Nurul-Quran Number 2

Nurul-Quran Number 2

نورالقرآن نمبر 2

Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR
Ruhani Khazain

قرآن کریم کے روحانی کمالات کے اظہار اور ان باتوں کے شائع کرنے کے لیے جو راہ راست کے جاننے اور سمجھنے اور شناخت کرنے کا ذریعہ ہوں اور جن سے وہ سچّا فلسفہ معلوم ہو جو دلوں کو تسلّی دیتا اور روح کو سکینت اور آرام بخشتا اور ایمان کو عرفان کے رنگ میں لے آتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک ماہوار رسالہ جاری کرنے کا ارادہ فرمایا اور بالفعل ایک رسالہ بنام نور القرآن جاری فرمایا مگر افسوس کہ کثرت مشاغل و مصروفیات کے باعث اس کے صرف دو نمبر ہی نکل سکے۔ دوسرا نمبر بابت ماہ ستمبر و اکتوبر و نومبر و دسمبر ۱۸۹۵ء اور جنوری و فروری و مارچ و اپریل۱۸۹۶ء شائع ہوا۔ نور القرآن نمبر۲ میں پادری فتح مسیح سکنہ فتح گڑھ ضلع گرداسپور کے دو خطوط کا جواب تحریر فرمایا۔ جن میں اس کو رباطن پادری نے سرور کائنات فخر موجودات خاتم النبیین امام الطیبین و سید المعصومین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے اور بے جا اعتراضات کرتے ہوئے نعوذ باللہ آپؐ پر زنا کی تہمت لگائی تھی۔


Book Content

Page 408

ناظرین کے لئے ضروری اطلاع ہم اس بات کو افسوس سے ظاہر کرتے ہیں کہ ایک ایسے شخص کے مقابل پر یہ نمبر نور القرآن کا جاری ہوا ہے.جس نے بجائے مہذبانہ کلام کے ہمارے سید و مولا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت گالیوں سے کام لیا ہے اور اپنی ذاتی خباثت سے اس امام الطیّبین و سید المطہّرین پر سراسر افترا سے ایسی تہمتیں لگائی ہیں کہ ایک پاک دل انسان کا ان کے سننے سے بدن کانپ جاتا ہے.لہٰذا محض ایسے یا وہ لوگوں کے علاج کے لئے جواب ترکی بہ ترکی دینا پڑا.ہم ناظرین پر ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارا عقیدہ حضرت مسیح علیہ السلام پر نہایت نیک عقیدہ ہے اور ہم دل سے یقین رکھتے ہیں کہ وہ خدا ئے تعالیٰ کے سچے نبی اور اس کے پیارے تھے اور ہمارا اس بات پر ایمان ہے کہ وہ جیسا کہ قرآن شریف ہمیں خبر دیتا ہے اپنی نجات کے لئے ہمارے سید و مولیٰ محمد مصطفٰیصلی اللہ علیہ وسلم پر دل و جان سے ایمان لائے تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے صدہا خادموں میں سے ایک مخلص خادم وہ بھی تھے.پس ہم ان کی حیثیت کے موافق ہر طرح ان کا ادب ملحوظ رکھتے ہیں لیکن عیسائیوں نے جو ایک ایسا یسوع پیش کیا ہے جو خدائی کا دعویٰ کرتا تھا اور بجز اپنے نفس کے تمام اوّلین آخرین کو لعنتی سمجھتا تھا یعنی ان بدکاریوں کا مرتکب خیال کرتا تھا جن کی سزا لعنت ہے ایسے شخص کو ہم بھی رحمت الٰہی سے بے نصیب سمجھتے ہیں قرآن نے ہمیں اس گستاخ اور بدزبان یسوع کی خبر نہیں دی اس شخص کی چال چلن پر ہمیں نہایت حیرت ہے جس نے خدا پر مرنا جائز رکھا اور آپ خدائی کا دعویٰ کیا.اور ایسے

Page 409

پاکوں کو جو ہزارہا درجہ اس سے بہتر تھے گالیاں دیں.سو ہم نے اپنی کلام میں ہر جگہ عیسائیوں کا فرضی یسوع مراد لیا ہے اور خدائے تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ عیسیٰ ابن مریم جو نبی تھا جس کا ذکر قرآن میں ہے وہ ہمارے درشت مخاطبات میں ہرگز مراد نہیں اور یہ طریق ہم نے برابر چالیس برس تک پادری صاحبوں کی گالیاں سن کر اختیار کیا ہے.بعض نادان مولوی جن کو اندھے اور نابینا کہنا چاہیے.عیسائیوں کو معذور رکھتے ہیں کہ وہ بے چارے کچھ بھی منہ سے نہیں بولتے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ بے ادبی نہیں کرتے.لیکن یاد رہے کہ درحقیقت پادری صاحبان تحقیر اور توہین اور گالیاں دینے میں اول نمبر پر ہیں.ہمارے پاس ایسے پادریوں کی کتابوں کا ایک ذخیرہ ہے جنہوں نے اپنی عبارت کو صدہا گالیوں سے بھر دیا ہے جس مولوی کی خواہش ہو وہ آکر دیکھ لیوے اور یاد رہے کہ آئندہ جو پادری صاحب گالی دینے کے طریق کو چھوڑ کر ادب سے کلام کریں گے ہم بھی ان کے ساتھ ادب سے پیش آویں گے اب تو وہ اپنے یسوع پر آپ حملہ کررہے ہیں.کہ کسی طرح سبّ و شتم سے باز ہی نہیں آتے ہم سنتے سنتے تھک گئے اگر کوئی کسی کے باپ کو گالی دے تو کیا اس مظلوم کا حق نہیں ہے کہ اس کے باپ کو بھی گالی دے اور ہم نے تو جو کچھ کہا واقعی کہا.وانما الاعمال بالنیات.خاکسار غلام احمد ۲۰ ؍ دسمبر ۱۸۹۵ ؁ء

Page 410

رسالہ فتح مسیح س اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالسَّلَامُ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰٰی اما بعد واضح ہو کہ چونکہ پادری فتح مسیح متعین فتح گڑھ ضلع گورداسپور نے ہماری طرف ایک خط نہایت گندہ بھیجا اور اس میں ہمارے سید و مولیٰ محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم پر زنا کی تہمت لگائی اور سوا اس کے اور بہت سے الفاظ بطریق سب و شتم استعمال کئے.اس لئے قرین مصلحت معلوم ہوا کہ اس کے خط کا جواب شائع کر دیا جاوے.لہٰذا یہ رسالہ لکھا گیا امید کہ پادری صاحبان اس کو غور سے پڑھیں اور اس کے الفاظ سے رنجیدہ خاطر نہ ہوں کیونکہ یہ تمام پیرایہ میاں فتح مسیح کے سخت الفاظ اور نہایت ناپاک گالیوں کا نتیجہ ہے.تاہم ہمیں حضرت مسیح علیہ السلام کی شان مقدس کا بہرحال لحاظ ہے.اور صرف فتح مسیح کے سخت الفاظ کے عوض ایک فرضی مسیح کا بالمقابل ذکر کیا گیا ہے اور وہ بھی سخت مجبوری سے.کیونکہ اس نادان نے بہت ہی شدت سے گالیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نکالی ہیں اور ہمارا دل دکھایا ہے اور اب ہم اس کے خط کا جواب ذیل میں لکھتے ہیں.وَ ھُوَ ھٰذَا

Page 411

مشفقی پادری صاحب! بعد ماوجب اس وقت مجھے بہت کم فرصت ہے.مگر میں نے جب آپ کا وہ خط دیکھا.جو آپ نے اخویم مولوی عبد الکریم صاحب کے نام بھیجا تھا.مناسب سمجھا کہ اپنے اس رسالہ کی جو زیر تالیف ہے خود ہی آپ کو بشارت دوں تاآپ کو زیادہ تکلیف اٹھانے کی ضرورت نہ رہے.یاد رکھیں کہ رسالہ ایسا ہوگا کہ آپ بہت ہی خوش ہو جائیں گے.آپ کی ان مہربانیوں کی وجہ سے جو اب کی دفعہ آپ کے خط میں بہت ہی پائی جاتی ہیں.میں نے مصمم ارادہ کر لیا ہے کہ اس رسالہ کی وجہ اشاعت صرف آپ ہی کی درخواست قرار دی جاوے کیونکہ جس مضمون کے لکھنے کیلئے اب ہم طیار ہیں اگر آپ کا یہ خط نہ آیا ہوتا جس میں جناب مقدس نبوی اور حضرت عائشہ صدیقہ اور سودہ کی نسبت آپ نے بدزبانی کی ہے.تو شائد وہ مضمون دیر کے بعد نکلتا یہ آپ کی بڑی مہربانی ہوئی کہ آپ ہی محرک ہوگئے.امید ہے کہ دوسرے پادری صاحبان آپ پر بہت ہی خوش ہوں گے اور کچھ تعجب نہیں کہ ہمارا رسالہ نکلنے کے بعد آپ کی کچھ ترقی بھی ہو جاوے.پادری صاحب ہمیں آپ کی حالت پر رونا آتا ہے کہ آپ زبان عربی سے تو بے نصیب تھے ہی.مگر وہ علوم جو دینیات سے کچھ تعلق رکھتے ہیں.جیسے طبعی اور طبابت ان سے بھی آپ بے بہرہ ہی ثابت ہوئے.آپ نے جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کرکے نو برس کی رسم شادی کا ذکر لکھا ہے.اول تو نو برس کا ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ثابت نہیں اور نہ اس میں کوئی وحی ہوئی اور نہ اخبار متواترہ سے ثابت ہوا کہ ضرور نو برس ہی تھے.صرف ایک راوی سے منقول ہے.عرب کے لوگ تقویم پترے نہیں رکھا کرتے تھے کیونکہ اُمّی تھے اور دو تین برس کی

Page 412

کمی بیشی ان کی حالت پر نظر کر کے ایک عام بات ہے.جیسے کہ ہمارے ملک میں بھی اکثر ناخواندہ لوگ دو چار برس کے فرق کو اچھی طرح محفوظ نہیں رکھ سکتے.پھر اگر فرض کے طور پر تسلیم بھی کر لیں.کہ فی الواقع دن دن کا حساب کر کے نوبرس ہی تھے.لیکن پھر بھی کوئی عقلمند اعتراض نہیں کرے گا مگر احمق کا کوئی علاج نہیں ہم آپ کو اپنے رسالہ میں ثابت کر کے دکھا دیں گے کہ حال کے محقق ڈاکٹروں کا اس پر اتفاق ہوچکا ہے کہ نوبرس تک بھی لڑکیاں بالغ ہوسکتی ہیں.بلکہ سات برس تک بھی اولاد ہوسکتی ہے اور بڑے بڑے مشاہدات سے ڈاکٹروں نے اس کو ثابت کیا ہے اور خود صدہا لوگوں کی یہ بات چشم دید ہے کہ اسی ملک میں آٹھآٹھ نو نو برس کی لڑکیوں کے یہاں اولاد موجود ہے مگر آپ پر تو کچھ بھی افسوس نہیں اور نہ کرنا چاہئے کیونکہ آپ صرف متعصب ہی نہیں بلکہ اول درجہ کے احمق بھی ہیں.آپ کو اب تک اتنی بھی خبر نہیں کہ گورنمنٹ کے قانون عوام کی درخواست کے موافق ان کی رسم اور سوسائٹی کی عام وضع کی بِنا پر تیار ہوتے ہیں.ان میں فلاسفروں کی طرز پر تحقیقات نہیں ہوتی اور جو بار بار آپ گورنمنٹ انگریزی کا ذکر کرتے ہیں یہ بات بالکل سچ ہے کہ ہم گورنمنٹ انگریزی کے شکر گذار ہیں اور اس کے خیرہ خواہ ہیں اور جب تک زندہ ہیں رہیں گے مگر تاہم ہم اس کو خطا سے معصوم نہیں سمجھتے اور نہ اس کے قوانین کو حکیمانہ تحقیقاتوں پر مبنی سمجھتے ہیں بلکہ قوانین بنانے کا اصول رعایا کی کثرت رائے ہے.گورنمنٹ پر کوئی وحی نازل نہیں ہوتی تا وہ اپنے قوانین میں غلطی نہ کرے اگر ایسے ہی قوانین محفوظ ہوتے تو ہمیشہ نئے نئے قانون کیوں بنتے رہتے انگلستان میں لڑکیوں کے بلوغ کا زمانہ (۱۸) برس قرار دیا ہے اور گرم ملکوں میں تو لڑکیاں بہت جلد بالغ ہو جاتی ہیں.آپ اگر گورنمنٹ کے قوانین کو کالوحی من السماء سمجھتے ہیں کہ

Page 413

ان میں امکان غلطی نہیں.تو ہمیں بواپسی ڈاک اطلاع دیں تا انجیل اور قانون کا تھوڑا سا مقابلہ کر کے آپ کی کچھ خدمت کی جائے.غرض گورنمنٹ نے اب تک کوئی اشتہار نہیں دیا کہ ہمارے قوانین بھی توریت اور انجیل کی طرح خطا اور غلطی سے خالی ہیں اگر آپ کو کوئی اشتہار پہنچا ہو تو اس کی ایک نقل ہمیں بھی بھیج دیں پھر اگر گورنمنٹ کے قوانین خدا کی کتابوں کی طرح خطا سے خالی نہیں تو ان کا ذکر کرنا یا تو حمق کی وجہ سے ہے یا تعصب کے سبب سے مگر آپ معذور ہیں اگر گورنمنٹ کو اپنے قانون پر اعتماد تھا تو کیوں ان ڈاکٹروں کو سزا نہیں دی جنہوں نے حال میں یورپ میں بڑی تحقیقات سے نو۹ برس بلکہ سات برس کو بھی بعض عورتوں کے بلوغ کا زمانہ قرار دے دیا ہے اور نو ۹برس کی عمر کے متعلق آپ اعتراض کر کے پھر توریت یا انجیل کا کوئی حوالہ نہ دے سکے صرف گورنمنٹ کے قانون کا ذکر کیا اس سے معلوم ہوا کہ آپ کا توریت اور انجیل پر ایمان نہیں رہا.ورنہ نو برس کی حرمت یا تو توریت سے ثابت کرتے یا انجیل سے ثابت کرنی چاہیئے تھی پادری صاحب یہی تو دجل ہے.کہ الہامی کتب کے مسائل میں آپ نے گورنمنٹ کے قانون کو پیش کر دیا.اگر آپ کے نزدیک گورنمنٹ کے قانون کی تمام باتیں خطا سے خالی ہیں اور الہامی کتابوں کی طرح بلکہ ان سے افضل ہیں تو میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ جن نبیوںؑ نے خلاف قانون انگریزی کئی لاکھ شیر خوار بچے قتلکئے اگر وہ اس وقت ہوتے تو گورنمنٹ ان سے کیا معاملہ کرتی اگر وہ لوگ گورنمنٹ کے سامنے چالان ہوکر آتے جنہوں نے بیگانے کھیتوں کے خوشے توڑ کر کھا لئے تھے تو گورنمنٹ اُن کو اور ان کے اجازت دینے والے کو کیا کیا سزا دیتی پھر میں پوچھتا ہوں کہ وہ شخص جو انجیر کا پھل کھانے دوڑا تھا اور انجیل سے ثابت ہے کہ وہ انجیر کا درخت اس کی

Page 414

ملکیت نہ تھا بلکہ غیر کی ملک تھا.اگر وہ شخص گورنمنٹ کے سامنے یہ حرکت کرتا تو گورنمنٹ اس کو کیا سزا دیتی.انجیل سے یہ بھی ثابت ہے کہ بہت سے سؤر جو بیگانہ مال تھے اور جن کی تعداد بقول پادری کلارک دو ہزار تھے مسیح نے تلف کئے اب آپ ہی بتلائیں کہ تعزیرات کی رو سے اس کی سزا کیا ہے.بالفعل اسی قدر لکھنا کافی ہے جواب ضرور لکھیں تا اور بہت سے سوال کئے جائیں.پادری صاحب! آپ کا یہ خیال کہ نو۹ برس کی لڑکی سے جماع کرنا زنا کے حکم میں ہے سراسر غلط ہے آپ کی ایمانداری یہ تھی کہ آپ انجیل سے اس کو ثابت کرتے.انجیل نے آپ کو دھکے دئے اور وہاں ہاتھ نہ پڑا تو گورنمنٹ کے پیروں پر آ پڑے.یاد رکھیں کہ یہ گالیاں محض شیطانی تعصب سے ہیں.جناب مقدس نبویؐ کی نسبت فسق و فجور کی تہمت لگانا یہ افترا شیطانوں کا کام ہے ان دو مقدس نبیوں پر یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح علیہ السلام پر بعض بدذات اور خبیث لوگوں نے سخت افترا کئے ہیں.چنانچہ ان پلیدوں نے لعنۃ اللّٰہ علیھم پہلے نبیؐ کو تو زانی قرار دیا جیسا کہ آپ نے اور دوسرے کو ولدالزنا کہا جیسا کہ پلید طبع یہودیوں نے.آپ کو چاہیئے کہ ایسے اعتراضوں سے پرہیز کریں.اور یہ اعتراض کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی سودہ کو پیرانہ سالی کے سبب سے طلاق دینے کے لئے مستعد ہوگئے تھے.سراسر غلط اور خلاف واقعہ ہے اور جن لوگوں نے ایسی روائتیں کی ہیں وہ اس بات کا ثبوت نہیں دے سکے کہ کس شخص کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ارادہ ظاہر کیا پس اصل حقیقت جیسا کہ کتب معتبرہ احادیث میں مذکور ہے یہ ہے کہ خود سودہ نے ہی اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے دل میں یہ خوف کیا کہ اب

Page 415

میری حالت قابل رغبت نہیں رہی ایسا نہ ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بباعث طبعی کراہت کے جو نشاء بشریت کو لازم ہے مجھ کو طلاق دے دیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی امر کراہت کا بھی اس نے اپنے دل میں سمجھ لیا ہو اور اس سے طلاق کا اندیشہ دل میں جم گیا ہو.کیونکہ عورتوں کے مزاج میں ایسے معاملات میں وہم اور وسوسہ بہت ہوا کرتا ہے اس لئے اس نے خود بخود ہی عرض کر دیا کہ میں اس کے سوا اور کچھ نہیں چاہتی کہ آپ کی ازواج میں میر احشر ہو.چنانچہ نیل الاوطار کے ص۱۴۰ میں یہ حدیث ہے: قَالَ ا لسَّوْدَۃ بِنْت زَمعۃ حین اسنّت و خافت اَن یفارقھا رسول اللّٰہ قالت یا رسول اللّٰہ وھبت یومی لعائشۃ فقبل ذلک منہا...و رواہ ایضًا سعد و سعید ابن منصور والترمذی و عبد الرزاق قال الحافظ فی الفتح فتواردت ھذہ الروایات علٰی انھا خشیت الطلاق.یعنی سودہ بنت زمعہ کو جب اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے اس بات کا خوف ہوا کہ اب شائد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہو جاؤں گی تو اس نے کہا یا رسول اللہ میں نے اپنی نوبت عائشہ کو بخش دی.آپ نے یہ اس کی درخواست قبول فرما لی.ابن سعد اور سعید ابن منصور اور ترمذی اور عبد الرزاق نے بھی یہی روایت کی ہے اور فتح الباری میں لکھا ہے کہ اسی پر روایتوں کا توارد ہے کہ سودہ کو آپ ہی طلاق کا اندیشہ ہواتھا.اب اس حدیث سے ظاہر ہے کہ دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ارادہ ظاہر نہیں ہوا بلکہ سودہ نے اپنی پیرانہ سالی کی حالت پر نظر کرکے خود ہی اپنے دل میں یہ خیال قائم کر لیا تھا اور اگر ان روایات کے توارد اور تظاہر کو نظر انداز کر کے فرض بھی کر لیں کہ آنحضرتؐ نے طبعی کراہت کے باعث سودہ کو پیرانہ سالی کی حالت میں پاکر طلاق کا ارادہ کیا تھا تو اس میں

Page 416

بھی کوئی برائی نہیں.اور نہ یہ امر کسی اخلاقی حالت کے خلاف ہے.کیونکہ جس امر پر عورت مرد کے تعلقات مخالطت موقوف ہیں.اگر اس میں کسی نوع سے کوئی ایسی روک پیدا ہو جائے کہ اس کے سبب سے مرد اس تعلق کے حقوق کی بجا آوری پر قادر نہ ہوسکے تو ایسی حالت میں اگر وہ اصول تقویٰ کے لحاظ سے کوئی کاروائی کرے تو عند العقل کچھ جائے اعتراض نہیں.پادری صاحب آپ کا یہ سوال کہ اگر آج ایسا شخص جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے گورنمنٹ انگریزی کے زمانہ میں ہوتا تو گورنمنٹ اس سے کیا کرتی.آپ کو واضح ہو.کہ اگر وہ سیّد الکونین اس گورنمنٹ کے زمانہ میں ہوتے.تو یہ سعادت مند گورنمنٹ ان کی کفش برداری اپنا فخر سمجھتی جیسا کہ قیصر روم صرف تصویر دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا تھا آپ کی یہ نالیاقتی اور ناسعادتی ہے کہ اس گورنمنٹ پر ایسی بدظنی رکھتے ہیں کہ گویا وہ خدا کے مقدسوں کی دشمن ہے یہ گورنمنٹ اس زمانہ میں ادنیٰ ادنیٰ امیر مسلمانوں کی عزت کرتی ہے.دیکھو نصر اللہ خاں جو اس جناب کے غلاموں جیسا بھی درجہ نہیں رکھتا ہماری قصیرۂ ہند دام اقبالہانے کیسی اس کی عزت کی ہے پھر وہ عالی جناب مقدس ذاتؐ جو اس دنیا میں بھی وہ مرتبہ رکھتا تھا کہ بادشاہ اس کے قدموں پر گرتے تھے اگر وہ اس وقت میں ہوتا تو بے شک یہ گورنمنٹ اس کی جناب سے خادمانہ اور متواضعانہ طور پر پیش آتی.الٰہی گورنمنٹ کے آگے انسانی گورنمنٹوں کو بجز عجز و نیاز کے کچھ بن نہیں پڑتا.کیا آپ کو خبر نہیں کہ قیصر روم جو آنجنابؐ کے وقت میں عیسائی بادشاہ

Page 417

اور اس گورنمنٹ سے اقبال میں کچھ کم نہ تھا وہ کہتا ہے کہ اگر مجھے یہ سعادت حاصل ہوسکتی کہ میں اس عظیم الشان نبی کی صحبت میں رہ سکتا تو میں آپ کے پاؤں دھویا کرتا سو جو قیصر روم نے کہا.یقیناً یہ سعادت مند گورنمنٹ بھی وہی بات کہتی.بلکہ اس سے بڑھ کر کہتی اگر حضرت مسیح کی نسبت اس وقت کے کسی چھوٹے سے جاگیردار نے بھی یہ کلمہ کہا ہو جو قیصر روم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کہا.جو آج تک نہایت صحیح تاریخ اور احادیث صحیحہ میں لکھا ہوا موجود ہے تو ہم آپ کو ابھی ہزار روپیہ نقد بطور انعام کے دیں گے اگر آپ ثابت کر سکیں.اور اگر آپ یہ ثبوت نہ دے سکیں تو اس ذلیل زندگی سے آپ کے لئے مرنا بہتر ہے کیونکہ ہم نے ثابت کر دیا کہ قیصر روم اس گورنمنٹ عالیہ کا ہم مرتبہ تھا بلکہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں اس کی طاقت کے برابر اور کوئی طاقت دنیا میں موجود نہ تھی ہماری گورنمنٹ تو اس درجہ تک نہیں پہنچی پھر جبکہ قیصر باوجود اس شہنشاہی کے آہ کھینچ کر یہ بات کہتا ہے کہ اگر میں اس عالی جناب کی خدمت میں پہنچ سکتا تو آنجنابؐ مقدس کے پاؤں دھویا کرتا.تو کیا یہ گورنمنٹ اس سے کم حصہ لیتی.میں دعوے سے کہتا ہوں کہ ضرور یہ گورنمنٹ بھی ایسے شہنشاہ کے پاؤں میں گرنا اپنا فخر سمجھتی کیونکہ یہ گورنمنٹ اس آسمانی بادشاہ سے منکر نہیں جس کی طاقتوں کے آگے انسان اک مرے ہوئے کیڑے کے برابر نہیں اور ہم نے اک معتبر ذریعہ سے سنا ہے کہ ہماری قیصرۂ ہند ادام اللّٰہ اِقبالہا درحقیقت اسلام سے محبت رکھتی ہے اور اس کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت تعظیم ہے چنانچہ ایک ذی علم مسلمان سے وہ اردو

Page 418

بھی پڑھتی ہے.ان کی ایسی تعریفوں کو سن کر میں نے اسلام کی طرف ایک خاص دعوت سے حضرت ملکہ معظمہ کو مخاطب کیا تھا.پس یہ نہایت غلطی ہے کہ آپ لوگ اس مراتب شناس گورنمنٹ کو بھی ایک سفلہ اور کمینہ پادری کی طرح خیال کرتے ہیں.جن کو خدا ملک اور دولت دیتا ہے.ان کو زیر کی اور عقل بھی دیتا ہے.ہاں اگر یہ سوال پیش ہو کہ اگر کوئی ایسا شخص اس گورنمنٹ کے ملک میں یہ غوغا مچاتا کہ میں خدا ہوں یا خدا کا بیٹا ہوں تو گورنمنٹ اس کا تدارک کیا کرتی؟ تو اس کا جواب یہی ہے کہ یہ مہربان گورنمنٹ اس کو کسی ڈاکٹر کے سپرد کرتی.تا اس کے دماغ کی اصلاح ہو.یا اس بڑے گھر میں محفوظ رکھتی.جس میں بمقام لاہور اس قسم کے بہت لوگ جمع ہیں.جب ہم حضرت مسیحاور جناب خا تم الانبیاء صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا اس بات میں بھی مقابلہ کرتے ہیں کہ موجودہ گورنمنٹوں نے ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا اور کس قدر ان کے ربّانی رعب یا الٰہی تائید نے اثر دکھایا تو ہمیں اقرار کرنا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح میں بمقابلہ جناب مقدس نبوی خاتم الانبیاء صلی اللّٰہ علیہ وسلمکی خدائی تو کیا نبوت کی شان بھی پائی نہیں جاتی.جناب مقدس نبوی کے جب پادشاہوں کے نام فرمان جاری ہوئے تو قیصر روم نے آہ کھینچ کر کہا میں تو عیسائیوں کے پنجہ میں مبتلا ہوں.کاش اگر مجھے اس جگہ سے نکلنے کی گنجائش ہوتی تو میں اپنا فخر

Page 419

سمجھتا کہ خدمت میں حاضر ہو جاؤں اور غلاموں کی طرح جناب مقدس کے پاؤں دھویا کروں مگر ایک خبیث اور پلید دل پادشاہ کسرٰی ایران کے فرمان روا نے غصہ میں آکر آپ کے پکڑنے کے لئے سپاہی بھیج دیئے وہ شام کے قریب پہنچے اور کہا کہ ہمیں گرفتاری کا حکم ہے آپ نے اس بے ہودہ بات سے اعراض کرکے فرمایا تم اسلام قبول کرو.اس وقت آپ صرف دو چار اصحاب کے ساتھ مسجد میں بیٹھے تھے مگر ربّانی رعب سے وہ دونوں بیدکی طرح کانپ رہے تھے آخر انہوں نے کہا کہ ہمارے خداوند کے حکم یعنی گرفتاری کی نسبت جناب عالی کا کیا جواب ہے کہ ہم جواب ہی لے جائیں حضرت نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا کل تمہیں جواب ملے گا.صبح کو جو وہ حاضر ہوئے تو آنجناب ؐنے فرمایا کہ وہ جسے تم خداوند خداوند کہتے ہو.وہ خداوند نہیں ہے خداوند وہ ہے جس پر موت اور فنا طاری نہیں ہوتی مگر تمہارا خداوند آج رات کو مارا گیا میرے سچے خداوند نے اسی کے بیٹے شیرویہ کو اس پر مسلط کر دیا سو وہ آج رات اس کے ہاتھ سے قتل ہوگیا اور یہی جواب ہے.یہ بڑا معجزہ تھا.اس کو دیکھ کر اس ملک کے ہزارہا لوگ ایمان لائے کیونکہ اسی رات درحقیقت خسرو پرویز یعنی کسریٰ مارا گیا تھا اور یاد رکھنا چاہئے کہ یہ بیان انجیلوں کی بے سروپا اور بے اصل باتوں کی طرح نہیں بلکہ احادیث صحیحہ اور تاریخی ثبوت اور مخالفوں کے اقرار سے ثابت ہے.

Page 420

چنانچہ ڈیون پورٹ صاحب بھی اس قصہ کو اپنی کتاب میں لکھتا ہے لیکن اس وقت کے بادشاہوں کے سامنے حضرت مسیح کی جو عزت تھی وہ آپ پر پوشیدہ نہیں.وہ اوراق شائد اب تک انجیل میں موجود ہوں گے جن میں لکھا ہے کہ ہیرو دیس نے حضرت مسیح کو مجرموں کی طرح پلاطوس کی طرف چالان کیا اور وہ ایک مدت تک شاہی حوالات میں رہے.کچھ بھی خدائی پیش نہیں گئی اور کسی پادشاہ نے یہ نہ کہا کہ میرا فخر ہوگا.اگر میں اُس کی خدمت میں رہوں اور اس کے پاؤں دھویا کروں بلکہ پلاطوس نے یہودیوں کے حوالہ کر دیا.کیا یہی خدائی تھی عجیب مقابلہ ہے دو شخصوں کو ایک ہی قسم کے واقعات پیش آئے اور دونوں نتیجہ میں ایک دوسرے سے بالکل ممتاز ثابت ہوتے ہیں.ایک شخص کے گرفتار کرنے کو ایک متکبر جبار کا شیطان کے وسوسہ سے برانگیختہ ہونا اور خود آخر لعنت الٰہی میں گرفتار ہوکر اپنے بیٹے کے ہاتھ سے بڑی ذلت کے ساتھ قتل کیا جانا اور ایک دوسرا انسان جسے قطع نظر اپنے اصلی دعووں کے غلو کرنے والوں نے آسمان پر چڑھا رکھا ہے.سچ مچ گرفتار ہو جانا.چالان کیا جانا اور عجیب ہیئت کے ساتھ ظالم پولیس کی حوالت میں ایک شہر سے دوسرے شہر میں منتقل کیا جانا......افسوس یہ عقل کی ترقی کا زمانہ اور ایسے بے ہودہ عقائد.شرم! شرم! شرم اگر یہ کہو کہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ قیصر روم نے یہ تمنا کی کہ اگر میں جناب مقدس نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ سکتا تو میں ایک ادنیٰ خادم بن کر پاؤں دھویا کرتا.اس کے جواب میں آپ کے لئے اصح الکتب بعد کتٰب اللّٰہ صحیح بخاری کی عبارت

Page 421

لکھتا ہوں ذرا آنکھیں کھول کر پڑھو اور وہ یہ ہے و قد کنت اعلم انہ خارج و لم اکن اظن انہ منکم فلو انی اعلم انی اخلص الیہ لتجشمت لقاء ہ و لو کنت عندہ لغسلت عن قدمیہ دیکھو ص ۴ یعنی یہ تو مجھے معلوم تھا کہ نبی آخرالزمان آنے والا ہے مگر مجھ کو یہ خبر نہیں تھی کہ وہ تم میں سے ہی (اے اہل عرب) پیدا ہوگا پس اگر میں اس کی خدمت میں پہنچ سکتا تو میں بہت ہی کوشش کرتا کہ اس کا دیدار مجھے نصیب ہو اور اگر میں اس کی خدمت میں ہوتا تو میں اس کے پاؤں دھویا کرتا اب اگر کچھ غیرت اور شرم ہے تو مسیح کے لئے یہ تعظیم کسی بادشاہ کی طرف سے جو اس کے زمانہ میں تھا پیش کرو اور نقد ہزار روپیہ ہم سے لو اور کچھ ضرورت نہیں کہ انجیل سے ہی بلکہ پیش کرو اگرچہ کوئی نجاست میں پڑا ہوا ورق ہی پیش کردو اور اگر کوئی بادشاہ یا امیر نہیں تو کوئی چھوٹاسا نواب ہی پیش کردو اور یاد رکھو کہ ہرگز پیش نہ کرسکو گے پس یہ عذاب بھی جہنم کے عذاب سے کچھ کم نہیں کہ آپ ہی بات کو اٹھا کر پھر آپ ہی ملزم ہوگئے.شاباش! شاباش! شاباش! خوب پادری ہو.مسیح کا چال چلن آپ کے نزدیک کیا تھا.ایک کھاؤ پیو.شرابی.نہ زاہد نہ عابد.نہ حق کا پرستار.متکبر.خودبین.خدائی کا دعویٰ کرنے والا.مگر اس سے پہلے اور بھی کئی خدائی کا دعوے کرنے والے گذر چکے ہیں ایک مصر میں ہی موجود تھا.دعووں کو الگ کرکے کوئی اخلاقی حالت جو فی الحقیقت ثابت ہو ذرا پیش تو کرو تاحقیقت معلوم ہو.کسی کی محض باتیں ان کے اخلاق میں داخل نہیں ہوسکتیں.آپ اعتراض کرتے ہیں کہ وہ مرتد جو خود خونی اور اپنے کام سے سزا کے لائق ٹھہر چکے تھے

Page 422

بے رحمی سے قتل کئے گئے مگر آپ کو یاد نہ رہا کہ اسرائیلی نبیوں نے تو شیر خوار بچے بھی قتل کئے ایک دو نہیں بلکہ لاکھوں تک نوبت پہنچی کیا ان کی نبوت سے منکر ہو یا وہ خدا تعالیٰ کا حکم نہیں تھا یا موسیٰ ؑ کے وقت خدا اور تھا اور جناب محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کوئی اور خدا تھا.اے ظالم پادری کچھ شرم کر آخر مرنا ہے.مسیح بے چارہ تمہاری جگہ جواب دہ نہیں ہو سکتا اپنے کاموں سے تم ہی پکڑے جاؤ گے اس سے کوئی پُرسش نہ ہوگی.اے نادان تو اپنے بھائی کی آنکھ میں تنکا دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کا شہتیر کیوں تجھے نظر نہیں آتا تیری آنکھیں کیا ہوئیں جو تو اپنی آنکھوں کو دیکھ نہیں سکتا.زینبؓ کے نکاح کا قصہ جو آپ نے زنا کے الزام سے ناحق پیش کر دیا بجز اس کے کیا کہیں کہ ع بد گہر از خطا خطا نہ کند اے نالائق متبنّٰی کی مطلّقہ سے نکاح کرنا زنا نہیں.صرف منہ کی بات سے نہ کوئی بیٹا بن سکتا ہے اور نہ کوئی باپ بن سکتا ہے اور نہ ماں بن سکتی ہے مثلاً اگر کوئی عیسائی غصّہ میں آکر اپنی بیوی کو ماں کہہ دے تو کیا وہ اس پر حرام ہو جائے گی اور طلاق واقع ہو جائے گی.بلکہ وہ بدستور اُسی ماں سے مجامعت کرتا رہے گا پس جس شخص نے یہ کہا کہ طلاق بغیر زنا کے نہیں ہوسکتی اس نے خود قبول کر لیا کہ صرف اپنے منہ سے کسی کو ماں یا باپ یا بیٹا کہہ دینا کچھ چیز نہیں ورنہ وہ ضرور کہہ دیتا کہ ماں کہنے سے طلاق پڑ جاتی ہے مگر شاید کہ مسیح کو وہ عقل نہ تھی جو فتح مسیح کو ہے.اب تم پر فرض ہے

Page 423

کہ اس بات کا ثبوت انجیل میں سے دو کہ اپنی عورت کو ماں کہنے سے طلاق پڑ جاتی ہے یا یہ کہ اپنے مسیح کی تعلیم کو ناقص مان لو یا یہ ثبوت دو کہ بائبل کی رو سے متبنّٰی فی الحقیقت بیٹا ہو جاتا اور بیٹے کی طرح وارث ہو جاتا ہے اور اگر کچھ ثبوت نہ دے سکو.تو بجز اس کے اور کیا کہیں کہ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ مسیح بھی تم پر لعنت کرتا ہے.کیونکہ مسیح نے انجیل میں کسی جگہ نہیں کہا کہ اپنی عورت کو ماں کہنے سے اس پر طلاق پڑ جاتی ہے اور آپ جانتے ہیں کہ یہ تینوں امر ہم شکل ہیں.اگر صرف منہ کے کہنے سے ماں نہیں بن سکتی تو پھر بیٹا بھی نہیں بن سکتا اور نہ باپ بن سکتاہے اب اگر کچھ حیا ہو تو مسیح کی گواہی قبول کر لو یا اس کا کچھ جواب دو اور یاد رکھو کہ ہرگز نہیں دے سکو گے اگرچہ فکر کرتے کرتے مر ہی جاؤ کیونکہ تم کاذب ہو اور مسیح تم سے بیزار ہے.اور آپ کا یہ شیطانی وسوسہ کہ خندق کھودنے کے وقت چاروں نمازیں قضا کی گئیں اول آپ لوگوں کی علمیت تو یہ ہے کہ قضا کا لفظ استعمال کیا ہے.اے نادان قضا نماز ادا کرنے کو کہتے ہیں.ترک نماز کا نام قضا ہرگز نہیں ہوتا.اگر کسی کی نماز ترک ہو جاوے تو اس کا نام فوت ہے اسی لئے ہم نے پانچ ہزار روپے کا اشتہار دیا تھا کہ ایسے بے وقوف بھی اسلام پر اعتراض کرتے ہیں جن کو ابھی تک قضا کے معنی بھی معلوم نہیں جو شخص لفظوں کو بھی اپنے محل پر استعمال نہیں کر سکتا وہ نادان کب یہ لیاقت رکھتا ہے کہ امور

Page 424

دقیقہ پر نکتہ چینی کر سکے.باقی رہا یہ کہ خندق کھودنے کے وقت چار نمازیں جمع کی گئیں اس احمقانہ وسوسہ کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دین میں حرج نہیں ہے یعنی ایسی سختی نہیں جو انسان کی تباہی کا موجب ہو اس لئے اس نے ضرورتوں کے وقت اور بلاؤں کی حالت میں نمازوں کے جمع کر نے اور قصر کرنے کا حکم دیا ہے مگر اس مقام میں ہماری کسی معتبر حدیث میں چار جمع کرنے کا ذکر نہیں بلکہ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ واقعہ صرف یہ ہوا تھا کہ ایک نماز یعنی صلٰوۃ العصرمعمول سے تنگ وقت میں ادا کی گئی.اگر آپ اس وقت ہمارے سامنے ہوتے تو ہم آپ کو ذرہ بٹھا کر پوچھتے کہ کیا یہ متفق علیہ روایت ہے کہ چار نمازیں فوت ہوگئی تھیں.چار نمازیں تو خود شرع کی رو سے جمع ہوسکتی ہیں یعنی ظہر اور عصر.اور مغرب اور عشاء.ہاں ایک روایت ضعیف میں ہے کہ ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء اکٹھی کرکے پڑھی گئی تھیں لیکن دوسری صحیح حدیثیں اس کو رد کرتی ہیں اور صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ عصر تنگ وقت میں پڑھی گئی تھی.آپ عربی علم سے محض بے نصیب اور سخت جاہل ہیں ذرا قادیان کی طرف آؤ اور ہمیں ملو تو پھر آپ کے آگے کتابیں رکھی جائیں گی تا جھوٹے مفتری کو کچھ سزا تو ہو ندامت کی سزا ہی سہی اگرچہ ایسے لوگ شرمندہ بھی نہیں ہوا کرتے.مال مسروقہ کو آپ کے مسیح کے روبرو بزرگ حواریوں کا کھانا

Page 425

یعنی بیگانے کھیتوں کی بالیاں توڑنا کیا یہ درست تھا.اگر کسی جنگ میں کفار کے بلوے اور خطرناک حالت کے وقت نماز عصر تنگ وقت پر پڑھی گئی تو اس میں صرف یہ بات تھی کہ دو عبادتوں کے جمع ہونے کے وقت اس عبادت کو مقدم سمجھا گیا جس میں کفار کے خطرناک حملہ کی روک اور اپنے حقوق نفس اور قوم اور ملک کی جائز اور بجا محافظت تھی اور یہ تمام کاروائی اس شخص کی تھی جو شریعت لایا اور یہ بالکل قراٰن کریمکے منشاء کے مطابق تھی خدا تعالیٰ فرماتا ہے.33۱؂.یعنی نبی کی ہریک بات خدا تعالیٰ کے حکم سے ہوتی ہے نبی کا زمانہ نزول شریعت کا زمانہ ہوتا ہے اور شریعت وہی ٹھہر جاتی ہے جو نبی عمل کرتا ہے ورنہ جو جو کارروائیاں مسیح نے توریت کے برخلاف کی ہیں یہاں تک کہ سبت کی بھی پرواہ نہ رکھی اور کھانے پر ہاتھ نہ دھوئے وہ سب مسیح کو مجرم ٹھہراتے ہیں ذرا توریت سے ان سب کا ثبوت تو دو مسیح پطرس کو شیطان کہہ چکا تھا پھر اپنی بات کیوں بھول گیا.اور شیطان کو حواریوں میں کیوں داخل رکھا.اور پھر آپ کا اعتراض ہے کہ بہت سی عورتوں اور لونڈیوں کو رکھنا یہ فسق و فجور ہے اے نادان حضرت داؤد نبی ؑ کی بیبیاں تجھ کو یاد نہیں جس کی تعریف کتاب مقدس میں ہے کیا وہ اخیر عمر تک حرام کاری کرتا رہا کیا اسی حرام کار کی یہ پاک ذریت ہے جس پر تمہیں بھروسہ ہے جس خدا نے اوریا کی بیوی کے بارے میں داؤد پر عتاب کیا.کیا وہ داؤد ؑ کے اس جرم سے غافل رہا جو مرتے دم تک اس سے سرزد

Page 426

ہوتا رہا بلکہ خدا نے اس کی چھاتی گرم کرنے کو ایک اور لڑکی بھی اسے دی اور آپ کے خدا کی شہادت موجود ہے کہ داؤد اور یا کے قصہ کے سوا اپنے تمام کاموں میں راستباز ہے کیا کوئی عقلمند قبول کرسکتا ہے کہ اگر کثرت ازدواج خدا کی نظر میں بُری تھی تو خدا اسرائیلی نبیوں کو جو کثرت ازدواج میں سب سے بڑھ کر نمونہ ہیں ایک مرتبہ بھی اس فعل پر سرزنش نہ کرتا پس یہ سخت بے ایمانی ہے کہ جو بات خدا کے پہلے نبیوں میں موجود ہے اور خدا نے اسے قابل اعتراض نہیں ٹھہرایا اب شرارت اور خباثت سے جناب مقدس نبوی کی نسبت قابل اعتراض ٹھہرائی جاوے.افسوس یہ لوگ ایسے بے شرم ہیں کہ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ اگر ایک سے اوپر بیوی کرنا زنا کاری ہے تو حضرت مسیح جو داؤد کی اولاد کہلاتے ہیں ان کی پاک ولادت کی نسبت سخت شبہ پیدا ہوگا اور کون ثابت کرسکے گا کہ ان کی بڑی نانی حضرت داؤد کی پہلی ہی بیوی تھی.پھر آپ حضرت عائشہ صدیقہؓ کا نام لے کر اعتراض کرتے ہیں کہ جناب مقدس نبویؐ کا بدن سے بدن لگانا اور زبان چوسنا خلاف شرع تھا اب اس ناپاک تعصب پر کہاں تک روویں.اے نادان جو حلال اور جائز نکاح ہیں.ان میں یہ سب باتیں جائز ہوتی ہیں یہ اعتراض کیسا ہے کیا تمہیں خبر نہیں کہ مردی اور رجولیت انسان کی صفات محمودہ میں سے ہے ہیجڑا ہونا کوئی اچھی صفت نہیں جیسے بہرہ اور گونگا ہونا کسی خوبی میں داخل نہیں.ہاں یہ اعتراض بہت بڑا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام مردانہ صفات کی اعلیٰ ترین صفت سے بے نصیب محض ہونے کے باعث ازواج سے سچی اور کامل

Page 427

حسن معاشرت کا کوئی عملی نمونہ نہ دے سکے.اس لئے یورپ کی عورتیں نہایت قابل شرم آزادی سے فائدہ اٹھا کر اعتدال کے دائرہ سے اِدھر اُدھر نکل گئیں اور آخرنا گفتنی فسق و فجور تک نوبت پہنچی.اے نادان! فطرت انسانی اور اس کے سچے پاک جذبات سے اپنی بیویوں سے پیار کرنا اور حسن معاشرت کے ہر قسم جائز اسباب کو برتنا انسان کا طبعی اور اضطراری خاصہ ہے اسلام کے بانی علیہ الصلٰوۃ والسَّلام نے بھی اسے برتا اور اپنی جماعت کو ایک نمونہ دیا مسیح نے اپنے نقص تعلیم کی وجہ سے اپنے ملفوظات اور اعمال میں یہ کمی رکھ دی مگر چونکہ طبعی تقاضا تھا اس لئے یورپ اور عیسویت نے خود اس کے لئے ضوابط نکالے.اب تم خود انصاف سے دیکھ لو کہ گندی سیاہ بدکاری اور ملک کا ملک رنڈیوں کا ناپاک چکلہ بن جانا ہائیڈ پارکوں میں ہزاروں ہزار کا روز روشن میں کتوں اور کتیوں کی طرح اوپر تلے ہونا اور آخر اس ناجائز آزادی سے تنگ آکر آہ و فغان کرنا اور برسوں دیوثیوں اور سیاہ روئیوں کے مصائب جھیل کر اخیر میں مسودۂ طلاق پاس کرانا یہ کس بات کا نتیجہ ہے.کیا اس قدوس مطہر.مزکّی نبی اُمّیؐ کی معاشرت کے اس نمونہ کا جس پر خباثت باطنی کی تحریک سے آپ معترض ہیں یہ نتیجہ ہے.اور ممالک اسلامیہ میں یہ تعفّن اور زہریلی ہوا پھیلی ہوئی ہے یا ایک سخت ناقص نالائق کتاب پولوسی انجیل کی مخالف فطرت اور ادھوری تعلیم کا یہ اثر ہے اب دو زانو ہوکر بیٹھو اور یوم الجزا کی تصویر کھینچ کر غور کرو.

Page 428

ہاں مسیح کی دادیوں اور نانیوں کی نسبت جو اعتراض ہے اس کا جواب بھی کبھی آپ نے سوچا ہوگا ہم تو سوچ کر تھک گئے اب تک کوئی عمدہ جواب خیال میں نہیں آیا کیا ہی خوب خدا ہے جس کی دادیاں اور نانیاں اس کمال کی ہیں آپ یاد رکھیں کہ ہم بقول آپ کے مرد میدان بن کر ہی رسالہ لکھیں گے اور آپ کو دکھائیں گے کہ وساوس کی بیخ کنی اسے کہتے ہیں اس جاہل گمراہ کا شکست دینا کون سے بڑی بات ہے جو انسان کو خدا بناتا ہے مگر آپ از راہ مہربانی ان چند باتوں کا جو میں نے دریافت کی ہیں.ضرور جواب لکھیں.اور ان الفاظ سے ناراض نہ ہوں جو لکھے گئے ہیں کیونکہ الفاظ محل پر چسپاں ہیں.اور آپ کی شان کے شایان ہیں.جس حالت میں آپ نے باوجود بے علمی اور جہالت کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو سیّد المطھرین ہیں زنا کی تہمت لگائی.تو اس پلید جھوٹ اور افترا کا یہی جواب تھا.جو آپ کو دیا گیا.ہم نے بہتیرا چاہا کہ آپ لوگ بھلے مانس بن جاویں.اور گالیاں نہ دیا کریں.مگر آپ لوگ نہیں مانتے.آپ ناحق اہل اسلام کا دل دکھاتے ہیں آپ نہیں جانتے کہ ہمارے نزدیک وہ نادان ہر ایک زنا کار سے بدتر ہے جو انسان کے پیٹ سے نکل کر خدا ہونے کا دعویٰ کرے.اگر آپ لوگ مسیح کے خیر خواہ ہوتے تو ہم سے جناب مقدس نبوی کے ذکر میں بہ ادب پیش آتے ایک صحیح حدیث میں ہے کہ تم اپنے باپ کو گالی مت دو لوگوں نے عرض کی کوئی باپ کو بھی گالی دیتا ہے آپ نے فرمایا ہاں جب تو کسی کے باپ کو گالی دے گا تو وہ ضرور تیرے باپ کو بھی گالی دے گا تب وہ گالی اس نے نہیں دی بلکہ تو نے

Page 429

دی ہے اسی طرح آپ لوگ چاہتے ہیں کہ آپ کے بودے جھوٹے خدا کی بھی اچھی طرح بھگت سنواری جائے.اب ہم یہ خط بطور نوٹس کے آپ کو بھیجتے ہیں کہ اگر پھر ایسے ناپاک لفظ آپ نے استعمال کئے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب میں ناپاک تہمت لگائی تو ہم بھی آپ کے فرضی اور جعلی خدا کی وہ خبر لیں گے جس سے اس کی تمام خدائی ذلت کی نجاست میں گرے گی.اے نالائق کیا تو اپنے خط میں سرور انبیاء صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو زنا کی تہمت لگاتا ہے اور فاسق فا جر قرار دیتا ہے اور ہمارا دل دکھاتا ہے.ہم کسی عدالت کی طرف رجوع نہیں کرتے اور نہ کریں گے مگر آئندہ کے لئے سمجھاتے ہیں کہ ایسی ناپاک باتوں سے باز آجاؤ اور خدا سے ڈرو جس کی طرف پھرنا ہے اور حضرت مسیح کو بھی گالیاں مت دو.یقیناً جو کچھ تم جناب مقدس نبوی کی نسبت بُرا کہو گے.وہی تمہارے فرضی مسیح کو کہا جائے گا مگر ہم اس سچے مسیح کو مقدس اور بزرگ اور پاک جانتے اور مانتے ہیں جس نے نہ خدائی کا دعویٰ کیا نہ بیٹا ہونے کا اور جناب محمد مصطفٰیاحمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی خبر دی اور ان پر ایمان لایا.فقط مولوی صاحبان امرتسر کی اسلامی ہمدردی حضرات مولوی صاحبان امرتسر جو چھ سات آدمی سے

Page 430

زیادہ نہیں یعنی مولوی عبد الجبار صاحب غزنوی اور مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری اور مولوی غلام رسول صاحب امرتسری اور مولوی احمد اللہ صاحب وغیرہ وغیرہ صاحبان نے اس درخواست پر دستخط کرنے سے اعتراض کیا جو گورنمنٹ میں بمراد توسیع دفعہ ۲۹۸ تعزیرات ہند اور نیز دو شرطوں کے پاس کرانے کی غرض سے بھیجی جائے گی اور مخالفت بیجا کرکے ثابت کر دیا کہ وہ کیسے اسلام کے پکے دشمن اور اسلامی مصالح کے سخت مخالف ہیں.میں نے سنا ہے کہ عام مسلمانوں کو ان کی اس حرکت بے جا سے بہت ہی رنج ہوا اور اکثر لوگوں نے بہت لعن طعن بھی کی کہ یہ کیسے مولوی اور کیسے مسلمان ہیں جنہوں نے محض اپنی ایک اندرونی نزاع کی وجہ سے اس سیدھی اور صاف اور نہایت مناسب تحریر سے گریز کی جس میں سراسر اسلام کی بھلائی اور جس سے آئندہ کو اس سبّ و شتم اور بے جا بہتان اور گندی گالیوں کا جو یا وہ گو آریہ اور پادری ہمارے پیغمبر خاتم الرسل صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو دیتے ہیں دروازہ بند ہو جاتا تھا لیکن مولوی صاحبوں کے اشتہار سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پادری صاحبوں اور آریہ صاحبوں کو گالیاں دینے اور توہین مذہب کرنے میں بالکل بے قصور ٹھہراتے ہیں اور یہ تمام الزام اس عاجز پر رکھتے ہیں کہ اول اس عاجز نے ان کے بزرگوں کو گالیاں دیں اور پھر ناچار ان نیک بختوں کو بھی کچھ کہنا پڑا.سو یہ افترا اگر کچھ پوشیدہ اور قابل غور ہوتا تو ہم اس کا نہایت بسط اور تفصیل سے جواب دیتے مگر ایسے سفید جھوٹ کا کیا جواب دیں جس میں ایک ذرہ بھی سچائی کی آمیزش نہیں.ہم نہایت حیرت میں ہیں کہ اس قدر دروغگوئی کا نام کیا رکھیں آیا بے ایمانی رکھیں یا بدذاتی کے نام سے موسوم کریں یا متعصبانہ جنون قرار دیں کیا کہیں!!!

Page 431

اس بات کو کون نہیں جانتا.کہ ہندوستان اور پنجاب میں کم سے کم ۴۵ برس سے یہ بے اعتدالیاں شروع ہیں.ہمارے سید و مولیٰ حضرت خاتم الانبیاء سیّد المطہرین افضل الاولین و الآخرین محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر گالیاں دی گئی ہیں اور اس قدر قرآن کریم کو بے جا ٹھٹھے اور ہنسی کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ دنیا میں کسی ذلیل سے ذلیل انسان کے لئے بھی کسی شخص نے یہ لفظ استعمال نہیں کئے یہ کتابیں کچھ ایک دو نہیں بلکہ ہزارہا تک نوبت پہنچ گئی ہے اور جو شخص ان کتابوں کے مضمون پر علم رکھ کر اللہ جلّ شانہٗ اور اس کے رسول پاک کے لئے کچھ بھی غیرت نہیں رکھتا وہ ایک لعنتی آدمی ہے نہ مولوی.اور ایک پلید حیوان ہے نہ انسان.اور یاد رہے کہ ان میں بہت سی ایسی کتابیں ہیں جو میرے بلوغ کے ایام سے بھی پہلے کی ہیں اور کوئی ثابت نہیں کرسکتا کہ ان کتابوں کی تالیف کا یہ موجب تھا کہ میں یا کسی اور مسلمان نے حضرت مسیح علیہ السلام کو گالیاں دی تھیں جس سے مشتعل ہوکر پادری فنڈل اور صفدر علی اور پادری ٹھاکر داس اور عماد الدین اور پادری ولیمس ریواری نے وہ کتابیں تالیف کیں کہ اگر ان کی گالیاں اور بے ادبیاں جمع کی جائیں تو اس سے سو جز کی کتاب بن سکتی ہیں اور ایسا ہی کوئی اس بات کا ثبوت نہیں دے سکتا کہ جس قدر گالیاں اور بے ادبیاں پنڈت دیانند نے اپنی کتاب ستیارتھ پرکاش میں ہمارے سید و مولیٰ نبی صلے اللہ علیہ وسلم کو دیں اور دینِ اسلام کی توہین کی یہ کسی ایسے اشتعال کی و جہ سے تھیں جو ہماری طرف سے ہوا تھا ایسا ہی آریوں میں سے لیکھرام وغیرہ جو اب تک گندی کتابیں چھاپ

Page 432

رہے ہیں.اصل موجب اس کا ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہم نے وید کے رشیوں کو گالیاں دی تھیں بلکہ اگر ہم نے کچھ وید کی نسبت براہین میں لکھا تو نہایت تہذیب سے لکھا اور اس وقت لکھا گیا کہ جب دیانند اپنے ستیارتھ پرکاش میں اور کنہیا لعل الکھ دھاری لدھیانوی اپنی کتابوں میں اور اندر من مراد آبادی اپنی پلید تالیفوں میں ہزارہا گالیاں آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو دے چکے تھے اور ان کی کتابیں شائع ہو چکی تھیں اور بعض بدبخت اور آنکھوں کے اندھے مسلمان آریہ بن چکے تھے اور اسلام سے نہایت درجہ ٹھٹھا کیا گیا تھا اور پھر بھی ہم نے براہین میں تہذیب کو ہاتھ سے نہ دیا گو ہمارا دل دکھایا گیا اور بہت ہی دکھایا گیا مگر ہم نے اپنی کتاب میں ہرگز ناراستی اور سختی کو اختیار نہ کیا اور جو واقعات دراصل صحیح اور محل پر چسپاں تھے وہی بیان کئے ہم بمقابل آریوں کی گالیوں کے ویدوں کے رشیوں کو کیونکر گالیاں دیتے.ہمیں تو اب تک بھی یہ پتہ نہیں لگا کہ ویدوں کے رشی کچھ وجود بھی رکھتے تھے یا نہیں اور کہاں تھے اور کس شہر میں رہتے تھے اور ان کی زندگی کی سوانح کیا تھی اور ان کی لائف کا سلسلہ کس طور کا تھا.پھر ہم کیونکر ان کی نکتہ چینی کرسکتے ہمیں اب تک ان کے وجود میں ہی شک ہے اور ہمارا یہی مذہب کہ اگنو اور وایو اور ادت وغیرہ جو وید کے رشی سمجھے جاتے ہیں یہ صرف فرضی اور خیالی نام ہیں اور ہم بالکل اس بات سے ناواقف ہیں کہ یہ لوگ کون تھے اگر ان کا کچھ بھی وجود خارج میں ہوتا تو البتہ ان کی سوانح لکھی جاتی اور وید کے مؤلف وہی معلوم ہوتے ہیں جن کے نام سکتوں کے سر پر موجود ہیں پھر ہم ایسے مستور الحال اور

Page 433

مفقود الخبررشیوں کو گالیاں کیونکر دے سکتے تھے اور اسلام کا طریق گالی دینا نہیں ہے مگر ہمارے مخالفوں نے ناحق بے و جہ اس قدر گالیوں سے بھری ہوئی کتابیں لکھی ہیں کہ اگر ان کا ایک جگہ ڈھیر لگایا جائے تو ان کی بلندی ہزار فٹ سے کچھ کم نہ ہو اور ابھی تک بس کب ہے ہر یک مہینہ میں ہزاروں رسالے اور کتابیں اور اخبار توہین اور سب و شتم سے بھرے ہوئے نکلتے ہیں.پس ہمیں ان مولویوں کی حالت پر افسوس تو یہی ہے کہ ایسے مولوی جو کہتے ہیں کہ جو کچھ ہوتا ہے ہوتا رہے کچھ مضایقہ نہیں اگر ان کی ماں کو کوئی ایسی گالی دی جاتی جو ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دی جاتی ہے یا اگر ان کے باپ پر وہ بہتان لگایا جاتا.جو سیّدالرسل محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم پر لگایا جاتا ہے تو کیا یہ ایسے ہی چپ بیٹھے رہتے.ہرگز نہیں.بلکہ فی الفور عدالت تک پہنچتے اور جہاں تک طاقت ہوتی کہ کوشش کرتے کہ تا ایسا دشنام دہ اپنی سزا کو پہنچے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت ان کے نزدیک کچھ چیز نہیں.غضب کی بات ہے کہ مخالفین کی طرف سے تو چھ کروڑ کتاب اب تک اسلام کے رد اور توہین میں تالیف ہو چکیں اور سب و شتم کا کچھ انتہا نہ رہا اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ کچھ مضائقہ نہیں.ہونے دو جو کچھ ہوتا ہے.عنقریب ہے جو ان گالیوں سے آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں مگر ان مولویوں کو کچھ پرواہ نہیں.حیف ہے ایسے اسلام اور مسلمانی پر کہ کہتے ہیں کہ کچھ بھی حرج نہیں

Page 434

ہزارہا آدمی ان جھوٹے بہتانوں کو سن کر مرتد ہوگئے مگر ان کے خیال میں ہنوز کسی احسن انتظام کی ضرورت نہیں.یا الٰہی یہ لوگ کیوں اندھے ہو گئے.مجھے کچھ سبب معلوم نہیں ہوتا کیوں بہرے ہوگئے.مجھے کچھ بھی پتہ نہیں لگتا.اے قادر خدا اے حامی دین مصطفٰی تو ان کے دلوں کے جذام کو دور کر.ان کی آنکھوں کو بینائی بخش کہ تو جو چاہتا ہے کرتا ہے تیرے آگے کوئی بات ان ہونی نہیں.ہم تیری رحمتوں پر بھروسہ رکھتے ہیں تو کریم اور قادر ہے.پیارے ناظرین ایک اور اعجوبہ بھی سنو کہ یہ لوگ اپنے اشتہار میں لکھتے ہیں کہ اس قسم کا قانون پاس کرنا کہ کوئی شخص کسی مذہب پر ایسا اعتراض نہ کرے جو خود اس پر وارد ہوتا ہو یہ صرف ہمارے ماخوذ کرانے کے لئے ہے.او ظالم مولویو! تم مطمئن رہو کہ ہم تمہارے جھوٹ اوربہتان کی و جہ سے تم پر ہرگز نالش نہیں کریں گے یہاں تک کہ اس دنیا سے گذر جائیں گے لیکن برائے خدا اپنی خیانتوں سے اسلام پر ظلم مت کرو.یہ بات بالکل سچ ہے کہ اسلام پر جس قدر عیسائی مذہب اور دوسروں کی طرف سے اعتراض ہو رہے ہیں وہ اعتراض ان کی کتابوں پر بھی وارد ہوتے ہیں.پس ظاہر ہے کہ اگر قانون کا رعب درمیان ہوگا تو ایسے اعتراض آئندہ نابود ہو جائیں گے اور جو پہلے کرچکے ان کی قلعی کھل جائے گی اور اس طریق سے اسلام کا چہرہ روشن سب کو نظر آجائے گا اور تمام دھوکا دینے والوں کی کار ستانیاں مٹ جائیں گی سو تم سچ کو مت چھپاؤ بے ایمانی مت اختیار کرو، اس سے ڈرو جس کا غضب ایک کھا جانے والی آگ ہے.

Page 435

اور میں نے آپ لوگوں کا یہ قول بھی سنا ہے کہ ہم کیا دستخط کریں عبد اللہ آتھم کے معاملہ میں ہم بہت ہی نادم ہیں اس کا ہم بجز اس کے کیا جواب دیں کہ درحقیقت آپ لوگ آتھم کی پیشگوئی کے بارہ میں بہت ہی شرمندہ ہیں آپ کا کچھ باقی نہیں رہا.ہم مانتے ہیں کہ یہ بالکل سچ ہے کہ آپ کی اس پیشگوئی سے ناک کٹ گئی اور بہت ہی شرمندگی آپ کو پہنچی مگر ہمیں اب تک معلوم نہیں کہ اس شرمندگی اور ناک کٹنے کی آپ کے نزدیک وجہ کیا ہے.ہاں پیشگوئی کے واقعات اور آپ لوگوں کی ہٹ دھرمی پر نظر ڈال کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ شرمندگی ضرور دو و جہ سے ہے اور کوئی تیسری و جہ نہیں.(۱) اول تو یہ کہ آپ صاحبوں کے دل پر یہ سخت تازیانہ لگا کہ آتھم نے اپنے افعال اور اقوال اور خود اپنے اقرار سے پیشگوئی کا سچا ہونا ثابت کر دیا اور قسم کھانے سے پہلوتہی کرکے پیشگوئی کی اس شرط کی طرف لوگوں کے دلوں کو توجہ دلائی جس میں صریح صریح لکھا گیا تھا کہ اگر حق کی طرف رجوع کرے گا تو یہ عذاب اس پر نازل نہیں ہوگا پس اگر اس بات کو سوچنے سے شرمندگی ہوئی ہے کہ آپ لوگوں کے خلاف مراد عیسائیوں پر ایسی حجت پوری ہوئی کہ وہ منہ نہیں دکھا سکتے.تو بے شک آپ کی حالت قابل رحم ہے بلکہ ہمیں تو تعجب ہے کہ آپ لوگ اس صدمہ سے فوت کیوں نہ ہوگئے کیونکہ یہ صدمہ بھی کچھ تھوڑا صدمہ نہیں کہ آتھم باوجود آپ لوگوں کی تحریک کے قسم کھا کر اپنی صفائی نہ کر سکا اور اب تک میت کی طرح بیٹھا ہے بے شک یہ شرمندگی کی جگہ تھی آپ لوگ معذور ہیں اور پھر رسالہ ضیاء الحق نے شائع ہوکر اور بھی آپ کے سر پر خاک ڈالی.(۲) دوسری وجہ آپ کے شرمندہ ہونے کی یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ جن تین

Page 436

حملوں کا آتھم نے دعویٰ کیا تھا کہ گویا وہ ان کی وجہ سے ڈرتا رہا نہ پیشگوئی کی اسلامی ہیبت سے ان تین حملوں کو نہ آتھم اب تک ثابت کر سکا اور نہ آپ لوگ ثابت کرسکے اس لئے نہایت صفائی سے یہ ثابت ہوگیا.کہ آتھم نے اسلامی پیشگوئی سے بہت خوف کھا کر اور حق کا ایک قوی اثر اپنے دل پر ڈال کر رجوع الی الحق کی شرط کو پورا کردیا پھر کیوں آپ لوگ شرمندہ نہ ہوں.بلکہ جس قدر شرمندہ ہوں وہ تھوڑا ہے آپ لوگ تو مر گئے ناک کٹ گئی.کیا باقی رہا.بقیہ اعتراضات پادری فتح مسیح صاحب جس کو انہوں نے دوسرے خط میں ظاہر کیا ایک یہ اعتراض ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین جگہ جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہے اور اپنے دین کو چھپا لینے کے واسطے قرآن میں صاف حکم دے دیا ہے مگر انجیل نے ایمان کو پوشیدہ رکھنے کی اجازت نہیں دی اما الجواب.پس واضح ہو کہ جس قدر راستی کے التزام کے لئے قرآن شریف میں تاکید ہے میں ہرگز باور نہیں کر سکتا کہ انجیل میں اس کا عشر عشیر بھی تاکید ہو بیس برس کے قریب عرصہ ہوگیا کہ میں نے اسی بارہ میں ایک اشتہار دیا تھا اور قرآنی آیات لکھ کر اور عیسائیوں وغیرہ کو ایک رقم کثیر بطور انعام دینا کر کے اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ جیسے ان آیات میں راست گوئی کی تاکید ہے اگر کوئی عیسائی اس زور و شور کی تاکید انجیل میں

Page 437

سے نکال کر دکھلا دے تو اس قدر انعام اس کو دیا جائے گا مگر پادری صاحبان اب تک ایسے چپ رہے کہ گویا ان میں جان نہیں اب مدت کے بعد فتح مسیح صاحب کفن میں سے بولے شاید بوجہ امتداد زمانہ ہمارا وہ اشتہار ان کو یاد نہیں رہا.پادری صاحب آپ خس و خاشاک کو سونا بنانا چاہتے ہیں اور سونے کی کان سے منہ مروڑ کر اِدھر اُدھر بھاگتے ہیں اگر یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے.قرآن شریف نے دروغ گوئی کو بُت پرستی کے برابر ٹھہرایا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے..۱؂ یعنی بتوں کی پلیدی اور جھوٹ کی پلیدی سے پرہیز کرو.اور پھر ایک جگہ فرماتا ہے.۲ ؂ الجزو نمبر ۴.یعنی اے ایمان والو انصاف اور راستی پر قائم ہو جاؤ اور سچی گواہیوں کو للہ ادا کرو اگرچہ تمہاری جانوں پر ان کا ضرر پہنچے یا تمہارے ماں باپ اور تمہارے اقارب ان گواہیوں سے نقصان اٹھاویں.اب اے ناخدا ترس ذرا انجیل کو کھول اور ہمیں بتلا کہ راست گوئی کے لئے ایسی تاکید انجیل میں کہاں ہے اور اگر ایسی تاکید ہوتی تو پطرس اول درجہ کا حواری کیوں جھوٹ بولتا اور کیوں جھوٹی قسم کھا کر اور حضرت مسیح پر لعنت بھیج کر صاف منکر ہو جاتا کہ میں اس کو نہیں جانتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم محض راست گوئی کی وجہ سے شہید ہوتے رہے اور الٰہی گواہی کو انہوں نے ہرگز مخفی نہ رکھا گو ان کے خون سے زمین سرخ ہوگئی مگر انجیل سے ثابت ہے کہ خود آپ کے یسوع صاحب اس شہادت* کو مخفی رکھتے رہے ہیں جس کا ظاہر

Page 438

کرنا ان پر واجب تھا اور وہ ایمان بھی دکھلا نہ سکے جو مکہ میں مصائب کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے دکھلایا تھا.امید کہ آپ اس سے منکر نہیں ہوں گے اور اگر خیانت کے طور پر منکر بھی ہوگئے تو وہ مام مقام ہم دکھلا دیں گے بالفعل صرف نمونہ کے طور پر ثبوت میں لکھا گیا.اور پھر آپ لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین جگہ جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہے مگر یہ آپ کو اپنی جہالت کی وجہ سے غلطی لگی ہے اور اصل بات یہی ہے کہ کسی حدیث میں جھوٹ بولنے کی ہرگز اجازت نہیں بلکہ حدیث میں تو یہ لفظ ہیں کہ ان قتلت واحرقت یعنی سچ کو مت چھوڑ اگرچہ تو قتل کیا جائے اور جلایا جائے.پھر جس حالت میں قرآن کہتا ہے کہ تم انصاف اور سچ مت چھوڑو اگرچہ تمہاری جانیں بھی اس سے ضائع ہوں اور حدیث کہتی ہے کہ اگرچہ تم جلائے جاؤ اور قتل کئے جاؤ مگر سچ ہی بولو.تو پھر اگر فرض کے طور پر کوئی حدیث قرآن اور احادیث صحیحہ کی مخالف ہو تو وہ قابل سماعت نہیں ہوگی کیونکہ ہم لوگ اُسی حدیث کو قبول کرتے ہیں جو احادیث صحیحہ اور قرآن کریم کے مخالف نہ ہو.ہاں بعض احادیث میں توریہ کے جواز کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے.اور اُسی کو نفرت دلانے کی غرض سے کذب کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اور ایک جاہل اور احمق جب ایسا لفظ کسی حدیث میں بطور تسامح کے لکھا ہوا پاوے تو شاید اس کو حقیقی کذب ہی سمجھ لے کیونکہ وہ اس قطعی فیصلہ سے بے خبر ہے کہ حقیقی کذب اسلام میں پلید اور حرام اور شرک کے برابر ہے مگر توریہ جو درحقیقت کذب نہیں گو کذب کے رنگ میں ہے اضطرار کے وقت عوام کے واسطے اس کا جواز حدیث سے پایا جاتا ہے مگر پھر بھی لکھا ہے کہ افضل وہی لوگ ہیں جو توریہ سے بھی پرہیز کریں

Page 439

اور توریہ اسلامی اصطلاح میں اس کو کہتے ہیں کہ فتنہ کے خوف سے ایک بات کو چھپانے کے لئے یا کسی اور مصلحت پر ایک راز کی بات مخفی رکھنے کی غرض سے ایسی مثالو ں اور پیرایوں میں اس کو بیان کیا جائے کہ عقلمند تو اس بات کو سمجھ جائے اور نادان کی سمجھ میں نہ آئے اور اس کا خیال دوسری طرف چلا جائے جو متکلم کا مقصود نہیں اور غور کرنے کے بعد معلوم ہوکہ جو کچھ متکلم نے کہا ہے وہ جھوٹ نہیں بلکہ حق محض ہے اور کچھ بھی کذب کی اس میں آمیزش نہ ہو اور نہ دل نے ایک ذرہ بھی کذب کی طرف میل کیا ہو جیسا کہ بعض احادیث میں دو مسلمانوں میں صلح کرانے کے لئے یا اپنی بیوی کو کسی فتنہ اور خانگی ناراضگی اور جھگڑے سے بچانے کے لئے یا جنگ میں اپنے مصالح دشمن سے مخفی رکھنے کی غرض سے اور دشمن کو اور طرف جھکا دینے کی نیت سے توریہ کا جواز پایا جاتا ہے مگر باوصف اس کے بہت سی حدیثیں دوسری بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ توریہ اعلیٰ درجہ کے تقویٰ کے برخلاف ہے اور بہرحال کھلی کھلی سچائی بہتر ہے اگرچہ اس کی وجہ سے قتل کیا جائے اور جلایا جائے مگر افسوس کہ یہ توریہ آپ کے یسوع صاحب کے کلام میں بہت ہی پایا جاتا ہے تمام انجیلیں اس سے بھری پڑی ہیں اس لئے ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ اگر توریہ کذب ہے تو یسوع سے زیادہ دنیا میں کوئی بھی کذاب نہیں گذرا.یسوع صاحب کا یہ قول کہ میں خدا کی ہیکل کو ڈھا سکتا ہوں اور پھر میں تین دن میں اسے بنا سکتا ہوں یہی وہ قول ہے جس کو توریہ کہتے ہیں.اور ایسا ہی وہ قول کہ ایک گھر کا مالک تھا جس نے انگورستان لگایا یہ سب توریہ کی قسمیں ہیں اور یسوع صاحب کے کلام میں اس کے بہت سے نمونے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ چبا چبا کر باتیں کرتا تھا اور اس کی

Page 440

باتوں میں دورنگی پائی جاتی تھی.اور ہمارے سید و مولیٰ جناب مقدس نبوی کی تعلیم کا ایک اعلیٰ نمونہ اس جگہ ثابت ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جس توریہ کو آپ کا یسوع شیر مادر کی طرح تمام عمر استعمال کرتا رہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حتی الوسع اس سے مجتنب رہنے کا حکم کیا ہے تا مفہوم کلام کا اپنی ظاہری صورت میں بھی کذب سے مشابہ نہ ہو مگر کیا کہیں اور کیا لکھیں کہ آپ کے یسوع صاحب اس قدر التزام سچائی کا نہ کر سکے جو شخص خدائی کا دعویٰ کرے وہ تو شیر ببر کی طرح دنیا میں آنا چاہئے تھا نہ کہ ساری عمر توریہ اختیار کرکے اور تمام باتیں کذب کے ہمرنگ کہہ کر یہ ثابت کر دیوے کہ وہ ان افراد کاملہ میں سے نہیں ہے جو مرنے سے لاپرواہ ہوکر دشمنوں کے مقابل پر اپنے تئیں ظاہر کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ پر پورا بھروسہ رکھتے ہیں.اور کسی مقام میں بزدلی نہیں دکھلاتے مجھے تو ان باتوں کو یاد کرکے رونا آتا ہے کہ اگر کوئی ایسے ضعیف القلب یسوع کی اس ضعف حالت اور توریہ پر جو ایک قسم کا کذب ہے اعتراض کرے تو ہم کیا جواب دیں.جب میں دیکھتا ہوں کہ جناب سید المرسلینؐجنگ احد ۱؂ میں اکیلے ہونے کی حالت میں برہنہ تلواروں کے سامنے کہہ رہے تھے میں محمدؐ ہوں.میں نبی اللّٰہ ہوں.میں ابن عَبْد المطّلِب ہوں اور پھر دوسری طرف دیکھتا ہوں.کہ آپ کا یسوع کانپ کانپ کر اپنے شاگردوں کو یہ خلاف واقعہ تعلیم دیتا ہے کہ کسی سے نہ کہنا کہ ۱؂ سہو ہے یہ واقعہ غزوۂ حنین کا ہے.شمس

Page 441

میں یسوع مسیح ہوں حالانکہ اس کلمہ سے کوئی اس کو قتل نہیں کرتا تو میں دریائے حیرت میں غرق ہو جاتا ہوں کہ یا الٰہی یہ شخص بھی نبی ہی کہلاتا ہے جس کی شجاعت کا خدا کی راہ میں یہ حال ہے.الغرض فتح مسیح نے اپنی جہالت کا خوب پردہ کھولا بلکہ اپنے یسوع صاحب پر بھی وار کیا کہ بعض ان احادیث کو پیش کر دیا جن میں توریہ کے جواز کا ذکر ہے اگر کسی حدیث میں توریہ کو بطور تسامح کذب کے لفظ سے بیان بھی کیا گیا ہو تو یہ سخت جہالت ہے کہ کوئی شخص اس کو حقیقی کذب پر محمول کرے جبکہ قرآن اور احادیث صحیحہ بالاتفاق کذب حقیقی کو سخت حرام اور پلید ٹھہراتے ہیں اور اعلیٰ درجہ کی حدیثیں توریہ کے مسئلہ کو کھول کر بیان کر رہی ہیں تو پھر اگر فرض بھی کر لیں کہ کسی حدیث میں بجائے توریہ کے کذب کا لفظ آگیا ہو تو نعوذ باللّٰہ اس سے مراد حقیقی کذب کیونکر ہوسکتا ہے بلکہ اس کے قائل کے نہایت باریک تقویٰ کا یہ نشان ہوگا کہ جس نے توریہ کو کذب کی صورت میں سمجھ کر بطور تسامح کذب کا لفظ استعمال کیا ہو ہمیں قرآن اور احادیث صحیحہ کی پیروی کرنا ضروری ہے اگر کوئی امر اس کے مخالف ہوگا تو ہم اس کے وہ معنے ہرگز قبول نہیں کریں گے جو مخالف ہوں احادیث پر نظر ڈالنے کے وقت یہ بات ضروری ہوتی ہے کہ ایسی حدیثوں پر بھروسہ نہ کریں جو ان احادیث سے مناقض اور مخالف ہوں.جن کی صحت اعلیٰ درجہ پر پہنچ چکی ہو اور نہ ایسی حدیثوں پر جو قرآن کی نصوص صریحہ بینہ محکمہ سے صریح مخالف اور مغائر اور مبائن واقع ہوں پھر ایک ایسا مسئلہ جو قرآن اور احادیث صحیحہ نے اس پر اتفاق کر لیا ہے اور کتب دین میں صراحت

Page 442

سے اس کا ذکر ہے اس کے مخالف کسی بے ہودہ قول یا کسی مغشوش اور غیر ثابت حدیث یا مشتبہ اثر سے تمسک کر کے اعتراض کرنا یہ خیانت اور شرارت کا کام ہے.درحقیقت عیسائیوں کو ایسی شرارتوں نے ہی ہلاک کیا ہے ان لوگوں کو خود بخود حدیث دیکھنے کا مادہ نہیں.غایت کار مشکٰوۃ کا کوئی ترجمہ دیکھ کر جس بات پر اپنے فہم ناقص سے عیب لگا سکتے ہیں وہی بات لے لیتے ہیں حالانکہ کتب احادیث میں رطب و یا بس سب کچھ ہوتا ہے اور عامل بالحدیث کو تنقید کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ ایک نہایت نازک کام ہے کہ ہریک قسم کی احادیث میں سے احادیث صحیحہ تلاش کریں اور پھر اس کے صحیح معنی معلوم کریں اور پھر اس کے لئے صحیح محمل تلاش کریں.قرآن نے جھوٹوں پر لعنت کی ہے.اور نیز فرمایا ہے کہ جھوٹے شیطان کے مصاحب ہوتے ہیں اور جھوٹے بے ایمان ہوتے ہیں اور جھوٹوں پر شیاطین نازل ہوتے ہیں اور صرف یہی نہیں فرمایا کہ تم جھوٹ مت بولو بلکہ یہ بھی فرمایا ہے کہ تم جھوٹوں کی صحبت بھی چھوڑ دو اور ان کو اپنا یار دوست مت بناؤ اور خدا سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو.اور ایک جگہ فرماتا ہے کہ جب تو کوئی کلام کرے تو تیری کلام محض صدق ہو ٹھٹھے کے طور پر بھی اس میں جھوٹ نہ ہو.اب بتلاؤ یہ تعلیمیں انجیل میں کہاں ہیں.اگر ایسی تعلیمیں ہوتیں تو عیسائیوں میں اپریل فول کی گندی رسمیں اب تک کیوں جاری رہتیں.دیکھو اپریل فول کیسی بُری رسم ہے کہ ناحق جھوٹ بولنا اس میں تہذیب کی بات سمجھی جاتی ہے یہ عیسائی تہذیب اور

Page 443

انجیلی تعلیم ہے.معلوم ہوتا ہے کہ عیسائی لوگ جھوٹ سے بہت ہی پیار کرتے ہیں.چنانچہ عملی حالت اس پر شاہد ہے.مثلاً قرآن تو تمام مسلمانوں کے ہاتھ میں ایک ہی ہے.مگر سنا گیا ہے کہ انجیلیں ساٹھ سے بھی کچھ زیادہ ہیں.شاباش اے پادریان جھوٹ کی مشق بھی اسے کہتے ہیں.شاید آپ نے اپنے ایک مقدس بزرگ کا قول سنا ہے.کہ جھوٹ بولنا نہ صرف جائز بلکہ ثواب کی بات ہے خدا تعالیٰ نے عدل کے بارے میں جو بغیر سچائی پر پورا قدم مارنے کے حاصل نہیں ہو سکتی.فرمایا ہے۱؂ یعنی دشمن قوموں کی دشمنی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو.انصاف پر قائم رہو کہ تقویٰ اسی میں ہے.اب آپ کو معلوم ہے کہ جو قومیں ناحق ستاویں اور دکھ دیویں اور خونریزیاں کریں اور تعاقب کریں اور بچوں اور عورتوں کو قتل کریں جیسا کہ مکہ والے کافروں نے کیا تھا اور پھر لڑائیوں سے باز نہ آویں ایسے لوگوں کے ساتھ معاملات میں انصاف کے ساتھ برتاؤ کرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے مگر قرآنی تعلیم نے ایسے جانی دشمنوں کے حقوق کو بھی ضائع نہیں کیا اور انصاف اور راستی کے لئے وصیت کی مگر آپ تو تعصب کے گڑھے میں گرے ہیں ان پاک باتوں کو کیونکر سمجھیں.انجیل میں اگرچہ لکھا ہے کہ اپنے دشمنوں سے پیار کرو مگر یہ نہیں لکھا کہ دشمن قوموں کی دشمنی اور ظلم تمہیں انصاف اور سچائی سے مانع نہ ہو.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ دشمن سے مدارات سے پیش آنا آسان ہے مگر دشمن کے حقوق کی حفاظت کرنا اور مقدمات میں عدل اور انصاف کو ہاتھ سے نہ دینا یہ بہت مشکل اور فقط جوانمردوں کا کام ہے اکثر

Page 444

لوگ اپنے شریک دشمنوں سے محبت تو کرتے ہیں اور میٹھی میٹھی باتوں سے پیش آتے ہیں مگر ان کے حقوق دبا لیتے ہیں ایک بھائی دوسرے بھائی سے محبت کرتا ہے.اور محبت کے پردہ میں دھوکا دے کر اس کے حقوق دبا لیتا ہے مثلاً اگر زمیندار ہے تو چالاکی سے اس کا نام کاغذات بندوبست میں نہیں لکھواتا اور یوں اتنی محبت کہ اس پر قربان ہوا جاتا ہے پس خدا تعالیٰ نے اس آیت میں محبت کا ذکر نہ کیا بلکہ میعار محبت کا ذکر کیا.کیونکہ جو شخص اپنے جانی دشمن سے عدل کرے گا.اور سچائی اور انصاف سے درگذر نہیں کرے گا وہی ہے جو سچی محبت بھی کرتا ہے مگر آپ کے خدا کو یہ تعلیم یاد نہ رہی کہ ظالم دشمنوں کے ساتھ عدل کرنے پر ایسا زور دیتا جو قرآن نے دیا اور دشمن کے ساتھ سچا معاملہ کرنے کے لئے اور سچائی کو لازم پکڑنے کے لئے وہ تاکید کرتا جو قرآن نے تاکید کی اور تقویٰ کی باریک راہیں سکھاتا مگر افسوس کہ جو بات سکھلائی دھوکے کی سکھلائی اور پرہیز گاری کی سیدھی راہ پر قائم نہ کر سکا یہ آپ کے فرضی یسُوع کی نسبت ہم کہتے ہیں جس کے چند پریشان ورق آپ کے ہاتھ میں ہیں اور جو خدائی کا دعویٰ کرتا کرتا آخر مصلوب ہوگیا اور ساری رات رو رو کر دعا کی کہ کسی طرح بچ جاؤں مگر بچ نہ سکا.ہمارے سید و مولیٰ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم نے تو آپ دنیا سے جانے کے لئے دعا کی کہ الحقنی بالرفیق الاعلٰی مگر آپ کے خدا صاحب نے دنیا کی چند روزہ زندگی سے ایسا پیار کیا کہ ساری رات زندہ رہنے کے لئے دعائیں کرتا رہا بلکہ سولی پر بھی رضا اور تسلیم کا کلمہ منہ سے نہ نکلا اور اگر نکلا تو یہ نکلا کہ ایلی ایلی لما سبقتنی اے میرے خدا اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں ترک کر دیا اور خدا نے کچھ جواب

Page 445

نہ دیا کہ اس نے ترک کر دیا مگر بات تو ظاہر ہے کہ خدائی کا دعویٰ کیا.تکبّر کیا ترک کیاگیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے آخر وقت میں مخیر کیا کہ اگر چاہو تو دنیا میں رہو اور اگر چاہو تو میری طرف آجاؤ.آپ نے عرض کیا کہ اے میرے رب اب میں یہی چاہتا ہوں کہ تیری طرف آؤں اور آخری کلمہ آپ کا جس پر آپ کی جان مطہر رخصت ہوگئی.یہی تھا کہ بالرفیق الاعلٰی یعنی اب میں اس جگہ رہنا نہیں چاہتا.میں اپنے خدا کے پاس جانا چاہتا ہوں.اب دونوں کلموں کو وزن کرو.آپ کے خدا صاحب نے نہ فقط ساری رات زندہ رہنے کے لئے دعا کی بلکہ صلیب پر بھی چلّا چلّا کر روئے کہ مجھے موت سے بچالے مگر کون سنتا تھا.لیکن ہمارے مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کے لئے ہرگز دعا نہیں کی.اللہ تعالیٰ نے آپ مختار کیا کہ اگر زندگی کی خواہش ہے تو یہی ہوگا.مگر آپ نے فرمایا کہ اب میں اس دنیا میں رہنا نہیں چاہتا کیا یہ خدا ہے جس پر بھروسہ ہے ڈوب جاؤ!!! اور آپ کا یہ زعم کہ قرآن اپنے دین کو چھپا لینے کے لئے حکم دیتا ہے محض بہتان اور افترا ہے جس کی کچھ بھی اصلیت نہیں.قراٰن تو ان پر لعنت بھیجتا ہے*.جو دین کی گواہی کو عمداً چھپاتے ہیں اور ان پر لعنت بھیجتا ہے جو جھوٹ بولتے ہیں شاید آپ نے قرآن کی اس آیت سے بوجہ نافہمی کے دھوکا کھایا ہوگا جو سورۃ النحل میں مذکور ہے.اور وہ یہ ہے۱؂.یعنی کافر عذاب میں * نوٹ: لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ.قرآن شریف میں ہے یا انجیل میں جواب تو دو.منہ

Page 446

ڈالے جائیں گے مگر ایسا شخص جس پر زبردستی کی جائے یعنی ایمانی شعار کے ادا کرنے سے کسی فوق الطاقت عذاب کی وجہ سے روکا جائے اور دل اس کا ایمان سے تسکین یافتہ ہے وہ عند اللہ معذور ہے.مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ اگر کوئی ظالم کسی مسلمان کو سخت درد ناک اور فوق الطاقت زخموں سے مجروح کرے اور وہ اس عذاب شدید میں کوئی ایسے کلمات کہہ دے کہ اس کافر کی نظر میں کفر کے کلمات ہوں مگر وہ خود کفر کے کلمات کی نیت نہ کرے بلکہ دل اس کا ایمان سے لبالب ہو اور صرف یہ نیت ہو کہ وہ اس ناقابل برداشت سختی کی وجہ سے اپنے دین کو چھپاتا ہے مگر نہ عمداً بلکہ اس وقت جبکہ فوق الطاقت عذاب پہنچنے سے بے حواس اور دیوانہ سا ہوجائے تو خدا اس کی توبہ کے وقت اس کے گناہ کو اس کی شرائط کی پابندی سے جو نیچے کی آیت میں مذکور ہیں معاف کر دے گا کیونکہ وہ غفور رحیم ہے.اور وہ شرائط یہ ہیں..۱؂ یعنی ایسے لوگ جو فوق الطاقت دکھ کی حالت میں اپنے اسلام کا اخفاء کریں ان کا اس شرط سے گناہ بخشا جائے گا کہ دکھ اٹھانے کے بعد پھر ہجرت کریں یعنی ایسی عادت سے یا ایسے ملک سے نکل جائیں جہاں دین پر زبردستی ہوتی ہے پھر خدا کی راہ میں بہت ہی کوشش کریں اور تکلیفوں پر صبر کریں ان سب باتوں کے بعد خدا ان کا گناہ بخش دے گا کیونکہ وہ غفور رحیم ہے.اب ان تمام آیات سے معلوم ہوا کہ جو شخص کسی فوق الطاقت دکھ کے وقت بھی جو دشمنوں سے اس کو پہنچے دین اسلام کی گواہی کو پوشیدہ کرے وہ بھی خدا تعالیٰ کے نزدیک گناہ گار ہے مگر خدمات شائستہ دکھلانے کے

Page 447

بعد اور ایسی عادت یا ایسا ملک چھوڑ دینے کے بعد جس میں زبردستی کی جاتی ہے اور صبر اور استقامت کے بعد اس کا گناہ معاف کیا جائے گا اور خدا اس کو ضائع نہیں کرے گا کیونکہ وہ رحمن و رحیم ہے.غرض خدا تعالیٰ نے اس اخفا کو محل مدح میں نہیں رکھا بلکہ ایک گناہ قرار دیا ہے اور اس گناہ کا کفارہ پچھلی آیت میں بتلا دیا ہے اور جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں جابجا ان مومنوں کی تعریف کی ہے جو دین کی گواہی کو نہیں چھپاتے اگرچہ جان جائے.ہاں ایسے شخص کو بھی رد کرنا نہیں چاہا جو اپنی ضعف استعداد اور فوق الطاقت عذاب کی وجہ سے معذب ہونے کی حالت میں دین کی گواہی کو پوشیدہ رکھے بلکہ اس کو اس شرط سے قبول کر لیا ہے کہ آئندہ ایسی عادت سے یا ایسے ملک سے جس میں زبردستی ہوتی ہے علیحدہ ہو جائے اور اپنے صدق اور ثبات اور مجاہدات سے اپنے ربّ کو راضی کرے تب یہ گناہ دین کے اخفاء کا معاف کیا جائے گا کیونکہ وہ خدا جس نے عاجز بندوں کو پیدا کیا ہے نہایت کریم و رحیم خدا ہے.وہ کسی کو تھوڑے کئے پر اپنی جناب سے رد نہیں کرتا یہ تو تعلیم قرآنی ہے.جو خدا تعالیٰ کی صفات رحمت اور مغفرت کے بالکل مطابق ہے.لیکن آپ کے اقرار سے یہ معلوم ہوا کہ یہ تعلیم انجیل کی نہیں ہے اور انجیل کی رو سے یہ فتویٰ ہے کہ اگر کوئی عیسائی کسی فوق الطاقت دکھ کے وقت عیسائی دین کی گواہی سے زبان سے انکار کرے تو وہ ہمیشہ کے لئے مردود ہوگیا اور اب انجیل اس کو اپنی جماعت میں جگہ نہیں دے گی اور اس کے لئے کوئی توبہ نہیں شاباش شاباش آج تم نے اپنے ہاتھ سے مہر لگا دی کہ یہ انجیل جو

Page 448

تمہارے ہاتھ میں ہے ایک جھوٹی انجیل ہے خیر اب ہمارے وار سے بھی خالی نہ جاؤ اور جو نیچے لکھتا ہوں اس کا جواب دو.ورنہ اگر کچھ حیا ہے تو عیسائی مذہب سے توبہ کرو.اعتراض یہ ہے کہ جس حالت میں بقول آپ کے وہ تعلیم خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوسکتی کہ جو ایمان کے چھپانے والے کو اس کی توبہ اور اعمال صالحہ اور صبر اور ثبات کے بعد معافی کا وعدہ دے اور رحمت الٰہی سے ردّ نہ کرے تو پھر انجیل کی تعلیم کس قدر سچائی سے دور ہوگی جس نے پطرس کو باوجود اس کی نہایت مکروہ بداعمالی اور دروغ گوئی اور سخت انکار اور جھوٹی قسم اور مسیح پر لعنت بھیجنے اور ایمان کو پوشیدہ کرنے کے پھر قبول کر لیاآپ کا *اعتراض تو صرف اتنا تھا کہ قرآن نے ایسے لوگوں کو بھی اسلام سے رد نہیں کیا جو کسی خوف سے اسلام کا زبان سے انکار کر دیں مگر انجیل نے تو اس بارے میں حد کر دی کہ ایسے شخص کو بھی پھر قبول کر لیا جس نے نہ صرف ایمان کو پوشیدہ کیا بلکہ صاف انکار کیا اور اپنے جھوٹ کو سچ ظاہر کرنے کے لئے قسم کھائی.بلکہ یسوع صاحب پر لعنت بھی بھیجی اور اگر کہو کہ انجیل کی تعلیم نے اس کو قبول نہیں کیا بلکہ وہ اب تک مردود اور ایمان سے خارج ہے تو اس عقیدہ کا اشتہار دے دو.اب کہو قرآن پر اعتراض کرنے سے کچھ سزا پائی یا نہیں.* نوٹ: گواہی کا چھپانا اور دل میں رکھنا تو درکنار عیسائی تو انجیل کے مرتدوں کو بھی ایمان لانے پر پھرواپس لے لیتے ہیں.منہ

Page 449

آپ اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ کسی امر کا جواب دینا اور بات ہے مگر معقول طور پر جواب دینا اور بات ہے.اب بتاؤ معقولی طور پر یہ جواب ہیں یا نہیں.اور ابھی وقت آیا یا نہیں کہ ہم لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین کہہ دیں.آپ نے یہ بھی خط میں لکھا ہے کہ محمدی لوگ جواب تو دیتے ہیں مگر وہ عقل کے سامنے جواب نہیں سمجھے جاتے اب ہمارے یہ تمام جواب آپ کے سامنے ہیں اس کو چند منصفوں کو دکھلاؤ کہ کیا یہ عقل کے سامنے جواب ہیں یا نہیں.کیا آپ امید رکھتے ہیں کہ جو انجیل پر اعتراض ہم نے کئے ہیں آپ ان کا کچھ جواب دے سکیں گے ہرگز ممکن نہیں وہ دن آپ پر کبھی نہیں آئے گا کہ ان اعتراضات کے جواب سے سبکدوش ہوسکیں.پھر آپ کا ایک یہ وسوسہ ہے کہ کامل گناہ کا بیان انجیل میں ہی ہے لیکن اگر آپ غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ انجیل تقویٰ کی راہوں کو کامل طور پر بیان نہیں کر سکی اور نہ انجیل نے ایسا دعویٰ کیا مگر قرآن شریف نے تو اپنے نزول کی علّت غائی ہی یہ قرار دی ہے کہ تقویٰ کی راہوں کو سکھائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۱؂.یعنی یہ کتاب اس غرض سے اتری ہے کہ تا جو لوگ گناہ سے پرہیز کرتے ہیں ان کو باریک سے باریک گناہوں پر بھی اطلاع دی جائے تاوہ ان بُرے کاموں سے بھی پرہیز کریں جو ہریک آنکھ کو نظر نہیں آتے بلکہ فقط معرفت کی خوردبین سے نظر آسکتے ہیں اور موٹی نگاہیں ان کے دیکھنے سے خطا کر جاتی ہیں مثلاً آپ

Page 450

کے یسوع صاحب کا قول متی نے یہ لکھا ہے کہ میں تمہیں کہتا ہوں کہ جو کوئی شہوت سے کسی عورت پر نگاہ کرے.وہ اپنے دل میں اس کے ساتھ زنا کرچکا لیکن قرآن کی یہ تعلیم ہے کہ نہ تو شہوت سے اور نہ بغیر شہوت کے بیگانہ عورت کے منہ پر ہرگز نظر نہ ڈال اور ان کی باتیں مت سن اور ان کی آواز مت سن اور ان کے حسن کے قصے مت سن کہ ان امور سے پرہیز کرنا تجھے ٹھوکر کھانے سے بچائے گا جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے.۱؂.یعنی مومنوں کو کہہ دے کہ نامحرم کو دیکھنے سے اپنی آنکھوں کو بند رکھیں اور اپنے کانوں اور ستر گاہوں کی حفاظت کریں یعنی کان کو بھی ان کی نرم باتوں اور ان کی خوبصورتی کے قصوں سے بچاویں کہ یہ سب طریق ٹھوکر کھانے کے ہیں.اب اگر بے ایمانی کے زہر دل میں نہیں تو ایسی تعلیم سے یسوع کی تعلیم کا مقابلہ کرو اور پھر نتائج پر بھی نظر ڈالو یسوع کی تعلیم نے عام آزادی کی اجازت دے کر اور تمام ضروری شرائط کو نظر انداز کر کے تمام یورپ کو ہلاک کر دیا یہاں تک کہ ان سب میں خنزیروں اور کتوں کی طرح فسق و فجور پھیلا.اور بے حیائی اس حد تک پہنچ گئی کہ شیرینیوں پر اور ولایت کی مٹھائیوں پر بھی یہ لفظ لکھے جاتے ہیں.کہ اے میری پیاری ذرا مجھے بوسہ دے.یہ تمام گناہ کس کی گردن پر ہے.بے شک اس یسوع کی گردن پر جس نے ایسی تعلیم دی کہ ایک جوان مرد یا عورت دوسرے پر نظر ڈالے مگر زنا کا قصد نہ کرے.اے نادان کیا زنا کا قصد اختیار میں ہے.جو شخص آزادی سے نامحرم عورتوں کو دیکھتا رہے گا آخر ایک دن بدنیتی سے بھی دیکھے گا.کیونکہ نفس کے جذبات ہریک طبیعت

Page 451

کے ساتھ لگے ہوئے ہیں اور تجربہ بلند آواز سے بلکہ چیخیں مار کر ہمیں بتلا رہا ہے کہ بیگانہ عورتوں کو دیکھنے میں ہرگز انجام بخیر نہیں ہوتا یورپ جو زناکاری سے بھر گیا اس کا کیا سبب ہے.یہی تو ہے کہ نامحرم عورتوں کو بے تکلف دیکھنا عادت ہوگیا اول تو نظر کی بدکاریاں ہوئیں اور پھر معانقہ بھی ایک معمولی امر ہوگیا پھر اس سے ترقی ہوکر بوسہ لینے کی بھی عادت پڑی یہاں تک کہ استاد جوان لڑکیوں کو اپنے گھروں میں لے جاکر یورپ میں بوسہ بازی کرتے ہیں اور کوئی منع نہیں کرتا شیرینیوں پر فسق و فجور کی باتیں لکھی جاتی ہیں تصویروں میں نہایت درجہ کی بدکاری کا نقشہ دکھایا جاتا ہے عورتیں خود چھپواتی ہیں کہ میں ایسی خوبصورت ہوں اور میری ناک ایسے اور آنکھ ایسی ہے اور ان کے عاشقوں کے ناول لکھے جاتے ہیں اور بدکاری کا ایسا دریا بہ رہا ہے کہ نہ تو کانوں کو بچا سکتے ہیں نہ آنکھوں کو نہ ہاتھوں کو نہ منہ کو.یہ یسوع صاحب کی تعلیم ہے.کاش! ایسا شخص دنیا میں نہ آیا ہوتا.تا یہ بدکاریاں ظہور میں نہ آتیں اس شخص نے پارسائی اور تقویٰ کا خون کردیا اور الحاد اور اباحت کو تمام ملک میں پھیلا دیا کوئی عبادت نہیں کوئی مجاہدہ نہیں بجز کھانے پینے اور بدنظریوں کے اور کوئی بھی فکر نہیں پھر زہر پر زہر یہ کہ ایک جھوٹے کفارہ کی امید دے کر گناہوں پر دلیر کر دیا کون عقلمند اس بات کو باور کرے گا کہ زید کو مُسہل دیا جائے اور بکر کے زہریلے مواد اس سے نکل جائیں بدی حقیقی طور پر تبھی دور ہوتی ہے کہ جب نیکی اس کی جگہ لے لے.یہی قرآنی تعلیم ہے کسی کی خودکشی سے دوسرے کو کیا فائدہ.کس قدر یہ نادانی کا خیال اور قانون قدیم کے

Page 452

مخالف ہے.جو آپ کے یسوع صاحب سے ظہور میں آیا.کیا اس کے روٹی کھانے سے حواریوں کا پیٹ بھر جاتا تھا پھر کیونکر اس کی خودکشی دوسرے کو مفید ہوسکتی ہے انجیل کی ساری تعلیم ایسی گندی اور ناقص ہے کہ حرف حرف پر سخت اعتراض ہے اور اس کے مؤلف کو خبر ہی نہیں کہ تقویٰ کس کو کہتے ہیں اور گناہ کے باریک مراتب کیا ہیں بے چارہ بچوں کی طرح باتیں کرتا ہے افسوس کہ اس وقت ہمیں فرصت نہیں کہ ان تمام یسوع کی باتوں کی قلعی کھولیں.انشاء اللہ تعالیٰ دوسرے وقت میں دکھائیں گے اور ثابت کریں گے کہ یہ شخص بالکل تقویٰ کے طریق سے ناواقف ہے اور اس کی تعلیم انسانی درخت کے کسی شعبہ کی بھی آب پاشی نہیں کرسکتی.جانتا ہی نہیں کہ انسان کن کن قوتوں کے ساتھ اس مسافر خانہ میں بھیجا گیا ہے اور اسے خبر ہی نہیں کہ خدا تعالیٰ کا یہ مقصود نہیں کہ ان تمام قوتوں کو زائل کر دیوے بلکہ یہ مطلب ہے کہ ان کو خط اعتدال پر چلاوے پس ایسی ناقص تعلیم کو قرآن شریف کے سامنے پیش کرنا سخت ہٹ دھرمی اور نابینائی اور بے شرمی ہے.اور آپ کا یہ کہنا کہ حضرت مقدس نبوی کی تعلیم یہ ہے کہ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہنے سے گناہ دور ہو جاتے ہیں یہ بالکل سچ ہے اور یہی واقعی حقیقت ہے کہ جو محض خدا کو واحد لا شریک جانتا ہے اور ایمان لاتا ہے کہ محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی قادر یکتا نے بھیجا ہے تو بے شک اگر اس کلمہ پر اس کا خاتمہ ہو تو نجات پا جائے گا آسمانوں کے نیچے کسی کی خودکشی سے نجات نہیں ہرگز نہیں.اور اس سے زیادہ کون پاگل ہوگا کہ ایسا خیال بھی کرے مگر خدا کو واحد لا شریک

Page 453

سمجھنا اور ایسا مہربان خیال کرنا کہ اس نے نہایت رحم کرکے دنیا کو ضلالت سے چھڑانے کے لئے اپنا رسول بھیجا جس کا نام محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم ہے یہ ایک ایسا اعتقاد ہے کہ اس پر یقین کرنے سے روح کی تاریکی دور ہوتی ہے اور نفسانیت دور ہوکر اس کی جگہ توحید لے لیتی ہے آخر توحید کا زبردست جوش تمام دل پر محیط ہوکر اسی جہان میں بہشتی زندگی شروع ہوجاتی ہے.جیسا تم دیکھتے ہوکہ نور کے آنے سے ظلمت قائم نہیں رہ سکتی ایسا ہی جب لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ کا نورانی پرتوہ دل پر پڑتا ہے تو نفسانی ظلمت کے جذبات کالمعدوم ہو جاتے ہیں گناہ کی حقیقت بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ سرکشی کی ملونی سے نفسانی جذبات کا شور و غوغا ہو جس کی متابعت کی حالت میں ایک شخص کا نام گناہ گار رکھا جاتا ہے اور لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ کے معنی جو لغت عرب کے موارد استعمال سے معلوم ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ لَا مَطْلُوْبَ لِیْ وَ لَا مَحْبُوبَ لِیْ وَ لَا مَعْبُوْدَ لِیْ وَ لَا مُطَاعَ لِیْ اِلَّا اللّٰہُ یعنی بجز اللہ کے اور کوئی میرا مطلوب نہیں اور محبوب نہیں اور معبود نہیں اور مطاع نہیں.اب ظاہر ہے کہ یہ معنی گناہ کی حقیقت اور گناہ کے اصل منبع سے بالکل مخالف پڑے ہیں پس جو شخص ان معنی کو خلوص دل کے ساتھ اپنی جان میں جگہ دے گا تو بالضرورت مفہوم مخالف اس کے دل سے نکل جائے گا کیونکہ ضدّین ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتیں پس جب نفسانی جذبات نکل گئے تو یہی وہ حالت ہے.جس کو سچی پاکیزگی اور حقیقی راست بازی کہتے ہیں اور خدا کے بھیجے ہوئے پر ایمان لانا جو دوسرے جز کلمہ کا مفہوم ہے اس کی ضرورت یہ ہے کہ تا خدا کے کلام پر بھی ایمان حاصل ہو جائے کیونکہ جو شخص یہ اقرار کرتا

Page 454

ہے کہ میں خدا کا فرمانبردار بننا چاہتا ہوں.اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کے فرمانوں پر ایمان بھی لاوے اور فرمان پر ایمان لانا بجز اس کے ممکن نہیں کہ اس پر ایمان لاوے جس کے ذریعہ سے دنیا میں فرمان آیا پس یہ حقیقت کلمہ کی ہے.اور آپ کے یسوع صاحب نے بھی اسی کی طرف اشارہ کیا ہے اور یہی مدار نجات ٹھہرایا ہے کہ خدا پر اور اس کے بھیجے ہوئے یسوع پر ایمان لایا جائے مگر چونکہ آپ لوگ اندھے ہیں اس لئے جوش تعصب سے انجیل کی باتیں بھی آپ کو نظر نہیں آتیں.اور آپ کا یہ کہنا کہ وضو کرنے سے گناہ کیونکر دور ہوسکتے ہیں.اے نادان! الٰہی نوشتوں پر کیوں غور نہیں کرتا کیا انسان ہونے کے بعد پھر حیوان بن گیا وضو کرنا تو صرف ہاتھ پیر اور منہ دھونا ہے اگر شریعت کا یہی مطلب ہوتا کہ ہاتھ پیر دھونے سے گناہ دور ہوجاتے ہیں تو یہ پاک شریعت ان تمام پلید قوموں کو جو اسلام سے سرکش ہیں ہاتھ منہ دھونے کے وقت گناہ سے پاک جانتے کیونکہ وضو سے گناہ دور ہو جاتے ہیں.مگر شارع علیہ السلام کا یہ مطلب نہیں بلکہ یہ مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ کے چھوٹے چھوٹے حکم بھی ضائع نہیں جاتے اور ان کے بجا لانے سے بھی گناہ دور ہوتے ہیں اگر میں اس وقت الزامی جواب دوں تو کئی جز لکھ کر منکر کا منہ کالا کروں مگر وقت تنگ ہے اور ابھی چند سوال باقی ہیں ذرا میری اس تحریر پر کچھ لکھو پھر تمہاری ہی کتابوں سے تمہیں عمدہ انعام دیا جائے گا.تسلی رکھو.آپ جھوٹ سے کیونکر متنفر ہوگئے کیا انجیل کا جھوٹ یاد نہ رہا.کیا یہ سچ ہے کہ یسوع صاحب کو سر دھرنے کے لئے جگہ نہیں ملتی تھی.کیا یہ واقعی امر ہے کہ اگر یسوع کے تمام کام لکھے جاتے تو

Page 455

وہ کتابیں دنیا میں سما نہ سکتیں اب کہو کہ دروغ گوئی میں انجیل کو کمال ہے یا کچھ کسر رہ گئی.یہ بھی یاد رہے کہ قرآن شریف میں گناہ کو ہلکا نہیں سمجھا گیا بلکہ بار بار بتلایا گیا ہے کہ کسی کو بجز اس کے نجات نہیں کہ گناہ سے سچی نفرت پیدا کرے مگر انجیل نے سچی نفرت کی تعلیم نہیں دی انجیل نے ہرگز اس بات پر زور نہیں دیا کہ گناہ ہلاک کرنے والا زہر ہے اس کے عوض اپنے اندر کوئی تریاق پیدا کرو بلکہ اس محرف انجیل نے نیکیوں کا عوض یسوع کی خود کشی کو کافی سمجھ لیا ہے مگر یہ کیسی بے ہودہ اور بھول کی بات ہے کہ حقیقی نیکی کے حاصل کرنے کی طرف توجہ نہیں بلکہ انجیل کی یہی تعلیم ہے کہ عیسائی بنو اور جو چاہو کرو.کفارہ ناقص ذریعہ نہیں ہے تاکسی عمل کی حاجت ہو.اب دیکھو اس سے زیادہ بدی پھیلنے کا ذریعہ کوئی اور بھی ہوسکتا ہے قرآن شریف تو فرماتا ہے کہ جب تک تم اپنے تئیں پاک نہ کرو اس پاک گھر میں داخل نہ ہوگے اور انجیل کہتی ہے کہ ہریک بدکاری کر تیرے لئے یسوع کی خودکشی کافی ہے.اب کس نے گناہ کو ہلکا سمجھا قرآن نے یا انجیل نے.قرآن کا خدا ہرگز کسی کو نیک نہیں ٹھہراتا.جب تک بدی کی جگہ نیکی نہ آجائے مگر انجیل نے اندھیر مچا دیا ہے.کفّارہ سے تمام نیکی اور راستبازی کے حکموں کو ہلکا اور ہیچ کر دیا اور اب عیسائی کے لئے ان کی ضرورت نہیں.حیف صد حیف.افسوس صد افسوس.دوسرا سوال آپ کا یہ ہے کہ بہشت کی تعلیم محض نفسانی ہے جس سے ایک خدا رسیدہ شخص کو کچھ تسلّی نہیں ہوسکتی.اما الجواب پس واضح ہو کہ یہ بات نہایت بدیہی اور عند العقل مسلم اور قرین انصاف ہے

Page 456

کہ جیسا کہ انسان دنیا میں ارتکاب جرائم یا کسب خیرات اور اعمال صالحہ کے وقت صرف روح سے ہی کوئی کام نہیں کرتا بلکہ روح اور جسم دونوں سے کرتا ہے ایسا ہی جزا اور سزا کا اثر بھی دونوں پر ہی ہونا چاہئے یعنی جان اور جسم دونوں کو اپنی اپنی حالت کے مناسب پاداش اخروی سے حصہ ملنا چاہئے لیکن عیسائی صاحبوں پر سخت تعجب ہے کہ سزا کی حالت میں تو اس اصول کو انہوں نے قبول کر لیا ہے اور وہ تسلیم کرتے ہیں کہ جن لوگوں نے بدکاریاں اور بے ایمانیاں کرکے خدا کو ناراض کیا ان کو جو سزا دی جائے گی وہ صرف روح تک محدود نہیں بلکہ روح اور جسم دونوں کو جہنم میں ڈالا جائے گا اور گندھک کی آگ سے جسم جلائے جائیں گے اور وہاں رونا اور دانت پیسنا ہوگا اور وہ پیاس سے جلیں گے اور ان کو پانی نہیں ملے گا.اور جب حضرات عیسائیوں سے پوچھا جائے کہ جسم کیوں آگ میں جلایا جائے گا تو اس کا جواب دیتے ہیں کہ بھائی روح اور جسم دونوں مزدور کی طرح دنیا میں کام کرتے تھے پس جبکہ دونوں نے اپنے آقا کے کام میں مل کر خیانت کی تو وہ دونوں سزا کے لائق ٹھہرے.پس اے اندھو اور خدا کے نوشتوں پر غور کرنے میں غافلو تمہیں تمہاری ہی بات سے ملزم کرتا ہوں کہ وہ خدا جس کا رحم اس کے غضب پر غالب ہے جب اس نے سزا دینے کے وقت جسم کو خالی نہ چھوڑا تو کیا ضرور نہ تھا کہ وہ جزا دینے کے وقت بھی اس اصول کو یاد رکھتا کیا لائق ہے کہ ہم اس رحیم خدا پر یہ بدگمانی کریں کہ وہ سزا دینے کے وقت تو ایسا غضب ناک ہوگا کہ ہمارے جسموں کو بھی جلتے ہوئے تنور میں ڈالے گا لیکن جزا دینے کے وقت اس کا رحم اس درجہ پر نہیں ہوگا جس درجہ پر

Page 457

سزا کی حالت میں اس کا غضب ہوگا اگر جسم کو سزا سے الگ رکھتا تو بے شک جزا سے بھی اس کو الگ رکھتا مگر جبکہ اس نے سزا کے وقت جسم کو گناہ کا شریک سمجھ کر جلتی ہوئی آگ میں ڈال دیا تو اے اندھو اور کوتاہ اندیشو! کیا وہ ایمان اور عمل صالح کی شراکت کے وقت جسم کو جزا سے حصہ نہیں دے گا.کیا جب مردے جی اٹھیں گے تو بہشتیوں کو عبث طور پر ہی جسم ملے گا.اور یہ بھی بدیہی بات ہے کہ جب جسم اپنے تمام قویٰ کے ساتھ روح سے پیوند کیا جائے گا تو وہ جسمانی قویٰ یا راحت میں ہوں گے یا رنج میں کیونکہ دونوں حالتوں کا مرتفع ہونا محال ہے پس اس صورت میں ماننا پڑا کہ جیسا جسم سزا کی حالت میں دکھ اٹھائے گا ویسا ہی وہ جزا کی حالت میں ایک قسم کی راحت سے بھی ضرور متمتع ہوگا اور اسی راحت کی قرآن کریم میں تفصیل ہے.ہاں خدا تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ بہشت کی نعمتیں فوق الفہم ہیں تمہیں ان کا حقیقی علم نہیں دیا گیا اور تم وہ نعمتیں پاؤ گے جواب تم سے پوشیدہ ہیں.جو نہ دنیا میں کسی نے دیکھیں اور نہ سنیں اور نہ دلوں میں گذریں وہ تمام مخفی امور میں اسی وقت سمجھ میں آئیں گی جب وارد ہوں گی جو کچھ قرآن اور حدیث میں وعدے ہیں وہ سب مثال کے طور پر بیان کیا ہے اور ساتھ اس کے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ وہ امور مخفی ہیں جن کی کسی کو اطلاع نہیں پس اگر وہ لذات اسی قدر ہوتیں جیسے اس دنیا میں شربت یا شراب پینے کی لذت یا عورت کے جماع کی لذت ہوتی ہے تو خدا تعالیٰ یہ نہ کہتا کہ وہ ایسے امور ہیں کہ جو نہ کسی آنکھ نے دیکھے اور نہ کسی کان نے سنے.اور نہ وہ کبھی کسی کے دل میں گذرے پس ہم مسلمان لوگ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ بہشت

Page 458

جو جسم اور روح کے لئے دارالجزا ہے وہ ایک ادھورا اور ناقص دارالجزا نہیں بلکہ اس میں جسم اور جان دونوں کو اپنی اپنی حالت کے موافق جزا ملے گی جیسا کہ جہنم میں اپنی اپنی حالت کے موافق دونوں کو سزا دی جائے گی اور اس کی اصل تفصیلات ہم خدا کے حوالے کرتے ہیں اور ایمان رکھتے ہیں کہ جزا سزا جسمانی روحانی دونوں طور پر ہوں گی اور یہی وہ عقیدہ ہے جو عقل اور انصاف کے موافق ہے اور یہ نہایت شرارت اور خباثت اور حرام زدگی ہے کہ قرآن پر یہ طعن وارد کیا جائے کہ وہ صرف جسمانی بہشت کا وعدہ کرتا ہے.قرآن تو صاف کہتا ہے کہ ہریک جو بہشت میں داخل ہوگا وہ جسمانی روحانی دونوں قسم کی جزا پائے گا اور جیسا کہ نعمت جسمانی اس کو ملے گی.ایسا ہی وہ دیدار الٰہی سے لذت اٹھائے گا اور یہی اعلیٰ لذت بہشت میں ہے معارف کی لذت بھی ہوگی اور طرح طرح کے انوار کی لذت بھی ہوگی اور عبادت کی لذت بھی ہوگی مگر اس کے ساتھ جسم بھی اپنی سعادت تامہ کو پہنچے گا.ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ جس قدر قرآن نے بہشتیوں کی روحانی جزا کی کیفیت لکھی ہے انجیل میں ہرگز نہیں.جس شخص کو شک ہو.ہمارے مقابل پر آئے اور ہم سے سنے اور انجیل کی تعلیم سناوے اگر وہ غالب ہوا اور اس نے ثابت کیا کہ انجیل میں بہشتیوں کی روحانی جزا قرآن سے بڑھ کر لکھی ہے تو ہم حلفاًکہتے ہیں کہ اسی وقت ہزار روپیہ نقد اس کو دیا جائے گا.جس جگہ چاہے باضابطہ تحریر دے کر جمع کرا لے.اے اندھو! قرآن کے مقابل پر انجیل کچھ بھی چیز نہیں.کیوں تمہاری شامت آئی ہے.گھروں میں آرام کر کے بیٹھو اب تمہاری رسوائی کا وقت آگیا ہے کیا تم میں کسی کو

Page 459

حوصلہ ہے کہ آرام سے آدمی بن کر مجھ سے آکر بحث کرلے کہ بہشت کے بارے میں روحانی جزا کا بیان انجیل میں زیادہ ہے یا قرآن میں.اور اگر انجیل میں زیادہ نکلے تو مجھ سے نقد ہزار روپیہ لے لے جہاں چاہے جمع کرا لے.مجھے امید نہیں کہ کوئی میرے سامنے آوے.اللہ اللہ کیسی یہ قوم ظالم اور دغا باز ہے جنہوں نے دنیا کی زندگی کے لئے آخرت کو بھلا دیا ہے مگر ذرہ موت کا پیالہ پی لیں پھر دیکھیں گے کہ کہاں ہے یسوع اور اس کا کفارہ.ہائے افسوس ان لوگوں نے ایک عاجز انسان اور عاجزہ کے بیٹے کو خدا بنا دیا اور خدائے قدوس پر تمام نالائق باتیں روا رکھیں.دنیا میں ایک ہی آیا جو سچی اور کامل توحید کو لایا اس سے انہوں نے دشمنی کی.اور یہ بھی سراسر جھوٹ ہے کہ انجیل میں جسمانی جزا کی طرف کوئی اشارہ نہیں.دیکھو متی کیسی تفصیل سے یسوع کا قول جسمانی جزا کے بارے میں بیان کرتا ہے اور وہ یہ ہے:۲۹.اور جس نے گھر یا بھائی یا بہن یا باپ یا جورو یا بال بچوں یا زمین کو میرے نام پر چھوڑا سو گنا پاوے گا.۱۹ باب آیت ۲۹.دیکھو یہ کیسا صریح حکم ہے اس میں تو یہ بھی بشارت ہے کہ اگر عیسائی عورت یسوع کے لئے خاوند چھوڑے تو قیامت کو اسے سو خاوند ملیں گے.اور اگر جسمانی نعمتوں کا وعدہ کرنا خدا تعالیٰ کی شان کے مخالف ہوتا تو توریت خروج ۳ باب ۸ آیت.استثناء ۶ باب ۳ آیت.۷ باب ۱۳ آیت.۸ باب ۱۷ آیت اور.قاضی ۹ باب ۱۲ آیت اور استثناء۳۲ باب ۱۴آیت.استثناء ۱۶ باب ۲۰ آیت اور احبار ۲۶ باب ۳ آیت.احبار ۲۵ باب.ایوب ۲۰ باب ۱۵ آیت میں ہرگز

Page 460

جسمانی نعمتوں کے وعدے نہ دیئے جاتے.کیا یسوع نے یہ نہیں کہا کہ میں بہشت میں شیرہ انگور پیوں گا.عجیب یسوع ہے.جو مسلمانوں کی بہشت میں داخل ہونے کی تمنا رکھتا ہے.جس میں جسمانی نعمتیں بھی ہیں.اور پھر عجیب تر یہ کہ جسمانی نعمتوں پر ہی گرا.دیدار الٰہی کا ذکر نہیں کیا.لعاذر سے پانی مانگنا بھی ذرہ یاد کرو.جس بہشت میں پانی نہیں.اس میں پانی کا ذکر مصداق اس مثل کا ہے کہ دروغ گو را حافظہ نبا شد.یہ سچ ہے کہ بہشت میں رہنے والے فرشتوں کی طرح ہو جائیں گے مگر یہ کہاں ثابت ہے کہ تبدیل خواص کر کے فی الحقیقت فرشتے ہی ہو جائیں گے *اور انسانی خواص چھوڑ دیں گے.ہاں یہ درست ہے کہ بہشت میں دنیا کی طرح نکاح نہیں ہوتے مگر بہشتی طور پر جسمانی لذات تو ہوں گے جیسے یسوع کو بھی انکار نہیں تھا.شیرۂ انگور پینے کی امید کرتا گذر گیا.توریت سے ثابت ہے کہ جسمانی جزا بھی خدا کی عادت ہے تو پھر کیونکر ممکن ہے کہ وہ غیر متبدل خدا قیامت کو اپنی عادتیں بدل ڈالے.تیسرا اعتراض آپ کا یہ ہے کہ اسلامی تعلیم میں ہے کہ جب تک کوئی کسی گناہ کا مرتکب نہ ہو جائے تب تک ایسے شخص سے مواخذہ نہ ہوگا اور محض دلی خیالوں پر خدا پُرسش نہیں کرے گا مگر انجیل میں اس کے خلاف ہے یعنی دلی خیالات پر بھی عذاب ہوگا.اما الجواب.پس واضح ہوکہ اگر انجیل میں ایسا ہی لکھا ہے تو ایسی انجیل ہرگز خدا تعالیٰ *نوٹ: درحقیقت فرشتے بن جانا اور بات ہے.مگر پاکیزگی میں اُن سے مشابہت پیدا کرنا یہ اوربات ہے.منہ

Page 461

کی طرف سے نہیں ہے اور حق بات یہی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمائی ہے کہ انسان کے دل کے تخیلات جو بے اختیار اٹھتے رہتے ہیں اس کو گناہ گار نہیں کرتے بلکہ عند اللہ مجرم ٹھہر جانے کی تین۳ ہی قسم ہیں (۱) اوّل یہ کہ زبان پر ناپاک کلمے جو دین اور راستی اور انصاف کے برخلاف ہوں جاری ہوں (۲) دوسرے یہ کہ جوارح یعنی ظاہری اعضاء سے نافرمانی کے حرکات صادر ہوں (۳) تیسرے یہ کہ دل نافرمانی پر عزیمت کرے یعنی پختہ ارادہ کرے کہ فلاں فعل بد ضرور کروں گا.اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.۱؂ یعنی جن گناہوں کو دل اپنی عزیمت سے حاصل کرے ان گناہوں کا مواخذہ ہوگا مگر مجرد خطرات پر مواخذہ نہیں ہوگا کہ وہ انسانی فطرت کے قبضہ میں نہیں ہیں خدائے رحیم ہمیں ان خیالات پر نہیں پکڑتا جو ہمارے اختیار سے باہر ہیں.ہاں اس وقت پکڑتا ہے کہ جب ہم ان خیالات کی زبان سے یا ہاتھ سے یا دل کی عزیمت سے پیروی کریں بلکہ بعض وقت ہم ان خیالات سے ثواب حاصل کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ نے صرف قرآن کریم میں ہاتھ پیر کے گناہوں کا ذکر نہیں کیا بلکہ کان اور آنکھ اور دل کے گناہوں کا بھی ذکر کیا ہے جیسا کہ وہ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے.۲؂ یعنی کان اور آنکھ اور دل جو ہیں ان سب سے باز پرس کی جائے گی.اب دیکھو جیسا کہ خدا تعالیٰ نے کان اور آنکھ کے گناہ کا ذکر کیا ایسا ہی دل کے گناہ کا بھی ذکر کیا مگر دل کا گناہ خطرات اور خیالات نہیں ہیں کیونکہ وہ تو دل کے بس میں نہیں ہیں

Page 462

بلکہ دل کا گناہ پختہ ارادہ کر لینا *ہے.صرف ایسے خیالات جو انسان کے اپنے اختیار میں نہیں گناہ میں داخل نہیں.ہاں اس وقت داخل ہو جائیں گے جب ان پر عزیمت کرے اور ان کے ارتکاب کا ارادہ کر لیوے ایسا ہی اللہ جلّ شانہٗ اندرونی گناہوں کے بارے میں ایک اور جگہ فرماتا ہے.۱؂ یعنی خدا نے ظاہری اور اندرونی گناہ دونوں حرام کر دیئے.اب میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ یہ عمدہ تعلیم بھی انجیل میں موجود نہیں کہ تمام عضووں کے گناہ کا ذکر کیا ہو اور عزیمت اور خطرات میں فرق کیا ہو اور ممکن نہ تھا کہ انجیل میں یہ تعلیم ہوسکتی.کیونکہ یہ تعلیم نہایت لطیف اور حکیمانہ اصولوں پر مبنی ہے اور انجیل تو ایک موٹے خیالات کا مجموعہ ہے جس سے اب ہر یک محقق نفرت کرتا جاتا ہے ہاں آپ کے یسوع صاحب نے پردہ پوشی کے لئے یہ خوب تدبیر کی کہ لوگوں کو باتوں باتوں میں سمجھا دیا کہ میری تعلیم کچھ اچھی نہیں.آئندہ اس پر مضحکہ ہوگا بہتر ہے کہ تم ایک اور آنے والے کا انتظار کرو جس کی تعلیم معارف کے تمام مراتب کو پورا کرے گی مگر شاباش اے پادری صاحبان آپ نے اس وصیّت پر خوب ہی عمل کیا جس تعلیم کو خود آپ کے یسوع صاحب بھی قابل اعتراض ٹھہراتے ہیں اور ایک آئندہ آنے والے نبی مقدس کی خوشخبری دیتے ہیں اسی ادھوری تعلیم پر آپ *نوٹ:ثواب اس وقت حاصل کرتے ہیں جب ہم دلی خیالات کا جو معصیت کی رغبت دیتے ہیں.اعمال صالحہ کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں اور ان خیالات کے برعکس عمل میں لاتے ہیں.منہ

Page 463

گرے جاتے ہیں.بھلا بتلاؤ تو سہی کہ آپ کے یسوع کی تعلیم خود اس کے اقرار سے ناقص ٹھہری یا ابھی کچھ کسر رہ گئی پھر جبکہ یسوع خود معترف ہے کہ میری تعلیم ادھوری اور نکمی ہے تو اپنے گرو کی پیشگوئی کو ذہن میں رکھ کر اسلامی تعلیم کی خوبیاں ہم سے سنو اور اپنے یسوع کو جھوٹا مت ٹھیراؤ کیونکہ جب تک ایسا نبی دنیا میں ظہور نہ کرے جس کی تعلیم انجیل کی تعلیم سے اکمل اور اعلیٰ ہو تب تک یسوع کی پیشگوئی باطل کے رنگ میں ہے مگر وہ مقدس نبی تو آچکا اور تم نے اس کو شناخت نہیں کیا ہماری تحریروں پر غور کرو تاتمہیں معلوم ہوکہ وہ کامل تعلیم جس کی مسیح کو انتظار تھی قرآن ہے اور اگر یہ پیشگوئی نہ ہوتی تب بھی قراٰن کا کامل اور انجیل کا ناقص ہونا خدا کی حجت کو پوری کرتا تھا سو جہنم کی آگ سے ڈرو اور اس آنے والے نبی کو مان لو جس کی نسبت مسیح نے بشارت دی اور اس کی کامل تعلیم کی تعریف کی مگر پھر بھی آپ کے یسوع کا اس میں بھی کچھ احسان نہیں کیونکہ خود زور آور نے کمزور کو گرا دیا اب صرف سمجھ کا گھاٹا ہے ورنہ اب انجیل کو قدم رکھنے کی جگہ نہیں.(۴) چوتھا اعتراض یہ ہے کہ اسلامی تعلیم میں غیر مذہب والوں سے محبت کرنا کسی جگہ حکم نہیں آیا.بلکہ حکم ہے کہ بجز مسلمان کے کسی سے محبت نہ کرو.اماالجواب: پس واضح ہو کہ یہ تمام ناقص اور ادھوری انجیل کی نحوستیں ہیں کہ عیسائی لوگ حق اور حقیقت سے دور جا پڑے ورنہ اگر ایک گہری نظر سے دیکھا جائے کہ محبت کیا چیز ہے اور کس کس محل پر اس کو استعمال کرنا چاہئے اوربُغضکیا چیز ہے اور

Page 464

کن کن مقامات میں برتنا چاہئے تو فرقان کریم کا سچا فلسفہ نہ صرف سمجھ میں ہی آتا ہے بلکہ روح کو اس سے معارف حقہ کی ایک کامل روشنی ملتی ہے.اب جاننا چاہئے کہ محبت کوئی تصنع اور تکلف کا کام نہیں بلکہ انسانی قُویٰ میں سے یہ بھی ایک قوت ہے اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ دل کا ایک چیز کو پسند کر کے اس کی طرف کھنچے جانا اور جیسا کہ ہریک چیز کے اصل خواص اس کے کمال کے وقت بدیہی طور پر محسوس ہوتے ہیں یہی محبت کا حال ہے کہ اس کے جوہر بھی اس وقت کھلے کھلے ظاہر ہوتے ہیں کہ جب اتم اور اکمل درجہ پر پہنچ جائے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 3۱؂.یعنی انہوں نے گو سالہ سے ایسی محبت کی کہ گویا ان کو گو سالہ شربت کی طرح پلا دیا گیا.درحقیقت جو شخص کسی سے کامل محبت کرتا ہے تو گویا اسے پی لیتا ہے یا کھا لیتا ہے اور اس کے اخلاق اور اس کے چال چلن کے ساتھ رنگین ہو جاتا ہے اور جس قدر زیادہ محبت ہوتی ہے اسی قدر انسان بالطبع اپنے محبوب کی صفات کی طرف کھینچا جاتا ہے یہاں تک کہ اسی کا روپ ہو جاتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے.یہی بھید ہے کہ جو شخص خدا سے محبت کرتا ہے وہ ظلی طور پر بقدر اپنی استعداد کے اس نور کو حاصل کر لیتا ہے جو خدا تعالیٰ کی ذات میں ہے.اور شیطان سے محبت کرنے والے وہ تاریکی حاصل کر لیتے ہیں جو شیطان میں ہے پس جبکہ محبت کی حقیقت یہ ہے تو پھر کیونکر ایک سچی کتاب جو منجانب اللہ ہے اجازت دے سکتی ہے کہ تم شیطان سے وہ محبت کرو جو خدا سے

Page 465

کرنی چاہئے اور شیطان کے جانشینوں سے وہ پیار کرو جو رحمٰن کے جانشینوں سے کرنا چاہئے افسوس کہ پہلے تو انجیل کے باطل ہونے پر ہمارے پاس یہی ایک دلیل تھی کہ وہ ایک عاجز مشت خاک کو خدا بناتی ہے اب یہ دوسری دلائل بھی پیدا ہوگئیں کہ اس کی دوسری تعلیمیں بھی گندی ہیں کیا یہ پاک تعلیم ہوسکتی ہے کہ شیطان سے ایسی ہی محبت کرو جیسا کہ خدا سے اور اگر یہ عذر کیا جائے کہ یسوع کے منہ سے سہوًا یہ باتیں نکل گئیں کیونکہ وہ الٰہیات کے فلسفہ سے ناواقف تھا تو یہ عذر نکما اور فضول ہوگا کیونکہ اگر وہ ایسا ہی ناواقف تھا تو کیوں اس نے قوم کے مصلح ہونے کا دعویٰ کیا.کیا وہ بچہ تھا اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ محبت کی حقیقت بالالتزام اس بات کو چاہتی ہے کہ انسان سچے دل سے اپنے محبوب کے تمام شمائل اور اخلاق اور عبادات پسند کرے اور ان میں فنا ہونے کے لئے بدل و جان ساعی ہو تا اپنے محبوب میں ہوکر وہ زندگی پاوے جو محبوب کو حاصل ہے سچی محبت کرنے والا اپنے محبوب میں فنا ہو جاتا ہے.اپنے محبوب کے گریبان سے ظاہر ہوتا ہے اور ایسی تصویر اس کی اپنے اندر کھینچتا ہے کہ گویا اسے پی جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ اس میں ہوکر اور اس کے رنگ میں رنگین ہوکر اور اس کے ساتھ ہوکر لوگوں پر ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ درحقیقت اس کی محبت میں کھویا گیا ہے.محبّتایک عربی لفظ ہے اور اصل معنی اس کے پُر ہوجانا ہے چنانچہ عرب میں یہ مثل مشہور ہے کہ تَحَبَّبَ الْحِمَارُ یعنی جب عربوں کو یہ کہنا منظور ہو جاتا ہے کہ گدھے کا پیٹ پانی سے بھر گیا تو کہتے ہیں کہ

Page 466

تَحَبَّبَ الْحِمَارُ اور جب یہ کہنا منظور ہوتا ہے کہ اونٹ نے اتنا پانی پیا کہ وہ پانی سے پُر ہوگیا.تو کہتے ہیں شربت الابل حتّٰی تحببت اور حَبّجو دانہ کو کہتے ہیں.وہ بھی اسی سے نکلا ہے.جس سے یہ مطلب ہے کہ وہ پہلے دانہ کی تمام کیفیت سے بھر گیا اور اسی بناء پر اِحْبَاب سونے کو بھی کہتے ہیں.کیونکہ جو دوسرے سے بھر جائے گا وہ اپنے وجود کو کھودے گا گویا سو جائے گا اور اپنے وجود کی کچھ حِسّ اس کو باقی نہیں رہے گی پھر جبکہ محبَّت کی یہ حقیقت ہے تو ایسی انجیل جس کی یہ تعلیم ہے کہ شیطان سے بھی محبت کرو اور شیطانی گروہ سے بھی پیار کرو دوسرے لفظوں میں اس کا ماحصل یہی نکلا کہ ان کی بدکاری میں تم بھی شریک ہو جاؤ.خوب تعلیم ہے.ایسی تعلیم کیونکر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوسکتی ہے بلکہ وہ تو انسان کو شیطان بنانا چاہتی ہے خدا انجیل کی اس تعلیم سے ہر ایک کو بچاوے.اگر یہ سوال ہو کہ جس حالت میں شیطان اور شیطانی رنگ و روپ والوں سے محبت کرنا حرام ہے تو کس قسم کا خلق ان سے برتنا چاہئے تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا پاک کلام قرآن شریف یہ ہدایت کرتا ہے کہ ان پر کمال درجہ کی شفقت چاہئے جیسا کہ ایک رحیم دل آدمی جذامیوں اور اندھوں اور لولوں اور لنگڑوں وغیرہ دکھ والوں پر شفقت کرتا ہے اور شفقت اور محبت میں یہ فرق ہے کہ محب اپنے محبوب کے تمام قول اور فعل کو بنظر استحسان دیکھتا ہے اور رغبت رکھتا ہے کہ ایسے حالات اس میں بھی پیدا ہوجائیں مگر مشفق شخص مشفق علیہ کے حالات بنظر خوف و عبرت دیکھتا ہے اور اندیشہ کرتا ہے کہ شائد وہ شخص اس تباہ حال میں ہلاک نہ ہو جائے اور حقیقی مشفق کی یہ علامت ہے کہ وہ شخص مشفق علیہ سے ہمیشہ نرمی سے

Page 467

پیش نہیں آتا بلکہ اس کی نسبت محل اور موقعہ کے مناسب حال کارروائی کرتا ہے اور کبھی نرمی اور کبھی درشتی سے پیش آتا ہے بعض وقت اس کو شربت پلاتا ہے اور بعض اوقات ایک حاذق ڈاکٹر کی طرح اس کا ہاتھ یا پیر کاٹنے میں اس کی زندگی دیکھتا ہے اور بعض اوقات اس کے کسی عضو کو چیرتا ہے اور بعض اوقات مرہم لگاتا ہے اگر تم ایک دن ایک بڑے شفاخانہ میں جہاں صدہا بیمار اور ہریک قسم کے مریض آتے ہوں.بیٹھ کر ایک حاذق تجربہ کار ڈاکٹر کی کارروائیوں کو مشاہدہ کرو تو امید ہے کہ مشفق کے معنے تمہاری سمجھ میں آجائیں گے.سو تعلیم قرآنی ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ نیکوں اور ابرار اخیار سے محبت کرو اور فاسقوں اور کافروں پر شفقت کرو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 3۱؂ یعنی اے کافرو یہ نبی ایسا مشفق ہے جو تمہارے رنج کو دیکھ نہیں سکتا اور نہایت درجہ خواہشمند ہے کہ تم ان بلاؤں سے نجات پا جاؤ پھر فرماتا ہے3 33۲؂ یعنے کیا تو اس غم سے ہلاک ہو جائے گا.کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے.مطلب یہ ہے کہ تیری شفقت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ تو ان کے غم میں ہلاک ہونے کے قریب ہے اور پھر ایک مقام میں فرماتا ہے 33 ۳؂ یعنی مومن وہی ہیں جو ایک دوسرے کو صبر اور مرحمت کی نصیحت کرتے ہیں یعنی یہ کہتے ہیں کہ شدائد پر صبر کرو اور خدا کے بندوں پر شفقت کرو اس جگہ بھی مرحمت سے مراد شفقت ہے کیونکہ مرحمت کا لفظ زبان عرب میں شفقت کے معنوں پر مستعمل ہے پس قرآنی تعلیم کا اصل مطلب یہ ہے کہ محبت جس کی حقیقت محبوب کے رنگ سے رنگین ہو جانا ہے بجز خدا تعالیٰ اور صلحاء کے

Page 468

اور کسی سے جائز نہیں بلکہ سخت حرام ہے جیسا کہ فرماتا ہے۱؂ ا ور فرماتا ہے ۲؂ اور پھر دوسرے مقام میں فرماتا ہے ۳؂ یعنی یہود اور نصاریٰ سے محبت مت کرو اور ہر ایک شخص جو صالح نہیں اس سے محبت مت کرو.ان آیتوں کو پڑھ کر نادان عیسائی دھوکا کھاتے ہیں کہ مسلمانوں کو حکم ہے کہ عیسائی وغیرہ بے دین فرقوں سے محبت نہ کریں لیکن نہیں سوچتے کہ ہریک لفظ اپنے محل پر استعمال ہوتا ہے جس چیز کا نام محبت ہے وہ فاسقوں اور کافروں سے اسی صورت میں بجا لانا متصور ہے کہ جب ان کے کفر اور فسق سے کچھ حصہ لے لیوے نہایت سخت جاہل وہ شخص ہوگا جس نے یہ تعلیم دی کہ اپنے دین کے دشمنوں سے پیار کرو ہم بارہا لکھ چکے ہیں کہ پیار اور محبت اسی کا نام ہے کہ اس شخص کے قول اور فعل اور عادت اور خلق اور مذہب کو رضا کے رنگ میں دیکھیں.اور اس پر خوش ہوں اور اس کا اثر اپنے دل پر ڈال لیں اور ایسا ہونا مومن سے کافر کی نسبت ہرگز ممکن نہیں.ہاں مومن کافر پر شفقت کرے گا اور تمام دقائق ہمدردی بجا لائے گا اور اس کی جسمانی اور روحانی بیماریوں کا غمگسار ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ بغیر لحاظ مذہب ملت کے تم لوگوں سے ہمدردی کرو بھوکوں کو کھلاؤ غلاموں کو آزاد کرو قرض داروں کے قرض دو اور زیر باروں کے بار اٹھاؤ اور بنی نوع سے سچی ہمدردی کا حق ادا کرو.اور فرماتا ہے 3۴؂ یعنی خدا تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ عدل کرو اور عدل سے بڑھ کر یہ کہ احسان کرو.جیسے

Page 469

بچہ سے اس کی والدہ یا کوئی اور شخص محض قرابت کے جوش سے کسی کی ہمدردی کرتا ہے اور پھر فرماتا ہے ۱؂ یعنی نصاریٰ وغیرہ سے جو خدا نے محبت کرنے سے ممانعت فرمائی تو اس سے یہ نہ سمجھو کہ وہ نیکی اور احسان اور ہمدردی کرنے سے تمہیں منع کرتا ہے نہیں بلکہ جن لوگوں نے تمہارے قتل کرنے کے لئے لڑائیاں نہیں کیں.اور تمہیں تمہارے وطنوں سے نہیں نکالا وہ اگرچہ عیسائی ہوں یا یہودی ہوں بے شک ان پر احسان کرو ان سے ہمدردی کرو انصاف کرو کہ خدا ایسے لوگوں سے پیار کرتا ہے اور پھر فرماتا ہے:..۲؂ یعنی خدا نے جو تمہیں ہمدردی اور دوستی سے منع کیا ہے تو صرف ان لوگوں کی نسبت جنہوں نے دینی لڑائیاں تم سے کیں اور تمہیں تمہارے وطنوں سے نکالا اور بس نہ کیا.جب تک باہم مل کر تمہیں نکال نہ دیا.سو ان کی دوستی حرام ہے.کیونکہ یہ دین کو مٹانا چاہتے ہیں.اس جگہ یاد رکھنے کے لائق ایک نکتہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تَوَلِّیْ *عربی زبان میں دوستی کو کہتے ہیں جس کا دوسرا نام مودت ہے اور اصل حقیقت دوستی اور مودت کی خیر خواہی اور ہمدردی ہے.سو مومن نصاریٰ اور یہود اور ہنود سے دوستی اور ہمدردی اور خیر خواہی * نوٹ: تولی کی تا اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ تولی میں ایک تکلف ہے جو مغائرت پر دلالت کرتا ہے مگر محبت میں ایک ذرّہ مغائرت باقی نہیں رہتی.منہ

Page 470

کرسکتا ہے.احسان کرسکتا ہے مگر ان سے محبت نہیں کرسکتا یہ ایک باریک فرق ہے اس کو خوب یاد رکھو.پھر آپ نے یہ اعتراض کیا ہے کہ مسلمان لوگ خدا کے ساتھ بھی بلا غرض محبت نہیں کرتے ان کو یہ تعلیم نہیں دی گئی کہ خدا اپنی خوبیوں کی وجہ سے محبت کے لائق ہے.اما الجواب.پس واضح ہو کہ یہ اعتراض درحقیقت انجیل پر وارد ہوتا ہے نہ قرآن پر کیونکہ انجیل میں یہ تعلیم ہرگز موجود نہیں کہ خدا سے محبت ذاتی رکھنی چاہئے اور محبت ذاتی سے اس کی عبادت کرنی چاہئے مگر قرآن تو اس تعلیم سے بھرا پڑا ہے قرآن نے صاف فرما دیا ہے۱؂ *.۲؂ یعنی خدا کو ایسا یاد کرو.جیسا کہ اپنے باپوں کو بلکہ اس سے بہت زیادہ.اور مومنوں کی یہی شان ہے کہ وہ سب سے بڑھ کر خدا سے محبت رکھتے ہیں یعنی ایسی محبت نہ وہ اپنے باپ سے کریں اور نہ اپنی ماں سے اور نہ اپنے دوسرے پیاروں سے اور نہ اپنی جان سے اور پھر فرمایا: ۳؂ یعنی خدا نے تمہارا محبوب ایمان کو بنا دیا اور اس کو تمہارے دلوں میں آراستہ کر دیا اور پھر فرمایا۴؂ یہ آیت حق اللہ اور حق العباد پر مشتمل ہے اور اس میں کمال بلاغت یہ ہے کہ دونوں پہلو پر اللہ تعالیٰ نے اس کو قائم کیا ہے.حق العباد کا پہلو تو ہم ذکر * نوٹ:انجیل کی رو سے ہر یک فاسق فاجر خدا کا بیٹا ہے بلکہ آپ ہی خدا ہے سو انجیل اس وجہ سے کسی کو خدا کا بیٹا قرار نہیں دیتی کہ وہ خدا سے کامل محبت رکھتا ہے بلکہ بائبل کی رو سے زانی لوگ بھی خدا کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں.منہ

Page 471

کرچکے ہیں اور حق اللہ کے پہلو کی رو سے اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ انصاف کی پابندی سے خدا تعالیٰ کی اطاعت کر کیونکہ جس نے تجھے پیدا کیا اور تیری پرورش کی اور ہر وقت کر رہا ہے اس کا حق ہے کہ تو بھی اس کی اطاعت کرے اور اگر اس سے زیادہ تجھے بصیرت ہوتو نہ صرف رعایت حق سے بلکہ احسان کی پابندی سے اس کی اطاعت کر کیونکہ وہ محسن ہے اور اس کے احسان اس قدر ہیں کہ شمار میں نہیں آسکتے اور ظاہر ہے کہ عدل کے درجہ سے بڑھ کر وہ درجہ ہے جس میں اطاعت کے وقت احسان بھی ملحوظ رہے اور چونکہ ہر وقت مطالعہ اور ملاحظہ احسان کا محسن کی شکل اور شمائل کو ہمیشہ نظر کے سامنے لے آتا ہے اس لئے احسان کی تعریف میں یہ بات داخل ہے کہ ایسے طور سے عبادت کرے کہ گویا خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے اور خدا تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے درحقیقت تین قسم پر منقسم ہیں.اوّل وہ لوگ جو بباعث محجوبیت اور رویت اسباب کے احسان الٰہی کا اچھی طرح ملاحظہ نہیں کرتے اور نہ وہ جوش ان میں پیدا ہوتا ہے جو احسان کی عظمتوں پر نظر ڈال کر پیدا ہوا کرتا ہے اور نہ وہ محبت ان میں حرکت کرتی ہے جو محسن کی عنایات عظیمہ کا تصور کر کے جنبش میں آیا کرتی ہے بلکہ صرف ایک اجمالی نظر سے خدا تعالیٰ کے حقوق خالقیت وغیرہ کو تسلیم کرلیتے ہیں اور احسان الٰہی کی ان تفصیلات کو جن پر ایک باریک نظر ڈالنا اس حقیقی محسن کو نظر کے سامنے لے آتا ہے ہرگز مشاہدہ نہیں کرتے کیونکہ اسباب پرستی کا گردوغبار مُسبّبِ حقیقی کا پورا چہرہ دیکھنے سے روک دیتا ہے اس لئے ان کو وہ صاف نظر میسر نہیں آتی جس سے کامل طور پر معطی حقیقی کا جمال مشاہدہ کرسکتے سو ان کی ناقص معرفت رعایت اسباب کی کدورت سے ملی ہوئی ہوتی ہے اور بوجہ اس کے جو وہ خدا کے احسانات کو اچھی طرح دیکھ نہیں سکتے خود بھی اس کی

Page 472

طرف وہ التفات نہیں کرتے جو احسانات کے مشاہدہ کے وقت کرنی پڑتی ہے جس سے محسن کی شکل نظر کے سامنے آجاتی ہے بلکہ ان کی معرفت ایک دھندلی سی ہوتی ہے.و جہ یہ کہ وہ کچھ تو اپنی محنتوں اور اپنے اسباب پر بھروسہ رکھتے ہیں اور کچھ تکلف کے طور پر یہ بھی مانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا حق خالقیّت اور رزّاقیّت ہمارے سر پر واجب ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ انسان کو اس کے وسعت فہم سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا اس لئے ان سے جب تک کہ وہ اس حالت میں ہیں یہی چاہتا ہے کہ اس کے حقوق کا شکر ادا کریں اور آیت اِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ میں عدل سے مراد یہی اطاعت برعایت عدل ہے.مگر اس سے بڑھ کر ایک اور مرتبہ انسان کی معرفت کا ہے اور وہ یہ ہے کہ جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں انسان کی نظر رویت اسباب سے بالکل پاک اور منزہ ہوکر خدا تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ہاتھ کو دیکھ لیتی ہے اور اس مرتبہ پر انسان اسباب کے حجابوں سے بالکل باہر آجاتا ہے اور یہ مقولہ کہ مثلاً میری اپنی ہی آبپاشی سے میری کھیتی ہوئی اور یا میرے اپنے ہی بازو سے یہ کامیابی مجھے ہوئی یا زید کی مہربانی سے فلاں مطلب میرا پورا ہوا اور بکر کی خبر گیری سے میں تباہی سے بچ گیا یہ تمام باتیں ہیچ اور باطل معلوم ہونے لگتی ہیں اور ایک ہی ہستی اور ایک ہی قدرت اور ایک ہی محسن اور ایک ہی ہاتھ نظر آتا ہے تب انسان ایک صاف نظر سے جس کے ساتھ ایک ذرہ شرک فی الاسباب کی گردوغبار نہیں خدا تعالیٰ کے احسانوں کو دیکھتا ہے اور یہ رویت اس قسم کی صاف اور یقینی ہوتی ہے کہ وہ ایسے محسن کی عبادت کرنے کے وقت اس کو غائب نہیں سمجھتا بلکہ یقیناً اس کو حاضر خیال کرکے اس کی عبادت کرتا ہے اور اس عبادت کا نام قرآن شریف میں اِحْسَان

Page 473

ہے.اور صحیح بخاری اور مسلم میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کے یہی معنی بیان فرمائے ہیں.اور اس درجہ کے بعد ایک اور درجہ ہے جس کا نام ایتاء ذی القربٰی* ہے اور تفصیل اس کی یہ ہے کہ جب انسان ایک مدت تک احسانات الٰہی کو بلا شرکت اسباب دیکھتا رہے اور اس کو حاضر اور بلاواسطہ محسن سمجھ کر اس کی عبادت کرتا رہے تو اس تصور اور تخیل کا آخری نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک ذاتی محبت اس کو جناب الٰہی کی نسبت پیدا ہو جائے گی کیونکہ متواتر احسانات کا دائمی ملاحظہ بالضرورت شخص ممنون کے دل میں یہ اثر پیدا کرتا ہے کہ وہ رفتہ رفتہ اس شخص کی ذاتی محبت سے بھر جاتا ہے جس کے غیر محدود احسانات اس پر محیط ہوگئے پس اس صورت میں وہ صرف احسانات کے تصور سے اس کی عبادت نہیں کرتا بلکہ اس کی ذاتی محبت اس کے دل میں بیٹھ جاتی ہے جیسا کہ بچہ کو ایک ذاتی محبت اپنی ماں سے ہوتی ہے.پس اس مرتبہ پر وہ عبادت کے وقت صرف خدا تعالیٰ کو دیکھتا ہی نہیں بلکہ دیکھ کر سچے عشاق کی طرح لذت بھی اٹھاتا ہے اور تمام اغراض نفسانی *نوٹ: مرتبہ ایتاء ذی القربٰی متواتر احسانات کے ملاحظہ سے پیدا ہوتا ہے.اور اس مرتبہ میں کامل طور پر عابد کے دل میں محبت ذات باری تعالیٰ کی پیدا ہوجاتی ہے اور اغراض نفسانیہ کا رائحہ اور بقیہ بالکل دور ہوجاتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ محبت ذاتی کا اصل اور منبع دو ہی چیزیں ہیں (۱) اوّلکثرت سے مطالعہ کسی کے حسن کا اور اس کے نقوش اور خال و خط اور شمائل کو ہر وقت ذہن میں رکھنا اور بار بار اس کا تصور کرنا (۲) دوسریکثرت سے تصور کسی کے متواتر احسانات کا کرنا اور اس کے انواع و اقسام کے مروتوں اور احسانوں کو ذہن میں لاتے رہنا اور ان احسانوں کی عظمت اپنے دل میں بٹھانا.

Page 474

معدوم ہوکر ذاتی محبت اس کی اندر پیدا ہوجاتی ہے اور یہ وہ مرتبہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے لفظ سے تعبیر کیا ہے اور اسی کی طرف خدا تعالیٰ نے اس آیت میں اشارہ کیا ہے ۱؂ غرض آیت ۲؂ کی یہ تفسیر ہے اور اس میں خدا تعالیٰ نے تینوں مرتبے انسانی معرفت کے بیان کر دیئے اور تیسرے مرتبہ کو محبت ذاتی کا مرتبہ قرار دیا اور یہ وہ مرتبہ ہے جس میں تمام اغراض نفسانی جل جاتے ہیں اور دل ایسا محبت سے بھر جاتا ہے جیسا کہ ایک شیشہ عطر سے بھرا ہوا ہوتا ہے اسی مرتبہ کی طرف اشارہ اس آیت میں ہے۳؂ یعنی بعض مومن لوگوں میں سے وہ بھی ہیں کہ اپنی جانیں رضاء الٰہی کے عوض میں بیچ دیتے ہیں اور خدا ایسوں ہی پر مہربان ہے*.اور پھر فرمایا۴؂ یعنی وہ لوگ نجات یافتہ ہیں جو خدا کو اپنا وجود حوالہ کر دیں اور اس کی نعمتوں کے تصور سے اس طور سے اس کی عبادت کریں کہ گویا اس کو دیکھ رہے ہیں سو ایسے لوگ خدا کے پاس سے اجر پاتے ہیں اور نہ ان کو کچھ خوف ہے اور نہ وے کچھ غم کرتے ہیں یعنی ان کا مدّعا خدا اور خدا کی محبت ہوجاتی ہے اور خدا کے پاس کی نعمتیں ان کا اجر ہوتا ہے اور پھر ایک جگہ فرمایا * نوٹ: نفس کے بیچنے میں یہ بات داخل ہے کہ انسان اپنی زندگی اور اپنے آرام کو جلال الٰہی کے ظاہر کرنے اور دین کی خدمت میں وقف کردیوے.منہ

Page 475

ا؂ یعنی مومن وہ ہیں جو خدا کی محبت سے مسکینوں اور یتیموں اور قیدیوں کو روٹی کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس روٹی کھلانے سے تم سے کوئی بدلہ اور شکر گذاری نہیں چاہتے اور نہ ہماری کچھ غرض ہے ان تمام خدمات سے صرف خدا کا چہرہ ہمارا مطلب ہے.اب سوچنا چاہئے کہ ان تمام آیات سے کس قدر صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ قرآن شریف نے اعلیٰ طبقہ عبادت الٰہی اور اعمال صالحہ کا یہی رکھا ہے کہ محبت الٰہی اور رضاء الٰہی کی طلب سچے دل سے ظہور میں آوے مگر اس جگہ سوال یہ ہے کہ کیا یہ عمدہ تعلیم جو نہایت صفائی سے بیان کی گئی ہے انجیل میں بھی موجود ہے ہم ہر یک کو یقین دلاتے ہیں کہ اس صفائی اور تفصیل سے انجیل نے ہرگز بیان نہیں کیا.خدا تعالیٰ نے تو اس دین کا نام اسلام اس غرض سے رکھا ہے کہ تاانسان خدا تعالیٰ کی عبادت نفسانی اغراض سے نہیں بلکہ طبعی جوش سے کرے کیونکہ اسلام تمام اغراض کے چھوڑ دینے کے بعد رضا بقضا کا نام ہے دنیا میں بجز اسلام ایسا کوئی مذہب نہیں جس کے یہ مقاصد ہوں بے شک خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت جتلانے کے لئے مومنوں کو انواع اقسام کی نعمتوں کے وعدے دیئے ہیں مگر مومنوں کو جو اعلیٰ مقام کے خواہش مند ہیں یہی تعلیم دی ہے کہ وہ محبت ذاتی سے خدا تعالیٰ کی عبادت کریں لیکن انجیل میں تو صاف شہادتیں موجود ہیں کہ آپ کے یسوع صاحب کے حواری لالچی اور کم عقل تھے پس جیسی ان کی عقلیں اور ہمتیں تھیں ایسی ہی ان کو ہدایت بھی ملی اور ایسا ہی یسوع بھی ان کو مل گیا.جس نے اپنی خودکشی کا دھوکا دے کر سادہ لوحوں کو عبادت کرنے سے روک دیا.اگر کہو کہ انجیل نے یہ سکھلا کر کہ خدا کو باپ کہو محبت ذاتی کی

Page 476

طرف اشارہ کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ خیال سراسر غلط ہے کیونکہ انجیلوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے خدا کے بیٹے کا لفظ دو طور سے استعمال کیا ہے (۱) اوّل تو یہ کہ مسیح کے وقت میں یہ قدیم رسم تھی کہ جو شخص رحم اور نیکی کے کام کرتا اور لوگوں سے مروت اور احسان سے پیش آتا تو وہ واشگاف کہتا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں اور اس لفظ سے اس کی یہ نیت ہوتی تھی کہ جیسے خدا نیکوں اور بدوں دونوں پر رحم کرتا ہے اور اس کے آفتاب اور ماہتاب اور بارش سے تمام بُرے بھلے فائدہ اٹھاتے ہیں ایسا ہی عام طور پر نیکی کرنا میری عادت ہے لیکن فرق اس قدر ہے کہ خدا تو ان کاموں میں بڑا ہے اور میں چھوٹا ہوں.سو انجیل نے بھی اس لحاظ سے خدا کو باپ ٹھہرایا کہ وہ بڑا ہے اور دوسروں کو بیٹا ٹھہرایا یہ نیت کرکے کہ وہ جھوٹے ہیں مگر اصل امر میں خدا سے مساوی کیا یعنی کمیّت میں کمی بیشی کو مان لیا مگر کیفیت میں باپ بیٹا ایک رہے اور یہ ایک مخفی شرک تھا اس لئے کامل کتاب یعنی قرآن شریف نے اس طرح کی بول چال کو جائز نہیں رکھا یہودیوں میں جو ناقص حالت میں تھے جائز تھا اور انہیں کی تقلید سے یسوع نے اپنی باتوں میں بیان کردیا چنانچہ انجیل کے اکثر مقامات میں اسی قسم کے اشارے پائے جاتے ہیں کہ خدا کی طرح رحم کرو خدا کی طرح صلح کار بنو خدا کی طرح دشمنوں سے بھی ایسی ہی بھلائی کرو جیسا کہ دوستوں سے تب تم خدا کے فرزند کہلاؤ گے کیونکہ اس کے کام سے تمہارا کام مشابہ ہوگا صرف اتنا فرق رہا کہ وہ بڑا بمنزلہ باپ خدا اور تم چھوٹے بمنزلہ بیٹے کے ٹھہرے سو یہ تعلیم درحقیقت یہودیوں کی کتابوں سے لی گئی تھی اسی لئے یہودیوں کا اب تک یہ اعتراض ہے کہ یہ چوری اور سرقہ ہے بائبل سے چرا کر یہ باتیں انجیل میں لکھ دیں.بہرحال یہ تعلیم ایک تو ناقص ہے اور دوسرے اس طرح کا بیٹا محبت ذاتی سے کچھ تعلق نہیں رکھتا.

Page 477

(۲) دوسری قسم کے بیٹے کا انجیل میں ایک بے ہودہ بیان ہے جیسا کہ یوحنا باب ۱۰ آیت ۳۴ میں ہے یعنی اس ورس میں بیٹا تو ایک طرف ہریک کو خواہ کیسا ہی بدمعاش ہو خدا بنادیا ہے اور دلیل یہ پیش کی ہے کہ نوشتوں کا باطل ہونا ممکن نہیں.غرض انجیل نے شخصی تقلید سے اپنی قوم کا ایک مشہور لفظ لے لیا علاوہ اس کے یہ بات خود غلط ہے کہ خدا کو باپ قرار دیا جاوے اور اس سے زیادہ تر نادان اور بے ادب کون ہوگا کہ باپ کا لفظ خدا تعالیٰ پر اطلاق کرے چنانچہ ہم اس بحث کو بفضلہ تعالیٰ کتاب منن الرحمن میں بتفصیل بیان کرچکے ہیں.اس سے آپ پر ثابت ہوگا کہ خدا تعالیٰ پر باپ کا لفظ اطلاق کرنا نہایت گندہ اور ناپاک طریق ہے.اسی وجہ سے قرآن کریم نے سمجھانے کے لئے یہ تو کہا کہ خدا تعالیٰ کو ایسی محبت سے یاد کرو جیسا کہ باپوں کو یاد کرتے ہو مگر یہ کہیں نہیں کہا کہ حقیقت میں خدا تعالیٰ کو باپ سمجھ لو.اور انجیل میں ایک اور نقص یہ ہے کہ اس نے یہ تعلیم کسی جگہ نہیں دی کہ عبادت کرنے کے وقت اعلیٰ طریق عبادت یہی ہے کہ اغراض نفسانیہ کو درمیان سے اٹھادیا جاوے بلکہ اگر کچھ سکھلایا تو صرف روٹی مانگنے کے لئے دعا سکھلائی.قرآن شریف نے تو ہمیں یہ دعا سکھلائی کہ.۱؂یعنی ہمیں اس راہ پر قائم کر جو نبیوں اور صدّیقوں کی اور عاشقان الٰہی کی راہ ہے.مگر انجیل یہ سکھلاتی ہے کہ ہماری روزینہ کی روٹی آج ہمیں بخش.ہم نے تمام انجیل پڑھ کر دیکھی اس میں اس اعلیٰ تعلیم کا نام و نشان نہیں ہے.

Page 478

اعتراض پنجم محمد صاحب کی ایک غیر عورت پر نظر پڑی.تو آپ نے گھر میں آکر اپنی بیوی سودہ سے خلوت کی پس جو شخص غیر عورت کو دیکھ کر اپنے نفس پر غالب نہیں آسکتا.جب تک اپنی عورت سے خلوت نہ کرے اور اپنے نفس کی حرص کو پورا نہ کرے تو وہ فرد اکمل کیونکر ہوسکتا ہے.اقولمیں کہتا ہوں کہ جس حدیث کے معترض نے الٹے معنے سمجھ لئے ہیں وہ صحیح مسلم میں ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں.عن جابر ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رأی امرأۃ فاتی امرأتہ زینب وھی تمعسُ منیّۃ لھا فقضی حاجتہ.اس حدیث میں سودہؓ کا کہیں ذکر نہیں اور معنے حدیث کے یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو دیکھا.پھر اپنی بیوی زینبؓ کے پاس آئے اور وہ چمڑہ کو مالش کر رہی تھی.سو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حاجت پوری کی.اب دیکھو کہ حدیث میں اس بات کا نام و نشان نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس عورت کا حسن و جمال پسند آیا بلکہ یہ بھی ذکر نہیں کہ وہ عورت جوان تھی یا بڈھی تھی اور یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ آنحضرت نے اپنی بیوی سے آکر صحبت کی.الفاظ حدیث صرف اس قدر ہیں کہ اس سے اپنی حاجت کو پورا کیا اور لفظ قَضٰی حَاجَتَہ‘ لغت عرب میں مباشرت سے خاص نہیں ہے.قضاء حاجت پاخانہ پھرنے کو بھی کہتے ہیں اور کئی معنوں کے لئے مستعمل ہوتا ہے.یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی سے صحبت کی تھی.ایک عام لفظ کو کسی خاص معنی میں محدود کرنا صریح شرارت ہے.علاوہ اس کے

Page 479

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ بات مروی نہیں کہ میں نے ایک عورت کو دیکھ کر اپنی بیوی سے صحبت کی.اصل حقیقت صرف اس قدر ہے کہ مسلم میں جابر سے ایک حدیث ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کو دیکھے.اور وہ اس کی نظر میں خوبصورت معلوم ہو.تو بہتر ہے کہ فی الفور گھر میں آکر اپنی عورت سے صحبت کر لے.تاکہ کوئی خطرہ بھی دل میں گذرنے نہ پائے اور بطور حفظ ماتقدم علاج ہوجائے.پس ممکن ہے کہ کسی صحابی نے اس حدیث کے سننے کے بعد دیکھا ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی راہ میں کوئی جوان عورت سامنے آگئی اور پھر اس کو یہ بھی اطلاع ہوگئی کہ اس وقت کے قریب ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اتفاقاً اپنی بیوی سے صحبت کی تو اس نے اس اتفاقی امر پر اپنے اجتہاد سے اپنے گمان میں ایسا ہی سمجھ لیا ہو کہ اس حدیث کے موافق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عمل کیا.پھر اگر فرض بھی کر لیں کہ وہ قول صحابی کا صحیح تھا تو اس سے کوئی بد نتیجہ نکالنا کسی بد اور خبیث آدمی کا کام ہے بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اس بات پر بہت حریص ہوتے ہیں کہ ہریک نیکی اور تقویٰ کے کام کو عملی نمونہ کے پیرایہ میں لوگوں کے دلوں میں بٹھا دیں.پس بسا اوقات وہ تنزل کے طور پر کوئی ایسا نیکی اور تقویٰ کا کام بھی کرتے ہیں جس میں محض عملی نمونہ دکھانا منظور ہوتا ہے اور ان کے نفس کو اس کی کچھ بھی حاجت نہیں ہوتی جیسا کہ ہم قانون قدرت کے آئینہ میں یہ بات حیوانات میں بھی پاتے ہیں.مثلاً ایک مرغی صرف مصنوعی طور پر اپنی منقار دانہ پر اس غرض سے مارتی ہے کہ اپنے بچوں کو سکھاوے کہ اس طرح دانہ زمین پر سے اٹھانا چاہئے سو عملی نمونہ دکھانا کامل معلّم کے لئے ضروری ہوتا ہے اور ہریک فعل معلّم کا اس کے دل کی حالت

Page 480

کا معیار نہیں ہوتا ماسوا اس کے ایک خوبصورت کو اگر اتفاقاً اس پر نظر پڑ جائے خوبصورت سمجھنا نفس الامر میں کوئی بات عیب کی نہیں.ہاں بدخطرات کامل تقدس کے برخلاف ہیں لیکن جو شخص بدخطرات سے پہلے حفظ ماتقدم کے طور پر تقویٰ کی دقیق راہوں پر قدم مارے تاخطرات سے دور رہے تو کیا ایسا عمل کمال کے منافی ہوگا.یہ تعلیم قرآن شریف کی نہایت اعلیٰ ہے کہ ۱؂.یعنی جس قدر کوئی تقویٰ کی دقیق راہیں اختیار کرے اسی قدر خدا تعالیٰ کے نزدیک اس کا زیادہ مرتبہ ہوتا ہے پس بلاشبہ یہ نہایت اعلیٰ مرتبہ تقویٰ کا ہے کہ قبل ازخطرات خطرات سے محفوظ رہنے کی تدبیر بطور حفظ ماتقدم کی جائے.اور اگر یہ دعویٰ ہو کہ کاملین بہرحال خطرات سے محفوظ رہتے ہیں ان کو تدبیر کی حاجت نہیں تو یہ دعویٰ سراسر حماقت اور قصور معرفت کی وجہ سے ہوگا کیونکہ انبیاء علیہم السلام کسی معصیت اور نافرمانی پر ایک سیکنڈ کے لئے بھی دلی عزیمت نہیں کرسکتے اور ایسا کرنا ان کے لئے کبائر ذنوب کی طرح ہے لیکن انسانی قویٰ اپنے خواص اُن میں بھی دکھلا سکتے ہیں گو وہ بدخطرات پر قائم ہونے سے بکلّی محفوظ رکھے گئے ہیں مثلاً اگر ایک نبی بشدت بھوکا ہو اور راہ میں وہ بعض درخت پھلوں سے لدے ہوئے پائے تو یہ تو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ وہ بغیر اجازت مالک پھلوں کی طرف ہاتھ لمبا نہیں کرے گا اور نہ دل میں ان پھلوں کے توڑنے کے لئے عزیمت کرے گا لیکن یہ خیال اس کو آسکتا ہے.کہ اگر یہ پھل میری ملک میں سے ہوتے تو میں ان کو کھا سکتا اور یہ خیال کمال کے منافی نہیں.آپ کو یاد ہوگا کہ آپ کے خدا صاحب تھوڑی سی بھوک کے عذاب پر صبر نہ کر کے کیونکر انجیر کے

Page 481

درخت کی طرف دوڑے گئے کیا آپ ثابت کرسکتے ہیں کہ یہ درخت ان کا یا ان کے والد صاحب کی ملک میں سے تھا.پس جو شخص بیگانہ درخت کو دیکھ کر اپنے نفس پر غالب نہ آسکا اور پیٹ کو بھینٹ چڑھانے کے لئے اس کی طرف دوڑا گیا وہ خدا تو کیا بلکہ بقول آپ کے فرد اکمل بھی نہیں.الغرض کسی کے دل میں یہ خیال گذرنا کہ یہ چیز خوبصورت ہے یہ ایک علیحدہ امر ہے جس کو خدا نے آنکھیں دی ہیں جیسے وہ کانٹے اور پھول میں فرق کرسکتا ہے.ایسا ہی وہ خوبصورت اور بدصورت میں فرق کرسکتا ہے آپ کے خدا صاحب کو شاید یہ قوت ممیزہ فطرت سے نہیں ملی ہوگی مگر پیٹ کی شہوت کے لئے تو انجیر کے درخت کی طرف دوڑے یہ بھی نہ سوچا کہ یہ کس کا انجیر ہے.تعجب کہ ایک شرابی اور کھاؤ پیو کو شہوت پرست نہ کہا جائے اور وہ پاک ذات جس کی زندگی اور جس کا ہریک فعل خدا کے لئے تھا اس کا نام اس زمانہ کے پلید طبع شہوت پرست رکھیں عجب تاریکی کا زمانہ ہے.یہ اسلام کی اعلیٰ تعلیم کا ایک نمونہ ہے کہ ہرگز قصداً کسی عورت کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھو کہ یہ بدنظری کا پیش خیمہ ہے اور اگر اتفاقاً کسی خوبصورت عورت پر نظر پڑے اور وہ خوبصورت معلوم ہو تو اپنی عورت سے صحبت کر کے اس خیال کو ٹال دو.خوب یاد رکھو کہ یہ تعلیم اور یہ حکم حفظ ماتقدم کے طور پر ہے جو شخص مثلاً ہیضہ کے دنوں میں ہیضہ سے بچنے کے لئے حفظ ماتقدم کے طور پر کوئی دوا استعمال کرتا ہے تو کیا کہہ سکتے ہیں کہ اس کو ہیضہ ہوگیا ہے یا ہیضہ کے آثار اس میں ظاہر ہوگئے ہیں بلکہ یہ بات اس کی دانشمندی میں محسوب ہوگی اور سمجھا جائے گا کہ وہ اس بیماری سے طبعاً نفرت رکھتا ہے اور اس سے

Page 482

دور رہنا چاہتا ہے.اس بات میں آپ کے ساتھ کوئی بھی اتفاق نہیں کرے گا کہ تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرنا کمال کے برخلاف ہے.اگر انبیاء علیہم السلام تقویٰ کا نمونہ نہ دکھلاویں تو اور کون دکھلاوے جو خدا ترسی میں سب سے بڑھ کر ہوتا ہے وہی سب سے بڑھ کر تقویٰ بھی اختیار کرتا ہے وہ بدی سے اپنے تئیں دور رکھتا ہے وہ ان راہوں کو چھوڑ دیتا ہے جس میں بدی کا احتمال ہوتا ہے مگر آپ کے یسوع صاحب کی نسبت کیا کہیں اور کیا لکھیں اور کب تک ان کے حال پر روویں کیا یہ مناسب تھا کہ وہ ایک زانیہ عورت کو یہ موقعہ دیتا کہ وہ عین جوانی اور حسن کی حالت میں ننگے سر اس سے مل کر بیٹھتی اور نہایت ناز اور نخرہ سے اس کے پاؤں پر اپنے بال ملتی اور حرام کاری کے عطر سے اس کے سر پر مالش کرتی اگر یسوع کا دل بدخیالات سے پاک ہوتا تو وہ ایک کسبی عورت کو نزدیک آنے سے ضرور منع کرتا مگر ایسے لوگوں کو حرام کار عورتوں کے چھونے سے مزہ آتا ہے.وہ ایسے نفسانی موقعہ پر کسی ناصح کی نصیحت بھی نہیں سنا کرتے.دیکھو یسوع کو ایک غیرت مند بزرگ نے نصیحت کے ارادہ سے روکنا چاہا کہ ایسی حرکت کرنا مناسب نہیں مگر یسوع نے اس کے چہرہ کی ترش روئی سے سمجھ لیا کہ میری اس حرکت سے یہ شخص بیزار ہے تو رندوں کی طرح اعتراض کو باتوں میں ٹال دیا اور دعویٰ کیا کہ یہ کنجری بڑی اخلاص مند ہے.ایسا اخلاص تو تجھ میں بھی نہیں پایا گیا.سبحان اللہ یہ کیا عمدہ جواب ہے.یسوع صاحب ایک زنا کار عورت کی تعریف کر رہے ہیں کہ بڑی نیک بخت ہے.دعویٰ خدائی کا اور کام ایسے.بھلا جو شخص ہر وقت شراب سے سرمست رہتا ہے اور کنجریوں سے میل جول رکھتا ہے اور کھانے پینے میں بھی ایسا اول نمبر کا جو لوگوں میں یہ اس کا نام ہی

Page 483

پڑ گیا ہے کہ یہ کھاؤ پیو ہے.اس سے کس تقویٰ اور نیک بختی کی امید ہوسکتی ہے ہمار ے سیّد و مولیٰ افضل الانبیاء خیر الاصفیاء محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کا تقویٰ دیکھئے کہ وہ ان عورتوں کے ہاتھ سے بھی ہاتھ نہیں ملاتے تھے جو پاک دامن اور نیک بخت ہوتی تھیں اور بیعت کرنے کے لئے آتی تھیں بلکہ دور بٹھا کر صرف زبانی تلقین توبہ کرتے تھے مگر کون عقلمند اور پرہیز گار ایسے شخص کو پاک باطن سمجھے گا جو جوان عورتوں کے چھونے سے پرہیز نہیں کرتا ایک کنجری خوبصورت ایسی قریب بیٹھی ہے گویا بغل میں ہے کبھی ہاتھ لمبا کر کے سر پر عطر مل رہی ہے کبھی پیروں کو پکڑتی ہے اور کبھی اپنے خوشمنا اور سیاہ بالوں کو پیروں پر رکھ دیتی ہے اور گود میں تماشہ کررہی ہے یسوع صاحب اس حالت میں وجد میں بیٹھے ہیں اور کوئی اعتراض کرنے لگے تو اس کو جھڑک دیتے ہیں.اور طرفہ یہ کہ عمر جوان اور شراب پینے کی عادت اور پھر مجرد اور ایک خوبصورت کسبی عورت سامنے پڑی ہے.جسم کے ساتھ جسم لگا رہی ہے.کیا یہ نیک آدمیوں کا کام ہے اور اس پر کیا دلیل ہے کہ اس کسبی کے چھونے سے یسوع کی شہوت نے جنبش نہیں کی تھی.افسوس کہ یسوع کو یہ بھی میسر نہیں تھا کہ اس فاسقہ پر نظر ڈالنے کے بعد اپنی کسی بیوی سے صحبت کر لیتا.کم بخت زانیہ کے چھونے سے اور ناز و ادا کرنے سے کیا کچھ نفسانی جذبات پیدا ہوئے ہوں گے اور شہوت کے جوش نے پورے طور پر کام کیا ہوگا اسی وجہ سے یسوع کے منہ سے یہ بھی نہ نکلا کہ اے حرام کار عورت مجھ سے دور رہ اور یہ بات انجیل سے ثابت ہوتی ہے کہ وہ عورت طوائف میں سے تھی اور زنا کاری میں سارے شہر میں مشہور تھی.

Page 484

اعتراض ششم متعہ کا جائز کرنا اور پھر ناجائز کرنا اما الجواب نادان عیسائیوں کو معلوم نہیں کہ اسلام نے متعہ کو رواج نہیں دیا.بلکہ جہان تک ممکن تھا اس کو دنیا میں سے گھٹایا اسلام سے پہلے نہ صرف عرب میں بلکہ دنیا کی اکثر قوموں میں متعہ کی رسم تھی یعنی یہ کہ ایک وقت خاص تک نکاح کرنا پھر طلاق دے دینا اور اس رسم کے پھیلانے والے اسباب میں سے ایک یہ بھی سبب تھا کہ جو لوگ لشکروں میں منسلک ہوکر دوسرے ملکوں میں جاتے تھے یا بطریق تجارت ایک مدت تک دوسرے ملک میں رہتے تھے ان کو موقت نکاح یعنی متعہ کی ضرورت پڑتی تھی اور کبھی یہ بھی باعث ہوتا کہ غیر ملک کی عورتیں پہلے سے بتلا دیتی تھیں کہ وہ ساتھ جانے پر راضی نہیں اس لئے اسی نیت سے نکاح ہوتا تھا کہ فلاں تاریخ طلاق دی جائے گی.پس یہ سچ ہے کہ ایک دفعہ یا دو دفعہ اس قدیم رسم پر بعض مسلمانوں نے بھی عمل کیا*.مگر وحی اور الہام سے نہیں بلکہ جو قوم میں پرانی رسم تھی معمولی طور پر اس پر عمل ہوگیا لیکن متعہ میں بجز اس کے اور کوئی بات نہیں کہ وہ ایک تاریخ مقررہ تک نکاح ہوتا ہے اور وحی الٰہی نے آخر اس کو حرام کر دیا چنانچہ ہم رسالہ آریہ دھرم میں اس کی تفصیل لکھ چکے ہیں مگر تعجب کہ عیسائی لوگ کیوں متعہ کا ذکر کرتے ہیں جو صرف ایک نکاح موقت ہے اپنے یسوع کے چال چلن کو کیوں نہیں دیکھتے * نوٹ:یہ عمل سخت اضطرار کے وقت تھا جیسے بھوک سے مرنے والا مُردہ کھا لے.

Page 485

کہ وہ ایسی جوان عورتوں پر نظر ڈالتا ہے جن پر نظر ڈالنا اس کو درست نہ تھا.کیا جائز تھا کہ ایک کسبی کے ساتھ وہ ہم نشین ہوتا.کاش اگر وہ متعہ کا ہی پابند ہوتا تو ان حرکات سے بچ جاتا.کیا یسوع کی بزرگ دادیوں نانیوں نے متعہ کیا تھا یا صریح صریح زنا کاری تھی ہم عیسائی صاحبوں سے پوچھتے ہیں کہ جس مذہب میں نہ متعہ یعنی نکاح موقت درست ہے اور نہ ازدواج ثانی جائز اس مذہب کے لشکری لوگ جو بباعث رعایت حفظ قوت کے راہبانہ زندگی بھی بسر نہیں کرسکتے بلکہ شہوت کی جنبش دینے والی شرابیں پیتے ہیں اور عمدہ سے عمدہ خوراکیں کھاتے ہیں تا سپاہیانہ کاموں کے بجا لانے میں چست و چالاک رہیں جیسے گوروں کی پلٹنیں وہ کیونکر بدکاریوں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہیں اور ان کی حفظ عفت کے لئے انجیل میں کیا قانون ہے اور اگر کوئی قانون تھا اور انجیل میں ایسے مجردوں کا کچھ علاج لکھا تھا تو پھر کیوں سرکار انگریزی نے ایکٹ چھاؤنی ہائے نمبر ۱۳ ۱۸۸۹ ؁ء جاری کرکے یہ انتظام کیا کہ گورہ سپاہی فاحشہ عورتوں کے ساتھ خراب ہوا کریں یہاں تک کہ سر جارج رائٹ صاحب کمانڈر انچیف افواج ہند نے ماتحت حکام کو ترغیب دی کہ ایسی خوبصورت اور جوان عورتیں گوروں کی زنا کاری کے لئے بہم پہنچائی جائیں یہ ظاہر ہے کہ اگر ایسی ضرورتوں کے وقت جنہوں نے حکام کو ان قابل شرم تجویزوں کے لئے مجبور کیا انجیلوں میں کوئی تدبیر ہوتی تو وہ حلال طریق کو چھوڑ کر ناپاک طریقوں کو اپنے بہادر سپاہیوں میں رواج نہ دیتے.اسلام میں کثرت ازدواج کی برکتوں نے ہریک زمانہ میں سلاطین کو ان ناپاک تدبیروں سے بچا لیا اسلامی سپاہی نکاح سے اپنے تئیں حرام کاری سے بچا لیتے ہیں اگر پادری صاحبان کوئی مخفی تدابیر انجیل کی حرام کاری سے بچانے کی یاد رکھتے ہیں تو اس طریق سے

Page 486

گورنمنٹ کو روک دیں.کیونکہ اخبار ٹائمز نے اب پھر زور شور سے اس قانون کو دوبارہ جاری کرنے کے لئے سلسلہ جنبانی کی ہے یہ سب باتیں اس بات پر گواہ ہیں کہ انجیل کی تعلیم ناقص ہے.اور اس میں تمدن کے ہریک پہلو کا لحاظ نہیں کیا گیا.باقی آئندہ.انشاء اللہ.الراقم : میرزا غلام احمد قادیانی بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ.اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی مَا مَضٰی وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ علٰی ما بقی والصّلٰوۃ وَالسَّلَامُ علٰی مُحَمَّدٍ خَےْر الورٰی وَ اَھْلَ بَیْتِ الْمُصْطَفٰی و علی المؤمنین بنبیّہ المجتبٰی: محبان اہل اسلام کو واضح ہو کہ اس عرصہ میں ایک کتاب نُور الحَق مرسلہ امام الہمام میرزا غلام احمد صاحب قادیانی میرے پاس پہنچی اس کو میں نے دیکھا اور نیز کچھ تحریرات متعلقہ محمد حسین بطالوی نظر سے گذریں.جن کو دیکھ کر سخت افسوس ہوا کہ باوجود اس فہم و ذکا اور شہرہ آفاق ہونے کے اور چند عرصہ تک میرزا صاحب کی قدم بوسی حاصل کرنے کے اور ثنا گو ہونے کے بھی یکبارگی ایسے لوٹے کہ کفر تک نوبت پہنچا دی (ببیں تفاوت راہ از کجاست تابکجا) حالانکہ زمانہ کی بھی کیفیت مثل آئینہ کے کھل رہی ہے اور دیکھ رہے ہیں کہ قوم دجّال پوری دجالیت کر رہی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کا فرمانا صادق ہوتا جاتا ہے اور اس پر بھی مقصد لِکُلّ فرعون موسٰیکا نہیں سمجھتے اور کیونکر سمجھ سکتے ہیں جبکہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے.۱؂ اسی جگہ پر قدرت کبریائی نظر آتی ہے کہ جس کسی کو گمراہ کرانا منظور ہوتا ہے تو ایسے ہی اسباب پیدا کر دیتا ہے.جن باتوں کو علماء محققین نکات ٹھہراتے تھے یہ صاحب کفریات جانتے ہیں زمانہ کے حال کو بھولے جاتے ہیں آج جو ہمارے پیغمبر آخرالزمان کے جھنڈے کا پھریرہ اڑا رہا ہے اور اس کے دین

Page 487

کو زندہ کر رہا ہے.ہمارا حامی و مددگار ہو رہا ہے ہمارے دشمنان دین کو زیر قدم کر رہا ہے کرامت کا جو آج کل بے نام و نشان ہے دعویٰ کر رہا ہے.جیسا کہ لائق ہے اس پر کفر کے فتوے لگاتے ہیں.ویل ان لوگوں پر جو ایسا خیال رکھتے ہیں فی زمانہ فلسفہ طبعی والوں کے نزدیک کرامت کوئی چیز نہیں.دیکھئے فرقہ نیچریہ عجب ڈھب کا نکلا ہے کہ جس وقت ایسی بحث آکر ہوتی ہے تو فوراً کہہ دیتے ہیں کوئی نہیں کر کے دکھلائے اگر کرامت کا قائل ہے اگر کرامت یا معجزات نعوذ باللہ بے وجود سمجھے جاتے ہیں تو اس کا اثر بد کہاں تک پہنچتا ہے یہ شکر کا مقام تھا کہ ہماری کشتی جو بھنور میں چکرا رہی تھی ایک ملاح نے اس کو آکر نکال لیا اس کو تسلیم کرتے نہ اس پر الزام کذب و فریب لگاتے.اس وقت یہ بندہ کہتا ہے کہ جیسا مجھ کومعلوم ہوا ہے اور وہ حق ہے تو بے شک امام ہمام میرزا غلام احمد صاحب مُجَدّد وقت ہیں اور میں بصد اشتیاق ان کے دیدار کا طالب ہوں اور شب و روز اللہ جلّ و علیٰ سے مستدعی ہوں کہ اگر مرزا صاحب کو تو نے حق پر بھیجا ہے تو مجھ کو بھی ان کی زیارت سے مشرف کر اور اُسی جماعت مومنین سے شمار کیا جاؤں میں پہلے متذبذب تھا اب یقیناً بعد دریافت ثبوت صحیحہ کہتا ہوں کہ جو میں نے لکھا ہے سب صحیح اور حق ہے اور میں انہیں مجدد صادق سمجھتا ہوں.والسلام.الراقم: عضد الدین از بچھرایوں ضلع مراد آباد

Page 488

اُن صاحبوں کے نام جو آجکل حضرت امام کامل کی خدمت میں حاضر ہیں (۱) حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب بھیروی (۲) حکیم فضل الدین صاحب بھیروی (۳) مولوی قطب الدین صاحب بدوملی (۴) صاحبزادہ افتخار احمد صاحب لدھیانہ (۵) صاحبزادہ منظور محمد صاحب لدھیانہ (۶) مولوی عنایت اللہ صاحب مدرس مانانوالہ ضلع گوجرانوالہ (۷) قاضی ضیاء الدین صاحب قاضی کوٹی ضلع گوجرانوالہ (۸) خلیفہ نور الدین صاحب جموں (۹) سید ناصر نواب صاحب دہلوی (۱۰) شیخ عبد الرحیم صاحب* (۱۱) شیخ عبد العزیز صاحب (۱۲) حاجی وریام صاحب خوشابی (۱۳) ثناء اللہ صاحب خوشابی (۱۴) مولوی خدا بخش صاحب جالندھری (۱۵) عبد الکریم صاحب خوشنویس (۱۶) شیخ غلام محی الدین صاحب کتب فروش جہلمی (۱۷) شیخ حامد علی صاحب (۱۸) میرزا اسمٰعیل صاحب قادیانی (۱۹) سید محمد کبیر دہلوی (۲۰) خدا بخش صاحب ماڑوی ضلع جھنگ (۲۱) حاجی حافظ * حاشیہ: شیخ عبد الرحیم صاحب جوان صالح اور متقی شخص ہیں ان کے ایمان اور اسلام پر ہمیں بھی رشک پیدا ہوتاہے ان کو اسلام لانے کے وقت کئی اک سخت ابتلا پیش آئے لیکن انہوں نے ایسے سخت ابتلاء کے وقت بڑی ثابت قدمی اور استقامت دکھلائی محض ابتغاءً لمرضات اللہ دفعہ داری چھوڑ کر قادیان میں امام کامل کے ہاتھ پر اسلام و بیعت سے مشرف ہوئے قرآن شریف سے کامل اُلفت ہے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سے معہ ترجمہ اور تفسیر قرآن چند ماہ میں پڑھا.شیخ عبد اللہ صاحب جوان صالح ہیں.رشد کے آثار اور اتقا کے نشان ان کے بشرہ سے ظاہر ہوتے ہیں.جب انہوں نے اسلام کی طرف میلان کیا تو کئی ابتلاء پیش آئے.از انجملہ ایک یہ ہے کہ لیکھرام آریہ سے کئی بار مباحثہ ہوا آخر کار لیکھرام کو انہوں نے شکست فاش دی چونکہ آریہ تھے اس تعلیم خراب سے دستبر دار ہوکر اسلام زور شور سے قبول کیا اور امام وقت سے بیعت کی یہ مجھ سے کہتے تھے کہ ازالہ اوہام کے دیکھنے سے مجھے اسلام کا شوق پیدا ہوا اور جب پیشگوئی (جو آتھم کے

Page 489

احمد اللہ خاں صاحب (۲۲) حافظ معین الدین صاحب (۲۳) مولوی غلام احمد صاحب کھبکیّ (۲۴) حافظ قطب الدین صاحب کوٹلہ فقیر جہلم (۲۵) مولوی سید مردان علی صاحب حیدر آبادی (۲۶) مولوی شیخ احمد صاحب (۲۷) میرزا ایوب بیگ صاحب (۲۸) عاجز سراج الحق.شیخ فضل الٰہی کلانوری.نمبر اول نور القرآن جو تین ۳ماہ کا اکٹھا چھپ کر شائع ہوچکا ہے اس میں جو ایک روپیہ سالانہ قیمت رکھی گئی ہے سو وہ قانون اب منسوخ کیا جاتا ہے اور اس کی جگہ قیمت کا یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ جو نمبر مطبع سے جس قدر شائع ہو.اس کی قیمت دست بدست خریدار روانہ کریں.یہ رسالہ ویلیوپے ایبل یا نقد قیمت بذریعہ منی آرڈر روانہ ہوسکتا ہے اور جو صاحب ٹکٹ روانہ کریں وہ آدھ آنہ والے ٹکٹ بھیجیں یا ایک آنہ والے دو دو چار چار آنہ والے ٹکٹ روانہ نہ کریں.دور دراز بلاد کے رہنے والے جیسے مدراس یا ملک آسام یا ممالک متوسط پر واجب ہے کہ دو آنہ رجسٹری کے بھی علاوہ قیمت روانہ کریں تاکہ رسالہ کے گم ہونے کا خطرہ نہ رہے.جس صاحب کے پاس یہ رسالہ پہنچے مناسب ہے کہ دوسروں کو بھی دکھلا دیں.اور اس کے خریدار پیدا کرنے کے لئے جہاں تک ممکن ہو کوشش اور سعی کریں یہ ایک نئی طرز کار سالہ مخالفین اسلام کے رد میں شائع ہوا ہے.اس رنگ ڈھنگ کا رسالہ کہیں نہ دیکھو گے.اس نور القراٰن نمبر ۲ کی قیمت ۸ ؍ ہے.بقیہ حاشیہ: رجوع الی الحق یا موت کی تھی اس کا رجوع الی الحق ہونا اور موت سے بچنا پوری ہوگئی.سچے دل سے اسلام لایا اور امام وقت کی شناخت حاصل ہوئی.الحمد للہ.سراج الحق نوٹ: شیخ عبد العزیز صاحب بھی ابھی تھوڑا عرصہ ہوا قادیان میں مشرف باسلام ہوئے.نیک صالح آدمی ہیں.اس جوانی میں صلاحیت حاصل ہونا محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.ان کے سوا اور بھی کئی مسلمان ہوئے چار شخص عیسائی مسلمان ہوئے جو وہ اب لاہور میں موجود ہیں.سراج الحق

Page 490

حضرت عبد اللہ صاحب مرحوم غزنوی کا ایک کشف شیخ محمد حسین بطالوی کی نسبت جس کو جناب قاضی ضیاء الدین صاحب ساکن قاضی کوٹ ضلع گوجرانوالہ نے اپنے کانوں سے سنا اور شیخ صاحب کی طرف محض اصلاح روحانی کے لئے لکھ کر روانہ کیا.سو وہ ہم اس رسالہ میں درج کرتے ہیں.اگرچہ شیخ صاحب کی نسبت ہمارا یقین ہے کہ وہ اس سے متنبہ ہونے والے نہیں لیکن ہم ان کے بعض ہم خیال اور محبوں پر ایک قسم کا حسن ظن رکھتے ہیں کہ وہ اس سے فائدہ حاصل کریں گے واللہ ولی التوفیق وہ کشف ذیل میں درج ہے.خاکسار سراج الحق نعمانی ھُوَ الْہَادِیْ بِسْمِ اللّٰہ الرحمٰن الرحیم.نحمدہ و نصلّیمکرمی مولوی محمد حسین صاحب بعد شوق ملاقات آنکہ یہ جو آج کل آپ دربارہ تکفیر و تضلیل حضرت مسیح موعود میرزا غلام احمد صاحب قادیانی جن کو آپ پہلے مجدد وقت تسلیم کرچکے ہیں سرگرم ہیں اور یہاں تک سرگرمی ہے کہ آپ نے اپنے لکھے ہوئے مضمون کفر و کافر مندرجہ اشاعہ کی بھی پرواہ نہیں کی جس کی شامت سے اب صریح سوء خاتمہ کے آثار ظاہر ہیں آپ کی اس حالت کو دیکھ کر عاجز کا دل بلحاظ حبّ بنی نوع پگھل آیا لہٰذا بحکم اَلدِّیْنُ اَلنَّصِیْحَۃُ مَیں نے چاہا کہ آپ کو اس شیمہ نامرضیہ سے للہ متنبہ کروں شاید اللہ تعالیٰ جو رحیم و کریم ہے رحم فرماوے اور اس بارے میں یہ ایک الہام عبد اللہ غزنوی مرحوم ہے جو آپ کی نسبت ان کو ہوا تھا اور اسی زمانہ میں آپ کو سنا بھی دیا تھا شائد وہ آپ کو یاد ہو یا نہ ہو اب میں آپ کو دوبارہ سناتا ہوں اور مجھے کئی بار تجربہ ہوچکا ہے کہ مولوی لوگ اپنے ہم عصر کی بات سے گو کیسی ہی مفید ہو کم متاثر ہوتے ہیں اب وہ مرحوم تو فوت ہوچکے شاید

Page 491

آپ ان سے علاقہ بیعت بھی رکھتے تھے.تعجب نہیں کہ آپ کو ان کے الہام سے فائدہ پہنچے.عاجز کی غرض سوائے خیر خواہی اور اتفاق بین المسلمین اور کچھ نہیں مَیں حلفاًبیان کرتا ہوں وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًاکہ یہ الہام میں نے خود حضرت مرحوم سے سنا ہے.خدا کے لئے جاگتے دل سے سنو.وہو ہٰذا می بینم کہ محمد حسین پیراہنے کلان پوشیدہ است لاکن پارہ پارہ شدہ است.پھر آپ ہی یہ تعبیر فرمائی کہ آن پیراہن علم است کہ پارہ پارہ خواہد شد اور پارہ پارہ زبان سے کہتے تھے اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سینہ سے لے کر پنڈلیوں تک بار بار اشارہ کرتے تھے.پھر عاجز کو فرمایا کہ آنرا با یدگفت کہ توبہ کردہ باشد.چنانچہ حسب الوصیت میں نے آپ کو یہ حال سنایا تھا.آپ نے عاجز کو چینیاں والی مسجد لاہور میں تمسخر آمیز الفاظ سے پیغام دیا تھا کہ ولی بننے جاتے ہیں عبد اللہ کو کہنا کہ مجھے بھی بلاوے.اس پیغام کے بعد انہوں نے ملا سفر کے روبرو الہام مذکور فرمایا اور میں نے امرتسر میں بمکان حافظ محمد یوسف صاحب جہاں حافظ عبد المنان رہتا تھا حرف بحرف آپ کو سنا دیا تھا.مجھے خوب یاد ہے کہ اس وقت آپ متاثر ہوگئے تھے.جس سے مطالعہ کتاب بھی چھوٹ گیا تھا.میں نے انہی دنوں اپنے گاؤں کے لوگوں کو بھی سنا دیا تھا جو وہ اب گواہی دے سکتے ہیں.غرضکہ یہ منذر الہام ان دنوں میں پورا ہوا جس کا اثر اب ظاہر ہوا کہ مرزا صاحب کے مقابل پر آپ کی ساری علمیت ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی اور علم کے لاف و گزاف بھی ہیچ محض ثابت ہوئے.لہٰذا یہ الہام بے شک سچا ہے.مولوی صاحب میں نے وقت پر دوبارہ آپ کو یاد دلایا ہے آپ عبرت پکڑیں اور توبہ کریں اور اس مصلح اور مجدد اور امام کامل اور

Page 492

مسیح موعود ایدہ اللہ کی عداوت سے دست بردار ہو جائیں.ورنہ حسرت سے دانت پیسنا اور رونا ہوگا.آئندہ اختیار بدست مختار.شعر گر امروز ایں پند من نشنوی یقین دان کہ فردا پشیمان شوی و ما علینا الا البلاغ الراقم المسکین ضیاء الدین عفا عنہ ۲۰؍ دسمبر ۱۸۹۵ ؁ء نوٹ: نور القرآن نمبر ۲ کے خاتمہ پر بعض ایڈیشنوں میں حاشیہ متعلقہ صفحہ ۱۶۴ مرہم حواریین جس کا دوسرا نام مرہم عیسیٰ بھی ہے.اور آٹھ صفحات کا حاشیہ اور حاشیہ در حاشیہ متعلقہ صفحہ ۱۶۴ دو صفحات کا حاشیہ لکھا گیا ہے.یہ حاشیہ درحقیقت ست بچن کتاب سے تعلق رکھتا ہے.اس لئے ہم نے نور القرآن نمبر ۲ کے آخر میں ان دونوں حاشیوں کو درج نہیں کیا.ست بچن کے ساتھ درج کئے جائیں گے.شمس

Page 493