Izala-e-Auham Part 2

Izala-e-Auham Part 2

ازالہ اَوہام حصہ دوم

Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR
Ruhani Khazain

یہ کتاب اس سے پہلے کی دو کتابوں فتح اسلام اور توضیح مرام کا تسلسل ہے۔ یہ دوسری دو کتابوں کے برابر ہے، لیکن تقریباً ایک ہزار صفحات پر محیط ہے اور دو حصوں میں شائع ہوئی ہے۔ کتاب کا آغاز حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت مسیح موعود (علیہ السلام) کے دکھائے گئے معجزات کے موازنہ سے ہوتا ہے۔ اس کتاب میں ان کے مخالفین کے بہت سے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں کبھی کبھار استعمال ہونے والے سخت الفاظ کا موازنہ کیا ہے اور اس کی ضرورت اور جواز پر بات کی ہے۔ پھر انہوں نے مسیح کی دوسری آمد سے متعلق صحیفوں میں مذکور نشانیوں اور پیشین گوئیوں کا مفہوم بیان کیا ہے اور ظاہر کیا ہے کہ وہ سب ان کی ذات میں پوری ہو چکی ہیں۔ عیسائی اور مسلم صحیفوں کی روشنی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت اور مبینہ طور پر دوبارہ زندہ ہونے کے بارے میں مکمل بحث کی گئی ہے اور ان قابل قدر اور قطعی معیارات کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے جن سے ان کے دعوے کی سچائی کو جانچا جا سکے اور جھوٹے مسیحوں کی آسانی سے شناخت کی جا سکے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے علی گڑھ گزٹ میں شائع ہونے والے سرسید احمد خان کے خیالات کا بھی حوالہ دیا ہے، جو 'وحی' کے بارے میں تھے، سرسید احمد خان نے وحی کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ صرف ایک دماغی لہر یا ذہن میں ڈالا ہوا ایک خیال ہے۔ الہی الہام اور وحی کے وصول کنندہ ہونے کے ناطے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں یہ بھی فرمایا کہ وہ انبیاء کے اس دعوے کو ثابت کرنے اور ظاہر کرنے کے لیے تیار ہیں کہ ان کا خدا سے زبانی رابطہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بھی اشارہ کیا ہے کہ سرسید احمد خان اپنی ہی سابقہ تحریروں سے تصادم رکھتے ہیں۔ کتاب میں قرآن پاک کی 30 آیات کی تفسیر اور متعدد معروف احادیث بھی شامل ہیں تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ عیسیٰ مسیح کی موت قدرتی موت ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نزول اور توفی کے الفاظ کی حقیقی تشریح اور یاجوج و ماجوج کی حقیقت پر بھی گفتگو کی ہے۔ انہوں نے ہر اس شخص کو ایک ہزار روپے انعام کی پیشکش بھی کی جو ان کے دلائل کو غلط ثابت کرے اور نزول اور توفی کے دوسرے معنی لے آئے۔ کتاب کے حصہ دوم میں دیگر چیزوں کے علاوہ بیعت کی دس شرائط بیان کی گئی ہیں۔


Book Content

Page 366

اعلان واضح ہو کہ اس رسالہ ازالہ اوہام میں ان تمام سوالات کا جواب ہے کہ جو اکثر لوگ کوتہ اندیشی کے رو سے حضرت مسیح کی حیات ممات کے متعلق کیا کرتے ہیں اور کچھ شک نہیں کہ جو شخص اس کتاب کو اول سے آخر تک خو ب غور سے پڑھے گا اس کا کوئی شبہ باقی نہیں رہے گا سو اس پر یہ فرض ہے کہ اگر خدا تعالیٰ اس کتاب کے ذریعہ سے اس کو ہدایت بخشے اور اس کے سینہ کو کھول دیوے تو وہ اپنی معلومات سے اوروں کو بھی فیض پہنچاوے.ہر یک جو اس کتاب کی ہدایت کواپنے پورے اخلاص سے قبول کرے اُس پر یہ بھی لازم ہو گا کہ اس کی عام اشاعت کے لئے کوشش فرماوے اور اس کتاب کے شائع ہونے کے بعد منکروں کے لئے انسب واولیٰ طریق یہی ہے کہ زبانی مباحثات کا دروازہ بند رکھ کر اس کتاب کے مطالب کو غور سے پڑھیں پھر اگر ہدایت نصیب نہ ہو تو اس کی دلائل کو رد کرکے دکھلاویں اور ہماری آخری نصیحت اُن کے حق میں یہی ہے کہ اللہ جلَّ شَانُہٗ سے ڈریں.ولمقت اللّٰہ اکبر من مقتھم.والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ.المعلن میرزا غلام احمد قادیانی ازلودہانہ محلہ اقبال گنج

Page 367

یعنی قرآن کے ساتھ ہم نے زمین مردہ کو زندہ کیا.ایسا ہی حشر اجساد بھی ہوگا.پھر فرماتا ہے 33 ۱؂ یعنی ہم قرآن کے ساتھ مردوں کو زندہ کر رہے ہیں اور پھر فرماتا ہے 33 ۲؂ یعنی اے لو گو جان لو کہ زمین مر گئی تھی اور خدااب نئے سرے اس کو زندہ کر رہا ہے.غرض جا بجا قرآن شریف کو نمونہ قیا مت ٹھہرایا گیا ہے بلکہ ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قیامت میں ہی ہوں جیسا کہ فرمایا ہے وانا الحاشر الذی یحشر الناس علٰی قد می یعنی میں ہی قیامت ہوں میرے قدموں پر لوگ اُٹھائے جاتے ہیں یعنی میرے آنے سے لوگ زندہ ہورہے ہیں.میَں قبروں سے انہیں اُٹھا رہا ہوں اور میرے قدموں پر زندہ ہونے والے جمع ہوتے جاتے ہیں.اور درحقیقت جب ہم ایک منصفانہ نگاہ سے عرب کی آبادیوں پر نظر ڈالیں کہ اپنی روحانی حالت کی رُو سے وہ کیسے قبرستان کے حکم میں ہو گئے تھے اور کس درجہ تک سچائی اور خداترسی کی رُوح اُن کے اندر سے نکل گئی تھی اور کیسے وہ طرح طرح کی خرابیوں کی وجہ سے جو اُن کے اخلاق اور اعمال اور عقائد پر اثر کر گئی تھیں سڑگل گئے تھے تو بلا اختیار ہمارے اندر سے یہ شہادت نکلتی ہے کہ اُن کا زندہ کرنا جسمانی طور پر مُردوں کے جی اُٹھنے سے بمراتب عجیب تر ہے جس کی عظمت نے بے شمار عقلمندوں کی نگاہوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے.اب خلاصہ کلام یہ کہ آیت موصوفہ بالا کے حقیقی معنے یہ ہیں جو ہم نے ذکر کئے ہیں یعنی خدائے تعالےٰ جسمانی طور پرمُردو ں کے جی اُٹھنے پر روحانی طور پر مردوں کا جی اُٹھنا بطور بدیہی نشان کے پیش کرتا ہے جو درحقیقت دلوں پر نہا یت مؤثر ہوا اور بے شمار کفّار اس نشان کے قائل ہو گئے اور ہو تے جاتے ہیں.اور ایک جماعت محققین کی بھی یہی معنے آیت موصو فہ بالا کے لیتی ہے.چنانچہ تفسیر معالم میں زیر تفسیر اس آیت کے

Page 368

یہ معنے لکھے ہیں جیسا کہ تفسیر کی عبارت یہ ہے وقال الحسن وجماعۃ وانّہ یعنی وان القراٰن لعلم للسّاعۃ یعلمکم قیامھا ویخبر کم باحوالھا و اھوالھا فلا تمترن بھا یعنی فلا تشکن فیھا بعد القران یعنی حسن اور ایک جماعت نے اس آیت کے یہی معنے کئے ہیں کہ قرآن قیامت کے لئے نشان ہے اور زبان قال اور حا ل سے خبر دے رہا ہے کہ قیامت اور اُس کے حالات اور اس کے ہولناک نشان واقع ہو نیوالے ہیں سو بعد اس کے کہ قرآن قیامت کے آنے پر اپنے اعجازی بیانات اور تاثیرات احیاء موتیٰ سے دلیل محکم قائم کر رہا ہے تم شک مت کرو.(۱۳)سوال.الہام جس کی بناء پر حلقہ اجماع اُمت سے خروج اختیار کیا گیا ہے خود بے اصل اور بے حقیقت اور بے سود چیز ہے جس کا ضرر اس کے نفع سے بڑھ کر ہے.امّا الجواب.پس واضح ہو کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ اجماع کو پیشگوئیوں سے کچھ علاقہ نہیں.اجماع اُن امور پر ہوتا ہے جن کی حقیقت بخوبی سمجھی گئی اور دیکھی گئی اور دریافت کی گئی اور شارع علیہ السلام نے اُن کے تمام جزئیات سمجھادئے دکھادئے سکھلا دئے جیسے صوم و صلوٰۃ و زکوٰۃ و حج و عقائد تو حید و ثواب و عقاب.مگر یہ دنیوی پیشگو ئیاں تو ابھی مخفی امور ہیں جن کی شارح علیہ السلام نے اگر کچھ شرح بھی بیان کی تو ایسی کہ جو استعارہ کی طرف توجہ دلاتی ہے.مثلاًکیا ان احادیث پر اجماع ثابت ہو سکتا ہے کہ مسیح آکر جنگلو ں میں خنزیروں کا شکار کھیلتا پھرے گا اور دجاّل خانہ کعبہ کا طواف کرے گا اور ابن مریم بیماروں کی طرح دو آدمیوں کے کاندھے پر ہاتھ دھر کے فرض طوافِ کعبہ بجالائے گا.کیا معلوم نہیں کہ جو لوگ ان حدیثوں کی شرح کرنے والے گذرے ہیں وہ کیسے بے ٹھکانہ اپنی اپنی کمین۱؂ہانک رہے ہیں.اگر کوئی بات اجماع کے طورپر تصفیہ یا فتہ ہوتی تو کیوں وہ لوگ مختلف خیالات کو ظاہر کرتے کیا کفر کا خوف نہیں تھا؟ اب رہی یہ بات کہ الہام بے اصل اور بے سود اور بے حقیقت چیز ہے جس کا ضرر اس کے نفع سے بڑھ کر ہے.سو جاننا چاہیئے کہ ایسی باتیں وہی شخص کرے گا جس نے کبھی ۱؂ ایڈیشن اول کے متن میں صحیح لفظ پڑھا نہیں جا رہا.غالباً ’’تکیں‘‘ ہے.

Page 369

اس شراب طہور کا مزہ نہیں چکھا اور نہ یہ خواہش رکھتا ہے کہ سچا ایمان اس کو حاصل ہو.بلکہ رسم اور عادت پر خوش ہے اور کبھی نظر اس طرف اُٹھا کر نہیں دیکھتا کہ مجھے خداوند کریم پر یقین کہاں تک حاصل ہے اور میری معرفت کا درجہ کس حد تک ہے اور مجھے کیا کرنا چاہئے کہ تا میری اندرونی کمزوریاں دور ہوں اور میرے اخلاق اور اعمال اور ارادوں میں ایک زندہ تبدیلی پیدا ہوجائے.اور مجھے وہ عشق اور محبت حاصل ہوجائے جسکی وجہ سے میں باآسانی سفرِ آخرت کر سکوں اور مجھ میں ایک نہایت عمدہ قابل ترقی مادہ پیدا ہوجائے.بے شک یہ بات سب کے فہم میں آسکتی ہے کہ انسان اپنی اس غافلانہ زندگی میں جو ہر دم تحت الثریٰ کی طرف کھینچ رہی ہے اور علاوہ اس کے تعلقات زن وفرزند اور ننگ وناموس کے بوجھل اور بھاری پتھر کی طرح ہر لحظہ نیچے کی طرف لے جارہے ہیں ایک بالائی طاقت کا ضرور محتاج ہے جو اس کو سچی بینائی اور سچا کشف بخش کر خدائے تعالیٰ کے جمال باکمال کا مشتاق بنا دیوے.سوجاننا چاہیئے کہ وہ بالائی طاقت الہام ربّانی ہے جو عین دُکھ کے وقت میں سرور پہنچاتا ہے اور مصائب کے ٹیلوں اور پہاڑوں کے نیچے بڑے آرام اور لذّت کے ساتھ کھڑا کردیتاہے.وہ دقیق دردقیق وجود جس نے عقلی طاقتوں کو خیرہ کر رکھاہے اور تمام حکیموں کی عقل اوردانش کو سکتہ میں ڈال دیاہے وہ الہام ہی کے ذریعہ سے کچھ اپنا پتہ دیتاہے اور انا الموجود کہہ کرسالکوں کے دلوں کو تسلّی بخشتا ہے اور سکینت نازل کرتاہے اور ا نتہا ئی وصول کی ٹھنڈی ہوا سے جان پُژمردہ کو تازگی بخشتاہے.یہ بات تو سچ ہے کہ قرآن کریم ہدایت دینے کے لئے کافی ہے مگرقرآن کریم جس کو ہدایت کے چشمہ تک پہنچاتا ہے اُس میں پہلی علامت یہی پیداہوجاتی ہے کہ مکالمہ طیّبہ الٰہیہ اس سے شروع ہوجاتا ہے جس سے نہایت درجہ کی انکشافی معرفت اور چشم دید برکت ونورانیت پیداہوجاتی ہے اور وہ عرفان حاصل ہونا شروع ہو جاتاہے

Page 370

جو مجرّد تقلیدی اٹکلوں یا عقلی ڈھکوسلوں سے ہرگز مل نہیں سکتا.کیونکہ تقلیدی علوم محدود و مشتبہ ہیں اور عقلی خیالات ناقص وناتمام ہیں اورہمیں ضرور حاجت ہے کہ براہ راست اپنے عرفان کی توسیع کریں.کیونکہ جس قدرہمارا عرفان ہو گا اُسی قدرہم میں ولولہ و شوق جوش مارے گا.کیا ہمیں باوجود ناقص عرفان کے کامل ولولہ و شوق کی کچھ توقع ہے ؟ نہیں کچھ بھی نہیں.سوحیرت اورتعجب ہے کہ وہ لوگ کیسے بدفہم ہیں جو ایسے ذریعہ کاملہ وصولِ حق سے اپنے تئیں مستغنی سمجھتے ہیں جس سے روحانی زندگی وابستہ ہے.یاد رکھنا چاہیئے کہ روحانی علوم اور روحانی معارف صرف بذریعہ الہامات و مکاشفات ہی ملتے ہیں اورجب تک ہم وہ درجہ روشنی کا نہ پالیں تب تک ہماری انسانیت کسی حقیقی معرفت یا حقیقی کمال سے بہرہ یاب نہیں ہوسکتی.صرف کوّے کی طرح یا بھیڈی کی مانند ایک نجاست کوہم حلوہ سمجھتے رہیں گے اورہم میں ایمانی فراست بھی نہیں آئے گی.صرف لومڑی کی طرح داؤ پیچ بہت یاد ہوں گے.ہم ایک بڑے بھاری مطلب کے لئے جو یقینی معرفت ہے پیدا کئے گئے ہیں اور وہی معرفت ہماری نجات کا مدار بھی ہے جو ہریک خبیث اور مغشوش طریق سے ہمیں آزادی بخش کر ایک پاک اورشفاف دریا کے کنارے پرہمارا منہ رکھ دیتی ہے اور وہ صرف بذریعہ الہام الٰہی ہمیں ملتی ہے.جب ہم اپنے نفس سے بکلّی فنا ہوکر درد مند دل کے ساتھ لایُدرک وجودمیں ایک گہرا غوطہ مارتے ہیں تو ہماری بشریت الوہیت کے دریامیں پڑنے سے عند العود کچھ آثار و انوار اس عالم کے ساتھ لے آتی ہے.سو جس چیز کو اس دنیا کے لوگ بنظرِ حقارت دیکھتے ہیں.درحقیقت وہی ایک چیز ہے جومدت کے جدا شدہ کو ایک دم میں اپنے محبوب سے ملاتی ہے وہی ہے جس سے عشاق الٰہی تسلّی پاتے ہیں اور طرح طرح کی نفسانی قیدوں سے بیک بار اپنا پَیر باہر نکا ل لیتے ہیں جب تک وہ سچی روشنی دلوں پر نازل نہ ہو ہرگز ممکن ہی نہیں کہ کوئی دل منوّر ہوسکے.غرض انسانی عقل کی ناقابلیت اور رسمی علوم کی محدودیّت ضرورتِ الہام پر

Page 371

شہادت دے رہی ہے جس قدر دنیا میں عقلمند ہیں یا ایسے زاہد جن کے دل درحقیقت اس پا ک سلسلے سے بے نصیب ہیں اُن کے چال چلن اور ان کا اخلاقی انقباض اور اُن کے سفلی خیالات اور ان کی سب شرمناک کارستانیاں اس میرے بیان پر شاہدہیں کہ وہ بغیر اس چشمہ طیبہ کے کس قدر قابل کراہت کثافتوں میں مبتلا ہیں اور جس طرح گندے کنوئیں کے پانی کے ایک قطرہ سے اس کی تمام کثافت ثابت ہوجاتی ہے.اسی طرح اُن کے گندے خیالات اپنے بُرے نمونہ سے پہچانے جاتے ہیں.اگر چہ ایسے لوگوں کی فلاسفی عام خیالات میں ہل چل مچانے والی ہو مگر چونکہ سچی روشنی اس کے ساتھ نہیں اس لئے وہ جلداوربہت جلد اپنی ظلمت دکھا دیتی ہے اورباوجود تمام لاف وگزاف ہمہ دانی کے ایسے لوگوں کی اندرونی حالت ہاتھ پھیلا پھیلا کراپنی مفلسی ظاہرکرتی رہتی ہے اور بسا اوقات روحانی تشفّی کے نہ ملنے کی و جہ سے ایسے فلاسفروں اور حکیموں اورمولویوں اور فاضلوں سے ایسی حرکتیں صادر ہوجاتی ہیں جن سے صاف شہادت ملتی ہے کہ وہ تسلّی بخش چشمہ سے کیسے اور کس قدر دُور و مہجور ہیں اور کیونکر حقیقی خوشحالی کے نہ پانے کے سبب سے ایک عذاب الیم یا یوں کہو کہ ایک درد اور جلن اوربے چینی میں دن رات مبتلاہیں.اس جگہ بعض دلوں میں بالطبع یہ اعتراض پیدا ہوگا کہ اکثرلوگ الہام کا دعویٰ کرتے ہیں بلکہ فقرات الہامیہ سُناتے بھی رہتے ہیں لیکن اُن کی معرفت میں کچھ بھی ترقی نظر نہیں آتی اورمعمولی بشریت سے اُن کی عرفانی حالت کا درجہ بڑھا ہوا معلوم نہیں دیتا بلکہ وہی موٹی سمجھ اورسطحی خیالات اور فطرتی تاریکی اور پستی اُن میں دکھائی دیتی ہے اور اُن کے اخلاقی یا ذہنی یاروحانی قوےٰ میں کوئی امر عام عادت سے بڑھ کر نظر نہیں آتا.پھر کیونکر ایسے لوگوں کو ہم مُلہم سمجھیں اور ا س چشمۂ فیض کا ہم کلام مان لیویں.جس کے قرب اور شرف مکالمت سے خارق عادت تبدیلی پیدا ہوجانا ضروری ہے.کم سے کم اس قدرتبدیلی کہ بعض باتیں

Page 372

اُس مُلہم میں ایسی ہوں کہ دوسروں میں پائی نہ جائیں.سو جاننا چاہیئے کہ درحقیقت ایسے لوگ واقعی طورپر ملہم نہیں ہوتے بلکہ ایک قسم کے ابتلاء میں مبتلاہوتے ہیں جس کو وہ اپنی نادانی سے الہام سمجھ لیتے ہیں.خدائے تعالیٰ کاحقیقی اور واقعی طور پرمکالمہ کچھ تھوڑی سی بات نہیں.جس طرح تم دیکھتے ہو کہ جب ایک تاریکی میں بیٹھے ہوئے آدمی کے لئے ناگہانی طورپر آفتاب کی طرف کھڑکی کھل جائے تو کیسی یکدفعہ اس کی حالت بدل جاتی ہے اور کیوں کر آسمانی روشنی اس کے حواس پر کام کر کے ایک تبدیل شدہ زندگی اس کے لئے پیدا کردیتی ہے اور کیوں کر تاریکی سے جو بالطبع افسردگی کی موجب ہے باہر نکل کر ایک سرُور و ذوق اس کے دل میں اور ایک روشنائی اس کی آنکھوں میں اور ایک استقامت اس کی حالت میں پیدا ہوجاتی ہے.سو یہی حالت اُس کھڑکی کی ہے جو آسمان کی طرف سے کھلتی ہے اوربہت ہی کم لوگ ہیں جو واقعی اور حقیقی طورپر اُس کو پاتے ہیں اور تم انہیں خارق عادت علامتوں سے شناخت کروگے.(۱۴)سوال.قرآن شریف سے اگرچہ مسیح کی موت ثابت ہوتی ہے مگر اس موت کا کوئی وقت خاص تو ثابت نہیں ہوتا.پس تعارض حدیث اور قرآ ن کا دور کرنے کے لئے بجُز اس کے اَورکیا راہ ہے کہ اس موت کا زمانہ وہ قرار دیاجائے کہ جب پھر حضرت مسیح نازل ہوں گے.امّاالجواب.پس واضح ہو کہ قرآن شریف کی نصوص بیّنہ اسی بات پر بصراحت دلالت کررہی ہیں کہ مسیح اپنے اُسی زمانہ میں فوت ہو گیا ہے جس زمانہ میں وہ بنی اسرائیل کے مفسد فرقوں کی اصلاح کے لئے آیا تھا جیسا کہ اللہ جلَّ شَانُہٗ فرماتا ہے 3 33.۱؂ اب اس جگہ ظاہر ہے کہ خدائے تعالیٰ نے اِنّیْ مُتَوَفِّیْکَ پہلے لکھا ہے اور رَافِعُکَ بعد ا س کے بیان فرمایا ہے

Page 373

جس سے ثابت ہوا کہ وفات پہلے ہوئی اور رفع بعد ازوفات ہؤا.اورپھراَور ثبوت یہ ہے کہ اس پیشگوئی میں اللہ جلَّ شَانُہٗ فرماتا ہے کہ میں تیری وفات کے بعد تیرے متبعین کو تیرے مخالفوں پر جو یہودی ہیں قیامت کے دن تک غالب رکھوں گا.اب ظاہر ہے اور تمام عیسائی اور مسلمان اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ یہ پیشگوئی حضرت مسیح کے بعد اسلام کے ظہور تک بخوبی پوری ہو گئی کیونکہ خدائے تعالیٰ نے یہودیوں کو اُن لوگوں کی رعیّت اورماتحت کردیا جو عیسائی یا مسلمان ہیں اورآج تک صدہا برسوں سے وہ ماتحت چلے آتے ہیں یہ تو نہیں کہ حضرت مسیح کے نزول کے بعد پھر ماتحت ہوں گے.ایسے معنے تو بہ بداہت فاسد ہیں.دیکھنا چاہیئے کہ قرآن شریف میں یہ بھی آیت ہے جو حضرت مسیح کی زبان سے اللہ جلّ شانُہ‘ فرماتا ہے 333 ۱؂ یعنی حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے مجھے فرمایا ہے نماز پڑھتارہ اور زکٰوۃ دیتا رہ اور اپنی والدہ پر احسان کرتا رہ جب تک تو زندہ ہے.اب ظاہر ہے کہ ان تمام تکلیفات شرعیہ کا آسمان پر بجالانا محال ہے.اور جو شخص مسیح کی نسبت یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ وہ زندہ مع جسدہ آسمان کی طرف اٹھایا گیا اس کو اس آیت موصوفہ بالا کے منشاء کے موافق یہ بھی ماننا پڑے گا کہ تمام احکام شرعی جو انجیل اورتوریت کی رُو سے انسان پر واجب العمل ہوتے ہیں وہ حضرت مسیح پر اب بھی واجب ہیں حالانکہ یہ تکلیف مالایطاق ہے.عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو خدا تعالیٰ یہ حکم دیوے کہ اے عیسیٰ جب تک تو زندہ ہے تیر ے پر واجب ہے کہ تو اپنی والدہ کی خدمت کرتا رہے اور پھرآپ ہی اس کے زندہ ہونے کی حالت میں ہی اس کو والدہ سے جدا کردیوے اورتابحیات زکٰوۃ کا حکم دیوے اورپھر زندہ ہونے کی حالت میں ہی ایسی جگہ پہنچا دے جس جگہ نہ وہ آپ زکٰوۃ دے سکتے ہیں اور نہ زکٰوۃ کے لئے کسی دوسرے کو نصیحت کرسکتے ہیں اور صلٰوۃ کے لئے

Page 374

تاکید کرے اور جماعت مومنین سے دور پھینک دیوے جن کی رفاقت صلٰوۃ کی تکمیل کے لئے ضروری تھی.کیا ایسے اُٹھائے جانے سے بجُز بہت سے نقصان عمل اور ضائع ہونے حقوق عباد اور فوت ہونے خدمت امر معروف اورنہی منکر کے کچھ اَور بھی فائدہ ہؤا؟ اگر یہی اٹھارہ سواکانوے برس زمین پر زندہ رہتے تو اُن کی ذات جامع البرکات سے کیا کیا نفع خلق اللہ کو پہنچتا لیکن اُن کے اُوپر تشریف لے جانے سے بجُز اس کے اور کونسا نتیجہ نکلا کہ اُن کی اُمت بگڑ گئی اور وہ خدمات نبوت کے بجالانے سے بکلّی محروم رہ گئے.پھر جب ہم اس آیت پر بھی نظر ڈالیں کہ جو اللہ جلّشانُہ‘ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ کوئی جسم کسی بشر کا ہم نے ایسا نہیں بنایا کہ بغیر ر و ٹی کے زندہ رہ سکے تو ہمارے مخالفوں کے عقیدہ کے موافق یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہ آسمان پر روٹی بھی کھاتے ہوں پاخانہ بھی پھرتے ہوں اور ضروریات بشرّ یت جیسے کپڑے اور برتن اورکھانے کی چیزیں سب موجود ہوں.مگر کیا یہ سب کچھ قرآن اور حدیث سے ثابت ہوجائے گا؟ ہرگزنہیں.آخر ہمارے مخالف یہی جواب دیں گے کہ جس طرز سے وہ آسمان پر زندگی بسرکرتے ہیں وہ انسان کی معمولی زندگی سے نرالی ہے اور وہ انسانی حاجتیں جو زمین پر زندہ انسانوں میں پائی جاتی ہیں وہ سب اُن سے دورکردی گئی ہیں اور اُن کا جسم اب ایک ایسا جسم ہے کہ نہ خوراک کا محتاج ہے اور نہ پوشاک کااورنہ پاخانہ کی حاجت انہیں ہوتی ہے اور نہ پیشاب کی.اورنہ زمین کے جسموں کی طرح اُن کے جسم پر زمانہ اثر کرتاہے اورنہ وہ اب مکلّف احکام شرعیہ ہیں.تو اس کا یہ جواب ہے کہ خدائے تعالیٰ تو صاف فرماتا ہے کہ ان تمام خاکی جسموں کے لئے جب تک زندہ ہیں.یہ تمام لوازم غیر منفک ہیں جیسا کہ اس نے فرمایا 33 ۱؂.ظاہر ہے کہ اس آیت میں جُز کے ذکر سے کُل مراد ہے یعنی

Page 375

گو اُتنا ہی ذکر فرمایا کہ کسی نبی کا جسم ایسا نہیں بنایا گیا جو بغیر طعام کے رہ سکے.مگر اس کے ضمن میںُ کل وہ لوازم ونتائج جو طعام کو لگے ہوئے ہیں سب اشارۃ النص کے طور پر فرما دئے.سو اگر مسیح ابن مریم اسی جسم خاکی کے ساتھ آسمان پر گیا ہے تو ضرور ہے کہ طعام کھاتا ہو اورپا خانہ اور پیشاب کی ضروری حاجتیں سب اس کی دامنگیرہوں کیونکہ کلام الٰہی میں کذب جائز نہیں.اور اگر یہ کہو کہ دراصل بات یہ ہے کہ مسیح اس جسم کے ساتھ آسمان پر نہیں گیا بلکہ یہ جسم تو زمین میں دفن کیا گیا اورایک اَور نورانی جسم مسیح کو مِلا جو کھانے پینے سے پاک تھا اس جسم کے ساتھ اُٹھایا گیا تو حضرت یہی تو موت ہے جس کا آخر آپ نے اقرارکرلیا.ہمارابھی تو یہی مذہب ہے کہ مقدس لوگوں کو موت کے بعد ایک نورانی جسم ملتا ہے اور وہی نورجو وہ ساتھ رکھتے ہیں جسم کی طرح اُنکے لئے ہو جاتا ہے سو وہ اس کے ساتھ آسمان کی طرف اُٹھائے جاتے ہیں اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ جلَّ شَانُہٗ فرماتا ہے 3 33 ۱؂ یعنی پاک روحیں جو نورانی الوجودہیں خدائے تعالیٰ کی طرف صعود کرتی ہیں اور عمل صالح اُن کارفع کرتا ہے یعنی جس قدرعمل صالح ہو اُسی قدرروح کا رفع ہوتاہے.اس جگہ خدائے تعالیٰ نے روح کا نام کلمہ رکھا.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ درحقیقت تمام ارواح کلمات اللہ ہی ہیں جو ایک لا یُدرک بھید کے طور پر جس کی تہ تک انسان کی عقل نہیں پہنچ سکتی روحیں بن گئی ہیں.اسی بنا ء پر اس آیت کا مضمون بھی ہے 33 ۲؂.اور چونکہ یہ سِرّ ربوبیت ہے اس لئے کسی کی مجال نہیں کہ اس سے بڑھ کر کچھ بول سکے کہ کلمات اللہ ہی بحکم و باذن ربّی لباس روح کا پہن لیتے ہیں اور ان میں وہ تمام طاقتیں اورقوتیں اور خاصیتیں پیداہوجاتی ہیں جو روحوں میں پائی جاتی ہیں اور پھر چونکہ ارواح طیّبہ فنا فی اللہ ہونے کی حالت میں

Page 376

اپنے تمام قویٰ چھوڑ دیتی ہیں اور اطاعت الٰہی میں فانی ہوجاتی ہیں تو گویا پھر وُہ روح کی حالت سے باہر آکر کلمۃ اللہ ہی بن جاتی ہیں جیسا کہ ابتدا میں وہ کلمۃ اللہ تھیں.سو کلمۃ اللہ کے نام سے ان پاک روحوں کو یاد کرنا اُن کے اعلیٰ درجہ کے کمال کی طرف اشارہ ہے سو انہیں نورکا لباس ملتا ہے اور اعمال صالحہ کی طاقت سے اُن کا خدائے تعالیٰ کی طرف رفع ہوتا ہے.اور ہمارے ظاہربین علماء اپنے محدود خیالات کی وجہ سے کلمات طیّبہ سے مراد محض عقائد یا اذکار واشغال رکھتے ہیں اور اعمال صالحہ سے مرادبھی اذکار وخیرات وغیرہ ہیں.تو گویا وہ اس تاویل سے علّت او ر معلول کو ایک کردیتے ہیں.اگر چہ کلمات طیّبہ بھی خدائے تعالیٰ کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں لیکن عارفوں کے لئے یہ بطنی معنے ہیں جن پر قرآن کریم کے دقیق اشارات مشتمل ہیں.(۱۵) سوال.مسیح ابن مریم نے تو بہت سے معجزات سے اپنے منجانب اللہ ہونے کاثبوت دیا تھا آپ نے کیا ثبو ت دیا.کیا کوئی مُردہ زندہ کردیایا کوئی مادرزاد اندھا آپ سے اچھا ہؤا.اگر ہم فرض بھی کر لیں کہ آپ مثیل مسیح ہیں توہمیں آپ کے وجود سے کیا فائدہ ہوا؟ امّاالجواب.پس واضح ہو کہ انجیل کو پڑھ کر دیکھ لو کہ یہی اعتراض ہمیشہ مسیح پر رہا کہ اس نے کوئی معجزہ تو دکھایا ہی نہیں یہ کیسا مسیح ہے.کیونکہ ایسا مردہ تو کوئی زندہ نہ ہوا کہ وہ بولتا اور اُس جہان کا سب حال سُناتا اوراپنے وارثوں کو نصیحت کرتا کہ میں تو دوزخ میں سے آیا ہوں تم جلد ایمان لے آؤ.اگر مسیح صاف طور پر یہودیوں کے باپ دادے زندہ کرکے دکھا دیتا اوراُن سے گواہی دلواتا تو بھلا کس کو انکارکی مجال تھی غرض پیغمبروں نے نشان تو دکھائے مگر پھر بھی بے ایمانوں سے مخفی رہے.ایسا ہی یہ عاجز بھی خالی نہیں آیا بلکہ مُردوں کے زندہ ہونے کے لئے بہت سا آبِ حیات خدائے تعالیٰ نے اس عاجز کو بھی دیا ہے بے شک جو شخص اس میں سے پئے گا زندہ ہوجائے گا.بلاشبہ میں اقرارکرتا ہوں کہ اگر میرے کلام سے مردے زندہ نہ ہوں اور

Page 377

اندھے آنکھیں نہ کھولیں اور مجذوم صاف نہ ہوں تو میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے نہیں آیا کیونکہ خدائے تعالیٰ نے آپ اپنے پاک کلام میں میری طرف اشارہ کر کے فرمایا ہے نبی ناصری کے نمونہ پر اگر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ وہ بندگانِ خدا کو بہت صاف کررہا ہے اس سے زیادہ کہ کبھی جسمانی بیماریوں کو صاف کیاگیا ہو.یقینًا سمجھو کہ روحانی حیات کا تخم ایک رائی کے بیج کی طرح بویا گیا مگر قریب ہے ہاں بہت قریب ہے کہ ایک بڑادرخت ہو کر نظر آئے گا.جسمانی خیالات کا ا نسان جسمانی باتوں کو پسند کرتا ہے اور اُن کو بڑی چیز سمجھتا ہے مگرجس کو کچھ روحانیت کا حصہ دیاگیا ہے وہ روحانی زندگی کا طالب ہوتاہے.خدا تعالیٰ کے راستباز بندے دنیا میں اس لئے نہیں آتے کہ لوگوں کو تماشے دکھلائیں بلکہ اصل مطلب اُن کا جذب الی اللہ ہوتا ہے اور آخرکاروہ اسی قوت قدسیہ کی وجہ سے شناخت کئے جاتے ہیں.وہ نور جو اُن کے اندر قوتِ جذب رکھتاہے اگرچہ کوئی شخص امتحان کے طورسے اس کو دیکھ نہیں سکتا بلکہ ٹھوکر کھاتا ہے.مگر وہ نور آپ ہی ایک ایسی جماعت کو اپنی طرف کھینچ کر جو کھینچے جانے کے لائق ہے اپنا خارق عادت اثر ظاہرکردیتاہے.(۱) خدائے تعالیٰ کے خالص دوستوں کی یہ علامتیں ہیں کہ ایک خالص محبت انکو عطا کی جاتی ہے جس کا اندازہ کرنا اس جہان کے لوگوں کا کام نہیں.(۲) اُن کے دلوں پر ایک خوف بھی ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ دقائق اطاعت کی رعایت رکھتے ہیں ایسا نہ ہو کہ یارِ قدیم آزردہ ہوجائے.(۳) ان کو خارق عادت استقامت دی جاتی ہے کہ اپنے وقت پر دیکھنے والوں کو حیران کردیتی ہے.

Page 378

(۴) جب اُن کو کوئی بہت ستاتاہے اورباز نہیں آتا تو اُن کے لئے غضب اس ذات قوی کا جو اُن کا متولّی ہے یکدفعہ بھڑکتا ہے.(۵) جب اُن سے کوئی بہت دوستی کرتا ہے اور سچی وفاداری اوراخلاص کے ساتھ اُن کی راہ میں فداہو جاتا ہے تو خدائے تعالیٰ اس کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اس پر ایک خاص رحمت نازل کرتاہے.(۶) اُن کی دعائیں بہ نسبت اَوروں کے بہت زیادہ قبو ل ہوتی ہیں یہاں تک کہ وہ شمار نہیں کرسکتے کہ کس قدر قبول ہوئیں.(۷)اُن پر اکثر اسرار غیب ظاہر کئے جاتے ہیں اور وہ باتیں جو ابھی ظہور میں نہیں آئیں اُن پر کھولی جاتی ہیں اگر چہ اَور مومنوں کو بھی سچی خوابیں اورسچے مکاشفات معلوم ہوجاتے ہیں مگر یہ لوگ تمام دنیا سے نمبراوّل پر ہوتے ہیں.(۸) خدائے تعالیٰ خاص طور پر اُن کا متولّی ہوجاتا ہے اور جس طرح اپنے بچوں کی کوئی پرورش کرتا ہے اس سے بھی زیادہ نگاہِ رحمت اُن پر رکھتاہے.(۹) جب اُن پر کوئی بڑی مصیبت کا وقت آتا ہے تو اُس وقت دوطورمیں سے ایک طور کا ان سے معاملہ ہوتا ہے یا خارق عادت طور پر اس مصیبت سے رہائی دی جاتی ہے اور یا ایک ایسا صبر جمیل عطا کیا جاتاہے جس میں لذّت اور سرور اور ذوق ہو.(۱۰)اُن کی اخلاقی حالت ایک ایسے اعلیٰ درجہ کی کی جاتی ہے جو تکبّر اور نخوت اور کمینگی اور خود پسندی اورریاکاری اورحسد اور بُخل اورتنگدلی سب دور کی جاتی ہے اور انشراح صدر اور بشاشت عطا کی جاتی ہے.(۱۱) اُن کی توکّل نہایت اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے اور اس کے ثمرات ظاہرہوتے رہتے ہیں.(۱۲) اِن کوان اعمال صالحہ کے بجالانے کی قوت دی جاتی ہے جو دوسرے اُن میں کمزورہوتے ہیں.(۱۳) اُن میں ہمدردی خلق اللہ کا مادہ بہت بڑھایاجاتا ہے اور بغیر توقع کسی اجر اور

Page 379

بغیر خیال کسی ثوا ب کے انتہائی درجہ کا جوش اُن میں خلق اللہ کی بھلائی کے لئے ہوتاہے اور خود بھی نہیں سمجھ سکتے کہ ا س قدر جوش کس غرض سے ہے کیونکہ یہ امر فطرتی ہوتاہے.(۱۴) خدائے تعالیٰ کے ساتھ ان لوگوں کو نہایت کامل وفاداری کاتعلق ہوتاہے اور ایک عجیب مستی جانفشانی کی اُن کے اندرہوتی ہے اور اُن کی روح کو خدائے تعالیٰ کی روح کے ساتھ وفاداری کا ایک رازہوتا ہے جس کو کوئی بیان نہیں کرسکا.اس لئے حضرت احدیت میں اُن کا ایک مرتبہ ہوتا ہے جس کو خلقت نہیں پہچانتی وہ چیز جو خاص طور پر اُن میں زیادہ ہے اور جو سر چشمہ تمام برکات کا ہے اور جس کی وجہ سے یہ ڈوبتے ہوئے پھر نکل آتے ہیں اورموت تک پہنچ کر پھر زندہ ہوجاتے ہیں اور ذلتیں اُٹھا کر پھر تاجِ عزت دکھا دیتے ہیں اور مہجوراور اکیلے ہوکر پھر ناگہاں ایک جماعت کے ساتھ نظرآتے ہیں وہ یہی رازوفاداری ہے جس کے رشتہ محکم کو نہ تلواریں قطع کرسکتی ہیں اور نہ دنیا کا کوئی بلوہ اور خوف اور مفسدہ اس کو ڈھیلا کرسکتا ہے.السّلام علیہم من اللّٰہ وملآئکتہٖ ومن الصلحاء اجمعین.(۱۵) پندرہویں علامت ان کی علم قرآن کریم ہے.قرآن کریم کے معارف اورحقا؂ئق ولطائف جس قدر ان لوگوں کو دئے جاتے ہیں دوسرے لوگوں کو ہرگزنہیں دئے جاتے.یہ لوگ وہی مطہّرون ہیں جن کے حق میں اللہ جلَّ شَانُہٗ فرماتا ہے 33 ۱؂ (۱۶) ان کی تقریروتحریر میں اللہ جلَّ شَانُہٗ ایک تاثیررکھ دیتاہے جو علماء ظاہری کی تحریروں وتقریروں سے نرالی ہوتی ہے اور اس میں ایک ہیبت اور عظمت پائی جاتی ہے اور بشرطیکہ حجاب نہ ہو دلوں کو پکڑ لیتی ہے.(۱۷) اُن میں ایک ہیبت بھی ہوتی ہے جو خدائے تعالیٰ کی ہیبت سے رنگین ہوتی ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ ایک خاص طور پر اُن کے ساتھ ہوتا ہے اور اُن کے چہروں پر

Page 380

عشق الٰہی کا ایک نور ہوتاہے جو شخص اس کو دیکھ لے اُس پر نار جہنم حرام کی جاتی ہے.اُن سے ذنب اور خطابھی صادر ہوسکتا ہے مگر اُن کے دلوں میں ایک آگ ہوتی ہے جو ذنب اورخطا کو بھسم کردیتی ہے اور ان کی خطا ٹھہرنے والی چیز نہیں بلکہ اس چیز کی مانندہے جو ایک تیز چلنے والے پانی میں بہتی ہوئی چلی جاتی ہے.سو اُن کا نکتہ چین ہمیشہ ٹھوکرکھاتا ہے.(۱۸) خدائے تعالیٰ اُن کو ضائع نہیں کرتا اور ذلّت اور خواری کی مار اُن پر نہیں مارتا کیونکہ و ہ اس کے عزیز اور اس کے ہاتھ کے پودے ہیں.ان کو اس لئے بلندی سے نہیں گراتا کہ تاہلاک کرے بلکہ اس لئے گراتا ہے کہ تا اُن کا خارق عادت طور پر بچ جانا دکھاوے.ان کو اس لئے آگ میں دھکا نہیں دیتاتا اُن کو جلا کر خاکستر کر دیوے بلکہ اس لئے دھکا دیتا ہے تا لوگ دیکھ لیویں کہ پہلے تو آگ تھی مگر اب کیسا خوشنما گلزار ہے.(۱۹) ان کو موت نہیں دیتا جب تک وہ کام پور ا نہ ہو جائے جس کے لئے وہ بھیجے گئے ہیں اور جب تک پاک دلوں میں اُن کی قبولیت نہ پھیل جائے تب تک البتہ سفرِ آخرت ان کو پیش نہیں آتا.(۲۰) اُن کے آثارخیر باقی رکھے جاتے ہیں اور خدائے تعالیٰ کئی پشتوں تک اُن کی اولاد اوران کے جانی دوستوں کی اولاد پرخاص طور پر نظرِ رحمت رکھتا ہے اور ان کا نام دنیا سے نہیں مٹاتا.یہ آثاراولیاء الرحمن ہیں اور ہریک قسم ان میں سے اپنے وقت پر جب ظاہرہوتی ہے تو بھاری کرامت کی طرح جلوہ دکھاتی ہے.مگر اس کا ظاہر کرنا خدائے تعالیٰ کے ہی اختیار میں ہوتاہے.اب یہ عاجز بحکم 3 ۱؂ اس بات کے اظہار میں کچھ مضائقہ نہیں

Page 381

دیکھتا کہ خداوند کریم ورحیم نے محض فضل وکرم سے اِن تمام امور سے اس عاجز کو حصہ وافرہ دیا ہے اور اس ناکارہ کو خالی ہاتھ نہیں بھیجا اور نہ بغیر نشانوں کے مامورکیا.بلکہ یہ تمام نشان دئے ہیں جو ظاہرہورہے ہیں اورہوں گے اور خدائے تعالیٰ جب تک کھلے طورپر حجت قائم نہ کرلے تب تک ان نشانوں کو ظاہر کرتاجائے گا.اور یہ جو کہا کہ تمہارے وجود سے ہمیں کیا فائدہ؟ تو اس کے جواب میں یاد رکھنا چاہیئے کہ جو شخص مامورہوکر آسمان سے آتا ہے اس کے وجود سے علیٰ حسب مراتب سب کو بلکہ تمام دنیا کو فائدہ ہوتا ہے اور درحقیقت وہ ایک روحانی آفتاب نکلتا ہے جس کی کم و بیش دُور دُور تک روشنی پہنچتی ہے.اور جیسی آفتاب کی مختلف تاثیریں حیوانات ونباتات وجمادات اور ہریک قسم کے جسم پر پڑ رہی ہیں اور بہت کم لوگ ہیں جو اُن تاثیروں پر باستیفا علم رکھتے ہیں.اسی طرح وہ شخص جو مامورہو کر آتا ہے تمام طبائع اوراطراف اکناف عالم پر اس کی تاثیریں پڑتی ہیں اورجبہی سے کہ اس کا پُر رحمت تعیّن آسمان پر ظاہرہوتاہے آفتاب کی کرنوں کی طرح فرشتے آسمان سے نازل ہونے شروع ہوتے ہیں اوردنیا کے دُور دُور کناروں تک جو لوگ راستبازی کی استعداد رکھتے ہیں ان کو سچائی کی طرف قدم اٹھانے کی قوت دیتے ہیں اورپھرخود بخود نیک نہادلوگوں کی طبیعتیں سچ کی طرف مائل ہوتی جاتی ہیں.سو یہ سب اس ربّانی آدمی کی صداقت کے نشان ہوتے ہیں.جس کے عہد ظہور میں آسمانی قوتیں تیز کی جاتی ہیں.سچی وحی کا خدائے تعالیٰ نے یہی نشان دیا ہے کہ جب وہ نازل ہوتی ہے توملائک بھی اس کے ساتھ ضرور اُترتے ہیں اور دُنیا دن بدن راستی کی طرف پلٹاکھاتی جاتی ہے.سو یہ عام علامت اُس مامور کی ہے جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اور خاص علامتیں وہ ہیں جو ابھی ہم ذکر کرچکے ہیں.(۱۶) سوال.انجیل میں لکھا ہے کہ مسیح جلال کے ساتھ دُنیا میں آئے گا اور دُنیا اس کو قبول کرلے گی.لیکن اس جگہ جلالی ظہور کی کوئی علامت نہیں اور نہ دُنیا نے قبول کیا ہے؟

Page 382

ا مّا الجواب.یہ ذکر جو انجیل متی باب پچیس ۲۵ آیت ۳۱ سے ۴۶ تک ہے.جو ابن آدم اپنے جلال سے آوے گا اور سب پاک فرشتے اس کے ساتھ ہوں گے یہ درحقیقت اس دنیا سے متعلق نہیں بلکہ اس قسم کا آنا اس دنیا کے قطع سلسلہ کے بعد ہے جو حشر اجساد کے بعد وقوع میں آویگا.جب ہریک مقدّس نبی اپنے جلال میں ظہورکرے گا اور اپنی اُمت کے راستبازوں کو خوشخبری دے گا اورنافرمانوں کو ملزم کرے گا لیکن انہی آیات میں مسیح نے بتلا دیا کہ میرا آنا غریبی کی حالت میں بھی ہو گا جیسا کہ اسی انجیل کی چونتیسویں آیت میں لکھاہے.اے میرے باپ کے مبارک لوگو! اس بادشاہت کوجو دنیا کی بنیاد ڈالنے سے تمہارے لئے طیار کی گئی میراث میں لو.کیونکہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا میں پیاسا تھاتم نے مجھے پانی پلایا میں پردیسی تھا تم نے مجھے اپنے گھر میں اُتاراننگا تھا تم نے مجھے کپڑا پہنایا.بیمار تھا تم نے میری عیادت کی.قید میں تھا تم میرے پاس آئے.راستباز اُسے جواب میں کہیں گے.اے خداوند کب ہم نے تجھے بھوکا دیکھا اور کھانا کھلایا یا پیاسا اور پانی پلایا.کب ہم نے تجھے پردیسی دیکھا اوراپنے گھر میں اُتار ا یاننگا تھا اور کپڑا پہنایا.ہم کب تجھے بیمار اور قید میں دیکھ کر تجھ پاس آئے.تب بادشاہ اُن سے جواب میں کہے گا میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ جب تم نے میرے ان سب سے چھوٹے بھائیوں میں سے ایک کے ساتھ کیا تو میرے ساتھ کیا.تب وہ بائیں طرف والوں سے بھی کہے گا.اے ملعونو! میرے سامنے سے اس ہمیشہ کی آگ میں جاؤجو شیطان اور اس کے فرشتوں کے لئے تیار کی گئی ہے.کیونکہ میں بھوکا تھا پر تم نے مجھے کھانے کونہ دیا.پیاسا تھا تم نے مجھے پانی نہ پلایا.پردیسی تھا تم نے مجھے اپنے گھر میں نہ اُتارا.ننگا تھاتم نے مجھے کپڑا نہ پہنایا.بیماراورقیدمیں تھا تم نے میری خبر نہ لی.تب وے بھی جواب میں اُسے کہیں گے اے خداوند کب ہم نے تجھے بھوکا یا پیاسا یا پردیسی یا ننگایا بیمار یا قیدی دیکھا اور تیری خدمت نہ کی.تب وہ انہیں جواب میں کہے گا میں تم سے

Page 383

سچ کہتا ہوں کہ جب تم نے میرے ان سب چھوٹے بھائیوں میں سے ایک کے ساتھ نہ کیا تو میرے ساتھ بھی نہ کیا.اور وہ ہمیشہ کے عذاب میں جائیں گے پر راستباز ہمیشہ کی زندگی میں.اب غور کرنا چاہیئے کہ ان تمام آیات سے ظاہر ہے کہ مسیح نے اپنے بعض مثیلوں کا ذکر کر کے اُن کا دنیا میں آنا اور تکلیف اٹھانا گویا اپنا آنا اورتکلیف اُٹھانا قرار دیاہے اور چھوٹے بھائیوں سے مراد بجُز اُن کے اَور کون لوگ ہوسکتے ہیں جو کسی قدرمسیح کے منصب اور مسیح کی طبیعت اور مسیح کے درجہ سے حصّہ لیں اور اس کے نام پرمامور ہوکر آویں.عیسائی تونہیں کہہ سکتے کہ ہم مسیح کے بھائی ہیں.اور کچھ شک نہیں کہ محدّث نبی کا چھوٹا بھائی ہوتاہے اور تمام انبیاء ِ علّاتی بھائی کہلا تے ہیں.اور یہ نہایت لطیف اشارہ ہے جومسیح نے اُن کا آنا اپنا آنا قراردیا ہے.اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ آنا اس عاجز کا نسبتی طور پر جلالی آنا بھی ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے توحید کی اشاعت کے لئے یہ بڑی بڑی کامیابیوں کی تمہید ہے.اور جلالی آنے سے مراد اگر طریق سیاست رکھاجاوے تو یہ درست نہیں.یہ بات انصاف سے بعید ہے کہ کوئی شخص غافلوں کے جگانے کے لئے مامور ہو کر آوے اور آتے ہی زدوکوب اور قتل اور سفک دماء سے کام لیوے جب تک پورے طور سے اتمام حجت نہ ہو خدائے تعالیٰ کسی قوم پر عذاب نازل نہیں کرتا.غرض مسیح کا جلالی طور پرآنا جن معنوں سے عیسائی بیان کرتے ہیں وہ اس دنیا سے متعلق نہیں.اس دنیا میں جو مسیح کے آنے کاوعدہ ہے اس وعدہ کو ایسے جلالی طور سے کچھ علاقہ نہیں.عیسائیوں نے بات کو کہیں کا کہیں ملا دیا ہے اور حق الامرکو اپنے پر مشتبہ کردیا ہے.چنانچہ متی کی آیات مذکورہ بالا تو صاف بیان کر رہی ہیں کہ یہ جلالی طور کا آنا اُس وقت ہو گا کہ جب حشر اجساد کے بعد ہر یک کا حساب ہوگا کیونکہ بجُز حشر اجساد کے کامل طور پر شریروں اور راستبازوں کی جماعتیں جو فوت

Page 384

ہو چکی ہیں کیونکر ایک جگہ اکٹھی ہوسکتی ہیں.لیکن برخلاف اس مضمون کے جو متی کے پچیس ۲۵ باب آیات مذکورہ بالا سے ظاہر ہوتاہے متی کے چوبیسویں باب سے اسی دنیا میں مسیح کا آنا بھی سمجھاجاتاہے اور دونوں قسم کے بیانات میں تطبیق اس طرح ہو سکتی ہے کہ آخرت میں جو حشر اجساد کے بعد آئے گا وہ خود مسیح ہے لیکن دنیامیں مسیح کے نام پر آنیوالا مثیل مسیح ہے جو اس کا چھوٹا بھائی اور اُسی کے قول کے مطابق اس کے وجود میں داخل ہے.دنیا میں آنے کی نسبت مسیح نے صاف کہہ دیا کہ پھر مجھے نہیں دیکھو گے پس وہ کیوں کر دنیا میں آسکتاہے حالانکہ وہ خود کہہ گیا ہے کہ پھرمجھے نہیں دیکھو گے.یہ بھی یادرکھناچاہیئے کہ دنیا کے قبول کرنے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ اُسی وقت قبول کر لیوے.دنیا ہمیشہ آہستہ آہستہ مانتی ہے.اُن لوگوں کا ہونا بھی تو ضروری ہے کہ جو ایمان نہیں لائیں گے مگر مسیح کے دم کی ہوا سے مریں گے.دم کی ہوا سے مرنا حجت قاطعہ سے مرنا ہے.انجیلوں میں بھی تولکھا ہے کہ مسیح کے نزول کے وقت بعض پکڑے جائیں گے اوربعض چھوڑے جائیں گے یعنی بعض پر عذاب نازل کرنے کے لئے حجت قائم ہوجائے گی.گویا وہ پکڑے گئے اوربعض نجات پانے کے لئے استحقا ق حاصل کرلیں گے گویا نجات پا گئے.(۱۷) سوال.اِس وقت مثیلِ مسیح کے آنے کی کیا ضرورت تھی ؟ امّا الجواب.اِ س وقت مثیل مسیح کی سخت ضرورت تھی اور نیز اُن ملائک کی جو زندہ کرنے کے لئے اُترا کرتے ہیں سخت حاجت تھی کیونکہ روحانی موت اور غفلت ایک عالم پر طاری ہوگئی ہے اور اللہ جلَّ شَانُہٗ کی محبت ٹھنڈی ہوگئی اور سخت دلی اور دنیا پرستی پھیل گئی اور وہ تمام وجوہ پیدا ہوگئے جن کی وجہ سے توریت کی تائید میں مسیح ابن مریم دنیا میں آیا تھا.اور دجّال نے بھی بڑے زور کے ساتھ خروج کیا اور حضرت آدم کی پیدائش کے حساب سے الف ششم کا آخری حصہ آگیا جو بموجب آیت

Page 385

چھٹے دن کے قائم مقام ہے.سو ضرورتھاکہ اس چھٹے دن میں آدم پیدا ہوتا جو اپنی روحانی پیدائش کی رُو سے مثیل مسیح ہے اس لئے خدائے تعالیٰ نے اس عاجز کو مثیل مسیح اور نیزآدم الف ششم کر کے بھیجا جیساکہ اُس نے فرمایا جو براہین میں چھپ چکا ہے اور وہ یہ ہے اردت ان استخلف فخلقت اٰدم یعنی میں نے ارادہ کیا جو اپنا خلیفہ پیداکروں سو میں نے آدم کو پیدا کیا.پھر دوسری جگہ فرماتا ہے خلق اٰدم فاکرمہ یعنی آدم کو پیدا کیا پھر اس کو عزت بخشی اور جیسا کہ آدم کو تحقیر کی نظر سے دیکھاگیا اور مفسد قرار دیا گیا.یہی صورت اس جگہ بھی پیش آئی.اور چونکہ آدم اور مسیح میں باہم مماثلت ہے اس لئے اس عاجز کانام آدم بھی رکھا گیا اور مسیح بھی.(۱۸) سوال.ابن صیّاد کو اگر مسیح دجّال قراردیا گیا ہے تو اس سے مسلم کی دمشق والی حدیث کو کیا نقصان پہنچتا ہے کیونکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن صیّاد گم ہو گیا اور قیامت کے قریب پھر ظاہر ہو گا.امّاالجواب.ابن صیّاد کا گم ہونا روایت صحیح سے ہرگز ثابت نہیں.لیکن اس کا ایمان لانا اور مرنا ثابت ہے.جیسا کہ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں اورمدینہ میں فوت ہونا اس کا بپایہ ثبوت پہنچ چکاہے.علاوہ اس کے فرض محال کے طور پر اگر وہ مفقود الخبر بھی ہو تو کیا اِس سے اُس کا اب تک زندہ رہنا ثابت ہو جائے گا ؟ کیا اب آپ کو وہ صحیح حدیثیں بھی بھول گئیں کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہمارے زمانہ سے سو برس تک کوئی انسان زمین پر زندہ نہیں رہے گا.یہ بات یاد رہے کہ شیعہ لوگ امام محمد مہدی کی نسبت بھی یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ زندہ ہونے کی حالت میں ہی ایک غار میں چھپ گئے اور مفقود ہیں اور قریب قیامت ظاہر ہوں گے اور سنّت جماعت کے لوگ اُن کے اس خیال کو باطل تصورکرتے ہیں اور یہ

Page 386

حدیثیں پیش کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سو برس کے بعد کوئی شخص زمین پر زندہ نہیں رہ سکتا.سو سُنّت جماعت کا یہ مذہب ہے کہ امام محمد مہدی فوت ہوگئے ہیں اور آخری زمانہ میں انہیں کے نام پر ایک اور امام پیدا ہوگا.لیکن محققین کے نزدیک مہدی کا آنا کوئی یقینی امر نہیں ہے.اس جگہ مجھے غورکرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ درحقیقت اس مسئلہ میں شیعہ اور سنّت جماعت میں جو اختلاف ہے اُس میں کسی تاریخی غلطی کو دخل نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ شیعہ کی روایات کی بعض سادات کرام کے کشفِ لطیف پر بنیاد معلوم ہوتی ہے چونکہ ائمہ اثنا عشرنہایت درجہ کے مقدّس اور راستباز اوراُن لوگوں میں سے تھے جن پر کشف صحیح کے دروازے کھولے جاتے ہیں اس لئے ممکن اور بالکل قرین قیاس ہے جو بعض اکابر ائمہ نے خدائے تعالیٰ سے الہام پاکر اس مسئلہ کو اُسی طرز اور ایسے رنگ سے بیان کیا ہوجیسا کہ ملاکی کی کتاب میں ملاکی نبی نے ایلیاہ نبی کے دوبارہ آنے کا حال بیان کیا تھا اور جیسا کہ مسیح کے دوبارہ آنے کاشور مچا ہوا ہے اور درحقیقت مراد صاحبِ کشف کی یہ ہو گی کہ کسی زمانہ میں ا س امام کے ہمرنگ ایک اَور امام آئے گا جو اس کا ہمنام اورہم قوت اور ہم خاصیت ہوگا گویا وہی آئے گا.پھر یہ لطیف نکتہ جب جسمانی خیالات کے لوگوں میں پھیلا تو اُن لوگوں نے موافق اپنی موٹی سمجھ کے سچ مچ یہی اعتقاد کرلیا ہو گا کہ وہ امام صدہا برس سے کسی غارمیں چھپا ہوا ہے اور آخری زمانہ میں باہر نکل آئے گا.مگر ظاہر ہے کہ ایسا خیال صحیح نہیں ہے.یہ عام محاورہ کی بات ہے کہ جب کوئی شخص کسی کا ہمرنگ اور ہم خاصیت ہو کر آتا ہے تو کہتے ہیں کہ گویا وہی آگیا متصوّفین بھی اِن باتوں کے عام طور پر قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ بعض اولیاء گذشتہ کی روحیں اُن کے بعد میں آنے والے ولیوں میں سماتی رہی ہیں اور اس قول سے اُنکا مطلب یہ ہے کہ بعض ولی بعض اولیاء کی قوت اور طبع لیکر آتے ہیں گویا وہی ہوتے ہیں.

Page 387

(۱۹) سوال.اگر مسیح ابن مریم درحقیقت فوت ہوگیاہے تو پھر کیا یہ بات جو تیرہ سو برس سے آج تک مشہور چلی آتی ہے کہ مسیح زندہ آسمان کی طرف اُٹھایا گیا آج غلط ثابت ہوگئی؟ امّاالجواب.پس واضح ہو کہ یہ بالکل افتراء ہے کہ تیرہ سو برس سے بالاجماع یہی مانا گیاہے کہ مسیح جسم کے ساتھ زندہ آسمان پر اٹھایاگیاہے.ظاہر ہے کہ اگر سلف اور خلف کا کسی ایک بات پر اجماع ہوتا تو تفسیروں کے لکھنے والے متفرق قولوں کو نہ لکھتے لیکن کونسی ایسی تفسیر ہے جو اس بارہ میں اقوال متفرقہ سے خالی ہے.کبھی کہتے ہیں کہ مسیح نیند کی حالت میں اُٹھایا گیا اور کبھی کہتے ہیں کہ وہ مر گیا اور اس کی روح اٹھائی گئی اور کبھی قرآن شریف کی غلطی نکالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آیت 3 ۱؂ میں دراصل مُتَوَفِّیْکَ بعد میں ہونا چاہیئے اور رَافِعُکَ اِلَیَّ اس سے پہلے.اب ظاہر ہے کہ اگر اُن کا اجماع ایک خاص شق پر ہوتا تو اپنی تفسیروں میں مختلف اقوال کیوں جمع کرتے.اورجب ایک خاص بات پر یقین ہی نہیں تو پھر اجماع کہاں.اوریہ اعتراض کہ تیرہ سو برس کے بعد یہ بات تمہیں کو معلوم ہوئی.اس کا جواب یہ ہے کہ درحقیقت یہ قول نیا تونہیں پہلے راوی اس کے تو ابن عباس ہی تھے لیکن اب خدائے تعالیٰ نے اس عاجز پراس قول کی حقیقت ظاہرکر دی اور دوسرے اقوال کا بطلان ثابت کردیا تا قولی طور پر اپنے ایک عاجز بندہ کی اس طرح پر ایک کرامت دکھاوے اور تا عقلمند لوگ سمجھ جاویں کہ یہ رہبری خاص خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہے.کیونکہ اگر یہ معمولی فہم اور عقل کاکام ہوتا تو دوسرے لوگ بھی اس صداقت کو مع اِس کے اُن سب دلائل کے جو اِن رسالوں میں درج ہوچکے ہیں بیان کرسکتے.اب یہ تمام سوالات ختم ہوئے اوران سوالات سے بجز اس کے کہ صداقت اوربھی ظاہر ہو اور چمکے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکا.اس رسالہ کے ناظرین جو اول سے آخر تک اس رسالہ کو پڑھیں گے بخوبی یقین کرلیں گے کہ ہمارے مخالفین کے ہاتھ میں

Page 388

بجُز اوہام کے اَور کچھ بھی نہیں اور وہ ہر طرف سے شکست کھا کر بار باریہ وہم پیش کرتے ہیں کہ ابن مریم کا اُترنا کتابوں میں لکھاہوا ہے اور ہماری اس بات کوسمجھ نہیں سکتے کہ کیا خدائے تعالیٰ باعتبار بعض صفات خاصہ کے کسی دوسرے کانام ابن مریم نہیں رکھ سکتا.تعجب کہ آپ توہمیشہ اپنی اولاد کے پیغمبروں کے نام رکھتے ہیں بلکہ ایک ایک نام میں دودو پیغمبروں کے نام ہوتے ہیں جیسے محمدیعقوب،محمدابراہیم،محمد مسیح، محمد عیسیٰ، محمد اسمٰعیل،احمد ہارون.لیکن اگر خدائے تعالیٰ کسی اپنے بندہ کو اِن ناموں میں سے کسی نام کے ساتھ پکارے یا ان نبیوں کے ناموں اور کُنیتوں میں سے کوئی نام یا کنیت کسی اپنے مامورکو عطاکرے تو یہ کفرسمجھتے ہیں گویا جوکام انہیں کرناجائز ہے وہ خدائے تعالیٰ کو کرنا جائز نہیں.نہیں دیکھتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماگئے ہیں کہ اس اُمت میں مثیل انبیاء بنی اسرائیل آئیں گے تو کیا ضروری نہ تھاکہ وہ مثیل دنیا میں آتے.پھر اگر خدائے تعالیٰ نے مثیل مسیح ہونے کی وجہ سے کسی کا نام ابن مریم رکھ دیا تو کیا برا کیا.اور قرینہ ظاہر ہے کہ فوت شدہ تو دوبارہ دنیامیں نہیں آسکتااور نہ خدائے تعالیٰ انبیاء پر دوموتیں واردکرتا ہے اور اس کا حکم بھی ہے کہ جو شخص اس دنیا سے گیا وہ گیا.جیسا کہ وہ فرماتا ہے33 ۱؂ یعنی جس پر موت وارد کی گئی وہ پھرکبھی دنیا میں آنہیں سکتا.اور پھر فرمایا 33 ۲؂.یعنی بہشتیوں پر دوسری موت نہیں آئے گی.ایک موت جو آ چکی سو آچکی.اب جو لوگ کہتے ہیں کہ مسیح جو مرگیا کیا خدائے تعالیٰ قادر نہیں کہ اس کو پھر زندہ کر کے بھیجے گویا اُن کے نزدیک مسیح بہشتی نہیں جو اس کے لئے دو موتیں تجویز کرتے ہیں.حضرات اپنی بات کی ضد کے لئے مسیح کو بار بار کیوں مارنا چاہتے ہو اس کا کونسا گناہ ہے جو اس پر دوموتیں آویں اورپھر ان دوموتوں کا حدیث اور قرآن کی رُو سے ثبوت کیا ہے.کچھ پیش توکرو.اور اگر اب بھی ہمارے مخالف الرائے مولوی صاحبان ماننے میں نہیں آتے تو ہم انہیں مخطی

Page 389

ہونے کی وجہ سے مباہلہ کے لئے نہیں بُلاتے کیونکہ اگر اختلافات باہمی کی وجہ سے مسلمانوں کا باہم مباہلہ جائز ہو تو ا س کا نتیجہ یہ ہو کہ مسلمانوں پر عذاب نازل ہونا شروع ہوجائے اور بجُز کسی خاص فر د کے جو بکلّی خطا سے خالی ہو تمام مسلمان نیست ونابو د کئے جائیں.سو خدائے تعالیٰ کا یہ ارادہ نہیں اس لئے صرف اختلافات کی بناء پر مباہلہ بھی جائز نہیں.ہاں اگر ہمارے مخالف اپنے تئیں سچ پر سمجھتے ہیں اور اس بات پر سچ مچ یقینی طورپر ایمان رکھتے ہیں کہ درحقیقت وہی مسیح ابن مریم آسمان سے نازل ہوگا جس پر انجیل نازل ہوئی تھی تو اس فیصلہ کے لئے ایک یہ بھی عمدہ طریق ہے کہ وہ ایک جماعت کثیر جمع ہو کر خوب تضرّع اور عاجزی سے اپنے مسیح موہوم کے اُترنے کے لئے دعا کریں.اس میں کچھ شک نہیں کہ جماعت صادقین کی دعا قبول ہوجاتی ہے بالخصوص ایسے صادق کہ جن میں ملہم بھی ہوں.پس اگر وہ سچے ہیں تو ضرور مسیح اُتر آئے گا اور وہ دعابھی ضرور کریں گے اور اگر وہ حق پر نہیں اور یاد رہے کہ وہ ہرگز حق پر نہیں ہیں تو دعا بھی ہرگز نہیں کریں گے کیونکہ وہ دلوں میں یقین رکھتے ہیں کہ دعا قبول نہیں ہوگی.ہاں ہماری اس درخواست کو کچّے بہانوں سے ٹال دیں گے تاایسانہ ہوکہ رُسوائی اُٹھا نی پڑے.اور اگر کوئی کہے کہ اہل حق کی دعا اہل باطل کے مقابل پر قبول ہونی ضروری نہیں ورنہ لازم آتا ہے کہ ہندؤں کے مقابل پر مسلمانوں کی دعا قیامت کے بارہ میں قبول ہو کر ابھی قیامت آجائے.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ مقرر ہوچکا ہے کہ قیامت سات ہزاربرس گذرنے سے پہلے واقع نہیں ہو سکتی.اور ضرور ہے کہ خدااُسے روکے رہے جب تک وہ ساری علامتیں کامل طورپر ظاہر نہ ہوجائیں جو حدیثوں میں لکھی گئی ہیں.لیکن مسیح کے ظہورکا وقت تو یہی ہے.جس کی نسبت اُس مولوی مرحوم نے بھی شہادت دی ہے جس کا مجدّد ہونا مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی تصدیق کر چکے ہیں اور وہ تمام علامتیں بھی پیداہوگئی ہیں جن کا مسیح کے وقت پیدا ہوناضروری تھا.جیسا کہ اسی رسالہ میں ہم نے ثابت کردیا ہے.پھر اگر اب بھی

Page 390

مسیح کے اُترنے کے لئے دعامنظور نہ ہو تو صاف ثابت ہوگا کہ وہ دعا تحصیل حاصل میں داخل ہے اسی وجہ سے منظور نہیں ہوئی.ہمارے دوست مولوی ! ابو سعید محمد حسین صاحب اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ میں عقلی طورپر اس امر (وفاتِ مسیح ) کو ثابت کر دکھاؤں گا مگر کچھ معلوم نہیں ہوا کہ مولوی صاحب کی عقلی طورسے کیا مراد ہے.کیا بیلون میں آسمان کی طرف چڑھ کر ناظرین کو کوئی تماشہ دکھانا چاہتے ہیں.حضرت مولوی صاحب کو لازم ہے کہ عقلی طورکا نام نہ لیں تا نئے فلسفہ والے ان کے گرد نہ ہوجائیں بلکہ یہ کہا کریں کہ جو شخص عقل کا نام لے وہ کافر ہے.اگر کوئی دن ایسے ہی اعتقاد کے ساتھ گذارہ کرنا ہے تو بجز تکفیر کے اور کوئی کار آمد حربہ نہیں.لیکن ہمارا تو اس بات پر ایمان ہے کہ خدائے تعالیٰ نے انسان کے وجود میں عقل کو بھی بیکار پیدا نہیں کیا اوراگر مسلمانوں کے دوفریق میں سے جو کسی جُزئی مسئلہ پر جھگڑتے ہیں اور باہم اختلاف رکھتے ہیں ایک فریق ایسا ہے کہ علاوہ دلائل شرعی اور نصوص قرآن اور حدیث کے عقل کو بھی اپنے ساتھ رکھتا ہے تو بلاشبہ وہی فریق سچاہے کیونکہ اس کی تائید دعویٰ کے لئے گوا ہ بہت ہیں.سو اب دیکھنا چاہیئے کہ مسیح کی وفات کے بارے میں کیسے قرآن کریم اور حدیث اورعقل اور تجربہ ہمارا مؤید ہو رہا ہے.لیکن ہمارے مخالفین کو اِن تمام شواہد میں سے کوئی مدد نہیں دیتا.قرآن کریم کے سامنے جاتے ہیں تو قرآن کریم کہتا ہے کہ چل دُورہو.میرے خزانہ حکمت میں تیرے خیال کے لئے کوئی مؤید بات نہیں.پھر وہاں سے محروم ہو کر حدیثوں کی طرف آتے ہیں تو حدیثیں کہتی ہیں کہ اے سرکش قوم یکجائی نظرسے ہمیں دیکھ اورمومن ببعض اور کافر ببعض نہ ہو.تاتجھے معلوم ہو کہ میں قرآن کریم کے مخالف نہیں.پھر حدیثوں سے نومید ہو کر سلف و خلف کے اقوال متفرقہ کی طرف آتے ہیں تو اُن کو کسی ایک خاص شق پر قائم نہیں دیکھتے بلکہ تفسیروں کو رطب ویابس کا ذخیرہ پاتے ہیں اور جب دیکھنا چاہتے ہیں کہ مبسوط تفسیروں میں

Page 391

اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَکے کیا معنے نکلتے ہیں تو پہلے بسم اللہ کر کے ابن عباس سے یہی حدیث نکلتی ہے کہ حضرت مسیح فوت ہوچکے ہیں.پھر قرآن اور حدیث سے قطع امید کرکے عقل کی طرف دوڑتے ہیں تو عقل ایک روشن دلیل کا طمانچہ مار کر دوسری طرف مُنہ پھیر دیتی ہے اورپھر کانشنس اور نور قلب کی طرف آتے ہیں تو وہ اپنے نزدیک آنے سے دھکّے دیتا ہے.پس اس سے زیادہ محرومی کیا ہوگی کہ کوئی اِن لوگوں کو قبول نہیں کرتا اور کسی جگہ اپنے مورچے باندھ نہیں سکتے.بعض چالاکی سے قرآن شریف کے کھلے کھلے ثبوت پر پردہ ڈالناچاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ توفّیکا لفظ لغت کی کتابوں میں کئی معنوں پر آیا ہے حالانکہ اپنے دلوں میں خوب جانتے ہیں کہ جن لفظوں کو قرآن شریف اصطلاحی طور پر بعض معانی کے لئے خاص کرلیتا ہے اور اپنے متواتر بیان سے بخوبی سمجھادیتاہے کہ فلاں معنے کے لئے اُس نے فلاں لفظ خاص کررکھا ہے اس معنی سے اس لفظ کو صرف اس خیال سے پھیرنا کہ کسی لغت کی کتاب میں اس کے اَور معنے بھی آئے ہیں صریح الحاد ہے.مثلًا کتب لغت میں اندھیری رات کا نام بھی کافر ہے مگر تمام قرآن شریف میں کافرکالفظ صرف کافرِ دین یا کافر نعمت پر بولا گیا ہے.اب اگر کوئی شخص کفر کا لفظ الفاظ مروّجہ فرقان سے پھیر کر اندھیری رات اس سے مراد لے اوریہ ثبوت دے کہ لغت کی کتابوں میں یہ معنے بھی لکھے ہیں تو سچ کہو کہ اُس کا یہ مُلحدانہ طریق ہے یا نہیں ؟ اسی طرح کتب لغت میں صوم کا لفظ صرف روزہ میں محدود نہیں بلکہ عیسائیوں کے گرجا کا نام بھی صوم ہے اور شترمرغ کے سرگین کو بھی صوم کہتے ہیں.لیکن قرآن شریف کی اصطلاح میں صوم صرف روزہ کانام ہے.اور اسی طرح صلوٰۃ کے لفظ کے معنے بھی لغت میں کئی ہیں مگر قرآن شریف کی اصطلاح میں صرف نماز اَور درود اور دعا کا نام ہے.یہ بات سمجھنے والے جانتے ہیں کہ ہر یک فن ایک اصطلاح کا محتاج ہوتاہے اور اہل اس فن کے حاجات کے موافق بعض الفاظ کو متعدد معنوں سے

Page 392

مجرّد کر کے کسی ایک معنی سے مخصوص کرلیتے ہیں.مثلًا طبابت کے فن کو دیکھئے کہ بعض الفاظ جو کئی معنے رکھتے تھے صرف ایک معنے میں اصطلاحی طور پر محصورو محدود رکھے گئے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ کوئی علم بغیر اصطلاحی الفاظ کے چل ہی نہیں سکتا.پس جو شخص الحاد کا ارادہ نہیں رکھتا اس کے لئے سیدھی راہ یہی ہے کہ قرآن شریف کے معنے اس کے مروّجہ اور مصطلحہ الفاظ کے لحاظ سے کرے ورنہ تفسیر بالرائے ہوگی.اگر یہ کہا جائے کہ اگر تَوَفّی کے معنے الفاظ مروّجہ قرآن میں عام طور پر قبض روح ہی ہے تو پھر مفسّروں نے اس کے برخلاف اقوال کیوں لکھے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ موت کے معنے بھی تو وہ برابر لکھتے چلے آئے ہیں.اگر ایک قوم کا ان معنوں پر اجماع نہ ہوتا تو کیوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے آج تک جو تیرہ سو برس گذر گئے یہ معنے تفسیروں میں درج ہوتے چلے آئے.سو اِن معنوں کا مسلسل طورپر درج ہوتے چلے آنا صریح اس بات پر دلیل ہے کہ صحابہ کے وقت سے آج تک ان معنوں پر اجماع چلا آیا ہے.رہی یہ بات کہ پھر دوسرے معنے انہیں تفسیروں میں کیوں لکھے گئے.اس کا جواب یہ ہے کہ وہ بعض لوگوں کی غلط رائے ہے اور اس رائے کی غلطی ثابت کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ رائے سراسرقرآن شریف کے منشاء کے برخلاف ہے اور نیز یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اُ ن میں سے بعض وہ لوگ بھی ہیں جو خیال کرتے ہیں جو حضرت عیسیٰ تین گھنٹہ یا سات گھنٹہ یا تین دن تک مُردہ رہے اورپھر آسمان کی طرف زندہ کرکے اُٹھائے گئے.اوراس رائے پر ادنیٰ نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنہوں نے ابتداء میں یہ رائے قائم کی ہے اُن کا یہ منشاء ہو گا کہ جیسا کہ بعض حدیثوں میں آیا ہے اور مولوی عبد الحق صاحب دہلوی نے بھی اس بارے میں اپنی کتابوں میں بہت کچھ لکھاہے اور متصوّفین بھی اس کے قائل ہیں کہ جب کوئی مقدّس اور راستباز بندہ فوت ہوجائے توپھر وہ زندہ کیا جاتاہے.اور قدرت حق سے ایک قسم کا اس کو جسم نورانی عطاہوتاہے اور وہ اس جسم کے ساتھ آسمان پر

Page 393

حسب اپنے مرتبہ کے رہائش اختیارکرتا ہے سو کیوں مسیح کے اُٹھائے جانے کا ایک نرالا مسئلہ بناویں.ہم قبول کرتے ہیں کہ وہ ایک نورانی جسم کے ساتھ آسمان کی طرف اٹھایاگیا جیساکہ اَور نبی اُٹھائے گئے.اس کو نورانی جسم دیا گیا تبھی تو وہ کھانے اورپینے اور پاخانہ اور پیشاب کرنے کا محتاج نہ ہؤا.اگر یہ کثیف اور خاکی جسم ہوتا تو آسمان پر اس کے لئے ایک باورچی خانہ اور ایک پاخانہ بھی چاہیئے تھا کیونکہ اس خاکی جسد کے لئے خدائے تعالیٰ نے یہ تمام ضروری امورٹھہرائے ہیں جیسا کہ قرآن شریف کی آیات بیّنات سے ظاہر ہے.اے حضرات مولوی صاحبان جبکہ عام طورپر قرآن شریف سے مسیح کی وفات ثابت ہوتی ہے اور ابتداء سے آج تک بعض اقوال صحابہ اور مفسّرین بھی اس کو مارتے ہی چلے آئے ہیں تو اب آپ لوگ ناحق کی ضد کیوں کرتے ہیں کہیں عیسائیوں کے خدا کو مرنے بھی تو دو.کب تک اس کو حیّ لایموت کہتے جاؤ گے کچھ انتہا ء بھی ہے پھر اگر آپ محض ضد کی راہ سے یہ کہیں کہ مسیح ابن مریم فوت تو ضرور ہوگیا تھا مگر اُسی خاکی جسم میں اُس کی روح آگئی.تو کیا اس کا کوئی ثبوت بھی ہے.ماسوا اس کے اس صورت میں دوموتیں اس کے لئے تجویز کروگے.یہ کہاں لکھا ہے اور کس کی ہدایت ہے کہ خدائے تعالیٰ موتت اُولٰی پر کفایت نہ کرے اورسارے جہان کے لئے ایک موت اور مسیح ناکردہ گناہ پر دوموتوں کی تکلیف نازل ہو.کیا کوئی حدیث ہے یا قرآن شریف کی آیت ہے جو اِن دوموتوں کے بارے میں آپ کے پاس ہے.یوں تو آپ حضرت مسیح کی لاش کو بڑی عزت کے ساتھ دفن کرنا چاہتے ہیں جبکہ کہتے ہیں کہ حضرت سیّدنا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں دفن کئے جائیں گے لیکن یہ خیال نہیں کرتے کہ یہ دوسری موت اُن کے لئے کس سخت گناہ کا پاداش ہوگی.اور واضح رہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں اُن کا آخری زمانہ میں دفن ہونا یہ اس بات کی فرع ہے کہ پہلے اُن کا اسی جسم خاکی کے ساتھ زندہ اُٹھایاجانا ثابت ہو.ورنہ فرض کے طور پر اگر اس حدیث کوجو

Page 394

نصوص بیّنہ کے مخالف صریح پڑی ہوئی ہے صحیح بھی مان لیں اور اس کے معنے کو ظاہر پر ہی حمل کریں تو ممکن ہے کہ کوئی مثیل مسیح ایسا بھی ہوجو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ کے پاس مدفون ہو.کیونکہ اس حدیث کی رو سے کہ جو علماء امّتی کا نبیاء بنی اسرائیل ہے مثیلوں کی کمی نہیں اور ایسا ہی یہ آیت کریمہ بھی مثیلوں کی طرف اشارہ کر رہی ہے 33.3 ۱؂ اور نیز قرائن قویہ کی وجہ سے بفرض صحت اس کو ایک استعارہ تسلیم کر کے یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ یہ ایک اشارہ معیّت اور اتحاد کی طرف ہے.مثلًا جو دشمن ہو اس کے لئے انسان کہتاہے کہ اس کی قبر بھی میرے نزدیک نہ ہو.لیکن دوست کے لئے قبرکا بھی ساتھ چاہتا ہے اور مکاشفات میں اکثر ایسے امور دیکھے جاتے ہیں.ایک مدّت کی بات ہے جو اس عاجز نے خواب میں دیکھا جو آ نحضرتْ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارکہ پر میں کھڑاہوں اور کئی لوگ مر گئے ہیں یا مقتول ہیں ان کو لوگ دفن کرنا چاہتے ہیں.اِسی عرصہ میں روضہ کے اندر سے ایک آدمی نکلا اور اس کے ہاتھ میں ایک سرکنڈہ تھا اور وہ اس سرکنڈہ کو زمین پر مارتا تھا اور ہریک کو کہتا تھا کہ تیری اس جگہ قبر ہوگی.تب وہ یہی کام کرتا کرتا میرے نزدیک آیا اور مجھ کو دکھلا کر اور میرے سامنے کھڑا ہو کر روضۂ شریفہ کے پاس کی زمین پر اس نے اپنا سرکنڈہ مارا اور کہاکہ تیری اس جگہ قبر ہوگی.تب آنکھ کھل گئی اور میں نے اجتہاد سے اس کی یہ تاویل کی کہ یہ معیّت معادی کی طرف اشارہ ہے.کیونکہ جو شخص فوت ہونے کے بعد روحانی طورپر کسی مقدّس کے قریب ہوجائے تو گویا اس کی قبر اس مقدس کی قبر کے قریب ہو گئی.وَاللّٰہُ اَعْلَمُ وَعِلْمُہٗ اَحْکَمُ

Page 395

نور افشاں مطبُوعہ ۲۳ ؍ اپریل کا اعتراض پرچہ نور افشان میں مسیح کے صعود کی نسبت یہ دلیل پیش کی گئی ہے کہ مسیح کے صعود کی نسبت گیارہ شاگرد بچشم دید گواہ موجود ہیں جنہوں نے اُسے آسمان کو جہاں تک حد نظر ہے جاتے دیکھا.چنانچہ معترض صاحب نے اپنے دعوے کی تائیدمیں رسولوں کے اعمال باب اوّل کی یہ آیتیں پیش کی ہیں.(۳) اُن پر (یعنی اپنے گیارہ شاگردوں پر )اُس نے (یعنی مسیح نے ) اپنے مرنے کے پیچھے آپ کو بہت سی قوی دلیلوں سے زندہ ثابت کیا کہ وہ چالیس دن تک انہیں نظر آتا رہا اور خدا کی بادشاہت کی باتیں کہتا رہا.اور اُن کے ساتھ ایک جا ہوکے حکم دیا کہ یروشلم سے باہر نہ جاؤ...اور وہ یہ کہہ کے اُن کے دیکھتے ہوئے اُوپر اُٹھایا گیا اور بدلی نے اُن کی نظروں سے چھپا لیا.اور اس کے جاتے ہوئے جب وے آسمان کی طرف تک رہے تھے دیکھو دو مرد سفید پوشاک پہنے ہوئے اُن کے پاس کھڑے تھے (۱۱) اور کہنے لگے اے جلیلی مردو تم کیوں کھڑے آسمان کی طرف دیکھتے ہو یہی یسوع جو تمہارے پاس سے آسمان پر اُٹھایا گیا ہے اُسی طرح جس طرح تم نے اسے آسمان کو جاتے دیکھا پھر آوے گا.اب پادری صاحب صرف اس عبارت پر خوش ہوکر سمجھ بیٹھے ہیں کہ درحقیقت اِسی جسم خاکی کے ساتھ مسیح اپنے مرنے کے بعد آسمان کی طرف اُٹھایا گیا.لیکن انہیں معلوم ہے کہ یہ بیان لوقاکا ہے جس نے نہ مسیح کودیکھا اور نہ اُس کے شاگردوں سے کچھ سُنا.پھر ایسے شخص کا بیان کیوں کر قابل اعتبار ہوسکتا ہے جو شہادت رویت نہیں اور نہ کسی دیکھنے والے کے نام کا اُس میں حوالہ ہے.ماسوا اس کے یہ بیان سراسر غلط فہمی سے بھرا ہوا ہے.یہ تو سچ ہے کہ مسیح اپنے وطن گلیل میں جا کر فوت ہوگیا.لیکن یہ ہرگز سچ نہیں کہ وہی جسم جو دفن ہوچکا تھا پھر زندہ ہوگیا.بلکہ اسی باب کی تیسری آیت ظاہر کررہی ہے

Page 396

کہ بعد فوت ہوجانے کے کشفی طورپر مسیح چالیس دن تک اپنے شاگردوں کو نظر آتا رہا.اس جگہ کوئی یہ نہ سمجھ لیوے کہ مسیح بوجہ مصلوب ہونے کے فوت ہوا.کیونکہ ہم ثابت کر آئے ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے صلیب سے مسیح کی جان بچائی تھی بلکہ یہ تیسری آیت باب اول اعمال کی مسیح کی طبعی موت کی نسبت گواہی دے رہی ہے جو گلیل میں اس کو پیش آئی.اس موت کے بعد مسیح چالیس دن تک کشفی طورپر اپنے شاگردوں کو نظرآتا رہا.جو لوگ کشف کی حقیقت کو نہیں سمجھتے وہ ایسے مقامات میں بڑا دھوکہ کھاتے ہیں.اِسی وجہ سے حال کے عیسائی بھی جو روحانی روشنی سے بے بہرہ ہیں اس عالم کشف کو درحقیقت عالم جسمانی سمجھ بیٹھے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ مقدّس اور راستباز لوگ مرنے کے بعد پھر زندہ ہو جایا کرتے ہیں اوراکثر صاف باطن اور پُرمحبت لوگوں کو عالمِ کشف میں جو بعینہٖ عالم بیداری ہے نظر آجایا کرتے ہیں.چنانچہ اس بارہ میں خود یہ عاجز صاحبِ تجربہ ہے.بارہا عالم بیداری میں بعض مقدّس لوگ نظر آئے ہیں.اور بعض مراتب کشف کے ایسے ہیں کہ میں کسی طور سے کہہ نہیں سکتا.کہ اُن میں کوئی حصہ غنودگی یاخواب یا غفلت کا ہے بلکہ پورے طورپر بیداری ہوتی ہے اور بیداری میں گذشتہ لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے اور باتیں بھی ہوتی ہیں.یہی حال حواریوں کی رویت کا ہے جو انہیں کشفی طور پر مسیح ابن مریم مرنے کے بعد جبکہ وہ جلیل میں جا کر کچھ عرصہ کے بعد فوت ہوگیا چالیس دن برابر نظرآتا رہااور انہوں نے اس کشفی حالت میں صرف مسیح کو نہیں دیکھا بلکہ دوفرشتے بھی دیکھے جو سفید پوشاک پہنے ہوئے کھڑے تھے.جس سے اور زیادہ ثابت ہوتاہے کہ وہ کشف کا ہی عالم تھا.انجیل میں یہ بھی آیا ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے کشفی طور پر حضرت موسیٰ اور حضرت یحییٰ کوبھی خواب میں دیکھا تھا.غرض اعلیٰ درجہ کا کشف بعینہٖ عالم بیداری ہوتاہے اور اگر کسی کو اس کوچہ میں کچھ دخل ہو تو ہم بڑی آسانی سے اس کو تسلیم کرا سکتے ہیں مگر محض بیگانوں اور بے خبروں کے مقابل پر کیا کیا جائے.

Page 397

میں کئی بار لکھ چکا ہوں اورپھر بھی لکھتا ہوں کہ اہل کشف کے نزدیک یہ بات ثابت شدہ ہے کہ مقدّس اور راستباز لوگ مرنے کے بعد پھر زندہ ہو جایا کرتے ہیں اور ایک قسم کاانہیں جسم نورانی مل جاتاہے اور اس جسم کے ساتھ وہ آسمان کی طرف اُٹھائے جاتے ہیں اور بعض احادیث میں آیا ہے کہ بعد موت کے اکثر مدّت مقدس لوگوں کی زمین پر رہنے کی چالیس دن ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ کوئی نبی فوت ہونے کے بعد چالیس دن سے زیادہ زمین پر نہیں ٹھہرتا بلکہ اس عرصہ کے اندراندر آسمان کی طرف اُٹھایا جاتاہے.چنانچہ خوداپنی نسبت آنجنابؐ فرما تے ہیں کہ مجھے ہرگز امید نہیں کہ خدائے تعالیٰ چالیس دن سے زیادہ مجھ کو قبر میں رکھے.سو سمجھنا چاہیئے کہ آسمان کی طرف مع الجسد اُٹھایا جانا حضرت مسیح کا جس کی نسبت کیا عیسائی اور کیا مسلمان شور مچا رہے ہیں دراصل یہی معنے رکھتاہے اور اس بارے میں مسیح کی کچھ بھی خصوصیت نہیں ہر یک مقدس اور کامل راستباز کا رفع اسی طرح ہوتا ہے.اور یہ امر اہل کشف کے نزدیک مسلّمات اور مشاہدات میں سے ہے قرآن کریم میں مسیح کے رفع کا ذکر اس کی راستبازی کی تصدیق کے لئے ہے.اور مسیح کے شاگردوں کو جو کشفی طورپر اس کا اُٹھایا جانا دکھایاگیا یہ اُن کی تقویتِ ایمان کے لئے تھا.کیونکہ اس وقت کے مولویوں اورفقیہوں کی طرح اس وقت کے فقیہوں اورفریسیوں نے بھی حضرت مسیح پر کفرکا فتویٰ لگایا تھا اور قریب تھا کہ وہ لوگ اپنی مکاریوں سے بہت سے شبہات دلوں میں ڈال دیتے لہذا خداوندکریم نے مسیح کے شاگردوں کی کشفی آنکھ کھول دی اور انہوں نے دیکھا کہ وہ خاص مقرّبوں کی طرح آسمان کی طرف اُٹھایا گیا.اگر یہ کشف نہ ہوتا تو نامحرم اور بدعقیدہ بیگانہ لوگ بھی اس حالت کودیکھتے کیونکہ وہ کوئی ایسی جگہ نہیں تھی کہ جہاں دوسروں کی آمدورفت حرام تھی.پس بیگانے لوگ جو آیندروند تھے صرف اسی وجہ سے نہیں دیکھ سکے کہ وہ ایک کشفی امر تھااور پھر اخیر میں گیارہ آیت میں جو لکھا ہے جو فرشتوں نے جو وہاں کھڑے تھے یہ کہا کہ اے گلیلی مردو! یہی یسوع جو تمہارے پاس سے آسمان پر

Page 398

اُٹھایاگیا ہے اسی طرح جس طرح تم نے اُسے آسمان کوجاتے دیکھا پھرآوے گا یہ ایک لطیف اشارہ اس بات کی طرف ہے جو تم نے عالم کشف میں جو عالم مثال ہے مسیح کو آسمان کی طرف جاتے دیکھا اسی طرح مثالی طور پر اور مثالی وجود کے ساتھ مسیح پھر آوے گا جیساکہ ایلیا آیا اور یاد رہے کہ یہ تاویلات اس حالت میں ہیں کہ ہم ان عبارتوں کو صحیح اور غیر محرف قبول کرلیں.لیکن اس کے قبول کرنے میں بڑی دقتیں ہیں.جاننے والے خوب جانتے ہیں کہ مسیح کا آسمان کی طرف اُٹھائے جانا انجیل کی کسی الہامی عبارت سے ہرگز ہرگزثابت نہیں ہوسکتا اور جنہوں نے اپنی اٹکل سے بغیر رویت کے کچھ لکھا.اُن کے بیانات میں علاوہ اس خرابی کے کہ اُن کا بیان چشم دید نہیں اس قدر تعارض ہے کہ ایک ذرّہ ہم اُن میں سے شہادت کے طورپر نہیں لے سکتے.ضرو ر تھا کہ مسیح دجّال گرجا میں سے ہی نکلے ہم بیان کر آئے ہیں کہ مسیح دجّال کی تعیین و تشخیص میں اسلام کے قرن اوّل کے بزرگوں میں اختلاف رہا ہے.بعض صحابہ رضی اللہ عنہم قطعی اور یقینی طورپر ابن صیّاد کو مسیح دجّال سمجھ بیٹھے تھے.چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رُوبرو قسم کھا کر کہا کہ الدجّال یہی ہے یعنی مسیح دجّال.کیونکہ الدجّال بجُز مسیح دجّال کے اور کسی کو نہیں کہاجاتا.ایسا ہی ابن عمرؓ نے بھی صریح لفظوں میں کہا کہ مسیح الدجّال یہی ہے.اور ہم پہلے اس سے تحریر کر چکے ہیں کہ بعض احادیث سے ثابت ہوتاہے کہ ابن صیّاد مسلمان ہونے کے بعد مدینہ میں فوت ہوگیااورمسلمانوں نے اس کا جنازہ پڑھا.بعض یہ کہتے ہیں کہ وہ گم ہوگیا مگر قول اوّل ارجح ہے کیونکہ فوت کی خبر میں زیادت علم ہے جوموجب قطع ویقین ہے.بہرحال جبکہ مسلم کی حدیث سے ابن صیّاد کااسلام ثابت ہے اور ارتداد

Page 399

ثابت نہیں تو خواہ نخواہ ایک مسلمان کے پیچھے پڑنااور اس کو دجّال دجّال کرکے پکارنا اور پھر اس کی نسبت یہ یقین رکھنا کہ وہی ابن صیّاد یہودی الاصل آخری زمانہ میں پھر کفرکا جامہ پہن کر اور خدائی کا دعویٰ کرکے خروج کرے گا.میرے نزدیک بالکل نامناسب اور ایک مسلمان بھائی کی ناحق کی غیبت اور بدگوئی ہے جو آیت کریمہ 333 ۱؂ کے تحت میں داخل ہے.علاوہ اس کے ابن صیّاد سے اس کی کفر کی حالت میں بھی کوئی ایسا کام فتنہ اور شرارت کا صادر نہیں ہوا.جس سے وہ اپنے وقت میں فتنہ انگیزی میں بے نظیر سمجھاگیاہو.پھر جب اس کے دل میں لاالٰہ الّا اللّٰہ کانور داخل ہوگیا اور تصدیق رسالت نبوی سے اس کا سینہ منوّر کیاگیا تو پھر شک کرنے کی کوئی وجہ بھی باقی نہ رہی.بے شک وہ حدیثیں نہایت حیرت انگیز ہیں جن میں یقین کے طورپر بیان کیاگیا ہے کہ مسیح دجّال یہی شخص ہے.اور اب ہم اُن کی کوئی تاویل نہیں کرسکتے بجز اس کے کہ یہ کہیں کہ جو آخری زمانہ میں دجّال پیدا ہونے کی خبر دی گئی ہے اس دجّال میں بعض صفات ابن صیّاد کی بھی ہوں گی اور کفر کی حالت میں جو کچھ مکر وفریب کی ابن صیّاد کو مشق تھی.اورجو سیرت غفلت اور دلیری اوردھوکہ دہی اس میں موجود تھی وہی صفتیں اور خصلتیں اس آنے والے دجّال میں بھی ہوں گی گویا وہ اس کا مثیل ہوگا اور اس کے کفر کی حالت کا رنگ اس میں پایا جائے گا.لیکن گرجا سے نکلنے والا دجّال جس کے بارے میں امام مُسلم نے اپنی صحیح میں فاطمہ بنت قیس سے روایت کی ہے اورجس کو نہایت درجہ کا قوی ہیکل اور زنجیروں سے جکڑاہوا بیان کیا ہے اور اس کے ایک جساسہ کی بھی خبر لکھی ہے.اوریہ دجّال وہ ہے جس کو تمیم داری نے کسی جزیرہ کے ایک گرجا میں دیکھا کہ خوب مضبوط بندھاہوا تھا اور اس کے ہاتھ اس کی گردن کی طرف جکڑے ہوئے تھے اس دجّال پر علماء کی بہت نظر ہے کہ درحقیقت یہی دجّال ہے جو آخری زمانہ میں نکلے گا.اوریہ تو کسی کا بھی مذہب نہیں

Page 400

کہ آخری زمانہ میں دجّال تولّد کے طورپر کسی عورت کے پیٹ سے پیدا ہوگا بلکہ بالاتفاق سلف وخلف یہی کہتے آئے ہیں کہ دجّال معہود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود تھااور پھر آخری زمانہ میں بڑی قوت کے ساتھ خروج کرے گا.اور اب تک وہ زندہ کسی جزیرہ میں موجود ہے.مگر یہ خیال کہ اب تک وہ زندہ ہے ہرگز صحیح نہیں ہے.مسلم کی دو حدیثیں مفصلہ ذیل اس خیال کی بکلّی استیصال کرتی ہیں اور وہ یہ ہیں:.(۱)عن جابر قال سمعت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قبل ان یموت بشھر تسئلونی عن الساعۃ وانما علمھا عنداللّٰہ واقسم باللہ ماعلی الارض من نفس منفوسۃ یاتی علیھا ماءۃ سنۃ وھی حیۃ یومئذٍ رواہ مسلم یعنی روایت ہے جابر سے کہ کہا سُنا میں نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے تھے مہینہ بھر پہلے اپنی وفات سے جو تکمیل مقاصدِ دین اور اظہار بقایا اسرار کا وقت تھاکہ تم مجھ سے پوچھتے ہوکہ قیامت کب آئے گی اور بجُز خدائے تعالیٰ کے کسی کو اس کا علم نہیں اور میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ روئے زمین پر کوئی ایسا نفس نہیں جو پیدا ہوگیاہو اورموجود ہو اور پھر آج سے سو برس اس پر گذرے اور وہ زندہ رہے.(۲) پھر دوسری حدیث صحیح مسلم کی یہ ہے وعن ابی سعید عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لایاتی ماءۃ سنۃ وعلی الارض نفس منفوسۃ رواہ مسلم یعنی ابو سعید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں آویگی سو برس اس حال میں کہ زمین پرکوئی شخص بھی آج کے لوگوں میں سے زندہ موجود ہو.اب اِن دونوں حدیثوں کی رو سے جن میں سے ایک میں ہمارے سیدو مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم بھی کھائی ہے اگرہم تکلفات سے تاویلیں نہ کریں تو صاف طورپر ثابت ہوتاہے کہ جسّاسہ والادجّال بھی ابن صیّاد کی طرح فوت ہوگیا ہے.اسی کی نسبت علماء کا خیال ہے کہ آخری زمانہ میں نکلے گا اور حال یہ ہے کہ اگر اس کو آج تک زندہ فرض کیاجائے

Page 401

تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حتمی حدیثوں کی تکذیب لازم آتی ہے اور اس حدیث میں دجّال کا یہ قول انی انا المسیح وانی ان یوشک ان یوذن لی فی الخروج جو زیادہ تر اس کے مسیح دجّال ہونے پر دلالت کرتا ہے بظاہر اس شبہ میں ڈالتا ہے کہ آخری زمانہ میں وہ نکلنے والا ہے.لیکن بہت آسانی سے یہ شبہ رفع ہوسکتا ہے جبکہ اس طرح پر سمجھ لیں کہ یہ عیسائی دجّال بطور مورث اعلیٰ کے اس دجّال کے لئے ہے جوعیسائی گروہ میں ہی پیدا ہوگااور گرجا میں سے ہی نکلے گا.اور ظاہر ہے کہ وارث اور موروث کاوجود ایک ہی حکم رکھتا ہے اور ممکن ہے کہ اس بیان میں استعارات ہوں اورزنجیروں سے مراد وہ موانع ہوں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عیسائی واعظوں کو روک رہے تھے اور وہ مجبورہوکر گویا ایک جگہ بند تھے.اور یہ اشارہ ہوکہ آخری زمانہ میں بڑی قوت کے ساتھ ان کا خروج ہوگا جیسا کہ آج کل ہے.اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ حدیث مذکورہ بالا میں اس دجا ل نے خدائی کا دعوےٰ نہیں کیا بلکہ فقرہ وانی یوشک ان یوذن لی صاف دلالت کررہا ہے کہ دجّال کو خدائے تعالیٰ کے وجود کا اقرارہے.اور حدیثوں میں کوئی ایسالفظ پایا نہیں جاتا جس سے معلوم ہوکہ جساسہ والا دجّال اپنے آخری ظہورکے وقت میں بالجہر خالق السمٰوٰت والارض ہونے کا دعویٰ کرے گا.لیکن معلوم ہوتاہے کہ تکبّرکی راہ سے خداوند خداوند کہلائے گا جیسے اُن لوگوں کا طریقہ ہوتا ہے جو خدائے تعالیٰ کو بکلّی فراموش کردیتے ہیں اور اس کی پرستش اور اطاعت سے کچھ غرض نہیں رکھتے اور چاہتے ہیں کہ لوگ ان کو ربّی ربّی کہیں یعنی خداوند خداوند کرکے پکاریں اورایسی اُن کی اطاعت کریں جیسی خدائے تعالیٰ کی کرنی چاہیئے.اوریہی بدمعاشی اور غفلت کا اعلیٰ درجہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کی تحقیر دل میں بیٹھ جائے.مثلًا ایک ایسا امیر ہے کہ نماز پڑھنے سے منع کرتا ہے کہ واہیات کام ہے اس سے کیا فائدہ.اورروزہ پر ٹھٹھا کرتاہے.اور خدائے تعالیٰ کی عظمت کو کچھ بھی چیز نہیں سمجھتا اور اس کی آسمانی تقدیروں کا قائل نہیں بلکہ اپنی تدبیروں اور مکرو ں کو تمام کامیابیوں کا مدار سمجھتاہے اور چاہتاہے کہ لوگ

Page 402

ایسے اُس کے آگے جھکیں جیسے خدائے تعالیٰ کے آگے جھکنا چاہیئے اور خدائے تعالیٰ کی فرمانبردای پر چڑتا ہے اور اس کے احکام کو ذلیل اور خوار سمجھتا ہے اوراپنے احکام کو قابل عزت خیال کرتاہے اور اپنی اطاعت کو خدائے تعالیٰ کی اطاعت پر مقدّم رکھناچاہتاہے وہ حقیقت میں خدائی کادعویٰ کررہا ہے.اگرچہ قال سے نہیں مگر حال سے ضرور یہ دعویٰ اُس سے صادر ہوتاہے بلکہ قال سے بھی دعویٰ کرتاہے کیونکہ چاہتاہے کہ لوگ اس کو خداوند خداوند کہیں.سو اسی قسم کا دجّال کا دعویٰ معلوم ہوتا ہے.اس تمام تقریر سے معلوم ہوا کہ مسیح ابن مریم کے مثیل کی طرح دجّال کا بھی مثیل ہی آنے والا ہے یعنی ایسا گروہ جو باعتبار اپنی سیرت و خاصیت کے پہلے دجّال کا ہمرنگ ہو.لیکن اس طرز تقریر کے اختیار کرنے میں کہ مثیل مسیح اُترے گا اور مثیل دجّال خروج کرے گا یہ حکمت ہے تا ظاہر کیاجائے کہ دجّال کا آنا بطور بلا وابتلا کے ہو گا اور مسیح کا آنا بطور ایسی نعمت کے جو بارادۂ خاص الٰہی مومنوں کی نصرت کے لئے نازل ہوتی ہے جیسا کہ قرآن شریف میں ہے کہ ہم نے تمہارے لئے لوہا اُتارا اور تمہارے لئے مویشی اُتارے یعنی تمہارے فائدہ کے لئے بطور رحمت یہ چیزیں پیدا کیں.اور یہ بھی ہے کہ جو چیز زمین سے نکلتی ہے وہ ظلمت اور کثافت رکھتی ہے اور جو اُوپر سے آتی ہے اس کے ساتھ نور و برکت ہوتی ہے اور نیز اُوپر سے آنے والی نیچے والی پر غالب ہوتی ہے.غرض جو شخص آسمانی برکتیں اور آسمانی نور ساتھ رکھتاہے اُس کے آنے کے لئے نزول کا لفظ مناسب حال ہے اور جس کے وجود میں زمینی ظلمت اور خبث اورکدورت بھری ہوئی ہے اس کے ظہور کے لئے خروج کا لفظ مناسبت رکھتاہے.کیونکہ نورانی چیزیں آسمان سے ہی نازل ہوتی ہیں جو ظلمت پر فتح پاتی ہیں.اب اس تحقیق سے ظاہر ہو گیا کہ جیسے مثیل مسیح کو مسیح ابن مریم کہا گیا اس امر کو نظر میں رکھ کر کہ اس نے مسیح ابن مریم کی روحانیت کو لیا اور مسیح کے وجود کو باطنی طور پر قائم کیا.ایسا ہی وہ دجّال جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں فوت ہوچکاہے اس کی ظل اور مثال نے اِس

Page 403

آخری زمانہ میں اس کی جگہ لی اور گرجا سے نکل کر مشارق ومغارب میں پھیل گیا اس تقریر سے مثیلیت کا محاورہ اور بھی ثابت ہوتاہے.جو دونوں طور کے مسیحوں طیّب و خبیث میں دائر وسائر ہے.اگر یہ کہا جائے کہ حدیثوں میں تو صرف اتنا لفظ آیا ہے کہ مسیح ابن مریم اُترے گا اور دجّال خروج کرے گا پھر ان دونوں کے ساتھ مثیل کالفظ کیوں ملایا جاتاہے.کیا یہ الحاد نہیں ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بعد اس کے کہ ہم نصوص قطعیہ بیّنہ سے ثابت کرچکے ہیں کہ حضرت مسیح ابن مریم جن پر انجیل نازل ہوئی تھی وفات پا چکے ہیں اور ایسا ہی دجّال بھی فوت ہوچکا.اور اُن کے زندہ ہونے کاکوئی ذکر قرآن کریم اوراحادیث میں موجود نہیں.بلکہ آیات بیّنہ اُن کے دنیا میں واپس آنے سے سخت انکار کرتی ہیں.تو اس صورت میں اگرہم آنے والے مسیح اور دجّال سے اُن کے مثیل مراد نہ لیں تو اور کیاکریں.ہاں اگر حدیثوں میں یہ لفظ وارد ہوتے کہ وہ مسیح ابن مریم جو فوت ہوچکا ہے جس پر انجیل نازل ہوئی تھی اور وہ دجّال جو جزیرہ میں مقیّد تھا جس کے ساتھ جساسہ تھے وہی دونوں زندہ ہو کر آخری زمانہ میں آجائیں گے تو پھر تاویل کی گنجائش نہ ہوتی.مگر اب تاویل نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے اور چونکہ بحکم علماء امّتی کانبیاء بنی اسرائیل ابن مریم کے نام پر کوئی آنا چاہیئے تھا اور آنا بھی وہ چاہیئے تھا جو درحقیقت اُمّتی ہو نہ کہ حقیقی طور پر نبی.لہٰذا یہ ضروری تھا کہ ابن مریم کی جگہ کوئی ایسا اُمتی ظاہر ہو جو خدائے تعالیٰ کے نزدیک ابن مریم کے رنگ میں ہے.سو خدائے تعالیٰ نے مسیح ابن مریم کامثیل عین وقت میں بھیج کر اُسی مثیل کی معرفت مسیح ابن مریم کا فی الواقعہ فوت ہوجانا ظاہر کردیااورسب دلائل اس کے کھول دئے.اگر خدانخواستہ سچ مچ فرقان کریم میں لکھا ہوتا کہ مسیح برخلاف اس سُنّت اللہ کے جو تمام بنی آدم کے لئے جاری ہے زندہ آسمان کی طرف اُٹھایا گیااور قیامت کے قریب تک زندہ ہی رہے گا تو عیسائیوں کو بڑے بڑے سامان بہکانے کے ہاتھ آجاتے.سو بہت ہی خوب ہوا کہ عیسائیوں کا خدا فوت ہوگیا اور یہ حملہ ایک برچھی کے حملہ سے

Page 404

کم نہیں جو اس عاجزنے خدائے تعالیٰ کی طرف سے مسیح ابن مریم کے رنگ میں ہو کر اِن دجّال سیرت لوگوں پر کیا ہے جن کو پاک چیزیں دی گئی تھیں مگر انہوں نے ساتھ اس کے پلید چیزیں ملادیں اور وہ کام کیا جو دجّال کو کرنا چاہیئے تھا.اب یہ سوال بھی قابل حل ہے کہ مسیح ابن مریم تو دجّال کے لئے آئے گا آپ اگر مسیح ابن مریم کے رنگ میں ہو کر آئے ہیں تو آپ کے مقابل پر دجّال کون ہے ؟ اس سوال کا جواب میری طرف سے یہ ہے کہ گو میں اس بات کو تومانتا ہوں کہ ممکن ہے کہ میرے بعد کوئی اور مسیح ابن مریم بھی آوے اور بعض احایث کی رو سے وہ موعود بھی ہو اور کوئی ایسا دجّال بھی آوے جو مسلمانوں میں فتنہ ڈالے.مگر میرا مذہب یہ ہے کہ اس زمانہ کے پادریوں کی مانند کوئی اب تک دجّال پیدا نہیں ہوا اورنہ قیامت تک پیدا ہوگا.مسلم کی حدیث میں ہے وعن عمران بن حصین قال سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول ما بین خلق اٰدم الیٰ قیام الساعۃ امر اکبر من الدجّال یعنی عمران ابن حصین سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پیدائش آدم سے قیامت تک کوئی امر فتنہ اور ابتلاء کے روسے دجّال کے وجود سے بڑھ کر نہیں.اب اوّل تو یادرکھنا چاہیئے کہ لغت میں دجّال جھوٹوں کے گروہ کو کہتے ہیں جو باطل کو حق کے ساتھ مخلوط کردیتے ہیں اور خلق اللہ کے گمراہ کرنے کے لئے مکر اور تلبیس کو کام میں لاتے ہیں.اب میں دعویٰ کے ساتھ کہتا ہوں کہ مطابق منشاء مسلم کی حدیث کے جو ابھی میں بیان کرآیا ہوں اگر ہم حضرت آدم کی پیدائش سے آج تک بذریعہ ان تما م تحریری و سائل کے جو ہمیں ملے ہیں دنیا کے تمام ایسے لوگوں کی حالت پر نظر ڈالیں جنہوں نے دجالیت کا اپنے ذمہ کام لیا تھا تو اس زمانہ کے پادریوں کی دجّالیت کی نظیر ہرگز ہم کو نہیں ملے گی.انہوں نے ایک موہومی اورفرضی مسیح اپنی نظر کے سامنے رکھا ہوا ہے جوبقول اُن کے زند ہ ہے

Page 405

اور خدائی کا دعویٰ کررہا ہے.سو حضرت مسیح ابن مریم نے خدائی کا دعویٰ ہرگز نہیں کیا.یہ لوگ خود اس کی طرف سے وکیل بن کر خدائی کا دعویٰ کررہے ہیں اور اس دعویٰ کے سرسبز کرنے کے لئے کیا کچھ انہوں نے تحریفیں نہیں کیں.اور کیا کچھ تلبیس کے کام استعمال میں نہیں لائے اور مکہ اور مدینہ چھوڑ کر اَور کونسی جگہ ہے جہاں یہ لوگ نہیں پہنچے.کیا کوئی دھوکہ دینے کاکام یا گمراہ کرنے کامنصوبہ یا بہکانے کاکوئی طریقہ ایسا بھی ہے جو اُن سے ظہور میں نہیں آیا.کیا یہ سچ نہیں کہ یہ لوگ اپنے دجّالانہ منصوبوں کی وجہ سے ایک عالم پردائرہ کی طرح محیط ہوگئے ہیں.جہاں یہ لوگ جائیں اورجہاں اپنا مشن قائم کریں ایک عالم کو تہ وبالا کردیتے ہیں.دولتمند اس قدر ہیں کہ گویا دنیا کے تمام خزانے اُن کے ساتھ ساتھ پھرتے ہیں اگرچہ گورنمنٹ انگریزی کو مذاہب سے کچھ سروکار نہیں اپنے شاہانہ انتظام سے مطلب ہے مگر درحقیقت پادری صاحبوں کی بھی ایک الگ گورنمنٹ ہے جو بے شمار روپے کی مالک اورگویا تمام دنیا میں اپنا تاروپود پھیلا رہی ہے اور ایک قسم کا جنت اور جہنّم اپنے ساتھ ساتھ لئے پھرتے ہیں.جوشخص اُن کے مذہب میں آنا چاہتاہے اس کو وہ جنت دکھلایاجاتاہے اورجو شخص اُ ن کا اشدّ مخالف ہوجائے اس کے لئے جہنم کی دھمکی ہے.ان کے گھرمیں روٹیاں بہت ہیں گویا ایک پہاڑ روٹیوں کا جس جگہ رہیں ساتھ رہتا ہے.اور اکثر شکم بندہ لوگ اُن کی سفید سفید روٹیوں پر مفتون ہو کر ربنا المسیحکہنا شروع کردیتے ہیں.مسیح دجّال کی کوئی بھی ایسی علامت نہیں جو اُن میں نہ پائی جائے.ایک وجہ سے یہ مُردوں کو بھی زندہ کرتے ہیں اور زندوں کو مارتے ہیں (سمجھنے والا سمجھ لے) اوراس میں تو شک نہیں کہ اُن کی آنکھ ایک ہی ہے جو بائیں ہے اگر اُن کی دائیں آنکھ موجود ہوتی تو یہ لوگ خدائے تعالیٰ سے ڈرتے اور خدائی کے دعوے سے باز آتے.بے شک یہ بھی سچ ہے کہ پہلی کتابوں میں اس قوم دجال کا ذکر ہے حضرت مسیح ابن مریم نے بھی انجیل میں بہت ذکر کیا ہے پہلے صحیفوں میں بھی جابجا ان کا ذکر پایاجاتا ہے.بلاشبہ ایسا ہی چاہیئے تھا کہ ہر یک نبی اس مسیح دجّال کے آنے کی پہلے سے خبر دیتا.سو ہریک نے

Page 406

تصریحًا یااجمالًا، اشارتًا یا کنایتًا خبر دی ہے.حضرت نوح سے لے کر ہمارے سیّد ومولیٰ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمبارک تک اس مسیح دجّال کی خبر موجود ہے جس کو میں دلائل کے ساتھ ثابت کرسکتاہوں.اور جس قدر اسلام کو اِن لوگوں کے ہاتھ سے ضرر پہنچا ہے اور جس قدر انہوں نے سچائی اور انصاف کاخون کیا ہے اِن تمام خرابیوں کا کون اندازہ کرسکتاہے.ہجرت مقدّسہ کی تیرھویں صدی سے پہلے ان تمام فتنوں کا نام و نشان نہ تھا اور جب تیرھویں صدی کچھ نصف سے زیادہ گذر گئی تو یکدفعہ اس دجّالی گروہ کا خروج ہوا اور پھر ترقی ہوتی گئی یہاں تک کہ اس صدی کے اواخر میں بقول پادری ہیکر صاحب پانچ لاکھ تک صرف ہندوستان میں ہی کرسٹان شدہ لوگوں کی نوبت پہنچ گئی اور اندازہ کیا گیا کہ قریبًا بارہ سال میں ایک لاکھ آدمی عیسائی مذہب میں داخل ہوجاتا ہے جو ایک عاجزبندہ کوخداخدا کرکے پکارتا ہے اس بات سے کوئی دانابے خبرنہیں کہ ایک جماعت کثیر اسلام کی یا یوں کہو کہ اسلام کے بھوکوں اور ننگوں کا ایک گروہ پادری صاحبوں نے صرف روٹیاں اور کپڑے دکھلا کر اپنے قبضہ میں کرلیا ہے اور جو روٹیوں کے ذریعہ سے قابو نہ آئے وہ عورتوں کے ذریعہ سے اپنے پنجہ میں کئے گئے اور جو اس طرح پربھی دام میں پھنس نہ سکے اُن کے لئے مُلحد اور بے دین کرنے والا فلسفہ پھیلایا گیا جس میں آج لاکھوں نَوخیزبچے مسلمانوں کے گرفتار اور مبتلا پائے جاتے ہیں جو نماز پر ہنستے اور روزہ کو ٹھٹھے سے یادکرتے اور وحی الٰہی کو ایک خواب پریشان خیال کرتے ہیں.اور جولوگ اس لائق بھی نہیں تھے کہ انگریزی فلسفہ کی تعلیم پاویں اُن کے لئے بہت سے بناوٹی قصّے جو محض پادری صاحبوں کے بائیں ہاتھ کا کرتب تھا جن میں کسی تاریخ یا کہانی کے پیرایہ میں ہجوِ اسلام درج تھی عام طور پر شائع کردئے گئے اور پھر اسلام کے ردّ میں اور ہمارے سیّد ومولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب میں بے شمار کتابیں تالیف کرکے اِن لوگوں نے ایک دنیا میں مفت تقسیم کیں اور اکثر کتابوں کے بہت سی زبانوں میں ترجمے

Page 407

کر کے شائع کئے.رسالہ فتح اسلام کے ۴۶صفحہ کے حاشیہ کو پڑھ کردیکھو کہ اکیس سال میں اِن لوگوں نے اپنے پُر تلبیس خیالات کے پھیلانے کے لئے سات کروڑ سے کچھ زیادہ کتابیں مفت تقسیم کی ہیں تا کسی طرح اسلام سے لوگ دستبردارہوجائیں اور حضرت مسیح کو خدامان لیاجائے.اللہ اکبر اگر اب بھی ہماری قوم کی نظر میں یہ لوگ اوّل درجہ کے دجّال نہیں اور ان کے الزام کے لئے ایک سچے مسیح کی ضرورت نہیں تو پھر اس قوم کا کیا حال ہوگا.دیکھو! اے غافلو دیکھو ! !کہ اسلامی عمارت کے مسمار کرنے کے لئے کس درجہ کی یہ کوشش کررہے.اورکس کثرت سے ایسے وسائل مہیّا کئے گئے ہیں اور اُن کے پھیلانے میں اپنی جانوں کو بھی خطرہ میں ڈال کر اور اپنے مال کو پانی کی طرح بہا کر وہ کوششیں کی ہیں کہ انسانی طاقتوں کا خاتمہ کر دیا ہے.یہاں تک کہ نہایت شرمناک ذریعے اور پاکیزگی کے برخلاف منصوبے اس راہ میں ختم کئے گئے اور سچائی اور ایمانداری کے اُڑانے کے لئے طرح طرح کی سرنگیں طیارکی گئیں اوراسلام کے مٹادینے کے لئے جھوٹ اور بناوٹ کی تمام باریک باتیں نہایت درجہ کی جانکاہی سے پیدا کی گئیں.ہزارہا قصے اور مباحثات کی کتابیں محض افترا کے طور پر اور محض اس غرض سے بنائی گئیں.تااگر اور طریق سے نہیں تو اسی طریق سے دلوں پر بداثر پڑے.کیا کوئی ایسا رہزنی کا طریق ہے جوایجاد نہیں کیاگیا؟.کیاکوئی ایسی سبیل گمراہ کرنے کی باقی ہے جس کے یہ مُوجد نہیں ؟ پس ظاہر ہے کہ یہ کرسچن قوموں اورتثلیث کے حامیوں کی جانب سے وہ ساحرانہ کارروائیاں ہیں اورسحرکے اس کامل درجہ کا نمونہ ہے جو بجُز اوّل درجہ کے دجّال کے جو دجّال معہُود ہے اور کسی سے ظہور پذیر نہیں ہوسکتیں.لہٰذا انہیں لوگوں کو جو پادری صاحبوں کا گروہ ہے دجّال معہود ماننا پڑا.اورجبکہ ہم دنیا کے اس اکثر حصّہ کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھتے ہیں جو گذر چکا توہماری نظر اس استقرائی شہادت کو ساتھ لے کر عود کرتی ہے کہ زمانہ کے سلسلہ گذشتہ میں جہاں تک پتہ مل سکتا ہے دجّالیت کی صفت

Page 408

اور اس کی کامیابیوں میں کوئی اِ ن لوگوں کا نظیرنہیں اور ان کے ان ساحرانہ کاموں میں کوئی ان کے مساوی نہیں.اور چونکہ احادیث صحیحہ میں دجال معہود کی یہی علامت لکھی ہے کہ وہ ایسے فتنے برپا کرے گا کہ جہاں تک اس وقت سے ابتدائے دنیا کے وقت تک نظر ڈالیں اس کا نظیرنہیں ملے گالہٰذا اس بات پر قطع اور یقین کرناچاہیئے کہ وہ مسیح دجّال جو گرجا سے نکلنے والا ہے یہی لوگ ہیں جن کے سحرکے مقابل پر معجزہ کی ضرورت تھی.اور اگر انکار ہے تو پھر زمانہ گذشتہ کے دجّالین میں سے ان کی نظیر پیش کرو.اب یہ سوال جو کیا جاتا ہے کہ ضرور ہے کہ مسیح ابن مریم سے پہلے دجّال آگیا ہو.اس کا جواب ظاہرہو گیا اور بپایہ ثبوت پہنچ گیا کہ مسیح دجّال جس کے آنے کی انتظار تھی یہی پادریوں کا گروہ ہے جوٹڈی کی طرح دنیامیں پھیل گیاہے.سو اے بزرگو! دجّال معہود یہی ہے جو آچکا مگر تم نے اُسے شناخت نہیں کیا.ہاتھ میں ترازو لو اور وزن کرکے دیکھوکہ کیا ان سے بڑھ کرکوئی اور ایسا دجّال آنا ممکن ہے جوفریبوں میں ان سے زیادہ ہو.اس دجّال کے لئے جو تمہارے وہم میں ہے تم لوگ بار بار یہ حدیث پیش کرتے ہو کہ اس قدر اس کا بڑافتنہ ہوگاکہ ستر ہزار مسلمان اس کا معتقد ہوجائے گا.لیکن اس جگہ تولاکھوں آدمی دین اسلام کو چھوڑ گئے اورچھوڑتے جاتے ہیں تمہاری عورتیں،تمہارے بچے، تمہارے پیارے دوست،تمہارے بڑے بڑے بزرگوں اور ولیوں کی اولاد،تمہارے بڑے بڑے خاندانوں کے آدمی اس دجّالی مذہب میں داخل ہوتے جاتے ہیں.کیا یہ اسلام کے لئے سخت ماتم کی جگہ نہیں.سوچ کردیکھو کہ کس قدر ان لوگوں کے فتنوں نے دامن پھیلا رکھا ہے اور کس قدر ان لوگوں کی کوششیں انتہا ء تک پہنچ گئی ہیں کیا کوئی ایسا بھی دقیقہ فریب اور مکر کا ہے جو انہوں نے رہزنی کے لئے استعمال نہیں کیا.کروڑہا کتابیں اسی غرض سے ملکوں میں پھیلائیں.ہزارہا واعظ اورمنّاد اسی غرض کے لئے جابجا چھوڑ دئے.کرو ڑہا روپیہ اسی راہ میں خرچ ہورہاہے.نہایت دشوارگزارراہوں سے پُر خطر پہاڑوں اور یاغستان کے ملک

Page 409

اور کافرستان کے وحشی لوگوں اور افریقہ کے جنگلی آدمیوں کے پاس جاتے ہیں اور اسی غرض سے ہمیشہ خشکی اور تری کا سفرکرتے رہتے ہیں تا کسی شخص کو اپنے دام میں لاویں.حضرت آدم سے آج تک جو متفرق طور پر گمراہ کرنے کے لئے لوگوں نے فریب کئے ہیں اِن مشنوں میں اُن تمام کا مجموعہ پایا جاتاہے.کوئی شخص اگر ایک سال تک سوچتا رہے اور گمراہ کرنے کے جدید جدید فریب نکالے تو آخر جب غورکر کے دیکھے گا تووہ سب فریب ان مشنوں میں پائے گا.بہت جگہ ان لوگوں نے ڈاکٹری عہدے بھی حاصل کئے ہیں تااگر اورنہیں تو مصیبت زدہ بیمار ہی قابو آویں.بہت سا غلّہ اس غرض سے خریداجاتا ہے کہ تا اگر قحط پڑے تو قحط زدہ لوگوں کووہ غلّہ مفت دیاجاوے اور کچھ وعظ بھی سُنادیاجائے.اکثر جگہ دیکھا گیاہے کہ اتوار کے دن پادری صاحبان کا خیرات خانہ کھلتاہے اور بہت سے مسکین اکٹھے ہوجاتے ہیں اور مناسب وقت کچھ کچھ وعظ کے طورپر اُن کو سُناکر پھر پیسے ٹکے اُن کو دئے جاتے ہیں.بہت سی ایسی مِسّوں نے جو پادری کامنصب رکھتی ہیں دونوں وقت لوگوں کے گھروں میں پھرنا اختیار کررکھا ہے اوراشرافوں کی لڑکیوں کو سینا پرونا اور کئی قسم کا سوئی کاکام سکھلاتی ہیں اور رہزنی کے لئے آلۂ نقب بھی بغل میں ہوتا ہے موقعہ پر وہ حربہ بھی چلایا جاتا ہے.چنانچہ کئی جوان لڑکیاں اچھے اچھے خاندانوں کی سیّد اورشیخ اورمغل اورنوابوں اور شہزادوں کی اولاد کہلا کر پھر مِس صاحبوں کی کوششوں سے عیسائی جماعت میں جاملی ہیں.اور جن مستورہ اور شریفہ عورتوں نے کبھی مدت العمر غیر آدمی کی شکل بھی نہ دیکھی تھی اب وہ عیسائی ہوکر نامحرموں کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کرپھرتی ہیں.پاک محبت کے خیال سے نامحرم اگر بوسہ بھی لے لیں تو کچھ بُرا نہیں سمجھاجاتا.اور یاتوانہوں نے کبھی شراب کانام بھی نہ سُنا تھا اوریا اس خبیث عرق کی دن رات خُوب مشق ہورہی ہے اور برانڈی، شیری، وہسکی، رَم ‘پوٹ، وائن وغیرہ شرابوں کے نام نوک زبان ہورہے ہیں.اسی طرح ہزارہا لاوارث بچے مسلمانوں کے ان لوگوں کے قبضہ میں آکر اور اُن کے تلبیسات کی تعلیم پا کر اب پکّے دشمن

Page 410

اسلام کے نظر آتے ہیں کیا کوئی فتنہ اندازی کاکام خیال میں آسکتا ہے جو ان لوگوں نے نہیں کیا.کیا دین اسلام کے مٹانے والی تدبیریں کوئی ایسی بھی باقی رہ گئی ہیں جو ان کے ہاتھ سے ظہور میں نہیں آئیں.اب انصاف کرنا چاہیئے کہ جس حالت میں دنیا کی ابتدا سے آج تک تلبیسکے تمام کاموں میں اور دجّالیت کے تمام طریقوں میں انہیں لوگوں کانمبر سب سے اوّل معلوم ہوتاہے اور اِس قسم کی وبا کے پھیلانے میں دنیا کے صفحہ میں اول سے آج کے دن تک کوئی نظیر ان کی معلوم نہیں ہوتی اور ان لوگوں کی زہر ناک تاثیروں نے بعض لوگوں کو تو پورے طورپر ہلاک کردیا ہے.اور بعض کا مفلوج کی طرح نصف حصہ بیکارکردیاہے اور بعض کے خون میں جذامیوں کی طرح فساد ڈال دیا ہے.جن کے چہروں پر بڑے بڑے داغ جذام کے نظر آتے ہیں اوربعض کی آنکھوں پرایسا ہاتھ پھیر دیا ہے کہ اب اُن کو کچھ بھی نظر نہیں آتا.اورنوکر سٹانوں کی ذرّیت کے پھیلنے کی وجہ سے مادرزاد اندھوں کی بھی جماعت بڑھتی جاتی ہے اور کروڑہا تیرہ طبع لوگوں میں ناپاک روحیں شور کررہی ہیں.غرض اس وبا پھیلانے والی ہوا کی وجہ سے ایسا زمانہ آگیا ہے کہ کروڑہا جذامی اور کروڑہا مادر زاد اندھے اورکروڑہا مفلوج اور کروڑہا مُردوں کی لاشیں سڑی گلی ہوئی نظر آرہی ہیں.اب پھر مَیں کہتا ہوں کہ کیااُن کے لئے کوئی مسیح ابن مریم مُحی اموات نہیں آنا چاہیئے تھا جس حالت میں ایسا مسیح دجّال آگیا تو کیا مسیح ابن مریم نہ آتا ؟ اب یہ شبہات پیش کئے جاتے ہیں کہ دجّال دائیں آنکھ سے کاناہو گا اور یاجوج ماجوج اسی زمانہ میں ظہور کریں گے اور دابۃ الارض بھی آئے گا اور دُخان بھی اور طلوع شمس مغرب کی طرف سے ہوگا اور امام محمد مہدی بھی اس وقت ظہورکرے گا اور دجّال کے ساتھ بہشت اور دوزخ ہوگا اور زمین کے خزانے بھی اس کے ساتھ ہوں گے اورایک پہاڑ روٹیوں کابھی ساتھ ہوگا.اورایک گدھابھی ہوگا اور دجّال اپنے شعبدے دکھائے گا اور آسمان اور زمین دونوں اس کے حکم میں ہوں گے جس قوم پر چاہے بارش نازل کرے

Page 411

اور جس قوم کو چاہے خشک سالی سے ہلاک کردے.اور انہیں دنوں میں قومیں یاجوج اورماجوج کی ترقی پر ہوں گی اور زمین کو دباتی چلی جاویں گی اورہر یک بلند زمین سے دوڑے گی اور دجّا ل ایک جسیم آدمی سُرخ رنگ ہوگا.یہ تمام علامتیں اب کہاں پائی جاتی ہیں.اِن شبہات کا ازالہ اس طرح پر ہے کہ یک چشم سے مراد درحقیقت یک چشم نہیں.اللہ جلَّ شَانُہٗ قرآن کریم میں فرماتا ہے 33 ۱؂ کیا اس جگہ نابینائی سے مراد جسمانی نابینائی ہے بلکہ روحانی نابینائی مراد ہے اورمطلب یہ ہے کہ دجّال میں دینی عقل نہیں ہوگی اورگودنیا کی عقل اس میں تیز ہوگی اور ایسی حکمتیں ایجادکرے گا اور ایسے عجیب کام دکھلائے گا کہ گویا خدائی کا دعویٰ کررہا ہے لیکن دین کی آنکھ بالکل نہیں ہوگی.جیسے آج کل یورپ اور امریکہ کے لوگوں کاحال ہے کہ دنیا کی تدبیروں کا انہوں نے خاتمہ کردیاہے.اورحدیث میں جو کَاَنِّی کا لفظ موجود ہے وہ بھی دلالت کر رہا ہے جو یہ ایک کشفی امر اور لائق تعبیر ہے جیساکہ ملّا علی قاری نے اسی کی طرف اشارہ کیاہے.اور یاجوج ماجوج کی نسبت تو فیصلہ ہوچکا ہے جو یہ دنیاکی دو بلند اقبال قومیں ہیں جن میں سے ایک انگریز اور دوسرے روس ہیں.یہ دونوں قومیں بلندی سے نیچے کی طرف حملہ کررہی ہیں یعنی اپنی خداد اد طاقتوں کے ساتھ فتحیاب ہوتی جاتی ہیں.مسلمانوں کی بدچلنیوں نے مسلمانوں کو نیچے گرادیا.اور اُن کی تہذیب اور متانت شعاری اورہمت اوراُلوالعزمی اورمعاشرت کے اعلیٰ اصولوں نے بحکم و مصلحت قاد ر مطلق ان کو اقبال دے دیا.ان دونوں قوموں کا بائبل میں بھی ذکر ہے.اور دآبۃُ الارض سے مراد کوئی لایعقل جانورنہیں بلکہ بقول حضرت علی رضی اللہ عنہ آدمی کا نام ہی دآبۃُ الارض *ہے.اور اس جگہ لفظ دآبۃُالارض سے ایک ایسا طائفہ انسانوں کا آثارالقیامہ میں لکھا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجھہ سے پوچھا گیا کہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ دآبۃُالارض آپ ہی ہیں تب آپ نے جواب دیا کہ دآبۃ الارض میں تو کچھ چارپایوں اور کچھ پرندوں کی بھی مشابہت ہو گی.مجھ میں وہ کہاں ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ دآبۃ الارض اسم جنس ہے جس سے ایک طائفہ مراد ہے.منہ

Page 412

مراد ہے جو آسمانی روح اپنے اندرنہیں رکھتے لیکن زمینی علوم و فنون کے ذریعہ سے منکرین اسلام کو لاجواب کرتے ہیں اور اپنا علم کلام اور طریق مناظرہ تائید دین کی راہ میں خرچ کرکے بجان و دل خدمت شریعت غرّا بجا لاتے ہیں.سو وہ چونکہ درحقیقت زمینی ہیں آسمانی نہیں.اور آسمانی روح کامل طور پر اپنے اندرنہیں رکھتے اس لئے دآبۃُالارض کہلاتے ہیں اور چونکہ کامل تزکیہ نہیں رکھتے اورنہ کامل وفاداری.اس لئے چہرہ اُن کا انسانوں کاہے مگر بعض اعضاء اُن کے بعض دوسرے حیوانات سے مشابہ ہیں.اسی کی طرف اللہ جلَّ شَانُہٗ اشارہ فرماتا ہے 3333 ۱؂ یعنی جب ایسے دن آئیں گے جو کفار پر عذاب نازل ہو اور ان کا وقت مقدّر قریب آجائے گا توہم ایک گروہ دابۃالارض کا زمین میں سے نکالیں گے وہ گروہ متکلمین کاہو گا جو اسلام کی حمایت میں تمام ادیان باطلہ پر حملہ کرے گا یعنی وہ علماء ظاہر ہوں گے جن کو علم کلام اورفلسفہ میںیدِ طولیٰ ہوگا.وہ جابجا اسلام کی حمایت میں کھڑے ہوجائیں گے اور اسلام کی سچائیوں کو استدلالی طورپر مشارق مغارب میں پھیلائیں گے اور اس جگہ اَخْرَجْنَاکا لفظ اس وجہ سے اختیار کیاکہ آخری زمانہ میں اُن کا خروج ہو گا نہ حدوث یعنی تخمی طور پر یا کم مقدارکے طور پر تو پہلے ہی سے تھوڑے بہت ہر یک زمانہ میں وہ پائے جائیں گے لیکن آخری زمانہ میں بکثرت اور نیز اپنے کمال لائق کے ساتھ پیدا ہوں گے اورحمایت اسلام میں جا بجا واعظین کے منصب پر کھڑے ہوجائیں گے اور شمار میں بہت بڑھ جائیں گے.واضح ہو کہ یہ خروج کا لفظ قرآن شریف میں دوسرے پیرایہ میں یاجوج ماجوج کے لئے بھی آیا ہے اور دخان کے لئے بھی قرآن شریف میں ایسا ہی لفظ استعمال کیا گیا ہے.جس کے معنوں کا ماحصل خروج ہی ہے اور دجّال کے لئے بھی حدیثوں میں یہی خروج کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.سو اس لفظ کے استعمال کرنے کی وجہ یہ ہے تا اس بات کی طرف

Page 413

اشارہ ہو کہ یہ چیزیں جو آخری زمانہ میں ظہور پذیرہوں گی وہ ابتدائی زمانوں میں بکلّی معدوم نہیں ہوں گی بلکہ اپنے وجود نوعی یامثالی کے ساتھ جو آخری وجود کا ہمرنگ اور مماثل ہوگا پہلے بھی بعض افراد میں ان کا وجود متحقق ہوگالیکن وہ وجود ایک ضعف اور کمزوری اورناکامی کی حالت میں ہوگا.مگر دوسرا وجود جس کو خروج کے لفظ سے تعبیر کیا گیاہے اس میں ایک جلالی حالت ہوگی یعنی پہلے وجود کی طرح ضعف اور کمزوری نہیں ہوگی اور ایک طاقت کے ساتھ اس کا ظہورہوگا جس کے اظہار کے لئے خروج کا لفظ استعمال کیا گیاہے.اِسی بنا پر مسلمانوں میں یہ خیال چلا آتا ہے کہ مسیح دجّال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت سے موجود ہے اور پھر اُن کے خیالات میں ایسی غلطی پک گئی ہے کہ ابتک مسیح ابن مریم کی طرح اس کو زندہ سمجھا ہوا ہے.جوکسی جزیرہ میں مقید اورجکڑاہوا ہے اور اس کی جساسہ بھی اب تک زندہ ہے جو اس کو خبریں پہنچارہی ہے افسوس کہ یہ لوگ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں غلط فہمی کر کے کیسی مصیبتوں میں پھنس گئے.ایسا ہی یہ لوگ یاجوج ماجوج کو بھی وجود شخصی کے ساتھ زندہ سمجھتے ہیں یعنی بقا ء شخصی کے قائل ہیں.اب جبکہ دجّال اور اس کی جساسہ اور یاجوج ماجوج کے کروڑہا آدمی اور دابۃ الارض اور بقول بعض ابن صیّاد بھی اب تک زندہ ہیں تو حضرت مسیح اگر زندہ نہ ہوں تو ان کی حق تلفی ہے.میرے نزدیک بہت سہل طریق ثبوت کا یہ ہے کہ مولوی صاحبان کوشش کر کے کوئی یاجوج ماجوج کا آدمی یا دجّال کی جساسہ یا ابن صیّاد کو ہی کسی جنگل سے پکڑ کرلے آویں پھر کیا بات ہے سب مان جائیں گے کہ اسی طرح حضرت مسیح بھی آسمان پر زندہ ہیں اور مفت میں فتح ہوجائے گی.حضرات ! اب ہمت کیجئے کہیں سے دجّال شریر کی جساسہ کو ہی پکڑ یئے حوصلہ نہ ہاریں آخر یہ سب زمین پر ہی ہیں.ابن تمیم کی حدیث کو مسلم میں پڑھ کر اسی پتہ سے جساسہ دجّال کا سُراغ لگائیے یا خبیث دجّال کو ہی جو زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے بچشم خود دیکھ کر پھر اَوروں کو دکھلائیے.بات تو خوب ہے.انگریزوں نے ہمت اور

Page 414

کوشش کر کے نئی دنیا کا سُراغ لگا ہی لیا.آپ اس ایک ناکارہ کام میں ہی کامیابی دکھلائیے شاید ان لوگوں میں سے کسی کا پتہ چلے بہر کارے کہ ہمت بستہ گردد.اگر خارے بود گلدستہ گردد.اور اگرایسا نہیں کرو گے تو پھر خیر اس میں ہے کہ ان بیہودہ خیالات سے بازآجائیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قسمیں کھا کر فرمایا ہے کہ کوئی جاندار اس وقت سے سو برس تک زمین پر زندہ نہیں رہ سکتا.مگر آپ ناحق ان سب جانداوں کو اس زمانہ سے آج تک زندہ خیال کر رہے ہیں.یہ تحقیق اور تدقیق کا زمانہ ہے اسلام کا ایسا خاکہ کھینچ کر نہ دکھلائیے جس پر بچہ بچہ ہنسی کرے.غور کرکے سوچئے کہ یہ کروڑہا انسان جو صدہا برسوں سے زندہ فرض کئے گئے ہیں جو اب تک مرنے میں نہیں آتے کس ملک اور کس شہر میں رہتے ہیں.تعجب کہ معمورۂ دنیا کی حقیقت بخوبی کھل گئی اورپہاڑوں اور جزیروں کا حال بھی بخوبی معلوم ہو گیا اور تفتیش کرنے والوں نے یہاں تک اپنی تفتیش کوکمال تک پہنچادیا جو ایسی آبادیاں جو ابتدا ءِ دُنیا سے معلوم نہ تھیں وہ اب معلوم ہوگئیں مگر اب تک اس جساسہ اوردجّال اورابن صیّاد مفقود الخبر اور دابۃ الارض اور یاجوج ماجوج کے کروڑہا انسانوں کا کچھ پتہ نہیں ملتا.سو اَے حضرات ! یقینًا سمجھو کہ وہ سب جاندار جو انسان کی قسم میں سے تھے اس دنیا سے کوچ کرگئے پردۂ زمین میں چھپ گئے اور مسلم کی سو برس والی حدیث نے اپنی جلالی سچائی سے موت کا مزہ اُنہیں چکھا دیا.اب ان کی انتظار آپ کی خام خیالی ہے.اب تو اِنّا للّٰہ کہہ کر ان کورخصت شدہ سمجھئے.اور اگر آپ کے دل میں یہ خلجان گذرے کہ احادیث نبویہ میں اُن کے خروج کا وعدہ ہے اس کے اس صورت میں کیا معنے ہوں گے.سو سنو ! اس کے سچے معنے جو اللہ جلَّ شَانُہٗ نے میرے پر ظاہر کئے ہیں وہ یہ ہیں کہ اِن سب چیزوں کا آخری زمانہ میں جلالی طور پر صور مثالیہ میں ظہور مراد ہے مثلًا پہلے دجّال کو اس طرح پر دیکھا گیا کہ وہ زنجیروں میں جکڑا ہوا کمزور اور ضعیف ہے کسی پرحملہ نہیں کر سکتا مگر اس آخری زمانہ میں عیسائی مشن کا

Page 415

دجال اُسی دجّال کے رنگ میں ہوکر قوت کے ساتھ خروج کررہا ہے اورگویا مثالی اورظلّی وجود کے ساتھ وہی ہے اور جیسا کہ وہ اوّل زمانہ میں گرجا میں جکڑا ہوا نظر آیا تھا اب وہ اس بند سےَ مخلصی پا کر عیسائیوں کے گرجا سے ہی نکلا ہے اور دنیا میں ایک آفت برپا کررہا ہے.ایسا ہی یاجوج ماجوج کا حال بھی سمجھ لیجئے.یہ دونوں پرانی قومیں ہیں جوپہلے زمانوں میں دوسروں پر کھلے طورپر غالب نہیں ہوسکیں اور اُن کی حالت میں ضعف رہا لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ آخری زمانہ میں یہ دونوں قومیں خروج کریں گی یعنی اپنی جلالی قوت کے ساتھ ظاہر ہوں گی.جیسا کہ سورۂ کہف میں فرماتا ہے 33 ۱؂ یعنی یہ دونوں قومیں دوسروں کو مغلوب کر کے پھر ایک دوسرے پر حملہ کریں گی اور جس کو خدائے تعالیٰ چاہے گا فتح د ے گا.چونکہ ان دونوں قوموں سے مراد انگریز اور رُوس ہیں اس لئے ہریک سعادتمند مسلمان کو دعاکرنی چاہیئے کہ اُس وقت انگریزوں کی فتح ہو.کیونکہ یہ لوگ ہمارے محسن ہیں.اور سلطنت برطانیہ کے ہمارے سر پر بہت احسان ہیں.سخت جاہل اور سخت نادان اور سخت نالائق وہ مسلمان ہے.جو اس گورنمنٹ سے کینہ رکھے اگر ہم ان کا شکر نہ کریں تو پھر ہم خدائے تعالیٰ کے بھی ناشکر گزار ہیں کیونکہ ہم نے جو اس گورنمنٹ کے زیر سایہ آرام پایا اور پار ہے ہیں وہ آرام ہم کسی اسلامی گورنمنٹ میں بھی نہیں پا سکتے.ہر گز نہیں پا سکتے.ایسا ہی دابۃ الارض یعنی وہ علماء و واعظین جو آسمانی قوت اپنے اندر نہیں رکھتے ابتدا سے چلے آتے ہیں لیکن قرآن کا مطلب یہ ہے کہ آخری زمانہ میں ان کی حد سے زیادہ کثرت ہو گی اور اُن کے خروج سے مراد وہی اُن کی کثرت ہے.اور یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ جیسی ان چیزوں کے بارے میں جو آسمانی قوت

Page 416

اپنے اندر نہیں رکھتیں اور آخری زمانہ میں پورے جوش اور طاقت کے ساتھ ظہور کریں گی.خروج کالفظ استعمال ہوا ہے.ایسا ہی اُس شخص کے بارے میں جو حدیثوں میں لکھا ہے کہ آسمانی وحی اور قوت کے ساتھ ظہور کرے گا نزول کا لفظ استعمال کیاگیا ہے.سو اِن دونوں لفظوں خروج اور نزول میں درحقیقت ایک ہی امر مدنظر رکھا گیا ہے یعنی اس بات کا سمجھانا منظور ہے کہ یہ ساری چیزیں جو آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والی ہیں باعتباراپنی قوتِ ظہور کے خروج اور نزول کی صفت سے متصف کی گئی ہیں جو آسمانی قوت کے ساتھ آنے والا تھا اس کو نزول کے لفظ سے یاد کیا گیا اور جو زمینی قوت کے ساتھ نکلنے والا تھا اس کو خروج کے لفظ کے ساتھ پکارا گیا تا نزول کے لفظ سے آنے والے کی ایک عظمت سمجھی جائے اور خروج کے لفظ سے ایک خفّت اور حقارت ثابت ہو اورنیزیہ بھی معلوم ہو کہ نازل خارج پر غالب ہے.ایسا ہی دُخان جس کا قرآن شریف میں ذکر ہے کچھ آخری زمانہ سے ہی خاص نہیں ہے ہاںآخری زمانہ میں جو ہمارا زمانہ ہے اس کا بیّن اورکھلے کھلے طور پر ظہور ہوا ہے جیسا کہ اللہ جلَّ شَانُہٗ فرماتا ہےسورۃ الدخان الجزونمبر ۲۵ یعنی اس روشن اور کھلی کھلی کتاب کی قسم ہے کہ ہم نے اس قرآن کریم کو ایک مبارک رات میں اُتارا ہے کیونکہ ہمیں منظور تھا کہ نافرمانی کے نتائج سے ڈراویں.وہ رات ایک ایسی بابرکت رات ہے کہ تمام حکمت کی باتیں اس میں کھولی جاتی ہیں اور ایسا ہی ہم نے چاہا ہے اور تیرے

Page 417

رب نے رحمت کی راہ سے ایسا ہی اراد ہ کیا ہے کہ کل معارف ودقائق الٰہیہ کا تیری بعثت مبارکہ پر ہی خاتمہ ہو اور وہی کلام کل معارف حکمیہ کا جامع ہو جو تجھ پرنازل ہوا ہے اور یہ بات ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں اور اس برکت والی رات سے مراد ایک تو وہی معنے ہیں جو مشہور ہیں اوردوسری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ بعثت کی رات ہے اور اس کا دامن قیامت کے دن تک پھیلا ہوا ہے اور آیت 3 ۱؂میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ تمام زمانہ جو قیامت تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد رسالت کے تحت میں ہے فیوض قرآن کریم سے بہت فائدہ اُٹھائے گا اور وہ تمام معارف الٰہیہ جو دنیا میں مخفی چلے آتے تھے اس زمانہ میں وقتًا فوقتًا ظہورپذیر ہوتے رہیں گے اور نیز آیت33 میں یہ بھی اشارہ ہے کہ اس زمانہ بابرکت کے خواص میں سے یہ بھی ہوگا کہ معاش اور معاد کے کل علوم حکمیہ اپنے اعلیٰ درجہ کے کمالات کے ساتھ ظہورپذیرہوں گے اور کوئی امر حکمت ایسا نہیں رہے گا جس کی تفصیل نہ کی جائے.پھر آگے فرما یا کہ خداوہ خدا ہے جس نے زمین و آسمان کو بنایا اورجو کچھ اس کے درمیان ہے سب اُسی نے پیدا کیا تا تم اُسی صانع حقیقی پر یقین لاؤ اورشک کرنے کی کوئی وجہ نہ رہے.کوئی معبود اس کے سوا نہیں.وہ زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے تمہارا رب ہے اور تمہارے اُن باپ دادوں کا رب جو تم سے پہلے گذر چکے ہیں.بلکہ وہ تو شکوک و شبہات میں پڑے ہوئے ہیں.ان دلائل کی طرف انہیں کہاں نظر ہے.پس تُو اُس دن کا امیدوار رِہ جس دن آسمان ایک کھلا کھلا دھواں لائے گا جس کو دیکھ کر کہیں گے کہ یہ عذاب دردناک ہے اور کہیں گے کہ اے ہمارے خدا یہ عذاب ہم سے اٹھا.ہم ایمان لائے.اس جگہ دخان سے مراد قحط عظیم وشدید ہے جو سات برس تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارکہ میں پڑا یہاں تک کہ لوگوں نے مُردے اورہڈیاں کھائی تھیں جیسا کہ ابن مسعود کی حدیث میں مفصّل اس کا بیان ہے.لیکن آخری زمانہ کے لئے بھی جو ہمارا زمانہ ہے

Page 418

اس دخان مبین کا وعدہ تھا اس طرح پر کہ قبل از ظہور مسیح نہایت درجہ کی شدت سے اس کا ظہور ہو گا.اب سمجھناچاہیئے کہ یہ آخری زمانہ کا قحط جسما نی اور روحانی دونوں طور سے وقوع میں آیا.جسمانی طور سے اس طرح کہ اگر اب سے پچاس برس گذشتہ پر نظر ڈالی جاوے تو معلوم ہوگا کہ جیسے اب غلّہ اور ہر یک چیز کا نرخ عام طور پر ہمیشہ کم رہتا ہے اس کی نظیر پہلے زمانوں میں کہیں نہیں پائی جاتی.کبھی خواب و خیال کی طرح چند روز گرانی غلّہ ہوتی تھی اورپھر وہ دن گذر جاتے تھے لیکن اب تو یہ گرانی لازم غیر منفک کی طرح ہے اورقحط کی شدّت اندر ہی اندر ایک عالم کو تباہ کررہی ہے.اور روحانی طورپر صداقت اورامانت اور دیانت کا قحط ہوگیا ہے اور مکر اور فریب اورعلوم و فنون مظلمہ دُخان کی طرح دنیا میں پھیل گئی ہیں اور روز بروز ترقی پرہیں.اس زمانہ کے مفاسد کی صورت پہلے زمانوں کے مفاسد سے بالکل مختلف ہے.پہلے زمانوں میں اکثر نادانی اور اُمّیت رہزن تھی اس زمانہ میں تحصیل علوم رہزن ہورہی ہے.ہمارے زمانہ کی نئی روشنی جس کو دوسرے لفظوں میں دخان سے موسوم کرنا چاہیئے عجیب طورپر ایمان اور دیانت اور اندرونی سادگی کو نقصان پہنچارہی ہے.سوفسطائی تقریروں کے غبار نے صداقت کے آفتاب کو چھپادیا ہے اور فلسفی مغالطات نے سادہ لوحوں کوطرح طرح کے شبہات میں ڈال دیا ہے.خیالات باطلہ کی تعظیم کی جاتی ہے اورحقیقی صداقتیں اکثر لوگوں کی نظر میں کچھ حقیر سی معلوم ہوتی ہیں.سو خدائے تعالیٰ نے چاہا کہ عقل کے رہزدوں کو عقل سے درست کرے اورفلسفہ کے سرگشتوں کو آسمانی فلسفہ کے زور سے راہ پر لاوے سو یہ کامل درجہ کا دُخان مبین ہے جو اس زمانہ میں ظاہر ہوا ہے.ایسا ہی طلوع شمس کا جو مغرب کی طرف سے ہو گا.ہم اسپر بہر حال ایمان لاتے ہیں لیکن اس عاجز پر جو ایک رؤیامیں ظاہر کیا گیا وہ یہ ہے جو مغرب کی طرف سے آفتاب کا چڑھنا یہ معنی رکھتا ہے کہ ممالک مغربی جو قدیم سے ظلمت کفر وضلالت میں ہیں آفتابِ صداقت

Page 419

سے منّور کئے جائیں گے اور اُن کو اسلام سے حصّہ ملے گا.اور میں نے دیکھا کہ میں شہر لنڈن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مدلّل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں.بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے جوچھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور اُن کے رنگ سفید تھے اورشاید تیترکے جسم کے موافق اُن کا جسم ہوگا.سو میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ اگرچہ میں نہیں مگر میری تحریریں اُن لوگوں میں پھیلیں گی.اور بہت سے راستباز انگریز صداقت کے شکارہوجائیں گے.درحقیقت آج تک مغربی ملکوں کی مناسبت دینی سچائیوں کے ساتھ بہت کم رہی ہے گویا خدائے تعالیٰ نے دین کی عقل تمام ایشیا کو دے دی اور دنیا کی عقل تمام یورپ اور امریکہ کو.نبیوں کا سلسلہ بھی اول سے آخر تک ایشیا کے ہی حصہ میں رہا اور ولایت کے کمالات بھی انہیں لوگوں کو ملے.اب خدائے تعالیٰ ان لوگوں پر نظر رحمت ڈالنا چاہتا ہے.اوریاد رہے کہ مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ طلوع الشمس من مغربھا کے کوئی اور معنے بھی ہوں َ میں نے صرف اُس کشف کے ذریعہ سے جو خدائے تعالیٰ نے مجھے عطا کیا ہے مذکورہ بالا معنے کو بیان کیا ہے.اگر کوئی مولوی مُلّا ان الٰہی مکاشفات کو الحاد کی طرف منسوب کرے تو وہ جانے اور اس کا کام.وما قلت من عند نفسی بل اتبعت ما کشف علیّ واللّٰہ بصیر بحالی وسمیع لمقالی فاتقوااللّٰہ ایّھا العلماء.لیکن اگر کوئی اس جگہ یہ سوال کرے کہ جب مغرب کی طرف سے آفتا ب طلوع کرے گا تو جیسا کہ لکھا ہے توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا تو پھر اگر یہی معنے سچ ہیں تو ایسے اسلام سے کیا فائدہ جو مقبول ہی نہیں.اِس کا جواب یہ ہے کہ توبہ کا دروازہ بند ہونے سے یہ مطلب تو نہیں کہ توبہ منظور ہی نہیں ہو گی.بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب ممالک مغربی کے لوگ فوج درفوج دین اسلام میں داخل ہوجائیں گے تب ایک انقلاب عظیم ادیان میں پیدا ہوگا.اور جب یہ آفتاب

Page 420

پورے طور پر ممالک مغربی میں طلوع کرے گا تو وہی لوگ اسلام سے محروم رہ جائیں گے جن پر دروازہ توبہ کابند ہے یعنی جن کی فطرتیں بالکل مناسب حال اسلام کے واقع نہیں.سو توبہ کا دروازہ بند ہونے کے یہ معنے نہیں کہ لوگ توبہ کریں گے مگرمنظورنہ ہوگی.اور خشوع اورخضوع سے روئیں گے مگر ردّ کئے جائیں گے کیونکہ یہ تواس دنیا میں اس رحیم و کریم کی شان سے بالکل بعید ہے.بلکہ مطلب یہ ہے کہ اُن کے دل سخت ہوجائیں گے اور انکو توبہ کی توفیق نہیں دی جائے گی اور وہی اشرار ہیں جن پر قیامت آئیگی.فتفکّر وتدبّر.ایسا ہی مہدی کے بارہ میں جو بیان کیا جاتا ہے کہ ضرور ہے کہ پہلے امام محمدؐ مہدی آویں اوربعد اس کے ظہور مسیح ابن مریم کا ہو.یہ خیال قلّت تدبّر کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اگر مہدی کا آنا مسیح ابن مریم کے زمانہ کے لئے ایک لازم غیر منفک ہوتا اور مسیح کے سلسلہ ظہور میں داخل ہوتا تو دو بزرگوار شیخ اور امام حدیث کے یعنی حضرت محمد اسمٰعیل صاحب صحیح بخاری اور حضرت امام مسلم صاحب صحیح مسلم اپنے صحیحوں سے اس واقعہ کو خارج نہ رکھتے.لیکن جس حالت میں انہوں نے اس زمانہ کا تمام نقشہ کھینچ کر آگے رکھ دیا اور حصر کے طورپر دعویٰ کر کے بتلادیا کہ فلاں فلاں امر کا اس وقت ظہور ہوگا.لیکن امام محمد مہدی کانام تک بھی تو نہیں لیا.پس اس سے سمجھاجاتاہے کہ انہوں نے اپنی صحیح اور کامل تحقیقات کی رُو سے اُن حدیثوں کو صحیح نہیں سمجھا جو مسیح کے آنے کے ساتھ مہدی کا آنا لازم غیرمنفک ٹھہرارہی ہیں اور دراصل یہ خیال بالکل فضول اور مہمل معلوم ہوتاہے کہ باوجود یکہ ایک ایسی شان کاآدمی ہو کہ جس کو باعتبار باطنی رنگ اور خاصیت اس کی کے مسیح ابن مریم کہنا چاہیئے دنیا میں ظہور کرے اورپھرا س کے ساتھ کسی دوسرے مہدی کاآنا بھی ضروری ہو.کیا وہ خود مہدی نہیں ہے ؟ کیا وہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہدایت پا کر نہیں آیا؟ کیااُس کے پاس اس قدر جواہرات وخزائن واموال معارف و دقائق نہیں ہیں کہ لوگ لیتے لیتے تھک جائیں اور اِس قدراُن کا دامن بھر جائے جو قبول کرنے کی جگہ نہ رہے.پس اگر یہ سچ ہے تو اُس وقت

Page 421

دوسرے مہدی کی ضرورت ہی کیا ہے اور یہ صرف امامین موصوفین کاہی مذہب نہیں.بلکہ ابن ماجہ اورحاکم نے بھی اپنی صحیح میں لکھا ہے کہ لامھدی الّا عیسیٰ یعنی بجُز عیسیٰ کے اُس وقت کوئی مہدی نہ ہوگا.اور یوں تو ہمیں اس بات کا اقرار ہے کہ پہلے بھی کئی مہدی آئے ہوں اور ممکن ہے کہ آئندہ بھی آویں اور ممکن ہے کہ امام محمدؐ کے نام پر بھی کوئی مہدی ظاہر ہو لیکن جس طرز سے عوام کے خیال میں ہے اس کا ثبوت پایا نہیں جاتا.چنانچہ یہ صرف ہماری ہی رائے نہیں اکثر محقق یہی رائے ظاہرکرتے آئے ہیں.بعض کہتے ہیں کہ اچھا مہدی کا قصّہ جانے دو.لیکن یہ جو بار بار حدیثو ں میں بیان کیا گیا ہے کہ عیسیٰ آئے گا.مسیح ابن مریم نازل ہوگا.اِن صریح لفظوں کی کیوں تاویل کی جائے.اگر اللہ جلَّ شَانُہٗ کے علم اور ارادہ میں ابن مریم سے مراد ابن مریم نہیں تھا تو اس نے لوگوں کو دانستہ اِن مشکلات میں کیوں ڈالا اور سیدھا کیوں یہ نہ کہہ دیا کہ کوئی مثیل مسیح آئے گا.بلکہ کون سی ضرورت اس بات کی طرف داعی تھی جو ضرور مثیل مسیح آتا کوئی اورنہ آتا.اب کھلے کھلے لفظوں سے کیوں کر انکار کریں یہ انکار تو دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب ہے اور درپردہ اس انکار کے یہ معنے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی غلط ہے.لیکن واضح ہو کہ یہ تمام اوہام باطلہ ہیں.قرآن کریم اوراحادیث میں بغرض آزمائش خلق اللہ ایسے ایسے استعارات کا مستعمل ہونا کوئی انوکھی اور بے اصل بات نہیں.اور پہلی کتابوں میں ایسے استعارات کی نظیر موجود ہے ایلیا کے قصہ کو دیکھو جس کو یوحنا کہا گیاہے.جبکہ قرآن شریف نے قطعی اوریقینی طورپر ظاہر کردیا کہ حضر ت مسیح ابن مریم فوت ہوگئے ہیں تو اب اس سے بڑھ کر ضرورتِ تاویل کے لئے اور کیاقرینہ ہوگا.مثلًا فرض کے طورپر بیان کرتاہوں کہ ایک مستند خط کے ذریعہ سے معلوم ہوا کہ ایک شخص کلکتہ میں رہنے والا عبد الرحمن نام جس کی شہادت کسی مقدمہ کے لئے مؤثر تھی فوت ہوگیا ہے.پھر بعد اس کے ہم نے ایک ایسا کاغذ تمسّک دیکھا جس پر

Page 422

ایک شخص عبد الرحمن نام کلکتہ کے رہنے والے کی گواہی تاریخ وفات کے بعد میں درج تھی تو کیا ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ وہی عبدالرحمن جو فو ت ہوچکا تھا زندہ ہو کر اپنی گواہی لکھ گیا ہے پس چونکہ اس عبد الرحمن کے زندہ ہوجانے کاہمارے پاس کوئی بھی ثبوت نہیں تو کیا صرف خدائے تعالیٰ کی قدرت کے حوالہ سے ہم کسی ایسی صورت کے مقدمہ میں جوعدالت میں پیش ہے بغیر اس بات کے ثبوت دینے کے کہ درحقیقت وہی عبد الرحمن زندہ ہوکر اپنی گواہی لکھ گیا ہے ڈگری کے پانے کے مستحق ٹھہر سکتے ہیں ہرگز نہیں.اور یہ دغدغہ کہ کیوں مسیح ابن مریم کے لفظ کو اختیار کیا گیا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اُسی طرز کا محاورہ ہے جیسے یحيٰ بن زکریا کے لئے ایلیا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.خدائے تعالیٰ کو منظورتھا کہ آخری زمانہ میں کوئی شخص مسیح کی قوت اورطبع میں پیداہواور وُہ اس گروہ کذّاب کا مقابلہ کرے جن کی طبیعت اس طبیعت کے مغائر و مخالف واقع ہے.سو گروہ کذّاب کا نام اُس نے مسیح دجّال رکھااورحامی حق کا نام مسیح ابن مریم قرار دیا اور اس کو بھی ایک گروہ بنایا جو مسیح ابن مریم کے نام سے سچائی کی فتح کے لئے دنیا کے اخیر تک کوشش کرتا رہے گا.سو ضرور تھا کہ یہ آنے والا مسیح ابن مریم کے نام سے ہی آتا.کیونکہ جس تاثیر اماتت احیاء کو مسیح دجّال نے پھیلانا چاہا ہے اس تاثیر کے مخالف مسیح ابن مریم کو تاثیر دی گئی ہے جو روح القدس کے ذریعہ سے اس کو ملی ہے سو جو شخص مسیح کے قدم پر وہ تاثیر لے کر آیا اور زہر ناک ہوا کے مقابل پر جو ہلاک کرتی ہے یا ہلاکت تک پہنچاتی ہے ایک تریاقی نفس اس کو عطا ہؤا.اس وجہ سے وہ مسیح ابن مریم کہلایا کیونکہ وہ روحانی طور پر مسیح کے رنگ میں ہو کر آیا.مسیح کیوں کر آسکتا.وہ رسو ل تھا اور خاتم النبیین کی دیوار روئیں اس کو آنے سے روکتی ہے.سو اس کا ہمرنگ آیا وہ رسول نہیں مگر رسولوں کے مشابہ ہے اور امثل ہے.کیا عام لفظو ں میں کسی حدیث میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ بعض گزشتہ رسولوں میں سے پھر اس امت میں آئیں گے جیسا کہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ اُن کے مثیل آئیں گے اور امثل آئیں گے

Page 423

جو فطرتاً انبیاء سے بہت اقرب ہیں سو جن کے آنے کاصاف طور پر بلا تعارض وعدہ دیا گیا ہے اُن سے مُنہ مت پھیرو اور اُن کے الہام سے بھی شہاد ت کا فائدہ اُٹھاؤ کیونکہ اُن کی گواہی اس بات کو کھولتی ہے جو تم اپنی عقلوں سے کھول نہیں سکتے.آسمانی گواہی کے ردّ کر نے میں جرأت نہ کرو کیونکہ یہ بھی اُسی پاک چشمہ سے نکلی ہے جس سے وحی نبوت نکلی ہے.سو یہ وحی کے معنے کی شارح اور صراط مستقیم کو دکھلانے والی ہے.وصیّتُ الحق اے ناظرین ! اب یہ عاجز اس مضمون کو ختم کر چکا اور اس تمام تحقیقات سے معلوم ہوا کہ شرعی اور نقلی طور پر ہمارے اس الہام کی تصدیق یا تکذیب کے لئے جو مسیح ابن مریم وفات پا چکا ہے تین راہیں ہیں.(۱) قرآن کریم (۲)احادیث (۳) اقوال سلف و خلف.اور اِن تینوں راہوں کے ذریعہ سے ہمارے الہام کی تصدیق ہورہی ہے.سب سے سیدھی راہ اوربڑا ذریعہ جو انوار یقین اور تواتر سے بھر اہوا اور ہماری روحانی بھلائی اور ترقی علمی کے لئے کامل رہنما ہے قرآن کریم ہے جو تمام دنیا کے دینی نزاعوں کے فیصل کرنے کا متکفل ہو کر آیا ہے جس کی آیت آیت اورلفظ لفظ ہزارہا طور کا تواتر اپنے ساتھ رکھتی ہے اور جس میں بہت سا آبِ حیات ہماری زندگی کے لئے بھراہوا ہے اور بہت سے نادر اور بیش قیمت جواہر اپنے اندر مخفی رکھتا ہے جو ہر روز ظاہر ہوتے جاتے ہیں.یہی ایک عمدہ محک ہے جس کے ذریعہ سے ہم راستی اور ناراستی میں فرق کرسکتے ہیں.یہی ایک روشن چراغ ہے جو عین سچائی کی راہیں دکھاتا ہے.بلا شبہ جن لوگوں کو راہ راست سے مناسبت اور ایک قسم کا رشتہ ہے اُن کا دل قرآن شریف کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے اور خدائے کریم نے اُن کے دل ہی اس طرح کے بنا رکھے ہیں کہ وہ عاشق کی طرح اپنے اس محبوب کی طرف جھکتے ہیں اور بغیر اس کے کسی جگہ

Page 424

قرار نہیں پکڑ تے اور اس سے ایک صاف اور صریح بات سن کر پھر کسی دوسرے کی نہیں سنتے اس کی ہریک صداقت کو خوشی سے اور دوڑ کر قبول کرلیتے ہیں اور آخر وہی ہے جوموجب اشراق اور روشن ضمیری کا ہوجاتا ہے اور عجیب در عجیب انکشافات کا ذریعہ ٹھہرتا ہے اور ہر یک کو حسب استعداد معراج ترقی پر پہنچاتا ہے.راستبازوں کو قرآن کریم کے انوار کے نیچے چلنے کی ہمیشہ حاجت رہی ہے اور جب کبھی کسی حالتِ جدیدہ زمانہ نے اسلام کوکسی دوسرے مذہب کے ساتھ ٹکرا دیا ہے تو وہ تیز اور کار گر ہتھیار جو فی الفور کام آیا ہے قرآن کریم ہی ہے.ایسا ہی جب کہیں فلسفی خیالات مخالفانہ طور پر شائع ہوتے رہے تو اس خبیث پودہ کی بیخ کنی آخر قرآن کریم ہی نے کی اور ایسا اس کو حقیر اور ذلیل کر کے دکھلا دیا کہ ناظرین کے آگے آئینہ رکھ دیا کہ سچا فلسفہ یہ ہے نہ وہ.حال کے زمانہ میں بھی جب اوّل عیسائی واعظوں نے سراُٹھایا اور بد فہم اورنادان لوگوں کو توحید سے کھینچ کر ایک عاجز بندہ کا پرستار بنانا چاہا اور اپنے مغشوش طریق کو سوفسطائی تقریروں سے آراستہ کر کے اُن کے آگے رکھ دیا اور ایک طوفان ملک ہند میں برپا کر دیا آخر قرآن کریم ہی تھا جس نے انہیں پسپا کیا کہ اب وہ لوگ کسی با خبر آدمی کو منہ بھی نہیں دکھلا سکتے اور اُن کے لمبے چوڑے عذرات کو ُ یوں الگ کر کے رکھ دیا جس طرح کوئی کاغذ کا تختہ لپیٹے.قرآن کریم نے اُن کے ایک بڑے بھارے عقیدہ کو جو کفّارہ کا عقیدہ تھا مَاقَتَلُوْہُ وَمَاصَلَبُوْہُ کا ثبوت دے کر معدوم کردیا.اور انسان کی نجات کے لئے وہ طبعی اور فطرتی طریقہ بتلایا جو آدم کی پیدائش سے ہر یک آدمی کی جبلّت کو لازم ہے.اب وہ لوگ اس بات سے تو رہے کہ اپنا پُر ظلم اوربے اثر کفارہ عقلمند انسانوں کے سامنے پیش کرسکیں ہاں یہ ممکن ہے کہ اب جنات کی طرف جن کا وجود انجیل کی رُو سے ثابت ہے اس کفارہ کے لئے کوئی مشن بھیجیں کیونکہ ان کو توبھی تو خدائے تعالیٰ نے ہلاکت کے لئے پیدا نہیں کیا.مگرمشکل تو یہ ہے کہ یہ دروغ بے فروغ اسی حد تک بُنا گیا تھا کہ مسیح ابن مریم بنی آدم کے کفارہ کے لئے آیا ہے.

Page 425

اور ابن آدم کہلا کر اورآدمی کاہم جنس ہو کر اس کو یہ استحقاق بنی نوع کی ہمدردی کاپیدا ہوا ہے ہاں یہ ممکن ہے کہ یہ حجت پیش کی جائے کہ مسیح کا ایک اوربھائی تھا کہ جو ابن آدم نہیں بلکہ ابن جن کہلاتا تھا وہ جنات کے کفارہ کے لئے مصلو ب ہوا تھا.مگر پھر بھی انجیل کی رو سے کوئی ثبوت پیش کرنا پڑے گا.ایسا ہی قرآن کریم نے ہندوؤں پر بھی بہت سی صداقتیں ظاہرکی ہیں اور وہ قیوم العالمین جس سے وہ بے خبر تھے ان کا انہیں پتہ دیا ہے اگر وہ لوگ اس صداقت کو قبول کرتے تو اس خدا کو دیکھ لیتے جس کی عظمت وقدرت سے وہ غافل ہیں.لیکن انہوں نے انگریزوں کے فلسفہ جدیدہ کو دیکھ کر فلسفی بننا چاہا.اور ہر یک چیز کے اسباب تلاش کرنا شروع کئے تا قرآن کریم کی حقانی فلاسفی کے ساتھ مقابلہ کریں.مگر یہ حرکت اُن کے لئے بڑی سرگشتگی کا موجب ہوئی اور یہاں تک نوبت پہنچی کہ انہوں نے اپنے اعتقادات اور اعمال کی نسبت جووید کی تعلیم کے رُو سے اُن کے ایمان میں داخل ہیں دو بُرے نمونے ظاہر کردئے.اعتقاد کی نسبت یہ نمونہ کہ خدائے تعالیٰ کی خالقیت کی نسبت انکار کر کے اس کے وجود کے پتہ لگنے کی راہیں اپنے پر بند کردیں اور دنیا کے ذرّہ ذرّہ اور تمام ارواح کو خود بخود اور قدیم اور واجب الوجود سمجھ کر توحید کے اس دقیق راز کو چھوڑ دیا جس پر سچی معرفت اور سچا گیان اور سچی مکتی موقوف ہے اور اعمال کی نسبت یہ نمونہ کہ نیوگ کا ایک قابل شرم مسئلہ جو ویدوں میں چھپا ہوا چلا آتا تھا جس کے رو سے ایک شوہر دار عورت کسی آریہ کی اولاد حاصل کرنے کی غرض سے کسی غیر آدمی سے ہم بستر ہوسکتی ہے اپنی کتابوں میں شائع کیا.اگر ایسے اعتقاد کو ایک مختص الزمان قانون کی طرح سمجھتے تو شاید اس کی قباحت کسی قدر نرم ہوجاتی مگر اب تو یہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے اور ہر زمانہ کے لئے ایک غیر متبدّل قانون کی طرح سمجھاگیا ہے جو ویدوں کی طرح انادی چلا آیااور انادی ہی رہے گا.پس یہ قرآن کریم کی مخالفت کی سزا ہے جس کو ہم

Page 426

انشاء اللہ القدیر براہین احمدیہ کے حصص باقیہ میں بتصریح و تفصیل بیان کریں گے.سو اسی قرآن کریم نے حضرت مسیح کی وفات کے منکرین کو ایسی زک دی ہے کہ اب وہ ذراٹھہر نہیں سکتے اور اس جنگ میں نا سمجھ لوگوں نے ایسی شکست کھائی ہے کہ اس شکست کی کوفت عمر بھر انہیں نہیں بُھولے گی.غرض قرآن شریف دھکّے دے دیکر اُن کو اپنے دربار سے باہر نکال رہا ہے.اب رہی حدیثیں سو سب سے اوّل یہ بات سوچنے کے لائق ہے کہ قرآن کریم کے مقابل پر حدیثوں کی کیا قدر اور منزلت ہے اور جب قرآن کریم کے نصوص بیّنہ سے کوئی حدیث مخالف پڑے تو کہاں تک اس کے اعتبار کو وزن دے سکتے ہیں.سو جاننا چاہیئے کہ قرآن کریم وہ یقینی اور قطعی کلا م الٰہی ہے جس میں انسان کا ایک نقطہ یا ایک شعشہ تک دخل نہیں اور وہ اپنے الفاظ اور معانی کے ساتھ خدائے تعالیٰ کا ہی کلام ہے اور کسی فرقہ اسلام کو اس کے ماننے سے چارہ نہیں.اس کی ایک ایک آیت اعلیٰ درجہ کا تواتر اپنے ساتھ رکھتی ہے وہ وحی متلو ہے جس کے حرف حرف گنے ہوئے ہیں وہ بباعث اپنے اعجاز کے بھی تبدیل اورتحریف سے محفوظ ہے.لیکن احادیث تو انسانوں کے دخل سے بھری ہوئی ہیں.جو ان میں سے صحیح کہلاتی ہیں اُن کا اتنا بھی مرتبہ نہیں جو ایک آیت کے مقابلہ پر ایک کروڑ اُن میں سے وہ رنگ اور شان پیدا کرسکے جو اللہ جلَّ شَانُہٗ کی بے مثل کلام کو حاصل ہے اگر چہ حدیث صحیح بھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہ سند متصل ثابت ہو ایک قسم کی وحی ہے مگر وہ ایسی تو نہیں جو قائم مقام قرآ ن شریف ہو سکے.اسی وجہ سے قرآن شریف کی جگہ صرف حدیث پڑھ کر نماز نہیں ہوسکتی.حدیثو ں میں ضعف کی وجوہات اس قدر ہیں کہ ایک دانا آ دمی اُن پرنظر ڈال کر ہمیشہ اس بات کا محتاج ہوتاہے کہ اُن کو تقویت دینے کے لئے کم سے کم نصِ قرآنی کا کوئی اشارہ ہی ہو.یہ سچ ہے کہ حدیثیں صحابہ کی زبان سے بتوسط کئی راویوں کے مؤلفین صحاح تک پہنچی ہیں اور یہ بھی سچ ہے

Page 427

کہ جہاں تک ممکن ہے مؤلفین صحاح نے حدیثوں کی تنقید و تفتیش میں بڑی بڑی کوششیں کی ہیں مگر پھر بھی ہمیں ان پر وہ بھروسا نہیں کرنا چاہیئے جواللہ جلّشانہ‘ کی کلام پر کیا جاتا ہے کیونکہ وہ کئی واسطوں سے اور معمولی انسانوں کے ہاتھوں سے دست مال ہو کر آئمہ حدیث کو ملی ہیں.مثلًا ایک حدیث کا راوی عمر رضی اللہ عنہ ہے جوخلیفہ رسول اللہ اور رئیس الثقات ہے چونکہ چھ سات راوی درمیان میں ایسے ہیں جو اُن کا تزکیہ نفس اور کمال طہارت ثابت نہیں اور اُن کی راستبازی اورخداترسی اور دیانت گو سرسری نظر سے بطور حُسن ظن تسلیم کی گئی ہومگر بانکشاف تام کچھ ثابت نہیں سو وہ کیوں کر راستبازی میں حضرت عمر کے قائمقام سمجھے جائیں گے.اور کیوں جائز نہیں کہ انہوں نے عمداً یا سہواً بعض احادیث کی تبلیغ میں خطا کی ہو.اسی نظر سے بعض اَئمہ نے احادیث کی طرف توجہ کم کی ہے جیساکہ امام اعظم کوفی رضی اللہ عنہ جن کو اصحاب الرائے میں سے خیال کیاگیا ہے اور ان کے مجتہدات کو بواسطہ وقت معانی احادیث صحیحہ کے برخلاف سمجھا گیا ہے.مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ امام صاحب موصوف اپنی قوت اجتہادی اور اپنے علم اور درایت اور فہم و فراست میں اَئمہ ثلاثہ باقیہ سے افضل واعلیٰ تھے اور اُن کی خداداد قوت فیصلہ ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ وہ ثبوت عدم ثبوت میں بخوبی فرق کرنا جانتے تھے اور ان کی قوت مدرکہ کو قرآن شریف کے سمجھنے میں ایک خاص دستگاہ تھی اور اُن کی فطر ت کو کلام الٰہی سے ایک خاص مناسبت تھی اور عرفان کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ چکے تھے.اسی وجہ سے اجتہاد واستنباط میں اُن کے لئے وہ درجہ علیا مسلّم تھا جس تک پہنچنے سے دوسرے سب لوگ قاصر تھے.سبحان اللہ اس زیرک اور ربّانی امام نے کیسی ایک آیت کے ایک اشارہ کی عزت اعلیٰ وارفع سمجھ کر بہت سی حدیثوں کو جو اس کے مخالف تھیں ردّی کی طرح سمجھ کر چھوڑ دیا اور جہلا کے طعن کا کچھ اندیشہ نہ کیا مگر افسوس کہ آج وہ زمانہ ہے کہ بے سروپا اقوال قرآن شریف پر مقدّم سمجھے جاتے ہیں اور ایک بے اصل لکیرکو اجماع کی صورت میں خیال کیا جاتا ہے اور اگرچہ قرآن کریم کی نصوصِ بیّنہ

Page 428

کے سامنے حدیثوں کا ذکر کرنا ایسا ہے کہ جیسا آفتاب کے مقابل پر ِ کرم شب تاب کو پیش کیاجائے.مگر پھر بھی ہمارے مخالفین کی سخت بے نصیبی ہے کہ اس قسم کی حد یثیں بھی تو نہیں ملتیں جن سے یہ ثابت ہو کہ مسیح ابن مریم سچ مچ اسی جسم خاکی عنصری کے ساتھ آسمان کی طرف زندہ اٹھایا گیا.ہاں اس قسم کی حدیثیں بہت ہیں کہ ابن مریم آئے گا مگر یہ تو کہیں نہیں لکھاکہ وہی ابن مریم اسرائیلی نبی جس پر انجیل نازل ہوئی تھی جس کو قرآن شریف مار چکا ہے وہی زندہ ہو کر پھر آجائے گا.ہاں یہ بھی سچ ہے کہ آنے والے مسیح کو نبی کرکے بھی بیان کیا گیا ہے مگر اس کو اُمّتی کر کے بھی تو بیان کیا گیا ہے بلکہ خبر دی گئی کہ اے اُمّتی لوگو وہ تم میں سے ہی ہوگا اور تمہارا امام ہو گا اور نہ صرف قولی طور پر اس کا امتی ہونا ظاہر کیا بلکہ فعلی طور پر بھی دکھلا دیا کہ وہ امتی لوگوں کے موافق صرف قال اللہ وقال الرسول کا پیروہوگا اور حل مغلقات و معضلات دین نبوت سے نہیں بلکہ اجتہاد سے کرے گا اور نماز دوسروں کے پیچھے پڑھے گا.اب اِن تمام اشارات سے صاف ظاہر ہے کہ وہ واقعی اور حقیقی طورپر نبوت تامہ کی صفت سے متصف نہیں ہو گا.ہاں نبوت ناقصہ اُس میں پائی جائے گی جو دوسرے لفظوں میں محدثیت کہلاتی ہے اور نبوت تامّہ کی شانوں میں سے ایک شان اپنے اندر رکھتی ہے.سو یہ بات کہ اس کو اُمّتی بھی کہا اورنبی بھی.اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دونوں شانیں اُمتیت اور نبوت کی اُس میں پائی جائیں گی جیسا کہ محدّث میں ان دونوں شانوں کا پایاجانا ضروری ہے لیکن صاحب نبوت تامّہ تو صرف ایک شان نبوت ہی رکھتا ہے.غرض محدثیت دونوں رنگوں سے رنگین ہوتی ہے اِسی لئے خدائے تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں بھی اس عاجز کا نام اُمتی بھی رکھااور نبی بھی.اور یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ جب اسرائیلی نبی مسیح ابن مریم فوت ہوچکا اور پھر اس کے زندہ ہوجانے کا کہیں قرآ ن شریف میں ذکر نہیں تو بجُز اس کے اور کیا سمجھ میں آسکتا ہے کہ یہ آنے والا ابن مریم اَور ہی ہے.بعض کہتے ہیں کہ کیا خدائے تعالیٰ قادر نہیں کہ مسیح ابن مریم کو زندہ کر کے

Page 429

بھیج دے.میں کہتا ہوں کہ اگر صرف قدرت کو دیکھنا ہے اور نصوص قرآنیہ سے کچھ غرض نہیں تو ظاہر ہے کہ قدرت خدائے تعالیٰ کی دونوں طور سے متعلق ہے چاہے تو زندہ کرکے بھیج دے اور چاہے تو ہرگز زندہ نہ کرے اورنہ دنیا میں بھیجے.اور دیکھنا تو یہ چاہیئے کہ اِن دونوں طور کی قدرتوں میں سے اُس کے منشاء کے موافق کونسی قدرت ہے.سو ادنیٰ سوچ سے ظاہر ہوگا کہ یہ قدرت کہ جس کو ایک دفعہ مار دیا پھر خواہ نخواہ دوموتوں کا عذاب اس پر نازل کرے ہرگز اس کے منشاء کے موافق نہیں جیسا کہ وہ خود اس بارہ میں فرماتا ہے.333 ۱؂.یعنی جس کو ایک دفعہ مار دیا پھر اُس کو دنیا میں نہیں بھیجے گا اور جیسا کہ صرف ایک موت کی طرف اشارہ کر کے فرماتا ہےٰ33 ۲؂ سو یہ بات اس کے سچے وعدہ کے برخلاف ہے کہ مُردوں کو پھر دنیا میں بھیجنا شروع کر دیوے.اور کیوں کر ممکن تھا کہ خاتم النبیین کے بعد کوئی اور نبی اسی مفہوم تام اور کامل کے ساتھ جو نبوت تامّہ کی شرائط میں سے ہے آسکتا.کیا یہ ضروری نہیں کہ ایسے نبی کی نبوت تامہ کے لوازم جو وحی اور نزول جبرئیل ہے اس کے وجود کے ساتھ لازم ہونی چاہیئے کیونکہ حسب تصریح قرآن کریم رسول اُسی کو کہتے ہیں جس نے احکام و عقائد دین جبرئیل کے ذریعہ سے حاصل کئے ہوں لیکن وحی نبوت پر تو تیرہ سو برس سے مہر لگ گئی ہے کیا یہ مہر اُس وقت ٹوٹ جائے گی.اور اگر کہو کہ مسیح ابن مریم نبوت تامہ سے معزول کرکے بھیجا جائے گا تو اس سزا کی کوئی وجہ بھی توہونی چاہیئے.بعض کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بے استحقاق معبود قرار دیا گیا تھا سوخدائے تعالیٰ نے چاہا کہ اس کی سزا میں نبوت سے اس کو الگ کر دیاجائے اور وہ زمین پر آکر دوسروں کے پیرو بنیں اَوروں کے پیچھے نماز پڑھیں اور امام اعظم کی طرح صرف اجتہاد سے کام لیں.اور حنفی الطریق ہو کر حنفی مذہب کی تائید کریں.لیکن یہ جواب معقول نہیں ہے خدائے تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس الزام سے اُن کوبری کر دیا ہے اور ان کی نبوت کو ایک دائمی نبوت قرار دیا ہے.

Page 430

بھائیو! کیوں کھسیانے بن کر بیہودہ باتیں کرتے ہو اور ناحق اپنے ذمہ گناہ لیتے ہو.خدائے تعالیٰ قرآن کریم میں اُس مسیح ابن مریم کو مار چکا جو اسرائیلی نبی تھا جس پر انجیل نازل ہوئی تھی.اب یہ لفظ اپنے گھر سے حدیثوں میں زیادہ مت کرو کہ وہی مسیح فوت شدہ پھر آئے گا.اے خدا کے بندو کچھ تو خدا سے ڈرو.کیاخدائے تعالیٰ آپ کے نزدیک اس بات پر قادر نہیں کہ وہ اپنے ایک بندہ میں ایک ایسی روح ڈال دیوے جس سے وہ ابن مریم کے روپ میں ہی ہوجائے کیا اس کی مثالیں خدائے تعالیٰ کی کتابوں میں نہیں کہ اس نے ایک نبی کا نام دوسرے پرر کھ دیا کیا حدیثوں میں یہ مذکور نہیں کہ مثیل ابن مریم وغیرہ اس اُمّت میں پیدا ہوں گے تو پھر جب قرآن مسیح ابن مریم کو مارتا ہے اورحدیثیں مثیل ابن مریم کے آنے کا وعدہ دیتی ہیں تو اس صورت میں کیا اشکال باقی رہا.کیا اس میں کچھ جھوٹ ہے کہ جو ابن مریم کی سیرت رکھتا ہے وہ ابن مریم ہی ہے.درآں ابن مریم خدائی نبود زموت و زفوتش رہائی نبود رہا کرد خود راز شرک و دوئی توہم کن چنیں ابن مریم توئی اے مولوی صاحبان فضولی کو چھوڑو اور مجھے کوئی ایک ہی حدیث ایسی دکھلاؤ کہ جو صحیح ہو اور جو مسیح کا خاکی جسم کے ساتھ زندہ اٹھایا جانا اور اب تک آسمان پر زندہ ہونا ثابت کرتی ہو اور تواتر کی حد تک پہنچی ہو اور اس مقدار ثبوت تک پہنچ گئی ہوجو عند العقل مفید یقین قطعی ہوجاوے اور صرف شک کی حد تک محدود نہ رہے آپ جانتے ہیں کہ قرآن کریم کی تمام آیات بیّنہ کیسی مفید یقین ہیں.اب جبکہ ہمارا دعویٰ مبنی برنصوص بیّنہ قرآنیہ ہے اور اس کی تائید میں صحیح حدیثیں بھی ہمارے پاس ہیں اور ایسا ہی اقوال سلف و خلف بھی ہماری تائید میں کچھ تھوڑے نہیں اور الہامی شہادت اِن سب کے علاوہ ہے سو اب تم انصاف کے ترازو لے کربیٹھ جاؤ اور ایک پلّہ میں اپنے خیالات رکھو اور دوسرے پلّہ میں ہماری یہ سب وجوہات.اور آپ ہی انصاف کرلو.خوب سوچ لو کہ اگر ہمارے پاس صرف نصوص قرآن کریم ہی ہوتیں تو فقط وہی کافی تھیں.اب جس حالت میں بعض حدیثیں بھی ان

Page 431

نصوص کے مطابق ہوں تو پھر گویا وہ یقین نورٌ علٰی نور ہے جس سے عمدًا انحراف ایک قسم کی بے ایمانی میں داخل ہے.اور کچھ شک نہیں کہ جو حدیثیں اس اعلیٰ درجہ کے ثبوت کے برخلاف ہوں گی تو اگر ہم اُن کو غلط نہ کہیں اور نہ اُن کا موضوع نام رکھیں تو زیادہ سے زیادہ نرمی ہماری اُن حدیثوں کی نسبت یہ ہو گی کہ ہم اُن کی تاویل کریں.ورنہ حق ہمارا تو یہی ہے کہ اُن کو قطعی طور پر ساقط الاعتبار سمجھیں.بعض یہ وہم پیش کرتے ہیں کہ قرآن شریف میں موت مسیح کے بارے میں صرف توفی کالفظ موجود ہے مگر لُغت میں یہ لفظ کئی معنوں پر آیا ہے.سو اس وہم کا جواب یہ ہے کہ کلام تو اِس بات میں ہے کہ یہ لفظ قرآن کریم میں کئی معنوں پر آیا ہے یا ایک معنی پر.دراصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم نے بعض الفاظ لغت سے لے کر اصطلاحی طور پر ایک معنی کے لئے خاص کردئے ہیں.جیسے صوم صلٰوۃ رحمانیّت رحیمیّت توفی.اور ایسا ہی اللہ کا لفظ.اور کئی اَور الفاظ.سو اصطلاحی امر میں لغت کی طرف رجوع کرنا حماقت ہے.قرآن شریف کی قرآن شریف سے ہی تفسیر کرو اور دیکھو کہ وہ ایک ہی معنیٰ کا التزام رکھتا ہے یا متفرق معنی لیتا ہے.اور اقوال سلف و خلف درحقیقت کوئی مستقل حجت نہیں اور اُن کے اختلاف کی حالت میں وہ گروہ حق پر ہو گا جن کی رائے قرآن کریم کے مطابق ہے.اگر یہ اقوال رطب ویابس جو تفسیروں میں لکھے ہیں کچھ استحکام رکھتے تو اِن تفسیروں میں اقوال متضادہ کیوں درج ہوتے.اگرماخذ اجماع کا یہی اقوال متضادہ ہیں تو حقیقت ا جماع معلوم شد.اب ہم اس وصیت میں یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ قرآن شریف اپنے زبردست ثبوتو ں کے ساتھ ہمارے دعوے کا مصدّق اور ہمار ے مخالفین کے اوہام باطلہ کی بیخ کنی کررہا ہے اور وہ گذشتہ نبیوں کے واپس دنیا میں آنے کا دروازہ بندکرتا ہے.اور بنی اسرائیل کے مثیلوں کے آنے کا دروازہ کھولتا ہے.اُسی نے یہ دعاتعلیم فرمائی ہے.اس دعا کا ما حصل کیا ہے

Page 432

یہی تو ہے کہ ہمیں اے ہمارے خدا نبیوں اور رسولوں کا مثیل بنا.اور پھر حضرت یحییٰ کے حق میں فرماتا ہے3 ۱؂ یعنی یحییٰ سے پہلے ہم نے کوئی اس کا مثیل دنیا میں نہیں بھیجا جس کو باعتبار ان صفات کے یحییٰ کہا جائے یہ آیت ہماری تصدیق بیان کے لئے اشارۃ النص ہے.کیونکہ خدائے تعالیٰ نے اس جگہ آیت موصوفہ میں قبل کی شرط لگائی بعد کی نہیں لگائی تامعلوم ہو کہ بعد میں اسرائیلی نبیوں کے ہم ناموں کے آنے کا دروازہ کھلا ہے جن کانام خدائے تعالیٰ کے نزدیک وہی ہوگاجو اُن نبیوں کا نام ہوگاجن کے وہ مثیل ہیں یعنی جو مثیل موسیٰ ہے اس کانام موسیٰ ہوگا اور جو مثیل عیسیٰ ہے اس کا نام عیسیٰ یا ابن مریم ہوگا.اور خدائے تعالیٰ نے اس آیت میں ِ َسمی کہا مثیل نہیں کہا تا معلوم ہوکہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ جو شخص کسی اسرائیلی نبی کا مثیل بن کر آئے گا وہ مثیل کے نام سے نہیں پکاراجائے گا بوجہ انطباق کلّی اسی نام سے پکارا جائے گا جس نبی کا وہ مثیل بنکر آئے گا.اور مسیح ابن مریم کی وفات کے بارہ میں اگر خدائے تعالیٰ قرآن شریف میں کسی ایسے لفظ کو استعمال کرتا جس کو اس نے مختلف معنوں میں استعمال کیا ہوتا تو کسی خائن کو خیانت کرنے کی گنجائش ہوتی.سوخیانت پیشہ لوگوں کا خدا تعالیٰ نے ایسا بندوبست کیا کہ توفّی کے لفظ کو جو حضرت عیسیٰ کی وفات کے لئے استعمال کیا گیا تھا پچیس جگہ پر ایک ہی معنی پر استعمال کیا اور اس کو ایک اصطلاحی لفظ بنا کر ہریک جگہ میں اس کے یہ معنے لئے ہیں کہ روح کو قبض کر لینا اور جسم کو بے کار چھوڑ دینا.تا یہ لفظ اس بات پر دلالت کرے کہ روح ایک باقی رہنے والی چیز ہے جو بعد موت اور ایسا ہی حالت خواب میں بھی خدائے تعالیٰ کے قبضہ میں آجاتی ہے اور جسم پر فنا طاری ہوتی ہے مگر روح پر نہیں.اور چونکہ یہی معنی بالالتزام ہریک محل میں جہاں توفی کا لفظ آیا ہے لئے گئے اوران سے خروج نہیں کیاگیا اس لئے یہ معنے نصوص صریحہ بیّنہ ظاہرہ قرآن کریم میں سے ٹھہر گئے جن سے انحراف کرنا الحاد ہوگا کیونکہ یہ مسلّم ہے کہ النصوص یحمل علٰی ظواھرھا.پس قرآن کریم نے تو فّی

Page 433

کے لفظ کو جو محل متنازعہ فیہ میں یعنی مسیح کی وفات کے متعلق ہے تیئیس جگہ ایک ہی معنوں پراطلاق کر کے ایسا کھو ل دیا ہے کہ اب اس کے ان معنوں میں کہ روح قبض کرنا اور جسم کو چھوڑ دینا ہے ایک ذرہ شک و شبہ کی جگہ نہیں رہی.بلکہ یہ اول درجہ کے بیّنات اور مطالب صریحہ ظاہرہ بدیہہ میں سے ہوگیا جس کو قطع اور یقین کا اعلیٰ مرتبہ حاصل ہے جس سے انکار کرنا بھی اول درجہ کی نادانی ہے.اب قرآن کریم میں اس لفظ کی تشریح کرنے میں صرف دو سبیل ہیں تیسرا کوئی سبیل نہیں.(۱) دائمی طورپر روح کو قبض کرکے جسم کو بیکار چھوڑدینا.جس کا دوسرے لفظوں میں اِمَاتَت نام ہے یعنی مار دینا.(۲) دوسرے کچھ تھوڑی مدّت کے لئے روح کا قبض کرنا اور جسم کو بیکار چھوڑ دینا.جس کا دوسرے لفظوں میں اِنَامَت نام ہے.یعنی سُلا دینا.لیکن ظاہر ہے کہ محل متنازعہ فیہ سے دوسرے قسم کے معنے کو کچھ تعلق نہیں.کیونکہ سونا اور پھر جاگ اُٹھنا ایک معمولی بات ہے.جب تک انسان سویا رہا روح اس کی خدائے تعالیٰ کے قبضہ میں رہی اورجب جاگ اُٹھا تو پھرروح اس جسم میں آگئی جو بطور بیکارچھوڑا گیا تھا.یہ بات صفائی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ جبکہ توفّی کے لفظ سے صرف روح کاقبضہ میں کر لینا مراد ہے بغیر اس کے جو جسم سے کچھ سروکار ہو بلکہ جسم کابیکار چھوڑدینا توفی کے مفہوم میں داخل ہے تو اس صورت میں اس سے بڑھ کر اَور کوئی حماقت نہیں کہ توفی کے یہ معنے کئے جائیں کہ خدائے تعالیٰ جسم کو اپنے قبضہ میں کر لیوے کیونکہ اگر یہ معنے صحیح ہیں تو نمونہ کے طور پر قرآن کریم کے کسی اور مقام میں بھی ایسے معنے ہونے چاہیئیں مگر ابھی ہم ظاہر کرچکے ہیں کہ قرآن کریم اول سے آخر تک صرف یہی معنے ہریک جگہ مراد لیتا ہے کہ روح کو قبض کرلینا اور جسم سے کچھ تعلق نہ رکھنا بلکہ اِس کو بیکار چھوڑ دینا.مگر فرض کے طورپر اگر مسیح ابن مریم کے محل وفات میں دوسرے معنے مراد لیں تو اُن کا ماحصل یہ ہو گاکہ مسیح کچھ مدّت تک سویا رہااور پھرجا گ اُٹھا.پس اس سے تو

Page 434

ثابت نہ ہوسکاکہ جسم آسمان پر چلا گیا.کیاجولوگ رات کو یا دن کوسوتے ہیں تو اُن کا جسم آسمان پر چلا جایا کرتا ہے.سونے کی حالت میں جیساکہ ابھی میں بیان کر چکا ہوں صرف تھوڑی مدّت تک روح قبض کرلی جاتی ہے جسم کے اٹھائے جانے سے اس کو علا قہ ہی کیاہے.ابھی میں بیان کر چکا ہوں کہ نصوص ظاہرہ متواترہ صریحہ قرآن کریم نے توفّی کے لفظ کو صرف روح تک محدود رکھا ہے یعنی روح کو اپنے قبضہ میں کرلینا اور جسم کوبیکار چھوڑ دینا.اور جبکہ یہ حال ہے تو پھر توفّی کے لفظ سے یہ نکالنا کہ گویاخدائے تعالیٰ نے نہ صرف مسیح ابن مریم کی روح کو اپنی طرف اٹھایا بلکہ اس کے جسم عنصری کو بھی ساتھ ہی اٹھالیا.یہ کیساسخت جہالت سے بھراہوا خیال ہے جو صریح اوربدیہی طورپر نصوص بیّنہ قرآن کریم کے مخالف ہے.قرآن کریم نے نہ ایک بار نہ دوبار بلکہ پچیس بار فرما دیا کہ توفّی کے لفظ سے صرف قبض روح مراد ہے جسم سے کچھ غرض نہیں.پھراگر اب بھی کوئی نہ مانے تو اس کو قرآن کریم سے کیا غرض.اس کو تو صاف یہ کہنا چاہیئے کہ میں اپنے چند موہومی بزرگوں کی لکیر کو کسی حالت میں چھوڑنانہیں چاہتا.پھر قرآن کریم کے بعد حدیثوں کامرتبہ ہے سوتقریبًا تمام حدیثیں تصریح کے ساتھ قرآن کریم کے بیان کے موافق ہیں اور ایک بھی ایسی حدیث نہیں جس میں یہ لکھاہوکہ وہی مسیح ابن مریم اسرائیلی نبی جس کو قرآن شریف مارچکا ہے جس پر انجیل نازل ہوئی تھی پھر دنیامیں آئے گا.ہاں بار بار لکھاہے کہ ان اسرائیلی نبیوں کے ہم نام آئیں گے.سچ ہے کہ حدیثوں میں درج ہے کہ ابن مریم آئے گا لیکن انہیں حدیثو ں نے حلیہ میں اختلاف ڈا ل کر اور آنے والے ابن مریم کو اُمتی ٹھہرا کر صاف بتلادیا ہے کہ یہ ابن مریم اَور ہے.اورپھر اگر اس قسم کی حدیثوں کی تشریح کے لئے جو متنازعہ فیہ ہیں دوسری حدیثوں سے مدد لینا چاہیں تو پھر کوئی ایسی حدیث نہیں ملتی جس سے یہ ثابت ہوکہ گذشتہ نبیوں میں سے کبھی کوئی نبی بھی دنیا میں آئے گا.ہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ اُن کے مثیل آئیں گے اور

Page 435

انہیں کے اسم سے موسوم ہوں گے.اور یہ بات ہم کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں کہ خاتم النبیّین کے بعدمسیح ابن مریم رسول کا آنا فساد عظیم کاموجب ہے اس سے یاتو یہ ماننا پڑے گا کہ وحی نبوت کا سلسلہ پھر جاری ہوجائے گا اور یا یہ قبول کرنا پڑے گا کہ خدائے تعالیٰ مسیح ابن مریم کو لوازم نبوت سے الگ کر کے اورمحض ایک اُمّتی بنا کر بھیجے گا اور یہ دونوں صورتیں ممتنع ہیں.اس جگہ یہ بیان کرنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ جس حالت میں تقریبًا کل حد یثیں قرآن شریف کے مطابق اور ہمارے بیان کی مؤید ہیں.پھراگر بطور شاذونادر کوئی ایسی حدیث بھی ہو جو اس مجموعہ یقینیہ کے مخالف ہو تو ہم ایسی حدیث کو یا تو نصوص میں سے خارج کریں گے اوریا اس کی تاویل کرنی پڑے گی.کیونکہ یہ توممکن نہیں کہ ایک ضعیف اورشاذ حدیث سے وہ مستحکم عمارت گرا دی جائے جس کو نصوص بیّنہ فرقانیہ و حدیثیہ نے طیارکیا ہے بلکہ ایسی حدیث اُن کے معارض ہوکر خود ہی گرے گی یا قابل تاویل ٹھہرے گی.ہریک عاقل سمجھ سکتا ہے کہ ایک خبر واحد غایت کارمفید ظن ہے.سو وہ یقینی اور قطعی ثبوت کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچاسکتی.بہت سی حدیثیں مسلم اور بخاری کی ہیں جو امام اعظم صاحب نے جو رئیس الائمہ ہیں قبول نہیں کیں.بعض حدیثوں کو شافعی نے نہیں لیا.بعض حدیثوں کوجو نہایت صحیح سمجھی جاتی ہیں امام مالک نے چھوڑ دیا.بعض محدثین نے لکھا ہے کہ مسیح موعود جب دنیا میں آئے گا تواکثر استدلال اس کا قرآن شریف سے ہو گا اوربعض ایسی حدیثوں کو چھوڑ دے گا جن پر علماءِ وقت کا پختہ یقین ہوگا اور مجدّد الف ثانی صاحب اپنے مکتوبات کی مجلد ثانی مکتوب پنجاہ وپنجم میں لکھتے ہیں کہ مسیح موعود جب دنیا میںآئے گاتو علماءِ وقت کے بمقابل اس کے آمادہ مخالفت کے ہوجائیں گے.کیونکہ جو باتیں بذریعہ اپنے استنباط اور اجتہادکے وہ بیان کرے گا وہ اکثر دقیق اورغامض ہوں گی اوربوجہ دِقّت اورغموض ماخذ کے ان سب مولویوں کی نگاہ میں کتاب اورسُنت کے برخلاف نظرآئیں گی حالانکہ درحقیقت برخلاف

Page 436

نہیں ہوں گی.دیکھو صفحہ نمبر ۱۰۷ مکتوبات امام ربّانی مطبوعہ احمدی دہلی.سو اب اے بھائیو! برائے خدا دھکہ اورزبردستی مت کرو ضرور تھا کہ میں ایسی باتیں پیش کرتا جن کے سمجھنے میں تمہیں غلطی لگی ہوئی تھی.اگر تم پہلے ہی راہ صواب پرہوتے تو میرے آنے کی ضرورت ہی کیا تھی.میں کہہ چکا ہوں کہ میں اس اُمّت کی اصلاح کے لئے ابن مریم ہوکر آیا ہوں اور ایسا ہی آیا ہوں کہ جیسے حضرت مسیح ابن مریم یہودیوں کی اصلاح کے لئے آئے تھے.میں اسی وجہ سے تو اُن کا مثیل ہوں کہ مجھے وہی اور اُسی طرز کا کام سپُردہوا ہے جیسا کہ انہیں سپرد ہواتھا.مسیح نے ظہور فرما کر یہودیوں کو بہت سی غلطیوں اوربے بنیاد خیالات سے رہائی دی تھی.منجملہ اس کے ایک یہ بھی تھا کہ یہودی لوگ ایلیا نبی کے دوبارہ دنیا میں آنے کی ایسی ہی اُمید باندھے بیٹھے تھے جیسے آج کل مسلمان مسیح ابن مریم رسول اللہ کے دوبارہ آنے کی امید باندھے بیٹھے ہیں.سو مسیح نے یہ کہہ کر کہ ایلیانبی اب آسمان سے اُتر نہیں سکتا زکریا کابیٹا یحییٰ ایلیا ہے جس نے قبول کرنا ہے کرے اس پُرانی غلطی کو دُور کیا اور یہودیوں کی زبان سے اپنے تئیں مُلحد اورکتابوں سے پھرا ہوا کہلایا مگرجوسچ تھا وہ ظاہر کردیا.یہی حال اُس کے مثیل کا بھی ہوا اور حضرت مسیح کی طرح اس کو بھی مُلحد کا خطاب دیاگیا.کیا یہ اعلیٰ درجہ کی مماثلت نہیں.اس باریک نکتہ کو یادرکھو کہ مسلمانوں کو یہ کیوں خوشخبری دی گئی کہ تم میں مسیح ابن مریم نازل ہوگا.دراصل اس میں بھید یہ ہے کہ ہمارے سیّد ومولیٰ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ علیہ السلام ہیں اور یہ اُمّت محمدیہ مثیل اُمّت بنی اسرائیل ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ آخری زمانہ میں یہ اُمّت ایسی ہی بگڑجائیگی جیسے یہودی اپنے آخری وقت میں بگڑ گئے تھے اورحقیقی نیکی اور حقیقی سچائی اور حقیقی ایمانداری اُن میں سے اُٹھ گئی تھی اور نکمّے اور بے اصل جھگڑ ے اُن میں برپاہوگئے تھے اور ایمانی محبت ٹھنڈی ہوگئی تھی اورفرمایا کہ تم تمام وہی کام کروگے جویہودیوں نے کئے.یہاں تک

Page 437

کہ اگریہودی سوسمار کے سوراخ میں داخل ہوئے ہیں تو تم بھی اُسی سوراخ میں داخل ہوگے.یعنی پورے پورے یہودی ہوجاؤ گے.اور چونکہ یہودیوں کی اس تباہ حالت میں خدائے تعالیٰ نے انہیں فراموش نہیں کیا تھا بلکہ اُن کے اخلاق واعمال درست کرنیکے لئے اور اُن کی غلطیوں کی اصلاح کرنے کی غرض سے مسیح ابن مریم کو انہیں میں سے بھیجا تھا لہٰذا اس اُمت کو بھی بشارت دی گئی کہ جب تمہاری حالت بھی اُن سخت دل یہودیوں کے موافق ہوجائے گی اور تم بھی ظاہر پرست اوربد چلن اور رُوبدُنیا ہوجاؤ گے اور تمہارے فقراء اورعلماء اور دنیاداروں میں اپنی اپنی طرز پر مکاری اور بدچلنی پھیل جائے گی اور وہ شے جس کا نام توحید اورخدا پرستی اورخداترسی اور خداخواہی ہے بہت ہی کم رہ جائے گی تو مثالی طورپر تمہیں بھی ایک ابن مریم تم میں سے دیا جائے گا تا تمہاری اخلاقی اورعملی اورایمانی حالت کے درست کرنے کے لئے ایسا ہی زور لگا وے جیسا کہ مسیح ابن مریم نے لگایا تھا.اب صاف اور نہایت کُھلاکُھلاقرینہ ہے کہ چونکہ اس زمانہ کے مسلما ن دراصل یہودی نہیں ہیں بلکہ انہوں نے اپنی سخت دلی اوردنیا پرستی کی وجہ سے یہودیوں سے ایک مشابہت پیداکرلی ہے اس لئے جو مسیح ابن مریم اُن کے لئے نازل ہوا وہ بھی دراصل مسیح ابن مریم نہیں ہے بلکہ اپنے اس منصبی کام میں جو اس کے سپرد ہوا ہے مسیح سے مماثلت رکھتا ہے.یقیناً سمجھو کہ مسیح ابن مریم رسول اللہ فو ت ہو چکا اور خدا تعالیٰ نے اس کوفوت ہونے کے بعد اُسی قسم کی زندگی بخشی جووہ ہمیشہ نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کو بخشتا آیا ہے.سو وہ خدائے تعالیٰ کی طرف ایک پاک اور لطیف زندگی کے ساتھ جو جسم خاکی اور اُس کے لوازم کثیفہ اور مکدّرہ سے منزّہ ہے اُٹھایا گیا اور اسی قسم کے زندوں کی جماعت میں جاملا.اگر وہ جسم خاکی کے ساتھ اُٹھایا جاتا تو اس خاکی جسم کے لوازم بھی اُس کے ساتھ رہتے.کیونکہ اللہ جلَّ شَانُہٗ فرماتا ہے کہ ہم نے کوئی ایسا جسد خاکی نہیں بنایا کہ وہ زندہ تو ہو مگر روٹی نہ کھاتا ہو.لیکن آپ لوگ مانتے ہیں کہ اب مسیح ابن مریم کا جسم

Page 438

آسمان پرایسا ہے کہ اُس میں خاکی جسم کے لوازم ہرگز نہیں پائے جاتے.وہ بڈھا نہیں ہوتا اُس پر زمانہ اثر نہیں کرتا.وہ اناج اور پانی کا محتاج نہیں.سو آپ نے تو ایک طور سے مان بھی لیا کہ وہ اوررنگ اور شان کا جسم ہے.آپ جانتے ہیں کہ معراج کی رات میں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمانوں پر نبیوں کو دیکھا تو کیا بالخصوص مسیح کو ہی جسم کے سمیت دیکھا اور دوسروں کی فقط روحیں دیکھیں بلکہ ظاہر ہے کہ سب کو روح اور جسم دونوں کے ساتھ دیکھا اور سب کا جسمانی حلیہ بھی بیان کیا اور مسیح کا وہ حلیہ بیان کیا جو آنے والے مسیح سے بالکل مخالف تھا.پس کیا یہ قوی دلیل اس بات پر نہیں ہے کہ مسیح کو اس کے مرنے کے بعد اُسی رنگ اور طرز کا جسم ملا جو یحییٰ نبی اور ادریس اور یوسف اور حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم کو ملا تھا.کیا کوئی نرالی بات مسیح میں دیکھی گئی جو اَوروں میں نہیں تھی.اب جبکہ ایسی وضاحت سے مسیح کا وفات پاجانا اور پھر دوسرے نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کی طرح زندہ ہو کر آسمان کی طرف اُٹھائے جانا ثابت ہوتا ہے تو کیوں ناحق مسیح کے سفلی اور کثیف جسم اورناپائدار حیات کے لئے ضد کی جاتی ہے اور سب کے لئے ایک موت اور اس کے لئے دو موتیں روا رکھی جاتی ہیں.قرآن شریف میں ادریس ؑ نبی کے حق میں ہے وَ3 ۱؂.اور اس کے ساتھ توفّی کا کہیں لفظ نہیں تاہم علماء ادریس ؑ کی وفات کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اس جہان سے ایسا اٹھایا گیا کہ پھر نہیں آئے گا یعنی مرگیا کیونکہ بغیر مرنے کے کوئی اس جہان سے ہمیشہ کے لئے رخصت نہیں ہوسکتا.وجہ یہ کہ اس دنیا سے نکلنے اور بہشت میں داخل ہونے کا موت ہی دروازہ ہے.33 ۲؂.اور اگر انہیں کہا جائے کہ کیا ادریس آسمان پر مر گیا یا پھرآکر مرے گا یا آسمان پر ہی اس کی روح قبض کی جائے گی تو ادریس ؑ کے دوبارہ دنیا میں آنے سے صاف انکار کرتے ہیں.اور چونکہ دخول جنت سے پہلے موت ایک لازمی امر ہے لہٰذا ادریس کا فوت ہوجانا مان لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ

Page 439

رفع کے اس جگہ معنے موت ہی ہیں.پھر جبکہ مسیح کے رفع کے ساتھ توفّی کا لفظ بھی موجود ہے تو کیوں اور کس دلیل سے اس کی حیات کے لئے ایک شور قیامت برپا کر دیا ہے.افسو س کہ اس وقت کے مولوی جب دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم مسیح ابن مریم کو مار چکا ہے اور کوئی حدیث صحیح اس کے منافی ومغائر نہیں تو لاچار ہوکر اجماع کی طرف دوڑتے ہیں.ہر چند اِن لوگوں کوبار بار کہاجاتاہے کہ حضرات اجماع کا لفظ پیشگوئیوں کے متعلق ہرگز نہیں ہو سکتا.قبل از ظہور ایک نبی کی اجتہادی تاویل میں بھی غلطی ممکن ہے.لیکن یہ لوگ نہیں مانتے اور یہ بھی نہیں جانتے کہ اجماع کی بناء یقین اور انکشاف کلّی پر ہوا کرتی ہے لیکن سلف و خلف کے ہاتھ میں جن کی طرف اجماع کا دعویٰ منسوب کیا جاتاہے نہ یقین کلّی تھا نہ انکشاف تام.اگر ان کے خیالات کی بناء ایک کامل یقین پر ہوتی تو اُن سے اقوال متفرقہ صادر نہ ہوتے.اور تفسیر کی کتابوں میں زیر تفسیر آیت یٰعیسی انّی متوفیک چھ چھ سات سات اقوال متضادہ نہ لکھے جاتے بلکہ ایک ہی شق مسلّم کو مانتے چلے آتے اور اگر انکشاف تام اُ ن کے نصیب ہوتا تو وہ بحوالہ قرآ ن کریم واحادیث صحیحہ ضرور لکھتے کہ آنے والا مسیح ابن مریم دراصل وہی مسیح ابن مریم رسول اللہ ہے جس پر انجیل نازل ہوئی تھی جو اسرائیلی نبی تھا.بلکہ انہوں نے اس مقام کی تصریح میں دم بھی نہیں مارا اور اصل حقیقت کو حوالہ بخدا کر کے گذر گئے جیسا کہ صلحاء کی سیرت ہوتی ہے.یہاں تک کہ وہ زمانہ آگیا جو خدا تعالیٰ نے وہ اصل حقیقت اپنے ایک بندہ پر کھول دی اور جو راز مخفی چلا آتا تھا اس پر ظاہر کردیا تاا س کے حق میں یہ خارق عادت تفہیم جس کے دریافت سے تمام علماء کی عقلیں قاصر رہیں ایک کرامت میں شمار کی جائے.وذٰلک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشآء.سو اے بھائیو! برائے خدا جلدی مت کرو اور اپنے علم اور فراست پر داغ مت لگاؤ یقینًا سمجھوکہ گریز کی تمام راہیں بند ہیں اور انکار کے تمام طرق مسدود ہیں.اگر یہ کاروبار انسان کی طرف سے ہوتایا اگر کسی افترا پر اس کی بنیاد ہوتی تو یہ دلائل بیّنہ اس کے

Page 440

شامل حال ہرگز نہ ہوتے.بعض کہتے ہیں کہ اگر ہم قبول بھی کر لیں کہ مسیح ابن مریم رسو ل اللہ فوت ہوگیا ہے تو اس بات کا ثبوت کیاہے کہ تم ہی ہو جو اس کے قائم مقام بھیجے گئے ہو.اس کا جواب یہ ہے کہ ہریک انسان اپنے کاموں سے شناخت کیا جاتا ہے.ہرچند عوام کی نظر میں یہ دقیق اور غامض بات ہے لیکن زیرک لوگ اس کو خوب جانتے ہیں کہ ایسے مامور من اللہ کی صداقت کا اس سے بڑ ھ کر اَور کوئی ثبوت ممکن نہیں کہ جس خدمت کے لئے اس کا دعویٰ ہے کہ اس کے بجالانے کے لئے میں بھیجا گیا ہوں.اگر وہ اس خدمت کو ایسی طرز پسندیدہ اور طریق برگزیدہ سے ادا کردیوے جو دوسرے اس کے شریک نہ ہو سکیں تو یقینًا سمجھا جائے گا کہ وہ اپنے دعویٰ میں سچا تھا کیونکہ ہر یک چیز اپنی علّت غائی سے شناخت کی جاتی ہے.اور یہ خیال بالکل فضول ہے کہ جو مثیل مسیح کہلاتاہے وہ مسیح کی طرح مُردوں کو زندہ کر کے دکھلاوے یا بیماروں کو اچھا کر کے دکھلا وے کیونکہ مماثلت علّت غائی میں ہوتی ہے.درمیانی افعال کی مماثلت معتبر نہیں ہوتی.بائبل کی کتابوں کو پڑھنے والے جانتے ہیں کہ جو خوارق مسیح کی طرف منسوب کئے گئے ہیں یعنی مردوں کا زندہ کرنا یا بیماروں کو اچھا کرنا یہ مسیح سے مخصوص نہیں ہے بلکہ بعض بنی اسرائیلی ایسے بھی گزرے ہیں کہ اِن سب کاموں میں نہ صرف مسیح ابن مریم کے برابر بلکہ اس سے بھی آگے بڑھے ہوئے تھے لیکن پھر بھی ان کو مثیل مسیح نہیں کہا جاتا نہ مسیح کو اُنکا مثیل ٹھہرایا جاتا ہے.ایسا ہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ قرار دئے گئے ہیں.قرآن کریم اس پر ناطق ہے لیکن کبھی کسی نے نہیں سُنا ہو گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سوٹے سے حضرت موسیٰ کی طرح سانپ بنایا ہو یا آسمان سے خون اور جوئیں اور مینڈکیں برسائی ہوں بلکہ اس جگہ بھی علّت غائی میں مشابہت مراد ہے چونکہ حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کی رہائی دلانے کے لئے مامور کئے گئے تھے سو یہی خدمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد ہوئی تا اس وقت کے فرعونوں سے زبردست ہاتھ کے ساتھ مومنوں کو رہائی دلاویں اور جیسا کہ نصرت الٰہی ایک خاص رنگ میں حضرت موسیٰ کے

Page 441

شامل حال ہوئی.ایسا ہی نصرت الٰہی ایک دوسرے رنگ میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شامل حال ہوگئی اور درحقیقت وہی نصرت ہے جو اپنے اپنے محل پر رنگا رنگ کے معجزات کے نام سے موسوم ہوتی ہے.سو میں خوب جانتا ہوں کہ جیسا کہ نصرت الٰہی حضرت مسیح کے شامل حال ہوئی تھی میں بھی اس نصرت سے بے نصیب نہیں رہوں گا لیکن یہ ضرور نہیں کہ وہ نصرت جسمانی بیماروں کے اچھا کرنے سے ظاہر ہو بلکہ خدائے تعالیٰ نے ایک الہام میں میرے پر ظاہر فرمایا ہے کہ خلق اللہ کی روحانی بیماریوں اور شکوک اور شبہات کو وہ نصرت دُور کرے گی.جیساکہ میں پہلے اس سے لکھ چکا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ مستعد دلوں پر اثر پڑتا جاتا ہے اور پرانی بیماریاں دور ہوتی جاتی ہیں اور نصرت الٰہی اندر ہی اندر کام کر رہی ہے اور خدا تعالیٰ نے اپنے خاص کلام سے میری طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ نبی ناصری کے نمونہ پر اگر دیکھاجائے تو معلوم ہو گا کہ وہ روحانی بیماریوں کو بہت صاف کررہا ہے اس سے زیادہ کہ کبھی جسمانی بیماریوں کو صاف کیا گیا ہو.حا ل کے نیچری جن کے دلوں میں کچھ بھی عظمت قال اللہ اور قال الرسول کی باقی نہیں رہی یہ بے اصل خیال پیش کرتے ہیں کہ جو مسیح ابن مریم کے آنے کی خبریں صحا ح میں موجود ہیں یہ تمام خبریں ہی غلط ہیں.شاید اُن کا ایسی باتو ں سے مطلب یہ ہے کہ تا اس عاجز کے اس دعوے کی تحقیر کر کے کسی طرح اس کو باطل ٹھہرایا جاوے لیکن وہ اس قدر متواترات سے انکار کر کے اپنے ایمان کو خطرہ میں ڈالتے ہیں.یہ بات ظاہر ہے کہ تواتر ایک ایسی چیز ہے کہ اگر غیر قوموں کی تواریخ کے رو سے بھی پایا جائے تو تب بھی ہمیں قبول کرنا ہی پڑتا ہے.جیسا کہ ہندوؤں کے بزرگوں رام چندر اور کرشن وغیرہ کا وجود تواتر کے ذریعہ سے ہی ہم نے قبول کیا ہے.گو تحقیق و تفتیش تاریخی واقعات میں ہندو لوگ بہت کچّے ہیں مگر باوجود اس قدر تواتر کے جو اُن کی مسلسل تحریروں سے پایا جاتا ہے ہرگز یہ گمان نہیں ہو سکتا کہ راجہ رام چندر اور راجہ کرشن یہ فرضی ہی نام ہیں.

Page 442

اب سمجھنا چاہیئے کہ گو اجمالی طور پر قرآن شریف اکمل واتم کتاب ہے مگرایک حصہ کثیرہ دین کا اور طریقہ عبادات وغیرہ کامفصل اور مبسوط طور پر احادیث سے ہی ہم نے لیا ہے اور اگر احادیث کوہم بکلّی ساقط الاعتبار سمجھ لیں تو پھر اس قدر بھی ثبوت دینا ہمیں مشکل ہوگا کہ درحقیقت حضرت ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما وعثمان ذوالنورینؓ اور جناب علی مرتضی کرم اللہ وجہہٗ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام اور امیرالمؤمنین تھے اور وجود رکھتے تھے صرف فرضی نام نہیں کیونکہ قرآن کریم میں ان میں سے کسی کانام نہیں.ہاں اگر کوئی حدیث قرآن شریف کی کسی آیت سے صریح مخالف و مغائر پڑے مثلًا قرآ ن شریف کہتا ہے کہ مسیح ابن مریم فوت ہوگیا اور حدیث یہ کہے کہ فوت نہیں ہوا تو ایسی حدیث مردود اور ناقا بل اعتبار ہوگی لیکن جو حدیث قرآن شریف کے مخالف نہیں بلکہ اس کے بیان کو اور بھی بسط سے بیان کرتی ہے وہ بشرطیکہ جرح سے خالی ہوقبول کرنے کے لائق ہے.پس یہ کمال درجہ کی بے نصیبی اور بھاری غلطی ہے کہ یک لخت تمام حدیثوں کو ساقط الاعتبار سمجھ لیں اور ایسی متواتر پیشگوئیوں کو جو خیر القرون میں ہی تمام ممالک اسلام میں پھیل گئی تھیں اور مسلّمات میں سے سمجھی گئی تھیں بمد موضوعات داخل کردیں.یہ بات پوشیدہ نہیں کہ مسیح ابن مریم کے آنیکی پیشگوئی ایک اول درجہ کی پیشگوئی ہے جس کو سب نے بالاتفاق قبول کرلیاہے اور جس قدر صحاح میں پیشگوئیاں لکھی گئی ہیں کوئی پیشگوئی اس کے ہم پہلو اور ہم وزن ثابت نہیں ہوتی.تواتر کا اول درجہ اس کو حاصل ہے.انجیل بھی اس کی مصدّق ہے.اب اس قدر ثبوت پر پانی پھیرنا اور یہ کہنا کہ یہ تمام حدیثیں موضوع ہیں درحقیقت اُن لوگوں کا کام ہے جن کو خدائے تعالیٰ نے بصیرت دینی اور حق شناسی سے کچھ بھی بخرہ اور حصہ نہیں دیا اور بباعث اس کے کہ اُن لوگوں کے دلوں میں قال اللہ اورقال الرسول کی عظمت باقی نہیں رہی اس لئے جوبات اُن کی اپنی سمجھ سے بالاتر ہواس کو محالات اور ممتنعات میں داخل کرلیتے ہیں.قانون قدرت بے شک حق اور باطل کے آزمانے کے لئے ایک آلہ ہے مگر ہرایک قسم کی آزمائش کا اسی پر مدار نہیں.

Page 443

اس کے علاوہ اور آلات اور محک بھی تو ہیں جن کے ذریعہ سے اعلیٰ درجہ کی صداقتیں آزمائی جاتی ہیں.بلکہ اگر سچ پوچھو تو قانون قدرت مصطلحہ حکماء کے ذریعہ سے جو جو صداقتیں معلوم ہوتی ہیں وہ ایک ادنیٰ درجہ کی صداقتیں ہیں لیکن اس فلسفی قانون قدرت سے ذرہ اُوپر چڑھ کرایک اور قانون قدرت بھی ہے جو نہایت دقیق اور غامض اور بباعث دقّت و غموض موٹی نظروں سے چھپا ہُو ا ہے جو عارفوں پر ہی کھلتا ہے اور فانیوں پر ہی ظاہر ہوتاہے.اس دنیا کی عقل اور اس دنیا کے قوانین شناس اس کو شناخت نہیں کر سکتے اور اس سے منکر رہتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ جو امور اس کے ذریعہ سے ثابت ہوچکے ہیں اور جو سچائیاں اس کی طفیل سے بپایہ ثبوت پہنچ چکی ہیں وہ ان سفلی فلاسفروں کی نظر میں اباطیل میں داخل ہیں.ملائک کو یہ لوگ صرف قویٰ خیال کرتے ہیں اور وحی کو یہ لوگ صرف فکر اور سوچ کا ایک نتیجہ سمجھتے ہیں یا ہر یک بات جو دل میں پڑتی ہے اس کا نام وحی رکھ لیتے ہیں اور قرآن کریم اور دوسری الٰہی کتابوں کو ایسا خیال کرتے ہیں کہ گویا نبیوں نے آپ بنا لی ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ذات قوی اور قیوم جو اس عالم کے ظاہر وباطن کی مدبّر ہے اس کی عظمت اُن کے دل میں نہیں اور اس کو ایک مردہ یا سویا ہوا یا ناتواں اور غافل خیال کیا گیا ہے اور اس کی تمام قدرتی عمارت کے مسمار کرنے کی فکر میں ہیں معجزات سے بکلّی منکر اور فرقانی پیشگوئیوں سے انکاری ہیں اور اپنی نابینائی کی وجہ سے فرقان کریم کو ایک ادنیٰ سا معجزہ بھی نہیں سمجھتے حالانکہ وہ تمام معجزات سے برتر واعلیٰ ہے.بہشت اور دوزخ کی ایسی ضعیف طور پر تاویل کرتے ہیں کہ جس سے منکر ہونا ہی ثابت ہوتا ہے.حشر اجساد سے بکلّی انکاری ہیں.عبادات اور صوم وصلٰوۃ پر ہنسی اور ٹھٹھاکرتے ہیں اور رُوبحق ہونے کی جگہ رُوبدُنیا ہونا اُنکے نزدیک بہتر ہے اور جو شخص روبحق ہووہ اُن کے نزدیک سادہ لوح اور ابلہ اور بیوقوف درویش ہے.مسلمانوں کی بدقسمتی سے یہ فرقہ بھی اسلام میں پیداہوگیا جس کا قدم دن بدن الحاد کے میدانوں میں آگے ہی آگے چل رہا ہے.

Page 444

اے خدا اے میرے قادر خدا مدد کر کہ لوگوں نے افراط اور تفریط کی راہیں لے لی ہیں.بعض نے تیرے کلام کے بیّنا ت تیرے کلام کے اشارات تیرے کلام کے دلالات تیرے کلام کی فحوا کو بکلّی چھوڑ کر بے بنیاد لکیر کو اس کی جگہ پسند کرلیا اور بعض نے تیرے کلام کو بھی چھوڑا اور لکیر کو بھی چھوڑا اور صرف اپنی ناقص عقل کو اپنا رہبر بنا لیا اور امام الرسل کو چھوڑ کر یورپ کے تاریک خیال محجوب فلاسفروں کو اپنا امام بنا لیا.اے میرے دوستو! اب میری ایک آخر ی وصیت کو سنو اور ایک راز کی بات کہتا ہوں اس کو خوب یاد رکھو کہ تم اپنے ان تمام مناظرات کا جو عیسائیوں سے تمہیں پیش آتے ہیں پہلو بدل لو اور عیسائیوں پر یہ ثابت کر دو کہ درحقیقت مسیح ابن مریم ہمیشہ کے لئے فوت ہو چکا ہے.یہی ایک بحث ہے جس میں فتحیاب ہونے سے تم عیسائی مذہب کی روئے زمین سے صف لپیٹ دوگے.تمہیں کچھ بھی ضرورت نہیں کہ دوسرے لمبے لمبے جھگڑوں میں اپنے اوقاتِ عزیز کو ضائع کرو.صر ف مسیح ابن مریم کی وفات پر زور دو اور پُر زور دلائل سے عیسائیوں کو لاجواب اور ساکت کر دو.جب تم مسیح کا مردوں میں داخل ہونا ثابت کردو گے اور عیسائیوں کے دلوں میں نقش کردو گے تو اُس دن تم سمجھ لو کہ آج عیسائی مذہب دنیا سے رخصت ہوا.یقینًا سمجھو کہ جب تک ان کا خدا فوت نہ ہو اُن کا مذہب بھی فوت نہیں ہو سکتا.اور دوسری تمام بحثیں اُن کے ساتھ عبث ہیں.اُنکے مذہب کا ایک ہی ستون ہے اور وہ یہ ہے کہ اب تک مسیح ابن مریم آسمان پر زندہ بیٹھا ہے.اس ستون کو پاش پاش کرو پھر نظر اُٹھا کر دیکھو کہ عیسائی مذہب دنیا میں کہاں ہے.چونکہ خدائے تعالیٰ بھی چاہتا ہے کہ اِس ستون کو ریزہ ریزہ کر ے اور یوروپ اور ایشیا میں توحید کی ہو ا چلا دے.اِس لئے اُس نے مجھے بھیجا اور میرے پر اپنے خاص الہام سے ظاہر کیا کہ مسیح ابن مریم فوت ہو چکا ہے.چنانچہ اس کا الہام یہ ہے کہ مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اُس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تُو آیا ہے وکان وعداللّٰہ مفعولا انت معی وانت علی الحق المبین انت مصیب ومعین للحق.

Page 445

میں نے اس کتاب میں نہایت زبردست ثبوتوں سے مسیح کا فوت ہوجانا اور اموات میں داخل ہونا ثابت کردیا ہے اور میں نے بداہت کی حد تک اس بات کو پہنچا دیا ہے کہ مسیح زندہ ہو کر جسم عنصری کے ساتھ ہرگز آسمان کی طرف اُٹھایا نہیں گیا بلکہ اَور نبیوں کی موت کی طرح اُس پر بھی موت آئی اور دائمی طورپر وہ اس جہان سے رخصت ہؤا.اگر کوئی مسیح کا ہی پرستار ہے تو سمجھ لے کہ وہ مر گیا اور مرنے والوں کی جماعت میں ہمیشہ کے لئے داخل ہوگیا.سو تم تائید حق کے لئے اس کتاب سے فائدہ اٹھاؤ اور سرگرمی کے ساتھ پادریوں کے مقابل پر کھڑے ہوجاؤ.چاہئے کہ یہی ایک مسئلہ ہمیشہ تمہار ے زیر توجہ اور پورا بھروسہ کرنیکے لائق ہو جو درحقیقت مسیح ابن مریم فوت شدہ گروہ میں داخل ہے.میں نے اس بحث کو اس کتاب میں بڑی دلچسپی کے ساتھ کامل اور قوی دلائل سے انجام تک پہنچایا ہے اور خدائے تعالیٰ نے اس تالیف میں میری وہ مدد کی ہے جو میں بیان نہیں کر سکتا اور میں بڑے دعوے اور استقلال سے کہتا ہوں کہ میں سچ پر ہوں اور خدائے تعالیٰ کے فضل سے اس میدان میں میری ہی فتح ہے اور جہاں تک میں دُور بین نظر سے کام لیتا ہوں تمام دنیا اپنی سچائی کے تحت اقدام دیکھتا ہوں اور قریب ہے کہ میں ایک عظیم الشان فتح پاؤں کیونکہ میری زبان کی تائید میں ایک اور زبان بول رہی ہے اور میرے ہاتھ کی تقویت کے لئے ایک اور ہاتھ چل رہا ہے جس کو دنیا نہیں دیکھتی مگر میں دیکھ رہا ہوں.میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے.جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے اور آسمان پر ایک جوش اور اُبال پیدا ہوا ہے جس نے ایک پُتلی کی طرح اس ُ مشتِ خاک کو کھڑا کردیاہے.ہر یک وہ شخص جس پر توبہ کا دروازہ بند نہیں عنقریب دیکھ لے گا کہ میں اپنی طرف سے نہیں ہوں.کیا وہ آنکھیں بینا ہیں جو صادق کو شناخت نہیں کر سکتیں.کیا وہ بھی زندہ ہے جس کو اس آسمانی صدا کا احساس نہیں.

Page 446

وقت و تاریخ نزُ ول مسیح موعُود حسب اقوال اکابر سلف و خلف ودیگر حالات منقولہ از کتاب اٰ ثارالقیامۃ مولوی سید صدیق حسن خاں صاحب مرحوم نے جن کو مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب مجدّد قرار دے چکے ہیں.اپنی کتاب آثار القیامۃ کے صفحہ ۳۹۵ میں بتصریح لکھا ہے کہ ظہور مہدی اور نزول عیسیٰ اور خروج دجّال ایک ہی صدی میں ہو گا.پھر لکھا ہے کہ امام جعفر صادق کی یہ پیشگوئی تھی کہ سن دو سو ہجری میں مہدی ظہور فرمائے گا لیکن وہ برس تو گذر گئے اور مہدی ظاہر نہ ہوا.اگر اس پیشگوئی کی کسی کشف یا الہام پر بناء تھی تو تاویل کی جائیگی یا اس کشف کو غلط ماننا پڑے گا.پھر بیان کیا ہے کہ اہل سُنّت کا یہی مذہب ہے کہ اَ لْاٰیَاتُ بَعْدَ الْمِأَتَیْن یعنی بارہ سو برس کے گذرنے کے بعد یہ علامات شروع ہوجائیں گی اور مہدی اور مسیح اور دجّال کے نکلنے کا وقت آجائے گا.پھر نعیم بن حماد کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ ابو قبیل کا قول ہے کہ سن بارہ سو چار ہجری میں مہدی کا ظہور ہو گا.لیکن یہ قول بھی صحیح نہ نکلا.پھر بعد اس کے شاہ ولی اللہ صاحب محدّث دہلوی کا ایک کشف لکھتے ہیں کہ ان کو تاریخ ظہور مہدی کشفی طورپر چراغ دین کے لفظ میں بحساب جمل منجانب اللہ معلوم ہوئے تھے یعنی ۱۲۶۸.پھر لکھتے ہیں کہ یہ سال بھی گذر گئے اور مہدی کا دنیا میں کوئی نشان نہ پایا گیا.اس سے معلوم ہوا کہ شاہ ولی اللہ کا یہ کشف یا الہام صحیح نہیں تھا.میں کہتا ہوں کہ صرف مقررہ سالوں کا گزرجانا اس کشف کی غلطی پر دلالت نہیں کرتا ہاں غلط فہمی پر دلالت کرتا ہے.

Page 447

کیونکہ پیشگوئیوں کے اوقات معیّنہ قطعی الدلالت نہیں ہوتے.بسا اوقات ان میں ایسے استعارات بھی ہوتے ہیں کہ دن بیان کئے جاتے ہیں اور اُن سے برس مراد لئے جاتے ہیں.پھر قاضی ثناء اللہ پانی پتی کے رسالہ سیف مسلول کا حوالہ دے کر لکھتے ہیں کہ رسالہ مذکورہ میں لکھاہے کہ علماء ظاہری اور باطنی کا اپنے ظن اور تخمین سے اس بات پر اتفاق ہے کہ تیرھویں صدی کے اوائل میں ظہور مہدی کاہوگا.پھرلکھتے ہیں کہ بعض مشائخ اپنے کشف سے یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ مہدی کا ظہور بارہ سو برس سے پیچھے ہوگا اور تیرھویں صدی سے تجاوز نہیں کریگا.پھر لکھتے ہیں کہ یہ سا ل تو گذر گئے اور تیرھویں صدی سے صرف دس برس رہ گئے او ر ابتک نہ مہدی نہ عیسیٰ دنیا میں آئے.یہ کیا ہوا.پھر اپنی رائے لکھتے ہیں کہ میں بلحاظ قرائن قویہ گمان کرتا ہوں کہ چودھویں صدی کے سر پر اُن کا ظہور ہوگا.پھرلکھتے ہیں کہ قرائن یہ ہیں کہ تیرھویں صدی میں دجّالی فتنے بہت ظہور میں آگئے ہیں اور اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح نمودار ہو رہے ہیں اور اس تیرھویں صدی کا فتن و آفات کا ایک مجموعہ ہونا ایک ایسا امر ہے کہ چھوٹے بڑے کی زبان پر جاری ہے.یہاں تک کہ جب ہم بچے تھے تو بڈھی عورتوں سے سنتے تھے کہ حیوانات نے بھی اس تیرھویں صدی سے پناہ چاہی ہے.پھر لکھتے ہیں کہ ہر چند یہ مضمون کسی صحیح حدیث سے ٹھیک ٹھیک معلوم نہیں ہوتا لیکن جب انقلاب عالم کا ملاحظہ کریں اور بنی آدم کے احوال میں جو فرق صریح آگیا ہے اس کو دیکھیں تو یہ ایک سچا گواہ اِس بات پر ملتا ہے کہ پہلے اس سے دنیا کا رنگ اس عنوان پر نہیں تھا سو اگرچہ مکاشفات مشائخ کے پورے بھروسہ کے لائق نہیں کیونکہ کشف میں خطا کا احتمال بہت ہے لیکن کہہ سکتے ہیں کہ اب وہ وقت قریب ہے جو مہدی اور عیسیٰ کا ظہور ہو.کیونکہ امارات صغریٰ بجمیعہا وقوع میں آگئی ہیں اور عالم میں ایک تغیر عظیم پایاجاتا ہے اور اہل عالم کی حالت نہایت درجہ پر بدل گئی ہے اور کامل درجہ کا ضعف اسلام پر وارد ہوگیا ہے.اور وہ حقیقت نورانیہ جس کا نام علم ہے وہ دنیا سے اُٹھ گئی ہے اور جہل بڑھ گیا ہے

Page 448

اور شائع ہوگیا ہے اور فسق و فجور کا بازار گرم ہے اور بغض اور حسد اور عداوت پھیل گئی ہے اور مال کی محبت حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے اور تحصیل اسباب معاش سے ہمتیں ہار گئیں اور دارآخرت سے بکلّی فراموشی ہوگئی اور کامل طورپر دنیا کو اختیار کیا گیا.سو یہ علامات بیّنہ اور امارات جلیہ اس بات پر ہیں کہ اب وہ وقت بہت نزدیک ہے.میں کہتا ہوں کہ مولوی صدیق حسن صاحب کا یہ کہنا کہ کسی صحیح حدیث سے مسیح کے ظہور کا کوئی زمانہ خاص ثابت نہیں ہوتا صرف اولیاء کے مکاشفات سے معلوم ہوتا ہے کہ غایت کا ر تیرھویں صدی کے اخیر تک اس کی حد ہے.یہ مولوی صاحب کی سراسر غلطی ہے اور آپ ہی وہ مان چکے ہیں کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہوگیا ہے کہ آدم کی پیدائش کے بعد عمر دنیا کی سات ہزار برس ہے اور اب عمر دنیا میں سے بہت ہی تھوڑی باقی ہے.پھر صفحہ ۳۸۵ میں لکھتے ہیں کہ ابن ماجہ نے انس سے یہ حدیث بھی لکھی ہے جس کو حاکم نے بھی مستدرک میں بیان کیا ہے کہ لا مھدی الّا عیسٰی ابن مریم یعنی عیسیٰ بن مریم کے سوا اور کوئی مہدی موعود نہیں.پھر لکھتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ مہدی کا آنا بہت سی حدیثوں سے ثابت ہوتاہے.میں کہتا ہوں کہ مہدی کی خبریں ضعف سے خالی نہیں ہیں اِسی وجہ سے امامین حدیث نے ان کو نہیں لیا.اور ابن ماجہ اور مستدرک کی حدیث ابھی معلوم ہو چکی ہے کہ عیسیٰ ہی مہدی ہے.لیکن ممکن ہے کہ ہم اس طرح پر تطبیق کردیں کہ جو شخص عیسیٰ کے نام سے آنے والا احادیث میں لکھا گیا ہے اپنے وقت کا وہی مہدی اور وہی امام ہے اور ممکن ہے کہ اس کے بعد کوئی اور مہدی بھی آوے اور یہی مذہب حضرت اسمٰعیل بخاری کا بھی ہے.کیونکہ اگر اُن کا بجُز اس کے کوئی اور اعتقاد ہوتا تو ضرور وہ اپنی حدیث میں ظاہر فرماتے.لیکن وہ صرف اسی قدر کہہ کر چُپ ہوگئے کہ ابن مریم تم میں اُترے گا جو تمہارا امام ہوگا اور تم میں سے ہی ہوگا.اب ظاہر ہے کہ امام وقت ایک ہی ہوا کرتا ہے.

Page 449

پھر صفحہ ۴۲۵ میں فرماتے ہیں کہ اِس بات پر تمام سلف و خلف کا اتفاق ہو چکا ہے کہ عیسیٰ جب نازل ہوگا تو اُمّت محمدیہ میں داخل کیاجائے گا.اور فرماتے ہیں کہ قسطلانی نے بھی مواہب لدنّیہ میں یہی لکھا ہے اور عجب تر یہ کہ وہ اُمّتی بھی ہوگا اور پھر نبی بھی.لیکن افسوس کہ مولوی صاحب مرحوم کو یہ سمجھ نہ آیا کہ صاحب نبوت تامہ ہرگز اُمتی نہیں ہو سکتا.اور جو شخص کامل طور پر رسول اللہ کہلاتا ہے وہ کامل طورپر دوسرے نبی کا مطیع اور اُمتی ہو جانا نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کے رو سے بکلّی ممتنع ہے اللہ جلَّ شَانُہٗ فرماتا ہے33 ۱؂ یعنی ہر یک رسول مطاع اور امام بنانے کے لئے بھیجا جاتاہے.اس غرض سے نہیں بھیجا جاتا کہ کسی دوسرے کا مطیع اور تابع ہو.ہاں محدّث جو مرسلین میں سے ہے اُمّتی بھی ہوتا ہے اور ناقص طور پر نبی بھی.اُمتی وہ اس وجہ سے کہ وہ بکلّی تابع شریعت رسول اللہ اور مشکٰوۃ رسالت سے فیض پانے والاہوتا ہے اور نبی اس وجہ سے کہ خدائے تعالیٰ نبیوں سامعاملہ اس سے کرتا ہے اور محدّث کا وجود انبیاء اور اُمم میں بطور برزخ کے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے وہ اگرچہ کامل طور پر اُمتی ہے مگر ایک وجہ سے نبی بھی ہوتا ہے اور محدث کے لئے ضرور ہے کہ وہ کسی نبی کا مثیل ہو اور خدائے تعالیٰ کے نزدیک وہی نام پاوے جو اس نبی کا نام ہے.اب سمجھنا چاہیئے کہ چونکہ مقدّر تھا کہ آخری زمانہ میں نصاریٰ اور یہود کے خیالاتِ باطلہ زہر ہلاہل کی طرح تمام دنیا میں سرایت کر جائیں گے اور نہ ایک راہ سے بلکہ ہزاروں راہوں سے اُن کا بداثر لوگوں پر پہنچے گا اورا س زمانہ کے لئے پہلے سے احادیث میں خبر دی گئی تھی کہ عیسائیت اور یہودیت کی بُری خصلتیں یہاں تک غلبہ کریں گی کہ مسلمانوں پر بھی اس کا سخت اثر ہوگا،مسلمانوں کا طریقہ،مسلمانوں کا شعار،مسلمانوں کی وضع بکلّی یہود و نصاریٰ سے مشابہ ہوجائے گی اور جو عادتیں یہود اور نصاریٰ کو پہلے ہلاک کر چکی ہیں وہی عادتیں اسباب تاثّر کے پیدا ہوجانے کیوجہ سے مسلمانوں میں آجائیں گی.

Page 450

یہ اِ س زمانہ کی طرف اشارہ ہے کہ جب عیسائی سوسائٹی جو یہودیت کی صفتیں بھی اپنے اندر رکھتی ہے، عام طور پر مسلمانوں کے خیالات،مسلمانوں کے عادات، مسلمانوں کے لباس، مسلمانوں کی طرز معاشرت پر اپنے جذبا ت کا اثر ڈالے.سو دراصل وہ یہی زمانہ ہے جس سے روحانیت بکلّی دور ہوگئی ہے خدائے تعالیٰ کو منظور تھا کہ اس زمانہ کے لئے کوئی ایسا مصلح بھیجے جو یہودیت اور عیسائیت کی زہرناک خصلتوں کو مسلمانوں سے مٹا دے.پس اُس نے ایک مصلح ابن مریم کے نام پر بھیج دیا تا معلوم ہو کہ جن کی طرف وہ بھیجا گیا ہے وہ بھی یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح ہو چکے ہیں.سو جہاں یہ لکھا ہے کہ تم میں ابن مریم اُترے گا وہاں صریح اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اُس وقت تمہاری ایسی حالت ہوگی جیسی مسیح ابن مریم کے مبعوث ہونے کے وقت یہودیوں کی حالت تھی.بلکہ یہ لفظ اسی اشارہ کی غرض سے اختیار کیاگیا ہے تا ہر یک کو خیال آجائے کہ خدائے تعالیٰ نے پہلے ان مسلمانوں کو جن میں ابن مریم کے اُترنے کا وعدہ دیا تھا یہودی ٹھہرا لیا ہے.افسو س کہ ہمارے علماء میں سے اس اشارہ کو کوئی نہیں سمجھتا اور یہودیوں کی طرح صرف ظاہر لفظ کو پکڑ کر بار بار یہی بات پیش کرتے ہیں کہ سچ مچ مسیح ابن مریم کا آنا ضروری ہے وہ ذرہ خیال نہیں کرتے کہ اگر کسی کو کہا جائے کہ تُو فرعون کی طرح بگڑ گیا ہے اب تیرے درست کرنے کے لئے موسیٰ آئے گا تو کیا اس عبارت کے یہ معنے ہوں گے کہ سچ مچ موسیٰ رسول اللہ جس پر توریت نازل ہوئی تھی پھر زندہ ہوکرآجائیں گے.ظاہر ہے کہ ہرگز یہ معنے نہیں ہو ں گے بلکہ ایسے قول سے مراد یہ ہو گی کہ کوئی مثیل موسیٰ تیرے درست کرنے کے لئے آئے گا.سو اسی طرح جاننا چاہیئے کہ احادیث نبویہ کا لب لباب اور خلاصہ یہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب تم آخری زمانہ میں یہودیوں کی طرح چال چلن خراب کر دو گے تو تمہارے درست کرنے کے لئے عیسیٰ ابن مریم آئے گا.یعنی جب تم اپنی شرارتوں کی وجہ سے یہودی بن جاؤ گے تو میں بھی عیسیٰ ابن مریم کسی کو

Page 451

بنا کر تمہاری طرف بھیجوں گا اور جب تم اشد سرکشیوں کی وجہ سے سیاست کے لائق ٹھہرجاؤ گے تو محمد ابن عبداللہ ظہور کرے گا جو مہدی ہے.واضح رہے کہ یہ دونوں وعدے کہ محمد بن عبداللہ آئے گا یا عیسیٰ ابن مریم آئے گا در اصل اپنی مراد ومطلب میں ہمشکل ہیں.محمد بن عبداللہ کے آنے سے مقصود یہ ہے کہ جب دنیا ایسی حالت میں ہوجائے گی جو اپنی درستی کے لئے سیاست کی محتاج ہوگی تو اُس وقت کوئی شخص مثیل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوکر ظاہر ہوگا اور یہ ضرور نہیں کہ درحقیقت اس کا نام محمد ابن عبداللہ ہو.بلکہ احادیث کا مطلب یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کے نزدیک اس کا نام محمد ابن عبد اللہ ہوگا.کیونکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مثیل بن کر آئے گا.اسی طرح عیسیٰ بن مریم کے آنے سے مقصود یہ ہے کہ جب عقل کی بداستعمالی سے دنیا کے لوگ یہودیوں کے رنگ پر ہوجائیں گے اور روحانیت اور حقیقت کو چھوڑ دیں گے اور خدا پرستی اور حُبِّ الٰہی دلوں سے اُٹھ جائے گی تو اُس وقت وہ لوگ اپنی روحانی اصلاح کے لئے ایک ایسے مصلح کے محتاج ہوں گے جو روح ا ور حقیقت اور حقیقی نیکی کی طرف ان کو توجہ دلاوے اور جنگ اور لڑائیوں سے کچھ واسطہ نہ رکھے اور یہ منصب مسیح ابن مریم کے لئے مسلّم ہے کیونکہ وہ خاص ایسے کام کے لئے آیاتھا اور یہ ضرور نہیں کہ آنے والے کانام درحقیقت عیسیٰ ابن مریم ہی ہو.بلکہ احادیث کا مطلب یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کے نزدیک قطعی طور پر اس کا نام عیسیٰ بن مریم ہے.جیسے یہودیوں کے نام خدائے تعالیٰ نے بندر اور سؤر رکھے اور فرما دیا 33 ۱؂ ایسا ہی اُس نے اِس اُمّت کے مفسد طبع لوگوں کو یہودی ٹھہرا کر اس عاجز کا نام مسیح ابن مریم رکھ دیا اور اپنے الہام میں فرما دیا جعلناک المسیح ابن مریم.پھر مولوی صدیق حسن صاحب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ عیسیٰ ابن مریم جب نازل ہوگا تو قرآن کریم کے تمام احکام حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ سے اُن پر کھولے جائیں گے یعنی وحی اُن پر نازل ہوا کرے گی.مگر وہ حدیث کی طرف رجوع نہیں کرے گا کیونکہ وحی کے

Page 452

ذریعہ سے قرآن کریم کی تفسیر اُن پر نازل ہوجائے گی جو حدیث سے مستغنی کر دے گی.پھر لکھتے ہیں کہ بعض کا یہ بھی خیال ہے کہ عیسیٰ ابن مریم جب نازل ہوگا تو محض اُمتی ہوگا ایک ذرّہ اس میں نبوت یا رسالت نہیں ہوگی.پھر لکھتے ہیں کہ حق یہ ہے کہ وہ اُمّتی بھی ہوگا اور نبی بھی.اور عام اُمتی لوگوں کی طرح متابعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اُس پر واجب کی جائیگی.اور جن باتوں پر اجماع اُمّت ہوچکا ہے وہ سب باتیں اُسے ماننی پڑیں گی.اور چونکہ معراج کی رات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کووہ دیکھ چکا ہے اس لئے وہ صحابہ میں بھی داخل ہے اور ایک صحابی ہے.مگر باتفاق سنت وجماعت تمام صحابہ سے ابو بکر درجہ ومرتبہ میں افضل ہے.پھر لکھتے ہیں کہ وہ باوجود نبی ہونے کے اُمتی کیوں بن گئے.اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ انہوں نے دعا کی تھی کہ خداوندا مجھے نبی آخرالزمان کی اُمّت میں داخل کر.اس لئے خدائے تعالیٰ نے انہیں باوجود نبوت کے اُمّتی بھی بنادیا.اور پھر صفحہ ۴۲۷ میں لکھتے ہیں کہ وہ وقت کے مجدّد ہوں گے اور اس اُمّت کے مجدّدوں میں سے شمار کئے جائیں گے.لیکن وہ امیر المومنین نہیں ہوں گے کیونکہ خلیفہ تو قریش میں سے ہونا چاہیئے مسیح ابن مریم کیوں کر اُن کا حق لے سکتا ہے.اس لئے وہ خلافت کا کوئی بھی کام نہیں کرے گا نہ جدال نہ قتال نہ سیاست بلکہ خلیفۂ وقت کا تابع اور محکوموں کی طرح آئے گا.اس جگہ بڑے شبہات یہ پیش آتے ہیں کہ جس حالت میں مسیح ابن مریم اپنے نزول کے وقت کامل طور پر اُمّتی ہوگا تو پھر وہ باوجود اُمّتی ہونے کے کسی طرح سے رسول نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ رسول اور اُمتی کا مفہوم متبائن ہے اور نیز خاتم النبیین ہوناہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی دوسرے نبی کے آنے سے مانع ہے.ہاں ایسا نبی جو مشکٰوۃ نبوت محمدؐیہ سے نور حاصل کرتا ہے اور نبوت تامہ نہیں رکھتا جس کو دوسرے لفظوں میں محدّث بھی کہتے ہیں وہ اس تحدید سے باہر ہے.کیونکہ وہ بباعث اتباع اورفنا فی الرسول

Page 453

ہونے کے جناب ختم المرسلین کے وجود میں ہی داخل ہے جیسے جُز کُل میں داخل ہوتی ہے لیکن مسیح ابن مریم جس پر انجیل نازل ہوئی جس کے ساتھ جبرائیل ؑ کابھی نازل ہونا ایک لازمی امر سمجھا گیا ہے کسی طرح اُمّتی نہیں بن سکتا.کیونکہ اُس پر اُس وحی کا اتباع فرض ہو گا جووقتًا فوقتًا اس پر نازل ہوگی جیسا کہ رسولوں کی شان کے لائق ہے اور جب کہ وہ اپنی ہی وحی کا متبع ہوا اور جونئی کتاب اس پر نازل ہوگی اُسی کی اُس نے پیروی کی تو پھر وہ اُمّتی کیوں کر کہلائے گا.اور اگر یہ کہو کہ جو احکام اُس پر نازل ہوں گے وہ احکام قرآنیہ کے مخالف نہیں ہوں گے تو میں کہتا ہوں کہ محض اس توارد کی وجہ سے وہ اُمّتی نہیں ٹھہر سکتا.صاف ظاہر ہے کہ بہت سا حصہ توریت کا قرآن کریم سے بکلّی مطابق ہے تو کیا نعوذ باللہ اس توارد کی وجہ سے ہمارے سید ومولیٰ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسیٰ کی اُمّت میں سے شمار کئے جائیں گے.توارد اور چیز ہے اور محکوم بن کر تابعدار ہوجانا اور چیز ہے.ہم ابھی لکھ چکے ہیں کہ خدائے تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ کوئی رسول دنیا میں مطیع اور محکوم ہوکر نہیں آتا بلکہ وہ مطاع اور صرف اپنی اس وحی کا متبع ہوتا ہے جو اس پر بذریعہ جبرائیل علیہ السلام نازل ہوتی ہے اب یہ سیدھی سیدھی بات ہے کہ جب حضرت مسیح ابن مریم نازل ہوئے اور حضرت جبرائیل لگا تار آسمان سے وحی لانے لگے اور وحی کے ذریعہ سے انہیں تمام اسلامی عقائد اور صوم اور صلٰوۃ اور زکٰوۃ اور حج اور جمیع مسائل فقہ کے سکھلائے گئے.تو پھر بہرحال یہ مجموعہ احکام دین کا کتاب اللہ کہلائے گا.اگر یہ کہو کہ مسیح کو وحی کے ذریعہ سے صرف اتنا کہا جائے گا کہ تُوقرآن پر عمل کر اور پھر وحی مدت العمر تک منقطع ہوجائے گی اور کبھی حضرت جبرئیل اُن پر نازل نہیں ہوں گے بلکہ وہ بکلّی مسلوب النبوت ہو کر اُمتیوں کی طرح بن جائیں گے تو یہ طفلانہ خیال ہنسی کے لائق ہے.ظاہر ہے کہ اگرچہ ایک ہی دفعہ وحی کانزول فرض کیا جائے اور صرف ایک ہی فقرہ حضرت جبرئیل لاویں اور پھر چُپ ہوجاویں یہ امر بھی ختم نبوت کامنافی ہے کیونکہ جب ختمیت کی مُہر ہی ٹوٹ گئی اور وحی رسالت پھر نازل ہونی شروع ہوگئی تو پھر تھوڑا یا بہت

Page 454

نازل ہونا برابر ہے.ہر یک دانا سمجھ سکتا ہے کہ اگر خدائے تعالیٰ صادق الوعد ہے اور جو آیت خاتم النبیین میں وعدہ دیا گیاہے اور جو حدیثوں میں بتصریح بیان کیا گیاہے کہ اب جبرائیل بعد وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ کے لئے وحی نبوت لانے سے منع کیا گیا ہے یہ تمام باتیں سچ اور صحیح ہیں تو پھر کوئی شخص بحیثیت رسالت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہرگز نہیں آسکتا.لیکن اگرہم فرض کے طور پر مان بھی لیں کہ مسیح ابن مریم زندہ ہو کر پھر دنیا میں آئے گا تو ہمیں کسی طرح اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ وہ رسول ہے اور بحیثیت رسالت آئے گا اور جبرئیل کے نزول اور کلام الٰہی کے اُترنے کا پھر سلسلہ شروع ہوجائے گا.جس طرح یہ بات ممکن نہیں کہ آفتاب نکلے اور اس کے ساتھ روشنی نہ ہو.اسی طرح ممکن نہیں کہ دنیا میں ایک رسول اصلاح خلق اللہ کے لئے آوے اور اس کے ساتھ وحی الٰہی اور جبرائیل نہ ہو.علاوہ اس کے ہر یک عاقل معلوم کر سکتا ہے کہ اگر سلسلہ نزول جبرائیل اور کلام الٰہی کے اُترنے کا حضرت مسیح کے نزول کے وقت بکلّی منقطع ہوگا تو پھر وہ قرآن شریف کو جو عربی زبان میں ہے کیوں کر پڑھ سکیں گے.کیا نزول فرماکر دوچار سال تک مکتب میں بیٹھیں گے اور کسی مُلّا سے قرآن شریف پڑھ لیں گے.اگرفرض کر لیں کہ وہ ایسا ہی کریں گے تو پھر وہ بغیر وحی نبوت کے تفصیلات مسائل دینیہ مثلًا نماز ظہر کی سُنت جو اتنی رکعت ہیں اور نماز مغرب کی نسبت۱؂ جو اتنی رکعات ہیں اور یہ کہ زکوٰۃ کن لوگوں پر فرض ہے.اور نصاب کیاہے کیوں کر قرآن شریف سے استنباط کر سکیں گے.اور یہ تو ظاہر ہوچکا ہے کہ وہ حدیثوں کی طرف رجوع بھی نہیں کریں گے.اور اگر وحی نبوت سے ان کو یہ تمام علم دیا جائے گا تو بلاشبہ جس کلام کے ذریعہ سے یہ تمام تفصیلات اُن کو معلوم ہوں گی وہ بوجہ وحی رسالت ہونے کے کتاب اللہ کہلائے گی.پس ظاہر ہے کہ اُن کے دوبارہ آنے میں کس قدرخرابیاں اور کس قدر مشکلات ہیں.منجملہ اُن کے یہ بھی کہ وہ بوجہ اس کے کہ وہ قوم کے قریشی نہیں ہیں کسی حالت میں امیر نہیں ہو سکتے.ناچار اُن کو کسی دوسرے امام اور امیر کی بیعت کرنی پڑے گی.بالخصوص جبکہ

Page 455

ایسا خیال کیاگیا ہے کہ اُن کے نزول سے پہلے محمد ابن عبداللہ مہدی کی بیعت میں سب داخل ہوچکیں گے تو اس صورت میں اور بھی یہ مصیبت پیش آئے گی کہ اُن کا مہدی کی بیعت سے تخلّف کرنا سخت معصیت میں داخل ہوگا.بلکہ وہ بموجب حدیث مَن شذَّ شُذَّ فِی النارِ ضرور مہدی کی بیعت کریں گے یا خلیفۂ وقت کے نہ ماننے کی وجہ سے اُن پر فتویٰ......لگ جائیگا.پھر اسی کتاب آثار القیامۃ کے صفحہ ۴۲۷میں لکھا ہے کہ ابن خلدون کا قول ہے کہ متصوفین نے اپنے کشف سے یہ گمان کیا ہے کہ سن سات سو تینتالیس میں خروج دجّال ہوگا.پھر لکھتے ہیں کہ یہ کشف بھی صحیح نہ نکلا.پھر لکھتے ہیں کہ یعقوب بن اسحاق کندی نے بھی کشف کی رُو سے چھ سو اٹھانوے سال نزول مسیح کے لئے دریافت کئے تھے مگر اس سے بھی بہت زیادہ مدّت گذر گئی لیکن اب تک مسیح نہ آیا.پھر لکھتے ہیں.کہ ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میں امید رکھتا ہوں کہ اگرمیری عمر کچھ لمبی ہوگی تو عیسیٰ بن مریم میرے ہی وقت میں ظہور کرے گا یعنی محمد بن عبد اللہ مہدی کا درمیان میں ہونا ضروری نہیں بلکہ امید سے بعید نہیں کہ میرے ہی وقت میں مسیح ابن مریم آجائے لیکن اگر میری عمر وفا نہ کرے تو جو شخص اس کو دیکھے میری طرف سے اس کو السلام علیکم کہہ دے.اس حدیث کو مسلم اور احمد نے بھی لکھا ہے.اس جگہ مولوی صدیق حسن صاحب لکھتے ہیں کہ اگر میرے جیتے جیتے حضرت مسیح آجائیں تو میری تمنّا ہے کہ حضرت خاتم المرسلین کا السلام علیکم میں اُن کو پہنچادُوں.مگر یہ سب تمنّا ہی تھی.خدائے تعالیٰ اُن پر رحم کرے.مجدّد الف ثانی صاحب نے ٹھیک لکھا ہے کہ جب مسیح آئے گا تو تمام مولوی اُن کی مخالفت پر آمادہ ہوجائیں گے اور خیال کریں گے کہ یہ اہل الرائے ہے اور اجماع کو ترک کرتا ہے اور کتاب اللہ کے معنے اُلٹاتا ہے.پھر لکھتے ہیں کہ عیسیٰ کی موت قبل از رفع کے بارے میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک یہ ہے کہ وہ موت کے بعد اُٹھایا گیاہے اور پھر بھی آکر مرے گا اِس لئے اُس کے لئے دوموتیں ہیں.اور ہر چند آیت وَ3 ۱؂ میں ادریس کی موت کا ذکر نہیں لیکن صحیح مذہب

Page 456

یہی ہے کہ وہ بھی موت کے بعد ہی اُٹھایا گیا تھا.پھر لکھتے ہیں کہ شیعہ کا یہ بھی قول ہے کہ آسمان سے آنیوالا عیسیٰ کوئی بھی نہیں درحقیقت مہدی کا نام ہی عیسیٰ ہے پھر بعد اس کے تحریر فرماتے ہیں کہ بعض صوفیوں نے اپنے کشف سے اسی کے مطابق اِس حدیث کے معنے کہ لَا مَھْدِی اِلّا عِیْسٰی یہ کئے ہیں کہ مہدی جو آنے والا ہے درحقیقت عیسیٰ ہی ہے کسی اَورعیسیٰ کی حاجت نہیں جو آسمان سے نازل ہو.اور صوفیوں نے اس طرح آخرالزمان کے مہدی کو عیسیٰ ٹھہرایا ہے کہ وہ شریعت محمدیہ کی خدمت کے لئے اُسی طرز اور طریق سے آئے گا جیسے عیسیٰ شریعت موسویہ کی خدمت اور اتباع کے لئے آیا تھا.پھر صفحہ ۴۳۱ میں لکھتے ہیں کہ احادیث سے ثابت ہے کہ عیسیٰ پر اس کے نزول کے بعد رسولوں کی طرح وحی نبوت نازل ہوتی رہے گی.جیسا کہ مسلم کے نزدیک نواس بن سمعان کی حدیث میں ہے کہ یقتل عیسی الدجال عند باب لد الشرقی فبینھما ھم کذالک اذ اوحی اللہ تعالٰی الٰی عیسی بن مریم یعنی جب عیسیٰ دجّال کو قتل کرے گا تو اس پر اللہ تعالیٰ وحی نازل کرے گا.پھرلکھتے ہیں کہ وحی کالانیوالا جبرائیل ہوگا کیونکہ جبرائیل ہی پیغمبروں پر وحی لاتا ہے.اس تمام تقریر سے معلوم ہوا کہ چالیس ۴۰ سال تک برابر جو مدّت توقف حضرت مسیح کی دنیا میں بعد دوبارہ آنے کے لئے قرار دی گئی ہے حضرت جبرائیل وحی الٰہی لے کر نازل ہوتے رہیں گے.اب ہریک دانشمند اندازہ کر سکتا ہے کہ جس حالت میں تیئیس برس میں تیس جزو قرآن شریف کی نازل ہوگئی تھیں تو بہت ضروری ہے کہ اس چالیس ۴۰ برس میں کم سے کم پچاس جزو کی کتاب اللہ حضرت مسیح پر نازل ہوجائے.اور ظاہر ہے کہ یہ بات مستلزم محال ہے کہ خاتم النبیین کے بعد پھر جبرائیل علیہ السلام کی وحی رسالت کے ساتھ زمین پر آمد و رفت شروع ہوجائے اور ایک نئی کتاب اللہ گو مضمون میں قرآن شریف سے توارد رکھتی ہو پیداہو جائے.اور جو امر مستلزم محال ہو وہ محال ہوتا ہے فتدبّر.

Page 457

اور اس انقلاب عظیم پر خوب غور سے نظر دوڑانی چاہیئے کہ چونکہ حضرت مسیح (اگر اُنکا نزول فرض کیا جائے) ایسی حالت میں آئیں گے کہ اُن کو شریعت محمدیہ سے جو غیرزبان میں ہے کچھ بھی خبر نہیں ہو گی اور وہ اس بات کے محتاج ہوں گے کہ قرآنی تعلیم پر اُن کو اطلاع ہو اور ان تفصیلات احکام دین پر بھی مطلع ہوجائیں جو احادیث کی رو سے معلوم ہوتے ہیں غرض شریعت محمدیہ کے تمام اجزاء پر خواہ وہ از قبیل عقائد ہیں یا از قسم عبادات یا از نوع معاملات یا ازقبیل قوانین قضاء وفصل مقدمات اطلاع پانا اُن کے لئے ضروری ہوگا اور یہ تو ممکن ہی نہیں کہ معمّر ہونے کی حالت میں ایک عمر خرچ کر کے دوسروں کی شاگردی کریں لہٰذا اُن کے لئے یہی لا بُدی اور ضروری ہے کہ جمیع اجزاء شریعت کے نئے سرے اُن پر نازل ہوں کیونکہ بجُز اس طریق کے استعلام مجہولات کے لئے اَور کوئی اُن کے لئے راہ نہیں.اور رسولوں کی تعلیم اور اعلام کے لئے یہی سُنت اللہ قدیم سے جاری ہے جو وہ بواسطہ جبرائیل علیہ السلام کے اور بذریعہ نزول آیات ربّانی اور کلام رحمانی کے سکھلائی جاتی ہیں اور جبکہ تمام قرآن کریم اور احادیث صحیحہ نبویہ نئے سرے معرفت جبرائیل علیہ السلام کے حضرت مسیح کی زبان میں ہی اُن پر نازل ہوجائے گی اور جیسا کہ احادیث میںآیا ہے ِ جزیہ وغیرہ کے متعلق بعض بعض احکام قرآن شریف کے منسوخ بھی ہو جائیں گے.تو ظاہر ہے کہ اس نئی کتاب کے اُترنے سے قرآن شریف توریت وانجیل کی طرح منسوخ ہوجائے گا اور مسیح کانیا قرآن جو قرآن کریم سے کسی قدر مختلف بھی ہوگا اجرا اورنفاذ پائے گا اور حضرت مسیح نماز میں اپنا قرآن ہی پڑھیں گے اور وہی قرآن جبرً ا قہرًا دوسروں کو بھی سکھلایاجائے گا.ا ور بظاہر معلو م ہوتا ہے کہ اس وقت یہ کلمہ بھی کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کسی قدر ترمیم و تنسیخ کے لائق ٹھہرے گا.کیونکہ جبکہ کل شریعت محمدؐیہ کی نعوذ باللہ (نقل کفرکفر نباشد) بیخ کنی ہوگئی اور ایک اَور ہی قرآن گو وہ ہمارے قرآن کریم سے کسی قدر مطابق ہی سہی آسمان سے نازل ہوگیا تو پھر کلمہ بھی ضرور واجب التبدیل ہوگا.بعض بہت

Page 458

منفعل ہوکر جواب دیتے ہیں کہ اگرچہ درحقیقت یہ صریح خرابیاں ہیں جن سے انکار نہیں ہو سکتا.مگر کیا کریں درحقیقت اِسی بات پر اجماع ہوگیاہے کہ حضرت مسیح رسول اللہ ہونے کی حالت میں نزول فرمائیں گے اور چالیس برس حضرت جبرائیل علیہ السلام ان پر نازل ہوتے رہیں گے.چنانچہ یہی مضمون حدیثوں سے بھی نکلتا ہے اس کے جواب میں مَیں کہتا ہوں کہ اس قدر تو بالکل سچ ہے کہ اگر وہی مسیح رسول اللہ صاحبِ کتاب آجائیں گے جن پر جبرائیل نازل ہواکرتا تھا تو وہ شریعت محمدیہ کے قوانین دریافت کرنے کے لئے ہرگز کسی کی شاگردی اختیار نہیں کریں گے بلکہ سُنّت اللہ کے موافق جبرائیل کی معرفت وحی الٰہی اُن پر نازل ہوگی اور شریعت محمدیہ کے تمام قوانین اور احکام نئے سرے اور نئے لباس اور نئے پیرایہ اور نئی زبان میں اُن پر نازل ہوجائیں گے اور اس تازہ کتاب کے مقابل پر جو آسمان سے نازل ہوئی ہے قرآن کریم منسوخ ہوجائیگا.لیکن خدائے تعالیٰ ایسی ذلّت اور رسوائی اِس اُمّت کے لئے اور ایسی ہتک اور کسر شان اپنے نبی مقبول خاتم الانبیاء کے لئے ہرگز روانہیں رکھے گا کہ ایک رسول کو بھیج کر جس کے آنے کے ساتھ جبرائیل کا آنا ضروری امر ہے اسلام کا تختہ ہی اُلٹا دیوے حالانکہ وہ وعدہ کر چکا ہے کہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی رسول نہیں بھیجاجائے گا.اور حدیثوں کے پڑھنے والوں نے یقینًا یہ بڑی بھاری غلطی کھائی ہے کہ صرف عیسیٰ یا ابن مریم کے لفظ کو دیکھ کر اس بات کو یقین کرلیا ہے کہ سچ مچ وہی ابن مریم آسمان سے نازل ہوجائے گا جو رسول اللہ تھا.اور اس طرف خیال نہیں کیا کہ اُس کا آنا گویا دین اسلام کا دنیا سے رخصت ہونا ہے یہ تو اجماعی عقیدہ ہوچکا.اور مسلم میں اِس بارہ میں حدیث بھی ہے کہ مسیح نبی اللہ ہونے کی حالت میں آئے گا.اب اگر مثالی طور پر مسیح یا ابن مریم کے لفظ سے کوئی اُمّتی شخص مرادہو جو محدثیت کا مرتبہ رکھتا ہوتو کوئی بھی خرابی لازم نہیں آتی.کیونکہ محدّث من وجہٍ نبی بھی ہوتا ہے مگر وہ ایسا نبی ہے جو نبوت محمدیہ کے چراغ سے روشنی حاصل کرتا ہے اور اپنی

Page 459

طرف سے براہ راست نہیں بلکہ اپنے نبی کے طفیل سے علم پاتا ہے جیسا کہ براہین احمدیہ کے صفحہ ۲۳۹ میں جو ایک الہام اس عاجز کا درج ہے وہ اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور وہ یہ ہے کل برکۃٍ من محمدٍ صلی اللّٰہ علیہ وسلم.فتبارک من عَلَّمَ وتَعَلَّمَ یعنی ہر یک برکت جو اس عاجز پر بہ پیرایہ الہام وکشف وغیرہ نازل ہورہی ہے وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل سے اور اُن کے توسط سے ہے پس اس ذات میں کثرت سے برکتیں ہیں جس نے سکھلایا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اُس میں بھی کثرت سے برکتیں ہیں جس نے سیکھا یعنی یہ عاجز.لیکن اگر واقعی اور حقیقی طورپر مسیح ابن مریم کا نازل ہونا خیال کیاجائے تو اس قدر خرابیاں پیش آتی ہیں جن کا شمار نہیں ہو سکتا اور اس بات کے سمجھنے کے لئے نہایت صریح اور صاف قرائن موجود ہیں کہ اس جگہ حقیقی طور پر نزول ہرگز مراد نہیں بلکہ ایک استعارہ کے لحاظ سے دوسرا استعارہ استعمال کیا گیاہے یعنی جبکہ اِس اُمّت کے لوگوں کو استعارہ کے طور پر یہود ٹھہرایا گیا اور اُن میں اِن تمام خرابیوں کا دخل کر جانا بیان کیاگیا جو حضرت مسیح ابن مریم کے وقت دخل کر گئی تھیں تو اسی مناسبت کے لحاظ سے یہ بھی کہا گیا کہ تمہاری اصلاح کے لئے اور تمہارے مختلف فرقوں کا فیصلہ کرنے کے لئے بطور حَکَم کے تم میں سے ہی ایک شخص بھیجا جائے گا جس کا نام مسیح یا عیسیٰ یا ابن مریم ہوگا.یہ اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ اُمّت ایسی ناکارہ اور نالائق اُمّت نہیں کہ صرف اپنے اندر یہی مادہ رکھتی ہو کہ اُن وحشی طبع یہودیوں کا نمونہ بن جائے جو حضرت مسیح کے وقت میں تھے بلکہ یہ مسیح بھی بن سکتی ہے.پس جس وقت بعض یہودی بن جائیں گے اُس وقت بعض مسیح ابن مریم بن کر آئیں گے تالوگوں کو معلوم ہو کہ یہ اُمّت مرحومہ جیسے ادنیٰ اور نفسانی آدمیوں کو اپنے گروہ میں داخل رکھتی ہے ایسا ہی اس گروہ میں وہ لوگ بھی داخل ہیں جن کو اُن کے کمالات کی وجہ سے عیسیٰ بن مریم یا موسیٰ بن عمران بھی کہہ سکتے ہیں اور دونوں قسم کی استعدادیں اِس اُمّت میں موجود ہیں.می تواند شد یہودی می تواند شد مسیح.واضح ہوکہ

Page 460

حضرت عیسیٰ ابن مریم بھی اِسی کام کے لئے آئے تھے اور اُس زمانہ میں آئے تھے جبکہ یہودیوں کے مسلمانوں کی طرح بہت فرقے ہوگئے تھے اور توریت کے صرف ظاہر الفاظ کو انہوں نے پکڑ لیا تھا اور روح اور حقیقت اس کی چھوڑ دی تھی اور نکمّی نکمّی باتوں پر جھگڑے برپا ہوگئے تھے اور باہم کمینگی اور کم حوصلگی کی وجہ سے بُغض اور حسد اور کینہ ان متفرق فرقوں میں پھیل گیا تھا.ایک کو دوسرا دیکھ نہیں سکتا تھا اور شیر اور بکری کی عداوت کی طرح ذاتی عداوتوں تک نوبت پہنچ گئی تھی اور بباعث اختلاف عقیدہ اپنے بھائیوں سے محبت نہیں رہی تھی بلکہ درندگی پھیل گئی تھی اور اخلاقی حالت بغایت درجہ بگڑ گئی تھی اور باہمی رحم اور ہمدردی بکلّی دور ہوگئی تھی.اور وہ لوگ ایسے حیوانات کی طرح ہو گئے تھے کہ حقیقی نیکی کو ہرگز شناخت نہیں کر سکتے تھے اور تباغض تحاسد کا بازار گرم ہوگیا تھا اور صرف چند رسوم اور عادات کو مذہب سمجھا گیا تھا.سو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اُمّت کو بشارت دی تھی کہ آخری زمانہ میں تمہار ا بھی یہی حال ہوگا.بہت سے فرقے تم میں نکل آئیں گے اور بہت سے متضاد خیالات پیداہوجائیں گے اور ایک گروہ دوسرے گروہ کو یہودیوں کی طرح کافر سمجھے گا اور اگر ننانوے وجوہ اسلام کے موجودہوں تو صرف ایک وجہ کو کفر کی وجہ سمجھ کر کافر ٹھہرایا جائے گا.سو باہمی تکفیر کی وجہ سے سخت نفرت اور بُغض اور عداوت باہم پیداہوجائے گی.اور بوجہ اختلاف رائے کے کینہ اور حسد اور درندوں کی سی خصلتیں پھیل جائیں گی اور وہ اسلامی خصلت جو ایک وجود کی طرح کامل اتحاد کو چاہتی ہے اور محبت اور ہمدردی باہمی سے پُر ہوتی ہے بکلّی تم میں سے دور ہوجائے گی اور ایک دوسرے کو ایسا اجنبی سمجھ لے گا کہ جس سے مذہبی رشتہ کا بکلّی تعلق ٹوٹ جائے گا اور ایک گروہ دوسرے کو کافر بنانے میں کوشش کرے گا جیسا کہ مسیح ابن مریم کی بعثت کے وقت یہی حال یہود کا ہورہا تھا اور اس اندرونی تفرقہ اور بُغض او ر حسد اور عداوت کی وجہ سے دوسری قوموں کی نظر میں نہایت درجہ کے حقیر اور ذلیل اور کمزورہوجائیں گے اور اس معکوس ترقی کی

Page 461

وجہ سے جو اندرونی جھگڑوں کی طفیل سے کمال کو پہنچے گی فنا کے قریب ہوجائیں گی اور کیڑوں کی طرح ایک دوسرے کو کھاجانے کا قصد کریں گے اور بیرونی حملوں کو اپنے پر وارد ہونے کے لئے موقعہ دیں گے.جیسا کہ اس زمانہ میں یہودیوں کے ساتھ ہوا جو اندرونی نفاقوں کی وجہ سے اُن کی ریاست بھی گئی اور قیصر کے تحت میں غلاموں کی طرح بسر کرنے لگے.سو خدائے تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ؐ کی معرفت فرمایا کہ آخری زمانہ میں ایسا ہی تمہارا حال ہوگا.تمہاری مذہبی عداوتیں اپنے ہی بھائیوں سے انتہاء تک پہنچ جائیں گے.بغض اور حسد اور کینہ سے بھرجاؤ گے.اس شامت سے نہ تمہاری دنیا کی حالت اچھی رہے گی نہ دین کی نہ انسانی اخلاق کی نہ خداترسی باقی رہے گی نہ حق شناسی.اور پورے وحشی اور ظالم اور جاہل ہوجاؤ گے اور وہ علم جو دلوں پر نیک اثر ڈالتا ہے تم میں باقی نہیں رہے گا.اور یہ تمام بے دینی اور ناخداترسی اور بے مہری پہلے ممالک مشرقیہ میں ہی پیدا ہوگی اور دجّال اور یاجوج ماجوج انہیں ممالک سے خروج کریں گے یعنی اپنی قوت اور طاقت کے ساتھ دکھلائی دیں گے.ممالک مشرقیہ سے مراد ملک فارس اور نجد اور ملک ہندوستا ن ہے.کیونکہ یہ سب ممالک زمین حجاز سے مشرق کی طرف ہی واقع ہیں اور ضرور تھا کہ حسب پیشگوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کفر اور کافری انہیں جگہوں سے قوت کے ساتھ اپنا جلوہ دکھاوے انہیں ممالک میں سے کسی جگہ دجّال خروج کرے اور انہیں میں مسیح بھی نازل ہو کیونکہ جو جگہ محل کفر اور فتن ہوجائے وہی جگہ صلاح اور ایمان کی بنا ڈالنے کے لئے مقرر ہونی چاہیئے سو ان ممالک مشرقیہ میں سے ہند جیسا زیادہ تر محل کفر اور فتن اور نفاق اور بُغض اورکینہ ہوگیا ہے.ایسا ہی وہ زیادہ تر اس بات کے لائق تھا کہ مسیح بھی اسی ملک میں ظہور کرے اور جیسا کہ سب سے اوّل آدم کے خروج کے بعد اسی ملک پر نظر رحم ہوئی تھی ایسا ہی آخری زمانہ میں بھی اسی ملک پر نظر رحم ہو.اور ہم اوپر بیان کر آئے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھلے کھلے طور پر اپنی اُمّت کے حق میں فرما دیا تھا کہ تم آخری زمانہ میں بکلّی یہودیوں کے

Page 462

قدم پر قدم رکھ کر یہودی بن جاؤ گے اور یہ بلائیں آخری زمانہ میں سب سے زیادہ مشرقی ملکوں میں پھیلیں گی یعنی ہندوستان وخراسان وغیرہ میں.تب اس یہودیت کی بیخ کنی کے لئے مسیح ابن مریم نازل ہوگا یعنی مامور ہو کر آئے گا.اور فرمایا کہ جیسا کہ یہ اُمّت یہودی بن جائے گی ایسا ہی ابن مریم بھی اپنی صورت مثالی میں اسی اُمّت میں سے پیدا ہوگا نہ یہ کہ یہودی تو یہ اُمّت بنی اور ابن مریم بنی اسرائیل میں سے آوے.ایساخیال کرنے میں سراسر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسر شان ہے اور نیز آیت 3 ۱؂ کے برخلاف.اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ متصوفین کے مذاق کے موافق صعود اور نزول کے ایک خاص معنے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ جب انسان خلق اللہ سے بکلّی انقطاع کرکے خدائے تعالیٰ کی طرف جاتاہے تو اس حالت کانام متصوفین کے نزدیک صعود ہے اورجب مامور ہو کر نیچے کو اصلاح خلق اللہ کے لئے آتا ہے تو اس حالت کا نام نزول ہے.اسی اصطلاحی معنے کے لحاظ سے نزول کا لفظ اختیار کیا گیا ہے اسی کی طرف اشارہ ہے جو اس آیت میں اللہ جلَّ شَانُہٗ فرماتا ہے3۲؂.اب اس تمام تحقیقات سے ظاہر ہے کہ رسول اللہ نے ابن مریم سے مراد وہ ابن مریم ہرگز نہیں لیا جو رسول اللہ تھے جس پر انجیل نازل ہوئی تھی.بلکہ اوّل استعارہ کے طورپر آخری زمانہ کے لوگوں کویہودی قرار دے کر اور اُن یہودیوں کا ہریک باب میں مثیل ٹھہرا کر جو حضرت مسیح ابن مریم کے وقت میں تھے پھر پہلے استعارہ کے مناسب حال ایک دوسری پیشگوئی بطور استعارہ کے فرما دی کہ جب تم ایسے یہودی بن جاؤ گے تو تمہارے حال کے مناسب حال ایسا ہے کہ ایک مسیح تم میں سے ہی تمہیں دیاجائے گا اور وہ تم میں حَکَم ہو گا اور تمہارے کینہ اور بُغض کو دور کردے گا.شیر او ر بکری کو ایک جگہ بٹھا دے گا اور سانپوں کی زہر نکال دے گا اور بچے تمہارے سانپوں اور بچھوؤں سے کھیلیں گے اور اُن کی زہر سے ضرر نہیں اُٹھاویں گے.یہ تمام اشارات اِسی بات کی طرف ہیں کہ جب مذہبی اختلافات

Page 463

دُور ہوجاویں گے تو یکدفعہ فطرتی محبت کا چشمہ جوش مارے گا اور تباغض اور تحاسد دُور ہوجائے گا اور تعصب کی زہریں نکل جائیں گی اور ایک بھائی دوسرے بھائی پر نیک ظن پیدا کرے گا.تب اسلام کے دن پھر سعادت اور اقبال کی طرف پھریں گے اور سب مل کر اس کوشش میں لگیں گے کہ اسلام کو بڑھایا جائے اور مسلمانوں کی کثرت ہوجیسا کہ آج کل یہ کوشش ہورہی ہے کہ مسلمانوں کو جہاں تک ممکن ہے کم کردیا جائے اور بد سرشت مولویوں کے حکم اور فتویٰ سے دین اسلام سے خارج کر دئے جائیں اور اگر ہزار وجہ اسلام کی پائی جائے تو اس سے چشم پوشی کر کے ایک بیہودہ اور بے اصل وجہ کفر کی نکال کر اُن کو ایسا کافر ٹھہرا دیا جائے کہ گویا وہ ہندوؤں اور عیسائیوں سے بد تر ہیں اور نہ صرف شرع کی بد استعمالی سے یہ جدّ وجہد شروع ہے.بلکہ ایسے مادہ کے لوگوں کو الہام بھی ہورہے ہیں کہ فلاں مسلم کافر ہے اور فلاں مسلم جہنمی ہے اور فلاں ایسا کفر میں غرق ہے کہ ہرگز ہدایت پذیر نہیں ہوگا.اور درندگی کے جوشوں کی وجہ سے لعنتوں پر بڑ ا زور دیا جاتا ہے اور لعنت بازی کے لئے باہم مسلمانوں کے لئے مباہلہ کے فتوے دئے جاتے ہیں.اور یہ سب ملاّ یا ُ یوں کہو کہ ایک دوسرے کو کھانیوالے کیڑے اس بات کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتے کہ مسلمانوں کے تمام مذاہب میں عام طور پر اختلافاتِ جُزئیہ جاری وساری ہیں اور کسی بات میں کوئی خطاپر ہے اور کسی بات میں کوئی.اب کیا یہ انسانیت ہے یا ہمدردی اور ترحم میں داخل ہے کہ طریق تصفیہ یہ ٹھہرایا جائے کہ تمام مسلمانوں کیا اَئمہ اَربعہ کے پَیرَو اور کیا محدثین کے پَیرو اور کیا متصوفین.اِن ادنیٰ ادنیٰ اختلافات کی وجہ سے مباہلہ کے میدان میں آکر ایک دوسرے پر لعنت کرنا شروع کر دیں.اب عقلمند سوچ سکتا ہے کہ اگر مباہلہ اور ملاعنہ کے بعد صاعقہ قہر الٰہی فرقہ مخطیہ پر ضروری الوقوع ہے تو کیا اس کا بجُز اس کے کوئی اَور نتیجہ ہوگا کہ یکدفعہ خدائے تعالیٰ تمام مسلمانوں کو ہلاک کردے گا اور اپنے اپنے اجتہادی خطا کی وجہ سے سب ہلاک کئے جائیں گے.یہ نادان کہتے ہیں کہ ابن مسعود نے جو مباہلہ کی درخواست کی تھی اس سے نکلتا ہے کہ مسلمانوں کا باہم مباہلہ

Page 464

جائز ہے مگر یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ ابن مسعود نے اپنے اس قول سے رجوع نہیں کیا تھا اورنہ یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ مباہلہ ہو کر مخطیوں پر یہ عذاب نازل ہوا تھا.حق بات یہ ہے کہ ابن مسعود ایک معمولی انسان تھا نبی اور رسول تو نہیں تھا.اُس نے جوش میں اگر غلطی کھائی تو کیا اس کی بات کو 3 ۱؂ میں داخل کیاجائے.صحابہ کے مشاجرات اور اختلافات پر نظر ڈالو جن کی بعض اوقات سیف وسنان تک نوبت پہنچ گئی تھی.حضرت معاویہ بھی تو صحابی ہی تھے جنہوں نے خطا پر جم کر ہزاروں آدمیوں کے خون کرائے.اگر ابن مسعود نے خطا کی تو کونسا غضب آگیا.اور بے شک اُس نے اگر جزئی اختلافات میں مباہلہ کی درخواست کی تو سخت خطا کی.جبکہ صحابی سے اور باتوں میں خطا ممکن ہے تو کیا پھرمباہلہ کی درخواست میں خطاممکن نہیں.ظاہر ہے کہ صحابہ میں کس قدر اختلافات واقع تھے.کوئی جسّاسہ والے دجّال کو معہود سمجھتا تھا اورکوئی قسم کھاکر کہتا تھا کہ ابن صیّاد ہی دجّال ہے.کوئی جسمانی معراج کا قائل تھا اور کوئی اس کو خواب بناتا تھا اورکوئی بعض سورتوں کو جیسے معوذتین قرآن شریف کی جزو سمجھتاتھا اور کوئی اس سے باہر خیال کرتا تھا.اب کیا یہ سارے سچ پر تھے اورجب ایک قسم کی کسی سے غلطی ہوئی تو دوسری قسم کی بھی ہو سکتی ہے.یہ کیا جہالت ہے کہ صحابی کو بکلّی غلطی اور خطا سے پاک سمجھاجائے اور اس کے مجر د اپنے ہی قول کو ایسا قبول کیاجائے جیسا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول قبول کرنا چاہیئے.مسلمانو! آؤ خدا سے شرماؤ اوریہ نمونہ اپنی مولویت اور تفقہ کا مت دکھلاؤ.مسلمان تو آگے ہی تھوڑے ہیں تم ان تھوڑوں کو اَور نہ گھٹاؤ اور کافروں کی تعداد نہ بڑھاؤ.اور اگر ہمارے کہنے کا کچھ اثر نہیں تو اپنی تحریرات مطبوعہ کو شرم سے دیکھو اور فتنہ انگیز تقریروں سے باز آؤ.

Page 465

قرآ ن شریف کی وہ تیس آیتیں جن سے مسیح ابن مریم کا فوت ہوناثابت ہوتا ہَے (۱) پہلی آیت.3 3 ۱؂ یعنی اے عیسیٰ میں تجھے وفات دینے والا ہوں اور پھر عزت کے ساتھ اپنی طرف اٹھانے والا اور کافروں کی تہمتوں سے پاک کرنے والا ہوں اور تیرے متبعین کو تیرے منکروں پر قیامت تک غلبہ دینے والا ہوں.(۲) دوسری آیت جو مسیح ابن مریم کی موت پر دلالت کرتی ہے یہ ہے 33 ۲؂ یعنی مسیح ابن مریم مقتول اورمصلوب ہو کر مردود اور ملعون لوگوں کی موت سے نہیں مرا.جیسا کہ عیسائیوں اور یہودیوں کا خیال ہے.بلکہ خدائے تعالیٰ نے عزت کے ساتھ اس کو اپنی طرف اٹھا لیا.جاننا چاہیئے کہ اس جگہ رفع سے مراد وہ موت ہے جو عزت کے ساتھ ہو.جیسا کہ دوسری آیت اس پر دلالت کرتی ہے وَ 33۳؂ یہ آیت حضرت ادریس کے حق میں ہے اور کچھ شک نہیں کہ اس آیت کے یہی معنے ہیں کہ ہم نے ادریس کو موت دے کر مکان بلند میں پہنچادیا.کیونکہ اگر وہ بغیر موت کے آسمان پر چڑ ھ گئے تو پھر بوجہ ضرورت موت جو ایک انسان کے لئے ایک لازمی امر ہے یہ تجویز کرنا پڑے گا کہ یا تو وہ کسی وقت اوپر ہی فوت ہوجائیں اور یا زمین پر آکر فوت ہوں.مگر یہ دونوں شق ممتنع ہیں.کیونکہ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ جسم خاکی موت کے بعد پھر خاک ہی میں داخل کیاجاتا ہے اور خاک ہی کی طرف عود کرتا ہے اور خاک ہی سے اس کا حشر ہوگا.اور ادریس کا پھر زمین پر آنا اوردوبارہ آسمان سے

Page 466

نازل ہونا قرآن اور حدیث سے ثابت نہیں.لہذا یہ امر ثابت ہے کہ رفع سے مراد اس جگہ موت ہے.مگر ایسی موت جو عزت کے ساتھ ہو.جیسا کہ مقربین کے لئے ہوتی ہے کہ بعد موت اُن کی روحیں علّیین تک پہنچائی جاتی ہیں 33 ۱؂.(۳) تیسر ی آیت جو حضرت عیسیٰ ابن مریم کے مرنے پر کھلی کھلی گواہی دے رہی ہے یہ ہے3 ۲؂ یعنی جب تُو نے مجھے وفات د ی تو تُو ہی اُن پر نگہبان تھا.ہم پہلے ثابت کر آئے ہیں کہ تمام قرآن شریف میں توفّٰی کے معنے یہ ہیں کہ روح کو قبض کرنا اور جسم کو بیکار چھوڑ دینا.جیسا کہ اللہ جلَّ شَانُہٗ فرماتا ہے کے3 3۳؂ اور پھر فرماتا ہے 33 ۴؂ اور پھر فرماتا ہے 3۵؂ اور پھر فرماتا ہے 33 (الجز و نمبر ۸ سورۃ الاعراف) ۶ ؂ اور پھر فرماتا ہے33۷؂.ایسا ہی قرآن شریف کے تیئیس مقام میں برابر توفّی کے معنے اماتت اور قبض روح ہے.لیکن افسوس کہ بعض علماء نے محض الحاد اور تحریف کی رُو سے اس جگہ تَوَفَّیْتَنِیْ سے مراد رَفَعْتَنِیْ لیا ہے اور اس طرف ذرہ خیال نہیں کیا کہ یہ معنے نہ صرف لغت کے مخالف بلکہ سارے قرآ ن کے مخالف ہیں.پس یہی تو الحاد ہے کہ جن خاص معنوں کا قرآن کریم نے اوّل سے آخر تک التزام کیاہے انکو بغیر کسی قرینہ قویہ کے ترک کردیا گیا ہے.توفی کا لفظ نہ صرف قرآن کریم میں بلکہ جابجا احادیث نبویہ میں بھی وفات دینے اور قبض روح کے معنوں پر ہی آتا ہے.چنانچہ جب میں نے غور سے صحاح سِتّہ کو دیکھا تو ہریک جگہ جو توفّی کا لفظ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مُنہ سے نکلا ہے یا کسی صحابی کے مُنہ سے تو انہیں معنوں میں محدود پایاگیا.میں دعوے سے کہتا ہوں کہ کسی ایک صحیح حدیث میں بھی کوئی ایسا توفّی کا لفظ نہیں ملے گا جس کے کوئی اَور معنے ہوں.میں نے معلوم کیا ہے کہ اسلام میں

Page 467

بطور اصطلاح کے قبض روح کے لئے یہ لفظ مقرر کیا گیا ہے تا روح کی بقاء پر دلالت کرے.افسوس کہ بعض علماء جب دیکھتے ہیں کہ توفّی کے معنے حقیقت میں وفات دینے کے ہیں تو پھر یہ دوسری تاویل پیش کرتے ہیں کہ آیت فلمّا توفّیتنی میں جس توفّی کا ذکر ہے وہ حضرت عیسیٰ کے نزول کے بعد واقع ہوگی.لیکن تعجب کہ وہ اس قدر تاویلات رکیکہ کرنے سے ذرہ بھی شرم نہیں کرتے.وہ نہیں سوچتے کہ آیت فلمّا توفیتنی سے پہلے یہ آیت ہے33 ۱؂ الخ اور ظاہر ہے کہ قَال کا صیغہ ماضی کا ہے اور اس کے اوّل اذ موجود ہے جو خاص واسطے ماضی کے آتا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ قصہ وقت نزول آیت زمانہ ماضی کا ایک قصہ تھانہ زمانہ استقبال کا اور پھر ایسا ہی جوجواب حضرت عیسیٰ کی طرف سے ہے یعنی 3وہ بھی بصیغہ ماضی ہے اور اس قصہ سے پہلے جو بعض دوسرے قصّے قرآن کریم میں اسی طرز سے بیان کئے گئے ہیں وہ بھی انہیں معنوں کے مؤید ہیں.مثلًا یہ قصہ3 ۲؂ کیا اس کے یہ معنے کرنے چاہیئے کہ خدائے تعالیٰ کسی استقبال کے زمانہ میں ملائکہ سے ایسا سوال کرے گا ماسوا اس کے قرآن شریف اس سے بھرا پڑا ہے اور حدیثیں بھی اس کی مصدّق ہیں کہ موت کے بعد قبل از قیامت بھی بطور باز پُرس سوالات ہواکرتے ہیں.(۴) چوتھی آیت جو مسیح کی موت پر دلالت کرتی ہے وہ یہ آیت ہے کہ 33.۳؂ اور ہم اسی رسالہ میں اس کی تفسیر بیان کر چکے ہیں.(۵) پانچویں یہ آیت ہے 33۴؂ (الجزو نمبر۶)یعنی مسیح صرف ایک رسول ہے اس سے پہلے نبی فوت ہوچکے ہیں اور ماں اس کی صدیقہ ہے جب وہ دونوں زندہ تھے تو طعام کھایا کرتے تھے.یہ آیت بھی صریح نص حضرت مسیح کی موت پر ہے کیونکہ اس آیت میں

Page 468

بتصریح بیان کیا گیاہے کہ اب حضرت عیسیٰ اور اُن کی والدہ مریم طعام نہیں کھاتے ہاں کسی زمانہ میں کھایا کرتے تھے جیسا کہ کَانَا کالفظ اس پر دلالت کررہاہے جو حال کو چھوڑکر گذشتہ زمانہ کی خبر دیتا ہے.اب ہر یک شخص سمجھ سکتا ہے کہ حضرت مریم طعام کھانے سے اسی وجہ سے روکی گئی کہ وہ فوت ہوگئی اور چونکہ کَانَا کے لفظ میں جو تثنیہ کا صیغہ ہے حضرت عیسیٰ بھی حضرت مریم کے ساتھ شامل ہیں اور دونوں ایک ہی حکم کے نیچے داخل ہیں لہٰذا حضرت مریم کی موت کے ساتھ اُن کی موت بھی ماننی پڑی کیونکہ آیت موصوفہ بالا میں ہرگز یہ بیان نہیں کیا گیا کہ حضرت مریم تو بوجہ موت طعام کھانے سے روکے گئے لیکن حضرت ابن مریم کسی اَور وجہ سے.اور جب ہم اس آیت مذکورہ بالا کو اس دوسری آیت کے ساتھ ملا کر پڑھیں کہ3 ۱؂ جس کے یہ معنے ہیں کہ کوئی ہم نے ایساجسم نہیں بنایا کہ زندہ تو ہو مگر کھانا نہ کھاتا ہو.تو اس یقینی اور قطعی نتیجہ تک ہم پہنچ جائیں گے کہ فی الواقعہ حضرت مسیح فوت ہوگئے کیونکہ پہلی آیت سے ثابت ہوگیا کہ اب وہ کھانا نہیں کھاتے اور دوسری آیت بتلا رہی ہے کہ جب تک یہ جسم خاکی زندہ ہے طعام کھانا اس کے لئے ضروری ہے.اس سے قطعی طورپر یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اب وہ زندہ نہیں ہیں.(۶) چھٹی آیت یہ ہے 3 ۲؂.اس آیت کا پہلی آیت کے ساتھ ابھی بیان ہوچکا ہے اور درحقیقت یہی اکیلی آیت کافی طور پر مسیح کی موت پر دلالت کررہی ہے کیونکہ جبکہ کوئی جسم خاکی بغیر طعام کے زندہ نہیں رہ سکتا یہی سُنّت اللہ ہے تو پھرحضرت مسیح کیونکر اب تک بغیرطعام کے زندہ موجود ہیں اور اللہ جلّ شانُہٗ فرماتا ہے 3 ۳؂.اور اگر کوئی کہے کہ اصحاب کہف بھی تو بغیر طعام کے زندہ موجود ہیں.تو میں کہتا ہوں کہ اُن کی زندگی بھی اس جہان کی زندگی نہیں.مسلم کی حدیث سو برس والی اُن کو بھی مار چکی ہے.بیشک ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ

Page 469

اصحاب کہف بھی شہداء کی طرح زندہ ہیں.اُن کی بھی کامل زندگی ہے.مگر وہ دنیا کی ایک ناقصہ کثیفہ زندگی سے نجات پاگئے ہیں.دنیا کی زندگی کیا چیز ہے اور کیا حقیقت.ایک جاہل اِسی کو بڑی چیز سمجھتا ہے اور ہر یک قسم کی زندگی کو جو قرآن شریف میں مذکور و مندرج ہے اِسی کی طرف گھسیٹتا چلاجاتا ہے.وہ یہ خیال نہیں کرتا کہ دنیوی زندگی تو ایک ادنیٰ درجہ کی زندگی ہے جس کے ارذل حصہ سے حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پناہ مانگی ہے اور جس کے ساتھ نہایت غلیظ اور مکروہ لوازم لگے ہوئے ہیں.اگر ایک انسان کو اس سفلی زندگی سے ایک بہتر زندگی حاصل ہوجائے اور سُنّت اللہ میں فرق نہ آوے تو اس سے زیادہ اور کونسی خوبی ہے.(۷) ساتویں آیت یہ ہے333 ۱؂ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک نبی ہیں ان سے پہلے سب نبی فوت ہوگئے ہیں.اب کیا اگر وہ بھی فوت ہوجائیں یامارے جائیں تو ا ن کی نبوت میں کوئی نقص لازم آئے گا جس کی وجہ سے تم دین سے پھرجاؤ.اس آیت کا ماحصل یہ ہے کہ اگر نبی کے لئے ہمیشہ زندہ رہنا ضروری ہے تو ایسانبی پہلے نبیوں میں سے پیش کرو جو اب تک زندہ موجود ہے اور ظاہر ہے.کہ اگر مسیح ابن مریم زندہ ہے تو پھر یہ دلیل جو خدائے تعالیٰ نے پیش کی صحیح نہیں ہوگی.(۸) آٹھویں آیت یہ ہے 3 3 ۲؂.یعنی ہم نے تجھ سے پہلے کسی بشر کو ہمیشہ زندہ اور ایک حالت پر رہنے والا نہیں بنایا.پس کیا اگر تُو مر گیا تویہ لوگ باقی رہ جائیں گے.اس آیت کا مدعا یہ ہے کہ تمام لوگ ایک ہی سُنّت اللہ کے نیچے داخل ہیں اور کوئی موت سے بچا نہیں اورنہ آئندہ بچے گا.اور ُ لغت کے رُو سے خلود کے مفہوم میں یہ بات داخل ہے کہ ہمیشہ ایک ہی حالت میں رہے.کیونکہ تغیّر موت اور زوال کی تمہید ہے پس نفی خلود سے ثابت ہوا

Page 470

کہ زمانہ کی تاثیر سے ہر یک شخص کی موت کی طرف حرکت ہے اور پیرانہ سالی کی طرف رجوع اور اس سے مسیح ابن مریم کا بوجہ امتداد زمانہ اور شیخ فانی ہوجانے کی باعث سے فوت ہوجانا ثابت ہوتا ہے.(۹)نویں آیت 333 ۱؂ یعنی اس وقت سے جتنے پیغمبر پہلے ہوئے ہیں یہ ایک گروہ تھا جو فوت ہوگیا.اُن کے اعمال اُن کے لئے اور تمہارے اعمال تمہارے لئے اوراُن کے کاموں سے تم نہیں پوچھے جاؤ گے.(۱۰) دسویں آیت 3 ۲؂.اس کی تفصیل ہم اسی رسالہ میں بیان کر چکے ہیں.اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ انجیلی طریق پر نماز پڑھنے کے لئے حضرت عیسیٰ کو وصیت کی گئی تھی اور وہ آسمان پر عیسائیوں کی طرح نماز پڑھتے ہیں اور حضرت یحییٰ ان کی نماز کی حالت میں اُن کے پاس یونہی پڑے رہتے ہیں مردے جو ہوئے.اور جب دنیا میں حضرت عیسیٰ آئیں گے تو برخلاف اس وصیت کے اُمّتی بنکر مسلمانوں کی طرح نماز پڑہیں گے.(۱۱) گیارھویں آیت33 ۳؂.اس آیت میں واقعات عظیمہ جو حضرت مسیح کے وجود کے متعلق تھے.صرف تین بیان کئے گئے ہیں.حالانکہ اگر رفع اور نزول واقعات صحیحہ میں سے ہیں تو ان کا بیان بھی ضروری تھا.کیا نعوذ باللہ رفع اور نزول حضرت مسیح کا مورد اور محل سلام الٰہی نہیں ہونا چاہیئے تھا.سو اس جگہ پر خدائے تعالیٰ کا اس رفع اورنزول کوترک کرنا جو مسیح ابن مریم کی نسبت مسلمانوں کے دلوں میں بساہوا ہے صاف اس بات پردلیل ہے کہ وہ خیال ہیچ اورخلاف واقعہ ہے بلکہ وہ رفع یوم اموت میں داخل ہے اور نزول سراسر باطل ہے.(۱۲) بارھویں آیت333 ۴؂.اس آیت میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ سُنّت اللہ دوہی طرح سے تم پر جاری ہے.

Page 471

بعض تم میں سے عمر طبعی سے پہلے ہی فوت ہوجاتے ہیں اوربعض عمر طبعی کو پہنچتے ہیں.یہاں تک کہ ارذل عمر کی طرف ردّ کئے جاتے ہیں اور اس حد تک نوبت پہنچتی ہے کہ بعد علم کے نادان محض ہوجاتے ہیں.یہ آیت بھی مسیح ابن مریم کی موت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان اگر زیادہ عمر پاوے تو دن بدن ارذل عمر کی طرف حرکت کرتا ہے یہاں تک کہ بچے کی طرح نادان محض ہوجاتا ہے اور پھر مرجاتا ہے.(۱۳) تیرھویں یہ آیت ہے 3۱؂ یعنی تم اپنے جسم خاکی کے ساتھ زمین پر ہی رہو گے یہاں تک کہ اپنے تمتع کے دن پورے کر کے مرجاؤ گے.یہ آیت جسم خاکی کو آسمان پر جانے سے روکتی ہے کیونکہ لَکُمْ جو اس جگہ فائدہ تخصیص کا دیتا ہے اس بات پر بصراحت دلالت کررہا ہے کہ جسم خاکی آسما ن پر جانہیں سکتا بلکہ زمین سے ہی نکلا اور زمین میں ہی رہے گا اور زمین میں ہی داخل ہوگا.(۱۴) چودھویں یہ آیت ہے 3 ۲؂.یعنی جس کو ہم زیادہ عمر دیتے ہیں تو اُس کی پیدائش کو اُلٹا دیتے ہیں.یعنی انسانیت کی طاقتیں اور قوتیں اس سے دور ہوجاتی ہیں.حواس میں اس کے فرق آجاتا ہے.عقل اس کی زائل ہوجاتی ہے.اب اگر مسیح ابن مریم کی نسبت فرض کیا جائے کہ اب تک جسم خاکی کے ساتھ زندہ ہیں تو یہ ماننا پڑے گاکہ ایک مدت دراز سے اُن کی انسانیت کے قویٰ میں بکلّی فرق آگیا ہوگا اور یہ حالت خود موت کوچاہتی ہے اور یقینی طور پر ماننا پڑتا ہے کہ مدت سے وہ مر گئے ہوں گے.(۱۵) پندرھویں آیت یہ ہے 3333 ۳؂.یعنی خدا وہ خدا ہے جس نے تمہیں ضعف سے پیدا کیا پھر ضعف کے بعد قوت دے دی.پھر قوت کے بعد ضعف اورپیرانہ سالی دی.یہ آیت بھی صریح طور پر اس بات پر دلالت کر رہی ہے

Page 472

کہ کوئی انسان اس قانون قدرت سے باہر نہیں اور ہر یک مخلوق اس محیط قانون میں داخل ہے کہ زمانہ اُس کی عمر پر اثر کر رہا ہے یہاں تک کہ تاثیر زمانہ کی سے وہ پیر فرتوت ہوجاتا ہے اورپھر مرجاتا ہے.(۱۶) سولہویں آیت یہ ہے.3333 ۱ ؂ الخ یعنی اس زندگی دنیا کی مثال یہ ہے کہ جیسے اس پانی کی مثال ہے جس کو ہم آسمان سے اتارتے ہیں پھر زمین کی روئیدگی اس سے مل جاتی ہے پھر وہ روئیدگی بڑھتی اور پھولتی ہے اور آخر کاٹی جاتی ہے.یعنی کھیتی کی طرح انسان پیدا ہوتا ہے اوّل کمال کی طرف رُخ کرتا ہے پھر اس کا زوال ہوتا جاتا ہے کیا اس قانون قدرت سے مسیح باہر رکھا گیا ہے.(۱۷) سترھویں آیت3 ۲؂ الجزو نمبر ۱۸ سورۃ المومنون یعنی اول رفتہ رفتہ خدائے تعالیٰ تم کو کمال تک پہنچاتا ہے اور پھر تم اپنا کمال پور ا کرنے کے بعد زوال کی طرف میل کرتے ہو یہاں تک کہ مرجاتے ہو یعنی تمہارے لئے خدائے تعالیٰ کی طرف سے یہی قانون قدرت ہے کوئی بشر اس سے باہر نہیں.اے خداوند قدیر اپنے اس قانو ن قدرت کے سمجھنے کے لئے اِن لوگوں کو بھی آنکھ بخش جو مسیح ابن مریم کو اس سے باہر سمجھتے ہیں.(۱۸) اٹھارھویں آیت33 33 ۳؂ الجزونمبر ۲۳ سورۃ الزمر اِن آیات میں بھی مثال کے طورپر یہ ظاہر کیا ہے کہ انسان کھیتی کی طرح رفتہ رفتہ اپنی عمر کو پور ا کر لیتا ہے اور پھر مر جاتا ہے.

Page 473

(۱۹) اُنیسویں آیت یہ ہے الجزو نمبر ۱۸سورۃ الفرقان یعنی ہم نے تجھ سے پہلے جس قدر رسول بھیجے ہیں وہ سب کھانا کھایا کرتے تھے اور بازاروں میں پھرتے تھے.اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اب وہ تمام نبی نہ کھا نا کھاتے ہیں اورنہ بازاروں میں پھرتے ہیں اور پہلے ہم بہ نص قرآ نی ثابت کر چکے ہیں کہ دنیوی حیات کے لوازم میں سے طعام کاکھانا ہے سو چونکہ وہ اب تمام نبی طعام نہیں کھاتے لہٰذا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ سب فوت ہو چکے ہیں جن میں بوجہ کلمہ حصر مسیح بھی داخل ہے.(۲۰) بیسویں آیت یہ ہےسورۃ النحل الجزو نمبر ۱۴ یعنی جولوگ بغیر اللہ کے پرستش کئے جاتے اورپکارے جاتے ہیں وہ کوئی چیز پیدا نہیں کرسکتے بلکہ آپ پیداشدہ ہیں.مرچکے ہیں زندہ بھی تو نہیں ہیں اور نہیں جانتے کہ کب اُٹھائے جائیں گے.دیکھو یہ آیتیں کس قدر صراحت سے مسیح اور اُن سب انسانوں کی وفات پر دلالت کر رہی ہیں جن کو یہود اور نصاریٰ اور بعض فرقے عرب کے اپنا معبود ٹھہرا تے تھے اور اُن سے دعائیں مانگتے تھے.اگر اب بھی آپ لوگ مسیح ابن مریم کی وفات کے قائل نہیں ہوتے تو سیدھے یہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ ہمیں قرآن کریم کے ماننے میں کلام ہے.قرآن کریم کی آیتیں سن کر پھر وہیں ٹھہر نہ جانا کیا ایمانداروں کاکام ہے.(۲۱) اکیسویں آیت یہ ہےیعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی مرد کاباپ نہیں ہے مگر وہ رسول اللہ ہے اور ختم کرنے والا نبیوں کا.یہ آیت بھی صاف دلالت کر رہی ہے کہ بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی رسول دنیا میں نہیں آئے گا.پس اس سے بھی بکمال وضاحت ثابت ہے کہ مسیح ابن مریم رسول اللہ دنیا میں آ نہیں سکتا.کیونکہ

Page 474

مسیح ابن مریم رسول ہے اور رسول کی حقیقت اور ماہیت میں یہ امر داخل ہے کہ دینی علوم کو بذریعہ جبرائیل حاصل کرے.اور ابھی ثابت ہو چکا ہے کہ اب وحی رسالت تا بقیامت منقطع ہے.اس سے ضروری طورپر یہ ماننا پڑتا ہے کہ مسیح ابن مریم ہرگز نہیں آئے گا اور یہ امر خود مستلزم اس بات کو ہے کہ وہ مر گیا.اور یہ خیال کہ پھر وہ موت کے بعد زندہ ہوگیا مخالف کو کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتا.کیونکہ اگر وہ زندہ بھی ہوگیا تا ہم اس کی رسالت جو اس کے لئے لازم غیر منفک ہے اس کے دنیا میں آنے سے روکتی ہے.ماسوا اس کے ہم بیان کر آئے ہیں کہ مسیح کا مرنے کے بعد زندہ ہونا اس قسم کا نہیں جیسا کہ خیال کیاگیاہے بلکہ شہداء کی زندگی کے موافق ہے جس میں مراتب قرب وکمال حاصل ہوتے ہیں.اس قسم کی حیات کا قرآن کریم میں جابجا بیان ہے.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان سے یہ آیت قرآن شریف میں درج ہے.یعنی وہ خدا جو مجھے مارتا ہے اور پھر زندہ کرتا ہے.اس موت اور حیات سے مراد صرف جسمانی موت اور حیات نہیں بلکہ اس موت اورحیات کی طرف اشارہ ہے جو سالک کو اپنے مقامات و منازل سلوک میں پیش آتی ہے.چنانچہ وہ خلق کی محبت ذاتی سے ماراجاتا ہے اور خالق حقیقی کی محبت ذاتی کے ساتھ زندہ کیاجاتا ہے اور پھر اپنے رفقاء کی محبت ذاتی سے ماراجاتا ہے اور رفیق اعلیٰ کی محبت ذاتی کے ساتھ زندہ کیاجاتا ہے.اور پھر اپنے نفس کی محبت ذاتی سے ماراجاتا ہے اور محبوب حقیقی کی محبت ذاتی کے ساتھ زندہ کیاجاتا ہے.اسی طرح کئی موتیں اس پر وارد ہوتی رہتی ہیں اور کئی حیاتیں.یہاں تک کہ کامل حیات کے مرتبہ تک پہنچ جاتا ہے سو وہ کامل حیات جو ا س سفلی دنیا کے چھوڑنے کے بعد ملتی ہے وہ جسم خاکی کی حیات نہیں بلکہ اَور رنگ اور شان کی حیات ہے.قال اللّٰہ تعالٰی

Page 475

(۲۲) بائیسویں آیت یہ ہے 33 ۱؂ یعنی اگر تمہیں ان بعض امور کا علم نہ ہو جوتم میں پیدا ہوں تو اہل کتاب کی طرف رجوع کرو اور اُن کی کتابوں کے واقعات پر نظر ڈالو تا اصل حقیقت تم پر منکشف ہوجاوے.سو جب ہم نے موافق حکم اس آیت کے اہل کتاب یعنی یہود اور نصاریٰ کی کتابوں کی طرف رجوع کیا اور معلوم کرنا چاہا کہ کیا اگر کسی نبی گذشتہ کے آنے کا وعدہ دیا گیا ہو تو وہی آجاتا ہے یا ایسی عبارتوں کے کچھ اَور معنے ہوتے ہیں تو معلوم ہوا کہ اسی امر متنازعہ فیہ کا ہمشکل ایک مقدمہ حضرت مسیح ابن مریم آپ ہی فیصل کرچکے ہیں اور اُن کے فیصلہ کاہمارے فیصلہ کے ساتھ اتفاق ہے.دیکھو کتاب سلاطین وکتاب ملاکی نبی اور انجیل جو ایلیا کا دوبارہ آسمان سے اُترنا کس طور سے حضرت مسیح نے بیان فرمایا ہے.(۲۳) تیئیسویں آیت 3333۲؂ یعنی اے نفس بحق آرام یافتہ اپنے رب کی طرف واپس چلا آ.تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی.پھر اس کے بعد میرے اُن بندوں میں داخل ہوجا جودنیا کو چھوڑ گئے ہیں اور میرے بہشت کے اندرآ.اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ انسان جب تک فوت نہ ہوجائے گزشتہ لوگوں کی جماعت میں ہرگز داخل نہیں ہو سکتا.لیکن معراج کی حدیث جس کو بخاری نے بھی مبسوط طورپر اپنی صحیح میں لکھاہے ثابت ہو گیا ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم فوت شدہ نبیوں کی جماعت میں داخل ہے لہٰذا حسب دلا لت صریحہ اس نص کے مسیح ابن مریم کا فوت ہوجانا ضروری طور پر ماننا پڑا.اٰمنا بکتاب اللّٰہ القرآن الکریم وکفرنا بکلّ مایخالفہ‘.ایّھا الناس اتبعوا ما انزل الیکم من ربّکم ولا تتّبعوا من دونہٖ اولیآء.قد جاء تکم موعظۃ من ربّکم وشفاء لما فی الصدور.فاتبعوہ ولا تتّبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہٖ.

Page 476

(۲۴) چوبیسویں آیت یہ ہےالجز و نمبر ۲۱سورۃالروم.اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنا قانون قدرت یہ بتلاتا ہے کہ انسان کی زندگی میں صرف چار واقعات ہیں.پہلے وہ پیدا کیا جاتا ہے پھر تکمیل اور تربیت کے لئے روحانی اور جسمانی طورپررزق مقسوم اُسے ملتا ہے پھر اس پر موت وارد ہوتی ہے.پھر وہ زندہ کیاجاتا ہے.اب ظاہر ہے کہ ان آیات میں کوئی ایسا کلمہ استثنائی نہیں.جس کی رو سے مسیح کے واقعات خاصہ باہررکھے گئے ہوں حالانکہ قرآن کریم اول سے آخر تک یہ التزام رکھتا ہے کہ اگر کسی واقعہ کے ذکر کرنے کے وقت کوئی فرد بشرباہر نکالنے کے لائق ہو تو فی الفور اس قاعدہ کلیہ سے اس کو باہر نکال لیتا ہے یا اس کے واقعات خاصہ بیان کردیتا ہے.(۲۵) پچیسویں آیت یہ ہےالجزو نمبر ۲۷سورۃالرحمان.یعنی ہریک چیز جو زمین میں موجود ہے اور زمین سے نکلتی ہے وہ معرض فنا میں ہے یعنی دمبدم فنا کی طرف میل کر رہی ہے.مطلب یہ کہ ہر یک جسم خاکی کو نابود ہونے کی طرف ایک حرکت ہے اور کوئی وقت اس حرکت سے خالی نہیں.وہی حرکت بچہ کو جوان کر دیتی ہے اور جوان کو بڈھا اور بڈھے کو قبر میں ڈال دیتی ہے اور اس قانون قدرت سے کوئی باہر نہیں.خدائے تعالیٰ نے فَانٍ کا لفظ استعمال کیا یَفْنِیْ نہیں کہاتامعلوم ہو کہ فنا ایسی چیز نہیں کہ کسی آئندہ زمانہ میں یکدفعہ واقعہ ہوگی بلکہ سلسلہ فنا کا ساتھ ساتھ جاری ہے لیکن ہمار ے مولوی یہ گمان کر رہے ہیں کہ مسیح ابن مریم اسی فانی جسم کے ساتھ جس میں بموجب نص صریح کے ہر دم فنا کام کر رہی ہے بلا تغیّر وتبدّل آسمان پر بیٹھا ہے اور زمانہ اُس پر اثر نہیں کرتا.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بھی مسیح کو کائنات الارض میں سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا.

Page 477

اے حضرات مولوی صاحبان کہاں گئی تمہاری توحید اور کہاں گئے وہ لمبے چوڑے دعوے اطاعتِ قرآن کریم کے.ھل منکم رجل فی قلبہ عظمۃ القراٰن مثقال ذرّۃ ؟ (۲۶) چھبیسویں آیت 3333ٍ3 ۱؂ الجزو نمبر ۲۷سورۃالقمر.یعنی متقی لوگ جو خدائے تعالیٰ سے ڈر کر ہر یک قسم کی سر کشی کو چھوڑ دیتے ہیں وہ فوت ہونے کے بعد جنات اور نہرمیں ہیں صدق کی نشست گاہ میں بااقتدار بادشاہ کے پاس.اب ان آیات کی رو سے صاف ظاہر ہے کہ خدائے تعالیٰ نے دخول جنت اور مقعد صدق میں تلازم رکھا ہے یعنی خدائے تعالیٰ کے پاس پہنچنا اور جنت میں داخل ہونا ایک دوسرے کا لازم ٹھہرایا گیاہے.سو اگر رَافِعُکَ اِلَیَّ کے یہی معنے ہیں جو مسیح خدائے تعالیٰ کی طرف اٹھایا گیا تو بلاشبہ وہ جنت میں بھی داخل ہوگیا جیسا کہ دوسری آیت یعنے 3 ۲؂ جو رافعک الیّ کے ہم معنی ہے بصراحت اسی پر دلالت کررہی ہے.جس سے ثابت ہوتا ہے کہ خدائے تعالیٰ کی طرف اٹھائے جانا اور گزشتہ مقربوں کی جماعت میں شامل ہوجانا اور بہشت میں داخل ہوجانا یہ تینوں مفہوم ایک ہی آن میں پورے ہوجاتے ہیں.پس اس آیت سے بھی مسیح ابن مریم کافوت ہونا ہی ثابت ہوا.فالحمد للّٰہ الذی احق الحق وابطل الباطل ونصر عبدہ وایّد مامورہ.(۲۷)ستائیسویں آیت یہ ہے 33۳؂ یعنی جو لوگ جنّتی ہیں اور اُن کا جنّتی ہونا ہماری طرف سے قرار پاچکا ہے.وہ دوزخ سے دُور کئے گئے ہیں اور وہ بہشت کی دائمی لذّات میں ہیں.اس آیت سے مراد

Page 478

حضرت عزیز اور حضرت مسیح ہیں اور اُن کا بہشت میں داخل ہوجانا اس سے ثابت ہوتا ہے جس سے اُن کی موت بھی بپایہ ثبوت پہنچتی ہے.(۲۸) اٹھائیسویں آیت الجزو نمبر ۵.یعنی جس جگہ تم ہو اُسی جگہ موت تمہیں پکڑے گی اگرچہ تم بڑے مرتفع بُرجوں میں بودوباش اختیار کرو.اس آیت سے بھی صریح ثابت ہوتا ہے کہ موت اور لوازم موت ہر یک جگہ جسم خاکی پر واردہوجاتے ہیں.یہی سُنّت اللہ ہے اور اس جگہ بھی استثناء کے طورپرکوئی ایسی عبارت بلکہ ایک ایساکلمہ بھی نہیں لکھا گیا ہے جس سے مسیح باہر رہ جاتا.پس بلا شبہ یہ اشارۃ النص بھی مسیح ابن مریم کی موت پر دلالت کر رہے ہیں.موت کے تعاقب سے مراد زمانہ کا اثر ہے جو ضعف اور پیری یا امراض وآفات منجرہ الی الموت تک پہنچاتا ہے.اس سے کوئی نفس مخلوق خالی نہیں.(۲۹) انتیسویں آیت یعنی رسول جو کچھ تمہیں علم و معرفت عطا کرے وہ لے لو اور جس سے منع کرے وہ چھوڑ دو.لہذا اب ہم اس طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارہ میں کیا فرمایا ہے.سو پہلے وہ حدیث سنو جو مشکٰوۃ میں ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور وہ یہ ہے.وعنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اعمارامتی ما بین الستین الی السبعین واقلہم من یجوز ذالک رواہ الترمذی وابن ماجہ.یعنی اکثر عمریں میری اُمّت کی ساٹھ سے ستّر برس تک ہوں گی.اور ایسے لوگ کمتر ہوں گے جو ان سے تجاوز کریں.یہ ظاہر ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم اس اُمّت کے شمار میں ہی آگئے ہیں.پھر اتنا فرق کیونکرممکن ہے کہ اَور لوگ ستّر برس تک مشکل سے پہنچیں اور اُن کا یہ حال ہو کہ دو ہزار کے قریب ان کی زندگی کے برس گذر گئے اوراب تک مرنے میں

Page 479

نہیں آتے.بلکہ بیان کیا جاتا ہے کہ دنیا میں آکر پھر چالیس ۴۰ یا پینتالیس ۴۵ برس زندہ رہیں گے پھر دوسری حدیث مسلم کی ہے جو جابر سے روایت کی گئی ہے او ر وہ یہ ہے.وعن جابر قال سمعت النّبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول قبل ان یموت بشھرٍ تسئلونی عن الساعۃ وانّما علمھا عند اللّٰہ واقسم باللّٰہ ماعلی الارض من نفسٍ منفوسۃ یأتی علیہا ماءۃ سنۃ وھی حیۃ.رواہ مسلم.اور روایت ہے جابر سے کہا کہ سُنا میں نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے جو وہ قسم کھا کر فرماتے تھے کہ کوئی ایسی زمین پر مخلوق نہیں جو اس پر سو برس گذرے اور وہ زندہ رہے.اس حدیث کے معنے یہ ہیں کہ جو شخص زمین کی مخلوقات میں سے ہو وہ شخص سو برس کے بعد زندہ نہیں رہے گا.او ر ارض کی قید سے مطلب یہ ہے کہ تا آسمان کی مخلوقات اس سے باہر نکالی جائے.لیکن ظاہر ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم آسمان کی مخلوقات میں سے نہیں بلکہ وہ زمین کی مخلوقات اور ما علی الارض میں داخل ہیں.حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کوئی جسم خاکی زمین پر رہے تو فوت ہوجائے گا اور اگر آسمان پر چلاجائے تو فوت نہیں ہوگا.کیونکہ جسم خاکی کا آسمان پرجانا تو خود بموجب نص قرآن کریم کے ممتنع ہے.بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو زمین پر پید ا ہوا اور خاک میں سے نکلا وہ کسی طرح سو برس سے زیادہ نہیں رہ سکتا.(۳۰) تیسویں آیت یہ ہے.یعنی کفار کہتے ہیں کہ تُو آسمان پر چڑھ کر ہمیں دکھلا تب ہم ایما ن لے آویں گے.اِن کو کہہ دے کہ میرا خدا اس سے پا ک تر ہے کہ اس دارالابتلاء میں ایسے کھلے کھلے نشان دکھاوے اور میں بجز اس کے اور کوئی نہیں ہوں کہ ایک آدمی.اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ کفار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آسمان پر چڑھنے کا نشان مانگا تھااور انہیں صاف جواب ملا کہ یہ عادت اللہ نہیں کہ کسی جسم خاکی کو

Page 480

آسمان پر لے جاوے.اب اگر جسم خاکی کے ساتھ ابن مریم کا آسمان پرجانا صحیح مان لیاجائے تو یہ جواب مذکورہ بالا سخت اعتراض کے لائق ٹھہرجائے گا اور کلام الٰہی میں تناقض او ر اختلاف لازم آئے گا لہٰذا قطعی اور یقینی یہی امر ہے کہ حضرت مسیح بجسدہ العنصری آسمان پر نہیں گئے.بلکہ موت کے بعد آسمان پر گئے ہیں.بھلا ہم ان لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا موت کے بعد حضرت یحییٰ اور حضرت آدم اور حضرت ادریس اور حضرت ابراہیم اور حضرت یوسف وغیرہ آسمان پر اٹھائے گئے تھے یا نہیں.اگر نہیں اٹھائے گئے تو پھر کیوں کر معراج کی رات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن سب کو آسمانوں میں دیکھا اور اگر اٹھائے گئے تھے تو پھر ناحق مسیح ابن مریم کی رفع کے کیوں اَور طور پرمعنے کئے جاتے ہیں.تعجب کہ توفّی کا لفظ جو صریح وفات پر دلالت کرتا ہے جابجا اُنکے حق میں موجود ہے اور اٹھائے جانے کا نمونہ بھی بدیہی طور پر کھلا ہے کیونکہ وہ انہیں فوت شدہ لوگوں میں جاملے جو اُن سے پہلے اٹھائے گئے تھے.اور اگر کہو کہ وہ لوگ اٹھائے نہیں گئے تو میں کہتا ہوں کہ وہ پھر آسمان میں کیوں کر پہنچ گئے آخر اٹھائے گئے تبھی توآسمان میں پہنچے.کیا تم قرآ ن شریف میں یہ آیت نہیں پڑھتے وَ3 ۱؂.کیا یہ وہی رفع نہیں ہے جو مسیح کے بارہ میں آیا ہے ؟ کیا اس کے اٹھائے جانے کے معنے نہیں ہیں فَاَنّٰی تُصْرَفُوْنَ.حضرات غزنوی اور مولوی محی الدین صاحب کے الہامات کے بارے میں کچھ مختصر تحریر میاں عبد الحق صاحب غزنوی اور مولوی محی الدین صاحب لکھو والے اس عاجز کے حق میں لکھتے ہیں کہ ہمیں الہام ہوا ہے کہ یہ شخص جہنّمی ہے.چنانچہ عبد الحق صاحب کے الہام میں تو صریح سیصلٰی نارًا ذات لھبٍ موجود ہے او ر محی الدین صاحب کو یہ الہام ہو ا ہے

Page 481

کہ یہ شخص ایسا مُلحد اور کافر ہے کہ ہرگز ہدایت پذیر نہیں ہوگا.اور ظاہر ہے کہ جس کافر کا مآل کار کفر ہی ہو وہ بھی جہنمی ہی ہوتا ہے.غرض ان دونوں صاحبوں نے کہ خداانہیں بہشت نصیب کرے اس عاجز کی نسبت جہنم اور کفر کا فتوےٰ دے دیا اور بڑے زور سے اپنے الہامات کو شائع کر دیا.ہم اس جگہ ان صاحبوں کے الہامات کی نسبت کچھ زیادہ لکھنا ضروری نہیں سمجھتے.صرف اس قدر تحریر کرنا کافی ہے کہ الہام رحمانی بھی ہوتا ہے اور شیطانی بھی.اور جب انسان اپنے نفس اور خیال کو دخل دے کر کسی بات کے استکشاف کے لئے بطور استخارہ و استخبارہ وغیرہ کے توجہ کرتا ہے خاص کر اس حالت میں کہ جب اس کے دل میں یہ تمنا مخفی ہوتی ہے کہ میری مرضی کے موافق کسی کی نسبت کوئی بُرایا بھلا کلمہ بطور الہام مجھے معلوم ہو جائے تو شیطان اُس وقت اُس کی آرزو میں دخل دیتا ہے اور کوئی کلمہ اس کی زبان پر جاری ہو جاتا ہے اور دراصل وہ شیطانی کلمہ ہوتا ہے.یہ دخل کبھی انبیاء اور رسولوں کی وحی میں بھی ہو جاتا ہے مگر وہ بلا توقف نکا لاجاتا ہے.اسی کی طرف اللہ جلَّ شَانُہٗ قرآن کریم میں اشارہ فرماتا ہے 33الخ ۱؂ ایسا ہی انجیل میں بھی لکھا ہے کہ شیطان اپنی شکل نوری فرشتوں کے ساتھ بدل کر بعض لوگوں کے پاس آجاتا ہے.دیکھو خط دوم قرنتھیاں باب۱۱ آیت ۱۴.اور مجموعہ توریت میں سے سلاطین اول باب بائیس آیت انیس میں لکھاہے کہ ایک بادشاہ کے وقت میں چار سو نبی نے اس کی فتح کے بارہ میں پیشگوئی کی اور وہ جھوٹے نکلے اور بادشاہ کو شکست آئی بلکہ وہ اُسی میدان میں مر گیا.اس کا سبب یہ تھا کہ دراصل وہ الہام ایک ناپا ک روح کی طرف سے تھا نوری فرشتہ کی طرف سے نہیں تھا اور ان نبیوں نے دھوکاکھا کر ربّانی سمجھ لیا تھا.اب خیال کرنا چاہیئے کہ جس حالت میں قرآن کریم کی رُو سے الہام اور وحی میں دخل شیطان ممکن ہے اور پہلی کتابیں توریت اور انجیل اس دخل کی مصدّق ہیں اور اسی بناء پر

Page 482

الہام ولایت یا الہام عامہ مومنین بجُز موافقت و مطابقت قرآن کریم کے حجت بھی نہیں تو پھر ناظرین کے لئے غور کا مقام ہے کہ کیوں کر اور کن علامات بیّنہ سے میاں عبد الحق صاحب اور میاں محی الدین صاحب نے اپنے الہامات کو رحمانی الہامات سمجھ لیا ہے.اُن کے الہامات کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص عیسیٰ بن مریم کی وفات کا قائل ہو اور دنیا میں انہیں کا دوبارہ آنا تسلیم نہ کرے وہ کافر ہے.لیکن ناظرین اب اس رسالہ کو پڑھکر بطور حق الیقین سمجھ جائیں گے کہ درحقیقت واقعی امر جو قرآن شریف سے ظاہر ہو رہا ہے یہی ہے کہ سچ مچ حضرت مسیح ابن مریم فوت ہی ہو گئے اور فوت شدہ جماعت میں صدہا سال سے داخل ہیں.سو بڑی اور بھاری نشانی میاں محی الدین اور میاں عبد الحق کے شیطانی الہام کی یہ نکل آئی کہ اُن کے اس خیال کا قرآن شریف مکذّب ہے اور شمشیر برہنہ لے کرمقابلہ کر رہا ہے.اب اس سے یقینی طور پر ثابت ہوگیا کہ ابلیس مکّار نے کسی اندرونی مناسبت کی وجہ سے اِن دونوں صاحبوں کو استخارہ کے وقت جا پکڑا اور قرآن کریم کے منشاء کے بر خلاف اُن کو تعلیم دی.بھلا اگر اِن صاحبوں کے یہ الہامات سچے ہیں تو اب قرآن کریم کی رُو سے مسیح ابن مریم کا زندہ ہوناثابت کر کے دکھلاویں اور ہم دس یا بیس آیتوں کا مطا لبہ نہیں کرتے صرف ایک آیت ہی زندہ ہونے کے بارے میں پیش کر یں.اور جس فرشتہ نے اس عاجز کے جہنمی یا کافر ہونے کے بارے میں جھٹ پٹ ان کے کانوں تک دو تین فقرے پہنچا دئے تھے اب اُسی سے درخواست کریں کہ ہماری مدد کر.اور کچھ شک نہیں کہ اگر وہ الہام خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہے تو کم سے کم تیس ۳۰ آیت حضرت عیسیٰ کے زندہ ہونے کے بارے میں فی الفور القاء ہوجائیں گی کیونکہ ہم نے بھی تو تیس ۳۰ آیت اُن کے مرنے کے ثبوت میں پیش کی ہیں.لیکن یا درکھنا چاہیئے کہ یہ لوگ ایک بھی آیت پیش نہیں کر سکیں گے.کیونکہ اُن کے الہامات شیطانی ہیں اور حزب شیطان ہمیشہ مغلوب ہے.وہ بے چارہ لعنتوں کا مارا خود کمزور اور ضعیف ہے

Page 483

پھر دوسروں کی کیا مد د کرے گا.ماسوا اس کے یہ بھی یاد رہے کہ رحمانی الہامات اپنے بابرکت نشانوں سے شناخت کئے جاتے ہیں.کوئی دعویٰ بغیر دلیل کے قبو ل کرنے کے لائق نہیں ہوتا.خداوند علیم وحکیم اس بات کو خوب جانتا ہے کہ اس عاجز نے صرف ایسی صورت میں اپنے الہامات کو منجانب اللہ سمجھاکہ جب صد ہا الہامی پیشگوئیاں روز روشن کی طرح پوری ہو گئیں.سو جو شخص اس عاجز کے مقابل پر کھڑاہو اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے الہامات کے منجانب اللہ ہونے کے اثبات میں میری طرح کسی قدر پیشگوئیاں بیان کرے.بالخصوص ایسی پیشگوئیاں جو فضل اور احسان باری تعالیٰ پر دلالت کرتی ہوں.کیونکہ مقبولین کی شناخت کے لئے ایسی ہی پیشگوئیاں عمدہ دلیل ہیں جو کسی آئندہ عنایات بیّنہ کا وعدہ دیتی ہوں.وجہ یہ کہ خدا تعالیٰ انہیں پر فضل واحسان کرتا ہے جن کو بنظرِعنایت دیکھتا ہے.جن پیشگوئیوں کی سچائی پر میری سچائی کا حصر ہے وہ یہ ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ تُو مغلوب ہو کر یعنی بظاہر مغلوبوں کی طرح حقیر ہوکر پھر آخر غالب ہوجائے گا اورانجام تیرے لئے ہوگا اور ہم وہ تمام بوجھ تجھ سے اتار لیں گے جس نے تیری کمر توڑ دی.خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے کہ تیری توحید تیری عظمت تیری کمالیت پھیلاوے خدا تعالیٰ تیرے چہرہ کو ظاہر کرے گااور تیرے سایہ کو لمبا کردے گا.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُسے قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچا ئی ظاہر کر دے گا.عنقریب اسے ایک ملک عظیم دیا جائے گا (یعنی اُس کو قبولیت بخشی جائے گی اور خلق کثیر کے دل اس کی طرف مائل کئے جائیں گے) اور خزائن اُس پر کھولے جائیں گے (یعنی خزائن معارف و حقائق کھولے جائیں گے کیونکہ آسمانی مال جو خدائے تعالیٰ کے خاص بندوں کو ملتا ہے جس کو وہ دنیا میں تقسیم کرتے ہیں.دنیا کا درہم و دینار نہیں بلکہ حکمت و معرفت ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے اس کی طرف اشارہ کرکے

Page 484

فرمایا ہے کہ یُؤْ333 ۱؂ خیر مال کوکہتے ہیں.سو پاک مال حکمت ہی ہے جس کی طرف حدیث نبوی میں بھی اشارہ ہے کہ انّما انا قاسم واللّٰہ ھو المُعطی.یہی مال ہے جو مسیح موعود کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے ) یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور تمہاری آنکھوں میں عجیب.ہم عنقریب تم میں ہی اور تمہارے اردگرد نشان دکھلاویں گے حجت قائم ہوجائے گی اور فتح کھلی کھلی ہوگی.کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک بھاری جماعت ہیں یہ سب بھاگ جائیں گے اور پیٹھ پھیرلیں گے اگرچہ لوگ تجھے چھوڑ دیں گے پرمیں نہیں چھوڑوں گا اور اگر لوگ تجھے نہیں بچائیں گے پر میں بچاؤں گا میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا اور قدرت نمائی سے تجھے اٹھاؤں گا اے ابراہیم تجھ پر سلام ہم نے تجھے خالص دوستی کے ساتھ چن لیا.خداتیرے سب کا م درست کردے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا تو مجھ سے ایسا ہے جیسی میری توحید اور تفرید.خدا ایسا نہیں جو تجھے چھوڑ دے.جب تک وہ خبیث کو طیّب سے جدا نہ کر ے.وہ تیرے مجد کو زیادہ کرے گا اور تیری ذرّیت کو بڑھائے گا اور من بعد تیرے خاندان کا تجھ سے ہی ابتداء قرار دیاجائے گا میں تجھے زمین کے کناروں تک عزت کے ساتھ شہرت دُوں گا اور تیرا ذکر بلند کروں گا اور تیری محبت دلوں میں ڈال دُوں گا.جعلناک المسیح ابن مریم (ہم نے تجھ کو مسیح ابن مریم بنایا ) ان کو کہہ د ے کہ میں عیسیٰ کے قدم پر آیا ہوں.یہ کہیں گے کہ ہم نے پہلوں سے ایسا نہیں سُنا.سوتُو ان کو جواب دے کہ تمہارے معلومات وسیع نہیں خدابہتر جانتا ہے.تم ظاہر لفظ اور ابہام پر قانع ہو اور اصل حقیقت تم پر مکشوف نہیں.جو شخص کعبہ کی بنیاد کو ایک حکمت الٰہی کا مسئلہ سمجھتا ہے وہ بڑا عقلمند ہے کیونکہ اس کو اسرار ملکوتی سے حصّہ ہے.ایک اولوالعزم پیدا ہوگا.وہ حسن اوراحسان میں تیرا نظیرہوگا وہ تیری ہی نسل سے ہو گا.فرزند دلبند گرامی ارجمند

Page 485

مظہر الحق والعُلاء کانّ اللّٰہ نزل من السماء.یاتی علیک زمان مختلف بازواج مختلفۃ وتریٰ نسلا بعیدا ولنحیینک حیٰوۃً طیّبۃ.ثمانین حولًا او قریبًا من ذالک.انک باعیننا سمیتک المتوکل یحمدک اللّٰہ من عرشہٖ.کذّبوا باٰیٰتنا وکانوا بھا یستھزء ون سیکفیکھم اللہ ویردھا الیک لا تبدیل لکلمات اللّٰہ ان ربک فعال لما یرید.یہ عبارت اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۷ ؁ ء کی پیشگوئی کی ہے.اب جس قدر میں نے بطور نمونہ کے پیشگوئیاں بیان کی ہیں.درحقیقت میرے صدق یا کذب کے آزمانے کے لئے یہی کافی ہے اور جو شخص اپنے تئیں ملہم قرار دے کر مجھے کاذب اور جہنمی خیال کرتا ہے اُس کے لئے فیصلہ کا طریق یہ ہے کہ وہ بھی اپنی نسبت چند ایسے اپنے الہا مات کسی اخبار وغیرہ کے ذریعہ سے شائع کرے جس میں ایسی ہی صاف اور صریح پیشگوئیاں ہوں.تب خود لوگ ظہور کے وقت اندازہ کر لیں گے کہ کون شخص مقبول الٰہی ہے اور کون مردودالہٰی.ورنہ صرف دعووں سے کچھ ثابت نہیں ہو سکتا.اور خدائے تعالیٰ کی عنایات خاصہ میں سے ایک یہ بھی مجھ پر ہے کہ اُس نے علم حقائق و معارف قرآنی مجھ کو عطا کیا ہے.اور ظاہر ہے کہ مطہرین کی علامتوں میں سے یہ بھی ایک عظیم الشان علامت ہے کہ علم معارف قرآن حاصل ہو.کیونکہ اللہ جلَّ شَانُہٗ فرماتا ہے لَا3 ۱؂ سوفریق مخالف پر بھی لازم ہے کہ جس قدر مَیں اب تک معارف قرآن کریم اپنی متفرق کتابوں میں بیان کر چکا ہوں.اس کے مقابل پر کچھ اپنے معارف کا نمونہ دکھلاویں اورکوئی رسالہ چھاپ کر مشتہر کریں تا لوگ دیکھ لیں کہ جودقائق علم و معرفت اہل اللہ کو ملتے ہیں.وہ کہاں تک اُن کو حاصل ہیں مگر بشرطیکہ کتابوں کی نقل نہ ہو.ناظرین پر واضح رہے کہ میاں عبد الحق نے مباہلہ کی بھی درخواست کی تھی.لیکن اب تک میں نہیں سمجھ سکتاکہ ایسے اختلافی مسائل میں جن کی وجہ سے کوئی فریق کا فر یا ظالم

Page 486

نہیں ٹھہر سکتا کیوں کر مباہلہ جائز ہے.قرآن کریم سے ظاہر ہے کہ مباہلہ میں دونوں فریق کا اس بات پر یقین چاہیئے کہ فریق مخالف میراکاذب ہے.یعنی عمدًا سچائی سے روگرداں ہے مخطی نہیں ہے.تا ہر یک فریق لعنت اللّٰہ علی الکاذبین کہہ سکے.اب اگر میاں عبد الحق اپنے قصور فہم کی وجہ سے مجھے کاذب خیال کرتے ہیں لیکن میں انہیں کاذب نہیں کہتا بلکہ مخطی جانتا ہوں اور مخطی مسلمان پر لعنت جائز نہیں.کیابجائے لعنت اللّٰہ علی الکاذبین یہ کہنا جائز ہے کہ لعنت اللہ علی المخطئین.کوئی مجھے سمجھا وے کہ اگر میں مباہلہ میں فریق مخالفِ حق پر لعنت کروں توکس طور سے کروں.اگر میں لعنت اللہ علی الکاذبین کہوں تو یہ صحیح نہیں کیونکہ میں اپنے مخالفین کو کاذب تو نہیں سمجھتا بلکہ ماوّل مخطی سمجھتا ہوں جو نصوص کو اُنکے ظاہر سے پھیرکر بلاقیام قرینہ باطن کی طرف لے جاتے ہیں اور کذب اس شے کانام ہے جو عمدًا اپنے بیان میں اس یقین کی مخالفت کی جائے جو دل میں حاصل ہے.مثلًا ایک شخص کہتا ہے کہ آج مجھے روزہ ہے اورخوب جانتا ہے کہ ابھی میں روٹی کھا کے آیا ہوں سو یہ شخص کاذب ہے.غرض کذب اور چیز ہے اور خطااَور چیز.اور خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ کاذبوں پر لعنت کرو.یہ تو نہیں فرماتا کہ مخطیوں پر لعنت کرو.اگر مخطی سے مباہلہ اورملاعنہ جائز ہوتا تو اسلام کے تمام فرقے جو باہم اختلاف سے بھرے ہوئے ہیں.بے شک باہم مباہلہ وملاعنہ کر سکتے تھے اور بلا شبہ اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ اسلام کا روئے زمین سے خاتمہ ہوجاتا.اور مباہلہ میں جماعت کا ہونا بھی ضروری ہے.نص قرآن کریم جماعت کو ضروری ٹھہراتی ہے.لیکن میاں عبد الحق نے اب تک ظاہر نہیں کیا کہ مشاہیر علماء کی جماعت اس قدر میرے ساتھ ہے جو مباہلہ کے لئے تیار ہے اور نساء ابناء بھی ہیں.پھر جب شرائط مباہلہ متحقق نہیں تومباہلہ کیونکرہو.اور مباہلہ میں یہ بھی ضرور ی ہوتاہے کہ اوّل ازالہ شبہات کیاجائے بجُز اس صورت کے کہ کاذب قرار دینے میں کوئی تامّل اور شبہ کی جگہ باقی نہ ہو.لیکن میاں عبد الحق بحث مباحثہ کاتونام تک بھی نہیں لیتے.

Page 487

ایک پُرانا خیال جو دل میں جما ہوا ہے کہ مسیح عیسیٰ ابن مریم آسمان سے نازل ہوں گے اِسی خیال کو اس طرح پر سمجھ لیا ہے کہ گویا سچ مچ حضرت مسیح ابن مریم رسول اللہ جن پر انجیل نازل ہوئی تھی کِسی زمانہ میں آسمان سے اُتریں گے حالانکہ یہ ایک بھاری غلطی ہے.جو شخص فوت ہوچکا اورجس کا فوت ہونا قرآن کریم کی تیس آیات سے بپایہ ثبوت پہنچ گیا وہ کہاں سے اب زمین پر آجائے گا.قرآن شریف کی آیات بیّنا ت محکمات کوکونسی حدیث منسوخ کردے گی.3 ۱؂ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ زندہ کرنے پر قادر ہے.مگر یہ قدرت اس کی وعدہ کے مخالف ہے.اُس نے صریح اور صاف لفظوں میں فرما دیا ہے کہ جولوگ مر گئے پھر دنیا میں نہیں آیا کرتے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے33 ۲؂ اور جیسا کہ فرماتا ہے3 ۳؂ الجزو نمبر ۱۸ یعنی تم مرنے کے بعد قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے اورجیسا کہ فرماتا ہے33 ۴؂ اور جیسا کہ فرماتا ہے وَ 3 ۵؂.اوراگر یہ کہو کہ معجزہ کے طور پر مردے زندہ ہوتے ہیں تو اس کا جوا ب یہ ہے کہ وہ حقیقی موت نہیں ہوگی بلکہ غشی یا نیند وغیرہ کی قسم سے ہو گی.کیونکہ مَاتَ کے معنے لغت میں نَامَ کے بھی ہیں دیکھو قاموس.غرض وہ موتٰی جو ایک دم کے لئے زندہ ہوگئے ہوں وہ حقیقی موت سے باہر ہیں.اور کوئی اِس بات کا ثبوت نہیں دے سکتا کہ کبھی حقیقی اور واقعی طور پر کوئی مردہ زندہ ہوگیا اور دنیا میں واپس آیا اور اپنا ترکہ مقسومہ واپس لیا اور پھر دنیا میں رہنے لگا اور خود موت کا لفظ قرآن کریم میں ذوالوجوہ ہے.کافر کانام بھی مردہ رکھا ہے.اور ہوا وہوس سے مرنا بھی ایک قسم کی موت ہے اور قریب الموت کا نام بھی میّت ہے.اور یہی تینوں وجوہ استعمال حیات میں بھی پائی جاتی ہیں.یعنی حیات بھی تین قسم کی ہیں.لیکن آیت 3 بیّنات محکمات میں سے ہے اورنہ صرف ایک آیت

Page 488

بلکہ اس قسم کی بہت سی آیات قرآن شریف میں موجود ہیں کہ جو مر گیا وہ ہرگز پھر دنیا میں واپس نہیں آئے گا.اور یہ تو ظاہر ہو چکا کہ حضرت مسیح فی الواقعہ فوت ہوچکے ہیں.پھر باوجود اس قرینہ صحیحہ بیّنہ کے اگر حدیثوں میں ابن مریم کے نزول کا ذکر آیا ہے تو کیا یہ عقلمند ی ہے کہ یہ خیال کیاجائے کہ وہی ابن مریم رسول اللہ آسمان سے اُتر آئے گا.مثلًادیکھئے کہ اللہ جلَّ شَانُہٗ سور ۂبقرۃ میں فرماتا ہے کہ اے بنی اسرائیل ہماری اس نعمت کو یادکرو کہ ہم نے آل فرعون سے تمہیں چھڑایا تھا جب وہ تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری بیٹیوں کو رکھ لیتے تھے اور وہ زمانہ یاد کرو جب دریا نے تمہیں راہ دیا تھا اور فرعون اس کے لشکر کے سمیت غرق کیا گیا تھا اور وہ زمانہ یاد کرو جب تم نے موسیٰ کو کہا تھا کہ ہم بغیر دیکھے خدا پر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے اور وہ زمانہ یاد کرو جب ہم نے تمہیں بدلی کا سایہ دیا اور تمہارے لئے من وسلویٰ اتارا اور وہ زمانہ یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد لیا اور کوہ طُور تمہارے سر کے اوپر ہم نے رکھا تھا پھر تم نے سرکشی اختیار کی.اور وہ زمانہ یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد لیا تھا کہ تم نے خون نہ کرنا اور اپنے عزیزوں کو اُن کے گھروں سے نہ نکالنا اور تم نے اقرار کر لیا تھا کہ ہم اس عہد پر قائم رہیں گے لیکن تم پھر بھی ناحق کا خون کرتے اور اپنے عزیزوں کو ان کے گھروں سے نکالتے رہے.تمہاری یہی عادت رہی کہ جب کوئی نبی تمہاری طرف بھیجا گیا تو بعض کو تم نے جھٹلا یا اور بعض کے درپے قتل ہوئے یا قتل ہی کردیا.اب فرمائیے کہ اگر یہ کلمات بطور استعارہ نہیں ہیں اور ان تمام آیات کو ظاہر پر حمل کرنا چاہیئے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ جو لوگ درحقیقت ان آیات کے مخاطب ہیں جن کو آل فرعون سے نجات د ی گئی تھی اور جن کودریا نے راہ دیا تھا اورجن پر من وسلویٰ اتارے گئے تھے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک زندہ ہی تھے

Page 489

یا مرنے کے بعد پھر زندہ ہو کر آگئے تھے.کیا آپ لوگ جب مسجدوں میں بیٹھ کر قرآن کریم کا ترجمہ پڑھاتے ہیں تو ان آیات کے معنے یہ سمجھا یاکرتے ہیں کہ اِن آیات کے مخاطبین ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد رسالت تک بقید حیات تھے یا قبروں سے زندہ ہو کر پھر دنیا میں آگئے تھے.اگر کوئی طالب علم آپ سے سوال کرے کہ اِن آیات کے ظاہر مفہوم سے تو یہی معنے نکلتے ہیں کہ مخاطب وہی لوگ ہیں جو حضرت موسیٰ اور دوسرے نبیوں کے وقت میں موجود تھے کیا اب یہ اعتقاد رکھاجائے کہ وہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں زندہ تھے یا زندہ ہوکر پھر دنیا میں آگئے تھے.تو کیا آپ کا یہی جواب نہیں کہ بھائی وہ تو سب فوت ہوگئے اور اب مجازی طورپر مخاطب اُن کی نسل ہی ہے جو اُن کے کاموں پر راضی ہے گویا انہیں کا وجود ہے یایوں کہو کہ گویا وہی ہیں.تواب سمجھ لو کہ یہی مثال ابن مریم کے نزول کی ہے.سُنّت اللہ اسی طرح پر ہے کہ مراتب وجود دَوری ہیں اور بعض کے ارواح بعض کی صورت مثالی لے کر اس عالم میں آتے ہیں اور روحانیت ان کی بکلّی ایک دوسرے پر منطبق ہوتی ہے.آیت 3 ۱؂ کو غور سے پڑھو اس بات کو خوب غور سے سوچنا چاہیئے کہ ابن مریم کے آنے کی اس اُمّت میں کیا ضرورت تھی اور یہ بات کس حکمت اور سرِّ مخفی پر مبنی ہے کہ ابن مریم کے آنے کی خبر دی گئی داؤد یا موسیٰ یا سلیمان کے آنے کی خبر نہیں دی گئی.اس کی کیا حقیقت ہے اور کیا اصل ہے اور کیابھید ہے.سو جب ہم عمیق نگاہ سے دیکھتے ہیں اور سطحی خیال کو چھوڑ کر غور کرتے کرتے بحر تدبّر اورتفکّر میں بہت نیچے چلے جاتے ہیں تو اس گہرا غوطہ مارنے سے یہ گوہرِ معرفت ہمارے ہاتھ آتا ہے کہ اس پیشگوئی کے بیان کرنے سے اصل مطلب یہ ہے کہ تا محمد مصطفےٰ حبیب اللہ اور موسیٰ کلیم اللہ میں جو عند اللہ مماثلت تامہ ہے اور اُن کی اُمّتوں پر جو احسانات حضرت احدیت متشابہ اور متشاکل طور پر واقع ہیں اُن کو بتصریح بپایہ ثبوت پہنچایا جائے.اور ظاہر ہے کہ موسوی شریعت کے آخری زمانہ میں بہت کچھ

Page 490

فسادیہودیوں میں واقع ہوگیا تھا اور انواع واقسام کے فرقے اُن میں پیدا ہوگئے تھے اور باہمی ہمدردی اور محبت اور حقوق اخوت سب دُور ہو کر بجائے اس کے تباغض و تحاسد اورکینہ اورعداوت باہمی پید ا ہو گئے تھے اور خدا تعالیٰ کی پرستش اورخوفِ الٰہی بھی اُن کے دلوں میں سے اُٹھ گیا تھا اور جھگڑے اور فساد اور دنیا پرستی کے خیالات اور انواع اقسام کے مکر زاہدوں اور مولویوں اور دنیا داروں میں اپنے اپنے طرز کے موافق پیدا ہوگئے تھے اوراُن کے ہاتھ میں بجائے مذہب کے صرف رسم اور عادت رہ گئی تھی.اورحقیقی نیکی سے بکلّی بے خبر ہو گئے تھے اور دلوں میں از حد سختی بڑھ گئی تھی.ایسے زمانہ میں خدائے تعالیٰ نے مسیح ابن مریم کو بنی اسرائیل کے نبیوں کا خاتم الانبیاء کر کے بھیجا.مسیح ابن مریم تلوار یا نیزہ کے ساتھ نہیں بھیجا گیا تھا اور نہ اس کو جہاد کا حکم تھا بلکہ صرف حجت اور بیان کی تلوار اس کو دی گئی تھی تا یہودیوں کی اندرونی حالت درست کرے اور توریت کے احکام پر دوبارہ اُن کوقائم کر دے.ایسا ہی شریعت محمدؐ یہ کے آخری زمانہ میں جو یہ زمانہ ہے اکثر مسلمانوں نے سراسر یہودیوں کا رنگ قبول کر لیا اور اپنے باطن کی رُو سے اُسی طرز کے یہودی ہوگئے جو حضرت مسیح کے وقت میں تھے.لہٰذا خدائے تعالیٰ نے تجدید احکام فرقان کریم کے لئے ایک شخص کو بعینہٖ مسیح ابن مریم کے رنگ پر بھیج دیا اور استعارہ کے طور پر اس کا نام بھی مسیح عیسیٰ ابن مریم رکھا.جیسا کہ حضرت عیسیٰ کا پورانام فرقان کریم میںیہی ہے.کماقال اللّٰہ تعالٰی 3333 ۱؂.سو چونکہ اس بات کا ظاہر کرنا منظور تھا کہ جب آخری زمانہ میں اس اُمّت میں فساد واقع ہو ا تو اِس اُمّت کو بھی ایک مسیح ابن مریم دیا گیا جیسا کہ حضر ت موسیٰ کی اُمّت کو دیا گیا تھا.لہٰذا یہ ضروری ہوا کہ اس آنے والے کانام بھی ابن مریم ہی رکھا جائے تا یہ احسان باری تعالیٰ کا ہر یک آنکھ کے سامنے آجائے او ر تا اُمّت موسویہ اوراُمّت محمدیہ میں ازرو

Page 491

مورد احسانات حضرت عزّت ہونے کے پوری پوری مماثلت ثابت ہوجائے.کیا یہ سچ نہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قریب القیامت لوگوں کا نام یہودی رکھا ہے پھر اگراُسی نبی نے ایسے شخص کانام ابن مریم رکھ دیا ہوجو اِن یہودیوں کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا ہو تو اس میں کونسی تعجب اورقباحت اور استبعاد کی بات ہے.بلاغت میں یہ قاعدہ ہوتا ہے کہ ایک فقرہ کے مناسب حال دوسرا فقرہ بیان کرنا پڑتا ہے.مثلًا جیسے کوئی کہے کہ تمام دنیا فرعون بن گئی ہے تو اس فقرہ کے مناسب حال یہی ہے کہ اب کوئی موسیٰ اُن کی اصلاح کے لئے آنا چاہیئے لیکن اگر اس طرح کہا جائے کہ تمام دنیا فرعون بن گئی ہے اُن کی اصلاح کے لئے اب عیسیٰ آنا چاہیئے توکیسا بُرا اور بے محل معلوم ہوتا ہے.کیونکہ فرعون کے ساتھ موسیٰ کا جوڑ ہے نہ عیسیٰ کا.اِسی طرح جب آخری زمانہ کی اُمّت محمدیہ کو یہودی قرار دیا اور یہودی بھی وہ یہودی جو شریعت موسوی کے آخری عہد میں تھے جن کے لئے حضرت مسیح بھیجے گئے تھے اور تمام خصلتیں اُن کی بیان کر دی گئیں اور بعینہٖ اُن کو یہودی بنا دیا تو کیا اس کے مقابل پر یہ موزوں نہ تھا کہ جب تم یہودی بن جاؤ گے تو تمہارے لئے عیسیٰ ابن مریم بھیجا جائے گا.دجّالیت حقیقت میںیہودیوں کا ہی ورثہ تھا اور اُن سے نصارےٰ کوپہنچا.اوردجّال اس گروہ کو کہتے ہیں جو کذّاب ہو.اور زمین کو نجس کرے اورحق کے ساتھ باطل کو ملا وے.سو یہ صفت حضرت مسیح کے وقت میں یہودیوں میں کمال درجہ پر تھی پھر نصاریٰ نے اُن سے لی.سو مسیح ایسی دجّالی صفت کے معدوم کرنے کے لئے آسمانی حربہ لے کر اُترا ہے وہ حربہ دنیا کے کاریگروں نے نہیں بنایا بلکہ وہ آسمانی حربہ ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے.اگریہ کہا جائے کہ مثیل موسےٰ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو موسیٰ سے افضل ہیں تو پھر مثیل مسیح کیوں ایک اُمّتی آیا.اس کا جواب یہ ہے کہ مثیل موسیٰ کی شان نبوت ثابت کرنے کے لئے اور خاتم الانبیاء کی عظمت دکھانے

Page 492

کے لئے اگر کوئی نبی آتا تو پھر خاتم الانبیاء کی شان عظیم میں رخنہ پڑتا.اور یہ تو ثابت ہے کہ اس مسیح کو اسرائیلی مسیح پر ایک جزئی فضیلت حاصل ہے کیونکہ اِس کی دعوت عام ہے اوراس کی خاص تھی اور اس کو طفیلی طورپر تمام مخالف فرقوں کے اوہام دور کرنے کے لئے ضروری طورپر وہ حکمت اور معرفت سکھلائی گئی ہے جو مسیح ابن مریم کو نہیں سکھلائی تھی کیونکہ بغیر ضرورت کے کوئی علم عطا نہیں ہوتا.وماننزّلہ اِلّا بقدرٍ معلوم.قرآن کریم کے رُو سے مثیل مسیح کا آخری زمانہ میں اس اُمّت میں آنا اس طور سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم اپنے کئی مقامات میں فرماتا ہے کہ اس اُمّت کو اسی طرز سے خلافت دی جائیگی اور اسی طرز سے اس اُمّت میں خلیفے آئیں گے جو اہل کتاب میں آئے تھے.اب ظاہر ہے کہ اہل کتاب کے خلفاء کا خاتمہ مسیح ابن مریم پر ہوا تھا جو بغیر سیف وسنان کے آیا تھا.مسیح درحقیقت آخری خلیفہ موسیٰ علیہ السلام کاتھا.لہٰذا حسب وعدہ قرآن کریم ضرورتھا کہ اس اُمّت کے خلفاء کا خاتمہ بھی مسیح پرہی ہوتا اورجیسے موسوی شریعت کا ابتداء موسیٰ سے ہوا اور انتہاء مسیح ابن مریم پر.ایسا ہی اس اُمّت کے لئے ہو.فَطُوْبٰی لِہٰذِہِ الْاُمَّۃِ.اور احادیث میں جو نزول مسیح ابن مریم کا لفظ ہے ہم اس میں بہ بسط تمام لکھ آئے ہیں کہ نزول کے لفظ سے درحقیقت آسمان سے نازل ہونا ثابت نہیں ہوتا.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کھلے کھلے طور پر قرآن شریف میں آیا ہے تو کیا اس سے یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آسمان سے ہی اُترے تھے بلکہ قرآن شریف میں یہ بھی آیت ہےیعنی دنیا کی تمام چیزوں کے ہمارے پاس خزانے ہیں مگر بقدر ضرورت و بمقتضائے مصلحت و حکمت ہم اُن کواُتارتے ہیں.اس آیت سے صاف طور پر ثابت ہواکہ ہر یک چیز جو دنیا میں پائی جاتی

Page 493

ہے وہ آسمان سے ہی اُتری ہے.اس طرح پر کہ اِن چیزوں کے علل موجبہ اُسی خالق حقیقی کی طرف سے ہیں اورنیز اس طرح پر کہ اُسی کے الہام اورالقاء اورسمجھانے اورعقل اورفہم بخشنے سے ہر یک صنعت ظہور میں آتی ہے لیکن زمانہ کی ضرورت سے زیادہ ظہور میں نہیں آتی اور ہریک مامور من اللہ کو وسعت معلومات بھی زمانہ کی ضرور ت کے موافق دی جاتی ہے.علیٰ ہذا القیاس قرآن کریم کے دقائق و معارف و حقائق بھی زمانہ کی ضرورت کے موافق ہی کھلتے ہیں.مثلًا جس زمانہ میں ہم ہیں اور جن معارف فرقانیہ کے بمقابل دجّالی فرقوں کی ہمیں اس وقت ضرورت آپڑ ی ہے وہ ضرورت اُن لوگوں کو نہیں تھی جنہوں نے اِن دجّالی فرقوں کا زمانہ نہیں پایا.سو وہ باتیں اُن پر مخفی رہیں اورہم پر کھولی گئیں.مثلًا اس بات کی انتظار میں بہت لوگ گذر گئے کہ سچ مچ مسیح ابن مریم ہی دوبارہ دنیا میں آجائے گا اور خدائے تعالیٰ کی حکمت اورمصلحت نے قبل از وقت اُن پر یہ راز نہ کھولا کہ مسیح کے دوبارہ آنے سے کیا مراد ہے.اب جو یہودیت کی صفتوں کا عام وبا پھیل گیا اور مسیح کے زندہ ماننے سے نصاریٰ کو اپنے مشرکانہ خیالات میں بہت سی کامیابی ہوئی.اس لئے خدائے تعالیٰ نے چاہا کہ اب اصل حقیقت ظاہرکرے.سو اس نے ظاہر کر دیا کہ مسلمانوں کا مسیح مسلمانوں میں سے ہی ہو گا جیسا کہ بنی اسرائیل کا مسیح بنی اسرائیل میں سے ہی تھا.اوراچھی طرح کھول دیا کہ اسرائیلی مسیح فوت ہو چکا ہے اوریہ بھی بیان کر دیا کہ فوت شدہ پھر دنیا میں آنہیں سکتا.جیسا کہ جابرؓ کی حدیث میں بھی مشکٰوۃ کے باب مناقب میں اسی کے مطابق لکھاہے اور وہ یہ ہے قا ل قد سبق القول منّی انّھم لا یرجعون.رواہ الترمذی یعنی جو لوگ دنیا سے گذر گئے پھر وہ دنیا میں نہیں آئیں گے.

Page 494

قرآن کریم کی شان بلند جو اُسی کے بیان سے ظاہرہوتی ہے وکل العلم فی القراٰن لٰکن تقاصر منہ افھام الرّجال جاننا چاہیئے کہ اس زمانہ میں اسباب ضلالت میں سے ایک بڑا سبب یہ ہے کہ اکثر لوگوں کی نظر میں عظمت قرآن شریف کی باقی نہیں رہی.ایک گروہ مسلمانوں کا ایسا فلاسفہ ضالّہ کا مقلّد ہوگیا کہ وہ ہر ایک امر کا عقل سے ہی فیصلہ کرنا چاہتے ہیں.اُن کابیان ہے کہ اعلیٰ درجہ کا حَکم جو تصفیہ تنازعات کے لئے انسان کو ملا ہے وہ عقل ہی ہے.ایسے ہی لوگ جب دیکھتے ہیں کہ وجود جبرائیل اورعزرائیل اور دیگر ملائکہ کرام جیسا کہ شریعت کی کتابوں میں لکھا ہے اور وجودجنت و جہنم جیسا کہ قرآن کریم سے ثابت ہوتاہے وہ تمام صداقتیں عقلی طور پر بپایۂ ثبوت نہیں پہنچتیں تو فی الفور اُ ن سے منکر ہوجاتے ہیں اور تاویلات رکیکہ شروع کر دیتے ہیں کہ ملائک سے صرف قوتیں مراد ہیں اور وحی رسالت صرف ایک ملکہ ہے اور جنت اور جہنّم صرف ایک روحانی راحت یا رنج کانام ہے.ان بے چاروں کو خبر نہیں کہ آلہ دریافت مجہولات صرف عقل نہیں ہے و بس.بلکہ اعلیٰ درجہ کی صداقتیں اورانتہائی مقام کے معارف تو وہی ہیں جو مبلغ عقل سے صدہادرجہ بلند تر ہیں جو بذریعہ مکاشفات صحیحہ ثابت ہوتی ہیں.اور اگر صداقتوں کا محک صرف عقل کو ہی ٹھہرایاجائے تو بڑے بڑے عجائبات کارخانہ الوہیت کے در پردۂ مستوری و محجوبی رہیں گے اور سلسلہ معرفت کا محض ناتمام اور ناقص اور ادھورا رہ جائے گا اور کسی حالت میں انسان شکوک اور شبہات سے مَخلصی نہیں پاسکے گا اور اس یک طرفہ معرفت کا آخری نتیجہ یہ ہو گا

Page 495

کہ بوجہ نہ ثابت ہونے بالائی رہنمائی کے اور بباعث نہ معلوم ہونے تحریکات طاقت بالا کے خود اس صانع کی ذات کے بارہ میں طرح طرح کے وساوس دلوں میں پیداہوجائیں گے سو ایسا خیال کہ خالق حقیقی کے تمام دقیق در دقیق بھیدوں کے سمجھنے کے لئے صرف عقل ہی کافی ہے کس قدر خام اور نا سعادتی پر دلالت کررہا ہے.اور ان لوگوں کے مقابل پر دوسرا گروہ یہ ہے کہ جس نے عقل کو بکلّی معطّل کی طرح چھوڑ دیا ہے.اورایسا ہی قرآن شریف کو بھی چھوڑ کر جو سرچشمہ تمام علوم الٰہیہ ہے صرف روایات و اقوال بے سرو پا کو مضبوط پکڑ لیا ہے.سو ہم اِن دونوں گروہ کو اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ قرآن کریم کی عظمت ونورانیت کا قدر کریں اور اس کے نور کی رہنمائی سے عقل کو بھی دخل دیں اور کسی غیر کا قول تو کیا چیز ہے اگر کوئی حدیث بھی قرآن کریم کے مخالف پاویں تو فی الفور اس کو چھوڑ دیں جیسا کہ اللہ جلَّ شَانُہٗ قرآن کریم میں آپ فرماتا ہے3 ۱؂ یعنی قرآن کریم کے بعد کس حدیث پر ایمان لاؤ گے.اور ظاہر ہے کہ ہم مسلمانوں کے پاس وہ نص جو اوّل درجہ پر قطعی اور یقینی ہے قرآن کریم ہی ہے.اکثر احادیث اگر صحیح بھی ہوں تو مفید ظن ہیں وَالظَّنُّ33مندرجہ ذیل صفات قرآن کریم کی غور سے پڑھو اور پھر انصافًا خود ہی کہو کہ کیا مناسب ہے کہ اس کلام کو چھوڑ کر کوئی اور ہادی یا حَکَم مقرر کیا جائے.اور وہ آیات یہ ہیں

Page 496

یعنی یہ قرآن ا س راہ کی طرف ہدایت کرتا ہے جو نہایت سیدھی ہے اِس میں اُن لوگوں کے لئے جو پرستا ر ہیں حقیقی پرستش کی تعلیم ہے اور یہ اُن کے لئے جو متقی ہیں کمالا ت تقویٰ کے یاد دلانے والا ہے یہ حکمت ہے جو کمال کو پہنچی ہوئی ہے اور یہ یقینی سچائی ہے اور اس میں ہریک چیز کا بیان ہے یہ نورٌ علٰی نور اور سینوں کو شفابخشنے والا ہے.رحمٰن نے قرآن کو سکھلایا.ایسی کتاب نازل کی جو اپنی ذات میں حق ہے اور حق کے وزن کرنے کے لئے ایک ترازو ہے وہ لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور اجمالی ہدایتوں کی اس میں تشریح ہے اور وہ اپنے دلائل کے ساتھ حق اور باطل میں فرق کرتا ہے اور وہ قول فصل ہے اور شک اور شبہ سے خالی ہے ہم نے اِس کو اس لئے تجھ پر اتارا ہے کہ تا امور متنازعہ فیہ کا اس سے فیصلہ کردیں اور مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت کا سامان طیارکر دیں.اِس میں وہ تمام صداقتیں موجود ہیں جو پہلی کتابوں میں متفرق اور پراگندہ طور پر موجود تھیں ایک ذرّہ باطل کا اس میں دخل نہیں نہ آگے سے اور نہ پیچھے سے.یہ لوگوں کے لئے روشن دلیلیں ہیں اور جویقین لانے والے ہوں اُن کے لئے ہدایت ورحمت ہے سو ایسی کونسی حدیث ہے جس پر تم اللہ اور اُس کی آیات کو چھوڑ کر ایمان لاؤ گے یعنی اگر کوئی حدیث قرآن کریم سے مخالف ہو تو ہرگز نہیں ماننی چاہیئے بلکہ ردّ کر دینی چاہیئے.ہاں اگر کوئی حدیث بذریعہ تاویل قرآن کریم کے بیان سے مطابق آسکے مان لینا چاہیئے.پھر بعد اس کے ترجمہ بقیہ آیا ت کا یہ ہے کہ اُن کو کہہ دے کہ خدائے تعالیٰ کے فضل ورحمت سے یہ قرآن ایک بیش قیمت مال ہے سو اس کو تم خوشی سے قبول کرو.یہ اُن مالوں سے اچھا ہے جو تم جمع کرتے ہو یہ اس بات

Page 497

کی طرف اشارہ ہے کہ علم اور حکمت کی مانند کوئی مال نہیں.یہ وہی مال ہے جس کی نسبت پیشگوئی کے طور پر لکھا تھا کہ مسیح دنیا میں آ کر اس مال کو اس قدرتقسیم کرے گا کہ لوگ لیتے لیتے تھک جائیں گے.یہ نہیں کہ مسیح درم و دینارکوجو مصداق آیت 3 ۱؂ ہے جمع کرے گا اور دانستہ ہر یک کومال کثیر دے کرفتنہ میں ڈال دے گا مسیح کی پہلی فطرت کو بھی ایسے مال سے مناسبت نہیں.وہ خو د انجیل میں بیان کرچکا ہے کہ مومن کا مال درم و دینار نہیں بلکہ جواہر حقائق و معارف اُس کا مال ہیں.یہی مال انبیاء خدائے تعالیٰ سے پاتے ہیں اور اِسی کو تقسیم کرتے ہیں.اسی مال کی طرف اشارہ ہے کہ اِنّما انا قاسم واللّٰہ ھو المُعطی.حدیثوں میں یہ بات بوضاحت لکھی گئی ہے کہ مسیح موعود اُس وقت دنیا میں آئے گا کہ جب علم قرآن زمین پر سے اُٹھ جائے گا اور جہل شیوع پا جائے گا.یہ وہی زمانہ ہے جس کی طرف ایک حدیث میں یہ اشارہ ہے لوکان الایمان معلّقًا عند الثریا لنالہ‘ رجل من فارس.یہ وہ زمانہ ہے جو اس عاجز پر کشفی طور پر ظاہر ہؤ ا جو کمال طغیان اس کا اس سن ہجری میں شروع ہوگا جو آیت3 3۲؂ میں بحساب جمل مخفی ہے یعنی ۱۲۷۴ ؁ھ.اس مقام کو غور سے دیکھو اورجلدی سے نکل نہ جاؤ.اور خدا سے دعا مانگو کہ وہ تمہارے سینوں کو کھول دے.آپ لوگ تھوڑے سے تامّل کے ساتھ یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ حدیثوں میں یہ وارد ہے کہ آخری زمانہ میں قرآن زمین سے اٹھا لیا جائے گا اور علم قرآن مفقود ہوجائے گا اور جہل پھیل جائے گا اور ایمانی ذوق اور حلاوت دلوں سے دورہوجائے گی.پھر ان حدیثوں میں یہ حدیث بھی ہے کہ اگر ایمان ثریّا کے پاس جا ٹھہرے گا یعنی زمین پر اس کا نام و نشان نہیں رہے گاتو ایک آدمی فارسیوں میں سے اپنا ہاتھ پھیلائے گا اور وہیں ثریا کے پا س سے اس کو لے لیگا

Page 498

اب تم خود سمجھ سکتے ہو کہ اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جب جہل اور بے ایمانی اور ضلالت جو دوسری حدیثوں میں دُخان کے ساتھ تعبیر کی گئی ہے دنیا میں پھیل جائے گی اور زمین میں حقیقی ایمانداری ایسی کم ہوجائے گی کہ گویا وہ آسمان پر اُٹھ گئی ہو گی اور قرآن کریم ایسا متروک ہوجائے گا کہ گویا وہ خدائے تعالیٰ کی طرف اٹھایا گیا ہو گا.تب ضرور ہے کہ فارس کی اصل سے ایک شخص پید ا ہو اور ایمان کو ثریا سے لے کر پھر زمین پر نازل ہو.سو یقینًا سمجھو کہ نازل ہو نے والا ابن مریم یہی ہے جس نے عیسیٰ بن مریم کی طرح اپنے زمانہ میں کسی ایسے شیخ والد روحانی کو نہ پایا جو اس کی روحانی پیدائش کاموجب ٹھہرتا.تب خدائے تعالیٰ خود اس کا متولّی ہوا اور تربیت کی کنار میں لیا اور اس اپنے بندے کا نام ابن مریم رکھا.کیونکہ اُس نے مخلوق میں سے اپنی روحانی والدہ کا تو مُنہ دیکھا جس کے ذریعہ سے اُس نے قالب اسلام کا پایا لیکن حقیقت اسلام کی اس کو بغیر انسانوں کے ذریعہ کے حاصل ہوئی.تب وہ وجود روحانی پا کر خدائے تعالیٰ کی طرف اُٹھایا گیا کیونکہ خدائے تعالیٰ نے اپنے ماسواسے اسکو موت دیکر اپنی طرف اُٹھالیا اور پھر ایمان اور عرفان کے ذخیرہ کے ساتھ خلق اللہ کی طرف نازل کیا سو وہ ایمان اور عرفان کا ثریا سے دُنیا میں تحفہ لایا اور زمین جو سُنسان پڑی تھی اور تاریک تھی اس کے روشن اورآباد کرنے کے فکر میں لگ گیا.پس مثالی صورت کے طور پر یہی عیسیٰ بن مریم ہے جو بغیر باپ کے پیدا ہوا کیاتم ثابت کر سکتے ہو کہ اس کا کوئی والد روحانی ہے.کیا تم ثبوت دے سکتے ہو کہ تمہارے سلاسل اربعہ میں سے کسی سلسلہ میں یہ داخل ہے.پھر اگر یہ ابن مریم نہیں تو کون ہے ؟ اور اگر اب بھی تمہیں شک ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ مسلمانوں کے ساتھ جزئی اختلافات کی وجہ سے لعنت بازی صدیقوں کاکام نہیں.مومن لعّان نہیں ہوتا.لیکن ایک طریق بہت آسان ہے اور وہ درحقیقت قائم مقام مباہلہ ہی ہے جس سے کاذب اور صادق او ر مقبول اور مردود کی تفریق ہوسکتی ہے.اور وہ یہ ہے جو ذیل میں موٹی قلم سے لکھتا ہوں.

Page 499

اے حضرات مولوی صاحبان ! آپ لوگوں کایہ خیال کہ ہم مومن ہیں اور یہ شخص کافر اور ہم صادق ہیں اور یہ شخص کاذب اور ہم متبع اسلام ہیں اور یہ شخص مُلحد اور ہم مقبول الٰہی ہیں اور یہ شخص مردو د اور ہم جنّتی ہیں اور یہ شخص جہنّمی.اگر چہ غور کرنیوالوں کی نظر میں قرآن کریم کی رُو سے بخوبی فیصلہ پاچکا ہے اور اس رسالہ کے پڑھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ حق پرکون ہے اور باطل پرکون.لیکن ایک اور بھی طریق فیصلہ ہے جس کی رُو سے صادقوں اور کاذبوں اور مقبولوں اور مردُودوں میں فرق ہوسکتا ہے.عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ اگر مقبول اور مردُود اپنی اپنی جگہ پر خدائے تعالیٰ سے کوئی آسمانی مدد چاہیں تو وہ مقبول کی ضرو ر مدد کرتا ہے اور کسی ایسے امر سے جو انسان کی طاقت سے بالاتر ہے اس مقبول کی قبولیت ظاہر کردیتاہے.سو چونکہ آپ لوگ اہل حق ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور آپکی جماعت میں وہ لوگ بھی ہیں جو ملہم ہونے کے مدعی ہیں جیسے مولوی محی الدین و عبد الرحمن صاحب لکھو والے اور میاں عبد الحق صاحب غزنوی جو اس عاجز کو کافر اورجہنّمی ٹھہراتے ہیں لہٰذا آپ پر واجب ہے کہ اس آسمانی ذریعہ سے بھی دیکھ لیں کہ آسمان پر مقبول کس کا نام ہے اور مردودکس کا نام

Page 500

میں اس بات کو منظور کرتاہوں کہ آپ دس ہفتہ تک اِس بات کے فیصلہ کے لئے احکم الحاکمین کی طرف توجہ کریں تا اگر آپ سچے ہیں تو آپکی سچائی کا کوئی نشان یا کوئی اعلیٰ درجہ کی پیشگوئی جو راستباز وں کو ملتی ہے آپ کو دی جائے.ایسا ہی دوسری طرف میں بھی توجہ کروں گا اور مجھے خداوند کریم و قدیر کی طرف سے یقین دلایا گیا ہے کہ اگر آپ نے اس طور سے میرا مقابلہ کیا تو میری فتح ہو گی.میں اس مقابلہ میں کسی پر لعنت کرنا نہیں چاہتا اور نہ کروں گا.اور آپ کا اختیار ہے جو چاہیں کریں.لیکن اگر آپ لوگ اعراض کرگئے تو گریز پر حمل کیاجائیگا.میری اس تحریر کے مخاطب مولوی محی الدین.عبد الرحمن صاحب لکھووالے اور میاں عبدالحق صاحب غزنوی اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی اور مولوی عبد الجبّار صاحب غزنوی اور مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی ہیں اور باقی انہیں کے زیر اثر آجائیں گے.

Page 501

جو ہمارا تھا وہ اب دلبرکا سارا ہوگیا آج ہم دلبر کے اور دلبر ہمارا ہو گیا شکر للہ مل گیا ہم کو وہ لعل بے بدل کیا ہوا گرقوم کا دل سنگِ خارا ہو گیا مسیح موعود ہونے کا ثبوت اس میں تو کچھ شک نہیں کہ اس بات کے ثابت ہونے کے بعد کہ درحقیقت حضرت مسیح ابن مریم اسرائیلی نبی فوت ہوگیا ہے ہریک مسلمان کو یہ ماننا پڑے گا کہ فوت شدہ نبی ہرگز دنیا میں دوبارہ نہیں آسکتا.کیونکہ قرآن اورحدیث دونوں بالاتفاق اِس بات پر شاہد ہیں کہ جو شخص مر گیا پھر دنیا میں ہرگز نہیں آئے گااور قرآن کریم 33۱ ؂ کہہ کر ہمیشہ کے لئے اس دنیا سے اُن کو رخصت کرتا ہے.اور قصّہ عزیروغیرہ جو قرآن کریم میں ہے اس بات کے مخالف نہیں کیونکہ لغت میں موت بمعنی نوم اور غشی بھی آیا ہے.دیکھو قاموس.اور جو عزیر کے قصہ میں ہڈیوں پر گوشت چڑھا نے کا ذکر ہے وہ حقیقت میں ایک الگ بیان ہے جس میں یہ جتلانا منظور ہے کہ رحم میں خدائے تعالیٰ ایک مردہ کو زندہ کرتا ہے اور اس کی ہڈیوں پر گوشت چڑھاتا ہے اور پھر ا س میں جان ڈالتاہے ماسوا اس کے کسی آیت یا حدیث سے یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ عزیر دوبارہ زندہ ہو کر پھر بھی فوت ہوا.پس اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ عزیر کی زندگی دوم دنیوی زندگی نہیں تھی ورنہ بعد اس کے ضرور کہیں اس کی موت کا بھی ذکر ہوتا.ایسا ہی قرآن کریم میں جو بعض لوگوں کی دوبارہ زندگی لکھی ہے وہ بھی دنیوی زندگی نہیں.اب حدیثوں پر نظر غور کرنے سے بخوبی یہ ثابت ہوتا ہے کہ آخری زمانہ میں ابن مریم اُترنے والا ہے جس کی یہ تعریفیں لکھی ہیں کہ وہ گندم گوں ہو گا اور بال اس کے سیدھے ہوں گے اور مسلمان کہلائے گا اور مسلمانوں کے باہمی اختلافات دُور کرنے کے لئے آئے گا او ر مغز شریعت جس کو وہ بھول گئے ہوں گے انہیں یا د دلائے گا اور ضرور ہے کہ وہ اس وقت نازل ہو جس وقت انتہا تک شرر اور فتن پہنچ جائیں اور مسلمانوں پر

Page 502

وہ تنزّل کا زمانہ ہو جو یہودیوں پر اُن کے آخری دنوں میں آیا تھا.اس زمانہ کے بعض نوتعلیم یافتہ ایسے شخص کے آنے سے ہی شک میں ہیں جو ابن مریم کے نام پر آئے گا وہ کہتے ہیں کہ یہ عظیم الشان شخص جو حدیثوں میں بیان کیا گیا ہے اگر واقعی طور پر ایسا آدمی آنے والا تھا تو چاہیئے تھا کہ قرآن کریم میں اس کا کچھ ذکر ہوتا جیسا کہ دابۃ الارض اور دخان اور یاجوج ماجوج کا ذکر ہے.لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ لوگ سراسر غلطی پر ہیں خدائیتعالیٰ نے اپنے کشف صریح سے اس عاجز پر ظاہر کیا ہے کہ قرآن کریم میں مثالی طورپر ابن مریم کے آنے کا ذکر ہے اور وہ یوں ہے کہ خدائے تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسیٰ قرار دیا ہے جیسا کہ فرماتا ہے 3333 ۱؂ اس آیت میں خدائے تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو موسیٰ کی طرح اور کفار کو فرعون کی طرح ٹھہرایا.اورپھر دوسری جگہ فرمایا333333333 الجزو نمبر ۱۸سورۃ النور ۲؂ یعنی خدائے تعالیٰ نے اس اُمّت کے مومنوں اور نیکوکاروں کے لئے وعدہ فرمایا ہے کہ انہیں زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے پہلوں کو بنایا تھا یعنی اُسی طرز اور طریق کے موافق اور نیز اُسی مدت اور زمانہ کے مشابہ اور اُسی صورت جلالی اور جمالی کی مانند جو بنی اسرائیل میں سنّت اللہ گذر چکی ہے اس اُمّت میں بھی خلیفے بنائے جائیں گے اور اُن کا سِلسلہ خلافت اس سلسلے سے کم نہیں ہو گا.جو بنی اسرائیل کے خلفاء کے لئے مقرر کیا گیا تھا اور نہ ان کی طرز خلافت اس طرز سے مبائن و مخالف ہوگی جو بنی اسرائیل کے خلیفوں کے لئے مقرر کی گئی تھی.پھر آگے فرمایا ہے کہ ان خلیفوں کے ذریعے سے زمین پر دین

Page 503

جما دیا جائے گا اور خداخوف کے دنوں کے بعد امن کے دن لائے گا.خالصًا اُسی کی بندگی کریں گے اور کوئی اس کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے.لیکن اس زمانہ کے بعد پھرکفر پھیل جائے گا.مماثلت تامہ کا اشارہ جو کما استخلف الذین من قبلہم سے سمجھاجاتا ہے.صاف دلالت کررہا ہے کہ یہ مماثلت مدت ایام خلافت اور خلیفوں کی طرز اصلاح اور طرزِ ظہور سے متعلق ہے.سو چونکہ یہ بات ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل میں خلیفۃ اللہ ہونیکا منصب حضرت موسیٰ سے شروع ہوا اور ایک مدت دراز تک نوبت بہ نوبت انبیاء بنی اسرائیل میں رہ کر آخر چودہ (سو) برس کے پورے ہوتے تک حضرت عیسیٰ ابن مریم پر یہ سلسلہ ختم ہوا حضرت عیسیٰ ابن مریم ایسے خلیفۃ اللہ تھے کہ ظاہری عنان حکومت اُن کے ہاتھ میں نہیں آئی تھی اور سیاست ملکی اور اس دنیو ی بادشاہی سے ان کو کچھ علاقہ نہیں تھا اور دنیا کے ہتھیاروں سے وہ کچھ کام نہیں لیتے تھے بلکہ اس ہتھیار سے کام لیتے تھے جو اُن کے انفاس طیّبہ میں تھا.یعنی اس موجّہ بیان سے جو اُن کی زبان پرجاری کیا گیا تھا جس کے ساتھ بہت سی برکتیں تھیں اور جس کے ذریعہ سے وہ مرے ہوئے دلوں کو زندہ کرتے تھے اور بہرے کانوں کو کھولتے تھے اور مادر زاد اندھوں کو سچائی کی روشنی دکھا دیتے تھے اُن کا وہ دم ازلی کافر کو مارتا تھا اور اُس پر پوری حجت کرتا تھا لیکن مومن کو زندگی بخشتا تھا.وہ بغیر باپ کے پیدا کئے گئے تھے اور ظاہری اسباب اُن کے پاس نہیں تھے اور ہر بات میں خدائے تعالیٰ اُن کا متولّی تھا.وہ اُس وقت آئے تھے کہ جبکہ یہودیوں نے نہ صرف دین کو بلکہ انسانیت کی خصلتیں بھی چھوڑ دی تھیں اوربے رحمی اور خود غرضی اور کینہ اور بُغض اور ظلم اور حسداور بے جا جوش نفس امّارہ کے اُن میں ترقی کر گئے تھے.اور نہ صرف بنی نوع کے حقوق کو انہوں نے چھوڑ دیا تھا بلکہ غلبہ شقاوت کی وجہ سے حضرت محسنِ حقیقی سے عبودیت اور اطاعت اور سچے اخلاص کا رشتہ بھی توڑ بیٹھے تھے.صرف بے مغز استخوان کی طرح توریت کے چند الفاظ اُن کے پاس تھے جو قہر الٰہی کی وجہ سے ان کی حقیقت تک وہ نہیں پہنچ سکتے تھے

Page 504

کیونکہ ایمانی فراست اور زیرکی بالکل اُن میں سے اُٹھ گئی تھی اور اُن کے نفوس مظلمہ پر جہل غالب آگیا تھا اور سفلی مکاریاں اور کراہت کے کام اُن سے سرزد ہوتے تھے اورجھوٹ اور ریاکاری اور غدّاری اُن میں انتہا تک پہنچ گئی تھی.ایسے وقت میں اُن کی طرف مسیح ابن مریم بھیجا گیا تھا جو بنی اسرائیل کے مسیحوں اور خلیفوں میں سے آخری مسیح اور آخری خلیفۃ اللہ تھا جو برخلاف سُنّت اکثر نبیو ں کے بغیر تلوار اور نیزہ کے آیا تھا.یاد رکھنا چاہیئے کہ شریعت موسوی میں خلیفۃ اللہ کو مسیح کہتے تھے اور حضرت داؤد کے وقت اور یا اُن سے کچھ عرصہ پہلے یہ لفظ بنی اسرائیل میں شائع ہوگیا تھا.بہرحال اگرچہ بنی اسرائیل میں کئی مسیح آئے لیکن سب سے پیچھے آنے والا مسیح وہی ہے جس کانام قرآن کریم میں مسیح عیسیٰ ابن مریم بیان کیاگیا ہے.بنی اسرائیل میں مریمیں بھی کئی تھیں اور ان کے بیٹے بھی کئی تھے لیکن مسیح عیسیٰ بن مریم یعنی اِن تینوں ناموں سے ایک مرکب نام بنی اسرائیل میں اُس وقت اورکوئی نہیں پایا گیا.سو مسیح عیسیٰ ابن مریم یہودیوں کی اس خراب حالت میں آیا جس کا میں نے ابھی ذکرکیا ہے.آیات موصوفہ بالا میں ابھی ہم بیان کر چکے ہیں کہ خدائے تعالیٰ کا اس اُمّت کے لئے وعدہ تھا کہ بنی اسرائیل کی طرز پر ان میں بھی خلیفے پیدا ہوں گے.اب ہم جب اس طرز کو نظر کے سامنے لاتے ہیں تو ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ ضرور تھا کہ آخری خلیفہ اس اُمّت کا مسیح ابن مریم کی صورت مثالی پر آوے اور اس زمانہ میں آوے کہ جو اُس وقت سے مشابہ ہو جس وقت میں بعد حضرت موسیٰ کے مسیح ابن مریم آئے تھے یعنی چودھویں صدی میں یا اس کے قریب اُسکا ظہور ہو اور ایسا ہی بغیر سیف وسنان کے اور بغیر آلات حرب کے آوے جیسا کہ حضرت مسیح ابن مریم آئے تھے اور نیز ایسے ہی لوگوں کی اصلاح کیلئے آوے جیسا کہ مسیح ابن مریم اُس وقت کے خراب اندرون یہودیوں کی اصلاح کے لئے آئے تھے.اور جب آیات ممدوحہ بالا کو غور سے دیکھتے ہیں تو ہمیں ان کے اندر سے یہ آوازسُنائی دیتی ہے کہ ضرور آخری خلیفہ اس اُمّت کا جو چودھویں صدی کے سر پر ظہور کرے گا حضرت مسیح کی صورت مثالی پر آئے گا اور بغیر آلاتِ حرب ظہور کرے گا

Page 505

دو سلسلوں کی مماثلت میں یہی قاعدہ ہے کہ اوّل اور آخر میں اشد درجہ کی مشابہت اُن میں ہوتی ہے.کیونکہ ایک لمبے سلسلہ اور ایک طولانی مدت میں تمام درمیانی افراد کا مفصل حال معلوم کرنا طول بلا طائل ہے.پس جبکہ قرآن کریم نے صاف صاف بتلا دیا کہ خلافت اسلامی کا سلسلہ اپنی ترقی اور تنزّل اور اپنی جلالی اورجمالی حالت کی رو سے خلافت اسرائیلی سے بکلی مطابق و مشابہ ومماثل ہو گا اور یہ بھی بتلاد یاکہ نبی عر بی امّی مثیل موسیٰ ہے تو اس ضمن میں قطعی اور یقینی طور پر بتلایا گیا کہ جیسے اسلام میں سردفتر الٰہی خلیفوں کا مثیل موسیٰ ہے جو اس سلسلہ اسلامیہ کا سپہ سالار اور بادشاہ اور تختِ عزت کے اوّل درجہ پر بیٹھنے والا اور تمام برکات کا مصدر اوراپنی روحانی اولاد کا مورث اعلیٰ ہے صلی اللہ علیہ وسلم.ایسا ہی اس سلسلہ کا خاتم باعتبار نسبت تامہ وہ مسیح عیسیٰ بن مریم ہے جو اس اُمّت کے لوگوں میں سے بحکم ربی مسیحی صفات سے رنگین ہوگیا ہے اور فرمان جَعَلْنَاکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ نے اُس کودرحقیقت وہی بنادیا ہے 3 ۱؂.اور اس آنے والے کا نام جو احمد رکھا گیا ہے وہ بھی اس کے مثیل ہونے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ محمدؐ جلالی نام ہے اور احمد جمالی.اور احمد اور عیسیٰ اپنے جمالی معنوں کی رُو سے ایک ہی ہیں.اسی کی طرف یہ اشارہ ہے 33 ۲؂.مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فقط احمد ہی نہیں بلکہ محمد بھی ہیںیعنی جامع جلال و جمال ہیں.لیکن آخری زمانہ میں برطبق پیشگوئی مجرّد احمد جو اپنے اندر حقیقت عیسویت رکھتا ہے بھیجا گیا.وہ حی و قیوم خدا جو اس بات پر قادر ہے جو انسان کو حیوان بلکہ شرّ الحیوانات بنا دے جیسا کہ اس نے فرمایا ہے 33 ۳؂ اور فرمایا کہ 3۴؂ کیا وہ ایک انسان کو دوسرے انسان کی صورت مثالی پر نہیں بنا سکتا.33 ۵؂.پھر جب کہ انسانیت کی حقیقت پر فنا طاری ہونے کے وقت میں ایک ایسے ہی انسان کی ضرورت تھی

Page 506

جس کا محض خدائے تعالیٰ کے ہاتھ سے تولّد ہوتا.جس کا آسمان پر ابن مریم نام ہے تو کیوں خدائے تعالیٰ کی قادریّت اس ابن مریم کے پیداکرنے سے مجبور رہ سکتی.سو اُس نے محض اپنے فضل سے بغیر وسیلہ کسی زمینی والد کے اس ابن مریم کوروحانی پیدائش اور روحانی زندگی بخشی جیسا کہ اس نے خود اس کو اپنے الہام میں فرمایا ثم احییناک بعد ما اھلکنا القرون الاولٰی و جعلناک المسیح ابن مریم.یعنی پھرہم نے تجھے زندہ کیا بعد اس کے جو پہلے قرنوں کو ہم نے ہلاک کردیا اور تجھے ہم نے مسیح ابن مریم بنایا یعنی بعد اس کے جو عام طور پر مشائخ اور علماء میں موت روحانی پھیل گئی.انجیل میں بھی اِسی کی طرف اشارہ ہے کہ مسیح ستاروں کے گرنے کے بعد آئے گا.اب ا س تحقیق سے ثابت ہے کہ مسیح ابن مریم کی آخری زمانہ میں آنے کی قرآن شریف میں پیشگوئی موجود ہے.قرآن شریف نے جو مسیح کے نکلنے کی چودہ ۱۴۰۰سو برس تک مدّت ٹھہرائی ہے بہت سے اولیا ء بھی اپنے مکاشفات کی رُو سے اس مدت کو مانتے ہیں اور آیت 33 ۱؂ جس کے بحساب جمل ۱۲۷۴عد د ہیں.اسلامی چاند کی سلخ کی راتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے جس میں نئے چاند کے نکلنے کی اشارت چھپی ہوئی ہے جو غلام احمد قادیانی کے عددوں میں بحساب جمل پائی جاتی ہے اور یہ آیت کہ 33۲؂ درحقیقت اسی مسیح ابن مریم کے زمانہ سے متعلق ہے کیونکہ تمام ادیان پر روحانی غلبہ بجُز اس زمانہ کے کسی اور زمانہ میں ہرگز ممکن نہیں تھا وجہ یہ کہ یہی زمانہ ہے کہ جس میں ہزارہا قسم کے اعتراضات اور شبہات پیدا ہوگئے ہیں اور انواع اقسام کے عقلی حملے اسلام پر کئے گئے ہیں.اور خدائے تعالیٰ فرماتا ہے 33۳؂ یعنی ہریک چیز کے ہمارے پاس خزانے ہیں مگر بقدر معلوم اور بقدر ضرورت ہم اُن کو اُتارتے ہیں.سو جس قدر معارف و حقائق بطون قرآن کریم میں

Page 507

چُھپے ہوئے ہیں جو ہریک قسم کے ادیان فلسفیہ وغیر فلسفیہ کو مقہور و مغلوب کرتے ہیں اُن کے ظہور کا زمانہ یہی تھا.کیونکہ وہ بجُز تحریک ضرورت پیش آمدہ کے ظاہر نہیں ہو سکتے تھے سو اب مخالفانہ حملے جونئے فلسفہ کی طرف سے ہوئے تو اُن معارف کے ظاہر ہونے کا وقت آگیا اور ممکن نہیں تھا کہ بغیر اس کے کہ وہ معارف ظاہر ہوں اسلام تمام ادیان باطلہ پر فتح پا سکے کیونکہ سیفی فتح کچھ چیزنہیں اورچند روزہ اقبال کے دورہونے سے وہ فتح بھی معدوم ہوجاتی ہے.سچی اور حقیقی فتح وہ ہے جومعارف اورحقائق اور کامل صداقتوں کے لشکر کے ساتھ حاصل ہو.سووہ یہ فتح ہے جو اب اسلام کو نصیب ہو رہی ہے.بلاشبہ یہ پیشگوئی اسی زمانہ کے حق میں ہے اور سلف صالح بھی ایسا ہی سمجھتے آئے ہیں.یہ زمانہ درحقیقت ایک ایسا زمانہ ہے جو بالطبع تقاضاکررہا ہے جو قرآن شریف اپنے اُن تمام بطون کو ظاہر کرے جو اُس کے اندرمخفی چلے آتے ہیں کیونکہ بطنی معارف قرآن کریم کے جن کا وجود احادیث صحیحہ اور آیات بیّنہ سے ثابت ہے فضول طور پر کبھی ظہور نہیں کرتے بلکہ یہ معجزہ فرقانی ایسے ہی وقت میں اپنا جلوہ دکھاتا ہے جبکہ اس روحانی معجزہ کے ظہور کی اشد ضرورت پیش آتی ہے.سو اس زمانہ میں کامل طور پر یہ ضرورتیں پیش آگئی ہیں.انسانوں نے مخالفانہ علوم میں بہت ترقی کرلی ہے اور کچھ شک نہیں کہ اگر اس نازک وقت میں بطنی علوم قرآن کریم کے ظاہر نہ ہوں گے تو موٹی تعلیم جس پر حال کے علماء قائم ہیں کبھی اور کسی صورت میں مقابلہ مخالفین کا نہیں کر سکتے اور ان کو مغلوب کرنا تو کیا خود مغلوب ہوجانے کے قوی خطرہ میں پھنسے ہوئے ہیں.یہ بات ہریک فہیم کوجلدی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اللہ جلَّ شَانُہٗ کی کوئی مصنوع دقائق وغرائب خواص سے خالی نہیں.اور اگر ایک مکھی کے خواص اور عجائبات کی قیامت تک تفتیش و تحقیقات کرتے جائیں تو بھی کبھی ختم نہیں ہو سکتی.تو اب سوچنا چاہیئے کہ کیا خواص و عجائبات قرآ ن کریم کے اپنے قدر واندازہ میں مکھی جتنے بھی نہیں.بلا شبہ وہ عجائبات تمام مخلوقات کے

Page 508

مجموعی عجائبات سے بہت بڑھ کر ہیں اوراُن کا انکار درحقیقت قرآن کریم کے منجانب اللہ ہونے کا انکار ہے کیونکہ دنیا میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں کہ جوخدائے تعالیٰ کی طرف سے صادر ہو اور اُس میں بے انتہاء عجائبات نہ پائے جائیں.اب یہ عذر کہ اگر ہم قرآن کریم کے ایسے دقائق ومعارف بھی مان لیں جو پہلوں نے دریافت نہیں کئے تو اس میں اجماع کی کسر شان ہے.گویا ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ جو پہلے اماموں کو معلوم نہیں ہوا تھا وہ ہم نے معلوم کرلیا.یہ خیال ان مُلّا لوگوں کا بالکل فاسد ہے.اُن کو سوچنا چاہیئے کہ جبکہ یہ ممکن ہے کہ بعض نباتات وغیرہ میں زمانۂ حال میں کوئی ایسی خاصیت ثابت ہو جائے جو پہلوں پر نہیں کھلی تو کیا یہ ممکن نہیں کہ قرآن کریم کے بعض عجیب حقائق و معارف اب ایسے کھل جائیں جو پہلوں پر کھل نہیں سکے کیونکہ اس وقت اُن کے کھلنے کی ضرورت پیش نہیں آئی.ہاں ایمان اورعقائد کے متعلق جو ضروری پاتے ہیں جو شریعت سے علاقہ رکھتے ہیں جو مسلمان بننے کے لئے ضروری ہیں.وہ تو ہر یک کی اطلاع کے لئے کھلے کھلے بیان کے ساتھ قرآن شریف میں درج ہیں لیکن وہ نکات و حقائق جو معرفت کو زیادہ کرتے ہیں وہ ہمیشہ حسب ضرورت کھلتے رہتے ہیں اور نئے نئے فسادوں کے وقت نئے نئے پُر حکمت معانی بمنصۂ ظہور آتے رہتے ہیں.یہ تو ظاہر ہے کہ قرآن کریم بذات خود معجزہ ہے اور بڑی بھاری وجہ اعجاز کی اس میں یہ ہے کہ وہ جامع حقائق غیر متناہیہ ہے.مگر بغیر وقت کے وہ ظاہر نہیں ہوتے.جیسے جیسے وقت کے مشکلات تقاضہ کرتی ہیں وہ معارف خفیہ ظاہر ہوتے جاتے ہیں.دیکھو دنیوی علوم جو اکثر مخالف قرآن کریم اور غفلت میں ڈالنے والے ہیں.کیسے آج کل ایک زور سے ترقی کر رہے ہیں اورزمانہ اپنے علوم ریاضی اور طبعی اور فلسفہ کی تحقیقاتوں میں کیسی ایک عجیب طور کی تبدیلیاں دکھلا رہا ہے.کیا ایسے نازک وقت میں ضرور نہ تھاکہ ایمانی اور عرفانی ترقیات کے لئے بھی دروازہ کھولا جاتا.تا شرور محدثہ کی مدافعت کے لئے آسانی پیداہوجاتی.سو یقینًا سمجھوکہ وہ

Page 509

دروازہ کھولا گیا ہے اور خدائے تعالیٰ نے ارادہ کرلیاہے کہ تا قرآن کریم کے عجائبات مخفیہ اس دنیا کے متکبّر فلسفیوں پر ظاہرکرے.اب نیم مُلّاں دشمن اسلام اس ارادہ کو روک نہیں سکتے.اگر اپنی شرارتو ں سے باز نہیں آئیں گے تو ہلاک کئے جائیں گے اور قہری طمانچہ حضرت قہارکا ایسا لگے گا کہ خاک میں مل جائیں گے.اِن نادانوں کو حالت موجودہ پر بالکل نظر نہیں.چاہتے ہیں کہ قرآن کریم مغلوب اور کمزور اور ضعیف اور حقیر سا نظر آوے لیکن اب وہ ایک جنگی بہادر کی طرح نکلے گا.ہاں وہ ایک شیر کی طرح میدان میں آئے گا اور دنیا کے تمام فلسفہ کو کھاجائے گا اور اپنا غلبہ دکھائے گا اور لِیُظْہِرَہ‘ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ کی پیشگوئی کو پوری کر دے گا اور پیشگوئی وَلِیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمْ کو روحانی طور سے کمال تک پہنچائے گا.کیونکہ دین کا زمین پر بوجہ کمال قائم ہوجانا محض جبر اوراکراہ سے ممکن نہیں.دین اُس وقت زمین پر قائم ہوتا ہے کہ جب اس کے مقابل پر کوئی دین کھڑانہ رہے اور تمام مخالف سِپر ڈال دیں.سو اب وہی وقت آگیا.اب وہ وقت نادان مولویوں کے روکنے سے رک نہیں سکتا.اب وہ ابن مریم جسکا روحانی باپ زمین پر بجُز معلّم حقیقی کے کوئی نہیں جو اس وجہ سے آدم سے بھی مشابہت رکھتا ہے بہت سا خزانہ قرآن کریم کا لوگوں میں تقسیم کرے گا یہاں تک کہ لوگ قبُول کرتے کرتے تھک جائیں گے اور لا یقبلہ احد کا مصداق بن جائیں گے اور ہر یک طبیعت اپنے ظرف کے مطابق پُر ہوجائے گی.وہ خلافت جو آدم سے شروع ہوئی تھی خدائے تعالیٰ کی کامل اور بے تغیر حکمت نے آخر کار آدم پر ہی ختم کردی یہی حکمت اس الہام میں ہے کہ اردت ان استخلف فخلقت اٰدم یعنی میں نے ارادہ کیا کہ اپنا خلیفہ بناؤں سو میں نے آدم کوپیدا کردیا.چونکہ استدارت زمانہ کایہی وقت ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ اس پر ناطق ہیں اس لئے خدائے تعالیٰ نے آخر اور اوّل کے لفظ کو ایک ہی کرنے کے لئے آخری خلیفے کانام آدم رکھا اور آدم اور عیسیٰ میں کسی وجہ سے روحانی مبائنت نہیں بلکہ مشابہت ہے

Page 510

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ خدائے تعالیٰ نے اگرچہ ایک طرز جدید سے قرآن کریم میں صاف طور پر بیان کر دیا کہ آخری خلیفہ اسلام کے الٰہی خلیفوں کا روحانی طور پر ایسے خلیفہ کا روپ اور رنگ لے کر آئے گا جو اسرائیلی خلیفوں میں سے آخری خلیفہ تھا یعنی مسیح ابن مریم لیکن کیاوجہ کہ خدائے تعالیٰ نے اس پیشگوئی میں مسیح ابن مریم کا بصراحت نام لیا.گو مطلب وہی نکل آیا.اس کا جواب یہ ہے کہ تا لوگ غلط فہمی سے بلا میں نہ پڑ جائیں.کیونکہ اگر خدائے تعالیٰ صاف طور پر نام لے کر بیان کر دیتا کہ اس اُمّت کا آخری خلیفہ یہی مسیح ابن مریم ہی ہو گا تو نادان مولویوں کے لئے بلا پر بلاپیداہوجاتی اور غلط فہمی کی آفت ترقی کرجاتی.سوخدائے تعالیٰ نے اپنے بیان میں دومسلک اختیار کرنا پسند رکھا.ایک وہ مسلک جوحدیثوں میں ہے جس میں ابن مریم کا لفظ موجود ہے.اور دوسر ا وہ مسلک جو قرآن کریم میں ہے جس کا ابھی بیان ہوچکا ہے.اب ثبوت اِس بات کا کہ وہ مسیح موعود جس کے آنے کا قرآن کریم میں وعدہ دیا گیا ہے یہ عاجز ہی ہے.اِن تمام دلائل اور علامات اور قرائن سے جوذیل میں لکھتا ہوں ہریک طالب حق پر بخوبی کھل جائے گا.از انجملہ ایک یہ ہے کہ یہ عاجز ایسے وقت میں آیا ہے جس وقت میں مسیح موعود آنا چاہیئے تھا کیونکہ حدیث الآیات بعد المأتین جس کے یہ معنے ہیں کہ آیات کبریٰ تیرھویں صدی میں ظہورپذیر ہوں گی اسی پر قطعی اوریقینی دلالت کرتی ہے کہ مسیح موعود کا تیرھویں صدی میں ظہور یا پیدائش واقع ہو.بات یہ ہے کہ آیات صغریٰ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت مبارک سے ہی ظاہر ہونی شروع ہوگئی تھیں.پس بلاشبہ الآیات سے آیات کبریٰ مرادہیں جوکسی طرح سے دوسو برس کے اندرظاہر نہیں ہو سکتی تھیں لہذا علماء کا اسی پر اتفاق ہوگیا ہے کہ بعد المأتین سے مراد تیرھویں صدی ہے اور الآیات سے مراد آیات کبریٰ ہیں جو ظہور مسیح موعو د اور دجّال اور یاجوج ماجوج وغیرہ ہیں اور ہریک شخص

Page 511

سمجھ سکتا ہے کہ اس وقت جو ظہور مسیح موعود کا وقت ہے کسی نے بجز اس عاجزکے دعوےٰ نہیں کیا کہ میں مسیح موعودہوں بلکہ اس مدّت تیرہ سو برس میں کبھی کسی مسلمان کی طرف سے ایسا دعویٰ نہیں ہوا کہ میں مسیح موعودہوں.ہاں عیسائیوں نے مختلف زمانوں میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور کچھ تھوڑا عرصہ ہوا ہے کہ ایک عیسائی نے امریکہ میں بھی مسیح ابن مریم ہونے کادم مارا تھا.لیکن ان مشرک عیسائیوں کے دعویٰ کو کسی نے قبول نہیں کیا.ہاں ضرورتھا کہ وہ ایسا دعویٰ کرتے تاانجیل کی وہ پیشگوئی پوری ہو جاتی کہ بہتیرے میرے نام پر آئیں گے اور کہیں گے کہ میں مسیح ہوں.پر سچا مسیح ان سب کے آخر میں آئے گا اور مسیح نے اپنے حواریوں کو نصیحت کی تھی کہ تم نے آخر کامنتظر رہنا ، میرے آنے کا.یعنی میرے نام پر جو آئے گا اس کا نشان یہ ہے کہ اُس وقت سورج اور چاند تاریک ہوجائے گا.اور ستارے زمین پر گر جائیں گے اور آسمان کی قوتیں سُست ہوجائیں گی.تب تم آسمان پر ابن آدم کا نشان دیکھو گے.یہ تمام اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ اس وقت نور علم کا اُٹھ جائے گا اور ربّانی علماء فوت ہوجائیں گے اور جہالت کی تاریکی پھیل جائے گی.تب ابن مریم آسمانی حکم سے ظاہر ہوگا.یہی اشارہ سورۃ الزلزال میں ہے کہ اُس وقت زمین پر سخت زلزلہ آئے گا اور زمین اپنے تمام خزائن اور دفائن باہر نکال دے گی یعنی علوم ارضیہ کی خوب ترقی ہوگی مگر آسمانی علوم کی نہیں 33 ۱؂.از انجملہ ایک یہ ہے کہ مکاشفات اکابر اولیاء بالاتفاق اس بات پر شاہد ہیں کہ مسیح موعودکا ظہور چودھویں صدی سے پہلے یا چودھویں صدی کے سر پر ہو گا اور اس سے تجاوز نہیں کرے گا چنانچہ ہم نمونہ کے طور پر کسی قدراس رسالہ میں لکھ بھی آئے ہیں.اور ظاہر ہے کہ اس وقت میں بجُز اس عاجز کے اور کوئی شخص دعوے دا ر اس منصب کا نہیں ہوا.از انجملہ ایک یہ ہے کہ مدت ہوئی کہ گروہ دجّال ظاہرہوگیاہے اور بڑے زور سے اس کا ظہور ہورہا ہے اور اس کا گدھا بھی جودرحقیقت اُسی کا بنایا ہوا ہے جیسا کہ

Page 512

احادیث صحیحہ کامنشاء ہے مشرق ومغرب کا سیر کر رہا ہے اور وہ گدھا دجّال کا بنایا ہوا ہوتاجو حدیث کے منشاء کے موافق ہے اس دلیل سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر ایسا گدھا معمولی طور پر کسی گدھی کے شکم سے پیدا ہوتا تو اس قسم کے بہت سے گدھے اب بھی موجود ہونے چاہیئے تھے کیونکہ بچے کی مشابہت قد وقامت اور سیر وسیاحت اور قوت وطاقت میں اس کے والدین سے ضرور ی ہے.لہٰذا احادیث صحیحہ کا اشارہ اسی بات کی طرف ہے کہ وہ گدھا دجّال کا اپنا ہی بنایاہو اہو گا پھر اگر وہ ریل نہیں تو اَور کیا ہے.ایسا ہی یاجو ج ماجوج کی قومیں بھی بڑے زور سے خروج کررہی ہیں.دابۃ الارض بھی جابجا نظر آتا ہے.ایک تاریک دُخان نے بھی آسمان سے نازل ہو کر دنیا کو ڈھانک لیا ہے.پھر اگر ایسے وقت میں مسیح ظاہر نہ ہوتا توپیشگوئی میں کذب لازم آتا سو مسیح موعود جس نے اپنے تئیں ظاہر کیا وہ یہی عاجز ہے.اگر یہ شبہ پیش کیاجائے کہ دجّال کی علامتیں کامل طور پر ان انگریزپادریوں کے فرقوں میں کہاں پائی جاتی ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم کامل طور پر اسی رسالہ میں ثابت کر آئے ہیں کہ درحقیقت یہی لوگ دجّال معہود ہیں.اوراگر غور سے دیکھاجائے تو تمام علامات ان پر صادق آرہی ہیں.اور ان لوگوں نے بباعث اپنی صنعتوں اور تدبیرو ں اور حکیمانہ ید طولیٰ اور وسعت مالی کے ہر یک چیز گویا اپنے قابو میں کر رکھی ہے.اور یہ علامت کہ دجّال صرف چالیس دن رہے گا اور بعض دن برس کی طرح ہو ں گے یہ حقیقت پر محمول نہیں ہو سکتی کیونکہ بعض حدیثوں میں بجائے چالیس دن کے چالیس سال بلکہ پینتالیس برس بھی آیا ہے پھر اگر بعض دن برس کے برابر ہوں گے تو اس سے لازم آتا ہے کہ مسیح ابن مریم فوت بھی ہوجائے اوردجّال ہنوز باقی رہے.لہٰذا اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ سب الفاظ قابل تاویل ہیں دجّال کے فوت ہونے سے مراد اس قوم کا استیصال نہیں بلکہ اس مذہب کے دلائل اور حجج کا استیصال ہے.ا ور کچھ شک نہیں کہ جومذہب دلائل یقینیہ کے رو سے بکلّی مغلوب ہوجائے

Page 513

اور اس کی ذلّت اور رسوائی ظاہر ہو جائے وہ بلا شبہ میّت کے ہی حکم میں ہوتا ہے.بعض یہ شبہ بھی پیش کرتے ہیں کہ ایک سوال کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ جب دجّال کے زمانہ میں دن لمبے ہوجائیں گے یعنی برس کی مانند یا اس سے کم تو تم نے نمازوں کا اندازہ کر لیاکرنا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلعم کو انہیں ظاہری معنوں پر یقین تھا.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ صرف فرضی طورپر ایک سوال کا جواب حسب منشاء سائل دیا گیا تھا اور اصلی واقعہ کا بیان کرنا مدعا نہ تھا بلکہ آپ نے صاف صاف فرما دیا تھا کہ سائر ایّامہ کایّامکم.ماسو ا اس کے یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ایسے امور میں جو عملی طور پر سکھلائے نہیں جاتے اور نہ اُن کی جزئیات مخفیہ سمجھائی جاتی ہیں.انبیاء سے بھی اجتہاد کے وقت امکانِ سہو وخطا ہے.مثلًا اس خواب کی بناء پر جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے جو بعض مومنوں کے لئے موجب ابتلاء کا ہوئی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منوّرہ سے مکّہ معظمہ کا قصد کیا اور کئی دن تک منزل درمنزل طے کر کے اس بلدہ مبارکہ تک پہنچے مگر کفار نے طواف خانہ کعبہ سے روک دیا اور اُس وقت اس رؤیا کی تعبیر ظہور میں نہ آئی.لیکن کچھ شک نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی امید پر یہ سفر کیا تھا کہ اب کے سفر میں ہی طواف میسّر آجائے گا اوربلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب وحی میں داخل ہے لیکن اس وحی کے اصل معنے سمجھنے میں جو غلطی ہوئی اس پر متنبّہ نہیں کیا گیا تھا تبھی تو خداجانے کئی روز تک مصائب سفر اُٹھا کرمکہ معظمہ میں پہنچے.اگر راہ میں متنبّہ کیاجاتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ضرور مدینہ منورہ میں واپس آجاتے پھرجب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے آپ کے روبرو ہاتھ ناپنے شروع کئے تھے تو آپ کو اس غلطی پر متنبّہ نہیں کیا گیا یہا ں تک کہ آپ فوت ہوگئے اور بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی یہی رائے تھی کہ درحقیقت جس بیوی کے لمبے ہاتھ ہیں وہی سب سے پہلے فوت ہوگی.اِسی وجہ سے باوجودیکہ آپ کے رُوبرو باہم ہاتھ ناپے گئے مگر آپ نے منع نہ فرمایا

Page 514

کہ یہ حرکت تو خلاف منشاء پیشگوئی ہے.اِسی طرح ابن صیّاد کی نسبت صاف طورپر وحی نہیں کھلی تھی اور آنحضرت کا اوّل اوّل یہی خیال تھا کہ ابن صیّاد ہی دجّال ہے.مگر آخر میں یہ رائے بدل گئی تھی.ایسا ہی سورۂ روم کی پیشگوئی کے متعلق جو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شرط لگائی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف فرمایا کہ بضع کا لفظ لغت عرب میں نو برس تک اطلاق پاتا ہے اور میں بخوبی مطلع نہیں کیا گیا کہ نوبرس کی حد کے اندر کس سال یہ پیشگوئی پوری ہوگی.ایسا ہی وہ حدیث جس کے یہ الفاظ ہیں فذھب وھلی الٰی انھا الیمامۃ او الھجر فاذا ھی المدینۃ یثرب.صاف صاف ظاہرکر رہی ہے کہ جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتہاد سے پیشگوئی کا محل ومصداق سمجھا تھا وہ غلط نکلا.اور حضرت مسیح کی پیشگوئیوں کا سب سے عجب ترحال ہے.بارہا انہوں نے کسی پیشگوئی کے معنے کچھ سمجھے اور آخر کچھ اور ہی ظہور میں آیا.یہودا اسکریوطی کو ایک پیشگوئی میں بہشت کابارھواں تخت دیا لیکن وہ بکلّی بہشت سے محروم رہا.اور پطرس کو کبھی بہشت کی کنجیاں دیں اور کبھی اُس کو شیطان بنایا.اسی طرح انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کا مکاشفہ کچھ بہت صاف نہیں تھا اور کئی پیشگوئیاں ان کی بسبب غلط فہمی کے پوری نہیں ہو سکیں مگر اپنے اصلی معنوں پر پوری ہوگئیں.بہر حال ان تمام باتوں سے یقینی طورپر یہ اصول قائم ہوتاہے کہ پیشگوئیوں کی تاویل اور تعبیر میں انبیاء علیہم السلام کبھی غلطی بھی کھاتے ہیں.جس قدر الفاظ وحی کے ہوتے ہیں وہ تو بلاشبہ اول درجہ کے سچے ہوتے ہیں مگر نبیوں کی عادت ہوتی ہے کہ کبھی اجتہادی طورپر بھی اپنی طرف سے اُن کی کسی قدر تفصیل کرتے ہیں.اور چونکہ وہ انسان ہیں اس لئے تفسیر میں کبھی احتمال خطاکا ہوتا ہے.لیکن امور دینیہ ایمانیہ میں اس خطا کی گنجائش نہیں ہوتی.کیونکہ ان کی تبلیغ میں منجانب اللہ بڑا اہتمام ہوتا ہے اور وہ نبیوں کو عملی طورپربھی سکھلائی جاتی ہیں چنانچہ ہماے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہشت اوردوزخ بھی دکھایا گیا اور آیات متواترہ مُحکمہ بیّنہ سے

Page 515

جنت اور نارکی حقیقت بھی ظاہر کی گئی ہے پھر کیوں کر ممکن تھا کہ اس کی تفسیر میں غلطی کر سکتے غلطی کا احتمال صرف ایسی پیشگوئیوں میں ہوتا ہے جن کو اللہ تعالیٰ خود اپنی کسی مصلحت کی وجہ سے مبہم اور مجمل رکھناچاہتا ہے اورمسائل دینیہ سے اُن کاکچھ علاقہ نہیں ہوتا.یہ ایک نہایت دقیق راز ہے جس کے یادرکھنے سے معرفت صحیحہ مرتبہ نبوت کی حاصل ہوتی ہے اور اسی بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ابن مریم اور دجّال کی حقیقت کاملہ بوجہ نہ موجود ہونے کسی نمونہ کے موبمومنکشف نہ ہوئی ہو اور نہ دجّال کے ستّر باع کے گدھے کی اصل کیفیت کھلی ہو اور نہ یاجوج ماجوج کی عمیق تہ تک وحی الٰہی نے اطلاع دی ہو اور نہ دابۃ الارض کی ماہیت کَمَا ہِیَ ظاہر فرمائی گئی اور صرف امثلہ قریبہ اور صور متشابہ اور امور متشاکلہ کے طرز بیان میں جہاں تک غیب محض کی تفہیم بذریعہ انسانی قویٰ کے ممکن ہے اجمالی طورپر سمجھایا گیا ہو تو کچھ تعجب کی بات نہیں اور ایسے امور میں اگر وقت ظہورکچھ جزئیات غیر معلومہ ظاہر ہوجائیں تو شان نبوت پر کچھ جائے حرف نہیں.مگر قرآن اور حدیث پر غور کرنے سے یہ بخوبی ثابت ہوگیا ہے کہ ہماے سیّد ومولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تو یقینی اور قطعی طور پر سمجھ لیا تھا کہ وہ ابن مریم جورسول اللہ نبی ناصری صاحب انجیل ہے وہ ہرگز دوبار ہ دنیامیں نہیں آئے گا.بلکہ اس کا کوئی سمّی آئے گا جو بوجہ مماثلت روحانی اس کے نام کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے پائے گا.اور منجملہ اُن علامات کے جو اس عاجز کے مسیح موعود ہونے کے بارہ میں پائی جاتی ہیں وہ خدمات خاصہ ہیں جو اس عاجز کومسیح ابن مریم کی خدمات کے رنگ پر سپرد کی گئی ہیں.کیونکہ مسیح اُس وقت یہودیوں میں آیاتھا کہ جب توریت کا مغز اور بطن یہودیوں کے دلوں پر سے اُٹھایا گیا تھا اور وہ زمانہ حضرت موسیٰ سے چوداں ۱۴۰۰سو برس بعد تھا کہ جب مسیح ابن مریم یہودیوں کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا تھا.پس ایسے ہی زمانہ میں یہ عاجز آیا کہ جب قرآن کریم کا مغز اور بطن مسلمانوں کے دلوں پر سے اٹھایا گیا اور یہ زمانہ بھی حضرت مثیل موسیٰ کے وقت سے اُسی زمانہ کے قریب قریب گذر چکا تھاجو حضرت موسیٰ اور عیسیٰ کے درمیان میں زمانہ تھا.

Page 516

ازانجملہ ایک یہ کہ ضرور تھا کہ آنے والا ابن مریم الف ششم کے آخر میں پیدا ہوتا.کیونکہ ظلمت عامہ اور تامہ کے عام طور پر پھیلنے کی وجہ سے او ر حقیقت انسانیہ پر ایک فنا طاری ہونے کے باعث سے وہ روحانی طورپر ابو البشر یعنی آدم کی صورت پر پیدا ہونے والا ہے اور بڑے علامات اور نشان اُس کے وقت ظہور کے انجیل اورفرقان میں یہ لکھے ہیں کہ اس سے پہلے روحانی طورپر عالمِ کون میں ایک فساد پیدا ہوجائے گا.آسمانی نورکی جگہ دُخان لے لے گا اور ایک عالم پر دخان کی تاریکی طاری ہوجائے گی.ستارے گرجائیں گے زمین پر ایک سخت زلزلہ آجائے گا.مرد جو حقیقت کے طالب ہوتے ہیں تھوڑے رہ جائیں گے.اوردنیا میں کثرت سے عورتیں پھیل جائیں گی یعنی سفلی لذّات کے طالب بہت ہوجائیں گے جوسفلی خزائن اور دفائن کو زمین سے باہر نکالیں گے مگر آسمانی خزائن سے بے بہرہ ہوجائیں گے تب وہ آدم جس کا دوسرا نام ابن مریم بھی ہے بغیر وسیلہ ہاتھوں کے پیدا کیاجائے گا اسی کی طرف وہ الہام اشارہ کررہا ہے جو براہین میں درج ہوچکاہے اوروہ یہ ہے اردت ان استخلف فخلقت اٰدم یعنی میں نے ارادہ کیا جو اپنا خلیفہ بناؤں سو میں نے آدم کوپیدا کیا.آدم اور ابن مریم درحقیقت ایک ہی مفہوم پر مشتمل ہے.صرف اسقدرفرق ہے کہ آدم کالفظ قحط الرجال کے زمانہ پر ایک دلالت تامہ رکھتاہے اور ابن مریم کالفظ دلالت ناقصہ.مگر دونوں لفظوں کے استعمال سے حضرت باری کا مدعا اور مراد ایک ہی ہے.اسی کی طرف اس الہام کا بھی اشارہ ہے جو براہین میں درج ہے اور وہ یہ ہے ان السّمٰوات والارض کانتا رتقا ففتقناھما.کنت کنزًا مخفیا فاحببت ان اعرف.یعنی زمین و آسمان بند تھے اور حقائق ومعارف پوشیدہ ہوگئے تھے سو ہم نے اُن کو اس شخص کے بھیجنے سے کھول دیا.میں ایک چھپاہوا خزانہ تھا سو میں نے چاہا کہ شناخت کیا جاؤں.اب جبکہ اس تمام تقریر سے ظاہر ہوا کہ ضرور ہے کہ آخر الخلفاء آدم کے نام پر آتا.

Page 517

اور ظاہر ہے کہ آدم کے ظہور کا وقت روز ششم قریب عصر ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ اور توریت سے بھی ثابت ہوتا ہے.اس لئے ہریک منصف کو مانناپڑے گا کہ وہ آدم اور ابن مریم یہی عاجز ہے.کیونکہ اوّل تو ایسا دعوےٰ اس عاجز سے پہلے کبھی کسی نے نہیں کیا اور اس عاجز کا یہ دعویٰ دس برس سے شائع ہورہا ہے او ر براہین احمدیہ میں مدّت سے یہ الہام چھپ چکاہے کہ خدائے تعالیٰ نے اس عاجز کی نسبت فرمایا ہے کہ یہ آدم ہے اور یہ خدائے تعالیٰ کی ایک باریک اور کامل حکمت ہے کہ اس طوفان نزاع کے وقت سے دس برس پہلے ہی اُس نے اس عاجز کا نام آدم اور عیسیٰ رکھ دیا تا غور کرنے والوں کے لئے نشان ہو اور تا اُس تکلّف اور تاویل کا خیال دور ہوجاوے جو خام طبع لوگوں کے دلوں میں بسا ہوا ہے.سو اس حکیم مطلق نے اس عاجز کا نام آدم اور خلیفۃ اللہ رکھ کر اور انّی جاعل فی الارض خلیفہ کی کھلے کھلے طور پر براہین احمدیہ میں بشارت دے کرلوگوں کو توجہ دلائی کہ تا اِس خلیفۃ اللہ آدم کی اطاعت کریں اور اطاعت کرنے والی جماعت سے باہر نہ رہیں اور ابلیس کی طرح ٹھوکر نہ کھاویں اور من شَذَّ شُذّ فی النّار کی تہدید سے بچیں اور اپنے الہاموں کی حقیقت کو سمجھیں لیکن انہوں نے کورانہ لکیر کا نام جماعت رکھا اور حقیقی جماعت جو بنظر ظاہر بیناں ایک فۂ قلیلہ اور قلیلاً ما ہم میں داخل ہے اس سے مُنہ پھیر لیا اور اس عاجز کو جوخدائے تعالیٰ نے آدم مقرر کر کے بھیجا اس کا یہ نشان رکھا کہ الف ششم میں جو قائم مقام روز ششم ہے یعنی آخری حصّہ الف میں جو وقت عصر سے مشابہ ہے اس عاجز کو پیدا کیا جیسا کہ وہ فرماتا ہے 33 ۱؂.اور ضرور تھا کہ وہ ابن مریم جس کا انجیل اور فرقان میں آدم بھی نام رکھا گیا ہے وہ آدم کی طرز پر الف ششم کے آخر میں ظہور کرتا.سو آدم اوّل کی پیدائش سے الف ششم میں ظاہر ہونے والا یہی عاجز ہے.بہت سی حدیثوں سے ثابت ہوگیا ہے کہ بنی آدم کی عمر سات ہزار برس ہے اور آخری آدم پہلے آدم کی طرز ظہور پر الف ششم کے آخر میں جوروز ششم کے حکم میں ہے پیدا ہونے والا ہے

Page 518

سو وہ یہی ہے جو پیدا ہوگیا.فالحمد للّٰہ علٰی ذٰلک.از انجملہ ایک یہ ہے کہ مسیح کے نزول کی علامت یہ لکھی ہے کہ دو فرشتوں کے پروں پر اس نے اپنی ہتھیلیاں رکھی ہوئی ہوں گی.یہ ا س بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس کا دایاں اور بایاں ہاتھ جو تحصیل علوم عقلی اور انوار باطنی کا ذریعہ ہے آسمانی موکلوں کے سہارے پر ہوگا اور وہ مکتب اور کتابوں اور مشائخ سے نہیں بلکہ خدائے تعالیٰ سے علم لدنّی پائے گا اور اس کی ضروریات زندگی کا بھی خدا ہی متولّی اور متکفّل ہوگا.جیسا کہ عرصہ دس سال سے براہین احمدیہ میں اس عاجز کی نسبت یہ الہام چھپ چکا ہے کہ انک باعیننا سمّیتک المتوکل وعلمنٰہُ من لدنا علمًا یعنی تُو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے ہم نے تیرا نام متوکّل رکھا اور اپنی طرف سے علم سکھلایا.یا درہے کہ اجنحہ سے مراد جو حدیث میں ہے صفات اور قویٰ ملکیہ ہیں جیسا کہ صاحب لمعات شارح مشکٰوۃ نے حدیث مندرجہ ذیل کی شرح میں یہی معنے لکھے ہیں.عن زید ابن ثابت قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم طوبیٰ للشام قلنا لای ذٰلک یارسو ل اللّٰہ قال لان ملائکۃ الرحمٰن باسطۃ اجنحتھا علیھا رواہ احمد والترمذی.یہ بات بہت سی حدیثوں اور قرآن کریم سے ثابت ہے کہ جوشخص کامل انقطاع اور کامل توکل کا مرتبہ پیدا کرلیتا ہے تو فرشتے اس کے خادم کئے جاتے ہیں اور ہر یک فرشتہ اپنے منصب کے موافق اس کی خدمت کرتا ہے وقال اللّٰہ تعالٰی: 333333 ۱؂ ایسا ہی خدائے تعالیٰ فرماتا ہے 33۲؂ یعنی اُٹھایا ہم نے اُن کو جنگلوں میں اور دریاؤں میں.اب کیا اس کے یہ معنے کرنے چاہئیں کہ حقیقت میں خدائے تعالیٰ اپنی گود میں لے کر اُٹھائے پھرا.سو اسی طرح ملائک کے پروں پر ہاتھ رکھنا حقیقت پر محمول نہیں.اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ عاجز ایسی علامت متذکرہ بالا کے ساتھ آیا ہے اور اجنحہ ملائکہ پر اس عاجز کے دونوں ہاتھ ہیں اور غیبی قوتوں کے سہارے سے علوم لدنّی کھل رہے ہیں.اگر کوئی

Page 519

شخص نابینا نہیں تو صریح اس علامت سے دیکھ لے گا اور دوسرے میں اس کی نظیر نہیں پائیگا.ازانجملہ ایک یہ ہے کہ مسیح کی علامت یہ لکھی ہے کہ اس کے دم سے کافر مرے گا.اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے مخالف اور منکر کسی بات میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے کیونکہ اس کے دلائل کاملہ کے سامنے مر جائیں گے.سو عنقریب لوگ دیکھیں گے کہ حقیقت میں مخالف حجت اور دلیل بینہ کی رو سے مرگئے.از انجملہ ایک یہ ہے کہ مسیح جب آئے گا تو لوگوں کے عقائد اور خیالات کی غلطیاں نکالے گا جیسا کہ بخاری میں یہی حدیث لکھی ہے کہ مسیح ابن مریم حَکَم اور عدل ہونے کی حالت میں نازل ہوگا.پس حَکم اور عدل کے لفظ سے ہر یک دانا سمجھ سکتا ہے کہ مسیح بہتوں کے فہم اور سمجھ کے مخالف حق اور عدل کے ساتھ حکم کرے گا اور جیسے حَکم عدل سے نادان لوگ ناراض ہوجاتے ہیں ایسا ہی اس سے بھی ہوں گے.سو یہ عاجز حَکم ہو کر آیا اور تمام غلط اوہام کا غلط اوہام ہونا ظاہر کر دیا.چنانچہ لوگ اوّل یہ سمجھ رہے تھے کہ وہی مسیح ابن مریم نبی ناصری جو فوت ہو چکا ہے پھر دوبارہ دنیا میں آجائے گا.سو پہلے یہی غلطی ان کی دور کر دی گئی اور اُن لوگوں کو سچا ٹھہرایا گیا جو مسلمانوں میں سے مسیح کی موت کے قائل تھے یا جیسے عیسائیوں میں سے یونی ٹیرین فرقہ جو اسی بات کا قائل ہے کہ مسیح مرگیا اور پھر دنیا میں نہیں آئے گا اور ظاہر کر دیا گیا کہ قرآن کریم کی تیس آیتوں سے مسیح ابن مریم کافوت ہونا ثابت ہوتا ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کسی نبی کی وفات ایسی صراحت سے قرآن کریم میں نہیں لکھی جیسی مسیح ابن مریم کی.اور یہ وہ امر ہے جسکو ہم شرطی طورپر قرآن کریم کی رو سے پیش کر سکتے ہیں.اور ہم نے مسیح کی موت کا ثبوت دینے کے بعد یہ بھی ثابت کر دیا کہ وعدہ صرف یہ تھا کہ جب چودھویں صدی تک اس اُمّت کے ایّام پہنچ جائیں گے تو خدائے تعالیٰ اس لطف واحسان کی طرح جو حضرت موسیٰ کی اُمت سے اُس اُمت کے آخری زمانہ میں کیا تھا.مثیل موسیٰ کی ایک غافل اُمت پر بھی اُن کے آخری زمانہ میں وہی احسان کرے گا

Page 520

اور اسی اُمت میں سے ایک کو مسیح ابن مریم بنا کر بھیجے گا سو وہ مسلمانوں میں سے ہی آوے گا.جیسا کہ اسرائیلی ابن مریم بنی اسرائیل میں سے ہی آیا.ایسا ہی لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ مسیح وفات کے بعد آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں دفن کیا جائے گالیکن وہ اس بے ادبی کو نہیں سمجھتے تھے کہ ایسے نالائق اور بے ادب کون آدمی ہوں گے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو کھودیں گے.اور یہ کس قدر لغو حرکت ہے کہ رسول مقبول کی قبر کھودی جاوے اور پاک نبی کی ہڈیاں لوگوں کو دکھائی جاویں.بلکہ یہ معیّت روحانی کی طرف اشارہ ہے.ایسا ہی بہت سی غلطیاں ہیں جو نکل رہی ہیں.از انجملہ ایک یہ ہے کہ مسیح موعود جو آنے والا ہے اس کی علامت یہ لکھی ہے کہ وہ نبی اللہ ہوگا یعنی خدائے تعالیٰ سے وحی پانے والا.لیکن اس جگہ نبوت تامہ کاملہ مرادنہیں کیونکہ نبوت تامہ کاملہ پر مہر لگ چکی ہے بلکہ وہ نبوت مراد ہے جو محدثیت کے مفہوم تک محدود ہے جو مشکٰوۃ نبوت محمدیہ سے نور حاصل کرتی ہے.سو یہ نعمت خاص طور پر اس عاجز کو دی گئی ہے اور اگرچہ ہر یک کو رؤیاصحیحہ اور مکاشفات میں سے کسی قدر حصہ ہے.مگر مخالفین کے دل میں اگر گمان اور شک ہوتو وہ مقابلہ کر کے آزما سکتے ہیں کہ جو کچھ اس عاجز کو رؤیاصالحہ اور مکاشفہ اور استجابت دعا اور الہامات صحیحہ صادقہ سے حصّہ وافرہ نبیوں کے قریب قریب دیا گیا ہے وہ دوسروں کو تمام حال کے مسلمانوں میں سے ہرگز نہیں دیا گیا اور یہ ایک بڑا محک آزمائش ہے کیونکہ آسمانی تائید کی مانند صادق کے صدق پر اور کوئی گواہ نہیں.جو شخص خدائے تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے بے شک خدائے تعالیٰ اس کے ساتھ ہوتا ہے اور ایک خاص طورپر مقابلہ کے میدانوں میں اس کی دستگیری فرماتا ہے.چونکہ میں حق پر ہوں اور دیکھتا ہوں کہ خدا میرے ساتھ ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اس لئے میں بڑے اطمینان اور یقین کامل سے کہتا ہوں کہ اگر میری ساری قوم کیا پنجاب کے رہنے والے اور کیا ہندوستان کے باشندے اور کیا عرب کے مسلمان اور کیا روم اور فارس کے کلمہ گو اور کیا افریقہ اور دیگر بلاد کے اہل اسلام

Page 521

اوراُن کے علماء اور اُن کے فقراء اور اُن کے مشائخ اوراُن کے صلحاء اور اُن کے مرد اور اُن کی عورتیں مجھے کاذب خیال کر کے پھرمیرے مقابل پر دیکھنا چاہیں کہ قبولیت کے نشان مجھ میں ہیں یا اُن میں.اور آسمانی دروازے مجھ پر کھلتے ہیں یا اُن پر.اور وہ محبوب حقیقی اپنی خاص عنایات اور اپنے علوم لدنیہ اور معارف روحانیہ کے القاء کی وجہ سے میرے ساتھ ہے یا اُن کے ساتھ.تو بہت جلد اُن پر ظاہرہوجائے گا کہ وہ خاص فضل اور خاص رحمت جس سے دل مورد فیوض کیاجاتا ہے اسی عاجز پر اس کی قوم سے زیادہ ہے.کوئی شخص اس بیان کو تکبّر کے رنگ میں نہ سمجھے بلکہ یہ تحدیث نعمت کی قسم میں سے ہے وذٰلک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء.اسی کی طرف اشارہ ان الہامات میں ہے قل انی امرت و انا اول المؤمنین.الحمد للّٰہ الذی اذھب عنی الحزن واٰتانی ما لم یؤت احد من العٰلمین.احد من العٰلمین سے مراد زمانہ حال کے لوگ یا آئندہ زمانہ کے ہیں.واللّٰہ اعلم بالصواب.از انجملہ بعض مکاشفات مولوی عبداللہ صاحب غزنوی مرحوم ہیں جو اس عاجز کے زمانہ ظہور سے پہلے گذر چکے ہیں.چنانچہ ایک یہ ہے کہ آج کی تاریخ ۱۷ جون ۱۸۹۱ ؁ء سے عرصہ چارماہ کاگذرا ہے کہ حافظ محمد یوسف صاحب جو ایک مرد صالح بے ریا متقی اور متبع سُنّت اور اوّل درجہ کے رفیق اور مخلص مولوی عبداللہ صاحب غزنوی ہیں وہ قادیان میں اس عاجز کے پاس آئے اور باتوں کے سلسلہ میں بیان کیا کہ مولوی عبد اللہ صاحب مرحوم نے اپنی وفات سے کچھ دن پہلے اپنے کشف سے ایک پیشگوئی کی تھی کہ ایک نور آسمان سے قادیان کی طرف نازل ہوا مگر افسوس کہ میری اولاد اس سے محروم رہ گئی.فقط ایک صاحب غلام نبی نارو والے نام اپنے اشتہارمرقومہ دوم ذیقعدہ میں لکھتے ہیں کہ یہ افتراء ہے اگر افتراء نہیں تو اُس راوی کا نام لینا چاہیئے جس کے روبرو مولوی صاحب مرحوم نے بیان کیا.سو اب ہم نے بیان کر دیا کہ وہ راوی کون ہے اور کس درجہ کا آدمی ہے.چاہیئے کہ حافظ صاحب سے دریافت کریں کہ افتراء ہے یا سچی بات ہے.و من اظلم ممن افترٰی او کذّب و ابٰی.

Page 522

ایسا ہی فروری ۱۸۸۶ ؁ء میں بمقام ہوشیارپور منشی محمدیعقوب صاحب برادر حافظ محمد یوسف نے میرے پاس بیان کیا کہ مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی مرحوم سے ایک دن میں نے سُنا کہ وہ آپ کی نسبت یعنی اس عاجز کی نسبت کہتے تھے کہ میرے بعد ایک عظیم الشان کام کے لئے وہ مامور کئے جائیں گے.مگر مجھے یاد نہیں رہا کہ منشی محمد یعقوب صاحب کے منہ سے یہی الفاظ نکلے تھے یا انہیں کے ہم معنے اور الفاظ تھے.بہرحال انہوں نے بعض آدمیوں کے روبر و جن میں سے ایک میاں عبداللہ سنور ی پٹیالہ کی ریاست کے رہنے والے ہیں اس مطلب کو انہیں الفاظ یا اور لفظوں میں بیان کیا تھا.مجھے یا د ہے کہ اس وقت منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ اور کئی اَور صاحب میرے مکان پرجو شیخ مہر علی صاحب رئیس کامکان تھا موجود تھے مگر یہ معلوم نہیں کہ اس جلسہ میں کون کون موجود تھا جب یہ ذکر کیاگیا.مگر میاں عبد اللہ سنوری نے میرے پاس بیان کیا کہ میں اس تذکرہ کے وقت موجودتھا اورمیں نے اپنے کانوں سے سُنا.از انجملہ ایک کشف ایک مجذوب کا ہے.جو اس زمانہ سے تیس یا اکتیس برس پہلے اس عالم بے بقا سے گذرچکا ہے.جس شخص کی زبان سے میں نے یہ کشف سنا ہے وہ ایک معمر سفید ریش آدمی ہے.جس کے چہرہ پر آثار صلاحیت وتقویٰ ظاہر ہیں جس کی نسبت اس کے جاننے والے بیان کرتے ہیں کہ یہ درحقیقت راست گو اور نیک بخت اور صالح آدمی ہیں.یہاں تک کہ مولوی عبدالقادرمدرس جمالپور ضلع لدھانہ نے جو ایک صالح آدمی ہے اس پیر سفید ریش کی بہت تعریف کی کہ در حقیقت یہ شخص متقی اور متبع سنّت اور راست گو ہے.اور نہ صرف انہوں نے آپ ہی تعریف کی بلکہ اپنی ایک تحریر میں یہ بھی لکھا کہ مولوی محمد حسن صاحب رئیس لدھیانہ کہ جوگروہ موحدین میں سے ایک منتخب اور شریف اور غایت درجہ کے خلیق اور بُردبار اور ثقہ ہیں جن کے والدصاحب مرحوم کا جو ایک باکمال بزرگ تھے یہ سفید ریش بڈھا قدیمی دوست اور ہم قوم اورپُرانے زمانہ سے تعارف

Page 523

رکھنے والا اور اُن کی پُر فیض صحبتوں کے رنگ سے رنگین ہے بیان فرماتے تھے کہ حقیقت میں میاں کریم بخش یعنی یہ بزرگ سفید ریش بہت اچھا آدمی ہے اور اعتبار کے لائق ہے مجھ کو اس پر کسی طور سے شک نہیں ہے.اب وہ کشف جس طور سے میاں کریم بخش موصوف نے اپنے تحریر ی اظہار میں بیان کیا ہے اس اظہار کی نقل معہ اُن تمام شہادتوں کے جو اس کاغذ پر ثبت ہیں ذیل میں ہم لکھتے ہیں اور وہ یہ ہے :.میرا نام کریم بخش والدکانام غلام رسول قوم اعوان ساکن جمالپور اعوانہ تحصیل لودھیانہ پیشہ زمینداری عمرتخمینًا چونسٹھ ۶۴سال مذہب موحد اہلحد یث حلفًا بیان کرتا ہوں کہ تخمینًا تیس یا اکتیس سال کا گذرا ہوگا یعنی سمت ۱۹۱۷ میں جبکہ سن سترہ کا ایک مشہورقحط پڑا تھا ایک بزرگ گلاب شاہ نام جس نے مجھے توحید کا راہ سکھلایا اور جو بباعث اپنے کمالات فقر کے بہت مشہور ہوگیا تھا اور اصل باشندہ ضلع لاہور کا تھا ہمارے گاؤں جمالپور میں آرہا تھااور ابتداء میں ایک فقیر سالک اور زاہد اورعابد تھا اور اسرار توحید اُس کے منہ سے نکلتے تھے لیکن آخر اس پر ایک ربودگی اور بیہوشی طاری ہو کرمجذوب ہوگیا اور بعض اوقات قبل از ظہور بعض غیب کی باتیں اس کی زبان پر جاری ہوتیں اور جس طرح وہ بیان کرتا آخر اُسی طرح پوری ہوجاتیں.چنانچہ ایک دفعہ اُس نے سمت سترہ کے قحط سے پہلے ایک قحط شدید کے آنے کی پیشگوئی کی تھی اور پیش از وقوع مجھے بھی خبر دی تھی.سو تھوڑے دنوں کے بعد سترہ کاقحط پڑ گیا تھا.اور ایک دفعہ اُس نے بتلایا تھا کہ موضع رام پور ریاست پٹیالہ تحصیل پائیلی کے قریب جہاں اب نہر چلتی ہے ہم نے وہاں نشان لگایا ہے کہ یہاں دریا چلے گا.پھر بعد ایک مدّت کے وہاں اُسی نشان کی جگہ پر نہر جاری ہوگئی جو درحقیقت دریا کی ہی ایک شاخ ہے.یہ پیشگوئی اُن کی سارے جمالپور میں مشہور ہے.ایسا ہی ایک دفعہ انہوں نے سمت سترہ کے قحط سے پہلے کہا تھا کہ اب بیوپاریوں کو

Page 524

بہت فائدہ ہوگا.چنانچہ تھوڑے دنوں کے بعد قحط پڑا اور بیوپاری لوگوں کو اس قحط میں بہت فائدہ ہوا.ایسی ہی اُن کی اَور بھی کئی پیشگوئیاں تھیں جو پوری ہوتی رہیں.اس بزرگ نے ایک دفعہ جس بات کو عرصہ تیس سال کا گذراہوگا مجھ کو کہا کہ عیسیٰ اب جوا ن ہوگیا ہے اورلدھیانہ میں آکر قرآن کی غلطیاں نکالے گا اورقرآن کی رو سے فیصلہ کرے گا اور کہا کہ مولوی اس سے انکار کریں گے پھر کہا کہ مولوی انکارکرجائیں گے.تب میں نے تعجب کی راہ سے پوچھا کہ کیا قرآن میں بھی غلطیاں ہیں قرآن تو اللہ کا کلام ہے.تو انہوں نے جواب دیا کہ تفسیروں پر تفسیریں ہوگئیں اور شاعری زبان پھیل گئی ( یعنی مبالغہ پر مبالغہ کر کے حقیقتوں کو چھپایا گیا جیسے شاعر مبالغات پر زور دیکر اصل حقیقت کو چھپا دیتا ہے ) پھر کہاکہ جب وہ عیسیٰ آئے گا تو فیصلہ قرآن سے کرے گا.پھر اس مجذوب نے بات کو دوہرا کریہ بھی کہاتھا کہ قرآن پر کرے گا اور مولوی انکار کرجائیں گے.اورپھر یہ بھی کہا کہ انکارکریں گے اور جب وہ عیسیٰ لدھیانہ میں آئے گا تو قحط بہت پڑے گا.پھر میں نے پوچھا کہ عیسیٰ اب کہاں ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ بیچ قادیان کے یعنی قادیان میں تب میں نے کہا کہ قادیان تو لدھیانہ سے تین کوس ہے وہاں عیسیٰ کہاں ہے (لدھیانہ کے قریب ایک گاؤں ہے جس کانام قادیان ہے )اس کا انہوں نے کچھ جواب نہ دیا.اور مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ ضلع گورداسپور ہ میں بھی کوئی گاؤں ہے جس کا نام قادیان ہے.پھر میں نے اُن سے پوچھا کہ عیسیٰ علیہ السلام نبی اللہ آسمان پر اٹھائے گئے اور کعبہ پر اُتریں گے.تب انہوں نے جواب دیا.عیسیٰ ابن مریم نبی اللہ تو مر گیا ہے اب وہ نہیں آئے گا ہم نے اچھی طرح تحقیق کیا ہے کہ مر گیا ہے ہم بادشاہ ہیں جھوٹ نہیں بولیں گے اور کہاکہ جو آسمانوں والے صاحب ہیں وہ کسی کے پاس چل کرنہیں آیا کرتے.المظھر میاں کریم بخش بمقام لدھیانہ محلہ اقبال گنج ۱۴ جون ۱۸۹۱ ؁ء روز شنبہ

Page 525

نام اُن صاحبوں کے جنہوں نے اپنے کانوں سے اس بیان کو سُن کر میاں کریم بخش کے اظہار تحریری پر اُسی وقت اُن کے روبرو اپنی اپنی گواہییں لکھیں.میرے سامنے میاں کریم بخش نے مضمون مذکورہ صدر حرف بحرف لکھوایا.میر عباس علی بقلم خو د میرے رو برو میاں کریم بخش صاحب نے یہ بیان تحریر کرایاجو اوپر لکھا گیا ہے.عاجز رستم علی ڈپٹی انسپکٹر ریلوے پولیس ۱۴ جون ۹۱ ؁ء اس عاجز کے روبرو میاں کریم بخش نے یہ بیان تحریر کرایا اور یہ مضمون بلا کمی بیشی حرف بہ حرف لکھا گیا.عبد اللہ پٹواری غوث گڑھ میرے سامنے میاں کریم بخش نے یہ بیان حرف بحرف تحریر کرایا.الہ بخش بقلم خو د سکنہ لدھانہ میرے سامنے میاں کریم بخش نے مضمون مذکور الصدرحرف بہ حرف لکھوایا.غلام محمد از پکہو وال بقلم خود میرے رو برو بیان مذکورہ بالا میاں کریم بخش نے حرف بہ حرف لکھوایا عطاء الرحمان ساکن دہلی میرے رو بر و میاں کریم بخش نے حرف بہ حرف حلفًا بیان مذکورہ بالا تحریر کرایا عبد الحق خلف عبد السمیع ساکن لدھیانہ یہ بیان میاں کریم بخش نے حلفًا میرے روبرو لکھوایاہے.عبد القادرمدرس جمالپور بقلم خود اس عاجز کے رو برو میاں کریم بخش نے اظہار مذکورہ بالا حلفًا لکھوایا.سید فضل شاہ ساکن ریاست جموں بیان بالا میری موجودگی میں حلفاً میاں کریم بخش سکنہ جمالپور نے لکھوایا ہے.کنہیا لال سیکنڈ ماسٹرراج سکول سنگرور ریاست جیند سکنہ لدھانہ میرے رو برو بیان مذکورہ بالا حرف بہ حرف میاں کریم بخش نے حلفًا لکھوایا ہے.سیّد عنایت علی سکنہ لودھیانہ محلہ صوفیاں

Page 526

میرے رو برو بیان مذکورہ بالاکی میاں کریم بخش نے تصدیق کی.ناصر نواب میرے روبرو میاں کریم بخش نے بیان مذکور ہ بالا کی تصدیق کی.قاضی خواجہ علی بقلم خود میاں کریم بخش نے حلفاً بیان مذکورہ بالا لکھوایا ہے مولوی تاج محمد میرے رو برو یہ مضمون مسمّی کریم بخش کو سنایا گیا اور اس نے تصدیق کیا.مراری لال کلرک نہر سرہند ڈویژن لودہانہ میاں کریم بخش نے وہ تمام بیان جو اس کی زبان سے لکھا گیا حلفًا تصدیق کیا.مولوی نصیر الدین واعظ ساکن بہولر ریاست بہاولپور.حال وارد لدھانہ بیان مذکورہ بالا کومیاں کریم بخش نے میرے روبرو تصدیق کیا.محمد نجیب خان دفتر نہر سرہند ڈویژن لودھیانہ اس بیان کے بعد پھر میاں کریم بخش نے بیان کیا کہ ایک بات میں بیان کرنے سے رہ گیا.اور وہ یہ ہے کہ اس مجذوب نے مجھے صاف صاف یہ بھی بتلا دیا تھا کہ اُس عیسیٰ کانام غلام احمد ہے.اب وہ گواہیاں ذیل میں لکھی جاتی ہیں.جنھوں نے قسم کھاکر بیان کیا کہ درحقیقت میاں کریم بخش ایک مرد صالح اورنیک چلن آدمی ہے جس کا کبھی کوئی جھوٹ ثابت نہیں ہوا یہ گواہ اسی گاؤں کے یا اس کے قریب کے رہنے والے ہیں.ہم حلفًا بیان کرتے ہیں کہ میا ں کریم بخش ایک راستباز آدمی ہے اور صوم وصلوٰۃ کا اعلیٰ درجہ کا پابندہے اور ہم نے اپنی تمام عمر میں اس کی نسبت کوئی جھوٹ بات بولنے اور خلاف واقعہ بیان کرنے میں اتہام نہیں سُنا بلکہ آج تک ایک گنّا یاچھلّی تک کسی شخص کی نہیں توڑی.اور میاں گلا ب شاہ بھی اس دیہہ میں ایک مشہور مجذوب گذرا اور اس مجذوب کے انتقال کو عرصہ تخمینًا پچیس سال کا ہوا ہے اس مجذوب کی اکثر پیش از وقوع باتیں بتلائی ہوئی ہمارے رو برو پوری ہوئی ہیں.العبد خیرایتی نمبر دار جمالپور العبد نور الدین ولد دتا ساکن جمالپور ۲۶؍ جون ۱۸۸۳ ؁ ء سے میں اس جگہ ملازم ہوں میں نے میاں کریم بخش کا کوئی جھوٹ آج تک نہیں معلوم کیا اور یہ شخص اول درجہ کا پابند صوم وصلوٰۃ اور راستباز آدمی ہے.اور موحد ہے.العبد عبد القادر مدرس جمالپور بقلم خود میاں کریم بخش نیک آدمی ہے اور پکّا نمازی.میں نے اپنی تمام عمر میں اس کا کوئی جھوٹ نہیں سُنا حلفًا بیان کیا ہے اور میاں گلاب شاہ بہت اچھا فقیر تھا اس گلاب شاہ کو تمام زن و مرد اس دیہہ کے جانتے ہیں.العبد نبی بخش ارائیں سکنہ جمالپور

Page 527

میاں کریم بخش سچا آدمی ہے اور پختہ نمازی ہے اور نماز جمعہ کا سخت پابند اور کم گو ہے العبد پیر محمد نمبردار بقلم خود سکنہ جمالپور کریم بخش نمازی ہے اور بہت سچا آدمی ہے الہ دتا سکنہ جمالپور اوپر کا لکھا ہوا نہایت صحیح ہے اور کریم بخش نہایت سچا آدمی ہے اور نماز روزہ اور جمعہ کبھی قضا نہیں کیا اور کوئی جھوٹ اور افتراء کی بات اس کی نسبت ثابت نہیں ہوئی اور بہت کم گو آدمی ہے.العبد نور محمد ولد مادا سکنہ جمالپور کر یم بخش نہایت سچا اور نیک بخت اور کم گو اور پرہیزگار اور نمازی آدمی ہے اور سب عادتیں اس کی بہت اچھی ہیں.العبد روشن لال ولد قاسا نمبردار جمال پور عمر ۵۰ سال میاں کریم بخش بہت سچا آدمی ہے اور کبھی اس شخص نے جھوٹھی گواہی نہیں دی اور نہ جھوٹ کی تہمت اس کو کسی نے میری ہوش میں لگائی.العبد خیالی ولد گور مکھ ترکھان سکنہ جمالپور کریم بخش غلام رسول کا بیٹا بہت نیک آدمی ہے اور سچا ہے اور ہمیشہ جمعہ پڑھتا ہے اور کبھی اس نے جھوٹ نہیں بولا.العبد کاکا ولد چوہڑ سکنہ جمالپور کریم بخش سچا آدمی ہے اور نیک بخت ہے اور نمازی ہے فقط اور میاں گلاب شاہ بہت اچھا مجذوب تھا.العبد بوٹا ولد احمد بقلم پیر محمد نمبردار میاں کریم بخش بہت سچا اور نیک چلن آدمی ہے اور اس شخص نے کبھی جھوٹھی شہادت نہیں دی اور نہ سُنی.العبد ہیرا لال ولددو سندھی سکنہ جمالپور بقلم خود میاں کریم بخش بہت سچا اور بہت نیک اورنمازی ہے اور میں نے اپنی ہوش میں اسکا کوئی جھوٹ نہیں سُنا.العبد گلزار شاہ بقلم خود میاں کریم بخش کومیں بخوبی جانتاہوں کہ یہ شخص نیک بخت ہے اور بہت سچا ہے ۱۸۶۲ ؁ء سے میں اِسکا واقف ہوں اور اس شخص کا جھوٹھ کوئی میں نے نہیں سُنا اورنہ کوئی بدچلنی اس کی سُنی گئی ہے اور یہ شخص نمازی ہے اورجمعہ پڑھنے بھی لدھیانہ آیا کرتا ہے.العبد امیر علی ولدنبی بخش آوان ساکن لدھیانہ برادر مولوی محمدحسن صاحب رئیس اعظم بقلم خود

Page 528

کریم بخش پکّا نمازی ہے اور سچّا اور نیک بخت اور کبھی جھوٹھی شہادت اس نے نہیں دی.بقلم خود امان علی ولد چانن شاہ ٹھیکیدار مسمّی کریم بخش بہت سچا اور پکّا نمازی اورنیک چلن آدمی ہے اور کبھی اس کا کوئی جھوٹ بولنا ثابت نہیں ہوا.اور گلاب شاہ بہت اچھا فقیر تھا.اور اس ہمارے دیہہ میں بہت مدت تک رہے ہیں.العبد اکبر ولد محمدپناہ سکنہ جمالپور مسمی کریم بخش بڑا سچا آدمی اور پختہ نمازی ہے رمضان کے روزے ہمیشہ رکھتاہے اور کبھی جمعہ قضا نہیں کرتا اور کبھی اس کا جھوٹ ثابت نہیں ہوا اورنہایت نیک چلن ہے.العبد بقلم غلام محمد پسر روشن ذات آوان ساکن جمالپور میں مسمی کریم بخش کو بہت نیک بخت جانتا ہوں.او ر سچا ہے اور یہ شخص پکّانمازی ہے.العبد غلام محمد نائب مدرس مدرسہ جمالپور سکنہ پکھو وال بقلم خود میاں کریم بخش بہت اچھا اور نیک چلن نمازی ہے اور جمعہ پڑھنے والا اور سچا آدمی ہے.العبد نظام الدین سکنہ جمالپور بقلم خود نظام الدین میاں کریم بخش بہت اچھا اور نیک چلن اور نماز ی اور جمعہ پڑھنے والا اور سچا آدمی ہے.العبد شیرا ولد روشن گوجر از جمالپور میاں کریم بخش بہت اچھا اور نیک چلن آدمی ہے اوراس شخص نے کبھی جھوٹی شہادت نہیں دی اور نہ سُنی.العبد گوکل ولد متابا سود از جمالپور میاں کریم بخش آدمی نماز ی ہے اور بہت سچا ہے العبد کریم بخش ولد غلام غوث آوان از جمالپور کریم بخش بہت اچھا نیک بخت آدمی ہے اور سچا اور نمازی اور پرہیز گار ہے.العبد لکھا ولد سوندھا ارائیں جمالپور کریم بخش بہت نیک بخت ہے اور سچا ہے اور اس میں جھوٹ بولنے کی عادت نہیں العبد گنیشا مل سود جمالپوریہ بقلم لنڈے کریم بخش پکا نمازی ہے اور بہت سچا آدمی ہے اور کبھی اس نے جھوٹی گواہی نہیں دی.العبد گاندھی ولد عالم گوجر چوکیدار جمالپور

Page 529

مکاشفہ مذکورہ بالا کی مؤید ایک رویاصالحہ ذیل میں بیان کی جاتی ہے جس کو ایک بزرگ محمد نام خاص مکہ کے رہنے والے عربی مکّی نے دیکھا ہے اور اس خواب کی مندرجہ ذیل عبارت خود انہیں کے مُنہ سے نکلی ہوئی بذریعہ ان کی ایک خاص تحریر کے مجھ کو ملی ہے اور وہ یہ ہے اقول و انا محمد ابن احمدن المکی من حارۃ شعب عامر انی رایت فی المنام فی سنۃ۱۳۰۵ان ابی قائم و انا معہ فنظرت الی جانب المشرق فرئیت عیسٰی علیہ السلام نزل من السماء و انا ارید ان اتوضا فتوجھت الی البحر ثم توضئت و رجعت الی ابی فقلت یا ابی ان عیسی علیہ السلام قد نزل فیکف اصلّی فقال لی ابی انہ نزل علی دین الاسلام و دینہ دین النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم فصل مثل ما کنت تصلّی اولا فصلیت ثم استیقظت من منامی فقلت فی نفسی

Page 530

لا بد انشاء اللّٰہ ان ینزل عیسٰی علیہ السلام فی حیاتی وانظر ہ بعینی.یعنی میں جو محمد ابن احمد مکّی رہنے والا خاص مکّہ معظمہ محلہ شعب عامر کا ہوں کہتا ہوں کہ میں نے ۱۳۰۵ ؁ہجری میں خواب میں دیکھا کہ ایک جگہ میرا باپ کھڑا ہے اور مَیں اس کے ساتھ ہوں اس وقت جو میں نے مشرق کی طرف نظر اٹھا کر دیکھاتو کیا دیکھتا ہوں کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اُتر آیا اور میں ارادہ کر رہا ہوں کہ وضو کروں سو میں نے دریا کی طرف رُخ کیاپھر وضو کرکے اپنے باپ کی طرف چلا آیا.تب میں نے اپنے باپ کو کہا کہ عیسےٰ علیہ السلام تو نازل ہوگیا اب میں کس طور سے نماز پڑھوں سو میرے باپ نے مجھے کہا کہ وہ دین اسلام پر اُترا ہے اور اس کا دین کوئی الگ دین نہیں بلکہ وہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی دین رکھتا ہے.سو تُو اُسی طرح نماز پڑھ جیسے پہلے پڑھاکرتا تھا.تب میں نے نماز پڑھ لی.پھر میری آنکھ کھل گئی اور میں نے دل میں کہا کہ انشاء اللہ عیسٰی علیہ السلام میری زندگی میں اُترآئے گا اور میں اس کو اپنی آنکھ سے دیکھ لوں گا.از انجملہ اس عاجز کے مسیح موعود ہونے پر یہ نشان ہے کہ مسیح موعود کے ظہور کی خصوصیت کے ساتھ یہ علامت ہے کہ دجّال معہود کے خروج کے بعد نازل ہو.کیونکہ یہ ایک واقعہ مسلّمہ ہے کہ دجّال معہود کے خروج کے بعد آنے والاوہی سچا مسیح ہے جو مسیح موعود کے نام سے موسوم ہے جس کا مسلم کی حدیث میں وجہ تسمیہ مسیح ہونے کا یہ بیان کیاگیا ہے کہ وہ مومنوں کی شدت اورمحنت اور ابتلا کا غبارجو دجّال کی وجہ سے اُن کے طاری حال ہوگا اُن کے چہروں سے پونچھ دے گا یعنی دلیل اور حجت سے اُن کو غالب کر دکھائے گا.سو اِ س لئے وہ مسیح کہلائے گا کیونکہ مسح پونچھنے کو کہتے ہیں جس سے مسیح مشتق ہے.اورضرور ہے کہ وہ دجّال معہود کے بعد ناز ل ہو.سو یہ عاجز دجّال معہود کے خروج کے بعد آیا ہے.پس اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ دجّا ل معہود یہی پادریوں اورعیسائی متکلموں کا گروہ ہے جس نے زمین کو اپنے ساحرانہ کاموں سے تہ وبالا کردیا ہے اورجو ٹھیک ٹھیک اس وقت سے

Page 531

زور کے ساتھ خروج کررہا ہے اورجو اعدا د آیت33 ۱؂ سے سمجھا جاتا ہے یعنی ۱۸۵۷ ؁ء کا زمانہ.* تو ساتھ ہی اس عاجز کا مسیح ہونا بھی ثابت ہوجائے گا.اور ہم پہلے بھی تحریر کر آئے ہیں کہ عیسائی واعظوں کا گروہ بلاشبہ دجّال معہود ہے.اگرچہ حدیثوں کے ظاہر الفاظ سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ دجّال ایک خاص آدمی ہے جو ایک آنکھ سے کانا اوردوسری بھی عیب دار ہے لیکن چونکہ یہ حدیثیں جو پیشگوئیوں کی قسم سے ہیں مکاشفات کی نوع میں سے ہیں جن پر موافق سُنّت اللہ کے استعارہ اور مجاز غالب ہوتا ہے.جیسا کہ مُلّا علی قاری نے بھی لکھا ہے اور جن کے معنے سلف صالح ہمیشہ استعارہ کے طور پر لیتے رہے ہیں.اس لئے بوجہ قرآئن قویہ ہم دجّال کے لفظ سے صرف ایک شخص ہی مراد نہیں لے سکتے.رویا اور مکاشفہ میں اسی طرح سُنّت اللہ واقع ہے کہ بعض اوقات ایک شخص نظر آتا ہے اور اس سے مراد ایک گروہ ہوتا ہے.جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمبارک میں ایک شخص نے ایک عرب کے بادشاہ کو خوا ب میں دیکھا تھاتو آپ نے فرمایا تھا کہ اس سے مراد ملک عرب ہے جو ایک گروہ ہے.اوراس ہمارے بیان پر یہ قرینہ شاہد ناطق ہے کہ دجّال درحقیقت لغت کی رُو سے اسم جنس ہے ۱۸۵۷؁ء کی طرف اشارہ ہے جس میں ہندوستان میں ایک مفسدہ عظیم ہو کر آثار باقیہ اسلامی سلطنت کے ملک ہند سے ناپدید ہوگئے تھے کیونکہ اس آیت کے اعداد بحساب جمل ۱۲۷۴ ہیں اور ۱۲۷۴کے زمانہ کو جب عیسوی تاریخ میں دیکھنا چاہیں تو ۱۸۵۷ ؁ء ہوتاہے.سو درحقیقت ضعف اسلام کا زمانہ ابتدائی یہی ۱۸۵۷ ؁ء ہے جس کی نسبت خدائے تعالےٰ آیت موصوفہ بالا میں فرماتا ہے کہ جب وہ زمانہ آئیگا تو قرآن زمین پر سے اٹھایا جائیگا.سو ایسا ہی ۱۸۵۷ ؁ء میں مسلمانوں کی حالت ہوگئی تھی کہ بجُز بدچلنی اور فسق وفجور کے اسلام کے رئیسوں کو اور کچھ یادنہ تھا جس کا اثر عوا م پر بہت پڑ گیا تھا انہیں ایام میں انہوں نے ایک ناجا ئز اور ناگوار طریقہ سے سرکار انگریزی سے باوجود نمک خوار اور رعیت ہونے کے مقابلہ کیا.حالانکہ ایسامقابلہ اور ایسا جہاد ان کے لئے شرعًا جائز نہ تھا

Page 532

جس سے ایسے لوگ مراد ہیں جو کذّاب ہوں.چنانچہ قاموس میں یہی معنے لکھے ہیں کہ دجّال اس گرو ہ کو کہتے ہیں کہ جو باطل کو حق کو ساتھ ملانے والااور زمین کونجس کرنے والا ہو.اور مشکٰوۃ کتاب الفتن میں مسلم کی ایک حدیث لکھی ہے جس میں دجّال کے ایک گروہ ہونے کی طرف صریح اشارہ کیاگیا ہے.اب جانناچاہیئے کہ دجّال معہود کی بڑی علامتیں حدیثوں میں یہ لکھی ہیں.(۱) آدم کی پیدائش سے قیامت کے دن تک کوئی فتنہ دجّال کے فتنے سے بڑھکر نہیں یعنی جس قدر دین اسلام کے تخریب کے لئے فتنہ اندازی اس سے ظہور میں آنے والی ہے اور کسی سے ابتداء دنیا سے قیامت کے وقت تک ظہور میں نہیں آئیگی.صحیح مسلم.(۲)دجّال کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم کشف اور رویا میں دیکھا کہ دہنی آنکھ سے وہ کانا ہے اور دوسری آنکھ بھی عیب سے خالی نہیں.یعنی دینی بصیرت اُن کو بکلّی نہیں دی گئی اور تحصیل دنیا کی وجوہ بھی حلال اور طیّب نہیں.بخاری اور مسلم.کیونکہ وہ اس گورنمنٹ کی رعیت اور ان کے زیر سایہ تھے اور رعیت کا اس گورنمنٹ کے مقابل پر سر اٹھاناجس کی وہ رعیت ہے اور جس کے زیر سایہ امن اور آزادی سے زندگی بسر کرتی ہے سخت حرام اورمعصیت کبیرہ اور ایک نہایت مکروہ بدکاری ہے.جب ہم ۱۸۵۷ ؁ء کی سوانح کو دیکھتے ہیں اور اس زمانہ کے مولویوں کے فتووں پر نظر ڈالتے ہیں جنہوں نے عام طور پر مہریں لگا دی تھیں جو انگریزوں کو قتل کردینا چاہیئے تو ہم بحر ندامت میں ڈوب جاتے ہیں کہ یہ کیسے مولوی تھے اور کیسے اُن کے فتوے تھے.جن میں نہ رحم تھا نہ عقل تھی نہ اخلاق نہ ا نصاف.ان لوگوں نے چوروں اور قزاقوں اور حرامیوں کی طرح اپنی محسن گورنمنٹ پر حملہ کرنا شروع کیا اور اس کا نام جہاد رکھا.ننھے ننھے بچوں اور بے گناہ عورتوں کو قتل کیا اورنہایت بے رحمی سے انہیں پانی تک نہ دیا.کیا یہ حقیقی اسلام تھا یایہودیوں کی خصلت تھی.کیا کوئی بتلا سکتا ہے کہ خدائے تعالےٰ نے اپنی کتاب میں ایسے جہاد کاکسی جگہ حکم دیا ہے.پس اس حکیم وعلیم کا قرآن کریم میں یہ بیان فرمانا کہ ۱۸۵۷ ؁ء میں میرا کلام آسمان پر اُٹھایاجائیگا یہی معنے رکھتا ہے کہ مسلمان اس پر عمل نہیں کریں گے جیساکہ

Page 533

(۳) دجّال کے ساتھ بعض اسباب تنعّم اور آسائش جنت کی طرح ہوں گے اور بعض اسباب محنت اور بلا کے آگ یعنی دوزخ کی طرح ہوں گے (بخاری و مسلم ) جس قدر عیسائی قوم نے تنعّم کے اسباب نئے سے نئے ایجاد کئے ہیں اور جو دوسری راہوں سے محنت اور بلا اور فقر اور فاقہ بھی اُن کے بعض انتظامات کی وجہ سے دیس کے لوگوں کو پکڑتاجاتا ہے اگریہ دونوں حالتیں بہشت اور دوزخ کے نمونے نہیں ہیں تو اور کیا ہے.(۴) دجّال کے بعض دن برس کی طرح ہوں گے اور بعض دن مہینہ کی طرح اور بعض دن ہفتہ کی طرح مگر یہ نہیں کہ دنوں میں فرق ہوگا بلکہ اُس کے دن اپنی مقدار میں ایسے ہی ہوں گے جیسے تمہارے.مسلم.(۵) دجّال کے گدھے کا اس قدر جسم ہوگا کہ اس کے ایک کان سے دوسرے کان تک ستّر باع کافاصلہ ہوگا.لیکن ظاہر ہے کہ اس جسامت کی گدھی خدائے تعالیٰ نے پیدا نہیں کی تا امید کی جائے کہ ان کی اولاد سے یہ گدھا ہوگا.مسلمانوں نے ایسا ہی کیا.خدائے تعالیٰ پر یہ الزام لگانا کہ ایسے جہاد اور ایسی لڑائیاں اس کے حکم سے کی تھیں یہ دوسرا گناہ ہے.کیا خدائے تعالیٰ ہمیں یہی شریعت سکھلاتا ہے کہ ہم نیکی کی جگہ بدی کریں.اور اپنی محسن گورنمنٹ کے احسانات کا اس کو یہ صلہ دیں کہ اُن کی قوم کے صغر سن بچوں کو نہایت بے رحمی سے قتل کریں اور ان کی محبوبہ بیویوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالیں.بلاشبہ ہم یہ داغ مسلمانوں خاص کر اپنے اکثر مولویوں کی پیشانی سے دھو نہیں سکتے کہ وہ ۵۷ ؁ء میں مذہب کے پردہ میں ایسے گناہ عظیم کے مرتکب ہوئے جس کی ہم کسی قوم کی تواریخ میں نظیرنہیں دیکھتے اور نہ صرف اسی قدر بلکہ انہوں نے اور بھی ایسے بُرے کام کئے جو صرف وحشی حیوانات کی عادات ہیں نہ انسانوں کی خصلتیں.انہوں نے نہ سمجھا کہ اگر اُن کے ساتھ یہ سلوک کیاجائے کہ ایک ممنون منت اُن کااُن کے بچوں کومار دے اوران کی عورتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کرے تو اُس وقت اُن کے دل میں کیا کیا خیال پیدا ہوگا.باوجو د اس کے یہ مولوی لوگ ا س بات کی شیخی مارتے ہیں کہ ہم بڑے متقی ہیں.میں نہیں جانتا کہ نفاق سے زندگی

Page 534

(۶)دجّال جب گدھے پر سوار ہوگاتو گدھا جس جلدی سے چلے گا اس کی یہ مثال ہے کہ جیسے بادل اس حالت میں چلتا ہے جبکہ پیچھے اس کے ہوا ہو.یہ ایک لطیف اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ دجّال کاگدھاکوئی جاندار مخلوق نہیں ہوگا بلکہ وہ کسی ہوائی مادہ کے زور سے چلے گا.(۷) زمین اور آسمان دونوں دجّال کے فرمانبردار ہوں گے یعنی خدائے تعالیٰ اس کی تدبیر کے ساتھ تقدیر موافق کردے گا اور اس کے ہاتھ پر زمین کو اُس کی مرضی کے موافق آباد کریگا.(۸) دجّال مشرق کی طرف سے خروج کرے گا یعنی ملک ہند سے کیونکہ یہ ملک زمین حجاز سے مشرق کی طرف ہے.متفق علیہ.(۹) دجّال جس ویرانہ پر گذرے گا اُسے کہے گا کہ تُو اپنے خزانے باہر نکال.سو وہ تمام خزانے باہر نکل آئیں گے اوردجّال کے پیچھے پیچھے جائیں گے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دجّال زمین سے بہت فائدہ اٹھائے گا.اور اپنی تدبیروں سے زمین کو آباد کرے گا اور ویرانے کو خزانے کر کے دکھا ئے گا پھر آخر باب لُدپر قتل کیاجائیگا.لُد اُن لوگوں کو کہتے ہیں جو بے جا جھگڑنے والے ہوں.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے بسر کرنا انہوں نے کہاں سے سیکھ لیا ہے.کتاب الٰہی کی غلط تفسیروں نے انہیں بہت خراب کیا ہے اور انکے دلی اور دماغی قویٰ پر بہت بُرا اثر ان سے پڑا ہے.اس زمانہ میں بلاشبہ کتاب الٰہی کے لئے ضرور ی ہے کہ اس کی ایک نئی اور صحیح تفسیرکی جائے کیونکہ حال میں جن تفسیروں کی تعلیم دی جاتی ہے وہ نہ اخلاقی حالت کو درست کرسکتی ہیں اور نہ ایمانی حالت پر نیک اثرڈا لتی ہیں بلکہ فطرتی سعادت اور نیک روشی کی مزاحم ہورہی ہیں.کیوں مزاحم ہورہی ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دراصل اپنے اکثر زوائد کی وجہ سے قرآن کریم کی تعلیم نہیں ہے قرآنی تعلیم ایسے لوگوں کے دلوں سے مٹ گئی ہے کہ گویا قرآن آسمان پرا ٹھایاگیاہے.وہ ایمان جو قرآن نے سکھلایاتھا اس سے لوگ بے خبر ہیں وہ عرفان جو قرآن نے بخشاتھا اس سے لوگ غافل ہوگئے ہیں.ہاں یہ سچ ہے کہ قرآن پڑھتے ہیں مگر قرآن اُن کے حلق کے نیچے نہیں اُترتا.انہیں معنوں سے

Page 535

کہ جب دجّال کے بے جا جھگڑے کمال تک پہنچ جائیں گے تب مسیح موعود ظہور کرے گا اور اس کے تمام جھگڑوں کا خاتمہ کردے گا.(۱۰) دجّال خدا نہیں کہلائے گا بلکہ خدائے تعالیٰ کا قائل ہوگا بلکہ بعض انبیاء کا بھی.مسلم.اِن دسوں علامتوں میں سے ایک بھاری علامت دجّال معہود کی یہ لکھی ہے کہ اُس کا فتنہ تمام اُن فتنوں سے بڑھ کر ہوگا کہ جو ربّانی دین کے مٹانے کے لئے ابتدا سے لوگ کرتے آئے ہیں اور ہم اسی رسالہ میں ثابت کرچکے ہیں کہ یہ علامت عیسائی مشنوں میں بخوبی ظاہر وہویدا ہے.از انجملہ ایک بڑی بھاری علامت دجّال کی اُس کا گدھا ہے جس کے بین الاذنین کا اندازہ ستّر باع کیاگیا ہے اور ریل کی گاڑیوں کا اکثر اسی کے موافق سلسلہ طولانی ہوتا ہے اور اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ وہ دخان کے زور سے چلتی ہے جیسے بادل ہواکے زور سے تیز حرکت کرتا ہے.اس جگہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھلے کھلے طورپر ریل گاڑی کی طرف اشارہ فرمایا ہے چونکہ یہ عیسائی قوم کا ایجادہے جن کا امام ومقتدا یہی دجّالی گروہ ہے اس لئے اِن گاڑیوں کو دجّال کا گدھا قرار دیا گیا.اب اس سے زیادہ اور کیا ثبوت ہو گا کہ علاماتِ خاصہ دجّال کے انہیں لوگوں میں پائے جاتے ہیں.انہیں لوگوں نے مکروں اور فریبوں کا اپنے وجود پر خاتمہ کردیا ہے اور دین اسلام کو وہ ضرر پہنچایا ہے جس کی نظیر دنیا کے ابتداء سے نہیں پائی جاتی اور انہیں لوگوں کے متبعین کے پاس وہ گدھا بھی ہے جو دخان کے زور سے چلتا ہے جیسے بادل ہوا کے زور سے.اور انہیں لوگوں کے متبعین زمین کو کہا گیا ہے کہ آخری زمانہ میں قرآن آسمان پر اُٹھایاجائے گا.پھر انہیں حدیثوں میں لکھا ہے کہ پھر دوبارہ قرآن کو زمین پر لانے والا ایک مرد فارسی الاصل ہوگا جیسا کہ فرماتا ہے لوکان الایمان معلقًا عند الثریا لنالہ رجل من فارس.یہ حدیث درحقیقت اسی زمانہ کی طرف اشارہ کرتی ہے جو آیت 33 میں اشارۃً بیان کیاگیا ہے.منہ

Page 536

آباد کرتے جاتے ہیں اور جس ملک ویران پر قبضہ کرتے ہیں اس کو کہتے ہیں کہ تو اپنے خزانے باہر نکال.تب ہزارہا وجوہ تحصیل مال کی اُسی ملک سے نکال لیتے ہیں.زمین کو آباد کردیتے ہیں امن کو قائم کردیتے ہیں.لیکن وہ تمام خزائن انہیں کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں اور انہیں کے ملک کی طرف وہ تمام روپیہ کھنچا ہوا چلاجاتاہے.اس بات کو کون نہیں جانتا کہ مثلًا ملک ہند کے خزانے یورپ کی طرف حرکت کررہے ہیں.یورپ کے لوگ آپ ہی ان خزائن کو نکالتے ہیں اور پھر اپنے ملک کی طرف روانہ کرتے ہیں.غرض اِن تمام احادیث پر عمیق غورکرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانہ کے لئے یہ پیشگوئی فرمائی ہے اور انہی لوگوں کانام دجّال رکھا ہے اور قرآن کریم میں اگرچہ بتصریح کسی جگہ دجّال کے نکلنے کا ذکر نہیں کیا گیا لیکن کچھ شک نہیں کہ قرآن کریم نے دخان کا ذکر کر کے اسی کے ضمن میں دجّال کو داخل کردیاہے اور پھر اس زمانہ کا بیان بھی قرآن میں ہے کہ جب دنیا میں دخان کے بعد نوراللہ پھیلے گا اور اس نوارنی زمانہ سے مراد وہی زمانہ ہے کہ جب مسیح موعود کے ظہور کے بعد پھر دنیا نیکی کی طرف رُخ کرے گی.کچھ شک نہیں کہ یہ زمانہ جو ہنوز دخانی زمانہ ہے سچائی کی حقیقت کو بہت دور چھوڑ گیا ہے اور دجّالی ظلمت نے دلوں پر ایک سخت اثر ڈالا ہے.اور کروڑہا مخلوقات شیاطین الانس کے اغوا سے توحید اور راستی اور ایمان سے باہر ہوگئی ہے.اب اگر فرض کیاجائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دجّال کی جو عیسائی پادریوں کا گروہ ہے خبر نہیں دی جس کی نظیر دنیا کی ابتداء سے آج تک نہیں پائی جاتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات کشفیہ پر سخت اعتراض ہوگا کہ ایسا بڑا فتنہ جو اُن کی اُمّت کے لئے درپیش تھاجس میں نہ ستّرہزار بلکہ ستّر لاکھ سے زیادہ متفرق ملکوں میں لوگ دین اسلام سے انحراف کر چکے ہیں اس کی آنحضرت نے خبر نہیں دی.لیکن اگر جیسا کہ شرط انصاف ہے ہم تسلیم کرلیں کہ آنجناب نے اس دجّال کی خبر دی ہے.اور

Page 537

اس کے گدھے کی بھی خبردی ہے جو خشکی اورتری دونو ں کو چیرتا ہوا دور دور ملکوں تک انہیں پہنچاتا ہے اور اُن کے یک چشم ہونے سے بھی اطلاع بخشی ہے اور اُن کی بہشت اور دوزخ اور روٹیوں کے پہاڑ اور خزانوں سے بھی مطلع فرمایا ہے.تو پھر اِن حدیثوں کے سوا جو دجّال کے حق میں ہیں اورکونسی حدیثیں ہمارے پاس ہیں جو اس دعویٰ کی تائید میں ہم پیش کر یں.اور اگر ہم موجودہ حدیثوں کو اُن پر وارد نہ کریں بلکہ وہمی اور فرضی طورپر کوئی اوردجّال اپنے دل میں تراش رکھیں جو کسی اَور زمانہ میں ظاہر ہوگا تو پھر ان کے لئے حدیثیں کہاں سے لاویں.اور ظاہر ہے کہ موجود کو چھوڑ کر وہم اور خیال کی طرف دوڑنا بلاشبہ حق پوشی ہے.کیونکہ جو موجود ہوگیاہے اور جس کوہم نے بچشم خود دیکھ لیا ہے اور اس کے بے مثل فتنوں کو مشاہدہ کر لیا ہے اور تمام پیشگوئیوں کا اس کو مصداق بھی سمجھ لیا ہے.اگر پھر بھی ہم اس کو ان پیشگوئیوں کا حقیقی مورد نہ ٹھہراویں تو گویا ہماری یہ مرضی نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی پیشگوئی پوری ہو.حالانکہ سلف صالح کا یہ طریق تھا کہ اس بات پر سخت حریص تھے کہ پیشگوئی پوری ہوجائے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کی نسبت کہ حرم کعبہ میں ایک مینڈھا ذبح کیاجائے گا وہ لوگ مینڈھے کے ذبح ہونے کے منتظر نہ رہے بلکہ جب حضرت عبد اللہ ابن زبیر شہید ہوئے تو انہوں نے یقینًا سمجھ لیاکہ یہی مینڈھا ہے حالانکہ حدیث میں انسان کانام نہیں وہاں تو صاف مینڈھالکھا ہے اور اس پیشگوئی کے متعلق بھی جو بخاری اور مسلم میں درج ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے پہلے وہ فوت ہوگی جس کے لمبے ہاتھ ہوں گے انہوں نے زینبؓ کی وفات کے وقت یقین کرلیا کہ پیشگوئی پوری ہوگئی.حالانکہ یہ بات اجماعی طورپر تسلیم ہوچکی تھی کہ سودہؓ کے لمبے ہاتھ ہیں وہی پہلے فوت ہوگی.اُن بزرگوں نے جب دیکھا کہ پیشگوئی کے الفاظ کو حقیقت پر حمل کرنے سے پیشگوئی ہی ہاتھ سے جاتی ہے تو لمبے ہاتھوں سے ایثار اور صدقہ کی صفت مراد لے لی.لیکن ہمارے زمانہ کے علماء کو اس بات سے

Page 538

شرم آتی ہے کہ باوجود قرائن قویہ کے بھی کسی حدیث کے ظاہری معنے کو چھوڑ سکیں اور قرآن اور حدیث کو باہم تطبیق دے کر ابن مریم سے روحانی طورپر ابن مریم کا مصداق مراد لے لیں اور دجّال یک چشم سے روحانی یک چشمی کی تعبیر کرلیں اور قرآن کے انکار سے اپنے تئیں بچالیں.نہیں سوچتے کہ ابن مریم یا یک چشم کا لفظ بھی اُسی پاک مُنہ سے نکلا ہے جس سے لمبے ہاتھ کا لفظ نکلا تھا بلکہ لمبے ہاتھ کے حقیقی اور ظاہر ی معنے مرادہونے پر تو تصدیقِ نبوی بھی ہو چکی تھی.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو ہی سرکنڈہ کے ساتھ ہاتھ ناپے گئے تھے اور سودہؓ کے ہاتھ سب سے لمبے نکلے تھے اور یہی قرار پایا تھا کہ سب سے پہلے سودہؓ فوت ہوگی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھوں کو ناپتے دیکھ کر بھی منع نہیں فرمایا تھا جس سے اجماعی طورپر سودہؓ کی وفات تمام بیویوں سے پہلے یقین کی گئی.لیکن آخر کا ر ظاہری معنے صحیح نہ نکلے.جس سے ثابت ہوا کہ اس پیشگوئی کی اصل حقیقت آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم کو بھی معلوم نہیں تھی.اگر حال کے علما ء ذراسوچیں اور تواریخ کے صفحہ صفحہ پرنظر ڈالیں اور آدم کے وقت سے آج تک جو قریب چھ ہزار برس کے گذرا ہے جس قدر دین حق کے مقابلہ پر فتنہ اندازیاں ہوئی ہیں اُن کاحال کی فتنہ اندازیوں اور کوششوں سے موازنہ کریں تو خود انہیں اقرار کرنا پڑے گا جو باطل کو حق کے ساتھ ملانے کے لئے جس قدر منصوبے اس عیسائی قوم سے ظہور میں آئے اور آرہے ہیں اس کا کروڑم حصّہ بھی کسی دوسری قوم سے ہرگز ظہور میں نہیں آیا.اگرچہ ناحق کے خون کرنے والے ،کتابوں کے جلانے والے ،راستبازوں کو قید کرنے والے بہت گذرے ہیں مگر اُن کے فتنے دلوں کو تہ و بالا کرنے والے نہیں تھے بلکہ مومن لوگ دُکھ اُٹھا کر اَور بھی زیادہ استقامت میں ترقی کرتے تھے.لیکن اِن لوگوں کا فتنہ دلوں پر ہاتھ ڈالنے والا اور ایمان کو شبہات سے ناپا ک کرنے والا ہے جواعتقادوں کے بگاڑنے کے لئے زہر ہلاہل کا اثر رکھتا ہے.خیال کرنے کا مقام ہے کہ جس قوم نے

Page 539

چھ کروڑ کتاب وساوس اور شبہات کے پھیلانے کے لئے اب تک تقسیم کر دی اور آئند ہ بھی بڑی سرگرمی سے یہ کارروائی جاری ہے.اس قوم کے مقابل پر کس زمانہ میں کوئی نظیر مل سکتی ہے.بلکہ چھ ہزار برس کی مدّت پر نظر ڈالنے سے کوئی نظیر پیدا نہیں ہوئی تو پھر کیا ابھی تک منشائے حدیث کے موافق ثابت نہیں ہوا کہ ان لوگوں کی فتنہ اندازی بے مثل ومانند ہے.زمانہ نے آخر کار جس فتنہ عظیمہ کوظاہر کیا وہ یہی فتنہ ہے جس نے لاکھوں مسلمانوں کو گرجاؤں میں بٹھا دیا.کروڑہا کتابیں ردّ اسلام میں تالیف ہوگئیں.سو اس موجودہ فتنہ کو کَاَنْ لَّمْ یَکُن سمجھنا انہیں مولویوں کا کام ہے جن کے دل میں ہرگز یہ خیال نہیں کہ اپنی زندگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی پوری ہوتی دیکھ لیں.بعض نافہم مولوی بطور جرح یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ مسیح ابن مریم کی یہ علامت لکھی ہے کہ دجّال معہود کو وہ قتل کرے گا اور تمام اہل کتاب اس پر ایمان لے آویں گے اور اس خیال کی تائید میں یہ آیت پیش کرتے ہیں 33 ۱؂.میں کہتا ہوں کہ اگر اس آیت کے یہی معنے ہیں کہ مسیح کے نزول کے وقت تمام اہل کتاب ایمان لے آئیں گے تو پھر ہم ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ دجّال کفر کی حالت میں ہی قتل کیاجائے گا.ماسوا اس کے مسلم کی حدیث میں صاف لکھاہے کہ دجّال کے ساتھ ستّر ہزار اہل کتاب شامل ہوجائیں گے اور اکثر کی اُن میں سے کفر پرموت ہوگی اور مسیح کی وفات کے بعد بھی اکثر لوگ کافر اور بے دین باقی رہ جائیں گے جن پر قیامت آئے گی اور قرآن کریم بھی صریح اور صاف طور پر اس پر شہادت دیتا ہے کیونکہ وہ فرماتا ہے.3333 ۲؂ یعنی میں تیرے متبعین کو تیرے منکرین پر یعنی یہود پر قیامت تک غلبہ دوں گا.پس اس سے صاف ظاہر ہے کہ قیامت کے دن تک یہود کی نسل تھوڑی بہت

Page 540

باقی رہ جا ئے گی اور پھرفرماتا ہے 33 ۱؂ یعنی ہم نے یہود اور نصاریٰ میں قیامت کے دن تک عداوت اور بُغض ڈال دیاہے.اس آیت سے بھی صاف طورپر ثابت ہے کہ یہودی قیامت کے دن تک رہیں گے کیونکہ اگر وہ پہلے ہی حضرت عیسیٰ پر ایمان لے آئیں گے تو پھر سلسلہ عداوت اور بُغض کا قیامت تک کیوں کر ممتدہوگا.لہٰذا ماننا پڑا کہ ایسا خیال کہ حضرت مسیح کے نزول کی یہ علامت ہے کہ تمام اہل کتاب اُس پر ایمان لے آویں گے صریح نص قرآن اور حدیث سے مخالف ہے.خلاصہ فیصلہ ہمارا دعویٰ جو الہام الٰہی کی رُو سے پیداہوا اور قرآن کریم کی شہادتوں سے چمکا اور احادیث صحیحہ کی مسلسل تائیدوں سے ہر یک دیکھنے والی آنکھ کونظر آنے لگا وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح عیسیٰ بن مریم رسول اللہ جن پر انجیل نازل ہوئی تھی وہ اس عالم سفلی سے انتقال کرگئے اور اس جہانِ فانی کو چھوڑ کر جہان جاودانی کے لوگوں میں جاملے.اور اس جسد عنصری کے خواص اور لوازم کو ترک کر کے ان خواص اور لوازم سے متمتع ہو گئے جو صرف اُن لوگوں کو ملتے ہیں جو فوت ہوجاتے ہیں.اور ان لذّات سے بہرہ یاب ہوگئے جو محض اُن لوگوں کو دی جاتی ہیں جو موت کے پُل سے گذر کر محبوب حقیقی کو جاملتے ہیں اور کچھ شک نہیں کہ جو شخص اس عالم کے لوگوں کو چھوڑ تا ہے اور عالم ثانی کے لوگو ں سے جا ملتا ہے اور اس عالم کے لوازم اور خواص چھوڑتا ہے اور عالم ثانی کے لوازم اور خواص قبول کرلیتا ہے اور اس عالم کی لذّات قطعًا چھوڑتا ہے اور عالم ثانی کے لذات پالیتا ہے اور اس عالم کے مؤثرات ارضی وسماوی چھوڑتا ہے اور عالم ثانی کی غیر متبدّل زندگی حاصل کرتا ہے اور اِس عالم سے بکلّی گم اور ناپدید ہو جاتا ہے اور اُس عالم میں ظہور فرماہوتا ہے

Page 541

وہی ہے جس کو دوسرے لفظوں میں کہتے ہیں کہ مر گیا.اور اس بات میں کچھ بھی شبہ نہیں کہ یہ تبدیلی جو بہ تغیّر الفاظ موت کے نام سے موسوم ہے.حضرت مسیح کی دنیوی زندگی پر وارد ہوچکی ہے اور اس تبدیلی کے ضروری لوازم میں وہ اپنے اُن دوسرے بھائیوں سے کسی بات میں کم نہیں ہیں جو دنیا و مافیہا کو چھوڑ گئے.اس عالم کے لوگ جو مرنے کے بعد اُس جگہ پہنچتے ہیں اُن کی یہ علامات خاصہ ہیں کہ وہ نہ سوتے ہیں اور نہ اس عالم کی روٹی کھاتے ہیں اورنہ پانی پیتے ہیں اور نہ وہ بیمار ہوتے ہیں نہ انہیں پاخانہ اور پیشاب کی ضرورت ہوتی ہے نہ بالوں اور ناخنوں کے کٹانے کی انہیں حاجت پڑتی ہے اور نہ روشنی کے لئے وہ سورج اور چاند کے محتاج ہوتے ہیں اور نہ اُن پر زمانہ اثرکرتا ہے اور نہ ہوا کے ذریعہ سے وہ دم لیتے ہیں اور نہ کسی روشنی کے ذریعہ سے وہ دیکھتے ہیں.ایسا ہی وہ ہوا کے ذریعہ سے سنتے بھی نہیں اور نہ سونگھتے ہیں اور نہ توالد تناسل پر قادر ہوتے ہیں.غرض ایک پورا انقلاب اُن کی ہستی پر وارد ہوجاتا ہے جس کانام موت رکھا گیا ہے.اُن کو جسم تو دیاجاتاہے مگر وہ جسم اس عالم کے خواص اور لوازم نہیں رکھتا.ہاں وہ بہشت میں کھاتے پیتے بھی ہیں مگر وہ اس عالم کا طعام او ر شراب نہیں جس کا جسم عنصری محتاج ہے بلکہ وہ ایسی نعمتیں ہیں جو نہ آنکھوں نے دیکھیں اور نہ کانوں نے سُنیں اور نہ دلوں میں کبھی گذریں.اب سوال یہ ہے کہ اگر حضرت مسیح مرے نہیں اور اسی دنیوی زندگی کے ساتھ کسی آسمان پر بیٹھے ہیں تو کیا تمام لوازم جسم خاکی کے اُن میں خصوصیت کے ساتھ موجود ہیں جو دوسروں میں نہیں پائے جاتے.کیا وہ کبھی سوتے اور کبھی جاگتے ہیں اور کبھی اُٹھتے ہیں اور کبھی بیٹھتے ہیں اور کبھی دنیوی شراب اور طعام کو کھاتے پیتے ہیں اور کیا وہ اوقات ضروریہ میں پاخانہ پھرتے اور پیشاب بھی کر تے ہیں اور کیا وہ ضرورتوں کے وقت ناخنوں کو کٹاتے اور بالوں کو منڈواتے یا قصر شعر کرواتے ہیں.کیا اُن کے لیٹنے کے لئے کوئی چار پائی اور کوئی بستر بھی ہے.کیا وہ ہوا کے ساتھ دم لیتے

Page 542

ور ہوا کے ذریعہ سے سونگھتے اور ہوا ہی کے ذریعہ سے سنتے اور روشنی کے ذریعہ سے دیکھتے ہیں.اور کیا وہ زمانہ کے اثر سے اب بڈھے ہوگئے ہیں ؟تو بلاشبہ اس کا جواب یہی دیا جائے گا کہ دنیوی ہستی کے لوازم اور خواص اُن میں باقی نہیں رہے بلکہ وہ ہریک حالت میں اُن لوگوں کے ہمرنگ ہیں جو اس دُنیا کو فوت ہونے کی وجہ سے چھوڑ گئے ہیں اور نہ صرف ہمرنگ بلکہ اس فوت شدہ جماعت میں داخل ہیں.سو اس جواب سے تو اُن کی موت ہی ثابت ہوتی ہے.کیونکہ جبکہ انہوں نے فوت شدہ لوگوں کی طرح عالم ثانی کی زندگی کے تمام لوازم اختیار کرلئے جو فوت شدہ لوگوں کی علامات میں سے ہیں اور نہ صرف اختیار ہی کئے بلکہ اس جماعت میں جاملے اور فرمان 3 ۱؂ کا قبول کر کے 3 ۲؂ کا مصداق ہوگئے.تو اب بھی اگر اُن کو فوت شدہ نہ کہا جائے تو اَور کیا کہا جاوے.ظاہر ہے کہ عالم دو ہی ہیں.ایک یہ دنیا کا عالم.جب تک انسان اس عالم میں ہوتا ہے اور اس عالم کے لوازم جیسے کھانا پینا پہننا دم لینا جاگنا سونا اور بدنی نشوونما یا تحلیل کی وجہ سے معرض تغیّر میں ہونا اس کے شامل حال ہوتے ہیں اُس وقت تک اُس کو زندہ کہاجاتا ہے اور جب یہ لوازم بکلّی اس سے دورہوجاتے ہیں تب سب بول اُٹھتے ہیں کہ مر گیا اور پھر بمجرّد موت کے عالم ثانی کے لوازم اُس میں پیدا ہوجاتے ہیں بلکہ حق تو یہ ہے کہ جس جماعت میں انسا ن داخل ہوتا ہے اسی جماعت کے حالات پر اس کے حالات کا قیاس کیاجاتا ہے جو شخص اس دنیا کے لوگوں میں داخل ہے وہ اسی دنیا میں سے سمجھاجائے گا او رجو شخص اس دنیا کو چھوڑگیا او رعالم ثانی کی جماعت میں جاملا وہ اسی جماعت میں سے خیال کیاجائے گا.اب دیکھ لینا چاہیئے کہ مسیح کس جماعت میں داخل ہے جس جماعت میں داخل ہوگا اسی جماعت کے احکام اس پر وارد ہوں گے.خدائے تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ کوئی شخص فوت شدہ جماعت میں بغیر فوت ہونے کے داخل نہیں ہو سکتا

Page 543

لیکن یہ بات صحیح بخاری سے بھی معلوم ہو چکی ہے کہ مسیح ابن مریم فوت شدہ جماعت میں داخل ہے اوریحییٰ بن زکریا کے ساتھ دوسرے آسمان میں موجود ہے.اور خدائے تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ کوئی شخص میری طرف بغیر مرنے کے آنہیں سکتا.لیکن کچھ شک نہیں کہ مسیح اس کی طرف اُٹھایا گیا سو وہ ضرور مر گیا.خدائے تعالیٰ نے اپنی پاک کلام میں اس کو 33 ۱؂ سے پکارا ہے.سو لفظ متوفّی جن عام معنوں سے تمام قرآن اور حدیثوں میں مستعمل ہے وہ یہی ہے کہ روح کو قبض کرنا اور جسم کو معطّل چھوڑ دینا یہ بڑے تعصّب کی بات ہے کہ تمام جہان کے لئے تو توفّی کے یہی معنے روح قبض کرنے کے ہوں لیکن مسیح ابن مریم کے لئے جسم قبض کرنے کے معنے لئے جاویں.کیا ہم خاص عیسیٰ کے لئے کوئی نئی لغت بنا سکتے ہیں جو کبھی اللہ اور رسول کے کلام میں مستعمل نہیں ہوئی اورنہ عرب کے شعراء اور زبان دان کبھی اس کو استعمال میں لائے.پھر جس حالت میں توفّیکے یہی شائع متعارفہ معنے ہیں کہ روح قبض کی جائے خواہ بطور ناقص یابطور تام.تو پھر رفع سے رفع جسد کیوں مراد لیاجاتا ہے.ظاہر ہے کہ جس چیز پر قبضہ کیاجائے گا رفع بھی اُسی کا ہوگا.نہ یہ کہ قبض تو روح کا ہو اور جسم کا رفع کیاجائے.غرض برخلاف اس متبادر اور مسلسل معنوں کے جو قرآن شریف سے توفی کے لفظ کی نسبت اوّل سے آخر تک سمجھے جاتے ہیں ایک نئے معنے اپنی طرف سے گھڑنا یہی تو الحاد اور تحریف ہے.خدائے تعالیٰ مسلمانوں کو اس سے بچاوے اگر یہ کہاجاوے کہ توفّی کے معنے تفسیروں میں کئی طور سے کئے گئے.تو میں کہتا ہوں کہ وہ مختلف اور متضاد اقوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان سے نہیں لئے گئے ورنہ ممکن نہ تھا کہ وہ بیان جو چشمۂ وحی سے نکلا ہے اس میں اختلاف اور تناقض راہ پا سکتا بلکہ وہ مفسرین کے صرف اپنے اپنے بیانات ہیں جن سے ثابت ہوتاہے کہ کبھی اُن کا کسی خاص معنے پر اجماع نہیں ہوا.اگر ان میں سے کسی کو وہ بصیرت دی جاتی جو اس

Page 544

عاجز کو دی گئی تو ضرور اسی ایک بات پر اُن کااجماع ہوجاتا لیکن خدائے تعالیٰ نے ا س قطعی اور یقینی علم سے اُن کو محروم رکھاتا اپنے ایک بندہ کو کامل طورپر یہ علم دے کر آدم صفی اللہ کی طرح اس کی علمی فضیلت کا ایک نشان ظاہر کرے.اگر یہ کہا جائے کہ اکثر مفسّرین مسیح ابن مریم کی موت کے تو قائل ہیں لیکن یہ بھی تو کہتے ہیں کہ بعد اس کے زندہ ہوگئے.ا س کے جواب میں مَیں کہتا ہوں کہ جن بزرگوں کو مسیح ابن مریم کے فوت ہونے کے بعد اُس کے زندہ ہوجانے کا اعتقاد ہے وہ ہرگز اس بات کے قائل نہیں کہ مسیح کومرنے کے بعد دنیوی زندگی ملی تھی بلکہ وہ خود مانتے ہیں کہ مسیح کو مرنے کے بعد ایسی زندگی ملی تھی جو دنیوی زندگی سے بالکل مبائن اور مغائر اور عالم ثانی کی زندگی کے قسم میں سے تھی اور اس زندگی کے قسم میں سے تھی جو فوت کے بعد حضرت یحییٰ کو ملی، حضرت ادریس کو ملی، حضرت یوسف کو ملی، حضرت ابراہیم کو ملی، حضرت موسیٰ کو ملی، حضرت آدم کو ملی، اور جو سب سے زیادہ تر ہمارے سیّد و مولیٰ نبی عربی ہاشمی امّی کو ملی صلی اللّٰہ علیہ وعلی اٰلہ و اخوانہ اجمعین.اور اگر کوئی کہے کہ نہیں صاحب وہ زندگی جو مسیح کو مرنے کے بعد ملی وہ حقیقت میں دنیوی زندگی تھی تو ایسے قائل کو اس بات کا مان لینا لازم ہوگا کہ مسیح میں دنیوی زندگی کے لوازم موجود ہیں اور وہ اس عالم کے زندوں کی طرح ہوا کے ذریعہ سے دم لیتا ہے اور ہوا کے ذریعہ سے سونگھتا اور ہوا کے ذریعہ سے آوازیں سُنتا اور کھاتا پیتا اور تمام مکروہات، پیشا ب اور پاخانہ وغیرہ کے اس کو لگے ہوئے ہیں لیکن قرآن شریف تو ان سب کی اُسکی ذات سے نفی کرتا ہے اور حدیثیں صاف اور بلند آواز سے کہہ رہی ہیں کہ مسیح کی زندگی تمام گذشتہ اور فوت شدہ نبیوں کی زندگی سے بالکل ہمرنگ ہے.چنانچہ معراج کی حدیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے اور عیسائی لوگ بھی باوجود اس کے

Page 545

کہ اُن کومسیح کے فوت ہونیکے بعد زندہ اُٹھائے جانے پر بڑا اصرار ہے ہرگز یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ وہ آسمانوں میں دنیوی زندگی سے عمر بسر کرتے ہیں بلکہ محض موسیٰ اور داؤد اور دوسرے نبیوں کی زندگی کی مانند مسیح کی زندگی خیال کرتے ہیں کیونکہ مسیح کو خود اس بات کا اقرار ہے.اس جگہ یہ بھی ظاہر رہے کہ توفی کے معنے وفات دینے کے صرف اجتہادی طورپر ہم نے معلوم نہیں کئے بلکہ مشکٰوۃ کے باب الحشر میں بخاری اور مسلم کی حدیث جو ابن عباس سے ہے صریح اور صاف طور پر اُس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آیت فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کی یہی تفسیر فرماتے ہیں کہ درحقیقت اس سے وفات ہی مراد ہے.بلکہ اسی حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ سوال حضرت مسیح سے عالم برزخ میں اُن کی وفا ت کے بعد کیاگیا تھا نہ یہ کہ قیامت میں کیاجائے گا.پس جس آیت کی تفسیر کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی کھول دیا پھر اگر کوئی تفسیر نبوی کو بھی سُن کر شک میں رہے تو اس کے ایمان اور اسلام پر اگر افسوس اور تعجب نہ کریں تو اَور کیاکریں.دیکھو اس حدیث کو امام بخاری انہیں معنوں کی طرف اشارہ کرنے کی غرض سے اپنی صحیح کی کتاب التفسیر میں لایا ہے.دیکھو صفحہ ۶۶۵ بخاری.بعض صاحب اِن سب دلائل شافیہ کو سُن کر حضرت مسیح کی وفات کے قائل تو ہوجاتے ہیں مگر پھر وہ دوبارہ یہ وہم پیش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ ان کو زندہ کر کے پھر قبر میں سے اُٹھاوے.ہم اس وہم کے جواب میں کئی دفعہ بیان کرچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم اوراحادیث صحیحہ میں وعدہ کرچکا ہے کہ جو شخص ایک دفعہ مر چکااور واقعی موت جو اس کے لئے مقدّر تھی اس پر وارد ہوچکی پھر دوبارہ دنیامیں نہیں بھیجا جائے گا اور نہ دنیا میں دوموتیں اُس پر وارد کی جائیں گی.اس جواب کے سننے کے بعد پھر وہ ایک اَور وہم پیش کرتے ہیں کہ قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض مردے زندہ ہوگئے.جیسے وہ مُردہ جس کا خون بنی اسرائیل نے چھپا لیا تھاجس کا ذکر اس آیت میں ہے

Page 546

اس کا جواب یہ ہے کہ ایسے قصّوں میں قرآن شریف کی کسی عبارت سے نہیں نکلتا کہ فی الحقیقت کوئی مردہ زندہ ہوگیا تھا اور واقعی طورپر کسی قالب میں جان پڑ گئی تھی.بلکہ اس آیت پر نظر غور کرنے سے صرف اس قدر ثابت ہوتاہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت نے ایک خون کر کے چھپا دیا تھا اور بعض بعض پر خون کی تہمت لگاتے تھے.سو خدائے تعالیٰ نے اصل مجرم کے پکڑنے کے لئے یہ تدبیر سمجھائی تھی کہ تم ایک گائے کو ذبح کرکے اس کی بوٹیاں اس لاش پر مارو.اور وہ تمام اشخاص جن پر شبہ ہے ان بوٹیوں کونوبت بہ نوبت اس لاش پر ماریں.تب اصل خونی کے ہاتھ سے جب لاش پر بوٹی لگے گی تو لاش سے ایسی حرکات صادرہوں گی جس سے خونی پکڑا جائے گا.اب اس قصّہ سے واقعی طور پر لاش کا زندہ ہونا ہرگز ثابت نہیں ہوتا.بعض کا خیال ہے کہ یہ صرف ایک دھمکی تھی کہ تا چور بیدل ہوکر اپنے تئیں ظاہر کرے.لیکن ایسی تاویل سے عالم الغیب کا عجز ظاہر ہوتا ہے اور ایسی تاویلیں وہی لوگ کرتے ہیں کہ جن کو عالم ملکوت کے اسرارسے حصّہ نہیں.اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ طریق علم عمل الترب یعنی مسمریزم کا ایک شعبہ تھاجس کے بعض خواص میں سے یہ بھی ہے کہ جمادات یا مردہ حیوانات میں ایک حرکت مشابہ بحرکت حیوانات پیدا ہو کر اس سے بعض مشتبہ اور مجہول امور کا پتہ لگ سکتاہے.ہمیں چاہئیے کہ کسی سچائی کو ضائع نہ کریں اور ہریک وہ حقیقت یا خاصیت جو عین صداقت ہے اس کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے سمجھیں.علم عمل الترب ایک عظیم الشان علم ہے جو طبیعی کا ایک روحانی حصہ ہے جس میں بڑے بڑے خواص اور عجائبات پائے جاتے ہیں.اور اس کی اصلیت یہ ہے کہ انسان جس طرح باعتبار اپنے مجموعی وجود کے تمام چیزوں پر خلیفۃ اللہ ہے اور سب چیزیں اس کے تابع کردی گئی ہیں اسی طرح انسان جس قدر اپنے اندر انسانی قویٰ رکھتا ہے تمام چیزیں ان قویٰ کی اس طرح پر تابع ہیں کہ شرائط مناسبہ کے ساتھ ان کا اثر قبول کرلیتی ہیں.انسان قوت فاعلہ کے ساتھ

Page 547

دنیا میں بھیجا گیا ہے اور دوسری چیزیں قوت منفعلہ رکھتی ہیں.ادنیٰ اثر انسان کی قوتِ فاعلہ کا یہ ہے کہ ہریک جاندار اس سے ایسا ہِل سکتا ہے کہ اس کے خادموں میں اپنے تئیں شمار کرلیتا ہے اور اس کا مسخر ہو جاتا ہے.فطرت نے جن انسانوں کو قوت فاعلہ کا بہت ساحصہ دیا ہے اُن سے عمل الترب کے عجیب عجیب خواص ظاہر ہوتے ہیں.درحقیقت انسان ایک ایساجانور ہے کہ اس کے ظاہری اور باطنی قویٰ ترقی دینے سے ترقی پذیر ہو سکتے ہیں اور ان کی قوت فاعلی کا اثر بڑھ جاتا ہے.مثلًا جن لوگوں کو ہمارے ملک میں ڈائن کہتے ہیں ان کی صرف اس قدر حقیقت ہے کہ ان کی زہریلی نظر سے ضعیف الخلقت لوگ بچے وغیرہ کسی قدر متاثر ہوجاتے ہیں.بعض لوگ اپنی زہریلی نظر سے درندوں کو مغلوب اور متاثر کر کے آسانی سے اُن کا شکار کرلیتے ہیں.بعض اپنے تصّورات تربی مشق کی وجہ سے دوسرے کے دل میں ڈال دیتے ہیں.بعض اپنی کیفیت ذوقی کا اثر اسی عمل کے زور سے دوسرے کے دل تک پہنچا سکتے ہیں.بعض بے جان چیزوں پر اثرڈال کر ان میں حرکت پیدا کر دیتے ہیں.چنانچہ زمانہ حال میں بھی ان باتوں میں مشق رکھنے والے بہت نظر آتے ہیں.بعض کٹے ہوئے سر بکر ی وغیرہ کے عمل الترب کے زور سے ایسی حرکت میں لاتے ہیں کہ وہ ناچتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.بعض عمل الترب کے زور سے چوروں کا پتہ لگا لیتے ہیں.قرآن شریف یالوٹے کو حرکت دے کر جو چور کا پتہ نکالتے ہیں حقیقت میں یہ عمل الترب کی ایک شاخ ہے.اگرچہ اس کی شرائط ضروریہ کے نہ پائے جانے کی وجہ سے غلطی واقع ہو.چنانچہ اسی وجہ سے بکثرت غلطی واقع ہوتی بھی ہے لیکن یہ غلطی اس عمل کی عزت اور عظمت کو گھٹا نہیں سکتی کیونکہ بہت سے تجارب صحیحہ سے اس کی اصلیت ثابت ہوچکی ہے.بے شک انسانی حیات اور شعور کا اثر دوسری چیزوں پر بھی پڑ سکتا ہے اورانسا ن کی قوت کشفی کا پرتوہ جمادات یا کسی مردہ حیوان پر پڑ کر اس کو بعض مجہولات کے استکشاف کا آلہ بنا سکتاہے.چنانچہ قضیہ مذکورہ بالا جس کا

Page 548

آیت مذکورہ بالا میں ذکر ہے اسی قسم میں سے ہے اور بعد میں جو آیت ہے 33 ٰ۱؂ یہ حیات حقیقی کا ثبوت نہیں بلکہ ایک اعجوبہ قدرت کے ثابت ہونے سے دوسری قدرت کی طرف اشارہ ہے.چنانچہ جابجا قرآن شریف میں یہی طریق ہے یہاں تک کہ نباتات کے اُگنے کو احیاء موتٰی پردلیل ٹھہرائی گئی ہے اور یہی آیت 33 ان مقامات میں بھی لکھی گئی ہے.اوریاد رکھنا چاہیئے کہ جو قرآن کریم میں چار پرندوں کا ذکر لکھا ہے کہ ان کو اجزاء متفرقہ یعنی جدا جدا کر کے چار پہاڑیوں پر چھوڑا گیا تھا اورپھر وہ بلانے سے آگئے تھے یہ بھی عمل الترب کی طرف اشارہ ہے کیونکہ عمل الترب کے تجارب بتلا رہے ہیں کہ انسان میں جمیع کائنات الارض کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے ایک قوت مقناطیسی ہے اور ممکن ہے کہ انسان کی قوتِ مقناطیسی اس حد تک ترقی کرے کہ کسی پرند یا چرند کو صرف توجہ سے اپنی طرف کھینچ لے.فتدبّر و لا تغفل.اب پھر ہم اصل بحث کی طرف رجوع کرکے کہتے ہیں کہ تمام مقدّس لوگ جو اس دنیا سے رخصت ہوگئے وہ دوسرے جہان میں زندہ ہیں.چنانچہ جب مسیح سے قیامت کے منکروں نے سوال کیا کہ مُردوں کے جی اُٹھنے پر کیا دلیل ہے تو مسیح نے یہی جواب دیا کہ خدائے تعالیٰ توریت میں فرماتا ہے کہ ابراہیم کا خدا اسحٰق کا خدا یعقوب کا خدا.سو خدا زندوں کا خدا ہوتاہے نہ مُردوں کا.اس سے مسیح نے اس بات کا اقرار کر لیا کہ ابراہیم اور اسحٰق اور یعقوب سب زندہ ہیں.اور لعاذر کے قصہ میں بھی مسیح نے ابراہیم کا زندہ ہونا مان لیا ہے اور اب تک عیسائی لوگ اس بات کا ثبوت نہیں دے سکے کہ مسیح کی زندگی کو ابراہیم کی زندگی پر کیا ترجیح ہے اور مسیح کی زندگی میں وہ کون سے خاص لوازم ہیں جو ابراہیم کی زندگی میں نہیں.ظاہر ہے کہ اگر ابراہیم کو ایک جسم نہ ملتا تو لعاذر اُس کی گود میں کیوں کر بیٹھتا.مسیح نے انجیل میں خو د اقرار کرلیا کہ ابراہیم جسم کے سمیت عالم ثانی میں

Page 549

موجود ہے پھر مسیح کے جسم میں کونسی انوکھی بات ہے تا کوئی منصف یقین کر لیوے کہ مسیح تو جسم خاکی عنصری رکھتا ہے مگر ابراہیم کا نورانی جسم ہے.ہاں اگر یہ ثابت ہوجائے کہ مسیح کے جسم میں خاکی جسم کے لوازم موجود ہیں.جیسے روٹی کھانا.پانی پینا.پیشاب کرنا پاخانہ پھرنا وغیرہ وغیرہ اور ابراہیم کے جسم میں یہ لوازم موجود نہیں تو بھلاپھرکون ہے کہ اس ثبوت کے بعد پھر برسر انکار رہے.لیکن اب تک یہ ثبوت نہ عیسائی لوگ پیش کر سکے اور نہ مسلمانوں میں سے کسی نے پیش کیا بلکہ دونوں فریق کو صاف اقرار ہے کہ مسیح کی زندگی دوسرے نبیوں کی زندگی سے صاف متحد الحقیقت اور ہمرنگ اور ایک ذرہ مابہ الامتیاز درمیان نہیں.پھر بھلا ہم کیوں کر مان لیں کہ مسیح کسی نرالے جسم کے ساتھ آسمان پر بیٹھاہے اور دوسرے سب بغیر جسم کے ہیں.ہم کو محض جبر اورتحکم کی راہ سے یہ سنایاجاتاہے کہ اسی بات پرتما م اُمت کا اجماع ہے.لیکن جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ سلف اور خلف کا تو کسی ایک بات پر اتفاق ہی نہیں تو ہم کیوں کر قبول کر لیں کہ ہاں اجماع ہی ہے.بھلا اگر مسیح کی زندگی پر کسی کا اجماع ہے تو ایک قول تو دکھلاؤ جس میں سلف کے لوگوں نے مسیح کی زندگی ایک دنیوی زندگی قرار دی ہو اور دنیوی زندگی کے لوازم اُس میں قبول کر لئے ہو ں او ردوسروں کو اس سے باہر رکھا ہو.بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس بات پر تمام خلف و سلف کا اجماع معلوم ہوتا ہے کہ مسیح ا س عالم کو چھوڑکر دوسرے عالم کے لوگوں میں جا ملا ہے اور بلا کم وبیش انہیں کی زندگی کے موافق اس کی زندگی ہے گو بعض نے نادانی سے مسیح کی موت سے انکار کیا ہے مگر باوجود اس کے قبول کر لیا ہے کہ وہ مرنے والے لوگوں کی طرح اس عالم کو چھوڑ گیا ہے اوراس جماعت میں جا ملا جو مر گئے ہیں اور بکلّی اُن کے رنگ میں ہوگیا.بھلا کوئی دانشمند اُن سے پوچھے کہ اگر یہ موت نہیں تو اَور کیا ہے جس نے دُنیا کے عالم کو چھوڑ دیا اور دوسرے عالم میں جا پہنچا اور دنیا کے لوگوں کو چھوڑ دیا اور دوسرے جہان کے لوگوں میں سے

Page 550

ایک ہوگیا.اگر اس کو فوت شد ہ نہ کہیں تو اَور کیا کہیں.اور ہم لکھ چکے ہیں کہ قرآن کریم مسیح ابن مریم کواپنی آیات کے تیس مقامات میں مار چکاہے اور کیا عبارت النص کے طور پر اور کیا اشارۃ النص کے طور پر.کیا فحوائے نص کے طور پر ان کی موت پر شہادت دے رہا ہے.اور ایک بھی ایسی آیت نہیں پائی جاتی جو اُن کے زندہ ہونے اور زندہ اُٹھائے جانے پر ایک ذرّہ بھی اشارہ کرتی ہو.ہاں بعض بے اصل اور بیہُودہ اقوال تفسیروں میں پائے جاتے ہیں جن کی تائید میں نہ کوئی آیت قرآن کریم کی پیش کی گئی ہے اورنہ کوئی حدیث معرض بیان میں لائی گئی ہے اور بااینہمہ ان اقوال کی بنا یقین پرنہیں کیوں کہ انہیں تفسیروں میں بعض اقوال کے مخالف بعض دوسرے اقوال بھی لکھے ہیں.مثلًا اگر کسی کا یہ مذہب لکھا ہے کہ مسیح ابن مریم جسد عنصری کے ساتھ زندہ ہی اٹھایا گیا تو ساتھ ہی اس کے یہ بھی لکھ دیا ہے کہ بعض کا یہ بھی مذہب ہے کہ مسیح فوت ہوگیا ہے.بلکہ ثقات صحابہ کی روایت سے فوت ہوجانے کے قول کو ترجیح دی ہے.جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہی مذہب بیان کیا گیا ہے.رہی حدیثیں سو اُن میں کسی جگہ بیان نہیں کیا گیا کہ مسیح ابن مریم جو رسول اللہ تھا جس پر انجیل نازل ہوئی تھی جو فوت ہو چکا ہے درحقیقت وہی عالم آخرت کے لوگوں میں سے نکل کر پھر اس دنیا کے لوگوں میں آجائے گا بلکہ حدیثوں میں ایک ایسی طرز اختیار کی گئی ہے جس سے ایک دانا انسان صریح سمجھ سکتا ہے کہ مسیح ابن مریم سے مراد مسیح ابن مریم نہیں ہے بلکہ اس کی صفات خاصہ میں کوئی اس کا مثیل مراد ہے.کیونکہ احادیث صحیحہ میں دو پہلو قائم کر کے ایک پہلو میں یہ ظاہر کرنا چاہا ہے کہ اسلام تنزّل کرتا کرتا اس حد تک پہنچ جائے گا کہ اس وقت کے مسلمان اُن یہودیوں کے مشابہ بلکہ بعینہٖ وہی ہوجائیں گے جو حضرت مسیح ابن مریم کے وقت میں موجود تھے

Page 551

پھر دوسرے پہلو میں یہ ظاہر کیا ہے کہ اس تنزّل کے زمانہ میں کہ جب مسلما ن لوگ ایسے یہودی بن جائیں گے کہ جو عیسیٰ بن مریم کے وقت میں تھے تو اُس وقت اُن کی اصلاح کے لئے ایک مسیح ابن مریم بھیجا جائے گا.اب ظاہر ہے کہ اگراس پیشگوئی کے وہ دونوں ٹکڑے اکٹھے کر کے پڑھے جائیں جو ایک طرف اس اُمّت میں یہودیت کوقائم کرتے ہیں اور دوسری طرف مسیحیت کو.تو پھر اس بات کے سمجھنے کے لئے کوئی اشتباہ باقی نہیں رہتا کہ یہ دونوں صفتیں اسی اُمّت کے افراد کی طرف منسوب ہیں اور ان حدیثوں کی قرآن کریم کے منشاء سے اسی صورت میں تطبیق ہوگی کہ جب یہ دونوں صفتیں اسی اُمّت کے متعلق کی جائیں کیونکہ جیساکہ ہم بیان کرچکے ہیں قرآن شریف وعدہ فرما چکا ہے کہ خلافت محمد یّہ کا سلسلہ باعتبار اوّل اور آخر کے بعینہٖ خلافت موسویہ کے سلسلہ سے مماثل ومشابہ ہے یعنی اس اُمت کے اعلیٰ اورادنیٰ افراد کا بنی اسرائیل کی اُمّت سے تشابہ قلوب ہے اعلیٰ کی اعلیٰ سے اور ادنی کی ادنیٰ سے.اور یہ دونوں سلسلے اپنی ترقی اور تنزّل کی حالت میں بالکل باہم مماثل اورمشابہ ہیں اور جیسا کہ موسوی شریعت چودہ سو برس کے قریب عمر پا کر اس مدت کے آخری ایام میں اوج اقبال سے گر گئی تھی اور ہریک بات میں تنزّل راہ پاگیا تھاکیا دنیوی حکومت و سلطنت میں اور کیا دینی تقویٰ اور طہارت میںیہی تنزّل اسی مدّت کے موافق اسلامی شریعت میں بھی راہ پاگیا.اور موسوی شریعت میں تنزّل کے ایا م کا مصلح جو منجانب اللہ آیا وہ مسیح ابن مریم تھا.پس ضرور تھا کہ دونو سلسلہ میں پور ی مماثلت دکھلانے کی غرض سے اسلامی تنزّل کے زمانہ میں بھی کوئی مصلح مسیح ابن مریم کے رنگ پر آتا اور اسی زمانہ کے قریب قریب آتا جو موسوی شریعت کے تنزّل کا زمانہ تھا.یہ وہ تمام باتیں ہیں جو قرآن شریف سے مترشح ہوتی ہیں.جب ہم قرآن شریف پر غورکریں تو گویا وہ دونوں ہاتھ پھیلا کر ہمیں بتلا رہا ہے کہ یہی سچ ہے تم اس کو قبول کرو.لیکن افسوس کہ ہمارے علماء سچائی کو دیکھ کر پھر اُس کو

Page 552

قبول نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ کیا پہلے علماء میں یہ سمجھ اور فہم نہیں تھا جو تمہیں دیا گیا اور آپ ہی کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ جب مسیح ابن مریم آئے گا تو وہ ایسے ایسے استنباط قرآن سے کرے گا جو علماء وقت کی نظر میں اجنبی معلوم ہوں گے اور اسی وجہ سے وہ آمادہ مخالفت ہوجائیں گے.دیکھو مجلد ثانی مکتوبات امام ربّانی صفحہ ۱۰۷.اور کتاب آثار القیامۃ مولوی صدیق حسن صاحب مرحوم.اب کیا ضرور نہ تھا کہ ایسا ہی ہوتا اور وہ قرائن جن سے ثابت ہوتا ہے کہ احادیث کا ہرگز یہ منشاء نہیں کہ مسیح ابن مریم سے بنی اسرائیل صاحبِ انجیل مراد ہے بہ تفصیل ذیل ہیں.اوّل.یہی جو اوپر لکھا گیا ہے کہ ایسا خیال قرآن کریم کی اُن پیشگوئیوں کے مخالف ہے جن میں خلافت موسویہ اور خلافت محمدیہ کی ترقی اور تنزّل کا سلسلہ معہ اُس کے تمام لوازم کے ایک ہی طرز پر واقع ہونا بیان فرمایا گیا ہے اور صریح بلند آواز سے بتلایا گیاہے کہ اسلامی شریعت کے تنزّل کے زمانہ کا تدارک ایسی طرز اور نہج سے اور اُسی رنگ کے مصلح سے کیاجائے گا جیسا کہ موسوی شریعت کے تنزّل کے زمانہ کے وقت کیا گیا تھا.یعنی اللہ جلَّ شَانُہٗ کا قرآن کریم میں منشاء یہ ہے کہ اسی شریعت کے مصلح جو اس دین میں پیدا ہوں گے شریعت موسوی کے مصلحین سے متشابہ اور متماثل ہوں گے اور جو کچھ خدائے تعالیٰ نے موسوی شریعت کی ترقی اور تنزّل کے زمانہ میں کارروائیاں کی تھیں وہی کارروائیاں اس اُمت کی ترقی اور تنزّل کے زمانہ میں کرے گا اور جو کچھ اس کی مشیّت نے تنزّل کے زمانہ میں یہودیوں پر کسل اور ضلالت اور تفرقہ وغیرہ کا اثر ڈالا تھا اور پھر اس کی اصلاح کے لئے ایک بردبار اور دقیقہ رس اور روح سے تائید یافتہ مصلح دیاتھا.یہی سُنّت اللہ اسلام کے تنزّل کی حالت میں ظہور میں آئے گی.اب اگر اس منشاء کے مخالف اصل مسیح ابن مریم کو ہی دوبارہ زمین پر اُتارا جائے تو قرآن شریف کی تعلیم سے صریح مخالفت ہے.

Page 553

دوم.قرآن شریف قطعی طورپر عیسیٰ ابن مریم کی موت ثابت وظاہر کرچکا ہے صحیح بخاری جو بعد کتاب اللہ اصح الکتب سمجھی گئی ہے.اس میں فلمّا توفّیتنی کے معنی وفات ہی لکھے ہیں.اِسی وجہ سے امام بخاری اس آیت کو کتاب التفسیر میں لایا ہے.سوم.قرآن کریم کئی آیتوں میں بتصریح فرما چکاہے کہ جو شخص مر گیا پھر وہ دنیا میں کبھی نہیں آئے گا.لیکن نبیوں کے ہمنام اس اُمت میں آئیں گے.چہارم.قرآن کریم بعد خاتم النبییّن کے کسی رسول کا آنا جائز نہیں رکھتا خواہ وہ نیا رسول ہویا پُرانا ہو.کیونکہ رسول کو علمِ دین بتوسط جبرائیل ملتا ہے او رباب نزول جبرائیل بہ پیرایہ وح ئ رسالت مسدود ہے.اور یہ بات خود ممتنع ہے کہ دنیا میں رسول تو آوے مگر سلسلہ وحی رسالت نہ ہو.پنجم.یہ کہ احادیث صحیحہ بصراحت بیان کر رہی ہیں کہ آنے والا مسیح ابن مریم اُمتیوں کے رنگ میں آئے گا.چنانچہ اس کو امتی کر کے بیان بھی کیا گیا ہے جیسا کہ حدیث امامکم منکم سے ظاہر ہے اور نہ صرف بیان کیاگیا بلکہ جو کچھ اطاعت اورپیروی اُمت پر لازم ہے وہ سب اس کے لازم حال ٹھہرائی گئی.ششم.یہ کہ بخاری میں جو اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے اصل مسیح ابن مریم کا اور حلیہ بتایا گیا ہے اور آنے والے مسیح ابن مریم کا اور حلیہ ظاہر کیا گیا ہے.اب ان قرائن ستّہ کے رو سے صریح اور صاف طورپر ثابت ہے کہ آنے والا مسیح ہرگز وہ مسیح نہیں ہے جس پرانجیل نازل ہوئی تھی بلکہ اس کا مثیل ہے اور اِس وقت اُس کے آنے کا وعدہ تھا کہ جب کروڑہا افراد مسلمانوں میں سے یہودیوں کے مثیل ہوجائیں گے تا خدائے تعالیٰ اس اُمّت کی دونو قسموں کی استعدادیں ظاہر کرے نہ یہ کہ اس اُمّت میں صرف یہودیوں کی نجس صورت قبول کرنے کی استعداد ہو اور مسیح بنی اسرائیل میں سے آوے.بلاشبہ ایسی صورت میں اس مقدس اور روحانی معلّم اورپاک نبی کی

Page 554

بڑی ہتک ہے جس نے یہ خوشخبری بھی دی تھی کہ اِس اُمّت میں مثیل انبیا ء بنی اسرائیل پیدا ہوں گے.اور اگر یہ کہا جائے کہ جس حالت میں اصل عیسیٰ ابن مریم آنے والا نہیں تھا بلکہ اس کا مثیل آنے والا تھا تو یہ کہنا چاہیئے تھا کہ مثیل آنے والا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ عام محاورہ ہے کہ جب متکلّم کا یہ ارادہ ہوتا ہے کہ مشبّہ او ر مشبّہ بہٖ میں مماثلت تام ہے تو مشبّہ کا مشبّہ بہٖ پر حمل کر دیتا ہے تا انطباق کلّی ہو جیسے امام بخاری کی نسبت ایک جلسہ میں کہا گیا کہ دیکھو یہ احمد حنبل آیا ہے الخ اور جیسے کہتے ہیں کہ یہ شیر ہے اور یہ نوشیرواں ہے یہ حاتم ہے یا مثلًا جیسے کوئی کسی کو کہتا ہے کہ تُو گدھا ہے یا بندر ہے.اور نہیں کہتاکہ تُو گدھے کی مانند ہے یا بند ر کی مانند.کیونکہ وہ مطلب مماثلت تامہ کا جو اس کے دل میں ہوتاہے مانند کہنے سے فوت ہوجاتا ہے اور جس کیفیت کو وہ ادا کرنا چاہتا ہے وہ ان لفظوں سے ادا نہیں ہوسکتی.فتدبّر اُمّت احمد نہاں دارد د۲و ضدرادر وجود مے تواند شد مسیحامے تواند شد یہو د زمرۂ زیشاں ہمہ بدطینتاں را جائے ننگ زمرۂ دیگر بجائے انبیا دارد قعود بعض نہایت سادگی سے کہتے ہیں کہ سلاطین کی کتاب میں جو لکھاہے کہ ایلیاء جسم کے سمیت آسمان پر اُٹھایا گیا تو پھر کیا مسیح ابن مریم کے اُٹھائے جانے میں کچھ جائے اشکال ہے تو اُن کو واضح ہو کہ درحقیقت ایلیا بھی خاکی جسم کے ساتھ نہیں اُٹھا یا گیا تھا.چنانچہ مسیح نے اس کی وفات کی طرف اشارہ کر دیا جبکہ اس نے یہودیوں کی وہ امید توڑ دی جو وہ اپنی خام خیالی سے باندھے ہوئے تھے اور کہدیا کہ وہ ہرگز نہیں آئے گا.اور ظاہر ہے کہ اگر وہ جسم خاکی کے ساتھ اُٹھایا جاتا تو پھر خاک کی طرف اس کارجوع کرنا ضروری تھا کیونکہ لکھا ہے کہ خاکی جسم

Page 555

خاک کی طرف عود کرتا ہے 3 ۱؂ کیاایلیاآسمان پر ہی فوت ہو گا یا 3 ۲؂ سے باہر رہے گا.اگر سوچ کر دیکھو تو ایلیا کی چادر گرنے والی وہی اس کا وجود تھا جو اس نے چھوڑ دیا اور نیا چولہ پہن لیا.کیوں نہیں لوگو تمہیں حق کا خیال دل میں اُٹھتا ہے مرے سَو سَو اُبال ابن مریم مر گیا حق کی قسم داخلِ جنت ہوا وہ محترم مارتا ہے اُس کو فرقاں سر بسر اس کے مرجانے کی دیتا ہے خبر وہ نہیں باہر رہا اموات سے ہوگیا ثابت یہ تیس آیات سے و ئی مُردوں سے کبھی آیا نہیں یہ تو فرقاں نے بھی بتلا یا نہیں عہد شد از کردگار بے چگوں غور کن در اے عزیزو!! سوچ کر دیکھو ذرا موت سے بچتا کوئی دیکھا بھلا یہ تو رہنے کا نہیں پیارو مکاں چل بسے سب انبیاء و راستاں ہاں نہیں پاتا کوئی اس سے نجات یونہی باتیں ہیں بنائیں واہیات کیوں تمہیں انکار پر اصرار ہے ہے یہ دین یا سیرت کفّار ہے برخلاف نصّ یہ کیاجوش ہے سوچ کر دیکھو اگر کچھ ہوش ہے کیوں بنایا ابن مریم کو خدا سنت اللہ سے وہ کیوں باہر رہا کیوں بنایا اس کو باشانِ کبیر غیب دان و خالق حیّ و قدیر مرگئے سب پر وہ مرنے سے بچا اب تلک آئی نہیں اس پر فنا ہے وہی اکثر پرندوں کا خدا اس خدادانی پہ تیرے مرحبا مولوی صاحب یہی توحید ہے سچ کہو کس دیو کی تقلید ہے کیایہی توحیدِ حق کا راز تھا جس پہ برسوں سے تمہیں اک ناز تھا کیا بشر میں ہے خدائی کا نشان الاماں ایسے گماں سے الاماں

Page 556

ہے تعجب آپ کے اس جوش پر فہم پر اور عقل پر اور ہوش پر کیو ں نظر آتا نہیں راہِ صواب پڑ گئے کیسے یہ آنکھوں پرحجاب کیایہی تعلیمِ فرقاں ہے بھلا کچھ تو آخر چاہیئے خوفِ خدا مومنوں پر کفر کا کرنا گماں ہے یہ کیا ایمانداروں کا نشاں ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیں دل سے ہیں خدّام ختم المرسلیں شرک اور بدعت سے ہم بیزارہیں خاکِ راہِ احمد مختار ہیں سارے حکموں پر ہمیں ایمان ہے جان و دل اس راہ پر قربا ن ہے دے چکے دل اب تنِ خاکی رہا ہے یہی خواہش کہ ہو وہ بھی فدا تم ہمیں دیتے ہو کافر کا خطاب کیوں نہیں لوگو تمہیں خوف عقاب سخت شورے اوفتاد اندر زمیں رحم کن برخلق اے جاں آفریں کچھ نمونہ اپنی قدرت کا دکھا تجھ کو سب قدرت ہے ،اے ربّ الورا آمین بعض مبائعین کا ذکر اور نیز اس سلسلہ کے معاونین کاتذکرہ اور اِس58لام کو یُورپ اور امریکہ میں پھیلانے کی احسن تجویز میں رسالہ فتح اسلام میں کسی قدرلکھ آیا ہوں کہ اسلا م کے ضعف اور غربت اور تنہائی کے وقت میں خدائے تعالیٰ نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے تا میں ایسے وقت میں جو اکثر لوگ عقل کی بد استعمالی سے ضلالت کی راہیں پھیلا رہے ہیں او رروحانی امور سے رشتہ مناسبت بالکل کھو بیٹھے ہیں اسلامی تعلیم کی روشنی ظاہر کروں.مَیں

Page 557

یقینًا جانتا ہوں کہ اب وہ زمانہ آگیا ہے کہ اسلام اپنا اصلی رنگ نکال لائے گا اور اپنا وہ کمال ظاہر کرے گا جس کی طرف آیت 3 ۱؂ میں اشارہ ہے.سنّت اللہ اسی طرح واقع ہے کہ خزائن معارف و دقائق اُسی قدر ظاہر کئے جاتے ہیں جس قدراُن کی ضرورت پیش آتی ہے.سو یہ زمانہ ایک ایسازمانہ ہے جو اس نے ہزارہا عقلی مفاسد کو ترقی دے کر اور بے شمار معقولی شبہات کو بمنصۂ ظہور لا کر بالطبع اس بات کا تقاضا کیا ہے کہ ان اوہام و اعتراضات کے رفع ودفع کے لئے فرقانی حقائق و معارف کا خزانہ کھولا جائے.بے شک یہ بات یقینی طورپر ماننی پڑے گی کہ جس قدر حق کے مقابل پر اب معقول پسندوں کے دلوں میں اوہام باطلہ پیدا ہوئے ہیں اور عقلی اعتراضات کا ایک طوفان برپا ہوا ہے اس کی نظیر کسی زمانہ میں پہلے زمانوں میں سے نہیں پائی جاتی.لہٰذا ابتداء سے اس امرکو بھی کہ ان اعتراضات کا براہین شافیہ وکافیہ سے بحوالہ آیات فرقان مجید بکلی استیصال کر کے تمام ادیان باطلہ پر فوقیت اسلام ظاہر کر دی جائے اِسی زمانہ پر چھوڑ ا گیا تھا کیونکہ پیش از ظہور مفاسد ا ن مفاسد کی اصلاح کاتذکرہ محض بے محل تھا.اِسی وجہ سے حکیم مطلق نے ان حقائق اور معارف کو اپنی کلام پاک میں مخفی رکھا اور کسی پر ظاہر نہ کیا جب تک کہ اُن کے اظہارکا وقت آگیا.ہاں اس وقت کی اس نے پہلے سے اپنی کتاب عزیز میں خبر دے رکھی تھی جو آیت 3۲؂ میں صاف اور کھلے کھلے طور پر مرقوم ہے.سو اب وہی وقت ہے اور ہر یک شخص روحانی روشنی کا محتاج ہو رہا ہے سو خدائے تعالیٰ نے اس روشنی کو دے کر ایک شخص دنیا میں بھیجا وہ کون ہے ؟ یہی ہے جو بول رہا ہے.رسالہ فتح اسلام میں یہ امر مفصّل طورپر بیان کیا گیا ہے کہ ایسے عظیم الشان کاموں کے لئے قوم کے ذی مقدرت لوگوں کی امداد ضروری ہوتی ہے اور اس سے زیادہ اور کون سی سخت معصیت ہوگی کہ ساری قوم دیکھ رہی ہے کہ اسلام پر چاروں طرف سے حملے ہورہے ہیں

Page 558

اور وہ وبا پھیل رہی ہے جو کسی آنکھ نے پہلے اس سے نہیں دیکھی تھی.اس نازک وقت میں ایک شخص خدائے تعالیٰ کی طرف سے اُٹھا اور چاہتا ہے کہ اسلام کاخوبصورت چہرہ تمام دنیا پر ظاہر کرے اور اس کی راہیں مغربی ملکوں کی طرف کھولے لیکن قوم اس کی امداد سے دستکش ہے اور سوء ظن اور دنیا پرستی کی راہ سے بکلّی قطع تعلقات کر کے چپ چاپ بیٹھی ہے.افسوس کہ ہماری قوم میں سے بہتوں نے سوء ظن کی راہ سے ہر یک شخص کو ایک ہی مد مکر اور فریب میں داخل کردیا ہے اور کوئی ایسا شخص جوروحانی سرگرمی اور دیانتداری کا اثر اپنے اندررکھتا ہو شاید اُن کے نزدیک ممتنع الوجود ہے.بہت سے ان میں ایسے ہیں کہ وہ صرف دنیوی زندگی کی فکروں میں لگے ہوئے ہیں اور ان کی نگاہ میں وہ لوگ سخت بے وقوف ہیں جو کبھی آخرت کابھی نام لیتے ہیں.بعض ایسے ہیں کہ دین سے بھی کچھ دلچسپی رکھتے ہیں.مگر صرف بیرونی صورت اور مذہب کی بے اصل باتوں میں اُلجھے ہوئے ہیں.وہ نہیں جانتے کہ نبیوں کی تعلیم کا اعلیٰ مقصد کیا ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہیئے جس سے ہم اپنے مولیٰ کی دائمی رضا مندی میں داخل ہوجائیں.میرے پیارے دوستو! میں آپ کو یقین دلاتاہوں کہ مجھے خدائے تعالیٰ نے سچا جوش آپ لوگوں کی ہمدردی کے لئے بخشا ہے اور ایک سچی معرفت آپ صاحبوں کی زیادت ایمان و عرفان کے لئے مجھے عطا کی گئی ہے اس معرفت کی آپ کو اور آپ کی ذرّیت کو نہایت ضرورت ہے.سو میں اس لئے مستعد کھڑاہوں کہ آپ لوگ اپنے اموال طیّبہ سے اپنے دینی مہمات کے لئے مدد دیں اور ہر یک شخص جہاں تک خدائے تعالیٰ نے اس کو وسعت وطاقت و مقدرت دی ہے اس راہ میں دریغ نہ کرے اور اللہ اور رسول سے اپنے اموال کو مقدّم نہ سمجھے اور پھر میں جہاں تک میرے امکان میں ہے تالیفات کے ذریعہ سے اُ ن علوم او ر برکات کو ایشیااور یورپ کے ملکوں میں پھیلاؤں جو خدا تعالیٰ کی پاک روح نے مجھے دی ہیں.مجھ سے پوچھا گیا تھا کہ امریکہ اور یوروپ میں

Page 559

تعلیم اسلام پھیلانے کے لئے کیاکرنا چاہیئے.کیا یہ مناسب ہے کہ بعض انگریزی خوان مسلمانوں میں سے یورپ اور امریکہ میں جائیں اور وعظ اورمنادی کے ذریعہ سے مقاصد اسلام اُن لوگوں پر ظاہر کریں.لیکن میں عمومًا اس کا جواب ہاں کے ساتھ کبھی نہیں دونگا.میں ہرگز مناسب نہیں جانتا کہ ایسے لوگ جو اسلامی تعلیم سے پور ے طور پر واقف نہیں اور اس کی اعلیٰ درجہ کی خوبیوں سے بکلی بے خبر اور نیز زمانہ حال کی نکتہ چینیوں کے جوابات پرکامل طور پر حاوی نہیں ہیں اور نہ روح القد س سے تعلیم پانے والے ہیں وہ ہماری طرف سے وکیل ہوکر جائیں.میرے خیال میں ایسی کارروائی کا ضرر اس کے نفع سے اقرب اور اسرع الوقوع ہے اِلّا ماشاء اللہ.بلاشبہ یہ سچ بات ہے کہ یورپ اور امریکہ نے اسلام پر اعتراضات کرنے کا ایک بڑا ذخیرہ پادریوں سے حاصل کیا ہے اور ان کا فلسفہ اور طبعی بھی ایک الگ ذخیرہ نکتہ چینی کا رکھتا ہے.میں نے دریافت کیا ہے کہ تین ہزار کے قریب حال کے زمانہ نے و ہ مخالفانہ باتیں پیدا کی ہیں جو اسلام کی نسبت بصورت اعتراض سمجھی گئی ہیں حالانکہ اگر مسلمانوں کی لاپرواہی کوئی بدنتیجہ پیدا نہ کرے تو ان اعتراضات کا پیدا ہونا اسلام کے لئے کچھ خوف کا مقام نہیں.بلکہ ضرور تھا کہ وہ پیدا ہوتے تااسلام اپنے ہر یک پہلو سے چمکتا ہوا نظر آتا لیکن ان اعتراضات کاکافی جواب دینے کے لئے کسی منتخب آدمی کی ضرورت ہے جو ایک دریا معرفت کا اپنے صدر منشرح میں موجود رکھتا ہو جس کی معلومات کو خدائے تعالےٰ کے الہامی فیض نے بہت وسیع اور عمیق کر دیا ہو.اور ظاہر ہے کہ ایساکام ان لوگوں سے کب ہو سکتاہے جن کی سماعی طور پر بھی نظر محیط نہیں اور ایسے سفیر اگر یورپ اور امریکہ میں جائیں تو کس کام کو انجام دیں گے اورمشکلات پیش کردہ کا کیا حل کریں گے.اور ممکن ہے کہ اُن کے جاہلانہ جوابات کا اثر معکوس ہو جس سے وہ تھوڑا سا ولولہ اور شوق بھی جو حال میں امریکہ اور یوروپ کے بعض منصف دلوں میں

Page 560

پیدا ہوا ہے جاتا رہے اور ایک بھاری شکست اور ناحق کی سُبکی اور ناکامی کے ساتھ واپس ہوں.سومیری صلاح یہ ہے کہ بجائے ان واعظوں کے عمدہ عمدہ تالیفیں اِن ملکوں میں بھیجی جائیں.اگر قوم بدل وجان میری مدد میں مصروف ہو تو میں چاہتا ہوں کہ ایک تفسیر بھی تیارکر کے اور انگریزی میں ترجمہ کرا کر اُن کے پاس بھیجی جائے.میں اس بات کو صاف صاف بیان کرنے سے رہ نہیں سکتا کہ یہ میرا کام ہے دوسرے سے ہرگز ایسا نہیں ہوگا جیسا مجھ سے یا جیسا اس سے جو میری شاخ ہے اور مجھ میں ہی داخل ہے.ہاں اس قدر میں پسند کرتا ہوں کہ ان کتابوں کے تقسیم کرنے کے لئے یا اُن لوگوں کے خیالات اور اعتراضات کوہم تک پہنچانے کی غرض سے چند آدمی ان ملکوں میں بھیجے جائیں جو امامت اور مولویت کا دعویٰ نہ کریں بلکہ ظاہر کردیں کہ ہم صرف اس لئے بھیجے گئے ہیں کہ تا کتابوں کو تقسیم کریں اور اپنی معلومات کی حد تک سمجھاویں اور مشکلات اور مباحث دقیقہ کاحل ان اماموں سے چاہیں جو اس کام کے لئے ملک ہند میں موجود ہیں.اس میں کچھ شک نہیں کہ اسلام میں اس قدرصداقت کی روشنی چمک رہی ہے اور اس قدر اس کی سچائی پر نورانی دلائل موجود ہیں کہ اگر وہ اہل تحقیق کے زیر توجہ لائی جاویں تو یقینًا وہ ہر یک سلیم العقل کے دل میں گھرکر جاویں.لیکن افسوس کہ ابھی وہ دلائل اندرونی طورپر بھی اپنی قوم میں شائع نہیں چہ جائیکہ مخالفوں کے مختلف فرقوں میں شائع ہوں.سو انہیں براہین اور دلائل اور حقائق اور معارف کے شائع کرنے کے لئے قوم کی مالی امداد کی حاجت ہے کیاقوم میں کوئی ہے جو اس بات کو سُنے ؟ جب سے میں نے رسالہ فتح اسلام کو تالیف کیا ہے ہمیشہ میرا اسی طرف خیال لگا رہا کہ میری اس تجویز کے موافق جو میں نے دینی چندہ کے لئے رسالہ مذکورہ میں لکھی ہے دلوں میں حرکت پیدا ہوگی.اسی خیال سے میں نے چار سو کے قریب

Page 561

وہ رسالہ مفت بھی تقسیم کر دیا تا لوگ اس کو پڑھیں اور اپنے پیارے دین کی امدادکے لئے اپنے گذشتنی گذاشتنی مالوں میں سے کچھ حق مقررکریں مگر افسوس کہ بجُز چند میرے مخلصوں کے جن کا ذکر میں عنقریب کروں گا کسی نے اس طرف توجہ نہیں کی.میں حیران ہوں کہ کن الفاظ کو استعمال کروں تا میری قوم پر وہ مؤثر ہوں.میں سوچ میں ہوں کہ وہ کون سی تقریر ہے جس سے وہ میرے غم سے بھرے ہوئے دل کی کیفیت سمجھ سکیں.اے قادر خدا اُن کے دلوں میں آپ الہام کر اور غفلت اور بد ظنّی کی رنگ آمیزی سے ان کو باہر نکال اور حق کی روشنی دکھلا.پیارو یقینًا سمجھو کہ خداہے اور وہ اپنے دین کو فراموش نہیں کرتا بلکہ تاریکی کے زمانہ میں اس کی مدد فرماتا ہے مصلحت عام کے لئے ایک کو خاص کرلیتا ہے اور اُس پر علوم لدنیہ کے انوار نازل کرتا ہے.سو اُسی نے مجھے جگایا اور سچائی کے لئے میرا دل کھول دیا.میری روزانہ زندگی کا آرام اسی میں ہے کہ میں اسی کام میں لگا رہوں.بلکہ میں اس کے بغیر جی ہی نہیں سکتا کہ میں اس کا اور اس کے رسول کا اور اس کی کلام کا جلال ظاہر کروں.مجھے کسی کی تکفیر کا اندیشہ نہیں اور نہ کچھ پروا.میرے لئے یہ بس ہے کہ وہ راضی ہو جس نے مجھے بھیجا ہے.ہاں مَیں اس میں لذّت دیکھتا ہوں کہ جو کچھ اُس نے مجھ پر ظاہر کیا وہ میں سب لوگوں پر ظاہرکروں اور یہ میرا فرض بھی ہے کہ جو کچھ مجھے دیاگیا وہ دوسروں کو بھی دُوں.اوردعوت مولیٰ میں ان سب کو شریک کرلوں جو ازل سے بلائے گئے ہیں.میں اس مطلب کے پورا کرنے کے لئے قریبًا سب کچھ کرنے کے لئے مستعد ہوں اور جانفشانی کے لئے راہ پر کھڑا ہوں.لیکن جو امر میرے اختیار میں نہیں میں خداوند قدیر سے چاہتا ہوں کہ وہ آپ اس کو انجام دیوے.میں مشاہدہ کررہا ہوں کہ ایک دست غیبی مجھے مدد دے رہا ہے.اور اگرچہ میں تمام فانی انسانوں کی طرح ناتواں اور ضعیف البنیان ہوں تاہم میں دیکھتا ہوں کہ مجھے غیب سے قوت ملتی ہے

Page 562

اور نفسانی قلق کو دبانے والا ایک صبر بھی عطا ہوتا ہے اور میں جو کہتا ہوں کہ اِن الٰہی کاموں میں قوم کے ہمدرد مدد کریں وہ بے صبری سے نہیں بلکہ صرف ظاہرکے لحاظ اور اسباب کی رعایت سے کہتا ہوں.ورنہ خدا تعالیٰ کے فضل پر میرا دل مطمئن ہے اور امید رکھتا ہوں کہ وہ میری دعاؤں کو ضائع نہیں کرے گا اور میرے تمام ارادے اور امیدیں پوری کردے گا.اب میں اُن مخلصوں کا نام لکھتا ہوں جنھوں نے حتی الوسع میرے دینی کاموں میں مدد دی یاجن پر مدد کی امید ہے یا جن کو اسباب میسر آنے پر طیار دیکھتا ہوں.(۱) حبّی فی اللہ مولوی حکیم نور دین صاحب بھیروی.مولوی صاحب ممدوح کا حال کسی قدررسالہ فتح اسلام میں لکھ آیا ہوں.لیکن ان کی تازہ ہمدردیوں نے پھر مجھے اس وقت ذکرکرنے کا موقعہ دیا.اُن کے مال سے جس قدرمجھے مدد پہنچی ہے میں کوئی ایسی نظیر نہیں دیکھتا جو اس کے مقابل پر بیان کر سکوں.میں نے انکو طبعی طور پر اورنہایت انشراح صدر سے دینی خدمتوں میں جان نثار پایا.اگرچہ ان کی روز مرہ زندگی اسی راہ میں وقف ہے کہ وہ ہر یک پہلو سے اسلام اورمسلمانوں کے سچے خادم ہیں مگر اس سلسلہ کے ناصرین میں سے وہ اوّل درجہ کے نکلے.مولوی صاحب موصوف اگرچہ اپنی فیاضی کی وجہ سے اس مصرعہ کے مصداق ہیں کہ قرار در کفِ آزا دگاں نگیرد مال لیکن پھر بھی انہوں نے بارہ سو روپیہ نقد متفرق حاجتوں کے وقت اس سلسلہ کی تائید میں دیا.اوراب 3بیس روپے ماہواری دینااپنے نفس پر واجب کر دیا اور اس کے سوا اور بھی ان کی مالی خدمات ہیں جو طرح طرح کے رنگوں میں ان کا سلسلہ جاری ہے میں یقینًا دیکھتا ہوں کہ جب تک وہ نسبت پیدانہ ہو جو محب کو اپنے محبوب سے ہوتی ہے تب تک ایسا انشراح صدر کسی میں پیدا نہیں ہوسکتا.اُن کو خدائے تعالیٰ نے اپنے قوی ہاتھ سے اپنی طرف کھینچ لیا ہے اور طاقتِ بالا نے خارق عادت اثر اُن پر کیا ہے.

Page 563

انہوں نے ایسے وقت میں بلا تردّد مجھے قبول کیاکہ جب ہر طرف سے تکفیر کی صدائیں بلند ہونے کو تھیں اور بہتیروں نے باوجود بیعت کے عہد بیعت فسخ کر دیا تھا اور بہتیرے سُست اور متذبذب ہوگئے تھے.تب سب سے پہلے مولوی صاحب ممدوح کا ہی خط اس عاجز کے اس دعویٰ کی تصدیق میں کہ میں ہی مسیح موعود ہوں قادیان میں میرے پاس پہنچا جس میں یہ فقرات درج تھے.اٰمنّا وصدقنا فا کتبنا مع الشَّاھدین مولوی صاحب موصوف کے اعتقاد اور اعلیٰ درجہ کی قوتِ ایمانی کا ایک یہ بھی نمونہ ہے کہ ریاست جموں کے ایک جلسہ میں مولوی صاحب کاایک ڈاکٹر صاحب سے جن کانام جگن ناتھ ہے اس عاجز کی نسبت کچھ تذکرہ ہوکر مولوی صاحب نے بڑی قوت اور استقامت سے یہ دعویٰ پیش کیا کہ خدائے تعالیٰ اُن کے یعنی اس عاجز کے ہاتھ پر کوئی آسمانی نشان دکھلانے پر قادر ہے.پھر ڈاکٹر صاحب کے انکار پر مولوی صاحب نے ریاست کے بڑے بڑے ارکان کی مجلس میں یہ شرط قبول کی کہ اگر وہ یعنی یہ عاجز کسی مدّت مسلّمہ فریقین پر کوئی آسمانی نشان دکھلا نہ سکے تو مولوی صاحب ڈاکٹر صاحب کو پنج ہزار روپیہ بطور جرمانہ دیں گے اور ڈاکٹر صاحب کی طرف سے یہ شرط ہوئی کہ اگرانہوں نے کوئی نشان دیکھ لیا تو بلا توقف مسلمان ہوجائیں گے اور اِن تحریری اقراروں پر مندرجہ ذیل گواہیاں ثبت ہوئیں.خان بہادر جنرل ممبر کونسل ریاست جموں غلام محی الدین خا ں سراج الدین سپرنٹنڈنٹ و افسر ڈاکخانجات ریاست جموں سرکار سنگھ سیکرٹری راجہ امر سنگھ صاحب بہادر پریذیڈنٹ کونسل مگر افسوس کہ ڈاکٹر صاحب ناقابل قبول اعجازی صورتوں کو پیش کر کے ایک حکمت عملی سے گریز کر گئے.چنانچہ انہوں نے ایک آسمانی نشان یہ مانگاکہ کوئی مرا ہوا

Page 564

پرندہ زندہ کر دیاجائے حالانکہ وہ خوب جانتے ہوں گے کہ ہمارے اصولوں سے یہ مخالف ہے.ہمار ا یہی اصول ہے کہ مُردوں کو زندہ کرنا خدائے تعالیٰ کی عادت نہیں اور وہ آپ فرماتا ہے 333 ۱؂.یعنی ہم نے یہ واجب کر دیاہے کہ جو مر گئے پھر وہ دنیا میں نہیں آئیں گے.میں نے ڈاکٹر صاحب کو یہ کہا تھا کہ آسمانی نشان کی اپنی طرف سے کوئی تعیین ضروری نہیں بلکہ جو امر انسانی طاقتوں سے بالاتر ثابت ہو خواہ وہ کوئی امر ہو اسی کو آسمانی نشان سمجھ لینا چاہیئے اور اگر اس میں شک ہو تو بالمقابل ایسا ہی کوئی دوسرا امر دکھلا کر یہ ثبوت دینا چاہیئے کہ وہ امر الٰہی قدرتوں سے مخصوص نہیں لیکن ڈاکٹر صاحب اس سے کنارہ کر گئے اور مولوی صاحب نے وہ صدق قدم دکھلایا جومولوی صاحب کی عظمتِ ایمان پر ایک محکم دلیل ہے.دل میں از بس آرزو ہے کہ اَور لوگ بھی مولوی صاحب کے نمونہ پر چلیں.مولوی صاحب پہلے راستبا زوں کا ایک نمونہ ہیں.جزاہم اللّٰہ خیرا الجزاء و احسن الیہم فی الدنیا والعقبٰی.(۲) حبّی فی اللہ حکیم فضل دین صاحب بھیروی.حکیم صاحب اخویم مولوی حکیم نور دین صاحب کے دوستوں میں سے اور ان کے رنگ اخلاق سے رنگین اور بہت بااخلاص آدمی ہیں.میں جانتا ہوں کہ اُن کو اللہ اور رسول سے سچی محبت ہے اور اسی وجہ سے وہ اس عاجز کو خادم دین دیکھ کر حبّ لِلّٰہ کی شرط کو بجا لارہے ہیں.معلوم ہوتاہے کہ انہیں دین اسلام کی حقانیت کے پھیلانے میں اُسی عشق کاوافر حصہ ملا ہے جو تقسیم ازلی سے میرے پیارے بھائی مولوی حکیم نور دین صاحب کو دیا گیا ہے.وہ اِس سلسلہ کے دینی اخراجات کو بنظر غور دیکھ کر ہمیشہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ چندہ کی صورت پر کوئی اُن کا احسن انتظام ہوجائے.چنانچہ رسالہ فتح اسلام میں جِس میں مصارف دینیہ کی پنج شاخوں کا بیان ہے اُنہیں کی تحریک اور مشورہ سے لکھا گیا تھا.انکی

Page 565

فراست نہایت صحیح ہے اور وہ بات کی تہ تک پہنچتے ہیں اور اُن کا خیال ظنونِ فاسدہ سے مصفّٰی اورمزکی ہے.رسالہ ازا لہ اوہام کے طبع کے ایام میں دوسو3 روپیہ اُن کی طرف سے پہنچا اور اُن کے گھر کے آدمی بھی اُن کے اس اخلاص سے متأثر ہیں اوروہ بھی اپنے کئی زیورات اس راہ میں محض للہ خرچ کر چکے ہیں.حکیم صاحب موصوف نے باوجود اِن سب خدمات کے جو اُن کی طرف سے ہوتی رہتی ہیں خاص طور پر پنج روپے ماہواری اس سلسلہ کی تائید میں دینا مقرر کیا ہے.جزاہم اللّٰہ خیرا الجزاء واحسن الیہم فی الدنیا والعقبٰی.(۳) حبّی فی اللہ مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی.مولوی صاحب اس عاجز کے یکرنگ دوست ہیں اور مجھ سے ایک سچی اور زندہ محبت رکھتے ہیں اور اپنے اوقات عزیز کا اکثر حصہ انہوں نے تائید دین کے لئے وقف کررکھا ہے.اُن کے بیان میں ایک اثر ڈالنے والا جو ش ہے.اخلاص کی برکت اور نورانیت اُن کے چہرہ سے ظاہر ہے.میری تعلیم کی اکثر باتوں سے وہ متفق الرائے ہیں مگر میرے خیال میں ہے کہ شاید بعض سے نہیں.لیکن اخویم مولوی حکیم نور دین صاحب کے انوار صحبت نے بہت سا نورانی اثر اُن کے دل پر ڈالا ہے اور نیچریت کی اکثر خشک باتوں سے وہ بیزار ہوتے جاتے ہیں.اور درحقیقت میں بھی اِس بات کوپسند نہیں کرتا کہ الٰہی کتاب کے واقعی اور سچے منشاء کے مخالف نیچر کے ایسے تابع ہوجائیں کہ گویا کامل ہادی ہمارا وہی ہے.میں ایسے حصّہ نیچریت کو قبول کرتا ہوں جس کو میں دیکھتا ہوں کہ میرے مولیٰ اور ہادی نے اپنی کتاب قرآن کریم میں اس کو قبول کر لیا ہے اور سُنّت اللہ کے نام سے اس کو یاد کیا ہے.مَیں اپنے خداوند کو کامل طورپر قادر مطلق سمجھتا ہوں اور اسی بات پر ایمان لاچکا ہوں کہ وہ جو چاہتا ہے کر دکھاتا ہے اور اسی ایمان کی برکت سے میری معرفت زیادت میں ہے اورمحبت ترقی میں.مجھے بچوں کا ایمان پسندآتا ہے اور فلسفیوں کے بودے ایمان سے میں متنفّرہوں مجھے یقین ہے کہ مولوی صاحب اپنی محبت کے پاک جذبات کی وجہ سے

Page 566

اور بھی ہمرنگی میں ترقی کریں گے اور اپنے بعض معلومات میں نظر ثانی فرمائیں گے.(۴) حبّی فی اللہ مولوی غلام قادر صاحب فصیح جوان صالح خوش شکل اور اس عاجز کی بیعت میں داخل ہیں.باہمت اور ہمدرد اسلام ہیں.قول فصیح جو مولوی عبد الکریم صاحب کی تالیف ہے اسی مرد باہمت نے اپنے مصارف سے چھاپی اور مفت تقسیم کی.قوت بیانی نئی طرز کے موافق بہت عمدہ رکھتے ہیں.اب ایک ماہواری رسالہ ان کی طرف سے نکلنے والا ہے جس کا نام الحق ہوگا.یہ رسالہ محض اس غرض سے جاری کیاجائے گا کہ تا اس میں وقتًا فوقتًا ان مخالفوں کا جواب دیاجائے جو دین اسلام پر حملہ کرتے ہیں خدائے تعالیٰ اس کام میں اُن کی مدد کرے.(۵) سیّد حامد شاہ صاحب سیالکوٹی.یہ سید صاحب محب صادق اور اس عاجز کے ایک نہایت مخلص دوست کے بیٹے ہیں جس قدر خدائے تعالیٰ نے شعر اورسخن میں اُن کو قوت بیان دی ہے وہ رسالہ قول فصیح کے دیکھنے سے ظاہر ہوگی.میرحامد شاہ کے بشرہ سے علامات صدق واخلاص و محبت ظاہرہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ وہ اسلام کی تائید میں اپنی نظم و نثر سے عمدہ عمدہ خدمتیں بجالائیں گے.اُن کا جوش سے بھرا ہوا اخلاص اور ان کی محبت صافی جس حد تک مجھے معلوم ہوتی ہے.مَیں اس کا اندازہ نہیں کر سکتا.مجھے نہایت خوشی ہے کہ وہ میرے پُرانے دوست مِیر حسام الدین صاحب رئیس سیالکوٹ کے خلف رشید ہیں.(۶) حبّی فی اللہ مولوی سیّد محمد احسن صاحب امروہی مہتمم مصارف ریاست بھوپال.مولوی صاحب موصوف اس عاجز سے کما ل درجہ کا اخلاص و محبت اور تعلق روحانی رکھتے ہیں.اُن کی تالیفات کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک اعلیٰ لیاقت کے آدمی اور علوم عربیہ میں فاضل ہیں بالخصوص علم حدیث میں ان کی نظر بہت محیط اور عمیق معلوم ہوتی ہے.حال میں انہوں نے ایک رسالہ اعلام الناس

Page 567

اس عاجز کے تائید دعویٰ میں بکمال متانت و خوش اسلوبی لکھا ہے جس کے پڑھنے سے ناظرین سمجھ لیں گے کہ مولوی صاحب موصوف علوم دینیہ میں کس قدر محقق اور وسیع النظر او رمدقّق آدمی ہیں انہوں نے نہایت تحقیق اور خوش بیانی سے اپنے رسالہ میں کئی قسم کے معارف بھر دئے ہیں.ناظرین اس کو ضرور دیکھو.(۷) حبّی فی اللہ مولوی عبد الغنی صاحب معروف مولوی غلام نبی خوشابی دقیق فہم اور حقیقت شناس ہیں اور علوم عربیہ تازہ بتازہ ان کے سینہ میں موجود ہیں اوائل میں مولوی صاحب موصوف سخت مخالف الرائے تھے.جب ان کو اس بات کی خبر پہنچی کہ یہ عاجز مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے اور مسیح ابن مریم کی نسبت وفات کا قائل ہے تب مولوی صاحب میں پورانے خیالات کے جذبہ سے ایک جوش پیدا ہوا اور ایک عام اشتہار دیا کہ جمعہ کی نماز کے بعد اس شخص کے ردّ میں ہم وعظ کریں گے.شہر لودھانہ کے صدہا آدمی وعظ کے وقت موجود ہو گئے.تب مولوی صاحب اپنے علمی زور سے بخاری اور مسلم کی حدیثیں بارش کی طرح لوگوں پر برسانے لگے اور صحاح ستّہ کا نقشہ پُرانی لکیر کے موافق آگے رکھ دیا.اُن کے وعظ سے سخت جوش مخالفت کا تمام شہر میں پھیل گیا.کیونکہ ان کی علمیّت اور فضیلت دلوں میں مسلّم تھی لیکن آخر سعادت ازلی کشاں کشاں اُن کو اس عاجز کے پاس لے آئی اور مخالفانہ خیالات سے توبہ کر کے سلسلہ بیعت میں داخل ہوئے.اب اُن کے پُرانے دوست اُن سے سخت ناراض ہیں.مگر وہ نہایت استقامت سے اس شعر کے مضمون کا وِرد کررہے ہیں حضرت ناصح جو آویں دیدہ ودل فرش راہ پر کوئی مجھ کوتو سمجھاوے کہ سمجھاویں گے کیا (۸ ) حبّی فی اللہ نواب محمد علی خان صاحب رئیس خاندان ریاست مالیر کوٹلہ.یہ نواب صاحب ایک معزز خاندان کے نامی رئیس ہیں.مورث اعلیٰ نوا ب صاحب موصوف کے شیخ صدرجہاں ایک باخدابزرگ تھے جو اصل باشندہ جلال آباد سروانی قوم کے

Page 568

پٹھان تھے ۱۴۶۹ ؁ء میں عہد سلطنت بہلول لودھی میں اپنے وطن سے اس ملک میں آئے شاہِ وقت کا اُن پر اس قدراعتقاد ہو گیا کہ اپنی بیٹی کا نکاح شیخ موصوف سے کر دیا.او رچند گاؤں جاگیر میں دے دیئے.چنانچہ ایک گاؤں کی جگہ میں یہ قصبہ شیخ صاحب نے آباد کیا جس کا نام مالیر ہے.شیخ صاحب کے پوتے بایزید خاں نامی نے مالیر کے متصل قصبہ کوٹلہ کو تقریبًا ۱۵۷۳ ؁ء میں آباد کیا.جس کے نام سے اب یہ ریاست مشہور ہے.بایزید خان کے پانچ بیٹوں میں سے ایک کا نام فیروزخان تھا اور فیروز خان کے بیٹے کانام شیرمحمد خان اور شیر محمد خان کے بیٹے کانام جمال خان تھا جمال خان کے پانچ بیٹے تھے.مگر ان میں سے صرف دو بیٹے تھے جن کی نسل باقی رہی یعنی بہادرخان اور عطاء اللہ خان.بہادرخان کی نسل میں سے یہ جوان صالح خلف رشید نواب غلام محمد خان صاحب مرحوم ہے جس کا عنوان میں ہم نے نام لکھاہے خدا تعالیٰ اس کو ایمانی امور میں بہادرکرے اور اپنے جد شیخ بزرگوار صدرجہان کے رنگ میں لاوے.سردارمحمدعلی خان صاحب نے گورنمنٹ برطانیہ کی توجہ اور مہربانی سے ایک شائستگی بخش تعلیم پائی جس کا اثر اُن کے دماغی اور دلی قویٰ پر نمایاں ہے.اُن کی خداداد فطرت بہت سلیم اور معتدل ہے اور باوجود عین شباب کے کسی قسم کی حدّت اور تیزی اور جذبات نفسانی اُن کے نزدیک آئی معلوم نہیں ہوتی.مَیں قادیان میں جب کہ وہ ملنے کے لئے آئے تھے اور کئی دن رہے پوشیدہ نظر سے دیکھتا رہا ہوں کہ التزام ادائے نماز میں اُن کو خوب اہتمام ہے اور صلحاء کی طرح توجہ اور شوق سے نماز پڑھتے ہیں اور منکرات اور مکروہات سے بکلّی مجتنب ہیں.مجھے ایسے شخص کی خوش قسمتی پر رشک ہے جس کا ایسا صالح بیٹا ہو کہ باوجود بہم پہنچنے تمام اسباب اور وسائل غفلت اور عیاشی کے اپنے عنفوان جوانی میں ایسا پرہیز گار ہو.معلوم ہوتا کہ انہوں نے بتوفیقہٖ تعالیٰ خود اپنی اصلاح پر آپ زور دے کر رئیسوں کے بے جا طریقوں اور چلنوں سے نفرت پیدا کرلی ہے اور نہ صرف

Page 569

اسی قدر بلکہ جو کچھ ناجائز خیالات اور اوہام اور بے اصل بدعات شیعہ مذہب میں ملائی گئی ہیں اور جس قدر تہذیب او ر صلاحیت اور پاک باطنی کے مخالف ان کا عملدر آمد ہے ان سب باتوں سے بھی اپنے نور قلب سے فیصلہ کرکے انہوں نے علیحدگی اختیار کر لی ہے.وہ اپنے ایک خط میں مجھ کولکھتے ہیں کہ ابتدا میں گو میں آپ کی نسبت نیک ظن ہی تھا لیکن صرف اس قدر کہ آپ اَور علماء اور مشائخ ظاہری کی طرح مسلمانوں کے تفرقہ کے مؤید نہیں ہیں بلکہ مخالفان اسلام کے مقابل پرکھڑے ہیں.مگر الہامات کے بارہ میں مجھ کو نہ اقرار تھا اور نہ انکار.پھر جب میں معاصی سے بہت تنگ آیا اور اُن پر غالب نہ ہو سکا تو میں نے سوچا کہ آپ نے بڑے بڑے دعوے کئے ہیں یہ سب جھوٹے نہیں ہو سکتے.تب میں نے بطور آزمائش آپ کی طرف خط و کتابت شروع کی جس سے مجھ کو تسکین ہوتی رہی اور جب قریبًا اگست میں آپ سے لودھیانہ ملنے گیا تو اُس وقت میری تسکین خوب ہوگئی اور آپ کو ایک باخدا بزرگ پایا اور بقیہ شکوک کا پھر بعد کی خط وکتابت میں میرے دل سے بکلّی دھویاگیا.اورجب مجھے یہ اطمینان دی گئی کہ ایک ایسا شیعہ جو خلفائے ثلاثہ کی کسرِ شان نہ کرے سلسلہ بیعت میں داخل ہوسکتا ہے تب میں نے آپ سے بیعت کر لی.اب میں اپنے آپ کو نسبتًا بہت اچھاپاتا ہوں.اور آپ گواہ رہیں کہ میں نے تمام گناہوں سے آئندہ کے لئے توبہ کی ہے.مجھ کو آپ کے اخلاق اور طرز معاشرت سے کافی اطمینان ہے کہ آپ ایک سچے مجدّد اور دنیا کے لئے رحمت ہیں.(۹) حبّی فی اللہ میر عباس علی لودہانوی.یہ میر ے وہ اوّل دوست ہیں جن کے دل میں خدائے تعالیٰ نے سب سے پہلے میری محبت ڈالی اور جوسب سے پہلے تکلیف سفر اُٹھا کر ابرار اخیار کی سُنت پر بقدم تجرید محض للہ قادیان میں میرے ملنے کے لئے آئے وہ یہی بزرگ ہیں.میں اِس بات کو کبھی نہیں بھول سکتا کہ بڑے

Page 570

سچے جوشوں کے ساتھ انہوں نے وفاداری دکھلائی اور میرے لئے ہریک قسم کی تکلیفیں اُٹھائیں اور قوم کے مُنہ سے ہر یک قسم کی باتیں سنُیں.میرصاحب نہایت عمدہ حالات کے آدمی اور اس عاجز سے روحانی تعلق رکھنے والے ہیں او راُن کے مرتبہ اخلاص کے ثابت کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ ایک مرتبہ اس عاجز کو اُن کے حق میں الہام ہوا تھا اصلہ ثابت وفرعہ فی السّمآء.وہ اس مسافر خانہ میں محض متوکّلانہ زندگی بسرکرتے ہیں.اپنے اوائل ایام میں وہ بیس برس تک انگریزی دفتر میں سرکاری ملازم رہے مگر بباعث غربت ودرویشی کے اُن کے چہرہ پر نظر ڈالنے سے ہرگز خیال نہیں آتا کہ وہ انگریزی خواں بھی ہیں.لیکن دراصل وہ بڑے لائق اور مستقیم الاحوال اور دقیق الفہم ہیں مگر باایں ہمہ سادہ بہت ہیں.اسی وجہ سے بعض موسوسین کے وساوس اُن کے دل کو غم میں ڈال دیتے ہیں لیکن ان کی قوت ایمانی جلد ان کو دفع کر دیتی ہے.(۱۰) حبّی فی اللہ منشی احمد جان صاحب مرحوم.اس وقت ایک نہایت غم سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ یہ پُردرد قصہ مجھے لکھنا پڑا.کہ اب یہ ہمارا پیارا دوست اس عالم میں موجود نہیں ہے اورخداوند کریم ورحیم نے بہشت بریں کی طرف بلا لیا.اِنّا لِلّٰہِ وَ اِنّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن و انا بفراقہ لمحزونون.حاجی صاحب مغفور و مرحوم ایک جماعت کثیر کے پیشوا تھے اور اُن کے مُریدوں میں آثار رُشد وسعادت و اتباع سُنّت نمایاں ہیں.اگرچہ حضرت موصوف اس عاجز کے شروع سلسلہ بیعت سے پہلے ہی وفات پا چکے لیکن یہ امراُن کے خوارق میں سے دیکھتا ہوں کہ انہوں نے بیت اللہ کے قصد سے چند روز پہلے اِس عاجز کو ایک خط ایسے انکسار سے لکھا جس میں انہوں نے درحقیقت اپنے تئیں اپنے دل میں سلسلہ بیعت میں داخل کر لیا.چنانچہ انہوں نے اس میں سیرت صالحین پر اپنا توبہ کا اظہار کیا اور اپنی مغفرت کے لئے دعا چاہی اورلکھا کہ میں آپ کی للّہی ربط کے زیر سایہ اپنے تئیں سمجھتا ہوں اور پھر لکھا کہ میری زندگی کا

Page 571

نہایت عمدہ حصہ یہی ہے کہ میں آپ کی جماعت میں داخل ہوگیا ہوں.اور پھر کسر نفسی کے طورپر اپنے گذشتہ ایام کا شکوہ لکھا اور بہت سے رقّت آمیز ایسے کلمات لکھے جن سے رونا آتا تھا.اس دوست کا وہ آخری خط جو ایک دردناک بیان سے بھرا ہے اب تک موجود ہے مگر افسوس کہ حج بیت اللہ سے واپس آتے وقت پھر اس مخدوم پر بیماری کا ایسا غلبہ طاری ہوا کہ اس دور افتادہ کو ملاقات کا اتفاق نہ ہوا بلکہ چند روز کے بعد ہی وفات کی خبر سنی گئی اور خبر سنتے ہی ایک جماعت کے ساتھ قادیان میں نماز جنازہ پڑھی گئی.حاجی صاحب مرحوم اظہار حق میں بہادر آدمی تھے.بعض نافہم لوگوں نے حاجی صاحب موصوف کو اس عاجز کے ساتھ تعلق ارادت رکھنے سے منع کیا کہ اس میں آپ کی کسر شان ہے لیکن انہوں نے فرمایا کہ مجھے کسی شان کی پروا نہیں اور نہ مریدوں کی حاجت.آپ کا صاحبزادہ کلاں حاجی افتخاراحمد صاحب آپ کے قدم پر اس عاجز سے کمال درجہ کا اخلاص رکھتے ہیں اور آثار رُشد وصلاح و تقوےٰ اُن کے چہرہ پر ظاہرہیں.وہ باوجود متوکّلانہ گذارہ کے اول درجہ کی خدمت کرتے ہیں اور دل وجان کے ساتھ اس راہ میں حاضر ہیں خدائے تعالیٰ ان کو ظاہری اور باطنی برکتوں سے متمتع کرے.(۱۱) حبّی فی اللہ قاضی خواجہ علی صاحب.قاضی صاحب موصوف ا س عاجز کے ایک منتخب دوستوں میں سے ہیں.محبت وخلوص ووفا و صدق وصفا کے آثار اُن کے چہرہ پر نمایاں ہیں.خدمت گذاری میں ہر وقت کھڑے ہیں.وہ اُن اوّلین سابقین میں سے ہیں جن میں سے اخویم میر عباس علی صاحب ہیں.وہ ہمیشہ خدمت میں لگے رہتے ہیں اور ایام سکونت لودھیانہ میں جو چھ چھ ماہ تک بھی اتفاق ہوتا ہے ایک بڑا حصہ مہمانداری کا خوشی کے ساتھ وہ اپنے ذمّے لے لیتے ہیں اورجہاں تک اُن کے قبضۂ قدرت میں ہے وہ ہمدردی اور خدمت اور ہریک قسم کی غمخواری میں کسی بات سے فرق

Page 572

نہیں کرتے.او راگرچہ وہ پہلے ہی سے مخلص باصفاہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اب وہ زیادہ تر قریب کھینچے گئے ہیں اور میں خیال کرتا ہوں کہ حقانیت کی روشنی ایک بے غرضانہ خلوص اور للّہی محبت میں دمبدم اُن کو ترقی دے رہی ہے اور مجھے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان ترقیات کی وجہ سے اپنے حُسن ظن کے حالات میں زیادہ سے زیادہ پاکیزگی حاصل کرتے جاتے ہیں اور روحانی کمزوری پر غالب ہوتے جاتے ہیں.میرا دل ان کی نسبت یہ بھی شہادت دیتا ہے کہ وہ دنیوی طورسے ایک صحیح اور باریک فراست رکھتے ہیں اور خدائے تعالیٰ کے فضل نے اس عاجز کی روحانی شناسائی کا بھی ایک قابل قدر حصہ انہیں بخشا ہے اور آداب ارادت میں وہ صفائی حاصل کرتے جاتے ہیں اور قلّت اعتراض اور حُسن ظن کی طرف ان کا قدم بڑھتاجاتا ہے اور میری دانست میں وہ ان مراحل کو طے کر چکے ہیں جن میں کسی خطرناک لغزش کا اندیشہ ہے.(۱۲) حبّی فی اللہ مرزا محمد یوسف بیگ صاحب سامانوی.مرزا صاحب مرزا عظیم بیگ صاحب مرحوم کے حقیقی بھائی ہیں جن کا حال رسالہ فتح اسلام میں لکھا گیا ہے اور وہ تمام الفاظ اور اخلاص کے جو میں نے اخویم مرزا عظیم بیگ صاحب مغفور ومرحوم کے بارے میں فتح اسلام میں لکھے ہیں اُن سب کا مصداق میرزا محمدیوسف بیگ صاحب بھی ہیں.ان دونوں بزرگوار بھائیوں کی نسبت میں ہمیشہ حیران رہا کہ اخلاق اور محبت کے میدانوں میں زیادہ کس کو قرار دُوں.میرزا صاحب موصوف ایک اعلیٰ درجہ کی محبت اور اعلیٰ درجہ کا اخلاص اور اعلیٰ درجہ کا حُسن ظن اس عاجز سے رکھتے ہیں اور میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن کے ذریعہ سے میں اُن کے خلوص کے مراتب بیان کر سکوں یہ کافی ہے کہ اشارہ کے طور پر میں اسی قدر کہوں کہ ھو رجل یحبّنا ونحبہ ونسئل اللّٰہ خیرہ فی الدنیا والاٰخرۃ.مرزا صاحب نے اپنی زبان اپنا مال اپنی عزت اس للّہی محبت میں وقف کر رکھی ہے اور اُن کا مریدانہ و محبانہ اعتقاد اس حد تک

Page 573

بڑھاہوا ہے کہ ا ب ترقی کے لئے کوئی مرتبہ باقی نہیں معلوم ہوتا.و ذالک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشآء.(۱۳) حبّی فی اللہ میاں عبد اللہ سنوری.یہ جوان صالح اپنی فطرتی مناسبت کی وجہ سے میری طرف کھینچا گیا ہے.میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ اُن وفادار دوستوں میں سے ہے جن پر کوئی ابتلا جنبش نہیں لا سکتا.وہ متفرق وقتوں میں دو دو تین تین ماہ تک بلکہ زیادہ بھی میری صحبت میں رہا اور میں ہمیشہ بنظر امعان اس کی اندرونی حالت پرنظر ڈالتا رہاہوں سو میری فراست نے اس کی تہ تک پہنچنے سے جو کچھ معلوم کیا وہ یہ ہے کہ یہ نوجوان درحقیقت اللہ اور رسول کی محبت میں ایک خاص جوش رکھتا ہے.اور میرے ساتھ اس کے اس قدر تعلق محبت کے بجُز اِس بات کے اورکوئی بھی وجہ نہیں جو اس کے دل میں یقین ہوگیا ہے کہ یہ شخص محبانِ خدا و رسو ل میں سے ہے.اور اس جوان نے بعض خوارق اور آسمانی نشان جو اس عاجز کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملے بچشم خود دیکھے ہیں جن کی وجہ سے اس کے ایمان کو بہت فائدہ پہنچا.الغرض میاں عبد اللہ نہایت عمدہ آدمی اور میرے منتخب ّ محبو ں میں سے ہے اور باوجود تھوڑے سے گزارہ ملازمت پٹوار کے ہمیشہ حسب مقدرت اپنی خدمت مالی میں بھی حاضر ہے اور اب بھی 3بارہ روپیہ سالانہ چندہ کے طور پر مقرر کردیاہے.بہت بڑا موجب میاں عبداللہ کے زیادت خلوص ومحبت و اعتقاد کا یہ ہے کہ وہ اپنا خرچ بھی کر کے ایک عرصہ تک میری صحبت میں آ کر رہتا رہا اور کچھ آیات ربّانی دیکھتا رہا.سو اس تقریب سے روحانی امور میں ترقی پاگیا.کیااچھا ہو کہ میرے دوسرے مخلص بھی اس عادت کی پیروی کریں.(۱۴) حبّی فی اللہ مولوی حکیم غلام احمد صاحب انجینیئر ریاست جموں.مولوی صاحب موصوف نہایت سادہ وضع ‘یک رنگ ‘صاف باطن دوست ہیں اور عطر محبت اوراخلاص سے اُن کا دل معطّر ہے.دینی امدادات میں پورے پورے صدق سے حاضر ہیں.مولوی صاحب

Page 574

اکثر علوم وفنون میں کامل لیاقت رکھتے ہیں اور اُن کے چہرے پر استقامت وشجاعت کے انوار پائے جاتے ہیں اس سلسلہ کے چندہ میں 3دو روپیہ ماہواری انہوں نے اپنی مرضی سے مقررکیاہے.جزاہم اللہ خیرالجزاء.(۱۵ ) حبّی فی اللہ سیّد فضل شاہ صاحب لاہوری اصل سکنہ ریاست جموں نہایت صاف باطن اور محبت اوراخلاص سے بھرے ہوئے اور کامل اعتقاد کے نور سے منور ہیں.اورمال وجان سے حاضر ہیں اور ادب اور حسن ظن جو اس راہ میں ضروریات سے ہے ایک عجیب انکسار کے ساتھ ان میں پایاجاتا ہے.وہ تہ دل سے سچی اور پاک اور کامل ارادت اس عاجز سے رکھتے ہیں اور للّہی تعلق اور حُب میں اعلیٰ درجہ انہیں حاصل ہے اور یک رنگی اور وفاداری کی صفات ان میں صاف طور پر نمایاں ہیں اور ان کے برادرحقیقی نصر شاہ بھی اس عاجز سے تعلق بیعت رکھتے ہیں اور ان کے ماموں منشی کرم الٰہی صاحب بھی اس عاجز کے یک رنگ دوست ہیں.(۱۶) حبّی فی اللہ منشی محمد اروڑا نقشہ نویس مجسٹریٹی.منشی صاحب محبت اور خلوص اور ارادت میں زندہ دل آدمی ہیں.سچائی کے عاشق اورسچائی کو بہت جلد سمجھ جاتے ہیں خدمات کو نہایت نشاط سے بجا لاتے ہیں.بلکہ وہ تو دن رات اسی فکر میں لگے رہتے ہیں کہ کوئی خدمت مجھ سے صادر ہوجائے.عجیب منشرح الصدر اور جان نثار آدمی ہے میں خیال کرتا ہوں کہ ان کو اس عاجز سے ایک نسبت عشق ہے.شاید انکو اس سے بڑھ کر اور کسی بات میں خوشی نہیں ہوتی ہوگی کہ اپنی طاقتوں اور اپنے مال اور اپنے وجود کی ہر یک توفیق سے کوئی خدمت بجا لاویں وہ دل وجان سے وفاداراورمستقیم الاحوال اور بہادرآدمی ہیں.خدائے تعالیٰ ان کو جزائے خیر بخشے.آمین.(۱۷) حبّی فی اللہ میاں محمد خاں صاحب ریاست کپورتھلہ میں نوکر ہیں.نہایت درجہ کے غریب طبع صاف باطن دقیق فہم حق پسند ہیں اور جس قدرانہیں میری نسبت عقیدت و ارادت ومحبت ونیک ظن ہے میں اس کا اندازہ نہیں کر سکتا.مجھے ان کی نسبت یہ تردّد نہیں کہ اُن کے اس درجۂ ارادت میں کبھی کچھ خلل پیدا ہو بلکہ یہ اندیشہ ہے کہ حد سے زیادہ نہ بڑھ جائے وہ سچے وفادار اور جاں نثار اور مستقیم الاحوال ہیں.خدا اُن کے ساتھ ہو اُن کا نوجوان بھائی سردار علی خاں بھی میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہے.یہ لڑکا بھی اپنے بھائی کی طرح بہت سعید و رشید ہے.خدا ئے تعالیٰ اُ ن کامحافظ ہو.(۱۸) حبّی فی اللہ منشی ظفر احمدصاحب.یہ جوان صالح کم گو اور خلوص سے بھرادقیق فہم آدمی ہے.استقامت کے آثار وانوار اُس میں ظاہر ہیں.وفاداری کی علامات وامارات اس میں پیدا ہیں.ثابت شدہ صداقتوں کو خوب سمجھتا ہے.اور

Page 575

اُن سے لذّت اُٹھاتا ہے.اللہ اور رسول سے سچی محبت رکھتا ہے اور ادب جس پر تمام مدار حصول فیض کا ہے اور حُسن ظن جو اس راہ کا مرکب ہے دونوں سیرتیں ان میں پائی جاتی ہیں.جزاہم اللہ خیرالجزاء.(۱۹) حبّی فی اللہ سیّد عبد الہادی صاحب سب اور سیر.یہ سیّد صاحب انکسار اور ایمان اور حُسن ظن اور ایثار اور سخاوت کی صفت میں حصہ وافر رکھتے ہیں.وفادار اور متانت شعار ہیں.ابتلا کے وقت استقامت کوہاتھ سے نہیں چھوڑتے.وعدہ اورعہد میں پختہ ہیں.حیا کی قابل تعریف صفت اُن پر غالب ہے.اس عاجز کے سلسلہ بیعت میں داخل ہونے سے پہلے بھی وہی ادب ملحوظ رکھتے تھے جو اَب ہے.اللہ جلّشانہ‘کا اُن پر یہ خاص احسان ہے کہ وہ نیک کاموں کے کرنے کے لئے منجانب اللہ توفیق پاتے ہیں.ان کی طبیعت فقر کے مناسب حال ہے.انہوں نے اس سلسلہ کے لئے 3دو روپے ماہواری چندہ مقررکیا ہے.مگر اس چندہ پر کچھ موقوف نہیں وہ بڑی سرگرمی سے خدمت کرتے رہتے ہیں اور اُن کی مالی خدمات کی اس جگہ تصریح مناسب نہیں کیونکہ میں خیال کرتا ہوں کہ ان کی مالی خدمات کے اظہار سے ان کو رنج ہوگا.وجہ یہ کہ وہ اس سے بہت پرہیز کرتے ہیں کہ اُن کے اعمال میں کوئی شعبہ ریا کا دخل کرے اوران کو یہ وہم ہے کہ اجر کسی عمل کا اس کے اظہارسے ضائع ہوجاتا ہے.(۲۰) حبّی فی اللہ مولوی محمد یوسف سنوری میاں عبد اللہ صاحب سنور ی کے ماموں ہیں.بہت راست طبع نیک ظن پاک خیال آدمی ہیں.اس عاجز سے استقلال اور وفا کے ساتھ خلوص اورمحبت رکھتے ہیں.(۲۱) منشی حشمت اللہ صاحب مدرس مدرسہ سنور اور منشی ہاشم علی صاحب پٹواری تحصیل برنالہ اس عاجز کے یکرنگ مخلصین میں سے ہیں.خدا تعالیٰ ان کامددگار ہو.

Page 576

(۲۲ ) حبّی فی اللہ صاحبزادہ سراج الحق صاحب ابو اللمعان محمد سراج الحق جمالی نعمانی ابن شاہ حبیب الرحمٰن ساکن سرساوہ ضلع سہارنپور از اولاد قطب الاقطاب شیخ جمال الدین احمد ہانسوی اکابر مخلصین اس عاجز سے ہیں.صاف باطن یکرنگ اور للّہی کاموں میں جوش رکھنے والے اور اعلائے کلمۂ حق کے لئے بدل وجان ساعی وسرگر م ہیں.اس سلسلہ میں داخل ہونے کے لئے خدائے تعالیٰ نے جوان کے لئے تقریب پیدا کی وہ ایک دلچسپ حال ہے جو ان کے ایک خط سے ظاہر ہوتا ہے.چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ میں اس زمانہ کو ایک آخری زمانہ سمجھ کر اور علماء اور فقراء سے ظہور حضرت مسیح ابن مریم موعود اور حضرت مہدی کی بشارتیں سُنکر ہمیشہ دعاکیا کرتا تھا کہ خداوند کریم مجھ کو ان میں سے کسی کی زیارت کرا دے خواہ حالت جوانی میں ہی یاضعیفی میں.سو جب میری دعائیں انتہاء کوپہنچیں تو اُن کا یہ اثر ہوا کہ مجھے عالم رؤیا میں وقتًا فوقتًا مقصد مذکورہ بالا کے لئے کچھ کچھ بشارتیں معلوم ہونے لگیں.چنانچہ ایک دفعہ میں سفر کی حالت میں شہر جیند میں تھا تو عالم رؤیا میں کیادیکھتا ہوں کہ میں ایک مسجدمیں وضو کر رہا ہوں اور اس مسجد کے متصل ایک کوچہ ہے وہاں سے ہر قسم کے آدمی ہندو مسلمان نصاریٰ آتے جاتے ہیں میں نے پوچھاکہ تم لوگ کہاں سے آتے ہو تو انہوں نے کہا کہ ہم حضرت رسولؐ مقبول کی خدمت میں گئے تھے.تب میں نے بھی جلد وضو کرکے اس کوچہ کی راہ لی.ایک مکان میں دیکھا کہ کثرت سے آدمی موجود ہیں اور حضرت رسول مقبول خاتم الانبیاء محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے ہیں.سفید پوشاک پہنے ہوئے اور ایک شخص دو زانو اُنکے سامنے با ادب بیٹھاہے.میں نے پوچھنا چاہا کہ مرشد کے قدم چومنے میں علماء اور فقراء کو اختلاف ہے.اصل کیا بات ہے.تب ایک شخص جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھاتھا خود بخود بول اُٹھا کہ نہیں نہیں.اس وقت میں بے تکلّف اُٹھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک جا بیٹھا.تب حضرت نبی کریم ؐ نے مجھ کو دیکھا اور اپنا داہنا پائے مبارک

Page 577

میری طرف لمبا کر دیا.میں نے حضرت کے قدم مبارک کو بوسہ دیا اور آنکھوں سے لگایا اُس وقت حضرت نے ایک جوراب سُوتی اپنے پاک۱؂ مبارک سے اُتار کر مجھ کو عنایت فرمائی.اس رؤیا صادقہ سے میں بہت متلذذ رہا.پھر دو برس کے بعد ایسااتفاق ہوا کہ میں لودھیانہ میں آیااور میں نے آپ کا یعنی اس عاجز کا شہرہ سُنا اور رات کو آپ کی خدمت میں حاضرہوا اور وہی جلسہ دیکھا اور وہی کثرت مخلوق دیکھی جو میں نے حضرت نبی کریم کی خواب میں دیکھی تھی.اور جب میں نے آپ کی صورت دیکھی تو کیادیکھتا ہوں کہ وہی صورت ہے کہ جس صورت پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے خواب میں دیکھا تھا.تب مجھے یقین ہو گیا کہ میں نے آپ ہی کو خواب میں دیکھا تھا اور خدائے تعالیٰ نے آپ کو نبی کریم کے پیرایہ میں میرے پر ظاہر کیا.تا وہ عینیّت جو ببرکت متابعت پیدا ہوجاتی ہے میرے پر منکشف ہوجائے.پھر جب میں پانچ چھ ماہ کے بعد آپ کو قادیان میں ملا تو میری حالت اعتقاد بہت ترقی کر گئی اور مجھ کو کامل و مکمل یقین کہ عین الیقین کا مرتبہ حاصل ہوگیا کہ بلا شبہ آپ مجدد الوقت اور غوث الوقت ہیں اور میرے پر پورے عرفا ن کے ساتھ کھل گیاکہ میرے خواب کے مصداق آپ ہی ہیں.پھر اس کے بعد اَور بھی حالات نوم اور غیر نوم میں میرے پر کھلتے رہے.ایک دفعہ استخارہ کے وقت آپکی نسبت یہ آیت نکلی33۲؂.تب میں بیعت سے بصدق دل مشرف ہوا اور وہ حالات جو میرے پرکھلے اور میرے دیکھنے میں آئے وہ انشاء اللہ ایک رسالہ میں لکھونگا.(۲۳) حبّی فی اللہ میر ناصر نواب صاحب.میر صاب موصوف علاوہ رشتہ روحانی کے رشتہ جسمانی بھی اس عاجز سے رکھتے ہیں کہ اس عاجز کے خسر ہیں.نہایت یکرنگ اور صاف باطن اور خدا تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہیں اور اللہ اور رسول کی اتباع کو سب چیزسے مقدّم سمجھتے ہیں اور کسی سچائی کے کھلنے سے پھراسکو شجاعت قلبی کے ساتھ بلا توقف قبول کر لیتے ہیں.حُب ِ للہ اور بُغض ِ للہ کا مومنانہ شیو ہ اُن پر

Page 578

غالب ہے.کسی کے راستباز ثابت ہونے سے وہ جان تک بھی فرق نہیں کر سکتے اور کسی کو ناراستی پر دیکھ کر اُس سے مداہنت کے طورپر کچھ تعلق رکھنا نہیں چاہتے.اوائل میں وہ اس عاجزکی نسبت نہایت نیک گمان تھے مگر درمیان میں ابتلا کے طور پر اُن کے حُسن ظن میں فرق آگیا.چونکہ سعید تھے اس لئے عنایت الٰہی نے پھر دستگیری کی اور اپنے خیالات سے توبہ کر کے سلسلہ بیعت میں داخل ہوئے.اُن کا یک دفعہ نیک ظنّی کی طرف پلٹاکھانا اور جوش سے بھرے ہوئے اخلاص کے ساتھ حق کو قبول کر لینا غیبی جذبہ سے معلوم ہوتاہے.وہ اپنے اشتہار ۱۲ ؍اپریل ۱۸۹۱ ؁ء میں اس عاجز کی نسبت لکھتے ہیں کہ میں اُن کے حق میں بدگمان تھا لہٰذا وقتًا فوقتًا نفس و شیطان نے خداجانے کیا کیا مجھ سے اُن کے حق میں کہوا یاجس پر آج مجھ کو افسوس ہے اگرچہ اس عرصہ میں کئی بار میرے دل نے مجھے شرمندہ کیا لیکن اس کے اظہار کا یہ وقت مقدّر تھا.میں نے جو کچھ مرزا صاحب کو فقط اپنی غلط فہمیوں کے سبب سے کہا نہایت بُراکیا.اب میں توبہ کرتا ہوں او راس توبہ کا اعلان اس لئے دیتا ہوں کہ میری پیروی کے سبب سے کوئی وبال میں نہ پڑے.اس سے بعد اگر کوئی شخص میری کسی تحریر یا تقریر کو چھپوا دے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہے تو میں عند اللہ بری ہوں اور اگر کبھی میں نے مرزا صاحب کی نسبت اپنے کسی دوست سے کچھ کہا ہو یا شکایت کی ہوتو اس سے اللہ تعالیٰ کی جناب میں معافی مانگتا ہوں.(۲۴) حبّی فی اللہ منشی رستم علی ڈپٹی انسپکٹر پولیس ریلوے.یہ ایک جوان صالح اخلاص سے بھر ا ہوا میرے اوّل درجہ کے دوستوں سے ہے.اُن کے چہرے پر ہی علامات غربت و بے نفسی واخلاص ظاہرہیں.کسی ابتلاء کے وقت میں نے اس دوست کو متزلزل نہیں پایا.اور جس روز سے ارادت کے ساتھ انہوں نے میری طرف رجوع کیا اس ارادت میں قبض اور افسردگی نہیں بلکہ روز افزوں ہے.وہ 3دو روپیہ چندہ اس سلسلہ کے لئے دیتے ہیں.جزاہم اللہ خیرالجزاء.

Page 579

(۲۵) حبّی فی اللہ میاں عبدالحق خلف عبد السمیع.یہ ایک اول درجہ کامخلص او ر سچا ہمدرد اور محض للہ محبت رکھنے والا دوست اور غریب مزاج ہے.دین کو ابتداء سے غریبوں سے مناسبت ہے کیونکہ غریب لوگ تکبّر نہیں کرتے اور پوری پوری تواضع کے ساتھ حق کو قبول کرتے ہیں.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ دولت مندوں میں ایسے لوگ بہت کم ہیں کہ اس سعادت کا عشر بھی حاصل کر سکیں جس کو غریب لوگ کامل طورپر حاصل کر لیتے ہیں.فطوبٰی للغرباء.میاں عبدالحق باوجود اپنے افلاس اورکمی مقدرت کے ایک عاشق صادق کی طرح محض للہ خدمت کرتا رہتا ہے اور اس کی یہ خدمات اس آیت کا مصداق اس کو ٹھہرا رہی ہیں.33 ۱؂.(۲۶ ) حبّی فی اللّٰہ شیخ رحمت اللہ صاحب گجراتی.شیخ رحمت اللہ جوان صالح یکرنگ آدمی ہے.اِن میں فطرتی طور پر مادہ اطاعت اور اخلاص اور حسن ظن اس قدر ہے جس کی برکت سے وہ بہت سی ترقیات اس راہ میں کر سکتے ہیں.اُن کے مزاج میں غربت اور ادب بھی از حد ہے اور اُن کے بشرہ سے علامات سعادت ظاہرہیں.حتی الوسع وہ خدمات میں لگے رہتے ہیں.خدائے تعالیٰ کشاکش مکروہات سے انہیں بچاکر اپنی محبت کی حلاوت سے حصہ وافر بخشے.آمین ثم آمین.(۲۷) حبّی فی اللّٰہ میاں عبد الحکیم خاں جوان صالح ہے.علامات رشد وسعادت اُس کے چہرہ سے نمایاں ہیں.زیرک اور فہیم آدمی ہے.انگریزی زبان میں عمدہ مہارت رکھتے ہیں میں امید رکھتا ہوں کہ خدائے تعالیٰ کئی خدمات اسلام اُن کے ہاتھ سے پوری کرے.وہ باوجود زمانہ طالب علمی اور تفرقہ کی حالت کے ایک روپیہ ماہواری بطور چندہ اس سلسلہ کے لئے دیتے ہیں اور ایسا ہی اُن کا دوست رشید خلیفہ رشید الدین صاحب جو ایک اہل آدمی اور اُنہیں کے ہمرنگ ہیں اسی قدر چندہ محض للّہی محبت کے جوش سے ماہ بماہ ادا کرتے ہیں.جزا ہم اللّٰہ خیرالجزاء.

Page 580

(۲۸) حبّی فی اللّٰہ بابو کرم الٰہی صاحب ریکارڈ کلرک راجپورہ ریاست پٹیالہ.بابو صاحب متانت شعار مخلص آدمی ہیں وہ اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ اگرچہ آپ کے رسالوں کے پڑھنے کے بعد بعض علماء طرح طرح کے توہمات میں مبتلا ہوگئے ہیں.مگر الحمد للہ میرے دل میں ایک ذرّہ بھی شک راہ نہیں پایا.سو میں اس کا شکر یہ ادا نہیں کر سکتا.کیونکہ ایسے طوفان کے وقت میں شکوک اور شبہات سے بچنا بشر کے اختیار میں نہیں.میری تنخواہ بہت کم ہے.مگر تاہم کم سے کم ایک روپیہ ماہواری آپ کے سلسلہ کی امداد کے لئے بھیجا کرونگا.کیونکہ تھوڑی خدمت میں بھی شریک ہوجانا بکلی محروم رہنے سے بہتر ہے.فقط.سو بابو صاحب نہایت اخلاص اور محبت سے ایک روپیہ ماہواری بھیجتے رہتے ہیں.جزاہم اللّٰہ خیرالجزاء.(۲۹) حبّی فی اللّٰہ مولوی عبد القادرجمالپوری.مولوی عبد القادر.جوان صالح.متقی مستقیم الاحوال ہے.اس ابتلا کے وقت جو علماء میں بباعث نافہمی اور غلبہ سوء ظن ایک طوفان کی طرح اُٹھا مولو ی عبد القادر صاحب کی بہت استقامت ظاہر ہوئی اور اوّل المومنین میں وہ داخل رہے بلکہ دعوت حق کرتے رہے.ان کا گذارہ ایک تھوڑی سی تنخواہ پر ہے تاہم اس سلسلہ کی امداد کے لئے ۲؍ ۶ پائی وہ ماہواری دیتے ہیں.(۳۰) حبّی فی اللّٰہ محمد ابن احمد مکّی من حارہ شعب عامر.یہ صاحب عربی ہیں اور خاص مکّہ معظمہ کے رہنے والے ہیں.صلاحیت اور رشد اورسعادت کے آثار اُن کے چہرہ پر ظاہر ہیں اپنے وطن خاص مکہ معظمہ سے زادہ اللّٰہ مجدًا و شرفًا بطور سیر و سیاحت اس ملک میں آئے اور ان دنوں میں بعض بداندیش لوگوں نے خلاف واقعہ باتیں بلکہ تہمتیں اپنی طرف سے اس عاجز کی نسبت اُن کو سنائیں اور کہا کہ یہ شخص رسالت کا دعویٰ کرتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورقرآن کریم سے منکر ہے اور کہتا ہے کہ مسیح جس پر انجیل نازل ہوئی تھی وہ اللّٰہمیں ہی ہوں.ان باتوں سے عربی صاحب کے دل میں بہ مقتضائے غیرت اسلامی ایک اشتعال پیدا ہوا تب انہوں نے عربی زبان میں اس عاجز کی طرف ایک خط لکھا جس میں یہ فقرات بھی درج تھے

Page 581

ان کنتَ عیسٰی ابن مریم فانزل علینا مائدۃ ایّھا الکذّاب.ان کنت عیسٰی ابن مریم فانزل علینا مائدۃ ایّھا الدجّال.یعنی اگر تو عیسیٰ بن مریم ہے تو اے کذّاب اے دجّال ہم پر مائدہ نازل کر.لیکن معلوم نہیں کہ یہ کس وقت کی دعا تھی کہ جو منظور ہوگئی اور جس مائدہ کو دے کر خدائے تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے آخر وہ قادرخدا انہیں اس طرف کھینچ لایا.لودھیانہ میں آئے اور اس عاجز کی ملاقات کی اور سلسلۂ بیعت میں داخل ہوگئے.فالحمد للّٰہ الذی نجّاہ من النار وانزل علیہ مائدۃ من السّمآء.اُن کا بیان ہے کہ جب میں آپ کی نسبت بُرے اور فاسد ظنون میں مبتلا تھا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص مجھے کہتا ہے کہ یامحمد انت کذّاب.یعنے اے محمد کذاب تو ہی ہے.اوراُن کا یہ بھی بیان ہے کہ تین برس ہوئے کہ میں نے خواب میں دیکھاتھا کہ عیسیٰ آسمان سے نازل ہوگیا اور میں نے اپنے دل میں کہا تھا کہ انشاء اللہ القدیر میں اپنی زندگی میں عیسیٰ کو دیکھ لوں گا.(۳۱) حبّی فی اللّٰہ صاحبزادہ افتخاراحمد.یہ جوان صالح میر ے مخلص اور محب صادق حاجی حرمین شریفین منشی احمد جان صاحب مرحوم و مغفور کے خلف رشید ہیں.اور بمقتضائے الولد سرّ لابیہ تمام محاسن اپنے والد بزرگوار کے اپنے اندر جمع رکھتے ہیں اوروہ مادہ اُن میں پایاجاتا ہے جو ترقی کرتا کرتا فانیوں کی جماعت میں انسان کو داخل کردیتا ہے.خدائے تعالیٰ روحانی غذاؤں سے ان کو حصہ وافر بخشے اور اپنے عاشقانہ ذوق و شوق سے سرمست کرے.آمین ثم آمین.(۳۲) حبّی فی اللّٰہ مولوی سیّد محمد عسکری خان اکسٹرا اسسٹنٹ حال پنشنر.سیّد صاحب موصوف الٰہ آباد کے ضلع کے رہنے والے ہیں.اس عاجز سے دلی محبت رکھتے ہیں بلکہ اُن کا دل عطر کے شیشہ کی طرح محبت سے بھر ا ہوا ہے.نہایت عمدہ صاف باطن یکرنگ دوست ہیں.معلومات بہت وسیع رکھتے ہیں ایک جید عالم قابل قدرہیں.اِن دنوں میں

Page 582

بیمار ہیں خدا تعالیٰ اُن کو جلد شفا بخشے.آمین ثم آمین.(۳۳) حبی فی اللّٰہ مولوی غلام حسن صاحب پشاوری اس و قت لودھیانہ میں میرے پاس موجود ہیں.محض ملاقات کی غرض سے پشاور سے تشریف لائے ہیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ وفادار مخلص ہیں اور لَایَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَاءِمٍ میں داخل ہیں جوش ہمدردی کی راہ سے 3دو روپیہ ماہواری چندہ دیتے ہیں مجھے امید ہے کہ وہ بہت جلد للہی راہوں اور دینی معارف میں ترقی کریں گے کیونکہ فطرت نورانی رکھتے ہیں.(۳۴) حبّی فی اللّٰہ شیخ حامد علی.یہ جوان صالح اور ایک صالح خاندان کا ہے اور قریبًا سات آٹھ سال سے میری خدمت میں ہے اور میں یقینًا جانتا ہوں کہ مجھ سے اخلاص اور محبت رکھتا ہے.اگرچہ دقائق تقویٰ تک پہنچنا بڑے عرفاء اور صلحاء کا کام ہے.مگر جہاں تک سمجھ ہے اتباع سُنّت اور رعایت تقوےٰ میں مصروف ہے.میں نے اس کو دیکھا ہے کہ ایسی بیماری میں جو نہایت شدید اور مرض الموت معلوم ہوتی تھی اور ضعف اور لاغری سے میّت کی طرح ہو گیا تھا.التزام ادائے نماز پنجگانہ میں ایسا سرگرم تھا کہ اس بے ہوشی اور نازک حالت میں جس طرح بن پڑے نماز پڑھ لیتا تھا.میں جانتا ہوں کہ انسان کی خداترسی کا اندازہ کرنے کے لئے اس کے التزام نماز کو دیکھنا کافی ہے کہ کس قدر ہے اور مجھے یقین ہے کہ جو شخص پورے پورے اہتمام سے نماز ادا کرتاہے اور خوف اور بیماری اور فتنہ کی حالتیں اس کو نماز سے روک نہیں سکتیں وہ بے شک خدائے تعالیٰ پر ایک سچا ایمان رکھتا ہے مگریہ ایمان غریبوں کو دیا گیا دولتمند اس نعمت کو پانے والے بہت ہی تھوڑے ہیں.شیخ حامد علی نے خدائے تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس عاجز کے کئی نشان دیکھے ہیں اور چونکہ وہ سفر وحضر میں ہمیشہ میرے ساتھ ہی رہتا ہے اس لئے خدائے تعالیٰ اس کے لئے ایسے اسباب پیدا کرتا رہااور وہ اپنی آنکھ سے دیکھتا رہا کہ کیوں کر خدائے تعالیٰ کی عنایتیں اس طرف رجوع کررہی ہیں

Page 583

اور کیوں کر دعاؤں کے قبول ہونے سے خارق عادت نشان ظہور میں آئے.شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پوری کے ابتلاء اور نزول بلاکی خبر جو پورے چھ مہینہ پہلے شیخ صاحب کو بذریعہ خط دی گئی تھی اور پھر اُنکے انجام بخیر ہونے کی بشارت جو حکم سزائے موت کی حالت میں اُن کو پہنچائی گئی تھی.یہ سب باتیں حامد علی کی چشم دید ہیں.بلکہ اس پیشگوئی پر بعض نادان اس سے لڑتے اور جھگڑتے رہے کہ اس کا پور اہونا غیر ممکن ہے.ایسا ہی دلیپ سنگھ کے روکے جانے کی پیشگوئی اور کئی دوسری پیشگوئیاں اور نشان جو صبح صادق کی طرح ظاہر ہوگئیں اس شخص کو معلوم ہیں جن کا خدائے تعالیٰ نے اس کو گواہ بنا دیا ہے.ا ور سچ تو یہ ہے کہ جس قدر اس کو نشان دکھائے گئے وہ ایک طالب حق کا ایمان مضبوط کرنے کے لئے ایسے کافی ہیں کہ اس سے بڑھ کر حاجت نہیں.حامد علی بے شک ایک مخلص ہے مگر فطرتی طورپر اشتعال طبع اس میں زیادہ پایاجاتا ہے.صبر اور ضبط کی عادت ابھی اس میں کم ہے.ایک غریب اورادنیٰ مزدورکی سخت بات پر برداشت کرنا ہنوز اس کی طاقت سے باہر ہے.غصّہ کے وقت کسی قدر جبائرہ کا رگ وریشہ نمودار ہوجاتا ہے.کاہلی اور کسل بھی بہت ہے مگر متدین اور متقی اور وفادار ہے.خدائے تعالیٰ اس کی کمزوری کو دورکرے.آمین.حامد علی صرف تین روپے مجھ سے تنخواہ پاتا ہے اور اس میں سے اس سلسلہ کے چندہ کے لئے ۴؍ بطیب خاطر محض للّہی شوق سے ادا کرتا ہے اور حبّی فی اللّٰہ شیخ چراغ علی چچا اس کا اس کی تمام خوبیوں میں اس کا شریک ہے اور یکرنگ اور بہادرہے.(۳۵) حبّی فی اللّٰہ شیخ شہاب الدین موحد شیخ شہاب الدین غریب طبع اور مخلص اور نیک خیال آدمی ہے.نہایت تنگدستی اور عُسر سے اس مسافرخانہ کے دن پورے کر رہا ہے.افسوس کہ اکثر دولت مند مسلمانوں نے زکوٰۃ دینا بھی چھوڑ دیا اور شریعت اسلامی کا یہ پُرحکمت مسئلہ کہ یؤخذ من الاغنیاء ویردّ الی الفقراء یونہی معطّل

Page 584

پڑا ہے.اگر دولت مند لوگ کسی پر احسان نہ کریں صرف فریضہ زکوٰۃ کے ادا کرنے کی طرف متوجہ ہوں تاہم ہزار ہا روپیہ اسلامی اور قومی ہمدردی کے لئے جمع ہو سکتا ہے.لیکن مال بخیل آنگاہ از خاک برآید کہ بخیل درخاک رود.(۳۶) حبّی فی اللّٰہ میراں بخش ولد بہادر خان کیروی ایک مخلص اور پختہ اعتقاد آدمی ہے اس کے زیادت اعتقاد کا موجب اس نے یہ بیان کیا کہ ایک مجذوب نے اس کو خبر دی تھی کہ عیسیٰ جو آنے والا تھا وہ یہی ہے.یعنی یہ عاجز.اور یہ خبر اس عاجز کے اظہار دعویٰ سے کئی سال پیشتر وہ سُن چکا تھا اور صد ہا آدمیو ں میں شہرت پا چکے تھے.(۳۷) حبّی فی اللّٰہ حافظ نور احمد صاحب لدھیانوی.حافظ صاحب جوان صالح بڑے محب اورمخلص اور اوّل درجہ کا اعتقاد رکھنے والے ہیں.ہمیشہ اپنے مال سے خدمت کرتے رہتے ہیں.جزاہم اللّٰہ خیرالجزاء.(۳۸)حبّی فی اللّٰہ مولوی محمد مبارک علی صاحب.یہ مولوی صاحب اس عاجز کے اُستاد زادہ ہیں.ان کے والد صاحب حضرت مولوی فضل احمد صاحب مرحوم ایک بزرگوار عالم باعمل تھے مجھ کو اُن سے از حد محبت تھی.کیونکہ علاوہ اُستاد ہونے کے وہ ایک باخدا اور صاف باطن اور زندہ دل اور متّقی اور پرہیزگار تھے.عین نماز کی حالت میں ہی اپنے محبوب حقیقی کو جاملے.اور چونکہ نماز کی حالت میں ایک تبتّل اور انقطاع کا وقت ہوتا ہے اس لئے اُن کا واقعہ ایک قابل رشک واقعہ ہے.خدائے تعالیٰ ایسی موت سب مومنوں کے لئے نصیب کرے.مولوی مبارک علی صاحب اُن کے خلف رشید اور فرزند کلاں ہیں.سیرت اور صورت میں حضرت مولوی صاحب مرحوم سے بہت مشابہ ہیں.اس عاجز کے یکرنگ اور پُر جوش دوست ہیں اور اس راہ میں ہر یک قسم کے ابتلاء کی برداشت کر رہے ہیں.حضرت عیسیٰ ابن مریم کی وفات کے بارے میں ایک رسالہ انہوں نے تالیف کیا ہے جو چھپ کر شائع ہوگیا ہے جس کا نام قول جمیل ہے.اس عاجز کا ذکر بھی اس میں کئی جگہ کیا گیا ہے

Page 585

چونکہ مولوی صاحب موصوف کی حدیث اور تفسیرپر نظر وسیع ہے اس لئے انہوں نے محدثین کی طرز پر نہایت خوبی اور متانت سے اس رسالہ کو انجام دیا ہے.مخالف الرائے مولوی صاحبان جن کو غور اور فکر کرنے کی عادت نہیں اور جو آنکھ بند کر کے فتوے پر فتوے لکھ رہے ہیں انہیں مناسب ہے کہ علاوہ اس عاجز کی کتاب ازالہ اوہام کے میرے دوست عزیز مولوی محمد مبارک علی صاحب کے رسالہ کو بھی دیکھیں اور نیز میرے دوست رفیق مولوی محمد احسن صاحب امروہوی کے رسالہ اعلام الناس کو بھی ذرہ غور سے پڑھیں اور خدائے تعالیٰ کی ہدایت سے نومید نہ ہوں گو ان کی حالت بہت خطرناک اور قریب قریب یا س کے ہے لیکن اللہ تعالیٰ ہر یک چیز پر قادر ہے.مولویوں کا حجاب کفار کے حجاب سے کچھ زیادہ نہیں پھر کیوں اس سرچشمہ رحمت سے نومید ہوتے ہیں.وھو علٰی کلِّ شی ءٍ قدیر.(۳۹) حبّی فی اللّٰہ مولوی محمد تفضل حسین صاحب مولوی صاحب ممدوح میرے ساتھ سچے دل سے اخلاص اور محبت رکھتے ہیں میں نے اُن کے دل کی طرف توجہ کی تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ درحقیقت نیک فطرت آدمی اور سعیدوں میں سے ہیں اور قابل ترقی مادہ اپنے اندر رکھتے ہیں.اگر وہ بشریت کی کمزوری کی وجہ سے کسی خلجان میں پڑ یں تو میں امید نہیں رکھتا کہ اسی میں وہ بند رہ جائیں.کیونکہ اُن کی طینت صاف اور فراست ایمانی اور اسلامی نور کا اُن کو حصہ ہے اور کسی امر کے مشتبہ ہونے کے وقت قوت فیصلہ اپنے اندر رکھتے ہیں اور اس لائق ہیں کہ اگر وہ کچھ عرصہ صحبت میں رہیں تو علمی اور عملی طریقوں میں بہت ترقی کر جائیں.مولوی صاحب موصوف ایک بزرگ عارف باللہ کے خلف رشید ہیں اور پدری نور اپنے اندر مخفی رکھتے ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ کسی وقت وہ روحانیت اُن پر غالب ہوجائے.یہ عاجز جب علی گڑھ میں گیا تھا تو درحقیقت مولوی صاحب ہی میرے جانے کے باعث ہوئے تھے اور اس قدرانہوں نے خدمت کی کہ میں اس کا شکر ادا نہیں کر سکتا.اس سلسلہ کے چندہ میں بھی انہوں نے دو روپیہ ماہواری مقرر

Page 586

کر رکھے ہیں.مولوی صاحب موصوف اگرچہ تحصیلداری کے عہدہ پر ہیں مگر ایک بھاری بوجھ عیال کا ان کے سرپر ہے اور وہ دور نزدیک کے خویشوں اوراقارب بلکہ دوستوں کی بھی اپنے مال سے مدد کرتے ہیں اوربڑے مہمان نواز ہیں اور درویشوں اور فقیروں اور غریبوں سے بالطبع اُنس رکھتے ہیں اور سادہ طبع اور صاف باطن اور خیراندیش آدمی ہیں.باایں ہمہ ہمدردی اسلام کا جوش پورے طور پر اُن میں پایاجاتا ہے جزاھم اللّٰہ خیرًا.باقی اسماء بعض مبائعین کے یہ ہیں:.حبی فی اللّٰہ منشی محمد جلال الدین صاحب میر منشی حبی فی اللّٰہ منشی الٰہ بخش صاحب حبی فی اللّٰہ مولوی عنایت علی صاحب حبی فی اللّٰہ عبد المجید خاں اورنگ آبادی حبی فی اللّٰہ منشی فیاض علی صاحب حبی فی اللّٰہ میاں علی گوہر صاحب حبی فی اللّٰہ میاں عبدالکریم خاں صاحب حبی فی اللّٰہ منشی حبیب الرحمن صاحب حبی فی اللّٰہ مولوی حکیم محی الدین عربی حبی فی اللّٰہ سردار خاں برادر اخویم محمد خاں حبی فی اللّٰہ سید خصلت علی صاحب حبی فی اللّٰہ میر عنایت علی صاحب حبی فی اللّٰہ میاں عطاء الرحمٰن دہلوی حبی فی اللّٰہ مولوی تاج محمد صاحب سیرماندی حبی فی اللّٰہ میر محمود شاہ صاحب سیالکوٹی حبی فی اللّٰہ شیخ فتح محمد صاحب جمونی حبی فی اللّٰہ شیح برکت علی صاحب حبی فی اللّٰہ منشی احمد شاہ صاحب نور پور ی حبی فی اللّٰہمولوی شیر محمد صاحب ہجنی حبی فی اللّٰہ منشی محمد حسین صاحب مراد آبادی حبی فی اللّٰہ منشی ہاشم علی صاحب حبی فی اللّٰہ مولوی محمود حسن خاں صاحب حبی فی اللّٰہ مولوی غلام جیلانی صاحب حبی فی اللّٰہ سید امیر علی صاحب حبی فی اللّٰہ مرزاخدا بخش صاحب حبی فی اللّٰہ منشی غلام محمد صاحب سیالکوٹی حبی فی اللّٰہ مولوی محمد دین سیالکوٹی حبی فی اللّٰہ مولوی نوردین صاحب پوکہری حبی فی اللّٰہ مولوی محمد حسین صاحب متوطن علاقہ ریاست کپور تھلہ حبی فی اللّٰہ مفتی محمد صادق صاحب بھیروی

Page 587

حبی فی اللّٰہ شیخ چراغ علی صاحب تہوی حبی فی اللّٰہ مولوی محی الدین صاحب بہوبری حبی فی اللّٰہ شیخ احمد شاہ صاحب منصور پوری حبی فی اللّٰہ میاں عبد الحق صاحب متوطن پٹیالہ حبی فی اللّٰہ مولوی نور محمد صاحب مانگٹی یہ سب صاحب علیٰ حسب مراتب اس عاجز کے مخلص دوست ہیں.بعض ان میں سے اعلیٰ درجہ کا اخلاص رکھتے ہیں اسی اخلاص کے موافق جو اس عاجز کے منتخب دوستوں میں پایاجاتا ہے.اگر مجھے طول کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں جدا گانہ ان کے مخلصانہ حالات لکھتا.انشاء اللہ القدیر کسی دوسرے مقام میں لکھوں گا.اب میں اس تذکرہ کو دعاپر ختم کرتاہوں.اے قادر خدا میرے اس ظن کو جو میں اپنے ان تمام دوستوں کی نسبت رکھتا ہوں سچاکر کے مجھے دکھا اور ان کے دلوں میں تقویٰ کی سبز شاخیں جو اعمال صالحہ کے میووں سے لدی ہوئی ہیں پیدا کر.ان کی کمزوری کو دور فرما اور ان کا سب کسل دُور کر دے اور ان کے دلوں میں اپنی عظمت قائم کر اور ان میں اور ان کے نفسوں میں دُوری ڈال اور ایسا کر کہ و ہ تجھ میں ہو کر بولیں.اور تجھ میں ہو کر سُنیں اور تجھ میں ہوکر دیکھیں اور تجھ میں ہو کر ہریک حرکت سکون کریں.ان سب کو ایک ایسا دل بخش جو تیری محبت کی طرف جھک جائے اور اُن کو ایک ایسی معرفت عطا کر جو تیری طرف کھینچ لیوے اے بار خدا.یہ جماعت تیری جماعت ہے اس کو برکت بخش اور سچائی کی روح ان میں ڈال کہ سب قدرت تیری ہی ہے.آمین.اور چندہ دہندوں کے نام معہ تفصیل چندہ یہ ہیں:.میا ں عبداللہ پٹواری موضع غوث گڑھ منشی عبد الرحمٰن صاحب پٹواری تحصیل سنام مولوی محمد یوسف صاحب مدرس مدرسہ سنور منشی احمد بخش صاحب پٹواری تحصیل بانگر منشی حشمت اللہ صاحب مدرس مدرسہ سنور منشی ابراہیم ثانی پٹواری تحصیل سرہند منشی ہاشم علی صاحب پٹواری تحصیل برنالہ منشی غلام قادر صاحب پٹواری تحصیل منشی ابراہیم صاحب پٹواری تحصیل بانگر منشی محمد فاضل صاحب سکنہ سنور

Page 588

اخویم حکیم فضل دین صاحب بھیروی اخویم منشی ظفر احمد صاحب میاں الٰہ دین صاحب عرضی نویس معرفت حکیم فضل دین صاحب اخویم میاں محمد خاں صاحب میاں نجم الدین عبد الریانہ سکنہ بھیر ہ ا مام مسجد دھرکھانا والی منشی عبد الرحمن صاحب اخویم مولوی حکیم غلام احمد صاحب انجینئر ریاست جموں منشی حبیب الرحمٰن صاحب اخویم مکرم مولوی حکیم نوردین صاحب معالج ریاست جموں منشی فیاض علی صاحب اخو یم سید عبد الہادی صاحب سب اوور سیر فارکچھ مولوی عبد القادر صاحب مدرس جمالپور ضلع لدھیانہ مولوی سید تفضل حسین صاحب تحصیلدار علی گڑھ منشی محمد بخش صاحب اخویم منشی رستم علی صاحب ڈپٹی انسپکٹر محکمہ ریلوے شیخ چراغ علی صاحب سکنہ تھہ غلام نبی منشی محمدؐ کرم الہٰی صاحب ریکارڈ کلرک راجپورہ ریاست پٹیالہ مولوی غلام حسن صاحب مدرس میونسپل بورڈ سکول پشاور خاتمہ اُن دوستوں کے لئے جو سِلسلہ بیعت میں داخل ہیں نصیحت کی باتیں عزیزاں بے خلوص و صدق نکشا یند راہے را مصفّا قطرۂ باید کہ تا گوہر شود پیدا اے میرے دوستو! جو میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو.خدا ہمیں اور تمہیں اُن باتوں کی توفیق دے جن سے وہ راضی ہوجائے.آج تم تھوڑے ہو اور تحقیر کی نظر سے دیکھے گئے ہو اور ایک ابتلاء کا وقت تم پر ہے اسی سُنّت اللہ کے موافق جو قدیم سے جاری ہے.ہر یک

Page 589

طرف سے کوشش ہوگی کہ تم ٹھوکرکھاؤ اور تم ہر طرح سے ستائے جاؤ گے اور طرح طرح کی باتیں تمہیں سُننی پڑیں گی اور ہریک جو تمہیں زبان یا ہاتھ سے دکھ دے گا وہ خیال کرے گا کہ اسلام کی حمایت کر رہا ہے.اور کچھ آسمانی ابتلاء بھی تم پر آئیں گے تا تم ہر طرح سے آزمائے جاؤ.سو تم اس وقت سُن رکھو کہ تمہارے فتح مند اور غالب ہوجانے کی یہ راہ نہیں کہ تم اپنی خشک منطق سے کام لو یا تمسخر کے مقابل پر تمسخر کی باتیں کرو.یا گالی کے مقابل پر گالی دو.کیونکہ اگر تم نے یہی راہیں اختیار کیں تو تمہارے دل سخت ہوجائیں گے اور تم میں صرف باتیں ہی باتیں ہوں گی جن سے خدا تعالیٰ نفرت کرتا ہے اور کراہت کی نظر سے دیکھتا ہے.سو تم ایسا نہ کرو کہ اپنے پر دو لعنتیں جمع کر لو ایک خلقت کی اور دوسری خدا کی بھی.یقیناًیاد رکھو کہ لوگوں کی لعنت اگر خدائے تعالیٰ کی لعنت کے ساتھ نہ ہو کچھ بھی چیز نہیں اگر خدا ہمیں نابود نہ کرنا چاہے تو ہم کسی سے نابود نہیں ہو سکتے.لیکن اگر وہی ہمارا دشمن ہوجائے توکوئی ہمیں پناہ نہیں دے سکتا.ہم کیوں کر خدائے تعالیٰ کو راضی کریں اورکیونکروہ ہمارے ساتھ ہو.اِس کا اُس نے مجھے بار بار یہی جواب دیا کہ تقویٰ سے.سو اے میرے پیارے بھائیو کوشش کرو تا متقی بن جاؤ.بغیر عمل کے سب باتیں ہیچ ہیں اور بغیر اخلاص کے کوئی عمل مقبول نہیں.سو تقویٰ یہی ہے کہ ان تمام نقصانوں سے بچکر خدا تعالیٰ کی طرف قدم اُٹھاؤ.اور پرہیزگاری کی باریک راہوں کی رعایت رکھو.سب سے اوّل اپنے دلوں میں انکسار اور صفائی اوراخلاص پیدا کرو اور سچ مچ دلوں کے حلیم اورسلیم اور غریب بن جاؤ کہ ہر یک خیر اور شرکا بیج پہلے دل میں ہی پیدا ہوتا ہے اگر تیرا دل شر سے خالی ہے تو تیری زبان بھی شر سے خالی ہو گی اور ایسا ہی تیری آنکھ اور تیرے سارے اعضاء.ہر یک نور یا اندھیرا پہلے دل میں ہی پیدا ہوتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ تمام بدن پر محیط ہوجاتا ہے.سو اپنے دلوں کو ہر دم ٹٹولتے رہو اور جیسے پان کھانے والا

Page 590

اپنے پانوں کو پھیرتا رہتا ہے اور ردّی ٹکڑے کو کاٹتاہے اور باہر پھینکتا ہے.اسی طرح تم بھی اپنے دلوں کے مخفی خیالات اور مخفی عادات اور مخفی جذبات اور مخفی ملکات کو اپنی نظر کے سامنے پھیرتے رہو اور جس خیال یا عادت یا ملکہ کو ردّی پاؤ اس کو کا ٹ کر باہر پھینکو ایسا نہ ہو کہ وہ تمہارے سارے دل کو ناپاک کر دیوے اور پھر تم کاٹے جاؤ.پھر بعد اس کے کوشش کرو اور نیز خدائے تعالیٰ سے قوت اورہمت مانگو کہ تمہارے دلوں کے پاک ارادے اور پاک خیالات اورپاک جذبات اورپاک خواہشیں تمہارے اعضاء اور تمہارے تمام قویٰ کے ذریعہ سے ظہور پذیر اور تکمیل پذیر ہوں تا تمہاری نیکیاں کمال تک پہنچیں کیونکہ جو بات دل سے نکلے اور دل تک ہی محدود رہے وہ تمہیں کسی مرتبہ تک نہیں پہنچا سکتی.خدا تعالیٰ کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤ اور اس کے جلال کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھو.اور یاد رکھو کہ قرآن کریم میں پانسو کے قریب حکم ہیں اور اس نے تمہارے ہر یک عضو اور ہر یک قوت اورہریک وضع اور ہر یک حالت اور ہرایک عمر اور ہر یک مرتبہ فہم اور مرتبہ فطرت اور مرتبہ سلوک او رمرتبہ انفراد اور اجتماع کے لحاظ سے ایک نورانی دعوت تمہاری کی ہے سو تم اس دعوت کو شکر کے ساتھ قبول کرو اور جس قدر کھانے تمہارے لئے تیار کئے گئے ہیں وہ سارے کھاؤ اور سب سے فائدہ حاصل کرو.جو شخص ان سب حکموں میں سے ایک کو بھی ٹالتا ہے میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ عدالت کے دن مواخذہ کے لائق ہو گا.اگر نجات چاہتے ہو تو دین العجائز اختیار کرو اور مسکینی سے قرآن کریم کا جؤا اپنی گردنوں پر اٹھاؤ کہ شریر ہلاک ہوگا اور سرکش جہنّم میں گرایا جائے گا.پر جو غریبی سے گردن جھکاتا ہے وہ موت سے بچ جائے گا.دنیا کی خوشحالی کی شرطوں سے خدا تعالیٰ کی عبادت مت کرو کہ ایسے خیال کے لئے گڑھادرپیش ہے.بلکہ تم اس لئے اس کی پرستش کرو کہ پرستش ایک حق خالق کا تم پر ہے.چاہئے پرستش ہی تمہاری زندگی ہوجاوے اور تمہاری نیکیوں کی فقط یہی غرض ہوکہ وہ محبوب حقیقی اور محسنِ حقیقی راضی ہوجاوے کیونکہ جو اس سے کمتر خیال ہے وہ ٹھوکر کی جگہ ہے.

Page 591

خدا بڑی دولت ہے اس کے پانے کے لئے مصیبتوں کے لئے تیار ہوجاؤ.وہ بڑی مراد ہے.اس کے حاصل کرنے کے لئے جانوں کو فدا کرو.عزیزو!! خدائے تعالیٰ کے حکموں کو بے قدری سے نہ دیکھو.موجودہ فلسفہ کی زہر تم پر اثر نہ کرے.ایک بچے کی طرح بن کر اس کے حکموں کے نیچے چلو.نماز پڑھو نماز پڑھو کہ وہ تمام سعادتوں کی کُنجی ہے اور جب تُو نماز کے لئے کھڑا ہوتو ایسا نہ کر کہ گویا تُو ایک رسم ادا کر رہا ہے بلکہ نماز سے پہلے جیسے ظاہری وضو کرتے ہو ایسا ہی ایک باطنی وضو بھی کرو.اور اپنے اعضاء کو غیر اللہ کے خیال سے دھو ڈالو.تب ان دونوں وضوؤں کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ اور نماز میں بہت دعا کرو اور رونا اور گڑگڑانا اپنی عادت کر لو تا تم پر رحم کیاجائے.سچا ئی اختیار کرو سچائی اختیار کرو کہ وہ دیکھ رہا ہے کہ تمہارے دل کیسے ہیں.کیا انسان اس کو بھی دھوکہ دے سکتا ہے.کیا اس کے آگے بھی مکّاریاں پیش جاتی ہیں.نہایت بدبخت آدمی اپنے فاسقانہ افعال اس حد تک پہنچاتا ہے کہ گویا خدا نہیں.تب وہ بہت جلد ہلاک کیا جاتا ہے اور خدائے تعالیٰ کو اس کی کچھ پرواہ نہیں ہوتی.عزیزو! اس دنیا کی مجر د منطق ایک شیطان ہے اور اس دنیا کا خالی فلسفہ ایک ابلیس ہے جو ایمانی نور کو نہایت درجہ گھٹا دیتا ہے اور بیباکیاں پیدا کرتا ہے اور قریب قریب دہریّت کے پہنچا تا ہے.سوتم اس سے اپنے تئیں بچاؤ اور ایسا دل پیدا کرو جو غریب اور مسکین ہو اوربغیر چون چراکے حکموں کو ماننے والے ہوجاؤ جیسا کہ بچہ اپنی والدہ کی باتوں کومانتا ہے.قرآن کریم کی تعلیمیں تقویٰ کے اعلیٰ درجہ تک پہنچانا چاہتی ہیں ان کی طرف کان دھرو اور اُن کے موافق اپنے تئیں بناؤ.قرآن شریف انجیل کی طرح تمہیں صرف یہ نہیں کہتا کہ نامحرم عورتوں یاایسوں کو جو عورتوں کی طرح محلِ شہوت ہوسکتی ہیں شہوت کی نظر سے مت دیکھو بلکہ اس کی کامل تعلیم کا یہ منشاء ہے کہ تُو بغیر ضرورت نامحرم کی طرف نظر مت اُٹھا نہ شہوت سے اور نہ بغیر شہوت.

Page 592

بلکہ چاہیئے کہ تُو آنکھیں بند کر کے اپنے تئیں ٹھوکر سے بچاوے تا تیری دلی پاکیزگی میں کچھ فرق نہ آوے.سو تم اپنے مولیٰ کے اس حکم کو خوب یاد رکھواور آنکھوں کے زنا سے اپنے تئیں بچاؤ اور اس ذات کے غضب سے ڈرو جس کا غضب ایک دم میں ہلاک کر سکتا ہے.قرآن شریف یہ بھی فرماتا ہے کہ تُو اپنے کانوں کوبھی نامحرم عورتوں کے ذکر سے بچا اور ایسا ہی ہر یک ناجائز ذکر سے.مجھے اس وقت اس نصیحت کی حاجت نہیں کہ تم خون نہ کرو کیونکہ بجُز نہایت شریر آدمی کے کون ناحق کے خون کی طرف قدم اٹھاتاہے.مگر میں کہتا ہوں کہ ناانصافی پر ضد کر کے سچائی کا خون نہ کرو.حق کو قبو ل کرلو اگرچہ ایک بچہ سے اور اگر مخالف کی طرف حق پاؤتو پھر فی الفور اپنی خشک منطق کو چھوڑ دو.سچ پر ٹھہر جاؤ اور سچی گواہی دو.جیساکہ اللہ جلَّ شَانُہٗ فرماتا ہے333 ۱؂ یعنی بُتوں کی پلیدی سے بچو اور جھوٹ سے بھی کہ وہ بُت سے کم نہیں.جو چیز قبلۂ حق سے تمہارا مُنہ پھیرتی ہے وہی تمہاری راہ میں بُت ہے.سچی گواہی دواگرچہ تمہارے باپوں یا بھائیوں یادوستوں پر ہو.چاہیئے کہ کوئی عداوت بھی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو.باہم’’ بخل‘‘ اورکینہ اور حسد اور بُغض اور بے مہری چھوڑدو اور ایک ہوجاؤ.قرآن شریف کے بڑے حکم دو ہی ہیں.ایک توحید و محبت و اطاعت باری عزاسمہ‘.دوسری ہمدردی اپنے بھائیوں اور اپنے بنی نوع کی.اور ان حکموں کو اس نے تین درجہ پر منقسم کیاہے.جیسا کہ استعدادیں بھی تین ہی قسم کی ہیں اور وہ آیت کریمہ یہ ہے.333۲؂.پہلے طور پر اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ تم اپنے خالق کے ساتھ اس کی اطاعت میں عدل کا طریق مرعی رکھو ظالم نہ بنو.پس جیسا کہ درحقیقت بجُز اُس کے کوئی بھی پرستش کے لائق نہیں.کوئی بھی محبت کے لائق نہیں کوئی بھی توکّل کے لائق نہیں.کیونکہ بوجہ خالقیت اور قیومیت وربوبیت خاصہ کے

Page 593

ہر یک حق اُسی کا ہے.اِسی طرح تم بھی اس کے ساتھ کسی کو اُس کی پرستش میں اور اُسکی محبت میں اور اُس کی ربوبیت میں شریک مت کرو.اگر تم نے اِس قدرکر لیاتو یہ عدل ہے جس کی رعایت تم پر فرض تھی.پھر اگر اس پر ترقی کرنا چاہو تو احسان کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تم اس کی عظمتوں کے ایسے قائل ہوجاؤ اور اُس کے آگے اپنی پرستشوں میں ایسے متادّب بن جاؤ اور اُس کی محبت میں ایسے کھوئے جاؤ کہ گویا تم نے اُس کی عظمت اور جلال اور اُس کے حُسنِ لازوال کودیکھ لیا ہے.بعد اس کے ایتاء ذی القربیٰ کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تمہاری پرستش اور تمہاری محبت اور تمہاری فرمانبرداری سے بالکل تکلّف اور تصنّع دُورہوجائے اور تم اُس کو ایسے جگری تعلق سے یاد کرو کہ جیسے مثلًا تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو اور تمہاری محبت اس سے ایسی ہوجائے کہ جیسے مثلاً بچہ اپنی پیاری ماں سے محبت رکھتاہے.اور دوسرے طور پر جو ہمدردی بنی نوع سے متعلق ہے اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ اپنے بھائیوں اور بنی نوع سے عدل کرو اور اپنے حقوق سے زیادہ اُن سے کچھ تعرّض نہ کرو اور انصاف پرقائم رہو.اوراگر اس درجہ سے ترقی کرنی چاہو تو اس سے آگے احسان کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تُو اپنے بھائی کی بدی کے مقابل نیکی کرے اور اُس کی آزار کی عوض میں تُو اس کو راحت پہنچاوے اور مروّت اور احسان کے طور پر دستگیری کرے.پھر بعد اس کے ایتاء ذی القربیٰ کا درجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تُو جس قدر اپنے بھائی سے نیکی کرے یاجس قدر بنی نوع کی خیر خواہی بجا لاوے اس سے کوئی اور کسی قسم کا احسان منظور نہ ہو بلکہ طبعی طور پر بغیر پیش نہاد کسی غرض کے وہ تجھ سے صادر ہوجیسی شدت قرابت کے جوش سے ایک خویش دوسرے خویش کے ساتھ

Page 594

نیکی کرتا ہے.سو یہ اخلاقی ترقی کا آخری کمال ہے کہ ہمدردی خلائق میں کوئی نفسانی مطلب یا مدّعا یاغرض درمیان نہ ہو بلکہ اخوت وقرابت انسانی کا جوش اس اعلیٰ درجہ پر نشوونما پا جائے کہ خود بخود بغیر کسی تکلّف کے اور بغیر پیش نہاد رکھنے کسی قسم کی شکر گذاری یاد عا یا اور کسی قسم کی پاداش کے وہ نیکی فقط فطرتی جوش سے صادر ہو.عزیزو! اپنے سلسلہ کے بھائیوں سے جو میری اس کتاب میں درج ہیں باستثنا اس شخص کے کہ بعد اس کے خدائے تعالیٰ اس کو ردّ کر دیوے خاص طور سے محبت رکھو اور جب تک کسی کونہ دیکھو کہ وہ اس سلسلہ سے کسی مخالفانہ فعل یا قول سے باہر ہو گیاتب تک اس کو اپنا ایک عضو سمجھو.لیکن جو شخص مکّاری سے زندگی بسرکرتا ہے اور اپنی بدعہدیوںیا کسی قسم کے جوروجفا سے اپنے کسی بھائی کو آزار پہنچاتا ہے یا وساوس و حرکاتِ مخالف عہد بیعت سے باز نہیں آتا وہ اپنی بدعملی کی وجہ سے اس سلسلہ سے باہر ہے.اس کی پرواہ نہ کرو.چاہیئے کہ اسلام کی ساری تصویر تمہارے وجود میں نمودارہو اور تمہاری پیشانیوں میں اثرسجود نظر آوے اور خدائے تعالیٰ کی بزرگی تم میں قائم ہو.اگر قرآن اورحدیث کے مقابل پر ایک جہان عقلی دلائل کا دیکھو تو ہرگز اس کو قبول نہ کرو اور یقینًا سمجھو کہ عقل نے لغزش کھائی ہے.توحید پرقائم رہو اور نماز کے پابند ہوجاؤ اور اپنے مولیٰ حقیقی کے حکموں کو سب سے مقدّم رکھو اوراسلام کے لئے سارے دُکھ اُٹھاؤ.

Page 595

بیرونی شہادتیں بعد ختم کتاب بعض شہادتیں ہم کوملیں مناسب سمجھ کر اُن کو کتاب کے ساتھ شامل کردیا (۱) یہ کہ کوہ نور یکم اگست ۱۸۹۱ ؁ء اور نورافشاں ۳۰ جولائی ۱۸۹۱ ؁ء میں بحوالہ اخبار عام لکھا ہے کہ حا ل میں امریکہ کے ایک بڑے پادری صاحب پر وہاں کے لوگوں نے کفر کا الزام لگایا ہے.وجہ کفر یہ ہے کہ اسے مسیح کے معجزات اور جسمانی طور پر زندہ ہونے مسیح کا اعتقاد نہیں ہے.بیان کیا گیا ہے کہ یہ ایک بڑا پادری اسی فرقہ میں سے ہے کہ جو عیسائیوں کے اس عقیدہ سے پھر گیا ہے کہ مسیح زندہ ہے اورپھردوبارہ دنیا میں آئیگاسو یہ ایک بیرونی شہادت ہے جو خدائے تعالیٰ نے اس عاجز کے دعویٰ پر قائم کی اور عیسائیوں کے ایک محقق پادری سے جو درجہ کی رو سے ایک بڑا پادری ہے وہی اقرار کرایا جس کی نسبت اِس عاجز کو الہامی خبر دی گئی.فالحمد للّٰہ علٰی ذالک.(۲) دوسری یہ کہ ایک بزرگ حاجی حرمین شریفین عبد الرحمٰن نام جنہوں نے دو حج کئے ہیں مرید خاص حضرت حاجی منشی احمد جان صاحب مرحوم و مغفور ساکن لودہیانہ جو مرد پیر بعمر قریب اسی سال کے ہیں اپنی ایک رؤیا میں بیان کرتے ہیں کہ میں نے جس روز مولوی محمد حسین صاحب کی آپ سے یعنی اس عاجز سے بحث ہوئی تھی رات کو خواب میں دیکھا کہ میاں صاحب مرحوم یعنی حاجی احمد جان صاحب نے مجھے اپنے مکان پر بلایا ہے.چنانچہ میں گیا اور ہم پانچ آدمی ہو گئے اور سب مل کر حضرت خواجہ اویس قرنی کے پاس گئے.اُس وقت حضرت اویس قرنی خرقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہنے ہوئے تھے.پھر وہاں سے ہم سب اور اویس قرنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں پہنچے اور اویس قرنی نے وہ خرقہ آنحضرت صلعم کے سامنے رکھ دیا اورعرض کی کہ آج

Page 596

اس خرقہ کی توہین ہوئی اور اس کی حُرمت آپ کے اختیار میں ہے.آپ ہی کی طرف سے تھا میں صرف ایلچی تھا.تب میں نے نظر اُٹھا کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دا ہنی طرف حضرت ابوبکر صدیق اور صحابہ اور بائیں طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام بیٹھے تھے اور سامنے آپ یعنی یہ عاجز کھڑا ہے اور ایک طرف مولوی محمد حسین کھڑا ہے اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیان کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی یہ عادت ہوتی کہ وہ فوت شدہ لوگوں کو دوبارہ دنیا میں بھیجتا اور میں بھیجاجاتا تو مجھ سے بھی دنیا کے لوگ یونہی پیش آتے جیسا کہ ان کے ساتھ آئے (یعنی اس عاجز کے ساتھ ) پھر میاں صاحب مرحوم نے مجھے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ کے بالوں کو دیکھ.تب میں نے اُن کے سر کے بالوں پر ہاتھ پھیرا تو وہ سیدھے ہوگئے اور جب ہاتھ اُٹھایا تو کُنڈل پڑ گئے.پھرمیاں صاحب نے فرمایا کہ دیکھو ان کی آنکھو ں کی طرف.جب میں نے دیکھا تو آنکھیں شربتی تھیں اور رنگ نہایت سفید جو نہیں دیکھاجاتاتھا.پھر میاں صاحب نے فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام کا یہی حُلیہ ہے مگر وہ مسیح موعود جس کے آنے کا وعدہ تھا اُس کا حُلیہ وہی ہے جو تم دیکھتے ہو اور آپ کی طرف اشارہ کیا یعنی اس عاجز کی طرف.پھر مَیں بیدار ہوگیا اور دل پر اس رؤیا کا اثر تار برقی کی طرح پایا.(۳) تیسری یہ کہ حبّی فی اللّٰہ میاں عبدالحکیم خاں صاحب اپنے رسالہ ذکر الحکیم کے صفحہ ۳۸ میں لکھتے ہیں کہ میں ماہ ستمبر ۱۸۹۰ ؁ء میں بموقعہ تعطیلات موسمی تراوڑ ی میں مقیم تھا.اُس جگہ میں نے متواتر تین یا چار دفعہ عیسیٰ علیہ السلام کو خواب میں دیکھا اور ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میں نے خواب میں سُنا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائے ہیں میں یہ خبر سُنکر حضرت مسیح علیہ السلام کی زیارت کیواسطے چلا.جب آپکی محفل میں پہنچا تو میں نے سب پر سلام کہا اورپوچھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کس جگہ تشریف رکھتے ہیں وہاں مرزا یوسف بیگ صاحب سامانوی جو مرزا صاحب کے مریدوں میں سے ہیں موجود تھے انہوں نے مجھے بتلایامیں ادب سے مسیح علیہ السلام کی طرف چلا.مگر جب دوبارہ نظر اُٹھاکر دیکھا

Page 597

تو مرزا غلام احمد صا حب ایک عجیب وجیہ حسین اور شاندار صورت میں تشریف رکھتے ہیں.یہ خواب میں نے حافظ عبد الغنی صاحب سے جو تراوڑی میں ایک مسجد کا امام ہے بیان کی تھی اور میرزا صاحب نے ابھی مسیح ہونے کا دعویٰ مشتہر نہیں کیا تھا.یہ شہادتیں ہیں جو رسالہ کے ختم ہونے کے بعد ہم کوملیں.ایسا ہی ایک اعتراض بھی اس رسالہ کے ختم ہونے کے بعد پیش کیا گیا اور وہ یہ ہے کہ اگرمسیح دجّال کے گدھے سے مراد یہی ریل گاڑی ہے تو اس ریل پر تو نیک و بد دونوں سوار ہوتے ہیں بلکہ جس کو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ ہے وہ بھی سوار ہوتا ہے پھر یہ دجّال کا گدھا کیوں کر ہوگیا.جواب یہ ہے کہ بوجہ ملکیت اور قبضہ اور تصرّف تام اور ایجاد دجّالی گروہ کے یہ دجّال کا گدھا کہلاتا ہے.اور اگر عارضی طورپر کوئی اس سے نفع اُٹھاوے تو اس سے وہ اس کا مالک یا موجد ٹھہرنہیں سکتا.خرِ دجّال کی اضافت ِ ملکی ہے.پھر اگر خدا تعالیٰ دجّال کی مملوکات و مصنوعات میں سے بھی مومنوں کو نفع پہنچاوے تو اس میں کیا حرج ہے.کیا انبیاء کفار کی مملوکات و مصنوعات سے نفع نہیں اُٹھاتے تھے.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکثر خچر کی سواری کرتے تھے حالانکہ احادیث نبویہ سے ثابت ہوتا ہے کہ گدھے سے گھوڑ ی کو ملانا ممنوع ہے.ایسے ہی بہت نمونے پائے جاتے ہیں.ماسوا اس کے جبکہ مسیح موعود قاتلِ دجّال ہے یعنی روحانی طور پر تو بموجب حدیث من قتل قتیلاً کے جو کچھ دجّال کا ہے وہ مسیح کا ہے.علاوہ اس کے مسلم کی حدیث میں جو ابوہریرہ سے مروی ہے عیسیٰ کے آنے کی یہ نشانیاں لکھی ہیں لینزلن ابن مریم حکمًا عدلًا فلیکسرن الصلیب ولیقتلن الخنزیر ولیضعن الجزیۃ ولیترکن القلاص فلا یسعٰی علیھایعنی عیسیٰ حَکَم اورعدل ہونے کی حالت میں اُترے گا اس طرح پر کہ مسلمانوں کے اختلافات پر حق کے ساتھ حکم کرے گا او ر عدل کو زمین پر قائم کر دے گا صلیب کو توڑے گا خنزیروں کو قتل کرے گا اور جزیہ کو اُٹھا دے گا اور اس کے آنے کا ایک یہ نشان ہو گا

Page 598

کہ جوان اُونٹنیاں جو بار برداری اورسواری کا بخوبی کام دیتی ہیں چھوڑ دی جائیں گی پھر اُن پر سواری نہیں کی جائے گی.اب واضح ہو کہ یہ ریل گاڑی کی طرف اشارہ ہے جس نے تمام سواریوں سے قریبًا نوع انسان کو فارغ کردیا ہے اور جو تمام دنیا کے ستّر ہزار میل میں پھر گئی ہے اور ہندوستان کے سولہ ہزار میل میں.چونکہ عرب میں اعلیٰ درجہ کی سواری جو ایک عربی کے تمام گھرکو اُٹھاسکتی ہے اونٹنی کی سواری ہے جو باربرداری اور مسافت کے طے کرنے میں تمام سواریوں سے بڑھ کر ہے اِس لئے آنحضرت صلعم نے اِسی کی طرف اشارہ کیا تا اعلیٰ کے ذکر کرنے سے ادنیٰ خود اس کے ضمن میں آجائے.پس فرمایا کہ مسیح موعود کے ظہور کے وقت میں یہ سب سواریاں بے قدرہوجائیں گی اور کوئی اُن کی طرف التفات نہیں کرے گا یعنی ایک نئی سواری دنیا میں پیدا ہوجائے گی جو دوسری تمام سواریوں کی وقعت کھودے گی.اب اگر عمومًا تمام لوگ اِس ریل گاڑی پر سوار نہ ہوں تو یہ پیشگوئی ناقص رہتی ہے.اس جگہ یہ بھی ظاہر ہے کہ مسلم کی حدیث سے جو فاطمہ بنت قیس سے مروی ہے ثابت ہوتا ہے جو دجّال ہندوستان سے نکلنے والا ہے جس کا گدھا دخان کے زورسے چلے گا جیسے بادل جس کے پیچھے ہواہوتی ہے اور ایسا ہی مسیح بھی اسی ملک میں اوّل ظہور کرے گا گو بعد میں مسافر کے طور پر کسی اور ملک دمشق وغیرہ میں نزول کرے.نزول کا لفظ جو دمشق کے ساتھ لگایا گیاہے خود دلالت کررہا ہے جو دمشق میں اس کا آنا مسافرانہ طورپر ہوگا اور اصل ظہورکسی اور ملک میں اور ظاہر ہے کہ جس جگہ دجّال ظہور کرے اُسی جگہ مسیح کا آنا ضروری ہے کیونکہ مسیح دجّال کے لئے بھیجا گیا ہے اور یہ بھی اسی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ دجّال خود نہیں نکلے گا بلکہ اس کا کوئی مثیل نکلے گا اور حدیث کے لفظ یہ ہیں الا انّہ‘ فی بحر الشام او بحر الیمن لا بل من قبل المشرق ماھو و اَوْمیٰ بیدہ الی المشرق رواہ مسلم.یعنی خبردارہو کیا دجّال بحرشام میں ہے یا بحر یمن میں.نہیں بلکہ وہ مشرق کی طرف سے نکلے گا.نہیں وہ یعنی وہ نہیں نکلے گا بلکہ اس کا

Page 599

مثیل نکلے گا اور مشرق کی طرف اشارہ کیا.اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ تمیم داری کا خیال تو یہ تھا کہ دجّال بحرشام میں ہے یعنی اس طرف کسی جزیرہ میں.کیونکہ تمیم نصرانی ہونے کے زمانہ میں اکثر ملک شام کی طرف جاتا تھا.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیال کو ردّ کر دیا اور فرمایا کہ وہ مشرق کی کسی خاص طرف سے نکلے گا اور ممالک مشرقیہ میں ہندوستان داخل ہے.اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ اس خبر تمیم داری کی تصدیق کے بارے میں ایسے الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مُنہ سے ہرگز نہیں نکلے جو اس بات پر دلالت کرتے ہوں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تمیم داری کے دجّال کا وجود یقین کرلیا تھا بلکہ اس بات کی تصدیق پائی جاتی ہے کہ دجّال مدینہ منوّرہ اور مکہ معظمہ میں داخل نہیں ہو گا.ماسوا اس کے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ تصدیق وحی کی رو سے ہے اور جاننے والے اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ آنحضرت صلعم جو اخبار وحکایات بیان کردہ تصدیق کرتے تھے اس کے لئے یہ ضرور نہیں ہوتا تھا کہ وہ تصدیق وحی کی رُو سے ہو.بلکہ بسا اوقات محض مخبر کے اعتبار کے خیال سے تصدیق کرلیا کرتے تھے.چنانچہ کئی دفعہ یہ اتفاق ہوا ہوگا کہ آنحضرت صلعم نے کسی مخبر کی خبر کو صحیح سمجھا اور بعد ازاں وہ خبر غلط نکلی بلکہ بعض وقت ایک مخبر کے اعتبار پر یہ خیال کیاگیاکہ دشمن چڑھائی کرنے والا ہے اور پیش قدمی کے طور پر اس پر چڑھائی کر دی گئی لیکن آخر کا ر وہ خبر غلط نکلی.انبیاء لوازم بشریت سے بالکل الگ نہیں کئے جاتے.ہاں وحی الٰہی کے پہنچانے میں محفوظ اور معصوم ہوتے ہیں.سو یہ قصہ تمیم داری والا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سُنا ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتاکہ وحی کی رُو سے آنحضرت صلعم نے اس قصہ کی تصدیق کی اورحدیث میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں کہ اس خیال پر دلالت کر سکے.پس صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلعم کے الفاظ سے جس قدر تصدیق اس قصہ کی پائی جاتی تھی وہ تصدیق وحی کی رو سے ہرگز نہیں.بلکہ محض عقلی طورپر اعتبار راوی کے لحاظ سے ہے.کیونکہ تمیم داری اس قصہ کے بیان کرنے کے

Page 600

وقت مسلما ن ہو چکا تھا اور بوجہ مشرف باسلام ہونے کے اس لائق تھا کہ اس کے بیان کو عزت اوراعتبار کی نظر سے دیکھاجائے.واللّٰہ اعلم بالصواب وھذ ا اٰخر ما اردنا فی ھذا الباب والحمد للّٰہ اوّلًا و اٰخرًا و الیہ المرجع والمآب بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم نحمدہٗ و نصلی گذارش ضروری بخدمت اُن صاحبوں کے جو بیعت کرنے کے لئے مستعد ہیں اے اخوان مؤمنین ایّدکم اللّٰہ بروح منہ.آپ سب صاحبوں پر جو اس عاجز سے خالصًا لطلب اللہ بیعت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں*واضح ہو کہ بالقائے رب کریم وجلیل (جس کا ارادہ ہے کہ مسلمانوں کو انواع واقسام کے اختلافات اور غل اور حقد اور نزاع اورفساد اور کینہ اور بُغض سے جس نے اُن کو بے برکت و نکمّا و کمزور کر دیا ہے نجات دے کر 3 ۱؂ کا مصداق بنا دے) مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض فوائد ومنافع بیعت کے جو آپ لوگوں کے لئے مقدر ہیں اس انتظام پر موقوف ہیں کہ آپ سب صاحبوں کے اسماء مبارکہ ایک کتاب میں تاریخ ھذا سے جو ۴ مارچ ۱۸۸۹ ؁ء ہے ۲۵ مارچ تک یہ عاجز لودہیانہ محلہ جدید میں مقیم ہے اس عرصہ میں اگر کو ئی صاحب آنا چاہیں تو لودہیانہ میں ۲۰ تاریخ کے بعد آجاویں اور اگر اس جگہ آنا موجب حرج ودقت ہوتو ۲۵ مارچ کے بعد جس وقت کوئی چاہے قادیان میں بعد اطلاع دہی بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوجاوے.مگر جس مدعا کے لئے بیعت ہے یعنی حقیقی تقویٰ اختیار کرنا اور سچا مسلمان بننے کیلئے کوشش کرنا.اس مدعا کو خوب یاد رکھے.اور اس وہم میں نہیں پڑنا چاہیئے کہ اگر تقویٰ اور سچا مسلمان بننا پہلے ہی سے شرط ہے تو پھر بعد اس کے بیعت کی کیا حاجت ہے.بلکہ یاد رکھنا چاہیئے کہ بیعت اس غرض سے ہے کہ تا وہ تقویٰ کہ جو اوّل حالت میں تکلّف او رتصنّع سے اختیارکی جاتی ہے دوسرا رنگ پکڑے اور ببرکت توجہ صادقین وجذبہ کاملین طبیعت میں داخل ہوجائے اور اس کا جز بن جائے

Page 601

بقید ولدیّت وسکونت مستقل وعارضی طور معہ کسی قدر کیفیت کے (اگر ممکن ہو) اندراج پاویں اور پھر جب وہ اسماء مندرجہ کسی تعداد موزوں تک پہنچ جائیں تو اُن سب ناموں کی ایک فہرست تیار کرکے اور چھپواکر ایک ایک کاپی اس کی تمام بیعت کرنے والوں کی خدمت میں بھیجی جائے اور پھر جب دوسرے وقت میں نئی بیعت کرنے والوں کا ایک معتد بہ گروہ ہوجاوے تو ایسا ہی اُن کے اسماء کی بھی فہرست تیار کر کے تمام مبائعین یعنی داخلین بیعت میں شائع کی جائے اور ایسا ہی ہوتا رہے جب تک ارادہ الٰہی اپنے اندازہ مقدر تک پہنچ جائے.یہ انتظام جس کے ذریعہ سے راستبازوں کا گروہ کثیر ایک ہی سلک میں منسلک ہو کر وحدت مجموعی کے پیرایہ میں خلق اللہ پر جلوہ نما ہو گا اور اپنی سچائی کے مختلف المخرج شعاعوں کو ایک ہی خط ممتد میں ظاہر کرے گا.خداوند عزّ وجلّ کو بہت پسند آیا ہے.مگر چونکہ یہ کارروائی بجُز اس کے بآسانی و صحت انجام پذیرنہیں ہو سکتی کہ خود مبایعین اپنے ہاتھ سے خوشخط قلم سے لکھ کر اپنا تمام پتہ ونشان بتفصیل مندرجہ بالا بھیج دیں.اس لئے ہر ایک صاحب کو جو صدق دل اورخلوص تام سے بیعت کرنے کے لئے اور وہ مشکٰوتی نور دل میں پیدا ہوجاوے کہ جو عبودیت اور ربوبیت کے باہم تعلق شدید سے پیدا ہوتا ہے جس کو متصوفین دوسرے لفظوں میں روح قدس بھی کہتے ہیں جس کے پیدا ہونے کے بعد خدائے تعالےٰ کی نافرمانی ایسی بالطبع بُری معلوم ہوتی ہے جیسی وہ خود خدائے تعالےٰ کی نظر میں بُری ومکروہ ہے اور نہ صرف خلق اللہ سے انقطاع میسر آتا ہے بلکہ بجُز خالق ومالک حقیقی ہریک موجودکو کالعدم سمجھ کر فنا نظری کا درجہ حاصل ہوتا ہے سو اس نور کے پیدا ہونے کے لئے ابتدائی اتقا جسکو طالب صادق اپنے ساتھ لاتا ہے شرط ہے جیسا کہ اللہ تعالےٰ نے قرآن شریف کی علّت غائی بیان کرنے میں فرمایا ہے ھُدًی للمتّقین یہ نہیں فرمایا کہ ھدی للفاسقین یا ھُدًی للکافرین ابتدائی تقویٰ جس کے حصول سے متقی کا لفظ انسان پر صاد ق آسکتا ہے.وہ ایک فطرتی حصہ ہے کہ جو سعیدوں کی خلقت میں رکھا گیا ہے اور ربوبیت اولیٰ اس کی مربی اور وجود بخش ہے جس سے متقی کا

Page 602

مستعد ہیں تکلیف دی جاتی ہے کہ وہ بتحریر خاص اپنے پورے پورے نام وولدیت وسکونت مستقل وعارضی سے اطلاع بخشیں یا اپنے حاضر ہونے کے وقت یہ تمام اموردرج کرا دیں.اور ظاہر ہے کہ ایسی کتاب کا مرتب و شائع ہونا جس میں تمام بیعت کرنے والوں کے نام و دیگر پتہ و نشان درج ہو انشا ء اللہ القدیر بہت سی خیر وبرکت کا موجب ہو گا.از انجملہ ایک بڑی عظیم الشان بات یہ ہے کہ اس ذریعہ سے بیعت کرنے والوں کا بہت جلد باہم تعارف ہوجائے گا اور باہم خط وکتابت کرنے اور افادہ و استفادہ کے وسائل نکل آئیں گے اور غائبانہ ایک دوسرے کو دعائے خیر سے یادکریں گے.اور نیز اس باہمی شناسائی کی رو سے ہرایک محل و موقعہ پر ایک دوسرے کی ہمدردی کرسکیں گے.اور ایک دوسرے کی غمخواری میں یا رانِ موافق و دوستانِ صادق کی طرح مشغول ہوجائیں گے اور ہرایک کو ان میں سے اپنے ہم ارادت لوگوں کے ناموں پر اطلاع پانے سے معلوم ہوجائے گا کہ اس کے روحانی بھائی دنیا میں کس قدر پھیلے ہوئے ہیں اور کن کن خداداد فضائل سے متصف ہیں.سو یہ علم اُن پر ظاہر کرے گا کہ خدائے تعالیٰ نے کس خارق عادت طور پر اس جماعت کو تیار کیا ہے اور کِس سرعت اورجلدی سے دنیا میں پھیلایا ہے.اور اس جگہ اس وصیت کالکھنا بھی موزوں معلوم ہوتا ہے کہ ہرایک شخص اپنے بھائی سے بکمال ہمدردی و محبت پیش آوے اور حقیقی بھائیوں سے بڑھ کر اُن کا قدرکرے.اُن سے جلد صلح کر لیوے اور دلی غبار کو دُور کردیوے اور صاف باطن ہو جاوے اور ہرگز ایک ذرا کینہ اور بُغض اُن سے نہ رکھے.لیکن اگر کوئی عمدًا پہلا تولد ہے مگر وہ اندرونی نور جو روح القدس سے تعبیر کیا گیا ہے وہ عبودیت خالصہ تامہ اور ربوبیت کاملہ مستجمعہ کے پور ے جوڑ واتصال سے بطرز 33 ۱؂ کے پیدا ہوتا ہے اور یہ ربوبیت ثانیہ ہے جس سے متقی تولد ثانی پاتا ہے اور ملکوتی مقام پر پہنچتا ہے اور اس کے بعد ربوبیت ثالثہ کا درجہ ہے جو خلق جدید سے موسوم ہے جس سے متقی لاہوتی مقام پر پہنچتا ہے اور تولد ثالث پاتاہے.فتدبّر منہ

Page 603

ان شرائط کی خلاف ورزی کرے جو اشتہار ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ ؁ء میں مندرج ہیں اور اپنی بے باکانہ حرکات سے باز نہ آوے تو وہ اس سلسلہ سے خار ج شمار کیاجاویگا.یہ سلسلہ بیعت محض بمراد فراہمی طائفہ متقین یعنی تقویٰ شعارلوگوں کی جماعت کے جمع کرنے کے لئے ہے تا ایسے متقیوں کا ایک بھاری گروہ دنیا پر اپنا نیک اثر ڈالے * اور اُن کا اتفاق اسلام کے لئے برکت وعظمت و نتائج خیر کا موجب ہو اور وہ ببرکت کلمہ واحدہ پر متفق ہونے کے اسلام کی پاک و مقدس خدمات میں جلد کام آسکیں اور ایک کاہل اور بخیل و بے مصرف مسلمان نہ ہوں اورنہ اُن نالائق لوگوں کی طرح جنھوں نے اپنے تفرقہ و نا اتفاقی کی وجہ سے اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ہے اور اس کے خوبصورت چہرہ کو اپنی فاسقانہ حالتوں سے داغ لگا دیا ہے اورنہ ایسے غافل درویشوں اور گوشہ گزینوں کی طرح جن کو اسلامی ضرورتوں کی کچھ بھی خبر نہیں اور اپنے بھائیوں کی ہمدردی سے کچھ غرض نہیں اور بنی نوع کی بھلائی کے لئے کچھ جوش نہیں بلکہ وہ ایسے قوم کے ہمدرد ہوں کہ غریبوں کی پناہ ہوجائیں.یتیموں کے لئے بطور باپوں کے بن جائیں اور اسلامی کاموں کے انجام دینے کے لئے عاشق زار کی طرح اس جماعت کے نیک اثر سے جیسے عامہ خلائق منتفع ہوں گی.ایسا ہی اس پاک باطن جماعت کے وجود سے گورنمنٹ برطانیہ کے لئے انواع اقسام کے فوائد متصوّر ہوں گے جن سے اس گورنمنٹ کو خداوند عزّ وجل کا شکر گذار ہونا چاہیئے.از انجملہ ایک یہ کہ یہ لوگ سچے جوش او ر دلی خلوص سے اس گورنمنٹ کے خیر خواہ اوردعا گوہوں گے کیونکہ بموجب تعلیم اسلام (جس کی پیروی اس گروہ کاعین مدعا ہے ) حقوق عباد کے متعلق اس سے بڑھکر کوئی گناہ کی بات اور خبث اور ظلم اور پلید راہ نہیں کہ انسان جس سلطنت کے زیر سایہ بامن وعافیت زندگی بسر کرے اور اسکی حمایت سے اپنے دینی ودنیوی مقاصد میں بآزادی کوشش کر سکے اسی کا بدخواہ وبداندیش ہو.بلکہ جب تک ایسی گورنمنٹ کا شکر گذار نہ ہو تب تک خدائے تعالےٰ کا بھی شکر گذار نہیں.پھر دوسرا فائدہ اس بابرکت گروہ کی ترقی سے گورنمنٹ کویہ ہے کہ ان کا عملی طریق موجب انسداد جرائم ہے.فتفکروا و تاملوا.منہ

Page 604

فدا ہونے کو تیار ہوں اور تمام تر کوشش ا س بات کے لئے کریں کہ ان کی عام برکات دنیا میں پھیلیں اور محبت الٰہی اور ہمدردی بندگان خدا کا پاک چشمہ ہر یک دل سے نکل کر اور ایک جگہ اکٹھا ہو کر ایک دریا کی صورت میں بہتاہوا نظر آوے.خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ محض اپنے فضل اور کرامت خاص سے اس عاجز کی دعاؤں اور اس ناچیز کی توجہ کو ان کی پاک استعدادوں کے ظہور و بروز کا وسیلہ ٹھہراوے.اور اُس قدّوس جلیل الذات نے مجھے جوش بخشا ہے تا میں ان طالبوں کی تربیت باطنی میں مصروف ہوجاؤں اور اُن کی آلودگی کے ازالہ کے لئے رات دن کوشش کرتا رہوں اور اُن کے لئے وہ نور مانگوں جس سے انسان نفس اورشیطان کی غلامی سے آزاد ہوجاتا ہے اور بالطبع خدائے تعالیٰ کی راہوں سے محبت کرنے لگتا ہے اور اُن کے لئے و ہ روح قدس طلب کروں جو ربوبیت تامہ اور عبودیت خالصہ کے جوڑ سے پیدا ہوتی ہے اوراس روح خبیث کی تکفیر سے اُن کی نجات چاہوں کہ جو نفس امارہ اور شیطان کے تعلق شدید سے جنم لیتی ہے.سو میں بتوفیقہ تعالیٰ کاہل اور سُست نہیں رہونگا اور اپنے دوستوں کی اصلاح طلبی سے جنہوں نے اس سلسلہ میں داخل ہونا بصدق قدم اختیار کرلیا ہے غافل نہیں ہوں گا بلکہ اُن کی زندگی کے لئے موت تک دریغ نہیں کروں گا اور اُن کے لئے خدائے تعالیٰ سے وہ روحانی طاقت چاہوں گا جس کا اثر برقی مادہ کی طرح اُن کے تمام وجود میں دوڑ جائے.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اُن کے لئے کہ جو داخل سلسلہ ہوکر صبر سے منتظر رہیں گے ایسا ہی ہو گا کیونکہ خدائے تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کے لئے اور اپنی قدرت دکھانے کے لئے پیدا کرنا اور پھر ترقی دینا چاہا ہے تادنیا میں محبت الٰہی اورتوبہ نصوح اور پاکیزگی اور حقیقی نیکی اور امن اورصلاحیت اور بنی نوع کی ہمدردی کو پھیلا وے.سو یہ گروہ اس کا ایک خالص گروہ ہو گااور وہ انہیں آپ اپنی روح سے قوت دے گا اور انہیں گندی زیست سے صاف کرے گا اور ان کی زندگی میں ایک پاک تبدیلی بخشے گا.وہ جیساکہ اُس نے اپنی پاک پیشگوئیوں میں وعدہ فرمایا ہے

Page 605

اس گروہ کو بہت بڑھائے گا اور ہزارہا صادقین کو اس میں داخل کرے گا وہ خود اس کی آبپاشی کرے گا او راس کو نشوونما دے گا.یہاں تک کہ اُن کی کثرت اوربرکت نظروں میں عجیب ہوجائے گی اور وہ اس چراغ کی طرح جو اُونچی جگہ رکھا جاتا ہے دنیا کے چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے اور اسلامی برکات کے لئے بطور نمونہ کے ٹھہریں گے وہ اس سلسلہ کے کامل متبعین کو ہر یک قسم کی برکت میں دوسرے سلسلہ والوں پر غلبہ دے گا اور ہمیشہ قیامت تک اُن میں سے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جن کو قبولیت اور نصرت دی جائے گی.اس رب جلیل نے یہی چاہا ہے وہ قادرہے جو چاہتاہے کرتاہے ہر یک طاقت اورقدرت اُسی کو ہے.فالحمد لہٗ اوّلًا واٰخرًا وظاہرًا وباطنًا اسلمنا لہ‘ ھو مولانا فی الدنیا والاٰخرۃ نعم المولٰی و نعم النصیر.خاکسار غلام احمد.لودھیانہ.محلہ جدیدمتصل مکان اخی مکرمی منشی حاجی احمد جان صاحب مرحوم و مغفور.۴.مارچ ۱۸۸۹ ؁ء بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم نحمدہٗ ونصلی تکمیل تبلیغ مضمون تبلیغ جو اس عاجز نے اشتہار یکم دسمبر ۱۸۸۸ ؁ء میں شائع کیا ہے جس میں بیعت کے لئے حق کے طالبوں کو بلایا ہے اس کی مجمل شرائط کی تشریح یہ ہے.اوّل بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرلے کہ آئندہ اُ س وقت تک کہ قبر میں داخل ہوجائے شرک سے مجتنب رہے.دوم یہ کہ جھوٹ اورزنا اور بدنظری اور ہر یک فسق اور فجور اور ظلم اور خیانت

Page 606

اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت اُن کامغلوب نہیں ہوگا اگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے.سوم یہ کہ بلاناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گااور حتی الوسع نماز تہجّد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا اور دلی محبت سے خدائے تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اس کی حمد اورتعریف کو ہر روزہ اپنا ورد بنائے گا.چہارم یہ کہ عام خلق اللہ کوعمومًا اور مسلمانوں کو خصوصًا اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا.نہ زبا ن سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے.پنجم یہ کہ ہر حال رنج وراحت اور عُسر اور یُسر اور نعمت اوربلا میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا او ربہر حالت راضی بقضا ہوگا.اور ہر یک ذلّت اور دکھ کے قبول کرنے کے لئے اس کی راہ میں طیار رہے گا اور کسی مصیبت کے وار دہونے پر اس سے مُنہ نہیں پھیرے گا بلکہ آگے قدم بڑھائے گا.ششم یہ کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا وہوس سے باز آئے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلّی اپنے سرپر قبول کرلے گا اور قال اللہ اور قال الرسول کو اپنی ہر یک راہ میں دستور العمل قرار دے گا.ہفتم یہ کہ تکبّر اورنخوت کو بکلی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اورحلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا.ہشتم یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردئ اسلام کو اپنی جان اوراپنے مال اور اپنی عزت اوراپنی اولاد اور اپنے ہر یک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا.نہم یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للہ مشغول رہے گا اورجہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا.دہم یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوت محض ِ للہ باقرارطاعت درمعروف باندھ کر اس پر تا وقت مرگ قائم رہے گا اور اس عقد اخوت میں ایسااعلیٰ درجہ کا ہوگا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو.یہ وہ شرائط ہیں کہ جو بیعت کرنے والوں کے لئے ضروری ہیں جن کی تفصیل یکم دسمبر ۱۸۸۸ ؁ء

Page 607

کے اشتہار میں نہیں لکھی گئی.اور الہامات جو اس بارہ میں آج تک ہوئے ہیں وہ یہ ہیں.اذا عزمت فتوکل علی اللّٰہ واصنع الفلک باعیینا و وحینا الذین یبایعونک انما یبایعون اللّٰہ یداللّٰہ فوق ایدیھم یعنی جب تُو نے اس خدمت کے لئے قصد کر لیا تو خدائے تعالیٰ پر بھروسا کر اور یہ کشتی ہماری آنکھوں کے رو برو اور ہماری وحی سے بنا.جو لوگ تجھ سے بیعت کریں گے وہ تجھ سے نہیں بلکہ خدا سے بیعت کریں گے.خدا کا ہاتھ ہوگا جو اُن کے ہاتھوں پر ہوگا.پھر ان دنوں کے بعد جب لوگ مسیح موعود کے دعویٰ سے سخت ابتلاء میں پڑ گئے یہ الہامات ہوئے.الذین تابوا واصلحوا اولٰئک اتوب علیھم وانا التواب الرحیم.امم یسرنا لھم الھدیٰ وامم حق علیھم العذاب ویمکرون ویمکراللّٰہ واللّٰہ خیر الماکرین و لکید اللّٰہ اکبر.وان یتخذونک الا ھزوا اھذا الذی بعث اللّٰہ.قل ایھا الکفار انی من الصادقین.فانتظروا اٰیاتی حتی حین سنریھم اٰ یٰتنا فی الاٰفاق.و فی انفسہم حجۃ قائمۃ وفتح مبین.ان اللّٰہ یفصل بینکم ان اللّٰہ لا یھدی من ھو مسرف کذّاب.یریدون ان یطفؤا نور اللّٰہ بافواھھم واللّٰہ متم نورہٖ ولو کرہ الکٰفرون.نرید ان ننزل علیک اسرارًا من السمآء ونمزق الاعداء کل ممزق ونری فرعون وھامان وجنودھما ما کانوا یحذرون سلّطنا کلا با علیک وغیظنا سباعًا من قولک وفتناک فتونا فلا تحزن علی الذی قالوا ان ربک لبالمرصاد.حکم اللّٰہ الرحمٰن لخلیفۃ اللّٰہ السلطان یوتی لہ الملک العظیم ویفتح علیٰ یدہ الخزائن وتشرق الارض بنور ربھا ذالک فضل اللّٰہ و فی اعینکم عجیب.یعنی جو لوگ توبہ کریں گے اور اپنی حالت کو درست کر لیں گے تب میں بھی اُن کی طرف رجوع کروں گا اور میں توّاب اور رحیم ہوں.بعض گروہ وہ ہیں جن کے لئے ہم نے ہدایت کو آسان کر دیا او ربعض وہ ہیں جن پر عذاب ثابت ہوا.وہ مکر کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی مکر کر رہا ہے اور وہ خیر الماکرین ہے اور اس کا

Page 608

مکر بہت بڑا ہے.اور تجھے ٹھٹھوں میں اُڑاتے ہیں.کیا یہی ہے جو مبعوث ہو کرآیا ہے ان کو کہدے کہ اے منکرو! میں صادقوں میں سے ہوں.اور کچھ عرصہ کے بعد تم میرے نشان دیکھو گے.ہم انہیں ان کے اردگرد اور خود انہیں میں اپنے نشان دکھائیں گے.حجت قائم کی جائے گی اور فتح کھلی کھلی ہوگی.خدا تم میں فیصلہ کردے گا.وہ کسی جھوٹے حد سے بڑھنے والے کا رہنما نہیں ہوتا.چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نور کو بُجھا دیں مگر خدا اسے پور ا کرے گا اگرچہ منکر لوگ کراہت ہی کریں.ہمارا ارادہ یہ ہے کہ کچھ اسرار تیرے پر آسمان سے نازل کریں اور دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیں.اور فرعون اور ہامان اور اُن کے لشکروں کو وہ باتیں دکھا دیں جن سے وہ ڈرتے ہیں.ہم نے کتّوں کو تیرے پر مسلّط کیا.اور درندوں کو تیری بات سے غصہ دلایا.اور سخت آزمائش میں تجھے ڈال دیا.سو تُو اُن کی باتوں سے کچھ غم نہ کر.تیرا رب گھات میں ہے وہ خداجو رحمٰن ہے وہ اپنے خلیفہ سلطان کے لئے مندرجہ ذیل حکم صادر کرتا ہے کہ اس کو ایک ملک عظیم دیا جائے گا اور خزائن علوم ومعارف اس کے ہاتھ پر کھولے جائیں گے اور زمین اپنے رب کے نور سے روشن ہوجائے گی.یہ خدائے تعالیٰ کا فضل ہے اور تمہاری آنکھوں میں عجیب.اس جگہ بادشاہت سے مراددنیا کی بادشاہت نہیں اورنہ خلافت سے مراد دنیاکی خلافت بلکہ جو مجھے دیا گیا ہے وہ محبت کے ملک کی بادشاہت اورمعارف الٰہی کے خزانے ہیں جن کو بفضلہ تعالیٰ اس قدر دوں گاکہ لوگ لیتے لیتے تھک جائیں گے.تمت

Page 609

اکتیس جولائی ۱۸۹۱ ؁ء کا (بمقام لودھیانہ ) مباحثہ اور حضرت مولوی ابُو سعید محمدحسین صاحب بٹالوی کا واقعات کے برخلاف اشتہار مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا اشتہار مورخہ یکم اگست ۱۸۹۱ ؁ء میری نظر سے گذرا.جس کے دیکھنے سے مجھے سخت تعجب ہوا.کہ مولوی صاحب نے کیسی بے باکی سے اپنے اس اشتہارکو سراسر افترآت اور اکاذیب سے بھر دیاہے.وہ نہایت چالاکی سے شرائط شکنی کا الزام میرے ذمہ لگاتے ہیں.لیکن اصل حقیقت جس کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے یہ ہے کہ وہ ایک دن بھی شرائط مقررہ پر قائم نہیں رہ سکے.چنانچہ وہ اکثر برخلاف شرط قرار یافتہ کے اول مضمو ن مباحثہ اپنے ہاتھ سے لکھ کر پھر دوسرے سے لکھوا کر اورجا بجا کم و بیش کر کے تحریر ثانی کو دیتے رہے ہیں اور اگراُن کی اوّل تحریر اور ثانی کامقابلہ کیاجائے تو صاف ظاہر ہوگا کہ تحریر ثانی میں بہت کچھ تصرف ہے جو طریق دیانت اور امانت سے بالکل بعید تھا یہ اُن کی پہلی عہد شکنی ہے جو اخیر تک اُن سے ظہور میں آتی گئی.پھر دوسری عہد شکنی یہ کہ انہوں نے پہلے ہی سے یہ عادت ٹھہرا لی کہ سُنانے کے وقت تحریرسے تجاوز کر کے بہت کچھ وعظ کے طور پر صرف زبانی کہتے رہے جس کا کوئی نام و نشان تحریر میں نہیں تھا.جب انہو ں نے اپنی وہ تحریر جو ۷۶ صفحہ کی تھی سُنائی تو بکلّی شرطوں کو توڑ کر زبانی وعظ شروع کر دیا.اور ان زبانی کلمات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ میں حدیثوں کے تعارض کو ایک دم میں رفع کر سکتا ہوں.ابھی رفع کرسکتا ہوں اور ساتھ اس کے بہت سی تیزی اور خلاف تہذیب اورچالاکی کی باتیں تھیں جن میں باربار یہ جتلانا انہیں منظور تھا کہ یہ شخص نافہم ہے.نادان ہے.جاہل ہے.لیکن اس عاجز نے اُن کی اِن تمام دل آزار باتوں پر صبر کیا اور اُن کی

Page 610

اس عہد شکنی پر بھی تعرض کرنا مناسب نہ سمجھا.تا گریز اور التواء بحث کے لئے انکو کوئی حیلہ نہ ہاتھ آ جائے.وہ قسم کھا کر بیان کریں میں قبول کرلوں گاکہ کیا اُن کی اس عہد شکنی سے پہلے کوئی ایک ذرہ خلاف عہد بات مجھ سے بھی ظہور میں آئی.اور اگرچہ مجھے خوب معلوم تھا کہ ایک غیر ضروری بحث طول پکڑتی جاتی ہے اور باوجودیکہ امور مستفسرہ کا جواب شافی کافی دیا گیا ہے پھر بھی مولوی صاحب صرف اصل بحث کو ٹالنے کی غرض سے تمہیدی امور کی بے سُود دُم کھینچتے چلے جاتے ہیں.لیکن میں اس بات سے ڈرتا ہی رہاکہ اگر میں نے کچھ بھی بات کی تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مولوی صاحب ایک بہانہ تراش کر اپنے گھر کی طرف سدھاریں گے حاضرین مجلس جو میرے اور مولوی صاحب کے مباحثات کو دیکھتے رہے محض للہ شہادت دے سکتے ہیں کہ میں نے اُن کی سخت زبانیوں پر بھی جو میرے بالمواجہ اُ ن سے ظہور میں آتی رہیں بہت صبر کیا اور ہرایک وقت جو انہوں نے میرا نام جاہل یانادان رکھا تو میں نے اپنے دل کوسمجھایاکہ سچ تو ہے بجُز خدا وند علیم مطلق کے کون ہے جو دانا کہلا سکتا ہے اور اگر انہوں نے مجھے مفتری کہا تو میں نے اپنے دل کو تسلی دی کہ پہلے بھی خدا تعالیٰ کے پاک نبیوں کو یہی کہا گیا ہے.اور اگر انہوں نے مجھے کاذ ب کاذب کر کے پکارا تو میں نے اپنے دل پر قرآن کریم کی آیتیں عرض کیں کہ دیکھ پہلے راستباز بھی کاذب کاذب کر کے پکارے گئے ہیں.غرض اسی طرح میں نے صبر سے گیاراں روز گذارے اور شہر میں اُن کی بد زبانی کا شورپڑ گیا.اور جس روز انہوں نے چھہتر ۷۶ صفحہ کا جواب سُنایا اور بہت کچھ بد زبانی اور چالاکی کی باتیں خارج از تحریر بیان کیں تو اُس وقت میں نے ایک مجمع کثیر کے رو برو جس میں اُن کے خاص دوست مولوی محمد حسن صاحب رئیس لودیانہ بھی تھے انہیں کہہ دیا کہ آج پھر آپ نے عہد شکنی کی اور خارج از تحریر زبانی وعظ کرنا شروع کردیا.اب مجھے بھی حق حاصل ہے کہ میں بھی اپنے مضمون سُنانے کے وقت کچھ زبانی وعظ بھی کروں.لیکن باوجودیکہ مجھے یہ حق حاصل ہوگیا تھا پھر بھی میں نے جواب سُنانے کے وقت اس حق سے بجُز ایک دو کلمہ کے کچھ فائدہ نہیں اُٹھایا

Page 611

۳۱ جولائی ۱۸۹۱ ؁ء کو جب میں جواب سُنانے کے لئے گیا تو جاتے ہی مولوی محمد حسین صاحب کے طور بدلے ہوئے نظر آئے.اُن کی ہرایک بات میں کجی معلوم ہوتی تھی اور بداخلاقی کا کچھ انتہا نہ تھا.جب میں مضمون حاضرین کے رو برو پڑھنے لگا تو انہوں نے دخل بے جا شروع کیا.یہاں تک کہ ایک مرتبہ خواہ نخواہ فضولی کے طور پر بول اُٹھے کہ تم نے کسی کتاب کانام غلط پڑھا ہے.اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ اس عاجز نے کوئی نام غلط نہیں پڑھا تھا.مولوی صاحب کو صرف اپنی شیخی اور علمیّت ظاہر کرنا منظور تھا جس کے جوش میں آکر انہوں نے ترک گفتگو زبانی کا عہد کئی بار توڑا.اور جیسے پُل ٹوٹنے سے پانی زور سے بہ نکلتا ہے ایسا ہی اُن کا صبرٹوٹ کر نفسانی جذبات کا سیلاب جاری ہوا.ہرچند کہا گیا کہ حضرت مولوی صاحب آپ سے یہ شرط ہے کہ آپ میری تقریر کے وقت خاموش رہیں جیسا میں خاموش رہا.لیکن انہوں نے صبر نہ کیا کیونکہ سچائی کے رُعب سے اُن پر حق پوشی کے لئے ایک قلق طاری ہو رہا تھا.آخر دیکھتے دیکھتے اُن کی حالت خوفناک ہوگئی.مگر شکر ِ للہ کہ اس عرصہ میں تمام مضمون سُنایاگیا.اور آخری مضمون یہ تھا کہ اب یہ تمہید ی بحث ختم کی گئی کیونکہ امور مستفسرہ کا بہ بسط تمام جواب ہوچکا.اور یہ بھی کہا گیا کہ اگر مولوی صاحب کے دل میں او ر بھی خیالات باقی ہیں تو بذریعہ اپنے رسالہ کے شائع کریں.اس تمہیدی بحث کے ختم کرنے کی وجہ یہی تھی کہ فریقین کے بیانات نہایت طول تک بلکہ دس جزو تک پہنچ چکے تھے اور برابر باراں دن اس ادنیٰ اور تمہیدی مباحثہ میں خرچ ہوئے تھے.اور اس تمام بحث میں مولوی صاحب کا صرف ایک ہی سوال بار بار تھا کہ کتاب اللہ اور حدیث کو مانتے ہو یا نہیں.جس کاکئی دفعہ مولوی صاحب کو کھول کھول کر جواب دیاگیا کہ کتاب اللہ کو بلاشرائط اورحدیث کو بشرط مانتا ہوں اور مکرر استفسار پر اصل منشاء ظاہر کر دیا گیا کہ حدیث کا وہ حصہ جو اخباراور مواعید اور قصص اور واقعات گذشتہ سے متعلق ہے اس شرط سے قبول کیا جائے گا کہ قرآن کریم کے

Page 612

اخبار وغیرہ سے معارض نہ ہو.لیکن پھر بھی مولوی صاحب بار بار اپنے پرچہ میں یہی لکھتے رہے کہ ابھی میرا جواب نہیں آیا.ابھی جواب نہیں آیا.حالانکہ اُن کا حق صرف اتنا تھا کہ میرا مذہب دریافت کریں.اور جب میں اپنا مذہب بیان کر چکا تو پھر اُن کو ہرگز استحقاق نہ تھا کہ ناحق وہی بات بار بار پوچھیں جس کا میں پہلے جواب دے چکا اور اس طرف لوگ بہت تنگ آگئے تھے اور بعض لوگ جو دُور سے اصل بحث سننے کے لئے آئے تھے جب انہوں نے دیکھا کہ باراں دن تک اصل بحث کا نام و نشان ظاہر نہیں ہواتو وہ نہایت دل شکستہ ہوگئے تھے کہ ہم نے یونہی دن ضائع کئے لہٰذا برطبق حدیث من حسن اسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ سخت ناچار ہو کر اس فضول بحث کو بند کرناپڑا.اگرچہ مولوی صاحب کسی طرح نہیں چاہتے تھے کہ اصل بحث کی طرف آویں اور اس فضول بحث کو ختم کریں بلکہ ڈراتے تھے کہ ابھی تو میرے اصول موضوعہ اور بھی ہیں جن کو میں بعد اس کے معرض بحث میں ڈالوں گا.اور لوگ جلتے تھے کہ خدا آپ کے اصول موضوعہ کا ستیاناس کرے آپ کیوں اصل بحث کی طرف نہیں آتے.اب ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ مولوی صاحب کی یہ شکایت کس قدرہیچ ہے کہ مجھے جواب لکھنے کے لئے اپنامضمون نہیں دیا.ظاہر ہے کہ جس حالت میں یہ عاجز حسب رائے عام یہ بحث تمہیدی ختم کر چکا تھا تو پھر مولوی صاحب کو تحریری جواب کا کیوں موقعہ دیاجاتا.ا گر وہ جواب تحریر کرتے تو پھرمیری طرف سے بھی جواب الجواب چاہیئے تھا.اس صورت میں یہ تسلسل کب اور کیوں کر ختم ہوسکتا تھا میں نے بے وقت اس تمہیدی بحث کو ختم نہیں کیا.بلکہ باراں دن ضائع کر کے اور مضمون بحث کو دس جزو تک پہنچا کر اور اکثر لوگوں کا واویلا اور شکایت سُنکر بدرجہ ناچاری مباحثہ کو ختم کیااورساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ ا ب اصل بحث شروع کریں میں حاضر ہوں.لیکن وہ اصل بحث سے تو ایسا ڈرتے تھے جیسا کہ ایک بچہ شیر سے اور چونکہ پہلا سوال مولوی محمد حسین صاحب کی طرف سے تھا اس لئے یہ میرا حق بھی تھا کہ میرے جواب پر ہی بحث ختم ہوتی تا چھ ۶ پرچے اُنکے اور چھ۶پرچے

Page 613

میرے بھی ہوجاتے.چونکہ مولوی صاحب کی نیت نیک نہیں تھی اس لئے انہوں نے اس بحث کا خاتمہ سُن کر جس قدرجوش دکھلایا اور جس قدر خشونت وحشیانہ ظاہر کی اور جس قدر خلاف تہذیب کلمات اس جوش کی حالت میں اُن کے مُنہ سے نکلے وہ اُن سب پر ظاہرہیں جو اُس وقت حاضر تھے.انہوں نے ایک یہ بھی چالاکی اختیار کی کہ اپنی جماعت کے لوگوں کے نام بطور گواہوں کے اپنے اشتہار پر لکھ دئے تا لوگوں کو یہ خیال پیدا ہوکہ وہ فی الحقیقت سچے ہیں.تبھی تو اتنے گواہ اُن کے بیان کے مصدّق ہیں.لیکن یہ کس قدر بددیانتی ہے کہ اپنی ہی جماعت کو جو اپنے حامی اور انصار اور ایک ہی مدعامیں شریک ہوں بطور گواہوں کے پیش کیاجائے.آخر اس جلسہ میں ثالث آدمی بھی تو موجود تھے جن کو فریقین سے کچھ تعلق نہ تھا.جیسے حضرت خواجہ احسن شاہ صاحب آنریری مجسٹریٹ و رئیس اعظم لودیانہ جو اس شہر کے ایک نامی معزّز اور منتخب رئیس اور صادق اور راستباز آدمی ہیں.اور ایسا ہی منشی میراں بخش صاحب اکونٹنٹ جو ایک معزّز عہدہ دار اور متانت شعار اور اپنے عہدہ اور تنخواہ کی رُو سے اکسٹرا اسسٹنٹوں کے ہم رُتبہ ہیں.ایسا ہی حاجی شہزادہ عبد المجید خاں صاحب.ڈاکٹر مصطفےٰ علی صاحب خواجہ محمد مختار شاہ صاحب رئیس اعظم لودیانہ.خواجہ عبد القادر شاہ صاحب.ماسٹر چراغ الدین صاحب.منشی محمد قاسم صاحب.ماسٹرقادر بخش صاحب.میاں شیر محمد خاں صاحب جھجروالہ اور کئی اور معزّز بھی موجود تھے.ان تمام معزز رئیسوں اور عہدہ داروں اوربزرگوں کو کیوں گواہی سے باہر رکھا گیا اور کیوں اُن کی شہادتیں درج نہ ہوئیں.حالانکہ فقط جناب خواجہ احسن شاہ صاحب رئیس اعظم کی گواہی ہزار عوام الناس کی گواہی کے برابر تھی.اس کا سبب یہی تھا کہ اِن بزرگوں کے بیان سے اصل حقیقت کھلتی تھی.افسوس کہ مولوی محمد حسین صاحب نے علاوہ اِن اکاذیب کے جو بحث کے متعلق بیان کئے ایک بازاری جھوٹ ہے جو بحث سے کچھ بھی تعلق نہیں رکھتا نا حق اپنے اشتہار میں لکھ دیا.چنانچہ وہ اس عاجز کی نسبت اپنے اشتہار میں لکھتے ہیں کہ مجلس سے

Page 614

اُٹھ کھڑے ہوئے او رگاڑی میں کہ جو چپکی دروازہ پر کھڑی تھی ایسے جلدی ہواہو کر بھاگے کہ آپ کے ہمراہی چلتی گاڑی پر دوڑکر سوار ہوئے.اس افتراء کا میں کیا جواب دُوں.بجز اس کے کہ علی الکاذبین کہوں یا آپ ہی کا قول مندرجہ اشتہار آپ کی خدمت میں واپس دُوں کہ جھوٹے پر اگر ہزار لعنت نہیں تو پانچ سو سہی.حضرت وہ گاڑی منشی میراں بخش صاحب اکونٹنٹ کی تھی جو دروازے پر کھڑی تھی اور وہ خود جلسہ بحث میں تشریف رکھتے تھے اور وہی اس پر سوار ہو کر آئے تھے.تمام بازاری اس بات کے گواہ ہیں.منشی صاحب موصوف سے دریافت کیجئے کہ برخاست جلسہ بحث کے وقت اس پر کون سوار ہوا تھا اور کیا میں اپنے مکان تک آہستہ چال سے پیادہ آیا تھا یا اُس گاڑی پر ایک قدم بھی رکھا تھا.میرے ساتھ اُس وقت شاید قریب تیس ۳۰ آدمی کے ہوں گے جو سب پیادہ آئے تھے اور جب ہم اپنے مکان کے قریب پہنچ گئے تو منشی میراں بخش صاحب گاڑی پر سوار آپہنچے اور عذر کیا کہ میں سوار آیا اور آپ پیادہ آئے.اس قدر افتراء کیا اندھیر کی بات ہے کیا جھوٹ مولویوں کے ہی حصہ میں آگیا.میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ آپ کی عہد شکنی نہایت قابل افسوس ہے.آپ اس بات کو مانتے ہیں کہ آپ سے یہ شرط ہوچکی تھی کہ زبانی گفتگو ایک کلمہ تک نہ ہو جو کچھ ہو بذریعہ تحریر ہو.جیساکہ آپ نے اپنے اشتہار میں بھی لکھ دیا ہے لیکن آپ کو معلوم ہے کہ آپ نے عمدًا اس شرط کو توڑ دیا اور جب آپ توڑ چکے اور عہد شکنی کے طور پر مضمون سُنانے کے محل میں زبانی وعظ بھی کر چکے تب میں نے آپ کو کہا کہ اب زبانی وعظ کرنا میرا بھی حق ہوگا.پس اگر میں نے مضمون سُنانے کے وقت میں چند کلمے زبانی بھی کہے تو کیا یہ عہد شکنی تھی یا آپ کی عہد شکنی کا عوض معاوضہ تھا جس کی نسبت میں وعدہ کرچکا تھا.حضرت مولوی محمد حسن صاحب جو رئیس او رآپ کے دوست ہیں جن کے مکان پر آپ نے یہ عہد شکنی کی تھی اگر قسم کھا کر میر ے روبرو میرے اس بیان کا انکار کریں تو پھر میں اس الزام سے دست بردار ہوجاؤں گا ورنہ آپ ناراض نہ ہوں.آپ بلاشبہ جریمہ عہد شکنی کے کئی دفعہ

Page 615

مرتکب ہوئے اور نخوت سے بھرا ہوا جوش آپ کو اس جرم کا مرتکب بناتا رہا.آخری روز میں بھی آپ سے یہی حرکت صادر ہوئی اور وحشیانہ غیظ وغضب اس کے علاوہ ہوا.جس کی وجہ سے آپ سے بحکم آیۃ کریمہ اَعْرِضْ بکلّی اِعراض لازم آیا.اور آپ کو نقل جواب نہ دی گئی.حضرت !آپ کے لفظ لفظ میں نخوت اور تکبّر بھرا ہوا ہے اور فقرہ فقرہ سے اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ کی بدبُو آرہی ہے.بھلا ایک کتاب کے نام کی غلطی کا الزام دینا کیا یہی تہذیب تھی.اور وہ بھی سفلہ طبع ملّاؤں کی طرح سراسر دروغ.اگر میں چاہتا تو آپ کی صرف نحو بھی اُسی وقت لوگوں کو دکھلا دیتا.لیکن یہ کمینگی کی خصلت مجھ سے صادر نہیں ہو سکتی تھی.میں دیکھتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ اپنے اِس تعصّب اور پست خیالی سے تائب نہیں ہوں گے تو خدائے تعالیٰ جیسا کہ قدیم سے اس کی سُنت ہے آپ کے علم کی بھی پردہ دری کرے گا اور آپ کو آپ کا اصلی چہرہ دکھلاوے گا.جس وقت آپ اس عاجز کی نسبت یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص بے علم او رنادان اور جاہل اور مفتری ہے تو آپ کا ایسی چالاکیوں سے صرف یہ مطلب ہوتا ہے کہ تالوگوں کے ذہن نشین کریں کہ میں بڑا عالم اور دانا اورصاحب علم اور معرفت اور نیز صادق آدمی ہوں.لیکن اپنے مُنہ سے کوئی مرتبہ انسان کو نہیں مل سکتا جب تک آسمانی نور اس کے ساتھ نہ ہو.اور جس علم کے ساتھ آسمانی نور نہیں وہ علم نہیں وہ جہل ہے.وہ روشنی نہیں وہ ظلمت ہے.وہ مغز نہیں وہ اُستخواں ہے.ہمار ا دین آسمان سے آیا ہے اور وہی اس کو سمجھتا ہے جو وہ بھی آسمان سے آیا ہو.کیا خدائے تعالیٰ نے نہیں فرمایا 3 3 ۱؂ میں قبول نہیں کروں گا اور ہرگز نہیں مانوں گا کہ آسمانی علوم اور اُن کے اندرونی بھید اور اُن کے تہ درتہ چھپے ہوئے اسرار زمینی لوگوں کو خود بخود آسکتے ہیں.زمینی لوگ دابۃ الارض ہیں مسیح السماء نہیں ہیں.مسیح السماء آسمان سے اُترتا ہے اور اُس کا خیال آسمان کومَسح کرکے آتا ہے اور روح القدس اُس پر نازل ہوتا ہے اس لئے وہ آسمانی روشنی ساتھ رکھتا ہے.لیکن دابۃِ الارض کے ساتھ زمین کی غلاظتیں ہوتی ہیں اورنیز وہ انسان کی پور ی شکل نہیں رکھتا.

Page 616

بلکہ اُس کے بعض اجزاء مسخ شدہ بھی ہوتے ہیں.اِسی وجہ سے میں نے کہا تھا کہ آپ ناراض نہ ہوں.آپ دین کے حقیقی علم سے بے خبرہیں.خدا تعالیٰ آپ کے ہر یک تکبّر کوتوڑ دے گا اور آپ کا چہرہ آپ کو دکھلا دے گا.افسوس کہ آپ کی کچی باتیں آپ کو شرمندہ نہیں کرتیں.اور باجود سخت لاجواب ہوجانیکے پھر بھی علم حدیث کا دعویٰ چلاجاتا ہے.آپ نے کہا تھا کہ الدجّال سے مراد خاص مسیح الدجّال نہیں.بلکہ دوسرے دجّالوں کی نسبت بھی صحاح میں الدجّال بولا گیا ہے.لیکن جب آپ کو کہا گیا کہ یہ سراسر آپ کی غلطی ہے آپ کو حدیث رسول اللہ کا حقیقی علم نصیب نہیں.اگر آپ بجُز دجّال معہود کے کسی اور کی نسبت یہ لفظ صحاح سِتّہ میں اطلاق پانا ثابت کریں تو آپ کو پانچ روپے بطور تاوان ملیں گے تو آپ ایسے چُپ ہوئے کہ کوئی جواب آپ سے بن نہ پڑا.یہ غرور اور تکبّر کی سزا ہے کیا بے علمی اسی کا نام ہے یا کسی اور چیز کا کہ آپ نے الدجّال کے متعلق حدیث رسول اللہ کے اُلٹے معنے کئے اور محض افتراء کے طور پر کچھ کا کچھ گھڑ کے سُنا دیا یہی حدیث دانی ہے؟ پھر آپ نے دعویٰ کیا تھا کہ میں صحیحین کی حدیثوں کا تعارض دُور کر سکتا ہوں.اِسکے جواب میں آپ کوکہا گیا کہ اگر آپ قبول کریں تو چند منصف مقرر کر کے چند متعارض حدیثیں آپ کے سامنے بغرض تطبیق و توفیق پیش کی جائیں گی.اگر آپ اپنی علمی لیاقت سے تعارض دُورکرکے دکھلا دیویں گے تو پچیس3 روپے آپ کو انعام ملیں گے اور آپکی علمیت مسلّم ٹھہرجائیگی اور اگر چُپ رہیں تو آپ کی بے علمی ثابت ہوگی.لیکن آپ چپ رہے.سو میں مکرر کہتا ہوں کہ ہر چندج مرکب کی وجہ سے آپ کو دعویٰ علم دین بہت ہے مگر آپ خوب یاد رکھیں کہ جب تک ان تمام آزمائشوں میں آپ صادق نہ نکلیں تب تک یہ دعویٰ بے اصل وبے دلیل ہے.اور پھر یہ بھی یاد رکھیں کہ ان آزمائشوں میں ہرگز آپ عزت کے ساتھ اپنا انجام نہیں دیکھیں گے.یہ سزا اس کبر کی ہے کہ خدائے تعالیٰ ہریک متکبّر کو دیتا ہے.33 ۱؂ اور آپ کا وہ جوش جس کی وجہ سے شرطی طورپر

Page 617

آپ نے اپنی دونوں بیویوں کو طلاق دیدی.ہریک دانا کی نظر میں قابل ہنسی ہے کیونکہ آپ کو تلویح کی عبارت کا ایک حصہ سُنا دیاگیا تھا.جس کے حوالہ سے وہ حدیث بیان کی گئی تھی اور ظاہر ہے کہ صاحب تلویح نے بطور شاہد اپنے تئیں قرار دے کر بیان کیا ہے کہ وہ حدیث یعنی عرض الحدیث علی القرآن کی حدیث بخاری میں موجود ہے.اب اس کے مقابل پر یہ عذر پیش کرنا کہ نسخہ جات موجودہ بخاری جو ہند میں چھپ چکے ہیں ان میں یہ حدیث موجود نہیں.سراسرناسمجھی کا خیال ہے.کیونکہ علم محدود کے عدم سے بکلّی عدم شے لازم نہیں آتا.جس حالت میں ایک سرگروہ مسلمانوں کا اپنی شہادت رویت سے اس حدیث کا بخاری میں ہونا بیان کرتا ہے اور آپ کو یہ دعویٰ نہیں اور نہ کر سکتے ہیں کہ تمام دنیاکے نسخہ جات بخاری کے قلمی وغیر قلمی آپ دیکھ چکے ہیں.پھر کس قدر فضولی ہے کہ صرف چند نسخوں پر بھروسہ کر کے بے گناہ عورتوں کو طلاق دی جائے.اگر ثانی الحال کوئی قلمی نسخہ نکل آوے جس میں یہ حدیث موجود ہو تو پھر آپ کا کیا حال ہو.مومن کی شہادت عند الشرع قابل پذیرائی ہوتی ہے اور فقط ایک کی شہادت رویت ماہ رمضان سے تمام دنیا کے مسلمانوں پر روزہ رکھنا فرض ہوجاتا ہے.اس صورت میں علّامہ تفتازانی صاحب تلویح کی شہادت بالکل ضائع اور نکمی نہیں ہو سکتی بخاری کے مطبوعہ نسخوں میں بھی بعض الفاظ کا اختلاف موجود ہے.پھر سارے جہان کے قلمی نسخوں کاکون ٹھیکہ لے سکتاہے.پس آپ کی بے دلیل نفی بے سود ہے.حضرت! مثبت کے بیان کو قواعد تحقیق کی رُو سے ترجیح ہوتی ہے.کیونکہ اس کے ساتھ زیادت علم ہے.اب اس شہادت کے مقابل پرجو عند الشرع قابل قبول ہے جب تک آپ سارے زمانہ کے قلمی نسخے نہ دکھا دیں اور صاحب تلویح کا کذب ثابت نہ کرلیں تب تک احتمالی طور پر طلاق واقعہ ہوگئی ہے.علماء کو پوچھ کر دیکھ لیں.صاف ظاہر ہے کہ اگر صاحب تلویح اپنی رویت میں کاذب ہوتا تو اُسی زمانہ میں علماء کی زبان سے اس کی تشنیع کی جاتی اور اس سے جواب پوچھاجاتا.اورجبکہ کوئی جواب پوچھا نہیں گیا تو یہ دوسری دلیل اِس بات پر ہے کہ درحقیقت اسکی

Page 618

رویت صحیح تھی.اور ان سب کا سکوت بطور شواہد مل کر اس امر کو اور بھی قوت دیتاہے کہ درحقیقت وہ حدیث صاحب تلویح نے بخاری میں دیکھی تھی.اور جس حالت میں صاحب بخاری تین لاکھ حدیثیں یاد رکھتے تھے اس صورت میں کیا قرین قیاس نہیں کہ بعض حدیثوں کے لکھنے میں نسخوں میں کمی بیشی ہو.اور اس طلاق کے مقابل پر میرا اشتہار لکھنا محض فضول تھا.اس سے اگر کچھ ثابت ہو تو فقط یہ ثابت ہو گا کہ بے وجہ نکتہ چینیاں آپ کی عادت ہے.حضرت! آپ جانتے ہیں کہ یوں تو ہرایک شخص کو اختیار ہے کہ اپنی بیوی کو نافرمان یا سرکش یا بد زبان یابکلّی ناہموار اور نا موافق پاکراس کو طلاق دے دیوے.اس طرح تو پیغمبربھی دیتے رہے ہیں.لیکن ایک شخص بحث اور جھگڑا تو لوگوں سے کرے اور ناحق اپنی بے خبر اور بے گناہ بیویوں کو غصّہ میں آ کر طلاق دیوے یہ امر وحشیانہ اور سراسر خلاف تہذیب ہے.کیامناسب ہے کہ گناہ کسی کا ہو اور مارا جائے کوئی.کیا سُنّت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کا کوئی نمونہ پایا جاتا ہے.آپ کا یہ بھی جھوٹ ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام ابو حنیفہ کی تحقیر نہیں کی.اگر آپ کو ایک بات میں نادان کہا جائے تو آپ کو کیسا غصہ آتا ہے.مگر آپ نے تو امام صاحب کو حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے قریب قریب محروم مطلق کے ظاہر کیا کیا یہ تحقیر نہیں؟ ہمارے اور آپ کے حنفی علماء منصف رہے.پھر آپ اپنے اشتہار میں میرے اس قول کو اکاذیب میں داخل قرار دیتے ہیں کہ ابن صیّاد کے دجّال ہونے پر صحابہ کا اجماع تھا خدائے تعالیٰ آپ کے حال پر رحم کرے.کیا خود ابن صیّاد کے بیان سے جو بعد مشرف باسلام ہونے کے اس نے کیا تھا جو صحیح مسلم میں موجود ہے ثابت نہیں ہوتا کہ صحابہ اس کو دجّال معہود کہتے تھے.کیا اس حدیث میں کوئی صحابی باہر بھی رکھا ہے جو اس کو دجّال معہود نہیں سمجھتا تھا.یا کیا اس خبر کے مشہور ہونے کے بعد کسی صحابی کا انکار مروی ہے.اس کا ذرہ نام تو لو.کیا آپ کو خبر نہیں کہ اصول فقہ کی رو سے اجماع کی قسموں میں سے ایک سکوتی اجماع بھی ہے.کیا آپکو معلوم نہیں کہ ابن صیّاد کے دجّال معہود ہونے پرحضرت عمرؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں قسم کھائی

Page 619

جس پر نہ خود آنجناب نے انکار کیا اور نہ صحابہ حاضرین میں سے کوئی منکرہوا.کیا یہ حدیث مسلم میں نہیں ہے.اور آپ کا یہ عذر کہ الدّجال دجّال معہود کا خاص نام نہیں ہے، آپ کی غباوت اور کم علمی پر اوّل درجہ کی شہادت ہے.حضرت مولوی صاحب! اگر آپ صحیح بخاری یا مسلم یا کسی اور صحیح حدیث سے یہ مجھے ثابت کر کے دکھلاویں کہ الدّجال کالفظ بجُز دجّال معہودکے کسی اور پربھی صحابہ کے مُنہ سے اطلاق پایا ہے تو میں بجائے پانچ 3روپے کے پچا3س روپے آپ کی نذر کروں گا.آپ کیوں اپنی پردہ دری کراتے ہیں.چپکے رہیں حقیقت معلوم شد.پھر ایک اور جھوٹ اور افتراء میرے پر آپ نے اپنے اشتہار میں یہ کیا ہے کہ گویا میں سچ مچ اپنے علم یقینی اور قطعی سے بخاری اور مسلم کی بعض احادیث کو موضوع سمجھتا ہوں.حضرت میرا یہ قول نہیں.معلوم نہیں کہ آپ کیوں اور کس وجہ سے اس قدر افتراء میرے پر دہاپ رہے ہیں.اور کب سے جعلسازی کی مشق آپ کو ہو گئی ہے.میں تو صرف اس قدر کہتا ہوں کہ اگر بخاری اور مسلم کی بعض اخباری حدیثوں کے اس طرز پر معنے نہ کئے جاویں جو قرآن کے اخبار سے مطابق وموافق ہوں تو پھر اس صورت میں وہ حدیثیں موضوع ٹھہریں گی.کیونکہ اصول فقہ کا یہ مسئلہ ہے کہ انما یرد خبر الواحد من معارضۃ الکتٰب میں نے کب اور کس وقت کہا تھا کہ درحقیقت قطعی اور یقینی طور پر فلاں فلاں حدیث بخاری یا مسلم کی میرے نزدیک موضوع ہے.مولوی صاحب حیا اور شرم شعبہ ایمان ہے فاتقوا اللّٰہ وکونوا من المؤمنین.پھر آپ اپنی ٹانگ خشک ہونے کی خواب سے نیم انکار کر کے لکھتے ہیں کہ یہ نقل کذب اور افتراء سے خالی نہیں.آپ کا یہ مقنّنانہ فقرہ صاف دلالت کر رہا ہے کہ کسی قدر اس بیان کی صداقت کا آپ کو اقرار ہے کیونکہ آپ کا ُ چھپا ہوا یہ منشاء ہے کہ اس خواب کو جیسا کہ نقل کیا گیا ہے وہ صورت نقل افتراء سے خالی نہیں.کیونکہ آپ نے یہ بیان نہیں کیا کہ یہ نقل سراسر افتراء ہے بلکہ یہ بیان کیا ہے کہ یہ نقل افتراء سے

Page 620

خالی نہیں.جس سے معلوم ہوا کہ دال میں کالاہے.اور ضرور آپ نے اس قسم کی خواب دیکھی ہے گو اس میں ٹانگ خشک ہو یا ہاتھ خشک ہو یا اور امور زائدہ ساتھ لگے ہوئے ہوں.حضرت آپ نے یہ خواب ضرور دیکھی ہے آپ کایہ پہلو دار فقرہ ہی دلالت کر رہا ہے کہ ضرور آپ نے ایسی خواب دیکھی ہے.بھلا ذرہ قسم تو کھاویں کہ ہم نے کچھ نہیں دیکھا اور میں پیشگوئی کرتا ہوں کہ آپ کبھی قسم نہ کھائیں گے کیونکہ یہ دعویٰ سراسر دروغ ہے.آپ اگر سچے ہیں تو لاہور میں ایک جلسہ مقرر کرکے حاضرین کے سامنے قسم کھالیں کہ میں نے کچھ نہیں دیکھا اور حاضرین میں وہ لوگ بھی ہوں گے جن کو ایسی روایت سے تعلق ہے.جس وقت آپ مجھے قسم کھانے کے لئے اطلاع دیں گے میں حاضر ہوجاؤنگا تا آپکی ایمانداری اور صداقت شعاری دیکھ لوں کہ کہاں تک آپ کو کذب اور افتراء سے پرہیز ہے.تب تسلّی رکھیں کہ ساری حقیقت کھل جائے گی اور آپ کی راستگوئی کا آپ کے شاگردوں پر بھی نمونہ ظاہر ہوجائے گا.اور جو آپ نے اس عاجز کی نسبت اپنی چند خوابیں تحریر کی ہیں اگر وہ صحیح بھی ہیں تب بھی اُن کی وہ تعبیر نہیں جو آپ نے سمجھی ہے.بلکہ بسا اوقات انسان دوسرے کو دیکھتا ہے اور اس سے مراد اپنا نفس ہی ہوتا ہے معبّرین نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص مثلًا کسی نبی کو خواب میں نابینا یا مجذوم یا کسی حیوان کی شکل میں دیکھے تو اس کی یہ تعبیر ہو گی کہ یہ دیکھنے والا خود اِن آفتوں میں مبتلا ہے.مثلًا اگر اُس نے کسی مقدس آدمی کو یک چشم دیکھاہے تو اس کی یہ تعبیر ہوگی کہ دین میں وہ آپ ہی ناقص ہے.اور اگر مجذوم دیکھا ہے تو اس کی یہ تعبیر ہوگی کہ وہ آپ ہی فساد میں پڑا ہوا ہے.اور اگر اُس نے نبی کی مسخی صورت دیکھی ہے تو اس کی یہ تعبیر ہوگی کہ وہ آپ ہی اپنے دین میں مسخی صورت رکھتا ہے.کیونکہ مقدس لوگ آئینہ کی طرح ہوتے ہیں.انسان جو کچھ اُن کی شکل اوروضع میں اپنی رؤیا میں فرق دیکھتا ہے.درحقیت وہ عیب اُس کے اپنے وجود میں ہی ہوتا ہے.اور جس بد عملی میں اُس کو مشاہدہ کرتا ہے درحقیقت اس کا آپ ہی مرتکب ہوتا ہے.تعبیر رویت ابرار میں یہ اصول محکم ہے اس کو یاد رکھنا چاہیئے.ایک مدّت کی

Page 621

بات ہے کہ ایک نے میرے پاس بیان کیا کہ میں نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ نعوذ باللہ نابینا تھے.میں نے کہا کہ تُو ابراہیم کی سُنّت کامنکر اور اس کے دیکھنے سے نابینا ہے.ایسا ہی ایک ہندو بڈھے نے بیان کیا کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح کو میں نے مجذوم دیکھاہے.میں نے اس کی تعبیر کی کہ تیری بد دینی ناقابل علاج ہے تو کسی عیسیٰ دم سے اچھا نہیں ہوگا.ایک نے میرے پاس بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ نیلا تہ بند باندھا ہوا ہے اور باقی بدن سے ننگے ہیں اوردال روٹی کھا رہے ہیں میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ دیکھنے والے کو غم اور فقر وفاقہ آئے گا اور اُس کا کوئی دستگیر نہیں ہوگا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.ایک مرتبہ میرے اُستاد مرحوم مولوی فضل احمد صاحب نے میرے پاس بیان کیا کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی کوٹھڑی میں اسیروں کی طرح بیٹھے ہیں جس میں آگ اور بہت سا دھوأں ہے اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ گردا گرد اس کوٹھڑی کے پہرہ داروں کی طرح عیسائی کھڑے ہیں.اور مولوی صاحب بہت متوحش تھے کہ اس کی کیا تعبیر ہے.تب خدا تعالیٰ نے فی الفور میرے دل پر القاء کیا کہ یہ سب دیکھنے والے کا حال ہے جو اس پر ظاہر کیا گیا.وہ بے ایمان ہو کر مرے گا اور آخر جہنم اُس کا ٹھکانہ ہوگا.اور عیسائیوں میں مل جائے گا.مولوی صاحب اس تعبیر کو سنتے ہی باغ باغ ہو گئے اور مارے خوشی کے چہرہ روشن ہوگیا.اور فرمانے لگے کہ یہ خواب پوری ہوگئی اور تھوڑا عرصہ ہوا کہ وہ شخص اس خواب کے دیکھنے کے بعد عیسائی ہو گیا.* غرض اس بات میں مَیں صاحب تجربہ ہوں.مولوی صاحب کو چاہیئے کہ ڈریں اور توبہ کریں کہ اُن کے آثار اچھے نظرنہیں آتے.یہ اُن کی ساری خوابیں اُن کی پہلی خواب کی مؤید ہیں.رہا یہ عاجز نوٹ رسالہ کامل التعبیر کے صفحہ ۲۶ میں لکھا ہے کہ اگر کسے بیند کہ اندامے از اندا مہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کم بود آں نقصان نقصان دین بینند ہ باشد.ابن سیرین رحمہ اللہ گوید کہ اگر کسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم را ناقص بیندآں نقصان بہ بینندہ باز گردد.(دیکھو رسالہ کامل التعبیر ص۲۶ ) منہ

Page 622

تو میری صداقت یا عدم صداقت کا امتحان آسان ہے.صرف بے ہودہ خوابوں سے میرے پر کوئی الزام نہیں آسکتا اگر فرض کے طور پر مولوی صاحب کی خوابیں میری طرف منسوب کی جائیں تب بھی ظاہر ہے کہ ہر یک دشمن اپنی دشمنی کے جوش میں اپنے مخالف کو خواب کی حالت میں کبھی سانپ کی شکل میں دیکھتا ہے اور کبھی کسی اور درندہ کی شکل میں.او ریہ قانون قدرت ہے جو اس پر طاری ہوتاہے.ممکن ہے کہ ایک اُس کا دشمن اس کو سانپ کی شکل میں نظر آوے یا کسی درندہ وغیرہ کی شکل میں.کیونکہ عداوت کی حالت میں ایسی تمثیلات خود طبیعت عدوّانہ اپنے جوش سے پیدا کرلیتی ہے.یہ نہیں کہ اس مقدس کی اصل شکل یہی ہوتی ہے.بعض اوقات حیوانی شکل قابل اعتراض بھی نہیں ہوتے.حضرت مسیح بعض پہلے نبیوں کو برّہ کی شکل پر نظر آئے اورہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو گائیوں کی شکل پر دیکھا اور یہ بات یعنی یہ جو میں نے ابھی بیان کیاہے کہ میری صداقت یا عدم صداقت کا امتحان آسان ہے اس کی زیادہ تفصیل یہ ہے کہ میرا تو خدا تعالیٰ کے اعلام وافہام سے یہ دعویٰ ہے کہ اگر دنیا کے تمام لوگ ایک طرف ہوں اور ایک طرف یہ عاجز ہو اور آسمانی امور کے انکشاف کے لئے ایک دوسرے کے قرب اور وجاہت عند اللہ کا امتحان کریں تو مَیں حلفًا کہتا ہوں کہ مجھے پور ایقین ہے کہ میں ہی غالب آؤں گا.خداوند علیم وحکیم کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آج تک صدہا نشان آسمانی میرے پر ظاہر ہو چکے ہیں اور بہت سے لوگ ان نشانوں کے دیکھنے والے موجود ہیں.میں نے ۳۱جولائی ۱۸۹۱ ؁ء کے خاتمہ مضمون میں عام طور پر سُنا دیا تھا کہ میرے نشانوں کے دیکھنے والے اسی مجلس میں موجود ہیں.اگر چاہوتو حلفًا اُن سے تصدیق کرا لو مگر آپ نے دم نہ مارا.پھر میں نے آواز بلند سے تین سو آدمی کی مجلس میں جن میں بعض عیسائی صاحبان اور ایڈیٹر صاحب پرچہ نور افشاں بھی موجود تھے یہ بھی سُنا دیا تھا کہ مولوی صاحب کو اگر اپنے اہل باطن ہونے کاگمان ہے تو چالیس دن تک میرے ساتھ مقابلہ کے طور پر خدائے تعالیٰ کی جناب میں توجہ کریں اگر میں آسمانی امور کے انکشاف اور نشانوں کے ظہور میں مولوی صاحب پر غالب نہ آیا تو جس ہتھیار

Page 623

سے چاہیں مجھے ذبح کر دیں.لیکن آپ نے اس کے جواب میں بھی دم نہ مارا.اگر آپ کو بھی سچی خوابیں آتی ہیں اضغاثِ احلام نہیں اور اعتماد کے لائق ہیں تو میرے مقابل پر آپ کیوں چُپ رہے کیا آپ کے دروغ بے فروغ پر اس سے زیادہ کوئی اور دلیل ہوگی.اور میں تو اب بھی حاضرہوں.میدان میں کھڑ ا ہوں.یقینًا یاد رکھیں کہ وہ نورجو آسمان سے اُتراہے آپ کی مُنہ کی پھونکوں سے بُجھ نہیں سکتا.آپ اپنے مُنہ کی فکر کریں.ایسا نہ ہو کہ پھونکیں مارتے مارتے ایک شعلہ اُٹھے اور آپ کے مُنہ کی مسخی صورت بنا دے.من عادیٰ کی حدیث آپ کو یاد نہیں جس کو ارادت کی راہ سے میری طرف لکھا کرتے تھے.اب آپ نے مجھے مفتری بنایا.کاذب قرار دیا.مکّار نا م رکھا.دجّال کے اسم سے موسوم کیا.مگر اپنے ہی ریویو کی وہ عبارتیں آپ کو یاد نہ رہیں جو آپ براہین احمدیہ کے ریویو نمبر۶ جلدسات۷ میں لکھ چکے ہیں.چنانچہ آپ بغرض تعریف و توصیف کتاب موصوف کے صفحہ ۲۸۴ میں لکھتے ہیں.مؤلف براہین احمدیہ کے حالات وخیالات سے جس قدرہم واقف ہیں ہمارے معاصرین ایسے واقف کم نکلیں گے.مؤلف صاحب ہمارے ہموطن بلکہ اوائل عمر کے ہمارے ہم مکتب ہیں اس زمانہ سے آج تک خط وکتابت و ملاقات و مراسلت برابر جاری ہے.( ص۲۸۴) مؤلف براہین احمدیہ مخالف وموافق کے تجربہ اور مشاہدہ کی رو سے واللّٰہ حسیبہ شریعت محمد یہ پر قائم اور پرہیز گار و صداقت شعار ہیں (ص۱۶۹)کتاب براہین احمدیہ (یعنی تالیف اس عاجز کی ) ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی.اور اس کا مؤلف اسلام کی مالی وجانی وقلمی ولسانی وحالی وقالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلاہے جس کی نظیر پہلی کتابوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے.اے خدا اپنے طالبوں کے رہنما اِن پر اِن کی ذات سے اِ ن کے ما باپ سے تمام جہان کے مشفقوں سے زیادہ رحم کر اور اس کتاب کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈالدے اور اس کی برکات سے مالامال کر دے اور اس خاکسار شرمسار گنہگار کو بھی اپنے فیوض و انعامات اور اس کتاب کی اخص برکات سے فیضیاب کر.آمین و للارض من کاس الکرام نصیب صفحہ ۳۴۸.

Page 624

اب حضرت سمجھ کر اور سوچ کر جواب دیں کہ یہ عبارتیں میرے حق میں آپ ہی کی ہیں یا کسی اور کی.اور یقینًا سمجھیں کہ آپ کی دعا کے موافق سب سے زیادہ خدائے تعالیٰ کا میرے پر رحم ہے اور یاد رکھیں کہ وہ ہرگز مجھے ضائع نہ کرے گا.آپ کی قسمت میں لغزش تھی سو وہ وقوع میں آگئی اور جو پیالہ ابتدا سے آپ کے لئے مقدر تھا آپ کو وہ پینا پڑا.کیا آپ کو میں نے اِن سب باتوں سے پہلے خبر نہیں دی تھی کہ آپ کے لئے مقدّر ہے کہ آپ مخالفت پر کھڑے ہوجائیں گے اور صدق اور راستی کو چھوڑ دیں گے.سخت بد قسمت وہ انسان ہے جو راستباز کومکّار سمجھے.نہایت بدنصیب وہ شخص ہے کہ جو صدیق کو کذاب خیال کرے.آپ اپنے اشتہار کے اخیر میں پھر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ گویا میں بخاری اور مسلم سے منکر ہوں.اور دعویٰ کرتے ہیں کہ اشاعۃ السنۃ میں بخوبی ظاہر کیا جائے گا.سومیری طرف سے گذارش ہے کہ یوں تو مجھے اور ہر یک سمجھدا ر کو یہی امید ہے کہ آپ اسی طرح دفع وقت کے لئے زائد اور بے تعلق باتوں میں اپنے پرچہ اشاعۃ السنۃ کو سیاہ کرتے رہیں گے اور اصل بحث کی طرف ہرگز نہ آئیں گے.لیکن میرے پر یہ بہتان کھڑا کرنا کہ گویا میں صحیحین کا منکر ہوں آپ کے لئے کچھ بھی مفید نہیں ہوگا.آپ ذرہ غور کریں کہ کیا کوئی عقلمند ایسی کتابوں سے منکر ہو سکتا ہے جو اس کے دعویٰ کی اوّل درجہ پر مؤید اور حامی ہیں.ایسا تو کوئی نادان بھی نہیں کر سکتا.اگر میں بخاری اور مسلم کی صحت کاقائل نہ ہوتا تو میں اپنی تائیددعویٰ میں کیوں بار بار اُن کو پیش کرتا.چنانچہ اسی رسالہ ازالہ اوہام میں بہت سی حدیثیں صحیح مسلم کی اپنے تائید دعویٰ میں پیش کرچکاہوں.ہاں بخاری میں سے میں نے کم لکھا ہے.سو اس جگہ آپ کی خاطر کچھ اور بھی لکھ دیتا ہوں تا آپ پر واضح ہو کہ بخار ی بھی اس عاجز کی حامی اور ناصر ہے.اور اگر آپ ہزار جان کنی کریں.بخاری کو بھی مؤید مطلب ہرگز نہ پائیں گے.بلکہ قرآن کریم کی طرح وہ بھی اس عاجز کے مدعا اور اور دعویٰ پر کامل دلائل پیش کرتی ہے.حضرت یہی تو میرے گواہ ہیں جن سے میرا دعویٰ ثابت ہوتا ہے ان سے اگر انکار کروں تو کہاں جاؤں.

Page 625

اب لیجئے نمونہ کے طور پر کسی قدر بخاری کے دلائل پیش کرتا ہوں اگر کچھ منکر انہ جوش ہے تو ردّ کر کے دکھلاویں.اوراگر سعادت ہے تو قبول کرلیں.وَ طُوبٰی لِلسُّعَدَآءِ.اِفَادَاتُ الْبُخَارِیْ یہ عاجز پہلے اس سے اسی رسالہ میں بیان کر چکا ہے کہ عموم محاورہ قرآن شریف کا توفّی کے لفظ کے استعمال میں یہی واقعہ ہوا ہے کہ وہ تمام مقامات میں اوّل سے آخر تک ہرایک جگہ جوتَوَفِّی کا لفظ آیا ہے اس کو موت اور قبض روح کے معنے میں لاتا ہے اور جب عرب کے قدیم وجدید اشعار وقصائد ونظم ونثر کاجہاں تک ممکن تھا تتبّع کیاگیا اور عمیق تحقیقات سے دیکھا گیا تو یہ ثابت ہوا کہ جہاں جہاں تَوَفِّی کے لفظ کا ذوی الروح سے یعنی انسانوں سے علاقہ ہے اور فاعل اللہ جَلَّشَانُہٗ کو ٹھہرایا گیا ہے اِن تمام مقامات میں تَوَفِّی کے معنے موت وقبض روح کے کئے گئے ہیں.اور اشعار قدیمہ وجدیدہ عرب میں اور ایسا ہی اُن کی نثر میں بھی ایک بھی لفظ توفی کا ایسا نہیں ملے گا جو ذوی الروح میں مستعمل ہو اور جس کافاعل لفظًا یا معنًا خدائے تعالیٰ ٹھہرایا گیا ہو.یعنی فعل عبد کا قرار نہ دیا گیا ہو اور محض خدائے تعالیٰ کا فعل سمجھا گیا ہو اور پھراس کے معنے بجز قبض روح کے اور مراد رکھے گئے ہوں.لغات کی کتابوں قاموس.صحاح.صراح وغیرہ پر نظر ڈالنے والے بھی اس بات کو جانتے ہیں.کہ ضرب المثل کے طور پر بھی کوئی فقرہ عرب کے محاورات کا ایسا نہیں ملا جس میں توفی کے لفظ کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرکے اور ذوی الروح کے بارہ میں استعمال میں لاکر پھر اس کے اور بھی معنے کئے ہوں.بلکہ برابر ہر جگہ یہی معنے موت اورقبض روح کے کئے گئے ہیں اور کسی دوسرے احتمال کا ایک ذرہ راہ کُھلا نہیں رکھا.پھر بعد اس کے اِس عاجز نے حدیثوں کی طرف رجوع کیا تا معلوم ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ اورخود آنحضرت صلعم اس لفظ تَوَفِّی کو

Page 626

ذوی الروح کی طرف منسوب کرکے کن کن معنوں میں استعمال کرتے تھے.آیا یہ لفظ اس وقت اُن کے روز مرہ محاورات میں کئی معنوں پر استعمال ہوتا تھا یا صرف ایک ہی معنے قبض روح اور موت کے لئے مستعمل تھا.سو اس تحقیقات کے لئے مجھے بڑی محنت کرنی پڑی اور اِن تمام کتابوں صحیح بخاری.صحیح مسلم.ترمذی.ابن ماجہ.ابوداؤد.نسائی.دارمی.موطا.شرح السنہ وغیرہ وغیرہ کا صفحہ صفحہ دیکھنے سے معلوم ہوا کہ ان تمام کتابوں میں جو داخل مشکٰوۃ ہیں تین سو چھیالیس مرتبہ مختلف مقامات میں توفی کا لفظ آیا ہے اور ممکن ہے کہ میرے شمار کرنے میں بعض توفی کے لفظ رہ بھی گئے ہوں لیکن پڑھنے اور زیر نظر آجانے سے ایک بھی لفظ باہر نہیں رہا.اور جس قدر وہ الفاظ توفی کے ان کتابوں میں آئے ہیں.خواہ وہ ایسا لفظ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مُنہ سے نکلا ہے یاایساہے جوکسی صحابی نے مُنہ سے نکالاہے.تمام جگہ وہ الفاظ موت اور قبض روح کے معنے میں ہی آئے ہیں.اور چونکہ میں نے ان کتابوں کو بڑی کوشش اورجانکاہی سے سطر سطر پر نظر ڈال کردیکھ لیا ہے.اس لئے میں دعویٰ سے اور شرط کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہر یک جگہ جو تَوَفِّی کا لفظ ان کتابوں کی احادیث میں آیا ہے اس کے بجُز موت اور قبض روح کے اور کوئی معنے نہیں.اوران کتابوں سے بطور استقراء کے ثابت ہوتا ہے کہ بعد بعثت اخیر عمر تک جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رہے کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نیتَوَفِّی کا لفظ بغیر معنی موت اورقبض روح کے کسی دوسرے معنی کے لئے ہرگز استعمال نہیں کیا اور نہ کبھی دوسرے معنی کالفظ زبان مبارک پر جاری ہؤا.اور کچھ شک نہیں کہ استقراء بھی ادلّۂ یقینیہ میں سے ہے.بلکہ جس قدر حقائق کے ثابت کرنے کے لئے استقراء سے مدد ملی ہے اور کسی طریق سے مددنہیں ملی.مثلًا ہمارے ان یقینیات کی بناء جو عمومًا تمام انسانوں کی ایک زبان ہوتی ہے اور دوآنکھ اورعمر انسان کی عمومًا اس حد سے تجاوز نہیں کر سکتی.اوراناج کی قسموں میں سے چنا اس انداز کا ہوتاہے اور گیہوں کا دانہ اس اندازکا.یہ سب یقینیات استقراء سے معلوم ہوئے ہیں.پس جو شخص اس استقراء کا انکار کرے تو ایسا کوئی لفظتَوَفِّی کا پیش کرنا

Page 627

اس کے ذمہ ہوگا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مُنہ سے نکلاہو.اور بجُز موت اور قبض روح کے اس کے کوئی اور معنے ہوں.اورامام محمد اسماعیل بخاری نے اس جگہ اپنی صحیح میں ایک لطیف نکتہ کی طرف توجہ دلائی ہے جس سے معلوم ہوا کہ کم سے کم سات ہزار مرتبہ تَوَفِّی کالفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مُنہ سے بعثت کے بعد اخیر عمر تک نکلاہے.اورہر یک لفظ تَوَفِّی کے معنے قبض روح اور موت تھی.سو یہ نکتہ بخاری کا منجملہ اُن نکات کے ہے جن سے حق کے طالبوں کو امام بخاری کا مشکور وممنون ہونا چاہیئے.اور منجملہ افادات امام بخاری کے جس کا ہمیں شکر کرنا چاہیئے ایک یہ ہے کہ انہوں نے مسیح ابن مریم کی وفات کے بارہ میں ایک قطعی فیصلہ ایسا دے دیا ہے جس سے بڑھ کر متصور نہیں.اور وہ یہ ہے کہ امام بخاری نے اپنی صحیح کے کئی حصوں میں سے جن کانام اُس نے خاص خاص غرضوں کی طرف منسوب کر کے کتاب رکھا ہے.ایک حصہ کو کتاب التفسیر کے نام سے نامزد کیا ہے.کیونکہ اس حصہ کے لکھنے سے اصل غرض یہ ہے کہ جن آیات قرآن کریم کی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ تفسیر وتشریح کی ہے یا اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے اُن آیات کی بحوالہ قول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تفسیرکر دی جائے.امام بخاری رحمۃ اللہ اسی غرض سے آیۂ کریمہ 33 ۱؂ کو کتاب التفسیر میں لایا ہے.اور اس ایراد سے اُس کا منشاء یہ ہے کہ تا لوگوں پر ظاہر کرے کہ تَوفیتنی کے لفظ کی صحیح تفسیر وہی ہے.جس کی طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ فرماتے ہیں یعنی مار دیا اور وفات دے دی اورحدیث یہ ہے عن ابن عباسٍ انہ‘ یُجآء برجالٍ من امتی فیؤخذبھم ذات الشمال فاقول یا رب اصیحا بی فیُقال انک لا تدری ما احدثوا بعدک فاقول کماقال العبد الصالح وکنت علیھم شھیدًا ما دمتُ فیھم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم.صفحہ ۶۶۵بخاری ۶۹۳ بخاری.یعنی قیامت کے دن میں بعض لوگ میری اُمت میں سے آگ کی طرف

Page 628

لائے جائیں گے تب میں کہوں گا کہ اے میرے رب یہ تو میرے اصحاب ہیں تب کہا جائے گا کہ تجھے اُن کاموں کی خبر نہیں جو تیرے پیچھے اِن لوگوں نے کئے.سو اُس وقت میں وہی بات کہوں گا جو ایک نیک بندہ نے کہی تھی یعنی مسیح ابن مریم نے.جب کہ اُسکو پوچھا گیا تھا کہ کیا یہ تو نے تعلیم دی تھی کہ مجھے اورمیری ماں کو خدا کر کے ماننا.اور وہ بات (جو میں ابن مریم کی طرح کہوں گا) یہ ہے کہ میں جب تک اُن میں تھا اُن پر گواہ تھا پھر جب تُو نے مجھے وفات دیدی تو اُس وقت تُو ہی اُن کانگہبان اور محافظ اور نگران تھا.اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قصہ اور مسیح ابن مریم کے قصہ کو ایک ہی رنگ کا قصہ قرار دیکر وہی لفظ فلمّا توفّیتنی کا اپنے حق میں استعمال کیا ہے جس سے صاف سمجھاجاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فلمّا توفّیتنی سے وفات ہی مراد لی ہے.کیونکہ اس میں کسی کو اختلاف نہیں کہ آنحضرت صلعم فوت ہوگئے ہیں اور مدینہ منورہ میں آنحضرت کی مزار شریف موجود ہے.پس جبکہ فلمّا توفیتنی کی شرح اور تفسیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت وفات پانا ہے ثابت ہوا.اور وہی لفظ حضرت مسیح کے مُنہ سے نکلا تھا اورکھلے طورپر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا کہ جن الفاظ کو مسیح ابن مریم نے استعمال کیا تھا وہی الفاظ مَیں استعمال کرونگا پس اس سے بکلی منکشف ہوگیا کہ مسیح ابن مریم بھی وفات پاگیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی وفات پاگئے اوردونوں برابر طور پر اثر آیت فلمّا توفّیتنی سے متاثر ہیں.اِسی وجہ سے امام بخاری اس آیت فلمّا توفّیتنی کو قصدًا کتاب التفسیر میں لایا تا وہ مسیح ابن مریم کی نسبت اپنے مذہب کو ظاہر کرے کہ حقیقت میں وہ اس کے نزدیک فوت ہوگیا ہے.یہ مقام سوچنے اور غورکرنے کا ہے کہ امام بخاری آیت فلمّا توفّیتنی کو کتاب التفسیر میں کیوں لایا.پس ادنیٰ سوچ سے صاف ظاہرہوگا کہ جیسا کہ امام بخاری کی عادت ہے اس کا منشاء یہ تھا کہ آیت فلمّا توفّیتنی کے حقیقی اور واقعی معنی وہی ہیں جن کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا ہے.سو اس کا مدعا اس بات کا

Page 629

ظاہر کرنا ہے کہ اس آیت کی یہی تفسیر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پر وارد کر کے آپ فرمائی ہے.یہ بھی واضح رہے کہ اس طرز کو امام بخاری نے اختیار کر کے صرف اپنا ہی مذہب ظاہرنہیں کیا بلکہ یہ بھی ظاہر کردیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت فلمّا توفّیتنی کے یہی معنی سمجھتے تھے تب ہی تو انہیں الفاظ فلمّا توفّیتنی کو بغیر کسی تبدیل وتغییر کے اپنی نسبت استعمال کرلیا.پھر امام صاحب نے اسی مقام میں ایک اور کمال کیا ہے کہ اس معنی کے زیادہ پختہ کرنے کے لئے اسی صفحہ ۶۶۵ میں آیت یاعیسٰی انی متوفیک *کے بحوالہ ابن عباس کے اسی کے مطابق تفسیر کی ہے.چنانچہ وہ فرماتے ہیں وقال ابن عباس متوفّیک مُمیتک (دیکھو وہی صفحہ ۶۶۵ بخاری)یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ یہ جو آیت قرآن کریم ہے کہ یاعیسٰی انّی متوفّیک اس کے یہ معنے ہیں کہ اے عیسےٰ میں تجھے وفات دُوں گا.سو امام بخاری صاحب ابن عباس کا قول بطور تائید کے لائے ہیں تا معلوم ہو کہ صحابہ کا بھی یہی مذہب تھا کہ مسیح ابن مریم فوت ہوگیاہے.اور پھر امام بخاری نے ایک اور کمال کیا ہے کہ اپنی صحیح کے صفحہ ۵۳۱ میں مناقب ابن عباس میں لکھا ہے کہ خود ابن عباس سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو اپنے سینہ* سے لگا یا اوردعا کی کہ یا الٰہی اس کو حکمت بخش اس کو علم قرآن بخش چونکہ دُعا نبی کریم کی مستجاب ہے اس لئے ابن عباس کا یہ بیان کہ توفّی عیسٰی جو قرآن کریم میں آیا ہے اما تت عیسٰی اس سے مراد ہے یعنی عیسیٰ کی۱؂ وفات دینا.یہ معنی آیت کریمہ کے جو ابن عباس نے کئے ہیں اس وجہ سے بھی قابل قبول ہیں کہ ابن عباس کے حق میں علم قرآن کی دعا مستجاب ہوچکی ہے.پھر امام بخاری نے اسی آیت فلمّا توفّیتنی کو کتاب الانبیاء صفحہ ۴۷۳ اور پھرصفحہ ۴۹۰ میں انہیں معنوں کے ظاہر کرنیکی غرض سے ذکر کیا ہے اور ظاہر کیا ہے کہ اس قصّہ کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مسیح ابن مریم سے ایک مشابہت ہے چنانچہ صفحہ ۴۸۹ میں یہ * فٹ نوٹ: اس آیت کا حاشیہ ایڈیشن اوّل کے صفحہ ۹۲۲ اور اس ایڈیشن کے صفحہ ۶۰۶ پر ملاحظہ فرماویں.

Page 630

حدیث بھی بروایت ابو ہریرہ لکھ دی ہے انا اولی الناس بابن مریم والانبیاء اولاد علات اور اسی کی تائید میں امام بخاری نے کتاب المغازی میں بذیل کتاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ ۶۴۰ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک اور حدیث لکھی ہے.اور منجملہ افادات امام بخاری کے جن کا ہمیں شکر کرنا چاہیئے یہ ہے کہ انہوں نے صرف اسی قدرثابت نہیں کیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں بلکہ احادیث نبویہ کی رو سے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ جو شخص فوت ہوجائے پھر دنیا میں آ نہیں سکتا.چنانچہ بخاری کے صفحہ ۶۴۰ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ روایت کی گئی ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے تو بعض آدمی یہ گمان کرتے تھے کہ آنحضرت فوت نہیں ہوئے اور بعض کہتے تھے کہ فوت ہوگئے.مگر پھردنیا میں آئیں گے.اس حالت میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ کے گھر گئے اور دیکھاجو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ہیں تب وہ چادر کاپردہ اُٹھا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ کی طرف جھکے اور چومااور کہا کہ میرے ماں باپ تیرے پر قربان مجھے خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ خدا تیرے پر دوموتیں جمع نہیں کرے گا.پھرلوگوں میں آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فوت ہوجانا ظاہر کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہونے اور پھر دنیا میں نہ آنے کی تائید میں یہ آیت پڑھی 33 ۱؂ یعنی محمد اس سے زیادہ نہیں کہ وہ رسول اللہ ہے اور اس سے پہلے تمام رسول اس دنیا سے ہمیشہ کے لئے گذرچکے ہیں.یاد رہے کہ من قبلہ الرسل کا الف لام استغراق کا ہے جو رسولوں کی جمع افراد گذشتہ پر محیط ہے اور اگرایسا نہ ہو تو پھر دلیل ناقص رہ جاتی ہے کیونکہ اگرایک فرد بھی باہر رہ جائے تو وہ پھر وہ استدلال جو مدعاقرآن کریم کا ہے اس آیت سے پیدا نہیں ہو سکتا.اس آیت کے پیش کرنے سے حضرت ابو بکر صدیق نے اِس بات کا ثبوت دیاکہ کوئی نبی ایسا نہیں گذراکہ جو فوت نہ ہوا ہو اور نیز اس بات کا ثبوت دیا کہ جو فوت ہوجائے پھر دنیا میں کبھی نہیں آتا.کیونکہ لغت عرب

Page 631

اور محاورہ اہل عرب میں خَلَا یا خَلَتْ ایسے لوگوں کے گذرنے کو کہتے ہیں جو پھر آنیوالے نہ ہوں.پس تمام رسولوں کی نسبت جو آیت موصوفہ بالا میں خَلَتْ کا لفظ استعمال کیاگیا وہ اسی لحاظ سے استعمال کیا گیاتااس بات کی طرف اشارہ ہو کہ وہ لوگ ایسے گئے ہیں کہ پھر دنیا میں ہرگز نہیں آئیں گے.چونکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال یافتہ ہونے کی حالت میں آپ کے چہرہ مبارک کو بوسہ دے کر کہا تھا کہ تُو حیات اور موت میں پاک ہے تیرے پر دوموتیں ہرگز وارد نہیں ہوں گی یعنی تو دوسری مرتبہ دنیا میں ہرگز نہیں آئے گا.اس لئے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے قول کی تائید میں آیت قرآن کریم کی پیش کی.جس کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ سب رسول جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تھے گذرچکے ہیں اور جو رسول اس دنیا سے گذر گئے ہیں پھر اس دنیا میں ہرگز نہیں آئیں گے.کیونکہ جیساکہ قرآن شریف میں اَور فوت شدہ لوگوں کی نسبت خَلَوْایا خَلَتْ کا لفظ استعمال ہواہے.ایسا ہی یہی لفظ نبیوں کے حق میں بھی استعمال ہواہے.اور یہ لفظ موت کے لفظ سے اخص ہے کیونکہ اس کے مفہوم میں یہ شرط ہے کہ اس عالم سے گذر کر پھر اس عالم میں نہ آوے.غرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس جگہ فوت شدہ نبیوں کے دوبارہ نہ آنے کے بارے میں اوّل قول ابوبکر صدیق کا پیش کیا جس میں یہ بیان ہے کہ خدا تیرے پر دوموتیں جمع نہیں کرے گا.کیونکہ دوبارہ آنا دوموتوں کو مستلزم ہے.اور پھر اس بارے میں قرآن کریم کی آیت پیش کی اور یہ ثبوت دیاکہ خَلَا اس گذرنے کو کہتے ہیں کہ پھر اس کے بعد عود نہ ہو.اس تحقیق وتدقیق سے کمالاتِ امام بخاری ظاہر ہیں.جزاہ اللّٰہ خیرالجزاء وادخلہ اللّٰہ فی الجنّات العلیا.اور منجملہ افادات امام بخاری کے ایک یہ ہے کہ انہوں نے اپنی صحیح میں پانچ حدیثیں ذکر کر کے متفرق طرق اور متفرق راویوں کے ذریعہ سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ مسیح ابن مریم اپنی موت کے بعد اموات میں جاملا اور خدا تعالیٰ کے بزرگ نبی جو اس دنیا سے گذر چکے ہیں

Page 632

اُن میں داخل ہوگیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات میں فوت شدہ جماعت میں اُس کو پایا.دیکھو بخاری صفحہ ۵۰ اورصفحہ ۴۵۵ و صفحہ ۴۷۱ و صفحہ۵۴۸و۱۱۲۰.اور اِن احادیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ وہ سب نبی اگرچہ دنیوی زندگی کی روسے مرگئے اور ا س جسم کثیف ا ور اس کے حیات کے لوازم کو چھوڑ گئے لیکن اس عالم میں ایک نئی زندگی جس کو روحانی کہنا چاہیئے رکھتے ہیں.اور کیا مسیح اور کیا غیر مسیح برابر اور مساوی طور پر اس نئی زندگی کے لوازم اپنے اندرجمع رکھتے ہیں.یہی منشاء انجیل میں پطرس کے پہلے خط کا ہے.چنانچہ وہ کہتا ہے کہ وہ یعنی مسیح جسم کے حق میں تو مارا گیا لیکن روح میں زندہ کیاگیا.یعنی موت کے بعد مسیح کو روحانی زندگی ملی ہے نہ جسمانی.دیکھوپطرس کا پہلاخط تین باب اُنیس آیت.اور عبرانیوں کے خط نو ۹باب ستائیس آیت میں لکھا ہے کہ آدمیوں کے لئے ایک بار مرنا ہے ایسا ہی بائبل کے بہت سے مقامات میں موجود ہے کہ راستبازوں کے لئے ایک موت کے بعد پھر حیات ابدی ہے.اب اس بات کے ثابت ہونے کے بعد کہ مسیح مر گیا اور روح اس کی فوت شدہ روحوں میں داخل ہے.اگر فر ض محال کے طور پر پھر اس کا زندہ ہو کر دنیا میں آناقبول کرلیں تو آسمان سے اُترنا اس کا بہرحال غیر مسلّم ہو گا.کیونکہ ثابت ہوچکاکہ آسمان پر مرنے کے بعد صرف اس کی روح گئی جو دوسری روحوں میں شامل ہو گئی.ہاں اس فرض کے بناء پر یہ کہناپڑے گا کہ کسی وقت اس کی قبر پھٹ جائے گی اور اس میں سے باہر آجائے گا اور یہ کسی کا اعتقاد نہیں.ماسوااس کے ایک موت کے بعد پھر دوسری موت ایک عظیم الشان نبی کے لئے تجویز کرنا خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں کے برخلاف ہے.اورجوشخص ایک مرتبہ مسیح کو مار کر پھر قیامت کے قریب اسی دنیا میں لاتا ہے اُس کی یہ مرضی ہے کہ سب کے لئے ایک موت او رمسیح کے لئے دوموتیں ہوں جس نے دنیا میں کسی جسم اور صورت میں جنم لیا وہ موت سے بچ نہیں سکتا.دیکھو خط دوم پطرس ۳ باب ۱۰ آیت.او رمنجملہ افادات امام بخاری کے ایک یہ ہے کہ انہوں نے قطعی طور پر اس بات کافیصلہ دیکر

Page 633

کہ مسیح ابن مریم فوت ہوگیا اور فوت شدہ بندوں میں جاملا.پھراس پیشگوئی کی نسبت جو اُن کی صحیح میں درج ہے کہ ابن مریم نازل ہوگا.تین قوی قرینے قائم کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ آنے والا ابن مریم ہرگز وہ مسیح ابن مریم نہیں ہے جس پر انجیل نازل ہوئی تھی.چنانچہ اوّل قرینہ یہ لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ لانبی بعدی.صفحہ ۶۳۳.دوم قرینہ یہ ہے کہ آنے والے مسیح کی نسبت اِمامکم منکم کا قول استعمال کیا گیا ہے جس سے صاف طورپرجتلا دیا ہے کہ وہ مسیح آنے والا اصل مسیح نہیں ہے بلکہ وہ تمہارا ایک امام ہوگااور تم میں سے ہو گا.اور کسی اَور امام کا مسیح کے ساتھ ہونا ہرگز ذکر نہیں کیا.بلکہ امامت کی وجہ سے ہی مسیح موعود کانام حَکَم رکھا عدل رکھا مُقسط رکھا.اگر وہ امام نہیں تو یہ صفات جو امامت سے ہی تعلق رکھتی ہیں کیوں کر اس کے حق میں بولی جاسکتی ہیں.اور اگر کہو کہ امامت سے مراد نماز خوانی کی امامت ہے جیسا کہ ہریک مسجد میں ملّاں ہواکرتے ہیں تو یہ عجیب عقل کی بات ہے.کیونکہ یہ تو ہرگز ممکن نہیں کہ ۲۰ بیس کروڑ مسلمانوں کے لئے جو مختلف بلاد میں جابجا سکونت رکھتے ہیں پنجوقت نماز ادا کرنے کے لئے ایک ہی امام کافی ہو.بلکہ بڑے بڑے لشکروں کے لئے بھی جو جابجا حسب مصالح جنگی متفرق ہوں ایک امام کافی نہیں ہوسکتا.سو نماز پڑھانے کی امامت جیسا کہ آج کل لاکھوں آدمی کرا رہے ہیں یہی تعداد ہریک زمانہ کے لئے لابدی اور لازمی ہے جو صرف ایک سے انجام پذیر نہیں ہوسکتی.بلکہ امام سے مراد رہنما اور پیشوا اورخلیفہ ہے جس کی صفات میں سے حَکَم اور عدل اور مقسط ہونا بیان کیاگیا ہے.اب آنکھ کھول کر دیکھنا چاہیئے کہ یہ صفات بخاری کے سیاق سباق دیکھنے سے مسیح موعود کے حق میں اطلاق پائے ہیں یا کسی اور کے حق میں.اے بندگانِ خدا کچھ تو ڈرو.دیکھو تمہارا دل ہی تمہیں ملزم کرے گا کہ تم حق پر پردہ ڈال رہے ہو.ڈرو.اے لوگوڈرواور خدا اور رسول کے فرمودہ سے عمدًا انحراف مت کرو اور الحاد اور تحریف سے باز آجاؤ.اللہ اور رسول کے کلمات کو

Page 634

اُن کے مواضع سے کیوں پھیرتے ہو.و قد حرَّفتم و انتم تعلمون.سوم قرینہ جو امام بخاری نے بیان کیا ہے یہ ہے کہ آنے والے مسیح اور اصل مسیح ابن مریم کے حُلیہ میں جابجا التزام کامل کے ساتھ فرق ڈال دیا ہے.ہرایک جگہ جو اصل مسیح ابن مریم کا حلیہ لکھاہے.اس کے چہرہ کو احمر بیان کیا ہے اور ہر یک جگہ جو آنے والے مسیح کا حلیہ بقول آنحضرت صلعم بیان فرمایا ہے اس کے چہرہ کو گندم گوں ظاہر کیا ہے اور کسی جگہ اس التزام کو ہاتھ سے نہیں دیا.چنانچہ صفحہ ۴۸۹ میں دوحدیثیں امام بخاری لایاہے.ایک ابوہریرہ سے اور ایک ابن عمر سے.اور اُن دونوں میں یہ بیان ہے کہ معراج کی رات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ کو جو اصل عیسیٰ ہے دیکھا اور اس کو سُرخ رنگ پایا.اور پھر اس کے آگے اَبی سَالم سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے مسیح کو خواب میں دیکھا اور اس کا گندم گُوں حُلیہ بیان کیا.پھر صفحہ ۱۰۵۵ میں ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ آنے والے مسیح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا اور معلوم ہوا کہ وہ گندم گوں ہے اور دجّال کو سرخ رنگ دیکھا ( جو اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ وہ سرخ رنگ قوم سے پیدا ہوگا) اور صفحہ ۴۸۹ میں عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے ابن مریم کو گندم گوں دیکھا.اسی طرح امام بخاری نے اپنی کتاب میں یہ التزام کیا ہے کہ وہ اصل مسیح کے حُلیہ کو بروایت ثقات صحابہ سرخ بیان کرتے ہیں اور آنے والے مسیح کا حلیہ گندم گوں ظاہر کرتے ہیں جس سے انہوں نے ثابت کیا ہے کہ آنے والا مسیح اَور ہے.چنانچہ امام بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب اللباس میں بھی آنے والے مسیح کا حلیہ گندم گوں لکھاہے.دیکھو صفحہ ۸۷۶کتاب اللباس.او رمنجملہ افادات امام بخاری کے یہ ہے کہ انہوں نے اس حدیث کو جو صحیح بخاری کے صفحہ ۶۵۲ اور ۴۶۴ میں ہے یعنی حدیث ما من مولود یولد الا والشیطٰن یمسّہٗ

Page 635

حین یولد الامریم وابنھا اور حدیث باصبعیہ...غیر عیسٰی کو متعارض حدیثوں کے ساتھ ذکر کر کے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ابن مریم سے مراد ہریک وہ شخص ہے جو اس کی صفت اوررنگ میں ہو.اورمتعارض حدیثیں یہ ہیں دیکھو صفحہ ۴۶۴ اور حدیث صفحہ ۷۷۶ جس کے آخیر ہے لم یضرہ شیطان.ماسوا اس کے آیت 33 ۱؂ اور آیت3 ۲؂ صاف دلالت کررہی ہے کہ مس شیطان سے محفوظ ہونا ابن مریم سے مخصوص نہیں.اور زمخشری کا یہ طعن کہ حدیث خصوصیت ابن مریم دربارہ محفوظیت از مس شیطان جو امام بخاری اپنی صحیح میں لایا ہے نقص سے خالی نہیں.اور اس کی صحت میں کلام ہے جیسا کہ خود اُس نے بیان کیا ہے فضو ل ہے.کیونکہ عمیق نظر سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بزرگ بخاری نے خود اشارہ کر دیا ہے کہ ابن مریم اور اس کی والدہ سے مرا د ہر یک ایسا شخص ہے جو ان دونوں کی صفتیں اپنے اندر جمع رکھتا ہو.فلا تناقض ولاتعارض.اور جبکہ یہ ثابت ہوا کہ کلام نبوی میں غیر عیسیٰ پر عیسیٰ یاابن مریم کابولا گیا ہے تو یہ محاورہ اور بھی مؤیّد ہمارے مطلب کا ہوگا.احادیث نبویہ میں یہ بھی ایک محاورہ شائع متعارف ہے کہ بعض کا بعض صفات کے لحاظ سے ایک ایسا نام رکھا جاتاہے جو بظاہر وہ کسی دوسرے کا نام ہے جیسا کہ صفحہ ۵۲۱ میں یہ حدیث ہے لقدکان فیما کان قبلکم من الامم ناس محدثون فان یک فی اُمّتی احد فانہ عمر دیکھو صفحہ ۵۲۱ بخاری.اب ظاہر ہے کہ محدثیت حضرت عمر میں محدود نہیں.سو حدیث کا یہ مطلب ہے کہ جو محدث ہوگا وہ اپنی روحانی صفات کی رو سے عمر ہی ہوگا.ایسا ہی احادیث میں دابۃ الارض کو بھی ایک خاص نام رکھ کر بیان کیا ہے لیکن احادیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی استعمال کی رُو سے عام ہے اور دابۃ الارض کو صحیح مسلم میں ایسے پیرایہ سے ذکر کیاگیا ہے کہ ایک طرف تو اس کو دجّال کی جساسہ ٹھہرادیاگیاہے اور اُسی کی رفیق اوراسی جزیرہ میں رہنے والی جہاں وہ ہے.اور ایک طرف حرم مکہ معظمہ میں صفا کے نیچے اس کو جگہ دے رکھی ہے

Page 636

گویا و ہ اُس ارض مقدس کے نیچے ہے نہ دجّال کے پاس.اور بیان کیا گیا ہے کہ اُسی میں سے اُس کا خروج ہوگا.اس استعارہ سے یہ مطلب معلوم ہوتا ہے کہ دابۃ الارض درحقیقت اسم جسم۱؂ ایسے علماء کے لئے ہے جو ذوجہتین واقع ہیں.ایک تعلق اُن کا دین اورحق سے ہے اورایک تعلق اُن کا دنیا اوردجالیت سے.اور آخری زمانہ میں ایسے مولویوں اور مُلّاؤں کا پیدا ہونا کئی جگہ بخاری میں لکھاہے.چنانچہ بیان کیاگیا ہے کہ وہ لوگ حدیث خیر البریّہ پڑھیں گے.اور قرآن کی بھی تلاوت کرتے ہوں گے لیکن قرآن اُن کے حلق کے نیچے نہیں اترے گا.سو یہ وہی زمانہ ہے انہیں لوگوں کی ملاقات سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈرایا ہے اور فرمایا ہے فاعتزل تلک الفرق کلھا ولو ان تعض باصل شجرۃ حتّٰی یدرکک الموت وانت علٰی ذالک صفحہ ۵۰۹ بخاری.یہی لوگ ہیں کہ باوجودیکہ اللہ جلَّ شَانُہٗ اور اُس کا مقدّس رسول سراسر مسیح ابن مریم کی وفات ظاہر کررہے ہیں.مگر پھر بھی ان کو فرمودۂ خدا و رسول پر اعتماد نہیں.حالانکہ حکم یہ تھا 3333.۲؂ ماکان من شرط لیس فی کتاب اللّٰہ فھو باطل قضاء اللّٰہ احق.بخاری صفحہ۳۷۷.ما عندنا شئ الّا کتٰب اللّٰہ.بخاری صفحہ ۲۵۰.حسبکم القراٰن.بخاری ۱۷۲.اب ہم بطور نمونہ امام بخاری کے افادات کے بیان کرنے سے فارغ ہوئے او ر بیانات متذکرہ بالا سے ظاہر ہے کہ امام بخاری صاحب اوّل درجہ پر ہمارے دعاوی کے شاہد اور حامی ہیں اور ہمارے مخالفوں کے لئے ہرگز ممکن نہیں کہ ایک ذرّہ بھر بھی اپنے خیالات کی تائید میں کوئی حدیث صحیح بخاری کی پیش کرسکیں.سو درحقیقت صحیح بخاری سے وہ منکر ہیں نہ ہم.بالآخر میں یہ بھی لکھنا چاہتا ہوں کہ میں نے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے یہ درخواست کی تھی کہ اگر آپ مجھے مکاراور غیرمسلم خیال کرتے ہیں تو آؤ اس طریق سے بھی مقابلہ کر و کہ ہم دونوں نشان قبولیت کے ظاہر ہونے کے لئے خدا تعالیٰ کی طر ف رجوع کریں

Page 637

تاجس کے شامل حال نصرت الٰہی ہو جاوے اور قبولیت کے آسمانی نشان اس کے لئے خدا کی طرف سے ظاہر ہوں وہ اس علامت سے لوگوں کی نظر میں اپنی قبولیت کے ساتھ شناخت کیاجاوے.اور جھوٹے کی ہر روزہ کشمکش سے لوگوں کو فراغت اور راحت حاصل ہو.اِس کے جواب میں مولوی صاحب موصوف اپنے اشتہار یکم اگست ۱۸۹۱ ؁ء میں لکھتے ہیں کہ یہ درخواست اُس وقت مسموع ہوگی کہ جب تم اوّل اپنے عقائد کا عقائد اسلام ہونا ثابت کرو گے غیر مسلم ( یعنی جو مسلما ن نہیں )خواہ کتنا ہی آسمانی نشان دکھاوے اہل اسلام اس کی طرف التفات نہیں کرتے.اب ناظرین انصافًا فرما ویں کہ جس حالت میں اسی ثبوت کے لئے درخواست کی گئی تھی کہ تا ظاہر ہوجاوے کہ فریقین میں سے حقیقی اور واقعی طور پر مسلمان کون ہے پھر قبل از ثبوت ایک مسلمان کو جو لا الٰہ الّا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کا قائل اور معتقد ہو غیر مسلم کہنا اور لَسْتَ مُسْلِمًا کر کے پکارنا کس قسم کی مسلمانی اور ایمانداری ہے.ماسوا اس کے اگر یہ عاجز بزعم مولوی محمد حسین صاحب کافر ہے.تو خیر وہ یہ خیال کرلیں کہ میری طرف سے جو ظاہر ہوگا وہ استدراج ہے.پس اس صورت میں بمقابل اس استدرا ج کے اُن کی طرف سے کوئی کرامت ظاہرہونی چاہیئے اور ظاہر ہے کہ کرامت ہمیشہ استدراج پر غالب آتی ہے.آخر مقبولوں کو ہی آسمانی مدد ملتی ہے.اگر میں بقول اُن کے مردود ہوں اوروہ مقبول ہیں تو پھر ایک مردود کے مقابل پر اتنا کیوں ڈرتے ہیں......اگر میں بقول ان کے کافر ہونے کی حالت میں کچھ دکھاؤں گا تو وہ بوجہ اولیٰ دکھلا سکتے ہیں مقبول جوہوئے.کہ مقبول رارد نباشد سخن ومن عادیٰ لی ولیًّا فقد اٰذنتہ للحرب.ابن صیّاد نے اگر کچھ دکھایا تھا تو کیا اس کے مقابل پر معجزات نبوی ظاہرنہیں ہوئے تھے اور کیا دجّال کے ساحرانہ کاموں کے مقابل پر عیسیٰ کے نشان مروی نہیں.ففرّوا این تفرّون!

Page 638

سیّد ا حمد خان صاحب کے.سی.ایس.آئی کا الہام کی نسبت خیال اور ہماری طرف سے جیساکہ واقعی امر ہے اُس کا بیان 3333 ۱؂ الجزو۵.آیت موصوفہ بالا کا ترجمہ یہ ہے کہ اے مسلمانو! اگر کسی بات میں تم میں باہم نزاع واقعہ ہو تو اس امر کو فیصلہ کے لئے اللہ اور رسول کے حوالہ کرواگر تم اللہ اور آخری دن پر ایمان لاتے ہو تو یہی کرو کہ یہی بہتر اور احسن تاویل ہے.اب جاننا چاہیئے کہ سیّد صاحب نے الہام کے بارہ میں اپنے پر چہ علی گڑھ گزٹ میں قرآن اور حدیث کے برخلاف رائے ظاہر کی ہے چنانچہ ان کی تحریر کا خلاصہ ذیل میں لکھاجاتا ہے اور وہ یہ ہے.جو بات یکایک دل میں آجاوے گو کسی امر سے متعلق ہو وہ الہام ہے.بشرطیکہ کوئی تعلیم یا تعریف یا بیان اس طرف کو لے جانے والا نہ ہو.اس قسم کے الہامات کوئی عجیب شے نہیں ہیں بلکہ اکثروں کو ہوتے ہیں.منطقی کو منطق میں.فلسفی کو فلسفہ میں.طبیب کو علم طب اور تشخیص امراض میں.اہل حرفہ کو اپنے حرفہ میں وغیرہ ذالک.یہاں تک کہ وہ اسلام اور غیر اسلام پر بھی منحصر نہیں.بلکہ اس قسم کے الہامات ایک امر طبیعی انسان کا ہے جس میں اسلام کی ضرورت نہیں.ہاں ایسی خلقت کی ضرورت ہے کہ الہام ہونے کی قابلیت رکھتی ہو.الہام سے شاید بعض حالتوں میں اس شخص کو جس کو الہام ہو ا ہو کوئی طمانیت قلبی حاصل ہوتی ہو مگر اس سے کوئی ایسا نتیجہ جو دوسروں کو فائدہ پہنچانے والا یقین دلانے والا تسکین بخشنے والا یا اُس واقعہ کی واقعیت اوراصلیت کو ثابت کرنے والا ہو پیدا نہیں ہوسکتا.سلسلہ الہامات کا زیادہ تر عرفانیات سے علاقہ رکھتا ہے جو محض تخیلات ہیں

Page 639

اور کوئی ثبوت اُن کے محقّقہ اور واقعیہ ہونے کا نہیں.صوفیاء کرام کے تمام الہامات بجُز تخیلات نفسی کے زیادہ رتبہ نہیں رکھتے اور محض ہیچ پوچ اور بیکار ہیں.نہ اُن سے خلق اللہ کو کچھ نفع ہے اور نہ ضرر.دین اسلام تو بموجب الیوم اکملت لکم دینکم کامل ہوچکا اب الہام اس میں کوئی نئی بات پیدا نہیں کر سکتا.جو لوگ کسی ملہم کو خدا رسیدہ سمجھتے ہیں وہ اِس بات کا بھی تصفیہ نہیں کر سکتے کہ درحقیقت اس کا دعویٰ الہام صحیح ہے یا دماغ میں خدانخواستہ کچھ خلل ہے.اور ملہم جو اپنے تئیں بوجہ الہام مطمئن سمجھتا ہے یہ اطمینان اُس کے بھی اعتماد کے لائق نہیں کیامعلوم کہ وہ درحقیقت مطمئن ہے یا یونہی خیال باطل میں مبتلا ہے.اس سے زیادہ ملہموں اوراُن لوگوں میں جو صوفی اور اہل اللہ کہلاتے ہیں اور کچھ نہیں کہ وہ اپنے ہی امور خیالیہ پرجو بے اصل محض ہیں جم جاتے ہیں اور اُن کو صحیح خیال کرنے لگتے ہیں اور ان کی ترقیات سلوک صرف اوہام کی ترقی ہے.الہام اور ملہم کی طرف نہ دین کے لئے اورنہ معاد کے لئے اور نہ تقرب الی اللہ کے لئے اور نہ تمیز حق اور باطل کے لئے ہمیں کچھ حاجت ہے گولوگ کسی ملہم کے گرد ایسے جمع ہوجائیں جیسے بُت پرست کسی بُت کے گرد.خلاصہ مطلب یہ کہ الہام بالکل بے سُود ہے اوراس کی صحت پرکوئی حجت نہیں.فافہم ھذا ما الھمنی ربی.تم کلامہ.یہ عاجز سیّد صاحب کے وساوس کے دور کرنے کے لئے سب سے اوّل اس بات کو ظاہر کرنا مناسب سمجھتا ہے کہ جو کچھ سید صاحب نے الہام کے بارے میں سمجھا ہے یعنی یہ کہ وہ صرف امور خیالیہ ہیں کہ فقط ملہمین کا دل ہی انکا مُوجد ہوتا ہے.یہ سید صاحب کی رائے اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ اب تک اس تعلیم سے بے خبر ہیں کہ جوالہام یعنی وحی کے بارے میں اللہ جلَّ شَانُہٗ اور اس کے رسول نے فرمائی ہے.سو واضح ہو کہ قرآن کریم میں اس کیفیت کے بیان کرنے کے لئے جو مکالمہ الٰہی سے تعبیر کی جاتی ہے الہام کا لفظ اختیار نہیں کیا گیامحض لغوی طور پر ایک جگہ الہام کا لفظ آیا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے 3 ۱؂.سو اس کو مانحن فیہ سے کچھ تعلق نہیں.ا س کے

Page 640

توصرف اسی قدرمعنے ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے بوجہ علت العلل ہونے کے بدوں کو اُن کے مناسب حال اور نیکوں کو اُن کے مناسب حال اُن کے جذبات نفسانی یا متقیانہ جوشوں کے موافق اپنے قانو ن قدرت کے حکم سے خیالات و تدابیر وحیل مطلوبہ کے ساتھ تائید دیتا ہے یعنی نئے نئے خیالات و حیل مطلوبہ اُن کو سوجھا دیتا ہے یا یہ کہ اُن کے جوشوں اور جذبوں کو بڑھاتا ہے اور یا یہ کہ اُن کے تخم مخفی کو ظہور میں لاتا ہے.مثلًا ایک چور اس خیال میں لگا رہتا ہے کہ کوئی عمد ہ طریقہ نقب زنی کا اس کو معلوم ہوجائے تو اُس کو سوجھایاجاتاہے.یا ایک متقی چاہتا ہے کہ وجہ حلال کی قوت کے لئے کوئی سبیل مجھے حاصل ہو تواس بارہ میں اس کو بھی کوئی طریق بتلایاجاتا ہے.سو عام طور پر اس کا نام الہام ہے جو کسی نیک بخت یا بدبخت سے خاص نہیں بلکہ تمام نوع انسان اور جمیع افراد بشر اس علۃ العلل سے مناسب حال اپنے اس الہام سے مستفیض ہورہے ہیں.لیکن اس سے بہت اوپر چڑھ کر ایک اور الہام بھی ہے جس کو خدائے تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں وحی کے لفظ سے یاد کیا ہے نہ الہام سے.اور اس کی تعریف یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی ایک تجلی خاص کا نام ہے جو بکثرت انہیں پرہوتی ہے جو خاص اورمقرب ہوں.اور اس کی علّت غائی یہ ہے کہ شبہات او ر شکوک سے نکالنے کے لئے یا ایک نئی یامخفی بات کے بتانے کے لئے یاخدا تعالیٰ کی مرضی اورعدم مرضی اور اس کے ارادہ پر مطلع کرنے کے لئے یاکسی محل خوف سے مامون اور مطمئن کرنے کے لئے یا کسی بشار ت کے دینے کے لئے منجانب اللہ پیرایہ مکالمہ و مخاطبہ اور ایک کلام لذیذ کے رنگ میں ظہور پذیر ہوتی ہے.اور حقیقت اس کی یہ ہے کہ وہ ایک غیبی القاء لفظوں کے ساتھ ہے جس کا ادراک غالبًا غیبتِ حس کی حالت میں سماع کے طور پر یاجریان علی اللسان کے طورپر یا رویت کے طورپرہوتاہے اوراپنے نفس اورامور خیالیہ کو اس میں کچھ دخل نہیں ہوتا.بلکہ وہ محض الٰہی تحریک اور ربّانی نفخ سے ایک قدرتی آواز ہے جس کومورد وحی کی قوت حاسّہ دریافت کر لیتی ہے.

Page 641

جب انسان کی روح نفسانی آلائشوں سے پا ک ہوکر اوراسلام کی واقعی حقیقت سے کامل رنگ پکڑ کر خدائے تعالیٰ کی بے نیاز جناب میں رضا اور تسلیم کے ساتھ پوری پوری وفاداری کو لے کر اپناسر رکھ دیتی ہے اورایک سچی قربانی کے بعد جو فدائے نفس ومال و عزّت ودیگر لوازم محبوبۂ نفس سے مراد ہے محبت اور عشق مولیٰ کے لئے کھڑی ہوجاتی ہے اور تمام حُجبِ نفسانی جو اُس میں اور اُس کے رب میں دُور ی ڈال رہے تھے معدوم اورزائل ہوجاتے ہیں اور ایک انقلاب عظیم اورسخت تبدیلی اس انسان کی صفات اور اس کی اخلاقی حالت اور اس کی زندگی کے تمام جذبات میں پیدا ہو کر ایک نئی پیدائش اورنئی زندگی ظہور میں آجاتی ہے اوراس کی نظر شہود میں وجود غیر بکلّی معدوم ہو جاتا ہے.تب ایسا انسان اس لائق ہوجاتا ہے کہ مکالمہ الٰہی سے بکثرت مشرف ہو.اور مکالمہ الٰہی کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ محدود اورمشتبہ معرفت سے انسان ترقی کر کے اس درجہ شہود پر پہنچتا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ کو اس نے دیکھ لیاہے.سو یہ وہ مقام ہے جس پر تمام مقامات معرفت و خداشناسی کے ختم ہوجاتے ہیں اور یہی وہ آخری نقطہ کمالات بشریہ کا ہے جس سے بڑھ کر عرفان کے پیاسوں کے لئے اس دنیا میں ہرگز میسر نہیں آسکتا اورنبیوں اورمحدثوں کے لئے اس کے حصول کا اکثر طور پر قدرتی طریق یہ ہے کہ جب خدائے تعالیٰ چاہتا ہے کہ کسی پر اُن میں سے اپنا کلام نازل کرے تو روحانی طورپر بغیر توسط جسمانی اسباب کے اس پر ربودگی اوربیہوشی طاری کی جاتی ہے.تب وہ شخص اپنے وجود سے بکلّی گم ہوکربلا اختیار جناب الٰہی کی ایک خاص کشش سے گہرے غوطہ میں چلا جاتاہے اورہوش آنے کے وقت ساتھ اپنے ایک کلام لذیذ لے آتا ہے وہی وحی الہٰی ہے.یہ کلام جو خدا تعالیٰ کے پیاروں اور مقدسوں پر نازل ہوتا ہے یہ کوئی وہمی اور خیالی بات نہیں ہوتی.جس کو انسان کا نفس آپ ہی پیداکرسکے بلکہ یہ واقعی اورحقیقی طور پر اس ذات لایدرک کا کلام ہوتاہے جس کی ہستی کا انتہائی اوراعلیٰ درجہ کاثبوت عارفوں کی

Page 642

نِگاہ میں یہی کلام ہے اور اس بات کے ثبوت کے لئے کہ خدا تعالیٰ کی یہ عادت ہے کہ اپنا کلام اپنے بندوں پر نازل کرے.ایک مسلمان کے لئے قرآن کریم اوراحادیث نبویہ کافی ہیں خدائے تعالیٰ کا اپنے نبیوں سے ہمکلام ہونا اور اولیاء میں سے حضرت موسیٰ کی والدہ پر اپنا کلام نازل کرنا.حضرت خضر کو اپنے کلام سے مشرف کرنا.مریم صدیقہ سے اپنے فرشتہ کی معرفت ہمکلام ہونا وغیرہ وغیرہ.اس قدر قرآن کریم میں اس کا ثبوت ملتا ہے کہ حاجتِ بیان نہیں.اور صحیح بخاری میں صفحہ ۵۲۱ میں مناقب حضرت عمر رضی اللہ عنہ میں یہ حدیث لکھی ہے قد کان فی من قبلکم من بنی اِسرَائیل رجالٌ یکلّمون من غیر ان یکونوا انبیاء فان یک فی اُمَّتِی مِنْھُمْ احدٌ فعمر.یعنی تم سے پہلے بنی اسرائیل میں ایسے لوگ گذرے ہیں کہ خدائے تعالیٰ اُن سے ہمکلام ہوتا تھا بغیر اس کے کہ وہ نبی ہوں سو اگر ایسے لوگ اس اُمّت میں ہیں تو وہ عمر ہے.ایسا ہی جمیع مشاہیر اولیاء کرام اپنے ذاتی تجارب سے اس بات کی گواہی دیتے آئے ہیں کہ خدائے تعالیٰ کو اپنے اولیاء سے مکالمات ومخاطبات واقع ہوتے ہیں اور کلام لذیذ رب عزیز کی بوقتِ دعا اور دوسرے اوقات میں بھی اکثر وہ سنتے ہیں.دیکھنا چاہیئے کہ فتوح الغیب میں سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کس قدرجابجا اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ کلام الٰہی اس کے مقرب اولیاء پر ضرور نازل ہوتا ہے اور وہ کلام ہوتا ہے نہ فقط الہام اور حضرت مُجدّد الف ثانی صاحب اپنے مکتوبات کی جلد ثانی صفحہ ۹۹ میں ایک مکتوب بنام محمدؐ صدیق لکھتے ہیں.جس کی عبارت یہ ہے.اعلم ایّھا الصِّدیق انّ کلامہ سُبحانہ‘ مع البشر قد یکون شفاھا وذالک الافراد من الانبیاء وقد یکون ذالک لبعض الکمل من متابعیھم واذا کثر ھذا القسم من الکلام مع واحدٍ منہم سُمی مُحدثا وھذا غیر الالھام وغیرالالقاء فی الروع وغیرالکلام الذی مع الملک

Page 643

انّما یُخاطب بھذا الکلام الانسان الکامل واللّٰہ یختص برحمتہ من یشآء یعنی اے دوست تمہیں معلوم ہو کہ اللہ جلَّ شَانُہٗ کا بشر کے ساتھ کلام کرناکبھی روبرو اور ہمکلامی کے رنگ میں ہوتا ہے اور ایسے افراد جو خدائے تعالیٰ کے ہمکلام ہوتے ہیں وہ خواص انبیاء میں سے ہیں.اور کبھی یہ ہمکلامی کا مرتبہ بعض ایسے مکمل لوگوں کو ملتاہے کہ نبی تو نہیں مگر نبیوں کے متبع ہیں اور جو شخص کثرت سے شرف ہمکلامی کاپاتا ہے اس کو محدّث بولتے ہیں.اوریہ مکالمہ الہٰی از قسم الہام نہیں بلکہ غیر الہام ہے اور یہ القاء فی الروع بھی نہیں ہے اور نہ اس قسم کا کلام ہے جو فرشتہ کے ساتھ ہوتاہے.اس کلام سے وہ شخص مخاطب کیاجاتا ہے جو انسان کامل ہو اور خدا تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت کے ساتھ خاص کرلیتا ہے.ان عبارات سے معلوم ہواکہ درحقیقت الہام اور چیز ہے اورمکالمہ الٰہی اور چیز ہے.اور سیّد صاحب اپنی کتاب تبیین الکلام کے صفحہ ۷ میں اس بیان مذکورہ بالا کا صاف اقرار کرتے ہیں.ناظرین کو چاہیئے کہ صفحہ ۷ تبیین الکلام کاضرور پڑھیں تا معلوم ہوکہ سیّد صاحب آپ ہی پہلے ان تمام باتوں کا اقرار کرچکے ہیں اور اب بعد اقرار کسی مصلحت سے انکاری ہو بیٹھے ہیں.اور سیّد صاحب کا یہ فرمانا کہ الہام بے سُود ہے خود بے سود ہے.کیونکہ اگر وہ الہام بے سُود ہے جس کی سیّد صاحب نے تعریف اپنے مضمون میں کی ہے تو ہوا کرے.لیکن کلام الٰہی تو بے سُود نہیں اورنعوذ باللہ کیوں کر بے سُود ہو.وہی تو ایک ذریعہ کامل معرفت کا ہے جس کی وجہ سے انسان اس پُر غبار دنیا میں صرف خود تراشیدہ خیالات سے خدائے تعالیٰ کی ہستی کا قائل نہیں ہوتا بلکہ اُس حیّ وقیوم کے مُنہ سے انا الموجود کی آواز بھی سُن لیتا ہے اور صدہا فوق العادت پیشگوئیوں اوراسرار عالیہ کی وجہ سے جو اس کلام کے ذریعہ منکشف ہوتے ہیں.متکلّم پر ایمان لانے کے لئے حق الیقین کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے

Page 644

اور ایسے شخص کا جلیس بھی ان روحانی منافع وفوائد سے محروم نہیں رہتا بلکہ رفتہ رفتہ یہا ں تک اس کو قوت یقین مل جاتی ہے کہ گویا خدائے عزّ وجلّ کود یکھ لیتا ہے.اگر سید صاحب اس بات کا کسی اخبار میں اعلان دیں کہ ہمیں اس بات پر ایمان نہیں کہ یہ مرتبہ خدا تعالیٰ کی ہمکلامی کا انسان کو مل سکتا ہے اور ان تمام شہادتوں سے انکار ظاہرکریں کہ جو روحانی تجربہ کاروں رسولوں اور نبیوں اورولیوں نے پیش کی ہیں تو اس عاجز پرفرض ہوگا کہ اسی فوق العادت طریق سے جس کی بنیاد خدائے تعالیٰ کے پاک نبیوں نے ڈالی ہے.آزمائش کے لئے سیّد صاحب کو بذریعہ کسی اخبار کے کھلے کھلے طور پر دعوت کرے.اور اگر سیّد صاحب طالبِ حق ہوں گے تو اس رُوحانی دعوت کو بسروچشم قبول کرلیں گے.والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ.تَوَفّی کے لفظ کی نسبت اور نیز الدجّال کے بارے میں ہزار روپیہ کا اشتہار تمام مسلمانوں پر واضح ہو کہ کمال صفائی سے قرآن کریم اورحدیث رسول اللہ صلعم سے ثابت ہوگیا ہے کہ درحقیقت حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام برطبق آیت33 ۱؂ زمین پر ہی اپنی جسمانی زندگی کے دن بسرکر کے فوت ہوچکے ہیں اورقرآن کریم کی سو۱۶لہ آیتوں اوربہت سی حدیثوں بخاری اور مسلم اور دیگر صحاح سے ثابت ہے کہ فوت شدہ لوگ پھر آباد ہونے اور بسنے کے لئے دنیا میں بھیجے نہیں جاتے اورنہ حقیقی اورواقعی طور پر دو موتیں کسی پر واقع ہوتی ہیں اورنہ قرآن کریم میں واپس آنے والوں کے لئے کوئی قانون وراثت موجود ہے.بااینہمہ بعض علماء وقت کو اس بات پرسخت غلو ہے کہ مسیح ابن مریم فوت نہیں ہوا بلکہ زندہ ہی آسمان کی طرف اٹھایا گیا اور حیات جسمانی دنیوی کے ساتھ آسمان پر موجود ہے اورنہایت بے باکی اورشوخی کی راہ سے کہتے ہیں کہتَوَفِّی کالفظ جو قرآن کریم میں حضرت مسیح کی نسبت آیا ہے اس کے معنے وفات دینا نہیں ہے بلکہ

Page 645

پورا لینا ہے یعنی یہ کہ روح کے ساتھ جسم کو بھی لے لینا.مگر ایسے معنے کرنا اُن کا سراسر افتراء ہے قرآن کریم کا عمومًا التزام کے ساتھ اس لفظ کے بارہ میں یہ محاورہ ہے کہ وہ لفظ قبض روح اور وفات دینے کے معنوں پر ہریک جگہ اس کو استعمال کرتاہے.یہی محاورہ تمام حدیثوں اور جمیع اقوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں پایا جاتاہے.جب سے دنیا میں عرب کا جزیرہ آباد ہواہے اور زبان عربی جاری ہوئی ہے کسی قول قدیم یاجدید سے ثابت نہیں ہوتا کہتَوَفِّی کا لفظ کبھی قبض جسم کی نسبت استعمال کیاگیاہوبلکہ جہاں کہیں تَوَفّی کے لفظ کو خدائے تعالیٰ کا فعل ٹھہرا کر انسان کی نسبت استعمال کیا گیا ہے وہ صرف وفات دینے اور قبض روح کے معنی پر آیا ہے نہ قبض جسم کے معنوں میں.کوئی کتاب لغت کی اس کے مخالف نہیں.کوئی مثل اور قول اہل زبان کا اس کے مغائر نہیں غرض ایک ذرہ احتمال مخالف کے گنجائش نہیں.اگر کوئی شخص قرآن کریم سے یا کسی حدیث رسول اللہ صلعم سے یااشعار وقصائد و نظم ونثر قدیم وجدید عرب سے یہ ثبوت پیش کرے کہ کسی جگہ تَوَفِّی کا لفظ خدا تعالیٰ کا فعل ہونے کی حالت میں جو ذوی الروح کی نسبت استعمال کیا گیا ہو وہ بجُز قبض روح اور وفات دینے کے کسی اور معنی پر بھی اطلاق پاگیا ہے یعنی قبض جسم کے معنوں میں بھی مستعمل ہوا ہے تو میں اللہ جلَّ شَانُہٗ کی قسم کھا کر اقرار صحیح شرعی کرتاہوں کہ ایسے شخص کو اپنا کوئی حصہ ملکیت کا فروخت کر کے مبلغ ہزار روپیہ نقد دوں گا اور آئندہ اس کی کمالات حدیث دانی اور قرآن دانی کا اقرارکرلوں گا.ایسا ہی اگر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی یا کوئی ان کا ہم خیال یہ ثابت کردیوے کہ اَلدّجّال کا لفظ جو بخاری اور مسلم میں آیا ہے بجُز دجّال معہود کے کسی اور دجّال کے لئے بھی استعمال کیا گیاہے تو مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں ایسے شخص کو بھی جس طرح ممکن ہو ہزار روپیہ نقد بطور تاوان کے دوں گا.چاہیں تو مجھ سے رجسٹری کرالیں یا تمسک لکھا لیں.اس اشتہار کے مخاطب خاص طور پر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ہیں

Page 646

جنہوں نے غرور اور تکبر کی راہ سے یہ دعویٰ کیا ہے کہ تَوَفِّی کا لفظ جو قرآن کریم میں حضرت مسیح کی نسبت آیا ہے اس کے معنی پورا لینے کے ہیں یعنی جسم اور روح کو بہ ہیئت کذائی زندہ ہی اٹھا لینا اور وجود مرکب جسم اور روح میں سے کوئی حصہ متروک نہ چھوڑنا.بلکہ سب کو بحیثیت کذائی اپنے قبضہ میں زندہ اورصحیح سلامت لے لینا.سو اسی معنی سے انکارکر کے یہ شرطی اشتہار ہے.ایسا ہی محض نفسانیت اورعدم واقفیت کی راہ سے مولوی محمد حسین صاحب نے اَلدّجّال کے لفظ کی نسبت جو بخاری اورمسلم میں جا بجا دجّال معہود کا ایک نام ٹھہرایا گیا ہے یہ دعویٰ کردیاہے کہ اَلدّجّال دجّال معہود کاخاص طور پر نام نہیں بلکہ ان کتابوں میں یہ لفظ دوسرے دجّالوں کے لئے بھی مستعمل ہے اور اس دعوی کے وقت اپنی حدیث دانی کا بھی ایک لمبا چوڑا دعویٰ کیا ہے.سو اس وسیع معنی اَلدّجّال سے انکار کر کے اور یہ دعویٰ کر کے کہ یہ لفظ اَلدّجّال کا صرف دجّال معہود کے لئے آیا ہے او ربطور علم کے اس کے لئے مقرر ہوگیاہے.یہ شرطی اشتہار جاری کیا گیاہے.مولوی محمد حسین صاحب اوراُن کے ہم خیال علماء نے لفظتَوَفِّی اور اَلدّجّال کی نسبت اپنے دعویٰ متذکرہ بالا کو بپایہ ثبوت پہنچادیا تو و ہ ہزارروپیہ لینے کے مستحق ٹھہریں گے اورنیز عام طورپریہ عاجز یہ اقرار بھی چند اخباروں میں شائع کردے گا کہ درحقیقت مولوی محمد حسین صاحب اوراُن کے ہم خیال فاضل اور واقعی طور پر محدّث اور مفسر اور رموز اوردقائق قرآن کریم اور احادیث نبویہ کے سمجھنے والے ہیں.اگر ثابت نہ کرسکے تو پھر یہ ثابت ہوجائے گا کہ یہ لوگ دقائق وحقائق بلکہ سطحی معنوں قرآن اورحدیث کے سمجھنے سے بھی قاصراور سراسر غبی اور پلید ہیں اور در پردہ اللہ اور رسول کے دشمن ہیں کہ محض الحادکی راہ سے واقعی اور حقیقی معنوں کو ترک کرکے اپنے گھر کے ایک نئے معنے گھڑتے ہیں.ایسا ہی اگر کوئی یہ ثابت کر دکھاوے کہ قرآن کریم کی وہ آیتیں اور احادیث جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ کوئی مردہ دنیا میں واپس نہیں آئے گاقطعیۃ الدلالت نہیں اور نیز بجائے

Page 647

لفظ مو ت اوراماتت کے جو متعدّد المعنی ہے اور نیند اور بے ہوشی اور کفر اور ضلالت اور قریب الموت ہونے کے معنوں میں بھی آیا ہے.تَوَفِّی کا لفظ کہیں دکھاوے مثلًا یہ کہ توفاہ اللّٰہ ماءۃ عام ثم بعثہ.توایسے شخص کو بھی بلا توقف ہزار روپیہ نقددیاجاوے گا.* المشتہر خاکسار غلام احمد از لودھیانہ محلہ اقبال گنج فوت کے بعد زندہ کرنے کے متعلق جس قدر قرآن کریم میں آیتیں ہیں کوئی اُن میں سے حقیقی موت پر محمول نہیں ہے.اور حقیقی موت کے ماننے سے نہ صرف اس جگہ یہ لازم آتا ہے کہ وہ آیتیں قرآن کریم کی اُن سولہ آیتوں اور اُن تمام حدیثوں سے مخالف ٹھہرتی ہیں جن میں یہ لکھا ہے کہ کوئی شخص مرنے کے بعد پھر دنیامیں نہیں بھیجا جاتا.بلکہ علاوہ اس کے یہ فساد بھی لازم آتا ہے کہ جان کندن اور حساب قبر اور رفع الی السماء جو صرف ایک دفعہ ہونا چاہیئے تھا دو دفعہ ماننا پڑتا ہے.اور خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ کہ اب شخص فوت شدہ حساب قبر کے بعد قیامت میں اٹھے گا کذب صریح ٹھہرتا ہے.اور اگر ان آیتوں میں حقیقی موت مراد نہ لیں تو کوئی نقص لازم نہیں آتا کیونکہ خدا تعالیٰ کی قدرت سے یہ بعید نہیں کہ موت کے مشابہ ایک مدت تک کسی پر کوئی حالت بے ہوشی وارد کرکے پھر اس کو زندہ کردیوے مگر وہ حقیقی موت نہ ہو.اور سچ تو یہ ہے کہ جب تک خدا تعالےٰ کسی جاندار پر حقیقی موت وارد نہ کرے وہ مر نہیں سکتا.اگرچہ وہ ٹکڑے ٹکڑے کیا جاوے.

Page 648

اس آیت میں خدائے تعالیٰ نے ترتیب وار اپنے تئیں فاعل ٹھہراکر چار فعل اپنے یکے بعد دیگرے بیان کئے ہیں.جیساکہ وہ فرماتا ہے کہ اے عیسیٰ میں تجھے وفات دینے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور کفار کے الزاموں سے پاک کرنے والا ہوں اور تیرے متبعین کو قیامت تک تیرے منکروں پر غلبہ دینے والاہوں اور ظاہر ہے کہ یہ ہر چہار فقرے ترتیب طبعی سے بیان کئے گئے ہیں.کیونکہ اس میں شک نہیں کہ جو شخص خدائے تعالیٰ کی طرف بلایا جاوے اور ارجعی الٰی ربّک کی خبر اس کو پہنچ جائے پہلے اس کا وفات پاناضروری ہے.پھر بموجب آیت کریمہ 3۳؂ اور حدیث صحیح کے اس کا خدائے تعالیٰ کی طرف رفع ہوتاہے.اور وفات کے بعد مومن کی روح کا خدا تعالیٰ کی طرف رفع لازمی ہے جس پر قرآن کریم اور احادیث صحیحہ ناطق ہیں پھر بعدا س کے جو خدائے تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو فرمایا جو میں تجھے کفارکے الزاموں سے پاک کرنے والا ہوں.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہودچاہتے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کرکے اس الزام کے نیچے داخل کریں جو توریت باب استثناء میں لکھاہے جومصلوب لعنتی اور خدائے تعالیٰ کی رحمت سے بے نصیب ہے.جو عزت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف اٹھایانہیں جاتا.سو خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو اس آیت میں بشارت دی کہ تو اپنی موت طبعی سے فوت ہوگا اور پھر عزت کے ساتھ میری طرف اُٹھایاجائے گا اورجوتیرے مصلوب کرنے کے لئے تیرے دشمن کو شش کر رہے ہیں ان کوششوں میں وہ ناکام رہیں گے اور جن الزاموں کے قائم کرنے کے لئے وہ فکر میں ہیں اُن تمام الزاموں سے میں تجھے

Page 649

پاک اور منزّہ رکھوں گایعنی مصلوبیت اور اس کے بدنتائج سے جولعنتی ہونااورنبوت سے محروم ہونا اور رفع سے بے نصیب ہوناہے.اور اس جگہتَوَفِّی کے لفظ میں بھی مصلوبیت سے بچانے کے لئے ایک باریک اشارہ ہے.کیونکہتَوَفِّی کے معنے پر غالب یہی بات ہے کہ موت طبعی سے وفات دی جائے.یعنی ایسی موت سے جو محض بیماری کی وجہ سے ہو نہ کسی ضربہ سقطہ سے.اسی وجہ سے مفسرین صاحب کشاف وغیرہ انی متوفیک کی یہ تفسیر لکھتے ہیں کہ انی ممیتک حتف انفک.ہاں یہ اشارہ آیت کے تیسرے فقرہ میں کہ مطھرک من الذین کفروا ہے اور بھی زیادہ ہے.غرض فقرہ مطھرک من الذین کفروا جیسا کہ تیسرے مرتبہ پر بیان کیاگیاہے ایسا ہی ترتیب طبعی کے لحاظ سے بھی تیسری مرتبہ پر ہے.کیونکہ جبکہ حضرت عیسیٰ کا موت طبعی کے بعد نبیوں اورمقدسوں کے طورپرخدا تعالیٰ کی طرف رفع ہوگیا.تو بلاشبہ وہ کفار کے منصوبوں اور الزاموں سے بچائے گئے اورچوتھا فقرہ وجاعل الذین اتبعوک جیسا کہ ترتیبًا چوتھی جگہ قرآن کریم میں واقع ہے ایسا ہی طبعًا بھی چوتھی جگہ ہے.کیونکہ حضرت عیسیٰ کے متبعین کاغلبہ ان سب امورکے بعد ہوا ہے.سو یہ چار فقرے آیت موصوفہ بالا میں ترتیب طبعی سے واقعہ ہیں اوریہی قرآن کریم کی شان بلاغت سے مناسب حال ہے.کیونکہ امور قابل بیان کا ترتیب طبعی سے بیان کرنا کمال بلاغت میں داخل اور عین حکمت ہے.اسی وجہ سے ترتیب طبعی کا التزام تمام قرآن کریم میں پایا جاتا ہے.سورۂ فاتحہ میں ہی دیکھو کہ کیوں کر پہلے رب العالمین کا ذکر کیا.پھر رحمٰن پھر رحیم پھر مالک یوم الدین اور کیوں کر فیض کے سلسلہ کوترتیب وار عام فیض سے لے کر اخصّ فیض تک پہنچایا.غرض موافق عام طریق کامل البلاغت قرآن کریم کی آیت موصوفہ بالا میں ہر چہار فقرے ترتیب طبعی سے بیان کئے گئے ہیں لیکن حال کے متعصّب ملّا جن کو یہودیوں کی طرز پر ۱؂ کی عادت ہے اور جو مسیح ابن مریم کی حیات ثابت کرنے کے لئے

Page 650

بے طرح ہاتھ پیرماررہے ہیں اور کلام الٰہی کی تحریف وتبدیل پرکمر باندھ لی ہے وہ نہایت تکلف سے خدائے تعالیٰ کی ان چار ترتیب وار فقروں میں سے دو فقروں کی ترتیب طبعی سے منکر ہو بیٹھے ہیں یعنی کہتے ہیں کہ اگرچہ فقرہ مطھرک من الذین کفروا اور فقرہ وجاعل الذین اتبعوک بترتیب طبعی واقع ہیں.لیکن فقرہ انّی متوفیک اور فقرہ ورافعک الیّ ترتیب طبعی پر واقع نہیں ہیں بلکہ دراصل فقرہ انّی متوفیک مؤخر اور فقرہ رافعک الیّ مقدّم ہے.افسوس کہ ان لوگوں نے باوجود اس کے کہ کلام بلاغت نظام حضرت ذات احسن المتکلّمین جلَّ شَانُہٗ کو اپنی اصل وضع اورصورت اور ترتیب سے بدلا کر مسخ کردیا.اور چار فقروں میں سے دو فقروں کی ترتیب طبعی کو مسلّم رکھا اوردو فقروں کو دائرہ بلاغت وفصاحت سے خارج سمجھ کر اپنی طرف سے اُن کی اصلاح کی یعنی مقدم کو مؤخر کیا اور مؤخر کومقدم کیا.مگر باوجود اس قدر یہودیانہ تحریف کے پھر بھی کامیاب نہ ہوسکے.کیونکہ اگر فرض کیاجائے کہ فقرہ انی رافعک الیّ فقرہ انی متوفّیک پر مقدم سمجھناچاہیے تو پھر بھی اس سے محرفین کا مطلب نہیں نکلتا.کیونکہ اس صورت میں اس کے یہ معنی ہوں گے کہ اے عیسیٰ میں تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور وفات دینے والا ہوں اور یہ معنے سراسر غلط ہیں کیونکہ اس سے لازم آتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کی آسمان پر ہی وفات ہو وجہ یہ کہ جب رفع کے بعد وفات دینے کا ذکر ہے اور نزول کا درمیان کہیں ذکر نہیں.اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ آسمان پر ہی حضرت عیسیٰ وفات پائیں گے.ہاں اگر ایک تیسرا فقرہ اپنی طرف سے گھڑاجائے اور ان دونوں فقروں کے بیچ میں رکھاجائے اور یوں کہا جائے یاعیسٰی اِنّی رافِعُک ومُنزّلک ومُتوفّیک تو پھر معنے درست ہوجائیں گے.مگر ان تمام تحریفات کے بعد فقرات مذکورہ بالا خدائے تعالیٰ کا کلام نہیں رہیں گے.بلکہ بباعث دخل انسان اور صریح تغییر وتبدیل وتحریف کے اسی محرف کا کلام متصوّرہوں گے.جس نے بے حیائی اورشوخی کی راہ سے ایسی تحریف کی ہے.اور کچھ شبہ نہیں کہ ایسی کارروائی سراسر

Page 651

الحاد اور صریح بے ایمانی میں داخل ہوگی.اگر یہ کہا جائے کہ ہم یہ تحریفات وتبدیلات بلاضرورت نہیں کرتے بلکہ آیات قرآنی کو بعض احادیث سے مطابق وموافق کرنے کے لئے بوجہ اشد ضرورت اس حرکت بے جا کے مرتکب ہوتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو آیت اور حدیث میں باہم تعارض واقع ہونے کی حالت میں اصول مفسرین ومحدثین یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو حدیث کے معنوں میں تاویل کر کے اس کو قرآن کریم کے مطابق کیاجائے.جیسا کہ صحیح بخاری کی کتاب الجنائز صفحہ ۱۷۲ میں صاف لکھاہے کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے حدیث ان المیت یعذب ببعض بکاء اھلہ کو قرآن کریم کی اس آیت سے کہ3 ۱؂ معارض ومخالف پاکر حدیث کی یہ تاویل کردی کہ یہ مومنوں کے متعلق نہیں.بلکہ کفار کے متعلق ہے جو متعلقین کے جزع فزع پر راضی تھے بلکہ وصیت کرجاتے تھے پھر بخاری کے صفحہ ۱۸۳ میںیہ حدیث جو لکھی ہے قال ھل وجدتم ماوعدکم ربکم حقّا.اس حدیث کو حضرت عائشہ صدیقہ نے اس کے سیدھے اور حقیقی معنی کے رو سے قبول نہیں کیا اس عذر سے کہ یہ قرآن کے معارض ہے.اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے 33 ۲؂ اور ابن عمر کی حدیث کو صرف اسی وجہ سے رد کردیاہے کہ ایسے معنے معارض قرآن ہیں.دیکھو بخاری صفحہ ۱۸۳.ایسا ہی محققوں نے بخاری کی اس حدیث کو جو صفحہ ۶۵۲ میں لکھی ہے یعنی یہ کہ مامن مولود یولد الا والشیطٰن یمسّہ حین یولد الا مریم وابنھا.قرآن کریم کی ان آیات سے مخالف پاکر کہ 3۳؂ 33 ۴؂.3 ۵؂ اس حدیث کی یہ تاویل کردی.کہ ابن مریم اور مریم سے تمام ایسے اشخاص مراد ہیں جو ان دونوں کی صفت پرہوں جیساکہ شارح بخاری نے اس حدیث کی شرح میں لکھاہے.قد طعن الزمخشری فی معنی ھذا الحدیث و توقف فی صحتہ و قال ان صح

Page 652

فمعناہ کل من کان فی صفتھا لقولہ تعالٰی الا عبادک منھم المخلصین یعنی علّامہ زمخشری نے بخاری کی اس حدیث میں طعن کیاہے اور اس کی صحت میں اس کو شک ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث معارض قرآن ہے اور فقط اس صورت میں صحیح متصور ہوسکتی ہے کہ اس کے یہ معنے کئے جاویں کہ مریم اور ا بن مریم سے مراد تمام ایسے لوگ ہیں جو اُن کی صفت پرہوں.ماسوا اس کے حسب آیت3۱؂ اور بحسب آیت کریمہ 333 ۲؂ ہریک حدیث جو صریح آیت کے معارض پڑے ردکرنے کے لائق ہے.اور آخری نصیحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تھی کہ تم نے تمسک بکتاب اللہ کرنا.جیساکہ بخاری کے صفحہ ۷۵۱ میں یہ حدیث درج ہے کہ اوصٰی بکتاب اللّٰہ.اسی وصیت پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انتقال کر گئے.پھر اسی بخاری کے صفحہ ۱۰۸۰ میں یہ حدیث ہے و ھذا الکتٰب الذی ھدی اللّٰہ بہٖ رسولکم فخذوا بہٖ تھتدوا یعنی اسی قرآن سے تمہارے رسول نے ہدایت پائی ہے سو تم بھی اسی کو اپنا رہنما پکڑو تا تم ہدایت پاؤ.پھر بخاری کے صفحہ ۲۵۰ میں یہ حدیث ہے ما عندنا شی ء الا کتاب اللّٰہ یعنی کتاب اللہ کے سوا ہمارے پاس اور کوئی چیز نہیں جس سے بالاستقلال تمسک پکڑیں.پھر بخاری کے صفحہ ۱۸۳ میں یہ حدیث ہے حسبکم القراٰن یعنی تمہیں قرآن کافی ہے.پھر بخاری میں یہ بھی حدیث ہے حسبنا کتٰب اللّٰہ ما کان من شرط لیس فی کتٰب اللّٰہ فھو باطل قضاء اللّٰہ احق دیکھو صفحہ ۲۹۰،۳۷۷،۳۴۸.اور یہی اصول محکم ائمہ کبار کا ہے.چنانچہ تلویح میں لکھاہے انما یرد خبر الواحد من معارضۃ الکتٰب.پس جس صورت میں خبرواحد جس میں احادیث بخاری ومسلم بھی داخل ہیں بحالت معارضہ کتاب اللہ رد کرنے کے لائق ہے.تو پھر کیا یہ ایمانداری ہے کہ اگر کسی آیت کا کسی حدیث سے تعار ض معلوم ہو تو آیت کے زیر وزبر کرنے کی فکر میں ہوجائیں اور حدیث کی تاویل کی طرف رُخ بھی نہ کریں.

Page 653

ابھی میں بیان کر چکا ہوں کہ صحابہ کرام اور سلف صالح کی یہی عادت تھی کہ جب کہیں آیت اورحدیث میں تعارض وتخالف پاتے تو حدیث کی تاویل کی طرف مشغول ہوتے.مگر اب یہ ایسا زمانہ آیا ہے کہ قرآن کریم سے حدیثیں زیادہ پیاری ہوگئی ہیں اورحدیثوں کے الفاظ قرآن کریم کے الفاظ کی نسبت زیادہ محفوظ سمجھے گئے ہیں.ادنیٰ ادنیٰ بات میں جب کسی حدیث کا قرآن کریم سے تعارض دیکھتے ہیں تو حدیث کی طرف ذرہ شک نہیں گذرتا یہودیوں کی طرح قرآن کریم کا بدلانا شروع کردیتے ہیں اورکلمات اللہ کو اُن کے اصل مواضع سے پھیرکر کہیں کا کہیں لگادیتے ہیں اور بعض فقرے اپنی طرف سے بھی ملادیتے ہیں اور اپنے تئیں33 ۱؂ کا مصداق بنا کر اس لعنت اللہ سے حصہ لے لیتے ہیں جو پہلے اس سے یہودیوں پر انہیں کاموں کی وجہ سے وارد ونازل ہوئی تھی.بعض تحریف کی یہ صورت اختیار کرتے ہیں کہ فقرہ متوفیک کو مقدّم ہی رکھتے ہیں مگر بعد اس کے انی محییک کا فقرہ اپنی طرف سے ملا لیتے ہیں.ذرہ خیال نہیں کرتے کہ خدا تعالیٰ نے تحریف کرنے والوں پر لعنت بھیجی ہے اور بخاری نے اپنی صحیح کے آخر میں لکھا ہے کہ اہل کتاب کی تحریف یہی تھی کہ وہ پڑھنے میں کتاب اللہ کے کلمات کو اُن کے مواضع سے پھیرتے تھے (اور حق بات یہ ہے کہ وہ دونوں قسم کی تحریف تحریری وتقریری کرتے تھے ) مسلمانوں نے ایک قسم میں جو تقریری تحریف ہے اُن سے مشابہت پیدا کرلی.اور اگر وعدہ صادقہ 33 ۲؂ تصرّف تحریری سے مانع نہ ہوتا تو کیاتعجب کہ یہ لوگ رفتہ رفتہ تحریر میں بھی ایسی تحریفیں شروع کردیتے کہ فقرہ رافعک کو مقدّم اور انی متوفیک کو مؤخر لکھ دیتے.اور اگر ان سے پوچھاجائے کہ تم پر ایسی مصیبت کیا آپڑی ہے کہ تم کتاب اللہ کے زیر وزبر اورمحرف کرنے کی فکر میں لگ گئے تو اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ تا کسی طرح قرآن کریم ان حدیثوں کے مطابق ہوجائے جن سے بظاہر معارض ومخالف معلوم ہوتاہے.ان بے چاروں کو اس بات کی طرف خیا ل نہیں آتا

Page 654

کہ اگر درحقیقت کوئی حدیث قرآن کریم سے معارض ومخالف ہے تو حدیث قابل تاویل ہے نہ کہ قرآن.کیونکہ قرآن کریم کے الفاظ جواہرا ت مرصع کی طرح اپنے اپنے محل پر چسپاں ہیں اورنیز قرآن کریم کا ہر یک لفظ اورہر یک نقطہ تصرّف اوردخل انسان سے محفوظ ہے برخلاف حدیثوں کے کہ وہ محفوظ الالفاظ بکلی نہیں اور ان کے الفاظ کی یادداشت اور محل پر رکھنے میں وہ اہتمام نہیں ہواجو قرآن کریم میں ہوا.اسی وجہ سے ان میں تعارض بھی موجو د ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مقامات متعارضہ میں راویوں کے حافظہ نے وفا نہیں کی.اس جگہ ہم چند مقامات متعارضہ صحیح بخاری کے جو بعد کتاب اللہ اصح الکتب خیال کی گئی ہے اوردرحقیقت اصح ہے لکھتے ہیں.ازانجملہ وہی حدیث صفحہ ۶۵۲ بخاری ہے جس میں یہ لکھاہے کہ مس شیطان سے محفوظ صرف ابن مریم اور اس کی والدہ ہے لیکن حدیث صفحہ ۷۷۶ بخاری میں اس کے برخلاف درج ہے جس میں لکھا ہے کہ جو شخص صحبت کے وقت بِسْمِ اللّٰہ اللّٰھم الخ پڑھے اس کی اولاد مس شیطان سے محفوظ رہتی ہے.ایسا ہی بخاری کے صفحہ ۴۶۴ اور صفحہ ۲۶ کی حدیثیں بھی اس کے معارض پڑی ہیں.اور ایسا ہی بخاری کی وہ حدیث بھی جو صفحہ ۴۷۷ میں درج ہے جس میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کے ایام بناء میں کس قدر فاصلہ ہے تو آپ نے فرمایا کہ چا۴۰لیس برس کا.حالانکہ روایت صحیح سے ثابت ہے کہ بانئ کعبہ ابراہیم علیہ السلام اور بان ئ بیت المقدس حضرت سلیمان ہے اور ان دونوں کے زمانہ میں ہزار برس سے بھی زیادہ فاصلہ ہے.اسی وجہ سے ابن جوزی نے بھی اس حدیث پر لکھا کہ فیہ اشکال لان ابراھیم بنی الکعبۃ وسلیمان بنی بیت المقدس وبینھما اکثر من الف سنۃ.دیکھو صفحہ ۴۷۷ بخاری ایسا ہی معراج کی حدیثوں میں سخت تعارض واقعہ ہے.کتاب الصلوٰۃ صفحہ ۵۰ میں جو حدیث ہے اس میں یہ الفاظ ہیں کہ میں مکہ میں تھا کہ چھت کو کھول کر حضرت جبرئیل میرے پاس آئے اور میرے سینہ کو کھولااورآب زمزم سے اس کو دھویا.پھر ایک سونے کا طشت

Page 655

لایاگیاجس میں حکمت اورایمان بھراہوا تھا سو وہ میرے سینہ میں ڈالاگیاپھر جبرائیل میرا ہاتھ پکڑکر آسمان کی طرف لے گیا.مگر اس میں یہ نہیں لکھا کہ وہ طشت طلائی جو عین بیداری میں ملا تھا کیا ہوا اور کس کے حوالہ کیاگیا.بہرحال آسمان پر پہنچے اور ابراہیم کوچھٹے آسمان پر دیکھا اور سب سے اوّل آدم کو دیکھا.پھر ادریس کو دیکھا.پھر موسیٰ کو اور پھر ان سب کے بعد عیسیٰ کودیکھا.بعد اس کے ابراہیم کو دیکھا اورسب کے بعد بہشت کا مشاہدہ کیا اور پھر واپس آئے.اورکتاب بدء الخلق صفحہ ۴۵۵ بخاری میں یہ حدیث ہے کہ میں بیت اللہ کے پاس خواب اور بیداری کے درمیان تھا کہ تین فرشتے آدمیوں کی صورت پر آئے اور ایک جانور بھی حاضر کیا گیا جس کا قد خچر سے کچھ کم مگر گدھے سے کچھ زیادہ تھا.پھر میں آسمان پر گیااور دوسرے آسمان پر یحییٰ اور عیسیٰ کو دیکھا.پھر تیسرے میں یوسف کو دیکھا اورچوتھے میں ادریس کو دیکھا اور پانچویں آسمان میں ہارون کی ملاقات ہوئی اورچھٹے آسمان میں موسیٰ کوملا.اورجب میں موسیٰ کے مقام سے آگے نکل گیا تو وہ رویا.پھر جب میں ساتویں آسمان میں گیا تو ابراہیم کو وہاں دیکھا.اور پھر اسی کتاب کے صفحہ ۴۷۱ بخاری میں یہ حدیث ہے کہ معراج کی رات ابراہیم کو میں نے چھٹے آسمان میں دیکھا اور اس حدیث میں براق کا کوئی ذکر نہیں.صرف اتنا لکھا ہے کہ جبرائیل نے میرا ہاتھ پکڑا اور آسمان پر لے گیا اور اس حدیث میں یہ بھی لکھاہے کہ پہلے آدم کو دیکھا اورپھر ادریس کو پھر موسیٰ کو پھر عیسیٰ کو پھر ابراہیم کو.پھر بخاری کی کتاب المناقب صفحہ ۵۴۸ میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مَیں حطیم میں تھایا حجرہ میں لیٹا ہوا تھا کہ ایک آنے والا آیا اور اس نے میرا دل نکالا.اسی اثناء میں ایک سونے کا طشت لایاگیاجس میں ایمان بھراہوا تھا.اس کے ساتھ میرا دل دھویاگیااورپھر میں براق پرسوارہوکر آسمان پرگیا اور دوسرے آسمان پر یحییٰ اور عیسیٰ کو دیکھا اور تیسرے آسمان پر یوسف کو پایااور چوتھے آسمان پر ادریس کو دیکھا اور پانچویں آسمان پر ہارون کو اورچھٹے پر

Page 656

موسیٰ کو اور ساتو یں پر ابرہیم کو دیکھا.پھر بخاری کی کتاب التوحید والرد علی الجہمیہ میں صفحہ ۱۱۲۰ میں لکھا ہے کہ مسجد کعبہ میں تین شخص پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ہنوز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منصب نبوت پر مامور نہیں ہوئے تھے یعنی وحی نازل ہونے اورمبعوث ہونے سے پہلے کا زمانہ تھا اور آنحضرت صلعم مسجد حرا م میں سوئے ہوئے تھے جو معراج ہوا.لیکن اسی حدیث میں لکھا ہے کہ آنحضرت مبعوث ہوچکے تھے جب یہ معراج ہوا.پھر بغیر براق کے آسمان پر گئے اورادریس کو دوسرے آسمان میں دیکھا اورہارون کوچوتھے میں اور ابراہیم کو چھٹے آسمان میں.اور موسیٰ کو ساتویں میں.اور جب موسیٰ سے آگے ہوگذرے اور ساتویں آسمان سے عبور کرنے لگے تو موسیٰ نے کہا اے میرے رب مجھے یہ گمان نہیں تھاکہ مجھ سے بھی زیادہ کسی کا رفع ہوگا.عربی عبارت یہ ہے فقال موسٰی ربّ لم اظن ان یرفع عَلَیَّ اَحد ( یہ وہی رفع ہے جس کی طرف آیت ورافعک الیّ میں اشارہ ہے) پھر اس حدیث کے آخر میں لکھا ہے کہ اس قدر واقعہ دیکھ کر پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی اور جاگ اُٹھے.اوران پانچوں حدیثوں میں بالالتزام لکھا ہے کہ معراج کے وقت پہلے پچاس نمازیں مقرر ہوئیں اورپھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پچاس سے تخفیف کرا کر پانچ منظورکرائیں.اب دیکھنا چاہئے کہ ان پانچ حدیثوں میں کس قدراختلاف ہے.کسی حدیث میں براق کا ذکر ہے اور کسی میںیہ ہے کہ جبرائیل ہاتھ پکڑ کر لے گیا اور کسی میں بیداری اور کسی میں خواب لکھی ہے اور کسی میں لکھاہے کہ میں حجرہ میں لیٹا ہوا تھااور کسی میں لکھاہے کہ میں مسجد کعبہ میں تھا.اور کسی میں لکھاہے کہ صرف جبرائیل آیا تھا اور کسی میں لکھا ہے کہ تین آدمی آئے تھے.اور کسی میں لکھا ہے کہ آدم کے بعد عیسیٰ اور یحییٰ کو دیکھا اور کسی میں لکھا ہے کہ آدم کے بعدادریس کو دیکھا اور کسی میں لکھا ہے کہ عیسیٰ کو دوسرے آسمان میں دیکھا اور موسیٰ کو چھٹے آسمان میں.اور کسی میں لکھا ہے کہ پہلے موسیٰ کو دیکھاپھر عیسیٰ کو.اور کسی میں یہ لکھاہے کہ ابراہیم کو

Page 657

ساتویں آسمان میں دیکھا.اور کسی میں لکھا ہے کہ موسیٰ کو ساتویں آسمان میں دیکھا اورابراہیم کو چھٹے میں.غرض اس قدر اختلاف ہیں کہ جن کے مفصل لکھنے کے لئے بہت سے اوراق چاہئیں.اب کیوں کر ممکن ہے کہ اگر ہرایک راوی ان تمام الفاظ کو بہ صحت تمام یاد رکھتاجو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مُنہ سے نکلے تھے تو اس قدر اختلاف اور تعارض اُن کے بیانات میں پایاجاتا.بلاشبہ بعض راوی بوجہ کمزوری حافظہ بعض الفاظ کو بھول گئے یا محل بے محل کا فرق یاد نہ رہا.اسی وجہ سے یہ صریح اختلافات پیداہوگئے.پس جبکہ احادیث کے ضبط الفاظ کایہ نمونہ ہے جو اس کتاب سے ملتاہے جو بعد کتاب اللہ اصح الکتب ہے تو اس صورت میں اگر کوئی حدیث صریح کتاب اللہ کے معارض ہویا ایسی باتوں کو بیان کرے جو اشارات النص کے مخالف ہوں تو کیوں کر ایسی حدیث کے وہ معنی مسلم رکھے جائیں جو قرآن کریم سے صریح تعارض رکھتے ہیں.جب کسی تعارض کے وقت حدیث کا بیان بمقابلہ بیان قرآن کریم کے چھوڑنا نفس پر شاق معلوم ہوتو حدیثوں کے باہمی تعارض پر نظر ڈال کرخود انصاف کرلینا چاہیئے کہ علاوہ اس کمال خاص قرآن کے کہ و ہ وحی متلو ہے محفوظیت کی رو سے بھی حدیثوں کوقرآن کریم سے کیا نسبت ہے.قرآن کریم کی جیسا کہ اس کی بلاغت وفصاحت وحقاق ومعارف کی رو سے کوئی چیز مثل نہیں ٹھہر سکتی.ایسا ہی اس کی صحت کاملہ اورمحفوظیت اورلاریب فیہ ہونے میں کوئی چیز اس کی مثیل نہیں.کیونکہ اس کے الفاظ و ترتیب الفاظ اورمحفوظیت تامہ کا اہتمام خدائے تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لیاہے.اور ماسوا اس کے حدیث ہویا قول کسی صحابی کا ہو ان سب کا اہتمام انسانوں نے کیا ہے جو سہو اور نسیان سے بری نہیں رہ سکتے.اور ہرگز وہ لوگ محفوظیت تامہ اورصحت کاملہ میں احادیث اوراقوال کو مثل قرآن نہیں بنا سکتے تھے.اور یہ عجزاُن کا اس آیت کریمہ کے اعجازات پیش کردہ میں داخل ہے.3333 ۱؂ جب ہر ایک بات

Page 658

میں مثل قرآن ممتنع ہے تو کیوں کر وہ لوگ احادیث کو صحت اورمحفوظیت میں مثل قرآن بنا سکتے ہیں.بعض نے احادیث معراج کا جو صحیح بخاری میں ہیں تعارض دُور کرنے کے لئے یہ جواب دیا ہے کہ حقیقت میں وہ صرف ایک ہی معراج نہیں بلکہ پانچ معراج ہوئے تھے.کوئی بیداری میں اور کوئی خواب میں اور کوئی بعد از زمانہ وحی اورکوئی قبل از زمانہ وحی.اورکوئی بیت اللہ میں اورکوئی اپنے گھر کے حجرہ میں.اسی وجہ سے انبیاء کی رویت میں بھی اختلاف پڑا.کبھی کسی کو کسی آسمان میں دیکھااور کبھی کسی آسمان میں.لیکن واضح ہو کہ تعارض دور کرنے کیلئے یہ جواب صحیح نہیں ہے.کیونکہ اگر پانچ معراج ہی تسلیم کئے جائیں تو پھر بھی وہ اختلاف جو انبیاء کی رویت کی نسبت پایاجاتا ہے کسی طرح دور نہیں ہوسکتا کیونکہ خود انہیں احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء کیلئے خاص خاص مقامات آسمانوں میں مقرر ہوگئے ہیں.اسی وجہ سے و ہ حدیث معراج جو امام بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب التوحید میں لکھی ہے جو بخاری مطبوعہ کے صفحہ ۱۱۲۰ میں موجود ہے بآواز بلند پکار رہی ہے کہ ہریک نبی آسمانوں پر اپنے اپنے مقام پر قرار یاب ہے جس سے بڑھ نہیں سکتا کیونکہ اس حدیث میں یہ فقرہ بھی درج ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے موسیٰ کو ساتویں آسمان میں دیکھا اور جب ساتویں آسمان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آگے جانے لگے تو موسیٰ نے کہا اے میرے رب مجھے یہ گمان نہ تھا کہ مجھ سے بھی زیادہ کسی کا رفع ہوگا.اب ظاہر ہے کہ اگرموسیٰ کے اختیار میں تھا کہ کبھی پانچویں آسمان پر آجائے اور کبھی چھٹے پر اور کبھی ساتویں پر تو یہ گریہ و بکا کیسا تھا جیسے پانچویں سے یا چھٹے سے ساتویں پر چلے گئے ایسا ہی آگے بھی جاسکتے تھے اور قرآن کریم سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی شخص عروج میں اپنے نفسی نقطہ سے آگے گذر نہیں سکتا.ماسوا اس کے پانچ معراجوں کے ماننے سے ایک اورمصیبت یہ پیش آتی ہے کہ قرآن کریم اور خدائے تعالیٰ کے احکام میں محض بے جا اور لغو طور پر منسوخیت ماننی پڑتی ہے اور اوامرنا قابل تبدیل اور مستمرہ کو فضول طورپر منسوخ مانناپڑتا ہے اور حکیم مطلق کو ایک لغو اور بے ضرورت تنسیخ کا مرتکب قرار دے کر پھر پشیمانی کے طورپر

Page 659

پہلے ہی حکم کی طرف عود کرنے والااعتقاد کرنا پڑتا ہے.کیونکہ اگر قصہ معراج پانچ مرتبہ واقع ہواہے تو پھر اس صورت میں یہ اعتقاد ہونا چاہیئے کہ پانچ ہی دفعہ اول نماز یں پچاس مقرّر کی گئیں اور پھر پانچ منظور کی گئیں.مثلًا پہلی دفعہ کے معراج کے وقت میں پچاس نماز یں فرض کی گئیں اور ان پچا۵۰س میں تخفیف کرانے کے لئے جیسا کہ بخاری کی یہ پنج حدیثیں ہی ظاہر کررہی ہیں کئی مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے موسیٰ اور اپنے رب میں آمدو رفت کی یہاں تک کہ پچا۵۰س نماز سے تخفیف کرا کر پانچ نمازیں منظورکرائیں اور خدائے تعالیٰ نے کہہ دیا کہ اب ہمیشہ کے لئے غیر مبدّل یہ حکم ہے کہ نمازیں پانچ مقرر ہوئیں اور قرآن بھی پانچ کے لئے نازل ہوگیا.اور حسب آیاتِ محکمہ قرآن کریم کے پانچ نمازوں پر عملدرآمد شروع ہوگیا.اور سب قصہ لوگوں کو بھی سُنا دیا گیا کہ اب ہمیشہ کے لئے پانچ نمازیں مقرر ہوگئیں.لیکن کچھ عرصہ کے بعد جو دوسرا معراج ہوا توتمام پہلا ساختہ پرداختہ اس میں کالعدم کیاگیااور وہی پُرانا جھگڑا از سرِ نو پیش آگیاکہ خدائے تعالیٰ نے پھر نمازیں پچاس مقرر کر دیں اور قرآن میں جو حکم وارد ہوچکا تھا اس کا بھی کچھ لحاظ نہ رکھا اور منسوخ کردیا.مگر پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی دفعہ کی طرح تخفیف کرانے کی غرض سے کئی دفعہ اپنے رب میں اور موسیٰ میں آمدورفت کرکے نمازیں پانچ مقرر کرائیں اور جناب الٰہی سے ہمیشہ کے لئے یہ منظور ی ہو گئی کہ نمازیں پانچ پڑھا کریں.اور قرآن میں یہ حکم غیر مبدل قرار پاگیا.لیکن پھر تیسری دفعہ کے معراج میں وہی مصیبت پیش آگئی اور نمازیں پچاس مقرر کی گئیں اور قرآن کریم کی غیر متبدل آیتیں منسوخ کی گئیں.پھر بمشکل تمام بدستور مذکورہ بالا پچاس سے پانچ کرائیں.مگر چوتھی دفعہ کے معراج میں پھر پچاس مقرر کی گئیں.پھر جیسا کہ بار بار لکھا گیا ہے نہایت التجا اور کئی دفعہ کی آمدورفت سے پانچ مقرر کرائیں اور خدائے تعالیٰ نے پختہ عہدکر لیا کہ اب پانچ رہیں گی.لیکن پھر پانچویں دفعہ کے معراج میں پھر پچاس مقرر کی گئیں.پھر بہت سی آمد ورفت کے بعد پانچ نمازیں

Page 660

منظور کرائیں.مگر منسوخ شدہ آیتوں کے بعد پھر کوئی نئی آیت نازل نہ ہوئی.اب کیا یہ سمجھ میں آسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے احکام اس قدرکچے اور بے ثبات اور تعارض سے بھرے ہوئے ہیں کہ اول پچاس نمازیں مقرر ہوکر پھر پختہ طور پر ہمیشہ کے لئے پانچ نمازیں مقررکی جائیں.پھرتخلف وعدہ کر کے پانچ کی پچاس بنائی جائیں.پھرکچھ رحم فرما کر ہمیشہ کے لئے پانچ کر دی جائیں.پھر بار بار وعدہ توڑ دیاجائے اور باربارقرآن کریم کی آیتیں منسوخ کی جائیں اور حسب منشاء آیت کریمہ 33 ۱؂ اورکوئی آیت ناسخہ نازل نہ ہو.درحقیقت ایسا خیال کرنا وحی الٰہی کے ساتھ ایک بازی ہے جن لوگوں نے ایساخیال کیا تھا ان کا یہ مدعاتھا کہ کسی طرح تعارض دورہو.لیکن ایسی تاویلوں سے ہرگز تعارض دُور نہیں ہو سکتا بلکہ اَور بھی اعتراضات کا ذخیرہ بڑھتاہے.اور کتاب التوحید کی حدیث جو بخاری کے صفحہ ۱۱۲۰ میں ہے جس میں قبل ان یوحٰی الیہ لکھا ہے یہ خود اپنے اندر تعارض رکھتی ہے.کیونکہ ایک طرف تو یہ لکھدیا کہ بعثت کے پہلے یہ معراج ہوا تھا اور پھر اُسی حدیث میں یہ بھی لکھا ہے کہ نمازیں پانچ مقرر کر کے پھر آخر کار ہمیشہ کیلئے پانچ مقرّر ہوئیں.اب ظاہر ہے کہ جس حالت میں یہ معراج نبوت سے پہلے تھا تو اس کو نمازوں کی فرضیت سے کیا تعلق تھا اور قبل از وحی جبرائیل کیوں کر نازل ہوگیا اور جو احکام رسالت سے متعلق تھے وہ قبل از رسالت کیوں کر صادر کئے گئے.غرض ان احادیث میں بہت سے تعارض ہیں.اگرچہ یہ نہیں کہاجاتا کہ یہ حدیثیں موضوع ہیں بلکہ قدر مشترک ان کا بشرطیکہ قرآن سے معارض نہ ہو قابل تسلیم اور واجب العمل ہے.ہاں یہ بھی ضروری ہے کہ نصوص بیّنہ قطعیہ قرآن کریم کو اُن پر مقدّم رکھا جائے.اور اگر ایک محدّث جس کو خدا تعالیٰ سے بذریعہ متواترتعلیمات ایک علم قطعی یقینی ملا ہے.قرآن سے اپنی وحی تحدیث کو موافق ومطابق پاکر ان احادیث کو جو اخبار وقصص سے متعلق ہیں اور تعامل کے سلسلہ سے باہرہیں مقدّم سمجھے اور ان ظنی امور کو اس یقین کے تابع کرے جو اس کو ایسے

Page 661

چشمۂ فیض سے حاصل ہوا ہے جس سے وحی نبوت ہے تو یہ اس کو حق پہنچتاہے کیونکہ ظن کو یقین کے تابع کرنا عین معرفت اور سراسر سیرتِ ایمان ہے.اوراگر یہ کہا جائے کہ بعض جگہ قرآن میں بھی تعارض پایاجاتا ہے جیسا کہ قرآن کریم کی سولہ آیتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص فوت ہوجائے پھر دنیا میں کبھی نہیں آسکتا اوردوموتیں کبھی کسی پر وارد نہیں ہو سکتیں.لیکن بعض جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ بنی اسرائیل کی فلاں قوم کو ہم نے مارا اور پھر زندہ کیا.اور ایک نبی عزیز یاکسی اَور کو سو برس تک مارا اورپھر زندہ کیا.اور ابراہیم کی معرفت چار جانور زندہ کئے گئے وغیرہ وغیرہ.تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم میں ہرگز تعارض نہیں پایاجاتا.بلکہ یہ شبہ صرف قلّت فہم اور جہالت سے پیدا ہوتا ہے.یہ سچ ہے کہ قرآن کریم کی سولہ آیتوں سے کھلے کھلے طورپر یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جو شخص فوت ہو*جائے وہ آیا ت جن میں لکھا ہے کہ فوت شدہ لوگ پھر دنیا میں نہیں آتے ازانجملہ یہ آیت ہے 33 ۱؂ الجزو نمبر ۱۷ سورۃ الانبیاء.حضرت ابن عباسؓ سے حدیث صحیح میں ہے کہ اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ جن لوگوں پر واقعی طور پر موت وارد ہو جاتی ہے اور درحقیقت فوت ہو جاتے ہیں پھر وہ زندہ کر کے دنیا میں بھیجے نہیں جاتے.یہی روایت تفسیر معالم میں بھی زیر تفسیر آیت موصوفہ بالا حضرت ابن عباسؓ سے منقول ہے.پھر دوسری آیت جو صریح منطوق قرآن کریم ظاہر کر رہا ہے یہ ہے 33333 3۲؂.الجزو نمبر ۱۸ سورۃ المؤمنون.یعنی جب کافروں میں سے ایک کو موت آتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ اے میرے رب مجھ کو پھر دنیا میں بھیج تاہو کہ میں نیک عمل کروں اور تدارک مافات مجھ سے ہو سکے.تو اس کو کہا جاتا ہے کہ یہ ہرگز نہیں ہو گا.یہ صرف اس کا قول ہے.یعنی خدا تعالےٰ کی طرف سے ابتداء سے کوئی بھی وعدہ نہیں کہ مردہ کو پھر دنیا میں بھیجے اور

Page 662

پھر ہرگز دنیا میں نہیں آتااورایسا ہی حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے لیکن یہ ہرگز سچ نہیں ہے کہ ان تمام مقامات میں جہاں مردہ زندہ ہونا لکھا ہے واقعی اور حقیقی موت کے بعد زندہ ہونا لکھا گیا ہے بلکہ لغت کی رو سے موت کے معنے نیند اور ہر قسم کی بے ہوشی بھی ہے.پس کیوں آیات کو خواہ نخواہ کسی تعارض میں ڈالاجائے اوراگرفرض کے طور پر چارجانور مرنے کے بعد زند ہ ہوگئے ہوں تو و ہ اعادہ روح میں داخل نہیں ہوگا کیونکہ بجُز انسان کے اور کسی حیوان اور کیڑے مکوڑے کی روح کو بقاء نہیں ہے.اگر زندہ ہوجائے تو وہ ایک نئی مخلوق ہوگی.چنانچہ بعض رسائل عجائب المخلوقات میں لکھا ہے کہ اگر بہت سے بچّھو کوٹ کر ایک ترکیب خاص سے کسی برتن میں بند کئے جائیں تو اِس خمیرسے جس قدر جانور پیدا ہوں گے وہ سب بچّھو ہی ہوں گے.تو اب کیا کوئی دانا پھر آگے فرمایا کہ جو لوگ مر چکے ہیں ان میں اور دنیا میں ایک پردہ ہے جس کی وجہ سے وہ قیامت تک دنیا کی طرف رجوع نہیں کر سکتے.پھر تیسری آیت جو اسی امر کو بوضاحت بیان کر رہی ہے یہ ہے 33 ۱؂.یعنی جس پر موت وارد ہو گئی خدا تعالےٰ دنیا میں آنے سے اسے روک دیتا ہے.پھر چوتھی آیت اسی مضمون کی یہ ہے 33333۲؂.یعنی دوزخی لوگ درخواست کریں گے جو ایک دفعہ ہم دنیا میں جائیں.تا ہم اپنے باطل معبودوں سے ایسے ہی بیزار ہو جائیں جیسے وہ ہم سے بیزار ہیں لیکن وہ دوزخ سے نہیں نکلیں گے.پھر پانچویں آیت اس مضمون کی یہ ہے 3۳؂.پھر چھٹی آیت یہ ہے 3 ۴؂ پھر ساتویں آیت یہ ہے 33 ۵؂.پھر آٹھویں آیت یہ ہے 3 3۶؂.پھر نویں آیت

Page 663

خیال کر سکتاہے کہ وہی بچھو دوبارہ زندہ ہو کر آگئے جو مر گئے تھے بلکہ مذہب صحیح جو قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے یہی ہے کہ مخلوقات ارضی میں سے بجُز جنّ اور انس کے اور کسی چیز کو ابدی روح نہیں دیاگیا.پھر اگر خلق اللہ کے طور پر کسی مادہ سے خدا تعالیٰ کوئی پرندہ پیداکر دے تو کیا بعید ہے مگر ایسی روح کااعادہ جو حقیقی موت کے طور پر قالب سے نکل گیا تھا وعدہ الٰہیہ کے برخلاف ہے تمام مقامات قرآن کریم میں جو احیاء موتی کے متعلق ہیں جن میں یہ مذکور ہے کہ فلاں قوم یا شخص کو مارنے کے بعد زندہ کیاگیا ان میں صرف اماتت کا لفظ ہے توفّیکا لفظ نہیں.اس میں یہی بھیدہے کہ توفی کے حقیقی معنے وفات دینے اوررو ح قبض کرنے کے ہیں.لیکن اماتتکے حقیقی معنے صرف مارنا اورموت دینا نہیں بلکہ سُلانااوربیہوش کرنا بھی اس میں داخل ہے.ہاں یہ بھی بالکل ممکن اور جائز ہے کہ خدا تعالےٰ پھر دسویں آیت یہ ہے 33 ۲؂.ایسا ہی وہ تمام آیتیں جن کے بعد خالدون یا خالدین آتا ہے اسی امر کو ظاہر کر رہی ہیں کہ کوئی انسان راحت یا رنج عالم معاد کے چکھ کر پھر دنیا میں ہرگز نہیں آتا.اگرچہ ہم نے ابتداء میں ایسی آیتیں سولہ قرآن کریم میں سے نکالی تھیں مگر دراصل ایسی آیتوں سے قرآن کریم بھرا پڑا ہے.نہ صرف قرآن کریم بلکہ بہت سی حدیثیں بھی یہی شہادت دے رہی ہیں.چنانچہ ہم بطور نمونہ مشکوٰۃ شریف سے حدیث جابر بن عبداللہ کی اس جگہ نقل کرتے ہیں اور وہ یہ ہے.و عن جابر قال لقینی رسول اللہ صلعم فقال یا جابر مالی اراک منکسرًا قلت استشھد ابی و ترک عیالًا و دَینا قال افلا ابشرک لما لقی اللہ بہٖ اباک قلت بلٰی یا رسول اللّٰہ قال ما کلم اللّٰہ احدًا قطّ الا من وراء حجاب و احیی اباک فکلمہ کفاحًا قال یا عبدی تمن علیّ اعطک قال تحیینی فاقتل فیک ثانیۃ قال الرب تبارک و تعالٰی

Page 664

کسی حیوان یا انسان یا پرندہ کو ایسی حالت میں بھی کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے کیاجائے حقیقی موت سے بچاوے اور اس کی روح کا اس کے پاش پاش شدہ جسم سے وہی تعلق قائم رکھے جو نیند کی حالت میں ہوتا ہے اورپھر اس کے جسم کو درست کردیوے اور اس کو نیند کی حالت سے جگا دیوے.کیونکہ وہ ہریک بات پر قادر ہے.اپنی صفات قدیمہ اور اپنے عہد اوروعدہ کے برخلاف کوئی بات نہیں کرتا اور سب کچھ کرتا ہے.فتدبر فی ھٰذا المقام و لا تکن من الغافلین.منہ انہ قد سبق منّی انھم لا یرجعون رواہ الترمذی یعنی جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم مجھ کو ملے اور فرمایا کہ اے جابر کیا سبب ہے کہ میں تجھ کو غمناک دیکھتا ہوں.میں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلعم میر ا باپ شہید ہو گیا اور میرے سر پر عیال اور قرض کا بوجھ چھوڑ گیا.آپ نے فرمایا کہ کیا میں تجھے اس بات کی خوشخبری دوں جس طور سے اللہ جلّشانہ‘ تیرے باپ کو ملا.میں نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ تو آپ نے فرمایا کہ اللہ جلشانہ‘ کسی کے ساتھ بغیر حجاب کے کلام نہیں کرتا مگر تیرے باپ کو اُس نے زندہ کیا اور بالمواجہ کلام کی اور کوئی درمیان حجاب نہ تھا.اور پھر اس نے تیرے باپ کو کہا کہ اے میرے بندے کچھ مجھ سے مانگ کہ مَیں تجھے دوں گا.تب تیرے باپ نے عرض کی کہ اے میرے رب مجھ کو زندہ کر کے پھر دنیا میں بھیج تا تیری راہ میں دوبارہ شہید کیا جاؤں.تب اللہ تبارک و تعالےٰ نے فرمایا کہ ایسا نہیں ہو گا کیونکہ میں (قرآن کریم میں) عہد کر چکا ہوں کہ جو لوگ فوت ہو جائیں پھر و ہ دنیا میں بھیجے نہیں جائیں گے (33 ۱؂ قرآن کریم کی آیت ہے)یہ وہ حدیث ہے جو ترمذی میں لکھی ہے اور اسی کے ہم مضمون ایک صحیح بخاری میں حدیث ہے مگر خوف طول سے چھوڑ دی گئی.اب ان تمام آیات اور احادیث سے ظاہر ہے کہ جس پر حقیقی موت وارد ہو جائے وہ ہرگز دوبارہ دنیا میں بھیجا نہیں جاتا.اگرچہ خدائے تعالےٰ ہر یک چیز پر قادر ہے مگر ایسا ہونا خدائے تعالےٰ کے وعدہ کے برخلاف ہے.اسی جگہ سے ثابت ہوتاہے کہ وہ تمام مقامات قرآن کریم جن میں مُردوں کے زندہ کرنے کا ذکر ہے ان سے حقیقی موت مراد نہیں ہے.یہ بات بالکل ممکن اور صحیح ہے کہ ایک حالت انسان پر بالکل موت کی طرح وارد ہو جائے مگر وہ حقیقی موت نہ ہو اور اگر ذرہ غور کر کے دیکھیں تو صاف ظاہر ہو گا کہ مسیح ابن مریم کی نسبت یہ عذر

Page 665

عالی ہمّت دوستوں کی خدمت میں گذارش چونکہ طبع کتاب ازالہ اوہام میں معمول سے زیادہ مصارف ہوگئے ہیں اور مالک مطبع اورکاتب کا حساب بے باق کرنے کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے لہٰذا بخدمت جمیع مخلص دوستوں کے التماس ہے کہ حتی الوسع اس کتاب کی خریداری سے بہت جلد مدد دیں.جو صاحب چند نسخے خرید سکتے ہیں وہ بجائے ایک کے اس قدر نسخے خریدلیں جس قدرانکو خریدنے کی خداد اد مقدرت حاصل ہے اور اس جگہ اخویم مکرم مولوی حکیم نور الدین صاحب معالج ریاست جموں کی نئی امداد جو انہوں نے کئی نوٹ اس وقت بھیجے قابل اظہار ہے خدا تعالیٰ ان کو جزائے خیر بخشے ایسا ہی اخویم مکرم حکیم فضل دین صاحب بھیروی نے علاوہ اس تین سو روپے کے جو پہلے بھیجا تھا اب ایک سو۱۰۰ روپیہ اَور بھیج دیا نہایت خوشی کی بات ہے کہ حکیم فضل دین صاحب اپنے مخدوم مولوی حکیم نورالدین صاحب کے رنگ میں ایسے رنگین ہوگئے ہیں کہ نہایت اولو العزمی سے ایثار کے طور پر اُن سے اعلیٰ درجہ کے اعمال صالحہ صادرہوتے ہیں.چنانچہ یہ سو3 روپیہ بعض زیورات کے فروخت سے محض ابتغاءً لمرضات اللّٰہ بھیجاہے.جزاہم اللہ خیرا لجزاء.پیش کرنا کہ اگر وہ فوت ہو گیا ہے تب بھی خدائے تعالےٰ قادر ہے کہ اس کو زندہ کر کے بھیج دیوے یہ عذر نہ فقط اس وجہ سے باطل ہے کہ فوت شدہ لوگ دنیا میں دوبارہ آیا نہیں کرتے بلکہ اس وجہ سے بھی باطل ہے کہ جس طور سے مسیح ابن مریم کا دنیا میں دوبارہ آنا دلوں میں بسا ہوا ہے ایسے عذر کو اس طور سے کچھ بھی تعلق نہیں.وجہ یہ کہ مسیح کے دوبارہ آنے کی نسبت تو یہ خیال دلوں میں جما ہوا ہے کہ وہ آسمان سے بجسدہ العنصری اترے گا.لیکن وہ فوت شدہ ہونے کی حالت میں آسمان سے تو کسی طرح بجسدہ العنصری اُتر نہیں سکتا بلکہ قبر سے نکلنا چاہیئے.کیونکہ فوت شدہ لوگوں کی لاشیں قبروں میں رکھی جاتی ہیں نہ کہ آسمانوں پر اٹھائی جاتی ہیں.اور ہم

Page 666

اس جگہ اخویم مولوی مردان علی صاحب صدر محاسب دفتر سرکار نظام حیدر آباد دکن بھی ذکرکے لائق ہیں.مولوی صاحب موصوف نے درخواست کی ہے کہ میرا نام سلسلہ بیعت کنندوں میں داخل کیاجاوے.چنانچہ داخل کیاگیا.اُن کی تحریرات سے نہایت محبت واخلاص پایا جاتا ہے.وہ لکھتے ہیں کہ میں نے سچے دل سے پانچ برس اپنی عمر میں سے آپ کے نام لگا دئے ہیں.خدا تعالیٰ میری عمر میں سے کا ٹ کر آپ کی عمر میں شامل کردے سو خدا تعالیٰ اس ایثارکی جزا ان کو یہ بخشے کہ اُن کی عمر دراز کرے.انہوں نے اوراخویم مولوی ظہور علی صاحب اور مولوی غضنفر علی صاحب نے نہایت اخلاص سے دس دس روپیہ ماہواری چندہ دینا قبول کیا ہے اور بہتّر۷۲ روپیہ امداد کے لئے بھیجے ہیں.جزاہم اللّٰہ خیر الجزا.والصلٰوۃ والسلام علیٰ نبیّنا ومولانا محمد واٰلہ واصحابہ وجمیع عباد اللّٰہ الصالحین.راقم خاکسار غلام احمد از لودہیانہ محلہ اقبال گنج یہ ثابت کر چکے ہیں کہ توفی کا لفظ عمومًا محاورہ کی رُو سے یہی معنے رکھتا ہے کہ روح کا قبض کرنا لیکن جسم کا قبض کرنا قرآن کریم کے کسی لفظ سے ثابت نہیں ہوتا.پس جب کہ توفی کا لفظ صرف روح کی قبض کرنے میں محدود ہوا تو مسیح ابن مریم کا جسم آسمان کی طرف اُٹھایا جانا قرآن کریم کے کسی لفظ سے ثابت نہ ہو سکا.ظاہر ہے کہ جس چیز کو اللہ تعالےٰ قبض کرتا ہے اٹھاتابھی اُسی کو ہے اور یہ وعدہ بھی قرآن کریم میں ہو چکا ہے کہ لاشیں قبروں میں سے بروز حشراٹھیں گی.اس صورت میں اگر فرض محال کے طور پر مسیح ابن مریم قبر میں سے اٹھے تو پھر نزول غلط ٹھہرے گا.بعض کہتے ہیں کیا یہ ممکن نہیں کہ مسیح سونے کی حالت میں اٹھایا گیا ہو اور پھر آخری زمانہ میں آسمان پر جاگ اٹھے اور زمین پر نازل ہو مگر یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ جسم کا اٹھایا جانا قرآن کریم سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا.توفی صرف روح کے قبض کرنے کو کہتے ہیں خواہ بحالت نوم قبض ہو یا بحالت موت پس جو چیز قبض کی جائے وہی اٹھائی جائے گی.اور یہ ہم ثابت کر آئے ہیں کہ مسیح کی توفِّیْ

Page 667

یعنی مسیح کی روح کا قبض کرنا بطور موت کے تھا نہ بطور خواب کے.اور صحیح بخاری میں جو بعد کتاب اللہ اصح الکتب ہے تفسیر کے محل میں انّی متوفّیک کے معنے انّی ممیتک لکھے ہیں.پس جبکہ قرآن شریف اور احادیث صحیحہ سے صرف حضرت مسیح کی روح کا اٹھایا جانا ثابت ہوتا ہے تو حال کے اکثر علماء کی حالت پر رونا آتا ہے کہ وہ کیوں اللہ اور رسول کے فرمودہ سے تجاوز کر کے اپنی طرف سے بلا دلیل مسیح کے جسم کا آسمان کی طرف اٹھایا جانا تجویز کرتے ہیں.کیا قرآن اور حدیث کا بالاتفاق مسیح ابن مریم کی موت پر گواہی دینا تسلی بخش نہیں ہے.افسوس کہ یہ لوگ ذرہ خیال نہیں کرتے کہ وہ حدیثیں جو نزول مسیح کے بارہ میں آئی ہیں اگر اُن کے یہی معنے کئے جائیں کہ مسیح ابن مریم زندہ ہے اور درحقیقت وہی آسمان سے اتر آئے گا.تو اس صورت میں ان حدیثوں کا قرآن کریم اور ان دوسری حدیثوں سے تعارض واقع ہو گا جن کی رو سے مسیح ابن مریم کا فوت ہو جانا یقینی طور پر ثابت ہو چکا ہے.آخر کتاب اللہ کی مخالفت کی وجہ سے وہ حدیثیں ردّ کے لائق ٹھہریں گی.پھر کیوں نزول کے ایسے معنے نہیں کرتے جو کتاب اللہ کے مخالف و مغائر نہ ہوں اور نہ دوسری صحیح حدیثوں سے مغائرت رکھیں.حضرت مسیح علیہ السلام نے آیت فلمّا توفّیتنی میں صاف صاف اپنا اظہار دے دیا ہے کہ میں ہمیشہ کے لئے دنیا سے اٹھایا گیا.کیونکہ ان کا یہ کہنا کہ جب مجھے وفات دی گئی تو پھر اے میرے رب میرے بعد تُو میری اُمت کا نگہبان تھا.صاف شہادت دے رہا ہے کہ وہ دنیا سے ہمیشہ کے لئے وفات پا گئے.کیونکہ اگر ان کا دنیا میں پھر آنا مقدر ہوتا تو وہ ضرور اِن دونوں واقعات کا ذکر کرتے اور نزول کے بعد کی تبلیغ کا بھی بیان فرماتے نہ یہ کہ صرف اپنی وفات کا ذکر کر کے پھر بعد اپنے خدا تعالےٰ کو قیامت تک نگہبان ٹھہراتے.فتدبر.

Page 668

اشتہا ر نور الابصار صداقت آثار عیسائی صاحبوں کی ہدایت کے لئے یاایھا المتنصرون ماکان عیسٰی الّا عبد من عباد اللّٰہ قد مات ودخل فی الموتٰی فلا تحسبوہ حیًّا بل ھو میّت ولا تعبدوا میّتًا وانتم تعلمون.اے حضرات عیسائی صاحبان ؛ آپ لوگ اگر غور سے اس کتاب ازالہ اوہام کو پڑھیں گے تو آپ پر نہایت واضح دلائل کے ساتھ کھل جائے گا کہ درحقیقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام اب زندہ موجود نہیں ہیں بلکہ وہ فوت ہو چکے اور اپنے فوت شدہ بزرگوں میں جاملے.ہاں وہ روحانی زندگی جو ابراہیم کوملی، اسحاق کو ملی.یعقوب کو ملی.اسمٰعیل کو ملی اور بلحاظ رفع سب سے بڑھ کر ہمارے سیّد ومولیٰ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کوملی.وہی زندگی بلا تفاوت حضرت عیسیٰ کو بھی ملی.اس بات پربائبل سے کوئی دلیل نہیں ملتی کہ مسیح ابن مریم کوکوئی انوکھی زندگی ملی.بلکہ اس زندگی کے لوازم میں تمام انبیاء شریک مساوی ہیں.ہاں باعتبار رفع کے اقرب الی اللہ مقام ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے.سو اے حضرات عیسائی صاحبان ! آپ لوگ اب ناحق کی ضد نہ کریں.مسیح ایک عاجز بندہ تھا جو فوت ہوگیا اور فوت شدہ لوگوں میں جاملا.آپ لوگوں کے لئے یہی بہتر ہے کہ خدا تعالیٰ سے ڈریں اور ایک عاجز مخلوق کو خدا کہہ کر اپنی عاقبت خراب نہ کریں آپ لوگ ذرہ سوچیں کہ مسیح اس دوسرے عالم میں اَوروں سے کس بات میں زیادہ ہے.کیا انجیل اس بات کی گواہی نہیں دیتی کہ ابراہیم زندہ ہے؟ بلکہ لعاذربھی؟ پھر مسیح لعاذر سے اپنی زندگی میں کس بات میں زیادہ ہے.اگر آپ لوگ تحقیق سے نوشتوں کو دیکھیں تو آپکو اقرارکرناپڑیگا کہ کسی بات میں زیادہ نہیں.اگر آپ لوگ اس بار ہ میں میرے ساتھ بحث کرنا چاہیں تو مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں اس بحث میں مغلوب ہونے کی حالت میں حتی الوسع اپنے ہر یک تاوان کو جو آپ لوگ تجویز کریں دینے کو طیارہوں بلکہ اپنی جان بھی اس راہ میں فداکرنے کو حاضر ہوں.خداوند کریم نے میرے پر کھول دیا ہے کہ درحقیقت عیسٰی ابن مریم فوت ہوگیااور اب فوت شدہ نبیوں کی جماعت میں داخل ہے.سو آؤ دین اسلام اختیار کرو.وہ دین اختیار کرو جس میں حیّ لا یموت کی پرستش ہورہی ہے نہ کسی مردہ کی.جس پر کامل طورپر چلنے سے ہر یک محب صادق خود مسیح ابن مریم بن سکتا ہے.والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ.المشتہر غلام احمد قادیانی ۳ ؍ستمبر ۱۸۹۱ ؁ء الحمد و المنۃکہ رسالہ ازالہ اوہام از تصنیفات مجدددوراں مرسل یزداں مسیح الزمان جناب حضرت مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان سلمہ المنان در مطبع ریاض ہند امرتسر باہتمام شیخ نور احمد صاحب زیور طبع پوشید بقلم ذلیل ترین کافۂ انام غلام محمد امرتسری غفر اللّٰہ ذنوبہ و ستر عیوبہ

Page 669

حبّی فی اللہ اخویم مولوی حکیم نور الدّین صاحب کاخط ایک سائل کے جواب میں عزیزمن حفظک اللّٰہ وسلّم.ثم السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہٗ.مرزاجی کے دعاوی پر آپ نے مجھے ایک بہت بڑ ا لمبا خط لکھا ہے.بجواب اس کے گذارش ہے کہ فلا تستعجلون (جلد باز نہ بنو) ایک الٰہی ارشاد ہے جو حضرت خاتم الانبیاء اصفی الاصفیاء سیّد نا مولانا احمد مجتبیٰ محمد مصطفےٰ (فداہٗ امی وابی) صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفوں کے نام جاری ہوا تھا.ہم اسی ارشاد کو ظلّی طور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ظل اور نائب اور اس کے دین کے خادم حضرت مجدد الوقت مرزا جی کے مخالفوں کوسُناتے ہیں.مخالفت والو ! صبر سے انتظار کروجلدباز نہ بنو.مرزا جی نے اپنے بعض احباب کو اس خاکسار کے سامنے فرمایا ہے کہ اگر لوگ تم سے بمباحثہ پیش آویں تو یہ الٰہی حکم اُن کو سُنا دو.33 33 ۱؂.عزیز من سنو اور اس پر غور کرو.دنیا میں ایک جماعت گذری او ر اب بھی ہے جنہوں نے اَنَااللّٰہ کہا.اورکہتے ہیں.ایسے قائلین کی تکفیر وتفسیق سے بھی محتاط کف لسان پسند کرتے ہیں اوراس جماعت کو صلحاء واولیاء کی جماعت کہتے ہیں.پس عزیز من ! انا المسیح انا عیسٰی ابن مریم کہنے والے پر یہ شور وغل کیوں؟ انصاف! انصاف! ! انصاف!!! میرے پیارے ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمۃ نے الدر الثمین میں فرمایا ہے بلغنی عن سیدی العم انہ قال رایت النّبی صلی اللہ علیہ وسلم فی النوم فلم یزل یدنینی منہ حتی صرت نفسہ.ایسا ہی ابن حزم ظاہری کی نسبت شیخ محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ نے ارقام فرمایا ہے یہ نظارہ انا محمد کہنے کا ہے.آہ پھر انا المسیح وانا ابن مریم الموعود پر یہ طیش وغضب کیوں!!!

Page 670

عزیز من ! ایمانی امور میں کسی قدر اخفا کاہونا ایک ضروری اور لازمی امر ہے.اگر کوئی معاملہ بالکل عیاں ہوجاوے تو پھر اخفا کہاں.عیاں وخفا میں مقابلہ ہے.اِسی واسطے شرعیہ احکام وامور میں جسمانی شمس وقمر کا ماننا ایمانی امور میں داخل نہیں.اور اسی واسطے قیامت کے روز شرعیہ تکالیف علی العموم اُٹھ جائیں گی.پس تم پیشگوئیوں میں ایمان سے کام لو.ان کے فہم میں عرفان کے مدعی نہ بنو.ہمارے سیّد ومولیٰ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کا وہ ایک واقعہ قابل غور ہے جو قرآن کریم کے پندرہ سیپارہ کے آخر اور سولہ سیپارہ کے ابتداء میں مندرج ہے.اس واقعہ کے بیان میں ایک طرف سیدنا موسیٰ علیہ السلام ہیں جن کا اولو العزم صاحب شریعت رسول ہونا یہود عیسائیوں اور محمدیوں میں مسلّم ہے.اس مقدس نبی نے جیسے امام المحدثین امام بخاری رحمۃ اللہ وغیرہ نے ارقام فرمایا ہے کہیں انا اعلم کہہ دیا تب الٰہیہ غیرت نے اپنے پیارے بندے سیدنا خضر علیہ السلام کاانہیں پتہ دیا.جب جناب موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام اس عارف سے ملے تو اس کے سچے علوم واسرار کی تہ تک نہ پہنچے.جناب خضر علیہ السلام نے انہیں فرما دیا تھا 3 اورفرما دیا تھا 33 ۱؂.پس منجملہ آداب الٰہیہ کے یہ ادب ضروری تھا کہ ایسے بندوں کے معاملات میں کم سے کم خاموشی اختیارکی جاتی.اس وقت تک کہ لوگ مرزا جی کے معاملہ میں صریح کفر کو دیکھ لیتے.سیدنا موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی بے صبری کو خبردار حجت نہ پکڑنا !اور ہرگز حجت نہ پکڑنا.کیونکہ سیّد ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.لیت موسٰی سکت حتی یقص اللّٰہ علینا.میری اس بات پر کسی بدظنّی سے کام نہ لینا.میں محمدی ہوں اور محمدیوں کو بحمد اللہ کچھ ایسے انعامات عطا ہوئے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی سرور میں آکر اللہ کی پاک جناب میں انت عبدی وانا ربک کہہ دے تو انشاء اللہ تعالیٰ جہنمی نہ ہو اگر چہ سچ یہی ہے

Page 671

کہ الٰہی انت ربی وانا عبدک.مجھے اس وقت ایک قصہ یاد آگیا جس کو قلا ئد الجواھر میں محمد بن یحییٰ تادفی نے ارقام فرمایا ہے اس پر غور کرو.حضرت شیخ عبد القادر جیلانی فرماتے ہیں جاء نی ابو العباس الخضر علیہ السلام.یمتحننی بما امتحن بہ الاولیاء من قبلی فکشف لی عن سریرتہ ففتح علٰی بما خاطبتہ بہ ثم قلت لہ و ھو مطرق ان یا خضر.ان کنت قلت لموسٰی انک لن تستطیع معی صبرًا.فانک لن تستطیع معی صبرًا یا خضر! ان کنت اسرائیلیا فانک اسرائیلی و انا محمدی.فھا انا و انت و ھذہ الکرۃ و ھذا المیدان ھذا محمد و ھذا الرحمٰن.و ھذا فرسی مسرج ملجم وقوسی موتر و سیفی شاھر رضی اللّٰہ عنہ.سبحان اللہ کیا خوب ڈوئل ہے سنو! حضرت مسیح علیہ الصلٰوۃو السلام کی دوبارہ تشریف آوری کا ذکر قرآن مجید میں تو بالکل نہیں اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کا بجسدہ العنصری زندہ رہ کر آسمان کی طرف عروج کرنا قرآن شریف سے ثابت نہیں.پھر اگر یہ پوچھو کہ یہ مسئلہ کہاں ہے شاید جواب یہ ہو کہ احادیث میں.مگر وہاں تو نہیں.پھر کیا اناجیل میں.مگر وہاں نہیں.پھرکہاں.تو جوا ب یہی ہوگا.کہ عیسائیوں کے بھولے بھالے خیالات میں.کیونکہ متی اور یوحنا تو ساکت ہیں اور لوک اور مرک تابعی نہ صحابی بے دیکھے اٹکلیں دوڑاتے ہیں.پھر کیا اسلامیوں کی اسرائیلی مرویات وحکایات وغیرہ میں جن کی تائید قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے نہیں ہو سکتی؟ کیونکہ قرآن کریم تو اسرائیلی مسیح عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی وفات کو مختلف جگہوں میں ذکر فرماچکاہے اور احادیث صحیحہ میں نزول مسیح عیسیٰ ابن مریم میں اسرائیلی نبی کا ذکر نہیں.اگرہو بھی تو تثلیث ۱؂میں مسیح عیسیٰ ابن مریم نبی اللہ اسرائیلی کا جو شخص مثیل ہوگااِس پر مجازًا مسیح ابن مریم اسرائیلی کہنابھی جائز ہوگا.ہاں ینزل ابن مریم فیکم و امامکم منکم بخاری کی حدیث ہے.اس حدیث کا ترجمہ او راس کی حقیقت

Page 672

مرزا جی نے اپنے رسائل میں بیان فرمائی ہے.اس ترجمہ اور حقیقت پر اگر کسی کو طالب علمانہ بحث ہو تو اُسے یاد رہے کہ واؤ کا حرف تفسیرکے واسطے بھی ہواکرتاہے.دیکھوکلمات طیبات قرآنی جو ذیل میں درج ہیں.33 ۱؂.سورۃ حجر.33سورہ رعد ۲؂ عزیز من! بیرونی تحریکات کے سوا اندرونی تحریکوں کا ہونا ایک نادر امر ہے یہ معاملہ جس پر یہ ضعیف اور خاکسار خط لکھ رہا ہے اب پبلک میں آگیاہے شخصی خطوط میں اس کا تذکرہ اب چنداں ضرور ی نہیں.جناب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ اب مرزا جی کے معاملہ میں مجھ سے خط وکتابت نہ فرماویں گے مگر جب خلاف وعدہ مولوی جی نے خاکسار کو لکھا تو خاکسار نے اُن کو یہی جواب دیا کہ اب یہ معاملہ شخصی اور پرائیویٹ خطوط کے قابل نہیں رہا.سو تم بھی عام فیصلہ کا انتظار کرو.تم کو معلوم ہے کہ اس وقت تین آدمیوں کو پنجاب میں مرزا جی کی مخالفت پر بڑ اجوش ہے.اِدھرقرآن مجید راستبازوں کی فتحمندی پر تاکید سے خبر دے رہا ہے.33۳؂ پس صبر ومتانت وسلامت روی سے چند روز کام لو.عزیز من ! یاد رکھو مجھ ہیچ میرز کو آگاہ کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا قصہ بدوں کسی قسم کی تاویل اور کسی قسم کے استعارہ ومجاز کے کسی قوم نے تسلیم نہیں فرمایا.یہ میری بات سرسری نہ سمجھو.نمونہ کے طور پر دیکھ لو.ہمارے اکثر مفسّرین حضرت مسیح کے قصہ میں 33 ۴؂ میں کیا کچھ اُلٹ پھیر نہیں کرتے.میاں عبد الحق صاحب غزنوی اپنے دوسرے اشتہار میں پہلے ہی صفحہ کے آخری سطر میں لکھتے ہیں.اللّٰہ اکبر ’’خربت خیبر‘‘ اب غور کا مقام ہے کہ میاں عبد الحق کا خیبر حقیقی خیبرتو ہرگز نہیں ہوسکتا اب قادیان کو دمشق ماننے میں وہ کیوں گھبراتے اوراس پر شوروغل مچاتے ہیں !!! مولوی عبد الرحمٰن لکھو کے والے عزیز القدر عبد الواحد حفظہ اللہ کو ارقا م فرماتے ہیں

Page 673

کہ’’ در تفسیر قرآن عظیم خلاف راہ صحابہ رضی اللہ عنہم اختیار نمودن الحاد وضلالت است ورضامندی رب العالمین در اتباع ایشان است‘‘ اور اسی خط میں ’’وقولہٗ تعالیٰ.33 (ای الملۃ المحمدیۃ)33 ۱؂ میں الملّۃ الآخرۃ کی تفسیر خلاف صحابہ وتابعین وجمیع مفسرین الملّۃ المحمدیۃ سے فرماتے ہیں! احادیث میں مسیح علیہ السلام کا حلیہ کہیں احمر رجل الشعر اور کہیں اسمر سبط الشعر آیا ہے.اس کی تطبیق میں تاویل کی جاتی ہے.علیٰ ہذا القیاس اور امور میں بھی الٰہی کلام میں تمثیلات و استعارات و کنایات کا ہونا اسلامیوں میں مسلّم ہے مگر ہر جگہ تاویلات و تمثیلات سے استعارات وکنایات سے اگر کام لیاجاوے تو ہر یک مُلحد منافق بدعتی اپنی آراء ناقصہ اور خیالات باطلہ کے موافق الٰہی کلمات طیّبات کو لاسکتا ہے اس لئے ظاہر معانی کے علاوہ اَور معانی لینے کے واسطے اسباب قویہ اور موجبات حقہ کاہونا ضرور ہے.الٰہی کلمات طیبات میں استعارات بکثرت ہوتے ہیں مگر اس امر کے باعث کیا ہم ہر جگہ استعارہ ومجاز لینے پر دلیر ہوسکتے ہیں ہرگز نہیں.کیا عبادات میں معاملات میں تمدّن ومعاشرت کے مسائل میں اخلاق وسیاست کے احکام میں بھی ہم استعارات سے کام لیں گے؟ ہرگز نہیں !ان باتو ں کو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے عملی طور پر کر کے ہمیں دکھا دیا.اُمّت کے تعامل ورواج نے وہ تصویر ہم تک پہنچا دی.جزاہم اللّٰہ احسن الجزاء.مگر جو کچھ پیشین گوئیوں میں مذکور ہے اور جو کچھ انبیاء علیہم السلام کے مکاشفات اور رویا صالحہ میں نظر آتا ہے کچھ شک نہیں کہ وہ عالم مثال میں ہو اکرتا ہے.ایسا ہی اُن کے بعض اخبار ماضیہ اور حقائق کونیہ او رعالم مثال کے اشکال والوان عالم جسمانی کے الوان واشکال سے بالکل نرالے ہواکرتے ہیں.پس ایسے موقعہ پر علوم ضروریہ یقینیہ

Page 674

الہامات صاد قہ مشاہدات وحقائق نفس الامریہ قواعد شرعیہ ان نصوص کو لامحالہ ظاہر سے اور معنے کی طرف لے جائیں گے.چنانچہ سیدنا یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سورج اور چاند اور سیّاروں کو اپنے لئے سجدہ کرتے دیکھا.مگر جسمانی عالم میں وہ سورج وچاند وسیارے اُن کے ماں باپ اور بھائی تھے.قرآن کریم میں ایک بادشاہ کا قصہ لکھا ہے جس نے فربہ گائیں اور سبز بالیاں دیکھیں.جسمانی عالم میں وہ قحط اور ارزانی تھی.ہمارے سیّد ومولیٰ نے رویاء صالحہ میں دیکھا کہ آپ کے کف دست مبار ک میں سونے کے کنگن ہیں اور آپ نے اُن کو پھونک سے اُڑادیا.وہ جسمانی عالم میں مسیلمہ اور اسود عنسی اور ان کی تباہی تھی.حضور علیہ السلام نے اپنی بیبیوں سے فرمایا اسرعُکن لحوقًا بی اطولکن یدًا.لگی بیبیاں ہاتھوں کو ناپنے.مگر واقعات نفس الامریہ نے بتا دیا اور مشاہدات نے دکھا دیا کہ صحابیات کا فہم پیشین گوئی کے سمجھنے میں اس پہلو پر غلط تھا جس پر انہوں نے سمجھاتھا.پس دجّال اور مسیح علیہ السلام کی پیشین گوئی میں کیوں ایمانی حد سے بڑھ کر لوگ عرفان کے مدعی ہوگئے ہیں اور عارف کے خلاف پر اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں.ہمیں بڑا تعجب آتا ہے جب یہ کہتے سنتے ہیں کہ مرزا اجماع کے خلاف کرتا ہے.حالانکہ وہی لوگ جن کو مرزا جی سے بہت بڑا نقار ہے امام احمد بن حنبل کے اس قول کو ہمیشہ سناتے رہے کہ اجماع کا دعویٰ کذب ہے.اور عقل ودنیا کا نظارہ اورعلماء کی حالت بھی کہ وہ شرق وغرب وجبال وبحار میں پھیلے ہوئے ہیں گواہی دیتی ہے کہ اجماع کا دعویٰ ایک خیال سے بڑھ کر وقعت نہیں رکھتا.عزیز من! جیسے مرزا جی نے اپنے آپ کو ابن مریم کہا ہے ایک جگہ مریم بھی فرمایا ہے اور اپنے بیٹے مثیل مسیح کا نام عموانوئیل بتایا ہے.خود خاکسار نے جب مرزا جی کے حضور میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا ایک پیغام پہنچا یا تو آپ نے

Page 675

فرمایا میں نے تو مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیاہے.ممکن ہے کہ مثیل مسیح بہت آویں اورکوئی ظاہری طور پر بھی مصداق ان پیشین گوئیوں اور نشانات کا ہو جن کو میں نے روحانی طور پر الہامًا اپنے پر چسپاں کیا ہے.الٰہی فیضان کی کوئی حد نہیں اور نہ وہاں کوئی کمی ہے تب میں نے عرض کیا کہ ایسی صورت میں احادیث کے باعث لوگ کیوں اشکال میں پھنسے ہوئے ہیں؟ تعجب ہے.مگر عزیز من ! 33 ۱؂ پر دھیان کرو.سنو اور غور سے سنو! پیشین گویوں کے پورا ہونے کے واسطے اوقات مقدرہ ہوا کرتے ہیں.جیسے میں نے تین سوالوں کے جواب میں مفصل لکھاہے اور وہ جواب انجمن حمایت اسلام لاہور نے طبع کرایاہے.مثلًا حضور علیہ السلام کو مکّہ کے کفار کہتے ہیں33 ۲؂ آپ کے منکرین نے یہ طلب کیوں کی تھی صرف اسی بناء پر کہ حضور سیدنا ومولانا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشن گوئی کے سمجھنے میں بالکل ظاہری الفاظ کے معنوں پر موٹی نظر کی تھی.وہ پیشین گوئی یسعیاہ نبی کے ۴۳ باب ۱۹ کی ہے.یسعیاہ نبی نے حضرت خاتم الانبیاء کے زمانہ کی نسبت فرمایا تھا کہ صحرا میں ندیاں بناؤں گا.ظاہر ہے کہ سیّد ومولےٰ کے وقت زبیدہ والی ندی مکہ میں اور نہر بنی زرقا مدینہ میں جاری نہیں ہوئی تھی.جس پر بعض نے ناعاقبت اندیشی سے ٹھوکر کھائی.عزیز من! ترہیب اور ترغیب میں دلوں کے بڑھانے.ہمت وتوجہ کی ترقی دینے کو ایسے الہامات بھی ہوتے ہیں جن کا بیان آیت ذیل میں ہے3۳؂ (حالانکہ بدر کی جنگ میں مکہ کے کفار مسلمانوں سے بہت زیادہ تھے ) مگرا یسا الہام کیوں ہوا.اللہ تعالیٰ اس کی وجہ فرماتا ہے 3 3۴؂.سوچو اور غور کرو!

Page 676

عزیز من ! مولوی محمدحسین صاحب پر اللہ تعالیٰ رحم فرماوے ان کو اپنے علم وفضل پر بڑا گھمنڈ ہے اور اللہ کریم کو گھمنڈ پسند نہیں.الہامی جماعت کی مخالفت بھی تمہیں ٹھوکرکا باعث نہ ہو.ازالہ اوھام میں اس کا عجیب وغریب جواب موجود ہے اور نصحًامیں کہتا ہوں 333 ۱؂ اور تمنّی پر آیت 33 ۲؂.آپ فکر کرتے رہیں.بھائی صاحب ! مرزا جی اس صدی کے مُجَدّد ہیں اور مجدد اپنے زمانہ کا مھدی اور اپنے زمانہ کے شدّت مرض میں مبتلا مریضوں کا مسیح ہواکرتاہے اور یہ امر بالکل تمثیلی ہے جیسے مرزا جی اپنی الہامی رباعی میں ارقام فرما چکے ہیں.رُباعی کیا شک ہے ماننے میں تمہیں اس مسیح کے جس کی مماثلت کو خدا نے بتادیا حاذق طبیب پاتے ہیں تم سے یہی خطاب خوبوں کو بھی تو تم نے مسیحا بنا دیا میں اب اس خط کو ختم کرناچاہتا ہوں.مولوی محمد حسین صاحب کی اشاعت پر اللہ تعالیٰ جو فیضان کرے گا اس کا اظہار پھر ہو رہے گا.یار باقی صحبت باقی.آخر میں یہ شعر تمہیں سُناکر اور ایک تحریک کرکے بس کرتا ہوں.ابن مریم ہوا کرے کوئی میرے دُکھ کی دوا کرے کوئی ہمارے مخالف الرائے مولوی صاحبوں کا حوصلہ خدائے تعالیٰ نے پورے طورپر جلوہ قدرت دکھلانے کے لئے ایک ایسے نامی مولوی صاحب سے ہمیں ٹکرا دیا جنکی لیاقت علمی جنکی طاقت فہمی جنکی طلاقت لسانی جنکی فصاحت بیانی شہرۂ پنجاب وہندوستان ہے اور خدائے حکیم وعلیم کی مصلحت نے اس ناکارہ کے مقابل پر ایساانہیں جوش بخشا اور اس درجہ کی بدظنی میں انہیں ڈال دیا کہ کوئی دقیقہ بدگمانی اور مخالفانہ حملہ کا انہوں نے اُٹھا نہیں رکھا.تا اس کا

Page 677

وہ امر خارق عادت ظاہر ہو جو اس نے ارادہ کیا ہے.مولوی صاحب نوراللہ کے بجھانے کے لئے بہت زور سے پھونکیں مار رہے ہیں.دیکھئے اب سچ مچ وہ نور بجھ جاتا ہے یا کچھ اور کرشمہ قدرت ظہور میں آتا ہے.۹ ؍اپریل ۱۸۹۱ ؁ء کے خط میں جو انہوں نے میرے ایک دوست مولوی سیّد محمد احسن صاحب کے نام بھوپال میں بھیجا تھا عجیب طور کے فقرات تحقیر کے استعمال کئے ہیں.آپ سیّد صاحب موصوف کو لکھتے ہیں کہ آپ اس شخص پر جلدی سے کیوں ایمان لے آئے اس کو ایک دفعہ دیکھ تو لیا ہوتا.مولوی صاحب نے اس فقرہ اور نیز ایک عربی کے فقرہ سے یہ ظاہر کرنا چاہا ہے کہ یہ شخص محض نالائق اور علمی اور عملی لیاقتوں سے بکلّی بے بہرہ ہے اور کچھ بھی چیز نہیں.اگر تم دیکھو تو اس سے نفرت کرو.مگر بخدا یہ سچ اور بالکل سچ ہے اور قسم ہے مجھے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ درحقیقت مجھ میں کوئی علمی اورعملی خوبی یا ذہانت اوردانشمندی کی لیاقت نہیں اور میں کچھ بھی نہیں.ایک غیب میں ہاتھ ہے جو مجھے تھام رہا ہے اور ایک پوشیدہ روشنی ہے جو مجھے منور کر رہی ہے اور ایک آسمانی روح ہے جو مجھے طاقت دے رہی ہے.پس جس نے نفرت کرنا ہے کرے.تامولوی صاحب خوش ہوجائیں بخدا میری نظر ایک ہی پرہے جو میرے ساتھ ہے.اور غیر اللہ ایک مرے ہوئے کیڑے کے بر ابر بھی میر ی نظر میں نہیں.کیا میرے لئے وہ کافی نہیں جس نے مجھے بھیجا ہے.میں یقینًا جانتا ہوں کہ وہ اِس تبلیغ کو ضائع نہیں کرے گا جس کو لے کر میں آیا ہوں.مولوی صاحب جہاں تک ممکن ہے لوگوں کو نفرت دلانے کے لئے زور لگالیں اور کوئی دقیقہ کوشش کا اُٹھا نہ رکھیں اور جیسا کہ وہ اپنے خطوط میں اور اپنے رسالہ میں اور اپنی تقریروں میں باربار ظاہر کر چکے ہیں کہ یہ شخص نادان ہے جاہل ہے گمراہ ہے مفتری ہے دوکاندا رہے بے دین ہے کافر ہے ایسا ہی کرتے رہیں اورمجھے ذرہ مہلت نہ دیں مجھے بھی اس ذات کی عجیب قدرتوں کے دیکھنے کاشوق ہے جس نے مجھے بھیجا ہے.لیکن اگر کچھ تعجب ہے تو اس بات پر ہے کہ باوجود اس کے کہ یہ عاجز مولوی صاحب کی نظر میں جاہل ہے بلکہ خط مذکورہ بالا میں یقینی طورپر مولوی صاحب نے لکھدیا ہے کہ یہ شخص ملہم نہیںیعنی مفتری ہے اور یہ دعویٰ جو اس عاجز نے کیا ہے مولوی صاحب کی نظر میں بدیہی البطلان ہے

Page 678

جس کا قرآن وحدیث میں کوئی اثر ونشان نہیں پایاجاتا.پھر مولوی صاحب پرڈر اس قدر غالب ہے کہ آپ ہی بحث کے لئے بلاتے اور آپ ہی کنارہ کرجاتے ہیں.ناظرین کو معلوم ہوگا کہ مولوی صاحب نے ایک بڑے کرّوفر سے ۱۶؍اپریل ۱۸۹۱ ؁ء کو تار بھیج کر اس عاجز کو بحث کے لئے بلایا کہ جلد آؤ اورآکر بحث کرو ورنہ شکست یافتہ سمجھے جاؤ گے.اُس وقت بڑی خوشی ہوئی کہ مولوی صاحب نے اس طرف رُخ تو کیا.اور شوق ہوا کہ اب دیکھیں کہ مولوی صاحب حضرت مسیح ابن مریم کے زندہ مع الجسد اُٹھائے جانے کا کونسا ثبوت پیش کرتے ہیں یا بعد موت کے پھر زندہ ہوجانے کا کوئی ثبوت قرآن کریم یا حدیث صحیح سے نکالتے ہیں چنانچہ لدھیانہ میں ایک عام چرچا ہوگیا کہ مولوی صاحب نے بحث کے لئے بلایا ہے اور سیالکوٹ میں بھی مولوی صاحب نے اپنے ہاتھ سے خط بھیجے کہ ہم نے تارکے ذریعہ سے بلایا ہے.لیکن جب اس عاجز کی طرف سے بحث کے لئے تیاری ہوئی اورمولوی صاحب کو پیغام بھیجا گیا تو آپ نے بحث کرنے سے کنارہ کیا اوریہ عذرپیش کر دیا کہ جب تک ازالہ اوہام چھپ نہ جائے ہم بحث نہیں کریں گے.آپ کو اُس وقت یہ خیال نہ آیا کہ ہم نے تو بلانے کے لئے تار بھیجی تھی.اور یہ بھی ایک خط میں لکھا تھا کہ ہمیں ازالہ اوہام کے دیکھنے کی ضرورت نہیں.اور یہ بھی بار بار ظاہر کردیا تھا کہ یہ شخص باطل پر ہے.اب ازالہ اوہام کی ضرورت کیوں پڑگئی.تار کے ذریعہ سے یہ پیغام پہنچاناکہ آؤ ورنہ شکست یافتہ سمجھے جاؤ گے اور حبّی فی اللہ اخویم حکیم نور دین صاحب پرناحق یہ الزام لگانا کہ وہ ہمارے مقابلہ سے بھاگ گئے اور پھر درخواست بحث پر ازالہ اوہام یاد آجانا عجیب انصاف ہے.مولوی صاحب دعوی اس عاجز کا سُن چکے تھے.فتح اسلام اور توضیح مرام کو دیکھ چکے تھے اب صرف قرآن اور حدیث کے ذریعہ سے بحث تھی جس کو مولوی صاحب نے وعدہ کر کے پھر ٹال دیا.تمّت

Page 679

اطلا ع بعض دوستوں کے خط پہنچے کہ جیسے مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی بعد مباحثہ شہر لودیانہ سے حکماً نکالے گئے ہیں یہی حکم اس عاجز کی نسبت ہوا ہے سو واضح رہے کہ یہ افواہ سراسر غلط ہے.ہاں یہ سچ ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اپنی وحشیانہ طرز بحث کی شامت سے لودہانہ سے شہر بدر کئے گئے لیکن اس عاجز کی نسبت کوئی حکم اخراج صادر نہیں ہؤا چنانچہ ذیل میں نقل مراسلہ صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر لودھیانہ لکھی جاتی ہے.از پیشگاہ مسٹر ڈبلیو چؤسصاحب بہادر ڈپٹی کمشنر لودہیانہ.میرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان سلامت چٹھی آپ کی مورخہ دیروزہ موصول ملاحظہ و سماعت ہوکر بجوابش تحریر ہے کہ آپ کو بمتابعت و ملحوظیت قانون سرکاری لودہیانہ میں ٹھہرنے کے لیے وہی حقوق حاصل ہیں جیسے کہ دیگر رعایا تابع قانون سرکار انگریزی کو حاصل ہیں.المرقوم ۶؍ اگست ۱۸۹۱ ؁ ء دستخط صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر

Page 680

Page 681

ترجمہ فارسی عبارات صفحہ ۲۳.اب ظہور کر اور نکل کہ تیرا وقت نزدیک آگیا اور اب و ہ وقت آرہا ہے کہ محمدی گڑھے میں سے نکال لئے جاویں گے اور ایک بلند اور مضبوط مینار پر ان کا قدم پڑے گا صفحہ ۲۴.یہ سعادت اپنے زور بازو سے حاصل نہیں ہوسکتی جب تک وہ بخشنے والا خدا خود عطا نہ کرے صفحہ ۳۹.میرے دل میں ایسا درد ہے کہ اگر میں آنسوؤں کے آگے سے آستین ہٹا لوں تو وہ میرے دامن تک چلے جائیں گے.صفحہ ۴۰.اے خدا، اے ہر غمگین دل کے چارہ گر.اے عاجزوں کی پناہ اور اے گنہ گاروں کو بخشنے والے.مہربانی سے اپنے اس بندے پر بخشش فرما اور ان علیحدہ رہنے والوں پر نظر رحمت کر صفحہ ۴۴.مناسب ہے کہ ہر دیندار کی آنکھ خون کے آنسو روئے.اسلام کی پریشان حالی اور قحط المسلمین پر.خدا کے دین پر نہایت خوفناک اور ُپر خطر گردش آگئی.کفر وشقاوت کی وجہ سے دنیا میں سخت فساد برپا ہو گیا صفحہ ۴۵.وہ شخص جس کا نفس ہر ایک خیر وخوبی سے محروم ہے وہ بھی حضرت خیر الرسل کی ذات میں عیب نکالتا ہے.وہ جو خودناپاکی کے قید خانے میں اسیر وگرفتار ہے وہ بھی پاکبازوں کے سردار کی شان میں نکتہ چینی کرتا ہے.بد اصل اور خبیث انسان اس معصوم پر تیر چلاتا ہے آسمان کو مناسب ہے کہ زمین پر پتھر برسائے.تمہاری آنکھوں کے سامنے اسلام خاک میں مل گیا.پس اے گروہ امراء تمہارا خدا کے حضور میں کیا عذر ہے.افواج یزید کی مانند ہر طرف کفر جوش میں ہے اور دین حق زین العابدین کی طرح بیمار وبیکس ہے.امراء عیش وعشرت میں مشغول ہیں اور حسین عورتوں کے ساتھ خرم وخنداں بیٹھے ہیں

Page 682

.علماء دن رات نفسانی جوشوں کے باعث آپس میں لڑ رہے ہیں اور زاہد ضروریاتِ دین سے بالکل غافل ہیں.ہر شخص اپنے ذلیل نفس کی خاطر ایک طرف ہوگیا ہے.اس لئے دین کا پہلو خالی ہے اور ہر دشمن کمین گاہ میں سے کود پڑا.اے مسلمانو! کیا یہی مسلمانی کی علامتیں ہیں دین کی تو یہ حالت ہے اور تم مُردار دنیا سے چمٹے ہوئے ہو.کیا تمہاری نظر میں دنیا کا محل بہت مضبوط ہے؟ یا شاید پہلوں کی موت کا خیال تمہارے دل سے نکل گیا ہے.اے غافلو ! موت کا وقت قریب آگیا اس کی فکر کرو حسین اور مہ جبیں معشوقوں کے ساتھ دور شراب کب تک چلتا رہے گا.اے عقلمند اپنے نفس کو دنیا کا قیدی مت بنا، ورنہ مرنے کے وقت بہت سختیاں برداشت کرے گا.اس محبوب کے سوا جس کا حسن لازوال ہے اور کسی کو دل نہ دے تا کہ تو دائمی خوشی خدائے محسن کی طرف سے حاصل کرے.وہ آدمی عقلمند ہے جو اس کی راہ کا دیوانہ ہے اور وہ شخص ہوشیار ہے جو اس حسین محبوب کے چہرہ کا گرویدہ ہے.اس کے عشق کا جام لازوال آب حیات ہے جس نے اُسے پی لیا وہ پھر ہرگز نہیں مرے گا.اے بھائی اس ذلیل دنیا کی دولت سے دل نہ لگا اس شہد کے ہر قطرہ میں زہر ہلا ہل بھرا ہوا ہے.جہاں تک تجھ سے ہو سکتا ہو جان ومال کے ساتھ دین کے لئے کوشش کر تا کہ خداوند عرش کی طرف سے خوشنودی کا خلعت حاصل کرے.اس نور کو جو تیرے ایمان میں ہے اپنے عمل سے ثابت کر جب تو نے یوسف کو دل دیا تو کنعان کا رستہ بھی اختیار کر.وہ دن یاد ہیں جب یہ دین سب اہل مذاہب کا مرجع بنا ہوا تھا اور لعنتی شیطان کے راستہ سے اس نے ایک جہان کو آزاد کر ایا تھا.نور علم کی وجہ سے اس نے دنیا میں نیک تربیت کا سایہ پھیلا رکھا تھا اور عزوہ جاہ کی وجہ سے آسمان پر اس کا قدم تھا.اب ایسا زمانہ آگیا ہے کہ ہر احمق بے وقوفی سے اس دین متین کی تکذیب کرتا ہے صفحہ ۴۶.لاکھوں بیوقوف دین سے باہر نکل گئے اور لاکھوں جاہل مکاروں کا شکار بن گئے

Page 683

.مسلمانوں پر ساری ذلت اسی وجہ سے پڑی کہ دین کے معاملہ میں ان کی ہمت نے ان کی غیرت کا ساتھ نہیں دیا.اگر ایک جہان مصطفی کے دین کی راہ سے پھر جائے تو جنین جتنی بھی وہ غیرت سے حرکت نہیں کرتے.وہ ہر گھڑی اس ذلیل دنیا کی فکر میں لگے رہتے ہیں اور ان کا مال عورتوں اور بیٹوں پر خرچ ہوتا رہتا ہے.جس مجلس میں بھی فسق وفجور ہو وہ اُس کے صدر ہوتے ہیں اور جہاں گناہ گاروں کا حلقہ ہو وہ نگینہ کی مانند ہوتے ہیں.شراب کے رسیا مگر ہدایت سے بے گانہ.ارباب دین سے نفرت اور شرابخوروں سے صحبت ہے.اس محبوب نے ان سے منہ پھیر لیا جو پہلے ان سے اخلاص رکھتا تھا جب اُس نے اس قوم کے دل میں مخلصوں والی وفاداری نہ دیکھی.ان کے دولت واقبال کا زمانہ تو گزر گیا.اب ان کے اعمال کی نحوست ایسے دن لے آئی.پہلے جو ترقی ہوئی تھی وہ دین پروری کے راستہ سے ہوئی تھی پھر بھی جب ہو گی یقینا اسی راہ سے ہو گی.اے خدا پھر کب تیری طرف سے مدد کا وقت آئے گا اور ہم پھر وہ مبارک دن اور سال کب دیکھیں گے.دین احمد کے متعلق ان دو فکروں نے میری جان کا مغز گھلا دیا اعدائے ملّت کی کثرت اور انصار دین کی قلّت.اے خدا جلد آ اور ہم پر اپنی نصرت کی بارش برسا.ورنہ اے میرے رب اس آتشیں جگہ سے مجھ کو اٹھالے.اے خدا رحمت کے مطلع سے ہدایت کا نور طلوع کر اور چمکتے ہوئے نشان دکھلا کر گمراہوں کی آنکھیں روشن کر.جب تو نے مجھے اس سوز وگداز میں صدق بخشا ہے تو مجھے یہ امیدنہیں کہ تو اس معاملہ میں مجھے ناکامی کی موت دے گا.سچوں کا کاروبار ہرگز نامکمل نہیں رہتا.صادقوں کی آستین میں خدا کا ہاتھ مخفی ہوتا ہے صفحہ ۶۲.احمد کی شان کو سوائے خداوند کریم کے کون جان سکتا ہے وہ اپنی خودی سے اس طرح الگ ہو گیا کہ میم درمیان سے گر گیا.وہ اپنے معشوق میں اس طرح محو ہو گیا کہ کمال اتحاد کی وجہ سے اس کی صورت بالکل ربّ رحیم کی صورت بن گئی.محبوبِ حقیقی کی خوشبو اس کے چہرہ سے آرہی ہے اس کی حقانی ذات خدائے قدیم کی ذات کی مظہر ہے.خواہ کوئی مجھے الحاد اور گمراہی سے ہی منسوب کرے مگر میں تو احمد کے دل جیسا اور کوئی عظیم الشان عرش نہیں دیکھتا

Page 684

صفحہ ۶۳.خدا کا شکر ہے کہ میں دنیا داروں کے بر خلاف اُس سرچشمہئِ نعمت کی خواہش کی وجہ سے سینکڑوں دکھ خریدتا ہوں.خدا کی مہربانیوں اور اُس ذاتِ اقدس کے فضل وکرم سے مَیں بھی اُس کلیم کی محبت کی خاطر فرعونی لوگوں کا دشمن ہوں.اُس کا وہ خاص مقام اور مرتبہ جو مجھ پر ظاہر ہوا میں اس کا ضرور ذکر کرتا اگر اس راہ میں کوئی سلیم فطرت والا پاتا.محمدؐ کے عشق میں میرا سر اور میری جان قربان ہو.یہی میری خواہش، میری دعا اور میرا دلی ارادہ ہے صفحہ ۷۴.بد خواہ کی آنکھ کہ خدا کرے پھوٹ جائے اسے ہنر بھی عیب دکھائی دیتا ہے صفحہ ۷۸.تجربہ کار شکاریوں کے باز کی آنکھ ہے تو کھلنے کے لئے ہی، اگرچہ اس وقت انہوں نے سی رکھی ہے صفحہ ۸۵.بادل، ہوا، چاند، سورج اور آسمان سب کام کررہے ہیں تا تو خوراک حاصل کرے اور غفلت میں نہ کھائے.یہ سب تیری خاطر پریشان اور فرمانبردار ہیں یہ انصاف نہ ہوگا اگر تو حکم نہ مانے صفحہ ۱۰۴.وہ عقلمندنہیں جو ناشیکبائی نفس کے باعث فوراً حق کا انکار کر دیتا ہے.طالب حق کو صبر چاہیے کہ دنیا میں ہر بیج جو بھی مخفی خاصیت رکھتا ہے اسی کے مطابق پھل لاتا ہے.انسان کو کچھ نورِ فراست بھی چاہیے تا کہ صداقت اپنے تئیں خود ظاہر کر دے.صادقوں کا اندرونی صدق چھپا ہوا نہیں رہ سکتا.مخفی نور انسان کی پیشانی پر چمک پیدا کر دیتا ہے.وہ شخص جس نے کسی کے ہاتھ سے شرابِ وصل کے پیالے پیئے ہوں اُس کا منہ ہر وقت اُس یار کے وصل کا سرور ظاہر کرتا رہتا ہے صفحہ ۱۵۷.بارش جس کی پاکیزہ فطرت میں کوئی ناموافقت نہیں وہ باغ میں تو پھول اگاتی ہے اور شورہ زمین میں گھاس پھونس

Page 685

صفحہ ۱۶۹.ہم قرآن اور آنحضرتؐ کے عاشقوں میں سے ہیں اسی پر ہم آئے ہیں اور اسی حالت میں گزر جائیں گے صفحہ ۱۸۰.جس جگہ مسیح اور اس کے نزول کا ذکر ہو وہاں میں یہی کہتا ہوں اگرچہ لوگ یقین نہ کریں.کہ خداوند کردگار نے مجھے الہام کیا ہے کہ میں اس برگزیدہ کا سچا مظہر ہوں.میں موعود ہوں اور میرا حلیہ حدیثوں کے مطابق ہے افسوس ہے اگر آنکھیں کھول کر مجھے نہ دیکھیں.میرا رنگ گندمی ہے اور بالوں میں نمایاں فرق ہے جیسا کہ میرے آقا کی احادیث میں وارد ہے.میرے آنے میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں.میرا آقا مجھے سرخ رنگ والے مسیح سے علیحدہ کر رہا ہے.مشرقی منارہ والی بات سے تعجب نہ کرجبکہ میرے سورج کا طلوع مشرق سے ہی ہے.میں ہی ہوں جو بشارات کے مطابق آیا ہوں عیسیٰ کہاں ہے جو میرے منبر پر قدم رکھے صفحہ ۱۸۱.وہ جسے خدا نے جنت الخلد میں جگہ دی.وہ اسے اپنے وعدوں کے بر خلاف فردوس میں سے کیوں نکالے.چونکہ کافر ناحق مسیح کی پرستش کرتا ہے اس لئے خدا کی غیرت نے مجھے اس کا ہمسر بنا دیا.جااور قرآن کی طرف نظر غور کر تاکہ میرا پوشیدہ راز تجھ پر کھل جائے.اے میرے رب! مکاشفات کا راز جاننے والا کہاں ہے تا کہ اس کا نور باطن آنحضرت سے خبر لائے.اس قبلہ نے چودھویں صدی میں اپنا منہ دکھایا.حرم سے بت نکالنے کے تیرہ سو سال بعد.اس سرچشمہ ئِ فیوض کی مہربانی اس قدر جوش میں آئی کہ میرے ہر گلی کوچہ سے اُس یار کی ندا آنے لگی.اے معترض خدا کا خوف کر اور ذرا صبر کرتا کہ خدا خود میرے ستارے کی روشنی کو ظاہر کر دے.کیا تو نے نہیں پڑھا؟ کہ نیک نیتی سے کام لو.پس اے بھائی تو اس کی حدوں سے باہر کیوں جاتا ہے.مجھ پر ُتو اس طرح زبان کی چھری کیوں چلاتا ہے.میں خودنہیں آیا بلکہ خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے.میں تو مامور ہوں مجھے اس کام میں کیا اختیار ہے جا! یہ بات میرے بھیجنے والے خدا سے پوچھ.اے وہ جو میری طرف سینکڑوں کلہاڑے لے کر دوڑا ہے باغبان سے ڈر کیونکہ میں ایک پھلدار شاخ ہوں

Page 686

.آسماں کا حکم مَیں زمین تک پہنچاتا ہوں.اگر میں اُسے سنوں اور لوگوں کو نہ سناؤں تو اسے کہاں لے جاؤں صفحہ ۱۸۲.اے میری قوم میری باتوں سے آزردہ نہ ہو شروع ہی میں ایسا جوش نہ دکھا بلکہ آخر تک میرا حال دیکھ.میں خود یہ بات نہیں کہتا بلکہ لوحِ محفوظ میں ہی ایسا لکھا ہے اگر تجھ میں طاقت ہے تو خدا کے لکھے ہوئے کو مٹا دے.میں اپنی قوم کے باعث حیرت اور فکر کی مصیبت میں ہوں اے میرے رب مہربانی فرما کہ میں اس پریشانی سے بے قرار ہوں.نہ اُن کی آنکھیں باقی ہیں، نہ کان اور نہ دل کی روشنی سوائے ایک زبان کے جس کی ایک دِرم بھی قیمت نہیں.ان لوگوں نے مجھے بُرا کہنا عبادت سمجھ رکھا ہے.ان کی نظروں میں مَیں ہر کذاب سے زیادہ پلید ہوں.تا ہم اے دل تو ان لوگوں کا لحاظ رکھ.کیونکہ آخر میرے پیغمبر کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں.اے وہ جو فرشتہ کے پیام اور خدا کی آواز کا منکر ہے.غلطی مجھ میں نہیں بلکہ تجھ میں ہے.اے عزیز! میری جان تیرے ایمان کے غم میں گھل گئی مگر عجیب بات یہ ہے کہ تیرے خیال میں مَیں کافر ہوں.اگر تو چاہتا ہے کہ ہماری سچائی کی حقیقت تجھ پر روشن ہو جائے تو اسی مہربان ذات سے دل کی روشنی مانگ.میرا خیال کسی کو کافر بنانے کی طرف کب ہے میں تو اپنے محبوب کی عنایتوں کے جام سے سرشار ہوں.دشمنوں کے طعن کا مجھ پر کیا اثر ہو سکتا ہے.میں تو دوست کے تصور میں مدہوش ہوں.میں تو اس خدا کی وحی کے سہارے جیتا ہوں جو میرے ساتھ ہے اس کا الہام میرے لئے زندگی بخش سانس کی طرح ہے صفحہ ۱۸۳.میں نے تو اپنے دوست کے گھر میں ڈیرہ ڈال دیا ہے پس تو اس اندھیرے جہان کے متعلق مجھ سے کچھ نہ پوچھ.اُس کا عشق میرے دل کے رگ وریشہ میں داخل ہو گیا ہے اور اس کی محبت راہ دین میں میرے لئے چمکتا ہوا سورج بن گئی ہے.اگر میری اور اُس کی محبت کا راز ظاہر ہو جاتا.تو بہت سی خلقت میرے دروازہ پر اپنی جانیں قربان کر دیتی.دنیا دار لوگ میرے بھید کو نہیں جانتے میں نے اپنے نور کو چمگادڑوں کی آنکھوں سے چھپا رکھا ہے

Page 687

.میری راہ چھوڑ کر جو راہ بھی وہ پسند کریں وہ کچھ نہیں وہ شخص بدقسمت ہے جو ہیچ کو ّعزت دیتا ہے.ہم تو ہر گھڑی دوست کے وصل کا جام پیتے ہیں اور میں ہر دم اپنے منکر کے برعکس اپنے یار کا ہم صحبت ہوں.جنت کی ہوائیں میرے پُر سوز دل پر چلتی ہیں اور میری اس انگیٹھی کا دھواں سینکڑوں قسم کی اعلیٰ خوشبوئیں پیدا کرتا ہے.حاسدوں کی بدبو مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتی.کیونکہ میں ہر وقت یاد خدا کے نافہ سے ّ معطر رہتا ہوں.یار کے قرب کی وجہ سے میرا معاملہ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ میں غیروں کی عقل وفہم سے بہت بالاتر ہو گیا ہوں.میرا قدم یار کی مہربانی سے جنت میں داخل ہو گیا ہے اور اس دوست کی عنایت سے میرے ہاتھ میں جام وصل ہے.اُس کی قبولیت کا جوش جو میری دعا کے وقت ظاہر ہوتا ہے.اتنی گریہ وزاری میری ماں نے بھی نہیں سنی.میں ہر طرف اور ہر جانب اُس یار کا چہرہ دیکھتا ہوں.پھر اور کون ہے جو میرے خیال میں آئے صفحہ ۱۸۴.افسوس عزیزوں نے مجھے نہ پہچانا.یہ مجھے اُس وقت جانیں گے جب میں اس دنیا سے گزر جاؤں گا.اگر ان کے درد وغم کی وجہ سے میرا دل خون ہو گیا ہے توکیا ہوا.میری تو خواہش یہ ہے کہ اسی دھن میں میرا سر بھی قربان ہو جائے.ہر رات قوم کے درد سے مجھ پر ہزاروں غم وارد ہوتے ہیں اے رب مجھے اس شور وشر کے زمانہ سے نجات دے.اے رب میرے آنکھ کے پانی سے ان کی یہ سستی دھو ڈال کہ اس غم کے مارے آج میرا بستر تک تر ہو گیا.میری داد کو پہنچ کیونکہ میں نے تیرے لئے آنسو بہائے ہیں میری فریاد سن کیونکہ تیرے سوا میرا کوئی نہیں رہا.غموں کی تاریکی ختم ہونے میں نہیں آتی.یہ اندھیری رات تو شاید حشر تک لمبی چلی جائے گی.اُس ناقدر دان قوم کے غم سے میرا دل خون ہو گیا.نیز گمراہ عالموں کی وجہ سے جو میرے پیچھے پڑ گئے ہیں.اگر خشک علم اور دل کی نابینائی حائل نہ ہوتی تو ہر عالم اور فقیہ میرے آگے غلاموں کی طرح ہوتا.میری یہ باتیں پتھر تک پر اثر کرتی ہیں مگر یہ لوگ میرے پُر تاثیر کلام سے بے نصیب ہیں.علم تو وہ ہے کہ فراست کا نور اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہے اس تاریک علم کو تو میں ایک کوڑی کو بھی نہیں خریدتا

Page 688

.آج کے دن میری قوم میرا درجہ نہیں پہنچانتی لیکن ایک دن آئے گا کہ وہ رو رو کر میرے مبارک وقت کو یاد کرے گی.اے میری قوم صبر کے ساتھ غیب کی طرف نظر رکھ تا کہ میں اپنے ہاتھ (خدا کی درگاہ میں ) تیری خاطر عاجزی کے ساتھ پھیلاؤں صفحہ ۱۸۵.اگر تیرے نزدیک میری قدر خاک کے برابر بھی ہو تو کیا مضائقہ ہے خاک تو کیا میں کوڑے کرکٹ سے بھی زیادہ حقیر ہوں.یہ اُس کا فضل اور ُلطف ہے کہ وہ قدردانی کرتا ہے ورنہ میں تو ایک کیڑا ہوں نہ کہ آدمی سیپی ہوں نہ کہ موتی.اس کے ہاتھ نے اس طرح میرے دل کو غیر کی طرف سے کھینچ لیا گویا اس کے سوا اور کوئی بھی میرے خواب وخیال میں نہ تھا.خدا کے بعد میں محمدؐ کے عشق میں سرشار ہوں.اگر یہی کفر ہے تو بخدا میں سخت کافر ہوں.میرے ہر رگ وریشہ میں اُس کا عشق نغمہ سراہے میں اپنی خواہشات سے خالی اور اس معشوق کے غم سے ُپر ہوں.میں درگاہِ قدس میں صداقت کا چراغ ہوں.اُسی کا ہاتھ ہر تیز ہوا سے میری حفاظت کرنے والا ہے.آسمان ہر وقت میری سچائی کی گواہی دیتا ہے پھر مجھے اس بات کا کیا غم کہ اہل زمین مجھے نہیں مانتے.بخدا میں اپنے پروردگار کی طرف سے نوح کی کشتی کی مانند ہوں بدقسمت ہے وہ جو میرے لنگر سے دور رہتا ہے.یہ آگ جس نے اس آخری زمانہ کا دامن جلا دیا ہے.خدا کی قسم میں اس کے علاج کے لئے نہر کوثر ہوں.میں رسول نہیں ہوں اور کتاب نہیں لایا ہوں.ہاں ملہم ہوں اور خدا کی طرف سے ڈرانے والا.اے میرے رب میرے گریہ وزاری کو دیکھ کر ُلطف وکرم کی ایک نظر کر کہ تیری رحمت کے ہاتھ کے سوا اور کون میرا مددگار ہے.میری جان مصطفی کے دین کی راہ میں فدا ہو.یہی میرے دل کا مدعا ہے کاش میسر آجائے صفحہ ۲۳۲.ہمارے درمیان محبت کی کشش اس حد تک ہے کہ رقیب آیا لیکن وہ (الگ الگ) میری اور تمہاری کوئی نشانی

Page 689

بھی نہ دیکھ پایا صفحہ ۲۵۰.خطا و صواب میں سوچ سے کام لینے والے بے ہودہ گو حاضر جواب سے اچھے ہیں صفحہ ۲۹۴.اے خدا میری جان تیرے بھیدوں پر قربان کہ تو ان پڑھوں کو فہم اور ذہن رسا بخشتا ہے.تیری اس دنیا میں میرے جیسا اُمی کہاں ہے میرا تو نشوونما ہی جہالتوں کے درمیان ہوا ہے.میں ایک حقیر کیڑا تھا تو نے مجھے بشر بنا دیا میں تو بے باپ مسیح سے بھی زیادہ عجیب ہوں صفحہ ۳۲۰.جب تو دل والوں کی کوئی بات سنے تو مت کہہ اٹھ کہ غلط ہے.اے عزیز ! تو بات نہیں سمجھ سکتا غلطی تو یہی ہے صفحہ ۳۷۲.جس کام کے لئے کمر ہمت کس لی جائے اگر (اس میں ) کانٹے بھی ہوں تو وہ گلدستہ بن جائیں گے صفحہ ۳۸۸.اس ابن مریم میں خدائی نہ تھی کیونکہ موت وفوت سے اُسے رہائی حاصل نہ تھی.اس نے اپنے تئیں شرک اور دوئی سے آزاد کر لیا تھا ُتو بھی ایسا کر.ابن مریم ُتوبھی بن جائے گا صفحہ ۴۱۷.) اس کا فرد(یہودی بھی بن سکتا ہے اور مسیح بھی صفحہ ۵۱۲.احمد کی امت اپنے وجود میں دو مخالف باتیں مخفی رکھتی ہے) اس کا فرد(مسیح بھی بن سکتا ہے اور یہودی بھی.ایک گروہ تو بدفطرت انسانوں کے لئے بھی جائے ننگ وعار ہے اور دوسرا گروہ انبیاء کا جانشین ہے صفحہ ۵۱۳.خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عہد ہو چکا ہے) یعنی مردے واپس نہیں آیا کرتے(تو آیت اَنَّہُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ پر غور کر

Page 690

صفحہ ۵۱۴.دنیا میں سخت شور پڑ گیا ہے.اے پیدا کرنے والے خدا اپنی مخلوقات پر رحم فرما صفحہ ۵۴۶.اے عزیزو! بغیر اخلاص اور سچائی کے کوئی راہ نہیں کھل سکتی.مصفا قطرہ چاہیے تا کہ موتی پیدا ہو صفحہ ۵۷۹.اگر کوئی خواب میں یہ دیکھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک عام جسموں سے کم ہے تو وہ کمی دیکھنے والے کے دین کا نقصان ہوگا.ابن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناقص دیکھے تو وہ نقصان خواب دیکھنے والے کا نقصان ہوگا صفحہ ۶۳۱.قرآن عظیم کی تفسیر میں صحابہ رضی اللہ عنھم کے مسلک کے برخلاف کوئی راہ اختیار کرنا الحاد اور ضلالت ہے اور رب العالمین کی رضامندی اسی میں ہے کہ ان (صحابہ) کی اتباع کی جائے

Page 691

انڈیکس روحانی خزائن جلدنمبر۳ مرتبہ :مکرم عبد الکبیر قمر صاحب زیر نگرانی سید عبدالحی آیات قرانیہ ۳ احادیث ۸ الہامات ۰۱ مضامین ۱۱ اسماء ۶۳ مقامات ۳۵ کتابیات ۵۵

Page 692

Page 693

آیات قرآنیہ الفاتحة اھدنا الصراط المستقیم (۶) ۹۸۳،۹۲۲،۲۵۳ صراط الذین انعمت علیھم(۷) ۹۲۲ البقرة فی قلوبھم مرض فزادھم اللہ مرضاً(۱۱) ۸۱۱ ولھم فیھا ازواج مطھرة (۶۲) ۱۸۲ یضل بہ کثیرا ویھدی بہ کثیرًا(۷۲) ۳۳۱ واذ قال ربک للملٰٓئکة(۱۳) ۵۲۴ ولکم فی الارض مستقرّ(۷۳) ۹۲۴ حتّٰی نری اللہ جھرةً(۶۵) ۸۹۱ واذ قتلتم نفسًا(۳۷) ۳۰۵ کذٰلک یحی اللہ الموتٰیٰ(۴۷) ۶۰۵ اولٰئک اصحٰب الجنة (۳۸) ۱۸۲،۱۲۶ح فتمنوا الموت ان کنتم صٰدقین(۵۹) ۲۹۲ الم تعلم ان اللّٰہ علیٰ(۷۰۱) ۵۰۶،۸۱۶ تلک امة قد خلت(۵۳۱) ۸۲۴ اولٰئک یلعنھم اللّٰہ (۰۶۱) ۵۱۱ح اولٰئک علیھم لعنة اللہ (۲۶۱) ۵۱۱ح وقال الذین اتبعوالو ان لنا کرة...(۸۶۱) ۰۲۶ح والذین یُتوفّون منکم(۵۳۲) ۸۶۲ والذین یُتوفّون منکم (۱۴۲) ۸۶۲ رفع بعضھم درجٰت(۴۵۲) ۱۸۲،۵۷۲ یوتی الحکمة من یشآئ(۰۷۲) ۲۴۴ اٰل عمران قل ان کنتم تحبون اللّٰہ (۲۳) ۰۳۲ اسمہ المسیح عیسیٰ ابن مریم(۶۴) ۸۴۴ یاعیسیٰ انی متوفیک (۶۵) ۴۷۲،۰۳۳، ۶۴۲،۴۳۲،۴۵ح،۶۵،۳۲۴،۱۰۵،۶۰۶،۰۳۶ تعالوا ندع ابناءنا(۲۶) ۳۲ح لن تنالواالبرّ حتّٰی تنفقوا(۳۹) ۸۳ ولاتموتن الا وانتم مسلمون(۳۰۱) ۲۵۵ فاصبحتم بنعمتہ اخواناً(۴۰۱) ۸۵۵ وما محمد الا رسول (۵۴۱) ۵۶۲،۷۷۲، ۷۲۴،۸۸۵ ماکان لنفس ان تموت(۶۴۱) ۵۰۶ ولا تحسبنّ الذین قتلوا(۰۷۱) ۱۸۲،۶۲۲ وتوفنا مع الابرار(۴۹۱) ۸۶۲ النساء حتّٰی یتوفّٰھن الموت(۶۱) ۸۶۲ ، ۴۲۴ یحرفون الکلم عن مواضعہ(۷۴) ۷۰۶،۱۱۶ فان تنازعتم فی شیئ(۰۶) ۴۹۵،۶۹۵ وما ارسلنا من رسول (۵۶) ۷۰۴ این ما تکونوا یدرککم الموت(۹۷) ۶۳۴ ان الذین توفّٰھم الملٰئکة (۸۹) ۸۶۲ وما قتلوہ وماصلبوہ(۸۵ا) ۷۷۲ بل رفعہ اللہ الیہ (۹۵۱) ۳۲۴،۶۴۲،۴۳۲ وان من اھل الکتاب الالیومنن بہ(۰۶۱) ۸۸۲،۷۹۲،۵۲۴ وکلمتہ القٰھا الیٰ مریم(۲۷۱) ۳۳۳ المائدة وما ھم بخارجین....(۸۳) ۰۲۶ح جعل منھم القردةوالخنازیر (۱۶) ۹۰۴ ماالمسیح ابن مریم الا رسول(۶۷) ۵۲۴

Page 694

یایھا الذین اٰمنوا(۶۰۱) ۷ح واذ قال اللّٰہ یٰعیسیٰ(۷۱۱) ۵۲۴ فلما توفیتی کنت انت الرقیب علیھم(۸۱۱) ۶۲۱،۴۲۲،۴۲۴،۵۲۴،۵۸۵،۸۸۵ الانعام ھوالذی یتوفّٰکم(۱۶) ۹۶۲ توفتہ رسلنا(۲۶) ۴۲۴،۸۶۲ لا تزر وازرةوزر اخریٰ(۵۶۱) ۹۰۶ الاعراف فیھا تحیون وفیھا تموتون (۶۲) ۲۰۶ قد انزلنا علیکم لباساً(۷۲) ۵۴۲ح حتّٰی اذا جآءتھم رسلنا(۸۳) ۴۲۴،۸۶۲ توفَّنا مسلمین(۷۲۱) ۸۶۲ والعاقبة للمتقین(۹۲۱) ۰۳۶ فبای حدیث بعدہ یو ¿منون (۶۸۱) ۰۱۶ الانفال اذیریکھم اللّٰہ فی منامک قلیلاً(۴۴) ۳۳۶ ان شرالدواب عند اللّٰہ الذین کفروا(۶۵) ۵۱۱ح التوبة واغلظ علیھم (۳۷) ۹۰۱ یونس انما مثل الحیٰوة الدنیا کمائ(۵۲) ۰۳۴ واما نرینک بعض الذی نعدھم(۷۴) ۸۶۲ ولٰکن اَع ´بُداللّٰہ الذی یتوفّٰکم (۵۰۱) ۴۲۴ ھود واما الذین سُعِدُوا(۹۰۱) ۰۸۲ یوسف توفنی مسلما والحقنی بالصّالحین(۲۰۱) ۸۶۲ الرعد تلک اٰیات الکتٰب (۲) ۰۳۶ او نتوفینک (۱۴) ۸۶۲ ابراھیم سخر لکم الشمس والقمر(۴۳) ۴۷،۵۷ الحجر تلک اٰیات الکتٰب(۲) ۰۳۶ انا نحن نزلنا الذکر(۰۱) ۱۱۶ وان من شیءالا عندنا خزائنہ(۲۲) ۰۵۴ ان عبادی لیس لکعلیھم سلطان(۳۴) ۳۹۵،۹۰۶ وماھم منھا بمخرجین(۹۴) ۴۵،۰۸۲،۰۲۶ح النحل والذین یدعون من دون اللّٰہ لایخلقون(۱۲،۲۲) ۱۳۴ الذین تتوفھم الملٰئکة (۹۲) ۴۲۲،۸۶۲ الذین تتوفکم الملٰئکة (۳۳) ۴۲۲ فاسئلوا اھل الذکر(۴۴) ۹۷۳،۳۳۴ ثم یتوفّٰکم (۱۷) ۸۶۲ ان اللہ یامر بالعدل والاحسان.(۱۹) ۰۵۵ بنی اسرائیل کلا نمد ھٰولاﺅھو ¿لاءمن عطاءربک(۱۲) ۴۳۶ لاتقف مالیس لک بہ علم...(۷۳) ۷۵۳، ۴۰۱،۷۳ من کان فی ھذہ اعمیٰ(۳۷) ۹۶۳ قل لئن اجتمعت الانس والجن(۹۸) ۵۱۶ لن نومن لک حتّی تفجر.......(۱۹) ۳۳۶ قل سبحان ربی (۴۹ ) ۵۵،۷۳۴ الکھف وکیف تصبر علیٰ مالم تحط بہ خُب ´رًا(۹۶) ۸۲۶ لایبغون عنھا حولاً(۹۰۱) ۰۲۶ح مریم لم نجعل لہ من قبل سمیا(۸) ۰۹۳

Page 695

سلام علیہ یوم ولد(۶۱) ۳۹۵،۹۰۶ واوصانی بالصلٰوة والزکاة(۲۳) ۱۳۳، ۸۲۴ وسلام علی یوم ولدت(۴۳) ۸۲۴ ورفعناہ مکاناً علیاً(۸۵) ۶۹۳،۰۰۳،۳۱۴،۳۲۴،۸۳۴ طہٰ منھا خلقنا کم وفیھانعیدکم(۶۵) ۳۱۵ الانبیائ وماجعلنا ھم جسداًلایاکلون الطعام(۹) ۵۶۲،۶۲۴ ۲۳۳،۷۷۲ وما جعلنالبشر(۵۳) ۷۷۲،۵۶۲،۷۲۴ انھم لایرجعون(۶۹) ۳۱۵،۴۱۵،۲۳۵،۹۱۶،۲۲۶ح انکم وما تعبدون (۹۹) ۹۰۱ ان الذین سبقت لھم منا الحسنیٰ(۲۰۱،۳۰۱) ۵۳۴ الحج ومنکم من یتوفّٰی(۶) ۵۶۲، ۸۶۲، ۸۲۴ فاجتنبوا الرجس من الاوثان(۱۳) ۰۵۵ لن ینال اللہ لحومھا(۸۳) ۷۴۲ ان یوماً عند ربککالف سنة(۸۴) ۲۴۳،۳۴۳ وماارسلنا من قبلک(۳۵) ۹۳۴ ،۴۳۶ المو ¿منون فتبارک اللہ احسن الخالقین(۵۱) ۰۶۲،۰۶۵ ثم انکم یوم القیامة تبعثون(۷۱) ۰۲۶ح حتی اذا جاءاحدھم الموت(۰۰۱،۱۰۱) ۹۱۶ الفرقان الذی لہ ملک السّمٰوٰت(۳،۴) ۹۵۲ح وما ارسلنا قبلکمن المرسلین(۱۲) ۱۳۴ وانزلنا من السمآء(۹۴،۰۵) ۲۲۳ الشعرائ والذی یمیتنی ثم یحیین(۲۸) ۲۳۴ وازلفت الجنة للمتقین(۱۹،۲۹) النمل صرح ممرّد من قواریر(۵۴) ۴۵۲ح انک لا تسمع الموتیٰ(۱۸) ۹۰۶ واذا وقع القول(۳۸) ۰۷۳ العنکبوت احسب الناس ان یترکوا (۳) ۳۳۶ کل نفس ذائقة الموت(۸۵) ۶۹۳ وان الدار الاٰخرة لھی الحیوان(۵۶) ۲۳۴ الروم الٓمٓ غلبت الروم فی ادنی الارض(۲تا۵) ۰۱۳ اللہ الذی خلقکم ثم رزقکم(۱۴) ۴۳۴ اللّٰہ الذی خلقکم من ضعف(۵۵) ۹۲۴ لقمان ان اللّٰہ لایحب کل مختال فخور (۹۱) ۴۷۵ السجدة قل یتوفکم ملک الموت(۲۱) ۴۲۲،۸۶۲،۴۲۴ الاحزاب ماکان محمد ابا احد.....(۱۴) ۱۶،۱۳۴ لن تجد لسنة اللّٰہ تبدیلا(۳۶) ۶۲۴ انا عرضنا الامانة(۳۷) ۵۷ فاطر الیہ یصعد الکلم(۱۱) ۳۳۳ یٰس انا نحن نحی الموتیٰ (۳۱) ۵۲۳ قیل ادخل الجنة (۷۲،۸۲) ۵۵،۱۸۲

Page 696

یاحسرة علی العباد.....(۱۳) ۱۴۲ فلا یستطیعون توصیة (۱۵) ۱۲۶ح ومن نعمرہ ننکسہ فی الخلق(۹۶) ۹۲۴ انما امرہ اذا اراد شیئاً(۳۸) ۵۱۲ الصّٰفّٰت وما منا الا لہ مقام معلوم(۵۶۱،۶۶۱) ۷۶ صٓ ان ھذا الا اختلاق(۸) ۱۳۶ مالنا لانرٰی رجالاً(۲۶) ۴۰۱،۲۰۳ اذ قال ربک للملٰئکة (۲۷تا۵۷) ۶۷ الزمر انزل لکم من الانعام(۷) ۵۴۲ح الم تر ان اللّٰہ انزل (۲۲) ۰۳۴ فیمسک التی قضیٰ علیھا الموت (۳۴) ۶۴۳ ،۷۸۳،۸۶۲ ،۰۲۶ح المو ¿من ان یک کاذبًا(۹۲) ۷۲۶ ومنکم من یتوفی(۸۶) ۸۶۲ فاما نرینک بعض الذی نعدھم(۸۷) ۸۶۲ الدخان حم والکتب المبین(۲تا۳۱) ۴۷۳ لایذوقون فیھا الموت(۷۵) ۶۴۳،۷۸۳ الجاثیة فبای حدیث بعد اللہ واٰیٰتہ یومنون(۷) ۰۱۶ محمد فکیف اذا توفتھم الملٰئکة (۸۲) ۸۶۲ الفتح اشداءعلی الکفار(۰۳) ۹۰۱ قٓ واحیینا بہ بلدة میتاً(۲۱) ۲۲۳ النجم ان ھو الاوحی یوحیٰ (۵) ۲۲۴ القمر فی مقعد صدق(۶۵) ۴۲۴،۵۳۴ الرحمن کل من علیھا فان(۷۲،۸۲) ۴۳۴،۳۱۵ الواقعة ثلة من الاولین (۰۴،۱۴) ۰۲۴ لایمسہ الا المطھرون(۰۸) ۷۳۳،۳۴۴،۳۷۵ الحدید اعلموا ان اللّٰہ یحی الارض(۸۱) ۵۲۳ وانزلنا الحدید(۶۲) ۵۴۲ح،۰۶۳ الحشر ما اٰتٰکم الرسول فخذوہ(۸) ۶۳۴ یو ¿ثرون علٰی انفسھم ولو کان بھم خصاصة(۰۱) ۷۳۵ الصف لم تقولون مالا تعلمون(۳،۴) ۷ح ھوالذی ارسل رسولہ(۰۱) ۵۱۵ الطلاق قد انزل اللہ الیکم ذکراً رسولاً (۱۱،۲۱) ۰۵۴ التحریم نورھم یسعیٰ بین ایدیھم(۹) ۴۸۲ القلم ودُّوا لو تدھن فیدھنون(۰۱) ۳۱۱،۶۱۱ح

Page 697

نوح مما خطیئٰتھم اغرقوا (۶۲) ۳۸۲ المزمل انا ارسلنا الیکم رسولاً(۶۱) ۸ النبائ کذبوا باٰیٰتنا کذاباً(۹۲) ۴۲ح عبس وجوہ یومئذ مسفرة (۹۳تا۳۴) ۴۸۲ الفجر یا یتھا النفس المطمئنة(۸۲تا۱۳) ۷۴۲،۴۶۲، ۸۷۲،۳۳۲،۳۳۴،۵۳۴،۰۰۵،۶۰۶ فادخلی فیعبادی...(۰۳،۱۳) ۵۵،۱۸۲،۶۶۲ الشمس والشمس وضحٰھا(۲تا۶۱) ۵۳،۷۷،۲۸، ۹۷،۷۹۵ الضحیٰ واما بنعمة ربک فحدث(۲۱) ۸۳۳ التین لقد خلقنا الانسان(۵) ۵۷ القدر انا انزلنٰہ فی لیلة القدر(۲) ۹۵۲ لیلة القدر خیر من الف شھر (۴) ۲۳ تنزل الملٰئکة والروح فیھا(۶،۵) ۲۱ح الزلزال اذا زلزلت الارض زلزالھا(۲) ۱۶۱ الھمزة ناراللّٰہ الموقدة (۷،۸) ۴۸۲ اسرعکن لحوقاً بی اطولکن یداً ۲۳۶

Page 698

احادیث نبویہ اعمار امتی مابین الستین الیٰ ۶۳۴،۷۳۴ الا انہ فی بحر الشام او بحر الیمن ۶۵۵ الاٰیات بعد الما ¿تین ۹۸۱،۸۶۴،۹۶۴ الرو ¿یا الصالحة جزءمن ستة واربعین من النبوة ۱۶ امامکم منکم ۱۱۵ انا الحاشر الذی یحشر الناس ۵۲۳ انا اولیٰ الناس بابن مریم ۸۸۵ انما انا قاسم واللہ ھو المعطی ۲۴۴،۵۵۴ ان المیت یعذب ببعض بکاءاھلہ ۹۰۶ انی انا المسیح وانی ان یوشک ۹۵۳ اوصیٰ بکتاب اللّٰہ ۰۱۶ حسبکم القرآن ۰۱۶ حسبنا کتاب اللہ ماکان من شرط ۰۱۶ رب لم اظن ان یرفع علی احد ۶۷۲،۴۱۶ طوبیٰ للشام قلنا لای ذٰلک ۶۷۴ علماءامتی کانبیاءبنی اسرائیل ۱۶۳،۰۳۲،۲۵۳ فاعتزل تلک الفرق کلھا ۴۹۵ فاقول کما قال العبد الصالح ۵۸۵ فان یک فی امتی منھم احد فعمر ۰۰۶ کیف انتم اذا نزل ابن مریم ۶۵،۵۲۱،۹۲۶ قال یا عبدی تمن علی ۱۲۶،۲۲۶ لاالمھدی الا عیسی ۹۷۳ لا یاتی مائة سنة وعلیٰ الارض ۸۵۳ لم یبق من النبوة الا المبشرات ۰۶ لوکان الایمان معلقاً عند الثریا ۵۵۴،۳۹۴ح لیت موسیٰ سکت حتیٰ یقص ۸۲۶ لینزلن ابن مریم حکماً عدلاً ۵۵۵ مابین خلق آدم الیٰ قیام الساعة ۲۶۳ ماعندنا شیءالا کتاب اللہ ۰۱۶ ما علی الارض من نفس منفوسة ۸۵۳،۷۳۴ مامن مولود الا والشیطٰن ۲۹۵،۳۹۵،۹۰۶ متوفیک ممیتک ۷۸۵ من حسن اسلام المرءترکہ مالا یعنیہ ۰۷۵ من شَذَّ شُذَّ فی النار ۳۱۴ من قتل قتیلاً ۵۵۵ والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ۸۹۱ ومن عاد لی ولیًافقد اٰذنتہ للحرب ۵۹۵ وھذا الکتاب الذی ھدی اللّٰہ بہ ۰۱۶ یقتل عیسیٰ الدجال عند باب لد الشرقی ۴۱۴ آج کی تاریخ سے سو برس تک تمام بنی آدم پر قیامت آجائے گی ۷۲۲،۲۷۳ حضرت ابراہیم اور حضرت سلیما ن کے درمیان ہزار برس سے زیادہ فاصلہ ۲۱۶ اختلاف حُلیتین ۱۳۶ آخری زمانہ میںمسلمان بکلی یہودیوں کے مشابہ ہوںگے ۹۱۴،۰۲۴ اس امت پر ایک زمانہ آنے والا ہے جس میں یہودیوں سے سخت درجہ کی مشابہت پیدا کرلیگی ۹ح اس امت میںمثیل انبیاءبنی اسرائیل پیدا ہوں گے ۲۱۵ اگر اس امت میں بھی محدث ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کلام

Page 699

کرتا ہے تو وہ عمر ہے ۱۱ح ،۹۱۲ اگر میری زندگی میں دجال نکل آوے تو میں تمہارے سامنے اس سے جھگڑوں گا ۹۹۱ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ؓ ہوتا ۹۱۲ مسیح دو فرشتوں کے پروں پر ہتھیلیاں رکھے ہوئے آئے گا ۶۷۴ جو شخص صحبت کے وقت بسم اللہ پڑھے اس کی اولاد مس شیطان سے محفوظ رہتی ہے ۲۱۶ شیطان عمر ؓ کے سایے سے بھاگتا ہے ۹۱۲ کوئی جاندار اس وقت سے سو برس تک زمین پر زندہ نہیں رہ سکتا ۲۷۳ کوئی نبی فوت ہونے کے بعد چالیس دن سے زیادہ زمین پرنہیں ٹھہرتا ۵۵۳ مسیح موعود لوگوں کے عقائد اور خیالات کی غلطیاں نکالے گا ۷۷۴ مجھے دوزخ دکھلایا گیا ۱۸۲ مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کی بناءمیں چالیس برس کا فرق ۲۱۶ مسیح ابن مریم کو سلام پہنچانے کی حدیث ۳۱۴ مسیح کے بعد شریر رہ جائیں گے جن پر قیامت آئے گی ۰۹۲ مسیح کے دم سے اس کے منکر خواہ وہ اہل کتاب ہیں یا غیراہل کتاب کفر کی حالت میں مریں گے ۹۸۲،۷۷۴ میری عزت خدا تعالیٰ کی جناب میں اس سے زیادہ ہے کہ مجھے چالیس دن تک قبر میں رکھے ۵۲۲ح،۷۲۲ح ،۵۵۳ میری قبر کے نیچے روضہ بہشت ہے ۷۸۲ ہر ایک صدی کے سر پر خدا تعالیٰ ایک ایسے بندہ کو پیدا کرتا رہے گا کہ جو اس کے دین کی تجدید کریگا ۶ ہر ایک نبی اپنی قوم کو دجال کے نکلنے سے ڈراتا آیا ہے ۱۲۲ جن لوگوں پر واقعی طور پر موت وارد ہوجاتی ہے وہ زندہ کرکے دنیا میں نہیں بھیجے جاتے ۹۱۶ح

Page 700

الہامات عربی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ااردت ان استخلف ۳۴۳،۷۶۴،۴۷۴ اخرج منہ الیزیدیون ۸۳۱ح،۷۶۱ح اصلھا ثابت وفرعھا فی السماء ۸۲۵ الحق من ربک فلا تکونن ۶۰۳ الحمدللہ الذی اذھب عنی الحزن ۹۷۴ ان الذین کفروا وصدوا ۴۵۱ح ان السمٰوٰت والارض ۴ ۷۴ انا انزلنا ہ قریباً......۸۳۱ح ان اشد مناسبة بعیسی ابن مریم ۵۶۱ انک باعیینا ۶۷۴ انی جاعل فی الارض خلیفة ۵۷۴ ثم احییناک بعد ما اھلکناالقرون ۴۶۴ تری نسلاً بعیداً ۳۴۴ جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء ۶۹۱ جعلناک المسیح ابن مریم ۹۰۴ خلق اٰدم فاکرمہ ۳۴۳ فیک مادة فاروقیة ۱۱ح کتب اللّٰہ لاغلبن انا ورسلی ۶۹۱ کل برکة من محمد ﷺ ۷۱۴ کلب یموت علی کلب ۰۹۱ کنت کنزاً مخفیاً فاحببت ان اعرف ۴۷۴ قل ان کنتم تحبون اللہ ۰۴۱ح قل انی امرت وانا اوّل المومنین ۹۷۴ قل لو اتبع اللہ اھوائکم ۰۴۱ح قل لو کان الامر من ۰۴۱ح قل لو کان البحرمداداً ۰۴۱ح لوکان الایمان معلقاً بالثریا ۳۵۱ح لنحیینک حیٰوة طیبة ۳۴۴ مبارک ومبارک وکل امر مبارک ۰۹۱ وجعلنٰک المسیح ابن مریم ۹۰۴،۲۲۴،۳۶۴ وذٰلک اللہ ۹۷۴ ھذا ھو الترب الذی لا یعلمون ۹۵۲ح ھوالذی ارسل رسولہ ۳۹۱ یااحمد بارک اللّٰہ ۳۹۱ یٰعیسی انی متوفیک ۳۹۱،۱۰۳،۸۱۳ اردو ان علماءنے میرے گھر کو بدل ڈالا ۰۴۱ح ان کو کہدے کہ میںعیسیٰ کے قدم پر آیا ہوں ۲۴۴ ایک اولو العزم پیدا ہوگا ۲۴۴ جو لوگ خد اتعالیٰ کے مقرب ہوتے ہیں ۶۱ح دنیا میں ایک نذیر آیا ۹،۱۰۱،۳۲۳ کیا شک ہے ماننے میںتمہیں اس مسیح کے (الہامی اشعار) ٹائٹل پیج فتح اسلام اور توضیح مرام مسیح رسول اللہ فوت ہوچکا ہے ۲۰۴ موت کے بعد پھر تجھے حیات بخشو ںگا ۶۱ ح میں اپنی چمکار دکھلاو ¿ںگا ۶۱ح میںتجھے زمین کے کناروں تک عزت دونگا ۲۴۴ نبی ناصری کے نمونہ پر اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا ۵۳۳ فارسی بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید ۳۲ فرزند دلبند گرامی ارجمند ۰۸۱

Page 701

کلید مضامین ا آریہ آریوں نے ملائک کی پرستش کی ہے.۲۷،۳۷ قرآن کی مخالفت میںنیوگ کا عقیدہ رائج ہوا ۳۸۳،۴۸۳ اجتہادی غلطی انبیاءلوازم بشریت سے الگ نہیں ہوتے ۷۵۵ وحی کشف یا خواب کے سمجھنے میں نبی سے غلطی ہونا ۰۲ انبیاءسے اجتہاد کے وقت امکان سہو وخطا ہے ۱۷۴تا۳۷۴ آنحضرت ﷺ سے اجتہادی غلطی ہوئی ۱۱۳ اجماع پیشگوئیوں میںاجماع نہیں ہوتا ۷۹۳،۸۰۳،۶۲۳ صحابہ میں اختلاف کے باوجود کسی پر فتویٰ کفر نہیں لگا ۸۴۲ حضرت عائشہ ؓ کاعقیدہ تھا کہ معراج روحانی ہوا.یہ اکثریت کی رائے سے مختلف عقیدہ تھا ۰۵۲،۸۴۲ اجماع کا دعویٰ کذب ہے (امام احمد بن حنبل) ۲۳۶ کیا اجماع ہے کہ نصوص کو ظاہر پر حمل کیا جائے ۲۱۳،۳۱۳ احیائے موتٰی معجزہ کے طور پر مردے زندہ ہونےکی حقیقت ۵۴۴،۶۴۴ استخارہ استخارہ کرنے والے کی نفسانی تمنا میں شیطان دخل دیتاہے ۸۲۲ استعارات مکاشفات میں استعارات غالب ہوتے ہیں ۲۱۳ انبیاءکے مکاشفات میں استعارات کی مثالیں ۳۳۱ح مکاشفات نبوی میں استعارات ۲۳۶،۰۱۳ کشفی امور کا ظاہر پر حمل قطعی طور پرکس وقت ہوتاہے ۳۰۲،۴۰۲ استعارات کی تفسیر کو حوالہ بخدا کرنا ۷۱۲ بلاغت کا تمام مدار استعارات لطیفہ پر ہوتا ہے ۸۵ مجسم آسمان سے اتارا جانااستعارہ ہے ۷۴۲ مسیح ابن مریم کی نسبت پیشگوئیاںمکاشفات نبویہ ۵۰۲ ایلیا کو یوحنا کہنا ۹۷۳،۰۸۳ صحیح مسلم کی دمشقی حدیث میں استعارات ہیں ۵۱۳،۶۱۳ اسلام اسلام کا زندہ ہونا ایک فدیہ مانگتا ہے ۰۱ اسلام میں خواص الناس خواص الملائک سے افضل ۴۷ اسلام میں مثیل الانبیاءبننے کی راہ کھلی ہوئی ہے ۰۳۲ اسلام کی سچائی عقل سلیم کے دل میں گھر کر جاتی ہے ۸۱۵ اعلائے کلمہ اسلام کی غرض سے کون بھیجا گیا؟ ۶ تجدید دین کیا ہے؟ ۷ح اسلام کی تبلیغ کے لیے مالی معاونت کی تحریک ۶۱۵ آخری زمانہ میں مسلمان یہود کے مشابہ ہونگے ۴۹۳،۵۹۳، ۸۰۵،۹۰۵۰۶۴تا ۴۶۴،۹ح اسلام نے مداہنہ کو جائز نہیںرکھا ۳۱۱ اسلام کی مثال موجودہ زمانے میں ۱۳ مشتمل بر مرثیہ تفرقہ حالت اسلام ۴۴،۶۴ عیسائیت میں اسلام کی مخالفت ۷۱۵ ، ۵ اسلام عقل کو معطل اور بے کار ٹھہرانا نہیںچاہتا ۱۵۲ اشتہارات مختلف اشتہارات بھجوائے گئے ۹۲ اشتہار عام معترضین کی اطلاع کیلئے ۶۴،۷۴

Page 702

اے شک کرنے والو! آسمانی فیصلہ کی طرف آو ¿ ۲۰۱ تکمیل تبلیغ دس شرائط بیعت ۳۶۵ توفی اور الدجال کے بارے میںاشتہار ۲۰۶ اصحاب الصفہ اصحاب الصفہ کے اخراجات کیلئے فکر ۹۲ اصحاب کہف سورةالکہف میں اصحاب کہف کی استقامت کا ذکر ۶۰۲ اصحاب کہف شہداءکی طرح زندہ ہیں ۶۲۴،۷۲۴ اصطلاح اصطلاحی امر میں لغت کی طرف رجوع کرنا حماقت ہے ۹۸۳ اصلاح نفس انبیاءکے نیک نمونہ کی پیروی ۸۱ حضرت مسیح موعود ؑ کی تقاریر اصلاح کا موجب ہیں ۷۱ حضرت مسیح موعود ؑ کی تالیفات اصلاح کی موجب ہیں ۷۲ اعتراضات نیز دیکھئے سوالات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان ا عتراضات کے جوابات دےے:- آپ نے مخالفین کے لیے سخت الفاظ کااستعمال کیا ۸۰۱ آپکو ماننے سے صحاح نکمی وبیکار ہوجائیں گی ۹۴۲ باب نبوت مسدود ہے اور وحی پر مہر لگ چکی ہے ۰۶ مثیل مسیح بھی نبی ہوناچاہیے کیونکہ مسیح ابن مریم نبی تھا ۹۵ کیاحضرت مسیح منصب نبوت سے مستعفی ہو کر آئیں گے ؟ ۶۵ قرآن کریم کے نئے معانی کرنا الحاد ہے ۴۵۲تا۴۶۲ قرآن کے نئے معانی کرنا اجماع کی کسر شان ہے ۶۶۴ قرآن کریم میں نام لے کر مسیح ابن مریم کے دوبارہ آنے کا ذکر کیوں نہیں کیاگیا؟ ۸۶۴ صحیح احادیث سے مسیح کے ظہور کا زمانہ ثابت نہیں ہوتا ۶۰۴ مسیح ابن مریم کے آنے کی خبریں ہی غلط ہیں ۹۹۳تا ۲۰۴ حضرت مسیح کے پیدا کردہ پرندوں کی زندگی تھوڑی ہوتی تھی ۱۶۲ح ،۲۶۲ح خد ا تعالیٰ قادر ہے کہ فوت شدہ مسیح ابن مر یم کو دوبارہ زندہ کرکے بھجوادے ۹۱۶ح تا ۵۲۶ح مسیح بعد وفات زندہ ہو کر آسمان کی طرف اٹھائے گئے ۳۳۲ مسیح موعود کا آسمان سے اترنااجماعی عقیدہ ہے ۹۸۱ اولیاءاور انبیاءکے الہامات کی کیا خصوصیت ہے ۴۹تا ۸۹ قرآن کریم میں تعارض پایا جاتا ہے ۹۱۶تا ۲۲۶ حضرت مسیح موعود علیہ السلا م نے کسی بیماری کی و جہ سے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ۱۲۱ ”نور افشاں“ کے ایک اعتراض کا جواب ۳۵۳تا ۶۵۳ اجماع ہے کہ نصوص کو ظاہر پر حمل کیا جائے ۲۱۳،۳۱۳ اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق چیزوں کی قسمیں کھانا ۰۸ خرِ دجال اگر ریل گاڑی ہے تو اسے نیک اور بد دونوں استعمال کرتے ہیں ۵۵۵،۶۵۵ اعلان فتح اسلام کی قیمت ، مفت تقسیم کیے جانے کے متعلق اعلان ۲ توضیح مرام اور ازالہ اوہام کے متعلق ۸۴ ازالہ اوہام کے تیار ہونے کا اعلان ۰۵ اطلاع بخدمت علماءاسلام جب تک تینوں رسائل فتح اسلام، توضیح مرام، ازالہ اوہام غور سے پڑھنے سے قبل مخالفانہ رائے کے اظہار کے لیے جلدی نہ کریں ۰۰۱ اللہ تعالیٰ قیوم العالمین کہلانے کی و جہ ۰۹ تعلق باللہ کے سلسلہ میں انسان کی دوخوبیاں ۶۷ اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوقات سے تعلق کی مثال ۹۸

Page 703

اللہ کی پیدا کردہ اشیاءمیں بے انتہاعجائبات ۵۶۴،۶۶۴ اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق چیزوں کی قسمیں کھانا ۰۸ اللہ تعالیٰ کا استعاروں سے کام لےنا ۱۱ ح دنیا کے حکیموںکے مقابل پرامّیوںکو سمجھ عطا کرتاہے ۰۲۱ اللہ کے وعدے کبھی بلاواسطہ اور کبھی بالواسطہ پورے ہوتے اس کی مثالیں ۷۱۳ الہام اور وحی وحی کی تعریف ۸۹۵،۹۹۵ الہام رحمانی بھی ہوتا ہے اور شیطانی بھی ۹۳۴تا۱۴۴ ہر ایک ولی پر جبرائیل ہی وحی کی تاثیر ڈالتا ہے ۸۸ جبرائیل کے نزول کی کیفیت ۱۹،۲۹ روحانی علوم اور روحانی معارف کے حصول کا ذریعہ ۸۲۳ قرآن کریم میں لفظ الہام کا استعمال ۷۹۵،۸۹۵ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت سے حقانی وحی کے انوار بچشم خود دیکھے جاسکتے ہیں ۱۴ اولیاءپر الہام کا نزول ۰۰۶ ملہم پر آیت قرآنی کے نئے معانی نازل ہونا ۱۶۲ کچھ ملہمین میں روحانیت نظر نہ آنے کی و جہ ۹۲۳،۰۳۳ کیا الہام بے اصل اور بے سود چیز ہے ۶۹۵تا۲۰۶، ۶۲۳ تا ۰۳۳ اولیاءوانبیاءکے الہامات کی خصوصیت ۴۹تا ۸۹ کیاباب نبوت مسدود ہے اور وحی پر مہر لگ چکی ہے؟ ۰۶ آریوں کے نزدیک چار ویدوں کے نزول کے بعد الہام بند ہو گیا ۷۹ امانت آیت انا عرضناالامانة میں امانت سے مراد ۵۷ امور اخباریہ کشفیہ امور اخباریہ کشفیہ میں انبیاءسے اجتہادی غلطی ممکن ہے ۶۰۱ وحی کشف یا خواب کی تعبیر میں نبی سے غلطی ہوسکتی ہے ۴۰۲ انبیاءکے مکاشفات کی مثالیں کہ ظاہر کچھ کیا گیا اور مراد کچھ اور تھا ۳۳۱ح انجیل ۰۲ مسیح نے انجیل میں توریت کا صحیح خلاصہ پیش کیا تھا ۳۰۱ انجیل کے مقابل پرقرآن کی اعلیٰ تعلیم ۹۴۵،۰۵۵ مسیح کے کام دعا کے ذریعہ ہرگز نہیں تھے ۲۶۲ح ،۳۶۲ح انجیل کے مطابق مسیح کو اسی وقت اترنا چاہیے تھا ۸۸۱ ایلی ایلی لما سبقتنی ۳۰۳،۴۰۳ عورت کو شہوت کی نظر سے مت دیکھ ۹۴۵ مسیح کی عدم مصلوبیت پر انجیل سے استدلال ۴۹۲تا۷۹۲ انجیل میں مذکور مسیح کے اس قول کی وضاحت کہ میں مارا جاو ¿ں گا اور تیسرے دن جی اٹھوں گا ۲۰۳،۳۰۳ مسیح نے کہا کہ آج میں بہشت میں داخل ہونگا اس قول کی وضاحت ۳۰۳ کفارہ کی تعلیم کوتو انجیل نے ہی برباد کردیا ہے ۴۹۲تا۷۹۲ بائبل سے دو نبیوں کے آسمان پر جانے کا تصور ۲۵ حواریوں نے مسیح کے آسمان پر جانے کا ذکر نہیں کیا ۹۱۳ انجیل کی رو سے مسیح موعود کی علامات ۹۶۴ ایلیا کا دوبارہ آنا ۳۳۴ اگر یہ اعتراض ہو کہ ایلیا نبی کے دوبارہ آنے کا واقعہ ملاکی میںمذکور ہے مگر یہ کتابیں محرف ومبدل ہیں ۰۴۲ بائبل میں انگریز اور روس دونوں قوموں کا ذکر ۹۶۳،۳۷۳ اس سوال کا جواب کہ بمطابق انجیل جلالی مسیح کے ظہور کی کوئی علامت یہاں نہیں ملتی ۹۳۳تا ۲۴۳

Page 704

بمطابق انجیل مسیح پر معجزہ نہ دکھانے کا اعتراض ۴۳۳،۵۳۳ پیشگوئیوں میں ایک قسم کی آزمائش ہوتی ہے ۹۳۲ لعزر مرنے کے بعد ابراہام کی گود میں بٹھایا گیا ۱۸۲ مسیح ستاروں کے گرنے کے بعد آئے گا ۴۶۴ عیسائیوں کی طرف سے مذہبی کتابوں کی تقسیم ۸۲ح انسان انسانی زندگی کا منشا اور مقصد ۱۴ خواص الناس خواص الملائک سے افضل ہیں ۴۷ انسان کی دو خوبیاں ۶۷ انسانی نفس کا مختلف مدارج کی و جہ سے مختلف نام ۸۷ح سورةالشمس میںانسان کامل کے بلند تر مرتبے کا بیان ۷۷ انسان کامل کے نفس کو آسمان اور زمین سے مشابہت ۹۷ نفس انسان سے متعلق مختلف آراء ۰۸ فرشتہ کی تاثیر انسان کے نفس پر دو قسم کی ہوتی ہے ۶۸ انفاق فی سبیل اللہ تبلیغ کے لیے مالی معاونت کی تحریک ۶۱۵ عالی ہمت دوستوں کی خدمت میںگذارش ۳۲۶،۴۲۶ انگریز انگریز گورنمنٹ رومی حکومت سے بہتر ہے ۱ ۰۳ ان کا عملی طریق موجب انسداد جرائم ہے ۱۶۵ح انگریزوں کی فتح کی دعا ۳۷۳ انگریز حکومت کا مقابلہ ہیرودیس کے عہد حکومت سے ۴۱ح یاجوج ماجوج سے مراد انگریز اور روس ہیں ۹۶۳،۳۷۳ انگریزکی حکومت بلحاظ امن اور عام رفاہیت کے بمراتب افضل ہے ۵۱ح ،۰۳۱ح گورنمنٹ کا زمانہ امن کے لحاظ سے حضرت نوح کے زمانے سے مشابہ ہے ۱۳۱ اس سوال کا جواب کہ دجال کی علامتیں کامل طور پر انگریز پادریوں کے فرقوں میںکہاں پائی جاتی ہیں ۰۷۴،۱۷۴ اہل کتاب (نیز دیکھیں یہود ،عیسائی ) دجال اہل کتاب میں سے ہی ہوگا ۹۸۲ اہل قرآن احادیث کے انکارسے صحابہ کا وجود بھی ثابت نہیںہوتا ۰۰۴،۱۰۴ حدیثوں میں نزول مسیح کے بارے میں بعض نو تعلیم یافتہ مسلمانوں کے انکار کا جواب ۰۶۴ ب بائبل سوسائٹی مذہبی دنیا میں مسیحی کتب کی کثر ت سے تقسیم ۸۲ح بدھ مذہب ۲۴۲ بروز ایک دوسرے کے بروزاولیاء ۴۴۳ حضرت بایزید کا اپنے آپ کو دیگر انبیاءکا نام دینا ۰۳۲ برہمو برہمو نے ملائک کی پرستش کی ہے ۲۷،۳۷ بلاغت بلاغت کا تمام مدار استعارات لطیفہ پر ہوتا ہے ۸۵ بنی اسرائیل قرآن کریم میں بنی اسرائیل کے واقعات مجازی اور استعارہ کے رنگ میں بیان ہوئے ہیں ۶۴۴تا۹۴۴

Page 705

بیعت بیعت کرنے والوں کو نصائح ۶۴۵تا۲۵۵ بیعت کے لیے مستعد صاحبوں سے گذارش ۸۵۵تا۳۶۵ دس شرائط بیعت ۳۶۵تا ۶۶۵ پ پادری (نیز دیکھئے عیسائیت) پادریوں کی کوشش سے عیسائیت کی ترقی ۴۶۳ پادریوں کا مسلمانوں کو گمراہ کرنے کا طریق ۶۶۳تا۸۶۳ اس زمانہ کے دجال پادری ہیں ۲۶۳،۳۶۳ دجال کی علامتوں کا پادریوںمیں پایا جانا ۰۷۴،۱۷۴ پیشگوئیاں پیشگوئیوں میں استعارات ۹۰۳،۰۱۳ اسلام میںپیشگوئیوں پر اجمالی ایمان کی تعلیم ہے ۹۰۳ تا۱۱۳ اجماع کو پیشگوئیوں سے کچھ علاقہ نہیں ۷۹۳،۸۰۳،۶۲۳ پیشگوئیوں میں بعض امور کا اخفا ۲۴۲تا ۴۴۲ ،۳۳۱ پیشگوئیاںنبی کی صداقت پر بطور دلیل ہیں ۹۰۳ خدا تعالیٰ پیشگوئیوں میں ابتلاءکا پہلو رکھتا ہے ۲۴۲ پیشگوئیوں کا پورا ہونا اوقات مقررہ پرہوتاہے ۳۳۶ پیشگوئیوں میں ایک قسم کی آزمائش ہوتی ہے ۹۳۲ آنحضر ت کی بعض پیشگوئیوں کاظاہری معنوں میں پورا نہ ہونا ۵۹۴،۶۹۴ انبیاءاور محدّثوں سے کیے گئے وعدوں کی کبھی بلاواسطہ اور کبھی بالواسطہ تکمیل ہوتی ہے ۷۱۳ نزول مسیح کی پیشگوئیوں میں بھی اخفاءکا پہلو ہے ۲۴۲ حضرت ابو بکر ؓ کا ابو جہل سے روم کے بارے میں قرآنی پیشگوئی کے حوالے سے شرط کا ذکر ۰۱۳،۱۱۳ پیشگوئیوں کے سمجھنے میں انبیاءسے بھی اجتہادی غلطی ہو جاتی ہے ۰۱،۷۰۳ فتوی کفر سے متعلق پیشگوئی ۴۱ح،۵۱ح آنحضرت ﷺ سے اجتہادی غلطی سرزد ہونا ۱۳ پیشگوئیاں حاملہ عورتوں سے مشابہت رکھتی ہیں ۸۰۳ ییشگوئی نزول مسیح کی جزئیات کا کامل انکشاف نہیں ۳۷۴ آنحضرت ﷺ کی بعض پیشگوئیاں آپ کے خلفاء کے ذریعہ پوری ہوئیں ۷۱۳،۸۱۳ پیشگوئی میں بعض اوقات ظاہری الفاظ مراد نہیں ہوتے ۲۴۲تا۴۴۲ کفار مکہ نے یسعیاہ کی پیشگوئی کو ظاہری معنوں میں لے کر حضور کا انکار کیا ۳۳۶ ت،ث تالیف تالیف وتصنیف کی اہمیت ۷۲،۹۲ جدید فسادوں کے پیش نظر نئی تالیفات کی ضرورت ۲۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تالیفات حق کے طالبوں کو راہ راست کی طرف کھینچنے والی ہیں ۷۲ بجائے واعظ کے عمدہ تالیفیں مغربی ممالک میں بھجوانا ۸۱۵ تبلیغ بیرونی ممالک میں تبلیغ کے لیے مالی معاونت کی تحریک ۶۱۵ انبیاءکا طریقہ تبلیغ گفتگو اور برمحل تقریروں کے ذریعہ ہے ۵۱ تثلیث پاک تثلیث ۲۶

Page 706

تجدید دین تجدید دین کیا ہے ۷ح انجمنیں اور مدارس قائم کرنا تائید دین کے لیے کافی نہیں ۱۴ تحریک انیباءکے طریق پر امداد کی تحریک ۰۳ اسلام کے ذی مقدرت لوگوں سے خطاب ۳۳ لوگ دینی مہمات کی بجائے دنیوی فکر میںلگے ہیں ۶۱۵ ازالہ اوہام کی خریداری کی تحریک ۳۲۶ تعبیر آنحضرت ﷺ کا خواب کی تعبیر فرمانا ۵۰۲ نفسانی تمنامیں شیطان کا دخل ۸۲۲ تفسیر سورة الزلزال کی لطیف تفسیر ۱۶۱،۹۶۱ تفسیر آیت یضل بہ کثیرا ویھدی بہ کثیرا ۳۳۱ تفسیر آیت یایتھا النفس المطمئنة ۳۳۲ رافعک الی وبل رفعہ اللہ الیہ ۴۳۲،۵۳۲،۵۶۲، ۶۶۲،۲۷۲،۵۷۲ انی اخلق لکم من الطین کی تفسیر ۴۵۲ وماقتلوہ وماصلبوہ کی تفسیر ۷۷۲،۰۹۲،۳۹۲ ماصلبوہ کے حقیقی معنی اور بائبل سے تائید ۴۹۲ قَب ´لَ مَو ´تِہ کی تفسیر ۸۹۲،۹۹۲ وانہ لعلم للساعة فلاتمترن بھاکی تفسیر ۱۲۳،۶۲۳ الیہ یصعد الکلم الطیب کی تفسیر ۳۳۳ اِنَّااَن ´زَل ´نٰہُ فِی لَی ´لَةِ ال ´قَد ´رِ کے معنی ۹۵۲ انی ممیتک ۵۲۶ح ثلة من الاولین وثلة من الآخرینکی تفسیر ۰۲۴ واذ قتلتم نفساً فادارا ¿تم فیھاکی تفسیر ۳۰۵ ان اللہ یامر بالعدل والاحسان کی تفسیر ۰۵۵،۲۵۵ یاعیسیٰ انی متوفیک ورافعککی مفصل تفسیر ۶۰۶تا۸۰۶،۱۱۶،۵۲۶ والذی یمیتنی ثم یحیین کی لطیف تفسیر ۵۲۴،۲۰۵ سورة دخان کی پہلی دس آیات کی تفسیر ۴۷۳ ملہم پر آیت قرآنی اصل معنوں سے پھیر کر القا ہونا ۱۶۲ کیاقرآن کریم کے ایسے معنی کرناجو پہلوں سے منقول نہیں الحاد ہے ۴۵۲تا۴۶۲ کیاقرآنی اصطلاح کو لغت کی و جہ سے پھیرنا الحاد ہے ۹۴۳،۰۵۳ حضرت مسیح موعود ؑ نے انگریزی تفسیر لکھ کر یورپ میں بھجوانے کی خواہش کا اظہار فرمایا ۸۱۵ تقویٰ متقی کا لاہوتی مقام ۸۵۵تا۰۶۵ تقویٰ کے اعلیٰ درجے کا حصول ۹۴۵ پرہیز گاری کی باریک راہوں کی رعایت ۷۴۵ دوستوں کے لیے نصیحت کی باتیں ۶۴۵تا ۲۵۵ توریت توریت میں آنحضرت ﷺ کے متعلق پیشگوئی ۱۴۲ حضرت مسیح ابن مریم کا نام سیلا بھی رکھا گیا ۳۱۳ حضر ت یعقوب ؑ کی دعا کا ذکر ۴۱۳ ”جو پھانسی دیا جائے وہ ملعون ہے“ ۹۲،۷۷۲ مصلوب خد ا کی رحمت سے بے نصیب ہوتا ہے ۶۰۶ اگر یہ اعتراض ہو کہ ایلیا نبی کے دوبارہ آنے کا واقعہ ملاکی میںمذکور ہے مگر یہ کتابیں محرف ومبدل ہیں ۰۴۲ انجیل میں توریت کا صحیح خلاصہ اور اصلی مغزپیش کیا گیاہے ۳۰۱

Page 707

توفی(نیز دیکھئے وفات مسیح) توفی لفظ کی نسبت ہزار روپے کا چیلنج ۲۰۶تا ۵۰۶ آنحضرت کے لیے لفظ توفی کا استعمال ۴۷۲،۵۸۵،۶۸۵ توفی کی بجائے اماتت کا لفظ کیوں استعمال نہیں کیا ۰۷۲،۱۷۲ توفی کے معنی قرآن کی رو سے کیا ہوسکتے ہیں ۷۶۲تا۰۷۲ توفی کا لفظ لغت میں کئی معنوں میں ہے ۹۴۳،۰۵۳ ،۹۸۳ قرآن کریم میں لفظ توفی کی صرف دو طرح تشریح ۱۹۳،۲۹۳ توفی کے معنی نیند نہیں ہوسکتے ۴۲۲ انی ممیتک ۷۸۵،۴۲۲ انی ممیتک حتف انفک (کشاف) ۷۰۶ کیامتبادر اور مسلسل معنی سے ہٹنا الحاد ہے ۱۰۵ تفسیروں میں توفی کے مختلف معانی کا جواب ۱۰۵،۲۰۵ توفی کا لفظ قبض روح کے معنوں میں محدودہے ۴۲۴،۵۲۴ قبض روح معانی کا عمیق تحقیقات سے ثبوت ۳۸۵تا۵۸۵ قرآن میںتوفی کے معنی موت ہیں ۴۲۲ح النصوص یحمل علیٰ ظواھرھا ۰۹۳،۱۹۳ کیاقرآنی اصطلاح کو لغت کی و جہ سے پھیرنا الحادہے ۹۴۳،۰۵۳ اس سوال کا جواب کہ قبض روح کے معانی کے برخلاف مفسروں نے اوراقوال کیوں لکھے ۰۵۳،۱۵۳ ج،چ جزیہ حدیث یضع الجزیةکی تشریح ۷۵ جماعت احمدیہ اشاعت اسلام اور اصلاح کیلئے سلسلہ احمدیہ کی پانچ شاخوں کا ذکر ۲۱ پہلی شاخ تالیف وتصنیف ۲۱ دوسری شاخ اشتہارات ۳۱ تیسری شاخ واردین اور صادرین تلاش حق کیلئے سفر کرکے مرکز میں آنے والوں کا انتظام ۴۱ چوتھی شاخ مکتوبات ۳۲ پانچویں شاخ مریدوں اور بیعت کرنے والوں کا سلسلہ ۴۲ دس شرائط بیعت ۳۶۵تا ۶۶۵ چند اصحاب کا ذکر ۰۴ دینی کاموں میں مدد کرنے والے اصحاب کا ذکر ۰۲۵تا ۶۴۵ بیعت کرنے والوںکیلئے نصائح ۶۴۵تا۲۵۵،۸۵۵تا۳۶۵ سلسلہ بیعت میں داخل ہونے والوں کی مختلف کیفیات ۰۴ ”قریب تر بامن ونزدیک تر بسعادت“ کون لوگ ہیں ۶۸۱ سلسلہ احمدیہ کی سچائی اس کے پھلوں سے شناخت کرو ۴۴ خلافت محمدیہ کی خلافت موسویہ سے مشابہت ۹۰۵ جنت مومن کامرنے کے بعد فوراً بہشت میں داخل ہونا ۰۸۲تا۷۸۲ بہشت میں داخل ہونے کے بعد کوئی نکالا نہیں جاتا ۴۵ جنت اور دوزخ کے تین درجے ۲۸۲تا۵۸۲ جنت اور دوزخ میں ترقیات ۵۸۲،۶۸۲ حدیث ”میری قبر کے نیچے روضہ بہشت ہے“ کی حقیقت ۷۸۲ جہاد ۷۵۸۱ءمیں مولویوں نے جہاد کی غلط تعلیم دی ۹۸۴تا ۳۹۴ چندہ ماہوار چندہ کی تحریک ۱۳ چندہ دہندگان کے اسماءکی فہرست ۵۴۵،۶۴۵ ح،خ حدیث حدیثیں قرآن کی طرح قابل بھروسہ نہیں ۴۸۳،۵۸۳

Page 708

بعض نو تعلیم یافتہ لوگوں کے انکارحدیث کا جواب ۰۶۴ افادات البخاری ۳۸۵تا ۵۹۵ دجال معہود کی بڑی بڑی علامتیں ۰۹۴تا ۳۹۴ قرآن کریم سے مخالف حدیث ہرگز نہیںماننی چاہیے ۴۵۴ مسیح موعود چودھویں صدی کے سر پہ ظاہر ہوگا ۹۶۴ بخاری میںمعراج کی حدیثوں میں سخت تعارض ۲۱۶تا ۹۱۶ دجال کا ظہور ۹۶۴ احادیث کے اشارات کہ مسیح کو اترنا چاہیے ۸۸۱ احادیث میں کسی چیز کا مجسم آسمان سے اتارا جانا الفاظ ظاہر پر ہرگز محمول نہیں ہوسکتا ۷۴۲ کسی ایک صحیح حدیث میں حیات مسیح کا بیان نہیں ۸۸۳ ایک کا نام دوسرے کودیے جانے کی مثالیں ۳۹۵،۴۹۵ دجال کے بارے میں مسلم کی بیان کردہ احادیث اور بخاری میں اختلاف ہے ۹۰۲،۰۱۲ قرآن اور حدیث میں اختلاف کی صورت میں حدیث کی تاویل کی جائے ۹۰۶،۰۱۶ دمشق والی حدیث بھی ایک خواب ہی ہے ۲۰۲ دمشق کے شرقی کنارہ میں مسیح کے نزول کی حدیث امام بخاری نے درج نہیں کی ۲۲۲ دمشقی حدیث میں لفظ دمشق مراد رکھنا دعوئے بلادلیل والتزام مالا یلتزم ہے ۳۳۱ مسلم کی دمشقی حدیث میں استعارات ہیں ۵۱۳،۶۱۳ احادیث کو چھوڑ نے سے صحابہ کے وجود کا ثبوت دینا بھی مشکل ہوجاتا ہے ۰۰۴،۱۰۴ قرآن اور حدیث کے مقابل پر عقل کو قبول نہ کرو ۲۵۵ حقوق اللہ اورحقوق العباد قرآن شریف کے دو بڑے حکم ہیں اور ان حکموں کی تین درجوں میں تقسیم ۰۵۵تا ۲۵۵ حواری حواریوں نے مسیح کے آسمان پر جانے کا ذکر نہیں کیا ۹۱۳ مسیح حواریوں کو کشفی طور پر نظر آتے رہے ۴۵۳،۵۵۳ حیات مسیح حیات مسیح پر اجماع نہیں ہے ۷۰۵ حیات مسیح سے کیا خرابی لازم آتی ہے ؟ ۵۵ کیا تمام اہل کتاب مسیح پر اس کی موت سے قبل ایمان لے آویں گے ۸۸۲ بعض مفسرین کابیان کہ مسیح موت کے بعد زندہ ہوگئے ۲۰۵ قصہ ایلیا حیات مسیح کا مو ¿ید نہیں ۲۱۵،۳۱۵ کسی ایک صحیح حدیث میں حیات مسیح کا بیان نہیں ۸۸۳ قَب ´لَ مَو ´تِہ کی تفسیر ۸۹۲،۹۹۲ ایک عیسائی پادری کا حیات مسیح سے انکار ۳۵۵ کیا مسیح کا مرتبہ تمام انبیاءسے زیادہ ہے ؟ ۷۲۲ صعود اور نزول کے خاص معنی ۰۲۴ مسیح کی حیات موسیٰ کی حیات سے درجہ میں کمترہے ۶۲۲ح بائبل سے دو نبیوں کاجسم سمیت آسمان پر جانامتصور ہے ۲۵ مسیح ابن مریم اسرائیلی نبی کے نزول سے کیا کیا خرابیاں ہونگی اور کیوں مثیل آئے گا ۴۱۴تا۶۱۴،۷۱۴تا۹۱۴ میری قبر میں دفن ہونے سے مراد ۲۵۳،۱۵۳ حیات مسیح کا عقیدہ رکھنے والوں کی مایوسی ۸۴۳،۹۴۳ اگر مخالف سچے ہیں تو مسیح کے نزول کی دعا کریں ۷۴۳،۸۴۳ حیات مسیح کے لیے قرآن میں تقدیم وتاخیر ماننی پڑتی ہے ۶۰۶تا ۹۰۶

Page 709

کتاب ازالہ اوہام میں حضرت مسیح کی حیات وممات کے متعلق تمام سوالات کے جوابات ہیں ۴۲۳ کیا انہ لعلم للساعة سے حیات مسیح ثابت ہے؟ ۱۲۳تا ۶۲۳ ”نور افشاں“کے ایک اعتراض کا جواب ۳۵۳تا ۶۵۳ خلافت خلافت محمدیہ کی خلافت موسویہ سے مشابہت ۹۰۵ سلسلہ موسوی اور سلسلہ محمدی کی مماثلت ۰۶۴تا ۴۶۴ خلیفة اللہ کی شناخت کی علامات ۲۱،۳۱ح بعض پیشگوئیاںخلفاءکے ذریعہ پوری ہوتی ہیں ۷۱۳،۸۱۳ خلق طیر معجزہ کی حقیقت ۰۶۲ح عمل الترب کے ذریعے پرندوں کا بنانا ۴۰۵تا۶۰۵ ” تخلق“ کے معنی ۰ ۲ح اس عذر کا جواب کہ حضرت مسیح کے پیدا کردہ پرندوں کی زندگی تھوڑی ہوتی تھی ۱۶۲ح ،۲۶۲ح زندہ کرناصفات خالقیت میں شرکت ہے ۱۵۲ح ،۲۵۲ح اس اعتراض کا جواب کہ مسیح نے کون سے پرندے بنائے ۱۵۲تا ۳۶۲ خواب خواب تعبیر طلب ہوتے ہیں.اس کی مثالیں ۸۷۵تا۰۸۵ آنحضرت ﷺ کا خواب کی تعبیر فرمانا ۵۰۲ نفسانی تمنامیں شیطان کا دخل ۸ ۲۲ بعض بدکاروں کو بھی سچی خواب آتی ہے ۵۹ اولیاءکی خوابیں عام لوگوں کے برابر نہیں ۶۹ سچی خوابوں میںنیک اور بد بختو ں میں مشارکت کی وجہ ۷۹ د،ذ دا بة الارض دابة الارض سے مراد ۹۶۳،۰۷۳ دابة الارض نام استعمال کی رو سے عام ہے ۳۹۵،۴۹۵ خروج کا لفظ اختیار کرنے کی و جہ ۰۷۳ حضرت علی ؓ کادابة الارض کے بارے میں بیان ۹۶۳ح دابة الارض سے ایسے علماءمراد ہیں جو ذو جہتین واقع ہوں ۴۹۵ ابتک اس کے زندہ رہنے کا عقیدہ غلط ہے ۱۷۳،۲۷۳ دجال دجال کی روایت ۱۲۲ دجال جھوٹوں کے گروہ کو کہتے ہیں ۲۶۳ دجال اسم جنس ہے ۹۸۴،۰۹۴ لفظ خروج اور نزول کا مطلب ۰۶۳ خروج کا لفظ استعمال کرنے کی و جہ ۰۷۳تا۴۷۳ ممالک مشرقیہ سے خروج دجال سے مراد ۹۱۴ اس زمانہ میں دجال کون ہے ۲۶۳،۶۵۳،۶۶۳ دجال معہود عیسائی واعظوں کا گروہ ہے ۹۸۴ ’ ’الدّجال“کے بارے میں ہزار روپے کا چیلنج ۲ ۰۶تا۵۰۶ دجال کا گدھا ریل گاڑی ہے ۳۹۴،۵۹۴ دجال کے فوت ہونے سے مراد ۰۷۴ قرآن کریم نے دخان کے ضمن میں دجال کا ذکر کیا ۴۹۴ حدیثوں میں دجال کی بڑی بڑی علامتیں ۰۹۴تا ۳۹۴ مثیل مسیح کی طرح مثیل دجال ۵۵۳تا۲۶۳ ایک دجال آنحضرتکے زمانہ میںموجود تھا ۷۵۳،۸۵۳ دجال کے بارہ میںروایات میں اختلاف ہے ۹۰۲،۰۱۲ الاٰیات سے مراد آیات کبریٰ ہیں ۸۶۴،۹۶۴ دجال کی روایت میں تواتر نہیں ۱۲۲،۲۲۲ الدّجالکا لفظ دجال معہود کے لیے آیا ہے ۴۷۵ دجال کے حوالے سے بحث کاخاتمہ ۲۲۲،۳۲۲

Page 710

ابن صیاد کے متعلق حضور کا خیال تھا کہ دجال ہے ۲۷۴ صحابہ ؓ ابن صیاد کو ہی دجال قرار دیتے ہیں ۰۲۲،۲۲۲ حضر ت عمر کا ابن صیاد کے دجا ل ہونے پر قسم کھانا ۸۱۲،۹۱۲ ابن صیاد کے دجال ہونے پرصحابہ کا قسمیں کھانا ۹۰۲تا۱۱۲ ابن صیاد کے دجال ہونے پراجماع کے دعویٰ پر اعتراض کا جواب ۶۷۵،۷۷۵ دجال کے چالیس برس ٹھہرنے کی روایت ۷۰۲ صحیحین میں متضاد روایتوں کا بیان ۲۱۲ ،۳۱۲ دجال کے نکلنے کی راہ ۶۰۲ دجال کے خانہ کعبہ کا طواف کرنے کا مطلب ۲۰۲،۳۰۲ لمبے دنوں سے کیا مراد ہے؟ ۷۰۲ح ،۱۷۴ کسی جزیرے کے گرجا میں دجال ۷۵۳ دجال مشرق سے نکلے گا ۶۵۵تا۸۵۵ دجال اپنی الوہیت کی طرف دعوت دے گا ۸۰۲ مسیح دجال کی تعیین وتشخیص میں اختلاف ۶۵۳،۷۵۳ مغرب سے طلوع شمس سے مراد ۶۷۳،۷۷۳ کیادجال کے ظاہری معنوںپر اجماع سلف ہے ۸۱۲ پادریوں کا مسلمانوں کو گمراہ کرنے کا طریق ۶۶۳تا۸۶۳ دمشقی حدیث کے ظاہری معنی مراد نہیں ۴۱۲تا ۶۱۲ یاجوج ماجوج سے مراد انگریز اور روس ہیں ۹۶۳،۳۷۳ اس سوال کا جواب کہ دجال کی علامتیں کامل طور پر انگریز پادریوں کے فرقوں میںکہاں پائی جاتی ہیں ۰۷۴،۱۷۴ دجال کی روایت میں تواتر کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا ۱۲۲ آنحضرت نے دجال کو خواب یا کشف میں دیکھا تھا ۹۹۱،۰۰۲ دجال کے متعلق بحث کی دو ٹانگیں ۲۲۲،۳۲۲ آنحضرت ﷺ کا فرمان کہ اگر میری زندگی میں دجال نکل آوے تو میں اس سے جھگڑوں گا ۹۹۱ دجال کے بارے میں بیان شدہ باتیں کشفی ہیں ۴۱۲تا ۷۱۲ صدر اوّل کے لوگوں میں دجال معہود کے بارہ میں اتفاق نہیں تھا کہ وہ آخری زمانہ میں آئے گا ۰۲۲ ابتک اس کے زندہ رہنے کا عقیدہ غلط ہے ۱۷۳،۲۷۳ دجال کی روایت کے بارے میں تواتر کا دعویٰغلط ہے ۱۲۲ دجال اہل کتاب میں سے ہی ہوگا.۹۸۲ دجال کے مثیل کا خروج ہوگا ۶۵۵،۷۵۵ ہرنبی کے زمانہ میں مسیح دجال کی خبر موجود ہے ۳۶۳،۴۶۳ مسیح دجال کی نسبت پیشگوئیاں مکاشفات نبویہ ہیں ۵۰۲ دجال کے یک چشم ہونے سے مراد ۹۶۳ لکل دجال عیسٰی ۷۹۱ دجال کے فتنہ سے نجات کے لیے سورہ کہف پڑھنا ۶۰۲ دجال معہود کے قتل سے مسیح کے آسمان سے اترنے کے عقیدے کو جوڑا نہیں جاسکتا ۰۲۲تا۲۲۲ کیا ابن صیاد گم ہوگیا اور قیامت کے قریب پھر ظاہر ہوگا ۳۴۳،۴۴۳ اس اعتراض کا جواب کہ دجال کاگدھا ریل گاڑی ہے تو اس پر نیک اور بد دونوں سوار ہوتے ہیں ۵۵۵،۶۵۵ ضرورتھا کہ مسیح دجال گرجا میں سے ہی نکلے ۶۵۳تا ۱۸۳ دخان دخان سے مراد ۵۷۳،۶۷۳ خروج کا لفظ استعمال کرنے کی و جہ ۰۷۳تا۴۷۳ مغرب سے طلوع شمس سے مراد ۶۷۳،۷۷۳ قرآن کریم نے دخان کے ضمن میں دجال کا ذکر کیا ۴۹۴

Page 711

دشنام دہی دشنام دہی اور بیان واقعہ میں فرق ۹۰۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کااپنی تالیفات میں مخالفین کی نسبت سخت الفاظ استعمال کرنے کی و جہ ۸۰۱ انبیاءکے سخت الفاظ استعمال کرنے کی حقیقت ۸۱۱ قرآن کریم میں سخت زبانی کے طریق کا استعمال ۵۱۱ح آنحضرت ﷺپر دشنام دہی کا الزام ۰۱۱ تا ۲۱۱ دعا نماز میں بہت دعا کرو ۹۴۵ ر رجل فارس رجل فارسی سے مراد مسیح موعود ہے ۰۱ حدیث میں حارث کا دوسرا نام فارسی الاصل ہے ۴۵۱ح رفع کفار کا آنحضرت ﷺ سے آسمان پر جانے کا معجزہ مانگنا ۵۵ حضرت مسیح موعود ؑ کے لیے رفع کے لفظ کا استعمال ۱۰۳،۲۰۳ رافعک کا لفظ مسیح کے علاوہ کسی اور کے حق میں کیوں نہیں آیا ۹۹۲،۰۰۳ عیسیٰ کی موت قبل از رفع کے بار ے میں اختلاف ۳۱۴،۴۱۴ آنحضرت ﷺکا رفع تمام نبیوںسے بلند تر ۵ ۷۳،۶۷۲ بلعم کے قصہ میں رفع کے لفظ کی وضاحت ۰۰۳ رب لم اظن ان یرفع علی احد(موسیٰ) ۶۷۲ روح القدس روح القدس کی حقیقت اور روحانی پیدائش ۲۶ روح الامین کیا چیز ہے ۳۶ جبرئیل کے نزول کی کیفیت ۱۹،۲۹ روح کا نام کلمہ ۳۳۳،۴۳۳ زندگی انسانی زندگی کا انتہائی مقصود ۱۴ اسلام کی زندگی اس کی راہ میں مرنا ہے ۰۱،۱۱ س،ش سکینت سکینت اور اطمینان کیا چیز ہے ؟ ۳۶ سنت اللہ وہ نیچریت جو قرآن کے موافق ہو ۳۲۵ سوالات نیز دیکھئے اعتراضات مفسرین مسیح ابن مریم کی موت کے بعد ان کے زندہ ہونے کے قائل ہیں ۲۰۵ توفی کے معنی تفسیروں میںکئی طور سے بیان کئے گئے ہیں ۱۰۵،۲۰۵ احادیث کے صریح لفظوںکی موجودگی میںکیونکر نزول مسیح سے انکار کیا جائے ۲۳۱ مسیح کس عمدہ اور اہم کام کیلئے آنے والا ہے؟ ۱۳۱ کسی نبی کااپنے تئیں مثیل ٹھہرانا عند الشرع جائز ہے یانہیں ۹۲۲،۰۳۲ مسیح ابن مریم کے مقابل پر آپ نے اپنی صداقت کا کیا ثبو ت دیا؟ ۴۳۳تا ۹۳۳ مسیح ابن مریم کے دوبار ہ آنے کا ردّ قرآن میں کہاں ؟ ۸۱۳،۹۱۳ لیلة القدر کے اور معنی کرکے نیچریت کا دروازہ کھول دیا گیاہے ۹۱۳،۰۲۳ آپ ؑ نے ملائک اور جبرئیل علیہ السلام کے وجود سے انکار کیا ہے ۰۲۳ حدیثوں میں نازل ہونے والے مسیح کے بارے میں بعض نو تعلیم یافتہ مسلمانوںکے انکار کا جواب ۰۶۴

Page 712

اس سوال کا جواب کہ رسالہ فتح اسلام میں نبوت کا دعویٰ کیا ہے ۰۲۳،۱۲۳ آیت انہ لعلم للساعة سے حضرت عیسیٰ کا نازل ہونا ثابت ہے ۱۲۳تا ۶۲۳ قرآن شریف سے مسیح کی موت کا کوئی وقت خاص ثابت نہیں ہوتا ۰۳۳تا ۴۳۳ عیسیٰ کے جنت میں داخل ہونے اور نہ نکلنے کی دلیل پر ہونے والے ایک اعتراض کا جواب ۰۸۲تا ۸۸۲ بعض لوگ الہام کا دعویٰ کرتے ہیں مگر ان کی معرفت میں کچھ ترقی نظر نہیں آتی ۹۲۳،۰۳۳ اس بات پر اجماع ہے کہ نزول مسیح کے حوالے سے نصوص کو ظاہرپر حمل کیا جائے.۲۱۳،۳۱۳ احادیث میں کسی جگہ یہ نہیں لکھا کہ مثیل مسیح ابن مریم آئے گا ۳۱۳تا۵۱۳ اگر عیسیٰ ابن مریم آنے والا نہیں تھاتو یہ کہنا چاہیے تھا کہ مثیل آنے والا ہے ۲۱۵ قرآن شریف سے مسیح ابن مریم کا فوت ہونا کہاں ثابت ہوتا ہے؟ ۴۶۲تا۷۷۲ موعود مثیل حضرت مسیح موعود ؑ ہی ہیں یا اور بھی ہونگے ۵۱۳ تیرہ سو برس سے مشہور بات کہ مسیح زندہ آسمان پر ہیں آج کیونکر غلط ثابت ہوئی ؟ ۵۴۳ مثیل موسیٰ تو موسیٰ سے افضل ہیں تو پھر مثیل مسیح کیوں ایک امتی آیا؟ ۹۴۴،۰۵۴ اس سوال کا جواب کہ تمام اہل کتاب مسیح پر اس کی موت سے قبل ایمان لے آویں گے اس لیے مسیح زندہ ہیں ۸۸۲ رافعک کا لفظ مسیح کے علاوہ کسی اور کے حق میں کیوں نہیں آیا؟ ۹۹۲،۰۰۳ یہ کہاں اور کس کتاب میںلکھا ہے کہ مسیح ابن مریم سے مراد مثیل ہے؟ ۷۷۲تا ۹۷۲ مان لیا کہ مسیح فوت ہوگیا ہے مگر اس کا کیا ثبوت ہے کہ مثیل مسیح آپ ہیں؟ ۸۹۳ کیا مسیح ابن مریم کو نبوت تامہ سے معزول کرکے بھیجا جائے گا؟ ۷۸۳،۸۸۳ کیا خدا تعالیٰ قادر نہیں کہ مسیح ابن مریم کو زندہ کرکے دوبارہ بھجوا دے؟ ۶۸۳،۷۸۳ ہر طرف فریب اور مکرکابازار گرم ہے کس کو صادق سمجھیں ۱۴ موعود مثیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیں یا اور بھی ہونگے ۵۱۳ کسی سلف یاخلف نے یہ تاویل نہیں کی کہ مسیح کے لفظ سے مثیل مراد ہے ۶۰۳تا۳۱۳ کیا معجزہ کے طور پر مردے زندہ ہوتے ہیں ؟ ۵۴۴،۶۴۴ مثیل کیلئے مسیح ابن مریم کے لفظ کو کیوں اختیار کیا گیا ۰۸۳،۱۸۳ اسحدیث کا معنی کہ مغرب کی طرف سے آفتاب طلوع ہونے سے توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا ۷۷۳،۸۷۳ نزول کے حوالے سے پائے جانے والے واضح الفاظ سے کیونکر انکار کیا جائے ؟ ۲۳۱ اگر توفی کے معنی قبض روح ہیںتو اس کے برخلاف مفسروں نے اور اقوال کیوں لکھے ۰۵۳،۱۵۳ اس سوال کا جواب کہ ابن صیاد گم ہوگیا اور قیامت کے قریب پھر ظاہر ہوگا ۳۴۳،۴۴۳ یہ کسی جگہ نہیں لکھا کہ مثیل مسیح ابن مریم آوے گا بلکہ یہ لکھا ہے کہ مسیح ابن مریم آویگا ۳۱۳تا ۵۱۳ لکھا ہے مسیح جلال کے ساتھ دنیا میں آئے گا لیکن اس جگہ جلالی ظہورنہیں ہوا ۹۳۳تا ۲۴۳ دجال کی علامتیں کامل طور پر انگریز پادریوں میںکہاں پائی جاتی ہیں؟ ۰۷۴،۱۷۴

Page 713

اس وقت مثیل مسیح کے آنے کی کیا ضرورت تھی؟ ۲۴۳ سورج سورج کی مختلف تاثیرات ۸۷ح سورة(قرآن کریم) سورة الفاتحہ اس سورة میں انبیاءکے مثیل بننے کی دعا ہے ۹۲۲ سورة الکہف فتنہ دجال سے بچنے کے لیے آیات ۶۰۲ سورةالکہف میں اصحاب کہف کی استقامت کا ذکر ۶۰۲ سورة الشمس سورة شمس میں نہایت لطیف اشارات ۷۷ سورة الزلزال مسیح موعود کے دور میں علوم ارضیہ کی ترقی ۹۶۴ سورة العصر آدم کے سن پیدائش کی تاریخ موجود ہے ۰۹۱،۹۵۲ سہروردی (تصوف کا ایک سلسلہ) ۳۲۱ عمل سلب امراض کی طرف تو جہ دیتے ہیں ۷۵۲ح شہادت(قسم) اللہ تعالیٰ کا مخلوق چیزوں کی قسم کھانے کی و جہ ۰۸،۱۸ شیطان نفسانی تمنا میںشیطان کا دخل ۸۲۲ اس دنیا کی مجرد منطق ایک شیطان ہے ۹۴۵ شیعہ بے اصل بدعات شیعہ مذہب میں پھیلائی گئی ہیں ۷۲۵ شیعوں کاقول ہے کہ درحقیقت مہدی کا نام ہی عیسیٰ ہے ۴۱۴ امام محمد مہدی کے غار میں چھپے بیٹھنے کا ردّ ۳۴۳،۴۴۳ ص ،ض صحابہ ؓ صحابہ کی تعریف اور موسیٰ کی جماعت سے مقابلہ ۰۲ صحابہ کے اقوال کا آپس میں اختلاف ۲۲۴ معراج کے واقعہ میں صحابہ کا اجماع نہ تھا ۸۴۲ صحابہ ؓ ابن صیاد کو ہی دجال قرار دیتے تھے ۰۲۲ صحبت صالحین انبیاءکے نیک نمونہ کی اقتدا اصلاح نفس کرتی ہے ۸۱ حضرت مسیح موعو د ؑکی تقاریراصلاح کا موجب ہیں ۷۱ اپنی صحبت میں رہنے کی نصیحت ۲۲ حضرت مسیح موعود ؑکی صحبت میں رہنے کا فائدہ ۱۴ صلیب صلیب تورنے کے لیے حضرت مسیح موعود ؑ بھیجے گئے ۳۲ واقعہ صلیب ۳۰۳ اناجیل سے مسیح کے زندہ اتارے جانے کا ثبوت ۴۹۲تا۸۹۲ ع،غ عدم رجوع موتٰی(مُردوں کا زندہ ہو کر دنیا میں آنا) عدم رجوع موتی کا دس آیات اور ایک حدیث سے ثبوت ۹۱۶تا ۲۲۹ مُردوں کو زندہ کرنا خدا تعالیٰ کی عادت نہیں ۲۲۵ قرآن کریم میںاحیاءموتی ٰکی حقیقت ۱۲۶،۲۲۶ عیسیٰ مرنے کے بعد جنت میں داخل ہوگئے ۰۸۲تا ۸۸۲ عزیر نبی کے دوبارہ دنیا میں آنے کی حقیقت ۷۸۲،۸۸۲ کیامسیح دوبارہ زندہ کرکے بھجواتے تھے ۹۱۶ح تا ۵۲۶ح وفات مسیح کے بعض قائلین ان کے دوبارہ زندہ ہو کر آنے کے قائل ہیں ان کا ر د ۳۰۵،۴۰۵

Page 714

مرنے کے بعد دوبارہ اسی جسم خاکی میں روح کا داخل ہونا سراسر غلط گمان ہے ۵۲۲ عقل اسلام عقل کو معطل اور بے کار ٹھہرانا نہیںچاہتا ۱۵۲ ہر صداقت کامحک عقل کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا ۲۵۴،۳۵۴ قرآن اور حدیث کے مقابل پر عقل کو قبول نہ کرو.۲۵۵ اس دنیا کی مجرد منطق ایک شیطان ہے ۹۴۵ علم الاعداد علم الاعداد کے ذریعے بعض اسرار کا ظہور ۰۹۱ لفظ ”غلام احمد قادیانی “میں مسیح موعود علیہ السلام کے آنے کا زمانہ ۰۰۳۱ موجود ہے ۰۹۱ آدم کا سن پیدائش سورة العصر کے اعدادمیں موجود ہے ۰۹۱ آیت وانا علیٰ ذھاب بہ لقادرونکے اعداد ۷۵۸۱ ء ۵۵۴ علماء علماءزمانہ کی حالت فقیہوں ، فریسیوں سے کم نہیں ۹ح علماءاسلام کا مخالفت کرنا ۱۷۱ علماءکے لیے غور کا مقام ۷۵۱ح علمائے روحانی ربانی ۰۳۲ علماءہند کی خدمت میں نیاز نامہ ۲۹۱ عمل الترب عمل الترب کیا ہے ۴۰۵تا ۶۰۵ مسمریزم کا الہامی نام عمل الترب ہے ۹۵۲ح اس عمل میں پوری مشق کرنے والوں کی مہارت ۶۵۲ پرندوں کا زندہ کرنا ۵۵۲ ح تا ۳۶۲ح سلب امراض عمل الترب کی ایک شاخ ہے ۷۵۲ح اس عمل کے روحانی نقصانات ۸۵۲ عیسائیت ۲۴۲ عیسائیوں کے اس عقیدہ کا رد کہ حضرت مسیح اٹھائے جانے کے بعد بہشت میں داخل ہوگئے ہیں ۴۵ عیسائی مسیح کی دنیوی زندگی کے قائل نہیں ۲۰۵،۳۰۵ وفات مسیح سے عیسائیت کو شکست ہوگی ۲۰۴،۳۰۴ کسر صلیب سے مراد کیا ہے ؟ ۲۴۱ح،۷۵ نصاریٰ کا بالاتفاق حضرت عیسیٰ کی موت پر اجماع ۵۲۲ حواریوں نے مسیح کے آسمان پر جانے کا ذکر نہیں کیا ۹۱۳ مسیح حواریوں کو کشفی طور پر نظر آتے رہے ۴۵۳،۵۵۳ مسیح کی صلیبی موت کے بارے میں شک ۱۹۲تا ۳۹۲ ایک عیسائی پادری کا حیات مسیح سے انکار ۳۵۵ پادریوں کا مسلمانوں کو گمراہ کرنے کا طریق ۶۶۳تا۸۶۳ عیسائی قرآنی بیان کے سامنے دم نہیں مار سکتے ۳۹۲ کفارہ کو انجیل کے بیانات نے برباد کردیا ہے ۴۹۲تا۷۹۲ سات کروڑ سے کچھ زیادہ مذہبی کتابیں تقسیم کیں ۸۲ح یہود ونصاریٰ سے مشابہت ۷۰۴تا۹۰۴، ۸۰۵، ۹۰۵ ضرورتھا کہ مسیح دجال گرجا میں سے ہی نکلے ۶۵۳تا ۱۸۳ دجال معہود عیسائی واعظوں کا گروہ ہے ۹۸۴ عیسائیت میںاسلام اور ہادی اسلام کی مخالفت ۵ عیسائیوں کو اسلام اختیار کرنے کی ہدایت ۶۲۶ عیسائیوں کا خدا فو ت ہوگیا ہے ۱۶۳،۲۶۳ حضرت مسیح ؑ نے خدائی کا دعویٰ ہرگز نہیں کیا ۳۶۳ ف ،ق،ک فرشتے فرشتوں کا اترنا کیا معنی رکھتا ہے ۲۱ح خلیفة اللہ کے نزول کے ساتھ فرشتوں کا نزول ۳۱ح

Page 715

مسلمانوں کے ملائک کے عقیدہ سے ہماراعقیدہ مختلف نہیں ۶۶ فرشتے مستعد طبائع کو کمال مطلوب تک پہنچاتے ہیں ۷۶،۳۷ پرانی کتب میں ملائکہ کا ذکر ۸۶ فرشتوں کے کام ۸۶،۰۷ فرشتوں کا تعلق روشن ستاروں سے ۰۷ فرشتوں کے واسطہ ہونے پر آریوں کے اعتراض کا جواب ۲۷ فرشتوں کے خواص کا خواص بشر سے مقابلہ ۴۷ فرشتوں کے مختلف درجات ۵۸ فرشتوں کی روحانی تاثیرات ۶۸ فلسفہ اس دنیا کی مجرد منطق ایک شیطان اور اس دنیا کا خالی فلسفہ ایک ابلیس ہے ۹۴۵ فلسفہ کو آسمانی فلسفہ کے ذریعہ راہ پر لایا جائے گا ۶۷۳ قادری ۳۲۱ (تصوف کا ایک سلسلہ جو حضرت سید عبد القادر جیلانی سے ملا ہے ) قبر انبیاءکا ایک قسم کا تعلق قبر کے ساتھ ہوتا ہے ۶۲۲ح قبر میں اعمال کا متشکل ہوکر نظر آنا ۶۰۲ اس خیال کا رد کہ انبیاءزندہ ہو کر قبر میں رہتے ہیں ۶۲۲ح قتل خنزیر مسیح موعود ؑ کے قتل خنزیز سے مراد ۱۱ح،۷۵،۲۴۱،۶۴۱ قرآن کریم روحانی بھلائی اورعلمی ترقی کے لئے کامل رہنما ۱۸۳،۲۸۳ قرآنی تعلیم سے تقویٰ کے اعلیٰ درجے کا حصول ۹۴۵ قرآن کریم جامع حقائق غیر متناہیہ ہے ۶۶۴،۷۶۴ قرآنی بیان کے سامنے کوئی بھی دم نہیں مار سکتا ۳۹۲ مُردوں کے جی اٹھنے کے لیے نشان ۲۲۳تا ۶۲۳ مسیح موعود کے زمانہ میں قرآن کے مخفی بطون کا ظہور ۵۶۴ قرآن کریم میں احیاءموتی ٰ کے بیان کردہ مضمون کی حقیقت ۱۲۶،۲۲۶ ترتیب طبعی کا التزام تمام قرآن کریم میں پایا جانا ۷۰۶ اس اعتراض کا جواب کہ قرآن کریم میں تعارض پایا جاتا ہے ۹۱۶تا ۲۲۶ ۷۵۸۱ءمیں قرآن آسمان پر اٹھایا گیا ۹۸۴ح تا ۳۹۴ح کیا گزشتہ نبیوں کے آنے کا دروازہ بند ہے؟ ۹۸۳،۰۹۳ مثیل مسیح کے آنے کی خبر ۸۰۵تا۰۱۵،۰۶۴تا ۴۶۴ ایک ملہم کے دل پر آیت قرآنی اصل معنوں سے پھیر کر القا ہوتی ہے ۱۶۲ قرآن کریم میں پانسو کے قریب حکم ہیں ۸۴۵ حدیث قرآن کے قائم مقام نہیں ہوسکتی ۴۸۳ انجیل کے مقابل پرقرآن کریم کی اعلیٰ تعلیم ۹۴۵،۰۵۵ اس اعتراض کا جواب کہ قرآن کریم کے ایسے معنی کرنا جو پہلوں سے منقول نہیں الحاد ہے ۴۵۲تا۴۶۲ قرآن کریم بنی اسرائیل کے واقعات مجازی اور استعارہ کے رنگ میں بیان کرتا ہے ۶۴۴تا۹۴۴ قرآن کے عجائبات بذریعہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کھلنا ۸۵۲،۹۵۲ قرآن شریف کا کھلا کھلا اعجاز ۵۵۲تا ۱۶۲ حضرت محمد ﷺ کو قرآن کریم کا معجزہ دیا گیا ۵۵۲ قرآن اور حدیث کے مقابل پر عقل کو قبول نہ کرو ۲۵۵ قرآن کی مخالفت کی و جہ سے ہندوو ¿ں میں نیوگ اور تناسخ کا عقیدہ رائج ہوا ۳۸۳،۴۸۳ قرآن شریف کے دو بڑے حکم ۰۵۵تا ۲۵۵

Page 716

متشابہات کے ظاہری معانی پر زور نہیں دینا چاہیے ۱۵۲ قرآن کا مغز اور بطن دلوں پر سے اٹھایا گیا ۳۷۴ قرآن میں کسی چیز کا مجسم آسمان سے اتارا جانا الفاظ ظاہر پر ہرگز محمول نہیںہوسکتا ۷۴۲ قرآن نے کفارہ کے عقیدے کا رد کیا ۲۸۳،۳۸۳ تجدید دین کیا ہے ۷ح حسب ضرور ت سخت زبان کا استعمال ۵۱۱ح بتوں کی ذلت کے لیے سخت الفاظ کا استعمال ۹۰۱ وہ نیچریت جو قرآن کے موافق ہو سنت اللہ ہے ۳۲۵ قرآن یورپ کے نام نہاد اخلاق سے اتفاق نہیں کرتا ۶۱۱ کیاقرآن کے صرف ظاہری معنی لینے چاہیں ۲۱۳،۳۱۳ روم کی نسبت قرآنی پیشگوئی کے متعلق حضرت ابوبکر ؓ کا شرط لگانا ۰۱۳،۱۱۳ قرآن کے نئے دقائق ومعارف بیان کرنے سے اجماع کی کسر شان نہیں ہے ۶۶۴ لیلة القدر کے معنی ۹۱۳،۰۲۳ توفی کا لفظ لغت میں کئی معنوں میں ہے ۹۴۳،۰۵۳ ،۹۸۳ توفی کے معنی قرآن کی رو سے کیا ہوسکتے ہیں ۷۶۲تا۰۷۲ قرآن کریم میں لفظ توفی کی صرف دو طرح تشریح ۱۹۳،۲۹۳ توفی کے معنی نیند نہیں ہوسکتے ۴۲۲ انی ممیتک ۷۸۵،۴۲۲ انی ممیتک حتف انفک (کشاف) ۷۰۶ تفسیروں میں توفی کے مختلف معانی کا جواب ۱۰۵،۲۰۵ توفی کا لفظ قبض روح کے معنوں میں محدود ۴۲۴،۵۲۴ قبض روح کے معانی کا عمیق تحقیقات سے ثبوت ۳۸۵تا۵۸۵ قرآن میںتوفی کے معنی موت ہیں ۴۲۲ح کیاقرآنی اصطلاح کو لغت کی و جہ سے پھیرناالحادہے ۹۴۳،۰۵۳ کیامتبادر اور مسلسل معنی سے ہٹنا الحاد ہے ۱۰۵ اس سوال کا جواب کہ قبض روح معانی کے برخلاف مفسروں نے اوراقوال کیوں لکھے ۰۵۳،۱۵۳ قربانی انبیاءکے زمانوں میں لوگوں کی قربانیوں کا ذکر ۱۳ قسم اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق کی قسم کھانا ۰۸،۱۸ قوت قدسیہ راستباز بندے قوت قدسیہ سے خارق عادت اثر ظاہر کرتے ہیں اور ان کی بیس علامات کا ذکر ۵۳۳تا ۹۳۳ قیامت قیامت جسمانی طور پر نہیں ہوگی ۹۷۲ قرآن کریم میں مردوں کے جی اٹھنے کا نشان ۲۲۳تا ۶۲۳ کسر صلیب کسر صلیب سے مراد کیا ہے ؟ ۲۴۱ح،۷۵ کشف عالم کشف کو عالم جسمانی نہیںسمجھنا چاہیے ۴۵۳،۶۵۳ خدا تعالیٰ کے بتانے پر کشفی امور کو ظاہر پر حمل کرنا ۳۰۲،۴۰۲ آنحضرت ﷺ کا خواب کی تعبیر کرنا ۵۰۲ قبر میں اعمال کا متشکل ہونا عام عقیدہ مسلمانوں کا ہے ۶۰۲ آپ ؑ کو کشفاً قرآن میں قادیان کا نام دکھایا گیا ۱۴۱ح پانچ ہزار فو ج دے جانے والا کشف ۹۴۱ح کشف اور الہام کا حجت ہونا ۸۷۱،۶۸۱ بذریعہ کشف گزشتہ لوگوں سے ملاقات ہونا ۴۵۳ بذریعہ کشف بعض چیزوں سے روکا جاتا ہے ۷۱،۸۱ح حضرت مسیح موعود ؑ کااپنے بھائی غلام قادر کو کشف میں دیکھنا ۰۴۱ح کفارہ عیسائیوں کے پیش کردہ کفارہ کی تعلیم کو انجیل نے ہی برباد کردیا ہے ۴۹۲تا۷۹۲

Page 717

قرآن نے کفارہ کے عقیدے کا رد کیا ۲۸۳،۳۸۳ ل ،م لیلة القدر برکت والی رات سے مراد ۴۷۳،۵۷۳ لیلة القدرظلمانی زمانہ کا نام ۲۳ ہر نبی کے نزول کے وقت لیلة القدر ہوتی ہے ۷۵۱ لیلة القدر کی تاثیریں ۸۵۱ نئے معنی کرنا نیچریت کا دروازہ کھولنا نہیں ۹۱۳،۰۲۳ مباحثہ مباحثہ لودھیانہ کے واقعات کے برخلاف اشتہار کی اشاعت اور اس کا جواب ۷۶۵تا ۳۸۵ مباہلہ ایک مخالف کا مباہلہ کی درخواست کرنا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام طرف سے جواب ۳۴۴تا۵۴۴ جزئی اختلاف کی و جہ سے مباہلہ نہیں ہوسکتا ۶۵۴ اجتہادی خطا پر مسلمان باہم مباہلہ نہیں کرسکتے ۱۲۴،۲۲۴ صرف اختلاف کی بناءپر مباہلہ جائز نہیں ۷۴۳ مولوی محمد اسمٰعیل کے مقابلہ میںآیت مباہلہ کا ذکر ۳۲ح مبایعین ان کی تعریف بیان کی ۵۳ ان کی مختلف حالتیں ۰۴ بعض مبایعین اور معاونین کا ذکر خیر ۴۱۵تا ۵۴۵ مثیل مسیح لفظ نزول اورخروج کا مطلب ۰۶۳ صعود اور نزول کے خاص معنی ۲۴ قرآن سے مثیل مسیح کا امت محمدیہ میں آنے کا ثبوت ۰۵۴،۸۰۵تا۰۱۵ براہین احمدیہ کے زمانے سے مثیل مسیح کا اعلان ۲۹۱ مثیل ہونے کی وضاحت ۸۹۳،۹۹۳ حدیث میں نہیں کہ وہی اسرائیلی نبی آئے گا ۲۹۳،۳۹۳ قرآن واقعات کو مجازی طور پربیان کرتا ہے ۶۴۴تا۹۴۴ مثیل مسیح کو مجاز ًامسیح ابن مریم کہا ۹۲۶تا ۲۳۶ احادیث میں ابن مریم کا نام بطور محاورہ ۳۹۵ بعض صفات کی و جہ کسی اورکانام رکھنے کی مثالیں ۳۹۵،۴۹۵ مثیل مسیح کیوں ایک امتی ہے ؟ ۹۴۴،۰۵۴ چھ قرائن سے مسیح اسرائیلی کے آنے کی تردید ۰۱۵تا ۲۱۵ حدیث میں مثیل مراد ہے ۸۰۵ بخاری کا قطعی فیصلہ کہ مثیل مسیح آئے گا ۰۹۵تا ۲۹۵ مثیل الانبیاءبننے کی راہ کھلی ہوئی ہے ۰۳۲ مثیل مسیح کی طرح مثیل دجال بھی آئے گا ۵۵۳تا۲۶۳ دجال کے مثیل کا خروج ہوگا ۶۵۵،۷۵۵ قرآن مثیلوں کے آنے کا دروازہ کھولتا ہے ۹۸۳،۰۹۳ احادیث میں کیوں مثیل مسیح کے الفاظ نہیں ۳۱۳تا۵۱۳ اسرائیلی نبی کے نزول سے کیا کیا خرابیاں ہونگی اور کیوں مثیل مسیح آئے گا ۴۱۴تا۶۱۴،۷۱۴تا۹۱۴ حضرت مسیح ابن مریم کا نام سیلا بھی رکھا گیا ۳۱۳ ایک کیا دس ہزار سے بھی زیادہ مسیح آسکتا ہے ۱۵۲ حضرت بایزید کا اپنے آپ کو دیگر انبیاءکا نام دینا ۰۳۲ کسی نبی کااپنے تئیں مثیل ٹھہرانا جائز ہے یانہیں ۹۲۲،۰۳۲ آخری زمانہ میں مسلمان یہود کے مشابہ ۴۹۳،۵۹۳ انسان انبیاءکا مثیل بن سکتا ہے.مختلف حوالے ۱۳۲،۲۳۲ آخری زمانہ میںمثیل مسیح ہی آئے گا ۶۴۴تا۹۴۴ یہود ونصاریٰ سے مشابہت ۷۰۴تا۹۰۴

Page 718

کیا مثیل مسیح بھی نبی ہونا چاہیے ۹۵ ابن مریم کوظاہری معنوں سے پھیرنے کی و جہ ۴۱۳،۵۱۳ مسیح سے متعلقہ احادیث مکاشفات پر مبنی ہیں ۵۱۳ کہاں لکھا ہے کہ مسیح سے مراد مثیل ہے ۷۷۲تا ۹۷۲ واضح طور پر کیوں نہیں کہا کہ مثیل آنے والا ہے ۲۱۵ مسیح اسرائیلی فو ت ہوچکا ہے ۸۸۳ پہلے کسی نے کیوں نہیں کہاکہ مثیل مراد ہے ۶۰۳تا۳۱۳ مثیل مسیح نے کون سے معجزات دکھائے ۳۰۱ ایلیا کا یحییٰ کی صور ت میں نازل ہونا ۰۴۲ اس سوال کا جواب کہ ہر جگہ لکھا ہے کہ مسیح آویگا ۳۱۳تا ۵۱۳ ممکن ہے کہ مثیل مسیح احادیث کے ظاہری معنوں کے رو سے علامات کو پورا کرے ۱۵۳،۲۵۳ مثیل موعودایک ہیں یا کوئی اور بھی آئیں گے ۵۱۳تا۸۱۳ مثیل مسیح کے آنے کی کیا ضرورت تھی ۲۴۳ حضرت عیسیٰ مثالی وجود کے ساتھ آئینگے ۵۵۳،۶۵۳ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلا م کو مثیل موعود ماننے سے صحاح نکمی وبیکار ہوجائیں گی ۹۴۲ مجدد حدیث مجددین کے مطابق آپ کی آمد ہوئی ۶ تجدید دین کیا ہے ؟ ۶،۷ ہر صدی پر مجدد کا آنا ضروری ہے ۸۷۱،۹۷۱ مجذوب خدا تعالیٰ کے تصرفات خفیہ کو دیکھنے کیوجہ ۵۹ مجوسی ۲۴۲ دساتیر کو مجوسی الہامی مانتے ہیں ۸۶ روحانیت سماویہ کو ارواح کواکب سے نامزد کیا ہے ۷۶ محبت الہٰی مراتب قرب ومحبت کی تین درجوں میں تقسیم ۳۶ محدث نبوت ناقصہ کا حامل ۶۸۳ محدث بھی ایک معنی سے نبی ہی ہوتا ہے ۰۶ محدث اپنی روحانی صفات کے رو سے عمر ہی ہوگا ۳۹۵ تمنا میں شیطان کا دخل بجز انبیاءاور محدثین کے ۸۲۲ مداہنہ اسلام نے مداہنہ کو جائز نہیںرکھا ۳۱۱ مومنین سے مداہنہ کی امید مت رکھو ۷۱۱ح ہند و قوم میں مداہنت ۷۱۱ انبیاءکے سخت الفاظ استعمال کرنے کی حقیقت ۸۱۱ سخت الفاظ استعمال کرنے سے خفتہ دل بیدار ہوتے ہیں ۷۱۱ مراتب مراتب قرب ومحبت باعتبار روحانی درجات تین قسم کی ہیں ۳۶،۴۶ مرثیہ تفرقہ حالت اسلام مے سزد گرخوںببار ددیدہ ہراہل دیں ۴۴تا۶۴ مسلمان مسلمانوں نے محجوب فلاسفروں کو امام بنایا ۱۰۴،۲۰۴ آخری زمانہ میں مسلمان یہود کے مشابہ ہونگے ۴۹۳،۵۹۳، ۷۱۴تا۹۱۴ مسلمانوں کی حالت پر افسوس کا اظہار ۱۳ مسلمانوں کی بری حالت کا ذکر ۳۴ مسمریزم مسمریزم کا الہامی نام عمل الترب ہے ۹۵۲ح ،۴۰۵تا ۶۰۵ اس عمل کے ذریعہ مردہ کو زندہ کے موافق کیا جاسکتا ہے ۶۵۲

Page 719

معجزات معجزہ کی حقیقت ۰۶۲ح وہ امرجو انسانی طاقتوں سے بالاتر ہو ۲۲۵ خدا اس دنیا میں کھلے کھلے معجزات ہرگز نہیں دکھاتا ۳۴۲ حضرت مسیح موعود ؑ کا ظہور ایک معجزہ ۶ پرندہ زندہ کرنے کا معجزہ ۵۵۲ ح تا ۳۶۲ح قرآن کریم ایک معجزہ ۵۵۲ حضرت مسیح ؑکا معجزہ صرف عقلی تھا ۴۵۲ انبیاءکے معجزات کی دواقسام ۳۵۲ح،۴۵۲ح معراج معراج نہایت اعلیٰ درجہ کا کشف تھا ۶۲۱ح واقعہ معراج ایک رویاصالحہ تھی ۸۴۲،۰۵۲ معراج کی حدیث سے وفات مسیح کا ثبوت ۳۳۴ بعض کہتے ہیں کہ پانچ معراج ہوئے ۶۱۶تا ۸۱۶ مکاشفات مکاشفات میں استعارات غالب ہوتے ہیں ۲۱۳ انبیاءکے مکاشفات کی مثالیں ۳۳۱ح انبیاءکے مکاشفات عالم مثال ہوا کرتے ہیں ۱۳۶ اولیاءاور انبیاءکے مکاشفات کی خصوصیت ۴۹تا ۸۹ روحانی علوم سے بے بہرہ لوگ عالم کشف کو عالم جسمانی سمجھ بیٹھتے ہیں ۴۵۳،۶۵۳ روحانی علوم اور روحانی معارف صرف بذریعہ الہامات ومکاشفات ہی ملتے ہیں ۸۲۳ کشفی امور کو ظاہر پر حمل کرنا قطعی اور یقینی طور پر اسی وقت ہوتا جب خدا تعالیٰ بتا دے ۳۰۲،۴۰۲ بعض مکاشفات کا ذکر ۵۰۲،۶۰۲ مسیح اور دجال کی نسبت پیشگوئیاں مکاشفات نبویہ ہیں ۵۰۲ ملاعنہ مسلمانوں کا باہم ملاعنہ کب نہیں ہوسکتا ۱۲۴،۲۲۴ ملائکہ نیز دیکھئے فرشتے ملائک کن معنی سے ملائک کہلاتے ہیں ۷۶ح ملائک کے نزول کی تاثیرات ۶۸ جمیع کائنات الارض کی تربیت کیلئے وسائط ۰۷،۱۷ ان کے وجود کے بارے میںشبہات ۲۵۴ ملائک کا نزول کس طرح ہوتا ہے ۶۶ اجسام کے ہریک ذرہ پر ملائک کے نام کااطلاق ۳۷ خواص الناس خواص الملائک سے افضل ہیں ۴۷ ملائک کو سجدہ کرنے کا حکم ۶۷ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض کہ ملائک اور جبرائیل علیہ السلام کے وجود سے انکار کیا ہے ۹۲۳ ملہم ملہم کوآزمانا آسان اور اس کا طریق ۱۴ مولوی (مخالف) مولوی کا رائے سے عود کرنا موت کی طرح ہے ۲۵ دابة الارض سے مراد علماءذو جہتین ہیں ۴۹۵ مولوی محمد حسین بٹالوی کا مباحثہ لودھیانہ کے واقعات کے برخلاف اشتہار دینا ۷۶۵تا ۳۸۵ ۷۵۸۱ءمیں مولویوں نے جہاد کی غلط تعلیم دی ۹۸۴تا ۳۹۴ مومن مومنین سے مداہنہ کی امید مت رکھو ۷ ۱۱ح مومن کا مال جواہر حقائق ومعارف ہیں ۵۵۴ مہدی مہدی کے ظہور کی مختلف روایات ۴۰۴ تا ۶۰۴

Page 720

وقت وتاریخ نزول مسیح موعود علیہ السلام حسب اقوال اکابر سلف وخلف ودیگر حالات منقولہ از کتاب آثار القیامت ۴۰۴تا ۲۲۴ مہدی کی بیعت ضروری ہے ۳۱۴ عیسیٰ ہی اپنے وقت کا مہدی ہوگا ۶۰۴،۸۷۳،۹۷۳ حدیث سے مسیح کے ظہور کا زمانہ ثابت ہوتا ۶۰۴ درحقیقت مہدی کا نام ہی عیسیٰ ہے ۴۱۴ ن نبوت نبوت کیا چیز ہے ۶ حدیث لم یبق من النبوة الا المبشرات کی تشریح ۰۶ نبوت عطاءغیر مجذوذ ہے کبھی زائل نہیں ہوتی ۹۴۲ نبی نبی کے آنے کے ساتھ جبرائیل کا نزول بھی ہوگا ۲۱۴ محدث بھی ایک معنی سے نبی ہی ہوتا ہے ۰۶ انبیاءسے کیے گئے وعدوں کی تکمیل دو طریق سے ۷۱۳ پیشگوئیاں نبی کی صدق نبوت پر بطور دلیل ہیں ۹۰۳ انبیاءکے نیک نمونہ کی پیروی اصلاح نفس کرتی ہے ۸۱ انبیاءدلوں پر اثر کرنے والا سادہ کلام کرتے ہیں ۶۱ انبیاءکے معجزات کی دو قسمیں ۳۵۲ح،۴۵۲ح انبیاءکے مثیل بننے کے ضمن میں مختلف حوالے ۱۳۲،۲۳۲ اس کا رد کہ انبیاءزندہ ہو کر قبر میں رہتے ہیں ۶۲۲ح انبیاءکوقبول کرنا اسی وقت نہیں ہوتا ۲۴۳ نبی کی دعا کبھی قبول اور کبھی رد ہوتی ہے ۲۶۲ح ،۳۶۲ح ہر نبی کا زمانہ لیلة القدر کا زمانہ ہوتا ہے ۷۵۱ پیشگوئیوں میں اجتہادی غلطی ۷۰۳،۶۰۱،۱۷۴تا۳۷۴،۴۰۲ انبیاءلوازم بشریت سے بالکل الگ نہیں کئے جاتے ۷۵۵ انبیاءکے مکاشفات کی مثالیں کہ ظاہر کچھ کیا گیا اور مراد کچھ اور تھا ۳۳۱ح انبیاءکے مکاشفات عالم مثال ہوا کرتے ہیں ۱۳۶ انبیاءکا سخت الفاظ استعمال کرنے کی حقیقت ۸۱۱ انبیاءکاکفار کی مصنوعات سے نفع اٹھانا ۵۵۵ انبیاءکے علاوہ ہرانسان کی تمنا میں شیطان کا دخل ۸۲۲ اس وہم کا جواب کہ اولیاءاور انبیاءکے الہامات ومکاشفات کو دوسرے لوگوں کی نسبت کیا خصوصیت ہے ۴۹تا ۸۹ نبی کااپنے تئیں مثیل ٹھہرانا جائز ہے یانہیں ۹۲۲،۰۳۲ انبیاءکو مرنے کے بعد پھر زندگی ملنے کا ثبوت ۵۲۲،۶۲۲ح نجات معرفت ہماری نجات کا مدار ہے ۸۲۳ نزول مسیح صعود اور نزول کے خاص معنی ۰۲۴ لفظ نزول کی حقیقت ۰۵۴،۱۵۴،۴۴۲ح ،۵۴۲ح ،۷۴۲ نزول کا لفظ اختیار کرنے میں حکمت ۴۷۳ نبی اسرائیلی نہیں آسکتا ۳۹۳ مسیح حکم اور عدل ہونے کی حالت میں آئے گا ۷۷۴،۸۷۴ قرآن کریم میںمثیل مسیح آنے کا ذکر ۰۶۴تا ۴۶۴ بحساب جمل بعثت مسیح موعود کا زمانہ ۴۶۴ دجال معہود کے خروج کے بعد مسیح موعود کا نزول ۸۸۴ یہی وہ وقت ہے جب مسیح کو اترنا چاہیے ۸۸۱ نزول کے متعلق پیشگوئیوں میں اخفاءکا پہلو رکھا گیا ۲۴۲ چھ قرائن جن سے اسرائیلی مسیح کے آنے کی تردید ہوتی ہے ۰۱۵تا۲۱۵ حدیث بیان نہیں کرتی کہ اسرائیلی نبی ہی آئے گا ۲۹۳،۳۹۳

Page 721

مثیل مسیح کا نزول ۰۶۴تا ۴۶۴ احادیث میں ابن مریم کا نام بطور محاورہ آیا ہے ۳۹۵ قتل دجال سے مسیح کے آنے کا عقیدہ جوڑا نہیں جاسکتا ۰۲۲ یوحنا کا آسمان سے اترنا ۳۵ پیشگوئیوں کے متعلق ہرگز اجماع نہیں ہوتا ۷۹۳ پیشگوئی نزول مسیح کی جزئیات کا کامل انکشاف نہیں ۳۷۴ نواس بن سمعان کی روایت نادرہے ۳۲۲ مسیح کس عمدہ اور اہم کام کیلئے آنے والا ہے ؟ ۱۳۱ مسیح ستاروں کے گرنے کے بعد آئے گا (انجیل) ۴۶۴ نزول مسیح کے بارے میں بعض کے انکار کا جواب ۰۶۴ صریح لفظوں کی موجودگی میںکیونکر آسمان سے اترنے سے انکار کیا جائے ۲۳۱ بعض نزول کو حقیقت پر حمل کرتے ہیں ۵۲۱ قرآن مثیلوں کے آنے کا دروازہ کھولتا ہے ۹۸۳،۰۹۳ اس سوال کا جواب کہ آیت انہ لعلم للساعة سے حضرت عیسیٰ کا نازل ہونا ثابت ہے ۱۲۳تا ۶۲۳ مسیح کا آنا ایک پیشگوئی ہے ۶۰۳تا ۱۱۳ پیشگوئیوں میں بعض اوقات ظاہری الفاظ مراد نہیں ہوتے ۲۴۲تا ۴۴۲ نزول المسیح کے متعلق بحث کی دو ٹانگیں ۲۲۲،۳۲۲ ابن ما جہ کا قول ہے کہ مسیح بیت المقدس میں اترے گا ۹۰۲ نزول کے وقت زرد پوشاک پہننے سے مراد ۹۰۲ روایات میں طواف کعبہ کے حوالے سے اختلاف ۹۰۲ مسیح کا دوبارہ دنیا میں آنا ایک لطیف استعارہ ہے ۱۲۱ کیا مسیح اپنے منصب نبوت سے مستعفی ہو کر آئیں گے ۶۵ صلیب توڑنا، خنزیروں کا قتل وغیرہ مسیح کی علامات کی تطبیق کیونکر ہو سکتی ہے ۷۵ مسیح کی نسبت پیشگوئیاں مکاشفات نبویہ ہیں ۵۰۲ مسیح اوّل اور مسیح ثانی کے حلیوںمیں فرق ۹۵ نزول عیسیٰ کے بارے میں پرانے خیالات پر سخت اعتراض وارد ہوتے ہیں ۵۲۱تا۷۲۱ نزول کے واضح الفاظ سے کیونکر انکار کیا جائے ؟ ۲۳۱ دمشق والی حدیث بھی ایک رو ¿یا ہی ہے ۲۰۲ دمشق کے لفظ سے دمشق مرادلینا دعوئے بلادلیل ہے ۳۳۱ مسلم کی دمشقی حدیث میں استعارات ہیں ۵۱۳،۶۱۳ مسیح غریبی کی حالت میں آئے گا(انجیل) ۰۴۳تا ۲۴۳ امکنہ متبرکہ کی بجائے دمشق کو کیوں بیان کیا گیا ۴۳۱ح دمشق لفظ کی تعبیر منجانب اللہ ۵۳۱ ح تا ۱۴۱ ح اجماع کو پیشگوئیوں کے امور سے کچھ تعلق نہیں ۸۰۳ حضرت مسیح پر جبرائیل وحی کرینگے تو وہ امتی نہیں کیونکہ مستقل نبی امتی نہیں بن سکتا ۰۱۴تا۳۱۴ نزول عیسیٰ کے بعدکے واقعات میں تضاد ۲۲۱،۳۲۱ مسیح اول اور مسیح ثانی دونوں الگ الگ ہیں ۴۲۱ جسم کے ساتھ اترنا جسم کے ساتھ چڑھنے کی فرع ہے ۶۳۲ نبی کے آنے ساتھ جبرائیل کا نزول بھی ہوگا ۲۱۴ آسمان پر مسیح کے کپڑے کون سیتا ہوگا ۳۵ح اسرائیلی نبی کے نزول سے کیا کیا خرابیاں ہونگی اور کیوں مثیل آئے گا ۴۱۴تا۶۱۴،۷۱۴تا۹۱۴ عیسیٰ پر رسولوں کی طرح وحی نازل ہوگی ۴۱۴ وقت وتاریخ نزول مسیح موعود علیہ السلام حسب اقوال اکابر سلف وخلف ودیگر حالات ۴۰۴تا ۲۲۴ مسیح کے نزول کے حوالے سے بحث کاخاتمہ ۲۲۲،۳۲۲ مکاشفات میں استعارات غالب ہوتے ہیں ۲۱۳ غلام احمد قادیانی نام میں مسیح کے آنے کا زمانہ موجود ہے ۰۹۱

Page 722

حضرت عیسیٰ کی نسبت امورمکاشفات نبویہ تھے ۰۰۲ نزول مسیح مجازی ہوگا ۶۴۴تا۹۴۴ کیا مسیح کو نبوت سے معزول کرکے بھیجا جائے گا ۸۳،۸۸۳ قرآن کریم میں بصراحت نام لے کر مسیح ابن مریم کے دوبارہ آنے کا ذکر کیوں نہیں کیا ۸۶۴ کیا دمشق کے منارہ کے پاس اترنا تمام مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے ۹۸۱ مسیح کے دم سے اس کے منکرمریں گے ۹۸۲ کیا مسیح ابن مریم کے آنے کی خبریں ہی غلط ہیں ۹۹۳تا ۲۰۴ مسیح کے بعد شریر رہ جائیں گے جن پر قیامت آئے گی ۰۹۲ کیااس پر اجماع ہے کہ نزول مسیح کے حوالے سے نصوص کو ظاہرپر حمل کیا جائے ۲۱۳،۳۱۳ مسلمان یہودیوں کے مشابہ ۶۴۴تا۹۴۴ کیا احادیث میںنہیں لکھا کہ مثیل مسیح آئے گا ۳۱۳تا۵۱۳ مسیح ابن مریم کے لفظ کو کیوں اختیار کیا گیا ۰۸۳،۱۸۳ حضرت یحییٰ کو روحانی حالت کی و جہ سے ایلیا کہا گیا ۳۱۳ کیا خدا ٰمسیح کو دوبارہ زندہ کرکے نہیں بھجواسکتا ؟ ۶۸۳،۷۸۳ جو بہشت میں داخل ہواوہ نکالا نہیں جاتا ۴۵ مہدی اور عیسیٰ ایک ہی ہیں ۸۷۳،۹۷۳ دجال کے قتل سے مسیح کے آسمان سے اترنے کے عقیدے کو جوڑا نہیں جاسکتا ۰۲۲تا۲۲۲ اس زمانہ میں دجال کون ہے ۲۶۳،۶۵۳،۶۶۳ دمشق والی حدیث امام بخاری نے درج نہیں کی ۲۲۲ کیا حدیث میں مسیح کے ظہور کا کوئی زمانہ ثابت نہیں ۶۰۴ نشان جوا مر انسانی طاقتوں سے بالا تر ہو ۲۲۵ نصیحت بدظنی اور بدگمانی کرنیوالوں کو نصیحت ۴۰۱ نظم مے سزد گرخوںببار ددیدہ ہراہل دیں ۴۴تا۶۴ شان احمد را کہ داندجز ۲۶ کیوں نہیں لوگوتمہیں حق کاخیال ۳۱۵،۴۱۵ نفس نفس انسان کے مختلف نام ۸۷ح نفس انسان سے متعلق مختلف خیالات ۰۸ نقشبندی (اسلامی تصوف کا ایک سلسلہ) ۳۲۱ عمل سلب امراض کی طرف تو جہ دیتے ہیں ۷۵۲ح نماز تما م سعادتوںکی کنجی ہے ۹۴۵ نماز میں بہت دعا کرو ۹۴۵ پانچ نمازیں معراج میں فرض ہوئیں ۷۱۶ قرآن شریف کی جگہ حدیث پڑھ کرنماز نہیں ہوسکتی ۴۸۳ غیر احمدی امام کے پیچھے نماز کے ادا ہونے میںشبہ ۵۲ح نیچریت وہ نیچریت جو قرآن کے موافق ہو سنت اللہ ہے ۳۲۵ لیلة القدر کے نئے معنی بیان کرنا نیچریت کا دروازہ کھولنا نہیں ۹۱۳ نیوگ قرآن کی مخالفت میںنیوگ کا عقیدہ رائج ہوا ۳۸۳،۴۸۳ و وحدت الوجود مخلوقات سے اللہ تعالیٰ کے تعلق کی مثال ۹۸ خلق الاشیاءوھو عینھا ۹۸ وحی(نیز دیکھئے الہام )

Page 723

قیامت تک وحی کی نالیاں جاری ہیں ۱۲۳ سچی وحی کا نشان ۹۳۳ وحی ¿ رسالت تا قیامت منقطع ہے ۲۳ا کامل ولی کو بھی وحی ہوتی ہے ۶۸ فیض وحی کے بواسطہ جبرئیل نازل ہونے کی کیفیت ۷۸،۰۹،۲۹ وحی سے متعلق جبرئیل کے تین کام ۴۹ وسائط ظاہری اور روحانی نظام میں وسائط کا پایا جانا ۱۹ وصیت آخری وصیت کہ وفات مسیح پر بحث کرو ۲۰۴ وعظ زبانی تقریریں.مفید اور مو ¿ثر طریق ہیں ۵۱ وفات مسیح وفات کے بعدمسیح کی دوبارہ زندگی کے قائلین کا رد ۶۸۳، ۷۸۳،۲۰۵،۳۰۵،۸۰۵ فلما توفیتنی کی تفسیر ۳۰۵ تیس آیات سے وفات مسیح کا ثبوت ۳۲۴تا۸۳۴ کتاب ازالہ اوہام میں حضرت مسیح کی حیات وممات کے متعلق تمام سوالات کے جوابات ہیں ۴۲۳ حضرت ابو بکر ؓ کا آنحضرت کی وفات پر بیان ۸۸۵،۹۸۵ مسیح ابن مریم رسول کا آنا فساد عظیم کا موجب ہے ۳۹۳ مسیح کی عدم مصلوبیت پر انجیل سے استدلال ۴۹۲تا۷۹۲ آج کی تاریخ سے سو برس تک تمام بنی آدم پر قیامت ۷۲۲ حدیث کی روسے وفات مسیح ۴۲۲ اختلاف حلیتَین ۱۳۶ انبیاءکے قبر میںزندہ رہنے کا رد ۶۲۲ح ابن عباس ؓ وفات مسیح کے قائل تھے ۴۲۲،۵۲۲ کیا توفی کا لفظ لغت میں کئی معنوں میں آیا ہے ۹۸۳ دنیوی لوازم سے مستثنیٰ ہونا وفات مسیح کی دلیل ۸۹۴تا ۰۰۵ مسیح فوت شدہ جماعت میں شامل ہے (بخاری) ۰۵۵،۱۰۵ مسیح کا وہی نورانی جسم ہے جو دیگر انبیاءکو ملا ۶۰۵،۷۰۵ کیا مسیح دوبارہ زندہ ہوکر آسکتے ہیں ۹۱۶ح تا ۵۲۶ح حضرت مسیح کی روح آسمان پر گئی نہ کہ جسم ۶۲۱،۷۲۱ حضرت مسیح آسمان کی طرف گئے تو آسمان کی حرکت دولابی ہے کبھی نیچے اور کبھی اوپر ۷۲۱ مسیح کی استعارہ کے طور پر بیان کی گئی علامات ۸۲۱ توفی کے معنی نیند نہیں ہوسکتے ۴۲۲ عیسائیت کو شکست وفات مسیح سے ہوگی ۲۰۴،۳۰۴ حضرت عیسیٰ فوت ہوچکے ہیں (ابن عباس) ۴۲۲،۵۲۲ ” عیسیٰ سات گھنٹہ تک مرے رہے “اس پر تبصرہ ۵۲۲ یہود ونصاریٰ کاوفات مسیح پر اجماع ہے ۵۲۲ توریت میں ہے جو پھانسی دیا جائے وہ ملعون ہے ۰۹۲ حدیث میں مسیح کا زندہ آسمان پر جانا بیان نہیں ہوا ۸۸۳ مسیح کی موت کا کوئی وقت خاص نہیں ۰۳۳تا ۴۳۳ کیا اجماع ہے کہ نصوص کو ظاہر پر حمل کیا جائے ۲۱۳،۳۱۳ اگر مسیح فوت ہوگئے تو تیرہ سو برس سے مشہورعقیدہ آج غلط ثابت ہوا کہ وہ زندہ آسمان پرہیں ۵۴۳ عیسائی عقیدہ کا رد قرآن میں کہاں ہے ؟ ۸۱۳،۹۱۳ عیسیٰ کی موت قبل از رفع کے بار ے میں اختلاف ہے (صدیق حسن) ۳۱۴،۴۱۴ مرنے کے بعد دوبارہ اسی جسم خاکی میں روح کا داخل ہونا سراسر غلط گمان ہے اور اس کی تفصیل ۵۲۲ معراج کی حدیث سے وفات مسیح کا ثبوت ۳۳۴،۹۸۱ عام اور خاص دونوں طرح وفات مسیح ثابت ۵۶۲ اس سوال کا جواب کہ قرآن شریف سے مسیح ابن مریم کا فوت ہونا کہاں ثابت ہوتا ہے؟ ۴۶۲تا۷۷۲

Page 724

قرآن کی رو سے توفی کے کیا معنی ہوسکتے ہیں ۷۶۲تا۰۷۲ مسیح اسرائیلی فو ت ہوچکا ہے ۸۸۳ مسیح کے قول کی وضاحت ۳۰۳ توفی کی تشریح کرنے میں صرف دو سبیل ہیں ۱۹۳،۲۹۳ توفی کی بجائے اماتت کا لفظ استعمال کرنے کی و جہ ۰۷۲،۱۷۲ حضرت مسیح نے یونس نبی جیسا معجزہ دکھانے کا وعدہ کیا ۳۰۳ عیسیٰ جنت میں داخل ہوگئے اورنہیں نکلیں گے.اس دلیل پر ہونے والے ایک اعتراض کا جواب ۰۸۲تا ۸۸۲ یہود نے مسیح رسول اللہ کو قتل کرنے کی کوشش کی ۰۹۲ عیسائیوں کا خدا فو ت ہوگیا ہے ۱۶۳،۲۶۳ رافعک کا لفظ صرف مسیح کے حق میں کیوں آیا ۹۹۲،۰۰۳ مسیح وفات کے بعد دوبارہ زندہ ہو کر آسمان کی طرف اٹھائے گئے.اس کا رد ۳۳۲ کیا توفی کا لفظ لغت میں کئی معنوں پر آیا ہے ۹۴۳،۰۵۳ خدا تعالیٰ مسیح پر دو موتیں وارد نہیں کرےگا ۶۴۳ مسیح حواریوں کو کشفی طور پر نظر آتے رہے ۴۵۳،۵۵۳ ولی خدا تعالیٰ کاا پنے اولیاءسے مکالمہ ۰۰۶ ادنیٰ سے ادنیٰ مرتبہ کے ولی پروحی کانزول ۸۸ بعض ولی بعض اولیاءکے بروز ۴۴۳ راستباز بندے قوت قدسیہ سے خارق عادت اثر ظاہر کرتے ہیں اور ان کی بیس علامات کا ذکر ۵۳۳تا ۹۳۳ بعض اولیاءکاکشفاًدیدار رسول ۶۲۲ح اس وہم کا جواب کہ اولیاءاور انبیاءکے الہامات کو دوسرے لوگوں کی نسبت کیا خصوصیت ہے ۴۹تا ۸۹ ہ،ی ہندو ۲۴۲ مداہنہ کے ساتھ ساری عمر دوست بنے رہتے ہیں ۷۱۱ قرآن کی مخالفت کی و جہ سے ہندوو ¿ں میں نیوگ اور تناسخ کا عقیدہ رائج ہوا ۳۸۳،۴۸۳ وید کی بے جا تعلیمیں ۹۶ روحانیت سے مرادیں مانگنے کی تعلیم دیتا ہے ۸۶،۹۶ آریہ اور برہمونے ملائک کی پرستش کی ہے ۲۷،۳۷ آریوں کے نزدیک چار ویدوں کے نزول کے بعد الہام بند ہو گیا ۷۹ یاجوج ماجوج خروج کا لفظ استعمال کرنے کی و جہ ۰۷۳تا۴۷۳ ممالک مشرقیہ سے خروج دجال سے مراد ۹۱۴ یاجوج ماجوج سے مراد انگریز اور روس ہیں ۹۶۳،۳۷۳ یزیدی الطبع لوگ نزول مسیح کے حوالے سے لفظ دمشق کے ذریعے یزیدی الطبع لوگوں کی طرف اشارہ ۶۳۱ح یہود ۲۴۲ یہودی قرآنی بیان کے سامنے دم نہیں مار سکتے ۳۹۲ توریت کا مغز یہودیوں کے دلوں پر سے اٹھایا گیا ۳۷۴ یہود نے مسیح رسول اللہ کو قتل کرنے کی کوشش کی ۰۹۲ مسیح کی صلیبی موت کے بارے میں شک ۱۹۲تا ۳۹۲ آخری زمانہ میں مسلمان یہود کے مشابہ ۴۹۳،۵۹۳، ۷۱۴تا۹۱۴،۸۰۵،۹۰۵،۹ح خلافت محمدیہ خلافت موسویہ سے مشابہ ۹۰۵ سلسلہ موسوی اور سلسلہ محمدی کی مماثلت ۰۶۴تا ۴۶۴ ایلیا نبی کے قصہ کی و جہ سے مسیح کا انکار ۰۴۲ یہود کا عقیدہ کہ الیاس آسمان سے اتریگا ۳۵ یہود کا حضرت مسیح ؑ سے بر ا سلوک کرنا ۵۱ح

Page 725

اسمائ آ.ا آد م علیہ السلام ۲۶۳ موت کے بعد آسمان پر گئے ۸۳۴ فوت ہونے کے بعد اور قسم کی زندگی ملی ۲۰۵ آپ کا مثیل بننے کی دعا ۹۲۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مثیل آدم ہیں ۲۴۳،۳۴۳ ملائک کو کب آپ کا سجدہ کرنے کے لیے کہا گیا ۶۷ آدم علیہ السلام کے خروج کے بعد ملک ہند پر نظر رحم ۹۱۴ سورة العصر میں ابتدائے خلقت آدم کا زمانہ مذکورہے ۰۹۱،۹۵۲ آخر الخلفاءآدم کے نام پر آیا ۴۷۴،۵۷۴ ابراہیم علیہ السلام ۴۱۳،۲۳۴ موت کے بعد آسمان پر گئے ۸۳۴ فوت ہونے کے بعد اور قسم کی زندگی ملی ۲۰۵ ابراہیم کے دل والا خدا کے نزدیک ابراہیم ہے ۱۱ح آپ کا مثیل بننے کی دعا ۹۲۲،۴۱۳ آنحضرت نے معراج کی رات آپ کودیکھا ۶۹۳ لعزر مرنے کے بعد ابراہام کی گود میں بٹھایا گیا ۱۸۲،۶۰۵ مسیح کا اقرار کہ یہ زندہ نبی ہیں ۶۰۵ ابراہیم ثانی منشی پٹواری چندہ دہندہ گان میں نام درج ۵۴۵ ابن خلدون خروج دجال کے متعلق قول جو غلط نکلے ۳۱۴ ابن صیاد اس پردجال ہونے کا گمان کیا گیا ۹۹۱ اس کے دجال ہونے پر اجماع کادعویٰ ۶۷۵،۷۷۵ دجال ہونے کے بارے میں صحابہ کا قسمیںکھانا ۹۰۲،۰۱۲ ، ۸۱۲،۹۱۲،۰۲۲،۶۵۳ ابن صیاد کا اپنے دجال ہونے سے انکار ۱۱۲ حضور نے اس کے دجال ہونے کے بارے میں اپنی رائے بدل لی تھی ۲۷۴ ابتک زندہ رہنے کا گمان ۲۷۳،۱۷۳ دجال کے متعلق بحث کی دو ٹانگیں ۲۲۲،۳۲۲ کیا ابن صیاد گم ہوگیا اورقرب قیامت میںظاہر ہوگا ۳۴۳،۴۴۳ دجال کے بارے میں متضاروایتوں کا بیان ۲۱۲،۳۱۲ مدینہ میں فوت ہوا ۲۲۲ ابن عباس عبد اللہرضی اللہ عنہ قرآن کریم کے سمجھنے میں اوّل نمبر پر ہیں ۵۲۲،۵۴۳،۹۴۳ محدث والی قراءت ۱۲۳ انی ممیتک ۴۲۲ حضرت عیسیٰ فوت ہوچکے ہیں ۵۲۲ ابن مریم ؑ(مزید دیکھیں عیسیٰ ؑ) ابن مریم کے نزول سے کیا مراد ہے ؟ ۶۴۳ مشابہت کی وجہ سے آنیوالا ابن مریم کہلایا ۸۴۴ ابن مریم کے نزول کی تشریح مراتب وجود دوری کے لحاظ سے ۷۴۴ ابن مسعودعبد اللہرضی اللہ عنہ دخان سے مراد ۵۷۳ مباہلہ کے حوالے سے آپ کا قول ۱۲۴،۲۲۴ ابو بکر رضی اللہ عنہ ابو جہل سے قرآنی پیشگوئی پر شرط لگانا ۰۱۳،۱۱۳ احادیث کے بغیر صحابہ کا وجودبھی ثابت نہیں ہوتا ۰۴۴،۱۰۴ ابو جہل ۴۲ح آنحضرت کواس کے لیے انگور کا خوشہ دیا جانا ۳۳۱ح،۰۱۳

Page 726

ابو بکرؓ کا قرآنی پیشگوئی پر ابو جہل کی شرط لگانا ۰۱۳،۱۱۳ ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ امام فہم وفراست میں ائمہ ثلاثہ سے افضل ۵۸۳،۶۸۳ بخاری ومسلم کی بہت سی احادیث کو نہ لیا ۳۹۳ ابو داو ¿د ؑ ابوداو ¿د کی حدیث حارث حراث کا ذکر ۴۱ح ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ۱۱۲ ابو طالب ابو طالب رئیس مکہ اور قوم کے سردار ۳۱۱ح کفار مکہ کا آنحضرت کی شکایت لگانا ۰۱۱تا۲۱۱ آنحضرت کے بارہ میں ہونے والا مکالمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاماً بتایا گیا ۱۱ح آنحضور کی شادی کے بارے میں فکر نہ کی ۴۱۱ح ابو قبیل آپ کا قول کہ ۴۰۲۱ ہجری میں مہدی ظاہر ہوگا ۴۰۴ ابو لہب ۴۲ح قرآن کریم نے بعض کفار کا نام ابو لہب رکھا ۶۱۱ح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ۶۵ احمد بخش پٹواری منشی چندہ دہندہ گان میں نام درج ۵۴۵ احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ امام بخاری کو احمد بن حنبل کا نام دیا گیا ۲۱۵ احمد بیگ مرزا پیشگوئی کا ذکر ۵۰۳،۶۰۳ احمد جان صوفی مرحوم ۳۵۵،۹۳۵ ان کا ذکر خیر ۸۲۵،۹۲۵ احمد خاںسر سید الہام کے بارے میںنظریہ ۶ ۹۵تا۲۰۶ احمد شاہ شیخ منصور پوری رضی اللہ عنہ مبائعین میں آپ کا نام درج ہے ۵۴۵ احمد شاہ منشی رضی اللہ عنہ مبائعین میں آپ کانام درج ہے ۴۴۵ ادریس علیہ السلام موت کے بعد آسمان پر گئے ۸۳۴ فوت ہونے کے بعد اور قسم کی زندگی ملی ۲۰۵ آنحضرت نے معراج کی رات آپ کو دیکھا ۶۹۳ اسحاق علیہ السلام ۴۱۳ مسیح کا اقرار کہ یہ زندہ نبی ہیں ۶۰۵ اعظم بیگ میرزا رئیس سامانہ علاقہ پٹیالہ ۹۳ افتخار احمد صاحبزادہ ان کا ذکرِخیر ۹۳۵ الٰہی بخش سکنہ لدھیانہ آپ کے سامنے گلاب شاہ کی پیشگوئی بیان کی گئی ۳۸۴ الٰہی بخش منشی عبد اللہ غزنوی کی تصدیق کے گواہ ۰۸۴ الیاس علیہ السلام آسمان پر جانے کا عقیدہ آپ کی طر ف منسوب ہے ۲۵ الیسع علیہ السلام آپ عمل الترب میں کمال رکھتے تھے ۷۵۲ح اللہ بخش منشی رضی اللہ عنہ مبائعین میں آپ کا نام درج ہے ۴۴۵

Page 727

اللہ دین میاں چندہ دہندہ گان میں نام درج ہے ۵۴۵ امر سنگھ را جہ جگن ناتھ کے مباحثہ مشروط بایمان کے گواہ ۱۲۵ امیر علی سیدرضی اللہ عنہ مبائعین میں نام درج ہے ۴۴۵ اویس قرنی رضی اللہ عنہ ۳۵۵ ایلیا علیہ السلام ۷۳۲،۹۳۲ یحییٰ کاروحانی حالت کی و جہ سے ایلیا نام رکھا گیا ۳۱۳ ایلیا کو یوحنا کہا گیا ۹۷۳،۰۸۳ قرآن نے یحییٰ کی صورت میں نازل ہونا مانا ہے ۰۴۲ آسمان پر جانے کا عقیدہ آپ کی طرف منسوب ہے ۲۵،۲۱۵ حضرت مسیح نے ایلیا نبی کا مثیل آنا مان لیا ہے ۶۳۲،۷۳۲ آپ کے واقعہ پر غور کی نصیحت ۰۴۲ ایلیا کے قصہ نے یہودیوں کی راہ میں پتھر ڈالے ۰۴۲ ایوب علیہ السلام میں اکیلا آیا اور اکیلا جاو ¿ں گا ۷۳ ب.پ.ت.ث ابویزید بسطامی ۸۷۱ اپنے آپ کو انبیاءکا مثیل قرار دینے کی و جہ سے آپ کو کافر ٹھہرا کر شہر بدر کیا گیا ۰۳۲،۱۳۲ بایزید خان شیخ صد ر جہاں مورث اعلیٰ نواب محمد علی خان کے پوتے ۶۲۵ برکت علی شیخ مبائعین میں آپ کا نام درج ہے ۴۴۵ بسمارک(شہزادہ) بذریعہ خط واشتہار دعوت اسلام دی گئی ۶۱۵ح بلعم باعور بلعم کے قصہ میں رفع کے لفظ کی وضاحت ۰۰۳ چند ایک بیعت کنندگان کی مثال ۰۴ بلقیس عقلی معجزہ دیکھ کراسے ایمان نصیب ہوا ۴۵۲ح بہادر خان جمال خان کا بیٹا ۶۲۵ ان کی نسل سے نواب غلام محمد خان ہیں ۶۲۵ بہادر خان کیروی ۲۴۵ پطرس ان کے بار ے میں کی گئی پیشگوئی صحیح نہ نکلی ۶۰۱،۲۷۴ پلاطوس مسیح کو بچانے کی کوشش کی ۴۹۲،۵۹۲ رعیت کے رعب میں آگیا ۱۰۳ پولوس مسیح کے مصلوب ہونے کا عقیدہ ۷۹۲ تاج محمد مولوی مبائعین میں آپ کانام درج ہے ۴۴۵ آپ کے سامنے گلاب شاہ کی پیشگوئی بیان کی گئی ۳۸۴ تمیم داری کسی جزیرہ کے گرجا میں دجال کی خبر ۷۵۳ ثمود سورہ شمس میں اس قوم کی مثال پیش کی گئی ہے ۴۸ ثناءاللہ پانی پتی آپ کا قول کہ تیرھویں صدی کے اوائل میں ظہور مہدی ہوگا ۵۰۴

Page 728

ج.چ.ح.خ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ ۱۱۲ خدا کی قسم کھانا کہ ابن صیاد ہی دجال ہے ۰۱۲ مرنے والے لوٹ کر نہیں آتے ۱۵۴ جبرائیل علیہ السلام جبرائیل کے وجود کے با رے میں شبہات ۲۵۴ وحی کے متعلق جبرائیل کے تین کام ۳۹،۴۹ جبرائیل کی خدمات کا ذکر ۶۸ جبرائیل کے تاثیرات کی مثال ۸۸ نبی کے آنے کے ساتھ جبرائیل کا نزول بھی ہوگا ۲۱۴ ہر ایک ولی پر جبرائیل ہی تاثیر وحی کی ڈالتا ہے ۸۸ حسب تصریح قرآن کریم رسول کسے کہتے ہیں ۷۸۳ باب نزول جبرائیل بہ پیرایہ وحی رسالت مسدود ہے ۱۱۵ اس سوال کا جواب کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ملائک اور جبرائیل علیہ السلام کے وجود سے انکار کیا ہے ۹۲۳ جسّاسہ جساسہ والی روایت کے راوی ابن تمیم ہیں ۱۷۳ ابتک اس کے زندہ رہنے کا عقیدہ غلط ہے ۱۷۳،۲۷۳ جعفر صادق امام دو سو ہجری میں مہدی ظہور فرمائے گا ۴۰۴ جگن ناتھ ریاست جموں میں حضرت مولوی نور الدین سے بحث ۱۲۵ جمال الدین ڈاکٹر ۸۱ح جمال الدین احمد شیخ قطب الاقطاب ۴۳۵ جمال خان شیرمحمد خان کا بیٹا ۶۲۵ جنید بغدادی رحمة اللہ علیہ ۸۷۱ چراغ علی رضی اللہ عنہ ۱۴۵ مبائعین میں آپ کا نام درج ہے ۵۴۵ چندہ دہندگان میں نام درج ہے ۶۴۵ حامد شاہ صاحب سید سیالکوٹی رضی اللہ عنہ ان کا ذکر خیر ۴۲۵ حامد علی رضی اللہ عنہ (خادم حضرت مسیح موعود ؑ) ان کا ذکرِخیر ۱۴۵،۰۴۵ حبیب الرحمن شاہ ساکن سرسادہ ۴۳۵ حبیب الرحمن منشی رضی اللہ عنہ مبائعین میں آپ کا نام درج ہے ۴۴۵ چندہ دہندگان میں نام درج ۶۴۵ حسام الدین میر سید حامد شاہ صاحب ان کے خلف رشید ہیں ۴۲۵ حسین رضی اللہ عنہ حدیث میں دمشق کا لفظ استعمال کرنے کی حکمت ۷۳۱ح حشمت اللہ صاحب منشی رضی اللہ عنہ ۳۳۵ چندہ دہندگان میں نام درج ہے ۵۴۵ حمزہ رضی اللہ عنہ آنحضور کی شادی کے بارے میں فکر نہ کی ۴۱۱ح خدا بخش مرزا رضی اللہ عنہ مبائعین میں آپ کانام درج ہے ۴۴۵ خصلت علی سیدرضی اللہ عنہ مبائعین میں آپ کا نام درج ہے ۴۴۵

Page 729

خضرعلیہ السلام حدیث سے آپ کا فوت ہونا ثابت ہے ۷۲۲ د.ر.ز داﺅد علیہ السلام آپ نے آنحضرت ﷺ کا ظہور خدا کا ظہور قرار دیا ۵۶ح تا ۷۲ح رام چندر انکے بارے میں تواتر کے ذریعے خبر ہم تک پہنچی ۹۹۳ رحمت اللہ شیخ ان کا ذکرِخیر ۷۳۵ رستم علی منشی رضی اللہ عنہ ان کا ذکرِخیر ۶۳۵ چندہ دہندگان میں نام درج ہے ۶۴۵ آپ کے سامنے گلاب شاہ کی پیشگوئی بیان کی گئی ۳۸۴ رشید احمد گنگوہی مولوی مباہلہ کے قائم مقام فریق کے مخاطب ۷۵۴،۸۵۴ رشید الدین خلیفہ رضی اللہ عنہ ۷۳۵ زرارہ رضی اللہ عنہ نعمان بن المنذر کوخواب میں دیکھا ۵۰۲ زکریا علیہ السلام یحییٰ آپ کا بیٹا ۱۱ح،۳۹۳،۴۹۳ زمخشری حدیث ما من مولود....کی تاویل کی ۹۰۶،۰۱۶ زینب رضی اللہ عنھا آپ ؓ کے ذریعے لمبے ہاتھ والی پیشگوئی پوری ہوئی ۵۹۴ س.ش سراج الدین احمد سپرنٹنڈنٹ ریاست جموں جگن ناتھ کے مشروط بایمان مباحثہ کے گواہ ۱۲۵ سراج الحق نعمانی رضی اللہ عنہ ان کا ذکر ِخیر ۴۳۵،۵۳۵ سردار خاں مبائعین میں آپ کانام درج ہے ۴۴۵ سرکار سنگھ جگن ناتھ کے مشروط بایمان مباحثہ کے گواہ ۱۲۵ سعدی شیرازی آپ کے کچھ فارسی اشعار کا ذکر ۵۸ سلیمان علیہ السلام آپ کامعجزہ عقلی تھا ۴۵۲ سیداحمد عرب کہاگیا ہے کہ یہ ایک ماہ حضرت مسیح موعود ؑ کے پاس رہے ۳۲ح سیلا یہودا بن یعقوب کا پوتا اور حضرت مسیح کا لقب ۳۱۳ شہاب الدین موحد ان کا ذکرِخیر ۱۴۵،۲۴۵ شیر محمد خاںابن فیروز خان ۶۲۵ شیر محمدہجنی مولوی رضی اللہ عنہ مبائعین میں آپ کا نام درج ہے ۴۴۵ شیث علیہ السلام آپ کا مثیل بننے کی دعا ۹۲۲

Page 730

ص.ض.ظ صدر جہاں شیخ نواب محمد علی رضی اللہ عنہ خان کے مورث اعلیٰ ۵۲۵ صدیق حسن خان نواب آف بھوپال ۰۱۵ محمد حسین بٹالوی نے کہا کہ آپ مجدد ہیں ۴۰۴ آپ کے نزدیک مکاشفات میں وقت نزول چودھویں صدی ہے ۸۸۱،۹۸۱ وقت وتاریخ نزول مسیح موعود ؑ حسب اقوال اکابر سلف وخلف ودیگر حالات منقولہ ۴۰۴تا ۲۲۴ ظفر احمد صاحب منشی رضی اللہ عنہ ان کا ذکرِخیر ۲۳۵،۳۳۵ چندہ دہندگان میں آپ کا نام درج ہے ۵۴۵ ع.غ عائشہ رضی اللہ عنھا حضور کو ابریشم کے ٹکڑہ پر آپ کی تصویر دکھائی گئی ۰۱۳ آپ کا قول کہ معراج رویا صالحہ تھا ۸۴۲،۰۵۲ عباس رضی اللہ عنہ آنحضور کی شادی کے بارے میں فکر نہ کی ۴۱۱ح عبد الجبار غزنوی مباہلہ کے قائم مقام طریق کے مخاطب ۷۵۴،۸۵۴ عبد الحق خلف عبد السمیع ان کا ذکرِخیر ۷۳۵ آپ کے سامنے گلاب شاہ کی پیشگوئی بیان کی گئی ۳۸۴ عبد الحق غزنوی میاں ۱۰۳، ۰۵۳ ان کے الہامات کے بار ے میں مختصر تقریر ۸۳۴تا ۱۵۴ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مباہلہ کی درخواست کی ۳۴۴ تا۵۴۴ مباہلہ کے قائم مقام طریق کے مخاطب ۷۵۴،۸۵۴ ان پربئس القرین نے القا کیا ۸۲۲ حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف ہاتھ کے استعمال کی اجازت ۰۰۳ عبد الحق رضی اللہ عنہ منشی حضرت مسیح موعود ؑ کی بیماری میں آپ نے خدمت کی ۸۱ح عبد الحق میاں رضی اللہ عنہ مبائعین میں آپ کا نام درج ہے ۵۴۵ عبد الحکیم خاں ان کے حوالے سے ایک شہادت کا بیان ۴۵۵،۵۵۵ ان کا ذکر ِخیر ۷۳۵ عبد الرحمن ۳۶۲ ملہم ہونے کے مدعی ۷۵۴ ان پربئس القرین نے القا کیا ۸۲۲ عبد الرحمن پٹواری چندہ دہندگان میں آپ کانام درج ہے ۵۴۵ عبد الرحمن حاجی حضرت مسیح موعود ؑکے حق میں گواہی دی ۳۵۵،۴۵۵ عبد الرحمن منشیرضی اللہ عنہ چندہ دہندگان میں نام درج ہے ۵۴۵ عبد الرحمن خلف مولوی محمد لکھوکے حضرت مسیح موعودؑکا نام ملحد رکھا (نعوذ باللہ) ۸۲۲،۱۰۳ عبد العزیٰ بن قطن دجال کی آنکھ کو ان کی آنکھ سے تشبیہ دینا ۹۹۱ عبد الغنی صاحب مولوی رضی اللہ عنہ المعروف غلام نبی خوشابی کا ذکر ِخیر ۵۲۵ عبد الکریم خان میاں رضی اللہ عنہ مبائعین میں آپ کا نام درج ہے ۴۴۵

Page 731

عبد الکریم سیالکوٹی رضی اللہ عنہ ان کا ذکر خیر ۳۲۵،۴۲۵ حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ کی صحبت کا نیک اثر ۹۱۱ ”تہذیب “نام سے ایک رسالہ شائع کرنے کا ارادہ ۰۲۱ عبد القادر جمالپوری مولوی ان کا ذکرِخیر ۸۳۵ چندہ دہندگان میں نام درج ہے ۶۴۵ عبد القادر جیلانی سیدرحمة اللہ علیہ کشتی کو زندہ آدمیوںسمیت نکالنا ۵۱۲ عبد القادر(شرقپوری ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخالف ۸۲۲ عبد القادر مدرس ایک صالح آدمی ۰۸۴ آپ کے سامنے گلاب شاہ کی پیشگوئی بیان کی گئی ۳۸۴ عبد اللہ بن زبیررضی اللہ عنہ حرم کعبہ میں مینڈھا ذبح کیا جائے گا ۵۹۴ عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ اختلاف حلیتین والی حدیث کے راوی ۱۰۲ ابن صیاد کے دجال ہونے کے بارے میں قسم کھانا ۶۵۳ عبد اللہ پٹواری رضی اللہ عنہ آپ کے سامنے گلاب شاہ کی پیشگوئی بیان کی گئی ۳۸۴ چندہ دہندگان میں آپ کا نام درج ہے ۵ ۴۵ عبد اللہ سنوری رضی اللہ عنہ ان کا ذکرِخیر ۱۳۵ عبداللہ غزنوی کی تصدیق کے گواہ ۹۷۴ عبد اللہ غزنوی قادیان میں نور نازل ہونے کا مکاشفہ دیکھا ۹۷۴،۰۸۴ قرآنی آیت کا اصل معنوں سے پھیر کر القا ہونا ۱۶۲ بعض الہامات حضرت مسیح موعودؑ کو بھجوائے ۴۶۲ عبد المجید خاں رضی اللہ عنہ مبائعین میں آپ کا نام درج ہے ۴۴۵ عبد الوہاب شعرانی ؒ کتاب میزان کبریٰ میں کشف کے حجت ہونیکا ذکر ۶۷۱ عبد الہادی صاحب سید ان کا ذکرِخیر ۳۳۵ چندہ دہندگان میں آپ کا نام درج ہے ۶۴۵ عثمان رضی اللہ عنہ احادیث کے بغیر صحابہ کا وجودبھی ثابت نہیں ہوتا ۰۴۴،۱۰۴ عروة رضی اللہ عنہ ۴۰۲ عزرائیل ان کے وجود کے بارے میں شبہات ۲۵۴ عزیر علیہ السلام ۰۸۲ عزیر نبی کے واقعہ کی حقیقت ۹۵۴ جنت میں داخل ۶۳۴ دوبارہ بھیجے جانے کی حقیقت ۷۸۲،۸۸۲ عطاءالرحمن دہلی رضی اللہ عنہ مبائعین میں آپ کانام درج ہے ۴۴۵ آپ کے سامنے گلاب شاہ کی پیشگوئی بیان کی گئی ۳۸۴ عطاءاللہ خان ابن جمال خان ۶۲۵ عطاءمحمدمرزا(حضرت مسیح موعود ؑ کے دادا) سکھوں نے ان کو مع لواحقین قادیان سے جلاوطن کیا ۵۶۱ح عظیم بیگ مرزا ۰۳۵ عکرمہ انگور کے خوشہ سے مشابہت ۳۳۱ح،۰۱۳

Page 732

علیرضی اللہ عنہ آپ کا دابة الارض کے بار ے میں بیان ۰۶۳ح احادیث کے بغیر صحابہ کا وجود ثابت نہیں ہوتا ۰۴۴،۱۰۴ علی بن طلحہ رضی اللہ عنہ انی ممیتک ۴۲۲ علی گوہر میاںرضی اللہ عنہ مبائعین میں آپ کانام درج ہے ۴۴۵ علی قاری ملّا عالم رو ¿یا کے امور کی تاویل ہونی چاہیے ۷۱۲ آنحضرت ﷺ نے دجال کو خواب میں دیکھا تھا ۹۹۱،۰۰۲ پیشگوئیاں مکاشفات کی نوع میں سے ہیں ۹۸۴ عمررضی اللہ عنہ ۸۵۳ آپ جیسا دل رکھنے والا خدا کے نزویک عمر ہے ۱۱ح اگر کوئی محدث ہے تووہ عمر ہے ۱۱ح شیطان آپ کے سایہ سے بھاگتا ہے ۹۱۲ احادیث کے بغیر صحابہ کا وجود ثابت نہیں ہوتا ۰۴۴،۱۰۴ آپ کا قسم کھانا کہ ابن صیاد ہی دجال ہے ۰۱۲،۸۱۲، ۹۱۲،۲۲۲،۶۵۳ عمران بن حصین ۲۶۳ عنایت علی سید لدھیانہ رضی اللہ عنہ مبائعین میں آپ کانام درج ہے ۴۴۵ آپ کے سامنے گلاب شاہ کی پیشگوئی بیان کی گئی ۳۸۴ عنایت علی میر رضی اللہ عنہ مبائعین میں آپ کا نام درج ہے ۴۴۵ عیسیٰ علیہ السلام ۸،۵۱ح،۳۵ح،۷۵،۳۰۱،۱۲۱، ۸۸۱،۶۲۲،۳۳۲،۶۳۲،۸۸۳،۶۰۵،۷۰۵،۴۵۵ موسیٰ کے آخری خلیفہ ۰۵۴ شریعت موسویہ کی خدمت کے لئے آئے ۴۱۴ شریعت موسوی میں خلیفة اللہ کو مسیح کہتے ہیں ۲۶۴ نزول کے وقت توریت کا مغز اٹھایا گیا تھا ۳۷۴ دوسرے آسمان پر ہیں ۶۲۲ح،۴۱۳،۰۰۵ جنت میں داخل ہیں ۶۳۴ حضرت مسیح کا نام سیلا رکھا گیا ۳۱۳ حیات مسیح پر اجماع نہیں ۷۰۵ آپ کے آسمان پر جانے کا عقیدہ ۲۵ تیس آیات سے وفات مسیح کا ثبوت ۳۲۴تا ۸۳۴،۸۰۵ آپ نے خدائی کا دعویٰ ہرگز نہیں کیا ۳۶۳ آپ کو زیادہ اہمیت دیے جانے کی و جہ ۷۲۲ ابن مریم کو ظاہری معنوں سے پھیرنے کی و جہ ۴۱۳،۵۱۳ حضور نے معراج کی رات آپ کو دیکھا ۹۵ دنیاوی لوازم سے استثناءوفات کا ثبوت ۸۹۴تا۰۰۵ واقعہ معراج کی وجہ سے وفات یافتہ لوگوں میں شامل ۳۳۴ آپ کینسبت امور مکاشفات نبویہ ہیں ۰۰۲،۵۰۲ خدا تعالیٰ آپ پر دو موتیں وارد نہیں کرے گا ۶۴۳ کیا خدا مسیح کو دوبارہ زندہ کرکے بھیج سکتاہے ۳۰۵، ۹۱۶ح تا ۵۲۶ آسمان پر جسم تاثیر زمانہ سے ضرور متاثر ہوگا ۷۲۱ آپ کا جنت میں داخل ہونے کا عیسائی عقیدہ ۴۵ قرآن شریف میں آپ کے فوت ہونے کا ذکر ۴۶۲تا۷۷۲ یہود کا مسیح رسول اللہ کو قتل کرنے کی کوشش ۰۹۲ یہود ونصاریٰ کا آپ کی موت پر اجماع ہے ۵۲۲ عدم مصلوبیت پر انجیل سے استدلال ۴۹۲تا۷۹۲ ”جو پھانسی دیا جاتا ہے ملعون ہوتا ہے “(تورات) ۷۷۲ آپ کی حیات موسیٰ کی حیات سے درجہ میں کمتر ہے ۶۲۲ح اس پر تبصرہ کہ مسیح سات گھنٹے تک مرے رہے ۵۲۲ تیسرے دن جی اٹھنے کی وضاحت ۲۰۳،۳۰۳ مرنے کے بعد زندگی ملنے سے تمام انبیاءسے افضل کون ہے ۶۲۲ح عیسیٰ کی موت قبل از رفع کے بارے میں اختلاف ۳۱۴،۴۱۴

Page 733

حواریوں کوکشفی طور پر چالیس دن نظر آئے ۴۵۳،۵۵۳ مرنے کے بعد اسی جسم میں روح کا آنا غلط گمان ہے ۵۲۲ مسیح کا دوبارہ آنا استعارہ ہے ۱۵ دوبارہ غریبی کی حالت میںآنا ۰۴۳تا۲۴۳ ”یوحنا جو آنیوالا تھا یہی ہے چاہو تو قبول کرو“ ۲۵ عیسیٰ ہی اپنے وقت کا مہدی ہوگا ۶۰۴ بعض وعدوںکا دوسرے نبی کے ظہور سے پورا ہونا ۷۱۳ یونس کی طرح کا نشان دکھانے کا کہا ۷۰۱،۳۰۳ کیا مسیح منصب نبوت سے مستعفی ہوکر آئیںگے ۶۵ بائیس برس باپ کے ساتھ مل کرنجاری کا کام کیا ۴۵۲ح مسیح کے کام دعا کے ذریعہ ہرگز نہ تھے (اناجیل ) ۲۶۲ح یہودیوں کے فقیہیوں کے لیے سخت الفاظ کا ستعمال ۰۱۱ یہود کے فقہاءکو برا بھلا کہا ۷۰۱ح،۸۰۱ح آپ کا معجزہ دکھانے سے انکار ۶۰۱،۴۳۳،۵۳۳ خلق طیر کا معجزہ ۱۵۲ح، ۴۵۲ح، ۰۶۲ح میں آج بہشت میں ہونگا (قول ِمسیح کی وضاحت ) ۳۰۳ پیشگوئی کے سمجھنے میں غلطی لگنا ۲۷۴ حضرت یحییٰ آپ کے خالہ زاد بھائی تھے ۶۲۲ح ایلیا نبی کا مثیل آنا مان لیا ہے ۶۳۲،۷۳۲ حضور کا آنا خدا کا آنا بیان کیا ۴۶،۵۶ آپ کے حوالے سے بحث کا خاتمہ ۲۲۲،۳۲۲ غلام احمد انجینئر ریاست جموں ان کا ذکرِخیر ۱۳۵،۲۳۵ چندہ دہندگان میں آپ کا نام درج ہے ۶۴۵ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ومہدی معہود علیہ السلام ۳۰۱،۱۲۱،۵۲۱، ۸۸۱،۶۳۲،۹۱۵،۰۲۵ آپ اور آپ کے خاندانی حالات ۹۵۱ح تا ۶۶۱ح مجدد اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ ۶،۸،۰۱ح آپ کا ظہور ایک معجزہ ۶ کن معجزات سے منجانب اللہ ہونا ظاہر کیا ۴۳۳تا۹۳۳ آپ کی آمد کی پیشگوئی پر اجمالی ایمان لانا چاہیے ۱۱۳،۲۱۳ آپ نے بناوٹ کے طور پر دعویٰ نہیں کیا ۴۱۳،۵۱۳ آپ کو امتی کہا گیا ہے ۹۴۲ آپ مثیل آدم ہیں ۲۴۳،۳۴۳ آخر الخلفاءآدم کے نام پر آیا ۴۷۴،۵۷۴ حکم اور عدل ۷۷۴ مسلم کی حدیث میں مسیح نام کی و جہ تسمیہ ۹۸۴ آپ نے روحانی طریق اصلاح کو پسند کیا ۸۵۲ بعض ظاہری علامات کا کامل متبع کے ذریعہ پورا ہونا ۶۱۳ استدلال قرآن سے کرنے کی پیشگوئی (مجدد الف ثانی ) ۳۹۳ مسیح موعود علیہ السلام کے آنے کی غرض ۴۹۳،۵۹۳ خراب صحت کے باعث وعظ سے روکا گیا ۷۱ح میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو! ۴۳ اسلام کی اشاعت اوردفاع کے لئے پانچ شاخیں ۲۱تا۴۲ د س شرائط بیعت ۳۶۵تا ۶۶۵ بیعت کرنے والوں کے لیے نصائح ۶۴۵تا ۲۵۵ عمدہ تالیفیں مغربی ممالک میں بھجوائی جائیں گی ۸۱۵ مثیل مسیح ”غلام احمد قادیانی “کے حروف ابجد کی قیمت ۰۰۳۱ ہے اس نام میں آپ کی بعثت کی پیشگوئی ہے ۰۹۱ آیت انا علیٰ ذھاب بہ لقادرونمیں نزول کا زمانہ ۹۸۴ نزول کے وقت قرآن کا مغز اٹھایا گیا ۳۷۴ آپ یہودیوں کے مشابہہ زمانہ میں پیدا ہوئے ۸تا۰۱ح مسیح جو آنے والاتھا یہی ہے چاہے تو اسے قبول کرو ۰۱ مسیح اوّل اور مسیح ثانی میں فرق ۹۵ آنحضرت نے فیصلہ کردیا ہے مسیح اوّل اور مسیح ثانی اور ۴۲۱ نزول مسیح کے حوالے سے مختلف نظریات ۲۲۱،۳۲۱ نزول مسیح کی احادیث کو ظاہر پر حمل نہ کیا جائے ۵۱۳ نزول کے بیان کردہ امور مکاشفات نبویہ ہیں ۰۰۲

Page 734

دمشق والی حدیث بھی ایک خواب ہی ہے ۲۰۲ ابن ماجہ بیت المقدس میں نزول مسیح بیان کرتے ہیں ۹۸۱ مسیح کا دوبارہ آنا ایک لطیف استعارہ ہے ۱۲۱۸۲۱ ایلیا کی طرح مثالی وجود کے ساتھ آئیں گے ۵۵۳ یہ عاجز حکومت اور بادشاہت کے ساتھ نہیں آیا ۸۹۱ مثیل مسیح کا اسی امت میں آنے کا ثبوت ۰۵۴ مثیل مسیح کے اس امت میں آنے کے چھ قرائن ۰۱۵تا۲۱۵ قرآن مثیلوں کے آنے کادروازہ کھولتا ہے ۹۸۳،۰۹۳ کسی حدیث سے ثابت نہیں کہ اسرائیلی مسیح آئے گا ۸۰۵ نزول مسیح کے پرانے خیالات پر اعتراضات ۵۲۱تا۷۲۱ نزول کے واضح الفاظ کی تاویل ۲۳۱ آپ کو کن خصوصیات کی بنا پر مثیل مسیح کہا گیا ۱۶ سلسلہ موسوی اور سلسلہ محمدی میں مماثلت ۰۶۴تا۴۶۴ مسیح ثانی مثیل موسیٰ کے دین کی تجدید کرے گا ۲۲۱ کیا کوئی اور بھی مثیل مسیح آئے گا ۵۱۳تا۸۱۳ دس ہزار سے بھی زیادہ مسیح آسکتے ہیں ۱۵۲ کسی متبع کے ذریعے ظاہری علامات کا پورا ہونا ۶۱۳،۷۱۳ نزول جبرائیلکے بعد مسیح امتی بن کر نہیں آئینگے ۰۱۴تا۳۱۴ رسولوں کی طرح وحی نازل ہوگی (صدیق حسن ) ۴۱۴ مکاشفات میں وقت نزول چودھویں صدی ہے ۸۸۱،۹۸۱ لکل دجال عیسیٰ ۷۹۱ ممکن ہے مسیح موعود علیہ السلام کے بعد کوئی اور مسیح بھی آوے ۲۶۳ کیا مسیح منصب نبوت سے مستعفی ہوکر آئیںگے ؟ ۶۵ کیا مسیح جلالی ظہور کرے گا ؟ ۹۳۳تا ۲۴۳ کیا کوئی اور بھی موعود آئے گا ؟ ۵۱۳ کعبہ کا طواف کرنا ۹۰۲ نزول کے وقت زرد پوشاک پہننے سے مراد ۹۰۲ اس وقت مسیح کے آنے کی کیا ضرورت تھی ۲۴۳ مسیح کس عمدہ کام کے لیے آنے والا ہے ۱۳۱ خلیفة اللہ کے ساتھ فرشتوں کا نازل ہونا ضروری ہے ۳۱ح آپ صلیب توڑنے کے لیے بھیجے گئے ۸ح کسر صلیب سے مراد کیا ہے ؟ ۲۴۱ح،۷۵ مقام براہین میں آپ کا عیسیٰ نام رکھا گیا ۴۱۳،۵۱۳ حسب تصریح قرآن کریم رسول کسے کہتے ہیں ۷۸۳ حضرت آدم کے مشابہ ۷۶۴ آپ کے مکاشفات کا ذکر ۵۰۲،۶۰۲ آپ کے لیے رفع کے لفظ کا استعمال ۱۰۳،۲۰۳ زمانہ کی اصلاح کے لیے مامور ۴۱۵،۵۱۵ مستقل نبی امتی نہیں بن سکتا ۷۵،۷۰۴ محدث بھی ایک معنی سے نبی ہی ہوتا ہے ۰۶ مہدی اور عیسیٰ ایک ہی ہیں ۸۷۳،۹۷۳ آپ کی کتب حق کے طالبوں کو راہ راست پر کھینچنے والی ۷۲ تقریر کے ذریعے اصلاح ۷۱ آپ کی صحبت سے حقانی وحی کا ملنا ۱۴ حضرت محمد سے عین بیداری میں ملاقات ۶۲۲ح آپ کو عالم کشف میں مقدس لوگ نظر آئے ۴۵۳تا۶۵۳ حارث حراث پیشگوئی کے مصداق ۵۳۱ح آنحضرت اور ابو طالب میں ہونے والا مکالمہ آپ کو الہاماً بتایا گیا ۱۱۱ح کشف میں دیکھا کہ قبر روضہ رسول کے قریب ہے ۲۵۳ آپ نے خدا تعالیٰ سے علم لدنی پایا ۶۷۴ آپ مال تقسیم کریں گے ۵۵۴ آپ کے کلام سے مردے زندہ ہونگے ۴۳۳،۵۳۳ قرآن کے عجائبات بذریعہ الہام کھولتے ہیں ۸۵۲،۰۵۲ قرآن شریف کے احکام بہ وضاحت بیان کیے ۳۰۱ میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے ۳۰۴ صحبت میں رہنے کی تلقین ۲۲ قوت قدسیہ کے اثرات کی بیس علامات ۵۳۳تا۹۳۳ لیلة القدر سے مراد ظلماتی زمانہ ۲۳،۹۱۳،۰۲۳ مخالفوں نے چاہا کہ آپ کا رفع نہ ہو ۱۰۳

Page 735

زبانی تقریریں ۵۱ سورة العصر سے ابتدائے خلقت آدم کا زمانہ نکالنا ۹۵۲ صداقت مسیح موعود ہونے کا ثبوت ۹۵۴تا ۸۹۴ آپ کے مثیل ہونے کا ثبوت ۸۹۳ آپ چودھویں صدی میں آئیں گے ۹۸۱ نام میں بعثت کا زمانہ مذکور ہے ۴۶۴ صداقت کا نشان ،فرشتوں کا نزول ۳۱ح دلائل اور علامات کا بیان ۸۶۴تا۸۹۴ پیشگوئیاں جن پر آپ کی سچائی کا حصر ۱۴۴ تا۳۴۴ انجیل کی رو سے مسیح موعود کی علامات ۹۶۴ بٹالوی کا امکانی طور پر آپ کے دعویٰ کو تسلیم کرنا ۹۴۲ ضروری نہیں کہ نبی کو دنیا اسی وقت قبول کرلے ۲۴۳ کمال طغیان کے زمانہ میں ظہور ۵۵۴ صحاح میں موجود پیشگوئیوں کے مصداق ۰۵۲،۱۵۲ آپ ؑ کے اصحاب دینی کاموں میں مددگار اصحاب کا ذکر ۰۲۵تا ۶۴۵ میرا دوست کون ہے اور میرا عزیز کون ہے ۴۳ صدق سے بھری ہوئی روحیں عطا ہوئیں ۵۳ عالی ہمت دوستوں کی خدمت میں گذارش ۳۲۶،۴۲۶ بطور نمونہ چند دوستوں کا ذکر ۰۴ دعوئے الہام سے براہین احمدیہ کے اکثر مقامات پُرہے ۹۱ح قریب تر بامن ونزدیک تر بسعادت کون لوگ ہیں ۶۸۱ الہامات (آپ کے الہامات کے لئے دیکھئے انڈیکس ھذا صفحہ نمبر۰۱) آپؑ کی پیشگوئیاں اس زمانہ کی یہودیت خصلت مٹا دی جائیگی ۰۱ وہ وقت دور نہیں جب تم فرشتوں کی فوجیں آسمان سے اترتی اور امریکہ کے دلوں پر نازل ہوتی دیکھو گے ۳۱ح پڑھے لکھوں میں سے کوئی ہندو دکھائی نہ دیگا ۹۱۱ کوئی مسیح کو جسم سمیت اترتے نہیں دیکھے گا ۹۷۱ اپنی ذریت میں باکمال شخص کے پیدا ہونے کی پیشگوئی ۰۸۱ میر ی ہی فتح ہوگی ۳۰۴ وہ پیشگوئیاں جن پر میر ی سچائی کا حصر ہے ۱۴۴تا ۳۴۴ تمکین دین بھی اللہ کمال کو پہنچائیگا ۷۶۴.۵۱۵ مولوی محمد حسین کو اس کا اصلی چہرہ دکھائیگا ۳۷۵ اعتراضات کا رد مثیل مسیح کیوں ایک امتی آیا ۹۴۴،۰۵۴ آپ پر علمی لیاقت نہ ہونے کا اعتراض ۱۲ح جنون کی و جہ سے مسیح موعود ؑہونے کا دعویٰ کیا ہے ۱۲۱ کیا آپ نے مخالفین کےلیے سخت الفاظ استعمال کیے ۸۰۱ اعتراض کہ براہین کی قیمت وصول کرکے طبع نہیں کروایا ۹۲ حدیث سے مسیح کے ظہور کا خاص زمانہ ثابت نہیں ۶۰۴ سلف وخلف نے تاویل نہیں کی کہ مثیل آئے گا ۳۰۳تا۳۱۳ مسیح کے آنے کی خبریں ہی غلط ہیں ۹۹۳تا ۲۰۴ الہامات کی بنا پر آپ کا انکار کرنے والوں کا رد ۸۳۴تا۱۵۴ اگر کسی صادق کا زمانہ پاتے تو ضرور اس کی نصرت کرتے ۱۴ کیاقرآن کے پہلوںکے معانی نہ کرنا الحاد ہے؟ ۴۵۲تا۴۶۲ کیاقرآن وحدیث کے صرف ظاہری معنی لینے چاہیں؟ ۲۱۳،۳۱۳ درخواست مباہلہ پر آپ کی طرف سے جواب ۳۴۴تا ۵۴۴ انبیاءکے سخت الفاظ استعمال کرنے کی حقیقت ۸۱۱ براہین میں حیات مسیح کا عقیدہ لکھنے کی و جہ ۶۹۱ آپ پردعویٰ مثیل مسیح کی و جہ سے اعتراض کیا گیا ۷۲۲،۸۲۲ ٭٭ غلام جیلانی مولوی رضی اللہ عنہ مبائعین میں آپ کا نام درج ہے ۴۴۵ غلام حسن پشاوری مولوی رضی اللہ عنہ ان کا ذکرِخیر ۰۴۵ چندہ دہندگان میں آپ کا نام درج ہے ۶۴۵ غلام قادر مرزا (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بھائی ) آپ کوحضر ت مسیح موعود ؑ نے کشف میں دیکھا ۰۴۱ح

Page 736

غلام قادر فصیح رضی اللہ عنہ ان کا ذکر ِخیر ۴۲۵ غلام قادر منشی پٹواری رضی اللہ عنہ چندہ دہندگان میں آپ کا نام درج ہے ۵۴۵ غلام محمدمنشی رضی اللہ عنہ مبائعین میں آپ کا نام درج ہے ۴۴۵ آپ کے سامنے گلاب شاہ کی پیشگوئی بیان کی گئی ۳۸۴ غلام محمد خان نواب ۶۲۵ غلام محی الدین ممبر کونسل ریاست جموں جگن ناتھ کے ساتھ مشروط بایمان مباحثہ کے گواہ ۱۲۵ غلام مرتضیٰ مرزا(والد ماجد حضرت مسیح موعود ؑ) رنجیت سنگھ کے زمانے میں پھرقادیان آکر آباد ہوئے ۲۶۱ح غیاث الدولہ( سلطنت مغلیہ کا وزیر) قادیان آیا اور مرزا گل محمد صاحب سے ملاقات کی ۲۶۱ح ف.ق.ک.گ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنھا آپ نے گرجا والے دجال کی روایت کی ۷۵۳ فتح محمد شیخ رضی اللہ عنہ مبائعین میں آپ کانام درج ہے ۴۴۵ فرعون ۴۲ح فرعون کے زمانہ میں نقلی پرندوں کو زندوں کی طرح چلا تے تھے ۴۵۲ح فضل احمد حضرت مولوی ۲۴۵ فضل دین بھیروی حکیم رضی اللہ عنہ ۶۴۵ ان کا ذکر خیر ۲۲۵،۳۲۵ سچے خیرخواہ اور دلی ہمدرد ۸۳ چندہ دہندگان میں آپ کا نام درج ہے ۵۴۵ آپ کے اخلاص وقربانی کا ذکر ۳۲۶ فضل شاہ سید ساکن جموں ان کا ذکرِخیر ۲۳۵ آپ کے سامنے گلاب شاہ کی پیشگوئی بیان کی گئی ۳۸۴ فیاض علی منشی رضی اللہ عنہ مبائعین میں آپ کانام درج ہے ۴۴۵ فیروز خان ابن بایزید خان ۶۲۵ قاضی خوا جہ علی صاحب ان کا ذکرِ خیر ۹۲۵ ،۰۳۵ کرشن علیہ السلام انکے بارے میں تواتر کے ذریعے خبر ہم تک پہنچی ۹۹۳ کرم الٰہی بابوصاحب رضی اللہ عنہ ان کا ذکرِخیر ۸۳۵ چندہ دہندگان گان میں آپ کا نام درج ہے ۶۴۵ کریم بخش میاں گلاب شاہ نامی مجذوب کی روایت کے راوی ۱۸۴،۲۸۴ ان کی روایت کے گواہ ۳۸۴،۴۸۴ ان کی راستبازی کے گواہ ۴۸۴تا۷۸۴ کنہیا لال (سیکنڈ ماسٹر راج سکول سگرورریاست جیند) آپ کے سامنے گلاب شاہ کی پیشگوئی بیان کی گئی ۳۸۴ گاماں بیگ ۵۰۳،۶۰۳ گریفن (ضلع گورداسپورکے ڈپٹی کمشنر) ” پنجاب کے رو ¿سا“ میںخاندان مسیح موعود کا ذکرکیا ۹۵۱ح گلاب شاہ ان کی کئی پیشگوئیاں پوری ہوئیں ۱۸۴

Page 737

حضرت مسیح موعودؑ کی تصدیق میں کشف دیکھا ۱۸۴ گل محمد (حضرت مسیح موعود ؑ کے پڑدادا) ۱۶۱ح گلیڈ سٹون وزیراعظم حکومت انگلستان کو دعوت اسلام بذریعہ خط ۶۵۱ح ل.م.ن لعزر مرنے کے بعد ابراہام کی گود میں بٹھایا گیا ۱۸۲،۶۰۵،۷۰۵ مسیح کا اقرار کہ یہ زندہ نبی ہیں ۶۰۵ مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیہ مسیح موعود ؑ استدلال قرآن سے کرے گا ۳۹۳ مسیح آئے گا اور مولوی اسکی مخالفت کرینگے ۳۱۴ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ۴۱ح،۲۲ح، ۴۲۱،۷۸۴،۳۵۵ عشق محمد علیٰ ربہ ۵۱۱ کمالات تامہ کا مظہر ۴۶ آپ کا آنا خدا کا آنا بیان کیا گیا ۴۶،۵۶،۵۶ح تا ۷۲ح آپ نے بندگان خدا کو کمال درجہ تک پہنچا دیا ۸۵۲ح آپ کا رفع تمام نبیوں سے بلند تر ہے ۵۷۲،۶۷۲ توریت میں آپ کے متعلق پیشگوئی ۱۴۲ آپ کے درجہ عالیہ کی شناخت ۳۶ آپ پر نازل ہونے والی وحی اعلیٰ درجہ کی تھی ۸۸ فوت ہونے کے بعد اور قسم کی زندگی ملی ۲۰۵ آپ کا مثیل بننے کی دعا ۹۲۲ آپ نے چالیس برس کا عرصہ بیکسی میں بسر کیا ۲۱۱ح محدثیت آپ کی اقتدا سے ملتی ہے ۰۶ آپ کو قرآن کریم کا معجزہ دیا گیا ۵۵۲ کیا توریت میں واضح پیشگوئیاں پائی جاتی تھیں ۹۳۲ آپ کے کسی چچا نے شادی کے بارے میں فکر نہ کی ۴۱۱ح آپ کو ابریشم کے ٹکڑہ پرعائشہ رضی اللہ عنہ کی تصویر دکھائی گئی ۰۱۳ آپ سے آسمان پر جانے کا معجزہ مانگاگیا ۵۵ آپ نے معراج کی رات حضرت مسیح کو دیکھا ۹۵ معراج رویا صالحہ تھا (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ) ۸۴۲ ابو طالب کے ساتھ ہونے والی مکالمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاماً بتایا گیا ۱۱۱ح فتح کے وعدہ کے باوجود بدر کے روز آپ کا دعا کرنا ۴۰۳ بعض وعدوںکا دوسرے نبی کے ظہور سے پورا ہونا ۷۱۳ آپ مثیل موسیٰ ہیں نیز مثیل ہونے کی وضاحت ۸۹۳،۹۹۳ مسیح ثانی مثیل موسیٰ کے دین کی تجدید کرے گا ۲۲۱ آپ کے مکاشفات میں پائے جانے والے استعارات ۳۳۱ح آپ نے پیشگوئیوں کے سمجھنے میں غلطی کھانا بتایا ۷۰۳، ۱۱۳ آپ نے لمبے ہاتھ والی بیوی کے پہلے فوت ہونے کی پیشگوئی کی ۷۰۳،۲۳۶ کفار مکہ کے انکار کرنے کی وجہ ۳۳۶ اللہ مجھے قبر میں میت رہنے نہیں دے گا ۵۲۲ح آیات صغریٰ کا آپ کے وقت میں ظہور ۸۶۴

Page 738

محمد احسن صاحب سید امروہی رضی اللہ عنہ ۳۴۵ ان کی ذکر ِخیر ۴۲۵،۵۲۵ محمد اروڑا منشی نقشہ نویس رضی اللہ عنہ ان کا ذکر ِخیر ۲۳۵ محمد اسمٰعیل بخاری رحمة اللہ علیہ ۶۵ فہم وفراست میں ائمہ ثلاثہ سے افضل ۵۸۳،۶۸۳ آنے والے کے بارے میں نہیں لکھا کہ پہلا مسیح آئے گا ۴۲۱ مہدی کے ظہور کا قصہ نہیں لکھا ۸۷۳ عیسیٰ ہی اپنے وقت کا مہدی ہوگا ۶۰۴ آپ کو احمد بن حنبل کا نام دیا گیا ۲۱۵ محمد اسمٰعیل مولوی حضرت مسیح موعودؑ پر اعتراضات کیے ۷۱ح،۹۱ح محمد اکبر خان صاحب قاضی چندہ دہندگان میں آپ کا نام درج ہے ۶۴۵ محمد بخش منشی چندہ دہندگان میں آپ کا نام درج ہے ۶۴۵ محمد بن اسحاق ۵۲۲ محمد بن منکدر ۰۱۲ محمد تفضل حسین مولوی ان کا ذکرِخیر ۳۴۵،۴۴۵ چندہ دہندگان میں آپ کا نام درج ہے ۶۴۵ محمد جلال الدین منشی رضی اللہ عنہ مبائعین میں آپ کا نام درج ہے ۴۴۵ محمد حسن رئیس لدھیانہ موحدین میں سے ایک منتخب اور شریف ۰۸۴ محمد حسین بٹالوی ۹۴۲،۷۴۳،۳۵۵،۴۵۵ مباحثہ کے واقعات کے برخلاف اشتہار دینا ۷۶۵تا۳۸۵ امکانی طور پر حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ کو تسلیم کرنا ۱۳۲،۹۴۲ مباہلہ کے قائم مقام طریق کے مخاطب ۷۵۴،۸۵۴ ایلیا نبی کے واقعہ پر غور کی نصیحت ۰۴۲ صدیق حسن خان مجدد ہیں ۴۰۴ دعویٰ کیا کہ عقلی طور پر وفات مسیح ثابت کر دکھاو ¿ں گا ۸۴۳ خلاف واقعہ اشتہار شائع کرنا ۷۶۵تا۳۸۵ محمد حسین خان معالج حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۱ح محمد حسین مراد آبادی شیخ رضی اللہ عنہ آپ کا دل حب اللہ سے پُر ہے ۸۳ مبائعین میں آپ کا نام درج ہے ۴۴۵ محمد حسین مولوی رضی اللہ عنہ مبائعین میں آپ کانام درج ہے ۴۴۵ محمد خاںرضی اللہ عنہ میاں ان کا ذکرِ خیر ۲۳۵ محمد دین رضی اللہ عنہ مبائعین میں آپ کا نام درج ہے ۴۴۵ محمد صادق مفتی رضی اللہ عنہ مبائعین میں آپ کا نام درج ہے ۴۴۵ محمد عسکری خان رضی اللہ عنہ ان کا ذکرِخیر ۹۳۵،۰۴۵ محمد علی رضی اللہ عنہ نواب رئیس ریاست مالیر کوٹلہ ان کا ذکرِ خیر ۵۲۵تا۷۲۵ محمد فاضل منشی چندہ دہندگان میں آپ کا نام درج ہے ۵۴۵

Page 739

محمد مبارک علی ان کا ذکرِخیر ۲۴۵،۳۴۵ محمد مہدی امام ۹۶۳،۸۷۳،۹۷۳ شیعہ عقیدہ کہ وہ غار میں چھپ گئے ہیں ۳ ۴۳،۴۴۳ محمد نجیب خاں آپ کے سامنے گلاب شاہ کی پیشگوئی بیان کی گئی ۳۸۴ محمد یوسف بیگ سامانوی ۴۵۵ ان کا ذکرِخیر ۰۳۵ محمد یوسف حافظ عبداللہ غزنوی کے مکاشفہ کے راوی ۹۷۴ محمد یوسف سنوری مولوی ان کا ذکرِخیر ۳۳۵ محمد یوسف مدرس رضی اللہ عنہ چندہ دہندگان میں آپ کا نام درج ہے ۵۴۵ محمد یعقوب برادر حافظ محمد یوسف عبداللہ غزنوی کے مکاشفہ کے راوی ۹۷۴ محمود حسن خاں رضی اللہ عنہ مبائعین میں آپ کا نام درج ہے ۴۴۵ محی الدین ابن عربی عمل سلب امراض میں مہارت تھی ۷۵۲ محی الدین مولوی بہوبری رضی اللہ عنہ مبائعین میں آپ کانام درج ہے ۵۴۵ محی الدین حکیم مولوی رضی اللہ عنہ مبائعین میں آپ کانام درج ہے ۴۴۵ محی الدین لکھوکے مولوی ملہم ہونے کے مدعی ۷۵۴ ان کے الہامات کے بارے میں مختصر تقریر ۸۳۴تا۱۵۴ مردان علی عمر کے پانچ برس کاٹ کر حضرت مسیح موعودؑ کو دینے کی دعا کی ۴۲۶ مسلم امام مہدی کے ظہور کا قصہ نہیں لکھا ۸۷۳ گرجا والی روایت ۷۵۳ مسیلمہ (کذاب) ماننے والے ایک لاکھ سے زیادہ تھے ۴۴۲ مراری لال لودہانہ آپ کے سامنے گلاب شاہ کی پیشگوئی بیان کی گئی ۳۸۴ مریم علیھا السلام بوجہ موت خوراک کھانے سے روکی گئیں ۶۲۴ معلی ۳۰۲ موسیٰ علیہ السلام آنحضرت نے معراج کی رات دیکھا ۶۹۳ فوت ہونے کے بعد اور قسم کی زندگی ملی ۲۰۵ آپ کی روح چھٹے آسمان میں ہے ۶۷۲ حضرت عیسیٰ نے کشفی طور پر دیکھا ۴۵۳ آپ کی جماعت سرکش تھی ۰۲ بعض وعدوںکا دوسرے نبی کے ظہور سے پورا ہونا ۷۱۳ بعض پیشگوئیاںسوچنے کے مطابق ظاہر نہ ہوئیں ۶۰۱ آنحضرت ﷺ مثیل موسیٰ نیز اس کی وضاحت ۸۹۳،۹۹۳ مسیح ثانی مثیل موسیٰ کے دین کی تجدید کرے گا ۲۲۱ حضور کے متعلق خبر دی ۱۴۲ مسیح کی حیات آپ کی حیات سے درجہ میں کمتر ہے ۶۲۲ح میراں بخش ان کا ذکرِخیر ۱۴۵،۰۴۵

Page 740

میر عباس علی ۹۲۵ ان کا اولین دوستوںمیں ذکر ۶۲۵،۷۲۵ آپ کے سامنے گلاب شاہ کی پیشگوئی بیان کی گئی ۳۸۴ میر محمود شاہ صاحب رضی اللہ عنہ مبائعین میں آپ کانام درج ہے ۴۴۵ میکائیل علیہ السلام ۴۳۲ ناصر نواب قاضی خواجہ آپ کے سامنے گلاب شاہ کی پیشگوئی بیان کی گئی ۳۸۴ ناصر نواب میر رضی اللہ عنہ حضرت مسیح موعودؑکے خسر ان کا ذکرِخیر ۵۳۵،۶۳۵ نافع ابن عمر ؓ کا دجال کے حوالے سے قسم کھانا ۰۱۲ نجم الدین میاں چندہ دہندگان میں آپ کا نام درج ہے ۵۴۵ نذیر حسین دہلوی مباہلہ کے قائم مقام طریق کے مخاطب ۷۵۴،۸۵۴ نصیر الدین مولوی آپ کے سامنے گلاب شاہ کی پیشگوئی بیان کی گئی ۳۸۴ نعمان بن المنذر ۵۰۲ نعیم بن حماد آپ کا قول کہ ۴۰۲۱ ہجری میں مہدی ظاہر ہوگا ۴۰۴ نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ ۱۲۲،۹۱۲،۴۱۴ حضرت مسیح کے بارے میں روایات کا بانی مبانی ۹۹۱ح ان کی روایت متواتر نہیں ۱۲۲ نوح علیہ السلام آپ کا مثیل بننے کی دعا ۹۲۲ امن سے دنیا آباد ہوگی ۹۲۱ حضرت نوح سے آپ کے زمانہ تک دجال کی خبر موجود ۳۶۳ نوراحمدحافظ رضی اللہ عنہ ان کا ذکرِخیر ۲ ۴۵ نورالدین حضرت خلیفة المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ طبیب ریاست جموں ۸۱ح نور اخلاص کی طرح نور الدین ۵۳ اعلیٰ درجہ کی قوت ایمانی کا ایک نمونہ ۰۲۵تا۱۲۵ علوم فقہ ،حدیث ،تفسیر میں اعلیٰ معلومات کے حامل ۷۳ح چندہ دہندگان میں آپ کا نام درج ہے ۶۴۵ حضرت عبد الکریم سیالکوٹی ؓ پرآپ کی صحبت کا نیک اثر ۹۱۱ دمشق لفظ کی طرف حضرت مسیح موعود ؑ کو توجہ دلانا ۵۳۱ح نوردین مولوی پوکھری رضی اللہ عنہ مبائعین میں آپ کا نام درج ہے ۴۴۵ نور محمد مولوی ان کا ذکرِ خیر ۵۴۵ و.ہ.ی ولی اللہ شاہ محدث دہلوی مسیح کے نزول کا زمانہ اکثر اولیاءامت نے چودھویں صدی کو قراردیا ہے ۹۸۱ مہدی کے آنے کا زمانہ کشفی طور پر ”چراغ دین“ میں قرار دیا یعنی ۸۶۲۱ ۴۰۴ ولید بن مغیرہ اس کے متلعق قرآن نے سخت الفاظ استعمال کیے ۶۱۱ح وھب بن منبہ ۴۰۲ ہاشم علی رضی اللہ عنہ صاحب پٹواری ۳۳۵ مبائعین میں آپ کانام درج ہے ۴۴۵ چندہ دہندگان میں آپ کا نام درج ہے ۵۴۵

Page 741

ہدایت علی حافظ (اکسٹرا اسسٹنٹ ضلع گورداسپور) آخری زمانہ کی پیشگوئیاں ظاہراً پوری ہونا ضروری نہیں ۸۰۳ ہشام بن عروہ ۴۰۲ ہیرودیس (رومن گورنر) ۸ ،۴۱ح حضرت مسیح نے اس کے سامنے معجزہ دکھانے سے معذرت کی ۶۰۱،۷۰۱ یاجوج ماجوج خروج کا لفظ استعمال کرنے کی و جہ ۰۷۳تا۴۷۳ خروج دجال کے ممالک مشرقیہ سے مراد ۹۱۴ یاجوج ماجوج سے مراد انگریز اور روس ہیں ۹۶۳،۳۷۳ یحییٰ علیہ السلام ۸۵، ۳۳۲،۹۳۲،۸۲۴ زکریا علیہ السلام کا بیٹا ۱۱ح،۳۹۳،۴۹۳ حضرت عیسیٰ ؑکے خالہ زاد بھائی اور مرشد ۶۲۲ح حضرت عیسیٰ ؑکے قریب مقام ملا ۶۶۲ موت کے بعد آسمان پر گئے ۸۳۴ فوت ہونے کے بعد اور قسم کی زندگی ملی ۲۰۵ پیدا ہونے سے اترنے کا مضمون کھلا ۲۵ آسمان سے نازل ہونے کے الفاظ کا ذکر ۵۴۲ عیسیٰ ؑنے کشفی طور پر دیکھا ۴۵۳ آپ ؑکے واقعہ پر غور کی نصیحت ۰۴۲ آنحضرت نے معراج کی رات دیکھا ۶۹۳،۴۱۳ ایلیا کو یوحنا کہا گیا ۲۵، ۹۷۳،۰۸۳ روحانی وجہ سے ایلیا نام رکھا گیا ۳۱۳ قرآن نے ایلیاکی صورت میں نازل ہونا مانا ہے ۰۴۲ یہودیوں کے فقہیوں کو سانپوں کے بچے کہا ۰۱۱ یزید دمشق پایہ تخت یزید اور یزیدیوں کی منصوبہ گاہ ۶۳۱ح الہام اخرج من الیزیدیون کی تشریح ۸۳۱ح یسعیاہ علیہ السلام آنحضرت ﷺ کے ظہور کو خدا کا ظہور قرار دیا ۵۶ح تا ۷۶ح کفار مکہ کا آنحضرت ﷺ کا انکار کرنے کی وجہ ۳۶ یعقوب علیہ السلام ۴۱۳ آپ ؑکی دعا کا ذکر ۴۱۳ مسیح ؑکا اقرار کہ یہ زندہ نبی ہیں ۶۰۵ یعقوب بن اسحاق کندی خروج دجال کے متعلق قول جو غلط نکلے ۳۱۴ یونس علیہ السلام ۷۰۱ ،۳۰۳ یوحنا ۰۱ح،۷۵،۹۳۲ ایلیا کو یوحنا کہا گیا ۲۵، ۹۷۳،۰۸۳ آپ کے آسمان پر جانے کا عقیدہ ۲۵ یوسف علیہ السلام ۴۱۳ آنحضرت نے آپ کو معراج کی رات دیکھا ۶۹۳ موت کے بعد آسمان پر گئے ۸۳۴ فوت ہونے کے بعد اور قسم کی زندگی ملی ۲۰۵ حضر ت یعقوب کی دعا کا ذکر ۴۱۳ یوسف نجار مسیح ؑنے بائیس بر س تک آپ کے ساتھ کام کیا ۴۵۲ح یوشع حضرت موسیٰ کے شاگرد ۷۱۳ یونس علیہ السلام مسیح ؑنے آپ جیسا نشان دکھانے کا وعدہ کیا ۷۰۱ ،۳۰۳

Page 742

یونی ٹیرین فرقہ مسیح ؑکے مرنے کا عقیدہ ۷۷۴ یہود مسیح رسول اللہ کو قتل کرنے کی کوشش ۰۹۲ سلسلہ موسوی اور سلسلہ محمدی میں مماثلت ۰۶۴تا۴۶۴ یہودا سیلا یہودا بن یعقوب کا پوتا ۳۱۳ یہودا اسکریوطی ان کے بارے میں پیشگوئی صحیح نہ نکلی ۶۰۱،۲۷۴

Page 743

مقامات الف افریقہ ۵۳۲ امریکہ ۹۲،۳۱ح، ۵۵۲ح امریکہ میں ایک عیسائی کا مسیح موعود ہونے کا دعویٰ ۹۶۴ امریکہ کے لوگوں کو دنیا کی عقل دی گئی ۷۷۳ اپنے دین کی لغویات سے دست بردار ہورہے ہیں ۶۳۲ خدا کا پیغام پہنچانا ۶۱۵،۷۱۵ ایشیا ۳۱ح دین کی عقل ۷۷۳ خدا کا پیغام پہنچانا ۶۱۵،۷۱۵ ب.پ برطانیہ ۰۳۱، ۲۶۲ بمبئی ۵۵۲ح پنجاب ۱۲ح،۲۶۲ ج.چ.ح جمالپور ایک صالح مجذوب نے کشف دیکھا ۰۸۴ حجاز ۲۹۴ خراسان ۰۲۴ د.ڈ.ر دمشق ۹۸۱،۴۳۱ح،۲۲۲ ”دمشق“ لفظ کی تعبیر ۵۳۱تا۱۴۱ ح قصبہ قادیان کو دمشق سے مناسبت ۸۳۱ح نزول مسیح کو دمشق میں مانا نہیں جاسکتا ۳۳۱ روس ۹۶۳،۳۷۳ روم ۲۷۴ س.ش شام ۷۳ دجال کے نکلنے کی جگہ ۶۰۲ ع.ف عراق دجال کے نکلنے کی جگہ ۶۰۲ عرب ۵۳۲ علی گڑھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تشریف لے جانا ۷۱ح،۹۱،۵۲ فارس ممالک شرقیہ سے خروج دجال سے مراد ۹۱۴ فارسی النسل کے ظہور سے مراد مسیح موعود ہیں ۰۱ح ق.ک.گ قادیان ۷۱ح ،۸۳، ۹۱۱،۹۸۱ ،۹۷۴،۰۸۴ لدھیانہ کے قریب ایک گاو ¿ں کا نام بھی قادیان ہے ۲۸۴ قادیان کی نسبت الہام ۸۳۱ دمشق سے مناسبت ۸۳۱ ح کابل ۲۶۲ کلکتہ ۱۰۲،۵۵۲ح،۹۷۳،۲۰۴ کنعان موسیٰ سے کیا گیا وعدہ یوشع کے ذریعہ پورا ہوا ۷۱۳

Page 744

گلیل ۳۵۳ گورداسپور ۸۰۳ ل.م.ن لاہور ۰۲۱، ۸۱ح۱۸۴ پنجاب کا صدر مقام ۱۲ح لدھیانہ ۲۸۴ ایک صالح مجذوب نے کشف دیکھا ۰۸۴ لندن ۳۵ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے کشفاً دیکھا کہ لندن میں منبر پر تقریرفررہے ہیں ۶۷۳،۷۷۳ خنزیر کے گوشت کی ہزار دکانیں ۳۲۱ ماسکو ۳۵ مراد آباد ۸۳ مدینہ منورہ ۰۳۱ح ،۱۷۴ آنحضرت ﷺ کو کشفاً جگہ دکھائی گئی ۳۳۱ح کھجوروں والی جگہ ۴۰۲ ابن صیاد مدینہ میں فوت ہوا ۲۲۲،۶۵۳،۷۵۳ ابن صیاد ہی دجال ہے.(حضرت عمر ؓ کی قسم) ۸۱۲ مصر ۷۳ مکہ معظمہ ۳۵،۰۳۱ح،۱۷۴ نجد ممالک شرقیہ سے خروج دجال سے مراد ۹۱۴ ہ.ی ہجر آنحضرت کا کشفاً دکھائی گئی جگہ کو ہجر سمجھنا ۴۰۲ ہندوستان ۰۴۱ح،۰۲۴ ممالک شرقیہ سے خروج دجال سے مراد ۹۱۴،۲۹۴ علمائے ہند کی خدمت میں نیاز نامہ ۲۹۱ بڑی تعداد میںلوگوں کا عیسائی ہونا ۴۶۳ یروشلم ۳۵۳ یمامہ آنحضرت کوکشفاً دکھائی گئی جگہ کویمامہ سمجھنا ۴۰۲ یورپ ۳۱ح، ۹۲،۵۵ح،۵۵۲ح، ۶۷۳،۷۷۳،۴۹۴ دنیا کی عقل دی گئی ۷۷۳ خدا کا پیغام پہنچانا ۶۱۵،۷۱۵ اپنے دین کی لغویات سے دست بردار ہورہے ہیں ۶۳۲ قرآن یورپ کے اخلاق سے اتفاق نہیںکرتا ۶۱۱ مسلمانوں کا یورپ کے فلاسفر وں کو امام بنانا ۱۰۴،۲۰۴

Page 745

کتابیات اتحاف النبلاء مثیل کے مضمون پر مشتمل ایک رباعی لکھی ۲۳۲ ازالہ اوہام(تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) فتح اسلام رسالے کا ایک جزء ۸۴ اس کے پڑھے بغیر مخالفانہ رائے بنانے سے منع کرنا ۰۰۱ حیات ووفات مسیح کے متعلق تمام سوالات کے جواب ۴۲۳ انجیل ۳۰۱ ایلیا کا دوبارہ آنا ۳۳۴ ایلی ایلی لماسبقتنی ۳۰۳،۴۰۳ اشاعة السنہ براہین احمدیہ کا ریویو لکھا ۲۹۱ جواز وامکان مثیلیت کے بارہ میں لکھا ہے ۱۳۲ بائبل ۳۵۲،۶۴۲ بائبل (سلاطین) ۰۴۲ بائبل (ملاکی) ۰۴۲ براہین احمدیہ (تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) دعوئے الہام سے براہین احمدیہ کے اکثر مقامات پُر ۹۱ح حضرت مسیح موعود ؑ کو امتی بھی کہاگیااور نبی بھی ۶۸۳ مثیل مسیح ہونے کی اشاعت ۲۹۱ حضرت مسیح موعودؑ کو انبیاءکا مثیل قرار دیا گیا ۷۲۲،۸۲۲ مولوی محمد حسین نے ریویو لکھا ۲۹۱ بتمام وکمال نہ چھپنے سے متعلق اعتراض کا جواب ۹۲ بیہقی ابن صیاد ہی دجال ہے.(حضرت عمر ؓ کی قسم) ۸۱۲ تذکرة الاولیائ حضر ت بایزید کا اپنے آپ کو دیگر انبیاءکا نام دینا ۰۳۲ تصدیق براہین احمدیہ ۷۳ح تفسیرابن کثیر انی متوفیک کا ترجمہ ۴۷۲ تفسیر رازی انی متوفیک کا ترجمہ ۴۷۲ تفسیر فتح البیان انی متوفیک کا ترجمہ ۴۷۲ تفسیر کشاف انی متوفیککا ترجمہ ۴۷۲ تفسیر مدارک التنزیل انی متوفیک کا ترجمہ ۴۷۲ تفسیر معالم التنزیل قرآن قیامت کی علامت ہے ۵۲۳،۶۲۳ حضرت عیسیٰ تین گھنٹہ کے لئے مرگئے ۵۲۲ وفات کے وقت دو فرشتوں کا آنا ۳۳۲ انی متوفیک کے معنی انی ممیتک ۴۲۲ ،۴۷۲ تورات مسیح نے تورات کا صحیح خلاصہ پیش کیا ۳۰۱

Page 746

توضیح مرام(تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) رسالہ فتح اسلام کا ایک جزء ۸۴ لکھنے کی وجہ ۲۵ اس کے پڑھے بغیر مخالفانہ رائے بنانے سے منع کرنا ۰۰۱ کیا مسیح موعودؑ نے ملائک کے وجود سے انکار کیا ہے ۰۲۳ جامع صحیح بخاری ۹۸۱، ۱۲۲،۹۱۲ اصح الکتب بعد کتاب اللّٰہ ۱۱۵ افادات البخاری ۳۸۵تا۵۹۵ حسبکم القرآن ۴۹۵ دجال کی علامات ۰۹۴،۱۹۴،۲۹۴ دجال کے بارے میں بیان کردہ احادیث میں مسلم سے اختلاف ۹۰۲،۰۱۲ نواس بن سمعان کی دجال والی روایت نادر اور قلیل الشہرت ہے ۲۲۲ حضرت عائشہ ؓ کے متعلق آنحضرت ﷺ کی خواب ۳۰۲ فلما توفیتنی کی تفسیر ۳۰۵ بعض حدیثوں کو بعض ائمہ نے چھوڑ دیا ہے ۳۹۳ پہلی کتابوں میں لفظی تحریف نہیں ہوئی ۹۳۲ ابن صیاد ہی دجال ہے.(حضرت عمر ؓ کی قسم) ۸۱۲ امامکم منکم ۸ ۹۱ معراج کی حدیثوں میں سخت تعارض ۲۱۶تا۹۱۲ دساتیر اس کو مجوسی الہامی مانتے ہیں ۸۶ روحانیت سماویہ کو ارواح کواکب سے نامزد کیا ہے ۷۶ زبور ۵۲۲،۶۲۲ خدا میری جان کو قبر میں رہنے نہیں دے گا ۵۲۲،۶۲۲ سرمہ چشم آریہ (تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) ۹۱ح سنن ابن ما جہ مسیح بیت المقدس میں اترے گا ۹۰۲ اعمار امتی مابین الستین ۶۳۴،۷۳۴ لا مھدی الا عیسیٰ ۹۷۳،۶۰۴ سنن ابوداو ¿د ابن صیاد ہی دجال ہے.(حضرت عمر ؓ کی قسم) ۸۱۲ سنن ترمذی اعمار امتی مابین الستین ۶۳۴،۷۳۴ شرح السنہ دجال چالیس برس ٹھہر یگا ۷۰۲ صحیح مسلم ۹۹۱،۹۱۲، ۱۲۲ مسیح ابن مریم کو سلام پہنچانے کی حدیث ۳۱۴ دجال کی علامات ۰۹۴،۱۹۴،۲۹۴ دجال کے بارے میں بیان کردہ احادیث میں بخاری سے اختلاف ۹۰۲،۰۱۲ ابن صیاد کا انجام ۱۱۲ بعض حدیثوں کو بعض ائمہ نے چھوڑ دیا ہے ۳۹۳ مسلم کی دمشقی حدیث میں استعارات ہیں ۵۱۳،۶۱۳ فلما توفیتنی کی تفسیر ۳۰۵

Page 747

ابن صیاد ہی دجال ہے.(حضرت عمر ؓ کی قسم) ۸۱۲ جساسہ والی حدیث ۱۷۳ مشکوة فلما توفیتنی کی تفسیر ۳۰۵ فتح اسلام (تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) فتح اسلام رسالے کے دو اجزاء ۸۴ فتح اسلام کا موضوع ۳ اس کے پڑھے بغیر مخالفانہ رائے بنانے سے منع کرنا ۰۰۱ اس رسالے کی سا ت سو جلدیں چھپی ۲ حضرت مسیح موعود ؑ کے مامور ہونے کا ذکر ۴۱۵ کیا رسالہ فتح اسلام میں نبوت کا دعویٰ کیا ہے ۰۲۳،۱۲۳ سورة القدر کے معنی ۹۵۲ دینی چندہ کا ذکر ۸۱۵ فتوح الغیب انسان انبیاءکامثیل بن سکتا ہے ۱۳۲ فتوحات مکیہ کسی کا مثیل بننے کا مضمون بیان کیا ہے ۲۳۲ مستدرک لا مھدی الا عیسیٰ ۹۷۳،۶۰۴ معالم النبوة رب لم اظن ان یرفع علی احد ۶۷۲ نو ر افشاں رسالہ نور افشاں میں مطبوعہ ایک اعتراض کا جواب ۳۵۳تا۶۵۳ وید وید میں تحریف کا ثبوت ۹۶

Page 748

Page 748