Nurul-Quran Number 1

Nurul-Quran Number 1

نورالقرآن نمبر 1

Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR
Ruhani Khazain

قرآن کریم کے روحانی کمالات کے اظہار اور ان باتوں کے شائع کرنے کے لیے جو راہ راست کے جاننے اور سمجھنے اور شناخت کرنے کا ذریعہ ہوں اور جن سے وہ سچّا فلسفہ معلوم ہو جو دلوں کو تسلّی دیتا اور روح کو سکینت اور آرام بخشتا اور ایمان کو عرفان کے رنگ میں لے آتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک ماہوار رسالہ جاری کرنے کا ارادہ فرمایا اور بالفعل ایک رسالہ بنام نور القرآن جاری فرمایا مگر افسوس کہ کثرت مشاغل و مصروفیات کے باعث اس کے صرف دو نمبر ہی نکل سکے۔ پہلا نمبر تین ماہ یعنی بابت ماہ جون، جولائی و اگست ۱۸۹۵ء شائع ہوا۔ نور القرآن نمبر ۱ میں آپؑ نے قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر دلائل قاطعہ و براہین ساطعہ تحریر فرمائے۔


Book Content

Page 358

Page 359

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ اشتہار کتاب مِنَنُ الرَّحمٰن یہ ایک نہایت عجیب و غریب کتاب ہے جس کی طرف قرآن شریف کی بعض پُر حکمت آیات نے ہمیں توجہ دلائی.سو قرآن عظیم نے یہ بھی دنیا پر ایک بھاری احسان کیا ہے جو اختلاف لغات کا اصل صرف بیان کر دیا اور ہمیں اس دقیق بات پر مطلع کر دیا کہ انسانی بولیاں کس منبع اورمعدن سے نکلی ہیں اور کیسے وہ لوگ دھوکا میں رہے جنہوں نے اس بات کو قبول نہ کیا جو انسانی بولی کی جڑ خدا تعالیٰ کی تعلیم ہے اور واضح ہو کہ اس کتاب میں تحقیق السنہ کی رو سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ دنیا میں صرف قرآن شریف ایک ایسی کتاب ہے جو اس زبان میں نازل ہوا ہے.جو ام الالسنہ اور الہامی اور تمام بولیوں کا منبع اور سرچشمہ ہے.یہ بات ظاہر ہے کہ الٰہی کتاب کی تمام تر زینت اور فضیلت اسی میں ہے جو ایسی زبان میں ہو جو خدا تعالیٰ کے منہ سے نکلی اور اپنی خوبیوں میں تمام زبانوں سے بڑھی ہوئی اور اپنے نظام میں کامل ہو اور جب ہم کسی زبان میں وہ کمال

Page 360

پاویں جس کے پیدا کرنے سے انسانی طاقتیں اور بشری بناوٹیں عاجز ہوں اور وہ خوبیاں دیکھیں جو دوسری زبانیں ان سے قاصر اور محروم ہوں اور وہ خواص مشاہدہ کریں جو بجز خدا تعالیٰ کے قدیم اور صحیح علم کے کسی مخلوق کا ذہن ان کا موجد نہ ہوسکے تو ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ وہ زبان خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.سو کامل اور عمیق تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ وہ زبان عربی ہے اگرچہ بہت سے لوگوں نے ان باتوں کی تحقیقات میں اپنی عمریں گذاری ہیں اور بہت کوشش کی ہے جو اس بات کا پتہ لگاویں جو اُمّ الالسنہ کون سی زبان ہے مگر چونکہ ان کی کوششیں خط مستقیم پر نہیں تھیں اور نیز خدا تعالیٰ سے توفیق یافتہ نہ تھے اس لئے وہ کامیاب نہ ہوسکے اور یہ بھی وجہ تھی کہ عربی زبان کی طرف ان کی پوری توجہ نہ تھی بلکہ ایک بخل تھا لہٰذا وہ حقیقت شناسی سے محروم رہ گئے اب ہمیں خدا تعالیٰ کے مقدس اور پاک کلام قرآن شریف سے اس بات کی ہدایت ہوئی کہ وہ الہامی زبان اور اُمّ الالسنہ جس کے لئے پارسیوں نے اپنی جگہ اور عبرانی والوں نے اپنی جگہ اور آریہ قوم نے اپنی جگہ دعوے کئے کہ انہیں کی وہ زبان ہے وہ عربی مبین ہے اور دوسرے تمام دعوے دار غلطی پر اور خطا پر ہیں.اگرچہ ہم نے اس رائے کو سرسری طور پر ظاہر نہیں کیا بلکہ اپنی جگہ پُوری تحقیقات کر لی ہے اور ہزارہا الفاظ سنسکرت وغیرہ کا مقابلہ کرکے اور ہریک لغت کے ماہروں کی کتابوں سے سن کر اور خوب عمیق نظر ڈال کر اس نتیجہ تک پہنچے ہیں کہ زبان عربی کے سامنے سنسکرت وغیرہ زبانوں میں کچھ بھی خوبی نہیں پائی جاتی بلکہ عربی کے الفاظ کے مقابل پر ان زبانوں کے الفاظ لنگڑوں، لولوں، اندھوں، بہروں، مبروصوں، مجذوموں کے

Page 361

مشابہ ہیں جو فطری نظام کو بکلی کھو بیٹھے ہیں.اور کافی ذخیرہ مفردات کا جو کامل زبان کے لئے شرط ضروری ہے اپنے ساتھ نہیں رکھتے.لیکن اگر ہم کسی آریہ صاحب یا کسی پادری صاحب کی رائے میں غلطی پر ہیں اور ہماری یہ تحقیقات ان کی رائے میں اس وجہ سے صحیح نہیں ہے کہ ہم ان زبانوں سے ناواقف ہیں.تو اول ہماری طرف سے جواب یہ ہے کہ جس طرز سے ہم نے اس بحث کا فیصلہ کیا ہے اس میں کچھ ضروری نہ تھا کہ ہم سنسکرت وغیرہ زبانوں کے املاء انشاء سے بخوبی واقف ہوجائیں.ہمیں صرف سنسکرت وغیرہ کے مفردات کی ضرورت تھی سو ہم نے کافی ذخیرہ مفردات کا جمع کرلیا ہے اور پنڈتوں اور یورپ کے زبانوں کے ماہروں کی ایک جماعت سے ان مفردات کے معنوں کی بھی جہاں تک ممکن تھا تنقیح کرلی اور انگریز محققوں کی کتابوں کو بھی بخوبی غور سے سن لیا.اور ان باتوں کو مباحثات میں ڈال کر بخوبی صاف کر لیا.اور پھر سنسکرت وغیرہ زبان دانوں سے مکرر شہادت لے لی جس سے یقین ہوگیا کہ درحقیقت ویدک سنسکرت وغیرہ زبانیں ان خوبیوں سے عاری اور بے بہرہ ہیں جو عربی زبان میں ثابت ہوئیں.پھر دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر کسی آریہ صاحب یا کسی اور مخالف کو یہ تحقیقات ہماری منظور نہیں تو ان کو ہم بذریعہ اس اشتہار کے اطلاع دیتے ہیں کہ ہم نے زبان عربی کی فضیلت اور کمال اور فوق الالسنہ ہونے کے دلائل اپنی اس کتاب میں مبسوط طور پر لکھ دیئے ہیں جو بہ تفصیل ذیل ہیں.(۱) عربی کے مفردات کا نظام کامل ہے.(۲) عربی اعلیٰ درجہ کی علمی وجوہ تسمیہ پر مشتمل ہے جو فوق العادت ہیں.(۳) عربی کا سلسلہ اطراد مواد اتم و اکمل ہے.

Page 362

(۴) عربی کی تراکیب میں الفاظ کم اور معانی زیادہ ہیں.(۵) عربی زبان انسانی ضمائر کا پورا نقشہ کھینچنے کے لئے پوری پوری طاقت اپنے اندر رکھتی ہے.اب ہر یک کو اختیار ہے کہ ہماری کتاب کے چھپنے کے بعد اگر ممکن ہو تو یہ کمالات سنسکرت یا کسی اور زبان میں ثابت کرے یا اس اشتہار کے پہنچنے کے بعد ہمیں اپنے منشاء سے اطلاع دے کہ وہ کیونکر اور کس طور سے اپنی تسلی کرنا چاہتا ہے.یا اگر اس کو ان فضائل میں کچھ کلام ہے یا سنسکرت وغیرہ کی بھی کوئی ذاتی خوبیاں بتلانا چاہتا ہے تو بے شک پیش کر دیوے ہم غور سے اس کی بات کو سنیں گے.مگر چونکہ اکثر وہمی مزاج اس قسم کے بھی ہریک قوم میں پائے جاتے ہیں کہ یہ خدشہ ان کے دل میں باقی رہ جاتا ہے کہ شاید سنسکرت وغیرہ میں کوئی ایسے چھپے ہوئے کمالات ہوں جو انہیں لوگوں کو معلوم ہوں جو ان زبانوں کی کتابوں کو پڑھتے پڑھاتے ہیں اس لئے ہم نے اس کتاب کے ساتھ پانچ ہزار روپیہ کا انعامی اشتہار بھی شائع کر دیا ہے اور یہ پانچ ہزار روپیہ صرف کہنے کی بات نہیں بلکہ کسی آریہ صاحب یا کسی اور صاحب کی درخواست کے آنے پر پہلے ہی ایسی جگہ جمع کرا دیا جائے گا جس میں وہ آریہ صاحب یا اور صاحب بخوبی مطمئن ہوں اور سمجھ لیں کہ فتح یابی کی حالت میں بغیر حرج کے وہ روپیہ ان کو وصول ہو جائے گا.مگر یاد رہے کہ روپیہ جمع کرانے کی اس وقت درخواست آنی چاہئے جبکہ تحقیق السنہ کی کتاب چھپ کر شائع ہوجاوے اور جمع کرانے والے کو اس امر کے بارے میں ایک تحریری اقرار دینا ہوگا کہ اگر وہ پانچ ہزار روپیہ جمع کرانے کے بعد مقابلہ سے گریز کر جائے یا اپنی لاف و گزاف کو انجام تک

Page 363

پہنچا نہ سکے تو وہ تمام حرجہ ادا کرے گا جو ایک تجارتی روپیہ کے لئے کسی مدت تک بند رہنے کی حالت میں ضروری الوقوع ہے.والسّلام علٰی من اتّبع الھُدٰی المشتھر غلام احمد قادیانی ۱۵ جون ۱۸۹۵ ؁ء ***

Page 364

نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ ہدایت چونکہ اس زمانہ میں طرح طرح کے غلط خیالات ہر ایک قوم میں ایسے طور سے پھیل گئے ہیں کہ ان کے بد اثر ان سادہ دلوں کو موت تک پہنچاتے جاتے ہیں جن میں دینی فلسفہ کی تصویر کامل طور پر موجود نہیں یا ایسی سطحی طور پر کھینچی گئی ہے جس کو سوفسطائی تو ہمات جلد مٹا سکتے ہیں.اس لئے میں نے محض زمانہ کی موجودہ حالت پر رحم کرکے اس ماہواری رسالہ میں ان باتوں کو شائع کرنا چاہا جن میں ان آفات کا کافی علاج ہو اور جو راہ راست کے جاننے اور سمجھنے اور شناخت کرنے کا ذریعہ ہوں اور جن سے وہ سچا فلسفہ معلوم ہو جو دلوں کو تسلی دیتا اور روح کو سکینت اور آرام بخشتا اور ایمان کو عرفان کے رنگ میں لے آتا ہے اور چونکہ اس تالیف سے مقصود یہی ہے

Page 365

کہ کلام الٰہی کے معارف اور حقائق لوگوں کو معلوم ہوں.اس لئے اس رسالہ میں ہمیشہ کے لئے یہ التزام کیا گیا ہے کہ کوئی دعویٰ اور دلیل اپنی طرف سے نہ ہو بلکہ قرآن کریم کی طرف سے ہو جو خدا تعالیٰ کا کلام اور اس دنیا کی تاریکیوں کے مٹانے کے لئے آیا ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ یہ قرآن شریف میں ہی ایک اعجازی خاصیت ہے کہ وہ اپنے دعوے اور دلیل کو آپ ہی بیان کرتا ہے اور یہی ایک اول نشانی اس کی منجانب اللہ ہونے کی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنا ثبوت ہر ایک پہلو سے آپ دیتا ہے اور آپ ہی دعویٰ کرتا اور آپ ہی اس دعویٰ کے دلائل پیش کرتا ہے اور ہم نے قرآن کی اس اعجازی خاصیت کو اس رسالہ میں اس لئے شائع کرنا چاہا کہ تااس تقریب سے وہ تمام مذاہب بھی جانچے جائیں جن کے پابند اسلام کے مقابل پر ایسی کتابوں کی تعریف کررہے ہیں جن میں یہ طاقت ہرگز نہیں کہ وہ اپنے دعوے کو دلیل کے ساتھ ثابت کر سکیں.یہ بات ظاہر ہے کہ الٰہی کتاب کی پہلی نشانی علمی طاقت ہے اور یہ امر ممکن ہی نہیں کہ ایک کتاب فی الحقیقت الہامی کتاب ہو کر کسی سچائی کے بیان میں جو عقائد دینیہ کی ضروریات میں سے ہے قاصر ہو یا ایک انسانی کتاب کے مقابل پر تاریکی اور نقصان کے گڑھے میں گری ہوئی ہو.بلکہ الٰہی کتاب کی اول نشانی تو یہی ہے کہ جس نبوت اور عقیدہ کی اس نے بنیاد ڈالی ہے اس کو معقولی طور پر ثابت بھی کرتی ہو کیونکہ اگر وہ اپنے دعاوی کو ثابت نہیں کرتی بلکہ انسان کو گرداب حیرت میں ڈالتی ہے تو ایسی کتاب کو منوانا اکراہ اور جبر میں داخل ہوگا.اور یہ بات نہایت صاف اور سریع الفہم ہے کہ وہ کتاب جو حقیقت میں کتاب الٰہی ہے وہ انسانوں کی طبیعتوں پر کوئی ایسا بوجھ نہیں ڈالتی اور ایسے

Page 366

امور مخالف عقل پیش نہیں کرتی جن کا قبول کرنا اکراہ اور جبر میں داخل ہو کیونکہ کوئی عقل صحیح تجویز نہیں کرسکتی جو دین میں اکراہ اور جبر جائز ہو اس واسطے اللہ جلّ شانہٗ نے قرآن کریم میں فرمایا ۱؂.جب ہم انصاف کے ساتھ سوچتے ہیں کہ الٰہی کتاب کیسی ہونی چاہیے تو ہمارا نور قلب بڑے زور سے شہادت دیتا ہے کہ الٰہی کتاب کے چہرہ کا حقیقی حلیہ یہی ہے کہ وہ اپنی روشنی سے علمی اور عملی طریقوں میں حق الیقین کا آپ راہ دکھاتی ہو اور پوری بصیرت بخش کر اسی جہان میں بہشتی زندگی کا نمونہ قائم کر دیتی ہو کیونکہ الٰہی کتاب کا زندہ معجزہ صرف یہی ہے کہ وہ علم اور حکمت اور فلسفہ حقّہ کی معلم ہو اور جہاں تک ایک سوچنے والے کے لئے روحانی حقائق کے سلسلہ کا پتہ لگ سکتا ہو وہ تمام حقائق اس میں موجود ہوں اور صرف مدعی نہ ہو بلکہ اپنے ہر یک دعویٰ کو ایسے طور سے ثابت کرے کہ پوری تسلی بخش دیوے اور جس تعمق اور امعان کے ساتھ اس پر نظر ڈالی جاوے صاف دکھائی دے کہ فی الواقعہ وہ ایسا ہی معجزہ اپنے اندر رکھتی ہے کہ دینی امور میں انسانی بصیرتوں کو ترقی دینے کے لئے اعلیٰ درجہ کی مددگار اور اپنے کاروبار کی آپ ہی وکیل ہے.بالآخر میں اپنے ہر ایک مخالف کو مخاطب کر کے علانیہ طور پر متنبہ کرتا ہوں کہ اگر وہ فی الواقع اپنی کتابوں کو منجانب اللہ سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ وہ اس ذات کامل سے صادر ہیں جو اپنی پاک کتاب کو اس شرمندگی اور ندامت کا نشانہ بنانا نہیں چاہتا کہ اس کی کتاب صرف بے ہودہ اور بے اصل دعووں کا مجموعہ ٹھہرے جن کے ساتھ کوئی ثبوت نہ ہو تو اس موقعہ پر ہمارے دلائل کے مقابل پر وہ بھی دلائل پیش کرتے رہیں کیونکہ بالمقابل

Page 367

باتوں کو دیکھ کر جلد حق سمجھ آجاتا ہے اور دونوں کتابوں کا موازنہ ہوکر ضعیف اور قوی اور ناقص اور کامل کا فرق ظاہر ہوجاتا ہے لیکن یاد رکھیں کہ آپ ہی وکیل نہ بن بیٹھیں بلکہ ہماری طرح دعویٰ اور دلیل اپنی کتاب میں سے پیش کریں اور مباحثہ کے نظام کو محفوظ رکھنے کے لئے یہ بات بھی لازم پکڑیں کہ جس دلیل سے اب ہم شروع کرتے ہیں اسی دلیل کا وجود اپنے بالمقابل رسالہ میں اپنی کتاب میں سے نکال کر دکھلاویں.علیٰ ھٰذاالقیاس ہمارے ہریک نمبر کے نکلنے کے مقابل اسی دلیل کو اپنی کتاب کی حمایت میں پیش کریں جو ہم نے اس نمبر میں پیش کی ہو.اس انتظام سے بہت جلد فیصلہ ہو جائے گا کہ ان کتابوں میں سے کونسی کتاب اپنی سچائی کو آپ ثابت کرتی ہے اور معارف کا لا انتہا سمندر اپنے اندر رکھتی ہے.اب ہم خدا تعالیٰ سے توفیق پاکر اول نمبر کو شروع کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ یا الٰہی سچائی کی فتح کر اور باطل کو ذلیل اور مغلوب کرکے دکھلا وَلَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ.اٰمین بُرہانِ اوّل قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر دلیل قرآن شریف نے بہت زور شور سے اس دعویٰ کو پیش کیا ہے کہ وہ

Page 368

خدا کا کلام ہے اور حضرت سیدنا و مولانا محمّد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سچے نبی اور رسول ہیں جن پر وہ پاک کلام اترا ہے چنانچہ یہ دعویٰ آیات مندرجہ ذیل میں بخوبی مصرح و مندرج ہے.(آل عمران ۱،۲) ۱؂.یعنی وہی اللہ ہے.اس کا کوئی ثانی نہیں اسی سے ہر ایک کی زندگی اور بقا ہے.اس نے حق اور ضرورت حقہ کے ساتھ تیرے پر کتاب اتاری اور پھر فرمایا ۲؂.الجزونمبر۵سورۃ النساء.یعنی اے لوگو حق اور ضرورت حقہ کے ساتھ تمہارے پاس یہ نبی آیا ہے اور پھر فرمایا ۳؂.الجزونمبر ۱۵ یعنی ضرورت حقہ کے ساتھ ہم نے اس کلام کو اتارا ہے اور ضرورت حقہ کے ساتھ اترا ہے.اور پھر فرمایا ۴؂.الجزو نمبر۶سورۃ النساء.اے لوگو تمہارے پاس یہ یقینی برہان پہنچی ہے اور ایک کھلا نور تمہاری طرف ہم نے اتارا ہے.اور پھر فرمایا ۵؂.الجزونمبر۹ یعنی لوگوں کو کہہ دے کہ میں تم سب کی طرف پیغمبر ہوکر آیا ہوں.اور پھرفرمایا ۶؂.الجزو نمبر ۲۶ یعنی جو لوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کئے اور اس کتاب پر ایمان لائے جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اور وہی حق ہے خدا ان کے گناہ دور کرے گا اور ان کے حال چال کو درست کر دے گا.ایسا ہی صدہا آیات اور ہیں جن میں نہایت صفائی سے یہ دعویٰ کیا گیا

Page 369

ہے کہ قرآن کریم خدا کا کلام اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سچے نبی ہیں لیکن ہم بالفعل اسی قدر لکھنا مناسب و کافی دیکھتے ہیں مگر ساتھ ہی اپنے مخالفوں کو یاد دلاتے ہیں کہ جس شد و مد سے قرآن شریف میں یہ دعویٰ موجود ہے کسی اور کتاب میں ہرگز موجود نہیں.ہم نہایت مشتاق ہیں اگر آریہ اپنے ویدوں میں اتنا بھی ثابت کر دیں کہ ان کے ہر چہار ویدوں نے الٰہی کلام ہونے کا دعویٰ کیا اور بتصریح بتلایا کہ فلاں فلاں شخص پر فلاں زمانہ میں وہ اترے ہیں.کتاب اللہ کے ثبوت کے لئے پہلا ضروری امر یہی ہے کہ وہ کتاب اپنے منجانب اللہ ہونے کی مدعی بھی ہو کیونکہ جو کتاب اپنے منجانب اللہ ہونے کی طرف آپ کوئی اشارہ نہیں کرتی اس کو خداوند تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا ایک بے جا مداخلت ہے.اب دوسرا امر قابل تذکرہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے اپنے منجانب اللہ ہونے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے بارے میں صرف دعویٰ ہی نہیں کیا بلکہ اس دعویٰ کو نہایت مضبوط اور قوی دلیلوں کے ساتھ ثابت بھی کر دیا ہے اور ہم انشاء اللہ تعالیٰ سلسلہ وار اُن تمام دلائل کو لکھیں گے اور ان میں سے پہلی دلیل ہم اسی مضمون میں تحریر کرتے ہیں تاحق کے طالب اول اسی دلیل میں دوسری کتابوں کا قرآن کے ساتھ مقابلہ کریں اور نیز ہم ہریک مخالف کو بھی بلاتے ہیں کہ اگر یہ طریق ثبوت جس کا ایک کتاب میں پایا جانا اس کی سچائی پر بدیہی دلیل ہے ان کی کتابوں اور نبیوں کی نسبت بھی پایا جاتا ہے تو وہ ضرور اپنے اخباروں اور رسالوں کے ذریعہ سے پیش کریں ورنہ ان کو اقرار کرنا پڑے گا کہ ان کی کتابیں اس اعلیٰ درجہ کے ثبوت سے عاری اور بے نصیب ہیں اور ہم نہایت یقین اور وثوق سے کہتے ہیں

Page 370

کہ یہ طریق ثبوت ان کے مذہب میں ہرگز پایا نہیں جاتا.پس اگر ہم غلطی پر ہیں تو ہماری غلطی ثابت کریں اور وہ پہلی دلیل جو قرآن شریف نے اپنے منجانب اللہ ہونے پر پیش کی ہے.اُس کی تفصیل یہ ہے کہ عقل سلیم ایک سچی کتاب اور ایک سچے اور منجانب اللہ رسول کے ماننے کے لئے اس بات کو نہایت بزرگ دلیل ٹھہراتی ہے کہ ان کا ظہور ایک ایسے وقت میں ہو جبکہ زمانہ تاریکی میں پڑا ہو.اور لوگوں نے توحید کی جگہ شرک اور پاکیزگی کی جگہ فسق اور انصاف کی جگہ ظلم اور علم کی جگہ جہل اختیار کر لیا ہو اور ایک مصلح کی اشد حاجت ہو اور پھر ایسے وقت میں وہ رسول دنیا سے رخصت ہو جبکہ وہ اصلاح کا کام عمدہ طور سے کر چکا ہو اور جب تک اس نے اصلاح نہ کی ہو دشمنوں سے محفوظ رکھا گیا ہو اور نوکروں کی طرح حکم سے آیا ہو اور حکم سے واپس گیا ہو.غرض کہ وہ ایسے وقت میں ظاہر ہو جبکہ وہ وقت بزبان حال پکار پکار کر کہہ رہا ہو کہ ایک آسمانی مصلح اور کتاب کا آنا ضروری ہے اور پھر ایسے وقت میں الہامی پیشگوئی کے ذریعہ سے واپس بلایا جاوے کہ جب اصلاح کے پودہ کو مستحکم کر چکا ہو اور ایک عظیم الشان انقلاب ظہور میں آچکا ہو.اب ہم اس بات کو بڑے فخر کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ یہ دلیل جس طرح قرآن اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں نہایت روشن چہرہ کے ساتھ جلوہ نما ہوئی ہے کسی اور نبی اور کتاب کے حق میں ہرگز ظاہر نہیں ہوئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دعویٰ تھا کہ میں تمام قوموں کے لئے آیا ہوں سو قرآن شریف نے تمام قوموں کو ملزم کیا ہے کہ وہ طرح طرح کے شرک اور فسق و فجور میں مبتلا ہیں جیسا کہ وہ فرماتا ہے ۱؂ یعنی دریا بھی بگڑ گئے اور جنگل بھی بگڑ گئے.اور پھر فرماتا ہے۲؂ یعنی ہم نے تجھے بھیجا تاکہ دنیا کی تمام قوموں

Page 371

کو ڈراوے یعنی ان کو متنبہ کرے کہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور میں اپنی بدکاریوں اور عقیدوں کی وجہ سے سخت گنہگار ٹھہری ہیں.یاد رہے کہ جو اس آیت میں نذیر کا لفظ دنیا کے تمام فرقوں کے مقابل پر استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی گنہگاروں اور بدکاروں کو ڈرانا ہے اسی لفظ سے یقینی سمجھا جاتا ہے کہ قرآن کا یہ دعویٰ تھا کہ تمام دنیا بگڑ گئی اور ہر ایک نے سچائی اور نیک بختی کا طریق چھوڑ دیا کیونکہ انذار کا محل فاسق اور مشرک اور بدکار ہی ہیں اور انذار اور ڈرانا مجرموں کی ہی تنبیہہ کے لئے ہوتا ہے نہ نیک بختوں کے لئے.اس بات کو ہریک جانتا ہے کہ ہمیشہ سرکشوں اور بے ایمانوں کو ہی ڈرایا جاتا ہے اور سنت اللہ اسی طرح پر ہے کہ نبی نیکوں کے لئے بشیرہوتے ہیں اور بدوں کے لئے نذیر.پھر جبکہ ایک نبی تمام دنیا کے لئے نذیر ہوا تو ماننا پڑا کہ تمام دنیا کو نبی کی وحی نے بداعمالیوں میں مبتلا قرار دیا ہے اور یہ ایک ایسا دعویٰ ہے کہ نہ توریت نے موسیٰ کی نسبت کیا اور نہ انجیل نے عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کی نسبت بلکہ صرف قرآن شریف نے کیا اور پھر فرمایا کہ۱؂ یعنی تم اس نبی کے آنے سے پہلے دوزخ کے گڑھے کے کنارہ پر پہنچ چکے تھے اور عیسائیوں اور یہودیوں کو بھی متنبہ کیا کہ تم نے اپنے دجل سے خدا کی کتابوں کو بدل دیا اور تم ہریک شرارت اور بدکاری میں تمام قوموں کے پیشرو ہو اور بُت پرستوں کو بھی جابجا ملزم کیا کہ تم پتھروں اور انسانوں اور ستاروں اور عناصر کی پرستش کرتے ہو اور خالق حقیقی کو بھول گئے ہو اور تم یتیموں کا مال کھاتے اور بچوں کو قتل کرتے اور شرکاء پر ظلم کرتے ہو اور ہریک بات * حا شیہ: جیسا کہ فرماتا ہے ۲؂ یعنی مشرک اپنی لڑکی کو(باقی اگلے صفحہ پر)

Page 372

میں حد اعتدال سے گذر گئے ہو اور فرمایا۱؂ یعنی یہ بات تمہیں معلوم رہے کہ زمین سب کی سب مرگئی تھی.اب خدا نئے سرے اس کو زندہ کرتا ہے.غرض تمام دنیا کو قرآن نے شرک اور فسق اور بت پرستی کے الزام سے ملزم کیا جو اُمّ الخبائث ہیں اور عیسائیوں اور یہودیوں کو دنیا کی تمام بدکاریوں کی جڑ ٹھہرایا اور ہریک قسم کی بدکاریاں ان کی بیان کر دیں اور ایک ایسا نقشہ کھینچ کر زمانہ موجودہ کا اعمال نامہ دکھلا دیا کہ جب سے دنیا کی بناء پڑی ہے بجز نوح کے زمانہ کے اور کوئی زمانہ اس زمانہ سے مشابہ نظر نہیں آتا اور ہم نے اس جگہ جس قدر آیات لکھ دی ہیں وہ اتمام حجت کے لئے اول درجہ پر کام دیتی ہیں.لہٰذا ہم نے طول کے خوف سے تمام آیات کو نہیں لکھا.ناظرین کو چاہیئے کہ قرآن شریف کو غور سے پڑھیں تا انہیں معلوم ہوکہ کس شدّ و مدّ اور کس قدر مؤثر کلام سے جابجا قرآن شریف بیان کر رہا ہے کہ تمام دنیا بگڑ گئی.تمام زمین مرگئی اور لوگ دوزخ کے گڑھے کے قریب پہنچ گئے اور کیسے بار بار کہتا ہے کہ تمام دنیا کو ڈرا کہ وہ خطرناک حالت میں پڑے ہیں.یقیناً قرآن کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شرک اور فسق اور بت پرستی اور طرح طرح کے گناہوں میں سڑ گئی اور بدکاریوں بقیہ حاشیہ:زندہ درگور کرتا ہے اور فرماتا ہے ۲؂ یعنی قیامت کو زندہ درگور لڑکیوں سے سوال ہوگا کہ وہ کس گناہ سے قتل کی گئیں یہ اشارہ ملک کی موجودہ حالت کی طرف کیا کہ ایسے ایسے بُرے کام ہو رہے ہیں اسی کی طرف عرب کے ایک پرانے شاعر ابن الاعرابی نے اشارہ کیا ہے چنانچہ وہ کہتا ہے ما لقی المؤود من ظلم اُمّہ کما لقیت ذھل جمیعا و عامر‘ یعنی زندہ درگور لڑکی پر اس کی ماں کی طرف سے وہ ظلم نہیں ہوتا جیسا کہ ذہل اور عامر پر ہوا.منہ

Page 373

کے عمیق کنوئیں میں ڈوب گئی ہیں.یہ بات سچ ہے کہ انجیل میں بھی کسی قدر یہودیوں کی بدچلنیوں کا ذکر ہے لیکن مسیح نے کہیں یہ ذکر تو نہیں کیا کہ جس قدر دنیا کے صفحہ میں لوگ موجود ہیں جن کو عالمین کے نام سے نامزد کرسکتے ہیں وہ بگڑ گئے مرگئے اور دنیا شرک اور بدکاریوں سے بھر گئی اور نہ رسالت کا عام دعویٰ کیا.پس ظاہر ہے کہ یہودی ایک تھوڑی سی قوم تھی جو مسیح کی مخاطب تھی بلکہ وہی تھی جو مسیح کی نظر کے سامنے اور چند دیہات کے باشندے تھے.لیکن قرآن کریم نے تو تمام زمین کے مر جانے کا ذکر کیا ہے اور تمام قوموں کی بری حالت کو وہ بتلاتا ہے اور صاف بتلاتا ہے کہ زمین ہر قسم کے گناہ سے مر گئی* یہودی تو نبیوں کی اولاد اور تورات کو اپنے اقرار سے مانتے تھے گو عمل سے قاصر تھے لیکن قرآن کے زمانہ میں علاوہ فسق اور فجور کے عقائد میں بھی فتور ہوگیا تھا.ہزارہا لوگ دہریہ تھے.ہزارہا وحی اور الہام سے منکر تھے اور ہر قسم کی بدکاریاں زمین پر پھیل گئی تھیں اور دنیا میں اعتقادی اور عملی خرابیوں کا ایک سخت طوفان برپا تھا.ماسوا اس کے مسیح نے اپنی چھوٹی سی قوم یہودیوں کی بدچلنی کا کچھ ذکر تو کیا جس سے البتہ یہ خیال پیدا ہوا کہ اس وقت یہود کی ایک خاص قوم کو ایک مصلح کی ضرورت تھی مگر جس دلیل کو ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منجانب اللہ ہونے کے بارے میں بیان کرتے ہیں.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فساد عام کے وقت میں آنا اور کامل اصلاح کے بعد واپس * نوٹ:اگر کوئی کہے کہ فساد اور بد عقیدگی اور بداعمالیوں میں یہ زمانہ بھی تو کم نہیں پھر اس میں کوئی نبی کیوں نہیں آیا.تو جواب یہ ہے کہ وہ زمانہ توحید اور راست روی سے بالکل خالی ہوگیا تھا اور اس زمانہ میں چالیس کروڑ لا الہ الا اللّٰہ کہنے والے موجود ہیں اور اس زمانہ کو بھی خدا تعالیٰ نے مجدد کے بھیجنے سے محروم نہیں رکھا.منہ

Page 374

بلائے جانا اور ان دونوں پہلوؤں کا قرآن کا آپ پیش کرنا اور آپ دنیا کو اس کی طرف توجہ دلانا یہ ایک ایسا امر ہے کہ انجیل تو کیا بجز قرآن شریف کسی پہلی کتاب میں بھی نہیں پایا جاتا.قرآن شریف نے آپ یہ دلائل پیش کئے ہیں اور آپ فرما دیا ہے کہ اس کی سچائی ان دو پہلوؤں پر نظر ڈالنے سے ثابت ہوتی ہے.یعنی ایک تو وہی جو ہم بیان کر چکے ہیں کہ ایسے زمانہ میں ظہور فرمایا جبکہ زمانہ میں عام طور پر طرح طرح کی بدکاریاں بداعتقادیاں پھیل گئی تھیں اور دنیا حق اور حقیقت اور توحید اور پاکیزگی سے بہت دور جا پڑی تھی اور قرآن شریف کے اس قول کی اس وقت تصدیق ہوتی ہے.جبکہ ہریک قوم کی تاریخ اس زمانہ کے متعلق پڑھی جائے.کیونکہ ہریک قوم کے اقرار سے یہ عام شہادت پیدا ہوتی ہے کہ درحقیقت وہ ایسا پُر ظلمت زمانہ تھا کہ ہریک قوم مخلوق پرستی کی طرف جھک گئی تھی اور یہی و جہ ہے کہ جب قرآن نے تمام قوموں کو گمراہ اور بدکار قرار دیا تو کوئی اپنا بری ہونا ثابت نہ کرسکا.دیکھو اللہ تعالیٰ کیسے زور سے اہل کتاب کی بدیوں اور تمام دنیا کے مرجانے کا ذکر کرتا ہے اور فرماتا ہے.۱؂ ( سورۃ الحدید جزونمبر ۲۷ رکوع۱۷) یعنی مومنوں کو چاہیئے کہ اہل کتاب کی چال و چلن سے پرہیز کریں ان کو اس سے پہلے کتاب دی گئی تھی.پس ان پر ایک زمانہ گذر گیا سو ان کے دل سخت ہوگئے اور اکثر ان میں سے فاسق اور بدکار ہی ہیں.یہ بات بھی جانو کہ زمین مر گئی تھی اور اب خدا نئے سرے سے زمین کو زندہ کررہا ہے یہ قرآن کی ضرورت اور سچائی کے نشان ہیں جو اس لئے بیان کئے گئے تاکہ تم نشانوں کو

Page 375

دریافت کر لو.اب سوچ کر دیکھو کہ یہ دلیل جو تمہارے سامنے پیش کی گئی ہے یہ ہم نے اپنے ذہن سے ایجاد نہیں کی.بلکہ قرآن شریف آپ ہی اس کو پیش کرتا ہے اور دلیل کے دونوں حصے بیان کر کے پھر آپ ہی فرماتا ہے.۱؂ یعنی اس رسول اور اس کتاب کے منجانب اللہ ہونے پر یہ بھی ایک نشان ہے جس کو ہم نے بیان کر دیا تا تم سوچو اور سمجھو اور حقیقت تک پہنچ جاؤ.* قرآن شریف نے جس قدر اپنے نزول کے زمانہ میں ان عیسائیوں وغیرہ کی بدچلنیاں بیان کی ہیں جو اس وقت موجود تھے.ان تمام قوموں نے خود اپنے منہ سے اقرار کر لیا تھا بلکہ بار بار اقرار کرتے تھے کہ وہ ضرور ان بدچلنیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں اور عرب کی تاریخ دیکھنے سے ثابت ہوتا ہے کہ بجز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ آباء و اجداد کے جن کو اللہ جلّ شانہٗنے اپنے خاص فضل و کرم سے شرک اور دوسری بلاؤں سے بچائے رکھا باقی تمام لوگ عیسائیوں کے بدنمونہ کو دیکھ کر اور ان کی چال و چلن کی بدتاثیر سے متاثر ہوکر انواع اقسام کے قابل شرم گناہوں اور بدچلنیوں میں مبتلا ہوگئے تھے اور جس قدر بدچلنی اور بد اعمالی عربوں میں آئی وہ درحقیقت عربوں کی ذاتی فطرت کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ ایک نہایت ناپاک اور بدچلن قوم ان میں آباد ہوگئی جو ایک جھوٹے منصوبہ کفارہ پر بھروسہ کر کے ہریک گناہ کو شیر مادر کی طرح سمجھتی تھی اور مخلوق پرستی اور شراب خواری اور ہریک قسم کی بدکاری کو بڑے زور کے ساتھ دنیا میں پھیلا رہی تھی اور اول درجہ کی کذّاب اور دغا باز اور بد سرشت تھی.بظاہر یہ فرق کرنا مشکل ہے کہ کیا اس زمانہ میں فسق و فجور اور ہریک قسم کی بد چلنی میں یہودی بڑھے ہوئے تھے یا عیسائی نمبر اول پر تھے.مگر ذرہ غور کرنے کے بعد معلوم ہوگا کہ درحقیقت عیسائی ہی ہر ایک بدکاری اور بدچلنی اور مشرکانہ عادات

Page 376

دوسرا پہلو اس دلیل کا یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم ایسے وقت میں میں پیش دست تھے.کیونکہ یہودی لوگ متواتر ذلتوں اور کوفتوں سے کمزور ہوچکے تھے اور وہ شرارتیں جو ایک سفلہ آدمی اپنی طاقت اور دولت اور عروج قومی کو دیکھ کر کرسکتا ہے یا وہ بدچلنیاں جو کثرت دولت اور روپیہ پر موقوف ہیں.ایسے نالائق کاموں کا یہودیوں کو کم موقعہ ملتا تھا مگر عیسائیوں کا ستارہ ترقی پر تھا اور نئی دولت اور نئی حکومت ہر وقت انگشت دے رہی تھی کہ وہ تمام لوازمات ان میں پائے جائیں جو بدی کے مؤیدات پیدا ہونے سے قدرتی طور پر ہمیشہ پائی جاتی ہیں.پس یہی سبب ہے کہ اس زمانہ میں عیسائیوں کی بدچلنی اور ہریک قسم کی بدکاری سب سے زیادہ بڑھی ہوئی تھی اور یہ بات یہاں تک ایک مشہور واقع ہے کہ پادری فنڈل باوجود اپنے سخت تعصب کے اس کو چھپا نہیں سکا اور مجبور ہوکر اس زمانہ کے عیسائیوں کی بدچلنیوں کا میزان الحق میں اس کو اقرار کرنا ہی پڑا.مگر دوسرے انگریز مؤرخوں نے تو بڑی بسط سے ان کی بدچلنیوں کا مفصل حال لکھا ہے چنانچہ ان میں سے ایک ڈیون پورٹ صاحب کی کتاب ہے جو ترجمہ ہوکر اس ملک میں شائع ہوگئی ہے.غرض یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اس زمانہ کے عیسائی اپنی نئی دولت اور حکومت اور کفارہ کی زہر ناک تحریک سے تمام بدچلنیوں میں سب سے زیادہ بڑھے ہوئے تھے.ہریک نے اپنی فطرت اور طبیعت کے موافق جدا جدا بے اعتدالی اور معصیت کی راہیں اختیار کر رکھی تھیں اور ان کی دلیریوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے مذہب کی سچائی سے بالکل نومید ہوچکے تھے اور ایک چھپے ہوئے دہریہ تھے اور ان کی روحانیت کی اس وجہ سے بہت ہی بیخ کنی ہوئی کہ دنیا کے دروازے ان پر کھولے گئے اور انجیل کی تعلیم میں شراب کی کوئی ممانعت نہیں تھی.قمار بازی سے کوئی روک نہ تھی پس یہی تمام زہریں مل کر ان کا ستیاناس کر گئیں.صندوقوں میں دولت تھی ہاتھ میں حکومت تھی.شرابیں* * نوٹ: شراب بنانا حضرت عیسیٰ ؑ کا ایک معجزہ شمارکیا گیا ہے بلکہ شراب پینا عیسائی مذہب کی جزو اعظم ہے جیسا کہ عشاء رَبّانی میں ہے.منہ

Page 377

دنیا سے اپنے مولیٰ کی طرف بلائے گئے جبکہ وہ اپنے کام کو پورے طور پر انجام دے چکے اور یہ امر قرآن شریف سے بخوبی ثابت ہے جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا خود ایجاد کر لیں.پھر کیا تھا.اُمّ الخبائث کی تحریکوں سے سارے برے کام کرنے پڑے.یہ باتیں ہم نے اپنی فطرت سے نہیں کہیں.خود بڑے بڑے مؤرخ انگریزوں نے اس کی شہادتیں دی ہیں.اور اب بھی دے رہے ہیں بزرگ پادری باس ورتھ اور فاضل قسیس ٹیلر نے حال ہی کے زمانہ میں کس صفائی سے انہیں باتوں پر لیکچر دیئے ہیں اور کس زور سے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ عیسائی مذہب کی قدیم بدچلنیوں نے اس کو ہلاک کر دیا ہے چنانچہ قوم کے فخر پادری باس ورتھ صاحب اپنے لیکچر میں بآواز بلند بیان کرتے ہیں کہ عیسائی قوم کے ساتھ تین لعنتیں لازم ملزوم ہو رہی ہیں جو اس کو ترقی سے روکتی ہیں.وہ کیا ہیں.زناکاری.شراب خواری.قمار بازی.غرض اس زمانہ میں سب سے زیادہ یہ عیسائیوں کا ہی حق تھا کہ وہ بدکاریوں کے میدانوں میں سب سے پہلے رہیں.کیونکہ دنیا میں انسان صرف تین وجہ سے گناہ سے رک سکتا ہے (۱) یہ کہ خدا تعالیٰ کا خوف ہو (۲) یہ کہ کثر ت مال جو بدمعاشیوں کا ذریعہ ہے اس کی بلا سے بچے (۳) یہ کہ ضعیف اور عاجز ہو کر زندگی بسر کرے حکومت کا زور پیدا نہ ہو.مگر عیسائیوں کو ان تینوں روکوں سے فراغت ہوچکی تھی اورکفارہ کے مسئلہ نے گناہ پر دلیر کر دیا تھا اور دولت اور حکومت ظلم کرنے کے لئے معین ہوگئے تھے.پس چونکہ دنیا کی راحتیں اور نعمتیں اور دولتیں ان پر بہت وسیع ہوگئی تھیں اور ایک زبردست سلطنت کے وہ مالک بھی ہوگئے تھے اور پہلے اس سے ایک مدت تک فقر و فاقہ اور تکالیف شاقہ میں مبتلا رہ چکے تھے اس لئے دولت اور حکومت کو پاکر عجیب طوفان فسق و فجور ان میں ظاہر ہوا اور جس طرح پُر زور سیلاب آنے کے وقت بند ٹوٹ جاتا ہے اور پھر بند ٹوٹنے سے تمام اردگرد کھیتوں اور آبادی کی شامت آجاتی ہے اسی طرح ان دنوں میں وقوع میں آیا کہ جب عیسائیوں کو تمام اسباب شہوت رانی کے میسر آگئے.اور دولت اور قوت اور بادشاہت میں تمام دنیا کے طاقتوروں

Page 378

ہے.۱؂ سے اول نمبر پر ہوگئے.تو جیسے ایک سفلہ آدمی فقر و فاقہ کا مارا ہو ا دولت اور حکومت پاکر اپنے لچھن دکھلاتا ہے وہ سارے لچھن ان لوگوں نے دکھلائے اول وحشیوں اور سخت ظالموں کی طرح وہ خونریزیاں کیں اور ناحق بے موجب کئی لاکھ انسانوں کو قتل کیا اور وہ بے رحمیاں دکھلائیں جن سے بدن کانپ اٹھتا ہے اور پھر امن اور آزادی پاکر دن رات شراب خواری، زنا کاری، قمار بازی میں شغل رکھنے لگے.چونکہ ان کی بدبختی سے کفارہ کی تعلیم نے پہلے ہی ان کو بدکاریوں پر دلیر کر دیا تھا اور صرف ستر بی بی از بے چادری کا مصداق تھی.اب جو لچھمی بھی ان کے گھر میں آگئی تو پھر کیا تھا ہریک بدکاری پر ایسے ٹوٹ پڑے جیسے ایک زور دار سیلاب اپنے چلنے کی ایک کھلی کھلی راہ پاکر زور سے چلتا ہے اور ملک پر ایسا بداثر ڈالا کہ غافل اور نادان عرب بھی انہیں کے بداثر سے پیسے گئے وہ تو اُمّی اور ناخواندہ تھے.جب انہوں نے اپنے اردگرد عیسائیوں کی بداعمالیوں کا طوفان پایا تو اس سے متاثر ہوگئے.یہ بات بڑی تحقیق سے ثابت ہوئی ہے کہ عربوں میں قمار بازی اور شراب خواری اور بدکاری عیسائیوں کے خزانہ سے آئی تھی اخطل عیسائی جو اس زمانہ میں ایک بڑا شاعر گذرا ہے.جس کا دیوان بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور حال میں بیروت میں ایک عیسائی گروہ نے بڑے اہتمام اور خوبصورتی سے وہ دیوان چھاپ کر جابجا شائع کیا ہے چنانچہ اس ملک میں بھی آگیا ہے اس دیوان میں کئی ایک شعر اس کی یادگار ہیں.جو اس کی اور اس وقت کے عیسائیوں کی اندرونی حالت کا نقشہ ظاہر کر رہے ہیں.منجملہ ان کے ایک یہ ہے 'بان الشباب و ربما علّلتہ بالغانیات وبالشراب الاصھب' یعنی جوانی مجھ سے جدا ہوگئی اور میں نے اس کے روکنے کے لئے کئی مرتبہ اور بہت دفعہ یہ حیلہ کیا ہے کہ خوبصورت عورتوں اور سرخ شراب کے ساتھ اپنا شغل رکھا ہے.

Page 379

یعنی آج میں نے قرآن شریف کے اتارنے اور تکمیل نفوس سے تمہارا دین تمہارے اب اس شعر سے صاف ظاہر ہے کہ یہ شخص باوجود پیرانہ سالی اور عیسائیوں کا ایک بزرگ فاضل کہلانے کے پھر بھی زنا کاری کی ایک خراب حالت میں مبتلا رہا اور زیادہ قابل شرم بات یہ کہ بڈھا ہوکر بھی بدکاری سے باز نہ آیا اور نہ صرف اسی پر بس کرتا تھا بلکہ شراب پینے کا بھی نہایت درجہ عادی تھا.اخطل کی لائف پر اطلاع رکھنے والے اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ وہ اس زمانہ کی عیسائی قوم میں بہت ہی معزز اور علم اور فضیلت کی رو سے گویا ان میں صرف ایک ہی تھا اور اس کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف اس خیال کو جو کفارہ کے مسئلہ سے اس کو ملا تھا شاعرانہ لباس میں ادا کرتا بلکہ وہ پادریوں کا بھی منصب رکھتا تھا.اور جن گرجاؤں کا اس نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے.یقین کیا جاتا ہے کہ وہ ان میں ایک پیشرو پادری کی حیثیت سے بلا ناغہ جاتا تھا اور سب لوگ اسی کے نقش قدم پر چلتے تھے کیا اس زمانہ کے تمام عیسائیوں میں سے اس کے یگانہ روزگار ہونے میں یہ کافی دلیل نہیں کہ کروڑہا عیسائیوں اور پادریوں میں سے صرف وہی اس زمانہ کا ایک آدمی ہے جس کی یادگار تیرہ سو برس میں اس زمانہ میں پائی گئی غرض عیسائیوں میں سے صرف ایک اخطلہی ہے جو پرانے عیسائیوں کے چال چلن کا نمونہ بطور یادگار چھوڑ گیا.اور نہ صرف اپنا ہی نمونہ بلکہ اس نے گواہی دے دی کہ اس وقت کے تمام عیسائیوں کا یہی حال تھا اور درحقیقت وہی چال چلن بطور سلسلہ تعامل کے اب تک یورپ میں چلا آتا ہے عیسائی مذہب کا پایہ تخت ملک کنعان تھا اور یورپ میں اسی ملک سے یہ مذہب پہنچا اور ساتھ ہی ان تمام خرابیوں کا تحفہ بھی ملا.غرض اخطلکا دیوان نہایت قدر کے لائق ہے جس نے اس وقت کے عیسائی چال چلن کا تمام پردہ کھول دیا اور تاریخ پتہ نہیں دے سکتی کہ اس زمانہ کے عیسائیوں میں سے کوئی اور بھی ایسا ہے جس کی کوئی تالیف عیسائیوں کے ہاتھ میں ہو.ہمیں اخطلکی سوانح پر نظر ڈالنے کے بعد ماننا پڑتا ہے کہ وہ انجیل سے بھی خوب واقف تھا

Page 380

لئے کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور تمہارے لئے دین اسلام پسند کر لیا کیونکہ اس نے اس وقت کے تمام عیسائیوں اور پادریوں سے خصوصیت کے ساتھ وہ علمیت اور قابلیت دکھلائی کہ اس وقت کے عیسائیوں اور پادریوں میں سے کوئی بھی دکھلا نہ سکا.بہرحال ہمیں ماننا ہی پڑا کہ وہ اس وقت کے عیسائیوں کا ایک منتخب نمونہ ہے.مگر ابھی آپ سن چکے ہیں کہ وہ اس بات کا اپنے منہ سے اقراری ہے کہ میں خوبصورت عورتوں اور عمدہ شراب کے ساتھ پیرانہ سالی کے ملال کو دفع کرتا ہوں.اور اس وقت کے شعراء کا بھی یہی محاورہ تھا کہ وہ اپنی بدکاریوں کو انہیں الفاظ سے ادا کرتے تھے اور وہ لوگ حال کے نادان شاعروں کی طرح صرف فرضی خیالات کی بندش نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی زندگی کے واقعات کا نقشہ کھینچ کر دکھلا دیتے تھے اسی وجہ سے ان کے دیوان محققوں کی نظر میں نکمے نہیں سمجھے گئے.بلکہ تاریخی کتب کا ان کو پورا مرتبہ دیا گیا ہے اور وہ پرانے زمانہ کے رسوم اور عادات اور جذبات اور خیالات کو کامل طور پر ظاہر کرتے ہیں اسی واسطے اہل اسلام نے جو علم دوست ہیں ان کے قصائد اور دیوانوں کو ضائع نہیں کیا تا کہ ہر زمانہ کے لوگ بچشم خود معلوم کرسکیں کہ اسلام سے پہلے عرب کا کیا حال تھا اور پھر اسلام کے بعد قادر خدا نے کس تقویٰ اور طہارت سے ان کو رنگین کر دیا.اگر اخطل اور دیوان حماسہ اور سبعہ معلقہ اور اغانی کے وہ اشعار جو جاہلیت کے شعرا کے صاحب اغانی نے لکھے ہیں اور جو لسان العرب اور صحاح جوہری وغیرہ پرانی کتابوں میں موجود ہیں نظر کے سامنے رکھے جائیں اور پھر ان کے مقابل پر اسلام کو دیکھا جائے تو ببداہت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس تاریک زمانہ میں اسلام اس طرح پر چہرہ نما ہوا کہ جیسے کہ ایک نہایت درجہ کی تاریکی میں یک دفعہ آفتاب نکل آتا ہے.اس مقابلہ سے ایک نظارہ قدرت معلوم ہوتا ہے اور دل بول اٹھتا ہے کہ اللہ اکبر کیسی اس وقت قرآن شریف کے نزول کی ضرورت تھی.درحقیقت اس قوی دلیل نے تمام مخالفوں کو پاؤں کے نیچے کچل دیا ہے.پھر ہم اپنے پہلے مضمون کی طرف عود کر کے لکھتے ہیں کہ ممکن ہے کہ کوئی نادان اخطل کی نسبت

Page 381

حاصل مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید جس قدر نازل ہونا تھا نازل ہو چکا اور مستعد دلوں یہ سوال پیش کرے کہ کیوں یہ جائز نہیں کہ اخطل اپنی پیرانہ سالی کے زمانہ میں بہت سی خوبصورت عورتیں اپنے نکاح میں لایا ہو تو اس صورت میں زنا کا الزام اس پر کیونکر عائد ہوسکتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اخطل نے اپنے شعر میں اس مضمون کو ہرگز ظاہر نہیں کیا.کہ وہ خوب صورت عورتیں میری بیویاں ہیں بلکہ ایسی طرز پر اپنے کلام کو ظاہر کیا ہے جیسا کہ بدکار اور بدچلن آدمی ہمیشہ ظاہر کیا کرتے ہیں.اسی وجہ سے اس نے خوب صورت عورتوں کے ساتھ عمدہ شراب کو بھی جوڑ دیا ہے کیونکہ شراب بدمعاشی کے لوازم میں سے ہے اور ماسوا اس کے یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں کہ عیسائی مذہب میں صرف ایک جورو تک جائز ہے پھر کیونکر ممکن تھا کہ قوم کے لوگ اپنے مذہب اور رسم کے مخالف اس کو خوبصورت لڑکیاں دے دیتے.یہ قبول کیا کہ وہ اپنے علم اور فضل کے رو سے تمام قوم سے بہتر تھا اور جیسا کہ اس زمانہ میں ایک بڑے بھاری بشپ کو اپنی قوم میں ایک عام وجاہت ہوتی ہے.یہی وجاہت یا اس سے زیادہ اس کو حاصل تھی اور وہ مقتدا اور پیشوا اور ساری قوم کا برگزیدہ تھا.مگر تاہم یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ لوگ عمداً اپنی خوبصورت لڑکیاں قدیم رسم کے مخالف اس کے نکاح میں لائے ہوں اور اس کا یہ شعر بلند آواز سے پکار رہا ہے کہ صرف زنا کے طور پر یہ ناجائز حرکتیں اس سے صادر ہوتی تھیں.تبھی تو شراب کباب کا سلسلہ بھی ساتھ جاری تھا کیا کوئی قبول کرسکتا ہے کہ ایک بڈھا آدمی اور پھر لڑکی والوں کو سوت کا دکھ اور پھر لڑکی پر لڑکی دینا مذہب کے مخالف رسم کے مخالف قومی اتفاق کے مخالف اور پھر لوگ اندھے ہوکر میاں اخطل کو اپنی خوبصورت لڑکیاں دیتے جائیں اور دو تین خم شراب کے بھی ساتھ لے آویں.بے شک اس خیال محال کو تو کوئی بھی قبول نہ کرے گا.اصل بات تو وہی ہے جو ہم لکھ چکے جس کی نظیریں اب بھی یورپ میں نہ صدہا نہ ہزارہا بلکہ لاکھوں موجود ہیں.یورپ کے سفر میں سمندر سے پار ہوتے ہی یہ نظارہ جا بجا نظر آ جائے گا.ماسوا اس کے اخطل کا صرف یہی شعر نہیں

Page 382

میں نہایت عجیب اور حیرت انگیز تبد یلیاں پیدا کرچکا اور تربیت کو کمال تک بلکہ اس سے بھی بڑھ کر دیوان اخطل میں ایک اور شعر ہے جو اس وقت ہم وہ بھی ہدیہ ناظرین کرتے ہیں اور وہ یہ ہے: 'ان من یدخل الکنیسۃ یومًا یلقٰی فیھا جأذر و ظباء' ترجمہ اس شعر کا یہ ہے کہ اگر ہمارے گرجا میں کسی دن کوئی جائے تو بہت سے گوزن بچے اور ہرن اس میں پائے گا.یعنی بہت سی خوبصورت اور جوان اور باجمال اور چست عورتوں کو دیکھ کر حظ اٹھائے گا.یعنی گویا اس میں میاں اخطل لوگوں کو رغبت دیتے ہیں کہ ضرور گرجا میں جانا چاہئے اور یہ لطف اٹھانا چاہئے.اب اس شعر سے دو باتیں نکلتی ہیں.اول یہ کہا اخطلنے اپنی قوم کے لئے کوئی گرجا بھی بنایا ہوا تھا جس میں وہ ایک پادری کی حیثیت سے جایا کرتا تھا اور بظاہر انجیل اپنے ہاتھ میں لے کر لوگوں کی لڑکیوں اور بہؤں کو تاڑا کرتا تھا اور انہیں سے ناجائز تعلقات کر رکھے تھے.دوسری یہ بات پیدا ہوتی ہے کہ ان ناجائز تعلقات کو قوم کچھ بھی بُرا نہیں مانتی تھی اور ایسے نظر باز کو گرجا سے نہیں نکالتی تھی اور پادری کے منصب سے علیحدہ نہیں کرتی تھی حالانکہ ان کو کم سے کم یہ تو خبر تھی کہ یہ شخص ناپاک دل ہے اور ناپاک حرکات کا دل میں قصد رکھتا ہے کیونکہ اس کے گندے شعر جو یارانہ اور آشنائی پر دلالت کرتے تھے قوم سے مخفی نہیں تھے پس اس سے بڑھ کر اس بات پر اور کیا دلیل ہوگی کہ وہ ساری قوم ہی فسق و فجور میں مبتلا تھی اور ان کے گرجے طوائف کی کوٹھیوں کی طرح تھے اور ان مردوں عورتوں کے جمع ہونے کے لئے جو بدوضع اور ناپاک خیال تھے گرجوں سے بہتر اور کوئی مکان نہ تھا.یعنی وہ گرجوں ہی میں اپنے نفسانی جذبات کے پورا کرنے کے لئے موقعہ پاتے تھے.اور اخطل صرف اپنے ہی نفسانی جذبات میں مبتلا نہیں تھا بلکہ وہ عیسائیو ں کی کسی عورت یا لڑکی کو بھی پاک دامن نہیں سمجھتا تھا.چنانچہ اس کے دیوان اخطل میں جس کے ساتھ عیسائی محققوں نے اس کی لائف بھی شائع کی ہے.اس کی سوانح میں یہ درج کیا ہے

Page 383

پہنچا دیا اور اپنی نعمت کو ان پر پورا کر دیا اور یہی دو رکن ضروری ہیں جو ایک کہ وہ اسی عورتوں کے معاملہ میں ایک مرتبہ کنیسہ دمشق میں قید بھی کیا گیا اور یہ الزام لگایا گیا کہ وہ عیسائی عورتوں کی پاک دامنی کا قائل نہیں ہے چنانچہ ایک شریف اور معزز مسلمان کی فرمائش سے دمشق کے قسیس نے اس کو رہا کر دیا لیکن اخطلنے تادم مرگ اپنی رائے کو ہرگز تبدیل نہیں کیا چنانچہ عیسائی عورتوں کی نسبت اس کے اشعار اب تک زبان زد خلائق ہیں.اسی کتاب کے صفحہ ۳۳۹ میں اخطلکی لائف میں لکھا ہے کہ وہ اپنے اشعار میں شراب کی بہت تعریف کرتا تھا اور شراب کے فوائد پر وہ خوب مطلع اور تجربہ کار تھا.پھر اس کی لائف میں صفحہ ۳۳۷ میں لکھا ہے کہ اخطل ایک پکا عیسائی تھا اور اپنے دین پر مضبوط پنجہ مارا ہوا تھا اور گرجا کے وصایا کو خوب یاد رکھا ہوا تھا اور صلیب کو اپنے سینہ پر ہر وقت لٹکائے رکھتا تھا اسی لئے اس کا نام لوگوں میں ذوالصلیب مشہور تھا.پھر اسی صفحہ میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ سلطان عبد الملک بن مروان نے جس کے دربار میں یہ ملازم بھی تھا اس کو کہا کہ تو مسلمان ہو جا تو اس نے جواب دیا کہ ’’اگر شراب پینا میرے لئے حلال کر دو اور رمضان کے روزے بھی مجھے معاف ہو جائیں تو میں مسلمان ہونے کیلئے تیار ہوں.‘‘ دیکھو ابھی کہا تھا کہ یہ پکا عیسائی اور ذوالصلیب اس کا نام ہے.اور اب یہ بھی لکھ دیا کہ یہ شخص ایک شراب کے پیالے پر عیسائی مذہب کو فروخت کرنے کے لئے تیار تھا.غرض اس کی لائف میں یہی لکھا ہے کہ یہ ایک شراب خوار آدمی تھا اور اس بات کا اس کو اپنے شعروں میں خود اقرار ہے کہ یہ بیگانہ عورتوں سے بالکل پرہیز نہیں کر سکتا تھا اور نیز یہ بھی اقرار ہے کہ اس زمانہ کے عیسائی مردوں اور عورتوں کا عموماً چال چلن اچھا نہیں تھا اور ایک خفیہ بدکاری ان میں جاری تھی.ہاں اس میں ایک بڑی دلیری یہ تھی کہ یہ بڑی جرأت کے ساتھ عیسائیوں کے فسق و فجور کو ظاہر کرتا اور ان کے گرجاؤں کو بدکاری کی جگہ بتلاتا تھا اور اپنی بدچلنی کو بھی نہیں چھپاتا تھا.چنانچہ اسی کتاب کے صفحہ ۳۳۷ میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ عبد الملک نے اس سے دریافت کیا کہ تجھے شراب پینے سے کیا حاصل ہے

Page 384

نبی کے آنے کی علّت غائی ہوتے ہیں.اب دیکھو یہ آیت کس زور شور سے بتلا رہی تو اس نے فی الفور یہ دو شعر پڑھ کر سنا دیئے.اذا ما ندیمی علّنی ثم علّنی ثلٰث زجاجات لھن ھدیر‘ جعلت اجرّ الذیل منّی کانّنی علیک امیر المؤمنین امیر‘ یعنی جب میرے ساقی نے تین ایسی بوتلوں کی مجھے شراب پلائی جن کے شراب نکالنے کے وقت ایک خوش آواز تھی تو میں مستی سے ایسا دامن کشاں چلنے لگا کہ گویا تیرے پر یا امیر المومنین میں امیر ہوں.غرض چونکہ اکابر اسلام نے مسلمان ہونے کے لئے کبھی کسی پر جبر نہیں کیا اس لئے بجز تبلیغ کے اور کچھ بھی اس پر رنجش ظاہر نہ کی گئی اور وہ مروانی ملوک کے دربار میں ہزارہا روپیہ کا انعام پاتا رہا اور وہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی پیدا ہوا تھا اور ہر چہار خلیفہ رضی اللہ عنہم کا اس نے زمانہ پایا تھا اور بلاد شام میں رہتا تھا اور خوب بڈھا ہوکر فوت ہوا.اس نے یہ نہایت عمدہ کام کیا کہ اپنے اشعار میں عیسائی چال چلن کا نقشہ کھینچ کر دکھلا دیا ہے اور نہایت صاف گواہی دے دی کہ اس وقت کے عیسائی لوگ نہایت مکروہ بدچلنیوں میں گرفتار تھے اور شراب خوری اور ہر قسم کی بدکاری ان پر غالب آگئی تھی اور چونکہ عیسائی مذہب کا اصل مبدء اور منبع بلاد شام ہی ہے جن بلاد کا وہ متوطن تھا اور جن کا نقشہ کھینچ کر اس نے پیش کیا ہے اس سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ کفارہ کا مسئلہ کس قدر جھوٹا اور نابکار فریب ہے جس کا ابتدائے زمانہ میں ہی یہ اثر ثابت ہوا کہ عیسائی لوگ ہر قسم کے فسق و فجور میں مبتلا ہوگئے.اخطل کا زمانہ حضرت مسیح کے زمانہ سے کچھ بہت دور نہیں تھا صرف چھ سو ۶۰۰برس گذرے تھے مگر اخطل کی گواہی اور اس کے اپنے اقرار سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت کے عیسائی اپنی بدچلنیوں کی رو سے بت پرستوں سے بھی زیادہ گرے ہوئے تھے پس جبکہ تازہ تازہ زمانہ میں کفارہ نے یہ اثر کیا تو وہ لوگ سخت بے وقوف ہیں کہ اب انیسویں صدی میں اس آزمودہ کفارہ سے کوئی بہتری کی امید رکھتے ہیں.اس زمانہ کی عیسائیت کی چال و چلن کے متعلق ایک وہ بھی قصیدہ ہے جو سبعہ معلقہ

Page 385

ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز اس دنیا سے کوچ نہ کیا جب تک کہ دین اسلام کو کے چوتھے معلقہ میں عمرو بن کلثوم تغلبی کی طرف سے درج ہے.یہ بات کسی تاریخ دان پر پوشیدہ نہیں کہ بنی تغلب عیسائی تھے اور وہی تمام عرب میں سب سے بڑھ کر فسق و فجور اور ظلم اور زیادتی میں شمار کئے گئے تھے چنانچہ یہ قصیدہ بنی تغلب کے چال چلن پر پورا گواہ ہے کہ کیونکر وہ اول درجہ کے خونی اور جنگجو اور کینہ دار اور فاسق اور شراب خوار اور شہوات نفسانیہ کے پورا کرنے کے لئے بے جا خرچ کرنے والے اور اپنے فسق و فجور پر کھلا کھلا ناز کرنے والے تھے اور ہم اس جگہ صرف دو شعر تغلبی مذکور کے بطور نمونہ کے لکھتے ہیں اور یہ سبعہ معلقہ کے قصیدہ خامسہ میں موجود ہیں جس کا جی چاہے دیکھ لے اور وہ یہ ہیں الا حُبّی بصحنک فاصحبینا و لا تُبقی خُمور الاندرینا و کاسٍ قد شربت ببعلبک و اُخرٰی فی دمشقٍ و قاصرینا یعنی اے میری معشوقہ (یہ اس کی معشوقہ درحقیقت اس کی والدہ ہی تھی) شراب کا پیالہ لے کر اٹھ اور قصبہ ’’اندرین‘‘ میں جس قدر شرابیں بنائی جاتی ہیں وہ سب مجھے پلا دے اور ایسا کر کہ شراب کے ذخیروں میں کچھ بھی باقی نہ رہ جائے پھر کہتا ہے کہ میں نے مقام بعلبک میں بہت شراب پی ہے اور پھر اسی قدر میں نے دمشق میں بھی پی اور ایسا ہی مقام قاصرین میں بھی پیتا رہا.سچ ہے کہ عیسائیوں کو بجز شراب پینے کے اور کیا کام تھے یہی تو وہ دین کی جزو اعظم ہے جو عشاء ربّانی میں بھی داخل ہے.لیکن عجیب تر یہ ہے کہ یہ عیسائی اپنی حقیقی والدہ پر عاشق ہوگیا.اور ناظرین کو معلوم رہے کہ اندرین بلاد شام میں ایک قصبہ کا نام ہے.جس میں حضرات عیسائی ہر قسم کی شراب بناتے تھے اور پھر ان شرابوں کو دور دور کے ملکوں میں لے جاتے تھے اور ان کے مذہب میں شراب پینا صرف جائز ہی نہیں تھا بلکہ ہندوؤں کے بام مار گی فرقہ کی طرح مذہب کی بھاری جُزو تھی جس کے بغیر کوئی عیسائی نہیں ہوسکتا تھا.اس لئے قدیم سے عیسائیوں کو شراب کے ساتھ بہت کچھ تعلقات رہے ہیں اور اس زمانہ میں بھی انواع اقسام کی شرابوں کے موجد عیسائی لوگ ہی ہیں.یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ عرب کے ملک میں بھی عیسائی لوگ ہی شراب لے گئے اور ملک کو تباہ کر دیا.معلوم ہوتا

Page 386

تنزیل قرآن اور تکمیل نفوس سے کامل نہ کیا گیا* اور یہی ایک خاص علامت منجانب اللہ ہے کہ بت پرستی کے خیال کو بھی عیسیٰ پرستی کے خیال نے ہی قوت دی اور عیسائیوں کی ریس سے وہ لوگ بھی مخلوق پرستی پر زیادہ جم گئے.یاد رہے کہ عرب کے جنگلی لوگ شراب کو جانتے بھی نہیں تھے کہ کس بلا کا نام ہے مگر جب حضرات عیسائی وہاں پہنچے اور انہوں نے بعض نومریدوں کو بھی تحفہ دیا.تب تو یہ خراب عادت دیکھا دیکھی عام طور پر پھیل گئی اور نماز کے پانچ وقتوں کی طرح شراب کے پانچ وقت مقرر ہوگئے.یعنی جاشریہ ۱ صبح قبل طلوع آفتاب کی شراب ہے.صبوح۲ جو بعد طلوع کے شراب پی جاتی ہے.غبوق۳ جو ظہر اور عصر کی شراب کا نام ہے.قیل ۴ جو دوپہر کی شراب کا نام ہے.فحم ۵ جو رات کی شراب کا نام ہے.اسلام نے ظہور فرما کر یہ تبدیلی کی.جو ان پانچ وقتوں کے شرابوں کی جگہ پانچ نمازیں مقرر کر دیں اور ہریک بدی کی جگہ نیکی رکھ دی اور مخلوق پرستی کی جگہ خدا تعالیٰ کا نام سکھا دیا.اس پاک تبدیلی سے انکار کرنا کسی سخت بدذات کا کام ہے نہ کسی سعید انسان کا کیا کوئی مذہب ایسی بزرگ تبدیلی کا نمونہ پیش کرسکتا ہے ہرگز نہیں اور اس وقت ہم عیسائیوں کے اقراری اشعار میں سے اسی پر کفایت کرتے ہیں.لیکن اگر کسی نے چوں چرا کیا تو کئی سو اسی طور کے شعر ان کی نذر کیا جائے گا مگر میں یقین رکھتا ہوں کہ اس موقعہ پر کوئی بھی نہیں بولے گا.کیونکہ ایسے ہزارہا شعر جو جرائم ورزی کے اقرار پر مشتمل ہیں کیونکر چھپ سکتے ہیں.اب کوئی پادری ٹھاکر داس صاحب سے جنہوں نے عدم ضرورت قرآن پر ناحق بے جا تعصب سے یا وہ گوئی کی ہے پوچھے کہ کیا اب بھی ضرورت قرآن کے بارے میں آپ کو اطلاع ہوئی یا نہیں یا کیا ہم نے ثابت نہیں کر دیا کہ قرآن اس وقت نازل ہوا کہ جب تمام عیسائی جذامیوں کی طرح گل سڑ گئے خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں صحابہ کو مخاطب کیا کہ میں نے تمہارے دین کو کامل کیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کی اور آیت کو اس طور سے نہ فرمایا کہ اے نبی آج میں نے قرآن کو کامل کر دیا.اس میں حکمت یہ ہے کہ تا ظاہر ہو کہ صرف قرآن کی تکمیل نہیں ہوئی بلکہ ان کی بھی تکمیل ہو گئی کہ جن کو قرآن پہنچایا گیا اور رسالت کی علّت غائی کمال تک پہنچ گئی.منہ

Page 387

ہونے کی ہے جو کاذب کو ہرگز نہیں دی جاتی بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تھے اور ان کی محبت سے دوسرے لوگ بھی تباہ ہو گئے تھے.حقیقی ضرورت اس کا نام ہے.یا وہ جو انجیل کے لئے پیش کی جاتی ہے مسیح کی جان گئی اور عیسائی پہلے سے بھی بدتر ہوگئے اگر ٹھاکر داس صاحب چاہیں تو ہم دس ہزار تک ایسے شعر پیش کر سکتے ہیں جن میں مخالفین نے اپنے جرائم ورزی کا اقرار کیا ہے.اب بھی بعض بعض جرائم میں عیسائی سب سے اول نمبر پر ہیں.اس اُمّ الخبائث شراب کی نسبت ہی دیکھئے کہ صرف ایک شہر لنڈن میں شراب کی اس قدر دکانیں ہیں کہ حساب کیا گیا کہ اگر ان کو ایک لائن میں لگائیں تو ۷۵ میل میں آئیں.زانیہ عورتوں کی انگلستان میں اس قدر کثرت ہے کہ خاص لنڈن میں ایک لاکھ سے کچھ زیادہ ہوں گی اور جو خفیہ طور پر پاک دامن لیڈیوں کی بہادری سے ولد الحرام پیدا ہوتے ہیں بعض نے حساب کیا ہے کہ وہ فیصدی ۷۵ ہیں.قمار بازی کا وہ زور شور ہے کہ خدا کی پناہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم کے دلوں سے عظمت الٰہی بالکل اٹھ گئی ہے.انسان کو خدا بنا چھوڑا ہے.بدیوں کو نیکی سمجھ لیا ہے.سچ تو یہ ہے کہ مسیح کی خود کشی کے خیال نے ان کو ہلاک کر دیا اور جس قدر توریت کے احکام بدکاریوں سے بچنے کے متعلق اور نیک راہوں پر چلنے کے تھے کفارہ نے سب سے فراغت کر دی.اسلام سے اس قدر دشمنی ان لوگوں کو ہے جس قدر شیطان کو دشمنی سچائی سے ہے کوئی ان میں سے غور نہیں کرتا کہ اسلام نے کون سی نئی بات پیش کی جو قابل اعتراض ہے.موسیٰ نے کئی لاکھ بے گناہ بچے مار ڈالے کوئی عیسائی نہیں کہتا کہ برا کام کیا.لیکن ہمارے سیّد و مولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر تلوار اٹھائی جنہوں نے پہلے تلوار اٹھائی.اور ان کو مارا جو پہلے بہت سے مسلمانوں کو مار چکے تھے مگر پھر بھی آپ نہیں بلکہ اس وقت جب کہ انہوں نے خود تعاقب کیا اور خود چڑھائی کی نہ بچوں کو مارا نہ بوڑھوں کو بلکہ جو مجرم ہو چکے تھے انہیں کو سزا دی گئی.یہ سزا عیسائیوں کو بہت بری معلوم ہوتی ہے.جابجا یہی سیاپا کرتے ہیں کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ مارے بغض کے ان کے دل سیاہ ہوگئے.غضب کی بات ہے کہ عاجز انسان کو خدا کہہ کر ان کا بدن نہیں کانپتا کچھ بھی باز پُرس کے دن کا ان کو خوف نہیں آتا.اگر حضرت مسیح ایک دن

Page 388

پہلے کسی صادق نبی نے بھی اس اعلیٰ شان کے کمال کا نمونہ نہیں دکھلایا کہ ایک طرف کتاب اللہ بھی آرام اور امن کے ساتھ پوری ہو جائے.اور دوسری طرف تکمیل نفوس بھی ہو اور بایں ہمہ کفر کو ہریک پہلو سے شکست اور اسلام کو ہریک پہلو سے فتح ہو.اور پھر دوسری جگہ فرمایا کہ* کے لئے زندہ ہوکر آجائیں اور کہا جائے کہ دیکھو یہ تمہارا خدا.ان سے ذرہ مصافحہ تو کیجئے تو شرم میں غرق ہو جائیں.کمبخت مخلوق پرستوں نے عاجز بندوں کے مرنے کے بعد کیا کیا ان کو بنا ڈالا حیا نہیں.خدا تعالیٰ کا خوف نہیں یہ بھی نہیں سوچتے کہ مسیح نے پہلے نبیوں سے بڑھ کر کیا دکھلایا.خدائی کی مَد میں کون سے کام کئے.کیا یہ کام خدائی کے تھے کہ ساری رات آنکھوں میں سے رو رو کر نکالی پھر بھی دعا منظور نہ ہوئی.ایلی ایلی کہتے جان دی.باپ کو کچھ بھی رحم نہ آیا.اکثر پیشین گویاں پوری نہ ہوئیں معجزات پر تالاب نے دھبہ لگایا.فقیہوں نے پکڑا اور خوب پکڑا اور کچھ پیش نہ گئی.ایلیا کی تاویل میں کچھ عمدہ جواب بن نہ پڑا.اور پیشگوئی کو اپنے ظاہر الفاظ پر پورا کرنے کے لئے ایلیا کو زندہ کر کے دکھلا نہ سکا اور لما سبقتنی کہہ کر بصد حسرت اس عالم کو چھوڑا ایسے خدا سے تو ہندوؤں کا خدا رام چندر ہی اچھا رہا جس نے جیتے جی راون سے اپنا بدلہ لے لیا اور نہ چھوڑا جب تک اس کو ہلاک نہ کیا اور اس کے شہر کو جلا نہ دیا.ہاں کفارہ کا ڈھکوسلہ پیچھے سے بنایا گیا.مگر دیکھنا چاہئے کہ اس سے فائدہ کیا ہوا عیسائیوں پر تو اور بھی گناہ کا بھوت سوار ہوگیا.کون سے بدی ہے جس سے وہ رک گئے.کون سی ناپاکی ہے جس میں وہ گرفتار نہ ہوئے افسوس کہ خودکشی یوں ہی برباد گئی.منہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں نہایت درجہ کا یہ جوش تھا کہ میں اپنی زندگی میں اسلام کا زمین پر پھیلنا دیکھ لوں اور یہ بات بہت ہی ناگوار تھی کہ حق کو زمین پر قائم کرنے سے پہلے سفر آخرت پیش آوے سو خدا تعالیٰ اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشخبری دیتا

Page 389

.۱؂ یعنی جبکہ آنے والی مدد اور فتح آگئی جس کا وعدہ دیا گیا تھا اور تو نے دیکھ لیا کہ لوگ فوج در فوج دین اسلام میں داخل ہوتے جاتے ہیں.پس خدا کی حمد اور تسبیح کر یعنی یہ کہہ کہ یہ جو ہوا وہ مجھ سے نہیں بلکہ اس کے فضل اور کرم اور تائید سے ہے اور الوداعی استغفار کر کیونکہ وہ رحمت کے ساتھ بہت ہی رجوع کرنے والا ہے.استغفار کی تعلیم جو نبیوں کو دی جاتی ہے اس کو عام لوگوں کے گناہ میں داخل کرنا عین حماقت ہے.بلکہ دوسرے لفظوں میں یہ لفظ اپنی نیستی اور تذلّل اور کمزوری کا اقرار اور مدد طلب کرنے کا متواضعانہ طریق ہے چونکہ اس سورۃ میں فرمایا گیا ہے کہ جس کام کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے وہ پورا ہوگیا یعنی یہ کہ ہزارہا لوگوں نے دین اسلام قبول کر لیا.اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی طرف بھی اشارہ ہے.چنانچہ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک برس کے اندر فوت ہو گئے پس ضرور تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کے نزول سے جیسا کہ خوش ہوئے تھے غمگین بھی ہوں کیونکہ باغ تو لگایا گیا مگر ہمیشہ کی آب پاشی کا کیا انتظام ہوا سو خدا تعالیٰ نے اسی غم کے دور کرنے کے لئے استغفار کا حکم دیا.کیونکہ لغت میں ایسے ڈھانکنے کو کہتے ہیں جس سے انسان آفات سے محفوظ رہے.اسی وجہ سے مِغْفر جو خود کے معنی رکھتا ہے اسی میں سے نکالا گیا ہے اور مغفرت مانگنے سے یہ مطلب ہوتا ہے کہ ہے کہ دیکھ میں نے تیری مراد پوری کر دی اور کم و بیش اس مراد کا ہر یک نبی کو خیال تھا مگر چونکہ اس درجہ کا جوش نہیں تھا اس لئے نہ مسیح کو اور نہ موسٰیؑ کو یہ خوشخبری ملی بلکہ اسی کو ملی جس کے حق میں قرآن میں فرمایا۲؂ یعنی کیا تو اس غم سے ہلاک ہو جاوے گا کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے.منہ

Page 390

جس بلا کا خوف ہے یا جس گناہ کا اندیشہ ہے خدا تعالیٰ اس بلایا اس گناہ کو ظاہر ہونے سے روک دے اور ڈھانکے رکھے سو اس استغفار کے ضمن میں یہ وعدہ دیا گیا کہ اس دین کے لئے غم مت کھا.خدا تعالیٰ اس کو ضائع نہیں کرے گا اور ہمیشہ رحمت کے ساتھ اس کی طرف رجوع کرتا رہے گا اور ان بلاؤں کو روک دے گا جو کسی ضعف کے وقت عائد حال ہوسکتی ہیں.اکثر نادان عیسائی مغفرت کی سچی حقیقت نہ دریافت کرنے کی وجہ سے یہ خیال کر لیتے ہیں کہ جو شخص مغفرت مانگے وہ فاسق اور گنہ گار ہوتا ہے مگر مغفرت کے لفظ پر خوب غور کرنے کے بعد صاف طور پر سمجھ آجاتا ہے کہ فاسق اور بدکار وہی ہے جو خدا تعالیٰ سے مغفرت نہیں مانگتا.کیونکہ جبکہ ہریک سچی پاکیزگی اسی کی طرف سے ملتی ہے اور وہی نفسانی جذبات کے طوفان سے محفوظ اور معصوم رکھتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کے راستباز بندوں کا ہریک طرفۃ العین میں یہی کام ہونا چاہیے کہ وہ اس حافظ اور عاصم حقیقی سے مغفرت مانگا کریں.اگر ہم جسمانی عالم میں مغفرت کا کوئی نمونہ تلاش کریں.تو ہمیں اس سے بڑھ کر اور کوئی مثال نہیں مل سکتی کہ مغفرت اس مضبوط اور ناقابل بند کی طرح ہے جو ایک طوفان اور سیلاب کے روکنے کے لئے بنایا جاتا ہے پس چونکہ تمام زور تمام طاقتیں خدا تعالیٰ کے لئے مسلّم ہیں اور انسان جیسا کہ جسم کے رو سے کمزور ہے روح کے رو سے بھی ناتوان ہے اور اپنے شجرہ پیدائش کے لئے ہریک وقت اس لازوال ہستی سے آب پاشی چاہتا ہے جس کے فیض کے بغیر یہ جی ہی نہیں سکتا اس لئے استغفار مذکورہ معانی کے رو سے اس کے لازم حال پڑا ہے اور جیسا کہ چاروں طرف درخت اپنی ٹہنیاں چھوڑتا ہے گویا اردگرد کے چشمہ کی طرف اپنے ہاتھوں کو پھیلاتا ہے کہ اے چشمہ میری

Page 391

مدد کر اور میری سرسبزی میں کمی نہ ہونے دے اور میرے پھلوں کا وقت ضائع ہونے سے بچا یہی حال راستبازوں کا ہے.روحانی سرسبزی کے محفوظ اور سلامت رہنے کے لئے یا اس سرسبزی کی ترقیات کی غرض سے حقیقی زندگی کے چشمہ سے سلامتی کا پانی مانگنا بھی وہ امر ہے جس کو قرآن کریم دوسرے لفظوں میں استغفار کے نام سے موسوم کرتا ہے قرآن شریف کو سوچو اور غور سے پڑھو استغفار کی اعلیٰ حقیقت پاؤ گے اور ہم ابھی بیان کر چکے ہیں کہ مغفرت لُغت کی رو سے ایسے ڈھانکنے کو کہتے ہیں جس سے کسی آفت سے بچنا مقصود ہے.مثلاً پانی درختوں کے حق میں ایک مغفرت کرنے والا عنصر ہے یعنی ان کے عیبوں کو ڈھانکتا ہے.یہ بات سوچ لو کہ اگر کسی باغ کو برس دو برس بالکل پانی نہ ملے تو اس کی کیا شکل نکل آئے گی کیا یہ سچ نہیں کہ اس کی خوبصورتی بالکل دور ہو جائے گی اور سرسبزی اور خوشنمائی کا نام و نشان نہیں رہے گا اور وہ وقت پر کبھی پھل نہیں لائے گا اور اندر ہی اندر جل جائے گا.اور پھول بھی نہیں آئیں گے بلکہ اس کے سبز سبز اور نرم نرم لہلہاتے ہوئے پتے چند روز ہی میں خشک ہوکر گر جائیں گے اور خشکی غالب ہوکر مجذوم کی طرح آہستہ آہستہ اس کے تمام اعضاء گرنے شروع ہوجائیں گے یہ تمام بلائیں کیوں اس پر نازل ہوں گی؟ اس وجہ سے کہ وہ پانی جو اس کی زندگی کا مدار تھا اس نے اس کو سیراب نہیں کیا اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے ۱؂.یعنی پاک کلمہ پاک درخت کی مانند ہے پس جیسا کہ کوئی عمدہ اور شریف درخت

Page 392

بغیر پانی کے نشوونما نہیں کر سکتا.اسی طرح راستباز انسان کے کلمات طیّبہ جو اس کے منہ سے نکلتے ہیں اپنی پوری سرسبزی دکھلا نہیں سکتے اور نہ نشوونما کر سکتے ہیں جب تک وہ پاک چشمہ ان کی جڑوں کو استغفار کے نالے میں بہہ کر تر نہ کرے سو انسان کی روحانی زندگی استغفار سے ہے جس کے نالے میں ہوکر حقیقی چشمہ انسانیت کی جڑوں تک پہنچتا ہے اور خشک ہونے اور مرنے سے بچا لیتا ہے.جس مذہب میں اس فلسفہ کا ذکر نہیں وہ مذہب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہرگز نہیں.اور جس شخص نے نبی یا رسول یا راستباز یا پاک فطرت کہلا کر اس چشمہ سے منہ پھیرا ہے.وہ ہرگز خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور ایسا آدمی خدا تعالیٰ سے نہیں بلکہ شیطان سے نکلا ہے کیونکہ شیط مرنے کو کہتے ہیں پس جس نے اپنے روحانی باغ کو سرسبز کرنے کے لئے اس حقیقی چشمہ کو اپنی طرف کھینچنا نہیں چاہا اور استغفار کے نالے کو اس چشمہ سے لبالب نہیں کیا وہ شیطان ہے یعنی مرنے والا ہے کیونکہ ممکن نہیں کہ کوئی سرسبز درخت بغیر پانی کے زندہ رہ سکے.ہریک متکبر جو اس زندگی کے چشمہ سے اپنے روحانی درخت کو سرسبز کرنا نہیں چاہتا وہ شیطان ہے اور شیطان کی طرح ہلاک ہوگا.کوئی راستباز نبی دنیا میں نہیں آیا جس نے استغفار کی حقیقت سے منہ پھیرا اور اس حقیقی چشمہ سے سرسبز ہونا نہ چاہا.ہاں سب سے زیادہ اس سرسبزی کو ہمارے سید و مولیٰ ختم المرسلین فخر الاولین والآخرین محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم نے مانگا اس لئے خدا نے اس کو اس کے تمام ہم منصبوں سے زیادہ سرسبز اور معطر کیا.پھر ہم اپنے پہلے مقصد کی طرف عود کر کے لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور قرآن کریم کی حقّا نیت پر اس دلیل سے نہایت اعلیٰ

Page 393

واجلٰی ثبوت پیدا ہوتا ہے کہ آنجناب علیہ الصلوٰۃ والسلام ایسے وقت میں دنیا میں بھیجے گئے کہ جب دنیا زبان حال سے ایک عظیم الشان مصلح کو مانگ رہی تھی اور پھر نہ مرے اور نہ مارے گئے جب تک کہ راستی کو زمین پر قائم نہ کردیا* اس جگہ بظاہر ایک اعتراض ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر ایک بُت پرست کہے کہ گو ہم قبول کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے بت پرستی کا استیصال ہوا لیکن ہم یہ قبول نہیں کرتے کہ بت پرستی بری تھی بلکہ ہم کہتے ہیں کہ یہی راہ راست تھا جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روک دیا.پس اس سے لازم آیا کہ آپ نے دنیا کی اصلاح نہ کی بلکہ صلاحیت کی راہ کو معدوم کردیا.ایسا ہی اگر ایک مجوسی کہے کہ یہ تو میں مانتا ہوں کہ درحقیقت آنحضرتؐ نے آتش پرستی کی رسم کو نابود کر دیا اور آفتاب پرستی کا بھی نام و نشان کھو دیا مگر میں یہ بات نہیں مانوں گا کہ یہ کام اچھا کیا بلکہ وہی سچی راہ تھی جس کو مٹا دیا.ایسا ہی اگر ایک عیسائی کہے کہ گو میں مانتا ہوں کہ آنحضرتؐ نے عرب سے عیسائی عقیدہ کی بنیاد اکھیڑ دی مگر میں اس بات کو اصلاح کی مد میں داخل نہیں کر سکتا کہ جو عیسیٰ اور اس کی والدہ کی پرستش سے منع کیا گیا اور صلیبوں اور تصویروں کو توڑ دیا گیا یہ کارخیر تھا بلکہ وہی راہ اچھی تھی جس کی مخالفت کی گئی.اسی طرح اگر قمار باز اور شراب خوار اور زانی اور لڑکیوں کے قتل کرنے والے اور بخیل یا بے جا خرچ کرنے والے اور طرح طرح کے ظلموں اور خیانتوں کو پسند کرنے والے اور چور اور اچکے اور دھاڑوی اپنے اپنے دلائل پیش کریں اور کہیں کہ اگرچہ ہم قبول کرتے اور مانتے ہیں کہ اسلام میں ہمارے فرقوں کا بہت ہی عمدہ تدارک کیا گیا ہے اور ہزارہا چوروں کو سخت سخت سزائیں دے کر اکثر زمین کے حصہ سے ان کا شور و شر مٹا دیا.لیکن ہماری دانست میں ان پر ناحق ظلم کیا گیا وہ جان مار کر چوری کرتے اور خود خطرہ میں پڑ کر ڈاکہ مارتے تھے پس ان کا مال اس قدر محنت کے بعد حلال کے ہی حکم میں تھا ناحق ان کو ستایا گیا اور ایک پرانی رسم جو عبادت میں داخل تھی مٹا دی سو ان سب فرقوں کا جواب یہ ہے کہ یوں تو کوئی شخص بھی ان فرقوں میں سے اپنے منہ سے اپنے تئیں قصور وار نہیں ٹھہرائے گا

Page 394

جب نبوت کے ساتھ ظہور فرما ہوئے تو آتے ہی اپنی ضرورت دنیا پر ثابت کر دی.اور ہریک قوم کو ان کے شرک اور ناراستی اور مفسدانہ حرکات پر ملزم کیا جیسا کہ قرآن کریم اس سے بھرا ہوا ہے.مثلاً اسی آیت کو سوچ کر دیکھو جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے..۱؂ لیکن بعض ان کے بعض پر گواہ ہیں.مثلاً ایک شخص رام چندر اور کرشن جی کا پوجا کرنے والا اور ان کو خدا ٹھہرانے والا اس بات سے تو کبھی باز نہیں آئے گا.کہ وہ رام چندر اور کرشن کو انسان محض قرار دے بلکہ بار بار اسی بات پر زور دے گا کہ ان دونوں بزرگوں میں پرم آتما کی جوت تھی اور وہ باوجود انسان ہونے کے خدا بھی تھے اور اپنے اندر ایک جہت مخلوقیت کی رکھتے تھے.اور ایک جہت خالقیت کی اور مخلوقیت ان کی حادث تھی اور ایسا ہی مخلوقیت کے عوارض بھی یعنی مرنا اور دکھ اٹھانا یا کھانا پینا سب حادث تھے.مگر خالقیت ان کی قدیم ہے اور خالقیت کی صفات بھی قدیم لیکن اگر ان کو کہا جائے کہ اے بھلے مانسو اگر یہی بات ہے تو ابن مریم کی خدائی کو بھی مان لو اور بے چارے عیسائی جو دن رات یہی سیاپا کر رہے ہیں ان کی بھی تو کچھ خاطر رکھو کہ چون آب ازسر گذشت چہ نیزہ چہ بالشت.تب وہ حضرت مسیح کی اس قدر بدتہذیبی سے تکذیب کرتے ہیں کہ خدائی تو بھلا کون مانے اس غریب کو نبوت سے بھی جواب دیتے ہیں بلکہ بسا اوقات گالیوں تک نوبت پہنچاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کو شری مہاراج برہم مورت رام چندر جی اور کرشن گوپال رود ر سے کیا نسبت وہ تو ایک آدمی تھا جس نے پیغمبری کا جھوٹا دعویٰ کیا کہاں شری مہاراج کرشن جی اور کہاں عیسیٰ مریم کا پوتر.اور تعجب ہے کہ اگر عیسائیوں کے پاس ان دونوں مہاتما اوتاروں کا ذکر کیا جائے تو وہ بھی ان کی خدائی نہیں مانتے بلکہ بے ادبی سے باتیں کرتے ہیں حالانکہ دنیا میں خدائی کی پہلے پہل بنا ڈالنے والے یہی دونوں بزرگ ہیں اور چھوٹے چھوٹے خداؤں کے مورث اعلیٰ اور ابن مریم وغیرہ تو پیچھے سے نکلے اور ان کی شاخیں ہیں اور عیسائی مسیح کے خدا بنانے میں انہیں لوگوں کے نقش قدم پر چلے ہیں جنہوں نے ان مہاتماؤں کو خدا

Page 395

یعنی وہ بہت ہی برکت والا ہے.جس نے قرآن شریف کو اپنے بندہ پر اس غرض سے اتارا کہ تمام جہان کو ڈرانے والا ہو یعنی تا ان کی بدراہی اور بد عقیدگی پر ان کو متنبہ کرے.پس یہ آیت بصراحت اس بات پر دلیل ہے کہ قرآن کایہی دعویٰ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت میں تشریف لائے تھے جبکہ تمام دنیا اور تمام قومیں بگڑ چکی تھیں اور مخالف قوموں نے اس دعویٰ کو نہ صرف اپنی خاموشی بنایا جیسا کہ قرآن کریم اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے دیکھو آیت ۱؂ الجزو نمبر ۱۰ یعنی یہود نے کہا کہ عزیر خدا کا بیٹا ہے اور عیسائیوں نے کہا کہ مسیح خدا کا بیٹا ہے یہ سب ان کے منہ کی باتیں ہیں یہ لوگ ان لوگوں کی ریس کرتے ہیں جو ان سے پہلے انسانوں کو خدا بناکر کافر ہوگئے.خدا کے ماروں نے کہاں سے کہاں پلٹا کھایا.سو یہ آیت صریح ہندیوں اور یونانیوں کی طرف اشارہ کر رہی ہے اور بتلا رہی ہے جو پہلے انسانوں کو انہیں لوگوں نے خدا قرار دیا.پھر عیسائیوں کی بدقسمتی سے یہ اصول ان تک پہنچ گئے.تب انہوں نے کہا کہ ہم ان قوموں سے کیوں پیچھے رہیں اور ان کی بدبختی سے توریت میں پہلے سے یہ محاورہ تھا کہ انسانوں کو بعض مقامات میں خدا کے بیٹے قرار دیا تھا بلکہ خدا کی بیٹیاں بھی بلکہ بعض گذشتہ لوگوں کو خدا بھی کہا گیا تھا.اس عام محاورہ کے لحاظ سے مسیح پر بھی انجیل میں ایسا ہی لفظ بولا گیا پس وہی لفظ نادانوں کے لئے زہر قاتل ہوگیا تمام بائبل دوہائی دے رہی ہے کہ یہ لفظ ابن مریم سے کچھ خاص نہیں ہریک نبی اور راستباز پر بولا گیا ہے بلکہ یعقوب نخست زادہ کہلایا ہے مگر بدقسمت انسان جب کسی پیچ میں پھنس جاتا ہے تو پھر اس سے نکل نہیں سکتا پھر عجیب تر یہ کہ جو کچھ مسیح کی خدائی کے لئے قواعد بیان کئے گئے ہیں کہ وہ خدا بھی ہے انسان بھی یہ تمام قواعد کرشن اور رام چندر کے لئے ہندوؤں کی کتابوں میں پہلے سے موجود ہیں اور اس نئی

Page 396

سے بلکہ اپنے اقراروں سے مان لیا ہے پس اس سے ببدا ہت نتیجہ نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم درحقیقت ایسے وقت میں آئے تھے جس وقت میں ایک سچے اور کامل نبی کو آنا چاہیئے.پھر جب ہم دوسرا پہلو دیکھتے ہیں کہ آنجناب صلعم کس وقت واپس بلائے گئے تو قرآن صاف اور صریح طور پر ہمیں خبر دیتا ہے کہ ایسے وقت میں تعلیم سے ایسے مطابق پڑے ہیں کہ ہم بجز اس کے اور کوئی بھی رائے ظاہر نہیں کرسکتے کہ یہ تمام ہندوؤں کے عقیدوں کی نقل کی گئی ہے.ہندوؤں میں ترے مورتی کا بھی عقیدہ تھا جس سے برھما.بشن.مہادیو کا مجموعہ مراد ہے.سو تثلیث ایسے عقیدے کا عکس کھینچا ہوا معلوم ہوتا ہے مگر عجیب بات یہ ہے کہ جو کچھ مسیح کے خدا بنانے کے لئے اور عقلی اعتراضوں سے بچنے کے لئے عیسائی لوگ جوڑ توڑ کررہے ہیں اور مسیح کی انسانیت کو خدائی کے ساتھ ایسے طور سے پیوند دے رہے ہیں جس سے ان کی غرض یہ ہے کہ کسی طرح عقلی اعتراضوں سے بچ جائیں اور پھر بھی وہ کسی طرح بچ بھی نہیں سکتے اور آخرا سرار الٰہی میں داخل کر کے پیچھا چھوڑاتے ہیں بعینہٖ یہی نقشہ ان ہندوؤں کا ہے جو رام چندر اور کرشن کو ایشر قرار دیتے ہیں یعنی وہ بھی بعینہٖ وہی باتیں سناتے ہیں جو عیسائی سنایا کرتے ہیں اور جب ہریک پہلو سے عاجز آجاتے ہیں.تب کہتے ہیں کہ یہ ایک ایشر کا بھید ہے اور انہیں پر کھلتا ہے جو جوگ کماتے اور دنیا کو تیاگتے اور تپسیاکرتے ہیں لیکن یہ لوگ نہیں جانتے کہ یہ بھید تو اسی وقت کھل گیا جبکہ ان جھوٹے خداؤں نے اپنی خدائی کا کوئی ایسا نمونہ نہ دکھلایا جو انسان نے نہ دکھلایا ہو.سچ ہے کہ گرنتھوں میں یہ قصے بھرے پڑے ہیں کہ ان اوتاروں نے بڑی بڑی شکتی کے کام کئے ہیں مردے جلائے اور پہاڑوں کو سر پر اٹھا لیا.لیکن اگر ہم ان کہانیوں کو سچ مان لیں تو یہ لوگ خود قائل ہیں کہ بعض ایسے لوگوں نے بھی کرشمے دکھلائے جنہوں نے خدائی کا دعویٰ نہیں کیا.مثلاً ذرہ سوچ کر دیکھ لو کہ کیا مسیح کے کام موسیٰ کے کاموں سے بڑھ کر تھے بلکہ مسیح کے نشانوں کو تو تالاب کے قصہ نے خاک میں ملا دیا کیا آپ لوگ

Page 397

بلانے کا حکم ہوا کہ جب اپنا کام پورا کر چکے تھے یعنی اس وقت کے بعد بلائے گئے جبکہ یہ آیت نازل ہو چکی کہ مسلمانوں کے لئے تعلیم کا مجموعہ کامل ہوگیا اور جو کچھ ضروریات دین میں نازل ہونا تھا وہ سب نازل ہو چکا اور نہ صرف یہی بلکہ یہ بھی خبر دی گئی کہ خدا تعالیٰ کی تائیدیں بھی کمال کو پہنچ گئیں اور جوق در جوق معجزہ نما تالاب سے واقف نہیں جو اسی زمانہ میں تھا اور کیا اسرائیل میں ایسے نبی نہیں گذرے جن کے بدن کے چھونے سے مُردے زندہ ہوئے پھر خدائی کی شیخی مارنے کے لئے کون سے وجوہات ہیں جائے شرم!!! اور اگرچہ ہندوؤں نے اپنے اوتاروں کی نسبت شکتی کے کام بہت لکھے ہیں اور خواہ نخواہ ان کو پرمیشر ثابت کرنا چاہا ہے مگر وہ قصے بھی عیسائیوں کے بے ہودہ قصوں سے کچھ کم نہیں ہیں اور اگر فرض بھی کریں کہ کچھ ان میں سے صحیح بھی ہے.تب بھی عاجز انسان جو ضعف اور ناتوانی کا خمیر رکھتا ہے.پرمیشر نہیں ہوسکتا اور احیاء حقیقی تو خود باطل اور الٰہی کتابوں کے مخالف.ہاں اعجازی احیاء جس میں دنیا کی طرف رجوع کرنا اور دنیا میں پھر آباد ہونا نہیں ہوتا.ممکن تو ہے مگر خدائی کی دلیل نہیں کیونکہ اس کے مدعی عام ہیں مردوں سے باتیں کرا دینے والے بہت گذرے ہیں مگر یہ طریق کشف قبور کے قسم میں سے ہے.ہاں ہندوؤں کو عیسائیوں پر ایک فضیلت بے شک ہے.اس کے بلاشبہ ہم قائل ہیں اور وہ یہ ہے کہ وہ بندوں کو خدا بنانے میں عیسائیوں کے پیشرو ہیں.انہیں کے ایجاد کی عیسائیوں نے بھی پیروی کی.ہم کسی طرح اس بات کو چھپا نہیں سکتے کہ جو کچھ عیسائیوں نے عقلی اعتراضوں سے بچنے کے لئے باتیں بنائی ہیں یہ باتیں انہوں نے اپنے دماغ سے نہیں نکالیں بلکہ شاستروں اور گرنتھوں میں سے چرائی ہیں یہ تمام تودہ طوفان پہلے ہی سے برہمنوں نے کرشن اور رام چندر کے لئے بنا رکھا تھا جو عیسائیوں کے کام آیا پس یہ خیال بدیہی البطلان ہے کہ شائد ہندوؤں نے عیسائیوں کی کتابوں میں سے

Page 398

لوگ دین اسلام میں داخل ہوگئے.اور یہ آیتیں بھی نازل ہوگئیں کہ خدا تعالیٰ نے ایمان اور تقویٰ کو ان کے دلوں میں لکھ دیا اور فسق اور فجور سے انہیں بیزار کر دیا اور پاک اور نیک اخلاق سے وہ متّصف ہوگئے اور ایک بھاری تبدیلی ان کے اخلاق چرایا ہے کیونکہ ان کی یہ تحریریں اس وقت کی ہیں کہ جب حضرت عیسٰی کا وجود بھی دنیا میں نہیں تھا.پس ناچار ماننا پڑا کہ چور عیسائی ہی ہیں چنانچہ پوٹ صاحب بھی اس بات کے قائل ہیں کہ ’’تثلیث افلاطون کے لئے ایک غلط خیال کی پیروی کا نتیجہ ہے.مگر اصل یہ ہے کہ یونان اور ہند اپنے خیالات میں مرایا متقابلہ کے طرح تھے.قریب قیاس یہ ہے کہ یہ شرک کے انبارپہلے ہند سے وید ودیا کی صورت میں یونان میں گئے.پھر وہاں سے نادان عیسائیوں نے چرا چرا کر انجیل پر حاشئے چڑھائے اور اپنا نامہ اعمال درست کیا.‘‘ اب ہم اصلمعنوں کی طرف توجہ کرکے لکھتے ہیں کہ جبکہ ان تمام فرقوں میں سے ایک فرقہ دوسرے فرقہ کا مکذب ہے تو اس میں کچھ شک نہیں کہ ہر ایک ان میں سے اپنی رائے میں دنیا کی اصلاح اس بات میں دیکھتا ہے کہ اس کے مخالف فرقہ کا اعتقاد نابود ہو.اور اس بات کا قائل ہے کہ اس کے مخالف کا عقیدہ نہایت خراب اور غیر صحیح ہے.پھر جبکہ ہریک فرقہ اپنے مخالف پر نظر ڈال کر اس خرابی کو مان رہا ہے تو اس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہریک فرقہ کو بالضرورت اقرار کرنا پڑا ہے کہ درحقیقت آپ کے ہاتھ سے دنیا کی عام اصلاح ظہور میں آئی.اور آپ درحقیقت مصلح اعظم تھے.ماسوا اس کے ہریک فرقہ کے محقق اس بات کا اقرار رکھتے ہیں کہ درحقیقت ان کے مذہب کے لوگ اس زمانہ میں سخت بدچلن اور بدراہیوں میں مبتلا ہوگئے تھے.چنانچہ اس زمانہ کی بدچلنی اور خراب حالت کے بارے میں پادری فنڈل میزان الحق میں اور محقق پوٹ اپنی کتاب میں اور پادری جیمس کیمرن لیس اپنے لیکچر مطبوعہ مئی ۱۸۸۲ ؁ء میں اس بات کے قائل ہیں.ماسوا اس کے حقیقی نیکی اور راہ راست کو پہچاننے والے جانتے ہیں کہ یہ تمام فرقے ایک تاریکی کے گڑھے میں پڑے

Page 399

اور چلن اور روح میں واقع ہوگئی تب ان تمام باتوں کے بعد سورۃ النصر نازل ہوئی جس کا ماحصل یہی ہے کہ نبوت کے تمام اغراض پورے ہوگئے اور اسلام دلوں پر فتح یاب ہوگیا.تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عام طور پر اعلان دے دیا کہ یہ سورت میری وفات کی طرف اشارہ کرتی ہے بلکہ اس کے بعد ہوئے ہیں* اور ان خداؤں میں سے کوئی بھی واقعی اور سچا خدا نہیں جن لوگوں کو ان نادانوں نے خدا سمجھ رکھا ہے کیونکہ واقعی طور پر خدا ہونے کی یہ نشانی تھی کہ اس کی عظمت اور جلال اس کے واقعات زندگی سے ایسے طور سے ظاہر ہوتی ہو جیسا کہ آسمان اور زمین ایک سچے اور جلیل خدا کی عظمت ظاہر کر رہا ہے مگر ان عاجز اور مصیبت زدہ خداؤں میں یہ نشانی قطعاً مفقود ہے کیا عقل سلیم اس بات کو قبول کرلے گی کہ ایک مرنے والا اور خود کمزور کسی پہلو سے خدا بھی ہے حاشا وکلا ہرگز نہیں بلکہ سچا خدا وہی خدا ہے جس کی غیر متبدل صفات قدیم سے آئینہ عالم میں نظر آرہی ہیں اور جس کو ان باتوں کی حاجت نہیں کہ کوئی اس کا بیٹا ہو اور خودکشی کرے.تب لوگوں کو اس سے نجات ملے بلکہ نجات کا سچا طریق قدیم سے ایک ہی ہے جو حدوث اور بناوٹ سے پاک ہے جس پر چلنے والے حقیقی نجات کو اور اس کے ثمرات کو اسی دنیا میں پالیتے ہیں.اور اس کے سچے نمونے اپنے اندر دیکھتے ہیں یعنی وہ سچا طریق یہی ہے کہ الٰہی منادی کو قبول کرکے اس کے نقش قدم پر ایسا چلیں کہ اپنی نفسانی ہستی سے مر جائیں اور اسی طرح اپنے لئے آپ فدیہ دیں اور یہی طریق ہے جو خدا تعالیٰ نے ابتدا سے حق کے طالبوں کی فطرت میں رکھا ہے اور قدیم سے اور جب سے کہ انسان بنایا گیا ہے اور اس روحانی قربانی کا سامان اس کو عطا کردیا گیا ہے اور اس کی فطرت یہ اقرار پنڈت دیانند نے بھی اپنی ستیارتھ پرکاش میں کیا ہے اور پنڈت جی قائل ہیں کہ آریہ ورت اُس زمانہ میں مورتی پوجن میں غرق تھا.منہ

Page 400

حج کیا اور اس کا نام حجۃ الوداع رکھا اور ہزارہا لوگوں کی حاضری میں ایک اونٹنی پر سوار ہوکر ایک لمبی تقریر کی اور کہا کہ سنو! اے خدا کے بندو! مجھے میرے رب کی طرف سے یہ حکم ملے تھے کہ تا میں یہ سب احکام تمہیں پہنچا دوں پس کیا تم گواہی دے سکتے ہو کہ یہ سب باتیں میں نے تمہیں پہنچا دیں.تب ساری قوم نے اس سامان کو اپنے ساتھ لائی ہے اور اسی پر متنبہ کرنے کے لئے ظاہری قربانیاں بھی رکھی گئیں.یہ وہ واقعی حقیقت ہے.جس کو کوتہ اندیش اور بدقسمت ہندوؤں اور عیسائیوں نے نہیں سمجھا اور روحانی حقیقتوں پر غور نہیں کی اور نہایت بد اور مکروہ اور تاریک خیالات میں پڑ گئے.میں نے کبھی کسی چیز پر ایسا تعجب نہیں کیا جیسا کہ ان لوگوں کی حالت پر تعجب کرتا ہوں کہ جو کامل اور زندہ اور حیّ و قیّوم خدا کو چھوڑ کر ایسے بے ہودہ خیالات کے پیرو ہیں اور ان پر ناز کرتے ہیں.پھر ہم اصل مطلب کی طرف عود کرکے کہتے ہیں کہ جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں ہمارے سید و مولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اصلاح نہایت وسیع اور عام اور مسلم الطوائف ہے.اور یہ مرتبہ اصلاح کا کسی گذشتہ نبی کو نصیب نہیں ہوا.اور اگر کوئی عرب کی تاریخ کو آگے رکھ کر سوچے تو اسے معلوم ہوگا کہ اس وقت کے بت پرست اور عیسائی اور یہودی کیسے متعصب تھے اور کیونکر ان کی اصلاح کی صدہا سال سے نومیدی ہوچکی تھی.پھر نظر اٹھا کر دیکھئے کہ قرآنی تعلیم نے جو ان کے بالکل مخالف تھی کیسی نمایاں تاثیریں دکھلائیں اور کیسی ہریک بد اعتقاد اور ہریک بدکاری کا استیصال کیا.شراب کو جو اُمّ الخبائث ہے دور کیا.قمار بازی کی رسم کو موقوف کیا دختر کشی کا استیصال کیا اور جو انسانی رحم اور عدل اور پاکیزگی کے برخلاف عادات تھیں سب کی اصلاح کی.ہاں مجرموں نے اپنے جرموں کی سزائیں بھی پائیں جن کے پانے کے وہ سزا وار تھے.پس اصلاح کا امر ایسا امر نہیں ہے جس سے کوئی انکار کرسکے.اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ اس زمانہ کے بعض حق پوش پادریوں نے جب دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے اس قدر عام اصلاح ہوئی کہ اس کو کسی طرح چھپا نہیں سکتے اور اس کے مقابل پر جو مسیح نے اپنے

Page 401

بآواز بلند تصدیق کی کہ ہم تک یہ سب پیغام پہنچائے گئے تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ آسمان کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ اے خدا ان باتوں کا گواہ رہ اور پھر فرمایا کہ یہ تمام تبلیغ اس لئے مقرر کی گئی کہ شاید آئندہ سال میں تمہارے ساتھ نہیں ہونگا.اور پھر دوسری مرتبہ تم مجھے اس جگہ نہیں پاؤ گے.تب مدینہ میں جاکر دوسرے سال میں فوت ہوگئے اللّٰھم صلّ علیہ وبارک وسلم درحقیقت یہ وقت میں اصلاح کی وہ ہیچ ہے تو ان پادریوں کو فکر پڑی کہ گمراہوں کو رو باصلاح کرنا اور بدکاروں کو نیکی کے رنگ میں لانا جو اصل نشانی سچے نبی کی ہے.وہ جیسا کہ اکمل اور اتم طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ظہور میں آئی مسیح کی اصلاح میں کوئی بھی اس کی نسبت نہیں پائی جاتی تو انہوں نے اپنے دجّالی فریبوں کے ساتھ آفتاب پر خاک ڈالنا چاہا تو ناچار جیسا کہ پادری جیمس کیمرن لیس نے اپنے لیکچر میں شائع کیا ہے.جاہلوں کو اس طرح پر دھوکا دیا کہ وہ لوگ پہلے سے صلاحیت پذیر ہونے کے مستعد تھے اور بت پرستی اور شرک ان کی نگاہوں میں حقیر ٹھہر چکا تھا.لیکن اگر ایسی رائے ظاہر کرنے والے اپنے اس خیال میں سچے ہیں تو انہیں لازم ہے کہ اپنے اس خیال کی تائید میں ویسا ہی ثبوت دیں جیسا کہ قرآن کریم ان کے مخالف ثبوت دیتا ہے یعنی فرماتا ہے کہ.۱؂ اور ان سب کو مردے قرار دے کر ان کا زندہ کیا جانا محض اپنی طرف منسوب کرتا ہے اور جابجا کہتا ہے کہ وہ ضلالت کے زنجیروں میں پھنسے ہوئے تھے ہم نے ہی ان کو رہائی دی وہ اندھے تھے ہم نے ہی ان کو سوجاکھا کیا.وہ تاریکی میں تھے ہم نے ہی نور بخشا اور یہ باتیں پوشیدہ نہیں کہیں بلکہ قرآن ان سب کے کانوں تک پہنچا اور انہوں نے ان بیانات کا انکار نہ کیا اور کبھی یہ ظاہر نہ کیا کہ ہم تو پہلے ہی مستعد تھے قرآن کا ہم پر کچھ احسان نہیں.پس اگر ہمارے مخالفوں کے پاس کوئی مخالفانہ تحریر اپنے بیان کی تائید میں ایسی ہو جو قرآن کریم کے ہم پہلو تیرہ ۱۳۰۰سو برس سے چلی آتی ہے تو وہ پیش کردیں ورنہ ایسی باتیں صرف عیسائی سرشت کا افترا ہے اس سے زیادہ نہیں یہ تو جیمس کا قول ہے کہ جو کتاب مذاہب عالم میں شائع ہوا ہے مگر

Page 402

تمام اشارات قرآن شریف ہی سے مستنبط ہوتے ہیں جس کی تصدیق اسلام کی متفق علیہ تاریخ سے بہ تفصیل تمام ہوتی ہے.بعض عیسائی پادریوں نے اس سے بھی بڑھ کر حقیقت فہمی کا جوہر دکھلایا ہے.وہ کہتے ہیں کہ درحقیقت اصلاح کچھ چیز ہی نہیں اور نہ کبھی کسی کی اصلاح ہوئی.توریت کی تعلیم اصلاح کے لئے نہیں تھی بلکہ اس ایما کے لئے کہ گناہ گار انسان خدا کے احکام پر چل نہیں سکتا اور انجیل کی تعلیم بھی اسی مدعا سے تھی.ورنہ طمانچہ کھا کر دوسری گال بھی پھیر دینا نہ کبھی ہوا نہ ہوگا اور کہتے ہیں کہ کیا مسیح کوئی جدید تعلیم لے کر آیا تھا اور پھر آپ ہی جواب دیتے ہیں کہ انجیل کی تعلیم تو پہلے ہی سے توریت میں موجود تھی.اور بائبل کے متفرق مقامات جمع کرنے سے انجیل بن جاتی ہے پھر مسیح کیوں آیا تھا؟ اس کا جواب دیتے ہیں کہ صرف خودکشی کے لئے مگر تعجب کہ خودکشی سے بھی مسیح نے جی چرایا اور ایلی ایلی لما سبقتنی منہ پر لایا.پھر یہ بھی تعجب کا مقام ہے کہ زید کی خودکشی سے بکر کو کیا حاصل ہوگا اگر کسی کا کوئی عزیز اس کے گھر میں بیمار ہو اور وہ اس کے غم سے چھری مار لے تو کیا وہ عزیز اس نابکار حرکت سے اچھا ہو جائے گا.یا اگر مثلاً کسی کے بیٹے کو درد قولنج ہے تو اس کا باپ اس کے غم میں اپنا سر پتھر سے پھوڑ لے تو کیا اس احمقانہ حرکت سے بیٹا اچھا ہو جائے گا.اور یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ زید کوئی گناہ کرے اور بکر کو اس کے عوض سولی پر کھینچا جائے یہ عدل ہے یا رحم کوئی عیسائی ہم کو بتلاوے ہم اس کے اقراری ہیں کہ خدا کے بندوں کی بھلائی کے لئے جان دینا یا جان دینے کے لئے مستعد ہونا ایک اعلیٰ اخلاقی حالت ہے لیکن سخت حماقت ہی ہوگی کہ خود کشی کی بے جا حرکت کو اس مد میں داخل کیا جائے.ایسی خودکشی تو سخت حرام ہے اور نادانوں اور بے صبروں کا کام ہے.ہاں جاں فشانی کا پسندیدہ طریق اس کامل مصلح کی لائف میں چمک رہا ہے جس کا نام محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم ہے.منہ

Page 403

اب کیا دنیا میں کوئی عیسائی یا یہودی یاآریہ اپنے کسی ایسے مصلح کو بطور نظیر پیش کرسکتا ہے.جس کا آنا ایک عام اور اشد ضرورت پر مبنی ہو اور جانا اس غرض کی تکمیل کے بعد ہو اور ان مخالفوں کو اپنی ناپاک حالت اور بدعملیوں کا خود اقرار ہو جن کی طرف وہ رسول بھیجا گیا ہو.میں جانتا ہوں کہ یہ ثبوت بجز اسلام کے کسی کے پاس موجود نہیں.ظاہر ہے کہ حضرت موسٰیؑ صرف فرعون کی سرکوبی کے لئے اور اپنی قوم کو چھڑانے کے لئے اور نیز راہ راست دکھانے کے لئے آئے تھے سارے جہان کے فساد یا عدم فساد کی ان کو کچھ غرض نہیں تھی اور یہ تو سچ ہے کہ فرعون کے ہاتھ سے انہوں نے اپنی قوم کو چھوڑا دیا مگر شیطان کے ہاتھ سے چھوڑا نہ سکے اور نیز وعدہ کے ملک تک ان کو پہنچا نہ سکے اور ان کے ہاتھ سے بنی اسرائیل کو تزکیہ نفس نصیب نہیں ہوا اور بار بار نافرمانیاں کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت موسیٰ فوت ہوگئے اور ان کا وہی حال تھا اور حضرت مسیح کے حواریوں کی حالت خود انجیل سے ظاہر ہے حاجت تصریح نہیں اور یہ بات کہ یہودی جن کے لئے حضرت مسیح نبی ہوکر آئے تھے کس قدر ان کی زندگی میں ہدایت پذیر ہوگئے تھے.یہ بھی ایک ایسا امر ہے کہ کسی پر پوشیدہ نہیں بلکہ اگر حضرت مسیح کی نبوت کو اس معیار سے جانچا جائے تو نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کی نبوت اس معیار کی رو سے کسی طرح ثابت نہیں ہو سکتی.* کیونکہ اول نبی کے لئے ضروری ہے کہ اس وقت آوے کہ جب فی الواقعہ اس اُمّت * نوٹ: عیسائی کفارہ پر بہت ناز رکھتے ہیں مگر عیسائی تاریخ کے واقف اس سے بے خبر نہیں کہ مسیح کی خودکشی سے پہلے جو عیسائیوں کے زعم میں ہی تھوڑے بہت عیسائی نیک چلن تھے مگر خودکشی کے بعد تو عیسائیوں کی بدکاریوں کا بند ٹوٹ گیا.کیا یہ کفارہ کی نسل جو اب یورپ میں موجود ہے اپنے چال و چلن میں ان لوگوں سے مشابہ ہے جو کفّارہ سے پہلے مسیح کے ساتھ پھرتی تھی.منہ

Page 404

کی حالت دینداری تباہ ہوگئی ہو جس کی طرف وہ بھیجا گیا ہے.لیکن حضرت مسیح یہود کو ایسا الزام کوئی بھی نہیں دے سکے جس سے ثابت ہوتا ہو کہ انہوں نے اپنے اعتقاد بدل ڈالے ہیں یا وہ چور اور زنا کار اور قمار باز وغیرہ ہوگئے ہیں یا انہوں نے توریت کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کی پیروی اختیار کرلی ہے بلکہ خود گواہی دی کہ فقیہ اور فریسی موسیٰ کی گدی پر بیٹھے ہیں اور نہ یہود نے اپنے بدچلن اور بدکار ہونے کا اقرر کیا.پھر دوسرے سچے نبی کی سچائی پر یہ بھاری دلیل ہوتی ہے کہ وہ کامل اصلاح کا ایک بھاری نمونہ دکھلاوے پس جب ہم اس نمونہ کو حضرت مسیح کی زندگی میں غور کرتے ہیں اور دیکھنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے کون سی اصلاح کی اور کتنے لاکھ یا ہزار آدمی نے ان کے ہاتھ پر توبہ کی تو یہ خانہ بھی خالی پڑا ہوا نظر آتا ہے.ہاں بارا۱۲ں حواری ہیں.مگر جب ان کا اعمال نامہ دیکھتے ہیں تو دل کانپ اٹھتا ہے اور افسوس آتا ہے کہ یہ لوگ کیسے تھے کہ اس قدر اخلاص کا دعویٰ کرکے پھر ایسی ناپاکی دکھلا ویں جس کی نظیر دنیا میں نہیں.کیا تیس روپیہ لے کر ایک سچے نبی اور پیارے رہنما کو خونیوں کے حوالہ کرنا حواری کہلانے کی یہی حقیقت تھی کیا لازم تھا کہ پطرس جیسا حواریوں کا سردار حضرت مسیح کے سامنے کھڑے ہوکر ان پر لعنت بھیجے اور چند روزہ زندگی کے لئے اپنے مقتدا کو اس کے منہ پر گالیاں دے.کیا مناسب تھا کہ حضرت مسیح کے پکڑے جانے کے وقت میں تمام حواری اپنا اپنا راہ لیں اور ایک دم کے لئے بھی صبر نہ کریں.کیاجن کا پیارا نبی قتل کرنے کے لئے پکڑا جائے ایسے لوگوں کے صدق و صفا کے یہی نشان ہوا کرتے ہیں جو حواریوں نے اس وقت دکھلائے ان کے گذر جانے کے بعد مخلوق پرستوں نے باتیں بنائیں اور آسمان پر چڑھا دیا مگر جو کچھ انہوں نے اپنی زندگی میں اپنا ایمان دکھلایا وہ باتیں تو اب تک انجیلوں میں موجود ہیں غرض وہ دلیل جو نبوت اور

Page 405

رسالت کے مفہوم سے ایک سچے نبی کے لئے قائم ہوتی ہے وہ حضرت مسیح کے لئے قائم نہیں ہوسکی.اگر قرآن شریف ان کی نبوت کا بیان نہ کرتا تو ہمارے لئے کوئی بھی راہ کھلی نہیں تھی کہ ہم ان کو سچے نبیوں کے سلسلہ میں داخل کر سکیں کیا جس کی یہ تعلیم ہو کہ میں ہی خدا ہوں اور خدا کا بیٹا اور بندگی اور فرمانبرداری سے آزاد اور جس کی عقل اور معرفت صرف اس قدر ہو کہ میری خودکشی سے لوگ گناہ سے نجات پا جائیں گے.ایسے آدمی کو ایک دم کے لئے بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ دانا اور راہ راست پر ہے مگر الحمد للہ کہ قرآنی تعلیم نے ہم پر یہ کھول دیا کہ ابن مریم پر یہ سب الزام جھوٹے ہیں.انجیل میں تثلیث کا نام و نشان نہیں.ایک عام محاورہ لفظ ابن اللہ کا جو پہلی کتابوں میں آدم ؑ سے لے کر اخیر تک ہزارہا لوگوں پر بولا گیا تھا.وہی عام لفظ حضرت مسیح کے حق میں انجیل میں آ گیا پھر بات کا بتنگڑ بنایا گیا یہاں تک کہ حضر ت مسیح اسی بات کی بنیاد پر خدا بھی بن گئے.حالانکہ نہ کبھی مسیح نے خدائی کا دعویٰ کیا اور نہ کبھی خودکشی کی خواہش ظاہر کی جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ایسا کرتا تو راستبازوں کے دفتر سے اس کا نام کاٹا جاتا.یہ بھی مشکل سے یقین ہوتا ہے کہ ایسے شرمناک جھوٹ کی بنیاد حواریوں کے خیالات کی برگشتگی نے پیدا کی ہو کیونکہ گو ان کی نسبت جیسا کہ انجیل میں بیان کیا گیا ہے یہ صحیح بھی ہو کہ وہ موٹی عقل کے آدمی اور جلد تر غلطی کھانے والے تھے.لیکن ہم اس بات کو قبول نہیں کرسکتے کہ وہ ایک نبی کے صحبت یافتہ ہوکر ایسے بے ہودہ خیالات کی جنس کو اپنی ہتھیلی پر لئے پھرتے تھے.مگر انجیل کے حواشی پر نظر غور کرنے سے اصل حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ ساری چال بازی حضرت پولس کی ہے.جس نے پولیٹیکل چال بازوں کی طرح عمیق مکروں سے کام لیا ہے.غرض جس ابن مریم کی قرآن شریف نے ہم کو خبر دی ہے وہ اسی ازلی ابدی ہدایت

Page 406

کا پابند تھا جو ابتداء سے بنی آدم کے لئے مقرر کی گئی ہے.لہٰذا اُس کی نبوت کے لئے قرآنی ثبوت کافی ہے گو انجیل کی رو سے کتنے ہی شکوک و شبہات اس کی نبوت کے بارے میں پیدا ہوں.وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتّبَعَ الْھُدٰی راقم خاکسار غلام احمد

Page 407