ مَن عادَی الصلاحَ ومفسدًا ونَزِّلْ علیہ الرِّجْزَ حقًّا ودَمِّرِ وکُنْ ربِّ حنّانًا کما کنتَ دائمًا وإن کنتُ قد غادرتُ عہدًا فذَکِّرِ وإنّک مولی راحمٌ ذو کرامۃٍ فبَعِّدْ عنِ الغلمان یومَ التشوُّرِ أری لیلۃً لیلاءَ ذاتَ مخافۃٍ فَہَنّئ وبَشِّرْنا بیومٍ عبقرِی وفَرِّجْ کُروبی یا کریمی ونَجِّنی ومَزِّقْ خصیمی یا إلٰہی وعَفِّرِ ولیستْ علیک رموزُ أمری بغُمّۃٍ وتعرفُ مستوری وتدری مقَعَّری زلالُک مطلوبٌ فأَخْرِجْ عُیونَہ جلالُک مقصودٌ فأیِّدْ وأَظْہِرِ وجدناک رحمانًا فما الہَمُّ بعدَہُ نعوذ بنورک من زمانٍ مُکوّرِ وآخر دعوانا أنِ الحمدُ کلُّہُ لربٍّ کریمٍ قادرٍ ومیَسِّرِ الوصیّۃ إنّ من السہود* أن القدح یوجب القدح، والمدح یوجب المدح.فإنک إذا قلتَ لرجل إنّ أباک رجل شریف صالح، فلن یقول لأبیک إنہ شریر طالح، بل یرضیک بکلام زکّاہ، ویمدح أباک کمثل مَدْحٍ مدحتَ بہ أباہ، بل یذکرہ بأصفاہ وأعلاہ، وأما إذا شتمتَ فیکلّم کما کلّمْتَ.فکذلک الذین یسبّون الصدّیق والفاروق، فإنما ہم یسّبون علیًّا ویؤذونہ ویُضیعون الحقوق.فإنک إذا قلتَ إن أبا بکر کافر، فقد ہیّجتَ محبَّ الصدّیق الأکبر لأن یقول إنّ علیًّا أکفرُ؛ فما شتمتَ الصدّیق، بل شتمتَ علیًّا وجاوزتَ الطریق.وإنک لا تسبّ أبا أحد لئلا
یسبّوا أباک، وکذلک لا تشتم أُمَّ مَن عاداک، ولکن لا تبالی عزّۃَ بیت النبوۃ، ولا تعصمہم من سوء ہذہ السلسلۃ، ولا تنظر إلی فساد النتیجۃ مع دعاوی التشیع وتصلُّف المحبّۃ، فکل ذنب السبّ علی عنقک یا عدو آل رسول اللّٰہ والخمسۃ المطہرۃ ومتطبعا بطباع المنافقین.حاشیہ متعلقہ صفحہ ۳۸۸ انا بیّنا ان ابابکر کان رجلا عبقریا وانسانا اِلٰھیًّا جلّی مطلع الاسلام بعد الظلام وکان قصاراہ انہ من ترک الاسلام فباراہ ومن انکر الحق فماراہ ومن دخل دارالاسلام فداراہ.کابد فی اِشاعۃ الاسلام شدائد واعطی الخلق دررًا فراید.ساس الاعراب بالعزم المبارک وھذب تلک الجمال فی المسارح والمبارک واستقراء المسالک ورغاء المعارک ما استفتی بأسًا ورأی من کل طرف یأسًا انبری لمبارات کل خصیم وما استھوتہ الافکار ککل جبان وسقیم وثبت عند کل فساد وبلوی انہ ارسخ من رضویٰ واھلک کل من تنبیٰ من کذب الدعویٰ.ونبذ العُلق للّٰہ الا علٰی وکان کل اھتشاشہ فی اعلاء کلمۃ الاسلام واتباع خیر الانام فدونک حافظ دینک واترک طنینک وانی ماقلت کمتبع الاھواء او مقلد امر وجد من الاباء بل حُبّب الی مُذْ سَعَتْ قدمی ونفث قلمی ان اتخذ التحقیق شرعۃ والتعمیق نُجعۃ فکنت انقب عن کل خبر وا سئل عن کل حبر.فوجدت الصدیق صدیقا وکشف علی ھذا الامر تحقیقا فاذا الفیتہ امام الائمۃ وسراج الدّین والاُمّۃ شددت یدی بغرزہ وأویت الی حرزہ واستنزلت رحمۃ ربی بحبّ الصالحین.فرحمنی وآوانی وایّدنی وربّانی وجعلنی من المکرمین.وجعلنی مجدّد ھذہ المأۃ والمسیح الموعود من الرحمۃ وجعلنی من المکلّمین واذھب عنی الحزن واعطانی ما لم یعط احد من العالمین.وکل ذٰلک بالنبی الکریم الاُمّی و حبّ ھٰؤلاء المقربین اللّٰھم فصلّ و سلّم علی افضل رسلک و خاتم انبیاء ک محمد خیر الناس اجمعین وواللّٰہ ان ابا بکر
کان صاحب النبی صلعم فی الحرمین و فی القبرین.اعنی قبر الغار الذی توارٰی فیہ کالمیت عند الاضطرار.والقبر الذی فی المدینۃ ملتصقا بقبر خیرالبریۃ فانظر مقام الصدیق ان کنت من اھل التعمیق.حمدہ اللّٰہ و خلافتہ فی القراٰن واثنی علیہ باحسن البیان ولا شک انہ مقبول اللّٰہ و مستطاب وھل یحتقر قدرہ الا مصاب غابت شوائب الاسلام بخلافتہ وکمل سعود المسلمین برأفتہ وکاد ان ینفطر عمود الاسلام لو لا الصدیق صدیق خیرالانام.وجد الاسلام کالمھتر الضعیف والموؤف النحیف فنھض لاعادۃ حبرہ و سبرہ کالحاذقین.واوغل فی اثر المفقود کالمنھوبین.حتی عاد الاسلام الٰی رشاقۃ قدہ وأسالۃ خدہ ونضرۃ جما لہ و حلاوۃ زلالہ و کان کلّ ھٰذا من صدق ھٰذا العبد الامین.عفّر النفس و بدل الحالۃ وما طلب الجعالۃ الا ابتغاء مرضات الرحمان و ما اظلّ المَلَوان علیہ الا فی ھٰذا الشأن کان محیی الرفات ودافع الاٰفات و واقی الغافات.وکلُّ لبّ النصرۃ جاء فی حصتہ وھذا من فضل اللّٰہ و رحمتہ والاٰن نذکر قلیلا من الشواھد متوکّلًا علی اللّٰہ الواحد لیظھر علیک کیف اعدم فتنا مشتدۃ الھبوب ومحنًا مشتنطۃ الأُلْھوب و کیف اعدم فی الحرب ابناء الطعن والضرب فبانت دخیلۃُ امرہ من افعالہ وشھدت اعمالہ علی سر خصالہ فجزاہ اللّٰہ خیر الجزاء و حشرہ فی ائمۃ الاتقیاء ورحمنا بھٰؤلاء الاحباء فتقبل منی یا ذالالاء والنعماء وانک ارحم الرحماء وانّک خیر الرّاحمین.فتنۃ الارتداد بعد وفات النّبی صعلم خیر الرسل و امام العباد لما قبض رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ارتدت العرب اما القبیلۃ مستوعبۃ و اما بعض منھا و نجم النفاق والمسلمون کالغنم فی اللیلۃ الممطرۃ لقلتھم وکثرۃ
عدوھم و ظلام الجو بفقد نبیھم ( الجزء الثانی من تاریخ ابن خلدون صفحہ ۶۵) وقال ایضا.ارتدت العرب عامۃ و خاصۃ واجتمع علی طلیحۃ عوام طیء و اسد وارتدت غطفان وتوقفت ھوازن فامسکوا الصدقۃ وارتد خواص من بنی سلیم وکذا سائر الناس بکل مکان (صفحہ۶۵) وقال ابن الأثیر فی تاریخہ لما توفی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و وصل خبرہ الٰی مکۃ وعاملہ علیھا عتاب بن أسید استخفی عتاب وارتجت مکۃ وکاد اھلھا یرتدون(الجزء الاول صفحہ۱۳۴) وقال ایضًا.ارتدت العرب امّا عامۃ او خاصۃ من کل قبیلۃ وظھر النفاق واشرأبت الیھود والنصرانیۃ و بقی المسلمون کالغنم فی اللیلۃ الممطرۃ لفقد نبیّھم و قلّتھم و کثرۃ عدوھم فقال الناس لابی بکر انّ ھٰؤلاء یعنون جیش اسامۃ جند المسلمین والعرب علٰی ما ترٰی فقد انتقضت بک فلا ینبغی ان تفرق جماعۃ المسلمین عنک فقال ابوبکر والذی نفسی بیدہ لو ظننت ان السباع تخطفنی لانفذتُ جیش اسامۃ کما امر النبی صلعم ولا اردّ قضاءً قضی بہ رسول اللّٰہ صلعم وقال عبد اللّٰہ بن مسعود لقد قمنا بعد النّبی صلعم مقا مًا کِدنا اَنْ نھلک لو لا ان منّ اللّٰہ علینا بابی بکر رضی اللّٰہ عنہ اجمعنا علی ان نقاتل علی ابنۃ مخاض وابنۃ لبون و ان ناکل قری عربیۃ ونعبد اللّٰہ حتی یاتینا الیقین.(ایضا صفحہ۱۴۲) خروج مُدعی النبوّۃ وثب الاسود بالیمن و وثب مسیلمۃ بالیمامۃ ثم وثب طلیحۃ بن خویلد فی بنی اسد یدعی کلہم النبوۃ (ابن خلدون الجزء الثانی صفحہ۶۰) و تنبأت سجاح بنت الحارث من بنی عقفان واتبعھا الھذیل بن عمران فی بنی تغلب و عقبۃ بن ھلال فی النمر والسلیل بن قیس فی شیبان و زیاد بن بلال واقبلت من الجزیرۃ فی ھٰذہ الجموع قاصدۃ المدینۃ لتغزو ابا بکر رضی اللّٰہ عنہ ( صفحہ۶۵)
اسخلافہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم ابا بکرؓ نائبا عنہ للامامۃ فی الصّلٰوۃ قال ابن خلدون ثم ثقل بہ الوجع واغمی علیہ فاجتمع علیہ نساء ہ واھل بیتہ والعباس و علی ثم حضر وقت الصلٰوۃ فقال مروا ابا بکر فلیصل بالناس.(الجزء الثانی صفحہ۶۲) مکان ابی بکرؓ من النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وقال ابن خلدون ثم قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعد ما اوصی بثلاث سدّوا ھذہ الابواب فی المسجد الا باب ابی بکر فانی لا اعلم امرءً افضل یدًا عندی فی الصحبۃ من ابی بکر.(الجزء الثانی صفحہ۶۲) شدۃ حُبّ ابی بکر للنبیّ صَلی اللّٰہ علیہ وسلّم وذکر ابن خلدون واقبل ابوبکر و دخل علٰی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فکشف عن وجھہ وقبّلہ وقال بابی انت و أمی قد ذقت الموتۃ التی کتب اللّٰہ علیک و لن یصیبک بعدھا موتۃ ابدًا ( ایضًا صفحہ۶۳) وکان من لطائف منن اللّٰہ علیہ واختصاصہ بکمال القرب من النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کما نص بہ ابن خلدون انہ رضی اللّٰہ عنہ حمل علی السریر الذی حمل علیہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و جعل قبرہ مثل قبر النبی مسطحا والصقوا لحدہ بلحد النبی صلعم وجعل رأسہ عند کتفی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وکان اخر ما تکلم بہ توفنی مسلما والحقنی بالصالحین.(صفحہ ۱۷۶) ولنکتب ھنا کتابا کتبہ الصدیق الٰی قبائل العرب المرتدۃ لیزید المطلعون علیہ ایمانا وبصیرۃ بصلابۃ الصدیق فی ترویج شعائر اللّٰہ والذبّ عن جمیع ما سنّہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم من ابی بکر خلیفۃ رسول اللّٰہ صلعم الٰی من بلغہ کتابی ھٰذا من عامّۃ وخاصّۃ أقام علی اسلامہ او رجع عنہ سلام علی من اتبع الھدٰی ولم یرجع بعد الھدٰی الی الضلالۃ والعمٰی فانی احمد الیکم اللّٰہ الذی لا الٰہ الا ھو واشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ و انّ محمدا عبدہ ورسولہ نقرّ بما جاء بہ و نکفرّ من ابٰی و نجاھدہ امّا بعد فان اللّٰہ تعالٰی
ارسل محمدا بالحق من عندہ الی خلقہ بشیرًا و نذیرا و داعیا الی اللّٰہ باذنہ وسراجا منیرا لینذر من کان حیا و ویحق القول علی الکافرین فھدی اللّٰہ بالحق من اجاب الیہ و ضرب رسول اللّٰہ صلعم من ادبر عنہ حتی صار الی الاسلام طوعا وکرھا ثم توفی رسول اللّٰہ صلعم وقد نفّذ لامر اللّٰہ ونصح لأُمّتہ وقضی الذی کان علیہ و کان اللّٰہ قد بیّن لہ ذٰلک ولاھل الاسلام فی الکتاب الذی انزل فقال ۱ وقال. وقال للمؤمنین...۳ فمن کان انما یعبد محمدا فان محمدا قد مات و من کان انما یعبد اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ فان اللّٰہ لہ بالمرصاد حیٌّ قیومٌ لا یموت ولا تاخذہ سنۃ ولا نوم حافظ لامرہ منتقم من عدوہ یجزیہ.وانی اوصیکم بتقوی اللّٰہ وحظکم ونصیبکم من اللّٰہ وما جاء کم بہ نبیکم صلعم وان تھتدوا بھداہ وان تعتصموا بدین اللّٰہ فان کل من یھدہ اللّٰہ ضال و کل من لم یعافہ لمبتلی وکل من لم یُعنہ مخذول فمن ھداہ اللّٰہ کان مھتدیا و من اضلّہ کان ضالا قال اللّٰہ تعالٰی.۴ ولم یُقبل منہ فی الدنیا عمل حتی یقرّ بہ ولم یقبل منہ فی الاٰخرۃ صرف ولا عدل و قد بلغنی رجوع من رجع منکم عن دینہ بعد ان اقرّ بالاسلام وعمل بہ اغترارًا باللّٰہ وجہالۃ بامرہ واجابۃ للشیطان قال اللّٰہ تعالٰی. و قال..۶ وانی بعثت الیکم فلانا من المھاجرین والانصار والتابعین باحسان وامرتہ ان لا یقاتل احدًا ولا یقتلہ حتی یدعوہ الی داعیۃ اللّٰہ فمن استجاب لہ و اقرّ وکفّ و عمل صالحًا قبل منہ و اعانہ علیہ ومن ابٰی امرت ان یقاتلہ علٰی ذٰلک ثم لا یبقی علی احد منہم قدر علیہ وان یحرقھم بالنار ویقتلھم کلقتلۃ وان یسبی النسآء والذراری ولا یقبل من احد الا الاسلام فمن اتبعہ فھو خیر لہ ومن ترکہ فلن یعجز اللّٰہ وقد امرترسولی ان یقرء
کتابی فی کل مجمعٓٓٓٓ لکم والداعیۃ الاذان و اذ اذّن المسلمون فاذّنوا کفّوا عنھم وان لم یؤذّنوا عاجلوھم واذا أذّنوا اسألوھم ما علیھم فان ابوا عاجلوھم وان اقرّوا قبل منھم.مِن المؤلّف إنّ الصحابۃَ کلَّہم کذُکاءِ قد نَوّروا وجہَ الوری بضیاءِ ترکوا أقاربَہم وحُبَّ عِیالہم جاء وا رسولَ اللّٰہ کالفقراءِ ذُبحُوا و ما خافوا الوری من صدقھم بل آثروا الرحمان عند بلاءِ تحت السیوف تَشہّدوا لخلوصھم شَہِدوا بصدق القلب فی الأمْلاءِ حضروا المواطنَ کلھا من صدقہم حفَدوا لہا فی حَرَّۃٍ رَجْلاءِ الصالحون الخاشعون لربہم البایِتون بذکرہ وبکاءِ قومٌ کِرامٌ لا نُفرِّقُ بینہم کانوا لخیر الرسل کالأعضاءِ ما کان طعنُ الناس فیہم صادقًا بل حَشْنَۃٌ نشأَتْ مِن الأہواءِ انی أری صَحْب الرسول جمیعَہم عندَ الملیکِ بعزَّۃٍ قَعْسَاءِ تَبِعوا الرسول برَحْلہِ و ثَواءِ صاروا بِسُبلِ حبیبِہم کعَفاءِ نہضوا لنصر نبینا بوفاءٍ عند الضلال وفتنۃٍ صمَّاءِ وتخیَّروا للّٰہ کلَّ مصیبۃٍ و تہَلَّلوا بالقتل والإجلاءِ أنوارُہم فاقَتْ بیانَ مبیِّنٍ یسوَدُّ منہا وجہُ ذی الشحناءِ فانظُرْ إلی خِدماتہم وثَباتہم و دَعِ العِدَا فی غُصَّۃ و صَلاءِ یا ربِّ فارحمنا بصَحْبِ نبیِّنا واغفِرْ وأنتَ اللّٰہُ ذو آلاءِِ واللّٰہ یعلَم لو قدرتُ ولم أمُتْ لأَشعْتُ مدح الصَحْب فی الأعداءِ ان کنت تلعنتھم و تضحک خسّۃ فارقُبْ لنفسک کلَّ اِسْتِہزاءِِ من سبّ اصحاب النبی فقد ردی حق فما فی الحقّ من اخفاء
عام اطلاع کے لئے ایک اشتہار وہ تمام صاحب جنہوں نے شیخ محمد حسین صاحب بٹالوی کے رسائل اشاعت السنہ دیکھے ہوں گے یا ان کے وعظ سنے ہوں گے یا ان کے خطوط پڑھے ہوں گے وہ اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کہ شیخ صاحب موصوف نے اس عاجز کی نسبت کیا کچھ کلمات ظاہر فرمائے ہیں اور کیسے کیسے خودپسندی کے بھرے ہوئے کلمات اور تکبر میں ڈوبے ہوئے ترہات اُن کے منہ سے نکل گئے ہیں کہ ایک طرف تو انہوں نے اس عاجز کو کذاب اور مفتری قرار دیا ہے اور دوسری طرف بڑے زور اور اصرار سے یہ دعویٰ کر دیا ہے کہ مَیں اعلیٰ درجہ کا مولوی ہوں اور یہ شخص سراسر جاہل اور نادان اور زبانِ عربی سے محروم اور بے نصیب ہے اور شاید اس بکواس سے ان کی غرض یہ ہو گی کہ تا ان باتوں کا عوام پر اثر پڑے اور ایک طرف تو وہ شیخ بطالوی کو فاضل یگانہ تسلیم کر لیں اور اعلیٰ درجہ کا عربی دان مان لیں اور دوسری طرف مجھے اور میرے دوستوں کو یقینی طور پر سمجھ لیں کہ یہ لوگ جاہل ہیں اور نتیجہ یہ نکلے کہ جاہلوں کا اعتبار نہیں.جو لوگ واقعی مولوی ہیں انہیں کی شہادت قابلِ اعتبار ہے.مَیں نے اس بیچارہ کو لاہور کے ایک بڑے جلسہ میں یہ الہام بھی سنا دیا تھا کہ انی مھین من اراد اھانتک کہ مَیں اس کی اہانت کروں گا جو تیری اہانت کے درپَے ہو.مگر تعصب ایسا بڑھا ہوا تھا کہ یہ الہامی آواز اس کے کان تک نہ پہنچ سکی اس نے چاہا کہ قوم کے دلوں میں یہ بات جم جائے کہ یہ شخص ایک حرف عربی کا نہیں جانتا پر خدا نے اسے دکھلا دیا کہ یہ بات الٹ کر اسی پر پڑی.یہ وہی الہام ہے جو کہا گیا تھا کہ مَیں اُسی کو ذلیل کروں گا جو تیری ذلت کے درپے ہو گا.سبحان اللہ کیسے وہ قادر اور غریبوں کا حامی ہے.پھر لوگ ڈرتے نہیں کیا یہ خدا تعالیٰ کا نشان نہیں کہ وہی شخص جس کی نسبت کہا گیا تھا کہ جاہل ہے اور ایک
صیغہ تک اس کو معلوم نہیں وہ ان تمام مکفروں کو جو اپنا نام مولوی رکھتے ہیں بلند آواز سے کہتا ہے کہ میری تفسیر کے مقابل پر تفسیر بناؤ تو ہزار روپے انعام لواور نور الحق کے مقابل پر بناؤ تو پانچ ہزار روپیہ پہلے رکھا لو اور کوئی مولوی دم نہیں مارتا.کیا یہی مولویت ہے جس کے بھروسہ سے مجھے کافر ٹھہر ایا تھا.ایہا الشیخ اب وہ الہام پورا ہوا یا کچھ کسر ہے.ایک دنیا جانتی ہے کہ مَیں نے اسی فیصلہ کی غرض سے اوراسی نیت سے کہ تا شیخ بطالوی کی مولویت اور تمام کفر کے فتوے لکھنے والوں کی اصلیت لوگوں پر کھل جائے.کتاب کرامات الصادقین عربی میں تالیف کی اور پھر اس کے بعد رسالہ نور الحق بھی عربی میں تالیف کیا.اور میں نے صاف صاف اشتہار دے دیا کہ اگر شیخ صاحب یا تمام مکفر مولویوں سے کوئی صاحب رسالہ کرامات الصادقین کے مقابل پر کوئی رسالہ تالیف کریں تو ایک ہزار روپیہ ان کو انعام ملے گا.اور اگر نور الحق کے مقابل پر رسالہ لکھیں تو پانچ ہزار روپیہ ان کو دیا جائے گا.لیکن وہ لوگ بالمقابل لکھنے سے بالکل عاجز رہ گئے.اور جو تاریخ ہم نے اس درخواست کے لئے مقرر کی تھی یعنی اخیر جون ۱۸۹۴ ء وہ گذر گئی.شیخ صاحب کی اس خاموشی سے ثابت ہو گیا کہ وہ علم عربی سے آپ ہی بے بہرہ اور بے نصیب ہیں اور نہ صرف یہی بلکہ یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ اوّل درجہ کے دروغ گو اور کاذب اور بے شرم ہیں کیونکہ انہوں نے تو تقریرًا و تحریرًا صاف اشتہار دے دیا تھا کہ یہ شخص علم عربی سے محروم اور جاہل ہے یعنی ایک لفظ تک عربی سے نہیں جانتا تو پھر ایسے ضروری مقابلہ کے وقت جس میں اُن پر فرض ہو چکا تھا کہ وہ اپنی علمیت ظاہر کرتے کیوں ایسے چُپ ہو گئے کہ گویا وہ اس دنیا میں نہیں ہیں خیال کرنا چاہیئے کہ ہم نے کس قدر تاکید سے اُن کو میدان میں بلایا اور کن کن الفاظ سے اُن کو غیرت دلانا چاہا مگر انہوں نے اس طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا.ہم نے صرف اس خیال سے کہ شیخ صاحب کی عربی دانی کا دعویٰ بھی فیصلہ پا جائے رسالہ نور الحق میں یہ اشتہار دے دیا کہ اگر شیخ صاحب عرصہ تین ماہ میں اسی قدر کتاب تحریر کر کے شائع کر دیں اور وہ کتاب درحقیقت جمیع لوازم بلاغت و فصاحت والتزام حق اور حکمت میں نور الحق کے ثانی ہو تو تین ہزار روپیہ نقد بطور انعام شیخ صاحب کو دیا جائے گا اور نیز الہام
کے جھوٹا ٹھہرانے کے لئے بھی ایک سہل اور صاف راستہ ان کو مل جائے گا اور ہزار لعنت کے داغ سے بھی بچ جائیں گے.ورنہ وہ نہ صرف مغلوب بلکہ الہام کے مصدق ٹھہریں گے.مگر شیخ صاحب نے ان باتوں میں سے کسی بات کی بھی پرواہ نہ کی اور کچھ بھی غیرت مندی نہ دکھلائی.اس کا کیا سبب تھا؟ بس یہی کہ یہ مقابلہ شیخ صاحب کی طاقت سے باہر ہے سو ناچار انہوں نے اپنی رسوائی کو قبول کر لیا اور اس طرف رخ نہ کیا یہ اسی الہام کی تصدیق ہے کہ انی مھین من اراد اھانتک شیخ صاحب نے منبروں پر چڑھ چڑھ کر صدہا آدمیوں میں صدہا موقعوں میں بار بار اِس عاجز کی نسبت بیان کیا کہ یہ شخص زبان عربی سے محض بے خبر اور علوم دین سے محض نا آشنا ہے ایک جاہل آدمی ہے اور کذاب اور دجّال ہے اور اسی پر بس نہ کیا بلکہ صدہا خط اسی مضمون کے اپنے دوستوں کو لکھے اور جابجا یہی مضمون شائع کیا.اور اپنے جاہل دوستوں کے دلوں میں بٹھا دیا کہ یہی سچ ہے.سو خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اِس متکبر کا غرور توڑے اوراس گردن کش کی گردن کومروڑے اور اس کو دکھلاوے کہ کیونکر وہ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے.سو اس کی توفیق اور مدد اور خاص اس کی تعلیم اور تفہیم سے یہ کتابیں تالیف ہوئیں اور ہم نے کرامات الصادقین اور نور الحق کے لئے آخری تاریخ درخواست مقابلہ کی اس مولوی اور تمام مخالفوں کے لئے اخیر جون ۱۸۹۴ ء مقرر کی تھی جو گذرگئی اور اب دونوں کتابوں کے بعد یہ کتاب سرّ الخلافۃ تالیف ہوئی ہے جو بہت مختصر ہے اور نظم اس کی کم ہے اور ایک عربی دان شخص ایسا رسالہ سات دن میں بہت آسانی سے بناسکتا ہے اور چھپنے کے لئے دس دن کافی ہیں لیکن ہم شیخ صاحب کی حالت اور اس کے دوستوں کی کم مائیگی پر بہت ہی رحم کر کے دس دن اور زیادہ کر دیتے ہیں اور یہ ستائیس دن ہوئے سو ہم فی دن ایک روپیہ کے حساب سے ستائیس روپیہ کے انعام پر یہ کتاب شائع کرتے ہیں اور شیخ صاحب اور ان کے اِسمی مولویوں کی خدمت میں التماس ہے کہ اگر وہ اپنی سُوء قسمت سے ہزار روپیہ کا انعام لینے سے محروم رہے اور پھر پانچ ہزار روپیہ کا انعام پیش کیا گیا تو وہ وقت بھی اُن کی کم مائیگی
کی وجہ سے ان کے ہاتھ سے جاتا رہا.اور تاریخ درخواست گذر گئی اب وہ ستائیس روپیہ کو تو نہ چھوڑیں ہم نے سنا ہے کہ ان دنوں میں شیخ صاحب پر تنگدستی کی وجہ سے تکلیفات بہت ہیں.خشک دوستوں نے وفا نہیں کی.پس ان دنوں* میں تو اُن کے لئے ایک روپیہ ایک اشرفی کا حکم رکھتا ہے گویا یہ ستائیس روپیہ ستائیس اشرفی ہیں جن سے کئی کام نکل سکتے ہیں اور ہم اپنے سچے دل سے اقرار کرتے ہیں کہ اگر رسالہ سر الخلافہ کے مقابل پر شیخ صاحب نے کوئی رسالہ میعاد مقررہ کے اندر شائع کردیا اور وہ رسالہ ہمارے رسالہ کا ہم پلہ ثابت ہوا تو ہم نہ صرف ستائیس روپیہ ان کو دیں گے بلکہ یہ تحریری اقرار لکھ دیں گے کہ شیخ صاحب ضرور عربی دان اور مولوی کہلانے کے مستحق ہیں بلکہ آئندہ مولوی کے نام سے ان کو پکارا جائے گا.اور چاہیئے کہ اب کے دفعہ شیخ صاحب ہمت نہ ہاریں.یہ رسالہ تو بہت ہی تھوڑا ہے اور کچھ بھی چیز نہیں.اگر ایک ایک جُز روز گھسیٹ دیں تو صرف چار پانچ روز میں اس کو ختم کرسکتے ہیں.اور اگر اپنے وجود میں کچھ بھی جان نہیں تو اُن سو ڈیڑھ سو مولویوں سے مدد لیں جنہوں نے بغیر سوچے سمجھے کے مسلمانوں کو کافر اور جہنم ابدی کی سزا کے لائق ٹھہرایا اور بڑے تکبر سے اپنے تئیں مولوی کے نام سے ظاہر کیا اگر وہ ایک ایک جُز لکھ کر دیں تو شیخ صاحب بمقابل اس رسالہ کے ڈیڑھ سو جُز کا رسالہ شائع کر سکتے ہیں.لیکن اگر شیخ صاحب نے پھر بھی ایسا کرنہ دکھایا تو پھر بڑی بے شرمی ہو گی کہ آ ئندہ مولوی کہلاویں بلکہ مناسب ہے کہ آئندہ جھوٹ بولنے اور جھوٹ بلوانے سے پرہیز کریں.شیخ کا نام آپ کے لئے کافی ہے جو باپ دادے سے چلا آتا ہے یا منشی کا نام بہت موزوں ہو گا.لیکن ابھی یہ بات قابل آزمائش ہے کہ آپ منشی بھی ہیں یا نہیں.منشی کے لئے ضروری ہے کہ فارسی نظم میں پوری دسترس رکھتا ہو مگر میری نظر سے اب تک آپ کا کوئی فارسی دیوان نہیں گذرا.بہرحال اگر ہم رعایت اور چشم پوشی کے طور پر آپ کا منشی ہونا مان بھی لیں اور فرض * نوٹ:.شیخ صاحب اپنے حال کے پرچہ میں اقراری ہیں کہ اگر اُن کے دوستوں نے اب بھی اُن کی مدد نہ کی تو وہ اس نوکری سے استعفا دے دیں گے.منہ
کر لیں کہ آپ منشی ہیں گو منشیانہ لیاقتیں آپ میں پائی نہیں جاتیں تو چنداں حرج نہیں کیونکہ منشی گری کو ہمارے دین سے کچھ تعلق نہیں لیکن ہم کسی طرح مولوی کا خطاب ایسے نادانوں کو دے نہیں سکتے جن کو ہم پانچ ہزار روپیہ تک انعام دینا کریں تب بھی اُن کی مردہ روح میں کچھ قوت مقابلہ ظاہر نہ ہو ہزار لعنت کی دھمکی دیں کچھ غیرت نہ آوے تمام دنیا کو مددگار بنانے کے لئے اجازت دیں تب بھی ایک جھوٹے منہ سے بھی ہاں نہ کہیں ایسے لوگوں کو اگر مولوی کا لقب دیا جاوے تو کیا بجز مسلمانوں کے کافر بنانے کے کچھ اور بھی ان میں لیاقت ہے.ہرگز نہیں.چار حدیثیں پڑھ کرنام شیخ الکل نعوذ باللّٰہ من فتن ھٰذا الدھر و اھلھا ونعوذ باللّٰہ من جھلات الجاھلین.یہ بھی واضح رہے کہ ہر یک باحیا دشمن اپنی دشمنی میں کسی حد تک جا کر ٹھہر جاتا ہے اور ایسے جھوٹوں کے استعمال سے اُس کو شرم آ جاتی ہے جن کی اصلیت کچھ بھی نہ ہو مگر افسوس کہ شیخ صاحب نے کچھ بھی اس انسانی شرم سے کام نہیں لیا جہاں تک ضرر رسانی کے وسائل اُن کے ذہن میں آئے انہوں نے سب استعمال کئے اور کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا.اوّل تو لوگوں کو اٹھایا کہ یہ شخص کافر ہے اور دجال ہے اس کی ملاقات سے پرہیز کرو اور جہاں تک ہو سکے اس کو ایذا دو اور ہر یک ظلم سے اس کو دکھ دو سب ثواب کی بات ہے.اور جب اس تدبیر میں ناکام رہے تو گورنمنٹ انگریزی کو مشتعل کرنے کے لئے کیسے کیسے جھوٹ بنائے کیسے کیسے مفتریات سے مدد لی لیکن یہ گورنمنٹ دور اندیش اور مردم شناس گورنمنٹ ہے سکھوں کے قدم پر نہیں چلتی کہ دشمن اور خود غرض کے منہ سے ایک بات سن کر افروختہ ہو جائے بلکہ اپنی خداداد عقل سے کام لیتی ہے.سو گورنمنٹ دانشمند نے اس شخص کی تحریروں پر کچھ توجہ نہ کی اور کیونکر توجہ کرتی اس کو معلوم تھا کہ ایک خود غرض دشمن نفسانی جوش سے جھوٹی مخبری کر رہا ہے گورنمنٹ کو اس عاجز کے خاندان کے خیر خواہ ہونے پر بصیرت کامل تھی اور گورنمنٹ خوب جانتی تھی کہ یہ عاجز عرصہ چودہ سال سے برخلاف ان تمام مولویوں کے بار بار یہ مضمون شائع کر رہا ہے کہ ہم لوگ جو گورنمنٹ برطانیہ کی رعیت ہیں ہمارے لئے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے گورنمنٹ ھٰذا کے زیر اطاعت رہنا اپنافرض ہے اور بغاوت کرنا حرام.اور جو شخص بغاوت کا طریق اختیار کرے یا اس کے لئے
کوئی مفسدانہ بنا ڈالے یا ایسے مجمع میں شریک ہو یا راز دار ہو تو وہ اللہ اور رسول کے حکم کی نافرمانی کر رہا ہے اور جو کچھ اس عاجز نے گورنمنٹ انگریزی کا سچا خیر خواہ بننے کے لئے اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے وہ سب سچ ہے.نادان مولوی نہیں جانتے کہ جہاد کے واسطے شرائط ہیں سکھا شاہی لوٹ مار کا نام جہاد نہیں اور رعیت کو اپنی محافظ گورنمنٹ کے ساتھ کسی طور سے جہاد درست نہیں اللہ تعالیٰ ہرگز پسند نہیں کرتا کہ ایک گورنمنٹ اپنی ایک رعیت کے جان اور مال اور عزت کی محافظ ہو اور ان کے دین کے لئے بھی پوری پوری آزادی عبادات کے لئے دے رکھی ہو.لیکن وہ رعیت موقع پا کر اس گورنمنٹ کو قتل کرنے کے لئے تیارہو یہ دین نہیں بلکہ بے دینی ہے اور نیک کام نہیں بلکہ بدمعاشی ہے.خدا تعالیٰ ان مسلمانوں کی حالت پررحم کرے کہ جو اس مسئلہ کو نہیں سمجھتے اور اس گورنمنٹ کے تحت میں ایک منافقانہ زندگی بسر کر رہے ہیں جو ایمانداری سے بہت بعید ہے.ہم نے سارا قرآن شریف تدبر سے دیکھا مگر نیکی کی جگہ بدی کرنے کی تعلیم کہیں نہیں پائی.ہاں یہ سچ ہے کہ اس گورنمنٹ کی قوم مذہب کے بارے میں نہایت غلطی پر ہے وہ اس روشنی کے زمانہ میں ایک انسان کو خدا بنا رہے ہیں اور ایک عاجز مسکین کو رب العالمین کا لقب دے رہے ہیں.مگر اس صورت میں تو وہ اور بھی رحم کے لائق اور راہ دکھانے کے محتاج ہیں کیونکہ وہ بالکل صراط مستقیم کو بھول گئے اور دور جا پڑے ہیں.ہم کو چاہیئے کہ ان کے احسان یاد کر کے ان کے لئے جنابِ الٰہی میں دعا کریں کہ اے خداوند قادر ذوالجلال ان کو ہدایت بخش اور ان کے دلوں کو پاک توحید کے لئے کھول دے اور سچائی کی طرف پھیر دے.تا وہ تیرے سچے اور کامل نبی اور تیری کتاب کو شناخت کر لیں اور دین اسلام ان کا مذہب ہو جائے.ہاں پادریوں کے فتنے حد سے زیادہ بڑھ گئے ہیں اور ان کی مذہبی گورنمنٹ ایک بہت شور ڈال رہی ہے مگر ان کے فتنے تلوار کے نہیں ہیں قلم کے فتنے ہیں سو اَے مسلمانوں تم بھی قلم سے اُن کا مقابلہ کرو اور حد سے مت بڑھو.خدا تعالیٰ کا منشاء قرآن شریف میں صاف پایا جاتا ہے کہ قلم کے مقابل پر قلم ہے اور تلوار کے مقابل پر تلوار.مگر کہیں نہیں سنا گیا کہ کسی عیسائی پادری نے دین کے لئے تلوار بھی اٹھائی ہو.پھر تلوار کی تدبیریں کرنا قرآن کریم کو چھوڑنا ہے بلکہ صاف بے راہی اور الٰہی ہدایت سے سرکشی ہے.جن میں روحانیت نہیں وہی ایسی تدابیریں کیا کرتے ہیں جو اسلام کا بہانہ کر کے اپنی نفسانی اغراض کو پورا کرنا چاہتے ہیں.خدا تعالیٰ ان کو سمجھ بخشے.
افغانی مزاج کے آدمی اس تعلیم کو برا مانیں گے مگر ہم کو اظہار حق سے غرض ہے نہ ان کے خوش کرنے سے اور نہایت مضر اعتقاد جس سے اسلام کی روحانیت کو بہت ضرر پہنچ رہا ہے یہ ہے کہ یہ تمام مولوی ایک ایسے مہدی کے منتظر ہیں جو تمام دنیا کو خون میں غرق کر دے اور خروج کرتے ہی قتل کرنا شروع کر دے.اور یہی علامتیں اپنے فرضی مسیح کی رکھی ہوئی ہیں کہ وہ آسمان سے اترتے ہی تمام کافروں کو قتل کر دے گا اور وہی بچے گا جو مسلمان ہو جائے.ایسے خیالات کے آدمی کسی قوم کے سچے خیر خواہ نہیں بن سکتے بلکہ ان کے ساتھ اکیلے سفر کرنا بھی خوف کی جگہ ہے.شاید کسی وقت کافر سمجھ کر قتل نہ کر دیں اور اپنے اندر کے کفر سے بے خبر ہیں.یاد رکھنا چاہیئے کہ ایسے بیہودہ مسائل کو اسلام کی جُزو قرار دینا اورنعوذ باللہ قرآنی تعلیم سمجھنا اسلام سے ہنسی کرنا ہے اور مخالفوں کو ٹھٹھے کا موقعہ دینا ہے.کوئی عقل اس بات کو تجویز نہیں کر سکتی کہ کوئی شخص آتے ہی بغیر اتمام حجت کے لوگوں کوقتل کرنا شروع کر دے.یا جس گورنمنٹ کے تحت میں زندگی بسر کرے اسی کی تباہی کے گھات میں لگا رہے.معلوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کی روحیں بکلی مسخ ہو چکی ہیں اور انسانی ہمدردی کی خصلتیں بتمامہا ان کے اندر سے مسلوب ہوگئی ہیں یا خالقِ حقیقی نے پیدا ہی نہیں کیں.خدا تعالیٰ ہر ایک بلا سے محفوظ رکھے.نامعلوم کہ ہمارے اس بیان سے وہ لوگ کس قدر جلیں گے اور کیسے منہ مروڑ مروڑ کر کافر کہیں گے مگر ہمیں ان کی اس تکفیر کی کچھ پرواہ نہیں.ہر ایک شخص کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے.ہمیں قرآن شریف کی کسی آیت میں یہ تعلیم نظر نہیں آتی کہ بے اتمام حجت مخالفوں کو قتل کرنا شروع کر دیا جاوے.ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ برس تک کفار کے جور و جفا پر صبر کیا.بہت سے دکھ دیے گئے دم نہ مارا.بہت سے اصحاب اور عزیز قتل کئے گئے ایک ذرا مقابلہ نہیں کیا اور دکھوں سے پِیسے گئے مگر سوائے صبر کے کچھ نہیں کیا.آخر جب کفار کے ظلم حد سے بڑھ گئے اور انہوں نے چاہا کہ سب کو قتل کر کے اسلام کو نابود ہی کر دیں تب خدا تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی کو اُن بھیڑیوں کے ہاتھ سے مدینہ میں سلامت پہنچا دیا.حقیقت میں وہی دن تھا کہ جب آسمان پر ظالموں کو سزا دینے کے لئے تجویز ٹھہر گئی تا دلِ مرد خُدا نامد بدرد.ہیچ قومے را خدا رسوا نکرد.مگر افسوس کہ کافروں نے اسی پر بس نہ کیا بلکہ قتل کے لئے تعاقب کیا اور کئی چڑھائیاں کیں اور طرح طرح
کے دکھ پہنچائے.آخر وہ خدا تعالیٰ کی نظرمیں اپنے بے شمار گناہوں کی وجہ سے اس لائق ٹھہر گئے کہ اُن پر عذاب نازل ہو.اگران کی شرارتیں اس حد تک نہ پہنچتیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہرگز تلوار نہ اٹھاتے مگر جنہوں نے تلواریں اٹھائیں اور خدا تعالیٰ کے حضور میں بے باک اور ظالم ثابت ہوئے وہ تلواروں سے ہی مارے گئے.غرض جہاد نبوی کی یہ صورت ہے جس سے اہلِ علم بے خبر نہیں اور قرآن میں یہ ہدایتیں موجود ہیں کہ جو لوگ نیکی کریں تم بھی ان کے ساتھ نیکی کرو.جو تمہیں پناہ دیں اُن کے شکر گذار بنے رہو اورجو لوگ تمہیں دکھ نہیں دیتے ان کو تم بھی دکھ مت دو.مگر اِس زمانہ کے مولویوں کی حالت پر افسوس ہے کہ وہ نیکی کی جگہ بدی کرنے کو تیار ہیں اور ایمانی روحانیت اور انسانی رحم سے خالی.اللھم اصلح امۃ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم.اٰمین.شیخ محمد حسین بطالوی کا ہمارے کافر ٹھہرانے پر اصرار اور ہماری طرف سے ہمارے اسلامی عقیدہ کا ثبوت اور نیز شیخ صاحب موصوف کے لئے ستائیس روپیہ کاانعام اگر وہ رسالہ سر الخلافہ کے مقابل پر رسالہ لکھ کرشائع کریں خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ ہم نے ایک ذرہ اسلام سے خروج نہیں کیابلکہ جہاں تک ہمارا علم اور یقین ہے ہم اُن سب باتوں پر قائم اور راسخ ہیں جو نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ سے ثابت ہوتی ہیں اور ہمیں بڑا افسوس ہے کہ شیخ محمد حسین صاحب اور دوسرے ہمارے مخالفوں نے صرف یہی نہیں کیا کہ ہمیں کافر اور دجّال بنایا اور خلو د جہنم ہماری سزا ٹھہرائی بلکہ قرآن اور حدیث کو بھی چھوڑ دیا اور ہم بار بار کہتے ہیں کہ ہم اُن کی نفسانی خواہشوں اور غلطیوں اور خطاؤں کو تو کسی طرح قبول نہیں کر سکتے لیکن اگر کوئی سچی بات اور کتاب اللہ اور حدیث کے موافق کوئی عقیدہ اُن کے پاس ہو جس کے ہم بفرض محال مخالف ہوں تو ہم ہر وقت اس کے قبول کرنے کے لئے تیار ہیں.ہم نے انہیں دکھلا دیا اور ثابت کر دیا کہ توفّی کے لفظ میں کتاب الٰہی کا عام محاورہ.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بول چال کا عام محاورہ اور صحابہ کی روز مرہ بول چال کا
عام محاورہ اور اس وقت سے آج تک عرب کی تمام قوم کا عام محاورہ مارنے کے معنوں پر ہے اور نہ اور کچھ.اور ہم نے یہ بھی دکھلایا کہ جو معنی توفی کے لفظ میں رسول اللہ صلی اللہ وسلم سے ثابت ہوئے وہ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے بخاری کھول کر دیکھو اور پاک دل کے ساتھ اس آیت میں غور کرو کہ مَیں قیامت کے دن اسی طرح فلما توفّیتنیہوں گا جیسا کہ ایک عبد صالح یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا اور سوچو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کلمہ لفظ توفّی کے لئے کیسی ایک تفسیر لطیف ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر کسی تغییر اور تبدیل کے لفظ متنازعہ فیہ کا مصداق اپنے تئیں ایسا ٹھہرا لیا جیسا کہ آیت موصوفہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کے مصداق تھے.اب کیا ہمیں جائز ہے کہ ہم یہ بات زبان پر لاویں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آیت فلما توفیتنی * کے حقیقی مصداق نہیں تھے اور حقیقی مصداق عیسیٰ علیہ السلام ہی تھے اور جو کچھ اس آیت سے درحقیقت خدا تعالیٰ کا منشاء تھا اور جو معنے توفّی کے واقعی طور پر اس جگہ مراد الٰہی تھی اور قدیم سے وہ مراد علم الٰہی میں قرار پا چکی تھی یعنی زندہ آسمان پر اٹھائے جانا نعوذ باللہ اس خاص معنی میں آنحضرت صلعم شریک نہیں تھے بلکہ آنحضرت نے اس آیت کو اپنی طرف منسوب کرنے کے وقت * بعض نادان کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کلام میں کما کا لفظ موجود ہے جو کسی قدر فرق پر دلالت کرتا ہے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توفی اور حضرت عیسیٰ کی توفی میں کچھ فرق چاہیئے.مگر افسوس کہ یہ نادان نہیں سوچتے کہ مشبہ مشبہ بہ کی طرز واقعات میں خواہ کچھ فرق ہو لیکن لغات میں فرق نہیں پڑ سکتا.مثلاً کوئی کہے کہ جس طرح زید نے روٹی کھائی میں نے بھی اسی طرح روٹی کھائی.سو اگرچہ روٹی کھانے کے وضع یا عمدہ اور ناقص ہونے میں فرق ہو مگر روٹی کا لفظ جو ایک خاص معنوں کے لئے موضوع ہے اس میں تو فرق نہیں آئے گا.یہ تو نہیں کہ ایک جگہ روٹی سے مراد روٹی اور دوسری جگہ پتھر ہو.لغات میں تو کسی طرح تصرف جائز نہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور اسی قسم کا مقولہ ہے جو ابن تیمیّہ نے زاد المعاد میں نقل کیا ہے اور وہ عبارت یہ ہے.قال یا معشر قریش ما ترون انی فاعل بکم قالوا خیرًا اخ کریم وابن اخ کریم قال فانی اقول لکم کما قال یوسف لاخوتہ لا تثریب علیکم الیوم اذھبوا فانتم الطلقاء الصفحہ۴۱۵.اب دیکھو تثریب کا لفظ جن معنوں سے حضرت یوسف کے قول میں ہے انہیں معنوں سے آنحضرت صلعم کے قول میں ہے.منہ
اس کے معنوں میں تغییر و تبدیل کردی ہے اور دراصل جب اس لفظ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کریں تو اس کے اور معنے ہیں اور جب حضرت مسیح کی طرف یہ لفظ منسوب کریں تو پھر اس کے وہی حقیقی معنے لئے جاویں گے جو خدائے تعالیٰ کے قدیم ارادہ میں تھے.پس اگر یہی بات سچ ہے تو علاوہ اس فساد صریح کے کہ ایک نبی کی شان سے بہت بعید ہے کہ وہ ایک قراردادہ معنوں کو توڑ کر اُن میں ایک ایسا تصرف کرے کہ بجز تحریف معنوی کے اور کوئی دوسرا نام اِس کا ہو ہی نہیں سکتا.دوسرا فساد یہ ہے کہ جس اتحاد مقولہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ فرمایا یعنی فلمّا توفّیتنی کا وہ اتحاد بھی تو قائم نہ رہا کیونکہ اتحاد تو تب قائم رہتا کہ توفی کے معنوں میں آنحضرت اور حضرت عیسیٰ شریک ہو جاتے.مگر وہ شراکت تو میسر نہ آئی پھر اتحاد کس بات میں ہوا.کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی اور لفظ نہیں ملتا تھا جو آپ نے ناحق ایک ایسے اشتراک کی طرف ہاتھ پھیلایا جس کا آپ کو کسی طرح سے حق نہیں پہنچتا تھا.بھلا زمین میں دفن ہونے والے اور آسمان پر زندہ اٹھائے جانے والے میں ایک ایسے لفظ میں کہ یا مَرنے کے اور یا زندہ اٹھائے جانے کے معنے رکھتا ہے کیونکر اشتراک ہو.کیا ضدین ایک جگہ جمع ہوسکتی ہیں.اور اگر آیت فلما توفیتنی میں توفی کے معنے مارنا نہیں تھا تو پھر کیاامام بخاری کی عقل ماری گئی کہ وہ اپنی صحیح میں اسی معنے کی تائید کے لئے ایک اور آیت دوسرے مقام سے اٹھا کر اس مقام میں لے آیا یعنی آیت انّی متوفیک اور پھر اسی پر بس نہ کیا بلکہ قول ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی اس جگہ جڑ دیا کہ متوفیک ممیتک یعنی متوفیک کے یہ معنی ہیں کہ مَیں تجھے مارنے والا ہوں.اگر بخاری کا یہ مطلب نہیں تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمثیلی معنوں کو ابن عباس کے صریح معنوں کے ساتھ زیادہ کھول دے تو ان دونوں آیتوں کو جمع کرنے اور ابن عباس کے معنوں کے ذکر سے کیا مطلب تھا اور کون سا محل تھا کہتوفّی کے معنے کی بحث شروع کر دیتا.پس درحقیقت امام بخاری نے اس کارروائی سے توفّی کے معنوں میں جو کچھ اپنا مذہب تھا ظاہر کر دیا.سو اِس جگہ ہمارے تائید دعویٰ کے لئے تین چیزیں ہو گئیں.اوّل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول مبارک کہ جیسے عبد صالح یعنی عیسیٰ نے
فلما توفیتنیکہا.مَیں بھی فلما توفیتنی کہوں گا.دوسر ے ابن عباسؓ سے توفّیکے لفظ کے معنے مارنا ہے.تیسر ے امام بخاری کی شہادت جو اس کی عملی کارروائی سے ظاہر ہو رہی ہے.اب سوچ کر دیکھو کہ کیا ہم نے حدیث اور قرآن کوچھوڑا یا ہمارے مخالفوں نے.کیا اُنہوں نے بھیتوفّیکے معنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کسی صحابی سے ثابت کئے جیسا کہ ہم نے کئے ہیں اور پھر بھی ہم اِس بات کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں کہ اگر ہمارے مخالف اِس ثبوت کے مقابل پر جو توفّی کی نسبت ہم نے پیش کیا اب بھی کوئی دوسرا ثبوت پیش کریں یعنی توفّی کے معنوں کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی اور حدیث ہم کو دکھلاویں اور اس کے ساتھ کسی اور صحابی کی طرف سے بھیتوفّی کے معنی تائیدی طور پر پیش کریں اور بخاری جیسے کسی امام حدیث کی بھی ایسی ہی شہادت توفّی کے معنوں کے بارہ میں پیش کر دیں تو ہم اس کو قبول کر لیں گے مگر یہ کیسی چالاکی ہے کہ خود تو حدیث اورقرآن کو چھوڑ دیں اور الٹا ہم پرالزام دیں کہ یہ فرقہ قرآن اور حدیث سے باہر ہو گیا ہے.اے مخالف مولویو خدا تم پر رحم کرے ذرہ غور سے توجہ کرو تا تمہیں معلوم ہو کہ یہ یقینی اور قطعی بات ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے مقام متنازعہ فیہ میں توفّی کے معنی بجز مارنے کے اور کچھ بھی ثابت نہیں ہوئے اور جو شخص اس ثابت شدہ معنی کو چھوڑتا ہے وہ قرآن کریم کی تفسیر بالرائے کرتا ہے کیونکہ حدیث کی رو سے بجز مارنے کے اور کوئی معنے توفّی آیت متنازعہ فیہ میں منقول نہیں.اسی وجہ سے شاہ ولی اللہ صاحب نے اپنی تفسیر فوزالکبیر میں جو صرف آثار نبوی اور اقوال صحابہ کے التزام سے کی گئی ہے متوفیک کے معنے صرف ممیتک لکھے ہیں.اگر ان کو کوئی مخالف قول ملتا تو ضرور وہ او کے لفظ سے وہ معنے بھی بیان کر جاتے.اب ہمارے مخالفوں کو شرم کرنا چاہیئے کہ کیوں وہ نصوص صریحہ کو صریح چھوڑ بیٹھے ہیں.پس اے بے باک لوگو خدا تعالیٰ سے ڈرو.کیا تم نے ایک دن مرنا نہیں.اور نزول کے لفظ پر آپ لوگ ناز نہ کریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس لفظ کا کچھ فیصلہ نہیں فرمایا کہ یہ نزول کن معنوں سے نزول ہے.کیونکہ نزول کئی قسم کے ہوا کرتے ہیں اور
مسافر بھی ایک زمین سے دوسری زمین میں جا کر نزیل ہی کہلاتا ہے.قرآن کریم میں ان نزولوں کا بھی ذکر ہے جو روحانی ہیں جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو ہم نے لوہا اتارا ہم نے لباس اتارا ہم نے چارپائے اتارے.اور ایلیا یعنی یوحنا کے قصہ سے جس پر یہود اور نصاریٰ کا اتفاق ہے اور بائیبل میں موجود ہے صاف کھل گیا ہے کہ فوت شدہ انبیاء کا نزول اس دنیا میں روحانی طور پر ہوا کرتا ہے نہ جسمانی.وہ آسمان سے تو ہرگز نہیں نازل ہوتے مگر اُن کی روحانی خصلتیں کسی مثیل میں باذن اللہ داخل ہو کر روحانی طور پر نازل ہو جاتی ہیں اور ان کی ارادات کا شخص مثیل پر ایک سایہ ہوتا ہے اس لئے اس مثیل کا ظہور ممثل بہ کا نزول سمجھا جاتا ہے.بعض اولیاء کرام نے بھی اس قسم کے نزول کا تصوف کی کتابوں میں ذکر کیا ہے.غرض عنداللہ یہ قسم بھی ایک نزول کی قسم سے ہے اور اگر یہ نزول نہیں تو پھر خدائے تعالیٰ کی کتابیں باطل ہوتی ہیں.ایلیا کا قصہ جو بائیبل میں موجود ہے ایک ایسا مشہورواقعہ ہے جویہود اور نصاریٰ دونوں فرقوں میں مسلّم ہے اور یہ کمال حماقت ہو گی کہ ہم یہ کہیں کہ ان دونوں فرقوں نے باہم مل کر اس مقام کی آیات کو تحریف کردیا ہے بلکہ نصاریٰ کو یہ قصہ نہایت ہی مُضر پڑا ہے اور اگر اِس جگہ نزولِ ایلیا کے ظاہری معنے کریں تو یہود سچے ٹھہرتے ہیں اور ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام سچے نبی نہیں تھے کیونکہ اب تک حضرت ایلیا علیہ السلام آسمان سے نازل نہیں ہوئے اور بائیبل کے رو سے ضرور تھا کہ وہ حضرت مسیح سے پہلے نازل ہو جاتے.حضرت مسیح کو یہ ایک بڑی دِقت پیش آئی تھی کہ یہود نے ان کی نبوت میں یہ عُذر پیش کر دیا جو درحقیقت ایک پہاڑ کی طرح تھا.پس اگر یہ جواب صحیح ہوتا کہ نزول ایلیا کا قصہ محرف ہے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہود کے آگے اسی جواب کوپیش کرتے اور کہتے کہ یہ بات سرے سے ہی جھوٹ ہے کہ ایلیا پھر دنیا میں آئے گا اور ضرور ہے کہ وہ مسیح سے پہلے بجسمہ العنصری آسمان سے اتر آوے.مگرانہوں نے یہ جواب نہیں دیا بلکہ آیت کی صحت کو مسلّم رکھ کرنزول کو نزول روحانی ٹھہرایا.اور انہیں تاویلوں کے سبب سے یہودیوں نے انہیں ملحد کہا اور بالاتفاق فتویٰ دیا کہ یہ شخص بے دین اور کافر ہے کیونکہ نصوص توریت کو بلا قرینہ صارفہ ان کے ظاہری معنوں سے پھیرتا ہے.اس میں کچھ شک نہیں کہ
اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تحریف کاعذر پیش کر دیتے اور کہہ دیتے کہ تمہاری آسمانی کتابوں کے یہ مقامات محرف ہو گئے ہیں تو اس جواب سے بھی اگرچہ وہ یہود کا منہ تو بند نہیں کر سکتے تھے تاہم اُن کے خوارق اورمعجزات کو دیکھ کر بہت سے لوگ سمجھ جاتے کہ ممکن ہے کہ یہ دعویٰ تحریف کاسچا ہی ہو کیونکہ یہ شخص مؤید من اللہ اورالہام یافتہ اور صاحبِ معجزات ہے لیکن حضرت مسیح نے تو ایسا نہ کیا بلکہ آیت کی صحت کا ایلیا کے نزول کی نسبت اقرار کر دیا جس کی وجہ سے اب تک عیسائی مصیبت میں پڑے ہوئے ہیں اور یہود کے آگے بات بھی نہیں کر سکتے اور یہود ٹھٹھے سے کہتے ہیں کہ عیسیٰ اُس وقت نبی ٹھہر سکتا ہے کہ جب ہم خدائے تعالیٰ کی تمام کتابوں کو جھوٹی قرار دے دیں اور اَب تک عیسائیوں کو موقعہ نہیں ملا کہ اس مقام میں تحریف کا دعویٰ کر دیں اور اس بلا سے نجات پاویں کیونکہ اب وہ انیس سو برس کے بعد کیونکر اس قول کی مخالفت کر سکتے ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے منہ سے نکل گیا.یہ مقام ہمارے بھائی مسلمانوں کے لئے بہت غور کے قابل ہے.اُن کو سوچنا چاہیئے کہ جن ظاہری معنوں پر وہ زور دیتے ہیں اگر وہی معنے سچے ہیں تو پھر حضرت عیسیٰ کسی طور سے بھی نبی نہیں ٹھہر سکتے بلکہ وہ نبی اللہ تو اُسی حالت میں ٹھہریں گے جب کہ حضرت ایلیا نبی کے نزول کو ایک روحانی نزول مانا جاوے.افسوس کہ اٹھارہ سو نوے برس گذرنے کے بعد وہی یہودیوں کا جھگڑا اِن مولویوں اور فقیہوں نے ا س عاجز کے ساتھ شروع کر دیا اور ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ جس پہلو کو اِس عاجز نے اختیار کیا وہ حضرت عیسیٰ کا پہلو ہے اور جس پہلو پر مخالف مولوی جم گئے وہ یہودیوں کا پہلو ہے.اب مولویوں کے پہلو کی نحوست دیکھو کہ اس کو اختیار کرتے ہی یہودیوں سے اُن کو مشابہت نصیب ہوئی.ابھی کچھ نہیں گیا اگر سمجھ لیں.اب جبکہ اس تحقیقات سے نزول جسمانی کا کچھ پتہ نہ لگا اور نہ پہلی کتابوں میں اس کی کوئی نظیر ملی اور ملا تو یہ ملا کہ ایلیا نبی کے دنیا میں دوبارہ آنے کا جو وعدہ تھا اُس سے مراد روحانی نزول تھا
نہ ظاہری تو اِس تحقیقات سے ثابت ہوا کہ جب سے دنیا کی بنا پڑی ہے یعنی حضرت آدم سے لے کر تا ایں دم کبھی کسی انسان کی نسبت نزول کا لفظ جب آسمان کی طرف نسبت دیا جائے جسمانی نزول پر اطلاق نہیں پایا اورجو دعویٰ کرے کہ پایا ہے وہ اس کا ثبوت پیش کرے.اور جب اب تک نزول جسمانی پر اطلاق نہیں پایا تو اب خلاف سنت اللہ اور محاورہ قدیمہ کے جو اس کی کتابوں میں پایا جاتا ہے کیوں کر اطلاق پائے گا ولن تجد لسنۃ اللّٰہ تبدیلا.اور پھر ہم تنزّل کے طور پر کہتے ہیں کہ اگر کوئی غبی اب بھی اِس صریح اور واضح بیان کو نہ سمجھے تو اتنا تو ضرور سمجھتا ہو گا کہ متنازعہ فیہ مقام میں توفی کا لفظ وہ محکم اور بیّن لفظ ہے جس کے معنے فیصلہ پا گئے اور قطعی طورپر ثابت ہو گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے معنے مارنا ہی فرمایا ہے اور حضرت ابن عباسؓ نے بھی اِس کے معنے مارنا ہی لکھا ہے اور امام بخاری نے بھی مارنے پر ہی عملی طور پر شہادت دی ہے.لیکن اس کے مقابل پر نزول کا جو لفظ ہے اس کی نسبت اگر ایک بڑے سے بڑا متعصب کچھ تاویلیں کرے تو اس سے زیادہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ ایک لفظ ہے جو متشابہات میں داخل ہے.لیکن فیصلہ شدہ لفظ اور اُس کے بیّن اور محکم معنوں کو چھوڑ کر متشابہات کی طرف دوڑنا انہیں لوگو ں کا کام ہے جن کے دل میں مرض ہے.اگر ایمان ہے تو وہ لفظ جو بیّنات اور محکمات میں داخل ہو گیا اُسی سے پنجہ مارو نہ کسی ایسے لفظ سے جو متشابہات میں داخل رہا اور متشابہات کی تاویل خدا تعالیٰ کے علم کی طرف حوالہ کرو تا نجات پاؤ.بڑی بھاری نزاع جو ہم میں اور ہمارے مخالفوں میں ہے یہی ہے جو مَیں نے بیان کردی ہے اور ماحصل یہی نکلا کہ ہم بیّنات اور محکمات سے پنجہ مارتے ہیں جو قرآن سے ثابت ،حدیث سے ثابت، اقوال صحابہ سے ثابت، پہلی کتابوں کے نظائر سے ثابت، سنت اللہ سے ثابت، امام بخاری کے قول سے ثابت، امام مالک کے قول سے ثابت،
ابن قیّم کے قول سے ثابت، ابن تیمیّہ کے قول سے ثابت اور اسلام کے بعض دوسرے فرقوں کے اعتقاد سے ثابت.مگر ہمارے مخالفوں نے صرف نزول کا ذوالوجوہ لفظ پکڑا ہوا ہے جو لغت اور قرآن اور پہلی آسمانی کتابوں کے رو سے بہت سے معنوں پر اطلاق پاتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں تشریح نہیں کی کہ اِس سے حضرت مسیح علیہ السلام کا جسمانی نزول مراد ہے نہ اور کچھ کیوں کہ جب کہ نبیوں کے روحانی نزول کے بارے میں ایک پہلی امت قائل ہے اور یہود جو حضرت ایلیا کے جسمانی نزول کے منتظر تھے اُن کا غلطی پر ہونا حضرت مسیح کی زبان سے ثابت ہو گیا اور اِس سنت اللہ کا کہیں پتہ نہ ملا جو جسمانی نزول بھی کبھی کسی زمانہ میں گذر چکا تو یہی معنے متعین ہوئے کہ نزول عیسیٰ علیہ السلام سے مراد روحانی نزول ہے ورنہ اگر جسمانی نزول بھی سنت اللہ میں داخل ہے تو خدا تعالیٰ نے یہودیوں کو کیوں اِس قدر ابتلا میں ڈالا کہ وہ اب تک اِس خیال میں مبتلا ہیں کہ سچا مسیح تب ہی آئے گا کہ جب ایلیا نبی آسمان سے نازل ہو لے.جبکہ خدا تعالیٰ نے صاف وعدہ کیا تھا کہ ایلیا نبی دوبارہ دنیا میں آئے گا اور پھر اُس کے بعد مسیح آئے گا تو اِس وعدہ کو اس کی ظاہری صورت پر پورا کیا ہوتا اور ایلیا نبی کو آسمان سے زمین پر بجسمہ العنصری اتارا ہوتا تا یہود لوگ جیسا کہ ایک مدت دراز سے پیشگوئی کے معنے سمجھے بیٹھے تھے اور اُن کے فقیہوں اور عالموں اور محدثوں نے نزول جسمانی ایلیا کو اپنے اعتقاد میں داخل کر لیا تھا اس پیشگوئی کا اپنے اعتقاد کے موافق پورا ہونا دیکھ لیتے اور پھر اُن کو حضرت مسیح کی نبوت میں کچھ بھی شک باقی نہیں رہتا.مگر اُن پر یہ کیسی مصیبت پڑی کہ ان کی کتابوں میں تو ان کو صاف صاف اور صریح لفظوں میں بتلایا گیا کہ درحقیقت ایلیا ہی دوبارہ دنیا میں آئے گا اور وہی مسیح سچا ہو گا جو ایلیا کے نزول کے بعد آوے لیکن یہ پیشگوئی اپنے ظاہری معنوں پر پوری نہ ہوئی اور حضرت مسیح تشریف لے آئے اور اُن کو یہود کے سا منے سخت مشکلات پیش آگئے.آخرکار ایک ایسی دور از حقیقت تاویل پر زور ڈالا گیا جس سے یہودیوں کو
کہنا پڑا کہ عیسیٰ سچا مسیح نہیں ہے بلکہ ایک مکار اور ملحد ہے جو اپنے مطلب کے لئے ایک صریح پیشگوئی کو ظاہر سے پھیر کر روحانی نزول کا قائل ہے.سو اس وجہ سے کروڑہا آدمی کافر اور منکر رہ کر داخل جہنم ہوئے.اے مسلمانوں اس مقام کو ذرا غور سے پڑھو کہ آپ لوگوں کی بات یہود کی بات سے ایسی مل گئی کہ دونوں باتیں ایک ہی ہو گئیں اور یقیناً سمجھو کہ مومن کی خصلت میں داخل ہے کہ وہ دوسرے کے حال سے نصیحت پکڑتا ہے.فاعتبروا یا اولی الابصار واسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون.اگر کہو کہ ہم کیونکر یقین کریں کہ یہ واقعہ صحیحہ ہے تو اس کا جواب یہی ہے کہ یہ مسئلہ دو قوموں کا متواترات سے ہے اور صرف یہ کہنا کہ وہ کتابیں محرف مبدل ہو گئیں ایسے متواترات کو کمزور نہیں کر سکتا.ہاں اس صورت میں ہو سکتا تھا کہ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں اس قول کی تکذیب کرتا.پس جبکہ اس مسئلہ کی تکذیب حدیث اور قرآن سے ثابت نہیں ہوتی تو ہم متواترات قولی سے کسی طرح انکار نہیں کر سکتے.* بلکہ اگر یہ بھی فرض کر لیں کہ وہ تمام کتابیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہی نہیں ہوئیں اور سراسر انسانی تالیف ہے.پھر بھی ہم تاریخی سلسلہ کو کسی طرح مٹا نہیں سکتے اور جو امر تاریخی طرز پر دو قوموں کے متفق علیہ شہادت سے ثابت ہو گیا اب وہ شکی اور ظنی نہیں ٹھہر سکتا.جیسا کہ ہم وجود رامچندر اور کرشن اور بکر ماجیت اور بدھ سے انکار نہیں کر سکتے حالانکہ ہم ان کتابوں کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے نہیں سمجھتے.پھر کیوں انکار نہیں کر سکتے؟ تاریخی تواتر کی وجہ سے.بعض نیم ملا عجیب جہالت کے گڑھے میں پڑے ہوئے ہیں.انہوں نے جو ایک تحریف کا لفظ سن رکھا ہے محل بے محل پر اسی کو پیش کر دیتے ہیں اور تاریخی تواترات کو نظر انداز کر دیا ہے.بلکہ ان کو مٹانا چاہتے ہیں.یہ نہایت شرمناک بات ہے کہ ہماری قوم میں ایسے لوگ بھی * نوٹ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آنے والے مسیح کو اپنی امت میں سے قرار دینا روحانی نزول کا مؤید ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد روحانی نزول تھا نہ اور کچھ.منہ
مولوی کے نام سے مشہور ہیں کہ متواترات قومی کو جو تاریخ کے سلسلے میں آگئے ہیں قبول نہیں کرتے اور خواہ نخواہ غیر متعلقہ جزئیات کو تحریف میں داخل کرتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اس موقعہ پر اگر یہودی تحریف کرتے تو وہ تحریف عیسائیوں کے مقصد کے مخالف ٹھہرتی اور اگر عیسائی تحریف کرتے تو یہودیوں کے دعویٰ کے برعکس ہوتی اور جو لفظ توریت کی کتابوں میں موجود ہیں وہ عیسائیوں کے مقصد کو نہایت مضر پڑے ہیں.کیو نکہ ان سے حضرت ایلیا کے نزول جسمانی کی پیشگوئی قبل از ظہور حضرت مسیح یقینی طور پر ثابت ہوتی ہے تو اس صورت میں تحریف کرنے میں عیسائیوں کا یہودیوں کے ساتھ اتفاق کرنا ایسا ہے جیسا کہ کوئی اپنے ہاتھ سے اپنا ناک کاٹے.وجہ یہ کہ اگر نزول ایلیا کی پیشگوئی کو ظاہر پر ہی حمل کریں تو پھر حضرت عیسیٰ کا سچا نبی ہونا محالات میں سے ہے کیونکہ اب تک ایلیا نبی بجسمہ العنصری آسمان سے نازل نہیں ہوا تو پھر عیسیٰ جس کا اس کے بعد آنا ضروری تھا کیونکر پہلے ہی آ گیا.اور اگر ظاہر پر حمل نہ کریں اور نزول ایلیا کو نزول روحانی قرار دیں تو پھر نزول عیسیٰ کی پیشگوئی میں کیوں ظاہر پر جم بیٹھیں.نزول برحق اور اس پر ہم ایمان لاتے ہیں بلکہ اس کا ظہور بھی دیکھ لیا لیکن جن معنوں کے رو سے یہود بندر اور سور کہلائے اور خدا تعالیٰ کی کتابوں میں لعنتی ٹھہرے اس طور کے نزول کے معنے بعد پہنچنے ہدایت کے وہی کرے جس کو بندر اور سؤر بننے کا شوق ہو.خدا تعالیٰ صادق مومنوں کو ایسے معنوں سے اپنی پناہ میں رکھے جو اس لعنت کی بشارت دیتے ہیں جو پہلے یہود پر وارد ہو چکی ہے.زیادہ اس مسئلہ میں کیا لکھیں اور کیا کہیں جن کو خدا تعالیٰ ہدایت نہ دے ہم کیونکر دے سکتے ہیں.جن کی آنکھیں وہ مالک نہ کھولے ہم کیوں کر کھول سکتے ہیں.جن مُردوں کو وہ زندہ نہ کرے ہم کیوں کر کریں.اے مالک و قادر خدا اب فضل کر اور رحم کر اور اس تفرقہ کو درمیان سے اٹھا اور سچ ظاہر کر اور جھوٹ کو نابود کر کہ سب قدرت اور طاقت اور رحمت تیری ہی ہے.آمین آمین آمین پھر بعد اس کے واضح رہے کہ فرشتوں کے نزول سے بھی ہمیں انکار نہیں.اگر کوئی ثابت
کر دے کہ فرشتوں کا نزول اسی طرح ہوتا ہے کہ وہ اپنے وجود کو آسمان سے خالی کر دیں تو ہم بشوق اس ثبوت کو سنیں گے اور اگر درحقیقت ثبوت ہوگا تو ہم اس کو قبول کر لیں گے.جہاں تک ہمیں معلوم ہے فرشتوں کا وجود ایمانیات میں داخل ہے.خدا تعالیٰ کا نزول سماء الدنیا کی طرف اور فرشتوں کا نزول دونوں ایسی حقیقتیں ہیں جو ہم سمجھ نہیں سکتے.ہاں کتاب اللہ سے اتنا ثابت ہوتا ہے کہ خلق جدید کے طور پر زمین پر فرشتوں کا ظہور ہو جاتا ہے دحیہ کلبی کی شکل میں جبرئیل کا ظاہر ہونا خلق جدید تھا یا کچھ اور تھا.پھر کیا یہ ضرور ہے کہ پہلی خلق کو نابود کر لیں پھر خلق جدید کے قائل ہوں بلکہ پہلا خلق بجائے خود آسمان پر ثابت اور قائم ہے اور دوسرا خلق خدا تعالیٰ کی وسیع قدرت کا ایک نتیجہ ہے کیا خدا تعالیٰ کی قدرت سے بعید ہے کہ ایک وجود دو جگہ دو جسموں سے دکھاوے.حاشا وکلا ہرگز نہیں.الم تعلم ان اللّٰہ علٰی کل شیء قدیر.پھر شیخ بطالوی صاحب نے اپنی دانست میں ہماری کتاب تبلیغ کی کچھ غلطیاں نکالی ہیں اور ہم افسوس سے لکھتے ہیں کہ تعصب کے جوش سے یا نادانی کی وجہ سے صحیح اور باقاعدہ ترکیبوں اور لفظوں کو بھی غلطی میں داخل کر دیا.اگر اس امر کے لئے کوئی خاص مجلس مقرر ہو تو ہم ان کو سمجھا ویں کہ ایسی شتاب کاری سے کیا کیا ندامتیں اٹھانی پڑتی ہیں.قیامت کی نشانیاں ظاہر ہو گئیں.یہ علم اور نام مولوی انّا للّٰہ و انّا الیہ راجعون.وہ غلطیاں جو انہوں نے بڑی جانکاہی سے نکالی ہیں اگر وہ تمام اکٹھی کر کے لکھی جائیں تو دو یا ڈیڑھ سطر کے قریب ہوں گی اور ان میں اکثر تو سہو کاتب ہیں اور تین ایسی غلطیاں جو بوجہ نہ میسر آنے نظر ثانی یا طفرہ نظر کے رہ گئی ہیں اور باقی شیخ صاحب کی اپنی عقل کی کوتاہی اور سمجھ کا گھاٹا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ شیخ صاحب نے کبھی لسان عرب کی طرف توجہ نہیں کی.بہتر تھا کہ چپ رہتے اور اور بھی اپنی پردہ دری نہ کراتے.ہمیں شوق ہی رہا کہ شیخ صاحب ہماری کتابوں کے مقابل پر کوئی فصیح بلیغ رسالہ نظم اور نثر میں نکالیں اور ہم سے انعام لیں اور ہم سے اقرار کرا لیں کہ درحقیقت وہ مولوی اور عربی دان ہیں.میں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں کہ یہ رسائل جو لکھے گئے ہیں تائید الٰہی سے لکھے گئے ہیں.
مَیں ان کا نام وحی اور الہام تو نہیں رکھتا مگر یہ تو ضرور کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی خاص اور خارق عادت تائید نے یہ رسالے میرے ہاتھ سے نکلوائے ہیں.میں نے کئی مرتبہ شائع کیا کہ اگر شیخ صاحب موصوف جن کی نسبت میرا اعتقاد ہے کہ وہ خذلان میں پڑے ہوئے ہیں اور علم عربیت سے کسی اتفاق سے محروم رہ گئے ہیں مقابلہ کر کے دکھلا دیں تو وہ اس مقابلہ سے میرے ان تمام دعاوی کو نابود کر دیں گے.مگر شیخ صاحب کیوں اس طرف متوجہ نہیں ہوتے کونسی مصیبت ہے جو ان کو مانع ہے.بس یہی مصیبت ہے کہ وہ لسان عرب سے بے بہرہ اور آج کل خذلان کی حالت میں مبتلا ہیں.ان کے لئے ہرگز ممکن نہ ہوگا کہ مقابلہ کر سکیں.یہ وہی الہام ہے جو ظہور کر رہا ہے کہ انّی مھین من اراد اھانتک یہ وہی محمد حسین ہے جو اس عاجز کی نسبت جابجا کہتا پھرتا تھا کہ یہ شخص سخت جاہل ہے.عربی کیا ایک صیغہ تک اس کو نہیں آتا اور وہ اعلیٰ درجہ کے فاضل جو میرے ساتھ ہیں ان کو کہتا تھا کہ یہ لوگ صرف منشی ہیں.پس خدا تعالیٰ کی غیرت نے تقاضا کیا کہ اس کی پردہ دری کرے اور اس کے تکبر کو توڑے اور اس کو دکھلاوے کہ خود پسندی اور عجب کے یہ ثمرات ہیں.سو اس سے زیادہ اور کیا اہانت ہو گی کہ جس شخص کو جاہل سمجھتا تھا اور منبر پر چڑھ کر اور مجلسوں میں بیٹھ کر بار بار کہتا تھا کہ زبان عرب سے یہ شخص بالکل ناآشنا ہے اور اجہل ہے اسی کے ہاتھ سے خدا تعالیٰ نے اس کو شرمندہ اور ذلیل کیا.اگر یہ نشان نہیں تو چاہیئے تھا کہ محمد حسین اپنے تمام دوستوں سے مدد لیتا اور نور الحق اور کرامات الصادقین کا جواب لکھتا.اس شخص کو بڑے بڑے انعاموں کے وعدے دیئے گئے.ہزار لعنت کا ذخیرہ آگے رکھا گیا مگر اس طرف توجہ نہ کی.سو یہ نتیجہ مخالفت حق کا ہے فاتقوا اللّٰہ یا اولی الابصار.اور یاد رہے کہ یہ عذر شیخ صاحب موصوف کا کہ نور الحق میں پادری بھی مخاطب ہیں اس لئے رسالہ بالمقابل لکھنے سے پہلو تہی کیا گیا نہایت مکارانہ عذر ہے.گویا ایک بہانہ ڈھونڈھا ہے کہ کسی طرح جان بچ جائے لیکن دانا سمجھتے ہیں کہ یہ بہانہ نہایت کچا اور فضول اور ایک
شرمناک کارستانی ہے کیونکہ ہم نے تو لکھ دیا ہے کہ صرف پادری لوگ اور بے دین آدمی اس کے مقابلہ سے عاجز رہ سکتے ہیں سچے مسلمان عاجز نہیں ہیں.پس اگر شیخ صاحب بالمقابل رسالہ پیش کرتے تو پادریوں کی اور بھی ذلت ہوتی اور لوگ کہتے کہ مسلمانوں نے ہی یہ رسالہ بنایا تھا اور مسلمانوں نے ہی اس کے مقابل پر ایک اور رسالہ بنا دیا مگر پادریوں سے کچھ نہ ہو سکا.ماسوا اس کے تین ہزار روپیہ انعام پاتے الہام کا جھوٹا ہونا ثابت کر دیتے اور قوم میں عزت حاصل کر لیتے.اور بعض ان کے پرانے دوست جو کہہ رہے ہیں کہ بس معلوم ہوا جو محمدحسین اردو دان ہے عربی نہیں جانتا یہ تمام شک ان کے دور ہو جاتے.مگر اب جو وہ مقابلہ سے دستکش ہو گئے تو آئندہ حیا سے بہت بعید ہو گا کہ اس جماعت کا نام منشی رکھیں اور خود ان امور سے گریز کریں جو مولویت کے منصب کے لئے شرط ضروری ہیں.ان لوگوں کا عجیب اعتقاد ہے جو اب بھی ان لوگوں کو عربی دان ہی سمجھ رہے ہیں اور مولوی کر کے پکارتے ہیں نہایت خیر خواہی کی راہ سے پھر میں آخری دعوت کرتا ہوں اور پہلے رسالوں کے مقابلہ سے نومید ہوکر رسالہ سر الخلافہ کی طرف شیخ صاحب کو بلاتا ہوں.آپ کے لئے ستائیس دن کی میعاد اور ستائیس روپیہ نقد کا انعام مقرر کیا گیا ہے اور میں اس پر راضی ہوں کہ یہ روپیہ آپ ہی کے سپرد کروں اگر آپ طلب کریں اور ہم نہ بھیجیں تو ہم کاذب ہیں.ہم پہلے ہی یہ روپیہ بھیج سکتے ہیں مگر آپ اقرار شائع کر دیں کہ میں ستائیس دن میں رسالہ بالمقابل شائع کر دوں گا.اگر آپ اس مدت میں شائع کر دیں تو آپ نے نہ صرف ستائیس روپیہ انعام پایا بلکہ ہم عام طور پر شائع کر دیں گے کہ ہم نے اتنی مدت جو آپ کو شیخ شیخ کر کے پکارا اور مولوی محمد حسین نہ کہا یہ ہماری سخت غلطی تھی بلکہ آپ توفی الواقع بڑے فاضل اور ادیب ہیں اور اس لائق ہیں کہ جو حدیث کے آپ معنے سمجھیں وہی قبول کئے جائیں.اب دیکھو کہ کس قدر آپ کو اس میں فتح میسر آتی ہے اور پھر بعد اس کے کچھ بھی حاجت نہیں کہ آپ روپیہ اکٹھا کرنے کے لئے لوگوں کو تکلیف دیں یا اس نوکری سے استعفاء
دینے کے لئے طیار ہو جائیں.کیونکہ جب آپ نے میرا مقابلہ کر دکھایا تو میرا الہام جھوٹا کر دیا تو اس صورت میں میرا تو کچھ باقی نہ رہا.پس آپ کو خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ اگر آپ کو علم عربی میں کچھ بھی دخل ہے ایک ذرہ بھی دخل ہے تو اب کی دفعہ تو ہرگز منہ نہ پھیریں اور اگر اس رسالہ میں کچھ غلطیاں ثابت ہوں تو آپ کے بالمقابل رسالہ کی غلطیوں سے جس قدر زیادہ ہوں گی فی غلطی ایک روپیہ آپ کو دیا جائے گا پچیس جولائی ۱۸۹۴ ء تک اس درخواست کی میعاد ہے.اگر آپ نے ۲۵ جولائی ۱۸۹۴ ء تک یہ درخواست چھاپ کر بذریعہ کسی اشتہار کے نہ بھیجی تو سمجھا جاوے گا کہ آپ اس سے بھی بھاگ گئے.اور مسلمانوں کو لازم ہے کہ ان نادانوں کو جو نام کے مولوی ہیں اور اپنے وعظوں اور رسالوں کو معاش کا ذریعہ ٹھہرا رکھا ہے خوب پکڑیں اور ہریک جگہ جو ایسا مولوی کہیں وعظ کرنے کے لئے آوے اس سے نرمی کے ساتھ یہی سوال کریں کہ کیا آپ درحقیقت مولوی ہیں یا کسی نفسانی غرض کی وجہ سے اپنا نام مولوی رکھا لیا ہے.کیا آپ نے نور الحق کا کوئی جواب لکھا یا کرامات الصادقین کا کوئی جواب تحریر کیا ہے یا رسالہ سرّ الخلافہ کے مقابل پر کوئی رسالہ نکالا ہے.اور یقیناً یاد رکھیں کہ یہ لوگ مولوی نہیں ہیں.مسلمانوں کو لازم ہے کہ نور الحق وغیرہ رسائل اپنے پاس رکھیں اور پادریوں اور اس جنس کے مولویوں کو ہمیشہ ان سے ملزم کرتے رہیں اور ان کی پردہ دری کر کے اسلام کو ان کے فتنہ سے بچاویں اور خوب سوچ لیں کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے دھوکا دہی کی راہ سے مولوی کہلا کر صدہا مسلمانوں کو کافر ٹھہرایا اور اسلام میں ایک سخت فتنہ برپا کردیا.والسلام علٰی من اتبع الھدٰی.الراقم خاکسار غلام احمد عفی اللہ عنہ
الشیخ عبد الحُسین الناکفوری سأل عنی بعض الناس فی أمر الشیخ عبد الحسین ناکفوری، وقالوا إنہ یدّعی أنہ نائب المہدی الموعود، وأنہ من اللّٰہ رب العالمین.فاعلموا أنّی ما توجہتُ إلی ہذا الأمر، وما أریٰ أن أتوجہ إلیہ، ویجرّد اللّٰہ کلَّ حقیقۃ من أستارہا، وکلّ شجرۃ تُعرَف من ثمارہا، فستعرفون کل شجرٍ من ثمرہ إلی حین.والذی اتّبعَنا فی مشربنا فہو منّا، والذی لم یتّبع فہو لیس منّا، وسیحکم اللّٰہ بیننا وبینہم وہو أحکم الحاکمین.إن الذین یبسطون یدیہم إلی عرض الصحابۃ ویحسبون صَحْبَ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الکفرۃ الفجرۃ، أولئک لیسوا منا ولسنا منہم، فرّقوا دین اللّٰہ وکانوا کالمفسدین.أولٓئک الذین ما عرفوا رسول اللّٰہ حق المعرفۃ، وما قدروا حق قدرِ خیرِ البریّۃ، فقالوا إن صحبہ أکثرہم کانوا فاسقین کافرین.ما اتقوا الفواحش، وخانوا کل خیانۃٍ، ما ظہر منہا وما بطن، وکانوا منافقین.فصرف اللّٰہ قلوبہم عن الحق، یتکبّرون فی الأرض بغیر الحق، یقولون نحن نحبّ آل رسول اللّٰہ وما کانوا مُحبّین.یریدون أن یُرضوا قومہم بالسب والشتم، واللّٰہ أحقُّ أن یُرضوہ إن کانوا مؤمنین.ألا إنہم علی الباطل، ألا إنہم من المفسدین.وغشِیہم من التعصب ما غشیہم
فانثنوا کالعَمین.فلن یکون منہم ولیُّ الرحمن أبدًا، ولہم عذاب ألیم فی الآخرۃ، وہم من المحرومین.إلا الذین تابوا وأصلحوا وطہّروا قلوبہم وزکّوا نفوسہم، وجاء وا ربّ العرش مخلصین، فلن یضیع اللّٰہ أجرہم ولن یُلحقہم بالمخذولین.وتجدون أنوار عشق اللّٰہ فی جباہہم، وآثار رحمۃ اللّٰہ فی وجوہہم، وتجدونہم من المحبین الصادقین.کُتب فی قلوبہم الإیمان، وحِیْلَ بینہم وبین شہواتہم، فلا یتبعون النفس إلا الحق، وخرّوا علی حضرۃ اللّٰہ متضرعین.وبنوا لمحبوبہم بنیانا فی قلوبہم، وبرزوا لہ متبتلین.یتبعون أحسنَ ما أُنزلَ إلیہم من ربّہم، ویتقون حق التقاۃ، فتراہم کالمیّتین.یجتنبون سبَّ الناس وغیبتہم، ویتّقون الفواحش مُستغفرین.ویتبعون الرسول حق الاتباع فتراہم فیہ کالفانین.وکذالک تعرف الفاسقین بسیماہم وشِرکہم ونَتَنِ کذبہم، وما للأُسود والثعالب یا معشر السائلین؟ ثم اعلموا أن معرفۃ الأولیاء موقوفۃ علی عین الاتقاء ، فلا تجترؤا ولا تعجلوا علٰی أحد، فتنقلبوا مجرمین.وسارِعوا إلی حسن الظن ما اسطعتم، وأحسنوا واللّٰہ یحب المحسنین.ولا یجرِمَنّکم شقاق أحد أن تعادوا قومًا صالحین.إن اللّٰہ یمنّ علی من یشاء من عبادہ، ولا یُسأل عما یفعل، فلا تنکروا کالمجترئین.ولا تستخفّوا سبَّ أولیاء اللّٰہ، إنہم قوم یغضب اللّٰہ لہم، ویصول علی معادیہم، وإنہم من المنصورین.ولا تجاوروہم إلا بالتی ہی أحسن، ولا تجترؤا ولا تعتدوا إن کنتم متقین.ومن عادیٰ صادقا فقد مسّتْہ نفحۃ من العذاب، فیا حسرۃ علی المستعجلین و إن کان أحد منکم یُعادی الصادق فأَعِظُہ أن یعود لمثلہ أبدًا إن کان من المتورّعین.
ومن جاء ہ الحق فلم یقبلہ وزاورَ ذاتَ الشمال فسیبکی أسفا، وما کان اللّٰہ مُہلِکَ قوم حتی یُتمّ حجتہ علیہم، فإذا أبوا فیأخذہم ملیکٌ مقتدر، فاتقوہ یا معشر الغافلین.المکتُوب إلٰی عُلمَاء الہند فمنہم المولوي عبد الجبار الغزنوي، والمولوي عبد الرحمان اللکوکوي، والمولوي غلام دستکیر القصوري، والمولوي مشتاق أحمد اللودہیانوي، والمولوي محمد إسحاق البتیالوي، والقاضي سلیمان، والمولوي رشید أحمد الکنکوءي، والمولوي محمد بشیر البوفالوي، والمولوي عبد الحق الدہلوي، والمولوي نذیر حسین الدہلوي، والشیخ حسین عرب البوفالوي، والحافظ عبد المنان الوزیرآبادي، والمولوي شاہ دین اللودہانوي، والمولوي عبد المجید الدہلوي، والمولوي عبد العزیز اللودیانوي، والمولوي عبد اللّٰہ تلوندوي، والمولوي نذیر حسین الأنبیتوي السہارنفوري.بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم.الحمد للّٰہ الذی یُطلع القمر بعد دُجی المحاق، ویُغیث بعد المحل بالبُعاق، ویرسل الر یاح بعد الاحتباس، ویہدي عبادہ بعد وساوس الخنّاس، ویُظہر نورہ عند إحاطۃ الظلمات، وینزل رُشدًا عند طوفان الجہلات؛ والصلاۃ والسلام علی سید الرسل وخیر الکائنات، وأصحابِہ الذین طہّروا الأرض من أنواع الہنات والبدعات، وآلِہ الذین
ترکوا بأعمالہم أسوۃ حسنۃ للطیبین والطیبات، وعلٰی جمیع عباد اللّٰہ الصالحین.أمّا بعد فیا عباد اللّٰہ، إنکم أنتم تعلمون أن ریح نفحات الإسلام کیف رکدت، ومصابیحہ کیف خبَتْ، والفتن کیف عمّت وکثُرت، وأنواع البدع کیف ظہرت وشاعت، وقد مضٰی رأس الماءۃ الذی کنتم ترقبونہ، ففکِّروا لِمَ ما ظہر مجدد کنتم تنتظرونہ؟ أظننتم أن اللّٰہ أخلفَ وعدہ أو کنتم قومًا غافلین.فاعلموا أن اللّٰہ قد أرسلنی لإصلاح ہذا الزمان، وأعطانی علم کتابہ القرآن، وجعلني مجددًا لأحکم بینکم فیما کنتم فیہ مختلفین.فلِمَ لا تطیعون حَکَمَکُم ولِمَ تصولون منکرین؟ وما کنتُ من الکافرین ولا من المرتدین، ولکن ما فہمتم سرَّ اللّٰہ، وحار فہمکم، وفرط وہمکم، وکفّرتمونی، وما بلغتم معشار ما قلتُ لکم، وکنتم قومًا مستعجلین.وواللّٰہ إنی لا أدّعی النبوۃ ولا أجاوز الملۃ، ولا أغترف إلا من فضالۃ خاتم النبیین.وأؤمن باللّٰہ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ، وأصلی وأستقبل القبلۃ، فلِم تکفّروننی؟ ألا تخافون اللّٰہ رب العالمین؟ أیہا الناس لا تعجلوا علیّ، ویعلم ربّی أنی مسلم، فلا تُکفّروا المسلمین.وتدبَّروا صحف اللّٰہ، وفکِّروا فی کتاب مبین.وما خلقکم اللّٰہ لتکفّروا الناس بغیر علم، وتترکوا طرق رفق وحلم وحسن ظن، وتلعنوا المؤمنین.لِمَ تخالفون قول اللّٰہ وأنتم تعلمون؟ أخُلقتم لتکفیر المؤمنین أو شققتم صدورنا، ورأیتم نفاقنا وکُفرنا وزورنا؟ فأیہا الناس، توبوا توبوا وتندموا، ولا تغلُوا فی ظنکم ولا تُصرّوا، واتقوا اللّٰہ ولا تجترؤا ولا تیأسوا من روح اللّٰہ، وإنہ لا یُضیع أمۃ خیر المرسلین.خلَق الناس لیعبدوا، وأرسل الرسل لیعرفوا، ولیحکُم فیما اختلفوا، وبیّن الأحکام لیطیعوا ویُوجَروا، وبعث المجددین لیُذکّر
الناس ما ذہلوا، ودقّق معارفہم لیُبتلوا، ولیعلَم اللّٰہ قومًا أطاعوا وقومًا أعرضوا، وشرع البیعۃ لأہل الطریقۃ لیتوارثوا فی البرکات ویتضاعفوا، وأوجب علیہم حسن الظن لیجتنبوا طرق الہلاک ویُعصَموا، وفتح أبو اب التوبۃ لیُرحَموا ویُغفَروا، واللّٰہ أوسع فضلا ورحما وہو أرحم الراحمین.وما کان لی أن أفتري علی اللّٰہ، واللّٰہ یُہلک قوما ظالمین.وإني سُمّیتُ عیسٰی ابن مریم بأحکام الإلہام، فما کان لی أن أستقیل من ہذا المقام بعدما أقامنی علیہ أمر اللّٰہ العلام، وما أراہ مخالفا لنصوص کتاب اللّٰہ ولا آثار خیر المرسلین.بل زلّتْ قدمکم، وما خشیتم ندمکم، وما رجعتم إلی القرآن، وما أمعنتم فی الآثار حق الإمعان، وترکتم طرق الرشد والسدد، وملتم إلی التعصب واللدد، وغشِیتکم ہوی النفس الأمّارۃ، فما فہمتم معاني العبارۃ، ووفقتم موقف المتعصبین.یا حسرۃ علیکم إنکم تنتصبون لإزراء الناس، ولا ترون عیوب أنفسکم من خدع الخناس، وتمایلتم علی الدنیا وأعراضہا غافلین.وواللّٰہ إن جمع الدنیا والدین أمرٌ لم یحصل قط للطالبین، وإنہ أشد وأصعب من نکاح حُرّتَین ومعاشرۃ ضرّتَین، لو کنتم متدبّرین.اعلموا أن لباس التقوٰی لا ینفع أحدًا من غیر حقیقۃ یعلمہا المولی، وما کلُّ سوداءَ تمرۃً ولا کلّ صہباءََ خمرۃً، وکم مِن مزوّر یعتلق برب العباد، اعتلاق الحرباء بالأعواد، لا یکون لہ حظ من ثمرتہا، ولا علم من حلاوتہا وکذلک جعل اللّٰہ قلوب المنافقین؛ یصلّون ولا یعلمون ما الصلاۃ، ویتصدقون وما یعلمون ما الصدقات، ویصومون وما یعلمون ما الصیام، ویحجّون وما یعلمون ما الإحرام، ویتشہدون وما یعلمون ما التوحید، ویسترجعون ولا یعرفون مَن المالک
الوحید، إنْ ہم إلّا کالأنعام بل من أسفل السافلین.وأما عباد اللّٰہ الصادقون، وعشّاقہ المخلصون، فہم یصلِون إلی لُبّ الحقائق، ودُہن الدقائق، ویغرس اللّٰہ فی قلوبہم شجرۃ عظمتہ ودوحۃ جلالہ وعزّتہ، فیعیشون بمحبتہ ویموتون لمحبتہ، وإذا جاء وقت الحشر فیقومون من القبور فی محبتہ.قوم فانون، وللّٰہ موجَعون، وإلی اللّٰہ متبتّلون، وبتحریکہ یتحرکون، وبإنطاقہ ینطقون، وبتبصیرہ یبصرون، وبإیماۂ یُعادون أو یُوالون.الإیمان إیمانہم، والعدم مکانہم، سُتِروا فی ملاحف غیرۃ اللّٰہ فلا یعرفہم أحد من المحجوبین.یُعرفون بالآیات وخرقِ العادات والتأییدات مِن ربّ یتولاہم، وأنعمَ علیہم بأنواع الإنعامات.یدرکہم عند کل مصیبۃ، وینصرہم فی کل معرکۃ بنصر مبین.إنہم تلامیذ الرحمان، واللّٰہُ کان لہم کالقوابل للصبیان، فیکون کل حرکتہم مِن ید القدرۃ، ومِن مُحرِّکٍ غاب من أعین البر یّۃ، ویکون کل فعلہم خارقا للعادۃ، ویفوقون الناس فی جمیع أنواع السعادۃ؛ فصبرہم کرامۃ، وصدقہم کرامۃ، ووفاۂم کرامۃ، ورضاۂم کرامۃ، وحلمہم کرامۃ، وعلمہم کرامۃ، وحیاۂم کرامۃ، ودعاۂم کرامۃ، وکلماتہم کرامۃ، وعباداتہم کرامۃ، وثباتہم کرامۃ؛ وینزلون من اللّٰہ بمنزلۃ لا یعلمہا الخلق.وإنہم قوم لا یشقی جلیسہم، ولا یُرَدُّ أنیسہم، وتجد ریّا المحبوب فی مجالسہم، ونسیم البرکات فی محافلہم، إن کنتَ لست أخشَمَ ومن المحرومین.وینزل برکات علی جدرانہم وأبوابہم وأحبابہم، فتراہا إن کنتَ لستَ من قوم عمین.أیہا النّاس قد تقطعت معاذیرکم، وتبینت دقاریرکم، وأقبلتم علیّ إقبالَ سفّاکٍ، ولکن حفظنی ربّی من ہلاک، فأصبحتُ مظفرًا ومن الغالبین.أیہا النّاس.قد اعتدیتم اعتداءً کبیرًا فاخشوا علیمًا خبیرًا، ولا تجعلوا أنفسکم بنَخِّہا وجَخِّہا کعِظام استخرجت مخَّہا، ولا تعثوا فی الأرض معتدین.وإنّی امرؤٌ
ما أبالی رفعۃ ہذہ الدنیا وخفضہا، ورفعہا وخفضہا، بل أحِنّ إلی الفقر والمتربۃ، حنینَ الشحیح إلی الذہب والفضۃ، وأتوق إلی التذلل توقانَ السقیم إلی الدواء ، وذی الخصاصۃ إلی أہل الثراء ، وأتوکل علی اللّٰہ أحسن الخالقین.وما أخاف حصائد ألسنۃ، وغوائل کلِمٍ مزخرفۃٍ، ویتولانی ربی ویعصمنی من کل شرّ ومن فتن المعاندین.أیہا النّاس لا تتبعوا مَن عادیٰ، وقوموا فرادیٰ فرادیٰ، ثم فکروا إن کنتُ علی حق، وأنتم لعنتمونی وکذّبتمونی وکفّرتمونی وآذیتمونی، فکیف کانت عاقبۃ الظالمین؟ وما اقتبلتُ أمر الخلافۃ إلا بحُکم اللّٰہ ذی الرأفۃ، وإنی بیدَی ربی الدابل، کصبیٍّ فی أیدی القوابل، وقد کنت محزونا من فتن الزمان، وغلبۃ النصاری وأنواع الافتنان، فلما رأی اللّٰہ استطارۃَ فَرَقی واستشاطۃَ قلقی، ورأی أن قلبی ضجر، ونہر الدموع انفجر، وطارت النفس شعاعًا، وأُرعدت الفرائص ارتیاعا، فنظر إلیّ تحننًا وتلطفًا، وتخیَّرنی ترحما وتفضلا، وقال إِنِّی جَاعِلُکَ فی الأَرْضِ خَلِیفَۃً ، وقال أَرَدْتُ أَنْ أَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ آدَمَ ، فہذا کلہ من ربی، فلا تحاربوا اللّٰہ إن کنتم متقین.یفعل ما یرید، أأنتم تعجبون؟ وإنی قبلتُ أنی أذَلُّ الناس وأنی أجہَل الناس کما ہو فی قلوبکم، ولکن کیف أردّ فضل أرحم الراحمین؟ وما تکلمتُ قبلا فی ہذا الباب، بل عندی شہادۃ من الآثار والکتاب، فہل أنتم تقبلون؟ أما ترون کیف بیّن اللّٰہ وفاۃ المسیح، وصدّقہ خیرُ الرسل بالتصریح، ورَدِفَہما تفسیرُ ابن عباس کما تعلمون؟ أیہا الناس ثم أنتم تنکرون وتترکون قول اللّٰہ ورسولہ ولا تخافون، وتُکِبّون علی لفظ النزول وتعلمون معناہ من زُبر الأوّلین.وما قصّ اللّٰہ علیکم قصّۃً إلّا ولہ مثالٌ
ذُکر فی صحف السابقین.فکیف الضلال وقد خلت لکم الأمثال؟ أتذرون سبل الحق متعمدین؟ وقال اللّٰہ ورزقکم فی السماء ، وأخبرکم عن نزول الحدید واللباس والأنعام وکل ما ہو تحتاجون إلیہ، وتعلمون أن ہذہ الأشیاء لا تنزل من السماء بل یحدث فی الأرضین.فما کان إلا إشارۃ إلی نزول الأسباب المؤثرۃ من الحرارۃ والضوء والمطر والأہویۃ، فما لکم لا تتفکرون وتستعجلون؟ تعلمون ظاہر الأشیاء وتنسون حقائقہا وتمرون علی آیات اللّٰہ غافلین.وإن کنتم فی شک من قولی فانتظروا مآل أمری وإنی معکم من المنتظرین.وکم من علوم أخفاہا اللّٰہ ابتلاءً من عندہ، فاعلموا أن السر مکنون، وما فی یدیکم إلا ظنون، فلا تکفرونی لظنونکم یا معشر المنکرین.انتہُوا خیرًا لکم، وإنی طبتُ نفسا عن کل ما تفعلون من الإیذاء والتحقیر والتکذیب والتکفیر، وما أشکو إلا إلی اللّٰہ، بل لما بصرتُ بانقباضکم وتجلّی لی إعراضُکم، علمتُ أنہ ابتلاء من ربی، فلہ العُتبی حتی یرضی، وہو أرحم الراحمین.فذکرتُ ربًّا جلیلا، وصبرتُ صبرًا جمیلًا، ولکنکم ما اہتدیتم، وظلمتم واعتدیتم، قال اللّٰہ ، فنبَزْتم، وقال ، فسخرتم، وقال یا عیسٰی إنّی مُتَوَفِّیکَ، فأنکرتم، وقال ِّ، فظننتم وکفّرتمونی ولعنتم، وقال ، فتجسّستم، ثم صعّرتم وعبستم، وقال.۱ وقال ، فاغتبتم وکفّرتم، وما أراکم إلی ہذا الحین منتہین.أنسیتم أَخْذَ اللّٰہ وضغطۃَ القبر، أو لکم براء ۃ فی الزبر، أو أُذِنَ لکم من اللّٰہ رب العالمین.فکروا ثم فکروا، أتفتی قلوبُکم
أن اللّٰہ الذی یعینکم عند کل تردُّد ہو أقوَی مثلَ ہذا الزمان عن مجدد؟ وقد کنتم تستفتحون من قبل، فلما جاء نصر اللّٰہ صرتم أول المعرضین.ولویتم عنی عِذارکم، وأبدیتم ازورارکم، وصرفتم عنی المودّۃ، وبدلتم بالبغض المحبۃ، وذاب حسن ظنکم واضمحلّ، ورحل حبکم وانسلّ، وصرتم أکبر المعادین.فلما رأیتُ أعراض التزویر وانتہاء الأمر إلی التکفیر، علمتُ أن مخاطبتی بہذہ الإخوان مجلبۃ للہوان، فوجہتُ وجہی إلی أعزّۃ العرب والمتفقہین.وإنی أری أنہم یقبلوننی ویأتوننی ویعظّموننی، فسرَّنی مرأی ہذہ الوجوہ المبارکۃ، ودعانی التفاؤل بتلک الأقدام المبشرۃ إلی أن عمدت لتنمیق بعض الرسائل فی عربی مبین.فہمَمْتُ لنفع تلک الإخوان بأن أکتب لہم بعض أسرار العرفان، فألفتُ ’’التحفۃ‘‘ و’’الحمامۃ‘‘، و’’نور الحق‘‘ و’’الکرامۃ‘‘، ورسالۃ ’’إتمام الحجۃ‘‘ وہذہ ’’سِرّ الخلافۃ‘‘، وفیہا منافع للذین وردتُ منہم مورد الکافرین.وأرجو أن یغفر ربی لکل من یأتینی کالمقترفین المعترفین.ألا تنظرون وما بقي مِن حُلل الدین إلا أطمارًا مخرَّقۃ، وما مِن قصرہ إلا أطلالا محرَّقۃ، وکُنا مُضغۃ للماضغین.أتعجبون مِن أن اللّٰہ أدرکَکم بفضلہ ومنّتہ، وما أضاحَکم عن ظل رحمتہ؟ أکانت لہذا الزمان حاجۃ إلی دجال، وما کانوا محتاجین إلی نصرۃ رب فعال؟ ما لکم کیف تخوضون؟ أین ذہبت قوۃ غور العقل وفہم النقل، وأین رحلت فراستکم، وأی آفۃ نزلت علی بصیرتکم، أنکم لا تعرفون وجوہ الصادقین والکاذبین؟ وقد لبثتُ فیکم عُمُرًا من قبلہ أفلا تعقلون؟ وإن رجلا یبذل قواہ وکل ما رزقہ اللّٰہ وآتاہ، لإعانۃ مذہب یرضاہ، حتی یُحسب أنہ أہلہ وذراہ، وقد رأیتم مواساتی للإسلام، وبَذْلَ جہدی لملّۃ خیر الأنام، ثم لا تبصرون.وعرضتُ علیکم
کل آیۃ قُبُلًا، ثم لا تنظرون.وإنی جئتکم لاُنجیکم من مکرٍ مُرمِض وروعٍ مُومِض، ثم أنتم لا تفکرون.وعزوتم إلیّ ادعاء النبوۃ، وما خشیتم اللّٰہ عند ہذہ الفریۃ، وما کنتم خائفین.ولا تفہمون مقالی، وتحسبون أُجاجًا زلالی، ولا تعقلون.وکیف یفہم الأسرار الإلہیۃ مَن سدل ثوب الخیلاء ، وعدل عن الحق بجذبات الشحناء ، ورضی بالجہلات، ومال إلی الخزعبلات، وأعرض عن الصراط کالعمین؟ وتقولون إعراضا عن مقالتی، وإظہارًا لضلالتی، إن الملائکۃ ینزلون إلی الأرض بأجسامہم ویُقْوُون أماکنَ مقامہم، ویترکون السماوات خالیۃ، وربما تمرّ علیہم برہۃ من الزمان لا یرجعون إلی مکان، ولا تقرَبونہ* لتمادی الوقت علٰی وجہ الأرض لإتمام مہمات نوع الإنسان، ویضیعون زمان السفر بالبطالۃ کما ہو رأی شیخ البطالۃ؛ وإنہ قال فی ہذا الباب مجملا، ولکن لزمہ ذلک الفساد بداہۃ، فإن الذی محتاج إلی الحرکۃ لإتمام الخطۃ، فلا شک أنہ محتاج إلی صرف الزمان لقطع المسافۃ وإتمام العمل المطلوب من ہذا السفر ذی الشأن، فالحاجۃ الاُولٰی توجب وجود حاجۃ ثانیۃ، فہذا تصرُّف فی عقیدۃ إیمانیۃ.ثم من المحتمل أن لا یفضُل وقت عن مقصود، ویبقی مقصود آخر کموء ود؛ فانظر ما یلزم من المحذورات وذخیرۃِ الخزعبلات، فکیف تخرجون من عقیدۃ إیمانیۃ إلی التصرفات والتصریحات، وأنتم تعلمون أن وجود الملائکۃ من الإیمانیات، فنزولہم یشابہ نزول اللّٰہ فی جمیع الصفات.أیقبل عقلٌ إیمانیٌّ أن تخلو السماوات عند نزول الملائکۃ ولا تبقی فیہا شیء بعد ہذہ الرحلۃ؟ کأنّ صفوفہا تقوضت، وأبوابہا قُفلت، وشؤونہا عُطّلت، وأمورہا قُلّبت، وکل سماء ألقت ما فیہا وتخلّتْ.إن کان
ہذا ہو الحق فأَخرِجوا مِن نصٍّ إن کنتم صادقین.ولن تستطیعوا أن تخرجوا ولو متم، فتوبوا واتقوا اللّٰہ یا معشر المعتدین.اعلموا أن الدرایۃ والروایۃ توأَمانِ، فمَن لا یراہما بنظر واحد فیقع فی ہوۃ الخسران، ویُضیع بضاعۃ العرفان، ثم بعد ذلک یُضیع حقیقۃ الإیمان ویلحق بالخاسرین.ومن خصائص دیننا أنہ یجمع العقل مع النقل، والدرایۃ مع الروایۃ، ولا یترکنا کالنائمین.فنسأل اللّٰہ تعالٰی أن یُعطیَنا حقائق الإیمان، ویُوطننا ثری العرفان، ویرزقَنا مَرْأَی الجِنان بأنوار الجَنان، ویُمْطِیَنا قَرَا الإذعان، لنقتریَ قِری مرضات رب* الرحمن، ونتخیم بالحضرۃ ونسلَی عن الأوطان ونُغلِّس غادیًا إلی مرضاۃ المولی، ونحفِد إلی ما ہو أنسب و أولی، ونخترق فی مسالک العرفان، وننصلت فی سِکَکِ حُبِّ الرحمٰن، ونأوی إلی حصون وثیقۃ، ومَغانٍ أنیقۃ من صول الشیاطین، باتباع النبیّ الأمّیّ خاتم النّبیّین.اللّٰہم فصلّ وسلّمْ علیہ إلٰی یوم الدّین وآخر دعوانا أن الحمد للّٰہ رب العالمین.بقلم احقر عباد اللّٰہ الاحد غلام محمد الامرتسری من المریدین لحضرۃ المسیح الموعود والمہدی المسعود ادام اللّٰہ برکاتھم وقد فرغت من ھٰذا فی ۱۴؍ جولائی ۱۸۹۴ ء یوم السبت.
القصیدۃ للمؤلف نفسِی الْفِداءُُ لبدرٍ ہاشمی عربی وَدادُہ قُربٌ ناہیک عن قُرَبِ نجَّی الوری مِن کل زور ومعصیۃٍ ومِن فسوق ومن شرکٍ ومن تَبَبِ فنوّرتْ ملّۃٌ کانت کمعدومٍ ضعفا و رجمت ذراری الجان بالشھب وزحزحتْ دُخْنًا غشّی علی مِللٍ وساقطتْ لؤلوءً ا رطبا علٰی حطب ونضّرتْ شَجْرَ ذکر اللّٰہ فی زمنٍ محل یمیت قلوب الناس من لعب فلاحَ نورٌ علی أرض مکدّرۃٍ حقا ومزّقت الاشرار بالقضب وما بَقَی أثرٌ مِن ظلمٍ وبدعاتٍ بنور مھجۃ خیر العجم والعرب وکان الوریٰ بصفاء نیّاتٍ مع ربھم العلٰی فی کلّ منقلب لہ صحب کرام راق میسمھم و جلّت محاسنھم فی البدء والعقب لہم قلوب کلَیثٍ غیرِ مکترثٍ وفضلُہم مستبینٌ غیرُ محتجبِ وقد أَتَتْ منہ فی تفضیلہم تترَا من الاحادیث ما یغنی من الطلب
وقد أناروا کمثل الشمس إیمانا فَإِنْ فخَرنا فما فی الفخر مِن کَذِبِ فتعسًا لقوم أنکروا شأن رُتبِہمِ و لا یرجعون إلی صحفٍ و لا کتبِ ولا خروجَ لہم من قبرِ جہلاتٍ و لا خلاصَ لہم مِن أمنَع الحجبِ والیوم تسخَر بالأحباب من قومٍ وتبکِیَنْ یومَ جدَّ البینُ بالکُربِ ومن یؤثِرَنْ ذنبًا ولم یخشَ ربّہ فلا المرءُ بل ثورٌ بلا ذَنَبِ انظُرْ معارفنا وانظُرْ دقائقنا فعافِ کرَمًا إن أخللتُ بالأدبِ و أعاننی ربّی لتجدید ملّتہِ وإن لم یُعِنْ فمَن ینجو مِن العطبِ و قلتُ مرتجلا ما قلتُ من نظمٍ و قلمی مستھل القطر کالسّحب وکفی لنا خالقٌ ذو المجد منَّانٌ فما لنا فی ریاض الخلق مِن أَرَبِ وقد جمع ہذا النظم مِن مُلحٍ ومن نُخبٍ بیمن سیدنا ونجومہ النُجب وإنی بأرض قد علَتْ نارُ فتنتہا والفتن تجری علیہا جَرْیَ مُنسرِبِ و من جفانی فلا یرتاع تَبعتَہُ بما جفا بل یراہ أفضلَ القُرُبِ فأصبحتْ مُقْلتی عینینِ ماؤُہما یجری من الحزن والالم والشجب أُرجِلتُ ظلمًا وأرضُ حِبِّی بعیدۃٌ فیالیتنی کنت فوق الرحل والقتب فقط
انڈیکس روحانی خزائن جلد۸ مرتبہ: مکرم ظہور الٰہی توقیرصاحب زیر نگرانی سیدعبدالحی ۱.آیاتِ قرآنیہ............................۳ ۲.احادیث نبویہ ﷺ.....................۵ ۳.الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام.........۷ ۴.مضامین................................۸ ۵.اسماء...................................۲۸ ۶.مقامات................................۴۵ ۷.کتابیات...............................۴۷
آیاتِ قرآنیہ البقرۃ ان کنتم فی ریب مما نزلنا (۲۴.۲۵) ۱۴۶ وعلم آدم الاسماء کلھا (۳۲) ۳۷۴ و اذ فرقنا بکم البحر (۵۱ تا ۵۴) ۳۷۵ و اذ قلتم یموسٰی لن نؤمن لک (۵۶ تا ۵۸) ۳۷۵.۳۷۶ آل عمران یٰعیسٰی انی متوفیک (۵۶) ۸، ۲۷۵ یا أھل الکتاب لم تلبسون الحق بالباطل (۷۲) ۸۲ ولتکن من أمۃ یدعون الی الخیر (۱۰۵) ۶۳ و ما محمد الا رسول (۱۴۵) ۳۹۶ح النساء فاولئک مع الذین انعم اللہ علیھم (۷۰) ۳۵۷ المائدۃ فلما توفیتنی (۱۱۸) ۲۷۵،۲۷۶،۲۷۸ الانعام ومن اظلم ممن افترٰی علی اللہ کذبا (۲۲) ۲۰۷ الاعراف ربنا افرغ علینا صبرا و توفنا مسلمین (۱۲۷) ۳۵۱ التوبۃ الا تنصروہ فقد نصرہ اللّٰہ (۴۰) ۳۳۹ یونس ان الظن لا یغنی من الحق شیئا (۳۷) ۲۶۶ الحجر انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون (۱۰) ۳۶۱،۳۶۲ فقعوا لہ ساجدین (۳۰) ۱۳۵ ونزعنا ما فی صدورھم من غل (۴۸) ۳۴۸ بنی اسرائیل عسٰی ان یبعثک ربک مقاما محمودا (۸۰) ۹۸ قل لئن اجتمعت الانس والجن (۸۹) ۱۴۶ الکہف من یھدی اللہ فھو المھتد (۱۸) ۳۹۶ ولم تظلم منہ شیئا (۳۴) ۸۱ الانبیاء وقالوا اتخذا الرحمان ولدا (۲۷) ۱۰۰ ومن یقل منھم انی الٰہ من دونہ (۳۰) ۱۰۰ وما جعلنا لبشر من قبلک الخلد (۳۵) ۳۹۵ح الحج اذن للذین یقاتلون بأنھم ظلموا (۴۰) ۶۵ النور وعد اللّٰہ الذین آمنوا (۵۶تا۵۸) ۳۳۳،۳۳۴ الزمر انک میت وانھم میتون (۳۱) ۳۹۶ح الدخان فیھا یفرق کل امر حکیم (۵) ۳۶۹ح الفتح والزمھم کلمۃ التقوٰی (۲۷) ۳۳۰ محمد رسول اللّٰہ (۳۰) ۳۳۰
الحجرات یایھا الذین آمنوا ان جاء کم فاسق (۷) ۲۶۱ و ان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا (۱۰ تا ۱۳) ۳۲۹ النجم ذو مِرّۃ (۷) ۱۶۹ ان الظن لا یغنی من الحق شیئا (۲۹) ۲۸۲ الواقعۃ ثلۃ من الاولین و ثلۃ من الآخرین (۴۰.۴۱) ۲۱۷،۳۸۵ الجمعۃ و آخرین منھم لما یلحقوا بھم (۴) ۳۸۵ الجن فلا یظھر علٰی غیبہ احدًا (۲۷.۲۸) ۲۰۵ القیامۃ فاذا برق البصر وخسف القمر (۸تا۱۱) ۱۹۴ النبأ یوم یقوم الروح والملٰئکۃ (۳۹) ۹۶،۹۸ التکویر ذی قوۃ عند ذی العرش مکین (۲۱) ۱۶۹ الاعلیٰ انّ ھٰذا لفی الصحف الاولٰی (۱۹.۲۰) ۷۰ح الانشراح فان مع العسر یسرًا (۶.۷) ۳۶۱
احادیث نبویہ أحصوا ھلال شعبان لرمضان ۲۷۰ اذا رأیتم الھلال ۲۶۹ أصبح رسول اللّٰہ صلعم صائما ۲۷۰ ان رجلا شھد عند علی بن ابی طالب ۲۷۰ ان الشمس والقمر آیتان من آیات اللّٰہ ۲۲۸ ان عیسی ابن مریم عاش عشرین و ماءۃ سنۃ ۲۷۹ ان الاھلۃ بعضھا اعظم من بعض ۲۶۹ ان الاھلۃ بعضھا اکبر من بعض ۲۶۹ ان لمھدینا آیتین لم تکونا من خلق السموات والارض ۱۹۶ انا رأینا الھلال ۲۷۰ انا رأینا الھلال فقال بعض القوم ۲۶۹ انھم راوا الھلال ۲۷۰ انھما أھلاہ ۲۶۹ انھما أھلاہ بالأمس ۲۶۹ انی رأیت الھلال ۲۷۰ أھللنا رمضان ۲۶۹، ۲۷۰ أھللنا ھلال ذی الحجۃ ۲۷۰ أھللنا ھلال رمضان ۲۷۰ بعد ما اوصی بثلاث سددوا ھذہ الابواب فی المسجد الا باب ابی بکر ۳۹۵ح تراای الناس الھلال ۲۷۰ تراینا الھلال فقال بعض القوم ھو ابن ثلاث ۲۶۹ تقوم الساعۃ والروم اکثر من سائر الناس ۳۶۵ح حتی تروا الھلال ۲۷۰ ذکر رسول اللّٰہ صلعم الھلال ۲۶۹ رأی الھلال ۲۶۹ رأینا الھلال فقال بعضھم ھو لثلث ۲۷۰ رجلان یشھدان عند النبی ۲۷۰ سلمان منا اھل البیت ۳۸۵ الشھر تسع وعشرون فاذا رایتم الھلال ۲۶۹ فشھد عند النبی صلعم باللّٰہ لاھلا الھلال امس ۲۶۹ فشھدوا انھم راوا الھلال بالامس ۲۷۰ قد رأینا الھلال ۲۷۰ لا تصوموا حتی تروا الھلال ۲۶۹، ۲۷۰ لا عدوٰی ۱۴ لقد قمنا بعد النبی ﷺ مقاما کدنا ان نھلک ۳۹۴ ح لکل داء دواء ۵۵ لما جعل ابی خلیفۃ وفوض الیہ الامارۃ ۳۳۵ لو کان الایمان معلقا بالثریا لنالہ رجل من فارس ۳۸۶ لو لم یبق من الدنیا الا یوم لطول اللہ ذالک الیوم ۳۷۴ لھلال رمضان ۲۶۹ متی رایتم الھلال ۲۶۹ متوفیک ممیتک ۲۲۸ مروا ابا بکر فلیصلی بالناس ۳۹۵ح من اسلم من اھل فارس فھو قرشی ۳۸۵ من رأی الھلال ۲۶۹ مَن فسّر القرآن برأیہ فہو لیس بمؤمن بل ہو أخ الشیطان ۲۷۶ من فسّر القرآن برأیہ واصاب فقد اخطأ ۲۸۷ واستھل علی رمضان وانا بالشام فرایت الھلال۲۶۹،۲۷۰ و انھما اھلاہ بالامس ۲۶۹ یا معشر قریش ما ترون انی فاعل بکم ۴۰۶ح یضع الحرب ۷۱
احادیث بالمعنٰی آپ نے مجذوموں سے پرہیز کی ممانعت فرمائی ۱۵ آنحضرتؐ نے عمرؓ سے فرمایااگر شیطان تجھ کو کسی راہ میں پاوے تو دوسری راہ اختیار کرے اور تجھ سے ڈرے ۱۴۳ سنی سنائی بات دیکھی ہوئی جیسی نہیں ۲۶۳ عیسیٰ بن مریم ایک سو برس تک جیتا رہا ۲۹۳ح مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ہجرت کروں اور تُو (ابوبکرؓ) میرے ساتھ ہجرت کرے گا ۳۴۰ میں قیامت کے دن اسی طرح فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کہوں گا جیسا کہ ایک عبدِ صالح نے کہا ۴۰۶ موسیٰ و عیسیٰ اگر زندہ ہوتے تو ان کا خاتم النبیین کی اقتداء کے بغیر چارہ نہ تھا ۲۷۹ ہر بنی آدم کو اس کی ولادت پر شیطان چھوتا ہے سوائے مریم اور اس کے بیٹے عیسیٰ کے ۳۷۷ ہم ان کی تعریف کریں جن کے ہم نعمت پروردہ ہیں اور ان کا ہم شکر کریں جن سے ہمیں نیکی پہنچی ہو ۴۲
الہامات الہامات اردت ان استخلف فخلقت آدم ۴۲۵ اناجعلناک المسیح ابن مریم ۲۷۵ انا نردہ الیک تفضلًا علیک ۳۸۱ انک من المأمورین لتنذر قوما ما أنذر آباء ھم ولتستبین سبیل المجرمین ۳۲۶ انی جاعلک فی الارض خلیفۃ ۴۲۵ انی مھین من اراد اھانتک ۳۹۸،۳۹۹ ۴۰۰، ۴۱۶ ماکان اللہ لیعذبھم وانت فیھم ۴۵ ھو منی بنزلۃ توحیدی وتفریدی فکاد أن یعرف بین الناس ۵۷ یا احمد یتم اسمک ولا یتم اسمی ۳۷۴ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کر دے گا ۳۱۵ رؤیا و کشوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کشف میں ایک دسترخوان پر مسیح کے ساتھ کھانا کھانا ۵۶ ایک دفعہ ان کی قوم کی حالت کا اُن سے ذکر کیا تو اُن پر دہشت غالب آ گئی اور کہا کہ میں تو خاکی ہوں ۵۷ مسیح ؑ میرے دروازے کی دہلیز پر کھڑا ہے اور کاغذ خط کی طرح کا اس کے ہاتھ میں ہے جس میں خدا کے دوستوں کے نام ،اس میں سب سے آخر میں میرا مرتبہ لکھا ہے ۵۷ حضرت علیؓ کا آپ کو اپنی تفسیر دینااور حضرت حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ اور فاطمہؓ بھی ساتھ تھیں ، حضرت فاطمہ کی ران پر حضور کا سر رکھنا ۳۵۸.۳۵۹
مضامین آ،ا، ب آل محمدؐ یہ درختِ نبوت کی شاخوں اور آنحضرتؐ کی قوت شامہ کے لئے ریحان کی طرح ہیں ۱۸۸ یہ امامت کے چاند اور استقامت کے راستوں کے پہاڑ تھے اور ان سے دشمنی وہی کرے گا جو موردِ لعنت ہو ۲۷۴ ابوبکرؓکے آلِ رسولؐ پر ظلم روا رکھنے کے عقیدہ کا ردّ ۳۴۷ ائمہ اربعہ ان میں بہت سارے جزوی اختلافات تھے ۲۸۰ اجتہاد کئی نزاع و اختلافات ہیں جو اجتہاد کی غلطی سے پیدا ہوتے ہیں ۳۴۷ اگر مجتہد غلطی بھی کریں تو قابلِ معافی ہیں ۳۴۷ صحابہ کے اختلافات اجتہادی تھے ۳۴۷ اجماع جس اجماع میں نبی کریمؐ داخل نہیں وہ اجماع کیا ہوا ۲۹۴ اجماع سے مراد صحابہ کا اجماع ہے ۲۷۸ اجماع کے توڑنے کیلئے ایک فرد کا باہر رہنا بھی کافی ہے ۲۹۵ اجماع کے معنوں میں اختلاف کا ذکر ۲۹۵ اجماع کے متعلق امام احمد کا قول ۲۸۰ حیاتِ مسیح کے عقیدہ پر اجماع کا عقیدہ افتراء ہے ۲۸۰ اس عقیدہ کا جواب کہ ائمہ اربعہ کے مذاہب کے خلاف عمل نہ کرنے پر اجماع ہو چکا ہے ۲۸۰ احمدیت للہ کام کرنا دوستوں اور مخلصین کی عادت ہے ۲۷ ہمارا کاروبار خدا کی طرف سے ایک رحمت ہے اور عرب کے لوگ الٰہی رحمت کے قبول کرنے کے لئے سب سے زیادہ حقدار، قریب اور نزیک ہیں ۲۶ مولویوں کا الزام کہ یہ فرقہ قرآن و حدیث سے باہر ہو گیا ہے ۴۰۸ تکفیر ، قتل، مال لوٹنے ، عورتوں کو پکڑنے اور اولاد کو غلام بنانے کے بارہ میں علماء کے فتاویٰ ۵ ہمیں فرشتوں کے نزول سے انکار نہیں ۴۱۴ جس نے ہمارے مشرب میں ہماری پیروی کی وہ ہم میں سے ہے اور جس نے پیروی نہ کی وہ ہم میں سے نہیں ۴۱۹ ارتداد اسلام سے مرتد ہونے والوں کا مدینہ پر حملہ کرنا ۳۹۴ح مرتد ہونے والے مسلمانوں کی خواہشات اور ان کی باطنی کیفیت کا ذکر ۴۸،۴۹ مرتد ہونے والے مسلمانوں کا کفارہ کے دھوکے سے معاد کی فکر سے فارغ ہونا ۴۹ مسلمانوں میں دین سے مرتد ہونے کا سب سے بڑا باعث ۴۸ مرتد ہونے والے مسلمانوں کو ان کی قوم اور پیشہ کے مناسب حال خدمات پر مقرر کرنے کی تجویز ۵۰ استعارات قرآن میں استعارات کا استعمال ۳۷۱،۳۷۵ قرآن کا مُردوں پر زندوں اور موت پر زندگی کا اطلاق کرنا ۳۷۲ اسلام دینِ اسلام عالم روحانی کے لئے ستون اور مرکز ہے ۲۴۹ اسلامی صداقت طلب کرنے کے لئے روحوں کا حرکت میں آنا ۲۴۸ خدا کا اپنے دین کی حفاظت کرنا ۲۳۵،۲۳۶
ہمارے دین کی خوبی کہ وہ عقل کو نقل اور درایت کو روایت کے ساتھ جمع کرتا ہے ۴۲۹ خدا خیر المرسلین کی امت کو ضائع نہیں کرے گا ۴۲۲ خدا نے اب اسلام کی تاریک رات کو ختم کر دیا مگر علماء کا ناپسند کرنا ۲۸۸ نبی کریمؐ کا اسلام کو تین ادوار میں تقسیم کرنا ۳۸۵ آنحضرتؐ کی فیجِ اعوج کے بارہ میں پیشگوئی کا پورا ہونا ۷۴ ازمنۂ وسطیٰ میں فتنے لہروں کی طرح موجزن ہوئے ۳۴۸ آنحضرتؐ کا تیسرے دور کو آخری زمانہ سے موسوم کرنا اور اس کا سبب ۳۸۵ یاجوج ماجوج کا اسلام پر اثر ۳۶۴،۳۶۵ اسلام کا ضعیف ہونا اور مفاسد کا پھیلنا ۲۵۱ دین ضعیف ہوگیا اور اس کی کنپٹیوں پر بڑھاپے کے آثار پیدا ہو گئے ہیں ۳۰ اسلام میں فسادات اور جھگڑوں اور افتراق کی وجہ ۳۲۱ ایک تمثیل کی شکل میں غربتِ اسلام کے ایام کا ذکر ۱۷ لوگوں کا علماء کی باتیں سن کر دینِ اسلام سے نکل کر نصاریٰ میں داخل ہونا ۱۷ مولویوں کادل اسلام کی مصیبتیں دیکھ کر کچھ بھی نرم نہیں ہوتا ۸ عام لوگوں میں نااتفاقی اور تفرقہ پیدا ہونا ۳ خدا کا قرآن میں وعدہ کہ آخری زمانہ میں اسلام پر مصیبتیں آئیں گی اور مفسدین ہر روک کو پھلانگیں گے ۳۶۴ امت کے ۷۳ فرقوں میں تقسیم پر ان تمام اختلافات کو ختم کرنے کا طریق جو اُن میں ہیں ۲۷۷ علماء دین اور شریعت کے دشمن اور اسلام کا صرف کنارہ اُن کی وجہ سے رہ گیا ہے ۲۸۸ خدا کی طرف سے ہدایت یافتہ وجود دین کے ستون ہیں ۳۶۲ خونی مہدی اور مسیح کا عقیدہ اسلام کی جزو نہیں ۴۰۴ اس زمانہ کے فتنوں سے اسلام کو لاحق خطرات ۳۱۸ احسان کرنے والوں کے ساتھ احسان کرنے کی تعلیم ۶۳ خدا کاکہنا کہ جو تمہیں السلام علیکم کہے اس کو یہ مت کہہ کہ لَسْتَ مُؤْمِنًا مگر مولویوں کا مسلمانوں کو کافر ٹھہرانا ۳۰۲ ملکہ وکٹوریہ کو اسلام کی محبت اور اس کا شوق دیاگیا ہے قریب ہے کہ خدا ملکہ اور شہزادوں کے دل میں توحید ڈال دے ۵۹،۶۰ ہم جس کوشش ، سعی ، امن اور آزادی سے اسلامی وعظ ہندوستان کے بازاروں اور کوچوں میں کر سکتے ہیں مکہ معظمہ میں بھی بجا نہیں لا سکتے ۳۰۷ صحابہ کا ایمان کے چشموں کی طرف پیاسوں کی طرح دوڑنا ۱۸۸ ملائکہ کا وجود ایمانیات میں سے ہے ۴۲۸ اللہ اللہ کی تحمید و تقدیس ۲،۱۸۸، ۲۷۴، ۳۱۷ اپنی ذات اور صفات میں یکتا اور مخلوقات کے پیدا کرنے میں اس کا کوئی شریک نہیں ۱۱ جو خدا کے دامن سے وابستہ ہو جائے وہ اسے ضائع نہیں کرتا ۳۴۶ قربِ الٰہی کا سب سے عمدہ ذریعہ ۳۴۰ خدا کا اپنے بندوں کی نصرت کا طریق ۲۷۲ خدا کی راہ میں ایسی کوشش ہو جو زمانہ کے مناسب ہو ۲۵۱ قربتِ الٰہی کے حصول کے لئے کئے جانیوالے اعمال میں سب سے زیادہ ثواب کا موجب امر ۳۰ جو خدا کے پیاروں سے محبت کریں خدا ان سے محبت کرتا ہے اور جو عداوت کریں خدا بھی ان سے عداوت رکھتا ہے ۲۸۹ خدا کا اپنے اولیاء کے ساتھ سلوک ۲۸۹ اللہ جب کسی قوم کو رسوا کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کے اولیاء کے دشمن ہو جاتے ہیں اور ان پر لعنت کرتے ہیں ۲۸۶ متقیوں کو شرف بخشنا اور نافرمانوں کو رسوا کرناخدا کی سنت میں سے ہے ۲۷۱ وہ حقیقی معبود اور اس کا کوئی شریک نہیں اگر چاہے تو ہزاروں عیسیٰ بلکہ اس سے افضل اور اعلیٰ پیدا کر دے ۵۶
اخلاص میں انتہائی مقام تک پہنچنے والی قوم کے ساتھ خدا کا سلوک ۲۷۱ ملائکہ کے نزول کی اللہ کے نزول کے ساتھ مشابہت ۴۲۸ نبی کی شان سے بعید ہے کہ خدا تعالیٰ کے مرادی معنوں میں تحریف کرے ۲۹۵ کتنے ہی علوم ہیں جو خدا نے ابتلاء کی خاطر اپنے پاس مخفی رکھے ہوئے ہیں ۴۲۶ اللہ کی حمد اور مخلوق اور دین اسلام پر اس کے احسانات ۲۷۴ کوئی بندہ ہدایت نہیں پا سکتا جب تک اللہ کا ارادہ نہ ہو ۳۳۱ خدا معلم اعظم اور حکیم اعلم ہے ۳۲۵ خدا اپنے غیب پر صرف نیکوں کو مطلع کرتا ہے ۲۰۸ اللہ کے لئے مختلف تدلیات اور نفخات ہیں اور ہر تدلّی کی شان الگ ہے جسے عارف لوگ جانتے ہیں ۳۶۴ تمام عالم کے تغیرات پیدا کرنے میں اللہ کا مقصد انسان کو پیدا کرنا ہے ۲۳۱ صالحین کے متعلق خدا کی سنت ۳۴۷.۳۴۸ یہ خدا کی قدرت سے بعید نہیں کہ ایک وجود دو جگہ دو جسموں سے دکھادے ۴۱۵ خدا کا نزول الیٰ سماء الدنیا ہم سمجھ نہیں سکتے ۴۱۵ اس زمانہ کے علماءِ سُو پر خدا کے قہر کانزول ۸ دنیا میں آفت اور مصیبت کے انتہاء کے وقت اس کے ازالہ کے لئے خدا کی سنت مستمرہ ۳۵۹ خدا اپنے کمزور بندوں کو قحط سالی کے وقت مصائب میں نہیں چھوڑتا ۳۶۰.۳۶۱ جو اُس کی طرف صاف دل اور کامل محبت سے آئے گا وہ اس کو اپنے خاص بندوں میں داخل کر لے گا ۳۰۸ خدا کی سنت کہ وہ دعا کے ساتھ بلا کو رد کر دیتا ہے ۲۳۰ خدا کا قرآن میں فرمان کہ آخری زمانہ میں اسلام پر مصیبتیں آئیں گی اور مفسدین ہر روک کو پھلانگیں گے ۳۶۴ ہر انسان کا خدا کے پاس بُرا یا اچھا نام ہے اور وہ تب تک نہیں مرتا جب تک اس کا بھید ظاہر نہ ہو جائے ۳۷۴ مُردوں کے سامنے زندہ خدا کاثبوت ۳۰۸ یہ خدا کی سنت کہ بعض کو بعض کا نام دیا جاتا ہے ۳۸۴ خدا کی سنت ہے کے بعض اوقات فوت شدہ نیکوکاروں کو زندہ کا نام دیتا ہے ۳۷۱ خدا کا عذاب نازل کرنے کا طریق ۲۳۱ ایک نبی کی امت کے بگڑنے پر خدا کا انہیں عذاب نہ دینے میں حکمت ۳۷۳ اس زمانہ میں عقول سلیمہ کا توحید کی طرف میلان ۱۷۲ امامت امام کے بعث کا وقت اور زمانہ کی حالت کا ذکر ۲۸۸ ممکن نہیں کہ سچا پیرو اپنے امام کی مخالفت کرے ۲۹۴ انسان انسانی قرب کے مدارج کا کچھ انتہاء نہیں ۳۰۸ خدا کا انسان کو پیدا کرنے کا مقصد ۲۳۱ ہر انسان کا خدا کے پاس بُرا یا اچھا نام ہے اور وہ تب تک نہیں مرتا جب تک اس کا بھید ظاہر نہ ہو جائے ۳۷۴ یہ خدا کی سنت ہے کہ بعض کو بعض کا نام دیا جاتا ہے ۳۸۴ خدا کی سنت کے بعض اوقات فوت شدہ نیکوکاروں کو زندہ کا نام دیتا ہے ۳۷۱ نیک یا بدبخت لوگوں کی ایک دوسرے سے مشابہت ۳۷۳ مشاہدہ کو بیان پر ترجیح دینا انسان کی فطرت میں ہے ۳۵۴ انسان کی عادت کہ اگر کسی مطلوبہ شےء کی محبت میں مبتلا ہو تو اس کی مخالف شی کو ناپسند کرنا اور عداوت کرنا ۳۲۰ ایک انسان کو فوت شدہ کب کہتے ہیں ۲۹۸ انفاق فی سبیل اللہ انفاق کی ترغیب اور اس کی برکات کا ذکر ۲۸
دین کی اعانت کے لئے خرچ کرنا صلاح و فلاح کا ایک بڑا بھاری ذریعہ ہے ۲۵۰ انگریزی حکومت ان کی ہدایت اور اسلام میں داخل ہونے کے لئے دعا ۴۰۳ یہ ایسی قوم ہے جو ہر بات کی تفتیش کرتی ہے اور حق بات قبول کرنے سے شرماتی نہیں ۶۰ چند انگریز جوانوں کا اسلام قبول کرنا اور بعض کا ایک وقت تک ایمان مخفی رکھنا ۵۹ گورنمنٹ کے اسلام قبول کرنے کی پیشگوئی ۵۹ ہر ایک عقل بجز دینی عقل کے اس گورنمنٹ کو حاصل ہے ۳۶ اس گورنمنٹ میں پائی جانے والی اچھی باتوں کا ذکر ۵۲ خدا نے انگریزوں کو اس ملک کا حاکم بنایا ہے ان کی خوبیوں کا ذکر ۲۴۶ جو وعظ کے لئے انگریزی ملکوں کی طرف خالصاً للہ جائے گا وہ برگزیدوں میں سے ہو گا ۲۵۲ قرآن اب تک انگریزوں تک نہیں پہنچا او ر دقائق سے بے خبر ہیں ۲۴۵ اس گورنمنٹ کا شکر کیوں ہم پر واجب ہے ۳۰۷ اس کے بڑے بڑے اراکین کا توحید کی طرف میلان ۶۰ اسلام چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرنے والے انگریزی سرکار سے مخلص نہیں بلکہ مداہنہ اور نفاق کی زندگی بسر کرتے ہیں ۴۵ مذہب کے بارہ میں اس گورنمنٹ کا غلط ہونا ۳۰۷،۴۰۳ اس گورنمنٹ کو دینیات کی طرف کچھ توجہ نہیں اور کسی دین کی طرف اس کو میل نہیں ۵۹ پادری عماد الدین کے اس اعتقاد کا ردّ کہ میرے نزدیک یہ گورنمنٹ دجال ہے اور مَیں باغی ہوں ۵۸ ہم اس بات کے مستحق ہیں کہ انگریزی سرکار اپنے کامل انعام سے متمتع کرے اور ہمارے نیک کام کی جزا بڑھ کر دے ۵۲ یہ ایک فہیم اور مدبر گورنمنٹ ہے کوئی اسے دھوکا اور فریب نہیں دے سکتا ۵۱،۵۲ حضورؑ کا انگریزی حکومت کو ایک مقدمہ میں حکم مقرر کرنا ۱۵۴ گورنمنٹ مجھے اور میرے خاندان سے بے خبر نہیں ۳۵ گورنمنٹ اور حضرت مسیح موعود کے خاندان کی باہمی موافقت ۵۱ انگریزی حکومت کے لئے بشارت ۴۵ میں اس گورنمنٹ کے لئے بطور تعویذ اور بطور پناہ کے ہوں ۴۵ انگریزی سرکار کی توجہ کے لئے ایک اشتہار کی اشاعت ۳۲ حضورؑ کا ہرکتاب میں ان کے مسلمانوں کے محسن ہونے کا ذکر اور ان کا شکریہ ادا کرنا ۴۰ حضور ؑ کا خدا سے عہد کہ ہر مبسوط کتاب میں قیصرہ کے احسانات کا ذکر کروں گا ۳۹ اس کے احسانات کا ذکر ۶ اگر انگریزی سلطنت کی تلوار کا خوف نہ ہوتاتو علماء ہمیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے ۶ ہمارے لئے اللہ اور رسول اللہ ؐ کے حکم سے گورنمنٹ ہذا کے زیر اطاعت رہنا فرض اور بغاوت کرنا حرام ہے ۴۰۲ ایمان میرا بڑا مدعا یہی ہے کہ لوگ ایمان کی حقیقت کو ڈھونڈیں اور دقائق عرفان کی طرف رغبت کریں ۵۴ علماء کا عقیدہ کہ وہ اختلاف جس میں قرآنی تعلیم کا انکار نہیں اس کے باعث کوئی ایمان سے نہیں نکلتا ۳۱۲ صحابہ کا ایمان کے چشموں کی طرف پیاسوں کی طرح دوڑنا ۱۸۸ ملائکہ کا وجود ایمانیات میں سے ہے ۴۲۸ بدظنی کتنے ہی لوگ ہیں جنہیں ان کی بدظنیوں اور صادقوں کو گالیاں دینے نے ہلاک کیا ۲۸۰ صحابہ کے بارہ میں بدظنی سے بچنے اور تقویٰ کی نصیحت ۳۴۹ بیعت اہل طریقہ کے لئے بیعت اس لئے رکھی تاکہ وہ برکات کے وارث ہوں ۴۲۳
پ، ت پادری ان کی خصلت بھیڑیے کی اور لباس راہبوں کا سا ہے ۱۱۹ ان کے فتنوں کا حد سے زیادہ بڑھنا ۴۰۳ قرآن کا انہیں دجال کے نام سے موسوم کرنا ۸۲ مسیح نے ان کا نام ’’ظالم‘‘ رکھا ۷۸ عیسائیت قبول کرنے والے مسلمانوں کے پادریوں کو خوش کرنے کے طریق ۴۷ پادریوں کی چمک دیکھ کر بعض مسلمانوں کا عیسائی ہونا ۴۶ ان کے عوام کو گمراہ کرنے کے طریق ۳۶۷،۳۶۸ اس زمانہ کے پادریوں اور عیسائیوں کے مکر و فریب اور مکائد اور ان کا زمین پر چھا جانا ۳۶۷ پہلی کتابوں میں اژدھا کے قید میں ایک ہزار برس رہنے کا ذکرپادریوں کی شکل میں اس کا ظہور ۸۰ پادریوں کا تثلیث سے دنیاوی فائدہ اٹھانا ۳۷۰ح پادریوں کے دجال ہونے کا ثبوت ۷۷،۸۰،۳۶۷،۳۶۸ پیشگوئی خدا کی سنت کہ آئندہ کی خبر میں کسی چیز یا فرد کا ذکر ہوتا ہے اور مراد اس سے کوئی اور چیز یا فرد ہوتی ہے ۳۸۱ خدا کی پیش خبریں اہل حق اور اہلِ باطل کے درمیان حاکم و قضاء کا کام دیتی ہیں ۳۵۲ پیشگوئی کا ظہور سینہ کو شفا اور یقین دیتا ہے اور پتھر کو بھی نرم کر دیتا ہے ۳۵۳،۳۵۴ جو پیشگوئیاں پوری ہو جائیں پھر بعد میں مشاہدہ کے مطابق ان کے دوسرے معنی کرنا ایک ظلم و فسق ہے ۳۵۳ قرآن میںآخرین میں ایک امام کے آنے کی پیشگوئی ۲۱۷ قرآن مجید کی پیشگوئیاں ۳۶۸، ۳۶۸،۳۷۰ح تاریخ ہم تاریخی سلسلہ کو کسی طور مٹا نہیں سکتے ۴۱۳ مولویوں کا تاریخی تواترات کو نظر اندازکرنا ۴۱۳،۴۱۴ تاویل متشابہات کی تاویل خدا کے علم کے حوالہ کروتا نجات پاؤ ۴۱۱ تاویلوں کے سبب یہود کا مسیح کو ملحد اور بے دین کہنا ۴۰۹ کھلے کھلے قرآنی بیانات کی مخالف روایات کی تاویل کی ضرورت کے دلائل ۱۳،۱۴ تبلیغ اسلام تبلیغ کے ذریعہ منواتا ہے ۶۳ مسلمانوں کو انگریزی ممالک میں اسلام کی تبلیغ اور اشاعتِ قرآن کی توجہ دلانا ۲۴۷ جو شخص ان علاقوں میں جائے گا وہ برگزیدوں میں سے ہو گا اور اگر اسے موت آئے گی تو شہیدوں میں سے ہو گا ۲۵۲ دو قابل مسلمانوں کو بھجوانے کی تجویز ۲۵۰ اگر تم نے مدد کی تو اخیر زمانہ تک نیک یادگار تمہاری باقی رہے گی اور مقبولوں کے ساتھ اٹھائے جاؤ گے ۲۵۰ تثلیث پادریوں کا تثلیث سے دنیاوی فائدہ اٹھانا ۳۷۰ح شیطان نے دوسری مرتبہ آ کر تثلیث سکھائی ۱۴۲ عبدالکریم جیلی کا اپنی کتاب انسان کامل میں لکھنا کہ تثلیث کا عقیدہ ایک معنی کی رُو سے حق ہے ۶۸ تصوف محو اور مستی کے عالم میں بعض نیک لوگوں کے مونہہ سے نکلنے والے کلمات کی حقیقت ۱۰۰.۱۰۱ تقیہ تقیہ کرنے والے لوگوں کی حالت کا بیان ۳۵۱ ابرار کے نزدیک تقیہ ایک گناہِ عظیم اور بڑا ظلم اور کھلی بے حیائی ہے ۳۴۹.۳۵۰ ابراہیم ؑ کو خدا کی راہ میں تکالیف پہنچنا مگر تقیہ نہ کرنا ۳۴۹
موت کو مداہت پر ترجیح دینے والوں کا قرآن میں ذکر ۳۵۱ خدا کی قسم دین کے معاملہ میں مَیں ایک لمحہ کے لئے مداہنت نہ کروں اگرچہ چھری سے ذبح کیا جاؤں ۳۵۱ توحید اس زمانہ میں عقول سلیمہ کا توحید کی طرف میلان ۱۷۲ ج، چ، ح، خ جِنّ جنّوں کا مسیح پر ایمان لانا ۱۰۴ جنّوں کے گروہ کا آدمیوں سے بڑھنا مگر مسیح کا ان سے تغافل برتنا ۱۰۳ جہاد اسلامی جہاد کی حقیقت ۶۵،۶۶ مسلمانوں کو مقابلہ کرنے کی اجازت کاملنا ۶۵ آنحضرتؐ کے تلوار اٹھانے کی وجہ ۴۰۴،۴۰۵ بدر کے میدان میں کفار کا فوج جمع کرنا اور خدا کا غضب ان پر بھڑکنا ۶۵ جہاد اصل مقاصدِ قرآن میں سے نہیں ہے ۶۴ دینی لڑائی اور جہاد کا مسئلہ اسلام کا محور نہیں ۶۶ وہی جہاد نیکی ہے جو اللہ کے راستہ میں زمانہ کے مناسب حال کیا جائے ۲۵۱ کفار کا عاجز آ کر تلوار اور نیزہ کی طرف جھکنا ۱۴۶،۱۴۷ کسی قرآنی آیت میں یہ تعلیم نہیں کہ بے اتمام حجت مخالفوں کو قتل کرنا شروع کر دیا جائے ۴۰۴ رعیت کو اپنی محافظ گورنمنٹ کے ساتھ جہاد حرام ہے ۴۲،۴۰۳ جہاد کی ضرورت کا وقت ۶۴ نادان مولوی نہیں جانتے کہ جہاد کے واسطے کیا شرائط ہیں ۴۰۳ اس زمانہ میں جنگ اور جہاد سے دین اسلام کو پھیلانا ہمارا عقیدہ نہیں ہے ۳۰۷ مولویوں کاصدہا برسوں سے کہنا کہ اسلام کو جہاد سے پھیلانا چاہئے ۳۰۶ مولویوں کا گورنمنٹ کو لکھنا کہ اس شخص کے وجود سے فساد کا اندیشہ اور جہاد کا خوف ہے ۳۰۶ مولویوں کا کہنا کہ فرضی مہدی غار سے نکل کر اور عیسیٰ نازل ہو کر دنیا کے تمام کافروں کو قتل کر ڈالیں گے ۳۰۶ ہمارا زمانہ دلیل اور برہان کے ہتھیاروں کا محتاج ہے ۲۴۷ ہر ایک زمانہ کے لئے الگ الگ ہتھیار اور الگ لڑائی ہے ۲۴۷ اس اعتراض کا ردّ کہ قرآن بغیر لحاظ کسی شرط کے جہاد پر برانگیختہ کرتا ہے ۶۲ مہدی کے تلوار اور نیزہ کے ساتھ نکلنے اور کفار سے جنگ کرنے کے عقیدہ کاردّ ۶۷،۲۴۵ مسلمانوں کو قلم کے مقابل قلم سے جہاد کی نصیحت ۴۰۳ چاند نیز دیکھیں ’’ خسوف و کسوف‘‘ اس کے ہلال اور قمر ہونے کے بارہ میں مختلف اہلِ لغت کی آراء ۱۹۸ح، ۱۹۹، ۲۶۸ چاند پر لفظ قمر کا اطلاق کب ہوتا ہے اور قمر نام رکھنے کی وجہ ۱۹۸ تین رات سے پہلے کا چاند ہلال ہے، تمام اہلِ عرب کا اس امر پر اتفاق ۱۹۸ ہلال کے ظہور سے خوفناک تاریک رات کا امن اور روشنی سے بدلنا ۳۶۱ حدیث مسلمانوں کے لئے سچی اور کامل دستاویز قرآن اور حدیث ہی ہے باقی ہمہ ہیچ ۲۹۵ مُرسل حدیث کا مقام ۲۶۲،۲۶۳ حدیث کے مرسل ہونے کی وجہ اور اس کی ضرورت ۲۶۵ اہل سنت کے بعض ظالموں کا کہنا کہ ضعیف خبر ضعیف ہی ہے خواہ اس کی سچائی ظاہر ہو جائے ۲۶۳ جو حدیث قرآن کی بینات محکمات کے مخالف ہو گی وہ بلاشبہ ردّ کرنے کے لائق ہو گی ۲۹۵
کھلے کھلے قرآنی بیانات کی مخالف روایات کی تاویل کی ضرورت کے دلائل ۱۳.۱۴ روایات قرآن کے ثبوت اور تواتر سے برابری نہیں کر سکتیں ۱۳ وہ احادیث جو امور غیبیہ اور مستقبل کی خبروں پر مشتمل ہوں ان کی صحت اور صداقت کا معیار ۲۶۳، ۲۶۷ مستقبل کی خبروں پر مشتمل حدیث اگر پوری ہو جائے تو وہ کیسی بھی ہو ہم اسے صحیح تسلیم کریں گے ۲۶۷ امورِ غیبیہ پر مشتمل آثار کے مختلف درجے اور اقسام ہیں جیسے بینات اور متشابہات ۲۶۵، ۲۶۶ احادیث و اخبار ظنی ہیں اور ان کا مقام ۳۳۲ راویوں کی خیانتوں سے کئی لوگ تباہ ہو جاتے ہیں ۳۴۸ بخاری کے بعض راویوں پر مذہب سے ہٹنے اور مختلف قسم کی برائیوں کا الزام لگا یا گیاہے ۲۶۲ جس نے قرآن کو چھوڑ کر روایات کا سہارا لیا وہ ہلاکتوں کے گڑھے میں گر گیا ۳۳۳ مسئلہ وفات مسیح میں کسی جگہ حدیث نے قرآن کی مخالفت نہیں کی بلکہ تصدیق کی ہے ۲۹۵ مہدی سے متعلق بیّن اور متشابہ احادیث کی موجودگی میں صحیح روایات کی پرکھ کا طریق ۲۶۷.۲۶۸ درایت اور روایت توام ہیں اور جو انہیں ایک ہی نظر سے نہ دیکھے گا گھاٹے میں پڑے گا ۴۲۹ خسوف و کسوف خسوف و کسوف مہدی کے ظہور کے لئے پہلی شرط ہے ۲۴۴ رمضان میں اس نشان کا ظہور ۱۸۸ اس نشان کے متعلق دو عربی قصائد ۱۸۹، ۱۹۱ خسوف و کسوف میں جمالی اور جلالی تجلی ۲۳۵،۲۳۷،۲۳۸ یہ دو خوفناک نشان ہیں جو شیطان کی پیروی کرنے والوں کو ڈرانے کے لئے ہیں ۲۲۷ ان دونوں ڈرانے والے نشانوں کو جمع کرنے میں حکمت ۲۳۲ عمداً ہدایت کو چھوڑنے والوں کے لئے یہ خدا کی طرف سے ایک نشان ہے ۱۹۳ چاند اور سورج کی روحانیت کا کچھ انوار الٰہیہ کو قبول کرنا ۲۳۶ اس نشان کی ایک اہم خصوصیت ۲۳۳،۲۳۴،۲۳۵ خسوف و کسوف کے ظہور کا وقت ۱۹۵، ۲۰۹، ۲۲۸ تا ۲۳۰ ہیئت کی رو سے سورج گرہن کی حقیقت ۲۱۳ حدیث کے مطابق قرآن میں خسوف کے لفظ کا آنا ۲۱۳، ۲۱۴ خسوف و کسوف دیکھنے پر نماز پڑھنے کا حکم ۲۲۸ آنحضرتؐ کا خسوف و کسوف سے ڈرانا ۲۲۸ ان دونوں کسوفوں کے بعد خدا کے اور بھی نشان ہیں ۲۲۶ اہلِ نجوم کے نزدیک کسوف کے تین دن ہیں ۲۰۹ اس کسوف کے اپنے عجائبات میں منفرد اور غیر معمولی ہونے کے متعلق پاینیر اور سول ملٹری گزٹ کی گواہیاں ۲۱۴ بلاد عرب اور شام میں اس نشان کا ظاہر نہ ہونا حضرت اقدسؑ کے صدق کی علامت ۲۱۵ حضرت اقدسؑ کا اسے خدا کی طرف سے اپنے لئے ایک نشان قرار دینا ۲۱۱ نظیر لانے کا مطالبہ کہ کسی نے مسیح و مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہو اور یہ نشان ظاہر ہوا ایک ہزار روپیہ انعام کا وعدہ ۲۱۱،۲۱۲ ایک ہزار انعام کا وعدہ اگر کوئی لغت، ادب اور قصائد کی کتابوں سے اس امر کے خلاف نکالے کہ قمر پہلی تین راتوں کے بعد کے چاند پر نہیں بولا جاتا ۱۹۹ رمضان میں کسوف و خسوف کے امرِ خارق ہونے کا ثبوت ۲۱۵ وہ روایات جن میں آنحضرتؐ نے پہلی رات کے چاند کو قمر کی بجائے ہلال فرمایا ۲۶۹.۲۷۰ چاند اور سورج گرہن لگنے کے حوالے سے خدا کی سنت مستمرہ ۲۶۴
چاند گرہن پہلی چاندنی رات کے شروع ہوتے ہی ہو جائے گا ۲۰۱ دار قطنی میں چاند گرہن کے رمضان کی پہلی تاریخ کو نہ ہونے کا واضح قرینہ ۱۹۸ رمضان کی پہلی رات کو چاند گرہن کی صحیح تاویل ۲۰۱ یوئیل نبی اور اشعیا نبی کی کتاب میں اور انجیل متی میں اجتماع خسوف و کسوف کی پیشگوئی ۲۰۵ح بعض متاخرین کا ذکر کرنا کہ چاند گرہن رمضان کی ۱۳ اور سورج گرہن ۲۷ رمضان کو ہو گا ۱۹۷ شاہ رفیع الدین کے مطابق اس نشان کو دیکھ کر اہل مکہ کی ایک جماعت کا مہدی کو پہچان لینا ۱۹۶ اہلِ مکہ میں جوش ہے اور وہ خسوف و کسوف کا سخت انتظار کر رہے ہیں ۱۹۷ سورج اور چاند کا اپنی اصل وضع کی طرف عود کرنا خسوف و کسوف کے لوازم میں سے ہے ۱۹۵ خسوف و کسوف آثار قیامت میں سے ہیں ۱۹۴، ۱۹۶ قرآن میں خسوف و کسوف کے متعلق پیشگوئی ۱۹۴ علماء سلف اس نشان کے منتظر تھے ۲۵۳،۲۵۴ یہ نشان دو عادل گواہوں کے قائمقام ہے ۲۴۴ جو شخص اس نشان کا انکار کرے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں وہ محض ظلم سے بات کرتا ہے ۲۵۵ خسوف و کسوف کے دیارِ عرب اور شام کے علاقوں میں نظر نہ آنے کا سبب ۲۰۳،۲۱۵ اعتراضات اور ان کے جوابات اُن روایات کا ردّ جن میں لکھا ہے کہ سورج گرہن پہلی رات رمضان کو ہو گا ۲۰۱،۲۰۲ح اس اعتراض کا جواب کہ پنجاب اور اردگرد کے علاقوں میں ہی چاند گرہن کیوں نظر آیا ۲۰۲ قرآن کا کسوف کو کسوف کے لفظ سے بیان نہ کرنے کی وجہ ۲۱۴ اس اعتراض کا جواب کہ سورج اور چاند گرہن کے ظہور کا آفات سے کوئی تعلق نہیں ۲۳۰،۲۳۱ خسوف و کسوف کے ضمن میں قرآن میں رمضان کا ذکر نہ کرنے کی وجہ ۲۳۷ اس وہم کا جواب کہ ہمیں یہ تسلی نہیں کہ پہلے زمانہ میں یہ واقع نہیں ہوا اور اس کی غرابت اہلِ ادیان کے نزدیک ثابت نہیں ۲۵۳ مخالفین کا کہنا کہ یہ نشان بنی حسین کے لئے ہے انہیں میں سے امام پیدا ہو گا ۲۵۷ اس وہم کا جواب کہ مقررہ ایام کے علاوہ کسوف ہونا خدا کی قدرت سے بعید نہیں ۲۶۳.۲۶۴ حدیث خسوف و کسوف خدا کا اس حدیث کی تصدیق کرنا ۲۰۸ اس حدیث کی صحت کے دلائل ۲۰۵ محدثین کا اسے اپنی صحاح میں درج کرنا اس کی صداقت کی دلیل ہے ۲۰۶.۲۰۷ اشعیا نبی اور یوئیل نبی کی کتاب اور انجیل میں اس نشان کا ذکر اور حدیث کی صداقت کی علامت ۲۰۵ح اس پیشگوئی کا پورا ہونا اس کی سچائی کی دلیل ہے ۲۰۶ حضور کی اس حدیث کی تشریح خدا کی طرف سے الہام ہے ۲۱۰ اول لیلۃ اور نصف کے الفاظ کا ذو معنین ہونا ۲۰۸،۲۰۹ راویوں کے مختلف طرق ۲۶۲ اس حدیث کے ثقہ ہونے کا ایک ثبوت ۲۶۲ اعتراضات اور ان کے جوابات یہ حدیث صحیح نہیں اس کے بعض راوی کذاب ہیں ۲۰۶،۲۰۷ حدیث کے راوی مجروح ہیں اور یہ حدیث مرسل اور ضعیف ہے ۲۶۱ یہ امام باقر کا قول ہے اور نبی کریمؐ کی حدیث نہیں کیونکہ اس میں آنحضرتؐ کا نام نہیں ۲۶۴
حدیث میں چاند گرہن پہلی رات میں لگنے کا ذکر ہے ۲۶۸ خلافت آیت استخلاف کے ثبوت میں عظیم الشان آیت اور ناطق دلیل اور خدا کی طرف سے نصِ صریح ہے ۳۳۲ ان آیات میں پیشگوئیاں اور آئندہ کے حالات مضمر تھے ۳۳۶ اس آیت میں امن کی بشارت اور اس کا مصداق ۳۵۲ خلافت کے بارہ میں خدا کا مجھے کامل علم عطا کرنا ۳۲۶ خلافتِ ابو بکر کے ذریعہ مومنوں کے خوف کو امن میں بدلا جانا ۳۳۵ مسئلہ خلافت میں شیعوں کے ساتھ فیصلہ کے لئے مباہلہ یا ملاعنہ اور پانچ ہزار روپیہ انعام کا وعدہ ۳۳۷ خلفائے ثلاثہ خلفائے ثلاثہ کی خصوصیات کا ذکر ۳۲۶،۳۲۷ قرآن میں ان کی تعریف اور ثناء ۳۲۸ مرسلین کی مانند ان پر تکالیف اور لعن طعن کیا جانا ۳۲۷ جس نے ان کی شان میں گستاخی کی اور زبان درازی کی مجھے اس کے بدانجام اور سلبِ ایمان کا ڈر ہے ۳۲۷ تمام صحابہ نے خلفائے ثلاثہ کی بیعت کی ۳۴۲ خلفائے ثلاثہ کو کافر کہنے سے دین اسلام اور قرآن میں پڑنے والی مصیبتوں کا ذکر ۳۴۲،۳۴۳ جو انہیں کافر، منافق اور غاصب کہتا ہے وہ سب صحابہ کو کافر کہتا ہے ۳۴۱ اس اعتراض کا جواب کہ ان کی خلافت کتاب اللہ اور سنت رسول سے ثابت نہیں پس وہ ظالم اور غاصب تھے ہاں اسد اللہ کی خلافت متعدد دلائل سے ثابت ہوتی ہے ۳۳۱ د، ر، ز دجال دجال کا خروج اور قرآنی پیشگوئی کا پورا ہونا ۳۷۰ح دجال کے ذریعہ آخری زمانہ کی علامات کا پورا ہونا ۳۶۸.۳۶۹ دجال کا سال کو مہینہ اور مہینہ کو دن یا دو دن کے برابر کرنا ۳۶۸ ریل، دجال کا گدھا ۳۶۸ قرآن کا پادریوں کو دجال کے نام سے موسوم کرنا ۸۲ پادریوں کے دجال ہونے کا ثبوت ۷۷،۳۶۷،۳۶۸ آخری زمانہ کے لوگوں کا دجال کی پیروی کرنا ۳۶۶ دجال کی خباثت ان کے مکروں، منصوبوں اور گمراہی اور دھوکہ دہی کے طریقوں کا ذکر ۳۲۴ خدا کا حرمین کی حفاظت کا وعدہ کہ دجال کا رعب وہاں داخل نہیں ہو گا ۳۷۱ حدیث میں دجال کے مشرق سے نکلنے کا ذکر ۳۷۱ ظلم اور دجالیت ایک ہی چیز ہے ۱۸ پہلی کتابوں میں اژدھا کے ایک ہزار برس قید میں رہنے کا ذکرپادریوں کی شکل میں اس کا ظہور ۸۰ مسیح نے آخری زمانہ کے نصاریٰ کا نام دجال رکھا ۷۹ ایک ہزار ہجری گزرنے کے بعد دجالی عیسائیوں کا ظہور ۸۰ دعا خدا کی سنت کہ وہ دعا کے ساتھ بلا کو رد کر دیتا ہے ۲۳۰ دلیل وہ دلیل قاطع ہے جس سے کسی سائل کو اطمینان ملے ۲۸۲ اگر دو مقدمے ظنی ہوں تو نتیجہ بھی ظنی ہو گا ۲۸۵ حنفیوں کے نزدیک کسی مدعی کے دعویٰ کے اثبات کے لئے چار قسم کے دلائل ۲۸۱ رمضان خدا نے دین کا نظام رمضان سے باندھا ہوا ہے ۲۳۷ رمضان میں قرآن نازل ہوا، اسی میں دو نشان نبی کریمؐ کی بشارت کے مطابق ظاہر ہوئے ۱۹۴ روح القدس قرآن اور پرانے صحیفوں میں بیان کردہ اس کی بعض صفات کا ذکر ۱۶۹
یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ میں روح سے مراد نبیوں، رسولوں اور محدثوں کی جماعت ہے ۹۸ قرآنی آیت یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُمیں مفسرین کے مطابق جبرئیل یا دوسرے فرشتے مراد ہیں ۹۶ قرآن کا روح القدس کو ذُوْ مِرَّۃ اور ذِیْ قُوَّۃ کے الفاظ سے بیان کرنا ۱۶۹ دحیہ کلبی کی شکل میں جبرئیل کا ظاہر ہونا ۴۱۵ زمانہ ( موجودہ) اس زمانہ میں فساد کا انتہاء کو پہنچنااور لوگوں پر اس کا اثر ۲،۳ اس زمانہ کے علماء کی بدتر حالت کا ذکر ۳ تا ۶ اس زمانہ میں فتنے اس طرح پیدا ہورہے ہیں جس طرح مُردار کے جسم میں کیڑے پیدا ہوتے ہیں ۳۱۷،۳۱۸ اس زمانہ کی ظلمت کا ہر ظلمت پر فائق ہونا ۳۶۶ قرآن میں بیان آخری زمانہ کی تمام علامات پوری ہو چکی ہیں.پس مسیح اور مہدی کے ظہور کا یہی وقت ہے ۳۶۹ نبی کریمؐ کا اسلام کی تین زمانوں میں تقسیم بیان کرنا ۳۸۵ زندگی قرآن کے مطابق اصل زندگی روحانی ہے ۳۷۲ قرآن کا مُردوں پر زندوں اور موت پر زندگی کا اطلاق کرنا۳۷۲ س، ش، ص سچائی سچ کو قبول کرو اگرچہ ایک بچہ کے منہ سے نکلا ہو ۱۶ سچائی نجات کا موجب ہے ۸۲،۸۳ سعادت تمام سعادت حق کے قبول کرنے میں ہے ۱۶ کامل سعید وہ ہے جو حبیب کی عادات کو اپنے اندر لے یہاں تک کہ وہ الفاظ اور اسالیب میں اس کا رنگ اختیار کر لے وہ اتم و اکمل ہے ۳۵۶ شہید قرآن کا شہید کو زندہ کہنا اور اس میں حکمت ۳۷۱،۳۷۲ انگریزی علاقوں میں تبلیغ کے لئے جانے والا برگزیدوں میں سے ہو گا اور اگر اسے موت آئے گی تو شہیدوں میں سے ہو گا ۲۵۲ شیخین(حضرت ابو بکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما) شیخین کی فضیلت کا ذکر ۳۴۵،۳۴۶ دونوں کا نیک اور قابلِ فخر انجام ہوا اور قابلِ فخر مقام پر مدفون ہوئے ۳۴۶ شیخین اور دوسرے صحابہ کی مدح میں عربی قصیدہ ۳۸۶ حضرت علیؓ کا شیخین کی بیعت کرنا اور ان کے ساتھ مشاورت میں شامل ہونا ۳۵۰ اس وسوسہ کا جواب کہ شیخین نے حضرت علیؓ پر ظلم کیا اور ان کے حقوق غصب کیے ۳۳۰ جو شیخین کو گالیاں دیتے ہیں وہ علیؓ کو گالیاں دیتے ہیں ۳۹۱ شیطان شیطان انبیاء کا تمثل اختیار نہیں کر سکتا ۵۷ شیعہ ان کا مذہب کے بارہ میں طریق ۳۱۹ ان کے حال پر رحم کرتے ہوئے سرالخلافۃ لکھنا ۳۱۹ ان کا صحابہ، خلفاء اور اسلام کے ائمہ کو کافر، زندیق کہنا اور بُری صفات ان کی طرف منسوب کرنا ۳۲۴، ۳۴۱ ایک شیعہ حضرت مسیح موعود ؑ کا استاد تھا ۳۲۴ حضرت مسیح موعودؑ کا شیعوں سے اعراض کرنا اور خدا سے ان کے جھگڑوں کا علم حاصل کرنے کیلئے دعا کرنا ۳۲۵ انہیں روایات کی پیروی نہ کرنے کی تلقین ۳۲۶ مسئلہ خلافت میں فیصلہ کے لئے شیعوں کو مباہلہ کی دعوت اور پانچ ہزار روپے انعام کا وعدہ ۳۳۷ انہوں نے ابوبکرؓ کی مخالفت کر کے علیؓ کی مذمت کی ۳۵۱
شیعوں میں سے ولی اور متقی نہ ہونے کی و جہ ۳۵۴ اگر شیعہ مقابلہ پر دعا کے لئے آئیں تو سرکاری خزانے میں پانچ ہزار روپے کی انعامی رقم جمع کروانے کے لئے تیار ۳۳۷ صادق خدا کے صادق بندوں کی نشانیاں ۴۲۴ صدق اولیاء کا مشرب اور اصفیاء کی علامت ہے ۳۵۱ صادقوں کی تکذیب کا انجام ۳۸۴ کتنے ہی لوگ ہیں جنہیں ان کی بدظنیوں اور صادقوں کو گالیاں دینے نے ہلاک کیا ۲۸۰ جو صادق سے عداوت رکھے تو اسے اسی دنیا میں عذاب کا جھونکا چھو لیتا ہے ۴۲۰ صحابہ صحابہ و آل پر صلوٰۃ و سلام جو عمائد دین ہیں ۳۱۷ تمام صحابہ رسول اللہؐ کے بمنزلہ اعضاء تھے ۳۴۱ تمام صحابہ نے خلفائے ثلاثہ کی بیعت کی ۳۴۲ قرآن میں صحابہ کی تعریف اور شان کا ذکر ۳۲۸،۳۲۹ صحابہ ان لوگوں میں سے ہیں جو براء ت یافتہ ہیں ۳۲۷ صحابہ کے اختلافات اجتہادی تھے ۳۴۷ صحابہ کو سلام، اُن کی اطاعت اور دوسری خوبیوں کا ذکر ۲۷۴،۲۷۵ صحابہ کی شان میں عربی قصیدہ ۳۹۷ صحابہ پر حضرت ابو بکرؓ کے صدق کا کرشمہ ۳۳۵ صحابہ میں ایک دوسرے کے بارہ میں کینہ اور بُغض کے عقیدہ کی نفی ۳۴۹ صحابہ کو کافر کہنے کے عقیدہ سے بریت کا اظہار ۳۴۳ صحابہ کو کافر فاسق کہنے والے ہم میں سے نہیں اور نہ ہمارا ان کے ساتھ کوئی تعلق ہے ۴۱۹ باوجود آپس میں نبرد آزما ہونے کے کافرنہیں گردانا گیا ۳۲۹،۳۳۰ صحابہ کے درمیان جو گزرا بہتر ہے کہ اسے خدا کے سپرد کر دیں۳۴۷ صحابہ کے متعلق کئی حقیقتیں اور واقعات پردۂ اخفا میں ہیں ۳۴۸ صحابہ کے بارہ میں بدظنی سے بچنے اور تقویٰ کی نصیحت ۳۴۹ ط، ظ، ع طبابت ہر ایک بیماری کی دوا ہے ۵۵ خدا بیماری کی کثرت کے وقت دوا ظاہر کرتا ہے ۵۴ صفراوی مزاج شخص کے بہادر اور قوی ہونے کی وجوہات ۱۶۶ بعض امراض جو ایک دوسرے سے لگ جاتی ہیں ۱۴ ایک دوسرے سے آتشک اور چیچک کالگ جانا ۱۴ ظلمت ظلمت کے وقت خدا کا نور نازل کرنا اس کی سنت میں سے ہے ۳۶۶ اس زمانہ کی ظلمت سرکشی میں ہر ظلمت پر فوقیت لے گئی ہے۳۶۶ عذاب خدا کا نافرمانوں کو ایک مدت تک کے لئے مہلت دینا ۲۴۶ خدا کا عذاب نازل کرنے کا طریق ۲۳۱ ایک نبی کی امت کے بگڑنے پر خدا کا انہیں عذاب نہ دینے میں حکمت ۳۷۳ عرفان اہلِ عرفان لوگوں کی صفات ۳۵۷ میرا بڑا مدعا یہی ہے کہ لوگ ایمان کی حقیقت کو ڈھونڈیں اور دقائق عرفان کی طرف رغبت کریں ۵۴ علم علوم لدنی سے ہی انسان علم کے مقام اور عقیدہ کی صحت کے لحاظ سے کامل ہوتا ہے ۳۲۵ علم کے دقائق ختم نہیں ہوتے اور نہ اس کے حقائق کا شمار ممکن ہے ۲۷۵
جسے کوئی علم دیا جائے اور وہ اسے راز کی مانند مخفی رکھے تو وہ خیانت کرنے والوں میں سے ہے ۲۷۵ محدثات سے حاصل شدہ علم خدا سے حاصل شدہ علم کے برابر نہیں ہو سکتا ۲۷۱ علماء نیک علماء کی صحبت اختیار کرنے کی نصیحت اور ایسے علماء کے خصائل کا ذکر ۳۱۰ اس زمانہ کے علماء کی بدحالت،کم علمی،تکبر، تکفیر اور احمدیوں کو گالیاں دینے اور ان کے کفر، مال لوٹنے کے فتاویٰ ۳تا ۵ علماءِ سلف کی غلطیوں کی پیروی کرنادرست نہیں ۱۳ فیج اعوج کے زمانہ کے علماء کی حالت کا ذکر ۳۷۸ علمائے سلف حوادثِ زمانہ کے جمع کرنے پر بہت حریص تھے ۲۵۴ علماء کا ملائکہ کے نزول کے متعلق عقیدہ ۴۲۸ مخالف علماء کا قرآن کو ترک کر کے ظنی باتوں کی طرف جانا ۲۸۷ ان میں سے کوئی بھی نہیں جس نے اللہ کی خاطر اپنے اقارب کو چھوڑا ہو ، دین میں کوشش کی ہو ۲۸۸ گمراہوں کو سمجھانا عالموں پر فرض ہے ۲۴۹ سادہ لوح مولوی دلیل اور دعویٰ میں بھی فرق نہیں کر سکتے۲۹۲ مسلمانوں کو لازم ہے کہ جو نام کے مولوی اور اپنے رسالوں اور وعظوں کو معاش کا ذریعہ بنانے والے ہیں ان کو پکڑیں ۴۱۸ ان کا قرآن و حدیث کو چھوڑنا ۴۰۵ ان کا بغیر سوچے سمجھے مسلمانوں کو کافر اور جہنم ابدی کی سزا کے لائق ٹھہرانا ۴۰۱ علماءِ سُوء کے مونہوں سے جو نکلتا ہے وہ زہر سے اور زمین پر پائی جانے والی ہر بلا سے زیادہ خطرناک ہے ۳۱۰ علماءِ سُو ء کی بُری خصوصیات کا ذکر ۱۸،۱۹ مولویوں کا نصاریٰ کی مدد کرنا ۹،۱۷ ادنیٰ باتوں پر کسی کے کفر کا فتویٰ لگانا ۹ علماء کا تکفیر میں جلدی کرنا اور ہدایت کے لئے نہ آنا ۵ ان کے سچائی سے دور رہنے اور دل کے سخت ہونے کی وجہ ۴ علماء کا قرآن کو چھوڑنا ۴ اس زمانہ کے علماء کی روحانی اورعلمی حالت اور ان کو نصائح۳۰۹ کوئی تحقیراور توہین اور سبّ اور شتم نہیں جو اُن سے ظہور میں نہیں آیا ۳۰۶ آج کل کے مولویوں میں بے ہودہ مکاریوں کی وجہ ۳۰۱ بعض نادان مولویوں کا کہنا کہ یہ تو سچ یہ ہے کہ توفی کے معنی مارنا ہیں لیکن وہ موت نزول کے بعد وقوع میں آئے گی اور اب تک واقع نہیں ہوئی.اس کا ردّ ۲۹۷ مولویوں کے فتنوں کا عوام الناس پر اثر ۱۹ ان کے متعلق حسن ظن کہ وہ میرے اعوان بنیں گے لیکن ابتلاء کے وقت ان کا پیٹھ پھیرنا ۱۸ ہمارے ملک کے اکثر علماء معرفت، بصیرت اور درایت سے خالی ہیں ۸ علماء مکفرین نے ہماری مخالفت مسیح ابن مریم کی وفات کی وجہ سے کی ہے ۸ علماء کا عوام میں فساد پھیلانا ۱۸۵ عوام عوام کا آنکھیں بند کر کے قصوں کو قبول کرنا ۳۴۸ علماء کا عوام میں فساد پھیلانا ۱۸۵ عوام الناس کے خطاؤں پر ہونے کا سبب ۳۲۰ عیسائیت عیسائیوں کے چند عقائد کا ذکر ۱۷،۱۰۱، ۱۰۲، ۱۰۳ ان کا حضرت عیسیٰ کی الوہیت اور کفارہ کا عقیدہ ۱۰۱،۱۰۲ دو تمثیلوں کی صورت میں کفارہ کے عقیدہ کو ماننے والوں کی حالت کا بیان ۱۰۶، ۱۰۷ عیسائیوں میں پائی جانے والی برائیوں کا ذکر ۳۸۲.۳۸۳،۳۷۹.۳۸۰
عیسائیوں کی حالت ۱۲۹.۱۳۰ مسلمانوں سے عیسائی ہونے والوں کی حالت ۴۵تا ۵۰ ، ۱۲۲.۱۲۳، ۱۸۲ خدا کے پیغمبروں پر بہتان باندھنا ۱۲۳ پوری دنیا میں عیسائیت کا پھیلنا ۹ ان کے فسق اور گمراہی کا دنیا میں پھیلنا ۱۲۲ عیسائیوں کے عیسائیت کو ماننے کی اغراض کا ذکر ۱۲۲ ان میں حلم اور صلحکاری کی تعلیم کا نہ ہونا ۱۲۱.۱۲۲ قرآن کا نصاریٰ کا حال بیان کرنے کا انداز اور ان کے تین قسم کے فرقے بیان کرنا ۱۷۵ ان کے عقائد محض خرافات ہیں ۱۷۶ اپنے شائع شدہ عقائد کو یہ پوشیدہ نہیں رکھ سکتے ان کا مکروں کے ساتھ خلق اللہ کو گمراہ کرنا ۱۷۷ یہ جب دھوکے کی کوشش کرتے ہیں تو ابلیس کو بھی شرما دیتے ہیں۳۸۲ ان میں پائی جانے والی برائیاں نہ گنی جا سکتی ہیں اور نہ ہی شمار میں آ سکتی ہیں ۳۸۰ اگر حضرت عیسیٰ اب تک نہیں مرے تو ان کی امت بھی اب تک نہیں بگڑی ۲۹۷ جب تک یہ قوانینِ قدیمہ کو نہ دیکھ لیں فساد سے باز نہیں آئیں گے ۸۳ عیسائیت خطاکاروں اور گمراہوں کا مذہب ہے ۵۵ عیسائی جاہل ہیں ۲۵۹ عیسائیت میں داخل ہونے والوں کی ا غرض ۱۸۲ مسلمانوں کے عیسائیت میں داخل ہونے کی وجہ ۴۵،۴۶ آخری زمانہ کے مسلمانوں کا ان کی پیروی کرنا ۳۷۹،۳۸۰ خدا کو علم تھا کہ آخری زمانہ میں عیسائی قوم صحیح دین کی دشمن کرے گا ۳۷۸ خدا کا عیسائیوں اور مسلمانوں کی حالت کے مطابق آخری زمانہ میں نازل ہونے والے کا عیسیٰ اور احمد نام رکھنا ۳۷۸،۳۹۷ لوگوں کے ان کی طرف رجوع کرنے کی وجہ ۳۶۷ عربی پر قدرت کا دعویٰ اور قرآن کو غیر فصیح کہنا ۲۵۹ قرآن کی اعجازی خوبیوں کو تسلیم نہ کرنا اورقرآن کے متعلق مختلف آراء بیان کرنااور اس کا سبب ۱۷۸.۱۷۹ نزولِ قرآن کے زمانہ کے عیسائیوں نے قرآن کی شان کے خلاف کچھ نہ کہا ۱۴۸.۱۴۹ نزولِ قرآن کے وقت ان کے کئی فرقے تھے جن کے عقائد بھی الگ الگ تھے اور ان میں شدید لڑائیاں تھیں ۱۷۰ عماد الدین کا کہنا کہ قرآن نے نصاریٰ کا مذہب اور ان کے عقائد کو بیان کرنے میں غلطی کی ہے ۱۷۰ بعد میں پیدا ہونے والوں کا عیسیٰ کو خدا قرار دینا ۱۷۱،۱۷۲ بعد میں پیدا ہونے والوں کا اپنے مذہب کی ناپاکی کو دیکھ کر اصلاح کے لئے مکارانہ کوششیں کرنا ۱۷۱ ایلیاء کے نزول کی وجہ سے عیسائی اب تک مصیبت میں پڑے ہوئے ہیں اور یہود کے آگے بات نہیں کر سکتے ۴۱۰ عیسائیوں اور دوسرے مخالفین کو نور الحق کی مثل بنانے کی دعوت اور پانچ ہزار روپیہ انعام کا وعدہ ۲۵۹،۲۶۰ عیسائیت قبول کرنے والے مسلمانوں کے پادریوں کو خوش کرنے کے طریق ۴۷ پادریوں کا تثلیث سے دنیاوی فائدہ اٹھانا ۳۷۰ح شیطان نے دوسری مرتبہ آ کر تثلیث سکھائی ۱۴۲ عیسیٰ کا اپنے حواری کو شیطان کہنا ۱۴۲ صلیب کے عنقریب ٹوٹنے کی پیشگوئی ۱۲۹ مسیح کا یہودی علماء کو ’’ظالم ‘‘ قرار دینا ۷۸ اس عقیدہ کا اصل موجب ۱۰۶ اس عقیدہ کا رد ۱۰۲،۱۰۳ جنّوں کے لئے مسیح کا کفارہ نہ ہونا ۱۰۳ دو تمثیلوں کی صورت میں کفارہ کے عقیدہ کو ماننے والوں کی حالت کا بیان ۱۰۶تا ۱۱۹ کفارہ پرتکیہ کرنے کے مضمرات ۸۱
ف، ق، ک، گ فصاحت و بلاغت اس کا مدار ۱۴۹.۱۵۰ اس میں عربوں کا مقام ۱۴۵.۱۴۶ فلسفہ اکثر فلسفیوں کا نبی کریم ؐ کی بلند شان کا ذکر کرنا ۱۸۱ فلسفیوں کی انجیل کے متعلق طعنہ زنی کی وجہ ۸۱ا فیض فیوض صرف مناسبتوں کے مطابق کسی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۳۵۶ قرآن کریم قرآن کریم کی ضرورت کی وجوہ کا بیان ۱۸۰ قرآن رمضان میں نازل ہوا ۲۳۷،۳۶۹ح قرآن کی خوبیوں کا ذکر ۱۷۸ تا ۱۸۳ قرآن کے فضائل کے بیان میں ایک قصیدہ ۱۶۴ اشعار میں قرآنی کمالات کا ذکر ۸۸ قرآن کے آنے سے قبل لوگوں کی ایمانی حالت ۱۸۰ قرآن کے اجزاء ہر زمانہ میں خدا کے رستوں پر چلنے والوں کے بوجھ ہلکا کرنے اور ان کی بھوک کو مٹاتے ہیں ۳۶۸ح ہر قسم کے نور قرآن ہی میں ہیں ۹۱ قرآن میں دو نور ہیں ۸۹ قرآن کا صفات اور معارف الٰہیہ کے بیان میں منفرد ہونا ۱۸۲ لوگوں کے دلوں میں قرآن کا اثبات صرف ایک مطہر شخص کے توسط سے ہی ممکن ہے ۳۶۲ قرآن کے سوا کسی بشر کا کلام سہو اور غلطی سے خالی نہیں ۳۱۶ رحمان خدا کی کتاب اپنے عرفان کے نکات کے حوالے سے سات سمندروں کی مانند ہے جس میں سے ہر پرندہ اپنی چونچ کی وسعت کے مطابق پیتا ہے ۳۱۱ یہ جامع تعالیم اور اولین و آخرین کے علوم پر مشتمل ہے ۱۷۸ قرآن کے معجزات میں سب سے بڑا معجزہ ۳۶۸،۳۶۹ح قرآن مستقبل کی پیشگوئیوں سے بھرا ہوا ہے ۳۶۸ح قرآن میں فاسد زمانہ میں مجدد کی بعثت کی طرف اشارہ ۳۶۲ آخری زمانہ کے متعلق قرآن کی پیشگوئیاں اور ان کا پورا ہونا ۳۷۰ح قرآن میں ایک آنے والے امام کا ذکر ۲۱۷ ہم الٰہی کلام کی کسی آیت میں تغییر، تبدیل، تقدیم، تاخیر اور فقرات تراشی کے مجاز نہیں ۲۹۱ حضرت عائشہؓ کا قرآنی آیات کی تاویل کرنا ۱۳ جس نے اپنی رائے سے قرآن کی تفسیر کی تو وہ مومن نہیں بلکہ شیطان کا بھائی ہے ۲۷۶ قرآن کے بعض مقامات کا بعض کی تفسیر ہونا ۱۶۹ جو قرآن کی پیروی کرے وہ ایسی باتوں کو جو صریح قرآن کے مخالف اور اس کی محکم آیتوں کے کھلے کھلے معارض ہیں ناجائز سمجھے گا ۱۲ جس نے قرآن کو چھوڑ کر روایات کا سہارا لیا وہ ہلاکتوں کے گڑھے میں گر گیا ۳۳۳ موت کو مداہنت پر ترجیح دینے والوں کا قرآن میں ذکر ۳۵۱ قرآن کا مومنوں کو خواہ وہ آپس میں نبرد آزما ہوں کافر کہنے سے منع کرنا ۳۲۹،۳۳۰ سارے قرآن میں کہیں نیکی کے مقابلہ میں بدی کرنے کی تعلیم کا ذکر نہیں ۴۰۳ قرآن کے سامنے بہتوں کا جھکنا ۱۴۵ کفارِ عرب کا قرآن کے اعلیٰ مراتبِ بلاغت کو قبول کرنا ۱۴۸ قرآن کی بلاغت کے اعجاز سے بہتوں کا ایمان لانا ۱۴۷ قرآن کے اعجازِ بلاغت کے دعویٰ کے وقت عربوں کی حالت ۱۴۵،۱۴۶ قرآنی محاورہ میں جمع سے واحد اور واحد سے جمع مراد لیا جاتا ہے ۹۸ جاہلیت کے شعراء کے کلام میں لفظ مرّۃ کا استعمال ۱۶۷
اس کی فصاحت کاانسانی فصاحتوں پر غالب آنا ۱۵۲ قرآن میں تورات کا نام امام رکھنے کی وجہ ۷۰ح یہود کے تحریف کرنے کے باعث قرآن نے کا ان کا نام سؤر اور بندر رکھا ۲۹۱ عیسائیوں اور دوسرے دشمنوں کے لئے جو قرآن پر حملہ آور ہوتے ہیں،ایک اعلان ۱۷۸ قرآن کسی کو خدا کی خالقیت میں شریک نہیں کرتا ۱۱ قرآن میں مسیح کے پرندے بنانے کا ذکر حقیقی طور پر کہیں بھی نہیں ہوا ۱۰ اَلْیَوْمُ الْحَقّ قرآن میں قیامت کا نام ہے ۹۷ حضرت مسیح موعود ؑ کی عیسائیوں کو انجیل کے بالمقابل قرآن کے کامل ہونے کے لحاظ سے مقابلہ کی دعوت ۱۸۰ جو حدیث قرآن کی بینات محکمات کے مخالف ہو گی وہ بلاشبہ ردّ کرنے کے لائق ہو گی ۲۹۵ مسلمانوں کے لئے سچی اور کامل دستاویز قرآن اور حدیث ہی ہے باقی ہمہ ہیچ ۲۹۵ کھلے کھلے قرآنی بیانات کی مخالف روایات کی تاویل کی ضرورت کے دلائل ۱۳.۱۴ روایات قرآن کے ثبوت اور تواتر سے برابری نہیں کر سکتیں ۱۳ قرآن میںآخرین میں ایک امام کے آنے کی پیشگوئی ۲۱۷ قرآن مجید کی پیشگوئیاں ۳۶۸، ۳۶۸،۳۷۰ح مسلمانوں کو انگریزی ممالک میں اسلام کی تبلیغ اور اشاعتِ قرآن کی توجہ دلانا ۲۴۷ نزول قرآن کے زمانہ کے عیسائیوں نے قرآن کی شان کے خلاف کچھ نہ کہا ۱۴۸،۱۴۹ اعتراضات قرآن کریم کیفصاحت و بلاغت پر اعتراض کا جواب ۱۴۴ عماد الدین کے اعتراض کا جواب کہ قرآن میں بعض الفاظ ایسے ہیں جو زبانِ قریش کے مخالف ہیں ۱۴۹ عیسائیوں کا مذہب بیان کرنے میں غلطی کی ہے ۱۷۰ بعض عیسائیوں کا کہنا کہ قرآن فصیح ہے لیکن اس کی تعلیم اچھی نہیں ۱۷۸ قوم جب خدا کسی قوم کو بلندی بخشنے کا ارادہ کرے تو اسے دین میں عالی ہمت اور صاحبِ غیرت بنا دیتا ہے ۲۹۹ نسب اور اقوام کا معاملہ خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا ۳۸۵ کسی قوم کے پاس اپنے نسب کا ثبوت نہیں ۲۵۷ قیامت قیامت سے مراد ۱۹۴ قیامت کے دن ہر اصرار اور اعراض کرنے والے کی ندامت اس کے کام نہ آئے گی ۳۷۲ آخری زمانہ اور قربِ قیامت کی نشانی یاجوج ماجوج کی قوم کا نکلنا ۳۶۵ح اَلْیَوْمُ الْحَقّ قرآن میں قیامت کا نام ہے ۹۷ کتاب ایک کتاب کے معنوں کو معلوم کرنے کا صحیح طریق ۲۹۱ ایک کتاب کی وجہ سے بمبئی کے مسلمانوں اور پارسیوں میں نفرت کا پیدا ہونا ۱۴۰ کرامت دشمنوں کی توہین کے وقت کرامات ظاہر ہوتی ہیں ۲۷۲ کفارہ اس عقیدہ کا اصل موجب ۱۰۶ اس عقیدہ کا رد ۱۰۲،۱۰۳ جنّوں کے لئے مسیح کا کفارہ نہ ہونا ۱۰۳ دو تمثیلوں کی صورت میں کفارہ کے عقیدہ کو ماننے والوں کی حالت کا بیان ۱۰۶تا ۱۱۹ کفارہ پرتکیہ کرنے کے مضمرات ۸۱
کفر ایک دوسرے کی تکفیرکرنا نیکی نہیں ۲۵۱ کفار کے نبی کریمؐ اور مسلمانوں پر مظالم ۶۴ گواہی فاسقوں کی گواہی کامل تحقیق کے بعد قابلِ قبول ہے ۲۶۱ قرآن نے فاسقوں کی گواہی قبول کرنے سے منع نہیں کیا ۲۶۲ ل، م، ن لغت لغات میں کسی طرح تصرف جائز نہیں ۴۰۶ح اہلِ لغت کے نزدیک کسی لفظ کا محاورہ اور معنی مراد مستعملہ سے بغیر کسی قرینہ کے پھیرنا جائز نہیں ۲۱۳ نبیوں کی شان سے بہت بعیدہے کہ وہ ایک قرار دادہ معنوں کو توڑ کر ان میں تصرف کرے ۴۰۷ غیر زبان کے لفظ سے بعض اوقات بلاغت کا بڑھنا ۱۵۰ مِرَّۃ کے لغوی اور مجازی معانی ۱۶۶ تاج العروس کا لفظ ذِیْ مِرَّۃ کے معانی میں ذِیْ عَقْل بیان کرنا ۱۶۸ لفظ مِرَّۃ کا اپنے معانی بَٹ دینے اور مروڑ دینے میں عربی اور ہندی میں مشترک ہونا ۱۶۷ لیلۃ القدر یہ رمضان میں ہے ۲۳۷ قرآن کا اس رات میں نزول اور اس رات کے مبارک ہونے کی وجہ ۳۶۹ح مباہلہ جو مباہلہ کے لئے آئے اس کے لئے مدمقابل سے کچھ نہ کچھ مشابہت ضرور ہونی چاہیئے ۳۳۷ مسئلہ خلافت میں شیعوں کے ساتھ فیصلہ کا طریق اور پانچ ہزار روپے انعام کا وعدہ ۳۳۷ آنے والے مسیح کو عیسیٰ اور احمد نام دیے جانے کی جو حقیقت ہم نے بیان کی اگر کوئی نہ مانے تو ہم سے مباہلہ کر لے ۳۸۰ مجدد ہر صدی کے سر پر مجددبھیجنا سنت اللہ ہے ۳۸۳ مجدد کی بعثت کا وقت ۲۳۶ مجددین کی بعثت سے غرض ۴۲۲.۴۲۳ علماء کے نزدیک مجدد میں جن باتوں کا ہونا ضروری ہے۳۲۲ مجھے اللہ نے اس صدی کا مجدد بنا کر بھیجا ہے ۱۸۴ ۲۷۵،۲۸۹، ۳۹۲، ۴۲۲ مسلمان اس زمانہ میں مسلمانوں کی قابلِ رحم حالت کا ذکر ۳ فتنوں سے بچنے اور آخرت کے لئے تیاری اور تزکیہ نفس اور خدا کی لعنت سے ڈرنے کی تلقین ۳۰،۳۱ یہ ایک ناتوان اور تنگ دست قوم ہے ۴۶ ادبار اور تنزل اور بلاؤں کی وجہ ہماری غفلت ہے ۲۵۲ مسلمانوں کو بشارت کہ دو نشان ظاہر ہوئے ہیں جو ایک دوسرے کو قوت دے رہے ہیں ۱۸۹ پادریوں کی چمک دیکھ کر بعض مسلمانوں کا عیسائی ہونا ۴۶ عیسائیت قبول کرنے والے مسلمانوں کے پادریوں کو خوش کرنے کے طریق ۴۷ مولویوں کا تاریخی تواترات کو نظر اندازکرنا ۴۱۳،۴۱۴ مسلمانوں کو انگریزی ممالک میں اسلام کی تبلیغ اور اشاعتِ قرآن کی طرف توجہ دلانا ۲۴۷ نیک علماء کی صحبت اختیار کرنے کی نصیحت اور ایسے علماء کے خصائل کا ذکر ۳۱۰ اس زمانہ کے علماء کی بدحالت،کم علمی،تکبر، تکفیر اور احمدیوں کو گالیاں دینے اور ان کے کفر، مال لوٹنے کے فتاویٰ ۳تا ۵ علماءِ سلف کی غلطیوں کی پیروی کرنادرست نہیں ۱۳
فیج اعوج کے زمانہ کے علماء کی حالت کا ذکر ۳۷۸ علمائے سلف حوادثِ زمانہ کے جمع کرنے پر بہت حریص تھے ۲۵۴ علماء کا ملائکہ کے نزول کے متعلق عقیدہ ۴۲۸ مخالف علماء کا قرآن کو ترک کر کے ظنی باتوں کی طرف جانا ۲۸۷ ان میں سے کوئی بھی نہیں جس نے اللہ کی خاطر اپنے اقارب کو چھوڑا ہو ، دین میں کوشش کی ہو ۲۸۸ گمراہوں کو سمجھانا عالموں پر فرض ہے ۲۴۹ سادہ لوح مولوی دلیل اور دعویٰ میں بھی فرق نہیں کر سکتے۲۹۲ مسلمانوں کو لازم ہے کہ جو نام کے مولوی اور اپنے رسالوں اور وعظوں کو معاش کا ذریعہ بنانے والے ہیں ان کو پکڑیں ۴۱۸ ان کا قرآن و حدیث کو چھوڑنا ۴۰۵ ان کا بغیر سوچے سمجھے مسلمانوں کو کافر اور جہنم ابدی کی سزا کے لائق ٹھہرانا ۴۰۱ علماءِ سُوء کے مونہوں سے جو نکلتا ہے وہ زہر سے اور زمین پر پائی جانے والی ہر بلا سے زیادہ خطرناک ہے ۳۱۰ علماءِ سُو ء کی بُری خصوصیات کا ذکر ۱۸،۱۹ مولویوں کا نصاریٰ کی مدد کرنا ۹،۱۷ ادنیٰ باتوں پر کسی کے کفر کا فتویٰ لگانا ۹ علماء کا تکفیر میں جلدی کرنا اور ہدایت کے لئے نہ آنا ۵ ان کے سچائی سے دور رہنے اور دل کے سخت ہونے کی وجہ ۴ علماء کا قرآن کو چھوڑنا ۴ اس زمانہ کے علماء کی روحانی اورعلمی حالت اور ان کو نصائح۳۰۹ کوئی تحقیراور توہین اور سبّ اور شتم نہیں جو اُن سے ظہور میں نہیں آیا ۳۰۶ آج کل کے مولویوں میں بے ہودہ مکاریوں کی وجہ ۳۰۱ بعض نادان مولویوں کا کہنا کہ یہ تو سچ یہ ہے کہ توفی کے معنی مارنا ہیں لیکن وہ موت نزول کے بعد وقوع میں آئے گی اور اب تک واقع نہیں ہوئی.اس کا ردّ ۲۹۷ مولویوں کے فتنوں کا عوام الناس پر اثر ۱۹ ان کے متعلق حسن ظن کہ وہ میرے اعوان بنیں گے لیکن ابتلاء کے وقت ان کا پیٹھ پھیرنا ۱۸ ہمارے ملک کے اکثر علماء معرفت، بصیرت اور درایت سے خالی ہیں ۸ علماء مکفرین نے ہماری مخالفت مسیح ابن مریم کی وفات کی وجہ سے کی ہے ۸ علماء کا عوام میں فساد پھیلانا ۱۸۵
مشائخ اس زمانہ کے مشائخ کی بُری حالت اور حضرت مسیح موعودؑ
مہدی کے ظہور کا وقت ۳۶۲،۳۶۶ مہدی کے زمانہ کی سب سے بڑی علامت ۳۶۵ مہدی کے ظہور کے وقت زمانہ کی حالت ۳۶۲، ۳۶۳ مہدی کے نام میں مخفی مفاسد کی طرف اشارہ ۳۶۵ مہدی نام میں اشارہ کہ وہ گمراہوں کی قوم سے نکالا جائے گا اور عین وقت پر اسے خدا کی ہدایت پہنچے گی ۳۶۵ آنے والے موعود کو آدم، عیسیٰ اور مہدی کا نام دیا جانا اور اس میں حکمت ۳۶۲.۳۶۳ خدا نے مہدی کا نام مہدی موعود، امام معہود، خلیفۃ اللہ رکھا ہے ۳۶۴ خدا کی طرف سے ہدایت یافتہ وجود دین کے ستون ہیں ۳۶۲ نبی نبیوں کا تجرد اور تقدس ۹۸،۹۹ کے اور دوسرا نام اس کا ہو ہی نہیں سکتا ۴۰۷ فوت شدہ انبیاء کا اس دنیا میں روحانی طور پر نزول ہوتا ہے نہ کہ جسمانی طور پر ۴۰۹ متوفّٰی نبی کے نزول میں حکمت ۳۷۳ نبی کے مثیل پیدا کرنے میں حکمت ۳۷۳.۳۷۴ شیطان انبیاء کی صورت پر متمثل نہیں ہوتا ۵۷ کوئی نبی ایسانہیں جو فوت نہ ہوا ہو ۷۰ خدا کی طرف سے مرسل اور قمری مہینے کی آخری راتوں کا آپس میں تعلق ۳۶۱ قرآن میں نبیوں کے بعد صدیقوں کے ذکر میں حکمت ۳۵۷ جھوٹے مدعیان نبوت کے دعویدار ۳۹۴ح نبی کی شان سے بعید ہے کہ خدا تعالیٰ کے مرادی معنوں میں تحریف کرے ۲۹۵ نبیوں کی شان سے بہت بعید ہے کہ وہ ایک قرار دادہ معنوں کو توڑ کر ان میں تصرف کریں ۴۰۷ نشان ڈرانے والا نشان بدبختوں اور زیادتی کرنے والوں کے لئے ہوتا ہے جبکہ مصفّٰی لوگوں کے لئے مبشر ہوتا ہے ۲۳۱ شقی شخص کی فطرت رحمت کے نشان کو نہیں دیکھ سکتی ۳۵۶ نشان اس کے اہل سے جدا نہیں ہوتا ۲۱۶ و، ہ ، ی وحی عماد الدین کے اعتراض کا جواب کہ قرآنی وحی شیطان کی طرف سے تھی روح الامین کی طرف سے نہیں تھی ۱۳۷ جسے ایمان کا حظّ ملا ہواور خدا کی طرف سے اتباع سنت کی توفیق ملی ہو وہ اللہ کی وحی کی جگہ غیر وحی کو نہیں رکھتا ۲۶۲ ولی اخلاص انبیاء کا شعار اور اولیاء کا زیور ہے ۳۰۹ اولیاء الرحمان کی علامات اور خدا کا ان کے ساتھ سلوک ۳۱۰.۳۱۱،۴۲۰ جسے اولیاء سے ذرہ برابر مناسبت نہیں اس محرومی کو بدبختی اور شقاوت کہتے ہیں ۳۵۶ اولیاء کی نیتوں کو ہم نہیں پہچان سکتے وہ اپنے رب سے اشارہ سے کلام کرتے ہیں ۳۱۱ ان کے مونہوں سے الہاماً نادر کلمات کا نکلنا ۱۰۰،۱۱۰۱،۳۱ اولیاء الرحمان اوائل زمانوں میں مطرود اور ملعون ٹھہرائے جاتے ہیں اور پھر خدا کی نصرت آتی ہے ۳۱۳ سچائی اولیاء کا طریق اور اصفیاء کا نشان ہے ۳۵۱ اولیاء کے ساتھ خدا کا سلوک ۲۷۱،۲۸۹ اللہ جب کسی قوم کو رسوا کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کے اولیاء کے دشمن ہو جاتے ہیں اور ان پر لعنت کرتے ہیں ۲۸۶ اولیاء کا تصوف کی کتابوں میں روحانی نزول کا ذکر کرنا ۴۰۹ اولیاء کی نصرت کا وقت اور اس کے آنے پر مخلوق کا ان کی طرف جھکنا ۳۱۳
اولیاء کی ایک کرامت کہ جب خدا کسی کو رسوا کرنے کا ارادہ کرے تو وہ اسے اولیاء کے دشمنوں میں سے بنا دیتا ہے ۲۷۱ جب خدا کسی قوم کو رسوا کرنے کا ارادہ کرے تو وہ لوگ اولیاء کی عداوت اور خدا کے پیاروں کو تکلیف دیتے ہیں ۲۸۶ ہندو لارڈ ولیم بنٹنگ کا ان کی ستی کی رسم کو موقوف کرنا ۱۴۱ لارڈ ولز کا ان کی جَل پروا کی رسم کو بند کرنا ۱۴۱ یاجوج ماجوج یاجوج ماجوج کا فتنہ مہدی کے زمانہ کی سب سے بڑی نشانی ہے ۳۶۵ عیسیٰ یاجوج ماجوج سے نہیں لڑے گا بلکہ سخت مصیبت کے وقت بددعاکرے گا ۷۵ یہود یہود کے نبی کریم ؐ پر ایمان نہ لانے کی وجہ ۳۸۴ نبی کریمؐ کے زمانہ کے یہود کو ان کے اسلاف کا نام ان کے خیالات میں مناسبت کی وجہ سے دیا گیا ۳۷۶ قرآن کا نبی کریمؐ کے زمانہ کے یہود کو خطاب کر کے سرزنش کرنا جبکہ اس سے مراد پہلے یہود تھے ۳۷۵.۳۷۶ یہود کے عیسیٰ کے انکار کی وجہ ۱۴۳،۱۴۴،۳۸۴ یہودکا توریت میں ملحدانہ کارروائیاں کرنا ۲۹۱ ان کی کتابوں میں صاف لفظوں میں لکھا ہے کہ درحقیقت ایلیا ہی دوبارہ دنیا میں آئے گا ۴۱۲ یہود کا حضرت مسیح کی نبوت کی نسبت یہ عذر پیش کرنا کہ ابھی تک ایلیا کا نزول نہیں ہوا ۴۰۹ ایلیا کے نزول کے مسئلہ کی وجہ سے یہود کا ابتلاء میں پڑنا ۴۱۲ ایلیا کے نزول کے مسئلہ کی وجہ سے عیسائی اب تک مصیبت میں پڑے ہوئے ہیں اور یہود کے آگے بات نہیں کر سکتے ۴۱۰ یہود کا حضرت مسیح کو ملحد اور بے دین کہنے کا سبب ۴۰۹، ۴۱۳ تاویلوں کے سبب یہود کا مسیح کو ملحد اور بے دین کہنا ۴۰۹
اسماء آ، ا، ب آدم علیہ السلام خدا نے آدم کو اپنے ہاتھ سے اور اپنی صورت پر پیدا کیا ۱۰۶ انجیل کا اقرار کہ خدا کا پہلا بیٹا تھا ۱۰۵ حضرت آدم ؑ کی تعریف قرآن میں حضرت عیسیٰ سے زیادہ بیان کی گئی ہے ۱۳۵،۱۳۶ ابوبکرؓ اسلام کے لئے آدم ثانی تھے ۳۳۶ آنے والے موعود کو آدم، عیسیٰ اور مہدی کا نام دیا جانا اور اس میں حکمت ۳۶۲،۳۶۳ ابراہیم علیہ السلام ۷۸ خدا کی راہ میں آپ کو تکالیف پہنچنا مگر تقیہ نہ کرنا ۳۴۹ آپ پر روح القدس کا نزول ۱۳۲ اسحاق علیہ السلام ۷۸ اسماعیل علیہ السلام آپ پر روح القدس کا نزول ۱۳۲ ابراہیم بن محمد ؐ اس امر کی تردید کہ مہینے کی دس تاریخ کو فوت ہوئے ۲۶۴ ابن اثیر اپنی تاریخ میں لکھنا کہ آنحضرتؐ کی وفات کی خبر جب مکہ پہنچی تو وہاں کے عامل کا چھپنا اور مکہ کا لرزنا ۳۹۴ح ابن تیمیہ ۴۱۲ فتح مکہ کے موقع پر آنحضرتؐ کا یوسف ؑ کی طرح لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُکہنا ۴۰۶ح اس کا کہنا کہ یہ واقد ی کا قول ہے کہ ابراہیم بن رسول اللہؐ مہینے کی دس تاریخ کو فوت ہوئے ۲۶۴ وفات عیسیٰ ؑ کا اقرار اور ساتھ ہی نزولِ عیسیٰ ؑ پر بھی ایمان ۳۷۷ ابن خلدون اس کی تاریخ کی کتاب سے نبی کریمؐ کی وفات کے بعد اعراب کے ارتداد کی تفصیلات کا بیان ۳۹۳ح تا ۳۹۵ح ابن قیم ۲۷۹،۲۹۹،۴۱۲ وفات عیسیٰ ؑ کا اقرار اور ساتھ ہی نزولِ عیسیٰ ؑ پر بھی ایمان۳۷۷ عیسیٰ ؑ کو موسیٰ ؑ کی طرح موتیٰ میں داخل کرنا ۳۰۲ ابو اسحاق دو راتوں کے چاند کو بھی ہلال کہتے ہیں ۱۹۸ح، ۲۶۸ ابو بکرؓ سفر ہجرت میں آنحضرتؐ کی رفاقت کا سرّ ۳۳۸،۳۴۰ جب کبھی آپ نے اللہ سے دعا مانگی خدا نے آپ کی تائید و نصرت کی ۳۳۸ اسلام کی نازک حالت پر رونا اور خدا سے اسلام اور مسلمانوں کی خیر کی دعا مانگنا ۳۳۴،۳۳۵ ابوبکرؓ اسلام کے لئے آدم ثانی تھے ۳۳۶ آپ کی خلافت کے وقت اٹھنے والے فتنے ۳۳۵ آپ کی خلافت کا وقت خوف و مصائب کا تھا ۳۳۴ فتنوں اور مصیبتوں کو دور کرنا ۳۹۳ح آپ کی خلافت کے ابتدائی ایام میں وارد مشکلات اور ان کے بالمقابل خدائی نصرت ۳۴۶ آپ نے ہی اسلام کی آفات کو دور کیا ۳۵۴ ابوبکر کی خلافت کے زمانہ میں اسلام کے تمام خوف غائب ہو گئے ۳۹۳ح اسلام کی اشاعت میں تکالیف برداشت کرنا ۳۹۲ح قرآن سے آپ کی خلافت کے دلائل ۳۳۳ خدا کا قرآن میں آپ کی اور آپ کی خلافت کی تعریف کرنا ۳۹۳ح شیخین اور دوسرے صحابہ کی مدح میں عربی قصیدہ ۳۸۶
اس امر کا ثبوت کہ ابوبکرؓ آنحضرتؐ کے بعد خلیفہ بننے کے زیادہ حق دار تھے ۳۵۶ آپ کو صدیق کا لقب کب ملا ۳۵۵،۳۵۷ آپ کو کافر کہنے والے اور لعنت ڈالنے والے ظالم جلد اپنے کئے کا انجام دیکھ لیں گے ۳۴۶ بالغ مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنا ۳۴۵ نبی کریمؐ سے آپ کی محبت کی شدت ۳۹۵ح آنحضرتؐ کی قبر کے پاس تدفین ۳۴۴ حرمین اور دو قبروں میں آنحضرتؐ کے ساتھی۳۹۲.۳۹۳ح آپ کواس چارپائی پر اٹھا کر لے جایا گیا جس پر آنحضرتؐ کو اٹھا کر لے جایا گیا تھا ۳۹۵ح آنحضرتؐ اور اسلام کی خاطر تکالیف برداشت کرنا ۳۴۱ جو شیخین کو گالیاں دیتے ہیں وہ علیؓ کو گالیاں دیتے ہیں ۳۹۱ مسیح موعودؑ کو ابوبکرؓ کے ساتھ محبت اس وقت سے عطا کی گئی جب سے آپ کے قلم نے لکھنا شروع کیا ۳۹۲ح ابو بکرؓنے عربوں کی قیادت مبارک عزم کے ساتھ کی ۳۹۲ح جیشِ اسامہ کو بھجوانے کے موقع پر حضرت ابوبکرؓ کے تاریخی کلمات ۳۹۴ح مرتد ہونے والی عربی قبائل کے نام آپ کا ایک خط ۳۹۵ح آپ کا آخری کلام ۳۹۵ح آلِ رسولؐ پرآپ کے ظلم روا رکھنے کے عقیدہ کا ردّ ۳۴۷ اس امر کا جواب کہ خدا نے ابوبکرؓ سے ہی کیوں خلافت کی ابتداء کی ۳۴۱ شیعوں کا اقرار کہ اسلام کے دشمنوں کی کثرت کے وقت ایمان لائے اور مشکل گھڑیوں میں آنحضرتؐ کے ساتھ رہے ۳۴۳ شیعوں کو خلافت ابوبکرؓ کے حوالہ سے دعوت کہ ایک میدان میں جمع ہو کرجھوٹوں پر لعنت کی دعا کریں اور پانچ ہزار روپیہ انعام کا وعدہ ۳۳۷ آپ کے فضائل آپ کی فضیلت کے دلائل ۳۳۹ تا ۳۴۱،۳۴۵، ۳۵۳ آپ کے فضائل کے بارہ میں مختصر کلام ۳۵۵تا۳۵۷ آپ کی برکات اور خوبیوں کا ذکر ۳۳۸،۳۸۸،۳۳۹، ۲۴۷،۳۵۴ ،۳۹۲،۳۹۳ح آنحضرتؐ کے نزدیک ابوبکرؓ کا مقام ۳۹۵ح اپنی علوّ شان اور بلند مقام میں تمام صحابہ سے بڑھ کر تھے اور بغیر کسی شک کے خلیفہ اول تھے ۳۳۷ قرآن میں بیان آپ کی خوبیاں ۳۹۹،۳۴۰ آیت استخلاف میں موجود بشارت کے مصداق حقیقی ۳۵۲ فخر اسلام اور فخر مرسلین تھے، آپ کے جوہر کو آنحضرتؐ سے ایک قریبی رشتہ تھا ۳۵۴ آپ کی بزرگی اور عالی مرتب ہونے کا ثبوت ۳۴۷ آنحضرتؐ کا اپنی نیابت میں امام الصلوٰۃ بنانا ۳۹۵ح آپ کے خوف و مصائب کے ذریعہ آزمائے جانے کا سبب ۳۳۹ خدا کا آپ کو ثَانِیَ اثْنَیْن کی خلعت سے نوازنا ۳۳۹ آنحضرتؐ کی محبت میں فنا شدہ ۳۳۹.۳۴۰ سفر ہجرت میں آنحضرتؐ کی رفاقت نصیب ہونا اور اس میں بھید ۳۳۸ تا ۳۴۰ قرآن کو جمع کرنا اور آنحضرتؐ کی ترتیب کے مطابق مرتب کرنا ۳۳۸ ابوبکر بن احمد بن حسن، حافظ حدیث دارقطنی کی روایت کو درج کرنا ۲۶۲ ابو جہل حضرت علیؓ کا اس کی بیٹی کو نکاح کا پیغام دینا ۳۳۱ ابو الحسن خیری حدیث دارقطنی کی روایت کو درج کرنا ۲۶۲ ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ ۳۸۵ ارسطو ۲۹۳
اسامہ رضی اللہ عنہ جیشِ اسامہ کو بھجوانے کے موقع پر حضرت ابوبکرؓ کے تاریخی کلمات ۳۹۴ح اسود عنسی یمن سے اس کا حملہ کرنا ۳۴۴ح افضل الدین ۲۷۹ افلاطون ۲۹۳ الٰہی بخش، مولوی نور الحق کی مثل بنانے کا مخاطب ۱۵۷ح امرء القیس ۱۵۷ قصیدہ لامیہ کا شعر جس میں لفظ مِرَّۃ کا استعمال ہوا ۱۶۷ بٹالوی کا اقرار کہ لوگوں نے ان کے کلام میں بھی غلطیاں نکالی ہیں ۳۱۶ ایلیا(الیاس) داؤد نے کہا کہ عیسیٰ ایلیا کے نزول کے بعد آئے گا ۳۸۴ نزولِ ایلیاء کے واقعہ میں تحریف نہ ہونے کا ثبوت ۴۱۴ اس اعتراض کا جواب کہ یہ واقعہ صحیح نہیں ہے ۴۱۳ نزول ایلیا کے قصہ سے فوت شدہ انبیاء کے نزول کی حقیقت کا تعلق ۴۰۹ ایوب علیہ السلام اگر نبی کریمؐ نہ آتے تو ان کی سچائی کی ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں تھی ۳۰۸ بخاریؒ ، امام رئیس المحدثین ۲۷۸ مقبول الزمان امامِ حدیث ۲۹۹ وفات مسیح کے پہلے اقرار کرنے والے ۲۷۸ عیسیٰ ؑ کی موت کا اقرار اور ساتھ ہی نزول عیسیٰ ؑ کے عقیدہ پر بھی ایمان ۳۷۸ توفی کا مطلب موت بیان کرنا اور حضرت ابن عباسؓ کی گواہی درج کرنا ۲۷۷ بدھ گوتم ان کے وجود کا ثبوت ۴۱۳ بشیر اوّل شیر خواری کی عمر میں فوت ہونا اور اس کے لوٹائے جانے کی خوشخبری اور اس کی والدہ کا خواب میں اسے واپس آتے دیکھنا ۲۸۱ بشیر الدین محمود احمد، مرزا آپ کا نام آپ سے پہلے فوت شدہ بھائی کے نام پر رکھنا اور اس میں سِرّ ۳۸۱ بکرما جیت اس کے وجود کا ثبوت ۴۱۳ بنو تغلب، قبیلہ ہذیل بن عمران کا اس قبیلہ میں نبوت کا دعویٰ کرنا ۳۹۴ح بنو عقفان سجاح بنت حارث کا اس قبیلہ میں نبوت کا دعویٰ کرنا۳۹۴ح بنی اسد طلیحہ بن خویلد کا بنی اسد میں دعویٰ نبوت کرنا ۳۹۴ح بنی حسین مخالفین کا کہنا کہ بنی حسین میں سے امام پیدا ہو گا ۲۵۷ بنی سلیم اس کے خواص کا مرتد ہونا ۳۹۴ح بیہقی حدیث دارقطنی کو درج کرنا ۱۹۶،۲۶۲ ح، خ، د، ذ، ر،ز حریری بٹالوی کا اقرار کہ لوگوں نے اس کے کلام میں بھی غلطیاں نکالی ہیں ۳۱۶ حسام الدین، مولوی نور الحق کی مثل بنانے کا مخاطب ۱۵۷ح حسام الدین، مولوی، بمبئی نور الحق کی مثل بنانے کا مخاطب ۱۵۷ح
حسن، امام رضی اللہ عنہ کشف میں آپ کو حضرت علیؓ اور فاطمہؓ کے ساتھ دیکھنا ۳۵۸ آپ کی اولاد سے مہدی کے آنے کی روایات ۳۸۵ حسن علی، مولوی نیک بخت اور اشاعت اسلام کے لئے دلیر ۲۴۸، ۲۵۰ نور الحق کی مثل بنانے کا مخاطب ۱۵۷ح حسین، امام رضی اللہ عنہ ۳۵۱ اسلام میں پیدا ہونے والے فتنوں کے باعث آپ کی شہادت ہوئی ۳۵۳ حضرت مسیح موعود ؑ کی حضرت علیؓ اور حضرت حسینؓ سے ایک لطیف مشابہت ۳۵۹ کشف میں آپ کو حضرت علیؓ اور فاطمہؓ کے ساتھ دیکھنا ۳۵۸ آپ کی اولاد سے مہدی کے آنے کی روایات ۳۸۵ حسین عرب ، شیخ ۴۲۱ حمید اللہ خان، مولوی نور الحق کی مثل بنانے کا مخاطب ۱۵۷ح داؤد علیہ السلام ان پر روح القدس کا نزول ۱۳۳ دحیہ کلبیؓ ان کی شکل میں جبرئیل کا ظاہر ہونا ۴۱۵ رام چندر ؑ ان کے وجود کا ثبوت ۴۱۳ رجب علی، پادری اس کا اقرار کہ عماد الدین کے سبب ہمیں بہت شرمندہ ہونا پڑا ہے اور مسلمانوں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے ۱۳۹ رسل بابا، مولوی، امرتسری اس کا رسالہ حیات المسیح لکھنا اور ہزار روپے انعام کا وعدہ کرنا ۳۰۵ اس کا اس رسالہ کو لکھنے کا مقصد ۲۸۵ خدا کا اسے رسوا کرنے کے لئے کتاب لکھوانا اور پھر مقابلہ کے لئے حضور کو پکارنا ۲۸۳ اس نے کوئی نئی بات نہیں لکھی بلکہ جہالت سے بھری ہوئی عبارتیں ہیں ۲۸۴.۲۸۵ اس کی کتاب صدق کی باتوں سے خالی اور دجالی باتوں کا مجموعہ ہے ۲۸۶ رسالہ کے آخر میں لکھنا کہ میری کتاب سمجھ میں نہیں آئے گی جب تک کوئی سبقاً مجھ سے نہ پڑھ لے ۳۰۰ عوام کو خوش کرنے کے لئے ایک ہزار روپیہ انعام دینے کا وعدہ کرنا جو اس کے رسالہ کے دلائل کو توڑے ۲۹۹.۳۰۰ مولوی رسل بابا امرتسری کے رسالہ حیات المسیح پر ایک نظر اور نیز ہزار روپیہ انعامی جمع کرانے کی درخواست ۲۹۰ اگر اس نے انعامی رقم نہ جمع کروائی تو خدا کی لعنت کا مورد بنے گا ۲۸۴ وہ تین افراد جن کے پاس انعامی رقم جمع کروانے کی حضور نے تجویز بیان فرمائی ۲۸۳، ۲۸۴، ۲۸۶ یہ اپنے وعدوں کا سچا نہیں اس کے مغلوب ہونے پر اس کے اپنے قول سے پھرنے کا اندیشہ ۲۸۳ اسے سمجھانے کے لئے رسالہ اتمام الحجہ کی تالیف ۲۷۳ حضور کا فرمانا کہ میں انعام کے طمع سے مقابلہ میں نہیں آیا بلکہ اسے رسوا کرنے اور حق کے اظہار کے لئے اٹھا ہوں ۲۸۶ اس کی فطرت میں یہودیوں کی صفات کا خمیر ہے ۲۹۱ اگر اس کی نیت صاف ہوتی تو قرآنی آیات کو ضرور دیکھتا جن سے عیسیٰ کی وفات بالبداہت ثابت ہوتی ہے ۲۹۰ اس کے اور حضور کے درمیان فیصلہ کے لئے بٹالوی یا ایسے ہی کسی زہرناک مادہ والے کے تقرر کی تجویز اور فیصلہ کے طریق کا ذکر ۳۰۵،۳۰۶ اسے نور الحق کے بالمقابل رسالہ شائع کرنے کا چیلنج ۳۰۴ رشید احمد گنگوہی ۴۲۱
رفیع الدین دہلوی، شاہ اہل کلمہ کی ایک جماعت مہدی کو پچان لے گی ۱۹۶ زکریا علیہ السلام اگر نبی کریمؐ نہ آتے تو زکریا کی سچائی کی ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں تھی ۳۰۸ زمخشری اس کا مسیح اور مریم کے مسِ شیطان سے پاک ہونے والی حدیث کی لطیف تشریح کرنا ۳۷۷ زہری، امام ۲۷۰ زیادہ بن ہلال جھوٹا مدعی نبوت ۳۹۴ح زین العابدینؒ ، امام ۱۹۶ ہدایت یافتہ اماموں میں سے ہیں ۲۰۶ س،ش، ص، ط، ع، غ سجاح بنت الحارث اس کا بنو عقفان میں نبوت کا دعویٰ کرنا ۳۹۴ح سلمان فارسی رضی اللہ عنہ وہ فارسی تھے مگر آنحضرتؐ نے انہیں اہلِ بیت میں سے قرار دیا ۳۸۵ سلیل بن قیس اس کا شعبان قبیلہ میں نبوت کا دعویٰ کرنا ۳۹۴ح سلیمان،قاضی ۴۲۱ سید علی، مولوی نور الحق کی مثل بنانے کا مخاطب ۱۵۷ح شاہ دین لدھیانوی ۴۲۱ شعبان(قبیلہ) سلیل بن قیس کا اس قبیلہ میں نبوت کا دعویٰ کرنا ۳۹۴ح صفدر علی بہادر مسیحی، اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر ضلع ساگر ہند ۱۴۱ صفدر علی، قاضی ،مولوی نور الحق کی مثل بنانے کا مخاطب ۱۵۷ح طلیحہ بن خویلد اس کا بنی اسد میں دعویٰ نبوت اور اس کے ہاتھ پر طئی اور اسد قبیلہ کا اکٹھا ہونا ۳۹۴ح طئی ،قبیلہ طئی اور اسد قبیلہ کا طلیحہ کے ہاتھ پر اکٹھا ہونا ۳۹۴ح عائشہ رضی اللہ عنہا قرآنی آیات کی تاویل کر لیا کرتی تھیں ۱۳ حضرت ابو بکرؓکی خلافت کے وقت فتنوں کا ذکر کرنا ۳۳۵ عبدالجبار غزنوی، مولوی ۴۲۱ عبدالحسین ناگپوری، شیخ بعض لوگوں کا استفسار کرنا کہ یہ اپنے آپ کو مہدی موعود کا نائب کہتا ہے اس کے بارہ میں آپ کا کیا خیال ہے ۴۱۹ عبدالرحمان، مولوی نور الحق کی مثل بنانے کا مخاطب ۱۵۷ح عبد الرحمان کوکوی، مولوی ۴۲۱ عبد الحق دہلوی ۴۲۱ عبدالرؤف مناوی، شیخ ،امام عیسیٰ اور اسکی ماں کے مس شیطان سے پاک ہونے والی حدیث کی لطیف تشریح کرنا ۳۷۷ عبدالعزیز دہلوی ۴۲۱ عبداللہ (والد گرامی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم) انوار پانے کے لئے مستعد تھے لیکن ایسا اتفاق نہ ہوا اور فوت ہو گئے ۳۷۵ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ آپ عقلمندوں اور ہدایت یافتوں میں سے تھے ۲۷۶ اہل بیت کے ہمراہ نبی کریم ؐ کی شدت کے وقت آپؐ کے گرد جمع ہونا ۳۹۵ح توفی کے معنی بیان کرنا ۲۷۶،۲۷۷، ۲۹۳، ۴۰۷، ۴۱۱، ۴۲۵ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ۲۶۹ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ۳۹۴ح
عبداللہ بیگ، مولوی نور الحق کی مثل بنانے کا مخاطب ۱۵۷ح عبداللہ تلونڈی ۴۲۱ عبدالمجید دہلوی ۴۲۱ عبدالمنان وزیر آبادی، حافظ ۴۲۱ عبدالوہاب شعرانی ۲۷۹ عتاب بن اسید آنحضرتؐ کی وفات کی خبر جب مکہ پہنچی تو یہ وہاں کا عامل تھا اس کا چھپنا اور مکہ کا لرزنا ۳۹۴ح عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ۳۴۲ آپؓ کی صفاتِ عالیہ کا ذکر ۳۲۶ عطا محمد مرزا (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دادا) ۳۶ عقبہ بن ہلال اس کا نمر قبیلہ میں نبوت کا دعویٰ کرنا ۳۹۴ح عقیل ۲۶۹ علی بن احمد، شیخ اپنی سراج منیر میں وفات مسیح کا ذکرکرنا ۲۹۹ علی بن ابو طالبؓ ۲۷۰ حضرت علیؓ کے فضائل ۳۵۸.۳۵۹ اسد اللہ الفتیٰ ۳۳۱ اسد اللہ الغالب ۳۵۰، ۳۵۸ میں علی اور آپ کے دونوں بیٹوں سے محبت رکھتا ہوں اور جو ان سے دشمنی رکھے میں اس سے دشمنی کرتا ہوں ۳۵۹ اے اللہ جو اس سے دوستی رکھتا ہے تُو بھی اس سے دوستی رکھ اور جو اس سے دشمنی کرتا ہے تُو بھی اس سے دشمنی رکھ ۳۵۸ آپ فصیح اللسان تھے ۳۵۸ آپ کے کلام میں بلا کی جذب و تاثیر تھی ۳۵۰ پہلے خلفاء کی طرح اشاعت دین اور کفر شکنی نہ کر سکے ۳۵۳ شیخین کی بیعت اور ان کے ساتھ مشاورت میں شمولیت ۳۵۰ جس نے آپ کے وقت میں آپ سے جنگ کی وہ باغی و طاغی تھا ۳۵۲ آپ کی خلافت میں نظام اسلام میں خلل اور فتنوں کا سر اٹھانا ۳۵۳ آپ کی خلافت ایک مسکین، فقیر کی مانند ثبوت سے عاری ہے ۳۳۲ آپ کی خلافت آیت استخلاف میں امن کی بشارت کی مصداق قرار نہیں دی جا سکتی ۳۵۳ شیعوں کا آپ کی مذمت پر جسارت کرنا اور اس کا سبب ۳۵۱ شیعوں کا آپ کو منافق ٹھہرانا ۳۴۴ اس وسوسہ کا جواب کہ شیخین نے ان پر ظلم کیا اور ان کے حقوق غصب کیے ۳۳۰ اس گمان کا ردّ کہ خلافت کے مصداق ابتداء سے ہی علیؓ تھے ۳۵۳ ابو جہل کی بیٹی کو نکاح کا پیغام دینا ۳۳۱ علی بن عبداللہ بن عباس حدیث دار قطنی کے راوی ۲۶۲ عماد الدین، پادری اپنی کتاب میں حضور کے حالات کو افتراء کے طور پر لکھنا ۳۳.۳۴ پنجاب ٹریکٹ سوسائٹی کا اس کی کتاب کے ایک حصہ کو نامنظور کرنا۱۴۱ اس کی تصنیفات کے متعلق اہل الرائے لوگوں کی آراء ۱۴۰.۱۴۱ عمادالدین کے متعلق رائے کہ اگر ۱۸۵۷ء کی مانند غدر ہوا تو اسی شخص کی بدزبانیوں اور بے ہودگیوں سے ہوگا ۱۴۱ بڑے پادریوں کا اسے پہچاننے میں دھوکا کھانا ۷۶.۷۷ قرآنی آیت میں روح سے الوہیت مسیح ثابت کرنا ۹۶.۹۷ اس کا حضرت مسیح موعودؑ کی ذات پر حملہ کرنے کی وجہ ۵۰ گورنمنٹ کو حضور سے بدظن کرنے کی اغراض ۳۴،۳۵ براہین احمدیہ میں اسے مخاطب کرنا اور اس کی وجہ ۱۵۱ یہ عربی کا ایک حرف بھی نہیں جانتا ۱۳۸،۱۴۵ کسی قصہ کو عربی میں بنانے کے لئے مقابلہ کی دعوت مگر اس کا خاموش رہنا ۱۵۱
خدا کا الہاماً اس کے مقابلہ سے عاجز آنے اور اس کی رسوائی کی خبر ۱۵۳ اسے انجیل کی فضیلت ثابت کرنے پر دو ہزار روپے بطور انعام دینے کا وعدہ ۱۸۳ عربی اشعار میں اس کے بدخصائل کا ذکر ۱۲۰ اس کی نامرادی اور بُری خصلتوں کے ظہور کی پیشگوئی ۷۶ بٹالوی کا اس کی تعریف کرنا ۵۲.۵۳ اس کے اعتراضات اس افترا کا جواب کہ دنیا کی بادشاہت یا اپنی قوم میں امیر بننے کی مجھے خواہش ہے ۵۳ اس قول کا ردّ کہ اس زمانہ کے پادری دجّال نہیں۵۸،۷۷ گورنمنٹ کو حضرت مسیح موعود ؑ کی بغاوت سے ڈرانے کا ردّ ۶۱ اس کے عقیدہ باطلہ کی بنیاد ۹۶ عیسیٰ وہی روح ہے جس کا جابجا قرآن میں اور دوسری کتب میں ذکر ہے ۱۳۲،۱۳۴ قرآنی وحی شیطان کی طرف سے قرار دینا ۱۳۷ قرآن کی فصاحت و بلاغت پر اعتراض ۱۳۸،۱۴۴ نعوذ باللہ آنحضرتؐ کو جنّ کا آسیب تھا ۱۳۸ شدید القویٰ شیطان کا نام ہے ۱۳۹ ذِیْ مِرَّۃ شیطان کو اور مِرَّۃ مادہ صفرا کو کہتے ہیں ۱۶۵ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ (نیز دیکھیں مضامین میں ’’شیخین‘‘) شیطان کا آپ کو دیکھ کر راستہ بدلنا ۱۴۳ تمام صحابہ کا آپ کی بیعت کرنا ۳۴۲ عمرو بن کلثوم تغلبی اپنے وقت کا ایک بدیہہ گو شاعر تھا ۱۶۷ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام وہ سچا نبی اور خدا کے مقربوں میں سے تھا ۳۰۸ خدا کا ایک نبی اور موسیٰ کی شریعت کا ایک خادم تھا ۶۸ قرآن کا آپ کو مقربانِ بارگاہ میں سے قرار دینا ۱۰۰ آپ کی کسرِ نفسی ۱۰۱.۱۰۲ صرف ایک خاص قوم کے لئے آیا اور اس کی نبوت کا ضرر اس کے فائدہ سے زیادہ ثابت ہوا ۳۰۸ خدا چاہے تو عیسیٰ جیسے اور اُن سے بڑے اور افضل ہزاروں پیدا کر سکتا ہے ۵۶ یحییٰ نبی کامرید اورشاگردوں کی طرح اصطباغ پانا ۳۰۸ ابطال الوہیت مسیح ۵۶،۵۷ قرآن کی رو سے ابطال الوہیت و ابنیت مسیح ۱۰۰ ابن اللہ ہونے کی تردید ۱۰۵،۱۰۶،۱۳۵ فریسیوں کا نام ظالم اور بدکار رکھنا ۸۱.۸۲ آخری زمانہ کے نصاریٰ کا نام دجال رکھنے کی وجہ ۷۹.۸۰ مسیح کے لئے حدیث میں لفظ ’’نظر‘‘کا استعمال ۷۵ کشف میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آپ کے ساتھ ملاقات ۵۶.۵۷ حضرت عیسیٰ کی شان میں غلو اوراطراء ۶۷.۶۸ مسیح کی نسبت مولویوں کا عقیدہ کہ وہ مسِ شیطان سے پاک تھے ۹.۱۰ جو کچھ عیسیٰ نبی اللہ نے فرمایا وہ تو پا ک تعلیم تھی ۱۷۴ عیسیٰ پر گمراہی سے کئی جھوٹ باندھے جانا ۱۷۷ بعض ائمہ کے نزدیک احادیث میں عیسیٰ کا نام وسیع معنوں میں آیا ہے ۳۷۷ شیطان سے آزمایا جانا اور اقرار کہ اسے قیامت کا علم نہیں اور ملائک اس سے علم اور طاعت میں افضل ہیں ۱۳۶ روح جیسے عیسیٰ پر نازل ہوا ویسے ہی موسیٰ پر نازل ہوا ۱۳۲ جنّوں کے گروہ کا آدمیوں سے بڑھنا مگر مسیح کا ان سے تغافل برتنا ۱۰۳ عیسیٰ کا اپنے حواری کو شیطان کہنا ۱۴۲ آپ کا دعامانگنا مگر اس کا قبول نہ ہونا ۵۶ موسیٰ سے اللہ کااور مسیح سے شیطان کا پہاڑ پر کلام کرنا ۶۸ح قرآن کی رو سے آدم کے مسیح سے افضل ہونے کا ثبوت ۱۰۵، ۱۳۴تا ۱۳۷
آپ کے معجزات کی حقیقت مُردوں کو زندہ کرنے کی حقیقت ۱۱ خلقِ طیور کی نسبت صحابہ کی تفاسیر کے بیانات ۱۱ مسیح کے پرندوں کی حقیقت ۱۰ حیاتِ مسیح عیسائیوں کا مسیح کی عصمت خاصہ اور ان کے اب تک زندہ ہونے کا عقیدہ ۱۷ حیاتِ مسیح کے عقیدہ کا ردّ ۱۲۷ خیانت پیشہ مولویوں کا زندگی ثابت کرنے کے لئے نعوذ باللہ آنحضرتؐ کو بھی محرف القرآن ٹھہرانا ۲۹۵ حیاتِ مسیح کے متعلق مولویوں سے صرف ایک ہی سوال ۲۹۲ اس قبیح عقیدہ سے سارا فساد اور زمین کا سیاہ ہونا ۲۸۷ اس اعتراض کا جواب کہ مسیح کے جسمانی رفع پر اجماع ہو چکا ہے ۲۷۸ وفات مسیح عیسیٰ بن مریم طبعی موت مر چکے ہیں ۲۷۵ وفات مسیح کی ایک منطقی دلیل ۲۹۷.۲۹۸ شہداء کی موت اور ان کے زندہ رہنے سے وفات مسیح کا لطیف استدلال ۳۷۱.۳۷۲ آیت فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کے حوالہ سے نبی کریم ؐ اورعیسیٰ ؑ میں آپس میں اشتراک ۲۹۵.۲۹۶،۴۰۷ کتاب الٰہی، رسول اللہ، صحابہ اور عرب قوم کا محاورہ کہ توفی کا لفظ مارنے کے معنوں میں ہے ۴۰۵.۴۰۶ مسئلہ وفات مسیح میں کسی جگہ حدیث نے قرآن کی مخالفت نہیں کی بلکہ تصدیق کی ہے ۲۹۵ مسیح کے لئے توفی کااستعمال بمعنی موت ہے ۶۹ قرآن میں یٰعِیْسٰی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ کے الفاظ سے وفات کا ذکر ۸ قرآن میں مسیح کی نسبت دو جگہ لفظ توفی کا استعمال ۲۹۲ قرآن میں مستعمل لفظ توفی کا مطلب ۲۷۶ نبی کریمؐ کے متوفیک والی آیت کی بیان کردہ تفسیر ۲۷۶،۲۷۷، ۲۸۵، ۲۹۳، ۲۹۵ امام بخاری اور ابن عباسؓ کے لفظ توفی کے بیان کردہ معنی ۲۷۶،۲۷۷،۲۹۳، ۴۰۷، ۴۱۱، ۴۲۵ بخاری، عینی، فضل الباری میں توفی کے معنی اماتت ۲۷۷، ۲۹۲ حضرت یوسف ؑ کی دعا میں لفظ توفی کا استعمال ۲۹۲ حضرت ابوبکر وعمرؓ اور تمام صحابہ اور مسلمانوں کی وفات کے لئے لفظ توفی کا استعمال ۲۹۳ توفی کے متعلق نبی کریم ؐ اور صحابہ کا فیصلہ ۲۹۳ جب نبی کریمؐ اور صحابہ نے توفی کے معنی بیان کر دیے تو پھرعوام کے معنی کی کیا حقیقت ۲۸۵ نبی کریمؐ نے توفی کا لفظ صرف موت کے معنوں میں استعمال کیا ہے ۲۷۷،۳۷۷ قرآن، کتب احادیث، عربوں کے عام محاورے میں لفظ توفی کا استعمال وفات کے معنوں میں ہے ۲۹۲.۲۹۳ مرنے کے معنوں کے اثبات میں تائید دعویٰ کے لئے تین چیزوں کا ہونا ۴۰۷،۴۰۸ قرآن ، نبی کریمؐ اور ائمہ سلف کا وفات مسیح کا عقیدہ ۲۹۹ قرآن میں مسیح کا اقرار کہ اس کی وفات کے بعد اس کی امت میں فساد پیدا ہو گا ۲۷۷ امام بخاری کا اپنی صحیح میں حضرت عیسیٰ کی موت کے بارہ میں ایک باب باندھنا ۳۰۲ امام مالک، امام بخاری، ابن قیم کا وفات مسیح کا عقیدہ تھا ۲۹۵،۲۹۹،۳۰۲ معتزلہ وفات مسیح کے عقیدہ کے قائل ہیں۲۷۹، ۲۹۴، ۲۹۸، ۲۹۹ ہزارہا اکابر کا وفات مسیح کا عقیدہ تھا ۳۰۲ اگر موسیٰ و عیسیٰ زندہ ہوتے تو انہیں خاتم النبیین کی اقتداء کے بغیر گزارہ نہ تھا ۲۷۹ اگر موسیٰ و عیسیٰ زندہ ہوتے تو نبی کریمؐ کے پاس دفن ہونا پسند کرتے ۳۴۶
مجمع البحار میں عیسیٰ کے بارہ میں اختلافات بیان کرنے کے بعد امام مالک کا قول درج ہے ۲۷۹ حضرت عیسیٰ کی بلاد شام میں قبر موجود ہے ۲۹۶ عیسیٰ کی موت بدیہیات میں سے ہے اور اس کا انکار سب سے بڑی جہالت ہے ۲۸۹ نزول مسیح نزول کی مختلف اقسام ۴۰۸.۴۰۹،۴۲۶ نزول کے مختلف معانی ۶۹، ۳۷۳ حدیث میں مسافر کے لئے نزول کا استعمال ۳۷۷ نزولِ عیسیٰ کی حقیقت ۱۵ح، ۳۷۳.۳۷۴ خدا کی قسم آنحضرتؐ نے نزول عیسیٰ وغیرہ سے تاویلی معنی مراد لئے ہیں ۱۵ اگر بِذاتہٖ نزول مراد تھا تو یرجعکا لفظ حدیث میں آتا ۱۵ح دنیا کی بِنا سے اب تک کسی کی نسبت نزول کا لفظ جب آسمان کی طرف نسبت دیاجائے جسمانی نزول پر اطلاق نہیں پاتا اور جو دعویٰ کرے وہ ثبوت پیش کرے ۴۱۱ حمامۃ البشریٰ میں نزول عیسیٰ کے عقیدہ کا بطلان ۶۹ ان لوگوں کے عقیدہ کا ردّ جو کہتے ہیں کہ نزولِ عیسیٰ سے مراد حقیقی نزول ہے ۳۷۶ نزول کے حوالے سے حضرت اقدس ؑ اور مولویوں کی مثال عیسیٰ اور یہود کی طرح ہے ۴۱۰ یہود کا کہنا کہ ایلیا کے جسمانی نزول کے بعد مسیح آئیگا ۴۱۲ تورات میں عیسیٰ کے صعود و نزول کا کچھ نشان نہیں۰ ۷ح امام مہدی کے غار میں چھپنے اور مسیح کے آسمان سے نازل ہونے میں مشابہت ۳۷۵ غطفان، قبیلہ اس کے قبیلہ کا مرتد ہونا اور ٹیکس دینے سے انکار ۳۹۴ح غلام احمد ، قادیانی، حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کے آباء و اجداد کے انگریزی حکومت کے ساتھ تعلقات کا ذکر ۳۶ والد صاحب کی وفات کے بعد الٰہی اور آسمانی دولت کا حاصل ہونا ۳۸،۳۹ ایک شیعہ آپ کا استاد تھا ۳۲۴ بعض شیعوں کا آپ کے ساتھ عقیدت کا تعلق ۳۱۹ مسلمانوں کو خدا کی طرف بھاگنے کی نصیحت ۳۰ فرمانبرداری اور اخلاص سے خدا کی رضامندی کی راہوں پر چلنے کی تلقین ۲۸ میں تکلف کرنے والوں میں سے نہیں اور صرف ایسے شخص کی طرف توجہ کرتا ہوں جو مجھ سے خالص دوستی رکھتا ہے ۲۹ خدا کی طرف سے آپ کو فہم، نور ، اسرار اور علوم کا ملنا ۳۲۵ انبیاء کی روحوں سے آپ کا معطر ہونا ۱۲۸ آپ کا اللہ تعالیٰ کی طرف اسراء ۳۲۰ جو شخص مجھے دیکھے گا وہ میرے نورِ علم کو معلوم کر لے گا ۹۲ آپ کا فقیرانہ شیوہ ۵۵ وہ اصول جو لوگوں کی بھلائی کے لئے آپ کے پیشِ نظر ہیں ۵۴ مکہ کی طرف ہجرت کا ارادہ ۱۹ خدا کی طرف سے آپ کو ایک کشتی کا دیا جانا اور اس کی تفصیلات کا بیان ۳۸۳ اشعار میں نبی کریمؐ کے ساتھ عشق کا اظہار ۲۵۸ خدا اپنی نصرت کو ہمارے لئے طرح طرح سے نازل کر رہا ہے ۲۸۶ عربوں کی طرف توجہ کا باعث امر ۴۲۷ اُن لوگوں کے وہم کا جواب جو گمان کرتے ہیں کہ عرب کے لوگ قبول نہیں کریں گے اور نہ سنیں گے ۲۶ خدا کی قسم دین کے معاملہ میں مَیں ایک لمحہ کے لئے مداہنت نہ کروں اگرچہ چھری سے ذبح کیا جاؤں ۳۵۱
آپ کے عقائد عقائد کا ذکر اور مومن موحد ہونے کی شہادت ۷ آپ کے اسلامی عقیدہ کا ثبوت ۱۸۳،۱۸۴،۴۰۵،۴۲۲ میں حضرت عیسیٰ کی موت کا قائل ہوں ۱۲۷ بعثت کی اغراض میرا بڑا مدعا یہی ہے کہ لوگ ایمان کی حقیقت کو ڈھونڈیں اور دقائق عرفان کی طرف رغبت کریں ۵۴ میں خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہوں تا دین کو زندہ کروں اور ایمانی طریقے سکھاؤں ۲۱۱ مسلمانوں کو منعم گروہ میں داخل کرنے اور ضعفاء پر رحم کرنے اور انہیں وہ دینے کے لئے خدائے قدیر کے حکم سے کھڑا ہوا ہوں جو پہلوں کو نہیں دیا گیا ۲۸۸ اے میری قوم میں خدا کی قسم کھاتا ہوں کہ میں اس کی طرف سے ہوں اور دین کی تجدید کے لئے صدی کے سر پر بھیجا گیا ہوں۲۸۹ مجھے اللہ نے برکاتِ حق کی اشاعت کے لئے بھیجا ہے ۳۸۳ مجھے خدا نے زمانہ کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے اور قرآن کا علم دیا ہے اور مجھے مجدد بنایا ہے ۴۲۲ میرے آنے سے پادریوں کی ذلت کے وقت کا آنا ۱۲۸ تبلیغ اسلام علماء کو انگریزی علاقوں میں جا کرتبلیغ کرنے کی نصیحت ۲۴۷،۲۴۸ دو عالموں کو ولایت تبلیغ کے لئے بھجوانے کی نصیحت ۲۵۰ عیسائیوں کو دعوتِ اسلام ۸۴ دیار عرب میں کتابوں کی اشاعت ایک عظیم الشان امر ہے ۲۵ آپ کی دعا کا قبول ہونا اور عرب میں اشاعت کے کام کے لئے ایک آدمی کا حاصل ہونا ۲۱ صداقت کے دلائل صداقت کے دلائل ۳۶۳،۴۲۷ ضرورتِ زمانہ کی دلیل ۵۴،۲۱۶،۲۸۸،۳۸۳ خسوف و کسوف کے نشان کو اپنی صداقت کا ثبوت ٹھہرانا ۲۰۳،۲۱۱،۲۵۲ کوئی کاذب افتراء کے بعد لمبی عمر نہیں پاتا ۲۸۹ دعاوی اے میری قوم میں خدا کی قسم کھاتا ہوں کہ میں اس کی طرف سے ہوں اور دین کی تجدید کے لئے صدی کے سر پر بھیجا گیا ہوں۲۸۹ مَیں نبوت کا دعویدار نہیں ۴۲۲ مسیح موعود ہونے کا دعویٰ ۸۳ مجھے اپنے رب کی طرف سے الہام ہوا ہے کہ میں ہی مسیح موعود اور احمد معہود ہوں ۲۱۶،۳۸۰ خدا کا بشارت دینا کہ جس مسیح موعود اور مہدی مسعود کا لوگ انتظار کر رہے رہیں وہ تُو ہے ۲۷۵ خدا کااپنی رحمت سے آپ کو مسیح موعود اور مکلمین میں سے بنانا اور اس کا سبب ۳۹۲ح میں نے عیسیٰ بن مریم کا دعویٰ الہام کے احکام سے کیا ہے۴۲۳ براہین احمدیہ میں خدا کا آپ کا نام احمد رکھنا ۳۷۴ آپ خدا کی طرف سے نذیر ہیں ۱۱۹ میں اہلِ فارس میں سے ہوں ۳۱۵ دو فتنوں کے بالمقابل خدا نے مجھے دو نام عطا کئے ۳۸۳ عیسائیوں اور مسلمانوں کے لئے بطور حکم و عدل مبعوث ہونے کا دعویٰ ۳۸۳ خدا کا آپ کو خلافت کے مقام پر فائز فرمانا ۴۲۵ خدا کا آپ کو مہدئ وقت اور مجدد بنانا ۱۸۴ مجھے خدا نے زمانہ کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے اور قرآن کا علم دیا ہے اور مجھے مجدد بنایا ہے ۴۲۲ خدا نے مجھے اس صدی کا مجدد بنایا اور مجھے علوم سکھائے ہیں ۲۷۵ دوسرے ملکوں میں کسی اور نے مہدی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۲۰۳ اللہ کی قسم میں علماء میں سے نہیں میرا حسن بیان اور میری تفسیر القرآن خدائے رحمان کی طرف سے ہے ۲۷۲ ظلمت کے وقت ایک نور کی طرح ہوں ۵۵
جدید مفاسد کے بالمقابل حضرت مسیح موعودؑ کو جدید فہم کا عطا کیا جانا ۳۲۵ میں خدا کے حکم سے اوہام کو دور کرنے اور بیماریوں کے علاج کے لئے مبعوث ہوا ہوں ۳۲۲ میرے انفاس میری تلوار اور کلمات تیر ہیں ۲۲۳ میری حالت مسلمان قوم کی جدائی سے وہی ہوئی جو حضرت یعقوب کی ہوئی تھی ۲۲۴ حضور اور انگریزی گورنمنٹ ان کی ہدایت اور اسلام لانے کے لئے دعا ۴۰۳ میں اس گورنمنٹ کے لئے بطور تعویذ اور بطور پناہ کے ہوں۴۵ انگریزی حکومت کے لئے بشارت ۴۵ گورنمنٹ مجھے اور میرے خاندان سے بے خبر نہیں ۳۵ گورنمنٹ اور حضرت مسیح موعود ؑ کے خاندان کی باہمی موافقت۵۱ انگریزی سرکار کی توجہ کیلئے ایک اشتہار کی اشاعت ۳۲ حضورؑ کا ہرکتاب میں ان کے مسلمانوں کے محسن ہونے کا ذکر اور ان کا شکریہ ادا کرنا ۴۰ حضور ؑ کا خدا سے عہد کے ہر مبسوط کتاب میں قیصرہ کے احسانات کا ذکر کروں گا ۶،۳۹ اگر انگریزی سلطنت کی تلوار کا خوف نہ ہوتاتو علماء ہمیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے ۶ ہمارے لئے اللہ اور رسول اللہ ؐ کے حکم سے گورنمنٹ ہذا کے زیر اطاعت رہنا فرض اور بغاوت کرنا حرام ہے ۴۰۲ حضورؑ کا انگریزی حکومت کو ایک مقدمہ میں حکم مقرر کرنا ۱۵۴ ہم گورنمنٹ کے خیر خواہوں میں سے ہیں اور اس کے احسانات کا تذکرہ ۶، ۶۱،۶۲ اچھی گورنمنٹ کے ملنے پر مسلمانوں کو خدا کا شکر ادا کرنے کی نصیحت ۲۴۶ آپ کی دعائیں اے خدا ہمیں اپنے دین اور اپنے کلام کی صداقت دکھا اور ہماری تکلیف کو دور کر دے...۳۱۳ اے خدا محمدؐ کی امت پر رحم فرما اور ان کے حال کو درست اور پاک کر دے ۳۱۷ یا الٰہی اس امت پر رحم کر اگر یہ مولوی ہدایت کے لائق ہیں تو ان کی ہدایت کر ورنہ ان کو اٹھا لے تا زیادہ شرّ نہ پھیلے ۳۰۳ اے خدا اگر تُو نے اپنے حکم سے مجھے اپنے گروہوں کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے تو میری نصرت فرما ۳۱۹،۳۲۰ آپ کی دعا کا قبول ہونا اور عرب میں اشاعت کے کام کے لئے ایک آدمی کا حاصل ہونا ۲۱ اے میرے رب صلیب کا ٹوٹنا مجھے دکھلا ۱۲۸ عربی اشعار میں عیسائیوں کے مقابلہ پر خدا سے مدد طلب کرنا ۱۲۵،۱۳۱ اللہ سے ایسی نصرت کی دعا جیسی اس نے نبی کریمؐ کی بدر کے روز فرمائی تھی ۱۸۴ مکفرین اور مخالفین کے مقابلہ پر نجات حاصل کرنے کے لئے خدا کے حضور دعا ۱۸۴،۱۸۵ سر الخلافۃ میں برکت کے لئے دعا ۳۲۰ سرالخلافۃ پڑھنے والوں کے لئے دعا ۳۲۴ اے اللہ جو علیؓ سے دوستی رکھتا ہے تُو بھی اس سے دوستی رکھ اور جو اس سے دشمنی کرتا ہے تُو بھی اس سے دشمنی رکھ ۳۵۸ انگریزی گورنمنٹ کی ہدایت، توحید ، آنحضرتؐ اور قرآن کو شناخت کرنے کے حوالہ سے خدا کے حضور دعا ۳۰۷،۴۰۳ پیشگوئیاں میں دیکھتا ہوں کہ اہلِ مکہ خدائے قادر کے گروہ میں فوج در فوج داخل ہو جائیں گے ۱۹۷ میں دیکھتا ہوں کہ عرب مجھے قبول کریں گے اور میری طرف آئیں گے اور میری تعظیم کریں گے ۴۲۷
بٹالوی اور دوسرے کفر کے فتویٰ لگانے والوں کو نور الحق کی مثل بنانے کی دعوت اور ان کے مغلوب رہنے کی پیشگوئی ۲۷۱ خدا کا الہاماً بتانا کہ عیسائی اندھوں کی مانند ہیں اور نور الحق کی مثل بنانے پر قادر نہیں ہوں گے ۲۶۰ عربیکتب کی تصنیف دعا مانگنے پر اللہ نے عربی علم دیا ۳۲۲ میں ان کا نام وحی اور الہام تو نہیں رکھتا مگر یہ ضرور کہتا ہوں کہ خدا کی خاص تائید نے یہ رسالے لکھوائے ہیں ۴۱۶ وہ عربی کتب جو اَب تک تالیف ہو چکی ہیں ۱۹.۲۰ عربی کتابوں کے تالیف کرنے کی عظیم الشان اغراض ۱۹، ۲۰،۲۱، ۴۲ تا ۴۴ عربی میں رسائل لکھنے کا سبب ۴۲۷ کرامات الصادقین اور نور الحق عربی میں تالیف کرنے کی وجہ ۳۹۹ دیار عرب میں کتابوں کی اشاعت ایک عظیم الشان امر ہے ۲۵ عیسائیوں کے قرآن کی فصاحت پر اعتراض کے بعد خدا نے مجھے الہام کیا تاکہ مَیں اُن پر حجت تمام کروں جس پر آپ کا نور الحق حصہ دوم تالیف کرنا ۲۵۹ عیسائیوں کو نور الحق کی مثل بنانے کا چیلنج اگر وہ عربی دانی کا دعویٰ کرتے ہیں اور انہیں دو ماہ کی مہلت دینا ۲۵۹.۲۶۰ خدا کا الہاماً بتانا کہ عیسائی اندھوں کی مانند ہیں اور نور الحق کی مثل بنانے پر قادر نہیں ہوں گے ۲۶۰ تالیفات میں سہو کتابت اور غلطی میں فرق کی وضاحت ۳۱۶ تالیفات میں صرفی یا نحوی غلطی کے متعلق وضاحت ۳۱۶ سہو اور نسیان سے براء ت کا اظہار ۲۷۲ مخالفت ہم میں اور ہمارے مخالفین میں بڑی نزاع ۴۱۱ بعض علماء کا آپ کی طرف رجوع کرنا اور مخالفانہ باتوں سے توبہ کرنا ۳۲۳ آپ کی مخالفت اور آپ پر حملے کئے جانا ۳۳ علماء کا مخالفت میں بڑھنا اور خدائی حفاظت ۳۲۲ مولویوں کا الزام کہ یہ فرقہ قرآن و حدیث سے باہر ہو گیا ہے ۴۰۸ کافر ٹھہرائے جانے کی وجہ ۸،۷۵ آپ کے اور احمدیوں کے خلاف فتویٰ کفر، قتل، مال لوٹنے ، عورتوں کو پکڑنے اور اولاد کو غلام بنانے کے فتاویٰ ۵ ایک مخالف کا لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے آپ کے خلاف انعامی کتاب لکھنا اور اس کتاب کی حالت ۲۸۱ مکفرین کا ہر طرف سے مایوس ہو کر دشنام دہی اور تکفیر پر اتر آنا ۲۸۰،۲۸۱ دجال کہنے والوں کا ردّ ۲۴۵ بٹالوی کو علاج کے لئے پاس آنے کی دعوت دینا ۲۴۴ وہ انعامی چیلنجز جو آپ نے بٹالوی کو دیے ۳۹۹ علماء کا آپ کو ستانا ، گالیاں دینا اور کافر ٹھہرانا ۴ علماء کا شرمندہ ہونے کی بجائے شرّ میں مزید بڑھنا ۳۲۳ بٹالوی کے آپ کی مخالفت میں مختلف حربے ۴۰۰،۴۰۲ عماد الدین کے آپ پر حملہ کرنے کی اصل وجہ مباحثہ آتھم میں جواب نہ دے سکنا تھا ۵۰ بٹالوی اور دوسرے کفر کے فتویٰ لگانے والوں کو نور الحق کی مثل بنانے کی دعوت اور ان کے مغلوب رہنے کی پیشگوئی ۲۷۱ جو لوگ ہم سے عداوت رکھتے ہیں وہ حق کو قبول نہیں کرتے۱۶ خدا اپنے بندے اور دین کی ضرور مدد کرے گا اور عیسائی خدا کے نور کو نہیں بجھا سکیں گے ۱۸۳ مولویوں کا حضور کی مخالفت میں قرآنی احکام کی خلاف ورزی کرنا ۴۲۶ مخالفانہ کارروائیوں کے بالمقابل خدا کا آپ کی حفاظت کرنا ۴۲۴.۴۲۵ میں نے مقابلہ کے وقت اپنے رب کو بلایا جو میری ڈھال ہے ۱۲۷
پہلوں سے بڑی بڑی باتیں سنیں اور بعد میں آنے والوں سے ان سے بھی زیادہ سنوں گا ۳۱۹ اس صدی کے مجدد اور مسیح موعود کے دعویٰ کے اعلان کے بعد مسلمانوں کا کذاب اور مفتری کہنا ۳۱۸ آبائی تقلید کی وجہ سے مولویوں کا ہمارے خلاف ہونا ۳۰۲ اشعار میں عیسائیوں کی بدخصلتوں کا ذکر ۸۵ عیسائیوں کے مقابلہ پر خدا سے مدد طلب کرنا ۱۳۱ عیسائیوں کے آگے برکت اور لعنت رکھنا ۱۶۳ عیسائیوں کا دو قسم کی آگ سے ہمیں جلانا ۱۷۷ عیسائیوں کو سچے ارادہ کے ساتھ آنے کی دعوت ۱۸۲ عیسائیوں کے قرآن کی فصاحت پر اعتراض کے بعد خدا نے مجھے الہام کیا تاکہ مَیں اُن پر حجت تمام کروں جس پر آپ کا نور الحق حصہ دوم تالیف کرنا ۲۵۹ عیسائیوں کو نور الحق کی مثل بنانے کا چیلنج ۲۵۹.۲۶۰ خدا کا الہاماً بتانا کہ عیسائی نور الحق کی مثل بنانے پر قادر نہیں ہوں گے ۲۶۰ اس افترا کا جواب کہ مجھے دنیا کی بادشاہت یا اپنی قوم میں امیر بننے کی خواہش ہے ۵۳ پادری عماد الدین کے اس اعتقاد کا ردّ کہ مَیں حکومت کا باغی ہوں ۳۲،۵۸،۶۱ اس وہم کا جواب کہ مہدی کے متعلق دو سو کے قریب علامات ہیں ہم تب تک آپ پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک ان سب کو پورا ہوتے خود نہ دیکھ لیں ۲۶۵ مخالفین کو مقابلہ کی دعوت مسلمانوں اور عیسائیوں کو نور الحق کی مثل لکھنے کا چیلنج اور پانچ ہزار روپیہ انعام کا وعدہ ۱،۱۵۴،۱۵۷،۱۸۷،۲۶۰ عماد الدین کو کسی قصہ کو عربی میں بنانے کے لئے مقابلہ کی دعوت اور پچاس روپیہ انعام کا وعدہ مگر اس کا خاموش رہنا ۱۵۱ عیسائیوں کو انجیل کے بالمقابل قرآن کے کامل ہونے کے لحاظ سے مقابلہ کی دعوت ۱۸۰ عماد الدین کو انجیل کی فضیلت ثابت کرنے پر دو ہزار روپے بطور انعام دینے کا وعدہ ۱۸۳ ایک ہزار انعام کا وعدہ اگر کوئی شخص لغت، ادب اور قصائد کی کتابوں سے اس امر کے خلاف نکالے کہ قمر پہلی تین راتوں کے بعد کے چاند پر نہیں بولا جاتا ۱۹۹ نظیر لانے کا مطالبہ کہ کسی نے مسیح و مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہو اور خسوف و کسوف کا نشان ظاہر ہوا اور ایک ہزار روپیہ انعام کا وعدہ ۲۱۱.۲۱۲ مولویوں کو سر الخلافہ کے بالمقابل رسالہ کی دعوت اور علاوہ انعام کے فی غلطی دو روپیہ مزید دینے کا وعدہ ۳۱۶ علماء سے دو کتابوں کی مثل مانگنے پر اُن کا بھاگنا ۳۲۳ اگر شیعہ مقابلہ پر دعا کے لئے آئیں تو سرکاری خزانے میں پانچ ہزار روپے کی انعامی رقم جمع کروانے کیلئے تیار ۳۳۷ مسئلہ خلافت میں فیصلہ کے لئے شیعوں کو مباہلہ کی دعوت اور پانچ ہزار روپے انعام کا وعدہ ۳۳۷ آنے والے مسیح کو عیسیٰ اور احمد نام دیے جانے کی جو حقیقت ہم نے بیان کی اگر کوئی نہ مانے تو ہم سے مباہلہ کر لے ۳۸۰ کرامات الصادقین کے بالمقابل تفسیر لکھنے کی دعوت اور ہزار روپے انعام کا وعدہ ۳۹۹ اگر بٹالوی نور الحق کی مثل تحریر تین ما ہ میں تحریر کر دے تو تین ہزار نقد انعام کا وعدہ ۳۹۹، ۴۰۰ بٹالوی کو اس مقابلہ کے لئے خدا کی قسم دے کر بلانا ۴۱۷،۴۱۸ منظوم کلام عربی اشعار علٰی اننی راض بان اظھر الھدٰی والحق بالدجال ظلما من العدٰی ۲۰۱ أ یا من یدعی عقلًا وفھمًا الٰی ما تؤثرن وعثًا ودھمًا أتحصب نار غضب اللّٰہ رزقًا أتجعل سھم قھر اللّٰہ سھمًا ۲۰۲
کتاب عزیز محکم یفحم العدا فنحمد بارء نا علی ما العدا ۳۱۵ عربی قصائد الی الدنیا اولی حزب الاجانی وجلوھا جنًی حُلوا المجانی ۸۵ انی من اللّٰہ العزیز الاکبر حق فھل من خائفٍ متدبّر ۱۱۹ انظر الی المتنصرین و ذانھم وانظر الی ما بدء من ادرانھم ۱۲۳ لمّا أری الفرقان مسیم ہ‘ تردّی من طغٰی ۱۶۹ ترکتم ایھا النوکٰی طریق الرشد تزویرا علٰی عیسٰی افتریتم من ضلالتکم دقاریرا ۱۷۷ و کم من ندامٰی اذا رؤا الکؤسا ۲۰۴ قضٰی بیننا المولی فلا تعص قاضیا واطفأ لظی الطغوی وفارق حاضیا ۲۱۲ بشرٰی لکم یا معشر الاخوان طوبٰی لکم یا مجمع الخلّان ۲۱۷ قد جاء یوم اللّٰہ اطیب بشرٰی لذی رشد یقوم و یطلب ۲۳۸ فدتک النفس یا خیر الانام رئینا نور نبأک فی الظلام ۲۵۶ ما للعدا مالوا الی الاھواء مالوا الٰی اموالھم وعلاء ۲۶۰ ھداک اللّٰہ ھل ترضی العواما لکی تستجلبن منھم حطاما ۲۹۰ رویدک لا تھج الصحابۃ واحذر ولا تقف کل مزوّر وتبصّر ۳۸۶ انّ الصحابۃ کلھم کذکاء قد نوّروا وجہ الورٰی بضیاء ۳۹۷ نفسی الفداء لبدر ھاشمی عربی ودادی قرب ناھیک عن قرب ۴۳۰ غلام حسین ، شیخ حضور کی طرف سے مولوی رسل بابا کو ان کے پاس انعامی رقم جمع کروانے کی تجویز ۲۸۳، ۲۸۴، ۲۸۶ غلام قادر، مرزا (حضرت مسیح موعود ؑ کے بڑے بھائی) باپ کی مانند انگریزی سرکار کی عنایت اس کے شامل حال ۳۸ غلام دستگیر قصوری، مولوی ۴۲۱ غلام محمد امرتسری ۴۲۹ غلام مرتضیٰ، مرزا (حضرت مسیح موعود ؑ کے والد محترم) گورنمنٹ کے نزدیک صاحب مرتبہ اور قابل تحسین ۳۶ سرکار انگریزی کی طرف سے خوشنودی کی چٹھیاں ملنا ۳۸ دہلی کے مفسدہ کے وقت ۵۰ گھوڑوں کے ذریعہ انگریزی سرکار کی اعانت کرنا ۳۷ ف، ق، ک، ل،م فاطمہ رضی اللہ عنہا ۳۳۱ کشف میں حضور کا اُن کی ران پر سر رکھنا ۳۵۹ قریش ۱۴۹ کثیر بن مُرّہ الحضرمی حدیث دارقطنی کو درج کرنا ۲۶۲ کرشن ؑ ان کے وجود کا ثبوت ۴۱۳ کرم الدین، مولوی نور الحق کی مثل بنانے کا مخاطب ۱۵۷ح کریون، پادری شمس الاخبار کا ایڈیٹر ۱۴۱ گوتم بدھ ۴۱۳ لارڈ ولیم بنٹنگ ،گورنرجنرل ہندوستان ۱۸۲۷ء میں ستی کی رسم کوموقوف کرنا ۱۴۱
لارڈ وِلز،گورنرجنرل ہندوستان ۱۷۹۸ء میں جَل پروا کی رسم کو حکمًابند کرنا ۱۴۱ لبید بن ربیعہ عامری قرآن دیکھ کر اسلام قبول کر لینا ۱۴۷ مالکؒ ، امام ۲۷۰ آپ کی عظمت اور آپ کا مقام ۲۹۴ وفاتِ عیسیٰ کے صریح قائل ۲۹۵، ۲۹۸.۲۹۹ قال مالک مات وھوابن ثلث و ثلٰثین سنۃ ۲۷۹،۲۹۴ امام مالک کا اپنی صحیح میں حضرت عیسیٰ کی موت کے بارہ میں ایک باب باندھنا ۳۰۲ وفات عیسیٰ ؑ کا اقرار اور ساتھ ہی نزولِ عیسیٰ ؑ پر بھی ایمان۳۷۷ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم آپ پر درود و سلام اور آپ کی صفاتِ حسنہ کا بیان ۲ ۲۷۴،۳۱۷، ۳۹۲ح آپ ؐ کو جامع کلام کاعطا کیا جانا ۱۹۹ فصاحت کے میدان کے سوار بلکہ سواروں کے سردار ۲۰۰ انس و جنّ کا امام، پاک دل اور بہشت کی طرف کھینچنے والے۱۸۸ قیامت کے روز مقام شفاعت صرف آ پ کو حاصل ہوگا۹۸ ہمارے لئے آنحضرتؐ کی شہادت سے اورکوئی بڑھ کر شہادت نہیں ۲۹۳ آپ کی اشارت حکم اور فرمانبرداری غنیمت ہے ۲۰۱ اگرآپ نہ آتے تو چھوٹے چھوٹے نبیوں کی سچائی کی ہمارے پاس کوئی دلیل نہ ہوتی ۳۰۸ وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا وہ محمدمصطفی ؐ ہیں ۳۰۸ جسے ایمان کا حظّ ملا ہواور خدا کی طرف سے اتباع سنت کی توفیق ملی ہو وہ اللہ کی وحی کی جگہ غیر وحی کو نہیں رکھتا ۲۶۲ کفار کے مظالم پر آپ کا صبر کرنا ۶۴ آنحضرتؐ کی رفاقت سفر ہجرت میں حضرت ابو بکرؓ کی رفاقت کا سرّ ۳۳۸ تا ۳۴۰ آپؐ کا تیرہ برس صبر کرنا اور مدینہ کی طرف ہجرت ۶۴،۴۰۴ کفار کے مظالم سے تنگ آ کر مدینہ ہجرت کرنا ۶۴ آنحضرتؐ کا مخالفین کو معاف کرنا ۹۰ آنحضرتؐ کی لڑائیوں کی حقیقت ۶۵ نبی کریمؐ کی شدت تکلیف کے وقت آپ کے صحابہ کا آنحضرتؐ کے گرد جمع ہونا ۳۹۵ح قرآن میں نبی کریمؐ کی وفات کے ذکر پر مشتمل آیات ۳۹۶ح آپؐ کا روضۂ مبارک جنت کے باغات میں سے ہے ۳۴۴ آپؐ کی وفات سے اسلام پر آنے والے مصائب ۳۳۴ آپؐ کی وفات کے بعد ارتداد کا فتنہ ۳۹۳ح آنحضرتؐ اور یوسف ؑ میں مشابہت ۴۰۶ح آخرین کی حقیقت پوچھنے پر آپؐ کاحضرت سلمانؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھنا ۳۸۵.۳۸۶ عماد الدین کا اعتراض کہ نعوذ باللہ آنحضرتؐ کو جنّ کا آسیب تھا ۱۳۸ عیسائی ہونے والے مسلمانوں کی نبی کریمؐ کی اہانت کرنے کی وجہ ۳ محمد، امام غائب امام محمد اور عیسیٰ دونوں فوت ہو چکے ہیں ۳۷۱ غار میں پوشیدہ ہونے میں استعارات ۳۷۵ محمد احمد ابن حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ حضرت مولوی حکیم نور الدین کے چھوٹے بیٹے کی خسرہ سے وفات کے بعد ایک آدمی کا خواب دیکھنا جس میں اس نے اپنے عنقریب لوٹنے کا کہا ۳۸۱ محمد اسحاق پٹیالوی، مولوی ۴۲۱ محمد باقر ؒ ، امام ۱۹۶، ۲۰۴، ۲۶۴ ہدایت یافتہ اماموں میں سے ہیں ۲۰۶
محمد بشیر بھوپالوی ۴۲۱ محمد حسین بٹالوی، شیخ بٹالوی کو مقابلہ کے لئے حضور کا بلانا مگر اس کا متوجہ نہ ہونا اور اس کی وجہ ۳۰۲،۴۱۶ جہاں تک ضرر رسانی کے وسائل اس کے ذہن میں آئے استعمال کئے ۴۰۲ ہم نے سنا کہ ان دنوں شیخ صاحب پر تنگدستی کی وجہ سے تکالیف بہت ہیں، خشک دوستوں کا وفا نہ کرنا ۴۰۱ اس کا دروغ گو، کاذب اور بے شرم ثابت ہونا ۳۹۹ مجھے کذاب، مفتری قرار دینا اور اپنے بارے میں خودپسندی، تکبر سے بھرے ہوئے کلمات کہنا ۳۹۸ تکفیر کے فتویٰ میں مولویوں کا پیشوا ۴ اس کا میری عربی کتب میں جلد بازی میں نکتہ چینی کرنا ۳۱۶ حضور کا عربی رسالہ التبلیغ میں غلطیاں نکالنا ۴۱۵ شایداس نے کوئی ایسا کلمہ کہا ہو جو عیسائیوں کوپسندآیا ہو اور انہوں نے اسی وجہ سے اس کی تعریف کی ہو ۵۳ ہمارا حال اس سے پوشیدہ نہیں ۵ یہ انسانیت کے پیرایہ سے بے بہرہ اور ایمانداری سے عاری ہے ۵،۹ ملائکہ کے نزول کے متعلق اس کا عقیدہ ۴۲۸ اپنے پرچہ میں اقرار کہ اگردوستوں نے اب بھی مدد نہ کی تو اس نوکری سے استعفیٰ دے دیں گے ۴۰۱ محمدالسعیدی النشار الحمیدی الطرابلسی، سید، مولوی بلاد شام سے آ کر سات ماہ پاس رہنا اور ان کی نیک خصلتوں کا ذکر ۲۲تا ۲۵ اس کا ایک کتاب ایقاظ الناس کے نام سے لکھنا اور حضور کا اس کتاب کی بلندشان کا ذکر فرمانا ۲۲،۲۳ ان کے زادِ راہ کے لئے تحریک ۲۷، ۲۹ بلاد شام میں قبر مسیح کے واقع ہونے سے متعلق ان کی شہادت اور ان کا خط ۲۹۶، ۲۹۷ح تا ۲۹۹ح محمد مرتضیٰ الحسینی ، سید (تاج العروس کا مصنف) ۱۶۶ محمد المغربی الشاذلی، شیخ ۲۸۰ مریم علیہا السلام بعض عیسائیوں فرقوں کا آپ کی پرستش کرنا ۱۷۰ شام کے ایک گرجے میں آپ کی قبر ۲۹۷ح، ۲۹۹ح مسیلمہ کذاب اس کے گرد تقریباً ایک لاکھ عرب جمع ہو گئے تھے ۳۵۰ اس کا یمامہ سے حملہ کرنا ۳۹۴ح ابوبکرؓ کااسے ہلاک کرنا ۳۹۲ح مشتاق احمد لدھیانوی، مولوی ۴۲۱ ملاکی نبی اگر نبی کریمؐ نہ آتے تو ملاکی نبی کی سچائی کی ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں تھی ۳۰۸ موسیٰ علیہ السلام قرآن میں آپ کی زندگی کی طرف اشارہ ۶۹ خدا کا کوہِ سینا پر آپ سے ہمکلام ہونا ۶۸ موسیٰ کے عصا کی حقیقت ۱۱ اگر موسیٰ و عیسیٰ زندہ ہوتے تو انہیں خاتم النبیین کی اقتداء کے بغیر گزارہ نہ تھا ۲۷۹ اگر موسیٰ و عیسیٰ زندہ ہوتے تو نبی کریمؐ کے پاس دفن ہونا پسند کرتے ۳۴۶ قرآن کا آپ کے زمانہ کے یہود کا ذکر اس طرح کرنا کہ نبی کریمؐ کے زمانہ کے یہود مخاطب تھے ۳۷۶ میر محمود شاہ حضور کی طرف سے مولوی رسل بابا کو ان کے پاس انعامی رقم جمع کروانے کی تجویز ۲۸۳، ۲۸۴، ۲۸۶ ن، و، ہ، ی نذیر حسین انبیٹھوی سہارنپوری، مولوی ۴۲۱ نذیر حسین دہلوی ۴۲۱
نصرت جہاں (زوجہ مطہرہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ایک رؤیا میں دیکھنا کہ بشیر واپس آ گیا ہے جبکہ وہ فوت ہو چکاتھا ۳۸۱ نظام الدین، مولوی نور الحق کی مثل بنانے کا مخاطب ۱۵۷ح نظام الدین، مولوی نور الحق کی مثل بنانے کا مخاطب ۱۵۷ح نعیم بن حماد ۲۶۲ نمر ، قبیلہ عقبہ بن ہلال کا اس قبیلہ میں نبوت کا دعویٰ کرنا ۳۹۴ح نور الدین، حکیم، مولوی آپ کی صفاتِ حسنہ کا ذکر ۳۸۱ ان کے بیٹے محمد احمد کا فوت ہونا اور ایک آدمی کا خواب دیکھنا جس میں اس نے اپنے عنقریب لوٹنے کا کہا ۳۸۱ نور الدین، مولوی نور الحق کی مثل بنانے کا مخاطب ۱۵۷ح واقدی اس کے متعلق اجماع کہ یہ حجت نہیں ہے ۲۶۴ وکٹوریہ، ملکہ خدا نے ہمیں ایک ایسی ملکہ عطا کی جو ہم پر رحم کرتی ہے ۶ قیصرہ کے احسانوں کے بدلہ میں اسے دعا کا ہدیہ پہنچانا ۵۵ دنیا میں برکت اوراس کے انجام بخیر کی دعا ۳۳ اس کی خوبیوں کا ذکر ۳۲ ملکہ کے مسلمان ہونے کے لئے دعا ۶ ملکہ کو اسلام کی دعوت ۵۵ ملکہ کے ہدایت پانے کی امید کا اظہار اور ممکن ہے کہ اللہ اس کے شہزادوں کے دل میں توحید کا نور ڈال دے ۵۹ ولی اللہ محدث دہلوی، شاہ متوفیک کے معنی ممیتک لکھنا ۲۷۹، ۴۰۸ ہذیل بن عمران بنو تغلب میں نبوت کا دعویٰ کرنا ۳۹۴ح ہوازن، قبیلہ اس قبیلہ کا مرتد ہونا اور زکوٰۃ دینے سے رکنا ۳۹۴ح یحییٰ علیہ السلام مسیح ؑ یحییٰ نبی کامریدتھا اورشاگردوں کی طرح اس سے اصطباغ پایا ۳۰۸ اگر نبی کریمؐ نہ آتے تو ان کی سچائی کی ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں تھی ۳۰۸ یعقوب علیہ السلام ۷۸، ۲۲۴ یوحنا (نیز دیکھیں ’’ایلیا‘‘) یوحنا کے نزول کی حقیقت ۷۰ یوسف علیہ السلام حضرت یوسف ؑ کی دعا میں لفظ توفی کا استعمال ۲۹۲ فتح مکہ کے موقع پرآنحضرتؐ کا یوسف ؑ کی طرح لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ کہنا ۴۰۶ح خواجہ یوسف شاہ حضور کی طرف سے مولوی رسل بابا کو ان کے پاس انعامی رقم جمع کروانے کی تجویز ۲۸۳، ۲۸۴، ۲۸۶ یونس ۲۶۹ یونس علیہ السلام اگر نبی کریمؐ نہ آتے تو ان کی سچائی کی ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں تھی ۳۰۸
مقامات ا، ب، پ، ٹ افریقہ ۲۰ امرتسر ۳۱۵ اورشلیم (یروشلم کا پرانا نام) ۲۹۷ح بحر روم ۲۵ح برطانیہ ۴۰۲ بمبئی ۲۷۰ ایک کتاب کی وجہ سے بمبئی کے مسلمانوں اور پارسیوں میں نفرت کا پیدا ہونا ۱۴۰ بیت لحم حضرت عیسیٰ ؑ کی جائے پیدائش ۲۹۷ح،۲۹۹ح بیت المقدس (یروشلم کا نام) ۲۹۷ح بیروت ۲۹۸ح،۳۰۰ح پنجاب ۱۴۰،۲۰۲ ٹرپولی ۲۵ح ح، د، ر، س، ش،ص حجاز ۲۰ حیفا(فلسطین) ۲۹۸ح، ۳۰۰ح دہلی ۱۴۰، ۲۶۹، ۲۷۰ رضویٰ مدینہ کے ایک پہاڑ کا نام ۳۹۲ح روم ۴۲ آخری زمانہ میں رومیوں کی کثرت کی پیشگوئی ۳۶۵ح سوریہ بلادِ شام کو سوریہ کہنے کی وجہ ۲۹۸ح،۳۰۰ح شام ۲۰،۲۵ح،۲۰۳،۲۱۵،۲۶۹،۲۹۸ح،۳۰۰ح صیدا ۲۹۸ح،۳۰۰ح ط، ع، ف، ق، ک، گ طرابلس طرابلس کا محل وقوع ۲۵ح طرابلس اور بیروت و قدس کے درمیان فاصلہ ۲۹۸ح، ۳۰۰ ح عراق ۲۰ عرب ۴۱تا۴۴،۲۰۳ عرب کے اہلِ بادیہ کو ہمارے باریک مسائل بہت ناگوار گذریں گے کیونکہ وہ باریک مسائل سے بے خبر ہیں ۲۵ یہ حق کے قبول کرنے میں سابق تھے بلکہ جڑ کی طرح ہیں ۲۶ عربی ممالک میں تبلیغ کے لئے محمد سعیدی النشار کے بھیجنے کی تجویزاور ان کے لئے چندہ کی تحریک ۲۷ عکا(فلسطین) ۲۹۸ح،۳۰۰ح فارس اہل فارس میں سے جس نے اسلام قبول کیا وہ قرشی ہے ۳۸۵ آنحضرتؐ کے قول کے مطابق آسمان کو ثریا سے لانے والا اہل فارس میں سے ہو گا ۳۸۶ قدس بنی اسرائیل کے دور میں اس کا نام یروشلم تھا ۲۹۷ح، ۲۹۹ح ایک بہت بڑے گرجے میں حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت مریم کی قبر ۲۹۷ح،۲۹۹ح طرابلس اور بیروت و قدس کے درمیان فاصلہ ۲۹۸ح، ۳۰۰ح کنعان ۲۲۴ کوہِ سینا کوہِ سینا پر خدا کا حضرت موسیٰ سے ہمکلام ہونا ۶۸ گلیل گلیل کے ایک پہاڑ پر شیطان کا عیسیٰ کو آزمانا ۱۴۲ ل، م، ہ، ی لاہور ۲۷۳ مکہ ۱۹۷، ۳۰۷، ۳۷۱ مدینہ ۶۴، ۲۹۶، ۳۷۱،۴۰۴ حضرت ابوبکرؓ کی مدینہ میں آنحضرتؐ کے ساتھ قبر ۳۹۳ح مصر ۲۰ منیٰ حج میں قربانی کے لئے یہاں ہونا چاہیئے ۱۹۰ میرٹھ ۲۶۹ ہند ساگر(بحرہند) ۱۴۱ ہندوستان ۸،۱۹،۴۲،۱۴۱،۱۹۳ اس زمانہ میں اس ملک سے ہدایت کے چشموں کا جاری ہونا ۱۹۹ مہدی کے اس ملک میں آنے کی وجہ ۳۷۰ یافا( فلسطین) ۲۹۸ح،۳۰۰ح
کتابیات آ، ا، ب، پ، ت آفتاب پنجاب، اخبار عماد الدین کی تصنیفات کے متعلق رائے ۱۴۰.۱۴۱ ابو داؤد ۳۷۴ اتمام الحجہ(تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۴۲۷ اس رسالہ کی تالیف کا مقصد ۲۷۳،۲۹۹ مولوی رسل بابا کے لئے یہ کتاب لکھی ۲۸۹ اگر مولوی رسل بابا نے اس رسالہ کے شائع ہونے کے دو ہفتہ تک روپیہ جمع نہ کرایا تو کذاب اور دروغ گو ثابت ہوگا ۳۰۶ الوصیۃ للّٰہ لقوم لا یعلمون ۳۰۹ اشاعۃ السنۃ ۵۲،۷۳، ۱۸۷،۳۹۸ اشعیا نبی کی کتاب اس میں اجتماع خسوف و کسوف کی پیشگوئی ۲۰۵ح انجیل موجودہ انجیل کی بدحالت کا ذکر ۱۸۰تا۱۸۲ انجیل کے زمانہ کے لوگوں کی ایمانی حالت ۱۸۰ فلاسفروں کی انجیل کے متعلق طعنہ زنی کی وجہ ۸۱ا لوگ انجیل پڑھنے کے لئے عیسائیت کی طرف رجوع نہیں کرتے ۳۶۷ عیسائیوں کو انجیل کے بالمقابل قرآن کے کامل ہونیکے لحاظ سے مقابلہ کی دعوت ۱۸۰ عماد الدین کو انجیل کی فضیلت ثابت کرنے پر دو ہزار روپے بطور انعام دینے کا وعدہ ۱۸۳ مسیح نے انجیل میں کہا کہ مجھے نیک مت کہو ۱۰۲ حضرت مسیح موعود ؑ کی عیسائیوں کو انجیل کے بالمقابل قرآن کے کامل ہونے کے لحاظ سے مقابلہ کی دعوت ۱۸۰ انجیل لوقا کوشش کرو تا تنگ دروازے سے داخل ہو ۷۷ شیطان کا مسیح کو آزمانا اور دوبارہ آنے کا وعدہ کر کے دور ہو جانا ۱۴۲ انجیل متی مسیح نے خدا کی روح کو کبوتر کی طرح اپنے اوپر اترتے دیکھا ۱۳۲ باب ۲۴ میں اجتماع خسوف و کسوف کی پیشگوئی ۲۰۵ح انسان کامل اس کے مصنف کی تثلیث کے عقیدہ کے متعلق رائے ۶۸ ایقاظ الناس محمدسعیدی النشار کی تالیف اور حضور کا اس کتاب کی بلند شان کا ذکر کرنا ۲۲،۲۳ بخاری ، جامع صحیح ۷۱،۲۲۸،۲۶۹،۴۰۶ بخاری کے بعض راویوں پر مذہب سے ہٹنے اور مختلف قسم کی برائیوں کا الزام لگا یا گیاہے ۲۶۲ براہین احمدیہ(تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) اس میں گورنمنٹ کے احسانوں کا ذکر ۴۲ اس میں عماد الدین کو مخاطب کرنا اور اس کا سبب ۱۵۱ پائینیر الہ آباد کسوف کے غیر معمولی ہونے کی گواہی ۲۱۴ تاج العروس ۱۶۶ پہلی دو راتوں کا چاند ہلال کہلاتا ہے ۱۹۸ تین رات سے پہلے کا چاند ہلال.اس کی بحث ۱۹۹ تاریخ ابن خلدون نبی کریمؐ کی وفات کے بعد اہل عرب مرتد ہو گئے ۳۹۳،۳۹۴
التاریخ الکامل ۳۹۴ح تاریخ محمدی مصنفہ پادری عماد الدین ۱۴۰ تبلیغ (تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۱۹ بٹالوی کا اس میں کچھ غلطیاں نکالنا اور ان کی حقیقت ۴۱۵ اس میں گورنمنٹ کے احسانوں کا ذکر ۴۲ تحفہ بغداد (تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۱۹،۴۲۷ ترمذی، سنن ایک روایت جس میں ہلال کا لفظ آیا ہے ۲۶۹ تفسیر مکاشفات مصنفہ پادری عماد الدین ۱۴۰ توریت قرآن کا اس کا نام امام رکھنا اور اس کی وجہ ۷۰ح گیارہویں باب میں ہے اس خدا کا کلام ہے جو اپنی باتوں میں سب سے بڑھ کر سچا ہے ۱۳۳ میں اسی کو ہلاک کروں گا جو میرا گناہ کرے اور میں ایک جگہ دوسرے کو نہیں پکڑوں گا ۱۰۳ تورات میں عیسیٰ کے صعود و نزول کا کچھ نشان نہیں ۷۰ح یہودکا توریت میں ملحدانہ کارروائیاں کرنا ۲۹۱ توزین الاقوال مصنفہ پادری عماد الدین ۱۳۷ ہم نے کوئی ایسی کتاب نہیں پڑھی جو اس کتاب سے زیادہ غصہ دلانے والی ہو ۱۳۸ اس کتاب کے متعلق دو ہندو اخباروں کی آراء ۱۴۰.۱۴۱ ج، ح، ر، ز، س، ش، ص حزقیل نبی کی کتاب ۲۳۲ حمامۃ البشریٰ(تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۴۲،۴۲۷ اس میں حق کے طالبوں کے لئے بشارتیں اور گورنمنٹ کے احسانوں کا ذکر ۴۲ اس میں نزولِ عیسیٰ کا باطل ہونا ثابت کیا گیا ہے ۶۹ اس کے بالمقابل رسالہ لکھنے کی معیاد کا گزر جانا مگر کسی مولوی صاحب کا درخواست نہ بھجوانا ۳۱۶ حیات المسیح (مولوی رسل بابا) عوام کو خوش کرنے کے لئے ایک ہزار روپیہ انعام دینے کا وعدہ کرنا جو اس کے رسالہ کے دلائل کو توڑے ۲۹۹، ۳۰۰،۳۰۵ مولوی رسل بابا کا اس رسالہ کو لکھنے کا مقصد ۲۸۵ خدا کا اسے رسوا کرنے کے لئے کتاب لکھوانا اور پھر مقابلہ کے لئے حضور کو پکارنا ۲۸۳ اس نے کوئی نئی بات نہیں لکھی بلکہ جہالت سے بھری ہوئی عبارتیں ہیں ۲۸۴.۲۸۵ اس کی کتاب صدق کی باتوں سے خالی اور دجالی باتوں کا مجموعہ ہے ۲۸۶ رسالہ حیات المسیح پر ایک نظر اور نیز ہزار روپیہ انعامی جمع کرانے کا مطالبہ ۲۹۰ رسالہ کے آخر میں لکھنا کہ میری کتاب سمجھ میں نہیں آئے گی جب تک کوئی سبقاً مجھ سے نہ پڑھ لے ۳۰۰ کتاب میں دلیل کی بجائے ظنی باتیں ہیں ۲۸۵ دار قطنی ۲۰۷ خسوف و کسوف کے نشان والی حدیث ۱۹۶ اس کی تالیف پر ہزار برس سے زیادہ گزر چکا ہے ۲۵۳ وہ روایات جن میں ہلال کا لفظ آیا ہے ۲۶۹،۲۷۰ رسالہ الحشریہ (شاہ رفیع الدین دہلوی) جب مہدی وہ رکن اور مقام کے درمیان طواف کر رہا ہو گا تو اہل کلمہ کی ایک جماعت مہدی کو پچان لے گی ۱۹۶ زاد المعاد فتح مکہ کے موقع پرآنحضرتؐ کا یوسف ؑ کی طرح لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ کہنا ۴۰۶ح سبعہ معلقہ(عرب جاہلیت کے سات مشہور قصائد) یہ قصائد غایت درجہ پر مشہور ہیں اور فصاحت و بلاغت کے اعلیٰ درجہ پر ہیں ۱۶۸
اس کتاب کو تعلیمی نصاب میں شامل کرنا ہے ۱۰۸ اس کا لفظ چوتھے قصیدہ کے مولف ذُوْ مِرَّۃکو ذو عقل کے معنوں میں ایک شعر میں استعمال کرنا ۱۶۸ قصیدہ خامسہ کے ایک شعر میں لفظ مِرَّۃ کا استعمال ۱۶۷ سر الخلافہ(تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۳۹۱، ۴۱۸،۴۲۷ شیعوں کے حال پر رحم کرتے ہوئے اس کی تصنیف اور اس رسالہ سے توقع ۳۱۹ اس رسالہ میں برکت کے لئے دعا ۳۲۰ علماء کو اس کتاب کی طرف نظر دوڑانے کی دعوت ۳۲۴ یہ کتاب بطالوی اور دوسرے مکفرین کی مولویت کی حقیقت کہلانے کے لئے شائع ہوئی ۳۱۵ یہ کتاب شیعہ اور اہل سنت کے درمیان خلافت کے بارہ میں فیصلہ کرے گی ۳۱۵ مولویوں کو دعوت کہ سر الخلافہ کے مقابل رسالہ لکھیں اور اگر ان کا رسالہ غلطیوں سے خالی نکلا اور ہمارے رسالہ کی فصاحت میں ہم پلہ ہوا تو علاوہ انعام بالمقابل رسالہ کے فی غلطی دو روپیہ بھی لیں ۳۱۶،۴۰۰ ایک عربی دان ایسا رسالہ سات دن میں بہت آسانی سے بنا سکتا ہے ۴۵۰ اگر انہوں نے کوئی رسالہ میعاد مقررہ کے اندر شائع کر دیا تو ہم انعام کے علاوہ تحریری اقرار دیں گے کہ وہ عربی دانی اور مولوی کہلانے کے مستحق ہیں ۴۰۱ بٹالوی کو آخری دعوت کہ سر الخلافہ کا ستائیس دن میں جواب دے اور انعام حاصل کرے ۴۱۷ خدا کی قسم دے کر مقابلہ کے لئے بلانا ۴۱۸ کتاب کے مشتملات نکتہ چینیوں کے لئے ہدایت اور واقعی غلطی کی شناخت کے لئے ایک معیار ۳۱۶ تمہید ۳۲۰ الباب الاول فی الخلافۃ ۳۲۶ کلام موجز فی فضایل ابی بکر...۳۵۵ فی فضائل علی رضی اللّٰہ عنہ...۳۵۸ الباب الثانی فی المھدی...۳۵۹ القصیدۃ فی مدح ابی بکر وعمر الفاروق...۳۸۶ الوصیۃ ۳۹۱ عام اطلاع کے لئے ایک اشتہار ۳۹۸ شیخ محمد حسین بٹالوی کا ہمارے کافر ٹھہرانے پر اصرار ۴۰۵ الشیخ عبدالحسین الناکفوری ۴۱۹ المکتوب الی العلماء ۴۲۱ القصیدۃ للمؤلف ۴۳۰ بعض لوگوں کا پوچھنا کہ یہ اپنے آپ کو مہدی موعود کا نائب کہتا ہے.اس کا جواب ۴۱۹ سول ملٹری گزٹ، لاہور کسوف کے غیر معمولی ہونے کی گواہی ۲۱۴ شمس الاخبار لکھنؤ عمادالدین کے متعلق رائے کہ اگر ۱۸۵۷ء کی مانند غدر ہوا تو اسی شخص کی بدزبانیوں اور بے ہودگیوں سے ہوگا ۱۴۱ شہادۃ القرآن(تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) اس میں گورنمنٹ کے احسانوں کا ذکر ۴۲ صحاح ستّہ تیسری رات کے بعد اخیر تک چاند قمر کہلاتا ہے اور تین رات سے پہلے کا چاند ہلال کہلاتا ہے ۹۸،۱۹۹ ط، ع، ف، ک، ق طبرانی حضرت عیسیٰ کی عمر ایک سو بیس سال ۲۷۹، ۲۹۳ح طبقات امام عبدالوہاب شعرانی کی کتاب ۲۷۹ عقوبۃ الضالین ،رسالہ
ہدایت المسلمین کے ردّ میں لکھی گئی کتاب ۱۴۰ عینی (بخاری کی شرح) توفی کا مطلب اماتت لکھنا ۲۷۷ فضل الباری (بخاری کی شرح) توفیکا مطلب اماتت لکھنا ۲۷۷ فوز الکبیر و فتح الخبیر متوفیککے معنی ممیتک لکھنا ۲۷۹،۴۰۸ کتاب التیسیر بشرح جامع صغیر عیسیٰ اور ان کی والدہ کے مسّ شیطان سے پاک ہونے والی حدیث کی لطیف تشریح ۳۷۷ اہل فارس میں سے جس نے اسلام قبول کیا وہ قرشی ہے ۳۸۵ کرامات الصادقین(تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۱۹،۴۱۶،۴۱۸،۴۲۷ اس کے بالمقابل تفسیر لکھنے پر ہزار روپے انعام کا وعدہ ۳۹۹ قاموس ۱۹۹ ل، م، ن، ہ ،ی لسان العرب(لغت عربی) اہل عرب کے نزدیک اس جیسی کوئی کتاب تالیف نہیں ہوئی.اس کا ہلال کے معانی بیان کرنا ۲۶۸ تین رات سے پہلے کا چاند ہلال ، اس کی بحث ۱۹۹ مجمع بحار الانوار امام مالک کے وفات مسیح کے متعلق قول کا اندراج ۲۷۹،۲۹۴ مدارج السالکین ابن قیم کا اس میں وفات مسیح کا لکھنا ۲۷۹،۲۹۹ مستدرک حضرت عیسیٰ کی عمر ایک سو بیس سال ۲۷۹، ۲۹۳ح مسلم، صحیح ۲۲۸ وہ روایات جن میں ہلال کا لفظ آیا ہے ۲۶۹ آخری زمانہ میں رومیوں کی کثرت کی پیشگوئی ۳۶۵ح مشکوٰۃ وہ روایات جن میں ہلال کا لفظ آیا ہے ۲۷۰ نور الحق(تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۴۱۶ اس کتاب کے لکھنے کا سبب ۱،۱۸۳ اس رسالہ کو عربی میں لکھنے کی وجہ ۱۵۲ نور الحق کی مثل بنانے کے چیلنج اور پانچ ہزار روپے دینے کا وعدہ ۱، ۱۵۴،۱۵۷ اس انعام کے ملنے کی صورت ۱۵۸ اس کے مقابل کتاب لکھنے والوں کو تین ماہ کی مہلت کا دینا ۱۵۷،۱۵۸ اس کے مقابلہ کے لئے مولویوں کے نام لکھنا ۱۵۷ح نور الحق کے مثل لانے کے مقابلہ میں اول مدعو ۱۵۶ اللہ نے الہاماً بتایا کہ عماد الدین اس کے مقابلہ پر قادر نہ ہو گا اور عاجز آ کر رسوا ہو گا ۱۵۳، ۲۶۰ نصاریٰ کے آگے برکت اور لعنت رکھنا ۱۶۳ کتاب کے مشتملات اعلان ۳۲ ذکر بعض اعتراضات الواشی و ردّھا ۵۸ الاعلان تنبیہًا لکل من صال علی القرآن...۱۷۸ فکّر فی قولی یا من انکرنی...۱۸۳ نور الحق حصہ دوم(تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) اس کتاب کی تالیف کا سبب ۱۸۷ دو حصوں میں تقسیم کرنے کی وجہ ۲۵۹ اس کتاب کے مخاطبین ۱۸۷،۳۰۳ اس کی تالیف پر خدا کا شکر اور نبی کریمؐ پر درود و سلام ۲۵۵ مسلمانوں اور عیسائیوں کو اس کتاب کی مثل لکھنے کا چیلنج اور پانچ ہزار دراہم انعام کا وعدہ ۱،۱۸۷،۲۶۰،۳۰۳،۳۹۹ اس کتاب میں مہدی کا ذکر نہ کرنے کی وجہ ۲۴۴ جس نے اولیاء الرحمن کے خلاف جرأت کی یہ کتاب اسے ادب سکھائے گی ۲۷۱
اس کتاب کا جواب لکھنے والوں اور انعامی روپیہ جمع کرانے والوں کے لئے درخواست کی اخیر معیاد ۱۸۷ اس کتاب کی تالیف کا پختہ ارادہ کرنے کے بعد خدا کا الہاماً بتانا کہ کوئی مخالف نظم و نثر میں اس کی مثل پر قادر نہ ہو گا ۱۸۷ بٹالوی کو اس کی مثل بنانے کا کہا لیکن اس کا توجہ نہ کرنا ۳۰۲ مقابلہ کے لئے آخری تاریخ درخواست ۴۰۰ میعاد کا گزرنا اور کسی مولوی کا درخواست نہ بھجوانا ۳۱۶ بٹالوی کے اس عذر کا جواب کہ نور الحق میں پادری بھی مخاطب تھے لہٰذا بالمقابل رسالہ لکھنے سے پہلو تہی کی ۴۱۶ بٹالوی کا مقابل پر نہ آنا اور رسوائی قبول کرنا ۳۹۹،۴۰۰ الہام سے یہی ثابت ہوا ہے کہ کوئی کافروں اور مکفروں میں سے اس رسالہ کا جواب نہیں لکھ سکے گا ۳۰۳ ہم نے انعامی اشتہار شائع کیا مگر کس کا جواب کے لئے کھڑے نہ ہونا اور چوپایوں کی مانند خاموش ہو جانا ۲۸۶ کتاب کے مشتملات تنبیہ ۱۸۷ آیۃ الخسوف والکسوف من آیات اللّٰہ...۱۸۸ القصیدۃ فی الخسوف والکسوف...۱۸۹ ایضًا فی الخسوف والکسوف...۱۹۱ القصیدۃ ۲۱۷، ۲۳۸، ۲۵۶ الاشتہار لتبکیت النصارٰی...۲۵۹ الکلام الکلی فی تنبیہ المکفرین...۲۷۱ ہدایت المسلمین(مصنفہ پادری عماد الدین) ۱۴۰ ہندو پرکاش ، اخبار ۱۴۱ پادری عماد الدین کی تصنیفات کے متعلق رائے ۱۴۰ یوئیل نبی کی کتاب ۲۳۲ اس میں اجتماع خسوف و کسوف کی پیشگوئی ۲۰۵ح