Siraj-e-Munir

Siraj-e-Munir

سراجِ منیر

Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR
Ruhani Khazain

سراج منیر مشتمل برنشاہ نہائے قدیر مئی١٨٩٧ء میں چھپ کر شائع ہوئی۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے اس کتاب میں ان ۳۷ زبردست پیش گوئیوں کا ذکر فرمایا ہے جو آپؑ نے اللہ تعالی سے الہام و وحی پا کر ان کے وقوع سے کئی سال پہلے شائع فرمائی تھیں۔ اور اس میں آتھم و لیکھرام سے متعلّقہ پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا خاص طور پر تفصیل سے ذکر فرمایا ہے۔ اور آپؑ نے اس کتاب کے آخر میں وہ خط و کتابت بھی درج فرمائی ہے جو آپؑ کے اور حضرت خواجہ غلام فرید صاحبؒ آف چاچڑاں شریف کے مابین ہوئی تھی اور حضرت خواجہ صاحبؒ نے اپنے ان خطوط میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے نہایت اخلاص اور ارادت کا اظہار کیا۔


Book Content

Page 1

Page 2

Page 3

Page 4

Page 5

Page 6

Page 7

Page 8

Page 9

Page 10

Page 11

Page 12

Page 13

Page 14

Page 15

Page 16

Page 17

ترتیب روحانی خزائن جلد۱۲ سراج منیر...............۱ استفتاء..................۱۰۵ حجۃ اللہ..................۱۳۹ تحفہ قیصریہ...............۲۵۱ محمود کی آمین...............۳۱۷

Page 18

Page 19

بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہٖ الکریم تعارف (از حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس) یہ روحانی خزائن کی بارھویں جلد ہے جو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب سراج منیر، استفتاء، حجۃ اللہ، تحفہ قیصریہ، محمود کی آمین اور سراج الدین کے چار سوالوں کے جواب پر مشتمل ہے.مشتمل برنشانہائے قدیر مئی ۱۸۹۷ ؁ء میں چھپ کر شائع ہوئی.حضرت اقدس علیہ السلام نے اس کتاب میں ان ۳۷ زبردست پیشگوئیوں کا ذکر فرمایا ہے جو آپؑ نے اﷲ تعالیٰ سے الہام و وحی پا کر اُن کے وقوع سے کئی سال پہلے شائع فرما دی تھیں.اور اس میں آتھم و لیکھرام سے متعلّقہ پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا خاص طور پر تفصیل سے ذکر فرمایا ہے.اور آپؑ نے اِس کتاب کے آخر میں وہ خط و کتابت بھی درج فرمائی ہے جو آپؑ کے اور حضرت خواجہ غلام فرید صاحبؒ آف چاچڑاں شریف کے مابین ہوئی تھی اور حضرت خواجہ صاحبؒ نے اپنے ان خطوط میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے نہایت اخلاص اور ارادت کا اظہار کیا ہے.استفتاء یہ رسالہ ۱۲؍ مئی ۱۸۹۷ ؁ء کو لکھا گیا.اِس کے لکھنے کی غرض آریہ قوم کی اس افترا پردازی کا جواب دینا تھا کہ لیکھرام نعوذ باﷲ آپ کی سازش سے قتل ہوا ہے.اس رسالہ میں پیشگوئی متعلقہ لیکھرام پر مفصّل بحث کی

Page 20

گئی ہے.اور اس پیشگوئی کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈال کر اہل الرائے اور اہلِ نظر اصحاب سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ الہامات کو پڑھ کر یہ گواہی دیں کہ جو پیشگوئی لیکھرام کی موت کے بارہ میں کی گئی تھی وہ واقعی طور پر پوری ہوئی یا نہیں.اِس رسالہ کے پڑھنے سے ہر منصف مزاج انسان کو یہ یقینی علم حاصل ہو جاتا ہے کہ فی الحقیقت خدا تعالیٰ موجود ہے.اور وہ قبل از وقت اپنے خاص بندوں پر غیب کی باتیں ظاہر کیا کرتا ہے.حجۃ اﷲ اِس کتاب کے لکھنے سے پہلے مولوی عبدالحق صاحب غزنوی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف ایک نہایت گندہ اشتہار شائع کیا.اور آپ کی عربی دانی پر معترض ہوا.اور اپنی قابلیت جتانے کے لئے عربی زبان میں مباحثہ کرنے کی آپؑ کو دعوت دی.اِس دعوت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے منظور فرماتے ہوئے یہ شرط لگائی کہ چونکہ آپ کے نزدیک میں عربی نہیں جانتا اور محض جاہل ہوں.اس لئے اگر آپ مقابلہ کے وقت مجھ سے شکست کھا گئے تو آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اِسے ایک معجزہ سمجھ کر فی الفور میری بیعت میں داخل ہونا ہو گا لیکن جب مولوی غزنوی نے کوئی جواب نہ دیا اور نہ اس کا ساتھی شیخ نجفی کچھ بولا.تو آپ نے مولوی غزنوی اور شیخ نجفی کو مخاطب کر کے یہ رسالہ فصیح و بلیغ عربی میں ۱۷؍ مارچ ۱۸۹۷ ؁ء کو لکھنا شروع کیا اور ۲۶؍ مئی ۱۸۹۷ ؁ء کو مکمل کر دیا.اِس رسالہ میں جو اسرارِ ربانیہ اور محاسنِ ادبیہ پر مشتمل ہے آپؑ نے مکفّرین علماء پر حجت قائم کرنے کے لئے نجفی اور غزنوی کے علاوہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو بھی ان الفاظ میں دعوتِ مقابلہ دی کہ اگر وہ تین چار ماہ تک ایسی کتاب پیش کردیں تو اس سے میرا جھوٹا ہونا ثابت ہو جائے گا بے شک وہ جن ادباء سے مدد لینا چاہیں لے لیں اگر وہ اس رسالہ کی نظیر حجم و ضخامت اور نظم و نثر کے موافق شائع کر دیں اور پروفیسر مولوی عبداﷲ یا کوئی اَور پروفیسر حلف مؤکد بعذاب اُٹھا کر اُن کے تحریر کردہ رسالہ کو میرے رسالہ کے برابر یا اعلیٰ قرار دیں اور پھر قسم کھانے والا میری دُعا کے بعد اکتالیس۴۱ دن تک عذاب الٰہی میں ماخود نہ ہو تو مَیں اپنی کتابیں جو اس وقت میرے قبضہ میں ہوں گی جلا کر اُن کے ہاتھ پر توبہ کروں گا.اور اِس طریق سے روز روز کا جھگڑا طے ہو جائے گا اور اس کے بعد جو شخص مقابلہ پر نہ آیا تو پبلک کو سمجھنا چاہئے کہ وہ جھوٹا ہے.

Page 21

آپؑ نے اس کتاب کے آخر میں تحریرفرمایا کہ یہ کتاب تکذیب و استہزاء کرنے والے علماء کے لئے آخری وصیت کی طرح ہے.اور اس اتمام حجت کے بعد ہم اُن سے خطاب نہیں کریں گے.لیکن نہ تو بٹالوی صاحب مقابلہ کے لئے سامنے آئے اور نہ غزنوی و شیخ نجفی اور نہ مخالف علماء میں سے کسی اَور کو اس رسالہ کے مقابلہ میں فصیح و بلیغ عربی رسالہ لکھنے کی جرأت ہوئی.تحفۂ قیصریہ چونکہ آپؑ کی بعثت کا مقصد اشاعت توحید الٰہی اور تبلیغِ پیغامِ خداوندی تھا.اِس لئے آپؑ نے ملکہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی کی تقریب پر بھی جو ماہ جون ۱۸۹۷ ؁ء میں بڑی دھوم دھام سے منائی جانے والی تھی تبلیغِ اسلام کا ایک پہلو نکال لیا.اور ’’تحفۂ قیصریہ‘‘ کے نام سے ایک رسالہ ۲۵؍ مئی ۱۸۹۷ء کو شائع فرما دیا.اِس رسالہ میں جوبلی کی تقریب پر مبارکباد کے علاوہ نہایت لطیف پیرایہ اور حکیمانہ انداز میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور اسلام کی صداقت کا اظہار اور ان اصولوں کا ذکر فرمایا گیا ہے جو امن عالم اور اخوتِ عالمگیر کی بنیاد بن سکتے ہیں اور اسلامی تعلیم کا خلاصہ بیان کر کے ملکۂ معظمہ کو لنڈن میں ایک جلسۂ مذاہب منعقد کرانے کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ اس سے انگلستان کے باشندوں کو اسلام کے متعلق صحیح معلومات حاصل ہوں گی.پھر آپؑ نے عیسائیوں کے اس عقیدہ کی کہ مسیح صلیب پر مر کر اُن کے لئے ملعون ہوا شناعت و قباحت ظاہر کر کے ملکۂ معظمہ سے درخواست کی ہے کہ پیلاطوس نے یہودیوں کے رعب سے ایک مجرم قیدی کو تو چھوڑ دیا اور یسوع کو جو بے گناہ تھا نہ چھوڑا.مگر اے ملکہ! اس شصت سالہ جوبلی کے وقت جو خوشی کا وقت ہے تو یسوع کو چھوڑنے کے لئے کوشش کر.اور یسوع مسیح کی عزت کو اس لعنت کے داغ سے جو اس پر لگایا جاتا ہے اپنی مردانہ ہمت سے پاک کر کے دکھلا.اور آپؑ نے اپنے دعویٰ کی صداقت میں ملکہ موصوفہ کو نشان دکھانے کا وعدہ کیا.بشرطیکہ نشان دیکھنے کے بعد آپؑ کا پیغام قبول کر لیا جائے.اور نشان ظاہر نہ ہونے کی صورت میں اپنا پھانسی دے دیا جانا قبول کر لیا اور فرمایا.اگر کوئی نشان ظاہر نہ ہو اور میں جھوٹا نکلوں تو مَیں اس سزا پر راضی ہوں کہ حضور ملکۂ معظمہ کے پایۂ تخت کے آگے پھانسی دیا جاؤں اور یہ سب الحاح اس لئے ہے کہ کاش ہماری محسنہ ملکہ معظمہ کو آسمان کے خدا کی طرف خیال آ جائے جس سے اس زمانے میں عیسائی مذہب بے خبر ہے.

Page 22

جلسۂ احباب ۲۰؍ جون ۱۸۹۷ ؁ء کو قادیان میں بھی ڈائمنڈ جوبلی کی تقریب پر ایک عام جلسہ کیا گیا.جس میں شمولیت کے لئے باہر سے بھی احباب تشریف لائے.اور گورنمنٹ کی ہدایت کے مطابق مبارکباد کا ریزولیوشن پاس کر کے تار کے ذریعہ سے وائسرائے ہند کو بھیجا گیا اور ’’تحفۂ قیصریہ‘‘ کی چند کاپیاں نہایت خوبصورت جلد کرا کے اُن میں سے ایک ملکہ وکٹوریہ قیصرۂ ہند کی خدمت میں بھیجنے کے لئے ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور کو اور ایک وائسرائے گورنر جنرل کو اور ایک جناب لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کو بھیجی گئی.اور جلسہ عام میں چھ زبانوں میں جو دُعا کی گئی اس میں خاص طو رپر یہ دعا بھی کی گئی تھی کہ ’’اے قادر توانا! ہم تیری بے انتہا قدرت پر نظر کر کے ایک اور دُعا کے لئے تیری جناب میں جرأت کرتے ہیں کہ ہماری محسنہ قیصرہ ہند کو مخلوق پرستی کی تاریکی سے چھڑا کر لَا اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ پر اس کا خاتمہ کر.‘‘ (جلسۂ احباب.روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۲۹۰) اس جلسۂ احباب کی مکمل روئیداد اِس جلد کے صفحہ ۲۸۵.۳۱۴ میں درج ہے.محمود کی آمین سیّدنا حضرت محمود ایّدہ اﷲ بنصرہ العزیز نے جب قرآن ختم کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جون ۱۸۹۷ ؁ء میں اِس خوشی کے موقعہ پر ایک تقریب منعقد کی جس میں باہر کے احباب بھی شامل ہوئے اور تمام حاضرین کو پُرتکلّف دعوت دی گئی.اس مبارک تقریب کے لئے آپ نے ایک منظوم آمین لکھ کر ۷؍جون کو چھپو ا لی جو اس تقریب پر پڑھ کر سُنائی گئی.اندر خواتین پڑھتی تھیں اور باہر مرد اور بچّے پڑھتے تھے.یہ آمین نہایت درجہ سوز و درد میں ڈوبی ہوئی دعاؤں کا مجموعہ ہے.

Page 23

سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب مسٹر سراج الدین صاحب پروفیسر ایف.سی.کالج لاہور پہلے تو مسلمان تھے پھر پادریوں سے میل جول اور اُن کے اعتراضات سے متائثر ہو کر عیسائی ہو گئے تھے مگر جب وہ ۱۸۹۷ ؁ء میں قادیان پہنچے اور چند روز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت میں رہے اور عیسائیت اور اسلام سے متعلق مختلف مسائل پر آپ سے گفتگو کی تو پھر اسلام کی فضیلت کے قائل ہو گئے.اور نماز بھی پڑھنے لگے لیکن جب لاہور واپس گئے تو دوبارہ پادریوں کے دام میں پھنس گئے اور پھر عیسائیت اختیار کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں چار سوالات بغرض جو اب ارسال کر دیئے.حضرت اقدس علیہ السلام نے ان کے جوابات لکھ کر اور اُن کا نام’’سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب‘‘ رکھ کر انہیں افادۂ عام کے خیال سے ۲۲؍ جون ۱۸۹۷ ؁ء کو رسالہ کی صورت میں شائع کر دیا.سال ۱۸۹۷ء کی ایک امتیازی خصوصیّت ۱۸۹۷ ؁ء کا سال جس میں یہ کتاب ’’سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب‘‘ لکھی گئی.اسلام اور عیسائیت کے مقابلہ کے لحاظ سے ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے.۱۸۹۷ ؁ء میں عیسائیت اپنے کمال عروج پر تھی.چنانچہ امریکہ کے ڈاکٹری جان ہنری بیروز نے ۱۸۹۶ ؁ء.۱۸۹۷ ؁ء میں ہندوستان کے مختلف مقامات پر لیکچر دیئے جو کرسچن لٹریچر سوسائٹی فار انڈین مدراس نے ۱۸۹۷ ؁ء میں کتابی صورت میں شائع کئے.ایک لیکچر میں ڈاکٹر مذکور نے عیسائیت کے غلبہ اور استیلاء کا ذکر کرتے ہوئے فخریہ انداز میں اعلان کیا:.’’آسمانی بادشاہت پورے کرّۂ ارض پر محیط ہوتی جا رہی ہے.آج دنیا بھر میں اخلاقی اور فوجی طاقت، علم و فضل، صنعت و حرفت اور تمام تر تجارت اُن اقوام کے ہاتھ میں ہے جو آسمانی ابوت اور انسانی اخوت کی مسیحی تعلیم پر ایمان رکھتے ہوئے یسوع مسیح کو اپنا نجات دہندہ تسلیم کرتی ہیں.‘‘ (بیروز لیکچرز صفحہ ۱۹) آگے چل کے ایک برطانوی ادیب کے حوالہ سے عیسائیت کے غلبہ واستیلاء کا نقشہ فخریہ انداز اور تعلّی آمیز الفاظ میں کھینچتے ہوئے کہا ہے:.

Page 24

’’دنیائے عیسائیت کا عروج آج اس درجہ زندہ حقیقت کی صورت اختیار کر چکا ہے کہ یہ درجۂ عروج اُسے اس سے پہلے کبھی نصیب نہ ہوا تھا.ذرا ہماری ملکۂ عالیہ (ملکہ وکٹوریہ) کو دیکھو جو ایک ایسی سلطنت کی سربراہ ہے جس پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا.دیکھو وہ ناصرہ کے مصلوب کی خانقاہ پر کمال درجہ تابعداری سے احتراماً جھکتی اور خراج عقیدت پیش کرتی ہے یا پھر گاؤں کے گرجا میں جا کر نظر دوڑاؤ اور دیکھو.وہ سیاسی مدبّر (وزیراعظم برطانیہ) جس کے ہاتھوں میں ایک عالمگیر سلطنت اور اُس کی قسمت کی باگ ڈور ہے جب یسوع مسیح کے نام پر دُعا کرتا ہے تو کیسی عاجزی اور انکساری سے اپنا سر جھکاتا ہے.دیکھو جرمنی کے نوجوان قیصر کو جب وہ خود اپنے لوگوں کے لئے بطور پادری فرائض سر انجام دیتا تو یسوع مسیح کے مذہب یعنی دین عیسائیت سے اپنی وفاداری کا اظہار کرتا ہے اور مشرقی انداز پر ماسکو کے شاہانہ ٹھاٹھ پاٹ میں زار رُوس کو دیکھو.تاجپوشی کے وقت ابن آدم کے طشت میں رکھ کر اُسے تاج پیش کیا جاتا ہے.یا پھر مغربی جمہوریت (امریکہ) کے ایک صدر کے بعد دوسرے صدر کو دیکھو.کہ اُن میں سے ہر ایک عبادت کے نسبتاً سادہ لیکن عمیق اسلوب میں ہمارے خداوند کے ساتھ وفاداری اور تابعداری کا اظہار کرتا چلا جاتا ہے.امریکی، برطانوی، جرمنی اور روسی سلطنتوں کے حکمران اقرار کرتے ہیں کہ وہ یسوع مسیح کے وائسرائے ہیں.اور اِسی حیثیت سے اپنی اپنی سلطنتوں میں حکمرا ن ہیں.کیا اِن سب کے زیر نگیں علاقے مل کر ایک ایسی وسیع و عریض سلطنت کی حیثیت نہیں رکھتے کہ جس کے آگے از منۂ قدیم کی بڑی سے بڑی سلطنت بھی سراسر بے حیثیت نظر آنے لگتی ہے.‘‘ پھر ’’عیسائیت کے عالمی اثرات‘‘ کے زیر عنوان اپنے ایک پبلک لیکچر میں اسلامی ممالک کے اندر عیسائیت کی عظیم الشان فتوحات پر فخر کرتے ہوئے ڈاکٹر بیروز نے یہ اعلان کیا:.’’اب میں اسلامی ممالک میں عیسائیت کی روز افزوں ترقی کا ذکر کرتا ہوں.اِس ترقی کے نتیجہ میں صلیب کی چمکار آج ایک طرف لبنان پر ضوء افگن ہے تو دوسری طرف فارس کے پہاڑوں کی چوٹیاں اور باسفورس کا پانی اس کی چمکار سے جگمگ

Page 25

جگمگ کر رہا ہے.یہ صورت حال پیش خیمہ ہے اس آنے والے انقلاب کا کہ جب قاہرہ.دمشق اور طہران کے شہر خداوند یسوع مسیح کے خدّام سے آباد نظر آئیں گے.حتّٰی کہ صلیب کی چمکار صحرائے عرب کے سکوت کو چیرتی ہوئی وہاں بھی پہنچے گی.اِس وقت خداوند یسوع اپنے شاگردوں کے ذریعہ مکّہ کے شہر اور خاص کعبہ کے حرم میں داخل ہو گا اور بالآخر وہاں اس حق و صداقت کی منادی کی جائے گی کہ ’’ابدی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور یسوع مسیح کو جانیں جسے تونے بھیجا ہے.‘‘ (بیروز لیکچرز صفحہ ۴۲) مگر اس کے مقابلہ میں اِسی سال (۱۸۹۷ ؁ء) میں اسلام کے بطلِ جلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس کے متعلق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ وہ کاسر الصلیب ہو گا اور اس کے ذریعہ عیسائیت کو شکست اور اسلام کو غلبہ حاصل ہو گا اپنی کتاب ’’سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب‘‘ میں عیسائیوں کے متعلق فرمایا کہ اِن کو بے قیدی اور اباحت کا آرام تو ملا ہے.’’لیکن رُوحانی آرام جو خدا کے وصال سے ملتا ہے اِس کے بارے میں تو میں خدا کی دُہائی دے کر کہتا ہوں کہ یہ قوم اس سے بالکل بے نصیب ہے ان کی آنکھوں پر پردے اور ان کے دل مُردہ اور تاریکی میں پڑے ہوئے ہیں.یہ لوگ سچے خدا سے بالکل غافل ہیں اور ایک عاجز انسان کو جو ہستئازلی کے آگے کچھ بھی نہیں ناحق خدا بنا رکھا ہے.ان میں برکات نہیں ان میں دل کی روشنی نہیں.ان کو سچے خدا کی محبت نہیں بلکہ اس سچے خدا کی معرفت بھی نہیں.اِن میں کوئی بھی نہیں ہاں ایک بھی نہیں جس میں ایمان کی نشانیاں پائی جاتی ہوں.اگر ایمان کوئی واقعی برکت ہے تو بے شک اس کی نشانیاں ہونی چاہئیں.مگر کہاں ہے کوئی ایسا عیسائی جس میں یسوع کی بیان کردہ نشانیاں پائی جاتی ہوں؟ پس یا تو انجیل جھوٹی ہے اور یا عیسائی جھوٹے ہیں دیکھو قرآن کریم نے جو نشانیاں ایمانداروں کی بیان فرمائیں وہ ہر زمانہ میں پائی گئی ہیں قرآن شریف فرماتا ہے کہ ایمان دار کو الہام ملتا ہے.ایماندار خدا کی آوازسنتا ہے.ایماندار کی دُعائیں سب سے زیادہ قبول ہوتی ہیں.ایماندار پر غیب کی خبریں ظاہر کی

Page 26

جاتی ہیں.ایمان دار کے شامل حال آسمانی تائیدیں ہوتی ہیں.سو جیسا کہ پہلے زمانوں میں یہ نشانیاں پائی جاتی تھیں اب بھی بدستور پائی جاتی ہیں.اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن خدا کا پاک کلام ہے.اور قرآن کے وعدے خدا کے وعدے ہیں.اُٹھو عیسائیو! اگر کچھ طاقت ہے تو مجھ سے مقابلہ کرو.اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھے بے شک ذبح کردو.ورنہ آپ لوگ خدا کے الزام کے نیچے ہیں.اور جہنم کی آگ پر آپ لوگوں کا قدم ہے.والسلام علیٰ من اتبع الھدٰی‘‘ (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۳۷۴) اور خدا تعالیٰ سے علم پا کر جنوری ۱۸۹۷ ؁ء کو آپ نے ایک خاص اشتہار کے ذریعہ یہ اعلان کیا:.’’مَیں ہردم اس فکر میں ہوں کہ ہمارا اور نصاریٰ کا کسی طرح فیصلہ ہو جائے.میرا دل مُردہ پرستی کے فتنہ سے خون ہوتا جاتا ہے...میں کبھی کا اِس غم سے فنا ہو جاتا اگر میرا مولیٰ اور میرا قادر و توانا مجھے تسلّی نہ دیتا کہ آخر توحید کی فتح ہے.غیر معبود ہلاک ہوں گے اور جھوٹے خدا اپنی خدائی کے وجود سے منقطع کئے جائیں گے.مریم کی معبودانہ زندگی پر موت آئے گی اور نیز اس کا بیٹا اب ضرور مرے گا...کوئی ان کو بچا نہیں سکتا.اور وہ تمام خراب استعدادیں بھی مریں گی جو جھوٹے خداؤں کو قبول کر لیتی تھیں.نئی زمین ہو گی اور نیا آسمان ہو گا.اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا.اور یورپ کو سچے خدا کا پتہ لگے گا......قریب ہے کہ سب ملّتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا، نہ کند ہو گا جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دے.وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی سچی توحید جس کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں ملکوں میں پھیلے گی.اس دن نہ کوئی مصنوعی کفارہ باقی رہے گا اور نہ کوئی مصنوعی خدا.اور خدا کا ایک ہی ہاتھ کفر کی سب تدبیروں کو باطل کر دے گا.لیکن نہ

Page 27

کسی تلوار سے اور نہ کسی بندوق سے بلکہ مستعد روحوں کو روشنی عطا کرنے سے اور پاک دلوں پر ایک نور اتارنے سے‘‘ (’’الاشتہار مستیقناً بوحی اﷲ القہار‘‘ مؤرخہ ۱۴؍ جنوری ۱۸۹۷ء) ۱۸۹۷ء میں عیسائیت کے تفّوق و استیلاء اور اسلام کے زوال و انحطاط اور اس کی غربت و بے بسی کو دیکھ کر کوئی ظاہر پرست انسان یہ خیال بھی نہیں کر سکتا تھا کہ عیسائیت شکست کھا جائے گی اور اسلام کی فتح ہو گی.اور یسوع مسیح جس کی الوہیت اور جس کی برتری اور فوقیت کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے.اس کی معبودانہ زندگی پر موت وارد ہو گی.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اﷲ تعالیٰ سے علم پا کر جو اعلان فرمایا تھا وہ آج ہم اپنی آنکھوں سے پورا ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں.کہاں گئی برطانیہ کی وہ سلطنت جس پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا.آج وہ ایک معمولی سی طاقت رہ گئی ہے.کہاں گیا وہ قیصر جرمنی جو یسوع مسیح کے مذہب سے وفاداری کا اظہار کرتا تھا.کہاں ہے وہ زار روس جسے ابن آدم کے طشت میں رکھ تاج پیش کیا جاتا تھا.وہی روس آج عیسائیت کا اشد ترین دشمن ہے اور مذہب کو ایک مضحکہ خیز چیز خیال کرتا ہے.اَب کہاں ہے یسوع کی وہ روحانی حکومت جس کے آگے از منۂ قدیم کی بڑی سے بڑی سلطنت بھی بے حقیقت نظر آنے لگتی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مخلص اور جاں نثار مرید ہر ملک میں پہنچے.امریکہ میں پہنچے.یورپ میں پہنچے.افریقہ میں پہنچے.اور ہر جگہ دلائل اور براہین کی رو سے انہوں نے عیسائیوں کو شکست دی.آج عیسائی خود معترف ہیں کہ عیسائیت ہر جگہ ناکام ہو رہی ہے.چنانچہ انگلستان کے چودہ نامور پادریوں کا یہ اعتراف 'Has the Church Failed' کتاب میں شائع ہوا ہے.دی آرچ بشپ آف ایسٹ افریقہ موسٹ ریورنڈ لینزڈ بیچرتی نے بھی ٹانگا نیکا سٹینڈرڈ مؤرخہ ۲۳؍ دسمبر ۱۹۶۱ ؁ء میں اس امر کا اعتراف اِن الفاظ میں کیا ہے.’’دنیا کی آبادی تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے.اگرچہ چرچ کو نئے ممبر اب بھی مل رہے ہیں.تاہم دنیا کی آبادی میں ان کا تناسب برابر گر رہا ہے.چرچ کے لئے اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے کہ عیسائیت بڑی تیزی کے ساتھ تنزل کی طرف جا رہی ہے.‘‘ ایڈوین لوئیس نے جو امریکہ کے ایک مذہبی ادارے کے مسیحی دینیات کے پروفیسر ہیں.

Page 28

درسی کتاب ’’اے مینؤل آف کرسچین بیلیفس‘‘ میں لکھا ہے:.’’بیسویں صدی کے لوگ مسیح کو خدا ماننے کے لئے تیار نہیں‘‘ سینٹ جونز کالج آکسفورڈ کے پریذیڈنٹ سرسائرل ناروڈ لکھتے ہیں:.’’یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ یورپ اور امریکہ کے مردوں اور عورتوں کا ایک بڑا حصّہ اب عیسائی نہیں رہا ہے اور شائد یہ کہنا بھی صحیح ہو گا کہ اُن کی اکثریت اب ایسی ہے.‘‘ ('Has the Church Failed' P.125) اور مسٹر لنڈن پی ہیرز اپنی کتاب ’’اسلام ان ایسٹ افریقہ‘‘ مطبوعہ ۱۹۵۴ ؁ء میں لکھتے ہیں:.’’موجودہ صدی کی ابتداء میں عیسائی مصنّفین اس بات کے دعویدار تھے کہ اسلام بغیر سیاسی اقتدار کے کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور اس وجہ سے افریقہ میں اسلام کا نام مٹ جائے گا.‘‘ اِ س پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.’’اب اس دعویٰ کو ماننے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں.اسلام کا چیلنج بدستور قائم ہے.بلکہ پہلے سے بھی بڑھ کر خطرناک صورت میں.‘‘ ایک اَور عیسائی مصنّف ایس.جی.ولیم سن پروفیسر غانا یونیورسٹی کالج اپنی کتاب ’’کرائسٹ آر محمد ‘‘ میں لکھتے ہیں:.’’غانا کے شمالی حصّے میں رومن کیتھولک کے سوا عیسائیت کے تمام اہم فرقوں نے محمدؐ کے پیرؤں کے لئے میدان خالی کر دیا ہے.اشانٹی اور گولڈ کوسٹ کے جنوبی حصّوں میں عیسائیت آج کل ترقی کر رہی ہے لیکن جنوب کے بعض حصّوں میں خصوصاً ساحل کے ساتھ ساتھ احمدیہ جماعت کو عظیم الشان فتوحات حاصل ہو رہی ہیں.یہ خوش کن توقع کہ گولڈ کوسٹ جلد ہی عیسائی بن جائے گا اب معرضِ خطر میں ہے اور یہ خطرہ ہمارے خیال کی وسعتوں سے کہیں زیادہ عظیم ہے کیونکہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک خاصی تعداد احمدیت کی طرف کھچی چلی جا رہی ہے.اور یقیناًیہ صورت حال عیسائیت کے لئے کھلا چیلنج ہے.تاہم یہ فیصلہ ابھی باقی ہے کہ آئندہ افریقہ میں ہلال کا غلبہ

Page 29

ہوگا یا صلیب کا‘‘ ہیگ کے کثیر الاشاعت اخبار 'Nicnvoe Mangsoh Couront' نے ۲۰؍ ستمبر ۱۹۵۸ء کی اشاعت میں زیر عنوان ’’مغربی یورپ میں اسلامی مہم کا آغاز‘‘ لکھا ہے کہ ’’اسلام کسی ایک خاص قوم یا علاقہ کا مذہب نہیں.اور موجودہ عالمی مشکلات کا حل اس میں مضمر ہے......اس میں کوئی شک نہیں کہ گذشتہ گیارہ بارہ سال کے عرصہ میں یورپ نے بہت بڑی تعداد میں اسلام کو عملاً قبول نہیں کیا.مگر یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ اس عرصہ میں جماعت احمدیہ کی کوششوں سے ایک بھاری تعداد اسلام سے ہمدردی رکھنے والوں کی ضرور پیدا ہو گئی ہے.جو بہت ہی خوشگوار اور امید افزا ہے.‘‘ اِسی طرح ہالینڈ کے مختلف شہروں کے پانچ اخبارات نے زیر عنوان ’’اِسلامی ہلال یورپ کے افق پر ‘‘ سوالیہ نشان دے کر لکھا کہ:.’’یورپ کا نوجوان طبقہ عیسائیت سے کچھ بیزار ہو رہا ہے اور اس کے نتیجہ میں وہ کسی بھی دوسری چیز کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہو جاتا ہے.دوسری طرف اسلام یورپ میں اتحاد کا علم لئے ہوئے ہے اور یہ نوجوان اُدھر مائل ہو رہے ہیں اِس بہاؤ کو روکنے کے لئے اور اس تبلیغ کے اثرات کو تھامنے کے لئے جس کا سب سے طاقتور انجن جماعت احمدیہ ہے ہمیں اُن کی راہ میں ایک مضبوط ستون گاڑنا ہو گا.‘‘ پھر موجودہ صدی کے عالمی شہرت رکھنے والے مصنّف جارج برنارڈشا لکھتے ہیں:.’’مجھے یقین ہے کہ ساری برطانوی سلطنت ایک قسم کا اصلاح شدہ اسلام اس صدی کے اختتام پر قبول کر لے گی.مَیں نے محمدؐ کے دین کو ہمیشہ بڑی وقعت کی نگاہ سے دیکھا ہے.میرے نزدیک یہی مذہب بدلتے ہوئے زمانۂ حیات کے مقابل پر ایسی اہلیت رکھتا ہے.جس کی وجہ سے یہ ہر زمانہ کے لوگوں کو اپیل کرتا ہے......اب یورپ محمدؐ کے مذہب کے اصولوں کو سمجھنے لگا ہے اور آئندہ صدی میں یورپ اس بات کو اور زیادہ تسلیم کر لے گا کہ اسلام کے اصول اس کی اُلجھنوں کو حل کر سکتے

Page 30

ہیں....موجودہ وقت میں بھی میری قوم کے اور یورپ کے کئی لوگ اسلام اختیار کر چکے ہیں.اور کہا جا سکتا ہے.'The Islamisation of Europe to be said to have begun' (on Getting married) کہ یورپ کے اسلامی بننے کا آغاز ہو چکا ہے.‘‘ اﷲ اکبر! آج سے ستّر سال پہلے حضرت بانئ جماعت احمدیہ کی کہی ہوئی بات پوری ہو گئی.’’کہ وہ وقت دُور نہیں کہ جب تم فرشتوں کی فوجیں آسمان سے اُترتی اور ایشیا اور یورپ اور امریکہ کے دلوں پر نازل ہوتی دیکھو گے.‘‘ (فتح اسلام.روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۱۳ حاشیہ) اور ۱۸۹۷ء میں کی ہوئی پیشگوئی پوری ہونے کے آثار نمودار ہو گئے ہیں.اور مسیح کی الوہیت اور اس کے آسمان سے نازل ہونے کے عقیدہ سے لوگوں نے بیزاری کا اظہار شروع کر دیا ہے.اور حضرت بانئ جماعت احمدیہ علیہ السلام کی پیشگوئی مندرجہ تذکرۃ الشہادتین کا پورا ہونا یقینی ہو گیا ہے کہ ’’ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہو گی کہ عیسیٰ ؑ کا انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی پیشوا.مَیں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.‘‘ (تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۶۷) سچ ہے ؂ جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے اے ہمارے قادر توانا، واحد و یکتا خدا! تُو جھوٹے معبودوں کی زندگی پر جلد موت وارد کر اور اسلام کی کامل فتح کا دن جلد لا.آمین.خاکسار جلال الدین شمس.ربوہ

Page 31

Page 32

Page 33

Page 34

Page 35

Page 36

Page 37

3 نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم جَاءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا بنگر اے قوم نشانہائے خداوند قدیر چشم بکشاکہ برچشم نشانے است کبیر رو بدو آرکہ گر او بپذیرد رُو تافت ورنہ این روئے سیہ ہست بتراز خنزیر چون بتابی سرخود زاں ملک ارض و سما گربگیر د ز غضب پس چہ پنہ ہست و ظہیر قمر و شمس و زمین و فلک و آتش و آب ہمہ در قبضۂ آں یار عزیز اند اسیر قدسیان جملہ بلرزند ازان ہیبت پاک انبیا را دل و جان خون و الم دامنگیر جنت و دوزخ سو زندہ ازومے لرزند توچہ چیزی چہ ترا مرتبہ اے کِرم حقیر چند این جنگ و جدل ہا بخدا خواہی کرد توبہ کن توبہ مگر درگذر و از تقصیر من اگر در نظر یار مقامے دارم پس چہ نقصان ز نکوہیدن تو وازتکفیر لعنت آن است کہ از سوئے خدا می بارد لعنت بدگہران است یکے ہرزہ نفیر اے برادر رہ دین است رہ بس دشوار خاک شو خاک مگر باز کنندش اکسیر تو ہلاکی اگر از کبر بتابی سرخویش من از و آمدم وباتو بگویم چو نذیر آن خدائے کہ از و خلق و جہان بیخبر اند برمن او جلوہ نمودست گراہلی بپذیر اما بعد واضح ہو کہ اس وقت میں خدا تعالیٰ کے ایک بھاری نشان کو بیان کروں گا مبارک وہ لوگ جو اس کو غور سے پڑھیں اور پھر اس سے فائدہ اٹھائیں.یقیناً یاد رکھیں کہ خدا کاذب کو وہ عزت نہیں دیتا جو اس کے پاک نبیوں اور برگزیدوں کو دی جاتی ہے.مُردار خوار کاذب کا کیا حق ہے کہ آسمان اس کے لئے نشان ظاہر کرے اور زمین اس کے لئے خارق

Page 38

عادت اعجوبے دکھلائے.سو ا ے قوم کے بزرگو! اور دانشمندو! ذرا ٹھنڈے ہو کر واقعات پر غور کرو.کیا یہ واقعات کاذبوں سے ملتے ہیں یا سچوں سے کبھی کسی نے سنا کہ کاذب کیلئے آسمان پر نشان ظاہر ہوئے.کبھی کسی نے دیکھا کہ کاذب اپنے اعجوبوں میں صادقوں پر غالب آسکا.کیا کسی کو یاد ہے کہ کاذب اور مفتری کو افتراؤں کے دن سے پچیس۵۲ برس تک مہلت دی گئی جیسا کہ اس بندہ کو.کاذب یوں ملا جاتا ہے جیسے کھٹمل اور ایسا نابود کیا جاتا ہے جیسا کہ ایک بلبلہ.اگر کاذبوں اور مفتریوں کو اتنی مدتوں تک مہلت دی جاتی اور صادقوں کے نشان ان کی تائید کے لئے ظاہر کئے جاتے تو دنیا مین اندھیر پڑ جاتا اور کارخانہ الوہیت بگڑ جاتا.پس جب تم دیکھو کہ ایک مدعی پر بہت شور اٹھا.اور اس کی مخالفت کی طرف دنیا جھک گئی اور بہت آندھیاں چلیں اور طوفان آئے پر اس پر کوئی زوال نہ آیا تو فی الفور سنبھل جاؤ اور تقویٰ سے کام لو.ایسا نہ ہو کہ تم خدا سے لڑنے والے ٹھہرو.صادق تمہارے ہاتھ سے کبھی ہلاک نہیں ہوگا.اور راستباز تمہارے منصوبوں سے تباہ نہیں کیا جائے گا.تم بدقسمتی سے بات کو دور تک مت پہنچاؤ کہ جس قدر تم سختی کرو گے وہ تمہاری طرف ہی عود کرے گی.اور جس قدر اس کی رسوائی چاہو گے وہ الٹ کر تم پر ہی پڑے گی.اے بدقسمتو! کیا تمہیں خدا پر بھی ایمان ہے یا نہیں.خدا تمہاری مرادوں کو اپنی مرادوں پر کیونکر مقدم رکھ لے.اور اس سلسلہ کو جس کا قدیم سے اس نے ارادہ کیا ہے کیونکر تمہارے لئے تباہ کر ڈالے تم میں سے کون ہے جو ایک دیوانہ کے کہنے سے اپنے گھر کو مسمار کردے اور اپنے باغ کو کاٹ ڈالے.اور اپنے بچوں کا گلا گھونٹ دے.سو اے نادانوں! اور خدا کی حکمتوں سے محرومو! یہ کیونکر ہو کہ تمہاری احمقانہ دعائیں منظور ہو کر خدا اپنے باغ اور اپنے گھر اور اپنے پروردہ کو نیست و نابود کر ڈالے.ہوش کرو اور کان رکھ کر سنو! کہ آسمان کیا کہہ رہا ہے اور زمین کے وقتوں اور موسموں کو پہچانو تا تمہارا بھلا ہو.اور تا تم خشک درخت کی طرح کاٹے نہ جاؤ اور تمہاری زندگی کے دن بہت ہوں.بیہودہ اعتراضوں کو چھوڑ دو اور ناحق کی نکتہ چینیوں سے پرہیز کرو اور فاسقانہ خیالات سے اپنے تئیں بچاؤ.جھوٹے الزام مجھ پر مت لگاؤ کہ حقیقی طور پر نبوت کا دعویٰ کیا.کیا تم نے نہیں

Page 39

پڑھا کہ محدث بھی ایک مرسل ہوتا ہے.کیا قراء ت ولا محدّثکی یاد نہیں رہی.پھر یہ کیسی بیہودہ نکتہ چینی ہے کہ مرسل ہونے کا دعویٰ کیا ہے.اے نادانوں! بھلا بتلاؤ کہ جو بھیجا گیا ہے اس کو عربی میں مرسل یا رسول ہی کہیں گے یا اور کچھ کہیں گے.مگر یاد رکھو کہ خدا کے الہام میں اس جگہ حقیقی معنی مراد نہیں جو صاحب شریعت سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ جو مامور کیا جاتا ہے وہ مرسل ہی ہوتا ہے.یہ سچ ہے کہ وہ الہام جو خدا نے اپنے اس بندہ پر نازل فرمایا اس میں اس بندہ کی نسبت نبی اور رسول اور مرسل کے لفظ بکثرت موجود ہیں.سو یہ حقیقی معنوں پر محمول نہیں ہیں.و لکل ان یصطلح سو خدا کی اصطلاح ہے جو اس نے ایسے لفظ استعمال کئے.ہم اس بات کے قائل اور معترف ہیں کہ نبوت کے حقیقی معنوں کی رو سے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نہ کوئی نیا نبی آ سکتا ہے اور نہ پرانا.قرآن ایسے نبیوں کے ظہور سے مانع ہے مگر مجازی معنوں کی رو سے خدا کا اختیار ہے کہ کسی ملہم کو نبی کے لفظ سے یا مرسل کے لفظ سے یاد کرے.کیا تم نے وہ حدیثیں نہیں پڑھیں جن میں رَسُولُ رَسُولِ اللّٰہ آیا ہے.عرب کے لوگ تو اب تک انسان کے فرستادہ کو بھی رسول کہتے ہیں.پھر خدا کو کیوں یہ حرام ہوگیا کہ مرسل کا لفظ مجازی معنوں پر بھی استعمال کرے.کیا قرآن میں سے3۱؂ بھی یاد نہیں رہا.انصافاًدیکھو کیا یہی تکفیر کی بنا ہے.اگر خدا کے حضور میں پوچھے جاؤ تو بتاؤ کہ میرے کافر ٹھہرانے کیلئے تمہارے ہاتھ میں کونسی دلیل ہے.باربار کہتا ہوں کہ یہ الفاظ رسول اور مرسل اور نبی کے میرے الہام میں میری نسبت خدا تعالیٰ کی طرف سے بے شک ہیں لیکن اپنے حقیقی معنوں پر محمول نہیں ہیں.اور جیسے یہ محمول نہیں ایسے ہی وہ نبی کر کے پکارنا جو حدیثوں میں مسیح موعود کیلئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا.یہ وہ علم ہے جو خدا نے مجھے دیا ہے جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے.میرے پر یہی کھولا گیا ہے کہ حقیقی نبوت کے دروازے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد بکلی بند ہیں.اب نہ کوئی جدید نبی حقیقی معنوں کے رو سے آ سکتا ہے اور نہ کوئی قدیم نبی.مگر ہمارے ظالم مخالف ختم نبوت کے دروازوں کو پورے طور پر بند نہیں سمجھتے.بلکہ ان کے

Page 40

نزدیک مسیح اسرائیلی نبی کے واپس آنے کیلئے ابھی ایک کھڑکی کھلی ہے.پس جب قرآن کے بعد بھی ایک حقیقی نبی آگیا اور وحی نبوت کا سلسلہ شروع ہوا تو کہو کہ ختم نبوت کیونکر اور کیسا ہوا.کیا نبی کی وحی وحی نبوت کہلائے گی یا کچھ اور.کیا یہ عقیدہ ہے کہ تمہارا فرضی مسیح وحی سے بکلی بے نصیب ہو کر آئے گا؟ توبہ کرو اور خدا سے ڈرو اور حد سے مت بڑھو.اگر دل سخت نہیں ہوگئے تو اس قدر کیوں دلیری ہے کہ خواہ نخواہ ایسے شخص کو کافر بنایا جاتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو حقیقی معنوں کی رو سے خاتم الانبیاء سمجھتا ہے اور قرآن کو خاتم الکتبتسلیم کرتا ہے.تمام نبیوں پر ایمان لاتا ہے اور اہل قبلہ ہے اور شریعت کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھتا ہے.اے مفتری لوگو! میں نے کسی نبی کی توہین نہیں کی.میں نے کسی عقیدہ صحیحہ کے برخلاف نہیں کہا.پر اگر تم خود نہ سمجھو تو میں کیا کروں.تم تو قائل ہو کہ جزئی فضیلت ایک ادنیٰ شہید کو ایک بڑے نبی پر ہو سکتی ہے.اور یہ سچ ہے کہ میں خدا کا فضل اپنے پر مسیح سے کم نہیں دیکھتا.مگر یہ کفر نہیں یہ خدا کی نعمت کا شکر ہے.تم خدا کے اسرار کو نہیں جانتے اس لئے کفر سمجھتے ہو.اس کو کیا کہو گے جو کہہ گیا ھو افضل من بعض الانبیاء اگر میں تمہاری نظر میں کافر ہوں تو بس ایسا ہی کافر جیسا کہ ابن مریم یہودی فقیہوں کی نظر میں کافر تھا.میرے پاس خدا کے فضل کی اس سے بھی بڑھ کر باتیں ہیں مگر تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے.خوب یاد رکھو کہ مجھ کو کافر کہنا آسان نہیں.تم نے ایک بھاری بوجھ سر پر اٹھایا ہے اور تم سے ان سب باتوں کا جواب پوچھا جائے گا!! اے بدقسمت لوگو! تم کہاں گرے کونسی چھپی ہوئی بداعمالیاں تھیں جو تمہیں پیش آگئیں.اگر تم میں ایک ذرہ بھی نیکی ہوتی تو خدا تمہیں ضائع نہ کرتا ابھی کچھ تھوڑا وقت ہے اور بہت سا ثواب کھو چکے ہو باز آجاؤ.کیا خدا سے اس بیوقوف کی طرح لڑائی کرو گے جو زور آور کے آگے سے نہیں ہٹ جاتا یہاں تک کہ مار سے پیسا جاتا اور کچلا جاتا ہے اور آخر ہڈیاں چور ہو کر اور مردہ سا بن کر زمین پر گر پڑتا ہے.یہودیوں نے لڑائی سے کیا لیا اور تم کیا لو گے؟ ھٰذا و بعد الموت نحن نخاصم.بہت کچھ صوفیوں نے بھی انسانی کمالات

Page 41

کا اقرار کیا تھا کہ کہاں تک انسان پہنچتا ہے آج وہ بھی سوگئے.اے عقلمندو! میرے کاموں سے مجھے پہچانو اگر مجھ سے وہ کام اور وہ نشان ظاہر نہیں ہوتے جو خدا کے تائید یافتہ سے ظاہر ہونے چاہئیں تو تم مجھے مت قبول کرو لیکن اگر ظاہر ہوتے ہیں تو اپنے تئیں دانستہ ہلاکت کے گڑھے میں مت ڈالو.بدظنیاں چھوڑو.بدگمانیوں سے باز آجاؤ کہ ایک پاک کی توہین کی وجہ سے آسمان سرخ ہو رہا ہے* اور تم نہیں دیکھتے.اور فرشتوں کی آنکھوں سے خون ٹپک رہا ہے اور تمہیں نظر نہیں آتا.خدا اپنے جلال میں ہے اور در و دیوار لرزہ میں.کہاں ہے وہ عقل جو سمجھ سکتی ہے.کہاں ہیں وہ آنکھیں جو وقتوں کو پہچانتی ہیں.آسمان پر ایک حکم لکھا گیا.کیا تم اس سے ناراض ہو؟ کیا تم رب العزت سے پوچھو گے کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ اے نادان انسان! باز آ جا کہ صاعقہ کے سامنے کھڑا ہونا تیرے لئے اچھا نہیں!!! اپنے ظلموں کو دیکھو اور اپنی شوخیوں پر غور کرو کہ خدا نے اول ایک نشان قائم کیا اور آتھم کو دو طور کی موت دی.اول یہ کہ وہ اخفائے حق اور دروغ گوئی کا ملزم ٹھہر کر اپنی صفائی کسی طور سے ثابت نہ کر سکا نہ نالش سے نہ قسم سے نہ کسی اور ثبوت سے.دوسرے یہ کہ خدا کے وعدہ کے موافق اخفاء پر اصرار کرنے کے بعد جلد فوت ہوگیا.اب بتلاؤ کہ اس پیشگوئی کی تصدیق میں تمہیں کیا مشکلات پیش آئیں؟ کیا آتھم نہیں ڈرتا رہا؟ کیا آخر وہ نہیں مرگیا؟ کیا پیشگوئی میں صاف اور صریح طور پر یہ شرط نہ تھی کہ حق کی طرف رجوع کرنے سے موت میں تاخیر ہوگی.پھر کیا تم میں سے کوئی قسم کھا سکتا ہے کہ آتھم پر قرائن عقلیہ کی رو سے یہ الزام قائم نہیں ہوا کہ اس نے اپنے اقوال اور افعال اور بیہودہ عذرات سے یہ ثابت کر دیا کہ وہ پیشگوئی کے بعد ضرور ڈرتا رہا اور وہ اس بات کا ثبوت نہیں دے سکا کہ کیوں اس ڈر کو جس کا اس کو خود اقرار تھا تعلیم یافتہ سانپ نوٹ: ایک امام کے ظہور کے لئے جو آسمان و زمین گواہی دے رہے ہیں اس سے یہ مطلب نہیں کہ کوئی مہدی خونی یا مسیح غازی ظہور کرے گا.یہ تمام باتیں نا سمجھی کے خیال ہیں بلکہ ہم مامور ہیں کہ آسمانی نشانوں اور عقلی دلائل کے ساتھ منکروں کو شرمندہ کریں اور خوارق کے ساتھ ایمان کو دلوں میں اتاریں.منہ

Page 42

وغیرہ بے دلیل عذروں کی طرف منسوب کیا جائے.حالانکہ اس ثبوت کو دلوں میں جمانے کے لئے قسم اور نالش دونوں راہیں اس کے لئے کھلی تھیں.اب بتلاؤ کیا اس نے قسم کھائی؟ کیا اس نے نالش کی؟ کیا اس نے اپنے بہتانوں کا کوئی اور ثبوت دیا؟ کچھ تو منہ سے کہو! کچھ تو پھوٹو! کہ اس نے خوف کا اقرار کر کے اور محض بہتان اور افتراء سے سانپ وغیرہ کو اپنے خوف کی بناء قرار دیکر ان خود تراشیدہ عذرات کے ثابت کرنے کے لئے کیا کیا دلائل پیش کئے.اے کمبخت متعصبو! کیا تم کبھی نہیں مرو گے؟ کیا وہ دن نہیں آئے گا کہ جب تم رب العالمین کے حضور میں کھڑے کئے جاؤ گے.اگر اسی شکل کا کوئی دنیا کا مقدمہ ہوتا اور تم اس کے اسیسر یا منصف مقرر کئے جاتے تو بیشک تم ایسے شخص کو کہ آتھم کی طرح اپنے عذرات کا کچھ ثبوت نہ دے سکتا جھوٹا ٹھہراتے اور انسانی عدالت سے ڈر کر سچے اظہار لکھوا دیتے.مگر اب تم سمجھتے ہو کہ خدا تم سے دور ہے اور کچھ سنتا نہیں اور مواخذہ کا دن بہت فاصلہ پر ہے!!! سچ کہو کیا آتھم پاکدامن مرگیا؟ اور اپنے سر پر ہماری طرف سے کوئی الزام نہیں لے گیا؟ تمہیں قسم ہے ذرہ مجھے سناؤ کہ کیا تم نے میرے اشتہاروں میں نہیں پڑھا کہ آتھم اخفاء حق پر اصرار کرنے کے بعد جلد مرجائے گا.سو ایسا ہی ہوا اور وہ ہمارے آخری اشتہار سے جو اتمام حجت کی طرح تھا سات ماہ کے اندر فوت ہوگیا.پس یہ کیسی بے ایمانی ہے جو اس قوم کے خبیث طبع لوگوں نے عیسائیوں کے ساتھ ہاتھ جا ملائے اور آسمانی آواز کی مخالفت کی اور شیطانی آواز کے مصدق ہوگئے.پر یہ تو اچھا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث کو پورا کیا.کمبخت سعد اللہ نو مسلم اور محمد علی واعظ اب تک روئے جاتے ہیں جو پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.اے شیاطین کے گروہ تم راستی کو کب تک چھپاؤ گے؟ کیا تمہاری کوششوں سے حق نابود ہو جائے گا.خدا سے لڑو جس قدر لڑ سکتے ہو.پھر دیکھو کہ فتح کس کی ہے کیونکہ حکم خواتیم پر ہے.اے بے حیا قوم! آتھم مقابل پر آنے سے ڈرا مگر تم نہ ڈرے.وہ لعنتوں کے ساتھ کچلا گیا مگر مقابل پر نہ آیا.اس کو چار ہزار روپیہ کے انعام کا وعدہ دیا گیا.اس کو جرأت نہ ہوئی کہ ایک قدم بھی ہماری طرف آوے.یہاں تک کہ

Page 43

قبر میں پہنچ گیا.وہ نالش کرنے سے بھی ڈرا.اور جب عیسائیوں نے اس پر زور دیا تو اس نے کانوں پر ہاتھ رکھ لیا تو کیا ابھی تک ثابت نہ ہوا کہ وہ اپنے مقابلہ کو خلاف حق جانتا تھا.اور دل میں خوف بھرا ہوا تھا.مگر پھر بھی اخفائے حق کی وجہ سے خدا نے اس کو نہ چھوڑا اور خدا کے وعدہ کے موافق اور ٹھیک ٹھیک اس کے الہام کے منشاء کے مطابق وہ مرگیا.اور مولویوں اور عیسائیوں کا منہ سیاہ کر گیا.وہ مجھ سے عمر میں بجز چند سال کچھ زیادہ نہ تھا.سعد اللہ نو مسلم کی بد ذاتی ہے کہ اس کو پیر فرتوت قرار دیتا ہے.یہ یہودی چاہتا ہے کہ کسی طرح پیشگوئی مخفی ہو جائے.سو اے مخالفو! بے حیائی سے جس قدر چاہو انکار کرو.مگر حقیقت کھل گئی اور عقلمندوں نے سمجھ لیا ہے کہ پیشگوئی نہ ایک پہلو سے بلکہ چار پہلو سے پوری ہوگئی.* آتھم کو اس رجوع اور خوف کا فائدہ دیا گیا جو اس سے ظہور میں آیا جیسا کہ الہامی شرط تھی اور پیشگوئی کا ایک جزو تھا.اور یہ رجوع پیشگوئی کو سنتے ہی اس میں پیدا ہوگیا تھا کیونکہ وہ اسلامی مرتد تھا اور یسوع کی خدائی کے بارے میں خود ہمیشہ کھٹکے میں رہتا تھا اور تاویلیں کیا کرتا تھا اور مجھ پر ابتداء سے اس کو نیک ظن تھا کیونکہ وہ اس ضلع میں رہ کر میرے ابتدائی حالات سے خوب واقف تھا.یہ ممکن نہ تھا کہ وہ مجھے جھوٹا سمجھتا اسی وجہ سے پیشگوئی کے سنانے کے وقت اس کا رنگ زرد ہوگیا تھا اور اس کی حالت متغیر ہو گئی تھی.اور جب میں نے کہا کہ تم نے اپنی کتاب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو دجال کہا ہے یہ اس کی سزا ہے جو تم کو ملے گی.تو اس کے منہ پر ہوائیاں اڑنے لگیں اور دونوں ہاتھ اس نے اپنے کانوں پر رکھے گویا وہ اس وقت توبہ کر رہا تھا.میرے خیال میں ہے کہ اس وقت ستر آدمی کے قریب اس جلسہ نصاریٰ میں ہوں گے.غرض اس کا رجوع نہ دیر کے بعد بلکہ اسی دم سے شروع ہوگیا تھا.اور اخیر میعاد تک اس نے دیوانوں کی طرح دنوں کو بسر کیا.(۱)ایک پہلو یہ کہ جو الہام میں شرط تھی اس شرط کی پابندی سے آتھم کی موت میں تاخیر ہوئی.(۲) دوم یہ کہ آتھم اخفاء شہادت سے موافق الہام جلد فوت ہو گیا.(۳) سوم یہ کہ عیسائیوں کے مکر اور مولویوں کی باہمی سازش سے براہین احمدیہ کی پیشگوئی صفحہ ۲۴۱ پوری ہو گئی.(۴) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشگوئی جو عیسائیوں اور مسلمانوں کے جھگڑے کے بارے میں تھی وہ بھی اس سے پوری ہو گئی.منہ

Page 44

اب اس سے زیادہ بدذاتی کیا ہوگی کہ باوجود ایسے صاف صاف واقعات کے پھر کہا جاتا ہے کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین.رجوع کا لفظ جو شرط میں داخل ہے ایک دل کا فعل تھا جو اسی وقت سے شروع ہوگیا تھا.کھلے کھلے اسلام کا شرط میں کہاں لفظ ہے کیا ایک مشرک ایسی سخت پیشگوئی کے وقت مستقیم رہ سکتا تھا.ہریک کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ پیشگوئی اسی دن سے شروع نہیں ہوئی بلکہ براہین احمدیہ میں بارہ۲۱ برس پہلے اس کی خبر دی گئی ہے اور ساتھ ہی لیکھرام کی پیشگوئی کی خبر تھی.اگر تم غور سے صفحہ (۲۳۹) اور (۲۴۰) اور (۲۴۱) براہین احمدیہ کا پڑھو تو یہ تمام نقشہ تمہا ری آنکھوں کے سامنے آجائے گا آثار سابقہ اور احادیث نبویہ میں مہدی آخر زمان کی نسبت یہ لکھا گیا تھا کہ اوائل حال میں اس کو بے دین اور کافر قرار دیا جائے گا.اور لوگ اس سے سخت بغض رکھیں گے اور مذمت کے ساتھ اس کو یاد کریں گے اور دجال اور بے ایمان اور کذاب کے نام سے اس کو پکاریں گے اور یہ سب مولوی ہوں گے.اور اس دن مولویوں سے بدتر زمین پر اس امت میں سے کوئی نہیں ہوگا سو کچھ مدت ایسا ہوتا رہے گا.پھر خدا آسمانی نشانوں سے اس کی تائید کرے گا.اور اس کے لئے آسمان سے آواز آئے گی کہ یہ خلیفۃ اللّٰہ المہدی ہے.مگر کیا آسمان بولے گا جیسا انسان بولتا ہے؟ نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ ہیبت ناک نشان ظاہر ہوں گے جن سے دل اور کلیجے ہل جائیں گے.تب خدا دلوں کو اس کی محبت کی طرف پھیر دے گا اور اس کی قبولیت زمین میں پھیلا دی جائے گی.یہاں تک کہ کسی جگہ چار آدمی مل کر نہیں بیٹھیں گے جو اس کا ذکر محبت اور ثناء کے ساتھ نہ کرتے ہوں.سو براہین کے یہ صفحات مذکورہ بالاا نہیں واقعات کا نقشہ کھینچ رہے ہیں.اول مجھ کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ لوگ تجھ کو گمراہ اور جاہل اور شیطانی خیال کا آدمی خیال کریں گے.دکھ دیں گے.اور طرح طرح کی باتیں بولیں گے اور ٹھٹھے کریں گے.اور پھر فرمایا کہ میں سب ٹھٹھا کرنے والوں کے لئے کافی ہوں گا.اور پھر فرمایا قل عندی شھادۃ من اللّٰہ فھل انتم مؤمنون.یہ اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ ان دنوں میں آسمانی نشانیاں ظاہر ہوں گی.پھر بعد اس کے صفحہ ۲۴۱ میں آتھم کی نشانی کا ذکر فرمایا اور ساتھ ہی خبر دیدی کہ اس نشان پر عیسائیوں اور یہودی صفت

Page 45

مسلمانوں کا بلوہ ہوگا.اور وہ مکر کریں گے اور خدا بھی مکر کرے گا.اور خدا کے مکر غالب آتے ہیں پھر بعد اس کے فرمایا کہ ان مکروں کے بعد خدا حق کو ظاہر کر دے گا اور فتح عظیم ہوگی.سو لیکھرام کے واقعہ کو خدا نے فتح عظیم کر کے دکھلایا.اور بجز خدا کے یہ کسی کے مقدور میں نہ تھا کہ ایسے معرکہ کے انجام کی خبر دیتا اور غلبہ کی بشارت سناتا! دوسری پیشگوئی لیکھرام کے بارے میں ہے جس کی نسبت براہین کے انہیں الہامات میں اشارہ ہے.اور براہین احمدیہ میں عیسائیوں کے مکر کے بعد یہ الہام لکھا ہے الفتنۃ ھٰھُنَا فاصبر کما صبر اولوالعزم یعنی جب وہ مکر کریں گے تو ایک بڑا فتنہ برپا ہوگا اور ملک میں باطل کی حمایت میں شور پڑ جائے گا..اور صادق کو کاذب ٹھہرا دیا جائے گا.اور کاذبوں کو حق بجانب سمجھ لیں گے.اب اے آنکھوں والو! اس قدر سچائی کا خون کر کے جہنم کی آگ میں مت پڑو.دیکھو کس قدر عظمت اس پیشگوئی میں ہے کہ بارہ برس پہلے اس کا نقشہ کھینچ کر دکھلایا گیا ہے.اور اس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے بھی ایک اثر منقول ہے کہ عیسائیوں سے جھگڑا ہوگا تب زمین سے آواز آئے گی کہ آل عیسیٰ حق پر ہے اور آسمان سے آواز آئے گی کہ آل محمدؐ حق پر ہے.اب سچ کہو کہ ابھی تک آواز آئی یا نہیں؟ اگر تم شرارت میں بڑھو گے تو وہ اپنی قدرت نمائی میں بڑھے گا.کیا کوئی ہے جو اس کو تھکا سکے؟ اب ہم لیکھرام کی پیشگوئی کو مفصل طور پر معہ اصل عبارات ان کتابوں کے اس جگہ درج کرتے ہیں جن میں یہ پیشگوئی موجود ہے اور ناظرین کو توجہ دلاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا خوف کر کے ان مقامات کو غور سے پڑھیں اور پھر سوچیں کہ کیا یہ انسان کا کام ہے یا اس خدا کا جو زمین و آسمان کا مالک اور تمام طاقتوں کا خداوند ہے.یاد رہے کہ جن کتابوں کی ذیل میں عبارتیں لکھی جاتی ہیں وہ تمام عبارتیں اس جگہ بعینہٖ درج کی گئی ہیں.ایک حرف کی زیادتی یا کمی ان میں نہیں یہاں تک کہ پیشگوئی کے سر پر کی وہ غزل جس کی ابتدا میں یہ مصرع ہے ؂ عجب نوریست درجان محمدؐ.اس کے نیچے جو پیشگوئی کے دکھلانے کے لئے ہاتھ بنایا گیا تھا وہ ہاتھ بھی بعینہٖ اسی موقعہ پر لگا دیا ہے تا اس رسالہ کے پڑھنے والے بکلی اس

Page 46

نقشہ پر مطلع ہو جائیں جو لیکھرام کے مرنے سے چار برس پہلے اس کی موت کیلئے کھینچا گیا تھا اور با ایں ہمہ ہریک شہر میں یہ کتابیں مل سکتی ہیں اور کئی برسوں سے پنجاب اور ہندوستان میں شائع ہو رہی ہیں جس کا جی چاہے اصل کتابوں میں دیکھ لے.اس جگہ ایک ضروری بات جو یاد رکھنے کے لائق ہے اور جو ہماری اس کتاب کی روح اور علت غائی ہے وہ یہ ہے کہ یہ پیشگوئی ایک بڑے مقصد کے ظاہر کرنے کیلئے کی گئی تھی.یعنی اس بات کا ثبوت دینے کے لئے کہ آریہ مذہب بالکل باطل اور وید خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں.اور ہمارے سید و مولیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم خدا تعالیٰ کے پاک رسول اور برگزیدہ نبی اور اسلام خدا تعالیٰ کی طرف سے سچا مذہب ہے.اور یہی بار بار لکھا گیا تھا اور اسی مقصد کے پورا کر نے کے لئے دعائیں کی گئی تھیں.سو اس پیشگوئی کو نری ایک پیشگوئی خیال نہیں کرنا چاہئیے بلکہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہندوؤں اور مسلمانوں میں ایک آسمانی فیصلہ ہے.کچھ مدت سے ہندوؤں میں تیزی بڑھ گئی تھی.خاص کر کے یہ لیکھرام تو گویا اس بات پر اعتقاد نہیں رکھتا تھا کہ خدا بھی ہے.سو خدا نے ان لوگوں کو چمکتا ہوا نمونہ دکھلایا.چاہئیے کہ ہر یک شخص اس سے عبرت پکڑے جو شخص خدا کے مقدس نبیوں کی اہانت میں زبان کھولتا ہے کبھی اس کا انجام اچھا نہیں ہو سکتا.لیکھرام اپنی موت سے آریوں کو ہمیشہ کی عبرت کا سبق دے گیا ہے.چاہئیے کہ ان شرارتوں سے دست بردار ہوں جو دیانند نے ملک میں پھیلائیں اور نرمی اور لطف اور سچی محبت اور تعظیم کے ساتھ اسلام سے برتاؤ کریں.آئندہ انہیں اختیار ہے.بعض احمق جو مسلمان کہلا کر آریوں کی طرف جھکے تھے اب ان کی توبہ کا وقت ہے انہیں دیکھنا چاہئیے کہ اسلام کا خدا کیسا غالب ہے؟ آریوں کو اس پیشگوئی کے وقت بذریعہ چھپے ہوئے اشتہاروں کے اطلاع دی گئی تھی کہ اگر تمہارا دین سچا ہے اور اسلام باطل تو اس کی یہی نشانی ہے کہ اس پیشگوئی کے اثر سے اپنے وکیل لیکھرام کو بچالو اور جہاں تک ممکن ہے اس کے لئے دعائیں کرو اور دعاؤں کے لئے مہلت بہت تھی لیکن خدا کے قہری ارادہ کو وہ لوگ بدل نہ سکے.یقیناً سمجھنا چاہئییکہ جو چھری لیکھرام پر چلائی گئی‘ یہ وہی چھری

Page 47

تھی جو وہ کئی برس تک ہمارے سید و مولیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی بے ادبی میں چلاتا رہا.پس وہی زبان کی تیزی چھری کی شکل پر متمثل ہو کر اس کے پیٹ میں گھس گئی.جب تک آسمان پر چھری نہ چلے زمین پر ہرگز چل نہیں سکتی.لوگ سمجھتے ہوں گے کہ لیکھرام اب مارا گیا.لیکن میں تو اس وقت سے مقتول سمجھتا تھا جب میرے پاس ایک فرشتہ خونی شکل میں آیا اور اس نے پوچھا کہ ’’لیکھرام کہاں ہے‘‘ چنانچہ یہ سب مضمون ان پیشگوئیوں میں پڑھو گے.جو ذیل میں لکھی جاتی ہے.اول (اشتہار بیس۰۲ فروری ۱۸۸۶ء میں پنڈت لیکھرام کی نسبت صرف اسی قدر صفحہ ۴ میں پیشگوئی ہے) کہ لیکھرام صاحب پشاوری کی قضا و قدر وغیرہ کے متعلق غالباً اس رسالہ میں بقید وقت و تاریخ کچھ تحریر ہوگا.اگر کسی صاحب پر کوئی ایسی پیشگوئی شاق گذرے تو وہ مجاز ہیں کہ یکم مارچ ۱۸۸۶ء سے یا اس تاریخ سے جو کسی اخبار میں پہلی دفعہ یہ مضمون شائع ہو ٹھیک ٹھیک دو ہفتہ کے اندر اپنی دستخطی تحریر سے مجھ کو اطلاع دیں تا وہ پیشگوئی جس کے ظہور سے وہ ڈرتے ہیں اندراج رسالہ سے علیحدہ رکھی جائے اور موجب دل آزاری سمجھ کر کسی کو اس پر مطلع نہ کیا جائے.اور کسی کو اس کے وقت ظہور سے خبر نہ دی جائے.پھر بعد اس کے پنڈت لیکھرام کا کارڈ پہنچا کہ میں اجازت دیتا ہوں کہ میری موت کی نسبت پیشگوئی کی جائے مگر میعاد مقرر ہونی چاہئے.پھر بعد اس کے مفصلہ ذیل الہامات ہوئے.دوم.الہام مندرجہ رسالہ کرامات الصادقین مطبوعہ صفر ۱۳۱۱ ہجری وَعدنی رَبّی واستجاب دُعائی فی رجل مُفسدٍ عدو اللّٰہ وَ رسُولہ المسمّی لیکھرام الفشاوری و اخبرنی انہ من الھالکین.انہ کان یسبّ نبی اللّٰہ و یتکلم فی شانہ بکلمات خبیثۃ.فدعوت علیہ.فبشرنی ربّی بموتہ فی ستّۃ سنۃٍ ان فی ذٰلک لاٰیۃ لِلطّالبین.یعنی خدا تعالیٰ نے ایک دشمن اللہ اور رسول کے بارے میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو گالیاں نکالتا ہے اور ناپاک کلمے زبان پر لاتا ہے جس کا نام لیکھرام ہے مجھے وعدہ دیا اور میری دعا سنی اور جب میں نے اس پر بددعا کی تو خدا نے مجھے بشارت دی کہ وہ چھ۶سال کے اندر ہلاک ہو جائے گا.یہ ان کے لئے نشان ہے جو

Page 48

سچے مذہب کو ڈھونڈتے ہیں.سوم.الہام مندرجہ اشتہار ۲۰؍ فروری ۱۸۹۳ ؁ء مشمولہ کتاب آئینہ کمالات اسلام 3 عجب نوریست در جان محمدؐ عجب لعلیست در کان محمدؐ زظلمت ہادلے آنگہ شود صاف کہ گردد از محبانِ محمدؐ عجب دارم دل آں ناکساں را کہ رو تابند از خوانِ محمدؐ ندانم ہیچ نفسے دردو عالم کہ دارد شوکت و شانِ محمدؐ خدازان سینہ بیزارست صدبار کہ ہست از کینہ دارانِ محمدؐ خدا خود سوزد آں کرم دنی را کہ باشد از عدوّانِ محمدؐ اگر خواہی نجات از مستی نفس بیا در ذیل مستانِ محمدؐ اگر خواہی کہ حق گوید ثنایت بشو از دل ثنا خوانِ محمدؐ اگر خواہی دلیلے عاشقش باش محمدؐ ہست برہانِ محمدؐ سرے دارم فدائے خاک احمدؐ دلم ہر وقت قربانِ محمدؐ بگیسو ئے رسول اللہ کہ ہستم نثار روئے تابانِ محمدؐ دریں رہ گر کشندم وربسوزند نتابم رُو زِ ایوانِ محمدؐ بکار دین نترسم از جہانے کہ دارم رنگ ایمانِ محمدؐ بسے سہل ست از دنیا بریدن بیاد حسن و احسانِ محمدؐ فدا شد در رہش ہر ذرّۂ من کہ دیدم حسن پنہانِ محمدؐ دگر استاد را نامے ندانم کہ خواندم در دبستانِ محمدؐ بدیگر دلبرے کارے ندارم کہ ہستم کشتۂ آنِ محمدؐ مرا آں گوشۂ چشمے بباید نخواہم جز گلستانِ محمدؐ دل زارم بہ پہلویم مجوئید کہ بستیمش بدامانِ محمدؐ من آن خوش مرغ از مرغان قدسم کہ دارد جا بہ بستان محمدؐ تو جان ما منور کر دی از عشق فدایت جانم اے جانِ محمدؐ دریغا گر دہم صد جان دریں راہ نباشد نیز شایان محمدؐ چہ ہیبت ہا بدادند ایں جواں را کہ ناید کس بمیدانِ محمدؐ الا اے دشمن نادان و بے راہ بترس از تیغِ بُرّانِ محمدؐ رہ مولیٰ کہ گم کردند مردم بجو در آل و اعوانِ محمدؐ الا اے منکر از شانِ محمدؐ ہم از نور نمایان محمدؐ کرامت گرچہ بے نام و نشان است H بیا بنگر زِ غِلمانِ محمدؐ لیکھرام پشاوری کی نسبت ایک پیشگوئی واضح ہو کہ اس عاجز نے اشتہار ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ ؁ء میں جو اس کتاب کے ساتھ شامل

Page 49

کیا گیا تھا اندرمن مراد آبادی اور لیکھرام پشاوری کو اس بات کی دعوت کی تھی کہ اگر وہ خواہشمند ہوں تو ان کی قضا و قدر کی نسبت بعض پیشگوئیاں شائع کی جائیں سو اس اشتہار کے بعد اندرمن نے تو اعراض کیا اور کچھ عرصہ کے بعد فوت ہوگیا.لیکن لیکھرام نے بڑی دلیری سے ایک کارڈ اس عاجز کی طرف روانہ کیا کہ میری نسبت جو پیشگوئی چاہو شائع کر دو میری طرف سے اجازت ہے.سو اس کی نسبت جب توجہ کی گئی تو اللہ جلّ شانہٗ کی طرف سے یہ الہام ہوا.عِجْلٌ جَسَدٌ لَہ‘ خُوَار.لَہ‘ نَصَبٌ وَ عَذَاب یعنی یہ صرف ایک بے جان گوسالہ ہے جس کے اندر سے ایک مکروہ آواز نکل رہی ہے.اور اس کیلئے ان گستاخیوں اور بدزبانیوں کے عوض میں سزا اور رنج اور عذاب مقدر ہے جو ضرور اس کو مل رہے گا.اور اس کے بعد آج جو ۲۰؍ فروری ۱۸۹۳ء روز دو شنبہ ہے اس عذاب کا وقت معلوم کرنے کیلئے توجہ کی گئی تو خداوندکریم نے مجھ پر ظاہر کیا کہ آج کی تاریخ سے جو بیس۰۲ فروری ۱۸۹۳ء ہے چھ برس کے عرصہ تک یہ شخص اپنی بدزبانیوں کی سزا میں یعنی ان بے ادبیوں کی سزا میں جو اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کی ہیں عذاب شدید میں مبتلا ہو جائے گا سو اب میں اس پیشگوئی کو شائع کر کے تمام مسلمانوں اور آریوں اور عیسائیوں اور دیگر فرقوں پر ظاہر کرتا ہوں کہ اگر اس شخص پر چھ۶ برس کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے کوئی ایسا*عذاب نازل نہ ہوا جو معمولی تکلیفوں سے نرالا اور خارق عادت اور اپنے اندر الٰہی ہیبت رکھتا ہو تو سمجھو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور نہ اس کی روح سے میرا یہ نطق ہے اور اگر میں اس پیشگوئی میں کاذب نکلا تو ہریک سزا کے بھگتنے کے لئے میں طیار ہوں اور اس بات پر راضی ہوں کہ مجھے گلے میں رسہ ڈال کر کسی سولی پر کھینچا جائے اور باوجود میرے اس اقرار کے یہ بات بھی ظاہر ہے کہ کسی انسان کا اپنی پیشگوئی میں جھوٹا نکلنا خود تمام رسوائیوں سے بڑھ کر رسوائی ہے.زیادہ اس سے کیا لکھوں.اب آریوں کو چاہیے کہ سب مل کر دعا کریں کہ یہ عذاب ان کے اس وکیل سے ٹل جائے.

Page 50

واضح رہے کہ اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سخت بے ادبیاں کی ہیں جن کے تصور سے بھی بدن کانپتا ہے.اس کی کتابیں عجیب طور کی تحقیر اور توہین اور دشنام دہی سے بھری ہوئی ہیں کون مسلمان ہے جو ان کتابوں کو سنے اور اس کا دل اور جگر ٹکڑے ٹکڑے نہ ہو.با ایں ہمہ شوخی و خیرگی یہ شخص سخت جاہل ہے عربی سے ذرہ مس نہیں بلکہ دقیق اردو لکھنے کا بھی مادہ نہیں اور یہ پیشگوئی اتفاقی نہیں بلکہ اس عاجز نے خاص اسی مطلب کے لئے دعا کی جس کا یہ جواب ملا اور یہ پیشگوئی مسلمانوں کے لئے بھی نشان ہے کاش وہ حقیقت کو سمجھتے اور ان کے دل نرم ہوتے.اب میں اسی خدائے عزّوجلّ کے نام پر ختم کرتا ہوں جس کے نام سے شروع کیا تھا.والحمد للّٰہ والصلوۃ والسّلام علٰی رسولہ محمّد ا نِلمصطفی افضل الرسل و خیر الوریٰ سیّدنا و سیّد کل ما فی الارض والسما.خاکسار میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپورہ (۲۰؍ فروری ۱۸۹۳ء) چہار م.جواب اعتراض مندرجہ ٹائٹل پیج برکات الدعا معہ خبر مندرجہ حاشیہ صفحہ ۴ ٹائٹل پیج.نمونہ دعائے مستجاب انیس ہند میرٹھ اور ہماری پیشگوئی پر اعتراض اس اخبار کا پرچہ مطبوعہ ۲۵؍ مارچ ۱۸۹۳ء جس میں میری اس پیشگوئی کی نسبت جو لیکھرام پشاوری کے بارے میں میں نے شائع کی تھی کچھ نکتہ چینی ہے مجھ کو ملا.مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض اور اخباروں پر بھی یہ کلمۃ الحق شاق گذرا ہے.اور حقیقت میں میرے لئے خوشی کا مقام ہے کہ یوں خود مخالفوں کے ہاتھوں اس کی شہرت اور اشاعت ہو رہی ہے سو میں اس وقت اس نکتہ چینی کے جواب میں صرف اس قدر لکھنا کافی سمجھتا ہوں کہ جس طور اور طریق سے خدا تعالیٰ نے چاہا اسی طور سے کیا میرا اس میں دخل نہیں.ہاں یہ سوال کہ ایسی پیشگوئی مفید نہیں ہوگی اور اس میں شبہات باقی رہ جائیں گے اس اعتراض کی نسبت میں خوب سمجھتا ہوں کہ یہ پیش از وقت ہے.میں اس بات کا خود اقراری ہوں اور اب پھر اقرار کرتا ہوں کہ اگر جیسا کہ معترضوں نے خیال فرمایا ہے پیشگوئی کا ماحصل آخرکار

Page 51

یہی نکلا کہ کوئی معمولی تپ آیا یا معمولی طور پر کوئی درد ہوا یا ہیضہ ہوا اور پھر اصلی حالت صحت کی قائم ہوگئی تو وہ پیشگوئی متصور نہیں ہوگی اور بلاشبہ ایک مکر اور فریب ہوگا.کیونکہ ایسی بیماریوں سے تو کوئی بھی خالی نہیں.ہم سب کبھی نہ کبھی بیمار ہو جاتے ہیں.پس اس صورت میں میں بلاشبہ اس سزاکے لائق ٹھہروں گا جس کا ذکر میں نے کیا ہے.لیکن اگر پیشگوئی کا ظہور اس طور سے ہوا کہ جس میں قہر الٰہی کے نشان صاف صاف اور کھلے طور پر دکھائی دیں تو پھر سمجھو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.اصل حقیقت یہ ہے کہ پیشگوئی کی ذاتی عظمت اور ہیبت دنوں اور وقتوں کے مقرر کرنے کی محتاج نہیں.اس بارے میں تو زمانہ نزول عذاب کی ایک حد مقرر کر دینا کافی ہے.پھر اگر پیشگوئی فی الواقعہ ایک عظیم الشان ہیبت کے ساتھ ظہور پذیر ہو تو وہ خود دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور یہ سارے خیالات اور یہ تمام نکتہ چینیاں جو پیش از وقت دلوں میں پیدا ہوتی ہیں ایسی معدوم ہو جاتی ہیں کہ منصف مزاج اہل الرائے ایک انفعال کے ساتھ اپنی رایوں سے رجوع کرتے ہیں.ماسوا اس کے یہ عاجز بھی تو قانون قدرت کے تحت میں ہے.اگر میری طرف سے بنیاد اس پیشگوئی کی صرف اسی قدر ہے کہ میں نے صرف یاوہ گوئی کے طور پر چند احتمالی بیماریوں کو ذہن میں رکھ کر اور اٹکل سے کام لے کر یہ پیشگوئی شائع کی ہے تو جس شخص کی نسبت یہ پیشگوئی ہے وہ بھی تو ایسا کر سکتا ہے کہ انہیں اٹکلوں کی بنیاد پر میری نسبت کوئی پیشگوئی کردے.بلکہ میں راضی ہوں کہ بجائے چھ برس کے جو میں نے اس کے حق میں میعاد مقرر کی ہے وہ میرے لئے دس۰۱ لکھ دے.لیکھرام کی عمر اس وقت شاید زیادہ سے زیادہ تیس برس کی ہوگی اور وہ ایک جوان قوی ہیکل عمدہ صحت کا آدمی ہے اور اس عاجز کی عمر اس وقت پچاس برس سے کچھ زیادہ ہے اور ضعیف اور دائم المرض اور طرح طرح کے عوارض میں مبتلا ہے.پھر باوجود اس کے مقابلہ میں خود معلوم ہو جائے گا کہ کونسی بات انسان کی طرف سے ہے اور کونسی بات خدا تعالیٰ کی طرف سے.اور معترض کا یہ کہنا کہ ایسی پیشگوئیوں کا اب زمانہ نہیں ہے ایک معمولی فقرہ ہے

Page 52

جو اکثر لوگ منہ سے بول دیا کرتے ہیں.میری دانست میں تو مضبوط اور کامل صداقتوں کے قبول کرنے کے لئے یہ ایک ایسا زمانہ ہے کہ شاید اس کی نظیر پہلے زمانوں میں کوئی بھی مل نہ سکے.ہاں اس زمانہ سے کوئی فریب اور مکر مخفی نہیں رہ سکتا.مگر یہ تو راستبازوں کیلئے اور بھی خوشی کا مقام ہے کیونکہ جو شخص فریب اور سچ میں فرق کرنا جانتا ہے وہی سچائی کی دل سے عزت کرتا ہے اور بخوشی اور دوڑ کر سچائی کو قبول کرلیتا ہے.اور سچائی میں کچھ ایسی کشش ہوتی ہے کہ وہ آپ قبول کرالیتی ہے.ظاہر ہے کہ زمانہ صدہا ایسی نئی باتوں کو قبول کرتا جاتا ہے جو لوگوں کے باپ دادوں نے قبول نہیں کی تھیں.اگر زمانہ صداقتوں کا پیاسا نہیں تو پھر کیوں ایک عظیم الشان انقلاب اس میں شروع ہے.زمانہ بیشک حقیقی صداقتوں کا دوست ہے نہ دشمن.اور یہ کہنا کہ زمانہ عقلمند ہے اور سیدھے سادھے لوگوں کا وقت گذر گیا ہے.یہ دوسرے لفظوں میں زمانہ کی مذمت ہے.گویا یہ زمانہ ایک ایسا بد زمانہ ہے کہ سچائی کو واقعی طور پر سچائی پاکر پھر اس کو قبول نہیں کرتا.لیکن میں ہرگز قبول نہیں کروں گا کہ فی الواقع ایسا ہی ہے.کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ زیادہ تر میری طرف رجوع کرنے والے اور مجھ سے فائدہ اٹھانے والے وہی لوگ ہیں جو نو تعلیم یافتہ ہیں جو بعض ان میں سے بی اے اور ایم اے تک پہنچے ہوئے ہیں اور میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ یہ نو تعلیم یافتہ لوگوں کا گروہ صداقتوں کو بڑے شوق سے قبول کرتا جاتا ہے اور صرف اسی قدر نہیں بلکہ ایک نومسلم اور تعلیم یافتہ یوریشین انگریزوں کا گروہ جن کی سکونت مدراس کے احاطہ میں ہے ہماری جماعت میں شامل اور تمام صداقتوں پر یقین رکھتے ہیں.اب میں خیال کرتا ہوں کہ میں نے وہ تمام باتیں لکھ دی ہیں جو ایک خدا ترس آدمی کے سمجھنے کیلئے کافی ہیں.آریوں کا اختیار ہے کہ میرے اس مضمون پر بھی اپنی طرف سے جس طرح چاہیں حاشیے چڑھائیں مجھے اس بات پر کچھ بھی نظر نہیں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اس وقت اس پیشگوئی کی تعریف کرنا یا مذمت کرنا دونوں برابر ہیں.اگر یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور میں خوب جانتا ہوں کہ اسی کی طرف سے ہے تو ضرور ہیبت ناک نشان کے ساتھ اس کا وقوعہ ہوگا اور دلوں کو ہلا دے گا.اور اگر اس کی طرف سے نہیں

Page 53

تو پھر میری ذلت ظاہر ہوگی اور اگر میں اس وقت رکیک تاویلیں کروں گا تو یہ اور بھی ذلت کا موجب ہوگا.وہ ہستی قدیم اور وہ پاک و قدوس جو تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے وہ کاذب کو کبھی عزت نہیں دیتا.یہ بالکل غلط بات ہے کہ لیکھرام سے مجھ کو کوئی ذاتی عداوت ہے.مجھ کو ذاتی طور پر کسی سے بھی عداوت نہیں بلکہ اس شخص نے سچائی سے دشمنی کی اور ایک ایسے کامل اور مقدس کو جو تمام سچائیوں کا چشمہ تھا` توہین سے یاد کیا.اس لئے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اپنے ایک پیارے کی دنیا میں عزت ظاہر کرے.والسّلام علیٰ من اتّبع الہدیٰ.لیکھرام پشاوری کی نسبت ایک اور خبر (مندرجہ حاشیہ ٹائٹل پیج برکات الدعا) آج جو ۲؍ اپریل ۱۸۹۳ء مطابق ۱۴ ماہ رمضان ۱۳۱۰ھ ہے صبح کے وقت تھوڑی سی غنودگی کی حالت میں میں نے دیکھا کہ میں ایک وسیع مکان میں بیٹھا ہوا ہوں اور چند دوست بھی میرے پاس موجود ہیں.اتنے میں ایک شخص قوی ہیکل مہیب شکل گویا اس کے چہرہ پر سے خون ٹپکتا ہے میرے سامنے آکر کھڑا ہوگیا.میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک نئی خلقت اور شمائل کا شخص ہے گویا انسان نہیں ملائک شداد غلاظ میں سے ہے.اور اس کی ہیبت دلوں پر طاری تھی اور میں اس کو دیکھتا ہی تھا کہ اس نے مجھ سے پوچھا کہ ’’لیکھرام کہاں ہے‘‘ اور ایک اور شخص کا نام لیا کہ وہ کہاں ہے؟ تب میں نے اس وقت سمجھا کہ یہ شخص لیکھرام اور اس دوسرے شخص کی سزا دہی کے لئے مامور کیا گیا ہے.مگر مجھے معلوم نہیں رہا کہ وہ دوسرا شخص کون ہے.ہاں یہ یقینی طور پر یاد رہا ہے کہ وہ دوسرا شخص انہیں چند آدمیوں سے تھا جن کی نسبت میں اشتہار دے چکا ہوں.اور یہ یکشنبہ کا دن اور ۴ بجے صبح کا وقت تھا.فالحمد للّٰہ علٰی ذالک.

Page 54

لیکھرا م کی نسبت آریوں کے خیالات اس کے قتل کئے جانے کے بعد اخبار عام مطبوعہ چہار شنبہ ۱۰؍ مارچ ۱۸۹۷ء میں میری نسبت اشارہ کر کے یہ لکھا ہے کہ ’’ایک عیسائی ڈپٹی صاحب کی نسبت پیشگوئی فوت ہونے کی در عرصہ ایک سال مشتہر کی گئی تھی اور اخباروں میں اس کی چرچا تھی.اور خدانخواستہ ان ایام میں اگر ڈپٹی صاحب کے ساتھ ایسا واقعہ ہو جاتا (یعنی قتل کا واقعہ) جس کا خمیازہ لیکھرام صاحب کو بھگتنا پڑا ہے تب اور صورت تھی‘‘.اب ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ ایڈیٹر صاحب کی اس تقریر کا کیا مطلب ہے.بس یہی مطلب ہے کہ اگر ڈپٹی آتھم صاحب قتل ہو جاتے تو ایڈیٹر صاحب کے خیال میں گورنمنٹ کو پیشگوئی کرنے والے کی نسبت فی الفور توجہ پیدا ہوتی اور وہ تفتیش ہوتی جو اب نہیں ہے.غالباً اس تقریر سے ایڈیٹر صاحب کی کوئی نیت نیک ہوگی مگر چونکہ وہ ایک سطحی خیال اور خلاف واقعہ سمجھ کا ایک داغ ساتھ رکھتی ہے اس لئے افسوس کی جگہ ہے.ایڈیٹر صاحب کی تقریر سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آتھم کی نسبت پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.لیکن ہم مختصر طور پر یاد دلاتے ہیں کہ وہ پیشگوئی بڑی صفائی سے پوری ہوئی.آتھم صاحب میرے ایک پرانے ملاقاتی تھے.انہوں نے ایک مرتبہ زبانی اور ایک خاص رقعہ کے ذریعہ سے بھی الحاح کیا تھا کہ اگر میری نسبت کوئی پیشگوئی ہو اور وہ سچی نکلی تو میں کسی قدر اپنی اصلاح کروں گا.سو خدا نے ان کی نسبت یہ پیشگوئی ظاہر کی کہ وہ پندرہ مہینے کے عرصہ میں ہاویہ میں گریں گے مگر اس شرط سے کہ اس عرصہ میں حق کی طرف انہوں نے رجوع نہ کیا ہو پس چونکہ خدا کی پیشگوئی میں ایک شرط تھی اور آتھم صاحب خوفناک ہوکر اس شرط کے پابند ہوگئے تھے پس ضرور تھا کہ وہ اس شرط سے فائدہ اٹھاتے.کیونکہ ممکن نہیں کہ خدا کی شرط پر کوئی عمل کر کے پھر اس سے نفع نہ اٹھائے.لہٰذا شرط کی تاثیر سے ان کی موت میں کسی قدر تاخیر ہوگئی.اگر کہو کہ اس کا کیا ثبوت ہے کہ دل میں انہوں نے اسلام کی طرف رجوع کرلیا تھا‘ یا ان پر اسلامی پیشگوئی کا خوف غالب آگیا تھا تو جواب اس کا یہ ہے کہ جب خدا نے مجھے اطلاع دی

Page 55

کہ آتھم نے شرط سے فائدہ اٹھایا ہے اور اس کی موت میں ہم نے کچھ تاخیر ڈال دی تو میں نے آتھم صاحب کو چار ہزار روپیہ کے انعام پر قسم کھانے کیلئے بلایا کہ اگر درپردہ اسلام کی طرف رجوع نہیں کیا یا اسلامی ہیبت ان کے دل پر طاری نہیں ہوئی تو چاہئے کہ میدان میں آکر قسم کھائیں.یا اگر قسم نہیں تو نالش کر کے اپنے اس خوف کے وجوہ کو جس کا ان کو اقرار ہے بپایہ اثبات پہنچاویں.مگر انہوں نے نہ قسم کھائی نہ نالش کی` باوجودیکہ ان کو صاف اقرار تھا کہ میں میعاد پیشگوئی کے اندر ڈرتا رہا.مگر اسلامی ہیبت سے نہیں بلکہ تعلیم یافتہ سانپ اور حملوں وغیرہ سے.اور چونکہ وہ خوف کو چھپا نہ سکے اس لئے یہ بہانے بنائے اور ثبوت کچھ نہ دیا اور اسی وجہ سے ان کو قسم کی طرف بلایا گیا تھا.تا اگر وہ سچے ہیں تو قسم کھالیں مگر باوجود چار ہزار روپیہ نقد دینے کے قسم نہ کھائی.نہ نالش سے اپنے ان بہتانوں کو ثابت کیا.یہاں تک کہ قبر میں داخل ہوگئے.میرے الہام میں یہ بھی تھا کہ اگر آتھم سچی گواہی نہیں دے گا اور نہ قسم کھائے گا تب بھی اصرار کے بعد جلد مرے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور آتھم صاحب میرے آخری اشتہار سے سات مہینے کے اندر مرگئے.اور عجیب تر یہ کہ ان کے اس تمام قصہ کی بارہ برس قبل از وقوع براہین احمدیہ کے الہامات میں خبر موجود ہے.دیکھو صفحہ ۲۴۱ براہین احمدیہ.پھر ایسی صاف اور روشن پیشگوئی کی نسبت یہ گمان کرنا کہ وہ پوری نہیں ہوئی کس قدر انصاف کا خون کرنا ہے.کیا آتھم صاحب کی اس پیشگوئی میں کوئی شرط نہیں تھی؟ اور اگر تھی تو کیا آتھم صاحب نے اپنے اقوال اور افعال سے اس شرط کا پورا ہونا ثابت نہیں کیا؟ کیا آتھم صاحب میرے اس الزام کو قبر میں ساتھ نہیں لے گئے کہ انہوں نے خوف کا اقرار کر کے پھر یہ ثابت کر کے نہ دکھلایا کہ وہ خوف کسی تعلیم یافتہ سانپ وغیرہ حملوں کی وجہ سے تھا نہ اسلامی پیشگوئی کے رعب کی وجہ سے.وہ ہمیشہ مباحثات کیا کرتے تھے مگر پیشگوئی کے بعد ایسے چپ ہوئے کہ چپ ہونے کی حالت میں ہی گذرگئے.پس پیشگوئی تین طور سے پوری ہوئی اول اپنی شرط کی رو سے کہ شرط پر عمل کرنے سے اس کا فائدہ آتھم کو دیا گیا.دوم اخفائے شہادت کے بعد جو وعدہ موت تھا اس وعدہ

Page 56

کے رو سے.سوم براہین احمدیہ کے اس الہام کے رو سے جو اس واقعہ سے بارہ برس پہلے ہو چکا تھا اب سوچو کہ اس سے بڑھ کر اگر کسی پیشگوئی میں صفائی ہوگی تو اور کیا ہوگی.اگر کوئی سچائی کو چھوڑ کر باتیں بناوے تو ہم اس کا منہ بند نہیں کر سکتے.لیکن آتھم کی نسبت جو الہام کے الفاظ ہیں وہ ایسے صاف ہیں کہ ایک حق کے طالب کو بجز ان کے ماننے کے کچھ بن نہیں پڑتا.اور براہین احمدیہ کا الہام جو آتھم صاحب کی نسبت ہے جو بارہ برس پہلے اس پیشگوئی سے تقریباً تمام اسلامی دنیا میں شائع ہو چکا ہے اس پر غور کرنے والے تو سجدہ میں گریں گے کہ کیسا عالم الغیب خدا ہے جس نے پہلے سے ان تمام آئندہ واقعات اور جھگڑوں کی خبر دے دی.چونکہ اکثر اہل دنیا کو آج کل اس برترہستی پر ایمان نہیں ہے اس لئے ان کے خیالات بہ نسبت اس کے کہ نیک ظنی کی طرف جائیں بدظنی کی طرف زیادہ جاتے ہیں.یہ بالکل غلطی ہے کہ گورنمنٹ نے لیکھرام کے مقدمہ میں سُستی کی ہے اور آتھم کے مقدمہ میں اگر وہ قتل ہو جاتا تو سُستی نہ کرتی.ہم کہتے ہیں کہ بیشک یہ گورنمنٹ کا فرض ہے کہ ہندو اور مسلمانوں کو دونوں آنکھوں کی طرح برابر دیکھے.کسی کی رعایت نہ کرے جیسا کہ فی الواقعہ یہ عادل گورنمنٹ ایسا ہی کر رہی ہے.لیکن میں پوچھتا ہوں کہ کیا کوئی گورنمنٹ خدا سے بھی لڑ سکتی ہے.بیشک گورنمنٹ کا فرض ہے کہ کسی نابکار خونی کو پکڑے اس کو پھانسی دے اور بدتر سے بدتر سزا کے ساتھ اس کو تنبیہ کرے تا دوسرے عبرت پکڑیں اور ملک میں امن قائم رہے.اگر آتھم قتل ہو جاتا تو بیشک وہ شخص پھانسی ملتا جو آتھم کا قاتل ہوتا.اسی طرح جب ثابت ہوگا کہ لیکھرام کا فلاں شخص قاتل ہے اور وہ گرفتار ہوگا تو ایسا ہی وہ بھی پھانسی ملے گا.گورنمنٹ کا اس میں کیا قصور ہے؟ اور کونسی سُستی؟ کس قاتل کو آریہ صاحب کس ثبوت کے ساتھ گرفتار کرانا چاہتے ہیں جس کے پکڑنے میں گورنمنٹ متأمّل ہے؟ لیکن گورنمنٹ خدا کی پیشگوئیوں میں دخل نہیں دے سکتی.جس قدر گورنمنٹ اس کی طرف توجہ کرے گی اسی قدر ان پیشگوئیوں کو آسمانی اور بے لوث اور پاک پائے گی.آخر یہ گورنمنٹ اہل کتاب ہے اور اس خدا سے منکر نہیں ہے جو پوشیدہ بھیدوں کو جانتا ہے اور آنے والے زمانہ کی ایسے

Page 57

طور سے خبر دے سکتا ہے کہ گویا وہ موجود ہے.کیا چھ سال کی میعاد بیان کرنا اور عید کے دوسرے دن کا پتہ دینا اور صورت موت بیان کر دینا یہ خدا سے ہونا محال ہے؟ اگر خدا سے محال ہے تو ان قیدوں کے ساتھ انسان کی اپنی پیشگوئی کیونکر ممکن ہے.کیا دور دراز عرصہ سے ایسی صحیح خبریں دینا انسان کا کام ہے؟ اگر ہے تو اس کی دنیا میں کوئی نظیر پیش کرو.گورنمنٹ کو یہ فخر ہونا چاہئے کہ اس ملک میں اور اس کے زمانہ بادشاہت میں خدا اپنے بعض بندوں سے وہ تعلق پیدا کر رہا ہے کہ جو قصوں اور کہانیوں کے طور پر کتابوں میں لکھا ہوا ہے.اس ملک پر یہ رحمت ہے کہ آسمان زمین سے نزدیک ہوگیا ہے.ورنہ دوسرے ملکوں میں اس کی نظیر نہیں! یہ بھی ظاہر کر دینا ضروری ہے کہ مختلف مقامات پنجاب سے کئی خط میرے پاس پہنچے ہیں جن میں بعض آریہ صاحبوں کے جوشوں اور نامناسب منصوبوں کا تذکرہ ہے.میرے پاس وہ خط بحفاظت موجود ہیں.اور اس جگہ کے بعض آریہ کو میں نے وہ خط دکھلا دئیے ہیں.چنانچہ ایک خط جو گوجرانوالہ سے ایک معزز اور رئیس کا مجھ کو پہنچا ہے اس کا مضمون یہ ہے کہ ’’اس جگہ دو دن تک جلسہ ماتم لیکھرام ہوتا رہا اور قاتل کے گرفتار کنندہ کے لئے ہزار روپیہ انعام قرار پایا ہے اور دو سو اس کے لئے جو نشان دہی کرے.اور خارجاً سنا گیا ہے کہ ایک خفیہ انجمن آپ کے قتل کے لئے منعقد ہوئی ہے.* اور اس انجمن کے ممبر قریب قریب شہروں کے لوگ (جیسے لاہور، امرتسر، بٹالہ اور خاص گوجرانوالہ کے ہیں) منتخب ہوئے ہیں.اور تجویز یہ ہے کہ بیس ہزار روپیہ چندہ ہوکر کسی شریر طامع کو اس کام کیلئے مامور کریں تا وہ موقعہ پاکر قتل کردے.**چنانچہ دوہزار روپیہ تک چندہ کا بندوبست ہو بھی گیا ہے.باقی دوسرے شہروں اور دیہات سے وصول کیا جائے گا‘‘.پھر بعد اس کے یہی خبر اجمالًاپیسہ اخبار میں بھی لکھی ہے.منہ براہین احمدیہ کا وہ الہام یعنی یا عیسٰی انّی متوفیک جو سترہ برس سے شائع ہو چکا ہے اس کے اس وقت خوب معنے کھلے یعنی یہ الہام حضرت عیسیٰ کو اس وقت بطور تسلی ہوا تھا جب یہود ان کے مصلوب کرنے کے لئے کوشش کر رہے تھے.اور اس جگہ بجائے یہود ہنود کوشش کر رہے ہیں اور الہام کے یہ معنے ہیں کہ میں تجھے ایسی ذلیل اور لعنتی موتوں سے بچاؤں گا.دیکھو اس واقعہ نے عیسیٰ کا نام اس عاجز پر کیسے چسپاں کر دیا ہے.منہ

Page 58

صاحب راقم لکھتے ہیں کہ ’’اگرچہ آپ حافظ حقیقی کی حمایت میں ہیں تاہم رعایت اسباب ضروری ہے.اور میرے نزدیک ایسے وقت میں شریر مسلمانوں سے بھی پرہیز لازم ہے کیونکہ وہ طامع اور بدباطن ہیں.کچھ تعجب نہیں کہ وہ بظاہر بیعت میں داخل ہو کر آریوں کی طمع دہی ہے اس کام کے لئے جرأت کریں‘‘.پھر صاحب راقم لکھتے ہیں کہ ’’مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس مشورہ قتل کے سرگروہ اس شہر کے بعض وکیل اور چند عہدہ دار سرکاری اور بعض آریہ رئیس و سرکردگان لاہور کے ہیں.جس قدر مجھے خبر پہنچی ہے میں نے عرض کر دیا واللّٰہ اعلم‘‘.اور اسی کا مصدق ایک خط پنڈ دادنخان سے اور کئی اور جگہ سے پہنچے ہیں اور مضمون قریب قریب ہے.یہ سب خط محفوظ ہیں.اور جس جوش کو بعض آریہ صاحبوں کے اخبار نے ظاہر کیا ہے وہ بتلا رہا ہے کہ ایسے جوش کے وقت یہ خیالات بعید نہیں ہیں.چنانچہ ضمیمہ اخبار پنجاب سماچار لاہور میں میری نسبت یہ چند سطریں لکھی ہیں.’’ایک حضرت نے شاید اپنی مصنفہ کتاب موعود مسیحی میں یہ پیشگوئی بھی کی کہ پنڈت لیکھرام چھ سال کے عرصہ میں عید کے دن نہایت دردناک حالت میں مرے گا.یہ پیشگوئی اب قریب تھی کیونکہ غالباً ۱۸۹۷ء چھٹا سال تھا اور ۵؍ مارچ ۱۸۹۷ء آخری عید چھٹے سال کی تھی.علانیہ بذریعہ تحریر و تقریر کہا کرتے تھے کہ پنڈت کو مار ڈالیں گے.اور مزید براں یہ کہ پنڈت اس عرصہ میں اور فلاں دن میں ایک دردناک حالت میں مرے گا.کیا آریہ دھرم کے اس مخالف اور چند ایک کتب کے ایک خاص مصنف کو (یعنی اس عاجز کو) اس سازش سے کوئی تعلق نہیں ہے؟‘‘ اس اخبار والے نے اور ایسا ہی دوسروں نے اس پیشگوئی سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ ایک منصوبہ تھا جو پیشگوئی کے طور پر مشہور کیا گیا.جیسا کہ وہ اسی اخبار کے دوسرے صفحہ میں لکھتا ہے کہ ’’یہ قتل کئی ایک اشخاص کی مدت کی سوچی اور سمجھی ہوئی اور پختہ سازش کا نتیجہ ہے‘‘.ہم اس بات کو خود مانتے اور قبول کرتے ہیں کہ پیشگوئی کی تشریح میں بار بار تفہیم الٰہی سے یہی لکھا گیا تھا کہ وہ ہیبت ناک طور پر ظہور میں آئے گی.اور نیز یہ کہ لیکھرام کی موت کسی بیماری سے نہیں ہوگی بلکہ خدا کسی ایسے کو اس پر مسلط کرے گا جس کی آنکھوں سے خون ٹپکتا ہوگا.مگر جو پنجاب

Page 59

سماچار دہم مارچ ۱۸۹۷ء میں الہام کے حوالہ سے عید کا دن لکھا ہے یہ اس کی غلطی ہے الہام کی عبارت یہ ہے ستعرف یوم العید والعید اقرب یعنی تو اس نشان کے دن کو جو عید کی مانند ہے پہچان لے گا اور عید اس نشان کے دن سے بہت قریب ہوگی.یہ خدا نے خبر دی ہے کہ عید کا دن قتل کے دن کے ساتھ ملا ہوا ہوگا.اور ایسا ہی ہوا.عید جمعہ کو ہوئی اور شنبہ کو جو شوال ۱۳۱۴ھ کی دوسری تاریخ تھی لیکھرام قتل ہوگیا.سو اس تمام پیشگوئی کا ماحصل یہ ہے کہ یہ ایک ہیبت ناک واقعہ ہوگا جو چھ سال کے اندر اندر وقوع میں آئے گا.اور وہ دن عید کے دن سے ملا ہوا ہوگا یعنی دوسری شوال کی ہوگی.اب سوچو کیا یہ انسان کا کام ہے کہ تاریخ بتلائی گئی.دن بتلایا گیا.سبب موت بتلایا گیا.اور اس حادثہ کا وقوعہ ہیبت ناک طرز سے ظہور میں آنا بتلایا گیا.اس کا تمام نقشہ برکات الدعا کے مضمون میں کھینچ کر دکھلایا گیا.کیا یہ کسی منصوبہ باز کا کام ہو سکتا ہے کہ چھ برس پہلے ایسے صریح نشانوں کے ساتھ خبر دیدے اور وہ خبر پوری ہو جائے.توریت گواہی دیتی ہے کہ جھوٹے نبی کی پیشگوئی کبھی پوری نہیں ہو سکتی.خدا اس کے مقابل پر کھڑا ہو جاتا ہے تا دنیا تباہ نہ ہو جیسا کہ لیکھرام نے بھی ایک دنیوی چالاکی سے انہیں دنوں میں میری نسبت یہ اشتہار دیا تھا کہ تم تین برس کے عرصہ تک مر جاؤ گے.پس کیوں وہ کسی قاتل سے سازش نہ کرسکا تا اس کی بات پوری ہوتی.ایک اور بات سوچنے کے لائق ہے کہ یہ بدگمانی کہ ان کے کسی مرید نے مار دیا ہوگا یہ شیطانی خیال ہے.ہریک دانا سمجھ سکتا ہے کہ مریدوں کا مرشد کے ساتھ ایک نازک تعلق ہوتا ہے اور اعتقاد کی بنا تقویٰ اور طہارت اور نیکوکاری پر ہوتی ہے.لوگ جو کسی کے مرید ہوتے ہیں وہ اسی نیت سے مرید ہوتے ہیں کہ وہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ شخص باخدا ہے اس کے دل میں کوئی فریب اور فساد کی بات نہیں.پس اگر وہ ایک ایسا بدکار اور لعنتی شخص ہے کہ کسی کی موت کی جھوٹی پیشگوئی اپنی طرف سے بناتا ہے اور پھر جب اس کی میعاد ختم ہونے پر ہوتی ہے تو کسی مرید کے آگے ہاتھ جوڑتا ہے کہ اب میری عزت

Page 60

رکھ لے اور اپنے گلے میں رسہ ڈال اور مجھے سچا کر کے دکھلا.اب میں منصفوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا ایسے پلید اور لعنتی انسان کا یہ چال چلن دیکھ کر اور یہ شیطانی منصوبہ سن کر کوئی مرید اس کا معتقد رہ سکتا ہے کیا وہ مرشد کو ایک بدکار ملعون اور فاسق فاجر خیال نہیں کرے گا؟ اور کیا وہ اس کو یہ نہیں کہے گا کہ اے بدکار ہمارے ایمان کو خراب کرنے والے کیا تیری پیشگوئیوں کی اصلیت یہی تھی.کیا تیرا یہ منشاء ہے کہ جھوٹ تو تو بولے اور رسّہ دوسرے کے گلے میں پڑے اور اس طرح تیری پیشگوئی پوری ہو.جس قدر دنیا میں نبی اور مرسل گذرے ہیں یا آگے مامور اور محدث ہوں کوئی شخص ان کے مریدوں میں اس حالت میں داخل نہیں ہو سکتا تھا اور نہ ہوگا جبکہ ان کو مکار اور منصوبہ باز سمجھتا ہو.یہ رشتہ پیری مریدی نہایت ہی نازک رشتہ ہے.ادنیٰ بدظنی سے اس میں فرق آجاتا ہے.میں نے ایک دفعہ اپنے مریدوں کی جماعت میں دیکھا کہ بعض ان میں سے صرف اس وجہ سے میری نسبت شبہ میں پڑ گئے کہ میں نے ایک عذر بیماری سے جس کی انہیں اطلاع نہیں تھی نماز کے قعدہ التحیات میں دہنے پیر کو کھڑا نہیں رکھا تھا.اتنی بات میں دو آدمی باتیں بنانے لگے اور شبہات میں پڑ گئے کہ یہ خلاف سنت ہے.ایک مرتبہ چائے کی پیالی بائیں ہاتھ سے میں نے پکڑی کیونکہ میرے دہنے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹی ہوئی اور کمزور ہے.اسی پر بعض نے نکتہ چینی کی کہ خلاف سنت ہے.اور ہمیشہ ایسا ہوتا رہتا ہے کہ بعض نو مرید ادنیٰ ادنیٰ باتوں پر اپنی نا فہمی سے ابتلا میں پڑ جاتے ہیں اور ادنیٰ ادنیٰ خانگی امور تک نکتہ چینیاں شروع کر دیتے ہیں.جیسا کہ حضرت موسیٰ کو بھی اسی طرح تکلیف دیتے تھے.کیونکہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے کہ اس کے پیرو ہر ایک انسان کے قول و فعل کو راستبازی اور تقویٰ کے پیمانہ سے ناپتے ہیں.اور اگر اس کے مخالف پاتے ہیں تو پھر فی الفور اس سے الگ ہو جاتے ہیں.سو سوچنا چاہئے کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایسے لوگ اس بدمعاش شخص کے ساتھ وفا کر سکیں جس کا تمام کاروبار مکروں اور منصوبوں سے بھرا ہوا ہے.اور لوگوں کو ناحق کے خون کرنے کے لئے مامور کرنا چاہتا ہے تا اس کا ناک نہ کٹے اور پیشگوئی پوری ہو.کوئی انسان

Page 61

عمداً اپنے ایمان کو برباد کرنا نہیں چاہتا.پھر اگر ایسی سازش میں بفرض محال کوئی مرید شریک ہو تو تمام مریدوں میں یہ بات کیونکر پوشیدہ رہ سکتی ہے.اور ظاہر ہے کہ ہماری جماعت میں بڑے بڑے معزز داخل ہیں بی اے.اور ایم اے اور تحصیلدار اور ڈپٹی کلکٹراور اکسٹرا اسسٹنٹ اور بڑے بڑے تاجر.اور ایک جماعت علماء و فضلاء.تو کیا یہ تمام لچّوں اور بدمعاشوں کا گروہ ہے؟ ہم بآواز بلند کہتے ہیں کہ ہماری جماعت نہایت نیک چلن اور مہذب اور پرہیزگار لوگ ہیں.کہاں ہے کوئی ایسا پلید اور لعنتی ہمارا مرید جس کا یہ دعویٰ ہو کہ ہم نے اس کو لیکھرام کے قتل کے لئے مامور کیا تھا؟ ہم ایسے مرشد کو اور ساتھ ہی ایسے مرید کو کتوں سے بدتر اور نہایت ناپاک زندگی والا خیال کرتے ہیں کہ جو اپنے گھر سے پیشگوئیاں بنا کر پھر اپنے ہاتھ سے اپنے مکر سے اپنے فریب سے ان کے پورے ہونے کے لئے کوشش کرے اور کراوے.پس افسوس کہ اخبار پنجاب سماچار مطبوعہ ۱۰؍ مارچ میں سازش کا الزام جو ہم پر لگایا ہے یہ کس قدر سچائی کا خون ہے.میں صاحب اخبار سے پوچھتا ہوں کہ آپ لوگوں میں بھی بڑے بڑے اوتار گذرے ہیں.جیسے راجہ رام چندر صاحب اور راجہ کرشن صاحب.کیا آپ لوگ ان کی نسبت یہ گمان کر سکتے ہیں کہ انہوں نے پیشگوئی کر کے پھر اپنی عزت رکھنے کے لئے ایسا حیلہ کیا ہو کہ کسی اپنے چیلہ کی منت خوشامد کی ہو کہ اس کو اپنی کوشش سے پوری کر کے میری عزت رکھ لے اور پھر ان کے چیلے ان کو اچھا آدمی سمجھتے ہوں.ہاں یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایک بدمعاش ڈاکو کے ساتھ اور چند بدمعاش جمع ہوں اور ایسے کام خفیہ طور پر کریں.لیکن اس میرے مریدوں کے سلسلے میں جس کے ساتھ مہدی موعود اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ بھی بڑے زور سے ہے یہ حرامزدگی کے کام میلان نہیں کھا سکتے.ہر ایک مرید اس بلند دعویٰ کو دیکھ کر نہایت اعلیٰ سے اعلیٰ پرہیزگاری کا نمونہ دیکھنا چاہتا ہے.پس کیونکر ممکن ہے کہ دعویٰ تو یہ ہو کہ میں وقت کا عیسیٰ ہوں اور جھوٹی پیشگوئیوں کو اس طرح پر پورا کرنا چاہے کہ مریدوں کے آگے ہاتھ جوڑے کہ مجھ سے قصور ہوگیا میری پردہ پوشی کرو جاؤ آپ مرو اور کسی طرح میری پیشگوئی سچی کرو.کیا ایسا مردار ایک پاک جماعت

Page 62

کا مالک ہو سکتا ہے؟ کہاں ہے تمہارا پاک کانشنس اے مہذب آریو!؟ اور کہاں ہے فطرتی زیرکی اے آریہ کے دانشمندو! ہمارا یہ اصول ہے کہ کل بنی نوع کی ہمدردی کرو.اگر ایک شخص ایک ہمسایہ ہندو کو دیکھتا ہے کہ اس کے گھر میں آگ لگ گئی اور یہ نہیں اٹھتا کہ تا آگ بجھانے میں مدد دے تو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ مجھ سے نہیں ہے.اگر ایک شخص ہمارے مریدوں میں سے دیکھتا ہے کہ ایک عیسائی کو کوئی قتل کرتا ہے اور وہ اس کے چھڑانے کیلئے مدد نہیں کرتا تو میں تمہیں بالکل درست کہتا ہوں کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے.اسلام اس قوم کے بدمعاشوں کا ذمہ دار نہیں ہے.بعض ایک ایک روپیہ کی لالچ پر بچوں کا خون کر دیتے ہیں.ایسی وارداتیں اکثر نفسانی اغراض سے ہوا کرتی ہیں اور پھر بالخصوص ہماری جماعت جو نیکی اور پرہیزگاری سیکھنے کیلئے میرے پاس جمع ہے وہ اس لئے میرے پاس نہیں آتے کہ ڈاکوؤں کا کام مجھ سے سیکھیں اور اپنے ایمان کو برباد کریں میں حلفاًکہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں کہ مجھے کسی قوم سے دشمنی نہیں.ہاں جہاں تک ممکن ہے ان کے عقائد کی اصلاح چاہتا ہوں.اور اگر کوئی گالیاں دے تو ہمارا شکوہ خدا کی جناب میں ہے نہ کسی اور عدالت میں.اور باایں ہمہ نوع انسان کی ہمدردی ہمارا حق ہے.ہم اس وقت کیونکر اور کن الفاظ سے آریہ صاحبوں کے دلوں کو تسلی دیں کہ بدمعاشی کی چالیں ہمارا طریق نہیں ہیں.ایک انسان کی جان جانے سے تو ہم دردمند ہیں اور خدا کی ایک پیشگوئی پوری ہونے سے ہم خوش بھی ہیں.کیوں خوش ہیں؟ صرف قوموں کی بھلائی کیلئے.کاش وہ سوچیں اور سمجھیں کہ اس اعلیٰ درجہ کی صفائی کے ساتھ کئی برس پہلے خبر دینا یہ انسان کا کام نہیں ہے.ہمارے دل کی اس وقت عجیب حالت ہے.درد بھی ہے اور خوشی بھی.درد اس لئے کہ اگر لیکھرام رجوع کرتا زیادہ نہیں تو اتنا ہی کرتا کہ وہ بدزبانیوں سے باز آجاتا تو مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں اس کیلئے دعا کرتا.اور میں امید رکھتا تھا کہ اگر وہ ٹکڑے ٹکڑے بھی کیا جاتا تب بھی زندہ ہوجاتا.وہ خدا جس کو میں جانتا ہوں اس سے کوئی بات انہونی نہیں اور خوشی اس بات کی ہے کہ پیشگوئی نہایت صفائی سے پوری ہوئی.آتھم کی پیشگوئی پر بھی اس نے دوبارہ روشنی ڈال دی.کاش اب لوگ سوچیں اور سمجھیں

Page 63

اور قوموں کے درمیان سے بغض اور کینے دور ہو جائیں.کیونکہ عداوت اور دشمنی کی زندگی مرنے کے قریب قریب ہے.اور اگر اب بھی کسی شک کرنے والے کا شک دور نہیں ہو سکتا.اور مجھے اس قتل کی سازش میں شریک سمجھتا ہے جیسا کہ ہندو اخباروں نے ظاہر کیا ہے تو میں ایک نیک صلاح دیتا ہوں کہ جس سے سارا قصہ فیصلہ ہو جائے اور وہ یہ ہے کہ ایسا شخص میرے سامنے قسم کھاوے جس کے الفاظ یہ ہوں کہ ’’میں یقیناً جانتا ہوں کہ یہ شخص سازش قتل میں شریک یا اس کے حکم سے واقعہ قتل ہوا ہے.پس اگر یہ صحیح نہیں ہے تو اے قادر خدا ایک برس کے اندر مجھ پر وہ عذاب نازل کر جو ہیبت ناک عذاب ہو.مگر کسی انسان کے ہاتھوں سے نہ ہو.اور نہ انسان کے منصوبوں کا اس میں کچھ دخل متصو ر ہو سکے.پس اگر یہ شخص ایک برس تک میری بددعا سے بچ گیا تو میں مجرم ہوں اور اس سزا کے لائق کہ ایک قاتل کیلئے ہونی چاہئے.اب اگر کوئی بہادر کلیجہ والا آریہ ہے جو اس طور سے تمام دنیا کو شبہات سے چھڑادے تو اس طریق کو اختیار کرے.یہ طریق نہایت سادہ اور راستی کا فیصلہ ہے.شاید اس طریق سے ہمارے مخالف مولویوں کو بھی فائدہ پہنچے.میں نے سچے دل سے یہ لکھا ہے مگر یاد رہے کہ ایسی آزمائش کرنے والا خود قادیان میں آوے اس کا کرایہ میرے ذمہ ہوگا.جانبین کی تحریرات چھپ جائیں گی.اگر خدا نے اس کو ایسے عذاب سے ہلاک نہ کیا جس میں انسان کے ہاتھوں کی آمیزش نہ ہو تو میں کاذب ٹھہروں گا.اور تمام دنیا گواہ رہے کہ اس صورت میں اسی سزا کے لائق ٹھہروں گا.جو مجرم قتل کو دینی چاہئے میں اس جگہ سے دوسرے مقام نہیں جا سکتا.مقابلہ کرنے والے کو آپ آنا چاہئے.مگر مقابلہ کرنے والا ایک ایسا شخص ہو جو دل کا بہت بہادر اور جوان اور مضبوط ہو.اب بعد اس کے سخت بے حیائی ہوگی کہ کوئی غائبانہ میرے پر ایسے ناپاک شبہات کرے میں نے طریق فیصلہ آگے رکھ دیا ہے.اگر میں اس کے بعد روگردان ہو جاؤں تو مجھ پر خدا کی لعنت اور اگر کوئی اعتراض کرنے والا بہتانوں سے باز نہ آوے اور اس طریق فیصلہ سے طالب تحقیق نہ ہو تو اس پر لعنت.اے شتاب کار لوگو جیسا کہ تمہارا گمان ہے مجھے کسی قوم سے عداوت نہیں.ہریک نوع انسان سے ہمدردی

Page 64

ہے اور جہاں تک میرے بدن میں طاقت ہے اس ہمدردی کے لئے مشغول ہوں.اور میں جیسا کہ قوموں کا ہمدرد ہوں ایسا ہی گورنمنٹ انگریزی کا شکرگذار اور سچے دل سے اس کا خیر خواہ ہوں اور مفسدہ پردازیوں سے بدل بیزار ہوں.ایک اور نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ پنڈت لیکھرام کی نسبت جو پیشگوئی کی گئی تھی اس کے وقوع سے سترہ برس پہلے براہین احمدیہ میں اس پیشگوئی کی خبر دی گئی ہے جیسا کہ براہین احمدیہ کے صفحہ ۲۴۱ میں یہ الہام ہے لن ترضی عنک الیھود ولا النصاریٰ.و خرقوا لہٗ بنینَ و بنات بغیر علم.قل ھواللّٰہ احد اللّٰہ الصَمَد لَم یَلد و لم یولَد ولم یکن لہ کفوا احد.ویمکرون و یمکراللّٰہ واللّٰہ خیر الماکرین.الفتنۃ*ھھنا فاصبر کما صَبَر او لواالعزم.قل رب ادخلنی مدخل صدق ولا تیئس من روح اللّٰہ الا ان روح اللّٰہ قریب.الا ان نصراللّٰہ قریب.یاتیک من کل فج عمیق.یاتون من کل فج عمیق.ینصرک اللّٰہ من عندہ.ینصرک رجال نوحی الیھم من السماء.لا مبدل لکلمات اللّٰہ.انا فتحنالک فتحا مبینا.یعنی پادری لوگ اور یہودی صفت مسلمان تجھ سے راضی نہیں حاشیہ.براہین احمدیہ میں تین فتنوں کا ذکر ہے.اول بڑا فتنہ عیسائی پادریوں کا جنہوں نے مکاری سے تمام جہان میں شور مچا دیا کہ آتھم کی پیشگوئی جھوٹی نکلی اور یہودی صفت مولویوں اور ان کے ہم مشرب مسلمانوں کو ساتھ ملالیا دیکھو صفحہ ۲۴۱.دوسرا فتنہ جو دوسرے درجہ پر ہے محمد حسین بٹالوی کا فتنہ ہے جس فتنہ کی نسبت براہین کے صفحہ ۵۱۰ میں یہ لکھا ہے و اذ یمکربک الذی کفر اوقد لی یاھامان لعلی اطلع الی الٰہ موسٰی.و انی لاظنہ من الکاذبین.تبت یدا ابی لھب و تب ما کان لہ ان یدخل فیھا الا خائفا..وما اصابک فمن اللّٰہ.الفتنۃ ھھنا فاصبر کما صبراولواالعزم.الا انھا فتنۃ من اللّٰہ لیحبّ حبّا جمّا.حبّا من اللّٰہ العزیز الاکرم عطاءً ا غیر مجذوذ.یعنی وہ زمانہ یاد رکھ کہ جب ایک منکر تجھ سے مکر کرے گا اور اپنے دوست ہامان کو کہے گا کہ فتنہ کی آگ بھڑکا کہ میں موسیٰ کے خدا پر اطلاع پانا چاہتا ہوں اور میں گمان کرتا ہوں کہ وہ جھوٹا ہے.ابولہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے اور وہ آپ بھی ہلاک ہوگیا اس کو نہیں چاہئے تھا کہ تکفیر اور تکذیب کے امر میں دخل دیتا مگر یہ کہ ڈرتا ہوا ان باتوں کو پوچھ لیتا کہ جو اس کو سمجھ نہیں آتی تھیں اور تجھے جو کچھ پہنچے گا وہ خدا کی طرف سے ہے.

Page 65

ہوں گے.اور خدا کے بیٹے اور بیٹیاں انہوں نے بنا رکھی ہیں.ان کو کہہ دے کہ خدا وہی ہے جو ایک ہے اور بے نیاز ہے نہ اس کا کوئی بیٹا اور نہ وہ کسی کا باپ اور نہ کوئی اس کا ہم کفو اور یہ لوگ مکر کریں گے (یہ آتھم کی ظہور پیشگوئی کی طرف اشارہ ہے) اور خدا بھی مکر کرے گا کہ ان کو ذرہ مہلت دے گا تا اپنے جھوٹے خیالات سے خوش ہو جائیں.اور پھر فرمایا کہ اس وقت پادریوں اور یہود صفت مسلمانوں کی طرف سے ایک فتنہ برپا ہوگا.پس تو صبر کر جیسا کہ اولوالعزم نبیوں نے صبر کیا.اور خدا سے اپنے صدق کا ظہور مانگ یعنی دعا کر کہ پیشگوئی کے اس جگہ ایک فتنہ ہوگا پس تجھے صبر کرنا چاہئے جیسا کہ اولوالعزم نبی صبر کرتے رہے.یاد رکھ کہ وہ فتنہ خدا کی طرف سے ہوگا.تا وہ تجھ سے بہت ہی پیار کرے خدا کا پیار جو اللہ عزیز اکرم سے ہے.یہ وہ عطا ہے جو واپس نہیں لی جائے گی.اس وقت مجھے یہ سمجھ آیا ہے کہ الہام میں ہامان سے مراد نذیر حسین محدث دہلوی ہے کیونکہ پہلے سب سے محمد حسین اس کی طرف التجا لے گیا.اور یہ کہا کہ او قد لی یاھامان اس کا یہ مطلب ہے کہ تکفیر کی بنیاد ڈال دے تا دوسرے اس کی پیروی کریں.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نذیر حسین کی عاقبت تباہ ہے اگر توبہ کر کے نہ مرے.اور ممکن ہے کہ ابو لہب سے مراد بھی نذیر حسین ہی ہو.اور محمد حسین کا انجام اس آیت پر ہو 33 ۱؂ کیونکہ بعض رؤیا اس عاجز کی اس تاویل کی مؤیّد ہیں.پس خدا کے فضل سے کچھ تعجب نہیں کہ یہ متواتر تائیدوں کو دیکھ کر آخر توبہ کرے اور ہامان مارا جائے.تیسرا فتنہ جو تیسرے درجہ پر ہے لیکھرام کی موت کا فتنہ ہے یعنی آریوں کی بدگمانیاں اور ضرر رسانی کے لئے پوشیدہ کوششیں جیسا کہ پیسہ اخبار میں بھی ان کے قتل کے ارادوں کا ذکر ہے اور براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۵۷ میں اس فتنہ اور اس کے ساتھ کے نشان کی نسبت یہ الہام ہیمیں اپنی چمکار دکھلاؤں گا اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا.لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.الفتنۃ ھھنا فاصْبر کما صبر اولواالعزم فلما تجلّٰی ربّہ للجبل جعلہ دکّا.یعنی اس جگہ ایک فتنہ ہوگا پس صبر کر.اور جب خدا مشکلات کے پہاڑ پر تجلی کرے گا تو انہیں پاش پاش کر دے گا.یہ براہین احمدیہ کے الہام ہیں.مگر اس تحریر کے وقت ابھی ایک الہام ہوا اور وہ یہ ہے.سَلامَت بَر تو اے مَردِ سَلامَت

Page 66

چھپانے میں جوجو پادریوں اور یہود صفت مسلمانوں نے لوگوں کو دھوکے دئیے ہیں وہ دھوکے دور ہوجائیں.اور پھر فرمایا کہ خدا کی رحمت سے نومید نہ ہو.کیونکہ خدا کی رحمت اس ابتلاء کے دنوں کے بعد جلد آئے گی.خدا کی نصرت ہر ایک راہ سے آئے گی.لوگ دور دور سے تیرے پاس آئیں گے.خدا نشان دکھلانے کیلئے اپنے پاس سے تیری مدد کرے گا یعنی بلاواسطہ نشان دکھائے گا اور نیز وہ لوگ بھی مدد کریں گے جن کے دلوں پر ہم خود آسمان سے وحی نازل کریں گے یعنی بعض نشان بالواسطہ بھی ہم ظاہر کریں گے.مطلب یہ کہ بعض پیشگوئیاں براہ راست ظہور میں آئیں گی اور بعض کے ظہور کیلئے ایسے انسان واسطہ ٹھہر جائیں گے جنکے دلوں میں ہم ڈال دیں گے.خدا کی باتیں کبھی نہیں ٹلیں گی اور کوئی نہیں جو ان کو روک سکے.ہم پادریوں کے مکر کے بعد ایک کھلی کھلی فتح تجھ کو دیں گے.ان الہامات میں خدا تعالیٰ نے صاف لفظوں میں فرما دیا کہ اول پادری لوگ اور یہود صفت مسلمان مکر کے رو سے ایک پیشگوئی کی حقیقت کو چھپائیں گے تیری سچائی چھپی رہے اور ظاہر نہ ہو.پھر بعد اس کے یوں ہوگا کہ ہم ارادہ فرمائیں گے کہ تیری سچائی ظاہر ہو اور تیری پیشگوئیوں کی حقانیّت کھل جائے.تب ہم دو قسم کے نشان ظاہر کریں گے.ایک وہ جن میں انسانوں کے افعال کا دخل نہیں.جیسے مذہبی جلسہ میں پہلے سے ظاہر کیا گیا کہ یہ مضمون تمام مضامین پر غالب رہے گا.اور اس پیشگوئی کے پورا کرنے میں انسانوں کا ذرہ دخل نہیں ہوگا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.بلکہ مخالفانہ کوششیں ہوئیں اور ہر ایک چاہتا تھا کہ میرا مضمون غالب رہے.آخر پیشگوئی کے مضمون کے موافق ہمارا مضمون غالب ہوا.اور دوسرے ان الہامات براہین احمدیہ میں یہ وعدہ تھا کہ ہم وہ نشان ظاہر کریں گے جن میں انسانوں کے افعال کا دخل ہوگا سو اس کے مطابق لیکھرام کی نسبت پیشگوئی ظہور میں آئی.کیونکہ یہ نشان بالواسطہ ظاہر ہوا اور کسی نے لیکھرام کو قتل کر دیا.پس ظاہر ہے کہ اس پیشگوئی میں کسی انسان کے دل کو خدا نے ابھارا تا اس کو قتل کرے اور ہریک پہلو سے اس کو موقعہ دیا کہ تا وہ اپنا کام انجام تک پہنچاوے*پس خدا تعالیٰ نے جو فتح عظیم کے پیسہ اخبار اور سفیر گورنمنٹ میں لکھا ہے کہ لیکھرام کا ایک عورت سے ناجائز تعلق تھا یعنی وہ اس

Page 67

ذکر کرنے سے پہلے پیشگوئی کے ظاہر کرنے کے لئے دو مختلف فقروں کو ذکر فرمایا اول یہ کہ ینصرک اللّٰہ من عندہ دوم یہ کہ ینصرک رجال نوحی الیھم من السماء اس تقسیم کی یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے پادریوں کو شرمندہ کرنے کیلئے فرمایا کہ اگر تم نے ہمارے ایک نشان کو مخفی کرنا چاہا تو کیا حرج ہے ہم اس کے عوض میں دو نشان ظاہر کریں گے.ایک وہ نشان جو بلاواسطہ ہمارے ہاتھ سے ہوگا اور دوسرا وہ نشان جو ایسے لوگوں کے ہاتھ سے ظہور میں آ جائے گا جن کے دلوں میں ہم ڈال دیں گے کہ تم ایسا کرو تب فتح عظیم ہوگی.اب انصاف سے دیکھو اور ایمان سے نظر کرو کہ یہ دونوں نشان یعنی نشان جلسہ مذاہب اور نشان موت لیکھرام ۱۷ برس بعد شائع ہونے براہین احمدیہ کے ظہور میں آئے ہیں کیا یہ انسان کی طاقت ہو سکتی ہے؟ یہ بھی ظاہر ہے کہ جلسہ مذاہب سے پہلے جو اشتہار الہامی شائع کئے گئے تھے ان میں صاف طور پر لکھا گیا تھا کہ خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ مضمون تمام مضامین پر غالب رہے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.دیکھو اخبار سول ملٹری گزٹ.اخبار ابزرور.مخبردکن.پیسہ اخبار.سراج الاخبار.مشیر ہند.وزیر ہند سیالکوٹ صادق الاخبار بہاولپور.پس یہ خدا کا بلاواسطہ فعل تھا کہ ہریک دل کی خواہش کے مخالف ان سے اقرار کرایا کہ وہی مضمون غالب رہا مگر دوسرے نشان میں قاتل کے دل میں قتل کی خواہش ڈال دی اور اس طرح پر دونوں نشان بلاواسطہ اور بالواسطہ خلق اللہ کو دکھلا کر پادریوں اور اسلامی مولویوں اور ہندوؤں کے مکر کو ایک دم میں پاش پاش کر دیا.اور ممکن نہ تھا کہ وہ اپنی شرارتوں سے باز آجاتے جب تک خدا ایسے کھلے کھلے نشان ظاہر نہ کرتا.اسی کی طرف وہ براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۰۶ میں اشارہ فرماتا ہے اور کہتا ہے عورت کے کسی وارث کے ہاتھ سے قتل کیا گیا.کیسی ذلت کی موت ہے اور اگر اسی کا نام شہادت ہے تو گویا یوں کہنا چاہیے کہ وہ کسی عورت کی نگاہ کی چھری سے شہید ہو چکا تھا آخر وہی چھری قہری صورت پر اس کو لگ گئی.اگر قتل کا سبب یہی ہے تو لیکھرام کی پاک زندگی کا خوب ثبوت ہے.منہ

Page 68

لم یکن الذین کفروا من اھل الکتاب والمشرکین منفکین حتی تاتیہم البینۃ و کان کیدھم عظیمًا.یعنی ممکن نہ تھا کہ نصاریٰ اور مخالف مسلمان اور ہندو اپنے انکاروں سے باز آجاتے جب تک ان کو کھلا کھلا نشان نہ ملتا.اور ان کا مکر بہت بڑا تھا.پھر بعد اس کے اسی صفحہ میں فرمایا کہ اگر خدا ایسا نہ کرتا تو دنیا میں اندھیر پڑ جاتا.یہ اس بات کی طرف اشا رہ ہے کہ پادریوں نے آتھم کی پیشگوئی کو بباعث اپنے اخفاء کے لوگوں پر مشتبہ کر دیا تھا پس اگر لیکھرام کی نسبت جو پیشگوئی تھی جس کی شوخیوں نے ثابت کر دیا تھا کہ وہ رجوع کرنے والا نہیں ایسی ہی مخفی رہ جاتی تو تمام حق خاک میں مل جاتا.اور نادان لوگو ں کے خیالات سخت ناپاک ہو جاتے اور جاہل قریب قریب دہریوں کے بن جاتے.سو آسمانوں اور زمینوں کے مالک نے چاہا کہ لیکھرام حق کے اظہار کا فدیہ ہو اور سچے دین کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے بطور بلیدان کے ہوجائے.سو وہی ہوا جو خدا نے چاہا.ایک انسان کے مارے جانے کی ہمدردی بجائے خود ہے.مگر یہ بات بہت دلوں کو تاریکی سے نکالنے والی ہے کہ خدا نے جلسہ مذاہب کے نشان کے بعد یہ ایک عظیم الشان نشان دکھلایا.چاہئے کہ ہر یک روح اس ذات کو سجدہ کرے جس نے ایک بندہ کی جان لیکر ہزاروں مردوں کو زندہ کرنے کی بنیاد ڈالی.اور پھر اسی پیشگوئی کی طرف براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۲۲ میں یہ الہام اشارہ فرماتا ہے کہ ’’بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں برمنار بلند تر محکم افتاد.پاک محمد مصطفی نبیوں کا سردار.ربّ الافواج اس طرف توجہ کرے گا اس نشان کا مدعا یہ ہے کہ قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے مو نہہ کی باتیں ہیں‘‘.پس جس عظیم الشان نشان کا اس الہام میں وعدہ ہے وہ یہی ہے جس سے مطابق الہام ھٰذا کے اعلاء کلمہ اسلام ہوا اور صفحہ ۵۵۷ براہین احمدیہ میں اسی نشان کا ذکر ہے جس کا پہلا فقرہ یہ ہے کہ میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا.یعنی ایک جلالی نشان ظاہر کروں گا.اور سرمہ چشم آریہ میں ایک کشف ہے جس کو گیارہ برس ہوگئے.جس کا ماحصل یہ ہے کہ خدا نے ایک خون کا نشان دکھلایا وہ خون کپڑوں پر پڑا جو اب تک موجود ہے یہ خون کیا تھا وہی لیکھرام کا خون تھا.خدا کے آگے جھک جاؤ کہ وہ برتر اور بے نیاز ہے!!!

Page 69

بعض آریہ اخبار والوں نے یہ تعجب کیا کہ لیکھرام کی نسبت جو پیشگوئی کی گئی ہے اور اس کی مدت بتائی گئی.دن بتایا گیا.موت کا ذریعہ بتایا گیا.یہ باتیں کب ہو سکتی ہیں جب تک ایک بھاری سازش اس کی بنیاد نہ ہو.چنانچہ پرچہ ضمیمہ سماچار لاہور ۱۰؍ مارچ ۱۸۹۷ء اور ضمیمہ انیس ہند میرٹھ ۱۰؍ مارچ ۱۸۹۷ء نے اس بارے میں بہت زہر اگلا ہے.ایڈیٹر انیس ہند اپنے پرچہ کے ۱۳ صفحہ میں یہ بھی لکھتا ہے کہ ’’ہمارا ماتھا تو اسی وقت ٹھنکا تھا جب مرزا غلام احمد قادیانی نے آپ کی وفات کی بابت پیشین گوئی کی تھی ورنہ ان حضرت کو کیا علم غیب تھا؟‘‘ اب واضح ہو کہ یہ تمام صاحب آپ اس بات کو تنقیح طلب ٹھہراتے ہیں کہ کیا خدا نے اس شخص کو علم غیب دیا تھا؟ اور کیا خدا سے ایسا ہونا ممکن ہے؟ سو اس وقت ہم بطور نمونہ بعض اور پیشگوئیوں کو درج کرتے ہیں تا ان نظائر کو دیکھ کر آریہ صاحبوں کی آنکھیں کھلیں اور وہ یہ ہیں: اول.احمد بیگ ہوشیارپوری کی موت کی پیشگوئی.جس کی نسبت لکھا گیا تھا کہ وہ تین۳ برس کی میعاد میں فوت ہو جائے گا.اور ضرور ہے کہ اپنے مرنے سے پہلے اور مصیبتیں بھی دیکھے.چنانچہ اس نے اس اشتہار کے بعد اپنے پسر کے فوت ہونے کی مصیبت دیکھی.اور پھر اس کی ہمشیرہ عزیزہ کی وفات کا ناگہانی واقعہ اس کی نظر کے سامنے وقوع میں آیا.اور بعد اس کے وہ تین سال کی میعاد کے اندر خود بمقام ہوشیار پور فوت ہوگیا*اب اس پیشگوئی کے دو حصے تھے ایک احمد بیگ کی نسبت اور ایک اس کے داماد کی نسبت اور پیشگوئی کے بعض الہامات میں جو پہلے سے شائع ہو چکے تھے یہ شرط تھی کہ توبہ اور خوف کے وقت موت میں تاخیر ڈال دی جائے گی سو افسوس کہ احمد بیگ کو اس شرط سے فائدہ اٹھانا نصیب نہ ہوا کیونکہ اس وقت اس کی بدقسمتی سے اس نے اور اس کے تمام عزیزوں نے پیشگوئی کو انسانی مکر اور فریب پر حمل کیا اور ٹھٹھا اور ہنسی شروع کر دی اور وہ ہمیشہ ٹھٹھا اور ہنسی کرتے تھے کہ پیشگوئی کے وقت نے اپنا منہ دکھلا دیا اور احمد بیگ ایک محرقہ تپ کے ایک دو دن کے حملہ سے ہی اس جہان سے رخصت ہو گیا.تب تو ان کی آنکھیں کھل گئیں اور داماد کی بھی فکر پڑی اور خوف اور توبہ اور نماز روزہ میں عورتیں لگ گئیں اور مارے ڈر کے ان کے کلیجے کانپ اٹھے.پس ضرور تھا کہ ا س درجہ کے خوف کے وقت خدا اپنی شرط کے موافق عمل کرتا.سو وہ لوگ سخت احمق اور کاذب اور ظالم ہیں جو کہتے ہیں کہ داماد کی نسبت پیشگوئی پوری نہیں ہوئی بلکہ وہ بدیہی طور پر حالت موجود ہ کے موافق پوری ہو گئی.اور دوسرے پہلو کی انتظار ہے.منہ

Page 70

بتاؤ کہ اس کی موت میں میری طرف سے کس کے ساتھ سازش ہوئی تھی.کیا تپ محرقہ کے ساتھ؟! دوسری پیشگوئی شیخ مہر علی رئیس ہوشیارپور کی مصیبت کے بارے میں تھی جو اس پر ناحق کے خون کا الزام لگایا گیا تھا.شیخ مذکور ہوشیارپور میں زندہ موجود ہے اس کو پوچھو کہ کیا اس مقدمہ کے آثار ظاہر ہونے سے پہلے میں نے اپنے خدا سے خبر پاکر اطلاع اس کو دی ہے یا نہیں؟ تیسری پیشگوئی سردار محمد حیات خان جج کی نسبت اس وقت کی گئی تھی جبکہ سردار مذکور ایک ناحق کے الزام میں ماخوذ ہوگیا تھا.اب پوچھنا چاہئے کہ کیا درحقیقت کوئی ایسی پیشگوئی نامبردہ کی مخلصی کے بارے میں پیش از وقت کی گئی تھی یا اب بنائی گئی ہے اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس پیشگوئی کا براہین میں بھی ذکر ہے.چوتھی پیشگوئی سید احمد خان کے سی ایس آئی کی نسبت خدا تعالیٰ سے الہام پاکر اشتہار یکم فروری ۱۸۸۶ء میں کی گئی تھی کہ ان کو کوئی سخت صدمہ پہنچنے والا ہے.اب سید احمد خان صاحب کو پوچھنا چاہئے کہ اس پیشگوئی کے بعد آپ کو کوئی ایسا سخت صدمہ پہنچا ہے یا نہیں جو معمولی ہم و غم نہ ہو بلکہ وہ امر ہو جو جان کو زیر و زبر کرنے والا ہو.پانچویں پیشگوئی میں نے اپنے لڑکے محمود کی پیدائش کی نسبت کی تھی کہ وہ اب پیدا ہوگا اور اس کا نام محمود رکھا جائے گا.اور اس پیشگوئی کی اشاعت کیلئے سبز ورق کے اشتہار شائع کئے گئے تھے جو اب تک موجود ہیں اور ہزاروں آدمیوں میں تقسیم ہوئے تھے.چنانچہ وہ لڑکا پیشگوئی کی میعاد میں پیدا ہوا اور اب نویں سال میں ہے*.بعض جاہل محض جہالت کی وجہ سے یہ شبہ پیش کرتے ہیں کہ جب پہلے لڑکے کا اشتہار دیا تھا اس وقت لڑکی کیوں پیدا ہوئی.مگر وہ خوب جانتے ہیں کہ اس اعتراض میں وہ سراسر خیانت کر رہے ہیں.اگر وہ سچے ہیں تو ہمیں دکھلاویں کہ پہلے اشتہار میں یہ لکھا تھا کہ پہلے ہی حمل میں بلاواسطہ لڑکا پیدا ہو جائے گا اور اگر پیدا ہونے کے لئے کوئی وقت اس اشتہار میں بتلایا نہیں گیا تھا تو کیا خدا کو اختیار نہیں تھا کہ جس وقت چاہتا اپنے وعدہ کو پورا کرتا.ہاں سبز اشتہار میں صریح لفظوں میں بلا توقف لڑکا پیدا ہونے کا وعدہ تھا.سو محمود پیدا ہو گیا.کس قدر یہ پیشگوئی عظیم الشان ہے اگر خدا کا خوف ہے تو پاک دل کے ساتھ سوچو! منہ

Page 71

چھٹی پیشگوئی شریف کے بارے میں جو میرا تیسرا لڑکا ہے کی گئی تھی.اور رسالہ نورالحق میں پیش از وقت خوب شائع ہوگئی تھی.چنانچہ اس کے موافق لڑکا پیدا ہوا جو اب خدا کے فضل سے چند روز تک دوسرے سال کو ختم کرنے والا ہے.ساتویں پیشگوئی اشتہار ۱۸۸۶ء میں دلیپ سنگھ کے بارے میں تھی جو وہ قصد پنجاب سے ناکام رہے گا.اور صدہا ہندو اور مسلمانوں کو عام جلسوں میں یہ پیشگوئی سنا دی گئی تھی.آٹھویں پیشگوئی جلسہ مذاہب کے نتیجہ کی نسبت تھی کہ اس میں میرا مضمون غالب رہے گا.اور یہ اشتہارات لاہور اور دوسرے مقامات میں پیش از وقت ہزاروں ہندو مسلمانوں میں تقسیم کر دئیے گئے تھے.اب سول ملٹری کو پوچھو اور آبزرور سے سوال کرو اور مشیر ہند اور وزیر ہند اور پیسہ اخبار اور صادق الاخبار اور سراج الاخبار اور مخبر دکن کو ذرا غور سے پڑھو تا معلوم ہو کہ کس زور سے الہام الٰہی نے اپنی سچائی ظاہر کی.نویں پیشگوئی قادیان کے ایک ہندو بشمبرداس نام کے ایک فوجداری مقدمہ کے متعلق تھی.یعنی بشمبرداس بقید ایک سال مقید ہوگیا تھا.اور اس کے بھائی شرمپت نام نے جو سرگرم آریہ ہے مجھ سے دعا کی التجا کی تھی اور نیز یہ پوچھا تھا کہ اس کا انجام کیا ہوگا.میں نے دعا کی اور کشفی نظر سے میں نے دیکھا کہ میں اس دفتر میں گیا ہوں جہاں اس کی قید کی مثل تھی.میں نے اس مثل کو کھولا اور برس کا لفظ کاٹ کر اس کی جگہ چھ۶ مہینے لکھ دیا اور پھر مجھے الہام الٰہی سے بتلایا گیا کہ مثل چیف کورٹ سے واپس آئے گی اور برس کی جگہ چھ۶ مہینے رہ جائے گی لیکن بری نہیں ہوگا.چنانچہ میں نے یہ تمام کشفی واقعات شرمپت آریہ کو جو اب تک زندہ موجود ہے نہایت صفائی سے بتلا دئیے.اور جب میں نے بتلایا اور بعینہٖ وہ باتیں ظہور میں آگئیں تو اس نے میری طرف لکھا کہ آپ خدا کے نیک بندے ہو اس لئے اس نے آپ پر غیب کی باتیں ظاہر کر دیں.پھر میں نے براہین احمدیہ میں یہ تمام الہام نوٹ: پنڈت لیکھرام کا اس طرز سے مارا جانا آریہ صاحبوں کو ایک سبق دیتا ہے اور وہ یہ کہ آئندہ کسی نو مسلم کے شدھ کرنے کے لئے کوشش نہ کریں.اگر کوئی اسلام میں داخل ہوتا ہے تو اس کو ہونے دیں

Page 72

اور کشف شائع کر دیا.یہ شخص شرمپت نہایت متعصب آریہ ہے جس کو میرے خیال میں آخر شدھ ہونے والے کو دیکھ لیا کہ اس کا نتیجہ کیا ہوا اور دوسرے اس واقعہ سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ آئندہ یہ خواہشیں نہ کریں کہ کوئی دوسرا لیکھرام یعنی بدزبانیوں میں اس کا ثانی تلاش کرنا چاہئے.لیکن اگر فی الواقعہ وہ بات صحیح ہے جو پیسہ اخبار اور سفیر میں لکھی گئی ہے یعنی یہ کہ اس کے قتل کا سبب صرف بدکاری ہے اور یہ کام کسی غیرت مند لڑکی کے باپ یا خاوند کا ہے جیسا کہ بقول پیسہ اخبار کثرت رائے اسی طرف ہے تو آئندہ نیک چلن واعظ تلاش کرنا چاہئے! تعجب کی بات ہے کہ جس حالت میں بموجب بیان پیسہ اخبار کے زیادہ مشہور روایت یہی ہے کہ واردات قتل کا موجب کوئی ناجائز تعلق ہے تو کیوں اس طرف تحقیقات کیلئے توجہ نہیں کی جاتی اور کیوں ایسے ہندوؤں کے اظہار نہیں لئے جاتے جن کے منہ سے یہ باتیں نکلیں اور کیا بعید ہے کہ وہی بات ہو کہ ڈھنڈورا شہر میں لڑکا بغل میں.منہ بعض صاحب عیسائیوں میں سے اعتراض کرتے ہیں کہ اگرچہ لیکھرام کی نسبت پیشگوئی پوری ہوگئی مگر ہندوؤں نے اس کو مرنے کے بعد ذلت کی نظر سے نہیں دیکھا..ایسا عذر ایک عیسائی کے منہ سے نکلنا نہایت افسوس کی بات ہے.بھلا منصف بتلاویں کہ جب ہم نے پیشگوئی کے پورا ہونے کو اسلام کی سچائی کا ایک معیار ٹھہرایا تھا اور خدا نے لیکھرام کو مار کر مسلمانوں کی ہندوؤں پر ڈگری کر دی تو اس حالت میں نہ صرف لیکھرام بلکہ بحیثیت مذہبی اس تمام فرقہ کی عزت میں فرق آگیا.رہی لاش کی عزت تو لاش کا ڈاکٹر کے ہاتھ سے چیرا جانا کیا یہ عزت کی بات ہے اور چال چلن کی عزت کا یہ حال ہے کہ پیسہ اخبار ۱۳؍ مارچ ۱۸۹۷ء میں لکھا ہے کہ ’’اس شخص کے مارے جانے کی مشہور روایت یہ ہے کہ یہ شخص کسی عورت سے ناجائز تعلق رکھتا تھا اور یہی عام طور پر کہا جاتا اور یقین کیا جاتا ہے‘‘.فقط.پس اس سے زیادہ ذلت کا اور کیا نمونہ ہوگا کہ جان بھی گئی اور اکثر شہر کے لوگ اس کی وجہ بدکاری ٹھہراتے ہیں.منہ ایک نشان عقلمندوں کیلئے یہ ہے کہ شیخ نجفی نے چالیس دقیقہ میں نشان دکھلانے کا وعدہ کیا تھا.اور ہم نے یکم فروری ۱۸۹۷ ؁ء سے چالیس روز میں دیکھو حاشیہ اشتہار یکم فروری ۱۸۹۷ ؁ء صفحہ۳ جس کی عبارت یہ ہے.اگر نشانے ازمادریں مدت یعنی چہل روز بظہور آمد و از ایشاں یعنی از شیخ نجفی چیزے بظہور نیا مدہمیں دلیل برصدق ماو کذب شان خواہد بود سو یکم فروری ۱۸۹۷ء سے ۳۵ دن تک یعنی چالیس روز کے اندر نشان موت پنڈت لیکھرام وقوع میں آگیا.نجفی صاحب یہ تو بتلاویں کہ یکم فروری ۱۸۹۷ء سے آج تک کتنے دقیقے گذر گئے ہیں.افسوس کہ نجفی نے کسی منارہ سے گر کے بھی نہ دکھلایا.گر ہمیں لاف و گذاف وشیخی است شیخ نجدی بہتر از صد نجفی است

Page 73

آریہ مذہب کی حمایت میں خدا کی بھی کچھ پروا نہیں.مگر بہرحال خدا نے اس کو میرا گواہ بنا دیا.اگر میں نے اس قصہ میں ایک ذرہ جھوٹ بولا ہے تو وہ قسم کھا کر ایک اشتہار اس مضمون کا شائع کر دے کہ میں پرمیشر کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ بیان سراسر جھوٹ ہے اور اگر جھوٹ نہیں تو میرے پر ایک برس تک سخت عذاب نازل ہو.* پس اگر اس پر وہ فوق العادت عذاب نازل نہ ہوا کہ خلقت بول اٹھے کہ یہ خدا کا عذاب ہے تو مجھے جس موت سے چاہو ہلاک کرو.اس میں میری طرف سے یہ شرط ہے کہ انسان کے ذریعہ سے وہ عذاب نہ ہو محض بلاواسطہ آسمانی عذاب ہو.یہ تو ممکن ہے کہ یہ شخص قوم کی رعایت سے یونہی انکار کر دے.یا بغیر اس قسم پیش کردہ کے اشتہار بھی دیدے.کیونکہ میں نے اس قوم میں خدا کا خوف نہیں پایا.مگر ممکن نہیں کہ وہ قسم کھاوے اگرچہ دوسرے آریہ اس کو ہلاک کر دیں.لیکن اگر قسم کھالے تو خدا کی غیرت ایک بھاری نشان دکھائے گی.ایسا نشان دکھائے گی کہ دنیا میں فیصلہ ہو جائے گا.اور زمین آسمانی نور سے بھر جائے گی.دسواں نشان یہ ہے کہ خدا نے پنڈت دیانند کے مرنے سے تین مہینے یا چار مہینے پہلے اس کی موت کی مجھ کو خبر دی اور میں نے اسی آریہ کو جس کا قبل اس سے ذکر ہو چکا ہے خبر دے دی اور نیز اور کئی لوگوں کو اطلاع کی.چنانچہ اس الہام کے بعد عرصہ مذکورہ بالا تک پنڈت مذکور کے مرنے کی خبر آگئی یہ پیشگوئی بھی براہین احمدیہ میں درج ہے.اگر وہ آریہ منکر ہو تو میرا وہی جواب ہے جو میں پہلے دے چکا ہوں.گیارہویں پیشگوئی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے الہام سے مجھے خبر دی تھی کہ تجھے زبان عربی میں ایک اعجازی بلاغت و فصاحت دی گئی ہے اور اس کا مقابلہ کوئی نہیں کرے گا.اس پیشگوئی کی طرف براہین احمدیہ کے صفحہ ۲۳۹ میں اشارہ ہے جہاں فرمایا ہے ان ھذا جو کچھ شرمپت آریہ کا قصہ بیان کیا گیا ہے اس میں ایک ذرہ مبالغہ کی آمیزش نہیں میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ بالکل سچ اور صحیح ہے پس جو شخص میرے پر مبالغہ اور بات کو زیادہ کر دینے کی تہمت لگاوے وہ ظلم کرتا ہے اور ظلم کا علاج وہی ہے جو میں نے لکھ دیا ہے.منہ

Page 74

الا قول البشر و اعانہ علیہ قوم آخرون.قل ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین.ھذا من رحمۃ ربک یتم نعمتہ علیک لیکون آیۃ للمومنین.یعنی مخالف کہیں گے کہ یہ تو انسان کا قو ل ہے اور اور لوگوں نے اس کی مدد کی ہے.کہہ اس پر دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو یعنی مقابلہ کر کے دکھلاؤ.بلکہ یہ خدا کی رحمت سے ہے.تا وہ اپنی نعمت تیرے پر پوری کرے اور تا مومنوں کیلئے نشان ہو.یعنی تیری سچائی پر یہ ایک نشان ہوگا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.*اس عرصہ میں بہت سی عمدہ عمدہ کتابیں زبان عربی میں بالتزام محاسن ادب و بلاغت و فصاحت اس عاجز نے لکھیں اور مخالفین کو ان کے مقابلہ کیلئے ترغیب دلائی یہاں تک کہ پانچ ہزار روپیہ تک انعام دینا کیا اگر وہ نظیر بنا سکیں.لیکن وہ بمقابل ان کتابوں کے کچھ بھی لکھ نہ سکے سو اگر یہ خدا تعالیٰ کا فعل نہ ہوتا تو صدہا کتابیں مقابلہ پر لکھی جاتیں.خصوصاً اس حالت میں کہ جبکہ اپنے صدق و کذب کا مدار انہیں پر رکھا گیا تھا اور صاف لفظوں میں کہہ دیا گیا تھا کہ اگر وہ اس نشان کو بالمقابل کسی تالیف کے پیش کرنے سے توڑ سکیں تو ہمارا دعویٰ جھوٹا ٹھہرے گا.لیکن وہ لوگ مقابلہ سے بالکل عاجز رہے.اور ایسا ہی وہ پادری صاحبان جو ادنیٰ ادنیٰ جاہل مرتد کا نام مولوی رکھ دیتے ہیں اس مقابلہ اور معارضہ سے ایسے عاجز ہوئے جو اس طرف انہوں نے منہ بھی نہیں کیا.اور اس پیشگوئی میں کمال یہ ہے کہ یہ ان عربی کتابوں کے وجود سے سولہ سترہ برس پہلے لکھی گئی.کیا انسان ایسا کر سکتا ہے؟!! بارھویں پیشگوئی جو براہین احمدیہ کے صفحہ ۲۳۸ اور ۲۳۹ میں لکھی ہے علم قرآن ہے اس پیشگوئی کا ماحصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تجھ کو علم قرآن دیا گیا ہے ایسا علم جو باطل کو نیست کرے گا.اور اسی پیشگوئی میں فرمایا کہ دو۲ انسان ہیں جن کو بہت ہی برکت دی گئی.ایک وہ معلم جس کا نام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم ہے اور ایک یہ متعلم یعنی اس کتاب کا لکھنے والا.اور یہ اس آیت کی طرف بھی اشارہ ہے جو قرآن شریف میں اللہ جلّ شانہٗ اس پیشگوئی کا مؤید براہین احمدیہ کا وہ الہام ہے جہاں لکھا ہے یا احمد فاضت الرحمۃ علی شفتیک یعنی اے احمد تیرے لبوں پر رحمت جاری کی گئی ہے یعنی فصاحت بلاغت.منہ

Page 75

فرماتا ہے 3۱؂ یعنی اس نبی کے اور شاگرد بھی ہیں جو ہنوز ظاہر نہیں ہوئے اور آخری زمانہ میں ان کا ظہور ہوگا.یہ آیت اسی عاجز کی طرف اشارہ تھا کیونکہ جیسا کہ ابھی الہام میں ذکر ہو چکا ہے یہ عاجز روحانی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے شاگردوں میں سے ہے.اور یہ پیشگوئی جو قرآنی تعلیم کی طرف اشارہ فرماتی ہے اسی کی تصدیق کیلئے کتاب کرامات الصادقین لکھی گئی تھی جس کی طرف کسی مخالف نے رخ نہیں کیا.اور مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ مجھے قرآن کے حقائق اور معارف کے سمجھنے میں ہر ایک روح پر غلبہ دیا گیا ہے.اور اگر کوئی مولوی مخالف میرے مقابل پر آتا جیسا کہ میں نے قرآنی تفسیر کے لئے بار بار ان کو بلایا تو خدا اس کو ذلیل اور شرمندہ کرتا.سو فہم قرآن جو مجھ کو عطا کیا گیا یہ اللہ جلّ شانہٗ کا ایک نشان ہے.میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ عنقریب دنیا دیکھے گی کہ میں اس بیان میں سچا ہوں.اور مولویوں کا یہ کہنا کہ قرآن کے معنے اسی قدر درست ہیں جو احادیث صحیحہ سے نکل سکتے ہیں اور اس سے بڑھ کر بیان کرنا معصیت ہے چہ جائیکہ موجب کمال سمجھا جائے.یہ سراسر خیالات باطلہ ہیں.ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن اصلاح کامل اور تزکیہ اتم اور اکمل کے لئے آیا ہے اور وہ خود دعویٰ کرتا ہے کہ تمام کامل سچائیاں اس کے اندر ہیں جیسا کہ فرماتا ہے 3۲؂ تو اس صورت میں ضرور ہے کہ جہاں تک سلسلہ معارف اور علوم الٰہیہ کا ممتد ہو سکے وہاں تک قرآنی تعلیم کا بھی دامن پہنچا ہوا ہو.اور یہ بات صرف میں نہیں کہتا بلکہ قرآن خود اس صفت کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے اور اپنا نام اکمل الکتب رکھتا ہے پس ظاہر ہے کہ اگر معارف الٰہیہ کے بارے میں کوئی حالت منتظرہ باقی ہوتی جس کا قرآن شریف نے ذکر نہیں کیا تو قرآن شریف کا حق نہیں تھا کہ وہ اپنا نام اکمل الکتب رکھتا.حدیثوں کو ہم اس سے زیادہ درجہ نہیں دے سکتے کہ وہ بعض مقامات میں بطور تفصیل اجمالات قرآنی ہیں.سخت جاہل اور نا اہل وہ اشخاص ہیں کہ جو قرآن شریف کی تعریف اس طور سے نہیں کرتے جو قرآن شریف میں موجود ہے بلکہ اس کو معمولی اور کم درجہ پر لانے کیلئے کوشش کر رہے ہیں.غرض ایک پیشگوئی یہ بھی ہے جو جناب الٰہی کی طرف سے مجھ کو عطا ہوئی جس کا ۱؂ الجمعۃ:۴ ۲؂ البیّنۃ:۴

Page 76

مقابلہ کوئی مخالف نہیں کر سکا اور خدا نے تمام معاندین کو ذلیل کیا.قرآن کے اعجازی معارف جو غیر محدود ہیں ان پر ایک یہ بھی دلیل ہے کہ ظاہر اور معمولی معنے تو ہر ایک مومن اور فاسق اور مسلم اور کافر کو معلوم ہیں اور کوئی وجہ نہیں جو معلوم نہ ہوں.تو پھر نبیوں اور عارفوں کو ان پر کیا فوقیت ہوئی.اور پھر اس کے کیا معنے ہوئے کہ 33 ۱؂ تیرہویں پیشگوئی وہ ہے جو براہین احمدیہ کے صفحہ ۲۴۱ میں لکھی گئی ہے اور وہ یہ ہے الا ان نصر اللّٰہ قریب.یاتیک من کل فج عمیق.یاتون من کل فجّ عمیق.یعنی خدا کی مدد تجھے دور دور سے پہنچے گی اور لوگ دور دور سے تیرے پاس آئیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اور ہمارے مخالف بھی جانتے ہیں کہ ہندوستان کے کناروں تک ہمارے سلسلہ کے مددگار موجود ہیں.اور پشاور سے لے کر بمبئی اور مدراس اور کلکتہ تک لوگ دور دور کا سفر اٹھا کر قادیان میں پہنچتے ہیں اور یہ پیشگوئی سترہ سال کی ہے اور اس وقت لکھی گئی تھی کہ جب اس رجوع خلائق کا نام و نشان نہ تھا.اب سوچنا چاہئے کہ کیا یہ انسان کا فعل ہے؟ کیا انسان اس بات پر قادر ہے کہ ایسی پوشیدہ اور نہاں در نہاں باتیں کہ ایک عمر کے بعد ظاہر ہونے والی تھیں پہلے سے بتلادے؟! چودھویں پیشگوئی جو براہین احمدیہ کے اسی صفحہ ۲۳۹ میں ہے یہ ہے.ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ*لا مبدل لکلمات اللّٰہ ظلموا و ان اللّٰہ علٰی نصرھم لقدیر.یعنی خدا وہ ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس دین کو تمام دینوں پر غالب کرے.کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے.ان پر ظلم ہوا اور خدا ان کی مدد کرے گا.یہ آیات قرآنی الہامی پیرایہ میں اس عاجز کے حق میں ہیں اور رسول سے مراد مامور اور فرستادہ ہے جو دین اسلام کی تائید کے لئے ظاہر ہوا.اس پیشگوئی کا ماحصل یہ ہے کہ خدا نے جو اس مامور کو مبعوث فرمایا ہے یہ اس لئے فرمایا کہ تا حدیثوں میں جو یہ پیشگوئی ہے کہ مسیح موعود کے وقت میں تمام ملتیں ہلاک ہو جائیں گی مگر اسلام.اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بجز اسلام کوئی مذہب باقی نہیں رہے گا کیونکہ ایسا ہونا تو قرآن کے منافی ہے ان آیتوں میں غور کرو جہاں لکھا ہے کہ یہود اور نصاریٰ قیامت تک رہیں گے.بلکہ مطلب یہ ہے کہ تمام مذاہب مردہ اور ذلیل ہو جائیں گے اور اسلام کے مقابل پر مر جائیں گے مگر اسلام کہ وہ اپنی روشنی اور زندگی اور غلبہ ظاہر کرے گا.منہ

Page 77

اس کے ہاتھ سے دین اسلام کو تمام دینوں پر غلبہ بخشے اور ابتداء میں ضرور ہے کہ اس مامور اور اس کی جماعت پر ظلم ہو لیکن آخر میں فتح ہوگی اور یہ دین اس مامور کے ذریعہ سے تمام ادیان پر غالب آ جائے گا اور دوسری تمام ملتیں بیّنہ کے ساتھ ہلاک ہوجائیں گی.دیکھو! یہ کس قدر عظیم الشان پیشگوئی ہے اور یہ وہی پیشگوئی ہے جو ابتداء سے اکثر علماء کہتے آئے ہیں کہ مسیح موعود کے حق میں ہے اور اس کے وقت میں پوری ہوگی اور براہین احمدیہ میں سترہ۷۱ برس سے مسیح موعود کے دعوے سے پہلے درج ہے تا خدا ان لوگوں کو شرمندہ کرے کہ جو اس عاجز کے دعویٰ کو انسان کا افتراء خیال کرتے ہیں.براہین خود گواہی دیتی ہے کہ اس وقت اس عاجز کو اپنی نسبت مسیح موعود ہونے کا خیال بھی نہیں تھا اور پرانے عقیدہ پر نظر تھی.لیکن خدا کے الہام نے اسی وقت گواہی دی تھی کہ تو مسیح موعود ہے.کیونکہ جو کچھ آثار نبویہ نے مسیح کے حق میں فرمایا تھا الہام الٰہی نے اس عاجز پر جما دیا تھا.یہاں تک کہ اسی براہین احمدیہ میں نام بھی عیسیٰ رکھ دیا.چنانچہ صفحہ ۵۵۶ براہین احمدیہ میں یہ الہام موجود ہے یا عیسٰی انّی متوفّیک و رافعک الیّ و جاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الی یوم القیامہ ثلّۃ من الاولین و ثلّۃ من الاٰخرین.یعنی اے عیسیٰ میں تجھے طبعی وفات دوں گا اور اپنی طرف اٹھاؤں گا.اور تیرے تابعین کو ان لوگوں پر غلبہ بخشوں گا جو مخالف ہوں گے اور تیرے تابعین دو قسم کے ہوں گے پہلا گروہ اور پچھلا گروہ.یہ آیت حضرت مسیح پر اس وقت نازل ہوئی تھی کہ جب ان کی جان یہودیوں کے منصوبوں سے نہایت گھبراہٹ میں تھی اور یہودی اپنی خباثت سے ان کے مصلوب کرنے کی فکر میں تھے تا مجرمانہ موت کا داغ ان پر لگ کر توریت کی ایک آیت کے موافق ان کو ملعون ٹھہراویں کیونکہ توریت میں لکھا تھا کہ جو لکڑی پر لٹکایا جائے وہ لعنتی ہے.چونکہ صلیب کو جرائم پیشہ سے قدیم طریق سزا دہی کی وجہ سے ایک مناسبت پیدا ہوگئی تھی اور ہر ایک خونی اور نہایت درجہ کا بدکار صلیب کے ذریعہ سے سزا پاتا تھا اس لئے خدا کی تقدیر نے راستبازوں پر صلیب کو حرام کر دیا تھا تا پاک کو پلید سے مشابہت پیدا نہ ہو.پس یہ عجیب بات ہے کہ کوئی نبی مصلوب نہیں ہوا تا ان کی سچائی عوام کی نظر

Page 78

میں مشتبہ نہ ہو جائے.غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح کو ایسے اضطراب کے زمانہ میں تسلی دی تھی کہ جب یہودی ان کے مصلوب کرنے کی فکر میں تھے.اب جو یہ آیت براہین احمدیہ میں اس عاجز پر بطور الہام نازل ہوئی تو اس میں ایک باریک اشارہ یہ ہے کہ اس عاجز کو بھی ایسا واقعہ پیش آئے گا کہ لوگ قتل کرنے یا مصلوب کرانے کے منصوبے کریں گے تا یہ عاجز جرائم پیشہ کی سزا پا کر حق مشتبہ ہو جائے.سو اس آیت میں اللہ تعالیٰ اس عاجز کا نام عیسیٰ رکھ کر اور وفات دینے کا ذکر کر کے ایما فرماتا ہے کہ یہ منصوبے پیش نہیں جائیں گے اور میں ان کی شرارتوں سے محافظ ہوں گا.اور اسی الہام کے آگے جو صفحہ ۵۵۷ میں الہام ہے اس میں ظاہر فرمایا گیا کہ ایسا کب ہوگا اور اس دن کا نشان کیا ہے.یعنی ایسے منصوبے جو قتل کے لئے کئے جائیں گے وہ کب اور کس وقت میں ہوں گے اور کن امور کا ان سے پہلے ظاہر ہونا ضروری ہے.سو اسی الہام کے بعد میں جو الہام ہے اس میں اس کی طرف اشارہ کیا گیاہے اور وہ یہ ہے میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا.اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا (یہ رافعک الی کی تفسیر ہے) دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.اس الہام میں اللہ تعالیٰ نے صاف لفظوں میں فرما دیا کہ قتل کی سازشوں کا وقت وہ ہوگا کہ جب ایک چمکدار نشان حملہ کی صورت پر ظاہر ہوگا.چنانچہ اس الہام کے بعد جو عربی میں الہام ہے وہ بھی اس مضمون قتل کے فتنہ کی طرف اشارہ کرتا ہے اور وہ یہ ہے الفتنۃ ھٰھنا فاصبر کما صبر اولوالعزم.فلمّا تجلّٰی ربّہ للجبل جعلہ دکّا.قوّۃ الرحمٰن لعبید اللّٰہ الصّمد.مقام لا تترقی العبد فیہ بسعی الاعمال.ترجمہ یہ ہے کہ جب یہ چمکتا ہوا نشان ظاہر ہوگا تو اسوقت ایک فتنہ* برپا ہوگا.حاشیہ: آریوں اور ہندوؤں نے جس قدر جا بجا خفیہ جلسے اور پوشیدہ مشورے اس عاجز کے قتل کے لئے کئے ہیں ان کی نسبت اب تک میرے پاس پچاس کے قریب خط پہنچے ہیں بعض ان میں سے گمنام ہندوؤں کے خط ہیں اور بعض معزّز مسلمانوں کے خط ہیں جن کو ان مشوروں

Page 79

(یہ وہی فتنہ سازش قتل ہے جس کی مناسبت سے الہام مذکورہ میں اس عاجز کو یا عیسیٰ کر کے پکارا گیا تھا یعنی قتل کرنے یا مصلوب کرانے کے ارادہ کا فتنہ) اس الہام میں پہلے اس عاجز کا نام عیسیٰ رکھا گیا اور پھر وعدہ کیا گیا ہے کہ میں تجھے وفات دوں گا اور وہی آیت جو قرآن شریف میں حضرت عیسیٰ کی وفات کے وعدہ کے متعلق ہے اس عاجز کے حق میں کی اطلاع ہوئی.اس وقت خطوط کی نقل کی اس جگہ ضرورت نہیں وہ سب میرے پاس محفوظ ہیں.لیکن ہندو اخبار میں سے کچھ بطور نمونہ نقل کرتا ہوں تا معلوم ہو کہ وہ ابتلاء جو یہود کی شرارتوں سے حضرت عیسیٰ کو پیش آیا تھا وہی مجھ کو پیش آگیا.اور اس فتنہ کے لفظ سے جو الہام الفتنۃ ھٰھنا میں پایا جاتا ہے وہی ابتلا مراد ہے.اور اسی بناء پر معہ بعض دوسرے وجوہ کے اس عاجز کا نام عیسیٰ رکھا گیا.یہود کا فتنہ دو حصہ پر مشتمل تھا ایک وہ حصہ تھا جو حضرت عیسیٰ کے قتل کیلئے ان کے اپنے منصوبے تھے.اور دوسرا وہ حصہ تھا کہ جو وہ گورنمنٹ رومیہ کو حضرت عیسیٰ کی گرفتاری اور قتل کیلئے افروختہ کرتے تھے.سو ان دنوں میں بھی وہی معاملہ پیش آیا.صرف فرق اتنا رہا کہ وہاں یہود تھے اور یہاں ہنود.سو پہلا حصہ جو قتل کے لئے خانگی سازشیں ہیں ان کا نمونہ ایم آر بشیشر داس کے اس مضمون سے معلوم ہوتا ہے جو اس نے اخبار آفتاب ہند مطبوعہ ۱۸؍ مارچ ۱۸۹۷ء کے صفحہ ۵ پہلے کالم میں چھپوایا ہے.جس کا عنوان یہ ہے ’’مرزا قادیانی خبردار‘‘ اور پھر بعد اس کے لکھا ہے کہ ’’مرزا قادیانی بھی امروز فردا کا مہمان ہے بکرے کی ماں کب تک خیر منا سکتی ہے.آج کل ہنود کے خیالات مرزا قادیانی کی نسبت بہت بگڑے ہوئے ہیں پس مرزا قادیانی کو خبردار رہنا چاہئے کہ وہ بھی بکر عید کی قربانی نہ ہو جاوے‘‘ اور پھر اخبار رہبر ہند لاہور ۱۵؍مارچ ۱۸۹۷ء میں صفحہ ۱۴ پہلے کالم میں لکھا ہے ’’کہتے ہیں کہ ہندو قادیان والے کو قتل کرائیں گے‘‘.اور دوسرا حصہ جو گورنمنٹ کے افروختہ کرنے کے متعلق ہے اس کا اخبارات مفصلہ ذیل میں جو ہندوؤں کی طرف سے نکلے ہیں بیان ہے.چنانچہ اخبار پنجاب سماچار ۲۷؍مارچ ۱۸۹۷ ؁ء جو ایک ہندو پرچہ لاہور سے نکلتا ہے اس طرح اپنے صفحہ پانچ میں گورنمنٹ کو افروختہ کرتا ہے.’’سب سے اول اس خیال کو (یعنی سازش قتل کے خیال کو) پیدا کرنے والی مرزا غلام احمد قادیانی

Page 80

الہام ہوئی یعنی یاعیسٰی انّی متوفّیک ورافعک الیّ.اور جیسا کہ ابھی میں لکھ چکا ہوں اس بشارت کی حضرت عیسیٰ کے حق میں بھی ضرورت پڑی تھی کہ اس وقت کی پیشگوئی ہے‘‘ پھر اسی اخبار کے صفحہ۶ میں لکھا ہے کہ ’’مرزا صاحب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پنڈت جی کی موت دوسری۲ شوال کو ہونی تھی‘‘.یعنی پیشگوئی میں جو دوسری شوال کی طرف اشارہ تھا اور ویسا ہی وقوع میں آیا تو بس یہ کافی دلیل ہے کہ پیشگوئی کرنے والے کی سازش سے یہ قتل ظہور میں آیا.پھر یہی اخبار ۱۰.مارچ ۱۸۹۷ء کے پرچہ میں لکھتا ہے.’’ایک حضرت نے (یعنی اس عاجز نے) اپنی مصنفہ کتاب موعود مسیحی میں یہ پیشگوئی بھی کی تھی کہ پنڈت لیکھرام چھ سال کے عرصہ میں عید کے دن نہایت دردناک حالت میں مرے گا‘‘.اب یہ پرچہ عید کے دن کا نام لے کر گورنمنٹ کو اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ ایسا پتہ دینا انسان کے منصوبہ پر دلالت کرتا ہے مگر عید کا دن بیان کرنے میں غلطی کرتا ہے.الہام الٰہی میں دوسری شوال کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے*.پھر اسی پرچہ کے صفحہ ۲ میں لکھتا ہے ’’قتل کے لئے آدمی مقرر کیا گیا.ادھر سے مصنف موعود مسیحی کی پیشگوئی بھی قریب تھی کیونکہ غالباً ۱۸۹۷ ؁ء چھٹا سال تھا اور پانچ مارچ سنہ حال آخری عید چھٹے سال کی تھی‘‘.اس میں جس قدر غلطیاں ہیں حاجت بیان نہیں.بہرحال اس تقریر سے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ منصوبہ مقرر کیا گیا تھا کہ عید پر یا عید کے قریب قتل کیا جائے.پھر اسی خیال کو قوت دینے کے لئے اسی اخبار میں لکھتا ہے کہ ’’یہ قتل کئی ایک اشخاص کی مدت کی سوچی اور سمجھی ہوئی اور پختہ سازش کا نتیجہ ہے جس کی تجاویز امرتسر اور گورداسپورہ کے نزدیک اورادھر دہلی اور بمبئی کے اردگرد مدت سے ہو رہی تھیں.کیا یہ غیر اغلب ہے کہ اس سازش کا جنم ان اشخاص سے ہوا ہو کہ جو علانیہ بذریعہ تحریر و تقریر کہا کرتے تھے کہ پنڈت کو مار ڈالیں گے اور مزید براں یہ کہ پنڈت اس عرصہ میں اور فلاں دن ایک دردناک حالت میں مرے گا.کیا آریہ دھرم کے مخالف چند ایک کتب کے ایک خاص مصنّف کو خدا تعالیٰ نے الہام میں لیکھرام کا نام عجل جسد لہ خوار رکھا ہے یعنی گوسالہ سامری.اس میں بھی یہی اشارہ ہے کہ عید کے دنوں میں وہ ہلاک ہو گا کیونکہ توریت میں اب تک لکھا ہوا موجود ہے کہ سامری کا گوسالہ بھی عید کے دن نیست و نابود کیا گیا تھااور عید کا دوسرا دن بھی عید کے حکم میں ہے.منہ

Page 81

یہودیوں کی ہر روز کی دھمکیوں سے ان کی جان خطرہ میں تھی.اور یہودی لوگ ایک ایسی موت کی ان کو دھمکی دیتے تھے جس موت کو ایک مجرمانہ موت سمجھ سکتے ہیں.اور جس پر توریت کے رو سے بھی راستبازی کی شان کو دھبہ لگتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے ایسے پُرخطر وقت میں ایسی پلید اور لعنتی موت سے ان کو بچا لیا.پس اس الہام میں جو اسی آیت کے ساتھ اس عاجز کو ہوا یہ ایک نہایت لطیف پیشگوئی ہے جو آج کے دن سے سترہ ۷۱ برس پہلے کی گئی اور یہ بآواز بلند بتلا رہی ہے کہ وہی واقعہ اس جگہ بھی پیش آئے گا.اور اس عاجز کو عیسیٰ کے نام سے مخاطب کر کے یہ کہنا کہ اے عیسیٰ میں تجھے وفات دوں گا اور اپنی طرف اٹھاؤں گا.یہ درحقیقت اس واقعہ کا نقشہ دکھلانا ہے جو حضرت عیسیٰ کو پیش آیا تھا اور وہ واقعہ یہ تھا اس سازش سے کوئی تعلق نہیں ہے‘‘ اس میں گورنمنٹ کو یہ پرچہ یہ جتلانا چاہتا ہے کہ کیا ایسا شخص جس نے میعاد مقرر کر دی قتل کا دن بتلا دیا اور زبان سے کہتا رہا کہ فلاں دن مرے گا اس کو قتل کے منصوبہ میں کچھ سازش نہیں؟ پھر ایک اور اخبار جس کا نام اخبار عام ہے اس کے پرچہ ۱۶؍ مارچ ۱۸۹۷ ؁ء صفحہ۳ میں لیکھرام کے قاتل کی نسبت لکھا ہے ’’ کہ طرح طرح کی افواہیں مشہور ہیں.اور قادیانی صاحب کا رویّہ سب سے نرالا ہے....سخت افسوس سے قبول کرنا پڑتا ہے کہ مرزا قادیانی صاحب کا فرض ہے کہ جب الہام کے زور سے انہوں نے لیکھرام کے قتل کی پیشگوئی کی تھی اسی الہام کے زور سے بتلاویں کہ قاتل اس کا کون ہے‘‘ پھر ایڈیٹر اخبار عام اپنے پرچہ ۱۰؍ مارچ ۱۸۹۷ ؁ء میں لکھتا ہے کہ ’’اگر ڈپٹی صاحب یعنی آتھم کے ساتھ ایسا واقعہ ہو جاتا جس کا خمیازہ لیکھرام کو بھگتنا پڑا تب اور صورت تھی‘‘ یعنی اس حالت میں گورنمنٹ پیشگوئی کرنے والے سے ضرور مواخذہ کرتی.ایسا ہی انیس ہند میرٹھ لیکھرام کے مارے جانے کی طرف اشارہ کر کے اپنے پرچہ مارچ میں لکھتا ہے کہ ’’ہمارا ماتھا اسی وقت ٹھنکا تھا کہ جب مرزا غلام احمد قادیانی نے لیکھرام کی موت کی نسبت پیشگوئی کی تھی کیا اس کو علم غیب تھا‘‘.اور ایسا ہی کئی اور ہندو اخباروں میں متفرق طریقوں سے اپنے مفسدانہ خیالات کو ظاہر کیا ہے.اور میں سمجھتا ہوں کہ اس سے زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ پنجاب میں ان کے ان مفسدانہ منصوبوں کا ایسا شور پڑا ہوا ہے کہ شاذ نادر کوئی ان سے بے خبر ہوگا.منہ

Page 82

کہ یہود نے اس ارداہ سے ان کو قتل کرنا چاہا تھا کہ ان کا کاذب ہونا ثابت کریں اور انہوں نے یہ پہلو ہاتھ میں لیا تھا کہ ہم صلیب کے ذریعہ سے اس کو قتل کریں گے اور مصلوب لعنتی ہوتا ہے اور لعنت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان بے ایمان اور خدا سے برگشتہ اور دور اور مہجور ہو.اور اس طرح پر ان کا کاذب ہونا ثابت ہو جائے گا.اور خدا نے ان کو تسلی دی کہ تو ایسی موت سے نہیں مرے گا جس سے یہ نتیجہ نکلے کہ تو لعنتی اور خدا سے دور اور مہجور ہے بلکہ میں تجھے اپنی طرف اٹھاؤں گا یعنی زیادہ سے زیادہ تیرا قرب ثابت کروں گا *اور یہود اپنے اس ارادہ میں نامراد رہیں گے.پس لفظ رفع کے مفہوم میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے آنے کی بھی ایک پیشگوئی مخفی تھی کیونکہ جس سچائی کے زیادہ ظاہر ہونے کا وعدہ تھا وہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ظہور سے وقوع میں آئی.اور خدا تعالیٰ نے اپنے ایک سچے نبی کو بغیر شہادت کے نہ چھوڑا.غرض یہی پیشگوئی اس عاجزکی نسبت براہین احمدیہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے موجود ہے اور آج سے سترہ برس پہلے شائع ہو چکی.سو یہ الہام وہی شان نزول اپنے ساتھ رکھتا ہے جو حضرت مسیح کے متعلق ہونے کی حالت میں اس کے ساتھ تھی یعنی جیسا کہ اس وقت میں یہ وحی اسی غرض سے حضرت عیسیٰ پر نازل ہوئی تھی کہ ان کو پیش از وقت خبر دی جائے کہ تیری نسبت قتل کے منصوبے ہوں گے اور میں تجھ کو بچا لوں گا.اسی غرض سے یہ الہام بھی ہے.اگر فرق ہے تو صرف اتنا ہے کہ اس وقت قتل کے منصو بے کرنے والے یہود تھے اور اب ہنود ہیں.اور یہود نے حضرت مسیح کی تکذیب کے لئے یہ پہلو سوچا تھا کہ ان کو مصلوب کر کے توریت کے رو سے ان کا لعنتی ہونا یہ وعدہ اس عاجز کو بھی دیا گیا کہ میں تجھے وفات دوں گا اور اپنی طرف اٹھاؤں گا.چنانچہ اسی آیت کو بطور الہام اس عاجز کے حق میں بھی نازل فرمایا ہے جس سے ہمارے علماء رفع عنصری مراد لیتے ہیں اور میں دلائل سے ثابت کر چکا ہوں کہ یہ آیت میرے حق میں بھی الہام ہوئی ہے.تو اب کیا میری نسبت بھی یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ میں معہ جسم عنصری آسمان کی طرف اٹھا یا جاؤں گا.اگر کہو کہ تمہارا الہام ثابت نہیں تو یہ عذر فضول ہو گا کیونکہ جس لطیف پیشگوئی پر یہ الہام مشتمل ہے وہ ظہور میں آگئی ہے پس اسی دلیل سے الہام کا سچا ہونا ثابت ہو گیا.منہ

Page 83

کھل جائے گا اور سچا پیغمبر لعنتی نہیں ہو سکتا.پس اس طرح پر ان کا جھوٹا ہونا دلوں پر جم جائے گا اور ایسی ذلّت کے ساتھ زندگی کا خاتمہ ہو کر پھر ان کا کوئی بھی نام نہیں لے گا.اسی ذلت کی موت کا بھاری غم تھا جس نے تمام رات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دعا کرنے کا جوش دیا اور عین صلیب کے وقت ’’ایلی ایلی لما سبقتنی‘‘ ا ن کے منہ سے کہلایا.ورنہ ایک نبی کو اپنی موت کا کیا غم ہو سکتا ہے.یہ بہادر قوم تو موت کے غم کو پیروں کے نیچے کچلتی ہے.ایسا ڈر نبی کے دل کی طرف کیونکر منسوب کر سکیں بلکہ لعنت کے فتنہ کا ڈر تھا جو ان کے دل کو کھا گیا تھا.آخر اس راستباز کو خدا نے بچالیا.اور براہین احمدیہ کی اس پیشگوئی میں یہ اشارہ ہے کہ یہی منصوبہ تمہارے لئے ایک قوم کرے گی.چنانچہ ان دنوں میں لیکھرام کی موت کے بعد ہنود نے یہی کیا اور کر رہے ہیں لیکن انہوں نے میری تکذیب کیلئے یہ دوسرا پہلو سوچا ہے کہ اگر ممکن ہو تو اس کو بھی عید کے قریب قریب قتل کر دیں اور اس طرح پر الٰہی پیشگوئی کو برباد کر کے دلوں سے اسلامی عظمت کو مٹا دیں اور لوگوں کو اس طرف توجہ دلاویں کہ جیسا کہ لیکھرام ایک پیش از وقت پیشگوئی کے موافق قتل ہوگیا ایسا ہی یہ شخص بھی پیش از وقت ہماری پیشگوئی کے موافق قتل ہوگیا.پس اگر وہ خدا کا الہام ہو سکتا ہے تو ہماری بات کو بھی خدا کا الہام کہنا چاہئے.سو اس طرح پر دنیا میں ایک گڑبڑ پڑ جائے گا اور لوگ ہندوؤں کے ایک مردہ کے مقابل مسلمانوں کے ایک مردہ کو دیکھ کر اس نتیجہ تک پہنچ جائیں گے کہ دونوں انسانی منصوبے ہیں.اور اس طرح پر بآسانی اس شخص کا کاذب ہونا ثابت ہو جائے گا.سو یہود اور ہنود تکذیب کی مدعا میں واحد ہیں صرف جدا جدا دو پہلو ان کو سوجھے.پس خدا نے اس وقت سے سترہ برس پہلے سمجھا دیا کہ جیسا کہ یہود اپنے ارادہ میں ناکام رہے ہنود بھی اپنے ارادہ میں ناکام رہیں گے اور صاف لفظوں میں سمجھا دیا کہ یہ منصوبہ قتل اس وقت ہوگا کہ جب ایک چمکتا ہوا نشان حملہ کے رنگ میں ظہور میں آئے گا اور اس حملہ کے بعد ایک فتنہ ہوگا اسی فتنہ کے مشابہ جو مسیح کی نسبت ہوا تھا.اور پھر اسی الہام کے ساتھ عربی میں الہام ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ خدا مشکلات کے پہاڑ دور کر دے گا اور یہ سب رحمان کی قوت سے ہوگا.

Page 84

اور پھر اسی الہام کی تائید میں براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۰۶ میں ایک الہام ہے جس میں ہند وؤں اور عیسائیوں کے لئے ایک کھلے کھلے نشان کا وعدہ کیا ہے جیسا کہ فرمایا ہے لم یکن الذین کفروا من اھل الکتاب والمشرکین منفکین حتی تاتیھم البینۃ و کان کیدھم عظیما.یعنی مشرک اور عیسائی بجز ایک کھلے کھلے نشان کے اپنی تکذیب سے باز آنے والے نہیں تھے اور ان کا مکر بہت بڑا تھا اور پھر فرمایا کہ اگر خدا ایسا نہ کرتا تو دنیا میں اندھیر پڑجاتا.یہ وہی کھلا کھلا نشان ہے جس کو دوسری جگہ چمکار کے لفظ سے تعبیر کیا ہے جو لیکھرام کی موت کا نشان ہے اور صاف ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے نہایت صفائی سے اس نشان کو ظاہر کیا ہے کیونکہ اس پیشگوئی میں میعاد بتلائی گئی تھی.عید کا دوسرا دن بتلایا گیا تھا.اور موت بذریعہ قتل بتلائی گئی تھی.اور کشفی عبارت صاف بتلاتی تھی کہ موت اتوار کو ہوگی اور رات کے وقت ہوگی.سو یہ ساری باتیں اسی طرح ظہور میں آگئیں جیسا کہ پہلے سے کہی گئی تھیں.اور ہندوؤں کا سازش کا الزام اور قتل کرنے کے ارادہ کا الزام اس پیشگوئی کی صفائی پر کچھ غبار نہیں ڈال سکتا کیونکہ ابھی ہم بیان کر چکے ہیں کہ براہین احمدیہ میں یہ پیشگوئی موجود ہے کہ اس نشان کے ظہور کے وقت ایک فتنہ ہوگا اور وہ فتنہ اس فتنہ سے مشابہ ہوگا کہ جو حضرت عیسیٰ کی نسبت یہود نے اٹھایا تھا.یعنی یہ کہ گورنمنٹ کے ذریعہ سے مصلوب کروانے کی کوشش یا خود قتل کرنے کا منصوبہ کرنا.اور اس جگہ یاد رہے کہ جو کچھ ہندو اور ہمارے دوسرے مخالف اس پیشگوئی پر گردوغبار ڈالنا چاہتے ہیں ایسا کبھی نہیں ہوگا کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا فعل ہے اس لئے خدا تعالیٰ اس کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا.بلکہ وہ روز بروز اس کی صفائی ظاہر کرے گا اور جیسے جیسے لوگوں کو یہ پیشگوئی سمجھ آتی جائے گی ویسے ویسے اس کی طرف کھنچے جائیں گے.کیا اس پیشگوئی کی عظمت کیلئے یہ کافی نہیں کہ علاوہ ان تمام تصریحات کے جو اس پیشگوئی میں موجود ہیں براہین احمدیہ بھی سترہ ۷۱ برس پہلے اس واقعہ سے اس پیشگوئی کی خبر دی گئی ہے.پندرھویں پیشگوئی ڈپٹی عبد اللہ آتھم کی نسبت پیشگوئی ہے جو نہایت

Page 85

صفائی سے پوری ہوگئی.آتھم مذکور کی نسبت پیشگوئی کے الہام میں صاف طور پر یہ شرط تھی کہ اگر حق کی طرف رجوع کرے گا تو موت میں تاخیر ڈال دی جائے گی چنانچہ اس نے پیشگوئی کی میعاد میں اپنے اقوال اور افعال سے حق کی طرف رجوع کرنا ثابت کر دکھلایا.اس نے نہ صرف خوف کا اقرار کیا بلکہ وہ پیشگوئی کی میعاد میں اپنے گوشہ خلوت میں مردہ کی طرح پڑا رہا*.اس عرصہ میں ایک مرتبہ اس کو بخار آیا تو وہ روتا ہوا بولا کہ ’’ہائے میں پکڑا گیا‘‘.اس نے میعاد کے اندر تمام مباحثات چھوڑ دئیے گویا اس کے مُنہ میں زبان نہ تھی میعاد کے دنوں میں اس نے اپنی عجیب تبدیلی دکھلائی کہ گویا یہ وہ آتھم ہی نہیں ہے.پس اگرچہ یہ تبدیلی اور ہر اس اور غم کہ اس کے چہرہ سے نمایاں تھا رجوع کیلئے کافی دلیل تھی لیکن اس سے بڑھ کر اس نے یہ بھی ثبوت دے دیا کہ میں نے اس کو کہا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اطلاع دی ہے کہ تو میعاد کے اندر ضرور ڈرتا رہا اور عیسائیت کے بیباکانہ طرز سے ضرور دستکش ہوکر ہیبت اسلام سے متاثر ہوگیا تھا جو رجوع کے اقسام میں سے ایک قسم ہے اور اگر یہ بات صحیح نہیں ہے تو تجھے قسم کھانا چاہئیے جس پر ہم چار ہزار روپیہ بلاتوقف تجھے دیدیں گے لیکن اس نے قسم نہ کھائی اور نہ نالش سے اپنے ان جھوٹے الزاموں کو ثابت کیا جو اپنے خوف کی بنا ٹھہرائی تھی یعنی یہ الزام کہ گویا ہم نے ایک سانپ تعلیم یافتہ اس کی طرف چھوڑا تھا اور بعض مسلح سپاہی بھیجے تھے.پس اس کی اس کارروائی سے صاف طور پر ثابت ہوگیا کہ ضرور اس نے رجوع کیا.اور الہامی عبارت میں یہ بھی تھا کہ اگر رجوع پر قائم نہ رہے گا اور حق کو چھپائے گا تو جلدمر جائے گا.چنانچہ وہ حق کا اخفا کر کے ہمارے آخری اشتہار سے سات۷ ماہ کے اندر فوت ہوگیا.الہام کے موافق اس کا مرنا بھی صاف گواہی دیتا ہے کہ وہ صرف رجوع کے باعث سے کچھ دنوں تک زندہ رہ سکا تھا.یہ کیسی صاف بات ہے کہ الہام الٰہی میں آتھم کیلئے ایک زندہ رہنے کا پہلو تھا اور ایک مرنے کا پہلو.سو خدا نے پیشگوئی کے الفاظ کے مطابق دونوں پہلوؤں کو پورا کر کے دکھلا دیا.کیا زندہ رہنے کا پہلو جو شرط الہامی ہے پیچھے سے بنا دیا ہے اور پہلے الہام میں درج نہیں تھا؟ اگر ایسی ہی سمجھ ناقص ہے تو ایک موٹے طور پر سمجھ لو کہ الہام کے لفظوں میں ہاویہ کا ذکر تھا اور ہاویہ کا کمال موت سے تعبیر کیا گیا تھا.اب سچ کہو کہ کیا آتھم پیشگوئی کی آتھم پیشگوئی کی میعاد میں جو پندرہ مہینے تھی اپنی پہلی عادتیں یعنی مباحثات اور مناظرات سے ایسا دستکش ہو گیا کہ اس کی نظیر اس کی تمام پہلی زندگی میں نہیں پائی جاتی.اس نے اس میعاد میں بقدر ایک سطر بھی کوئی مخالفانہ مضمون نہیں نکالا.پس یہ نہایت صاف اور واضح ثبوت اس بات پر ہے کہ وہ ایام پیشگوئی میں اپنی قدیم عادتوں سے رکا رہا اور وہی رجوع تھا.منہ

Page 86

میعاد کے اندر بے چینی میں نہیں رہا جو ہاویہ کا مصداق ہے؟ کیا کہہ سکتے ہو کہ وہ آرام اور تسلی سے رہا؟ کیا یہ سچ نہیں کہ وہ میعاد سے خارج ہو کر اور عیسائیت پر اصرار کر کے ہمارے آخری اشتہار سے سات۷ ماہ تک مرگیا؟ کیا دکھلا سکتے ہو کہ اب تک وہ کہیں زندہ بیٹھا ہے؟ کیا یہ ایسی باتیں ہیں جو کسی کو سمجھ نہیں آ سکتیں؟ سو انکار پر اصرار اگر بے ایمانی نہیں تو اور کیا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ دنیا کسی پہلو سے خوش نہیں ہو سکتی.آتھم نے نرمی اور شرم اختیار کی اور اس کا دل خوف سے بھرگیا.سو خدا نے الہام کی شرط کے موافق خوف کے ایام میں اس کو مہلت دے دی مگر دنیا کے لوگوں نے پھر یہی کہا کہ ’’آتھم کیوں نہیں مرا‘‘.اور لیکھرام نے کچھ خوف نہ کیا اور شوخی دکھلائی اس لئے خدا تعالیٰ نے ٹھیک ٹھیک میعاد کے اندر اس کو ہلاک کیا اور دنیا کے لوگوں نے کہا کہ ’’کیوں لیکھرام مرگیا ضرور کوئی خفیہ سازش ہوگی‘‘.سو وہ جو میعاد کے اندر مرنے سے بچایا گیا اس پر بھی مخالفوں کا شور اٹھا کہ کیوں بچایا گیا اور جو میعاد کے اندر پکڑا گیا اس پر بھی شور اٹھا کہ کیوں پکڑا گیا.اور جیسا کہ لیکھرام کی نسبت سترہ برس پہلے براہین احمدیہ میں خبر موجود ہے ایسا ہی آتھم کی نسبت بھی براہین احمدیہ میں خبر موجود ہے جو شخص براہین احمدیہ کا صفحہ ۲۴۱ غور سے پڑھے گا اس کو اس بات کو ماننا پڑے گا کہ درحقیقت براہین احمدیہ میں اس فتنہ نصاریٰ کی جو آتھم کی میعاد گذرنے کے بعد ظہور میں آیا خبر دی گئی ہے.ان باتوں پر غور کرنے سے ایک ایماندار کا ایمان قوت پاتا ہے.لیکن افسوس کہ ہمارے مخالف دن بدن بے ایمانی میں بڑھتے جاتے ہیں نہ معلوم ان کی قسمت میں کیا لکھا ہے.مولویوں کی حالت پر تو بہت ہی افسوس ہے کہ ان کو آثار نبویہ کے ذریعہ سے آتھم کی پیشگوئی کی نسبت خبر دی گئی تھی مگر انہوں نے اس خبر کی بھی کچھ پرواہ نہیں کی.ایک دانشمند انسان جب براہین احمدیہ کو کھول کر صفحہ ۲۴۱ میں نصاریٰ کے ذکر اور ان کے مکر اور حق پوشی کی پیشگوئی کے بعد پھر اس الہام کو پڑھے گا الفتنۃ ھٰھُنا فاصبر کما صبر اولوالعزم.اور پھر آگے چل کر جب پانسو گیارہ صفحہ پر ایک مفتری اور بیباک مسلمان کے ذکر کے بعد پھر اس الہام کو پڑھے گا الفتنۃ ھٰھُنا فاصبر کما صبر اولوالعزم اور پھر آگے چل کر جب صفحہ ۵۵۷ میں ایک چمکتے ہوئے نشان

Page 87

کے ذکر کے بعد پھر اس الہام کو پڑھے گا الفتنۃ ھٰھُنا فاصبر کما صبر اولواالعزم تو ان تین فتنوں کے تصور سے جو صفحہ ۲۴۱.اور صفحہ ۵۱۱.اور صفحہ ۵۵۷ براہین احمدیہ میں اس وقت سے سترہ برس پہلے لکھی ہوئی ہیں طبعاً اس کے دل میں ایک سوال پیدا ہوگا کہ یہ تین فتنے کیسے ہیں جن میں سے ایک عیسائیوں سے تعلق رکھتا ہے اور ایک کسی منصوبہ باز مسلمان سے اور ایک کھلے کھلے نشان کے ظہور کے وقت سے.اور پھر جب واقعات کی تلاش میں پڑے گا تو وہ تین بھاری بلوے اس کی نظر کے سامنے آ جائیں گے جو ہر ایک ان میں سے فتنہ عظیم کہلانے کا مستحق ہے.تب خدا کا عمیق علم دیکھ کر ضرور سجدہ کرے گا جس نے اس وقت یہ خبریں دیں جبکہ ان تینوں فتنوں کا نام و نشان نہ تھا اگر یہ تینوں فتنے چیستاں کے طور پر کسی واقعات کے جاننے والے کے سامنے پیش کئے جائیں تو فی الفور وہ جواب دے گا کہ ایک فتنہ آتھم کی پیشگوئی کے متعلق کا ہے جو عیسائیوں اور ان کے حامی بخیل مسلمانوں سے ظہور میں آیا یعنی ان مسلمانوں سے جن کا نام اس پیشگوئی میں یہود رکھا ہے.اور دوسرا فتنہ محمد حسین بٹالوی کی تکفیر کا فتنہ ہے.اور تیسرا وہ فتنہ جو ہندوؤں کی طرف سے نشان الٰہی کے ظہور کے بعد وقوع میں آیا.یہ تین فتنے ہیں جو پُرشور و بلوہ کی طرح ظہور میں آئے جن کی خدا نے سترہ ۷۱ بر س پہلے خبر دیدی تھی!!! اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ان تینوں فتنوں میں سے کوئی فتنہ بھی قومی شور و غوغا سے خالی نہ تھا اور ہر ایک میں انتہائی درجہ کا جوش بھرا ہوا تھا..اور ہر ایک میں غیر معمولی غل غپاڑہ اٹھا تھا.چنانچہ عیسائیوں کا فتنہ اُس وقت وقوع میں آیا تھا جب آتھم میعاد پیشگوئی کے بعد زندہ پایا گیا.پادریوں کو خوب معلوم تھا کہ الہامی پیشگوئی میں صریح شرط تھی کہ آتھم رجوع کی حالت میں جو ایک دلی فعل ہے میعاد میں مرنے سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے اور یہ بھی وہ خوب جانتے تھے کہ آتھم پیشگوئی کی ہیبت سے ضرور ڈرتا رہا.اور وہ ایام میعاد میں عیسائیت کے تعصّب پر قائم نہیں رہ سکا.اور ان کی مجلسوں سے بھاگ کر فیروزپور کے گوشہ خلوت میں جا بیٹھا.اور نیز ان کو خوب معلوم تھا کہ ایک دفعہ بیماری کے وقت میں اس نے یہ بھی کہا کہ ’’میں پکڑا گیا‘‘ اور خوب جانتے تھے کہ فطرتاً اس کی روح ڈرنے

Page 88

والی تھی.اور انہیں کماحقہ اس بات کا علم تھا کہ اس نے اپنی حرکات سے خوف ظاہر کیا استقامت ظاہر نہیں کی اور پہلی وضع متعصبانہ کو ایسا بدل دیا کہ اثناء میعاد میں دین اسلام کی مخالفت میں کبھی دو سطر کا مضمون بھی کسی اخبار میں نہیں چھپوایا اور نہ کوئی رسالہ نکالا جیسا کہ اس کی قدیم سے عادت تھی اور نہ کسی مسلمان سے بحث کی بلکہ اس طرح پر دنوں کو گذارا جیسا کہ کسی نے خاموشی کا روزہ رکھا ہوا ہوتا ہے.اور پھر طرفہ یہ کہ چار ہزار روپیہ دینے پر بھی قسم نہ کھائی.اور مارٹن کلارک سر پیٹ پیٹ کر رہ گیا مگر نالش نہ کی اور تعلیم یافتہ سانپ وغیرہ الزاموں کو ثابت نہ کر سکا.ان تمام وجوہات سے پادری صاحبوں کو یقینی علم تھا کہ وہ بزدل اور ڈرپوک نکلا.اور میعاد کے بعد بھی وہ اپنا قصہ یاد کر کے رویا لیکن پادریوں نے خدا تعالیٰ کا خوف نہ کیا اور امرتسر کے بازاروں میں اس کو لئے پھرے کہ دیکھو آتھم صاحب زندہ موجود ہے اور پیشگوئی جھوٹی نکلی.بہت سے پلید طبع مولوی جو نام کے مسلمان تھے اور چند نالائق اور دنیا پرست اخبار والے ان کے ساتھ ہوگئے اور لعن طعن اور تکذیب اور تبرا بازی میں ان کے بھائی بن بیٹھے اور بڑے جوش سے اسلام کی خفت کرائی.پھر کیا تھا عیسائیوں کو اور بھی موقعہ ہاتھ لگا.پس انہوں نے پشاور سے لیکر الہ آباد اور بمبئی اور کلکتہ اور دور دور کے شہروں تک نہایت شوخی سے ناچنا شروع کیا اور دین اسلام پر ٹھٹھے کئے اور یہ سب مولوی یہودی صفت اور اخباروں والے ان کے ساتھ خوش خوش اور ہاتھ میں ہاتھ ملائے ہوئے تھے.ان پر آسمان سے خدا کی لعنت برس رہی تھی مگر ان کو نظر نہیں آتی تھی.اس وقت وہ غضب الٰہی کے نیچے تھے.مگر نفسانی جوش کے گردوغبار سے اندھے کی طرح ہو رہے تھے.یہ لوگ اس وقت شیطان کی آواز کے مصدق تھے اور آسمان کی آواز کی کچھ پرواہ نہ تھی.انہیں دنوں میں ایک بے نصیب نالائق مسلمان ایڈیٹر نے لاہور سے اپنے اخبار میں آتھم کو مخاطب کر کے اور میرا نام لے کر لکھا کہ ’’آتھم صاحب خلق اللہ پر احسان کریں گے اگر نالش کر کے اس شخص کو سزا دلائیں گے‘‘.اس نادان نے اپنے اِن پُرجوش لفظوں سے مُردہ کو بلانا چاہا.مگر چونکہ وہ مر چکا تھا اس لئے ہل نہ سکا.اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں خود چاہتا تھا کہ اگر آتھم نے قسم نہیں کھائی تو بارے نالش ہی کرتا.مگر آتھم

Page 89

تو مُردہ تھا.زندہ خدا کی پیشگوئی کا رعب اس کو ہلاک کر گیا تھا گو بظاہر جیتا نظر آتا تھا.مگر اس میں جان نہ تھی.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر یہ سب لوگ اس کو ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیتے تب بھی وہ کبھی نالش نہ کرتا.اور اگر میں ایک کروڑ روپیہ بھی اس کو دیتا تو کبھی قسم نہ کھاتا.اس کا دل میرا قائل ہوگیا تھا اور زبان پر انکار تھا.اور میں خوب جانتا ہوں کہ اس معاملہ میں آتھم سے زیادہ میری سچائی کا اور کوئی گواہ نہ تھا.غرض پادریوں نے آتھم کے معاملہ میں حق پوشی کر کے بہت شوخی کی اور امرتسر سے شروع کر کے پنجاب اور ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں ناچتے پھرے اور بہروپ نکالے اور ایسا شور و غوغا کیا کہ ابتداء عملداری انگریزی سے آج تک اس کی کوئی نظیر نہیں مل سکتی.اور اس جھوٹی خوشی میں جس کے مقابل انہیں کا کانشنس ان کے منہ پر طمانچے مارتا تھا بہت بُرا نمونہ دکھایا.اور گندی گالیوں سے بھرے ہوئے میری طرف خط بھیجے اور وہ شور کیا اور وہ شوخی ظاہر کی کہ گویا ہزاروں فتح ان کے نصیب ہوگئیں اور ہزاروں اشتہار چھپوائے مگر پھر بھی اتنے اور اس قدر جوش کے ساتھ آتھم کا مردہ جنبش نہ کر سکا اور اس جھوٹی فتح کی خوشی میں اس نے کوئی دو ورقہ رسالہ بھی شائع نہ کیا.بلکہ ایک اخبار میں شائع کر دیا کہ یہ تمام فتنہ اور شور و غوغا جو عیسائیوں کی طرف سے ہوا یہ میری خلاف مرضی ہوا میں ان کے ساتھ متفق نہیں.اور گو سچی گواہی کو چھپایا مگر مخالفانہ تیزی اور چالاکی سے بھی چپ رہا یہاں تک کہ الہام الٰہی کے موافق ہمارے آخر ی اشتہار سے سات۷ مہینہ کے اندر فوت ہوگیا.غرض بڑا بھاری فتنہ یہ تھا جس میں دین اسلام پر ٹھٹھا کیا گیا.اور جس میں بدبخت مولویوں اور دوسرے جاہل مسلمانوں نے پادریوں کی ہاں کے ساتھ ہاں ملا کر اپنا مُنہ کالا کیا.اور ایک الہامی پیشگوئی کی ناحق تکذیب کی اور اسلام کی سخت توہین کے مرتکب ہوئے.اب صفحہ ۲۴۲ براہین احمدیہ غور سے پڑھو اور انصاف کرو کہ کیسی صفائی سے اس فتنہ کی اس میں خبر ہے اور کیسا صاف صاف لکھا ہے کہ اول عیسائی مکر کریں گے اور پھر صدق ظاہر ہو جائے گا.دوسرا فتنہ جو دوسرے درجہ پر تھا محمد حسین بٹالوی کی تکفیر کا فتنہ تھا.اس میں بھی عوام کا شور وغوغا پادریوں کے شور وغور سے کچھ کم نہ تھا.اسی فتنہ کی تقریب پر بمقام دہلی سات یا آٹھ ہزار

Page 90

کے قریب مکفر اور مکذب جامع مسجد میں میرے مقابل پر اکٹھے ہوئے تھے.اگر عنایت الٰہی شامل نہ ہوتی تو ایک خطرناک بلوہ برپا ہو جاتا.غرض اس فتنہ کا بانی محمد حسین بٹالوی تھا اور اس کے ساتھ نذیر حسین دہلوی تھا جس کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اس الہام میں فرمایا جو صفحہ ۵۱۱ میں درج ہے تبت یدا ابی لھب و تبّ.ما کان لہ ان یدخل فیھا الَّا خائفا یعنی دونوں ہاتھ ابی لہب کے ہلاک ہوگئے جس سے اس نے فتویٰ تکفیر لکھا اور وہ آپ بھی ہلاک ہوگیا.اس کو نہیں چاہئے تھا کہ اس مقدمہ میں دخل دیتا مگر ڈرتا ہوا.یہ فتنہ بھی پشاور سے لے کر کلکتہ بمبئی حیدر آباد اور تمام بلاد پنجاب اور ہندوستان میں پھیل گیا.اور جاہل مسلمانوں نے رافضیوں کی طرح مجھ پر لعنت بھیجنا ثواب کا موجب سمجھا.اور مسلمانوں کے باہمی تعلقات ٹوٹ گئے اور بھائی بھائی سے اور بیٹا باپ سے علیحدہ ہوگیا.سلام ترک کیا گیا یہاں تک کہ ہماری جماعت میں سے کسی مُردہ کا جنازہ پڑھنا بھی موجب کفر سمجھا گیا.تیسرا فتنہ جو تیسرے درجہ پر ہے وہ فتنہ ہے جو اب لیکھرام کی موت پر کُھلاکُھلا نشان ظاہر ہونے کے وقت ہندوؤں سے وقوع میں آیا اور انہوں نے جہاں تک ان کی طاقت تھی فتنہ کو انتہا تک پہنچایا اور قتل کے منصوبے کئے اور کر رہے ہیں اور گورنمنٹ کو اکسایا اور اکسا رہے ہیں.*اس فتنہ کے ساتھ چونکہ ایک کھلا کھلا نشان ہے جس سے مخالفوں کے دلوں پر زلزلہ آگیا ہے اور فتح عظیم حاصل ہوئی ہے.اور بہت سے اندھے سوجاکھے ہوتے جاتے ہیں.اس لئے یہ فتنہ تیسرے درجہ پر ہے.یہ تین فتنے ہیں جن کا براہین احمدیہ میں آج سے سترہ برس پہلے ذکر ہے.اب اگر بڑے سے بڑے متعصب مسلمان یا عیسائی یا ہندو کے سامنے یہ کتاب براہین احمدیہ رکھ دی جائے اور ان تینوں فتنوں کے مقامات اس کو دکھلائے جائیں اور حلفاًاس سے پوچھا جائے کہ یہ تینوں فتنے واقعی طور پر وقوع میں آ چکے یا نہیں.اور کیا یہ پیشگوئی کے طور پر براہین احمدیہ میں لکھے گئے تھے یا نہیں.اور کیا یہ واقعات ثلاثہ جو بڑے ۸؍اپریل ۱۸۹۷ء کو صاحب ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس کی معرفت خانہ تلاشی کرائی.منہ

Page 91

زورشور سے ظہور میں آچکے نہیں بتلاتے اور گواہی نہیں دیتے کہ حقیقت میں ایک فتنہ عیسائیوں کی طرف سے بھی ہوا جس میں لاکھوں انسانوں کا شوروغوغا ہوا اور گروہ کے گروہ نہایت پُرجوش صورت میں بازاروں میں پھرتے تھے اور بہروپ نکالتے تھے اور دوسرا فتنہ حقیقت میں محمد حسین بٹالوی کی طرف سے ہوا جس نے مسلمانوں کے خیالات کو اس عاجز کی نسبت بھڑکتی ہوئی آگ کے حکم میں کر دیا اور بھائیوں کو بھائیوں سے اور باپوں کو بیٹوں سے اور دوستوں کو دوستوں سے علیحدہ کر دیا اور رشتے ناطے توڑ ڈالے.اور تیسرا فتنہ لیکھرام کی موت کے وقت اور نشان الٰہی کے ظاہر ہونے کے حسد سے ہندوؤں کی طرف سے ہوا اس فتنہ کے جوش میں کئی معصوم بچے قتل کئے گئے راولپنڈی میں قریباً چالیس۰۴ آدمیوں کو زہر دیاگیا اور مجھ کو قتل کی دھمکیاں دی گئیں اور گورنمنٹ کو مشتعل کرنے کیلئے سعی کی گئی اور آئندہ معلوم نہیں کہ کیا کچھ کریں گے*اب بتلاؤ کہ کیا یہ سچ نہیں کہ جیسے براہین احمدیّہ میں تصریح اور تفصیل کے ساتھ تین فتنوں کا ذکر کیا گیا تھا وہ تینوں فتنے ظہور میں آگئے.کیا محمد۱ حسین بٹالوی.یا سیداحمد ۲ خا ن صاحب کے سی ایس آئی.یا نذیرحسین۳ دہلوی یا عبدالجبار۴ غزنوی یا رشیداحمد ۵ گنگوہی یا محمدبشیر بھو۶پالی یاغلام دستگیر قصو۷ری یاعبداللہ۸ ٹونکی پروفیسر لاہور.یا مولوی محمدحسن۹ رئیس لدھیانہ قسم کھاسکتے ہیں کہ یہ تین فتنے جن کا ذکر پیشگوئی کے طور پر براہین احمدیہ میں کیا گیا ہے ظہور میں نہیں آگئے.اگر کوئی صاحب ان صاحبوں میں سے میرے الہام کی سچائی کے منکر ہیں تو کیوں خلقت کو تباہ کرتے ہیں میرے مقابل پر قسم کھا جائیں کہ یہ تینوں فتنے جو براہین احمدیہ میں بطور پیشگوئی ذکر کئے گئے ہیں یہ پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں اور اگر پوری ہوگئی ہیں تو اے خدائے قادر اکتالیس دن تک ہم پر وہ عذاب نازل کر جو مجرموں پر نازل ہوتا ہے پس اگر خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے اور بلاواسطہ کسی انسان کے وہ عذاب جو آسمان سے اترتا اور کھا جانے والی آگ کی طرح کذاب کو نابود کر دیتا ہے اکتالیس روز کے اندر نازل نہ ہوا تو میں جھوٹا اور میرا تمام کاروبار جھوٹا ہوگا اور میں حقیقت میں تمام لعنتوں کا مستحق ٹھہروں گا اور اگر وہ کسی دوسرے شخص کی طرف سے اس قسم کی پیشگوئیاں جن کو خود بیان کرنے والے نے ۸؍اپریل ۱۸۹۷ء کومیرے گھر کی تلاشی کی گئی.منہ

Page 92

اپنی تحریروں اور چھپی ہوئی کتابوں کے ذریعہ سے مخالفوں اور موافقوں میں پیش ازوقت شائع کر دیا ہو اور اپنی عظمت میں میری پیشگوئیوں کے مسا وی ہوں اس زمانہ میں دکھاویں جن میں الٰہی قوت محسوس ہو تب بھی میں جھوٹا ہو جاؤں گا.اور قسم کیلئے ضروری ہوگا کہ جو صاحب قسم کھانے پر آمادہ ہوں وہ قادیان میں آکر میرے روبرو قسم کھاویں میں کسی کے پاس نہیں جاؤں گا یہ دین کا کام ہے پس جو لوگ باوجود مولویت کی لاف کے اس میں سستی کریں تو خود کاذب ٹھہریں گے اگر میرے جیسے شخص کو جس کا نام دجّال رکھتے ہیں مغلوب کرلیں تو گویا تمام دنیا کو بدی سے چھڑائیں گے اور قسم کے وقت یہ شرط نہایت ضروری ہوگی کہ میں ان کی قسم سے پہلے پورے دو گھنٹے تک عام جلسہ میں ان پیشگوئیوں کی سچائی کے دلائل ان کے سامنے بیان کروں گا تا وہ جلدی کر کے ہلاک نہ ہو جائیں اور نیز ان پر حجت پوری ہو اور ان کا حق نہیں ہوگا کہ بجز قسم کھانے کے ایک کلمہ بھی منہ پر لائیں خاموشی سے دو گھنٹے تک میرے بیان کو سنیں گے پھر حسب نمونہ مذکورہ قسم کھا کر اپنے گھروں میں جائیں گے اور یاد رہے کہ میں نے سیّد احمد خان صاحب کا نام منکرین کی مد میں اس لئے لکھا ہے کہ ان کو خدا کے اس الہام بلکہ وحی سے بھی انکار ہے جو خدا سے نازل ہوتی اور علم غیب کی عظمت اپنے اندر رکھتی ہے چونکہ وہ بھی اب عمر کی منزل کو طے کر چکے ہیں میں نہیں چاہتا کہ وہ یورپ کے کورا نہ خیالات کی پیروی کر کے اس غلطی کو قبر میں لیجائیں اب گو وہ متوجہ نہ ہوں اور اس بات کو ٹھٹھے میں اڑائیں مگر میں نے تو جو تبلیغ کرنی تھی وہ کر چکا ہوں میں ڈرتا ہوں کہ میں پوچھا نہ جاؤں کہ ایک بندہ گم شدہ کو تم نے کیوں تبلیغ نہ کی.بعض نادان کہتے ہیں کہ ہر دفع عذاب اور موت کی پیشگوئیاں کیوں کی جاتی ہیں یہ نادان نہیں جانتے کہ ہر ایک نبی انذاری پیشگوئیاں کرتا رہا ہے اگر یہ روا نہیں ہے تو اس کے کیا معنے ہیں کہ مسیح موعود کے دم سے مخالف مریں گے.غرض یہ نو صاحب ہیں جو قسم کھانے کیلئے منتخب کئے گئے ہیں کیونکہ ہر ایک ان میں سے ایک جماعت اپنے ساتھ رکھتا ہے پس اس کے ساتھ فیصلہ کرنے سے جماعت کا فیصلہ خود ضمناً ہو جائے گا.قسم کا یہی مضمون ہوگا کہ یہ پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں اور پہلے

Page 93

سے براہین احمدیہ میں ان کا ذکر نہیں ہے.اس بات کو بخوبی یاد رکھنا چاہئے کہ اگرچہ منکرین اپنی جہالت اور نادانی سے بات بات میں تکذیب کرتے ہیں اور ہر ایک پیشگوئی کو خلاف واقعہ قرار دیتے ہیں مگر وہ تکذیب ان کی جو ایک ہولناک فتنہ کے رنگ میں پیدا ہوئی اور بلوہ کی حد تک پہنچ گئی جس کے ساتھ ایک طوفان بے تمیزی کا اٹھا اور خطرناک نتیجے پیدا ہوئے وہ صرف تین مرتبہ وقوع میں آئی اسی کا نام براہین احمدیہ میں تین فتنہ عظیمہ رکھا گیا اور یہ کتاب یعنی براہین احمدیہ آج کے دن سے سترہ برس پہلے تمام ملک بلکہ بلاد عرب اور فارس تک شائع ہو چکی ہے.اور یہ تین فتنے جس قوت اور عظمت سے ظہور میں آئے اور جس ہیبت ناک شور کے ساتھ اس ملک کے کناروں تک ان کو پھیلایا گیا یہ ایسا امر نہیں ہے جو کسی سے مخفی رہا ہوبلکہ پنجاب اور ہندوستان کے مرد اور عورت اور ہندو اور مسلمان ان تینوں فتنوں کو ایسے طور سے یاد رکھتے ہیں کہ ہرگز امید نہیں کہ کبھی تذکرہ ان فتن ثلاثہ کا صفحۂ تواریخ میں سے مٹ سکے پس جو شخص ان تینوں فتنوں کے پُر ہیبت واقعات پر اطلاع پاکر پھر براہین احمدیہ میں ان کی خبر دیکھنا چاہے یا براہین احمدیہ میں ان تینوں فتنوں کی پیشگوئی پڑھ کر پھر واقعات خارجیہ میں ان کا نمونہ دیکھنا چاہے تو ان دونوں صورتوں میں یقین کامل اس کو ہو جائے گا کہ براہین احمدیہ میں انہیں تین فتنوں کا ذکر ہے جو ظہور میں آگئے یا یوں کہو کہ جو تین فتنے ظہور خارجی میں مشاہدہ کئے گئے وہ وہی تینوں ہیں جو براہین احمدیہ میں پہلے سے مندرج ہیں.اب سوچو کہ آتھم کے متعلق جو پیشگوئی تھی جس کی نسبت عیسائیوں اور یہودی صفت مولویوں نے شور مچایا اور لیکھرام کی نسبت جو پیشگوئی تھی جس کی نسبت آریوں نے طوفان برپا کیا یہ دونوں کس چٹان مضبوط پر رکھی گئی ہیں.اے مسلمانوں کی اولاد حد سے بڑھتے نہ جاؤ ممکن ہے کہ انسان اپنی عقل اور اپنے اجتہاد سے ایک رائے کو صحیح سمجھے اور دراصل وہ رائے غلط ہو اور ممکن ہے کہ ایک شخص کو کاذب خیال کرے اور دراصل وہ سچا ہو تم سے پہلے بہت لوگوں کو دھوکے لگے تم کیا چیز ہو کہ تمہیں نہ لگیں پس ڈرو اور تقویٰ کی راہ اختیار کرو تا امتحان میں نہ پڑو میں بار بار کہتا ہوں کہ اگر یہ انسان کا فعل ہوتا تو کب کا تباہ کیا جاتا اور قبل اس کے جو تمہارا ہاتھ اٹھتا خدا کا ہاتھ اس کو تباہ

Page 94

کر دیتا دیکھو خدا فرماتا ہے 3 ۱؂ یعنی غیب کو چنے ہوئے فرستادوں کے سوا کسی پر نہیں کھولا جاتا.اب سوچو اور خوب غور سے اس کتاب کو پڑھو کہ کیا وہ غیب جس کی اس آیت میں تعریف ہے کامل طور پر پیش نہیں کیا گیا میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو کچھ تمہیں دکھایا گیا اگر ان اندھوں کو دکھایا جاتا کہ اس صدی سے پہلے گذر گئے تو وہ اندھے نہ رہتے سو تم روشنی کو پاکر اس کو ردّ نہ کرو خدا تمہیں روشن آنکھیں دینے کے لئے طیار ہے اور پاک دل بخشنے کیلئے مستعد ہے وہ نئے طور سے اپنی ہستی تم پر ظاہر کرنا چاہتا ہے اس کے ہاتھ ایک نیا آسمان اور نئی زمین بنانے کے لئے لمبے ہوئے ہیں سو تم مزاحمت مت کرو اور سعادت سے جلد جھک جاؤ تم اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو اور اپنی ذرّیت کے دشمن نہ بنو تا خدا تم پر رحم کرے اور تا وہ تمہارے گناہ بخشے اور تمہارے دنوں میں برکت دے.دیکھو آسمان کیا کر رہا ہے اور زمین کو کیونکر خدا کھینچ رہا ہے افسوس کہ تم نے صدی کے سر کو بھی بھلا دیا.پندرہویں پیشگوئی جو آتھم کی پیشگوئی اور لیکھرام کی پیشگوئی سے نہایت مناسبت رکھتی ہے وہ الہام ہے جو آتھم کی میعاد گذرنے کے بعد رسالہ انوارالاسلام میں شائع کیا گیا تھا وہ یہ ہے اطلع اللّٰہ علی ھَمِّہٖ و غمّہ و لن تجد لسنۃ اللّٰہ تبدیلا.ولا تعجبوا ولا تحزنوا و انتم الاعلون ان کنتم مؤمنین.و بعزّتی و جلالی انّک انت الاعلٰی.و نمزق الاعداء کُلّ ممزق.انا نکشف السرّعن ساقہٖ.یومئذ یفرح المؤمنون.ثُلّۃ من الاولین و ثُلّۃ من الاٰخرین.ھذہ تذکرہ فمن شاء اتخذالی ربّہٖ سبیلا.یعنی خدا نے دیکھا کہ آتھم کا دل ہم و غم سے بھرگیا اور خدا کی سنّت میں تو تبدیلی نہیں پائے گا یعنی وہ ڈرنے والے دل کے لئے عذاب کی پیشگوئی کو تاخیر میں ڈال دیتا ہے یہی اس کی سنت ہے.اور پھر فرمایا کہ جو واقعہ پیش آیا اس سے کچھ تعجب مت کرو اور اگر تم ایمان پر قائم رہو گے تو آخر غلبہ تمہیں کو ہوگا.اور مجھے میری عزت اور جلال کی قسم ہے کہ آخر تو ہی غالب ہوگا.اور ہم دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالیں گے ہم الہامی پیشگوئی کے مخفی امور کو اس کی پنڈلی سے ننگا کر کے دکھائیں گے اس دن مومنین خوش ہوں گے الجن: ۲۷،

Page 95

پہلا گروہ بھی اور پچھلا گروہ بھی یہ خدا کی طرف سے ایک یاد دہانی ہے سو جو چاہے قبول کرے.اب دیکھو کہ یہ پیشگوئی تین برس سے کچھ زیادہ عرصہ کی ہے یعنی اس وقت کی کہ جب آتھم کی میعاد کا آخری دن تھا اس میں خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ یہ اثر پیشگوئی کا جو نادانوں پر مشتبہ ہے اس کو ہم ننگا کر کے دکھلا دیں گے پس اس نے لیکھرام کے نشان کے بعد اپنے وعدے کے موافق اس مخفی امر کو ننگا کر کے دکھلا دیا اور براہین احمدیہ کی پیشگوئیوں کو ایک آئینہ کی طرح آگے رکھ دیا.پس اس کا یہ فضل اس زمانہ پر ہے جو اس نے نئی معرفت کا سرچشمہ کھولا مبارک وہ جو اس سے حصہ لیوے اور یہ جو فرمایا تھا کہ پہلا گروہ بھی اس وقت خوش ہوگا اور پچھلا گروہ بھی یہ تمام پیشگوئیاں اس وقت ظہور میں آگئیں چنانچہ لیکھرام کے نشان کے ظاہر ہونے سے اہل ایمان کی قوت ایمانی بہت بڑھ گئی اور ان کو وہ خوشی پہنچی جس کا اندازہ کرنا مشکل ہے ہزاروں ایمانداروں پر رقت طاری ہوگئی اور وجد کے جوش سے خوشی آنسوؤں کے راہ سے نکلی گویا پوشیدہ خدا کو انہوں نے آنکھوں سے دیکھ لیا یہ عجیب واقعہ پیش آیا کہ ہندو اور آریہ تو لیکھرام کے غم سے روئے اور ایمانداروں اور صادقوں کا گروہ زیادت معرفت کی خوشی سے رویا براہین احمدیہ کے صفحہ ۲۴۲ میں جو الہامات مندرجہ ذیل ہیں جو ایک پیشگوئی تھی وہ اسی نشان کے بعد کامل طور پر میں نے پوری ہوتی دیکھی اور وہ یہ ہے: اصحاب الصُّفۃ ط وما ادٰرک ما اصحاب الصُّفۃ ط تٰری اعینھم تفیض من الدمع یُصَلُّون عَلیْک.ربنا اننا سمعنا منادیًا ینادی للایمان و داعیًا الی اللّٰہ و سراجا منیرا.اَمْلُوا.ترجمہ.حجرہ کے ہمنشین.اور تو کیا جانتا ہے کہ کیا ہیں حجرہ کے ہمنشین.تو دیکھے گا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوں گے.تجھ پر درود بھیجیں گے.اے ہمارے خدا ہم نے ایک منادی کرنے والے کو سنا جو تیرے نام کی منادی کرتا اور لوگوں کو ایمان کی طرف بلاتااور خدائے واحد لاشریک کی طرف دعوت کرتا ہے اور ایک چمکتا ہوا چراغ ہے لکھ لو.اور انوارالاسلام کی مذکورہ بالا پیشگوئی میں یہ بھی صاف طور پر لکھاہے کہ اس نشان کے بعد ایک اور گروہ بھی اس جماعت کے ساتھ شامل ہو جائے گا اور وہ دونوں گروہ اس نشان پر خوش ہوں گے.چنانچہ یہ پیشگوئی اب پوری ہو رہی ہے

Page 96

اور بہت مخالفوں کے انکساری کے خط پر خط آ رہے ہیں جو ہم غلطی پر تھے.فالحمد للّٰہ علٰی ذالکَ.سولہویں پیشگوئی براہین احمدیہ کے صفحہ ۲۲۷ میں ایک آریہ کے متعلق ایک پیشگوئی ہے جس کا نام ملاوامل ہے وہ ابھی تک بقید حیات ہے یہ شخص دق کے مرض میں مبتلا ہوگیا تھا ایک دن وہ میرے پاس آکر اور زندگی سے نا امید ہوکر بہت بے قراری سے رویا مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس نے اس روز متوحش خواب بھی دیکھا تھا جہاں تک مجھے یاد ہے خواب یہ تھا کہ اس کو ایک زہریلے سانپ نے کاٹا ہے اور تمام بدن میں زہر سرایت کر گیا ہے اس خواب نے اس کو نہایت غمگین کر دیا تھا اور پہلے سے ایک نرم تپ نے جو کھانے کے بعد تیز ہو جاتی تھی سخت گھبراہٹ میں اس کو ڈالا ہوا تھا اس لئے وہ بیقراری اور قریب قریب مایوسی کی حالت میں تھا اور وہ میرے پاس آکر رویا اس لئے میرا دل اس کی حالت پر نرم ہوا اور میں نے حضرت احدیّت میں اس آریہ کے حق میں دعا کیجیسا کہ اس پہلے آریہ کے حق میں دعا کی تھی جس کا نام شرمپت ہے تب مجھے یہ الہام ہوا جو براہین کے صفحہ ۲۲۷ میں موجود ہے قُلنَا یَا نَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلَامًا یعنی ہم نے تپ کی آگ کو کہا کہ سرد اور سلامتی ہو چنانچہ اسی وقت اس کو جو موجود تھا اس الہام سے خبر دی گئی اور کئی اور لوگوں کو اطلاع دی گئی کہ وہ ضرور میری دعا کی برکت سے صحت پا جائے گا چنانچہ بعد اس کے ایک ہفتہ نہیں گذرا ہوگا کہ وہ آریہ خدا کے فضل سے صحت پاگیا.اگرچہ اب آریوں کی ایسی حالت ہے کہ ان کو سچی گواہی ادا کرنا موت سے بدتر ہے لیکن میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ واقعہ سراسر صحیح ہے اور ایک ذرّہ اس میں آمیزش مبالغہ نہیں اگر ان واقعات کے مضمون کے کسی حصہ میں مجھے شک ہوتا تو میں ان واقعات کو ہرگز نہ لکھتا اور مبالغہ کرنا اور اپنی طرف سے زیادہ باتیں ملا دینا لعنتی انسانوں کا کام ہے اور یہ دونوں واقعات شرمپت اور ملاوامل کے ۱۷ برس سے براہین احمدیہ میں لکھے ہوئے ہیں پس جو لوگ ان شبہات میں پڑتے ہیں کہ مخالفوں کیلئے ضرر رسانی کے ہی الہام ہوتے ہیں وہ ان دونوں الہاموں پر غور کریں کیونکہ یہ دونوں آریہ ہیں ہمارا کام تمام مخلوق کی ہمدردی ہے بھلا آریہ ہی کوئی مثال دیں کہ انہوں نے

Page 97

اس قسم کی ہمدردی کسی مسلمان سے کی ہو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ سچی محبت سے خدا کے بندوں کی خیر خواہی کرنا بجز سچے مسلمان کے کسی سے ممکن ہی نہیں ہاں ریاکاری کے ساتھ ممکن ہو تو ہو مگر دل کے پاک انشراح سے ٹھیک ٹھیک اصول پر قدم مار کر دوسروں کو یہ باتیں حاصل نہیں ہو سکتیں مسلمان بالطبع مدارات کو چاہتے ہیں اس لئے کھانے پینے میں بھی ہندوؤں سے پرہیز نہیں کرتے مگر ہندوؤں میں نفرت بھی ایک بخل کی نشانی ہے.ہاں کسی نافرمان پر خدا کا غضب ہونا خواہ وہ مسلمان ہو یا عیسائی یا ہندو یہ اور بات ہے ہمدردی کے اصول سے اس کو کچھ تعلق نہیں.اور میں نے جو ان دونوں آریوں کے واقعات پیش کرنے کے وقت قسم کھائی ہے یہ اس لئے کہ میں باور نہیں کرتا کہ وہ کم سے کم اس قدر حق پوشی کیلئے طیار نہ ہو جائیں کہ میری نسبت یہ الزام دیں کہ اس نے اصل واقعات میں کمی بیشی کر دی ہے اور نیز اس لئے قسم کھائی ہے کہ آج کل آریوں کو اسلام کے ساتھ ایک خاص بُغض ہے.اور میں دوبارہ اللہ جلّ شانہٗ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ایک ذرہ ان واقعات میں تفاوت نہیں خدا موجود ہے اور جھوٹے کے جھوٹ کو خوب جانتا ہے اگر میں نے جھوٹ بولا ہے یا میں نے ان قصوں کو ایک ذرہ کم و بیش کر دیا ہے تو نہایت ضروری ہے کہ ایسا ظن کرنے والا خدا کی قسم کے ساتھ اشتہار دیدے کہ میں جانتا ہوں کہ اس شخص نے جھوٹ بولا ہے یا اس نے کم و بیش کر دیا ہے اور اگر نہیں کیا تو ایک سال تک اس تکذیب کا وبال مجھ پر پڑے اور ابھی میں بھی قسم کھا چکا ہوں پس اگر میں جھوٹا ہوں گا یا میں نے ان قصوں کو کم و بیش کیا ہوگا تو اس دروغ گوئی اور افترا کی سزا مجھے بھگتنی پڑے گی لیکن اگر میں نے پوری دیانت سے لکھا ہے اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں نے پوری دیانت سے لکھا ہے تب مکذب کو خدا بے سزا نہیں چھوڑے گا یقیناً سمجھو کہ خدا ہے اور وہ ہمیشہ سچائی کی مدد کرتا ہے اگر کوئی امتحان کیلئے اٹھے تو عین مراد ہے کیونکہ امتحان سے خدا ہم میں اور مخالفوں میں فیصلہ کر دے گا ہمارے مخالف مولویوں کے لئے بھی یہ موقع ہے کہ ان لوگوں کو اٹھاویں جیسا کہ آتھم کے اٹھانے کیلئے کوشش کی تھی.فیصلہ ہو جانا ہر ایک کیلئے مبارک ہے اس سے دنیا کو پتہ لگ جائے گا کہ خدا موجود ہے اور

Page 98

سچوں کی دعائیں قبول کرتا ہے.دیانند اور لیکھرام اس کا چیلہ اس جہان سے گذر گئے مگر دہریت اور بخل اور تعصب کی بدبو باقی چھوڑ گئے اور میں چاہتا ہوں کہ وہ بدبو دور ہو اس لئے میں اس آریہ سے بھی قسم سے فیصلہ چاہتا ہوں جیسا کہ پہلے آریہ سے درخواست کی گئی ہے اور میں یقیناً جانتا ہوں بلکہ آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ خدا راستی کا حامی ہے اور راستی کے مخالف کا دشمن ہے سچی بات کی گواہی دینی ایک ایماندار کیلئے مشکل نہیں مگر آریوں کیلئے آجکل بہت مشکل ہے.غرض اگر کوئی مکذب ہو یہ آریہ ہو یا وہ آریہ تو قسم کھا کر مجھ سے فیصلہ کرلے میں جانتا ہوں کہ وہ خدا جو ہمارا خدا ہے ایک کھا جانے والی آگ ہے وہ جھوٹے کو کبھی نہیں چھوڑے گا.لیکن اگر سچا ہوگا تو اس کا کوئی نقصان نہیں.اب دیکھو ثبوت اسے کہتے ہیں کہ دین کے دشمنوں کے حوالہ سے اس بابرکت پیشگوئی کی سچائی ظاہر کی گئی ہے دنیا میں اس سے زیادہ اور کیا ثبوت ہوگا کہ ایسے دین کے دشمن جیسا کہ آجکل آریہ ہیں خدا کی پیشگوئیوں کی سچائی کے گواہ ہوں کیا ایسی گواہیاں اور ایسے موجودہ نشان عیسائیوں کے پاس بھی ہیں؟ اگر ہیں تو ایک آدھ بطور نظیر کے پیش تو کریں پس یقیناً سمجھو کہ سچا خدا وہی خدا ہے جس کی طرف قرآن شریف بلاتا ہے اس کے سو اسب انسان پرستیاں یا سنگ پرستیاں ہیں.بیشک مسیح ابن مریم نے بھی اس چشمہ سے پانی پیا ہے جس سے ہم پیتے ہیں اور بلاشبہ اس نے بھی اس پھل میں سے کھایا ہے جس سے ہم کھاتے ہیں لیکن ان باتوں کو خدائی سے کیا تعلق اورابنیت سے کیا علاقہ ہے عیسائیوں نے مسیح کو ایک مقید خدا بنانے کا ذریعہ بھی خوب نکالا یعنی لعنت اگر لعنت نہ ہو تو خدائی بیکار اور ابنیت لغو.لیکن باتفاق تمام اہل لغت ملعون ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ خدا سے دل برگشتہ ہو جائے.بے ایمان ہو جائے.مرتد ہوجائے.خدا کا دشمن ہو جائے.سیاہ دل ہو جائے.کتوں اور سوروں اور بندروں سے بدتر ہو جائے جیسا کہ توریت بھی گواہی دے رہی ہے پس کیا یہ مفہوم بھی ایک سیکنڈ کیلئے مسیح کے حق میں تجویز کر سکتے ہیں کیا اس پر ایسا زمانہ آیا تھا کہ وہ خدا کا پیارا نہیں رہا تھا.کیا اس پر وہ وقت آیا تھا کہ اس کا دل خدا سے برگشتہ ہوگیا تھا.کیا کبھی اس نے بے ایمانی کا ارادہ کیا تھا.کیا کبھی ایسا ہوا کہ وہ خدا کا دشمن اور خدا اس کا دشمن

Page 99

تھا.پس اگر ایسا نہیں ہوا تو اس نے اس لعنت میں سے کیا حصہ لیا جس پر نجات کا تمام مدار ٹھہرایا گیا ہے.کیا توریت گواہی نہیں دیتی کہ مصلوب لعنتی ہے پس اگر مصلوب لعنتی ہوتا ہے تو بیشک وہ لعنت جو عام طور پر مصلوب ہونے کا نتیجہ ہے مسیح پر پڑی ہوگی لیکن لعنت کا مفہوم دنیا کے اتفاق کی رو سے خدا سے دور ہونا اور خدا سے برگشتہ ہونا ہے فقط کسی پر مصیبت پڑنا یہ لعنت نہیں ہے بلکہ لعنت خدا سے دوری اور خدا سے نفرت اور خدا سے دشمنی ہے اور لَعین لغت کی رو سے شیطان کا نام ہے.اب خدا کے لئے سوچو کہ کیا روا ہے کہ ایک راستباز کو خدا کا دشمن اور خدا سے برگشتہ بلکہ شیطان نام رکھا جائے اور خدا کو اس کا دشمن ٹھہرایا جائے.بہتر ہوتا کہ عیسائی اپنے لئے دوزخ قبول کرلیتے مگر اس برگزیدہ انسان کو ملعون اور شیطان نہ ٹھہراتے.ایسی نجات پر لعنت ہے جو بغیر اس کے جو راستبازوں کو بے ایمان اور شیطان قرار دیا جائے مل نہیں سکتی.قرآن شریف نے یہ خوب سچائی ظاہر کی کہ مسیح کو صلیبی موت سے بچا کر لعنت کی پلیدی سے بری رکھا اور انجیل بھی یہی گواہی دیتی ہے کیونکہ مسیح نے یونس کے ساتھ اپنی تشبیہ پیش کی ہے اور کوئی عیسائی اس سے بے خبر نہیں کہ یونس مچھلی کے پیٹ میں نہیں مرا تھا پھر اگر یسوع قبر میں مردہ پڑا رہا تو مردہ کو زندہ سے کیا مناسبت اور زندہ کو مردہ سے کونسی مشابہت.پھر یہ بھی معلوم ہے کہ یسوع نے صلیب سے نجات پاکر شاگردوں کو اپنے زخم دکھائے پس اگر اس کو دوبارہ زندگی جلالی طور پر حاصل ہوئی تھی تو اس پہلی زندگی کے زخم کیوں باقی رہ گئے کیا جلال میں کچھ کسر باقی رہ گئی تھی اور اگر کسر رہ گئی تھی تو کیونکر امید رکھیں کہ وہ زخم پھر کبھی قیامت تک مل سکیں گے یہ بیہودہ قصے ہیں جن پرخدائی کا شہتیر رکھا گیا ہے.مگر وقت آتا ہے بلکہ آگیا کہ جس طرح روئی کو دھنکا جاتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ ان تمام قصوں کو ذرہ ذرہ کر کے اڑا دے گا.افسوس کہ یہ لوگ نہیں سوچتے کہ یہ کیسا خدا تھا جس کے زخموں کیلئے مرہم بنانے کی حاجت پڑی تم سن چکے ہو کہ عیسائی اور رومی اور یہودی اور مجوسی دفتروں کی قدیم طبی کتابیں جو اب تک موجود ہیں گواہی دے رہی ہیں کہ یسوع کی چوٹوں کے لئے ایک مرہم طیار کیا گیا تھا جس کا نام مرہم عیسیٰ ہے جو اب تک قرابادینوں میں موجود ہے نہیں کہہ سکتے کہ وہ مرہم نبوت کے زمانہ

Page 100

سے پہلے بنایا ہوگا کیونکہ یہ مرہم حواریوں نے طیار کیا تھا اور نبوت سے پہلے حواری کہاں تھے یہ کبھی نہیں کہہ سکتے کہ ان زخموں کا کوئی اور باعث ہوگا نہ صلیب کیونکہ نبوت کے تین برس کے عرصہ میں کوئی اور ایسا واقعہ بجز صلیب ثابت نہیں ہو سکتا اور اگر ایسا دعویٰ ہو تو بار ثبوت بذمّہ مدعی ہے.جائے شرم ہے کہ یہ خدا اور یہ زخم اور یہ مرہم واقعی صحیح اور سچی حقیقتوں پر کہاں کوئی پردہ ڈال سکتا ہے اور کون خدا کے ساتھ جنگ کر سکتا ہے.ہمیشہ کے لئے حیّ قیوم صرف وہ اکیلا خدا ہے جو تجسم اور تحیز سے پاک اور ازلی ابدی ہے اور جھوٹے خدا کے لئے اتنا ہی غنیمت ہے کہ اس نے ایک ہزار نو سو برس تک اپنی خدائی کا سکہ قلب چلا لیا آگے یاد رکھو کہ یہ جھوٹی خدائی بہت جلد ختم ہونے والی ہے.وہ دن آتے ہیں کہ عیسائیوں کے سعادت مند لڑکے سچے خدا کو پہچان لیں گے اور پرانے بچھڑے ہوئے وحدہ لا شریک کو روتے ہوئے آ ملیں گے.یہ میں نہیں کہتا بلکہ وہ روح کہتی ہے جو میرے اندر ہے جس قدر کوئی سچائی سے لڑ سکتا ہے لڑے جس قدر کوئی مکر کر سکتا ہے کرے بیشک کرے.لیکن آخر ایسا ہی ہوگا.یہ سہل بات ہے کہ زمین و آسمان مبدّل ہو جائیں یہ آسان ہے کہ پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیں لیکن یہ وعدے مبدّل نہیں ہوں گے.سترہویں پیشگوئی یہ پیشگوئی وہ ہے جو براہین احمدیہ کے صفحہ ۲۳۹ میں درج ہے اور وہ یہ ہے یتم نعمتہ عَلَیک لیکون اٰیۃ للمؤمنین.یعنی خدا اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کرے گا تا وہ مومنین کیلئے نشان ہوں یعنی دنیا کی زندگی میں جو کچھ نعمتیں دی جائیں گی وہ سب بطور نشان ہوں گی یعنی قول بھی نشان ہوگا جیسا کہ لوگوں نے جلسہ مذاہب لاہور اور عربی کتابوں میں دیکھ لیا.اور فعل بھی نشان ہوگا جیسا کہ خدا کے فعل بطورنشان میرے واسطہ سے ظہور میں آرہے ہیں اور اولاد بھی نشان ہو گی خدا نے نیک اور بابرکت اولاد کا وعدہ دیا اور پورا کیا اور خدا کی مالی نصرت بھی نشان ہو گی.جیسا کہ خدا نے براہین احمدیہ میں مالی نصرت کا وعدہ دیا ہے اور وہ وعدہ اب پورا ہوا اور پورب اور پچھم سے لوگ آئے اور مشرق اور مغرب سے معاون پیدا ہوئے اور جیسا کہ صفحہ ۲۴۱ میں فرمایا تھا ینصرک رجال نوحی الیھم من السماء یأتون من کل فج عمیق

Page 101

یعنی وہ لوگ تیری مدد کریں گے جن کے دلوں میں ہم آپ ڈالیں گے وہ دور دور سے اور بڑی گہری راہوں سے آئیں گے.چنانچہ اب وہ پیشگوئی جو آج کے دن سے سترہ برس پہلے لکھی گئی تھی ظہور میں آئی کس کو معلوم تھاکہ ایسے سچے اخلاص اور محبت سے لوگ مدد میں مشغول ہو جائیں گے دیکھو کہاں اور کس فاصلہ پر مدراس ہے جس میں سے خدا تعالیٰ کا ارادہ سیٹھ عبدالرحمن حاجی اللہ رکھا کو معہ ان کے تمام عزیزوں اور دوستوں کے کھینچ لایا جنہوں نے آتے ہی اخلاص اور خدمات میں وہ ترقی کی کہ صحابہ کے رنگ میں محبت پیدا کرلی اورکہاں ہے بمبئی جس میں منشی زین الدین ابراہیم جیسے مخلص پرجوش طیار کئے گئے اور کہاں ہے حیدر آباد دکن جس میں ایک جماعت پرجوش مخلصوں کی طیار کی گئی کیا یہ وہی باتیں نہیں جن کی نسبت پہلے سے براہین میں خبر دی گئی تھی.اٹھارھویں پیشگوئی یہ پیشگوئی وہ ہے کہ جو براہین احمدیہ کے ص ۲۴۰ میں مندرج ہے یعنی یہ قل عندی شھادۃ من اللّٰہ فھل انتم مؤمنون.قل عندی شھادۃ من اللّٰہ فھل انتم مسلمون.یعنی کہہ میرے پاس خدا کی ایک گواہی ہے پس کیا تم اس پر ایمان لاؤ گے.کہہ میرے پاس خدا کی ایک گواہی ہے کیا تم اس کو قبول کرو گے.یہ دونوں فقرے بطور پیشگوئی کے ہیں اور ایسے نشانوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو بطور پیشگوئی کے ہوں کیونکہ خدا کی گواہی نشان دکھلاتی ہے چنانچہ بعد اس کے یہ گواہی دی کہ خسوف کسوف رمضان میں کیا جیسا کہ آثار میں مہدی موعود کی نشانیوں میں آ چکا تھا.پھر دوسری گواہی خدا نے یہ دی کہ آتھم کی پیشگوئی پر عیسائیوں نے واقعات کو چھپا کر مکر کیا اور یہودی صفت مولویوں نے ان کی ہاں کے ساتھ ہاں ملائی اور وہ شیطانی آواز تھی جو عیسائیوں کی حمایت میں زمین کے شیطانوں یعنی مولویوں نے دی پھر خدا نے اخفائے شہادت کے بعد آتھم کو ہلاک کیا اور اس پیشگوئی کی تصدیق کیلئے لیکھرام کے نشان کو ظاہر کیا اور وہ آسمانی آواز تھی جس نے شیطانی آواز کو کالعدم کر دیا یہی آثار نبویہ میں پہلے سے لکھا ہوا تھا جو آتھم کی پیشگوئی میں پورا ہوا تیسری خدا کی گواہی وہ پیشگوئی تھی جو جلسہ مذاہب سے پہلے شائع کی گئی تھی.چوتھی

Page 102

خدا کی گواہی لیکھرام کے مارے جانے کا نشان تھا جس نے مخالفوں کی کمر توڑ دی یہ پیشگوئی جن لوازم اور تصریحات کے ساتھ بیان کی گئی اور شائع کی گئی تھی وہ تمام لوازم ایسے تھے کہ کوئی دانا باور نہیں کرے گا کہ ان کا انجام دینا انسان کے حد اختیار میں ہو سکتا ہے کیونکہ اس میں میعاد بتلائی گئی تھی دن بتایا گیا تھا* تاریخ بتلائی گئی تھی وقت بتلایا گیا اور حاشیہ.خروج باب ۳۲ سے ثابت ہوتا ہے کہ گوسالہ سامری کے نیست و نابود کرنے کا ارادہ یہود کی عید کے دن میں کیا گیا تھا مگر آگ میں جلانا اور باریک پیسنا اور غبار کی مانند بنانا جیسا کہ ۲۰ ۲۳ خروج میں لکھا ہے یہ فرصت طلب کام تھا اس برے کام نے ضرور رات کا کچھ حصہ لیا ہوگا کیونکہ حضرت موسیٰ اس وقت اترے تھے جب گوسالہ پرستی کا میلہ خوب گرم ہوگیا تھا اور یہ وقت غالباً دوپہر کے بعد میں ہوگا اور پھر کچھ عرصہ ناراضگی اور غضب میں گذرا.لہذا یہ قطعی امر ہے کہ سونے کا جلانا اور خاک کی طرح کرنا کچھ حصہ رات تک جو دوسرے دن میں محسوب ہوتے ہی ختم ہوا ہوگا.سو خدا تعالیٰ نے لیکھرام کے لئے گوسالہ سامری کا نام اختیار فرمایا.اس نام میں یہ بھید پوشیدہ تھا کہ عید کے دوسرے دن میں اس کی تباہی کا سامان ہوگا جیسا کہ گوسالہ سامری کا ہوا.اور چونکہ گوسالہ پر اکثر چھری پھرتی ہے اس لئے عجل کے لفظ میں بھی جو الہام میں اختیار کیا گیا ہے یہ طریق موت مخفی ہے اور لیکھرام کی موت کی نسبت جو یہ پیشگوئی ہے کہ وہ عید کے دوسرے دن قتل کیا جائے گا.اس میں الہام الٰہی وہ ہے کہ جو کتاب کرامات الصادقین کے ص ۵۴ میں لکھا ہوا ہے یعنی ستعرف یوم العید والعید اقرب اس کے پہلے کا شعر یہ ہے الا انّنی فی کل حرب غالبٌ.فکدنی بمازوّرت فالحق یغلب یعنی میں ہر ایک جنگ میں غالب ہوں پس دروغ آرائی سے جس طرح چاہے مکر کرپس حق غالب ہو جائے گا.اور وہ یہ ہے و بشّرنی ربی و قال مبشّرا.ستعرف یوم العید والعید اقرب یعنی میرے رب نے مجھے بشارت دی اور بشارت دے کر کہا کہ تو عنقریب عید کے دن کو یعنی خوشی کے دن کو پہچان لے گا اور اس دن سے معمولی عید بہت قریب ہوگی یعنی حق کے غالب ہونے کا وہ دن ہوگا.اس لئے مومنوں کی وہ عید ہوگی اور معمولی عید اس سے ملی ہوئی ہوگی اور اسی شعر کی تشریح ٹائٹل پیج یعنی سرورق کے صفحہ اخیر اسی کتاب کرامات الصادقین میں لکھی ہوئی ہے اور یہی لفظ و بشّرنی ربّی جو اس شعر کے سر پر ہے وہاں بھی موجود ہے اور وہ یہ ہے.و بشرنی ربی بموتہ فی ستّ سنۃ ان فی ذالک لاٰیۃ للطالبین.یعنی خدا تعالیٰ نے مجھے بشارت دی

Page 103

صورت موت بتلائی گئی تھی یعنی یہ کہ کس طرح مرے گا بیماری سے یا قتل سے اور پیشگوئی کے اشارات یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ جن لوگوں نے اس گوسالہ کی ثنا خوانی کو پرستش تک پہنچایا اور سچائی کا خون کیا اور اس کی تعریف میں غلو کیا وہ بھی خدا تعالیٰ کی نظر میں اس قوم کی طرح ہیں جنہوں نے سامری کے گوسالہ کی پرستش کی تھی اللہ تعالیٰ سورۃ الاعراف میں فرماتا ہے 3 کہ لیکھرام چھ ۶ سال کے عرصہ میں مر جائے گا.اور اسی بشارت کی طرف انجام آتھم کے قصیدہ میں وہ شعر جو بماہ ستمبر ۱۸۹۶ء شیخ محمد حسین بٹالوی کو مخاطب کر کے لکھے گئے ہیں اشارہ کر رہے ہیں اور جیسا کہ تعرف کا لفظ ستعرف یوم العید میں موجود ہے اس قصیدہ میں بھی محمد حسین کو مخاطب کر کے ستعرف موجود ہے اور جیسا کہ وہ قصیدہ جس میں یہ الہام ہے یعنی ستعرف العید والعید اقرب محمد حسین کیلئے اور اس کو مخاطب کر کے لکھا گیا تھا.ایسا ہی اس قصیدہ میں بھی محمد حسین بٹالوی مخاطب ہے اور وہ شعر یہ ہیں: تب ایھا الغالی و تأ تی سَاعۃ تمشی تعض یمینک الشلَّاء اے غلو کرنے والے توبہ کر کیونکہ وہ وقت آتا ہے کہ تو اپنے خشک ہاتھ کو کاٹے گا تأ تیک ایاتی فتعرف وجھھا فاصبر ولا تترک طریق حیاء میرے نشان تیرے تک پہنچیں گے پس تو انہیں شناخت کرلے گا پس صبر کر اور حیا کا طریق مت چھوڑ انی لشرّ الناس ان لم یاتنی نصر من الرحمٰن للاعلاء میں تمام مخلوقات میں سے بدتر ہوں گا اگر خدا کی مدد مجھ کو میرے بلند کرنے کے لئے نہ پہنچے ھل تطمع الدنیا مذلّت صادق ھیھات ذاک تخیل السفھاء کیا دنیایہ امید رکھتی ہے کہ صادق ذلیل ہو جائے گا یہ کہاں ممکن ہے بلکہ یہ تو سادہ لوحوں کا خیال ہے من ذالذی یخزی عزیز جنابہ الارض لا تفنی شموس سماء خدا کے عزیز کو کون ذلیل کر سکتا ہے کیا زمین کو طاقت ہے جو آسمانی آفتاب کو فنا کرے یا ربنا افتح بیننا بکرامۃ یا من یری قلبی و لب لحا ئی اے میرے رب ایک کرامت دکھلا کر ہم میں فیصلہ کر اے وہ خدا جو میرے دل اور میرے وجود کے مغز کو جانتا ہے منہ

Page 104

۱؂ یعنی جنہوں نے گوسالہ پرستی کی ان پر غضب کا عذاب پڑے گا اور دنیا کی زندگی میں ان کو ذلت پہنچے گی اور اسی طرح ہم دوسرے مفتریوں کو سزا دیں گے اور یہ ایک لطیف اشارہ ان گوسالہ پرستوں کی طرف بھی ہے جو اس دوسرے گوسالہ یعنی لیکھرام کی پرستش کرنے میں ظلم اور خونریزی کے ارادوں تک پہنچ گئے خدا تعالیٰ کے علم سے کوئی شے باہر نہیں وہ خوب جانتا تھا کہ ہندو بھی لیکھرام کی پرستش کر کے اس کو گوسالہ بنائیں گے.اس لئے اس نے کذالک کے لفظ سے لیکھرام کے قصہ کی طرف اشارہ کر دیا.توریت خروج باب ۳۲ آیت ۳۵ سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر گوسالہ پرستی کے سبب سے موت بھیجی تھی یعنی ایک وباء ان میں پڑ گئی تھی جس سے وہ مرگئے تھے.اور اس عذاب کی خبر کے وقت اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ جو لوگ ایمان لائیں گے میں ان کو نجات دوں گا جیسا کہ فرماتا ہے.3 3 ۲؂ یعنی جنہوں نے گوسالہ پرستی کی دھن میں برے کام کئے پھر بعد اس کے توبہ کی اور ایمان لائے تو خدا تعالیٰ ایمان کے بعد ان کے گناہ بخش دے گا اور ان پر رحم کرے گا کیونکہ وہ غفور اور رحیم ہے.اور لیکھرام کے مقدمہ میں آیت کریمہ کا یہ اشارہ ہے کہ جنہوں نے ناحق الہام کی تکذیب کی اور قتل کی سازشیں کیں اور گورنمنٹ کو قتل کیلئے بھڑکایا اور پھر بعد اس کے توبہ کی اور ایمان لائے تو خدا ان پر رحم کرے گا.اسی مقام کے متعلق اس عاجز کو الہام ہوا ہے یا مسیح الخلق عدوانا یعنی اے خلقت کے لئے مسیح ہماری متعدی بیماریوں کے لئے توجہ کر اور براہین احمدیہ کے ص ۵۱۹ میں اسی کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ وہ عزاسمہ فرماتا ہے انت مبارک فی الدنیا والاٰخِرَۃِ امراض الناس و برکاتہ ان ربّک فعّال لما یرید یعنی تجھے دنیا اور آخرت میں برکت دی گئی ہے خدا کی برکتوں کے ساتھ لوگوں کی بیماریوں کی خبر لے کہ تیرا رب جو چاہتا ہے کرتا ہے.دیکھو یہ کس زمانہ کی خبریں ہیں اور نہ معلوم کس وقت پوری ہوں گی ایک وہ وقت ہے جو دعا سے مرتے ہیں اور

Page 105

دوسرا وہ وقت آتا ہے جو دعا سے زندہ ہوں گے.انیسویں پیشگوئی یہ پیشگوئی جو براہین کے ص ۲۴۰ میں ہے یہ ہے ربّ ارنی کیف تحی الموتٰی ربّ اغفر و ارحم من السّمآء.ربّ لا تذرنی فردا و انت خیر الوارثین.ربّ اصلح امّۃ محمّد.ربّنا افتح بیننا و بین قومنا بالحق و انت خیر الفاتحین.یریدون ان یطفؤا نور اللہ بافواھہم واللہ متم نورہ ولوکرہ الکافرون.اذا جاء نصراللّٰہ والفتح وانتہٰی امر الزمان الینا الیس ھٰذا بالحق.ترجمہ.یعنی اے میرے رب مجھے دکھلا کہ تو کیونکر مردوں کو زندہ کرتا ہے.اے میرے رب مغفرت فرما اور آسمان سے رحم کر.اے میرے رب مجھے اکیلا مت چھوڑ اور تو خیر الوارثین ہے.اے میرے رب امت محمدیہ کی اصلاح کر.اے ہمارے رب ہم میں اور ہماری قوم میں سچا فیصلہ کردے اور تو سب فیصلہ کرنیوالوں سے بہتر ہے.یہ لوگ ارادہ کریں گے کہ خدا کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھادیں اور خدا اپنے نور کو پورا کرے گا.اگرچہ کافر کراہت ہی کریں.جب خدا کی مدد آئے گی اور اس کی فتح نازل ہوگی اور دلوں کا سلسلہ ہماری طرف رجوع کرے گا اور ہماری طرف آ ٹھہرے گا.تب کہا جائے گا کہ کیا یہ سچ نہیں تھا.اس تمام الہام میں یہ پیشگوئی ہے کہ ضروری ہے کہ قوم مخالفت کرے اور اس سلسلہ کے نابود کرنے کے لئے پوری کوشش کرے اور ہرگز نہ چاہے کہ یہ سلسلہ قائم رہ سکے لیکن خدا اس سلسلہ کو ترقی دے گا یہاں تک کہ زمانہ اسی طرف الٹ آئے گا اور بعد اس کے کہ لوگوں نے اکیلا چھوڑ دیا ہوگا پھر اس طرف رجوع کریں گے.اب دیکھو کہ یہ پیشگوئی کیسی صفائی سے پوری ہوئی براہین احمدیہ کے زمانہ میں علماء کا کچھ شور و غوغا نہ تھا بلکہ جو تکفیر کے فتنہ کا بانی ہے اس نے کمال ثناء و صفت سے براہین احمدیہ کا ریویو لکھا تھا پھر ایک مدت دراز کے بعد تکفیر کا طوفان اٹھا اور ایک مدت تک اپنا زور دکھلاتا رہا اور اب پھر الہام الٰہی کے موافق وہ سیلاب کچھ کم ہوتا جاتا ہے اور وہ وقت آتا ہے کہ نور کی نمایاں فتح اور تاریکی کی کھلی کھلی شکست ہو.بیسویں پیشگوئی یہ پیشگوئی براہین احمدیہ میں آتھم کی نسبت ہے جو ص ۲۴۱

Page 106

میں ہے اور ہم اس کو مفصل لکھ چکے ہیں اور مدت ہوئی کہ آتھم صاحب اس دنیا سے کوچ کر کے اپنے ٹھکانہ پر پہنچ گئے ہیں.ہمارے مخالفوں کو اب اس میں تو شک نہیں کہ آتھم مرگیا ہے جیسا کہ لیکھرام مرگیا ہے اور جیسا کہ احمد بیگ مرگیا ہے لیکن اپنی نابینائی سے کہتے ہیں کہ آتھم میعاد کے اندر نہیں مرا.اے نالائق قوم جو شخص خدا کے وعید کے موافق مر چکا اب اس کی میعاد غیر میعاد کی بحث کرنا کیا حاجت ہے بھلا دکھلاؤ کہ اب وہ کہاں اور کس شہر میں بیٹھا ہے تم سن چکے ہو کہ اس پر تو میعاد کے اندر ہی ھاویہ کی آنچ شروع ہوگئی تھی شرط پر اس نے عمل کیا اس لئے کوئی چند روز نیم جان کی طرح بسر کئے اس آگ نے اس کو نہ چھوڑا اور بھسم کر دیا.یہ خدا تعالیٰ کی غیبی قدرتوں کا ایک بھاری نمونہ ہے کہ آتھم کے قصہ کی سترہ برس پہلے براہین احمدیہ میں خبر درج کر دی گئی پہلے اس بحث کی طرف اشارہ کر دیا جو توحید اور تثلیث کے بارہ میں بمقام امرتسر ہوئی تھی اور اس کے بارہ میں فرمایا گیا کہ قل ھو اللّٰہ احد اللّٰہ الصمد لم یلد و لم یولد و لم یکن لہ کفوا احد پھر عیسائیوں کے اس مکر کی خبر دی گئی جو حق پوشی کیلئے میعاد کے گذرنے کے بعد انہوں نے کیا پھر اس مکّارانہ فتنہ پر اطلاع دی گئی جو عیسائیوں کی طرف سے نہایت متعصبانہ جوش کے ساتھ ظہور میں آیا اور پھر آخر صدق کے ظاہر ہونے کی بشارت دی گئی اور پھر اس الہام کے ساتھ جو ص۲۴۱ میں ہے یعنی انّا فتحنا لک فتحا مبینا فتح عظیم کی خوشخبری سنائی گئی.اب بتلاؤ کیا یہ انسان کا کام ہے آنکھ کھولو اور دیکھو کہ آتھم کی پیشگوئی کیسی عظیم الشان غیب کی خبریں اپنے ساتھ رکھتی ہے.اکیسو ۱۲ یں پیشگوئی یہ پیشگوئی براہین احمدیہ کے ص۲۴۱ میں درج ہے.فتح الولی فتح و قرّبناہ نجیّا اشجع الناس.ولو کان الایمان معلقا بالثریا لنالہ.انار اللّٰہ برھانہ ترجمہ فتح وہی ہے جو اس ولی کی فتح ہے اور ہم نے ہمرازی کے مقام پر اس کو قرب بخشا ہے.تمام لوگوں سے زیادہ بہادر ہے اگر ایمان ثریا پر چلا گیا ہوتا تو یہ اس کو وہاں سے لے آتا خدا اس کے برہان کو روشن کر ے گا.

Page 107

بائیسویں۲۲ پیشگوئی یہ پیشگوئی بھی براہین احمدیہ ص۲۴۱ میں ہے اور وہ یہ ہے کہ انک باعیننا یرفع اللّٰہ ذکرک و یتم نعمتہ علیک فی الدنیا والاٰخرۃ تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے خدا تیرا ذکر اونچاکردے گا اور خدا اپنی نعمتیں دنیا اور آخرت میں تیرے پر پوری کر دے گا.اور یہ جو فرمایا کہ تیرا ذکر اونچا کر دے گا اس کے یہ معنی ہیں کہ دنیا اور دین کے خاص لوگ تعریف کے ساتھ تیرا ذکر کریں گے.اور اونچے مرتبوں والے تیری ثناء میں مشغول ہوں گے.اب کیا یہ تعجب نہیں کہ جو شخص کافر اور حقیر شمار کیا جاتا ہے اور دجّال اور شیطان کہا جاتا ہے اس کا انجام یہ ہو.کہ دین اور دنیا کے بلند مراتب والے سچے دل سے اس کی تعریفیں کریں گے.تئیسویں پیشگوئی یہ پیشگوئی براہین کے ص۲۴۲ میں مرقوم ہے.اِنّیْ رَافِعُکَ اِلَیَّ.واَلقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِنِّی و بشّر الذین اٰمنوا ان لھم قدم صدق عند ربھم.واتل علیھم ما اوحی الیک من ربّک ولا تصعّر لخلق اللّٰہ ولا تسئم من الناس.ترجمہ.میں تجھے اپنی طرف اٹھاؤں گا اور میں اپنی طرف سے محبت تیرے پر ڈالوں گا یعنی بعد اس کے کہ لوگ دشمنی اور بغض کریں گے یک دفعہ محبت کی طرف لوٹائے جائیں گے جیسا کہ یہی مہدی موعود کے نشانوں میں سے ہے اور پھر فرمایا کہ جو لوگ تیرے پر ایمان لائیں گے ان کو خوشخبری دے کہ وہ اپنے رب کے نزدیک قدم صدق رکھتے ہیں.اور جو میں تیرے پر وحی نازل کرتا ہوں تو ان کو سنا خلق اللہ سے منہ مت پھیر اور ان کی ملاقات سے مت تھک اور اس کے بعد الہام ہوا.ووسّع مکانک یعنی اپنے مکان کو وسیع کرلے.اس پیشگوئی میں صاف فرما دیا کہ وہ دن آتا ہے کہ ملاقات کرنیوالوں کا بہت ہجوم ہو جائے گا یہاں تک کہ ہر ایک کا تجھ سے ملنا مشکل ہو جائے گا پس تونے اس وقت ملال ظاہر نہ کرنا اور لوگوں کی ملاقات سے تھک نہ جانا.سبحان اللہ یہ کس شان کی پیشگوئی ہے اور آج سے ۱۷ برس پہلے اس وقت بتلائی گئی ہے کہ جب میری مجلس میں شاید دو تین آدمی آتے ہوں گے اور وہ بھی کبھی کبھی اس سے کیسا علم غیب خدا کا ثابت ہوتا ہے.

Page 108

چوبیسویں۴۲ پیشگوئی یہ پیشگوئی براہین احمدیہ کے ص ۴۸۹ میں ہے اور وہ یہ ہے انت وجیہ فی حضرتی اخترتک لنفسی.انت منی بمنزلۃ توحیدی و تفریدی فحان ان تعان و تعرف بین الناس.یعنی تو میری جناب میں وجیہ ہے میں نے تجھے چن لیا.تو مجھ سے ایسا ہے جیسے میری توحید اور تفرید.پس وہ وقت آگیا جو تیری مدد کی جائے گی اور تو لوگوں میں مشہور کیا جائے گا.یہ اس وقت کی پیشگوئی ہے کہ اس چھوٹے سے گاؤں میں بھی بہتیرے ایسے تھے جو مجھ سے ناواقف تھے.اور اب جو اس پیشگوئی پر ۱۷ برس گذر گئے تو پیشگوئی کے مفہوم کے مطابق اس عاجز کی شہرت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ اس ملک کے غیر قوموں کے بچے اور عورتیں بھی اس عاجز سے بے خبر نہیں ہوں گی جس شخص کو ان دونوں زمانوں کی خبر *ہوگی کہ وہ وقت کیا تھا اور اب کیا ہے تو بلا اختیار اس کی روح بول اٹھے گی کہ یہ عظیم الشان علم غیب انسانی طاقتوں سے ایسا بعید ہے کہ جیسا کہ ایک مکھی کی طاقت سے ایک قوی ہیکل ہاتھی کا کام.پچیسو یں پیشگوئی یہ پیشگوئی براہین احمدیہ کے صفحہ۴۹۰ میں موجود ہے اور وہ یہ ہے.سبحان اللہ تبارک و تعالٰی زاد مجدک ینقطع اباء ک و یبدء منک.ترجمہ.پاک ہے وہ خدا جو مبارک اور بلند ہے.تیری بزرگی کو اس نے زیادہ کیا.اب یوں ہوگا کہ تیرے باپ دادا کا نام منقطع ہو جائے گا اور ان کا ذکر مستقل طور پر کوئی نہیں کرے گا اور خدا تیرے وجود کو تیرے خاندان کی بنیاد ٹھہرائے گا.اس پیشگوئی میں دو وعدے ہیں (۱) اول یہ کہ خدا لائق اور اچھی اولاد اس خاندان میں پیدا کرے گا.اور دوسرے یہ کہ تمام شرف اور مجد کا ابتدا اس عاجز کو ٹھہرادیا جائے گا اور وہ پیشگوئی جو ایک مبارک لڑکے کے لئے کی گئی تھی وہ الہام بھی درحقیقت اسی الہام کا ایک شعبہ ہے.اس وقت نادانوں نے شور مچایا تھا کہ پیشگوئی کے قریب زمانہ میں لڑکا پیدا نہیں ہوا بلکہ لڑکی پیدا ہوئی.یہ تمام شور اس لئے تھا کہ یہ نادان خیال کرتے تھے کہ پیشگوئی نوٹ: اس خاکسار سراج الحق جمالی نے خدا کے فضل سے دونوں زمانے دیکھے اور ایمان میں ترقی ہوئی اور خدا سے دعا ہے کہ آگے کو پورا کمال اور ترقی اس امام برحق اور معصوم کی دکھلائے اور اس صادق کی معیت میں رکھ کر ایمان کو بڑھائے.(جمالی)

Page 109

کا بلا فاصلہ پوری ہونا ضروری ہے اور الہامات میں خدا تعالیٰ کی یہ غرض نہیں ہوتی بلکہ اگر ہزار لڑکی پیدا ہو کر بھی پھر ان صفات کا لڑکا پیدا ہوا تو بھی کہا جائے گا کہ پیشگوئی پوری ہوئی.ہاں اگر الہام الٰہی میں بلافاصلہ کا لفظ موجود ہوتا تو تب اس لفظ کی رعایت سے پیشگوئی کا ظہور میں آنا ضروری ہوتا.چھبیسویں پیشگوئی.چھبیسویں پیشگوئی براہین احمدیہ کے ص۴۹۱ میں یہ ہے.وما کان اللہ لیترکک حتی یمیز الخبیث من الطیب واللّٰہ غالب علی امرہ ولکن اکثر الناس لا یعلمون.ترجمہ.خدا تجھے نہیں چھوڑے گا جب تک پاک اور پلید میں فرق نہ کرلے.اور خدا اپنے امر پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے.ستائیسویں پیشگوئی.یہ پیشگوئی براہین احمدیہ کے ص۴۹۲ میں ہے اور وہ یہ ہے اردت ان استخلف فخلقت اٰدم یعنی میں نے خلیفہ بنانے کا ارادہ کیا سو میں نے آدم کو پیدا کیا.اور دوسرے مقام میں اسی کی تشریح میں یہ الہام ہے وقالوا أتجعل فیھا من یفسد فیھا قال انی اعلم ما لا تعلمون.یعنی لوگوں نے کہا کہ کیا تو ایسے آدمی کو خلیفہ بناتا ہے جو زمین پر فساد برپا کرے گا.خدا نے کہا کہ میں اس میں وہ چیز جانتا ہوں جس کی تمہیں خبر نہیں.جیسا کہ دوسرے الہام میں اسی براہین میں فرمایا ہے.انت منی بمنزلۃ لایعلمھا الخلق یعنی تو مجھ سے اس مقام پر ہے جس سے دنیا کو خبر نہیں.اب ظاہر ہے کہ یہ پیشگوئی تو سترہ سال سے براہین احمدیہ میں شائع ہو چکی اور جس فتنہ کی طرف یہ پیشگوئی اشارہ کرتی ہے وہ سالہا سال بعد میں ظہور میں آیا.چنانچہ مولویوں نے اس عاجز کو مفسد ٹھہرایا کفر کے فتوے لکھے گئے نذیر حسین دہلوی نے (علیہ مایستحقّہ) تکفیر کی بنیاد ڈالی اور محمد حسین بٹالوی نے کفار مکہ کی طرح یہ خدمت اپنے ذمّہ لے کر تمام مشاہیر اور غیر مشاہیر سے کفر کے فتوے اس پر لکھوائے اور جیسا کہ الہام الٰہی سے ظاہر ہوتا ہے براہین احمدیہ میں پہلے سے خبر دی گئی تھی کہ ایسے فتوے لکھے جائیں گے.اور آثار نبویہ میں بھی ایسا ہی آیا تھا کہ اس مہدی موعود پر کفر کا فتویٰ لگایا جائے گا سو وہ سب لکھا ہوا پورا ہوا.

Page 110

اٹھائیسویں پیشگوئی.یہ پیشگوئی براہین احمدیہ کے ص۴۹۶ میں ہے اور وہ یہ ہے یُحیِی الدّین و یقیم الشریعۃ یاآدم اسکن انت و زوجک الجنۃ.یا مریم اسکن انت وزوجک الجنۃ یا احمد اسکن انت و زوجک الجنۃ.نفخت فیک من لدنی روح الصدق (ترجمہ) دین کو زندہ کرے گا اور شریعت کو قائم کرے گا.اے آدم تو اور تیرا زوج بہشت میں داخل ہو جاؤ.اے مریم تو اور تیرا زوج بہشت میں داخل ہو جاؤ.اے احمد تو اور تیرا زوج بہشت میں داخل ہو جاؤ.میں نے اپنے پاس سے صدق کی روح تجھ میں پھونکی.یہ ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے.اور تین ناموں سے تین واقعات آئندہ کی طرف اشارہ ہے جن کو عنقریب لوگ معلوم کریں گے اور اس الہام میں جو لفظ لَدُنْ کا ذکر ہے اس کی شرح کشفی طور پر یوں معلوم ہوئی کہ ایک فرشتہ خواب میں کہتا ہے کہ یہ مقام لدن جہاں تجھے پہنچایا گیا یہ وہ مقام ہے جہاں ہمیشہ بارشیں ہوتی رہتی ہیں اور ایک دم بھی بارش نہیں تھمتی.انتیسویں۹۲ پیشگوئی.یہ وہ پیشگوئی ہے جو براہین احمدیہ کے ص۵۰۶ میں درج ہے اور وہ یہ ہے.لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِن اَھلِ الکِتٰب وَالمُشْرکِینَ مُنْفَکِّیْنَ حتّٰی تَاْ تِیَھُمُ الْبَیِّنَۃُ اور پھر فرمایا کہ اگر خدا ایسا نہ کرتا تو دنیا میں اندھیر پڑ جاتا.یہ خدا کے ایک ایسے نشان کی طرف اشارہ ہے جو دنیا کو ہلاک ہونے سے بچا لے گا.اور الہام کے یہ معنی ہیں کہ ممکن نہ تھا کہ اہل کتاب اور ہندو اپنے تعصب اور عداوت سے باز آجاتے جب تک میں ایک کھلا کھلا نشان ان کو نہ دیتا اور اگر میں ایسا نہ کرتا تو دنیا میں اندھیر پڑ جاتا اور حق مشتبہ ہو جاتا.تیسویں پیشگوئی.یہ وہ پیشگوئی ہے جو براہین احمدیہ کے ص۵۱۵ میں درج ہے اور وہ یہ ہے اِنّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا لیغفر لک اللّٰہ ما تقدّم من ذنبک وما تأخّر یعنی ایک کھلی کھلی فتح ہم تجھ کو دیں گے تاہم تیرے اگلے پچھلے گناہ بخش دیں.یہ استعارہ اپنی رضامندی ظاہر کرنے کے لئے بیان فرمایا ہے.مثلاً ایک آقا اپنے کسی غلام سے ایسے حکیمانہ طور سے وقت بسر کرتا ہے جو نادان خیال کرتے ہیں کہ وہ اس پر ناراض ہے تب اس

Page 111

آقا کی غیرت جوش مارتی ہے اور اس غلام کی سرافرازی کے لئے کوئی ایسا کام کرتا ہے کہ گویا اس نے اس کے اگلے پچھلے تمام گناہ بخش دئیے ہیں یعنی ایسی رضامندی ظاہر کرتا ہے کہ لوگوں کو یقین ہو جاتا ہے کہ ایسا مہربان اس پر کبھی ناراض نہیں ہوگا یہ عظیم الشان پیشگوئی ہے.پھر اس کے بعد اسی صفحہ میں ایک تصویر دکھلائی گئی ہے اور وہ تصویر اس عاجز کی ہے سبزپوشاک ہے اور تصویر نہایت رعبناک ہے جیسے سپہ سالار مسلح فتح یاب اور دائیں بائیں تصویر کے یہ لکھا ہے حجّۃ اللّٰہ القادر.سلطان احمد مختار.اور تاریخ یہ لکھی ہے سوموار کا روز انیسویں ذی الحجہ ۱۳۰۰ مطابق۲۳؍ اکتوبر ۱۸۸۳ء اور ششم کاتک سمت۱۹۴۰ بکرم.یہ تمام عبارت براہین کے ص۵۱۵ اور ص۵۱۶ میں موجود ہے.یہ کشف بتلا رہا ہے کہ ہتھیار کے ذریعہ سے ایک نشان ظاہر ہوگا.سو لیکھرام کا نشان اسی طرح وقوع میں آیا پھر اس کے بعد ص۵۱۶ میں یہ الہامی عبارت ہے الیس اللّٰہ بکاف عبدہ.فَبَرَّأہُ اللّٰہ مِمّا قالوا وکَانَ عندَاللّٰہ وجیھا.فلما تجلّٰی ربّہ للجَبَل جَعَلہ دکّا و اللّٰہ موھن کیدالکافرین.ولنجعلہ ٰایۃ للناس ورحمۃ منّا و کان امرًا مقضیًّا.یعنی کیا خدا اپنے بندہ کو کافی نہیں ہے پس خدا نے اس کو اس الزام سے بری کیا جو کافروں نے اس پر لگایا.اور وہ خدا کے نزدیک وجیہ ہے اور خدا نے مشکلات کے پہاڑ کو پاش پاش کیا اور کافروں کے مکر کو سست کیا اور ہم اس کو اپنی رحمت سے ایک نشان ٹھہرائیں گے اور ابتدا سے ایسا ہی مقدر تھا.اس الہام میں خدا تعالیٰ ظاہر فرماتا ہے کہ ہندو لیکھرام کے قتل کے بعد سازش قتل کا ایک الزام لگائیں گے اور ایک مکر کریں گے تا وہ الزام پختہ ہو جائے.ہم اس ملہم کی بریّت ظاہر کر دیں گے اور ان کے مکر کو سست کر دیں گے اور مشکلات کے پہاڑ آسان ہو جائیں گے.اب کچھ ضرور نہیں کہ ہم کسی کو اس پیشگوئی کی طرف توجہ دلاویں خود اہل انصاف سوچیں اور اس قدر کھلے کھلے غیبی امور سے انکار کر کے اپنی عاقبت کو خراب نہ کریں.یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس پیشگوئی میں جو لیکھرام کو جو عجل سے نسبت دی گئی اس میں کئی مناسبتوں کا لحاظ ہے (۱) اول یہ کہ جیسا کہ گوسالہ سامری بے جان تھا ایسا ہی یہ بھی

Page 112

بے جان تھا اور سچائی کی روح اس میں نہیں تھی (۲) دوسرے یہ کہ جیسا کہ اس بے جان گوسالہ کے اندر سے مہمل آواز آتی تھی ایسا ہی اس کے اندر سے بھی مہمل آواز آتی تھی (۳) تیسرے یہ کہ جیسا کہ وہ بے جان گوسالہ عید کے دن نیست و نابود کیا گیا تھا ایسا ہی عید کے دنوں میں ہی یہ بھی نیست و نابود کیا گیا (۴) چوتھے یہ کہ جیسا کہ وہ گوسالہ قوم کے سونے کے زیور سے بنایا گیا تھا ایسا ہی یہ گوسالہ بھی قوم کی مالی جمعیت کی وجہ سے طیار ہوا (۵) پانچویں یہ کہ جیسا کہ وہ گوسالہ آخر قوم کے مفتری لوگوں کے لئے طرح طرح کے عذاب اور دکھوں کا موجب ہوا ایسا ہی اس گوسالہ کے مفتری پجاریوں کا انجام ہوگا.اکتیسویں پیشگوئی.یہ وہ پیشگوئی ہے جو براہین احمدیہ کے ص۵۲۲ میں درج ہے بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں برمنار بلند تر محکم افتاد.پاک محمد مصطفی نبیوں کا سردار.خدا تیرے سب کام درست کردے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا.رب الافواج اس طرف توجہ کرے گا.اس نشان کا مدعا یہ ہے کہ قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے منہ کی باتیں ہیں جناب الٰہی کے احسانات کا دروازہ کھلا ہے اور اسکی پاک رحمتیں اس طرف متوجہ ہیں.بتیسویں پیشگوئی.یہ وہ پیشگوئی ہے جو براہین احمدیہ کے ص۵۵۶ اور ۵۵۷ پر درج ہے اور وہ یہ ہے.یٰعِیْسٰی انّی متوفیک و رافعک الیّ وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الٰی یوم القیٰمۃ.میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا الفتنۃ ھٰھُنا فاصبر کما صبر اولوالعزم.یہ پیشگوئی لیکھرام کے حق میں تھی جو پوری ہوگئی اور تفصیل اس کی گذر چکی ہے.اور اس کا بقیہ اور نشان بھی آنے والے ہیں.اور اسی کے متعلق براہین احمدیہ کے ص۵۶۰ اور ۵۱۰ میں یہ الہام ہے و یخوفونک من دونہ.ائمۃ الکفر لا تخف انّک انت الاعلٰی ینصرک اللّٰہ فی

Page 113

مواطن.ان یومی لفصل عظیم.یعنی تجھے کافر ڈرائیں گے مگر آخر غلبہ تجھی کو ہوگا.خدا کئی میدانوں میں تیری فتح کرے گا.میرا دن بڑے فیصلہ کا دن ہوگا.یظل ربک علیک ویعینک.و یرحمک یعصمک اللّٰہ من عندہ و ان لم یعصمک الناس و ان لم یعصمک الناس یعصمک اللّٰہ من عندہ.انی منجّیک من الغم انت منی بمنزلۃ لا یعلمہا الخلق.کتب اللّٰہ لاغلبن انا و رسلی لا مبدّل لکلمتہ.(ترجمہ) خدا اپنی رحمت کا سایہ تجھ پر کرے گا اور تیرا فریاد رس ہوگا اور تجھ پر رحم کرے گا.وہ تجھے آپ بچائے گا اگرچہ انسانوں میں سے کوئی بھی نہ بچاوے پھر میں کہتا ہوں کہ اگرچہ انسانوں میں سے کوئی بھی نہ بچاوے پر وہ تجھے آپ بچائے گا.میں تجھے غم سے بچاؤں گا.تو مجھ سے وہ قرب رکھتا ہے جس کا خلقت کو علم نہیں.خدا نے یہ لکھ چھوڑا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب ہوں گے سو خدا کے کلمے کبھی نہیں بدلیں گے.تینتیسویں۳۳ پیشگوئی.یہ پیشگوئی براہین احمدیہ کے ص۵۵۸ اور ص۵۵۹ میں درج ہے اور وہ یہ ہے سَلَامٌ عَلَیْک یَا اِبْرَاھِیْمُ اِنّکَ الْیَومَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ.حِبُّ اللّٰہ خَلِیْلُ اللّٰہ.اَسَدُ اللّٰہ اَلَمْ نَجْعَلْ لَّکَ سَھُوْلَۃً فِی کُلّ امرٍ بَیْتُ الْفِکْرِ.وَ بَیْتُ الذّکْرِ.وَ مَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا.مُبَارِکٌ ط وَمُبَارَکٌ وَ کُلّ اَمْرٍ مُبَارَک یُجْعَلُ فِیہ.رُفِعتَ وَجُعِلْتَ مُبَارَکًا.وَالّذِیْنَ اٰمَنُوا وَ لَمْ یَلْبَسُوْا اِیْمَانھم بظلم اُولٰٓئک لَھُمُ الامن و ھم مّھتدون.ترجمہ.تیرے پر سلام اے ابراہیم آج تو ہمارے نزدیک با مرتبہ اور امین ہے خدا کا دوست.خدا کا خلیل.خدا کا شیر.ہم نے ہر ایک امر میں تیرے لئے آسانی کر دی.بیت الفکر اور بیت الذکر.اور جو اس میں داخل ہوا وہ امن میں آگیا.وہ بیت الذکر برکت دینے والا اور برکت دیا گیا ہے.اور ہر ایک برکت کا کام اس میں کیا جائے گا.اور جو لوگ ایمان لائے اور کسی ظلم سے ایمان کو مکدر نہیں کیا.انہیں کو امن دیا جائے گا اور وہی ہدایت یافتہ ہوں گے.بیت الذکر سے مراد وہ مسجد ہے جو گھر کے ساتھ چھت پر بنائی گئی ہے اور یہ الہام کہ مبارک و مبارک و کل امر مبارک یجعل فیہیہ اس مسجد کی بنا کا مادہ تاریخ ہے اور نیز یہ اس کے آئندہ برکات کیلئے ایک پیشگوئی ہے جن کے ظہور کیلئے اب بنا ڈالی گئی ہے.

Page 114

چونتیسویں ۴۳ پیشگوئی.یہ پیشگوئی کتاب براہین احمدیہ کے ص۵۲۱ میں درج ہے اور وہ یہ ہے وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اور اسی کے متعلق ایک کشف ہے اور وہ یہ ہے کہ عالم کشف میں مَیں نے دیکھا کہ زمین نے مجھ سے گفتگو کی اور کہا یَا وَلِیَّ اللّٰہِ کُنْتُ لَا اَعْرِفُکَ یعنی اے خدا کے ولی میں تجھ کو پہچانتی نہ تھی.پینتیسویں پیشگوئی.شیخ محمد حسین بٹالوی صاحب رسالہ اشاعت السنہ جو بانی مبانی تکفیر ہے اور جس کی گردن پر نذیر حسین دہلوی کے بعد تمام مکفروں کے گناہ کا بوجھ ہے اور جس کے آثار بظاہر نہایت ردی اور یاس کی حالت کے ہیں اس کی نسبت تین مرتبہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ اپنی اس حالت پُر ضلالت سے رجوع کرے گا اور پھر خدا اس کی آنکھیں کھولے گا.واللّٰہُ عَلٰی کُلّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ.اور ایک مرتبہ میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میں محمد حسین کے مکان پر گیا ہوں اور میرے ساتھ ایک جماعت ہے اور ہم نے وہیں نماز پڑھی اور میں نے امامت کرائی اور مجھے خیال گذرا کہ مجھ سے نماز میں یہ غلطی ہوئی ہے کہ میں نے ظہر یا عصر کی نماز میں سورہ فاتحہ کو بلند آواز سے پڑھنا شروع کر دیا تھا پھر مجھے معلوم ہوا کہ میں نے سورۂفاتحہ بلند آواز سے نہیں پڑھی بلکہ صرف تکبیر بلند آواز سے کہی پھر جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ محمد حسین ہمارے مقابل پر بیٹھا ہے اور اس وقت مجھے اس کا سیاہ رنگ معلوم ہوتا ہے اور بالکل برہنہ ہے پس مجھے شرم آئی کہ میں اس کی طرف نظر کروں پس اسی حال میں وہ میرے پاس آگیا.میں نے اسے کہا کہ کیا وقت نہیں آیا کہ تو صلح کرے اور کیا تو چاہتا ہے کہ تجھ سے صلح کی جائے اس نے کہا کہ ہاں پس وہ بہت نزدیک آیا اور بغل گیر ہوا اور وہ اس وقت چھوٹے بچہ کی طرح تھا پھر میں نے کہا کہ اگر تو چاہے تو ان باتوں سے درگذر کر جو میں نے تیرے حق میں کہیں جن سے تجھے دکھ پہنچا اور خوب یاد رکھ کہ میں نے کچھ نہیں کہا مگر صحت نیت سے اور ہم ڈرتے ہیں خدا کے اس بھاری دن سے جبکہ ہم اس کے سامنے کھڑے ہوں گے اس نے کہا کہ میں نے درگذر کی تب میں نے کہا کہ گواہ رہ کہ میں نے

Page 115

وہ تمام باتیں تجھے بخش دیں جو تیری زبان پر جاری ہوئیں اور تیری تکفیر اور تکذیب کو میں نے معاف کیا اس کے بعد ہی وہ اپنے اصلی قد پر نظر آیا اور سفید کپڑے نظر آئے پھر میں نے کہا جیسا کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا آج وہ پورا ہوگیا پھر ایک آواز دینے والے نے آواز دی کہ ایک شخص جس کا نام سلطان بیگ ہے جان کندن میں ہے میں نے کہا کہ اب عنقریب وہ مر جائے گا کیونکہ مجھے خواب میں دکھلایا گیا ہے کہ اس کی موت کے دن صلح ہوگی پھر میں نے محمد حسین کو یہ کہا کہ میں نے خواب میں یہ دیکھا تھا کہ صلح کے دن کی یہ نشانی ہے کہ اس دن بہاء الدین فوت ہو جائے گا.محمد حسین نے اس بات کو سن کر نہایت تعظیم کی نظر سے دیکھا اور ایسا تعجب کیا جیسا کہ ایک شخص ایک واقعہ صحیحہ کی عظمت سے تعجب کرتا ہے اور کہا یہ بالکل سچ ہے اور واقعی بہاء الدین فوت ہوگیا پھر میں نے اس کی دعوت کی اور اس نے ایک خفیف عذر کے بعد دعوت کو قبول کرلیا اور پھر میں نے اس کو کہا کہ میں نے خواب میں یہ بھی دیکھا تھا کہ صلح بلاواسطہ ہوگی سو جیسا کہ دیکھا تھا ویسا ہی ظہور میں آگیا اور یہ بدھ کا دن اور تاریخ ۱۲؍ دسمبر ۱۸۹۴ء تھی.چھتیسویں پیشگوئی.چھتیسویں پیشگوئی یہ ہے جیسا کہ میں ازالہ اوہام میں لکھ چکا ہوں خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی کہ تیری عمر اسی ۰۸ برس یا اس سے کچھ کم یا کچھ زیادہ ہوگی اور یہ الہام قریبًا بیس ۰۲ یا بائیس برس کے عرصہ کا ہے جس سے بہت لوگوں کو اطلاع دی گئی اور ازالہ اوہام میں بھی درج ہو کر شائع ہوگیا.سینتیسویں۷۳ پیشگوئی.سینتیسویں پیشگوئی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ ان اشتہارات کی تقریب پر جو آریہ قوم اور پادریوں اور سکھوں کے مقابل پر جاری ہوئے ہیں جو شخص مقابل پر آئے گا خدا اس میدان میں میری مدد کرے گا.اسی طرح اور بھی پیشگوئیاں ہیں جو متفرق کتابوں میں لکھی گئی ہیں.اور ایسے خوارق پانچ ہزار کے قریب پہنچ چکے ہیں جن کے دیکھنے والے اکثر گواہ اب تک زندہ موجود ہیں.اور ہر ایک شخص جو ایک مدت تک صحبت میں رہا ہے اس نے بچشم خود مشاہدہ کیا ہے اور کر رہے ہیں پس ان بدقسمت لوگوں کی حالت پر افسوس ہے کہ جو کہتے ہیں کہ جو

Page 116

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے کوئی معجزہ اور پیشگوئی نہیں ہوئی یہ نادان نہیں سمجھتے کہ جس حالت میں ان کی امت سے یہ انوار اور برکات ظاہر ہو رہے ہیں اور دوسرے کسی نبی کی امت سے یہ نشان ظاہر نہیں ہوتے تو کس قدر سچائی کا خون کرنا ہے کہ ایسے سرچشمہ برکات سے انکار کیا جائے بلکہ حق تو یہ ہے کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا وجود مبارک نہ ہونا تو کسی نبی کی نبوت ثابت نہ ہو سکتی.ظاہر ہے کہ صرف قصوں اور کہانیوں کو پیش کرنا اس کا نام تو ثبوت نہیں ہے یہ قصے تو ہر ایک قوم میں بکثرت پائے جاتے ہیں لعنت ہے ایسے دل پر جو صرف قصوں پر اپنے ایمان کی بنیاد ٹھہرائے.خصوصاً وہ لوگ جنہوں نے ایک انسان کے بچہ عاجز کو خدا بنا لیا.دیکھا نہ بھالا قربان گئی خالہ.ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمرد نبی ؐ اور زندہ نبی ؐ اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبی ؐ صرف ایک مرد کو جانتے ہیں یعنی وہی نبیوں کا سردار رسولوں کا فخر تمام مرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمد مصطفی و احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و سلم ہے جس کے زیر سایہ دس۰۱ دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہیں مل سکتی تھی وہ کیسی کتابیں ہیں جو ہمیں بھی اگر ہم ان کے تابع ہوں مردود اور مخذول اور سیاہ دل کرنا چاہتی ہیں کیا ان کو زندہ نبوت کہنا چاہئے جن کے سایہ سے ہم خود مردہ ہو جاتے ہیں یقیناً سمجھو کہ یہ سب مردے ہیں کیا مردہ کو مردہ روشنی بخش سکتا ہے یسوع کی پرستش کرنا صرف ایک بت کی پرستش کرنا ہے.مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر وہ میرے زمانہ میں ہوتا تو اس کو انکسار کے ساتھ میری گواہی دینی پڑتی کوئی اس کو قبول کرے یا نہ کرے مگر یہی سچ ہے اور سچ میں برکت ہے کہ آخر اس کی روشنی دنیا پر پڑتی ہے.تب دنیا کی تمام دیواریں چمک اٹھتی ہیں مگر وہ جو تاریکی میں پڑے ہوں سو آخری وصیت یہی ہے کہ ہر ایک روشنی ہم نے رسول نبی امی کی پیروی سے پائی ہے اور جو شخص پیروی کرے گا وہ بھی پائے گا اور ایسی قبولیت اس کو ملے گی کہ کوئی بات اس کے آگے انہونی نہیں رہے گی.زندہ خدا جو لوگوں سے پوشیدہ ہے

Page 117

اس کا خدا ہوگا اور جھوٹے خدا سب اس کے پیروں کے نیچے کچلے اور روندے جائیں گے وہ ہر ایک جگہ مبارک ہوگا اور الٰہی قوتیں اس کے ساتھ ہوں گی.وَالسّلام عَلٰی مَنِ اتَّبَع الْھُدٰی اب ہم اس رسالہ کو اس وصیت پر ختم کرتے ہیں کہ اے سچائی کے طالبو سچائی کو ڈھونڈو کب اب آسمان کے دروازے کھلے ہیں.اور اے ہماری قوم کے نادان*مولویو یہ وہی خدا کے دن ہیں جن کا وعدہ تھا سو آنکھیں کھولو اور دیکھو کہ زمین پر کیا ہو رہا ہے اور کیسے سچائی کے بادشاہ مقدس رسول کو پیروں کے نیچے کچلا جاتا ہے کیا اس پاک نبی کی توہین میں کچھ کسر رہ گئی کیا ضرور نہ تھا کہ زمین کے اس طوفان کے وقت آسمان پر کچھ ظاہر ہوتا.سو اس لئے خدا نے ایک بندہ کو اپنے بندوں میں سے چن لیا تا اپنی قدرتیں دکھلاوے اور اپنی ہستی کا ثبوت دے اور وہ جو سچائی سے ٹھٹھے کرتے اور جھوٹ سے محبت رکھتے ہیں ان کو جتلاوے کہ میں ہوں اور سچائی کا حامی ہوں- اگر وہ ایسے فتنہ کے وقت میں اپنا چہرہ نہ دکھلاتا تو دنیا گمراہی میں ڈوب جاتی اور ہر ایک نفس دہریہ اور ملحد ہو کر مرتا.یہ خدا کا فضل ہے کہ انسانی کشتی کو عین وقت میں اس نے تھام لیا یہ چودھویں صدی کیا تھی چودھویں رات کا چاند تھا جس میں خدا نے اپنے نور کو چادر کی طرح زمین پر پھیلا دیا.اب کیا تم خدا سے لڑو گے کیا فولادی قلعہ سے اپنا سر ٹکراؤ گے کچھ شرم کرو اور سچائی کے آگے مت کھڑے ہو.خدا نے دیکھا ہے کہ زمین بدعت اور شرک اور بدکاریوں سے جل گئی ہے اور نجاست کو پسند کیا جاتا ہے اور سچائی کو رد کیا جاتا ہے سو اس نے جیسا کہ اس کی قدیم سے عادت ہے دنیا کی اصلاح کیلئے توجہ کی.کیونکہ سچی تبدیلی آسمان سے ہوتی ہے نہ زمین سے اور سچا ایمان اوپر سے ملتا ہے نہ نیچے سے.اس لئے اس رحیم خدا نے چاہا کہ ایمان کو تا زہ کرے اور ان لوگوں کے لئے جن کو اشتہاروں کے ذریعہ سے بلایا گیا ہے یا آئندہ بلایا جائے ایسا نشان دکھلائے.اور مجھے میرے خدا نے مخاطب کر کے فرمایا ہے.اَلاَرْضُ وَالسَّمَاءُ مَعَکَ کَمَا ھُوَمَعِی۱؂.قُلْ لِّی الاَرْضُ وَالسَّمَآء.قُلْ لِّی سلامٌ فی مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیْکٍ مُّقْتَدِرْ.اِنّ اللّٰہ مَعَ الّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالّذِیْنَ اس زمانہ کے مولویوں کی نسبت میں وہی کہتا ہوں جو آثار میں پہلے سے کہا گیا ہے.منہ ۱؂ نوٹ:.ضمیرھو اس تاویل سے ہے کہ اس کا مرجع مخلوق ہے.منہ

Page 118

ھُمْ مُّحْسِنُوْن.یَاْتِی نَصْرُاللّٰہ.اِنّا سَنُنْذِرُ العَالم کُلّہٗ.انا سَنَنْزِلُ.اَنَا اللّٰہُ لا اِلٰہ اِلَّا اَنَا.یعنی آسمان اور زمین تیرے ساتھ ہے جیسا کہ وہ میرے ساتھ ہے کہ آسمان اور زمین میرے لئے ہے.کہ میرے لئے سلامتی ہے.وہ سلامتی جو خدا قادر کی حضور میں سچائی کی نشست گاہ میں ہے.خدا ان کے ساتھ ہے جو اس سے ڈرتے ہیں اور جن کا اصول یہ ہے کہ خلق اللہ سے نیکی کرتے رہیں- خدا کی مدد آتی ہے.ہم تمام دنیا کو متنبہ کریں گے.ہم زمین پر اتریں گے.میں ہی کامل اور سچا خداہوں میرے سوا اور کوئی نہیں.ان الہامات میں نصرت الٰہی کے پُرزور وعدے ہیں مگر یہ تمام مدد آسمانی نشانوں کے ساتھ ہوگی وہ لوگ ظالم اور ناسمجھ اور بیوقوف ہیں جو ایسا خیال کرے ہیں کہ مسیح موعود اور مہدی موعود تلوار لیکر آئے گا.نبوت کے نوشتے پکار پکار کر کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں تلواروں سے نہیں بلکہ آسمانی نشانوں سے دلوں کو فتح کیا جائے گا اور پہلے بھی تلوار اٹھانا خدا کا مقصد نہ تھا.بلکہ جنہوں نے تلواریں اٹھائیں وہ تلواروں سے ہی مارے گئے.غرض یہ آسمانی نشانوں کا زمانہ ہے خونریزیوں کا زمانہ نہیں.احمقوں نے بُری تاویلیں کر کے خدا کی پاک شریعت کو بُری شکلوں میں دکھایا ہے.آسمانی قوتیں جس قدر اسلام میں ہیں کسی دین میں نہیں ہوئیں اسلام تلوار کا محتاج ہرگز نہیں.الراقم میرزا غلام احمد قادیانی ۲۳ ذی القعدہ سنۃ ۱۳۱۴ھ نظم منشی گلاب الدین صاحب رہتاسی اللہ اللہ صدی چودھویں کا جاہ و جلال رحمت حق سے ملا ہے اسے کیا فضل و کمال جس میں مامور من اللہ ہوا ایک بندہ حق تاکہ اسلام کی رونق کو کرے پھر وہ بحال جس کے آنے کی خبر مخبر صادق نے تھی دی آسماں پر سے اتر آیا وہ صاحب اقبال قاد یان جائے قیام اس کا غلام احمد نام جھاڑے اسلام نے پھر جس کے سبب سے پروبال دین کی تجدید لگی ہونے بصد شدومد دیکھو جس شخص کو کرتا ہے یہی قیل و قال بھوکے نورانی غذاؤں سے لگے ہونے سیر پیاسے برکات کی بارش سے ہوئے مالامال

Page 119

شرک و بدعت کی سیاہی تو لگی ہونے دور نظر آنے لگا توحید کا اب حسن و جمال راز سربستہ بہت علم لدنی کے کھلے دیکھ لی کشف و کرامات کی ایک زندہ مثال وحی و الہام کی ماہیتیں روشن ہوئیں آج شب معراج کا عقدہ کھلا اور طور کا حال کھل گیا آج کہ ہے معجزہ زندہ قرآن سب جہان مان گیا سامنا اس کا ہے محال ہر مخالف کا کٹا تیغ براہین سے سر ہوگئے غیر مذاہب بھی بحجت پامال پیشگوئیوں کے کھلے بھید رسالت کے بھی راز کھل گیا عیسیٰ مریم کا نزول اجلال معنی اعجاز نبوت کے فرشتوں کا نزول قلب مومن پہ جو ہوتے ہیں الٰہی افضال حل ہوئے نکتے تصوف کے ولایت کے بھی بھید مانا سب نے کہ نہیں خارق عادت بھی محال الغرض ہوگئے حل سینکڑوں عقد لاحل دس جواب اس کو ملے جس نے کیا ایک سوال منصفو غور کرو کیا ہے زمانہ الٹا کہتے ہیں عیسٰئی موعود کو آیا دجال مثل شیشہ کے نبی اور ولی ہوتے ہیں نظر آتا ہے سدا شیشہ میں اپنا خط و خال خود تو شپر کی طرح آنکھوں سے معذور ہیں اور عیب سورج کو لگاتے ہیں بایں حسن و جمال علم ظاہر تو ہے العلم حجاب الاکبر علم باطن سے سدا پاتا ہے انسان کمال موسیٰ و خضر کے قصہ کو بھی کیا بھول گئے کر دیا موسیٰ کو حیران چلا خضر وہ چال خضر کے پیچھے چلے جاؤ عقیدت سے گلاب خیر و خوبی سے اگر چاہتے ہو تم حال و قال فہرست آمدنی چندہ برائے طیاری مہمان خانہ و چاہ وغیرہ منشی عبدالرحمن صاحب ا ہلمد محکمہ جرنیلیریاست کپور تھلہ3 جلال الدین صاحب بلانی ضلع گجرات 3 شیخ محمد جان صاحب وزیر آبادی 3 مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی 3 عبدالحق صاحب کرانچی والا لدھیانہ 3 امام الدین شیخواں قریب قادیاں 3 عرب حاجی مہدی صاحب بغدادی نزیل مدراس 3 ابراہیم سلیمان کمپنی مدراس 3 عبدالعزیز صاحب پٹواری شیخواں 3 سیٹھ عبدالرحمن حاجی اللہ رکھا مدراس 3 سیٹھ دالجی لالجی صاحب ؍؍ 3 خلیفہ نور الدین صاحب و اللہ دتا جموں 3 اہلیہ ہائے حکیم فضل دین صاحب بھیروی 3 سیٹھ صالح محمد حاجی اللہ رکھا ؍؍ 3 سیٹھ اسحق اسمٰعیل صاحب بنگلور 3 خیر الدین سیکھواں قریب قادیان 3 مولوی سلطان محمود صاحب ؍؍ 3 مرزا خدابخش صاحب اتالیق نواب صاحب مالیرکوٹلہ3

Page 120

اہلیہ میرزا صاحب موصوف 3 زین الدین محمد ابراہیم صاحب انجینئر بمبئی 3 مولوی عبداللہ خان صاحب 3 شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر لاہور 3 مہدی حسین صاحب ؍؍ 3 مولوی محمود حسن خان صاحب پٹیالہ 3 منشی کرم الٰہی صاحب ازکوہ شملہ 3 بابو چراغ الدین صاحب سٹیشن ماسٹر لیہ 3 شیخ کرم الٰہی صاحب ؍؍ 3 نواب خانصاحب تحصیلدار جہلم 3 عبداللہ خانصاحب برادر تحصیلدار جہلم 3 حافظ نور محمد صاحب ؍؍ 3 نبی بخش صاحب نمبردار بٹالہ 3 فضل الٰہی صاحب فیض اللہ چک قریب قادیان3 پسران شیخ ظہور علی مرحوم محمد صدیق صاحب شیخواں قریب قادیان3 عبداللہ صاحب تھہ غلام نبی قریب ؍؍ 3 ونبیرہ اکبر علی مرحوم 3 مولیٰ بخش صاحب تاجر چرم ڈنگہ ضلع گجرات3 عبدالخالق صاحب رفوگر امرتسر 3 سید محمد علی صاحب مدرس قلعہ سوبھاسنگھ3 محمد الدین صاحب بوٹ فروش جموں ۱۲عہ محمد اسماعیل صاحب سوداگر پشمینہ امرتسر 3 شمس الدین محمد ابراہیم صاحب بمبئی 3 اللہ دتا صاحب جموں 3 اہلیہ عبدالعزیز صاحب پٹواری مذکور3 نور محمد صاحب 3 سردار سمند خانصاحب جموں 3 غلام حسین صاحب اسسٹنٹ سٹیشن دینہ3 میرزا افضل بیگ صاحب مختار قصور 3 قطب الدین صاحب کوٹلہ فقیر ضلع جہلم 3 وزیر الدین صاحب ہیڈ ماسڑ سجانپورہ کانگڑہ 3 اکبر علی شاہ صاحب موجیانوالہ ضلع گجرات3 محمد شاہ صاحب ٹھیکیدار جموں 3 فضل الدین صاحب قاضی کوٹ 3 حافظ نور محمد صاحب فیض اللہ چک قریب قادیان3 مولوی محمد صادق صاحب جموں 3 اہلیہ نبی بخش صاحب رفوگر امرتسر 3 غلام قادر صاحب تھہ غلام نبی قریب ؍؍3 شادی خان صاحب سیالکوٹ 3 مہر ساون شیخواں 3 غلام محمد صاحب امرتسر شیرانوالہ کٹڑہ3 فضل کریم صاحب عطار جموں 3 سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹ 3 نبی بخش صاحب رفوگر امرتسر 3 مولوی محمد اکرم صاحب جموں 3 محمد الدین صاحب کنسٹیبل پولیس 3 جمال الدین صاحب شیخواں 3 خواجہ جمال الدین صاحب بی اے جموں3 حکیم محمد دین صاحب ؍؍ ؍؍ 3 خلیفہ رشید الدین صاحب اسسٹنٹ سرجن چکراتہ 3 مستری عمر صاحب جموں 3 سید چراغ شاہ صاحب 3 عنایت اللہ صاحب 3 قاضی ضیاء الدین صاحب قاضی کوٹ3 مفتی فضل احمد صاحب جموں 3 سید امیر علی شاہ صاحب سارجنٹ درجہ اول 3 قاضی فضل الدین صاحب 3 غلام رسول صاحب سوداگر کلکتہ وارد جموں 3 مولوی قطب الدین صاحب بدوملہی 3 سید خصیلت علی شاہ صاحب تھانہ دار ڈنگہ 3 منشی نبی بخش صاحب جموں 3 شاہ رکن الدین احمد صاحب کڑا سجادہ نشین 3 عبدالعزیز صاحب ٹیلر ماسٹر سیالکوٹ 3 شیخ مسیح اللہ صاحب شاہجہانپوری مرزا نیاز بیگ صاحب ضلع دار نہر ملتان 3 اہلیہ شاہ صاحب موصوف و والدہ 3 خانساماں صاحب مہتمم انہار ملتان 3 حافظ عبدالرحمن صاحب لیہ 3 شیخ عطا محمد صاحب سب اورسیر 3

Page 121

مولا بخش صاحب بوٹ فروش سیالکوٹ 3 شاہدین صاحب سٹیشن ماسٹر دنیہ ضلع جہلم 3 مولوی یوسف صاحب سنوری 3 سید محمد صاحب ملازم پولیس سیالکوٹ 3 محمد خاں صاحب کپورتھلہ 3 حافظ عظیم بخش صاحب 3 فضل دین زرگر سیالکوٹ 3 قاضی محمد یوسف صاحب قاضی کوٹ 3 ماسٹر غلام محمد صاحب سیاکوٹ 3 محمد الدین صاحب اپیل نویس سیالکوٹ3 نور احمد صاحب درویش کے 3 مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹ 3 قادر بخش صاحب لدھیانہ 3 مستری غلام الٰہی بھیرہ معہ برادران و اہلمحلہ ۱۲3 بابو عطا محمد صاحب سب اوورسیر کمیٹی سیالکوٹ 3 محمد اکبر صاحب بٹالہ 3 اہلیہ عبدالعزیز صاحب مذکور 3 متفرق از سیالکوٹ 3 مولوی غلام محی الدین صاحب مدرس نور محل 3 منشی اللہ دتا خاں صاحب سیالکوٹ 3 قربان علی صاحب مستری پلٹن نمبر ۴۳ کلکتہ3 سیٹھ موسیٰ صاحب منی پور ملک آسام صدر بازار 3 حکیم احمد الدین صاحب سیالکوٹ 3 منشی عبدالرحیم صاحب تار گھر منی پور3 منشی عزیز اللہ صاحب سرہندی پوسٹماسٹر3 سید نواب شاہ صاحب مدرس سیالکوٹ 3 مستری عبدالغفار صاحب ملازم پلٹن نمبر ۴۴ داناپور 3 شیخ محمد حسین صاحب مراد آبادی مراسلہ نویس پٹیالہ نادون کانگڑہ 3 مستری نظام الدین و ؍؍ 3 بشارت میاں پلٹن نمبر ۴۴ منی پور 3 مصطفیٰ و مرتضیٰ صاحبان محمد افضل و محمد اعظم 3 گلاب خان صاحب اورسیر؍؍ 3 پیر فیض علی صاحب منی پور 3 شیخ عبدالصمد معلم سنوری 3 علی گوہر خاں صاحب برنچ 3 سرور خاں صاحب جمعدار منی پور 3 مولوی کرم الدین صاحب نائٹ رس قلعہ سوبھاسنگھ 3 پوسٹماسٹر جالندھر 3 کھنڈا جمعدار گورداسپور 3 شہاب الدین شمس الدین صاحب بمبئی 3 منشی رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر گورداسپور لعل دین صاحب منی پور 3 فتح محمد خاں صاحب بزدار لیہ ڈیرہ اسماعیل خان3 غلام رسول خان صاحب غازی پور 3 حسین بخش صاحب بارک پور اردلی بازار3 ڈاکٹر بوڑے خان صاحب قصور 3 بابو غلام محی الدین صاحب پھلور ضلع جالندھر 3 شبرانی بنارسی 3 مولوی محمد قاری صاحب امام مسجد قصاباں جہلم3 ملا عبادلرحیم صاحب غزنی 3 مولوی غلام امام صاحب منی پور عزیز الواعظین3 چراغ علی صاحب تھ غلام نبی قریب قادیان3 شرف الدین صاحب کوٹلہ فقیر ضلع جہلم 3 اہلیہ مولوی صاحب موصوف 3 نظام الدین صاحب قریب قادیان 3 ڈاکٹر عبدالحکیم خان صاحب پٹیالہ 3 محمد الدین صاحب پٹواری بلانی ضلع گجرات3 گلاب دین صاحب تھلوال ریاست جموں3 شیخ عبداللہ صاحب و شیخ عباداللہ صاحب پٹیالہ3 خواجہ کمال الدین صاحب بی اے 3 والدہ عبدالعزیز صاحب پٹواری شیخواں3 شیر محمد صاحب بکھر 3 مفتی محمد صادق صاحب بھیروی 3 بابو مولیٰ بخش صاحب لاہوری 3 اس کے سوا اور بھی کئی نام ہیں جو دوسرے پرچہ میں شائع ہوں گے.

Page 122

3 خط و کتابت اس عرصہ میں جو کچھ مکرمی خواجہ غلام فرید صاحب چشتی پیر نواب صاحب بہاولپور سے اس عاجز کی خط و کتابت ہوئی محض بہ نیّت فائدہ عام وہ تمام خطوط جانبین چھاپ دئیے جاتے ہیں شاید کسی بندہ خدا کو اس سے فائدہ ہو وَ اِنَّمَا الاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ.خواجہ صاحب کا وہ پہلا خط جو ضمیمہ انجام آتھم کے ۳۹ صفحہ پر طبع ہوا من فقیر بَاب اللّہ غلام فرید سجّادہ نشین الٰی جناب میرزا غُلام احمد صاحب قادیَانِیْ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم الحمدُ للّہ رب الارباب والصّلوۃ علٰی رسُولہ الشفیع بیوم الحساب و علٰی اٰلہ و الاصحاب والسّلام علیکم و علی من اجتھدوا صاب اما بعد قد ارسلت الیّ الکتاب و بہ دعوت الَی المباھلۃ و طالبت بالجواب و انّی و ان کنت عدیم الفرصۃ و لکن رایت جزء ہ من حسن الخطاب و سوق العتاب اعلم یا اعزا الاحباب انّی من بدوحالک واقف علی مقام تعظیمک لنیل التواب وماجرت علیٰ لسانی کلمۃ فی حقک الا بالتبجیل و ر عایۃ الاداب و الان اطلع

Page 123

لک بانی معترف بصَلاح حَالک بلا ارتیاب و موقن بانک من عباد اللہ الصلحین و فی سعیک المشکور مثاب وقد اوتیت الفضل من الملک الوھاب و لک ان تسئل من اللّٰہ تعالی خیر عاقبتی و ادعولکم حسن ماب ولو لا خوف الاطناب لازددت فی الخطاب.والسّلام علی من سلک سبیل الصواب.فقط ۲۷ رجب ۱۳۱۴ھ من مقام چاچڑاں.فقیرغلام فرید خادم الفقرا ۱۳۰۱ مہر ترجمہ.تمام تعریفیں اس خدا کیلئے ہیں جو رب الارباب ہے اور درود اس رسول مقبول پر جو یوم الحساب کا شفیع ہے اور نیز اس کے آل اور اصحاب پر اور تم پر سلام اور ہر ایک پر جو راہ صواب میں کوشش کرنے والا ہو.اس کے بعد واضح ہو کہ مجھے آپ کی وہ کتاب پہنچی جس میں مباہلہ کیلئے جواب طلب کیا گیا ہے اور اگرچہ میں عدیم الفرصت تھا تاہم میں نے اس کتاب کے ایک جز کو حسن خطاب اور طریق عتاب پر مشتمل تھی پڑھی ہے.سو اے ہر ایک حبیب سے عزیز تر تجھے معلوم ہو کہ میں ابتداء سے تیرے لئے تعظیم کرنے کے مقام پر کھڑا ہوں تا مجھے ثواب حاصل ہو.اور کبھی میری زبان پر بجز تعظیم اور تکریم اور رعایت آداب کے تیرے حق میں کوئی کلمہ جاری نہیں ہوا اور اب میں تجھے مطلع کرتا ہوں کہ میں بلاشبہ تیرے نیک حال کا معترف ہوں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ تو خدا کے صالح بندوں میں سے ہے اور تیری سعی عنداللہ قابل شکر ہے جس کا اجر ملے گا اور خدائے بخشندہ بادشاہ کا تیرے پر فضل ہے میرے لئے عاقبت بالخیر کی دعا کر اور میں آپ کے لئے انجام خیر و خوبی کی دعا کرتا ہوں.اگر مجھے طول کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں زیادہ لکھتا.والسلام علی من سلک سبیل الصواب.اس کا جواب بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیْم نحمدُہٗ و نصلی علٰی رسُولہ الکرِیْم من عبداللّٰہ الاحد غلام احمد عافاہ اللّہُ و ایّد الی الشیخ الکریم السعید حبی فی اللّٰہ غلام فرید.السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ.امّا بعد فاعلم ایھا العبد الصالح قد بلغنی منک مکتوب ضُمّخ بعطر الاخلاص

Page 124

والمحبۃ و کتب بانامل الحبّ والالفۃ جزاک اللّٰہ خیر الجزاء و حفظک من کل انواع البلاء انی وجدت ریح التقویٰ فی کلمٰتک فما اضوع ریاک وما احسن نموذج نفحاتک و قد اخبر النبی صَلّی اللّٰہ علیہ وسلم فی امری واثنی علی احبابی و زمری وقال لا یصدقہ الا صالح ولا یکذبہ الا فاسق فشرفا لک ببشارۃ المصطفٰی وواھًا لک من الرب الاعلٰی و من تواضع للّٰہ فقد رُفِع و من اسکتبر فرد و دفع و انی مازلت مذرأیت کتبک و ٰانست اخلاقک و ادابک ادعولک فی الحضرۃ واسئل اللّٰہ ان یتوب علیک بانواع الرحمۃ وقد سرنی حسن صفاتک ورزانۃ حصاتک وعلمت انک خلقت من طینۃ الحُرّیۃ و اعطیت مکارم السجّیۃ و احن الی لقائک بھوی الجنان ان کان قدرالرحمن و قد سمعت بعض خصائص نباھتک وماٰثر وجاھتک من مخلصی الحکیم المولوی نور الدّین فالان زاد مکتوبک یقیناًعلی الیقین وصار الخبر عیانا والظن بُرْھَانا فادعو اللّٰہ سبحانہ ان یبقی مجدک و بنیانہ و یحیط علیک رُحْمہ وغفرانہ و کنت قلت للناس انک لا تلوی عذارک ولا تظھر انکارک فابشرت بان کلمتی قد تمّت و ان فراستی ما اخطأت و رغّبنی خلقک فی ان افوز بمرٰاک و اسرّ بلقیاک فارجو ان تسرّنی بالمکتوبات حتی تجیء من اللّٰہ وقت الملاقات والان ارسل اِلَیْک مع مکتوبی ھٰذا ضمیمۃ کتابی کما ارسلتہ الٰی احبابی و فیھا ذکرک و ذکر مکتوبک وارجوان تقرء ھا ولو کان حرج فی بعض خطوبک والسّلام علیک وعلی اعزتک وشعوبک.فقط من قادیان.خواجہ صاحب کا دوسرا خط بخدمت جناب میرزا صاحب عالی مراتب مجموعہ محاسن بیکراں مستجمع اوصاف بے پایان مکرم معظم برگزیدۂِ خدائے احد جناب میرزا غلام احمد صاحب متّع اللّٰہ الناس ببقاۂ و سرنی

Page 125

بلقاۂ و انعمہ باٰلاۂ.پس از سلام مسنون الاسلام و شوق تمام و دعائے اعتلائے نام و ارتقائے مقام واضح ولائح باد.نامۂ محبت ختامہ الفت شمامہ مشحون مہربانی ہائے تامہ معہ کتاب مرسلہ رسیدہ چہرہ کشائے مسرت تازہ و فرحت بے اندازہ گشت.مخفی مباد کہ ایں فقیر از بدوحال خود بتقاضائے فطرت در عربد ہا افتادن و بے ضرورت قدم در معارک مناقشات نہادن پسند ندارد چندانکہ می تو اند خود را از مداخل طوفان نزاع بے معنی برمی آردو چوں اکثر مردم را موافقت ہوا از طلب حق بازداشتہ است و تعصب مجاری تحقیق را بخاک جہل فراانباشتہ براں بکنہ گفتارہا نا رسیدہ و غایت کار ہا نادیدہ غوغائے برمی انگیزند و ہماں غبار جہالت کہ بہوائے عناد برداشتہ بسر خویش می پیزند ورنہ ثمرہ کار ہا برنیت صحیح است و دلالت کنایات ابلغ از تصریح پوشیدہ نماند کہ درین جز و زماں کسانے از علمائے وقت از فقیر مطالبہ جو اب کردہ اند کہ ہمچو کسے را (یعنی آں صاحب را) کہ باتفاق علماء چنین و چنان ثابت شدہ است چرانیک مرد پنداشتہ اندو از چہ رود روئے حسن ظن داشتہ چون تحریر ایشاں مملو بود از کمال جوش و ترکیب الفاظ ایشان بابرق طپشہا ہم آغوش نظر برآنکہ مضامین شان برغلیان دلہا گواہ است و برنیت ہر کس خدائے دانا تر آگاہ و بہ ہیچ کس گمان بد بردن شیوہ اہل صفا نیست و بے تحقیق کسے را منافق یا مطیع نفس دانستن روا نہ فقیر را در کارشان ہم گمان بدگران مے نمود زیر آنکہ اگر نیت صادق داشتہ باشند غلط شان بمشابہ خطا فی الاجتہاد خواہد بود ورنہ گوش محبت نیوش ہر قدر کہ از غایت کار آن مکرم ذخیرہ آگاہی انباشت دل الفت شامل زیادہ ازان در اخلاص افزود کہ داشت دعا ست کہ از عنایت حق سببے بہتر پیدا آید و ساعتے نیکو روئے نماید کہ حجاب مباعدت جسمانی و نقاب مسافت طولانی از میاں برخیز دو اگر بارسال مضمونیکہ در جلسۂ مذاہب پیش کردہ اند مسرور فرمایند منت باشد.والسلام مع الاکرام فضائل و کمالات مرتبت مولوی نور الدین صاحب سلام شوق مطالعہ فرمایند.و صاحبزادہ محمد سراج الحق صاحب نیز.الراقم فقیر غلام فرید الچشتی النظامی من مقام چاچڑاں شریف مہر ۲۷؍ ماہ شعبان المعظم ۱۳۱۴ہجریہ نبویہ

Page 126

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم جواب نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم بخدمت حضرت مخدوم و مکرم الشیخ الجلیل الشریف السعید حبّی فی اللّٰہ غلام فرید صاحب کان اللّٰہ معہ و رضی عنہ و ارضاہ.السلام علیکم و رحمہ اللّٰہ و برکاتہ امابعد نامہ نامی و صحیفہ گرامی افتخار نزول فرمودہ باعث گونان گون مسرت ہا گروید و بمقتضائے آیہ کریمہ 3 ۱؂ از چندیں ہزار علماء و صلحا بوئے آشنائی از کلمات طیبات آن مخدوم بشمیدم شکر خدا کہ این سرزمین ازان مردان حق خالی نیست کہ در اظہار کلمۃ الحق ازلوم ہیچ لائمے نمے ترسند.ونورے دارند از جناب احدیت و فراستے دارند از حضرت عزت پس فطرت صحیحہ مطہرہ ایشاں سوئے حق ایشان رامے کشد و در احقاق حق روح القدس تائید شان میفرماید فالحمدللّٰہ ثم الحمدللّٰہ کہ مصداق این امور آن مخدوم را یافتیم.اے برادر مکرم رجوع مشائخ وقت سوئے این عاجز بسیارکم است و فتنہ ہا ازہر سو پیدا.پیش زین حبی فی اللہ حاجی منشی احمد جان صاحب لدھیانوی کہ مؤلف کتاب طب روحانی نیز بودند بکمال محبت و اخلاص بدیں عاجز ارادتے پیدا کردند و بعض مریدان نا اہل در ایشاں چیز ہا گفتند کہ بدیں مشیخت و شہرت کجا افتاد چون اوشان را از آن کلمات اطلاعے شد معتقدان خود را در مجلسی جمع کردند و گفتند کہ حقیقت اینستکہ ماچیزے دیدم کہ شما نمے بینیدپس اگر از من قطع تعلق میخواہید بسیار خوب است مرا خود پروائے این تعلق ہانماندہ ازین سخن شان بعض مریدان اہل دل بگریستند و اخلاصے پیدا کردند کہ پیش زاں نیز نمے داشتند و مرا وقت ملاقات گفتند کہ عجب کاریست کہ مرا افتادہ کہ من قصد مصمم کردہ بودم کہ اگر مرامے گذارند من ایشانرا گزارم لیکن امر برعکس آں پدید آمدہ و قسم خوردند کہ اکنوں بآن خدمتہا پیش مے آیند کہ قبل زین ازان نشانے نبود این بزرگ مرحوم چون بعد از مراجعت حج وفات کردند اعزہ و وابستگان خود را بار بار ہمین نصیحت نمودند کہ بدین عاجز تعلق ہائے ارادت داشتہ باشیدو وقت عزیمت حج مرانوشتند کہ مرا حسرتہاست کہ من زمان شمارا بسیار کمتر یافتم و عمرے گرد این و آن برباد رفت و فرزندان وہمہ مردان و زنان کہ اعزہ شان بودند بوصیت شاں عمل کردند و خود را درسلک بیعت این عاجز کشیدند چنانچہ از روزگارے دراز فرزندان آن

Page 127

بزرگ سکونت لدھیانہ راترک کردہ اند و مع عیال خود نزدمن در قادیان می مانند.و شیخے دیگر پیر صاحب العلم است کہ برائے من خواب دیدند و دربارہ من از آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم در مجلسے عظیم شہادت دادند و سوئے من آن مکتوبے نوشتند کہ در ضمیمہ انجام آتھم از نظرآن مکرم گذشتہ باشد.اما ہنوز جماعت این عاجز بدان تعداد نہ رسیدہ کہ برمن ازخدائے من عددآن مکشوف گردیدہ بود میدانم کہ تا اکنون جماعت من از ہشت ہزار دو سہ کم یا زیادہ خواہد بود.اے مخدوم و مکرم این سلسلہ سلسلۂ خداست و بنائے است از دست قادرے کہ ہمیشہ کار ہائے عجائب می نماید اواز کاروبار خود پرسیدہ نمی شود کہ چرا چنین کردی.مالک است ہرچہ خواہد مے کند از خوف او آسمان و زمین می جنبند و از ہیبت او ملائک می لرزند و مرا او در الہام خود آدم نام نہادہ و گفت اَرَدْتُ اَنْ استخلفَ فَخَلَقْتُ اٰدم چرا کہ میدانست کہ من نیز مورد اعتراض اتجعل فیھا من یفسد فیھا خواہم گردید پس ہر کہ مرا می پذیر و فرشتہ است نہ انسان و ہرکہ سرمے پیچد ابلیس است نہ آدمی ایں قول خدا گفتہ نہ من.فطوبٰی للّذین احبّونی وما عادونی و صافونی وما اذونی و قبلونی ومَا ردّونی اُولٓئک علیھم صلوات اللّٰہ و اُولٓئک ھم المھتدون.و آنچہ آن مخدوم نقل مضمون جلسۂ مذاہب طلب کردہ بودند پس سبب توقف ایں شد کہ من منتظر بودم کہ جزوے از مضمون مطبوع نزدم رسدتا بخدمت بفریستم چنانچہ امروزیک حصۂ ازاں رسید کہ بخدمت روا نہ میکنم وہم چنیں آیندہ نیز بطوریکہ وقتاً فوقتاً می رسد انشاء اللہ تعالیٰ بخدمت روا نہ خواہم کردہ قبولیت ایں مضمون ازیں ظاہر است کہ اخبار ہائے سرکاری کہ بہر خبرے سروکارے ندارند و صرف آں اخبار رانویسند کہ عظمتے داشتہ باشند تعریف آں مضمون بنحوے کردہ اند کہ تا حد اعجاز رسانیدہ اند چنانچہ سول ملٹری می نویسد کہ چون این مضمون خواندہ شد برہمہ مردم عالم محویت طاری بود و بالاتفاق نوشتند کہ برہمہ مضامین ہمیں غالب آمد بلکہ نوشتند کہ دیگر مضامینے بہ نسبت آں چیزے نہ بودند پس این فضل خدا ست کہ پیش ازین واقعہ از الہام و کلام خود مرا اطلاعے نیز داد و من نیز پیش از

Page 128

وقت آن اعلام الٰہی رابذریعہ اشتہار مشتہر کردم پس عظمت این واقعہ نورٌ علٰی نور شد فالحمد لِلّٰہ علٰی ذالک.و آنچہ آن مکرم دربارہ شکوہ و شکایت علماء ارقام فرمودہ بودند دریں باب چہ گوئیم وچہ نویسیم مقدمہ من و ایشان بر آسمان است پس اگر من کاذبم ودر علم حضرت باری عزّ اسمہٗ مفتری.و دعویٰ من کذبے و خیانتے و دجلے است.درین صورت از خدا دشمن ترے در حق من کسے نیست و جلد ترمرا از بیخ خواہد برکند و جماعت مرا متفرق خواہد ساخت زیر آنکہ او مفتری را ہرگز بحالت امن نمی گزارد.لیکن اگر من ازو و از طرف او ہستم و بحکم او آمدم و ہیچ خیانتے درکار و بارخودندارم پس شک نیست کہ اوز انسان تائید من خواہد کرد کہ از قدیم در تائید صادقان سنت او رفتہ است و ازلعنت این مردم نمی ترسم لعنت آن ست کہ از آسمان ببارد و چون از آسمان لعنت نیست پس لعنت خلق امریست سہل کہ ہیچ راستبازے ازان محفوظ نماندہ لیکن برائے آن مخدوم بحضرت عزت دعا میکنم کہ محض از سعادت فطرت خود ذبّ مخالفان این عاجز کردہ اندپس اے عزیز خدا باتو باشد و عاقبت تو محمود باد جزاک اللّٰہ خیر الجزاء و اَحْسَنَ اِلَیْکَ فی الدُّنیا وَ العُقْبٰی و کان معک اینما کنت وادخلک اللہ فی عبَادہ المَحْبُوبِین.آمین.مثنوی اے فرید وقت در صدق و صفا باتو بادآن رو کہ نام او خدا برتو بارد رحمت یار ازل در تو تابد نور دلدار ازل از تو جان من خوش ست اے خوش خصال دیدمت مردے درین قحط الرجال درحقیقت مردم معنی کم اند گو ہمہ از روئے صورت مردم اند اے مرا روئے محبت سوئے تو بوئے انس آمد مرا از کوئے تو کس ازین مردم بماروئے نہ کرد این نصیبت بود اے فرخندہ مرد ہر زمان بالعنتے یادم کنند خستہ دل از جوروبیدادم کنند

Page 129

کس بچشم یار صدیقے نہ شد تا بچشم غیر زندیقے نہ شد کافر م گفتند و دجال و لعین بہر قتلم ہرلئیمے درکمین بنگر این بازی کنان راچون جہند از حسد برجان خود بازی کنند مومنے را کافرے دادن قرار کار جان بازیست نزد ہوشیار زانکہ تکفیرے کہ از ناحق بود واپس آید بر سر اہلش فتد سفلۂ کو غرق در کفر نہان ہرزہ نالد بہرکفر دیگران گر خبر زان کفر باطن داشتے خویشتن را بدترے انگاشتے تامرا از قوم خود ببریدہ اند بہر تکفیرم چہا کوشیدہ اند افتراہا پیش ہرکس بردہ اند وزخیانتہا سخن پروردہ اند تا مگر لغزد کسے زاں افترا سادہ لوحے کافر انگارد مرا در رہ ما فتنہ ہا انگیختند بانصاریٰ رائے خود آمیختند کافرم خواندند از جہل و عناد این چنین کورے بدنیا کس مباد بخل و نادانی تعصب ہا فزود کین بجوشید و دوچشم شان ربود ما مسلمانیم از فضل خدا مصطفی ما را امام و مقتدا اندرین دین آمدہ از ما دریم ہم برین از دار دنیا بگذریم آن کتاب حق کہ قرآن نام اوست آں رسولے کش محمد ہست نام بادۂ عرفان ما از جام اوست دامن پاکش بدست ما مدام مہر او باشیر شد اندر بدن جان شد و باجان بدر خواہد شدن ہست او خیر الرسل خیرالانام ہر نبوت را بروشد اختتام ما ازو نوشیم ہر آبے کہ ہست زو شدہ سیراب سیرابے کہ ہست آنچہ مارا وحی و ایمائے بود آن نہ از خود ازہمان جائے بود ما ازو یابیم ہر نور و کمال وصل دلدار ازل بے او محال اقتدائے قول او درجان ماست ہرچہ زد ثابت شود ایمان ماست

Page 130

از ملائک و از خبر ہائے معاد ہرچہ گفت آن مرسل ربّ العباد آں ہمہ از حضرت احدیت است منکر آن مستحق لعنت است معجزات اوہمہ حق اند و راست منکر آن مورد لعن خداست معجزات انبیاءِ سابقین آنچہ در قرآن بیانش بالیقین برہمہ از جان و دل ایمان ماست ہر کہ انکارے کند از اشقیاست یک قدم دوری ازان روشن کتاب نزد ماکفر است و خسران و تباب لیک دو نان رابمغزش راہ نیست ہردلے از سرآن آگاہ نیست تانہ باشد طالبے پاک اندرون تانہ جوشد عشق یار بیچگون راز قرآن را کجا فہمد کسے بہرنورے نور می باید بسے این نہ من قرآن ہمین فرمودہ ست اندر و شرط تطہّر بودہ است گر بقرآن ہر کسے را راہ بود پس چرا شرط تطہّر را فزود نور را داند کسے کو نورشد و از حجاب سرکشی ہا دور شد ایں ہمہ کوران کہ تکفیرم کنند بے گمان از نور قرآن غافل اند بے خبر از رازہائے این کلام ہرزہ گویان ناقصان و ناتمام درکف شان استخوانے بیش نیست درسر شان عقل دور اندیش نیست مردہ اند و فہم شان مردار ہم بے نصیب از عشق و از دلدار ہم الغرض فرقان مدار دین ماست او انیس خاطر غمگین ماست نُورِ فرقان می کشد سوئے خدا می توان دیدن ازو روئے خدا ماچہ سان بندیم زان دلبر نظر ہمچو روئے او کجا روئے دِگر روئے من از نُورِ روئے او بتافت یافت از فیضش دل من ہرچہ یافت چوں دو چشمم کس نداند آن جمال جان من قربان آن شمس الکمال ہم چنین عشقم بروئے مصطفی دل پَرد چُون مرغ سوئے مصطفی تا مرا دادند از حسنش خبر شد دلم از عشق او زیر و زبر

Page 131

منکہ می بینم رخ آن دلبرے جان فشانم گر دہد دل دیگرے ساقی من ہست آن جان پرورے ہر زمان مستم کند از ساغرے محو روئے اوشدست ایں روئے من بوئے او آید زِ بام و کوئے من بس کہ من در عشق او ہستم نہان من ہمانم من ہمانم من ہمان جان من از جان او یابد غذا از گریبانم عیان شد آن ذکا احمد اندر جان احمد شد پدید اسم من گردید آں اسم وحید فارغ افتادم بدو از عزّ و جاہ برمن این بہتان کہ من زان آستان دل زِ کف و از فرق افتادہ کلاہ تافتم سر این چہ کذبِ فاسقاں سر بتابد زان مہ من چون منے لعنت حق بر گُمان دُشمنے آن منم کاندر رہِ آن سرورے درمیانِ خاک و خون بینی سرے تیغ گر بارد بکوئے آن نگار آن منم کاوّل کند جان را نثار گر ہمین کفر است نزدِ کین ورے خوش نصیبے آنکہ چون من کافرے کافرم گفتند و دجال و لعین من ندانم ایں چہ ایمان ست و دین ایں طبیعت ہائے شان چون سنگ ہاست در برِ شان گردلے بودے کجاست کار اینان ہر زمانے افتراست یار اینان ہر دمے حرص و ہوا ست دل پُر از خبث است و باطن پُرزِشر صحتِ نیّت از ایشاں دور تر صحت نیت چو باشد در دلے بر گلِ صدق اوفتد چون بُلبلے بر شرارتہا نمی بندد میان ترسد از دانائے اسرار نہان لیکن ایں بے باکی و ترک حیا افترا بر افترا بر افترا ایں نہ کارِ مومنان و اتقیاست این نہ خوئے بندگانِ باصفاست ہرکہ او ہر دم پرستارِ ہوا من چسان دانم کہ ترسد از خدا خویشتن را نیک اندیشیدہ اند ہائے این مردم چہ بد فہمیدہ اند اتباع نفس اعراض از خدا بس ہمین باشد نشان اشقیا

Page 132

ہرکہ زیں سان خبث در جانش بود کافرم گر بوئے ایمانش بود من برین مردم بخواندم آن کتاب کان منزہ اوفتاد از ارتیاب ہم خبرہا پیش کردم زاں رسول کو صدوق از فضل حق پاک از فضول لیکن اینان را بحق روئے نبود پیش گُرگے گریۂ میشے چہ سُود کافرم گفتند و روہا تافتند آن یقین گویا دلم بشگافتند اندرینان خوب گفت آن شاہ دیں کافران دل برون چون مومنین ہر زمان قرآن مگر در سینہ ہا حُبّ دُنیا ہست و کبر و کینہ ہا دانش دیں نیز لاف است و گذاف پشت بنمودند وقت ہر مصاف جاہلانے غافل از تازی زباں ہم ز قرآن ہم ز اسرار نہان کبرِ شان چون تاکمال خود رسید غیرتِ حق پردہ ہائے شان درید دشمنان دین چون شمرِ نابکار دین چو زین العابدین بیمار و زار تن ہمی لرزد دل و جان نیزہم چون خیانتہائے ایشان بنگرم مکرہا بسیار کردند و کنند تا نظام کارما برہم زنند لیکن آن امرے کہ ہست از آسمان چون زوال آید برد از حاسدان من چہ چیزم جنگ شان با آن خداست کزدو دستش این ریاض و این بناست ہرکہ آویزد بکار و بار حق اوستادہ ازپئے پیکار حق فانی ایم و تیرِ ما تیرِ حق است صیدِ ما دراصل نخچیرحق است صادقے دارد پناہ آن یگان دست حق در آستینِ او نہاں ہرکہ با دست خدا پیچد زِ کین بیخ خود کندد چو شیطان لعین اے بسا نفسے کہ ہمچو بلعم است کار او از دست موسیٰ برہم است آمدم بروقت چون ابر بہار بامن آمد صدنشان لُطفِ یار آسمان از بہر من بارد نشان ہم زمین الوقت گوید ہر زمان ایں دو شاہد بہرِ من استادہ اند باز در من ناقصان افتادہ اند

Page 133

ہائے این مردم عجب کور و کراند صد نشان بینند غافل بگذرند این چنین اینان چرا بالا پرند یا مگر زان ذات بے چون منکر اند او چو برکس مہربانی می کند از زمینی آسمانی می کند عزتش بخشدمی ز فضل و لطف و جود مہرومہ را پیشش آرد در سجود من نہ از خود ادعائے کردہ ام امر حق شد اقتدائے کردہ ام کارِحق است ایں نہ از مکرِ بشر دشمنِ این دشمن آں داد گر آں خدا کایں عاجزے راچیدہ ست رحمتش در کوئے ما باریدہ است مردم و جانان پس از مردن رسید گم شدم آخر رُخے آمد پدید میل عشق دلبرے پُرزور بود غالب آمد رختِ مارا در ربود من نہ دارم مایۂ کردارہا عشق جوشید و ازو شد کار ہا بہرمن شد نیستی طور خدا چون خودی رفت آمد آن نُورِ خدا روبدو کردم کہ روآن روئے اوست ہر دل فرخندہ مائل سوئے اوست در دو عالم مثل او روئے کجاست جز سر کوئش دگر کوئے کجاست آن کسان کز کوچۂ او غافل اند ازسگان کوچہ ہا ہم کمتراند خلق و عالم جملہ در شور و شراند عاشقانش در جہان دیگر اند آن جہان چون ماند برکس ناپدید از جہان آن کور و بدبختی چہ دید راہِ حق بر صادقان آسان تر است ہرکہ جوید دامنش آید بدست ہرکہ جوید وصلش از صدق و صفا رہ دہندش سوئے آن ربّ السّما صادقان رامی شناسد چشم یار کیدومکر اینجا نمی آید بکار صدق می باید برائے وصل دوست ہرکہ بے صدقش بجوید حمق اوست صدق ورزی در جناب کبریا آخرش می یابد از یمن وفا صد درے مسدود بکشاید بصدق یار رفتہ باز مے آید بصدق صدق درزان را ہمین باشد نشان کزپئے جاناں بکف دارند جان دوختہ در صورت دلبر نظر و از ثناء و سَبِّ مردم بے خبر کار عقبیٰ باعمل ہا بستہ اند رستہ آن دلہا کہ بہرش خستہ اند

Page 134

از سخن ہا کے شود این کار و بار صدق مے باید کہ تا آید نگار علم را عالم بتے دارد براہ بت پرستی ہا کند شام و پگاہ گر بعلم خشک کار دین بُدے ہر لئیمے راز دار دین بُدے یار ما دارد بباطن ہا نظر ہان مشو نازان تو با فخر دِگر ہست آن عالی جنابے بس بلند بہر وصلش شورہا باید فگند زندگی در مردن عجز و بکاست ہرکہ اُفتادست او آخر بخاست تانہ کار درد کس تاجان رسد کے فغانش تا در جانان رسد ہرکہ ترک خود کند یابد خدا چیست وصل از نفس خود گشتن جدا لیک ترک نفس کے آسان بود مردن و از خود شدن یکسان بود تانہ آن بادے وزد بر جان ما کور باید ذرّۂ امکانِ ما کے درین گرد و غبارے ساختہ مے توان دید آن رخ آراستہ تانہ قربان خدائے خود شویم تانہ محو آشنائے خود شویم تانہ باشیم از وجود خود برون تانہ گردد پُر زِ مہرش اندرون تا نہ برما مرگ آید صد ہزار کے حیاتے تازہ بینیم از نگار تا نہ ریزد ہر پر و بالے کہ ہست مرغ ایں رہ را پریدن مشکل است بدنصیبے آنکہ وقتش شد بباد یار آزردہ دل اغیار شاد از خرد مندان مرا انکار نیست لیکن این رہ راہ وصلِ یار نیست تانہ باشد عشق و سوداء و جنون جلوہ نہ نماید نگار بے چگون چون نہان است آن عزیزے محترم ہر کسے را ہے گزیند لاجرم آن رہے کو عاقلان بگزیدہ اند ازتکلف روئے حق پوشیدہ اند پردہ ہا بر پردہ ہا افراختہ مطلبے نزدیک دور انداختہ ماکہ با دیدار او رو تافتیم ازرہ عشق و فنایش یافتیم ترکِ خود کردیم بہرِ آن خدا ازفنائے ما پدید آمد بقا اندرین رہ دردِسر بسیار نیست جان بخواہد دادنش دشوار نیست گرنہ او خواندے مرا از فضل و جود صد فضولی کردمے بیسود بود

Page 135

از نگاہے این گدا را شاہ کرد قصہ ہائے راہِ ما کوتاہ کرد راہِ خود برمن کشود آن دلستان دانمش ز انسان کہ گل را باغبان ہرکہ در عہدم زِ من ماند جدا می کُند بر نفسِ خود جور و جفا پُر زِ نُور دلستان شد سینہ ام شد ز دستے صیقلِ آئینہ ام پیکرم شد پیکرِ یارِ ازل کارِ مَن شُد کارِ دِلدارِ ازل بسکہ جانم شد نہان در یارِ من بوئے یار آمد ازین گلزارِ من نور حق داریم زیرِ چادرے از گریبانم برآمد دلبرے احمدِ آخر زمان نامِ من است آخرین جامے ہمین جامِ مَن است طالب راہِ خدا را مژدہ باد کش خدا بنمود این وقتِ مُراد ہر کہ را یارے نہان شد از نظر از خبر دارے ہمین پُرسد خبر ہر کہ جویانِ نگارے می بود کے بیک جایش قرارے می بود مے دود ہر سوہمے دیوانہ وار تا مگر آید نظر آن روئے یار ہرکہ عشق دلبرے درجان اوست دل زِ دستش اوفتد از ہجرِ دوست عاشقان را صبر و آرامے کجا توبہ از روئے دل آرامے کجا ہر کہ را عشقِ رخِ یارے بود روز و شب با آن رخش کارے بود فرقتش گر اتفاقے اوفتد در تن و جانش فراقے اوفتد یک زمانے زندگی بے روئے یار مے کند بر وے پریشان روزگار بازچون بیند جمال و روئے او مے دود چوں بے حوا سے سوئے او مے زند درد امنش دست از جنون کز فراقت شد دلم اے یار خون ایں چنیں صدق ازبود اندر دلے گل بجوید جائے چون بُلبُلے گر تُو اُفتی باد و صد درد و نفیر کس ہمے خیزد کہ گردد دستگیر تافتن رو از خورِ تابان کہ من خود بر آرم روشنی از خویشتن این ہمین آثار ناکامی بود بیخِ شقوت نخوت و خامی بود عَالمے را کور کردست این خیال سرنگون افگند در چاہِ ضلال سوئے آبے تشنہ را باید شتافت ہرکہ جست از صدق دل آخر بیافت

Page 136

آں خرد مندے کہ جوید کوئے یار آبرو ریزد زِ بہر روئے یار خاک گردد تا ہوا بر یایدش گم شود تاکس رہے بنمایدش بے عنایات خدا کار است خام پختہ داند این سخن را والسلام ایں ہمہ کہ از خامہ این عاجز بیرون آمد از حال است نہ از قال و از جوشیدن است نہ از تکلفات کوشیدن اکنون آن بہ کہ تخفیف تصدیع کنم آنچہ در دلِ ماست خدا در دلِ شما الہام کندو دل رابدل راہ دہد از مکرمی اخویم مولوی حکیم نور الدین و صاحبزادہ محمد سراج الحق جمالی السلام علیکم مولوی صاحب بذکر خیرآن مکرم اکثر رطبُ الّلسان می مانند عجب کہ او شان در اندک صحبتے دلی محبت و اخلاص بآن مکرم چند بار این خارق امر ازان مخدوم ذکر کردہ اند کہ مر ایک درود شریف برائے خواندن ارشاد فرمودند کہ ازین زیارت حضرت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم خواہد شد چنانچہ ہمان شب مشرف بہ زیارت شدم.والسلام.الراقم خاکسار غلام احمد از قادیان.خواجہ صاحب کا تیسرا خط بخدمت جناب معانی آگاہ معارف پناہ حقائق نگاہ شریعت انتباہ المستظہر باللّٰہ المعرض ممّاسواہ المؤیّد من اللّٰہ الصمد جناب مرزا غلام احمد صاحب مکارم لا تعدّ سَلَّمَہُ اللّٰہ الاَحد.السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ.جوش اشتیاق ہمچون مکارم اخلاق آن سلالہ انفس و آفاق ازحد بیرون ست و محبت بآں مجاہد فی سبیل اللہ روز افزوں.منت جو ادبی ضنت کہ اوقات ایں فقیر را بعنایت بیغایت.بر مجاری عافیت ظاہر و باطن جاری فرمود.و تائیدآن مرضیۃ الشمائل محمودۃ الخصائل از جناب عزت خطابش مسؤل و مقصود.سلک لآلی آبدار محبت ووداد و عقد جواہر تابدار صداقت و اتحاد اعنی نامہ اخلاص ختامہ مملو بمواد خلوص و صفا و محشو بذخائر خلت و ا صطفا و رود کرم آمود نمودہ مسرورنا محصور فرمود فقیر از الفاظ اُلفت آمیز و معانی انبساط خیز و معارف حیرت انگیز آن غواص بحار معالم ذخیرۂ احتظاظ قلب فراہم نمود.و ورود مضمون جلسۃ المذاہب مرسلہ آنصاحب کہ باوجود آذوقہ حقائق گرانبہا جدت ادارا مشتمل بود.دل از مستمعان در ربود.ہموارہ باین مجاہدات رفیع الغایات بعنایات غیبیہ و تفضلات لاریبہ مؤید و مکرم باشند و فقیر را مستخبر حالات مسرت سمات دانستہ بارسال فضائل رسائل و ارقام کرائم رقائم مبتہج میفرمودہ باشند.۴.شوال المکرم ۱۳۱۴ہجریہ قدسیہ.الراقم فقیر غلام فرید الچشتی النظامی.سجادہ نشین از چاچڑاں شریف مہر غلام فرید فقیر خادم الفقراء

Page 137

Page 138

اشتہار انعامی ایک ہزار روپیہ میں اس وقت ایک مستحکم وعدہ کے ساتھ یہ اشتہار شائع کرتا ہوں کہ اگر کوئی صاحب عیسائیوں میں سے یسوع کے نشانوں کو جو اس کی خدائی کی دلیل سمجھے جاتے ہیں میرے نشانوں اور فوق العادت خوارق سے قوتِ ثبوت اور کثرت تعداد میں بڑھے ہوئے ثابت کر سکیں تو میں ان کو ایک ہزار* روپیہ بطور انعام دوں گا.مَیں سچ سچ اور حلفاً کہتا ہوں کہ اس میں تخلف نہیں ہو گا.مَیں ایسے ثالث کے پاس روپیہ جمع کرا سکتا ہوں جس پرفریقین کا اِطمینان ہو اس فیصلہ کے لئے غیر منصف ٹھہرائے جائیں گے.درخواستیں جلد آنی چاہئیں.

Page 139