Language: UR
<p>حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کتاب جنوری ۱۹۰۷ء میں تحریر فرمائی۔ اس کتاب کے تحریر فرمانے کی وجہ یہ تھی کہ حضورؑ نے دسمبر ۱۹۰۶ء کے سالانہ جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے یہ بیان فرمایا تھا کہ قادیان کے تمام ہندو خاص طور پر لالہ شرمت اور لالہ ملاوامل میرے بیسیوں نشانات کے گواہ ہیں اور بہت ساری پیشگوئیاں جو آج ۳۵ برس پہلے ان کے سامنے کی گئی تھیں آج پوری ہوئی ہیں۔</p><p>قادیان کے آریوں کی طرف سے ایک اخبار ’شبھ چنتک‘ نکلا کرتا تھا۔ اس میں ہمیشہ ہی اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نہایت ناشائستہ زبان استعمال کی جاتی تھی۔ اس اخبار میں لالہ شرمت اور لالہ ملاوامل کی طرف منسوب کر کے ایک اعلان شائع کیا گیا کہ ہم مرزا صاحب کے کسی بھی نشان کے گواہ نہیں ہیں۔</p><p>حضور علیہ السلام نے اس رسالہ میں اپنے بہت سے ایسے نشانات کی تفصیل بیان فرمائی ہے جن کا تعلق مذکورہ دونوں آریہ صاحبان سے ذاتی طور پر تھا یا کم از کم وہ ان کے عینی گواہ تھے۔</p><p>آخر میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے آریوں کے پرمیشر اور اس کی صفات کے متعلق عقائد پر جرح فرمائی ہے اور سب سے آخر میں اسلام کی صداقت اور آریہ مذہب کی حقیقی تصویر کو اپنی ایک نظم میں پیش فرمایا ہے۔</p>
قادیان کے آریہ آریوں پر ہے صد ہزار افسوس دل میں آتا ہے بار بار افسوس ہوگئے حق کے سخت نافرمان کر دیا دیں کو قوم پر قُربان وہ نشاں جن کی روشنی سے جہاں ہو کے بیدار ہو گیا لرزاں اُن نشانوں سے ہیں یہ انکاری پَر کہاں تک چلے گی طرّاری اُن کے باطن میں اِک اندھیرا ہے کین و نخوت نے آکے گھیرا ہے لڑ رہے ہیں خدائے یکتا سے باز آتے نہیں ہیں غوغا سے قوم کے خوف سے وہ مرتے ہیں سو نشاں دیکھیں کب وہ ڈرتے ہیں موت لیکھو بڑی کرامت ہے پر سمجھتے نہیں یہ شامت ہے میرے مالک تو ان کو خود سمجھا آسماں سے پھر اِک نشان دکھلا تازہ نشان کی پیشگوئی خدا فرماتا ہے کہ مَیں ایک تازہ نشان ظاہر کروں گا جس میں فتح عظیم ہوگی وہ عام دنیا کے لئے ایک نشان ہوگا اور خدا کے ہاتھوں سے اور آسمان سے ہوگا.چاہیئے کہ ہر ایک آنکھ اس کی منتظر رہے کیونکہ خدا اس کوعنقریب ظاہر کرے گا تا وہ یہ گواہی دے کہ یہ عاجز جس کو تمام قومیں گالیاں دے رہی ہیں اُس کی طرف سے ہے.مبارک وہ جو اس سے فائدہ اُٹھاوے.آمین المشتھر میرزا غلام احمدؐ مسیح موعود
ایک اخبار آریہ صاحبوں کی جو قادیان سے نکلتی ہے اور اب شاید جنوری ۱۹۰۷ء سے اس جگہ سے اس کا خاتمہ ہے اس میں میری نسبت لالہ شرمپت ساکن قادیان کا حوالہ دے کر ایک عجیب تہمت میرے پر لگائی گئی ہے اور وہ یہ کہ جو دسمبر ۱۹۰۶ء کے جلسہ میں ایک تقریب سے مَیں نے بیان کیا تھا کہ ان آسمانی نشانوں کے جو خدا نے مجھے عطا فرمائے ہیں صرف مسلمان ہی گواہ نہیں ہیں بلکہ اس قصبہ کے ہندو بھی گواہ ہیں جیسا کہ لالہ شرمپت اور لالہ ملاوا مل آریہ بھی جوؔ ساکنان قادیان ہیں ان کو میرے نشانوں کا علم ہے اور اس جلسہ میں مَیں نے صرف اسی قدر بیان نہیں کیا تھا بلکہ مَیں نے تمام مہمانوں کے رُو برو جو ہریک طرف سے اور نیز دُور دراز ملکوں سے دو ہزار کے قریب جمع تھے یہ بھی بیان کیا تھاکہ قطع نظر قادیان کے مسلمانوں کے اس قصبہ کے تمام ہندو بھی میرے نشانوں کے گواہ ہیں کیونکہ اس زمانہ پر پینتیس ۳۵برس کے قریب مدت گزر گئی جبکہ مَیں نے یہ ایک پیشگوئی شائع کی تھی کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے :.’’کہ اگرچہ اب ُ تو اکیلا ہے اور تیرے ساتھ کوئی نہیں مگر وہ وقت آتا ہے کہ مَیں ہزاروں انسانوں کو تیری طرف رجوع دوں گا.اور اگرچہ اب تجھ میں کوئی مالی طاقت نہیں مگر مَیں بہت سے لوگوں کے دلوں میں اپنا الہام ڈالوں گا
کہ اپنے مالوں سے تیری مدد کریں.فوج در فوج لوگ آئیں گے اور مال دیں گے اور اِس قدر آئیں گے کہ قریب ہے کہ تو تھک جائے وہ ہر ایک راہ سے سفر کر کے قادیان میںآئیں گے اوراُن کی آمد کی کثرت سے راہیں گہری ہو جائیں گی.اور جب اس پیشگوئی کے آثار ظاہر ہوں گے تو دشمن چاہیں گے کہ یہ پیشگوئی ظاہر نہ ہو.اور کوؔ شش کریں گے کہ ایسا نہ ہو مگر مَیں اُن کو نامراد رکھوں گا اور اپنا وعدہ پورا کروں گا اور پھر ساتھ اس کے یہ بھی فرمایا کہ مَیں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘.یہ خلاصہ ہے اس پیشگوئی کا جو آج سے چھبیس۲۶ برس پہلے براہین احمدیہ میں چھپ چکی ہے اور درحقیقت اس زمانہ سے بہت عرصہ پہلے کی پیشگوئی ہے جس کو کم سے کم پینتیس۳۵ برس ہوتے ہیں.سو اس جلسہ میں مَیں نے اس پیشگوئی کا ذکر کیا تھا اور اس کے لئے یہ تقریب پیش آئی تھی کہ جب ہم مع اپنی جماعت کے جو دو ہزار کے قریب تھی اپنی جامع مسجد میں نماز میں مشغول تھے.اور دُور دُور سے میری جماعت کے معزز لوگ آئے ہوئے تھے جن میں گورنمنٹ انگریزی کے بھی بڑے بڑے عہدہ دار اور معزز رئیس اور جاگیردار اور نواب بھی موجود تھے تو عین اس حالت میں کہ جب ہم اپنی اس جامع مسجد میں نماز ادا کررہے تھے ایک ناپاک طبع آریہ برہمن نے گالیاں دینی شروع کیں اور نعوذ باللہ ان الفاظ سے بار بار گالیاں دیتا تھاکہ یہ سب کنجر اس جگہ جمع ہوئے ہیں کیوں باہر جاؔ کر نماز نہیں پڑھتے.اور پہلے سب سے مجھے ہی یہ گالی دی اور بار بار ایسے گندے الفاظ سے یاد کیا کہ بہتر ہے کہ ہم اس رسالہ کو اُن کی تفصیل سے پاک رکھیں.قریباً ہم دو گھنٹہ تک نماز پڑھتے رہے اور وہ آریہ قوم کا برہمن برابر سخت اور گندے الفاظ کے ساتھ گالیاں دیتا رہا اُس وقت بعض دیہات کے سکھ بھی ہماری کثیر جماعت کو دیکھ رہے تھے اور حیرت کی نظر سے دیکھتے تھے کہ خدا نے ایک دنیا کو جمع کر دیا ہے.اور ان لوگوں نے بھی
منع کیا مگر وہ ناپاک طبع آریہ باز نہ آیا.اور معزز مسلمانوں کو کنجر کے پلید لفظ سے بار بار یا دکرتا اور اشتعال دلاتا رہا.یہ ایک بڑا دُکھ تھا جو عین نماز کی حالت میں مجھے اُٹھانا پڑا.اور یہ بھی خوف تھا کہ ہماری جماعت میں سے کسی کو جوش پیدا ہو مگر خدا کا شکر ہے کہ سب نے صبر کیا.تعجب ہے کہ کیوں اُس نے یہ پلید اور گندہ لفظ اس جماعت کے لئے اختیار کیا.شاید اس کو اپنے مذہب کا نیوگ یاد آیا ہوگا*.اُس وقت سرکاری ملازم بٹالہ کا ایک ڈپٹی انسپکٹر بھی موجود تھا.غرض جب اس آریہ کی گالیاں حد سے بڑھ گئیں تو معزز مسلمانوں کے دلوں کو سخت رنج پہنچا.اور اگر وہ ایک وحشی قوم ہوتی تو قادیاؔ ن کے تمام آریوں کیلئے کافی تھی.مگر ان کے اخلاق قابلِ تحسین ہیں کہ ایک سفلہ طبع آریہ نے باوجودیکہ اس قدر گندی گالیاں دیں تا ہم انہوں نے ایسے صبر سے کام لیا کہ گویا مُردے ہیں جن میں آواز نہیں اور اس تعلیم کو یاد رکھا جو بار بار دی جاتی ہے کہ اپنے دشمنوں کے ساتھ صبر کے ساتھ پیش آؤ.جب نماز ہو چکی تو مَیں نے دیکھا کہ ان گندی گالیوں سے بہت سے دلوں کو بہت رنج پہنچا تھا.تب مَیں نے اُن کی دلجوئی کے لئے اُٹھ کر یہ تقریر کی کہ یہ رنج جو پہنچا ہے اس کو دلوں سے نکال دو.خدا تعالیٰ دیکھتا ہے وہ ظالم کو آپ سزا دے گا.اور اُس وقت نیوگ آریہ مذہب کی رو سے ایک مذہبی حکم ہے جس کی رُو سے ایک آریہ کی پاک دامن عورت باوجود زندہ ہونے خاوند کے اور باوجود اس کے کہ اُس کو طلاق بھی نہیں دی گئی ایک دوسرے آدمی سے محض اولاد لینے کی غرض سے ہم بستر ہو سکتی ہے اور جب تک گیا۱۱رہ لڑکے غیر آدمی کے نطفہ سے پیدا ہوجائیں اس کام میں مشغول رہ سکتی ہے.اور ایسی عورت مذہب کی رُو سے بڑی مقدس کہلاتی ہے.اور ایسا لڑکا ماں اور اپنے فرضی باپ دونوں کو دوزخ سے نجات دلانے والا اور مکتی کا داتا کہلاتا ہے.منہ
مَیں نے یہ بھی کہا کہ مَیں جانتا ہوں کہ قادیان کے ہندو سب سے زیادہ خدا کے غضب کے نیچے ہیں کیونکہ خدا کے بڑے بڑے نشان دیکھتے ہیں اور پھر ایسی گندی گالیاں دیتے اور دُکھ پہنچاتے ہیں.ان کو معلوم ہے کہ خدا نے اس گاؤں میں کیسا بڑا نشانِ قدرت دکھلایا ہے.وہ اس بات سے بے خبر نہیں ہیں کہ آج سے چھبیس ستائیس برس پہلے مَیں کیسی گمنامی کے گوشہ میں پڑا ہوا تھا.کیا کوئی بول سکتا ہے کہ اُس وقت یہ رجوعِ خلائق موجود تھا.بلکہ ایک انسان بھی میری جماعت میںؔ داخل نہ تھا اور نہ کوئی میرے ملنے کیلئے آتا تھا.اور بجز اپنی ملکیت کی قلیل آمدن کے کوئی آمدنی بھی نہیں تھی.پھر اُسی زمانہ میں بلکہ اُس سے بھی پہلے جس کو پینتیس۳۵ برس سے بھی کچھ زیادہ عرصہ گزرتا ہے خدا نے مجھے یہ خبر دی کہ ’’ہزاروں لاکھوں انسان ہر ایک راہ سے تیرے پاس آویں گے یہاں تک کہ سڑکیں گھِس جائیں گی.اور ہر ایک راہ سے مال آئے گا.اور ہر ایک قوم کے مخالف اپنی تدبیروں سے زور لگائیں گے کہ یہ پیشگوئی وقوع میں نہ آوے.مگر وہ اپنی کوششوں میں نامراد رہیں گے‘‘.یہ خبر اُسی زمانہ میں میری کتاب براہین احمدیہ میں چھپ کر ہر ایک ملک میں شائع ہوگئی تھی.پھر کچھ مدت کے بعد اس پیشگوئی کا آہستہ آہستہ ظہور شروع ہوا چنانچہ اب میری جماعت میں تین لاکھ سے زیادہ آدمی ہیں*.اور فتوحات مالی کا یہ حال ہے اس رسالہ کے لکھنے کے وقت ملک مصر سے یعنی مقام اسکندریہ سے کل ۲۳؍ جنوری ۷ ۱۹۰ء کو ایک خط بذریعہ ڈاک مجھ کو ملا.لکھنے والا ایک معزز بزرگ اس شہر کا ہے یعنی اسکندریہ کا.جن کا نام ہے احمد زہری بدرالدین.خط محفوظ ہے جو اس وقت میرے ہاتھ میں ہے.وہ لکھتے ہیں کہ مَیں آپ کو یہ خوشخبریؔ دیتا ہوں کہ اس ملک میں آپ کے تابع اور آپ کی پیروی کرنے والے اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ جیسے بیابان کی ریت اور کنکریں.اور لکھتے ہیں کہ میرے خیال میں کوئی ایسا باقی نہیں جو آپ کا پَیرو نہیں ہوگیا.منہ
کہ اب تک کئی لاکھ روپیہ آچکا ہے اور قریباً پندرہ سو روپیہ اور کبھی دو ہزار ماہوار لنگر خانہ پر خرچ ہو جاتا ہے اور مدرسہ وغیرہ کی آمدنی علیحدہ ہے.یہ ایک ایسا نشان ہے کہ جس سے قادیان کے ہندوؤں کو فائدہ اُٹھانا چاہئے تھا کیونکہ وہ ؔ اس نشان کے اوّل گواہ تھے ان کو معلوم تھاکہ اس پیشگوئی کے زمانہ میں مَیں کس قدر گمنام اور پوشیدہ تھا.یہ تقریر تھی جو اس جلسہ میں مَیں نے کی تھی اور تقریر کے آخر میں مَیں نے یہ بھی بیان کیا تھا کہ اِس نشان کے سب آریوں میں سے بڑھ کر گواہ لالہ شرمپت اور لالہ ملاوا مل ساکنانِ قادیان ہیں کیونکہ اُن کے روبرو کتاب براہین احمدیہ جس میں یہ پیشگوئی ہے چھپی اور شائع ہوئی ہے بلکہ براہین احمدیہ کے چھپنے سے پہلے اُس زمانہ میں جبکہ میرے والد صاحب فوت ہوئے تھے یہ پیشگوئی اِن ہر دو آریوں کو بتلائی گئی تھی جس کا مختصر بیان یہ ہے کہ میرے والد صاحب کے فوت ہونے کی خبر ان الفاظ سے خدا تعالیٰ نے مجھے دی تھی کہ وَالسَّمَآءِ وَالطَّارِقِ.یعنی قسم ہے آسمان کی اور قسم ہے اس حادثہ کی جو غروب آفتاب کے بعد پڑے گا اور ساتھ ہی سمجھایا گیا تھا کہ اس پیشگوئی کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا والد آفتاب کے غروب کے ساتھ ہی وفات پائے گا.اور یہ الہام بطور ماتم پُرسی کے تھا جو اپنے خاص بندوں سے عادت اللہ میں داخل ہے.اور جب یہ خبرؔ سن کر تردّد اور غم پیدا ہوا کہ ان کی وفات کے بعد ہماری اکثر وجوہ معاش جو ان کی ذات سے وابستہ ہیں نابود ہو جائیں گی تب یہ الہام ہوا:.اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ یعنی کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے؟ اِس وحیِ الٰہی میں صریحاً خبر دی گئی تھی کہ تمام حاجات کا خدا خود متکفّل ہوگا چنانچہ اس الہام کے مطابق غروب آفتاب کے بعدمیرے والد صاحب فوت ہوگئے اوران کے ذریعہ سے ہمارے جو وجوہ معاش تھے جیسے پنشن اور انعام وغیرہ سب ضبط ہوگئے.انہیں دنوں میں
جن پر پینتیس ۳۵برس کا عرصہ گزر گیا ہے.مَیں نے اس الہام کو یعنی اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کو مُہر میں کھدوانے کے لئے تجویز کی اور لالہ ملاوا مل آریہ کو اس مُہر کے کھدوانے کے لئے امرتسر میں بھیجا اور محض اس لئے بھیجا کہ تا وہ اور لالہ شرمپت دوست اس کا دونوں اس پیشگوئی کے گواہ ہو جائیں چنانچہ وہ امرتسر گیا اور معرفت حکیم محمد شریف کلانوری کے پانچ روپیہ اجرت دے کر مُہر بنوا لایا جس کا نقش اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ ہے جو اب تک موجود ہے.یہؔ الہام قریباً پینتیس۳۵ یا چھتیس۳۶ برس کا ہے جس کے یہ دونوں آریہ صاحبان گواہ ہیں اور ان کو معلوم ہے کہ اُس زمانہ میں میری کیا حیثیت تھی.پھر اُس زمانہ میں جبکہ براہین احمدیہ جس میں مذکورہ بالا الہامات درج ہیں بمقام امرتسر پادری رجب علی کے مطبع میں چھپ رہی تھی ان دونوں آریوں کو خوب معلوم ہے کہ مَیں کیسا گمنامی میں زندگی بسر کرتا تھا یہاں تک کہ کئی دفعہ یہ دونوں آریہ امرتسر میں میرے ساتھ جاتے تھے اور بجز ایک خدمتگار کے دوسرا آدمی نہیں ہوتا تھا.اور بعض دفعہ صرف لالہ شرمپت ہی ساتھ جاتا تھا.یہ لوگ حلفاً کہہ سکتے ہیں کہ اُس زمانہ میں میری گمنامی کی حالت کس درجہ تک تھی نہ قادیان میں میرے پاس کوئی آتا تھا اور نہ کسی شہر میں میرے جانے پر کوئی میری پروا کرتا تھا اور مَیں ان کی نظر میں ایسا تھا جیسا کہ کسی کا عدم اور وجود برابر ہوتا ہے.اب وہی قادیان ہے جس میں ہزاروں آدمی میرے پاس آتے ہیں اور وہی شہر امرتسر اور لاہور وغیرہ ہیں جو میرے وہاں جانے کی حالت میں صدہا آدمی پیشوائی کے لئے ریل پر پہنچتے ہیں.بلکہ بعض وقت ہزارہا لوگوں تک نوبت پہنچتی ہے.چنانچہ ۱۹۰۳ؔ ء میں جب مَیں نے جہلم کی طرف سفر کیا تو سب کو معلوم ہے کہ قریباً گیارہ ہزار آدمی پیشوائی کے لئے آیا تھا.ایسا ہی قادیان میں صدہا مہمانوں کی آمد کا ایک سلسلہ جواب جاری ہے اُس زمانہ میں اس کا نام و نشان نہ تھا.اور قادیان کے تمام ہندوؤں کو اور خاص کر لالہ شرمپت اور ملاوامل کو (جو اب قوم کے دباؤ کے نیچے آکر خدا کے نشانوں سے منکر ہوتے ہیں* ) خوب معلوم ہے کہ ان دنوں میں ہمارا مردانہ مکان محض مجھے واقعی طور پر معلوم نہیں کہ درحقیقت لالہ شرمپت اور لالہ ملاوا مل سچ مچ ان تمام نشانوں سے
ایک ویرانہ اور خالی تھا اور کوئی ہمارے پاس نہیں آتا تھا ہاں یہ لوگ دن میں دو تین مرتبہ یا کم و بیش آجاتے تھے.یہ سب باتیں وہ حلفاً بیان کر سکتے ہیں.پس جلسہ کے دن میری تقریر کا یہی خلاصہ تھا کہ قادیان کے آریوں پر خدا تعالیٰ کی حجت پوری ہو چکی ہے.خاص کر ان دونوں آریوں پر تو بخوبی اتمام حجت ہو چکا ہے جو بہت سے نشانوں کے گواہِ رؤیت ہیں.مگر وہ لوگ اس زبردست طاقتوں والے خدا سے نہیں ڈرتے جو ایک دم میں معدوم کر سکتا ہے.اور جیسا کہ میں ابھی لکھ چکا ہوں اس پیشگوئی کے ساتھ یہ پیشگوئی بھی پوری ہوگئی کہ جو اُسی کتاب براہین احمدیہ میں درج تھی اور اسی زمانہ میں جس کو قریباً چھبیس۲۶ برس گزر ؔ چکے ہیں تمام پنجاب و ہندوستان میں شائع ہو چکی تھی.یعنی یہ کہ دشمن بہت زور لگائیں گے کہ تا یہ عروج اور یہ نشان اور یہ رجوع خلائق ظہور میں نہ آوے اور لوگ مالی مدد نہ کریں لیکن پھر بھی خدا تعالیٰ اپنی پیشگوئی کو پوری کرے گا.اور وہ سب نامراد رہیں گے.اور یہ پیشگوئیاں نہ صرف عربی میں ہیں بلکہ عربی میں‘ اردو میں‘ انگریزی میں‘ فارسی میں‘ عبرانی میں‘ براہین احمدیہ میں موجود ہیں.اور پھر جب چند سال کے بعد ان پیشگوئیوں کے آثار شروع ہونے لگے تو مخالفوں میں روکنے کے لئے جوش پیدا ہوا.قادیان میں لالہ ملاوا مل نے لالہ شرمپت کے مشورہ سے اشتہار دیا جس کو قریباً دس۱۰ برس گذر گئے.اس اشتہار میں میری نسبت یہ لکھا کہ یہ شخص محض مکّار فریبی ہے اور صرف دوکاندار ہے لوگ اِس کا دھوکہ نہ کھاویں.مالی مدد نہ کریں.ورنہ اپنا روپیہ ضائع کریں گے.اس اشتہار سے ان آریوں کا مدعا یہ تھا کہ تا لوگ رجوع سے منکر ہوگئے ہیں جن کو کہ وہ دیکھ چکے ہیں.صرف آریہ اخبار کے حوالہ سے یہ لکھتا ہوں.اور میں نہیں امید رکھتا کہ کوئی انسان ایسا خدا تعالیٰ سے بے خوف ہو جائے کہ اپنی رؤیت کی گواہیوں سے منکر ہو جائے.ہر ایک شخص کا آخر خدا تعالیٰ سے معاملہ ہے.منہ
باز آجاویں.اور مالی امداد سے منہ پھیر لیں.مگر دنیا جانتی ہے کہ اُس اشتہار کے زمانہ میں میری جماعت ساٹھ۶۰ یا ستر۷۰ آدمی سے زیادہ نہ تھی.چنانچہ یہ امر سرکاری رجسٹروں سے بھی بخوبی معلوم ہو سکتا ہے کہ اُسؔ زمانہ میں زیادہ سے زیادہ تیس یا چالیس روپیہ ماہوار آمدنی تھی.مگر اس اشتہار کے بعد گویا مالی امداد کا ایک دریا رواں ہوگیا.اور آج تک کئی لاکھ لوگ بیعت میں داخل ہوئے اور اب تک ہرایک مہینہ میں پانسو کے قریب بیعت میں داخل ہو جاتا ہے.اس سے ثابت ہے کہ انسان خدا کا مقابلہ نہیں کر سکتا.یہ میرا بیان بغیر کسی ثبوت کے نہیں.ملاوامل کا اشتہار اب تک میرے پاس موجود ہے جو لالہ شرمپت کے مشورہ سے لکھا گیا تھا.سرکاری مہمان شماری تو ہمارے سلسلہ کے لئے مقرر ہی ہے.پس اس اشتہار کی تاریخ اشاعت پڑھو اور پھر دوسری طرف سرکاری کاغذات کے ذریعہ سے اس زمانہ اور بعد کے زمانہ کا مقابلہ کرو کہ اشتہار سے پہلے کس قدر مہمان آتے تھے.کس قدر روپیہ آتا تھا.اور بعد میں کس قدر خدا کی مدد شامل ہوگئی.یہ امر منی آرڈر کے رجسٹروں اور کاغذات مہمان شماری سے ظاہر ہو سکتا ہے کہ اُس زمانہ میں جبکہ ملاوامل نے اشتہار شائع کیا کس قدر میری جماعت تھی یعنی ان کاغذات سے جو پولس کی معرفت گورنمنٹ میں پہنچے ہیں بخوبی فیصلہ ہو سکتا ہے اور صفائی سے ظاہر ہو سکتا ہے کہ اس زمانہ میں جبکہ ملاوامل نے لوگوں کو روکنے کے لئے اشتہار دیا کس قدر میری جماعت تھی اور ؔ کس قدر روپیہ آتا تھا اور پھر بعد میں کس قدر ترقی ہوئی.مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس قدر ترقی ہوئی کہ جیسا ایک قطرہ سے دریا بن جاتاہے.اور یہ ترقی بالکل غیر معمولی اور معجزانہ تھی.حالانکہ نہ صرف ملاوا مل نے بلکہ ہرایک دشمن نے اس ترقی کو روکنے کے لئے پورا زور لگایا اور چاہا کہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی جھوٹی ثابت ہو.آخر نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دوسری پیشگوئی پوری ہوگئی یعنی جیسا کہ خدا تعالیٰ نے پہلے سے فرمایا تھا دشمن لوگوں کے رجوع کو روک نہ سکے.اگر انسان حیا اور شرم کا کچھ مادہ اپنے اندر رکھتا ہو تو یہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ عمیق در عمیق غیب کی باتیں جو خدائی قدرتوں سے پُر ہیں انسانی طاقتوں سے بالاتر ہیں اور سوچ
سکتا ہے کہ اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا تو انسانوں کی مخالفانہ کوششیں ضرور کارگر ہو جاتیں.اِن اشتہاروں کا اگر کچھ نتیجہ ہوا تو یہ ہوا کہ وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو خدا تعالیٰ نے پہلے سے فرمایا تھا کہ دشمن جان توڑ کر زور لگائیں گے کہ عروج اور نصرتِ الٰہی اور رجوعِ خلائق کی پیشگوئی پوری نہ ہو مگر وہ پوری ہو جائے گی.اور عجیب بات ہے کہ صرف ملاوا مل نے ہی زور نہیں لگایا بلکہ آریہ صاحبوؔ ں کا وہ پنڈت جس کی جان کو خدا کی پیشگوئی نے لے لیا یعنی لیکھرام وہ بھی اپنی ناچیز عمر کا حصہ انہیں تحریروں میں کھو گیا کہ تا براہین احمدیہ کی وہ پیشگوئی پوری نہ ہو جو براہین احمدیہ میں لاکھوں انسانوں کے رجوع اور لاکھوں روپے کی آمدن کے بارہ میں شائع ہو چکی تھی.آخر نتیجہ یہ ہوا کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے پانچ برس پہلے خبر دی تھی کہ وہ اپنی بدزبانی کی پاداش میں چھ۶ برس کی میعاد میں قتل کیا جائے گا.وہ بدنصیب اُس پیشگوئی کو پورا کر کے راکھ کا ڈھیر ہوگیا.ایسا ہی عیسائیوں نے بھی اس پیشگوئی کو روکنے کیلئے بہت زور لگایا اور اُن کے اشتہار بھی اب تک میرے پاس موجود ہیں.پھر مسلمان جن کا حق تھا اور جن کا فخر تھا کہ مجھے قبول کرتے انہوں نے بھی اس پیشگوئی کے روکنے کے لئے جو براہین احمدیہ میں میری آئندہ ترقی اور اقبال اور رجوع خلائق کی نسبت چھبیس۲۶ برس سے درج تھی اور تخمیناً پینتیس۳۵ برس سے زبانی شائع ہو چکی تھی......ناخنوں تک زور لگایا.یہاں تک کہ مَیں خیال کرتا ہوں کہ ایک لاکھ سے زیادہ پرچہ ان کی طرف سے ایسا نکلا ہوگا جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ یہ شخص کافر ہے.دجّاؔ ل ہے.بے ایمان ہے کوئی اس کی طرف رُخ نہ کرے اور کوئی اس کی مدد نہ کرے بلکہ کوئی مصافحہ اور السلام علیکم نہ کرے اور جب مر جائے تو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کیا جائے مگر ان اشتہاروں کی کیسی اُلٹی تاثیر ہوئی جس سے خدا تعالیٰ کی قدرت نظر آتی ہے کہ ان کے بعد کئی لاکھ آدمیوں نے میری بیعت کر لی اور کئی لاکھ روپیہ آیا اور دوسرے بے شمار تحائف ہر طرف سے آئے.اور خدا کی غیرت اور قدرت نے
ان کے منہ پر وہ طمانچے مارے کہ ہر ایک میدان میں ان کو شکست نصیب ہوئی.اور ہر ایک مباہلہ میں موت یا ذلّت اُن کے حصّہ میں آئی.یہ تمام اشتہارات جو آریوں کی طرف سے نکلے اور عیسائیوں کی طرف سے اور مسلمانوں کی طرف سے شائع ہوئے میرے چند صندوقوں میں موجود ہیں جن میں ہزارہا گالیوں کے ساتھ جو چوہڑوں چماروں کی گالیوں سے بڑھ کر ہیں.مجھے مکّار.فریبی.ٹھگ.دجّال.دہریہ اور بے ایمان کر کے یاد کیا گیاہے اور اس لئے جمع رکھے گئے تا کسی کو انکار نہ ہو سکے.جب میں ایک طرف براہین احمدیہ میں خدا تعالیٰ کی یہ پیشگوئی دیکھتا ہوں کہ اگرچہ تُو اب اکیلا ہے.تیرے ساتھ کوئی بھی نہیں مگر وہ وقت آتا ہے بلکہ نزدیک ہے کہؔ لاکھوں انسان تیرے ساتھ ہو جائیں گے اور اپنے عزیز مالوں سے تیری مدد کریں گے.اور ہر ایک قوم کے دشمن زور لگائیں گے کہ یہ پیشگوئی پوری نہ ہو مگر مَیں ان کو نامراد رکھوں گا.اور مَیں تجھے ہر ایک تباہی سے بچاؤں گا اگرچہ کوئی بچانے والا نہ ہو.اور دوسری طرف اس پیشگوئی کے مطابق ہر ایک قوم کے دشمنوں کا پیشگوئی کے روکنے کے لئے پوری کوشش کا مشاہدہ کرتا ہوں اور پھر دیکھتا ہوں کہ باوجود دشمنوں کی سخت مزاحمت کے آخر وہ پیشگوئی ایسی پوری ہو گئی کہ اگر آج وہ تمام بیعت کرنے والے ایک وسیع میدان میں جمع کئے جائیں تو ایک بڑے بادشاہ کے لشکر سے بھی زیادہ ہوں گے.تو اس موقعہ پر مجھے وجد سے رونا آتا ہے کہ ہمارا خدا کیسا قادر خدا ہے کہ جس کے منہ کی بات کبھی ٹل نہیں سکتی گو تمام جہان دشمن ہو جائے اور اس بات کو روکنا چاہے.یہ وہ بیان تھا جو اس جلسہ میں مَیں نے کیا تھا.اب مَیں پوچھتا ہوں کہ کیا قادیان کے ہندوؤں کو اس پیشگوئی اور اس کے پورے ہونے کی کچھ خبر نہیں؟ کیا لالہ شرمپت اور لالہ ملاوامل اِس پیشگوئی سے بے خبر ہیں؟ اور کیا آریہ صاحبان اپنے مذہب میں اس کی کوئی ثابت شدہ نظیر بتلا سکتے ہیں؟ اور کیا وہ اس سے انکار کر سکتے ہیں کہ جس زمانہ میں یہؔ پیشگوئی شائع کی گئی
اس زمانہ میں میری طرف کسی کو رجوع نہ تھا.لعنتی ہے وہ شخص جو جھوٹ بولے اور مُردار ہے وہ کمینہ جو سچ کو چھپاوے.ایسے انسان اگرچہ زبان سے کہیں کہ خدا ہے لیکن درحقیقت وہ خدا سے منکر ہی ہوتے ہیں.مگر خدا اپنی طاقتوں سے ظاہر کرتا ہے کہ مَیں موجود ہوں.مَیں آج سے نہیں بلکہ قدیم سے جانتا ہوں کہ عموماً قادیان کے ہندو سخت اسلام کے دشمن اور تاریکی سے پیار کرتے ہیں.وہ نور کو دیکھ کر اَور بھی تاریکی کی طرف دوڑتے ہیں.گویا ان کے نزدیک خدا نہیں.اور خدا نے اُن کو لیکھرام کا بڑا نشان دکھایا تھا لیکن انہوں نے اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا.اور یہ کس قدر صاف نشان تھا جس میں یہ خبر دی گئی تھی کہ لیکھرام طبعی موت سے نہیں مرے گا بلکہ وہ چھ۶ سال کے اندر قتل کیا جاوے گا.اور عید کے دن کے بعد جو دن ہوگا اُس میں یہ واقعہ ہوگا چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا.اور اس پیشگوئی کی ِ بنا صرف یہ تھی کہ وہ مذہب اسلام کو جھوٹا سمجھتا تھا.اور بہت بدزبانی کرتا تھا اور گالیاں دیتا تھا.پس خدا نے مجھ کو اطلاع دی کہ وہ تو گوشت یعنی زبان کی چُھری اسلام پر چلا رہا ہے مگر خدا تعالیٰ لوہے کی چھُری سے اس کا کام تمام کرے گا سو ایسا ہی وقوع میں آیا.اور مَیں نے اشتہار دیا تھا کہ اے آریو! اگر تمہارے پرمیشر میں کچھ شکتی ہے تو اُؔ س کی جناب میں دُعا اور پرارتھنا کر کے لیکھرام کو بچالو مگر تمہارا پرمیشر اُس کو بچا نہ سکا.اور اُس نے میری نسبت یہ پیشگوئی کی تھی کہ یہ شخص تین برس تک مر جائے گا.خدا نے اس کی پیشگوئی جھوٹی ثابت کی اور ہماراخدا غالب رہا.پھر اُس نے اپنی کتاب خبط احمدیہ میں میرے ساتھ مباہلہ کیا.یعنی دُعا کی کہ ہم دونوں میں سے جس کا جھوٹا مذہب ہے وہ مر جائے.آخر وہ اس دُعا کے بعد آپ ہی مر گیا اور اس بات پر مُہر لگا گیا کہ آریہ مذہب سچا نہیں ہے اور اسلام سچا ہے.اور اُس نے اپنے مرنے سے میری نسبت یہ بھی گواہی دے دی کہ مَیں خدا کی طرف سے ہوں.ہمیں یہ افسوس کبھی فراموش نہیں ہوگا کہ لیکھرام کی اس موت کا اصل باعث قادیان
کے ہندو ہی ہیں.وہ محض ناواقف تھا.اور جب وہ قادیان میں آیا تو قادیاں کے ہندوؤں نے میری نسبت اس کو یہ کہا کہ یہ جھوٹا اور فریبی ہے.ان باتوں کوسُن کر وہ سخت دلیر ہوگیا.اور سخت بگڑ گیا.اور اپنی زبان کو بدگوئی میں چُھری بنا لیا.سو وہی چُھری اس کا کام کر گئی.خدا کے برگزیدہ اور پاک نبی کو گالیاں دینا اور سچے کو جھوٹا قرار دینا آخر انسان کو سزا کے لائق کر دیتا ہے.اگر لیکھرام*نرمی اور تواضع اختیار کرتا تو بچایا جاتا.کیونکہ خدا کرؔ یم و رحیم ہے.اور سزا دینے میں دھیما ہے.مگر ان لوگوں نے اس کو بڑا دھوکہ دیا.مَیں جانتا ہوں کہ اس کی موت کا گناہ قادیان کے ہندوؤں کی گردن پر ہے اور مجھے افسوس ہے اس جگہ یہ واقعہء قدرت یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ڈپٹی عبداللہ آتھم کی نسبت یہ پیشگوئی تھی کہ وہ اگر حق کی طرف رجوع نہیں کرے گا تو پند۱۵رہ مہینے میں مر جائے گا.اور لیکھرام کی نسبت یہ پیشگوئی تھی کہ وہ چھ۶ سال کے اندر قتل کیا جائے گا.پھر چونکہ عبداللہ آتھم پیشگوئی کے دنوں میں بہت روتا رہا اور اس کے دل پر حق کی عظمت غالب آگئی اور اُس نے اس مدّت میں کوئی بُرا لفظ زبان سے نہ کہا.اس لئے خدا نے جو رحیم وکریم ہے اُس کی میعاد کو بڑھا دیا اور ؔ وہ کچھ اور قلیل مدت تک زندہ رہ کر مر گیا.مگر لیکھرام نے پیشگوئی سُننے کے بعد زبان درازی شروع کی جیسا کہ سفلہ ہندوؤں کی عادت ہے اس لئے اس کی اصل میعاد بھی پوری نہ ہونے پائی اور ابھی میعاد میں ایک سال باقی تھا جو پیشگوئی کے مطابق قتل کیا گیا.ایسا ہی احمد بیگ کی نسبت پیشگوئی پوری ہونے کے بعد یعنی اس کے مرنے کے بعد اس کے وارثوں نے بہت غم اور خوف ظاہر کیا.اسؔ لئے خدا نے اپنے وعدہ کے موافق اس کے داماد کی موت میں تاخیر ڈال دی.کیونکہ تمام نبیوں کی زبانی خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ جب کسی بَلا کے نازل ہونے کی کسی کی نسبت کوئی پیشگوئی ہو اور وہ لوگ ڈر جائیں اور دل ان کا خوف سے بھر جائے اور خدا تعالیٰ سے دُعا یا صدقہ خیرات سے رحم چاہیں تو خدا تعالیٰ رحم کرتا ہے.اور اسی اصول کے موافق ہر ایک قوم کے لوگ کسی بلا کے وقت صدقہ خیرات کیا کرتے ہیں.منہ
کہ ان لوگوں نے اُس سے بہت ہی بُرا سلوک کیا.یہ لوگ زبان سے تو کہتے ہیں کہ پرمیشر ہے مگر مَیں نہیں قبول کرتا کہ اُن کے دل پرمیشر پر ایمان لاتے ہیں.اُن کا عجیب مذہب ہے کہ جس قدر زمین پر پیغمبر گذرے ہیں سب کو گندی گالیاں دیتے ہیں اور جھوٹا جانتے ہیں گویا صرف چھوٹا سا ملک آریہ ورت کا ہمیشہ خدا کے تخت کی جگہ رہی ہے اور دوسرے ملکوں سے خدا نے کچھ تعلق نہیں رکھا یا اُن سے بے خبر رہا ہے.مگر خدا نے قرآن شریف میں یہ فرمایا ہے کہ ہر ایک ملک میں اس کے پیغمبر آتے رہے ہیں.ایسا ہی ہند میں بھی خدا کے پاک پیغمبر اور اس کا کلام پانے والے گذرے ہیں.اور ایسا ہی چاہیئے تھا.کیونکہ خدا تمام ملکوں کا ہے نہ صرف ایک ملک کا.نہ معلوم کس شیطان نے ان لوگوں کے دلوں میں یہ پھونک دیا ہے کہ بجز وید کے خدا کی ساری کتابیں جھوٹی ہیں.اورنعوذ باللہ خدا کا نبی موسٰی اور خدا کا پیارا عیسٰی اور خدا کا برگزیدہ حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم سب جھوٹے اور مکّار گذرے ہیں.ہماری شریعت صلح کا پیغام ان کو دیتی ؔ ہے.اور ان کے ناپاک اعتقاد جنگ کی تحریک کر کے ہماری طرف تیر چلا رہے ہیں.ہم کہتے ہیں کہ ہندوؤں کے بزرگوں کو مکّار اور جھوٹا مت کہو مگر یہ کہو کہ ہزارہا برسوں کے گذرنے کے بعد یہ لوگ اصل مذہب کو بھول گئے.مگر بمقابل ہمارے یہ ناپاک طبع لوگ ہمارے برگزیدہ نبیوں کو گندی گالیاں دیتے ہیں اور ان کومفتری اور جھوٹا سمجھتے ہیں.کیا کوئی توقع کر سکتا ہے کہ ایسے ہندوؤں سے صلح ہو سکے.ان لوگوں سے بہتر سناتن دھرم کے اکثر نیک اخلاق لوگ ہیں جو ہر ایک نبی کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے اور فروتنی سے سرجھکاتے ہیں.میری دانست میں اگر جنگلوں کے درندے اور بھیڑیئے ہم سے صلح کر لیں اور شرارت چھوڑ دیں تو یہ ممکن ہے مگر یہ خیال کرنا کہ ایسے اعتقاد کے لوگ کبھی دل کی صفائی سے اہل اسلام سے صلح کرلیں گے......سراسر باطل ہے بلکہ اُن کا اِن عقیدوں کے ساتھ مسلمانوں سے سچّی صلح کرنا ہزاروں محالوں سے بڑھ کر محال ہے.کیا کوئی سچا مسلمان برداشت کر سکتا ہے جو
اپنے پاک اور بزرگ نبیوں کی نسبت ان گالیوں کو سُنے اور پھر صلح کرلے؟ ہرگز نہیں.پس اِن لوگوں کے ساتھ صلح کرنا ایسا ہی مضر ہے جیسا کہ کاٹنے والے زہریلے سانپ کوؔ اپنی آستین میں رکھ لینا.یہ قوم سخت سیہ دل قوم ہے جو تمام پیغمبروں کو جو دنیا میں بڑی بڑی اصلاحیں کر گئے مفتری اور کذاب سمجھتے ہیں.نہ حضرت موسیٰ ان کی زبان سے بچ سکے نہ حضرت عیسٰی اور نہ ہمارے سید و مولیٰ جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم جنہوں نے سب سے زیادہ دنیا میں اصلاح کی.جن کے زندہ کئے ہوئے مُردے اب تک زندہ ہیں.خدا جو غائب ہے اُس کی ذات کا ثبوت صرف ایک گواہی سے کیونکر مل سکتا ہے اس لئے خدا نے دنیا میں ہر ایک قوم میں ہر ایک ملک میں ہزاروں نبی پیدا کئے اور وہ ایسے وقتوں میں آئے کہ جبکہ زمین لوگوں کے گناہوں سے پلید ہو چکی تھی.انہوں نے بڑے نشانوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کے وجود کا ثبوت دیا اور اُس کی عظمت دلوں میں بٹھائی اور نئے سرے زمین کو زندہ کیا.مگر یہ لوگ کہتے ہیں کہ بجز وید کے کوئی کتاب خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں ہوئی.اور تمام نبی جھوٹے تھے اور ان کا تمام دَور مکر اور فریب کا دَور تھا.حالانکہ وید اب تک آریہ ورت کو شرک اور بُت پرستی اور آتش پرستی سے صاف نہیں کر سکا.غرض یہ لوگ اُن نبیوں کی تکذیب میں جن کی سچاؔ ئی سورج کی طرح چمکتی ہے حد سے بڑھ گئے ہیں.خدا جو اپنے بندوں کے لئے غیرت مند ہے ضرور اس کا فیصلہ کرے گا.وہ ضرور اپنے پیارے نبیوں کے لئے کوئی ہاتھ دکھلائے گا.ہم ان لوگوں پر کوئی ظلم نہیں کرتے.وہ ہم پر ظلم کرتے ہیں.ہم ان کو دُعا دیتے ہیں وہ ہمیں تیر مارتے ہیں اور خدائے عزّوجلّ کی قسم ہے کہ اگر یہ لوگ تلوار کے زخم سے ہمیں مجروح کرتے تو ہمیں ایسا ناگوار نہ ہوتا جیسا کہ ان کی ان گالیوں سے جو ہمارے برگزیدہ نبیوں کو دیتے ہیں ہمارے دل پاش پاش ہوگئے.ہم یہ گالیاں سُن کر
اُن ناپاک طبع اوردنیا کے کیڑوں کی طرح مداہنہ نہیں کر سکتے جو کہتے ہیں کہ ہم ان تمام لوگوں کو محبت کی نظر سے دیکھتے ہیں.اگر اُن کے باپوں کو گالیاں دی جاتیں تو ایسا ہرگز نہ کہتے.خدا ان کا اور ہمارا فیصلہ کرے.یہ عجیب مذہب ہے.کیا اس قوم سے کسی بھلائی کی اُمید ہو سکتی ہے؟ ہرگز نہیں.یہ لوگ اسلام بلکہ تمام نبیوں کے خطرناک دشمن ہیں.ان کے گالیوں کے بھرے ہوئے رسالے ہمارے پاس موجود ہیں.اب ہم اپنے اصل مقصود کی طرف رجوع کر کے کہتے ہیں کہ قادیان کے آریہ اخبار میں جو لالہ شرمپت برادر لالہ بسمبرداس کے حوالہ سے لکھا گیا ہے کہ ہم نے کوئی نشان آسمانی اس ؔ راقم کا نہیں دیکھا.یہ اس قسم کا جھوٹ ہے کہ اگر کوئی انسان گندی سے گندی نجاست کھالے تو ایسی نجاست کھانا بھی اس جھوٹ سے کمتر ہے.ان باتوں کو سُن کر یقین آتا ہے کہ اِس قدر جھوٹ بولنے والے کو اپنے پرمیشر پر ایمان نہیں اور وہ ہرگز نہیں ڈرتاکہ جھوٹ کا کوئی بُرا نتیجہ ہو سکتا ہے.چونکہ مَیں نے کئی کتابوں میں لالہ شرمپت اور لالہ ملاوامل ساکنانِ قادیان کی نسبت لکھ دیا ہے کہ انہوں نے فلاں فلاں آسمانی نشان میرے دیکھے ہیں بلکہ بیسیوں نشان دیکھے ہیں اور وہ کتابیں آج تک کروڑہا انسانوں میں شائع ہو چکی ہیں.پس اگر انہوں نے مجھ سے آسمانی نشان نہیں دیکھے تو اس صورت میں مجھ سے زیادہ دنیا میں کون جھوٹا ہوگا اور میرے جیسا کون ناپاک طبع اور مفتری ہوگا جس نے محض افترا اور جھوٹ کے طور پر ان کو اپنے نشانوں کا گواہ قرار دے دیا.اور اگر مَیں اپنے دعوے میں سچا ہوں تو ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اس سے بڑھ کر میری اَور کیا بے عزّتی ہوگی کہ ان لوگوں نے اخباروں اور اشتہاروں کے ذریعہ سے مجھے جھوٹا اور افترا کرنے والا قرار دیا.دُور کے لوگ کیا جانتے ہیں کہ اصلیت کیا ہے بلکہ اس عداوت کی وجہ سے کہ جواکثر لوگوں کی میرے ساتھ ہے ان لوگوں کو سچا سمجھیں گے اور گھر کی گواہی خیاؔ ل کریں گے اوراس طرح پر اور بھی اپنی عاقبت خراب کرلیں گے.پس چونکہ مَیں اس بے عزّتی کو برداشت نہیں کر سکتا اور نیز اس سے خدا کے قائم کردہ سلسلہ پر نہایت
بد اثر ہے اس لئے مَیں اوّل تو لالہ شرمپت اور ملاوا مل کو مخاطب کرتا ہوں کہ وہ خدا کی قسم کے ساتھ مجھ سے فیصلہ کرلیں.اور خواہ مقابل پر اور خواہ تحریر کے ذریعہ سے.اِس طرح پر خدا کی قسم کھائیں کہ فلاں فلاں نشان جو نیچے لکھے گئے ہیں ہم نے نہیں دیکھے اور اگر ہم جھوٹ بولتے ہیں تو خدا ہم پر اور ہماری اولاد پر اس جھوٹ کی سزا نازل کرے.اور وہ نشان آسمانی بہت سے ہیں جو براہین احمدیہ میں لکھے گئے ہیں.لیکن اس قَسم کے لئے سب نشانوں کے لکھنے کی ضرورت نہیں.(۱) لالہ شرمپت کے لئے یہ کافی ہے کہ اوّل تو اس نے میرا وہ زمانہ دیکھا جبکہ وہ میرے ساتھ اکیلا چند دفعہ امرتسر گیا تھا.اور نیز براہین احمدیہ کے چھپنے کے وقت وہ میرے ساتھ ہی پادری رجب علی کے مکان پر کئی دفعہ گیا.وہ خوب جانتا ہے کہ اس وقت مَیں ایک گمنام آدمی تھا.میرے ساتھ کسی کو تعلق نہ تھا.اور اس کو خوب معلوم ہے کہ براہین احمدیہ کے چھپنے کے زمانہ میں یعنی جبکہ یہ پیشگوئی ایک دنیا کے رجوع کرنے کے بارے میںؔ براہین احمدیہ میں درج ہو چکی تھی مَیں صرف اکیلا تھا.تو اب قسم کھاوے کہ کیا یہ پیشگوئی اُس نے پوری ہوتی دیکھ لی یا نہیں؟ اور قسم کھا کر کہے کہ کیا اُس کے نزدیک یہ کام انسان سے ہو سکتا ہے کہ اپنی ناداری اور گمنامی کے زمانہ میں دنیا کے سامنے قطعی اور یقینی طور پر یہ پیشگوئی پیش کرے کہ خدا نے مجھے فرمایا ہے کہ تیرے پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ تو گمنام نہیں رہے گا.لاکھوں انسان تیری طرف رجوع کریں گے اور کئی لاکھ روپیہ تجھے آئے گا.اور قریباً تمام دنیا میں عزّت کے ساتھ تو مشہور کیا جائے گا.اور پھر اس پیشگوئی کو خدا پوری کردے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ اُس نے مجھ پر افترا کیا ہے اور جھوٹ بولا ہے اور جھوٹ کی نجاست کھائی ہے.اور نیز خدا اپنی پیشگوئیوں کے موافق ہر ایک مزاحم کو نامراد رکھے.اور لالہ شرمپت قسم کھا کر کہے کہ کیا اس نے یہ پیشگوئی پوری ہوتی دیکھ لی یا نہیں؟ اور کیا اس کے پاس کوئی ایسی نظیر ہے کہ کسی جھوٹے نے خدا کا نام لے کر ایسی پیشگوئی کی ہو اور وہ پوری ہوگئی ہو.اور چاہئے کہ اس نظیر کو پیش کرے.
(۲) دوسری قسم کھا کر یہ بتاوے کہ کیا یہ سچ نہیں کہ اس کا بھائی بسمبر داس مع خوشحال برہمن کسی فوجداری مقدمہ میں سزایاب ہو کر دونوں قید ہوگئے تھے تو اُس وقت اس ؔ نے مجھ سے دُعا کی درخواست کی تھی.اور مَیں نے خدا تعالیٰ سے علم پاکر اسے یہ بتلایا تھا کہ میری دُعا سے آدھی قید بسمبرداس کی تخفیف کی گئی.اور اسے مَیں نے کشفی حالت میں دیکھا ہے کہ مَیں اس دفتر میں پہنچا ہوں جہاں اس کی سزا کا رجسٹر ہے.اور مَیں نے اپنی قلم سے آدھی سزا کاٹ دی ہے مگر خوشحال برہمن کی سزانہیں کاٹی بلکہ اس کی سزا پوری رکھی کیونکہ اس نے مجھ سے دُعا کی درخواست نہیں کی تھی.اور کیا یہ سچ نہیں کہ مَیں نے اِس پیشگوئی کے بتانے کے وقت میں یہ بھی کہا تھا کہ خدا نے مجھے اپنی وحی سے علم دیا ہے کہ چیف کورٹ سے مسل واپس آئے گی اور بسمبر داس کی آدھی قید تخفیف کی جائے گی مگر بری نہیں ہوگا اور خوشحال برہمن پوری قید بھگت کر جیل سے باہر آئے گا اور یہ اُس وقت کہا تھا کہ چیف کورٹ میں بسمبر داس اور خوشحال برہمن کا اپیل ابھی دائر ہی کیا گیا تھا.اور کسی کو خبر نہیں تھی کہ انجام کیا ہوگا.بلکہ خود چیف کورٹ کے ججوں کو بھی خبر نہیں ہوگی کہ کس حکم کی طرف ہمارا قلم چلے گا.اُس وقت مَیں نے بتلایا تھا کہ وہ قادر خدا جس نے قرآن نازل کیا ہے وہ مجھے کہتا ہے کہ مَیں نے تیری دُعا قبول کی.اور ایسا ہوگا کہ چیف کورٹ سے مِسل واپس آئے گی اور بسمبر داس کی آدھی قید دُعا کے باعث ؔ سے معاف کی جائے گی مگر بَری نہیں ہوگا.اور خوشحال برہمن نہ بَری ہوگا اور نہ اس کی قید میں تخفیف کی جائے گی تا دُعا قبول ہونے کے لئے ایک نشان رہے.اور آخر ایسا ہی ہوا.اور مسل چند ہفتوں کے بعد ضلع میں واپس آئی اور بسمبر داس کی آدھی قید تخفیف کی گئی.مگر خوشحال برہمن کا قید میں سے ایک دن بھی تخفیف نہ کیا گیا.اور دونوں بری ہونے سے محروم رہے.اور شرمپت حلف اُٹھا کر یہ بھی بتاوے کہ کیا یہ سچ نہیں کہ جب اس طرح پر آخرکار میری پیشگوئی کے مطابق فیصلہ ہوا تو لالہ شرمپت نے میری طرف ایک رقعہ لکھا کہ آپ کی نیک بختی کی و جہ سے خدا نے یہ غیب کی باتیں آپ پر کھول دیں اور دُعا قبول کی.
اور لالہ شرمپت قسم کھا کر یہ بھی بتاوے کہ کیا یہ سچ نہیں کہ ایک مدّت تک وہ میرے پاس یہی جھوٹ بولتا رہا کہ میرا بھائی بسمبر داس بَری ہوگیا ہے.اور پھر جب حافظ ہدایت علی جو اُن دنوں میں بٹالہ کا تحصیلدار تھا اتفاقاً قادیان میں آیا اور قریباً دس۱۰ بجے کا وقت تھا.تب بسمبرداس میرے مردانہ مکان کے نیچے اس کو ملا اور اُس نے بسمبرداس کو مخاطب کر کے کہا کہ ہم خوش ہوئے کہ تم قید سےَؔ مخلصی پاگئے مگر افسوس کہ تم بَری نہ ہوئے.تب مَیں نے شرمپت کو کہا کہ تم کیوں اس قدرمدّت تک میرے پاس جھوٹ بولتے رہے کہ میرا بھائی بسمبرداس بَری ہو گیاہے.تو شرمپت نے یہ جواب دیا کہ ہم نے اس لئے اصل حقیقت کو چھپایا کہ اصلیت ظاہر کرنے سے ایک داغ رہ جاتا تھا.اور آئندہ رشتوں ناطوں میں ایک رکاوٹ پیدا ہو جاتی تھی اور اندیشہ تھا کہ برادری کے لوگ ہمارے خاندان کو بدچلن خیال کریں.اور کیا یہ سچ نہیں کہ جب بسمبرداس کی قید کی نسبت چیف کورٹ میں اپیل دائر کیا گیا تو نماز عشاء کے وقت جب میں اپنی بڑی مسجد میں تھا علی محمد نام ایک ملاّں ساکن قادیان نے جواب تک زندہ اور ہمارے سلسلہ کا مخالف ہے میرے پاس آکر بیان کیا کہ اپیل منظور ہوگئی اور بسمبر داس بری ہوگیا اور کہا کہ بازار میں اس خوشی کا ایک جوش برپا ہے.تب اس غم سے میرے پروہ حالت گزری جس کو خدا جانتا ہے.اس غم سے مَیں محسوس نہیں کر سکتا تھا کہ مَیں زندہ ہوں یا مر گیا.تب اسی حالت میں نماز شروع کی گئی.جب مَیں سجدہ میں گیا تب مجھے یہ الہام ہوا لا تحزن انّک انت الاعلٰی.یعنی غم نہ کر تجھی کو غلبہ ہوگا.تب مَیں نے شرمپت کو اس سے اطلاع دی.اور حقیقت یہ ؔ کھلی کہ اپیل صرف لیا گیا ہے یہ نہیں کہ بسمبرداس بَری کیا گیا ہے.پس شرمپت قسم کھاکر بتلاوے کہ کیا یہ واقعہ نہیں گزرا؟اور دوسری طرف علی محمد ملّاں بھی قسم کے لئے بلایا جائے گا جو ایک مخالف بلکہ ایک نہایت خبیث مخالف کا بھائی ہے.(۳) اور کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ایک دفعہ چنداسنگھ نام ایک سکھ پر بابت دو درختان
تحصیل بٹالہ میں ہماری طرف سے نالش دائر کی گئی تھی کہ اُس نے بغیر اجازت ہماری کے اپنے کھیت سے درخت کاٹ لئے ہیں.تب خدا نے میرے دُعا کرنے کے وقت میری دُعا کو قبول فرما کر میرے پر یہ ظاہر کیا تھا کہ ڈگری ہوگئی.اور مَیں نے یہ پیشگوئی شرمپت کو بتادی تھی.پھر ایسا اتفاق ہوا کہ حکم کے وقت ہماری طرف سے عدالت میں کوئی حاضر نہ تھا اور فریق ثانی حاضر ہوگئے تھے.قریب عصر کے وقت تھا کہ شرمپت نے ہماری مسجد میں آکر تمسخر کے طور پر مجھے یہ کہا کہ مقدمہ خارج ہوگیا.ڈگری نہیں ہوئی.تب مجھ پر وہ غم گذرا جس کو مَیں بیان نہیں کر سکتاکیونکہ خدا کا قطعی طور پر کلام تھا.مَیں مسجد میں نہایت پریشانی سے بیٹھ گیا اِس خیال سے کہ ایک مشرک نے مجھے شرمندہ کیا.اور ؔ مَیں اُس کی اِس خبر سے انکار نہیں کر سکتا تھا کیونکہ قریب پندرہ آدمی کے ہندو اور مسلمان بٹالہ سے یہ خبر لائے تھے.اس لئے نہایت درجہ کا غم مجھ پر طاری تھا.اتنے میں غیب سے ایک آواز آئی اور وہ نہایت رُعب ناک آواز تھی اس کے الفاظ یہ تھے.’’ڈگری ہوگئی ہے.مسلمان ہے؟‘‘ یعنی کیا تُو خدا کے کلام کو باور نہیں کرتا.ایسی آواز پہلے اس سے مَیں نے کبھی نہیں سُنی تھی.مَیں مسجد کے ہرطرف دوڑا کہ یہ بلند آواز کس کی طرف سے آئی.اور آخر معلوم ہوا کہ فرشتہ کی آواز ہے.یہ وہی فرشتے ہیں جن سے آج کل کے اندھے آریہ * انکار کرتے ہیں.تب مَیں نے اُسی وقت شرمپت کو بلایا اور کہا کہ ابھی خدا کی طرف سے مجھے یہ آواز آئی ہے.اِس پر اُس نے پھر ہنس دیا اور کہا کہ بٹالہ سے پندرہ سولہ آدمی نادان آریہ کہتے ہیں کہ خدا کو کسی چٹھی رسان کی کیا حاجت ہے یعنی وہ فرشتوں کا محتاج نہیں.پس یہ تو سچ ہے کہ خدا کسی چیز کا محتاج نہیں مگر اس کی عادت میں داخل ہے کہ وہ وسائط سے کام لیتا ہے.اور وسائط سے کام لینا اس کے عام قانون قدرت میں داخل ہے.دیکھو وہ ہوا کے ذریعہ سے کانوں تک آواز پہنچاتا ہے.پس جسمانی سلسلہ سے یہ روحانی فعلؔ اس کا عین مطابق ہے جو روحانی کانوں کو اپنی آواز فرشتوں کے ذریعہ سے جو ہوا کے قائم مقام ہیں پہنچاوے اور ضرور ہے کہ جسمانی اور روحانی سلسلے دونوں باہم مطابق ہوں.اور یہی دلیل قرآن شریف نے پیش کی ہے.منہ
آئے ہیں جو بعض ہندو بعض سکھ اور بعض مسلمان ہیں اور ابھی بعض اُن کے بازار میں موجود ہیں.یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ سب جھوٹ بولیں یہ کہہ کر چلا گیا اور مجھے اُس نے اُس وقت ایک دیوانہ سا خیال کیا.رات میری سخت بیقراری میں بسر ہوئی.صبح ہوتے ہی میں خودبٹالہ گیا.تحصیل میں حافظ ہدایت علی تحصیلدار موجود نہ تھا مگر اس کا سررشتہ دار متھرا داس نام موجود تھا جو اب تک زندہ ہوگا.مَیں نے اس سے دریافت کیا کہ کیا ہمارا مقدؔ مہ خارج ہوگیا؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ ڈگری ہوئی.مَیں نے کہاکہ قادیان کے پندرہ سولہ آدمی جو فریق مخالف اور اس کے گواہ تھے.سب نے جاکر یہی بیان کیا ہے کہ مقدمہ خارج ہوگیا ہے.اُس نے جواب دیا کہ ایک طرح سے انہوں نے بھی جھوٹ نہیں بولا.بات یہ ہوئی کہ تحصیلدار کے فیصلہ لکھنے کے وقت میں حاضر نہ تھا.کسی کام کے لئے باہر چلا گیا تھا یا شاید یہ کہا تھا کہ مَیں پاخانہ پھرنے کے لئے چلا گیا تھا اور تحصیلدار نیا آیا ہوا تھا اور اُس کو پیچ در پیچ مقدمات کی خبر نہ تھی اور فریق مخالف نے اس کے فیصلہ لکھنے کے وقت ایک فیصلہ صاحب کمشنر کا اُس کے آگے پیش کیا تھا.اور اس میں صاحب کمشنر کا یہ حکم تھا کہ چونکہ یہ مزارعہ موروثی ہیں ا س لئے ان کا حق ہے کہ اپنے اپنے کھیت کے درخت ضرورت کے وقت کاٹ لیا کریں.مالک کا اس میں کچھ دخل نہیں.تحصیلدار نے اس فیصلہ کو دیکھ کر مقدمہ خارج کر دیا اور جب مَیں آیا تو مجھے وہ اپنا لکھا ہوا فیصلہ دیا کہ شامل مِسل کردو.مَیں نے پڑھ کر کہا کہ ان زمینداروں نے آپ کو دھوکہ دیا ہے کیونکہ جس فیصلہ کو انہوں نے پیش کیا ہے وہ صاحب فنانشل کے حکم سے منسوخ ہو چکا ہے.اور بموجب اس حکم کے کوئی مزارعہ موروثی ہو ؔ یا غیر موروثی بغیر اجازت مالک کے اپنے کھیت کا درخت نہیں کاٹ سکتا.اور مَیں نے مسل میں سے وہ فیصلہ ان کو دکھلا دیا.تب تحصیلدار نے فی الفور اپنا پہلا فیصلہ چاک کر دیا اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینک دیا اور دوسرا فیصلہ ڈگری کا لکھا اور کل خرچہ مدعا علیہم کے ذمہ ڈالا.فریق ثانی تو خوشی خوشی اپنے حق میں فیصلہ سُن کر قادیان کو چلے گئے تھے اُن کو اس دوسرے
فیصلہ کی خبر نہ تھی اس لئے انہوں نے وہی ظاہر کیا جو ان کو معلوم تھا.غرض مَیں نے واپس آکر یہ سب حال شرمپت کو سُنایا اور مزار عان کو بھی اپنی جھوٹی خوشی پر اطلاع ہوگئی.پس اگر لالہ شرمپت اس نشان سے بھی منکر ہے تو چاہیئے کہ قسم کھاکر کہے کہ ایسا کوئی واقعہ ظہور میں نہیں آیا اور ایسا بیان سراسر افترا ہے.اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ ابھی بہت سے لوگ قادیان میں اُن میں سے زندہ ہوں گے جنہوں نے یہ نشان دیکھا ہے.اور سوائے اِس کے بیسیوں اور ایسے آسمانی نشان ہیں جن کا گواہ رؤیت لالہ شرمپت ہے.وہ تو بڑی مشکل میں پڑگیا ہے.کہاں تک آریہ لوگ اُس سے انکار کرائیں گے.(۴) ؔ بھلا لالہ شرمپت قسم کھاکر کہے کہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ جب نواب محمد حیات خان سی.ایس.آئی.معطّل ہوگیا تھا اور کوئی بریّت کی اُمید نہیں تھی اور اُس نے مجھ سے دُعا کی درخواست کی تھی تو میرے پر خدا نے ظاہر کیا تھا کہ وہ بَری کیا جائے گا.اور مَیں نے کشفی نظر سے اس کو عدالت کی کُرسی پر بیٹھا دیکھا تھا اور یہ بات مَیں نے اُس کو بتادی تھی اور نہ صرف اُس کو بلکہ بہتوں کو بتائی تھی.چنانچہ کشن سنگھ آریہ بھی اس کا گواہ ہے.اگر یہ سچ نہیں تو قسم کھاوے.(۵) اور پھر لالہ شرمپت قسم کھا کر بتاوے کہ کیا یہ سچ نہیں کہ جب پنڈت دیانند نے پنجاب میں آکر بہت شور کیا اور خدا کے برگزیدہ نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن شریف کی اپنی کتاب ستیارتھ پرکاش میں تحقیر کی.اور خدا کے تمام مقدس نبیوں کو سونے کھوٹے کی طرح قرار دیا.تب مَیں نے شرمپت کو کہا کہ خدا نے میرے پر ظاہر کر دیا ہے کہ اب اس کی موت کا دن قریب ہے وہ بہت جلد مرے گا کیونکہ اس کا دل مر گیا ہے.چنانچہ وہ اس پیشگوئی کے بعد صرف چند دنوں میں ہی اجمیر میں مر گیا اور اپنی حسرتیں اپنے ساتھ لے گیا.(۶)ؔ اور نیز شرمپت قسم کھاکر بتلائے کہ کیا یہ سچ نہیں کہ ایک دفعہ اُس کو اور ملاوامل کو صبح کے وقت یہ الہام بتلایا گیا تھا کہ آج ارباب سرور خان نام ایک شخص کا روپیہ آئے گا اور وہ ارباب محمد لشکر خان کا رشتہ دار ہوگا.تب ملاوامل وقت پر ڈاکخانہ میں گیا اور خبر لایا
کہ سرور خان کا اس قدر روپیہ آیا مگر ساتھ ہی یہ عذر کیا کہ کیونکر معلوم ہو کہ یہ فلاں شخص کا رشتہ دار ہے.تب اس کے تصفیہ کے لئے ان کے روبرو مردان میں بابو الٰہی بخش اکونٹنٹ کی طرف خط لکھا گیا تھا جو ان دنوں میں میرے سخت مخالف ہیں.اُن کا جواب آیا کہ ارباب سرور خان ارباب محمد لشکر خان کا بیٹا ہے.(۷) اور کیا یہ سچ نہیں کہ ایک مرتبہ مجھے یہ الہام ہوا تھا کہ ’’اے عمی بازئ خویش کردی.و مرا افسوس بسیار دادی.‘‘ اور اُسی دن شرمپت کے گھر میں ایک لڑکا پیدا ہوا تھا جس کا نام اُس نے امین چند رکھا.اوراُن دنوں میں میرا بھائی غلام قادر مرحوم بیمار تھا.مَیں نے لالہ شرمپت کو کہا کہ آج مجھے یہ الہام ہوا ہے.یہ میرے بھائی کی موت کی طرف اشارہ ہے اور الہامی طور پر میرے بیٹے سلطان احمد کی طرف سے یہ کلمہ ہے اور یا ممکن ہے کہ تیرے بیٹے کی طرف اشارہ ہو جس کا نام تُو نے امین چند رکھا ہے*.یہ میرا کہنا ہی تھا کہ لالہ شرمپت نے گھر میں جاکر اپنے بیٹے کا نام بدل دیا اورؔ بجائے امین چند کے گوکل چندنام رکھ دیا جو اب تک زندہ موجود ہے.مگر چند روز کے بعد میرا بھائی فوت ہوگیا.اور یہ بات بھی لالہ شرمپت سے حلفاً دریافت کرنی چاہیئے کہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ جب گورداسپور میں ایک شخص کرم دین نام نے میرے پر دعویٰ ازالہ حیثیت عرفی عدالت آتما رام اکسٹرا اسسٹنٹ میں دائر کیا ہوا تھا تو مَیں نے لالہ شرمپت کو اگرچہ مجھے یقین تھا کہ یہ الہام میرے بھائی مرزا غلام قادر مرحوم کی وفات کے بارے میں ہے اور یہی مَیں نے اپنے بعض عزیزوں کو بتلا بھی دیا تھا اور خود اپنے بھائی مرحوم کو بھی بتلایا تھا.جس سے وہ بہت غمگین ہوئے اور پیچھے سے میں نے افسوس بھی کیا کہ ان کو مَیں نے کیوں بتلایا مگر جب شرمپت نے مجھے خبر دی کہ مَیں نے اپنے بیٹے کا امین چند نام رکھا ہے تو تقدیر الٰہی سے میرے منہ سے یہ الفاظ نکل گئے کہ ممکن ہے کہ عمی سے مراد امین چند ہو.کیونکہ ہندو لوگ امین چند کے نام کو مختصر کر کے اَمی بھی کہہ دیتے ہیں.تب اس کے دل میں بہت خوف پیدا ہوا اور اس نے گھر میں جاکر امین چند کی جگہ گوکل چند اپنے لڑکے کا نام رکھ دیا.منہ
کہا تھا کہ خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ انجام کار مَیں اس مقدمہ میں بَری کیا جاؤں گا مگر کرم دین سزا پائے گا.یہ اُس وقت کی خبر ہے کہ جب تمام آثار اس کے برخلاف تھے اور حاکم کی رائے ہمارے مخالف تھی.چنانچہ آتما رام مجوز مقدمہ نے اپنے فیصلہ کے وقت بڑی سختی سے فیصلہ دیا اور ہم پرسات ۷۰۰سو روپیہ جرمانہ کیا.اور ناخنوں تک زور لگا کر فیصلہ لکھا.اور پھر صاحب ڈویژنل جج کے محکمہ سے جیسا کہ مَیں نے پیشگوئی کی تھی وہ حکم آتما رام کا منسوخ کیا گیا اور صاحب موصوف نے مجھ کو بڑی عزت کے ساتھ بَری کر کے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ جو الفاظ اپیلانٹ نے یعنی میں نے کرم دین کی نسبت استعمال کئے ہیں یعنی کذّاب اور لئیم*کا لفظ ان الفاظ سے کرم دین کی کچھ بھی ازالہ حیثیت عرفی نہیں ہوئی بلکہ اگر ان الفاظ سے بڑھ کر بھی کوئی اور سخت الفاظ اس کے حق میں استعمال کئے جاتے تب بھی وہ ان الفاظ کا مستحق تھا.یہ تو میرے حق میں فیصلہ ہوا مگر کرم دین پر پچاؔ 3س روپیہ جرمانہ قائم رہا.یہ پیشگوئی نہ صرف مَیں نے لالہ شرمپت کو بتلائی تھی بلکہ مَیں اِس پیشگوئی کو مقدمہ کے وجود سے بھی پہلے اپنی کتاب مواہب الرحمن میں جو ایک عربی زبان میں کتاب ہے شائع کر چکا تھا.پس کسی کے لئے ممکن نہیں جو کرم دین کا بیان تھا کہ کذّاب اس کو کہتے ہیں جو بہت جھوٹ بولنے والا ہو اور ہمیشہ جھوٹ بولتا ہو.اور لئیم اس کو کہتے ہیں جو ولدالزنا ہو اور اس کے خاندان میں ایسا ہی سلسلہ چلا آیا ہو.اور اس پر اُس نے کتابیں بھی دکھلائیں مگر ڈویژنل جج نے فرمایا کہ اگر ان الفاظ سے سخت تربھی الفاظ بولے جاتے تب بھی ان سے کرم دین کی کچھ بے عزّتی نہیں تھی.یعنی اس کی حالت کے لحاظ سے ابھی یہ الفاظ تھوڑے ہیں.منہ
اس سے انکار کر سکے*.یہ چند پیشگوئیاں بطور نمونہ مَیں اس وقت پیش کرتا ہوں.اور مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ سب بیان صحیح ہے اور کئی دفعہ لالہ شرمپت سُن چکا ہے اور اگر مَیں نے جھوٹ بولا ہے تو خدا مجھ پر اور میرے لڑکوں پر ایک سال کے اندر اس کی سزا نازل کرے آمین.ولعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین.ایسا ہی شرمپت کو بھی چاہئے کہ وہ بھی میری اس قسم کے مقابل پر قسم کھاوے اور یہ کہے کہ اگر مَیں نے اس قسم میں جھوٹ بولا ہے تو خدا مجھ پر اور میری اولاد پر ایک سال کے اندر اس کی سزا وارد کرے.آمین.ولعنۃ اللّٰہ علی الکاذبینژ.یہ تو شرمپت کی نسبت لکھا گیا اور ملاوا مل اس کا دوست بھی اس میں شریک ہے اس کو چاہیئے کہ اس بات کی قسم کھاوے کہ کیا میرے والد صاحب کی وفات کے بعد الہام اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ مُہر پر کھدوانے کے لئے اُس کوامرتسر مَیں نے نہیں بھیجا تھا؟ اور کیا پانچ روپے اُجرت دے کر وہ مہر نہیں لایا تھا اور کیا اس زمانہ میں اِس عروج اور شان و شوؔ کت اور رجوع خلائق کا نام و نشان تھا؟اور کیا یہ تمام پیشگوئی اس کو نہیں بتائی گئی تھی؟ جس کے لئے وہ بھیجا گیا تھا.یعنی اس کو یہ بتایا گیا تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ کو یہ خبر ملی تھی کہ شنبہ کے روز آفتاب کے غروب کے بعد میرا والد فوت ہو جائے گااور تجھے کچھ غم نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ مَیں تیرا متکفل رہوں گا اور تیری حاجات پوری کرنے کے لئے مَیں کافی ہوں گا.اور یہ تخمیناً پینتیس۳۵ یا چھتیس۳۶ برس کا الہام ہے جبکہ مَیں زاویہ گمنامی میں یہ پیشگوئی نہ صرف کتاب مواہب الرحمن میں بلکہ اخبار الحکم اور البدر میں بھی وقوع سے پہلے شائع کی گئی تھی.منہ ژ یہ بددعا کا فقرہ اس امر سے لازم ملزوم ہے کہ میری اس دُعا کے مقابل پر شرمپت بھی اپنی نسبت انہیں الفاظ کے ساتھ بددعا طبع کرا کر کسی اخبار میں شائع کرا دے.منہ
ایسا پوشیدہ تھا جیسا کہ ایک ٹکڑہ کسی جوہر کا سمندر کی تہ کے نیچے پوشیدہ ہو.دوسری یہ بتاوے کہ کیا وہ ایک مرتبہ مرض دق میں مبتلا نہیں ہواتھا؟ اور اُس کو خواب بھی آچکی تھی کہ ایک زہریلے سانپ نے اس کو کاٹا ہے اور تمام بدن سوج گیا ہے.اور کیا یہ سچ نہیں ہے کہ وہ میرے پاس آکر رویا تھا اور دعا کے لئے کہا تھا.تب میں نے اس کے حق میں دُعا کی تھی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا تھا.قلنا یا نار.کونی بردًا وسلامًا یعنی اے تپ کی آگ ٹھنڈی ہو جا.اور یہ الہام اس کو سُنادیا گیاتھا.اور پھر بعد اس کے چند دنوں میں ہی وہ صحت یاب ہوگیا؟ مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ یہ باتیں سچ ہیں.اور اگر یہ جھوٹ ہیں تو خدؔ ا ایک سال کے اندر میرے پر اور میرے لڑکوں پر تباہی نازل کرے اور جھوٹ کی سزا دے.آمین.ولعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین.ایسا ہی ملاوا مل کو چاہیئے کہ چند روزہ دنیا سے محبت نہ کرے اور اگر ان بیانات سے انکاری ہے تو میری طرح قسم کھاوے کہ یہ سب افترا ہے اور اگر یہ باتیں سچ ہیں تو ایک سال کے اندر میرے پر اور میری تمام اولاد پر خدا کا عذاب نازل ہو.آمین.ولعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین*.اور یاد رہے کہ یہ لوگ اس طرح پر قسم نہ کھائیں گے بلکہ حق پوشی کا طریق اختیار کریں گے اور سچائی کا خون کرنا چاہیں گے.تب بھی مَیں امید رکھتا ہوں کہ حق پوشی کی حالت میں بھی خدا ان کو بے سزا نہیں چھوڑے گاژ.کیونکہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کی بے عزّتی خدا کی بے عزّتی ہے یہ سچ ہے کہ ایک مرتبہ ملاوا مل نے اپنے اشتہار میں میرے نشانوں کے دیکھنے سے انکار کر دیا تھا مگر اس انکار کا کچھ اعتبار نہیں.اکثر لوگ خود غرضی سے ۲؍۲ لے کر عدالتوں میں گواہی کے وقت جھوٹ کی نجاست کھالیتے ہیں.تمام مدار ایسی قسم پر ہے جو مَیں نے لکھی ہے اگر یہ لوگ خدا سے بے خوف ہو کر اپنی قوم کو خوش کرنے کے لئے ایسی قسم کھالیں گے تب ان کو معلوم ہوگا کہ خدا بھی ہے.منہ ژ اور اگر وہ راست راست شائع کردیں گے تو مجھے قوی امید ہے کہ وہ خدا سے اس کااجر اور برکت پائیں گے مگر خدا پسند نہیں کرتا کہ کوئی جھوٹ بول کر سچائی پر پردہ ڈالنا چاہے کہ اس میں وہ خدا کی عزّت اور جلال پر حملہ کرتا ہے اس لئے آخرکار خدا اس کو پکڑتا ہے.منہ
ملاوامل اس بات کا بھی مجرم ہے کہ اُس نے یہ سب کچھ دیکھ کر پھر مخالفت کر کے اپنے پورے زور اور پوری مخالفت سے ایک اشتہار دیا تھا جس کو دس برس گزر گئے اور لوگوں کو روکا تھا کہ میری طرف رجوع نہ کریں اور نہ کچھ مالی مدد کریں.تب اس کے روکنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے اشتہار کے بعد کئی لاکھ انسان میرے ساتھ شامل ہوئے اور کئی لاکھ روپیہ آیا.مگر پھر بھی اُس نے خدا کے ہاتھ کو محسوس نہ کیا.بالآؔ خر ہم اس بات کا لکھنا بہت ہی ضروری سمجھتے ہیں کہ جس پرمیشر کو پنڈت دیانند نے آریوں کے سامنے پیش کیا ہے وہ ایک ایسا پرمیشر ہے جس کا عدم اور وجود برابر ہے.کیونکہ وہ اس بات پر قادر نہیں کہ اگر ایک شخص اپنی آوارگی اور بدچلنی کے زمانہ سے تائب ہو کر اسی اپنے پہلے جنم میں مکتی کو پانا چاہے تو اُس کو اس کی توبہ اور پاک تبدیلی کی وجہ سے مکتی عنایت کرسکے بلکہ اُس کے لئے آریہ اصول کی رُو سے کسی دوسری ُ جون میں پڑ کر دوبارہ دنیا میںآنا ضروری ہے خواہ وہ انسانی جون کو چھوڑ کر کُتّا بنے یا بندر سؤر.مگر بننا تو ضرور چاہیئے.یہ پرمیشر ہے جس کو دیالو اور سرب شکتی مان کہا جاتا ہے.اگر انسان نے اپنی ہی کوشش سے سب کچھ کرنا ہے تو مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ پھر پرمیشر کا کس بات میں شکر ادا کیا جائے اور جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کے بعض حصہ عمر میں ایسا زمانہ بھی آجاتا ہے کہ وہ کسی حد تک نفسانی جوشوں اور خواہشوں کا تابع ہوتا ہے.اور کم سے کم یہ کہ غفلت جو گناہوں کی ماں ہے ضرور کسی قدر اس سے حصہ لیتا ہے اور یہ انسان کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ کیا جسمانی پہلو کی رُو سے اور کیا رُوحانی پہلو کی رُوح سے ابتدا میں کمزوری میں پیدا ہوتا ہے.اور پھر اگر خدا کا فضل شامل حال ہو تو آہستہ آہستہ پاکیزگی کی طرف ترقی کرتا ہے.پس یہ خوب پر ؔ میشر ہے جس کو انسان کی فطرت کی بھی خبر نہیں.اگر اسی طرح مکتی پانا ہے تو پھر مکتی کی حقیقت معلوم.ہم اس آزمائش کے لئے نہ صرف ایک آریہ کو مخاطب کرتے ہیں نہ دو کو نہ تین کو بلکہ نہایت یقین اور بصیرتِ تامّہ کی راہ سے کہتے ہیں کہ ہمارے روبرو دوہزار یاد س ہزار یا بیس ہزار یا مثلاً ایک لاکھ ہی آریہ کھڑے ہو کر قسم کھاویں کہ کیا اُن کی
سوانح عمری ایسی پاک ہے کہ کسی قسم کا اُن سے گناہ سرزد نہیں ہوا.اور کیا وہ آریہ اصولوں کی رُو سے تسلّی رکھتے ہیں کہ وہ مرتے ہی مکتی پا جائیں گے.اور پھر جب مخلوقات پر نظر ڈالی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی تعداد کو دوسری مخلوقات سے وہ نسبت نہیں جو قطرہ کو دریا کی طرف ہوتی ہے.کیونکہ علاوہ ان تمام بے شمار جانوروں کے جو خشکی اور تری میں پائے جاتے ہیں ایسے غیر مرئی جانور بھی کرّۂ ہوا اور پانی میں موجود ہیں جو وہ نظر نہیں آسکتے جیسا کہ تحقیقات سے ثابت ہے کہ ایک قطرہ پانی میں کئی ہزار کیڑے ہوتے ہیں.پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ باوجود اس قدر زمانہ اور مدّت دراز گزر نے کے پرمیشر نے مکتی دینے میں ایسی ناقابل کارروائی کی ہے کہ گویا کچھ بھی نہیں کی.اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پرمیشر کیؔ ہرگز مرضی ہی نہیں کہ کوئی شخص مکتی حاصل کرسکے اور یا یوں کہو کہ وہ مکتی دینے پر قادر ہی نہیں.اور یہ بات بہت قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہے کیونکہ اگر قادر ہو تو پھر کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ وہ دائمی نجات یا مکتی نہ دے سکے اور ایسا ہی باوجود دیالو اور قادر ہونے اس کے کے کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیوں وہ ایسا چڑچڑا مزاج کاہے کہ ایک ذرا سے گناہ کو بھی بخش نہیں سکتا اور جب تک ایک گناہ کے لئے کروڑہا جونوں میں نہ ڈالے خوش نہیں ہوتا.ایسے پرمیشر سے کس بہتری کی اُمید ہو سکتی ہے؟ اور جبکہ ایک شریف طبع انسان اپنے قصورواروں کے قصور ان کی توبہ اور درخواستِ معافی پر بخش سکتا ہے اور انسان کی فطرت میں یہ قوت پائی جاتی ہے کہ کسی خطاکار کی پشیمانی اور آہ وزاری پر اس کی خطا کو بخش دیتا ہے تو کیا وہ خدا جس نے انسان کو پیدا کیا ہے وہ اس صفت سے محروم ہے؟ نعوذ باللہ ہرگز نہیں ہرگز نہیں.پس یہ آریوں کی غلطی ہے کہ اس خدا کو جس کووہ دیالو بھی کہتے ہیں اور سرب شکتی مان بھی سمجھتے ہیں اس کو اس عظیم الشان صفت سے محروم قرار دیتے ہیں.اورؔ یاد رہے کہ انسان جو سراسر کمزوری میں بھرا ہوا ہے بغیر خدا کی صفت مغفرت کے ہرگز نجات نہیں پا سکتا.اور اگر خدا میں صفت مغفرت نہیں تو پھر انسان میں کہاں سے پیدا ہوگئی؟ یاد رہے کہ نجات نہ پانا ایک موت ہے ایسا ہی سچی توبہ کرنا بھی ایک موت ہے.پس موت کا علاج موت ہے.کیا وہ خدا جو ہرایک چیز پر
قادر ہے.اُس نے ہماری اِس موت کا کوئی علاج نہیں رکھا.اور کیا ہم بے علاج ہی مریں گے؟ ہرگز نہیں جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے علاج بھی ساتھ ہی پیدا ہوا ہے.اور افسوس سے کہا جاتا ہے کہ عیسائیوں اور آریوں نے اس اعتقاد میں ایک ہی راہ پر قدم مارا ہے صرف فرق یہ ہے کہ عیسائی تو انسان کے گناہ بخشوانے کے لئے ایک نبی کے خون کی حاجت سمجھتے ہیں.اور اگر وہ نہ مارا جاتا تو گناہ نہ بخشے جاتے.اور اگر ثابت ہو کہ وہ مارا نہیں گیا.جیسا کہ ہم نے ثابت بھی کر دیا ہے اور یہ امر پایۂ ثبوت کو پہنچا دیا ہے کہ حضرت عیسیٰ اپنی طبعی موت سے فوت ہوا اور ایک دنیا جانتی ہے کہ کشمیر میں اس کی قبر ہے تو اس صورت میں سب تانا بانا کفارہ کا بیکار ہوگیا.اور آریہ صاحبان مطلقاً اپنے پرمیشر کو گناہوں کے بخشنے سے قاصر سمجھتے ہیں اورؔ آریہ اور عیسائی اس اعتقاد میں دونوں شریک ہیں کہ خدا خطاکاروں کو اُن کی پشیمانی اور توبہ پر بخش نہیں سکتا.اور آریہ صاحبوں نے صرف اسی قدر پر بس نہیں کی بلکہ وہ تو اپنے پرمیشر کو اس بات سے بھی جواب دیتے ہیں کہ وہ انسان کا خالق اور اس کی تمام قوتوں روحانی اور جسمانی کا مبدءِ فیض ہے اور اس طور پر پرمیشر کی شناخت کا دروازہ بھی اُن پر بند ہے.کیونکہ وید کی رُو سے پرمیشر کی عادت نہیں ہے کہ کوئی نشان آسمانی دکھاوے اور اس طرح پر اپنے وجود کا پتہ دے.اور دوسری طرف وہ ارواح اور ذرات عالم کا پیدا کرنے والا نہیں ہے.پس دونوں طرف سے آریہ مذہب کے رُو سے پرمیشر کی شناخت محال ہے.علاوہ اس کے جس تعلیم پرناز کیا جاتا ہے نیوگ کا مسئلہ اس کی حقیقت سمجھنے کیلئے ایک عمدہ نمونہ ہے لیکن کیا کسی شریف انسان کی فطرت قبول کر سکتی ہے کہ اُس کی زندگی میں اُس کی جورو جس کو طلاق بھی نہیں دی گئی دوسرے سے ہم بستر ہو جائے.علاوہ اس کے جس جاودانی نجات کا انسان طبعاً خواہش مند ہے اور اس کی فطرت میں یہ نقش کر دیا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ کی لذّت اورآرام کا طالب ہو اس جاودانی نجات سے یہ مذہب منکر ہے اور اپنے پرمیشر کے لئے یہ تجویز کرتے ہیں کہؔ گویا وہ ایک محدود مدّت کے بعد اپنے بندوں کو مکتی خانہ سے باہر نکال دیتا ہے.اور اس کی وجہ یہ پیش کرتے ہیں کہ چونکہ دنیا کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے جاری ہے اور پرمیشر ارواح کا خالق نہیں اس لئے پرمیشر کے لئے یہ مصیبت پیش آئی کہ اگروہ تمام روحوں کو ہمیشہ کی نجات دے دیوے تو اس سے سلسلہ دنیا کا ٹوٹ جائے گا اور کسی دن پرمیشر معطّل اور خالی ہاتھ رہ جائے گا.کیونکہ ہر ایک روح جو ہمیشہ کی مکتی پاکر دنیا سے گئی تو گویا
وہ پرمیشر کے ہاتھ سے گئی.پس اس طرح پر جب روحیں خرچ ہوتی رہیں تو بباعث اس کے کہ پرمیشر کوئی رُوح پیدا نہیں کر سکتا اور آمدن کی سبیل قطعًا بند تو ضرور ایک دن ایسا آجائے گا جبکہ پرمیشر کے ہاتھ میں ایک بھی رُوح نہیں رہے گی تاوہ دنیا میں بھیجی جائے.پس اس خیال سے پرمیشر نے یہ پیش بندی اختیار کر رکھی ہے جو ہمیشہ کی مکتی سے رُوحوں کو جواب دے دیا کرتا ہے اور دھکّے دے کر مکتی خانہ سے باہر نکالتا ہے.اس جگہ بعض نادان آریہ محض چالاکی سے یہ بھی کہتے ہیں کہ چونکہ انسان کے اعمال محدود ہیں اس لئے مکتی بھی محدود رکھی گئی.مگر وہ دھوکہ کھاتے ہیں یا دھوکہ دیتے ہیں.کیونکہ انسان کی فطرت میں ہمیشہ کی اطاعت مرکوز ہے.نیک آدمی کب کہتے ہیں کہؔ اتنی مدّت کے بعد ہم خدا تعالیٰ کی بندگی اور اطاعت چھوڑ دیں گے بلکہ اگر بے انتہا مدّت تک ان کو عمر دی جائے تب بھی وہ خدا تعالیٰ کی اطاعت اور بندگی کرتے رہیں گے.اس صورت میں اگر وہ جلد مر جائیں تو ان کا کیا گناہ ہے.اُن کی نیّت میں تو ہمیشہ کی اطاعت ہے نہ کہ کسی حد تک اور تمام مدار نیّت پر ہے.اور موت جو انسان پر آتی ہے یہ خدا کا فعل ہے نہ کہ انسان کا.یہ ہیں عقائد آریہ صاحبوں کے جن پر وہ ناز کرتے ہیں.چونکہ ان کے خیال میں یہ بات جمی ہوئی ہے کہ ایک گناہ سے بھی بیشمار جونوں کی سزا درپیش ہے.اس لئے وہ گناہ سے پاک ہونے کے لئے کوئی کوشش کرنا عبث اور بے سود سمجھتے ہیں.اور اُن کے مذہب میں کوئی مجاہدہ نہیں ہے جس کی رُو سے اسی دنیا میں انسان گناہ سے پاک ہو سکے جب تک تناسخ کے ذریعہ سے اور طرح طرح کی جونوں میں پڑنے سے سزا نہ پالے.پس ظاہر ہے کہ اس صورت میں کس اُمید پروہ کوئی مجاہدہ کر سکتے ہیں اگر وہ سوچیں.اور اگر ان کو روحانی فلاسفی کا کوئی حصہ نصیب ہو تو وہ جلدی سمجھ سکتے ہیں کہ وہ اس عقیدہ کی وجہ سے خدائے کریم و رحیم کی رحمت کا دروازہ اپنے پرؔ بند کررہے ہیں.وہ توبہ سے صرف چند لفظ مراد لیتے ہیں مگر سچی توبہ درحقیقت ایک موت ہے جو انسان کے ناپاک جذبات پر آتی ہے اور ایک سچی قربانی ہے جو انسان اپنے پورے صدق سے حضرت احدیت میں ادا کرتا ہے اور تمام قربانیاں جو رسم کے طور پر ہوتی ہیں اسی کا نمونہ ہے.سو جو لوگ یہ سچی قربانی ادا کرتے ہیں جس کا نام دوسرے لفظوں میں توبہ ہے.درحقیقت وہ اپنی سفلی زندگی پر ایک موت وارد کرتے ہیں.تب خدا تعالیٰ
جو کریم و رحیم ہے اِس موت کے عوض میں دوسرے جہان میں اُن کو نجات کی زندگی بخشتا ہے کیونکہ اس کا کرم اور رحم اس بخل سے پاک ہے جو کسی انسان پر دو موتیں وارد کرے.سو انسان توبہ کی موت سے ہمیشہ کی زندگی کو خریدتا ہے اور ہم اس زندگی کے حاصل کرنے کے لئے کسی دوسرے کو پھانسی پر چڑھانے کے محتاج نہیں ہیں ہمارے لئے وہ صلیب کافی ہے جو اپنی قربانی دینے کی صلیب ہے.یا د رہے کہ توبہ کا لفظ نہایت لطیف اور روحانی معنی اپنے اندر رکھتا ہے جس کی غیر قوموں کو خبر نہیں یعنی توبہ کہتے ہیں اس رجوع کو کہ جب انسان تمام نفسانی جذبات کا مقابلہ کرکے اور اپنے پر ایک موت کو اختیار کر کے خدا تعالیٰ کی ؔ طرف چلا آتا ہے.سو یہ کچھ سہل بات نہیں ہے اور ایک انسان کو اُسی وقت تائب کہا جاتا ہے جبکہ وہ بکلّی نفسِ ا ّ مارہ کی پیروی سے دست بردار ہو کر اور ہر ایک تلخی اور ہر ایک موت خدا کی راہ میں اپنے لئے گوارا کر کے آستانۂ حضرتِ احدّ یت پر گر جاتا ہے تب وہ اس لائق ہو جاتا ہے کہ اِس موت کے عوض میں خدا تعالیٰ اُس کو زندگی بخشے.چونکہ آریہ لوگ صرف بہت سی جونوں کو مدار نجات سمجھ بیٹھے ہیں اس لئے ان کا اس طرف خیال نہیں آتا ہے.نہیں جانتے کہ جس طرح میلا کپڑا بھٹی پر چڑھنے سے اور پھر دھوبی کے ہاتھ سے آب شفاف کے کنارہ پر طرح طرح کے صدمات اٹھانے سے آخرکار سفید ہو جاتا ہے.اِسی طرح یہ توبہ جس کے معنے میں بیان کر چکا ہوں انسان کو صاف پاک کر دیتی ہے.انسان جب خدا تعالیٰ کی محبت کی آگ میں پڑ کر اپنی تمام ہستی کو جلا دیتا ہے تو وہی محبت کی موت اُس کو ایک نئی زندگی بخشتی ہے.کیا تم نہیں سمجھ سکتے کہ محبت بھی ایک آگ ہے اور گناہ بھی ایک آگ ہے.پس یہ آگ جو محبتِ الٰہی کی آگ ہے گناہ کی آگ کو معدوم کر دیتی ہے.یہی نجات کی جڑ ھ ہے.اور ؔ نہایت افسوس تو یہ ہے کہ آریہ لوگ اپنے مذہب کی خرابیوں کو نہیں دیکھتے اور اسلام پر بیہودہ اعتراض کرتے ہیں.اور لطف یہ ہے کہ کوئی بھی ان کا ایسا اعتراض نہیں جو ان کے مذہب کے کسی فرقہ کے طریق عمل میں وہ داخل نہیں.اب ہم اس رسالہ کو خدا کے نام پر ختم کرتے ہیں.الحمدللّٰہ اوّلًا و اٰخرًا ھو مَولانا نعم المولٰی و نعم النصیر.
نظم از مصنّف اسلام سے نہ بھاگو! راہِ ُ ھدیٰ یہی ہے اے سونے والو جاگو! شمس الضحٰی یہی ہے مجھ کو قسم خدا کی جس نے ہمیں بنایا اَب آسماں کے نیچے دینِ خدا یہی ہے وہ دِلستاں نہاں ہے کِس رَاہ سے اُس کو دیکھیں اِن مشکلوں کا یارو مشکل کشا یہی ہے باطن سِیہ ہیں جن کے اِس دیں سے ہیں وہ منکر پر اَے اندھیرے والو! دِل کا دِیا یہی ہے دنیا کی سب دُکانیں ہیں ہم نے دیکھی بھالیں آخر ہوا یہ ثابت دَارُ الشفا یہی ہے سب ؔ خشک ہوگئے ہیں جتنے تھے باغ پہلے ہر طرف مَیں نے دیکھا بُستاں ہرا یہی ہے دنیا میں اِس کا ثانی کوئی نہیں ہے شربت پی لو تم اِس کو یارو آبِ بقا یہی ہے اِسلام کی سچائی ثابت ہے جیسے سورج پر دیکھتے نہیں ہیں دشمن.بَلا یہی ہے جب کُھل گئی سچائی پھر اُس کو مان لینا نیکوں کی ہے یہ خصلت راہِ حیا یہی ہے جو ہو مفید لینا جو بد ہو اس سے بچنا عقل و خرد یہی ہے فہم و ذکا یہی ہے مِلتی ہے بادشاہی اِس دیں سے آسمانی اے طالبانِ دولت ظلِّ ہُما یہی ہے سب دیں ہیں اِک فسانہ شِرکوں کا آشیانہ اُس کا جو ہے یگانہ چہرہ نما یہی ہے سَو سَو نشاں دکھا کر لاتا ہے وہ بُلا کر مجھ کو جو اُس نے بھیجا بس مدّعا یہی ہے کرتا ہے معجزوں سے وہ یار دیں کو تازہ اسلام کے چمن کی بادِ صبا یہی ہے یہ سب نشاں ہیں جن سے دیں اب تلک ہے تازہ اے گِرنے والو دوڑو دیں کا عصا یہی ہے کِس کام کا وہ دیں ہے جس میں نشاں نہیں ہے دیں کی مرے پیارو زرّیں قبا یہی ہے
افسوس آریوں پر جو ہو گئے ہیں شپّر وہ دیکھ کر ہیں مُنکر ظلم و جفا یہی ہے معلوم کر کے سب کچھ محروم ہوگئے ہیں کیا اِن نیوگیوں کا ذہنِ رسا یہی ہے اِکؔ ہیں جو پاک بندے اِک ہیں دلوں کے گندے جیتیں گے صادق آخر حق کا مزا یہی ہے اِن آریوں کا پیشہ ہردم ہے بدزبانی ویدوں میں آریوں نے شاید پڑھا یہی ہے پاکوں کو پاک فطرت دیتے نہیں ہیں گالی پر اِن سیہ دلوں کا شیوہ سدا یہی ہے افسوس سبّ و توہیں سب کا ہوا ہے پیشہ کس کو کہوں کہ اُن میں ہرزہ درا یہی ہے آخر یہ آدمی تھے پھر کیوں ہوئے درندے کیا ُ جون اِن کی بگڑی یا خود قضا یہی ہے جس آریہ کو دیکھیں تہذیب سے ہے عاری کِس کِس کا نام لیویں ہر سُو وَبا یہی ہے لیکھو کی بدزبانی کارد ہوئی تھی اُس پر پھر بھی نہیں سمجھتے حمق و خطا یہی ہے اپنے کئے کا ثمرہ لیکھو نے کیسا پایا آخر خدا کے گھر میں بَد کی سزا یہی ہے نبیوں کی ہتک کرنا اور گالیاں بھی دینا کُتّوں سا کھولنا مُنہ تخمِ فنا یہی ہے میٹھے بھی ہو کے آخر نشتر ہی ہیں چلاتے اِن تیرہ باطنوں کے دل میں دغا یہی ہے جاں بھی اگرچہ دیویں ان کو بطور احساں عادت ہے اِن کی کفراں رنج و عنا یہی ہے ہندو کچھ ایسے بگڑے دل پُر ہیں بغض و کیں سے ہر بات میں ہے توہیں طرزِ ادا یہی ہے جاں بھی ہے اِن پہ قرباں گر دل سے ہوویں صافی پس ایسے بدکنوں کا مجھ کو گِلا یہی ہے احوالؔ کیا کہوں میں اس غم سے اپنے دل کا گویا کہ ان غموں کا مہماں سرا یہی ہے لیتے ہی جنم اپنا دشمن ہوا یہ فرقہ آخر کی کیا اُمیدیں جب ابتدا یہی ہے دل پھٹ گیا ہمارا تحقیر سُنتے سُنتے غم تو بہت ہیں دل میں پر جاں گزا یہی ہے دنیا میں گرچہ ہوگی سَو قسم کی بُرائی پاکوں کی ہتک کرنا سب سے بُرا یہی ہے
غفلت پہ غافلوں کی روتے رہے ہیں مُرسل پر اِس زماں میں لوگو نوحہ نیا یہی ہے ہم بد نہیں ہیں کہتے اُن کے مقدسوں کو تعلیم میں ہماری حکمِ خدا یہی ہے ہم کو نہیں سکھاتا وہ پاک بدزبانی تقویٰ کی جڑھ یہی ہے صدق و صفا یہی ہے پر آریوں کے دیں میں گالی بھی ہے عبادت کہتے ہیں سب کو جھوٹے کیا اتّقا یہی ہے جتنے نبی تھے آئے موسیٰ ہو یا کہ عیسیٰ مکّار ہیں وہ سارے اِن کی نِدا یہی ہے اِک وید ہے جو سچا باقی کتابیں ساری جھوٹی ہیں اور جعلی اِک رہ نما یہی ہے یہ ہے خیال اِن کا پَربَتْ بنایا تنکا پر کیا کہیں جب ان کا فہم و ذکا یہی ہے کیڑا جو دَب رہا ہے گوبر کی تہ کے نیچے اُس کے گماں میں اُس کا ارض و سما یہی ہے ویدوں کا سب خلاصہ ہم نے نیوگ پایا ان پُستکوں کی رُو سے کارج بَھلا یہی ہے جسؔ اِستری کو لڑکا پیدا نہ ہو پِیا سے ویدوں کی رُو سے اُس پر واجب ہوا یہی ہے جب ہے یہی اشارہ پھر اُس سے کیا ہے چارہ جب تک نہ ہوویں گیا۱۱رہ لڑکے رَوا یہی ہے ایشر کے گُن عجب ہیں ویدوں میں اے عزیزو! اُس میں نہیں مروّت ہم نے سُنا یہی ہے دے کر نجات و مکتی پھر چھینتا ہے سب سے کیسا ہے وہ دیالو جس کی عطا یہی ہے ایشر بنا ہے مُنہ سے خالق نہیں کِسی کا رُوحیں ہیں سب انادی پھر کیوں خدا یہی ہے رُوحیں اگر نہ ہوتیں ایشر سے کچھ نہ بنتا اُس کی حکومتوں کی ساری بِنا یہی ہے اُن کا ہی مُنہ ہے تکتا ہر کام میں جو چاہے گویا وہ بادشہ ہیں اُن کا گدا یہی ہے القصّہ آریوں کے ویدوں کا یہ خدا ہے اُن کا ہے جس پہ تکیہ وہ بے نوا یہی ہے اے آریو کہو اب ایشر کے ہیں یہی گُن جس پر ہو ناز کرتے بولو وہ کیا یہی ہے؟ ویدوں کو شرم کر کے تم نے بہت چھپایا آخر کو راز بستہ اس کا کُھلا یہی ہے
قدرت نہیں ہے جس میں وہ خاک کاہے اِیشر کیا دینِ حق کے آگے زور آزما یہی ہے کچھ کم نہیں بتوں سے یہ ہندوؤں کا اِیشر سچ پوچھئے تو واللہ بُت دوسرا یہی ہے ہم نے نہیں بنائیں یہ اپنے دل سے باتیں وید*وں سے اے عزیزو ہم کو مِلا یہی ہے فطرؔ ت ہر اِک بشر کی کرتی ہے اِس سے نفرت پھر آریوں کے دِل میں کیونکر بسا یہی ہے یہ حکم وید کے ہیں جن کا ہے یہ نمونہ ویدوں سے آریوں کو حاصل ہوا یہی ہے خوش خوش عمل ہیں کرتے اوباش سارے اِس پر سارے نیوگیوں کا اِک آسرا یہی ہے] پھر کس طرح وہ مانیں تعلیم پاک فرقاں اُن کے تو دل کا رہبر اور مقتدا یہی ہے جب ہوگئے ہیں ملزم اُترے ہیں گالیوں پر ہاتھوں میں جاہلوں کے سنگِ جفا یہی ہے رُکتے نہیں ہیں ظالم گالی سے ایک دم بھی اِن کا تو شغل و پیشہ صبح و مسا یہی ہے کہنے کو وید والے پر دل ہیں سب کے کالے پردہ اُٹھا کے دیکھو اُن میں بھرا یہی ہےإ اس جگہ وید کے لفظ سے وہ تعلیم مراد ہے جو آریہ سماج والوں نے اپنے زعم میں ویدوں کے حوالہ سے شائع کی ہے.ورنہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم وید کی اصل حقیقت کو خدا کے حوالہ کرتے ہیں.ہم نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے اس میں کیا بڑھایا اور کیا گھٹایا جبکہ ہندوستان اور پنجاب میں وید کی پَیروی کا دعویٰ کرنے والے صدہا مذہب ہیں تو ہم کسی خاص فرقہ کی غلطی کو وید پر کیونکر تھوپ سکتے ہیں.پھر یہ بھی ثابت ہے کہ وید بھی محرف ہو چکا ہے.پس بوجہ تحریف اس سے کسی بہتری کی امید بھی لاحاصل ہے.منہ ] یاد رہے کہ وید کی تعلیم سے مراد ہماری اس جگہ وہ تعلیمیں اور وہ اصول ہیں جن کو آریہ لوگ اس جگہ ظاہر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نیوگ کی تعلیم وید میں موجود ہے.اور بقول ان کے وید بلند آواز سے کہتا ہے کہ جس کے گھر میں کوئی اولاد نہ ہو یا صرف لڑکیاں ہوں تو اس کے لئے یہ ضروری امر ہے کہ وہ اپنی بیوی کو اجازت دے کہ وہ دوسرے سے ہم بستر ہو اور اس طرح اپنی نجات کے لئے لڑکا حاصل کرے.اور گیارہ لڑکے حاصل کرنے تک یہ تعلق قائم رہ سکتا ہے.اور اگر اس کا خاوند کہیں سفر میں گیا ہو إ اگر ایسے لوگ بھی ان میں ہیں جو خدا کے پاک نبیوں کو گالیاں نہیں دیتے اور صلاحیت اور شرافت رکھتے ہیں وہ ہمارے اس بیان سے باہر ہیں.منہ
فطرؔ ت کے ہیں درندے مُردار ہیں نہ زندے ہر دم زباں کے گندے قہرِ خدا یہی ہے* یاد رہے کہ یہ ہماری رائے اُن آریہ سماج والوں کی نسبت ہے جنہوں نے اپنے اشتہاروں اور رسالوں اور اخباروں کے ذریعہ سے اپنی گندی طبیعت کا ثبوت دے دیا ہے اور ہزارہا گالیاں خدا کے پاک نبیوں کو دی ہیں.جن کی اخبار اور کتابیں ہمارے پاس موجود ہیں مگر شریف طبع لوگ اس جگہ ہماری مراد نہیں ہیں اور نہ وہ ایسے طریق کو پسند کرتے ہیں.منہ تو خود اس کی بیوی نیوگ کی نیّت سے کسی دوسرے آدمی سے آشنائی کا تعلق پیدا کر سکتی ہے تا اس طریق سے اولاد حاصل کرلے اور پھر خاوند کے سفر سے واپس آنے پر یہ تحفہ اس کے آگے پیش کرے اور اُس کو دکھاوے کہ تُو تو مال حاصل کرنے گیا تھا مگر مَیں نے تیرے پیچھے یہ مال کمایا ہے.پس عقل اور انسانی غیرت تجویز نہیں کر سکتی کہ یہ بے شرمی کا طریق جائز ہو سکے.اور کیونکر جائز ہو حالانکہ اس بیوی نے اپنے خاوند سے طلاق حاصل نہیں کی اور اس کی قیدِ نکاحؔ سے اس کو آزادی حاصل نہیں ہوئی.افسوس بلکہ ہزار افسوس کہ یہ وہ باتیں ہیں جو آریہ لوگ وید کی طرف منسوب کرتے ہیں.مگر ہم نہیں کہہ سکتے کہ درحقیقت یہی تعلیم وید کی ہے.ممکن ہے کہ ہندوؤں کے بعض جوگی جو مجرّد رہتے ہیں اور اندر ہی اندر نفسانی جذبات ان کو مغلوب کرلیتے ہیں انہوں نے یہ باتیں خود بنا کر وید کی طرف منسوب کردی ہوں یا تحریف کے طور پر وید میں شامل کر دی ہوں.کیونکہ محقق پنڈتوں نے لکھا ہے کہ ایک زمانہ وید پر وہ بھی آیا ہے کہ ان میں بڑی تحریف کی گئی ہے اور اس کے بہت سے پاک مسائل بدلادیئے گئے ہیں.ورنہ عقل قبول نہیں کرتی کہ وید نے ایسی تعلیم دی ہو.اور نہ کوئی فطرت صحیحہ قبول کرتی ہے کہ ایک شخص اپنی پاک دامن بیوی کو بغیر اس کے کہ اُس کو طلاق دے کر شرعی طور پر اُس سے قطع تعلق کرے یونہی اولاد حاصل کرنے کے لئے اپنے ہاتھ سے اس کو دوسرے سے ہمبستر کراوے کیونکہ یہ تو دیوثوں کا کام ہے.ہاں اگر کسی عورت نے طلاق حاصل کرلی ہو اور خاوند سے کوئی اس کا تعلق نہ رہا ہو تو اس صورت میں ایسی عورؔ ت کو جائز ہے کہ دوسرے سے نکاح کرے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور نہ اس کی پاک دامنی پر کوئی حرف.ورنہ ہم بلند آواز سے کہتے ہیں کہ نیوگ کا نتیجہ اچھا نہیں ہے جس صورت میں آریہ سماج کے لوگ ایک طرف تو عورتوں کے پردہ کے مخالف ہیں کہ یہ مسلمانوں کی رسم ہے.پھر دوسری طرف جبکہ ہر روز نیوگ کا پاک مسئلہ ان عورتوں کے کانوں تک پہنچتا رہتا ہے اور ان عورتوں کے دلوں میں جما ہوا ہے کہ ہم دوسرے مردوں سے بھی ہمبستر ہو سکتی ہیں تو ہر ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ ایسی باتوں کے سُننے سے خاص کر جبکہ ویدوں کے حوالہ سے بیان کی جاتی ہیں کس قدر
دینِ خدا کے آگے کچھ بَن نہ آئی آخر سب گالیوں پہ اُترے دل میں اُٹھا یہی ہے شرم و حیا نہیں ہے آنکھوں میں اُن کے ہرگز وہ بڑھ چکے ہیں حد سے اب انتہا یہی ہے ہم نے ہے جس کو مانا قادر ہے وہ توانا اُس نے ہے کچھ دکھانا اُس سے رجا یہی ہے اُن سے دو چار ہونا عزّت ہے اپنی کھونا اُن سے ملاپ کرنا راہِ ریا یہی ہے پس اے مرے پیارو عقبٰی کو مت بسارو اِس دیں کو پاؤ یارو بدر الدّجٰی یہی ہے ناپاک شہوات عورتوں کی جوش ماریں گی بلکہ وہ تو دس قدم اور بھی آگے بڑھیں گی اور جبکہ پردہ کا پُل بھی ٹوٹ گیا تو ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ ان ناپاک شہوتوں کا سیلاب کہاں تک خانہ خرابی کرے گا.چنانچہ جگن ناتھ اور بنارس اور کئی جگہ میں اس کے نمونے بھی موجود ہیں.کاش! اس قوم میں کوئی سمجھدار پیدا ہو.اور ہمیں یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ مکتی حاصل کرنے کے لئے اولاد کی ضرورت کیوں ہے.کیا ایسے لوگ جیسے پنڈت دیانند تھا جس نے شادی نہیں کی اور نہ کوئی اولاد ہوئی مکتی سے محروم ہیں؟ اور ایسی مکتی پر تو لعنت بھیجنا چاہئے کہ اپنی عورت کو دوسرے سے ہمبستر کراکر اور ایسا فعل اس سے کراکر جو عام دنیا کی نظر میں زنا کی صورت میں ہی حاصل ہو سکتی ہے اور بجز اس ناپاک فعل کے اور کوئی ذریعہ اُس کی مکتی کا نہیں.اور یہ بھی ہم سمجھ نہیں سکتے کہ جو ہزاروں طاقتیں اورؔ قوتیں اور خاصیتیں روحوں اور ذرّات اجسام میں ہیں وہ سب قدیم سے خودبخود ہیں.پرمیشر سے وہ حاصل نہیں ہوئیں.پھر ایسا پرمیشر کس کام کا ہے اور اس کے وجود کا ثبوت کیا ہے؟ اور کیا وجہ کہ اس کو پرمیشر کہا جائے؟ اور کامل اطاعت کا وہ کیونکر مستحق ہے جبکہ اس کی پرورش کامل نہیں اور جن طاقتوں کو اُس نے آپ نہیں بنایا اُن کا علم اس کو کیونکر ہے اور جبکہ وہ ایک رُوح کے پیدا کرنے کی بھی قدرت نہیں رکھتا تو کن معنوں سے اُس کو سرب شکتی مان کہا جاتا ہے جبکہ اُس کی شکتی صرف جوڑنے تک ہی محدود ہے.میرا دل تو یہی گواہی دیتا ہے کہ یہ ناپاک تعلیمیں ویدمیں ہرگز نہیں ہیں.پرمیشر تو تبھی پرمیشر رہ سکتا ہے جبکہ ہر ایک فیض کا وہی مبدء ہو.بیدانت والوں نے بھی اگرچہ غلطیاں کیں مگر تھوڑی سی اصلاح سے ان کا مذہب قابلِ اعتراض نہیں رہتا مگر دیانند کا مذہب تو سراسر گندہ ہے.معلوم ہوتا ہے کہ دیانند نے ان جھوٹے فلسفیوں اور منطقیوں کی پیروی کی ہے جن کو وید سے کچھ بھی تعلق نہ تھا بلکہ وید کے درپردہ پکّے دشمن تھے.اِسی وجہ سے اس کے مذہب میں پرمیشر کی وہ تعظیم نہیں جو ہونی چاہئے.اور نہ پاک دل جوگیوں کی طرح پرمیشر سے ملنے کے لئے مجاہدات کی تعلیم ہے.صرف تعصّب اور خدا کے پاک نبیوں کو کینہ اور گالیاں دینا ہی یہ شخص بدنصیب اپنے چیلوں کو سکھا گیا ہے بلکہ یوں کہوکہ ایک زہر کا پیالہ پلا گیا ہے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمارا سب اعتراض دیانند کے فرضی ویدوں پر ہے نہ خدا کی کسی کتاب پر.واللہ اعلم.منہ
مَیں ہوں ستم رسیدہ اُن سے جو ہیں رمیدہ شاہد ہے آبِ دیدہ واقف بڑا یہی ہے مَیںؔ دِل کی کیا سُناؤں کس کو یہ غم بتاؤں دُکھ درد کے ہیں جھگڑے مجھ پر بلا یہی ہے دیں کے غموں نے مارا اَب دل ہے پارہ پارہ دلبر کا ہے سہارا ورنہ فنا یہی ہے ہم مر چکے ہیں غم سے کیا پوچھتے ہو ہم سے اُس یار کی نظر میں شرطِ وفا یہی ہے برباد جائیں گے ہم گروہ نہ پائیں گے ہم رونے سے لائیں گے ہم دل میں رجا یہی ہے وہ دؔ ن گئے کہ راتیں کٹتی تھیں کر کے باتیں اَب موت کی ہیں گھاتیں غم کی کتھا یہی ہے جلد آپیارے ساقی اب کچھ نہیں ہے باقی دے شربت تلاقی حرص و ہوا یہی ہے شکرِ خدائے رحماں جس نے دیا ہے قرآں غنچے تھے سارے پہلے اب گُل کھلا یہ ہے کیا وصف اُس کے کہنا ہر حرف اُس کا گہنا دلبر بہت ہیں دیکھے دل لے گیا یہی ہے دیکھیؔ ہیں سب کتابیں مجمل ہیں جیسی خوابیں خالی ہیں اُن کی قابیں خوانِ ھُدیٰ یہی ہے اُس نے خدا ملایا وہ یار اُس سے پایا راتیں تھیں جتنی گزریں اَب دن چڑھا یہی ہے اُس نے نشاں دکھائے طالب سبھی بُلائے سوتے ہوئے جگائے بس حق نما یہی ہے پہلے صحیفے سارے لوگوں نے جب بگاڑے دنیا سے وہ سدھارے نوشہ نیا یہی ہے کہتے ہیں حسنِ یوسف دلکش بہت تھا لیکن خوبی و دِلبری میں سب سے سوا یہی ہے یوسف تو سُن چکے ہو اِک چاہ میں گرا تھا یہ چاہ سے نکالے جس کی صدا یہی ہے اِسلام کے محاسن کیونکر بیاں کروں میں سب خشک باغ دیکھے پھولا پھلا یہی ہے ہر جاز میں کے کیڑے دیں کے ہوئے ہیں دشمن اسلام پر خدا سے آج ابتلا یہی ہے تھم جاتے ہیں کچھ آنسو یہ دیکھ کر کہ ہر سو اِس غم سے صادقوں کا آہ و بکا یہی ہے سب مشرکوں کے سر پر یہ دیں ہے ایک خنجر یہ شرک سے چھڑاوے اُن کو اذیٰ یہی ہے
کیوں ہوگئے ہیں اس کے دشمن یہ سارے گمرہ وہ رہنما ہے رازِ چون و چرا یہی ہے دیں غار میں چُھپا ہے اِک شور کفر کا ہے اب تم دُعائیں کر لو غارِ حرا یہی ہے وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نُور سارا نام اُس کا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے سبؔ پاک ہیں پیمبر اِک دوسرے سے بہتر لیک از خدائے برتر خیرالوریٰ یہی ہے پہلوں سے خوب تر ہے خوبی میں اِک قمر ہے اُس پر ہر اک نظر ہے بدرا لدّجٰی یہی ہے پہلے تو رہ میں ہارے پار اِس نے ہیں اُتارے مَیں جاؤں اس کے وارے بس ناخدا یہی ہے پَردے جو تھے ہٹائے اندر کی رہ دکھائے دِل یار سے ملائے وہ آشنا یہی ہے وہ یارِ لامکانی.وہ دلبرِ نہانی دیکھا ہے ہم نے اُس سے بس رہنما یہی ہے وہ آج شاہِ دیں ہے وہ تاجِ مرسلیں ہے وہ طیّب و امیں ہے اُس کی ثنا یہی ہے حق سے جو حکم آئے اُس نے وہ کر دکھائے جو راز تھے بتائے نعم العطا یہی ہے آنکھ اُس کی دُوربیں ہے دِل یار سے قریں ہے ہاتھوں میں شمع دیں ہے عین الضیا یہی ہے جو راز دیں تھے بھارے اُس نے بتائے سارے دولت کا دینے والا فرماں روا یہی ہے اُس نُور پر فدا ہوں اُس کا ہی مَیں ہوا ہوں وہ ہے مَیں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے وہ دلبرِ یگانہ علموں کا ہے خزانہ باقی ہے سب فسانہ سچ بے خطا یہی ہے سب ہم نے اُس سے پایا شاہد ہے تُو خدایا وہ جس نے حق دکھایا وہ مَہ لقا یہی ہے ہم تھے دِلوں کے اندھے سَو سَو دِلوں پہ پھندے پھر کھولے جس نے جندے* وہ مجتبیٰ یہی ہے جندے سے مراد اس جگہ قفل ہے.چونکہ اس جگہ کوئی شاعری دکھلانا منظور نہیں اور
اے ؔ میرے رب رحماں تیرے ہی ہیں یہ احساں مشکل ہو تجھ سے آساں ہر دم رجا یہی ہے اے میرے یارِجانی خود کر تو مہربانی! ورنہ بلائے دنیا اِک اژدھا یہی ہے دِل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گِرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے جلد آمرے سہارے غم کے ہیں بوجھ بھارے مُنہ مت چُھپا پیارے میری دوا یہی ہے کہتے ہیں جوش اُلفت یکساں نہیں ہے رہتا دِل پر مرے پیارے ہر دم گھٹا یہی ہے ہم خاک میں ملے ہیں شاید ملے وہ دلبر جیتا ہوں اِس ہوس سے میری غذا یہی ہے دنیا میں عشق تیرا باقی ہے سب اندھیرا معشوق ہے تُو میرا عشقِ صفا یہی ہے مشتِ غبار اپنا تیرے لئے اُڑایا جب سے سُنا کہ شرطِ مہر و وفا یہی ہے دلبر کا درد آیا حرفِ خودی مٹایا جب مَیں مرا جلایا جامِ بقا یہی ہے اِس عشق میں مصائب سَو سَو ہیں ہر قدم میں پر کیا کروں کہ اُس نے مجھ کو دیا یہی ہے حرفِ وفا نہ چھوڑوں اِس عہد کو نہ توڑوں اُس دلبرِ ازل نے مجھ کو کہا یہی ہے جب سے ملا وہ دلبر دشمن ہیں میرے گھر گھر دِل ہوگئے ہیں پتھر قدر و قضا یہی ہے مجھ کو ہیں وہ ڈراتے پھر پھر کے درپہ آتے تیغ و تبر دکھاتے ہر سُو ہوا یہی ہے دلبرؔ کی رہ میں یہ دل ڈرتا نہیں کسی سے ہشیار ساری دنیا اِک باؤلا یہی ہے نہ میں یہ نام اپنے لئے پسند کرتا ہوں اس لئے بعض جگہ مَیں نے پنجابی الفاظ استعمال کئے ہیں اور ہمیں صرف اردو سے کچھ غرض نہیں اصل مطلب امر حق کو دلوں میں ڈالنا ہے.شاعری سے کچھ تعلق نہیں ہے.منہ
اِس رہ میں اپنے قصّے تم کو مَیں کیا سُناؤں دُکھ درد کے ہیں جھگڑے سب ماجرا یہی ہے دل کر کے پارہ پارہ چاہوں میں اِک نظارہ دیوانہ مت کہو تم عقلِ رسا یہی ہے اے میرے یارجانی کر خود ہی مہربانی مت کہہ کہ لَنْ تَرَانِیْ تجھ سے رجا یہی ہے فرقت بھی کیا بنی ہے ہر دم میں جان کنی ہے عاشق جہاں پہ مرتے وہ کربلا یہی ہے تیری وفا ہے پوری ہم میں ہے عیبِ دُوری طاعت بھی ہے ادھوری ہم پر بَلا یہی ہے تجھ میں وفا ہے پیارے سچے ہیں عہد سارے ہم جا پڑے کنارے جائے بُکا یہی ہے ہم نے نہ عہد پالا یاری میں رخنہ ڈالا پر تُو ہے فضل والا ہم پر کُھلا یہی ہے اے میرے دل کے درماں ہجراں ہے تیرا سوزاں کہتے ہیں جس کو دوزخ وہ جاں گزا یہی ہے اِک دیں کی آفتوں کا غم کھا گیا ہے مجھ کو سینہ پہ دشمنوں کے پتّھر پڑا یہی ہے کیونکر تبہ وہ ہووے کیونکر فنا وہ ہووے ظالم جو حق کا دشمن وہ سوچتا یہی ہے ایسا زمانہ آیا جس نے غضب ہے ڈھایا جو پیستی ہے دیں کو وہ آسیا یہی ہے شادابی و لطافت اِس دیں کی کیا کہوں مَیں سب خشک ہوگئے ہیں پُھولا پَھلا یہی ہے آنکھیںؔ ہر ایک دیں کی بے نُور ہم نے پائیں سُرمہ سے معرفت کے اِک سرمہ سا یہی ہے لعلِ یمن بھی دیکھے دُرِّ عدن بھی دیکھے سب جوہروں کو دیکھا دل میں جچا یہی ہے اِنکار کر کے اِس سے پچھتاؤگے بہت تم بنتا ہے جس سے سونا وہ کیمیا یہی ہے پر آریوں کی آنکھیں اندھی ہوئی ہیں ایسی وہ گالیوں پہ اُترے دل میں پڑا یہی ہے بدتر ہر ایک بد سے وہ ہے جو بدزبان ہے جس دل میں یہ نجاست بیت الخلا یہی ہے
گوہیں بہت درندے انساں کے پوستیں میں پاکوں کا خوں جو پیوے وہ بھیڑیا یہی ہے کِس دیں پہ ناز اُن کو جو وید* کے ہیں حامی مذہب جو پھل سے خالی وہ کھوکھلا یہی ہے اے آریو یہ کیا ہے کیوں دل بگڑ گیا ہے اِن شوخیوں کو چھوڑو راہِ حیا یہی ہے مجھ کو ہو کیوں ستاتے سَو افترا بناتے بہتر تھا باز آتے دُور از بلا یہی ہے جس کی دُعا سے آخر لیکھو مرا تھا کٹ کر ماتم پڑا تھا گھر گھر وہ میرزا یہی ہے اچھا نہیں ستانا پاکوں کا دل دُکھانا گستاخ ہوتے جانا اس کی جزا یہی ہے اِس دیں کی شان و شوکت یارب مجھے دکھادے سب جھوٹے دیں مٹادے میری دُعا یہی ہے کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق اِس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے تمام شد یاد رہے کہ وید پر ہمارا کوئی حملہ نہیں ہے.ہم نہیں جانتے کہ اس کی تفسیر میں کیاکیا تصرف کئے گئے آریہ ورت کے صدہا مذہب اپنے عقائد کا ویدوں پر ہی انحصار رکھتے ہیں حالانکہ وہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں اور باہم اُن کا سخت اختلاف ہے.پس ہم اس جگہ وید سے مراد صرف آریہ سماج والوں کی شائع کردہ تعلیمیں اور اصول لیتے ہیں.منہ نوٹ:.ایڈیشن اول میں یہ حاشیہ تو موجود ہے لیکن اس شعرکی نشان دہی نہیں کی گئی جس پر یہ حاشیہ ہے.ہم نے مضمون کو دیکھ کر یہ نشان لگایا ہے.(ناشر)
اعلاؔ ن یاد رہے کہ اس رسالہ کے شائع کرنے کی ہمیں کچھ بھی ضرورت نہ تھی لیکن ایک گندی اخبار جو قادیان سے آریوں کی طرف سے نکلتی ہے جس میں ہمیشہ وہ لوگ توہین اور بدزبانی کر کے اور دین اسلام کی نسبت اپنی فطرتی عداوت کی وجہ سے ناشائستہ کلمات بول کر اور ساتھ ہی مجھ کو بھی گالیاں دے کر لیکھرام کے قائم مقام ہورہے ہیں ان کی اخبار نے ہمیں مجبور کیا کہ ان کے جھوٹے الزاموں کو اس رسالہ میں ہم دُور کردیں اور ثابت کریں کہ ان کے بھائی لالہ شرمپت اور لالہ ملاوامل ساکنان قادیان درحقیقت میرے بہت سے نشانوں کے گواہ ہیں.اور ان پر کیا حصر ہے تمام قادیان کے آریہ اور ہندو بعض نشانوں کے گواہ رؤیت ہیں.اور پھر قادیان پر ہی موقوف نہیں لیکھرام کے مارے جانے کی پیشگوئی ایک ایسی مہاں جال پیشگوئی ہے جس نے تمام پنجاب اور ہندوستان کے ہندو اور آریہ سماج والے اس عظیم الشان نشان کے گواہ کر دیئے ہیں.اب ان پیشگوئیوں سے انکار کرنا آریوں کیلئے ممکن نہیں اور اس بارے میں قلم اُٹھانا محض بے حیائی ہے.اور اگروہ اس قدر پر باز نہ آئے تو پھر ان کا تمام پردہ کھول دیا جائے گا.وَالسَّلام علٰی من اتّبع الھُدٰی.راقم میرزا غلام احمدؐمسیح موعود از قادیان
احمدی اور غیر احمدی میں کیا فرق ہے؟ تقریر حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام برموقعہ جلسہ سالانہ ۲۷؍ دسمبر ۱۹۰۵ء