Language: UR
<p>ایک صاحب عطا محمد نام نے جو امرتسر کے ضلع کی کچہری میں اہلمد تھے اور وفات مسیحؑ کے قائل تھے لیکن کسی مسیح کے اس امت میں آنے کے منکر تھے اگست۱۸۹۳ء میں اپنے مطبوعہ خط کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے دریافت کیا کہ اس بات پر کیا دلیل ہے کہ آپ مسیح موعود ہیں یا کسی مسیح کا انتظار کرنا ہم کو واجب و لازم ہے۔ مسیح موعود کے آنے کی پیشگوئی گو احادیث میں موجود ہے مگر احادیث کا بیان میرے نزدیک پایۂ اعتبار سے ساقط ہے کیونکہ احادیث زمانۂ دراز کے بعد جمع کی گئی ہے اور اکثر مجموعہ احاد ہے۔ جو مفید یقین نہیں۔ چونکہ سوال اہم تھا اس لیے حضورؑ نے اس سوال کے جواب میں سائل کی حالت کو مدّنظر رکھتے ہوئے رسالہ ‘شہادت القرآن’ لکھا اور مندرجہ زیل تین امور تنقیح طلب قائم کر کے مفصل جواب دیا۔</p><p>اول یہ کہ مسیح موعود کے آنے کی خبر جو حدیثوں میں پائی جاتی ہے کیا یہ اس وجہ سے ناقابل اعتبار ہے کہ حدیثوں کا بیان مرتبہ یقین سے دور مہجور ہے۔</p><p>دوسرے یہ کہ کیا قرآن کریم میں اس پیشگوئی کے بارے میں کچھ ذکر ہے یا نہیں۔</p><p>تیسرے یہ کہ اگر یہ پیشگوئی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے تو اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ اس کا مصداق یہی عاجز ہے۔</p><p>ان تینوں تنقیحات کو بدلائل بیّنہ واضح کر نے کے بعد آپ نے میاں عطا محمد صاحب کو، اگر ان کی اب بھی تسلّی نہیں ہوئی، بذریعہ اشتہار ان کے متعلق نشان ظاہر کرنے کا طریق بھی تجویز فرمایا۔ اس کے بعد میاں عطا محمد صاحب نے خاموشی اختیار کرلی۔</p>
اشتہار کتب اس وقت جو اس عاجز کی تالیفات میں سے کتابیں موجود ہیں ان کی تفصیل حسب ذیل ہے.حصہ چہارم براہین احمدیہ............3 سرمہ چشم آریہ........................33 فتح اسلام..............................3 توضیح مرام..............................3 ازالہ اوہام..............................3 آئینہ کمالات اسلام........................3 تفسیر سورۃ* الفاتحہ معہ قصائد بزبان عربی......3 تحفہ بغداد بزبان عربی............3 برکات الدعاء............3 محصول ڈاک علاوہ المشتھر خاکسار غلام احمد قادیانی * اس تفسیر کے ساتھ ایک ہزار روپیہ کا انعام ان علماء کے لئے جو اس کی نظیر بنا سکیں.
بسم اللہ الرحمٰن الرحِیم الحمد للہ والسَّلام عَلٰی عبَادِہِ الَّذِیْنَ اصطفٰی مسیح موعود ایک صاحب عطا محمد نام اپنے خط مطبوعہ اگست ۱۸۹۳ ء میں مجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ اس بات پر کیا دلیل ہے کہ آ پ مسیح موعود ہیں یا کسی مسیح کا ہم کو انتظار کرنا واجب و لازم ہے.اِس جگہ سب سے پہلے یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ صاحب معترض کا یہ مذہب ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام درحقیقت فوت ہو گئے ہیں جیسا کہ قرآن شریف میں بتصریح موجود ہے لیکن وہ اِس بات سے منکر ہیں کہ عیسیٰ کے نام پر کوئی اِس امّت میں آنے والا ہے وہ مانتے ہیں کہ احادیث میں یہ پیشگوئی موجود ہے مگر احادیث کے بیان کو وہ پایۂ اعتبار سے ساقط سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ احادیث زمانہ دراز کے بعد جمع کی گئی ہیں اوراکثر مجموعہ احاد ہے مفید یقین نہیں ہیں اِس لئے وہ مسیح موعود کی خبر کو جو احادیث کے رُو سے ثابت ہے حقیقت مثبتہ خیال نہیں کرتے اورایسے اخبار کو جو محض حدیث کی رُو سے بیان کئے جائیں ہیچ اور لغو خیال کرتے ہیں جن کا ان کی نظر میں کوئی بھی قابل قدر ثبوت نہیں اِ س لئے اِس مقام میں اُن کے مذاق پر جواب دینا ضروری ہے.سو واضح ہو کہ اس مسئلہ میں دراصل تنقیح طلب تین۳ امرہیں.اوّل یہ کہ مسیح موعود کے آنے کی خبر جو حدیثوں میں پائی جاتی ہے کیا یہ اس وجہ سے ناقابل اعتبار ہے کہ حدیثوں کا بیان مرتبہ یقین سے دور و مہجور ہے.دوسرے یہ کہ کیا قرآن کریم میں اِس پیشگوئی کے بارے میں کچھ ذکر ہے یا نہیں.تیسرے یہ کہ اگر یہ پیشگوئی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے تو اِس بات کا کیا ثبوت کہ اُس کا مصداق یہی عاجز ہے.
سو اوّل ہم ان ہر سہ تنقیحوں میں سے پہلی تنقیح کو بیان کرتے ہیں سو واضح ہو کہ اِس امر سے دُنیا میں کسی کو بھی انکار نہیں کہ احادیث میں مسیح موعود کی کھلی کھلی پیشگوئی موجود ہے بلکہ قریبًا تمام مسلمانوں کا اِس بات پر اتفاق ہے کہ احادیث کی رو سے ضرور ایک شخص آنے والا ہے جس کا نام عیسیٰ بن مریم ہو گا اور یہ پیشگوئی بخاری اور مسلم اورترمذی وغیرہ کتب حدیث میں اس کثرت سے پائی جاتی ہے جو ایک منصف مزاج کی تسلّی کے لئے کافی ہے اور بالضرورت اس قدر مشترک پر ایمان لانا پڑتا ہے کہ ایک مسیح موعود آنے والا ہے.اگرچہ یہ سچ ہے کہ اکثر ہر یک حدیث اپنی ذات میں مرتبہ احاد سے زیادہ نہیں مگر اس میں کچھ بھی کلام نہیں کہ جس قدر طرق متفرقہ کی رُو سے احادیث نبویہ اس بارے میں مُدوّن ہوچکی ہیں اُن سب کو یک جائی نظر کے ساتھ دیکھنے سے بلاشبہ اِس قدر قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ ضرور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے آنے کی خبر دی ہے اور پھر جب ہم ان احادیث کے ساتھ جواہل سنت وجماعت کے ہاتھ میں ہیں ان احادیث کو بھی ملاتے ہیں جو دوسرے فرقے اسلام کے مثلًا شیعہ وغیرہ ان پر بھروسہ رکھتے ہیں تو اور بھی اس تواتر کی قوت اور طاقت ثابت ہو تی ہے اورپھر اسکے ساتھ جب صدہا کتابیں متصوفین کی دیکھی جاتی ہیں تو وہ بھی اسی کی شہادت دے رہی ہیں.پھر بعد اسکے جب ہم بیرونی طورپر اہل کتاب یعنی نصاریٰ کی کتابیں دیکھتے ہیں تو یہ خبر اُن سے بھی ملتی ہے اورساتھ ہی حضرت مسیح ؑ کے اِس فیصلہ سے جو ایلیا کے آسمان سے نازل ہونیکے بارہ میں ہے یہ بھی انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کی خبریں کبھی حقیقت پر محمول نہیں ہوتیں لیکن یہ خبرمسیح موعود کے آنے کی اس قدر زور کے ساتھ ہر ایک زمانہ میں پھیلی ہوئی معلوم ہوتی ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی جہالت نہیں ہو گی کہ اِس کے تواتر سے انکار کیا جائے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر اسلام کی وہ کتابیں جن کی رو سے یہ خبر سلسلہ وار شائع ہوتی چلی آئی ہے صدی وار مرتب کر کے اکٹھی کی جائیں تو ایسی کتابیں ہزار ہا سے کچھ کم نہیں ہونگی.ہاں یہ بات اُس شخص کو سمجھانا مشکل ہے کہ جو اسلامی کتابوں سے بالکل بیخبر ہے اور درحقیقت ایسے اعتراض کرنے والے اپنی بد قسمتی کی وجہ سے کچھ ایسے بے خبر ہوتے ہیں کہ اُنھیں یہ بصیرت حاصل ہی نہیں ہوتی کہ فلاں واقعہ کس قدر قوّت اور مضبوطی کے ساتھ اپنا ثبوت رکھتا ہے پس ایسا ہی صاحب مُعترض نے کسی سے سن لیا ہے کہ احادیث اکثر احاد کے مرتبہ پر ہیں اور اس سے
بلا توقف یہ نتیجہ پَیدا کیا کہ بجُز قرآن کریم کے اور جسقدر مسلمات اسلام ہیں وہ سب کے سب بے بنیادشکوک ہیں جن کو یقین اور قطعیت میں سے کچھ حصّہ نہیں.لیکن درحقیقت یہ ایک بڑا بھاری دھوکہ ہے جس کا پہلا اثر دین اور ایمان کا تباہ ہونا ہے کیونکہ اگر یہی بات سچ ہے کہ اہل اسلام کے پاس بجُز قرآن کریم کے جس قدر اور منقولات ہیں وہ تمام ذخیرہ کذب اورجُھوٹ اورافترا اور ظنون اور اوہام کا ہے تو پھر شائد اسلام میں سے کچھ تھوڑا ہی حصّہ باقی رہ جائے گا وجہ یہ کہ ہمیں اپنے دین کی تمام تفصیلات احادیث نبویہ کے ذریعہ سے ملی ہیں.مثلًا یہ نماز جو پنج وقت ہم پڑھتے ہیں گو قرآن مجید سے اس کی فرضیت ثابت ہوتی ہے مگر یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ صبح کی دو رکعت فرض اور دو رکعت سُنت ہیں اورپھر ظہر کی چار رکعت فرض اور چاراور دو سُنّت اور مغرب کی تین رکعت فرض اور پھر عشاء کی چار.ایسا ہی زکوٰۃ کی تفاصیل معلوم کرنے کے لئے ہم بالکل احادیث کے محتاج ہیں.اسی طرح ہزار ہا جزئیات ہیں جو عبادات اور معاملات اور عقود وغیرہ کے متعلق ہیں اور ایسی مشہور ہیں کہ ان کا لکھنا صرف وقت ضائع کرنا اور بات کو طول دیناہے.علاوہ اس کے اسلامی تاریخ کا مبدء اورمنبع یہی احادیث ہی ہیں اگر احادیث کے بیان پر بھروسہ نہ کیا جائے تو پھر ہمیں اس بات کو بھی یقینی طور پرنہیں ماننا چاہیئے کہ درحقیقت حضرت ابو بکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب تھے جن کو بعد وفات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی ترتیب سے خلافت ملی اور اسی ترتیب سے ان کی موت بھی ہوئی کیونکہ اگر احادیث کے بیان پر اعتبار نہ کیاجائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ان بزرگوں کے وجود کو یقینی کہہ سکیں اور اس صورت میں ممکن ہو گا کہ تمام نام فرضی ہی ہوں اور دراصل نہ کوئی ابو بکر گذرا ہونہ عمر نہ عثمان نہ علی کیونکہ بقول میاں عطا محمد معترض یہ سب احادیث احاد ہیں اور قرآن میں ان ناموں کا کہیں ذکر نہیں پھر بموجب اس اصول کے کیونکر تسلیم کی جائیں.ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کا نام عبد اللہ اور والدہ کا نام آمنہ اور دادا کا نام عبد المطلب ہونا اور پھر آنحضرت صلعم کی بیویوں میں سے ایک کا خدیجہ اور ایک کا نام عائشہ اور ایک کا نام حفصہ رضی اللہ عنہن ہونا اور دایہ کا نام حلیمہ ہونا.اور غارحرا میں جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عبادت کرنا اور بعض صحابہ کاحبشہ کی طرف ہجرت کرنا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بعد بعثت دس۱۰ سال تک مکہ میں رہنا اور پھر وہ تمام
لڑائیاں ہونا جن کا قرآن کریم میں نام و نشان نہیں اور صرف احادیث سے یہ تمام امور ثابت ہوتے ہیں تو کیااِن تمام واقعات سے اِ س بنا ء پر انکار کر دیا جاوے کہ احادیث کچھ چیز نہیں اگر یہ سچ ہے تو پھر مسلمانوں کے لئے ممکن نہ ہو گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک سوانح میں سے کچھ بھی بیان کر سکیں.دیکھنا چاہیئے کہ ہمارے مولیٰ و آقا کی سوانح کا وہ سلسلہ کہ کیونکر قبل از بعثت مکہ میں زندگی بسر کی اور پھر کس سال دعوتِ نبوّت کی اور کس ترتیب سے لوگ داخل اسلام ہوئے اورکفار نے مکّہ کے دس سال میں کس کس قسم کی تکلیفیں پہنچائیں اورپھر کیونکر اور کس وجہ سے لڑائیاں شروع ہوئیں اور کس قدر لڑائیوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس حاضر ہوئے اور آنجناب کے زمانہ زندگی تک کن کن ممالک تک حکومت اسلام پھیل چکی تھی اور شاہانِ وقت کی طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت اسلام کے خط لکھے تھے یا نہیں اور اگر لکھے تھے تو ان کا کیا نتیجہ ہوا تھا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر صدیق کے وقت کیا کیا فتوحات اسلام ہوئیں اور کیا کیا مشکلات یپش آئیں اور حضرت فاروق کے زمانہ میں کن کن ممالک تک فتوحاتِ اسلام ہوئیں.یہ تمام امور صرف احادیث اور اقوال صحابہ کے ذریعہ سے معلوم ہوتے ہیں پھر اگر احادیث کچھ بھی چیز نہیں تو پھر اُس زمانہ کے حالات دریافت کرنا نہ صرف ایک امر مشکل بلکہ محالات میں سے ہوگا اور اس صورت میں واقعات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی نسبت مخالفین کو ہر یک افترا کی گنجائش ہوگی اور ہم دشمنوں کو بے جا حملہ کرنے کا بہت سا موقعہ دیں گے اور ہمیں ماننا پڑے گا کہ جو کچھ ان احادیث کے ذریعہ سے واقعات اور سوانح دریافت ہوتے ہیں وہ سب ہیچ اور کالعدم ہیں یہاں تک کہ صحابہ کے نام بھی یقینی طورپر ثابت نہیں.غرض ایسا خیال کرنا کہ احادیث کے ذریعہ سے کوئی یقینی اور قطعی صداقت ہمیں مل ہی نہیں سکتی گویا اسلام کا بہت سا حصّہ اپنے ہاتھ سے نابود کرنا ہے بلکہ اصل اور صحیح امر یہ ہے کہ جوکچھ احادیث کے ذریعہ سے بیان ہوا ہے جب تک صحیح اور صا ف لفظوں میں قرآن اُس کا معارض نہ ہو تب تک اس کو قبول کرنا لازم ہے کیونکہ یہ بات مسلّم ہے کہ طبعی امر انسان کیلئے راست گوئی ہے اور انسان جُھوٹ کو محض کسی مجبوری کی وجہ سے اختیار کرتا ہے کیونکہ وہ اُس کے لئے ایک غیر طبعی ہے.پھر ایسی احادیث جو تعامل اعتقادی یا عملی میں آکر اسلام کے مختلف گروہوں کا ایک شعار
ٹھہر گئی تھیں انکی قطعیت اور تواتر کی نسبت کلام کرنا تو درحقیقت جنون اور دیوانگی کا ایک شعبہ ہے مثلًا آج اگر کوئی شخص یہ بحث کرے کہ یہ پنج نمازیں جو مسلمان پنج وقت ادا کرتے ہیں ان کی رکعات کی تعداد ایک شکّی امر ہے کیونکہ مثلًا قرآن کریم کی کسی آیت میں یہ مذکور نہیں کہ تم صبح کی دو رکعت پڑھا کرو اور پھر جمعہ کی دو اور عیدین کی بھی دو دو.رہی احادیث تو وہ اکثر احاد ہیں جو مفید یقین نہیں تو کیا ایسی بحث کرنے والا حق پر ہوگا.اگر احادیث کی نسبت ایسی ہی رائیں قبول کی جائیں تو سب سے پہلے نماز ہی ہاتھ سے جاتی ہے کیونکہ قرآن نے تو نماز پڑھنے کا کوئی نقشہ کھینچ کر نہیں دکھلایا صرف یہ نمازیں احادیث کی صحت کے بھروسہ پر پڑھی جاتی ہیں اب اگر مخالف یہی اعتراض کرے کہ قرآن نے نماز کا طریق نہیں سکھلایا اور جس طریق کو مسلمانوں نے اختیار کر رکھا ہے وہ مردُود ہے کیونکہ احادیث قابل اعتبار نہیں توہم ایسے اصول پر آپ ہی پابند ہونے سے کہ بے شک احادیث کچھ بھی چیز نہیں اِس اعتراض کا کیا جواب دے سکتے ہیں بجُز اسکے کہ اعتراض کو قبول کر لیں بلکہ اِس صورت میں اسلام کی نماز جنازہ بھی بالکل بیہودہ ہوگی کیونکہ قرآن میں اِس بات کا کہیں ذکر نہیں کہ کوئی ایسی نماز بھی ہے کہ جس میں سجدہ اور کوع نہیں.اَب سوچ کر دیکھ لو کہ احادیث کے چھوڑنے سے اسلام کا کیا باقی رہ جاتاہے.اورخود یہ بات قلّت تدبّر کا نتیجہ ہے کہ ایسا خیال کر لیا جائے کہ احادیث کا ماحصل صرف اسقدر ہے کہ محض ایک یا دو آدمی کے بیان کومعتبر سمجھ کے اُس کی روایت کو قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیال کر لیا جائے بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ احادیث کا سلسلہ تعامل کے سلسلہ کی ایک فرع اور اطراد بعد الوقوع کے طورپر ہے مثلًا محدّثین نے دیکھا کہ کروڑہا آدمی مغرب کے فرض کی تین رکعت پڑھتے ہیں اورفجرکی دو اور مع ذالک ہر ایک رکعت میں سورہ فاتحہ ضرور پڑھتے ہیں اور آمین بھی کہتے ہیں گوبالجہر یا بالسّر اور قعدہ اخیرہ میں التحیات پڑھتے ہیں اور ساتھ اسکے درود اور کئی دعائیں ملاتے ہیں اور دونوں طرف سلام دے کر نماز سے باہر ہوتے ہیں.سو اِس طرز عبادت کو دیکھ کرمحدثین کو یہ ذوق اور شوق پیدا ہوا کہ تحقیق کے طور پر اس وضع نماز کا سلسلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاویں اور احادیث صحیحہ مرفوعہ متصلہ سے اس کو ثابت کریں.اب اگرچہ یہ بات سچ ہے کہ انھوں نے ایسے سلسلہ کی بہم رسانی کے لئے یہ کوشش نہیں کی کہ ایک ایک
حدیث کے مضمون کے لئے ہزار ہزار یا دو دو ہزار طرق اسناد بہم پہنچادیں مگر کیا یہ بھی سچ ہے کہ اِس نماز کی بنیاد ڈالنے والے وہی محدّث تھے اورپہلے اُس سے دنیا میں نماز نہیں ہوتی تھی اور دنیا نماز سے بالکل بے خبر تھی اور کئی صدیوں کے بعدصرف ایک دو حدیثوں پر اعتبار کرنے سے نماز شروع کی گئی.پس مَیں زور سے کہتا ہوں کہ یہ ایک بڑا دھوکا ہوگا اگر یہ خیال کرلیا جائے گا کہ صرف مدار ثبوت ان رکعات اورکیفیت نماز خوانی کا اُن چند حدیثوں پر تھا جو بنظر ظاہر احاد سے زیادہ معلوم نہیں ہوتیں اگر یہی سچ ہے تو سب سے پہلے فرائض اسلام کیلئے ایک سخت اور لا علاج ماتم درپیش ہے جس کی فکر ایک مسلمان کہلانیوالے ذی غیرت کو سب سے مقدم ہے مگر یاد رہے کہ ایسا خیال فقط ان لوگوں کا ہے جنہوں نے کبھی بیدار ہو کر سوانح اور واقعات اور رسوم اور عباداتِ اسلام کی طرف نظر نہیں کی کہ کیونکر اور کس طریق سے یقینی امور کا ان کو مرتبہ حاصل ہوا.سو واضح ہو کہ اس یقین کے بہم پہنچانے کیلئے تعامل قومی کا سلسلہ نہات تسلّی بخش نمونہ ہے مثلًا وہ احادیث جن سے ثابت ہوتا ہے.کہ نماز فجر کی اس قدر رکعت اورنماز مغرب کی اِس قدر رکعات ہیں اگرچہ فرض کرو کہ ایسی حدیثیں دو یا تین ہیں اور بہر حال احاد سے زیادہ نہیں مگر کیااِس تحقیق اور تفتیش سے پہلے لوگ نماز نہیں پڑھتے تھے اورحدیثوں کی تحقیق اور راویوں کا پتہ ملنے کے بعد پھر نمازیں شروع کرائی گئیں تھیں بلکہ کروڑہا انسان اسی طرح نماز پڑھتے تھے اور اگر فرض کے طور پر حدیثوں کے اسنادی سلسلہ کا وجود بھی نہ ہوتا.تاہم اس سلسلہ تعامل سے قطعی اور یقینی طور پر ثابت تھا کہ نماز کے بارے میں اسلام کی مسلسل تعلیم وقتًا بعد وقتٍ اورقرنًا بعد قرنٍ یہی چلی آئی ہے.ہاں احادیث کی اسناد مرفوعہ متصلہ نے اس سلسلہ کو نورٌعلٰی نورکر دیا.پس اگر اس قاعدہ سے احادیث کو دیکھا جائے تو اُن کے اکثر حصہ کو جس کا معین اورمددگار سلسلہ تعامل ہے احاد کے نام سے یاد کرنا بڑی غلطی ہوگی اور درحقیقت یہی ایک بھاری غلطی ہے جس نے اِس زمانہ کے نیچریوں کو صداقت اسلام سے بہت ہی دُور ڈالدیا.وہ خیال کرتے ہیں کہ گویا اسلام کی وُہ تمام سنن اور رسوم اور عبادات اور سوانح اورتواریخ جن پر حدیثوں کا حوالہ دیا جاتا ہے وہ صرف چند حدیثوں کی بنا پر ہی قائم ہیں حالانکہ یہ اُن کی فاش غلطی ہے بلکہ جس تعامل کے سلسلہ کو ہمارے نبی صلعم نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا تھا وہ ایسا کروڑہا انسانوں میں پھیل گیاتھا کہ اگر محدثین کا دُنیا میں نام ونشان بھی
نہ ہوتا تب بھی اس کو کچھ نقصان نہ تھا.یہ بات ہر ایک کوماننی پڑتی ہے کہ اس مقد س معلم اور مقدس رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم کی باتوں کو ایسا محدود نہیں رکھا تھا کہ صرف دو چار آدمیوں کو سکھلائی جائیں اور باقی سب اس سے بے خبر ہوں اگر ایسا ہوتا تو پھر اسلام ایسابگڑتاکہ کسی مُحدّث وغیرہ کے ہاتھ سے ہرگز درست نہیں ہوسکتا تھا.اگرچہ آئمہ حدیث نے دینی تعلیم کی نسبت ہزار ہا حدیثیں لکھیں مگر سوال تو یہ ہے کہ وہ کونسی حدیث ہے کہ جو ان کے لکھنے سے پہلے اُس پر عمل نہ تھا اور دُنیا اس مضمون سے غافل تھی اگر کوئی ایسی تعلیم یاایسا واقعہ یا ایسا عقیدہ ہے جو اس کی بنیادی اینٹ صرف ائمہ حدیث نے ہی کسی روایت کی بنا ء پر رکھی ہے اورتعامل کے سلسلہ میں جس کے کروڑہا افراد انسانی قائل ہوں اس کا کوئی اثرونشان دکھائی نہیں دیتا اورنہ قرآن کریم میں اس کا کچھ ذکرپایا جاتاہے تو بلا شبہ ایسی خبر واحدجس کا پتہ بھی سو ڈیڑھ سو برس کے بعد لگا یقین کے درجہ سے بہت ہی نیچے گری ہوئی ہو گی اور جو کچھ اُس کی ناقابل تسلّی ہونے کی نسبت کہو وہ بجا ہے لیکن ایسی حدیثیں درحقیقت دین اور سوانح اسلام سے کچھ بڑا تعلق نہیں رکھتیں بلکہ اگرسوچ کر دیکھو تو اَئمہ حدیث نے ایسی حدیثوں کا بہت ہی کم ذکر کیا ہے جن کا تعامل کے سلسلہ میں نام و نشان تک نہیں پایا جاتا.پس جیسا کہ بعض جاہل خیال کرتے ہیںیہ بات ہرگز صحیح نہیں ہے کہ دُنیا نے دین کے صدہا ضروری مسائل یہاں تک کہ صوم و صلوٰۃ بھی صرف امام بخاری اورمُسلم وغیرہ کی احادیث سے سیکھے ہیں.کیا سو ڈیڑھ سو برس تک لوگ بے دین ہی چلے آتے تھے کیا وہ لوگ نماز نہیں پڑھتے تھے زکوٰۃ نہیں دیتے تھے.حج نہیں کرتے تھے اور ان تمام اسلامی عقائد کے امور سے جو حدیثوں میں لکھے ہیں بے خبر تھے حاشا وکلّا ہرگز نہیں اور جو کوئی ایسا خیال کرے اس کا حمق ایک تعجب انگیز نادانی ہے.پھر جبکہ بخاری اورمسلم وغیرہ اَئمہ حدیث کے زمانہ سے پہلے بھی اسلام ایسا ہی سرسبز تھا جیساکہ ان اماموں کی تالیفات کے بعد توپھر یہ خیال کس قدر بے تمیزی اورناسمجھی ہے کہ سراسر تحکم کی راہ سے یہ اعتقاد کرلیا جائے کہ صرف دوسری صدی کی روایتوں کے سہارے سے اسلام کا وہ حصہ پُھولا پَھلا ہے جس کو حال کے زمانہ میں احادیث کہتے ہیں اور افسوس تو یہ کہ مخالف تو مخالف ہمارے مذہب کے بے خبر لوگوں کو بھی یہی دھوکا لگ گیا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ گویا ایک مدّت کے بعد صرف حدیثی روایات کے مطابق بہت سے مسائل اسلام کے ایسے لوگوں کو تسلیم کرائے گئے ہیں کہ جو اُن حدیثوں کے قلمبند ہونے سے پہلے اُن مسائل سے
بکلّی غافل تھے بلکہ حق بات جو ایک بدیہی امر کی طرح ہے یہی ہے کہ آئمہ حدیث کا اگر لوگوں پر کچھ احسان ہے تو صرف اس قدر کہ وہ امورجو ابتدا سے تعامل کے سلسلہ میں ایک دُنیا اُن کو مانتی تھی اُن کی اسناد کے بارے میں اُن لوگوں نے تحقیق اور تفتیش کی اور یہ دکھلا دیاکہ اُس زمانہ کی موجودہ حالت میں جو کچھ اہل اسلام تسلیم کر رہے ہیں یا عمل میں لارہے ہیں یہ ایسے امور نہیں جو بطور بدعات اسلام میں اب مخلوط ہوگئے ہیں بلکہ یہ وہی گفتار و کردار ہے جو آنحضرتصلعمنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو تعلیم فرمائی تھی.افسوس کہ اس صحیح اور واقعی امر کے سمجھنے میں غلط فہمی کر کے کوتہ اندیش لوگوں نے کس قدر بڑی غلطی کھائی جس کی و جہ سے آج تک وہ حدیثوں کو سخت نفرت کی نگا ہ سے دیکھ رہے ہیں اگر چہ یہ تو سچ ہے کہ حدیثوں کا وہ حصہ جو تعامل قولی وفعلی کے سلسلہ سے باہر ہے اور قرآن سے تصدیق یافتہ نہیں یقین کامل کے مرتبہ پرمسلم نہیں ہو سکتا لیکن و ہ دوسر احصہ جو تعامل کے سلسلہ میں آگیا اورکروڑہا مخلوقات ابتدا سے اُس پر اپنے عملی طریق سے محافظ اور قائم چلی آئی ہے اس کو ظنّی اور شکّی کیونکر کہا جائے.ایک دُنیا کا مسلسل تعامل جو بیٹوں سے باپوں تک اور باپوں سے دادوں تک اوردادوں سے پڑدادوں تک بدیہی طورپر مشہور ہو گیا اور اپنے اصل مبدء تک اس کے آثار اور انوار نظر آگئے اس میں تو ایک ذرّہ شک کی گنجائش نہیں رہ سکتی اور بغیر اس کے انسان کو کچھ بن نہیں پڑتا کہ ایسے مسلسل عمل در آمد کو اول درجہ کے 3میں سے یقین کرے پھر جبکہ اَئمہ حدیث نے اس سلسلہ تعامل کے ساتھ ایک اور سلسلہ قائم کیا اورامور تعاملی کا اسناد راست گو اورمتدین راویوں کے ذریعہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیا تو پھر بھی اس پر جرح کرنا درحقیقت ان لوگوں کا کام ہے جن کو بصیرت ایمانی اورعقل انسانی کا کچھ بھی حصہ نہیں ملا.اب اِس تمہید کے بعد یہ بھی واضح ہو کہ مسیح موعود کے بارے میں جو احادیث میں پیشگوئی ہے وہ ایسی نہیں ہے کہ جس کو صرف اَئمہ حدیث نے چند روایتوں کی بناء پر لکھا ہو وبس بلکہ یہ ثابت ہوگیا ہے کہ یہ یپشگوئی عقیدہ کے طورپر ابتداء سے مسلمانوں کے رگ وریشہ میں داخل چلی آتی ہے گویا جس قدر اس وقت روئے زمین پر مسلمان تھے اُسی قدر اس پیشگوئی کی صحت پر شہادتیں موجود تھیں کیونکہ عقیدہ کے طور پر وہ اس کو ابتدا سے یاد کرتے چلے آتے تھے اور اَئمہ حدیث امام بخاری وغیرہ نے اس پیشگوئی کی نسبت
اگر کوئی امر اپنی کوشِش سے نکالا ہے تو صرف یہی کہ جب اُس کو کروڑہا مسلمانوں میں مشہور اور زبان زد پایا تو اپنے قاعدہ کے موافق مسلمانوں کے اس قولی تعامل کے لئے روایتی سند کو تلاش کر کے پَیدا کیا اور روایات صحیحہ مرفوعہ متصلہ سے جن کا ایک ذخیرہ ان کی کتابوں میں پایا جاتا ہے اسناد کو دکھایا.علاوہ اس کے کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ اگر نعوذ باللہ یہ افتراء ہے تو اس افترا کی مسلمانوں کو کیا ضرورت تھی اور کیوں اُنہوں نے اس پر اتفاق کر لیا اورکس مجبوری نے ان کو اس افتراء پر آمادہ کیاتھا.پھر جب ہم دیکھتے ہیں کہ دُوسری طرف ایسی حدیثیں بھی بکثرت پائی جاتی ہیں جن میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ آخری زمانہ میں علماء اِس امت کے یہودی صفت ہوجائیں گے اور دیانت اور خداترسی اور اندرونی پاکیزگی اُن سے دُور ہوجائے گی اور اُس زمانہ میں صلیبی مذہب کا بہت غلبہ ہوگا اور صلیبی مذہب کی حکومت اورسلطنت تقریبًا تمام دنیا میں پھیل جائے گی تو اور بھی ان احادیث کی صحت پر دلائل قاطعہ پیدا ہوتے ہیں کیونکہ کچھ شک نہیں کہ اس زمانہ میں یہ پیشگوئی پوری ہو گئی.اورہمارے اِس زمانہ کے علماء درحقیقت یہودیوں سے مشابہ ہو گئے اور نصاریٰ کی سلطنت اور حکومت ایسی دُنیا میں پھیل گئی کہ پہلے زمانوں میں اس کی نظیر نہیں پائی جاتی.پھرجس حالت میں ایک جُز اُس پیشگوئی کا صریح اور صاف اوربدیہی طورپر پُورا ہو گیا تو پھر دُوسری خبر کی صداقت میں کیاکلا م رہا.یہ بات تو ہر یک عاقل کے نزدیک مسلّم ہے کہ اگر مثلًا ایک حدیث احاد میں سے ہو اور سلسلہ تعامل میں بھی داخل نہ ہو مگر ایک پیشگوئی پر مشتمل ہو کہ وہ اپنے وقت پر پُوری ہو جائے یا اُس کا ایک جُز پُورا ہو جائے تواس حدیث کی صحت میں کوئی شک باقی نہیں رہے گا.مثلًا نار حجاز کی حدیث جو صحیحین میں درج ہے کچھ شک نہیں کہ احاد میں سے ہے لیکن وہ پیشگوئی قریبًا چھ 3 برس گذرنے کے بعد بعینہٖ پُوری ہوگئی جس کے پُورے ہونے کے بارے میں انگریزوں کو بھی اقرار ہے اور اُس زمانہ میں پُوری ہوئی کہ جب صدہا سال ان کتابوں کی تالیف اور شائع ہونے پر بھی گذر چکے تھے تو کیاان حدیثوں کی نسبت اب یہ رائے ظاہر کر سکتے ہیں کہ وہ احاد ہیں اس لیے یقینی طورپر قبول کے لائق نہیں.کیونکہ جب اُن کی صداقت کُھل گئی تو پھر ایسا خیال دل میں لانا نہایت بُری اورمکروہ نادانی ہے.پس ایسا ہی مسیح موعود کی پیشگوئی میں سوچ لو کہ
اس میں بھی یہ الفاظ کہیں صراحتًا اور کہیں اشارۃً موجود تھے کہ وہ مسیح موعود ایسے وقت میں آئے گا کہ جب حکومت اور قُوّت نصاریٰ کی تمام رُوئے زمین پر پھیلی ہوئی ہو گی اور ریل جاری ہو گی اور اکثر زمین کے حصّے زیر کاشت آجائیں گے اور کاشتکاری کی طرف لوگ بہت متوجہ ہوں گے یہاں تک کہ بیل مہنگے ہوجائیں گے اورزمین پر نہروں کی کثرت ہوجائے گی اور دنیوی حالت کی رُو سے امن کا زمانہ ہوگا.سو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ پیشگوئی ہمارے زمانہ میں پُوری ہو گئی کیونکہ عیسائی سلطنت کا ستارہ اس زمانہ میں ایسے عروج پر پہنچ گیا ہے کہ گویا اس کے سامنے تمام حکومتیں اور ریاستیں کالعدم ہیں اور ریل کی سواری اورنہریں اورکثرت کاشتکاری بھی ہم نے آنکھ سے دیکھ لی.اب سوچو کہ کیا اِس پیشگوئی میں وہ غیب کی باتیں نہیں جو انسا ن کی طاقت سے بالاتر ہیں.کیا اسلام کی یہ حالتِ تنزّل اُس زمانہ میں جبکہ اسلام کی شمشیر بجلی کی طرح کفّار پر پڑ رہی تھی کسی کو معلوم تھی؟ کیا کوئی نوع انسا ن میں سے ایسے غیب پر قادر ہوسکتا ہے کہ ایسی نئی سواری کی خبر دے جس کا پہلے وجود ثابت نہیں ہوتا.نظر اُٹھاؤ اور دیکھو اور خوب سوچو کہ کیا یہ پیشگوئی ان عظیم الشان پیشگوئیوں میں سے نہیں ہے جو ان کی حقیقت اوران کے ظہور پر صرف خدا تعالیٰ کا علم ہی محیط ہوتا ہے اورانسان کی کارستانیاں اورمخلوق کے ضعیف منصوبے اس پر مشتبہ نہیں ہوسکتے واضح رہے کہ ان پیشگوئیوں کا ایک عجیب سلسلہ ہے اور ایک نہایت درجہ کی ترتیب ابلغ اورترکیب محکم سے معارف لطیفہ اور نکا ت دقیقہ اور امورغیبیہ کے ساتھ مرصع کر کے ذکر فرمایا گیا ہے جس کی بلند شان تک ہرگز انسان کی رسائی نہیں مثلًا اوّل وہ پیشگوئیاں بیان فرمائیں جو اسلام کی ترقی کا زمانہ تھا اور انہیں پیشگوئیوں کے ضمن میں فرمایا کہ کسریٰ ہلاک ہوگا اورپھر بعد اس کے کسریٰ نہیں ہوگا.اورقیصر ہلاک ہوگا اور پھر بعد اس کے قیصر نہیں ہوگا اور اسلام ترقی کرے گا اور پھیلے گا اور ہر یک قوم میں داخل ہوگا.اور پھر فرمایا کہ اِس اُمّت پر ایک آخری زمانہ آئے گا کہ اکثر علماء اِس اُمت کے یہود کے مشابہ ہوجائیں گے اور دیانت اورتقویٰ ان میں سے جاتی رہے گی جُھوٹے فتوے اور مکاریاں اورمنصوبے اُن کا دین ہوگا اور دنیوی لالچوں میں گرفتار ہوجائیں گے اور یہود کے ساتھ
شدّت سے مشابہت پَیدا کرلیں گے یہاں تک کہ اگر کسی یہودی نے اپنی ماں سے زنا کیا ہے تو وہ بھی کریں گے.اورایسا ہی اس زمانہ میں قوم نصاریٰ دُنیا میں پھیل جائے گی اور دُوسری قوموں کو مغلوب کر لے گی اوردین کی محبّت دلوں سے ٹھنڈی ہو جائے گی اور زہرناک ہواؤں کے چلنے کی وجہ سے دین اسلام ایک مسلسل اورغیر منقطع خطرات میں پڑجائے گا.تب مصیبتیں پڑیں گی اور آفتیں زیادہ ہوں گی اورمسلمانوں کے دِلوں سے تقویٰ جاتی رہے گی اوربہتر ہو گا کہ ایک شخص اکیلا بسر کرے اوربکریوں کے دُودھ پر قناعت رکھے اورمسلمانوں کی جماعت کا نام نہ لیوے.اور فرمایا کہ جب تُو ایسا حال دیکھے تو ان سب فرقوں کو چھوڑ دے اور کسی درخت کی جڑھوں کو دانت مار یہاں تک کہ تیری جان نکل جائے اورپھر اِسی ضمن میں مسیح موعود کے آنے کی خبر دی اورفرمایا کہ اس کے ہاتھ سے عیسائی دین کا خاتمہ ہوگا اورفرمایا کہ وہ اُن کی صلیب کو توڑ ے گا.اوریہ نہ فرمایا کہ وہ اُن کی حکومت کو پامال کرے گا.یہ اِس بات کی طرف اشارہ تھا کہ مسیح موعود کی سلطنت روحانی ہو گی اور اس دُنیا کی حکومتوں سے اس کو کچھ بھی سرو کار نہ ہوگا بلکہ وہ اپنی برکات کے زور سے لڑ ے گااوراپنے خوارق کے ہتھیاروں سے میدان میں آئے گا یہاں تک کہ صلیب کی رونق اور عظمت کو توڑ دے گا اورعیسائیت کے بے برکت اور منحوس عقیدوں کا پردہ کھول دے گا کیونکہ اس کا نُور ایک تلوار کی طرح چمکے گا اورجس طرح بجلی گرتی ہے اُسی طرح کُفر کی ظلمت پر گرے گا یہاں تک کہ حق کے طالب سمجھ جائیں گے کہ وہ زندہ خدا اسلام کے ساتھ ہے.یہ تمام پیشگوئیاں احادیث میں ایک دریا کی طرح بہ رہی ہیں اور ایک دوسرے سے اُن کا ایسا تعلق ہے کہ ایک کی تکذیب سے دُوسری کی تکذیب لازم آتی ہے اور ایک کے ماننے سے دوسری بھی ماننی پڑتی ہے پھر ایسی مسلسل اورمرتب اورمحکم اوربانظام پیشگوئیوں میں کون شک کر سکتاہے بجُز اس کے کہ پاگلوں سے زیادہ مخبط الحواس ہو کیا کوئی دانا ایک سیکنڈ کے لئے بھی یہ تجویز کر سکتا ہے کہ یہ ہزار ہا پیشگوئیاں جو خارق عادت امورپرمشتمل ہیں صرف انسا ن کا افتراہے.سچ بات یہ ہے کہ مرتب اور بانظام اورعظیم الشان باتوں کا انکار ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ اُنکے انکار سے ایک انقلاب عظیم لازم آتا ہے اور ایک دُنیا کو بدلانا پڑتا ہے.
ماسوا اس کے ان پیشگوئیوں میں ان کی صداقت کیلئے ایک عظیم الشان نشان یہ ہے کہ دنیوی انقلابات کے متعلق جو کچھ ان میں درج تھا اوربظاہر وہ سب ناشدنی باتیں تھیں وہ تمام باتیں پُوری ہوگئی ہیں کیونکہ تیرھویں صدی کی ابتدا سے ہی ہر یک اندرونی اوربیرونی آفت میں ترقی ہونے لگی یہاں تک کہ تیرھویں صدی کے خاتمہ تک گویادین اور اسلامی شوکت اورحکومت کا خاتمہ ہو گیا اور وہ بلائیں مسلمانوں کے دین اور دُنیا پر نازل ہوئیں کہ گویا اُن کاجہان ہی بدل گیا.جب ہم ان بلاؤں کو اپنی نظر کے سامنے رکھ کر پھر ان پیشگوئیوں پرنظر ڈالتے ہیں جو امام بخاری اور مسلم وغیرہ نے اس وقت سے قریبًا گیارہ سو برس پہلے لکھی تھیں اور اس زمانہ میں لکھی تھیں کہ جب اسلام کا آفتاب نصف النہار پر تھا اور اس کی اندرونی حالت گویا حُسن میں رشکِ یوسف تھی اور اس کی بیرونی حالت اپنی شوکت سے اسکندر رومی کو شرمندہ کر تی تھی تو اپنے نبی کریم کی کامل اور پا ک وحی اور عظمت اور جلال اور قوت قدسیہ کو یاد کر کے ہماری رِقّت ایمانی جوش میں آتی ہے اور بلا اختیار رونا آتا ہے.سُبحان اللّٰہ وہ کیانور تھا جس پر آج سے تیرہ سو برس پہلے قبل از وقت ظاہر کیا گیا کہ اس کی اُمت ابتدا میں کیونکرنشوونما کرے گی اور کیونکر خارق عادت طورپر اپنی ترقی دکھلائے گی اور کیونکر آخر ی زمانہ میں یک دفعہ نیچے گرے گی اور پھر کیونکر چندصدیوں میں قوم نصاریٰ کا تمام روئے زمین پر غلبہ ہوجائے گا اور یاد رہے کہ اسی زمانہ کی نسبت مسیح موعود کے ضمن بیان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی خبر دی جو صحیح مسلم میں درج ہے اور فرمایا لیترکن القلاص فلا یسعٰی علیھایعنی مسیح موعود کے زمانہ میں اُونٹنی کی سواری موقوف ہوجائے گی پس کوئی ان پر سوار ہو کر ان کو نہیں دوڑائے گا اور اور یہ ریل کی طرف اشارہ تھا کہ اس کے نکلنے سے اُونٹوں کے دوڑانے کی حاجت نہیں رہے گی اور اونٹ کو اس لئے ذکر کیا کہ عرب کی سواریوں میں سے بڑی سواری اونٹ ہی ہے جس پر وہ اپنے مختصر گھر کا تمام اسباب رکھ کر پھر سوار بھی ہو سکتے ہیں اور بڑ ے کے ذکر میں چھوٹا خود ضمنًا آجاتا ہے.پس حاصل مطلب یہ تھا کہ اس زمانہ میں ایسی سواری نکلے گی کہ اونٹ پر بھی غالب آجائے گی جیساکہ دیکھتے ہو کہ ریل کے نکلنے سے قریبًا وہ تمام کام جو اُونٹ کرتے تھے اب ریلیں کر رہی ہیں.
پس اس سے زیاد ہ تر صاف اور منکشف اور کیاپیشگوئی ہوگی چنانچہ اس زمانہ کی قرآن شریف نے بھی خبر دی ہے جیسا کہ فرماتا ہے ۱ یعنی آخری زمانہ وہ ہے کہ جب اونٹنی بے کار ہوجائے گی یہ بھی صریح ریل کی طرف اشارہ ہے اور وہ حدیث اور یہ آیت ایک ہی خبر دے رہی ہیں اور چونکہ حدیث میں صریح مسیح موعود کے بارے میں یہ بیان ہے اس سے یقینًا یہ استدلال کرنا چاہیئے کہ یہ آیت بھی مسیح موعود کے زمانہ کاحال بتلا رہی ہے اوراجمالًا مسیح موعود کی طرف اشارہ کرتی ہے پھر لوگ باوجود ان آیات بیّنات کے جو آفتاب کی طرح چمک رہی ہیں ان پیشگوئیوں کی نسبت شک کرتے ہیں اب منصفین سوچ لیں کہ ایسی پیشگوئیوں کی نسبت جن کی غیبی باتیں پوری ہوتی آنکھ سے دیکھی گئیں شک کرنا اگر حماقت نہیں تو اور کیاہے.اِس قدر جو مَیں نے احادیث کی رو سے مسیح موعود کی پیشگوئی کے بارے میں لکھا ہے مَیں یقین رکھتا ہوں کہ وہ ایسے شخص کے تسلی یاب ہونے کے لئے کافی ہے جو صداقت کو پا کر پھر ناحق کی مخالفت کرنا نہیں چاہتا.اور مَیں نے اِس جگہ اصل الفاظ احادیث کو نقل نہیں کیا اور نہ تمام احادیث کے خلاصہ کو لکھا ہے کیونکہ یہ حدیثیں ایسی مشہور اور زبان زد خلائق ہیں کہ دیہات کے چھوٹے چھوٹے طالب العلم بھی اِن کو جانتے ہیں اور اگر مَیں تمام احادیث کو جو اِس باب میں آئی ہیں اِ س مختصر رسالہ میں لکھتا تو شائد میں جزو تک بھی لکھ کر فارغ نہ ہو سکتا لیکن مَیں ناظرین کو توجہ دلاتا ہوں کہ ضرور وہ صحاح ستہ کی اصل کتابیں یا ان کے تراجم کو غور سے دیکھیں تا انہیں معلوم ہو کہ کس کثرت سے اور کس قوت بیان کے ساتھ اِس قسم کی احادیث موجود ہیں.دُوسرا امر تنقیح طلب یہ تھا کہ قرآن کریم میں مسیح موعود کی نسبت کچھ ذکر ہے یا نہیں اس کا فیصلہ دلائل قطعیہ نے اِس طرح پر دیا ہے کہ ضرور یہ ذکر قرآن میں موجود ہے اور کچھ شک نہیں کہ جو شخص قرآن کریم کی ان آئندہ پیشگوئیوں پر غور کرے گا جو اس امت کے آخری زمانہ کی نسبت اس مقدس کتاب میں ہیں تو اگر وہ فہیم اور زندہ د ل اپنے سینہ میں رکھتا ہے تو اس کو اِس بات کے ماننے سے چارہ نہیں ہو گا کہ قرآن کریم میں یقینی اور قطعی طور پر ایک ایسے مصلح کی خبر موجود ہے جس کا دُوسرے
لفظوں میں مسیح موعود ہی نام ہونا چاہیئے نہ اور کچھ.اس خبر کو سمجھنے کے لئے پہلے مندرجہ ذیل آیات کو یکجائی نظر سے دیکھ لینا چاہیئے مثلًا یہ آیات.۲.یعنی خدا تعالیٰ نے اس عورت کو ہدایت دی جس نے اپنی شرمگاہ کو نامحرم سے بچایا.پس خدا نے اس میں اپنی روح کو پھونک دیااور اس کو اور اُس کے بیٹے کو دنیا کے لئے ایک نشان ٹھہرایا اورخدا نے کہا کہ یہ اُمت تمہاری ایک ہی اُمّت ہے اورمَیں تمہار ا پروردگار ہوں سو تم میری ہی بندگی کرو.مگر وہ فرقہ فرقہ ہو گئے اور اپنی بات کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا او رباہم اختلاف ڈال دیا اور آخر ہر یک ہماری ہی طرف رجوع کرے گا.اور تمام فرقے ایسی ہی حالت پر رہیں گے یہاں تک کہ یاجوج اورماجوج کھولے جائیں گے اور ہر یک بلندی سے دوڑتے ہوں گے اور جب تم دیکھو کہ یاجوج ماجوج زمین پر غالب ہو گئے تو سمجھو کہ وعدہ سچا مذہب حق کے پھیلنے کا نزدیک آگیا اور وہ وعدہ یہ ہے ۱ اورپھر فرمایا کہ اس وعدہ کے ظہور کے وقت کفار کی آنکھیں چڑھی ہوں گی اور کہیں گے کہ اے وائے ہم کو.ہم اِس سے غفلت میں تھے بلکہ ہم ظالم تھے یعنی ظہور حق بڑ ے زور سے ہو گا اور کفا ر سمجھ لیں گے کہ ہم خطا پر ہیں اِن تمام آیات کا ماحصل یہ ہے کہ آخری زمانہ میں دُنیا میں بہت سے مذہب پھیل جائیں گے اور بہت سے فرقے ہو جائیں گے پھردو قومیں خروج کریں گی جن کا عیسائی مذہب ہو گا اور ہریک طور کی بلندی وہ حاصل کریں گے اور جب تم دیکھو کہ عیسائی مذہب اور عیسائی حکومتیں دُنیا میں * نوٹ.حزقیل ۳۸ باب اور ۳۹ باب آیت ۵،۶ روضۃ الصفا بیان اقلیم چہارم پنجم و ششم و تفسیر معالم.منہ
پھیل گئیں تو جانو کہ وعدہ کا وقت نزدیک ہے.پھر دوسرے مقام میں فرمایا ہے.۱ الجزونمبر۱۶یعنی جب وعدہ خدا تعالیٰ کا نزدیک آ جائے گا تو خدا تعالیٰ اس دیوار کوریزہ ریزہ کردے گا جو یاجوج ماجوج کی روک ہے اور خدا تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے اور ہم اس دن یعنی یاجوج ماجوج کی سلطنت کے زمانہ میں متفرق فرقوں کو مہلت دیں گے کہ تا ایک دوسرے میں موجزنی کریں یعنی ہریک فرقہ اپنے مذہب اور دین کو دوسرے پر غالب کرنا چاہے گا اور جس طرح ایک موج اس چیز کو اپنے نیچے دبانا چاہتی ہے جس کے اوپر پڑتی ہے اسی طرح موج کی مانند بعض بعض پر پڑیں گی تا ان کو دبا لیں اور کسی کی طرف سے کمی نہیں ہوگی ہریک فرقہ اپنے مذہب کو عروج دینے کے لئے کوشش کرے گا اور وہ انہیں لڑائیوں میں ہوں گے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے صور پھونکا جائے گا.تب ہم تمام فرقوں کو ایک ہی مذہب پر جمع کر دیں گے* صور پھونکنے سے اس جگہ یہ اشارہ ہے کہ اس وقت عادت اللہ کے موافق خدا تعالیٰ کی طرف سے آسمانی تائیدوں کے ساتھ کوئی مصلح پیدا ہوگا اور اس کے دل میں زندگی کی ان آیات میں کسی کم تجربہ آدمی کو یہ خیال نہ گذرے کہ ان دونوں مقامات کے بعد میں جہنم کا ذکر ہے اور بظاہر سیاق کلام چاہتا ہے کہ یہ قصہ آخرت سے متعلق ہو مگر یاد رہے کہ عام محاورہ قرآن کریم کا ہے اور صدہا نظیریں اس کی پاک کلام میں موجود ہیں کہ ایک دنیا کے قصہ کے ساتھ آخرت کا قصہ پیوند کیا جاتا ہے.اور ہریک حصہ کلام کا اپنے قرائن سے دوسرے حصہ سے تمیز رکھتا ہے.اس طرز سے سارا قران شریف بھرا پڑا ہے.مثلاً قرآن کریم میں شق القمر کے معجزہ کو ہی دیکھو کہ وہ ایک نشان تھا لیکن ساتھ اس کے قیامت کا قصہ چھیڑ دیا گیا.جس کی وجہ سے بعض نادان قرینوں کو نظر انداز کرکے کہتے ہیں کہ شق القمر وقوع میں نہیں آیا بلکہ قیامت کو ہوگا.منہ
روح پھونکی جائے گی اور وہ زندگی دوسروں میں سرایت کرے گی.یاد رہے کہ صور کا لفظ ہمیشہ عظیم الشان تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے گویا جب خدا تعالیٰ اپنی مخلوقات کو ایک صورت سے منتقل کرکے دوسری صورت میں لاتا ہے تو اس تغیر صور کے وقت کو نفخ صور سے تعبیر کرتے ہیں اور اہل کشف پر مکاشفات کی رو سے اس صور کا ایک وجود جسمانی بھی محسوس ہوتا ہے اور یہ عجائبات اس عالم میں سے ہیں جن کے سر اس دنیا میں بجز منقطعین کے اور کسی پر کھل نہیں سکتے.بہرحال آیات موصوفہ بالا سے ثابت ہے کہ آخری زمانہ میں عیسائی مذہب اور حکومت کا زمین پر غلبہ ہوگا اور مختلف قوموں میں بہت سے تنازعات مذہبی پیدا ہوں گے اور ایک قوم دوسری قوم کو دبانا چاہے گی اور ایسے زمانہ میں صور پھونک کر تمام قوموں کو دین اسلام پر جمع کیا جاوے گا یعنی سنت اللہ کے موافق آسمانی نظام قائم ہوگا ور ایک آسمانی مصلح آئے گا درحقیقت اسی مصلح کا نام مسیح موعود ہے کیونکہ جبکہ فتنہ کی بنیاد نصاریٰ کی طرف سے ہوگی اور خدا تعالیٰ کا بڑا مطلب یہ ہو گا کہ ان کی صلیب کی شان کو توڑے.اس لئے جو شخص نصاریٰ کی دعوت کے لئے بھیجا گیا بوجہ رعایت حالت اس قوم کے جو مخاطب ہے اس کا نام مسیح اور عیسیٰ رکھا گیا اور دوسری حکمت اس میں یہ ہے کہ جب نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ کو خدا بنایا اور اپنی مفتریات کو ان کی طرف منسوب کیا اور ہزارہا مکاریوں کو زمین پر پھیلایا اور حضرت مسیح کی قدر کو حد سے زیادہ بڑھا دیا تو اس زندہ اور وحیدبے مثل کی غیرت نے چاہا کہ اسی امت سے عیسیٰ ابن مریم کے نام پر ایک اپنے بندہ کو بھیجے اور کرشمہ قدرت کا دکھلاوے تا ثابت ہوکہ بندوں کو خدا بنانا حماقت ہے وہ جس کو چاہتا ہے چن لیتا ہے اور مشت خاک کو افلاک تک پہنچا سکتا ہے اور اس جگہ یہ بات بھی یاد رہے کہ زمانہ کے فساد کے وقت جب کہ کوئی مصلح آتا ہے اس کے ظہور کے وقت پر آسمان سے ایک انتشار نورانیت ہوتا ہے.یعنی اس کے اترنے کے ساتھ زمین پر ایک نور بھی اترتا ہے اور مستعد دلوں پر نازل ہوتا ہے تب دنیا خود بخود بشرط استعداد نیکی اور سعادت کے طریقوں کی طرف رغبت کرتی ہے اور ہریک دل تحقیق اور تدقیق کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور نامعلوم اسباب سے طلب حق کے لئے ہریک طبیعت مستعدہ
میں ایک حرکت پیدا ہو جاتی ہے غرض ایک ایسی ہوا چلتی ہے جو مستعد دلوں کو آخرت کی طرف ہلا دیتی ہے اور سوئی ہوئی قوتوں کو جگا دیتی ہے اور زمانہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا ایک انقلاب عظیم کی طرف حرکت کر رہا ہے سو یہ علامتیں اس بات پر شاہد ہوتی ہیں کہ وہ مصلح دنیا میں پیدا ہوگیا پھر جس قدر آنے والا مصلح عظیم الشان ہو یہ غیبی تحریکات قوت سے مستعد دلوں میں اپنا کام کرتی ہیں.ہریک سعید الفطرت جاگ اٹھتا ہے اور نہیں جانتا ہے کہ اس کو کس نے جگایا.ہریک صحیح الجبلت اپنے اندر ایک تبدیلی پاتا ہے اور نہیں معلوم کرسکتا کہ یہ تبدیلی کیونکر پیدا ہوئی.غرض ایک جنبش سی دلوں میں شروع ہوجاتی ہے اور نادان خیال کرتے ہیں کہ یہ جنبش خود بخود پیدا ہوگئی لیکن درپردہ ایک رسول یامجدّد کے ساتھ یہ انوار نازل ہوتے ہیں چنانچہ قرآن کریم اور احادیث کی رو سے یہ امر نہایت انکشاف کے ساتھ ثابت ہے جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے ۱ یعنی ہم نے اس کتاب اور اس نبی کو لیلۃ القدر میں اتار ہے اور تو جانتا ہے کہ لیلۃ القدر کیا چیز ہے لیلۃ القدر ہزار مہینہ سے بہتر ہے اس میں فرشتے اور روح القدس اپنے رب کے اذن سے اترتے ہیں.اور وہ ہریک امر میں سلامتی کا وقت ہوتا ہے یہاں تک کہ فجر ہو.اب اگرچہ مسلمانوں کے ظاہری عقیدہ کے موافق لیلۃ القدر ایک متبرک رات کا نام ہے مگر جس حقیقت پر خدا تعالیٰ نے مجھ کو مطلع کیا ہے وہ یہ ہے کہ علاوہ ان معنوں کے جو مسلم قوم ہیں لیلۃ القدر وہ زمانہ بھی ہے جب دنیا میں ظلمت پھیل جاتی ہے اور ہر طرف تاریکی ہی تاریکی ہوتی ہے تب وہ تاریکی بالطبع تقاضا کرتی ہے کہ آسمان سے کوئی نور نازل ہو.سو خدا تعالیٰ ا س وقت اپنے نورانی ملائکہ اورروح القدس کو زمین پر نازل کرتاہے.اسی طور کے نزول کے ساتھ جو فرشتوں کی شان کے ساتھ مناسب حال ہے تب روح القدس تو اس مجدّد اور مصلح سے تعلّق پکڑتا ہے جو اجتبا اور اصطفا کی خلعت سے
مشرف ہو کر دعوت حق کے لئے مامور ہوتا ہے اور فرشتے ان تمام لوگوں سے تعلق پکڑتے ہیں جو سعید اور رشید اور مستعد ہیں اور ان کو نیکی کی طرف کھینچتے ہیں اور نیک توفیقیں ان کے سامنے رکھتے ہیں تب دنیا میں سلامتی اور سعادت کی راہیں پھیلتی ہیں اور ایسا ہی ہوتا رہتا ہے جب تک دین اپنے اس کمال کو پہنچ جائے جو اس کے لئے مقدر کیا گیا ہے.اب دیکھنا چاہیئے کہ خدا تعالیٰ نے اس سورہ مبارکہ میں صاف اور صریح لفظوں میں فرما دیا کہ جب کوئی مصلح خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے تو ضرور دلوں کو حرکت دینے والے ملائکہ زمین پر نازل ہوتے ہیں تب ان کے نزول سے ایک حرکت اور تموّج دلوں میں نیکی اور راہ حق کی طرف پیدا ہوجاتا ہے.پس ایسا خیال کرنا کہ یہ حرکت اور یہ تموّج بغیر ظہور مصلح کے خود بخود پیدا ہوجاتا ہے.خدا تعالیٰ کی پاک کلام اور اس کے قدیم قانون قدرت کے مخالف ہے اور ایسے اقوال صرف ان لوگوں کے منہ سے نکلتے ہیں جو الٰہی اسرار سے بے خبر محض اور صرف اپنے بے بنیاد اوہام کے تابع ہیں بلکہ یہ تو آسمانی مصلح کے پیدا ہونے کی علامات خاصہ ہیں اور اس آفتاب کے گرد ذرات کی مانند ہیں.ہاں اس حقیقت کو دریافت کرنا ہر ایک کا کام نہیں.ایک دنیا دار کی دود آمیز نظر اس نور کو دریافت نہیں کرسکتی دینی صداقتیں اس کی نظر میں ایک ہنسی کی بات ہے اور معارف الٰہی اس کے خیال میں بیوقوفیاں ہیں.اور دوسری آیات جن میں اس آخری زمانہ کی نشانیاں بتلائی گئی ہیں یعنی وہ آیات جن میں اول ارضی تاریکی زور کے ساتھ پھیلنے کی خبر دی گئی ہے اور پھر آسمانی روشنی کے نازل ہونے کی علامتیں بتلائی گئی ہیں وہ یہ ہیں.۱ یعنی آخری زمانہ اس وقت آئے گا کہ جس وقت زمین ایک ہولناک جنبش کے ساتھ جو اس کی مقدار کے مناسب حال ہے ہلائی جائے گی یعنی اہل الارض میں ایک تغیر عظیم آئے گا اور نفس اور دنیا پرستی کی طرف لوگ جھک جائیں گے اور پھر فرمایا کہ زمین اپنے تمام بوجھ نکال ڈالے گی
یعنی زمینی علوم اور زمینی مکر اور زمینی چالاکیاں اور زمینی کمالات جو کچھ انسان کی فطرت میں مودع ہیں سب کی سب ظہور میں آجائیں گی اور نیز زمین جس پر انسان رہتے ہیں اپنے تمام خواص ظاہر کردے گی اور علم طبعی اور فلاحت کے ذریعہ سے بہت سی خاصیتیں اس کی معلوم ہو جائیں گی اور کانیں نمودار ہوں گی او رکاشتکاری کی کثرت ہوجائے گی.غرض زمین زرخیز ہوجائے گی اور انواع اقسام کی کلیں ایجاد ہوں گی یہاں تک کہ انسان کہے گا کہ یہ کیا ماجرا ہے اور یہ نئے نئے علوم اور نئے نئے فنون اور نئی نئی صنعتیں کیونکر ظہور میں آتی جاتی ہیں تب زمین یعنی انسانوں کے دل زبان حال سے اپنے قصے سنائیں گے کہ یہ نئی باتیں جو ظہور میں آرہی ہیں یہ ہماری طرف سے نہیں یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک قسم کی وحی ہے کیونکہ ممکن نہیں کہ انسان اپنی کوششوں سے اس قدر علوم عجیبہ پیدا کرسکے.اور یاد رہے کہ ان آیات کے ساتھ جو قرآن کریم میں بعض دوسری آیات جو آخرت کے متعلق ہیں شامل کی گئی ہیں وہ درحقیقت اُسی سنت اللہ کے موافق شامل فرمائی گئی ہیں جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے ور نہ اس میں کچھ شک نہیں کہ حقیقی اور مقدم معنے ان آیات کے یہی ہیں جو ہم نے بیان کئے او راُس پر قرینہ جو نہایت قوی اور فیصلہ کرنے والا ہے یہ ہے کہ اگر ان آیات کے حسب ظاہر معنے کئے جائیں تو ایک فساد عظیم لازم آتا ہے.یعنی اگر ہم اس طور سے معنے کریں کہ کسی وقت باوجود قائم رہنے اس آبادی کے جو دنیا میں موجود ہے.ایسے سخت زلزلے زمین پر آئیں گے جو تمام زمین کے اُوپر کا طبقہ نیچے اور نیچے کا اُوپر ہو جائے گا.تو یہ بالکل غیر ممکن اور ممتنعات میں سے ہے.آیت موصوفہ میں صاف لکھا ہے کہ انسان کہیں گے کہ زمین کو کیا ہو گیا.پھر اگر حقیقتًا یہی بات سچ ہے کہ زمین نہایت شدید زلزلوں کے ساتھ زیر وزبر ہو جائے گی تو انسان کہاں ہو گا جو زمین سے سوال کرے گا وہ تو پہلے ہی زلزلہ کے ساتھ زاویہ عدم میں مخفی ہو جائے گا.علوم حسّیہ کا تو کسی طرح سے انکار نہیں ہو سکتا پس ایسے معنے کرنا جو ببداہت باطل اور قرائن موجودہ کے مخالف ہوں گویااسلام سے ہنسی کرانا
اور مخالفین کو اعتراض کے لئے موقعہ دینا ہے پس واقعی اور حقیقی معنے یہی ہیں جو ابھی ہم نے بیان کئے.اب ظاہر ہے کہ یہ تغیرات اور فتن اور زلازل ہمارے زمانہ میں قوم نصاریٰ سے ہی ظہور میں آئے ہیں جن کی نظیر دُنیا میں کبھی نہیں پائی گئی.پس یہ ایک دُوسری دلیل اِس بات پر ہے کہ یہی قوم وہ آخری قوم ہے جس کے ہاتھ سے طرح طرح کے فتنوں کا پھیلنا مقدر تھا جس نے دُنیا میں طرح طرح کے ساحرانہ کام دکھلائے اور جیسا کہ لکھا ہے کہ دجّال نبوت کا دعویٰ کرے گا اور نیز خدائی کا دعویٰ بھی اس سے ظہور میں آئے گا وہ دونوں باتیں اس قوم سے ظہور میں آگئیں.نبوت کا دعویٰ اِس طرح پر کہ اِس قوم کے پادریوں نے نبیوں کی کتابوں میں بڑی گستاخی سے دخل بے جا کیا اور ایسی بے باکانہ مداخلت کی کہ گویاوہ آپ ہی نبی ہیں جس طرف چاہا اُن کی عبارات کو پھیر لیا اور اپنے مدعا کے موافق شرحیں لکھیں اور بیباکی سے ہر یک جگہ مفتریانہ دخل دیا.موجود کو چھپایا اور معدوم کو ظاہر کیا اور دعویٰ کے ساتھ ایسے محرف طور پر معنے کئے کہ گویا اُن پر وحی نازل ہوئی اوروہ نبی ہیں.چنانچہ ہمیشہ دیکھاجاتاہے کہ وہ مناظرات اور مباحثات کے وقت ایسے بیہودہ اور دور از صدق جواب عمدًا دیتے ہیں کہ گویا وہ ایک نئی انجیل بنا رہے ہیں.ایسا ہی اُن کی تالیفات بھی کسی نئے عیسیٰ اور نئی انجیل کی طرف رہبری کر رہی ہیں اور وہ جھوٹ بولنے کے وقت ذرہ ڈرتے نہیں اور چالاکی کی راہ سے کروڑہا کتابیں اپنے اس کاذبانہ دعو یٰ کے متعلق بنا ڈالیں گویا وہ دیکھ آئے ہیں کہ حضرت عیسیٰ خدائی کی کرسی پر بیٹھے ہیں اور خُدائی کا اِس طرح پر دعویٰ کیا کہ خدائی کاموں میں حد سے زیادہ دخل دے دیا اور چاہا کہ زمین و آسمان میں کوئی بھی ایسا بھید مخفی نہ رہے جو وہ اُس کی تہ تک نہ پہنچ جائیں اور ارادہ کیا کہ خدا تعالیٰ کے سارے کاموں کو اپنی مُٹھی میں لے لیں اور ایسے طور سے خدائی کی کَل اُن کے ہاتھ میں آجائے کہ اگرممکن ہو تو سورج کاغروب او ر طلوع بھی انہیں کے اختیار میں ہی ہو اور بارش کا ہونا نہ ہونا بھی ان کے اپنے ہاتھ کی کارستانی پر موقوف ہو اور کوئی بات ان کے آگے انہونی نہ رہے اور دعویٰ خدائی اور کیا ہوتا ہے یہی تو ہے کہ خدائی کاموں
میں اور خدا تعالیٰ کی خاص قدرتوں میں ہی دست اندازی کریں اور یہ شوق پیدا ہو کہ کسی طرح اسکی جگہ بھی ہم ہی لے لیں.وہ لوگ جو احادیث مسیح موعود اور احادیث متعلّقہ دجال پر حرف زنی کرتے ہیں اُن کو اِس مقام میں بھی غور کرنی چاہیئے کہ اگریہ پیشگوئیاں خدا ئے تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتیں اور صرف انسان کا کاروبار ہوتا تو ممکن نہ تھاکہ ایسی صفائی اورعمدگی سے پُوری ہوتیں کیا یہ بھی کبھی کسی کے گمان میں تھا کہ یہ قوم نصاریٰ کسی زمانہ میں انسان کے خدابنانے میں اس قدر کوششیں اور جعلسازیاں کریں گے اور فلسفی تحقیقاتوں میں خدا کے لئے کوئی مرتبہ خصوصیّت نہیں چھوڑیں گے.دیکھو خر دجال جس کے ما بین اُذنین کا ستر۷۰ باع کافاصلہ لکھا ہے ریلوں کی گاڑیوں سے بطور اغلب اکثر بالکل مطابق آتا ہے اور جیسا کہ قرآن اورحدیث میں آیا ہے کہ اس زمانہ میں اونٹ کی سواریاں موقوف ہو جائیں گی ایسا ہی ہم دیکھتے ہیں کہ ریل کی سواری نے اِن تمام سواریوں کو مات کر دیا اور اب انکی بہت ہی کم ضرورت باقی رہی ہے اور شائد تھوڑے ہی عرصہ میں اِس قدر ضرورت بھی باقی نہ رہے ایسا ہی ہم نے بچشم دیکھا کہ درحقیقت اس قوم کے علماء و حکماء نے دین کے متعلق وہ فتنے ظاہر کئے کہ جن کی نظیر حضرت آدم سے لے کر تا ایں دم پائی نہیں جاتی.پس بلاشبہ نبوت میں بھی انہوں نے مداخلت کی اور خدائی میں بھی.اب اس سے زیادہ ان احادیث کی صحت کاکیا ثبوت ہو کہ ان کی پیشگوئی پوری ہو گئی اور قرآن کریم کی ان آیات میں یعنی ۱میں حقیقت میں اسی دجّالی زمانہ کی طرف اشارہ ہے جس کو ذرہ بھی عقل ہو تو وہ سمجھ سکتا ہے اور یہ آیت صاف بتلا رہی ہے کہ وہ قوم ارضی علوم میں کہاں تک ترقی کرے گی.پھر اسی زمانہ کی علامات میں جبکہ ارضی علوم وفنون زمین سے نکالے جائیں گے بعض ایجادات اور صناعات کو بطور نمونہ کے بیان فرمایا ہے اور وہ یہ ہے.۲ جبکہ زمین کھینچی جاوے گی یعنی زمین صاف کی جائے گی اور آبادی بڑھ جاوے گی اور جو کچھ زمین میں ہے اس کو زمیں باہر ڈال دے گی اور خالی ہو جائے گی یعنی تمام ارضی
استعدادیں ظہور و بروز میں آجائیں گی جیساکہ پہلے اس سے ابھی اس کی تفصیل ہو چکی ہے.۱ یعنی اُس وقت اُونٹنی بیکا رہو جائے گی اور اُس کا کچھ قدرومنزلت نہیں رہے گا.عشار حملدار اُونٹنی کو کہتے ہیں جو عربوں کی نگاہ میں بہت عزیز ہے اور ظاہر ہے کہ قیامت سے اس آیت کو کچھ بھی تعلق نہیں کیونکہ قیامت ایسی جگہ نہیں جس میں اُونٹ اُونٹنی کو ملے اورحمل ٹھہرے بلکہ یہ ریل کے نکلنے کی طرف اشارہ ہے اورحملدار ہونے کی اِس لئے قیدلگادی کہ تا یہ قید دُنیا کے واقعہ پر قرینہ قویہّ ہو اور آخرت کی طر ف ذرہ بھی وہم نہ جائے ۲ اور جس وقت کتابیں منتشر کی جائیں گی اور پھیلائی جائیں گی یعنی اشاعت کتب کے وسائل پَیدا ہو جائیں گے.یہ چھاپے خانوں اورڈاک خانوں کی طر ف اشارہ ہے کہ آخری زمانہ میں ان کی کثرت ہو جائے گی.3۳ اور جس وقت جانیں باہم ملائی جائیں گی.یہ تعلقات اقوام اور بلاد کی طرف اشارہ ہے مطلب یہ ہے کہ آخری زمانہ میں بباعث راستوں کے کھلنے اور انتظام ڈاک اور تار برقی کے تعلقات بنی آدم کے بڑھ جائیں گے اور ایک قوم دوسری قوم کو ملے گی اور دور دور کے رشتے اورتجارتی اتحاد ہونگے اور بلاد بعیدہ کے دوستانہ تعلقات بڑھ جائیں گے.۴ اورجس وقت وحشی آدمیوں کے ساتھ اکٹھے کئے جائیں گے مطلب یہ ہے کہ وحشی قومیں تہذیب کی طرف رجوع کریں گی اور اُن میں انسانیت اور تمیز آئے گی اور اراذل دنیوی مراتب اورعزّت سے ممتاز ہو جائیں گے اور بباعث دنیوی علوم و فنون پھیلنے کے شریفوں اوررذیلوں میں کچھ فرق نہیں رہے گا بلکہ رذیل غالب آجائیں گے یہاں تک کہ کلید دولت اور عنانِ حکومت ان کے ہاتھ میں ہو گی اورمضمون اس آیت کا ایک حدیث کے مضمون سے بھی ملتا ہے.۵ اور جس وقت دریا چیرے جاویں گے یعنی زمین پر نہریں پھیل جائیں گی.اور کاشتکاری کثرت سے ہو گی.۶ اور جس وقت پہاڑ اڑائے جائیں گے اور ان میں سڑکیں پیادوں اور سواروں کے چلنے کی یاریل کے چلنے کیلئے بنائی جائیں گی.پھر علاوہ اس کے عام ظلمت کی نشانیاں بیان فرمائیں اورفرمایا.۷ جس وقت سُورج لپیٹا
جاویگا یعنی سخت ظلمت جہالت اور معصیت کی دنیا پر طاری ہو جائے گی ۱ اور جس وقت تارے گدلے ہو جاویں گے یعنی علماء کا نُورِ اخلاص جاتا رہے گا ۲ اور جس وقت تارے جھڑ جاویں گے یعنی ربّانی علماء فوت ہو جائیں گے کیونکہ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ زمین پر تارے گریں اور پھر زمین پر لوگ آباد رہ سکیں.یاد رہے کہ مسیح موعود کے آنے کیلئے اسی قسم کی پیشگوئی انجیل میں بھی ہے کہ وہ اس وقت آئے گا کہ جب زمین پر تارے گر جائیں گے اور سُورج اور چاند کا نور جاتا رہے گا.اور اِن پیشگوئیوں کو ظاہر پر حمل کرنا اس قدر خلافِ قیاس ہے کہ کوئی دانا ہرگز یہ تجویز نہیں کرے گا کہ درحقیقت سُورج کی روشنی جاتی رہے اور ستارے تمام زمین پر گر پڑیں اور پھر زمین بدستور آدمیوں سے آباد ہو اور اُس حالت میں مسیح موعود آوے.اور پھر فرمایا 3 ۳ جس وقت آسمان پھٹ جاوے.ایسا ہی فرمایا.3 ۴ اور انجیل میں بھی اسی کے مطابق مسیح موعود کے آنے کی خبر دی ہے مگر اِن آیتوں سے یہ مراد نہیں ہے کہ درحقیقت اُس وقت آسمان پھٹ جائے گایا اُس کی قوتیں سُست ہوجائیں گی بلکہ مدعا یہ ہے کہ جیسے پھٹی ہوئی چیز بیکار ہو جاتی ہے ایسا ہی آسمان بھی بیکار سا ہو جائے گا.آسمان سے فیوض نازل نہیں ہونگے اوردُنیا ظلمت اورتاریکی سے بھر جائے گی.اورپھر ایک جگہ فرمایا ۵ اورجب رسول وقت مقرر پر لائے جائیں گے یہ اشارہ درحقیقت مسیح موعود کے آنے کی طر ف ہے اور اِس بات کا بیان مقصود ہے کہ وہ عین وقت پر آئے گا اور یاد رہے کہ کلام اللہ میں رُسل کا لفظ واحدپر بھی اطلاق پاتا ہے اور غیر رسول پر بھی اطلاق پاتا ہے اور یہ مَیں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں کہ اکثر قرآن کریم کی آیات کئی وجوہ کی جامع ہیں جیسا کہ یہ احادیث سے ثابت ہے کہ قرآن کے لئے ظہر بھی ہے اور بطن بھی.پس اگر رسول قیامت کے میدان میں بھی شہادت کیلئے جمع ہوں تو اٰمنّا وصدّقنا لیکن اس مقام میں جو آخری زمانہ کی ابتر علامات بیان فرما کر پھر اخیر پر یہ بھی فرما دیا کہ اس وقت رسول وقت مقرر پر لائے جائیں گے.تو قرآئن بیّنہ صاف طور پر شہادت دے رہے ہیں کہ اُس ظلمت کے کمال کے بعد خدا تعالیٰ کسی اپنے
مرسل کو بھیجے گا.تا مختلف قوموں کا فیصلہ ہو اور چونکہ قرآ ن شریف سے ثابت ہو چکا ہے کہ وہ ظلمت عیسائیوں کی طرف سے ہوگی اور ایسا مامور من اللہ بلا شبہ اُنھیں کی دعوت کے لئے اور اُنھیں کے فیصلہ کے لئے آئے گا.پس اسی مناسبت سے اس کا نام عیسیٰ رکھا گیاہے.کیونکہ وہ عیسائیوں کے لئے ایسا ہی بھیجا گیا جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اُن کے لئے بھیجے گئے تھے اور آیت ۱ میں الف لام عہد خارجی پر دلالت کرتا ہے یعنی وہ مجدّد جس کا بھیجنا بزبان رسول کریم معہود ہو چکا ہے وہ اُس عیسائی تاریکی کے وقت میں بھیجا جائے گا.جس قدر اب تک ہم آیات قرآن کریم لِکھ چکے ہیں اُن سے بخوبی ظاہر ہے کہ ضرور قرآن کریم میں یہ پیشگوئی موجود ہے کہ آخری زمانہ میں دین عیسوی دُنیا میں بکثرت پھیل جائے گا.اوروہ لوگ ارادہ کریں گے کہ تادینِ اسلام کو رُوئے زمین پر سے مٹا دیں اور جہاں تک اُن کے لئے ممکن ہوگا اپنے دین کی بھلائی میں کوئی دقیقہ چھوڑ نہیں رکھیں گے.تب خد اتعالیٰ دینِ اسلام کی نصرت کی طرف متوجہ ہو گا اور اُس فتنہ کے وقت میں دِکھلائے گا کہ وہ کیونکر اپنے دین اور اپنے پاک کلام کا محافظ ہے.تب اُس کی عادت اور سنت کے موافق ایک آسمانی روشنی نازل ہو گی اور ہر ایک سعید اُس روشنی کی طرف کھینچا جائے گا یہاں تک کہ تمام سعادت کے جگر پارے ایک ہی دین کے جھنڈے کے نیچے آجائیں گے.خدا تعالیٰ نے صاف لفظوں میں فرما دیا ہے کہ لڑائیوں اور مباحثات کے شور اُٹھنے کے وقت میں نفخ صور ہو گا تب سعید لوگ ایک ہی مذہب پر جمع کئے جائیں گے اور پھر یہ بھی فرما دیاکہ تاریکی کے وقت میں رسولوں کو بھیجا جائے گا.اب اس سے اور کیا تصریح ہو گی کہ اللہ جلّ شانہ‘نے اوّل آخری زمانہ کی علامت یاجوج ماجوج کا غلبہ یعنی روس اور انگریزوں کا تسلّط بیان فرمایا.پھر دُوسری علامت بہت سے فرقے پَیدا ہوجانا قرار دیا.پھر تیسری علامت ان فرقوں کا آپس میں مباحثات کرنا اورموج کی طرح ایک دوسرے پر پڑنا بیان فرمایا.پھر چوتھی علامت ریل کا جاری ہونا.پھر پانچویں علامت کتابوں اوراخبار کے شائع ہونے کے ذریعے جیسے چھاپہ خانہ اور تار برقی.پھر
چھٹیعلامت نہروں کا نکلنا اورپھر ساتویں علامت زمین کی آبادی اورکاشتکاری زیادہ ہو جانا اور پھر آٹھویں علامت پہاڑوں کا اُڑایا جانا اور پھر نویں علامت تمام علوم وفنون جدیدہ کی ترقی ہونا.پھردسویں علامت گناہ اور تاریکی کا پھیلنا اوردُنیا سے تقویٰ اور طہارت اور ایمانی نور اُٹھ جانا پھر گیارھویں علامت دابۃ الارض کا ظہور میں آنا یعنی ایسے واعظوں کابکثرت ہو جانا جن میں آسمانی نُور ایک ذرہ بھی نہیں اور صرف وہ زمین کے کیڑے ہیں اعمال اُن کے دجّال کے ساتھ ہیں اور زبانیں انکی اسلام کے ساتھ یعنی عملی طور پر وہ دجّال کے خادم اورممسوخ الصورت اور حیوانی شکل ظاہر کر رہے ہیں مگر زبانیں اُن کی انسان کی سی ہیں.پھر بارھویں علامت مسیح موعود کا پیدا ہونا ہے جس کو کلام الٰہی میں نفخ صور کے استعارہ میں بیان کیاگیا ہے.اور نفخ حقیقت میں دو قسم پر ہے ایک نفخ اضلال اور ایک نفخ ہدایت جیسا کہ اس آیت میں اس کی طر ف اشارہ ہے.۱ یہ آیتیں ذو الوجوہ ہیں قیامت سے بھی تعلق رکھتی ہیں اوراس عالم سے بھی.جیسا کہ آیت ۲ اور جیسا کہ آیت ۳ اوراس عالم کے لحاظ سے اِن آیتوں کے یہ معنی ہیں کہ آخری دنوں میں دوزمانے آئیں گے.ایک ضلالت کا زمانہ اور اس زمانہ میں ہر ایک زمینی اور آسمانی یعنی شقی اور سعید پر غفلت سی طاری ہوگی مگر جس کو خدا محفوظ رکھے اور پھر دُوسرا زمانہ ہدایت کا آئے گا.پس ناگاہ لوگ کھڑے ہوجائیں گے اور دیکھتے ہوں گے.یعنی غفلت دُور ہو جائے گی اور دلوں میں معرفت داخل ہو جائے گی اور شقی اپنی شقاوت پر متنبہ ہو جائیں گے گو ایمان نہ لاویں.اور علاوہ ان آیات کے قرآن مجید میں اور بھی بہت سی آیات ہیں جو اِس آخری زمانہ اور مسیح موعود کے آنے پر دلالت کرتی ہیں لیکن اِن معانی مبارکہ کے ماخذ دقیق ہیں.اِس لئے ہریک سطحی خیال کا آدمی اِس طرف توجہ نہیں کرسکتا اورموٹی سمجھ ان دقائق کو پا نہیں سکتی چنانچہ
منجملہ اُن کے یہ آیت ہے ۱ اب ظاہر ہے کہ کَمَا کے لفظ سے یہ اشارہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ ہیں.چنانچہ توریت باب استثنا میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسیٰ لکھا ہے اور ظاہر ہے کہ مماثلت سے مُراد مماثلت تامہ ہے نہ کہ مماثلت ناقصہ.کیونکہ اگر مماثلتِ ناقصہ مراد ہو تو پھر اس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی خصوصیت باقی نہیں رہتی وجہ یہ کہ ایسی مماثلت والے بہت سے نبی ثابت ہونگے جنہوں نے خدا تعالیٰ کے حکم سے تلوار بھی اُٹھائی اور حضرت موسیٰ کی طرح جنگ بھی کئے.اورعجیب طور پرفتحیں بھی حاصل کیں مگر کیا وہ اِس پیشگوئی کے مصداق ٹھہرسکتے ہیں ہرگز نہیں.غرض ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ جب مماثلت سے مماثلت تامہ مراد ہو.اور مماثلت تامہ کی عظیم الشان جزوں میں سے ایک یہ بھی جزو ہے کہ اللہ جلّ شانہ‘نے حضرت موسٰی ؑ کو اپنی رسالت سے مشرف کر کے پھر بطور اکرام و انعام خلافت ظاہری اور باطنی کا ایک لمبا سلسلہ ان کی شریعت میں رکھ دیا جو قریبًا چودہ سو برس تک ممتد ہو کر آخر حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اُس کا خاتمہ ہوا اِس عرصہ میں صدہا بادشاہ اور صاحبِ وحی اور الہام شریعت موسوی میں پیدا ہوئے اور ہمیشہ خدا تعالیٰ شریعت موسوی کے حامیوں کی ایسے عجیب طور پر مدد کرتا رہا جو ایک حیرت انگیزیاد گار کے طور پر وہ باتیں صفحات تاریخ پر محفوظ رہیں جیسا کہ اللہ جلّ شانہ‘ فرماتا ہے.یعنی ہم نے موسیٰ کوکتاب دی اوربہت سے رُسل اس کے پیچھے آئے پھر سب کے بعد عیسیٰ بن مریم کو بھیجا اور اُس کو انجیل دی اور اُس کے تابعین کے دلوں میں رحمت اور شفقت رکھ دی یعنی وہ تلوار سے نہیں بلکہ اپنی تواضع اور فروتنی اور اخلاق سے دعوتِ دین کرتے تھے اِس آیت میں اشارہ
یہ ہے کہ موسوی شریعت اگرچہ جلالی تھی اورلاکھوں خون اس شریعت کے حکموں سے ہوئے یہاں تک کہ چار لاکھ کے قریب بچہ شیر خوار بھی مار ا گیا لیکن خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اُس سلسلہ کا خاتمہ رحمت پر کرے اور انہیں میں سے ایسی قوم پَیدا کرے کہ وہ تلوار سے نہیں بلکہ علم اور خلق سے اور محض اپنی قوّتِ قدسیہ کے زور سے بنی آدم کو راہ راست پر لاویں.اَب چونکہ مماثلت فی الانعامات ہونا از بس ضروری ہے اور مماثلت تامہ تبھی متحقق ہوسکتی تھی کہ جب مماثلت فی الانعامات متحقق ہو.پس اِسی لئے یہ ظہور میں آیا کہ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قریبًا چودہ سو برس تک ایسے خدام شریعت عطاکئے گئے کہ وہ رسول اور ملہم من اللہ تھے اور اختتام اس سلسلہ کا ایک ایسے رسول پر ہوا جس نے تلوار سے نہیں بلکہ فقط رحمت اور خُلق سے حق کی طرف دعوت کی.اسی طرح ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی وہ خدام شریعت عطا کئے گئے جو بر طبق حدیث علمآء امتی کانبیآء بنی اسرآئیل ملہم اورمحدّث تھے اورجس طرح موسیٰ کی شریعت کے آخری زمانہ میں حضرت مسیح علیہ السلام بھیجے گئے جنہوں نے نہ تلوار سے بلکہ صرف خلق اور رحمت سے دعوتِ حق کی.اسی طرح خدا تعالیٰ نے اس شریعت کے لئے مسیح موعود کو بھیجا تا وہ بھی صرف خُلق اور رحمت اور انوار آسمانی سے راہ راست کی دعوت کرے اور جس طرح حضرت مسیح حضرت موسٰی علیہ السلام سے قریبًا چودہ سو برس بعد آئے تھے اس مسیح موعود نے بھی چودھو۱۴یں صدی کے سر پر ظہور کیا اور محمدی سلسلہ موسوی سلسلہ سے انطباق کلّی پا گیا.اور اگر یہ کہا جائے کہ موسوی سلسلہ میں تو حمایت دین کیلئے نبی آتے رہے اور حضرت مسیح بھی نبی تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ مرسل ہونے میں نبی اور محدّث ایک ہی منصب رکھتے ہیں اور جیسا کہ خدا تعالیٰ نے نبیوں کا نام مرسل رکھا ایسا ہی محدثین کا نام بھی مرسل رکھا.اسی اشارہ کی غرض سے قرآن شریف میں3 ۱ آیا ہے اور یہ نہیںآیا کہ قفّینا من بعدہٖ بالانبیاء.پس یہ اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ رسل سے مراد مرسل ہیں خواہ وہ رسول ہوں یا نبی ہوں یا محدّث ہوں چونکہ ہمارے سیّد و رسول صلی اللہ علیہ وسلم
خاتم الانبیاء ہیں اور بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نبی نہیں آسکتا اس لئے اس شریعت میں نبی کے قائم مقام محدّث رکھے گئے اور اسی کی طرف اِس آیت میں اشارہ ہے کہ ۱ چونکہ ثُلّۃ کا لفظ دونوں فقروں میں برابر آیا ہے.اِس لئے قطعی طور پر یہاں سے ثابت ہوا کہ اس امّت کے محدث اپنی تعداد میں اور اپنے طولانی سلسلہ میں موسوی اُمّت کے مرسلوں کے برابر ہیں اور درحقیقت اسی کی طرف اس دُوسر ی آیت میں بھی اشارہ ہے اور وہ یہ ہے.۲ یعنیخدا نے اُن لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور اچھے کام کئے یہ وعدہ کیاہے کہ البتہ اُنہیں زمین میں اسی طرح خلیفہ کرے گا جیسا کہ اُن لوگوں کو کیا جواُن سے پہلے گذر گئے اور اُن کے دین کو جو اُن کے لئے پسند کیا ہے ثابت کر دے گا اوراُن کے لئے خوف کے بعد امن کو بدل دے گا میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے.(الجزو نمبر۱۸ سُورۃنور) اب غور سے دیکھو کہ اِس آیت میں بھی مماثلت کی طرف صریح اشارہ ہے اور اگر اس مماثلت سے مماثلت تامہ مُراد نہیں تو کلام عبث ہوا جاتا ہے کیونکہ شریعت موسوی میں چودہ سو برس تک خلافت کا سلسلہ ممتد رہا نہ صرف تیس برس تک اور صدہا خلیفے رُوحانی اور ظاہری طور پر ہوئے نہ صرف چار اور پھر ہمیشہ کے لئے خاتمہ.اور اگر یہ کہا جائے کہ منکم کالفظ دلالت کرتا ہے کہ وہ خلیفے صرف صحابہ میں سے ہوں کیونکہ منکم کے لفظ میں مخاطب صرف صحابہ ہیں تو یہ خیال ایک بدیہی غلطی ہے اور ایسی بات صر ف اُس شخص کے مُنہ سے نکلے گی جس نے کبھی قرآن کریم کو غور سے نہیں پڑھا اور نہ اُس کی اسالیب کلام کو پہچاناکیونکہ اگر یہی بات سچ ہے کہ مخاطبت کے وقت وہی لوگ مُراد ہوتے ہیں جو موجودہ زمانہ میں بحیثیت ایمانداری زندہ موجود ہوں تو ایسا تجویز کرنے سے سارا قرآن
زیرو زبر ہو جائے گا.مثلًا اسی آیت موصوفہ بالا کے مشابہ قرآن کریم میں ایک اور آیت بھی ہے جس میں اسی طرح بظاہر الفاظ وہ لوگ مخاطب ہیں جو حضرت موسیٰ پر ایمان لائے تھے اوراس وقت زندہ موجود تھے بلکہ ان آیات میں تو اس بات پر نہایت قوی قرائن موجود ہیں کہ درحقیقت وہی مخاطب کئے گئے ہیں اوروہ آیات یہ ہیں33333333.33333 ۱ الجزو نمبر۹ سورۃ الاعراف.یعنی فرعون نے کہا کہ ہم بنی اسرائیل کے بیٹوں کو قتل کریں گے اور اوراُن کی بیٹیوں کو زندہ رکھیں گے اور تحقیقًا ہم ان پر غالب ہیں.تب موسیٰ نے اپنی قوم کو کہا کہ اللہ سے مدد چاہو اورصبر کرو زمین خدا کی ہے جس کو اپنے بندوں سے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے اور انجام بخیر پرہیز گاروں کا ہی ہوتا ہے.تب موسیٰ کی قوم نے اس کو جواب دیا کہ ہم تیرے پہلے بھی ستائے جاتے تھے اور تیرے آنے کے بعد بھی ستا ئے گئے تو موسیٰ نے اُن کے جواب میں کہا کہ قریب ہے کہ خُداتمہارے دشمن کو ہلاک کرے اور زمین پر تمہیں خلیفے مقرر کر دے اور پھر دیکھے کہ تم کس طور کے کام کرتے ہو.اَب اِ ن آیات میں صریح اور صا ف طور پروہی لوگ مخاطب ہیں جو حضرت موسیٰ کی قوم میں سے اُن کے سامنے زندہ موجود تھے اور انہوں نے فرعون کے ظلموں کا شِکوہ بھی کیا تھا اورکہا تھا کہ ہم تیرے پہلے بھی ستائے گئے اور تیرے آنے کے بعد بھی اور انہیں کو خطاب کر کے کہا تھا کہ تم ان تکلیفات پر صبر کرو خدا تمہاری طرف رحمت کے ساتھ متوجہ ہو گا اور تمہارے دشمن کو ہلا ک کر دے گا اور تم کو زمین پر خلیفے بنا دے گا لیکن تاریخ دانوں پر ظاہر ہے اور یہودیوں اورنصاریٰ کی کتابوں کو دیکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ گو اس قوم کا دشمن یعنی فرعون اُن کے سامنے ہلاک ہوا مگر وہ خود تو زمین پر نہ ظاہری خلافت پر پہنچے نہ باطنی خلافت پر.بلکہ اکثر ان کی نافرمانیوں سے ہلاک
کئے گئے اور چالیس برس تک بیابان لق و دق میں آوارہ رہ کر جان بحق تسلیم ہوئے پھر بعد ان کی ہلاکت کے ان کی اولادمیں ایسا سلسلہ خلافت کا شروع ہوا کہ بہت سے بادشاہ اس قوم میں ہوئے اور داؤد اور سلیمان جیسے خلیفۃ اللہ اسی قوم میں سے پَیدا ہوئے یہاں تک کہ آخریہ سلسہ خلافت کا چودھویں صدی میں حضرت مسیح پر ختم ہوا پس اس سے ظاہر ہے کہ کسی قوم موجودہ کو مخاطب کرنے سے ہرگز یہ لازم نہیں آتا کہ وہ خطاب قوم موجودہ تک ہی محدود رہے بلکہ قرآن کریم کاتو یہ بھی محاورہ پایا جاتا ہے کہ بسا اوقات ایک قوم کو مخاطب کرتا ہے مگر اصل مخاطب کوئی اور لوگ ہوتے ہیں جو گذر گئے یا آئندہ آنے والے ہیں مثلًا اللہ جلّ شانہ‘ سورۃ البقرہ میں یہود موجودہ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے333۱ یعنی اے بنی اسرائیل اُس نعمت کو یاد کرو جو ہم نے تم پر انعام کی اور میرے عہد کو پُورا کرو تامَیں بھی تمہارے عہد کو پُورا کروں اور مجھ سے پس ڈرو.اب ظاہر ہے کہ یہودموجودہ زمانہ آنحضرت تو ضربت علیھم الذلۃکا مصداق تھے ان پر تو کوئی انعام بھی نہیں ہوا تھا اور نہ ان سے یہ عہد ہوا تھا کہ تم نے خاتم الانبیاء پر ایمان لانا.پھر بعد اس کے فرمایا 3333333.33۲ یعنی وہ وقت یاد کروجب ہم نے تم کو آل فرعون سے نجات دی وہ تم کو طرح طرح کے دُکھ دیتے تھے تمہا رے لڑکوں کو مار ڈالتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ رکھتے تھے اور اس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہارا بڑا امتحان تھا اور وہ وقت یاد کروجبکہ ہم نے تمہارے پہنچنے کے ساتھ ہی دریا کو پھاڑ دیا.پھر ہم نے تم کو نجات دے دی اور فرعون کے لوگوں کو ہلاک کر دیا اور تم دیکھتے تھے.اب سوچنا چاہیئے کہ ان واقعات میں سے کوئی واقعہ بھی ان یہودیوں کو پیش نہیں آیا تھا جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود تھے نہ وہ فرعون کے ہاتھ سے دُکھ دیئے گئے
نہ اُن کے بیٹوں کوکسی نے قتل کیا نہ وہ کسی دریا سے پار کئے گئے.پھر آگے فرماتا ہے33333.33.333 ۱ یعنی وہ وقت یاد کرو جب تم نے موسیٰ کو کہا کہ ہم تیرے کہے پر تو ایمان نہیں لائیں گے جب تک خدا کو بچشم خود نہ دیکھ لیں تب تم پر صاعقہ پڑی اور پھر تم کو زندہ کیا گیا تاکہ تم شکرکرو اور ہم نے بادلوں کو تم پر سائبان کیا اور ہم نے تم پر من و سلویٰ اُتارا.اب ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ تو ان یہودیوں سے جو قرآن میں مخاطب کئے گئے دو ہزار برس پہلے فوت ہو چکے تھے اور ان کا حضرت موسیٰ کے زمانہ میں نام ونشان بھی نہ تھا پھر وہ حضرت موسیٰ سے ایسا سوال کیونکرکر سکتے تھے کہاں اُن پر بجلی گری کہاں انہوں نے من وسلویٰ کھایا.کیا وہ پہلے حضرت موسیٰ کے زمانہ میں اور اورقالبوں میں موجودتھے اور پھر آنحضرتؐ کے زمانہ میں بھی بطور تناسخ آموجود ہوئے اور اگر یہ نہیں تو بجز اس تاویل کے اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ مخاطبت کے وقت ضروری نہیں کہ وہی لوگ حقیقی طور پر واقعات منسوبہ کے مصدا ق ہوں جو مخاطب ہوں.کلام الٰہی اوراحادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ ایک قاعدہ ٹھہر گیا ہے کہ بسا اوقات کوئی واقعہ ایک شخص یا ایک قوم کی طرف منسوب کیاجاتا ہے اور دراصل وہ واقعہ کسی دوسری قوم یادُوسرے شخص سے تعلق رکھتا ہے اور اسی باب میں سے عیسیٰ بن مریم کے آنے کی خبر ہے کیونکہ بعض احادیث میں آخری زمانہ میں آنے کاایک واقعہ حضرت عیسیٰ کی طرف منسوب کیا گیا حالانکہ وہ فوت ہو چکے تھے پس یہ واقعہ بھی حضرت مسیح کی طرف ایسا ہی منسوب ہے جیسا کہ واقعہ فرعون کے ہاتھ سے نجات پانے کا اور منّ و سلوٰی کھانے کا اور صاعقہ گرنے کا اور دریا سے پار ہونے کا اورقصّہ 33 ۲ کا اُن یہودیوں کی طرف منسوب کیاگیا جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں موجود تھے.حالانکہ وہ واقعات اُن کی پہلی قوم کے تھے جو اُن سے صد ہا برس پہلے مر چکے تھے.پس اگر کسی کو آیات کے معنے کرنے میں
معقولی شق کی طرف خیال نہ ہو اور ظاہر الفاظ پر اڑ جانا واجب سمجھے تو کم سے کم ان آیات سے یہ ثابت ہو گاکہ مسئلہ تناسخ حق ہے ورنہ کیونکر ممکن تھا کہ خدا تعالیٰ ایک فاعل کے فعل کو کسی ایسے شخص کی طرف منسوب کرے جس کو اِس فعل کے ارتکاب سے کچھ بھی تعلق نہیں حالانکہ وُہ آپ ہی فرماتا ہے33 ۱ پھر اگر موسیٰ کی قوم نے موسیٰ کی نافرمانی کی تھی اور اُن پر بجلی گری تھی یا انہوں نے گوسالہ پرستی کی تھی اور ان پر عذاب نازل ہواتھا تو اس دُوسری قوم کو ان واقعات سے کیا تعلق تھا جودو ہزار برس بعد پیدا ہوئے.یُوں تو حضرت آدم سے تا ایں دم متقدمین متاخرین کے لئے بطور آباء و اجدا د ہیں لیکن کسی کا گنہ کسی پر عائد نہیں ہو سکتا.پھر خدا تعالیٰ کا قرآن کریم میں یہ فرمانا کہ تم نے موسیٰ کی نافرمانی کی اور تم نے کہا کہ ہم خدا کو نہیں مانیں گے جب تک اس کو دیکھ نہ لیں اور اس گنہ کے سبب سے تم پر بجلی گری کیونکر ان تمام الفاظ کے بنظر ظاہر کوئی اور معنے ہو سکتے ہیں بجُز اس کے کہ کہا جائے کہ دراصل وہ تمام یہودی جوہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں موجود تھے حضرت موسیٰ کے وقت میں بھی موجود تھے اور انہیں پر من و سلوٰی نازل ہوا تھا اور انہیں پر بجلی پڑی تھی اور انہیں کی خاطر فرعون کو ہلاک کیا گیا تھا اور پھر وہی یہودی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بطور تناسخ پیدا ہو گئے اور اِ س طرح پر خطاب صحیح ٹھہر گیا مگر سوال یہ ہے کہ کیوں ایسے سیدھے سیدھے معنے نہیں کئے جاتے.کیا یہ خدا تعالیٰ کی قدرت سے دُور ہیں اور کیوں ایسے معنے قبول کئے جاتے ہیں جو تاویلات بعیدہ کے حکم میں ہیں کیا خدا تعالیٰ قادر نہیں کہ جس طرح بقول ہمارے مخالفوں کے وہ حضرت عیسیٰ کو بعینہٖ بجسدہ العنصری کسی وقت صدہا برسوں کے بعد پھر زمین پر لے آئے گا.اسی طرح اُس نے حضرت موسیٰ کے زمانہ کے یہودیوں کو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں زندہ کر دیا ہو یا اُن کی رُوحوں کو بطور تناسخ پھر دُنیا میں لے آیا ہو جس حالت میں صرف بے بنیاد اقوال کی بنیاد پر حضرت عیسیٰ کی روح کا پھر دنیا میں آناتسلیم کیا گیا ہے تو کیوں اور کیا وجہ کہ ان تمام یہودیوں کی روحوں کا دوبارہ بطور تناسخ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں آجاناقبول نہ کیاجائے جن کے موجود ہوجانے پرنصوص صریحیہ بیّنہ قرآن کریم
شاہد ہیں.دیکھو خدا تعالیٰ صاف فرماتا ہے 33333 ۱ یعنی تم وہ وقت یاد کرو جبکہ تم نے نہ کسی اور نے یہ کہا کہ ہم تیرے کہنے پرتو ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہم آپ ظاہر ظاہر خدا کو نہ دیکھ لیں اور پھر تم کو بجلی نے پکڑا او ر تم دیکھتے تھے.اور اس آیت میں ایک اور لطیفہ یہ ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ نے اِ س آیت کے مضمون میں موجودہ یہودیوں کو گذشتہ لوگوں کے قائم مقام نہیں ٹھہرایا بلکہ اُن کو فی الحقیقت گذشتہ لوگ ہی ٹھہرا دیا تو اس صورت میں قرآن کریم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کے یہودیوں کے وہی نام رکھ دئے جو اُن گذشتہ بنی اسرائیل کے نام تھے کیونکہ جبکہ یہ لوگ حقیقتًا وہی لوگ قرار دیئے گئے تو یہ لازمی ہوا کہ نام بھی وہی ہوں وجہ یہ کہ نام حقائق کے لئے مثل عوارض غیر منفک کے ہیں اور عوارض لازمیہ اپنے حقائق سے الگ نہیں ہو سکتے.اب خوب متوجہ ہو کر سوچو کہ جبکہ خدا تعالیٰ نے صریح اور صاف لفظوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے یہودیوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تم نے ہی ایسے ایسے برے کام حضرت موسیٰ کے عہد میں کیے تھے تو پھر ایسی صریح اور کُھلی کُھلی نص کی تاویل کرنا اور احادیث کی بنیاد پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جو قرآن کریم کی رُو سے وفات یافتہ ہے پھر زمین پر اُتارنا کیسی بے اعتدالی اور ناانصافی ہے.عزیزو! اگر خدا تعالیٰ کی یہی عادت اور سنت ہے کہ گزشتہ لوگوں کو پھر دُنیا میں لے آتا ہے تو نص قرآنی جو بہ تکراردر تکرارگزشتہ لوگوں کو مخاطب کر کے اُن کے زندہ ہونے کی شہادت دے رہی ہے اس سے در گذرکرنا ہرگز جائز نہیں اوراگر وہاں یہ دھڑکہ دل کو پکڑتا ہے کہ ایسے معنے گو خدا تعالیٰ کی قدرت سے تو بعید نہیں لیکن معقول کے برخلاف ہیں.اِسلئے تاویل کی طرف رُخ کیا جاتا ہے اور وہ معنے کئے جاتے ہیں جو عند العقل کچھ بعید نہیں ہیں تو پھر ایسا ہی حضرت عیسیٰ کے آنے کی پیشگوئی کے معنے کرنے چاہئیں کیونکہ اگر گذشتہ یہودیوں کا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں زندہ ہوجانا یا اگر بطریق
تناسخ کے اُن کی رُوحیں پھر آجانا طریق معقول کے برخلاف ہے تو حضرت مسیح کی نسبت کیونکر دوبارہ دنیا میں آنا تجویز کیا جاتا ہے جن کی وفات پر آیت3333 ۱ بلند آواز سے شہادت دے رہی ہے کیا یہودیوں کی رُوحوں کا دوبار ہ دُنیا میں آنا خدا تعالیٰ کی قدرت سے بعید اور نیز طریق معقول کے برخلاف لیکن حضرت عیسیٰ کا بجسدہ العنصری پھر زمین پر آجانا بہت معقول ہے.پھر اگر نصوص بیّنہ صریحہ قرآنیہ کو بباعث استبعاد ظاہری معنوں کے مؤوّل کر کے طریق صرف عن الظاہر اختیار کیاجاتا ہے تو پھر کیا وجہ کہ نصوص احادیثیہ کا صرف عن الظاہر جائز نہیں کیا احادیث کی قرآن کریم سے کوئی اعلیٰ شان ہے کہ تا ہمیشہ احادیث کے بیان کو گو کیسا ہی بعید از عقل ہو ظاہر الفاظ پر قبول کیا جائے اور قرآ ن میں تاویلات بھی کی جائیں.پھر ہم اصل کلام کی طرف رجوع کرکے لکھتے ہیں کہ بعض صاحب آیت 3333 ۲ کی عمومیت سے انکارکر کے کہتے ہیں کہمنکم سے صحابہ ہی مرادہیں اور خلافتِ راشدہ حقہ انہیں کے زمانہ تک ختم ہو گئی اور پھر قیامت تک اسلام میں اس خلافت کا نام و نشان نہیں ہو گا.گویا ایک خوا ب وخیال کی طرح اس خلافت کاصرف تیس۳۰ برس ہی دَورتھا اورپھر ہمیشہ کیلئے اسلام ایک لازوال نحوست میں پڑگیا مگرمَیں پُوچھتا ہوں کہ کیا کسی نیک دل انسان کی ایسی رائے ہوسکتی ہے کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت تو یہ اعتقاد رکھے کہ بلاشبہ ان کی شریعت کی برکت اور خلافت راشدہ کا زمانہ برابر چود ہ سو برس تک رہا لیکن وہ نبی جو افضل الرسل اور خیر الانبیاء کہلاتا ہے اور جس کی شریعت کا دامن قیامت تک ممتدہے اس کی برکات گویا اس کے زمانہ تک ہی محدود رہیں اور خدا تعالیٰ نے نہ چاہا کہ کچھ بہت مدت تک اس کی برکات کے نمونے اس کے رُوحانی خلیفوں کے ذریعہ سے ظاہر ہوں ایسی باتوں کو سُن کر تو ہمارا بدن کانپ جاتا ہے مگر افسو س کہ وہ لوگ بھی مسلمان ہی کہلاتے ہیں کہ جو سراسر چالاکی اور بیباکی کی راہ سے ایسے بے ادبانہ الفاظ منہ پر لے آتے ہیں کہ گویا اسلام کی برکات آگے نہیں بلکہ مُدّت ہوئی کہ اُن کا خاتمہ ہوچکا ہے.
ماسوا س کے منکم کے لفظ سے یہ استدلال پَیداکرنا کہ چونکہ خطاب صحابہ سے ہے اس لئے یہ خلافت صحابہ تک ہی محدود ہے عجیب عقلمندی ہے اگر اسی طرح قرآن کی تفسیر ہو تو پھر یہودیوں سے بھی آگے بڑھ کر قدم رکھنا ہے.اب واضح ہو کہ منکم کالفظ قرآن کریم میں قریبًا بیا۸۲سی جگہ آیا ہے اور بجُز دویاتین جگہ کے جہاں کوئی خاص قرینہ قائم کیا گیا ہے باقی تمام مواضع میں منکم کے خطاب سے وہ تمام مسلمان مُراد ہیں جو قیامت تک پَیدا ہوتے رہیں گے.اب نمونہ کے طور پر چند وہ آیتیں ہم لکھتے ہیں جن میں منکمکا لفظ پایا جاتا ہے.(۱) 333 ۱ یعنی جو تم میں سے مریض یا سفر پر ہو تو اتنے ہی روزے اور رکھ لے.اب سوچو کہ کیا یہ حکم صحابہ سے ہی خاص تھا یا اس میں اور بھی مسلمان جو قیامت تک پَیداہوتے رہیں گے شامل ہیں ایسا ہی نیچے کی آیتوں پر بھی غور کرو.(۲) 333۲ یعنی یہ اُس کو وعظ کیا جاتا ہے جو تم میں سے اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے.(۳)33 ۳ یعنی تم میں سے جو جو روئیں چھوڑ کر فوت ہو جائیں (۴) 333۴ یعنی تم میں سے ایسے لوگ ہونے چاہئیں جونیکی کی دعوت کریں اور امر معروف اورنہی منکر اپنا طریق رکھیں.(۵)33 ۵ مَیں تم میں سے کسی عامل کا عمل ضائع نہیں کروں گا خواہ وہ مرد ہوخواہ عورت ہو.(۶) 333۶ ناجائز طور پر ایک دوسرے کے مال مت کھاؤ مگر باہم رضامندی کی تجارت سے.(۷)33333۷ یعنی اگر تم مریض ہو یا سفر پر یا پاخانہ سے
آؤ یا عورتوں سے مباشرت کرو اور پانی نہ ملے تو ان سب صورتوں میں پاک مٹی سے تیمّم کرلو.(۸) 33 ۱ یعنی اللہ اور رسول اور اپنے بادشاہوں کی تابعداری کرو.(۹) 333 ۲ یعنی جو شخص تم میں سے بوجہ اپنی جہالت کے کوئی بدی کرے او رپھر توبہ کرے اور نیک کاموں میں مشغول ہو جائے پس اللہ غفور رحیم ہے.(۱۰)333333 ۳ یعنی جو شخص تم میں سے ایسا کام کرے دُنیا کی زندگی میں اُس کو رسوائی ہو گی اورقیامت کو اُس کے لئے سخت عذاب ہے.(۱۱)3 ۴ یعنی تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو دوزخ میں وارد نہ ہو.( ۱۲)33 ۵ یعنی ہم اُن لوگوں کو جانتے ہیں جو تم میں سے آگے بڑھنے والے ہیں اور جو پیچھے رہنے والے ہیں.اب ان تمام مقامات کو دیکھو کہ منکم کا لفظ تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے خواہ اس وقت موجود تھے خواہ بعد میں قیامت تک آتے جائیں ایسا ہی تمام دوسرے مقامات میں بجُز دو تین موضعوں کے عام طور پر استعمال ہوا ہے اور تمام احکام میں بظاہر صورت مخاطب صحابہ ہی ہیں لیکن تخصیص صحابہ بجز قیام قرینہ کے جائز نہیں.ورنہ ہر یک فاسق عذر کر سکتا ہے کہ صوم اور صلٰوۃ اور حج اور تقویٰ اورطہارت اور اجتناب عن المعاصی کے متعلق جس قدر احکام ہیں ان احکام کے مخاطب صرف صحابہ ہی تھے اِس لئے ہمیں نماز روزہ وغیرہ کی پابندی لازم نہیں اور ظاہر ہے کہ ایسے کلمات بجز ایک زندیق کے اور کوئی خدا ترس آدمی زبان پر نہیں لا سکتا.اگر کسی کے دِل میں یہ خیال گذرے کہ اگر آیت وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فائدہ عموم کا
دیتی ہے یعنی مقصود اصلی تعمیم تھی نہ تخصیص.تو پھر منکم کا لفظ اس جگہ کیوں زیادہ کیا گیا.اور اس کی زیادت کی ضرورت ہی کیا تھی صرف اس قدر فرمایا ہوتا کہ3333 ۱ تو اس کا جوا ب یہ ہے کہ یہ وعدہ ان ایمانداروں اور نیکو کاروں کے مقابل پر تھا جو اس اُمت سے پہلے گذر چکے ہیں پس گویا تفصیل اِس آیت کی یُوں ہے کہ خدا تعالیٰ نے تم سے پہلے ان لوگوں کو رُوئے زمین پر خلیفے مقرر کیا تھا جو ایماندار اور صالح تھے اور اپنے ایمان کے ساتھ اعمال صالح جمع رکھتے تھے اور خدا تعالیٰ وعدہ کرتا ہے کہ تم میں سے بھی اے مسلمانو ایسے لوگوں کو جو انہیں صفات حسنہ سے موصوف ہوں اور ایمان کے ساتھ اعمال صالح جمع رکھتے ہوں خلیفے کرے گا پس منکم کا لفظ زائد نہیں بلکہ اس سے غرض یہ ہے کہ تا اسلام کے ایمانداروں اور نیکوکاروں کی طرف اشارہ کرے کیونکہ جبکہ نیکو کار اور ایماندار کا لفظ اِس آیت میں پہلی امتوں اوراِس اُمت کے ایمانداروں اور نیکوکاروں پر برابر حاوی تھا پھر اگر کوئی تخصیص کا لفظ نہ ہوتا تو عبارت رکیک اور مبہم اور دُور از فصاحت ہوتی اور منکم کے لفظ سے یہ جتانا بھی منظور ہے کہ پہلے بھی وُہی لوگ خلیفے مقرر کئے گئے تھے کہ جو ایماندار اور نیکو کار تھے اور تم میں سے بھی ایماندار اور نیکو کار ہی مقرر کئے جائیں گے.اَب اگر آنکھیں دیکھنے کی ہوں تو عام معنی کی رُو سے منکم کے لفظ کا زائد ہونا کہاں لازم آتا ہے اور تکرارکلام کیونکر ہے جبکہ ایمان اور عمل صالح اِسی اُمت سے شروع نہیں ہؤا پہلے بھی مومن اور نیکو کار گذرے ہیں تو اِس صورت میں تمیز کامل بجُز منکم کے لفظ کے کیونکر ہو سکتی تھی.اگر صرف اِس قدر ہوتا کہ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ تو کچھ معلوم نہ ہو سکتا تھا کہ یہ کن ایمانداروں کا ذکر ہے آیا اس اُمت کے ایماندار یا گذشتہ امتوں کے اور اگر صرف منکم ہوتا او راَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ نہ ہوتا تو یہ سمجھاجاتا کہ فاسق اور بدکار لوگ بھی خدا تعالیٰ کے خلیفے ہو سکتے ہیں حالانکہ فاسقوں کی بادشاہت اور حکومت بطور ابتلا کے ہے نہ بطور اصطفا کے اور خدا تعالیٰ کے حقانی خلیفے
خواہ وہ رُوحانی خلیفے ہوں یا ظاہری وہی لوگ ہیں جو متقی اور ایماندار اور نیکو کار ہیں.اور یہ وہم کہ عام معنوں کی رُو سے ان آیات کی اخیر کی آیت یعنی333 ۱ بالکل بے معنی ٹھہر جاتی ہے ایسا بیہودہ خیال ہے جو اس پر ہنسی آتی ہے کیونکہ آیت کے صاف اور سیدھے یہ معنی ہیں کہ اللہ جلّ شانہ‘ خلیفوں کے پَیدا ہونے کی خوشخبری دے کر پھر باغیوں اور نافرمانوں کو دھمکی دیتا ہے کہ بعد خلیفوں کے پَیدا ہونے کے جب وہ وقتًا فوقتًا پَیدا ہوں اگر کوئی بغاوت اختیار کرے اور ان کی اطاعت اور بیعت سے مُنہ پھیرے تو وُہ فاسق ہے.اب نادرستی معنوں کی کہاں ہے اور واضح ہو کہ اس آیت کریمہ سے وہ حدیث مطابق ہے جو پیغمبر خد ا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.من لم یعرف امام زمانہٖ فقد مات میتۃ الجاھلیۃ.جس شخص نے اپنے زمانہ کے امام کو شناخت نہ کیا وہ جاہلیّت کی موت پرمر گیا یعنی جیسے جیسے ہر یک زمانہ میں امام پَیدا ہوں گے اور جو لوگ اُن کو شناخت نہیں کریں گے تو ان کی موت کفارکی موت کے مشابہ ہو گی اور معترض صاحب کا اس آیت کو پیش کرناکہ33333۲ اور اِس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ منکم کا لفظ اِس جگہ خصوصیت کے ساتھ حاضرین کے حق میں آیا ہے ایک بے فائدہ بات ہے کیونکہ ہم لکھ چکے ہیں کہ قرآن کریم کا عام محاورہ جس سے تمام قرآن بھر اپڑا ہے یہی ہے کہ خطاب عام ہوتا ہے اور احکام خطابیہ تمام امت کے لئے ہوتے ہیں نہ صرف صحابہ کے لئے.ہاں جس جگہ کوئی صریح اور صاف قرینہ تحدید خطاب کا ہو وہ جگہ مستثنیٰ ہے چنانچہ آیت موصوفہ بالا میں خاص حواریوں کے ایک طائفہ نے نزول مائدہ کی درخواست کی اُسی طائفہ کومخاطب کر کے جواب ملا.سو یہ قرینہ کافی ہے کہ سوال بھی اسی طائفہ کا تھا اور جواب بھی اسی کو ملا اور یہ کہنا کہ اس کی مثالیں کثرت سے قرآن میں ہیں بالکل جُھوٹ اور دھوکا دینا ہے.قرآن میں بیاسی کے قریب لفظ منکم ہے اور چھ سو کے قریب اور اور صورتوں میں خطاب ہے لیکن تمام خطابات احکامیہ وغیرہ میں تعمیم ہے
اگر قرآن کے خطابات صحابہ تک ہی محدود ہوتے تو صحابہ کے فوت ہو جانے کے ساتھ قرآن باطل ہو جاتا اور آیت متنازعہ فیہا جو خلافت کے متعلق ہے درحقیقت اس آیت سے مشابہ ہے 3 ۱ کیا یہ بشریٰ صحابہ سے ہی خاص تھا یا کسی اور کو بھی اس سے حصہ ہے.اور معترض کا یہ کہنا کہ جو شخص اصلی معنوں سے جو خصوصیت مخاطبین ہے عدول کرکے اس کے معنے عموم لیوے اس کا ذمہ ہے کہ وہ دلیل یقینی سے اپنے عدول کو ثابت کرے اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ نہ صرف معترض کو قرآن کریم سے بلکہ تمام الٰہی کتابوں کے اسلوب کلام سے کچھ بھی خبر نہیں مشکل یہ ہے کہ اکثر شتاب کار لوگ قبل اس کے جو پورے طور پر خوض کریں اعتراض کرنے کو طیار ہوجاتے ہیں.اگر معترض صاحب کو صحیح نیت سے تحقیق کا شوق تھا تو وہ تمام ایسے موقعہ جہاں بظاہر نظر صحابہ مخاطب ہیں جمع کرکے دیکھتے کہ اکثر اغلب اور بلا قیام قرینہ قرآن شریف میں کیا محاورہ ہے کیونکہ یہ صاف ظاہر ہے کہ جو اکثر اغلب محاورہ ثابت ہوگا اسی کے موافق اصلی معنی ٹھہریں گے اور ان سے عدول کرنا بغیر قیام قرینہ جائز نہیں ہوگا.اب ظاہر ہو کہ اصل محاورہ قرآن کریم کا خطاب حاضرین میں عموم ہے اور قرآن کا چھ۶۰۰ سو حکم اسی بناء پر عام سمجھا جاتا ہے نہ یہ کہ صحابہ تک محدود سمجھا جائے پھر جو شخص عام محاورہ سے عدول کرکے کسی حکم کو صحابہ تک ہی محدود رکھے اس کے ذمہ یہ بار ثبوت ہوگا کہ قرائن قویہ سے یہ ثابت کرے کہ یہ خطاب صحابہ سے ہی خاص ہے اور دوسرے لوگ اس سے باہر ہیں مثلاً اللہ جلّ شانہٗ قرآن کریم میں بظاہر صحابہ کو مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ تم صرف خدا کی۱ بندگی کرو اور صبر۲ اور صلٰوۃ کے ساتھ مدد چاہو اور پاک۳ چیزوں میں سے کھاؤ اور کسی قسم کا فساد۴ مت کرو.اور تم زکٰو۵ۃ اور نما۶ز کو قائم کرو اور مقام ابرا۷ہیم سے جائے نماز ٹھہراؤ.اور خیرا۸ت میں ایک دوسرے سے سبقت کرو اور مجھ کو یاد کرومیں۹ تم کو یاد کروں گا.اور میرا شکر ۱۰ کرو.اور مجھ ۱۱ سے دعا مانگو اور جو لوگ۲۱ خدا کی راہ میں شہید ہوں ان کو مردے مت کہو اور جو تم کو سلام۱۳ علیکم کرے اس کا نام کافر اور بے ایمان نہ رکھو.پاک ۱۴ چیزیں زمین کی پیداوار میں سے کھاؤ
اور شیطان ۵ ۱ کی پیروی نہ کرو.تم پر روزے۱۶ فرض کئے گئے ہیں مگر جو تم میں سے بیمار یا سفر پر ہو وہ اتنے روزے ۷ ۱ پھر رکھے- تم ایک دوسرے کے مال ۱۸ کو ناحق کے طور پر مت کھاؤ اور تم تقو۱۹یٰ اختیار کرو تا فلاح پاؤ اور تم خدا کی راہ ۰ ۲ میں ان سے جو تم سے لڑیں لڑو لیکن حدسے مت ۱ ۲ بڑھاؤ اور کوئی زیادتی مت۲ ۲ کرو کہ خدا زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا اور تم خدا ۳ ۲ کی راہ میں خرچ کرو اور دانستہ۴ ۲ اپنے تئیں ہلاکت میں مت ڈالو.اور لوگوں سے احسان۵ ۲ کرو کہ خدا محسنین کو دوست رکھتا ہے اور حج ۶۲ اور عمرہ کو اللہ کے واسطے پورا کرو اور اپنے پاس توشہ ۲۷ رکھو کہ توشہ میں یہ فائدہ ہے کہ تم کسی دوسرے سے سوال نہیں کرو گے یعنی سوال ایک ذلت ہے اس سے بچنے کے لئے تدبیر کرنی چاہئے اور تم صلح ۸ ۲ اور اسلام میں داخل ہو.اور مشرکات ۹ ۲ سے نکاح مت کرو جب تک ایمان نہ لاویں اور مشرکین ۰ ۳سے اے عورتو تم نکاح مت کرو جب تک ایمان نہ لاویں اور اپنے۳۱ نفسوں کے لئے کچھ آگے بھیجو اور خدا ۳۲ تعالیٰ کو اپنی قسموں کا عرضہ مت بناؤ اور عورتوں ۳۳ کو دکھ دینے کی غرض سے بند مت رکھو اور ۴ ۳ جو لوگ تم میں سے فوت ہو جائیں اور جوروئیں رہ جائیں تو وہ چار مہینے اور دس دن نکاح کرنے سے رکی رہیں.اگر تم طلاق ۳۵ دو تو عورتوں کو احسان کے ساتھ رخصت کرو.اگر تمہیں خوف ۶ ۳ ہو تو نماز پیرو ں سے چلتے چلتے یا سوار ہونے کی حالت میں پڑھ لو.اگر اپنے صدقات ۷ ۳ لوگوں کو دکھلا کے دو تو یہ عموماً اچھی بات ہے کہ تا لوگ تمہارے نیک کاموں کی پیروی کریں اور اگر چھپا کر محتاجوں کو دو تو یہ تمہارے نفسوں کے لئے بہتر ہے جب ۸ ۳ تم کسی کو قرضہ دو تو ایک نوشت لکھا لو اور قرض ۹ ۳ ادا کرنے میں خدا سے ڈرو اور کچھ باقی مت رکھو اور جب۰ ۴ تم کوئی خرید و فروخت کرو تو اس پر گواہ رکھ لو.اور اگر تم سفر ۱ ۴ میں ہو اور کوئی کاتب نہ ملے تو کوئی جائیداد قبضہ میں کرلو.تم سب ۲ ۴ مل کر خدا کی رسی سے پنجہ مارو اور باہم پھوٹ مت ڈالو.تم میں سے ایسے ۳ ۴ بھی ہونے چاہئیں کہ جو امر معروف اور نہی منکر کریں.تم خدا ۴ ۴ کی مغفرت کی طرف دوڑو اور اگر تم میں سے کسی کی بیوی ۵ ۴ فوت ہو جائے تو وہ اس کی جائداد میں سے نصف کا مالک ہے بشرطیکہ اس کی کچھ اولاد نہ ہو اور اگر اولاد۶ ۴ ہو تو پھر اس کو چہارم حصہ جائداد بعد عمل بر وصیت پہنچے گا.
یہ چند احکام بطور نمونہ ہم نے لکھے ہیں اس میں ایک تھوڑی سی عقل کا آدمی بھی سوچ سکتا ہے کہ بظاہر یہ تمام خطاب صحابہ کی طرف ہے لیکن درحقیقت تمام مسلمان ان احکام پر عمل کرنے کیلئے مامور ہیں نہ یہ کہ صرف صحابہ مامور ہیں وبس.غرض قرآن کا اصلی اور حقیقی اسلوب جس سے سارا قرآن بھرا پڑا ہے یہ ہے کہ اس کے خطاب کے مورد حقیقی اور واقعی طورپر تمام وہ مسلمان ہیں جو قیامت تک پیدا ہوتے رہیں گے گو بظاہر صورت خطاب صحابہ کی طرف راجع معلوم ہوتا ہے پس جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ یہ وعدہ یا وعید صحابہ تک ہی محدود ہے وہ قرآن کے عام محاورہ سے عدول کرتا ہے اور جب تک پورا ثبوت اس دعویٰ کا پیش نہ کرے تب تک وہ ایسے طریق کے اختیار کرنے میں ایک ملحد ہے کیا قرآن صرف صحابہ کے واسطے ہی نازل ہوا تھا.اگر قرآن کے وعد اور وعید اور تمام احکام صحابہ تک ہی محدود ہیں تو گویا جو بعد میں پیدا ہوئے وہ قرآن سے بکلی بے تعلق ہیں.نعوذ باللّٰہ من ھذہ الخرافات.اور یہ کہنا کہ حدیث میں آیا ہے کہ خلافت تیس سال تک ہوگی عجیب فہم ہے جس حالت میں قرآن کریم بیان فرماتا ہے کہ 3.3 ۱ تو پھر اس کے مقابل پر کوئی حدیث پیش کرنا اور اس کے معنی مخالف قرآن قرار دینا معلوم نہیں کہ کس قسم کی سمجھ ہے اگر حدیث کے بیان پر اعتبار ہے تو پہلے ان حدیثوں پر عمل کرنا چاہیئے جو صحت اور وثوق میں اس حدیث پر کئی درجہ بڑھی ہوئی ہیں مثلاً صحیح بخاری کی وہ حدیثیں جن میں آخری زمانہ میں بعض خلیفوں کی نسبت خبر دی گئی ہے خاص کر وہ خلیفہ جس کی نسبت بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس کے لیے آواز آئے گی ھذا خلیفۃ اللّٰہ المھدی اب سوچو کہ یہ حدیث کس پایہ اور مرتبہ کی ہے جو ایسی کتاب میں درج ہے جو اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے لیکن وہ حدیث جو معترض صاحب نے پیش کی علماء کو اس میں کئی طرح کا جرح ہے اور اس کی صحت میں کلام ہے کیا معترض نے غور نہیں کی کہ جو آخری زمانہ کی نسبت بعض خلیفوں کے ظہور کی خبریں دی گئی ہیں کہ حارث آئے گا.مہدی آئے گا.آسمانی خلیفہ آئے گا.یہ خبریں حدیثوں میں ہیں یا کسی اور کتاب میں.احادیث سے یہ ثابت ہے کہ زمانے تین ہیں.
اول خلافت راشدہ کا زمانہ پھر فیج اعوج جس میں ملک عضوض ہوں گے اور بعد اس کے آخری زمانہ جو زمانہ نبوت کے نہج پر ہوگا.یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کا اول زمانہ اور پھر آخری زمانہ باہم بہت ہی متشابہ ہیں اور یہ دونوں زمانے اس بارش کی طرح ہیں جو ایسی خیر و برکت سے بھری ہوئی ہو کہ کچھ معلوم نہیں کہ برکت اس کے پہلے حصہ میں زیادہ ہے یا پچھلے میں.اس جگہ یہ بھی واضح رہے کہ اللہ جلّ شانہٗ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ33 ۱ یعنی ہم نے ہی اس کتاب کو اتارا اور ہم ہی اس تنزیل کی محافظت کریں گے.اس میں اس بات کی تصریح ہے کہ یہ کلام ہمیشہ زندہ رہے گا اور اس کی تعلیم کو تازہ رکھنے والے اور اس کا نفع لوگوں کو پہنچانے والے ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے اور اگر یہ سوال ہو کہ قرآن کے وجود کا فائدہ کیا ہے جس فائدہ کے وجود پر اس کی حقیقی حفاظت موقوف ہے تو اس دوسری آیت سے ظاہر ہے.3333۲ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کے بڑے فائدے دو ہیں جن کے پہنچانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے.ایک حکمت فرقان یعنی معارف و دقائق قرآن دوسری تاثیر قرآن جو موجب تزکیہ نفوس ہے اور قرآن کی حفاظت صرف اسی قدر نہیں جو اس کے صحف مکتوبہ کو خوب نگہبانی سے رکھیں کیونکہ ایسے کام تو اوائل حال میں یہود اور نصاریٰ نے بھی کئے یہاں تک کہ توریت کے نقطے بھی گن رکھے تھے بلکہ اس جگہ مع حفاظت ظاہری حفاظت فوائد و تاثیرات قرآنی مراد ہے اور وہ موافق سنت اللہ کے تبھی ہوسکتی ہے کہ جب وقتاً فوقتاً نائب رسول آویں جن میں ظلی طور پر رسالت کی تمام نعمتیں موجود ہوں اور جن کو وہ تمام برکات دی گئی ہوں جو نبیوں کو دی جاتی ہوں جیسا کہ ان آیات میں اسی امر عظیم کی طرف اشارہ ہے اور وہ یہ ہے 33333
پس یہ آیت درحقیقت اس دوسری آیت33۲ کے لئے بطور تفسیر کے واقعہ ہے اور اس سوال کا جواب دے رہی ہے کہ حفاظت قرآن کیونکر اور کس طور سے ہوگی سو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس نبی کریم کے خلیفے وقتاً فوقتاً بھیجتا رہوں گا اور خلیفہ کے لفظ کو اس اشارہ کے لئے اختیار کیا گیا کہ وہ نبی کے جانشین ہوں گے اور اس کی برکتوں میں سے حصہ پائیں گے جیسا کہ پہلے زمانوں میں ہوتا رہا.اور ان کے ہاتھ سے برجائی دین کی ہوگی اور خوف کے بعد امن پیدا ہوگا یعنی ایسے وقتوں میں آئیں گے کہ جب اسلام تفرقہ میں پڑا ہوگا پھر ان کے آنے کے بعد جو اُن سے سرکش رہے گا وہی لوگ بدکار اور فاسق ہیں.یہ اس بات کا جواب ہے کہ بعض جاہل کہا کرتے ہیں کہ کیا ہم پر اولیاء کا ماننا فرض ہے سو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بیشک فرض ہے اور ان سے مخالفت کرنے والے فاسق ہیں اگر مخالفت پر ہی مریں- اس جگہ معترض صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ333۳ اور پھر اعتراض کیاہے کہ جب کہ دین کمال کو پہنچ چکا ہے اور نعمت پوری ہوچکی تو پھر نہ کسی مجدد کی ضرورت ہے نہ کسی نبی کی مگر افسوس کہ معترض نے ایسا خیال کرکے خود قرآن کریم پر اعتراض کیا ہے کیونکہ قرآن کریم نے اس امت میں خلیفوں کے پیدا ہونے کا وعدہ کیا ہے جیسا کہ ابھی گذر چکا ہے اور فرمایا ہے کہ ان کے وقتوں میں دین استحکام پکڑے گا اور تزلزل اور تذبذب دور ہوگا.اور خوف کے بعد امن پیدا ہوگا پھر اگر تکمیل دین کے بعد کوئی بھی کارروائی درست نہیں تو بقول معترض کے جو تیس سال کی خلافت ہے وہ بھی باطل ٹھہرتی ہے کیونکہ جب دین کامل ہوچکا تو پھر کسی دوسرے کی ضرورت نہیں.لیکن افسوس کہ معترض بے خبر نے ناحق آیت اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیَْنَکُمْ کو پیش کردیا.ہم کب کہتے ہیں کہ مجدد اور محدث دنیا میں آکر دین میں سے کچھ کم کرتے ہیں یا زیادہ کرتے ہیں بلکہ ہمارا تو یہ قول ہے کہ ایک زمانہ
گذرنے کے بعد جب پاک تعلیم پرخیالات فاسدہ کا ایک غبار پڑ جاتا ہے اور حق خالص کا چہرہ چھپ جاتا ہے.تب اس خوبصورت چہرہ کو دکھلانے کے لئے مجدد اور محدث اور روحانی خلیفے آتے ہیں نہ معلوم کہ بے چارہ معترض نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ مجدد اور روحانی خلیفے دنیا میں آکر دین کی کچھ ترمیم و تنسیخ کرتے ہیں.نہیں وہ دین کو منسوخ کرنے نہیں آتے بلکہ دین کی چمک اور روشنی دکھانے کو آتے ہیں اور معترض کا یہ خیال کہ ان کی ضرورت ہی کیا ہے صرف اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ معترض کو اپنے دین کی پرواہ نہیں اور کبھی اس نے غور نہیں کی کہ اسلام کیا چیز ہے اور اسلام کی ترقی کس کو کہتے ہیں اور حقیقی ترقی کیونکر اور کن راہوں سے ہوسکتی ہے اور کس حالت میں کسی کو کہا جاتا ہے کہ وہ حقیقی طور پر مسلمان ہے یہی وجہ ہے کہ معترض صاحب اس بات کو کافی سمجھتے ہیں کہ قرآن موجود ہے اور علماء موجود ہیں اور خود بخود اکثر لوگوں کے دلوں کو اسلام کی طرف حرکت ہے پھر کسی مجدد کی کیا ضرورت ہے لیکن افسوس کہ معترض کو یہ سمجھ نہیں کہ مجددوں اور روحانی خلیفوں کی اس امت میں ایسے ہی طور سے ضرورت ہے جیسا کہ قدیم سے انبیاء کی ضرورت پیش آتی رہی ہے اس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نبی مرسل تھے اور ان کی توریت بنی اسرائیل کی تعلیم کے لئے کامل تھی اور جس طرح قرآن کریم میں آیت 3ہے اسی طرح توریت میں بھی آیات ہیں جن کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو ایک کامل اور جلالی کتاب دی گئی ہے جس کا نام توریت ہے چنانچہ قرآن کریم میں بھی توریت کی یہی تعریف ہے لیکن باوجود اس کے بعد توریت کے صدہا ایسے نبی بنی اسرائیل میں سے آئے کہ کوئی نئی کتاب ان کے ساتھ نہیں تھی بلکہ ان انبیاء کے ظہور کے مطالب یہ ہوتے تھے کہ تا ان کے موجودہ زمانہ میں جو لوگ تعلیم توریت سے دور پڑ گئے ہوں پھر ان کو توریت کے اصلی منشاء کی طرف کھینچیں اور جن کے دلوں میں کچھ شکوک اور دہریت اور بے ایمانی ہو گئی ہو ان کو پھر زندہ ایمان بخشیں چنانچہ اللہ جلّ شانہٗ خود قرآن کریم میں فرماتا ہے 33 ۱ یعنی موسیٰ کو ہم نے توریت دی اور پھر اس کتاب کے بعد ہم نے کئی پیغمبر بھیجے تا توریت کی تعلیم کی تائید اور تصدیق کریں اسی طرح دوسری جگہ فرماتا ہے 3
3 ۱ یعنی پھر پیچھے سے ہم نے اپنے رسول پے در پے بھیجے.پس ان تمام آیات سے ظاہر ہے کہ عادت اللہ یہی ہے کہ وہ اپنی کتاب بھیج کر پھر اس کی تائید اور تصدیق کے لئے ضرور انبیاء بھیجا کرتا ہے چنانچہ توریت کی تائید کے لئے ایک ایک وقت میں چار چار سو نبی بھی آیا جن کے آنے پر اب تک بائبل شہادت دے رہی ہے.اس کثرت ارسال رسل میں اصل بھید یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عہد موکد ہوچکا ہے کہ جو اس کی سچی کتاب کا انکار کرے تو اس کی سزا دائمی جہنم ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے 33 ۲ یعنی جو لوگ کافر ہوئے اور ہماری آیتوں کی تکذیب کی وہ جہنمی ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے.اب جب کہ سزائے انکار کتاب الٰہی میں ایسی سخت تھی اور دوسری طرف یہ مسئلہ نبوت اور وحی الٰہی کا نہایت دقیق تھا بلکہ خود خدا تعالیٰ کا وجود بھی ایسا دقیق در دقیق تھا کہ جب تک انسان کی آنکھ خدا داد نور سے منور نہ ہو ہرگز ممکن نہ تھا کہ سچی اور پاک معرفت اس کی حاصل ہوسکے چہ جائیکہ اس کے رسولوں کی معرفت اور اسکی کتاب کی معرفت حاصل ہو.اس لئے رحمانیت الٰہی نے تقاضا کیا کہ اندھی اور نابینا مخلوق کی بہت ہی مدد کی جائے اور صرف اس پر اکتفا نہ کیا جائے کہ ایک مرتبہ رسول اور کتاب بھیج کر پھر باوجود امتدادازمنہ طویلہ کے ان عقائد کے انکار کی وجہ سے جن کو بعد میں آنے والے زیادہ اس سے سمجھ نہیں سکتے کہ وہ ایک پاک اور عمدہ منقولات ہیں ہمیشہ کی جہنم میں منکروں کو ڈال دیا جائے اور درحقیقت سوچنے والے کے لئے یہ بات نہایت صاف اور روشن ہے کہ وہ خدا جس کا نام رحمن اور رحیم ہے اتنی بڑی سزا دینے کے لئے کیونکر یہ قانون اختیار کرسکتا ہے کہ بغیر پورے طور پر اتمام حجت کے مختلف بلاد کے ایسے لوگوں کو جنہوں نے صدہا برسوں کے بعد قرآن اور رسول کا نام سنا اور پھر وہ عربی سمجھ نہیں سکتے.قرآن کی خوبیوں کو دیکھ نہیں سکتے دائمی جہنم میں ڈال دے اور کس انسان کی کانشنس اس بات کو قبول کر سکتی ہے کہ بغیر اس کے کہ قرآن کریم کا منجاب اللہ ہونا اس پر ثابت کیا جائے
یوں ہی اس پر چھری پھیر دی جائے پس یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے دائمی خلیفوں کا وعدہ دیا تا وہ ظلی طور پر انوار نبوت پاکر دنیا کو ملزم کریں اور قرآن کریم کی خوبیاں اور اس کی پاک برکات لوگوں کو دکھلاویں.یہ بھی یاد رہے کہ ہریک زمانہ کے لئے اتمام حجت بھی مختلف رنگوں سے ہوا کرتا ہے اور مجدد وقت ان قوتوں اور ملکوں اور کمالات کے ساتھ آتا ہے جو موجودہ مفاسد کا اصلاح پانا ان کمالات پر موقوف ہوتا ہے سو ہمیشہ خدا تعالیٰ اسی طرح کرتا رہے گا جب تک کہ اس کو منظور ہے کہ آثار رشد اور اصلاح کے دنیا میں باقی رہیں اور یہ باتیں بے ثبوت نہیں بلکہ نظائر متواترہ اس کے شاہد ہیں اور مختلف بلاد کے نبیوں اور مرسلوں اور محدثوں کو چھوڑ کر اگر صرف بنی اسرائیل کے نبیوں اور مرسلوں اور محدثوں پر ہی نظر ڈالی جائے تو ان کی کتابوں کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ چودہ۱۴۰۰ سو برس کے عرصہ میں یعنی حضرت موسیٰ سے حضرت مسیح تک ہزارہا نبی اور محدث ان میں پیدا ہوئے کہ جو خادموں کی طرح کمر بستہ ہوکر توریت کی خدمت میں مصروف رہے.چنانچہ ان تمام بیانات پر قرآن شاہد ہے اور بائیبل شہادت دے رہی ہے اور وہ نبی کوئی نئی کتاب نہیں لاتے تھے کوئی نیا دین نہیں سکھاتے تھے صرف توریت کے خادم تھے اور جب بنی اسرائیل میں دہریت اور بے ایمانی اور بدچلنی اور سنگدلی پھیل جاتی تھی تو ایسے وقتوں میں وہ ظہور کرتے تھے.اب کوئی سوچنے والا سوچے کہ جس حالت میں موسیٰؑ کی ایک محدود شریعت کے لئے جو زمین کی تمام قوموں کیلئے نہیں تھی اور نہ قیامت تک اس کا دامن پھیلا ہوا تھا خدا تعالیٰ نے یہ احتیاطیں کیں کہ ہزارہا نبی اس شریعت کی تجدید کیلئے بھیجے اور بارہا آنے والے نبیوں نے ایسے نشان دکھلائے کہ گویا بنی اسرائیل نے نئے سرے خدا کو دیکھ لیا تو پھر یہ امت جو خیرالا مم کہلاتی ہے اور خیر الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے لٹک رہی ہے کیونکر ایسی بدقسمت سمجھی جائے کہ خدا تعالیٰ نے صرف تیس برس اس کی طرف نظر رحمت کر کے اور آسمانی انوار دکھلا کر پھر اس سے منہ پھیر لیا اور پھر اس امت پر اپنے نبی کریم کی مفارقت میں صدہا برس گذرے اور ہزارہا طور کے فتنے پڑے اور بڑے بڑے زلزلے آئے اور انواع و اقسام کی دجالیت پھیلی اور ایک جہان نے دین متین پر
حملے کئے اور تمام برکات اور معجزات سے انکار کیا گیا اور مقبول کونا مقبول ٹھہرایا گیا لیکن خدا تعالیٰ نے پھر کبھی نظر اٹھا کر اس امت کی طرف نہ دیکھا اور اس کو کبھی اس امت پر رحم نہ آیا اور کبھی اس کو یہ خیال نہ آیا کہ یہ لوگ بھی تو بنی اسرائیل کی طرح انسان ضعیف البنیان ہیں اور یہودیوں کی طرح ان کے پودے بھی آسمانی آبپاشی کے ہمیشہ محتاج ہیں کیا اس کریم خدا سے ایسا ہوسکتا ہے جس نے اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ کے مفاسد کے دور کرنے کے لئے بھیجا تھا کیا ہم یہ گمان کر سکتے ہیں کہ پہلی امتوں پر تو خدا تعالیٰ کا رحم تھا اس لئے اس نے توریت کو بھیج کر پھر ہزارہا رسول اور محدث توریت کی تائید کے لئے اور دلوں کو بار بار زندہ کرنے کے لئے بھیجے لیکن یہ امت مورد غضب تھی اس لئے اس نے قرآن کریم کو نازل کرکے ان سب باتوں کو بھلا دیا اور ہمیشہ کے لئے علماء کو ان کی عقل اور اجتہاد پر چھوڑ دیا اور حضرت موسیٰ کی نسبت تو صاف فرمایا333 3 3 ۱ یعنی خدا موسیٰ سے ہمکلام ہوا اور اس کی تائید اور تصدیق کے لئے رسول بھیجے جو مبشر اور منذر تھے تاکہ لوگوں کی کوئی حجت باقی نہ رہے اور نبیوں کا مسلسل گروہ دیکھ کر توریت پر دلی صدق سے ایمان لاویں.اور فرمایا333 ۲ یعنی ہم نے بہت سے رسول بھیجے اور بعض کا تو ہم نے ذکر کیا اور بعض کا ذکر بھی نہیں کیا لیکن دین اسلام کے طالبوں کے لئے وہ انتظام نہ کیا گویا جو رحمت اور عنایت باری حضرت موسیٰ کی قوم پر تھی وہ اس امت پر نہیں ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ ہمیشہ امتداد زمانہ کے بعد پہلے معجزات اور کرامات قصہ کے رنگ میں ہوجاتے ہیں اور پھر آنے والی نسلیں اپنے گروہ کو ہریک امر خارق عادت سے بے بہرہ دیکھ کر آخر گذشتہ معجزات کی نسبت شک پیدا کرتی ہیں پھر جس حالت میں بنی اسرائیل کے ہزار ہا انبیاء کا نمونہ آنکھوں کے سامنے ہے تو اس سے اور بھی بیدلی اس امت کو پیدا ہوگی اور اپنے تئیں بدقسمت پاکر بنی اسرائیل کو رشک کی نگہہ سے دیکھیں گے یا بدخیالات میں گرفتار ہوکر ان کے قصوں کو بھی صرف افسانجات
خیال کریں گے اور یہ قول کہ پہلے اس سے ہزارہا انبیاء ہوچکے اور معجزات بھی بکثرت ہوئے اس لئے اس امت کوخوارق اور کرامات اور برکات کی کچھ ضرورت نہیں تھی لہٰذا خدا تعالیٰ نے ان کو سب باتوں سے محروم رکھا.یہ صرف کہنے کی باتیں ہیں جنہیں وہ لوگ منہ پر لاتے ہیں جن کو ایمان کی کچھ بھی پرواہ نہیں ورنہ انسان نہایت ضعیف اور ہمیشہ تقویت ایمان کا محتاج ہے اور اس راہ میں اپنے خود ساختہ دلائل کبھی کام نہیں آسکتے جب تک تازہ طور پر معلوم نہ ہو کہ خدا موجود ہے ہاں جھوٹا ایمان جو بدکاریوں کو روک نہیں سکتا نقلی اور عقلی طور پر قائم رہ سکتا ہے اور اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ دین کی تکمیل اس بات کو مستلزم نہیں جو اس کی مناسب حفاظت سے بکلی دستبردار ہو جائے مثلاً اگر کوئی گھر بنادے اور اس کے تمام کمرے سلیقہ سے طیار کرے اور اس کی تمام ضرورتیں جو عمارت کے متعلق ہیں باحسن وجہ پوری کردیوے اور پھر مدت کے بعد اندھیریاں چلیں اور بارشیں ہوں اور اس گھر کے نقش و نگار پر گردوغبار بیٹھ جاوے اور اس کی خوبصورتی چُھپ جاوے اورپھر اس کا کوئی وارث اس گھر کو صاف اور سفید کرنا چاہے مگر اس کو منع کر دیا جاوے کہ گھر تو مکمل ہو چکا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ منع کرنا سراسر حماقت ہے افسوس کہ ایسے اعتراضات کرنے والے نہیں سوچتے کہ تکمیل شے دیگر ہے اور وقتاً فوقتاً ایک مکمل عمارت کی صفائی کرنا یہ اور بات ہے.یہ یادر رہے کہ مجدد لوگ دین میں کچھ کمی بیشی نہیں کرتے ہاں گمشدہ دین کو پھر دلوں میں قائم کرتے ہیں اور یہ کہنا کہ مجددوں پر ایمان لانا کچھ فرض نہیں خدا تعالیٰ کے حکم سے انحراف ہے کیونکہ وہ فرماتا ہے 333 ۱ یعنی بعد اس کے جو خلیفے بھیجے جائیں پھر جو شخص ان کا منکر رہے وہ فاسقوں میں سے ہے.اب خلاصہ اس تمام تقریر کا کسی قدر اختصار کے ساتھ ہم ذیل میں لکھتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ دلائل مندرجہ ذیل سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بات نہایت ضروری ہے کہ بعد وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس امت میں فساد اور فتنوں کے وقتوں میں ایسے مصلح آتے رہیں جن کو انبیاء کے کئی کاموں میں سے یہ ایک کام سپرد ہو کہ وہ دین حق کی طرف دعوت کریں اور ہریک بدعت جو دین سے مل گئی ہو
اس کو دور کریں اور آسمانی روشنی پاکر دین کی صداقت ہریک پہلو سے لوگوں کو دکھلاویں اور اپنے پاک نمونہ سے لوگوں کو سچائی اور محبت اور پاکیزگی کی طرف کھینچیں اور وہ دلائل یہ ہیں.اول یہ کہ اس بات کو عقل ضروری تجویز کرتی ہے کہ چونکہ الٰہیات اور امور معاد کے مسائل نہایت باریک اور نظری ہیں گویا تمام امور غیر مرئی اور فوق العقل پر ایمان لانا پڑتا ہے نہ خدا تعالیٰ کبھی کسی کو نظر آیا نہ کبھی کسی نے بہشت دیکھی اور نہ دوزخ کا ملاحظہ کیا اور نہ ملائک سے ملاقات ہوئی اور علاوہ اس کے احکام الٰہی مخالف جذبات نفس ہیں اور نفس امارہ جن باتوں میں لذت پاتا ہے احکام الٰہی ان سے منع کرتے ہیں لہٰذا عندالعقل یہ بات نہ صرف احسن بلکہ واجب ہے کہ خدا تعالیٰ کے پاک نبی جو شریعت اور کتاب لے کر آتے ہیں اور اپنے نفس میں تاثیر اور قوت قدسیہ رکھتے ہیں یا تو وہ ایک لمبی عمر لے کر آویں اور ہمیشہ اور ہر صدی میں ہریک اپنی نئی امت کو اپنی ملاقات اور صحبت سے شرف بخشیں اور اپنے زیر سایہ رکھ کر اور اپنے ُ پر فیض پروں کے نیچے انکو لے کر وہ برکت اور نور اور روحانی معرفت پہنچاویں جو انہوں نے ابتداء زمانہ میں پہنچائی تھی اور اگر ایسا نہیں تو پھر ان کے وارث جو انہیں کے کمالات اپنے اندر رکھتے ہوں اور کتاب الٰہی کے دقائق اور معارف کو وحی اور الہام سے بیان کرسکتے ہوں اور منقولات کو مشہودات کے پیرایہ میں دکھلا سکتے ہوں اور طالب حق کو یقین تک پہنچا سکتے ہوں ہمیشہ فتنہ اور فساد کے وقتوں میں ضرور پیدا ہونی چاہیئے تا انسان جو مغلوب شبہات و نسیان ہے ان کے فیض حقیقی سے محروم نہ رہے.کیونکہ یہ بات نہایت صاف اور بدیہی ہے کہ جب زمانہ ایک نبی کا اپنے خاتمہ کو پہنچتا ہے اور اس کی برکات کے دیکھنے والے فوت ہوجاتے ہیں تو وہ تمام مشہودات منقولات کے رنگ میں آجاتے ہیں.پھر دوسری صدی کے لوگوں کی نظر میں اس نبی کے اخلاق اور اس نبی کے عبادات اور اس نبی کا صبر اور استقامت اور صدق اور صفا اور وفا اور تمام تائیدات الٰہیہ اور خوارق اور معجزات جن سے اس کی صحت نبوت اور صداقت دعویٰ پر استدلال ہوتے تھے نئی صدی کے لوگوں کو کچھ قصے سے معلوم ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ انشراح ایمانی اور جوش اطاعت جو نبی کے دیکھنے والوں میں ہوتا ہے دوسروں میں وہ بات پائی نہیں جاتی اور صاف ظاہر ہے کہ جو کچھ
صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمانی صدق دکھلایا اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں اوراپنی آبرؤں کو اسلام کی راہوں میں نہایت اخلاص سے قربان کیا اس کا نمونہ اور صدیوں میں تو کجا خود دوسری صدی کے لوگوں یعنی تابعین میں بھی نہیں پایا گیا اس کی کیا وجہ تھی؟ یہی تو تھی کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس مرد صادق کا منہ دیکھا تھا جس کے عاشق اللہ ہونے کی گواہی کفار قریش کے منہ سے بھی بے ساختہ نکل گئی اور روز کی مناجاتوں اور پیار کے سجدوں کو دیکھ کر اور فنافی الاطاعت کی حالت اور کمال محبت اور دلدادگی کے منہ پر روشن نشانیاں اور اس پاک منہ پر نور الٰہی برستا مشاہدہ کرکے کہتے تھے عَشِقَ مُحَمَّدٌ عَلٰی رَبّہٖ کہ محمد ؐ اپنے رب پر عاشق ہوگیا ہے اور پھر صحابہ نے صرف وہ صدق اور محبت اور اخلاص ہی نہیں دیکھا بلکہ اس پیار کے مقابل پر جو ہمارے سید محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل سے ایک دریا کی طرح جوش مارتا تھا خدا تعالیٰ کے پیار کو بھی تائیدات خارق عادت کے رنگ میں مشاہدہ کیا تب ان کو پتہ لگ گیا کہ خدا ہے اور ان کے دل بول اٹھے کہ وہ خدا اس مرد کے ساتھ ہے انہوں نے اس قدر عجائبات الٰہیہ دیکھے اور اس قدر نشان آسمانی مشاہدہ کئے کہ ان کو کچھ بھی اس بات میں شک نہ رہا کہ فی الحقیقت ایک اعلیٰ ذات موجود ہے جس کا نام خدا ہے اور جس کے قبضہ قدرت میں ہریک امر ہے اور جس کے آگے کوئی بات بھی انہونی نہیں اسی وجہ سے انہوں نے وہ کام صدق و صفا کے دکھلائے اور وہ جانفشانیاں کیں کہ انسان کبھی کر نہیں سکتا.جب تک اس کے تمام شک و شبہ دور نہ ہوجائیں اور انہوں نے بچشم خود دیکھ لیا کہ وہ ذات پاک اسی میں راضی ہے کہ انسان اسلام میں داخل ہو اور اس کے رسول کریم کی بدل و جان متابعت اختیار کرے تب اس حق الیقین کے بعد جو کچھ انہوں نے متابعت دکھلائی اور جو کچھ انہوں نے متابعت کے جوش سے کام کئے اور جس طرح پر اپنی جانوں کو اپنے برگزیدہ ہادی کے آگے پھینک دیا یہ وہ باتیں ہیں کہ کبھی ممکن ہی نہیں کہ انسان کو حاصل ہو سکیں جب تک کہ وہی بہار اس کی نظر کے سامنے نہ ہو جو صحابہ پر آئی تھی اور جب کہ ان کمالات کو پیدا کرنا بغیر وجود ان وسائل کے محالات میں سے ہے اور نجات کا یقینی طور پر حاصل ہونا بھی بغیر ذریعہ ان کمالات کے از قبیل محال
تو ضروری ہوا کہ وہ خدا وند کریم جس نے ہر ایک کو نجات کے لئے بلایا ہے ایسا ہی انتظام ہریک صدی کے لئے رکھے تا اس کے بندے کسی زمانہ میں حق الیقین کے مراتب سے محروم نہ رہیں.اور یہ کہنا کہ ہمارے لئے قرآن اور احادیث کافی ہیں اور صحبت صادقین کی ضرورت نہیں یہ خود مخالفت تعلیم قرآن ہے کیونکہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے 33 ۱ اور صادق وہ ہیں جنہوں نے صدق کو علیٰ وجہ البصیرت شناخت کیا اور پھر اس پر دل و جان سے قائم ہو گئے اور یہ اعلیٰ درجہ بصیرت کا بجز اس کے ممکن نہیں کہ سماوی تائید شامل حال ہوکر اعلیٰ مرتبہ حق الیقین تک پہنچا دیوے پس ان معنوں کرکے صادق حقیقی انبیاء اور رسل اور محدث اور اولیاء کاملین مکملین ہیں جن پر آسمانی روشنی پڑی اور جنہوں نے خدا تعالیٰ کو اسی جہان میں یقین کی آنکھوں سے دیکھ لیا اور آیت موصوفہ بالا بطور اشارت ظاہر کررہی ہے کہ دنیا صادقوں کے وجود سے کبھی خالی نہیں ہوتی کیونکہ دوام حکم 33دوام وجود صادقین کو مستلزم ہے.علاوہ اس کے مشاہدہ صاف بتلا رہا ہے کہ جو لوگ صادقوں کی صحبت سے لاپروا ہوکر عمر گذارتے ہیں ان کے علوم و فنون جسمانی جذبات سے ان کو ہرگز صاف نہیں کرسکتے اور کم سے کم اتنا ہی مرتبہ اسلام کاکہ دلی یقین اس بات پر ہوکہ خدا ہے ان کو ہرگز حاصل نہیں ہوسکتا اور جس طرح وہ اپنی اس دولت پر یقین رکھتے ہیں جو ان کے صندوقوں میں بند ہو یا اپنے ان مکانات پر جو ان کے قبضہ میں ہوں ہرگز ان کو ایسا یقین خدا تعالیٰ پر نہیں ہوتا وہ سم الفار کھانے سے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ یقیناً جانتے ہیں کہ وہ ایک زہر مہلک ہے لیکن گناہوں کی زہر سے نہیں ڈرتے حالانکہ ہر روز قرآن میں پڑھتے ہیں 333 ۲ پس سچ تو یہ ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کو نہیں پہچانتا وہ قرآن کو بھی نہیں پہچان سکتا.ہاں یہ بات بھی درست ہے کہ قرآن ہدایت کیلئے نازل ہوا ہے مگر قرآن کی ہدایتیں اس شخص کے وجود کے ساتھ وابستہ ہیں جس پر قرآن نازل ہوا یا وہ شخص جو منجانب اللہ اس کا قائم مقام ٹھہرایا گیا اگر قرآن
اکیلا ہی کافی ہوتا تو خدا تعالیٰ قادر تھا کہ قدرتی طور پر درختوں کے پتوں پر قرآن لکھا جاتا یا لکھا لکھایا آسمان سے نازل ہو جاتا مگر خدا تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا بلکہ قرآن کو دنیا میں نہیں بھیجا جب تک معلم القرآن دنیا میں نہیں بھیجا گیا.قرآن کریم کو کھول کر دیکھو کتنے مقام میں اس مضمون کی آیتیں ہیں کہ33 ۱ یعنی وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن اور قرآنی حکمت لوگوں سکھلاتا ہے اورپھر ایک جگہ اور فرماتا ہے3 ۲ یعنی قرآن کے حقائق و دقائق ان ہی پر کھلتے ہیں جو پاک کئے گئے ہیں.پس ان آیات سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کے سمجھنے کے لئے ایک ایسے معلم کی ضرورت ہے جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پاک کیا ہو اگر قرآن کے سیکھنے کے لئے معلم کی حاجت نہ ہوتی تو ابتدائے زمانہ میں بھی نہ ہوتی اور یہ کہنا کہ ابتداء میں تو حل مشکلات قرآن کے لئے ایک معلم کی ضرورت تھی لیکن جب حل ہو گئیں تو اب کیا ضرورت ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ حل شدہ بھی ایک مدت کے بعد پھر قابل حل ہوجاتی ہیں ماسوا اس کے امت کو ہر ایک زمانہ میں نئی مشکلات بھی تو پیش آتی ہیں اور قرآن جامع جمیع علوم تو ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ایک ہی زمانہ میں اس کے تمام علوم ظاہر ہو جائیں بلکہ جیسی جیسی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے ویسے ویسے قرآنی علوم کھلتے ہیں اور ہریک زمانہ کی مشکلات کے مناسب حال ان مشکلات کو حل کرنے والے روحانی معلم بھیجے جاتے ہیں جو وارث رسل ہوتے ہیں اور ظلی طور پر رسولوں کے کمالات کوپاتے ہیں.اور جس مجدد کی کارروائیاں کسی ایک رسول کی منصبی کارروائیوں سے شدید مشابہت رکھتی ہیں وہ عند اللہ اسی رسول کے نام سے پکارا جاتا ہے.اور نئے معلموں کی اس و جہ سے بھی ضرورت پڑتی ہے کہ بعض حصے تعلیم قرآن شریف کے ازقبیل حال ہیں نہ از قبیل قال.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پہلے معلم اور اصل وارث اس تخت کے ہیں حالی طور پر ان دقائق کو اپنے صحابہؓ کو سمجھایا ہے مثلاً خدا تعالیٰ کا یہ کہنا کہ میں عالم الغیب ہوں اور میں مجیب الدعوات ہوں اور میں قادر ہوں اور میں دعاؤں کو قبول کرتا ہوں اور طالبوں کو حقیقی روشنی تک پہنچاتا ہوں اور میں اپنے صادق بندوں کو الہام دیتا ہوں اور جس پر چاہتا ہوں
اپنے بندوں میں سے اپنی روح ڈالتا ہوں یہ تمام باتیں ایسی ہیں کہ جب تک معلم خود ان کا نمونہ بن کر نہ دکھلاوے تب تک یہ کسی طرح سمجھ ہی نہیں آسکتیں پس ظاہر ہے کہ صرف ظاہری علماء جوخود اندھے ہیں ان تعلیمات کو سمجھا نہیں سکتے بلکہ وہ تو اپنے شاگردوں کو ہر وقت اسلام کی عظمت سے بدظن کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ باتیں آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہیں اور ان کے ایسے بیانات سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ گویا اسلام اب زندہ مذہب نہیں اور اس کی حقیقی تعلیم پانے کے لئے اب کوئی بھی راہ نہیں لیکن ظاہر ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کا اپنی مخلوق کے لئے یہ ارادہ ہے کہ وہ ہمیشہ قرآن کریم کے چشمہ سے ان کو پانی پلاوے تو بے شک وہ اپنے ان قوانین قدیمہ کی رعایت کرے گا جو قدیم سے کرتا آیا ہے.اور اگر قرآن کی تعلیم صرف اسی حد تک محدود ہے جس حد تک ایک تجربہ کار اور لطیف الفکر فلاسفر کی تعلیم محدود ہوسکتی ہے اور آسمانی تعلیم جو محض حال کے نمونہ سے سمجھائی جاتی ہے اس میں نہیں تو پھر نعوذ باللہ قرآن کا آنا لاحاصل ہے.مگر میں جانتا ہوں کہ اگر کوئی ایک دم کے واسطے بھی اس مسئلہ میں فکر کرے کہ انبیاء کی تعلیم اور حکیموں کی تعلیم میں بصورت فرض کرنے صحت ہردو تعلیم کے مابہ الامتیاز کیا ہے تو بجز اس کے اور کوئی مابہ الامتیاز قرار نہیں دے سکتا کہ انبیاء کی تعلیم کا بہت سا حصہ فوق العقل ہے جو بجز حالی تفہیم اور تعلیم کے اور کسی راہ سے سمجھ ہی نہیں آسکتا اور اس حصہ کو وہی لوگ دلنشین کرا سکتے ہیں جو صاحب حال ہوں مثلاً ایسے ایسے مسائل کہ اس طرح پر فرشتے جان نکالتے ہیں اور پھر یوں آسمان پر لے جاتے ہیں اور پھر قبر میں حساب اس طور سے ہوتا ہے اور بہشت ایسا ہے اور دوزخ ایسا اور پل صراط ایسا اور عرش اللہ کو چار فرشتے اٹھا رہے ہیں اور پھر قیامت کو آٹھ اٹھائیں گے اور اس طرح پر خدا اپنے بندوں پر وحی نازل کرتا ہے یا مکاشفات کا دروازہ ان پر کھولتا ہے یہ تمام حالی تعلیم ہے اور مجردقیل وقال سے سمجھ نہیں آسکتی اور جب کہ یہ حال ہے تو پھر میں دوبارہ کہتا ہوں کہ اگر اللہ جلّ شانہٗ نے اپنے بندوں کے لئے یہ ارادہ فرمایا ہے کہ اس کی کتاب کا یہ حصہ تعلیم ابتدائی زمانہ تک محدود نہ رہے تو بے شک اس نے یہ بھی انتظام کیا ہوگا کہ اس حصہ تعلیم کے معلم بھی ہمیشہ آتے رہیں کیونکہ حصہ حالی تعلیم کا بغیر توسّط
ان معلموں کے جو مرتبہ حال پر پہنچ گئے ہوں ہرگز سمجھ نہیں آسکتا اور دنیا ذرہ ذرہ بات پر ٹھوکریں کھاتی ہے پس اگر اسلام میں بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے معلم نہیں آئے جن میں ظلی طور پر نور نبوت تھا تو گویا خدا تعالیٰ نے عمدً ا قرآن کو ضائع کیا کہ اس کے حقیقی اور واقعی طور پر سمجھنے والے بہت جلد دنیا سے اٹھا لئے مگر یہ بات اس کے وعدہ کے بر خلاف ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے3 ۱ یعنی ہم نے ہی قرآن کو اتارا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرتے رہیں گے.اب میں نہیں سمجھ سکتاکہ اگر قرآن کے سمجھنے والے ہی باقی نہ رہے اور اس پر یقینی اورحالی طورپر ایمان لانے والے زاویہ عدم میں مختفی ہوگئے تو پھر قرآن کی حفاظت کیا ہوئی.کیا حفاظت سے یہ حفاظت مراد ہے کہ قرآن بہت سے خوشخط نسخوں میں تحریر ہوکر قیامت تک صندوقوں میں بند رہے گا جیسے بعض مدفون خزانے گو کسی کے کام نہیں آتے مگر زمین کے نیچے محفوظ پڑے رہتے ہیں.کیا کوئی سمجھ سکتاہے کہ اس آیت سے خدا تعالیٰ کا یہی منشاء ہے.اگر یہی منشاء ہے تو ایسی حفاظت کوئی کمال کی بات نہیں بلکہ یہ تو ہنسی کی بات ہے اور ایسی حفاظت کا منہ پر لانا دشمنوں سے ٹھٹھا کرانا ہے کیونکہ جبکہ علت غائی مفقود ہو تو ظاہری حفاظت سے کیا فائدہ ممکن ہے کہ کسی گڑھے میں کوئی نسخہ انجیل یا توریت کا بھی ایسا ہی محفوظ پڑا ہو اور دنیا میں تو ہزارہا کتابیں اسی قسم کی پائی جاتی ہیں کہ جو یقینی طورپر بغیر کسی کمی بیشی کے کسی مؤلف کی تالیف سمجھی گئی ہیں تو اس میں کمال کیا ہوا اور امت کو خصوصیت کے ساتھ فائدہ کیا پہنچا گو اس سے انکار نہیں کہ قرآن کی حفاظت ظاہری بھی دنیا کی تمام کتابوں سے بڑھ کر ہے اور خارق عادت بھی لیکن خدا تعالیٰ جس کی روحانی امور پر نظر ہے ہرگز اس کی ذات کی نسبت یہ گمان نہیں کرسکتے کہ اتنی حفاظت سے مراد صرف الفاظ اور حروف کا محفوظ رکھنا ہی مراد لیا ہے حالانکہ ذکر کا لفظ بھی صریح گواہی دے رہا ہے کہ قرآن بحیثیت ذکر ہونے کے قیامت تک محفوظ رہے گا اور اس کے حقیقی ذاکر ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے اور اس پر ایک اور آیت بھی بین قرینہ ہے اور وہ یہ ہے3 ۲ یعنی قرآن آیات بینات ہیں جو اہل علم کے سینوں میں ہیں.پس ظاہر ہے کہ اس آیت کے یہی معنی ہیں کہ
مومنوں کو قرآن کریم کا علم اور نیز اس پر عمل عطا کیا گیا ہے اور جب کہ قرآن کی جگہ مومنوں کے سینے ٹھہرے تو پھر یہ آیت کہ 33۱ بجز اس کے اور کیا معنی رکھتی ہے کہ قرآن سینوں سے محو نہیں کیا جائے گا جس طرح کہ توریت اور انجیل یہود اور نصاریٰ کے سینوں سے محو کی گئی اور گو توریت اور انجیل ان کے ہاتھوں اور ان کے صندوقوں میں تھی لیکن ان کے دلوں سے محو ہو گئی یعنی ان کے دل اس پر قائم نہ رہے اور انہوں نے توریت اور انجیل کو اپنے دلوں میں قائم اور بحال نہ کیا.غرض یہ آیت بلند آواز سے پکار رہی ہے کہ کوئی حصہ تعلیم قرآن کا برباد اور ضائع نہیں ہوگا اور جس طرح روز اوّل سے اس کا پودا دلوں میں جمایا گیا.یہی سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا.دوم جس طرح پر کہ عقل اس بات کو واجب اور متحتم ٹھہراتی ہے کہ کتب الٰہی کی دائمی تعلیم اور تفہیم کے لئے ضروری ہے کہ ہمیشہ انبیاء کی طرح وقتاً فوقتاً ملہم اور مکلم اور صاحب علم لدنی پیدا ہوتے رہیں اسی طرح جب ہم قرآن پر نظر ڈالتے ہیں اور غور کی نِگہ سے اس کو دیکھتے ہیں تو وہ بھی بآواز بلند یہی فرما رہا ہے کہ روحانی معلموں کا ہمیشہ کے لئے ہونا اس کے ارادہ قدیمہ میں مقرر ہوچکا ہے دیکھو اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے333۲ الجزو نمبر۱۳ یعنی جو چیز انسانوں کو نفع پہنچاتی ہے وہ زمین پر باقی رہتی ہے اب ظاہر ہے کہ دنیا میں زیادہ تر انسانوں کو نفع پہنچانے والے گروہ انبیاء ہیں کہ جو خوارق سے معجزات سے پیشگویوں سے حقائق سے معارف سے اپنی راستبازی کے نمونہ سے انسانوں کے ایمان کو قوی کرتے ہیں اور حق کے طالبوں کو دینی نفع پہنچاتے ہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ دنیا میں کچھ بہت مدت تک نہیں رہتے بلکہ تھوڑی سی زندگی بسر کرکے اس عالم سے اٹھائے جاتے ہیں لیکن آیت کے مضمون میں خلاف نہیں اور ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ کا کلام خلاف واقع ہو.پس انبیاء کی طرف نسبت دیکر معنی آیت کے یوں ہوں گے کہ انبیاء من حیث الظل باقی رکھے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ ظلی طور پر ہریک ضرورت کے وقت میں کسی اپنے بندہ کو ان کی نظیر اور مثیل
پیدا کردیتا ہے جو انہیں کے رنگ میں ہوکر ان کی دائمی زندگی کا موجب ہوتا ہے اور اسی ظلی وجود کے قائم رکھنے کے لئے خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ دعا سکھائی ہے333۱ یعنی اے خدا ہمارے ہمیں وہ سیدھی راہ دکھا جو تیرے ان بندوں کی راہ ہے جن پر تیرا انعام ہے اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کا انعام جو انبیاء پر ہوا تھا جس کے مانگنے کے لئے اس دعا میں حکم ہے وہ درم اور دینار کی قسم میں سے نہیں بلکہ وہ انوار اور برکات اور محبت اور یقین اور خوارق اور تائید سماوی اور قبولیت اور معرفت تامہ کاملہ ا ور وحی اور کشف کا انعام ہے اور خدا تعالیٰ نے اس امت کو اس انعام کے مانگنے کے لئے تبھی حکم فرمایا کہ اول اس انعام کے عطا کرنے کا ارادہ بھی کرلیا.پس اس آیت سے بھی کھلے کھلے طور پر یہی ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ اس امت کو ظلی طور پر تمام انبیاء کا وارث ٹھہراتا ہے تا انبیاء کا وجود ظلی طور پر ہمیشہ باقی رہے اور دنیا ان کے وجود سے کبھی خالی نہ ہو اور نہ صرف دعا کے لئے حکم کیا بلکہ ایک آیت میں وعدہ بھی فرمایا ہے اور وہ یہ ہے33 ۲ یعنی جو لوگ ہماری راہ میں جو صراط مستقیم ہے مجاہدہ کریں گے تو ہم ان کو اپنی راہیں بتلا دیں گے اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہیں وہی ہیں جو انبیاء کو دکھلائی گئیں تھیں.پھر بعض اور آیات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ضرور خداوند کریم نے یہی ارادہ فرمایا ہے کہ روحانی معلم جو انبیاء کے وارث ہیں ہمیشہ ہوتے رہیں اور وہ یہ ہیں.3 3333۳ 3 3 333۴الجزونمبر۱۳33۵ یعنی خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے اے مومنان امت محمدیہ وعدہ کیا ہے کہ تمہیں بھی وہ زمین میں خلیفہ کرے گا جیسا کہ تم سے پہلوں کو کیا.اور ہمیشہ
کفار پر کسی قسم کی کوفتیں جسمانی ہوں یا روحانی پڑتی رہیں گی یا ان کے گھر سے نزدیک آجائیں گی.یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ آپہنچے گا.اور خدا تعالیٰ اپنے وعدوں میں تخلف نہیں کرتا.اور ہم کسی قوم پر عذاب نازل نہیں کرتے جب تک ایک رسول بھیج نہ لیں.ان آیات کو اگر کوئی شخص تامل اور غور کی نظر سے دیکھے تو میں کیونکر کہوں کہ وہ اس بات کو سمجھ نہ جائے کہ خدا تعالیٰ اس امت کے لئے خلافت دائمی کا صاف وعدہ فرماتا ہے اگر خلافت دائمی نہیں تھی تو شریعت موسوی کے خلیفوں سے تشبیہہ دینا کیا معنی رکھتا تھا اور اگر خلافت راشدہ صرف تیس برس تک رہ کر پھر ہمیشہ کے لئے اس کا دور ختم ہوگیا تھا تواس سے لازم آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا ہرگز یہ ارادہ نہ تھا کہ اس امت پر ہمیشہ کے لئے ابواب سعادت مفتوح رکھے کیونکہ روحانی سلسلہ کی موت سے دین کی موت لازم آتی ہے اور ایسا مذہب ہرگز زندہ نہیں کہلا سکتا جس کے قبول کرنے والے خود اپنی زبان سے ہی یہ اقرار کریں کہ تیرہ ۱۳۰۰سو برس سے یہ مذہب مرا ہوا ہے اور خدا تعالیٰ نے اس مذہب کے لئے ہرگز یہ ارادہ نہیں کیا کہ حقیقی زندگی کا وہ نور جو نبی کریم کے سینہ میں تھا وہ توارث کے طور پر دوسروں میں چلا آوے.افسوس کہ ایسے خیال پر جمنے والے خلیفہ کے لفظ کو بھی جو استخلاف سے مفہوم ہوتا ہے تدبّر سے نہیں سوچتے کیونکہ خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہوسکتا ہے جو ظلی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو اس واسطے رسول کریم نے نہ چاہا کہ ظالم بادشاہوں پر خلیفہ کا لفظ اطلاق ہوکیونکہ خلیفہ درحقیقت رسول کاظلّ ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہٰذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولیٰ ہیں ظلی طور پر ہمیشہ کیلئے تاقیامت قائم رکھے سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تادنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے پس جو شخص خلافت کو صرف تیس برس تک مانتا ہے وہ اپنی نادانی سے خلافت کی علت غائی کو نظر انداز کرتا ہے اورنہیں جانتا کہ خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ تو ہرگز نہیں تھا کہ رسول کریم
کی وفات کے بعد صرف تیس برس تک رسالت کی برکتوں کو خلیفوں کے لباس میں قائم رکھنا ضروری ہے پھر بعد اس کے دنیا تباہ ہو جائے تو ہوجائے کچھ پرواہ نہیں بلکہ پہلے دنوں میں تو خلیفوں کا ہونا بجز شوکت اسلام پھیلانے کے کچھ اور زیادہ ضرورت نہیں رکھتا تھا کیونکہ انواررسالت اور کمالات نبوت تازہ بتازہ پھیل رہے تھے اور ہزارہا معجزات بارش کی طرح ابھی نازل ہوچکے تھے اور اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو اس کی سنت اور قانون سے یہ بھی بعید نہ تھا کہ بجائے ان چار خلیفوں کے اس تیس برس کے عرصہ تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کوہی بڑھا دیتا اس حساب سے تیس برس کے ختم ہونے تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کل ۹۳ برس کی عمر تک پہنچتے اور یہ اندازہ اس زمانہ کی مقررہ عمروں سے نہ کچھ زیادہ اور نہ اس قانون قدرت سے کچھ بڑھ کر ہے جو انسانی عمروں کے بارے میں ہماری نظر کے سامنے ہے.پس یہ حقیر خیال خدا تعالیٰ کی نسبت تجویز کرنا کہ اس کو صرف اس امت کے تیس۳۰ برس کا ہی فکر تھا اور پھر ان کو ہمیشہ کے لئے ضلالت میں چھوڑ دیا اور وہ نور جو قدیم سے انبیاء سابقین کی امت میں خلافت کے آئینہ میں وہ دکھلاتا رہااس امت کے لیے دکھلانا اس کو منظور نہ ہوا.کیا عقل سلیم خدائے رحیم و کریم کی نسبت ان باتوں کو تجویز کرے گی ہرگز نہیں اور پھر یہ آیت خلافت اَئمہ پر گواہ ناطق ہے.333 ۱ کیونکہ یہ آیت صاف صاف پکار رہی ہے کہ اسلامی خلافت دائمی ہے اس لئے کہ یرثھا کا لفظ دوام کو چاہتا ہے وجہ یہ کہ اگر آخری نوبت فاسقوں کی ہوتو زمین کے وارث وہی قرار پائیں گے نہ کہ صالح اور سب کا وارث وہی ہوتا ہے جو سب کے بعد ہو.پھر اس پر بھی غور کرنا چاہیئے کہ جس حالت میں خدا تعالیٰ نے ایک مثال کے طور پر سمجھا دیا تھا کہ میں اسی طور پر اس امت میں خلیفے پیدا کرتا رہوں گا جیسے موسیٰ کے بعد خلیفے پیدا کئے تو دیکھنا چاہیئے تھا کہ موسیٰ کی وفات کے بعد خدا تعالیٰ نے کیا معاملہ کیا.کیا اس نے صرف تیس۳۰ برس تک خلیفے بھیجے یا چودہ سو برس تک اس سلسلہ کو لمبا کیا.پھر جس حالت میں خدا تعالیٰ کا فضل ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر
حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہیں زیادہ تھا چنانچہ اس نے خود فرمایا33 ۱ اور ایسا ہی اس امت کی نسبت فرمایا 3 ۲ تو پھر کیونکر ہوسکتا تھا کہ حضرت موسیٰ کے خلیفوں کا چودہ۱۴۰۰ سو برس تک سلسلہ ممتد ہو اور اس جگہ صرف تیس برس تک خلافت کا خاتمہ ہوجاوے اور نیز جب کہ یہ امّت خلافت کے انوار روحانی سے ہمیشہ کے لئے خالی ہے تو پھر آیت اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کے کیا معنی ہیں کوئی بیان تو کرے.مثل مشہور ہے کہ اوخویشتن گم است کرا رہبری کند.جب کہ اس امت کو ہمیشہ کے لئے اندھا رکھنا ہی منظور ہے اور اس مذہب کو مردہ رکھنا ہی مدنظر ہے تو پھر یہ کہنا کہ تم سب سے بہتر ہو اور لوگوں کی بھلائی اور رہنمائی کے لئے پیدا کئے گئے ہو کیا معنی رکھتا ہے.کیا اندھا اندھے کو راہ دکھا سکتا ہے سواے لوگو جو مسلمان کہلاتے ہو برائے خدا سوچو کہ اس آیت کے یہی معنی ہیں کہ ہمیشہ قیامت تک تم میں روحانی زندگی اور باطنی بینائی رہے گی اور غیر مذہب والے تم سے روشنی حاصل کریں گے اور یہ روحانی زندگی اور باطنی بینائی جو غیر مذہب والوں کو حق کی دعوت کرنے کے لئے اپنے اندر لیاقت رکھتی ہے یہی وہ چیز ہے جس کو دوسرے لفظوں میں خلافت کہتے ہیں پھر کیونکر کہتے ہو کہ خلافت صرف تیس برس تک ہوکر پھر زاویہ عدم میں مخفی ہوگئی.اتقواللّٰہ.اتقوااللّٰہ.اتقوااللّٰہ.اب یاد رہے کہ اگرچہ قرآن کریم میں اس قسم کی بہت سی آیتیں ایسی ہیں کہ جو اس امت میں خلافت دائمی کی بشارت دیتی ہیں اور احادیث بھی اس بارے میں بہت سی بھری پڑی ہیں لیکن بالفعل اس قدر لکھنا ان لوگوں کے لئے کافی ہے جو حقائق ثابت شدہ کو دولت عظمیٰ سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں اور اسلام کی نسبت اس سے بڑھ کر اور کوئی بداندیشی نہیں کہ اس کو مردہ مذہب خیال کیا جائے اور اس کی برکات کو صرف قرن اول تک محدود رکھا جاوے.کیا وہ کتاب جو ہمیشہ کی سعادتوں کا دروازہ کھولتی ہے وہ ایسی پست ہمتی کا سبق دیتی ہے کہ کوئی برکت اورخلافت آگے نہیں بلکہ سب کچھ پیچھے رہ گیا ہے.نبی تو اس امت میں آنے کو رہے اب اگر خلفاء نبی بھی نہ آویں اور وقتاً فوقتاً روحانی زندگی کے کرشمے نہ دکھلاویں تو پھر اسلام کی روحانیت کا خاتمہ ہے اور پھر ایسے
مذہب کو موسوی مذہب کی روحانی شوکت اور جلال سے نسبت ہی کیا ہے جس میں ہزارہا روحانی خلیفے چودہ۱۴۰۰ سو برس تک پیدا ہوتے رہے اور افسوس ہے کہ ہمارے معترض ذرہ نہیں سوچتے کہ اس صورت میں اسلام اپنی روحانیت کے لحاظ سے بہت ہی ادنٰے ٹھہرتا ہے اور نبی متبوع صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ کچھ بہت بڑا نبی ثابت نہیں ہوتا اور قران بھی کوئی ایسی کتاب ثابت نہیں ہوتی جو اپنی نورانیت میں قوی الاثر ہو پھر یہ کہنا کہ یہ امت خیر الامم ہے اور دوسری امتوں کے لئے ہمیشہ روحانی فائدہ پہنچانے والی ہے اور یہ قرآن سب الٰہی کتابوں کی نسبت اپنے کمالات اور تاثیر وغیرہ میں اکمل واتم ہے اور یہ رسول تمام رسولوں سے اپنی قوت قدسیہ اور تکمیل خلق میں اکمل واتم ہے کیسا بے ہودہ اور بے معنی اور بے ثبوت دعویٰ ٹھہرے گا اور پھر یہ ایک بڑا فساد لازم آئے گا کہ قرآن کی تعلیمات کا وہ حصہ جو انسان کو روحانی انوار اور کمالات میں مشابہ انبیاء بنانا چاہتا ہے ہمیشہ کے لئے منسوخ خیال کیا جائے گا کیونکہ جب کہ امت میں یہ استعداد ہی نہیں پائی جاتی کہ خلافت کے کمالات باطنی اپنے اندر پیدا کر لیں تو ایسی تعلیم جواس مرتبہ کے حاصل کرنے کے لئے تاکید کررہی ہے محض لا حاصل ہوگی.درحقیقت فقط ایسے سوال سے ہی کہ کیا اسلام اب ہمیشہ کے لئے ایک مذہب مردہ ہے جس میں ایسے لوگ پیدا نہیں ہوتے جن کی کرامات معجزات کے قائم مقام اور جن کے الہامات وحی کے قائم مقام ہوں بدن کانپ اٹھتا ہے چہ جائیکہ کسی مسلمان کا نعوذ باللہ ایسا عقیدہ بھی ہو خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت کرے جو ان ملحدانہ خیالات میں اسیر ہیں.اب جب کہ قرآن شریف کی رو سے یہی ثابت ہوا کہ اس امت مرحومہ میں سلسلہ خلافت دائمی کا اسی طور پر اور اسی کی مانند قائم کیا گیا ہے جو حضرت موسیٰ کی شریعت میں قائم کیا گیا تھا اور صرف اس قدر لفظی فرق رہا کہ اُس وقت تائید دین عیسوی کے لئے نبی آتے تھے اور اب محدث آتے ہیں تو اس ثبوت کو اس بات کا مان لینا مستلزم ہے کہ جیسے حضرت موسیٰ کی شریعت کے آخری زمانہ میں ایک نبی جس کا نام عیسیٰ تھا ایسے وقت میں آیا کہ جب یہودیوں کی اخلاقی حالت بکلی بگڑ گئی تھی
اور حقیقی تقویٰ اور دیانت اور قوی ہمدردی اور اتفاق اور سچی خدا ترسی سے وہ بکلی دور جاپڑے تھے اور ان کے علم اور فکر کا مبلغ صرف ظاہری لفاظی اور الفاظ پرستی تک محدود ہوگیا تھا اور نیز اپنی دنیوی حالت میں کمزور اور ذلیل ہوگئے تھے ایسا ہی اُس نبی کے ہمرنگ اور اس زمانہ کے مشابہ ایکُ محدّث اس امت میں بھی ایسے وقت میں پیدا ہونا ضروری ہے کہ جب یہ امت بھی اسی طور پر بگڑ جائے کہ جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت میں یہودی بگڑے ہوئے تھے اور جب غور سے دیکھا جاتا اور بنظر تحقیق سوچا جاتا ہے تو صاف اور صریح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ زمانہ جس میں حضرت مسیح علیہ السلام کا اس امت میں بھی کوئی مثیل بوجہ مماثلت تامہ کاملہ سلسلہ خلفاء موسوی و خلفاء محمدی میں پیدا ہونا چاہیئے یہی زمانہ ہے جس میں ہم ہیں کیونکہ حضرت موسیٰ سے حضرت مسیح کا قریباً چودہ سو برس کا فاصلہ تھا اور اب بھی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس وقت تک چودھویں صدی ہے اور حضرت موسیٰ کی امت چودھویں صدی پر آکر ایسی بگڑ گئی تھی کہ تقویٰ اور دیانت بالکل جاتی رہی تھی اور علماء یہود ناحق کے اختلافات اور نفسانی جھگڑوں میں مصروف تھے اور ان میں بہت کچھ فسق و فجور پھیل گیا تھا اور ان کی دنیوی حالت میں بھی بہت ابتری پیدا ہوگئی تھی ایسا ہی اس زمانہ میں اس امت کا حال ہے اور جو واقعات آنکھوں کے سامنے ہیں وہ صاف شہادت دے رہے ہیں کہ درحقیقت اس امت اوراس امت کے علماء نے اس زمانہ کے یہودیوں کے قدموں پر قدم مارا ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں موجود تھے اور نہ صرف اسی بات میں وہ اس وقت کے یہودیوں کے مشابہ ہوگئے ہیں کہ دیانت اور تقویٰ اور روحانیت اور حقیقت شناسی اُن میں باقی نہیں رہے بلکہ دنیوی ادبار بھی ویسا ہی شامل حال ہوگیا ہے کہ جیسا اس زمانہ میں تھا اور جیسا کہ اس وقت یہودیہ ریاستوں کو رومی ملوک نے تباہ کردیا تھا اور 3 ۱ کا مصداق ہوگئے تھے اور یہودی اپنے تئیں ضعیف اور بے کس دیکھ کر ایک ایسے مسیح کے منتظر تھے جو بادشاہ ہوکر آوے اور رومیوں پر تلوار چلاوے کیونکہ توریت کے آخر میں یہی وعدہ دیا گیا تھا
ویسا ہی یہ قوم مسلمان بھی اکثر اور اغلب طور پر ادبار کی حالت میں گری ہوئی نظر آتی ہے اگر کوئی ریاست ہے تو اس کو اندرونی نفاقوں اور وزراء اور عملہ کی خیانتوں اور بادشاہوں کے کسل اور سستیوں اور جہالتوں اور بے خبریوں اور عیش پسندیوں اور آرام طلبیوں نے ایسا کمزور کردیا ہے کہ اب ان کا کوئی آخری دم ہی نظر آتا ہے اور یہ لوگ بھی یہودیوں کی طرح منتظر تھے کہ مسیح موعود بادشاہوں کی طرح بڑے جلال کے ساتھ ان کی حمایت کے لئے نازل ہوگا- اب وہ آنکھیں جو دیکھ سکتی ہیں اور وہ دل جو انصاف کرسکتے ہیں اور وہ عقل جو سوچ سکتی ہے اس جگہ دیکھ لیں اور تول لیں اور سوچ لیں کہ کیا یہ ماجرا اور وہ ماجرا دونوں برابر ہیں یا نہیں.بھلا پیشگوئیوں کو تھوڑی دیر کے لئے نظر انداز کر دو صرف ایک محقق بن کر عقلی طور پر ہی دیکھو کہ کیا اس زمانہ کے مسلمانوں اور حضرت مسیح کے زمانہ کے یہودیوں کا معاملہ طابق النعل بالنعل کا مصداق ہے یا نہیں.انجیلوں کو غور کر کے دیکھو اور پڑھو کہ جو کچھ حضرت مسیح علیہ السلام نے یہود کے مولویوں اور فقیہوں کی نسبت حالات لکھے ہیں اور ان کی خیانتیں ظاہر کی ہیں کیا حال کے مسلمان مولویوں میں وہ پائی جاتی ہیں یا نہیں.کیا یہ سچ ہے یا نہیں کہ ہمارے علماء بھی یہودیوں کے فقیہوں کی طرح دن رات عبث جھگڑوں میں پڑے ہوئے ہیں اور روحانیت سے بکلی خالی ہوگئے ہیں اور دوسروں کو کافر ٹھہرانے میں کوشش کرتے اور آپ نہیں جانتے کہ اسلام کیا شے ہے اور وہ ایسے وعظ کرتے ہیں جن پر آپ عمل نہیں کرتے اور روٹی کمانے کے لئے وعظ کا منصب اختیار کرکے دور دراز نکل جاتے ہیں اور بے سند تُک بندیوں سے لوگوں کو خوش کرکے مال حرام کھاتے ہیں اور مکر اور فریب اور دغا بازیوں میں یہودیوں سے کچھ کم نہیں رہے.ایسا ہی دنیا داروں کی حالت ہے کہ اکثر ان کے دنیا کمانے کے لئے ہریک خیانت اور دروغگوئی کو شیر مادر کی طرح حلال سمجھتے ہیں جو رئیس کہلاتے ہیں اور ٹوٹی پھوٹی ریاستیں ان کے ہاتھ میں ہیں ان کو عیاشیوں نے ہلاک کر دیا ہے.بہتیرے ان میں سے شراب کو پانی کی طرح پیتے ہیں زنا سے ذرہ بھی کراہت نہیں کرتے خدا تعالیٰ کا خوف دن رات کے کسی حصہ میں بھی ان کے
نزدیک نہیں آتا.اب یہود کی تواریخ ہاتھ میں لیکر دیکھو کہ کس قدر ان مسلمانوں کو دین اور دنیاکی تباہی میں ان یہود سے اشد مشابہت ہے جو حضرت مسیح کے وقت میں تھے.توریت میں یہود کی نسبت یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ جب تک سیلا نہ آوے ان کی بادشاہی نہیں جائے گی.سیلا سے مراد حضرت مسیح تھے اور فی الواقع ایسا ہی ہوا تھاکہ حضرت مسیح کی پیدائش سے بھی کچھ عرصہ پہلے یہود کی متفرق ریاستوں پرسلطنت رومیہ ٹوٹ پڑی ہوئی تھی اور چونکہ یہود اس زمانہ کے مسلمانوں کی طرح باہمی نفاقوں اور روز کے جھگڑوں اور کسل اور جہالت کے غلبہ سے ضعیف ہوچکے تھے اور ان کی اندرونی حالت خود ان کے لئے ایک بدفالی کی خبردے رہی تھی اس لئے یہود نے حضرت مسیح کے زمانہ سے کچھ تھوڑا ہی پیشتر خود اپنے تئیں سلطنت رومیہ کے سپرد کردیا تھا اور مشابہت کے لحاظ سے اس امت میں بھی ایک سیلا کا آناضروری تھا جو عین دینی دنیوی تباہی کے وقت میں آوے.اور درحقیقت ایسی ہی پیشگوئی مسلمانوں کے اس زمانہ کے لئے جو حضرت مسیح کے زمانہ سے بلحاظ مدت وغیرہ لوازم مشابہ تھا قرآن کریم نے بھی کی ہے جیساکہ وہ فرماتا ہے3 ۱ ا ی من کل حدب ینسلون الی الاسلام ویفسدون فی ارضہ ویتملکون بلادہ ویجعلون اعزّۃ اھلھا اذلۃ.اس آیت کے یہی معنی ہیں کہ قوم نصاریٰ جو فرقہ یاجوج اور ماجوج ہوگا ہریک بلندی سے ممالک اسلام کی طرف دوڑیں گے اور ان کو غلبہ ہوگا اور بلاد اسلام کو وہ دباتے جائیں گے یہاں تک کہ سلطنت اسلام صرف بنام رہ جائے گی جیساکہ آج کل ہے.واقعات کے تطابق کو دیکھو کہ کیونکر اسلام کے مصائب اور مسلمانوں کی دینی دنیوی تباہی کا زمانہ یہودیوں کے اس زمانہ سے مل گیا ہے جو حضرت مسیح کے وقت میں تھا اور پھر دیکھو کہ قرآن کی پیشگوئی اسلامی سلطنت کے ضعف کے بارے میں اور مخالفوں کے غالب ہونے کی نسبت کیسی اس پیشگوئی سے انطباق پاگئی ہے جو اسرائیلی سلطنت کے زوال کے بارہ میں توریت میں کی گئی تھی.ہاں مجدد دین کی بشارت میں توریت کی پیشگوئی اور قرآن کی پیشگوئی میں صرف پیرایہ بیان کا فرق ہے یعنی توریت میں تو اسرائیلی قوت کے ٹوٹنے اور عصا کے جاتے رہنے کے وقت میں جس سے مراد زوال سلطنت تھا سیلا کے آنے کی بشارت
دی گئی ہے مگر قرآن میں اسلامی طاقت کے کم ہونے اور امواج فتن کے اٹھنے کے وقت جو عیسائی واعظوں کی دجالیت سے مراد ہے نفخ صور کی خوشخبری دی گئی ہے اور نفخ صور سے مراد قیامت نہیں ہے کیونکہ عیسائیوں کے امواج فتن کے پیدا ہونے پر تو سو برس سے زیادہ گذر گیا ہے مگر کوئی قیامت برپا نہیں ہوئی بلکہ مراد اس سے یہ ہے کہ کسی مہدی اور مجدد کو بھیج کر ہدایت کی صور پھونکی جائے اور ضلالت کے مردوں میں پھر زندگی کی روح پھونک دی جاوے کیونکہ نفخ صور صرف جسمانی احیاء اوراماتت تک محدود نہیں ہے بلکہ روحانی احیاء اور اماتت بھی ہمیشہ نفخ صور کے ذریعہ سے ہی ہوتا ہے اور جیسا قرآن میں نفخ صور سے کسی مجدد کا بھیجنا مراد ہے تاعیسائی مذہب کے غلبہ کو توڑے ایسا ہی امواج فتن سے وہ دجالیت مراد ہے جو حدیثوں میں دجال معہود کے نام پر بیان کی گئی ہے اور خدا تعالیٰ نے دجال معہود اور مسیح موعود کے لفظ کو جیسا کہ حدیثوں میں آیا ہے کہیں قرآن میں ذکر نہیں فرمایا بلکہ بجائے دجال کے نصاریٰ کی پر فتن کارروائیوں کا ذکر کیا ہے.چنانچہ3 ۱ بھی اسی کی طرف اشارہ ہے.ایسا ہی قرآن کریم میں آنے والے مجدد کا بلفظ مسیح موعود کہیں ذکر نہیں بلکہ لفظ نفخ صور سے اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے تامعلوم ہوکہ مسیح موعود ارضی اور زمینی ہتھیاروں کے ساتھ ظاہر نہیں ہوگا بلکہ آسمانی نفخ پر اس کے اقبال اور عروج کا مدار ہوگا اور پُر حکمت کلمات کی قوت سے اور آسمانی نشانوں سے لوگوں کو حق اور سچائی کی طرف کھینچے گا کیونکہ وہ معقولی فتنوں کے وقت آئے گا نہ سیفی فتنوں کے وقت اورا صل حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ہریک فتنہ کی طرز کے موافق نبی اور مجدد کو بھیجتا ہے.پس جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت میں یہودیوں کی تمام قوتیں مسلوب ہو چکی تھیں اور ان کے ہاتھ میں بجز مکر اور فریب اور زبانی باتوں کے اور کچھ نہ تھا اور سلطنت رومیہ جس کے تحت میں وہ اپنی بدچلنیو ں اور بدانتظامیوں کی جہت سے خود آگئے تھے رومیوں کا بلحاظ ملک گیری کچھ قصور نہ تھا یہی حال قرآن کریم میں مسیح موعود کے زمانہ میں لکھا گیا ہے مثلاً ہندوستان کے مسلمانوں کی نالائق حالت ایسی ہے کہ وہ کسی مصلح کے پیدا ہونے پر تلوار سے اس کی نافرمانی نہیں کرسکتے کیونکہ خود تلواریں ان کے پاس نہیں اور دہلی کا تخت انگریزوں نے ایسا ہی لے لیا
جیسا کہ یہودیوں کا تخت سلطنت رومیہ نے یعنی محض بادشاہوں کی بدچلنی اور نالیاقتی کی وجہ سے.انگریزوں کا اس ملک گیری میں کچھ قصور نہیں تا ان پر تلوار اٹھائی جاوے بلکہ ازماست کہ برماست کی مثال اس جگہ صادق آتی ہے اسی وجہ سے اس صدی کا مجدد حضرت مسیح کے رنگ میں آیا اور بوجہ قوی مشابہت کے مسیح موعود کہلایا اور یہ نام کچھ بناوٹی نہیں بلکہ حالات موجودہ کی مطابقت کی وجہ سے اسی نام کی ضرورت پڑی.اور یاد رہے کہ قرآن کریم میں ایک جگہ رسل کے لفظ کے ساتھ بھی مسیح موعود کی طرف اشارہ ہے لیکن یہ سوال کہ ان ہی الفاظ کے ساتھ جو احادیث میں آئے ہیں کیوں قرآن میں ذکر نہیں کیا گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ تا پڑھنے والوں کو دھوکا نہ لگ جاوے کہ مسیح موعود سے مراد درحقیقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی ہیں جن پر انجیل نازل ہوئی تھی اور ایسا ہی دجال سے کوئی خاص مفسد مراد ہے سو خدا تعالیٰ نے فرقان حمید میں ان تمام شبہات کو دور کردیا.اس طرح پر کہ اول نہایت تصریح اور توضیح سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کی خبر دی جیسا کہ آیت 3333 ۱ سے ظاہر ہے اور پھر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم الانبیاء ہونا بھی ظاہر کر دیا جیسا کہ فرمایا 3 ۲ اور پھر یہودیوں کی بہت سی نافرمانیاں جابجا ذکر کر کے متواتر طور پر اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ آخری حالت عام مسلمانوں اور مسلمانوں کے علماء کی یہی ہو جائے گی اور پھر ذکر کیا کہ آخری زمانہ میں غلبہ نصاریٰ کا ہوگا اور ان کے ہاتھ سے طرح طرح کے فساد پھیلیں گے اور ہرطرف سے امواج فتن اٹھیں گی اور وہ ہریک بلندی سے دوڑیں گی یعنی ہریک طور سے وہ اپنی قوت اور اپنا عروج اور اپنی بلندی دکھلائیں گی.ظاہری طاقت اور سلطنت میں بھی ان کی بلندی ہوگی کہ اور حکومتیں اور ریاستیں ان کے مقابل پر کمزور ہو جائیں گی اور علوم و فنون میں بھی ان کو بلندی حاصل ہو گی کہ طرح طرح کے علوم و فنون ایجاد کریں گے اور نادر اور عجیب صنعتیں نکالیں گے اور مکاید اور تدابیر اور حسن انتظام میں بھی بلندی ہوگی اور دنیوی مہمات میں اور ان کے حصول کیلئے ان کی ہمتیں بھی بلند ہوگی اور اشاعت مذہب کی جدوجہد اور کوشش میں بھی وہ سب سے فائق اور بلند ہوں گے اور ایسا ہی تدابیر
معاشرت اور تجارت اور ترقی کاشتکاری غرض ہریک بات میں ہریک قوم پر فائق اور بلند ہو جائیں گی یہی معنے ہیں 33 ۱ کے کیونکہ حَدَب بالتحریک زمین بلند کو کہتے ہیں اور نسل کے معنے ہیں سبقت لے جانا اور دوڑنا.یعنی ہر ایک قوم سے ہر ایک بات میں جو شرف اور بلندی کی طرف منسوب ہوسکتی ہے سبقت لے جائیں گے اور یہی بھاری علامت اس آخری قوم کی ہے جس کا نام یاجوج ماجوج ہے اور یہی علامت پادریوں کے اس گروہ ُ پرفتن کی ہے جس کا نام دجال معہود ہے اور چونکہ حدب زمین بلند کو کہتے ہیں اس سے یہ اشارہ ہے کہ تمام زمینی بلندیاں ان کو نصیب ہوں گی مگر آسمانی بلندی سے بے نصیب ہوں گے اور اس مقام سے ثابت ہوتا ہے کہ یہی قوم یا جوج و ماجوج باعتبار اپنے ملکی عروج کے یاجوج ماجوج سے موسوم ہے اور اسی قوم میں سے وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے ضلالت کے پھیلانے میں اپنی کوششیں انتہا کو پہنچائی ہیں اور دجال اکبر سے موسوم ہوگئے اور خدا تعالیٰ نے ضلالت کے عروج کے ذکر کے وقت فرمایا کہ اس وقت نفخ صور ہوگا اور تمام فرقے ایک ہی جگہ پر اکٹھے کئے جائیں گے اور بعد ان آیات کے جو جہنم کا ذکر ہے وہ قرآن کریم کے محاورہ کے بموجب الگ بیان ہے کیونکہ قرآن کریم کا یہ عام محاورہ ہے کہ بعض اوقات دنیا کے کسی واقعہ کا ذکر کرتے کرتے کسی مناسبت کی وجہ سے آخرت کا ذکر ساتھ ہی کیاجاتا ہے جیسا کہ قرآن شریف کو غور سے دیکھنے والے اس متواتر محاورہ سے بے خبر نہیں ہیں.تیسرا شق ہماری ان مباحث کا یہ تھا کہ اس بات پر کیا دلیل ہے کہ وہ مسیح موعود جس کا قرآن اور احادیث میں مختلف پیرایوں میں ذکر ہے وہ یہی عاجز ہے.سو میرے خیال میں اس شق کے دلائل لکھنے میں زیادہ طول دینے کی حاجت نہیں اس بات کو ہم نے اس رسالہ میں ثابت کر دیا ہے کہ ایک شخص کا اس امت میں سے مسیح علیہ السلام کے نام پر آنا ضروری ہے.کیوں ضروری ہے تین وجہ سے.اوّل یہ کہ مماثلت تامہ کاملہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے جو آیت33۲ سے مفہوم ہوتی ہے اس بات کو چاہتی ہے.
وجہ یہ کہ آیت3333۱ صاف بتلا رہی ہے کہ جیسے حضرت موسیٰ اپنی امت کی نیکی بدی پر شاہد تھے ایسا ہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی شاہد ہیں مگر یہ شہادت دوامی طور پر بجز صورت استخلاف کے حضرت موسیٰ کے لئے ممکن نہیں ہوئی یعنی خدا تعالیٰ نے اسی اتمام حجت کی غرض سے حضرت موسیٰ کے لئے چودہ سو برس تک خلیفوں کا سلسلہ مقرر کیا جو درحقیقت توریت کے خادم اور حضرت موسیٰ کی شریعت کی تائید کے لیے آتے تھے تا خدا تعالیٰ بذریعہ ان خلیفوں کے حضرت موسیٰ کی شہادت کے سلسلہ کو کامل کر دیوے اور وہ اس لائق ٹھہریں کہ قیامت کو تمام بنی اسرائیل کی نسبت خدا تعالیٰ کے سامنے شہادت دے سکیں.ایسا ہی اللہ جلّ شانہٗ نے اسلامی امت کے کل لوگوں کے لئے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شاہد ٹھہرایا ہے اور فرمایا 33۲ اورفرمایا وَ3۳ مگر ظاہر ہے کہ ظاہری طور پر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف تئیس برس تک اپنی امت میں رہے پھر یہ سوال کہ دائمی طور پر وہ اپنی امت کے لئے کیونکر شاہد ٹھہر سکتے ہیں یہی واقعی جواب رکھتا ہے کہ بطور استخلاف کے یعنی موسیٰ علیہ السلام کی مانند خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی قیامت تک خلیفے مقرر کر دیئے اور خلیفوں کی شہادت بعینہٖ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت متصور ہوئی اور اس طرح پر مضمون آیت33۴ ہریک پہلو سے درست ہوگیا.غرض شہادت دائمی کا عقیدہ جو نص قرآنی سے بتواتر ثابت اور تمام مسلمانوں کے نزدیک مسلّم ہے تبھی معقولی اور تحقیقی طور پر ثابت ہوتا ہے جب خلافت دائمی کو قبول کیا جائے.اور یہ امر ہمارے مدعا کو ثابت کرنے والا ہے فتدبّر.دوسری مماثلت تامہ کاملہ استخلاف محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی استخلاف موسوی سے مسیح موعود کا آنا ضروری ٹھہراتی ہے جیسا کہ آیت مندرجہ ذیل سے مفہوم ہوتا ہے یعنی آیت3333۵ صاف بتلا رہی ہے کہ ایک مجدّد حضرت مسیح کے نام پر چودھویں صدی میں آنا ضروری ہے کیوں کہ امر
استخلاف محمدی امر استخلاف موسوی سے اسی حالت میں اکمل اور اتم مشابہت پیدا کرسکتا ہے کہ جب کہ اول زمانہ اور آخری زمانہ باہم نہایت درجہ کی مشابہت رکھتے ہوں اور آخری زمانہ کی مشابہت دو باتوں میں تھی ایک امت کا حال ابتر ہونا اور دنیا کے اقبال میں ضعف آجانا اور دینی دیانت اور ایمانداری اور تقویٰ میں فرق آجانا دوسرے ایسے زمانہ میں ایک مجدد کا پیدا ہونا جو مسیح موعود کے نام پر آوے اور ایمانی حالت کو پھر بحال کرے سو پہلی علامت کو ہمارے بھائی مسلمان صرف قبول ہی نہیں کرتے بلکہ مسلمانوں کا ادبار اور ایک ایسی غیر قوم کا اقبال اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں جو ان کے مذہب کو ایسا ہی حقیر اور ذلیل سمجھتی ہے جیسا کہ مجوسی یہودیوں پر غالب آکر حضرت مسیح کے زمانہ میں یہود کو حقیر اور ذلیل سمجھتے تھے اور یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ اندرونی حالت اسلام کے علماء اور اسلام کے دنیا داروں کی یہودیوں کے حالات سے کچھ کم نہیں ہے بلکہ خیر سے دہ چند معلوم ہوتی ہے جب ہم قرآن کی پہلی جزو میں ہی یہ آیتیں پڑھتے ہیں جو یہودیوں کے مولویوں کے حق میں ہیں کہ تم لوگوں کو تو نیکی اور بھلائی کے لئے وعظ کرتے ہو اور اپنے تئیں بھول جاتے ہو اور اپنے بھائیوں کے ستانے میں تم قصور نہیں کرتے اور طرح طرح کے لالچوں اور حرام کاریوں اور بدکاریوں اور بدمنصوبوں اور دنیا طلبی کے فریبوں میں مشغول ہو تو بے اختیار دل بول اٹھتا ہے کہ یہ تمام آیتیں ہمارے اکثر مولویوں کے حق میں صادق آرہی ہیں.پھر جب کہ ان متلازم علامتوں میں سے ایک علامت کا اس زمانہ میں پایا جانا ہمارے بھائیوں نے خود قبول کر لیا تو دوسری علامت کے قبول کرنے سے منہ پھیرنا بعینہٖ ایسی ہی بات ہے کہ جیسے کوئی کہے کہ آفتاب بے شک نکلا ہوا ہے مگر ابھی دن نہیں چڑھا.بہرحال ایک منصف دانا کو اس بات کے ماننے سے چارہ نہیں ہوگا کہ آیات قرآنی پر غور کے ساتھ نظر کرنے سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ محمدی استخلاف کا سلسلہ موسوی استخلاف کے سلسلہ سے بکلی مطابق ہونا چاہئے جیسا کہ کما کے لفظ سے مفہوم ہوتا ہے اور جبکہ بکلی مطابق ہوا تو اس امت میں بھی اس کے آخری زمانہ میں جو قرب قیامت کا
زمانہ ہے حضرت عیسیٰ کی مانند کوئی خلیفہ آنا چاہیے کہ جو تلوار سے نہیں بلکہ روحانی تعلیم اور برکات سے اتمام حجت کرے اور اس لحاظ سے کہ حضرت مسیح حضرت موسیٰ سے چودہ سو برس بعد آئے یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ مسیح موعود کا اس زمانہ میں ظہور کرنا ضروری ہو اور خدا تعالیٰ کے وعدوں میں تخلف نہیں تو اب دیکھنا چاہیئے کہ ایسے کتنے لوگ ہیں جنہوں نے اس زمانہ میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا.اگر فرض بھی کیا جائے کہ مثلًا مُسلمانوں میں سے اِ س زمانہ میں د۱۰س آدمیوں نے دعویٰ کیا ہے تو اُن دس میں سے ایک ضرور صادق او رمسیح موعود ہو گا کیونکہ خدا تعالیٰ کے مقررکردہ نشان صادق کے وجود کو چاہتے ہیں لیکن جس حالت میں بیس کروڑ مسلمانوں میں سے جو شام اور عرب اور عراق اور مصر اور ہند و غیرہ بلاد میں رہتے ہیں اِس علامات کے زمانہ میں جو کتاب اللہ اور حدیث کی رُو سے مسیح موعود کے ظہور کا زمانہ ہے صِرف ایک شخص نے مسلمانوں میں سے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو ایسے مدعی کی تکذیب سے جو اپنے وقت پر ظاہر ہوا پیشگوئی کی تکذیب لازم آتی ہے.چودھویں صدی کے سر پر مسیح موعود کا آنا جس قدر حدیثوں سے قرآن سے اولیاء کے مکاشفات سے بپایہ ثبوت پہنچتا ہے حاجت بیان نہیں.پھر جو دعویٰ اپنے محل اور موقعہ پر ہے اُس کے ردّ کرنے سے تو ایک مُتّقی آدمی کا بدن کانپ جاتا ہے غرض پہلی دلیل اِس عاجز کی صداقت کی ایسے وقت میں دعویٰ کرنا ہے جسوقت کو سیّد الرسل صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم اور اولیاء کے مکاشفات نے مسیح موعود کے ظہور کے لئے خاص کیا ہے جبکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نبی آخر الزمان ٹھہرے اور پھر اُس نبی آخر الزمان سے بھی تیرہ سو برس اور گذر گیا تو پھر اِس حدیث کو سوچو جس میں منبر کے سات درجہ کو جو رؤیا میں دیکھا گیا دُنیا کا سات ہزار برس قرار دیا ہے اور خوب غور کرو کہ کیا یہ زمانہ اُس حدیث کی رُو سے مسیح موعود کے لئے ضروری ہے یا نہیں.پھر حدیث الآیات بعد المأتین پر بھی خیال کرو جس سے علماء نے یہ نکالا ہے کہ تیرھویں صدی سے آیات کُبریٰ قیامت کی شروع ہوں گی کیونکہ اگر آیات سے آیات صُغریٰ مُراد ہیں تو اِس صُورت میں بعد المأتین کی شر ط لا حاصل ٹھہرتی ہے خود ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود قیامت
کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے.پھر اگر حدیث کے یہ معنی کئے جائیں گے کہ دوسو برس کے بعد علامات کُبریٰ شروع ہوں گی تو یہ صریح خلاف ہے کیونکہ دو سو برس کے بعد تو کوئی علامت شروع نہ ہوئی اِ س لئے علماء نے اِس حدیث میں مِأتین سے مرادوہ دو۲۰۰ سو لیا ہے جو ہزار کے بعد آوے یعنی بارہ سو برس.اور اِس تاویل میں علماء حق پر ہیں کیونکہ کچھ شک نہیں کہ بڑے بڑے فتنے تیرھویں صدی میں ہی ظہور میں آئے اوردجّالیّت کا طوفان اِسی صدی میں پھیلا اور 3 ۱ کا تماشابھی اِسی صدی میں دیکھا گیا.صدہا اسلامی ریاستیں خاک میں مل گئیں اور نصاریٰ نے خوب بلندی حاصل کی.اور یہ تیسر اشق بحث طلب کہ اگر درحقیقت کوئی مسیح موعود اِس اُمت میں سے آنے والا ہے تو اِس پر کیا دلیل ہے کہ وہ مسیح یہی عاجز ہے اِس کے بعض قرائنی دلائل تو ابھی ہم تحریر کر چکے ہیں حاجت اعادہ نہیں لیکن خاص طور کے دلائل اگر طلب ہوں تو سائل کو ذرہ صبر کرنا چاہیئے تا خود خدا تعالیٰ اپنے بندے کی تائید میں دلائل نازل کرے اصل بات یہ ہے کہ ایسے دعاوی صرف معقولی یا منقولی دلائل سے کامل طور پر بپایۂ ثبوت نہیں پہنچ سکتے جب تک شخص مدعی کی برکات آسمانی تائیدات سے ثابت نہ ہوں اوریہی سنّت خدا تعالیٰ کی قدیم سے انبیاء علیہم السلام کے ساتھ جاری چلی آئی ہے مثلًا ہمارے سیّد و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں اگرچہ پہلی کتابوں میں پیش از وقت خبریں دی گئیں تھیں اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود ایسے زمانہ میں تشریف لائے کہ وُہ زمانہ ایک عظیم الشان رسول کے مبعوث ہونے کا محتاج ہو رہا تھا لیکن باوجود اِن سب باتوں کے خدا تعالےٰ نے اپنے سچّے نبی کی سچّائی ثابت کرنے کے لیے پہلی پیشگوئیوں پر اکتفا نہ کی اور نہ دُوسرے قرائن کو مکتفیسمجھا بلکہ بہت سے آسمانی نشان اُس پا ک نبی کی تصدیق کے لئے نازل کئے.یہاں تک کہ اس نبی کریم کا سچا ہونا کُھل گیا اور آفتا ب کی طرح نُورِ صداقت چمک اُٹھا.سو اِسی طرح سمجھنا چاہیئے کہ اگر یہ عاجز خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اپنے اقوال میں صادق ہے تو
خد اتعالیٰ اپنی خاص مددوں سے اِس عاجز کی سچّائی کو ظاہر کر دے گا او اپنے خاص نشانوں سے دُنیا پر روشن کرد ے گا کہ یہ عاجز اُس کی طرف سے ہے نہ اپنے منصوبوں سے.پھر جس حالت میں آسمانی نشانوں کے ذریعہ سے اپنے دعوے میں صادق ہونا ثابت ہوجائے تو پھر بعد اس کے کوئی وجہ انکار باقی نہیں رہ سکتی کیونکہ آسمانی نشان وہ چیز ہے جس سے بڑی بڑی نبوتیں ثابت ہو گئی ہیں رسالتیں ثابت ہو گئیں ہیں کتابوں کا خُداتعالیٰ کاکلام ہونا ثابت ہوگیاہے.پھر ان کے ذریعہ سے مثیل مسیح ہونا کیوں کر ثابت نہ ہو سکے غرض خدا تعالیٰ جس طور سے اپنے صادق بندوں کی صداقت ثابت کرتا آیا ہے اُسی طور سے اِس عاجز کی صداقت بھی ثابت کرے گا.دیکھنا چاہیئے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی نبوّت کے ماننے کے بارے میں کس قدر مشکلات یہودیوں کو پیش آگئی تھیں پہلی کتابوں میں لکھا تھا کہ عیسےٰ بادشاہ ہو کر آئے گا مگر مسیح ایک غریب مسکین کی صورت میں پیدا ہواپہلی کتابوں میں درج تھا کہ اُسکے آنے سے یہودیوں کے ایّام اقبال پھر عود کریں گے.اور یہودی اِس خیال میں لگے ہوئے تھے کہ وہ سلطنت رومیہ کے ساتھ لڑے گا اور اسرائیل کی بادشاہت کو پھر قائم کرے گا مگر معاملہ برعکس ہوا اور یہودی اور بھی مصیبت اور ذلّت میں پڑے.ایسا ہی پہلی کتابوں میں لکھا تھا کہ وُہ نہیں آئے گا جب تک ایلیا نبی دوبارہ دُنیا میں نہ آلیوے اِس لئے یہودی منتظر تھے کہ ایلیا کب آسمان سے نازل ہوتا ہے لیکن ایلیا نازل نہ ہؤا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دعویٰ کر دیا کہ مسیح موعود میں ہی ہوں اور یہ بھی کہا کہ یحییٰ نبی ہی ایلیا ہے مگر یہ تاویل یہودیوں کی نظر میں پسندیدہ نہ تھی بلکہ وُہ اِسی طرح حضرت ایلیا کے نزول کے منتظر تھے جیسا کہ آجکل حضرت عیسیٰ کے نزول کے مسلمان منتظر ہیں لیکن باوجود اِن سب روکوں کے جو درحقیقت سخت روکیں تھیں خدا تعالیٰ نے اپنے سچّے نبی کو ضائع نہ کیا اور بہت سے نشانوں سے ثابت کر دیا کہ وُہ صاد ق ہے جس سے بالضرورت نتیجہ نکالنا پڑا کہ مسیح موعود ہی ہے جو آخر سچا مانا گیا.سو عزیزو یقینًا سمجھو کہ صادق کی صداقت ظاہر کرنے کیلئے خدا تعالیٰ کے قدیم قانون میں ایک ہی
راہ ہے اور وہ یہ کہ آسمانی نشانوں سے ایسا ثابت کر دیوے کہ خد اتعالیٰ اس کے ساتھ ہے اور وہ خدا تعالیٰ کا مقبول ہے.اَب سوچو کہ اِس عاجز کی طرف سے مسیح موعود ہونے کادعویٰ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کے دعوے سے کچھ بڑا نہیں ہے پھر ذر اغور کر لو کہ یہ تمام بزرگوار نبی کیونکر دُنیا میں تسلیم کئے گئے کیا بذریعہ آسمانی برکات اور تائیدات کے یا کوئی اور طریق تھا سو سمجھو کہ خدا تعالیٰ کی قدیم سنّت میں تغییرو تبدیل نہیں اگر یہ عاجز خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے اور صرف افترا اور جعلسازی ہے تو انجام بہتر نہیں ہو گا اور خدا تعالیٰ ذلّت کے ساتھ ہلاک کرے گا اور پھر ابدالدہر تک لعن طعن کا نشانہ بنائے رکھے گا کیونکہ اِس سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں کہ ایک شخص کہے کہ مَیں منجانب اللہ بھیجا گیا ہوں اور دراصل نہیں بھیجا گیا اورکہے کہ مَیں خدا تعالیٰ کے مکالمہ سے مشرف ہوں اور اس کا کلام میرے دِل پر اُترتا ہے اور میری زبان پر جاری ہوتا ہے حالانکہ نہ کبھی اس سے خدا تعالیٰ کا مکالمہ واقع ہوا اورنہ کبھی خد اتعالیٰ کا کلام اُس کے دِ ل پر اُترا اور نہ کبھی اُس کی زبان پر جاری ہوا.الا لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین الذین یفترون علی اللّٰہ وھم فی الدنیا والاٰخرۃ من المخذولین.لیکن اگر یہ عاجز خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اُس نے مجھ کو بھیجا ہے اور اُسی کی طرف سے وہ کلا م ہے جس کا مجھ کو الہام ہوتا ہے تو مَیں ہرگز ضائع نہ کیا جاؤں گا اور مَیں ہلاک نہیں ہوں گا بلکہ خدا تعالیٰ اُسے ہلاک کرے گا جو میرے مقابل پر اُٹھے گا اور میر ا سدّ راہ ہو گا.مَیں متعجب ہوں کہ لوگ مسیح موعود کے لفظ کو کیوں عجیب سمجھتے ہیں اور اِس کا ثبوت کیوں مجھ سے مانگتے ہیں حالانکہ عند العقل یہ بات ممتنعات میں سے نہیں ہے کہ مسیح کی طرز پر اس اُمت میں بھی جو مثیل اُمت موسیٰ ہے کوئی پیدا ہو یہ بات فلاسفروں کے نزدیک بھی مسلم ہے کہ وجود بنی آدم دَوری ہے اور یہی سنّت اللہ اور قانون قدرت سے ثابت ہوا ہے کہ اِس دُنیا میں بعض بعض کے شبیہ پیدا ہو جاتے ہیں نیکوں کے شبیہ بھی پَیدا ہوتے رہتے ہیں اور بدوں کے بھی.ہاں منجانب اللہ ہونے کا ثبوت مانگنا چاہیئے، اُس ثبوت کے ذیل میں تمام ثبوت
آجاتے ہیں.د یکھو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لوگوں پر ظاہر کیا کہ مَیں مثیل موسیٰ ہوں اور خد اتعالیٰ کا رسول ہوں تو جن پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت ثابت ہو گئی.اُن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مثیل موسیٰ ہونے میں بھی شک نہ رہا اور جیسا وہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لائے ایسا مثیل ہونے پر لائے سومنجانب اللہ اور سچّے ملہم ہونے کا ثبوت تمام ثبوتوں کی جڑ ہے مثلًا نبی پر جو کتاب نازل ہوتی ہے اُس کے فقرہ فقرہ کا ثبوت کوئی نہیں مانگتا بلکہ رسالت کے ثابت ہونے سے خود وہ تمام واقعات ثابت ہو جاتے ہیں.عزیزو! یہ بات تو نہیں کہ خد اتعالیٰ میرے لئے کوئی نرالا قانون بنانا چاہتا ہے.خدا تعالیٰ کے قدیم قانون کو دیکھو اور اُس کے مطابق سوال کرو.پھر ماسوا اِس کے آج کی تاریخ تک جو گیارہ ربیع الاوّل ۱۳۱۱ ھ مطابق بائیس ستمبر ۱۸۹۳ ء اور نیز مطابق ہشتم اسوج سمت ۱۹۵۰.اور روز جمعہ ہے اِس عاجز سے تین ہزار سے کچھ زیادہ ایسے نشان ظاہر ہو چکے ہیں جن کے صدہا آدمی گواہ بلکہ بعض پیشگوئیوں کے پُورا ہونے کے تو ہزار ہا ہندو اور عیسائی اور دوسرے مخالف مذہب گواہ ہیں اور اگر تحقیق کی رُو سے دیکھو تو بعض نشان ایسے بھی ہیں کہ جنھیں لاکھ ہا دشمن دین اسلام اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر چکے ہیں اور اب تک وہ لوگ زندہ موجود ہیں جنہوں نے بکثرت ایسے نشان ملاحظہ کئے جو اِنسانی طاقتوں سے بالا تر ہیں اور ایسے بھی صدہا موجود ہیں جنہوں نے دُعاؤں کے قبول ہونے کی پیش از وقت خبر سُنی اور پھر اِس امر کو جیساکہ بیان کیا گیا تھا ظاہر ہوتے بھی دیکھ لیا اور ایسے بھی سولہ ہزار کے قریب لوگ ہندوستان اور انگلستان اور جرمن اور فرانس اور روس اور روم میں پنڈتوں اور یہودیوں کے فقیہوں اور مجوسیوں کے پیشروؤں اور عیسائیوں کے پادریوں اور قسیسوں اور بشپوں میں سے موجود ہیں جن کو رجسٹری کر ا کر اِس مضمون کے خط بھیجے گئے کہ درحقیقت دُنیا میں دین اسلام ہی سچا ہے اور دُوسرے تمام دین ا صلیّت اور حقانیت سے دور جا پڑے ہیں کسی کو مخالفوں میں سے اگر شک ہو تو ہمارے مقابل پر آوے اور ایک سال تک رہ کر دین اسلام کے نشان ہم سے ملاحظہ
کرے.او راگرہم خطاپر نکلیں تو ہم سے بحساب دو سو روپیہ ماہواری ہرجانہ اپنے ایک برس کا لے لے ورنہ ہم اُس سے کچھ نہیں مانگتے صرف دینِ اسلام قبول کرے اور اگر چاہے تو اپنی تسلّی کے لئے وُہ روپیہ کسی بینک میں جمع کر الے لیکن کسی نے اِس طرف رُخ نہ کیا.اَب ایک دانا سوچ سکتا ہے کہ اگر یہ عاجز خدا تعالیٰ کی نصرت پر ایسا کامل یقین نہ رکھتا کہ جو متواتر مشاہدات اور ذاتی تجار ب کے بعد ہوتاہے تو کیونکر ممکن ہوتاکہ اسلام کے تمام مخالفوں کے مقابل پر یعنی اُن لوگوں کے مقابل پر جو رُوئے زمین پرنامی مخالف مذہب اور اپنی قوموں کے مقتدیٰ تھے اکیلا کھڑا ہو جا تا ظاہر ہے کہ ضعیف البنیان انسان اپنے نفس میں ہرگزایسی طاقت نہیں رکھتا کہ سارے جہان کا مقابلہ کر سکے پھر بجُز اپنے کامل یقین اور ذاتی تجارب کے اور کیاچیزتھی جس نے اِس پیش قدمی کے لئے اِس عاجز کو جُرأت بخشی اور نہ صرف زبانی بلکہ 3 دو ہزار روپیہ کے قریب ان اشتہارات کے طبع میں جو انگریزی اور اُردو میں چھاپے گئے تھے اور ایسا ہی اُن کی روانگی میں جو ہندوستان اور یورپ کے مُلکوں کی طر ف رجسٹری کر اکر خط بھیجے جاتے تھے خرچ ہوا مگر کسی کو جُرأت نہ ہوئی کہ مقابل پر آوے اور دشمنوں کے دلوں پر ہیبت پڑنا یہ بھی ایک نشان تھا.اِمتحان کے طور پر اِس زمانہ کے کسی پادری صاحب وغیرہ کو پوچھ کر دیکھو کہ کیا دعوت اسلام کیلئے رجسٹری شدہ خط اُن کے پاس نہیں پہنچا.پھر سوچ لو کہ جو شخص کئی ہزار روپیہ صرف اشتہارات کے طبع اور اُنکے مصارف روانگی میں خرچ کرے اور دشمن کے لئے ایک رقم کثیر بطور انعام بصورت فتح دشمن مقرر کرے کیا عند العقل ایسے شخص کا صرف جُھوٹ اورکذب اورافتراء پر مدار ہو سکتا ہے کیا آج تک دُنیا میں کوئی ایسا مفتری کتابوں میں پڑھاگیا یا سناگیا یا دیکھا گیا بھلا کوئی نظیر تو دو.عزیزو! یقینًا سمجھوکہ جب تک خُدا کسی کے ساتھ نہ ہو یہ استقامت اور یہ شجاعت اور یہ بذل مال ہرگز وقوع میں آہی نہیں سکتے کبھی کسی نے اِس زمانہ کے کسی مولوی کو دیکھا یا سنا کہ اُس نے دعوتِ اسلام کے لئے کسی اسسٹنٹ کمشنر انگریز کی طرف ہی کوئی خط بھیجا لیکن اس جگہ نہ صرف اس قدر بلکہ پارلیمنٹ لنڈن اور شاہزادہ ولی عہد ملکہ معظمہ اور شہزادہ بسمارک کی خدمت میں بھی
دعوتِ اسلام کے اشتہار اور خطوط بھیجے گئے جن کی رسیدیں ابتک موجود ہیں.اِ ن اشتہارات میں جن کے شائع کرنے پر قریبًا عرصہ دس۱۰ برس کا گذر چکا ہے یہ بھی لکھا گیا تھا کہ یہ عاجز حضرت مسیح ابن مریم سے ان کے کمالات میں مشابہ ہے او ر سوچنے والے کے لئے یہ ایک اور دلیل اس عاجز کی سچائی پر ہے کیونکہ اگر مثیل مسیح ہونے کادعویٰ صرف انسان کامنصوبہ ہوتا اور خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ مسیح موعود کے دعویٰ کرنے سے دس۱۰ برس بلکہ بارہ برس پہلے اُس دعویٰ کے مؤید متواتر الہامات اپنی طرف سے شائع کئے جاتے کیونکہ ہریک شخص سمجھ سکتا ہے کہ عادتًا انسان میں اتنی پیش بندیوں کی طاقت نہیں کہ جو کام یا دعویٰ ابھی بارہ برس کے بعد ظہور میں آنا ہے پہلے ہی سے اُس کی بنیاد قائم کی جائے اور پھر تعجب پر تعجب یہ کہ خدا تعالیٰ ایسے ظالم مفتری کو اتنی لمبی مہلت بھی دیدے جسے آج تک بارہ برس گذر چکے ہوں اور مُفتری ایسا اپنے افتراء میں بیباک ہو جس نے پہلے ہی سے ارادہ کیا ہو جو بارہ برس کے بعد ایسا دعویٰ کرونگا اور اس دعویٰ کی بنیاد بارہ برس پہلے ہی یہ رکھی ہو کہ مَیں ضرور مثیل مسیح ہوں اور نہ صرف یُونہی بلکہ الہام کے حوالہ سے اپنے تئیں مثیل مسیح قرار دیا ہو اور کمالات میں اُس کے مشابہ اپنے تئیں ٹھہرایا ہو اور اُس کے جوہر ذاتی کا ایک ٹکڑا اپنے تئیں سمجھا ہو اورپھر اسی پر بس نہیں کی بلکہ علانیہ اور واشگاف طور پر بارہ برس پہلے اپنے دعویٰ مسیح ہونے سے اپنی کتاب میں (یعنی براہین احمدیہ میں ) یہ شائع کیا ہو کہ خد اتعالیٰ نے میرا نام عیسیٰ رکھ دیا ہے اور مجھ کو وعدہ دیا ہے کہ مَیں تجھے تیری طبعی موت سے ماروں گا اور پھر اپنی طرف تجھے اُٹھا لوں گا اور منکروں کے تمام الزاموں سے تجھے بَری کروں گا اور تیرے تابعین کو قیامت تک تیرے دشمنوں پر غالب رکھوں گا اور خُداتعالیٰ اُس کو نہ صرف مُہلت بلکہ الہامی نشانوں سے اُس کی مدد بھی کرے اور اُس کے لئے ایک جماعت طیار کر دے حالانکہ وہ خودقرآن کریم میں فرماتا ہے کہ میں مفتری کو مدد نہیں دیتا اور وہ جلد ہلاک کیاجاتا ہے اور اُس کی جماعت متفرق کی جاتی ہے بلکہ سید الرسل کو اُس نے کہا کہ اگر تو ایک ذرہ افترا کرتا تو تیری شاہ رگ کاٹ دی جاتی.پس اگر یہ بات سچ
نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ مفتری کو جو جھوٹا مرسل بن کر خلق اللہ کو گمراہ کرنا چاہتا ہے بہت جلد پکڑ لیتا ہے تو اِس صُورت میں نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بھی یہ استدلال صحیح نہیں ہوسکتا کہ اگر آنحضرؐت نعوذ باللہ مُفتری ہوتے تو خدا تعالیٰ ان کو پکڑتا پھر باوجوداِس لمبی مہلت اور خد اتعالیٰ کی صدہا تائیدوں اور صدہا نشانوں کے مخالفوں نے بھی اِس عاجز پر نزول عذاب کے لئے ہزار ہا دُعائیں کیں اور اپنے مباہلہ میں بھی رو رو کر اِس عاجز پرعذاب نازل ہوناچاہا مگر بجُز رسوائی اور ذلّت کے اُن کو کچھ بھی نصیب نہ ہؤا اور اللہ جلّ شانہ‘جانتا ہے کہ ہم نے کسی مباہلہ میں کسی دشمن پر عذاب نازل ہونا نہیں چاہا اور نہ عبد الحق غزنوی کے لئے جس نے بمقام امرتسر مباہلہ کیا تھا اُس کی موت کے لئے بد دُعا کی مگر اُس نے بہت کچھ جزع فزع کیا اور ہمارا مدعامباہلہ سے یہی تھااور اب تک یہ ہی ہے کہ آسمانی نشانیاں اِ س عاجز کی تائید میں عام طور پر ظاہر ہوں اور مخالف مباہل کی ذلّت اور رُسوائی کے لئے اتنا ہی کافی ہو گا کہ خدا تعالیٰ ہر ایک مقام میں ہماری فتح ظاہر کرے.غرض یہ تمام صداقت کے نشان ہیں مگر اُس کے لئے جو غور کرے.افسوس کہ مجھ سے بار بار پُوچھا جاتا ہے کہ تمہارے دعویٰ مسیح موعود ہونے پر دلیل کیا ہے مگر ایسے لوگ نہیں سمجھتے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کے موعو د ہونے پر اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النّبیّین موعودہونے پر کیا دلیل تھی.کیا یہی نہ تھی کہ بہت سے نشانوں سے خدا تعالےٰ نے اُن کا صادق ہونا ثابت کر دیا اور حضرت مسیح کو گو یہودیوں نے قبول نہ کیا اور آج تک یہی کہتے ہیں کہ وہ مسیح موعود نہ تھا مگر اُن کے معجزات اور نشانوں سے ان کا منجانب اللہ ہونا ثابت ہو گیا*ضروری مطالبہ توصادق اور منجانب اللہ ہونے پر ہوتا ہے اور مثیلیت کا ثبوت
تو اِسی کے ذیل میں آجاتا ہے باوجود اِس کے تمام لوازم موجودہ بلند آواز سے یہی پکار رہے ہیں کہ اس صدی کامجدّد مسیح موعود ہو کیونکہ خدا تعالیٰ کی پاک کلام نے جو مسیح موعود کے زمانہ کے نشان ٹھہرائے تھے وُہ سب اِس زمانہ میں پُورے ہو گئے ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ عیسائی سلطنت تمام دُنیا کی ریاستوں کونگلتی جاتی ہے اور ہر ایک نوع کی بلندی اُن کو حاصل ہے اور3۱
کا مصداق ہیں اور اسلام کی دینی دنیوی حالت ایسی ہی ابتر ہو گئی ہے جیسا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں یہودیوں کی حالت ابتر تھی اور جیسا کہ مسیح ایسے وقت میں آیا کہ اُس وقت دین کے لئے تلوار اُٹھانا بالکل نامناسب تھا وجہ یہ کہ یہودی اپنی بد چلنی سے اپنے مُلک کو کھو بیٹھے تھے اور رومی سلطنت کا ملک گیری میں کچھ قصور نہ تھا تا اُن پر تلوار اُٹھائی جاتی.یہی حال آج کل ہے کہ مُسلمانوں کے بادشاہوں نے آپ بے اعتدالیاں کرکے اور نالائق عیشوں میں مبتلا ہو کر اپنا ملک کھویا بلکہ اُن میں مُلک داری کی لیاقت ہی باقی نہ رہی سو خدا تعالیٰ نے انگریزوں کو ملک دیا اور انہوں نے ملک لے کر کچھ ظلم نہ کیا.کسی کا نماز روزہ بند نہ کردیا.کسی کو حج جانے سے منع نہ کیا.بلکہ عام آزادی اور امن قائم کیا.پھر اُن پر باوجودمحسن ہونے کے کیونکر خدا ئے کریم و رحیم تلوار اُٹھانے کا فتویٰ دیتا کیااس کے پاس دین پھیلانے کا ذریعہ صرف ظاہری تلوار تھی رُوحانی تلوار نہ تھی پھر اس پرُ طرہ یہ کہ اِس وقت تلوار کا ایمان کچھ معتبر نہیں انگریزوں نے تلوار سے کسی کو اپنے مذہب میں داخل نہیں کیا تا تلوار کا جواب تلوار ہوتا بلکہ لوگ نئے فلسفہ اور نئے طبعی اور پادریوں کے وساوس سے ہلاک ہوئے نبی کی رُوح کی سرایت سے پرواز کرتے تھے ورنہ حقیقی خالقیت کے ماننے سے عظیم الشان فساد اور شرک لازم آتا ہے.غرض تو معجزہ سے ہے اور بے جان کا باوجودبے جان ہونے کے پرواز یہ بڑا معجزہ ہے.ہاں اگر قرآن کریم کی کسی قرأت میں اس موقعہ پر فیکون حَیًّاکا لفظ موجود ہے یا تاریخی طور پرثابت ہے کہ درحقیقت وہ زِندہ ہوجاتے تھے اور انڈے بھی دیتے تھے اور اب تک اُن کی نسل سے بھی بہت سے پرندے موجود ہیں تو پھر ان کا ثبوت دینا چاہیئے.اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ اگر تمام دُنیا چاہے کہ ایک مکّھی بنا سکے تو نہیں بن سکتی کیونکہ اِس سے تشابہ فی خلق اللہ لازم آتا ہے.اور یہ کہنا کہ خدا تعالیٰ نے آپ ان کو خالق ہونے کا اذن دے رکھا تھا یہ خدا تعالیٰ پر افترا ہے کلام الٰہی میں تناقص نہیں خدا تعالیٰ کسی کو ایسے اذن نہیں دیا کرتا.اللہ تعالےٰ نے سیّد الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مکّھی بنانے کا بھی اذن نہ دیا.پھر مریم کے بیٹے کو یہ اذن کیونکر حاصل ہوا.خدا تعالیٰ سے ڈرو اور مجاز کو حقیقت پر حمل نہ کرو.منہ
سو اس کا جواب اسلام کی حقانیت کا ثبوت دینا ہے نہ یہ کہ لوگوں پر تلوار چلانا.لہٰذا خدا تعالیٰ نے مُسلمانوں کی حالت کے ہم رنگ پا کر ان کے لئے حضرت مسیح کی مانند بغیر سیف و سنان کے مصلح بھیجا اور اُس مصلح کو دجّالیت کے دُورکرنے کے لئے صرف آسمانی حربہ دیا اورجیسا کہ عیسیٰ عند منارۃ دمشق کے لفظوں سے چودہ سو کاعد د مفہوم ہوتا ہے وہ مسیح موعو د چودھویں صدی کے سرپر آیا اور جیسا کہ3 ۱ کے عدد سے ۱۲۷۵ نکلتے ہیں اِسی زمانہ میں وہ اصلاح خلق کے لئے طیار کیاگیا.اور جیسا کہ قرآن کریم نے بشارت دی کہ امواج فتن نصاریٰ کے وقت میں نفخ صور ہو گا ایسا ہی اُس کاظہور ہؤا اور کئی بندگان خدا نے الہام پا کر اُسکے ظہور سے پہلے اُسکے آنے کی خبردی بلکہ بعض نے بتیس برس پہلے اُس کے ظہور سے اُسکا نام بتلایا اور یہ کہا کہ مسیح موعود وُہی ہے اور اصل عیسیٰ فوت ہو چکا ہے اور بہت سے صاحب مکاشفات نے چودھویں صدی کو مسیح موعود کے آنیکا زمانہ قرار دیا اور اپنے الہامات لکھ گئے.اَب اِس کے بعد ایسے اُمور میں جن میں ایمان بالغیب کی بھی کچھ گنجائش رکھ لینی چاہیئے اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے.پھر ما سوا اِس کے بعض اور عظیم الشّان نشان اِس عاجز کی طرف سے معرض امتحان میں ہیں جیسا کہ منشی عبد اللہ آتھم صاحب امرتسری کی نسبت پیشگوئی جس کی میعاد ۵ ِ جون ۱۸۹۳ ء سے پندرہ مہینہ تک اور پنڈت لیکھرام پشاوری کی موت کی نسبت پیشگوئی جس کی میعاد ۱۸۹۳ ء سے چھ سال تک ہے اور پھر مرز ا احمد بیگ ہوشیار پوری کے داماد کی موت کی نسبت پیشگوئی جو پٹّی ضلع لاہور کا باشندہ ہے جس کی میعاد آج کی تاریخ سے جو اکیس ستمبر ۱۸۹۳ ء ہے قریبًا گیارہ مہینے باقی رہ گئی ہے یہ تمام امور جو انسانی طاقتوں سے بالکل بالا تر ہیں ایک صادق یاکاذب کی شناخت کے لئے کافی ہیں کیونکہ احیا اور اماتت دونوں خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہیں اور جب تک کوئی شخص نہایت درجہ کا مقبول نہ ہو خدا تعالیٰ اُس کی خاطر سے کسی اس کے دشمن کو اس کی دعا سے ہلاک نہیں کر سکتا خصوصًا ایسے موقع پر کہ وہ شخص اپنے تئیں منجانب اللہ قرار دیوے اور اپنی اُس کرامت کو اپنے صادق ہونے کی دلیل ٹھہراوے.سو پیشگوئیاں کوئی معمولی بات نہیں کوئی ایسی بات نہیں جو
انسان کے اختیار میں ہو بلکہ محض اللہجلّ شانہ‘کے اختیار میں ہیں سو اگر کوئی طالب حق ہے تو اِن پیشگوئیوں کے وقتوں کا انتظار کرے.یہ تینوں پیشگوئیاں ہندوستان اور پنجاب کی تینوں بڑی قوموں پر حاوی ہیں یعنی ایک مسلمانوں سے تعلّق رکھتی ہے اور ایک ہندوؤں سے اور ایک عیسائیوں سے اور ان میں سے وُہ پیشگوئی جو مسلمان قوم سے تعلق رکھتی ہے بہت ہی عظیم الشان ہے کیونکہ اِس کے اجزاء یہ ہیں (ا) کہ مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری تین سال کی میعاد کے اندر فوت ہو (۲) اور پھر داماد اُس کا جو اس کی دُختر کلاں کا شوہر ہے اڑھائی سال کے اندر فوت ہو (۳) اورپھر یہ کہ مرزا احمد بیگ تاروز شادی دختر کلاں فوت نہ ہو (۴) اور پھر یہ کہ وہ دختر بھی تانکاح اور تا ایّام بیوہ ہونے اور نکاح ثانی کے فوت نہ ہو (۵) اورپھر یہ کہ یہ عاجز بھی اِن تمام واقعات کے پُورے ہونے تک فوت نہ ہو (۶) اورپھر یہ کہ اِس عاجز سے نکاح ہو جاوے.اور ظاہر ہے کہ یہ تمام واقعات انسان کے اختیار میں نہیں.اور اگر اب بھی یہ تمام ثبوت میاں عطا محمد صاحب کے لئے کافی نہ ہوں تو پھر طریق سہل یہ ہے کہ اس تمام رسالہ کو غور سے پڑھنے کے بعد بذریعہ کسی چھپے ہوئے اشتہار کے مجھ کو اطلاع دیں کہ میری تسلّی اِن اُمور سے نہیں ہُوئی اور مَیں ابھی تک افترا سمجھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ میری نسبت کوئی نشان ظاہر ہو تو مَیں انشاء اللہ القدیر اُن کے بارہ میں توجہ کروں گا اورمَیں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کسی مخالف کے مقابل پر مجھے مغلوب نہیں کرے گا کیونکہ مَیں اُس کی طرف سے ہوں اور اُسکے دین کی تجدید کیلئے اُس کے حکم سے آیا ہوں لیکن چاہیئے کہ وہ اپنے اشتہار میں مجھے عام اجاز ت دیں کہ جس طور سے مَیں ان کے حق میں الہام پاؤں اس کو شائع کرا دوں اور مجھے تعجب ہے کہ جس حالت میں مسلمانوں کو کسی مجدّد کے ظاہر ہونے کے وقت خوش ہونا چاہیئے یہ پیچ و تاب کیوں ہے اور کیوں ان کو بُرا لگا کہ خدا تعالیٰ نے اپنے دین کی حُجّت پُور ی کرنے کیلئے ایک شخص کو مامور کر دیا ہے لیکن مجھے معلوم ہوا ہے کہ حال کے اکثر مسلمانوں کی ایمانی حالت نہایت ردّی ہو گئی ہے اور فلسفہ کی موجودہ زہر نے ان کے اعتقاد کی بیخ کنی کر دی ہے ان کی زبانوں پر بے شک اسلام ہے لیکن دل اسلام سے بہت دُورجا پڑے
ہیں خدائی کلام اور الٰہی قدرتیں اُن کی نظرمیں ہنسی کے لائق ہیں.ایسا ہی میاں عطا محمد کا حال ہے مجھے یادہے کہ جب بمقام امرت سر مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کو ان کی موت کی نسبت پیشگوئی سُنائی گئی تو میاں عطا محمد نے میرے فرود گا ہ میں آکر میر ے رُوبرو ایک مثال کے طور پر بیان کیا کہ ایک ڈاکٹر نے میری موت کی خبر دی تھی کہ اتنی مدّت میں عطا محمد فوت ہو جائے گا مگر وہ مدّت خیر سے گذر گئی اور مَیں نے اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کو سلام کیااُس نے کہا کہ تُو کون ہے.مَیں نے کہا وہی عطا محمد جس کے مرنے کی آپ نے پیشگوئی کی تھی.مطلب یہ کہ یہ تمام اُمور جُھوٹ اورلغو ہیں.مگر میاں عطا محمد کو یاد رہے کہ ڈاکٹر کی مثال اس جگہ دینا صرف اس قدر ثابت کرتا ہے کہ آسمانی روشنی سے آپ بکلّی بے خبر ہیں بیشک ایک ہستی موجود ہے جس کانام خدا ہے اور وُہ اپنے سچّے مذہب کی تائید میں نہ صرف کسی زمانہ محدود تک بلکہ ہمیشہ ضرورت کے وقت میں آسمانی نشان دکھلاتا ہے اور دنیا کا ایمان نئے سرے قائم کرتا ہے.ڈاکٹر کی مثال سے ظاہر ہے کہ آپ کا اُس خدا پر ایمان کِس قدر ہے.اَب مَیں مناسب دیکھتا ہوں کہ اس رسالہ کو اِسی جگہ ختم کردوں.فَالحَمْدُ لِلّٰہِ اَوَّلًا وَاٰخِرًا وَظَاہِرًا وبَاطِنًا ھُوَ مَوْلَانَا نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ.المؤلّف عاجز غلام احمدقادیانی ۲۲؍ ستمبر ۱۸۹۳ ء مقام قادِیان روزِ جُمعہ
گور نمنٹ کی توجّہ کے لائق یہ عاجز صاف اور مختصر لفظوں میں گذارش کرتا ہے کہ بباعث اس کے کہ گورنمنٹ انگریزی کے احسانات میرے والد بزرگوار میرزا غلام مرتضیٰ مرحوم کے وقت سے آج تک اس خاندان کے شامل حال ہیں اس لئے نہ کسی تکلّف سے بلکہ میرے رگ و ریشہ میں شکر گذاری اِس معزّر گورنمنٹ کی سمائی ہوئی ہے.میرے والد مرحوم کی سوانح میں سے وہ خدمات کسی طرح الگ ہو نہیں سکتیں جو وہ خلوص دل سے اِس گورنمنٹ کی خیر خواہی میں بجا لائے.اُنہوں نے اپنی حیثیت اور مقدرت کے موافق ہمیشہ گورنمنٹ کی خدمت گذاری میں اس کی مختلف حالتوں اور ضرورتوں کے وقت وہ صدق اور وفاداری دکھلائی کہ جب تک انسان سچّے دِل اور تہِ دل سے کسی کا خیر خواہ نہ ہو ہرگز دکھلا نہیں سکتا.سن ستاو۵۷ن کے مفسدہ میں جبکہ بے تمیز لوگوں نے اپنی محسن گورنمنٹ کا مقابلہ کر کے ملک میں شور ڈال دیاتب میرے والد بزرگوار نے پچا س گھوڑے اپنی گرہ سے خرید کر کے اورپچاس سوار بہم پہنچا کر گورنمنٹ کی خدمت میں پیش کئے اور پھر ایک دفعہ چود۱۴ہ سوار سے خدمت گذاری کی اور انہیں مخلصانہ خدمات کی وجہ سے وہ اس گورنمنٹ میں ہر دلعزیز ہو گئے چنانچہ جناب گورنر جنرل کے دربار میں عزّت کے ساتھ اُن کو کرسی ملتی تھی اور ہر یک درجہ کے حکام انگریزی بڑی عزّت اور دلجوئی سے پیش آتے تھے انھوں نے میرے بھائی کو صرف گورنمنٹ کی خدمت گذاری کے لئے بعض لڑائیوں پر بھیجا اور ہر ایک باب میں گورنمنٹ کی خوشنودی حاصل کی اور اپنی تمام عمر نیک نامی کے ساتھ بسر کر کے اِس ناپائدار دُنیا سے گذر گئے بعد اِس کے اِس عاجز کا بڑا بھائی میرزا غلام قادر جس قدر مدّت تک زندہ رہا اُس نے بھی اپنے والد مرحوم کے قدم پر قدم مار ا اور گورنمنٹ کی مخلصانہ خدمت میں بدل و جان مصروف رہا پھر وہ بھی اِس مسافرخانہ سے گذر گیا.مَیں امید رکھتا ہوں کہ اَب بھی بہت سے حکّام انگریز بقید حیات ہوں گے جنھوں نے میرے والد صاحب کو دیکھا اور اُنکی مخلصانہ خدمات کو بچشم خود مشاہدہ کیا ہے
چنانچہ منجملہ اُن کے مسٹر گریفن ہیں جنہوں نے رئیسان پنجاب کے بارہ میں ایک کتاب بھی لکھی ہے اور اس میں میرے والد صاحب کا بھی خیر اور خوبی سے ذکر کیا ہے.اب میری حالت یہ ہے کہ بعد وفات پا جانے اِن عزیزوں اور بزرگوں کے خُداتعالیٰ نے میرے دِل کو دُنیا سے پھیر دیا اور مَیں نے چاہا کہ خدا تعالیٰ سے میر امعاملہ کامل طور کی سچائی اور صدق اور محبّت سے ہو.سو اُس نے میرے دِل کو اپنی محبت سے بھر دیا مگر نہ میری کوشش سے بلکہ اپنے فضل سے.تب مَیں نے چاہا کہ جہاں تک میرے لئے ممکن ہے معرفت اور محبت الٰہی میں ترقی کروں اور صحیح طورپر معلوم کروں کہ خدا کون ہے اور اس کی رضا کن باتوں میں ہے سَو میں نے ہر یک تعصب سے دِل کو پاک کیا اور ہر یک آلودگی سے آنکھ کو صاف کرکے دیکھا اور خدا تعالیٰ سے مدد چاہی تب میرے پر کھل گیا اور خدا تعالیٰ نے اپنے پاک الہام سے مجھے آگاہی بخشی کہ خُدا وہ ذات ہے جو اپنی تمام صفات میں کامل ہے اور ازل سے ایک ہی رنگ اور ایک ہی طریق پر چلا آتا ہے نہ اس میں حدوث ہے نہ وہ پَیدا ہوتا ہے نہ مَرتا ہے اور کوئی پیدا ہونے والا اور مرنے والا بجُز عبودیت کے کوئی ایسا تعلق اس سے نہیں رکھتا جسے کہا جائے کہ وُہ اُس کی خُدا ئی کا حصّہ دار ہے بلکہ ایسا خیال کرنا اُس ذات کے انکار سے بھی بدتر اور انسان کی تمام بدکاریوں سے بڑھ کر ایک سخت درجہ کا بُر اخیال ہے.یہ سچ اور بالکل سچ ہے کہ خدا تعالیٰ کے مقبول بندوں میں سے سب سے زیادہ مرتبہ پر وہ لوگ ہیں جن کا نام نبی یا رسُول ہے بے شک وہ خدا تعالیٰ کے پیارے ہیں مقبول ہیں نہایت درجہ کے عزت دار ہیں اسی میں کھوئے گئے اور اُسی کا رُوپ بن گئے اور خُدا تعالیٰ کا جلال اُن میں سے ظاہر ہؤا اور خُدا اُن میں اور وُہ خدا میں مگر تاہم اُن میں سے ہم حقیقتًا نہ کسی کو خدا کہہ سکتے ہیں اور نہ خدا کا بیٹا بلاشبہ اِس اختلاف میں مُسلمان حق پر ہیں اور عیسائی غلطی پر.مگر یہ غلطی اِس زمانہ میں عیسائیوں میں قائم رہنے والی نظر نہیں آتی انگریز ایک ایسی قوم ہے جن کو خدا تعالیٰ دن بدن اقبال اور دولت اور عقل اور دانش کی طرف کھینچنا چاہتا ہے اور جو سچائی اور راستبازی اور انصاف میں روز بروز ترقی کرتے جاتے ہیں اورعلوم جدیدہ اورقدیمہ کا تو گویا ایک چشمہ ہیں اسلئے اُمید قوی ہے کہ خدا تعالیٰ یہ دولت بھی اِنھیں دیگا بلکہ میری دانست
میں تو دِلوں کو اندر ہی اندر دے دی ہے بہر حال جبکہ ہمارے نظام بدنی اور امور دنیوی میں خدا تعالیٰ نے اِس قوم میں سے ہمارے لئے گورنمنٹ قائم کی اور ہم نے اس گورنمنٹ کے وہ احسانات دیکھے جن کا شکرکرنا کوئی سہل بات نہیں اس لئے ہم اپنی معزّز گورنمنٹ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم اِس گورنمنٹ کے اسی طرح مخلص اورخیر خواہ ہیں جس طرح کہ ہمارے بزرگ تھے.ہمارے ہاتھ میں بجُز دعا کے اور کیا ہے.سو ہم دُعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اِس گورنمنٹ کو ہر یک شر سے محفوظ رکھے اور اس کے دشمن کو ذلت کے ساتھ پسپا کرے.خدا تعالیٰ نے ہم پر محسن گورنمنٹ کا شکر ایسا ہی فرض کیا ہے جیسا کہ اس کا شکر کرنا.سو اگر ہم اِس محسن گورنمنٹ کا شکر ادا نہ کریں یا کوئی شر اپنے ارادہ میں رکھیں تو ہم نے خُدا تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کیا کیونکہ خدا تعالیٰ کا شکر اور کسی محسن گورنمنٹ کا شکر جس کو خدا ئے تعالیٰ اپنے بندوں کو بطور نعمت کے عطا کرے درحقیقت یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں اور ایک دوسری سے وابستہ ہیں اور ایک کے چھوڑنے سے دوسری کا چھوڑنا لازم آجاتا ہے بعض احمق اور نادان سوال کرتے ہیں کہ اِس گورنمنٹ سے جہاد کرنا درست ہے یا نہیں.سو یاد رہے کہ یہ سوال اُن کا نہایت حماقت کا ہے کیونکہ جس کے احسانات کا شکر کرنا عین فرض اورواجب ہے اُس سے جہاد کیسا.مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ محسن کی بدخواہی کرنا ایک حرامی اور بَد کار آدمی کا کام ہے.سو میرا مذہب جس کو مَیں بار بار ظاہر کرتا ہوں یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں.ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کریں دُوسرے اِس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہو جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں ہمیں پناہ دی ہو.سو وہ سلطنت حکومت برطانیہ ہے اگرچہ یہ سچ ہے کہ ہم یورپ کی قوموں کے ساتھ اختلافِ مذہب رکھتے ہیں اور ہم ہرگز خدا تعالیٰ کی نسبت وہ باتیں پسند نہیں رکھتے جو اُنھوں نے پسند کی ہیں.لیکن اِن مذہبی امورکو رعیّت اور گورنمنٹ کے رشتہ سے کچھ علاقہ نہیں.
خد اتعالیٰ ہمیں صاف تعلیم دیتا ہے کہ جس بادشاہ کے زیر سایہ امن کے ساتھ بسر کرو اس کے شکر گزار اور فرمانبردار بنے رہو سو اگر ہم گورنمنٹ برطانیہ سے سرکشی کریں تو گویا اسلام اور خدا اور رسول سے سرکشی کرتے ہیں اِس صورت میں ہم سے زیادہ بد دیانت کون ہو گا کیونکہ خدا تعالیٰ کے قانون اور شریعت کو ہم نے چھوڑ دیا.اِ س سے انکار نہیں ہو سکتا کہ مسلمانوں میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کا مذہبی تعصّب اُن کے عدل اور انصاف پر غالب آگیا ہے.یہاں تک کہ وہ اپنی جہالت سے ایک ایسے خونخوارمہدی کے انتظار میں ہیں کہ گویا وہ زمین کو مخالفوں کے خون سے سُرخ کردے گا اور نہ صرف یہی بلکہ یہ بھی ان کا خیال ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام بھی آسمان سے اِسی غرض سے اتریں گے کہ جو مہدی کے ہاتھ سے یہود ونصاریٰ زندہ رہ گئے ہیں اُن کے خون سے بھی زمین پر ایک دریا بہا دیں لیکن یہ خیالات بعض مسلمانوں مثلًا شیخ محمد حسین بٹالوی اور اس کی جماعت کے سرا سر غلط اور کتاب اللہ کے مخالف ہیں.یہ نادان خون پسند ہیں اور محبت اور خیر خواہی خلق اللہ کی سرمُواِن میں نہیں لیکن ہمار ا سچا اور صحیح مذہب جس پر ہمیں یہ لوگ کافر ٹھہراتے ہیں یہ ہے کہ مہدی کے نام پر آنے والا کوئی نہیں ہاں مسیح موعود آگیا مگر کوئی تلوار نہیں چلے گی اور امن سے اور سچائی سے اور محبت سے زمانہ توحید کی طرف ایک پلٹا کھائے گااور وُہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ زمین پر نہ رام چندر پوجا جاوے گا نہ کرشن اورنہ حضرت مسیح علیہ السلام.اور سچے پرستار اپنے حقیقی خدا کی طرف رُخ کرلیں گے اور یاد رہے کہ جس بادشاہ کے زیر سایہ ہم باامن زندگی بسر کریں اُس کے حقوق کو نگاہ رکھنا فی الواقعہ خدا کے حقوق ادا کرنا ہے اور جب ہم ایسے بادشاہ کی دِلی صدق سے اطاعت کرتے ہیں تو گویا اُس وقت عبادت کر رہے ہیں.کیا اسلام کی یہ تعلیم ہو سکتی ہے کہ ہم اپنے محسن سے بدی کریں اورجو ہمیں ٹھنڈے سایہ میں جگہ دے اُس پر آگ برساویں اور جو ہمیں روٹی دے اُسے پتھر ماریں ایسے انسان سے اور کون زیادہ بد ذات ہو گا کہ جو احسان کرنیوالے کے ساتھ بدی کا خیال بھی دِل میں لاوے.
اس تمام تمہید سے مدّعا یہ ہے کہ گورنمنٹ کو یاد رہے کہ ہم تہ دل سے اس کے شکر گذار ہیں اور بہمہ تن اس کی خیر خواہی میں مصروف ہیں اور مَیں نے سُنا ہے کہ ایک شخص ساکن بٹالہ ضلع گورداسپورہ نے جو اپنے تئیں مولوی ابو سعید محمد حسین کرکے مشہور کرتا ہے اس اختلاف رائے کے سبب سے جو بعض جُزئی مسائل میں وہ اِس عاجز کے ساتھ رکھتا ہے میری نسبت اپنی سخت دشمنی کی وجہ سے اور سراسر بے انصافی اور درندگی کے جوش سے خلاف واقعہ باتیں گورنمنٹ کو بدظن کرنے کے لئے لکھتا ہے اور میرے خاندان کی مخلصانہ اور خیر خواہی کے تعلق کو جو گورنمنٹ سے ہے غلط بیان کرتا اور چُھپاتا اور اپنے افتراؤں کے نیچے دباناچاہتا ہے اور محض عداوت اور حسد ذاتی کی تحریک سے اِس بات پر زور دیتا ہے کہ گویا نعوذ باللہ یہ عاجز گورنمنٹ کا سچا خیر خواہ نہیں ہے.یہ نادان ذرہ خیال نہیں کرتا کہ جُھوٹے منصوبوں اور بے بنیاد افتراؤں میں ہرگز وہ قوت پیدا نہیں ہوتی کہ جو سچ میں قدرتی طور پر پائی جاتی ہے.سچ کی طاقت کا ایک کرشمہ جُھوٹ کے پہاڑ کو ذرہ ذرہ کرکے دکھا دیتا ہے اور نیز جو جُھوٹ میں ہٹ دھرمی اور بے ایمانی کی عفونت ہوتی ہے وہ حکام کی خدا داد قوت شامہ سے چُھپ بھی نہیں سکتی.اور اگرچہ یہ تمام افترا اُس کے اِس قسم کے تھے کہ ازالہ حیثیت عرفی کی و جہ سے عدالت کے ذریعہ سے اس کی اِن تمام چالاکیوں کا تدارک کرایا جائے لیکن بالفعل یہی مناسب سمجھا گیا کہ معزز گورنمنٹ کو اِس شخص کے اِن افتراؤں سے اطلاع دیجائے اور امید ہے کہ داناگورنمنٹ ادنیٰ توجہ سے اس کے ان بہتانات کو بخوبی سمجھ جائے گی اور وزن کرلے گی اورجانچ لے گی اورایسے مفسد کا تدارک نہایت ضروری ہے تا آئندہ کوئی خبیث نفس ایسی حرکات ناشائستہ کی طرف جُرأت نہ کرے.ہماری دانا اور عادل گورنمنٹ اِس بات سے بے خبر نہیں ہے کہ ہر یک مخبر کا یہ فرض ہوناچاہیئے کہ جس معاملہ میں وہ قطعی طور پر گورنمنٹ کو اطلاع دیوے اور اپنی طرف سے قطعی رائے ظاہر کرے تو اِس سے پہلے وہ اِس معاملہ کو کما حقّہٗ تحقیق بھی کر لیوے.اب عادل گورنمنٹ اگر چاہے تو ایک خیر خواہ خاندان کے لئے جس کو اس نے اپنی خوشنودی کی اعلیٰ درجہ کی اسناد دے رکھی ہے یہ تکلیف اُٹھا سکتی ہے کہ اِس دروغ گو مخبر کو جو بذریعہ اپنے رسالہ اشاعت کے خلاف واقعہ خبریں اس
عاجز کی نسبت گورنمنٹ کو پہنچاتا ہے طلب کر کے اس بات کا ثبوت مانگے کہ اس نے کن دلائل اور وجوہ سے اِس عاجز کو گورنمنٹ انگریزی کا مفسد قرار دیا ہے اور اگر وہ دلائل شافیہ بیان نہ کر سکے تو پھر جس قدر مناسب ہو قانونی سزا کا اس کو کچھ مزہ چکھا دیوے کہ یہ ایک عین مصلحت اورایک سچّے خیر خواہ خاندان کی اس میں دلجوئی متصوّر ہے اگرچہ ایسے جوش بعض مخالفین مذہب کی تحریرات میں بھی پائے جاتے ہیں جیسے پادری عمادالدین وغیرہ وغیرہ.مگر وہ بباعث ناواقفیّت اور جوش مذہب اور لا علاج تعصّب کے کسی قدر معذور بھی ہیں اور حق بات کو منہ سے نہیں نکال سکتے مگریہ شیخ بٹالوی درحقیقت حد سے گذرگیا ہے.عادل گورنمنٹ اس شخص کی تحریرات ۹۲249۱۸۹۳ ء کے ساتھ اِن تحریرات کو بھی دیکھے جو ۱۸۸۴ ء میں اِس شخص کے اشاعۃ السنۃ میں اس عاجز کی نسبت موجود ہیں تا معلوم ہو کہ یہ شخص منافق اور حق پوش اور دو رنگی اختیار کرنے والا ہے اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ زیرک اور دانا اور عادل اور وسیع واقفیّت والی گورنمنٹ کے آگے ایسی مکّاریاں چل نہیں سکتیں اور یہ عمیق اندیش گورنمنٹ دور سے ہوا کا رُخ دیکھ لیتی ہے اور متعصبانہ مخبریوں کو حقیر اور شرمناک حسد یقین کر جاتی ہے لیکن تاہم گورنمنٹ پر کوئی وحی تو نازل نہیں ہوتی اور ممکن ہے کہ چند شر یروں کے یک زبان ہونے سے ایسا دھوکا لگے جو انسان کو لگ سکتا ہے اس لئے ہماری طرف سے کسی قدر عرض حال ضروری تھا.اب ہم گورنمنٹ کے ملاحظہ کے لئے ۱۸۸۴ ء کے اشاعۃ السنہ یعنی نمبر ۶ جلد ۷ سے جو براھین احمدیہ پرریویو ہے کسی قدر عبارت اس شخص کے رسالہ مذکورہ کی گورنمنٹ کے ملاحظہ کے لئے نقل کرتے ہیں تادانا گورنمنٹ خود ملاحظہ فرمالیوے کہ اس شخص نے اس عاجز کی نسبت پہلے کیا لکھا تھا اور اب کیا لکھتا ہے.اور وہ عبارت یہ ہے
پولٹیکل نکتہ چینی کا جواب مؤ ّ لف براہین احمدیہ کے حالات و خیالات سے جس قدر ہم واقف ہیں ہمارے معاصرین سے ایسے واقف کم نکلیں گے.مؤ ّ لف صاحب ہمارے ہم وطن ہیں بلکہ اوائل عمر کے (جبکہ ہم قطبی اور شرح ملّا پڑھتے تھے) ہمارے ہم مکتب اُس زمانہ سے آج تک ہم میں اُن میں خط و کتابت و ملاقات و مراسلت برابر جاری رہی ہے اِسلئے ہمارا یہ کہنا کہ ہم اُن کے حا لا ت و خیالات سے بہت واقف ہیں مبالغہ قرار نہ دیئے جانے کے لائق ہے.گورنمنٹ انگلشیہ کی مخالفت کا خیال کبھی مؤلف کے آس پاس بھی نہیں پھٹکا.وُہ کیا اُن کے خاندان میں اِس خیال کا کوئی آدمی نہیں ہے بلکہ اُن کے والد بزرگوار مرزا غلام مرتضیٰ نے عین زمانہ طوفان بے تمیزی (غدر۱۸۵۷ ء) میں گورنمنٹ کا خیر خواہ جان نثار وفادار ہونا عملًا بھی ثابت کر دکھایا.اِس غدر میں جبکہ ترموں کے گھاٹ پر متصل گورداسپورہ مفسدین بد طینت نے یورش کی تھی ان کے والد ماجد نے باوجودیکہ وُہ بہت بڑے جاگیر دار و سردار نہ تھے اپنی جیب خاص سے پچاس گھوڑے معہ سواران و سازو سامان طیارکر کے زیر کمان اپنے فرزند دلبند مرزا غلام قادر مرحوم کے گورنمنٹ کی معاونت میں دیئے جِس پر گورنمنٹ کی طرف سے ان کی اس خدمت پر شکریہ ادا ہوا اور کسی قدر انعام بھی ملا.علاوہ براں اِن خدمات کے لحاظ سے مرزا صاحب مرحوم (والدمؤ ّ لف ) ہمیشہ مورد کرم و لطف گورنمنٹ رہے اور در بار گورنری میں عزّت کے ساتھ اُن کو کرسی ملتی رہی اور حکّامِ اعلیٰ ضلع و قسمت (یعنی صاحبان ڈپٹی کمشنر وکمشنر) (چٹھیات خوشنودی مزاج ) جن میں سے کئی چٹھیات اس وقت ہمارے سامنے رکھی ہوئی ہیں وقتًا فوقتًا ان کو عطاکرتے رہے ہیں.اِن چٹھیات سے واضح ہوتا ہے کہ وہ بڑے دِلی جوش سے لکھی گئی ہیں جو بغیر ایک خاص خیر خواہ اور سچّے وفادار کے کسی دُوسرے کے لئے تحریر نہیں ہو سکتیں.اکثر صاحبان ڈپٹی کمشنر و کمشنر ایّام دَورہ میں از راہ خوش خلقی و محبّت و دِلجوئی مرزا صاحب کے مکان پر جاکر ملاقات کرتے رہے اور ان کی وفات پر صاحبان کمشنر و فنانشل کمشنر اور صاحب لفٹنٹ گورنر بہادر
نے اپنے خطوط میں بہت سا افسوس ظاہر کیا ہے اور آئندہ کے لئے قدر دانی اور اس خاندان کے لحاظ اور رعایت کا وعدہ فرمایا ہے.اسی شرف خاندان اور خیر خواہ قدیم ہونے کے لحاظ سے صاحب فنانشل کمشنر بہادر نے ان دنوں میں مرزا سلطان احمد (فرزندمؤ ّ لف) کے لئے تحصیل داری کی خاص سفارش کی ہے جس کی رپور ٹ بہ تعمیل حکم ضلع سے روانہ ہوچکی ہے.الغرض یہ خاندان قدیم سے خیرخواہ اور زیر نظر عنایت گورنمنٹ چلا آتا ہے.ان حالات و واقعات کی تصدیق کے لئے منجملہ ان چٹھیات کے جو اس وقت ہمارے پیش نظر ہیں ہم تین چٹھیاں حاشیہ میں نقل کرتے ہیں تاکہ حاسد ناعاقبت اندیش اس خاندان کی گورنمنٹ انگریزی میں قدر و منزلت سے آگاہ ہوکر اپنے ارادہ بدونیت فاسد سے باز آویں اور عام مسلمان ان کے دھوکہ میں آکر اس کتاب اور اس کے مؤ ّ لف سے بدگمان اور متوحش نہ ہوں.
ہرچند خاص کر مؤلف کتاب (میرزا غلام احمد صاحب) سے ان کے عالمانہ اور درویشانہ وضع و حالت کے سبب کوئی ایسی کارروائی نہیں ہوئی مگر جس قدر خیرخواہی گورنمنٹ منصب علماء اور درویشوں کے مناسب ہے اور ان کی
قدرت میں داخل ہے اس سے انہوں نے بھی دریغ نہیں کیا.عالموں کی تلوار قلم ہے اور فقیروں کا ہتھیار دعا.مؤ ّ لف نے ان ہتھیاروں کے ساتھ گورنمنٹ کی خیرخواہی و معاونت سے دریغ نہیں فرمایا.اپنی قلم سے بارہا لکھ
چکے اور اپنی اسی کتاب میں جس کی اشاعت ان کا شباروزی فرض ہے وہ صاف درج کرچکے* ہیں کہ گورنمنٹ انگلشیہ خدا کی نعمتوں سے ایک نعمت ہے.یہ ایک عظیم الشان رحمت ہے یہ سلطنت مسلمانوں کے لئے آسمانی برکت کا
حکم رکھتی ہے خداوند رحیم نے اس سلطنت کو مسلمانوں کیلئے ایک بار ان رحمت بھیجا ایسی سلطنت سے لڑائی اور جہاد کرنا قطعی حرام ہے.اسلام کا ہرگز یہ اصول نہیں کہ مسلمانوں کی قوم جس سلطنت کے ماتحت رہ کراس کا
احسان اٹھاو ے.اس کے ظل حمایت میں بامن و آسایش رہ کر اپنا مقسوم کھاوے اس کے انعامات متواترہ سے پرورش پاوے پھر اسی پر عقرب کی طرح نیش چلاوے.اور دعا سے بھی انہوں نے اس گورنمنٹ کو بہت دفعہ
یاد کیا ہے.ان کی آخری دعا ان کے اشتہار مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر میں جس کی بیس ہزار کاپی چھپوا کر ہندو اور انگلینڈ میں انہوں نے شائع کرنی چاہی ہے یہ کلمات دعائیہ مرقوم ہیں.انگریز جن کی شائستہ اور مہذب اور
بارحم گورنمنٹ نے ہم کو اپنے احسانات اور دوستانہ معاملات سے ممنون کرکے اس بات کے لئے دلی جوش بخشا ہے کہ ہم ان کے دین و دنیا کیلئے دلی جوش سے بہبودی اور سلامتی چاہیں تاان کے گورے وسپید
منہ جس طرح دنیا میں خوبصورت ہیں آخرت میں بھی نورانی و منور ہوں.فنسئل اللہ تعالی خیرھم فی الدنیا والاخرۃ.اللھم اھدھم و ایدھم بروح منک واجعل لھم حظا کثیرا فی دینک-الخ پھر ایسے شخص پر یہ بہتان کہ اس کے دل میں گورنمنٹ انگلشیہ کی مخالفت ہے اور اس کی کتاب کی نسبت یہ گمان کہ وہ گورنمنٹ کے مخالف ہے پر لے سرے کی بے ایمانی اور شرارت شیطانی نہیں تو کیا ہے.خیر خواہان سلطنت و پیروان مذہب اسلام ان یا وہ گو حاسدوں کی ایسی باتیں ہرگزنہ سنیں اور اس کتاب یا مؤ ّ لف کی طرف سے سوء ظنی کو اپنے دلوں میں جگہ نہ دیں گورنمنٹ سے تو ہم پہلے ہی مطمئن ہیں کہ وہ ان باتوں کومؤ ّ لف کی نسبت ہرگز نہ سنے گی- بلکہ جو ان باتوں کو گورنمنٹ تک پہنچائے گا اس کو اس کی دروغگوئی پر سرزنش کرے گی.
التوا ئے جلسہ ۲۷ دسمبر ۱۸۹۳ء ہم افسوس سے لکھتے ہیں کہ چند ایسے وجوہ ہم کو پیش آئے جنہوں نے ہماری رائے کو اس طرف مائل کیا کہ اب کی دفعہ اس جلسہ کو ملتوی رکھا جائے اور چونکہ بعض لوگ تعجب کریں گے کہ اس التوا کا موجب کیا ہے لہٰذا بطور اختصار کسی قدر ان وجوہ میں سے لکھا جاتا ہے.اول.یہ کہ اس جلسہ سے مدعا اور اصل مطلب یہ تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کر لیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکلی جھک جائیں اور ان کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیزگاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مواخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور انکسار اور تواضع اور راستبازی ان میں پیدا ہو اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں لیکن اس پہلے جلسہ کے بعد ایسا اثر نہیں دیکھا گیا بلکہ خاص جلسہ کے دنوں میں ہی بعض کی شکایت سنی گئی کہ وہ اپنے بعض بھائیوں کی بدخوئی سے شاکی ہیں اور بعض اس مجمع کثیر میں اپنے اپنے آرام کے لئے دوسرے لوگوں سے کج خلقی ظاہر کرتے ہیں گویا وہ مجمع ہی ان کے لئے موجب ابتلا ہوگیا اور پھر میں دیکھتا ہوں کہ جلسہ کے بعد کوئی بہت عمدہ اور نیک اثر اب تک اس جماعت کے بعض لوگوں میں ظاہر نہیں ہوا اور اس تجربہ کے لئے یہ تقریب پیش آئی کہ ان دنوں سے آج تک ایک جماعت کثیر مہمانوں کی اس عاجز کے پاس بطور تبادل رہتی ہے یعنی بعض آتے اور بعض جاتے ہیں اور بعض وقت یہ جماعت سو۱۰۰ سو ۱۰۰مہمان تک بھی پہنچ گئی ہے اور بعض وقت اس سے کم لیکن اس اجتماع میں بعض دفعہ بباعث تنگی مکانات اور قلت وسائل مہمانداری ایسے نالائق رنجش اور خودغرضی کی سخت گفتگو بعض مہمانوں میں باہم ہوتی دیکھی ہے کہ جیسے ریل میں بیٹھنے والے تنگی مکان کی وجہ سے ایک دوسرے سے لڑتے ہیں اور اگر کوئی بیچارہ عین ریل چلنے کے قریب اپنی گٹھری کے سمیت مارے اندیشہ کے دوڑتا دوڑتا ان کے پاس پہنچ جاوے تو اس کو دھکے دیتے اور دروازہ بند کر لیتے ہیں کہ ہم میں جگہ نہیں حالانکہ گنجائش نکل سکتی ہے مگر سخت دلی ظاہر کرتے ہیں اور وہ ٹکٹ لئے اور بقچہ اٹھائے ادھر ادھر پھرتا ہے اور کوئی اس پر رحم نہیں کرتا مگر آخر ریل کے ملازم جبراً اس کو جگہ دلاتے ہیں.سو ایسا ہی یہ اجتماع بھی بعض اخلاقی حالتوں کے بگاڑنے کا ایک ذریعہ معلوم ہوتا ہے اور جب تک مہمانداری کے پورے وسائل میسرنہ ہوں اور جب تک خدا تعالیٰ ہماری جماعت میں اپنے خاص فضل سے کچھ مادہ رفق اور نرمی اور ہمدردی اور
خدمت اور جفاکشی کاپیدا نہ کرے تب تک یہ جلسہ قرین مصلحت معلوم نہیں ہوتا حالانکہ دل تو یہی چاہتا ہے کہ مبائعین محض لِلّٰہ سفر کرکے آویں اور میری صحبت میں رہیں اور کچھ تبدیلی پیدا کرکے جائیں کیونکہ موت کا اعتبار نہیں.میرے دیکھنے میں مبائعین کو فائدہ ہے مگر مجھے حقیقی طور پر وہی دیکھتا ہے جو صبر کے ساتھ دین کو تلاش کرتا ہے اور فقط دین کو چاہتا ہے سو ایسے پاک نیت لوگوں کا آنا ہمیشہ بہتر ہے کسی جلسہ پر موقوف نہیں بلکہ دوسرے وقتوں میں وہ فرصت اور فراغت سے باتیں کرسکتے ہیں اور یہ جلسہ ایسا تو نہیں ہے کہ دنیا کے میلوں کی طرح خواہ انخواہ التزام اس کا لازم ہے بلکہ اس کا انعقاد صحت نیت اور حسن ثمرات پر موقوف ہے ورنہ بغیر اس کے ہیچ اور جب تک یہ معلوم نہ ہو اور تجربہ شہادت نہ دے کہ اس جلسہ سے دینی فائدہ یہ ہے اور لوگوں کے چال چلن اور اخلاق پر اس کا یہ اثر ہے تب تک ایسا جلسہ صرف فضول ہی نہیں بلکہ اس علم کے بعد اس اجتماع سے نتائج نیک پیدا نہیں ہوتے.ایک معصیت اور طریق ضلالت اور بدعت شنیعہ ہے.میں ہرگز نہیں چاہتا کہ حال کے بعض پیرزادوں کی طرح صرف ظاہری شوکت دکھانے کے لئے اپنے مبائعین کو اکٹھا کروں بلکہ وہ علت غائی جس کے لئے میں حیلہ نکالتا ہوں اصلاح خلق اللہ ہے پھر اگر کوئی امر یا انتظام موجب اصلاح نہ ہو بلکہ موجب فساد ہو تو مخلوق میں سے میرے جیسا اس کا کوئی دشمن نہیں اور اخی مکرم حضرت مولوی نور الدین صاحب سلمہ تعالیٰ بارہا مجھ سے یہ تذکرہ کرچکے ہیں کہ ہماری جماعت کے اکثر لوگوں نے اب تک کوئی خاص اہلیت اور تہذیب اور پاک دلی اور پرہیز گاری اور للہی محبت باہم پیدا نہیں کی سو میں دیکھتا ہوں کہ مولوی صاحب موصوف کا یہ مقولہ بالکل صحیح ہے.مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض حضرات جماعت میں داخل ہوکر اوراس عاجز سے بیعت کرکے اور عہد توبہ نصوح کرکے پھر بھی ویسے کج دل ہیں کہ اپنی جماعت کے غریبوں کو بھیڑیوں کی طرح دیکھتے ہیں وہ مارے تکبر کے سیدھے منہ سے السلام علیک نہیں کرسکتے چہ جائیکہ خوش خلقی اور ہمدردی سے پیش آویں اور انہیں سفلہ اور خود غرض اس قدر دیکھتا ہوں کہ وہ ادنیٰ ادنیٰ خود غرضی کی بناء پر لڑتے اور ایک دوسرے سے دست بد امن ہوتے ہیں اور ناکارہ باتوں کی وجہ سے ایک دوسرے پر حملہ ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات گالیوں تک نوبت پہنچتی ہے اور دلوں میں کینے پیدا کرلیتے ہیں اور کھانے پینے کی قسموں پرنفسانی بحثیں ہوتی ہیں اور اگرچہ نجیب اور سعید بھی ہماری جماعت میں بہت بلکہ یقیناً دو سو سے زیادہ ہی ہیں جن پر خدا تعالیٰ کا فضل ہے جو نصیحتوں کو سن کر روتے اور عاقبت کو مقدم رکھتے ہیں اور ان کے دلوں پر نصیحتوں کا عجیب اثر ہوتا ہے لیکن میں اس وقت کج دل لوگوں کا ذکر کرتا ہوں اور میں حیران ہوتا ہوں کہ خدایا یہ کیا حال ہے.یہ کونسی جماعت ہے جو میرے ساتھ ہے.نفسانی لالچوں پر کیوں ان کے دل گرے جاتے ہیں اور کیوں ایک بھائی دوسرے بھائی کو ستاتا اور اس سے بلندی چاہتا ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہرگز درست نہیں ہوسکتا جب تک اپنے آرام پر اپنے بھائی کا آرام حتی الوسع مقدم نہ ٹھہراوے.اگر میرا ایک بھائی میرے
سامنے باوجود اپنے ضعف اور بیماری کے زمین پر سوتا ہے اور میں باوجود اپنی صحت اور تندرستی کے چارپائی پر قبضہ کرتا ہوں تاوہ اس پر بیٹھ نہ جاوے تو میری حالت پر افسوس ہے اگر میں نہ اٹھوں اور محبت اور ہمدردی کی راہ سے اپنی چارپائی اس کو نہ دوں اور اپنے لئے فرش زمین پسند نہ کروں اگر میرا بھائی بیمار ہے اور کسی درد سے لاچار ہے تو میری حالت پر حیف ہے اگر میں اس کے مقابل پر امن سے سور ہوں اور اس کے لئے جہاں تک میرے بس میں ہے آرام رسانی کی تدبیر نہ کروں اور اگر کوئی میرا دینی بھائی اپنی نفسانیت سے مجھ سے کچھ سخت گوئی کرے تو میری حالت پر حیف ہے اگر میں بھی دیدہ و دانستہ اس سے سختی سے پیش آؤں بلکہ مجھے چاہیئے کہ میں اس کی باتوں پر صبر کرو ں اور اپنی نمازوں میں اس کے لئے رو رو کر دعا کروں کیونکہ وہ میرا بھائی ہے اور روحانی طور پر بیمار ہے اگر میرا بھائی سادہ ہو یا کم علم یا سادگی سے کوئی خطا اس سے سرزد ہو تو مجھے نہیں چاہیئے کہ میں اس سے ٹھٹھا کروں یا چیں برحبیں ہوکر تیزی دکھاؤں یا بدنیتی سے اس کی عیب گیری کروں کہ یہ سب ہلاکت کی راہیں ہیں کوئی سچا مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کا دل نرم نہ ہو جب تک وہ اپنے تئیں ہریک سے ذلیل تر نہ سمجھے اور ساری مشیختیں دور نہ ہوجائیں.خادم القوم ہونا مخدوم بننے کی نشانی ہے اور غریبوں سے نرم ہوکر اور جھک کر بات کرنا مقبول الٰہی ہونے کی علامت ہے اور بدی کا نیکی کے ساتھ جواب دینا سعادت کے آثار ہیں اور غصہ کو کھا لینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجہ کی جوانمردی ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ یہ باتیں ہماری جماعت کے بعض لوگوں میں نہیں بلکہ بعض میں ایسی بے تہذیبی ہے کہ اگر ایک بھائی ضد سے اس کی چارپائی پر بیٹھا ہے تو وہ سختی سے اس کو اٹھانا چاہتا ہے اور اگر نہیں اٹھتا تو چارپائی کو الٹا دیتا ہے اور اس کو نیچے گرا تاہے *پھر دوسرا بھی فرق نہیں کرتا اور وہ اس کو گندی گالیاں دیتا ہے اور تمام بخارات نکالتا ہے یہ حالات ہیں جو اس مجمع میں مشاہدہ کرتا ہوں تب دل کباب ہوتا اور جلتا ہے اور بے اختیار دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اگر میں درندوں میں رہوں تو ان بنی آدم سے اچھا ہے پھر میں کس خوشی کی امید سے لوگوں کو جلسہ کے لئے اکٹھے کروں.یہ دنیا کے تماشوں میں سے کوئی تماشا نہیں ابھی تک میں جانتا ہوں کہ میں اکیلا ہوں بجز ایک مختصر گروہ رفیقوں کے جو دو۲۰۰ سو سے کسی قدر زیادہ ہیں جن پر خدا کی خاص رحمت ہے جن میں سے اول درجہ پر میرے خالص دوست اور محب مولوی حکیم نور الدین صاحب اور چند اور دوست ہیں جن کو میں جانتا ہوں کہ وہ صرف خدا تعالیٰ کے لئے میرے ساتھ تعلق محبت رکھتے ہیں اور میری باتوں اور نصیحتوں کو تعظیم کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کی آخرت پر نظر ہے سو وہ انشاء اللہ دونوں جہانوں میں میرے ساتھ ہیں اورمیں ان کے ساتھ ہوں.میں اپنے ساتھ ان لوگوں کو کیا سمجھوں جن کے دل میرے ساتھ نہیں
جو اس کو نہیں پہچانتے جس کو میں نے پہچانا ہے اور نہ اس کی عظمتیں اپنے دلوں میں بٹھاتے ہیں اور نہ ٹھٹھوں اور بیراہیوں کے وقت خیال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں دیکھ رہا ہے اور کبھی نہیں سوچتے کہ ہم ایک زہر کھا رہے ہیں جس کا بالضرور نتیجہ موت ہے.درحقیقت وہ ایسے ہیں جن کو شیطانی راہیں چھوڑنا منظور ہی نہیں.یاد رہے کہ جو میری راہ پر چلنا نہیں چاہتا وہ مجھ میں سے نہیں اور اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے اور میرے مذہب کو قبول کرنا نہیں چاہتا بلکہ اپنا مذہب پسندیدہ سمجھتا ہے وہ مجھ سے ایسا دور ہے جیسا کہ مغرب مشرق سے.وہ خطا پر ہے سمجھتا ہے کہ میں اس کے ساتھ ہوں میں بار بار کہتا ہوں کہ آنکھوں کو پاک کرو اور ان کو روحانیت کے طور سے ایسا ہی روشن کرو جیسا کہ وہ ظاہری طور پر روشن ہیں ظاہری رویت تو حیوانات میں بھی موجود ہے مگر انسان اس وقت سوجا کھا کہلا سکتا ہے جب کہ باطنی رویت یعنی نیک و بد کی شناخت کا اس کو حصہ ملے اور پھر نیکی کی طرف جھک جائے سو تم اپنی آنکھوں کے لئے نہ صرف چارپاؤں کی بینائی بلکہ حقیقی بینائی ڈھونڈو اور اپنے دلوں سے دنیا کے بت باہر پھینکو کہ دنیا دین کی مخالف ہے جلد مرو گے اور دیکھو گے کہ نجات انہیں کو ہے کہ جو دنیا کے جذبات سے بیزار اور بری اور صاف دل تھے.میں کہتے کہتے ان باتوں کو تھک گیا کہ اگر تمہاری یہی حالتیں ہیں تو پھر تم میں اورغیروں میں فرق ہی کیا ہے لیکن یہ دل کچھ ایسے ہیں کہ توجہ نہیں کرتے اور ان آنکھوں سے مجھے بینائی کی توقع نہیں لیکن خدا اگر چاہے اور میں تو ایسے لوگوں سے دنیا اور آخرت میں بیزار ہوں.اگر میں صرف اکیلا کسی جنگل میں ہوتا تو میرے لئے ایسے لوگوں کی رفاقت سے بہتر تھا جو خدا تعالیٰ کے احکام کو عظمت سے نہیں دیکھتے اور اس کے جلال اور عزت سے نہیں کانپتے اگر انسان بغیر حقیقی راستبازی کے صرف منہ سے کہے کہ میں مسلمان ہوں یا اگر ایک بھوکا صرف زبان پر روٹی کا نام لاوے تو کیا فائدہ ان طریقوں سے نہ وہ نجات پائے گا اور نہ وہ سیر ہوگا.کیا خدا تعالیٰ دلوں کو نہیں دیکھتا.کیا اس علیم و حکیم کی گہری نگاہ انسان کی طبیعت کے پاتال تک نہیں پہنچتی.پس اے نادانوخوب سمجھو اے غافلو خوب سوچ لوکہ بغیر سچی پاکیزگی ایمانی اور اخلاقی اور اعمالی کے کسی طرح رہائی نہیں اورجو شخص ہر طرح سے گندہ رہ کر پھر اپنے تئیں مسلمان سمجھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کو نہیں بلکہ وہ اپنے تئیں دھوکا دیتا ہے اور مجھے ان لوگوں سے کیا کام جو سچے دل سے دینی احکام اپنے سر پر نہیں اٹھا لیتے اور رسول کریم کے پاک جوئے کے نیچے صدق دل سے اپنی گردنیں نہیں دیتے اور راستبازی کو اختیار نہیں کرتے اور فاسقانہ عادتوں سے بیزار ہونا نہیں چاہتے اور ٹھٹھے کی مجالس کو نہیں چھوڑتے اور ناپاکی کے خیالوں کو ترک نہیں کرتے اور انسانیت اور تہذیب اور صبر اور نرمی کا جامہ نہیں پہنتے بلکہ غریبوں کو ستاتے اور عاجزوں کو دھکے دیتے اور اکڑ کر بازاروں میں چلتے اور تکبر سے کرسیوں پر بیٹھے ہیں اور اپنے تئیں بڑا سمجھتے ہیں اور کوئی بڑا نہیں مگر وہی جو اپنے تئیں چھوٹا خیال کرے.
مبارک وہ لوگ جو اپنے تئیں سب سے زیادہ ذلیل اور چھوٹا سمجھتے ہیں اور شرم سے بات کرتے ہیں اور غریبوں اور مسکینوں کی عزت کرتے اور عاجزوں کو تعظیم سے پیش آتے ہیں اور کبھی شرارت اور تکبر کی وجہ سے ٹھٹھا نہیں کرتے اور اپنے رب کریم کو یاد رکھتے ہیں اور زمین پر غریبی سے چلتے ہیں.سو میں بار بار کہتا ہوں کہ ایسے ہی لوگ ہیں جن کے لئے نجات طیار کی گئی ہے.جو شخص شرارت اور تکبر اور خودپسندی اور غرور اور دنیا پرستی اور لالچ اور بدکاری کی دوزخ سے اسی جہان میں باہر نہیں وہ اس جہان میں کبھی باہر نہیں ہوگا.میں کیا کروں اور کہاں سے ایسے الفاظ لاؤں جو اس گروہ کے دلوں پر کارگر ہوں خدایا مجھے ایسے الفاظ عطا فرما اور ایسی تقریریں الہام کر جو ان دلوں پر اپنا نور ڈالیں اور اپنی تریاقی خاصیت سے ان کی زہر کو دور کردیں.میری جان اس شوق سے تڑپ رہی ہے کہ کبھی وہ بھی دن ہوکہ اپنی جماعت میں بکثرت ایسے لوگ دیکھوں جنہوں نے درحقیقت جھوٹ چھوڑ دیا اور ایک سچا عہد اپنے خدا سے کر لیا کہ وہ ہریک شر سے اپنے تئیں بچائیں گے اور تکبر سے جو تمام شرارتوں کی جڑ ہے بالکل دور جا پڑیں گے اور اپنے رب سے ڈرتے رہیں گے مگر ابھی تک بجز خاص چند آدمیوں کے ایسی شکلیں مجھے نظر نہیں آتیں.ہاں نماز پڑھتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ نماز کیا شے ہے.جب تک دل فروتنی کا سجدہ نہ کرے صرف ظاہری سجدوں پر امید رکھنا طمع خام ہے جیسا کہ قربانیوں کا خون اور گوشت خدا تک نہیں پہنچتا صرف تقویٰ پہنچتی ہے ایسا ہی جسمانی رکوع و سجود بھی ہیچ ہے جب تک دل کا رکوع و سجود قیام نہ ہو.دل کا قیام یہ ہے کہ اس کے حکموں پر قائم ہو اور رکوع یہ کہ اس کی طرف جھکے اور سجود یہ کہ اس کیلئے اپنے وجود سے دست بردار ہو.سو افسوس ہزار افسوس کہ ان باتوں کا کچھ بھی اثر میں ان میں نہیں دیکھتا مگر دعا کرتا ہوں اور جب تک مجھ میں دم زندگی ہے کئے جاؤں گا اور دعا یہی ہے کہ خدا تعالیٰ میری اس جماعت کے دلوں کو پاک کرے اور اپنی رحمت کا ہاتھ لمبا کرکے ان کے دل اپنی طرف پھیر دے اور تمام شرارتیں اور کینے انکے دلوں سے اٹھا دے اور باہمی سچی محبت عطا کردے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ دعا کسی وقت قبول ہوگی اور خدا میری دعاؤں کو ضائع نہیں کرے گا.ہاں میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ اگر کوئی شخص میری جماعت میں خدا تعالیٰ کے علم اور ارادہ میں بدبخت ازلی ہے جس کے لئے یہ مقدر ہی نہیں کہ سچی پاکیزگی اور خدا ترسی اس کو حاصل ہو تو اس کو اے قادر خدا میری طرف سے بھی منحرف کردے جیسا کہ وہ تیری طرف سے منحرف ہے اور اس کی جگہ کوئی اور لا جس کا دل نرم اور جس کی جان میں تیری طلب ہو.اب میری یہ حالت ہے کہ بیعت کرنے والے سے میں ایسا ڈرتا ہوں جیسا کہ کوئی شیر سے.اسی وجہ سے کہ میں نہیں چاہتا کہ کوئی دنیا کا کیڑا رہ کر میرے ساتھ پیوند کرے.پس التواء جلسہ کا ایک یہ سبب ہے جو میں نے بیان کیا.
دوسرے یہ کہ ابھی ہمارے سامان نہایت ناتمام ہیں اور صادق جاں فشاں بہت کم اور بہت سے کام ہمارے اشاعت کتب کے متعلق قلت مخلصوں کی سبب سے باقی پڑے ہیں پھر ایسی صورت میں جلسہ کا اتنا بڑا اہتمام جو صدہا آدمی خاص اور عام کئی دن آکر قیام پذیر رہیں اور جلسہ سابقہ کی طرح بعض دور دراز کے غریب مسافروں کو اپنی طرف سے زاد راہ دیا جاوے اور کماحقّہٗ کئی روز صدہا آدمیوں کی مہمانداری کی جاوے اور دوسرے لوازم چارپائی وغیرہ کا صدہا لوگوں کے لئے بندوبست کیا جائے اور ان کے فروکش ہونے کے لئے کافی مکانات بنائے جائیں.اتنی توفیق ابھی ہم میں نہیں اور نہ ہمارے مخلص دوستوں میں.اور یہ بات ظاہر ہے کہ ان تمام سامانوں کو درست کرنا ہزارہا روپیہ کا خرچ چاہتا ہے اور اگر قرضہ وغیرہ پر اس کا انتظام بھی کیا جائے تو بڑے سخت گناہ کی بات ہے کہ جو ضروریات دین پیش آ رہی ہیں وہ تو نظر انداز ہیں اور ایسے اخراجات جو کسی کو یاد بھی نہیں رہتے اپنے ذمہ ڈال کر ایک رقم کثیر قرضہ کی خوانخواہ اپنے نفس پر ڈال لی جائے.ابھی باوجود نہ ہونے کسی جلسہ کے مہمانداری کا سلسلہ ایسا ترقی پر ہے کہ ایک برس سے یہ حالت ہو رہی ہے کہ کبھی تیس تیس چالیس چالیس اور کبھی سو تک مہمانوں کی موجودہ میزان کی ہر روزہ نوبت پہنچ جاتی ہے جن میں اکثر ایسے غربا فقرا دور دراز ملکوں کے ہوتے ہیں جو جاتے وقت ان کو زادراہ دیکر رخصت کرنا پڑتا ہے برابر یہ سلسلہ ہر روز لگا ہوا ہے اور اس کے اہتمام میں مکرمی مولوی حکیم نور الدین صاحب بدل و جان کوشش کر رہے ہیں اکثر دور کے مسافروں کو اپنے پاس سے زاد راہ دیتے ہیں چنانچہ بعض کو قریب تیس تیس یا چالیس چالیس روپیہ کے دینے کا اتفاق ہوا ہے اور دو دو چار چار تو معمول ہے اور نہ صرف یہی اخراجات بلکہ مہمانداری کے اخراجات کے متعلق قریب تین چار سو روپیہ کے انہوں نے اپنی ذاتی جوانمردی اور کریم النفسی سے علاوہ امدادات سابقہ کے ان ایام میں دیئے ہیں اور نیز طبع کتب کے اکثر اخراجات انہوں نے اپنے ذمہ کر لئے کیونکہ کتابوں کے طبع کا سلسلہ بھی برابر جاری ہے گو بوجہ ایسے لابدی مصارف کے اپنے مطبع کا اب تک انتظام نہیں ہو سکا لیکن مولوی صاحب موصوف ان خدمات میں بدل و جان مصروف ہیں اور بعض دوسرے دوست بھی اپنی ہمت اور استطاعت کے موافق خدمت میں لگے ہوئے ہیں مگر پھر کب تک اس قدر مصارف کا تحمل نہایت محدود آمدن سے ممکن ہے.غرض ان وجوہ کے باعث سے اب کے سال التوائے جلسہ مناسب دیکھتا ہوں آگے اللہ جلّ شانہٗ کا جیسا ارادہ ہو.کیونکہ اس کا ارادہ انسان ضعیف کے ارادہ پر غالب ہے.مجھے معلوم نہیں کہ کیا ہونے والا ہے اور میں نہیں جانتاکہ خدا تعالیٰ کا منشاء
میری اس تحریر کے موافق ہے یا اس کی تقدیر میں وہ امر ہے جو اب تک مجھے معلوم نہیں.وافوض امری الی اللہ واتوکل علیہ ھو مولانا نعم المولی و نعم النصیر.خاکسار غلام احمد از قادیان
قصیدہ درمدح حضرت اقدس مولانا و مرشدنا مسیح موعود صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ از اٰ ثم بندہ رحمت علی از مقام برناوہ ای ذات تو کان گوہرِ علم دانی تو بہائے جوہرِ علم از علم دلِ تو گنج بر گنج و ز خامہ کشادۂ درِ علم علمست بذات روح پرور تو آمدی روح پرورِ علم تو نافہ کشائے پردۂ راز تو نشر شمیم عنبرِ علم در دیدہ نشین تو مردم آسا ای صدر نشین و سرورِ علم تو نورِ چراغِ دینِ احمد تو شمع منار و منبرِ علم ایمان ز تو جیغہ جیغۂ ابرو تو غازۂ روئے دلبرِ علم تو مظہر آخرین منہم تو اوّل حرفِ آخرِ علم برتُست رہِ ہُدیٰ نمودن امروز توئی چو رہبرِ علم اکنون تو کلاہ ناز بر کن ای تاجِ مزین سرِ علم دادی خبرِ وفاتِ عیسیٰ کو بود نہان بدفترِ علم فرخندہ بمان کہ تازہ کردی زیبندہ لباس دربرِ علم آن وعدہ کہ عالمِ زمانہ کردست بما زِ داورِ علم بینم بہ رخت نشان موعود گونیست مرا بصائرِ علم تو مہدی و ہادئ زمانے تو عیسیٰ و خوش پیمبرِ علم در دست پئی گلوی دجال داری تو کشیدہ خنجرِ علم بر روہمہ عالمان صورت دارند حجاب اکبرِ علم آنرا کہ ہدایت ازل ہست آرند کشان کشان برِ علم برمن نظرے زِ چشم رحمت ای روئے تو نیک منظرِ علم من تشنہ لب و فتادہ در رہ تو ساقی آب کوثرِ علم
انڈیکس روحانی خزائن جلدنمبر۶ مرتبہ :مکرم نور اللہ خان صاحب زیر نگرانی سیدعبدالحی آیات قرآنیہ ۳ احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم ۸ مضامین ۹ اسماء ۳۳ مقامات ۴۴ کتابیات ۴۶
آیات قرآنیہ الفاتحۃ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم(۱)...۱‘۵‘۳۴‘۳۸‘ ۴۴‘ ۶۱‘ ۶۴‘ ۶۹‘ ۷۲‘ ۷۶‘ ۷۷‘ ۷۹‘ ۸۵‘ ۸۹‘ ۹۷‘ ۱۱۳‘‘۱۹۵‘۲۹۷، الحمد للّٰہِ رب العالمین...(۲تا۴) ۱۰۱‘۱۲۵‘۲۱۰‘۲۴۳ الرحمٰن الرحیم(۳) ۲۶۶ مالک یوم الدین (۴) ۱۲۶ اھدنا الصراط ا لمستقیم...(۶‘۷) ۱۱۵‘۳۵۲ البقرۃ فی قلوبھم مرضٌ فزادھم اللّٰہ مرضاً...(۱۱) ۲۳۴ فاتوابسورۃ من مثلہ...(۲۴) ۲۲۷ یضل بہ کثیراً و یھدی بہ کثیراً...(۲۷) ۲۳۳ وَالَّذین کفروا وکذّبوا باٰیٰتنا...(۴۰) ۲۱۰‘۳۴۱ یا بنی اسرائیل اذکروا نعمتی...(۴۱) ۳۲۶ واذنجّینا کم من اٰل فرعون...(۵۰‘۵۱) ۳۲۶ واذقلتم یا موسیٰ لنْ نومن...(۵۶تا۵۸) ۳۲۷‘۳۲۹ لن نصبر علیٰ طعام واحد...(۶۲) ۳۲۷ ضُرِبَتْ علیھم الذّلّۃ والمسکنۃ...(۶۲) ۳۲۶‘۳۵۷ فما جزآء من یفعل ذٰلک منکم...(۸۶) ۳۳۲ ولقد اٰتینا موسَی الکتاب...(۸۸) ۳۲۲‘۳۴۰ وقفّینا من بعدہ بالرُّسل (۸۸) ۳۲۳ وقالوا لن ید خل الجنۃ...(۱۱۲‘۱۱۳) ۱۴۳ بلی من اسلم وجھہ للّٰہ...(۱۱۳) ۱۹۹‘۲۰۰ اناللہ...(۱۵۷) ۱۲ ان فی خلق السمٰوٰت والارض...(۱۶۵) ۱۲۴‘۱۲۵ فمن کان منکم مریضا اوعلیٰ سفر...(۱۸۵) ۳۳۱ واذا سالک عبادی عنی...(۱۸۷) ۱۴۶ وقاتلوا فی سبیل اللّٰہ...(۱۹۱) ۲۴۵‘۲۵۵ واقتلو ھم حیث ثقفْتُمُوھم...(۱۹۲) ۲۵۵ وقاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ...(۱۹۴) ۲۵۵‘۲۵۷‘۲۶۳ قل قتال فیہ کبیر...(۲۱۸) ۲۵۵ ولا یزالون یقاتلو نکم حتی یردّو کم...(۲۱۸) ۲۴۵ ذالک یوعظ بہ من کان منکم یومن...(۲۳۳) ۳۳۱ والذین یتوفون منکم...(۲۳۵) ۳۳۱ ولولا دفع اللّٰہ الناس بعضھم ببعض...(۲۵۲) ۲۴۵‘۲۵۵ لا اکراہ فی الدین...(۲۵۷) ۲۲۷‘۲۷۵‘۲۸۳ اللّٰہ ولی الذین اٰمنوا...(۲۵۸) ۸۷ لھا ماکسبت وعلیھا ما اکتسبت (۲۸۷) ۲۳۱ اٰل عمران ان الدین عنداللّٰہ الاسلام...(۲۰) ۸۵ تعالو الیٰ کلمۃ...(۶۵) ۲۸۹ ومن یبتغ غیر الاسلام دیناً فلن یقبل منہ...(۸۶) ۸۵ یاھل الکتاب لم تصدّون...(۱۰۰) ۲۴۵‘۲۵۶ ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر...(۱۰۵) ۳۳۱ کنتم خیرامۃ اخرجت للناس...(۱۱۱) ۳۵۵ یقولون ھل لنا من الامر من شیء...(۱۵۵) ۲۲۶‘۲۳۱ قل ان الا مر کلہ للّٰہ...(۱۵۵) ۲۳۲ اَنِّی لا اُضِیْعُ عملَ عاملٍ منکم...(۱۹۶) ۳۳۱ النسآء لا تاکلوا اموالکم بَیْنَکُمْ بالباطل...(۳۰) ۳۳۱ وجئنابک علی ٰ ھؤلاء شھیداً (۴۲) ۳۶۳ اطیعوااللّٰہ و اطیعوا الرسول...(۶۰) ۳۳۲ فکیف اذا اصابتھم مصیبۃ...(۶۳) ۲۳۱ فاولٰئک مع الذین انعم اللّٰہ علیھم...(۷۰) ۱۱۵ ومالکم لا تقاتلون فی سبیل اللّٰہ...(۷۶) ۲۴۴
وکان فضل اللّٰہ علیک عظیمًا (۱۱۴) ۳۵۵ بل طبع اللّٰہ علیھا بکفر ھم...(۱۵۶) ۲۳۴ ورُسُلًا قد قصصنا ھم علیک...(۱۶۵) ۳۴۳ وکلم اللّٰہ موسیٰ تکلیماً...(۱۶۵،۱۶۶) ۳۴۳ المائدۃ الیوم اکملت لکم دینکم...(۴) ۸۶‘۹۸‘۱۱۹ ۱۲۳‘۱۲۴‘۳۳۹‘۳۴۰ ان کنتم مرضٰی اوعلیٰ سفر...(۷) ۳۳۱ ما المسیح ابن مریم الا رسول...(۷۶) ۸۹ قدخلت من قبلہ الرسل...(۷۶) ۹۱‘۱۱۴ وامّہ صدیقۃ...(۷۶) ۹۲ کانا یاکلان الطعام...(۷۶) ۹۲ قال اللّٰہ انی منزلھا علیکم...(۱۱۶) ۳۳۴ فلما توفّیتنی کنت انت الرقیب علیھم...(۱۱۸) ۵۸‘ ۳۳۰‘۳۶۱ الانعام ما فرّطنا فی الکتاب من شیء...(۳۹) ۸۶ بل ایّاہ تدعون فیکشف...(۴۲) ۱۳ سلٰم علیکم کتب ربکم علیٰ نفسہ الرحمۃ...(۵۵) ۲۸۱ من عمل منکم سوٓء بجھالۃ...(۵۵) ۳۳۲ ما قدروا اللہ حق قدرہ...(۹۲) ۳۱ح قل انما الاٰیات عنداللّٰہ...(۱۱۰) ۱۵۵ قل انّ صلوٰ تی ونسکی و محیای...(۱۶۳‘۱۶۴) ۱۴۴ الاعراف قال سنقتّل ابنآء ھم و نستحی نسآء ھم...(۱۲۸تا ۱۳۰) ۳۲۵ قال عذابی اصیب بہ من اشاء...(۱۵۷) ۲۰۷ الانفال یٰایھا الذین اٰمنواان تتقو ا اللّٰہ...(۳۰) ۱۴۶ واذ یمکر بک الذین کفروا لیثبتوک...(۳۱) ۲۴۴ ویکون الدین کلہ للّٰہ...(۴۰) ۲۷۴ التوبۃ ثم ابلغہ ما منہ...(۶) ۲۶۴ ذالک بانھم قوم لا یعلمون...(۶) ۲۶۳ کیف یکون للمشرکین عھد...(۷) ۲۶۴ لا یرقبون فی مومن الاًّولا ذمۃ...(۱۰) ۲۶۴ وان نکثوا ایمانھم من بعد عھدھم...(۱۲‘۱۳) ۲۶۴ وھم بدء و کم اول مرۃ...(۱۳) ۲۴۵‘۲۵۶ وجاھدوا فی سبیل اللّٰہ باموالھم...(۲۰) ۲۷۶ قاتلوا الذین لا یومنون باللّٰہ...(۲۹) ۲۲۶‘۲۵۴ حتّٰی یعطوا الجزیۃ عن ید...(۲۹) ۲۵۶ وقالت الیھود عزیر ابن اللّٰہ...(۳۰تا۳۳) ۱۶۶‘۱۶۷ یریدون ان یطفؤا نور اللّٰہ...(۳۲) ۲۹۰ وکونوا مع الصادقین(۱۱۹) ۳۴۷ یونس قل اللّٰہ یھدی للحق...(۳۶) ۸۶ الا ان اولیاء اللّٰہ لا خوف علیھم...(۶۳تا ۶۵)۱۴۵ لھم البشری فی الحیوۃ الدنیا...(۶۵) ۳۳۵ ھود لا تسئلن...(۴۷) ۱۳ انی اعظک ان تکون من الجاھلین (۴۷) ۱۳ الیہ یر جع الامر کلہ...(۱۲۴) ۲۴۰ الرعد ام جعلوا للّٰہ شرکاء خلقوا کخلقہ...(۱۷) ۱۶۸ انز ل من السماء ماءً...(۱۸) ۸۶ فسالت اودیۃ بقدر ھا...(۱۸) ۳۲۱ واما ما ینفع الناس...(۱۸) ۳۵۱ ولا یزا ل الذین کفروا...(۳۲) ۳۵۲
ابراہیم الم ترکیف ضرب اللّٰہ مثلاً...(۲۵تا۲۸) ۱۲۳ اصلھا ثابت...(۲۵) ۱۲۴ فرعھا فی السماء...(۲۵) ۱۲۴‘۱۲۵‘۱۲۶ توتی اکلھا کل حین...(۲۶) ۱۲۴‘۱۲۶‘۱۴۶ من فوق الارض...(۲۷) ۱۲۴ اللّٰہ الذی خلق السمٰوٰت والارض...(۳۳تا ۳۵) ۲۲۰ وان تعدوا نعمت اللّٰہ لا تحصوھا...(۳۵) ۲۰۹ الحجر انّا نحن نزّلنا الذکر...(۱۰) ۳۳۸‘ ۳۳۹‘ ۳۵۰‘۳۵۱ ولقد علمنا المستقد مین منکم...(۲۵) ۳۳۲ ان عبادی لیس لک علیھم سلطان...(۴۳) ۲۳۲‘۲۴۱ النحل والا نعام خلقھا لکم فیھا دف ءٌ...(۶) ۲۲۰ وھو الّذی سخر البحر لتا کلوا منہ...(۱۵) ۲۲۰ واللّٰہ انز ل من السماء ماء...(۶۶) ۲۲۰ ان اللّٰہ یا مر بالعدل والاحسان...(۹۱) ۱۲۷ من کفر باللّٰہ من بعد ایمانہ...(۱۰۷) ۲۸۴ ان عاقبتم فعا قبوا بمثل ما عو قبتم بہ...(۱۲۷) ۲۴۵‘۲۵۵ ولئن صبر تم لھو خیرللصابرین (۱۲۷) ۲۵۶ بنی اسرائیل ان ھٰذا القرآن یھدی للتی ھی اقوم...(۱۰) ۸۶‘۹۸ لا تزر وازرۃ وزر اُخْرٰی...(۱۶) ۳۲۸ وما کنّا معذّبین حتی نبعث رسولا (۱۶) ۲۸۱‘۳۵۲ کل یعمل علیٰ شاکلتہ...(۸۵) ۲۷۸ قل لئن اجتمعت الانس و الجن...(۸۹) ۸۶ ولقد صرّفنا للناّس فی ھذا القرآن...(۹۰) ۸۶ الکہف یسئلونک...(۸۴) ۲۸۴ فاذا جَآءَ وعد ربّی جعلہ دَکَّآءَ...(۹۹‘۱۰۰) ۳۱۱ مریم انّا نبشرک بغلام...(۸) ۳۱ سلام علیک...(۴۸) ۲۲۷ وان منکم الا واردھا...(۷۲) ۳۳۲ وقالوا اتخذ الرحمن ولدًا...(۸۹تا ۹۲) ۱۷۹ طٰہٰ والسلام علی من اتبع الھُدٰی (۴۸) ۴‘۳۷‘ ۴۰ ‘ ۴۳‘ ۵۰‘ ۵۷‘ ۵۹‘۶۳‘۶۶‘۸۲‘۲۹۳ اعطیٰ کل شیء خلقہ ثم ھدٰی(۵۱) ۲۷۸ انہ من یات ربہ مجرماً...(۷۵) ۳۴۷ الانبیاء وقالو ا اتخذا لرحمٰن ولدًا...(۲۷) ۱۷۸ ومن یقل منھم انی الہ من دونہ...(۳۰) ۱۷۸ والتی احصنت فرجھا...(۹۲تا ۹۴) ۳۱۰ حتیّٰ اذا فتحت یاجوج و ماجوج...(۹۷‘۹۸) ۳۱۰ من کل حدب ینسلون (۹۷) ۳۵۹‘۳۶۰‘۳۶۲‘۳۶۶‘۳۷۳ ولقدکتبنا فی الزبور من بعد الذکر...(۱۰۶) ۳۵۴ الحج اذ ن للذین یقاتلون بانھم ظلموا...(۴۰‘۴۱) ۲۵۵‘۲۶۲ الذین اخرجوا من دیار ھم...(۴۱) ۲۶۳ ویعبدون من دون اللّٰہ...(۷۲) ۱۷۹ المومنون ثم ارسلنا رسلنا تترًا (۴۵) ۳۴۰‘۳۴۱ النور وعد اللّٰہ الذین اٰمنو امنکم...(۵۶) ۲۹۰‘ ۳۲۴‘ ۳۳۰‘۳۳۲‘۳۳۳‘۳۳۸‘۳۳۹‘۳۵۲‘۳۶۳ ومن کفر بعد ذٰلک...(۵۶) ۳۳۴‘۳۴۴
الفرقان و خلق کل شیء فقدرہٗ تقدیراً (۳) ۲۳۲ الشعرآء بلسانٍ عربیٍّ مبینٍ (۱۹۶) ۲۹۱ النمل فلما جآء ھا نودی ان بورک...(۹) ۱۰۷ وسبحان اللّٰہ رب العٰلمین (۹) ۱۰۷ العنکبوت بل ھو اٰیات بیّنات...(۵۰) ۳۵۰ والذین جاھدوا فینا لنھد ینّھم سبلنا...(۷۰) ۳۵۲ الروم اللّٰہ الّذی خلقکم ثمّ رزقکم...(۴۱) ۱۶۸ الاحزاب اذ جآء وکم من فوقکم...(۱۱) ۲۴۵ الذین یبلغون رسالات اللّٰہ...(۴۰) ۱۳۵ ولا یخشون احدًا الا اللّٰہ...(۴۰) ۲۷۶ ولٰکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین...(۴۱) ۳۶۱ یٰا یھا النبی انا احللنا لک ازواجک...(۵۱) ۲۷۱ فاطر منھم ظالم لنفسہ ومنھم مقتصد...(۳۳) ۲۷۶ ولو یواخذ اللّٰہ الناس بما کسبوا...(۴۶) ۲۳۱ یٰسٓ وھو بکل خلق علیم (۸۰) ۱۰۱ اولیس الذی خلق السمٰوٰت والا رض...(۸۲‘۸۳) ۱۰۱ آ لا ملئن جھنم منک و ممن تبعک...(۸۶) ۲۳۳ الزمر ونُفِخَ فی الصور فصعق من فی السمٰوات...(۶۹) ۳۲۱ المومن غافر الذنب وقابل التوب...(۴) ۲۱۰ ادعونی استجب لکم...(۶۱) ۵،۶،۱۲ حٰآ السجدۃ ا ن الّذین قالوا ربنا اللّٰہ ثم استقاموا...(۳۱تا۳۳) ۱۲۶‘۱۴۵ تتنزل علیھم الملائکۃ الا تخا فوا...(۳۱) من عمل صالحا فلنفسہ...(۴۷) ۲۳۱ الشوریٰ اللّٰہ الذی انزل الکتاب بالحق...(۱۸) ۸۶ جزاء سیءۃ سیءۃ مثلھا...(۴۱) ۱۲۷ الدّخان انا انزلنٰہ فی لیلۃ مبارکۃ...(۴‘۵) ۸۷ الاحقا ف قل ارء یتم ما تدعون من دون اللّٰہ...(۵‘۶) ۱۳۷ محمد واستغفر لذنبک...(۲۰) ۲۶۰ الفتح ھوا لذی ارسل رسولہ بالھدٰی...(۲۹) ۸۶ کرزع اخرج شطأہٗ...(۳۰) ۲۹۱ النجم وما ینطق عن الھوٰی ان ھوالا وحی یوحٰی (۴‘۵) ۲۰ح وان لیس للانسان الا ما سعٰی (۴۰) ۲۳۱ ا لقمر حکمۃ بالغۃ...(۶) ۸۶
الرحمن کل یوم ھو فی شان (۳۰) ۲۹ الواقعۃ ثلۃ من الاولین و قلیل من الاٰخرین(۱۴‘۱۵) ۳۲۴‘۳۳۷ فلا اقسم بمواقع النجوم...(۷۶‘۷۷) ۸۷‘۲۸۱ انہ لقرآن کریم فی کتاب مکنون...(۷۸تا ۸۰) ۸۷ لا یمسہ الا المطھرون(۸۰) ۱۸‘۳۴۸ ان ھٰذا لھوحق الیقین(۹۶) ۸۷ الحدید اعلموا ان اللّٰہ یحی الارض...(۱۸) ۳۲۱ ثم قفینا علٰی اٰثار ھم برسلنا...(۲۸) ۳۲۸ الصف کانھم بنیان مرصوص(۵) ۲۷۶ فلما زاغوا ازاغ اللّٰہ قلوبھم...(۶) ۲۳۴ ھوالذی ارسل رسولہ بالھدٰی...(۱۰) ۳۱۰ الجمعۃ ھوا لذی بعث فی الامیین رسولًا...(۳) ۳۳۸ یعلمھم الکتاب والحکمۃ...(۳) ۳۴۸ اٰخرین منھم لمّا یلحقوا بھم...(۴) ۳۷۵ الحاقۃ وانہ لتذکرۃ للمتقین (۴۹) ۸۷ الجنّ خالد ین فیھا ابداً...(۲۴) ۲۸ح المزمّل انا ارسلنا الیکم رسولاً شاھدًا...(۱۶) ۳۲۲‘۳۶۳ کما ارسلنا الی فرعون رسولاً(۱۶) ۳۶۲ المرسلٰت واذا الجبال نسفت(۱۱) ۳۱۸ واذا الرسل اقتت(۱۲) ۳۱۹‘۳۲۰ التکویر اذا الشمس کوّرت (۲) ۳۱۸ واذا النجوم انکدرت(۸) ۳۱۹ واذا العشار عطلت(۵) ۳۰۹‘۳۱۸ واذا الوحوش حشرت(۶) ۳۱۸ واذا النفوس زوجت (۸) ۳۱۸ واذا الصحف نشرت (۱۱) ۳۱۸ وما ھو علی الغیب بضنین (۲۵) ۸۷ الانفطار اذا السمآء انفطرت (۲) ۳۱۹ واذا الکواکب انتثرت (۳) ۳۱۹ واذا البحار فجرت (۴) ۳۱۸ الانشقاق اذا السماء انشقت (۲) ۳۱۹ واذا الارض مدت والقت ما فیھا...(۴‘۵) ۳۱۷ الطارق انہ لقول فصل(۱۴) ۸۶ الشمس فالھمھافجور ھا وتقوٰھا(۹) ۲۰ح قدافلح من زکّٰھاَ(۱۰) ۴۲ القدر انا انزلنٰہ فی لیلۃ القدر...(۲تا۶) ۳۱۳ الزلزال اذا زلزلت الارض زلزالھا...(۲تا۶) ۳۱۴‘۳۱۷
احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم الآیات بعد المائتین ۳۶۵ الحکمۃ ضالۃ المومن ۳۹۲ح علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل ۳۲۳ عیسٰی عند منارۃ دمشق ۳۷۵ لیترکن القلاص فلا یسعی علیھا ۳۰۸ من فسر القرآن برایہ فاصاب فقدا خطاء ۱۹ من لم یعرف امام زمانہ فقدمات میتۃ الجاھلیۃ ۳۳۴ ھذا خلیفۃ اللہ المہدی ۳۳۷ احادیث بالمعنی نار حجاز کی حدیث ۳۰۵ کسریٰ ہلاک ہو گا اور بعد اس کے کسریٰ نہیں ہو گا اور قیصر ہلاک ہو گا اور بعداس کے قیصر نہیں ہوگا ۳۰۶ علماء امت کے یہود کے مشابہ ہونے ان سے تقویٰ اٹھ جانے کا ذکر ۳۰۶،۳۰۷ عیسائیت کا غالب آنا اور دوسری قوموں کا مغلوب ہونا ۳۰۷ مصیبتیں پڑنے اور مسلمانوں سے تقویٰ اٹھ جانے کی صورت میں اکیلے زندگی بسر کرنے کی نصیحت ۳۰۷ مسیح موعود کے ہاتھ سے عیسائیت کا خاتمہ ہو گا اور وہ صلیب کو توڑے گا ۳۰۷ دجال نبوت کا دعویٰ کرے گا اور خدائی کا دعویٰ بھی اس سے ظہور میں آئے گا ۳۱۶ اس زمانے میں اونٹ کی سواریاں موقوف ہو جائیں گی ۳۱۷ حارث آئے گا ، مہدی آئے گا، آسمانی خلیفہ آئے گا ۳۳۷ میری امت کا اول اور آخری زمانہ باہم بہت متشابہ ہیں اور یہ دونوں زمانے اس بارش کی طرح ہیں کہ کچھ معلوم نہیں کہ برکت پہلے حصہ میں زیادہ ہے یا پچھلے میں ۳۳۸ حدیث میں مذکور تین زمانے ۳۳۸ (۱) خلافت راشدہ (۲) فیج اعوج اور ملک عضوض (۳) نبوت کی منہاج پر خلافت کا قیام رؤیا میں دیکھے گئے منبر کے سات درجوں کو دنیا کا سات ہزار برس قرار دیا ہے ۳۶۵
مضامین آ،ا آخرت دارآخرت کی نعمتیں ایمانی دعاؤں کا نتیجہ ہیں ۱۴ قرآن کا عام محاورہ ہے کہ دنیا کے قصہ کے ساتھ آخرت کا قصہ پیوند کیا جاتاہے ۳۱ح آخری زمانہ آخری زمانہ کی علامات ۳۱۴،۳۱۷،۳۱۸،۳۲۰،۳۲۶،۳۶۵ آخری دور میں دوز مانے ایک ضلالت کا.دوسرا ہدایت کا ۳۲۱ آخری زمانہ اور مسیح موعود کے آنے پر دلالت کرنے والی آیات ۳۲۱ آخری زمانہ زمانہ نبوت کے نہج پر ہوگا ۳۳۸ احادیث میں آخری زمانہ کے متعلق پیشگوئیاں ۳۰۶،۳۰۷ آخری زمانہ کی موسیٰ کے آخری زمانہ سے دو باتوں میں مشابہت (۱)امت کا حال ابتر ہونا دنیا کے اقبال میں ضعف اور تقویٰمیں فرق(۲) ایسے زمانہ میں مسیح موعود کے نام پر مجدد کا پیدا ہونا ۳۶۴ آریہ آریوں کا قول کہ پر میشور ذرات عالم کا پیدا کرنے والا نہیں ۲۸ آسمانی نشان آسمانی نشانوں سے بڑی بڑ ی نبوتیں اور کتابوں کا الٰہی کلام ہونا ثابت ہوگیا ۳۶۷ آج تک تین ہزار سے زیادہ نشان ظاہرہوچکے ہیں ۳۶۹ آگ آگ استحالہ سے خالی نہیں ۲۸ آگ کی حرارت اپنے اثر سے رک سکتی ہے ۳۰ موسیٰ ؑ کو دکھائی جانے والی آگ کی وضاحت ۱۰۷ ابنیت مسیح دیکھئے عیسائیت اجرام فلکی اجرام فلکی کی تسخیر کی وجہ ۲۵ اجرام علوی میں بھی استحالات کا مادہ ہے ۲۹ح احسان بڑااحسان یہی ہے کہ خدا اسلام کو مردہ مذہب رکھنا نہیں چاہتا ۲۵ احسان کوئی صفت نہیں بلکہ صفت رحم کا نتیجہ ہے ۷۷۲ محسن وہ ہے جوخدمتگاری اورفرمانبرداری کاحق بجالائے ۱۴۴ محسن کی بدخواہی کرناحرامی اوربدکار آدمی کاکام ہے ۳۸۰ اسلام کی یہ تعلیم نہیں ہوسکتی کہ محسن سے بدی کریں ۳۸۱ احکام صحابہ کو مخاطب کرکے قرآن کریم کے چھیالیس احکام ۳۳۵،۳۳۶ بظاہر خطاب صحابہ کو مگر مخاطب ان احکام کے تمام مسلمان ہیں ۳۳۷ احکام الٰہی مخالف جذبات نفس ہیں اور نفس امارہ جن باتوں میں لذت پاتاہے احکام الٰہی ان سے منع کرتے ہیں ۳۴۵ اختیار اختیار مانا جائے تو خدا کا علت العلل ہونا لغو ہے (آتھم) اس کا جواب ۲۴۲ قرآن میں صدہا آیات اختیار کی پائی جاتی ہیں ۲۵۲ انسان مختار ہے کی وضاحت ۲۷۸ اسباب ہر خیر وشر کے حصول کے لئے اسباب مقررہیں ۷ قضاء وقدر کو اسباب سے وابستہ کر دیا گیا ہے ۸ اسباب طبعیہ میں دعا جیسی عظیم التاثیر کوئی چیز نہیں ۱۱ استجابت دعا میں سیدصاحب اسباب عادیہ کو ہیچ خیال کرتے ہیں ۵۱
استجابت دعا (دیکھئے زیر عنوان دعا) استحالہ روح کے بغیر کوئی چیز استحالات سے بچی ہوئی نہیں ۲۸ح ہر وقت ہر ایک جسم میں استحالہ کام کرتا ہے ۲۸ح آگ ، پانی اوراجرام علوی میں بھی استحالات کا مادہ ہے ۲۸،۲۹ح استعارہ عام بول چال میں استعارہ کی مثالیں ۲۷۷ کلام مجسم کا استعارہ دنیا میں کہاں بولا جاتاہے ۲۸۸ مسیح موعود کا پیدا ہونا نفخ صور کے استعارہ میں بیان کیاگیا ہے ۳۲۱ استغفار نبیؐ کے استغفار پر اعتراض ۲۶۰ استقراء استقراء کی تعریف ۱۱۳ دلیل استقرائی اور اس کی وضاحت ۹۹ قیاس استقرائی سے الوہیت مسیح کی تردید ۸۹ استقراء کو یقین کے مرتبہ سے نظر انداز کیا جائے تو دین ودنیا کا سلسلہ بگڑ جاتا ہے ۹۰ قیاس استقرائی حقائق جاننے کے لئے اوّل درجہ کا مرتبہ رکھتا ہے ۹۱ استقراء سے ثابت ہے کہ انسان ہی رسالت کا مرتبہ پاکر آتے رہے کبھی اللہ کابیٹا نہیں آیا ۹۱ آتھم کی استقراء کے بارہ میں جرح قلت تدبر کا نتیجہ ہے ۹۹ آتھم کا استقراء کی شرح کا مطالبہ ۱۰۲ استقراء سے ثابت ہے کہ اللہ نے جو پیدا کیا وہ پھر بھی پیدا کرسکتاہے ۱۰۱ آدم وحوا میں دلیل استقراء نہیں جس کا نتیجہ ہے کہ قاعدہ عامہ میں استثناء جائز ہے ۱۰۹ استقراء کے مخالف امور قانون قدرت اور سنت اللہ میں داخل ہیں ۱۱۵ خداکے بیٹے کا رسالت لیکر دنیا میں آنا دلیل استقرائی سے مستثنیٰ ہے (آتھم) ۱۸۹ اسلام ۲۲،۲۳،۵۰،۳۰۸،۳۴۰ اسلام کی نسبت قرآن کریم کی آیات ۸۵ قرآن کی تعریف اسلام کی تعریف ہے اس کے بارہ قرآنی آیات ۸۶ خدا اسلام کے نوروں اور برکتوں کا جلوہ دکھلارہا ہے ۲۴ خدا اسلام کو مردہ مذہب رکھنا نہیں چاہتا ۲۵ اے لوگواسلام ضعیف ہوگیا ہے اور اعداء دین کا چاروں طرف محاصر ہ ہے ۳۶ اسلام پر اعتراضات کا مجموعہ تین ہزار سے زیادہ ہوگیاہے ۳۶ براہین احمدیہ میں اسلام کی سچائی دوطرح سے ثابت کی گئی ہے ۳۸ دنیا میں منجا نب اللہ سچا مذہب فقط اسلام ہے ۳۸ دنیا میں زندہ اور بابرکت مذہب اسلام ہے ۴۱ اسلام کی حقانیت کی اوّل نشانی ہے کہ اس میں ایسے راستباز پیدا ہوتے ہیں جن سے خدا ہمکلام ہوا ۴۳ اسلام کی ایک زبر دست خاصیت ۵۷ اب دنیا میں زندہ مذہب صرف اسلام ہے ۶۳ قرآن میں ہے کہ نجات صرف اسلام میں ہے ۱۵۳ سچے مذہب کی تین نشانیاں اسلام میں پائی جاتی ہے ۱۶۹ ایمانداری کی علامات اسلام لانے کے بعد ظاہر ہوتی ہیں ۲۰۰ اسلام کے جہاد پر اعتراض کا جواب ۲۴۴ جہاد یعنی لڑنے میں اسلام سے ابتداء نہیں ہوئی ۲۵۶ ضعف اسلام کے وقت اسلام کے غلبہ کی خبر ۲۷۹ اسلام کی تباہی کے بارہ میں کفار کے دعووں کی قرآن میں شہادتیں ۲۹۰ زندہ خدا اسلام کے ساتھ ہے ۳۰۷ تکمیل دین کی مثال ایک گھر سے کہ جسے بنا کر صاف رکھنا ضروری ہے ۳۴۴
اسلام کی حامی تعلیم کی مثالیں جو مجرد قیل وقال سے سمجھ نہیں آسکتی ۳۴۹ اگر خلفائے نبیؐ بھی نہ آویں تو اسلام کی روحانیت کا خاتمہ ہے ۳۵۵ اسلام کے دوحصے ایک خدا کی اطاعت دوسرے سلطنت کی ۳۸۰ اشاعت وتبلیغ اسلام کی آزادی ۳۹۱ح کسی سلطنت میں امن اور آزادی سے رہتے ہوئے اس حکومت سے جہاد قطعی حرام ہے ۳۸۹ح حاکم سلطنت کے متعلق اسلام کے اصول اور تعلیم ۳۹۲ح دین اسلام مسلسل اور غیر منقطع خطرات میں پڑ جائے گا ۳۰۷ اسلام ترقی کرے گا اور ہر قوم میں داخل ہوگا ۳۰۶ اشتہار /اشتہارات انیس ہند میرٹھ اور ہماری پیشگوئی پر اعتراض ۲ لیکھرام پشاوری کی نسبت ایک اور خبر ۳۳ بخدمت امراء رئیسان ذ ی مقدرت اور والیان ارباب حکومت ۳۴ اشتہار دربارہ کتاب براہین احمدیہ ۳۸ اس اشتہار کا انگریزی ترجمہ ۴۰ اشتہار بعنوان ’’قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَ کّٰھَا‘‘ ۴۲ ڈاکٹر کلارک کا جنگ مقدس اور مقابلے کیلئے اشتہار ۴۴ میاں بٹالوی صاحب کی اطلاع کے لئے اشتہار ۵۱ اشتہار مجریہ ۱۰جولائی ۱۸۸۸ء ۵۵ چشمہ نور امرتسر میں حضورؑ کے مقابل چھپنے والا اشتہار ۵۵ شیخ محمد حسین بٹالوی کی نسبت ایک پیشگوئی ۵۸ مارٹن کلارک کی طرف سے اشتہار مسیح موعودؑ کے مقابل چھپا ۷۲ اطلاع عام ۷۴ اعلان مباہلہ بجواب اشتہار عبدالحق غزنوی ۸۱ دوہزار کے قریب اشتہارات انگریزی اور اُردو میں طبع اور روانہ کئے گئے ۳۷۰ پارلیمنٹ لند ن کی خدمت میں دعوت اسلام کا اشتہار اورخط ۳۷۰ گورنمنٹ کی توجہ کے لائق ۳۷۸ التوائے جلسہ ۲۷دسمبر ۱۸۹۳ء ۳۹۴ اعتراضات اور ان کے جوابات اسلام پر تین ہزار سے زیادہ اعتراضات ۳۶ پادریوں کے اسلام پر اعتراضات کے جوابات ۴۶ قرآن پر اعتراض دوسرے رنگ میں توریت پر اعتراض ہیں ۶۳ آتھم کا آپ کے طرز جواب پر اعتراض ۲۰۲ مسلمان بڑامعجزہ قرآن کی فصاحت وبلاغت کا بیا ن کرتے ہیں مگر قرآن میں اس دعویٰ کا ذکر نہیں(آتھم) ۲۲۷ جبرو قدر پر اعتراض کا جواب ۲۳۱ اس اعتراض کا جواب کہ خدا کی غیر متناہی حکمت استحالا ت غیر متناہیہ پرقادر ہے تو حقائق اشیاء سے امان اٹھ جاتا ہے ۲۷ح قرآن نے خواہ نخواہ بعض کو جہنم کے لئے پید اکیا کا جواب ۲۳۳ جہاد پر اعتراض طریق مناظرہ کے مخالف ہے ۲۳۴ اسلام کے جہاد پر اعتراض کا جواب ۲۴۴ آتھم کا ایمان بالجبر کا اعتراض ۲۵۷ نبیؐ کے استغفار پر اعتراض ۲۶۰ قرآن ناحق خوف کی پرستش جائز کرتاہے (آتھم) ۲۶۹،۲۸۴ قرآن کے صفات ربانی کے مخالف ہونے پر اعتراض ۲۶۹ قرآن میں اشیاء کی قسمیں کھانے پر اعتراض ۲۷۰ قرآن میں روزہ کے اوقات سحر وافطار پر اعتراض ۲۷۰ قرآن میں لوٹ اور خرید کی عورتیں جائز رکھی گئیں(آتھم) ۲۷۱ ذوالقرنین نے آفتاب کودلدلمیں غروب ہوتے پایاکا جواب ۲۶۹،۲۷۶ جہاں چھ ماہ تک سورج نہیں چڑھتا وہاں روزہ کیونکرہوگا ۲۷۷ اعتراض قرآن نے فصاحت وبلاغت کادعویٰ نہیں کیا ۲۷
نبی اسلام کے معجزات ثابت نہیں ہوئے.کا جواب ۲۸۹ معجزات مسیح سے منکر ہونے کا الزام اور اس کا جواب ۳۷۲ح قرآن کی قسموں پراعتراض کا جواب ۲۸۱ دین کامل ہونے کے بعد مجدد ونبی کی ضرورت نہیں کا جواب ۳۳۹ گورنمنٹ کا شکر اداکرنے کے بارے میں مضمون پر اعتراض کا جواب ۳۹۲ح اعمال حسنہ خدا کے اذن سے اعمال حسنہ گناہوں کا تدارک کرتے ہیں ۲۰۹ اعمال حسنہ ادائے قرضہ کی صورت میں نہیں ۲۸۱ افتراء بٹالوی بطور افتراء کہتاہے کہ یہ عاجز ملائکہ، معراج نبوی اور معجزات کا انکاری اور نبوت کا مدعی ہے ۸۵ یہ خدا پر افتراء ہے کہ خدا نے مسیح کو خالق ہونے کا اذن دے رکھا تھا ۳۷۴ح اقنوم ہم تین خدا نہیں بناتے بلکہ تین اقانیم کو صفات الٰہیہ سے کلام میں مزین پاتے ہیں (آتھم) ۱۱۱ تین اقانیم میں اقنوم اولیٰ قائم فی نفسہٖ ہے اور دو اس ایک کے لازم وملزم ہیں(آتھم) ۲۰۳ آتھم نے اقنوم کے ذکر میں کوئی عقلی دلیل نہیں دی ۲۳۹ آتھم کا اقنوم کو مجسم تسلیم کرنا ۲۲۳ اقنو م کے معنے معین شخص کے ہیں جو مجموعہ صفات ہو ۲۵۸ تینوں اقنوم میں مابہ الامتیازکون ہے ؟ ۱۰۶ اللہ تعالیٰ جل جلالہ خدا تعالیٰ کی خدائی اس کی قدرت کاملہ سے وابستہ ہے ۲۷ حکیم مطلق نے اسرار حکمیہ غیر متناہیہ پر کسی کو محیط نہیں کیا ۲۹ ہر چیز اللہ کی آواز سنتی اور اس پر اس کا تصرف ہے ۳۰ح اس کی حکمت ایک بے انتہا حکمت ہے ۳۰ خداکے وجود کا فائدہ یہی ہے کہ دعائیں سنے ۳۲ حق اللہ اورحق العبادکی وضاحت ۱۹۸،۱۹۹ وعدہ وعید کی رعایت سے اللہ ہر نیک وبد سے معاملہ کرتاہے ۲۳۰ خدا علت العلل ہونے کی وجہ سے افعال کو اپنی طرف منسوب کرتاہے ۲۳۴ خدا کے علت العلل ہونے کی وضاحت ۲۴۲ علت العلل کا فیض کئی وسائط میں ہم تک پہنچتاہے ۲۵ خدا قبل از تنزیل کتاب کسی کا مواخذہ نہیں کرتا ۲۶۷ اللہ بدی اور کفر پر راضی نہیں ۲۶۸ جواللہ کو نہیں پہچانتا وہ قرآن کو بھی نہیں پہچان سکتا ۳۴۷ کتاب بھیج کراس کی تائید کے لئے انبیاء بھیجنے کی عادت اللہ ۳۴۱ خدا کی انبیاء کے ساتھ قدیم سے عادت ۳۶۶ خداکے قدیم قانون میں صادق کی صداقت ظاہر کرنے کی راہ ۳۶۸ صفات الٰہیہ خدا اپنی صفات میں کامل اور ازل سے ایک ہی طریق پر ہے ۳۷۹ خدا کی رحمانیت بندہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے ۹ خد ا واحد ہے تما م اشیاء کو شئی واحد کی طرح پیدا کیا ہے ۲۸ خداتما م ذرات عالم ،ارواح اورجمیع مخلوقات کاپیدا کرنے والا ہے ۲۸ پانی سے برودت دورکرنااورآگ سے خاصیت احراق زائل کرنا خدا کی صفات کے منافی نہیں ۲۹ وہ قادر خداموجود ہے جو ہر چیز پرقادرہے ۳۲ ہرچیز کے اسباب خواہ وہ خیر ہے یاشرخدا نے پیداکئے ہیں ۲۴۱ الیہ یرجع الامرکلّہ میں خدااپنی عظمت اوراپناعلت العلل ہوناثابت کرتاہے ۲۴۰ خداوہ ذات ہے جومستجمع صفات کاملہ ہے غیرکا محتاج نہیں ۱۰۶ رحم کی صفت عام اورصفت عدل پرسبقت رکھتی ہے ۲۰۷
رحم اللہ کی ازلی اور اوّل مرتبہ کی صفت ہے ۲۰۷ رحم ابتداء سے جب دنیاظہور میں آئی فیضان دکھلارہاہے ۲۱۹ عیسائی اقرار کرتے ہیں کہ خدامحبت ہے ۲۰۸ سزادہی کے قوانین میں حد سے زیادہ تشدد خدا کی صفات سے دورہے ۲۰۸ صفت رحیمیت ۲۰۹ صفت مالکیت ۲۰۹ رحمانیت،رحیمیت اورمالکیت کاآیات سے ثبوت ۲۱۰ صفت مالکیت کے از خودکام کی مثال ۲۱۲ صفت مالکیت کی وضاحت ۲۲۱ کیا خدا مالکیت سے ناجائز کاموں کی خبر دے سکتا ہے کا جواب ۲۷۸ حیوانات کا قتل ظلم نہیں بلکہ یہ مالکیت کی بنا ء پر ہے ۲۸۸ عدل کے ظہور کا وقت وہ ہے جب قانون الٰہی نکل کر خلق اللہ پرحجت پوری کرے ۲۱۹ صفات کے ظہور میں حادثات کی رعایت سے تقدیم و تاخیرہوتی ہے ۲۲۰ خداکے رحیم وتواب ہونے پربائیبل کے صحیفوں سے ثبوت ۲۲۱ خدا کی صفت رحمانیت ۲۴۱ سورۃ فاتحہ میں صفات الہیہ کی سچی فلاسفی ۲۴۳ احیااوراماتت دونوں خداکے اختیار میں ہیں ۳۷۵ الوہیت مسیح دیکھئے زیر عنوان عیسائیت الہام من جانب اللہ دل میں پیدا ہونے والے امورکانام الہام اورالقا رکھیں توبعیدنہیں ۲۰ کسی قسم کا القاء ہوالفاظ ہمیشہ ساتھ ہوں گے ۲۱ح الہام اورعقل کی تشبیہ آنکھ اورروشنی سے ۱۰۳ چاہیئے کہ الہام اپنی شرح آپ کرے ۱۱۵ الہام کامشرح الہام ہی ہوناچاہیے ۱۲۱ امام زمانہ جس نے امام زمانہ کو شناخت نہ کیاجاہلیت کی موت مرا ۳۳۴ جوامام وقت کوشناخت نہ کریں گے ان کی موت کفار کی موت کے مشابہ ہوگی ۳۳۴ امت محمدیہ خدا نے پہلی امتوں میں ہزارہانبی بھیج کررحم کیامگرکیا اللہ کو اس امت پر رحم نہ آیا ۳۴۳ امت محمدیہ میں خلافت کے قیام اوراس کے دائمی ہونے پردلائل ۳۵۳،۳۵۴ امت میں موسوی شریعت کے مشابہ خلافت دائمی کاسلسلہ ۳۵۶ امت محمدیہ کی ابتر حالت امت موسویہ کے مشابہ ہے ۳۵۷ امت مسلمہ کے زوال وادبار کی حالت ۳۶۴ انسان مطہرالقلب انسان پرقرآن کے معارف بوجہ مناسبت کھل جاتے ہیں ۱۸ انسان کی فطرت میں کئی قسم کے ملکات ہوتے ہیں ۱۹ح انسان کامل خدا تعالیٰ کی روح کاجلوہ گاہ ہوتاہے ۳۰ح انسان کامل مظہر اتم تمام عالم کا ہوتا ہے ۳۱ح انسان کے بدن میں ہمیشہ تحلیل کا سلسلہ جاری ہے ۹۲ تحقیقوں نے ثابت کیاہے کہ تین برس تک انسان کاجسم بدل جاتاہے ۲۸ انسان باعتبار جسم انسان نہیں کہلاتابلکہ باعتبار روح ۱۰۵ انسان میں جسم‘روح اورجان کاالگ الگ ہونا ۱۱۰ خدا نے انسان میں گناہ کاملکہ رکھاتوگناہ کاعلاج بھی رکھا ۱۹۹ کروڑہاجانور انسان کے فائدہ کے لئے ہلاک کئے جاتے ہیں ۲۱۰
انسان کے کسب واختیار پردلالت کرنے والی آیات ۲۳۱ انسان من کل الوجوہ مختار مطلق نہیں ۲۵۰ انسان کا قوٰ ی کے موافق عمل کی توفیق پانا ۲۷۸ انگریز انگریز قوم کے لئے دعا ۴۰ انگریزوں نے نماز ،روزہ اور حج وغیرہ سے منع نہیں کیا ۲۷۴ انگریز اسلامی ملکوں میں بعض مصالح کے لئے اپنا مسلمان ہونا ظاہر کرتے ہیں ۲۷۶ انہوں نے مذہبی آزادی اورامن قائم کیا ۳۷۴،۳۹۱ح اس وقت تلوار کا ایمان معتبر نہیں انگریزوں نے تلوار سے کسی کومذہب میں داخل نہیں کیا ۳۷۴ گورنمنٹ سے جہاد درست ہے یا نہیں ۳۸۰ ڈاکٹر ہنٹر کا دعویٰ کہ مسلمان انگریزوں سے جہا دفرض سمجھتے ہیں ۳۸۸ح مذہبی امور کو رعیت اور گورنمنٹ کے رشتہ سے کوئی علاقہ نہیں ۳۸۰ گورنمنٹ انگریزی سے لڑائی اور جہاد قطعی حرام ہے ۳۸۹ح علوم جدیدوقدیم کاایک چشمہ ہیں ۳۷۹ ان کوخدااقبال‘دولت اورعقل کی طرف کھینچناچاہتاہے ۳۷۹ اونٹ حدیث میں اونٹ کی سواری متروک ہونے کی پیشگوئی ۳۰۸ ایمان کامل ایمان تب نصیب ہوتاہے جب اللہ اپنے وجود سے آپ خبر دے ۴۲ اصول ایمانیہ پہلی نشانی ۱۲۴ مسیح ؑ کی ایمانداروں کی بیان کردہ علامات ۱۵۳ لولے‘لنگڑوں کاچنگے کرناعیسائی ایمان کی علامات ہیں ۲۰۱ ایمان داروں کے تین مراتب ۲۷۶ ۱.نفسانی جذبات سے مغلوب ۲.درمیانی حالت کے ۳.انتہا کمالات ایمانیہ تک پہنچنے والے جھوٹاایمان بدکاریوں کوروک نہیں سکتا.نقلی وعقلی طورپرقائم رہ سکتاہے ۳۴۴ انسان کاایمان درست نہیں ہوسکتاجب تک اپنے آرام پر بھائی کا آرام مقدم نہ ٹھہراوے ۳۹۵ اللہ کامنشاایمان بالجبرہوتاتو جزیہ‘صلح اورمعاہدات کیوں جائز رکھے جاتے ۲۶۳ ایمان پر رہائی عربوں کے لئے رعایت تھی جو صفات الہیہ کے مخالف نہیں ۲۷۵ واجب القتل اگر اپنی مرضی سے ایمان لاوے تو رہائی پاوے گا ۲۸۷ ب،پ ،ت بادشاہ مسلمان بادشاہوں نے بے اعتدالیاں کرکے ملک کھویا ۳۷۴ جس بادشاہ کے زیر سایہ امن سے رہواس کے شکر گزاراورفرمانبردار بنو ۳۸۱ فاسقوں کی بادشاہت بطور ابتلاء کے ہوتی ہے ۳۳۳ بپتسمہ بپتسمہ پانے میں مسیح کی مراد ۲۶۱ مسیحؑ نے یحییٰ ؑ سے بپتسمہ لیا ۱۸۷ بیعت میری یہ حالت ہے کہ بیعت کرنے والے سے ایساڈرتاہوں جیساکوئی شیرسے ۳۹۸ پادری پادریوں کوبٹالوی کے اشاعۃ السنہ سے مذہبی امورمیں مددپہنچی ۷۲ نبیوں کی کتابوں میں گستاخی سے دخل بے جاکیاہے ۳۱۶ ضلالت کوپھیلانے میں کوششیں انتہاکوپہنچائی ہیں ۳۶۲ لوگ پادریوں کے وساوس سے ہلاک ہوئے ۳۷۴ پیشگوئی پیشگوئیاں کوئی ایسی معمولی بات نہیں جوانسان کے اختیارمیں ہوں ۳۷۵
ہیبت کے ساتھ ظہور پذیر پیشگوئی دلوں کواپنی طرف کھینچ لیتی ہے ۳ معترض کاکہناکہ ایسی پیشگوئیوں کا زمانہ نہیں کا جواب ۳ بطور نشان نمائی کی گئی ایک پیشگوئی ۵۵ آتھم کی پیش کردہ پیشگوئیاں ہماری شرط سے مخالف ہیں ۱۰۱ مسیح کے حق میں آتھم کی پیش کردہ پیشگوئیوں پرجرح ۱۰۱ آتھم کی پیش کرد ہ پیشگوئیوں کا جواب ۱۳۲ مسیح کی روح حق آنے کی پیشگوئی ۱۶۸ نورافشاں نے پیشگوئی کاانکارکرکے مضمون چھاپامگر وہ میعا دمیں پوری ہوئی ۱۷۰ یہودی مسیح کی پیشگوئی کی وجہ سے جلا وطن اور پراگندہ ہوئے ۱۸۵ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اسلام کی بابت پیشگوئی کہ ہرگز تباہ نہیں ہوگا بلکہ پھیلے گا ۲۹۰ احادیث میں مسیح موعود کی کھلی کھلی پیشگوئی موجود ہے ۲۹۸ مسیح موعودکی پیشگوئی احادیث میں چند روایتوں کی بنا پر نہیں بلکہ یہ عقیدہ کے طور پر مسلمانوں میں چلی آتی ہے ۳۰۴ صلیبی مذہب کے غلبہ وحکومت کی پیشگوئی ۳۰۵ اونٹ کے بے کار ہونے کی پیشگوئی ۳۰۸ اسلام کی ترقیات کے متعلق آنحضرتؐ کی پیشگوئیاں ۳۰۶ مسیح موعود کی آمد کے بارہ میںآخری زمانہ کی علامات وپیشگوئیاں ۳۰۷ پیشگوئیوں میں ان کی صداقت کا ایک عظیم الشان نشان ۳۰۸ آخری زمانہ میں بہت سے مذاہب کے پھیلنے اور عیسائیت کے غلبہ کی پیشگوئی ۳۱۰ مسیح موعود کے آنے کے بارہ میں انجیل کی پیشگوئی ۳۱۹ اسلامی سلطنت کے ضعف اور مخالفوں کے غالب آنے کی قرآنی پیشگوئی ۳۵۹ توریتمیں سیلاکی پیشگوئی ۳۵۹ تین پیشگوئیاں ہندوستان کی تین بڑی قوموں پرحاوی ۳۷۵ پیشگوئی دربارہ لیکھرام پنڈت لیکھرام کی موت کی نسبت پیشگوئی ۳۷۵ اس پر اخبار کا اعتراض اور اس کا جواب ۲ اس پیشگوئی کی غرض ۴ کشف میں لیکھرام کی سزا دہی کے لئے مہیب شکل شخص کا دیکھنا ۳۳ قرآنی پیشگوئیاں ضعف اسلام کے وقت اسلام کے غلبہ کی خبر ۲۷۹ روم کے مغلوب ہو کر غالب آنے کی پیشگوئی ۲۷۹ پیشگوئی مرزااحمدبیگ مرزا احمد بیگ کی موت کی نسبت پیشگوئی کا ذکر ۵۵،۵۶ مرزااحمدبیگ کے داماد کی موت کی پیشگوئی ۳۷۵ پیشگوئی مرزااحمدبیگ کے چھ اجزاء ۲۸۶ پیشگوئی دربارہ آتھم عبداللہ آتھم کی نسبت پیشگوئی ۳۷۵ جناب الٰہی میں تضرع سے فیصلہ کے لئے دعا اور بشارت کے طور پر نشان دیا جانا ۲۹۱ فریقین میں سے جھوٹ اختیار کرنے والا فریق پندرہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے گا ۲۹۲ اگر یہ پیشگوئی ظہور نہ فرماتی تو ہمارے پندرہ دن ضائع ہوجاتے ۲۹۲ پیشگوئی جھوٹی نکلنے پر ہرقسم کی سز ااٹھانے کا اقرار ۲۹۳ تاویل الہام میں کوئی تعلیم ایک جگہ ہو توتاویل عقلی کرسکتے ہیں (آتھم) ۱۲۱ مئتینسے ایک ہزار کے بعد دو سو برس کی تاویل میں علما حق پر ہیں ۳۶۶
تثلیث تثلیث کی تردید میں عقلی دلیل ۱۰۶،۱۹۶ تین اقنوم اگر صفات کاملہ میں برابرہیں تو ایک کامل کے ساتھ دوسروں کی کیوں ضرورت پڑی؟ ۲۱۱ تثلیث کا عقیدہ خلاف عقل ہے ۲۳۵ آتھم نے کہاں عقل سے امکان تثلیث ثابت کیا؟ ۲۵۰ تصرف وحی میں ایک خارجی اورشدیدالاثرتصرف کااحساس ہوتاہے ۲۶ مخلوقات کی پیدائش اور خدا کاغیرمحدود تصرف ۲۷ ہرایک چیز پراللہ کاتصرف ہے ۳۰ تصوف اولیاء کے خوارق میں بھید ۳۰ح متصوفین کی صدہاکتب مسیح موعودکی آمدکی شہادت دے رہی ہیں ۲۹۸ اولیاء کا ماننا فرض ہے اور ان کی مخالفت کرنے والے فاسق ہیں ۳۸۰ بعض حالات میں اولیاء اور انبیاء دعا کرنے کو سوء ادب سمجھتے ہیں ۱۳ تعددازدواج اسلام سے قبل اکثر قوموں میں کثرت ازواج رائج تھی اوراسرائیلی قوم کے انبیا ء نے سو سو اور بعض نے سات سات سو تک بیوی کی ۴۷ تفسیر ادعونی استجب لکم کی سید صاحب کی تفسیر اور حضور ؑ کا جواب ۶ تفسیر قرآن کے سات معیار ۱۷ آنحضرتؐ سے کوئی تفسیر ثابت ہوتومسلمان بلاتوقف قبول کرلے ۱۸ تفسیر بالرائے سے نبی کریمؐ نے منع فرمایا ہے ۱۹ سید صاحب کی تفسیر سات معیاروں سے اکثر مقامات میں بے نصیب ہے ۲۵ بٹالوی کوعربی تفسیر لکھنے کی دعوت اوراس کی وعدہ خلافی ۵۱ قرآن کریم کی درج ذیل آیات کی تفسیر از حضرت مسیح موعود ؑ آیت ھل لنامن الامرشی ۲۳۱ اکملت لکم دینکم ۱۲۳ الیوم اکملت لکم دینکم سے معترض کے اعتراضات کا جواب ۳۳۹ قاتلوا الذین لایومنون ۲۵۴ الیہ یرجع الامرکلہ ۲۴۰ فسالت اودیۃ بقدر ھا ۳۲۱ ان نحن نزلنا الذکر...۳۳۸‘۳۳۹ فاذا جاء وعد ربی ونفح فی الصور ۳۱۱ والتی احصنت فرجھا...۳۱۰ آیت من کلّ حدب ینسلون ۳۶۲ آیت استخلاف کی تفسیر ۳۲۴،۳۳۴ منکم کالفظ قرآن کریم میں بیاسی جگہ آیا ہے ۳۳۱ ومن کفر بعد ذٰلک سے ثابت ہے کہ اولیا ء کا ماننا فرض ہے ۳۳۹ فلماجاء ھانودی ان بورک ۱۰۷ و نفخ فی الصور...۳۲۱ ثلۃ من الاولین وثلۃ من الآخرین ۳۲۴ اعلمو ان اللہ یحی الارض بعد موتھا ۳۲۱ انا ارسلنا الیکم رسولاً...۳۲۲ سورۃ التکویر کی آیات کی تفسیر ۳۱۸،۳۱۹ واذالعشار عطلت ۳۰۹ سورۃ الانفطار کی آیات کی تفسیر ۳۱۸،۳۱۹ اذا السماء انشقّت ۳۱۹ سورۃ المرسلات کی آیات کی تفسیر ۳۱۸،۳۱۹ والارض مدت...۳۱۷ سورۃ القدر ۳۱۳ سورۃ الزلزال کی آیات ۳۱۴
احکام قرآنی جن میں خطاب بظاہر صحابہ سے ہے لیکن تمام مسلمان مراد ہیں ۳۳۵‘۳۳۷ سورۃ فاتحہ کی آیات میں سکھلائی گئی دعا اور امت کو ظلی طور پر انبیاء کا وارث ٹھہرانا ۳۵۲ تقدیر ہرامرپرتقدیرمحیط ہے ۱۱ سید صاحب استجابت دعامیں تقدیرکومقدم رکھتے ہیں ۱۵ دوسرے رسالہ میں سید صاحب تقدیرکوکچھ چیزنہیں سمجھتے ۱۶ آیت قرآنی سے تقدیر کے معنی ۲۳۲ گھڑی کی مثال سے تقدیر کی وضاحت ۲۳۴ زبور میں ہے کہ اس نے ایک تقدیر مقدرکی ہے جوٹل نہیں سکتی ۲۳۴ تقویٰ قربانیوں کاخون اورگوشت خداتک نہیں پہنچتا تقویٰ پہنچتاہے ۳۹۸ توحید اشیا ء کو شئی واحد کی طرح پیدا کیا تا موجد واحد کی وحدانیت پر دلالت کریں ۲۸ پا ک توحید کو ہرایک نبی نے اپنی امت تک پہنچایا ۶۶ مسیح کی توحید کی تعلیم ۱۸۱ تمام مذاہب کے زوائد نکال کرتوحید ہی باقی رہ جاتی ہے ۲۳۵ زمانہ توحید کی طرف پلٹاکھائے گا ۳۸۱ ج،چ جانور ہاتھی اور اونٹ کو توریت میں ناپاک جانور لکھا ہے ۲۵۹ حیوانوں کا گوشت خدا نے انسانوں کے لئے مباح کیا ہے ۲۸۵ جبر وقدر قرآن میں جبر کے طور پر جہنمی ٹھہرانے کا جواب ۲۳۲ اناجیل کی رو سے شیطان کا مسیح پر جبروتسلط ۲۳۳ بائیبل کی جبرکی تعلیم کے نمونے ۲۳۴ قرآن میں جہاں جبر کی تعلیم معلوم ہوتی ہے وہاں مذاہب باطلہ کا ردّ مقصود ہے ۲۴۲ جزیہ اہل کتاب کو قتل کرنے کی بجائے جزیہ لینے کا کہا گیا ۲۵۶ بائیبل سے جزیہ لینا ثابت ہے ۲۵۶ کنعانیوں سے خراج لینا ثابت ہے ۲۸۷ جسم جسم ہمیشہ معرض تحلل میں پڑا ہواہے ۱۰۵ جسم وہ شۂ ہے جس میں نہ علم ہے نہ ارادہ ۱۱۰ جماعت احمدیہ میری طرف زیادہ تررجوع کرنے والے تعلیم یافتہ ہیں ۴ اس جماعت کی بنیاد ی اینٹ اس نے اپنے ہاتھ سے رکھی ۲۴ خدا امرااورملوک کو ہمارے گروہ میں شامل کر ے گا ۳۵ فرقہ احمدیہ سچے مسلمان ہیں جو خدا کی کلام میں انسان کی رائے کو نہیں ملاتے ۵۰ بعض بیعت کرکے کج دل ہیں اور جماعت کے غریبوں کو بھیڑیوں کی طرح دیکھتے ہیں ۳۹۵ نجیب اور سعید بھی ہماری جماعت میں بہت ہیں ۳۹۵ احباب جماعت کو نصائح ۳۹۶ احباب جماعت کے لئے دعا ۳۹۸ جلسہ سالانہ جلسہ کا اصل مدعا اور مطلب ۳۹۴ جلسہ پر آنے والے غریب مسافروں کو زاد راہ دینا چاہئیے ۳۹۹ التوائے جلسہ کا اشتہار اور وجوہ ۳۹۴ جنت مسلمانوں کا بہشت صرف جسمانی بہشت نہیں بلکہ دیدار الٰہی کا گھرہے ۴۷
دار لنجات میں داخل ہونے کے لئے دروازہ لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ ہے ۵۳ جنگ مقدس اسلام اور عیسائیت کے درمیان ایک معرکۃ الآراء مباحثہ جو دونوں مذاہب کے نمائندگان حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور پادری عبد اللہ آتھم کے درمیان ہوا اور ۲۲؍مئی ۱۸۹۳ء سے شروع ہو کر ۵ جون ۱۸۹۳ء کو ختم ہوا ۸۳ مناظرہ کی غرض اور مدّعا تقریر حضرت مسیح موعود ؑ ۸۵ حضرت مسیح موعود ؑ کے تحریر فرمودہ پرچے ۸۹،۹۷،۱۱۳،۱۲۳، ۱۳۲،۱۴۳،۱۵۱،۱۶۴،۱۷۸،۱۹۵،۲۰۷، ۲۱۸،۲۲۹،۲۳۹،۲۵۰،۲۶۲،۲۷۴،۲۸۶ عبد اللہ آتھم کے تحریر کردہ پرچے ۹۳،۱۰۹،۱۱۸،۱۲۸، ۱۴۰،۱۴۹،۱۶۰،۱۷۱،۱۸۵،۱۹۴،۲۱۴۲۰۲، ۲۲۵،۲۳۶،۲۴۶،۲۵۷،۲۶۹،۲۸۲، جہاد اسلام نے تلوار اٹھانے میں سبقت نہیں کی بلکہ امن کے قیام کے لئے اٹھائی ۴۶،۲۵۶ جہاد پر اعتراض طریق مناظرہ کے مخالف ہے (مسیح موعودؑ ) ۲۳۴ اسلامی لڑائیاں کرنے کی وجوہات ۲۴۴ اسلامی جنگوں کے دوران دی جانے والی رعائتیں ۲۶۳ لڑائیوں میں قتل کی دھمکی دے کر مسلمان کرنے کا ارادہ نہ تھا ۲۴۵ جہاد کی بنا امن قائم کرنے ،بتوں کی شان توڑنے اور مخالفانہ حملہ روکنے کے لئے ہے ۲۵۴ جہاد کے تدریحی احکامات سے متعلقہ آیات قرآنیہ ۲۵۵ جنگ احد ۲۳۲ اہل کتاب کے گناہوں کی فہرست جس بنا پر ان سے لڑائی کو جائز قرارد یا گیا ۲۵۶ بنی اسرائیل کی لڑائیوں میں کئی لاکھ بچے بے گناہ قتل کئے گئے ۲۵۶ موسیٰ کی لڑائیوں میں امان بشرط ایمان نہ تھا ۲۶۹ مشرکین عرب کے ظالمانہ رویہ کے مقابل نبی صلی اللہ علیہ و سلم کانرم اورپُررحم سلوک ۲۶۴،۲۶۵ مسیح کے وقت دین کے لئے تلوار مناسب نہ تھی ایسے ہی اب بھی ۳۷۴ اس وقت تلوار کا ایمان معتبر نہیں انگریزوں نے تلوار سے کسی کومذہب میں داخل نہیں کیا ۳۷۴ خدا نے مسلمانوں کی حالت کے مطابق مسیح کی مانند بغیر سیف وسنان کے مصلح بھیجا ۲۷۵ گورنمنٹ سے جہاد درست ہے یا نہیں ۳۸۰ ڈاکٹر ہنٹر کا دعویٰ کہ مسلمان انگریزوں سے جہا دفرض سمجھتے ہیں ۳۷۸ح گورنمنٹ انگریزی سے لڑائی اور جہاد قطعی حرام ہے ۳۸۹ح دینی جہاد سے اصل غرض آزادی قائم کرنا اور ظلم دور کرنا ہے ۳۹۲ح ح، خ حدیث قرآن اورحدیث رسول میں فرق ۲۰ح احادیث زمانہ دراز کے بعد جمع کی گئی ہیں اکثر مجموعہ احاد ہے مفید یقین نہیں ۲۹۷،۲۹۸ اہل سنت کی احادیث کوشیعہ احادیث سے ملانے سے تواتر کی قوت ثابت ہوتی ہے ۲۹۸ احادیث اگر قرآن کے معارض نہ ہوں توانہیں قبول کرنالازم ہے ۳۰۰ احادیث سے کوئی یقینی صداقت نہ ملنے کاخیال اسلام کا بہت ساحصہ نابودکرناہے ۳۰۰ احادیث کاسلسلہ تعامل کے سلسلہ کی فرع اوراطراد بعدالوقوع کے طورپرہے ۳۰۱ نماز کی رکعات اور پڑھنے کا مدار احادیث پر ہے ۳۰۲ ائمہ حدیث نے دینی تعلیم کی نسبت ہزارہاحدیثیں لکھیں ۳۰۳ احادیث کی روسے ضرور ایک شخص آنے والا ہے جس کانام عیسیٰ بن مریم ہوگا ۲۹۸
احادیث میں مسیح موعود کی آمد کی پیشگوئی ۳۰۴ علماء امت کے متعلق احادیث کی پیشگوئی ۳۰۵ احادیث میں مذکورآخری زمانہ کی پیشگوئیاں ۳۰۶ پیشگوئی پوری ہونااحادیث کی صحت کاثبوت ہے ۳۱۷ احادیث سے ثابت امت پر آنے والے تین زمانے ۳۳۸ حدیث میں مأتینسے مراد ہزار کے بعد دو سو یعنی ۱۲۰۰ھ ۳۶۶ حروف ابجد اخرین منھم لما یلحقوابھم سے۱۲۷۵ کے عدد نکلتے ہیں ۳۷۵ حواری مسیح نے حواریوں سے اپنے لئے دعاکروائی ۱۳۶ ضعف ایمانی کی وجہ سے حواریوں نے مسیح سے جھڑکی کھائی ۱۶۱ تمام اخلاقی تعلیم کے مخاطب صرف حواری ہیں ۱۸۳ حواری بھی یہودی تھے ۱۸۷ حواریوں کاموسیٰ اورالیاس کودیکھنا انجیل سے ثابت ہے ۲۲۳ بارہ حواریوں کو بہشتی تخت ملنے کا وعدہ تھا یہودا کو کہاں ملا؟ ۲۷۹ عیسائی علماء کی گواہی کہ حواریوں کی حالت صحابہ کے مقابل قابل شرم ہے ۲۹۰ خط/خطوط مارٹن کلارک کاخط بنام محمدبخش وجملہ اہل اسلام جنڈیالہ ۶۰ مسلمانان جنڈیالہ کی طرف سے محمد بخش پاندھاکاخط بنام حضرت مسیح موعودؑ ۵۹ نقل خط جوحضرت مسیح موعودؑ کی طرف سے مسیحان جنڈیالہ کورجسٹری کیاگیا ۶۱ عیسائیان جنڈیالہ کاحضرت مسح موعودؑ کے خط کا جواب ۶۲ حضرت مسیح موعودؑ کاخط بنام ڈاکٹرکلارک ۶۵ ترجمہ چھٹی ڈاکٹر کلارک بنام حضرت مسیح موعود ؑ ۶۶ ڈاکٹر کلارک کے خط کے جواب میں حضرت مسیح موعودکاخط ۶۹ نقل خط مسٹر عبداللہ آتھم ۸۰ ایک فاضل عربی کا محبت نامہ اور حضور ؑ کی طرف سے جواب ۷۶ محمدبن احمد مکی کا حضور کے نام خط ۷۹ ایک عربی عالم سید علی ولد شریف مصطفی کے خط کا خلاصہ ۷۹ مختلف ملکوں کے پیشوایان مذاہب کو اسلام کی حقانیت کے بارہ میں خطوط ۳۶۹ خلافت خلیفہ کے اصطلاحی معانی ،تعریف اور قیام کی غرض ۳۵۳،۳۵۵ مجدد ،محدث اور خلفاء کے آنے کی غرض ۳۴۰،۳۴۲ انبیا ء کی طرح مجددوں اور خلفاء کی امت میں ضرورت ۳۴۰ خلفاء اور ظلی نبی بھیجنے کی غرض ۳۴۲ خلفاء کے آنے کی ضرورت پر سات دلائل ۳۴۵ موسیٰ ؑ کے دین کی طرح اسلام میں خلافت کا وعدہ ۲۹۰ خدا نے موسیٰ ؑ کو رسالت سے مشرف کرکے خلافت کا سلسلہ بطور انعام دیا ۳۲۲ حضرت عیسیٰ ؑ پرموسیٰ ؑ کی خلافت کا خاتمہ ہوا ۳۲۲ شریعت موسوی میں چودہ سو برس تک صدہا خلیفے روحانی اور ظاہر ی طور پر ہوئے ۳۲۴ آیت استخلاف کی تفسیر ۳۲۴،۳۳۴ آیت استخلاف میں مِنْکُمْ سے مراد صرف صحابہ لیں تو یہ بد یہی غلطی ہے ۳۲۴ قرآنی آیات سے صحابہ ؓ تک خلافت محدود ہونے کے خیال کی تردید ۳۳۱ خلافت تیس سال تک محدود نہیں ۳۳۷ تکمیل دین کے بعد اگر کوئی کاروائی درست نہیں تو تیس سالہ خلافت بھی باطل ٹھہراتی ہے ۳۳۹ بہت سی قرآنی آیات خلافت دائمی کی بشارت دیتی ہیں ۳۵۵ شہادت دائمی کا عقیدہ تبھی معقول ہوگا جب خلافت دائمی کو قبول کیا جائے ۳۶۲ آنحضرتؐ اور موسیٰ ؑ کے سلسلہ خلافت میں مماثلت ۳۶۳ محمدی استخلاف کا سلسلہ موسوی استخلاف سے بکلّی مطابق ہونا چاہیے ۳۶۴
بنی اسرائیل میں داؤد اور سلیمان جیسے خلیفہ اللہ پیدا ہوئے ۳۲۶ ایمان اوراعمال صالحہ رکھنے والے مسلمانوں میں خلفاء ۳۳۳ حقانی خلیفے وہی ہیں جو متقی ایمان دار نیکو کارہیں ۳۳۴ صحیح بخاری میںآخری زمانہ میں خلفاء کی نسبت خبر ۳۳۷ خلفاء کا ماننا فرض ان سے مخالفت کرنے والے فاسق ۳۳۴، ۳۳۹،۳۳۴ خلیفے نبی کے جانشین اور اس کی برکتوں سے حصہ پائیں گے...خوف کے بعدامن پیدا ہوگا ۳۳۹ خلق طیر علماء کا مسیح کی نسبت بیان کردہ معجزہ خلق طیر ۳۷۳ح د دابۃ الارض ایسے واعظ جن میں آسمانی نور کاذرہ بھی نہیں اور زمینی کیڑے ہیں ۳۲۱ دجال دجال کا نبوت اور خدائی کا دعویٰ اور اس سے مراد ۳۱۶ خردجال جس کے کانوں کا درمیانی فاصلہ ستر باع لکھا ہے ۳۱۷ امواج فتن سے مراد دجالیت ہے ۳۶۰ دجال اکبر سے موسوم لوگ پادری ہیں ۳۶۲ دعا دعا کی ماہیت بند ہ اور رب میں تعلق جاذبہ ہے ۹ کا مل کی دعا میں ایک قوت تکوین پیدا ہوجاتی ہے ۱۰ انبیاء کے معجزات اور اولیاء کے عجائب کرامات کا منبع دعاہے ۱۰ دعاؤں کی تاثیر آب وآتش کی تاثیر سے بڑھ کرہے ۱۱ مومن کی دعائیں آفات کے دور ہونے کا موجب ہوجاتی ہیں ۱۴ بعض دعاؤں کا خطا جانا دواؤں کے خطا جانے کی طرح ہے ۱۱ صلحا ء نے دعاؤں میں استفتاء قلب پرعمل کیا ۱۳ سید صاحب کا مذہب ہے کہ دعا ذریعہ حصول مقصود نہیں ۷ دعاؤں کی قبولیت کے قرآنی دعدہ کی نسبت سید صاحب کی غلط فہمی کا ازالہ ۱۲ دعا کے لئے تمام اسباب قبولیت اسی جگہ اکٹھے ہوتے ہیں جہا ں ارادہ الٰہی ہو ۱۲ دعاکرنے میں صرف تضرع کافی نہیں بلکہ دعا کے لئے تقویٰ، راست گوئی ،کامل یقین ومحبت اور کامل توجہ بھی چاہیے ۱۳ بعض اوقات انبیا ء کو دعا مانگنے پر زجروتوبیخ کی گئی ۱۳ قبولیت دعا کے لئے شرائط ۱۳،۱۴ مومن کی دعائیں اثر رکھتی اور مرادات حاصل ہونے کا موجب ہوجاتی ہیں ۱۴ دعا پر لاکھ سے زیادہ نبی اور کئی کروڑ ولی گواہی دیتا آیا ہے ۱۵ دعا کے بارہ میں حضرت سیدعبدالقادرجیلانی کی کتاب کے حوالہ جات ۱۵ح اشتہار کے اختتام پر حضرت مسیح موعود ؑ کی دعا ۴۰ مقرب انسان کی دعا پر خدا کی قبولیت دعا کی بشارت ۴۳ فریقین مباہلہ کی دعا ۷۰ مسیح کا موت سے بچنے کی دعا کرنا اور حواریوں سے کروانا ۱۳۶ دعاؤں کا قبول ہونا فضل پر موقوف ہے ۲۲۲ قبولیت دعا کی پیش ازوقت خبریں ۳۶۹ اگر کہیں کہ دعا سے مسیح سے خلق طیر وغیر ہ کے معجزات ظہور میںآئے تو یہ قرآن پر زیادت ہے ۳۷۳ح استجابت دعا دعا ئے مستجاب کا نمونہ پیشگوئی متعلقہ لیکھرام ۲ استجابت دعا کا مسئلہ دعا کے مسئلہ کی فرع ہے ۹ استجابت دعا کے معاملے میں پیش آمد ہ دومشکلات ۵ استجابت دعا میں سید صاحب اسباب عادیہ کو ہیچ خیال کرتے ہیں ۵ سید صاحب کے نزدیک استجابت دعا کی حقیقت اور آپ کا جواب ۶
اعجاز کی بعض اقسام کی حقیقت استجابت دعاہی ہے ۱۰ عرب کے بیابان ملک کا انقلاب فانی فی اللہ کی دعاؤں کا نتیجہ ۱۱ استجابت دعا کی فلاسفی اسی کو معلوم ہوسکتی ہے جسے خدا سے سچے تعلقات صدق ومحبت حاصل ہوں ۱۵ح دلیل استقرائی (دیکھئے زیر عنوان استقراء) دوزخ عیسائی صاحبوں کا دوزخ محض جسمانی ہے ۴۷ توریت میں کوئی حکم نہیں کہ دوزخ کے لئے خدا نے کسی کو مجبور کیاہے (آتھم)اس کا جواب ۲۴۱ دین تمام مذاہب میں وہ مذہب حق پر اور خدائی مرضی کے موافق ہے جو قرآن لایا ۵۳ زندہ مذہب وہی ہے جس کے دلائل بطور قصہ نہ ہوں بلکہ موجو د ونمایاں ہوں ۶۱ مذاہب جو پیشواؤں کو منقولی دلائل سے خدا ٹھہراتیہیں ۱۶۴ جس مذہب کا طریق سزا اور طریق معافی رحم کے قریب ہوگا وہ اولیٰ مذہب ہے ۲۰۸ تکمیل دین کو مستلزم نہیں کہ اس کی مناسب حفاظت سے بکلی دست برداری ہوجائے ۳۴۴ سچے مذہب کی یہی نشانی ہے کہ اس میں محدث پیدا ہوتے ہیں ۴۳ روحانی سلسلہ کی موت سے دین کی موت لازم آتی ہے ۳۵۳ پیشوا یان مذاہب کو خط کہ اسلام سچا اور دیگر مذاہب اصلیت سے دور ہیں ۳۶۹ ر،ز رحم رحم کس کیفیت کا نام ہے ؟ ۲۶۶ رحم بلاشرط کا ثبوت آیات قرآنیہ سے ۲۲۰ آتھم کے بیان کہ رحم عدل کے بعد پیدا ہوتا ہے پر آپ کی جرح ۲۶۷ رحم بلا مبادلہ رحم بلا مبادلہ کی بنیاد الوہیت مسیح پر نہیں ۱۹۵،۱۹۶ بلامبادلہ رحم کرنا اخلاقی حالت سے انسب اور اولیٰ ہے ۱۹۷ اگر خدا کا یہی خلق ہے کہ سزا کے بغیر رہائی نہیں تو پھر معافی کی تعلیم اور نصیحت کیوں؟ ۱۹۸ گناہ کوئی کرے سزا کوئی پائے، یہ رحم بلامبادلہ ظلم کی قسم ہے ۱۹۹ رحم بلا مبادلہ کے اسلامی نظریہ پر آتھم کے اعتراضات کا جواب ۲۰۷ روح یہ امر ثابت شدہ ہے کہ کبھی روح جسم پر اثر ڈالتی ہے اور کبھی جسم روح پر ۹۲ ہرقسم کی غذا کا روح پر اثر ہوتاہے ۹۲ انسان یا حیوان باعتبار روح انسان یا حیوان کہلاتا ہے ۱۰۵ روح القدس مسیح پر روح القدس کا بشکل کبوتر اترنا ۱۸۷،۲۱۰ حواریوں پر بطور آگ کے شعلوں کے نازل ہوا ۲۵۱ روح حق سے روح القدس مراد نہیں لیا جاسکتا ۱۶۸ روزہ قرآن میں بیان کردہ روزہ کے اوقات پرآتھم کے اعتراضات کا جواب ۲۷۰،۲۷۷ رومن کیتھو لک ۲۲۴،۲۲۸ مریم کو خدا کی ماں قرار دیتے ہیں ۱۸۶ روئیداد مباحثہ (دیکھئیے زیرعنوان مباحثہ) ریل ریل جاری ہونے کی پیشگوئی ۳۰۶ اونٹ جو کام کرتے تھے اب ریلیں کررہی ہیں ۳۰۸
رسول (دیکھئیے زیر عنوان نبوت) زمانہ بوجہ مماثلت تامہمسیح ؑ کے مثیل کی آمد کایہی زمانہ ہے ۳۵۷ احادیث سے ثابت تین زمانے ۳۳۸ ۱.خلافت راشدہ کا زمانہ ۲.فیج اعوج جس میں ملک عضوض ہوں گے ۳.آخری زمانہ جو نبوت کی نہج پر ہوگا س،ش سچ یہ بات مسلم ہے کہ طبعی امرانسان کیلئے راست گوئی ہے ۳۰۰ جھوٹے منصوبوں میں وہ قوت نہیں ہوتی جوسچ میں پائی جاتی ہے ۳۸۲ سنت اللہ سنت اللہ ہے کہ دنیامیں بعض بعض کے شبیہ پیدا ہوجاتے ہیں ۳۶۸ شاعر شعراء کوخدا تعالیٰ کی طرف سے ہی القاء ہوتاہے ۲۲۱ح شعراء کاالقاء خوض اورفکرکے نتیجہ میں ہوتاہے ۲۲۳ح شرک عہد نامہ عتیق کی شرک کے خلاف تعلیم ۱۸۰ نزول قرآن کے وقت موجود مشرکانہ عقائد ۲۴۰ خداکہلانے والے پیشوا اوران کی کرامات ۱۶۴ شریعت موسیٰ کی شریعت سے لاکھوں خون ہو گئے ۳۲۳ موسیٰ کی محدودشریعت جوتمام قوموں اورقیامت تک کیلئے نہیں تھی ۳۴۲ مسیح موسیٰ کی شریعت کے تابع آئے ۲۵۱ خداشریعت کے نزول سے پہلے مواخذہ نہیں کرتا ۲۵۳ شق القمر شق القمر کا معجزہ ۲۷۹ شق القمر ہونا مستلزم قرب قیامت کے ہے ۲۸۶ شق القمرکامعجزہ ایک نشان تھا ۳۱۱ح شیطان شیطان کامسیح کوآزمایش کے لئے لے جانا ۲۳۳ شیطان کوفرشتہ بنایاگیاتھااس نے گناہ کرکے اپنے آپ کو شیطان بنایا(آتھم) ۲۶۱ مسیح ؑ شیاطین کے لیے کفارہ تھے یا نہیں ؟ ۲۸۰ ص،ض صادق دنیا صادقوں کے وجود سے کبھی خالی نہیں ہوتی ۳۴۷ صادق انبیاء ،رسل،محدث اور اولیاء کاملین ہیں ۳۴۷ صحابہ صحابہ آنحضر ت ؐ کے نوروں کو حاصل کرنے والے اور علم نبوت کے پہلے وارث تھے ۱۸ مسیح کے حواریوں اور صحابہ رسول کا موازنہ ۲۸۹ عیسائی علماء کی گواہی کہ صحابہ کے مقابل حواریوں کی حالت قابل شرم ہے ۲۹۰ بظاہر صحابہ کو مخاطب کرکے قرآن کے چھیالیس احکام.جو امت کے لئے بھی ہیں ۳۳۵،۳۳۶ صحابہ رسول ؐ نے جوایمانی صدق دکھلایا وہ تابعین میں بھی نہیں پایا گیا ۳۴۶ صحبت صالحین معرفت کا آخری بھید بغیر صحبت کاملین سمجھ نہیںآسکتا ۳۰ح یہ کہنا کہ قرآن وحدیث کافی ہیں صحبت صادقین کی ضرورت نہیں مخالف تعلیم قرآن ہے ۳۴۷
صدی ہر صدی میں خدا کے وارث پیدا ہوتے رہے ہیں اس صدی میں یہ عاجز ہے ۲۴ تیرہویں صدی سے قیامت کی آیا ت کبریٰ شروع ہیں ۳۶۵ تیرہویں صدی کی ابتداء سے ہرآفت میں ترقی ہونے لگی تھی ۳۰۸،۶۶۶ مسیح موعود کا چودہویں صدی کے سرپر آنا ۳۶۳،۳۶۵ صور(دیکھئیے زیر عنوان نفخ صور) ضلالت ضلالت کے اثرات انسان کی اپنی بداعمالی کا نتیجہ ہیں.آیات قرآنیہ سے ثبوت ۲۳۴ پادریوں نے ضلالت کے پھیلانے میں کوششیں انتہا کو پہنچائی ہیں ۳۶۲ ع،غ عبادت ادعونی استجب لکم میں سید صاحب کے نزدیک دعا سے عبادت اور استجابت سے قبولیت عبادت مراد ہے ۱۲ بندوں کی عبادتیں اور طاعتیں انہیں کے فائدہ کیلئے ہیں ۲۴۴ عفو عفو اور انتقام کے متعلق قرآنی تعلیم ۱۲۷ عقل عقل سلیم الوھیت مسیح کے عقیدہ کو دھکے دے رہی ہے ۱۷۹ ذات الٰہی نہ عقل سے ثابت کی جاسکتی ہے نہ عقل سے اس کی تردید کی جا سکتی ہے ۱۸۷ علم علم روح کی صفات میں سے ہے نہ کہ جسم کی صفات سے ۱۳۶ علماء علماء اسلام نے ثابت کیا کہ جو قرآن پر اعتراض ہیں وہ توریت پر بھی ہوتے ہیں ۶۳ تمام مستند علماء جن کوخدا نے علم وعمل بخشا میرے ساتھ ہیں ۷۴ مستند علماء اسلام کاتخت گاہ حرمین شریفین ہے ۷۵ ہرایک جوخدا کی طرف سے آیاوقت کے علماء کی ناسمجھی سدراہ ہوئی ۳۶ علماء کے متعلق یہودی صفت ہونے کی پیشگوئی ۳۰۵ امت کے علماء نے یہودیوں کے قدموں پرقدم مارا ۳۵۷ ظاہری علماء شاگردوں کواسلام کی عظمت سے بدظن کرتے ہیں ۳۴۹ علماء کے مسیح کی طرف منسوب غلط معجزات ۳۷۳ح علماء کو جہادکی ممانعت کے خطوط شائع کرنے کی تجویز ۳۸۹ح مولویوں اور یہودی فقیہوں میں باہمی مشابہتیں ۳۵۸ مولویوں کا کہنا کہ جنگ مقدس میں اگروفات وحیات کی بحث ہوتی تو ہم ڈاکٹر کلارک کا ساتھ دیتے ۷۴ عیسائیت عیسائی عقیدہ کی رو سے مسیح کی الوہیت کا انکاری جہنم میں گرایا جائے گا ۱۷۸ عیسائی مذہب اسی دن سے تاریکی میں ہے جب سے مسیح کو خدا کی جگہ دی اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا انکار کیا ۴۱،۵۶ عیسائیوں میں اسلام کے زندہ نوروں کے مقابلہ کی طاقت نہیں ۵۷ عیسائیوں میں سے کوئی انجیل میں مذکور علامات اپنے نفس میں ثابت کرے ورنہ وہ دروغگو ہے ۶۲ نصاریٰ کی سلطنت دنیامیں ایسی پھیل گئی کہ زمانوں میں اس کی نظیرنہیں ۳۰۵،۳۶۱ نصاریٰ وہ آخری قوم ہے جس کے ہاتھ سے فتنوں کاپھیلنامقدر تھا ۳۱۶
مسیح موعودعیسائیت کے بے برکت ومنحوس عقیدوں کاپردہ کھول دے گا ۳۰۷ عیسائیت کے بطلان کے لئے ہزار دلیل سے بڑھ کر دلیل ۴۳ پادریوں کوبٹالوی کے اشاعۃ السنہ سے مذہبی امورمیں مددپہنچنے کا ذکر ۷۲ پادریوں نے نبیوں کی کتابوں میں گستاخی سے دخل بے جاکیاہے ۳۱۶ پادریوں نے ضلالت کوپھیلانے میں کوششیں انتہاکو پہنچائی ہیں ۳۶۲ لوگ پادریوں کے وساوس سے ہلاک ہوئے ۳۷۴ رومن کیتھو لک مریم کو خدا کی ماں قرار دیتے ہیں ۱۸۶، ۲۲۴،۲۲۸ یونی ٹیرینعیسائی فر قہ جو مسیح کو خدا نہیں مانتا ۱۸۱،۱۸۶ تثلیث کی تردید میں عقلی دلیل ۱۰۶،۱۹۶ تین اقنوم اگر صفات کاملہ میں برابرہیں تو ایک کامل کے ساتھ دوسروں کی کیوں ضرورت پڑی؟ ۲۱۱ تثلیث کا عقیدہ خلاف عقل ہے ۲۳۵ آتھم نے کہاں عقل سے امکان تثلیث ثابت کیا؟ ۲۵۰ الوھیت مسیح اور اس کا ابطال مباحثہ کے پہلے روزالوہیت مسیح پرفریقین کی طرف سے سوال وجواب تحریرہوئے ۸۴ عیسائیوں کے مطابق اس کاانکاری جہنم میں گرایاجائے گا ۱۷۸ قرآن کی روسے خدائی کادعویداریا اسے خداماننے والاجہنم کے لائق ٹھہریگا ۱۷۸ الوہیت مسیح کی تردیدمیں قرآنی آیات ۸۹ دلیل استقرائی سے الوہیت مسیح کی تردید ۸۹،۹۰،۹۲ مرتبہ خدائی سے بعید ہے کہ اللہ کاجسم تحلیل ہواور تین چار برس کے بعدآوے ۹۲ مسیح باوجود دردوں اوردکھوں کے خداہی تھے یاابن اللہ؟ ۹۳ باپ کانام سن کریہودیوں کااعتراض اور مسیح کا جواب ۱۱۷ الوہیت مسیح پریہودیوں کااتفاق مانگنے کی وجوہ ۱۱۸ روح القدس کا اترناانسان کوخدااورمظہراللہ بنادیتاہے تو انبیاء اورحواری خدا ہوئے ۲۲۳ الوہیت مسیح کے تردیدی دلائل ۱۳۴ مسیح میں خدائی صفات نہیں تھیں ۱۳۶ ۱.قیامت سے لاعلمی کااظہار ۲.نیک ہونے سے انکار ۳.اپنے بے اختیارہونے کااظہار ۴.مسیح کاخوددعاکرنااوردوسروں سے کروانا الوہیت مسیح کے قرآن سے دو تردیدی دلائل ۱۳۷ ۱.خالقیت کانمونہ دکھانے کامطالبہ ۲.خدا کی صفت تکلم الوہیت ہوتی توشیطان کوکیوں کہتے کہ بجزخداکے کسی کوسجدہ مت کر ۲۵۱ ’’مخصوص اور بھیجے ہوئے‘‘ کے معنے الوہیت نکالناعجیب ہے دوسرے انبیاء کیلئے یہی الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۱۵۲؍۱۶۶ بھیجاکالفظ توریت میں نبی بناکربھیجنے کے معنوں میں بولاگیاہے ۱۸۱ عیسیٰ کوخداٹھہرانے پرکیادلیل ہے ۱۶۴ آتھم کی پیش کردہ پیشگوئیاں مسیح نے اپنے حق میں کیوں نہ پیش کیں ۱۶۶ الوہیت مسیح کی تردید کے معقولی قرآنی دلائل ۱۶۸ صفت خالقیت سے الوہیت مسیح کی تردید ۱۶۸ عقل سیلم اس اعتقاد کودھکے دے رہی ہے ۱۷۸ قیاس استقرائی شہادت دے رہا ہے کہ اس کی نظیر نہیں پائی گئی ۱۷۹ یہودیوں میں سے کسی نے نہ لکھاکہ ایک خدابھی انسانی جامہ میں آنے والا ہے ۱۸۰ الوہیت مسیح کے تردیدی دلائل کاخلاصہ ۱۸۱،۱۸۲ رام چندر اورکرشن سے مسیح کوکیانسبت.کا جواب ۱۸۳
الوہیت مسیح کے بارہ میں آتھم کا موقف ہم شئ مرئی کواللہ نہیں مانتے بلکہ مظہراللہ کہتے ہیں ۹۳ ہم ابن اللہ کوجسم نہیں مانتے ہم اللہ کوروح جانتے ہیں ۹۴ الوہیت مسیح کے لئے روح جسم اورجان کی مثال ۱۱۰ آگ کا خداہونایاآگ سے آوازآناکہ میں خداہوں.آتھم کا جواب ۱۱۱ مسیح کایہودیوں کوکہناکہ تمہارے بزرگوں کو الوہیم کہاگیامجھے ابن اللہ کہنے سے کیوں الزام دیتے ہو.آتھم کا جواب ۱۱۲ بقول آتھم مسیح میں پائی جانے والی خدائی صفات ۱۲۹ آتھم کی طرف سے مسیح موعود علیہ السلام کے اٹھائے گئے سوالات کے جوابات ۱۳۱،۱۴۱،۱۶۰،۱۷۲،۱۷۴،۱۸۷،۲۷۹ ابنیت مسیح ابنیت مسیح کے ردّ میں دلیل استقرائی ۱۱۴ حقیقی ابن اللہ ہونے سے مسیح کا انکار ۱۱۷ مسیح کے ابن اللہ ہونے کی تردید ۱۳۳ کیا یہودیوں نے تسلیم کیا کہ مسیح خدائی کی وجہ سے ابن اللہ ہیں؟ ۱۵۲ مسیح اپنے تئیں ابن اللہ ٹھہراتے تووہ یہ پیشگوئیاں پیش کرتے جو آتھم پیش کر رہا ہے ۱۶۵ ابنیت مسیح کی تردید میں قرآنی دلیل ۱۶۷ مسیح کو ابن اللہ بنانے سے قریب ہے کہ زمین وآسمان پھٹ جائیں ۱۷۹ انبیاء وصلحا کے متعلق بائیبل کے الفاظ کہ وہ خدا کے بیٹے تھے حقیقی نہیں لئے جا سکتے ۹۱ مسیح ابن اللہ ہے تو ضروری ہے کہ تولد میں ایسی والدہ کا محتاج نہ ہو جو انسان تھی ۹۲ مسیح کا فرمان کہ زبور میں لکھا ہے تم سب الہ ہو ۱۰۸ مسیح کے ابن اللہ اور خدا ہونے کے سلسلہ میں یوحنّا کا حوالہ ۱۰۸ توریت میں دوسروں کو بیٹا کہا گیا مگر مسیح کی زیادہ تعریفیں کیں (آتھم) اس کا جواب ۱۰۸ غذا ہرقسم کی غذا کا روح پر اثر ہوتاہے ۹۲ غدر غدر ۱۸۵۷میں بجز جہلا کے کوئی نیک باعمل باتمیز مسلمان شامل نہ ہوا ۳۸۸ح ہمارے والد نے پچاس گھوڑے اور پچاس سوار سرکار میں بطورمدد نذر کئے ۳۸۹ح غیب قرآن غیب پرمشتمل ہے اور پیروی کرنے والے پر فیضان غیب نازل کرتاہے ۸۷ علماء کا مسیح کی نسبت گمان کہ ان میں غیب دانی کی طاقت تھی ۳۷۳ح ف،ق فرشتے وحی کے دوران ملائک نظر آتے ہیں اور کلام میں واسطہ ہونا ظاہر کردیتے ہیں ۲۶ح فرشتوں کی ضرورت کی بحث آئینہ کمالات اسلام میں ہے ۲۷ آسمانی مصلح کی بعثت پر دلوں کو حرکت دینے والے ملائکہ کا نزول ۳۱۴ فضل خدا تعالیٰ کے فضل کو ردّ مت کرو ۲۴ دعاؤں کا قبول ہونا فضل پر موقوف ہے ۲۲۲ فلسفہ فلاسفر مسیح کے معجزات سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکے ۶۲ فلاسفروں کو مسلّم ہے کہ وجود بنی آدم دَوری ہے ۳۶۸
سید صاحب دعاؤں کی فلاسفی سے بے خبر ہیں ۸ استجابت دعاکی فلاسفی خدا سے تعلقات صدق ومحبت رکھنے والے کو معلوم ہوسکتی ہے ۱۵ح گناہ کی فلاسفی ۲۰۸ لوگ نئے فلسفہ اور پادریوں کے وساوس سے ہلاک ہوئے ۳۷۴ فلسفہ کے زہر نے مسلمانوں کے اعتقاد کی بیخ کنی کر دی ہے ۳۷۶ قانون قدرت قدرت اسی کا نام ہے کہ اس کے تصرفات مخلوق پر ہر آن غیر محدود ہیں ۲۷ سید صاحب کو قانون قدرت پر بڑا ناز تھا تفسیر میں اس کا لحاظ چھوڑ گئے ۲۵ قانون قدرت ہے کہ ہرایک جاندار کی اولاد اس کی نوع کے موافق ہوا کرتی ہے ۹۲ قانون الٰہی کی خلاف ورزی سے گناہ پیدا ہوتاہے ۲۰۷ قانون قدرت سے اللہ کے قادر ہونے کا ثبوت ۲۱۰ قرآن کریم ۷،۱۲،۱۸،۲۱،۵۲،۶۳،۷۰،۱۰۰،۱۳۵،۱۷۶،۲۲۴،۲۹۷ تفسیر قرآن کے سات معیار ۱۷ قرآن کریم کے معارف ظاہرہورہے ہیں ۲۴ قرآن کریم کی اسلام کی نسبت آیات ۸۵ قرآن کریم کی تعریف میں قرآنی آیات ۸۶ قرآن غیب پر مشتمل اور غیبی قوت عطا کرتاہے ۸۷ جس کتاب کو خدا کی طرف منسوب کریں وہ انسانی کمزوریوں سے مبّراچاہیے ۸۸ قرآن میں موسیٰ ؑ کا آگ کا واقعہ ۱۰۷،۱۱۱،۱۱۲ قرآن کریم سے الوہیت مسیح کے تردیدی دلائل ۱۳۷ الوہیت کی تردیدمیں قرآنی تعلیم ۱۷۸ قرآن کریم بے شمار دلائل سے اپنی حقانیت ثابت کرتاہے ۱۷۹ قرآن نے بیماروں پرہاتھ رکھ کراچھاکرنے کی نشانی نہیں رکھی ۱۵۴ قرآن کی فصاحت وبلاغت پرآتھم کااعتراض ۲۲۷ قرآن پرجبرکااعتراض نہیں ہوسکتا ۲۵۲ قرآن کا جائز رکھنا کہ خوف زدہ ایمان کا اظہار نہ کرے اس کی وضاحت ۲۷۶ قرآن نے مردوں کو زندہ کیا اور باطل خیالات کو مٹایا ۲۸۰ نزول قرآن کے وقت پھیلنے والے مشر کانہ عقائد ۲۴۰ قرآن کے کلام اللہ ہونے کی نسبت تین ثبوت ۲۸۸ (۱) پیش از وقت نبیوں کی خبر دینا (۲)قرآن کا ضرورت حقہ کے وقت پر آنا (۳) اس کی تعلیم کا کامل ہونا قرآن نے اصول ایمانیہ کو دلائل عقلیہ سے ثابت کیاہے ۲۸۹ آتھم کا دعویٰ کہ قرآن میں فصاحت نہیں ۲۲۷ قرآن کی فصاحت و بلاغت ۲۹۱ قرآن کریم کاعام محاورہ ہے کہ دنیاکے قصہ کے ساتھ آخرت کاقصہ پیوند کیا جاتا ہے ۳۱۱ح احادیث سے ثابت ہے کہ قرآن کریم کے لئے ظہر بھی ہے اور بطن بھی ۳۱۹ قرآن کی ہدایتیں اس وجود سے وابستہ ہیں جس پر یہ نازل ہوا ۳۴۷ قرآن کے ہوتے ہوئے معلم القرآن کی ضرورت ۳۴۸ اگر آنحضرتؐکے بعد ایسے معلم نہیں آئے جنمیں ظلی نورنبوت تھاتو خدا نے عمدًا قرآن کوضائع کیا ۳۵۰ قرآن میں مفتری کے جلد ہلاک ہونے کے بارہ میں فرمان ۳۷۱ قرآن کریم کی تعلیم قرآن کریم کا تعلیم کی جامعیت اور کاملیت کادعوٰی ۸۸ قرآن کریم کااپنی کمال تعلیم کادعویٰ ۱۲۳ قرآنی تعلیم کاکامل ہوناکیونکرہے ۱۲۶ قرآن سے پہلی تعلیمیں مختص القوم یا مختص الزمان تھیں ۱۲۶ قرآن تمام قوموں اورزمانوں کی تعلیم اورتکمیل کیلئے ہے ۱۲۷ قرآنی تعلیم کہ عفواورانتقام موقع محل کے مطابق ہو ۱۲۷ نجات کے بارہ میں قرآنی تعلیم ۱۴۳ تعلیم قرآنی کاموضوع توحید پھیلانااورشرک کومٹاناہے ۲۴۰ قرآن سے بائیبل وانجیل کی تعلیم کا موازنہ ۲۸۸ احکام قرآنی جن میں خطاب بظاہر صحابہ سے ہے ۳۳۵‘۳۳۷
قرآن کی فضلیت ہے کہ اس نے ازدواج کی بے حدی کو ردّ کیاہے ۴۷ قرآن کی تاثیر قرآن کے کمالات میں تیسرا حصہ اس کی تاثیرات ہیں ۲۸۹ قرآنی تعلیم اور مسیحی تعلیم کا بلحاظ تاثیرات موازنہ ۲۸۹ قرآن کادوسرابڑافائدہ تاثیرقرآنی ہے جوموجب تزکیہ نفوس ہے ۳۳۸ قرآن کی کاملیت قرآن کریم میں کمال کی تشریح ۱۲۳ قرآن کریم کے کمال کی تین نشانیاں ۱۲۴ ۱.اصول ایمانیہ ثابت شدہ انسانی فطرت کے مطابق ہیں ۲.صحیفہ قدرت کے دیکھنے سے صداقت کھل جائے اور تعلیم کمال درجہ کی ہو ۳.ہروقت اورہمیشہ اپناپھل دیتاہو آتھم کی طرف سے نجات کی بابت قرآن میں کمال دکھلائے جانے کامطالبہ ۱۴۱ قرآن کریم کے فائدے قرآن کے دوبڑے فائدے ۳۳۸ ۱.حکمت فرقان ۲.تاثیرقرآن قرآن کریم کے احکام قرآن کاچھ سوحکم عام سمجھاجاتاہے نہ کہ صحابہ تک محدود ۳۳۵ بطور نمونہ قرآن کریم کے چھیالیس احکام ۳۳۵،۳۳۶ قرآن کریم کی حفاظت حفاظت قرآن کاوعدہ اوراس کی وجہ ۳۳۸ حفاظت قرآن سے مراد ظاہری حفاظت کے علاوہ فوائد و تاثیرات کی حفاظت ہے ۳۳۸ حفاظت قرآن کے لئے نائب رسول جن میں ظلی طورپررسالت کی نعمتیں ہوںآویں گے ۳۳۸ قرآن کی حفاظت ظاہری بھی دنیاکی تمام کتابوں سے بڑھ کر اورخارق عادت ہے ۳۵۰ قرآن کریم کے مخاطب قرآن کے تمام خطابات احکامیہ میں تعمیم ہے ۳۳۴ قرآن کا حقیقی اسلوب یہ ہے کہ اس کے مخاطب تمام مسلمان ہیں ۳۳۷ قصاص کفار خونریزی اور مسلمانوں کو قتل کرنے کی وجہ سے قصاص کے مستحق ہوگئے تھے ۲۶۲ قیامت آخری زمانہ قرب قیامت کا زمانہ ہے ۳۶۴ نبی صلعم کا وجود قیامت کی علامتوں میں ایک علامت ہے ۳۶۵ ک ،گ ،ل کفّارہ کفارہ پر ایمان لاکر حقیقی ایمان کی علامات کیوں پائی نہیں جاتیں ۲۰۰ جوروح گناہ کرے گی وہی مرے گی ۲۰۴ قرآن وانجیل کے طریق معافی کا موازنہ ۲۰۹ کفارہ مسیح کے حق میں پیش کردہ مثال کا جواب ۲۱۳ قرآن وبائیبل بالا تفاق کفارہ کے مخالف ہیں ۲۲۴ مسیح کے وعدے جن میں کسی کفارہ کا ذکر نہیں ۲۳۵ قانون کے نزول کے بعد وعدہ اور وعید کے مطابق فیصلہ ہوگا کفارہ کی ضرورت نہیں ۲۶۷ ایمان اور توبہ پر نجات کا وعدہ ہے یہاں کفارہ کا کیا تعلق ۲۶۸ کیامسیح شیاطین کے لئے کفارہ تھے یا نہیں؟ ۲۸۰ گناہ گناہ کی فلاسفی ۲۰۸ گناہ کی تین قسمیں ،فطرتی ،حق اللہ اور حق العباد میں کمی ۱۹۸
انسان میں ایک شق گناہ کی طرف رغبت تودوسری شق گناہ سے نادم ہوکر توبہ کرنا ہے ۲۰۰ قانون الٰہی کی خلاف ورزی سے گناہ پیدا ہوتاہے ۲۰۷،۲۱۰،۲۸۱ محبت وعشق گناہوں کے خس وخاشاک کو آگ کی طرح جلا دیتی ہے ۲۰۹ گناہ مشروط بشرائط ہیں ۲۲۱ رسول آنے سے قبل گناہوں پر عذاب نہیں ۲۸۱ گورنمنٹ انگریزی گورنمنٹ انگریزی کے احسانات کا ذکر اور والد بزرگوار کی گورنمنٹ کی مدد کی تفصیل ۳۷۸ انگریزگورنمنٹ کے لئے دعا ۳۸۰ اس نے امن قائم کیا اور ظالموں سے پناہ دی ۳۸۰ ہم تہ دل سے گورنمنٹ کے شکر گزارہیں ۳۸۲ گورنمنٹ کی مخالفت کا خیال آپ ؑ کے پاس بھی نہیں پھٹکا ۳۸۴ یہ مسلمانوں کے لئے آسمانی برکت اور باران رحمت ہے ۳۸۸ اس سے لڑائی اور جہاد قطعی حرام ہے ۳۸۰،۳۸۹ اس کی آزادی ایسی بدیہی ہے کہ دوسرے ملکوں سے مظلوم مسلمان ہجرت کرکے یہاں آنا پسند کرتے ہیں ۳۹۰ اس میں ہر فرقہ امن اور آرام سے رائے ظاہر کرتاہے ۳۹۱ گورنمنٹ کا شکر قرآن حدیث کی تاکیدوں کے پیش نظر کیاہے ۳۹۳ لیلتہ القدر سورۃ القدر کی تفسیر ۳۱۳ ظاہر ی عقیدہ کے مطابق لیلتہ ا لقدر ایک متبرک رات کا نام ہے لیکن لیلتہ القدر وہ زمانہ بھی ہے جب دنیا میں ظلمت پھیل جاتی ہے ۳۱۳ م مباحثہ(نیز دیکھئے جنگ مقدس) مباحثہ اور مقابلہ کی علت غائی ۶ مباحثہ کے متعلق آتھم کولکھے گئے خط کا جواب ۵۲ عیسائیوں کا مباحثہ میں بحث کا موضوع ۶۳،۶۶ مباحثہ کے لئے آنے والے قوم کے خواص میں سے ہوں ۶۳ فریقین کے علماء کے مجمع میں یہ بحث ہو ۶۴ فریقین کے مابین قرار یافتہ ۱۶شرائط ۶۷،۶۸ کلارک صاحب پر مباحثہ منظور کرنے کے بعد خوف طاری ہونا ۷۲ آتھم.ڈاکٹر کلارک و دیگر عیسائیوں کا بصورت مغلوب ہوجانے کے مسلمان ہونے کا وعدہ ۸۰ مسلمانوں کی طرف سے منشی غلام قادر فصیح اور عیسائیوں کی طرف سے ڈاکٹر مارٹن کلارک میر مجلس قرارپائے ۸۴ مسیح موعود علیہ السلام اور عبداللہ آتھم کے معاونین کے اسماء ۸۴ مباحثہ جنگ مقدس کی غرض ۸۵ موازنہ کے لئے دعویٰ اوردلیل اپنی الہامی کتاب سے دیاجائے ۸۵،۸۹،۹۷ مباحثہ میں تحریرشدہ تحریر پرجب تک میرمجلس صاحبان کے دستخط نہ ہوں قابل اعتبار نہ سمجھی جائے ۹۶ مباحثہ کے طبع کروانے اورقیمت مقرر کرنے کیتجویز ۱۵۸ بہ تراضی فریقین طے پایاکہ پہلے سے لکھامضمون نقل نہیں کرایاجاسکتا، آتھم بیمار ہوں توان کی جگہ کوئی اورمقررکیا جائے اور مباحثہ میں سوموار کادن ایزاد کیاجاناقرارپایا ۱۵۹ منیجرنیشنل پریس کی مباحثہ چھاپنے کی درخواست منظور ہوئی ۲۰۶ مباحثہ کے خوش اسلوبی سے انجام پذیر ہونے پر خواجہ یوسف کا میر مجلسوں کا شکریہ ادا کرنا ۲۷۴ آتھم صاحب نے شرائط مباحثہ کا ذرا پاس نہیں کیا ۲۸۶ روئیدادمباحثہ ۸۴،۹۶،۱۰۹،۱۲۲،۱۳۹،۱۵۸،۱۷۱،۱۹۲، ۲۰۶،۲۲۵،۲۵۷۲۳۹،۲۷۴،۲۰۶،۲۲۵،۲۳۹،۲۵۷،۲۷۴ مباہلہ مباحثہ کے علاوہ روحانی مقابلہ یعنی مباہلہ کا چیلنج ۴۹،۷۰
مباحثہ کے بعد فریقین میں مباہلہ ہونے کی تجویز نیز فریق مغلوب فریق غالب کامذہب قبول کرے یانصف جائیداد دے ۴۸،۷۰ مباہلات از قسم معجزات ہی ہیں ۵۶ مباہلہ کے سلسلہ میں بٹالوی پراتمام حجت ۸۲ ڈاکٹر مارٹن کابیان کہ لعنت دینایاچاہناہمارے خدا کی تعلیم نہیں ۱۹۰ مولوی غلام رسول دستگیر سے ہونے والے مباحثہ کا ذکر ۷۵ عبدالحق کے اشتہار مباہلہ کا جواب اورمباہلہ منظور کرنا اور تاریخ مباہلہ اورمقام مباہلہ کاتعین ۸۱ عبدالحق غزنوی سے مباہلہ کا ذکر ۳۷۲ مخالف مباہل کی ذلت کے لئے اتناکافی ہے کہ خدا ہرمقام میں فتح ظاہرکرے ۳۷۲ مباہلہ میں دوسرے پر لعنت ڈالنا ضروری نہیں ۵۶ مجاز مجازات کی بنیاد مشاہدات عینیہ پر ہے ۲۸۷ مجازکوحقیقت پرحمل نہ کرو ۳۷۴ح مجدد مجددوقت زمانے کے مفاسد کی اصلاح کے کمالات پاکرآتا ہے ۳۴۲ مجدد دین میں کمی بیشی نہیں کرتے بلکہ گمشدہ دین کودلوں میں قائم کرتے ہیں ۳۴۴ مجددوں پر ایمان لانا فرض نہ سمجھنا خدا کے حکم سے انحراف ہے ۳۴۴ مجدددین روحانی معلم اور وارث رسل ہوتے ہیں ۳۴۸ اس صدی کا مجدد حضرت مسیح کے رنگ میںآیا ۳۶۱ آیت استخلاف سے ایک مجدد مسیح کے نام پر آنا ضروری ہے ۳۶۲ محدث جس سے مکالمہ کثرت سے ہوتا ہے اسے نبی یا محدث کہتے ہیں ۴۳ محدث نبی متبوع کا پورا ہم رنگ ہوتا ہے ۲۰ محدّث وہ لوگ ہیں جو شرف مکالمہ الٰہی سے مشرف ہوتے ہیں ۲۳ ان کا جو ہرنفس انبیاء کے جو ہرنفس سے مشابہت رکھتاہے ۲۴ وہ نبوت کے لئے بطور آیات باقیہ کے ہوتے ہیں ۲۴ سچے مذہب کی نشانی ہے کہ ا س میں محدث پیدا ہوتے ہیں ۴۳ مرسل ہونے میں نبی اور محدث ایک ہی منصب رکھتے ہیں ۳۲۳ شریعت میں نبی کے قائم مقام محدث ۳۲۴ امت کے محدث تعداد اورطولانی سلسلہ میں موسوی امت کے مرسلوں کے برابرہیں ۳۲۴ محسن محسن وہ ہے جوخدمتگار اورفرمانبرداری کاحق بجالائے ۱۴۴ محسن کی بدخواہی کرناحرامی اوربدکار آدمی کاکام ہے ۳۸۰ مسلمان نجات اہل اسلام کے کامل افراد میں چمک رہی ہے ۵۷ ہر مسلمان کو نصیحتاً حضور ؑ کا ارشاد ۳۶ ایمانی زندگی صرف کامل مسلمان کو ملتی ہے ۵۷ ضعیف اور ناقص الا یمان مسلمانوں کے طبقہ کے لئے خدا کی رعایت ۲۷۶ مسلمان قوم سے تعلق رکھنے والی پیشگوئی بہت عظیم ہے ۳۷۶ وہ غلطیاں جوبجزخدا کی تائید کے نکل نہیں سکتیں مسلمانوں کے خیالات سے نکالی جائیں ۲۴ یہودیوں کی نافرماینوں کا ذکرکرکے مسلمانوں اورعلماء کی حالت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۳۶۱ حال کے اکثر مسلمانوں کی حالت نہایت ردی ہوگئی ہے ۳۷۶ مقلدین موحدین کے شہروں میں اورموحدین مقلدین کے شہروں میں دم نہیں مارتے ۳۹۱ح مسیح موعود(دیکھئیے اسماء میں مرزا غلام احمد قادیانی ؑ ) مصلح مصلح کے ظہورکے وقت آسمان سے انتشار نورانیت ہوتا ہے ۳۱۲ آسمانی مصلح کے ظہورکے وقت کی علامات ۳۱۳ جب مصلح آتا ہے تودلوں کوحرکت دینے والے ملائکہ زمین پرنازل ہوتے ہیں ۳۱۴ نہایت ضروری ہے کہ بعدوفات رسول امت میں مصلح آئیں ۳۴۴ فتنہ وفساد کے وقتوں میں مصلح آنے کے دلائل ۳۴۵ معجزہ اعجاز کی بعض اقسام کی حقیقت استجابت دعا ہے ۱۰
آتھم کامعجزہ دکھانے کی ضرورت اوراستطاعت سے انکار ۵۲ معجزہ اسی کو جانیں گے جو تحدی مدعی معجزہ سے ظہور میں آوے اور امر ممکن کا مصدق ہو ۵۴ اندھا،ٹانگ کٹااورگونگاپیش کرکے آتھم کامعجزہ دکھانے کامطالبہ ۱۵۰ مسیح سے نشان کامطالبہ اور مسیح کاانکار ۱۵۵ یہودیوں کامسیح سے صلیب سے اترآنے کے نشان کا مطالبہ ۱۵۶ معجزات مسیح کے نظائر ۱۶۳ مسیح کے معجزات پراگندگی میں پڑے ہیں ۲۵۱ قرآن معجزات سے بھراہے اور خود معجزہ ہے ۲۷۹ قرآنی معجزات تو اتر اور قطعیت سے ثابت ہوئے ۲۹۰ ہمیں مسیحؑ کے معجزات سے انکار نہیں بے شک ان میں سے بعض ظہور میںآئے ۳۷۳ح مسیح کے متعلق علماء کے بیان کردہ معجزات خلق طیر ، مردہ زندہ کرنااورغیب دانی وغیرہ ۳۷۳ح معرفت الہیہ معرفت کاآخری بھید ۳۰ح انسان حقیقی معرفت تب حاصل کرتاہے جب خدااسے اناالموجود کی بشارت دیتاہے ۴۲ مفتری خداقرآن میں فرماتا ہے کہ میں مفتری کومددنہیں دیتاوہ جلد ہلاک کیا جاتا ہے ۳۷۱ مفتری کوخدامہلت نہیں دیتابلکہ جلدپکڑتاہے ۳۷۲ مماثلت آنحضرتؐ اور موسیٰ میں مماثلت تامہ ہے نہ کہ ناقصہ ۳۲۲،۳۲۶ محمدی اورموسوی سلسلہ کی آخری زمانہ کی مماثلتیں ۳۲۳ آیت استخلاف میں محمدی اورموسوی سلسلوں میں مماثلت کی طرف صریح اشارہ ہے ۳۲۴،۳۶۳ مہدی مسلمان خونخوار مہدی کے منتظر ہیں جوزمین کومخالفوں کے خون سے سرخ کردے گا ۳۸۱ مہدی کے نام پرمسیح موعود آگیا ۳۸۱ ن نبوت حقیقی نبی وہی ہے جو دوسروں کو پاک، صاحب خوارق اور ملہم بنائے ۶۲ خدا کے مقبول بندوں میں بلند مرتبہ نبی یارسول ہیں ۳۷۹ آنحضرتؐ خاتم الانبیاء ہیںآپ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا ۳۲۴ حفاظت قرآن کے لئے ظلی رسول کے آنے کی ضرورت ۳۳۸ آنحضرتؐ کے بعد ظلی نبوت ۳۵۰ خدا اس امت کو ظلی طور پر تمام انبیاء کا وارث ٹھہراتاہے ۳۵۲ معجزہ دکھلانا نبی اور مرسل کا کام ہے نہ ہرایک انسان کا ۵۲ انبیاء کی بعثت کے وقت حالت زمانہ ۱۱۶ سچے پیغمبر پیغام رسانی میں کسی سے نہیں ڈرتے ۱۳۵ مسیح بے شک نبی اللہ اور سچے رسول ہیں ۱۳۷ معجزات میں بعض نبی مسیح سے بڑھ کر ہیں ۲۵۱ نبیؐ کے استغفار پر اعتراض اور اس کا جواب ۲۶۰ خدا نے جیسانبی کانام مرسل رکھا ایسا محدثین کابھی ۳۲۳ بنی اسرائیل میں تورات کے ہوتے ہوئے انبیاء کے آنے کی غرض ۳۴۰ کثرت ارسال رسل میں اصل بھید ۳۴۱ تورات کے خادم انبیاء کی بنی اسرائیل میںآمد ۳۴۲ جو انشراح ایمانی اور جوش اطاعت نبی کے دیکھنے والوں میں ہوتا ہے دوسروں میں نہیں ہوتا ۳۴۵ جس سے کثرت سے مکالمہ ہو اسے نبی یامحدث کہتے ہیں ۴۳ ہرصدی میں انبیاء کے وارث پیدا ہوئے اس صدی میں مسیح موعود وارث ہے ۲۴ پاک نبی یا ان کے وارث فتنہ فساد کے وقتوں میں ضرور پیدا ہونے چاہیں ۲۴،۳۴۵ علم نبوت بجز مطہرین کسی کو نہیں دیا جاتا ۲۱
دنیا میں زیادہ تر انسانوں کو نفع پہنچانے والے لوگ انبیاء ہیں ۳۵۱ اللہ تعالیٰ ہریک فتنہ کے موافق نبی اور مجدد بھیجتاہے ۳۶۰ انبیاء کا لایا ہوا نور لازمی نہیں بلکہ متعدی ہوتا ہے ۶۲ نجات نجات کی حقیقت اور اس کے بارہ میں قرآنی تعلیم ۱۴۳ اصلی اورحقیقی نجات ۱۴۴ عیسائیوں اور یہودیوں کا نجات کا دعویٰ صرف ان کی آرزوئیں ہیں ۱۴۴ نجات اور حیات ابدی اہل اسلام کے کامل افراد میں چمک رہی ہے ۵۷ قرآن میں لکھاہے کہ نجات صرف اسلام میں ہے ۱۵۳ حقیقی اور کامل نجات یافتہ لوگوں کی علامات ۱۴۵ آتھم سے عیسائیت کے طریق نجات ،اسکی علامات اور ان کے پائے جانے کے ثبوت کامطالبہ ۱۴۶ عیسائی طریق نجات اورقرآنی طریق نجات کاموازنہ ۱۴۷ عیسیٰ کی بیان کردہ نجات یاحقیقی ایمانداروں کی علامات ۱۵۳ توبہ اورایمان کے بغیرکوئی نجات میں داخل نہیں ہوسکتا ۲۱۵ مسیح نجات کامدار وعدوں پررکھتے ہیں ۲۳۴ یہ وعدہ ہے کہ ایمان اورتوبہ پر نجات ملے گی ۲۶۸ نجات انہی کوہے جو دنیاکے جذبات سے بیزار،بری اور صاف دل ہیں ۳۹۷ نشان(نیز دیکھئے عنوان معجزہ) قہرالٰہی کے نشان صاف اورکھلے دکھائی دیں توسمجھو خدا کی طرف سے ہیں ۲ براہین احمدیہ میں ثابت کردہ تین قسم کے نشانات ۳۹ نشان نہ دکھانے کی صورت میں سزائے موت قبول کرتاہوں یا کل جائیداد دونگا ۵۴ آتھم سے نشان دیکھنے کے بعد اسلام قبول کرنے کا وعدہ تین اخبارات میں شائع کرنے کا مطالبہ ۵۳ نشان دکھلانااقتداری طورپرانسان کاکام نہیں ۱۵۹ اگر اللہ کی عادت نشان دکھانانہیں تواسلام کے لئے کیوں دکھاتاہے ۱۸۴ آسمانی نشان سے نبوتیں اور کتابیں خدائی کلام ثابت ہوئیں ۳۶۷ دشمنوں کے دلوں پرہیبت پڑنابھی ایک نشان تھا ۳۷۰ نظام جسمانی و روحانی خدا نے نظام جسمانی وروحانی کوایک ہی سلسلہ مؤثرات میں باندھ رکھاہے ۱۲ روحانی سلسلہ کے سمجھنے کے لئے سلسلہ جسمانی ہے ۱۹ خداکے دونوں سلسلوں میں بکلی تطابق ہے ۱۹،۲۶۶ سیدصاحب نظام ظاہری کودیکھتے ہیں پھرنظام باطنی کااس پرقیاس نہیں کرتے ۱۲،۲۷ نفخ صور صورپھونکنے میں اشارہ ہے کہ آسمانی تائیدوں کے ساتھ مصلح پیدا ہوگا ۳۱۱ جب خدامخلوقات کوایک صورت سے دوسری میں منتقل کرتاہے تو اسے نفخ صور سے تعبیر کرتے ہیں ۳۱۲ نفخ دو قسم پر ہے ایک نفخ اضلال دوسرا نفخ ہدایت ۳۲۱ امواج فتن کے وقت نفخ صور کی خوشخبری ۳۶۰ ضلالت کے عروج کے وقت نفخ صورہوگا ۳۶۲ و،ہ،ی وحی وحی درحقیقت آسمان سے نازل ہوتی ہے ۲۶ وحی کے وقت ایک خارجی اور شدید الاثر تصرف کا احساس ہوتا ہے ۲۶ سیدصاحب نے وحی کواپنی کتاب میں معیارصداقت نہیں ٹھہرایا ۱۹ کیاانبیاء کی وحی ایک ملکہ فطرت ہے؟ ۲۰ وحی متلویعنی قرآن کریم بالفاظ وحی ہے ۲۰ح
انبیاء کی وحی غلطی سے پاک ہوتی ہے مگرحکماء کی نہیں ۲۱ح قرآن کریم کی وحی کی مثال ۲۱،۲۲،ح نزول وحی کی نسبت اپنی شہادت پیش فرمانا ۲۲ح شعراء کے القاء اوروحی میں فرق ۲۳ح وحی ولایت کی راہ مسدود قرار دیناہلاکت کی راہ ہے ۲۴ وحی نبوت کے منکرکامنہ بندکرنے والی دلیل ۲۵ وفات مسیح (دیکھئیے اسماء میں عیسیٰ ؑ بن مریم کے تحت) ولایت اولیا کے خوارق کا بھید ۳۰ح اولیا ء کا ماننا فرض ہے ان کی مخالفت کرنے والے فاسق ہیں ۳۸۰ بعض حالات میں اولیا ء وانبیاء کا دعا کرنے کو سوء ادب سمجھنا ۱۳ ہجرت ہجرت کی حالت میں بھی آنحضرت ؐکوامن میں نہ چھوڑاگیا ۲۴۴ دوسرے ملکوں کے مسلمان انگریز گورنمنٹ کی آزادی کی وجہ سے یہاں ہجرت کرکے آناپسندکرتے ہیں ۳۹۰ح یاجوج ماجوج آخری زمانہ کی ایک علا مت یاجوج ماجوج کا غلبہ ہے ۳۱۱ قوم نصاریٰ فرقہ یاجوج ماجوج کا غلبہ ۳۵۹ یاجوج ماجوج سے موسوم قوم ۳۶۲ یونی ٹیرین ۱۸۲،۱۸۳،۲۲۴،۲۲۸ عیسائی فر قہ جو مسیح کو خدا نہیں مانتا ۱۸۱ ڈاکٹر مارٹن کا کہنا کہ یہ عیسائیوں کے کسی فرقہ میں سے فرقہ نہیں ۱۸۶ یہودی یہودی قوم کی صفات ۱۸۵ یہودی تفسیروں میں خدا یا خدا کا بیٹا آنے کا نہیں لکھا ۱۱۸ کلام الٰہی کی شرح کرنا یہودیوں کا خاص ورثہ نہیں ۱۴۳ مسیح فرماتے ہیں کہ یہودی موسیٰ کی گدی پر بیٹھے ہیں ان کی باتوں کو مانو لیکن ان جیسے عمل نہ کرو ۱۹۶ تحریف کی وجہ سے یہودیوں پرلعنت ہوئی ۳۷۳ توبہ کے وقت یہودیوں کو خدا نے قہر سے نجات دی ۲۷۵ یہودیوں کا فرعون کے ہاتھ سے نجات پانے کا واقعہ ۳۲۵ یہودیوں کا من وسلو یٰ کھانے ،صاعقہ گرنے اور دریا سے پار ہونے کے واقعات ۳۲۶،۳۲۷ توریت کا ان کے سینوں سے محو ہونا ۳۵۱ یہودیوں کی اخلاقی گراوٹ پر عیسیٰ ؑ نبی کی آمد ۳۵۶ مسیح سے قبل یہود کی خراب حالت اوران پر سلطنت رومیہ کا ٹوٹ پڑنا ۳۵۹ مسیح کی پیشگوئی کی وجہ سے جلا وطن اور پراگندہ پھرتے ہیں ۱۸۵ وہ ایلیا کے اسی طرح نزول کے منتظر تھے جیسے مسلمان عیسیٰ ؑ کے ہیں ۳۶۷
اسماء آ،ا آدم علیہ السلام ۹۳،۹۹،۱۰۱،۱۰۹،۱۱۴ ۱۲۰،۱۵۲،۱۸۹،۲۶۱،۳۱۷،۳۲۸ آپ کا بغیر ماں باپ پیدا ہونا مسلم ہے ۱۰۰،۲۸۰ آدم کو خدا کا اپنی صورت پر پید اکرنے کا بیان ۱۱۹ ابراہیم علیہ السلام ۱۰۷،۱۱۱،۱۱۲،۲۸۲ لعاذرکو مرنے کے بعد آپ کی گود میں بٹھایا گیا ۲۲۳ ابوبکر صدیقؓ ۳۰۰ آتھم دیکھئے عبد اللہ آتھم احسان اللہ پادری ۸۴،۱۳۹،۱۷۸،۱۹۱ ڈاکٹر مارٹن کی جگہ میر مجلس مقررہوئے ۱۷۱ احمد بیگ مرزا اس کے داماد کی نسبت پیشگوئی اور اس کی معیا د ۳۷۵ احمد خان صاحب سرسید ۱،۵،۶،۷ ،۸،۱۲،۱۴،۱۵،۱۶،۱۷،۲۵،۲۶،۲۷،۳۰،۳۱،۳۲،۱۲۰،۱۲۱ ،۱۲۰،۱۲۱،،۲۷۱ سید صاحب کی دوکتب ۵ (۱) الدعا والاستجابۃ(۲)تحریر فی اصول التفسیر سید صاحب دعاؤں کی فلاسفی سے بے خبر ہیں ۸ سید صاحب کی دوسری کتاب پہلی کے متناقض ہے ۱۵ سید صاحب کے قانون میں انگریزوں کے قانون سے زیادہ تشدد ہے ۱۷ آپ نے جہاد بالجبر کو نہیں مانا ۲۲۷ اسکندر رومی ۳۰۸ ارسطو ۲۱ح استرافیم ۱۲۰ استفنس ۱۳۰ اسحق علیہ السلام ۱۰۷،۱۱۱،۱۱۲ اسرائیل ؑ ( حضرت یعقوب علیہ السلام) ۱۵۲ افلاطون ۲۱ح الہ دیا شیخ ۸۴ الیاس علیہ السلام ۲۲۳ امام الدین مرزا اسلام سے منکر اور دہریہ ہے ۵۶ اسلام کی سچائی اور عاجز کے ملہم ہونے پر نشان طلب کیا ۵۶ اہر من ۲۴۰ ایلیا علیہ السلام مسیح کی آمد سے قبل آپ کے نزول کی پیشگوئی ۳۶۷ مسیح کا یحییٰ کو ایلیا قرار دینا ۳۶۷ ایمانوایل ۱۲۸ ب،پ،ت،ٹ بدھ(گوتم) ۱۶۶ برہما ۱۶۴ بسمارک شہزادہ آپ کو دعوت اسلام ۳۷۰ بشن ۱۶۴ بعلیم ۱۲۱ پار مینیو سکندر اعظم کا ایک جرنیل ۱۷۴
پطرس ۱۳۰،۱۶۲ اس نے مخالفوں سے ڈر کر تین مرتبہ انکار کیا اور مسیح پر لعنت بھیجی ۲۷۶ پلا طوس(فلسطین کا رومی گورنر) ۱۸۷ پولوس (سینٹ پال) ۱۳۰ یہودیوں میں یہودی اور غیر قوموں میں غیر قوم ۲۷۶ تیرو (رعوائیل ) ۲۷۱ ٹامس ہاول پادری ۸۴،۱۲۸،۱۳۹ ٹھاکر داس پادری ۶۳،۸۴،۹۶،۱۳۹،۱۵۸ ج ،ح،خ جبرائیل علیہ السلام ۱۷۶،۲۳۸ آپ مریم کے پاس مسیح کی خوشخبری لے کر آئے ۲۲۸ جے نکلسن والد بزرگوار حضرت مسیح موعود ؑ کو آپ کی طرف سے ملنے والی سند خوشنودی ۳۸۵ حامد شاہ میر ۱۵۸ حزقیل علیہ السلام ۲۰۴ حواعلیہا السلام ۱۰۹،۱۸۹ حیدر شاہ پیر ۸۱ خدا بخش مرزا ۴۵،۵۱،۱۵۸ د ، ذ ، ر، ز دارا پارمینیو کا کہنا کہ آپ کی بیٹی سے شادی کرکے اس ملک سے باہر نہ جاتا ۱۷۴ داؤد علیہ السلام حضرت ۱۸۸،۲۰۴،۳۲۶ لفظ گڈنس کا آپ نے ذکر کیا ہے ۲۴۹ دولہ شاہ چھوٹے سر والے جنہیں دولہ شاہ کا چوہا کہتے ہیں کسی امرکے سمجھنے کے قابل نہیں ہوتے ۲۴۱ ذوالقرنین آپ کا سورج کو دلدل میں غروب ہوتا پانے پر آتھم کا اعتراض اور اس کا جواب ۲۶۹،۲۷۶ رابر ٹ ایجر ٹن سر (فنانشل کمشنر پنجاب) ۱۸۴ حضرت مسیح موعو دؑ کے بھائی کو آپ کے والد کی وفات پر اظہار افسوس کاخط ۳۸۷ رابر ٹ کسٹ (کمشنر لاہور) والد بزرگوار حضرت مسیح موعود ؑ کو آپ کی طرف سے ملنے والی سند خوشنودی ۳۸۶ رام چند رراجہ ۱۲۱،۱۶۴،۱۶۶،۱۷۱،۱۷۲،۱۸۳،۳۸۱ ہندو دعویٰ کرتے ہیں کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے رام چندر نے پیدا کیا ہے ۱۶۹ رحمت اللہ شیخ ۴۵ رحمت علی آف برناوہ خالق قصیدہ فارسی در مدح حضر ت مسیح موعودؑ ۴۰۱ رشید احمد گنگوہی مولوی ۸۱ رعوائیل (تیرو) آپ کی بیٹی سے موسیٰ نے شادی کی ۲۷۱ زبدی ۱۳۶ زکریا علیہ السلام حضرت ۳۱،۲۲۳
س، ش،ظ سعداللہ منشی ۸۱ سکندراعظم ۱۷۴،۳۰۸ سلطان احمد مرزا (فرزند حضرت مسیح موعود ؑ ) آپ کی تحصیلدار ی کے لئے کمشنر کی سفارش ۳۸۵ سلیمان علیہ السلام حضرت ۲۷۷،۳۲۶ سلیمان مولوی ۸۱ سیلا توریت میں سیلا کی پیشگوئی اور اس سے مرادمسیحؑ ۳۵۸ شاہ دین مولوی ۸۱ ظہور الحسن سجادہ نشین ۸۱ ع عبدلجبار مولوی ۸۱ عبدالحق غزنوی ۸۱ آپ سے بمقام امرتسر مباہلہ کیا گیا ۳۷۲ عبدالحق منشی ۴۵ عبدالعزیز واعظ ۸۱ عبدالقادر جیلانی قطب ربّانی وغوث سبحانی اپنی کتاب فتوح الغیب میں کامل کی توجہ اور دعا کا اثراپنے تجارب کی رو سے لکھا ہے ۱۵ عبدالکریم مولوی ۴۵،۴۶،۶۶ عبداللہ صاحب پادری ۸۴ عبداللہ آتھم مسٹر اکسٹر ااسسٹنٹ ۴۵،۶۳،۶۷،۶۸ ۶۹،۷۱،۸۰،۸۳،۸۵،۸۸،۸۹،۹۳،۹۶،۹۷،۹۹،۱۰۰،۱۰۶ ،۱۰۹،۱۲۲،۱۵۸،۱۵۹،۱۹۲،۱۹۳،۲۰۲،۲۰۶،۲۱۰،،۲۱۱،۲۱۴، ۲۳۶،۲۳۸،۲۵۷ معجزہ کی استطاعت اپنے اندر نہیں پاتے ۵۲ تعلیمات قدیم کے لئے معجز ہ کی ضرورت کے قائل نہیں ۵۲ نقل خط مسٹر عبداللہ آتھم جس میں بحالت مغلوبیت مسلمان ہونے کا وعدہ ہے ۸۰ جس آزادی کا آتھم مدعی ہے وہ دنیا میں نہیں پائی جاتی ۶۴۱ استقراء پر آتھم کی جرح اس کا قلت تدبر ہے ۹۹ آتھم انجیل کی علامات کے مطابق سچا ایماندار ہونے کا ثبوت دے ۱۵۷ آتھم کا پہلے سے لکھی تحریر پیش کرنا جسے خلاف شرائط قرار دیا گیا ۱۵۹ آتھم کی بیماری کی وجہ سے آپ کی جگہ ڈاکٹر مارٹن کا جواب لکھوانا ۱۷۱ آتھم کی بیان کردہ دکھ کی تین اقسام ۲۰۳ آتھم کی نسبت کی گئی پیشگوئی اور اسکی معیا د ۳۷۵ عبداللہ ٹونکی میاں ۸۱ عبدالمنان وزیر آبادی حافظ ۸۱ عزّٰی (کفار مکہ کی ایک دیوی) ۲۴۵ عزیر علیہ السلام یہودیوں کا آپ کو ابن اللہ قرار دینا ۱۶۷ عطا محمد میاں مطبوعہ خط میں مسیح موعود ؑ کی بابت دریافت کرنا ۲۹۷ علی ولد شریف مصطفی عرب سید آپ کے حضور ؑ کو تحریر کردہ خط کا خلاصہ ۷۹ عمادالدین پادری ۶۳،۳۸۳ عمانوئیل ۱۲۸،۱۸۷ عمر فاروق ؓ حضرت ۳۰۰ عنایت اللہ ناصر ڈاکٹر ۱۵۸
عیسیٰ ابن مریم مسیح علیہ السلام ۴۵،۴۷،۵۰،۵۶ ۶۸،۶۹،۷۰،۸۹،۹۲،۹۵،۱۰۲،۱۱۲،۱۱۷،۱۶۷،۲۹۷،۳۱۶ ۳۲۰،۳۲۲،۳۲۳،۳۴۲،۳۵۶،۳۶۸،۳۷۱،۳۸۱ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ بتاتے تو آپ ؑ کے نبی ہونے پر کوئی دلیل نہ تھی ۶۳ مسیح کی متبعین کو یہودیوں کی رائے ماننے کی نصیحت ۱۱۸ آپ کا مذہب مرگیا اور نور بے نشان ہوگیا ۶۳ مسیح کا کفر کے الزام سے بچنے کے لئے عذر پیش کرنا ۱۳۵ مسیح نے یہودیوں سے ڈر کرتقیہ اختیارکیا ۱۳۵ مسیح کا قیامت سے لاعلمی ظاہر کرنا ۱۳۶ شیطان کا مسیح پر جبروتسلط ۲۳۳ مسیح نے بعض دفعہ توریہ کے طور پر اصل بات کو چھپایا ۲۸۷ مسیح ؑ حضرت موسیٰ ؑ سے چودہ سو برس بعد آئے ۳۶۵ موسوی خلافت کا سلسلہ آپ پر ختم ہوا ۳۲۶ یہودعلماء کی نسبت مسیح ؑ کے بیان فرمودہ حالات ۳۵۸ مسیح کو گو یہودیوں نے قبول نہ کیا مگر نشانوں سے من جانب اللہ ہونا ثابت ہوگیا ۳۷۲ الوھیت مسیح ؑ (نیز دیکھئیے کلید مضامین) الوھیت مسیح کے حق میںآتھم کے پیش کردہ دلائل ۱۲۸ مسیح نے حقیقی طور پر ابن اللہ یا خدا ہونے کا کبھی دعویٰ نہیں کیا ۱۳۵ خد اکا مسیح کو خالق ہونے کا اذن دینا خدا پر افتراء ہے ۳۷۴ح مسیح نبی اور انسان مسیح علیہ السلام بے شک نبی تھے مگر انسان تھے ۴۹،۹۱،۱۳۷ مسیح اقوال وافعال سے اپنے تئیں عاجز ٹھہراتے ہیں ۱۳۷ روح القدس کا نزول روح القدس کبوتر کی شکل میں آپ پر نازل ہوا ۱۸۷ روح القدس اسی طرح مسیح پر نازل ہوا جیسے قدیم سے نبیوں پر نازل ہوتا تھا ۲۴۰ مسیح کا بپتسمہ لینا آپ نے یحییٰ علیہ السلام سے بپتسمہ لیا ۱۸۷ بپتسمہ پانے سے یسوع کی مراد ۲۶۱ مسیح موسیٰؑ کے تابع مسیح موسیٰ ؑ کی شریعت کے تابع آئے ۲۵۱ مسیح کا اپنے تئیں چھپانا شاگرد وں سے کہنا کہ کسی سے نہ کہنامیں یسوع مسیح ہوں ۲۸۷ مسیح کی پیدائش آتھم کی طرف سے مسیح کی پیدائش معجزہ تھی یا نہیں کے جواب کا مطالبہ ۲۲۸ مسیح کا بن باپ پیدا ہونا کچھ عجوبہ نہیں ۲۸۰ آدم ماں اور باپ دونوں نہیں رکھتے تھے ۲۸۰ برسات میں کیڑے مکوڑے بغیر ماں باپ پیدا ہوتے ہیں ۲۸۱ نزول مسیح بقول مخالفین خدا عیسیٰ کو بعینہٖ بجسد ہ العنصری زمین پر لائے گا ۳۲۸ آنحضرت ؐ کے وقت کے یہودیوں کا تاویل کرنا اور عیسیٰ کو بعینہٖ اتارنا کیسی ناانصافی ہے ۳۲۹ احادیث کی رو سے ایک شخص آنے والا ہے جس کانام عیسیٰ ابن مریم ہے ۲۹۸ وفات مسیح حضرت مسیح موعود ؑ کا چیلنج کہ حیات ووفات مسیح پر بحث ہو ۷۴ وفات مسیح کئی آیات قرآنیہ سے ثابت ہے ۲۲۲،۳۳۰ احادیث میں عیسیٰ ؑ کے آنے کا واقعہ مگر وہ فوت ہوچکے ۳۲۷ قرآن نے نہایت تصریح سے عیسیٰ ؑ کی وفات کی خبر دی ۳۶۱ مسیح کی فضیلت توریت میں مسیح کی تعریفیں اور انبیا ء سے بڑ ھ کر نہیں ۱۱۳ مسیح افضل ہوتے تو یوحنا سے اصطباغ کیوں پاتے ۲۵۱ مسیح کی فضلیت موسیٰ پر (ازآتھم) ۲۵۹
مسیح کی فضلیت یوحنا پر (از آتھم) ۲۶۱ مسیح کے متعلق پیشگوئیاں مسیح کے حق میں پیش کردہ پیشگوئیوں پرجرح ۱۰۱،۱۰۲ مسیح منجی ہیں کی پیشگوئیوں کی تردید ۱۳۲ مسیح کے متعلق پہلی کتابوں کی پیشگوئیاں ۳۶۷ مسیح کی پیشگوئیاں تم میں سے بعض نہیں مریں گے کہ میں آسمان سے اتروں گا.پیشگوئی کب پوری ہوئی ۲۷۹ بادشاہت کہاں ملی جس کے لئے تلواریں خریدی گئیں ۲۷۹ حواریوں کو بہشتی تخت ملنے کا وعدہ ہوا یہوداکو کہاں ملا ۲۷۹ پیشگوئیاں نری اٹکل اور پوری بھی نہیں ہوئیں ۲۷۹ معجزات مسیح مسیح کے معجزات کا ہمیں کچھ پتہ نہیں ۲۷۹ مسیح کی نسبت علماء کے بیان کردہ غلط معجزات ۳۷۳ح بیت حسدا کے حوض نے ان کی رونق کھودی ۲۷۹ آپ کے معجزات کا ذکر ۳۷۳ح مسیح کی تعلیم مسیح نے اپنی تعلیم کو کامل قرار نہیں دیا ۸۸ مسیح کی تعلیم میں بڑا زور عفو اور درگزر میں ہے ۱۲۷ آپ کی تعلیم ناقص تھی ۲۸۸ مسیح کی تعلیم کی تاثیر مسیح پر ایمان لانے والا مسیح جیسے بلکہ اس سے بڑے کام دکھائے گا، اس سے حواریوں کے ایمان کی نفی ہوئی ۱۶۹ پطرس نے آپ پر لعنت بھیجی ۲۷۶ مسیح کو یہودیوں کے پکڑنے پر حواری ٹھہر نہ سکے ۲۸۹ غ غلام احمد انجینئر مولوی ۴۵ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ۴۰۳۷،۴۱،۴۳،۵۰،۵۳،۵۷،۵۹،۶۱،۶۴،۶۶،۶۷،۶۹، ۷۳۷۰،۷۸،۸۰،۸۲،۸۳،۸۵،۹۵،۱۰۵،۱۱۳،۱۲۲،۱۲۳، ۱۴۳،۱۵۱،۱۶۴،۱۷۸،۱۹۵،۲۰۶،۲۱۸،۲۳۸،۲۵۰،۲۶۲، ۲۷۴،۲۸۶ ،۳۷۷،۳۸۶،۴۰۰،۴۰۱، بُھولے کو راہ بتانا سب سے پہلے میرافرض ہے ۱۷ مجھے خدا نے علم قرآن بخشا اورمیر ے پرمعارف کھولے ۳۶ ببرکت متابعت خیرالبشر اکابر اولیا ء سے فضیلت دی گئی ہے ۳۹ میں اور میرا مقابل اپنی کتاب کی تاثیریں اپنے نفس میں ثابت کریں ۶۶ مباحثہ سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تقریر ۸۵ میرانبوت کا کوئی دعویٰ نہیں ۱۵۶ آج کے دن ایک فتح عظیم ہم کو میسر آئی ۲۲۳ پارلیمنٹ لند ن کی خدمت میں دعوت اسلام کا اشتہار اورخط ۳۷۰ دل چاہتاہے مبائعین آئیں میری صحبت میں رہیں اور تبدیلی پیداکریں ۳۹۵ آپ کی مدح میں فارسی قصیدہ (ازرحمت علی برناوی) ۴۰۱ آپ کے الہامات، رؤیا وکشوف میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے ۳۵ میں تجھے تیری طبعی موت سے ماروں گا اور پھر اپنی طرف تجھے اٹھاؤں گا...۳۷۱ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو کئی دفعہ عالم میں بیداری میں دیکھا ۲۲۳ رؤیا دربارہ محمدحسین بٹالوی انی رئیت ان ھذا الرجل یومن بایمانی قبل موتہ و رئیت کانہ ترک قول التکفیر و تاب ۵۹ کشف دربارہ لیکھرام حضور کا غنودگی کی حالت میں کشف میں قوی ہیکل مہیب شکل شخص کا دیکھنا جو لیکھرام اور ایک اور شخص کے متعلق
آپ سے پوچھتا ہے کہ وہ کہاں ہیں ۳۳ بعثت کی اغراض بعثت کی اغراض ۳۴،۵۲،۵۳ خدا نے مجھ کو اس زمانے کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے ۲۴ یہ عاجز خدا سے ما مور ہوکر تجدید دین کے لئے آیا ہے ۳۵ آپ کے دعاوی بزرگان اسلام کو اطلاع کہ خدا نے مجھے چودھویں صدی کے سر پر مامور کرکے بھیجا ہے ۳۴ جو مسیح کو دیا گیا وہ بمتابعت رسول تجھ کو دیا گیاہے اور تو مسیح موعود ؑ ہے ۴۹ ملہم اور مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ ۳۱،۵۵ میرا نبوت کا کوئی دعویٰ نہیں ۱۵۶ مثیل مسیح ؑ بارہ برس قبل مثیل مسیح ہونے کے الہامات اور دعویٰ ۳۷۱ یہ عاجز مسیح ابن مریم سے ان کے کمالات میں مشابہ ہے ۳۷۱ آپ مسیح کی مانند بغیر سیف وسنان کے مصلح ہیں ۳۷۵ بروقت دعویٰ عاجز کی صداقت کی پہلی دلیل ظہور کے لئے خاص وقت پر دعویٰ ہے ۳۶۵ دعویٰ تائید الٰہی اگر عاجز خدا کی طرف سے ہے تو خاص مددوں سے عاجز کی سچائی ظاہر کرے گا ۳۶۷ خدا نے بھیجا ہے توہرگز ضائع نہ کیاجاؤں گا ۳۶۸ مکالمہ الٰہیہ اور وحی یہ عاجز گیارہ برس سے مکالمہ الٰہیہ سے مشرف ہے ۲۶ وحی الٰہی کی کیفیت وحالت کے بارہ میں اپنی شہادت ۲۲ خدائی مکالمہ کا شرف بخشے جانے کی سچی گواہی ۱۳۷ مسیح موعود ؑ اور دعا میں اپنی بعض دعاؤں کی قبولیت سے پیش ازوقت سید صاحب کو اطلاع دوں گا ۱۲ امراء کے مقاصد پورا ہونے کے لئے دعا ۳۵ تقدیر مبرم نہ ہو تو خدا ضرور میری دعا سنے گا ۳۶ دعا کے ذریعہ فیصلہ کا چیلنج ۱۳۸ خدا میری دعاؤں کو ضائع نہیں کرے گا ۳۹۸ مخالفین کو چیلنج سید صاحب کو چند ماہ صحبت میں رہنے اور نشان دکھانے کی پیش کش ۳۱ بذریعہ خط ڈاکٹر کلارک کو اطلاع کہ روحانی جنگ وقوع میں آکر حق اورباطل میں فرق ظاہر ہوگا ۴۴ کسی کو مقابلے کی طاقت ہے توخط و کتابت کرے ۶۳ بٹالوی کو بالمقابل عربی تفسیر لکھنے کی دعوت اور اس کو روحانی مقابلہ مباہلہ کا چیلنج ۷۰ دعا کے ذریعہ سیدھا اور آسان فیصلے کا چیلنج ۱۳۸ بھیجا گیا کے لفظ کے معانی پر ڈاکٹر مارٹن کو چیلنج ۱۸۱ معاہدہ کی شرائط کے مطابق نشان نہ دکھاؤں تو سزا کے لئے تیار ہوں بلکہ سزائے موت کیلئے ۱۸۴ ایک سال رہ کر اسلام کے نشان ملاحظہ کرنے کا چیلنج ۳۶۹ نشان ظاہر نہ ہونے کی صورت میں دوسو روپیہ ماہوار ہرجانہ کا وعدہ ۳۷۰ مسیح موعود کا نام مسیح موعود کو مسیح عیسیٰ اور عیسیٰ ابن مریم نام دینے میں حکمتیں ۳۱۲،۳۲۰ صدی کے مجدد کو مسیح موعود نام ملنے کی وجہ ۳۶۱ مہدی کے نام پر آنے والا کوئی نہیں ہاں مسیح موعود آگیا ۳۸۱ مسیح موعود اور قرآن وحدیث قرآن میں ایسے مصلح کی خبر موجود ہے جس کانام مسیح موعود ہوناچاہیے ۳۰۹
قرآن میں آنے والے کا بلفظ مسیح موعود ذکر نہیں بلکہ نفخ صورمیں اشارہ ہے ۳۶۰ قرآن میں رسل کے لفظ کے ساتھ مسیح موعود کی طرف اشارہ ۳۶۱ مسیح موعود کے لئے احادیث میں جوالفاظ آئے ہیں قرآن میں ان کا ذکر کیوں نہ ہونے کی وجہ ۳۶۱ آنحضرتؐ نے مسیح موعود کے آنے کی خبردی ہے ۲۹۸ مسیح موعود کے زمانہ اور ظہورکی پیشگوئیاں مسیح موعود کی آمد کے متعلق تنقیح طلب تین امور ۲۹۷ بند گان خدا نے الہام پاکر مسیح کے ظہور کی خبر دی ۳۷۵ تمام لوازم موجودہ پکار رہے ہیں کہ صدی کا مجد د مسیح موعود ہو ۳۷۳ مسیح موعود کا چودھویں صدی کے سرپر آنا حروف ابجد سے ۳۷۵ مسیح موعود کے بارہ میں پیشگوئیاں ۳۰۷ مسلمانوں کا خیال کہ مسیح نازل ہوکر یہودی ونصاریٰ کا خون بہائیں گے ۳۸۱ مسیح موعود ہونے کی دلیل آپ کے مسیح موعود ہونے کے دلائل ۲۹۷ قرآن وحدیث میں مذکورہ مسیح یہی عاجز ہے ۳۶۲ مسیح موعود امت سے ہے تو کیا دلیل کہ یہی عاجز ہے ۳۶۶ آپ پر فتویٰ کفر آپ کو باوجود پابند ارکان اسلام اور کتاب وسنت کے مخالف نہ ہونے کے کافرواکفر قراردیا گیا ۵۸ آپ کی تحریکات تالیفات کے لئے سرمایہ کی ضرورت کا ذکر ۳۴ ارباب دولت ومقدرت کو کام کی نصرت کیلئے تحریک ۳۵ توہین مسیح کا جواب میں مسیح کو سچا نبی برگزیدہ او ر اور خدا کا پیارا بندہ سمجھتا ہوں ۱۷۰ آپ کے مکتوبات عبداللہ آتھم کے خط کا جواب ۵۲ آپ کا خط مسیحان جنڈیالہ کے نام ۶۱ آپ کا خط بنام ڈاکٹر ہنری کلارک ۶۴ آپ کا ڈاکٹر ہنری کلارک کے خط کا جواب ۶۹ ایک فاضل عربی کے خط کا جواب ۷۷ پیشوایان مذاہب کو لکھے گئے خطوط کا ذکر ۳۶۹ پارلیمنٹ لندن کی خدمت میں دعوت اسلام کا خط ۳۷۰ غلام دستگیر قصوری مولوی ۷۵،۸۱ غلام قادر فصیح منشی میرمجلس ازجانب اہل سلام ۹۳،۹۵،۹۶،۱۰۲،۱۰۴،۱۰۸،۱۰۹،۱۱۳،۱۱۸،۱۲۱،۱۲۲،۱۲۷، ۱۳۲،۱۳۸،۱۴۰،۱۴۳،۱۴۹،۱۵۱،۱۵۷،۱۵۸،۱۵۹،۱۶۴، ۱۷۰،۱۷۱،۱۷۸،۱۸۴،۱۹۱،۱۹۴،۱۹۵،۲۰۱،۲۰۵،۲۰۶،۲۱۳ ۲۱۸،۲۲۴،۲۲۵،۲۲۸،۲۳۵،۲۳۸،۲۳۹،۲۴۵،۲۵۰،۲۵۶ ۲۵۷،۲۶۲،۲۶۸، ۲۷۳،۲۷۴،۲۸۲، ۲۸۶،۲۹۳،۲۹۵ غلام قادر مرزا( حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے برادر اکبر) ۳۷۸ گورنمنٹ کی خدمت میں بدل وجان مصروف رہا ۳۷۸ آپ کی کمان میں گورنمنٹ کی مدد کیلئے پچاس گھوڑ سوار کا دستہ ۳۸۴ کمشنر پنجاب کی طرف سے آپ کو والد کی وفات پر اظہار افسوس کا خط ۳۸۷ غلام مرتضیٰ مرزا(والد بزرگوار حضرت مسیح موعودعلیہ السلام) حیثیت کے موافق ہمیشہ گورنمنٹ کی خدمت کی ۳۷۸ کتاب رئیسان پنجاب میں آپ کا ذکر خیر ۳۷۹ آپ نے عین زمانہ طوفان بدتمیزی میں گورنمنٹ کی پچاس گھوڑے اور سواروں سے مدد کی ۳۸۴ گورنمنٹ سے ملنے والی خوشنودی کی چٹھیات ۳۸۵،۳۸۶ وفات پر افسران کی طرف سے افسوس کے خطوط ۳۸۵
گورنمنٹ کی طرف سے بطور خلعت دوسوروپیہ کا انعام ۳۸۶ وفات پر بیٹے کو کمشنر کی طر ف سے اظہارافسوس کا خط ۳۸۷ ف،ق،ک،گ فخرالدین بابو ۱۵۸ فرعون ۱۷۷،۲۲۶،۲۳۴،۲۳۷،۲۴۱،۲۶۰،۲۴۷،۲۳۵،۳۲۶،۳۲۸ فضل دین حاجی حکیم ۳۵،۷۱ قیصر روم ۳۰۶ کرشن راجہ ۱۲۱،۱۶۴،۱۶۶،۱۷۱،۱۷۲،۱۸۳،۳۸۱ کسریٰ ایران ۳۰۶ گریفن مسٹر مصنف کتا ب رئیسان پنجا ب ۳۷۹ ل،م لات (کفار مکہ کی ایک دیوی) ۲۴۵ لعزر بقول عیسائی مسیح نے اسے مردوں میں سے زندہ کیا ۱۷۷ آپ کو مرنے کے بعد ابراہیم کی گود میں بٹھا یاگیا ۲۲۳ لوط علیہ السلام ۲۸۳ لیکھرام پشاوری پنڈت ۲،۳،۴ لیکھرام پشاوری کی نسبت ایک خبر کا اشتہار ۳۳ اس کی نسبت کی گئی پیشگوئی اور اس کی معیاد ۳۷۵ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم ۱۸،۳۹،۴۵،۷۰،۱۶۹،۱۷۰،۲۶۹،۳۰۰،۳۰۸، ۳۵۴،۳۵۵،۳۷۲،۳۷۴ح فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ۱۱ ہمارے نبی ؐ حقیقی نبی تھے جنہوں نے ایک جہان کو نور حسب استعداد بخشا ۶۲ عیسائیوں نے سچے ،کامل نبی افضل الانبیا ء محمدؐ کا انکا ر کیا ۵۶ آپ نے آکر نہ بتلایا ہوتا تو مسیح کے نبی ہونے پر کوئی دلیل نہیں تھی ۶۳ عالم بیداری میںآنحضرتؐ کو دیکھنا ۲۲۳ بروئے قرآن آپ اُمی محض نہ تھے بلکہ جو اہل کتاب نہیں وہ اُمی ہے ۲۲۸ آنحضرتؐنے مسیح موعود کے آنے کی خبردی ہے ۲۹۸ تعامل کے سلسلہ کوآنحضرتؐنے اپنے ہاتھ سے قائم کیا ۳۰۲ نبی کریمؐقرآن اورقرآنی حکمتیں لوگوں کوسکھلاتے تھے ۳۴۸ نبی ؐکاوجود قیامت کی ایک علامت ۳۶۵ آپ بعثت رسول کے محتاج زمانہ میںآئے ۳۶۶ کفار کے مظالم ہجرت کی حالت میں بھی آپ کوامن میں نہ چھوڑاگیا ۳۴۴ مدت تک آپؐاور آپ کے پیرومخالفوں سے دکھ اٹھاتے رہے ۲۴۴ کفار نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کوقتل کاارادہ کرکے آخر مکہ سے نکالا ۲۴۵ خاتم النّبیین آپ خاتم الانبیاء ہیں آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا ۳۲۳،۳۲۴ قرآن نے نبیؐ کاخاتم الانبیاء ہوناظاہرکردیا ۳۶۱ مثیل موسیٰ ؑ کماکے لفظ میں اشارہ ہے کہ نبی ﷺمثیل موسیٰ ہیں ۳۲۲ موسیٰ امت کی نیکی بدی پرشاہد تھے ایسے ہی آپ ؐ بھی ۳۶۳ آنحضرتﷺ کامثیل موسیٰ ہونا ۳۶۹ عشق الٰہی قریش کی آنحضرتؐ کے حق میں گواہی کہ عَشِقَ محمدٌعلی رَبِہٖ ۳۴۶
آپ پر اعتراضات آنحضرتؐ کی شان میں نکتہ چینی انبیاء کی شان میں نکتہ چینی ہے ۶۳ آتھم کا اعتراض کہ آپ کو صاحب معجزہ ہونے سے ا نکارتھا ۲۲۷ آپ سے معجزہ ثابت نہ ہوا ،کے اعتراض کا جواب ۲۷۹ آپ ؐ کے استغفار پر اعتراض ۲۶۰ آپ کے متعلق پیشگوئیاں مسیح کی روح حق آنے کی پیشگوئی ۱۶۸ آنحضرت ؐ کے بارہ میں پہلی کتابوں میں خبریں ۳۶۶ آپ کے صحابہؓ آنحضرتؐکووہ خدام عطاکئے گئے جوملہم اورمحدث تھے ۳۲۳ محمد ابن احمد مکی آپ کا حضور ؑ کو تحریر کردہ عربی خط ۷۹ محمد احسن صاحب سید ۸۴ محمد اسحق مولوی ۸۱ محمد اسمٰعیل میاں ۴۵ محمد اشرف حکیم ۴۵ محمد اکبر میاں ۴۵ محمد بخش ۱۱۲ محمد بخش میاں ۴۵،۶۰،۶۱ بٹا لو ی کے خط کا دندان شکن جواب دیا اور کہاکہ وہ ایسے مولویوں کو مفسد سمجھتے ہیں جوایک موید اسلام کو کافر ٹھہراتے ہیں.۷۳ مسلمانان جنڈ یالہ کی طرف سے آپ کا خط بنام مسیح موعود ؑ ۵۹ محمد بن اسمٰعیل بخاری امام ۳۰۳،۳۰۴،۳۰۸ محمد حسن مولوی ۸۱ محمد حسین بٹالوی شیخ ۴۱،۷۲،۷۳،۷۴،۸۱ بالقابل عربی تفسیر اور قصیدہ لکھنے کی دعوت کا اشتہار ان کوپہنچایا گیا ۵۱ عربی تفسیر اور قصیدہ بالمقابل لکھنے سے دودفعہ وعدہ کا تخلف ۷۴ محمد حسین بٹالوی کا فتویٰ کفر ۵۸ اشتہار’’ شیخ محمد حسین بٹالوی کی نسبت ایک پیشگوئی ‘‘ ۵۸ مارٹن کلارک کا محمدحسین بٹالوی کا شکریہ اداکرنا ۷۲ فرض ہے کہ میدان مباہلہ میں تاریخ مقررہ پر آئے ۸۲ مہدی ومسیح کے بارہ میں غلط خیالات ۳۸۱ مسیح موعود ؑ کے متعلق گورنمنٹ کو خلاف واقعہ باتیں کرکے اکسانا ۳۸۲ یہ شخص منافق ،حق پوش اور دورنگی اختیار کرنے والا ہے ۳۸۳ براہین احمدیہ پر ریویو میں محمدحسین کا اقرار کہ مرزا صاحب گورنمنٹ کا خلاف نہیں ۳۸۴ محمد شاہ خان بہادر ۸۱ محمد علی خان صاحب نواب ۳۵ محمد علی واعظ مولوی ۸۱ محمد عمر منشی ۸۱ محمد ملازم مولوی ۸۱ محمد یعقوب حافظ مولوی مسیح موعود ؑ کو آپ کا تحریر کردہ عربی خط اور اس کا جواب ۷۵ محمد یوسف حافظ ۴۵ محمد یوسف خاں میاں ۴۵ محی الدین لکھووالے ۸۱ مریم صدیقہ علیہا السلام (والدہ مسیح ) ۱۰۶،۱۱۰،۲۳۸ رومن کیتھولک آپ کو خدا کی ماں قرار دیتے ہیں ۱۸۶ فرشتہ آپ کے پاس خوشخبری لایا ۲۲۸ مسلم امام ۳۰۳،۳۰۸ مسیلمہ کذاب ۷۶ مشتاق احمد مولوی ۸۱
موسیٰ علیہ السلام ۱۰۴،۱۰۷،۱۱۱ ۱۱۸،۱۵۲،۱۷۷،۱۹۶،۲۱۲،۲۳۴،۲۶۹،۲۷۵،۲۸۳،۳۲۲، ۳۲۳،۳۲۵،۳۲۷،۳۲۸،۳۴۰،۳۴۳۳۴۲،۳۵۴،۳۵۵، ۳۵۶،۳۵۷،۳۶۲،۳۶۳،۳۶۸ موسیٰ کی جھاڑی کی تمثیل کی وضاحت ۱۰۷ آپ کے بعد خدا نے مدت دراز تک خلیفے اوربادشاہ بھیجے ۲۹۰ موسیٰ کی شریعت سے لاکھوں خون ہو گئے ۳۲۳ موسیٰ کی محدود شریعت جو تمام قوموں اور قیامت تک کے لئے نہیں تھی ۳۴۲ آپ کی تعلیم آپ کی تعلیم میں بڑا زور سزادہی اور انتقام پر ہے ۱۲۷ آپ کی تعلیم ناقص تھی ۲۸۸ آپ کی شفاعت خدا کا آپ کی شفاعت سے نافرمانیوں سے درگزر کرنا ۲۱۳ موسیٰ کی شفاعت سے گناہ بخشے گئے ۲۲۱ آپ کا جہاد آپ کے جہاد کیسے تھے ؟ ۲۲۷ آپ کو سات قوموں کو عدم کرنے کا حکم تھا ۲۷۰ آپ کی جن سے لڑائیاں ہوئیں کونسے دکھ انہوں نے دئیے تھے ۲۵۶ آپ کا مقدس جہاد اور بے گناہ افراد کا قتل ۲۶۵ آپ کو اجازت تھی کہ لڑائی میں پکڑی جانے والی عورتوں میں سے جسے چاہیں پسند کرلیں ۲۶۵،۲۶۸ بنی اسرائیل کو لڑائی کے بعد ملنے والی عورتوں کو رکھنے کی اجازت دی ۲۷۱ مسیح پر فضیلت مسیح آپ کا تابع بن کر آیا لہٰذا آپ اس سے بڑھ کر ہیں ۲۵۱ مہادیو ۱۶۴ ن،و،ہ،ی نذیر حسین دہلوی ۸۱ آپ محمد حسین بٹالوی کے استاد تھے ۵۸ نعمت اللہ حکیم ۴۵ نوراحمد شیخ ۴۱،۴۵،۸۳ نورالدین خلیفہ (جمونی ) ۴۵ نورالدین مولوی حکیم خلیفہ اوّل ۸۴ اپنا تمام مال اسی راہ میں لٹا دیا ہے ۳۵ اوّل درجہ پر خالص دوست اور محب ۳۹۶ اکثر دور کے مسافروں کو پاس سے زادراہ دیتے ہیں ۳۹۹ مہمان نوازی کے لئے رقم کی فراہمی ۳۹۹ طبع کتب کے اخراجات اپنے ذمہ لئے ۳۹۹ آپ کا فرمانا کہ جماعت کے لوگوں نے پاک تبدیلی پیدا نہیں کی ۳۹۵ نوح علیہ السلام ۱۳،۲۶۹،۲۸۳ طوفان میں بجز چند جانوروں کے باقی تما م طوفان سے ہلاک کئے گئے ۲۱۰ طوفان نوحؑ کے وقت کبوتر امان کا خبر دہندہ ۲۵۹ نیوٹن ۲۲۱ وکٹوریہ (ملکہ معظمہ انگلستان) دعوت اسلام کے لئے ملکہ کو خط ۳۷۰ وارث الدین شیخ ۱۵۸ ہارون علیہ السلام ۱۵۲ ہدایت اللہ حضرت مسیح موعود ؑ پر انکار معجزاتٖ مسیح کا الزام لگایا ۳۷۲ح
ہنڑ ڈاکٹر اس کا دعویٰ کہ مسلما ن سرکار کے دلی خیر خواہ نہیں اور انگریزوں سے جہاد فرض سمجھتے ہیں ۳۸۸ح بعض غمخوار مسلمانوں نے اس کے خیالات کا ردّ لکھا ۳۹۰ح ہنری مارٹن کلارک ڈاکٹر (پریذیڈنٹ از جانب عیسائی صاحبان) ۴۱،۴۳،۴۸،۵۰،۵۱،،۵۲،۵۹،۶۱،۶۷،۶۸،۶۹،۷۲،۸۰، ۹۳،۹۵،۹۶،۱۰۴۱۰۲،۱۰۸،۱۰۹،۱۱۳،۱۱۸،۱۲۱،۱۲۲،۱۲۷،۱۳۲ ،۱۳۸، ۱۴۰،۱۴۳،۱۴۹،۱۵۱،۱۵۷ ،۱۵،۱۵۹،۱۶۴،۱۷۰،۱۷۱ ،۱۸۴،۱۹۴،۱۹۵،۲۰۱،۲۰۵،۲۰۶،۲۱۳،۲۱۸،۲۲۴،۲۲۵،۲۲۸ ،۲۳۵،۲۳۸،۲۳۹،۲۴۵،۲۵۰،۲۵۶،۲۵،۲۶۲،۲۶۸، ۲۷۳،۲۷۴،۲۸۲،۲۸۶،۲۹۳، بذریعہ خطوط خواہش کا اظہار کہ وہ علما ء اسلام سے جنگ مقدس کی تیاری کررہے ہیں ۴۴ آپ نے مباحثہ کا نام جنگ مقدس رکھا ۴۶ مسیحان جنڈیالہ کی طرف سے آپ کا خط بنام محمدبخش وجملہ اہل اسلام جنڈیالہ ۶۰ آپ کا خط بنام حضرت مسیح موعود ؑ ۶۶ آپ کے ایک وہم کا ازالہ ۷۴ ۲۲مئی ۱۸۹۳ ء کو آپ کی کوٹھی پر جلسہ مباحثہ منعقد ہوا ۸۴ آپ عیسائیوں کی طرف سے مباحثہ کے لئے میر مجلس تھے ۸۴ آتھم کی قائم مقامی میں آپ کی مباحثہ میں شمولیت ۱۷۱ یحیےٰ علیہ السلام ۳۱،۲۲۳ مسیح کا آپ کو ایلیا قرار دینا ۳۶۷ مسیح نے آپ سے بپتسمہ لیا ۱۸۷ یسعیاہ نبی ۲۷۹ یعقوب علیہ السلام (اسرائیل) ۱۰۷،۱۱۱،۱۱۲ خدا نے آپ سے کشتی کی ۲۱۰ یعقوب (حواری مسیح ) ۱۴۲ یوحنا علیہ السلام ۱۳۰،۱۶۱،۱۶۲،۲۶۱ مسیح افضل ہوتے تو یوحنا سے اصطباغ کیوں پاتے ؟ ۲۵۱ یوسف علیہ السلام ۲۱۱،۲۲۳،۳۰۸ یوسف شاہ خواجہ مباحثہ کے خوش اسلوبی کے ساتھ انجام پذیر ہونے پر میر مجلسوں کا شکریہ ادا کیا ۲۷۴ یوشع بن نون علیہ السلام ۲۲۳،۲۷۹ یونس علیہ السلام ۱۷۶ یونس کے نشان کے سوا کوئی نشان نہ دکھا یا جائے گا(مسیح) ۲۷۹ یہود ااسکریوطی (حواری مسیح) آپ کوبہشتی تخت کہاں ملا ؟ ۲۷۹
مقامات آ ،ا،ب ،پ،ت آئس لینڈ ۲۷۰،۲۸۵ امرتسر ۴۱،۴۵۴۴،۴۷،۵۵، ۵۶،۵۹،۶۴،۶۶،۶۷،۶۹،۷۱،۷۲،۷۴،۸۰،۸۱،۸۲،۸۳، ۲۷۴،۲۹۶،۳۷۲،۳۹۱ امریکہ ۵۱ انار کلی( لاہور) ۳۸۶ انگلستان ۳۶۹،۳۸۰،۳۸۱،۳۹۱ ایران ۱۷۴ بٹالہ(ضلع گورداسپور) ۷۲،۸۱،۳۸۲ برطانیہ (دیکھئیے انگلستان) برناوہ ۴۰۱ بمبئی ۳۸۹ح بوپٹراں(گوجرانوالہ) ۸۱ پٹیالہ ۸۱ پنجاب ۷۳،۴۰،۶۹،۷۳،۸۳،۲۹۵،۳۷۵ ترموں(ضلع گورداسپور) ۳۸۴ ج،د،ر،س ،ش جرمن ۳۶۹ جنڈیالہ(ضلع امرتسر) ۵۰،۵۹،۶۰،۶۱،۷۳۶۴،۸۰ جسلمیر ۱۲۱ دہلی ۳۶۰ ڈیرہ دون ۷۵ روس ۳۶۹ روم ۳۵۹،۳۶۰،۳۶۹ روم کے متعلق پیشگوئیاں ۲۷۹،۲۸۶ سامریہ ۱۶۲ سبا ملکہ سبا کے زمین کے کنارے سے آنے سے مراد ۲۸۵ سیالکوٹ ۲۹۵،۳۹۳ح شام ۷۱،۷۷،۳۶۵ ف ،ق،ک ،گ،ع فارس ۲۸۶ فرانس ۳۶۹ فلسطین ۲۸۵ قادیان ۱،۳۷،۴۰،۴۱،۴۳،۴۶،۵۷، ۵۹،۶۴،۶۶،۷۰،۷۱،۸۰،۸۳،۲۸۵،۳۸۶،۳۸۷،۴۰۰ کلکتہ ۳۸۹ح کوٹلہ مالیر ۳۵ گرین لینڈ ۲۷۰،۲۸۵ گوجرانوالہ ۸۱،۱۵۸
گورداسپور ۳۷،۴۰،۴۳ ۵۷،۵۹،۶۴،۶۶،۷۰،۳۸۲،۳۸۴ عراق ۳۶۵ عرب ۱۰،۷۱،۷۵،۷۷،۲۴۰، ۲۵۱،۲۵۹،۲۶۲،۲۶۳،۲۶۴،۲۶۹،۳۰۸،۳۶۵ ل،م،ہ،ی لاہور ۵۱،۶۴،۷۵،۸۱،،۳۶۹ح،۳۷۵،۳۸۶ لدھیانہ ۷۲،۷۴،۸۱ لندن ۳۷۰ مدراس ۴ مدینہ ۷۵ مصر ۲۶۵،۳۶۵ مکّہ ۲۵۴ مکہ ومدینہ دین کا گھر سمجھے جاتے ہیں ۷۵ ہندوستان ۶۹،۷۳،۳۶۰۷۰، ۳۶۵،۳۶۹،۳۷۰،۳۷۶،۳۸۶،۳۸۸ح،۳۸۹ح،۳۹۱ یورپ ۶۲،۳۷۰،۳۸۰
آ،ا ،ب آئینہ کمالات اسلام (تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ) ۷۵،۲۸۱ اس میں فرشتوں کی ضرورت کی مبسوط بحث ۲۷ اس کے صفحہ ۲۷۹پر پیشگوئی جو ایک معیاد میں پوری ہوئی ۵۵ احبار(تورات) ۲۱۷ ازالہ اوہام (تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ) ہدایت اللہ کا اس کی عبارتوں سے ا نکار معجزات مسیح کا الزام لگانا ۳۷۲ استثناء(تورات) ۵۵،۱۰۴، ۱۸۸،۱۹۸،۲۱۳،۲۱۴،۲۳۴،۲۵۶،۲۷۵،۳۲۲ اشاعۃالسنہ(رسالہ محمد حسین بٹالوی ) ۷۲،۷۳،۷۴،۸۲، ۳۸۲،۳۸۳ اشب ۲۵۶ اعمال ۱۰۴،۱۳۰،۱۳۱،۱۶۱،۱۷۶،۱۸۵،۲۱۷ افسی ۱۲۹،۱۳۰ الدعا والاستجابہ(از سرسید احمد خان) ۵ امثال(بائبل) ۱۲۹،۱۴۲ ،۲۲۱ ۲۳۴،۲۴۱،۲۵۳،۲۶۰ انجیل ۵۲،۵۶،۶۲،۸۵،۸۸،۱۰۰،۱۰۷،۱۳۵،۱۷۲،۱۷۴، ۱۸۱،۱۸۳،۱۸۷،۲۰۱،۲۰۹،۲۱۱،۲۱۲،۲۲۳،۲۲۴،۲۳۸، ۲۵۰،۲۵۳،۲۷۷،۲۸۰،۲۸۴،۲۸۹،۳۱۶،۳۱۹،۳۲۲، ۳۵۰،۳۵۸،۳۶۱،۳۷۳ انجیل حواریوں کی تحریر کے مطابق شائع ہوئی ۹۷ آتھم دعویٰ رکھتے ہیں کہ انجیل ایک کامل کتاب ہے ۹۸ آتھم کے انجیل کے کامل ہونے کے دلائل ۱۰۴ فضیلت کلام انجیل (آتھم) ۱۱۳ انجیل کی فضلیت وکمالیت( از آتھم) ۱۱۸ آتھم نے دعویٰ ، دلیل انجیل سے دینے کا اہتمام نہیں کیا ۲۱۸ اندرونہ بائیبل (از عبداللہ آتھم) ۱۴۲ اس میںآنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو دجّال کے لفظ سے نامزد کیا ہے ۲۹۳ انیس ہند میر ٹھ(اخبار) ۲ بائیبل ۴۷،۲۱۶،۲۲۲،۲۷۹،۲۸۴،۳۴۱ انبیا ء اور صلحا کی نسبت کہ وہ خدا کے بیٹے یا خدا تھے ۹۱ زمین کے بارے میں بائیبل کے خلاف واقعہ دوامور ۲۷۷ ۱.زمین کا کنارہ ہونا ۲.زمین کا ساکن ہونا بخاری صحیح ۲۹۸ اصح الکتاب بعد کتاب اللہ ہے ۳۳۷ براہین احمد یہ (تصنیف حضرت مسیح موعود ؑ ) ۳۸،۳۹ ۲۹۶،۳۷۱،۳۸۳ رسالہ اشاعتہ السنہ کی اس کتاب پر ریویو کی عبارت ۳۸۴ بٹالوی کے رسالہ میں شائع شدہ اس کے اقتباسات ۳۸۸ح،۳۹۳ح برکات الدعا (تصنیف حضرت مسیح موعود ؑ ) ۲۹۶ پ ،ت پُران ۱۶۴ پطرس کا پہلا خط(عہدنامہ جدید) ۱۱۹،۱۳۰
پطرس کا دوسرا خط(عہدنامہ جدید) ۱۱۹،۲۶۰ پیدائش(بائبل) ۱۱۹،۱۵۲،۱۶۰،۲۱۸،۲۲۱ تبلیغ (تصنیف حضرت مسیح موعود ؑ ) ۷۵ تحریر فی اصول التفسیر (از سرسید احمد خان ) ۵،۱۵ ترمذی ۲۹۸ تسبیلقون اوّل(عہد نامہ جدید) ۱۳۰ تورایخ دوم (بائبل) ۲۲۱ توریت ۴۷،۵۴،۵۵،۶۳،۱۰۲،۱۰۷،۱۱۲،۱۴۳،۱۶۷، ۱۷۹،۱۸۰،۱۸۵،۲۱۰،۲۱۱،۲۱۳،۲۲۱،۲۴۱،۲۵۲،۲۵۳، ۲۶۶،۲۶۷،۲۶۹،۲۸۳،۲۹۳،۳۲۲،۲۷۱،۳۵۰،۳۵۷ تلوار کی لڑائیوں میں سب سے بڑھ کر توریت کی تعلیم ۴۷ توریت کے مضمون کے چار حصے.۱۴۲ شریعت اخلاقی، رسمیاتی ،قضاتی اور قصص تم زمین یا آسمان کی کسی چیز کو خدامت بناؤ ۱۸۰ موسیٰ کے جہاد میں امان منحصربہ ایمان کوئی نہ دکھلا سکے گا ۲۲۷ یہود ونصاریٰ نے توریت کے نقطے بھی گن رکھے تھے ۳۳۸ توریت بنی اسرائیل کی تعلیم کے لئے کامل تھی ۳۴۰ توریت کی تائید کے لئے ایک ایک وقت میں چار چار سو نبی آیا ۳۴۱ توریت وانجیل یہود ونصاریٰ کے سینوں سے محو ہوگئی مگر صندوقوں میں تھی ۳۵۱ توریت میں سیلا کے آنے کی پیشگوئی ۳۵۹ توضیح مرام (تصنیف لطیف حضرت مسیح موعود ؑ ) ۲۷ ج،چ،ح،خ جنگ مقدس (مباحثہ مابین حضرت مسیح موعود ؑ ،عبداللہ آتھم ) ۴۴،۷۳،۸۳ بطورسفیران بھجوائے جانے والے احباب کے اسماء ۴۵ مباحثہکے لئے فریقین میں طے شدہ شرائط ۴۵ ڈاکٹر صاحب نے اس مباحثہ کا نام جنگ مقدس رکھا ۴۶ سولہ شرائط انتظام مباحثہ ۶۷،۶۸ یہ مباحثہ ۲۲؍مئی ۱۸۹۳ء بمقام امرتسر ہوا ۹۳ فریقین کے مقرر کردہ میر مجلس اورمعاونین کے اسماء ۷۴ حجۃ الاسلام (تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ) ۴۱،۸۰،۱۸۸ حزقیل (بائبل) ۱۹۹،۲۲۲،۲۶۰،۳۱۰ خروج(بائبل) ۱۰۴،۱۰۷،۱۸۰،۱۹۸،۲۱۳،۲۳۴ د،ر،ز دانیا ل ۲۲۲ دیوئیل ۱۰۴ رومیوں(عہدنامہ جدید) ۱۰۴،۱۱۹،۱۳۰،۲۳۴ رئیسان پنجاب (از مسٹر گریفن) ۳۷۹ زبور(بائبل) ۱۰۸،۲۲۱،۲۲۲،۲۳۴،۲۶۷ زکریا (بائبل) ۹۴،۱۰۴،۱۱۳،۱۲۸ س،ش،ط سچائی کا اظہار (تصنیف لطیف حضرت مسیح موعود ؑ ) ۷۱ سلاطین اول (بائبل) ۱۲۹ سموئیل اول (بائبل) ۱۵۲،۱۶۰،۱۹۹،۲۵۶ شاستر ۶۴ا شرح ملّا ۳۸۴ شہادۃ القرآن (تصنیف حضرت مسیح موعود ؑ ) ۲۹۵،۲۹۶ طمطاؤس کا پہلا خط(عہدنامہ جدید) ۱۳۰،۲۶۰
طمطاؤس کادوسراخط (عہدنامہ جدید) ۱۱۹ ع ،ف،ق،ک،گ عبرانیوں(عہد نامہ جدید) ۱۰۴،۱۲۹،۱۳۰،۲۱۷،۱۶۵،۲۵۹ عزرا ۲۶۷ فتوح الغیب (ازسید عبدالقادر جیلانی ) ۱۵ فلپی /فلپیوں (عہد نامہ جدید) ۱۳۰،۱۷۵ قاضیوں (بائیبل) ۲۵۶،۲۵۷،۲۸۷ قرنتی /قرنتیوں کے نام پہلا خط(عہد نامہ جدید) ۱۰۴،۱۳۰،۱۳۱،۱۱۹،۱۶۲،۱۷۵،۱۸۵ قطبی ۳۸۴ کلسیوں (قلسی )(عہدنامہ جدید) ۱۲۹ گلتیوں (عہدنامہ جدید) ۱۱۹،۱۸۸ گنتی(بائبل) ۱۰۴،۱۹۸،۲۱۳،۲۵۶ ل،م،ن لوقا کی انجیل ۱۰۳،۱۲۹،۱۳۰،۱۳۱،۱۶۳،۱۷۳،۲۲۱ متی کی انجیل ۱۰۳،۱۰۴،۱۱۸،۱۲۱،۱۲۸،۱۲۹،۱۳۰،۱۳۱، ۱۳۶،۱۴۲،۱۵۴،۱۵۶،۱۶۳،۱۷۳،۱۸۵،۱۸۹،۲۲۴،۲۳۳، ۲۳۸،۲۸۷ مرقس کی انجیل ۱۳۱،۱۵۳،۱۵۵،۱۶۱، ۱۶۳،۱۸۸،۱۸۹،۲۲۱،۲۸۰ مزمور(بائبل) ۱۲۹ مسلم صحیح ۲۹۸،۳۰۸ معالم التنزیل(تفسیر) ۳۷۳ح مکاشفات ۱۰۴،۱۲۸،۱۲۹،۱۳۰،۱۳۱،۱۹۹ ملاکی (بائبل) ۱۰۴،۱۲۸،۱۷۳ منشور محمدی (اخبار) ۵۳ میکہ /میکا(بائبل) ۱۲۹،۲۲۲ نحمیا ہ (بائبل) ۲۶۷ نور افشاں (اخبار) ۵۳،۵۵،۷۲،۷۴،۱۷۰ ہ،ی یرمیاہ (بائبل) ۹۴،۱۰۴،۱۱۳،۱۲۸،۱۵۲،۱۶۰،۲۲۱ یسعیاہ(بائبل)۹۴،۱۰۴،۱۱۳،۱۲۸،۱۲۹،۱۵۲،۱۶۰،۱۸۵،۲۲۱ ۲۴۱،۲۴۷،۲۷۷ یشوع (بائبل) ۲۸۷ یوحناکی انجیل ۹۴،۱۰۳،۱۰۴،۱۰۸،۱۱۳،۱۱۶،۱۱۸،۱۲۸، ۱۲۹،۱۳۰،۱۳۱،۱۴۱،۱۴۲،۱۶۰،۱۶۳،۱۶۹،۱۷۳،۱۷۴،۱۷۵، ۱۷۷،۱۸۱،۱۸۹،۲۵۱،۲۵۶