Purani Tehreerain

Purani Tehreerain

پُرانی تحریریں

Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR
Ruhani Khazain

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعدد مضامین کا مجموعہ  جو 1879ء میں لکھے گئے تھے اور جو بنگلور کے منصور محمدی، امرتسر کی سفیرِ ہند، برادر ہند اور لاہور کے ہندو بندو میں شائع ہوئے۔ اس مضمون میں جو منصور محمدی میں شائع ہوا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرار دیا کہ تمام انسانی رشتوں میں حقانیت انسانی فضیلت کی بنیاد ہے اور اس خوبی کی تاکید صرف اسلام نے کی ہے۔ امرتسر کے سفیرِ ہند میں، انہوں نے 9 فروری سے 9 مارچ 1878ء تک مضامین کا ایک سلسلہ لکھا، جس میں خدا کی شان اور عظمت کا دفاع کیا، آریہ سماج کے اس وسیع عقیدے کو توڑ دیا کہ روحیں اتنی لامحدود ہیں کہ خدا بھی ان کی تعداد کو نہیں جانتا اور یہ کہ وہ آزادانہ طور پر موجود رہتی ہیں اور منتقلی کے عمل سے نجات حاصل کرتی ہیں۔ اسی طرح نقل مکانی کے اس نظریے کی تردید میں ایک طویل مضمون لاہور کے ہندو بندو میں فروری، مارچ اور اپریل 1879ء کے شماروں میں شائع ہوا تھا۔ مضمون کی آخری قسط ایڈیٹر نے شائع نہیں کی تھی، کیونکہ ایڈیٹر نے لکھا تھا، وہ رسالہ جس کے بارے میں آریہ سماجی اپنے پہلے مضامین میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیش کردہ بہترین دلائل کا جواب نہیں دے سکے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وحی کے موضوع پر ہندو بندو کے مدیر یعنی شیو نارائن اگنی ہوتری سے بھی گفتگو کی۔ یہ بات چیت ایک ماہ سے زیادہ جاری رہی۔ اگرچہ اگنی ہوتری نے وحی الٰہی کے امکان سے سختی کے ساتھ انکار کر دیا تھا، لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں نے انہیں وحی کے وجود کے بارے میں اس قدر یقین دلایا کہ اس نے برہمو سماج سے اپنے تمام روابط منقطع کر لیے اور یہ دعویٰ کرنا شروع کر دیا کہ وہ خود ہی وحی کا وصول کنندہ ہے۔ 


Book Content

Page 1

Page 2

Page 3

Page 4

Page 5

Page 6

Page 7

Page 8

Page 9

Page 10

Page 11

Page 12

Page 13

Page 14

Page 15

Page 16

Page 17

Page 18

Page 19

Page 20

Page 21

Page 22

Page 23

Page 24

Page 25

Page 26

Page 27

Page 28

Page 29

پرانی تحریریں۱؂ ابطال تناسخ ومقابلۂ وید و فرقان اعلان متعلقہ مضمون ابطال تناسخ و مقابلہ وید و فرقان مع اشتہار پانسو ۵۰۰ روپیہ جو پہلے بھی بمباحثہ باوا صاحب مشتہر کیا گیا تھا.......................ناظرین انصاف آئین کی خدمت بابرکت میں واضح ہو کہ باعث مشتہر کرنے اس اعلان کا یہ ہے کہ عرصہ چند روز کا ہوا ہے کہ پنڈت کھڑک سنگھ صاحب ممبر آریہ سماج امرتسر قادیاں میں تشریف لائے اور مستدعی بحث کے ہوئے.چنانچہ حسب خواہش ان کے دربارہ تناسخ اور مقابلہ وید اور قرآن کے گفتگو کرنا قرار پایا.برطبق اس کے ہم نے ایک مضمون جو اس اعلان کے بعد میں تحریر ہوگا ابطال تناسخ میں اس التزام سے مرتب کیا کہ تمام دلائل اس کے قرآن مجید سے لئے گئے اور کوئی بھی ایسی دلیل نہ لکھی کہ جس کا ماخذ اور منشاء قرآن مجید نہ ہو اور پھر مضمون جلسہ عام میں پنڈت صاحب کی خدمت میں پیش کیا گیا تاکہ پنڈت صاحب بھی حسب قاعدہ ملتزمہ ہمارے کے اثبات تناسخ میں وید کی شرتیاں پیش کریں اور اس طور سے مسئلہ تناسخ کا فیصلہ پا جائے.اور وید اور قرآن کی حقیقت بھی ظاہر ہوجائے کہ ان میں سے کون غالب اور کون مغلوب ۱؂ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تحریریں براہین احمدیہ سے بھی پہلے کی ہیں.جن کو پہلی بار حضرت عرفانی کبیر شیخ یعقوب علی نے شائع کیا تھا.

Page 30

ہے.اس پر پنڈت صاحب نے بعد سماعت تمام مضمون کے دلائل وید کے پیش کرنے سے عجز مطلق ظاہر کیا اور صرف دو شرتیاں رگ وید سے پیش کیں کہ جن میں ان کے زعم میں تناسخ کا ذکر تھا.اور اپنی طاقت سے بھی کوئی دلیل پیش کردہ ہماری کو ردّ نہ کرسکے حالانکہ ان پر واجب تھا کہ بمقابلہ دلائل فرقانی کے اپنے وید کا بھی کچھ فلسفہ ہم کو دکھلاتے اور اس دعو ٰے کو جو پنڈت دیانند صاحب مدت دراز سے کررہے ہیں کہ وید سرچشمہ تمام علوم فنون کا ہے ثابت کرتے لیکن افسوس کہ کچھ بھی نہ بول سکے اور دم بخود رہ گئے اور عاجز اور لاچار ہوکر اپنے گاؤں کی طرف سدھار گئے.گاؤں میں جاکر پھر ایک مضمون بھیجا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو ابھی بحث کرنے کا شوق باقی ہے اور مسئلہ تناسخ میں مقابلہ وید اور قرآن کا بذریعہ کسی اخبار کے چاہتے ہیں.سو بہت خوب ہم پہلے ہی تیار ہیں.مضمون ابطال تناسخ جس کو ہم جلسہ عام میں گوش گزار پنڈت صاحب موصوف کرچکے ہیں.وہ تمام مضمون دلائل اور براہین قرآن مجید سے لکھا گیا ہے اور جابجا آیات فرقانی کا حوالہ ہے.پنڈت صاحب پر لازم ہے کہ مضمون اپنا جو دلائل بید سے بمقابلہ مضمون ہمارے کے مرتب کیا ہو پرچہ سفیر ہند یا برادر ہند یا آریہ درپن میں طبع کراویں.پھر آپ ہی دانا لوگ دیکھ لیں گے اور بہتر ہے کہ ثالث اور منصف اس مباحثہ تنقیح فضیلت وید اور قرآن میں دو شریف اور فاضل آدمی مسیحی مذہب اور برہمو سماج سے جو فریقین کے مذہب سے بے تعلق ہیں مقرر کئے جائیں.سو میری دانست میں ایک جناب پادری رجب علی صاحب جو خوب محقق مدقق ہیں اور دوسرے جناب پنڈت شیونارائن صاحب جو برہمو سماج مین اہل علم اور صاحب نظر دقیق ہیں.فیصلہ اس امر متنازعہ فیہ میں حکم بننے کے لئے بہت اولیٰ اور انسب ہیں.اس طور سے بحث کرنے میں حقیقت میں چار فائدے ہیں.اوّل یہ کہ بحث تناسخ کی بہ تحقیق تمام فیصلہ پا جائے گی.دوم اس موازنہ

Page 31

اور مقابلہ سے امتحان وید اور قرآن کا بخوبی ہوجائے گا.اور بعد مقابلہ کے جو فرق اہل انصاف کی نظر میں ظاہر ہوگا وہی فرق قول فیصل متصور ہوگا.سوم یہ فائدہ کہ اس التزام سے ناواقف لوگوں کو عقائد مندرجہ وید اور قرآن سے بکلی اطلاع ہوجائے گی.چہارم یہ فائدہ کہ یہ بحث تناسخ کی کسی ایک شخص کی رائے خیال نہیں کی جائے گی بلکہ محول بکتاب ہوکر اور معتاد طریق سے انجام پکڑ کر قابل تشکیک اور تزئیف نہیں رہے گی.اور اس بحث میں یہ کچھ ضرور نہیں کہ صرف پنڈت کھڑک سنگھ صاحب تحریر جواب کی تن تنہا محنت اٹھائیں بلکہ میں عام اعلان دیتا ہوں کہ منجملہ صاحبان مندرجہ عنوان مضمون ابطال تناسخ جو ذیل میں تحریر ہوگا.کوئی صاحب ارباب فضل و کمال میں سے متصدی جواب ہوں اور اگر کوئی صاحب بھی باوجود اس قدر تاکید مزید کے اس طرف متوجہ نہیں ہوں گے اور دلائل ثبوت تناسخ کے فلسفہ متدعویہ وید سے پیش نہیں کریں گے یادر صورت عاری ہونے وید کے ان دلائل سے اپنی عقل سے جواب نہیں دیں گے تو ابطال تناسخ کی ہمیشہ کے لئے ان پر ڈگری ہوجائے گی اور نیز دعویٰ وید کا کہ گویا وہ تمام علوم و فنون پر متضمن ہے محض بے دلیل اور باطل ٹھہرے گا اور بالآخر بغرض توجہ دہانی یہ بھی گزارش ہے کہ میں نے جو قبل اس سے فروری ۱۸۷۸ ؁ء میں ایک اشتہار تعدادی پانسو3 روپیہ بابطال مسئلہ تناسخ دیا تھا وہ اشتہار اب اس مضمون سے بھی بعینہٖ متعلق ہے اگر پنڈت کھڑک سنگھ صاحب یا کوئی اور صاحب ہمارے تمام دلائل کونمبروار جواب دلائل مندرجۂ وید سے دے کر اپنی عقل سے توڑ دیں گے تو بلاشبہ رقم اشتہار کے مستحق ٹھہریں گے اور بالخصوص بخدمت کھڑک سنگھ صاحب کہ جن کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم پانچ منٹ میں جواب دے سکتے ہیں یہ گزارش ہے کہ اب اپنی اس استعداد علمی کو روبروئے فضلائے نامدار ملت مسیحی اور برہمو سماج کے دکھلاویں.اور جو جو

Page 32

کمالات ان کی ذات سامی میں پوشیدہ ہیں منصہ ظہور میں لاویں ورنہ عوام کالانعام کے سامنے دم زنی کرنا صرف ایک لاف گزاف ہے اس سے زیادہ نہیں.اب میں ذیل میں مضمون موعودہ لکھتا ہوں.مضمون ابطال تناسخ و مقابلہ وید و قرآن جس کے طلب جواب میں صاحبان فضلاء آریہ سماج یعنی پنڈت کھڑک سنگھ صاحب.سوامی پنڈت دیانند صاحب.جناب باوا نرائن سنگھ صاحب.جناب منشی جیونداس صاحب.جناب منشی کنھیالال صاحب.جناب منشی بختاور سنگھ صاحب ایڈیٹر آریہ درپن.جناب بابو سارد اپرشاد صاحب.جناب منشی شرم پت صاحب سکرٹری آریہ سماج قادیاں جناب منشی اندرمن صاحب مخاطب ہیں بوعدہ انعام پانسو روپیہ.آریہ صاحبان کا پہلا اصول جو مدار تناسخ ہے یہ ہے جو دنیا کا کوئی پیدا کرنے والا نہیں اور سب ارواح مثل پرمیشر کے قدیم اور انادی ہیں اور اپنے اپنے وجود کے آپ ہی پرمیشر ہیں.میں کہتا ہوں کہ یہ اصول غلط ہے اور اس پر تناسخ کی پٹڑی جمانا بنیاد فاسد بر فاسد ہے قرآن مجید کہ جس پر تمام تحقیق اسلام کی مبنی ہے اور جس کے دلائل کو پیش کرنا بغرض مطالبہ دلائل وید اور مقابلہ باہمی فلسفہ مندرجہ وید اور قرآن کے ہم وعدہ کرچکے ہیں.ضرورت خالقیت باری تعالیٰ کو دلائل قطعیہ سے ثابت کرتا ہے چنانچہ وہ دلائل بہ تفصیل ذیل ہیں:.دلیل اول جو برہان لِمِّی ہے یعنے علت سے معلول کی طرف دلیل گئی ہے.دیکھو سورۂرعد الجزو ۱۳.اللّٰهُ خَالِـقُ كُلِّ شَىْءٍ وَّهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ‏؂.یعنے خدا ہر ایک چیز کا خالق ہے کیونکہ وہ اپنی ذات اور صفات میں واحد ہے اور واحد بھی ایسا کہ قہار ہے یعنے سب چیزوں کو اپنے ماتحت رکھتا ہے اور ان پر غالب ہے.یہ دلیل بذریعہ شکل اول جو بدیہی الانتاج ہے اس طرح پر قائم ہوتی ہے کہ صغریٰ اس کا یہ ہے جو خدا

Page 33

واحداور قہار ہے اور کبریٰ یہ کہ ہر ایک جو واحد اور قہار ہو وہ تمام موجدات ماسوائے اپنے کا خالق ہے.نتیجہ یہ ہوا جو خدا تمام مخلوقات کا خالق ہے.اثبات قضیۂ اولیٰ یعنے صغریٰ کا اس طور سے ہے کہ واحد اور قہار ہونا خدائے تعالیٰ کا اصول مسئلہ فریق ثانی بلکہ تمام دنیا کا اُصول ہے.اور اثبات قضیہ ثانیہ یعنی مفہوم کبریٰ کا اس طرح پر ہے کہ اگر خدائے تعالیٰ باوصف واحد اور قہار ہونے کے وجود ماسوائے اپنے کا خالق نہ ہو بلکہ وجود تمام موجودات کا مثل اس کے قدیم سے چلا آتا ہو تو اس صورت میں وہ واحد اور قہار بھی نہیں ہوسکتا.واحد اس باعث سے نہیں ہوسکتا کہ وحدانیت کے معنے سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ شرکت غیر سے بکلی پاک ہو.اور جب خدائے تعالیٰ خالق ارواح نہ ہو تو اس سے دو طور کا شرک لازم آیا.اول یہ کہ سب ارواح غیر مخلوق ہوکر مثل اس کے قدیم الوجود ہوگئے.دوم یہ کہ ان کے لئے بھی مثل پروردگار کے ہستی حقیقی ماننی پڑے جو مستفاض عن الغیر نہیں.پس اسی کا نام شرکت بالغیر ہے.اور شرک بالغیر ذات باری کا بہ بداہت عقل باطل ہے.کیونکہ اس سے شریک الباری پیدا ہوتا ہے اور شریک الباری ممتنع اور محال ہے.پس جو امر مستلزم محال ہو وہ بھی محال ہے اور قہار اس باعث سے نہیں ہوسکتا کہ صفت قہاری کے یہ معنے ہیں کہ دوسروں کو اپنے ماتحت میں کرلینا اور ان پر قابض اور متصرف ہوجانا.سو غیر مخلوق اور روحوں کو خدا اپنے ماتحت نہیں کرسکتا کیونکہ جو چیزیں اپنی ذات میں قدیم اور غیر مصنوع ہیں وہ بالضرورت اپنی ذات میں واجب الوجود ہیں اس لئے کہ اپنے تحقیق وجود میں دوسری کسی علت کے محتاج نہیں اور اسی کا نام واجب ہے جس کو فارسی میں خدا یعنے خود آئندہ کہتے ہیں.پس جب ارواح مثل ذات باری تعالیٰ کے خدا اور واجب الوجود ٹھہرے.تو ان کا باری تعالیٰ کے ماتحت رہنا عندالعقل محال اور ممتنع ہوا.کیونکہ ایک واجب الوجود دوسرے واجب الوجود

Page 34

کے ماتحت نہیں ہوسکتا اس سے دور یا تسلسل لازم آتا ہے.لیکن حال واقعہ جو مسلم فریقین ہے یہ ہے کہ سب ارواح خدائے تعالیٰ کے ماتحت ہیں کوئی اس کے قبضۂ قدرت سے باہر نہیں.پس اس سے ثابت ہوا کہ وہ سب حادث اور مخلوق ہیں کوئی ان میں سے خدا اور واجب الوجود نہیں اور یہی مطلب تھا.دلیل دوم جو اِنِّی ہے یعنی معلول سے علت کی طرف دلیل لی گئی ہے.دیکھو سورۂ الفرقان.لَمْ يَكُنْ لَّهٗ شَرِيْكٌ فِىْ الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِيْرًا۱؂ یعنے اس کے ملک میں کوئی اس کا شریک نہیں وہ سب کا خالق ہے.اور اس کے خالق ہونے پر یہ دلیل واضح ہے کہ ہرایک چیز کو ایک اندازہ مقرری پر پیدا کیا ہے کہ جس سے وہ تجاوز نہیں کرسکتی بلکہ اسی اندازہ میں محصور اور محدود ہے.اس کی شکل منطقی اس طرح پر ہے کہ ہر جسم اور روح ایک اندازہ مقرری میں محصور اور محدود ہے اور ہر ایک وہ چیز کہ کسی اندازہ مقرری میں محصور اور محدود ہو اس کا کوئی حاصر اور محدّد ضرور ہوتا ہے.نتیجہ یہ ہواکہ ہر ایک جسم اور روح کے لئے ایک حاصر اور محدو د ہے.اب اثبات قضیہ اولیٰ کا یعنی محدود القدر ہونے اشیاء کا اس طرح پر ہے کہ جمیع اجسام اور ارواح میں جو جو خاصیتیں پائی جاتی ہیں عقل تجویز کرسکتی ہے کہ ان خواص سے زیادہ خواص ان میں پائے جاتے مثلاً انسان کی وہ آنکھیں ہیں اور عندالعقل ممکن تھا کہ اس کی چار آنکھیں ہوتیں.دو مونہہ کی طرف اور دو پیچھے کی طرف تاکہ جیسا آگے کی چیزوں کو دیکھتا ہے ویسا ہی پیچھے کی چیزوں کو بھی دیکھ لیتا.اور کچھ شک نہیں کہ چار آنکھ کا ہونا بہ نسبت دو آنکھ کے کمال میں زیادہ اور فائدہ میں دوچند ہے.اور انسان کے پرنہیں اور ممکن تھا کہ مثل اور پرندوں کے اس کے پر بھی ہوتے.اور علیٰ ہذا القیاس نفس ناطقہ انسانی بھی ایک خاص درجہ میں محدود ہے جیسا کہ وہ بغیر تعلیم کسی معلم کے خودبخود مجہولات کو دریافت نہیں کرسکتا قاسر خارجی

Page 35

سے کہ جیسے جنون یا مخموری ہے سالم الحال نہیں رہ سکتا بلکہ فی الفور اس کی قوتوں اور طاقتوں میں تنزل واقع ہوجاتا ہے.اسی طرح بذاتہٖ ادراک جزئیات نہیں کرسکتا جیسا کہ اس امر کو شیخ محقق بوعلی سینا نے نمط سابع اشارات میں بتصریح لکھا ہے.حالانکہ عندالعقل ممکن تھا کہ ان سب آفات اور عیوب سے بچا ہوا ہوتا.پس جن جن مراتب اور فضائل کو انسان اور اس کی روح کے لئے عقل تجویز کرسکتی ہے وہ کس بات سے ان مراتب سے محروم ہے آیا تجویز کسی اور مجوز سے یا خود اپنی رضامندی سے.اگر کہو کہ اپنی رضامندی سے تو یہ صریح خلاف ہے کیونکہ کوئی شخص اپنے حق میں نقص روا نہیں رکھتا.اور اگر کہو کہ تجویز کسی اور مجوز سے تو مبارک ہو کہ وجود خالق ارواح اور اجسام کا ثابت ہوگیا اور یہی مدعا تھا.دلیل سوم قیاس الخلف ہے اور قیاس الخلف اس قیاس کا نام ہے کہ جس میں اثبات مطلوب کا بذریعہ ابطال نقیض اس کے کے کیا جاتا ہے اور اس قیاس کو علم منطق میں خلف اس جہت سے کہتے ہیں کہ خلف لغت میں بمعنی باطل کے ہے اور اسی طرح اس قیاس میں اگر مطلوب کو کہ جس کی حقیقت کا دعویٰ ہے سچا نہ مان لیا جائے تو نتیجہ ایسا نکلے گا جو باطل کو مستلزم ہوگا اور قیاس مذکور یہ ہے دیکھو سورہ الطور الجزو ۲۷.اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَيْرِ شَىْءٍ اَمْ هُمُ الْخَـالِقُوْنَؕاَمْ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ‌ۚ بَل لَّا يُوْقِنُوْنَؕاَمْ عِنْدَهُمْ خَزَآٮِٕنُ رَبِّكَ اَمْ هُمُ الْمُصَۜيْطِرُوْن۱؂ یعنے کیا یہ لوگ جو خالقیت خدائے تعالیٰ سے منکر ہیں بغیر پیدا کرنے کسی خالق کے یونہی پیدا ہوگئے یا اپنے وجود کو آپ ہی پیدا کرلیا یا خود علت العلل ہیں جنہوں نے زمین و آسمان پیدا کیا یا ان کے پاس غیر متناہی خزانے علم اور عقل کے ہیں جن سے انہوں نے ان سے معلوم کیا کہ ہم قدیم الوجود ہیں یا وہ آزاد ہیں.اور کسی کے قبضۂ قدرت میں مقہور نہیں ہیں تا یہ گمان ہو کہ جبکہ ان پر کوئی غالب اور قہار ہی نہیں تو وہ ان کا

Page 36

خالق کیسے ہو.اس آیت شریف میں یہ استدلال لطیف ہے کہ ہرپنج شقوق قدامت ارواح کو اس طرز مدلل سے بیان فرمایا ہے کہ ہر ایک شق کے بیان سے ابطال اس شق کا فی الفور سمجھا جاتا ہے اور تفصیل ان اشارات لطیفہ کی یوں ہے کہ شق اول یعنے ایک شے معدوم کا بغیر فعل کسی فاعل کے خودبخود پیدا ہوجانا اس طرح پر باطل ہے کہ اس سے ترجیح بلا مرجّح لازم آتی ہے کیونکہ عدم سے وجود کا لباس پہننا ایک موثر مرجّحکو چاہتا ہے جو جانب وجود کو جانب عدم پر ترجیح دے لیکن اس جگہ کوئی مؤثر مرجّح موجود نہیں اور بغیر وجود مرجّح کے خودبخود ترجیح پیدا ہوجانا محال ہے.اور شق دوم یعنے اپنے وجود کا آپ ہی خالق ہونا اس طرح پر باطل ہے کہ اس سے تقدم شے کا اپنے نفس پر لازم آتا ہے کیونکہ اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ ہر ایک شے کے وجود کی علت موجبہ اس شے کا نفس ہے تو بالضرورت یہ اقرار اس اقرار کو مستلزم ہوگا کہ وہ سب اشیاء اپنے وجود سے پہلے موجود تھیں اور وجود سے پہلے موجود ہونا محال ہے.اور شق سوم یعنے ہر ایک شے کا مثل ذات باری کے علت العلل اور صانع عالم ہونا تعدد خداؤں کو مستلزم ہے اور تعدد خداؤں کا باتفاق محال ہے اور نیز اس سے دور یا تسلسل لازم آتا ہے اور وہ بھی محال ہے.اور شق چہارم یعنے محیط ہونا نفس انسان کا علوم غیرمتناہی پر اس دلیل سے محال ہے کہ نفس انسانی باعتبار تعیّن تشخص خارجی کے متناہی ہے اور متناہی میں غیرمتناہی سمانہیں سکتا اس سے تحدید غیر محدود کی لازم آتی ہے.اور شق پنجم یعنے خودمختار ہونا اور کسی کے حکم کے ماتحت نہ ہونا ممتنع الوجود ہے.کیونکہ نفس انسان کا بضرورت استکمال ذات اپنی کے ایک مکمل کا محتاج ہے اور محتاج کا خودمختار ہونا محال ہے اس سے اجتماع نقیضین لازم آتا ہے پس جبکہ بغیر ذریعہ خالق کے موجود ہونا موجودات کا بہرصورت ممتنع اور محال ہوا تو بالضرور یہی ماننا پڑا کہ

Page 37

تمام اشیاء موجود ہ محدودہ کا ایک خالق ہے جو ذات باری تعالیٰ ہے اور شکل اس قیاس کی جو ترتیب مقدمات صغریٰ کبریٰ سے بقاعدہ منطقیہ مرتب ہوتی ہے اس طرح پر ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ یہ قضیہ فی نفسہٖ صادق ہے کہ کوئی شے بجز ذریعہ واجب الوجود کے موجودنہیں ہوسکتی کیونکہ اگر صادق نہیں ہے تو پھر اس کی نقیض صادق ہوگی کہ ہر ایک شے بجز ذریعہ واجب الوجود کے وجود پکڑسکتی ہے اور یہ دوسرا قضیہ ہماری تحقیقات مندرجہ بالا میں ابھی ثابت ہوچکا ہے کہ وجود تمام اشیاء ممکنہ کا بغیر ذریعہ واجب الوجود کے محالات خمسہ کو مستلزم ہے.پس اگر یہ قضیہ صحیح نہیں ہے کہ کوئی شے بجز ذریعہ واجب الوجود کے موجود نہیں ہوسکتی تو یہ قضیہ صحیح ہوگا کہ وجود تمام اشیاء کو محالات خمسہ لازم ہیں لیکن وجود اشیاء کا باوصف لزوم محالات خمسہ کے ایک امر محال ہے پس نتیجہ نکلا کہ کسی شے کا بغیر واجب الوجود کے موجود ہونا امر محال ہے اور یہی مطلوب تھا.دلیل چہارم:.قرآن مجید میں بذریعہ مادہ قیاس اقترانی قائم کی گئی ہے.جاننا چاہئے کہ قیاس حجت کی تین قسموں میں سے پہلی قسم ہے.اور قیاس اقترانی وہ قیاس ہے کہ جس میں عین نتیجہ کا یا نقیض اس کی بالفعل مذکور نہ ہو بلکہ بالقوہ پائی جائے اور اقترانی اس جہت سے کہتے ہیں کہ حدود اس کے یعنی اصغر اور اوسط اور اکبر مقترن ہوتی ہیں اور بالعموم قیاس حجت کے تمام اقسام سے اعلیٰ اور افضل ہے کیونکہ اس میں کلی کے حال سے جزئیات کے حال پر دلیل پکڑی جاتی ہے کہ جو بباعث استیفا تام کے مفید یقین کامل کے ہے.پس وہ قیاس کہ جس کی اتنی تعریف ہے اس آیت شریفہ میں درج ہے اور ثبوت خالقیت باری تعالیٰ میں گواہی دے رہا ہے دیکھو سورہ الحشر جزو ۲۸.هُوَ اللّٰهُ الْخَـالِـقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ‌ لَـهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى‌ؕ ۱؂ وہ اللہ خالق ہے یعنی پیدا کنندہ ہے وہ باری ہے یعنے روحوں اور اجسام کو عدم سے وجود بخشنے والا ہے وہ مصور ہے یعنے صورت جسمیہ اور صورت نوعیہ عطا کرنے والا ہے کیونکہ اس کے لئے تمام اسماء حسنہ ثابت ہیں یعنے جمیع صفات کاملہ جو باعتبار کمال قدرت کے عقل تجویز کرسکتی ہے

Page 38

اس کی ذات میں جمع ہیں.لہذا نیست سے ہست کرنے پر بھی وہ قادر ہے.کیونکہ نیست سے ہست کرنا قدرتی کمالات سے ایک اعلیٰ کمال ہے اور ترتیب مقدمات اس قیاس کی بصورت شکل اول کے اس طرح پر ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ پیدا کرنا اور محض اپنی قدرت سے وجود بخشنا ایک کمال ہے اور سب کمالات ذات کامل واجب الوجود کو حاصل ہیں.پس نتیجہ یہ ہوا کہ نیست سے ہست کرنے کا کمال بھی ذات باری کو حاصل ہے.ثبوت مفہوم صغریٰ کا یعنی اس بات کا کہ محض اپنی قدرت سے پیدا کرنا ایک کمال ہے اس طرح پر ہوتا ہے کہ نقیض اس کی یعنے یہ امر کہ محض اپنی قدرت سے پیدا کرنے میں عاجز ہونا جب تک باہر سے کوئی مادہ آکر معاو ن اور مددگار نہ ہو ایک بھاری نقصان ہے کیونکہ اگر ہم یہ فرض کریں کہ مادہ موجودہ سب جابجا خرچ ہوگیا تو ساتھ ہی یہ فرض کرنا پڑتا ہے کہ اب خدا پیدا کرنے سے قطعاً عاجز ہے حالانکہ ایسا نقص اس ذات غیر محدود اور قادر مطلق پر عائد کرنا گویا اس کی الوہیت سے انکار کرنا ہے.سوائے اس کے علم الٰہیات میں یہ مسئلہ بدلائل ثابت ہوچکا ہے کہ مستجمع الکمالات ہونا واجب الوجود کا تحقق الوہیت کے واسطے شرط ہے یعنی یہ لازم ہے کہ کوئی مرتبہ کمال کا مراتب ممکن التصور سے جو ذہن اور خیال میں گزر سکتا ہے اس ذات کامل سے فوت نہ ہو.پس بلاشبہ عقل اس بات کو چاہتی ہے کہ کمال الوہیت باری تعالیٰ کا یہی ہے کہ سب موجودات کا سلسلہ اسی کی قدر ت تک منتہی ہو نہ یہ کہ صفت قدامت اور ہستی حقیقی کے بہت سے شریکوں میں بٹی ہوئی ہو اور قطع نظر ان سب دلائل اور براہین کے ہر ایک سلیم الطبع سمجھ سکتا ہے کہ اعلیٰ کام بہ نسبت ادنیٰ کام کے زیادہ تر کمال پر دلالت کرتا ہے پس جس صورت میں تالیف اجزاء عالم کمال الٰہی میں داخل ہے تو پھر پیدا کرنا عالم کا بغیر احتیاج اسباب کے جو کروڑہا درجہ زیادہ تر قدرت پر دلالت کرتا ہے کس قدر اعلیٰ کمال ہوگا.پس صغریٰ اس شکل کا بوجہ کامل ثابت ہوا.

Page 39

اور ثبوت کبریٰ کا یعنے اس قضیہ کا کہ ہر ایک کمال ذات باری کو حاصل ہے اس طرح پر ہے کہ اگر بعض کمالات ذات باری کو حاصل نہیں تو اس صورت میں یہ سوال ہوگا کہ محرومی ان کمالات سے بخوشی خاطر ہے یا بہ مجبوری ہے.اگر کہو کہ بخوشی خاطر ہے تو یہ جھوٹ ہے کیونکہ کوئی شخص اپنی خوشی سے اپنے کمال میں نقص روا نہیں رکھتا اور نیز جبکہ یہ صفت قدیم سے خدا کی ذات سے قطعاً مفقود ہے تو خوشی خاطر کہاں رہی.اور اگر کہو کہ مجبوری سے تو وجود کسی اور قاسر کا ماننا پڑا جس نے خدا کو مجبور کیا اور نفاذ اختیارات خدائی سے اس کو روکا یا یہ فرض کرنا پڑا کہ وہ قاسر اس کا اپنا ہی ضعف اور ناتوانی ہے کوئی خارجی قاسر نہیں.بہرحال وہ مجبور ٹھہرا تو اس صورت میں وہ خدائی کے لائق نہ رہا.پس بالضرورت اس سے ثابت ہوا کہ خداوند تعالیٰ داغ مجبوری سے کہ بطلانِ الوہیت کو مستلزم ہے پاک اور منزہ ہے اور صفت کاملہ خالقیت اور عدم سے پیدا کرنے کی اس کو حاصل ہے اور یہی مطلب تھا.دلیل پنجم.فرقان مجید میں خالقیت باری تعالیٰ پر بمادہ قیاس استثنائی قائم کی گئی ہے اور قیاس استثنائی اس قیاس کو کہتے ہیں کہ جس میں عین نتیجہ یا نقیض اس کی بالفعل موجود ہو اور دو مقدموں سے مرکب ہو یعنے ایک شرطیہ اور دوسرے وضعیہ سے چنانچہ آیت شریف جو اس قیاس پر متضمن ہے یہ ہے.دیکھو سورہ الزُّمر جزو ۲۳ يَخْلُقُكُمْ فِىْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ خَلْقًا مِّنْۢ بَعْدِ خَلْقٍ فِىْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ‌ؕ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ؂ یعنی وہ تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین اندھیرے پردوں میں پیدا کرتا ہے اس حکمت کاملہ سے کہ ایک پیدائش اور قسم کی اور ایک اور قسم کی بناتا ہے یعنی ہر عضو کو صورت مختلف اور خاصیتیں اور طاقتیں الگ الگ بخشتا ہے.یہاں تک کہ قالب بے جان میں جان ڈال دیتا ہے نہ اس کو اندھیرا کام کرنے سے روکتا ہے اور نہ مختلف قسموں اور خاصیتوں کے اعضا بنانا اس پر مشکل ہوتا ہے اور نہ سلسلہ پیدائش کے ہمیشہ

Page 40

جاری رکھنے میں اس کو کچھ وقت اور حرج واقع ہوتا ہے.ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ؂ وہی جو ہمیشہ اس سلسلہ قدرت کو برپا اور قائم رکھتا ہے وہی تمہارا رب ہے یعنے اسی قدرت تامہ سے اس کی ربوبیت تامہ جو عدم سے وجود اور وجود سے کمال وجود بخشنے کو کہتے ہیں ثابت ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ رب الاشیاء نہ ہوتا اور اپنی ذات میں ربوبیت تامہ نہ رکھتا اور صرف مثل ایک بڑھئی یا کاریگر کے اِدھر اُدھر سے لے کر گزارہ کرتا تو اس کو قدرت تام ہرگز حاصل نہ ہوتی اور ہمیشہ اور ہروقت کامیاب نہ ہوسکتا بلکہ کبھی نہ کبھی ضرور ٹوٹ آجاتی اور پیدا کرنے سے عاجز رہ جاتا.خلاصہ آیت کا یہ کہ جس شخص کا فعل ربوبیت تامہ سے نہ ہو یعنے ازخود پیدا کنندہ نہ ہو اس کو قدرت تامہ بھی حاصل نہیں ہوسکتی لیکن خدا کو قدرت تامہ حاصل ہے کیونکہ قسم قسم کی پیدائش بنانا اور ایک بعد دوسرے کے بلا تخلف ظہور میں لانا اور کام کو ہمیشہ برابر چلانا قدرت تامہ کی کامل نشانی ہے.پس اس سے ثابت ہوا کہ خدائے تعالیٰ کو ربوبیت تامہ حاصل ہے اور درحقیقت وہ رب الاشیاء ہے نہ صرف بڑھئی اور معمار اشیاء کا ورنہ ممکن نہ تھا کہ کارخانہ دنیا کا ہمیشہ بلاحرج چلتا رہتا بلکہ دنیا اور اس کے کارخانہ کا کبھی کا خاتمہ ہوجاتا کیونکہ جس کا فعل اختیار تام سے نہیں وہ ہمیشہ اور ہر وقت اور ہر تعداد پر ہرگز قادر نہیں ہوسکتا.اور شکل اس قیاس کی جو آیت شریف میں درج ہے بقاعدہ منطقیہ اس طرح پر ہے کہ جس شخص کا فعل کسی وجود کے پیدا کرنے میں بطور قدرت تامہ ضروری ہو.اس کے لئے صفت ربوبیت تامہ کی یعنی عدم سے ہست کرنا بھی ضروری ہے لیکن خدا کا فعل مخلوقات کے پیدا کرنے میں بطور قدرت تامہ ضروری ہے.پس نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے لئے صفت ربوبیت تامہ کی بھی ضروری ہے.ثبوت صغریٰ کا یعنے اس بات کا کہ جس صانع کے لئے قدرت تامہ ضروری ہے اس کے لئے صفت ربوبیت تامہ کی بھی ضروری ہے اس طرح پر ہے کہ عقل اس بات کی

Page 41

ضرورت کو واجب ٹھہراتی ہے کہ جب کوئی ایسا صانع کہ جس کی نسبت ہم تسلیم کرچکے ہیں کہ اس کو اپنی کسی صنعت کے بنانے میں حرج واقع نہیں ہوتا کسی چیز کا بنانا شروع کرے تو سب اسباب تکمیل صنعت کے اس کے پاس موجود ہونے چاہئیں اور ہر وقت اور ہرتعداد تک میسر کرنا ان چیزوں کا جو وجود مصنوع کے لئے ضروری ہیں اس کے اختیار میں ہونا چاہئے.اور ایسا اختیار تام بجز اس صورت کے اور کسی صورت میں مکمل نہیں کہ صانع اس مصنوع کااس کے اجزا پیدا کرنے پر قادر ہو کیونکہ ہر وقت اور ہر تعداد تک ان چیزوں کا میسر ہوجانا کہ جن کا موجود کرنا صانع کے اختیار تام میں نہیں عندالعقل ممکن التخلف ہے اور عدم تخلف پر کوئی برہان فلسفی قائم نہیں ہوتی اور اگر ہوسکتی ہے تو کوئی صاحب پیش کرے.وجہ اس کی ظاہر ہے کہ مفہوم اس عبارت کا کہ فلاں امر کا کرنا زید کے اختیار تام میں نہیں اس عبارت کے مفہوم سے مساوی ہے کہ ممکن ہے کہ کسی وقت وہ کام زید سے نہ ہوسکے پس ثابت ہوا کہ صانع تام کا بجز اس کے ہرگز کام نہیں چل سکتا کہ جب تک اس کی قدرت بھی تام نہ ہو اسی واسطے کوئی مخلوق اہل حرفہ میں سے اپنے حرفہ میں صانع تام ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا بلکہ کل اہل صنائع کا دستور ہے کہ جب کوئی بار بار ان کی دکان پر جاکر ان کو دق کرے کہ فلاں چیز ابھی مجھے بنادو تو آخر اس کے تقاضے سے تنگ آکر اکثر بول اٹھتے ہیں کہ ’’میاں میں کچھ خدا نہیں ہوں کہ صرف حکم سے کام کردوں فلاں فلاں چیز ملے گی تو پھر بنادوں گا‘‘.غرض سب جانتے ہیں کہ صانع تمام کے لئے قدرت تام اور ربوبیت شرط ہے.یہ بات نہیں کہ جب تک زید نہ مرلے بکر کے گھر لڑکا پیدا نہ ہو.یا جب تک خالد فوت نہ ہو ولید کے قالب میں جو ابھی پیٹ میں ہے جان نہ پڑسکے پس بالضرورت صغریٰ ثابت ہوا.اور کبریٰ شکل کا یعنی یہ کہ خدا مخلوقات کے پیدا کرنے میں بطور قدرت تامہ کے

Page 42

ضروری ہے خود ثبوت صغریٰ سے ثابت ہوتا ہے اور نیز ظاہر ہے کہ اگر خدائے تعالیٰ میں قدرت ضروریہ تامہ نہ ہو تو پھر قدرت اس کی بعض اتفاقی امور کے حصول پر موقوف ہوگی.اور جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں عقل تجویز کرسکتی ہے کہ اتفاقی امور وقت پر خدائے تعالیٰ کو میسر نہ ہوسکیں کیونکہ وہ اتفاقی ہیں.ضروری نہیں.حالانکہ تعلق پکڑنا روح کا جنین کے جسم سے بروقت طیاری جسم اس کے کے لازم ملزوم ہے.پس ثابت ہوا کہ فعل خدائے تعالیٰ کا بطور قدرت تامہ کے ضروری ہے اور نیز اس دلیل سے ضرورت قدرت تامہ کی خدائے تعالیٰ کے لئے واجب ٹھہرتی ہے کہ بموجب اصول متقررہ فلسفہ کے ہم کو اختیار ہے کہ یہ فرض کریں کہ مثلاً ایک مدت تک تمام ارواح موجودہ ابدان متناسبہ اپنے سے متعلق ہیں.پس جب ہم نے یہ امر فرض کیا تو یہ فرض ہمارا اس دوسرے فرض کو بھی مستلزم ہوگا کہ اب تا انقضائے اس مدت کے ان جنینوں میں جو رحموں میں طیار ہوئے ہیں کوئی روح داخل نہیں ہوگا.حالانکہ جنینوں کا بغیر تعلق روح کے معطل پڑے رہنا بہ بداہت عقل باطل ہے.پس جو امر مستلزم باطل ہے وہ بھی باطل.پس ثبوت متقدمین سے یہ نتیجہ ثابت ہوگیا کہ خدائے تعالیٰ کے لئے صفت ربو بیت تامہ کی ضروری ہے اور یہی مطلب تھا.دلیل ششم:.قرآن مجید میں بمادہ قیاس مرکب قائم کی گئی ہے اور قیاس مرکب کی یہ تعریف ہے کہ ایسے مقدمات سے مؤلف ہوکہ ان سے ایسا نتیجہ نکلے کہ اگرچہ وہ نتیجہ خود بذاتہٖ مطلب کو ثابت نہ کرتا ہو لیکن مطلب بذریعہ اس کے اس طور سے ثابت ہو کہ اسی نتیجہ کو کسی اور مقدمہ کے ساتھ ملا کر ایک دوسرا قیاس بنایا جائے.پھر خواہ نتیجہ مطلوب اسی قیاس دوم کے ذریعہ سے نکل آوے یا اور کسی قدر اسی طور سے قیاسات بناکر مطلوب حاصل ہو.دونوں صورتوں میں اس قیاس کو قیاس مرکب کہتے ہیں.اور آیت شریف جو اس قیاس پر متضمن ہے یہ ہے دیکھو سورۃالبقرۃ الجزو ۳ اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْحَـىُّ الْقَيُّوْمُ ۚ یعنی

Page 43

خدا اپنی ذات میں سب مخلوقات کے معبود ہونے کا ہمیشہ حق رکھتا ہے جس میں کوئی اس کا شریک نہیں.اس دلیل روشن سے کہ وہ زندہ ازلی ابدی ہے اور سب چیزوں کا وہی قیوم ہے یعنی قیام اور بقاء ہرچیز کا اسی کے بقاء اور قیام سے ہے اور وہی ہر چیز کو ہردم تھامے ہوئے ہے نہ اس پر اونگ طاری ہوتی ہے نہ نیند اسے پکڑتی ہے یعنی حفاظت مخلوق سے کبھی غافل نہیں ہوتا.پس جبکہ ہر ایک چیز کی قائمی اسی سے ہے پس ثابت ہے کہ ہر ایک مخلوقات آسمانوں کا اور مخلوقات زمین کا وہی خالق ہے اور وہی مالک.اور شکل اس قیاس کی جو آیت شریف میں وارد ہے بقاعدہ منطقیہ اس طرح پر ہے (جز اوّل قیاس مرکب کی)(صغریٰ) خدا کو بلا شرکۃالغیر تمام مخلوقات کے معبود ہونے کا حق ازلی ابدی ہے (کبریٰ) اور جس کو تمام مخلوقات کے معبود ہونے کا حق ازلی ابدی ہو وہ زندہ ازلی ابدی اور تمام چیزوں کا قیوم ہوتا ہے (نتیجہ) خدا زندہ ازلی ابدی اور تمام چیزوں کا قیوم ہے (جزثانی قیاس مرکب کی کہ جس میں نتیجہ قیاس اول کا صغریٰ قیاس کا بنایا گیا ہے (صغریٰ) (خدا وند ازلی ابدی اور تمام چیزوں کا قیوم ہے) (کبریٰ) اور جو زندہ ازلی ابدی اور تمام چیزوں کا قیوم ہو وہ تمام اشیاء کا خالق ہوتا ہے) (نتیجہ) (خدا تمام چیزوں کا خالق ہے) صغریٰ جز اول قیاس مرکب کا یعنے یہ قضیہ کہ خدا کا بلاشرکۃ الغیرے تمام مخلوقات کے معبود ہونے کا حق ازلی ابدی ہے باقرار فریق ثانی ثابت ہے.پس حاجت اقامت دلیل کی نہیں اور کبریٰ جز اوّل قیاس مرکب کا یعنی یہ قضیہ کہ جس کو تمام اشیاء کے معبود ہونے کا حق ازلی ابدی ہو وہ زندہ ازلی ابدی اور تمام اشیاء کا قیوم ہوتا ہے اس طرح پر ثابت ہے کہ اگر خدائے تعالیٰ ازلی ابدی زندہ نہیں ہے تو یہ فرض کرنا پڑا کہ کسی وقت پیدا ہوا یا آئندہ کسی وقت باقی نہیں رہے گا دونوں صورتوں میں ازلی ابدی معبود ہونا اس کا باطل ہوتا ہے کیونکہ جب اس کا وجود ہی نہ رہا تو پھر عبادت اس کی نہیں ہوسکتی کیونکہ عبادت معدوم کی صحیح نہیں ہے اور جب وہ بوجہ معدوم ہونے

Page 44

کے معبود ازلی ابدی نہ رہا تو اس سے یہ قضیہ کاذب ہوا کہ خدا کو معبود ہونے کا حق ازلی ابدی ہے.حالانکہ ابھی ذکر ہوچکا ہے کہ یہ قضیہ صادق ہے.پس ماننا پڑا کہ جس کو تمام اشیاء کے معبود ہونے کا حق ازلی ابدی ہو وہ زندہ ازلی ابدی ہوتا ہے.اسی طرح اگر خدا تمام چیزوں کا قیوم نہیں یعنی حیات اور بقاء دوسروں کی اس کی حیات اور بقاء پر موقوف نہیں تو اس صورت میں وجود اس کا بقاء مخلوقات کے واسطے کچھ شرط نہ ہوگا بلکہ تاثیر اس کی بطور مؤثر بالقسر ہوگی نہ بطور علت حقیقۃ حافظ الاشیاء کے کیونکہ موثر بالقسرا سے کہتے ہیں کہ جس کا وجود اور بقاء اس کے متاثر کے بقاء کے واسطے شرط نہ ہو جیسے زیدنے مثلاً ایک پتھر چلایا اور اسی وقت پتھر چلاتے ہی مرگیا.تو بے شک اس پتھر کو جو ابھی اس کے ہاتھ سے چُھٹا ہے بعد موت زید کے بھی حرکت رہے گی پس اسی طرح اگر بقول آریہ سماج والوں کے خدائے تعالیٰ کو محض مؤثر بالقسر قرار دیا جائے تو اس سے نعوذ باللہ یہ لازم آتا ہے کہ اگر پرمیشر کی موت بھی فرض کریں تو بھی ارواح اور ذرّات کا کچھ بھی حرج نہ ہو کیونکہ بقول پنڈت دیانند صاحب کے کہ جس کو انہوں نے ستیارتھ پرکاش میں درج فرما کر توحید کا ستیاناس کیا ہے اور نیز بقول پنڈت کھڑک صاحب کے کہ جنہوں نے بغیر سوچے سمجھے تقلید پنڈت دیانند صاحب کی اختیار کی ہے وید میں یہ لکھا ہے کہ سب ارواح اپنی بقاء اور حیات میں بالکل پرمیشر سے بے غرض ہیں اور جیسے بڑھئی کو چوکی سے اور کمہار کو گھڑے سے نسبت ہوتی ہے وہی پرمیشر کو مخلوقات سے نسبت ہے یعنی صرف جوڑنے جاڑنے سے ٹنڈا پرمیشر گریکا چلاتا ہے اور قیوم چیزوں کا نہیں ہے لیکن ہر ایک دانا جانتا ہے کہ ایسا ماننے سے یہ لازم آتا ہے کہ پرمیشر کا وجود بھی مثل کمہاروں اور نجاروں کے وجود کے بقاء اشیاء کے لئے کچھ شرط نہ ہو بلکہ جیسے بعد موت کمہاروں اور بڑھئیوں کے گھڑے اور چوکیاں اسی طرح بنے رہتے ہیں اسی طرح بصورت فوت ہونے پرمیشر کے بھی اشیاء موجودہ میں کچھ بھی خلل واقع نہ ہوسکے.پس ثابت ہوا

Page 45

کہ یہ خیال پنڈت صاحب کا جو پرمیشر کو صانع ہونے میں کمہار اور بڑھئی سے مشابہت ہے قیاس مع الفارق ہے.کاش اگر وہ خدا کو قیوم اشیاء کا مانتے اور نجاروں سانہ جانتے تو ان کو یہ تو کہنا نہ پڑتا کہ پرمیشر کی موت فرض کرنے سے روحوں کا کچھ بھی نقصان نہیں لیکن شاید وید میں یہی لکھا ہوگا.ورنہ میں کیونکر کہوں کہ پنڈت صاحب کو قیومیت پروردگارا جو ا ٰجلی بدیہیات ہے کچھ شک ہے.اور اگر پنڈت صاحب پرمیشر کو قیوم سب چیزوں کا مانتے ہیں تو پھر اس کو کمہاروں اور معماروں سے نسبت دینا کس قسم کی بدیا ہے.اور وید میں اس پر دلیل کیا لکھی ہے.دیکھو فرقان مجید میں صفت قیومی پروردگار کی کئی مقام میں ثابت کی ہے جیسا کہ مکرر اس دوسری آیت میں بھی فرمایا ہے.  ۱؎ یعنی خدا آسمان و زمین کا نور ہے.اسی سے طبقۂ سفلی اور علوی میں حیات اور بقا کی روشنی ہے پس اس ہماری تحقیق سے جز اول قیاس مرکب کی ثابت ہوئی اور صغریٰ جزثانی قیاس مرکب کا وہی ہے جو جز اوّل قیاس مرکب کا نتیجہ ہے اور جز اوّل قیاس مرکب کی ابھی ثابت ہوچکی ہے.پس نتیجہ بھی ثابت ہوگیا.اور کبریٰ جز ثانی کا جو زندہ ازلی ابدی اور قیوم سب چیزوں کا ہو وہ خالق ہوتا ہے.اس طرح پر ثابت ہے کہ قیوم اسے کہتے ہیں کہ جس کا بقا اور حیات دوسری چیزوں کے بقا اور حیات اور ان کے کل مایحتاج کے حصول کا شرط ہو اور شرط کے یہ معنے ہیں کہ اگر اس کا عدم فرض کیا جائے تو ساتھ ہی مشروط کا عدم فرض کرنا پڑے جیسے کہیں کہ اگر خدائے تعالیٰ کا وجودنہ ہو تو کسی چیز کا وجودنہ ہو.پس یہ قول کہ اگر خدائے تعالیٰ کا وجودنہ ہو تو کسی چیز کا وجودنہ ہو بعینہٖ اس قول کے مساوی ہے کہ خدائے تعالیٰ کا وجودنہ ہوتا تو کسی چیز کا وجودنہ ہوتا.پس اس سے ثابت ہوا کہ خدائے تعالیٰ کا وجود دوسری چیزوں کے وجود کا علت ہے اور خالقیت کے بجز اس کے اور کوئی معنے نہیں کہ وجود خالق کا وجود مخلوق کے لئے علت ہو.پس ثابت ہوگیا کہ خدا خالق ہے اور یہی مطلب تھا.الراقم مرزا غلام احمد رئیس قادیان

Page 46

مسئلۂ الہام کی بحث پر خط و کتابت الہام ایک القاء غیبی ہے کہ جس کا حصول کسی طرح کی سوچ اور تردد اور تفکر اور تدبر پر موقوف نہیں ہوتا اور ایک واضح اور منکشف احساس سے کہ جیسے سامع کو متکلم سے یا مضروب کو ضارب سے یا ملموس کو لامس سے ہو محسوس ہوتا ہے اور اس سے نفس کو مثل حرکات فکریہ کے کوئی الم روحانی نہیں پہنچتا بلکہ جیسے عاشق اپنے معشوق کی رویت سے بلاتکلف انشراح اور انبساط پاتا ہے ویسا ہی روح کو الہام سے ایک ازلی اور قدیمی رابطہ ہے کہ جس سے روح لذت اٹھاتا ہے.غرض یہ ایک منجانب اللہ اعلام لذیذ ہے کہ جس کو نفث فی الروع اور وحی بھی کہتے ہیں.دلیل لمی نمبر اول الہام کی ضرورت پر کوئی قانون عاصم ہمارے پاس ایسا نہیں ہے کہ جس کے ذریعہ سے ہم لزوماً غلطی سے بچ سکیں.یہی باعث ہے کہ جن حکیموں نے قواعد منطق کے بنائے اور مسائل مناظرہ کے ایجاد کئے اور دلائل فلسفہ کے گھڑے وہ بھی غلطیوں میں ڈوبتے رہے.اور صدہا طور کے باطل خیال اور جھوٹا فلسفہ اور نکمی باتیں اپنی نادانی کے یادگار میں چھوڑ گئے.پس اس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ اپنی ہی تحقیقات سے جمیع امور حقہ اور عقائد صحیحہ پر پہنچ جانا اور کہیں غلطی نہ کرنا ایک محال عادی ہے کیونکہ آج تک ہم نے کوئی فرد بشر ایسا نہیں دیکھا اور نہ سنا اور نہ کسی تاریخی کتاب میں لکھا ہوا پایا کہ جو اپنی تمام نظر اور فکر میں سہو اور خطا سے معصوم ہو.پس بذریعہ قیاس استقرائی کے یہ صحیح اور سچا نتیجہ نکلتا ہے کہ وجود ایسے اشخاص کا کہ جنہوں نے صرف قانون قدرت میں فکر اور

Page 47

غور کرکے اور اپنے ذخیرہ ٔکانشنس کو واقعات عالم سے مطابقت دے کر اپنی تحقیقات کو ایسے اعلیٰ پایہ صداقت پر پہنچا دیا ہو کہ جس میں غلطی کا نکلنا غیر ممکن ہو.خود عادتاً غیر ممکن ہو.اب بعد اس کے جس امر میں آپ بحث کرسکتے ہیں اور جس بحث کا آپ کو حق پہنچتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ برخلاف ہمارے اس استقراء کے کوئی نظیر دے کر ہمارے اس استقرا کو توڑ دیں یعنے از روئے وضع مستقیم مناظرہ کے جواب آپ کا صرف اس امر میں محصور ہے کہ اگر آپ کی نظر میں ہمارا استقرا غیر صحیح ہے تو آپ بغرض ابطال ہمارے اس استقرا کے کوئی ایسا فرد کامل ارباب نظر اور فکر اور حدس میں سے پیش کریں کہ جس کی تمام راؤں اور فیصلوں اور جج منٹوں میں کوئی نقص نکالنا ہرگز ممکن نہ ہو اور زبان اور قلم اس کی سہووخطا سے بالکل معصوم ہو.تاہم بھی تو دیکھیں کہ وہ در حقیقت ایسا ہی معصوم ہے یا کیا حال ہے.اگر معصوم نکلے گا تو بے شک آپ سچے اور ہم جھوٹے ورنہ صاف ظاہر ہے کہ جس حالت میں نہ خود انسان اپنے علم اور واقفیت سے غلطی سے بچ سکے اور نہ خدا (جو رحیم اور کریم اور ہر ایک سہو و خطا سے مبرا اور ہر امر کی اصل حقیقت پر واقف ہے) بذریعہ اپنے سچے الہام کے اپنے بندوں کی مدد کرے تو پھر ہم عاجز بندے کیونکر ظلمات جہل اور خطا سے باہر آویں اور کیونکر آفات شک و شبہ سے نجات پائیں.لہٰذا میں مستحکم رائے سے یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ مقتضاء حکمت اور رحمت اور بندہ پروری اس قادر مطلق کا یہی ہے کہ وقتاً فوقتاً جب مصلحت دیکھے ایسے لوگوں کو پیدا کرتا رہے کہ عقائد حقہ کے جاننے اور اخلاق صحیحہ کے معلوم کرنے میں خدا کی طرف سے الہام پائیں اور تفہیم تعلیم کا ملکہ وہبی رکھیں تاکہ نفوس بشریہ کہ سچی ہدایت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اپنی سعادت مطلوبہ سے محروم نہ رہیں.راقم آپ کا نیاز مند غلام احمد عفی عنہ.۲۱؍ مئی ۱۸۷۹؁ء مکرمی جناب مرزا صاحب عنایت نامہ آپ کا بمعہ مضمون پہنچا.آپ نے الہام کی تعریف اور اس کی ضرورت کے بارے میں

Page 48

جو کچھ لکھا ہے افسوس ہے کہ میں اس سے اتفاق نہیں کرسکتا ہوں.میرے اتفاق نہ کرنے کی جو جو وجوہات ہیں انہیں ذیل میں رقم کرتا ہوں.اوّل.آپ کی اس دلیل میں (جس کو آپ لمی قرار دیتے ہیں ) علاوہ اس خیال کے کہ وہ الہام کے لئے جس کو آپ معلول تصور کرتے ہیں علت ہوسکتی ہے یا نہیں ایک صریحاً غلطی ایسی پائی جاتی ہے کہ وہ واقعات کے خلاف ہے مثلاً آپ ارقام فرماتے ہیں کہ ’’کوئی قانون عاصم ہمارے پاس ایسا نہیں ہے کہ جس کے ذریعہ سے ہم لزوماً غلطی سے بچ سکیں.اور یہی باعث ہے کہ جن حکیموں نے قواعد منطق کے بنائے اور مسائل مناظرہ کے ایجاد کئے اور دلائل فلسفہ کے گھڑے وہ بھی غلطیوں میں ڈوبتے رہے.اور صدہا طور کے باطل خیال اور جھوٹا فلسفہ اور نکمی باتیں اپنی نادانی کی یادگار چھوڑ گئے.‘‘ اس سے کیا آپ کا یہ مطلب ہے.کہ انسان نے اپنی تحقیقات میں ہزاروں برس سے جو کچھ آج تک مغززنی کی ہے اور ہاتھ پیر مارے ہیں اس میں بجز باطل خیال اور جھوٹا فلسفہ اور نکمی باتوں کے کوئی صحیح خیال اور کوئی راست اور حق امر باقی نہیں چھوڑا گیا ہے؟ یا اب جو محقق نیچر کی تحقیقات میں مصروف ہیں وہ صرف ’’نادانی‘‘کے ذخیرہ کو زیادہ کرتے ہیں اور حق امر پر پہنچنے سے قطعی مجبور ہیں؟ اگر آپ ان سوالوں کا جواب نفی میں نہ دیں تو صاف ظاہر ہے کہ آپ سینکڑوں علوم اور ان کے متعلق ہزاروں باتوں کی راست اور صحیح معلومات سے جس سے دنیا کی ہر ایک قوم کم و بیش مستفید ہورہی ہے صریحاً انکار کرتے ہیں مگر میں یقین کرتا ہوں کہ شاید آپ کا یہ مطلب نہ ہوگا.اور اس بیان سے غالباً آپ کی یہ مراد ہوگی کہ انسان سے اپنی تحقیقات اور معلومات میں سہو اور خطا کا ہونا ممکن ہے.مگر یہ نہیں کہ نیچر نے انسان کو فی ذاتہٖ ایسا بنایا ہے کہ جس سے وہ کوئی معلومات صحت کے ساتھ حاصل ہی نہیں کرسکتا ہے.کیونکہ ایسے اشخاص آپ نے خود دیکھے اور سنے ہوں گے اور نیز تاریخ میں ایسے لوگوں کا ذکر پڑھا ہوگا کہ جو’’اپنی تمام نظر اور فکر میں‘‘ اگرچہ آپ کے نزدیک سہو اور خطا

Page 49

سے معصوم نہ ہوں.مگر بہت سی باتوں میں ان کی معلومات قطعی راست اور درست ثابت ہوئی ہے اور صدہا امور کی تحقیقات جو پچھلے اور حال کے زمانہ میں وقوع میں آئی ہے اس میں غلطی کا نکلنا قطعی غیر ممکن ہے.اور اس بیان کی تصدیق آپ علوم طبعی ریاضی اور اخلاقی وغیرہ کے متعلق صدہا معلومات میں بخوبی کرسکتے ہیں.کل معلومات جو انسان آج تک حاصل کرچکا ہے اور نیز آئندہ حاصل کرے گا اس کے حصول کا کل سامان ہر فرد بشر میں نیچر نے مہیا کردیا ہے.اب اس سامان کو انسان فرداً فرداً اور نیز بہ ہیئت مجموعی جس قدر اپنی محبت اور جانفشانی سے روز بروز زیادہ سے زیادہ نفیس اور طاقتور بنانے کے ساتھ ترقی کی صورت میں لاتا جاتا ہے اور جس قدر اس کے مناسب استعمال کی تمیز پیدا کرتا جاتا ہے اسی قدر وہ نیچر کی تحقیقات میں زیادہ سے زیادہ تر صحت کے ساتھ اپنی معلومات کے حصول میں کامیاب ہوتا جاتا ہے.اس مختصر بیان سے میں یقین کرتا ہوں کہ آپ اس بات کے تسلیم کرنے سے انکار نہ کریں گے کہ انسان سے اپنی تحقیقات میں اگرچہ غلطی کرنا ممکنات سے ہے مگر یہ نہیں کہ ہر ایک معلومات میں اس کے غلطی موجود ہے بلکہ بہت کچھ معلومات اس کی صحیح ہے اور ظاہر ہے کہ جس معلومات میں اس کی غلطی موجودنہیں ہے وہ جس قاعدہ یا طریق کے برتاؤ کے ساتھ ظہور میں آئی ہے وہ بھی غلطی سے مبرا تھا.کیونکہ غلط قاعدہ کے عملدرآمد سے کبھی کوئی صحیح نتیجہ برآمدنہیں ہوتا ہے.پس جو معلومات اس کی صحیح ہے.اس میں اسے حقیقت کے حصول کے لئے جو سامان نیچر نے اسے عطا کیا تھا اس کا صحیح اور مناسب استعمال ظہور میں آیا.مگر جہاں اس نے اپنی معلومات میں غلطی کھائی ہے وہاں اس کی مناسب نگہداشت نہیں ہوئی گویا ایک شخص جس کے پاس دوربین موجود ہے اور اس کی نلی بھی وہ کھولنا جانتا ہے مگر ٹھیک فوکس نہ پیدا کرنے کے باعث جس طرح مقابل کی شے کو یا تو دیکھنے سے محروم رہتا ہے یا بشرط دیکھنے کے صاف اور

Page 50

اصلی حالت میں نہیں دیکھ سکتا ہے.ایک شخص اسی طرح اپنی تحقیقات میں حسب مذکورہ بالانیچری سامان کی دوربین کھولتے وقت مناسب درجہ کے فوکس میں قائم کرنے سے رہ جاتا ہے تو وہ یا تو حقیقت کی تصویر کے دیکھنے سے ہی محروم ہوجاتا ہے.یا وہ تصویر جیسی ہے ویسی نہیں دیکھ سکتا.٭ مگر جو شخص برخلاف اس شخص کے صحیح فوکس کے پیدا کرنے کے قابل ہوتا ہے وہ پہلے شخص کی غلطی کو دریافت کرلیتا ہے اور حق الامر کو پہنچ جاتا ہے.اب اس بیان سے (کہ جو نہایت سیدھا اور صاف ہے) یہ بخوبی ثابت ہے کہ اول تو انسان بعض صورتوں میں اپنے نیچری سامان کے مناسب استعمال کے ساتھ پہلے ہی حق امر کو دریافت کرلیتا ہے.دوم بشرط مناسب استعمال میں نہ لانے یا نہ لاسکنے کے اگر غلطی کھاتا ہے تو کوئی دوسرا جسے اس کے ٹھیک استعمال کا موقع مل جاتا ہے وہ اس غلطی کو رفع کردیتا ہے.چنانچہ انسانی معلومات کی کل تاریخ اس قسم کے دلچسپ دنیا میں جیسے ہاتھ پیر اور صحت بدنی رکھتے ہوئے بھی ہزاروں اور لاکھوں اشخاص بلا مشقت سستی اور کاہلی کے ساتھ ہی شکم پُری کرنے کو مستعد رہتے ہیں ویسے ہی معلومات کے متعلق بھی لاکھوں اور کروڑوں اشخاص باوجود تحقیقات کے لئے نیچری سامان سے مشرف ہونے کے پھر اپنے دماغ کو پریشان کرنا نہیں چاہتے ہیں اور جن باتوں کی اصلیت کو اپنے تھوڑے سے فکر سے بھی معلوم کرسکتے ہیں ان کے لئے بھی خود تکلیف اٹھانا نہیں چاہتے ہیں اور محض اندھوں کی طرح ایک ہی تقلید کے ساتھ مطلب برآری کرتے ہیں.اور یہی وجہ ہے کہ دنیا میں آج تک ایک کی غلطی لاکھوں اور کروڑوں روحوں پر مؤثر دیکھی جاتی ہے.۱۲

Page 51

سلسلہ سے ُپر ہے.اور اس سلسلہ میں جو ہزاروں برس کا تجربہ ظاہر کرتا ہے کسی محقق کے لئے اس نتیجہ پر پہنچنا بہت دشوار نہیں رہتا ہے کہ انسان فی ذاتہٖ تمام ضروری اعضاء جسمانی اور قواعد دماغی اور اخلاقی سے مشرف ہوکر اس دنیا میں (جو اس کے تمام نیچر کے حسب حال اور باہمی ربط اور علاقہ کے ساتھ وابستہ کی گئی ہے) آپ اپنا راستہ ڈھونڈھے اور خود اپنی جسمانی اور روحانی بھلائی اور بہتری کے وسائل کا علم حاصل کرے اور فائدہ اٹھائے.پس اس قانون قدرت کو پس انداز کرکے یا حکیم حقیقی کی دانائی کے خلاف اگر ہم ایک یہ فرضی دلیل قائم کریں کہ چونکہ انسان کو اپنے چاروں طرف دیکھنا ضروریات سے ہے اور دیکھنے کے لئے جو دو آنکھیں اس کے چہرے پر قائم کی گئی ہیں وہ جس وقت سامنے کی اشیاء کے دیکھنے میں مصروف ہوتی ہیں اس وقت پیچھے سے اس کے اگر اس کی ہلاکت کا سامان کیا گیا ہو تو وہ بشرط آگے کی دو ہی آنکھوں کے ہونے کے ضرور ہے کہ پیچھے کے حال کے دیکھنے سے محروم رہے.پس ممکن نہ تھا کہ خدا جو رحیم اور کریم اور حکیم ہے وہ اسے سرکے پیچھے کی طرف بھی دو آنکھیں ایسی عطا نہ کرتا کہ جس سے وہ مذکورہ بالا خطرہ سے نجات پانے کی تدبیر کرسکتا.پس جبکہ سر کے پیچھے کی طرف دو آنکھوں کے ہونے کی ضرورت ہے لہٰذا لازم ہوا کہ خدا اپنے بندوں کی مزید حفاظت کی غرض سے ایسی آنکھیں عطا کرے یا اسی قسم کی ایک اور دلیل ہم یہ قائم کریں کہ چونکہ انسان کی عقل خطا کرتی ہے اور اسے یہ علم بھی آج تک حاصل نہیں ہے کہ بمبئی سے جس جہاز پر وہ ولایت کو روانہ ہوتا ہے اس کی روانگی کی تاریخ سے ہفتہ یا ڈیڑھ ہفتہ بعد جو خطرناک طوفان سمندر میں آنے والا ہے اور جس میں اس کا جہاز غرق ہونے کو ہے اسے پہلے سے جان سکے.پس جس حالت میں نہ خود انسان اپنے علم اور واقفیت سے اپنے تئیں طوفان کے مہلک اور خوفناک اثر سے محفوظ کرسکتا ہے

Page 52

اور وہ خدا (جو رحیم اور کریم اور ہر ایک سہو و خطا سے مبرا اور ہر امر کی حقیقت پر واقف ہے) بذریعہ اپنے نج کے پیغام کے فوراً اپنے بندوں کی مدد کرے تو پھر ہم عاجز بندے کیونکر اپنی جان کو ہلاکت کے طوفان سے محفوظ رکھ سکتے ہیں.پس مقتضاء حکمت اور رحمت اور بندہ پروری اس قادر مطلق کا یہی ہے کہ وقتاً فوقتاً وہ ہم کو طوفان کے آنے کی اس قدر عرصہ پہلے سے خبر دیتا رہے کہ جس سے ہمیں اپنے اور اپنے جہاز کے بچانے کا موقع مل سکے.اب ظاہر ہے کہ جو لوگ حقیقت کے سمجھنے کا کافی ملکہ رکھتے ہیں اور منطق کے اصول کا بخوبی علم رکھتے ہیں وہ ہماری ان دونوں دلیلوں کو قطعی لنگڑی اور بے بنیاد خیال کریں گے.کیوں؟ اس لئے کہ اول دونوں دلیلوں میں ’’ضرورت‘‘ کا جو کچھ قیاس قائم کیا گیا ہے اور جسے ہم نے اپنے نتیجہ کی علت قرار دیا ہے وہ محض ہمارا ایک وہمی اور فرضی قیاس ہے قوانین نیچر سے اس کی تائیدنہیں ہوتی بلکہ ہم الٹا قوانین نیچر کو پس انداز کرکے خدا کی خود دانائی پر حاشیہ چڑھاتے ہیں.دوم چونکہ ہماری علت فرضی ہوتی ہے پس اس سے جو نتیجہ ہم قائم کرتے ہیں وہ بھی فرضی ہوتا ہے.اور واقعات نیچری خود اس کی تردید کرتے ہیں چنانچہ جیسے پہلی مثال کے متعلق ہمارا نتیجہ واقعات کے خلاف ہے اور درحقیقت انسان کے سر کے پیچھے دو آنکھیں اور زائد قائم نہیں کی گئی ہیں.دوسری مثال میں بھی ویسے ہی باوجود اس کے کہ سینکڑوں جہاز آج تک سمندر میں غرق ہوچکے ہیں اور ہزاروں اور لاکھوں جانیں ان کے ساتھ ضائع ہوچکی ہیں مگر آج تک خدا نے کسی جہاز والے کے پاس کوئی نج کا پیغام اس قسم کا نہیں بھیجا جس کا دوسری مثال میں ذکر ہوا ہے پس دونوں صورتوں میں ہماری ’’ضرورت‘‘ کا قیاس خدا کی دانائی یا قوانین قدرت کے موافق نہ تھا اس لئے اس کا نتیجہ بھی خدا کی حکمت کے خلاف ہونے کے باعث نیچر کے واقعات سے تصدیق نہ پاسکا اور محض فرضی ثابت ہوا.اب صاف ظاہر ہے کہ آپ نے اپنے الہام کی ضرورت پر جو دلیل پیش کی ہے وہ بجنسہٖ ہماری دونوں دلیلوں کے متشابہہ ہے

Page 53

کیونکہ آپ فرماتے ہیں کہ’’جس حالت میں نہ خود انسان اپنے علم اور واقفیت سے غلطی ٭ سے بچ سکے اور نہ خدا (جو رحیم اور کریم اور ہر ایک سہو و خطا سے مبرا اور ہر امر کی اصل حقیقت پر واقف ہے) بذریعہ اپنے سچے الہام کے اپنے بندوں کی مدد کرے تو پھر ہم عاجز بندے کیونکر ظلمات جہل اور خطا سے باہر آویں اور کس طرح آفات شک و شبہ سے نجات پائیں لہذا میں مستحکم رائے سے یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ مقتضاء حکمت اور رحمت اور بندہ پروری اس قادر مطلق کا یہی ہے کہ وقتاً فوقتاً جب مصلحت دیکھے ایسے لوگوں کو پیدا کرتا رہے کہ عقائد حقہ کے جاننے اور اخلاق صحیحہ کے معلوم کرنے میں خدا کی طرف سے الہام پاویں‘‘.پس جس صورت میں آپ کی اس دلیل میں بھی ’’ضرورت‘‘ کا قیاس مثل ہماری دونوں دلیلوں کے ہے اور قوانین نیچر اس کی تصدیق کرنے سے انکاری ہیں تو پھر ایسا قیاس بجز فرضی اور وہمی ہونے کے اور کچھ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ ہم خود تو بات بات میں ایسی سینکڑوں ضرورتیں قائم کرسکتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ خدا کی حکمت بھی ہماری فرضی ضرورتوں کو تسلیم کرتی ہے یا نہیں؟ محققوں کے نزدیک وہی ضرورت ’’ضرورت‘‘ ہو سکتی ہے جس کو نیچر یا خدا کی حکمت نے قائم کیا ہو.جیسے ہماری بھوک کے دفعیہ کے لئے غذا اور سانس لینے کے لئے ہوا کی ضرورت ہماری فرضی نہیں بلکہ نیچری ہے اور اسی لئے اس کا ذخیرہ بھی انسان کی زندگی کے لئے اس نے فراہم کردیا ہے.مگر جو ضرورت کہ نیچر کے نزدیک قابل تسلیم نہیں ہے اور اسے ہم خود اپنے وہم سے قائم کرتے ہیں وہ ایک طرف جس طور پر محض فرضی ہوتی ہے دوسری طرف اسی طور پر اسے علت ٹھہرا کر جو نتیجہ ہم قائم کرتے ہیں وہ بھی فرضی ہونے کے باعث واقعات کے ساتھ مطابق نہیں ہوتا ہے.اور یہ صورت ہم نے اپنی مثالوں میں بخوبی ظاہر کردی ہے.دوم اس بات کی نسبت کہ آپ نے الہام کی تعریف میں جو کچھ عبارت رقم کی ہے اس کا آپ کی دلیل سے کہاں تک ربط ہے اسی قدر لکھنا کافی ہے کہ جس حالت میں

Page 54

آپ نے اپنے الہام کی کل بنیاد جس ’’ضرورت‘‘ پر قائم کی ہے درحقیقت وہ ضرورت جبکہ خود بے بنیاد ہے یعنے نیچر کے نزدیک وہ ضرورت قابل تسلیم نہیں ہے تو پھر اگر یہ بھی مانا جاوے کہ جو عمارت آپ نے کسی اپنی بنیاد پر کھڑی کی ہے وہ اچھے مصالحہ کے ساتھ بھی تعمیر کی ہے تاہم وہ بے بنیاد ہونے کے باعث بجز وہم کے اور کہیں ٹھہر نہیں سکتی اور جیسے اس کی بنیاد فرضی ہے ویسے ہی وہ بھی آخرکار فرضی رہتی ہے.الہام کے اس غلط عقیدہ کے باعث دنیا میں لوگوں کو جس قدر نقصان پہنچا ہے اور جس قدر خرابیاں برپا ہوئی ہیں اور انسانی ترقی کو جس قدر روک پہنچی ہے اس کے ذکر کرنے کو اگرچہ میرا دل چاہتا ہے مگر چونکہ امر متناقضہ سے اس کا اس وقت کچھ علاقہ نہیں ہے لہٰذا اس کا بیان یہاں پر ملتوی رکھتا ہوں.لاہور.۳؍ جون ۱۸۷۹ء آپ کا نیازمند شیونرائن اگنی ہوتری مکرمی جناب پنڈت صاحب آپ کا عنایت نامہ عین انتظار کے وقت میں پہنچا.کمال افسوس سے لکھتا ہوں جو آپ کو تکلیف بھی ہوئی اور مجھ کو جواب بھی صحیح صحیح نہ ملا.میرے سوال کا تو یہ ماحصل تھا کہ جبکہ ہماری نجات (کہ جس کے وسائل کا تلاش کرنا آپ کے نزدیک بھی ضروری ہے) عقائد حقہ اور اخلاق صحیحہ اور اعمال حسنہ کے دریافت کرنے پر موقوف ہے کہ جن میں امور باطلہ کی ہرگز آمیزش نہ ہو تو اس صورت میں ہم بجز اس کے کہ ہمارے علوم دینیہ اور معارف شرعیہ ایسے طریق محفوظ سے لئے گئے ہوں جو دخل مفاسد اور منکرات سے بکلی معصوم ہو اور کسی طریق سے نجات نہیں پاسکتے.اس کے جواب میں اگر آپ وضع استقامت پر چلتے اور داب مناظرہ کو مرعی رکھتے تو از روئے حصر عقلی کے جواب آپ کا (در حالت انکار) صرف تین باتوں میں سے کسی ایک بات میں محصور ہوتا.اوّل یہ کہ آپ سرے سے نجات کا ہی انکار کرتے اور اس کے وسائل کو مفقود الوجود اور ممتنع الحصول ٹھہراتے اور

Page 55

اس کی ضرورت کو چار آنکھوں کی ضرورت کی طرح صرف ایک طمع خام سمجھتے.دوم یہ کہ نجات کے قائل ہوتے لیکن اس کے حصول کے لئے عقائد اور اعمال کا ہر ایک کذب اور فساد سے پاک ہونا ضروری نہ جانتے بلکہ محض باطل یا امور مخلوطہ حق اور باطل کو بھی موجب نجات کا قرار دیتے.سوم یہ کہ حصول نجات کو صرف حق محض سے ہی (جو امتزاج باطل سے بکلی منزہ ہو) مشروط رکھتے اور یہ دعویٰ کرتے کہ طریقہ مجوزہ عقل کا حق محض ہی ہے اور اس صورت میں لازم تھا کہ بغرض اثبات اپنے اس دعویٰ کے ہمارے قیاس استقرائی کو (جو حجت کی اقسام ثلاثہ میں سے تیسری قسم ہے جس کو ہم مضمون سابق میں پیش کرچکے ہیں ) کوئی نظیر معصوم عن الخطا ہونے کسی عاقل کے پیش کرکے اور اس کے علوم نظریہ عقلیہ میں سے کوئی تصنیف دکھلا کر توڑ دیتے پھر اگر حقیقت میں ہمارا قیاس استقرائی ٹوٹ جاتا اور ہم اس تصنیف کی کوئی غلطی نکالنے سے عاجز رہ جاتے تو آپ کی ہم پر خاصی ڈگری ہوجاتی.مگر افسوس کہ آپ نے ایسا نہ کیا ہزاروں مصنفوں کا ذکر تو کیا مگر نام ایک کا بھی نہ لیا اور نہ اس کی کسی عقلی نظیری تصنیف کا کچھ حوالہ دیا اب اس تکلیف دہی سے میری غرض یہ ہے کہ اگر الہام کی حقیت میں جناب کو ہنوز کچھ تامل ہے تو بغرض قائم کرنے ایک مسلک بحث کے شقوق ثلاثہ متذکرہ بالا میں سے کسی ایک شق کو اختیار کیجئے اور پھر اس کا ثبوت دیجئے کیونکہ جب میں ضرورت الہام پر حجت قائم کرچکا تواب رُوئے قانون مناظرہ کے آپ کا یہی منصب ہے جو آپ کسی حیلہ قانونی سے اس حجت کو توڑیں اور جیسا میں عرض کرچکا ہوں اس حیلہ انگیزی کے لئے آپ کے پاس صرف تین ہی طریق ہیں جن میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے میں آپ قانوناً مجاز ہیں اور یہ بات خاطر مبارک پر واضح رہے کہ ہم کو اس بحث سے صرف اظہارِ حق منظور ہے.تعصب اور نفسانیت جو سفہا کا طریقہ ہے ہرگز مرکوز خاطر نہیں.میں دلی محبت سے دوستانہ یہ بحث آپ سے کرتا ہوں اور دوستانہ راست طبیعی کے جواب کا منتظر ہوں.ر اقم آپ کا نیازمند غلام احمد عفی عنہ.۵؍ جون ۱۸۷۹ء

Page 56

مکرمی جناب مرزا صاحب آپ کا عنایت نامہ مرقومہ پانچویں ماہ حال مجھے ملا.نہایت افسوس ہے کہ میں نے آپ کے الہام کے بارے میں جوکچھ بطور جواب لکھا تھا اس سے آپ تشفی حاصل نہ کرسکے.میرا افسوس اور بھی زیادہ بڑھتا جاتا ہے کہ جب میں دیکھتا ہوں کہ آپ نے میرے جواب کے عدم تسلیم کی نسبت کوئی صاف اور معقول وجہ بھی تحریر نہیں فرمائی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس کے پڑھنے اور سمجھنے میں غور اور فکر کو دخل نہیں دیا.پھر آپ کے اس عنایت نامہ میں ایک اور لطف یہ موجود ہے کہ آپ ایک جگہ پر قائم رہتے معلوم نہیں ہوتے.پہلے آپ نے الہام کی ضرورت اس دلیل کے ساتھ قائم کی کہ چونکہ انسان کی عقل حقیت کے معلوم کرنے میں عاجز ہے اور وہ اپنی تحقیقات میں خطاکرتی ہے.پس ضرور ہے کہ انسان خدا کی طرف سے الہام پاوے.میں نے جب آپ کی اس ضرورت کو فرضی ثابت کردیااور دکھلا دیا کہ خدا کی حکمت اس ضرورت کو تسلیم نہیں کرتی ہے تو آپ نے پہلے مقام کو چھوڑ کر اب دوسری طرف کا راستہ لیا.اور بجائے ہماری تحریر کے تسلیم کرنے یا بشرط اعتراض کسی معقول حجت کے پیش کرنے کے اب اُس سلسلہ کو نجات کے مسئلہ کے ساتھ آلپیٹا یعنی اصل بحث کو جو الہام کی اصلیت پر تھی اُسے چھوڑ کر نجات کے مسئلہ کو لے بیٹھے اور اب اس نئے قضیہ کے ساتھ ایک نئی بحث کے اصولوں کو قائم کرنے لگے.پھر اس پر ایک طرفہ یہ ہے کہ آپ اخیر خط میں لکھتے ہیں کہ’’اگر الہام کی حقیت میں جناب کو ہنوز کچھ تامل ہے تو بغرض قائم کرنے ایک مسلک بحث شقوق ثلاثہ متذکرہ بالا میں سے کسی ایک شق کو اختیار کیجئے اور پھر اس کا ثبوت دیجئے کیونکہ جب میں ضرورت الہام پر حجت قائم کرچکا تو اب ازرُوئے قانون مناظرہ کے آپ کا یہی منصب ہے جو آپ کسی حیلہ قانونی سے اُس حجت کو توڑدیں‘‘.گویا یک نشد دوشد.آپ نے ضرورتِ الہام پر جو حجت قائم کی تھی وہ تو

Page 57

جناب من میں ایک دفعہ توڑ چکا اور اُس فرضی ضرورت پر جو عمارت الہام کی آپ نے قائم کی تھی اسے بے بنیاد ٹھہراچکا مگر افسوس ہے کہ ایک عرصہ دراز کی عادت کے باعث اس کی تصویر ہنوز آپ کی نظروں میں سمائی ہوئی ہے اور وہ عادت باوجود اس کے کہ آپ کو’’اس بحث سے صرف اظہار حق منظور ہے‘‘.مگر پھر آپ کو حقیقت کے پاس پہنچنے میں سد ِراہ ہے.تحقیق حق اُس وقت تک اپنا قدم نہیں جماسکتی ہے جب تک کہ ایک خیال جو عادت میں داخل ہوگیا ہے اُس کو ایک دوسری عادت کے ساتھ جدا کرنے کی مشق حاصل نہ کی جائے.کسی عیسائی کا ایک چھوٹا سا لڑکا بھی گنگاکے پانی کو صرف دریا کا پانی سمجھتا ہے اور اس سے زیادہ گناہ سے نجات وغیرہ کا خیال اس سے متعلق نہیں کرتا مگر ایک پرانے خیال کے معتقد بڈھے ہندو کے نزدیک اس پانی میں ایک غوطہ مارنے سے انسان کے کل گناہ دفع ہوجاتے ہیں.ایک عیسائی کے نزدیک خدا کی تثلیث برحق ہے مگر ایک مسلمان یا براہمو کے نزدیک وہ بالکل لغو ہے.اگر کسی ایسے ہندو یا عیسائی سے بحث کرکے اس کے خیال کی لغویت کو ظاہر بھی کردو(کہ جس کا ظاہر کرنا کچھ مشکل بات نہیں ) مگر وہ اس کی لغویت کو تسلیم نہیں کرتا ہے حتیٰ کہ جب جواب سے عاجز آتا ہے تو یہ کہہ کر کہ’’گو میں ٹھیک جواب نہیں دے سکتا ہوں مگر میں اس کا قائل ہوں اور دل سے اسے ٹھیک جانتاہوں‘‘.یہ دل کی گواہی اس کی وہی عادت ہے کہ جو حکما کے نزدیک طبیعت ثانی کے نام سے موسوم ہوتی ہے.پس جس الہام کے آپ قائل ہیں اس کی بھی وہی کیفیت ہے آپ کے نزدیک ایک عرصہ دراز کی عادت کے باعث وہ خیال ایسا پختہ اور صحیح ہوگیا ہے کہ آپ اس کے مخالف ہماری مضبوط سے مضبوط دلیل بھی قابل اطمینان نہیں پاتے ہیں اور جب ایک طرف سے اپنی دلیل کو کمزور دیکھتے ہیں تو دوسری طرف بدل کر چل دیتے ہیں.اس طور پر فیصلہ ہونا محال ہے.آج تک کسی سے ہؤا بھی نہیں اور نہ آئندہ ہونے کی امید ہے.

Page 58

آپ مجھ سے اُن مصنفوں کے نام طلب کرتے ہیں جن کی تصنیف یا تحقیقات میں غلطی نہیں ہے حالانکہ جن علوم کا میں نے ذکر کیا تھا ان کے جاننے والوں کے نزدیک ان کی تصنیف کی کیفیت پوشیدہ نہیں ہے.کیا آپ نے علم ریاضی کی تصنیفات خود ملاحظہ نہیں کی ہیں؟ کیا علم طبیعات کی کتب آپ کی نظر سے نہیں گذری ہیں؟ بیشک جدید تصنیفات جو انگریزی سے فارسی یا عربی میں ترجمہ نہیں ہوئیں شائد اُن کی کیفیت آپ سے پوشیدہ ہو مگر بعض یونانیوں کی تصنیف مثل اقلیدس کے علم ہندسہ وغیرہ سے غالباً آپ واقفیت رکھتے ہونگے اور ظاہر ہے کہ علم ہندسہ کے راست اور صحیح ہونے میں آج تک دنیا میں کسی عالم کو خواہ(وہ الہام کا مقر ہو یا منکر.خدا پرست ہو یا دہریہ) کلام نہیں ہے اگر آپ کی رائے میں وہ درست نہ ہو تو آپ براہ مہربانی مجھ کو اس کی غلطیوں سے مطلع فرمائیں.پھر آپ یہ بھی لکھتے ہیں کہ میں نے آپ کے مضمون کے جواب دینے میں دابِ مناظرہ کو مرعی نہیں رکھا.اس کے جواب میں میں صرف اس قدر عرض کرنا کافی سمجھتا ہوں کہ جس وقت میری اور آپ کی کل تحریریں رسالہ برا درہند میں مشتہر کی جاویں گی اُسوقت انصاف پسندناظرین خود ہی تصفیہ کرلیں گے آپ کا یہ فرمانا صحیح ہے یا غیر صحیح.اگر آپ لکھیں تو اگلے مہینے کے رسالہ سے میں اس بحث کو مشتہر کرنا شروع کردوں.لاہور.۱۲؍جون۱۸۷۹؁ء آپ کا نیاز مند شیو نارائن اگنی ہوتری مکرمی جناب پنڈت صاحب آپ کا مہربانی نامہ عین اُس وقت میں پہنچا کہ جب میں بعض ضروری مقدمات کے لیے امرت سر کی طرف جانے کو تھا.چونکہ اس وقت مجھے دو گھنٹہ کی بھی فرصت نہیں اس لئے آپ کا جواب واپس آکرلکھوں گا اور ان شاء اللہ تعالیٰ تین روز بغایت درجہ چار روز کے بعد واپس آجاؤں گا اور پھر آتے ہی جواب لکھ کر خدمت گرامی میں ارسال کروں گا.آپ فرماتے ہیں کہ یہ مضامین برادر ہند میں درج ہوں.مگر میری صلاح

Page 59

یہ ہے کہ ان مضامین کے ساتھ دو ثالثوں کی رائے بھی ہو تب اندارج پاویں مگر اب مشکل یہ کہ ثالث کہاں سے لاویں ناچار یہی تجویز خوب ہے کہ آپ ایک فاضل نامی گرامی صاحب تالیف و تصنیف کا براہم سماج کے فضلا ء میں سے منتخب کرکے اطلاع دیں جو ایک خدا ترس اور فروتن اور محقق اور بے نفس اور بے تعصب ہو اور ایک انگریز کہ جس کی قوم کی زیرکی بلکہ بے نظیری کے آپ قائل ہیں انتخاب فرما کر اس سے بھی اطلاع بخشیں تو اغلب ہے کہ میں ان دونوں کو منظور کرونگا اور میں نے بطور سرسری سنا ہے کہ آپ کے برہموسماج میں ایک صاحب کیشپ چندر نام لئیق اور دانا آدمی ہیں اگر یہی سچ ہے تو وہی منظور ہیں ان کے ساتھ ایک انگریز کردیجئے مگر منصفوں کو یہ اختیار نہ ہوگا کہ صرف اتنا ہی لکھیں کہ ہماری رائے میں یہ ہے یا وہ ہے بلکہ ہر ایک فریق کی دلیل کو اپنے بیان سے توڑنا یا بحال رکھنا ہوگا.دوسرے یہ مناسب ہے کہ اس مضمون کو رسالہ میں متفرق طور پر درج نہ کیا جائے کہ اس میں منصف کو دوسرے نمبروں کامدت دراز تک انتظار کرنا پڑتا ہے بلکہ مناسب ہے کہ یہ سارا مضمون ایک ہی دفعہ برادر ہند میں درج ہو یعنی تین تحریریں ہماری طرف سے اور تین ہی آپ کی طرف سے ہوں اور ان پر دونوں منصفوں کی مفصل رائے درج ہو اور اگر آپ کی نظر میں اب کی دفعہ منصفوں کی رائے درج کرنا کچھ دقت ہو تو پھر اس صورت میں یہ بہتر ہے کہ جب میں بفضلہ تعالیٰ امرتسر سے واپس آکر تحریر ثالث آپ کے پاس بھیج دوں تو آپ بھی اُس پر کچھ مختصر تحریر کرکے تینوں تحریریں یکدفعہ چھاپ دیں اور ان تحریروں کے اخیر میں یہ بھی لکھا جائے کہ فلاں فلاں منصف صاحب اس پر اپنا اپنا موجہ رائے تحریر فرماویں اور پھر دو جلدیں اس رسالہ کی منصفوں کی خدمت میں مفت بھیجی جائیں.آئندہ جیسے آپ کی مرضی ہو اس سے اطلاع بخشیں اور جلد اطلاع بخشیں.اور میں نے چلتے چلتے جلدی سے یہ خط لکھ ڈالا ہے کمی بیشی الفاظ سے معاف فرمائیں.راقم آپ کا نیاز مند غلام احمد عفی عنہ ۱۷؍ جون ۱۸۷۹؁ء

Page 60

جواب الجواب باوا نرائن سنگھ صاحب سکرٹری آریہ سماج امرتسر مطبوعہ پرچہ آفتاب ۱۸ فروری اوّل باوا صاحب نے یہ سوال کیا ہے کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ خدا روحوں کا خالق ہے اور ان کو پیدا کرسکتا ہے.اس کے جواب الجواب میں قبل شروع کرنے مطلب کے یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ازرُوئے قاعدہ فن مناظرہ کے آپ کا یہ ہرگز منصب نہیں ہوسکتا کہ آپ روحوں کے مخلوق ہونے کا ہم سے ثبوت مانگیں بلکہ یہ حق ہم کو پہنچتا ہے کہ ہم آپ سے روحوں کے بلاپیدائش ہونے کی سند طلب کریں کیونکہ آپ اسی پرچہ مذکور العنوان میں خود اپنی زبان مبارک سے اقرار کرچکے ہیں کہ پرمیشر قادر ہے اور تمام سلسلہ عالم کا وہی منتظم ہے.اب ظاہر ہے کہ ثبوت دینا اس امر جدید کا آپ کے ذمہ ہے کہ پرمیشر اول قادر ہو کر پھر غیر قادر کس طرح بن گیا.ہمارے ذمہ ہرگز نہیں جو ہم ثبوت کرتے پھریں کہ پرمیشر جو قدیم سے قادر ہے وہ اب بھی قادر ہے.سو حضرت یہ آپ کو چاہیے تھا کہ ہم کو اس بات کا ثبوت کامل دیتے کہ پرمیشر باوصف قادر ہونے کے پھر روحوں کے پیدا کرنے سے کیوں عاجز رہے گا.ہم پر یہ سوال نہیں ہوسکتا کہ پرمیشر(جو قادر تسلیم ہوچکاہے) روحوں کے پیدا کرنے کی کس قدر قدرت رکھتا ہے کیونکہ خدا کے قادر ہونے کو تو ہم اور آپ دونوں مانتے ہیں.پس اس وقت تک تو ہم میں اور آپ میں کچھ تنازع نہ تھا.پھر تنازع تو آپ نے پیدا کیا جو روحوں کے پیدا کرنے سے اس قادر پرمیشر کو عاجز سمجھا اس صورت میں آپ خود منصف ہوں اور بتلائیں کہ بارِ ثبوت کس کے ذمہ ہے؟

Page 61

اور اگر ہم بطریق تنزل یہ بھی تسلیم کرلیں کہ اگرچہ دعویٰ آپ نے کیا مگر اثبات اُس کا ہمارے ذمہ ہے.پس آپ کو مژدہ ہو کہ ہم نے سفیر ہند۲۱.فروری میں خدا کے خالق ہونے کا ثبوت کامل دے دیا ہے.جب آپ بنظر انصاف پرچہ مذکور کو ملاحظہ فرمائیں گے تو آپ کی تسلّی کامل ہوجائے گی.اور خود ظاہر ہے کہ خدا تو وہی ہونا چاہیئے جوموجد مخلوقات ہو نہ یہ کہ زور آور سلاطین کی طرح صرف غیرو ں پر قابض ہو کر خدائی کرے.اور اگر آپ کے دل میں یہ شک گذرتا ہے کہ پرمیشر جو اپنی نظیر نہیں پیدا کر سکتا شاید اسی طرح ارواح کے پیداکرنے پر بھی قادر نہ ہوگا.پس اس کا جواب بھی پرچہ مذکورہ ۹.فروری میں پختہ دیاگیاہے.جس کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا ایسے افعال ہرگز نہیں کرتا جن سے اس کی صفات قدیم کا زوال لازم آوے جیسے وہ اپنا شریک نہیں پیدا کر سکتا اپنے آپ کو ہلاک نہیں کرسکتاکیونکہ اگر ایسا کرے تو اس کی صفات قدیمہ جو وحدت ذاتی اور حیات ابدی ہے زائل ہوجائے گی.پس وہ قدوس خدا کوئی کام برخلاف اپنی صفات ازلیہ کے ہرگز نہیں کرتا باقی سب افعال پر قادر ہے.پس آپ نے جو روحوں کی پیدائش کو شریک الباری کی پیدائش پر قیاس کیا تو خطا کی.مَیں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ یہ آپ کا قیاس مع الفارق ہے ہاں اگر یہ ثابت کر دیتے کہ پیدا کرنا ارواح کا بھی مثل پیداکرنے نظیر اپنی نے ٭خدا کی کسی صفت عظمت اور جلال کے برخلاف ہے تو دعویٰ آپ کا بلاشبہ ثابت ہوجاتا.پس آپ نے جو تحریر فرمایا ہے کہ یہ ظاہر کرنا چاہیے کہ خدا نے روح کہاں سے پیدا کئے.اس تقریر سے صاف پایا جاتا ہے کہ آپ کو خدا کے قدرتی کاموں سے مطلق انکار ہے اور اس کو مثل آدم زاد کے محتاج باسباب سمجھتے ہیں اور اگر آپ کا اس تقریر سے یہ مطلب ہے کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرح پرمیشر روحوں کو پیداکر لیتا ہے تو اس وہم کے دفع میں پہلے بھی لکھا گیاتھا کہ پرمیشر کی قدرت کاملہ میں

Page 62

ہرگز یہ شرط نہیں کہ ضرور انسان کی سمجھ میں آجایا کرے.دنیا میں اس قسم کے ہزارہا نمونے موجود ہیں کہ قدرت مدرکہ انسان کی اُن کی کنہ حقیقت تک نہیں پہنچ سکتی اور علاوہ اس کے ایک امر کا عقل میں نہ آنا اور چیزہے اور اس کا محال ثابت ہونا اور چیز.عدم ثبوت اس بات کا کہ خدا نے کس طرح روحوں کو بنالیا اس بات کو ثابت نہیں کر سکتا کہ خدا سے روح نہیں بن سکتے تھے کیونکہ عدم علم سے عدم شَے لازم نہیں آتا کیا ممکن نہیں جو ایک کام خدا کی قدرت کے تحت داخل تو ہو لیکن عقل ناقص ہماری اس کے اسرار تک نہ پہنچ سکے؟ بلکہ قدرت تو حقیقت میں اسی بات کا نام ہے جو داغ احتیاج اسباب سے منزہ اور پاک اور ادراک انسانی سے برتر ہو.اوّل خدا کو قادر کہنا اور پھر یہ زبان پر لانا کہ اس کی قدرت اسباب مادی سے تجاوز نہیں کرتی حقیقت میں اپنی بات کو آپ ردّکرنا ہے.کیونکہ اگر وہ فی حدّ ذاتہٖ قادر ہے تو پھر کسی سہارے اور آسرے کا محتاج ہونا کیامعنے رکھتا ہے.کیا آپ کی پسُتکوں میں قادر اور سرپ شکتی مان اسی کو کہتے ہیں جو بغیر توسل اسباب کے کارخانہ قدرت اُس کی کا بند رہے اور نِراہ اس کے حکم سے کچھ بھی نہ ہو سکے شاید آپ کے ہاں لکھا ہوگا مگر ہم لوگ تو ایسے کمزور کو خدا نہیں جانتے ہمارا تو وہ قادر خدا ہے کہ جس کی یہ صفت ہے کہ جو چاہا سو ہو گیا اور جو چاہے گا سو ہوگا.پھر باوا صاحب اپنے جواب میں مجھ کو فرماتے ہیں کہ جس طرح تم نے یہ مان لیا کہ خدا دوسرا خدا بنا نہیں سکتا اسی طرح یہ بھی ماننا چاہیے کہ خدا روح پیدا نہیں کر سکتا.اس فہم اور ایسے سوال سے اگر مَیں تعجب نہ کروں تو کیا کروں.صاحبِ من میں تو اس وہم کا کئی دفعہ آپ کو جواب دے چکا اب میں بار بار کہاں تک لکھوں.میں حیران ہوں کہ آپ کو یہ بیّن فرق کیوں سمجھ میں نہیں آتا اور کیوں دل پر سے یہ حجاب نہیں اُٹھتاکہ جو روحوں کے پیدا کرنے کو دوسرے خدا کی پیدائش پر

Page 63

قیاس کرنا خیال فاسد ہے کیونکہ دوسر اخدا بنانے میں وہ صفت ازلی پرمیشر کی جو واحد لاشریک ہونا ہے نابود ہوجائے گی لیکن پیدائش ارواح میں کسی صفت واجب الوجود کا ازالہ نہیں بلکہ ناپید کرنے میں ازالہ ہے کیونکہ اس سے صفت قدرت کی جو پرمیشر میں بالاتفاق تسلیم ہو چکی ہے زاویہ اختفا میں رہے گی اور بپایۂ ثبوت نہیں پہنچے گی.اس لئے کہ جب پرمیشر نے خود ایجاد اپنے سے بلا توسل اسباب کے کوئی چیز محض قدرت کاملہ اپنی سے پیدا ہی نہیں کی تو ہم کو کہاں سے معلوم ہو کہ اس میں ذاتی قدرت بھی ہے.اور اگر یہ کہو کہ اس میں کچھ ذاتی قدرت نہیں تو اس اعتقاد سے وہ پراد ھین یعنی محتاج بالغیر ٹھہرے گا.اور یہ بہ بداہت عقل باطل ہے.غرض پرمیشر کا خالق ارواح ہو نا تو ایسا ضروری امر ہے جو بغیر تجویز مخلوقیت ارواح کے سب کارخانہ خدائی کا بگڑجاتاہے لیکن دوسرا خدا پیداکرنا صفت وحدت ذاتی کے برخلاف ہے.پھر کس طرح پرمیشر ایسے امر کی طرف متوجہ ہوکہ جس سے اس کی صفت قدیمہ کا بطلان لازم آوے.اور نیز اس صورت میں جو روح غیر مخلوق او ر بے انت مانے جائیں.کل ارواح صفت انادی اور غیر محدود ہونے میں خدا سے شریک ہو جائیں گی.اور علاوہ اس کے پرمیشر بھی اپنی صفت قدیم سے جو پیدا کرنا بلا اسباب ہے محروم رہے گا اور یہ ماننا پڑے گا کہ پرمیشر کو صرف روحوں پر جمعدار ی ہی جمعداری ہے اُن کا خالق اور واجب الوجودنہیں.پھر بعد اس کے باوا صاحب اسی اپنے جواب میں روحوں کے انتہا ہونے کا جھگڑا لے بیٹھے ہیں جس کو ہم پہلے اس سے ۹ اور ۱۶ فروری سفیر ہند میں ۱۴ دلائل پختہ سے ردّ کر چکے ہیں لیکن باوا صاحب اب تک انکار کئے جاتے ہیں.پس ان پر واضح رہے کہ یوں تو انکار کرنا اور نہ ماننا سہل بات ہے اور ہر ایک کو اختیار ہے کہ جس بات پر چاہے رہے پر ہم تو تب جانتے کہ آپ کسی دلیل ہماری کو ردّ کر کے

Page 64

دکھلاتے اور بے انت ہونے کی وجوہات پیش کرتے.آپ کو سمجھنا چاہیے کہ جس حالت میں ارواح بعض جگہ نہیں پائے جاتے تو بے انت کس طرح ہو گئے.کیا بے انت کا یہی حال ہواکرتا ہے کہ جب ایک جگہ تشریف لے گئے تو دوسری جگہ خالی رہ گئی اگر پرمیشر بھی اسی طرح کا بے انت ہے تو کارخانہ خدا ئی کا معرض خطر میں ہے.افسوس کہ آپ نے ہمارے اُن پختہ دلائل کو کچھ نہ سوچا اور کچھ غور نہ کیا اور یونہی جواب لکھنے کو بیٹھ گئے.حالانکہ آپ کی منصفانہ طبیعت پر یہ فرض تھا کہ اپنے جواب میں اس امر کا التزام کرتے کہ ہر ایک دلیل ہماری تحریر کر کے اس کے محاذات میں اپنی دلیل لکھتے پر کہاں سے لکھتے اور تعجب تو یہ ہے کہ اسی جواب میں آپ کا یہ اقرار بھی درج ہے کہ ضرور سب ارواح ابتدا سرشٹی میں زمین پر جنم لیتے ہیں اور مدت سوا چار ارب تک سلسلہ دنیا کا بنارہتا ہے اس سے زیادہ نہیں.اب اے میرے دوستو اور پیارو اپنے دل میں آپ ہی سوچو اور اپنے قول میں خود ہی غور کرو کہ جو پیدائش ایک مقرری وقت سے شروع ہوئی اور ایک محدود مقام میں ان سب نے جنم لیا اور ایک محدود مدت تک اُن کے توالد تناسل کا سلسلہ منقطع ہو گیا تو ایسی پیدائش کس طرح بے انت ہوسکتی ہے.آپ نے پڑھا ہو گا کہ بموجب اصول موضوعہ فلسفہ کے یہ قاعدہ مقرر ہے کہ جو چند محدود چیزوں میں ایک محدود عرصہ تک کچھ زیادتی ہوتی رہی تو بعد زیادتی کے بھی وہ چیزیں محدود رہیں گی.اس سے یہ ثابت ہوا کہ اگر متعدد جانور ایک متعدد عرصہ تک بچہ دیتے رہیں تو ان کی اولاد بموجب اصول مذکور کے ایک مقدار متعدد سے زیادہ نہ ہوگی اور خود از رو ئے حساب کے ہر ایک عاقل سمجھ سکتا ہے کہ جس قدر پیدائش سو اچار ارب میں ہوتی ہے اگر بجائے اس مدت کے ساڑھے آٹھ ارب فرض کر یں تو شک نہیں کہ اس صورت مؤخر الذکر میں پہلی صورت سے پیدائش دوچند ہو گی.حالانکہ یہ بات اجلی بدیہیات ہے کہ بے انت

Page 65

کبھی قابل تضعیف نہیں ہو سکتا.اگر ارواح بے انت ثابت ہوتے تو ایسی مدت معدود میں کیوں محصور ہوجاتے کہ جن کے اضعاف کو عقل تجویز کر سکتی ہے اور نہ کوئی دانا محدود زمانی اور مکانی کو بے انت کہے گا.باوا صاحب براہ مہربانی ہم کو بتلا ویں کہ اگر سوا چار ارب کی پیدائش کا نام بے انت ہے تو ساڑھے آٹھ ارب کی پیدائش کا نام کیا رکھنا چاہیے.غرض یہ قول صریح باطل ہے کہ ارواح موجودہ محدود زمانی اور مکانی ہو کر پھر بھی بے انت ہیں کیونکہ مدت معین کا توالد تناسل تعداد معینہ سے کبھی زیادہ نہیں.اور اگر یہ قول ہے کہ سب ارواح بدفعہ واحد زمین پر جنم لیتے ہیں سو بطلان اس کا ظاہر ہے کیونکہ زمین محدود ہے اور ارواح بقول آپ کے غیر محدود پھر غیر محدود کس طرح محدود میں سما سکے.اور اگر یہ کہو بعض حیوانات باوصف مکتی نہ پانے کے نئی دنیا میں نہیں آتے سو یہ آپ کے اصول کے بر خلاف ہے کیونکہ جبکہ پیشتر عرض کیاگیا ہے آپ کا یہ اصول ہے کہ ہر نئی دنیا میں تمام وہ ارواح جو سرشٹی گذشتہ میں مکتی پانے سے رہ گئے تھے اپنے کرموں کا پھل بھوگنے کے واسطے جنم لیتے ہیں کوئی جیو جنم لینے سے باہر نہیں رہ جاتا.اب قطع نظر دیگر دلائل سے اگر اسی ایک دلیل پرجو محدود فی الزمان والمکان ہونیکے ہے غور کی جائے تو صاف ثابت ہے کہ آپ کو ارواح کے متعدد ماننے سے کوئی گریز گاہ نہیں اور بجز تسلیم کے کچھ بن نہیں پڑتا.بالخصوص اگر اُن سب دلائل کو جو سوال نمبر ۱ میں درج ہو چکے ہیں ان دلائل کے ساتھ جو اس تبصرہ میں اندراج پائیں ملا کر پڑھا جائے تو کون منصف ہے جو اس نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتا کہ ایسے روشن ثبوت سے انکار کرنا آفتاب پر خاک ڈالنا ہے.پھر افسوس کہ باوا صاحب اب تک یہی تصور کئے بیٹھے ہیں کہ ارواح بے انت ہیں اور مکتی پانے سے کبھی ختم نہیں ہوں گے اور حقیقت حال جو تھا سو معلوم ہوا کہ کُل ارواح پانچ ارب کے اندر اندر ہمیشہ ختم ہوجاتے ہیں اور

Page 66

نیزہر پرلے کے وقت پر اُن سب کا خاتمہ ہو جاتا ہے.اگر بے انت ہوتے تو اُن دونوں حالتوں مقدم الذکر میں کیوں ختم ہونا ان کار کن اصول آریہ سماج کا ٹھہرتا.عجب حیرانی کا مقام ہے کہ باوا صاحب خود اپنے ہی اصول سے انحراف کر رہے ہیں اتنا خیال نہیں فرماتے کہ جو اشیاء ایک حالت میں قابلِ اختتام ہیں وہ دوسری حالت میں بھی یہی قابلیت رکھتے ہیں.یہ نہیں سمجھتے کہ مظروف اپنے ظرف سے کبھی زیادہ نہیں ہوتا.پس جبکہ کل ارواح ظرف مکانی اور زمانی میں داخل ہو کر اندازہ اپنا ہر نئی دنیا میں معلوم کرا جاتے ہیں.اور پیمانہ زمان مکان سے ہمیشہ ماپے جاتے ہیں تو پھر تعجب کہ باوا صاحب کو ہنوز ارواح کے محدود ہونے میں کیوں شک باقی ہے.مَیں باوا صاحب سے سوال کرتا ہوں کہ جیسے بقول آپ کے یہ سب ارواح جو آپ کے تصوّر میں بے انت ہیں سب کے سب دنیا کی طرف حرکت کرتے ہیں اگر اسی طرح اپنے بھائیوں مکتی یافتوں کی طرف حرکت کریں تو اس میں کیا استبعاد عقلی ہے اور کونسی حجب٭ منتقی اس حرکت سے ان کو روکتی ہے اور کس برہانِ لِمّی یا انّی سے لازم آتا ہے کہ دنیا کی طرف انتقال اُن سب کا ہر سرشٹی کے دورہ میں جائز بلکہ واجب ہے لیکن کوچ ان سب کا مکتی یافتوں کے کوچہ کی طرف ممتنع اور محال ہے مجھ کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس عالم دنیا کی طرف کونسی پختہ سڑک ہے کہ سب ارواح اس پر بآسانی آتے جاتے ہیں ایک بھی باہر نہیں رہ جاتا اور اُن مکتی یافتوں کے راستے میں کونسا پتھر حائل پڑ اہوا ہے کہ اس طرف اُن سب کاجانا ہی محال ہے کیا وہ خدا جو سب ارواح کو موت اور جنم دے سکتا ہے سب کو مکتی نہیں دے سکتا.جب ایک طور پر سب ارواح کی حالت متغیر ہوسکتی ہے تو پھر کیا وجہ کہ دوسرے طور سے وہ حالت قابل تغییر نہیں اور نیز کیا یہ بات ممکن نہیں جو خدا ان سب ارواح کا یہ نام رکھ دے کہ مکتی یاب ہیں جیسے اب تک یہ نام رکھا ہوا ہے کہ مکتی یاب نہیں

Page 67

کیونکہ جن چیزوں کی طرف نسبت سلبی جائز ہو سکتی ہے بے شک ان چیزوں کی طرف نسبت ایجابی بھی جائز ہے اور نیز یہ بھی واضح رہے کہ یہ قضیہ کہ سب ارواح موجودہ نجات پا سکتے ہیں اس حیثیت سے زیر بحث نہیں کہ محمول اس قضیہ کا جو نجات عام ہے مثل کسی جُزئی حقیقی کے قابلِ تنقیح ہے بلکہ اس جگہ مبحوث عنہ امر کلی ہے یعنی ہم کلی طور پر بحث کرتے ہیں کہ ارواح موجودہ نے جو ابھی مکتی نہیں پائی آیا بموجب اصول آریہ سماج کے اس امر کی قابلیت رکھتے ہیں یا نہیں کہ کسی طور کا عارضہ عام خواہ مکتی ہو یا کچھ اور ہو ان سب پر طاری ہو جائے سو آریہ صاحبوں کے ہم ممنون منّت ہیں جو انہوں نے آپ ہی اقرار کر دیا کہ یہ عارضہ عام بعض صورتوں میں سب ارواح پر واقع ہے.جیسے موت اور جنم کی حالت سب ارواح موجودہ پر عارض ہو جاتی ہے.اب باوا صاحب خود ہی انصاف فرماویں کہ جس حالت میں دومادوں میں اس عارضہ عام کے خود ہی قائل ہو گئے تو پھر اس تیسرے مادہ میں جو سب کا مکتی پانا ہے انکار کرنا کیا وجہ ہے.پھر باوا صاحب یہ فرماتے ہیں کہ علاوہ زمین کے سورج او ر چاند او رسب ستاروں میں بھی جانور بکثرت آباد ہیں اور اس سے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ بس ثابت ہو گیا کہ بے انت ہیں.پس باوا صاحب پر واضح رہے کہ اوّل تو یہ خیال بعض حکماء کا ہے جس کو یورپ کے حکیموں نے اخذ کیا ہے اور ہماری گفتگو آریہ سماج کے اصول پر ہے سوا اس کے اگر ہم یہ بھی مان لیں کہ آریہ سماج کا بھی یہی اصول ہے تو پھر بھی کیا فائدہ کہ اس سے بھی آپ کا مطلب حاصل نہیں ہوتا.اس سے تو صرف اتنا نکلتا ہے کہ مخلوقات خدائے تعالیٰ کی بکثرت ہے.ارواح کے بے انت ہونے سے اس دلیل کو کیا علاقہ ہے پر شاید باوا صاحب کے ذہن میں مثل محاورہ عام لوگوں کے یہ سمایا ہوا ہو گا کہ بے انت اسی چیز کو کہتے ہیں جو بکثرت ہو.باوا صاحب کو یہ

Page 68

سمجھنا چاہیئے کہ جس حالت میں یہ سب اجسام ارضی اور اجرام سماوی بموجب تحقیق فن ہیئت اور علم جغرافیہ کے معدود اور محدود ہیں تو پھر جو چیزیں ان میں داخل ہیں کس طرح غیر معدود ہوسکتی ہیں اور جس صورت میں تمام اجرام واجسام زمین و آسمان کے خدا نے گنے ہوئے ہیں تو پھر جو کچھ ان میں آبا د ہے وہ اس کی گنتی سے کب باہر رہ سکتا ہے.سو ایسے دلائل سے آپ کا دعویٰ ثابت نہیں ہوتا کام تو تب بنے کہ آپ یہ ثابت کریں کہ ارواح موجودہ تمام حدود و قیودو ظروف مکانی وزمانی اور فضائے عالم سے بالا تر ہے کیونکہ خدا بھی انہی معنوں میں بے انت کہلاتاہے اگر ارواح بے انت ہیں تو وہی علامات ارواح میں ثابت کرنی چاہئیں.اس لئے کہ بے انت ایک لفظ ہے کہ جس میں بقول آپ کے ارواح اور باری تعالیٰ مشارکت رکھتے ہیں اور اس کا حد تام بھی ایک ہے یہ بات نہیں کہ جب لفظ بے انت کا خدا کی طرف نسبت کیاجائے تو اس کے اور معنی ہیں اور جب ارواح کی طرف منسوب کریں تو اور معنے.پھر بعد اس کے باوا صاحب فرماتے ہیں کہ کسی نے آج تک روحوں کی تعدادنہیں کی اس لئے لاتعداد ہیں اس پر ایک قاعدہ حساب کا بھی جو ما نحن فیہ سے کچھ تعلق نہیں رکھتا پیش کرتے ہیں اور اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ لاتعداد کی کمی نہیں ہو سکتی.پس باوا صاحب پر واضح رہے کہ ہم تخمینی اندازہ ارواح کا بموجب اصول آپ کے بیان کر چکے ہیں اور ان کا ظروف مکانی اور زمانی میں محدود ہونا بھی بموجب انہی اصول کے ذکر ہوچکا ہے اور آپ اب تک وہ حساب ہمارے رو برو پیش کرتے ہیں جو غیر معلوم اور نامفہوم چیزوں سے متعلق ہے اگر آپ کا یہ مطلب ہے کہ جس طرح خزانچی کو اپنی جمع تحویل شدہ کا کل میزان روپیہ آنہ پائی کا معلوم ہوتا ہے اسی طرح اگر انسان کو کل تعداد ارواح کا معلوم ہوتو تب قابل کمی ہوں گے ورنہ نہیں سو یہ بھی آپ کی غلطی ہے.

Page 69

کیونکہ ہرعاقل جانتا ہے کہ جس چیز کا اندازہ تخمینی کسی پیمانہ کے ذریعہ سے معلوم ہو چکا توپھر ضرور عقل یہی تجویز کرے گی کہ جب اس اندازۂ معلومہ میں سے نکالا جاوے تو بقدرتعداد خارج شدہ کے اصلی اندازہ میں کمی ہو جائے گی.بھلا یہ کیا بات ہے کہ جب مکتی شدہ سے ایک فوج کثیر مکتی شدہ ارواح میں داخل ہو جائے تو نہ وہ کچھ کم ہوں اور نہ یہ کچھ زیادہ ہوں حالانکہ وہ دونوں محدود ہیں اور ظروف مکانی اور زمانی میں محصور.اور جو یہ باوا صاحب فرماتے ہیں کہ تعداد روحوں کی ہم کو بھی معلوم ہونی چاہیے.تب قاعدہ جمع تفریق کا ان پر صادق آوے گا.یہ قول باوا صاحب کا بھی قابل ملاحظہ ناظرین ہے ورنہ صاف ظاہر ہے کہ جمع بھی خدا کی اور تفریق بھی وہی کرتا ہے اور اس کو ارواح موجودہ کے تمام افراد معلوم ہیں اور فرد فرد اس کے زیر نظرہے.اس میں کیا شک ہے کہ جب ایک روح نکل کر مکتی یابوں میں جاوے گا تو پرمیشور کومعلوم ہے کہ یہ فرد اس جماعت میں سے کم ہو گیا اور اس جماعت میں سے ٭بباعث داخل ہونے اس کے ایک فرد کے زیادتی ہوئی.یہ کیا بات ہے کہ اس داخل خارج سے وہی پہلی صورت بنی رہی نہ مکتی یاب کچھ زیادہ ہوں اور نہ وہ ارواح کہ جن سے کچھ روح نکل گئی بقدر نکلنے کے کم ہو جائیں اور نیز ہم کو بھی کوئی بُرہان منطقی مانع اس بات کی نہیں کہ ہم اس امر متیقن متحقق پر رائے نہ لگا سکیں کہ جن چیزوں کا اندازہ بذریعہ ظروف مکانی اور زمانی کے ہم کو معلوم ہو چکا ہے وہ دخول خروج سے قابل زیادت اور کمی ہیں مثلًا ایک ذخیرہ کسی قدر غلّہ کا کسی کوٹھے میں بھرا ہوا ہے اور لوگ اس سے نکال کر لئے جاتے ہیں سو گو ہم کو اُس ذخیرہ کا وزن معلوم نہیں لیکن ہم بنظر محدود ہونے اس کے کے رائے دے سکتے ہیں کہ جیسا نکالاجائے گا کم ہوتا جائے گا.اور یہ جو آپ نے تحریر فرمایا کہ خدا کا علم غیر محدود ہے اور روح بھی غیر محدود ہیں اسی واسطے خدا کو روحوں کی تعداد معلوم نہیں.یہ آپکی تقریر بے موقع ہے.جناب من یہ کون کہتا ہے جو خدا کا علم

Page 70

غیرمحدودنہیں.کلام و نزاع تو اس میں ہے کہ معلومات خارجیہ اسکے جو تعینات وجودیہ سے مقید ہیں اور زمانہ واحد میں پائے جاتے ہیں اور ظروف زمانی اور مکانی میں محصور اور محدود ہیں آیا تعداد اُن اشیاء موجودہ محدودہ معینہ کا اس کو معلوم ہے یانہیں آپ اُس اشیاء موجودہ محدودہ کو غیر موجود اور غیر محدود ثابت کریں تو تب کام بنتا ہے ورنہ علم الٰہی کہ موجود اور غیر موجود دونوں پر محیط ہے اس کے غیر متناہی ہونے سے کوئی چیز جو تعینات خارجیہ میں مقید ہو غیر متناہی نہیں بن سکتی اور آپ نے خدا کے علم کو خوب غیر محدود بنایا کہ جس سے روحوں کا احاطہ بھی نہ ہو سکا اور شمار بھی معلوم نہ ہوا باوصفیکہ سب موجود تھے کوئی معدوم نہ تھا کیا خوب بات ہے کہ آسمان اور زمین نے تو روحوں کو اپنے پیٹ میں ڈال کر بزبانِ حال اُن کی تعداد بتلائی پھر خدا کو کچھ بھی تعداد معلوم نہ ہوئی.یہ عجیب خدا ہے اور اُس کا علم عجیب تر.بھلا میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ خدا کو جو ارواح موجودہ کا علم ہے یہ اُس کے علوم غیر متناہیہ کاجز ہے یا کُل ہے.اگر کُل ہے ٭ اس سے لازم آتا ہے کہ خدا کو سوا روحوں کے اور کسی چیز کی خبر نہ ہو اور اس سے بڑھ کر اس کا کوئی عالم نہ ہو.اور اگر جز ہے تو محدود ہو گیا کیونکہ جز کل سے ہمیشہ چھوٹا ہے پس اس سے بھی یہی نتیجہ نکلا کہ ارواح محدود ہیں اور خودیہی حق الامر تھا.جس شخص کو خدا نے معرفت کی روشنی بخشی ہو وہ خوب جانتا ہے کہ خدا کے بے انتہا علوم کے دریا زمین سے علم ارواح موجودہ کا اس قدر بھی نسبت نہیں رکھتا کہ جیسے سوئی کو سمندر میں ڈبو کر اس میں کچھ تری باقی رہ جاتی ہے.پھر باوا صاحب یہ تحریر فرماتے ہیں کہ’’یہ اعتراض کرنا بیجا ہے کہ بے انت اور انادی ہونا خدا کی صفت ہے اگر روح بھی بے انت اور انادی ہوں تو خدا کے برابر ہو جائیں گے کیونکہ کسی جُزوی مشارکت سے مساوات لازم نہیں آتی جیسے آدمی بھی آنکھ سے دیکھتا ہے اور حیوان بھی.پر دونوں مساوی نہیں ہو سکتے‘‘.یہ دلیل باوا صاحب کی تغلیط اور تسقیط ہے.ورنہ کون عاقل اس بات کو نہیں جانتا کہ جو صفات ذات الٰہی میں پائی جاتی ہیں وہ سب اس ذات بے مثل

Page 71

کے خصائص ہیں کوئی چیز ان میں شریک سہیم ذات باری کے نہیں ہو سکتی کیونکہ اگر ہو سکتی ہے تو پھر سب صفات اس کی میں شراکت غیرکی جائز ہو گی اور جب سب صفات میں شراکت جائز ہوئی تو ایک اور خدا پیدا ہو گیا بھلا اس بات کا آپ کے پاس کیا جواب ہے کہ جو خدا کی صفات قدیمہ میں سے جو انادی اور بے انت ہونے کی صفت ہے وہ تو اس کے غیر میں بھی پائی جاتی ہیں لیکن دوسری صفات اُس کی اس سے مخصوص ہیں.ذرہ آپ خیال کر کے سوچیں کہ کیا خدا کی تمام صفات یکساں ہیں یا متقارب ہیں.پس ظاہر ہے کہ اگر ایک صفت میں صفات مخصوصہ اس کی سے اشتراک بالغیر جائزنہ ہو گااور اگر نہیں تو سب میں نہیں اور یہ جو آپ نے نظیر دی جو حیوانات مثل انسان کے آنکھ سے دیکھتے ہیں لیکن اس رویت سے انسان نہیں ہو سکتا نہ اس کے مساوی.یہ نظیر آپ کی بے محل ہے اگر آپ ذرہ بھی غور کرتے تو ایسی نظیر کبھی نہ دیتے.حضرت سلامت یہ کون کہتا ہے کہ ممکنات کو عوارض خارجیہ میں باہم مشارکت اور مجانست نہیں.امر متنازعہ فیہ تو یہ ہے کہ خصائص الٰہیہ میں کسی غیر اللہ کو بھی اشتراک ہے یا صفات اسکے اس کی ذات سے مخصوص ہیں.آپ مدعی اس امر متنازع کے ہیں اور نظیر ممکنات کے پیش کرتے ہیں جو خارج از مبحث ہے.آپ امر متنازعہ کی کوئی نظیر دیں تب حجت تمام ہو ورنہ ممکنات کے تشارک تجانس سے یہ حجت تمام نہیں ہوتی.نہ ذات باری کے خصائص کو ممکنات کے عوارض پر قیاس کرنا طریق دانشوری ہے.علاوہ اس کے جو ممکنات میں بھی خصائص ہیں وہ بھی ان کے ذوات سے مخصوص ہیں جیسا کہ انسان کی حد تام یہ ہے جو حیوانِ ناطق ہے اور ناطق ہونا انسان کے خصائص ذاتی میں سے اور اس کا فصل اور ممیز عن الغیر ہے یہ فصل اس کا نہیں کہ ضرور بینا بھی ہو اور آنکھ سے بھی دیکھتا ہو کیونکہ اگر انسان اندھا بھی ہو جائے تب بھی انسا ن ہے بلکہ انسان کے خصائص ذاتیہ سے وہ امر ہے جو بعد مفارقت روح کے بدن سے اسکے نفس میں بنا رہتا ہے ہاں یہ بات سچ ہے جو ممکنات میں اس وجہ سے جو وہ سب ترکیب عنصری میں متحد ہیں بعض حالات خارج از حقیقت تامہ ہیں ایک دوسرے کی مشارکت بھی ہوتے ہیں جیسے انسان

Page 72

اور گھوڑا اور درخت کہ جو ہر اور صاحب العباد٭ ثلاثہ اور قوت نامیہ ہونے میں یہ تینوں شریک ہیں اور حسا س اور متحرک بالارادہ ہونے میں انسان اور گھوڑا مشارکت رکھتے ہیں لیکن ماہیت تامہ ہر ایک کی جدا جدا ہے.غرض یہ صفت عارضی ممکنات کی حقیقت تامہ پر زائد ہے جس میں کبھی تشارک اور کبھی تغائر ان کا ہوجاتا ہے اور باوصف مختلف الحقائق اور متغائر الماہیت ہونے کے کبھی کبھی بعض مشارکات میں ایک جنس کے تحت میں داخل ہو جاتے ہیں بلکہ کبھی ایک حقیقت کے لئے ایک اجناس ہوتے ہیں اور یہ بھی کچھ سمجھاکہ کیوں ایسا ہوتا ہے یہ اس واسطے ہوتا ہے کہ ترکیب مادی ان کی اصل حقیقت اُن کے پر زائد ہے اور سب کی ترکیب مادی کا ایک ہی استقس یعنی اصل ہے اب آپ پر ظاہر ہو گا کہ یہ تشارک ممکنات کا خصائص ذاتیہ میں تشارک نہیں بلکہ عوارض خارجیہ میں اشتراک ہے.باطنی آنکھ انسا ن کی جس کو بصیرت قلبی (این لاین منٹ) کہتے ہیں دوسرے حیوانات میں ہرگز نہیں پائی جاتی.اخیر میں باوا صاحب اپنے خاتمہ جواب میں یہ بات کہہ کر خاموش ہو گئے ہیں کہ سب دلائل معترض کے توہمات ہیں قابل تردیدنہیں.اس کلمہ سے زیرک اور ظریف آدمیوں نے فی الفور معلوم کر لیا ہو گا کہ باوا صاحب کو یہ لفظ کیوں کہنا پڑا.بات یہ ہوئی کہ اوّل تو ہمارے معزز دوست جناب باوا صاحب جو اب دینے کی طرف دوڑے اور جہاں تک ہو سکا ہاتھ پاؤں مارے اور کودے اُچھلے لیکن جب اخیر کو کچھ پیش نہ گئی اور عقدہ لاینحل معلوم ہوا تو آخر ہانپ کر بیٹھ گئے اور یہ کہہ دیا کہ کیاتردید کرناہے یہ تو توہمات ہیں لیکن ہر عاقل جانتا ہے کہ جن دلائل کی مقدمات یقینیہ پر بنیاد ہے وہ کیوں توہمات ہو گئے.اب ہم اس مضمون کو ختم کرتے ہیں اور آئندہ بلاضرورت نہیں لکھیں گے.راقم مرزا غلام احمد رئیس قادیان

Page 73

منشی گردیال صاحب مدرس مڈل اسکول چنیوٹ کے استفسار مندرجہ پرچہ آفتاب ۱۶؍مئی ۱۸۷۸ ؁ء کا ضروری جواب............................منشی گردیال صاحب نے بعض خیالات اپنی بابت انادی ہونے روحوں کے پیش کر کے ہم سے جواب اس کا بکمال اصرار طلب کیا ہے سو اگرچہ ہم مضمون سابق کے خاتمہ میں تحریر کر چکے ہیں کہ آئندہ اس بحث پربلا ضرورت نہیں لکھیں گے لیکن چونکہ منشی صاحب ممدوح نے بمراد ازالہ شکوک اپنے کے بہت التجا ظاہر کی ہے اور ہمارے نزدیک بھی رفع کرنا شبہات صاحب موصوف کا حقیقت میں ایک عمدہ تحقیق علمی ہے جو فائدہ عام سے خالی نہیں.لہٰذا ہم اس جواب کو بوجہ ضروری اور لابدی اور مفید عام ہونے کے بمد استثناء شمار کر کے برعایت اختصار ذیل میں درج کرتے ہیں.اول خیال منشی صاحب کا جس کو وہ دلیل سمجھ کر بہ ثبوت انادی ہونے روحوں کے پیش کرتے ہیں.یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی مخلوقات کی علتِ تامہ ہے اور تمام مخلوق اس کی معلول اور کوئی معلول اپنی علت تامہ سے متاخر نہیں رہ سکتا پس ثابت ہوا کہ ارواح موجودہ مثل ذات باری کے قدیم سے ہیں حادث نہیں ہیں.ہماری طرف سے یہ جواب ہے کہ یہ استدلال صاحب موصوف کا ہرگز درست نہیں اور نہ ان کو کچھ فائدہ بخشتا ہے بلکہ الٹا ان کے دعویٰ کو صحیح ثابت کرنے کے غلط ثابت کرتا ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ خداوند کریم کی ذات پاک لامحدود ولانتہا ہے اور ارواح کی پیدائش کی علت تامہ وہی غیرمتناہی ہستی ہے اب اگر بقول مدرس صاحب کے یہ فرض کیا جاوے کہ تخلف معلول کا اپنی علت تامہ سے محال ہے تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ ارواح

Page 74

مجودہ (جو بقول ان کے قدیم سے موجود ہیں) لاتعداد اور غیرمتناہی ہوں کیونکہ جب علتِ تامہ بے انت ہے تو معلول بھی بے انت ہونا چاہئے ورنہ لازم آوے گا...کہ مؤثر کامل کی تاثیر ناقص ہو حالانکہ بے انت ہونا ارواح موجودہ کا ہماری چودہ دلائل سے باطل ہو چکا ہے جس کو سوامی دیانند صاحب بھی لاچار اور لاجواب ہو کر قبول کر چکے.پس جبکہ روحوں کے بے انت ہونے کے بار ے میں یہ دلیل جھوٹی نکلی تو ان کے انادی ہونے میں کب سچی ہو سکتی ہے.علاوہ اس کے مشاہدہ افعال اللہ کا بھی اس کے برخلاف گواہی دیتا ہے کیونکہ قانون قدرتی کے ہر روزہ تجربہ اور ملاحظہ نے ہم پر ثابت کر دیا ہے کہ افعال الٰہی جومرہون‘ باوقات و موقت بالازمنہ ہیں اور اوقات مختلفہ میں ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں کبھی دھوپ ہے کبھی بادل ہے کبھی رات ہے کبھی دن ہے کھبی غم ہے اور کبھی شادی ایک وقت وہ تھا جو ہم معدوم تھے اور اب یہ وقت ہے کہ ہم زندہ زمین پر موجود ہیں اور پھر وہ وقت بھی آنے والا ہے کہ ہم نہیں ہوں گے اور ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ بارادہ الٰہی ہو رہا ہے اور ان سب امور اور عوارض کے وہی ارادہ ازلی علت تامہ ہے پس اگر بقول مدرس صاحب کے تصور کیا جاوے کہ موافقت خالق اور مخلوق کی واجب ہے تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ تمام حادثات جو وقتاً فوقتاً ظہور پکڑتے ہیں ہمیشہ ایک حالت پر بنے رہیں اور دنیا میں ایک ہی دستور رہے لیکن ہر عاقل جانتا ہے جو عالم متغیر ہے اور تمام اجزا حوادث کے آن و احد میں جمع نہیں ہو سکتے اور کسی مخلوق کو ایک وضع پر قرار نہیں پس اس سے یہی ثابت ہوا کہ دلائل پیش کردہ مدرس صاحب بھی نامعتبر اور سراسر غلط ہیں.سوا اس کے جب دوسرے شق کی طرف غور کی جاتی ہے کہ آیا روحوں کے انادی ہونے کی بابت کوئی دلیل پختہ ہے یا نہیں تو ایسے دلائل پختہ اور یقینی ملتے ہیں جو انسان کو بجز ماننے ا ن کے کے کچھ بن نہیں پڑتا اس بارے میں ہم مضمون سابقہ میں بہت کچھ لکھ چکے ہیں

Page 75

اب اعادہ کرنا ضرور ی نہیں لیکن ایک نئی دلیل جس سے روحوں کے انادی ہونے کے ابطال میں قطعی فیصلہ ہو گیا بلکہ فیصلہ کیا قلعی ہی کھل گئی اس مضمون میں بھی درج کی جاتی ہے اور تمہید اس دلیل کی یہ ہے کہ آریہ سماج والے بموجب اصول مسلمہ اپنے کے خود اقرار کر چکے ہیں کہ ارواح موجودہ سوا چارارب زمانہ سے زیادہ نہیں جتنے ہیں اور جسقدر ہیں اس زمانہ سے شروع ہوتے ہیں اور اس کے اندر اندر ختم ہو جاتے ہیں اور پھر یہ بھی اقرار ہے کہ فرودگاہ تمام روحوں کا یہی کرہ زمین معلوم و محدود ہے اور اس اسکول میں سب ارواح تعلیم پاتے اور علم سیکھتے ہیں بلکہ جتنے ارواح آج تک عہدہ مکتی کا پا چکے ہیں وہ سب اس چھوٹے سے مدرسہ کے پاس یافتہ ہیں.اب ظاہر ہے کہ ان اقرارات سے صاف ظاہرہو گیا کہ ارواح موجودہ بے انت نہیں ہیں بلکہ بوجہ محدود زمانی و مکانی ہونے کے کسی اندازہ مقرری میں حصہ کی گئی ہیں پس جبکہ یہ حال ہے تو اب ناظرین خود غور فرماویں کہ اس صورت میں یہ قول مدرس صاحب کا کہ ارواح موجودہ ضرور انادی ہیں کس طرح درست ہو سکتاہے کیونکہ جس حالت میں ارواح بے انت نہ ہوئے بلکہ کسی خاص تعداد میں محصور ٹھہرے سو بالضرورت اس کے تناسخ اور مکت پانے کا کوئی ابتداء ماننا پڑا یعنی وہ زمانہ کہ جس میں پہلے پہل کسی روح نے کوئی جنم لیا تھا یا عہدہ مکتی کا پایا تھا پس جب ابتداء تناسخ اور مکت پانے کا اقرار دیا گیا تو ارواح انادی نہ رہے کیونکہ انادی وہ چیز ہے کہ جس کا کوئی ابتداء نہ ہو پس ثابت ہو گیا کہ انادی نہیں اور یہی مطلب تھا (اب حضرت کیا خبر ہے اب یہ بھی آپ روحوں کو انادی کہتے رہو گے) بعض صاحبوں نے یہ جواب دیا ہے کہ ممکن ہے کہ پہلے ایک غیرمتناہی مدت سے تمام ارواح حالت تعطل اور بیکاری میں پڑے رہے ہوں پھر پیچھے سے ایشر کو یہ خیال آیا کہ فارغ رہنا ان روحوں کا اچھا نہیں پس اس دن سے ایشور کے دل میں یہ خیال اٹھا تو سب روحوں کو انسان اور حیوان اور گدھے گھوڑے بنا کر جنم مرن کی مصیبت میں ڈال دیا اور

Page 76

زمانہ میں مکتی بھی شروع ہو گئی اسی صورت میں تناسخ اور مکت پانے کا ابتدا ہونا روحوں کے انادی ہونے میں کچھ خلل نہیں ڈال سکتا.سُبْحَانَ اللّٰہِ کیااچھا جواب ہے اس سے معلوم ہوا کہ اب آریہ سماج والے مکرِدقیق میں بہت ترقی کر گئے ہیں تبھی تو ایسے ایسے عمدہ جواب دینے لگے بھلا صاحب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ تمام ارواح قبل تناسخ اور مکت پانے کے دکھوں دردوں میں مبتلا تھیں یا راحت میں اور آسائش میں.اگر دکھوں میں مبتلا تھے تو کس عمل کی شامت سے اور اگر راحت میں تھے تو کس کارخیر کی پاداش میں علاوہ اس کے اگر پہلے مکت پانے سے خوشحال اور مسرور تھے تو پھر ان کو مکت کا طلب کرنا تحصیل حاصل تھا جس سے ماننا پڑا کہ موجود نہ تھے اگر یہ کہو کہ اگرچہ پہلے ہی آرام میں تھے پر ان کو گردش تناسخ میں اسی واسطے ڈالا گیا کہ خدا کی شناخت حاصل کرے تو جواب ظاہر ہے کہ جبکہ روحوں کو غیرمتناہی مدت میں خدا کے ساتھ رہ کر اور اس کا ہم صحبت ہو کر بلکہ دائمی شریک بن کر خدا کی شناخت حاصل نہ ہوئی تو پھر کیڑے مکوڑے بن کر کیا ذخیرہ معارف کا اکٹھا کر سکتے تھے بلکہ ناکردہ گناہ طرح طرح کی تکلیفات جنم مرن میں ڈالنا برخلاف اصول آریہ سماج کے ہے اور اسی سے تو حضرت تناسخ صاحب جزیرہ عدم کی طرف سرمارتے ہیں علاوہ اس کے تعطل ارواح بھی بموجب اصول آریہ سماج کے قطعاً ناجائز ہے پھر غیرمتناہی تعطل کس طرح جائز ہو پس ایسا خیال کہ ارواح انادی ہیں سراسر باطل.پھر مدرس صاحب لکھتے ہیں کہ باربار پیدا ہونا روحوں کا غیر ممکن ہے بلکہ جتنی روح پیدا ہو سکتی ہے وہ قدیم سے موجود ہیں اور آگے کو قدرت خالقیت کی مفقود ہے یہ ایسی تقریر ہے کہ جس کو ہم دوسرے لفظوں.....................

Page 77

دہریہ مذہب کی تردید سوال دہریہ: خدا کا اگر جسم نہیں ہے تو کیا چیز ہے؟ جواب: جسم اسے کہتے ہیں کہ وزن ہو سکے کہ اتنے سیر ہے یا اتنے من ہے اور مساحت ہو سکے کہ اتنا لمبا ہے یا اتنا چوڑا ہے.خدا ایک نور ہے جو سب نقصانوں سے پاک ہے. ۱؎.جب ہم روح کی طرف دیکھتے ہیں تو ہم کو یقین ہو جاتا ہے کہ دنیا میں ایسی بھی چیزیں ہوتی ہیں کہ جسم نہیں ہیں اور پھر موجود ہیں  ۲؎.ایک دلیل وجود خدا تعالیٰ پر یہ ہے کہ زمانہ کا ابتدا ضرور ایک ماننا پڑتا ہے کیونکہ اگر زمانہ کا ابتدا نہیں تو چاہے کہ بنی آدم تمام زمین کو روک لیں اور ایک کہنہ جگہ خالی نہ ہوئی حالانکہ حکیموں نے تجربہ کر کے تخمینہ لگا دیا ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت سے سات ہزار برس تک تمام ربع مسکون بھر سکتا ہے.اگر سات ہزار برس سے زیادہ مدت گزرے تو اس کے واسطے کوئی اور زمین چاہیے.ہر ایک آدمی سوچ سکتا ہے کہ اس کی قوم کے کس قدر آدمی دنیا میں پہلے ہوئے ہیں مثلاً آج سے آٹھ سو برس سے مغول نام ایک شخص تھا جس کی اولاد قوم مغل ہے اب شمار کرو کہ اب کتنے مغل ہیں.اسی طرح کل عرصہ تین سو برس کا گزرا ہے کہ باوانانک صاحب ایک شخص ہوا ہے اب اس کی اولاد ہزارہا ہوئے ہیں.اس دلیل سے معلوم ہوا کہ دنیا کا ایک ابتدا ہے اور ایک انتہا ہے.ابتدا اس سے ثابت ہوا کہ جیسا اوپر

Page 78

کی طرف نظر کرتے جاؤ تو دنیا کا کتنا ثابت ہوتا ہے اور انتہا اس سے ثابت ہوا کہ زمین ایک میدان محدود ہے غیرمحدود پیدائش کی گنجائش نہیں رکھتا.تو ناچار کسی دن اس دنیا کا خاتمہ ہے پس جس چیز کا ابتدا اور انتہا ہے وہ چیز مصنوعی ہے قدیمی نہیں رہ سکتی اور جب مصنوعی ہوئی تو اس کا ایک صانع ماننا پڑا اور وہ خدا ہے.اگر یہ کہو کہ بعض خاندان میں کثرت اولادنہیں اُتنے کے اُتنے رہتے ہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک عارضہ ہے ورنہ تجربہ سے ثابت ہے کہ ایک بکری آدمی خریدتا ہے تو اس کا ریوڑ بن جاتا ہے اور یہ ایک قاعدہ ہے کہ دنیا میں طبعی موت ساٹھ ستربرس کے بعد آتی ہے اور پرورش پندرہ برس کے بعد شروع ہو جاتی ہے اور اس پر صاف دلیل یہ ہے کہ جو جزیرے پہلے آبادنہ تھے وہ اب آباد ہیں.دوسری دلیل وجود واجب الوجود پر یہ ہے کہ کوئی مصنوع بغیر صانع کے نظر نہیں آتا اور ایک چھوٹا سا کوٹھا بغیر بنانے والے کے بن نہیں سکتا.پھر اتنا بڑا کوٹھا کہ جس کے فرش کا محیط چوبیس ہزار میل سے زیادہ ہے اور جس کی سقف کمال صفائی سے محکم طور پر بنائی گئی ہے اور جس کے اوپر چراغ رکھے ہیں کہ تا روشنی بخشیں اور ایسی ترتیب ہے کہ ایک کو سب سے اعلیٰ بنایا ہے اور باقی کو روشن تابع مقرر کیا ہے کس طرح بغیر بنا نے والے کے خود بخود بن گیا.اس جگہ دہریہ یہ سوال کرتے ہیں کہ دنیا کے کوٹھوں کو بنانے والوں کو ہم بچشم خود دیکھتے ہیں لیکن آسمان زمین بنانے والا ہم کو نظر نہیں آتا.اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کوٹھا بنانے والا نظر آتا ہو تو دلیل پکڑنے کی کیا حاجت تھی دلیل تو اسی جگہ پکڑی جاتی ہے کہ جب ایک شے کا وجود بغیر اس کے نظر آنے کے ثابت کرنا پڑتا ہے.دیکھو مصر میں ایسی ایسی قدیم

Page 79

عمارت موجود ہیں کہ اب اس زمانہ کے لوگ ان کو بنا نہیں سکتے لیکن یہ یقین کیا جا سکتا ہے کہ وہ بھی معمار تھے جنہوں نے ان کو بنایا مصنوع کے صانع پہ ذاتی دلالت ہے خواہ صانع نظر آتا ہو یا نہ آتا ہو.اگر ایک آدمی ایک نئی کل پیدا کرے جو ایک آدمی نے پہلے نہیں کی اور اس جنس کی صنعت پہلے کسی نے نہیں بنائی اور وہ آدمی ہم نے دیکھا بھی نہ ہو تو کیا ہم ایسا خیال کریں گے کہ وہ صنعت خود بخود بن گئی.ہر ایک عقلمندی کا کام ایک عاقل کی دستکاری پر دلالت کرتا ہے.یہ مثال تعصب اور تاریکی نفس ہے کہ باوجود اقرار اس بات کے کہ ایک صنعت کو دیکھ کر یہ کہیں کہ فی الحقیقت یہ عاقلانہ کام ہیں پھر انکار کریں کہ کسی عاقل کی بنائی ہوئی نہیں ذی شعور اور غیرذی شعور کے فعل میں ہمیشہ ایک فرق ہوتا ہے.جس مصنوع میں یہ علامت پائی جاوے کہ اس کے صانع نے اپنے مطالب کو بالارادہ مدنظر رکھا ہے اور فعل عبث ہیں تو اس مصنوع پر عقل سلیم حکم کرے گی کہ یہ کسی صانع ذی شعور کا فعل ہے جیسے اگر کسی کاغذ پر سیاسی گر جائے تو ممکن ہے کہ انسان نے گرائی ہو یا کسی چوہے نے گرائی ہو یا یونہی اتفاقاً گر پڑی ہو لیکن اگر کسی کاغذ پر ایک صفحہ کسی کتاب کا لکھا جائے جو کوئی ضروری مطلب اس سے معلوم ہوتا ہو تو کوئی دانا نہیں کہے گا کہ خود بخود بغیر کاتب کے لکھا گیا پھر اگر یہ ایسے وضع کے حرف ہوں کہ پہلے اس وضع کے حرف ہم نے نہیں دیکھے لیکن جب ہم نے خود سے دریافت کر لیا کہ یہ بھی حرف ہیں اور اس کی عبارت میں صدہا صفحہ پر برابر بنتے چلے گئے تو پھر اگرچہ ہم نے اسکے کاتب کو نہیں دیکھا اور نہ اس نئی طرز کے کہیں حروف دیکھے لیکن اس میں کیا شک رہے گا کہ ضرور یہ کسی کاتب کا ایجاد ہے.دیکھو اگر یہ کوٹھا زمین آسمان ایک چھوٹا کوٹھا ہوتا تو تم اس کی کمال خوبصورتی دیکھ کر ضرور کہتے کہ کسی دانا انسان کا بنایا ہواہے پس اب سوچنا چاہیے کہ جس حالت میں اگر یہ

Page 80

چھوٹا کوٹھا بھی بغیر بنانے والے کے بن نہیں سکتا تھا تو اب کہ بڑا کوٹھا ہے بغیر بنانے والے کے کس طرح بن گیا.تیسری دلیل وجود خدا تعالیٰ پر یہ ہے کہ دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک چیز دوسری چیز کی مدد سے طیار ہوتی ہے جیسے درخت پانی کی مدد سے اور بارش ہوتی ہے آفتاب کی مدد سے اور وجود حیوانات کا ہوتا ہے دوسرے حیوانات کی مدد سے اور زمین پر کوئی چیز نظر نہیں آتی کہ بغیر دوسری کے اس کا بچہ ہو سکے یا پیدا ہو سکے.پس ایک وجود ایسا ماننا پڑا جو سب کا مددگار ہو وہی واجب الوجود ہے.آدمی بنا نطفہ سے اور نطفہ بنا اناج سے اور اناج بنا مٹی سے اور مٹی کہاں سے بنی؟ اگر کہو کہ مٹی خود بخود چلی آتی ہے تو یہ بات ناقص ہے کیونکہ خودبخود وجود اس چیز کا ہوتا ہے جو دوسری کی کسی حالت میں محتاج نہ ہو لیکن مٹی اکٹھا رہنے میں پانی کی محتاج ہے.اگر مٹی میں پانی نہ ملا ہو تو مٹی کو ہوا اڑا کر لے جائے اور نیز مٹی نباتات کے اگانے میں پانی کی محتاج ہے اور کوئی محتاج چیز قدیمی نہیں ہو سکتی اور محتاج کو نہیں کہہ سکتے کہ اس کا وجود واجب ہے علاوہ اس کے مٹی سے درخت پیدا ہوئے ہیں اور وہ اس سے بہتر ہیں اور ناقص واجب الوجودنہیں ہو سکتا.دلیل چہارم یہ ہے کہ فرمایا ہے خدا تعالیٰ نے  ۱؎ اور نیز فرمایا ہے۲؎ ان دونوں آیتوں کے یہ معنی ہیں کہ ملاحظہ عالم سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک چیز ایک چیز کی خالق اور فاطر ہے.جیسے سورج کی گرمی سے بخارات پیدا ہوتے ہیں اور بخارات سے بادل پیدا ہوتا ہے اور بادل سے پانی پیدا ہوتا ہے اور پانی سے پھل پیدا ہوتے ہیں لیکن خدا

Page 81

احسن الخالقین ہے اور اسی طرح خدا فاطر السمٰوات والارض ہے جو ان کو عدم سے وجود بخشتا ہے.پھر اگر وجود خدا نہ ہو تو دروازہ تمام خیرات کا بند ہو جاتا ہے کیونکہ تمام لوگ اس طرح خیرات کرتے ہیں کہ اس خیرات کے دینے سے ہمارا فائدہ ہے اور کوئی شخص بلالحاظ فائدہ نقصان کے کوئی کام نہیں کر سکتا بلکہ ایسا کام اس کی نظر میں محض عبث ٹھہرتا ہے اسی طرح وجود خدا نہ ماننے والا بدی سے ڈر نہیں سکتا کیونکہ بدی اسی لحاظ سے بدی ہوتی ہے کہ اس کا بدنتیجہ ہے اگر اس کا نتیجہ بدنہ کہا جائے تو پھر ہرگز دل اس کو بدنہیں خیال کر سکتا.پھر اگر بدی کرنے میں کسی کا خوف نہ ہو تو پھر بدی کرنے سے کون مانع ہے اور اگر کہو کہ بادشاہ اور حاکم مانع ہیں ہم کہتے ہیں کہ بادشاہوں اور حاکموں کو کون مانع ہے.جو شخص صاحب قدرت ہے اس کو کسی کا خوف ہے علاوہ اس کے حاکم اور بادشاہ ہر وقت حاضر ناظر نہیں ہوتے اور نہ انسان خیال کرتا ہے کہ وہ میرے کاموں کو ہر وقت دیکھتے ہیں.اور یہ جو کہتے ہیں کہ ہم زمین و آسمان کے صانع کو نہیں دیکھتے اس واسطے اس پر ایمان نہیں لاتے.یہ ان کی صاف شرارت ہے کیونکہ اگر اس دنیا میں صانع دیکھا جاتا تو پھر یہ دنیا دنیا نہ رہتی اور نہ کسی کو نیک کام کرنے میں ثواب ہوتا اس واسطے کہ ثواب اسی وقت تک ہے کہ جب آدمی تقویٰ اختیار کر کے بحالت پوشیدگی خدا کے اوپر ایمان لاوے اور اگر خدا اپنی ذات کو خودبخود ظاہر کرے تو پھر اس کا ثواب کیا. ۱؎ یعنی یہ کتاب ان متقیوں کے لئے ہدایت ہے کہ خدا پر حالت پوشیدہ ہونے اس کی میں اس پر ایمان لاتے ہیں.دوسری دلیل وجود خدا تعالیٰ پر یہ ہے کہ تمام مخلوقات کے خیالات کا اسی پر اتفاق

Page 82

ہے کہ ایک ذات رب العالمین ہے اور نیز اس بات پر اتفاق ہے کہ حقیقت میں صنعت زمین آسمان کی ایک ایسی صنعت ہے کہ بجز صانع کے ہرگز نہیں بن سکتی پس جس بات کو بہت دانا تجویز کریں وہی حق ہوتی ہے.سو سیانے ایکو مت، مورکھ آپو آپنے.دہریہ کہتے ہیں کہ ہم نے زمین و آسمان کے صانع کو نہیں دیکھا اور صانع ہر ایک چیز کے ہم کو نظر آتے ہیں پھر کس طرح وجود صانع پر یقین کریں اس کا جواب یہ ہے کہ اگر صانع نظر نہ آوے تو مصنوع تو نظر آتا ہے اور اگر شے مصنوع ہے اور نہایت کاریگری سے بنائی گئی ہے مگر اس کا صانع نظر نہیں آتا تو یہ تو ہم ضرور کہیں گے کہ کسی شخص نے اس کو ضرور بنایا ہے بحث تو یہ ہے کہ مصنوع صانع پہ دلالت کرتا ہے یا نہیں.دہریہ کہتے ہیں کہ خواہ نہایت ہی عقلمندی کا کام ہو اور پرلے درجہ کی کاریگری ان میں پائی جاتی ہوں پھر جب تک ہم صانع نہ دیکھیں گے اس پر ایمان نہ لائیں گے.یہ ان کی شرارت ہے ورنہ صانع کے دیکھنے کی کچھ ضرورت نہیں جو کام عقلمندی کاہے جب ہم پر ثابت ہو جائے کہ عقلمندی کا ہے تو بلا اختیار ہمارے دل میں بیٹھ جائے گا کہ کسی عاقل نے بنایاہے.زمین و آسمان میں جتنی چیزیں ہیں ہم ان کو بچشم خود دیکھتے ہیں کہ ایک چیز دوسری چیز کی مدد سے بنتی ہے اور ایک چیز دوسری چیز کی مدد سے قائم رہتی ہے بلکہ زمین آسمان کی مدد سے اپنی طاقتیں ظاہر کرتی ہے اس صورت میں یہ سوال دہریہ پر ہوتا ہے کہ زمین و آسمان کس کی مدد اور آسرا سے پیدا ہوئے ہیں اور اب تک قائم رہے ہوئے ہیں.دہریہ اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ زمین و آسمان اپنی شہادت سے قائم ہیں پس ان پر یہ سوال ہوتا ہے کہ سبھاؤ باپ کا بیٹے سے پہچانا جاتا ہے جو کچھ زمین و آسمان میں پیدا ہوتا ہے وہ ان دونوں کا بیٹا ہے اور بغیر آسرے کے ٹھہر نہیں سکتا.اس سے معلوم ہوا کہ یہی شہاد

Page 83

زمین و آسمان ہے کیونکہ مولود کا والد سے مختلف سبھاؤ نہیں ہو سکتا ہے.جو کام عقلمندی کا ہے جب ہم پر ثابت ہو جائے گا کہ عقلمندی کا ہے تو پھر اس بات کی حاجت نہ رہے گی کہ پھر ہم اس کے صانع کو دیکھیں دلیل اس پر یہ ہے کہ جس فعل میں صریح معلوم ہو کہ اس کے فاعل نے دیدہ و دانستہ اس کے بنانے سے ایک بات کا قصد کیا ہے اس فعل کو کوئی بدنادان اتفاقی طور پر نہیں مانے گا بلکہ یہی سمجھے گا کہ ضرور اس کا ایک فاعل ہے مثلاً اگر سیاہی کاغذپر یونہی پڑجائے تو اس میں شک ہو گا کہ کس طرح پڑ گئی لیکن اگر ورق دو ورق حرف لکھے جائیں اور حرف بھی وہ حرف کہ جن میں کوئی مقصد کاتب کا معلوم ہوتا ہو تو اس کو کوئی عقلمندنہیں کہے گا کہ خودبخود لکھے گئے.پھر دہریہ سے یہ سوال ہے کہ تم کو جو ان اور بوڑھا کون کرتا ہے.یہ کس چیز کی تاثیر ہے.پھر دہریہ سے یہ سوال ہے کہ سورج اور چاند اور زمین اور ہوا جو تمہاری خدمت میں مشغول ہیں اور ایک دم تمہاری خدمت سے الگ نہیں ہوتے تم ان کا احسان مانتے ہو یا نہیں.اگر تم کہو کہ بغیر شعور کے یہ کام میں لگے ہوئے ہیں تو یہ غلط ہے کیونکہ جو فعل بغیر شعور کے اور بغیر نگرانی دوسرے کے ہوتا ہے وہ بگڑ جاتا ہے اور اگر شعور سے ہو تو تم کو ان کا ممنون ہونا چاہیے.پھر دہریہ سے ہمارا سوال یہ ہے کہ آفتاب کا نکلنا اور بارشوں کا ہونا اتفاقی ہے یا کسی کے تصرف سے.اگر اتفاقی ہے تو چاہیے کہ کیوں دنیا نہ رہے اور بہت بارشوں سے یا بہت دھوپوں سے فصل بہار ہو جائے کیونکہ اتفاقی امر میں خطا بھی ہو جاتا ہے اور اگر اسے کسی تصرف سے ہے تو وجود خدا کا ثابت ہوا کیونکہ خدا وہی ہے جو دنیا میں تصرف ہے.پھر دہریہ کہتے ہیں کہ کسی نے خدا کو دیکھا نہیں اگر خدا کا وجود ہوتا تو اس کو کوئی

Page 84

دیکھتا.اس کا جواب یہ ہے کہ بندوں کو خدائی دل کی آنکھ سے اپنے دیدار دکھاتا ہے کہ پھر جو لوگ ان کے تابع ہوئے اور ان کی پیروی کی وہ اس درجہ تک پہنچ گئے جو ان کو خدائی اپنی پہچان بخشے.اس صورت میں یہ دعویٰ جو کسی نے خدا کو دیکھا نہیں باعمل ہوا.اس کی مثال یہ ہے کہ ایک اندھا وجود آفتاب سے منکر ہو اور کہے کہ جب تک میں نہ دیکھ لوں آفتاب پر یقین نہ کروں گا اس کا یہی جواب ہے کہ تو اندھا ہے اور آنکھ سے آفتاب کو نہیں دیکھ سکتا.تیرے واسطے طریق حصول تحقیق یہ ہے کہ جنہوں نے دیکھا ہے ان کے بیان پر اعتماد کرنا یا پہلے اپنی آنکھوں کا علاج کرا پھر اس کو دیکھ لے گا.ہم دہریہ سے پوچھتے ہیں کہ سکھ دکھ دینے والا کوئی دوسرا ہے یا اپنی تدبیر سے مل سکتا ہے.اگر اپنی تدبیر سے مل سکتا ہے تو کیوں تمام لوگ اپنی عمر زیادہ نہیں کر سکتے.آرام زیادہ نہیں کر سکتے.ایک بوڑھا ہو کر مرتا ہے ایک جوان ہی مر جاتا ہے حالانکہ سب کوئی عمر زیادہ چاہتا ہے.بعض وقت آدمی سکھ چاہتا ہے اور غیب سے اس پر دکھ آپڑتا ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ سکھ دکھ دینے والا کوئی اور نہیں ہے اور وہی خدا تعالیٰ ہے.(الحکم مورخہ ۲۱؍ مئی ۱۹۰۹ء صفحہ ۱ تا ۳)

Page 85

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامِ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا.اِنَّا اَعْتَدْنَا لِلْکَافِرِیْنَ سَلَاسِلَ وَّ اَغْلَالًا وَّ سَعِیْرًا.بحمد اللہ کہ ایں کحل الجواہر شد از کوہ صواب و صدق ظاہر متاب ازسرمہ روگر روشنی چشم مے بائد کہ عاقل از دل و جان و دست دار و چشم بینارا