Language: UR
یہ کتاب اس سے پہلے کی دو کتابوں فتح اسلام اور توضیح مرام کا تسلسل ہے۔ یہ دوسری دو کتابوں کے برابر ہے، لیکن تقریباً ایک ہزار صفحات پر محیط ہے اور دو حصوں میں شائع ہوئی ہے۔ کتاب کا آغاز حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت مسیح موعود (علیہ السلام) کے دکھائے گئے معجزات کے موازنہ سے ہوتا ہے۔ اس کتاب میں ان کے مخالفین کے بہت سے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں کبھی کبھار استعمال ہونے والے سخت الفاظ کا موازنہ کیا ہے اور اس کی ضرورت اور جواز پر بات کی ہے۔ پھر انہوں نے مسیح کی دوسری آمد سے متعلق صحیفوں میں مذکور نشانیوں اور پیشین گوئیوں کا مفہوم بیان کیا ہے اور ظاہر کیا ہے کہ وہ سب ان کی ذات میں پوری ہو چکی ہیں۔ عیسائی اور مسلم صحیفوں کی روشنی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت اور مبینہ طور پر دوبارہ زندہ ہونے کے بارے میں مکمل بحث کی گئی ہے اور ان قابل قدر اور قطعی معیارات کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے جن سے ان کے دعوے کی سچائی کو جانچا جا سکے اور جھوٹے مسیحوں کی آسانی سے شناخت کی جا سکے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے علی گڑھ گزٹ میں شائع ہونے والے سرسید احمد خان کے خیالات کا بھی حوالہ دیا ہے، جو 'وحی' کے بارے میں تھے، سرسید احمد خان نے وحی کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ صرف ایک دماغی لہر یا ذہن میں ڈالا ہوا ایک خیال ہے۔ الہی الہام اور وحی کے وصول کنندہ ہونے کے ناطے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں یہ بھی فرمایا کہ وہ انبیاء کے اس دعوے کو ثابت کرنے اور ظاہر کرنے کے لیے تیار ہیں کہ ان کا خدا سے زبانی رابطہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بھی اشارہ کیا ہے کہ سرسید احمد خان اپنی ہی سابقہ تحریروں سے تصادم رکھتے ہیں۔ کتاب میں قرآن پاک کی 30 آیات کی تفسیر اور متعدد معروف احادیث بھی شامل ہیں تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ عیسیٰ مسیح کی موت قدرتی موت ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نزول اور توفی کے الفاظ کی حقیقی تشریح اور یاجوج و ماجوج کی حقیقت پر بھی گفتگو کی ہے۔ انہوں نے ہر اس شخص کو ایک ہزار روپے انعام کی پیشکش بھی کی جو ان کے دلائل کو غلط ثابت کرے اور نزول اور توفی کے دوسرے معنی لے آئے۔ کتاب کے حصہ دوم میں دیگر چیزوں کے علاوہ بیعت کی دس شرائط بیان کی گئی ہیں۔
اے شک کرنے والو! آسمانی فیصلہ کی طرف آجاؤ اے بزرگو! اے مولویو! اے قوم کے منتخب لوگو! خدا تعالیٰ آپ لوگوں کی آنکھیں کھولے غیظ اور غضب میں آکرحد سے مت بڑھو.میری اس کتاب کے دونوں حِصّوں کو غور سے پڑھو کہ ان میں نور اور ہدایت ہے.خدائے تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی زبانوں کوتکفیر سے تھام لو.خدائے تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں ایک مسلمان ہوں.اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ و ملٰئکتِہٖ و کُتُبہٖ ورُسُلِہٖ والبعث بعدالموت واشھد ان لَّااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شریک لہ واشھد ان محمّدًاعبدہٗ ورسولہ فاتقوا اللہ ولا تقولوا لست مُسلما واتقواالملک الذی الیہ ترجعون.اور اگر اب بھی اس کتاب کے پڑھنے کے بعد شک ہے تو آؤآزمالو خداکس کے ساتھ ہے.اے میرے مخالف الرائے مولویواور صوفیو!اور سجادہ نشینو!!! جو مُکَفِّر اور مُکَذِّب ہو مجھے یقین دلایا گیا ہے کہ اگر آپ لوگ مل جل کر یا ایک ایک آپ میں سے اُن آسمانی نشانوں میں میرا مقابلہ کرنا چاہیں جو اولیاء الرحمٰن کے لازم حال ہوا کرتے ہیں تو خدائے تعالیٰ تمہیں شرمندہ کرے گااور تمہارے پردوں کو پھاڑ دے گا اور اس وقت تم دیکھو گے کہ وہ میرے ساتھ ہے.کیا کوئی تم میں ہے؟ کہ اس آز مائش کے لئے میدان میں آوے اور عام اعلان اخباروں کے ذریعہ سے دے کر ان تعلقات قبولیت میں جو میرا رب میرے ساتھ رکھتا ہے اپنے تعلقات کا موازنہ کرے یاد رکھو کہ خداصادقوں کا مددگار ہے وہ اسی کی مدد کرے گا جس کو وہ سچا جانتا ہے چالاکیوں سے باز آجاؤکہ وہ نزدیک ہے.کیا تم اس سے لڑو گے؟ کیا کوئی متکبرانہ اچھلنے سے درحقیقت اونچا ہو سکتا ہے کیا صرف زبان کی تیزیوں سے سچائی کو کاٹ دو گے اس ذات سے ڈرو جس کا غضب سب غضبوں سے بڑھ کر ہے اِنَّهٗ مَنْ يَّاْتِ رَبَّهٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَهٗ جَهَـنَّمَۚ لَا يَمُوْتُ فِيْهَا وَ لَا يَحْيٰى ۱ النَّاصح خاکسار غلام احمدقادیانی ازلودیانہ محلہ اقبال گنج ۷۵: طٰہٰ: ۱
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ والسلام علٰی قومٍ موجع سیما علٰی امام الاَصفیَاء وسیّد الانبیاء محمد ن المصطفیٰ واٰلہٖ واصحابہٖ اجمعین.اللّٰھم ارزقنا انوار اتباعہ واعطنا ضوء ہ بجمیع انواعہٖ برحمتک علیہ واشیاعہٖ اس سوال کا جواب کہ حضرت مسیح بن مریم نے مُردوں کوزندہ کیا اور اندھوں کو آنکھیں بخشیں بہروں کے کان کھولے ان تمام معجزات میں سے مثیل مسیح نے کیا دکھایا اس جگہ اول تو یہ جواب کافی ہے کہ جس مسیح کے مسلمان لوگ منتظر ہیں اس کی نسبت ہرگز احادیث میں یہ نہیں لکھا کہ اس کے ہاتھ سے مردے زندہ ہوں گے بلکہ یہ لکھا ہے کہ اس کے دم سے زندے مریں گے.علاوہ اس کے خدائے تعالیٰ نے اسی غرض سے اِس عاجز کو بھیجا ہے کہ تاروحانی طور پر مردے زندہ کئے جائیں بہروں کے کان کھولے جائیں اور مجذوموں کوصاف کیا جائے اور وہ جو قبروں میں ہیں باہر نکالے جائیں اور نیز یہ بھی وجہ مماثلت ہے کہ جیسے مسیح بن مریم نے انجیل میں توریت کا صحیح خلاصہ اور مغز اصلی پیش کیا تھا اسی کام کے لئے یہ عاجز مامور ہے تاغافلوں کے سمجھانے کے لئے قرآن شریف کی اصلی تعلیم پیش کی جائے مسیح صرف اسی کام کے لئے آیا تھاکہ توریت کے احکام شدّومد کے ساتھ ظاہر کرے ایسا ہی یہ عاجز بھی اسی کام کے لئے بھیجا گیا ہے کہ تاقرآن شریف کے احکام بہ وضاحت بیان کر دیوے فرق صرف اتنا ہے کہ وہ مسیح موسیٰ کو دیا گیا تھا اور یہ مسیح مثیل موسیٰ کو عطا کیا گیا سو یہ تمام مشابہت
توثابت ہے اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ مسیح کے ہاتھ سے زندہ ہونے والے مر گئے مگر جو شخص میرے ہاتھ سے جام پیئے گا جو مجھے دیا گیا ہے وہ ہرگز نہیں مرے گا.وہ زندگی بخش باتیں جومیں کہتا ہوں اور وہ حکمت جو میرے منہ سے نکلتی ہے اگر کوئی اور بھی اس کی مانند کہہ سکتا ہے تو سمجھو کہ میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے نہیں آیا لیکن اگر یہ حکمت اور معرفت جو مُردہ دلوں کے لئے آب حیات کا حکم رکھتی ہے دوسری جگہ سے نہیں مل سکتی توتمہارے پاس اس جُرم کا کوئی عذر نہیں کہ تم نے اُس کے سرچشمہ سے انکار کیا جو آسمان پر کھولا گیا زمین پر اس کو کوئی بند نہیں کر سکتا سو تم مقابلہ کے لئے جلدی نہ کرو اور دیدہ و دانستہ اس الزام کے نیچے اپنے تئیں داخل نہ کرو جو خدائے تعالیٰ فرماتا ہے ۱ وَلَا تَقْفُ مَا لَـيْسَ لَـكَ بِهٖ عِلْمٌؕ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۤٮِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـُٔوْلاً بدظنی اور بدگمانی میں حد سے زیادہ مت بڑھو ایسانہ ہو کہ تم اپنی باتوں سے پکڑے جاؤ اور پھر اس دکھ کے مقام میں تمہیں یہ کہنا پڑے کہ مَا لَنَا لَا نَرٰى رِجَالاً كُنَّا نَعُدُّهُمْ مِّنَ الْاَشْرَارِ ۲ آں نہ دانائی بود کز نا شکیبائی نفس خویشتن را زود تر بر ضد و انکار آورد صبر بائد طالب حق را کہ تخم اندر جہاں ہر چہ پنہاں خاصیت دار دہماں بار آورد اند کے نور فراست باید ایں جامردرا تا صداقت خویشتن راخود باظہار آورد صادقاں را صدق پنہانی نمے ماند نہاں نور پنہاں برجبیں مرد انوار آورد ہر کہ از دست کسے خورد است کا سات وصال ہرزمان رویش سرورِ واصل یار آورد اے مسلمانوں! اگرتم سچے دل سے حضرت خدا وند تعالیٰ اوراس کے مقدس رسول علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہو اورنصرت الٰہی کے منتظر ہو تو یقیناً سمجھو کہ نصرت کا وقت آگیا اور یہ کاروبارانسان کی طرف سے نہیں ا ورنہ کسی انسانی منصوبہ نے اس کی بناڈالی بلکہ یہ وہی صُبح صادق ظہور پذیر ہو گئی ہے جس کی پاک نوشتوں میں پہلے سے خبر دی گئی تھی خدائے تعالیٰ نے بڑی ضرورت کے وقت تمہیں یاد کیا قریب تھا کہ تم کسی مہلک گڑھے میں جا پڑتے مگر اُس کے ۱ بنی اسرائیل: ۳۷ ۲ ص:۶۳
باشفقت ہاتھ نے جلدی سے تمہیں اٹھا لیا سو شکر کرو اور خوشی سے اُچھلو جو آج تمہاری تازگی کا دن آگیا.خدائے تعالیٰ اپنے دین کے باغ کو جس کی راستبازوں کے خونوں سے آبپاشی ہوئی تھی کبھی ضائع کرنا نہیں چاہتا وہ ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ غیر قوموں کے مذا ہب کی طرح اسلام بھی ایک پرانے قصوں کا ذخیرہ ہو جس میں موجودہ برکت کچھ بھی نہ ہو وہ ظلمت کے کامل غلبہ کے وقت اپنی طرف سے نور پہنچاتا ہے کیا اندھیری رات کے بعد نئے چاند کے چڑھنے کے انتظار نہیں ہوتے کیا تم سلخ کی رات کو جو ظلمت کی آخری رات ہے دیکھ کر حکم نہیں کرتے کہ کَل نیا چاند نکلنے والا ہے.افسوس کہ تم اس دنیا کے ظاہری قانون قدرت کو تو خوب سمجھتے ہو مگر اس روحانی قانون فطرت سے جو اُسی کا ہم شکل ہے بکلّی بے خبرہو.اے نفسانی مولویو! اور خشک زاہدو! تم پر افسوس کہ تم آسمانی دروازوں کا کھلنا چاہتے ہی نہیں بلکہ چاہتے ہو کہ ہمیشہ بند ہی رہیں اور تم پیر مغاں بنے رہو اپنے دلوں پرنظر ڈالواور اپنے اندر کو ٹٹولو کیا تمہاری زندگی دنیا پرستی سے منزّہ ہے کیا تمہارے دلوں پر وہ زنگار نہیں جس کی وجہ سے تم ایک تاریکی میں پڑے ہو کیا تم اُن فقیہوں اور فریسیوں سے کچھ کم ہو جو حضرت مسیح کے وقت میں دن رات نفس پرستی میں لگے ہوئے تھے پھر کیا یہ سچ نہیں کہ تم مثیل مسیح کے لئے مسیحی مشابہت کا ایک گونہ سامان اپنے ہاتھ سے ہی پیش کر رہے ہوتا خدائے تعالیٰ کی حجت ہر یک طور سے تم پر وارد ہو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ایک کافر کا مومن ہو جانا تمہارے ایمان لانے سے زیادہ تر آسان ہے بہت سے لوگ مشرق اور مغرب سے آئیں گے اور اس خوانِ نعمت سے حِصّہ لیں گے لیکن تم اسی زنگ کی حالت میں ہی مرو گے کاش تم نے کچھ سوچاہوتا.اور مشابہت کے لئے مسیح کی پہلی زندگی کے معجزات جو طلب کئے جاتے ہیں اس بارے میں ابھی بیان کر چکا ہوں کہ احیاء جسمانی کچھ چیز نہیں احیاء روحانی کے لئے یہ عاجز آیا ہے اور اُس کا ظہور ہو گا ماسوائے اس کے اگر مسیح کے اصلی کاموں کواُن حواشی سے الگ کر کے دیکھا جائے جو محض افترا کے طور پر یا غلط فہمی کی وجہ سے گھڑے گئے ہیں تو کوئی اعجوبہ نظر
نہیں آتا بلکہ مسیح کے معجزات اورپیشگوئیوں پرجس قدر اعتراض اور شکوک پیدا ہوتے ہیں میں نہیں سمجھ سکتا کہ کسی اور نبی کے خوارق یا پیش خبریوں میں کبھی ایسے شبہات پیدا ہوئے ہوں کیا تالاب کا قصہ مسیحی معجزات کی رونق دور نہیں کرتا؟اور پیشگوئیوں کا حال اس سے بھی زیادہ تر ابتر ہے کیا یہ بھی کچھ پیشگوئیاں ہیں کہ زلزلے آئیں گے مری پڑے گی لڑائیاں ہوں گی قحط پڑیں گے اور اس سے زیادہ تر قابل افسوس یہ امر ہے کہ جس قدر حضرت مسیح کی پیشگوئیاں غلط نکلیں اِس قدر صحیح نکل نہیں سکیں.اُنہوں نے یہودااسکریوطی کو بہشت کے بار ۱۲ہ تختوں میں سے ایک تخت دیا تھا جس سے آخر وہ محروم رہ گیا اور پطرس کو نہ صرف تخت بلکہ آسمان کی کُنجیاں بھی دیدی تھیں اور بہشت کے دروازے کسی پر بند ہونے یا کھلنے اُسی کے اختیار میں رکھے تھے مگر پطرس جس آخری کلمہ کے ساتھ حضرت مسیح سے الوداع ہوا وہ یہ تھا کہ اس نے مسیح کے روبرو مسیح پر لعنت بھیج کر اور قسم کھا کر کہا کہ میں اس شخص کو نہیں جانتا.ایسی ہی اور بھی بہت سی پیشگوئیاں ہیں جو صحیح نہیں نکلیں مگر یہ بات الزام کے لائق نہیں کیونکہ امور اخباریہ کشفیہ میں اجتہادی غلطی انبیاء سے بھی ہو جاتی ہے.حضرت موسیٰ کی بعض پیشگوئیاں بھی اُس صورت پر ظہور پذیر نہیں ہوئیں جس صورت پر حضرت موسیٰ نے اپنے دل میں امید باندھ لی تھی غایت مافی الباب یہ ہے کہ حضرت مسیح کی پیشگوئیاں اَوروں سے زیادہ غلط نکلیں مگریہ غلطی نفس الہام میں نہیں بلکہ سمجھ اور اجتہاد کی غلطی ہے چونکہ انسان تھے اور انسان کی رائے خطا اور صواب دونوں کی طرف جاسکتی ہے اس لئے اجتہادی طور پر یہ لغزشیں پیش آگئیں.اِس مقام میں زیادہ تر تعجب یہ ہے کہ حضرت مسیح معجزہ نمائی سے صاف انکار کر کے کہتے ہیں کہ میں ہرگز کوئی معجزہ دکھا نہیں سکتا مگر پھر بھی عوام الناس ایک انبار معجزات کا ان کی طرف منسوب کر رہے ہیں.نہیں دیکھتے کہ وہ تو کھلے کھلے انکار کئے جاتے ہیں چنانچہ ھیرودیس کے سامنے حضرت مسیح جب پیش کئے گئے تو ہیرودیس مسیح کو دیکھ کر بہت خوش ہوا کیونکہ اسے اس کی کوئی کرامت دیکھنے کی اُمید تھی پر ہیرودیس نے ہر چند اِس بارہ میں مسیح سے
بہت درخواست کی لیکن اس نے کچھ جواب نہ دیا تب ہیرودیس اپنے تمام مصاحبوں کے سمیت اس سے بے اعتقاد ہو گیا اور اسے ناچیز ٹھہرایا.دیکھو لوقا باب ۲۲.اب خیال کرنا چاہیئے کہ اگر حضرت مسیح میں اقتداری طور پر جیسا کہ عیسائیوں کا خیال ہے معجزہ نمائی کی قوت ہوتی تو ضرور حضرت مسیح ہیرودیس کو جو ایک خوش اعتقاد آدمی اور ان کے وطن کا بادشاہ تھا کوئی معجزہ دکھاتے مگر وہ کچھ بھی دکھا نہ سکے.بلکہ ایک مرتبہ فقیہوں اور فریسیوں نے جن کی قیصر کی گورنمنٹ میں بڑی عزت تھی حضرت مسیح سے معجزہ مانگا تو حضرت مسیح نے انہیں مخاطب کر کے پُر اشتعال اور پُر غضب الفاظ سے فرمایا کہ اس زمانہ کے بد اور حرام کار لوگ نشان ڈھونڈتے ہیں * پر یونس نبی کے نشان کے سوائے کوئی نشان انھیں دکھایانہیں جائیگا.دیکھو متی باب ۱۲آیت ۳۹.اور حضرت مسیح نے یونس نبی کے نشان کی طرف جو اشارہ فرمایا تو اس سے حضرت مسیح کا یہ مطلب تھا کہ یونس نبی مچھلی کے پیٹ میں ہلاک نہیں ہوا بلکہ زندہ رہا ا ور زندہ نکل آیا ایسا ہی میں بھی صلیب پر نہیں مروں گا اور نہ قبر میں مردہ داخل ہوں گا.اس جگہ حضرت مسیح کی تہذیب او راخلاقی حالت پر ایک سخت اعتراض وارد ہوتا ہے.کیونکہ متی باب ۲۳آیت۲ میں وہ فرماتے ہیں کہ فقیہ اور فریسی موسیٰ کی گدّی پر بیٹھے ہوئے ہیں یعنے بڑے بزرگ ہیں اور انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ وہ لوگ یہودیوں کے مقتداء کہلاتے تھے او رقیصر کے دربار میں بڑی عزت کے ساتھ خاص رئیسوں میں بٹھائے جاتے تھے.پھر باوجود ان سب باتوں کے انہیں فقیہوں اور فریسیوں کو مخاطب کر کے حضرت مسیح نے نہایت غیر مہذب الفاظ استعمال کئے بلکہ تعجب تو یہ ہے کہ ان یہودیوں کے معزز بزرگوں نے نہایت نرم اور مؤدبانہ الفاظ سے سراسر انکساری کے طور پر حضرت مسیح کی خدمت میں یوں عرض کی کہ اے اُستاد ہم تم سے ایک نشان دیکھا چاہتے ہیں.اس کے جواب میں حضرت مسیح نے
ہم اور ہمارے نکتہ چین بعضے صاحبوں نے نکتہ چینی کے طور پر اس عاجز کی عیب شماری کی ہے اور اگرچہ انسان عیب سے خالی نہیں اور حضرت مسیح کا یہ کہنا سچ ہے کہ میں نیک نہیں ہوں نیک ایک ہی ہے یعنی خدا.لیکن چونکہ ایسی نکتہ چینیاں دینی کارروائیوں پر بداثر ڈالتی ہیں اور حق کے طالبوں کو رجوع لانے سے روکتی ہیں اس لئے برعایت اختصار بعض نکتہ چینیوں کا جواب دیا جاتا ہے.پہلی نکتہ چینی اس عاجز کی نسبت یہ کی گئی ہے کہ اپنی تالیفات میں مخالفین کی نسبت سخت الفاظ استعمال کئے ہیں جن سے مشتعل ہو کر مخالفین نے اللہ جلَّشَانُہٗ اور اس کے رسول کریم کی بے ادبی کی اور پُر دشنام تالیفات شائع کر دیں.قرآن شریف میں صریح حکم وارد ہے کہ مخالفین کے معبودوں کو سب اور شتم سے یاد مت کرو تاوہ بھی بے سمجھی اور کینہ سے خدائے تعالیٰ کی نسبت سبّ و شتم کے ساتھ زبان نہ کھولیں.لیکن اس جگہ برخلاف طریق ماموریہ کے سب و شتم سے کام لیا گیا.اماالجواب پس واضح ہو کہ اس نکتہ چینی میں معترض صاحب نے انہیں مخاطب کر کے یہ الفاظ استعمال کئے کہ اس زمانہ کے بد اور حرامکار لوگ نشان ڈھونڈتے ہیں الخ اور پھر اسی پر بس نہیں کی بلکہ وہ اُن معزز بزرگوں کو ہمیشہ دشنام دہی کے طورپر یاد کرتے رہے.کبھی اُنہیں کہااے سانپو اے سانپ کے بچّو.دیکھومتی باب ۲۳ آیت ۳۳ کبھی اُنہیں کہا اندھے.دیکھو متی باب ۱۵ آیت ۱۴ کبھی اُنہیں کہا اے ریاکارو.دیکھو متی باب ۲۳ آیت ۱۳ کبھی انہیں نہایت فحش کلمات سے یہ کہا کہ کنجریاں تم سے پہلے خدائے تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل ہوتے ہیں اور کبھی اُن کا نام سُؤر اور کُتّا رکھا.دیکھو متی باب ۲۱ آیت۳۱.اور کبھی اُنہیں احمق کہا دیکھو متی باب ۲۳ آیت ۱۷ کبھی اُنہیں کہا کہ تم جہنّمی ہو دیکھو متی باب ۲۲ آیت ۱۶.حالانکہ آپ ہی حلم اور خُلق کی نصیحت دیتے ہیں بلکہ فرماتے ہیں کہ جو کوئی اپنے بھائی کو احمق کہے جہنّم کی آگ کا سزا وار ہوگا اس اعتراض کا جواب اُن مطاعن کے جواب میں دیا جائے گا جو تہذیب کے بارے میں بعض خوش فہم آدمیوں نے اس عاجز کی نسبت کئے ہیں.منہ
وہ الفاظ بیان نہیں فرمائے جو اس عاجز نے بزعم ان کے اپنی تالیفات میں استعمال کئے ہیں اور درحقیقت سب و شتم میں داخل ہیں.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جہاں تک مجھے معلوم ہے میں نے ایک لفظ بھی ایسا استعمال نہیں کیا جس کو دشنام دہی کہا جائے بڑے دھوکہ کی با ت یہ ہے کہ اکثر لوگ دشنام دہی اور بیان واقعہ کو ایک ہی صورت میں سمجھ لیتے ہیں اور ان دونوں مختلف مفہوموں میں فرق کرنا نہیں جانتے بلکہ ایسی ہریک بات کو جو دراصل ایک واقعی امر کا اظہار ہو اور اپنے محل پر چسپاں ہو محض اس کی کسی قدر مرارت کی وجہ سے جو حق گوئی کے لازم حال ہوا کرتی ہے دشنام ہی تصور کر لیتے ہیں حالانکہ دشنام اور سب اور شتم فقط اس مفہوم کا نام ہے جو خلاف واقعہ اور دروغ کے طور پر محض آزار رسانی کی غرض سے استعمال کیا جائے اور اگر ہریک سخت اور آزار دہ تقریر کو محض بوجہ اس کے مرارت اور تلخی اور ایذارسانی کے دشنام کے مفہوم میں داخل کر سکتے ہیں تو پھر اقرار کرنا پڑے گا کہ سارا قرآن شریف گالیوں سے پُر ہے کیونکہ جو کچھ بتوں کی ذلت اور ُ بت پرستوں کی حقارت اور ان کے بارہ میں لعنت ملامت کے سخت الفاظ قرآن شریف میں استعمال کئے گئے ہیں یہ ہرگز ایسے نہیں ہیں جن کے سننے سے بت پرستوں کے دل خوش ہوئے ہوں بلکہ بلاشبہ ان الفاظ نے ان کے غصہ کی حالت کی بہت تحریک کی ہو گی.کیا خدائے تعالیٰ کا کفار مکہ کو مخاطب کرکے یہ فرمانا کہ اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَـنَّمَ ۱ معترض کے من گھڑت قاعدہ کے موافق گالی میں داخل نہیں ہے کیا خدائے تعالیٰ کا قرآن شریف میں کفار کو شَرُّالْبَرِیَّۃ قرار دینا اور تمام رذیل اور پلید مخلوقات سے انہیں بد تر ظاہر کرنا یہ معترض کے خیال کے روسے دشنام دہی میں داخل نہیں ہوگا؟کیاخدائے تعالیٰ نے قرآن شریف میں وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ْ ۲ نہیں فرمایا کیا مومنوں کی علامات میں اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ ۳ نہیں رکھا گیا کیا حضرت مسیح کا یہودیوں کے معزز فقیہوں اور فریسیوں کو سؤر اور کتے کے نام سے پکارنا اور گلیل کے عالی مرتبہ فرمانروا ہیرودیس کا لونبڑی نام رکھنا اور معزز سردار کاہنوں اور فقیہوں کو ۱ الانبیاء: ۹۹ ۲ التوبۃ:۷۳ ۳ الفتح:۳۰
کنجری کے ساتھ مثال دینا اور یہودیوں کے بزرگ مقتداؤں کو جو قیصری گورنمنٹ میں اعلیٰ درجہ کے عزت دار اور قیصری درباروں میں کُرسی نشین تھے ان کریہہ اور نہایت دل آزار اور خلاف تہذیب لفظوں سے یاد کرنا کہ تم حرام زادے ہو حرام کار ہو شریرہو بدذات ہوبے ایمان ہو احمق ہو ریاکار ہو شیطان ہو جہنمی ہو تم سانپ ہو سانپوں کے بچے ہو.کیا یہ سب الفاظ معترض کی رائے کے موافق فاش اور گندی گالیاں نہیں ہیں اِس سے ظاہر ہے کہ معترض کا اعتراض نہ صرف مجھ پر اور میری کتابوں پر بلکہ درحقیقت معترض نے خدائے تعالیٰ کی ساری کتابوں اور سارے رسولوں پر نہایت درجہ کے جلے سڑے دل کے ساتھ حملہ کیا ہے اور یہ حملہ انجیل پر سب سے زیادہ ہے کیونکہ حضرت مسیح کی سخت زبانی تمام نبیوں سے بڑھی ہوئی ہے اور انجیل سے ثابت ہے کہ اس سخت کلامی کی وجہ سے کئی مرتبہ یہودیوں نے حضرت مسیح کے مارنے کے لئے پتھر اٹھائے اورسردار کاہن کی بے ادبی سے حضرت مسیح نے اپنے منہ پر طمانچے بھی کھائے اور جیسا کہ حضرت مسیح نے فرمایا تھا کہ میں صلح کرانے نہیں آیا بلکہ تلوار چلانے آیا ہوں سو انہوں نے زبان کی تلوار ایسی چلائی کہ کسی نبی کے کلام میں ایسے سخت اور آزاردہ الفاظ نہیں جیسے انجیل میں ہیں اس زبان کی تلوار چلنے سے آخر مسیح کو کیا کچھ آزار اٹھانے پڑے ایسا ہی حضرت یحییٰ نے بھی یہودیوں کے فقیہوں اور بزرگوں کوسانپوں کے بچے کہہ کر ان کی شرارتوں اور کارسازیوں سے اپنا سر کٹوایا مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا یہ مقدس لوگ پرلے درجہ کے غیر مہذب تھے کیا زمانہ حال کی موجودہ تہذیب کی ان کو بُو بھی نہیں پہنچی تھی؟ اِس سوال کا جواب ہمارے سیّدو مولیٰ مادر و پدرم براو فداباد حضرت ختم المرسلین سیّد الاولین والآخرین پہلے سے دے چکے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جب یہ آیتیں اتریں کہ مشرکین رجس ہیں پلید ہیں شرّالبریّہ ہیں سفہاء ہیں اور ذرّیت شیطان ہیں اور ان کے معبود وقود النّار اور حصب جہنم ہیں تو ابوطالب نے آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا کر کہا کہ اے میرے بھتیجے اب تیری
دشنام دہی سے قوم سخت مشتعل ہوگئی ہے اور قریب ہے کہ تجھ کو ہلاک کریں اور ساتھ ہی مجھ کو بھی.تو نے ان کے عقل مندوں کو سفیہ قرار دیا اور ان کے بزرگوں کو شرّالبریّہ کہا اور ان کے قابل تعظیم معبودوں کانام ہیزم جہنّم اور وقود النّار رکھااور عام طور پر ان سب کو رجس اور ذرّیت شیطان اور پلید ٹھہرایامیں تجھے خیر خواہی کی راہ سے کہتا ہوں کہ اپنی زبان کو تھام اور دشنام دہی سے بازآجاورنہ میں قوم کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں کہاکہ اے چچایہ دشنام دہی نہیں ہے بلکہ اظہار واقعہ اور نفس الامر کا عین محل پر بیان ہے اور یہی تو کام ہے جس کے لئے میں بھیجا گیا ہوں اگر اس سے مجھے مرنا درپیش ہے تو میں بخوشی اپنے لئے اس موت کو قبول کرتا ہوں میری زندگی اسی راہ میں وقف ہے مَیں موت کے ڈر سے اظہار حق سے رک نہیں سکتا اور اے چچا اگر تجھے اپنی کمزوری اور اپنی تکلیف کا خیال ہے تو تُو مجھے پناہ میں رکھنے سے دست بردار ہوجا بخدا مجھے تیری کچھ بھی حاجت نہیں میں احکام الٰہی کے پہنچانے سے کبھی نہیں رکوں گا مجھے اپنے مولیٰ کے احکام جان سے زیادہ عزیز ہیں بخدا اگر میں اس راہ میں مارا جاؤں تو چاہتا ہوں کہ پھر بار بار زندہ ہو کر ہمیشہ اسی راہ میں مرتا رہوں.یہ خوف کی جگہ نہیں بلکہ مجھے اس میں بے انتہاء لذت ہے کہ اس کی راہ میں دکھ اٹھاؤں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ تقریر کر رہے تھے اور چہرہ پر سچائی اور نورانیّت سے بھری ہوئی رقت نمایاں ہورہی تھی اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ تقریر ختم کر چکے تو حق کی روشنی دیکھ کر بے اختیار ابو طالب کے آنسو جاری ہو گئے اور کہا کہ میں تیری اِس اعلیٰ حالت سے بے خبر تھا تُو اور ہی رنگ میں اور اَور ہی شان میں ہے جااپنے کام میں لگارہ جب تک میں زندہ ہوں جہاں تک میری طاقت ہے میں تیرا ساتھ دوں گا.اب حاصل* کلام یہ ہے حاشیہ:* یہ سب مضمون ابو طالب کے قصہ کا اگرچہ کتابوں میں درج ہے مگریہ تمام عبارت الہامی ہے جو
کہ جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طالب کے اعتراض کا خود اپنی زبان مبارک سے جواب دیا در حقیقت وہی جواب ہریک معترض کے ساکت کرنے کے لئے کافی و وافی ہے کیونکہ دشنام دہی اور چیز ہے اور بیان واقعہ کا گو وہ کیسا ہی تلخ اور سخت ہو دوسری شے ہے ہریک محقق اور حق گو کا یہ فرض ہوتا ہے کہ سچی بات کو پو رے پورے طور پر مخالف گُم گشتہ کے کانوں تک پہنچا دیوے پھر اگر وہ سچ کو سن کر افروختہ ہو تو ہوا کرے ہمارے علماء جو اس جگہ لَا تَسُبُّوْا کی آیت پیش کرتے ہیں میں حیران ہوں کہ اس آیت کو ہمارے مقصد اور مدعا سے کیا تعلق ہے.اس آیت کریمہ میں تو صرف دُشنام دہی سے منع فرمایا گیا ہے نہ یہ کہ اظہا ر حق سے روکا گیا ہو اگر نادان مخالف حق کی مرار ت اور تلخی کو دیکھ کر دشنام دہی کی صورت میں اس کو سمجھ لیوے اور پھر مشتعل ہو کر گالیاں دینی شروع کرے توکیا اس سے امر معروف کا دروازہ بند کر دینا چاہیئے؟کیااس قسم کی گالیاں خدائے تعالیٰ نے اس عاجز کے دل پر نازل کی صرف کوئی کوئی فقرہ تشریح کے لئے اس عاجز کی طرف سے ہے اس الہامی عبارت سے ابو طالب کی ہمدردی اور دلسوزی ظاہر ہے لیکن بکمال یقین یہ بات ثابت ہے کہ یہ ہمدردی پیچھے سے انوار نبوت وآثار استقامت دیکھ کر پیدا ہوئی تھی ہمارے سیّد ومولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑا حصہ عمر کا جو چالیس برس ہے بیکسی اور پریشانی اور یتیمی میں بسر کیا تھاکسی خویش یا قریب نے اس زمانہ تنہائی میں کوئی حق خویشی اور قرابت کا ادا نہیں کیا تھا یہاں تک کہ وہ روحانی بادشاہ اپنی صغر سنی کی حالت میں لاوارث بچوں کی طرح بعض بیابان نشین اور خانہ بدوش عورتوں کے حوالہ کیا گیا اور اُسی بے کسی اور غریبی کی حالت میں اس سیّد الانام نے شیر خوارگی کے دن پورے کئے اورجب کچھ سن تمیز پہنچاتو یتیم اور بے کس بچوں کی طرح جن کا دنیا میں کوئی بھی نہیں ہوتا اُن بیابان نشین لوگوں نے بکریاں چرانے کی خدمت اُس مخدوم العالمین کے سپُرد کی اور اُس تنگی کے دنوں میں
پہلے کفار نے کبھی نہیں دیںآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حق کی تائید کے لئے صرف الفاظ سخت ہی استعمال نہیں فرمائے بلکہ بُت پرستوں کے ان بتوں کو جو اُن کی نظر میں خدائی کا منصب رکھتے تھے اپنے ہاتھ سے توڑا بھی ہے.اسلام نے مداہنہ کو کب جائز رکھا اور ایسا حکم قرآن شریف کے کس مقام میں موجود ہے بلکہ اللہ جلّشَانُہٗ مداہنہ کی ممانعت میں صاف فرماتا ہے کہ جو لوگ اپنے باپوں یا اپنی ماؤں کے ساتھ بھی ان کی کفر کی حالت میں مداہنہ کا برتاؤ کریں وہ بھی ان جیسے ہی بے ایمان ہیں اور کفار مکہ کی طرف سے حکایت کرکے فرماتا ہے3۱ یعنی اس بات کو کفار مکہ دوست رکھتے ہیں کہ اگر تُو حق پوشی کی راہ سے نرمی اختیار کرے تو وہ بھی تیرے دین میں ہاں میں ہاں ملا دیاکریں مگر ایسا ہاں میں ہاں ملانا خدائے تعالیٰ کو منظور نہیں.غرض آیت قرآنی جو معترض نے پیش کی ہے وہ اگر کسی بات پر دلالت کرتی ہے تو صرف اسی بات پر کہ معترض کو کلام الٰہی کے بجز ادنیٰ قسم کے اناجوں یا بکریوں کے دُودھ کے اور کوئی غذانہ تھی جب سن بلوغ پہنچا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی کے لئے کسی چچاوغیرہ نے باوجود آنحضرت کے اول درجہ کے حسن وجمال کے کچھ فکر نہیں کی بلکہ پچیس برس کی عمر ہونے پر اتفاقی طورپر محض خدائے تعالیٰ کے فضل وکرم سے ایک مکّہ کی رئیسہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لئے پسند کر کے آپ سے شادی کر لی یہ نہایت تعجب کا مقام ہے کہ جس حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا ابو طالب اور حمزہ اور عباس جیسے موجود تھے اور بالخصوص ابوطالب رئیس مکہ اور اپنی قوم کے سردار بھی تھے اوردنیوی جاہ وحشمت ودولت ومقدرت بہت کچھ رکھتے تھے مگر باوجود ان لوگوں کی ایسی امیرانہ حالت کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ایام بڑی مصیبت اور فاقہ کشی اور بے سامانی سے گذرے یہاں تک کہ جنگلی لوگوں کی بکریاں چرانے تک نوبت پہنچی اور اس دردناک حالت کو دیکھ کر کسی کے آنسو جاری نہیں ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی
سمجھنے کی مس تک نہیں.نہیں خیال کرتا کہ اگر یہ آیت ہریک طور کی سخت زبانی سے متعلق سمجھی جائے تو پھر امر معروف اور نہی منکر کا دروازہ بند ہو جانا چاہیئے اور نیز اس صورت میں خدائے تعالیٰ کا کلام دومتناقض امروں کا جامع ماننا پڑے گا یعنی یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اوّل تو اُس نے ہریک طور کی سخت کلامی سے منع فرمایا اور ہریک محل میں کفار کا دل خوش رکھنے (کے) لئے تاکید کی اور پھر آپ ہی اپنے قول کے مخالف کارروائی شروع کرد ی اور ہریک قسم کی گالیاں منکروں کو سنائیں بلکہ گالیاں دینے کے لئے تاکیدکی.سوجاننا چاہیئے کہ جن مولویوں نے ایسا خیال کیا ہے کہ گویا عام طور پر ہریک سخت کلامی سے خدائے تعالیٰ منع فرماتا ہے.یہ اُن کی اپنی سمجھ کا ہی قصور ہے ورنہ وہ تلخ الفاظ جو اظہارحق کے لئے ضروری ہیں اور اپنے ساتھ اپنا ثبوت رکھتے ہیں وہ ہریک مخالف کو صاف صاف سنا دینا نہ صرف جائز بلکہ واجبات وقت سے ہے تامداہنہ کی بلا میں مبتلانہ ہو جائیں.خدائے تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ایسی سخت تبلیغ کے وقت میں کسی لاعن کی لعنت اور کسی لائم کی ملامت سے ہرگز نہیں ڈرے کیا معلوم نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں عمر شباب پہنچنے کے وقت کسی چچا کو خیال تک نہیں آیا کہ آخر ہم بھی تو باپ ہی کی طرح ہیں شادی وغیرہ امور ضروریہ کے لئے کچھ فکر کریں حالانکہ اُن کے گھر میں اوراُن کے دوسر ے اقارب میں بھی لڑکیاں تھیں.سو اس جگہ بالطبع یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر سرد مہری اُن لوگوں سے کیوں ظہور میں آئی اس کا واقعی جواب یہی ہے کہ ان لوگوں نے ہمارے سیّد ومولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ ایک لڑکا یتیم ہے جس کا باپ نہ ماں ہے بے سامان ہے جس کے پاس کسی قسم کی جمعیت نہیں نادار ہے جس کے ہاتھ پلّے کچھ بھی نہیں ایسے مصیبت زدہ کی ہمدردی سے فائدہ ہی کیا ہے اور اُس کو اپنا داماد بنانا تو گویا اپنی لڑکی کو تباہی میں ڈالنا ہے مگر اس بات کی خبر نہیں تھی کہ وہ ایک شہزادہ اور روحانی بادشاہوں کا سردار ہے جس کو دنیا کے تمام خزانوں کی کُنجیاں دی جائیں گی.منہ
جس قدر مشرکین کا کینہ ترقی کر گیاتھا اس کا اصل باعث وہ سخت الفاظ ہی تھے جو اُن نادانوں نے دشنام دہی کی صورت پرسمجھ لئے تھے جن کی وجہ سے آخر لسان سے سنان تک نوبت پہنچی ورنہ اول حال تو وہ لوگ ایسے نہیں تھے بلکہ کمال اعتقا د سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کہا کرتے تھے کہ عَشِقَ مُحَمَّدٌ عَلیٰ رَبِّہٖ.یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب پر عاشق ہو گئے ہیں جیسے آج کل کے ہندو لوگ بھی کسی گوشہ نشین فقیر کو ہرگز بُرا نہیں کہتے بلکہ نذریں نیازیں دیتے ہیں.اس جگہ مجھے نہایت افسوس اور غمگین دل کے ساتھ اس بات کے ظاہر کرنے کی بھی حاجت پڑی ہے کہ یہ اعتراض جو مجھ پر گیا ہے یہ صرف عوام الناس کی طرف سے ہی نہیں بلکہ میں نے سنا ہے کہ بانی مبانی اس اعتراض کے بعض علماء بھی ہیں.سو میں ان کی شان میں یہ تو ظن نہیں کر سکتاکہ وہ قرآن شریف اور کتب سابقہ سے بے خبر ہیں اور نہ کسی طور سے جائے ظن ہے * لیکن میں جانتاہوں کہ آج کل کی یورپ کی جھوٹی تہذیب نے قرآ ن شریف جس آوازبلند سے سخت زبانی کے طریق کواستعمال کر رہا ہے ایک غایت درجہ کا غبی اور سخت درجہ کا نادان بھی اُس سے بے خبر نہیں رہ سکتا.مثلًا زمانہ حال کے مہذبین کے نزدیک کسی پر لعنت بھیجنا ایک سخت گالی ہے.لیکن قرآن شریف کفار کو سُنا سُنا کر ان پر لعنت بھیجتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے اُولٰٓٮِٕكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللّٰهِ وَالْمَلٰٓٮِٕكَةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَۙ ۱ الجزو ۲ سورۃ بقرہ.خٰلِدِيْنَ فِيْهَاۚ اُولٰٓٮِٕكَ يَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَ يَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَۙ ۲.الجزو نمبر ۲ ایسا ہی ظاہر ہے کہ کسی انسان کو حیوان کہنا بھی ایک قسم کی گالی ہے.لیکن قرآن شریف نہ صرف حیوان بلکہ کفار اور منکرین کو دنیا کے تمام حیوانات سے بد تر قرار دیتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْ ۳.ایسا ہی ظاہر ہے کہ کسی خاص آدمی کانام لے کر یا ا شارہ کے طورپر اس کو نشانہ بنا کر گالی دینا زمانہ حال کی
جو ایمانی غیّوری سے بہت دُور پڑی ہوئی ہے ہمارے علماء کے دلوں کو بھی کسی قدر دبا لیا ہے.اس سخت آندھی کے چلنے کی وجہ سے ان کی آنکھوں میں بھی کچھ غبارساپڑگیاہے اور ان کی فطرتی کمزوری اس نزلہ کو قبول کر گئی ہے.اسی وجہ سے وہ ایسے خیالات پر زور دیتے ہیں جن کا کوئی اصل صحیح حدیث و قرآن میں نہیں پایا جاتا ہاں یورپ کی اخلاقی کتابوں میں تو ضرور پایا جاتا ہے اور ا ن اخلاق میں یورپ نے یہاں تک ترقی کی ہے کہ ایک جوان عورت سے ایک نامحرم طالب کی بکلّی دل شکنی مناسب نہیں سمجھی گئی.مگر کیا قرآن شریف یورپ کے ان اخلاق سے اتفاق رائے کرتا ہے؟ کیا وہ ایسے لوگوں کا نام دیّوث نہیں رکھتا؟ میں ایسے علماء کو محض للہ متنبہ کرتا ہوں کہ وہ ایسی نکتہ چینیاں کرنے اور ایسے خیالات کو دل میں جگہ دینے سے حق اور حق بینی سے بہت دور جاپڑے ہیں اگر وہ مجھ سے لڑنے کو تیار ہوں تو اپنی خشک منطق سے جو چاہیں کہیں لیکن اگر وہ خدائے تعالیٰ سے خوف کر کے کسی قدرسوچیں تو یہ ایسی بات نہیں ہے جو ان کی نظر سے پوشیدہ رہ سکے نیک بخت تہذیب کے برخلاف ہے لیکن خدائے تعالیٰ نے قرآن شریف میں بعض کا نام ابو لہب اوربعض کانام کلب اور خنزیر کہا اور ابو جہل تو خود مشہور ہے ایسا ہی ولید (بن) مغیرہ کی نسبت نہایت درجہ کے سخت الفاظ جو بصورت ظاہر گندی گالیاں معلوم ہوتی ہیں استعمال کئے ہیں جیساکہ فرماتا ہے فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِيْنَ وَدُّوْا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُوْنَ وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِيْنٍۙ هَمَّازٍ مَّشَّآءٍۢ بِنَمِيْمٍۙ مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ اَثِيْمٍۙ عُتُلٍّ ۢ بَعْدَ ذٰلِكَ زَنِيْمٍۙ سَنَسِمُهٗ عَلَى الْخُـرْطُوْمِ.۱ دیکھو سورہ القلم الجزو نمبر ۲۹.یعنی تُو ان مکذّبوں کے کہنے پر مت چل جو بدل اس بات کے آرزو مند ہیں کہ ہمارے معبودوں کو بُرامت کہو اور ہمارے مذہب کی ہجو مت کرو تو پھر ہم بھی تمہارے مذہب کی نسبت ہاں میں ہاں ملاتے رہیں گے اور ان کی چرب زبانی کا خیال مت کر ویہ شخص جو مداہنہ کا خواستگار ہے جھوٹی قسمیں کھانے والااورضعیف الرائے اور ذلیل آدمی ہے دوسروں کے عیب ڈھونڈنے والا اورسخن چینی سے لوگوں میں تفرقہ ڈالنے والا اورنیکی کی ۱ القلم: ۹ تا ۱۷
انسان کا فرض ہے کہ سچائی کے طریقوں کو ہاتھ سے نہ دیوے بلکہ اگر ایک ادنیٰ سے ادنیٰ انسان کی زبان پر کلمہ حق جاری ہو اور اپنے آپ سے غلطی ہو جائے تو اپنی غلطی کا اقرار کر کے شکر گذاری کے ساتھ اس حقیر آدمی کی بات کو مان لیوے اور اَنَا خَیْرٌ مِنْہُ کا دعویٰ نہ کرے ورنہ تکبر کی حالت میں کبھی رشد حاصل نہیں ہوگا بلکہ ایسے آدمی کا ایما ن بھی معرض خطر میں ہی نظر آتا ہے.اور سخت الفاظ کے استعمال کرنے میں ایک یہ بھی حکمت ہے کہ خُفتہ دل اس سے بیدار ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں کے لئے جو مداہنہ کو پسند کرتے ہیں ایک تحریک ہو جاتی ہے مثلاً ہندوؤں کی قوم ایک ایسی قوم ہے کہ اکثر اُن میں سے ایسی عادت رکھتے ہیں کہ اگر ان کو اپنی طرف سے چھیڑانہ جائے تو وہ مداہنہ کے طور پر تمام عمر دوست بن کر دینی امور میں ہاں سے ہاں ملاتے رہتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف وتوصیف اور اس دین کے اولیاء کی مدح و ثنا کرنے لگتے ہیں لیکن دل اُن کے نہایت درجہ کے سیاہ راہوں سے روکنے والا زنا کار اور بایں ہمہ نہایت درجہ کا بدخلق اور ان سب عیبوں کے بعد ولدالزنا بھی ہے.عنقریب ہم اس کے اس ناک پر جو سُؤر کی طرح بہت لمبا ہوگیا ہے داغ لگادیں گے یعنی ناک سے مراد رسوم اور ننگ وناموس کی پابندی ہے جو حق کے قبول کرنے سے روکتی ہے(اے خدائے قادر مطلق ہماری قوم کے بعض لمبی ناک والوں کی ناک پر بھی اُسترہ رکھ) اب کیوں حضرت مولوی صاحب کیا آپ کے نزدیک ان جامع لفظوں سے کوئی گالی باہر رہ گئی ہے.اور اس جگہ ایک نہایت عمدہ لطیفہ یہ ہے کہ ولید (بن) مغیر ہ نے نرمی اختیار کر کے چاہا کہ ہم سے نرمی کابرتاؤ کیاجائے.اس کے جواب میں اس کے تمام پردے کھولے گئے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مومنین سے مداہنہ کی امید مت رکھو.منہ
اور سچائی سے دور ہوتے ہیں.اُن کے رُوبرو سچائی کو اُس کی پوری مرارت اور تلخی کے ساتھ ظاہر کرنا اس نتیجہ خیر کا منتج ہوتاہے کہ اُسی وقت اُن کا مداہنہ دور ہو جاتا ہے اور بالجہر یعنی واشگاف اور علانیہ اپنے کفر اور کینہ کو بیان کرنا شروع کردیتے ہیں گویا اُن کی دق کی بیماری محرقہ کی طرف انتقال کرجاتی ہے.سو یہ تحریک جو طبیعتوں میں سخت جوش پیداکردیتی ہے اگرچہ ایک نادان کی نظر میں سخت اعتراض کے لائق ہے مگر ایک فہیم آدمی بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ یہی تحریک رُوبحق کرنے کے لئے پہلا زینہ ہے.جب تک ایک مرض کے مواد مخفی ہیں تب تک اس مرض کا کچھ علاج نہیں ہو سکتالیکن مواد کے ظہور اور بروز کے وقت ہریک طور کی تدبیر ہو سکتی ہے.انبیا نے جو سخت الفاظ استعمال کئے حقیقت میں ان کا مطلب تحریک ہی تھا تا خلق اللہ میں ایک جوش پیدا ہو جائے اور خواب غفلت سے اس ٹھوکر کے ساتھ بیدار ہوجائیں اور دین کی طرف خوض اور فکر کی نگاہیں دوڑانا شروع کردیں اور اس راہ میں حرکت کریں گو وہ مخالفانہ حرکت ہی سہی اور اپنے دلوں کا اہل حق کے دلوں کے ساتھ ایک تعلق پیداکرلیں گو وہ عدوانہ تعلق ہی کیوں نہ ہو اسی کی طرف اللہ جلّشَانُہٗ اشارہ فرماتا ہے فِىْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌۙ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا ۱ یقیناسمجھنا چاہیئے کہ دین اسلام کو سچے دل سے ایک دن وہی لوگ قبول کریں گے جو بباعث سخت اور پُرزور جگانے والی تحریکوں کے کتب دینیہ کی ورق گردانی میں لگ گئے ہیں اور جوش کے ساتھ اس راہ کی طرف قدم اُٹھارہے ہیں گو وہ قدم مخالفانہ ہی سہی.ہندوؤں کا وہ پہلا طریق ہمیں بہت مایوس کرنے والا تھاجو اپنے دلوں میں وہ لوگ اس طرز کو زیادہ پسند کے لائق سمجھتے تھے کہ مسلمانوں سے کوئی مذہبی بات چیت نہیں کرنی چاہیئے اور ہاں میں ہاں ملا کر گذارہ کر لینا چاہیئے لیکن اب وہ مقابلہ پرآکر اور میدان میں کھڑے ہو کرہمارے تیز ہتھیاروں کے نیچے آپڑے ہیں اور اس صید قریب کی طرح ہو گئے جس کا ایک ہی ضرب سے کام تمام ہو سکتاہے اُن کی آہوانہ سرکشی سے ڈرنا نہیں چاہیئے ۱ البقرۃ:۱۱
دشمن نہیں ہیں وہ تو ہمارے شکار ہیں عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے کہ تم نظر اُٹھا کر دیکھو گے کہ کوئی ہندو دکھائی دے مگر ان پڑھوں لکھوں میں سے ایک ہندو بھی تمہیں دکھائی نہیں دے گا سو تم اُن کے جوشوں سے گھبرا کر نومید مت ہو کیونکہ وہ اندر ہی اندر اسلام کے قبول کرنے کے لئے تیاری کررہے ہیں اور اسلام کی ڈیوڑھی کے قریب آپہنچے ہیں.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو لوگ مخالفانہ جوش سے بھرے ہوئے آج تمہیں نظر آتے ہیں تھوڑے ہی زمانے کے بعد تم انہیں نہیں دیکھو گے.حال میں جو آریوں نے ہم لوگوں کی تحریک سے مناظرات کی طرف قدم اُٹھایا ہے تو اس قدم اُٹھانے میں گو کیسی ہی سختی کے ساتھ اُن کا برتاؤ ہے اور گو گالیوں اور گندی باتوں سے بھری ہوئی کتابیں وہ شائع کر رہے ہیں مگر وہ اپنے جوش سے درحقیقت اسلام کے لئے اپنی قوم کی طرف راہ کھول رہے ہیں اور ہماری تحریکات کا واقعی طور پر کوئی بدنتیجہ نہیں ہاں یہ تحریکات کوتہ نظروں کی نگاہ میں بد نما ہیں مگر کسی دن دیکھنا کہ یہ تحریکات کیوں کر بڑے بڑے سنگین دلو ں کو اس طرف کھینچ لاتی ہیں.یہ رائے کوئی ظنی اور شکی رائے نہیں بلکہ ایک یقینی اور قطعی امر ہے لیکن افسوس اُن لوگو ں پر جو خیر اور شر میں فرق نہیں کر سکتے اور شتا ب کاری کی راہ سے اعتراض کرنے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں خدائے تعالیٰ نے ہمیں مداہنہ سے تو صاف منع فرمایا ہے لیکن حق کے اظہار سے باندیشہ اس کی مرارت اور تلخی کے باز آجانا کہیں حکم نہیں فرمایا.فتدبروا ایّھا العلماء المستعجلون الا تقرؤن القراٰن مالکم کیف تحکمون.میر ے ایک مخلص دوست مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی جو نو تعلیم یافتہ جوان اور تربیت جدیدہ کے رنگ سے رنگین اور نازک خیال آدمی ہیں جن کے دل پر میرے محب صادق اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب کی مربیانہ اور اُستادانہ صحبت کا نہایت عمدہ بلکہ خارق عادت اثر پڑا ہوا ہے وہ بھی جو اَب قادیاں میں میرے ملنے کے لئے آئے وعدہ
فرما گئے ہیں کہ مَیں بھی تہذیب حقیقی کے بارے میں ایک رسالہ تالیف کر کے شائع کروں گا کیونکہ مولوی صاحب موصوف اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ در اصل تہذیب حقیقی کی راہ وہی راہ ہے جس پر انبیاء علیہم السلام نے قدم مارا ہے جس میں سخت الفاظ کا داروئے تلخ کی طرح گاہ گاہ استعمال کرنا حرام کی طرح نہیں سمجھا گیا بلکہ ایسے درشت الفاظ کا اپنے محل پر بقدرِ ضرورت و مصلحت استعمال میں لانا ہریک مبلغ اور واعظ کا فرض وقت ہے جس کے ادا کرنے میں کسی واعظ کا سُستی اور کاہلی اختیار کرنا اس بات کی نشانی ہے کہ غیراللہ کا خوف جو شرک میں داخل ہے اس کے دل پر غالب اور ایمانی حالت اس کی ایسی کمزور اور ضعیف ہے جیسے ایک کیڑے کی جان کمزور اور ضعیف ہوتی ہے سو میں اُس دوست کے لئے دعا کرتا ہوں کہ خدائے تعالیٰ اس تالیف کے ارادہ میں روح القدس سے اُس کی مدد فرماوے.میرے نزدیک بہتر ہے کہ وہ اپنے اس رسالہ کا نام تہذیب ہی رکھیں اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ میرے اس دوست کو یہ جوش ایک مولوی صاحب کے اعتراض سے پیدا ہوا ہے جو قادیاں کی طرف آتے وقت اتفاقاََ لاہور میں مل گئے تھے جنہوں نے اس عاجز کی نسبت اسی بار ہ میں اعترا ض کیا تھااے خداوند قادر مطلق اگرچہ قدیم سے تیری یہی عادت اور یہی سنت ہے کہ تو بچوں اور اُمیوں کو سمجھ عطا کرتا ہے اور اس دنیا کے حکیموں اور فلاسفروں کی آنکھوں اور دلوں پر سخت پردے تاریکی کے ڈال دیتاہے مگر میں تیری جناب میں عجز اور تضرع سے عر ض کرتا ہوں کہ ان لوگوں میں سے بھی ایک جماعت ہماری طرف کھینچ لا جیسے تُو نے بعض کو کھینچا بھی ہے اور ان کو بھی آنکھیں بخش اور کان عطا کر اور دل عنایت فرما تا وہ دیکھیں اور سُنیں اور سمجھیں اور تیری اس نعمت کا جو تُو نے اپنے وقت پر نازل کی ہے قدر پہچان کر اس کے حاصل کرنے کے لئے متوجہ ہو جائیں.اگر تُو چاہے تو تُو ایسا کر سکتاہے کیونکہ کوئی بات تیرے آگے اَن ہونی نہیں.آمین ثم آمین.
دوسری نکتہ چینی یہ ہے کہ مالیخولیا یا جنون ہو جانے کی وجہ سے مسیح موعودہونے کا دعویٰ کر دیا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ یُوں تو میں کسی کے مجنون کہنے یا دیوانہ نام رکھنے سے ناراض نہیں ہو سکتا بلکہ خوش ہوں.کیونکہ ہمیشہ سے ناسمجھ لوگ ہر ایک نبی اور رسول کا بھی اُن کے زمانہ میں یہی نام رکھتے آئے ہیں اور قدیم سے ربّانی مصلحوں کو قوم کی طرف سے یہی خطاب ملتا رہا ہے اور نیز اس وجہ سے بھی مجھے خوشی پہنچی ہے کہ آج وہ پیشگوئی پور ی ہوئی جو براھین میں طبع ہو چکی ہے کہ تجھے مجنون بھی کہیں گے لیکن حیرت تو اس بات میں ہے کہ اس دعوےٰ میں کون سے جنون کی علامت پائی جاتی ہے کون سی خلاف عقل بات ہے جس کی وجہ سے معترضین کو جنون ہوجانے کا شک پڑگیااس بات کا فیصلہ ہم معترضین کی ہی کانشنس اور عقل پر چھوڑتے ہیں اور اُن کے سامنے اپنے بیانات اور اپنے مخالفوں کی حکایات رکھ دیتے ہیں کہ ہم دونوں گروہ میں سے مجنون کون ہے اور عقل سلیم کس کی طرز تقریر کو مجانین کی باتوں کے مشابہ سمجھتی ہے اور کس کے بیانات کو قولِ موجَّہ قرار دیتی ہے.میرا بیان مسیح موعود کی نسبت جس کی آسمان سے اُترنے اور دوبار ہ دنیا میں آنے کی انتظار کی جاتی ہے جیسا کہ خدائے تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے میرے پر کھول دیا ہے یہ ہے کہ مسیح کے دوبارہ دنیا میں آنے کا قرآن شریف میں تو کہیں ذکر نہیں قرآن شریف تو ہمیشہ کے لئے اُس کو دنیا سے رخصت کرتا ہے البتہ بعض حدیثوں میں جو استعارات سے پُر ہیں مسیح کے دوبارہ دنیا میں آنے کے لئے بطور پیشگوئی بیان کیا گیا ہے سو ا ن حدیثوں کے سیاق و سباق سے ظاہر ہے کہ اس جگہ در حقیقت مسیح ابن مریم کا ہی دوبارہ دنیا میں آجانا ہرگز مراد نہیں ہے بلکہ یہ ایک لطیف استعارہ ہے جس سے مراد یہ ہے کہ کسی ایسے زمانہ میں جو مسیح ابن مریم کے زمانہ کا ہمرنگ ہوگا ایک شخص
اصلاح خلائق کے لئے دنیا میں آئے گاجو طبع اور قُوّت اور اپنے منصبی کام میں مسیح بن مریم کا ہمرنگ ہو گا اور جیساکہ مسیح بن مریم نے حضرت موسیٰ کے دین کی تجدید کی اور وہ حقیقت اور مغز توریت کا جس کو یہودی لوگ بھول گئے تھے اُن پر دوبارہ کھول دیا ایسا ہی وہ مسیح ثانی مثیل موسیٰ کے دین کی جو جناب ختم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تجدید کرے گااور یہ مثیل موسیٰ کا مسیح اپنی سوانح میں اور دوسرے تمام نتائج میں جو قوم پر ان کی اطاعت یا ان کی سرکشی کی حالت میں مؤثر ہوں گے اس مسیح سے بالکل مشابہ ہو گا جو موسیٰ کو دیا گیا تھا اب جو امر کہ خدائے تعالیٰ نے میرے پر منکشف کیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ مسیح موعود میں ہی ہوں.مسلمانوں کا پُرانے خیالات کے موافق جو اُن کے دلوں میں جمے ہوئے چلے آتے ہیں یہ دعویٰ ہے کہ مسیح بن مریم سچ مچ دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ دھرے ہوئے آسمان سے اُترے گا اور منارہ مشرقی دمشق کے پاس آٹھہرے گا اور بعض کہتے ہیں کہ منارہ پر اُترے گا اور وہاں سے مسلمان لوگ زینہ کے ذریعہ سے اس کو نیچے اُتاریں گے اور فرشتے اُسی جگہ سے رخصت ہو جائیں گے اور عمدہ پوشاک پہنے ہوئے اُترے گا یہ نہیں کہ ننگا ہو.اور پھر مہدی کے ساتھ ملاقات اور مزاج پُرسی ہو گی اور باوجود اس قدر مدت گزرنے کے وہی پہلی عمر بتیس ۳۲ یا تینتیس ۳۳ برس کی ہو گی اِس قدر گردش ماہ و سال نے اُس کے جسم و عمر پر کچھ اثر نہ کیا ہو گا اُس کے ناخن اور بال وغیرہ اس قدر سے نہ بڑھے ہوں گے جو آسمان پر اُٹھائے جانے کے وقت موجود تھے اور کسی قسم کا تغیر اس کے وجود میں نہ آیا ہوگا لیکن زمین پر اُتر کر پھر سلسلہ تغیر ا ت کا شروع ہوگا وہ کسی قسم کا جنگ و جدل نہیں کرے گا بلکہ اس کے مُنہ کی ہوا میں ہی ایسی تاثیر ہو گی کہ جہاں تک اس کی نظر پہنچے گی کافر مرتے جائیں گے یعنی اُس کے دَم میں ہی یہ خاصیّت ہو گی کہ زندوں کومارے جیسی پہلے یہ خاصیت تھی کہ مُردوں کو زندہ کرے.پھر ہمارے علماء اپنے اس پہلے قول کو فراموش کر کے یہ دوسرا قول جو اس کا نقیض ہے پیش کرتے ہیں کہ وہ جنگ اور جدل بھی کرے گا اور دجّال یک چشم
اس کے ہاتھ سے قتل ہو گا یہودی بھی اس کے حکم سے مارے جائیں گے.پھر ایک طرف تو یہ اقرار ہے کہ مسیح موعود وہی مسیح بن مریم نبی اللہ ہے جس پر انجیل نازل ہوئی تھی جس پر حضرت جبریل اُتراکرتا تھا جو خدائے تعالیٰ کے بزرگ پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر ہے اور دوسری طرف یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ دوبارہ زمین پر آکر اپنی نبوّت کا نام بھی نہیں لے گا بلکہ منصب نبوت سے معزول ہو کر آئے گا اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں داخل ہو کر عام مسلمانوں کی طرح شریعت قرآنی کا پابند ہوگا.نماز اَوروں کے پیچھے پڑھے گا جیسے عام مسلمان پڑھا کرتے ہیں بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ حنفی ہو گا امام اعظم صاحب کو اپنا امام سمجھے گا.مگر اب تک اس بارہ میں تصریح سے بیان نہیں کیا گیا کہ چار سلسلوں میں سے کس سلسلہ میں داخل ہو گا آیاوہ قادری ہو گا یا چشتی یا سہروردی یا حضرت مجدّد سرہندی کی طرح نقشبندی.غرض ان لوگوں نے عنوان میں نبوت کا خطاب جما کر جس درجہ پر پھر اُس کا تنزل کیا ہے کوئی قائم الحواس ایساکام کبھی نہیں کر سکتا پھر بعد اس کے اُس کے خاص کا م استعارات کو حقیقت پر حمل کر کے یہ بیان کئے گئے ہیں کہ وہ صلیب کو توڑے گاخنزیروں کو قتل کرے گا.اب جائے تعجب ہے کہ صلیب کو توڑنے سے اس کا کونسا فائدہ ہے ؟اور اگر اس نے مثلًا دس بیس لاکھ صلیب توڑ بھی دی تو کیا عیسائی لوگ جن کو صلیب پرستی کی دُھن لگی ہوئی ہے اور صلیبیں بنوا نہیں سکتے.اور دوسرا فقر ہ جو کہا گیا ہے کہ خنزیروں کو قتل کرے گا یہ بھی اگر حقیقت پر محمول ہے تو عجیب فقرہ ہے.کیا حضرت مسیح کا زمین پر اُترنے کے بعد عمدہ کام یہی ہو گا کہ وہ خنزیروں کا شکار کھیلتے پھریں گے اور بہت سے کتے ساتھ ہوں گے اگر یہی سچ ہے تو پھر سکھوں اور چماروں اور سانسیوں اور گنڈیلوں وغیرہ کو جو خنزیر کے شکار کو دوست رکھتے ہیں خوشخبری کی جگہ ہے کہ ان کی خوب بن آئے گی.مگر شاید عیسائیوں کو اُن کی اس خنزیر کشی سے کچھ چنداں فائدہ نہ پہنچ سکے کیونکہ عیسائی قوم نے خنزیر کے شکار کو پہلے ہی کمال تک پہنچا رکھا ہے بالفعل خاص لنڈن میں خنزیر کا گوشت فروخت کرنے کے لئے ہزار دُوکان
موجود ہے اور بذریعہ معتبر خبروں کے ثابت ہوا ہے کہ صرف یہی ہزار دوکان نہیں بلکہ پچیس ہزار اَور خنزیر ہر روز لنڈن میں سے مفصلات کے لوگوں کے لئے باہر بھیجا جاتا ہے اب سوال یہ ہے کہ کیا نبی اللہ کی یہی شان ہونی چاہیئے کہ وہ دنیا میں اصلاح خلق کے لئے تو آوے مگر پھر اپنی اوقات عزیز ایک مکروہ جانور خنزیر کے شکار میں ضائع کرے حالانکہ توریت کے رو سے خنزیر کو چھونا بھی سخت معصیت میں داخل ہے پھر میں یہ بھی کہتا ہوں کہ اول تو شکار کھیلنا ہی کار بیکاراں ہے اور اگر حضرت مسیح کو شکار ہی کی طرف رغبت ہو گی اور دن رات یہی کا م پسند آئے گا تو پھر کیا یہ پاک جانور جیسے ہرن اور گورخر اور خرگوش دنیا میں کیا کچھ کم ہیں تا ایک ناپاک جانور کے خو ن سے ہاتھ آلودہ کریں.اب میں نے وہ تمام خاکہ جو میری قوم نے مسیح کے ان سوانح کا کھینچ رکھا ہے جو دوبارہ زمین پر اُترنے کے بعد اُن پر گزریں گے پیش کر دیا ہے عقلمند اس پر غور کریں کہ کہاں تک اس میں خلاف قانون قدرت باتیں ہیں.کہاں تک اس میں اجتماع نقیضین موجود ہے.کہاں تک یہ شان نبوت سے بعید ہے ؟لیکن اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ یہ تمام ذخیرہ رطب و یابس کا صحیحین میں نہیں ہے.امام محمد اسمٰعیل بخاری رحمہ اللہ نے اس بارہ میں اشارہ تک بھی نہیں کیا کہ یہ مسیح آنے والا درحقیقت اور سچ مچ وہی پہلا مسیح ہو گا بلکہ انہوں نے دو حدیثیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طر ف سے ایسی لکھی ہیں جنھوں نے فیصلہ کر دیا ہے کہ مسیح اوّل اَور ہے اور مسیح ثانی اَور ہے کیونکہ ایک حدیث کا مضمون یہ ہے کہ ابن مریم تم میں اُترے گا اور پھر بیان کے طور پر کھول دیا ہے کہ وہ ایک تمھار ا امام ہو گا جو تم میں سے ہی ہو گا.پس ان لفظوں پر خوب غور کرنی چاہیئے جو آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم لفظ ابن مریم کی تصریح میں فرماتے ہیں کہ وہ ایک تمہاراامام ہو گا جو تم میں سے ہی ہو گا اور تم میں سے ہی پیداہو گا گویاآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وہم کو دفع کرنے کے لئے جو ابن مریم کے لفظ سے دلوں میں گذر سکتا تھاما بعد کے لفظوں میں بطور تشریح فرما دیا کہ اُس کو سچ مچ ابن مریم ہی نہ سمجھ لو بل ھُو
امامکم منکم اور دوسری حدیث جو اس بات کا فیصلہ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ مسیح اوّل کا حُلیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اَور طرح کا فرمایا ہے اور مسیح ثانی کا حُلیہ اَور طور کا ذکر کیا ہے جو اس عاجزکے حُلیہ سے بالکل مطابق ہے.اب سوچنا چاہیئے کہ ان دونوں حُلیوں میں تناقض صریح ہونا کیا اس بات پر پختہ دلیل نہیں ہے کہ درحقیقت مسیح اول اَور ہے اور مسیح ثانی اَور.ایک اَور بات قابل توجہ یہ ہے کہ ہمارے علماء کی ضد تو اس بات پر ہے کہ ابن مریم کے اُترنے کے بارہ میں جو حدیث ہے اس کو حقیقت پر حمل کرنا چاہیئے لیکن ان کے بعض عقلمندوں سے جب اس حدیث کے معنے پوچھے جائیں کہ ابن مریم اُترے گا اور صلیب کو توڑ ے گا اور خنزیر کو قتل کرے گا تو ابن مریم کے لفظ کو تو حقیقت پر ہی حمل رکھتے ہیں اور صلیب اور خنزیر کے بارہ میں کچھ دبی زبان سے ہماری طرح استعارہ اور مجاز سے کام لینا شروع کر دیتے ہیں.پس وہ لوگ اپنی اس کارروائی سے خود ملزم ٹھہرتے ہیں کیونکہ اس صورت میں اُن پر یہ حجت وارد ہوتی ہے کہ اِن تین لفظوں میں سے جو ابن مریم کااُترنا اور صلیب کا توڑنا اور خنزیروں کا قتل کرنا ہے دو لفظوں کی نسبت تو تم آپ ہی قائل ہو گئے کہ بطور استعارہ ان سے اور معنے مراد ہیں تو پھر یہ تیسرا کلمہ جو ابن مریم کا اُترنا ہے کیوں اس میں بھی بطور استعارہ کوئی اور شخص مراد نہیں ؟ اب میں پوچھتا ہوں کہ کیا ان خیالات مجموعہ تناقضات پر جمے رہنا طریق عقلمندی و فرزانگی ہے یا وہ معارف قریب بفہم و مطابق عقل ہیں جو اس عاجز پر کھولے گئے ہیں.ماسوا اس کے اَور کئی طریق سے اُن پرانے خیالات پر سخت سخت اعتراض عقل کے وارد ہوتے ہیں جن سےَ مخلصی حاصل کر نے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی.ازانجملہ ایک یہ ہے کہ قرآن شریف کے کسی مقام سے ثابت نہیں کہ حضرت مسیح اِسی خاکی جسم کے ساتھ آسمان کی طرف اُٹھائے گئے بلکہ قرآن شریف کے کئی مقامات میں مسیح کے فوت ہوجانے کا صریح ذکر ہے اور ایک جگہ خود مسیح کی طرف سے فوت ہوجانے کا اقرار موجود ہے
اور وہ یہ ہے.كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِىْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْؕ وَاَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ شَهِيْدٌ ۱ اب جب کہ فوت ہوجانا ثابت ہوا تو اس سے ظاہر ہے کہ اُن کا جسم اُن سب لوگوں کی طرح جو مرجاتے ہیں زمین میں دفن کیا گیا ہوگا کیونکہ قرآن شریف بصراحت ناطق ہے کہ فقط اُن کی روح آسمان پر گئی نہ کہ جسم.تب ہی تو حضرت مسیح نے آیت موصوفہ بالا میں اپنی موت کا صاف اقرار کر دیا اگر وہ زندوں کی شکل پر خاکی جسم کے ساتھ آسمان کی طرف پرواز کرتے تو اپنے مرجانے کا ہرگز ذکر نہ کرتے اور ایسا ہرگز نہ کہتے کہ میں وفات پا کر اس جہان سے رخصت کیا گیا ہوں.اب ظاہر ہے کہ جبکہ آسمان پر اُن کی روح ہی گئی تو پھر نازل ہونے کے وقت جسم کہاں سے ساتھ آجائے گا.ازانجملہ ایک یہ اعتراض ہے کہ نیا اور پُرانا فلسفہ بالاتفاق اس بات کو محال ثابت کرتا ہے کہ کوئی انسان اپنے اس خاکی جسم کے ساتھ کُرَّۂ زَمْہَرِیْر تک بھی پہنچ سکے بلکہ علم طبعی کی نئی تحقیقاتیں اس بات کو ثابت کر چکی ہیں کہ بعض بلند پہاڑوں کی چوٹیوں پر پہنچ کر اس طبقہ کی ہوا ایسی مُضرِّ صحت معلوم ہوئی ہے کہ جس میں زندہ رہنا ممکن نہیں.پس اس جسم کا کُرَّۂ ماہتاب یا کُرَّۂ آفتاب تک پہنچنا کس قدر لغو خیال ہے * *حاشیہ اس جگہ اگر کوئی اعتراض کرے کہ اگر جسم خاکی کا آسمان پر جانا محالات میں سے ہے تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج اس جسم کے ساتھ کیوں کر جائز ہوگا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ سیر معراج اس جسم کثیف کے ساتھ نہیں تھا بلکہ وہ نہایت اعلیٰ درجہ کا کشف تھاجس کو درحقیقت بیداری کہنا چاہیئے.ایسے کشف کی حالت میں انسان ایک نوری جسم کے ساتھ حسب استعداد نفس ناطقہ اپنے کے آسمانوں کی سیر کر سکتا ہے پس چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نفس ناطقہ کی اعلیٰ درجہ کی استعداد تھی اور انتہائی نقطہ تک پہنچی ہوئی تھی اس لئے وہ اپنی معراجی سیر میں معمورہ عالم کے انتہائی نقطہ تک جوعرش عظیم سے تعبیر کیا جاتا ہے پہنچ گئے سو درحقیقت یہ سیر کشفی تھا جو بیداری سے اشد درجہ پر مشابہ ہے بلکہ ایک قسم کی بیداری ہی ہے.میں اس کانام خواب ہرگز نہیں رکھتا اور نہ کشف کے ادنیٰ درجوں میں سے اس کو سمجھتا ہوں بلکہ یہ کشف کا بزرگ ترین مقام ہے جو درحقیقت بیداری بلکہ اس کثیف بیداری سے یہ حالت زیادہ اصفٰی اوراجلٰی ہوتی ہے اور اس قسم کے کشفوں میں مؤلف خود صاحب تجربہ ہے.اس جگہ زیادہ لکھنے کی گنجائش نہیں.انشاء اللہ کسی اَور محل میں مفصل طورپر بیان کیاجائے گا.منہ
ازانجملہ ایک یہ اعتراض ہے کہ جو لوگ آسمانوں کے وجود کے قائل ہیں وہ البتہ اُن کی حرکت کے بھی قائل ہیں اور حرکت بھی دولابی خیال کرتے ہیں اب اگر فرض کیا جائے کہ حضرت مسیح جسم خاکی کے ساتھ آسمان پر گئے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ ہر وقت اُوپر کی سمت میں ہی نہیں رہ سکتے بلکہ کبھی اُوپر کی طرف ہوں گے اور کبھی زمین کے نیچے آ جا ئیں گے اس صورت میں اس بات پر وثوق بھی نہیں ہو سکتاہے کہ وہ ضرور اُوپر کی ہی طرف سے اُتریں گے کیا یہ ممکن نہیں کہ زمین کے نیچے سے ہی نکل آویں کیونکہ درحقیقت اُن کا ٹھکانہ تو کسی جگہ نہ ہوا اگر صبح آسمان کے اُوپر ہوئے تو شام کو زمین کے نیچے.پس ایسی مصیبت اُن کے لئے روا رکھنا کس درجہ کی بے ادبی میں داخل ہے.ازانجملہ ایک یہ اعتراض کہ اگر ہم فرض محال کے طور پرقبول کر لیں کہ حضرت مسیح اپنے جسم خاکی کے سمیت آسمان پر پہنچ گئے تو اس بات کے اقرار سے ہمیں چار ہ نہیں کہ وہ جسم جیساکہ تمام حیوانی و انسانی اجسام کے لئے ضروری ہے آسمان پر بھی تاثیر زمانہ سے ضرور متاثر ہو گا اور بمرور زمانہ لابدی اور لازمی طور پر ایک دن ضرور اس کے لئے موت واجب ہو گی پس اس صورت میں اول تو حضرت مسیح کی نسبت یہ ماننا پڑتا ہے کہ اپنی عمر کا دورہ پوراکر کے آسمان ہی پر فوت ہو گئے ہوں اور کواکب کی آبادی جو آج کل تسلیم کی جاتی ہے اُسی کے کسی قبرستان میں دفن کئے گئے ہوں اور اگر پھر فرض کے طور پراب تک زندہ رہنا اُن کا تسلیم کر لیں تو کچھ شک نہیں کہ اتنی مدت گزرنے پر پِیر فَرتوت ہو گئے ہوں گے اور اس کام کے ہرگز لائق نہیں ہوں گے کہ کوئی خدمت دینی اداکر سکیں پھر ایسی حالت میں اُن کا دنیا میں تشریف لانا بجُز ناحق کی تکلیف کے اور کچھ فائدہ بخش معلوم نہیں ہوتا.
وہ علامات جو مسیح نے استعارہ کے طورپر اپنے آنے کے بیان کئے ہیں اور نیز سورۃ الزلزال کی تفسیر مسیح نے اپنے دوبارہ آنے کا نشان یہ بتلایا ہے کہ اُن دنوں میں تُرت سورج اندھیرا ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہیں دے گا اور ستارے آسمان سے گر جائیں گے اور آسمان کی قوتیں ہل جائیں گی تب ابن آدم کا نشان آسمان پر ظاہر ہو گا اور ابن آدم کوبڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آ تے دیکھیں گے اور وہ نرسنگے کے بڑے شور کے ساتھ اپنے فرشتوں کو بھیجے گا اور وَے اُس کے برگزیدوں کو چاروں طرف سے آسمان کی اِس حد سے اُس حد تک جمع کریں گے جب تم یہ سب کچھ دیکھو تو جانو کہ وہ نزدیک بلکہ دروازہ پر ہے میں تمہیں سچ سچ کہتا ہو ں کہ جب تک یہ سب کچھ ہو نہ لے اِس زمانہ کے لوگ گذرنہ جائیں گے آسمان و زمین ٹل جائیں گے پر میری باتیں ہرگز نہ ٹلیں گی لیکن اُس دن اور اُس گھڑی کو میرے باپ کے سوا آسمان کے فرشتوں تک کوئی نہیں جانتا جیسا نوح کے دنوں میں ہوا ویسا ہی ابن آدم کا آنا بھی ہو گا کیونکہ جس طرح اُن دنوں میں طوفان کے پہلے کھاتے پیتے بیاہ کرتے بیاہے جاتے تھے اس دن تک کہ نوح کشتی پر چڑھا اور نہ جانتے تھے جب تک کہ طوفان آیا اور اُن سب کو لے گیا اِسی طرح ابن آدم کا آنابھی ہو گا یعنی جس طرح کہ نوح کی کشتی بنانے سے پہلے لوگ امن اور آرام سے بستے تھے کوئی ارضی یا سماوی حادثہ اُن پر وارد نہ تھااسی طرح ابن آدم یعنی مسیح بھی لوگوں کے آ رام اور خوشحالی کے وقت میں آئے گا اُس کے آنے سے پہلے کسی قسم کا حادثہ لوگوں پر نازل نہیں ہو گا بلکہ معمولی طور پر امن اور راحت سے دنیا اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو گی دیکھو متی باب ۲۴.حضرت مسیح کے اِس بیان میں بظاہر صورت جس قدر تناقض ہے ناظرین نے سمجھ لیا ہو گا کیونکہ اُنہوں نے اپنے اُترنے سے پہلے اس امر کو ضروری ٹھہرایا ہے کہ سورج اندھیرا ہو جائے اور
چاند روشنی نہ دیوے اور ستارے آسمان کے زمین پر گر جائیں.سو اِن علامات کو اگر ظاہر پر حمل کیا جائے تو یہ معنے بدیہی البطلان ہیں کیونکہ جس وقت سور ج اندھیراہو گیا اور چاندکی روشنی جاتی رہی تو پھر دنیا کیوں کر نوح کے زمانے کی طرح امن سے آباد رہ سکتی ہے بھلا یہ بھی جانے دو شاید دنیا سخت مصیبت کے ساتھ گذارہ کر سکے لیکن زمین پر ستاروں کے گرنے سے کیا زمین کے باشندوں میں سے کوئی باقی رہ سکتا ہے سچ تو یہ ہے کہ اگر آسمان کا ایک بھی ستارہ زمین پر گرے تو تمام دنیا کے ہلاک کرنے کے لئے کافی ہے کیونکہ کوئی ستارہ عرض طول میں زمین کے معمورہ سے کم نہیں ہے ایک ستارہ گر کر زمین کی تمام آبادی کو دبا سکتا ہے چہ جائیکہ تمام ستارے زمین پر گریں اور اُن کے گرنے سے ایک آدمی کو بھی آسیب نہ پہنچے بلکہ حضرت نوح کے زمانہ کی طرح مسیح کے اُترنے سے پہلے امن اور جمعیت سے آباد ہوں اور مسیح کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں.سو اے حق کے طالبو! یقینًا سمجھو کہ یہ سب استعارات ہیں حقیقت پر ہرگز محمول نہیں حضرت مسیح کا مطلب صرف اتنا ہے کہ وہ دین کے لئے ایک تاریکی کا زمانہ ہو گااور ایسی ضلالت کی تاریکی ہو گی کہ اُس وقت نہ آفتاب کی روشنی سے جو رسول مقبول اور اس کی شریعت اور اس کی کتاب ہے لوگ آنکھیں کھولیں گے کیونکہ اُن کے نفسانی حجابوں کی وجہ سے آفتاب شریعت ان کے لئے اندھیرا ہو جائے گا اور ماہتاب بھی انہیں روشنی نہیں دے گا یعنی اولیا کے وجود سے بھی انہیں کچھ فائدہ نہ ہوگا کیونکہ بے دینی کے بڑھ جانے سے مردانِ خدا کی محبت بھی اُن کے دلوں میں نہیں رہے گی اور آسمان کے ستارے گریں گے یعنی حقّانی علماء فوت ہوجائیں گے اور آسمان کی قوتیں ہل جائیں گی یعنی آسمان اُوپر کی طرف کسی کو کھینچ نہیں سکے گا.دن بدن لوگ زمین کی طرف کھینچے چلے جائیں گے یعنی لوگوں پر نفس امّارہ کے جذبات غالب ہوں گے اُس وقت نہ لڑائیاں ہوں گی اور نہ عامہ خلائق کے امن اور عافیت میں خلل ہوگا بلکہ نوح کے زمانہ کی طرح ایک امن بخش گورنمنٹ
کے تحت میں * وہ لوگ زندگی بسر کرتے ہوں گے جن میں مسیح موعود نازل ہوگا.یاد رکھنا چاہیئے کہ حضرت نوح کا زمانہ باعتبار اپنی معاشرت کے اصولوں کے نہایت امن کا زمانہ تھا لوگ اپنی لمبی لمبی عمروں کو نہایت آسائش اور امن اور خیر و عافیت سے بسر کر رہے تھے.اسی وجہ سے لوگ سخت درجہ کے غافل ہوگئے تھے معلوم نہیں کہ اُس وقت کوئی شخصی سلطنت تھی یا جمہوری اتفاق سے اس درجہ پر عامہ خلائق کے لئے ہر طرح سے آسودگی پیدا ہوگئی تھی بہرحال اس زمانہ کے لوگ آرام پانے میں اور امن و عافیت میں زندگی بسر کرنے میں اس زمانہ کے اُن لوگوں سے بہت مشابہ ہیں جوگورنمنٹ برطانیہ کے سایۂ عاطفت کے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں گورنمنٹ کی طرف سے جس قدر اسباب آرام اور امن اور خوشحالی کے رعیت کے لئے مہیّا کئے گئے ہیں اُن کا شمار کرنا مشکل ہے گویا اُن کی اس زند گی کو ایک نمونہ بہشت کا بنادیا گیا ہے لیکن غایت درجہ کے آرام پانے سے اور نہایت درجہ کے امن کی وجہ سے یہ آفت دلوں میں پیدا ہو گئی ہے کہ دنیا کی زندگی نہایت شیریں متصور ہو کر دن بدن اس کی محبت دلوں میں بڑھتی جاتی ہے جس طرف نظر ڈال کر دیکھو یہی خواہش جوش مار رہی ہے کہ دنیا کی یہ مراد حاصل ہو جائے وہ مراد حاصل ہو جائے اور بباعث امن پھیل جانے کے دنیاکی ہریک چیز کا قدر بڑھتا جاتاہے.وہ مزروعہ زمین جس کو سکھوں کے عہد میں کوئی مفت بھی نہیں لے سکتا تھا لاکھوں روپیوں پر فروخت ہو رہی ہے اور یہاں تک مفاد کی راہیں کھل گئی ہیں کہ لوگ * حاشیہ میر ا یہ دعویٰ ہے کہ تمام دنیا میں گورنمنٹ برطانیہ کی طرح کوئی دوسری ایسی گورنمنٹ نہیں جس نے زمین پر ایسا امن قائم کیا ہو مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو کچھ ہم پوری آزاد ی سے اس گورنمنٹ کے تحت میں اشاعتِ حق کر سکتے ہیں یہ خدمت ہم مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ میں بیٹھ کر بھی ہرگز بجا نہیں لا سکتے اگر یہ امن اورآزادی اور بے تعصبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت عرب میں ہوتی تو وہ لوگ ہرگز تلوار سے ہلاک نہ کئے جاتے اگریہ امن اور آزادی اور بے تعصبی اُس وقت کے قیصر اور کسریٰ کی گورنمنٹوں میں ہوتی تو وہ بادشاہتیں اب تک قائم رہتیں.منہ
نجاست اور ہڈیوں کی فروخت سے وہ فوائد حاصل کرتے ہیں کہ اس سے پہلے زمانوں میں اعلیٰ درجہ کے غلوں کی فروخت میں وہ فوائد حاصل نہیں ہو سکتے تھے اور نہ صرف یہی آرام کی صورتیں ہیں بلکہ نظر اُٹھا کر دیکھو تو تمام اسباب معاشرت و حاجات سفر و حضر کے متعلق وہ آرام کی سبیلیں نکل آئی ہیں جو اس سے پہلے وقتوں میں شاید کسی نے خواب میں بھی نہ دیکھی ہوں گی پس اس مبار ک گورنمنٹ کے زمانہ کو اگر اُس امن کے زمانہ میں۱ سے مشابہت دیں جو حضرت نوح کے وقت میں تھا تو یہ زمانہ بلاوجہ۲ اس کا مثیل غالب ہو گا.اب جب کہ یہ ثابت ہو چکا کہ سچے مسیح نے اُس زمانہ میں آنے کا ہرگز وعدہ نہیں کیا جو جنگ و جدل اور جو روجفاکا زمانہ ہو جس میں کوئی شخص امن سے زندگی بسر نہ کر سکے اور نیک لوگ پکڑیں جائیں اور عدالتوں میں سپُرد کئے جائیں اور قتل کئے جائیں بلکہ مسیح نے صاف لفظوں میں فرما دیاکہ اُن پُر فتنہ زمانوں میں جھوٹے مسیح عیسائیوں اور یہودیوں میں پیدا ہوں گے جیساکہ اُن پہلے زمانوں میں کئی لوگ ایسے پیدابھی ہو چکے ہیں جنہوں نے مسیح ہونے کا دعویٰ کیا تھا اِسی وجہ سے مسیح نے تاکید سے کہا کہ میرا آنا اُن اوائل زمانوں میں ہرگزنہیں ہو گا اور شور اور فساد اور جورو جفااور لڑائیوں کے دنوں میں ہرگز نہیں آؤں گا بلکہ امن کے دنوں میں آؤں گا ہاں اس وقت بباعث غایت درجہ کے امن و آرام کے بے دینی پھیلی ہوئی ہو گی اور محبت الٰہی دلوں سے اُٹھی ہوئی ہو گی جیساکہ نوح کے وقت میں تھا سو یہ ایک نہایت عمدہ نشان ہے جو مسیح نے اپنے آنے کے لئے پیش کیا ہے اگرچاہو تو اس کو قبول کر سکتے ہو.اِس جگہ اس سوال کا حل کرنا بھی ضروری ہے کہ مسیح کس عمدہ اور اہم کام کے لئے آنے والا ہے.اگر یہ خیال کیا جائے کہ دجّال کے قتل کرنے کے لئے آئے گا تو یہ خیال نہایت ضعیف اور بودا ہے.کیونکہ صرف ایک کافر کا قتل کرنا کوئی ایسا بڑا کام نہیں جس کے لئے ایک نبی کی ضرورت ہو خاص کر اس صورت میں کہ کہا گیا ہے کہ اگر مسیح قتل بھی نہ کرتا تب بھی دجّال خود بخود پگھل کر نابود ہو جاتا.بلکہ سچ تو یہ ہے کہ مسیح کا آنا اس لئے خدائے تعالیٰ کی طرف سے
مقرر کیا گیا ہے کہ تا تمام قوموں پر دین اسلام کی سچائی کی حجت پوری کرے تا دنیاکی ساری قوموں پر خدائے تعالیٰ کا الزام وارد ہو جائے.اِسی کی طرف اشار ہ ہے کہ جو کہا گیا ہے کہ مسیح کے دم سے کافر مریں گے یعنی دلائل بیّنہ اور بَراہین قاطعہ کی رُو سے وہ ہلاک ہو جائیں گے.دوسرا کام مسیح کا یہ ہے کہ اسلام کوغلطیوں اور الحاقاتِ بے جا سے منزّہ کر کے وہ تعلیم جو روح اور راستی سے بھری ہوئی ہے خلق اللہ کے سامنے رکھے.تیسرا کام مسیح کا یہ ہے کہ ایمانی نور کو ۱دنیا کی تمام قوموں کے مستعد دلوں کو بخشے اور منافقوں کو مخلصوں سے الگ کر دیوے.سو یہ تینوں کام خدائے تعالیٰ نے اس عاجزکے سپُرد کئے ہیں اور حقیقت میں ابتدا سے یہی مقرر ہے کہ مسیح اپنے وقت کا مجدد ہو گا اور اعلیٰ درجہ کی تجدید کی خدمت خدائے تعالیٰ اُس سے لے گا اور یہ تینوں امور وہ ہیں جو خدائے تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے جو اس عاجز کے ذریعہ سے ظہور میں آویں سو وہ اپنے ارادہ کو پوراکرے گا اور اپنے بندہ کامددگار ہو گا.اگر یہ کہا جائے کہ احادیث صاف اور صریح لفظوں میں بتلا رہی ہیں کہ مسیح ابن مریم آسمان سے اُترے گا اور دمشق کے منارہ شرقی کے پاس اُس کا اُترنا ہو گا اور دوفرشتوں کے کندھوں پر اُس کے ہاتھ ہوں گے تو اس مصرّ ح اور واضح بیان سے کیوں کر انکار کیا جائے؟اس کا جواب یہ ہے کہ آسمان سے اُترنا اس بات پر دلالت نہیں کرتاکہ سچ مچ خاکی وجود آسمان سے اُترے بلکہ صحیح حدیثوں میں تو آسمان کا لفظ بھی نہیں ہے اور یوں تو نزول کا لفظ عام ہے جو شخص ایک جگہ سے چل کر دوسری جگہ ٹھہرتا ہے اس کو بھی یہی کہتے ہیں کہ اُس جگہ اُترا ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں جگہ لشکر اُترا ہے یا ڈیرا اُترا ہے کیا اس سے یہ سمجھا جاتاہے کہ وہ لشکر یا وہ ڈیرا آسمان سے اُتراہے ماسوائے اس کے خدائے تعالیٰ نے تو قرآن شریف میں صاف فرما دیاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی آسمان سے ہی اُترے ہیں بلکہ ایک جگہ فرمایا ہے کہ لوہا بھی ہم نے آسمان سے اُتاراہے.پس صاف ظاہر ہے کہ یہ آسمان سے اُترنا اُس
صورت اور رنگ کا نہیں ہے جس صورت پر لوگ خیال کر رہے ہیں اورباوجود عام طور پر استعارات کے پائے جانے کے جن سے حدیثیں پُر ہیں.اور مکاشفات اوررویاءِ صالحہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُن سے بھری پڑی ہیں.پھر دمشق کے لفظ سے دمشق ہی مراد رکھنا دعویٰ بلا دلیل و التزام مالایلزم ہے *.اور یہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ خدائے تعالیٰ کی پیشگوئیوں میں بعض امور کا اخفا اور بعض کا اظہارہو تا ہے اور ایسا ہونا شاذونادر ہے کہ من کل الوجوہ اظہارہی ہو کیونکہ پیشگوئیوں میں حضرت باری تعالیٰ کے ارادہ میں ایک قسم کی خلق اللہ کی آزمائش بھی منظور ہوتی ہے اور اکثر پیشگوئیاں اس آیت کا مصداق ہوتی ہیں کہ ۱ يُضِلُّ بِهٖ ڪَثِيْرًا وَّيَهْدِىْ بِهٖ كَثِيْرًا اسی وجہ سے ہمیشہ ظاہر پرست لوگ امتحان میں پڑ کر پیشگوئی کے ظہور کے وقت دھوکا کھاجاتے ہیں اور زیادہ تر انکار کرنے والے اور حقیقت مقصودہ سے بے نصیب رہنے والے وہی لوگ ہوتے ہیں کہ جو چاہتے ہیں کہ حرف حر ف پیشگوئی کا ظاہری طور پر جیساکہ سمجھا * حاشیہ استعا رات جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکاشفات اور خوابوں میں پائے جاتے ہیں وہ حدیثوں کے پڑھنے والوں پر مخفی اور پوشیدہ نہیں ہیں کبھی کشفی طورپر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہاتھوں میں دو سونے کے کڑے پہنے ہوئے دکھائی دئے اور اُن سے دوکذّاب مراد لئے گئے جنہوں نے جھوٹے طور پر پیغمبری کا دعویٰ کیا تھا اور کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی رؤیا اور کشف میں گائیاں ذبح ہوتی نظر آئیں اور ان سے مراد وہ صحابہ تھے جو جنگِ اُحد میں شہید ہوئے اور ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ ایک بہشتی خوشہ انگور ابوجہل کے لئے آپکو دیا گیا ہے تو آخر اُس سے مراد عکرمہ نکلا اور ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کشفی طورپر نظر آیا کہ گویا آپ نے ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کی ہے کہ وہ آپ کے خیال میں یمن ۲ تھا.مگر درحقیقت اس زمین سے مراد مدینہ منورہ تھا.ایسا ہی بہت سی نظیریں دوسرے انبیاء کے مکاشفات میں پائی جاتی ہیں کہ بظاہر صورت اُن پر کچھ ظاہر کیا گیا اور دراصل اس سے مراد کچھ اَور تھا سو انبیا کے کلمات میں استعارہ اور مجاز کا دخل ہونا کوئی شاذ ونادر امر نہیں ہے
گیاہو پورا ہو جائے حالانکہ ایساہرگز نہیں ہوتا مثلًا مسیح کی نسبت بعض بائیبل کی پیشگوئیوں میں یہ درج تھا کہ وہ بادشاہ ہو گا لیکن چونکہ مسیح غریبوں اور مسکینوں کی صورت پر ظاہر ہوا اس لئے یہودیو ں نے اس کو قبول نہ کیا اور اِس ردّ اور انکار کی وجہ صرف الفاظ پرستی تھی کہ انہوں نے بادشاہت کے لفظ کو فقط ظاہر پر محمول کر لیا.ایسا ہی حضرت موسیٰ کی توریت میں ہمارے سیّد و مولیٰ محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ پیشگوئی درج تھی کہ وہ بھی بنی اسرائیل میں سے اور اُن کے بھائیوں میں سے پیدا ہو گا اس لئے یہودی لوگ اس پیشگوئی کا منشا یہی سمجھتے رہے کہ وہ بنی اسرائیل میں سے پیدا ہو گا حالانکہ بنی اسرائیل کے بھائیوں سے بنی اسماعیل مراد ہیں خدائے تعالیٰ قادر تھا کہ بجائے بنی اسرائیل کے بھائیو ں کے بنی اسماعیل ہی لکھ دیتا بقیہ حاشیہ.اور نہ کوئی ایسی بات ہے کہ جو تصنّع اور بناوٹ سے گھڑنی پڑتی ہے بلکہ یہ عادت انبیاء کی شائع متعارف ہے کہ وہ روح القدس سے پُر ہو کر مثالوں اور استعاروں میں بولا کرتے ہیں اور وحی الٰہی کو یہی طرز پسند آئی ہوئی ہے کہ اِس جسمانی عالم میں جو کچھ آسمان سے اُتارا جاتا ہے اکثر اس میں استعارات ومجازات پُر ہوتے ہیں عام طور پر جو ہرایک فرد بشر کو کوئی نہ کوئی سچی خواب آجاتی ہے جو نبوت کا چھیالیسواں ۴۶ حصہ بیان کی گئی ہے اُس کے اجزاپر بھی اگر نظر ڈال کر دیکھو تو شاذو نادر کوئی ایسی خواب ہو گی جو استعارات اور مجازات سے بکلی خالی ہو.اب یہ بھی جاننا چاہیئے کہ دمشق کا لفظ جو مسلم کی حدیث میں وارد ہے یعنی صحیح مسلم میں یہ جو لکھا ہے کہ حضرت مسیح دمشق کے منارہ سفید شرقی کے پاس اُتریں گے یہ لفظ ابتدا سے محقق لوگوں کو حیران کرتا چلا آیا ہے کیونکہ بظاہر کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ مسیح کو دمشق سے کیا مناسبت ہے اور دمشق کو مسیح سے کیا خصوصیت.ہاں اگر یہ لکھا ہوتا کہ مسیح مکّہ معظمہ میں اُترے گا یا مدینہ منورہ میں نازل ہوگا تو ان ناموں کا ظاہرپر حمل کرنا موزوں بھی ہوتا.کیونکہ مکّہ معظمہ خانہ خدا کی جگہ اور مدینہ منورہ رسول اللہ کا پا یہ تخت ہے مگر دمشق میں توکوئی ایسی خوبی کی بات نہیں جس کی وجہ سے تمام امکنہ متبرکہ چھوڑکر نزول کے لئے صرف دمشق کو مخصوص کیاجائے.اِس جگہ بلاشبہ استعارہ کے طور پر کوئی مرادی معنے مخفی ہیں جو ظاہر نہیں کئے گئے اور یہ عاجز ابھی اس بات کی تفتیش کی طرف متوجہ نہیں ہواتھا کہ وہ معنے کیا ہیں کہ اسی اثناء میں میرے ایک دوست
تاکروڑ ہا آدمی ہلاکت سے بچ جاتے مگراُس نے ایسانہیں کیا کیونکہ اس کو ایک عقدہ درمیان میں رکھ کرصادقوں اور کاذبوں کا امتحان منظور تھااِسی بناپر اور اِسی مدعاکی غرض سے تمثیل کے پیرایہ میں یا استعارہ کے طور پر بہت باتیں ہوتی ہیں جن پر نظر ڈالنے والے دوگروہ ہو جاتے ہیں ایک وہ گروہ جو فقط ظاہر پرست اور ظاہر بین ہوتاہے اور استعارات سے بکلی منکر ہو کر اُن پیشگوئیوں کے ظہور کو ظاہری صورت میں دیکھنا چاہتا ہے.یہ وہ گروہ ہے کہ جو وقت پر حقیقتِ حقّہ کے ماننے سے اکثر بے نصیب اور محروم رہ جاتا ہے بلکہ سخت درجہ کی عداوت اور بقیہ حاشیہ.اور محب واثق مولوی حکیم نور الدین صاحب اس جگہ قادیان میں تشریف لائے اور انہوں نے اس بات کے لئے درخواست کی کہ جو مسلم کی حدیث میں لفظ دمشق و نیز اور ایسے چند مجمل الفاظ ہیں اُن کے انکشاف کے لئے جناب الٰہی میں توجہ کی جائے لیکن چونکہ ان دنوں میں میری طبیعت علیل اور دماغ ناقابل جدوجہد تھا اس لئے میں اُن تمام مقاصد کی طرف توجہ کرنے سے مجبور رہا صرف تھوڑی سی توجہ کرنے سے ایک لفظ کی تشریح یعنی دمشق کے لفظ کی حقیقت میرے پرکھولی گئی اور نیز ایک صاف اور صریح کشف میں مجھ پر ظاہر کیاگیا کہ ایک شخص حارث نام یعنی حرّ اث آنے والا جو ابوداؤد کی کتاب میں لکھاہے یہ خبر صحیح ہے اور یہ پیشگوئی اور مسیح کے آنے کی پیشگوئی درحقیقت یہ دونوں اپنے مصداق کی رُو سے ایک ہی ہیں.یعنی ان دونوں کا مصداق ایک ہی شخص ہے جو یہ عاجز ہے.سو اوّل میں دمشق کے لفظ کی تعبیر جو الہام کے ذریعہ سے مجھ پر کھولی گئی بیان کرتا ہوں پھر بعد اس کے ابو داؤد والی پیشگوئی جس طور سے مجھے سمجھا ئی گئی ہے بیان کروں گا.پس واضح ہو کہ دمشق کے لفظ کی تعبیر میں میرے پر منجانب اللہ یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس جگہ ایسے قصبہ کا نام دمشق رکھا گیا ہے جس میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو یزیدی الطبع اور یزید پلید کی عادات اور خیالات کے پیرَو ہیں جن کے دلوں میں اللہ اور رسول کی کچھ محبت نہیں اور احکام الٰہی کی کچھ عظمت نہیں جنہوں نے اپنی نفسانی خواہشوں کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور اپنے نفس امّارہ کے حکموں کے ایسے مطیع ہیں کہ مقدسوں اور پاکوں کا خون بھی اُن کی نظر میں سہل اور آسان امر ہے اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور خدائے تعالیٰ کا موجود ہونا اُن کی نگاہ میں ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جو انہیں سمجھ نہیں آتا اور چونکہ طبیب کو
بُغض اور کینہ تک نوبت پہنچتی ہے جس قدر دنیا میں ایسے نبی یا ایسے رسول آئے جن کی نسبت پہلی کتابوں میں پیشگوئیاں موجود تھیں اُن کے سخت منکر اور اشد دشمن وہی لوگ ہوئے ہیں کہ جو پیشگوئیوں کے الفاظ کو اُ ن کی ظاہری صورت پر دیکھنا چاہتے تھے.مثلًا ایلیا نبی کا آسمان سے اُترنا اور خلق اللہ کی ہدایت کے لئے دنیا میں آنا بائیبل میں اس طرح پر لکھاہے کہ ایلیا نبی جو آسمان پر اُٹھایا گیا پھر دوبارہ وہی نبی دنیا میںآئے گا.اِن ظاہر الفاظ پر یہودیوں نے سخت پنجہ مارا ہوا ہے اور باوجودیکہ حضرت مسیح جیسے ایک بزرگوار نبی نے صاف صاف گواہی بقیہ حاشیہ.بیماروں ہی کی طرف آنا چاہیئے اس لئے ضرور تھا کہ مسیح ایسے لوگوں میں ہی نازل ہو.غرض مجھ پر یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ دمشق کے لفظ سے دراصل وہ مقام مراد ہے جس میں یہ دمشق والی مشہور خاصیت پائی جاتی ہے اور خدائے تعالیٰ نے مسیح کے اُترنے کی جگہ جو دمشق کو بیان کیا تو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسیح سے مراد وہ اصلی مسیح نہیں ہے جس پر انجیل نازل ہوئی تھی بلکہ مسلمانوں میں سے کوئی ایسا شخص مراد ہے جو اپنی روحانی حالت کی رو سے مسیح سے اور نیز امام حسین سے بھی مشابہت رکھتا ہے کیونکہ دمشق پایۂ تخت یزید ہوچکاہے اور یزیدیوں کا منصوبہ گاہ جس سے ہزارہا طرح کے ظالمانہ احکام نافذ ہوئے وہ دمشق ہی ہے اوریزیدیوں کو اُ ن یہودیوں سے بہت مشابہت ہے جو حضرت مسیح کے وقت میں تھے ایسا ہی حضرت امام حسین کو بھی اپنی مظلومانہ زندگی کی رو سے حضرت مسیح سے غایت درجہ کی مماثلت ہے پس مسیح کا دمشق میں اُترنا صاف دلالت کرتا ہے کہ کوئی مثیل مسیح جو حسین سے بھی بوجہ مشابہت ان دونوں بزرگوں کے مماثلت رکھتا ہے یزیدیوں کی تنبیہ اور ملزم کرنے کے لئے جو مثیل یہود ہیں اُترے گا اور ظاہر ہے کہ یزیدی الطبع لوگ یہودیوں سے مشابہت رکھتے ہیں.یہ نہیں کہ دراصل یہودی ہیں اس لئے دمشق کا لفظ صاف طور پر بیان کر رہا ہے کہ مسیح جو اُترنے والا ہے وہ بھی دراصل مسیح نہیں ہے بلکہ جیسا کہ یزیدی لوگ مثیل یہود ہیں ایسا ہی مسیح جو اُترنے والا ہے وہ بھی مثیل مسیح ہے اور حسینی الفطرت ہے یہ نکتہ ایک نہایت لطیف نکتہ ہے جس پر غور کرنے سے صاف طور پر کھل جاتا ہے کہ دمشق کا لفظ محض استعارہ کے طورپر استعمال کیاگیاہے.چونکہ امام حسین کامظلومانہ واقعہ خدائے تعالیٰ کی نظر میں بہت عظمت اور وقعت رکھتا ہے اور یہ واقعہ حضرت مسیح کے واقعہ سے ایسا ہمرنگ ہے کہ عیسائیوں کو بھی اس میں
دی کہ وہ ایلیا جس کا آسمان سے اُترنا انتظارکیا جاتاہے یہی یحیٰ زکریا کا بیٹاہے کہ جو آپ کا مرشد ہے لیکن یہودیوں نے قبول نہ کیا بلکہ انہی باتوں سے حضرت مسیح پر سخت ناراض ہو گئے اور حضرت مسیح کی نسبت یہ خیال کرنے لگے کہ وہ توریت کی عبارتوں کو اَور اَور معنے کر کے بگاڑنا چاہتاہے کیونکہ انہیں اپنے جسمانی خیال کی وجہ سے پختہ طو ر پر امید لگی ہوئی تھی چنانچہ ابھی تک وہی خیال خام دل میں ہے کہ سچ مچ ایلیا یہودیوں کی جماعت کے سامنے آسمان سے اُترے گا اور فرشتے اُس کے دائیں بائیں اپنے ہاتھوں کا سہارادے کر بیت المقدس کی بقیہ حاشیہ.کلام نہیں ہوگی اس لئے خدائے تعالیٰ نے چاہا کہ آنے والے زمانہ کو بھی اس کی عظمت سے اور مسیحی مشابہت سے متنبہ کرے اس وجہ سے دمشق کا لفظ بطور استعارہ لیا گیا تا پڑھنے والوں کی آنکھوں کے سامنے وہ زمانہ آجائے جس میں لخت جگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مسیح کی طرح کمال درجہ کے ظلم اور جور وجفا کی راہ سے دمشقی اشقیا کے محاصرہ میں آکر قتل کئے گئے.سو خدائے تعالیٰ نے اس دمشق کو جس سے ایسے پُر ظلم احکام نکلتے تھے اور جس میں ایسے سنگدل اور سیاہ درون لوگ پیدا ہوگئے تھے اس غرض سے نشانہ بنا کر لکھا کہ اب مثیل دمشق عدل اور ایمان پھیلانے کا ہیڈ کوارٹر ہوگا.کیونکہ اکثر نبی ظالموں کی بستی میں ہی آتے رہے ہیں اور خدا تعالیٰ لعنت کی جگہوں کو برکت کے مکانات بناتا رہا ہے اس استعارہ کو خدائے تعالیٰ نے اس لئے اختیار کیا کہ تا پڑھنے والے دو فائدے اس سے حاصل کریں ایک یہ کہ امام مظلوم حسین رضی اللہ عنہ کا دردناک واقعۂ شہادت جس کی دمشق کے لفظ میں بطورپیشگوئی اشارہ کی طرز پر حدیث نبوی میں خبر دی گئی ہے اس کی عظمت اور وقعت دلوں پر کھل جائے.دوسرے یہ کہ تا یقینی طور پر معلوم کرجاویں کہ جیسے دمشق میں رہنے والے دراصل یہودی نہیں تھے مگر یہودیوں کے کا م انہوں نے کئے ایسا ہی جو مسیح اُترنے والا ہے دراصل مسیح نہیں ہے مگر مسیح کی روحانی حالت کا مثیل ہے اور اس جگہ بغیر اس شخص کے کہ جس کے د ل میں واقعہ حسین کی وہ عظمت نہ ہو جو ہونی چاہیئے ہریک شخص اس دمشقی خصوصیت کو جو ہم نے بیان کی ہے بکمال انشراح ضرور قبول کرلے گا اور نہ صرف قبول بلکہ اس مضمون پر نظر امعان کرنے سے گویا حق الیقین تک پہنچ جائے گا اور حضرت مسیح کو جو امام حسین رضی اللہ عنہ سے تشبیہ دی گئی ہے یہ بھی استعارہ در استعارہ ہے جس کو ہم آگے چل کر بیان کریں گے
کسی اُونچی عمارت پر آکر اُتاردیں گے پھرکسی زینہ کے ذریعہ سے حضر ت ایلیا نیچے اُتر آئیں گے اور یہودیوں کے تمام مخالفوں کو روئے زمین سے نابود کر ڈالیں گے اور چونکہ اُن کی کتابوں میں جوکتب الہامیہ ہیں یہ بھی لکھا ہے کہ ضرور ہے کہ مسیح کے آنے سے پہلے ایلیا آسمان سے اُترے اِسی دِقّت کی وجہ سے یعنی اِس سبب سے کہ ایلیا اُن کے گمان میں اب تک آسما ن سے نہیں اُترا مسیح ابن مریم پر وہ ایمان نہیں لائے اور صاف کہہ دیا کہ ہم نہیں جانتے کہ تو کون ہے کیونکہ وہ مسیح جس کی ہمیں انتظار ہے ضرور ہے کہ اُس سے پہلے ایلیا آسمان سے اُتر کر اُس کی راہوں کو بقیہ حاشیہ.اب پہلے ہم یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے مجھ پر یہ ظاہر فرما دیاہے کہ یہ قصبہ قادیان بوجہ اس کے کہ اکثر یزیدی الطبع لوگ اس میں سکونت رکھتے ہیں دمشق سے ایک مناسبت اور مشابہت رکھتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ تشبیہات میں پور ی پوری تطبیق کی ضرور ت نہیں ہوتی بلکہ بسا اوقات ایک ادنیٰ مماثلت کی وجہ سے بلکہ صرف ایک جزو میں مشارکت کے باعث سے ایک چیز کانام دوسری چیز پر اطلاق کر دیتے ہیں مثلًا ایک بہادر انسان کو کہہ دیتے ہیں کہ یہ شیر ہے اور شیر نام رکھتے ہیں یہ ضروری نہیں سمجھاجاتا کہ شیر کی طرح اس کے پنجے ہوں اور ایسی ہی بدن پر پشم ہو اور ایک دُم بھی ہو بلکہ صرف صفت شجاعت کے لحاظ سے ایسا اطلاق ہوجاتا ہے اور عام طور پر جمیع انواع استعارات میں یہی قاعدہ ہے سو خدائے تعالیٰ نے اسی عام قاعدہ کے موافق اس قصبہ قادیان کو دمشق سے مشابہت دی اور اس بارہ میں قادیان کی نسبت مجھے یہ بھی الہام ہوا کہ اخرج منہ الیزیدیون یعنی اس میں یزیدی لوگ پیداکئے گئے ہیں.اب اگرچہ میرا یہ دعویٰ تو نہیں اور نہ ایسی کامل تصریح سے خدائے تعالیٰ نے میرے پر کھول دیا ہے کہ دمشق میں کوئی مثیل مسیح پیدا نہیں ہو گا بلکہ میرے نزدیک ممکن ہے کہ کسی آئندہ زمانہ میں خاص کر دمشق میں بھی کوئی مثیل مسیح پیدا ہوجائے مگر خدائے تعالیٰ خوب جانتا ہے اور وہ اس بات کا شاہد حا ل ہے کہ اس نے قادیان کو دمشق سے مشابہت دی ہے اور ان لوگوں کی نسبت یہ فرمایا ہے کہ یہ یزیدی الطبع ہیں یعنی اکثر وہ لوگ جو اس جگہ رہتے ہیں وہ اپنی فطرت میںیزیدی لوگوں کی فطرت سے مشابہ ہیں اور یہ بھی مدّت سے الہام ہو چکا ہے کہ انا انزلناہ قریبًا من القادیان وبالحق انزلناہ وبالحق نزل وکان وعداللّٰہ مفعولًا یعنی ہم نے اُس کو
درست کرے.اس کے جواب میں ہر چند حضرت مسیح نے بہت زور دے کر انہیں کہا کہ وہ ایلیا جو آنے والا تھا یہی یحیٰی زکریاکا بیٹا ہے جس کو تم نے شناخت نہیں کیا لیکن یہودیوں نے مسیح کے اس قول کو ہرگز قبول نہیں کیا بلکہ خیال کیا کہ یہ شخص توریت کی پیشگوئیو ں میں الحاد اور تحریف کر رہاہے اور اپنے مرشد کو ایک عظمت دینے کے لئے ظاہری معنے کو کھینچ تان کر کچھ کا کچھ بنا رہا ہے سو ظاہر پرستی کی شامت نے یہودیوں کو حقیقت فہمی سے محروم رکھا اور مجرّد الفاظ پر زور مارنے اور استعارہ کو حقیقت سمجھنے کی وجہ سے ابدی لعنتوں کا ذخیرہ انہیں ملا بقیہ حاشیہ.قادیان کے قریب اتارا ہے اور سچائی کے ساتھ اُتارا اور سچائی کے ساتھ اُترا اور ایک دن وعدہ اللہ کاپور ا ہونا تھا.اس الہام پر نظرغور کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قادیان میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے اس عاجز کا ظاہر ہونا الہامی نوشتوں میں بطور پیشگوئی کے پہلے سے لکھا گیا تھا.اب چونکہ قادیان کو اپنی ایک خاصیت کی رُو سے دمشق سے مشابہت دی گئی تو اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قادیان کا نام پہلے نوشتوں میں استعارہ کے طورپر دمشق رکھ کرپیشگوئی بیان کی گئی ہو گی کیونکہ کسی کتاب حدیث یاقرآن شریف میں قادیان کا نام لکھاہوانہیں پایاجاتا اور یہ الہام جو بَراہین احمدیہ میں بھی چھپ چکا ہے بصراحت وبآواز بلندظاہرکر رہا ہے کہ قادیان کانام قرآن شریف میں یا احادیث نبویہ میں بمدپیشگوئی ضرور موجود ہے اور چونکہ موجود نہیں تو بجز اس کے اَور کس طرف خیال جاسکتا ہے کہ خدائے تعالیٰ نے قادیان کا نام قرآن شریف یا احادیث نبویہ میں کسی اور پیرایہ میں ضرور لکھا ہوگا اور اب جو ایک نئے الہام سے یہ بات بپایۂ ثبوت پہنچ گئی کہ قادیان کو خدائے تعالیٰ کے نزدیک دمشق سے مشابہت ہے تو اُس پہلے الہام کے معنے بھی اس سے کھل گئے گویا یہ فقرہ جو اللہ جلّشانُہ‘ نے الہام کے طور پر اس عاجز کے دل پر القاکیاہے کہ انا انزلناہ قریبًا من القادیان اس کی تفسیریہ ہے کہ انا انزلناہ قریبا من دمشق بطرف شرقی عند المنارۃ البیضاء.کیونکہ اس عاجز کی سکونتی جگہ قادیان کے شرقی کنارہ پر ہے منارہ کے پاس.پس یہ فقرہ الہام الٰہی کا کہ کان وعد اللّٰہ مفعولًا اس تاویل سے پوری پوری تطبیق کھاکر یہ پیشگوئی واقعی طورپر پوری ہوجاتی ہے اس عبارت تک یہ عاجز پہنچا تھا کہ یہ الہام ہؤاقل لو کان الامر من عند غیر اللّٰہ لوجدتم
حالانکہ وہ بجائے خود اپنے تئیں معذور سمجھتے تھے کیونکہ اُن کی بائبل کے ظاہری الفاظ پر نظر تھی.افسو س کہ ہمارے مسلمان بھائی بھی اسی گرداب میں پڑے ہوئے ہیں اور حضرت مسیح کی نسبت یہودیوں کی طرح اُن کے دلوں میں بھی یہی خیال جماہوا ہے کہ ہم اُنہیں سچ مچ آسمان سے اُترتے دیکھیں گے اور یہ اعجوبہ ہم بچشم خود دیکھیں گے کہ حضرت مسیح زردرنگ کی پوشاک پہنے ہوئے آسمان سے اُترتے چلے آتے ہیں اور دائیں بائیں فرشتے اُن کے ساتھ ہیں اور تمام بازاری لوگ اور دیہات کے آدمی ایک بڑے میلہ کی طرح اکٹھے ہو کر دُور سے اُ ن کو دیکھ رہے ہیں اور بقیہ حاشیہ.فیہ اختلافًا کثیرًا.قل لو اتبع اللّٰہ اھواء کم لفسدت السمٰوات والارض ومن فیھن ولبطلت حکمتہ وکان اللّٰہ عزیزًاحکیمًا.قل لو کان البحر مدادًا لکلمات ربی لنفد البحر قبل ان تنفد کلمات ربی ولو جئنا بمثلہٖ مددًا.قل ان کنتم تحبون اللّٰہ فاتبعونی یحببکم اللّٰہ وکان اللّٰہ غفورا رحیما.پھر اس کے بعد الہام کیاگیا کہ ان علما ء نے میرے گھر کو بدل ڈالا.میری عبادت گاہ میں ان کے چولہے ہیں میری پرستش کی جگہ میں اُن کے پیالے اور ٹھوٹھیاں رکھی ہوئی ہیں اور چوہوں کی طرح میرے نبی کی حدیثوں کو کتر رہے ہیں (ٹھوٹھیاں وہ چھوٹی پیالیاں ہیں جن کو ہندوستان میں سکوریاں کہتے ہیں.عبادت گاہ سے مراد اس الہام میں زمانہ حال کے اکثر مولویوں کے دل ہیں جو دنیا سے بھرے ہوئے ہیں ).اس جگہ مجھے یاد آیا کہ جس روز وہ الہام مذکور ہ بالا جس میں قادیان میں نازل ہونے کا ذکر ہواتھا اس روز کشفی طورپر میں نے دیکھا کہ میرے بھائی صاحب مرحوم مرزا غلام قادر میرے قریب بیٹھ کر بآواز بلند قرآن شریف پڑھ رہے ہیں اور پڑھتے پڑھتے انہوں نے اِن فقرات کوپڑھا کہ انا انزلنٰہ قریبًا من القادیان تو میں نے سُنکر بہت تعجب کیا کہ کیاقادیان کا نام بھی قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے؟ تب انہوں نے کہا کہ یہ دیکھو لکھاہوا ہے تب مَیں نے نظر ڈال کر جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ فی الحقیقت قرآن شریف کے دائیں صفحہ میں شاید قریب نصف کے موقع پر یہی الہامی عبارت لکھی ہوئی موجود ہے تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ ہاں واقعی طورپر قادیان کانام قرآن شریف میں درج ہے اور میں نے کہا کہ تین شہروں کا نام اعزاز کے ساتھ قرآن شریف میں درج کیاگیاہے مکہ اورمدینہ اور قادیان یہ کشف تھا
چھوٹے بڑے چلا چلا کر کہہ رہے ہیں کہ وہ آئے وہ آئے یہاں تک کہ دمشق کے شرقی منارہ پر اُتر آئے اور بذر یعہ زینہ کے نیچے اتارے گئے اور ایک دوسرے سے سلام علیک اور مزاج پُرسی ہوئی.تعجب کہ یہ لوگ خیال نہیں کرتے کہ دنیا میں کہ ایک دارالابتلاجگہ ہے ایسے معجزات ظہور پذیر ہرگز نہیں ہوتے ورنہ دعوت اسلام ایمان بالغیب کی حد سے باہر ہو جائے.ہم پہلے اس سے لکھ چکے ہیں کہ کفار مکّہ نے اسی قسم کا کوئی معجزہ ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم افضل الرسل سے بھی مانگا تھا جن کو صاف یہ جواب دیا گیا کہ ایسا ہونا سنت اللہ سے باہر ہے بقیہ حاشیہ.جو کئی سال ہوئے کہ مجھے دکھلایاگیا تھا اور اس کشف میں جو میں نے اپنے بھائی صاحب مرحوم کو جوکئی سال سے وفات پا چکے ہیں قرآن شریف پڑھتے دیکھا اور اس الہامی فقرہ کو ان کی زبان سے قرآن شریف میں پڑھتے سُنا تو اس میں یہ بھید مخفی ہے جس کو خدائے تعالیٰ نے میرے پر کھول دیا کہ اُن کے نام سے اس کشف کی تعبیر کو بہت کچھ تعلق ہے یعنی اُن کے نام میں جو قادر کا لفظ آتا ہے اس لفظ کو کشفی طور پر پیش کر کے یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ قادر مطلق کاکام ہے اس سے کچھ تعجب نہیں کرنا چاہیئے اس کے عجائبات قدرت اسی طرح پر ہمیشہ ظہور فرما ہوتے ہیں کہ وہ غریبوں اور حقیروں کو عزت بخشتا ہے اور بڑے بڑے معززوں اور بلند مرتبہ لوگوں کو خاک میں ملا دیتا ہے.بڑے بڑے علماء وفضلاء اس کے آستانہ فیض سے بکلّی بے نصیب اور محروم رہ جاتے ہیں اور ایک ذلیل حقیر اُمّی جاہل نالائق منتخب ہو کرمقبولین کی جماعت میں داخل کرلیاجاتاہے.ہمیشہ سے اس کی کچھ ایسی ہی عادت ہے اور قدیم سے وہ ایسا ہی کرتا چلا آیا ہے.وذالک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشآء.اب میں وہ حدیث جو ابوداؤد نے اپنی صحیح میں لکھی ہے ناظرین کے سامنے پیش کر کے اس کے مصداق کی طرف ان کو توجہ دلاتا ہوں.سو واضح ہو کہ یہ پیشگوئی جو ابوداؤد کی صحیح میں درج ہے کہ ایک شخص حارث نام یعنی حرّ اث ماوراء النہر سے یعنی سمر قند کی طرف سے نکلے گا جو آل رسول کو تقویت دے گا جس کی امداد اور نصرت ہریک مومن پر واجب ہوگی.الہامی طورپر مجھ پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ پیشگوئی اور مسیح کے آنے کی پیشگوئی جو مسلمانوں کا امام اور مسلمانوں میں سے ہو گا.دراصل یہ دونوں پیشگوئیاں متحد المضمون ہیں اور دونوں کا مصداق یہی عاجز ہے.مسیح کے نام پر جو پیشگوئی ہے اس کی علامات خاصہ درحقیقت دو ہی ہیں
افسوس کہ ہماری قوم کے لوگ استعارات کو حقیقت پرحمل کر کے سخت پیچوں میں پھنس گئے ہیں اور ایسی مشکلات کا سامنااُنہیں پیش آگیا ہے کہ اب اُن سے بآسانی نکلنا ان لوگوں کے لئے سخت دشوار ہے اور جو نکلنے کی راہیں ہیں وہ اُنہیں قبول نہیں کرتے.مثلًا صحیح مسلم کی حدیث میں جو یہ لفظ موجود ہے کہ حضرت مسیح جب آسمان سے اُتریں گے تو اُن کا لباس زردرنگ کا ہو گا.اس لفظ کو ظاہری لباس پر حمل کرنا کیسا لغو خیال ہے زرد رنگ پہننے کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی لیکن اگر اس لفظ کو ایک کشفی استعارہ قرار دے کر معبرین کے مذاق اورتجارب کے موافق اس کی تعبیر کرنا چاہیں بقیہ حاشیہ.ایک یہ کہ جب وہ مسیح آئے گا تو مسلمانوں کی اندرونی حالت کو جواُس وقت بغایت درجہ بگڑی ہوئی ہو گی اپنی صحیح تعلیم سے درست کر دے گا اور اُن کے روحانی افلاس اور باطنی ناداری کو بکلی دور فرما کر جواہراتِ علوم وحقائق ومعارف اُن کے سامنے رکھ دے گا یہاں تک کہ وہ لوگ اس دولت کو لیتے لیتے تھک جائیں گے اوراُن میں سے کوئی طالب حق روحانی طور پر مفلس اور نادار نہیں رہے گا بلکہ جس قدر سچائی کے بھوکے اور پیاسے ہیں ان کو بکثرت طیب غذا صداقت کی اور شربت شیریں معرفت کا پلایا جائے گا اور علوم حقّہ کے موتیوں سے اُن کی جھولیاں پُر کر دی جائیں گی اور جو مغز اور لبِ ُ لباب قرآن شریف کا ہے اس عطر کے بھرے ہوئے شیشے اُن کو دئے جائیں گے.دوسری علامت خاصہ یہ ہے کہ جب وہ مسیح موعود آئے گا تو صلیب کو توڑے گا اور خنزیروں کو قتل کرے گا اور دجّال یک چشم کو قتل کر ڈالے گا اور جس کافر تک اس کے دم کی ہوا پہنچے گی وہ فی الفور مر جائے گا سو اس علامت کی اصل حقیقت جو روحانی طور پر رکھی گئی ہے یہ ہے کہ مسیح دنیا میں آکر صلیبی مذہب کی شان وشوکت کو اپنے پیروں کے نیچے کچل ڈالے گا اور اُن لوگوں کو جن میں خنزیروں کی بے حیائی اور خوکوں کی بے شرمی اور نجاست خواری ہے اُ ن پر دلائل قاطعہ کا ہتھیار چلاکر ان سب کا کام تمام کرے گا اوروہ لوگ جو صرف دنیا کی آنکھ رکھتے ہیں مگردین کی آنکھ بکلّی ندارد بلکہ ایک بدنما ٹینٹ اس میں نکلا ہوا ہے انکو بیّن حجتوں کی سیف قاطعہ سے ملزم کر کے اُن کی منکرانہ ہستی کا خاتمہ کر دے گا اور نہ صرف ایسے یک چشم لوگ بلکہ ہرایک کافر جو دینِ محمدؐی کو بنظر استحقار دیکھتا ہے مسیحی دلائل کے جلالی دم سے روحانی طور پر ماراجائے گا.غرض یہ سب عبارتیں استعارہ کے طور پر واقع ہیں جو اس عاجز پر
تو یہ معقول تعبیر ہو گی کہ حضرت مسیح اپنے ظہور کے وقت یعنی اس وقت میں کہ جب وہ مسیح ہونے کا دعویٰ کریں گے کسی قدر بیمار ہو ں گے اور حالت صحت اچھی نہیں رکھتے ہوں گے کیونکہ کتبِ تعبیر کی رو سے زردرنگ پوشاک پہننے کی یہی تاو یل ہے اور ظاہر ہے کہ یہی تاویل عالم کشف اور رؤیا کی نہایت مناسب حال اور سراسر معقول اور قریب قیاس ہے کیونکہ تعبیر کی کتابوں میں صاف لکھاہے کہ اگر کسی شخص کی عالم رؤیا یا عالم کشف میں زرد رنگ کی پوشاک دیکھی جائے تو اس کی یہ تعبیر کرنی چاہیئے کہ وہ شخص بیمار ہے یا بیمار ہونے والا ہے کاش اگر اس محققانہ مذاق بقیہ حاشیہ.بخوبی کھولی گئی ہیں اب چاہے کوئی اس کو سمجھے یا نہ سمجھے لیکن آخر کچھ مدّت اَور انتظارکرکے اور اپنی بے بنیاد امیدوں سے یاس کلّی کی حالت میں ہو کر ایک دن سب لوگ اس طرف رجوع کریں گے.اِس وقت ان مسیحی علامات کو لکھتے لکھتے مجھے ایک رؤیا صالحہ اپنی یاد آگئی ہے اور بامذاق لوگوں کے مسرور الوقت کرنے کے لئے اُس کو میں اِس جگہ لکھتاہوں:.ایک بزرگ غایت درجہ کے صالح جومردان خدا میں سے تھے اور مکالمہ الہٰیّہ کے شرف سے بھی مشرّف تھے اور بمرتبہ کمال اتباع سُنّت کرنے والے اور تقویٰ اور طہارت کے جمیع مراتب اور مدارج کو ملحوظ اور مرعی رکھنے والے تھے اور اُن صادقوں اور راستبازوں میں سے تھے جن کو خدائے تعالیٰ نے اپنی طرف کھینچاہواہوتا ہے اور پرلے درجہ کے معمور الاوقات اور یاد الٰہی میں محو اور غریق اور اسی راہ میں کھوئے گئے تھے جن کانام نامی عبد اللہ غزنوی تھا
کے موافق ہمارے مفسّر اور محدّث اس فقرہ کی یہی تاویل کرتے یعنی یہ کہتے کہ جب مسیح ظہور فرما کر اپنا مسیح موعود ہونا خلق اللہ پر ظاہر کرے گاتو اُس وقت اس کی صحت کی حالت اچھی نہیں ہو گی بلکہ ضرور کسی قسم کی علالت جسمانی اور ضعف بدنی اس کے شامل حال ہو گا جو اس کے ظہورکے لئے ایک خاص وردی کی طرح ایک علامت اور نشانی ہو گی تو ایسی تاویل کیا عمدہ اور لطیف اور سراسر راستی پر مبنی ہو تی لیکن افسوس کہ ہمارے علماء نے ایسا نہیں کیا بلکہ وہ تو اپنی نہایت سادگی اور خام خیالی کی وجہ سے بعینہٖ یہودیوں کی طرح انتظار کر رہے ہیں کہ سچ مچ مسیح بقیہ حاشیہ.ایک دفعہ میں نے اُس بزرگ با صفا کو خواب میں اُن کی وفات کے بعد دیکھا کہ سپاہیوں کی صورت پر بڑی عظمت اور شان کے ساتھ بڑے پہلوا نوں کی مانند مسلّح ہونے کی حالت میں کھڑے ہیں تب میں نے کچھ اپنے الہامات کا ذکر کر کے اُن سے پوچھا کہ مجھے ایک خواب آئی ہے اس کی تعبیر فرمائیے.مَیں نے خواب میں یہ دیکھا ہے کہ ایک تلوار میرے ہاتھ میں ہے جس کا قبضہ میرے پنجہ میں اور نوک آسمان تک پہنچی ہوئی ہے جب میں اس کو دائیں طرف چلاتا ہوں تو ہزاروں مخالف اس سے قتل ہوجاتے ہیں اور جب بائیں طرف چلاتا ہوں تو ہزارہا دشمن اس سے مارے جاتے ہیں تب حضرت عبد اللہ صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس میری
جب آسمان سے اُترے گاتو ایک زرد رنگ کی پوشاک زعفران کے رنگ سے رنگین کی ہوئی اس کے زیب تن ہو گی.کاش اگر علماء کو کبھی ایسی خواب بھی آئی ہوتی کہ انہوں نے زرد رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور پھر اس کے بعد بیمار بھی ہو جاتے تو آج اُن کی نگاہ میں ہماری یہ باتیں قابل قدر ٹھہرتیں لیکن مشکل تو یہ ہے کہ روحانی کوچہ میں اُن کو دخل ہی نہیں یہودیوں کے علماء کی طرح ہریک بات کو جسمانی قالب میں ڈھالتے چلے جاتے ہیں لیکن ایک دُوسرا گروہ بھی ہے جن کو خدائے تعالیٰ نے یہ بصیرت اور فراست عطا کی ہے کہ وہ آسمانی باتوں کو آسمانی قانون کے موافق سمجھنا چاہتے ہیں اور استعارات اور مجازات کے قائل ہیں بقیہ حاشیہ.خواب کو سُنکر بہت خوش ہوئے او ربشاشت اور انبساط اور انشراح صدر کے علامات وامارات اُن کے چہرہ میں نمودار ہوگئے اور فرمانے لگے کہ اس کی تعبیر یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ آپ سے بڑے بڑے کام لے گا اور یہ جو دیکھا کہ دائیں طرف تلوار چلا کر مخالفوں کو قتل کیا جاتا ہے اس سے مراد وہ اتمام حجت کاکام ہے کہ جو روحا نی طور پر انوار وبرکات کے ذریعہ سے انجام پذیر ہوگا اور یہ جو دیکھا کہ بائیں طرف تلوار چلا کر ہزارہا دشمنوں کو مارا جاتا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کے ذریعہ سے عقلی طور پر خدائے تعالیٰ الزام واسکات خصم کرے گا اور دنیا پر دونوں طور سے اپنی حجت پوری کر دے گا.پھر بعد اس کے انہوں نے
مگر افسوس کہ وہ لوگ بہت تھوڑے ہیں اور اکثر یہی جنس ہماری قوم میں بکثرت پھیلی ہو ئی ہے کہ جو جسمانی خیالات پر گرے جاتے ہیں نہیں سمجھتے کہ خدائے تعالیٰ کا عام قانونِ قدرت جو اس کی وحی اور اس کے مکاشفات کے متعلق ہے صریح صریح اُن کے زعم کے مخالف شہادت دے رہا ہے صدہا مرتبہ خوابوں میں مشاہدہ ہوتا ہے کہ ایک چیز نظر آتی ہے اور دراصل اُس سے مراد کوئی دوسری چیز ہوتی ہے.ایک شخص کو انسان خواب میں دیکھتاہے کہ وہ آگیا اور پھر صبح اس کا کوئی ہمرنگ آجاتا ہے.انبیاء کی کلام میں تمثیل کے ساتھ یا استعارہ کے طور پر بہت باتیں ہوتی ہیں دیکھو ہمارے سید و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات اُمّہات المومنین کو فرمایا تھاکہ تم میں سے پہلے اس کی وفات ہو گی جس کے ہاتھ لمبے ہوں گے بقیہ حاشیہ.فرمایا کہ جب مَیں دنیا میں تھا تو میں اُمیدوار تھا کہ خدائے تعالیٰ ضرور کوئی ایسا آدمی پیدا کرے گا پھر حضرت عبد اللہ صاحب مرحوم مجھ کو ایک وسیع مکان کی طرف لے گئے جس میں ایک جماعت راستبازوں اور کامل لوگوں کی بیٹھی ہوئی تھی لیکن سب کے سب مسلّح اور سپاہیانہ صورت میں ایسی چستی کی طرز سے بیٹھے ہوئے معلوم ہوتے تھے کہ گویا کوئی جنگی خدمت بجالانے کے لئے کسی ایسے حکم کے منتظر بیٹھے ہیں جو بہت جلد آنے والا ہے پھر اس کے بعد آنکھ کھل گئی.یہ رویا صالحہ جو درحقیقت ایک کشف کی قسم ہے استعارہ کے طور پر انہیں علامات پر دلالت کر رہے ہیں جو مسیح کی نسبت ہم ابھی بیان کر آئے ہیں یعنی مسیح کا خنزیروں کو قتل کرنا اور علی العموم تمام کفار کو مارنا انہیں معنوں کی رو سے ہے کہ وہ حجت الہی اُن پر پور ی کر ے گا اور بیّنہ کی تلوار سے اُن کو
اور ان تمام اہل بیت کو اس حدیث کے سُننے سے یہی یقین ہو گیا تھا کہ درحقیقت لمبے ہاتھوں سے اُن کا لمباہونا ہی مراد ہے یہاں تک کہ آنجناب کی ان پاک دامن بیویوں نے باہم ہاتھ ناپنے شروع کئے لیکن جب سب سے پہلے زینب رضی اللہ عنہا نے وفات پائی تب انہیں سمجھ آیا کہ لمبے ہاتھوں سے ایثار اور سخاوت کی صفت مراد ہے جو زینب رضی اللہ عنہا پر سب کی نسبت زیادہ غالب تھی.اور یہ خیال کہ تناسخ کے طور پر حضرت مسیح بن مریم دنیا میں آئیں گے سب سے زیاد ہ ردّی اور شرم کے لائق ہے تناسخ کے ماننے والے تو ایسے شخص کا دنیا میں دوبارہ آنا تجویز کرتے ہیں جس کے تزکیہ نفس میں کچھ کسر رہ گئی ہو لیکن جو لوگ بکلّی مراحل کمالات طے کرکے اس دنیاسے سفر کرتے ہیں وہ بزعم اُن کے ایک مدت دراز کے لئے مکتی خانہ میں دا خل کئے جاتے ہیں.بقیہ حاشیہ.قتل کر دے گا وَاللّٰہ اَعْلَمُ بالصواب.اور حارث کے نام پر جو پیشگوئی ہے اُس کی علامات خاصہ پانچ بیان کی گئی ہیں.پہلی یہ کہ وہ نہ سیف کے ساتھ نہ سنان کے ساتھ بلکہ اپنی قوت ایمان کے ساتھ اور اپنے نور عرفان اور برکات بیان کے ساتھ حق کے طالبوں اور سچائی کے بھوکوں پیاسوں کو تقویت دے گا اور اپنی مخلصانہ شجاعت اور مومنانہ شہادتوں کی وجہ سے اُن کے قدم کو استوار کردے گا اسی کے موافق جو مومنین قریش نے مکہ معظمہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو قبول کر کے اور اپنے سارے زور اور سارے اخلاص اور کامل ایمان کے آثار دکھلانے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بازوئے دعوت کو قوت دیدی تھی اور اسلام کے پَیروں کو مکہ معظمہ میں جما دیا تھا.دوسر ی علامت یہ کہ وہ حارث اور وراء النہر میں سے ہو گا جس سے مطلب یہ ہے کہ سمر قندی یا بخاری الاصل ہوگا.تیسری علامت یہ ہے کہ وہ زمینداری کے ممیّز خاندان میں سے اور کھیتی کرنے والا ہوگا.چوتھی علامت یہ ہے کہ وہ ایسے وقت میں ظاہر ہوگا کہ جس وقت میں آل محمد یعنی اتقیائے مسلمین جو سادات قوم وشرفائے ملّت ہیں کسی حامی دین اور مبارز میدان کے محتاج ہونگے.آل محمد کے لفظ میں ایک افضل اور طیب جزو کو ذکر کر کے کل افراد جو پاکیزگی اور طہارت میں اس جزو سے مناسبت رکھتے ہیں اسی کے اندر داخل کئے گئے ہیں.جیساکہ یہ عام طریقہ متکلّمین ہے کہ بعض اوقات ایک جزوکو ذکرکر کے کل اُس سے مراد لیاجاتاہے.پانچو یں علامت اس حارث کی یہ ہے کہ امیروں اور بادشاہوں اور باجمعیت لوگوں کی صورت پر
ماسوائے اس کے ہمارے عقید ہ کے موافق خدائے تعالیٰ کا بہشتیوں کے لئے یہ وعدہ ہے کہ وہ کبھی اس سے نکالے نہیں جائیں گے پھر تعجب کہ ہمارے علماء کیوں حضرت مسیح کو اس فردوسِ بریں سے نکالنا چاہتے ہیںآپ ہی یہ قصے سُناتے ہیں کہ حضرت ادریس جب فرشتہ ملک الموت سے اجازت لے کر بہشت میں داخل ہوئے تو ملک الموت نے چاہا کہ پھر باہر آویں لیکن حضرت ادر یس نے باہر آنے سے انکار کیا اور یہ آیت سنادی وَ33 ۱ اب میں پوچھتا ہوں کہ کیا حضر ت مسیح اس آیت سے فائدہ حاصل کرنے کے مستحق نہیں ہیں کیا یہ آیت اُ ن کے حق میں منسوخ کا حکم رکھتی ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ وہ اس لئے اس تنزّل کی حالت میں بھیجے جائیں گے کہ بعض لوگوں نے انہیں ناحق خدا بنایا تھا تو یہ اُن کا بقیہ حاشیہ.ظاہر نہیں ہو گا بلکہ اس اعلیٰ درجہ کے کام کی انجام دہی کے لئے اپنی قوم کی امداد کا محتاج ہو گا.اب اوّل ہم ابو داؤد کی حدیث کو اس کے اصل الفاظ میں بیان کر کے پھر جس قدر مناسب اور کافی ہو اپنی نسبت اس کا ثبوت پیش کریں گے سو واضح ہو کہ حدیث یہ ہے عن علی قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یخرج رجل من ورآ ء النھر یقال لہ الحارث حرّاث علیٰ مقدمتہ رجل یقال لہ‘ منصور یُوطن او یمکّن لاٰل محمد کما مکّنت قریش لرسول اللّٰہ صلعم وجب علیٰ کلّ مؤمن نصرہٗ او قال اجابتہ‘ یعنی روایت ہے علی کرم اللہ وجہہ‘ سے کہ کہا فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ایک شخص پیچھے نہر کے سے نکلے گا یعنی بخارا یا سمر قند اس کا اصل وطن ہو گا اور وہ حارث کے نام سے پکارا جاوے گا یعنی باعتبار اپنے آباو اجداد کے پیشہ کے افواہ عام میں یا اس گورنمنٹ کی نظر میں حارث یعنی ایک زمیندار کہلائے گا پھر آگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ کیوں حارث کہلائے گا اس وجہ سے کہ وہ حرّ اث ہوگا یعنی ممیّز زمینداروں میں سے ہوگا اور کھیتی کرنے والوں میں سے ایک معزز خاندان کا آدمی شمار کیاجاوے گا.پھر اس کے بعد فرمایا کہ اس کے لشکر یعنی اس کی جماعت کا سردار وسرگروہ ایک توفیق یافتہ شخص ہو گا جس کو آسمان پر منصور کے نام سے پکاراجاوے گا کیونکہ خدائے تعالیٰ اس کے خادمانہ ارادوں کا جو اس کے دل میں ہوں گے آپ ناصر ہوگا.اس جگہ اگرچہ اُس منصور کو سپہ سالار کے طور پر بیان کیا ہے مگر
قصور نہیں ہے لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ۱ ماسوائے اس کے یہ بات بھی نہایت غور کے قابل ہے کہ یہ خیال کہ سچ مچ مسیح بن مریم ہی بہشت سے نکل کر دنیا میں آجائیں گے تصریحات قرآنیہ سے بکلّی مخالف ہے.قرآن شریف تین جگہ حضرت مسیح کا فوت ہو جانا کھلے کھلے طورپر بیان کرتا ہے اور حضرت مسیح کی طرف سے یہ عذرپیش کرتاہے کہ عیسائیوں نے جو انہیں اپنے زعم میں خدابنادیا تو اس سے مسیح پر کوئی الزام نہیں کیونکہ وہ اس ضلالت کے زمانہ سے پہلے فوت ہو چکا تھا.غرض تعلیم قرآن تو یہ ہے کہ مسیح مدت سے فوت ہو چکا ہے اب اگرہمارے علماء کو قرآن شریف کی نسبت حدیثوں کے ساتھ زیادہ پیارہے تو اُن پر یہ فرض ہے کہ احادیث کے ایسے معنے کریں جن سے قرآن شریف کے مضمون کی تکذیب لازم نہ آوے میرے خیال میں بقیہ حاشیہ.اس مقام میں درحقیقت کوئی ظاہری جنگ وجدل مراد نہیں ہے بلکہ یہ ایک روحانی فوج ہوگی کہ اُس حارث کو دی جائیگی جیسا کہ کشفی حالت میں اس عاجز نے دیکھا کہ انسان کی صورت پر دو شخص ایک مکان میں بیٹھے ہیں ایک زمین پر اور ایک چھت کے قریب بیٹھا ہے تب میں نے اس شخص کو جو زمین پر تھامخاطب کر کے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے ،مگر وہ چپ رہا اور اس نے کچھ بھی جواب نہ دیا تب میں نے اُس دوسرے کی طرف رُخ کیا جو چھت کے قریب اور آسمان کی طرف تھااور اُسے میں نے مخاطب کر کے کہا کہ مجھے ایک لاکھ فوج کی ضرورت ہے ، وہ میری اس بات کو سنکر بولا کہ ایک لاکھ نہیں ملے گی مگر پانچ ہزار سپاہی دیاجائے گا تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگرچہ پانچہزار تھوڑے آدمی ہیں پر اگر خدائے تعالیٰ چاہے تو تھوڑے بہتوں پر فتح پا سکتے ہیں اس وقت میں نے یہ آیت پڑھی کَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثِيْرَةً ۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۲ پھر وہ منصور مجھے کشف کی حالت میں دکھایا گیا اور کہا گیا کہ خوشحال ہے خوشحال ہے مگر خدائے تعالیٰ کی کسی حکمت خفیہ نے میری نظر کو اُس کے پہچاننے سے قاصر رکھا لیکن امید رکھتا ہوں کہ کسی دوسرے وقت دکھایاجائے.اب بقیہ ترجمہ حدیث کا یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ حارث جب ظاہر ہوگا تووہ آل محمد کو (آل محمد کے فقرہ کی تفسیر بیان ہوچکی ہے ) قوت اور استواری بخشے گا اور ان کی پنا ہ ہوجائے گا یعنی ایسے وقت میں کہ جب مومنین غربت کی حالت میں ہوں گے ۱ الانعام:۱۶۵ ۲ البقرۃ:۲۵۰
جہاں تک میں سوچتا ہوں یقینی طور پر یہ بات متنقش ہے کہ اب تک ہمارے مولویوں نے حدیثوں کو قرآن کے ساتھ تطبیق دینے کے لئے ایک ذرّہ توجہ مبذول نہیں فرمائی جس طرف کسی اتفاق سے خیال کا رجوع ہو گیا اُسی پر زور دیتے چلے گئے ہیں.مَیں یقینًا جانتا ہوں کہ ہمارے علماء کے لئے یہ امر کچھ سہل یا آسان بات نہیں کہ وہ قرآن شریف اور اپنے خیالات میں جو ظواہر الفاظ حدیثوں سے انہوں نے پیداکئے ہیں تطبیق و توفیق کر کے دکھلا سکیں بلکہ جس وقت وہ اس طرف متوجہ ہوں گے تو اُن کا نور قلب یا یوں کہو کہ کانشنس خود انہیں ملزم کرے گاکہ وہ اُن خیالات کو جو جسمانی طور پر اُن کے دلوں میں منقش ہیں ہرگزہرگز نصوص بیّنہ قرآنیہ سے مطابق نہیں کر سکتے اور نہ قرآن شریف کی اُن آیات میں کوئی راہ تاویل کی کھول سکتے ہیں اور بقیہ حاشیہ.اور دین اسلام بیکس کی طرح پڑا ہو گا اورچاروں طرف سے مخالفوں کے حملے شروع ہوں گے.یہ شخص اسلام کی عزت قائم کرنے کے لئے بقوت تمام اُٹھے گا اور مومنین کوجہال کی زبان سے بچانے کے لئے بجوش ایمان کھڑا ہو گا اور نور عرفان کی روشنی سے طاقت پاکر انکو مخالفوں کے حملوں سے بچائے گا اور اُن سب کو ا پنی حمایت میں لے لے گا اور ایسا انہیں ٹھکانا دے گا جیسے قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیا تھا یعنی دشمن کے ہرایک الزام اورہر یک باز پُرس اور ہریک طلب ثبوت کے وقت میں سب مومنوں کے لئے سپر کی طرح ہو جائے گا اور اپنے اُس قوی ایمان سے جو نبی کی اتباع سے اُس نے حاصل کیا ہے صدیق اور فاروق اور حیدر کی طرح اسلامی برکتوں اور استقامتوں کو دکھلا کر مومنوں کے امن میں آجانے کا موجب ہوگا.ہریک مومن پر واجب ہے جو اس کی مدد کرے یا یہ کہ اس کو قبول کر لیوے.یہ اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایک ایسا عظیم الشان سلسلہ اس حارث کے سپرد کیاجائے گاجس میں قوم کی امداد کی ضرورت ہو گی.جیسا کہ ہم رسالہ فتح اسلام میں اس سلسلہ کی پانچوں شاخوں کا مفصل ذکر کر آئے ہیں اورنیز اس جگہ یہ بھی اشارتاً سمجھایاگیا ہے کہ وہ حارث بادشاہوں یا امیروں میں سے نہیں ہو گا تا ایسے مصارف کا اپنی ذات سے متحمل ہوسکے اور اس تاکید شدید کے کرنے سے اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اُس حارث کے ظہور کے وقت جو مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کرے گا لوگ امتحان میں پڑ جائیں گے اور بہتیرے اُن میں سے مخالفت پر کھڑ ے ہوں گے اور مدد دینے سے روکیں گے بلکہ کوشش کریں گے کہ
یہ بات خود ظاہر ہے کہ جب کوئی حدیث اپنے کسی مفہوم کی رُو سے قرآن شریف کے بیّنات سے مخالف واقع ہو تو قرآن شریف پر ایمان لانا مقدم ہے کیونکہ حدیث کا مرتبہ قرآن شریف کے مرتبہ سے ہرگز مساوی نہیں اور جو کچھ حدیثوں کے بارہ میں ایسے احتمال پیدا ہو سکتے ہیں جو حدیثوں کے وثوق کے درجہ کو کمزور کریں ان احتمالوں میں سے ایک بھی قرآن شریف کی نسبت عائد نہیں ہو سکتا پس کیوں نہ ہم ہر حال میں قرآن شریف کو ہی مقدم رکھیں جس کی صحت پر تمام قوم کو اتفاق اور جس کے محفوظ چلے آنے کے لئے اعلیٰ درجہ کے دلائل ہمارے پاس ہیں اور ہمارے علماء پر یہ بات لازم وواجب ہے کہ قبل اس کے کہ اس بار ہ میں اس عاجز پر کوئی اعتراض کریں پہلے قرآن شریف اور احادیث کے مضامین میں پوری پوری تطبیق وتوفیق کرکے بقیہ حاشیہ.اس کی جماعت متفرق ہوجائے اس لئے آنحضرت صلعم پہلے سے تاکید کرتے ہیں کہ اے مومنو تم پر اُس حارث کی مدد واجب ہے ایسا نہ ہو کہ تم کسی کے بہکانے سے اس سعادت سے محروم رہ جاؤ.اس جگہ جو پیغمبر خدا صلعم نے بیان فرمایاجو مومنوں کو اُس کے ظہور سے قوت پہنچے گی اوراس کے میدان میں کھڑے ہوجانے سے اس تفرقہ زدہ جماعت میں ایک استحکام کی صورت پیداہوجائے گی اور وہ سپر کی طرح اُنکے لئے ہو جائے گا اوراُن کے قدم جم جانے کاموجب ہوگا جیسا کہ مکّہ میں اسلام کے قدم جمنے کے لئے صحابہ کبار موجب ہوگئے تھے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ تیغ اور تبر سے حمایت اسلام نہیں کرے گا او رنہ اس کام کے لئے بھیجا جائے گا کیونکہ مکہ میں بیٹھ کر جو مومنین قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کی تھی جس حمایت میں کوئی دوسری قوم کا آدمی اُن کے ساتھ شریک نہیں تھا الّاشاذو نادر و ہ صرف ایمانی قوت اور عرفانی طاقت کی حمایت تھی نہ کوئی تلوار میان سے نکالی گئی تھی اور نہ کوئی نیزہ ہاتھ میں پکڑا گیا تھا بلکہ انکو جسمانی مقابلہ کرنے سے سخت ممانعت تھی صرف قوت ایمانی اور نور عرفان کے چمکدار ہتھیار اوراُن ہتھیاروں کے جوہر جو صبر اور استقامت اورمحبت اوراخلاص اور وفا اور معارف الٰہیہ اور حقائق عالیہ دینیہ اُن کے پاس موجود تھے لوگوں کو دکھلاتے تھے گالیاں سنتے تھے جان کی دھمکیاں دیکر ڈرائے جاتے تھے اور سب طرح کی ذلّتیں دیکھتے تھے پر کچھ ایسے نشۂ عشق میں مدہوش تھے کہ کسی خرابی کی پروانہیں رکھتے تھے اور کسی بلا سے ہراساں نہیں ہوتے تھے.دنیوی زندگی کے رُو سے اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے
دکھلاویں اور معقول طور پر ہمیں سمجھاویں کہ جس حالت میں قرآن شریف کھلے کھلے طور پر حضرت مسیح کے وفات پا جانے کا قائل ہے تو پھر باوجود اُن کے وفات پا جانے اور بہشت میں داخل ہو جانے کے پھر کیوں کر اُن کا وہ جسم جو بموجب نص قرآنی کے زمین میں دفن ہو چکا آسمان سے اُتر آئے گا اور اس جگہ صرف قرآن شریف ہی اُن کے مدعا کے منافی نہیں بلکہ احادیث صحیحہ ہی سخت منافی و مبائن پڑی ہیں مثلًا بخاری کی یہ حدیث کہجو امامکم منکم ہے اگر تاویلات کے شکنجہ پر نہ چڑھائی جاوے اور جیساکہ ظاہر الفاظ حدیث کے ہیں انہیں کے موافق معنے لئے جائیں تو صاف نظرآرہاہے کہ اس حدیث کے ظاہر ظاہر یہی معنے ہیں کہ وہ تمہارا امام ہوگا اور تم میں سے ہی ہو گا یعنی ایک مسلمان ہو گا نہ یہ کہ سچ مچ حضرت مسیح ابن مریم جس پر انجیل نازل ہوئی ہے بقیہ حاشیہ.پاس کیارکھا تھا جس کی توقع سے وہ اپنی جانوں اورعزتوں کو معرض خطر میں ڈالتے اور اپنی قوم سے پُرانے اور پُر نفع تعلقات کو توڑ لیتے اُس وقت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر تنگی اور عُسر اور کس نپرسد اور کس نشناسد کا زمانہ تھا اور آئندہ کی امیدیں باندھنے کے لئے کسی قسم کے قرائن وعلامات موجود نہ تھے سو انہوں نے اس غریب درویش کا (جو دراصل ایک عظیم الشان بادشاہ تھا) ایسے نازک زمانہ میں وفاداری کے ساتھ محبت اور عشق سے بھرے ہوئے دل سے جو دامن پکڑا جس زمانہ میں آئندہ کے اقبال کی تو کیا امید خود اس مرد مصلح کی چند روز میں جان جاتی نظر آتی تھی یہ وفاداری کا تعلق محض قوت ایمانی کے جوش سے تھا جس کی مستی سے وہ اپنی جانیں دینے کے لئے ایسے کھڑے ہوگئے جیسے سخت درجہ کا پیاسا چشمہ شیریں پر بے اختیار کھڑا ہو جاتا ہے.سو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اسی طرح جووہ حارث آئے گا تو وہ مومنین کو تیر وتبر سے مدد نہیں دے گا بلکہ مومنین قریش کی اس مخصوص حالت اور اس مخصوص ماجرا کی طرح جو مکہ میں اُن پر گذرتاتھا جبکہ اُن کے ساتھ دوسری قوموں میں سے کوئی نہ تھا اور نہ ہتھیار استعمال کئے جاتے تھے بلکہ صرف قوت ایمانی اور نورعرفانی کی چمکاریں گفتار اور کردار سے دکھلارہے تھے اور انہیں کے ذریعہ سے مخالفوں پر اثر ڈال رہے تھے یہی طریق اس حارث کا بھی مومنوں کو اپنی پناہ میں لانے کے بارہ میں ہوگاکہ وہ اپنی قوت ایمانی اور نور عرفانی کے آثار وانوار دکھلا کر مخالفین کے منہ بند کرے گا اور مستعد دلوں پر اس کا اثر ڈالے گا اور اس کی قوت ایمانی اور نور عرفانی کا چشمہ جیسا شجاعت واستقامت وصدق وصفا ومحبت ووفا کی
جس کو ایک الگ اُمت دی گئی آسمان سے اُتر آئے گا.اس جگہ یاد رکھنا چاہیئے کہ امام محمد اسمٰعیل صاحب جو اپنی صحیح بخاری میں آنے والے مسیح کی نسبت صرف اس قدر حدیث بیان کرکے چُپ کر گئے کہ امامکم منکم اس سے صاف ثابت ہو تا ہے کہ دراصل حضرت اسمٰعیل بخاری صاحب کا یہی مذہب تھا کہ وہ ہرگز اس بات کے قائل نہ تھے کہ سچ مچ مسیح ابن مریم آسمان سے اُتر آئے گا بلکہ انہوں نے اس فقرہ میں جو امامکم منکم ہے صاف اور صریح طور پر اپنا مذہب ظاہر کر دیا ہے ایسا ہی حضرت بخاری صاحب نے اپنی صحیح میں معراج کی حدیث میں جو ہمارے سیّد و مولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کا حال دوسرے انبیا سے آسمانوں پر لکھا ہے تو اس جگہ حضرت عیسیٰ کا کوئی خاص طور پر مجسم ہونا ہرگز بیان نہیں کیا بلکہ جیسے حضرت ابراہیم ؑ بقیہ حاشیہ.رو سے بہتا ہو گا ایسا ہی روحانی امور کے بیان کرنے اور روحانی اور عقلی حجتوں کو مخالفوں پر پورا کرنے کے لئے بڑے زور سے رواں ہو گا اور وہ چشمہ اُسی چشمہ کا ہمرنگ ہو گا جو قریش کے مقدس بزرگوں صدیق ؓ اور فاروق ؓ اور علی مرتضیٰؓ کوملا تھا جن کے ایمان کو آسمان کے فرشتے بھی تعجب کی نگہ سے دیکھتے تھے اورجن کے صافی عرفان میں سے اس قدر علوم و انوار وبرکا ت وشجاعت واستقامت کے چشمے نکلے تھے کہ جس کا اندازہ کرنا انسان کاکام نہیں سوہمارے سیّد ومولیٰ فرماتے ہیں کہ وہ حار ث بھی جب آئے گا تو اسی ایمانی چشمہ وعرفانی منبع کے ذریعہ سے قوم کے پودوں کی آبیاری کرے گا اور اُن کے مرجھائے ہوئے دلوں کو پھر تازہ کردے گا اور مخالفوں کے تمام بیجا الزاموں کو اپنی صداقت کے پیرو ں کے نیچے کچل ڈالے گا تب اسلام پھر اپنی بلندی اور عظمت دکھائے گا اور بے حیا خنزیر قتل کئے جاویں گے اور مومنین کو وہ عزت کی کُرسی مل جائیگی جس کے وہ مستحق تھے.الغرض حدیث نبوی کی یہ تشریح ہے جو اس جگہ ہم نے بیان کر دی اور اسی کی طرف وہ الہام اشارہ کرتا ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہو چکا ہے.بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید وپائے محمّدیاں برمنار بلند تر محکم افتاد.اور اسی کی طرف وہ الہام بھی اشارہ کرتا ہے جو اس عاجز کی نسبت بحوالہ ایک حدیث نبوی کے جو پیشگوئی کے طور پر اس عاجز کے حق میں ہے خدائے تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے جو براہین میں درج ہے اور وہ یہ ہے لوکان الایمان معلّقًا بالثّریا لنا لہ رجل من فارس انّ الذین
اور حضرت موسیٰؑ کی روح سے آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کا ذکر کیا ہے.ایسا ہی بغیر ایک ذرہ فر ق کے حضرت عیسیٰ کی روح سے ملاقات ہو نا بیان کیا ہے بلکہ حضرت موسیٰ کی روح کا کھلے کھلے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرنا مفصل طور پر لکھا ہے پس اس حدیث کو پڑھ کر کچھ شک نہیں ہو سکتا کہ اگر حضرت مسیح جسم کے ساتھ آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں تو پھر ایسا ہی حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ وغیرہ انبیاء بھی اس جسم کے ساتھ اٹھا ئے گئے ہوں گے کیونکہ معراج کی رات میں وہ نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ہی رنگ میں آسمانوں پر نظر آئے ہیں یہ نہیں کہ کوئی خاص وَردی یا کوئی خاص علامت مجسم اٹھائے جانے کی حضرت مسیح میں دیکھی ہو اور دوسرے نبیوں میں وہ علامت نہ پائی گئی ہو.تمام حدیثوں کے پڑھنے والے اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی بقیہ حاشیہ.کفروا وصدّوا عن سبیل اللّٰہ ردّ علیھم رجل من فارس شکراللّٰہ سعیہ خذوا التوحید التوحید یاابناء الفارس.اس الہام میں صریح اور صاف طورپر بیان کیاگیا ہے کہ وہ فارسی الاصل جس کا دوسرا نام حارث بھی ہے بڑی خصوصیت یہ رکھتا ہے کہ اس کا ایمان نہایت درجہ کا قوی ہے اگر ایمان ثریامیں بھی ہوتا تو وہ مرد وہیں اس کو پالیتا خدا اس کا شکر گزار ہے کہ اس نے دین اسلام کے منکروں کے سب الزامات وشبہات کو رد کیا اور حجت کو پورا کر دیا توحید کو پکڑو توحید کو پکڑو اے ابنائے فارس یعنی توحید کی راہیں صاف کرو اور توحید سکھلاؤ اور توحید جو دنیا سے گری جاتی اور گم ہوتی جاتی ہے اس کو پکڑ لو کہ یہی سب سے مقدّم ہے اور اسی کو لوگ بھول گئے اور اس جگہ اِبْنکی جگہ جو اَبْناء کالفظ اختیار کیا گیا حالانکہ مخاطب صرف ایک شخص ہے یعنی یہ عاجز.یہ بطور اعزا ز کے حضرت باری تعالیٰ کی طرف سے ہے جیسا کہ بعض حدیثوں میں بجائے اس حدیث کے کہ لو کان الایمان معلقًا بالثریا لنالہ رجل من فارس ہے رجال من فارس
رات میں جن جن نبیوں سے ملاقا ت کی اُن سب کا ایک ہی طرز اور ایک ہی طور پر حال بیان کیا ہے حضرت مسیح کی کوئی خصوصیت بیان نہیں فرمائی.کیا یہ مقام علماء کے توجہ کرنے کے لائق نہیں؟ ایک نہایت لطیف نکتہ جو سورۃالقدر کے معانی پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ نے اس سورۃ میں صاف اور صریح لفظوں میں فرما دیاہے کہ جس وقت کوئی آسمانی مصلح زمین پر آتا ہے تو اس کے ساتھ فرشتے آسمان سے اُتر کر مستعد لوگوں کو حق کی طرف کھینچتے ہیں پس اِن آیات کے مفہوم سے یہ جدید فائدہ حاصل ہوتاہے کہ اگر سخت ضلالت اور غفلت کے زمانہ میں یک دفعہ ایک خارق عادت طور پر انسانوں کے قویٰ میں خود بخود مذہب کی تفتیش کی طرف حرکت پیداہونی شروع ہوجائے تو وہ اس بات کی علامت ہو گی کہ کوئی بقیہ حاشیہ.لکھاہے وہ بھی درحقیقت اسی اعزاز کے ارادہ سے ہے ورنہ ہر جگہ درحقیقت رجل ہی مراد ہے اس تمام تحقیق سے معلوم ہوا کہ حارث کی نسبت یہی عمدہ علامت احادیث میں ہے کہ ایمانی نمونہ لیکر دنیا میں آئے گا اور اپنی قوت ایمانی کی شاخیں اور اُن کے پھل ظاہر کر کے ضعیفوں کو تقویت بخشے گا اور کمزوروں کو سنبھال لے گا اور اپنی صداقت کی شعاعوں سے شپّر سیرت مخالفوں کو خیرہ کر دے گا لیکن مومنوں کے لئے آنکھ کی روشنی اور کلیجے کی ٹھنڈک کی طرح سکینت اور اطمینان اور تسلی کا موجب ہو گا اورایمانی معارف کا معلّم بن کر ایمانی روشنی کو قوم میں پھیلائے گا.اورہم رسالہ فتح اسلام میں ظاہر کر آئے ہیں کہ درحقیقت مسیح بھی ایک ایمانی معارف کاسکھلانے والااور ایمانی معلم تھا اور یہ بھی ظاہر کر آئے ہیں کہ مسیح بھی ظاہری لڑائیوں کے لئے نہیں آئے گا بلکہ بخاری نے یضع الحرب اس کی علامت لکھی ہے اور یہ کہ اُس کا قتل کرنا اپنے دم کی ہوا سے ہوگا نہ تلوار سے یعنی موجّہ باتوں سے روحانی طورپر قتل کر ے گا.سو مسیح اور حارث کا ان دونوں علامتوں میں شریک ہونا اس بات پر پختہ دلیل ہے کہ حارث اور مسیح موعود دراصل ایک ہی ہیں اور یہ حارث موعودکی پہلی علامت ہے جو ہم نے لکھی ہے یعنی یہ کہ وہ نہ سیف کے ساتھ نہ سنان کے ساتھ بلکہ اپنی قوت ایمانی کے ساتھ اور اپنے انوارعرفان کے ساتھ اپنی قوم کو تقویت دے گاجیسے قریش نے یعنی صدیقؓ وفاروق ؓ وحیدر کرارؓ ودیگر مومنین مکہ نے انہیں صفات استقامت کے ساتھ
آسمانی مصلح پیداہو گیا ہے کیونکہ بغیر روح القدس کے نزول کے وہ حرکت پیداہوناممکن نہیں اور وہ حرکت حسب استعداد و طبائع دو قسم کی ہوتی ہے حرکت تامہ اور حرکت ناقصہ.حرکت تامہ وہ حرکت ہے جوروح میں صفائی اور سادگی بخش کر اور عقل اور فہم کو کافی طور پر تیزکرکے روبحق کردیتی ہے.اور حرکت ناقصہ وہ ہے جو روح القدس کی تحریک سے عقل اور فہم تو کسی قدر تیزہو جاتا ہے مگر بباعث عدم سلامت استعداد کے وہ روبحق نہیں ہو سکتابلکہ مصداق اس آیت کا ہو جاتاہے کہ فِىْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌۙ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا ۱یعنی عقل اور فہم کے جنبش میں آنے سے پچھلی حالت اُس شخص کی پہلی حالت سے بد تر ہو جاتی ہے جیسا کہ تمام نبیوں کے وقت میں یہی ہوتارہا کہ جب اُن کے نزول کے ساتھ ملائک کا نزول ہوا توملائکہ کی اندرونی تحریک سے ہریک طبیعت عام طور پر جنبش میں آگئی تب جو لوگ راستی کے فرزند تھے وہ بقیہ حاشیہ.دین احمد ی کے مکّہ معظمہ میں قدم جماد ئے تھے.اس پہلی علامت کا ثبوت اس عاجز کی نسبت ہریک غور کرنے والے پر ظاہر ہوگا کہ یہ عاجز اسی قوتِ ایمانی کے جوش سے عام طور پر دعوت اسلام کے لئے کھڑا ہوا اور بارہ ہزار کے قریب اشتہارات دعوت اسلام رجسٹری کراکر تمام قوموں کے پیشواؤں اور امیروں اور والیانِ ملک کے نام روانہ کئے یہانتک کہ ایک خط اور ایک اشتہار بذریعہ رجسٹری گورنمنٹ برطانیہ کے شہزادہ ولی عہد کے نام بھی روانہ کیا اور وزیراعظم تخت انگلستان گلیڈ سٹون کے نام بھی ایک پرچہ اشتہار اور خط روانہ کیا گیا.ایسا ہی شہزادہ بسمارک کے نام اور دوسرے نامی امراء کے نام مختلف ملکوں میں اشتہار ات وخطوط روانہ کئے گئے جن سے ایک صندوق پُر ہے.اور ظاہر ہے کہ یہ کام بجُز قوت ایمانی کے انجام پذیر نہیں ہو سکتا.یہ بات خود ستائی کے طور پر نہیں بلکہ حقیقت نمائی کے طور پر ہے تاحق کے طالبوں پر کوئی بات مشتبہ نہ رہے.ماسوااس کے قوت ایمانی کے انوار جو تائیداتِ غیبیہ کے پیرایہ میں بطور خارق عادت ظاہر ہوتے ہیں جوخدائے تعالیٰ کے فضل ورحم اور قر ب پر دلالت کرتے ہیں اُن کے بارے میں بھی انہیں اشتہارات میں لکھا گیا ہے جو بباعث قوت ایمانی وقدم بر صراط مستقیم یہ سب نعمتیں اس عاجز کو خاص طور پر عطا کی گئی ہیں کسی مخالف مذہب کو یہ مرتبہ ہرگز حاصل نہیں اگر ہے تو وہ مقابلہ کے لئے کھڑا ہووے اور اپنی
اُن راستبازوں کی طرف کھنچے چلے آئے اور جو شرارت اور شیطان کی ذرّیت تھے وہ اس تحریک سے خوابِ غفلت سے جاگ تو اُٹھے اور دینیات کی طرف متوجہ بھی ہوگئے لیکن بباعث نقصان استعداد حق کی طرف رُخ نہ کر سکے سو فعل ملائک کا جو ربّانی مصلح کے ساتھ اُترتے ہیں ہریک انسان پر ہوتاہے لیکن اس فعل کا نیکوں پر نیک اثر اور بدوں پر بد اثر پڑتا ہے باراں کہ درلطافت طبعش خلاف نیست در باغ لالہ روید درشورہ بوم و خس اور جیساکہ ہم ابھی اوپر بیان کر چکے ہیں یہ آیت کریمہ فِىْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌۙ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا ۱ اسی مختلف طور کے اثر کی طرف اشارہ کرتی ہے.یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ہر نبی کے نزول کے وقت ایک لیلۃ القدر ہوتی ہے جس میں وہ نبی اور وہ کتاب جو اس کو دی گئی ہے آسمان سے نازل ہوتی ہے اور فرشتے آسمان سے اُترتے ہیں بقیہ حاشیہ.روحانی برکات کا جو اپنے مذہب کی اتباع سے اس کو حاصل ہوں اس عاجز سے موازنہ کرے لیکن آج تک کوئی مقابل پرنہیں اُٹھا اور نہ ا نسان ضعیف اور ہیچ کی یہ طاقت ہے کہ صرف اپنی مکّاری اور شرارتوں کے منصوبہ سے یا متعصبانہ ہٹ سے اس سلسلہ کے سامنے کھڑا ہوسکے جسکو خدائے تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے اور میں سچ کہتا ہوں کہ اگر کوئی اس سلسلہ کے سامنے اپنی برکات نمائی کی رو سے کھڑا ہو تو نہایت درجہ کی ذلّت سے گرادیا جائیگا کیونکہ یہ کام اور یہ سلسلہ انسان کی طرف سے نہیں بلکہ اُس ذات زبردست اور قوی کی طرف سے ہے جس کے ہاتھوں نے آسمانوں کو اُن کے تمام اجرام کے ساتھ بنایا اور زمین کو اس کے باشندوں کے لئے بچھادیا.افسوس کہ ہماری قو م کے مولوی اور علماء یُوں تو تکفیر کے لئے بہت جلد کاغذ او رقلم دوات لیکر بیٹھ جاتے ہیں لیکن ذرہ سوچتے نہیں کہ کیا یہ ہیبت اور رعب باطل میں ہؤاکرتا ہے کہ تمام دنیاکو مقابلہ کے لئے کہا جائے اور کوئی سامنے نہ آسکے کیا وہ شجاعت و استقامت جھوٹوں میں بھی کسی نے دیکھی ہے جو ایک عالم کے سامنے اس جگہ ظاہرکی گئی.اگر انہیں شک ہے تو مخالفین اسلام کے جسقدر پیشوااور واعظ اورمعلّم ہیں اُن کے دروازہ پر جائیں اور اپنے ظنون فاسدہ کا سہارا دیکر انہیں میرے مقابلہ پر روحانی امور کے موازنہ کے لئے کھڑاکریں پھر دیکھیں کہ خدائے تعالیٰ میری حمایت کرتاہے یا نہیں.اے خشک مولویو! اور پُر بدعت زاہد و! تم پر افسوس کہ تمھاری آنکھیں عوام الناس سے زیادہ تو کیا
لیکن سب سے بڑی لیلۃ القدر وہ ہے جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی گئی ہے درحقیقت اس لیلۃ القدر کا دامن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے قیامت تک پھیلا ہوا ہے اور جو کچھ انسانوں میں دلی اور دماغی قویٰ کی جنبش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے آج تک ہو رہی ہے وہ لیلۃ القدر کی تاثیریں ہیں صرف اتنا فرق ہے کہ سعیدوں کے عقلی قویٰ میں کامل اور مستقیم طور پر وہ جنبشیں ہوتیں ہیں اور اشقیاء کے عقلی قویٰ ایک کج اور غیر مستقیم طور سے جنبش میں آتے ہیں اور جس زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی نائب دنیا میں پیدا ہوتاہے تو یہ تحریکیں ایک بڑی تیزی سے اپنا کام کرتی ہیں بلکہ اُسی زمانہ سے کہ وہ نائب رحم مادر میں آوے پوشیدہ طور پر انسانی قویٰ کچھ کچھ جنبش شروع کرتے ہیں اور حسب استعداد اُن میں ایک حرکت پیداہو جاتی ہے اور اس نائب کو نیا بت کے اختیار ات ملنے کے وقت تو وہ جنبش نہایت تیز ہو جاتی ہے بقیہ حاشیہ.اُن کے برابر بھی نہیں دیکھ سکتیں آپ ہی یہ حدیثیں سُناتے ہوکہ الاٰیات بعد المأتین اورکہتے ہوکہ بارہ سو برس کے بعد مسیح موعودوغیرہ نشانیوں کاظاہر ہوناضروری ہے بلکہ تم میں سے وہ مولوی بھی ہیں جنہوں نے شرطی طور پر کتابیں لکھ ماریں اور چھپوابھی دیں کہ چودھویں صدی کے اوائل میں مسیح اور مہدی موعود کا ظاہر ہوناضروری ہے لیکن جب خدائے تعالیٰ نے اپنے پاک نشانوں کو ظاہر کیا تو اول المنکرین تم لوگ ہی ٹھہرے.اور قوت ایمانی کے آثار میں سے جو اس عاجز کو دی گئی ہے استجابت دعا بھی ہے اس عاجز پر ظاہر کیاگیا ہے کہ جو بات اس عاجز کی دعا کے ذریعہ سے ردّ کی جائے وہ کسی اور ذریعہ سے قبول نہیں ہو سکتی اور جو دروازہ اس عاجز کے ذریعہ سے کھولا جائے وہ کسی اور ذریعہ سے بند نہیں ہو سکتالیکن یہ قبولیت کی برکتیں صرف اُن لوگوں پر اپنا اثر ڈالتی ہیں کہ جو غایت درجہ کے دوست یاغایت درجہ کے دشمن ہوں جو شخص پور ے اخلاص سے رجوع کرتا ہے یعنی ایسے اخلاص سے جس میں کسی قسم کا کھوٹ پوشیدہ نہیں جس کاانجام بدظنی وبد اعتقادی نہیں جس میں کوئی چُھپی ہوئی نفاق کی زہر نہیں وہ بے شک ان برکتوں کو دیکھ سکتا ہے اور ان سے حصہ پاسکتا ہے او روہ بلاشبہ اس چشمہ کو اپنی استعداد کے موافق شناخت کر لے گا مگر جو خلوص کے ساتھ نہیں ڈھونڈے گا وہ اپنے ہی قصور کی وجہ سے محروم رہ جائے گا اور اپنی ہی اجنبیت کے باعث سے بیگانہ رہے گا.
پس نائب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزول کے وقت جو لیلۃ القدر مقررکی گئی ہے وہ درحقیقت اس لیلۃ القدر کی ایک شاخ ہے یا یوں کہو کہ اس کا ایکِ ظل ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی ہے خدائے تعالیٰ نے اس لیلۃ القدر کی نہایت درجہ کی شان بلند کی ہے جیساکہ اُس کے حق میں یہ آیت کریمہ ہے کہ 3 ۱ یعنی اس لیلۃ القدر کے زمانہ میں جو قیامت تک مُمتد ہے ہریک حکمت اور معرفت کی باتیں دنیا میں شائع کردی جائیں گی اور انواع اقسام کے علوم غریبہ و فنون نادرہ و صناعات عجیبہ صفحۂ عالم میں پھیلا دئے جائیں گے اور انسانی قویٰ میں موافق اُن کی مختلف استعدادوں اور مختلف قسم کے امکان بسطت علم اور عقل کے جو کچھ لیاقتیں مخفی ہیں یا جہاں تک وہ ترقی کر سکتے ہیں سب کچھ بمنصہ ظہور لایا جائے گا لیکن یہ سب کچھ ان دنوں میں پر زور تحریکوں سے ہوتارہے گا کہ جب کوئی نائب رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقیہ حاشیہ.اور ایک پھل قوت ایمانی کا اسرار حقہ ومعارف دینیہ کاذخیرہ ہے جو اس عاجز کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے عنایت ہوا ہے.پس جو شخص اس عاجز کی تالیفات پر نظر ڈالے گا یا اس عاجز کی صحبت میں رہے گا اُس پر یہ حقیقت آپ ہی کھل جائیگی کہ کس قدر خدائے تعالیٰ نے اس عاجز کو دقائق وحقائق دینیہ سے حصہ دیا ہے.دوسری اور تیسری علامت یعنی یہ کہ بخاری یا سمرقندی الاصل ہونا اور زمیندار اور زمینداری کے ممیّز خاندان میں سے ہونا یہ دونوں علامتیں صریح اور بیّن طور پر اس عاجز میں ثابت ہیں اور اس جگہ مجھے قرینِ مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ اپنے آباء کی لائف یعنی سوانح زندگی کسی قدر اختصار کے ساتھ لکھوں سو پہلے میں یہ ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ عرصہ قریب بیس برس کے ہوا ہوگا کہ ایک انگریز مسٹر گریفن نام نے بھی جو اس ضلع میں ڈپٹی کمشنر رہ چکا ہے اور ریاست بھوپال اور راجپوتانہ ریاستوں کا رزیڈنٹ بھی رہا ہے پنجا ب کے رئیسوں کا ایک سوانح تاریخ کے طور پر تالیف کر کے چھپوایا تھا اس میں انہوں نے میرے والد مرحوم مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کا ذکر کرکے کچھ مختصر طور پر اُن کے زمینداری خاندان کاحال اور سمر قندی الاصل ہونا لکھا ہے لیکن میں اس جگہ کسی قدر مفصل بیان کرنے کی غرض سے ان تمام امور کو وضاحت سے لکھنا چاہتا ہوں جو اس حدیث نبو ی کی کامل تشریح کے لئے بطور مصداق کے ہیں تا اس عاجز کا ابتد ا سے سمرقندی الاصل ہونا اور ابتدا سے یہ خاندان ایک زمینداری خاندان ہونا جیساکہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا
دنیا میں پیداہو گا درحقیقت اِسی آیت کو سورۃ الزلزال میں مفصل طور پر بیان کیا گیا ہے کیونکہ سورۃ الزلزال سے پہلے سورۃ القدر نازل کرکے یہ ظاہر فرمایا گیا ہے کہ سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ خدائے تعالیٰ کا کلام لیلۃ القدر میں ہی نازل ہوتاہے اور اس کا نبی لیلۃ القدر میں ہی دنیا میں نزول فرماتا ہے اور لیلۃ القدر میں ہی وہ فرشتے اُترتے ہیں جن کے ذریعہ سے دُنیا میں نیکی کی طرف تحریکیں پیداہوتی ہیں اور وہ ضلالت کی پُر ظلمت رات سے شروع کر کے طلوع صبح صداقت تک اسی کام میں لگے رہتے ہیں کہ مستعد دلوں کو سچائی کی طرف کھینچتے رہیں.پھر بعد اس سورۃ کے خدائے تعالیٰ نے سورۃ البیّنہ میں بطور نظیر کے بیان کیا کہ لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَالْمُشْرِكِيْنَ مُنْفَكِّيْنَ حَتّٰى تَاْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُۙ ۱. یعنی جن سخت بلاؤں میں اہل کتاب اور مشرکین مبتلا تھے اُن سے نجات پانے کی کوئی بقیہ حاشیہ.منشاء ہے.اچھی طرح لوگوں پر ظاہر ہوجائے.واضح ہو کہ اُن کاغذات اور پُرانی تحریرات سے کہ جو اکابراس خاندان کے چھوڑ گئے ہیں ثابت ہوتا ہے کہ بابر بادشاہ کے وقت میں کہ جو چغتائی سلطنت کا مورث اعلیٰ تھا بزرگ اجداد اس نیاز مند الٰہی کے خاص سمر قند سے ایک جماعت کثیرکے ساتھ کسی سبب سے جو بیان نہیں کیا گیا ہجرت اختیار کرکے دہلی میں پہنچے اور دراصل یہ بات اُن کاغذات سے اچھی طرح واضح نہیں ہوتی کہ کیا وہ بابر کے ساتھ ہی ہندوستان میں داخل ہوئے تھے یا بعد اس کے بلا توقف اس ملک میں پہنچ گئے.لیکن یہ امر اکثر کاغذات کے د یکھنے سے بخوبی ثابت ہوتا ہے کہ گو وہ ساتھ پہنچے ہوں یا کچھ دن پیچھے سے آئے ہوں مگر انہیں شاہی خاندان سے کچھ ایسا خاص تعلق تھاجس کی وجہ سے وہ اس گورنمنٹ کی نظر میں معزز سرداروں میں سے شمار کئے گئے تھے چنانچہ بادشاہ وقت سے پنجاب میں بہت سے دیہات بطور جاگیر کے اُنہیں ملے اور ایک بڑی زمینداری کے وہ تعلق دار ٹھہرائے گئے اور ان دیہات کے وسط میں ایک میدان میں انہوں نے قلعہ کے طور پر ایک قصبہ اپنی سکونت کے لئے آباد کیا جس کانام اسلام پورقاضی ماجھی رکھا یہی اسلام پور ہے جو اَب قادیان کے نام سے مشہور ہے.اس قصبہ کے گردا گرد ایک فصیل تھی جس کی بلندی بیس فٹ کے قریب ہوگی اور عرض اس قدر تھا کہ تین چھکڑے ایک دوسرے کے برابر اس پر چل سکتے تھے چار بڑے بڑے بُرج تھے.
سبیل نہ تھی بجُز اس سبیل کے کہ خدائے تعالیٰ نے آپ پیداکردی کہ وہ زبردست رسول بھیجا جس کے ساتھ زبردست تحریک دینے والے ملائک نازل کئے تھے اور زبردست کلام بھیجا گیا تھا پھر بعد اس کے آنے والے زمانہ کے لئے خدائے تعالیٰ سورۃ الزلزال میں بشارت دیتا ہے اور اِذَازُلْزِلَتْ کے لفظ سے اِس بات کی طرف اشارہ کرتاہے کہ جب تم یہ نشانیاں دیکھو تو سمجھ لو کہ وہ لیلۃ القدر اپنے تمام تر زور کے ساتھ پھر ظاہر ہوئی ہے اور کوئی ربّانی مصلح خدائے تعالیٰ کی طرف سے مع ہدایت پھیلانے والے فرشتوں کے نازل ہو گیاہے جیساکہ فرماتا ہے اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَاۙ وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَهَاۙ وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَا لَهَاۚ يَوْمَٮِٕذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَهَاۙ بِاَنَّ رَبَّكَ اَوْحٰى لَهَاؕ يَوْمَٮِٕذٍ يَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتًا ۙ لِّيُرَوْا اَعْمَالَهُمْ فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ بقیہ حاشیہ.جن میں قریب ایک ہزار کے سوا ر و پیادہ فوج رہتی تھی اوراس جگہ کا نام جو اسلام پور قاضی ماجھی تھا تو اس کی یہ وجہ تھی کہ ابتدا میں شاہان دہلی کی طرف سے اس تمام علاقہ کی حکومت ہمارے بزرگوں کو دی گئی تھی اور منصب قضا یعنی رعایا کے مقدمات کا تصفیہ کرنا ان کے سپرد تھا اور یہ طرز حکومت اس وقت تک قائم وبرقرار رہی کہ جس وقت تک پنجاب کا ملک دہلی کے تخت کا خراج گذار رہا لیکن بعد اس کے رفتہ رفتہ چغتائی گورنمنٹ میں بباعث کاہلی وسُستی وعیش پسندی ونالیاقتی تخت نشینوں کے بہت سافتور آگیا اور کئی ملک ہاتھ سے نکل گئے انہیں دنوں میں اکثر حصہ پنجاب کا گورنمنٹ چغتائی سے منقطع ہو کر یہ ملک ایک ایسی بیوہ عورت کی طرح ہوگیاجس کے سر پر کوئی سرپرست نہ ہو اور خدا ئے تعالیٰ کے اعجوبہ قدرت نے سکھوں کی قوم کوجو دہقان بے تمیز تھی ترقی دیناچاہاچنانچہ اُن کی ترقی اور تنزل کے دونوں زمانے پچاس برس کے اندر اندر ختم ہوکر اُن کا قصہ بھی خواب خیال کی طرح ہو گیا.غرض اس زمانہ میں کہ جب چغتائی سلطنت نے اپنی نالیاقتی اور اپنی بدانتظامی سے پنجاب کے اس حصہ سے بکلّی دستبرداری اختیار کی تو ان دنوں میں بڑے بڑے زمیندار اس نواح کے خود مختار بن کر اپنے اقتدار کامل کانقشہ جمانے لگے.سو انہیں ایام میں بفضل واحسان الٰہی اس عاجز کے پرداداصاحب مرزا گل محمد مرحوم اپنے تعلقہ زمینداری کے ایک مستقل رئیس اور طوائف الملوک میں سے بنکر ایک چھوٹے سے علاقہ کے جو صرف چورا ۸۴سی یاپچا ۸۵سی گاؤں رہ گئے تھے کامل اقتدار
وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ۱.یعنی اُن دنوں کا جب آخری زمانہ میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے کوئی عظیم الشان مصلح آئے گا اور فرشتے نازل ہوں گے یہ نشان ہے کہ زمین جہاں تک اُس کاہلانا ممکن ہے ہلائی جائے گی یعنی طبیعتوں اور دلوں اور دماغوں کو غایت درجہ پر جنبش دی جائے گی اور خیالات عقلی اور فکری اور سبعی اور بہیمی پور ے پورے جوش کے ساتھ حرکت میں آجائیں گے اور زمین اپنے تمام بوجھوں کو باہر نکا ل دے گی یعنی انسانوں کے دل اپنی تمام استعدادات مخفیہ کو بمنصہ ظہور لائیں گے اور جو کچھ اُن کے اندر علوم وفنون کا ذخیر ہ ہے یا جو کچھ عمدہ عمدہ دلی و دماغی طاقتیں و لیاقتیں اُن میں مخفی ہیں سب کی سب ظاہر ہو جائیں گی اور انسانی قوتوں کا آخری نچوڑ نکل آئے گا اور جو جو ملکات انسان کے اندر ہیں یا جو جو جذبات اس کی فطرت میں مودع ہیں وہ تمام مکمن قوت سے حیّزِ فعل میں آجائیں گے اور انسانی حواس کی ہریک نوع کی بقیہ حاشیہ.کے ساتھ فرماں روا ہو گئے اور اپنی مستقل ریاست کا پور اپورا انتظام کرلیا اور دشمنوں کے حملے روکنے کے لئے کافی فوج اپنے پاس رکھ لی اور تمام زندگی ان کی ایسی حالت میں گذری کہ کسی دوسرے بادشاہ کے ماتحت نہیں تھے اور نہ کسی کے خراج گزار بلکہ اپنی ریاست میں خود مختار حاکم تھے اور قریب ایک ہزار سوار وپیادہ ان کی فوج تھی اور تین توپیں بھی تھیں اور تین چار سو آدمی عمدہ عمدہ عقلمندوں اورعلماء میں سے ان کے مصاحب تھے اورپانچسو کے قریب قرآن شریف کے حافظ وظیفہ خوار تھے جو اس جگہ قادیان میں رہا کرتے تھے اور تمام مسلمانوں کو سخت تقید سے صوم وصلٰوۃ کی پابندی اور دین اسلام کے احکام پر چلنے کی تاکید تھی اور منکرات شرعی کو اپنی حدودمیں رائج ہونے نہیں دیتے تھے اور اگر کوئی مسلمان ہو کر خلاف شعار اسلا م کوئی لباس یا وضع رکھتا تھاتو وہ سخت مورد عتاب ہوتا تھا اور سقیم الحال اورغربااور مساکین کی خبر گیری اور پرورش کے لئے ایک خاص سرمایہ نقد اور جنس کاجمع رہتا تھاجو وقتًا فوقتًا ان کو تقسیم ہوتاتھا.یہ اُن تحریرات کا خلاصہ ہے جو اس وقت کی لکھی ہوئی ہم کو ملی ہیں جن کی زبانی طور پر بھی شہادتیں بطریق مسلسل اب تک پائی جاتی ہیں.یہ بھی لکھاہے کہ ان دنوں میں ایک وزیر سلطنت مغلیہ کا غیاث الدولہ نام قادیان میں آیا اور میرزا گل محمد صاحب مرحوم کے استقلال وحسن تدبیر وتقویٰ وطہارت وشجاعت واستقامت کو دیکھ کرچشم پُر آب ہوگیا اور کہا کہ اگر مجھے پہلے سے خبر ہوتی کہ خاندان مغلیہ میں سے ایک ایسا مرد پنجاب کے
تیزیاں اور بشری عقل کی ہر قسم کی باریک بینیاں نمودارہوجائیں گی اور تمام دفائن و خزائن علوم مخفیہ و فنون مستورہ کے جو چھپے ہوئے چلے آتے تھے اُن سب پر انسان فتحیاب ہو جائے گا اور اپنی فکری اور عقلی تدبیروں کو ہریک باب میں انتہا تک پہنچا دے گا اور انسان کی تمام قوتیں جو نشاءِ انسانی میں مخمّر ہیں صدہا طرح کی تحریکو ں کی وجہ سے حرکت میں آجائیں گی اور فرشتے جو اس لیلۃ القدرمیں مردِ مصلح کے ساتھ آسمان سے اُترے ہوں گے ہریک شخص پر اس کی استعداد کے موافق خارق عادت اثر ڈالیں گے یعنی نیک لوگ اپنے نیک خیال میں ترقی کریں گے اور جن کی نگاہیں دنیا تک محدود ہیں وہ اُن فرشتوں کی تحریک سے دنیوی عقلوں اور معاشرت کی تدبیروں میں وہ یدِ بیضا دکھلائیں گے کہ ایک مرد عارف متحیّر ہو کر اپنے دل میں کہے گا کہ یہ عقلی اور فکری طاقتیں ان لوگوں کو کہاں سے ملیں ؟ تب اُس روز ہریک استعداد انسانی بزبان حال باتیں کرے گی کہ یہ اعلیٰ درجہ کی طاقتیں بقیہ حاشیہ.ایک گوشہ میں موجود ہے تو میں کوشش کرتا کہ تا وہی دہلی میں تخت نشین ہو جاتا اور خاندان مغلیہ تباہ ہونے سے بچ جاتا.غرض مرزا صاحب مرحوم ایک مرد اولی العزم اور متقی اور غایت درجہ کے بیدار مغز اور اول درجہ کے بہادر تھے اگر اُس وقت مشیت الٰہی مسلمانوں کے مخالف نہ ہوتی تو بہت امید تھی کہ ایسا بہادر اور اولی العز م آدمی سکھوں کی بلند شورش سے پنجاب کا دامن پاک کر کے ایک وسیع سلطنت اسلام کی اس ملک میں قائم کر دیتا.جس حالت میں رنجیت سنگھ نے باوجود اپنی تھوڑی سی پدری ملکیت کے جو صرف نو گاؤں تھے تھوڑے ہی عرصہ میں اس قدر پیر پھیلا لئے تھے جو پشاور سے لدھیانہ تک خالصہ ہی خالصہ نظر آتا تھا اور ہر جگہ ٹڈیوں کی طرح سکھوں کی ہی فوجیں دکھائی دیتی تھیں تو کیا ایسے شخص کے لئے یہ فتوحات قیاس سے بعید تھیں؟ جس کی گمشدہ ملکیت میں سے ابھی چوراسی یا پچاسی گاؤں باقی تھے اور ہزا ر کے قریب فوج کی جمعیت بھی تھی اور اپنی ذاتی شجاعت میں ایسے مشہور تھے کہ اُس وقت کی شہادتوں سے بہ بداہت ثابت ہوتا ہے کہ اس ملک میں اُن کا کوئی نظیرنہ تھا لیکن چونکہ خدائے تعالیٰ نے یہی چاہا تھا کہ مسلمانوں پر ان کی بے شمار غفلتوں کی وجہ سے تنبیہ نازل ہو اس لئے مرزا صاحب مرحوم اس ملک کے مسلمانوں کی ہمدردی میں کامیاب نہ ہو سکے اور میرزا صاحب مرحوم کے حالات عجیبہ میں سے ایک یہ ہے کہ مخالفین مذہب بھی ان کی نسبت ولایت کا گمان رکھتے تھے اور ان کی بعض خارق عادت امور عام طور پر دلوں میں نقش ہو گئے تھے
میری طرف سے نہیں بلکہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے یہ ایک وحی ہے جو ہریک استعداد پر بحسب اُس کی حالت کے اُتر رہی ہے یعنی صاف نظر آئے گا کہ جو کچھ انسانوں کے دل و دماغ کا م کررہے ہیں یہ ان کی طرف سے نہیں بلکہ ایک غیبی تحریک ہے کہ اُن سے یہ کام کرا رہی ہے سو اُس دن ہریک قسم کی قوتیں جوش میں دکھائی دیں گی دنیا پرستوں کی قوتیں فرشتوں کی تحریک سے جوش میں آکر اگرچہ بباعث نقصان استعداد کے سچائی کی طرف رُخ نہیں کریں گی لیکن ایک قسم کا اُبال ان میں پیدا ہوکر اور انجماد اور افسردگی دور ہو کر اپنی معاشرت کے طریقوں میں عجیب قسم کی تدبیریں اور صنعتیں اور کَلیں ایجاد کرلیں گے اور نیکوں کی قوتوں میں خارق عادت طور پر الہامات اور مکاشفا ت کا چشمہ صاف صاف طور پر بہتا نظر آئے گااور یہ بات شاذونادر ہو گی کہ مومن کی خواب جھوٹی نکلے تب انسانی قویٰ کے ظہور و برو ز کا دائرہ پورا ہو جائے گا اور جو کچھ بقیہ حاشیہ.یہ بات شاذو نادر ہوتی ہے کہ کوئی مذہبی مخالف اپنے دشمن کی کرامات کا قائل ہو لیکن اس راقم نے مرزا صاحب مرحوم کے بعض خوارق عادت اُن سکھوں کے مُنہ سے سنے ہیں جن کے باپ دادا مخا لف گروہ میں شامل ہو کر لڑتے تھے.اکثر آدمیوں کا بیان ہے کہ بسا اوقات مرزا صاحب مرحوم صرف اکیلے ہزار ہزار آدمی کے مقابل پر میدا ن جنگ میں نکل کر اُن پر فتح پا لیتے تھے اور کسی کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ اُن کے نزدیک آسکے اور ہر چند جان توڑکر دشمن کا لشکر کوشش کرتا تھا کہ توپوں یا بندوقوں کی گولیوں سے اُن کو مار دیں مگر کوئی گولی یا گولہ اُن پر کارگر نہیں ہوتا تھا.یہ کرامت اُن کی صدہا موافقین اور مخالفین بلکہ سکھوں کے مُنہ سے سُنی گئی ہے جنہوں نے اپنے لڑنے والے باپ دادوں سے سندًا بیان کی تھی.لیکن میرے نزدیک یہ کچھ تعجب کی بات نہیں اکثرلوگ ایک زمانہ دراز تک جنگی فوجوں میں نوکر رہ کر بہت سا حصہ اپنی عمر کا لڑائیوں میں بسر کرتے ہیں اور قدرت حق سے کبھی ایک خفیف سا زخم بھی تلوار یا بندوق کا اُن کے بدن کو نہیں پہنچتا.سو یہ کرامت اگر معقول طور پر بیان کی جائے کہ خدائے تعالیٰ اپنے خاص فضل سے دشمنوں کے حملوں سے انہیں بچاتا رہا تو کچھ حرج کی بات نہیں اس میں کچھ شک نہیں ہو سکتا کہ مرز ا صاحب مرحوم دن کے وقت ایک پُرہیبت بہادر اور رات کے وقت ایک باکمال عا بد تھے اور معمور الاوقات اور متشرع تھے.اُس زمانہ میں قادیان میں وہ نور اسلام چمک رہا تھا کہ ارد گرد کے مسلمان اس قصبہ کو مکّہ کہتے تھے.لیکن
انسان کے نوع میں پوشیدہ طورپر ودیعت رکھا گیا تھاوہ سب خارج میں جلوہ گر ہو جائے گا تب خدائے تعالیٰ کے فرشتے ان تمام راستبازوں کو جو زمین کی چاروں طرفوں میں پوشیدہ طور پر زندگی بسر کر تے تھے ایک گروہ کی طرح اکٹھا کردیں گے اور دنیا پرستوں کا بھی کھلا کھلا ایک گروہ نظر آئے گا تا ہرایک گروہ اپنی کوششوں کے ثمرات کو دیکھ لیویں تب آخر ہو جائے گی یہ آخری لیلۃ القدر کا نشان ہے جس کی بنا ابھی سے ڈالی گئی ہے جس کی تکمیل کے لئے سب سے پہلے خدائے تعالیٰ نے اس عاجزکو بھیجا ہے اور مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ انت اشد مناسبۃ بعیسی ابن مریم واشبہ الناس بہِ خُلْقًا و خَلْقًا و زمانًامگر یہ تاثیرات اس لیلۃ القدر کی اب بعد اس کے کم نہیں ہوں گی بلکہ با لاتصال کام کرتی رہیں گی جب تک وہ سب کچھ پورا نہ ہو لے جو خدائے تعالیٰ آسمان پر مقرر کر چکاہے.بقیہ حاشیہ.مرزاگل محمد صاحب مرحوم کے عہد ریاست کے بعد مرزا عطا محمد صاحب کے عہد ریاست میں جو اس عاجز کے دادا صاحب تھے یکدفعہ ایک سخت انقلاب آگیااور ان سکھوں کی بے ایمانی او ر بد ذاتی اور عہد شکنی کی وجہ سے جنہوں نے مخالفت کے بعد محض نفاق کے طور پر مصالحہ اختیار کر لیا تھا انواعِ اقسام کی مصیبتیں اُن پر نازل ہوئیں اور بجُز قادیان اور چند دیہات کے تمام دیہات اُن کے قبضہ سے نکل گئے.بالآخر سکھوں نے قادیان پر بھی قبضہ کر لیا اوردادا صاحب مرحوم معہ اپنے تمام لواحقین کے جلا وطن کئے گئے اُ س روز سکھوں نے پانچسو کے قریب قرآن شریف آگ سے جلا دیا اور بہت سی کتابیں چاک کر دیں اور مساجد میں سے بعض مسما ر کیں بعض میں اپنے گھر بنائے اور بعض کو دھرم سالہ بنا کر قائم رکھاجو اب تک موجود ہیں اس فتنہ کے وقت میں جس قدر فقراء وعلماء وشرفا ونجباء قادیان میں موجود تھے سب نکل گئے او رمختلف بلاد وامصار میں جا کر آباد ہو گئے اور یہ جگہ اُن شریروں اور یزیدی الطبع لوگوں سے پُر ہوگئی جن کے خیالات میں بجز بدی اور بدکاری کے اور کچھ نہیں تھا پھر انگریزی سلطنت کے عہد سے کچھ عرصہ پہلے یعنی ان دنوں میں جبکہ رنجیت سنگھ کا عام تسلّط پنجاب پر ہو گیا تھا اس عاجز کے والد صاحب یعنی میرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم دوبارہ اس قصبہ میں آ کر آباد ہو ئے اور پھر بھی سکھو ں کی جو روجفا کی نیش زنی ہوتی رہی اُن دنوں میں
اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے اُترنے کے لئے جو زمانہ انجیل میں بیان فرمایا ہے یعنی یہ کہ وہ حضرت نوح کے زما نہ کی طرح امن اور آرام کا زمانہ ہو گا در حقیقت اسی مضمون پر سورۃ الزلزال جس کی تفسیر ابھی کی گئی ہے دلالت التزامی کے طور پر شہادت دے رہی ہے کیونکہ علوم و فنون کے پھیلنے اور انسانی عقول کی ترقیات کا زمانہ درحقیقت ایسا ہی چاہیئے جس میں غایت درجہ کا امن وآرام ہو کیونکہ لڑائیوں اور فسادوں اور خوف جان اور خلاف امن زمانہ میں ہر گز ممکن نہیں کہ لوگ عقلی و عملی امور میں ترقیات کر سکیں یہ باتیں تو کامل طور پر تبھی سوجھتی ہیں کہ جب کامل طور پر امن حاصل ہو.ہمار ے علماء نے جو ظاہری طور پر اس سور ۃ الزلزال کی یہ تفسیر کی ہے کہ درحقیقت بقیہ حاشیہ.ہم لوگ ایسے ذلیل وخوار تھے کہ ایک گائے کا بچہ جو دو یا ڈیڑھ روپے کو آسکتا ہے صدہا درجہ زیادہ ہماری نسبت بنظر عزت دیکھاجاتا تھا اور اس جانور کو ایک ادنیٰ خراش پہنچانے کی وجہ سے انسان کا خون کرنا مباح سمجھاگیاتھا صدہا آدمی ناکرد ہ گناہ صرف اس شک سے قتل کئے جاتے تھے کہ انہوں نے اس جانور کے ذبح کرنے کا ارادہ کیا ہے اور ظاہر ہے کہ ایسی جاہل ریاست کہ جو حیوان کے قتل کے عوض انسان کو قتل کر ڈالنا اپنا فرض سمجھتی تھی اس لائق نہیں تھی کہ خدائے تعالیٰ بہت عرصہ تک اس کو مہلت دیتا اس لئے خدا ئے تعالیٰ نے اس تنبیہ کی صورت کو مسلمانوں کے سر پر سے بہت جلد اُٹھا لیا اور ابر رحمت کی طرح ہمارے لئے انگریزی سلطنت کو دُور سے لایااور وہ تلخی اور مرارت جو سکھوں کے عہد میں ہم نے اُٹھائی تھی گورنمنٹ برطانیہ کے زیر سایہ آکر ہم سب بھول گئے.اور ہم پر اور ہماری ذرّیّت پر یہ فرض ہو گیا کہ اس مبارک گورنمنٹ برطانیہ کے ہمیشہ شکر گذار رہیں.انگریزی سلطنت میں تین گاؤں تعلقداری اور ملکیت قادیان کا حصہ جدّی والد صاحب مرحوم کو ملے جو اَب تک ہیں اور حرّ اث کے لفظ کے مصداق کے لئے کافی ہیں.والد صاحب مرحوم اس ملک کے ممیّز زمیند اروں میں شمارکئے گئے تھے گورنری دربارمیں اُن کو کُرسی ملتی تھی.اور
زمین کو آخری دنوں میں سخت زلزلہ آئے گا اور وہ زلزلہ ایسا ہوگاکہ تمام زمین اُس سے زیرو زبر ہو جائے گی اور جو زمین کے اندر چیزیں ہیں وہ سب باہر آجائیں گی اور ا نسان یعنی کافر لوگ زمین کو پوچھیں گے کہ تجھے کیا ہوا تب اُس روز زمین باتیں کرے گی اور اپنا حال بتائے گی.یہ سراسر غلط تفسیر ہے کہ جو قرآن شریف کے سیاق و سباق سے مخالف ہے.اگر قرآن شریف کے اس مقام پر بنظر غور تدبّر کرو تو صاف ظاہر ہوتاہے کہ یہ دونو ں سورتیں یعنی سورۃ البیّنہ اور سورۃ الزلزال،سورۃ لیلۃ القدرکے متعلق ہیں اور آخری زمانہ تک اس کا کل حال بتلا رہی ہیں ماسوا اس کے کہ ہریک عقل سلیم سوچ سکتی ہے کہ ایسے بڑے زلزلہ کے وقت میں کہ جب ساری زمین تہ و بالا ہو جائے گی ایسے کافر کہاں بقیہ حاشیہ.گورنمنٹ برطانیہ کے وہ سچے شکر گذار اور خیر خواہ تھے ۱۸۵۷ء کے غدر کے ایا م میں پچاس گھوڑے انہوں نے اپنے پاس سے خرید کر اور اچھے اچھے جوان مہیا کر کے پچاس سوار بطور مدد کے سرکار کودئے اس وجہ سے وہ اس گورنمنٹ میں بہت ہر دل عزیز تھے اور گورنمنٹ کے اعلیٰ حکام دلجوئی کے ساتھ اُن کو ملتے تھے بلکہ بسا اوقات صاحبان ڈپٹی کمشنر وکمشنر مکان پر آکر اُن کی ملاقات کرتے تھے.اس تمام تقریر سے ظاہر ہے کہ یہ خاندان ایک معزز خاندان زمینداری ہے جو شاہان سلف کے زمانہ سے آج تک آثارعزت کسی قدر موجود رکھتا ہے فالحمد للّٰہ الّذی اثبت ھذہ العلامۃ اثباتًا بیّنًا واضحًا من عندہٖ.اور چوتھی اورپانچویں علامت کی تصریح کچھ ضروری نہیں خود ظاہر ہے اور قادیان کو جو خدائے تعالیٰ نے دمشق کے ساتھ مشابہت دی اور یہ بھی ا پنے الہام میں فرمایا کہ اخرج منہ الیزیدیون یہ تشبیہ بوجہ ان مُلحدوں اور شریروں کے ہے جو اس قصبہ میں رہتے ہیں کیونکہ ا س قصبہ میں اکثر ایسے لوگ بھرے ہوئے ہیں جن کو موت یاد نہیں.دن رات دنیا کے فریبوں اور مکروں میں لگے ہوئے ہیں.اگر انتظام گورنمنٹ انگریزی مانع نہ ہو تو ان لوگوں کے دل ہریک جرم کے کرنے کو طیارہیں الّا ماشاء اللہ ان میں سے ایسے بھی ہیں کہ جو خدائے تعالیٰ کے وجود سے بکلّی منکر ہیں اور کسی چیز کو حرام نہیں سمجھتے
زندہ رہیں گے.جو زمین سے اُس کے حالات استفسار کریں گے کیا ممکن ہے کہ زمین تو ساری زیر و زبر ہو جائے یہاں تک کہ اُوپر کا طبقہ اندر اور اندر کا طبقہ باہر آجا ئے اور پھر لوگ زند ہ بچ رہیں بلکہ اس جگہ زمین سے مراد زمین کے رہنے والے ہیں اور یہ عام محاورہ قرآن شریف کا ہے کہ زمین کے لفظ سے انسا نوں کے دل اور ان کے باطنی قویٰ مراد ہوتے ہیں جیساکہ اللہ جل شَانُہٗ ایک جگہ فرماتا ہے اور جیساکہ فرماتا ہے اِعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰهَ يُحْىِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَاؕ ۱.وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهٗ بِاِذْنِ رَبِّهٖۚ وَالَّذِىْ خَبُثَ بقیہ حاشیہ.مَیں اُن کے دلوں کو دیکھتا ہوں کہ زنا سے لے کر خون ناحق تک اگر موقعہ پاویں اُن کے نزدیک نہ صرف جائزبلکہ یہ سب کام تعریف کے لائق ہیں.میں اُن کے نزدیک شاید تمام دنیا سے بدترہوں مگر مجھے افسوس نہیں میرے روحانی بھائی مسیح کا قول مجھے یادآتا ہے کہ نبی بے عزت نہیں مگر اپنے وطن میں.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگریہ لوگ امام حسینؓ کا وقت پاتے تو میرے خیال میں ہے کہ یزید اور شمر سے پہلے ان کاقدم ہوتا اور اگرمسیح کے زمانہ کو دیکھتے تو اپنی مکاریوں میں یہودا اسکریوطی کوپیچھے ڈال دیتے.خدائے تعالیٰ نے جو اِن کو یزیدیوں سے مناسبت دی تو بے وجہ نہیں دی اُس نے ان کے دلوں کو دیکھا کہ سیدھے نہیں اُن کے چلن پر نظرڈالی کہ درست نہیں تب اس نے مجھے کہا کہ یہ لوگ یزیدی الطبع ہیں اور یہ قصبہ دمشق سے مشابہ ہے.سوخدائے تعالیٰ نے ایک بڑے کام کے لئے اس دمشق میں اس عاجز کو اُتارا بطرفٍ شرقیٍ عند المنارۃ البیضاء من المسجد الذی من دخلہ‘ کان آمِنًا فتبارک الذی انزلنی فی ھذا المقام والسلام علٰی رسُولہ افضل الرّسل وخیر الانام.منہ
لَا يَخْرُجُ اِلَّا نَكِدً۱ ۱ ایسا ہی قرآن شریف میں بیسیوں نظیریں موجود ہیں جو پڑھنے والوں پر پوشیدہ نہیں ماسوا اس کے روحانی واعظوں کا ظاہر ہونا اور ان کے ساتھ فرشتوں کا آنا ایک روحانی قیامت کا نمونہ ہوتا ہے جس سے مردوں میں حرکت پیداہو جاتی ہے اور جو قبروں کے اندر ہیں وہ باہر آجاتے ہیں اور نیک اور بد لوگ اپنی سزاجزاپالیتے ہیں سو اگر سورۃ الزلزال کو قیامت کے آثار میں سے قرار دیا جائے تو اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ ایسا وقت روحانی طور پر ایک قسم کی قیامت ہی ہوتی ہے خدائے تعالیٰ کے تائید یافتہ بندے قیامت کا ہی رُوپ بن کر آتے ہیں اور انہیں کا وجود قیامت کے نام سے موسوم ہو سکتاہے جن کے آنے سے روحانی مردے زندہ ہو نے شروع ہو جاتے ہیں اور نیز اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ جب ایسازمانہ آجائے گا کہ تمام انسانی طاقتیں اپنے کمالات کو ظاہر کر دکھائیں گی اور جس حد تک بشری عقول اور افکار کاپرواز ممکن ہے اُس حد تک وہ پہنچ جائیں گی اور جن مخفی حقیقتوں کو ابتدا سے ظاہر کرنا مقدّر ہے وہ سب ظاہر ہو جائیں گی تب اس عالم کا دائرہ پوراہو کر یک دفعہ اس کی صف لپیٹ دی جائے گی.کُلُّ شَیْ ءٍ فَانٍ ہمار امذہب زعشاق فرقان و پیغمبریم بدیں آمدیم و بدیں بگذریم ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ لاالٰہ الّا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ ہمارااعتقادجو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالم گذران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ۱ الاعراف:۵۹
خاتم النبیّین و خیر المرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اوروہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدائے تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے اور ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے اور ایک شُعشہ یا نقطہ اس کی شرائع اور حدود اور احکام اور اوامر سے زیادہ نہیں ہو سکتااور نہ کم ہو سکتا ہے اور اب کوئی ایسی وحی یا ایسا الہام منجانب اللہ نہیں ہو سکتاجو احکا م فرقانی کی ترمیم یا تنسیخ یا کسی ایک حکم کے تبدیل یا تغییر کر سکتا ہو اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ ہمارے نزدیک جماعت مومنین سے خارج اور مُلحد اور کافرہے اور ہمار ااس بات پر بھی ایمان ہے کہ ادنیٰ درجہ صراط مستقیم کا بھی بغیر اتباع ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرگز انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ راہِ راست کے اعلیٰ مدارج بجُز اقتدا اُس امام الرّسل کے حاصل ہو سکیں کوئی مرتبہ شرف و کمال کا اور کوئی مقام عزت اور قرب کا بجز سچی اور کامل متابعت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم ہرگز حاصل کر ہی نہیں سکتے.ہمیں جو کچھ ملتاہے ظلّی اور طفیلی طور پر ملتا ہے اور ہم اس بات پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ جو راستباز اور کامل لوگ شرف صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرف ہو کر تکمیل منازل سلوک کرچکے ہیں اُن کے کمالات کی نسبت بھی ہمارے کمالات اگر ہمیں حاصل ہوں بطور ظل کے واقع ہیں اور اُن میں بعض ایسے جُزئی فضائل ہیں جو اَب ہمیں کسی طرح سے حاصل نہیں ہوسکتے.غرض ہمارا اُن تمام باتوں پر ایمان ہے جو قرآن شریف میں درج ہیں اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدائے تعالیٰ کی طرف سے لائے اور تمام محدثات اور بدعات کو ہم ایک فاش ضلالت اور جہنم تک پہنچانے والی راہ یقین رکھتے ہیں مگر افسوس کہ ہماری قوم میں ایسے لوگ بہت ہیں جو بعض حقائق اور معارف قرآنیہ اور دقائق آثار نبویہ کو جو اپنے وقت پر بذریعہ کشف و الہام زیادہ تر صفائی سے کھلتے ہیں محدثات اور بدعات میں ہی داخل کر لیتے ہیں حالانکہ معارف مخفیہ قرآن و حدیث ہمیشہ اہل کشف پر کھلتے رہے ہیں
اور علماء وقت اُن کو قبول کرتے رہے ہیں لیکن اس زمانہ کے اکثر علماء کی یہ عجیب عادت ہے کہ اگر خدائے تعالیٰ کا الہام ولایت جس کا کبھی سلسلہ منقطع نہیں اپنے وقت پر بعض مجمل مکاشفات نبویہ اور استعارات سر بستہ قرآنیہ کی کوئی تفسیر کرے تو بنظر انکار و استہزاء اُس کو دیکھتے ہیں حالانکہ صحاح میں ہمیشہ یہ حدیث پڑھتے ہیں کہ قرآن شریف کے لئے ظہر و بطن دونوں ہیں اور اس کے عجائبات قیامت تک ختم نہیں ہو سکتے اور ہمیشہ اپنے مُنہ سے اقرار کرتے ہیں کہ اکثر اکابر محدثین کشوف و الہامات اولیاء کو حدیث صحیح کے قائم مقام سمجھتے رہے ہیں.ہم نے جو رسالہ فتح اسلام اور توضیح مرام میں اس اپنے کشفی و الہامی امر کو شائع کیا ہے کہ مسیح موعود سے مراد یہی عاجز ہے میں نے سُنا ہے کہ بعض ہمارے علماء اس پر بہت افروختہ ہوئے ہیں اور انہوں نے اس بیان کو ایسی بدعات میں سے سمجھ لیاہے کہ جو خارج اجماع اور برخلاف عقیدہ متفق علیہا کے ہوتی ہیں حالانکہ ایساکرنے میں اُن کی بڑی غلطی ہے.اول تو یہ جاننا چاہیئے کہ مسیح کے نزول کا عقیدہ کوئی ایسا عقیدہ نہیں ہے جو ہماری ایمانیات کی کوئی جُز یا ہمارے دین کے رُکنوں میں سے کوئی رُکن ہو بلکہ صد ہا پیشگوئیوں میں سے یہ ایک پیشگوئی ہے جس کو حقیقت اسلام سے کچھ بھی تعلق نہیں.جس زمانہ تک یہ پیشگوئی بیان نہیں کی گئی تھی اُس زمانہ تک اسلام کچھ ناقص نہیں تھا اور جب بیان کی گئی تو اس سے اسلام کچھ کامل نہیں ہو گیا اور پیشگوئیوں کے بارہ میں یہ ضروری نہیں کہ وہ ضرور اپنی ظاہری صورت میں پوری ہوں بلکہ اکثر پیشگوئیوں میں ایسے ایسے اسرار پوشیدہ ہوتے ہیں کہ قبل از ظہور پیشگوئی خود انبیاء کو ہی جن پر وہ وحی نازل ہو سمجھ میں نہیں آسکتے چہ جائیکہ دوسرے لوگ ان کو یقینی طور پر سمجھ لیویں دیکھو جس حالت میں ہمارے سید و مولیٰ آپ اس بات کا اقرار کرتے ہوں کہ بعض پیشگوئیوں کو میں نے کسی اور صورت پر سمجھااور ظہور اُن کا کسی اور صورت پر ہوا تو پھر دوسرے لوگ گو فرض کے طور پر ساری اُمت ہی کیوں نہ ہو کب ایسادعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہماری سمجھ میں غلطی نہیں سلف صالح ہمیشہ اس طریق کو پسند کرتے رہے ہیں
کہ بطور اجمالی پیشگوئی پر ایمان لے آویں اور اس کی تفصیل یااس بات کو کہ وہ کس طور سے ظہور پذیر ہو گی حوالہ بخداکریں اور میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ اقرب بامن جس سے ایمان سلامت رہ سکتاہے یہی مذہب ہے کہ محض الفاظ پیشگوئی پر زور نہ ڈالا جائے اور تحکم کی راہ سے یہی دعوےٰ نہ کیا جائے کہ ضرور اس کا ظہور ظاہری صورت پر ہی ہو گا کیونکہ اگر خدانخواستہ انجام کار ایسانہ ہوا تو پھر پیشگوئی کی صداقت میں طرح طرح کے شکوک پیداہو کر ایمان ہاتھ سے گیا ایسی کوئی وصیت پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہرگز ثابت نہیں ہو سکتی کہ تم نے پیشگوئیوں کو ظاہر پر حمل کرتے رہنا کسی استعار ہ یا تاویل وغیرہ کو ہرگز قبول نہ کرنا.اب سمجھنا چاہیئے کہ جب کہ پیشگوئیوں کے سمجھنے کے بارہ میں خود انبیاء سے امکان غلطی ہے تو پھر اُمت کا کورا نہ اتفاق یا اجماع کیا چیز ہے.ماسوااس کے ہم کئی دفعہ بیان کر آئے ہیں کہ اس پیشگوئی پر اجماع اُمت بھی نہیں.قرآن شریف قطعی طور پر اپنی آیات بیّنات میں مسیح کے فوت ہو جانے کاقائل اور ہمیشہ کے لئے اُس کو رخصت کرتاہے.بخاری صاحب اپنی صحیح میں صرف امامکم منکم کہہ کر چُپ ہو گئے ہیں یعنی صحیح بخاری میں صرف یہی مسیح کی تعریف لکھی ہے کہ وہ ایک شخص تم میں سے ہو گا اور تمہار اامام ہو گا.ہاں دمشق میں عندالمنارہ اُترنے کی حدیث مسلم میں موجود ہے مگر اس سے اجماع اُمت ثابت نہیں ہو سکتا بلکہ یہ بھی ثابت ہونا مشکل ہے کہ مسلم کا درحقیقت یہی مذہب تھا کہ دمشق کے لفظ سے سچ مچ یہی دمشق مراد ہے اور اگر ایسا فرض بھی کرلیں تو فقط ایک شخص کی رائے ثابت ہوئی مگر پیشگوئیوں کے بار ہ میں جبکہ خدائے تعالیٰ کے پاک نبیوں کی رائے اجتہادی غلطی سے معصوم نہیں رہ سکتی تو پھر مسلم صاحب کی رائے کیوں کر معصوم ٹھہرے گی.میں پھر دوبارہ کہتا ہوں کہ اس بارہ میں عام خیال مسلمانوں کا گو اُن میں اولیاء بھی داخل ہوں اجماع کے نام سے معصوم۱ نہیں ہو سکتا مسلمانوں نے صورت پیشگوئیوں کو مان لیا ہے اُن کی طرف سے یہ ہرگز دعویٰ نہیں اور نہ ہونا چاہیئے کہ خدائے تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں
کہ شائد اس پیشگوئی کی ایسی تفاصیل مخفی ہوں جو اب تک کھلی نہیں درحقیقت تمام انبیاء کا یہی مذہب رہا ہے کہ وہ پیشگوئی کی اصل حقیقت کو خدائے تعالیٰ کے وسیع علم پر چھوڑتے رہے ہیں اسی وجہ سے وہ مقدس لوگ باوجود بشارتوں کے پانے کے پھر بھی دعاسے دستبردار نہیں ہوتے تھے جیساکہ بدر کی لڑائی میں فتح کا وعدہ دیاگیاتھا مگر ہمارے سیّد و مولیٰ رو رو کر دعائیں کرتے رہے اس خیال سے کہ شاید پیشگوئی میں کوئی ایسے امور مخفی ہوں یا وہ کچھ ایسے شروط کے ساتھ وابستہ ہوں جن کا علم ہم کو نہیں دیاگیا.اور یہ دعویٰ کہ تمام صحابہ اور اہل بیت اسی طرح مانتے چلے آئے ہیں جیساکہ ہم.یہ بالکل لغو اور بلا دلیل ہے فردفرد کی رائے کا خداہی کو علم ہو گا کسی نے اُن سب کے اظہارات لکھ کر کب قلمبند کئے ہیں یا کب کسی نے اپنے مُنہ سے اُن کے بیانات سُن کر شائع کئے ہیں باوجودیکہ صحابی دس ہزا ۱۰۰۰۰ر سے بھی کچھ زیادہ تھے مگر اس پیشگوئی کے روایت کرنے والے شاید دو یا تین تک نکلیں تو نکلیں اور ان کی روایت بھی عام طور پر ثابت نہیں ہوتی کیونکہ بخاری جو حدیث کے فن میں ایک ناقد بصیرہے اُن تمام روایات کو معتبر نہیں سمجھتایہ خیال ہرگزنہیں ہو سکتاکہ بخاری جیسے جدوجہد کرنے والے کو وہ تمام روایات رطب و یابس پہنچی ہی نہیں بلکہ صحیح اور قرین قیاس یہی ہے کہ بخاری نے اُن کو معتبر نہیں سمجھا اُس نے دیکھاکہ دوسری حدیثیں اپنی ظاہری صورت میں امامکم منکم کی حدیث سے معارض ہیں اور یہ حدیث غایت درجہ کی صحت پر پہنچ گئی ہے اِس لئے اُس نے اِن مخالف المفہوم حدیثوں کو ساقط الا عتبار سمجھ کر اپنی صحیح کو اُن سے پُر نہیں کیا.اب ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ ہرگز خیر القرون کا اس امر پر اجماع ثابت نہیں ہو سکتا کہ ضرور حضرت مسیح دمشق میں ہی نازل ہوں گے کیونکہ بخاری امام فن نے اس حدیث کو نہیں لیا ابن ماجہ اس حدیث کا مخالف ہے اوربجائے دمشق کے بیت المقدس لکھتا ہے اسی طرح کسی کے مُنہ سے کچھ نکل رہا ہے اور کسی کے مُنہ سے کچھ پس اجماع کہاں ہے ؟ اگر فرض کے طور پر اجماع بھی ہوتا تو پھر بھی کیا حرج تھا کیونکہ ان بزرگوں نے کب
دعویٰ کیا ہے کہ اس سے بڑھ کر اور معنے نہیں ہو سکتے بلکہ وہ تو مسنون طور پر تفاصیل کو حوالہ بخداکرتے رہے ہیں.پھر یہ بھی ہم بخوبی ظاہر کر چکے ہیں کہ اس پیشگوئی کو صرف ظاہری الفاظ تک محدود رکھنے میں بڑی بڑ ی مشکلات ہیں قبل اس کے جو مسیح آسمان سے اُترے صدہا اعتراض پہلے ہی سے اُتر رہے ہیں ان مشکلات میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا ہے اور ہمیں اس بات کی کیا حاجت کہ ابن مریم کو آسمان سے اُتاراجائے اور ان کا نبوت سے الگ ہونا تجویزکیاجائے اور ان کی اس طرح پر تحقیر کی جائے کہ دوسراشخص امامت کرے اور وہ پیچھے مقتدی بنیں اور دوسراشخص اُن کے روبرو لوگوں سے بیعت امامت و خلافت لے اور وہ بدیدۂ حسرت دیکھتے رہیں اور احد المسلمین بن کر اپنی نبوت کا دم نہ مار سکیں اور ہم اس قریب الشرک بلکہ سراسر شرک سے بھرے ہوئے کلمے کو کیوں مُنہ سے بولیں کہ دجّال یک چشم خدائے تعالیٰ کی طرح اپنے اقتدار سے مُردوں کو زندہ کرے گا اور صریح صریح خدائی کی علامتیں دکھلا دے گا اور کوئی اسے یہ نہیں کہے گا کہ اے یک چشم خدا پہلے تُو اپنی آنکھ درست کر.کیا وہ توحید جو اسلام نے ہمیں سکھائی ہے ایسی قدرتیں کسی مخلوق میں روارکھتی ہے کیا اسلام نے اِن واہیات باتوں کو اپنے پَیروں کے نیچے کچل نہیں دیا عجیب بات ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک خر دجّال بھی گویا ایک حصہ خدائی کا رکھتا ہے اور کہتے ہیں کہ اُس خَر کا پیدا کرنے والا دجّال ہی ہے.پھر جبکہ وہ دجّال مُحیی و ممیت اور خالق بھی ہے تو اس کے خدا ہونے میں کسر کیا رہ گئی؟ اور اس گدھے کی یہ تعریف کرتے ہیں کہ وہ مشرق و مغرب میں ایک روز میں سیر کرسکے گا مگر ہمارے نزدیک ممکن ہے کہ دجّال سے مراد بااقبال قومیں ہوں اور گدھا اُن کا یہی ریل ہو جو مشرق اور مغرب کے ملکوں میں ہزار ہا کوسوں تک چلتے دیکھتے ہو.پھر مسیح کے بارہ میں یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ کیا طبعی اورفلسفی لوگ اس خیال پر نہیں ہنسیں گے کہ جبکہ تیس یا چالیس ہزار فٹ تک زمین سے اوپر کی طرف جانا موت کا موجب ہے توحضرت مسیح اس جسم عنصری کے ساتھ
آسمان تک کیوں کر پہنچ گئے اور کیا یہ مخالفوں کے لئے ہنسنے کی جگہ نہیں ہوگی کہ حلیہ اول اور اخیر کے اختلاف کی وجہ یہ بیان کی جائے کہ تغیر عمر کے سبب سے حُلیہ میں فرق آگیا ہو گا.ایک اور بات ہمارے علماء کے لئے غور کے لائق ہے کہ احادیث میں صرف ایک دجّال کا ذکر نہیں بلکہ بہت سے دجّال لکھے ہیں اور لِکُلِّ دَجَّالٍ عِیْسٰی کی مثال پر تد بر کی نظر ڈال کر یہ بات بآسانی سمجھ آسکتی ہے کہ عیسیٰ کے لفظ سے مثیل عیسیٰ مراد ہونا چاہیئے اس ہماری بات کو وہ حدیث اور بھی تائید دیتی ہے جو مثیل مصطفےٰ کی نسبت ایک پیشگوئی ہے جس کو دوسرے لفظوں میں مہدی کے نام سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس حدیث میں ایسے لفظ ہیں جن سے بصراحت یہ پایا جاتا ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم پیشگوئی میں اپنے ایک مثیل کی خبر دے رہے ہیں کیونکہ وہ فرماتے ہیں کہ وہ مہدی خُلق اور خَلق میں میری مانند ہوگا یُوَاطِئُ اِسْمُہٗ اِسْمِیْ وَاِسْمُ اَبِیْہِ اِسْمَ اَبِیْ یعنی میرے نام جیسا اس کا نام ہوگا اور میرے باپ کے نا م کی طرح اُس کے باپ کا نام.اب دیکھو کہ خلاصہ اس حدیث کا یہی ہے کہ وہ میرا مثیل ہوگا اس صورت میں ایک دانا کو نہایت آسانی سے یہ بات سمجھ آسکتی ہے کہ جیسے حدیث میں ایک مثیل مصطفےٰ کا ذکر ہے ایسا ہی مثیل مسیح کا ذکر بھی ہے نہ یہ کہ ایک جگہ مثیل مصطفےٰ اور دوسری جگہ خود حضرت مسیح ہی آجائیں گے.فتدبّر.اب ظاہر ہے کہ جس قدر ہم نے اپنے الہامی عقیدہ کی تائید میں دلائل عقلی و نقلی و شرعی لکھے ہیں وہ ہمارے اثبات مدعا کے لیے کافی ہیں اور اگر اس جگہ ہم بطور فرض محال تسلیم بھی کر لیں کہ ہم بکلی شبہات پیش آمدہ کا تصفیہ نہیں کرسکے تو اس میں بھی ہمارا کچھ حرج نہیں کیونکہ الہام الٰہی و کشف صحیح ہمارامؤ یّد ہے اس لئے اسی قدر ہمارے لئے کافی ہے.ایک متدیّن عالم کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ الہام اور کشف کا نام سُن کر چُپ ہو جائے اور لمبی چون وچرا سے باز آجائے اگر مخالف الرائے لوگوں کے ہاتھ میں بعض احادیث کی رُو سے کچھ دلائل ہیں تو ہمارے پاس ایسے نقلی و شرعی دلائل ان سے کچھ تھوڑے نہیں.قرآن شریف
ہمارے ساتھ ہے اُن کے سا تھ نہیں.صحیح بخاری کی حدیثیں ہماری مؤ یّد ہیں ان کی مؤیّد نہیں.علاوہ اس کے معقولی دلائل جو تجارب فلسفہ و طبعیہ سے لئے گئے ہیں وہ سب ہمارے پاس ہیں اُن کے پاس ایک بھی نہیں اور ان تمام امور کے بعد الہام ربّانی و کشف آسمانی ہمارے بیان کا شاہد ہے اور اُن کے پاس اس اصرار پر کوئی ایسا شاہد نہیں.اس جگہ ہم اس بات کا لکھنا بے محل نہیں سمجھتے کہ الہام اور کشف کی حجت اور دلیل ہونے کے قائل اگرچہ بعض خشک متکلّمین اور اصولی نہ ہوں لیکن ایسے تمام محدّث اور صوفی جو معرفت کامل اور تفقّہ تام کے رنگ سے رنگین ہوئے ہیں بذوق تمام قائل ہیں اس بارے میں ہمارے دوست مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنے رسالہ اشاعت السنہ نمبر۱۱جلد ۷ میں بہ بسط تمام بیان فرمایا ہے.چنانچہ از انجملہ امام عبد الوھاب شعرانی کی کتاب میزان کبریٰ اور فتوحات شیخ محی الدین کا جو مولوی صاحب موصوف نے بتائید اپنی رائے کے ذکر کیا ہے اُن میں سے ہم کسی قدر ناظرین کے لئے لکھتے ہیں.امام صاحب اپنی کتاب میزان کے صفحہ ۱۳ میں فرماتے ہیں کہ صا حب کشف مقام یقین میں مجتہدین کے مساوی ہوتا ہے اور کبھی بعض مجتہدین سے بڑھ جاتا ہے کیونکہ وہ اُسی چشمہ سے چلّو بھرتا ہے جس سے شریعت نکلتی ہے.اور پھر امام صاحب اس جگہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ صاحب کشف اُن علوم کا محتاج نہیں جو مجتہدوں کے حق میں اُن کی صحت اجتہاد کے لئے شرط ٹھہرائے گئے ہیں اور صاحب کشف کا قول بعض علماء کے نزدیک آیت اور حدیث کے مانند ہے.پھر صفحہ ۳۳ میں فرماتے ہیں کہ بعض حدیثیں محدثین کے نزدیک محل کلام ہوتی ہیں مگر اہل کشف کو اُن کی صحت پر مطلع کیا جاتا ہے جیسا کہ اصحابی کالنجوم کی حدیث محدثین کے نزدیک جرح سے خالی نہیں مگر اہل کشف کے نزدیک صحیح ہے.پھر صفحہ ۳۴ میں فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں جو کلام اہل کشف کو
رَدّ کرے نہ عقلی نہ نقلی و شرعی.کیونکہ کشف کی خود شریعت مؤید ہے.پھر صفحہ ۴۸ میں فرماتے ہیں کہ بہتیرے اولیاء اللہ سے مشتہر ہو چکا ہے کہ وہ آنحضرت صلعم سے عالم ارواح میں یا بطور کشف ہم مجلس ہوئے اور اُن کے ہمعصروں نے اُن کے دعوے کو تسلیم کیا.پھر امام شعرانی صاحب نے ان لوگوں کے نام لئے ہیں جن میں سے ایک امام محدث جلال الدین سیوطی بھی ہیں اور فرماتے ہیں کہ میں نے ایک ورق جلال الدین سیوطی کا دستخطی اُن کے صحبتی شیخ عبد القادر شاذلی کے پاس پایا جو کسی شخص کے نام خط تھا جس نے اُن سے بادشاہ وقت کے پاس سفارش کی درخواست کی تھی سو امام صاحب نے اس کے جواب میں لکھا تھا کہ میں نے آنحضرت صلعم کی خدمت میں تصحیح احادیث کے لئے جن کو محدثین ضعیف کہتے ہیں حاضر ہوا کرتا ہوں چنانچہ اس وقت تک پچہتر دفعہ حالت بیداری میں حاضر خدمت ہوچکا ہوں اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ میں بادشاہ وقت کے پاس جانے کے سبب اس حضوری سے رُک جاؤں گا تو قلعہ میں جاتا اور تمہاری سفارش کرتا.شیخ محی الدین ابن عربی نے جو فتوحات میں اس بارے میں لکھا ہے اُس میں سے بطور خلاصہ یہ مضمون ہے کہ اہل ولایت بذریعہ کشف آنحضرت صلعم سے احکام پوچھتے ہیں اور اُن میں سے جب کسی کو کسی واقعہ میں حدیث کی حاجت پڑتی ہے تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوجاتا ہے پھر جبرائیل علیہ السلام نازل ہوتے ہیں.اور آنحضرتؐ جبرائیل سے وہ مسئلہ جس کی ولی کو حاجت ہوتی ہے پوچھ کر اُس ولی کو بتا دیتے ہیں یعنی ظلّی طور پر وہ مسئلہ بہ نزول جبرائیل منکشف ہو جاتا ہے.پھر شیخ ابن عربی نے فرمایا ہے کہ ہم اس طریق سے آنحضرت صلعم سے احادیث کی تصحیح کرالیتے ہیں بہتیری حدیثیں ایسی ہیں جو محدثین کے نزدیک صحیح ہیں اور وہ
ہمارے نزدیک صحیح نہیں اور بہتیری حدیثیں موضوع ہیں اور آنحضرت کے قول سے بذریعہ کشف کے صحیح ہوجاتی ہیں.تَمَّ کَلَامُہٗ اور فتوحات مکّیہ میں ابن عربی صاحب نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اہل ذکر و خلوت پر وہ علوم لدُنیہ کھلتے ہیں جو اہل نظر و استدلال کو حاصل نہیں ہوتے اور یہ علوم لدنیہ اور اسرار و معارف انبیاء و اولیاء سے مخصوص ہیں اور جنید بغدادی سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے تیس سال اس درجہ میں رہ کر یہ رُتبہ حاصل کیا ہے اور ابویزید بُسطامی سے نقل کیا ہے کہ علماء ظاہر نے علم مُردوں سے لیا ہے اور ہم نے زندہ سے جو خدائے تعالیٰ ہے.تَمَّ کَلَامُہٗ ایسا ہی مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب نے رئیس مُحدّثین حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرّہٗ کے کلمات قُدسیہ اس بارہ میں بہت کچھ لکھے ہیں اور دوسرے علماء و فقراء کی بھی شہادتیں دی ہیں مگر ہم اُن سب کو اس رسالہ میں نہیں لکھ سکتے اور نہ لکھنے کی کچھ ضرورت ہے الہام اور کشف کی عزت اور پایۂ عالیہ قرآن شریف سے ثابت ہے وہ شخص جس نے کشتی کو توڑا اور ایک معصوم بچہ کو قتل کیا جس کا ذکر قرآن شریف میں ہے وہ صرف ایک ملہم ہی تھا نبی نہیں تھا.الہام اور کشف کا مسئلہ اسلام میں ایسا ضعیف نہیں سمجھا گیا کہ جس کا نورانی شعلہ صرف عوام الناس کے مُنہ کی پھونکوں سے مُنطفی ہوسکے یہی ایک صداقت تو اسلام کے لیے وہ اعلیٰ درجہ کا نشان ہے جو قیامت تک بے نظیر شان و شوکت اسلام کی ظاہر کررہاہے یہی تو وہ خاص برکتیں ہیں جو غیر مذہب والوں میں پائی نہیں جاتیں.ہمارے علماء اس الہام کے مخالف بن کر احادیث نبویہ کے مکذب ٹھہرتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ ہرایک صدی پر ایک مُجدّد کا آنا ضروری ہے اب ہمارے علماء کہ جو بظاہر اتباع حدیث کا دم بھرتے ہیں انصاف سے
بتلاویں کہ کس نے اس صدی کے سر پر خدائے تعالیٰ سے الہام پاکر مُجدّد ہونے کادعویٰ کیا ہے یوں تو ہمیشہ دین کی تجدید ہورہی ہے مگر حدیث کا تو یہ منشاء ہے کہ وہ مجدد خدائے تعالیٰ کی طرف سے آئے گا یعنی علوم لَدُنّیہ و آیات سماویہ کے ساتھ.اب بتلاویں کہ اگر یہ عاجز حق پر نہیں ہے تو پھروہ کون آیا جس نے اس چودہویں صدی کے سر پر مجدّد ہونے کا ایسا دعویٰ کیا جیسا کہ اس عاجز نے کیا کوئی الہامی دعاوی کے ساتھ تمام مخالفوں کے مقابل پر ایسا کھڑا ہوا جیسا کہ یہ عاجز کھڑا ہؤا.تفکروا و تندّموا واتّقوااللّٰہ ولا تغلوا اور اگر یہ عاجز مسیح موعود ہونے کے دعویٰ میں غلطی پر ہے تو پھر آپ لوگ کچھ کوشش کریں کہ مسیح موعود جو آپ کے خیال میں ہے اِنہیں دنوں میں آسمان سے اُتر آوے کیونکہ میں تو اس وقت موجود ہوں مگر جس کے انتظار میں آپ لوگ ہیں وہ موجود نہیں اور میرے دعویٰ کا ٹوٹنا صرف اسی صورت میں متصوّر ہے کہ اب وہ آسمان سے اُتر ہی آوے تا میں ملزم ٹھہر سکوں.آپ لوگ اگر سچ پر ہیں تو سب مل کر دعا کریں کہ مسیح ابن مریم جلد آسمان سے اُترتے دکھائی دیں اگر آپ حق پر ہیں تو یہ دُعا قبول ہوجائے گی کیونکہ اہل حق کی دُعا مُبطلین کے مقابل پر قبول ہو جایا کرتی ہے لیکن آپ یقیناًسمجھیں کہ یہ دُعا ہرگز قبول نہیں ہوگی کیونکہ آپ غلطی پر ہیں مسیح تو آچُکا لیکن آپ نے اُس کو شناخت نہیں کیا اب یہ امید موہوم آپ کی ہرگز پوری نہیں ہوگی یہ زمانہ گزر جائے گا اور کوئی ان میں سے مسیح کو اُترتے نہیں دیکھے گا.حالانکہ تیرھویں صدی کے اکثر علماء چودہویں صدی میں اُس کا ظہور معین کرگئے ہیں اور بعض تو چودھویں صدی والوں کو بطور وصیّت یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ اگر اُن کا زمانہ پاؤ تو ہمارا السلام علیکم اُنہیں کہو.شاہ ولی اللہ صاحب رئیس المحدّثین بھی انہیں میں سے ہیں.بالآخر ہم یہ بھی ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ ہمیں اس سے انکار نہیں کہ ہمارے بعد کوئی اور بھی
مسیح کا مثیل بن کر آوے کیونکہ نبیوں کے مثیل ہمیشہ دنیا میں ہوتے رہتے ہیں بلکہ خدائے تعالیٰ نے ایک قطعی اور یقینی پیشگوئی میں میرے پر ظاہر کر رکھا ہے کہ میری ہی ذُریّت سے ایک شخص پیدا ہوگا جس کو کئی باتوں میں مسیح سے مشابہت ہوگی وہ آسمان سے اُترے گا اور زمین والوں کی راہ سیدھی کردے گا اور وہ اسیروں کو رستگاری بخشے گا اور اُن کو جو شبہات کی زنجیروں میں مقید ہیں رہائی دے گا.فرزند دلبند گرامی و ارجمند مظہر الحق والعلاء کانّ اللّٰہ نزل من السماء لیکن یہ عاجز ایک خاص پیشگوئی کے مطابق جو خدائے تعالیٰ کی مقدس کتابوں میں پائی جاتی ہے مسیح موعود کے نام پر آیا ہے.واللّٰہ اعلم و علمہ احکم.جائیکہ از مسیح و نزولش سخن رود گویم سخن اگرچہ ندارند باورم کاند ر دلم دمید خداوند کردگار کاں برگزیدہ را ز رہ صدق مظہرم موعودم و بِحلیۂ ماثور آمدم حیف است گر بدیدہ نہ بینند منظرم رنگم چو گندم است و بمو فرق بین ست زِ انساں کہ آمد است در اخبار سرورم ایں مقدمم نہ جائے شکوک ست و التباس سیّدؐ جدا کند ز مسیحائے احمرم از کلمہۂ َ منارۂ شرقی عجب مدار چوں خود زِ مشرق است تجلّیِ نیرّم اِینک منم کہ حسب بشارات آمدم عیسیٰ کجاست تابہ نہد پا بہ منبرم
آنرا کہ حق بجنّت خُلدش مقام داد * چُوں برخلاف وعدہ بروں آرد،از ارم چوں کافر از ستم بپرستد مسیح را غیّورئ خدا بَسَرش کرد، ہمسرم رَوْ،یک نظربجانب فرقاں زِغور کُن تابر تو منکشف شود ایں رازُِ مضمرم ** یاربّ کجاست محرم رازِ مکاشفات تا نور با طنش خبر آرد ز مُخبرم آں قبلہ رو نمود بگیتی بچار دہم بعد از ہزار وسہ کہ بُت افگند درحرم جوشید آں چناںَ کرَمِ منبع فیوض کآمدندائے یار زِ ہر کوئے و معبرم اے معترض بخوفِ الٰہی صبورباش تاخود خدا ،عیاںُ کند، آں نور اخترم آخر نخواندۂ، کہ گمانِ نکوُ کنید چوں میروی برون زِ حدودش برادرم برمن چرا کشی تو چنیں خنجر زباں از خود نیم زِ قادرِ ذوالمجد اکبرم مامو رم ومراچہ دریں کار اِختیار رَو،ایں سخن بگوبہ خداوندِ آمرم اے آنکہ سوئے من بدویدی بصد تبر ازباغبان بِترَس کہ من شاخِ مثمرم حکم است زآسمان بزمیں مے ر سانمش گر بشنوم نگویمش آن را کجا برم *: دیکھو انجیل متی **:أ أَنت قلت للناس الخ
اے قوم من بگفتۂ من تنگدل مباش زِاوّل چنیں مجوش ببیں تا بہ آخرم من خود نگویم ایں کہ بہ لوحِ خدا ہمیں است گر طاقتست محوکُن آں نقش داورم در تنگنائے حیرت و فکرم زِ قوم خویش یارب عنائتے کہ ازیں فکر مضطرم نے چشم ماندہ است و نہ گوش و، نہ نورِ دل جزیک زبان شان کہ نَیرَ زَد بیکدرم بدگفتنم ، زِ نوع عبادت شُمُردہ اند در چشم شاں پلید تر از ہر مزوِرم اے دل تو نیز خاطر اینان نگاہ دار کاخر کنند دعوئے حُبِّ پیمبرمؐ اے منکرِ پیامِ سروش و ندائے حق از من خطا مَبِیں کہ خطا در تو بِنگرم جانمُ گدَاخت از غمِ ایمانت اے عزیز و این طرفہ تر کہ من بگمانِ تو کافرم خواہی کہ روشنت شود احوال صدق ما روشن دلی بخواہ ازاں ذاتِ ذُوالکرم گوشِ دِلَم بجانب تکفیر کسُ کجاست من مست جامہائے عنایاتِ دلبرم از طعن دشمناں خبرے چوں شود مرا کاندر خیال دوست بخوابِ خوش اندرم من میزیم بَوَحْیِ خدائے کہ بامن است پیغامِ اوست چوں نفسِ رُوح پرورم
من رخت بُرد ہ ام بعماراتِ یارِ خویش دیگر خبر مپرس ازیں تیرہ کشورم عشقش بتاروپُود دل من دروں شداست مہرش شد است در رہِ دین مہرِ انورم رازِ محبتِ من و اُو فاش گر شدے بسیار تن کہ جاں بفشاندی بریں درم ابنا ئے روزگار ندانند راز من من نور خود نہفتہ زِ چشمان شپرم بعد از رَہم ہر آنچہ پسندند ہیچ نیست بد قسمت آنکہ در نظرش ہیچ محترم ہر لحظہ میخوریم زِجامِ وصالِ دوست ہر دم انیس یار علیٰ رغم منکرم بادِ بہشت بردلِ پُر سوز من وَزَد صد نگہتِ لطیف دہد دُود مجمرم بدبوئے حاسداں نرساند زِیاں بمن من ہر زماں زِ نافۂ یادش مُعطّرم کارم زِ قرب یار بجائے رسیدہ است کانجا ز فہم و دانش اغیارِ برترم پائم زِ لُطف یار بجنّت خزیدہ است و ا زِ فضل آں حبیب بدستست ساغرم جوشِ اجابتش کہ بوقتِ دعا بود زاںُ گونہ زاریم نشنید است مادرم ہر سوئے و ہر طرف رُخِ آں یار بنگرم آں دیگرے کجاست کہ آید بخاطرم
اے حسرت ایں گروہ عزیزان مرا ندید وقتے بہ بیندم کہ ازیں خاک بگذرم گر خون شداست دل زِغم و درد شاں چہ شد ہست آرزو کہ سَر برود ہم درِیں سَرَم ہر شب ہزارغم بمن آید زِ درد قوم یاربّ نجات بخش ازیں روز پُر شرم یاربّ بآب چشم من ایں کسل شان بشو کاِمرُوز تر شد است ازیں درد بسترم در یاب چونکہ آب زِ بہرِ تو ریختیم دریاب چونکہ جز تو نماند است دیگرم تاریکئ غموم بآخر نمی رسد ایں شب مگر تمام شود روز محشرم دل خوں شداست ازغمِ ایں قوم نا شناس و از عالمانِ کج کہ گرفتند چنبرم گر علم خشک و کورئ باطن نہ رَہ زدے ہر عالم و فقیہ شدے ہمچو چاکرم برسنگ میکند اثر ایں منطقم مگر بے بہرہ ایں کساں زِ کلام مؤثرم علم آں بود کہ نور فراست رفیق اوست ایں علم تیرہ را بہ پشیزے نمیخرم امروز قوم من نشناسد مقامِ من روزے بگریہ یاد کند وقتِ خوشترم اے قومِ من بصبرنظر سوئے غیب دار تادست خود بعجز، زِ بہر توُ گسترم
گر ہمچو خاک پیش تو قدرم بود،چہ باک چوں خاک نے کہ از خس و خاشاک کمترم لطف است و فضل او کہ نوازد و گرنہ من کِرمم نہ آدمی صدف استم نہ گوہرم زانگونہ دست او دلم از غیر خود کشید گوئی کہے نہ بود دِگر در تصوّرم بعد از خدا بعشقِ محمّدؐ مخمّرم گر کفر اِیں بود بخدا سخت کافرم ہر تارو پُودِ من بسرائد بعشق اُو از خود تہی و از غمِ آں دِلستاں پُرم من در حریم قُدس چراغِ صداقتم دستش محافظ است زِ ہر بادَِ صرَصرم ہر دم فلک شہادت صدقم ہمی دہد زینم کدام غم کہ زمیں گشت منکرم واللہ کہ ہمچو کشتئ نوحم زِکردگار بے دولت آنکہ دُور بماند ز لنگرم ایں آتشے کہ دامنِ آخر زمان بسوخت از بہرِ چارہ اش بخدا نہرِ کوثرم من نیستم رسول و نیاوردہ ام کتاب ہاں مُلہم استم و زِ خداوند مُنذرم یاربّ بزاریم نظرے کن بلطف و فضل جُز دست رحمتِ تو دگر کیست یاورم جانم فدا شود برہِ دینِ مصطفٰے این است کام دل اگر آیدُ میَسَّرم
قریب تر بامن و نزدیک تر بسعادت کون لوگ ہیں کیا وہ لوگ جنہوں نے اس عاجز کا مسیح موعود ہونا مان لیا یا وہ لوگ جو منکر ہو گئے واضح ہو کہ یہ بات نہایت صاف اور روشن ہے کہ جنہوں نے اس عاجز کا مسیح موعود ہونا ما ن لیا ہے وہ لوگ ہریک خطرہ کی حالت سے محفوظ اور معصوم ہیں اور کئی طرح کے ثواب اور اجر اور قوت ایمانی کے وہ مستحق ٹھہر گئے ہیں.اوّل یہ کہ انہوں نے اپنے بھائی پر حسن ظن کیا ہے اور اس کو مفتری یا کذاب نہیں ٹھہرایا اور اس کی نسبت کسی طرح کے شکوک فاسد ہ کو دل میں جگہ نہیں دی اس وجہ سے اس ثواب کا انہیں استحقاق حاصل ہوا کہ جو بھائی پر نیک ظن رکھنے کی حالت میں ملتا ہے.دوسر ی یہ کہ وہ حق کے قبول کرنے کے وقت کسی ملامت کنندہ کی ملامت سے نہیں ڈرے اور نہ نفسانی جذبات اُن پر غالب ہو سکے اس وجہ سے وہ ثواب کے مستحق ٹھہرگئے کہ انہوں نے دعوت حق کو پا کر اور ایک ربّانی مناد کی آواز سُن کر پیغام کو قبول کر لیا اور کسی طرح کی روک سے رُک نہیں سکے.تیسری یہ کہ پیشگوئی کے مصداق پر ایمان لانے کی وجہ سے وہ اُن تمام وساوس سےَ مخلصی پاگئے کہ جو انتظار کرتے کرتے ایک دن پیداہو جاتے ہیں اور آخریاس کی حالت میں ایمان دُور ہو جانے کا موجب ٹھہرتے ہیں اور اُن سعید لوگوں نے نہ صرف خطرات مذکورہ بالا سے مخلصی پائی بلکہ خدائے تعالیٰ کا ایک نشان اور اس کے نبی کی پیشگوئی اپنی زندگی میں پوری
ہوتی دیکھ کر ایمانی قوت میں بہت ترقی کر گئے اور اُن کے سماعی ایمان پر ایک معرفت کا رنگ آگیا اب وہ اُن تمام حیرتوں سے چھوٹ گئے جو اُن پیشگوئیوں کے بارہ میں دلوں میں پیدا ہوا کرتی ہیں جو پور ی ہو نے میں نہیں آتیں.چوتھی یہ کہ وہ خدائے تعالیٰ کے بھیجے ہوئے بندہ پر ایمان لا کر اس سخط اور غضب الٰہی سے بچ گئے جو اُن نافرمانوں پر ہوتاہے کہ جن کے حصہ میں بجُز تکذیب و انکارکے اور کچھ نہیں.پانچویں یہ کہ وہ اُن فیوض اور برکات کے مستحق ٹھہر گئے جو اُن مخلص لوگوں پر نازل ہوتے ہیں جو حسن ظن سے اُس شخص کو قبول کر لیتے ہیں کہ جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے.یہ تو وہ فوائد ہیں کہ جو انشاء اللہ الکریم اُن سعید لوگوں کو بفضلہ تعالیٰ ملیں گے جنہوں نے اس عاجز کو قبول کر لیا ہے لیکن جو لوگ قبول نہیں کرتے وہ ان تما م سعادتوں سے محروم ہیں اور اُن کا یہ وہم بھی لغو ہے کہ قبول کرنے کی حالت میں نقصان دین کا اندیشہ ہے.میں نہیں سمجھ سکتا کہ وہ نقصانِ دین کس وجہ سے ہو سکتا ہے.نقصان تو اس صورت میں ہوتا کہ اگر یہ عاجز برخلاف تعلیم اسلام کے کسی اَور نئی تعلیم پر چلنے کے لئے انہیں مجبور کرتا.مثلًا کسی حلال چیز کو حرام یا حرام کوحلا ل بتلاتا یا اُن ایمانی عقائد میں جو نجات کے لئے ضروری ہیں کچھ فرق ڈالتا یا یہ کہ صوم و صلٰوۃ و حج و زکٰوۃ وغیرہ اعمال شرعیہ میں کچھ بڑھاتا یا گھٹا دیتا مثلاً پانچ وقت کی نماز کی جگہ دس وقت کی نماز کر دیتا یا دووقت ہی رہنے دیتا یا ایک مہینہ کی جگہ دو مہینے کے روزے فرض کر دیتا یا اس سے کم کی طرف توجہ دلاتا تو بے شک سراسر نقصان بلکہ کفر و خسران تھا لیکن جس حالت میں یہ عاجز بار بار یہی کہتا ہے کہ اے بھائیو! میں کوئی نیا دین یا نئی تعلیم لے کر نہیں آیا بلکہ میں بھی تم میں سے اور تمہاری طرح ایک مسلمان ہوں اور ہم مسلمانوں کے لئے بجز قرآن شریف اور کوئی دوسری کتاب نہیں جس پر عمل کریں یا عمل کرنے کے لئے دوسروں کو ہدایت دیں اور بجُز
جناب ختم المرسلین احمد عربی صلعم کے اور کوئی ہمارے لئے ہاد ی اور مقتدا نہیں جس کی پیروی ہم کریں یا دوسروں سے کرانا چاہیں توپھر ایک مُتدیّنمسلمان کے لئے میرے اس دعوے پر ایمان لانا جس کی الہام الٰہی پر بناہے کونسی اندیشہ کی جگہ ہے.بفرضِ محال اگر میر ایہ کشف اور الہام غلط ہے اور جو کچھ مجھے حکم ہو رہا ہے اُس کے سمجھنے میں مَیں نے دھوکہ کھایا ہے تو ماننے والے کا اس میں حرج ہی کیا ہے.کیا اُس نے کوئی ایسی بات مان لی ہے جس کی وجہ سے اُس کے دین میں کوئی رخنہ پیدا ہو سکتا ہے اگر ہماری زند گی میں سچ مچ حضرت مسیح ابن مریم ہی آسمان سے اُتر آئے تو دلِ ما شا دو چشمِ ماروشن ہم اور ہمارا گروہ سب سے پہلے اُن کو قبول کرلے گا اور اس پہلی بات کے قبول کرنے کا بھی ثواب پائے گا جس کی طرف محض نیک نیتی اور خدائے تعالیٰ کے خوف سے اُس نے قدم اُٹھایا تھا بہرحال اس غلطی کی صورت میں بھی (اگر فرض کی جائے)ہمارے ثواب کا قدم آگے ہی رہا اور ہمیں دو ثواب ملے اور ہمارے مخالف کو صرف ایک لیکن اگر ہم سچے ہیں اور ہمارے مخالف آئندہ کی امیدیں باندھنے میں غلطی پر ہیں تو ہمارے مخالفوں کا ایمان سخت خطرہ کی حالت میں ہے کیونکہ اگر سچ مچ انہوں نے اپنی زندگی میں حضرت مسیح ابن مریم کو بڑے اقبال و جلال کے ساتھ آسمان سے اُترتے دیکھ لیا اور اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر لیا کہ فرشتوں کے ساتھ اُترتے چلے آتے ہیں تب تو اُن کا ایمان سلامت رہا ورنہ دوسری صورت میں ایمان سلامت رہنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی.کیونکہ اگر اخیر زندگی تک کوئی آدمی آسمان سے اُترتا اُنہیں دکھائی نہ دیا بلکہ اپنی ہی طیاری آسمان کی طرف جانے کے لئے ٹھہر گئی تو ظاہر ہے کہ کیا کیا شکوک و شبہات ساتھ لے جائیں گے اور نبی صادق کی پیشگوئی کے بارہ میں کیا کیا وساوس دل میں پڑیں گے اورقریب ہے کہ کوئی ایساسخت وسوسہ پڑجائے کہ جس کے ساتھ ایمان ہی برباد ہو.کیونکہ یہ وقت انجیل اور احادیث کے اشارات کے مطابق وہی وقت ہے جس میں مسیح اُترنا چاہیئے اسی وجہ سے سلف صالح میں سے بہت سے صاحبِ مکاشفات مسیح کے
آنے کا وقت چودہویں صدی کا شروع سال بتلا گئے ہیں چنانچہ شاہ ولی اللہ صاحب مُحدّث دہلوی قدس سرہٗ کی بھی یہی رائے ہے اور مولوی صدیق حسن صاحب مرحوم نے بھی اپنے ایک رسالہ میں ایسا ہی لکھا ہے اور اکثر محدّثین اس حدیث کے معنے میں کہ جو الاٰیات بعد المأ تین ہے اسی طرف گئے ہیں.اگر یہ کہو کہ مسیح موعود کا آسمان سے دمشق کے منارہ کے پاس اُترنا تمام مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے تو اس کا جواب َ میں اسی رسالہ میں لکھ چکا ہوں کہ اس بات پر ہرگز اجماع نہیں قرآن شریف میں اس کا کہاں بیان ہے وہاں تو صرف موت کا ذکر ہے بخاری میں حضرت یحیٰیکی روح کے ساتھ حضرت عیسٰی کی روح کو دوسرے آسمان پر بیان کیا ہے اور دمشق میں اُترنے سے اعراض کیاہے اور ابن ماجہ صاحب بیت المقدس میں اُ ن کو نازل کررہے ہیں اور ان سب میں سے کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ یہ تمام الفاظ و اسماء ظاہر پر ہی محمول ہیں بلکہ صرف صورت پیشگوئی پر ایمان لے آئے ہیں پھر اجماع کس بات پر ہے.ہاں تیرہویں صدی کے اختتام پر مسیح موعود کا آنا ایک اجماعی عقیدہ معلوم ہوتا ہے.سو اگر یہ عاجز مسیح موعود نہیں تو پھر آپ لوگ مسیح موعود کو آسمان سے اُتار کر دکھلا دیں.صالحین کی اولاد ہو مسجد میں بیٹھ کر تضرّع اور زاری کرو تاکہ عیسٰی ابن مریم آسمان سے فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے تشریف لاویں اور تم سچے ہو جاؤ.ورنہ کیوں ناحق بد ظنی کرتے ہو اور زیر الزام آیت کریمہ لَا تَقْفُ مَا لَـيْسَ لَـكَ بِهٖ عِلْمٌ ۱ آتے ہو خدائے تعالیٰ سے ڈرو.لطیفہ چند روز کا ذکر ہے کہ اس عاجز نے اس طرف توجہ کی کہ کیا اس حدیث کا جو الاٰیات بعد المأتین ہے ایک یہ بھی منشاء ہے کہ تیرہویں صدی کے اواخر میں مسیح موعود کا ظہور ہو گا اور کیا اس حدیث کے مفہوم میں بھی یہ عاجز داخل ہے تو مجھے کشفی طور پر اس مندرجہ ذیل نام کے اعدادحروف کی طرف توجہ دلائی گئی کہ دیکھ یہی مسیح ہے کہ جو تیرہویں صدی کے پورے ہونے پر ظاہر ہونے والاتھا پہلے سے یہی تاریخ ۱ بنی اسرائیل:۳۷
ہم نے نام میں مقرر کر رکھی تھی اور وہ یہ نام ہے غلام احمد قادیانی اس نام کے عدد پورے تیرہ ۱۳۰۰ سو ہیں اور اس قصبہ قادیان میں بجز اس عاجز کے اور کسی شخص کا غلام احمد نا م نہیں بلکہ میرے دل میں ڈالا گیا ہے کہ اِسوقت بجز اس عاجز کے تمام دنیا میں غلام احمد قادیانی کسی کا بھی نام نہیں اور اس عاجز کے ساتھ اکثر یہ عادت اللہ جاری ہے کہ وہ سبحانہ بعض اسرار اعداد حروف تہجّی میں میرے پرظاہر کردیتا ہے.ایک دفعہ میں نے آدم کے سن پیدائش کی طرف توجہ کی تو مجھے اشارہ کیا گیا کہ ان اعداد پر نظر ڈالو جو سورۃ العصر کے حروف میں ہیں کہ انہیں میں سے وہ تاریخ نکلتی ہے.ایک مرتبہ میں نے اس مسجد کی تاریخ جس کے ساتھ میرا مکان ملحق ہے الہامی طور پر معلوم کرنی چاہی تو مجھے الہام ہوا مبارک و مبارِک وکل امر مبارک یجعل فیہ.یہ وہی مسجد ہے جس کی نسبت میں اسی رسالہ میں لکھ چکا ہوں کہ میرا مکان اس قصبہ کے شرقی طرف آبادی کے آخری کنارہ پرواقع ہے اسی مسجدکے قریب اور اس کے شرقی منارہ کے نیچے جیساکہ ہمارے سیّد و مولیٰ کی پیشگوئی کا مفہوم ہے صلی اللہ علیہ وسلم.اور ابھی چند روز کا ذکر ہے کہ ایک شخص کی موت کی نسبت خدائے تعالیٰ نے اعداد تہجی میں مجھے خبر دی جس کا ماحصل یہ ہے کہ کلب یموت علٰی کلب یعنی وہ کُتّا ہے اور کُتے کے عدد پر مرے گا جو باو۵۲ ن سال پر دلالت کررہے ہیں یعنی اُس کی عمر باو ۵۲ن سال سے تجاوز نہیں کرے گی جب باون سال کے اندر قدم دھرے گا تب اُسی سال کے اندر اندر راہی ملک بقا ہو گا.اب پھر میں تقریر بالا کی طرف رجوع کر کے کہتا ہوں کہ ہمار اگروہ ایک سعید گروہ ہے جس نے اپنے وقت پر اس بندہ مامور کو قبول کر لیا ہے جو آسمان اور زمین کے خدا نے بھیجا ہے اور ان کے دلوں نے قبول کرنے میں کچھ تنگی نہیں کی کیونکہ وہ سعید تھے اور خدائے تعالیٰ نے اپنے لئے انہیں چُن لیا تھا.عنایت حق نے انہیں قوت دی اور دوسروں کو نہیں دی اور اُن کا سینہ کھول دیا اور دوسروں کا نہیں کھولا سو جنہوں نے لے لیا اُنہیں اَور بھی دیا جائے گا اور ان کی بڑھتی ہوگی مگر جنہوں نے نہیں لیا اُن سے وہ بھی لیا جائے گا جو اُن کے پاس پہلے تھا.بہت سے راستبازوں نے آرزو کی کہ اس زمانہ کو دیکھیں مگر دیکھ نہ سکے مگر افسوس کہ ان لوگوں نے
دیکھا مگر قبول نہ کیا ان کی حالت کو میں کس قوم کی حالت سے تشبیہ دوں اُنکی نسبت یہی تمثیل ٹھیک آتی ہے کہ ایک بادشاہ نے اپنے وعدہ کے موافق ایک شہر میں اپنی طرف سے ایک حاکم مقرر کرکے بھیجا تا وہ دیکھے کہ درحقیقت مطیع کون ہے اور نافرمان کون اور تا اُن تمام جھگڑوں کا تصفیہ بھی ہو جائے جو اُن میں واقع ہو رہے ہیں چنانچہ وہ حاکم عین اُس وقت میں جبکہ اس کے آنے کی ضرورت تھی آیا اور اُس نے اپنے آقائے نامدارکا پیغام پہنچادیا اور سب لوگوں کو راہِ راست کی طرف بُلایا اور اپنا حَکَم ہونا اُن پر ظاہر کردیا.لیکن وہ اس کے ملازم سرکاری ہونے کی نسبت شک میں پڑ گئے تب اُس نے ایسے نشان دکھلائے جو ملازمو ں سے ہی خاص ہوتے ہیں مگر انہوں نے نہ مانا اور اُسے قبول نہ کیا اور اُس کو کراہت کی نظرسے دیکھا اور اپنے تئیں بڑاسمجھااور اس کا حَکم ہونا اپنے لئے قبول نہ کیا بلکہ اس کو پکڑ کر بے عزّت کیا اور اُس کے مُنہ پر تھوکا اور اس کے مارنے کے لئے دوڑے اور بہت سی تحقیر و تذلیل کی اور بہت سی سخت زبانی کے ساتھ اُس کو جھٹلایا تب وہ اُن کے ہاتھ سے وہ تمام آزاراُٹھاکر جو اس کے حق میں مقدّر تھے اپنے بادشاہ کی طرف واپس چلاگیا اور وہ لوگ جنہوں نے اُس کا ایسابُرا حال کیا کسی اور حاکم کے آنے کے منتظر بیٹھے رہے اور جہالت کی راہ سے ایسے خیال باطل پر جمے رہے کہ یہ تو حاکم نہیں تھا بلکہ وہ اور شخص ہے جو آئے گا جس کی انتظاری ہمیں کرنی چاہیئے سو وہ سارا دن اس شخص کی انتظارکئے گئے اور اُٹھ اُٹھ کر دیکھتے رہے کہ کب آتا ہے اور اس وعدہ کا باہم ذکرکرتے رہے جو بادشاہ کی طرف سے تھا یہاں تک کہ انتظار کرتے کرتے سورج غروب ہونے لگااور کوئی نہ آیا آخر شام کے قریب بہت سے پولیس کے سپاہی آئے جن کے ساتھ بہت سی ہتکڑیاں بھی تھیں سوانہوں نے آتے ہی اُن شریروں کے شہر کو پھونک دیااور پھر سب کو پکڑ کر ایک ایک کو ہتکڑی لگا دی اورعدالت شاہی کی طرف بجُرم عدول حکمی اور مقابلہ ملازم سرکاری چالان کردیا جہاں سے انہیں وہ سزائیں مل گئیں جن کے وہ سزاوار تھے.سو میں سچ مچ کہتا ہوں کہ یہی حال اس زمانہ کے جفاکار منکروں کا ہوگا ہریک شخص اپنی زبان اور قلم اور ہاتھ کی شامت سے پکڑاجائے گا جس کے کان سُننے کے ہوں سُنے.
علما ئے ہند کی خدمت میں نیاز نامہ اے برادران دین وعلمائے شرع متین!آپ صاحبان میری ان معروضات کو متوجہ ہو کر سُنیں کہ اس عاجزنے جو مثیل موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے جس کو کم فہم لوگ مسیح موعود خیال کر بیٹھے ہیں.یہ کوئی نیا دعویٰ نہیں جو آج ہی میرے مُنہ سے سُنا گیا ہو بلکہ یہ وہی پُرانا الہام ہے جو میں نے خدائے تعالیٰ سے پاکر براھین احمدیہ کے کئی مقامات پر بتصریح درج کر دیا تھا جس کے شائع کرنے پر سات سال سے بھی کچھ زیادہ عرصہ گزر گیا ہوگا میں نے یہ دعویٰ ہرگزنہیں کیا کہ میں مسیح بن مریم ہوں جو شخص یہ الزام میرے پر لگاوے وہ سراسر مفتری اور کذاّب ہے بلکہ میری طرف سے عرصہ سات یا آٹھ سال سے برابر یہی شائع ہو رہا ہے کہ میں مثیل مسیح ہوں یعنی حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بعض روحانی خواص طبع اور عادت اور اخلاق وغیرہ کے خدائے تعالیٰ نے میری فطرت میں بھی رکھے ہیں اور دوسرے کئی امور میں جن کی تصریح انہیں رسالوں میں کر چکا ہوں میر ی زندگی کو مسیح ابن مریم سے اشد مشابہت ہے اور یہ بھی میری طرف سے کوئی نئی بات ظہور میں نہیںآئی کہ میں نے ان رسالوں میں اپنے تئیں وہ موعود ٹھہرایا ہے جس کے آنے کا قرآن شریف میں اجمالًا اور احادیث میں تصریحاً بیان کیا گیاہے کیونکہ میں تو پہلے بھی براہین احمدیہ میں بتصریح لکھ چکا ہوں کہ میں وہی مثیل موعود ہوں جس کے آنے کی خبر روحانی طور پر قرآن شریف اور احادیث نبویہ میں پہلے سے وارد ہو چکی ہے.تعجب کہ مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی اپنے رسالہ اِشَاعۃ السُّنّۃ نمبر ۶ جلد سا ت میں جس میں براہین احمدیہ کا ریویو لکھا ہے اِن تمام الہامات کی اگرچہ ایمانی طور پر نہیں مگر امکانی طور پر تصدیق کر چکے اور بدل و جان مان چکے ہیں مگر پھر بھی سُنا جاتا ہے کہ حضرت مولوی صاحب موصوف کو بھی اور لوگوں کا شور اور غوغا دیکھ کر
کچھ منکرانہ جوش دل میں اُٹھتا ہے و ہذا اعجب العجائب اور الہامات جو اس بار ہ میں براہین میں درج ہیں وہ صفحات نمبر ۲۳۸،۲۳۹،۲۴۰،۴۴۷،۴۹۸ ، ۵۰۵ ،۵۱۰ ، ۵۱۱ ، ۵۱۳ ، ۵۱۴ ،۵۵۶ ، ۵۵۹ ، ۵۶۰ ،۵۶۱ میں مندرج ہیں جن کی عبارتیں یہ ہیں.یا احمد بارک اللہ فیک مارمیت اذرمیت ولٰکن اللّٰہ رمٰی ا لرحمٰن علم القراٰن لتنذر قوما ما انذر اٰباؤھم و لتستبین سبیل المجرمین قل انّی امرت وانا اوّل المؤمنین یاعیسٰی انّی متوفیک ورافعک الیّ وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفرواالٰی یوم القیٰمۃ ھو الذی ارسل رسولہ بالھُدٰی و دین الحق لیظھرہ علی الدّین کلّہ لا مبدل لکلمات اللّٰہ اناانزلناہ قریبًا من القادیان و بالحق انزلناہ وبالحق نزل صدق اللّٰہ ورسولہ وکان امراللّٰہ مفعولا وقالواان ھو الا افک نافترٰی وما سمعنا بھذا فی اٰبائنا الاوّلین قل ھو اللّٰہ عجیب یجتبٰی من یشآء من عبادہ.لا یسئل عما یفعل و ھم یسئلون اے احمد خدائے تعالیٰ نے تجھ میں برکت ڈال دی ہے جو کچھ تو نے چلایا جبکہ چلایا یہ تُو نے نہیں بلکہ خدا نے چلایا ہے وہی رحمٰن ہے جس نے قرآن تجھے سکھایا تا تو ان لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے ڈرائے نہیں گئے اور تا مجرموں کی راہ صاف طور پرکھل جاوے یعنی تا معلوم ہو جاوے کہ کون لوگ تیرا ساتھ اختیار کرتے ہیں اور کو ن لو گ بغیر بصیر ت کامل کے مخالفت پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور سب لوگوں کو کہہ دے کہ میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے حَکم کیاگیا ہوں اور سب سے پہلا وہ آدمی ہوں جو اس حکم پر ایمان لایا.اے عیسیٰ میں تجھے وفات دوں گااور اپنی طرف اُٹھاؤں گااور و ہ جو تیرے تابع ہوئے ہیں میں انہیں اُن دوسرے لوگوں پر جو تیرے منکر ہیں قیامت کے دن تک غالب رکھوں گا.خدا وہ قادر ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچائی دین دے کر بھیجا تا سب دینوں پر حجت کی رُو سے اُس کو غالب کرے.(یہ وہ پیشگوئی ہے جو پہلے سے قرآن شریف میں انہیں دنوں کے لئے لکھی گئی ہے ) پھر بعد اس کے الہام الٰہی کا یہ ترجمہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کے ان وعدوں کو جو پہلے سے اس کی پاک کلام میں آچکے ہیں کوئی بدل نہیں سکتا یعنی وہ ہرگز ٹل نہیں سکتے
سنلقی فی قلوبھم الرعب قل جآء کم نور من اللّٰہ.فلا تکفروا ان کنتم مؤمنین والذین اٰمنوا ولم یلبسواایمانھم بظلم اولٰئک لھم الامن وھم مھتدون ویخوفونک من دونہٖ ائمۃ الکفر تبت یداابی لھب وتب ما کان لہ ان یدخل فیھا الا خائفا وما اصابک فمن اللّٰہ الفتنۃ ھٰھنا فاصبر کما صبر اولو العزم الا انھا فتنۃ من اللّٰہ.لیحب حبا جما حبا من اللّٰہ العزیز الاکرم فی اللّٰہ اجرک ویرضٰی عنک ربک ویتم اسمک وان لم یعصمک الناس فیعصمک اللّٰہ من عندہ اور پھر بعد اس کے فرمایا ہے کہ ہم نے اس مامور کو مع اپنے نشانوں اور عجائبات کے قادیان کے قریب اُتارا ہے اور سچائی کے ساتھ اُتارا اور سچائی کے ساتھ اُترا.اللہ اور اس کے رسول کے وعدے جو قرآن اور حدیث میں تھے آج سچے ہو گئے اور خدا تعالیٰ کاوعدہ اور امر ایک دن پورا ہونا ہی تھا اور کہیں گے کہ یہ سراسر جھوٹ ہے جو آپ بنا لیا اور ہم نے اپنے سلف صالح سے اس کو نہیں سُنا.ان کو کہہ کہ خدا تعالیٰ کی شان عجیب ہے تم اس کے اسرار تک پہنچ نہیں سکتے جس کو چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے چن لیتا ہے اس کے پاس اپنے بندوں کی کچھ کمی نہیں اور اس کے کاموں کی اس سے کوئی باز پرس نہیں کر سکتاکہ ایسا کیوں کیا اور ایساکیوں نہیں کیا اور وہ اپنے بندوں کے افعال و اقوال کی باز پُرس کرتا ہے اور عنقریب ہم ان کے دلوں پر رُعب ڈال دیں گے ان کو کہہ دے کہ یہ نوراللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے اگر تم مومن ہو تو اس سے انکار مت کرو اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان میں کسی ظلم کو نہیں ملایا وہ امن کی حالت میں ہیں اور وہی ہدایت یافتہ ہیں اور منکروں کے پیشوا تجھے ڈرائیں گے ہلاک ہوئے دونوں ہاتھ ابی لہب کے اور آپ بھی ہلاک ہوا اسے نہیں چاہیئے تھا کہ اس معاملہ میں دلیری سے اپنے تئیں داخل کرتا بلکہ ڈرتا اور جو کچھ تجھے لوگوں کی باتوں سے آزار پہنچے گا وہ درحقیقت خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو گا.اس جگہ ابی لہب سے مراد ایسے لوگ ہیں کہ جو مخالفانہ تحریروں کے لئے بغیر بصیرت کاملہ
وماکان اللّٰہ لیترکک حتی یمیز الخبیث من الطیب وعسیٰ ان تکرھوا شیئا وھو خیر لکم و اللّٰہ یعلم وانتم لا تعلمون ربّ اغفر وار حم من السمآء رب انی مغلوب فانتصر ایلی ایلی لما سبقتنی.رب ارنی کیف تحی الموتٰی رب لا تذرنی فردًا وانت خیرا لوارثین ربناافتح بیننا وبین قومنا بالحق وانت خیر الفاتحین بشری لک یا احمدی انت مرادی ومعی غرستُ کرامتک بیدی انت وجیہ فی حضرتی کے کھڑے ہو جائیں گے اورلَا تَقْفُ مَا لَـيْسَ لَـكَ بِهٖ عِلْمٌ ۱ کی نہی سے نہیں ڈریں گے اور امر حُسن ظن کی پروا نہیں رکھیں گے اور متشابہات امر متنازعہ فیہ کو حوالہ بخدا نہیں کریں گے.پھر فرمایا کہ جب لوگ مخالفت پر آمادہ ہو جائیں گے تو یہ ایک آزمائش کی جگہ ہو گی پس اس وقت تُو صبر کر جیساکہ اولوالعزم رسول صبر کرتے رہے ہیں یاد رکھ کہ یہ منجانب اللہ آزمائش ہے تا وہ کامل طور پر تجھ سے محبت کرے یہ وہ محبت ہے جو خداوند غالب اور بہت بزرگ کی طرف سے ہے تیرا اجر خدادے گا اور تیرا رب تجھ سے راضی ہو گا اور تیرا نام پوراکرے گا اور خداتجھے بچائے گااگرچہ لوگ تیرے بچانے سے دریغ ہی کریں اور خداایسا نہیں ہے کہ قبل اس کے جو خبیث اور طیّب میں فرق کر کے دکھلا وے تجھے چھوڑ دیوے اور ایسا ہو سکتا ہے کہ تم ایک امر کو جو تم پر وارد ہو مکروہ سمجھو اور تمہارے د ل کو اچھا نہ لگے مگر دراصل وہ تمہارے لئے اچھا ہو اور خدا تعالیٰ حقیقت اسرار جانتا ہے اور تم نہیں جانتے.اے میرے رب میرے گناہ بخش اور آسمان سے مجھ پر رحم نازل کر اور میرے لئے کھڑا ہو کہ میں مغلوب ہوں.اے میرے خدا اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا (یہ اشارہ اس مشابہت کی طرف ہے کہ جو اس عاجز کو حضرت مسیح سے ہے کیونکہ ایلی ایلی کی دعا درحقیقت مسیح نے اپنی تنگی کے وقت کی تھی )اور پھر اس عاجز کی طرف سے خدا تعالیٰ نے الہامی طور پر یہ دعا ظاہر کی کہ مجھے دکھلا کہ تو کیونکر مردوں کو زندہ کرتا ہے (یہ بھی مسیحی مشا بہت کی طرف اشارہ ہے ) اور پھراس عاجز کی طرف سے الہامی طورپریہ دعا ظاہر کی کہ مجھے اکیلا مت چھوڑ اور تو خیرالوارثین ہے.مجھ میں اور میری قوم میں سچا فیصلہ کر تو خیر الفاتحین ہے.اے میرے احمدتجھے بشارت ہو ۱ بنی اسرائیل:۳۷
اخترتک لنفسی شأنک عجیب واجر ک قریب الارض والسمآء معک کما ھو معی جری اللہ فی حلل الانبیآء لا تخف انک انت الاعلٰی ینصرک اللہ فی مواطن ان یومی لفصل عظیم کتب اللہ لاغلبن انا ورسلی الاان حزب اللّٰہ ھم الغالبون.تُو میری مراد اور میرے ساتھ ہے میں نے تیری کرامت کادرخت ثابت اور مستحکم کردیا تُو میر ی درگاہ میں وجیہ ہے میں نے تجھے اپنے لئے چنا تیری شان عجیب اور تیرا اجر قریب ہے.تیرے ساتھ زمین و آسمان ایسا ہے جیساکہ وہ میرے ساتھ ہے.تُو خدا کا پہلوان ہے نبیوں کے حُلّوں میں.مت خوف کر کہ غلبہ تجھ کو ہے.خداکئی میدانوں میں تیری مدد کرے گا.میرا دن بڑے فیصلہ کا دن ہے.میں نے لکھ چھوڑا ہے کہ ہمیشہ مَیں اور میرے رسول ہی غالب رہیں گے.یاد رکھ کہ خدا کا ہی گروہ غالب رہا کرتا ہے.یہ وہ الہامات ہیں جو براہین احمدیہ میں صفحات مذکورہ بالا میں ہم لکھ چکے ہیں.جو صراحتًا وکنایتًا اس عاجز کے مثیل موعود ہونے پردلالت کررہے ہیں.ہاں براہین میں اس بات کا الہامی طور پر کچھ فیصلہ نہیں کیا گیا کہ حضرت مسیح بن مریم کے نزول کے جو لوگ منتظر ہیں کہ وہی سچ مچ بہشت سے نکل کر فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے آسمان سے زمین پر اُتر آئیں گے اس کی اصل حقیقت کیا ہے بلکہ میں نے براہین میں جو کچھ مسیح بن مریم کے دوبارہ دنیا میں آنے کا ذکر لکھا ہے وہ ذکر صرف ایک مشہور عقیدہ کے لحاظ سے ہے جس کی طرف آج کل ہمارے مسلمان بھائیوں کے خیالات جھکے ہوئے ہیں.سو اسی ظاہر ی اعتقاد کے لحاظ سے میں نے براہین میں لکھ دیا تھا کہ میں صرف مثیل موعود ہوں.اور میر ی خلافت صرف روحانی خلافت ہے لیکن جب مسیح آئے گا تو اس کی ظاہری اور جسمانی دونوں طور پر خلافت ہو گی یہ بیان جو براہین میں درج ہو چکا ہے صرف اُس سرسری پیروی کی وجہ سے ہے جو ملہم کو قبل از انکشاف اصل حقیقت اپنے نبی کے آثار مرویہ کے لحاظ سے
لازم ہے کیونکہ جو لوگ خدائے تعالیٰ سے الہام پاتے ہیں وہ بغیر بُلائے نہیں بولتے اور بغیر سمجھائے نہیں سمجھتے اور بغیر فرمائے کوئی دعویٰ نہیں کرتے اور اپنی طرف سے کسی قسم کی دلیری نہیں کرسکتے اسی وجہ سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تک خدائے تعالیٰ کی طرف سے بعض عبادات کے اداکرنے کے بارہ میں وحی نازل نہیں ہوتی تھی تب تک اہل کتاب کی سُنن دینیّہ پر قدم مارنابہتر جانتے تھے اور بر وقت نزول وحی اور دریافت اصل حقیقت کے اس کو چھوڑ دیتے تھے سو اسی لحاظ سے حضرت مسیح بن مریم کی نسبت اپنی طرف سے براہین میں کوئی بحث نہیں کی گئی تھی اب جو خدائے تعالیٰ نے حقیقت امر کو اس عاجز پر ظاہر فرمایا تو عام طور پر اس کا اعلان از بس ضروری تھا لیکن مجھے اگر کچھ افسوس ہے تو ا س زمانہ کے اُن مولوی صاحبان پر ہے کہ جنہوں نے قبل اس کے جو میر ی تحریر پر غور اور خوض کی نگاہ کریں ردّ لکھنے شروع کردئے ہیں مصنّفین اور محققین خوب سمجھتے ہیں کہ جس قدر حال کے بعض مولوی صاحبوں نے مجھے اپنی دیرینہ رائے کا مخالف ٹھہرایا ہے غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ درحقیقت اتنی بڑی مخالفت نہیں ہے جس پر اتنا شور مچایا گیا میں نے صرف مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور میرا یہ بھی دعویٰ نہیں کہ صرف مثیل ہونا میرے پر ہی ختم ہو گیا ہے بلکہ میرے نزدیک ممکن ہے کہ آئندہ زمانوں میں میرے جیسے اور دس ہزار بھی مثیل مسیح آجائیں ہاں اِس زمانہ کے لئے میں مثیل مسیح ہوں اور دُوسرے کی انتظار بے سُود ہے اور یہ بھی ظاہر رہے کہ یہ کچھ میرا ہی خیال نہیں کہ مثیل مسیح بہت ہو سکتے ہیں بلکہ احادیث نبویہ کا بھی یہی منشاء پایا جاتا ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ دنیا کے اخیر تک قریب تیس کے دجّال پیداہوں گے اب ظاہر ہے کہ جب تیس دجّال کا آنا ضروری ہے تو بحکم لِکُلِّ دجّال عیسٰیتیس مسیح بھی آنے چاہئیں پس اس بیا ن کے رُو سے ممکن اور بالکل ممکن ہے کہ کسی زما نہ میں کوئی ایسا مسیح بھی آجائے جس پر حدیثوں کے بعض ظاہری الفاظ صادق آسکیں کیونکہ یہ عاجز اس دنیا کی حکومت اور بادشاہت
کے ساتھ نہیں آیا درویشی اور غربت کے لباس میں آیا ہے اور جبکہ یہ حال ہے تو پھر علماء کے لئے اشکال ہی کیا ہے ممکن ہے کہ کسی وقت اُن کی یہ مراد بھی پوری ہو جائے.ہاں اُن کی یہ خاص مراد کشفًا و الہامًاوعقلًا وفرقانًا مجھے پوری ہوتی نظر نہیں آتی کہ وہ لوگ سچ مچ کسی دن حضرت مسیح بن مریم کو آسمان سے اُترتے دیکھ لیں گے سو انہیں اس بات پر ضد کرنا کہ ہم تب ہی ایمان لائیں گے کہ جب مسیح کو اپنی آنکھوں سے آسمان سے اُترتا ہوا مشاہدہ کریں گے ایک خطرناک ضد ہے اور یہ قول اُن لوگوں کے قول سے ملتا جُلتا ہے جن کا خود ذکر اللہ جلّشَانُہ‘ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ وہ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً ۱کہتے رہے اور ایمان لانے سے بے نصیب رہے.اب میں نصیحتًا للّٰہ اپنے عزیز علما ء کی خدمت میں صحیحین کی وہ حدیثیں عرض کرنا چاہتا ہوں جن کی نسبت اُن کا خیال ہے کہ اُن سے ہمار ادعویٰ مسیح ابن مریم کے آسمان سے اُترنے کابخوبی ثابت ہوتا ہے اور جن پر زور مار کر وہ باربار کہہ رہے ہیں کہ ان کو اپنے دعاوی کی اُن احادیث کی رُو سے ڈگری ملتی ہے سو وہ حدیثیں مع ترجمہ کے ذیل میں لکھتا ہوں.ترجمہ صحیح بخاری صفحہ ۴۹۰ والذی نفسی بیدہ لیوشکنّ ان ینزل فیکم ابن مریم حکمًا عدلًا فیکسرالصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الحرب.کیف انتم اذا نزل ابن مریم فیکم امامکم منکم یعنی قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں ابن مریم نازل ہو گا اور تمہارے ہریک مسئلہ مختلف فیہ کا عدالت کے ساتھ فیصلہ کرے گا اور باطل پرستوں کو الگ اور حق پرستوں کو الگ کردے گا پس وہ اِسی حَکَم ہونے کی وجہ سے صلیب کو توڑے گا اور خنزیروں کو مارے گا اور روز کے جھگڑوں کا خاتمہ کر دے گا.تمہارا اُس دن کیا حال ہو گا جس دن ابن مریم تم میں نازل ہو گا اور تم جانتے ہو کہ ابن مریم کون ہے وہ تمہارا ہی ایک امام ہو گا اور تم میں سے ہی (اے اُمّتی لوگو) پیدا ہوگا.۱ البقرۃ:۵۶
یہاں تک بخاری کی حدیث کا ترجمہ ہو چکا اور آپ لوگوں نے سمجھ لیا ہو گا کہ امام بخاری صاحب امامکم منکم کے لفظ سے کس طرف اشارہ کر گئے ہیں العاقل تکفیہ الاشارۃ اب مسلم کی حدیث کا ترجمہ متوجہ ہو کر سُنیں اور وہ یہ ہے.صحیح مسلم وعن النواس بن سمعان قال ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الدجّال.فقال ان یخرج و انا فیکم فانا حجیجہ دونکم وان یخر ج ولست فیکم فکل امرء حجیج نفسہ واللہ خلیفتی علٰی کل مسلم انّہ شاب قطط عینہ طافیۃ کانّی اُشبِّھہٗ بعبد العزّٰی ابن قطن فمن ادرکہ منکم فلیقرء علیہ فواتح سورۃ الکہف فا نھا جوارکم من فتنۃ ترجمہ اور نواس بن سمعان سے روایت ہے * کہ رسول خداصلعم نے دجال کا ذکر کر کے فرمایا کہ اگر میر ی زندگی میں دجّال نکل آوے تو میں تمہارے سامنے اس سے جھگڑوں گا ( یہ فقرہ آئندہ کی پیشگوئی کو جو ضرور مسیح ابن مریم کے نازل ہونے کے وقت دجّال نکلے گا ضعیف کرتا ہے بلکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل دجّال کے نکلنے کا کوئی خاص وقت مقرر نہیں کیا گیا تب ہی تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صَیَّاد پر بھی دجّا ل ہونے کا گمان کیا تھا اُس وقت مسیح کہاں تھا ؟ ) اور پھر فرمایا اگر دجّال نکلا اور میں تم میں نہ ہوا تو ہریک شخص اپنی ذات سے اُس سے لڑے گا یعنی دلائل عقلیہ و شرعیہ کے ساتھ.اور فرمایا کہ میرے بعد خدائے تعالیٰ ہرایک مسلمان پر میرا خلیفہ ہے اور پھر فرمایا کہ اس کے بال بہت مڑے ہوئے ہیں اور آنکھیں پُھولی ہوئی گویا مَیں (عالم کشف میں)عبدالعزّٰی ابن قطن کے ساتھ اُس کو تشبیہ دیتا ہوں.تشریح مُلّا علی قاری نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دَجّا ل کو خواب یا کشف کی حالت میں دیکھا تھا اور چونکہ وہ ایک مثالی عالم ہے اس لئے *حاشیہ: بانی مبانی اس تمام روایت کا صرف نواس بن سمعان ہے اور کوئی نہیں ہے یہ بات نہایت عجیب ہے کہ اس روایت کی نسبت اجماع صحابہ کا خیال کیا جاتا ہے اور عنقریب معلوم ہوگا کہ یہ اور روایتوں کے برخلاف ہے.منہ
انہ خارج خلۃ بین الشام والعراق فعاث یمینًا وعاث شمالًا یا عباداللّٰہ فاثبتوا قلنا یا رسول اللّٰہ ما لبثہ فی الارض قال اربعون یومًا، یوم کسنۃ و یوم کشھر ویوم کجمعۃ وسائر ایامہ کایامکم، قلنا یا رسول اللّٰہ فذالک الیوم الذی کسنۃ اتکفینا فیہ صلٰوۃ یومٍ.قال لا اقدروا لہ قدرہ.قلنا یا رسول اللّٰہ وما اسراعہ فی الارض.قال کالغیث استدبرتہ الریح فیاتی علی القوم فیدعوھم فیؤمنون بہ.فیامر السماء فتمطر والارض فتنبت فتروح علیھم سارحتھم اطول ما کانت آنحضرت صلعم نے اس کا حلیہ بیان کرنے کے وقت لفظ کَأَ نِّیْ یعنی گویا کا لفظ بتا دیا تا اس بات پر دلالت کرے کہ یہ رؤیت حقیقی رؤیت نہیں بلکہ ایک امر تعبیر طلب ہے.میں کہتا ہوں کہ اسی پر صحاح سِتّہ کی بہت سی حدیثیں یقینی اور قطعی دلالت کررہی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو حضرت عیسیٰ اور دجا ل کی نسبت امور معلوم ہوئے تھے وہ حقیقت میں سب مکاشفات نبویہ تھے جو اپنے اپنے محل پر مناسب تاویل و تعبیر رکھتے ہیں اُنہیں میں سے یہ دمشقی حدیث بھی ہے جو مسلم نے بیان کی ہے جس کا اس وقت ہم ترجمہ کر رہے ہیں اور ہمارے اس بیان پر کہ یہ تما م پیشگوئیاں مکاشفات نبویہ ہیں اور رؤیا صالحہ کی طرح بالتزام قرائن محتاج تعبیر ہیں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بیانات مقدسہ شاہد ناطق ہیں.جیسا کہ یہ حدیث مندرجہ ذیل جو صحیحین میں درج ہے اور وہ یہ ہے.وعن عبداللّٰہ بن عمر اَنّ رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وسلم قال رایتُنی اللیلۃَ عند الکعبۃ فرأیت رجلا اٰدم کاحسن ما انت رأي من اُدم الرجال لہ لِمّۃ کاحسن ماانت راءٍ من اللمم قد رجّلھا فھی تقطر ماءً متکءًا علٰی عواتق رجلین یطوف بالبیت فسألتُ من ھذا فقالوا ھذاالمسیح ابن مریم قال ثم اذا انا برجل جعدٍ قططٍ اعورالعین الیمنٰی کان عینہ عنبۃ طافیۃ کاشبہ من رأیتُ
ذریً واسبغہ ضروعًا وامدہ.ثم یاتی القوم فیدعوھم فیردون علیہ قولہ فینصرف عنھم فیصبحون مملحین لیس بایدیھم شي ء من اموالھم ویمر بالخربۃ فیقول لھا اخرجی کنوزک فتتبعہ کنوزھا کیعاسیب النحل ثم یدعو رجلًا ممتلءًا شبابًا فیضربہ بالسیف فیقطعہ جزلتین رمیۃ الغرص ثم یدعوہ فیقبل و یتھلل وجھہ یضحک فبینما ھو کذالک اذ بعث اللہ المسیح ابن مریم.فینزل عند المنارۃ البیضاء شرقی دمشق، بین مھزودتین واضعًا کفیہ علی اجنحۃ ملکین اذا طاطأ رأسہ قطر واذ ا رفعہ تحدّر منہ مثل جمان کاللؤلؤ فلا یحل لکافر یجد من ریح نفسہ الا مات ونفسہ ینتھی حیث ینتھی طرفہ فیطلبہ حتی یدرُکہ بباب لد فیقتلہ.من الناس بابن قطن واضعا یدیہ علٰی منکبی رجلین یطوف بالبیت فسألتُ من ھذا فقالوا ھذا المسیح الدجّال متّفق علیہ وفی روایۃ قال فی الدجا ل رجل احمر جسیم جعد الراس اعور العین الیمنٰی اقرب الناس بہ شبھًا ابن قطن.یعنی عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے آج کی رات خواب میں یا ازراہِ مکاشفہ اپنے تئیں کعبہ کے پاس دیکھااور وہاں مجھے ایک شخص گندم گُوں نظر آیا جس کا رنگ گندم گوں مردوں میں سے اول درجہ کا معلوم ہوتا تھا اور اس کے بال ایسے صاف معلوم ہوتے تھے کہ جیسے کنگھی کی ہوتی ہے اور اُن میں سے پانی ٹپکتا ہے اور میں نے دیکھا کہ وہشخص دو آدمیوں کے مونڈھوں پر تکیہ کر کے خانہ کعبہ کا طواف کر رہا ہے.پس میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے تو مجھے کہا گیا کہ یہ مسیح ابن مریم ہے پھر اُسی خواب میں ایک شخص پر میں گذرا جس کے بال مڑے ہوئے تھے اور دا ہنی آنکھ اُس کی کانی تھی گویا آنکھ اُس کی انگور ہے پُھولا ہوا بے نور اُن لوگوں سے بہت مشابہ تھا جو میں نے ابن قطن کے ساتھ دیکھے ہیں اوراس نے دونوں ہاتھ دو شخصوں کے مونڈھوں پر رکھے ہوئے تھے اور خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا اور میں نے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ یہ مسیح دجا ل ہے.
اب اس تمام حدیث پرنظرِغور ڈال کر معلوم ہوگا کہ جو کچھ د مشقی حدیث میں مسلم نے بیان کیا ہے اکثر باتیں اس کی بطور اختصار اس حدیث میں درج ہیں اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف اور صریح طور پر اس حدیث میں بیان فر ما دیا ہے کہ یہ میرا ایک مکاشفہ یا ایک خواب ہے پس اس جگہ سے یقینی اور قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ وہ دمشق والی حدیث جو پہلے ہم لکھ آئے ہیں درحقیقت وہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک خواب ہی ہے.جیسا کہ اُس میں یہ اشارہ بھی کَاَ نِّی کا لفظ بیان کر کے کیا گیا ہے اور یہ حدیث جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صاف اور صریح طور پر فرماتے ہیں کہ میرا یہ ایک کشف یا خواب ہے اس کو بخاری اور مسلم دو نوں نے اپنی صحیحین میں لکھا ہے اور علماء نے اس جگہ ایک اشکال پیش کرکے ایسے لطیف طور پر اس کا جواب دیا ہے جو ہمارے دعویٰ کا ایسا مؤید ہے کہ گویا ہم میں اور ہمارے مخالفین میں فیصلہ کر نے والا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس حدیث میں جو متفق علیہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے مسیح ابن مریم کو خانہ کعبہ کاطواف کرتے دیکھا اور پھر بعد اس کے فر ما تے ہیں کہ ایسا ہی میں نے مسیح دجّال کو بھی خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا.اس بیان سے یہ لازم آتا ہے کہ مسیح ابن مریم اور مسیح دجّال کا مدعا و مقصد ایک ہی ہو اور وہ دونوں صراط مستقیم پر چلنے والے اور اسلام کے سچے تابع ہوں حالانکہ دوسری حدیثوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دجّال خدائی کا دعوٰی کرے گا پھر اس کو خانہ کعبہ کے طواف سے کیا کام ہے.اِس کا علماء نے یہ جواب دیا ہے کہ ایسے الفاظ و کلمات کو ظاہر پر حمل کرنا بڑی غلطی ہے یہ تو درحقیقت مکاشفات اور خوابوں کے پیرایہ میں بیانات ہیں جن کی تعبیر و تا ویل کر نی چاہیئے جیسا کہ عام طور پر خوابوں کی تعبیر کی جاتی ہے سو اس کی تعبیر یہ ہے کہ طواف لُغت میں گرد پھر نے کو کہتے ہیں اور اس میں شک نہیں کہ جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے نزول کے وقت میں اشاعت دین کے کام کے گرد پھریں گے اور اس کا انجام پذیر ہو جانا چاہیں گے ایسا ہی مسیح د جال بھی
اپنے ظہور کے وقت اپنے فتنہ اندازی کے کام کے گرد پھرے گا اور اُس کا انجام پذیر ہوجانا چاہے گا.اب کہاں ہیں وہ حضرات مولوی صاحبان جو ان حدیثوں کے الفاظ کو حقیقت پر حمل کرنا چاہتے ہیں اور اُن کے معانی کو ظاہر عبارت سے پھیرنا کفر و الحاد سمجھتے ہیں ذرہ اپنے گریبان میں مُنہ ڈال کر دیکھیں کہ سلف صالح نے اس حدیث کے معنے کرنے کے وقت مسیح دجّال کے طواف کرنے کو ایک خواب کا معاملہ سمجھ کر کیسی اس کی تعبیر کر دی ہے جو ظاہر الفاظ سے بہت بعید ہے پھر جس حالت میں لا چار ہو کر اُن مکاشفات کی ایک جزو کی تعبیر کی گئی تو پھر کیا وجہ کہ با وجود مو جود ہونے قرائن قویہ کے دوسری جزو ں کی تعبیر نہ کی جائے.واضح ہو کہ جس طرح ہمارے علماء نے مسیح دجّال کے طواف کو ایک کشفی امر سمجھ کر اُس کی ایک روحانی تعبیر کردی ہے ایسا ہی خود جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی مقامات میں ظاہر فرما دیا کہ جو کچھ میرے پر کشفی طور پر کھلتا ہے جب تک منجانب اللہ قطعی اور یقینی معنے اس کے معلوم نہ ہوں میں ظاہر پر حمل نہیں کر سکتا.مثلاً اس حدیث کو دیکھو جو صحیح بخاری کے صفحہ۵۵۱ میں درج ہے اور وہ یہ ہے حدثنا معلی قال حدثنا
وھیب عن ھشام بن عروۃ عن ابیہ عن عائشۃ ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لھا اریتک فی المنام مرتین اریٰ انک فی سرقۃ من حریر و یقول ھٰذہ امرأتک فاکشف عنہا فاذا ھی انت فاقول ان یک ھذا من عند اللّٰہ یمضہ یعنی حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اے عائشہ تُو خواب میں مجھے دودفعہ دکھائی گئی اور میں نے تجھے ایک ریشم کے ٹکڑے پر دیکھا اور کہا گیا کہ یہ تیری عورت ہے اور میں نے اس کو کھو لا تو کیا دیکھتا ہوں کہ تُو ہی ہے اور میں نے کہا کہ اگر خدائے تعالیٰ کی طرف سے یہی تعبیر ہے جو میں نے سمجھی ہے تو ہو رہے گی یعنی خوابوں اور مکاشفات کی تعبیر ضرور نہیں کہ ظاہر پر ہی واقعہ ہو کبھی تو ظاہر پر ہی واقعہ ہو جا تی ہے اور کبھی غیر ظاہر پر وقوع میں آتی ہے سو اس جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب کی سچائی میں شک نہیں کیا کیونکہ نبی کی خواب تو ایک قسم کی وحی ہوتی ہے بلکہ اُس کی طرز وقوع میں تردّد بیان کیا ہے کہ خدا جانے اپنی ظاہری صورت کے لحاظ سے وقوع میں آوے یا اُس کی اَور کوئی تعبیر پیدا ہو اور اس جگہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان سے یہ بھی بخوبی ثابت ہو گیا کہ جو وحی کشف یا خواب کے ذریعہ سے کسی نبی کو ہووے اس کی تعبیر کرنے میں غلطی بھی ہو سکتی ہے جیسا کہ اسی صفحہ۵۵۱ میں ایک دوسری حدیث میں ایسی غلطی کے بارے میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما دیا ہے اور وہ یہ ہے قال ابو موسٰی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم رأیت فی المنام انی اھاجر من مکّۃ الٰی ارض بھا نخل فذھب وھلی الٰی انھا الیمامۃ او ھجر فاذا ھی المدینۃ یثرب.یعنی ابو موسٰیؑ سے روایت ہے جو پیغمبرخدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ سے ایسی زمین کی طرف ہجرت کرتا ہوں جس میں کھجوریں ہیں پس میرا وہم اس طرف گیا کہ وہ یمامہ یا ہجر ہو گا مگر آخر وہ مدینہ نکلا جس کو یثرب بھی کہتے ہیں.اس حدیث میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے
صاف طور پر فر ما دیا کہ کشفی امور کی تعبیر میں انبیاء سے بھی غلطی ہو سکتی ہے اور ان احادیث سے بخوبی ظاہر ہو گیا کہ جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح ابن مریم اور مسیح دجّال کی نسبت پیشگوئیاں فرمائی ہیں حقیقت میں وہ سب مکاشفات نبویہ ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث مذکورہ بالا میں صریح اور صاف طور پر اس بات کی طرف اشارہ بھی کردیا کہ ان مکاشفات کو صرف ظاہر پر حمل نہ کر بیٹھنا ان کی روحانی تعبیریں ہیں اور یہ سب امور اکثر روحانی ہیں جو ظاہری اشکال میں متمثل کر کے دکھلائے گئے ہیں مگر افسوس کہ ہمارے آج کل کے علماء ہمارے سیّد و مولےٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنا نہیں چاہتے اور خواہ نخواہ کشفی استعارات کو حقیقت پر حمل کر نا چاہتے ہیں.واضح ہو کہ عالم کشف میں بڑے بڑے عجائبات ہو تے ہیں اور رنگارنگ کی تمثیلات دکھائی دیتی ہیں بعض اوقات عالم کشف میں ایسی چیزیں مجسم ہو کر نظرآجاتی ہیں کہ دراصل وہ رو حا نی ہو تی ہیں اور بعض وقت انسان کی شکل پر کوئی چیز دکھائی دیتی ہے اوردر اصل وہ انسان نہیں ہوتا مثلاََ زرارہ صحابی کا نعمان بن المنذر کو جو ایک عرب کا بادشاہ تھا تمام تر آرائش کے ساتھ خواب میں دیکھنا اور اس کی تعبیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمانا کہ اس سے مراد ملک عرب ہے جو پھر اپنی زینت اور آرائش کی طرف عود کر آیا ہے یہ صریح اس بات کی دلیل ہے کہ کشفی امور میں کہیں کی کہیں تعبیر چلی جا تی ہے.چنانچہ اس عاجز کو بھی اس بات کا ذاتی تجربہ ہے کہ بعض اوقات خواب یا کشف میں روحانی امور جسمانی شکل پر متشکل ہو کر مثل انسان نظر آجاتے ہیں مجھے یاد ہے کہ جب میرے والد صاحب غفراللّٰہ لہ جو ایک معزز رئیس اور اپنی نواح میں عزت کے ساتھ مشہور تھے انتقال کر گئے تو اُن کے فوت ہونے کے بعد دوسرے یا تیسرے روز ایک عورت نہایت خوبصورت خواب میں میَں نے دیکھی جس کا حُلیہ ابھی تک میری آنکھوں کے سامنے ہے اور اس نے بیان کیا کہ میرا نام رانی ہے اور مجھے اشارات سے کہا کہ میں اس گھر کی عزت اور وجاہت ہوں
اور کہا کہ میں چلنے کو تھی مگر تیرے لئے رہ گئی.اُنہیں دنوں میں میَں نے ایک نہایت خوبصورت مرددیکھا اور میں نے اُسے کہا کہ تم ایک عجیب خوبصورت ہو تب اُس نے اشارہ سے میر ے پرظاہر کیا کہ میں تیرا بخت بیدار ہوں اور میرے اس سوال کے جواب میں کہ تُو عجیب خوبصورت آدمی ہے اُس نے یہ جواب دیا کہ ہاں میں درشنی آدمی ہوں اور ابھی تھو ڑے دن گذرے ہیں کہ ایک مدقوق اور قریب الموت انسان مجھے دکھائی دیا اور اس نے ظاہر کیا کہ میرا نام دین محمد ہے اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ دینِ محمدی ہے جو مجسم ہو کر نظر آیا ہے اور میں نے اس کو تسلی دی کہ تو میرے ہاتھ سے شفا پا جا ئے گا.علیٰ ہذاالقیاس کبھی اعمال نیک یا بد بھی اشکال جسمانیہ میں نظر آجا یا کر تے ہیں اور قبر میں اعمال کا متشکل ہو کر نظر آنا عام عقیدہ مسلمانوں کا ہے اِسی بنا پر آنحضرت صلعم خوابوں کی تعبیر میں اشخاص مرئیہ کے ناموں سے اشتقاق خیر یا شرکا کر لیا کرتے تھے.اب پھر ہم دمشقی حدیث کے بقیہ ترجمہ کی طرف رجوع کرکے لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلعم نے فرمایا کہ جو شخص تم میں سے اس کو یعنی دجّال کو پاوے تو چاہیئے کہ اس کے سامنے سورۂ کہف کی پہلی آیتیں پڑھے کہ اِس میں اُس کے فتنہ سے امان ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے اصحاب کہف کی طرح استقامت اختیارکرے کیونکہ ان آیتوں میں اُن لوگوں کی استقامت کا ہی ذکر ہے جو ایک مشرک بادشاہ کے ظلم سے ڈر کر ایک غار میں چھپ گئے تھے (اے میرے دوستو!اب تم بھی ان آیات کو پڑھا کرو کہ بہت سے دجّال تمہارے سامنے ہیں ) پھر فرمایا رسول نبی اُمّی نے فداءً لَہٗ اَبی وَاُمِّیْ کہ دجّال اس راہ سے نکلنے والا ہے کہ جو شام اور عراق کے درمیان واقعہ ہے.اور دائیں بائیں فساد ڈالے گا ( یہ بھی ایک استعارہ ہے جیساکہ مکاشفات میں عام طور پر استعارات وکنایات ہؤاکرتے ہیں ) پھر بعد اس کے فرمایا کہ اے اللہ کے بندو!تم نے اُس وقت ثابت رہنا یعنی جیسے اصحاب الکہف ثابت قدم رہے تھے.راوی کہتا ہے
کہ یا رسول اللہ کس مّدت تک دجّال دنیا میں ٹھہرے گا تو آپ نے فرمایا کہ چالیس دن.لیکن شَرح السنّۃ میں اسما ء بنت یزید سے روایت ہے کہ چالیس برس ٹھہرے گا مگر درحقیقت اِن روایات میں کسی قسم کا اختلاف یا تناقض نہیں سمجھنا چاہیئے اور اس با ت کا علم حوالہ بخدا کرنا چاہیئے کہ اِن چالیس دن یا چالیس برس سے کیا مراد ہے.اورمسلم کی حدیث کا بقیہ ترجمہ یہ ہے کہ دجّال کا ایک دن برس کے برابر ہو گا اور ایک دن ایک مہینے کے برابر اور ایک دن ہفتہ کے برابر باقی دن معمولی دنوں کے موافق (یہ سب استعارات و کنایات ہیں ) پھر راوی کہتا ہے کہ ہم نے عرض کی کہ کیا اُن لمبے * دنو ں میں ایک دن کی نماز پڑھنا کافی ہوگا توآپ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ نماز کے وقتوں کے مقدا ر پر اندازہ کرلیا کرنا (واضح ہو کہ یہ بیان پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا علیٰ سبیل الاحتمال ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بلحا ظ وسعت قدرت الٰہی کشفی امر کو مطابق سوال سائل کے ظاہر پر محمول کر کے جواب دے دیاہے ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حدیث عائشہ رضی اللہ عنھا میں جو بخاری کے صفحہ ۵۵۱ میں درج ہے صاف طور پر تصریح فرما چکے ہیں کہ مکاشفات کی تعبیر کبھی تو ظاہر پر اور کبھی غیر ظاہر پر وقوع میں آ جایا کرتی ہے اور درحقیقت یہی مذہب تمام انبیا واولیاء کا آج تک چلا آیا ہے سو یہ جواب جو نمازوں کا اندازہ کرلیا کرنا آپ نے فرمایا یہ سائل کے فہم اور استعداد اور رجوع خیال کے موافق برطبق * حاشیہ.لمبے دنوں سے مراد تکلیف اور مصیبت کے دن بھی ہوتے ہیں بعض مصیبتیں ایسی درد ناک ہوتی ہیں کہ ایک دن ایک برس کے برابر دکھائی دیتا ہے اور بعض مصیبتیں ایسی کہ ایک دن ایک مہینہ کی مانند معلوم ہوتاہے اور بعض مصیبتوں میں ایک دن ایک ہفتہ جیسا لمبا سمجھا جاتا ہے.پھر رفتہ رفتہ صبر پیدا ہوجانے سے وہی لمبے دن معمولی دن دکھائی دینے لگتے ہیں اور صبر کرنے والوں کے لئے آخر وہ گھٹائے جاتے ہیں غرض یہ ایک استعارہ ہے اس پر غور کرو کہ درحقیقت یہ لمبے دن ایسے ہی ہیں جیسے آپ نے فرمایا تھا کہ میری بیویوں میں سے پہلے وہ فوت ہو گی جس کے لمبے ہاتھ ہیں.منہ
تکلّمواالنّاس علٰی قدرعقولہم کے دیا گیا ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی کشفی امر کو جب تک خدائے تعالیٰ خاص طور پر ظاہر نہ کرے کبھی ظاہری معنوں تک محدود نہیں سمجھتے تھے جیسا کہ صدہا احادیث میں یہ طریق اورعادت نبویہ مقدسہ ثابت ہو رہی ہے).پھر راوی کہتا ہے کہ ہم نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! دجّال کس قدر جلد زمین پر چلے گا اور اس کے جلد چلنے کی کیفیت کیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ اُس مینہ کی طرح تیز چلے گا جس کے پیچھے ہوا ہو یعنی ایک دم میں ہزاروں کوس پھر جائے گااور ایک قوم پر گذر کر اُن کو اپنے دین کی طرف دعوت کرے گا اور وہ اُس پر ایمان لے آویں گے تب وہ بادل کو حکم کرے گا تا اُن کے لئے مینہ برساوے اور زمین کو حکم کرے گا تا اُن کے لئے کھیتیاں اُگاوے.(یہ سارے استعارات ہیں ہوشیار رہو دھوکا نہ کھانا ) پھر فرمایا کہ ایسا ہو گا کہ وقت پر بارشیں ہونے کی وجہ سے جو مویشی صبح چرنے کے لئے جاویں گے وہ شام کو ایسے تازہ و توانا ہو کر آئیں گے کہ بوجہ فربہی کوہان اُن کی دراز ہو جائیں گی اور پستان دُودھ سے بھر جائیں گے اوربباعث بہت سیر شکم ہونے کے کوکیں کھچی ہوئی ہوں گی.پھر دجّال ایک اور قوم کی طرف جائے گا اوراپنی اُلوہیت کی طرف اُن کو دعوت کرے گا پھر وہ لوگ اُس کی دعوت کو قبول نہیں کریں گے اور اُس پر ایمان نہیں لاویں گے.سو دجّال اُن سے بارش کو روک لے گا اورزمین کو کھیتی نکالنے سے بند کر دے گا اور وہ قحط کی بلا میں مبتلا ہوجائیں گے اور کھانے پینے کے لئے اُن کے پاس کچھ نہ رہے گا.پھر دجّال ایک ویرانہ پر گذرے گا اور اس کو کہے گا کہ اپنے خزانوں کو نکال.تب فی الفور سب خزانے اُس ویرانہ سے نکل کر اُس کے پیچھے پیچھے ہو لیں گے اورایسے اُس کے پیچھے چلیں گے جیسے شہد کی مکھیاں اُس بڑی مکھی کے پیچھے چلتی ہیں جو اُن کی سردار ہوتی ہے.پھر دجّال ایک شخص کو بلا ئے گا جو اپنی جوانی میں بھراہواہوگا اور اُس کو تلوار سے قتل کردے گا.اور اُس کے دوٹکڑے کر کے تِیر کی مارپر علیحدہ علیحدہ پھینک دے گا پھر اس کی لاش کو بُلائے گا
تب وہ شخص زندہ ہو کرایک روشن اور چمکتے ہوئے چہرہ کے ساتھ اس کے سامنے آ جائے گا اور اس کی الوہیّت سے انکارکرے گا سو دجّال اِسی قسم کی گمراہ کرنے کی کوشش میں لگا ہواہو گا کہ ناگہاں مسیح بن مریم ظاہر ہو جائے گا اور وہ ایک منارہ سفید کے پاس دمشق کے شرقی طرف اُترے گا مگر ابن ماجہ کا قول ہے کہ وہ بیت المقدس میں اُترے گا اور بعض کہتے ہیں کہ نہ بیت المقدس اور نہ دمشق بلکہ مسلمانو ں کے لشکر میں اترے گا جہاں حضرت مہدی ہوں گے.اورپھرفرمایا کہ جس وقت وہ اُترے گا اُس وقت اس کی زرد پوشاک ہوگی.یعنی زردرنگ کے دو کپڑے اُس نے پہنے ہوئے ہوں گے (یہ اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت اُس کی صحت کی حالت اچھی نہیں ہوگی ) اور دونوں ہتھیلی اُس کی دو فرشتوں کے بازوؤں پرہوں گی.مگر بخاری کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن مریم کو بجائے دوفرشتوں کے دو آدمیوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر طواف کرتے دیکھا.پس اِس حدیث سے نہایت صفائی سے یہ بات کھلتی ہے کہ دمشقی حدیث میں جو دو فرشتے لکھے ہیں وہ دراصل وہی دو آدمی ہیں کہ دوسری حدیث میں بیان کئے گئے ہیں اور اُن کے کندھوں پر ہاتھ رکھنے سے مطلب یہ ہے کہ وہ مسیح کے مددگاراور انصار ہوجائیں گے.اور پھر فرمایا کہ جس وقت مسیح اپنا سر جھکائے گا تو اُس کے پسینہ کے قطرات مترشح ہوں گے اور جب اُوپر کو اُٹھائے گا تو بالوں سے قطرے پسینہ کے چاندی کے دانوں کی طرح گریں گے جیسے موتی ہوتے ہیں اور کسی کافر کے لئے ممکن نہیں ہو گا کہ اُن کے دم کی ہو اپاکر جیتارہے بلکہ فی الفور مرجائے گا اور دم اُن کا اُن کی حّدِ نظر تک پہنچے گا.پھر حضرت ابن مریم دجّال کی تلاش میں لگیں گے اور لُدّ کے دروازہ پر جو بیت المقدس کے دیہات میں سے ایک گاؤں ہے اس کو جاپکڑیں گے اور قتل کر ڈالیں گے.تمّت ترجمۃ الحدیث.یہ وہ حدیث ہے جو صحیح مسلم میں امام مسلم صاحب نے لکھی ہے جس کو ضعیف سمجھ کر رئیس المحدثین
امام محمد اسمٰعیل بخاری نے چھوڑدیا ہے اس جگہ حیرانی کا یہ مقام ہے کہ جو کچھ دجّال کے حالات و صفات اس حدیث میں لکھے گئے ہیں اور جس طرز سے اُس کے آنے کی خبر بتائی گئی ہے یہ بیان دوسری حدیثوں کے بیان سے بالکل منافی اور مبائن اور مخالف پایا جاتا ہے کیونکہ صحیحین میں یہ حدیث بھی ہے وعن محمد بن المنکدر قال رأیت جابر ابن عبداللّٰہ یَحلف باللّٰہ ان ابن صیّاد الدجال قلت تحلف باللّٰہ قال انی سمعت عمریحلف علٰی ذلک عند النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلم ینکرہ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم متفق علیہ اور ایک دوسری حدیث یہ بھی ہے عن نافع قال کان ابن عمر یقول واللّٰہ ما اشک ان المسیح الدجّال ابن صیّاد رواہ ابوداؤد والبیھقی فی کتاب البعث والنشور.پہلی حدیث کا ترجمہ یہ ہے کہ محمد بن منکدر تابعی سے روایت ہے کہ کہا کہ میں نے جابربن عبداللہ کو دیکھا کہ خدائے تعالیٰ کی قسم کھاتا تھا کہ ابن صیّاد ہی دجّال معہود ہے اور محمد بن منکدر کہتا ہے کہ میں نے جابر کو کہا کہ کیاتو خدائے تعالیٰ کی قسم کھاتا ہے یعنی یہ امر تو ظّنی ہے نہ یقینی پھر قسم کیوں کھاتا ہے.جابرنے کہا کہ میں نے عمر کو بحضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی بارہ میں قسم کھاتے سُنا یعنی عمر رضی اللہ عنہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے رُوبروقسم کھا کر کہا کرتا تھا کہ ابن صیّاد ہی دجّال معہودہے.پھردوسری حدیث کا ترجمہ یہ ہے کہ نافع سے روایت ہے کہ ابن عمرؓ کہتے تھے کہ مجھے قسم ہے اللہ کی کہ میں ابن صیّاد کے مسیح دجّال ہونے میں شک نہیں کرتا.پھرایک اور حدیث میں جو شرح السنہ میں لکھی ہے یہ فقرہ درج ہے لم یزل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مشفقًا انہ ھو دجّال یعنی ہمیشہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم اس خوف میں تھے کہ ابن صیّاد، دجّال ہوگا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمیشہ گمان غالب یہی رہا کہ ابن صیّاد ہی دجّال ہے.اب جبکہ خاص صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے بیان سے ثابت ہو گیا ابن صیّاد ہی دجّال معہود ہے بلکہ صحابہ نے
قسمیں کھا کر کہا کہ یہی دجّال معہود ہے تو کیا اس کے دجّال معہود ہونے میں کچھ شک رہ گیا ہے.اب ابن صیّاد کا حال سنیے کہ اس کا انجام کیا ہوا سو یہ مسلم کی حدیث سے واضح ہوتا ہے اور وہ یہ ہے وعن ابی سعید الخدری قال صحبت ابن صیّاد الٰی مکّۃ فقال لی ما لقیت من الناس یزعمون انّی الدجال الست سمعت رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول انہٗ لا یُوْلَدُ لہ وقد ولد لی الیس قد قال وھو کافر وانا مسلم اولیس قد قال لا یدخل المدینۃ ولامکّۃ وقد اقبلت من المدینۃ وانا ارید مکّۃ.*اورابو سعید خدری سے روایت ہے کہ میں نے بہمراہی ابن صیّاد کے بعزم مکہ سفر کیا.تب اُس سفر میں ابن صیّاد نے مجھ کو کہا کہ لوگوں کی یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم کی ان باتوں سے مجھے بہت ایذا پہنچتا ہے کہ وہ خیال کرتے ہیں کہ دجّال معہود میں ہی ہوں اور تم جانتے ہو کہ اصل حقیقت اس کے برخلاف ہے تو نے سُنا ہو گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ دجّال لاولد رہے گا اور میں صاحب اولاد ہوں اور نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا کہ دجّال کافر ہو گا اور میں مسلمان ہوں اور فرمایاتھا کہ دجّال مدینہ اور مکّہ میں داخل نہیں ہو سکے گا.اور میں مدینہ سے توآیا ہوں اور مکّہ کی طرف چلا جاتا ہوں.اب دیکھنا چاہئے کہ یہ کیسا عجیب معاملہ ہے کہ بعض صحابہ قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ ابن صیّاد ہی دجّال ہے اور صحیحین میں بروایت جابرلکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کے قسم کھانے پر کہ دجّال معہود یہی شخص ہے خاموشی اختیار کرکے اپنی رائے ظاہرکردی کہ درحقیقت دجّال معہود ابن صیّاد ہی تھا اور صحیح مسلم میں ابن صیّاد کا مشرف باسلام ہونا * حاشیہ.ابن صیّاد کا یہ بیان کہ لوگ مجھے دجّال معہود سمجھتے ہیں صاف دلیل اس بات پر ہے کہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہ اس کو دجّال معہود سمجھتے تھے نہ کوئی اور دجال.اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا اسی بات پر اجماع ہوگیا تھا کہ ابن صیّاد ہی دجّال معہود ہے.منہ
اور صاحب اولاد ہونا اورمکہ اورمدینہ میں جانا بوضاحت تمام لکھا ہے اور نہ صرف یہی بلکہ انہی حدیثوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ ابن صیّاد مدینہ منوّرہ میں فوت ہوگیااور اس پر نماز پڑھی گئی.اب ہریک منصف بنظر انصاف دیکھ سکتا ہے کہ جن کتابوں میں دجّال کے آخری زمانہ میں ظاہر ہونے اور حضرت عیسیٰ کے ہاتھ سے مارے جانے کی خبر لکھی ہے انہیں کتابوں میں یہ بھی لکھا ہوا موجو د ہے کہ دجّال معہود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی ظاہر ہو گیا تھا اور مشرف باسلام ہوکر فوت ہوگیا تھااور اس کا مشر ف باسلام ہونا بھی ازرو اس پیشگوئی کے ضروری تھا جو بخاری اور مسلم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بہ پیرایہ ایک خواب کے بیان ہو چکی ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کو عالم رؤیا میں خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا تھا بہرحال جبکہ انہیں حدیثوں میں دجّال معہود کا اس طرح پر فیصلہ کیا گیا ہے تو پھر دوسری حدیثوں پر جو اُن کی ضدّ واقع ہیں کیوں کر اعتبار کیا جائے ہاں اگر علماء اِن حدیثوں کو صحیح بخاری اور صحیح مسلم اور دوسری صحاح سے موضوع ٹھہرا کر خارج کر دیں تو البتہ اُن کے دعویٰ کے لئے ایک بنیاد پیداہو سکتی ہے ورنہ اذا تعارضا تساقطا پر عمل کر کے دونوں قسم کی حدیثوں کو ساقط ازاعتبار کرنا چاہیئے اور اس مقام میں زیادہ تر تعجب کی یہ جگہ ہے کہ امام مسلم صاحب تو یہ لکھتے ہیں کہ دجّال معہود کی پیشانی پر ک ف ر لکھا ہواہو گا مگر یہ دجّال تو انہیں کی حدیث کی رُو سے مشرف باسلام ہوگیا پھرمسلم صاحب لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دجا ل معہود بادل کی طرح جس کے پیچھے ہواہوتی ہے مشرق مغرب میں پھر جائے گا مگر یہ دجّال تو جب مکہ سے مدینہ کی طرف گیا تو ابی سعید سے کچھ زیادہ نہیں چل سکا جیساکہ مسلم کی حدیث سے ظاہر ہے.ایسا ہی کسی نے اس کی پیشانی پر ک ف ر لکھا ہوا نہیں دیکھا.اگر ابن صیاد کی پیشانی پر ک ف ر لکھا ہوا ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کے قتل کرنے سے کیوں منع کرتے اورکیوں فرماتے کہ ہمیں اس کے حال میں ابھی تک
اشتباہ ہے اگر یہی دجّال معہود ہے تو اس کا صاحب عیسیٰ بن مریم ہے جو اسے قتل کرے گا ہم اس کو قتل نہیں کر سکتے تعجب تو یہ ہے کہ اگر ابن صیّاد کی پیشانی پر ک ف ر لکھا ہوا نہیں تھا تو اس پر شک کرنے کی کیا وجہ تھی اور اگر لکھاہوا تھا تو پھر اس کو دجّال معہود یقین نہ کرنے کا کیا سبب تھا.لیکن دوسری حدیثوں سے ظاہر ہے کہ بالآخر اُس پر یقین کیا گیا کہ یہی دجّال معہود ہے.چنانچہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے قسمیں کھا کر کہا کہ ہمیں اب اِس میں شک نہیں کہ یہی دجّال معہود ہے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی آخرکار یقین کرلیا مگر یہ غورکرنے کا مقام ہے کہ اگر یہ حدیث صحیح ہے کہ دجا ل کی پیشانی پر ک ف ر لکھا ہوا ہو گا تو پھر اوائل دنوں میں ابن صیّاد کی نسبت خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیوں شک اور تردّد میں رہے اور کیوں یہ فرمایا کہ شاید یہی دجّال معہود ہو اوریا شاید کوئی اَورہو.گمان کیا جاتا ہے کہ شاید اُس وقت تک ک ف ر اس کی پیشانی پر نہیں ہو گا.میں سخت متعجب اور حیران ہوں کہ اگر سچ مچ دجّال معہود آخری زمانہ میں پیداہونا تھا یعنی اُس زمانہ میں کہ جب مسیح بن مریم ہی آسمان سے اُتریں تو پھر قبل از وقت یہ شکوک اور شبہات پیدا ہی کیوں ہوئے اور زیادہ تر عجیب یہ کہ ابن صیّاد نے کوئی ایسا کام بھی نہیں دکھایا کہ جو دجّال معہود کی نشانیوں میں سے سمجھا جاتا یعنی یہ کہ بہشت اور دوزخ کا ساتھ ہونا اور خزانوں کا پیچھے پیچھے چلنا اور مُردوں کا زندہ کرنا اوراپنے حکم سے مینہ کو برسانا اورکھیتوں کو اُگانا اور ستر باع کے گدھے پر سوار ہونا.اب بڑی مشکلات یہ درپیش آتی ہیں کہ اگر ہم بخاری اورمسلم کی اُن حدیثوں کو صحیح سمجھیں جو دجّال کو آخری زمانہ میں اُتار رہی ہیں تو یہ حدیثیں اُن کی موضوع ٹھہرتی ہیں اوراگر اِن حدیثوں کو صحیح قرار دیں تو پھر اُن کا موضو ع ہونا ماننا پڑتا ہے اگر یہ متعارض و متناقض حدیثیں صحیحین میں نہ ہوتیں صرف دوسری صحیحوں میں ہوتیں توشائد ہم اِن دونو ں کتابوں کی زیادہ تر پاس خاطر کرکے اُن دوسری حدیثوں کو موضوع قرار دیتے مگر اب مشکل تو یہ آپڑی ہے کہ اِنہیں دونوں کتابوں میں یہ دونوں قسموں کی حدیثیں موجود ہیں.
اب جب ہم اِن دونوں قسم کی حدیثوں پرنظر ڈال کر گردابِ حیرت میں پڑ جاتے ہیں کہ کس کو صحیح سمجھیں اور کس کو غیر صحیح.تب عقل خداداد ہم کو یہ طریق فیصلہ بتلاتی ہے کہ جن احادیث پر عقل اور شرع کا کچھ اعتراض نہیں اُنہیں کو صحیح سمجھنا چاہیئے سو اس طریق فیصلہ کی رُو سے یہ حدیثیں جو ابن صیّاد کے حق میں وارد ہیں قرین قیاس معلوم ہوتی ہیں کیونکہ ابن صیّاد اپنے اوائل ا ّ یام میں بے شک ایک دجّال ہی تھا اور بعض شیاطین کے تعلق سے اُس سے امور عجیبہ ظاہر ہوتے تھے جس سے اکثر لوگ فتنہ میں پڑتے تھے لیکن بعد اس کے خداداد ہدایت سے وہ مشرف باسلام ہو گیا اور شیطانی طریق سے نجات پاگیا اور جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کا طواف کرتے اُسے دیکھا تھا ایسا ہی اُس نے طواف بھی کرلیا اور اُس کے معاملہ میں کوئی ایساامرنہیں جو قانون قدرت اور عقل سے باہر ہو اور نہ اُس کی تعریف میں ایساغلو کیا گیا ہے جو شرک میں داخل ہو لیکن جب ہم اُن دوسری حدیثوں کو دیکھتے ہیں جو دجّال معہود کے ظاہر ہونے کا وقت اِس دنیا کا آخری زمانہ بتلاتی ہیں تو وہ سراسر ایسے مضامین سے بھری ہوئی معلوم ہوتی ہیں کہ جونہ عند العقل درست و صحیح ٹھہر سکتی ہیں اور نہ عند الشرع اسلامی توحید کے موافق ہیں چنانچہ ہم نے قسم ثانی کے ظہور دجّال کی نسبت ایک لمبی حدیث مُسلم کی لکھ کر معہ اُس کے ترجمہ کے ناظرین کے سامنے رکھ دی ہے ناظرین خود پڑھ کر سوچ سکتے ہیں کہ کہاں تک یہ اوصاف جو دجّال معہود کی نسبت لکھے ہیں عقل اور شرع کے مخالف پڑے ہوئے ہیں یہ بات بہت صاف اور روشن ہے کہ اگر ہم اس دمشقی حدیث کو اُس کے ظاہری معنوں پر حمل کرکے اس کو صحیح اور فرمودہ خدااور رسول مان لیں تو ہمیں اس بات پر ایمان لانا ہو گاکہ فی الحقیقت دجّال کو ایک قسم کی قوت خدائی دی جائے گی اور زمین و آسمان اُس کا کہا مانیں گے اور خدائے تعالیٰ کی طرح فقط اس کے ارادہ سے سب کچھ ہوتا جائے گا بارش کو کہے گا ہو تو ہو جائے گی بادلوں کو حکم دے گا کہ
فلاں ملک کی طرف چلے جاؤ تو فی الفور چلے جائیں گے زمین کے بخارات اس کے حکم سے آسمان کی طرف اُٹھیں گے اور زمین گو کیسی ہی کلّر وشور ہو فقط اُس کے اشارہ سے عمدہ اور اوّل درجہ کی زراعت پیداکرے گی غرض جیسا کہ خدائے تعالیٰ کی یہ شان ہے کہ ۱اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْـًٔـا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ اِسی طرح وہ بھی كُنْ فَيَكُوْنُ سے سب کچھ کردکھائے گا.مارنا زندہ کرنا اُس کے اختیار میں ہو گا بہشت اور دوزخ اُس کے ساتھ ہوں گے غرض زمین اور آسمان دونوں اُس کی مُٹھی میں آجائیں گے اور ایک عرصہ تک جو چالیس برس یا چالیس دن ہیں بخوبی خدائی کا کام چلائے گا اور الوہیت کے تمام اختیار و اقتداراُس سے ظاہرہوں گے.اب میں پوچھتا ہوں کہ کیا یہ مضمون جو اس حدیث کے ظاہر لفظوں سے نکلتا ہے اس موحدانہ تعلیم کے موافق و مطابق ہے جو قرآن شریف ہمیں دیتا ہے کیاصدہا آیات قرآنی ہمیشہ کے لئے یہ فیصلہ ناطق نہیں سُناتیں کہ کسی زمانہ میں بھی خدائی کے اختیارات انسان ہالکۃ الذات باطلۃ الحقیقت کو حاصل نہیں ہو سکتے.کیا یہ مضمون اگر ظاہر پر حمل کیا جائے تو قرآنی توحید پر ایک سیاہ دَھبّہ نہیں لگاتا ؟ تعجب کہ ایک طرف ہمارے بھائی موحدین اس بات کی شیخی مارتے ہیں کہ ہم نے شرک سے بکلّی کنارہ کیا ہے اور دوسرے لوگ مشرک اور بدعتی اور ہم موحّد اور متبع سُنت ہیں اور ہرایک کے آگے بکمال فخر اپنے اس موحّدانہ طریق کی ستائش اور تعریف بھی کرتے ہیں پھر ایسے پُر شرک اعتقادات اُن کے دلوں میں جمے ہوئے ہیں کہ ایک کافر حقیر کو الوہیت کا تمام تخت و تا ج سپرد کررکھا ہے اور ایک انسان ضعیف البنیان کو اپنی عظمتوں اور قدرتوں میں خدائے تعالیٰ کے برابر سمجھ لیا ہے.اولیاء کی کرامات سے منکر ہو بیٹھے مگر دجّال کی کرامات کا کلمہ پڑھ رہے ہیں اگر ایک شخص اُنہیں کہے کہ سیّد عبدالقادر جیلانی قدس سرّہٗ نے باراں برس کے بعد کشتی غرق ہوئی ہوئی زندہ آدمیوں سے بھری ہوئی نکالی تھی اور ایک دفعہ ۱ یٰسٓ: ۸۳
ملک الموت کی ٹانگ توڑ دی تھی اس غصّہ سے کہ وہ بلا اجازت آپ کے کسی مُرید کی روح نکال کر لے گیا تھا تو اِن کراماتوں کو ہرگز قبول نہیں کریں گے بلکہ ایسی مناجاتوں کے پڑھنے والوں کو مشرک بنائیں گے لیکن دجّال ملعون کی نسبت کھلے کھلے طور پر یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ملک الموت کیا تمام ملائک اورسارے فرشتے زمین وآسمان کے جو آفتاب اور ماہتاب اوربادلوں اور ہواؤں اوردریاؤں وغیرہ پر مؤکل ہیں سب اس کے حکم کے تابع ہوجائیں گے اوربکمال اطاعت اُس کے آگے سجدہ میں گریں گے.سوچنا چاہیئے کہ یہ کتنا بڑاشرک ہے کچھ انتہاء بھی ہے ؟ افسوس کہ اِن لوگوں کے دلوں پر کیسے پردے پڑگئے کہ انہوں نے استعارات کو حقیقت پر حمل کر کے ایک طوفان شرک کا برپا کردیا ہے اورباوجود قرائن قویہ کے ان استعارات کو قبول کرنا نہ چاہا جن کی حمایت میں قرآن کریم شمشیربرہنہ توحید کی لے کر کھڑاہے.افسو س کہ اکثر لوگ خشک مُلّاؤں کی پیروی کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ ایسے مضامین کو ظاہر پر حمل کرنے سے کیا کیا خرابیاں پھیلیں گی وہ رسول کریم (مادر و پدرم فدائے اوباد ) جس نے ہمیں لَااِلٰہ اِلّا اللّٰہ سکھلا کر تما م غیراللہ کی طاقتیں ہمارے پَیروں کے نیچے رکھ دیں اور ایک زبردست معبود کا دامن پکڑا کر ہماری نظر میں ماسواکا قدر ایک مرے ہوئے کیڑے سے بھی کمتر کر دیا کیا وہ مقدّس نبی ہمارے ڈرانے کو آخری زمانہ کے لئے یہ ھوّا چھوڑ گیا.پھر میں کہتا ہوں کہ وہ موحّدوں کا بادشاہ جس نے ہمارے رگ و ریشہ میں ہمیشہ کے لئے یہ دھنسادیا کہ الٰہی طاقتیں کسی مخلوق میں آہی نہیں سکتیں کیا و ہ اپنی متواتر تعلیموں کے برخلاف ہمیں ایسا سبق دینے لگا.سو اے بھائیو یقینًا سمجھو کہ اس حدیث اور ایسا ہی اس کی امثال کے ظاہری معنے ہرگزمراد نہیں ہیں.اور قرائن قویہ ایک شمشیر برہنہ لے کر اس کوچہ کی طرف جانے سے روک رہے ہیں.بلکہ یہ تمام حدیث اُن مکاشفات کی قسم میں سے ہے جن کا لفظ تعبیر کے لائق ہوتا ہے جیسا کہ
میں ایک دوسری مسلم کی حدیث لکھ کر ابھی ثابت کرآیا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود اقرار اس بات کا فرماتے ہیں کہ یہ سب بیانات میرے مکاشفات میں سے ہیں اور اِس دمشقی حدیث میں بھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کانّی کا لفظ موجود ہے وہ بھی بآواز بلند پکار رہا ہے کہ یہ سب باتیں عالم رؤیا اور کشف میں سے ہیں جن کی مناسب طور پر تاویل ہونی چاہیئے چنانچہ مُلّاعلی قاری نے بھی یہی لکھا ہے اور خدائے تعالیٰ کا قانونِ قدرت جو موافق آیت کریمہ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا ۱ انسان کی کمزوری پر شاہد ناطق ہے کسی آدم زادکے لئے ایسی قوت و طاقت تسلیم نہیں کرتا کہ وہ ہواکی طرح ایک دم میں مشارق و مغارب کا سَیر کرسکے اور آسمان کے سب اجرام اور زمین کے سب ذرّات اُس کے تابع ہوں.تعجب کہ جب خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مضمون اِس حدیث کا از قبیل کشوف و رؤیا صالحہ ہے یعنی قابل تعبیر ہے تو پھر کیوں خواہ نخواہ اس کے ظاہر معنوں پر زور ڈالا جاتا ہے اور کیوں خوابوں کی طرح اس کی تعبیرنہیں کی جاتی؟ یا کشوف متشابہ کی طرح اس کی حقیقت حوالہ بخدا نہیں کی جاتی ؟زکریا کی کتاب کو دیکھو جو ملاکی سے پہلے ہے کہ کس قدر اس میں اِسی قسم کے مکاشفات لکھے ہیں مگر کوئی دانشمند اُن کو ظاہر پر حمل نہیں کرتا.ایسا ہی حضرت یعقوب کا خدائے تعالیٰ سے کشتی کرنا جو توریت میں لکھا ہے کوئی عقلمند اس کشف کو حقیقی معنی پرحمل نہیں کرسکتا.سو اے بھائیو ! میں محض نصیحتًا للّٰہ پوری ہمدردی کے جوش سے جو مجھے آپ سے اور اپنے پیارے دین اسلام سے ہے آپ لوگوں کو سمجھاتا ہوں کہ آپ لوگ غلطی کررہے ہیں اور سخت غلطی کررہے ہیں کہ محض تحکم کی وجہ سے مکاشفات نبویہ کو صرف ظاہری الفاظ پرمحدود خیال کر بیٹھے ہیں یقینًا سمجھو کہ ان باتوں کو حقیقت پر حمل کرنا گویا اپنی ایمانی عمارت کی اینٹیں اُکھیڑنا ہے.مَیں متعجب ہوں کہ اگر آپ استعارات کو قبول نہیں کر سکتے توکیوں ان امور برتراز فہم کی تفسیر کو حوالہ بخدا نہیں کر تے اس میں آپ کا ۱ النّساء:۲۹
یا آ پ کے دینی جوش کا کیا حرج ہے ؟ کس نے آپ پر زورڈالا ہے یا کب اور کس وقت آپ کو رسول کریم کی طرف سے ایسی تاکید کی گئی ہے کہ ضرور ایسے الفاظ کو حقیقت پر ہی حمل کرو؟ آپ صاحبوں کا یہ عذرکہ اس پراجماع سلف صالح ہے یہ ایک عجیب عذر ہے جس کے پیش کرنے کے وقت آپ صاحبوں نے نہیں سوچاکہ اگر فرض کے طور پر اجماع بھی ہو جو کسی طرح ثابت نہیں ہو سکتا پھر بھی ظاہری الفاظ پراجماع ہو گا نہ یہ کہ فرد فرد نے حلف اُٹھا کر اِس بات کا اقرار کیا ہے کہ اس حدیث کے الفاظ سے جو ظاہری معنے نکلتے ہیں درحقیقت وہی مراد ہیں.اُن بزرگوں نے تو ان احادیث کو امانت کے طور پر پہنچا دیا اوران کی اصل حقیقت کو حوالہ بخداکرتے رہے.اجماع کی تہمت اُن بزرگوں پر کس قدر بے اصل تہمت ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں دے سکتا.میں کہتا ہوں کہ اجماع تو ایک طرف اس قسم کی حدیثیں بھی عام طور پر صحابہ میں نہیں پھیلیں تھیں.صاف ظاہر ہے کہ اگر صحابہ کرام کا اس بات پر اتفاق ہوتا کہ دجّال معہود آخری زمانہ میں نکلے گا اور حضرت مسیح اس کو قتل کریں گے تو پھر حضرت جا بربن عبداللہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رُوبرو کیوں قسم کھا کر کہتے کہ دجّال معہود جو آنے والا تھا وہ یہی ابن صیّاد ہے جو آخر مشرف باسلام ہو کر مدینہ منورہ میں فوت ہوگیا ؟ بھائیو! یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں لکھی ہے اور ابوداؤد اور بیہقی میں بھی نافع کی روایت سے یہ حدیث موجود ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ قسم کھا کر کہا کرتے تھے کہ مجھے خدائے تعالیٰ کی قسم ہے کہ مجھے اس میں کچھ بھی شک نہیں کہ مسیح دجّال یہی ابن صیّاد ہے.بھلا اس مؤخر الذکر حدیث کو جانے دو کیونکہ یہ ایک صحابی ہیں ممکن ہے کہ انہوں نے غلطی کی ہو.لیکن اُس حدیث کی نسبت کیا عذر پیش کرو گے جس کو ابھی میں ذکر کر چکا ہوں جو حضرت عمررضی اللہ عنہ نے خود جناب رسالت مآب رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
حضور میں قسم کھا کر کہا تھا کہ دجّال معہود یہی ابن صیّاد ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چُپ رہنے اورانکار نہ کرنے کی وجہ سے اُس قسم پر مہر لگا دی اور حضرت عمر کے خیال سے اپنا اتفاق رائے کردیا.حضرت عمررضی اللہ عنہ کا درجہ جانتے ہو کہ صحابہ میں کس قدر بڑاہے یہا ں تک کہ بعض اوقات ان کی رائے کے موافق قرآن شریف نازل ہو جایا کر تا تھا اور اُن کے حق میں یہ حدیث ہے کہ شیطان عمر کے سایہ سے بھاگتا ہے دوسری یہ حدیث ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا.تیسری یہ حدیث ہے کہ پہلی اُمتوں میں محدّث ہو تے رہے ہیں اگر اس اُمّت میں کوئی محدّث ہے تو وہ عمرہے.اب سوچو اور خیال کرو کہ نَواس بن سَمعَان کو پایہ عالیہ عمر سے کیا مناسبت ہے؟جو فہم قرآن اور حدیث کا حضرت عمر کو دیاگیا تھا اُس سے نواس کو کیانسبت ہے؟ما سوااس کے یہ حدیث متفق علیہ ہے جو بخاری اور مسلم دونوں نے لکھی ہے اور نواس کی دمشقی حدیث جس میں دجّال کی تعریفیں خلاف عقل و خلاف تو حید درج ہیں صرف مسلم میں لکھی گئی ہے ماسوائے اس کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قسم کھانا اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کاکچھ انکار نہ کرنا اس بات کا فیصلہ دیتا ہے کہ ضرور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں اور نیز صحابہ کرام کی نگاہ میں دجّال معہود ابن صیّاد ہی تھا اور حدیث شرح السنہ سے بھی یہی ثابت ہو تا ہے کہ ہمیشہ اور مدّ ت العمر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمّت پر اسی بات سے ہراساں تھے کہ ا بن صَیَّاد دَجَّال معہود ہے اب جبکہ ابن صَیَّاد کا دجّال معہود ہو نا ایسے قطعی اور یقینی طور سے ثابت ہو گیا کہ اِس میں کسی طور کے شک و شبہ کو راہ نہیں تو اس جگہ بالطبع یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ جبکہ دجّال خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پیدا ہو کر اور مشرف باسلام ہو کر اور آخر مدینہ میں فوت بھی ہو گیا تو حضرت مسیح کے ہاتھ سے جن کے آنے کی علّت غائی دَجَّال کا مار نا ظاہر کیا جا تا ہے کون قتل کیا جا ئے گا کیونکہ دجّال تو موجود ہی نہیں جن کو
وہ قتل کریں اور یہی ایک خدمت تھی جو اُن کے سپرد کی گئی تھی.اس سوال کا جواب ہم بجُز اِس صورت کے اور کسی طور سے دے نہیں سکتے کہ آخری زمانہ میں دجّال معہود کا آنا سراسر غلط ہے.اب حاصل کلام یہ ہے کہ وہ دمشقی حدیث جو امام مسلم نے پیش کی ہے خود مسلم کی دوسری حدیث سے ساقط الاعتبار ٹھہرتی ہے اور صریح ثابت ہوتا ہے کہ نواس راوی نے اس حدیث کے بیان کرنے میں دھوکہ کھایا ہے یہ فرض صاحب مسلم کے سر پر تھا کہ وہ اپنی ذکر کر دہ حدیث کا تعارض اپنی قلم سے رفع کرتے مگر انہوں نے جو ایسے تعارض کا ذکر تک نہیں کیا تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وُہ محمد بن المنکدر کی حدیث کو نہایت قطعی اور یقینی اور صاف اور صریح سمجھتے تھے اور نواس بن سمعان کی حدیث کو از قبیل استعا رات و کنا یا ت خیال کر تے تھے اور اُس کی حقیقت حوالہ بخدا کر تے تھے.غرض اے بھائیو!اِن حدیثوں پر نظرڈال کر ہریک آدمی سمجھ سکتا ہے کہ کبھی صدر اوّل کے لوگوں نے دجّال معہود کے بارہ میں ہرگز اس بات پر اتفاق نہیں کیا کہ وہ آخری زمانہ میں آئے گا اور مسیح ابن مریم ظہور فرما کر اُس کو قتل کرے گا بلکہ وہ تو ابن صیّاد کو ہی دجّال معہود سمجھتے رہے اور یہ بات خود ظاہر ہے کہ جب انہوں نے ابن صیّاد کو دجّال معہود یقین کیا اور پھر یہ بھی اپنی زندگی میں دیکھ لیا کہ وہ مشرف باسلام ہو گیا اور پھر یہ بھی دیکھ لیا کہ وہ مدینہ منورہ میں فوت بھی ہوگیا اور مسلمانوں نے اس کے جنازہ کی نماز پڑھی پھر ایسی صورت میں اُ ن بزرگوں کا اس بات پر کیوں کر ایمان یا اعتقاد ہو سکتا تھا کہ مسیح ابن مریم آخری زمانہ میں دجّال معہود کے قتل کرنے کے لئے آسمان سے اُتر یں گے کیونکہ وہ بزرگوار لوگ تو پہلے ہی دجّال معہود کا فوت ہو جا نا تسلیم کر چکے تھے پھر اس اعتقاد کے ساتھ یہ دوسرا اعتقاد کیوں کر جوڑ کھا سکتا ہے کہ اُن کو مسیح ابن مریم کے آسمان سے اُترنے اور دجّال معہود کے قتل کرنے کی انتظار لگی ہوئی تھی یہ تو صریح اجتماع ضدَّین ہے اور کوئی دانشمند اور قائم الحواس آدمی ایسے دو متضاد اعتقاد ہر گز نہیں رکھ سکتا.
اب سوچنا چاہیئے کہ یہ بیان کہ صحابہ کرام کا دجّال معہود اور مسیح ابن مریم کے آخری زمانہ میں ظہور فرمانے کا ایک اجماعی اعتقاد تھا کس قدر اُن بزگوں پر تہمت ہے.پھر یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ اگر یہ بات سچ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہریک نبی اپنی قو م کو دجّال کے نکلنے سے ڈراتاآیا ہے اور میں بھی تم سب کو ڈراتا ہوں کہ دجّال آخری زمانہ میں نکلے گا تو چاہیئے تھا کہ اس نصیحت اور تبلیغ کو تمام صحابہ اپنے نفس پر ایک واجب التبلیغ سمجھ کر تا بعین تک پہنچاتے اور آج ہزارہا صحا بہ کی روایتوں سے یہ حدیث بخاری اور مسلم میں موجود ہوتی حالا نکہ بجُز نواس بن سَمعان اور ایک دو اور آدمیوں کے کسی نے اس حدیث کی روایت نہیں کی بلکہ نواس بن سمعان اپنی تمام روایت میں منفرد ہے.اب سو چو کہ ایک طرف تو یہ بتلایا جا تا ہے کہ اس حدیث کے بارہ میں عام طور پر تمام صحابہ کو تاکید ہوئی تھی کہ تم نے اس مضمون کو تابعین تک پہنچادینا اور دوسری طرف جب ہم دیکھتے ہیں تو بجُز ایک دو آدمیوں کے کوئی پہنچانے والا نظر نہیں آتا.اِس صورت میں جس قدر ضعف اِس حدیث میں پایا جا تا ہے وہ محققین کی نظر سے پو شیدہ نہیں رہ سکتا.پھر تواتر کا دعویٰ کر نا اگر پر لے درجہ کا تعصّب نہیں تو اور کیا ہے؟ اب اے لوگو!خدائے تعالیٰ سے ڈرو اور صحابہ اور تابعین پر تہمت مت لگاؤ کہ اُن سب کو اس مسئلہ پر اجماع تھا کہ مسیح ابن مریم آسمان سے اُتریں گے اور دَجَّال یک چشم خدائی کے کرشمے دکھا نے والے کو قتل کریں گے.اُن بزرگوں کو تو اس اعتقاد کی خبر بھی نہیں تھی اگر انہیں خبر ہوتی اور جیسا کہ بعض حدیثوں میں لکھا ہے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وصیت فرما ئی ہو تی تو کیا ممکن تھا کہ صحابہ رضی اللہ عنھم اس واجب التبلیغ امر کو تابعین تک نہ پہنچاتے اور پھر تابعین تبع تابعین کو اس کی خبر نہ کر تے.صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت پر عمل نہ کر نا سخت معصیت میں داخل ہے پھر کیوں کر ممکن تھا کہ ایسا معصیت کا کام اکابر صحابہ رضی اللہ عنھم سے سرزد ہو تا پس صاف ظاہر ہے
کہ اس تبلیغ کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کو ئی تا کید نہیں ہوئی اور نہ صحابہ کبار رضی اللہ عنہم اس کو تابعین تک پہنچانے کے لئے اپنے مجموعی جوش سے متوجہ ہوئے اور یہاں تک مضمون اس حدیث کا نادر اور قلیل الشہرت رہا کہ امام بخاری جیسے رئیس المحدثین کو یہ حدیث نہیں ملی کہ مسیح ابن مریم دمشق کے شرقی کنارہ میں منارہ کے پاس اُترے گا اور جتنے خدائے تعالیٰ سے کام دنیا میں ہورہے ہیں وہ سب دجّال دکھاوے گا.اب خیال کرنا چاہیئے کہ اس حدیث کے مضمون پراجماع کا دعویٰ کرنا اور یہ کہنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے آج تک اسی پر اتفاق اکابراسلام رہا ہے کس قدرافترا ہے بلکہ یہ حدیث تو اُن متواتر حدیثوں سے ہی کالعدم ہوجاتی ہے جن میں بروایت ثقات صحابہ دَجَّال کی نسبت یہ فیصلہ کردیا گیا ہے کہ وہ درحقیقت ابن صَیَّاد ہی تھا جو یزید پلید کے عہد سلطنت میں مدینہ منوّرہ میں فوت ہو گیا اور اُس کے جنازہ کی نماز پڑھی گئی.یہ ایک عجیب بات ہے کہ قرآن شریف تو بآواز بلند مسیح ابن مریم کا فوت ہوجا نا بیان کر رہا ہے اور احادیث صحیحہ مسلم و بخاری باتفاق ظاہر کر رہی ہیں کہ دراصل ابن صیّاد ہی دجّال معہود تھا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے بزرگ صحابی روبرو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خدائے تعالیٰ کی قسم کھا رہے ہیں کہ درحقیقت دجّال معہود ابن صیّاد ہی ہے اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کی تصدیق کررہے ہیں کہ درحقیقت ابن صیّاد ہی دجا ل معہود ہے جو انجام کار
مسلمان ہو گیا اور اسلام کی حالت میں ہی مدینہ میں مرااور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا گیا مگر پھر بھی ہمارے مسلمان بھائی اپنی ضد سے باز نہیں آتے.بھائیو!!! اس بحث کی دو ٹانگیں تھیں (۱) ایک تو مسیح بن مریم کا آخری زمانہ میں جسم خاکی کے ساتھ آسمان سے اُترنا.سو اُس ٹانگ کو تو قرآن شریف اور نیز بعض احادیث نے بھی مسیح ابن مریم کے فوت ہوجانے کی خبر دے کر توڑ دیا.(۲) دوسری ٹانگ دَجَّال معہود کا آخری زمانہ میں ظاہر ہونا تھا سو اس ٹانگ کو صحیح مسلم اور صحیح بخاری کی متفق علیہ حدیثو ں نے جو صحابہ کبار کی روایت سے ہیں دو ٹکڑے کردیا اور ابن صیّاد کو دجّال معہود ٹھہرا کر آخر مسلمانوں کی جماعت میں داخل کر کے مار بھی دیا.اب جبکہ اس بحث کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں توپھر اب تیرہ سو برس کے بعد یہ مُردہ جس کے دونوں پَیر نہیں کیوں اور کس کے سہارے سے کھڑاہو سکتا ہے اتقوااللّٰہ ! اتقوااللّٰہ ! ! اتقوااللّٰہ !!!
اور مسیح ابن مریم کے فوت ہوجانے کے بارہ میں ہمارے پاس اس قدر یقینی اور قطعی ثبوت ہیں کہ اُن کے مفصل لکھنے کے لئے اس مختصر رسالہ میں گنجائش نہیں پہلے قرآن شریف پر نظر غور ڈالو اور ذرا آنکھ کھول کر دیکھو کہ کیوں کر وہ صاف اور بیّن طور پر عیسیٰ بن مریم کے مر جانے کی خبر دے رہا ہے جس کی ہم کوئی بھی تاویل نہیں کرسکتے مثلًا یہ جو خدائے تعالیٰ قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ کی طرف سے فرماتا ہے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِىْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ ۱ کیا ہم اس جگہ تَوَ فّی سے نیند مراد لے سکتے ہیں ؟ کیا یہ معنے اس جگہ موزوں ہوں گے کہ جب تُو نے مجھے سُلا دیا اور میرے پر نیند غالب کردی تو میرے سونے کے بعد تُو اُن کا نگہبان تھا ہرگز نہیں بلکہ توفّٰی کے سیدھے اورصاف معنے جو موت ہے وہی اس جگہ چسپاں ہیں.* لیکن موت سے مراد وہ موت نہیں جو آسمان سے اُترنے کے بعد پھر وارد ہوکیونکہ جو سوال اُن سے کیاگیا ہے یعنی اُن کی اُمّت کا بگڑ جانا اُس وقت کی موت سے اس سوال کا کچھ علاقہ نہیں.کیا نصارٰی اب صراط مستقیم پر ہیں ؟ کیا یہ سچ نہیں کہ جس امر کے بارے میں خدائے تعالیٰ نے عیسیٰ بن مریم سے سوال کیا ہے وہ امر تو خودآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک ہی کمال کو پہنچ چکا ہے.ماسوا اس کے حدیث کی رُو سے بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا فوت ہو جانا ثابت ہے چنانچہ تفسیر معالم کے صفحہ۱۶۲ میں زیر تفسیر آیت يٰعِيْسٰى اِنِّىْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَىَّ۲ لکھاہے کہ علی بن طلحہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ اِنِّیْ مُمِیْتُکَ یعنی میں تجھ کو مارنے والا ہوں اس پر دوسرے اقوال اللہ تعالیٰ کے دلالت کرنے ہیں قُلْ يَتَوَفّٰٮكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ ۳.الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰٮهُمُ الْمَلٰۤٮِٕكَةُ طَيِّبِيْنَ۴.الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰٮهُمُ الْمَلٰۤٮِٕكَةُ ظَالِمِىْۤ اَنْفُسِهِمْ ۵ ۙ غرض حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اعتقاد یہی تھا *حاشیہ.قرآن شریف میں اول سے آخر تک جس جس جگہ توفّی کا لفظ آیا ہے اُن تمام مقامات میں توفّی کے معنے موت ہی لئے گئے ہیں.منہ ۱ المائدۃ : ۱۱۸ ۲ اٰل عمران : ۵۶ ۳ السجدۃ : ۱۲ ۴ النّحل :۳۳ ۵ النّحل : ۲۹
کہ حضرت عیسیٰ فوت ہوچکے ہیں اور ناظرین پر واضح ہو گا کہ حضرت ابن عباس قرآن کریم کے سمجھنے میں اوّل نمبر والوں میں سے ہیں اور اِس بارے میں اُن کے حق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا بھی ہے.پھر اسی معالم میں لکھا ہے کہ وہب سے یہ روایت ہے کہ حضرت عیسیٰ تین گھنٹہ کے لئے مرگئے تھے اور محمد بن اسحاق سے روایت ہے کہ نصارٰی کا یہ گمان ہے کہ سات گھنٹہ تک مرے رہے مگر مؤلف رسالہ ہذا کو تعجب ہے کہ محمد بن اسحاق نے سات گھنٹہ تک مرنے کی نصاریٰ کی کن کتابوں سے روایت لی ہے کیونکہ تمام فرقے نصاریٰ کے اِسی قول پر متفق نظرآتے ہیں کہ تین دن تک حضرت عیسیٰ مرے رہے اور پھر قبر میں سے آسمان کی طرف اُٹھائے گئے اور چاروں انجیلوں سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے اور خود حضرت عیسیٰ انجیلوں میں اپنی تین دن کی موت کا اقرار بھی کرتے ہیں بہرحال موت اُن کی ثابت ہے اور ماسوا اِن دلائل متذکرہ کے یہود و نصاریٰ کا بالاتفاق اُن کی موت پر اجماع ہے اورتاریخی ثبوت بتواتر اُن کے مرنے پر شاہد ہے اورپہلی کتابوں میں بھی بطور پیشگوئی اُن کے مرنے کی خبر دی گئی تھی.اب یہ گمان کہ مرنے کے بعد پھر اُن کی روح اُسی جسم خاکی میں داخل ہو گئی اور وہ جسم زندہ ہو کر آسمان کی طرف اٹھایاگیا.یہ سراسر غلط گمان ہے یہ بات باتفاق جمیع کتبِ الٰہیہ ثابت ہے کہ انبیاء و اولیاء مرنے کے بعد پھر زندہ ہو جایا کرتے ہیں یعنی ایک قسم کی زندگی انہیں عطا کی جاتی ہے جو دوسروں کو نہیں عطا کی جاتی.اِسی طرف و ہ حدیث اشارہ کرتی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ مجھے قبر میں میّت رہنے نہیں دے گا.* اور زندہ کر کے اپنی طرف اُٹھالے گا اور زبور نمبر ۱۶ میں بھی حضرت * حاشیہ: اصل ترجمہ حدیث کا یہ ہے کہ میری عزت خدائے تعالیٰ کی جناب میں اس سے زیادہ ہے کہ مجھے چالیس دن تک قبر میں رکھے یعنی میں اس مدت کے اندر اندر زندہ ہو کر آسمان کی طرف اُٹھایا جاؤں گا.اب دیکھنا چاہیئے
داؤد علیہ السلام بوحئ الٰہی یہ فرماتے ہیں کہ تُو میری جان کو قبر میں رہنے نہیں دے گا اور تو اپنے قدوس کو سڑنے نہیں دے گا یعنی بلکہ تُو مجھے زندہ کرے گا اور اپنی طرف اُٹھا لے گا اِسی طرح شہداء کے حق میں بھی قرآن کریم فرماتا ہے وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًاؕ بَلْ اَحْيَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُوْنَۙ ۱ یعنی جو لوگ خدائے تعالیٰ کے راہ میں قتل کئے گئے تم اُن کو مُردے نہ سمجھو بلکہ وہ تو زندہ ہیں اورانہیں اپنے رب کی طرف سے رزق مل رہا ہے.بقیہ حاشیہ: کہ ہمارے سیّد ومولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبر میں زندہ ہوجانے اور پھر آسمان کی طرف اٹھائے جانیکی نسبت مسیح کے اُٹھائے جانے میں کونسی زیادتی ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ عیسیٰ بن مریم کی حیات حضرت موسیٰ کی حیات سے بھی درجہ میں کمتر ہے اور اعتقاد صحیح جس پر اتفاق سلف صالح کا ہے اور نیز معراج کی حدیث بھی اس کی شاہد ناطق ہے یہی ہے کہ انبیاء بحیات جسمی مشابہ بحیات جسمی دنیاوی زندہ ہیں اور شہداء کی نسبت اُن کی زندگی اکمل واقویٰ ہے اور سب سے زیادہ اکمل واقویٰ واشرف زندگی ہمارے سیّد ومولیٰ فدا ء لہ نفسی وابی واُمّی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے.حضرت مسیح تو صرف دوسرے آسمان میں اپنے خالہ زاد بھائی اورنیز اپنے مرشد حضرت یحییٰ کے ساتھ مقیم ہیں لیکن ہمارے سیّد ومولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اعلیٰ مرتبہ آسمان میں جس سے بڑھکر اور کوئی مرتبہ نہیں تشریف فرما ہیں عند سدرۃ المنتھٰی بالرفیق الاعلٰی اوراُمّت کے سلام وصلوات برابر آنحضرت ؐ کے حضور میں پہنچائے جاتے ہیں اللّٰھم صل علٰی سیدنا محمد وعلٰی اٰل سیدنا محمد اکثر مما صلیت علیٰ احد من انبیائک وبارک وسلم اور یہ خیال کہ انبیاء زندہ ہو کر قبر میں رہتے ہیں صحیح نہیں ہے ہاں قبر سے ایک قسم کا اُن کا تعلق باقی رہتا ہے اور اسی وجہ سے وہ کشفی طورپر اپنی اپنی قبروں میں نظر آتے ہیں مگریہ نہیں کہ وہ قبروں میں ہوتے ہیں بلکہ وہ تو ملائک کی طرح آسمانوں میں جو بہشت کی زمین ہے اپنے اپنے مرتبہ کے موافق مقام رکھتے ہیں اور بیداری میں پاک دل لوگوں سے کبھی کبھی زمین پر آکر ملاقات بھی کر لیتے ہیں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثر اولیاء سے عین بیداری کی حالت میں ملاقات کرنا کتابوں میں بھرا پڑا ہے اور مؤلف رسالہ ہذا بھی کئی دفعہ اس شرف سے مشرف ہو چکا ہے والحمد للّٰہ علیٰ ذالک.اور ۱ اٰل عمران:۱۷۰
ایک اور حدیث بھی مسیح ابن مریم کے فوت ہوجانے پردلالت کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ قیامت کب آئے گی توآپ نے فرمایا کہ آج کی تاریخ سے سو برس تک تمام بنی آدم پر قیامت آجائے گی اور یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ سو برس کے عرصہ سے کوئی شخص زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا اِسی بناء پراکثر علماء و فقرا اسی طرف گئے ہیں کہ خضر بھی فوت ہو گیا کیونکہ مخبر صادق کے کلام میں کذب جائز نہیں مگر افسوس کہ ہمارے علماء نے اس قیامت سے بھی مسیح کو باہر رکھ لیا تعجب کہ اَور بنی اسرائیل کے انبیاء کی نسبت مسیح کو کیوں زیادہ عظمت دی جا تی ہے.بظاہر ایسامعلوم ہوتا ہے کہ چونکہ ہمارے بھائی مسلمان کسی ایسے زمانہ سے کہ جب سے بہت سے عیسائی دین اسلام میں داخل ہوئے ہوں گے اور کچھ کچھ حضرت مسیح کی نسبت اپنے مشرکانہ خیالات ساتھ لائے ہوں گے اس بے جا عظمت دینے کے عادی ہوگئے ہیں جس کو قرآن شریف تسلیم نہیں کرتا اس لئے خاص طور پر مسیح کی تعریف کے بارے میں اُن میں حد موزوں سے زیادہ غلو پایا جاتا ہے انصاف کی نظر سے دیکھنا چاہیئے کہ کتاب براہین احمدیہ میں خدا تعالیٰ نے اس عاجز کو آدم صفی اللہ کا مثیل قرار دیا اور کسی کو علماء میں سے اس بات پر ذرہ رنج دل میں نہیں گذرا اور پھر مثیل نوح قراردیا اور کوئی رنجیدہ نہیں ہوا اور پھر مثیل یوسف علیہ السلام قرار دیا اور کسی مولوی صاحب کو اس سے غصّہ نہیں آیا اور پھر مثیل حضرت داؤد بیان فرمایا اور کوئی علماء میں سے رنجیدہ خاطر نہیں ہوا.اور پھرمثیل موسیٰ کر کے بھی اس عاجز کو پکار ا تو کوئی فقیہوں اورمحدّثوں میں سے مشتعل نہیں ہوا یہاں تک کہ پھر اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کو مثیل ابراہیم بھی کہا تو کسی شخص نے ایک بقیہ حاشیہ: حدیث نبوی کا یہ فقرہ کہ میں چالیس دن تک قبر میں نہیں رہ سکتا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اوّل چند روز گوکیسا ہی مقدس آدمی ہو قبر سے اور اس عالم خاکی سے ایک بڑھا ہوا تعلق رکھتا ہے.کوئی دینی خدمات کی زیادہ پیاس کی وجہ سے اورکوئی اَور اَور وجوہ سے اورپھر وہ تعلق ایسا کم ہوجاتا ہے کہ گویا وہ صاحب قبر.قبر میں سے نکل جاتا ہے ورنہ رُوح تو مرنے کے بعد اُسی وقت بلا توقف آسمان پر اپنے نفسی نقطہ پر جاٹھہرتی ہے.منہ
ذرہ بھی غیظ و غضب ظاہر نہیں کیا اور پھر آخر مثیل ٹھہرانے کی یہا ں تک نوبت پہنچی کہ بار بار یا احمد کے خطاب سے مخاطب کر کے ظلّی طورپر مثیل سیّد الانبیاء واما م الاصفیاء حضرت مقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم قرار دیا تو کوئی ہمارے مفسروں اور محدثوں میں سے جوش و خروش میں نہیں آیا اور جب خدائے تعالیٰ نے اس عاجز کو عیسیٰ یا مثیل عیسیٰ کر کے پکارا تو سب کے شدّت طیش اور غضب کی وجہ سے چہرے سُرخ ہو گئے اور سخت درجہ کا اشتعال پیداہو کر کسی نے اس عاجز کو کافر ٹھہرادیا اور کسی نے اس عاجز کا نام مُلحد رکھا جیساکہ مولوی عبدالرحمٰن صاحب خلف مولوی محمد لکھو کے والہ نے اس عاجز کا نام مُلحد رکھا اور جابجا یہ بھی ذکر کیا کہ یہ شخص بہت خراب آدمی ہے.چنانچہ ایک شخص عبدالقادر نام شرقپور ضلع لاہور کے رہنے والے کے پاس بھی یہی ذکر کیا کہ یہ شخص مُلحد اور بدمذہب اور خراب اور ملاقات کے لائق نہیں.علاوہ اس کے ان لوگوں نے اشتعال کی حالت میں اسی پر بس نہیں کی بلکہ یہ بھی چاہا کہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے بھی اس بارہ میں کوئی شہادت ملے تو بہت خوب ہو.چنانچہ انہوں نے غصّہ بھرے دل کے ساتھ استخارے کئے اور چونکہ قدیم سے قانون قدرت خدائے تعالیٰ کا یہی ہے کہ جو شخص نفسانی تمنّا سے کسی امر غیب کا منکشف ہونا چاہتا ہے تو شیطان اُس کی تمنا میں ضرور دخل دیتا ہے بجزانبیاء اور محدثین کے کہ ان کی وحی شیطان کے دخل سے منزّہ کی جاتی ہے پس اسی وجہ سے حضرت عبدالرحمٰن صاحب اور اُن کے رفیق نیّت میاں عبدالحق غزنوی کے استخارہ پر وہ بئس القرین تُرت حاضر ہو گیا اور اُن کی زبان پرجاری کرا دیاکہ وہ شخص یعنی یہ عاجز جہنّمی ہے اور مُلحد ہے اور ایسا کافر ہے کہ ہرگز ہدایت پذیر نہیں ہو گا.میں پوچھتاہوں کہ کیا علماء کے لئے عند الشرع یہ جائز ہے کہ کسی ایسے مسئلہ میں جوخیر القرون کے لوگ ہی اُس پر اتفاق نہ رکھتے ہوں اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا اس پر اجماع ثابت نہ ہو ایک ایسے ملہم کی نسبت جو بعض احادیث اور قرآن کریم امکانی طور پر اُس کے صدق پر شاہد ہوں تکفیر کا فتویٰ لگا ویں یہ بات سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ
مثیل موعود ہونے کے بارہ میں اس عاجز کا الہام حدیث اورقرآن کے ہرگز مخالف نہیں اور کتب حدیث کو مہمل اور بے کار نہیں کرتا بلکہ اُن کا مصدق اور اُن کی سچائی کو ظاہر کرنے والا ہے کیا یہ سچ نہیں کہ فرقان کریم مسیح ابن مریم کافوت ہوجانا بیان کررہا ہے اوردجّال معہود کا مرجانا خود صحیح مسلم کی بعض حدیثیں ثابت کررہی ہیں پھر قرآن اور بعض حدیث میں تطبیق کرنے کے لئے بجز اس کے اور کیا راہ ہے کہ ابن مریم کے اُترنے سے اس کے کسی مثیل یا کئی مثیلوں کا اُترنا مراد لیا جاوے.پھر جبکہ الہام بھی اسی راہ کی طرف رہنمائی کرے تو کیا وہ حدیث اور قرآن کے موافق ہوا یا مخالف ؟ اب رہا یہ امر کہ کسی نبی کا اپنے تئیں مثیل ٹھہرانا عندالشرع جا ئز ہے یا نہیں.پس واضح ہو کہ درحقیقت اگر غور کر کے دیکھو تو جس قدر انبیاء دنیا میں بھیجے گئے ہیں وہ اسی غرض سے بھیجے گئے ہیں کہ تا لوگ اُن کے مثیل بننے کے لئے کوشش کریں اگر ہم ان کی پیروی کرنے سے اُن کے مثیل نہیں بن سکتے بلکہ ایسے خیال سے انسان کافر و مُلحد ہو جا تا ہے تو اس صورت میں انبیاء کاآنا عبث اورہمار ا اُن پر ایمان لانا بھی عبث ہے.قرآن شریف صاف یہی ہدایت فرماتا ہے ا ورہمیں سورۂ فاتحہ اُمُّ الکتاب میں مثیل بن جانے کی امید دیتا ہے اورہمیں تاکید فرماتا ہے کہ پنج وقت تم میرے حضور میں کھڑے ہوکر اپنی نماز میں مجھ سے یہ دعامانگو کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَۙ.صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ۱ یعنی اے میرے خداوند رحمن و رحیم ہمیں ایسی ہدایت بخش کہ ہم آدم صفی اللہ کے مثیل ہو جائیں شیث نبی اللہ کے مثیل بن جائیں حضرت نوح آدم ثانی کے مثیل ہوجائیں.ابراہیم خلیل اللہ کے مثیل ہوجائیں موسیٰ کلیم اللہ کے مثیل ہو جا ئیں.عیسیٰ روح اللہ کے مثیل ہو جا ئیں اور جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفی حبیب اللہ کے مثیل ہو جا ئیں اور دنیا کے ہرایک صدیق و شہید کے مثیل ہو جائیں.اب ہمارے علماء جو مثیل ہو نے کے دعویٰ کو کفر و الحاد خیال کر تے ہیں اور جس شخص کو الہام الٰہی کے ذریعہ سے اس ممکن الحصول مرتبہ کی بشارت دی جا وے اس کو مُلحد اور کا فر اور جہنمی ٹھہراتے ہیں.۱ الفاتحہ: ۶،۷
ذرا سوچ کر بتلاویں کہ اگر اس آیت کریمہ کے یہ معنے نہیں ہیں کہ جو میَں نے بیان کئے ہیں تو اور کیا معنے ہیں اور اگر یہ معنے صحیح نہیں ہیں تو پھر اللہ جلّشَانُہٗ کیوں فر ما تا ہے قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِىْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ ۱ یعنی ان کو کہہ دو کہ اگر تم خدائے تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو آؤ میری پَیروی کرو تا خدائے تعالیٰ بھی تم سے محبت رکھے اور تمہیں اپنا محبوب بنالیوے.اب سو چنا چاہئے کہ جس وقت انسان ایک محبوب کی پَیروی سے خود بھی محبوب بن گیا تو کیا اس محبوب کا مثیل ہی ہو گیا یا ابھی غیر مثیل رہا.افسوس! ہمارے پُر کینہ مخالف ذرا نہیں سو چتے کہ طالبِ مولیٰ کے لئے یہی تو عمدہ اور اعلیٰ خواہش ہے جو اس کو مجاہدات کی طرف رغبت دیتی ہے اور یہی تو ایک زور آور انجن ہے جو تقویٰ اور طہارت اور اخلاص اور صدق اور صفا اور استقامت کے مراتب عا لیہ کی طرف کھینچتا چلا جاتا ہے اور یہی تو وہ پیاس لگانے والی آگ ہے جس سے ظاہر و باطن سالک کا بھڑک اُٹھتا ہے اگر اس مقصد کے حصول سے یا س کلّی ہو تو پھر اس محبوب حقیقی کے سچے طالب جیتے ہی مر جائیں.آج تک جس قدر اکا بر متصوّفین گذرے ہیں اُن میں سے ایک کو بھی اس میں اختلاف نہیں کہ اس دین متین میں مثیل الا نبیاء بننے کی راہ کھلی ہوئی ہے جیسا کہ آنحضرت صلعم روحا نی اور ربّانی علماء کے لئے یہ خوشخبری فرما گئے ہیں کہعلماء اُمّتی کانبیاء بنی اسرا ئیل اور حضرت بایزید بسطامی قدّس سرہ کے کلمات طیبّہ مندرجہ ذیل جو تذکرۃالاولیاء میں حضرت فرید الدین عطّار صاحب نے بھی لکھے ہیں اور دوسری معتبر کتابوں میں بھی پائے جاتے ہیں اسی بناء پر ہیں جیسا کہ فر ما تے ہیں کہ میں ہی آدم ہوں میں ہی شیث ہوں میں ہی نوح ہوں میں ہی ابراہیم ہوں میں ہی موسیٰ ہوں میں ہی عیسیٰ ہوں میں ہی محمد ہوں صلی اللہ علیہ وسلم و علیٰ اخوانہ ٖ اجمعین اور اگر چہ انہیں کلمات کی وجہ سے حضرت بایزید بسطامی ستّر مرتبہ کا فر ٹھہرا کر بُسطام سے جو اُن کے رہنے کی جگہ تھی شہر بدر کئے گئے اور میاں عبد ا لر حمٰن خلف مولوی محمد کی طرح اُن لو گو ں نے بھی بایزید بُسطامی کے کا فر اور مُلحد بنانے میں سخت غلو کیا ۱ آل عمران:۳۲
لیکن اُس زمانہ کے گذرنے کے بعد پھر ایسے معتقد ہو گئے کہ جس کا حد انتہا نہیں اور اُن کے شطحیات کی بھی تا ویلیں کرنے لگے.ایسا ہی سیّد عبدالقا در جیلا نی رضی اللہ عنہ اپنی کتاب فتو ح الغیب میں اس بات کی طرف اشارہ فر ما تے ہیں کہ انسان بحالت ترک نفس و اطلاق و فنا فی اللہ تمام انبیاء کا مثیل بلکہ اُنہیں کی صورت کا ہو جاتا ہے اور اس عاجز کے دوست مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی نے بھی اپنے رسالہ اشاعۃالسنہ نمبر۷ جلد ۷ میں جواز و امکان مثیلیّت کے بارہ میں بہت کچھ لکھا ہے اور اگرچہ اس عاجز کے اس دعویٰ کی نسبت جو مثیل موعود ہو نے کے بارہ میں براہین میں درج ہے اور بتصریح ظاہر کیا گیا ہے کہ قر آن کریم اور حدیث نبویہ میں اس عاجز کی نسبت بطور پیشگوئی خبر دی گئی ہے مو لو ی صاحب مو صو ف نے کھلے کھلے طور پر کو ئی اقرار نہیں کیا لیکن امکانی طور پر تسلیم کر گئے ہیں کیو نکہ اُن کا اس معرض بیان میں جو بمنصب ریو یو لکھنے کے اُن کے لئے ضروری تھا سکوت اختیار کر نا اور انکار اور منع سے زبان نہ کھولنا د لیل قوی اس بات کی ہے کہ وہ اس بات کے بھی ہر گز مخالف نہیں کہ یہ عاجز مجازی اور روحانی طور پر وہی مسیح موعود ہے جس کی قر آن اور حدیث میں خبر دی گئی ہے کیونکہ براہین میں صاف طور پر اس بات کا تذکرہ کر دیا گیا تھا کہ یہ عاجز روحانی طور پر وہی موعود مسیح ہے جس کی اللہ ورسول نے پہلے سے خبر دے رکھی ہے.ہاں اس بات سے اُس وقت انکار نہیں ہوا اور نہ اب انکار ہے کہ شاید پیشگوئیو ں کے ظاہری معنوں کے لحاظ سے کو ئی اَور مسیح موعود بھی آئندہ کسی وقت پیدا ہو مگر فرق اِس وقت کے بیان اور براہین احمدیہ کے بیان میں صرف اس قدر ہے کہ اُس وقت بباعث اجمال الہام کے اور نہ معلوم ہونے ہرایک پہلو کے اجمالی طور پر لکھا گیا تھا اور اب مفصل طور پر لکھا گیا بہر حال مولوی صاحب موصوف نے اس عا جز کے مثیل مسیح ہونے کے بارہ میں امکانی ثبوت پیدا کر نے کے لئے بہت زور دیا ہے چنانچہ ایک جگہ وہ محی الد ین ابن عربی صاحب کے
کلام کو بغرض تائید مطلب ہذا فتوحات مکیہ باب ۲۲۳سے نقل کر تے ہیں اور وہ عبارت معہ ترجمہ مندرجہ ذیل ہے.غایۃ الوصلۃ ان یکون الشیء عین ما ظھر ولا یعرف کما رأ یت رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و سلم وقد عانق ابن حزم المحدث فغاب احدھما فی الاٰخر فلم نرالا واحداً وھو رسول اللّٰہ صلعم فھذہ غایۃ الوصلۃ وھو المعبر عنہ بالاتحاد (فتوحات مکیۃ) یعنی نہایت درجہ کا اتصال یہ ہے کہ ایک چیز بعینہٖ وہ چیز ہو جا ئے جس میں وہ ظا ہر ہو اور خود نظر نہ آو ے جیسا کہ مَیں نے خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے ابو محمد بن حزم محدث سے معانقہ کیا.پس ایک دوسرے میں غائب ہو گیا بجز ایک رسول اللہ صلعم کے نظر نہ آیا.پھر بعد اس کے مولوی صاحب موصوف اپنے اس بیان کی تائید میں نواب صدیق حسن مرحوم کی کتاب اتحاف النبلاء میں سے ایک عربی رباعی معہ ترجمہ نقل کر تے ہیں اور وہ یہ ہے.توھم راشینا بلیل مزارہ فھمّ لیسعی بیننا بالتباعد فعانقتہ حتی اتحدنا تعانقًا فلمّا اتانا مارأی غیر واحد جس کا ترجمہ یہ ہے.ہمارے بد گو (رقیب) نے شب کو ہمارے پاس ہمارے معشوق کے آنے کا گمان کیا تو ہم میں جدائی ڈالنے میں کوشش کرنے لگا.پس میں نے اپنے معشوق کو گلے سے لگا لیا.پھر وہ (رقیب )آیا تو اُس نے بجز مجھ ایک کے کسی کو نہ دیکھا.پھر یہ شعر فارسی نقل کیاہے.جذبۂ شوق بحدیست میان من و تو کہ رقیب آمد ونہ شناخت نشان من و تو اس کے بعد یہ جملہ دعائیہ لکھا ہے رزقنااللہ من ھٰذالاتحاد فی الدنیا والاٰخرۃ یعنی خدائے تعالیٰ ہم کو بھی ایسا ہی اتحا د دنیا اور آخرت میں نصیب کرے.پھرمیں مسیح ابن مریم کے فوت ہو جانے کی نسبت تتمہ کلام بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اگر یہ اعتراض پیش کیا جائے کہ گو احادیث اور فرقان اور انجیل کی رُو سے
مسیح ابن مریم کا فوت ہو جانا ثابت ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی فرقان حمید میں رافعک الیّ کا لفظ بھی تو موجود ہے جس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ زندہ ہو کر پھرآسمان کی طرف اُٹھایا گیا.اس وہم کا جواب یہ ہے کہ آسمان کا تو کہیں اس جگہ ذکر بھی نہیں اس کے معنے تو صرف اس قدر ہیں کہ مَیں اپنی طرف تجھے اُٹھالوں گا اور ظاہر ہے کہ جو نیک آدمی مرتا ہے اُسی کی طرف روحانی طورپر اُٹھایا جاتاہے کیا خدائے تعالیٰ دوسرے آسمان پر بیٹھا ہوا ہے جہاں حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ کی روح ہے اورنیز جس حالت میں قرآن شریف اور حدیث کی رو سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بلاشبہ فوت ہوگئے تھے تو پھر اس ثبوت کے بعد رفع سے مراد جسم کے ساتھ اُٹھایا جانا کمال درجہ کی غلطی ہے بلکہ صریح اور بدیہی طور پر سیاق وسباق قرآن شریف سے ثابت ہو ر ہا ہے کہ حضرت عیسیٰ کے فوت ہونے کے بعد اُن کی روح آسمان کی طرف اُٹھائی گئی.وجہ یہ کہ قرآن شریف میں صاف طور پر لکھا گیا ہے کہ ہریک مومن جو فوت ہوتا ہے تو اس کی روح خدائے تعالیٰ کی طرف اُٹھائی جاتی ہے اور بہشت میں داخل کی جاتی ہے جیساکہ اللہ جلَّشَانُہٗ فرماتا ہے :.يٰۤاَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَٮِٕنَّةُ ارْجِعِىْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً فَادْخُلِىْ فِىْ عِبٰدِىۙ وَادْخُلِىْ جَنَّتِى ۱ اے وہ نفس جو خدائے تعالیٰ سے آرام یافتہ ہے اپنے رب کی طرف چلا آ.تُو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی پس میرے بندوں میں داخل ہوجا اور میرے بہشت میں اندرآ.اس جگہ صاحب تفسیر معالم اس آیت کی تفسیر کرکے اپنی کتاب کے صفحہ ۹۷۵ میں لکھتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب بندہ مومن وفات پانے پر ہوتا ہے تو اس کی طرف اللہ جلَّشَانُہٗ دوفرشتے بھیجتاہے اور اُن کے ساتھ کچھ بہشت کا تحفہ بھی بھیجتا ہے اور وہ فرشتے آکر اس کی روح کو کہتے ہیں کہ اے نفس مطمئنہ تو رَوح اور رَیحان اور اپنے رب کی طرف جو تجھ سے راضی ہے نکل آ.تب وہ روح مشک کی اس خوشبو کی طرح جو بہت لطیف اور خوش کرنے والی ہو ۱ الفجر: ۲۸ تا ۳۱ ۚ
جو ناک میں پہنچ کر دماغ کو معطّر کر دیتی ہو باہر نکل آتی ہے اور فرشتے آسمان کے کناروں پر کہتے ہیں کہ ایک روح چلی آتی ہے جو بہت پاکیزہ اور خوشبو دارہے.تب آسمان کا کوئی دروازہ ایسا نہیں ہوتا جو اس کے لئے کھولا نہ جائے اور کوئی فرشتہ آسمان کا نہیں ہوتا کہ اُس کے لئے دعانہ کرے یہاں تک کہ وہ روح پایۂ عرش الٰہی تک پہنچ جاتی ہے تب خدائے تعالیٰ کو سجدہ کرتی ہے پھر میکائیل کو حکم ہوتا ہے کہ جہاں اور روحیں ہیں وہیں اس کو بھی لے جا.اب قرآن شریف کی اس آیت اور حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت سے بخوبی ثابت ہو گیا کہ روح مومن کی اُس کے فوت ہونے کے بعد بلا توقف آسمان پر پہنچائی جا تی ہے جبکہ حقیقت حال یہ ہے تو پھر قرآن شریف کی اس آیت کو کہ يٰعِيْسٰىۤ اِنِّىْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَىَّ ۱ ہے یا اس آیت کو کہ بَل رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ۲ ہے اس طرف کھینچنا کہ گویا حضرت عیسیٰ جسم کے ساتھ آسمان پر اُٹھائے گئے تھے صریح تحکم اورزبردستی ہو گی کیو نکہ جبکہ برطبق روایت ابن عباس و سیاق و سباق کلام الٰہی متوفّیک کے معنی یہی ہیں کہ میں تجھے ماروں گا تو پھر صاف ظاہر ہے جیساکہ ابھی ہم بحوالہ کلام الٰہی لکھ چکے ہیں کہ موت کے بعد نیک بختوں کی روح بلا توقف آسمان کی طرف جاتی ہے یہ تو نہیں کہ فرشتہ ملک الموت روح کو نکال کر کئی گھنٹہ تک وہیں کھڑا رہتا ہے.اب اگر ہم فرض کے طور پر وہب کی روایت کو قبول کر لیں کہ حضرت عیسیٰ تین گھنٹہ تک مرے رہے یا سات گھنٹہ تک مردہ پڑے رہے تو کیا ہم یہ بھی قبول کرسکتے ہیں کہ تین گھنٹہ تک یا سات گھنٹہ تک فرشتہ ملک الموت اُن کی رُوح اپنی مُٹھی میں لے کر اُسی جگہ بیٹھا رہا یا جہاں جہاں لاش کو لوگ لے جاتے رہے ساتھ پھرتا رہا اور آسمان کی طرف اس روح کو اُٹھا کر نہیں لے گیا.ایساوہم تو سراسرخلاف نص و حدیث اورمخالف تمام کتب الہامیہ ہے اور جبکہ ضروری طورپر یہی ماننا پڑا کہ ہریک مومن کی روح مرنے کے بعد آسمان کی طرف اُٹھائی جاتی ہے تو اس سے صاف طورپر کُھل گیا کہ رافعک الیّ کے یہی معنے ہیں کہ جب حضرت عیسیٰ فوت ہو چکے تو اُن کی روح ۱ اٰل عمران: ۵۶ ۲ النساء:۱۵۹
آسمان کی طرف اُٹھائی گئی بلاشبہ ہریک شخص کا نُورِ قلب اورکانشنس بلا تردّد اس بات کو سمجھ لیتا اور قبول کرلیتا ہے کہ ایک شخص مومن کی موت کے بعد شرعی اور طبعی طورپر یہی ضروری امر ہے کہ اس کی روح آسمان کی طرف اُٹھائی جائے اور اس طریق کا انکار کرنا گویا امہات مسائل دین کا انکار ہے اورنص اورحدیث سے کوئی ثبوت اس کا نہیں مل سکتا اگرحضرت عیسیٰ حقیقت میں موت کے بعد پھر جسم کے ساتھ اُٹھائے گئے تھے تو قرآن شریف میں عبارت یوں چاہیئے تھی یا عیسٰی انی متوفّیک ثم مُحییک ثم رافعک مع جسد ک الی السمآء یعنی اے عیسیٰ مَیں تجھے وفات دوں گا پھر زندہ کروں گا پھر تجھے تیرے جسم کے ساتھ آسمان کی طرف اُٹھالوں گا.لیکن اب تو بجُز مجرد رافعک کے جومتوفّیک کے بعد ہے کوئی دوسرا لفظ رافعک کا تمام قرآن شریف میں نظر نہیں آتا جو ثم محییک کے بعد ہو اگر کسی جگہ ہے تو وہ دکھلانا چاہیئے.میں بدعویٰ کہتا ہوں کہ اس ثبوت کے بعد کہ حضرت عیسیٰ فی الحقیقت فوت ہو گئے تھے یقینی طور پر یہی مانناپڑے گا کہ جہاں جہاں رافعک یا بل رفعہ اللہ الیہ ہے اس سے مراد اُن کی روح کا اُٹھایا جانا ہے جو ہریک مومن کے لئے ضروری ہے.ضروری کو چھوڑ کر غیر ضروری کا خیال دل میں لانا سراسر جہل ہے.ہم بیا ن کر چکے ہیں کہ تمام نبی خدائے تعالیٰ کی طرف ہی اُٹھائے جاتے ہیں.اب ہم بخوبی ثابت کر چکے ہیں کہ یہ عقیدہ کہ مسیح جسم کے ساتھ آسمان پر چلا گیا تھا قرآن شریف اوراحادیث صحیحہ سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا صرف بیہودہ اور بے اصل اور متناقض روایات پراس کی بنیاد معلوم ہوتی ہے مگر اس فلسفی الطبع زمانہ میں جو عقلی شائستگی اور ذہنی تیزی اپنے ساتھ رکھتا ہے ایسے عقیدوں کے ساتھ دینی کامیابی کی اُمید رکھنا ایک بڑی بھاری غلطی ہے اگر افریقہ کے ریگستان یا عرب کے صحرانشین اُمّیوں اور بدّوؤں میں یا سمندر کے جزیروں کے اور وحشی لوگوں کی جماعتوں میں یہ بے سروپا باتیں پھیلائیں تو شایدآسانی سے پھیل سکیں لیکن ہم ایسی تعلیمات کو جو عقل اور تجربہ اور طبعی اور فلسفہ سے
بکلّی مخالف اور نیز ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ثابت نہیں ہوسکتیں بلکہ اُن کے مخالف حدیثیں ثابت ہورہی ہیں تعلیم یافتہ لوگوں میں ہرگز نہیں پھیلا سکتے اور نہ یورپ امریکہ کے محقق طبع لوگوں کی طرف جو اپنے دین کے لغویات سے دست بردار ہو رہے ہیں بطور ہدیہ و تحفہ بھیج سکتے ہیں.جن لوگوں کے دل اور دماغ کو نئے علوم کی روشنی نے انسانی قوتوں میں ترقی دے دی ہے وہ ایسی باتوں کو کیوں کر تسلیم کرلیں گے جن میں سراسر خدائے تعالیٰ کی توہین اور اس کی توحید کی اہانت اور اس کے قانون قدرت کا ابطال اور اس کے کتابی اصول کی تنسیخ پائی جاتی ہے.اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ مسیح کا جسم کے ساتھ آسمان سے اُترنا اُس کے جسم کے ساتھ چڑھنے کی فرع ہے لہذا یہ بحث بھی کہ مسیح اُسی جسم کے ساتھ آسمان سے اُترے گا جو دنیا میں اُسے کو حاصل تھا اس دوسری بحث کی فرع ہوگی جو مسیح جسم کے ساتھ آسمان پر اُٹھایا گیا تھا جبکہ یہ بات قرار پائی تواّول ہمیں اُس عقیدہ پر نظر ڈالنا چاہیئے جو اصل قرار دیا گیا ہے کہ کہاں تک وہ قرآن اورحدیث سے ثابت ہے.کیونکہ اگر اصل کا کما حقہ‘ تصفیہ ہوجائے گا تو پھر اُس کی فر ع ماننے میں کچھ تامل نہیں ہوگا اور کم سے کم امکانی طور پر ہم قبول کرسکیں گے کہ جب کہ ایک شخص کا جسم خاکی کے ساتھ آسمان پر چلے جانا ثابت ہوگیا ہے تو پھر اُسی جسم کے ساتھ واپس آنا اُس کا کیا مشکل ہے لیکن اگر اصل بحث قرآن اور حدیث سے ثابت نہ ہو سکے بلکہ حقیقت امر اس کے مخالف ثابت ہو تو ہم فرع کو کسی طرح سے تسلیم نہیں کرسکتے اگر فرع کی تائید میں بعض حدیثیں بھی ہوں گی تو ہم پر فرض ہو گا کہ اُن کو اصل سے تطبیق دینے کے لئے کوشش کریں اور اگر برعایت اصل وہ حدیثیں حقیقت پر حمل نہ ہوسکیں تو پھر ہم پر واجب ہو گا کہ انہیں استعارات و مجازات میں داخل کرلیں اوربجائے مسیح کے اُترنے کے کسی مثیل مسیح کا اُترنا مان لیں جیساکہ خود حضرت مسیح نے ایلیا نبی کی نسبت مان لیا.حالانکہ تمام یہودیوں کا اسی پر اجماع تھا اور اب تک ہے کہ ایلیا آسمان سے اُترآئے گا.
یاد رکھناچاہئے کہ ایلیا کا آسمان پر جانا اور پھر آسمان سے کسی زمانہ میں اُترنا بطور پیشگوئی ایک وعدہ تھا اور یہودیوں کا اجماعی عقیدہ مسلمانوں کی طرح اب تک یہی ہے کہ حضرت ایلیا جسم کے ساتھ آسمان پر زندہ اُٹھائے گئے اور پھر آخری زمانہ میں اُسی جسم کے ساتھ پھرآسمان سے اُتریں گے چنانچہ ایلیا کا جسم کے ساتھ آسمان پر جانا سلاطین ۲ باب ۲ آیت ۱۱ میں مندرج ہے اور پھر اس کے اُترنے کا وعدہ صحیفہ ملاکی کے باب ۴ آیت ۵میں بطور پیشگوئی کے دیا گیا ہے جس کے اب تک یہودی لوگ منتظر ہیں اور حضرت مسیح نے جو حضرت یحییٰ کی نسبت کہا کہ ایلیا جو آنیوالا تھا یہی ہے یہ کلمہ جمہور یہود کے اجماع کے برخلاف تھا.اسی وجہ سے اُنہوں نے نہ مسیح کو قبول کیا نہ یحییٰ کو.کیونکہ وہ تو آسمان کی راہ دیکھ رہے تھے کہ کب ایلیا فرشتوں کے کندھوں پر اُترتا ہے اور بڑی مشکلات اُن کو یہ پیش آ گئی تھیں کہ اسی طور کے اُترنے پر اُن کا اجماع ہو چکا تھا اور ظواہر نصوص صحیفہ سلاطین و صحیفہ ملاکی اسی پر دلالت کرتے تھے.سو انہوں نے اس آزمائش میں پڑ کر حضرت یحییٰ علیہ السلام کو قبول نہ کیا بلکہ مسیح کی نبوت سے بھی انکاری رہے کیونکہ اُن کی کتابوں میں لکھا تھا کہ ضرور ہے کہ مسیح کے آنے سے پہلے ایلیا آسمان سے اُتر آوے سو چونکہ ایلیا کا آسما ن سے اُترنا جس طرح انہوں نے اپنے دلوں میں مقرر کر رکھا تھا اُسی طرح ظہور میں نہ آیا.اس لئے ظاہر پرستی کی شامت سے یہودیوں کو دو سچے نبیوں کی نبوت سے منکر رہنا پڑا یعنی مسیح اور یحییٰ سے.اگر وہ لوگ اس ظاہرپرستی سے باز آکر سلاطین اور ملاکی کی عبارتوں کو استعارات و مجازات پر حمل کر لیتے تو آج دنیا میں ایک بھی یہودی نظر نہ آتا سب کے سب عیسائی ہو جاتے کیونکہ صحیفہ سلاطین اور صحیفہ ملاکی میں ایلیا نبی کے دوبارہ آنے سے درحقیقت مراد یہی تھی کہ ظِلّی اورمثالی وجود کے ساتھ پھر ایلیا دنیا میں آئے گا جس سے مراد حضرت یحییٰ کا آنا تھا جو باعتبار اپنے روحانی خواص کے مثیل ایلیا تھے لیکن یہودیوں نے اپنی بد قسمتی اور بے سعادتی کی وجہ سے اُن روحانی معنوں کی طرف رُخ نہ کیا اور ظاہر پرستی میں پھنسے رہے.اور درحقیقت ذرہ غور سے دیکھیں تو یہودیوں کو حضرت یحییٰ کے
قبول کرنے کے بارہ میں جو مشکلات پیش آگئے تھے اتنے بڑے مشکلات ہمارے بھائی مسلمانوں کو ہرگز پیش نہیں آئے کیونکہ سلاطین ۲ باب ۲ میں صاف طور پر لکھا ہوا اب تک موجود ہے کہ ایلیا نبی جسم کے ساتھ آسمان کی طرف اُٹھایا گیا اورچادراُس کی زمین پر گر پڑی اور پھرملاکی باب ۴ آیت ۵ میں ایسی ہی صفائی کے ساتھ وعدہ دیا گیا ہے کہ پھر وہ دنیا میں آئے گا اور مسیح کے لئے راہ درست کرے گا لیکن ہمارے بھائی مسلمان ان تمام مشکلات سے بالکل آزاد ہیں کیو نکہ قرآن شریف میں جسم کے ساتھ اُٹھائے جا نے کا اشارہ تک بھی نہیں بلکہ مسیح کے فوت ہوجانے کا بتصریح ذکر ہے اگرچہ حدیثوں کی بے سروپار وایتوں میں سند منقطع کے ساتھ ایسا ذکر بہت سے تناقض سے بھرا ہوا کہیں کہیں پایا جاتا ہے لیکن ساتھ اس کے اُنہیں حدیثوں میں مسیح کا فوت ہونا بھی بیان کیا گیا ہے.اب ظاہر ہے کہ باوجود اس تعارض اور تناقض کے ضرورت ہی کیا ہے جو غیر معقول شق کی طرف توجہ کی جائے جس حالت میں قر آن اور حدیث کے روسے وہ راہ بھی کھلی ہوئی نظر آتی ہے جس پر کو ئی اعتراض شرع اور عقل کا نہیں یعنی مسیح کا فوت ہوجانا اور رُوح کااُٹھا یا جانا تو کیوں ہم اُسی راہ کو قبول نہ کریں جس پر قرآن شریف کی بیّنات زور دے رہی ہیں ؟.ہم نے ایلیا کے صعود و نزول کا ِ قصہ اس غرض سے اس جگہ لکھا ہے کہ تا ہمارے بھائی مسلمان ذرہ غور کر کے سوچیں کہ جس مسیح ابن مریم کے لئے وہ لڑتے مرتے ہیں اُسی نے یہ فیصلہ دیا ہے اور اسی فیصلہ کی قرآن شریف نے بھی تصدیق کی ہے.اگر آسمان سے اُتر نا اِسی طور سے جائز نہیں جیسے طور سے ایلیا کا اُتر نا حضرت مسیح نے بیان فرمایا ہے تو پھر مسیح منجانب اللہ نبی نہیں ہے بلکہ نعوذ باللہ قرآن شریف پر بھی اعتراض آتا ہے جو مسیح کی نبوت کا مصدق ہے اب اگر مسیح کو سچا نبی ماننا ہے تو اس کے فیصلہ کو بھی مان لینا چاہئے زبردستی سے یہ نہیں کہنا چاہئے کہ یہ ساری کتابیں محرّف و مبدّل ہیں بلا شبہ ان مقامات سے تحریف کا کچھ علاقہ نہیں اور دونوں فریق یہود و نصاریٰ ان عبارتوں کی صحت کے قائل ہیں اور پھر ہمارے امام ا لمحدثین
حضرت اسمٰعیل صاحب اپنی صحیح بخاری میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ ان کتابوں میں کو ئی لفظی تحریف نہیں.یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے اور پہلے بھی ہم کئی مرتبہ ذکرکر آئے ہیں کہ جس قدر پیشگوئیاں خدائے تعالیٰ کی کتابوں میں موجود ہیں اُن سب میں ایک قسم کی آزمائش ارادہ کی گئی ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر کوئی پیشگوئی صاف اور صریح طور پر کسی نبی کے بارے میں بیان کی جاتی تو سب سے پہلے مستحق ایسی پیشگوئی کے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے کیونکہ اگر مسیح کے اُترنے سے انکار کیا جائے تو یہ امر کچھ مستوجب کفر نہیں لیکن اگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے انکار کیا جاوے تو بلاشبہ وہ انکار جاودانی جہنّم تک پہنچائے گا.مگر ناظرین کو معلوم ہوگا کہ تمام توریت و انجیل میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اور ایسا ہی حضرت مسیح کی نسبت بھی کوئی ایسی کھلی کھلی اور صاف پیشگوئی نہیں پائی جاتی جس کے ذریعہ سے ہم یہودیوں کو جا کر گردن سے پکڑلیں.حضرت مسیح بھی باربار یہودیوں کو کہتے رہے کہ میری بابت موسیٰ نے توریت میں لکھا ہے مگر یہودیوں نے ہمیشہ انہیں یہی جواب دیا کہ اگر چہ یہ سچ ہے کہ ہماری کتابوں میں ایک مسیح کے آنے کی بھی خبر دی گئی ہے مگر تم خود دیکھ لوکہ مسیح کے آنے کا ہمیں یہ نشان دیا گیا ہے کہ ضرور ہے کہ اس سے پہلے ایلیا آسمان سے اُترے جس کا آسمان پر جانا سلاطین کی کتاب میں بیان کیا گیا ہے اس کے جواب میں ہر چند حضرت مسیح یہی کہتے رہے کہ وہ ایلیا یو حنا یعنی یحیٰیزکریا کا بیٹا ہے مگر اس دور دراز تاویل کو کون سُنتا تھا اور ظاہر تقریر کی رُو سے یہودی لوگ اس عذ ر میں سچے معلوم ہوتے تھے سو اگرچہ خدائے تعالیٰ قادر تھا کہ ایلیا نبی کو آسمان سے اُتارتا اور یہودیوں کے تمام وساوس بکلّی رفع کر دیتا لیکن اُس نے ایسا نہیں کیا تا صادق اور کاذب دونوں آزمائے جائیں کیونکہ شریر آ دمی صرف ظاہری حُجّت کی رُو سے بے شبہ ایسے مقام میں سخت انکار کر سکتا ہے لیکن ایک را ستباز آدمی کے سمجھنے کے لئے یہ راہ کھلی تھی کہ آسمان سے اُترنا کسی اور طور سے تعبیر کیا جائے اور ایک نبی جو دوسری علامات صدق اپنے ساتھ رکھتا ہے
اُن علامات کے لحاظ سے اُس پر ایمان لایا جاوے ہاں یہ سچ اور بالکل سچ ہے کہ اگر سلاطین اور ملاکی کے بیانات کو مسلمان لوگ بھی یہودیوں کی طرح محمول پر ظاہر کریں تو وہ بھی کسی طرح یحیٰی بن زکریا کو مصداق اُس کی پیشگوئی کا نہیں ٹھہراسکتے اور اس پیچ میں آکر مسیح ابن مریم کی نبوت بھی ہر گز ثابت نہیں ہو سکتی.قرآن شریف نے مسیح کی تا ویل کو جو ایلیا نبی کے آسمان سے اُتر نے کے بارہ میں انہوں نے کی تھی قبول کر لیا اور مسیح کو اور یحییٰ کو سچا نبیْ ٹھہرایا ورنہ اگر قرآن شریف ایلیا کا آسمان سے اُترنا اسی طرح معتبر سمجھتا یعنی ظاہری طور پر جیسا کہ ہمارے بھائی مسلمان مسیح کے اُترنے کے بارہ میں سمجھتے ہیں تو ہرگز مسیح کو نبی قرار نہ دیتا کیونکہ سلاطین اور ملاکی آسمانی کتابیں ہیں اگر ان مقامات میں اُن کے ظاہری معنے معتبر ہیں تو ان معانی کے چھوڑنے سے وہ سب کتابیں نکمّی اور بے کار ٹھہر جائیں گی.میرے دوست مولوی محمد حسین صاحب اس مقام میں بھی غور کریں ؟ اور اگر یہ کہا جا ئے کہ کیا یہ ممکن نہیں کہ سلاطین اور ملاکی کے وہ مقامات محرّ ف و مبدّل ہوں تو جیسا کہ ابھی میں لکھ چکا ہوں تو یہ سراسر وہم و گمان باطل ہے کیونکہ اگر وہ مقام محر ف و مبدل ہوتے تو مسیح بن مریم کا یہودیوں کے مقابل پر یہ عمدہ جواب تھاکہ جو کچھ تمہاری کتابوں میں ایلیا کا آسمان پر جانا اورپھر اُترنے کا وعدہ لکھاہے یہ بات ہی غلط ہے اور یہ مقامات تحریف شدہ ہیں.بلکہ مسیح نے تو ایسا عذر پیش نہ کرنے سے اُن مقامات کی صحت کی تصدیق کردی.ماسوا اس کے وہ کتابیں جیسے یہودیوں کے پاس تھیں ویسے ہی حضرت مسیح اور اُن کے حواری اُن کتابوں کو پڑھتے تھے اوراُن کے نگہبان ہوگئے تھے اور یہودیوں کے لئے ہم کوئی ایسا موجب عند العقل قرار نہیں دے سکتے جو ان مقامات کے محرف کرنے کے لئے انہیں بے قرار کرتا.اب حاصل کلام یہ کہ مسیح کی پیشگوئی کے بارے میں ایلیا کے قصّہ نے یہودیوں کی راہ میں ایسے پتھر ڈال دئے کہ اب تک وہ اپنے اس راہ کو صاف نہیں کر سکے اوربے شمار روحیں اُن کی کفر کی حالت میں اِس دنیا سے کوچ کر گئیں.
اب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں توریت کی پیشگوئیوں پر نظر ڈالیں کہ اگرچہ توریت کے دو مقام میں ایسی پیشگوئیاں ملتی ہیں کہ جو غور کرنے والوں پر بشرطیکہ منصف بھی ہوں ظاہر کرتی ہیں کہ درحقیقت وہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں لکھی گئی ہیں.لیکن کج بحثی کے لئے ان میں گنجائش بھی بہت ہے.مثلًا توریت میں لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کو کہا کہ خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی قائم کرے گا.اس پیشگوئی میں مشکلات یہ ہیں کہ اُسی توریت کے بعض مقامات میں بنی اسرائیل کو ہی بنی اسرائیل کے بھائی لکھاہے اور بعض جگہ بنی اسمٰعیل کو بھی بنی اسرائیل کے بھائی لکھا ہے ایسا ہی دوسرے بھائیوں کا بھی ذکر ہے.اب اس بات کا قطعی اوربدیہی طور پر کیوں کر فیصلہ ہو کہ بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے مراد فقط بنی اسمٰعیل ہی ہیں بلکہ یہ لفظ کہ ’’تیرے ہی درمیان سے ‘‘ لکھا ہے زیادہ عبارت کو مشتبہ کرتا ہے اور گو ہم لوگ بہت سے دلائل اور قرائن کو ایک جگہ جمع کر کے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسیٰ میں جو مماثلت ہے بپایۂ ثبوت پہنچاکر ایک حق کے طالب کے لئے نظری طورپر یہ بات ثابت کر دکھاتے ہیں کہ درحقیقت اس جگہ اس پیشگوئی کا مصداق بجُز ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کوئی شخص نہیں.لیکن یہ پیشگوئی ایسی صاف اور بدیہی تو نہیں کہ ہرایک اجہل اوراحمق کو اس کے ذریعہ سے ہم قائل کرسکیں بلکہ ا س کا سمجھنا بھی پوری عقل کا محتاج ہے اور پھر سمجھانا بھی پوری عقل کا محتاج.اگر خدائے تعالیٰ کو ابتلا خلق اللہ کا منظورنہ ہوتا اور ہر طرح سے کھلے کھلے طور پر پیشگوئی کا بیان کرنا ارادۂ الٰہی ہوتا تو پھر اس طرح پر بیان کرنا چاہیئے تھا کہ اے موسیٰ میں تیرے بعد بائیسویں صدی میں ملک عرب میں بنی اسمٰعیل میں سے ایک نبی پیداکروں گا جس کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوگا اور اُن کے باپ کانام عبداللہ اورداداکا نام عبدالمطلب اوروالدہ کانام آمنہ ہو گا.اور وہ مکہ شہرمیں پیدا ہو ں گے
اوراُن کایہُ حلیہ ہو گا.اب ظاہر ہے کہ اگر ایسی پیشگوئی تور یت میں لکھی جاتی تو کسی کو چو ن و چرا کرنے کی حاجت نہ رہتی اور تمام شریروں کے ہاتھ پَیرباندھے جاتے لیکن خدائے تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا.اب سوال یہ ہے کہ کیاخدائے تعالیٰ ایساکرنے پر قادرنہ تھا ؟ اس کا جواب یہی ہے کہ بلا شبہ قادرتھا بلکہ اگر چاہتا تو اس سے بڑھ کر ایسے صاف صاف اور کھلے کھلے نشان لکھ دیتا کہ سب گردنیں اُن کی طرف جُھک جاتیں اور دُنیا میں کوئی منکر نہ رہتا.مگراُس نے اِس تصریح اورتوضیح سے لکھنا اس لئے پسند نہیں کیا کہ ہمیشہ پیشگوئیوں میں ایک قسم کا ابتلا بھی اُسے منظورہوتا ہے تا سمجھنے والے اورحق کے سچے طالب اس کو سمجھ لیں.اور جن کے نفسوں میں نخوت اور تکبر اور جلد بازی اور ظاہر بینی ہے وہ اس کے قبول کرنے سے محروم رہ جائیں.اب یقینًا سمجھو کہ یہی حال اس پیشگوئی کا ہے کہ جو کہا گیا ہے کہ ابن مریم دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے دمشق کے شرقی طرف منارہ کے پاس اُترے گا کیونکہ اگر اسی طور اور اسی ظاہری صورت پر پیشگوئی نے پورا ہونا ہے تو پھر ایسے طور سے اُترنے کے وقت میں دنیا کے باشندوں میں سے کون منکر رہ سکتا ہے ؟تمام قوموں کو جو اَب دنیا پر بستی ہیں کیا یہودی اور کیا عیسائی اور کیاہندو اور بدھ مذہب والے او ر مجوسی غرض سب فرقوں کو پوچھ کر دیکھ لو کہ اگر اس طور سے اُترتا کوئی نبی تمہیں دکھائی دے تو کیا پھر بھی تم اس کی نبوت اور اس کے دین میں کچھ شک اور شبہ رکھتے رہو گے ؟ بلاشبہ تمام لوگ یہی جواب دیں گے کہ اگر ہم ایسا بزرگ فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے آسمان سے اُترتا ہوا دیکھ لیں تو بلاشبہ ایمان لے آویں گے حالانکہ اللہ جلَّ شَانُہٗ قرآن شریف میں یہ فرماتا ہے يٰحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ ۚ مَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ ۱ یعنی اے حسرت بندوں پر کہ ایسا کوئی نبی نہیں آتا جس سے وہ ٹھٹھا نہ کریں.ایسا ہی قرآن شریف کے دوسرے مقامات میں ۱ یٰسٓ ۳۱
جابجا لکھا ہواہے کہ کوئی نبی ایسا نہیں آیا جس کو لوگوں نے بالاتفاق مان لیا ہو.اب اگر حضرت مسیح بن مریم نے درحقیقت ایسے طور سے ہی اُترنا ہے جس طور سے ہمارے علماء یقین کئے بیٹھے ہیں تو ظاہر ہے کہ اس سے کوئی فرد بشر انکار نہیں کرسکتالیکن ہمارے علماء کو یاد رکھنا چاہیئے کہ ایسا کبھی نہیں ہو گا.کیونکہ خدائے تعالیٰ قرآن شریف میں صاف فرماتا ہے کہ اگر میں فرشتوں8 کو بھی زمین پر نبی مقرر کرکے بھیجتا تو انہیں بھی التباس اور اشتباہ سے خالی نہ رکھتا.یعنی اُن میں بھی شبہ اور شک کرنے کی جگہ باقی رہتی ہے.صاف ظاہر ہے کہ یہی معجزہ آسمان سے اُترنے کاہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی مانگا گیا تھا اور اُس وقت اِس معجزہ کے دکھلانے کی بھی ضرورت بہت تھی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار رسالت کرنے سے جہنم ابدی کی سزا تھی مگر پھر بھی خدائے تعالیٰ نے یہ معجزہ نہ دکھایا اور سائلوں کو صاف جواب ملاکہ اس دارالابتلاء میں ایسے کھلے کھلے معجزات خدائے تعالیٰ ہرگز نہیں دکھاتاتاایمان بالغیب کی صورت میں فرق نہ آوے.کیونکہ جب خدائے تعالیٰ کی طرف سے ایک بندہ اُترتا ہوا دیکھ لیا اور فرشتے بھی آسمان سے اُترتے ہوئے نظرآئے توپھر تو بات ہی بکلّی فیصلہ ہو گئی تو پھر کون بدبخت ہے جو اس سے منکر رہے گا ؟ قرآن شریف اس قسم کی آیات سے بھرا پڑا ہے جن میں لکھا ہے کہ ایسے معجزات دکھانا خدائے تعالیٰ کی عادت نہیں ہے اور کفّار مکہ ہمیشہ ایسے ہی معجزات مانگاکرتے تھے.اور خدائے تعالیٰ برابر انہیں یہ کہتا تھا کہ اگر ہم چاہیں تو کوئی نشان آسمان سے ایسا نازل کریں جس کی طرف تمام منکروں اورکافروں کی گردنیں جھک جائیں.لیکن اس دارالابتلاء میں ایسا نشان ظاہر کرنا ہماری عاد ت نہیں کیونکہ اس سے ایمان بالغیب جس پر تمام ثواب مترتب ہوتا ہے ضائع اور دُور ہو جاتا ہے.سو اے بھائیو! میں محض نصیحتًا للہ آپ لوگوں کو سمجھاتا ہوں کہ اس خیال محال سے بازآجاؤ.ان دو قرینوں پر متوجہ ہو کر نظر ڈالو کہ کس قدر قوی اور
کھلے کھلے ہیں.اوّل ایلیا نبی کا آسمان سے اُترنا کہ آخر وہ اُترے تو کس طرح اُترے.دوسرے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سوال ہونا اور قُلْ سُبْحَانَ رَبِّىْ ۱ اس کا جواب ملنا.اپنے دلوں میں سوچو کہ کیا یہ اس بات کے سمجھنے کے لئے قرائن قویہ اور دلائل کافیہ نہیں کہ آسمان سے اُترنے سے مراد حقیقی اور واقعی طور پر اُترنا نہیں بلکہ مثالی اور ظلّی طور پر اُترنا مراد ہے.ابتدائے عالم آفرینش سے آج تک اسی طور سے مقدّس لوگ آسمان سے اُترتے رہے ہیں اور مثالی طور پر ہمیشہ یہ کہتے آئے ہیں کہ یہ آدم ثانی آیا ہے اور یہ یوسف ثانی اور یہ ابراہیم ثانی لیکن آدم زاد کا جسم خاکی کے ساتھ آسمان سے اُترنا اب تک کسی نے مشاہدہ نہیں کیا.پس وہ امر جواصول نظامِ عالم کے برخلاف اور قانون قدرت کے مبائن ومخالف اور تجارب موجودہ و مشہودہ کا ضد پڑ ا ہے ا س کے ماننے کے لئے صرف ضعیف اور متناقض اور رکیک روایتوں سے کام نہیں چل سکتاسو یہ امید مت رکھو کہ سچ مچ اوردرحقیقت تمام دنیا کو حضرت مسیح ابن مریم آسمان سے فرشتوں کے ساتھ اُترتے ہوئے دکھائی دیں گے.اگر اسی شرط سے اس پیشگوئی پر ایمان لانا ہے تو پھر حقیقت معلوم ، وہ اُترچکے تو تم ایمان لاچکے ایسا نہ ہو کہ کسی غبارہ (بیلون ) پر چڑھنے والے اور پھر تمہارے سامنے اُترنے والے کے دھوکہ میں آجاؤ.سو ہوشیار رہنا آئندہ اس اپنے جمے ہوئے خیال کی وجہ سے کسی ایسے اُترنے والے کو ابن مریم نہ سمجھ بیٹھنا.یہ قاعد ہ کی بات ہے کہ جو شخص سچ کو قبول نہیں کرتا پھردوسرے وقت میں اس کو جھوٹ قبول کرنا پڑتا ہے.جن بے سعادت اور بدبخت لوگوں نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول نہیں کیا تھا اُنہیں نے مسیلمہ کذّاب کو قبول کر لیا حتّٰی کہ چھ سات ہفتہ کے اندر ہی ایک لاکھ سے زیادہ اس پر ایما ن لے آئے.سو خدائے تعالیٰ سے ڈرو اور الگ الگ گوشوں میں بیٹھ کر فکر کرو کہ اب تک سُنّت اور عادت الٰہی کس طرح پر چلی آئی ہے.اور یہ بھی سوچ لو کہ صحیح حدیثوں میں آسمان سے اُترنے کا بھی کہیں ذکر نہیں اور صرف نزل یا ینزل کا لفظ آسمان سے اُترنے پر ۱ بنی اسرائیل:۹۴
ہرگز دلالت نہیں کرتا اوراگر فرض کے طور پر آسمان کا لفظ بھی ہوتا تب بھی ہمارے مطلب کو مضرو مخل نہیں تھا کیونکہ توریت و انجیل میں ایسی آیتیں بہت سی پائی جاتی ہیں جن میں نبیوں کی نسبت لکھا ہے کہ وہ آسمان سے ہی اُترتے ہیں.مثلًا یوحناکی انجیل میں حضرت یحییٰ کی طرف سے یہ قول لکھا ہے کہ وہ جو زمین سے آتا ہے وہ زمینی ہے اورزمین سے کہتا ہے وہ جو آسمان سے آتا ہے سب کے اوپر ہے (یعنی نبیوں کا قول دوسرے عقلمندوں کے قول پر مقدّم ہے.کیونکہ نبی آسمان سے اُترتا ہے ) دیکھو یوحنا باب ۳ آیت ۳۱.پھر دوسرا قول یہ ہے.میں آسمان پر سے اس لئے نہیں اُترا کہ اپنی مرضی پر چلوں.یوحنا باب ۶ آیت ۱۱.پھر تیسرا قول یہ ہے کہ کوئی آسمان پر نہیں گیا سوائے اُس شخص کے کہ جو آسمان پر سے اُترا.یوحنا باب ۳ آیت ۱۳.اور فقط یہ کہنا کہ ہم نے اُتار ا یا اُترا اس بات پر ہرگز دلالت نہیں کرتا کہ آسمان سے اُتار اگیا ہے کیونکہ قرآن شریف میں یہ بھی * فرمایا گیا ہے کہ ہم نے لوہا اُتار ا اور چار پائے (مویشی ) اُتارے.اب ظاہر ہے کہ یہ تمام مویشی توالد تناسل کے ذریعہ پیدا ہوتے ہیں کسی شخص نے کوئی گھوڑا یا بیل یا گدھا وغیرہ آسمان سے اُترتا کبھی نہیں دیکھا ہو گا حالانکہ اس جگہ صریح لفظ نزول کا موجود ہے اور کوئی شخص اس آیت کو ظاہر پر حمل نہیں کرتا.پھر جبکہ یہ معلوم ہو گیا کہ خدائے تعالیٰ کی کلام میں ایسے ایسے استعارات و مجازات و کنایات بھی موجود ہیں جن کے ظاہر لفظوں میں صریح اور صاف طورپر فرمایا گیا ہے کہ لوہا اور تمام مویشی * حاشیہ: قال اللہ تعالیٰ (۱) 3 ۱ سورۃ الحدید الجزو نمبر ۲۷ (۲) 3۲ (۳) 3.۳ سورۃ الزمرالجزو نمبر ۲۳ (۱) یعنی ہم نے لوہا اُتارا (۲) اور ہم نے تم پر لباس اُتارا.(۳) اور تمہارے لئے چار پائے اُتارے.ایسا ہی توریت میں یہ فقرات ہیں.ہمارااُترنا بیابان میں.گنتی باب ۱۰ آیت ۳۱.مجھے یردن کے پار اُترنا نہ ہوگا استثناء باب ۴ آیت ۲۲.ہمارے اُترنے کی جگہ ہے.پیدائش ۲۴.۲۳.اب ان تمام آیات سے ظاہر ہے کہ اُترنے کا لفظ آسمان سے اُترنے پر ہرگز دلالت نہیں کرتا اور اُترنے کے ساتھ آسمان کا لفظ زیادہ کرلینا ایسا ہے جیسا کسی بھوکے سے پوچھاجائے کہ دو او ر دو کتنے ہوتے ہیں تو وہ جواب دے کہ چار روٹیاں.منہ
ہم نے اُتارے ہیں اورمراداس سے کوئی اور رکھی گئی ہے تو اس سے ظاہر ہے کہ عادت اللہ اسی طرح پر واقع ہے کہ اُترنا کسی چیز کا بیان فرماتا ہے اور اصل مقصود اس اُترنے سے کچھ اورہی ہوتا ہے.انصاف کرنا چاہیئے کہ کیاحضرت مسیح کا آسمان سے اُترناان آیات کی نسبت زیادہ صفائی سے بیان کیا گیا ہے؟ بلکہ مسیح کا اُترنا صرف بعض حدیثوں کی رو سے خیال کیا جاتا ہے اور حدیثیں بھی ایسی ہیں جن میں آسمان کا ذکر ہی نہیں صرف اُترنا لکھا ہے لیکن گدھوں اور بیلوں کا آسمان سے اُترنا قرآن کریم آپ فرما رہا ہے.پس سوچ کر دیکھو کہ کس طرف کو ترجیح ہے اگر حضرت مسیح کا آسمان سے اترنا صرف اس لحاظ سے ضروری سمجھا جاتا ہے تو اس سے زیادہ صاف گدھوں اور بیلوں کا اُترنا ہے.اگر ظاہر پر ہی ایمان لانا ہے تو پہلے گدھوں اوربیلوں پر ایمان لاؤ کہ وہ حقیقت میں آسمان سے اُترتے ہیں یا اپنا پیچھا چھڑانے کے لئے یوں کرو کہ اَنْزَلْنَا کے لفظ کو مضارع استقبال کے معنوں پرحمل کر کے آیت کی اس طرح پر تفسیر کرلو کہ آخری زمانہ میں جب حضرت مسیح آسمان سے اُتریں گے تو ساتھ ہی بہت سے گدھے خاص کر سواری کا گدھا ایسا ہی بہت سے بیل اور گھوڑے اور خچریں اور لوہا بھی آسمان سے اُترے گا تا آیات اورحدیث کی معانی میں پور ی تطبیق ہوجائے ورنہ ہریک شخص اعتراض کرنے کا حق رکھتا ہے کہ قرآن شریف میں کیوں معنے آیات کے ظاہر سے باطن کی طرف پھیرے جاتے ہیں اورحدیثوں میں جو حضرت عیسیٰ کے اُترنے کے بارے میں وہی الفاظ ہیں کیوں اُن کے ظاہری معنے اپنی حد سے بڑھ کر قبول کئے جاتے ہیں حالانکہ قرائن قویہ سے ثابت ہو رہا ہے کہ مسیح جسم کے ساتھ آسمان پر ہرگز نہیں گیا اور نہ آسمان کا لفظ اس آیت میں موجود ہے بلکہ لفظ تو صرف یہ ہے يٰعِيْسٰىۤ اِنِّىْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَىَّ ۱ پھردوسری جگہ ہے بَل رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ۲ جس کے یہ معنے ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے مسیح کو موت دے کر پھر اپنی طرف اٹھا لیا جیسا کہ یہ عام محاورہ ہے کہ نیک بندوں کی نسبت جب وہ مر جاتے ہیں یہی کہا کرتے ہیں کہ فلاں بزرگ کو خدائے تعالیٰ نے ۱ اٰل عمران: ۵۶ ۲ النساء:۱۵۹
اپنی طرف اُٹھا لیا ہے جیساکہ آیت ارْجِعِىْ اِلٰى رَبِّكِ ۱ اسی کی طرف اشارہ کررہی ہے.خدائے تعالیٰ تو ہر جگہ موجود ہے اورحاضر ناظر ہے اور جسم اور جسمانی نہیں اور کوئی جہت نہیں رکھتاپھر کیوں کر کہا جائے کہ جو شخص خدائے تعالیٰ کی طر ف اُٹھایا گیاضرور اس کا جسم آسمان میں پہنچ گیا ہو گا.یہ بات کس قدر صداقت سے بعید ہے راستباز لوگ روح اور روحانیت کی رو سے خدائے تعالیٰ کی طرف اُٹھائے جاتے ہیں نہ یہ کہ اُن کا گوشت او ر پوست اوراُن کی ہڈیاں خدائے تعالیٰ تک پہنچ جاتی ہیں.خدائے تعالیٰ خود ایک آیت میں فرماتا ہے لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُـوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰـكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ ۲ یعنی خدائے تعالیٰ تک گوشت اور خون قربانیوں کا ہرگز نہیں پہنچتا بلکہ اعمال صالحہ کی رُوح جو تقویٰ اور طہارت ہے وہ تمہاری طرف سے پہنچتی ہے.اس تمام تقریر سے ایک سچائی کے طالب کے لئے ایک پوری پوری اطمینان اور تسلّی ملتی ہے کہ جہاں جہاں قرآن شریف اور حدیث میں کسی مجسم چیز کاآسمان سے اتار اجانا لکھا ہے خواہ حضرت مسیح ہیں یا اور چیزیں ،وہ سب الفاظ ظاہر پر ہرگز محمول نہیں ہیں چنانچہ ہمارے علماء بھی ایک مسیح کو باہر نکال کر باقی تمام مقامات میں ظاہر معانی کو باطن کی طرف پھیر لیتے ہیں فقط مسیح کی نسبت کچھ ایسی ضد اورچِڑ ان کی طبیعتوں میں بیٹھ گئی ہے کہ بجُز اس کے راضی نہیں ہوتے کہ اُن کے جسم کو آسمان پر پہنچاویں اورپھر کسی نامعلوم زمانہ میں اُسی جسم کا آسمان سے اُترنا یقین کریں.ہمار ے علماء خدائے تعالیٰ ان کے حال پر رحم کرے ہمارے سیّدومولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ اورشان کو نہیں دیکھتے کہ سب سے زیادہ خدائے تعالیٰ کا انہیں پر فضل تھا مگر باوجودیکہ آنحضرت کے رفع جسمی کے بارہ میں یعنی اس بارہ میں کہ وہ جسم کے سمیت شب معراج میں آسمان کی طرف اُٹھائے گئے تھے تقریبًا تمام صحابہ کا یہی اعتقاد تھا جیسا کہ مسیح کے اُٹھائے جانے کی نسبت اس زمانہ کے لوگ اعتقادرکھتے ہیں یعنی جسم کے ساتھ اُٹھائے جانااورپھرجسم کے ساتھ اترنا ۱ الفجر: ۲۹ ۲ الحج:۳۸
لیکن پھر بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اِس بات کو تسلیم نہیں کرتیں اور کہتی ہیں کہ وہ ایک رویا صالحہ تھی اور کسی نے حضرت عائشہ صدیقہ کا نام نعوذ باللہ مُلحد ہ یا ضالہ نہیں رکھا اور نہ اجماع کے برخلاف بات کرنے سے اُنہیں ٹوٹ کر پڑگئے.اب اے منصفو! اے حق کے طالبو! اے خدائے تعالیٰ سے ڈرنے والے بندو! اس مقام میں ذرہ ٹھہر جاؤ!!!اورآہستگی اور تدبّر سے خوب غورکرو کہ کیا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمان پر جسم کے ساتھ چڑھ جانا اور پھر جسم کے ساتھ اُترنا ایسا عقیدہ نہیں ہے جس پر صدر اوّل کا اجماع تھا اوربعض صحابی جو اس اجماع کے مخالف قائل ہوئے کسی نے اُن کی تکفیر نہیں کی.نہ اُن کا نا م مُلحد اور ضال اور مأوّل مخطی رکھا.پھر یہ بھی دیکھنا چاہیئے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جسمانی معراج کا مسئلہ بالکل مسیح کے جسمانی طورپر آسمان پر چڑھنے اور آسمان سے اُترنے کا ہمشکل ہے اورایک ہمشکل مقدمہ کے بارہ میں بعض صحابہ جلیلہ کا ہماری رائے کے مطابق رائے ظاہر کرنا درحقیقت ایک دوسرے پیرایہ میں ہماری رائے کی تائید ہے یعنی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمانی معراج کی نسبت انکارکرنا درحقیقت اور درپردہ مسیح کے جسمانی رفع و معراج سے بھی انکار ہے.سو ہریک ایسے مومن کے لئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور عزّت مسیح کی عظمت اور عزّت سے برتر اوربہتر سمجھتا ہے طریقِ ادب یہی ہے کہ یہ اعتقادرکھے کہ جو مرتبہ قرب اورکمال کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جائز نہیں وہ مسیح کے لئے بھی بوجہ اولیٰ جائز نہیں ہوگا کیونکہ جس حالت میں مسلمانوں کا عام طورپر یہ مذہب ہے کہ مسیح ابن مریم آخری زمانہ میں ایک اُمّتی بنکر آئے گا.اورمقتدی ہوگا نہ مقتدا یعنی نماز میں.پس اس صورت میں صاف ظا ہر ہے کہ اس شخص کا درجہ کہ جو آخر اُمّتی بن کر آئے گا اُس دوسرے شخص کے درجہ سے نہایت ہی کمتر اورفروتر ہونا چاہیئے جس کو اُمتی کا نبی اور رسول اورپیشواٹھہرایا گیا ہے یعنی ہمارے سیّد و مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم.اور بڑے تعجب کا مقام ہو گا کہ ایک اُمّتی کی وہ تعریفیں کی جائیں
جو اس کے رسول کی نہیں کی گئیں.اوروہ عظمت اس کو دی جائے جو اس کے رسول کو نہیں دی گئی.اوراگر یہ کہو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اُمتی کر کے کہاں پکارا گیا ہے تو میں کہتا ہوں کہ صحیح بخاری کی وہ حدیث دیکھو جس میں اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ موجود ہے.اس میں کچھ شک نہیں کہ منکم کے خطاب کے مخاطب اُمتی لوگ ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے دنیا کے اخیر تک ہوتے رہیں گے.اب ظاہر ہے کہ جب مخاطب صرف اُمّتی لوگ ہیں اوریہ اُمّتیوں کو خوشخبری دی گئی کہ ابن مریم جو آنیوالا ہے وہ تم میں سے ہی ہو گا اور تم میں سے ہی پیدا ہوگا تو دوسرے لفظوں میں اس فقرے کے یہی معنے ہوئے کہ وہ ابن مریم جو آنے والا ہے کوئی نبی نہیں ہوگا بلکہ فقط اُمتی لوگوں میں سے ایک شخص ہو گا.اب سوچنا چاہئے کہ اس سے بڑھ کر اس بات کے لئے اور کیا قرینہ ہو گا کہ ابن مریم سے اس جگہ وہ نبی مراد نہیں ہے جس پر انجیل نازل ہوئی تھی کیونکہ نبوّت ایک عطاء غیرمجذوذ ہے اورنبی کا اس عطا سے محروم و بے نصیب کیا جانا ہرگز جائز نہیں اور اگر فرض کر لیں کہ وہ نبی ہونے کی حالت میں ہی آئیں گے اوربحیثیت نبوّت نزول فرمائیں گے توختم نبوت اس کا مانع ہے.سو یہ قرینہ ایک بڑا بھاری قرینہ ہے بشرطیکہ کسی کے دل و دماغ میں خداداد تقویٰ و فہم موجود ہو.میرے دوست مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب اپنے ایک خط میں مجھے لکھتے ہیں کہ اگرآپ کا مثیل موعود ہونا مان لیاجائے تو پھر بخاری و مسلم و دیگر صحاح نکمی و بے کار ہوجائیں گی اور ایک سخت تفرقہ اُمہات مسائل دین میں پڑے گا.سو اوّل میں ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ یہ میرے دوست وہی مولوی صاحب ہیں کہ جو اپنے اشاعۃ السنۃ نمبر ۷جلدسات ۷میں امکانی طورپر اس عاجز کا مثیل مسیح اورپھر موعودبھی ہونا تسلیم کرچکے ہیں.کیونکہ براہین احمدیہ میں جس کا مولوی صاحب نے ریویو لکھا ہے ان دونوں دعووں کا ذکر ہے یعنی اس عاجز نے براہین میں صاف اورصریح طورپر لکھا ہے کہ یہ عاجز مثیل مسیح ہے اورنیز موعود بھی ہے.جس کے آنے کاوعدہ قرآن شریف اورحدیث میں روحانی طورپر دیا گیا ہے.
اب مجھے مولوی صاحب کے اس بیان پر کہ اس عاجز کے مثیلِ مسیح ماننے سے صحیح بخاری و صحیح مسلم بے کار ہوجائیں گی دینی عقائد میں ابتری پڑجائے گی سخت تعجب ہے کیونکہ میں نے اَب اِن رسالوں میں کوئی نئی بات تو نہیں لکھی.یہ تو وہی پُرانی باتیں ہیں جو مَیں اس سے پہلے براہین احمدیہ میں لکھ چکا ہوں جن کی نسبت مولوی صاحب موصوف اپنے ریویو کے معرض بیان میں سکوت اختیارکرکے اس عاجز کی صداقت دعویٰ کی نسبت شہادت دے چکے ہیں.بلکہ امکانی طورمثیل مسیح ہونا اس عاجز کا اپنے صریح بیان سے تسلیم کر چکے ہیں.ہاں اس رسالہ میں مَیں نے خدائے تعالیٰ سے علم قطعی و یقینی پاکر براہین احمدیہ کے مضمون سے اس قدر زیادہ لکھا ہے کہ مسیح ابن مریم مثالی اورظلّی وجود کے ساتھ آئے گا نہ وہی اصلی مسیح.سو میں نے اجماعی عقیدہ کی (اگر اجماع فرض کیا جائے) ایک تفسیر کی ہے نہ اس کے برخلاف کچھ کہا ہے اور مولوی صاحب کو معلوم ہو گا کہ برخلاف اجماع صحابہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کے دونوں ٹکڑوں کی نسبت یہی رائے ظاہر کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جسم کے ساتھ نہ بیت المقدس میں گئے نہ آسمان پر بلکہ وہ ایک رؤیا صالحہ تھی.اب ظاہر ہے کہ عائشہ صدیقہ کا یہ قول بخاری اورمسلم کا کچھ خلل انداز نہیں ہوا اورنہ صحاح سِتّہ کو اس نے نکما اوربے کار کردیا.تو پھر اس عاجز کے اس دعویٰ اوراس الہام سے صحاح سِتّہ کیوں کر نکمّی اوربے کارہوجائیں گی؟ مسیح کا جسم کے ساتھ آسمان پرجانا کہاں ایسا ثابت ہے جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سو اے میرے عزیز بھائی اس مقام میں تامّل کر اورجلدی نہ کر تامّل کناں درخطا و صواب بہ از ژاژ خایانِ حاضر جواب اور اگر مولوی صاحب یہ عذر پیش کریں کہ ہم نے اگرچہ اپنے ریویو میں امکانی طورپر مثیل مسیح ہونا آپ کا مان لیا ہے اورایسا ہی ظلّی اور روحانی طورپر مسیح موعود ہونا بھی مان لیا لیکن ہم نے یہ کب مانا ہے کہ آپ بہمہ وجوہ ان پیشگوئیوں کے مصداق کامل ہیں جو مسیح ابن مریم کے بارہ میں صحاح میں موجود ہیں.
اس عذر کا جواب یہ ہے کہ اس عاجز کی طرف سے بھی یہ دعویٰ نہیں ہے کہ مسیحیت کا میرے وجود پر ہی خاتمہ ہے اورآئندہ کوئی مسیح نہیں آئے گا بلکہ میں تو مانتا ہوں اور بار بار کہتا ہوں کہ ایک کیا دس ہزا ر سے بھی زیادہ مسیح آسکتا ہے اورممکن ہے کہ ظاہری جلال واقبال کے ساتھ بھی آوے اورممکن ہے کہ اوّل وہ دمشق میں ہی نازل ہو.مگر اے میرے دوست مجھے اس بات کے ماننے اور قبول کرنے سے معذور تصوّر فرمائیے کہ وہی مسیح ابن مریم جو فوت ہوچکا ہے اپنے خاکی جسم کے ساتھ پھر آسمان سے اُترے گا.اسلام اگر چہ خدائے تعالیٰ کو قادرمطلق بیان فرماتا ہے اورفرمودۂ خدااور رسول کو عقل پر فوقیت دیتا ہے مگر پھر بھی وہ عقل کو معطل اوربے کار ٹھہرانانہیں چاہتا اوراگر صاف اورصریح طورپر کوئی امر خلاف عقل کسی الہامی کتاب میں واقع ہو اور ہم اس کے چاروں طرف نظر ڈال کر اس حقیقت تک پہنچ جائیں کہ دراصل یہ امر خلاف عقل ہے برتراز عقل نہیں تو ہمیں شریعت اورکتاب الٰہی ہرگز اجازت نہیں دیتی کہ ہم اس امر غیر معقول کو حقیقت پر حمل کر بیٹھیں بلکہ قرآن شریف میں ہمیں صاف تاکید فرمائی گئی ہے کہ آیات متشابہات یعنی جن کا سمجھنا عقل پر مشتبہ رہے اُن کے ظاہری معانی پر ہرگز زورنہیں دینا چاہیئے کہ درحقیقت یہی مطلب اورمراد خدائے تعالیٰ کی ہے.* بلکہ اس پر ایما ن لانا چاہیئے اور اس کی اصل حقیقت کو *حاشیہ: بعض لوگ موحدین کے فرقہ میں سے بحوالہ آیات قرآنی یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح ابن مریم انواع واقسام کے پرندے بنا کر اور ان میں پھونک مار کر زندہ کر دیا کرتے تھے.چنانچہ اسی بناء پر اس عاجز پر اعتراض کیا ہے کہ جس حالت میں مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ ہے توپھر آپ بھی کوئی مٹی کا پرندہ بناکر پھر اس کو زندہ کر کے دکھلائیے.کیونکہ جس حالت میں حضرت مسیح کے کروڑہا پرندے بنائے ہوئے ابتک موجود ہیں جو ہر طرف پرواز کرتے نظر آتے ہیں تو پھر مثیل مسیح بھی کسی پرندہ کا خالق ہونا چاہیئے.ان تمام اوہام باطلہ کا جواب یہ ہے کہ وہ آیات جن میں ایسا لکھا ہے متشابہات میں سے ہیں اور ان کے یہ معنے کرنا کہ گویا خدا تعالیٰ نے اپنے ارادہ اور اذن سے حضرت عیسیٰ کو صفات خالقیت میں شریک کر رکھا تھا صریح الحاد اور سخت بے ایمانی ہے کیونکہ اگر خدائے تعالےٰ اپنی صفات خاصۂ الوہیت بھی دوسروں کو دے سکتا ہے
حوالہ بخداکردینا چاہیئے.اب دیکھو کہ یہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسی کامل تعلیم ہے کہ اُسی کی برکت سے ہم ہزارہا ایسے جھگڑوں سے نجات پاسکتے ہیں جو قصصِ ماضیہ یا پیشگوئیوں کی نسبت اس زمانہ میں پیداہورہے ہیں کیونکہ ہر یک اعتراض خلاف عقل معنے کو حقیقت پر حمل کرنے سے پیدا ہوتا ہے.پس جبکہ ہم نے اس ضد کو ہی چھوڑ دیا اوراپنے مولیٰ کی ہدایت کے موافق تمام متشابہات میں جن کا سمجھنا عقل پر مشتبہ رہتا ہے یہی اصول مقرر کر رکھا کہ اُن پر اجمالی طورپر ایمان لاویں اوراُن کی اصل حقیقت حوالہ بخدا کریں تو پھر اعتراض کے لئے کوئی بنیاد پیدا نہیں ہو سکتی مثلًا ایک صحیح حدیث میں یہ لکھا ہو کہ اگر دس اور دس کو جمع کریں تو وہ بیس ۲۰ بقیہ حاشیہ: تو اس سے اس کی خدائی باطل ہوتی ہے اور موحد صاحب کا یہ عذر کہ ہم ایسا اعتقاد نہیں رکھتے کہ اپنی ذاتی طاقت سے حضرت عیسیٰ خالق طیور تھے بلکہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ یہ طاقت خدا ئے تعالیٰ نے اپنے اذن اور ارادہ سے اُن کو دے رکھی تھی اور اپنی مرضی سے ان کو اپنی خالقیت کا حصہ دار بنا دیاتھا اور یہ اسکو اختیار ہے کہ جس کو چاہے اپنا مثیل بنا دیو ے قادر مطلق جو ہوا.یہ سراسر مشرکانہ باتیں ہیں اور کفر سے بدتر.اس موحدکو یہ بھی کہا گیا کہ کیا تم اب شناخت کر سکتے ہو کہ ان پرندوں میں سے کونسے ایسے پرندے ہیں جو خدائے اتعالیٰ کے بنائے ہوئے ہیں اورکون سے ایسے پرندے ہیں جو اُن پرندوں کی نسل ہیں جن کے حضرت عیسیٰ خالق ہیں؟تو اس نے اپنے ساکت رہنے سے یہی جواب دیا کہ میں شناخت نہیں کر سکتا.اب واضح رہے کہ اس زمانہ کے بعض موحدین کا یہ اعتقاد کہ پرندوں کے نوع میں سے کچھ تو خدائے تعالےٰ کی مخلوق اور کچھ حضرت عیسیٰ کی مخلوق ہے.سراسر فاسد اور مشرکانہ خیال ہے اور ایسا خیال رکھنے والا بلا شبہ دائرہ اسلام سے خارج ہے.اور یہ عذر کہ ہم حضرت عیسیٰ کو خدا تو نہیں مانتے بلکہ یہ مانتے ہیں کہ خدا ئے تعالےٰ نے بعض اپنی خدائی کی صفتیں انکو عطا کر دی تھیں نہایت مکروہ اور باطل عذر ہے.کیونکہ اگرخدائے تعالیٰ اپنے اذن اور ارادہ سے اپنی خدائی کی صفتیں بندوں کو دے سکتا ہے تو بلاشبہ وہ اپنی ساری صفتیں خدائی کی ایک بندے کودے کر پور اخدابنا سکتاہے.پس اس صورت میں مخلوق پرستوں کے کل مذاہب سچے ٹھہرجائیں گے.اگرخدا تعالیٰ کسی بشرکواپنے اذن اور ارادہ سے خالقیت کی صفت عطا کر سکتا ہے تو پھر وہ اس طرح کسی کو اذن اور ارادہ سے اپنی طرح عالم الغیب بھی بنا سکتا ہے اور اس کو ایسی قوت بخش سکتا ہے جو خدائے تعالے
نہیں بلکہ پندرہ ہوں گے تو ہمیں کیا ضرورت ہے کہ اس حدیث کے مضمو ن کو حقیقت پر حمل کر بیٹھیں اورناحق بیجا ضد کرنے سے مخالفوں سے ہنسی کرائیں.ہمارے لئے قرآن کی تعلیم سے یہ راہ کھلی ہے کہ ہم اس حدیث کو متشابہات میں داخل کریں اورفتنہ سے اپنے تئیں بچاویں لیکن اگر ہم علم میں ایسے راسخ کئے جائیں جو الہامی طورپر ہمیں وہ معقولی راہ دکھلائی جاوے جس سے لوگ مطمئن ہو سکتے ہیں تو پھر کچھ ضرورت نہیں کہ ہم ایسی آیت یا حدیث کو متشابہات میں داخل رکھیں بلکہ اُن معقولی معنوں کو جو الہام کے ذریعہ سے ظاہر ہوئے ہیں شکر کے ساتھ ہم قبول کرلیں گے.بقیہ حاشیہ: کی طرح ہر جگہ حاضر ناظر ہو اور ظاہر ہے کہ اگر خدائی کی صفتیں بھی بندوں میں تقسیم ہوسکتی ہیں تو پھر خدائے تعالےٰ کا وحدہ‘ لاشریک ہونا باطل ہے.جس قدر دنیا میں مخلوق پرست ہیں وہ بھی یہ تو نہیں کہتے کہ ہمارے معبود خداہیں بلکہ ان موحدوں کی طرح ان کا بھی درحقیقت یہی قول ہے کہ ہمارے معبودوں کو خدائے تعالیٰ نے خدائی کی طاقتیں دے رکھی ہیں.ربّ اعلیٰ وبرتر تو وہی ہے اور یہ صرف چھوٹے چھوٹے خدا ہیں.تعجب کہ یہ لوگ یا رسول اللہ کہنا شرک کا کلمہ سمجھ کر منع کرتے ہیں لیکن مریم کے ایک عاجز بیٹے کو خدائی کا حصہ دار بنا رہے ہیں.بھائیو! آپ لوگوں کا دراصل یہی مذہب ہے کہ خدائی بھی مخلوق میں تقسیم ہو سکتی ہے اور خدائے تعالیٰ جس کو چاہتاہے اپنی صفت خالقیت ورازقیت وعا لمیت وقادریت وغیرہ میں ہمیشہ کے لئے شریک کر دیتا ہے تو پھر آپ لوگوں نے اپنے بدعتی بھائیوں سے اس قدر جنگ وجدل کیوں شروع کر رکھی ہے وہ بیچارے بھی تو اپنے اولیاء کو خدا کر کے نہیں مانتے صرف یہی کہتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے اپنے اذن اور ارادہ سے کچھ کچھ خدائی طاقتیں انہیں دے رکھی ہیں اور انہیں طاقتوں کی وجہ سے جو باذن الٰہی انکو حاصل ہیں وہ کسی کو بیٹا دیتے ہیں اور کسی کو بیٹی.اور ہر جگہ حاضر وناظر ہیں.نذریں نیاز یں لیتے ہیں.اور مرادیں دیتے ہیں.اب اگر کوئی طالبِ حق یہ سوال کرے کہ اگر ایسے عقائد سراسر باطل اور مشرکانہ خیالات ہیں تو ان آیات فرقانیہ کے صحیح معنے کیا ہیں جن میں لکھا ہے کہ مسیح ابن مریم مٹی کے پرندے بناکر پُھونک اُن میں مارتا تھا تو وہ باذن الٰہی پرندے ہوجاتے تھے.سو واضح ہو کہ انبیاء کے معجزات دو قسم کے ہوتے ہیں.(۱) ایک وہ جو محض سماوی امورہوتے ہیں
اوراگر یہ کہا جاوے کہ قرآن شریف کے ایسے معنے کرنا کہ جو پہلوں سے منقول نہیں ہیں الحاد ہے جیسے مولوی عبدالرحمان صاحبزادہ مولوی محمد لکھو والہ نے اس عاجز کی نسبت لکھا ہے تو میں کہتا ہوں کہ میں نے کوئی ایسے اجنبی معنے نہیں کئے جو مخالف اُن معنوں کے ہوں جن پر صحابہ کرام اورتابعین اورتبع تابعین کا اجما ع ہو اکثر صحابہ مسیح کا فوت ہوجانا مانتے رہے ، دجّال معہود کا فوت ہوجانا مانتے رہے پھر مخالفانہ اجماع کہاں سے ثابت ہو قرآن شریف میں تیس کے قریب ایسی شہادتیں ہیں جو مسیح ابن مریم کے فوت ہونے پر دلالت بیّن کررہی ہیں غرض یہ بات کہ مسیح جسم خاکی کے سا تھ آسمان پر چڑھ گیا اوراسی جسم کے ساتھ اُترے گا نہایت لغو بقیہ حاشیہ: جن میں انسان کی تدبیراور عقل کو کچھ دخل نہیں ہوتا جیسے شق القمر جو ہمارے سیّد ومولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا اور خدائے تعالیٰ کی غیر محدود قدرت نے ایک راستباز اور کامل نبی کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے اس کو دکھایاتھا.(۲) دوسرے عقلی معجزات ہیں جو اس خارق عادت عقل کے ذریعہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں جو الہام الٰہی سے ملتی ہے جیسے حضر ت سلیمان کا وہ معجزہ جو صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنْ قَوَارِيْرَ ۱ ہے جس کو دیکھ کر بلقیس کو ایمان نصیب ہوا.اب جانناچاہیئے کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرت مسیح کا معجزہ حضرت سلیمان کے معجزہ کی طرح صرف عقلی تھا.تاریخ سے ثابت ہے کہ اُن دنوں میں ایسے امور کی طرف لوگوں کے خیالات جھکے ہوئے تھے کہ جو شعبدہ بازی کی قسم میں سے اور در اصل بے سود اور عوام کر فریفتہ کرنے والے تھے.وہ لوگ جو فرعون کے وقت میں مصر میں ایسے ایسے کام کرتے تھے جو سانپ بنا کر دکھلادیتے تھے اور کئی قسم کے جانور طیارکر کے ان کو زندہ جانوروں کی طرح چلادیتے تھے.وہ حضرت مسیح کے وقت میں عام طور پر یہودیوں کے ملکوں میں پھیل گئے تھے اور یہودیوں نے اُن کے بہت سے ساحر انہ کام سیکھ لئے تھے جیسا کہ قرآن کریم بھی اس بات کا شاہد ہے.سو کچھ تعجب کی جگہ نہیں کہ خدائے تعالےٰ نے حضرت مسیح کو عقلی طور سے ایسے طریق پر اطلاع دے دی ہو جو ایک مٹی کا کھلونا کسی کل کے دبانے یاکسی پھونک مارنے کے طور پر ایسا پرواز کرتا ہو جیسے پرندہ پرواز کرتا ہے یا اگر پرواز نہیں تو پَیروں سے چلتا ہو.کیونکہ حضرت مسیح ابن مریم اپنے باپ یوسف کے ساتھ بائیس ۲۲ برس کی مدّت تک ۱ النمل:۴۵
اوربے اصل بات ہے صحابہ کاہرگز اس پر اجماع نہیں.بھلا اگر ہے تو کم سے کم تین سو یا چارسو صحابہ کا نام لیجئے جو اس بارہ میں اپنی شہادت اداکرگئے ہیں ورنہ ایک یا دوآدمی کے بیان کانام اجماع رکھنا سخت بددیا نتی ہے.ماسوااس کے یہ بھی ان حضرات کی سراسر غلطی ہے کہ قرآن کریم کے معانی کو بزمانہ گذشتہ محدود و مقید سمجھتے ہیں.اگر اس خیال کو تسلیم کرلیا جاوے توپھر قرآن شریف معجزہ نہیں رہ سکتا اوراگر ہو بھی تو شاید ان عربیوں کے لئے جو بلاغت شناسی کا مذاق رکھتے ہیں.جا ننا چاہیئے کہ کھلا کھلا اعجازقرآن شریف کا جو ہرایک قوم اور ہریک اہل زبان پر روشن بقیہ حاشیہ : نجاری کا کام بھی کرتے رہے ہیں اور ظا ہر ہے کہ بڑھئی کاکام درحقیقت ایک ایسا کام ہے جس میں کلوں کے ایجاد کرنے اور طرح طرح کی صنعتوں کے بنانے میں عقل تیز ہوجاتی ہے اور جیسے انسان میں قوےٰ موجود ہوں انہیں کے موافق اعجاز کے طور پر بھی مدد ملتی ہے جیسے ہمارے سیّد ومولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روحا نی قویٰ جو دقائق اور معارف تک پہنچنے میں نہایت تیز وقوی تھے سو انہی کے موافق قرآن شریف کا معجزہ دیا گیاجو جامع جمیع دقائق ومعارف الٰہیہ ہے.پس اس سے کچھ تعجب نہیں کرنا چاہیئے کہ حضرت مسیح نے اپنے داد ا سلیمان کی طرح اس وقت کے مخالفین کو یہ عقلی معجزہ دکھلایا ہو اور ایسا معجزہ دکھانا عقل سے بعید بھی نہیں کیونکہ حال کے زمانہ میں بھی دیکھاجاتا ہے کہ اکثر صنّاع ایسی ایسی چڑیاں بنا لیتے ہیں کہ وہ بولتی بھی ہیں اور ہلتی بھی ہیں اور دُم بھی ہلاتی ہیں اور میں نے سُنا ہے کہ بعض چڑیاں کَلْ کے ذریعہ سے پرواز بھی کرتی ہیں.بمبئی اور کلکتہ میں ایسے کھلونے بہت بنتے ہیں اور یوروپ اور امریکہ کے ملکوں میں بکثرت ہیں اور ہرسال نئے نئے نکلتے آتے ہیں.اور چونکہ قرآن شریف اکثر استعارات سے بھرا ہوا ہے اس لئے ان آیات کے روحانی طور پر معنی بھی کرسکتے ہیں کہ مٹی کی چڑیوں سے مراد وہ اُمّی اور نادان لوگ ہیں جن کو حضرت عیسیٰ نے اپنا رفیق بنایا گویا اپنی صحبت میں لے کر پرندوں کی صورت کا خاکہ کھینچا پھر ہدایت کی روح اُن میں پھونک دی جس سے وہ پرواز کرنے لگے.ماسو ا اس کے یہ بھی قرین قیاس ہے کہ ایسے ایسے اعجاز طریق عمل التِّرب یعنی مسمریزمی طریق
ہوسکتا ہے جس کو پیش کر کے ہم ہریک ملک کے آدمی کو خواہ ہندی ہو یا پارسی یا یوروپین یا امریکن یا کسی اَورملک کا ہو ملزم و ساکت و لاجواب کرسکتے ہیں.وہ غیرمحدود معار ف و حقائق و علوم حکمیہ قرآنیہ ہیں جو ہر زمانہ میں اس زمانہ کی حاجت کے موافق کھلتے جاتے ہیں اورہر یک زمانہ کے خیالات کو مقابلہ کرنے کے لئےُ مسلّح سپاہیوں کی طرح کھڑے ہیں اگر قرآ ن شریف اپنے حقائق و دقائق کے لحاظ سے ایک محدود چیزہوتی تو ہرگز و ہ معجزہ تامّہ نہیں ٹھہر سکتا تھا.فقط بلاغت و فصاحت ایسا امر نہیں ہے جس کی اعجازی کیفیت ہریک خواندہ ناخواندہ کو معلوم ہوجائے کھلا کھلا اعجاز اس کا تو یہی ہے کہ وہ غیر محدود معارف و دقائق بقیہ حاشیہ : سے بطور لہو ولعب نہ بطور حقیقت ظہور میں آسکیں کیونکہ عمل التِّرب میں جس کو زمانۂ حال میں مسمریزم کہتے ہیں ایسے ایسے عجائبات ہیں کہ اس میں پوری پوری مشق کرنے والے اپنی روح کی گرمی دوسری چیزوں پر ڈال کر ان چیزوں کو زندہ کے موافق کردکھاتے ہیں.انسان کی روح میں کچھ ایسی خاصیت ہے کہ وہ اپنی زندگی کی گرمی ایک جماد پر جو بالکل بے جان ہے ڈال سکتی ہے.تب جماد سے وہ بعض حرکات صادر ہوتی ہیں جو زندوں سے صادر ہؤا کرتی ہیں.راقم رسالہ ہذا نے اس علم کے بعض مشق کرنے والوں کو دیکھا ہے جو انہوں نے ایک لکڑی کی تپائی پر ہاتھ رکھ کر ایسا اپنی حیوانی روح سے اُسے گرم کیا کہ اس نے چارپایوں کی طرح حرکت کرنا شروع کر دیا اور کتنے آدمی گھوڑے کی طرح اس پر سوا ر ہوئے اور اسکی تیزی اور حرکت میں کچھ کمی نہ ہوئی.سو یقینی طور پر خیال کیاجاتا ہے کہ اگر ایک شخص اس فن میں کامل مشق رکھنے والا مٹی کا ایک پرند بنا کر اس کو پرواز کرتا ہؤا بھی دکھا دے تو کچھ بعید نہیں کیونکہ کچھ اندازہ نہیں کیا گیا کہ اس فن کے کما ل کی کہاں تک انتہاء ہے.اور جبکہ ہم بچشم خود دیکھتے ہیں کہ اس فن کے ذریعہ سے ایک جماد میں حرکت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ جانداروں کی طرح چلنے لگتا ہے تو پھر اگر اس میں پرواز بھی ہو تو بعید کیا ہے.مگر یاد رکھنا چاہیئے کہ ایسا جانور جو مٹی یالکڑی وغیرہ سے بنایا جاوے اور عمل التِّرب سے اپنی روح کی گرمی اس کو پہنچائی جا ئے وہ درحقیقت زندہ نہیں ہوتا بلکہ بدستور بے جان اور جماد ہوتا ہے صرف عامل کے روح کی گرمی بارُوت۱ کی طرح اُس کو جنبش میں لاتی ہے.اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ ان پرندوں کا پرواز کرنا قرآن شریف سے ۱ اسے آجکل ’’بارود‘‘ لکھا جاتا ہے (ناشر)
اپنے اندر رکھتا ہے.جو شخص قرآن شریف کے اس اعجاز کو نہیں مانتا و ہ علمِ قرآن سے سخت بے نصیب ہے ومن لم یؤمن بذالک الاعجاز فواللہ ما قدرالقر آن حق قدرہ وما عرف اللّٰہ حق معرفتہ وما وقر الرسول حق توقیرہ.اے بندگانِ خدا !یقینایاد رکھو کہ قرآن شریف میں غیر محدود معارف و حقا ئق کا اعجاز ایسا کامل اعجاز ہے جس نے ہرایک زمانہ میں تلوار سے زیادہ کام کیا ہے اور ہر یک زمانہ اپنی نئی حا لت کے ساتھ جو کچھ شبہات پیش کر تا ہے یا جس قسم کے اعلیٰ معارف کا دعویٰ کرتا ہے اس کی پوری مدافعت اور پورا الزام اور پورا پورا مقا بلہ قر آن شریف میں موجود ہے کو ئی شخص بقیہ حاشیہ : ہرگز ثابت نہیں ہوتا بلکہ ان کا ہلنا اور جنبش کرنا بھی بپایہ ثبوت نہیں پہنچتا اورنہ درحقیقت ان کا زندہ ہوجانا ثابت ہوتا ہے.اس جگہ یہ بھی جاننا چاہیئے کہ سلبِ امراض کرنا یا اپنی روح کی گرمی جماد میں ڈال دینا درحقیقت یہ سب عمل التِّرب کی شاخیں ہیں.ہر یک زمانہ میں ایسے لوگ ہوتے رہے ہیں اور اب بھی ہیں جو اس روحانی عمل کے ذریعہ سے سلبِ امراض کرتے رہے ہیں اور مفلوج ، مبروص، مدقوق وغیرہ ان کی توجہ سے اچھے ہوتے رہے ہیں.جن لوگوں کی معلومات وسیع ہیں وہ میرے اس بیان پر شہادت دے سکتے ہیں کہ بعض فقراء نقشبندی وسُہر وردی وغیرہ نے بھی ان مشقوں کی طرف بہت توجہ کی تھی اور بعض ان میں یہاں تک مشّاق گذرے ہیں کہ صدہا بیماروں کو اپنے یمین ویسا ر میں بٹھا کر صرف نظرسے اچھا کر دیتے تھے اور محی الدین ابن عربی صاحب کو بھی اس میں خاص درجہ کی مشق تھی.اولیاء اور اہل سلوک کی تواریخ اور سوانح پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کاملین ایسے عملوں سے پرہیز کرتے رہے ہیں مگر بعض لوگ اپنی ولایت کا ایک ثبوت بنانے کی غرض سے یا کسی اور نیت سے ان مشغلوں میں مبتلا ہوگئے تھے.اور اب یہ بات قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہو چکی ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم باذن وحکم الٰہی الیسع نبی کی طرح اس عمل التِّرب میں کمال رکھتے تھے گو الیسع کے درجہ کاملہ سے کم رہے ہوئے تھے.کیونکہ الیسع کی لاش نے بھی معجزہ دکھلایا کہ اس کی ہڈیوں کے لگنے سے ایک مردہ زندہ ہوگیا مگر چوروں کی لاشیں مسیح کے جسم کے ساتھ لگنے سے ہرگز زندہ نہ ہوسکیں.یعنی وہ دو چور جو مسیح کے ساتھ مصلوب ہوئے تھے.بہرحال مسیح کی یہ تربی کارروائیاں زمانہ کے مناسب حال بطور خاص مصلحت کے تھیں.مگر یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ عمل ایسا قدر کے لائق نہیں.جیسا کہ
برہمو یا بدھ مذہب والا یا آریہ یا کسی اور رنگ کا فلسفی کو ئی ایسی الٰہی صداقت نکال نہیں سکتا جو قرآن شریف میں پہلے سے موجود نہ ہو.قرآن شریف کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہو سکتے اور جس طرح صحیفۂ فطرت کے عجائب و غرائب خواص کسی پہلے زمانہ تک ختم نہیں ہو چکے بلکہ جدید درجدید پیدا ہوتے جاتے ہیں یہی حال ان صحفِ مطہرّہ کا ہے تا خدائے تعالیٰ کے قول اور فعل میں مطابقت ثابت ہو اورمیَں اس سے پہلے لکھ چکا ہوں کہ قرآن شریف کے عجائبات اکثر بذریعہ الہام میرے پر کھلتے ر ہتے ہیں اور اکثر ایسے ہو تے ہیں کہ تفسیروں میں اُن کا نام و نشان نہیں پایا جاتا.مثلاًیہ جو اس عاجز پر کھلا ہے کہ ابتدائے خلقتِ آدم سے جس قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بقیہ حاشیہ : عوام الناس اس کو خیال کرتے ہیں.اگر یہ عاجز اس عمل کومکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو خدا تعالیٰ کے فضل وتوفیق سے امید قوی رکھتا تھا کہ ان اعجوبہ نمائیوں میں حضرت مسیح ابن مریم سے کم نہ رہتا.لیکن مجھے وہ روحانی طریق پسند ہے جس پر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قدم مارا ہے اور حضرت مسیح نے بھی اس عمل جسمانی کو یہودیوں کے جسمانی اور پست خیالات کی وجہ سے جو ان کی فطرت میں مرکوزتھے باذن وحکم الٰہی اختیار کیاتھا ورنہ دراصل مسیح کو بھی یہ عمل پسند نہ تھا.واضح ہو کہ اس عمل جسمانی کا ایک نہایت بُراخاصہ یہ ہے کہ جوشخص اپنے تئیں اس مشغولی میں ڈالے اور جسمانی مرضوں کے رفع دفع کرنے کے لئے اپنی دلی ودماغی طاقتوں کو خرچ کرتا رہے وہ اپنی اُن روحانی تاثیروں میں جو روح پر اثر ڈال کر روحانی بیماریوں کو دورکرتی ہیں بہت ضعیف اور نکماہوجاتا ہے اور امر تنویر باطن اور تزکیہ نفوس کاجو اصل مقصد ہے اس کے ہاتھ بہت کم انجام پذیر ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ گوحضرت مسیح جسمانی بیماروں کو اس عمل کے ذریعہ سے اچھا کرتے رہے مگر ہدایت اورتوحید اور دینی استقامتوں کے کامل طور پر دلوں میں قائم کرنے کے بارے میں انکی کارروائیوں کا نمبر ایسا کم درجہ کار ہا کہ قریب قریب ناکام کے رہے لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ ان جسمانی امور کی طرف توجہ نہیں فرمائی اور تمام زور اپنی روح کادلوں میں ہدایت پیدا ہونے کیلئے ڈالا اسی وجہ سے تکمیل نفوس میں سب سے بڑھ کر رہے اور ہزارہا بندگانِ خدا کو کمال کے درجہ تک پہنچادیا اوراصلاح خلق اوراندرونی تبدیلیوں میں وہ یدِ بیضا دکھلایا کہ جس کی ابتدائے دنیا سے آج تک نظیر نہیں پائی جاتی.حضرت مسیح کے عمل التِّرب سے وہ مردے جو زندہ ہوتے تھے یعنی وہ قریب المرگ آدمی جو گویانئے سرے زندہ ہوجاتے تھے وہ بلاتوقف
کے زمانہ بعثت تک مدّت گزری تھی وہ تمام مدت سورۃ والعصر کے اعداد حروف میں بحساب قمری مندرج ہے یعنی چار ہزار سات سو چالیس ۴۷۴۰.اب بتلاؤکہ یہ دقائق قرآنیہ جس میں قر آن کریم کا اعجاز نمایا ں ہے کس تفسیر میں لکھے ہیں.ایسا ہی خدائے تعالیٰ نے میرے پر یہ نکتہ معارف قرآنیہ کا ظاہر کیاکہ اِنَّا اَنْزَلْنٰهُ فِىْ لَيْلَةِ الْقَدْرِۚ ۱ کے صرف یہی معنے نہیں کہ ایک بابرکت رات ہے جس میں قرآن شریف اُترا بلکہ باوجودا ن معنوں کے جو بجائے خود صحیح ہیں اس آیت کے بطن میں دوسرے معنے بھی ہیں جو رسالہ فتح اسلام میں درج کئے گئے ہیں.اب فرمائیے کہ یہ تمام معارفِ حقہ کس تفسیر میں موجود ہیں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ قرآن شریف کے ایک معنے کے ساتھ بقیہ حاشیہ : چند منٹ میں مرجاتے تھے کیونکہ بذریعہ عمل التِّرب روح کی گرمی اور زندگی صرف عارضی طور پران میں پیدا ہوجاتی تھی مگر جن کوہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زندہ کیا وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے اور یہ جو میں نے مسمریزمی طریق کا عمل التِّرب نام رکھا جس میں حضرت مسیح بھی کسی درجہ تک مشق رکھتے تھے یہ الہامی نام ہے اور خدا ئے تعالےٰ نے مجھ پر ظاہر کیا کہ یہ عمل الترب ہے اوراس عمل کے عجائبات کی نسبت یہ الہام ہؤا ھٰذا ھو الترب الذی لایعلمون یعنی یہ وہ عمل الترب ہے جس کی اصل حقیقت کی زمانہ حال کے لوگوں کوکچھ خبر نہیں.ورنہ خدائے تعالیٰ اپنی ہر یک صفت میں واحد لاشریک ہے اپنی صفات الوہیت میں کسی کو شریک نہیں کرتا.فرقان کریم کی آیات بیّنات میں اس قدر اس مضمون کی تاکید پائی جاتی ہے جو کسی پر مخفی نہیں جیسا کہ وہ عزّا سمہ‘ فرماتا ہے الَّذِىْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ يَكُنْ لَّهٗ شَرِيْكٌ فِىْ الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِيْرًا وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اٰلِهَةً لَّا يَخْلُقُوْنَ شَيْـًٔـا وَّهُمْ يُخْلَقُوْنَ وَلَا يَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا وَّلَا يَمْلِكُوْنَ مَوْتًا وَّلَا حَيٰوةً وَّلَا نُشُوْرًا ۲ سورۃالفرقان الجزو۱۸یعنی خدا وہ خدا ہے جو تمام زمین وآسمان کا اکیلامالک ہے کوئی اس کا حصہ دار نہیں.اس کا کوئی بیٹا نہیں اور نہ اس کے ملک میں کوئی اُس کا شریک اور اسی نے ہر ایک چیز کو پیدا کیا اور پھر ایک حد تک اس کے جسم اور اس کی طاقتوں اوراس کی عمر کو محدود کر دیا اور مشرکوں نے بجز اس خدائے حقیقی کے اَور اَور ایسے ایسے خدا مقررکر رکھے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے بلکہ آپ پیداشدہ اور مخلوق ہیں اپنے ضرر اور نفع کے مالک نہیں ہیں اورنہ موت اور زندگی اورجی اُٹھنے کے مالک ہیں ۱ القدر ۲ ۲ الفرقان: ۳، ۴
اگردوسرے معنی بھی ہوں تو ان دونو ں معنو ں میں کوئی تناقض پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہدایتِ قرآنی میں کوئی نقص عائد حال ہو تا ہے بلکہ ایک نور کے ساتھ دوسرا نور مل کر عظمت فرقانی کی روشنی نمایاں طور پردکھائی دیتی ہے اور چونکہ زمانہ غیر محدود انقلابات کی وجہ سے غیر محدود خیالات کا بالطبع محرک ہے لہذ ا اس کا نئے پیرایہ میں ہوکر جلوہ گر ہونا یا نئے نئے علوم کو بمنصۂ ظہور لانا نئے نئے بد عات اور مُحدثات کو دکھلا نا ایک ضروری امر اس کے لئے پڑاہوا ہے.اب اس حالت میں ایسی کتاب جو خاتم الکتب ہو نے کا دعوٰی کر تی ہے اگر زمانہ کے ہر یک رنگ کے ساتھ مناسب حال اس کا تدارک نہ کرے تو وہ ہرگز خاتم الکتب نہیں بقیہ حاشیہ : اب دیکھو خدا ئے تعالیٰ صاف صاف طور پر فرما رہا ہے کہ بجُز میرے کوئی اور خالق نہیں بلکہ ایک دوسری آیت میں فرماتا ہے کہ تمام جہان مل کر ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتا.اورصاف فرماتا ہے کہ کوئی شخص موت اورحیات اورضرر اور نفع کا مالک نہیں ہوسکتا.اس جگہ ظاہر ہے کہ اگر کسی مخلوق کو موت اور حیات کا مالک بنادینااور اپنی صفات میں شریک کر دینا اس کی عادت میں داخل ہوتا تو وہ بطور استثناء ایسے لوگوں کو ضرور باہر رکھ لیتا اور ایسی اعلیٰ توحید کی ہمیں ہرگز تعلیم نہ دیتا.اگر یہ وسواس دل میں گذرے کہ پھر اللہ جلَّشانہ‘ نے مسیح ابن مریم کی نسبت اس قصہ میں جہاں پرندہ بنانے کا ذکر ہے تخلقکالفظ کیوں استعمال کیا جس کے بظاہریہ معنے ہیں کہ تُو پیدا کرتاہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ حضرت عیسیٰ کو خا لق قرار دینا بطور استعارہ ہے جیسا کہ اس دوسری آیت میں فرمایا ہے فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ ۱ بلا شبہ حقیقی اور سچا خالق خدائے تعالےٰ ہے.اور جولوگ مٹی یالکڑی کے کھلونے بناتے ہیں وہ بھی خالق ہیں مگر جھوٹے خالق جن کے فعل کی اصلیت کچھ بھی نہیں.اور اگر یہ کہا جائے کہ کیوں بطور معجزہ جائز نہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام اذن اورارادہ الٰہی سے حقیقت میں پرندے بنا لیتے ہوں اور وہ پرندے ان کی اعجازی پھونک سے پرواز کر جاتے ہوں تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ اپنے اذن اور ارادہ سے کسی شخص کو موت اور حیات اور ضرر اور نفع کا مالک نہیں بناتا.نبی لوگ دعا اور تضرع سے معجزہ مانگتے ہیں.معجزہ نمائی کی ایسی قدرت نہیں رکھتے جیسا کہ انسا ن کوہاتھ پَیر ہلانے کی قدرت ہوتی ہے.غرض معجزہ کی حقیقت اور مرتبہ سے یہ امر بالاتر ۱ المؤمنون:۱۵ ؕ
ٹھہر سکتی اور اگر اس کتاب میں مخفی طور پر وہ سب سامان موجود ہے جو ہر یک حالتِ زمانہ کے لئے درکار ہے تو اس صورت میں ہمیں ماننا پڑے گا کہ قرآن شریف بلاریب غیر محدود معارف پر مشتمل ہے اور ہر یک زمانہ کی ضروراتِ لاحقہ کاکامل طور پر متکفّل ہے.اب یہ بھی یاد رہے کہ عادت اللہ ہر یک کا مل مُلہم کے ساتھ یہی رہی ہے کہ عجائباتِ مخفیہ فرقان اس پر ظاہر ہو تے رہے ہیں بلکہ بسا اوقات ایک ملہم کے دل پر قرآن شریف کی آیت الہام کے طو ر پر القا ہو تی ہے اور اصل معنی سے پھیر کر کوئی اور مقصود اس سے ہو تا ہے.جیسا کہ مولوی عبداللہ صاحب مرحوم غزنوی اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں کہ مجھے ایک مرتبہ بقیہ حاشیہ :اور ان صفات خا صہ خدائے تعالےٰ میں سے ہے جو کسی حالت میں بشر کو مل نہیں سکتیں.معجزہ کی حقیقت یہ ہے کہ خدائے تعالےٰ ایک امر خارق عادت یا ایک امر خیال اور گمان سے باہر اور امید سے بڑھکر ایک اپنے رسول کی عزت اور صداقت ظاہر کرنے کے لئے اور اس کے مخالفین کے عجز اورمغلوبیت جتلانے کی غرض سے اپنے ارادہ خاص سے یا اس رسول کی دعا اوردرخواست سے آپ ظاہر فرماتا ہے مگر ایسے طور سے جو اس کی صفات وحدانیت وتقدّس وکمال کے منافی ومغائر نہ ہو اور کسی دوسرے کی وکالت یاکارسازی کا اس میں کچھ دخل نہ ہو.اب ہر یک دانشمند سوچ سکتا ہے کہ یہ صورت ہرگز معجزہ کی صورت نہیں کہ خدائے تعالےٰ دائمی طورپر ایک شخص کو اجازت اور اذن دیدے کہ تو مٹی کے پرندے بناکر پھونک مارا کر وہ حقیقت میں جانو ر بن جایا کریں گے اور ان میں گوشت او رہڈی اور خون اور تمام اعضا جانوروں کے بن جائیں گے.ظاہر ہے کہ اگر خدائے تعالےٰ پرندو ں کے بنانے میں اپنی خالقیت کا کسی کو وکیل ٹھہرا سکتا ہے تو تمام امور خالقیت میں وکالتِ تامّہ کاعہدہ بھی کسی کودے سکتا ہے.اس صورت میں خدائے تعالیٰ کی صفات میں شریک ہوناجائز ہوگاگو اس کے حکم اور اذن سے ہی سہی اورنیز ایسے خالقوں کے سامنے اور فتشابہ الخلق علیہم کی مجبور ی سے خالق حقیقی کی معرفت مشتبہ ہوجائے گی.غرض یہ اعجاز کی صورت نہیں یہ تو خدائی کا حصہ دار بنانا ہے.بعض دانشمند شرک سے بچنے کے لئے یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ حضرت مسیح جو پرندے بناتے تھے وہ بہت دیر تک جیتے نہیں تھے ان کی عمر چھوٹی ہوتی تھی تھوڑی مسافت تک پرواز کر کے پھر گرکرمرجاتے تھے.
الہام ہوا قلنا یا نار کونی بردًا وَّ سلامًا.مگر میں اس کے معنے نہ سمجھا پھر الہا م ہوا قلنا یا صبر کونی بردا و سلا ما تب میں سمجھ گیا کہ نار سے مراد اس جگہ صبر ہے اور پھر فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے الہام ہوا رب ادخلنی مد خل صدق و اخرجنی مخرج صدق اور اس سے مراد اصلی معنی نہیں تھے بلکہ یہ مراد تھی کہ مولوی صاحب کو ہستان ریاست کابل سے پنجاب کے ملک میں بزیر سایہ سلطنت برطانیہ آجائیں گے.اسی طرح انہوں نے اپنے الہامات میں کئی آیات فرقانی لکھی ہیں اور اُن کے اصلی معنے چھوڑ کر کوئی اور معنے مراد لئے ہیں.بقیہ حاشیہ : لیکن یہ عذر بالکل فضول ہے اور صر ف اس حالت میں ماننے کے لائق ہے کہ جب یہ اعتقاد رکھاجائے کہ ان پرندوں میں واقعی اورحقیقی حیات پیدا نہیں ہوتی تھی بلکہ صرف ظلّی اور مجازی اور جھوٹی حیات جو عمل الترب کے ذریعہ سے پیداہوسکتی ہے ایک جھوٹی جھلک کی طرح ان میں نمودار ہوجاتی تھی.پس اگر اتنی ہی بات ہے تو ہم اسکو پہلے سے تسلیم کر چکے ہیں ہمارے نزدیک ممکن ہے کہ عمل الترب کے ذریعہ سے پھونک کی ہوا میں وہ قوت پیدا ہو جائے جو اس دُخان میں پیدا ہوتی ہے جس کی تحریک سے غبارہ اوپر کو چڑھتا ہے.صانع فطرت نے اس مخلوقات میں بہت کچھ خواص مخفی رکھے ہوئے ہیں.ایک شریک صفات باری ہونا ممکن نہیں اور کونسی صنعت ہے جو غیر ممکن ہے؟.اور ا گر یہ اعتقا د رکھاجائے کہ اُن پرندوں میں واقعی اور حقیقی حیات پیدا ہوجاتی تھی اورسچ مچ اُن میں ہڈیاں گوشت پوست خون وغیرہ اعضا بن کر جان پڑجاتی تھی تو اس صورت میں یہ بھی ماننا پڑیگا کہ اُن میں جاندار ہونے کے تمام لوازم پیدا ہوجاتے ہوں گے اور وہ کھانے کے بھی لائق ہوتے ہونگے اور اُن کی نسل بھی آج تک کروڑہا پرندے زمین پر موجود ہوں گے اور کسی بیماری سے یاشکاری کے ہاتھ سے مرتے ہونگے تو ایسا اعتقاد بلاشبہ شرک ہے.بہت لوگ اس وسوسہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ اگر کسی نبی کے دعا کرنے سے کوئی مردہ زندہ ہوجائے یا کوئی جماد جانداربن جائے تو اس میں کونسا شرک ہے.ایسے لوگوں کو جاننا چاہیئے کہ اس جگہ دعا کا کچھ ذکر نہیں اوردعا قبول کرنا یا نہ کرنا اللہ جلّ شانُہ‘ کے اختیار میں ہوتا ہے اور دعا پر جوفعل مترتب ہوتا ہے وہ فعل الٰہی ہوتا ہے نبی کا اس میں کچھ دخل نہیں ہوتااور نبی خواہ دعا کرنے کے بعدفوت ہوجائے نبی کے موجودہونے یا نہ ہونے کی اس میں کچھ حاجت نہیں ہوتی.غرض نبی کی طرف سے صرف دعا ہوتی ہے جو کبھی قبول اور کبھی ردّ بھی ہوجاتی ہے لیکن اس جگہ وہ صورت نہیں.اناجیل اربعہ کے دیکھنے سے
اُن کے بعض مکتوبات اس عاجز کے پاس موجود ہیں انشاء اللہ بوقت ضرورت شائع کئے جائیں گے.اب مولوی عبد الرحمان صاحب براہ مہربانی بیان فرماویں کہ جبکہ سلف صالح کے بر خلاف قرآن شریف کے معنے کرنے سے انسان مُلحد ہو جاتا ہے اور اسی وجہ سے یہ عاجز بھی اُن کی نظر میں مُلحد ہے کہ خدائے تعالیٰ کے الہام سے بعض آیات کے معانی مخفی ظاہر کرتا ہے تو پھر مولوی عبداللہ صاحب مرحوم غزنوی کی نسبت جو اُن کے مرشد ہیں کیا فتویٰ ہے؟ بقیہ حاشیہ : صاف ظاہر ہے کہ مسیح جو جو کام اپنی قوم کو دکھلاتا تھا وہ دعا کے ذریعہ سے ہرگز نہیں تھے اور قرآن شریف میں بھی کسی جگہ یہ ذکر نہیں کہ مسیح بیماروں کے چنگا کرنے یاپرندوں کے بنانے کے وقت دعا کرتاتھا بلکہ وہ اپنی روح کے ذریعہ سے جس کو روح القدس کے فیضان سے برکت بخشی گئی تھی ایسے ایسے کام اقتداری طور پر دکھاتا تھا چنانچہ جس نے کبھی اپنی عمر میں غور سے انجیل پڑھی ہوگی وہ ہمارے اس بیان کی بہ یقین تمام تصدیق کریگا اور قرآن شریف کی آیات بھی بآواز بلند یہی پکار رہی ہیں کہ مسیح کے ایسے عجائب کاموں میں اسکوطاقت بخشی گئی تھی اور خدائے تعالےٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ وہ ایک فطرتی طاقت تھی جو ہریک فرد بشر کی فطرت میں مودّع ہے مسیح سے اس کی کچھ خصوصیت نہیں.چنانچہ اس بات کا تجزیہ اسی زمانہ میں ہو رہا ہے.مسیح کے معجزات تو اس تالاب کی وجہ سے بے رونق اور بے قدر تھے جو مسیح کی ولادت سے بھی پہلے مظہرِ عجائبات تھا جس میں ہر قسم کے بیمار اور تمام مجذوم مفلوج مبروص وغیرہ ایک ہی غوطہ مار کر اچھے ہوجاتے تھے لیکن بعد کے زمانوں میں جو لوگوں نے اس قسم کے خوارق دکھلائے اُس وقت تو کوئی تالاب بھی موجود نہیں تھا.غرض یہ اعتقادبالکل غلط اور فاسد اور مشرکانہ خیال ہے کہ مسیح مٹی کے پرندے بنا کر اوراُن میں پھونک مار کر انہیں سچ مچ کے جانور بنادیتا تھا.نہیں بلکہ صرف عمل الترب تھا جو روح کی قوت سے ترقی پذیرہوگیا تھا.یہ بھی ممکن ہے کہ مسیح ایسے کام کے لئے اس تالاب کی مٹی لاتا تھا جس میں روح القدس کی تاثیر رکھی گئی تھی.بہرحال یہ معجزہ صرف ایک کھیل کی قسم میں سے تھا اور وہ مٹی درحقیقت ایک مٹی ہی رہتی تھی.جیسے سامری کاگوسالہ.فتدبّر.فانہ نکتۃ جلیلۃ ما یلقّٰھا اِلّا ذوحظٍ عظیم.منہ
جن کو ایسے ایسے الہام بھی ہوگئے کہ جو آیتیں خاص پیغمبروں کے حق میں تھیں وہ اُ مّتی لوگوں کے حق میں قرار دے دیں.چنانچہ دودفعہ بعض وہ آیتیں جو صحابہ کبارکے حق میں قرآن کریم میں تھیں اس عاجز کی طرف اپنے خط میں لکھ کر بھیج دیں کہ آپ کی نسبت مجھے یہ الہام ہوا ہے انہیں میں سے یہ آیات بھی ہیں (۱) قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰٮهَا ۱ (۲) اَنْتَ مَوْلٰٮنَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ ۲ اوریہ عاجز کہ جو مولوی عبداللہ غزنوی مرحوم سے محبت اورحُسن ظن رکھتا ہے تو درحقیقت اس کی یہی وجہ ہے کہ اُن کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا کہ یہ عاجز من جانب اللہ مامورہونے والا ہے اورانہوں نے کئی خط لکھے اوراپنے الہاماتِ متبرکہ ظاہرکئے اوربعض لوگوں کے پاس اس بارے میں بیان بھی کیا اورعالمِ کشف میں بھی اپنی یہ مراد ظاہرکی.اُن سوالوں کے جوابات جو متفرق طورپرلوگ پیش کرتے ہیں سوال.مسیح ابن مریم کافوت ہونا قرآن شریف سے کہاں ثابت ہوتا ہے بلکہ یہ دونوں فقرے آیات کے یعنی رَافِعُکَ اِلَیَّ اور بَلْ رَّفَعَہٗ اللّٰہُ اِلَیْہِ دلالت کررہے ہیں کہ مسیح جسم کے ساتھ آسمان کی طرف اٹھایا گیا.ایسا ہی یہ آیت کہ وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ وَلٰـكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ۳ اسی پر دلالت کررہی ہے کہ مسیح نہ مصلوب ہوا اورنہ مقتول ہوا.الجواب.پس واضح ہو کہ خدائے تعالیٰ کی طرف اُٹھائے جانے کے یہی معنے ہیں کہ فوت ہوجانا.خدائے تعالیٰ کا یہ کہنا کہ ارْجِعِىْ اِلٰى رَبِّكِ ۴ اوریہ کہنا کہ اِنِّىْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَىَّ ۵ ایک ہی معنے رکھتا ہے.سوا اس کے جس وضاحت اورتفصیل اورتوضیح کے ساتھ قرآن شریف میں مسیح کے فوت ہوجانے کا ذکر ہے اس سے بڑھ کر متصوّر نہیں کیونکہ خداوند عزّوجلّ نے ۱ الشمس:۱۰ ۲ البقرہ:۲۸۷ ۳ النساء: ۱۵۸ ۴ الفجر:۲۹ ۵ اٰل عمران:۵۶
عام اورخاص دونوں طورپر مسیح کا فوت ہوجانا بیان فرمایا ہے عام طورپرجیساکہ وہ فرماتا ہےوَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُؕ اَفَا۟يِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ ۱ یعنی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) صرف ایک رسول ہے اور اس سے پہلے ہریک رسول جو آیا وہ گذرگیا اورانتقال کرگیا اب کیا تم اس رسول کے مرنے یا قتل ہوجانیکی وجہ سے دین اسلام چھوڑدوگے ؟ اب دیکھو یہ آیت جو استدلالی طورپرپیش کی گئی ہے صریح دلالت کرتی ہے کہ ہر یک رسول کو موت پیش آتی رہی ہے خواہ وہ موت طبعی طورپر ہو یا قتل وغیرہ سے اور گذشتہ نبیوں میں سے کوئی ایسا نبی نہیں جو مرنے سے بچ گیا ہو.سو اس جگہ ناظرین ببداہت سمجھ سکتے ہیں کہ اگر حضرت مسیح جو گذشتہ رسولوں میں سے ایک رسول ہیں اب تک مرے نہیں بلکہ زندہ آسمان پر اُٹھائے گئے تو اس صورت میں مضمون اس آیت کا جو عام طورپرہر یک گذشتہ نبی کے فوت ہونے پر دلالت کررہا ہے صحیح نہیں ٹھہر سکتا بلکہ یہ استدلال ہی لغو اورقابلِ جرح ہوگا.پھردوسری آیت جو عام استدلال کے طریق سے مسیح ابن مریم کے فوت ہوجانے پر دلالت کرتی ہے یہ آیت ہےوَمَا جَعَلْنٰهُمْ جَسَدًا لَّا يَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوْا خٰلِدِيْنَ ۲ یعنی کسی نبی کا ہم نے ایسا جسم نہیں بنایا جوکھانے کا محتاج نہ ہو اوروہ سب مرگئے کوئی اُن میں سے باقی نہیں.ایسا ہی عام طورپر یہ بھی فرمایا وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُـلْدَؕ اَفَا۟ئِن مِّتَّ فَهُمُ الْخٰـلِدُوْنَ كُلُّ نَفْسٍ ذَآٮِٕقَةُ الْمَوْتِ ۳پھر تیسر ی آیت جو عام استدلال کے طریق سے مسیح کے فوت ہوجانے پر دلالت کرتی ہے یہ آیت ہے وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْـًٔـا ۴سورۃ الحج الجزو ۱۷.یعنی اے بنی آدم ! تم دوگروہ ہو.ایک وہ جو پِیرانہ سالی سے پہلے فوت ہوجاتے ہیں یعنی پِیر فرتوت ہوکر نہیں مرتے بلکہ پہلے ہی مرجا تے ہیں.دو سراوہ گروہ جواس قدر بڈھے ہوجاتے ہیں جو ایک ارذل حالت زندگی کی جو قابل نفرت ہے اُن میں ۱ اٰل عمران: ۱۴۵ ۲ الانبیاء:۹ ۳ الانبیاء: ۳۵ ،۳۶ ۴ الحج:۶
پیدا ہوجاتی ہے یہاں تک کہ عالم اورصاحبِ عقل ہونے کے بعد سراسر نادان بچے کی طرح بن جاتے ہیں اور تمام عمر کا آموختہ بیک دفعہ سب بھول جاتا ہے.اب چونکہ خدائے تعالیٰ نے طرز حیات کے بارے میں بنی آدم کی صرف دوگروہ میں تقسیم محدود کردی تو بہر حال حضرت مسیح ابن مریم خدائے تعالیٰ کے تمام خاکی بندوں کی طرح اس تقسیم سے باہر نہیں رہ سکتے یہ حکماء کا قانونِ قدرت نہیں جو کوئی اس کو ردّ کردے گا یہ تو سُنّت اللہ ہے جس کو خوداللہ جلَّ شَانُہٗ نے تصریح سے بیان فرما دیا ہے.سو ا س تقسیم الٰہی کی رو سے لازم آتا ہے کہ یا تو حضرت مسیح مِنْکُمْ مَّنْ یَّتَوَفّٰی میں داخل ہوں اوروفات پا کر بہشت بریں میں اُس تخت پر بیٹھے ہوں جس کی نسبت انہوں نے آپ ہی انجیل میں بیان فرمایا ہے اوریا اگر اس قدر مدّت تک فوت نہیں ہوئے تو زمانہ کی تاثیر سے اس ارذ ل عمر تک پہنچ گئے ہوں جس میں بباعث بیکاری حواس اُن کا ہونا نہ ہونا برابر ہے.اورجوخاص طور پر مسیح کے فوت ہوجانے پر آیات بیّنات دلالت کررہی ہیں کچھ ضروری نہیں کہ ہم ان کو بار بار ذکرکریں.یہ بات ظاہر ہے کہ اگر مسیح ابن مریم اس جماعت مرفوعہ سے الگ ہے جو دنیا سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہوکر خدائے تعالیٰ کی طرف اٹھائی گئی ہے تو ان میں جو عالم آخرت میں پہنچ گئے ہرگز شامل نہیں ہوسکتا بلکہ مرنے کے بعد پھر شامل ہو گا اوراگریہ بات ہوکہ اُن میں جا ملا اوربموجب آیت فَادْخُلِىْ فِىْ عِبٰدِىۙ۱ ان فوت شدہ بندوں میں داخل ہوگیا تو پھر انہیں میں سے شمار کیا جاوے گا.اورمعراج کی حدیث سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ مسیح اُن فوت شدہ نبیوں میں جاملا اوریحییٰ نبی کے پاس اس کو مقام ملا.اس صورت میں ظاہر ہے کہ معنے اس آیت کے کہ اِنِّىْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَىَّ ۲ ہے یہ ہوں گے کہ انّی متوفّیک ورافعک الی عبادی المتوفین المقربین و ملحقک بالصّٰلحین.سو عقلمند کے لئے جو متعصّب نہ ہو اسی قدرکافی ہے کہ اگر مسیح زندہ ہی اُٹھایا گیا تو پھر مُردوں میں کیوں جا گُھسا.ہاں اس قدر ذکر کرنا اَور بھی ضروری ہے کہ جیسے بعض نادان یہ خیال کرتے ہیں کہ و ہ آیات ذو معنیین ہیں یہ ۱ الفجر: ۳۰ ۲ اٰل عمران: ۵۶
خیال سراسرفاسد ہے مومن کا یہ کام نہیں کہ تفسیر بالرائے کرے بلکہ قرآن شریف کے بعض مقامات بعض دوسرے مقامات کے لئے خود مفسّر اورشارح ہیں.اگر یہ بات سچ نہیں کہ مسیح کے حق میں جو یہ آیتیں ہیں کہ انّی متوفّیک اورفلمّا توفّیتنی یہ درحقیقت مسیح کی موت پر ہی دلالت کرتی ہیں بلکہ ان کے کوئی اورمعنے ہیں تو اس نزاع کا فیصلہ قرآن شریف سے ہی کرانا چاہیئے.اوراگر قرآن شریف مساوی طورپر کبھی اس لفظ کو موت کے لئے استعمال کرتا ہے اور کبھی ان معنوں کے لئے جو موت سے کچھ علاقہ نہیں رکھتے تومحل متنازعہ فیہ میں مساوی طورپر احتمال رہے گااور ا گر ایک خاص معنے اغلب اوراکثر طور پر مستعملات قرآنی میں سے ہیں تو انہی معنوں کو اس مقامِ بحث میں ترجیح ہوگی اوراگر قرآن شریف اوّل سے آخر تک اپنے کُل مقامات میں ایک ہی معنوں کو استعمال کرتاہے تو محل مبحوث فیہ میں بھی یہی قطعی فیصلہ ہوگا کہ جو معنے توفّی کے سارے قرآن شریف میں لئے گئے ہیں وہی معنے اس جگہ بھی مرادہیں کیونکہ یہ بالکل غیر ممکن اور بعید از قیاس ہے کہ خدائے تعالیٰ اپنے بلیغ اورفصیح کلام میں ایسے تنازع کی جگہ میں جو اس کے علم میں ایک معرکہ کی جگہ ہے ایسے شاذ اورمجہول الفاظ استعمال کرے جو اس کے تمام کلام میں ہرگز استعمال نہیں ہوئے.اگر وہ ایسا کرے تو گویا وہ خلق اللہ کو آپ ورطۂ شبہات میں ڈالنے کا ارادہ رکھتا ہے.اورظاہر ہے کہ اس نے ہرگز ایسا نہیں کیا ہو گا یہ کیوں کر ممکن ہے کہ خدائے تعالیٰ اپنے قرآن کریم کے تیئیس۲۳ مقام میں تو ایک لفظ کے ایک ہی معنے مرادلیتا جاوے اور پھردو مقام میں جو زیاد ہ تر محتاج صفائی بیان کے تھے کچھ اورکا اورمراد لے کر آپ ہی خلق اللہ کو گمراہی میں ڈال دے.اب اے ناظرین !آپ پر واضح ہو کہ اس عاجز نے اول سے آ خر تک تمام وہ الفاظ جن میں توفّی کا لفظ مختلف صیغوں میں آگیا ہے قرآن شریف میں غور سے دیکھے تو صاف طورسے کھل گیا کہ قرآن کریم میں علاوہ محل متنازعہ فیہ کے یہ لفظ تیئیس۲۳جگہ لکھا ہے اور ہر یک جگہ موت اورقبضِ روح کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے اورایک بھی ایسا مقام نہیں
جس میں توفّی کا لفظ کسی اور معنے پر استعمال کیا گیا ہو اور وہ یہ ہیں:.نساء : حتّٰی یتوفّٰھُنَّ الموتَ اٰلِ عمران: وَتوَفَّنَا مَعَ الاَبرَ ارِ سجدۃ:قُلْ يَتَوَفّٰٮكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِىْ وُكِّلَ بِكُمْ نساء: اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَفّٰٮهُمُ الْمَلٰٓٮِٕكَةُ ظَالِمِىْۤ اَنْفُسِهِمْ مؤمن: فَاِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِىْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَاِلَيْنَا يُرْجَعُوْنَ النحل: الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰٮهُمُ الْمَلٰۤٮِٕكَةُ ظَالِمِىْۤ اَنْفُسِهِمْ تَتَوَفّٰٮهُمُ الْمَلٰۤٮِٕكَةُ طَيِّبِيْنَ بقر: يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ انعام: تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا اعراف: رُسُلُـنَا يَتَوَفَّوْنَهُمْۙ تَوَفَّنَا مُسْلِمِيْنَ الانفال: يَتَوَفَّى سورہ ٘محمد صلعم: فَكَيْفَ اِذَا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلٰٓٮِٕكَةُ يَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ یونس: وَاِمَّا نُرِيَـنَّكَ بَعْضَ الَّذِىْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ یوسف: تَوَفَّنِىْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِىْ بِالصّٰلِحِيْنَ رعد: اَوْ نَـتَوَفَّيَنَّكَ مؤمن: وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّتَوَفّٰى نحل: ثُمَّ يَتَوَفّٰٮكُمْ حج: وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّتَوَفّٰى زمر: اللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِىْ لَمْ تَمُتْ فِىْ
زمر: مَنَامِهَاۚ فَيُمْسِكُ الَّتِىْ قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَ يُرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى الانعام: وَهُوَ الَّذِىْ يَتَوَفّٰٮكُمْ بِالَّيْلِ وَ يَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَـبْعَثُكُمْ فِيْهِ لِيُقْضٰٓى اَجَلٌ مُّسَمًّى اب ظاہر ہے کہ ان تمام مقامات قرآن کریم میں توفّی کے لفظ سے موت اورقبض روح ہی مراد ہے اوردو مؤخر الذکر آیتیں اگر چہ بظاہر نیند سے متعلق ہیں مگر درحقیقت ان دونوں آیتوں میں بھی نیند نہیں مراد لی گئی بلکہ اس جگہ بھی اصل مقصد اورمدعا موت ہے اور یہ ظاہر کرنا منظور ہے کہ نیند بھی ایک قسم کی موت ہی ہے اورجیسی موت میں روح قبض کی جاتی ہے نیند میں بھی روح قبض کی جاتی ہے.سو ان دونوں مقامات میں نیند پر توفّی کے لفظ کا اطلاق کرنا ایک استعارہ ہے جو بہ نصب قرینۂ نوم استعمال کیا گیا ہے یعنی صاف لفظوں میں نیند کا ذکر کیا گیا ہے تاہر ایک شخص سمجھ لیوے کہ اسجگہ توفّی سے مراد حقیقی موت نہیں ہے بلکہ مجازی موت مرا دہے جو نیند ہے.یہ بات ادنیٰ ذی علم کو بھی معلوم ہو گی کہ جب کوئی لفظ حقیقت مسلّمہ کے طورپر استعمال کیا جاتاہے یعنی ایسے معنوں پر جن کے لئے وہ عام طور پر موضوع یا عام طور پر مستعمل ہوگیا ہے تو اس جگہ متکلم کے لئے کچھ ضروری نہیں ہوتا کہ اس کی شناخت کے لئے کوئی قرینہ قائم کرے کیونکہ وہ اُن معنوں میں شائع متعارف اور متبادرالفہم ہے لیکن جب ایک متکلم کسی لفظ کے معانی حقیقت مسلّمہ سے پھیر کر کسی مجازی معنی کی طرف لے جاتا ہے تو اس جگہ صراحتًا یا کنایتًا یا کسی دوسرے رنگ کے پَیرائے میں کوئی قرینہ اس کو قائم کرنا پڑتا ہے تا اس کا سمجھنا مشتبہ نہ ہو اور اس بات کے دریا فت کے لئے کہ متکلّم نے ایک لفظ بطور حقیقت مُسلّمہ استعمال کیا ہے یا بطور مجاز اوراستعارہ نادرہ کے بھی کھلی کھلی علامت ہوتی ہے کہ وہ حقیقت مسلّمہ کو ایک متبادر اور شائع و متعارف لفظ سمجھ کر ۱۰۵ (الَّذِىْ يَتَوَفّٰٮكُمْ ) درج ہونے سے رہ گئی ہے.سید عبدالحئی ۱ اس فہرست میں سورۃ یونس نمبرکی آیت
بغیر احتیاج قرائن کے یونہی مختصر بیان کر دیتا ہے.مگر مجاز یا استعارہ نادرہ کے وقت ایسا اختصار پسند نہیں کرتا بلکہ اس کا فرض ہوتا ہے کہ کسی ایسی علامت سے جس کو ایک دانشمند سمجھ سکے اپنے اس مدعا کو ظاہر کرجائے کہ یہ لفظ اپنے اصل معنوں پر مستعمل نہیں ہوا.اب چونکہ یہ فرق حقیقت اورمجاز کا صاف طورپر بیان ہو چکا تو جس شخص نے قرآن کریم پر اوّل سے آخر تک نظر ڈالی ہوگی اور جہاں جہاں توفِّیکا لفظ موجود ہے بنظرِ غور دیکھا ہو گا وہ ایمانًا ہمارے بیان کی تائید میں شہادت دے سکتا ہے.چنانچہ بطور نمونہ دیکھنا چاہیئے کہ یہ آیات (۱) وَاِمَّا نُرِيَـنَّكَ بَعْضَ الَّذِىْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ ۱ (۲) تَوَفَّنِىْ مُسْلِمًا ۲ (۳) وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّتَوَفّٰى ۳ (۴) تَوَفّٰٮهُمُ الْمَلٰٓٮِٕكَةُ ۴ (۵) يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ ۵ (۶) تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا ۶ (۷) رُسُلُـنَا يَتَوَفَّوْنَهُمْۙ ۷ (۸) تَوَفَّنَا مُسْلِمِيْنَ ۸ (۹) وَتوَفَّنَا مَعَ الاَبرَ ارِ ۹ (۱۰) ثُمَّ يَتَوَفّٰٮكُمْ ۱۰ کیسی صریح اور صاف طورپر موت کے معنوں میں استعمال کی گئی ہیں مگر کیا قرآن شریف میں کوئی ایسی آیت بھی ہے کہ ان آیات کی طرح مجرد توفّی کا لفظ لکھنے سے اس سے کوئی اور معنے مراد لئے گئے ہوں.موت مراد نہ لی گئی ہو.بلاشبہ قطعی اوریقینی طور پر اوّل سے آخر تک قرآنی محاورہ یہی ثابت ہے کہ ہر جگہ درحقیقت توفّی کے لفظ سے موت ہی مراد ہے تو پھر متنازعہ فیہ د و آیتوں کی نسبت جو اِنِّی مُتَوَفِّیکَ اور فَلَمَّا تَوَ فَّیْتَنِیْ ہیں اپنے دل سے کوئی معنے مخالف عام محاورہ قرآن کے گھڑنا اگرالحاد اور تحریف نہیں تو اور کیا ہے ؟ اور اس جگہ یہ نکتہ بیان کرنے کے لائق ہے کہ قرآن شریف میں ہر جگہ موت کے محل پر توفّی کا لفظ کیوں استعما ل کیا ہے اِمَاتت کا لفظ کیو ں استعمال نہیں کیا ؟ اس میں بھید یہ ہے کہ موت کا لفظ ایسی چیزوں کے فنا کی نسبت بھی بولا جاتا ہے جن پر فنا طاری ہونے کے بعد کوئی روح اُن کی باقی نہیں رہتی.اسی وجہ سے جب نباتات اور جمادات اپنی صورت نوعیہ کو چھوڑ کر کوئی اَور صُوَر قبول کرلیں تو اُن پر بھی موت کا لفظ ۱ یونس:۴۷ ۲ یوسف:۱۰۲ ۳ الحج: ۶ ۴ النّسآء: ۹۸ ۵ البقرۃ: ۲۴۱ ۶ الانعام : ۶۲ ۷ الاعراف: ۳۸ ۸ الاعراف :۱۲۷ ۹ اٰل عمران ۱۹۴ ۱۰ النحل: ۷۱
اطلاق پاتا ہے جیسے کہتے ہیں کہ یہ لوہا مرگیا اور کشتہ ہوگیا اورچاندی کا ٹکڑہ مرگیا اورکشتہ ہوگیا.ایسا ہی تمام جانداراور کیڑے مکوڑے جن کی روح مرنے کے بعد باقی نہیں رہتی اورمورد ثواب و عقاب نہیں ہوتے اُن کے مرنے پر بھی توفّی کا لفظ نہیں بولتے بلکہ صرف یہی کہتے ہیں کہ فلاں جانور مرگیا یا فلاں کیڑامرگیا.چونکہ خدائے تعالیٰ کو اپنے کلام عزیز میں یہ منظور ہے کہ کھلے کھلے طور پر یہ ظاہر کرے کہ انسان ایک ایسا جاندار ہے کہ جس کی موت کے بعد بکلّی اس کی فنا نہیں ہوتی بلکہ ا س کی روح باقی رہ جاتی ہے جس کو قابضِ ارواح اپنے قبضہ میں لے لیتا ہے اس وجہ سے موت کے لفظ کو ترک کرکے بجائے اس کے توفّی کا لفظ استعمال کیا ہے تا اس بات پر دلالت کرے کہ ہم نے اس پر موت وارد کر کے بکلّی اس کو فنا نہیں کیا بلکہ صرف جسم پرموت وارد کی ہے اور روح کو اپنے قبضہ میں کر لیا ہے اور اس لفظ کے اختیار کرنے میں دہریوں کا ردّ بھی منظور ہے جو بعد موت جسم کے روح کی بقا کے قائل نہیں ہیں.جاننا چاہیئے کہ قرآن شریف میں اوّل سے آخر تک توفِّیْکے معنے روح کو قبض کرنے اور جسم کو بیکار چھوڑ دینے کے لئے گئے ہیں اورانسان کی موت کی حقیقت بھی صرف اسی قدر ہے کہ روح کو خدائے تعالیٰ قبض کر لیتا ہے اور جسم کو اس سے الگ کر کے چھوڑ دیتاہے اور چونکہ نیند کی حالت بھی کسی قدر اس حقیقت میں اشتراک رکھتی ہے اسی وجہ سے مذکورہ بالا دو آیتوں میں نیند کو بھی بطور استعارہ توفِّی کی حالت سے تعبیر کیا ہے کیونکہ کچھ شک نہیں کہ نیند میں بھی ایک خاص حد تک روح قبض کی جاتی ہے اور جسم کو بے کار اور معطّل کیاجاتا ہے لیکن توفّی کی کامل حالت جس میں کامل طور پر روح قبض کی جائے اور کامل طور پر جسم بے کار کردیا جائے وہ انسان کی موت ہے اسی وجہ سے توفّی کا لفظ عام طور پر قرآن شریف میں انسان کی موت کے بارے میں ہی استعمال کیا گیا ہے اوراوّل سے آخر تک قرآن شریف اسی استعمال سے بھرا پڑا ہے
اورنیند کے محل پر توفِّی58 کا لفظ صرف دو جگہ قرآن شریف میں آیا ہے اور وہ بھی قرینہ قائم کرنے کے ساتھ.اوراُن آیتوں میں صاف طورپر بیان کردیا گیا ہے کہ اس جگہ بھی توفِّیْ کے لفظ سے نیند مراد نہیں ہے بلکہ موت ہی مراد ہے اور اس بات کا اظہار مقصود ہے کہ نیند بھی ایک موت ہی کی قسم ہے جس میں روح قبض کی جاتی ہے اور جسم معطل کیا جاتا ہے صرف اتنا فرق ہے کہ نیند ایک ناقص موت ہے اورموت حقیقی ایک کامل موت ہے.یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ توفّی کا لفظ جو قرآن شریف میں استعمال کیا گیا ہے خواہ وہ اپنے حقیقی معنوں پر مستعمل ہے یعنی مو ت پر یا غیر حقیقی معنوں پر یعنی نیند پر.ہریک جگہ اُس لفظ سے مراد یہی ہے کہ روح قبض کی جائے اور جسم معطل اور بے کار کردیا جائے.اب جبکہ یہ معنے مذکورہ بالا ایک مسلّم قاعدہ ٹھہر چکا جس پر قرآن شریف کی تمام آیتیں جن میں توفِّی کا لفظ موجود ہے شہادت دے رہی ہیں تو اس صورت میں اگر فرض محال کے طور پر ایک لمحہ کے لئے یہ خیال باطل بھی قبول کر لیں کہ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ کے معنے اِنِّیْ مُنِیْمُکَہے یعنی یہ کے میں تجھے سُلانے والا ہوں تو اس سے بھی جسم کا اُٹھایا جانا غلط ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس جگہ اِنّی متوفّیک کے معنے از روئے قاعدہ متذکرہ بالا یہی کریں گے کہ میں تجھ پر نیند کی حالت غالب کرکے تیری روح کو قبض کرنے والا ہوں.اب ظاہر ہے کہ انّی متوفّیک کے بعدجو رافعک الیّ فرمایا ہے یعنی میں تیری روح کو قبض کر کے پھر اپنی طرف اُٹھاؤں گا یہ رافعک کا لفظ انیّ متوفّیک کے لفظ سے تعلق رکھتا ہے جس سے ببداہت یہ معنے نکلتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے روح کو قبض کیا اور روح کو ہی اپنی طرف اُٹھایا کیوں کہ جو چیز قبض کی گئی وہی اُٹھائی جائے گی جسم کے قبض کرنے کا تو کہیں ذکر نہیں.چنانچہ دوسری آیات میں جو نیند کے متعلق ہیں خدائے تعالیٰ صاف صاف فرما چکا ہے کہ نیند میں بھی موت کی طرح روح ہی قبض کی جاتی ہے جسم نہیں قبض کیا جاتا.اب ہریک شخص سمجھ سکتا ہے کہ جو قبض کیا جاتا ہے
اُٹھایا بھی وہی جائے گا.یہ تو نہیں کہ قبض کیا جائے روح اورپھر جسم کو اُٹھایا جائے.ایسے معنے تو قرآن شریف کی تمام آیات اورمنشائے ربّانی سے صریح صریح مخالف ہیں.قرآن شریف نیند کے مقامات میں بھی جو توفِّی کے لفظ کو بطور استعارہ استعمال کرتا ہے اس جگہ بھی صاف فرماتا ہے کہ ہم روح کو قبض کر لیتے ہیں اور جسم کو بے کار چھوڑ دیتے ہیں.اورموت اور نیند میں صرف اتنا فرق ہے کہ موت کی حالت میں ہم روح کو قبض کر کے پھر چھوڑ تے نہیں بلکہ اپنے پاس رکھتے ہیں.اورنیند کی حالت میں ایک مدت تک روح کو قبض کرکے پھر اس روح کو چھوڑ دیتے ہیں اورپھر وہ جسم سے تعلق پکڑ لیتی ہے.اب سوچنا چاہیئے کہ کیا یہ بیان قرآن شریف کا اس بات کے سمجھنے کے لئے کافی نہیں کہ خدائے تعالیٰ کو جسم قبض کرنے اوراٹھانے سے دونوں حالتوں موت اورنیند میں کچھ سروکار نہیں بلکہ جیسا کہ اس نے خو د فرمایا ہے یہ جسم خاک سے پیدا کیا گیا ہے اور آخر خاک میں ہی داخل ہوتا ہے.خدائے تعالیٰ ابتدائے دنیا سے صرف روحوں کو قبض کرتا آیا ہے اور روحوں کو ہی اپنی طرف اُٹھاتا ہے جبکہ یہی امر واقعی اور یہی صحیح اور سچ ہے تو اس صورت میں اگر ہم فرض بھی کر لیں کہ انّی متوفّیک کے یہی معنے ہیں کہ مَیں تیری روح کو اسی طور سے قبض کرنے والا ہوں جیسا کہ سونے والے کی روح قبض کی جاتی ہے تو پھر بھی جسم کو اس قبض سے کچھ علاقہ نہیں ہو گا اور اس طور کی تاویل سے اگر کچھ ثابت ہوگا تو یہ ہو گا کہ حضرت مسیح کی روح خواب کے طور پر قبض کی گئی اور جسم اپنی جگہ زمین پر پڑا رہا اور پھر کسی وقت روح جسم میں داخل ہوگئی.اورایسے معنے سراسر باطل اور دونوں فریق کے مقصد کے مخالف ہیں.کیونکہ صرف کچھ عرصہ کے لئے حضرت مسیح کا سونا اور پھر جاگ اُٹھنا ہماری اس بحث سے کچھ علاقہ نہیں رکھتا.اورقرآن کریم کی آیت ممدوحہ بالا صاف بلند آواز سے پکار رہی ہے کہ حضرت مسیح کی روح جو قبض کی گئی تو پھر سونیوالے کی روح کی طرح جسم کی طرف نہیں چھوڑی گئی بلکہ خدائے تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف اُٹھا لیا.جیساکہ الفاظ
صر یحۃ الدلالت اِنِّىْ مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ اِلَىَّ ۱سے ظاہر ہے.انصاف کی آنکھ سے دیکھنا چاہیئے کہ جس طرح حضرت مسیح کے حق میں اللہ جلّ شَانُہٗ نے قر آن کریم میں اِنِّی مُتَوَفّیِک فر مایا ہے اسی طرح ہمارے سیّد و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا ہے وَاِمَّا نُرِيَـنَّكَ بَعْضَ الَّذِىْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ ۲ یعنی دونوں جگہ مسیح کے حق میں اور ہمارے سیّد و مو لیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں تو فِّی کا لفظ مو جود ہے پھر کس قدر ناانصافی کی بات ہے کہ ہمارے سیّد ومولیٰ کی نسبت جو توفِّی کا لفظ آیا ہے تو اس جگہ تو ہم وفات کے ہی معنے کریں اور اُسی لفظ کو حضرت عیسٰی کی نسبت اپنے اصلی اور شائع متعارف معنوں سے پھیر کر اور اُن متفق علیہ معنے سے جو اوّل سے آخر تک قر آن شریف سے ظاہر ہو رہے ہیں انحراف کر کے اپنے دل سے کچھ اَور کے اَور معنے تراش لیں.اگر یہ الحاد اور تحریف نہیں تو پھر الحاد اورتحریف کس کو کہتے ہیں!!!جس قدر مبسوط تفاسیر دنیا میں موجود ہیں جیسے کشاف اور معالم اور تفسیر رازی اور ابن کثیر اور مدارک اور فتح البیان سب میں زیر تفسیر یاعیسٰی انّی متوفّیک یہی لکھا ہے کہ انّی ممیتک حتف انفک یعنی اے عیسٰی میں تجھے طبعی موت سے مار نیوالا ہوں بغیر اس کے کہ تُو مصلوب یامضروب ہونے کی حالت میں فوت ہو.غایت ما فی الباب بعض مفسرین نے اپنی کوتہ اندیشی سے اس آیت کی اَور وجوہ پر بھی تفسیریں کی ہیں.لیکن صرف اپنے بے بُنیاد خیال سے نہ کسی آیت یا حدیث صحیح کے حوالہ سے.اگر وہ زندہ ہوتے تو اُن سے پوچھا جاتا کہ حق کے ساتھ تم نے باطل کو کیوں اور کس دلیل سے ملایا؟ بہر حال جب وہ اس بات کا اقرار کرگئے کہ منجملہ اقوال مختلفہ کے یہ بھی ایک قول ہے کہ ضرور حضرت مسیح فوت ہوگئے تھے اور ان کی روح اُٹھائی گئی تھی تو ان کی دوسری لغزشیں قابلِ عفو ہیں ان میں سے بعض جیسا کہ صاحبِ کشّاف خود اپنی قلم سے دوسرے اقوال کو قِیْلَ کے لفظ سے ضعیف ٹھہراگئے ہیں.۱ اٰل عمران: ۵۶ ۲ یونس:۴۷
اب جبکہ توفِّی کے لفظ کی بخوبی تحقیقات ہوچکی اور ثابت ہوگیا کہ تمام قرآن شریف میں اوّل سے آخر تک یہ لفظ فقط روح کے قبض کرنے کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے تو اب یہ دیکھنا باقی ر ہا کہ اس کے بعد جو فقرہ رافعک الیّ میں رفع کا لفظ ہے یہ کن معنوں پر قرآن شریف میں مستعمل ہے.جاننا چاہیئے کہ رَفع کا لفظ قرآن شریف میں جہاں کہیں انبیاء اور اخیار ابرار کی نسبت استعمال کیا گیا ہے عام طور پر اس سے یہی مطلب ہے کہ جو ان برگزیدہ لوگوں کو خدائے تعالیٰ کی جناب میں باعتبار اپنے روحانی مقام اور نفسی نقطہ کے آسمانوں میں کوئی بلند مرتبہ حاصل ہے اس کو ظاہر کر دیا جائے اور ان کو بشارت دی جائے کہ بعد موت و مفارقت بدن اُن کی روح اُس مقام تک جو اُن کے لئے قرب کا مقام ہے اُٹھائی جائے گی.جیساکہ اللہ جلَّ شَانُہٗ ہمارے سیّد ومولیٰ کا اعلیٰ مقام ظاہر کرنے کی غرض سے قرآن شریف میں فرماتا ہے.تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍۘ مِنْهُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍ ۱ یعنی یہ تمام رسول اپنے مرتبہ میں یکساں نہیں بعض اُن میں سے وہ ہیں جن کو روبرو کلام کرنے کا شرف بخشا گیا اور بعض وہ ہیں جن کا رفع درجات سب سے بڑھ کر ہے.ا س آیت کی تفسیراحادیث نبویہ میں یہی بیان کی گئی ہے کہ موت کے بعد ہریک نبی کی روح آسمان کی طرف اُٹھائی جاتی ہے اوراپنے درجہ کے موافق اس رو ح کو آسمانوں میں سے کسی آسمان میں کوئی مقام ملتا ہے جس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ اس مقام تک اس رُوح کا رفع عمل میں آیا ہے تا جیساکہ باطنی طور پر اس روح کا درجہ تھا خارجی طور پر وہ درجہ ثابت کرکے دکھلایا جائے سو یہ رفع جو آسمان کی طرف ہوتا ہے تحقیق درجات کے لئے وقوع میں آتا ہے اور آیت مذکورہ بالا میں جو رفع بعضھم درجات ہے یہ اشارہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا رفع تمام نبیوں کے رفع سےؕ ۱ البقرۃ:۲۴۵
بلند تر ہے اور اُن کی رُوح مسیح کی روح کی طرح دوسرے آسمان میں نہیں اور نہ حضرت موسیٰ کی روح کی طرح چھٹے آسمان میں بلکہ سب سے بلند تر ہے اسی کی طرف معراج کی حدیث بتصریح دلالت کر رہی ہے بلکہ معالم النبوۃ میں بصفحہ ۵۱۷یہ حدیث لکھی ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شب معراج میں چھٹے آسمان سے آگے گذر گئے تو حضرت موسیٰ نے کہا رَبِّ لَمْ اَظُنُّ اَنْ یُّرْفَعَ عَلَیَّ اَحَدٌ یعنی اے میرے خداوند ! مجھے یہ گمان نہیں تھا کہ کوئی نبی مجھ سے اوپر اُٹھایا جائے گا اور اپنے رفع میں مجھ سے آگے بڑھ جائے گا.اب دیکھو کہ رفع کا لفظ محض تحقق درجات کے لئے استعمال کیا گیا ہے اور آیت موصوفہ بالا کے احادیث نبویہ کی رو سے یہ معنے کھلے کہ ہریک نبی اپنے درجہ کے موافق آسمانوں کی طرف اٹھایا جاتا ہے اور اپنے قرب کے انداز کے موافق رفع سے حصّہ لیتا ہے اور انبیاء اور اولیاء کی روح اگرچہ دنیوی حیات کے زمانہ میں زمین پر ہو مگر پھر بھی اُس آسمان سے اُس کا تعلق ہوتا ہے جو اس کی روح کے لئے حدِّ رفع ٹھہرایا گیا ہے اور موت کے بعد وہ روح اُس آسمان میں جا ٹھہرتی ہے جو اس کے لئے حدِّ رفع مقرّر کیا گیا ہے.چنانچہ وہ حدیث جس میں عام طورپر موت کے بعد روحوں کے اُٹھائے جانے کا ذکر ہے اس بیان کی مؤیّد ہے اور چونکہ یہ بحث نہایت صریح اور صاف ہے اور کسی قدر ہم پہلے لکھ بھی چکے ہیں اس لئے کچھ ضرورت نہیں کہ اس کو زیادہ طول دیا جائے.اِس مقام میں یہ بھی بیان کرنے کے لائق ہے کہ بعض مفسّروں نے جب دیکھا کہ درحقیقت انیّ متوفّیک میں توفِّی کے معنے وفات دینے کے ہیں اور بعد اس کے جو رافعک الیّ واقع ہے وہ بقرینہ صریحہ وفات کے روح کے رفع پر دلالت کر رہا ہے تو انہیں یہ فکر پڑی کہ یہ صریح ہماری رائے کے مخالف ہے اس لئے انہوں نے گویا اپنے تئیں نظمِ فرقانی کا مصلح قرار دے کر یا اپنے لئے استادی کا منصب تجویز کر کے یہ اصلاح
کی کہ اس جگہ رافعک مقدّم اور انّی متوفیک مؤخر ہے.مگر ناظرین جانتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ کے ابلغ و افصح کلام میں یہ کس قدر بے جا اور اس کلا م کی کسرِشان کا موجب ہے.اس جگہ یہ بھی جاننا چاہیئے کہ خدائے تعالیٰ نے جو حضرت مسیح کے حق میں یہ فرمایا کہ وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ وَلٰـكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ۱ اس سے ہرگز یہ مرادنہیں کہ مسیح فوت نہیں ہؤا.کیامرنے کے لئے یہی ایک راہ ہے کہ انسان قتل کیا جائے یا صلیب پر کھینچاجائے ؟ بلکہ اس نفی سے مدعا اور مطلب یہ ہے کہ توریت استثناء باب ۲۱ آیت ۲۳ میں لکھا ہے کہ جو پھانسی دیا جاتا ہے خدا کا ملعون ہے.اور یہود جنھوں نے اپنے زعم میں حضرت عیسیٰ کو پھانسی دے دیا تھا وہ بہ تمسک اس آیت کے یہ خیال رکھتے تھے کہ مسیح ابن مریم نہ نبی تھا اور نہ مقبول الٰہی کیونکہ وہ پھانسی دیا گیا اور توریت بیان کر رہی ہے کہ جو شخص پھانسی دیا جائے وہ لعنتی ہوتا ہے.سوخدائے تعالیٰ کو منظور تھا کہ اصل حقیقت ظاہرکرکے اُن کے ا س قول کو ردّ کرے سو اس نے فرمایا کہ مسیح ابن مریم درحقیقت مصلوب نہیں ہوا ا ور نہ مقتول ہوا بلکہ اپنی موت سے فوت ہوا.(۲)سوال.یہ کہاں اور کس کتاب میں لکھا ہے کہ مسیح ابن مریم جس کے آنے کا وعدہ دیا گیا وہ درحقیقت مسیح ابن مریم نہیں ہے بلکہ کوئی اس کا مثیل مراد ہے ؟ جواب.اس بات کوپہلے تو قرآن شریف ہی بتصریح ذکر کر چکا ہے جبکہ اس نے صاف لفظوں میں فرما دیا کہ کوئی نبی نہیں آیا جو فوت نہ ہوا ہو.وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُؕ اَفَا۟يِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ ۲ وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُـلْدَؕ ۳ وَمَا جَعَلْنٰهُمْ جَسَدًا لَّا يَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوْا خٰلِدِيْنَ ۴اب ظاہر ہے کہ باوجود اِن تمام آیات کے جو بآواز بلند مسیح کی موت پر شہادت دے رہی ہیں پھر بھی مسیح کوزندہ خیال کرنا اور یہ اعتقاد رکھنا کہ برخلاف مفہوم آیت وَمَا جََعَلْنٰھُمْ جَسَدًا لَّا یَأْکلُوْنَ الطَّعَامَ مسیح جسم خاکی کے ساتھ ۱ النساء:۱۵۸ ۲ اٰل عمران:۱۴۵ ۳ الانبیاء:۳۵ ۴ الانبیاء:۹
دوسرے آسمان میں بغیر حاجت طعام کے یونہی فرشتوں کی طرح زندہ ہے درحقیقت خدائے تعالیٰ کے پاک کلام سے رو گردانی ہے.پھر میں کہتا ہوں کہ اگر مسیح اسی جسم خاکی کے ساتھ آسمان پر زندہ ہے تو خدا تعالیٰ کا آیت ممدوحہ بالا میں یہ دلیل پیش کرنا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر فوت ہو گیا تو اس کی نبوت پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.کیونکہ ابتدا سے سارے نبی مرتے ہی آئے ہیں بالکل نکمّی اور لغو بلکہ خلاف واقعہ ٹھہر جائے گی اور خدائے تعالیٰ کی شان اس سے بلند ہے کہ جھوٹ بولے یا خلاف واقعہ کہے.اب ظاہر ہے کہ جبکہ مسیح فوت ہو چکا تو اب وہ موت کے بعد آنہیں سکتا اورنہ اُس کے مرنے کے بعد قرآن شریف میں کوئی خبر اُس کے پھر زندہ ہونے کی دی گئی ہے پس بلا شبہ آنے والا مسیح اُس کا کوئی مثیل ہوگا.ماسوا اس کے خودآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پاک احادیث میں اس بات کی طرف اشارہ بھی کر دیا ہے کہ آنے والا مسیح دراصل مسیح ابن مریم نہیں ہے بلکہ اس کا مثیل ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جانے والے مسیح کااَور حُلیہ بتلایا ہے اور آنے والے مسیح کا اور حُلیہ ظاہر کیا ہے اور مسیح گذشتہ کی نسبت قطعی طور پر کہا ہے کہ وہ نبی تھا.لیکن آنیوالے مسیح کو اُ مّتی کرکے پکارا ہے جیسا کہ حدیث امامکم منکم سے ظاہر ہے.اور حدیث علماء اُمّتی کانبیاء بنی اسرائیل میں اشارۃً مثیل مسیح کے آنے کی خبر دی ہے.چنانچہ اس کے مطابق آنے والا مسیح محدّث ہونے کی وجہ سے مجازًا نبی بھی ہے.پس اس سے زیادہ اَور کیا بیان ہو گا.ماسوا اس کے حضرت مسیح ابن مریم جس کی روح اُٹھائی گئی برطبق آیت کریمہ يٰاَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَٮِٕنَّةُ ارْجِعِىْ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً فَادْخُلِىْ فِىْ عِبٰدِىۙ وَادْخُلِىْ جَنَّتِى ۱ بہشت میں داخل ہو چکی.اب کیوں کر پھر اس غمکدہ میں آجائیں گو اس کو ہم نے مانا کہ وہ کامل درجہ دخول بہشت کا جو جسمانی اور روحانی دونوں طور پر ہو گا وہ حشر اجساد کے بعد ہر یک مستحق کو عطا کیاجائے گا مگر اب بھی جس قدربہشت کی لذّات ۱ الفجر: ۲۸ تا۳۱
عطاہوچکیں اس سے مقرب لوگ باہر نہیں کئے جاتے اور قیامت کے دن میں بحضور ربّ العالمین اُن کا حاضر ہونا اُن کو بہشت سے نہیں نکالتا کیونکہ یہ تو نہیں کہ بہشت سے باہر کوئی لکڑی یا لوہے یا چاندی کا تخت بچھایا جائے گا اور خدائے تعالیٰ مجازی حُکَّام اور سلاطین کی طرح اس پر بیٹھے گا اور کسی قدر مسافت طے کر کے اُس کے حضور میں حاضر ہونا ہو گا.تا یہ اعتراض لازم آوے کہ اگر بہشتی لوگ بہشت میں داخل شدہ تجویز کئے جائیں تو طلبی کے وقت انہیں بہشت سے نکلنا پڑے گا اور اس لق و دق جنگل میں جہاں تخت ربّ العالمین بچھایا گیا ہے حاضر ہونا پڑے گا.ایسا خیال تو سراسر جسمانی اور یہودیت کی سرشت سے نکلا ہوا ہے اور حق یہی ہے کہ ہم عدالت کے دن پر ایمان تو لاتے ہیں اورتخت ربّ العالمین کے قائل ہیں لیکن جسمانی طور پر اس کا خاکہ نہیں کھینچتے اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جو کچھ اللہ اور رسول نے فرمایا ہے وہ سب کچھ ہو گا لیکن ایسے پاک طور پر کہ جو خدائے تعالیٰ کے تقدس اورتنزّہ اور اس کی تمام صفات کاملہ کے منافی ومغائر نہ ہو.بہشت تجلّی گاہِ حق ہے یہ کیوں کر کہہ سکیں کہ اُس دن خدائے تعالیٰ ایک مجسم شخص کی طرح بہشت سے باہر اپنا خیمہ یا یوں کہو کہ اپنا تخت بچھوا دے گا بلکہ حق یہ ہے کہ اس دن بھی بہشتی بہشت میں ہوں گے اور دوزخی دوزخ میں لیکن رحم الٰہی کی تجلّی عظمیٰ راستبازوں اور ایمانداروں پر ایک جدید طور سے لذّاتِ کاملہ کی بارش کر کے اور تمام سامان بہشتی زندگی کا حِسّی اور جسمانی طور پر انکو دکھلا کر اُس نئے طورپرکے دارالسلام میں ان کو داخل کردے گی.ایسا ہی خدائے تعالیٰ کی قہری تجلّی جہنم کو بھی بعد از حساب اور الزام صریح کے نئے رنگ میں دکھلا کر گویا جہنمی لوگوں کو نئے سرے جہنم میں داخل کریگی.روحانی طور پر بہشتیوں کا بلا توقف بعد موت کے بہشت میں داخل ہوجانا اور دوزخیوں کادوزخ میں گرایا جانا بتواتر قرآن شریف اوراحادیث صحیحہ سے ثابت ہے.کہاں تک ہم اس رسالہ کو طول دیتے جائیں.اے خداوند قادر اس قوم پر رحم کر جو کلام الٰہی کو پڑھتے ہیں لیکن وہ پاک کلام اُن کے حلق سے آگے نہیں گذرتا.
(۳) سوال.مسیح کے دوبارہ آنے کے ابطال میں جو یہ دلیل پیش کی گئی ہے کہ مسیح کا فوت ہونا ثابت ہے اور ہریک مومن راستباز مرنے کے بعد بہشت میں داخل ہوجا تا ہے اور ہر یک جو بہشت میں داخل ہوجاتا ہے و ہ برطبق آیت وَ وَّمَا هُمْ مِّنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ۱ ہمیشہ رہنے کا بہشت میں حق رکھتاہے.یہ دلیل صحیح نہیں ہے.کیونکہ اگر یہ صحیح ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ وہ قصہ صحیح نہ ہو جو عُزیر نبی کی نسبت قرآن شریف میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ سو ۱۰۰ برس تک مرا رہا اور پھر خدائے تعالیٰ نے اس کو زندہ کیا وجہ یہ کہ برطبق قاعدہ مفروضۂ بالا زندہ ہونے سے یہ ماننا پڑتا ہے کہ وہ بہشت سے خارج کیا گیا.ایسا ہی اس آیت کو ظاہر پر حمل کرنے سے مُردوں کا قبروں سے جی اُٹھنا اور میدانِ حساب میں ربّ العالمین کے حضورمیں آنا یہ سب باتیں اس آیت کے ایسے معنے کرنے سے کہ راستباز انسان مرنے کے بعد بہشت میں بلا توقف داخل ہوجاتا ہے اور پھراس سے کبھی نہیں نکلتا باطل ہوجاتے ہیں اور مسلّمات عقیدہ اسلام میں ایک سخت انقلاب پیداہوجاتا ہے.اماالجواب.پس واضح ہو کہ حقیقت میں یہ سچ ہے کہ جو شخص بہشت میں داخل کیا جاتاہے پھر وہ اس سے کبھی خارج نہیں کیا جاتا.جیساکہ اللہ جلَّ شَانُہٗ مومنین کو وعدہ صادقہ دے کر فرماتا ہے لَا يَمَسُّهُمْ فِيْهَا نَـصَبٌ وَّمَا هُمْ مِّنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ ۲یعنی بہشت میں داخل ہونے والے ہریک رنج اور تکلیف سے رہا ئی پا گئے اور و ہ کبھی اس سے نکالے نہیں جائیں گے.سورۃالحجر الجزو نمبر ۱۴.پھر ایک دوسری جگہ فرماتا ہےوَاَمَّا الَّذِيْنَ سُعِدُوْا فَفِىْ الْجَـنَّةِ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَؕ عَطَآءً غَيْرَ مَجْذُوْذٍ ۳ الجزو نمبر ۱۲سورہ ہود.یعنی سعید لوگ مرنے کے بعد بہشت میں داخل کئے جاتے ہیں اور ہمیشہ اُس میں رہیں گےجب تک آسمان و زمین ہے اور اگر یہ آسمان اور زمین بدلائے بھی جائیں جیسا کہ قیامت کے آنے کے وقت ہو گا تب بھی ۱ ، ۲ الحجر: ۴۹ ۳ ھود ۱۰۹
سعید لوگ بہشت سے باہر نہیں ہوسکتے اور نہ ان چیزوں کے فساد سے بہشت میں کچھ فساد ہو سکتا ہے کیونکہ بہشت اُن کے لئے ایک ایسی عطاہے جو ایک لمحہ کے لئے بھی اس سے محروم نہیں رہ سکتے.ایسا ہی قرآن شریف کے دوسرے مقامات میں بھی بہشتیوں کے ہمیشہ بہشت میں رہنے کا جا بجا ذکر ہے اور سارا قرآن شریف اس سے بھرا پڑا ہے.جیساکہ فرماتا ہےوَلَهُمْ فِيْهَآ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَّهُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ۱ اور اُولٰٓٮِٕكَ اَصْحَابُ الْجَـنَّةِۚ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ۲ وغیرہ.وغیرہ.اور یہ بھی ظاہر ہے کہ مومن کو فوت ہونے کے بعد بلا توقف بہشت میں جگہ ملتی ہے جیساکہ ان آیات سے ظاہر ہو رہا ہے ۙ قِيْلَ ادْخُلِ الْجَـنَّةَ ؕ قَالَ يٰلَيْتَ قَوْمِىْ يَعْلَمُوْنَۙ بِمَا غَفَرَلِىْ رَبِّىْ وَجَعَلَنِىْ مِنَ الْمُكْرَمِيْنَ۳ اور تیسری آیت وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًاؕ بَلْ اَحْيَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُوْنَۙ فَرِحِيْنَ بِمَاۤ اٰتٰٮهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۙ۴ اور احادیث میں تو اس قدر اس کا بیان ہے کہ جس کا باستیفاء ذکر کرنا موجب تطویل ہو گا بلکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنا چشم د ید ماجرا بیان فرماتے ہیں کہ ’’مجھے دوزخ دکھلایا گیا تو میں نے اکثر اُس میں عورتیں دیکھیں اور بہشت دکھلایا گیا تو میں نے اکثر اُس میں فقراء دیکھے‘‘.اور انجیل لوقا باب ۱۶ میں ایک قصہ کے طور پر بیان کیا گیاہے کہ لعزر جو ایک غریب آدمی تھا مرنے کے بعد ابرھام کی گود میں بٹھایا گیا یعنی نعیم جنت سے متمتع ہوا لیکن ایک دولت مند جو انہیں دنوں میں مرا دوزخ میں ڈالا گیا اور اس نے لعزر سے ٹھنڈا پانی مانگا مگراُسے دیا نہ گیا.ماسوا اس کے ایسی آیات بھی ہیں جو ظاہر کرتی ہیں جو حشر اجساد ہو گا اور حساب کے بعد بہشتی بہشت میں داخل کئے جائیں گے اور دوزخی دوزخ میں اور بظاہر اِن دونوں „۱ البقرۃ:۲۶ ۲ البقرۃ:۸۳ ۳ یٰسٓ: ۲۷،۲۸ ۴ اٰل عمران ۱۷۰.۱۷۱
قسموں کی آیات پر نظر ڈالنے سے تعارض معلوم ہوتا ہے قرآن شریف اور احادیث میں ارواح طیّبہ کا بہشت میں مرنے کے بعد داخل ہونا تو بدیہی اور کھلے کھلے طور پر ثابت ہے مگر ایک بھی ایسی آیت یا حدیث نہیں ملے گی جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ یوم الحساب میں بہشتی لوگ بہشت سے باہر نکال دئے جائیں گے بلکہ حسب وعدہ الٰہی بہشت میں ہمیشہ رہنا بہشتیوں کا جابجا قرآن شریف اور احادیث میں مندرج ہے.ہاں دوسری طرف یہ بھی ثابت ہے کہ قبروں میں سے مردے جی اٹھیں گے اور ہریک شخص حکم سننے کے لئے خدائے تعالیٰ کے حضور میں کھڑا ہو گا اور ہریک شخص کے عمل اورایمان کا اندازہ الٰہی ترازو سے اُس پر ظاہر کیا جائے گا.تب جو لوگ بہشت کے لائق ہیں بہشت میں داخل کئے جائیں گے اور جو دوزخ میں جلنے کے سزاوار ہیں وہ دوزخ میں ڈال دئے جائیں گے.اب واضح ہو کہ اس تعارض کے دور کرنے کے لئے جو آیات اور احادیث میں باہم واقعہ ہے یہ راہ نہیں ہے کہ یہ اعتقادظاہر کیا جائے کہ موت کے بعد تمام روحیں ایک فنا کی حالت میں رہتی ہیں.نہ کسی قسم کی اُن کو راحت حاصل ہوتی ہے اور نہ کسی نوع کی عقوبت میں گرفتار ہوتی ہیں اور نہ جنت کی ٹھنڈی ہو ا اُن کو پہنچتی ہے اور نہ دوزخ کی بھاپ ان کو جلاتی ہے کیونکہ ایسااعتقاد نصوص بیّنہ فرقان اور حدیث سے بکلّی مغائر ہے.میّت کے لئے جودعاکی جاتی ہے یا صدقات کئے جاتے ہیں اور میّت کی نیّت سے مساکین کو طعام کھلایا جاتا ہے یا کپڑا دیاجاتا ہے اگر اس درمیانی زمانہ میں جو قبل از حشراجساد ہے جنت اور جہنم کا میّت سے کچھ علاقہ نہیں تو یہ سب اعمال ایک مدّت دراز تک بطور عبث کے متصور ہوں گے اور یہ ماننا پڑے گا کہ اِس درمیانی زمانہ میں میت کو راحت اور رنج اورثواب اور عقاب سے کچھ علاقہ نہیں ہوتا حالانکہ ایسا گمان تعلیم نبوی سے سراسرمخالف ہے.پس وہ واقعی امر جس سے اِن دونوں قسم کی آیات کا تعارض دو ر ہوتا ہے یہ ہے کہ جنت اور جہنم تین درجوں پرمنقسم ہے.
پہلا درجہ جو ایک ادنیٰ درجہ ہے اُس وقت سے شروع ہوتا ہے کہ جب انسان اس عالم سے رخصت ہو کر اپنی خواب گاہ قبر میں جا لیٹتا ہے اور اس درجہ ضعیفہ کو استعارہ کے طور پر احادیث نبویہ میں کئی پیرایوں میں بیان کیا گیا ہے.منجملہ اُن کے ایک یہ بھی پیرایہ ہے کہ میّت عبد صالح کے لئے قبر میں جنت کی طرف ایک کھڑکی کھولی جاتی ہے جس کی راہ سے وہ جنت کی باغ و بہار دیکھتا ہے اور اس کی دلرُبا ہو ا سے متمتع ہوتا ہے اور اس کھڑکی کی کشادگی بحسب مرتبہ ایمان و عمل اس میّت کے ہوتی ہے لیکن ساتھ اس کے یہ بھی لکھا ہے کہ جو ایسے فنا فی اللہ ہونے کی حالت میں دنیا سے جدا ہوتے ہیں کہ اپنی جان عزیز کو محبوب حقیقی کی راہ میں فدا کردیتے ہیں جیسے شہداء یا وہ صدیق لوگ جو شہداء سے بھی بڑھ کر آگے قدم رکھتے ہیں اُن کے لئے اُن کی موت کے بعد صرف بہشت کی طرف کھڑکی ہی نہیں کھولی جاتی بلکہ وہ اپنے سارے وجود اور تمام قویٰ کے ساتھ بہشت میں داخل ہوجاتے ہیں مگر پھر بھی قیامت کے دن سے پہلے اکمل اوراتم طورپر لذّات جنت حاصل نہیں کر سکتے.ایسا ہی اس درجہ میں میّت خبیث کے لئے دوزخ کی طرف قبر میں ایک کھڑکی کھولی جاتی ہے جس کی راہ سے دوزخ کی ایک جلانے والی بھاپ آتی رہتی ہے اور اُس کے شعلوں سے ہر وقت وہ خبیث روح جلتی رہتی ہے لیکن ساتھ اس کے یہ بھی ہے کہ جو لوگ اپنی کثرت نافرمانی کی وجہ سے ایسے فنا فی الشیطان ہونے کی حالت میں دنیا سے جداہوتے ہیں کہ شیطان کی فرمانبرداری کی وجہ سے بکلّی تعلقات اپنے مولیٰ حقیقی سے توڑ دیتے ہیں اُن کے لئے اُن کی موت کے بعد صرف دوزخ کی طرف کھڑکی ہی نہیں کھولی جاتی بلکہ وہ اپنے سارے وجود اور تمام قوےٰ کے ساتھ خاص دوزخ میں ڈال دئے جاتے ہیں جیسا کہ اللہ جلَّ شَانُہٗ فرماتا ہےمِّمَّا خَطٓيْئٰتِهِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارً ا۱ سورہ نوحمگر پھر بھی وہ لوگ قیامت کے دن سے پہلے اکمل اور اتم طور پر عقوبات جہنم کا ۱ نوح:۲۶ ۙ
مزہ نہیں چکھتے.دوسرا درجہ.پھر اس درجہ سے اوپر جو ابھی ہم نے بہشتیوں اور دوز خیوں کے لئے بیان کیا ہے ایک اور درجہ دخولِ جنت دخول جہنم ہے جس کو درمیانی درجہ کہنا چاہیئے اور حشر اجساد کے بعد اورجنت عظمیٰ یا جہنم کبریٰ میں داخل ہونے سے پہلے حاصل ہو تا ہے اوربوجہ تعلق جسد کامل قویٰ میں ایک اعلیٰ درجہ کی تیزی پیداہو کر اور خدائے تعالیٰ کی تجلی رحم یا تجلی قہر کا حسب حالت اپنے کامل طورپر مشاہدہ ہو کر اور جنت عظمیٰ کو بہت قریب پا کر یا جہنم کبریٰ کو بہت ہی قریب دیکھ کر وہ لذات یا عقوبات ترقی پذیرہوجاتے ہیں جیساکہ اللہ جلَّ شَانُہٗ آپ فرماتا ہے وَبُرِّزَتِ الْجَحِيْمُ لِلْغٰوِيْنَۙ۱ وَاُزْلِفَتِ الْجَـنَّةُ لِلْمُتَّقِيْنَۙ اُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ.۲ تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ.ؕ وَوُجُوْهٌ يَّوْمَٮِٕذٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌۙ.وُجُوْهٌ يَّوْمَٮِٕذٍ مُّسْفِرَةٌۙ.ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ.ۚ اس دوسرے درجہ میں بھی لوگ مساوی نہیں ہوتے بلکہ اعلیٰ درجہ کے بھی ہوتے ہیں جو بہشتی ہونے کی حالت میں بہشتی انوار اپنے ساتھ رکھتے ہیں.اُنہیں کی طرف اللہ جلَّ شَانُہٗ فرماتا ہے نُوْرُهُمْ يَسْعٰى بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَبِاَيْمَانِهِمْ ۳ ایسا ہی دوزخی ہونے کی حالت میں اعلیٰ درجہ کے کفار ہوتے ہیں کہ قبل اس کے جو کامل طور پر دوزخ میں پڑیں اُن کے دلوں پر دوزخ کی آگ بھڑکائی جاتی ہے جیسا کہ اللہ جلَّ شَانُہٗ فرماتا ہے الَّتِىْ تَطَّلِعُ عَلَى الْاَفْـِٕدَةِؕ نَارُ اللّٰهِ الْمُوْقَدَةُۙ ۴ پھر اس درجہ کے اُوپر جو آخری درجہ ہے تیسرا درجہ ہے جو منتہائے مدارج ہے جس میں یوم الحساب کے بعد لوگ داخل ہوں گے اوراکمل اور اتم طور پر سعادت یا شقاوت کا مزہ چکھ لیں گے.اب حاصل کلام یہ ہے کہ ان تینوں مدارج میں انسان ایک قسم کے بہشت یا ایک قسم کے دوزخ میں ہوتا ہے اورجبکہ یہ حال ہے تو اس صورت میں صاف ظاہر ہے کہ اِن مدارج میں سے کسی درجہ پر ہونے کی حالت میں انسان بہشت یا دوزخ میں سے نکالا نہیں جاتا. ۱ الشعراء:۹۱، ۹۲ ۲ عبس: ۳۹،۴۲ ۳ التحریم: ۹ ۴ الھمزۃ: ۷، ۸
ہاں جب اس درجہ سے ترقی کرتا ہے تو ادنیٰ درجہ سے اعلیٰ درجہ میں آجاتا ہے.اس ترقی کی ایک یہ بھی صورت ہے کہ جب مثلًا ایک شخص ایمان اور عمل کی ادنیٰ حالت میں فوت ہوتا ہے تو تھوڑی سی سوراخ بہشت کی طرف اس کے لئے نکالی جاتی ہے کیونکہ بہشتی تجلّی کی اُسی قدراس میں استعداد موجود ہوتی ہے.پھر بعد اس کے اگر وہ اولاد صالح چھوڑ کر مر ا ہے جو جدو جہد سے اس کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور صدقات و خیرات اُس کی مغفرت کی نیت سے مساکین کو دیتے ہیں یا ایسے کسی اہل اللہ سے اس کی محبت تھی جو تضرعات سے جناب الٰہی سے اس کی بخشش چاہتا ہے یا کوئی ایساخلق اللہ کے فائدہ کا کام وہ دنیا میں کرگیا ہے جس سے بندگانِ خدا کو کسی قسم کی مد د یا آرام پہنچتا ہے تو اس خیر جاری کی برکت سے وہ کھڑکی اس کی جو بہشت کی طرف کھولی گئی دن بدن اپنی کشادگی میں زیادہ ہوتی جاتی ہے اورسبقت رحمتی علی غضبی کا منشاء اور بھی اس کو زیادہ کرتا جاتا ہے.یہاں تک کہ وہ کھڑکی ایک بڑا وسیع دروازہ ہو کر آخر یہاں تک نوبت پہنچتی ہے کہ شہیدوں اور صدیقوں کی طرح وہ بہشت میں ہی داخل ہوجاتا ہے.اس بات کو سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ یہ بات شرعًا وانصافًا وعقلًا بے ہُودہ ہے کہ ایساخیال کیا جائے کہ باوجود اس کے کہ ایک مرد مسلم فوت شدہ کے بعد ایک قسم کی خیر اس کے لئے جاری رہے اورثواب اوراعمال صالحہ کی بعض وجوہ اس کے لئے کھلی رہیں مگر پھر بھی وہ کھڑکی جو بہشت کی طرف اس کے لئے کھولی گئی ہے ہمیشہ اُتنی کی اُتنی ہی رہے جو پہلے دن کھو لی گئی تھی.یاد رکھنا چاہئے کہ خدائے تعالیٰ نے اس کھڑکی کے کھولنے کے لئے پہلے سے اس قدر سامان کر رکھے ہیں جن سے بتصریح معلوم ہوتا ہے کہ اس کریم کا دراصل منشاء ہی یہی ہے کہ اگر ایک ذرّہ ایمان و عمل لے کر بھی اس کی طرف کوئی سفر کرے تو وہ ذرّہ بھی نشوونما کرتا رہے گا اوراگر کسی اتفاق سے تمام سامان اس خیر کے جومیّت کو اس عالم کی طرف سے پہنچتی ہے نا پیدارہیں تاہم یہ سامان کسی طرح ناپیدا اور گُم نہیں ہو سکتا کہ جو تمام مومنوں
اور نیک بختوں اور شہیدوں اور صدیقوں کے لئے تاکیدی طور پر یہ حکم فرمایا گیا کہ وُہ اپنے اُن بھائیوں کے لئے بدل و جان دعائے مغفرت کرتے رہیں جو اُن سے پہلے اس عالم میں گذر چکے ہیں اور ظاہر ہے کہ جن لوگوں کے لئے ایک لشکر مومنوں کا دعا کررہا ہے وہ دعا ہرگز ہرگزخالی نہیں جائے گی بلکہ وہ ہر روزکا م کررہی ہے اورگنہگار ایماندار جو فوت ہو چکے ہیں اُن کی اُس کھڑکی کو جو بہشت کی طرف تھی بڑے زور سے کھول رہی ہے اِن دعاؤں نے اب تک بے شمار کھڑکیوں کو اس حد تک کشادہ کر دیا ہے کہ بے انتہاء ایسے لوگ بہشت میں پہنچ چکے ہیں جن کواوّل دنوں میں صرف ایک چھوٹی سی کھڑکی بہشت کے دیکھنے کے لئے عطا کی گئی تھی.اِس زمانہ کے اُن تمام مسلمانوں کو جو مُوحّد کہلاتے ہیں یہ دھوکا بھی لگا ہوا ہے کہ وہ خیال کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد بہشت میں داخل ہونے والے صرف شہید لوگ ہیں اور باقی تمام مومنین یہاں تک کہ انبیاء اور رسول بھی یوم الحساب تک بہشت سے باہر رکھے جائیں گے صرف ایک کھڑکی اُن کے لئے بہشت کی طرف کھولی جائے گی.مگر اب تک انہوں نے اس بات کی طر ف توجہ نہیں کی کہ کیا انبیاء اور تمام صدیق رُوحانی طور پر شہیدوں سے بڑھ کر نہیں ہیں اور کیا بہشت سے دور رہنا ایک قسم کا عذاب نہیں جو مغفورین کے حق میں تجویز نہیں ہو سکتا؟ جس کے حق میں خدائے تعالیٰ یہ کہے کہ 3 ۱ کیا ایسا شخص سعادت اور فوز مرام میں شہیدوں کے پیچھے رہ سکتا ہے ؟ افسوس کہ ان لوگوں نے اپنی نافہمی سے شریعت غرّا کو اُلٹا دیا ہے.اُن کے زعم میں سب سے پہلے بہشت میں داخل ہونے والے شہید ہیں اور شاید کہیں بے شمار برسوں کے بعد نبیوں اور صدیقوں کی بھی نوبت آوے اس کسر شان کا الزام اُن لوگوں پر بڑا بھاری ہے جو بودے عذروں سے دور نہیں ہو سکتا بے شک یہ بات سب کے فہم میں آسکتی ہے کہ جو لوگ ایمان اور عمل میں سابقین ہیں وہی لوگ دخول فی الجنت میں بھی سابقین چاہئیں نہ یہ کہ اُن کے لئے صرف ضعیف الایمان لوگوں کی طرح
کھڑکی کھولی جائے اور شہید لوگ دنیا سے رخصت ہوتے ہی ہر یک پھل بہشت کا چُن چُن کر کھانے لگیں.اگر بہشت میں داخل ہونا کامل ایمان کامل اخلاص کامل جانفشانی پر موقوف ہے تو بلا شبہ نبیوں اور صدیقوں سے اَور کوئی بڑھ کر نہیں جن کی تمام زندگی خدائے تعالیٰ کے لئے وقف ہوجاتی ہے اور جو خدائے تعالیٰ کی راہ میں ایسے فِدا ہوتے ہیں کہ بس مر ہی رہتے ہیں اور تمنّا رکھتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ کی راہ میں شہید کئے جائیں اورپھر زندہ ہوں اور پھر شہید کئے جائیں اور پھر زندہ ہوں اور پھر شہید کئے جائیں.اب ہماری اس تمام تقریر سے بخوبی ثابت ہو گیا کہ بہشت میں داخل ہونے کے لئے ایسے زبردست اسباب موجود ہیں کہ قریبًا تمام مومنین یوم الحساب سے پہلے اس میں پورے طور پر داخل ہو جائیں گے اور یوم الحساب اُن کو بہشت سے خارج نہیں کرے گا بلکہ اُس وقت اَور بھی بہشت نزدیک ہو جائیگا.کھڑ کی کی مثال سے سمجھ لینا چاہیئے کہ کیوں کر بہشت قبر سے نزدیک کیا جاتا ہے.کیا قبر کے متصل جو زمین پڑی ہے اُس میں بہشت آجاتا ہے ؟ نہیں.بلکہ روحانی طورپر نزدیک کیا جاتا ہے.اسی طرح روحانی طورپر بہشتی لوگ میدانِ حساب میں بھی ہوں گے او ربہشت میں بھی ہوں گے.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری قبر کے نیچے روضہ بہشت ہے.اِس پر خوب غور کرو کہ یہ کس بات کی طرف اشارہ ہے ؟ اورعُزیرؑ کے فوت ہونے اورپھر سو برس کے بعد زندہ ہونے کی حجت جو پیش کی گئی ہے یہ حجّت مخالف کے لئے کچھ مفید نہیں ہے کیونکہ ہرگز بیان نہیں کیا گیا کہ عُزیرؑ کو زندہ کر کے پھر دنیاکے دارالہموم میں بھیجا گیا تا یہ فساد لازم آوے کہ وہ بہشت سے نکالا گیا بلکہ اگراِن آیات کو اُن کے ظاہری معانی پر محمول کیا جاوے تو صرف یہ ثابت ہوگا کہ خدائے تعالیٰ کے کرشمۂ قدرت نے ایک لمحہ کے لئے عزیرؑ کو زندہ کرکے دکھلا دیا تا اپنی قدرت پر اس کو یقین دلا دے.مگر وہ دنیا میں آنا صرف عارضی تھا اور دراصل عزیر
بہشت میں ہی موجود تھا.جاننا چاہیئے کہ تمام انبیاء اور صدیق مرنے کے بعد پھر زندہ ہو جاتے ہیں اور ایک نورانی جسم بھی انہیں عطا کیا جاتا ہے اور کبھی کبھی بیداری میں راستبازوں سے ملاقات بھی کرتے ہیں.چنانچہ اس بارہ میں یہ عاجز خودصاحب تجربہ ہے.پھر اگر عزیرؑ کو خدائے تعالیٰ نے اسی طرح زندہ کر دیا ہو تو تعجب کیا ہے لیکن اس زندگی سے یہ نتیجہ نکالنا کہ وہ زندہ ہو کر بہشت سے خارج کئے گئے یہ عجب طور کی نادانی ہے بلکہ اس زندگی سے تو بہشت کی تجلّی زیادہ تر بڑھ جاتی ہے.(۴)سوال.قرآن شریف کی آیت مندرجہ ذیل مسیح ابن مریم کی زندگی پر دلالت کرتی ہے اور وہ یہ ہے 3 ۱ کیونکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ مسیح کی موت سے پہلے تمام اہل کتاب اس پر ایمان لے آویں گے.سوا س آیت کے مفہوم سے معلوم ہوتا ہے کہ ضرور ہے کہ مسیح اس وقت تک جیتا رہے جب تک کہ تمام اہل کتاب اس پر ایمان لے آویں.امّا الجواب.پس واضح ہو کہ سائل کو یہ دھوکا لگا ہے کہ اس نے اپنے دل میں یہ خیال کر لیا ہے کہ آیت فرقانی کا یہ منشاء ہے کہ مسیح کی موت سے پہلے تمام اہل کتاب کے فرقوں کا اُس پر ایمان لانا ضروری ہے.کیونکہ اگر ہم فرض کے طور پر تسلیم کر لیں کہ آیت موصوفہ بالا کے یہی معنے ہیں جیسا کہ سائل سمجھا ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ زمانہ صعود مسیح سے اس زمانہ تک کہ مسیح نازل ہو جس قدر اہل کتاب دنیا میں گذرے ہیں یا اب موجود ہیں یا آئندہ ہوں گے وہ سب مسیح پر ایمان لانے والے ہوں.حالانکہ یہ خیال ببداہت باطل ہے.ہر یک شخص خوب جانتا ہے کہ بے شمار اہل کتاب مسیح کی نبوت سے کافر رہ کر اب تک واصل جہنم ہو چکے ہیں اورخداجانے آئندہ بھی کس قدر کفر ان کی وجہ سے اس آتشی تنور میں پڑیں گے اگرخدائے تعالیٰ کا یہ منشاء ہوتا کہ وہ تمام اہل کتاب فوت شدہ مسیح کے نازل ہونے کے وقت اُس پر ایمان لاویں گے تو وہ اُن سب کو اُس وقت تک زندہ رکھتا جب تک کہ مسیح
آسمان سے نازل ہوتا لیکن اب مرنے کے بعد اُن کا ایمان لانا کیوں کر ممکن ہے ؟ بعض لوگ نہایت تکلّف اختیار کر کے یہ جواب دیتے ہیں کہ ممکن ہے کہ مسیح کے نزول کے وقت خدائے تعالیٰ اُن سب اہل کتاب کو پھر زندہ کرے جو مسیح کے وقتِ بعث سے مسیح کے دوبارہ نزول تک کفر کی حالت میں مر گئے ہیں.تو اس کا جواب یہ ہے کہ یوں تو کوئی کام خدائے تعالیٰ سے غیر ممکن نہیں لیکن زیر بحث تو یہ امر ہے کہ کیا قرآن کریم اوراحادیثِ صحیحہ میں ان خیالات کا کچھ نشان پایا جاتا ہے اگر پایا جاتا ہے تو کیوں وہ پیش نہیں کیا جاتا ؟.بعض لوگ کچھ شرمندے سے ہو کر دبی زبان یہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ اہلِ کتاب سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسیح کے دوبارہ آنے کے وقت دنیا میں موجود ہوں گے اوروہ سب مسیح کو دیکھتے ہی ایمان لے آویں گے اور قبل اس کے جو مسیح فوت ہو وہ سب مومنوں کی فوج میں داخل ہوجائیں گے.لیکن یہ خیال بھی ایسا باطل ہے کہ زیادہ لکھنے کی حاجت نہیں اوّل تو آیت موصوفہ بالا صاف طور پر فائدہ تعمیم کا دے رہی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب کے لفظ سے تمام وہ اہل کتاب مراد ہیں جو مسیح کے وقت میں یا مسیح کے بعد برابر ہوتے رہیں گے.اورآیت میں ایک بھی ایسالفظ نہیں جو آیت کو کسی خاص محدود زمانہ سے متعلق اور وابستہ کرتا ہو.علاوہ اس کے یہ معنے بھی جو پیش کئے گئے ہیں ببداہت فاسد ہیں.کیونکہ احادیث بآواز بلند بتلا رہی ہیں کہ مسیح کے دم سے اُس کے منکر خواہ وہ اہل کتاب ہیں یا غیر اہل کتاب کفر کی حالت میں مریں گے * اور کچھ ضرورنہیں کہ ہم بار بار ان حدیثوں کو نقل کریں.اسی رسالہ میں اپنے موقعہ پر دیکھ لینا چاہیئے ماسوا اس کے مسلمانوں کا یہ عقیدہ مسلّمہ ہے کہ دجّال بھی اہل کتاب میں سے ہی ہو گا اور یہ بھی مانتے ہیں کہ وہ مسیح پر ایمان نہیں لائے گا.اب میں اندازہ نہیں کر سکتا کہ اس خیال کے مسیحی دم سے مرجانے کے حقیقی معنے ہم بیان کر آئے ہیں کہ اس سے مراد حجت اور بیّنہ کی رو سے مرنا ہے.ورنہ دور از ادب بات ہے کہ یہ خیال کیاجائے کہ کوئی زہر ناک اور وبائی مادہ مسیح کے مُنہ سے نکل کر اور ہوا سے ملکرکمزور کافروں کو ماریگا مگر دجال کو مار نہیں سکے گا.منہ
پَیرواِ ن حدیثوں کو پڑھ کر کس قدر شرمندہ ہوں گے.یہ بھی مانا گیا اور مسلم میں موجود ہے کہ مسیح کے بعد شریر رہ جائیں گے جن پر قیامت آئے گی.اگر کوئی کافر نہیں رہے گا تو وہ کہاں سے آجائے گی.اب بالطبع یہ سوال پیدا ہوگا کہ اگرآیت متذکرہ بالا کے وہ معنے صحیح نہیں ہیں تو پھر کون سے معنے صحیح ہیں ؟ تو اس کے جواب میں واضح ہو کہ صحیح معنے وہی ہیں جو اس مقام کی تما م آیات متعلقہ پرنظر ڈالنے سے ضروری التسلیم معلوم ہوتے ہیں جن کے ماننے سے کسی وجہ کا نقص لازم نہیں آتا.سو اوّل وہ تما م آیتیں ذیل میں ذکر کرتا ہوں.پھر بعد اس کے وہ حقیقی معنے جو اِن آیات کی رُو سے ثابت ہوتے ہیں ثابت کروں گا.اورآیات یہ ہیں :.ترجمہ:.اور یہودی جوخدائے تعالیٰ کی رحمت اور ایمان سے بے نصیب ہو گئے اس کا سبب اُن کے وہ برے کام ہیں جو انہوں نے کئے.منجملہ اُن کے یہ ہے کہ انہوں نے کہاکہ لو ہم نے اس مسیح عیسیٰ ابن مریم کو قتل کر دیا جو رسول اللہ ہونے کا دعویٰ کرتا تھا (یہودیوں کا یہ کہنا کہ ہم نے عیسیٰ رسول اللہ کو قتل کر دیا اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ حضرت مسیح کو رسول جانتے تھے کیونکہ اگر وہ اس کو سچا رسول جانتے تو سُولی دینے کے لئے کیوںآمادہ ہوتے بلکہ یہ قول اُن کا کہ لو ہم نے اس رسول کو پھانسی دے دیا بطوراستہزاء کے تھا اور اس ہنسی ٹھٹھے کی بِنا ء توریت کے اس قول پر تھی جو لکھا ہے کہ جو پھانسی دیا جائے وہ ملعون ہے یعنی خدائے تعالیٰ کی رحمت اور قرب الٰہی سے دُور و مہجور ہے.اور یہودیوں کے اس قول سے مدعا یہ تھا کہ اگر
عیسیٰ ابن مریم سچا رسول ہوتا تو ہم اس کو پھانسی دینے پر ہرگز قادر نہ ہو سکتے کیونکہ توریت بلند آواز سے پکار رہی ہے کہ مصلوب لعنتی ہوتا ہے) اب قرآن شریف اس آیت کے بعد فرماتا ہے کہ درحقیقت یہودیوں نے مسیح ابن مریم کو قتل نہیں کیا اور نہ پھانسی دیا بلکہ یہ خیال اُن کے دلوں میں شعبہ کے طور پر ہے یقینی نہیں اور خدائے تعالیٰ نے ان کو آپ ہی شبہ میں ڈال دیا ہے تا اُن کی بیوقوفی اُن پر اور نیز اپنی قادریت اُن پر ظاہر کرے.اور پھر فرمایا کہ وہ لوگ جو اس شک میں پڑے ہوئے ہیں کہ شاید مسیح پھانسی ہی مل گیا ہو اُنکے پاس کوئی یقینی و قطعی دلیل اس بات پر نہیں صرف ایک ظن کی پیروی کر رہے ہیں.اور وہ خوب جانتے ہیں کہ انہیں یقینی طورپر اس بات کا علم نہیں کہ مسیح پھانسی دیا گیا بلکہ یقینی امر یہ ہے کہ وہ فوت ہوگیا اور اپنی طبعی موت سے مرا اور خدائے تعالیٰ نے اس کو راستباز بندوں کی طرح اپنی طرف اُٹھا لیا.اورخداعزیز ہے اُن کو عزت دیتا ہے جو اس کے ہو رہتے ہیں اورحکیم ہے اپنی حکمتوں سے اُن لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے جو اس پر توکل کرتے ہیں.اورپھر فرمایا کہ کوئی اہل کتاب میں سے ایسا نہیں جو ہمارے اس بیان مذکورہ بالا پر( جو ہم نے اہل کتاب کے خیالات کی نسبت ظاہر کیا ہے )ایمان نہ رکھتا ہو قبل اس کے جو وہ اس حقیقت پر ایمان لاوے جو مسیح اپنی طبعی موت سے مر گیا یعنی ہم جو پہلے بیان کر آئے ہیں کہ کوئی اہل کتاب اس بات پر دلی یقین نہیں رکھتا کہ درحقیقت مسیح مصلوب ہو گیا ہے کیا عیسائی اور کیایہودی صرف ظن اور شبہ کے طورپر اُن کے مصلوب ہونے کاخیال رکھتے ہیں.یہ ہمارا بیان صحیح ہے کوئی اس سے انکار نہیں کر سکتا.ہاں اس کی موت کے بارہ میں اُنہیں خبر نہیں کہ وہ کب مرا.سو اس کی ہم خبر دیتے ہیں کہ وہ مر گیا اوراسکی روح عزّت کے ساتھ ہماری طرف اُٹھائی گئی.اس جگہ یاد رہے کہ خدائے تعالیٰ کا یہ کہنا کہ کوئی اہل کتاب میں سے ایسا نہیں کہ ہمارے اس بیان پر جو اُن کے خیالات کے بارہ میں ہم نے ظاہر کیا ایمان نہ رکھتا ہو.یہ ایک
اعجازی بیان ہے اور یہ اس آیت کے موافق ہے جیسا کہ یہودیوں کو فرمایا تھا 33 ۱ سو اس فرمانے سے مدعا یہ تھا کہ درحقیقت یہودیوں کا یہ بیان کہ ہم نے درحقیقت مسیح کو پھانسی دے دیا جس سے یہ نتیجہ نکالنامنظور تھا کہ نعوذ باللہ مسیح ملعون ہے اور نبی صادق نہیں.اورایسا ہی عیسائیوں کا یہ بیان کہ درحقیقت مسیح پھانسی کی موت سے مر گیا جس سے یہ نتیجہ نکالنا منظو ر تھا کہ مسیح عیسائیوں کے گناہ کے لئے کفّارہ ہوا.یہ دونوں خیال یہودیوں اور عیسائیوں کے غلط ہیں اور کسی کو ان دونوں گروہ میں سے اِن خیالات پر دلی یقین نہیں بلکہ دلی ایمان اُن کا صرف اِسی پر ہے کہ مسیح یقینی طور پر مصلوب نہیں ہوا.اس تقریر سے خدائے تعالیٰ کا یہ مطلب تھا کہ یہودیوں اور عیسائیوں کی خاموشی سے منصفین قطعی طور پر سمجھ لیویں کہ اس بارے میں بجُر شک کے اُن کے پاس کچھ نہیں اور یہودی اور عیسائی جو اس آیت کو سُن کر چُپ رہے اور انکارکے لئے میدان میں نہ آئے تو اس کی یہ وجہ تھی کہ وہ خوب جانتے تھے کہ اگر ہم مقا بل پر آئے اور وہ دعوےٰ کیا جو ہمارے دل میں نہیں تو ہم سخت رُسوا کئے جائیں گے اور کوئی ایسا نشان خدائے تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہو جائے گا جس سے ہمارا جھوٹا ہونا ثابت ہو جائے گا.اس لئے انہوں نے دم نہ مارا اور چُپ رہے.اور اگر چہ وہ خوب جانتے تھے کہ ہماری اس خاموشی سے ہمارا مان لینا ثابت ہوجائے گا جس سے ایک طرف تو ان کفارکے اس عقیدہ کی بیخ کنی ہو گی اور ایک طرف یہ یہودی عقیدہ باطل ثابت ہوجائے گا کہ مسیح خدائے تعالیٰ کا سچا رسول اور راستباز نہیں اوراُن میں سے نہیں جن کا خدائے تعالیٰ کی طرف عزت کے ساتھ رفع ہوتا ہے.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کی چمکتی ہوئی تلوار اُن کی آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی.پس جیسا کہ قرآن شریف میں انہیں کہا گیا کہ اگر تم سچے ہو تو موت کی تمنّا کرو.لیکن مارے خوف کے کسی نے یہ تمنّا نہ کی.اسی طرح اس جگہ بھی مارے خوف کے انکارنہ کر سکے.یعنی یہ دعویٰ نہ کر سکے کہ ہم تومسیح کے مصلوب ہونے پر یقین رکھتے ہیں ہمیں کیوں بے یقینوں میں
داخل کیا جاتا ہے ؟ سو اُن کا نبی کے زمانہ میں خاموشی اختیار کرنا ہمیشہ کے لئے حجت ہوگئی اور اُن کے ساختہ پرداختہ کا اثر اُن کی آنے والی ذرّیتوں پر بھی پڑا.کیونکہ سلف خلف کے لئے بطور وکیل کے ہوتے ہیں اور ان کی شہادتیں آنیوالی ذرّیت کوماننی پڑتی ہیں.اب ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے جو اس بحث کو چھیڑا کہ مسیح مصلوب نہیں ہوا بلکہ اپنی موت سے فوت ہوا.اس تمام بحث سے یہی غرض تھی کہ مسیح کے مصلوب ہونے سے دو مختلف فرقے یعنی یہود اور عیسائی دو مختلف نتیجے اپنی اپنی اغراض کی تائید میں نکالتے تھے.یہودی کہتے تھے کہ مصلوب ہو گیا اور توریت کی رُو سے مصلوب لعنتی ہوتا ہے.یعنی قرب الٰہی سے مہجوراور رفع کی عزت سے بے نصیب رہتا ہے اور شانِ نبوت اس حالتِ ذلّت سے برتر واعلیٰ ہے.اور عیسائیوں نے یہودیوں کی لعن و طعن سے گھبرا کر یہ جواب بنا لیا تھا کہ مسیح کا مصلوب ہونا اُس کے لئے مضر نہیں بلکہ یہ لعنت اُس نے اِس لئے اپنے ذمہ لے لی کہ تاگنہگاروں کو لعنت سے چھڑاوے.سو خدائے تعالیٰ نے ایسافیصلہ کیا کہ ان دونوں فریق کے بیانات مذکورہ بالا کو کالعدم کردیا اور ظاہر فرما دیاکہ کسی کو اِن دونوں گروہ میں سے مسیح کے مصلوب ہونے پر یقین نہیں اور اگر ہے تو وہ سامنے آوے.سو وہ بھاگ گئے اور کسی نے دم بھی نہ مارا اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن شریف کا ایک معجزہ ہے جو اس زمانہ کے نادان مولویوں کی نگاہ سے چُھپا ہوا ہے اور مجھے اُس ذات کی قسم ہے کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ابھی اور اسی وقت کشفی طور پر یہ صداقت مذکورہ بالا میرے پر ظاہر کی گئی ہے اور اُسی معلّم حقیقی کی تعلیم سے میں نے وہ سب لکھا ہے جو ابھی لکھا ہے.فالحمد للہ علیٰ ذالک.اور عقلی طورپر بھی اگر دیکھا جائے تو اس بیان کی سچائی پر ہر یک عقل سلیم گواہی دے گی کیونکہ خدائے تعالیٰ کا کلام لغوباتوں سے منزّہ ہونا چاہیئے.اور ہریک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اگر اس بحث میں یہ مقاصدعظمیٰ درمیان نہ ہوں تو یہ سارا بیان ایسا لغو ہوگا
جس کے تحت کوئی حقیقت نہیں کیونکہ اس صورت میں یہ جھگڑاکہ کوئی نبی پھانسی ملا یا اپنی طبعی موت سے مرا بالکل بے فائدہ جھگڑا ہے جس سے کوئی عمدہ نتیجہ پیدا نہیں ہو سکتا.سو غو ر سے دیکھنا چاہیئے کہ خدائے تعالیٰ اپنے اس پُر جوش اور کرّوفر کے بیان میں کہ کسی یہودی یا عیسائی کو یقینی طورپر مسیح کی مصلوبیت پر ایمان نہیں کونسی بڑی غرض رکھتا ہے ؟ اور کونسا بھار ا مدعا اس کے زیر نظر ہے جس کے اثبات کے لئے اُس نے دونوں فریق یہوداور نصاریٰ کو خاموش اور لاجواب کر دیا ہے.سو یہی مدعا ہے جس کو خدائے تعالیٰ نے اپنے اس عاجز بندہ پر کہ جو مولویوں کی نظر میں کافر اورمُلحد ہے اپنے خاص کشف کے ذریعہ سے کھول دیا ہے.اے خدا جانم بر اسرارت فدا اُمّیاں را مے دہی فہم و ذکا درجہانت ہمچومن اُمّی کجا ست درجہالت ہا مرا نشو و نما ست کِرمکے بودم مرا کردی بشر من عجب تراز مسیحے بے پدر اور اگر یہ سوال کیا جائے کہ مسیح کی عدم مصلوبیت پر انجیل کی روسے کوئی استدلال پیدا ہوسکتا ہے یا نہیں یعنی یہ ثابت ہو سکتا ہے یانہیں کہ گو بظاہر صورت مسیح کو صلیب ہی دی گئی ہو مگر تکمیل اس فعل کی نہ ہوئی ہو یعنی مسیح اس صلیب کی وجہ سے وفات یاب نہ ہوا ہو.تو اس کا جواب یہ ہے کہ اناجیل اربعہ قرآن شریف کے اس قول پر کہ ما قتلوہ وماصلبوہ صاف شہادت دے رہی ہیں کیونکہ قرآن کریم کا منشاء ماصلبوہ کے لفظ سے یہ ہرگز نہیں ہے کہ مسیح صلیب پر چڑھایا نہیں گیا بلکہ منشاء یہ ہے کہ جو صلیب پر چڑھانے کا اصل مدعا تھا یعنی قتل کرنا اس سے خدائے تعالیٰ نے مسیح کو محفوظ رکھا اور یہودیوں کی طرف سے اس فعل یعنی قتلِ عمد کا اقدام تو ہوا مگر قدرت اور حکمتِ الٰہی سے تکمیل نہ پا سکا.اور جیسا کہ انجیلوں میں لکھا ہے یہ واقعہ پیش آیا کہ جب پیلا طوس سے صلیب دینے کے لئے یہودیوں نے مسیح کوجو حوالات میں تھا مانگا تو پلا طوس نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح مسیح کو چھوڑ دے کیونکہ وہ صاف دیکھتا تھا کہ مسیح بے گناہ ہے لیکن یہودیوں نے
بہت اصرار کیا کہ اس کو صلیب دے صلیب د ے.اور سَب مولوی اور فقیہ یہودیوں کے اکٹھے ہو کر کہنے لگے کہ یہ کافر ہے اور توریت کے احکام سے لوگوں کو پھیرتا ہے.پلاطوس اپنے دل میں خوب سمجھتاتھا کہ اِ ن جزئی اختلافات کی وجہ سے ایک راستباز آدمی کو قتل کر دینا بے شک سخت گناہ ہے اسی وجہ سے وہ حیلے پیدا کرتا تھا کہ کسی طرح مسیح کو چھوڑ دیا جائے.مگر حضرات مولوی کب بازآنے والے تھے انہوں نے جھٹ ایک اور بات بنالی کہ یہ شخص یہ بھی کہتا ہے کہ میں یہودیوں کا بادشاہ ہو ں اور درپردہ قیصر کی گورنمنٹ سے باغی ہے.اگر تو نے اس کو چھوڑ دیا تو پھر یاد رکھ کہ ایک باغی کو تُو نے پناہ دی.تب پلاطوس ڈر گیا کیونکہ وہ قیصرکا ماتحت تھالیکن معلوم ہوتا ہے کہ پھر بھی اس خونِ ناحق سے ڈرتا رہا.اور اس کی عورت نے خواب دیکھی کہ یہ شخص راستباز ہے اگر پلاطوس اس کو قتل کرے گا تو پھر اسی میں اُس کی تباہی ہے.سو پلاطوس اس خواب کو سُن کر اَور بھی ڈھیلا ہو گیا اس خواب پر غور کرنے سے جو انجیل میں لکھی ہے ہریک ناظرِ بصیر سمجھ سکتا ہے کہ ارادہ الٰہی یہی تھا کہ مسیح کو قتل ہوجانے سے بچاوے.سو پہلا اشارہ منشاء الٰہی کا اس خواب سے ہی نکلتا ہے اس پر خوب غور کرو.بعد اس کے ایسا ہوا کہ پلاطوس نے آخری فیصلہ کے لئے اجلاس کیا اور نابکار مولویوں اورفقیہوں کو بہتیرا سمجھایا کہ مسیح کے خون سے باز آجاؤمگر وہ باز نہ آئے بلکہ چیخ چیخ کر بولنے لگے کہ ضرور صلیب دیا جائے دین سے پھرگیا ہے.تب پلاطوس نے پانی منگواکر ہاتھ دھوئے کہ دیکھو میں اس کے خون سے ہاتھ دھوتا ہوں.تب سب یہودیوں اور فقیہوں اور مولویوں نے کہا کہ اس کا خون ہم پر اور ہماری اولاد پر.پھر بعد اس کے مسیح اُن کے حوالہ کیا گیا اور اس کو تازیانے لگائے گئے اور جس قدر گالیاں سُننا اور فقیہوں اور مولویوں کے اشارہ سے طمانچے کھانا اور ہنسی اور ٹھٹھے سے اُڑائے جانا اس کے حق میں مقدرتھا سب اُس نے دیکھا.آخر صلیب دینے کے لئے طیار ہوئے یہ جمعہ کا دن تھا
اورعصر کا وقت.اور اتفاقًا یہ یہودیوں کی عید فسح کا بھی دن تھا.اس لئے فرصت بہت کم تھی اور آگے سبت کا دن آنے والا تھاجس کی ابتدا غروب آفتاب سے ہی سمجھی جاتی تھی کیونکہ یہودی لوگ مسلمانوں کی طرح پہلی رات کو اگلے دن کے ساتھ شامل کرلیتے تھے اور یہ ایک شرعی تاکید تھی کہ سبت میں کوئی لاش صلیب پر لٹکی نہ رہے.تب یہودیوں نے جلدی سے مسیح کودوچوروں کے ساتھ صلیب پر چڑھا دیا تا شام سے پہلے ہی لاشیں اُتاری جائیں.مگر اتفاق سے اُسی وقت ایک سخت آندھی آگئی جس سے سخت اندھیرا ہو گیا.یہودیوں کو یہ فکر پڑ گئی کہ اب اگر اندھیری میں ہی شام ہو گئی تو ہم اس جرم کے مرتکب ہوجائیں گے جس کا ابھی ذکرکیاگیا ہے.سو انہوں نے اس فکر کی وجہ سے تینوں مصلوبوں کو صلیب پر سے اُتار لیا.اور یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ بالاتفاق مان لیا گیاہے.کہ وہ صلیب اس قسم کی نہیں تھی جیسا کہ آج کل کی پھانسی ہوتی ہے اورگلے میں رسّہ ڈالکر ایک گھنٹہ میں کام تمام کیا جاتا ہے.بلکہ اس قسم کا کوئی رسّہ گلے میں نہیں ڈالا جاتا تھا صرف بعض اعضاء میں کیلیں ٹھوکتے تھے اور پھر احتیاط کی غرض سے تین تین دن مصلوب بھوکے پیاسے صلیب پر چڑھائے رہتے تھے اور پھر بعد اس کے ہڈیاں توڑی جاتی تھیں اور پھر یقین کیاجاتا تھا کہ اب مصلوب مرگیا.مگر خدائے تعالیٰ کی قدرت سے مسیح کے ساتھ ایسا نہ ہوا.عید فسح کی کم فرصتی اور عصر کا تھوڑا ساوقت اور آگے سبت کا خو ف اور پھر آندھی کا آجانا ایسے اسباب یکدفعہ پیداہوگئے جس کی وجہ سے چند منٹ میں ہی مسیح کو صلیب پر سے اُتار لیا گیا اوردونوں چور بھی اُتار ے گئے.اور پھر ہڈیوں کے توڑنے کے وقت خدائے تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کا یہ نمونہ دکھا یا کہ بعض سپاہی پلاطوس کے جن کو درپردہ خواب کا خطرناک انجام سمجھایا گیا تھا و ہ اس وقت موجود تھے جن کا مدعا یہی تھا کہ کسی طرح یہ بلا مسیح کے سر پر سے ٹل جائے ایسا نہ ہو کہ مسیح کے قتل ہونے کی وجہ سے وہ خواب سچی ہو جائے جو پلاطوس کی عورت نے دیکھی تھی.اور ایسا نہ ہو کہ پلاطوس کسی
بلا میں پڑے.سو پہلے انہوں نے چوروں کی ہڈیاں توڑائیں اور چونکہ سخت آندھی تھی اور تاریکی ہو گئی تھی اور ہو اتیز چل رہی تھی اس لئے لوگ گھبرائے ہوئے تھے کہ کہیں جلد گھروں کو جاویں.سو سپاہیوں کا اس موقعہ پر خوب داؤ لگا.جب چوروں کی ہڈیاں توڑ چکے اور مسیح کی نوبت آئی تو ایک سپاہی نے یونہی ہاتھ رکھ کر کہہ دیا کہ یہ تو مر چکا ہے کچھ ضرور نہیں کہ اس کی ہڈیا ں توڑی جائیں.اور ایک نے کہا کہ میں ہی اس لاش کو دفن کردوں گا ، اور آندھی ایسی چلی کہ یہودیوں کو اس نے دھکّے دے کر اس جگہ سے نکالا.پس اس طور سے مسیح زندہ بچ گیا اورپھر وہ حواریوں کو ملا اور اُن سے مچھلی لے کر کھائی لیکن یہودی جب گھروں میں پہنچے اور آندھی فروہو گئی تو اپنی نا تمام کا رروائی سے شک میں پڑ گئے اور سپاہیوں کی نسبت بھی اُن کے دلوں میں ظن پیداہوگیا.چنانچہ اب تک عیسائیوں اوریہودیوں کا یہی حال ہے کہ کوئی اُن میں سے قسم کھا کر اور اپنے نفس کے لئے بلا اور عذاب کا وعدہ دے کر نہیں کہہ سکتا کہ مجھے درحقیقت یہی یقین ہے کہ سچ (مچ )مسیح قتل کیا گیا.یہ شکوک اُسی وقت پیدا ہو گئے تھے اورپولس نے اپنی چالاکی سے کوشش بھی کی کہ ان شکوک کو مٹاوے مگر وہ اَور بھی بڑھتے گئے.چنانچہ پولس کے بعض خطوط سے صاف ظاہر ہوتا ہے مسیح جب صلیب پرسے اتارا گیا تو اس کے زندہ ہونے پر ایک اَور پختہ ثبوت یہ پیدا ہو گیا کہ اس کی پسلی کے چھیدنے سے فی الفور اس میں سے خون رواں ہؤا.یہودی اپنی شتاب کاری کی وجہ سے اور عیسائی انجیل کی روئداد موجودہ کے لحاظ سے اس شک میں شریک ہیں.ا ور کوئی عیسائی ایسا نہیں جو انجیل پر غور کرے اورپھر یقینی طور پر یہ اعتقاد رکھے کہ سچ مچ مسیح صلیب کے ذریعہ فوت ہو گیا بلکہ اُن کے دل آج تک شک میں پڑے ہوئے ہیں اور جس کفّارہ کو وہ لئے پھرتے ہیں اس کی ایسے ریگ کے تودہ پر بناء ہے جس کوانجیل کے بیانات نے ہی برباد کردیا ہے.سوقرآن کریم کی آیت موصوفہ بالا یعنی یہ کہ
پیشگوئی کی صورت پر نہیں جیسا کہ ہمارے بھائی مولوی صا حبان جو بڑے علم کا دم مارتے ہیں خیال کررہے ہیں.بلکہ یہ تو اس واقعہ کا بیان ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں موجود تھا یعنی یہودیوں اورعیسائیوں کے خیالات کی جو اُس وقت حالت تھی خدائے تعالیٰ اتمامًا للحجۃ اُنہیں سُنا رہا ہے اوراُن کے دلوں کی حقیقت اُن پر ظاہر کر رہا ہے اور اُن کو ملزم کر کے انہیں یہ سمجھارہا ہے کہ اگر ہمارا یہ بیان صحیح نہیں ہے تو مقابل پر آکر صاف طور پر دعویٰ کرو کہ یہ خبر غلط بتائی گئی ہے اور ہم لوگ شکوک و شبہات میں مبتلا نہیں ہیں بلکہ یقینی طور پر سمجھ بیٹھے ہیں کہ سچ مچ مسیح مصلوب ہو گیا ہے.اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ آخر آیت میں جو یہ لفظ واقعہ ہے کہ قَبْلَ مَوْتِہٖ اس کلام سے اللہ جلَّ شَانُہٗ کا یہ مطلب ہے کہ کوئی شخص مسیح کی عدم مصلوبیت سے یہ نتیجہ نہ نکال لیوے کہ چونکہ مسیح صلیب کے ذریعہ سے مارا نہیں گیا اس لئے وہ مر ا بھی نہیں.سو بیان فرما دیا کہ یہ تمام حال تو قبل از موت طبعی ہے اِس سے اُس موت کی نفی نہ نکال لینا جو بعد اس کے طبعی طور پر مسیح کو پیش آگئی.گویا اس آیت میں یوں فرماتا ہے کہ یہود اور نصاریٰ ہمارے اِ س بیان پر بالا تفاق ایمان رکھتے ہیں کہ مسیح یقینی طورپر صلیب کی مو ت سے نہیں مرا صرف شکوک و شبہات ہیں.سو قبل ا س کے جو وہ لوگ مسیح کی موت طبعی پر ایما ن لاویں جو درحقیقت واقعہ ہو گئی ہے.اس موت کے مقدمہ پر اُنہیں ایمان ہے کیونکہ جب مسیح صلیب کی موت سے نہیں مرا جس سے یہود اور نصاریٰ اپنے اپنے اغراض کی وجہ سے خاص خاص نتیجے نکالنے چاہتے تھے تو پھر اُس کی طبعی موت پر بھی ایمان لانا اُن کے لئے ضروری ہے کیونکہ پیدائش کے لئے موت لازمی ہے.سو قبل موتہٖ کی تفسیر یہ ہے کہ قبل ایمانہٖ بموتہٖ.اور دوسرے طور پر آیت کے یہ بھی معنے ہیں کہ مسیح تو ابھی مرابھی نہیں تھا کہ جب سے یہ خیالات شک و شبہ کے یہود و نصاریٰ کے دلوں میں چلے آتے ہیں.پس ان معنوں کی رُو سے بھی قرآن کریم بطور اشارۃ النص مسیح کے فوت ہوجانے کی شہادت دے رہاہے غرض قرآن شریف
میں تین جگہ مسیح کا فوت ہوجانا بیان کیا گیا ہے.پھر افسو س کہ ہمارے مولوی صاحبان اُن مقامات پر نظر نہیں ڈالتے اوربعض اُن میں سے بڑی چالاکی سے کہتے ہیں کہ یہ تو ہم نے مانا کہ قرآن کریم یہی فرماتا ہے کہ مسیح فوت ہو گیا مگر کیا اللہ جلَّ شَانُہٗ اس بات پر قادر نہیں کہ پھر ز ند ہ کر کے اس کو دنیا میں لاوے؟ مگر ان علماء کے علم اورفہم پر رونا آتا ہے.اے حضرات!ہم نے یہ بھی مانا کہ خدائے تعالیٰ ہریک چیز پر قادر ہے چاہے تو تمام نبیوں کو زندہ کر دیوے مگر آپ سے سوال تو یہ کیا تھا کہ قرآن شریف تو حضرت مسیح کو وفات تک پہنچا کر پھر چُپ ہو گیا ہے اگر آپ کی نظر میں کوئی ایسی آیت قرآن کریم میں ہے جس میں یہ ذکر ہو کہ مسیح کو مارنے کے بعدپھرہم نے زندہ کر دیا تو وہ آیت پیش کیجئے ورنہ یہ قرآن شریف کا مخالفانہ مقابلہ ہے کہ وہ تومسیح کا فوت ہوجانا بیان کرے اورآپ اُس کے برخلاف یہ دعوےٰ کریں کہ مسیح مرا نہیں بلکہ زندہ ہے.بعض علماء نہایت سادگی سے یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ اِنّیْ مُتَوَفِّیْکَ کے آگے جو رَافِعُکَ اور 3 ۱ قرآن کریم میں آیا ہے اس سے زندہ ہوجانا ثابت ہوتا ہے اور کہتے ہیں کہ اگر یہ معنے سچ نہیں تو پھر بجُز مسیح کے اور کسی کے حق میں رَافِعُکَ کا لفظ کیوں نہیں آیا؟ مگر میں اسی رسالہ ازالہ اوہام میں اِن تمام وہموں کا مفصّل جواب لکھ چکا ہوں کہ رفع سے مراد روح کا عزت کے ساتھ اُٹھائے جانا ہے.جیسا کہ وفات کے بعد بموجب نص قرآن اور حدیث صحیح کے ہر یک مومن کی روح عزت کیساتھ خدائے تعالیٰ کی طرف اُٹھائی جاتی ہے اور مسیح کے رفع کا جو اس جگہ ذکر کیا گیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مسیح کو دعوتِ حق میں قریبًا ناکامی رہی اوریہودیوں نے خیال کیا کہ یہ کاذب ہے کیونکہ ضرور تھا کہ سچے مسیح سے پہلے ایلیا آسمان سے نازل ہو سوانہوں نے اس سے انکار کیا کہ مسیح کا اورنبیوں کی طرح عزت کے ساتھ خدائے تعالیٰ کی طرف رفع ہو بلکہ اس کو نعوذ باللہ لعنتی قراردیا اور لعنتی اس کو کہتے ہیں جس کو عزت کے ساتھ رفع نصیب نہ ہو
سو خدائے تعالیٰ کو منظور تھا کہ یہ الزام مسیح کے سر پر سے اُٹھاوے.سو اوّل اس نے اس بنیاد کو باطل ٹھہرایا جس بنیادپر حضرت مسیح کا لعنتی ہونا نابکار یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنے اپنے دلوں میں سمجھ لیا تھا اور پھر بعد ا س کے بتصریح یہ بھی ذکر کر دیا کہ مسیح نعوذ باللہ ملعون نہیں جو رفع سے روکا گیا ہے بلکہ عزت کے ساتھ اس کا رفع ہوا ہے.چونکہ مسیح ایک بے کس کی طرح دنیا میں چند روزہ زندگی بسرکرکے چلا گیا اوریہودیوں نے اس کی ذلّت کے لئے بہت ساغلوکیا.اُس کی والدہ پر ناجائز تہمتیں لگائیں اور اس کو ملعون ٹھہرایا اور راستبازوں کی طرح اُس کے رفع سے انکارکیا.اور نہ صرف یہو د یوں نے بلکہ عیسائی بھی مؤخر الذکر خیال میں مبتلا ہوگئے اور کمینگی کی راہ سے اپنی نجات کا یہ حیلہ نکالا کہ ایک راستباز کو ملعون ٹھہراویں اور یہ خیال نہ کیا کہ اگر مسیح کے ملعون ہونے پرہی نجات موقوف ہے اور تبھی نجات ملتی ہے کہ مسیح جیسے ایک راستباز پاک روش خدائے تعالیٰ کے پیارے کو لعنتی ٹھہرایاجاوے تو َ حیف ہے ایسی نجات پر.اس سے تو ہزار درجہ دوزخ بہتر ہے.غرض جب مسیح کے لئے دونوں فریق یہود و نصاریٰ نے ایسے دُوراز ادب القاب روا رکھے تو خدائے تعالیٰ کی غیرت نے نہ چاہاکہ اس پاک رو ش کی عزت کو بغیر شہادت کے چھوڑ دیوے.سو اس نے جیسا کہ انجیل میں پہلے سے وعدہ دیا گیا تھا ہمارے سیّد ومولیٰ ختم المرسلین کو مبعوث فرما کر مسیح کی عزت اور رفع کی قرآن کریم میں شہادت دی.رفع کا لفظ قرآن کریم میں کئی جگہ واقع ہے ایک جگہ بلعم کے قصّہ میں بھی ہے کہ ہم نے اس کا رفع چاہا مگر و ہ زمین کی طرف جھک گیا.اورایک ناکام نبی کی نسبت اس نے فرمایا 33 ۱ درحقیقت یہ بھی ایک ایسانبی ہے جس کی رفعت سے لوگوں نے انکارکیا تھا.اور چونکہ اس عاجز کی بھی مسیح کی طرح ذلّت کی گئی ہے کوئی کافرکہتا ہے اور کوئی مُلحد اور کوئی بے ایمان نام رکھتا ہے اور فقیہ اورمولوی صلیب دینے کو بھی تیار ہیں جیساکہ میاں عبد الحق اپنے اشتہار میں لکھتے ہیں کہ اس شخص کے لئے مسلمانوں کو کچھ ہاتھ سے بھی کام لینا چاہیئے.لیکن پلاطوس سے زیادہ
یہ گورنمنٹ بے گناہ کی رعایت رکھتی ہے اورپلاطوس کی طرح رعیت کے رُعب میں نہیں آتی مگر ہماری اس قوم نے ذلیل کرنے کے لئے کوئی دقیقہ باقی نہیں رکھا.تادونوں طرف سے مشابہت ثابت کرکے دکھادیوے.انہیں الہام بھی ہوگئے کہ یہ جہنمی ہے آخر جہنّم میں پڑے گا اور اُن میں داخل نہیں ہو گا جن کاعزت کے ساتھ خدائے تعالیٰ کی طرف رفع ہوتا ہے.سو آج مَیں اُس الہام کے معنی سمجھا جو اس سے کئی سال پہلے براہین میں درج ہو چکا ہے اور وہ یہ ہے3333 ۱ یعنی یہ مولو ی صاحبان عبدالرحمان و عبد الحق تو مجھے اس وقت قطعی دوزخی بناتے ہیں لیکن اُن کے اس بیان سے دس سال پہلے خدائے تعالیٰ مجھے جنّتی ہونے کا وعدہ دے چکا ہے اور جس طرح یہودیوں نے خیال کیا تھا کہ نعوذ باللہ عیسیٰ مسیح لعنتی ہے اورہرگز عزت کے ساتھ اس کا رفع نہیں ہو گا اور اُن کے ردّ میں یہ آیت نازل ہوئی تھی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ.اِسی طرح خدائے تعالیٰ نے اس جگہ بھی پہلے سے ہی اپنے علم قدیم کی وجہ سے یہ الہام بطور پیشگوئی اس عاجز کے دل پر القا کیا چونکہ وہ جانتا تھا کہ چندسال کے بعدمیاں عبدالحق اور میاں عبدالرحمن اُسی طرح اس عاجز کو لعنتی ٹھہرائیں گے جس طرح یہودیوں نے حضرت مسیح کو ٹھہرایا تھا اِس لئے اُس نے پیش از وقوع اس پیشگوئی کو براہین میں درج کرا کر گویا سارے جہان میں مشہور کردیا.تا اس کی قدرت و حکمت ظا ہر ہو اور تایہ بھی معلوم ہو کہ جس طرح مسیح کے عہد کے مولویوں نے اس کو لعنتی سمجھا اور اس کے بہشتی ہونے سے انکار کیا اور اس کا عزت کے ساتھ خدائے تعالیٰ کی طرف رفع ہونااور راستبازوں کی جماعت میں جاملنا قبول نہ کیا ایسا ہی اس عاجز کے ہم مذہب مولویوں نے اس ناکارہ کو
خدائے تعالیٰ کی رحمت سے محروم کرنا چاہا.اور سخت گنہگار مومنوں کی بھی کسی قدر عزت ہوتی ہے مگر انہوں نے کچھ بھی پروانہ رکھ کر عام طور پر یہ تقریریں کیں اورخط لکھے اور اشتہار شائع کئے.سو خدائے تعالیٰ نے اس مشابہت کے پیدا کرنے کے لئے اُن سے ایک کام لیا ہے اور دوزخی یا بہشتی ہونے کی اصل حقیقت تو مرنے کے بعد ہریک کو معلوم ہوگی جس وقت بعض بصد حسرت دوزخ میں پڑے ہوئے کہیں گے 33 ۱ عیب رِنداں مکن اے زاہد پاکیزہ سرشت توچہ دانی کہ پس پردہ چہ خوب ست و چہ زشت اب حاصل کلا م یہ ہے کہ جو رفع کا لفظ حضرت مسیح کے لئے قرآن کریم میں آیا ہے وہی لفظ الہام کے طور پر اس عاجز کے لئے بھی خدائے تعالیٰ نے فرمایا ہے.ا گر کوئی یہ اشکال پیش کرے کہ مسیح تو انجیل میں کہتا ہے کہ ضرور ہے کہ میں مارا جاؤں اور تیسرے دن جی اٹھوں تو بیان مذکورہ بالا کیوں کر اس کے مطابق ہو.اس کا جواب یہ ہے کہ اس موت سے حقیقی موت مراد نہیں ہے بلکہ مجازی موت مراد ہے.یہ عام محاورہ ہے کہ جو شخص قریب مرگ ہو کر پھربچ جائے اس کی نسبت یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ نئے سرے سے زندہ ہوا مسیح پر جو یہ مصیبت آئی کہ وہ صلیب پر چڑھایا گیا اور کِیلیں اُس کے اعضاء میں ٹھوکی گئیں جن سے وہ غشی کی حالت میں ہو گیا یہ مصیبت درحقیقت موت سے کچھ کم نہیں تھی اور عام طور پر یہ بول چال ہے کہ جو شخص ایسی مصیبت تک پہنچ کر بچ جائے اس کی نسبت یہی کہتے ہیں کہ وہ مر مر کر بچااوراگر وہ کہے کہ میں تو نئے سرے زندہ ہوا ہوں تو اس بات کو کچھ جھوٹ یا مبالغہ خیال نہیں کیا جاتا.اور اگر یہ سوال ہو کہ کونسا قرینہ خاص مسیح کے لفظ کا اس بات پر ہے کہ اس موت سے مراد حقیقی موت مراد نہیں ہے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قرینہ بھی خود حضرت مسیح نے فرمایا ہے جبکہ فقیہ اور فریسی اور یہودیوں کے مولوی اکٹھے ہو کر اس کے پاس گئے کہ تو نے مسیح ہونے کا تو دعویٰ کیا پر اس دعویٰ کو ہم کیوں کر بغیر معجزہ کے مان لیں.تو حضرت مسیح نے اُن فقیہوں اور
مولویوں کو جواب دیا کہ اس زمانہ کے حرامکا ر لوگ مجھ سے معجزہ مانگتے ہیں لیکن اُن کو بجُز یونس نبی کے معجزہ کے اور کوئی معجزہ نہیں دکھایا جائے گا.یعنی یہ معجزہ دکھایا جائے گا کہ جیسے یونس نبی تین دن مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہا اور مرا نہیں.ایسا ہی قدرت الٰہی سے مسیح بھی تین دن تک بحالت زندگی قبر میں رہے گا اور نہیں مرے گا.اب خیال کرنا چاہیئے کہ اگر مسیح کے الفاظ مذکورہ بالاکو حقیقی موت پر حمل کر لیں تو یہ معجزہ یونس کی مشابہت کا باطل ہو جائے گا کیونکہ یونس مچھلی کے پیٹ میں بحالت زندگی رہا تھا نہ مردہ ہو کر.سواگر مسیح مرگیا تھا اورموت کی حالت میں قبر میں داخل کیا گیا تو اس کو یونس کے اس واقعہ سے کیا مشابہت.اور یونس کے واقعہ کو اسکے اس واقعہ سے کیا مناسبت؟ اورمُردوں کو زندوں سے کیا مماثلت سو یہ کافی اور کامل قرینہ ہے کہ مسیح کا یہ کہنا کہ میں تین دن تک مروں گا حقیقت پر محمول نہیں بلکہ اس سے مجازی موت مراد ہے جو سخت غشی کی حالت تھی.اور اگر یہ عذر پیش ہو کہ مسیح نے مصلوب ہونے کے وقت یہ بھی کہا تھا کہ آج میں بہشت میں داخل ہو ں گا، پس اس سے صفائی کے ساتھ مسیح کا فوت ہونا ثابت ہوتا ہے.سو واضح ہو کہ مسیح کو بہشت میں داخل ہونے اور خدائے تعالیٰ کی طرف اُٹھائے جانے کا وعدہ دیا گیا تھا مگر وہ کسی اور وقت پر موقوف تھا جو مسیح پر ظاہر نہیں کیا گیا تھا جیسا کہ قرآن کریم میں انّی متوفیک ورافعک الیّ وارد ہے.سو اُس سخت گھبراہٹ کے وقت میں مسیح نے خیال کیا کہ شاید آج ہی وہ وعدہ پورا ہو گا.چونکہ مسیح ایک انسان تھا اور اس نے دیکھا کہ تمام سامان میرے مرنے کے موجود ہو گئے ہیں لہٰذا اس نے برعایتِ اسباب گمان کیا کہ شاید آج میں مر جاؤں گا.سو بباعث ہیبت تجلّی جلالی حالت موجودہ کو دیکھ کر ضعف بشریت اُس پر غالب ہوگیا تھا تبھی اس نے دل برداشتہ ہو کر کہا ایلی ایلی لما سبقتنی یعنی اے میرے خدا !اے میرے خدا!
تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا اور کیوں اس وعدہ کا ایفاء نہ کیا جو تُو نے پہلے سے کررکھا تھا کہ تُو مرے گا نہیں بلکہ یونس کی طرح تیرا حال ہوگا.اگر کہا جائے کہ خدائے تعالیٰ کے وعد ۂ حفاظت میں مسیح نے کیوں شک کیا سو واضح ہو کہ یہ شک ضعف بشریت سے ہے.جلالی تجلّی کے سامنے بشریت کی کچھ پیش نہیں جاتی.ہریک نبی کو خدائے تعالیٰ یہ دن دکھاتا ہے.اوّل وہ کوئی وعدہ بشارت اپنے نبی کو دیتاہے اورپھر جب وہ نبی اس وعدہ پر خوش ہوجاتا ہے تو ابتلا کے طور پر چاروں طرف سے ایسے موانع قائم کر دیتاہے کہ جو نومیدی اور ناکامی پر دلالت کرتے ہوں بلکہ قطع اور یقین کی حد تک پہنچ گئے ہوں جیسا کہ خدائے تعالیٰ نے ایک طرف تو ہمارے سیّد و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بدرکی لڑائی میں فتح اور نصرت کی بشارت دی اور دوسری طرف جب لڑائی کا وقت آیا تو پھر پتہ لگا کہ مخالفوں کی اس قدر جمعیت ہے کہ بظاہر کامیابی کی امید نہیں.تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت کرب و قلق ہوا اور جناب الٰہی میں رو رو کر دعائیں کیں کہ یا الٰہی اس گروہ کو فتح بخش اور اگر تُو فتح نہیں دے گا اور ہلاک کر دے گا تو پھر قیامت تک کوئی تیری پرستش نہیں کرے گا.سو یہ الفاظ درحقیقت اس بات پر دلالت نہیں کرتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیشگوئی کی نسبت شک میں پڑ گئے تھے بلکہ حالات موجودہ کو خلاف مراددیکھ کر خدائے تعالیٰ کے غنائے ذاتی پر نظر تھی اور اس کی جلالی ہیبت سے متأثر ہو گئے تھے اور درحقیقت ہریک جگہ جو قرآن شریف میں نبی کریم کو کہا گیا ہے کہ تُو ہمارے وعدہ میں شک مت کر وہ سب مقامات اِسی قسم کے ہیں جن میں بظاہر سخت ناکامی کی صورتیں پیدا ہو گئی تھیں اور اسباب مخالفہ نے ایسا رُعب ناک اپنا چہرہ دکھلایا تھا جن کو دیکھ کر ہریک انسان ضعف بشریت کی وجہ سے حیران ہوجاتا ہے.سو اِ ن وقتوں میں نبی کریم کو بطور تسلی دہی کے فرمایا گیا کہ اگرچہ حالت نہایت نازک ہے مگر تو بباعث ضعف بشریت شک مت کر یعنی یہ خیال مت کر کہ شاید اس پیشگوئی کے اور معنے ہوں گے.
راقم رسالہ ہذا اس مقام میں خود صاحبِ تجربہ ہے.عرصہ قریبًا تین برس کا ہوا ہے کہ بعض تحریکات کی وجہ سے جن کا مفصل ذکر اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۸ ء میں مندرج ہے خدائے تعالیٰ نے پیشگوئی کے طورپر اس عاجز پر ظاہر فرمایاکہ مرز ااحمد بیگ ولد مرزا گاماں بیگ ہوشیارپوری کی دختر کلاں انجام کار تمہارے نکا ح میں آئے گی اور وہ لوگ بہت عداوت کریں گے اور بہت مانع آئیں گے اور کوشش کریں گے کہ ایسانہ ہو لیکن آخر کار ایسا ہی ہو گا اور فرمایا کہ خدائے تعالیٰ ہر طرح سے اس کو تمہاری طرف لائے گا باکرہ ہونے کی حالت میں یا بیوہ کرکے اور ہریک روک کو درمیان سے اٹھا وے گا اور اس کام کو ضرور پورا کرے گا کوئی نہیں جو اُس کو روک سکے.چنانچہ اس پیشگوئی کا مفصل بیان معہ اس کی میعاد خاص اور اس کے اوقات مقر ر شدہ کے اور معہ اس کے اُن تمام لوازم کے جنہوں نے انسان کی طاقت سے اُس کو باہر کردیا ہے اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۸ ء میں مندرج ہے اور وہ اشتہار عام طورپر طبع ہو کر شائع ہو چکا ہے جس کی نسبت آریوں کے بعض منصف مزاج لوگوں نے بھی شہادت دی کہ اگر یہ پیشگوئی پوری ہو جائے تو بلاشبہ یہ خدائے تعالیٰ کا فعل ہے.اور یہ پیشگوئی ایک سخت مخالف قوم کے مقابل پر ہے جنہوں نے گویا دشمنی اور عناد کی تلواریں کھینچی ہوئی ہیں اورہریک کو جو اُن کے حال سے خبر ہو گی وہ اس پیشگوئی کی عظمت خوب سمجھتاہوگا.ہم نے اس پیشگوئی کو اس جگہ مفصل نہیں لکھا تابار بار کسی متعلق پیشگوئی کی دل شکنی نہ ہو لیکن جو شخص اشتہار پڑھے گا وہ گو کیسا ہی متعصّب ہوگا اس کو اقرار کرنا پڑے گا کہ مضمون اس پیشگوئی کا انسان کی قدرت سے بالاتر ہے اور اس بات کا جواب بھی کامل اور مسکت طور پر اسی اشتہار سے ملے گا کہ خدائے تعالیٰ نے کیوں یہ پیشگوئی بیان فرمائی اور اس میں کیا مصالح ہیں.اورکیوں اور کس دلیل سے یہ انسانی طاقتوں سے بلند ترہے.اب اس جگہ مطلب یہ ہے کہ جب یہ پیشگوئی معلوم ہوئی اور ابھی پوری نہیں ہوئی تھی
(جیسا کہ اب تک بھی جو ۱۶؍اپریل ۱۸۹۱ ء ہے پوری نہیں ہوئی ) تو اس کے بعد اس عاجز کو ایک سخت بیماری آئی یہاں تک کہ قریب موت کے نوبت پہنچ گئی بلکہ موت کو سامنے دیکھ کر وصیت بھی کر دی گئی.اُس وقت گویا یہ پیشگوئی آنکھوں کے سامنے آگئی اور یہ معلوم ہورہا تھا کہ اب آخری دم ہے اور کل جنازہ نکلنے والا ہے.تب میں نے اس پیشگوئی کی نسبت خیال کیاکہ شاید اس کے اَور معنے ہوں گے جو میں سمجھ نہیں سکا.تب اُسی حالت قریب الموت میں مجھے الہام ہوا الحق من ربک فلا تکوننّ من الممترین یعنی یہ بات تیرے رب کی طرف سے سچ ہے تو کیوں شک کرتا ہے.سو اُس وقت مجھ پر یہ بھید کھلا کہ کیوں خدائے تعالیٰ نے اپنے رسول کریم کو قرآن کریم میں کہا کہ تُو شک مت کر.سو میں نے سمجھ لیا کہ درحقیقت یہ آیت ایسے ہی نازک وقت سے خاص ہے جیسے یہ وقت تنگی اور نومیدی کا میرے پر ہے اور میرے دل میں یقین ہوگیا کہ جب نبیوں پر بھی ایسا ہی وقت آجاتا ہے جو میرے پر آیا تو خدائے تعالیٰ تازہ یقین دلانے کے لئے اُن کو کہتا ہے کہ تو کیوں شک کرتا ہے اور مصیبت نے تُجھے کیوں نوامید کردیا تُو نوامید مت ہو.(۵) سوال:.ابن مریم کے اُترنے کا ذکر جو احادیث میں موجود ہے کسی نے سلف اور خلف میں سے اس کی یہ تاویل نہیں کی کہ ابن مریم کے لفظ سے جو ظاہر طورپر حضرت عیسیٰ مسیح سمجھا جاتا ہے درحقیقت یہ مراد نہیں ہے بلکہ کوئی اس کا مثیل مراد ہے.ما سوا اس کے اس بات پر اجماع ہے کہ نصوص کو ظاہر پر حمل کیا جائے اور بغیر قرائن قویہ کے باطن کی طرف نہیں پھیرنا چاہیئے.امّاالجوب.پس واضح ہو کہ سلف اور خلف کے لئے یہ ایک ایمانی امر تھا جو پیشگوئی کو اجمالی طور پر مان لیا جائے انہوں نے ہرگز یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ہم اس پیشگوئی کی تہ تک پہنچ گئے ہیں اور درحقیقت ابن مریم سے ابن مریم ہی مراد ہے.اگراُن کی طرف سے ایسا دعویٰ ہوتا تو وہ دجّال کے فوت ہوجانے کے قائل نہ ہوتے اور نہ قرآن شریف کے
اُن مقامات کو جن میں مسیح کی موت کا ذکر ہے یونہی بحث سے خارج سمجھ کر خاموشی اختیار کرتے اور اگر فرض کے طور پر یہ بھی مان لیں کہ کوئی صحابہ میں سے یہی سمجھ بیٹھا تھا کہ ابن مریم سے ابن مریم ہی مراد ہے تو تب بھی کوئی نقص پیدا نہیں ہوتا.کیونکہ پیشگوئیوں کے سمجھنے میں قبل اس کے جوپیشگوئی ظہور میں آوے بعض اوقات نبیوں نے بھی غلطی کھائی ہے پھر اگر کسی صحابی نے غلطی کھائی تو کون سے بڑے تعجب کی بات ہے.ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فراست اورفہم تمام اُمت کی مجموعی فراست اور فہم سے زیادہ ہے بلکہ اگر ہمارے بھائی جلدی سے جوش میں نہ آجائیں تو میرا تو یہی مذہب ہے جس کو دلیل کے ساتھ پیش کرسکتا ہوں کہ تمام نبیوں کی فراست اور فہم آپ کی فہم اور فراست کے برابر نہیں.مگر پھر بھی بعض پیشگوئیوں کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اقرار کیا ہے کہ میں نے اُن کی اصل حقیقت سمجھنے میں غلطی کھائی میں پہلے اس سے چند دفعہ لکھ چکا ہوں کہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف طورپر فرما دیاتھا کہ میری وفات کے بعد میری بیبیوں میں سے پہلے وہ مجھ سے ملے گی جس کے ہاتھ لمبے ہوں گے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رُوبرو ہی بیبیوں نے باہم ہاتھ ناپنے شروع کردئے چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس پیشگوئی کی اصل حقیقت سے خبر نہ تھی اس لئے منع نہ کیا کہ یہ خیال تمہارا غلط ہے.آخر اس غلطی کو پیشگوئی کے ظہور کے وقت نے نکالا.اگر زمانہ اُن بیبیوں امّہات المؤمنین کو مہلت دیتا اور وہ سب کی سب ہمارے اِس زمانہ تک زندہ رہتیں تو صاف ظاہر ہے کہ صحابہ کے عہد سے لے کر آج تک تمام اُمت کا اِسی بات پر اتفاق ہوجاتا کہ پہلے لمبے ہاتھ والی بی بی فوت ہوگی اورپھرظہور کے وقت جب کوئی اَور ہی بیوی پہلے فوت ہوجاتی جس کے اَوروں کی نسبت لمبے ہاتھ نہ ہوتے تو اس تمام اجماع کو کیسی خجالتیں اُٹھانی پڑتیں اورکس طرح ناحق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کراتے اوراپنے ایمان کو شبہات میں ڈالتے.
اس وقت مجھے اپنے ایک دوست کی بات یاد آئی ہے.خدا اس کو غریق رحمت کرے نام اس مرحوم کا حافظ ہدایت علی تھا اور یہ کسی زمانہ میں ضلع گورداسپور کے اکسٹرا اسسٹنٹ تھے اور مدّت تک بٹالہ میں تحصیلدار بھی رہے ایک جلسہ میں انہوں نے فرمایا کہ جس قدر بعض امورکے ظہور کا آخری زمانہ کے بارے میں وعدہ دیا گیا ہے اور بعض پیشگوئیاں فرمائی گئی ہیں ہمیں اُن کی نسبت یہ اعتقاد نہیں رکھنا چاہیئے کہ وہ ضرور اپنی ظاہری صورت میں ہی ظہور پذیر ہوں گی.تا اگرآئندہ اُن کی حقیقت کسی اَور طور پرکھلے تو ہم ٹھوکر نہ کھاویں.اور ہمارا ایمان سلامت رہ جائے.اورکہاکہ چونکہ غالبًا ہم اُسی زمانہ میں پیداہوئے ہیں جس کو آج سے کچھ کم تیرہ سو برس پہلے آخری زمانہ کے نام سے یادکیا گیا ہے.اس لئے کچھ تعجب نہیں کہ ان میں سے بعض پیشگوئیاں ہماری ہی زندگی میں ظاہر ہوجائیں.سو ہمیں اجمالی ایمان کا اصول محکم پکڑنا چاہیئے اور کسی شق پر ایسا زور نہیں دینا چاہیئے جیساکہ اس حالت میں دیاجاتا ہے کہ جب ایک حقیقت کی تہ تک ہم پہنچ جاتے ہیں.تمّ کلامہ‘ اور واقعی یہ سچ اور بالکل سچ ہے کہ اُمت کے اجماع کو پیشگوئیوں کے امور سے کچھ تعلق نہیں اور ہمارے حال کے مولویوں کو یہ سخت دھوکا لگاہوا ہے کہ پیشگوئیوں کو بھی جن کی اصل حقیقت ہنوز درپردۂ غیب ہے اجماع کے شکنجہ میں کھینچنا چاہتے ہیں.دراصل پیشگوئیاں حاملہ عورتوں سے مشابہت رکھتی ہیں اورمثلًا ہم ایک حاملہ عورت کی نسبت یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اس کے پیٹ میں کوئی بچہ ضرور ہے اور یقینًا وہ نو مہینے اور دس دن کے اند ر اندر پیدا بھی ہوجائے گا مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کیا شکل رکھتا ہے اور اس کی حالت جسمی کیسی ہے اور اس کے نقوش چہرہ کس طرز کے واقع ہیں اور لڑکا ہے یا بلاشبہ لڑکی ہے.شاید اس جگہ کسی کے دل میں یہ اعتراض خلجان کرے کہ اگر پیشگوئیوں کا ایسا ہی
حال ہے تو لائق اعتبار نہ رہیں اور اس لائق نہ رہیں کہ نبی کی صدقِ نبوت پر بطور دلیل اور شاہد ناطق کے تصّور کی جائیں یا کسی مخالف منکر کے سامنے پیش کی جائیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات کہ پیشگوئیاں کبھی اپنے ظاہر پرہی پوری ہوجاتی ہیں اور کبھی باطنی طور پر اُن کا ظہور ہوتا ہے.اس سے ربانی پیشگوئیوں کی عظمت میں کچھ بھی فرق نہیں آتا بلکہ باریک بینوں کی نظر میں اور بھی عظمت کھلتی ہے.کیا اگر ایک فلاسفر کا قول کوئی موٹی عقل کا آدمی اُلٹے طورپر سمجھ لیوے اور پھر اس کے معقول معنے جو نہایت مدلل اور ثابت شدہ ہیں کھل جائیں تو اس غلطی سے ان صحیح معنوں کو کچھ حر ج پہنچ سکتاہے ؟ ہرگز نہیں.ماسوا اس کے پیشگوئیوں میں ایک قدرِ مشترک بہرحال ایساباقی رہتا ہے کہ خواہ وہ حقیقت پر محمول سمجھی جائیں اور یا بالآخر کوئی مجازی معنے نکل آویں وہ قدر مشترک بدیہی طورپر ظاہر کردیتا ہے کہ یہ پیشگوئی درحقیقت سچی اور انسانی طاقتوں سے بالاتر ہے.علاوہ اس کے جن پیشگوئیوں کومخالف کے سامنے دعویٰ کے طورپر پیش کیاجاتا ہے وہ ایک خاص طور کی روشنی اور بداہت اپنے اندر رکھتی ہیں اور ملہم لوگ حضرت احدیت میں خاص طورپر توجہ کر کے اُن کا زیادہ تر انکشاف کرالیتے ہیں مگر معمولی طورپر بہت کچھ چھپے ہوئے گوشے پیشگوئیوں کے ہوتے ہیں.اور یہ سراسر نادانی کی ضد ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ خواہ نخواہ پیشگوئی حقیقت پر محمول ہوا کرتی ہے.جس نے یہودیوں اور عیسائیوں کی کتابوں کو دیکھا ہوگا وہ اس بات کو خوب جانتا ہو گا کہ کِس قدر پیشگوئیوں میں استعارات اُن کتابوں نے استعمال کئے ہیں.یہاں تک کہ بعض مواضع میں دن ذکر کر کے اُس سے برس مراد لیا ہے.درحقیقت پیشگوئیاں از قبیل مکاشفات ہوتی ہیں اور اس چشمہ سے نکلتی ہیں جو استعارات کے رنگ سے بھرا ہوا ہے اپنی خوابوں کو دیکھو کیا کوئی سیدھے طورپر بھی خواب آتی ہے.مگر شاذونادر.ایسا ہی خدائے تعالیٰ مکاشفات کو استعارات کی خلعت سے آراستہ کرکے اپنے نبیوں کی معرفت
ظاہر کرتاہے سو اس صداقت کے قبول کرنے کا نام الحاد رکھنا خود الحاد ہے.کیونکہ الحاد اسی کو کہتے ہیں کہ ایک معنے اپنے اصل سے پھیرے جائیں.سو جبکہ خدائے تعالیٰ کے قانون قدرت نے مکاشفات اوررؤیائے صالحہ کے لئے یہی اصل مقرّر کردیاہے کہ وہ اکثر استعارات سے پُر ہوتے ہیں تو اس اصل سے معنے کو پھیرنا اور یہ دعویٰ کرنا کہ ہمیشہ پیشگوئیاں ظاہرپر ہی محمول ہوتی ہیں اگر الحاد نہیں تو اور کیا ہے ؟ صوم اور صلوٰۃ کی طرح پیشگوئی کو بھی ایک حقیقت منکشفہ سمجھنا بڑی غلطی اور بڑا بھارا دھوکہ ہے.یہ احکام تو وہ ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کر کے دکھلادئے اور بکلّی اُن کا پردہ اُٹھادیا.مگر کیا ان پیشگوئیوں کے حق میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا ہے کہ یہ من کل الوجوہ مکشوف ہیں اور ان میں کوئی ایسی حقیقت اور کیفیت مخفی نہیں جو ظہور کے وقت سمجھ آسکے اگر کوئی ایسی حدیث صحیح موجود ہے تو کیوں پیش نہیں کی جاتی.آپ لوگ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ علم و فراست نہیں رکھتے.صحیح بخاری کی حدیث کو دیکھو کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ابریشم کے ٹکڑہ پر حضرت عائشہ صدیقہ کی تصویر دکھائی گئی کہ یہ تیرے نکاح میں آئے گی تو آپ نے ہر گز یہ دعویٰ نہ کیا کہ عائشہ سے در حقیقت عائشہ ہی مراد ہے.بلکہ آپ نے فرمایا کہ اگر درحقیقت اس عائشہ کی صورت سے عائشہ ہی مراد ہے تو وہ مل ہی رہے گی ورنہ ممکن ہے کہ عائشہ سے مراد کوئی اَور عورت ہو.آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ابوجہل کے لئے مجھے بہشتی خوشہ انگور دیا گیا مگر اس پیشگوئی کا مصداق عکرمہ نکلا.اورجب تک خدائے تعالیٰ نے خاص طور پر تمام مراتب کسی پیشگوئی کے آپ پر نہ کھولے تب تک آپ نے اُس کی کسی شق خاص کا کبھی دعویٰ نہ کیا.آپ لوگ جانتے ہیں کہ جب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ابو جہل سے شرط لگائی اور قرآن شریف کی وہ پیشگوئی مدار شرط رکھی کہ اور تین برس کا عرصہ ٹھہرایا
تو آپ پیشگوئی کی صور ت کو دیکھ کر فی الفور دور اندیشی کو کام میں لائے اور شرط کی کسی قدر ترمیم کرنے کے لئے ابو بکر صدیق کو حکم فرمایا اورفرمایاکہ بضع سنین کا لفظ مجمل ہے اور اکثر نو برس تک اطلاق پاتا ہے.ایسا ہی آپ نے اُمّت کے سمجھانے کے لئے بعض پیشگوئیوں کے سمجھنے میں خود اپنا غلطی کھانا بھی ظاہر فرمایا.اب کیا یہ تعلیم نبوی کافی نہیں اور کیا یہ تعلیم بآواز بلند نہیں بتلا رہی کہ پیشگوئیوں پر اجمالی طور پر ایمان لاؤ اور اُن کی اصل حقیقت حوالہ بخدا کرو.اُمّت محمدیہ میں تفرقہ مت ڈالو اور تقویٰ کا طریق اختیار کرلو.اے حضرات ! اکیلے اکیلے اپنے گھروں میں بیٹھ کر فکر کرو.اوراپنے بستروں پر لیٹے ہوئے سادگی سے میری بات کو سوچو.قبرستان میں جاؤ اور اپنی موت کو یاد کر کے ایک بے غبار نظر اپنے لئے لاؤ اور خوب دیکھ لو کہ تقو یٰ کا کونسا طریق ہے اور احتیاط اور خداترسی کی کونسی راہیں ہیں ؟ اگر آپ پر یہ بات مشتبہ ہے جو میں نے پیش کی ہے تو کیا آپ لوگوں کا اس بات میں بھی کچھ حرج ہے کہ آپ اجمالی طور پر اپنے ایمان پر قائم رہیں اور اس کی تفاصیل مخفیہ میں خواہ نخواہ دخل نہ دیں اورمجھے میرے خدائے تعالیٰ کے ساتھ چھوڑ دیں.میں کسی پر جبر نہیں کرتا.ایک تبلیغ ہے چاہے کوئی سنے یا نہ سنے اگر کسی کو خدائے تعالیٰ یقین بخشے اور وہ مجھے پہچان لے اور میری باتوں کو مان لیوے تو وہ میرا خاص طور پر بھائی ہے اور اس کو بلا شبہ اپنے ایمان کا اجر ہے.لیکن اگر آپ لوگ اتنا بھی کریں کہ اس پیشگوئی کے دقائق مخفیہ کو خدائے تعالیٰ کے سپرد کر رکھیں اور ایمان کی حد پر ٹھہرے رہیں اور خواہ نخواہ کامل عرفان کا دعویٰ نہ کریں تو سوچو اسمیں آپ کے لئے خرابی کیا ہے اور عند اللہ کونسا مؤاخذہ ہے؟ کیا اگر آپ ایسا کریں تو اس سے آپ کو مؤاخذہ ہو گا ؟ لیکن اگر آپ اپنے ایمان کی حد سے بڑھ کر قدم رکھیں اور وہ دعویٰ کریں جس کا آپکو علم نہیں دیا گیا تو بے شک اس دخلِ بیجا کی باز پُرس ہوگی.
اے حضرات مولوی صاحبان ! کیوں لوگوں کو بلا میں ڈالتے ہو اور کیوں اپنے علم سے بڑھ کر دعویٰ کرتے ہو.اگر ابن مریم کے نزول کی حدیث میں کوئی مخالفانہ قرینہ قائم نہ ہوتا اور صرف الہام ہی کے ذریعہ ایک مسلمان اُس کے معنے آپ پر کھولتا کہ ابن مریم سے اِس جگہ درحقیقت ابن مریم مرادنہیں ہے تب بھی بمقابل اس کے آپ لوگوں کو یہ دعویٰ نہیں پہنچتا تھا کہ ابن مریم سے مراد درحقیقت ابن مریم ہے.کیونکہ مکاشفات میں استعارات غالب ہیں اور حقیقت سے پھیرنے کے لئے الہام الٰہی قرینہ قویہ کا کام دے سکتا ہے اور آپ حسن ظن کے لئے مامور ہیں.لیکن اس جگہ تو صرف الہام ہی نہیں دوسرے قرائن قویہ بھی موجود ہیں کیا یہ کم قرینہ ہے کہ خدائے تعالیٰ نے مسیح کی وفات کے بارے میں تو کئی آیتیں بیان کیں مگر اُن کے زندہ رہنے اور زندہ اُٹھائے جانے پر اشارہ تک نہیں کیا.کیا یہ کم قرینہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے ابن مریم کا وہ حُلیہ بیان نہیں کیا جو جانیوالے کا بیان فرمایا.کیا یہ کم قرینہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے مسیح کو ایک اُمتی ٹھہرایا اور خانہ کعبہ کا طواف کرتے اس کو دیکھا.اور یہ عذر کہ اس بات پر اجماع ہو چکا ہے کہ نصوص کو ظاہر پر حمل کیا جائے یعنی قرآن اور حدیث کے ظاہری معنے لینے چاہئیں.سو واضح ہو کہ یہ عذر درحقیقت ایسا عذر ہے جس سے ہمارے مخالفوں پر ہماری حجت پوری ہوتی ہے کیونکہ یہ ناجا ئز طریقہ انہیں لوگوں نے اختیار کیا ہے کہ نصوص بیّنہ کلام الٰہی کو بغیر قیام قرینہ کے باطن کی طرف پھیر رہے ہیں.قرآن کریم نے اپنے پچیس مقام میں توفّی کے لفظ کو قبض روح کے معنوں پر استعمال کیا ہے اور صاف جا بجا ظاہر کردیا ہے کہ توفّی کے یہ معنے ہیں کہ روح قبض کی جائے اور جسم کو چھوڑ دیاجائے.لیکن یہ لوگ (خدا ان کو ہدایت دے ) تیئیس مقام میں تو یہی معنے مذکورہ بالا قبُول کرتے اور دو متنازعہ فیہ جگہوں میں جہاں مسیح کی
وفات کا ذکر ہے اپنی طرف سے اَور اَور معنے گھڑتے ہیں.اب دیکھنا چاہیئے کہ ظواہرنصوص سے انہوں نے مُنہ پھیرایا ہم نے؟ ہاں ابن مریم کے نزول سے جو حدیثوں میں آیا ہے ہمارے نزدیک درحقیقت ابن مریم مراد نہیں ہے مگر اس سے لازم نہیں آتا کہ ہم نے نص کو ظاہر سے باطن کی طرف پھیرا ہے بلکہ قطع نظر الہام الٰہی سے یہ استعارہ اس لئے ماننا پڑ ا کہ نصوص بیّنہ قرآن کریم و احادیث صحیحہ اُس کو حقیقت پر حمل کرنے سے روکتی ہیں چنانچہ ہم بار بار ان دلائل صریحہ واضحہ کو بیان کر چکے ہیں کہاں تک اعادہ کلام کریں.(۶) سوال.مسیح موعود کے ساتھ احادیث میں کہیں مثیل کا لفظ دیکھا نہیں جاتا.یعنی یہ کسی جگہ نہیں لکھا کہ مثیل مسیح ابن مریم آوے گا بلکہ یہ لکھا ہے کہ مسیح ابن مریم آوے گا.اما الجواب.پس سوچنا چاہیئے کہ جب خدائے تعالیٰ نے آنے والے مثیل کا ابن مریم ہی نام رکھ دیا تو پھر وہ اس کو مثیل ابن مریم کر کے کیوں لکھتا.مثلاً تم سوچو کہ جو لوگ اپنی اولاد کے نام موسیٰ و داؤد وعیسیٰ وغیرہ رکھتے ہیں اگرچہ اُن کی غرض تو یہی ہوتی ہے کہ وہ نیکی اور خیر و برکت میں ان نبیوں کے مثیل ہو جائیں مگر پھر وہ اپنی اولاد کو اس طرح کر کے تو نہیں پکارتے کہ اے مثیل موسیٰ.اے مثیل داؤد.اے مثیل عیسیٰ.بلکہ اصل نام ہی بطور تفاؤل پکارا جاتا ہے.پس کیا جو امر انسان محض تفاؤل کی راہ سے کر سکتا ہے وہ قادرمطلق نہیں کر سکتا ؟ کیا اس کو طاقت نہیں کہ ایک آدمی کی روحانی حالت کو ایک دوسرے آدمی کے مشابہ کرکے وہی نام اُس کا بھی رکھ دیوے؟ کیا اُس نے اسی روحانی حالت کی وجہ سے حضرت یحییٰ کا نام ایلیانہیں رکھ دیا تھا؟ کیا اسی روحانی مناسبت کی وجہ سے حضرت مسیح ابن مریم کا نام توریت پیدائش باب ۴۹ میں سیلا نہیں رکھا گیا اور سیلا یہودا بن یعقوب علیہ السلام کے پوتے کا نام تھا.یہود اکو اسی باب میں مسیح ابن مریم کے آنے کی ان لفظوں میں بشارت دی گئی کہ یہودا سے ریاست کا عصا جدا نہ ہو گا جبتک سیلا نہ آوے.یہ نہ کہا گیا کہ جب تک ابن مریم نہ آوے.چونکہ مسیح ابن مریم اُس خاندان سے
پیدا ہونے کی وجہ سے یہوداکا پوتا ہی تھا اس وجہ سے اس کا نام سیلا ہی رکھ دیا گیا.اسی توریت پیدائش با ب ۴۸ آیت پندرہ ۱۵ میں حضرت یعقوب کی یہ دعا ذکر کی ہے کہ اُس نے یوسف کے لئے برکت چاہی اور یوسف کے لڑکوں کے لئے دعاکرکے کہا کہ وہ خداجس نے ساری عمر آج کے دن تک میری پاسبانی کی اِن جوانوں کو برکت دیوے اور جو میرا اور میرے باپ دادوں ابراہام اور اسحاق کا نام ہے سو اُن کا رکھا جاوے.پس اللہ جلّشانہُ‘ کی اس عادت قدیمہ سے انکار نہیں ہو سکتاکہ وہ روحانی مناسبت کی وجہ سے جو ایک کا نام ہے وہ دوسرے کا رکھ دیتا ہے.ابراہیمی المشرب اس کے نزدیک ابراہیم ہے اور موسوی المشرب اس کے نزدیک موسیٰ ہے اور عیسوی المشرب اس کے نزدیک عیسیٰ ہے اور جو اِن تمام مشربوں سے حصہ رکھتا ہے وہ اِن تمام ناموں کا مصداق ہے.ہاں اگر کوئی امر بحث کے لائق ہے تو یہ ہے کہ ابن مریم کے لفظ کو اس کے ظاہری اور متبادر معنوں سے کیوں پھیراجائے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بوجہ قیام قرینہ قویہ کے کیونکہ قرآن کریم اورحدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بوضاحت ناطق ہے کہ مسیح ابن مریم رسول اللہ جاں بحق ہوا اور خدائے تعالیٰ کی طرف اُٹھایا گیا اور اپنے بھائیوں میں جا ملا.اور رسول مقبول نبی آخر الزمان نے اپنی معراج کی رات میں یحییٰ نبی شہید کے ساتھ دوسرے آسمان میں اُس کو دیکھا یعنی گذشتہ اور وفات یافتہ لوگوں کی جماعت میں اُس کو پایا.قرآن کریم و احادیث صحیحہ یہ امید اور بشارت بتواتر دے رہی ہیں کہ مثیل ابن مریم اور دوسرے مثیل بھی آئیں گے مگر کسی جگہ یہ نہیں لکھا کہ کوئی گذشتہ اور وفات یافتہ نبی بھی پھر دنیامیں آجائے گا.لہٰذا یہ بات ببداہت ثابت ہے کہ ابن مریم سے وہ ابن مریم رسول اللہ مراد نہیں ہے جو فوت ہو چکا اور فوت شدہ جماعت میں جاملا اور خدائے تعالیٰ کی اس حکمت عجیبہ پر بھی نظر ڈالو کہ اُس نے آج سے قریبًا دس برس پہلے اس عاجز کا نام عیسیٰ رکھا اور بتوفیق و فضل خود براہین میں چھپواکر ایک عالم میں اس نام کو مشہور کر دیا.
اب ایک مدّت دراز کے بعد اپنے خاص الہام سے ظاہرفرمایا کہ یہ وہی عیسیٰ ہے جس کے آنے کا وعدہ تھا.برابر دس ۱۰ برس تک لوگ اس نام کو کتاب براہین میں پڑھتے رہے اور خدائے تعالیٰ نے دس برس تک اس دوسرے الہام کو جو پہلے الہام کے لئے بطور تشریح تھا پوشیدہ رکھا تا اس کے پُرحکمت کام ایک غور کرنے والے کی نظر میں بناوٹ سے مصفّٰی ثابت ہوجائیں.کیونکہ بناوٹ کا سلسلہ اس قدر لمبا نہیں ہو سکتاجس کی بنیاد ایک طول طویل مدّت سے پہلے ہی رکھی گئی ہو.فتدبروا یا اولوالابصار.(۷) سوال.یہ جو بیان کیا گیاہے کہ ممکن ہے کہ اور مثیل مسیح بھی آویں تو کیا اُن میں سے موعود ایک ہی ہے جو آپ ہیں یا سب موعود ہوں گے اور کن کن کو ہم سچا موعود تسلیم کریں؟ امّاالجواب.پس واضح ہو کہ وہ مسیح موعود جس کا آنا انجیل اوراحادیث صحیحہ کے رُ و سے ضروری طورپر قرار پا چکا تھا وہ تو اپنے وقت پر اپنے نشانوں کے ساتھ آگیا اور آج وہ وعدہ پورا ہوگیا جو خدائے تعالیٰ کی مقدّس پیشگوئیوں میں پہلے سے کیا گیا تھا.لیکن اگرکسی کے دل میں یہ خلجان پیدا ہوکہ بعض احادیث کی اس آنے والے مسیح کی حالت سے بظاہر مطابقت معلوم نہیں ہوتی جیسے مسلم کی دمشقی حدیث.تو اول تو اس کا یہی جواب ہے کہ درحقیقت یہ سب استعارات ہیں اورمکاشفات میں استعارات غالب ہوتے ہیں.بیان کچھ کیا جاتا ہے اور مرا د اُس سے کچھ لیاجاتاہے.سو یہ ایک بڑادھوکہ اور غلطی ہے جو اُن کو ظاہری طورپر مطابق کرنے کے لئے کوشش کی جائے اور یا اس تردّد اور فکر اورحیرت میں اپنے تئیں ڈال دیاجائے کہ کیوں یہ نشانیاں ظاہری طورپر مطابق نہیں آتیں.کیا یہ سچ نہیں کہ ان حدیثوں کی تشریح کے وقت فریق مخالف کوبھی اکثر مقامات میں تاویلوں کی حاجت پڑی ہے اوربڑے تکلّف کے ساتھ تاویلیں کی ہیں.جیسے مسیح ابن مریم کا یہ عمدہ کام جو بیان کیا گیا ہے جو وہ دنیا میں آکر خنزیروں کو قتل کرے گا.دیکھنا چاہیئے کہ اس کی تشریح میں علماء نے کس قدر الفاظ کو ظاہر سے باطن کی طرف پھیرنے کے لئے کوشش کی ہے.
ایسا ہی دجّال کے طواف کعبہ میں کس قدردور از حقیقت تاویلوں سے کا م لیا ہے.سو اگر فریق ثانی اِن مقامات میں تاویلوں سے بکلّی دستکش رہتے تو البتہ و ہ ہمیں ماوّل خیال کرنے میں کسی قدر معذور ٹھہرتے لیکن اب وہ آپ ہی اس راہ پر قدم مار کر کس مُنہ سے ہم کو یہ الزام دیتے ہیں.سچ تو یہ ہے کہ چونکہ درحقیقت یہ کشفی عبارتیں استعارات سے پُر ہیں اس لئے کسی فریق کے لئے ممکن نہیں کہ ان کو ہریک جگہ ظاہر پر حمل کر سکے.لمبے ہاتھوں کی حدیث لمبے ہاتھ کرکے بتلا رہی ہے کہ اِن مکاشفات میں ظاہر پر زور مت دو ورنہ دھوکہ کھاؤ گے مگر کوئی اُس کی ہدایت کو قبول نہیں کرتا جو قبر کے عذاب کی نسبت حدیثوں میں بکثرت یہ بیان پایا جاتا ہے کہ ان میں گنہگار ہونے کی حالت میں بچّھو ہوں گے اور سانپ ہوں گے اور آگ ہوگی.اگر ظاہر پر ہی ان حدیثوں کو حمل کرنا ہے تو ایسی چند قبریں کھودو اور اُن میں سانپ اور بچّھو دکھلاؤ.پھر بعد اس کے ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر ظاہر پر ہی اِن بعض مختلف حدیثوں کو جو ہنوز ہماری حالتِ موجودہ سے مطابقت نہیں رکھتیں محمول کیا جائے تب بھی کوئی حرج کی بات نہیں.کیونکہ ممکن ہے کہ خدائے تعالیٰ ان پیشگوئیوں کو اس عاجز کے ایک ایسے کامل متبع کے ذریعہ سے کسی زمانہ میں پورا کردیوے جو منجانب اللہ مثیل مسیح کا مرتبہ رکھتا ہو.اور ہریک آدمی سمجھ سکتا ہے کہ متبعین کے ذریعہ سے بعض خدمات کا پورا ہونا درحقیقت ایسا ہی ہے کہ گویا ہم نے اپنے ہاتھ سے وہ خدمات پوری کیں.بالخصوص جب بعض متبعین فنا فی الشیخ کی حالت اختیار کر کے ہمار ا ہی روپ لے لیں اور خدائے تعالیٰ کا فضل انہیں وہ مرتبہ ظلّی طورپر بخش دیوے جو ہمیں بخشا.تو اس صورت میں بلاشبہ اُن کا ساختہ پرداختہ ہمار ا ساختہ پرداختہ ہے.کیونکہ جو ہمارے راہ پر چلتاہے.وہ ہم سے جدا نہیں اور جو ہمارے مقاصد کو ہم میں ہو کر پورا کرتاہے وہ درحقیقت ہمارے ہی وجود میں داخل ہے.اس لئے وہ جزو اورشاخ ہونے کی وجہ سے مسیح موعود کی پیشگوئی میں بھی شریک ہے کیونکہ وہ کوئی جدا شخص نہیں.پس اگر
ظلّی طور پر وہ بھی خدائے تعالیٰ کی طرف سے مثیلِ مسیح کا نام پاوے اور موعود میں بھی داخل ہو تو کچھ حرج نہیں کیونکہ گو مسیح موعود ایک ہی ہے مگر اس ایک میں ہو کر سب موعود ہی ہیں.کیونکہ وہ ایک ہی درخت کی شاخیں اور ایک ہی مقصد موعود کی روحانی یگانگت کی راہ سے متممّ و مکمل ہیں اور اُن کو اُن کے پھلوں سے شناخت کرو گے.یاد رکھنا چاہیئے کہ خدائے تعالیٰ کے وعدے جو اس کے رسولوں اور نبیوں اور محدثوں کی نسبت ہوتے ہیں کبھی تو بلا واسطہ پورے ہوتے ہیں اور کبھی بالواسطہ اُن کی تکمیل ہوتی ہے.حضرت مسیح ابن مریم کو بھی جو نصرت اور فتح کے وعدے دئے گئے تھے وہ اُن کی زندگی میں پورے نہیں ہوئے بلکہ ایک دوسرے نبی کے ذریعہ سے جو تمام نبیوں کا سردار ہے یعنی سیدنا وامامنا حضرت محمد مصطفےٰ خاتم الرسل کے ظہور سے پورے ہوئے اور اسی طرح حضرت موسیٰ کلیم اللہ کو جو کنعان کی فتح کی بشارتیں دی گئی تھیں بلکہ صا ف صاف حضرت موصوف کو وعدہ دیا گیا تھا کہ تُو اپنی قوم کو کنعان میں لے جائے گا اور کنعان کی سرسبز زمین کا انہیں مالک کردے گا.یہ وعدہ حضرت موسیٰ کی زندگی میں پورا نہ ہو سکا اوروہ راہ میں ہی فوت ہوگئے لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ پیشگوئی غلط نکلی جو اب تک توریت میں موجود ہے.کیونکہ موسےٰ کی وفات کے بعد موسوی قوت اورموسوی روح اس کے شاگرد یوشع کو عطا ہوئی.اوروہ خدائے تعالیٰ کے حکم اور اس کے نفخِ روح سے موسیٰ میں ہو کر اور موسوی صورت پکڑ کر وہ کام بجا لایا جو موسیٰ کا کام تھا.سوخدائے تعالیٰ کے نزدیک وہ موسیٰ ہی تھا کیونکہ اُس نے موسیٰ میں ہوکر اور موسیٰ کی پیروی میں پوری فنا اختیارکرکے اور خدائے تعالیٰ سے موسوی روح پا کر اس کام کو کیا تھا.ایسا ہی ہمارے سیّد ومولیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت توریت میں بعض پیشگوئیاں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بلاواسطہ پوری نہیں ہوسکیں بلکہ وہ بواسطہ اُن خلفائے کرام کے پوری کی گئیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اورپیروی میں فانی تھے.سو اس میں کون کلام
کرسکتا ہے جو ایک مامور من اللہ کی نسبت جن جن فتوحات اور امور عظیمہ کا تذکرہ پیشگوئی کے لباس میں ہوتاہے اس میں یہ ہرگز ضروری نہیں سمجھا جاتا کہ وہ سب کچھ اُسی کے ذریعہ سے پورا بھی ہو جائے بلکہ اُس کے خالص متبعین اس کے ہاتھو ں اورپَیروں کی طرح سمجھے جاتے ہیں اوران کی تمام کارروائیاں اُسی کی طر ف منسوب ہوتی ہیں.جیسے ایک سپہ سالار کسی معرکۂ جنگ میں عمدہ عمدہ سپاہیوں اور مدبّروں کی مدد سے کسی دشمن کو گرفتارکرتاہے یا قتل کردیتاہے تو وہ تمام کارروائی اُسی کی طرف منسوب کی جاتی ہے اور بلا تکلّف کہا جاتا ہے کہ اُس نے گرفتارکیا یا قتل کیا.پس جبکہ یہ محاورہ شائع متعارف ہے تو اس بات میں کونسا تکلّف ہے کہ اگر فرض کے طورپر بھی تسلیم کرلیں کہ بعض پیشگوئیوں کا اپنی ظاہری صورت پر بھی پورا ہونا ضروری ہے تو ساتھ اس کے یہ بھی تسلیم کرلینا چاہیئے کہ وہ پیشگوئیاں ضرورپوری ہوں گی اور ایسے لوگوں کے ہاتھ سے اُن کی تکمیل کرائی جائے گی کہ جو پورے طورپر پیروی کی راہوں میں فانی ہونے کی وجہ سے اور نیز آسمانی روح کے لینے کے باعث سے اس عاجز کے وجود کے ہی حکم میں ہوں گے اورایک پیشگوئی بھی جو براہین میں درج ہوچکی ہے اسی کی طرف اشار ہ کررہی ہے اوروہ الہام یہ ہے یا عیسٰی انّی متوفیک ورافعک الیّ وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الٰی یوم القیامۃ.اس مسیح کو بھی یاد رکھو جو اس عاجز کی ذریت میں سے ہے جس کا نام ابن مریم بھی رکھا گیاہے کیونکہ اس عاجز کو براہین میں مریم کے نام سے بھی پکاراہے.(۸)سوال.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عیسائیوں کا یہی عقیدہ تھا کہ درحقیقت مسیح ابن مریم ہی دوبارہ دنیا میں آئیں گے پس اگر یہ عقیدہ صحیح نہیں تھا تو کیوں خدائے تعالیٰ نے قرآن کریم میں ا س کی تکذیب نہ کی بلکہ حدیثوں میں ابن مریم کے آنے کاوعدہ دیا گیا.
امّاالجوب.پس واضح ہو کہ خدائے تعالیٰ نے تو قرآن کریم میں اس عقیدہ کی تکذیب کر دی جبکہ بیان کر دیا کہ درحقیقت مسیح ابن مریم فوت ہوگیا ہے اورپھر مسیح کے دوبارہ زندہ ہونے کاکہیں ذکرنہیں کیا اَور حدیثوں میں بھی اس مدعا کے بارہ میں کہیں قرآن شریف کی مخالفت نہیں کی گئی.ایک حدیث بھی ایسی نہیں ملے گی جو مسیح ابن مریم کا زندہ بجسدہ العنصری آسمان کی طرف اُٹھائے جانا بیان کرتی ہو.غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس عقیدہ کی تکذیب کرنے میں کچھ فرق نہیں رکھا.آنے والے مسیح کو اُمّتی ٹھہرایا.حُلیہ اوّل و آخر میں اختلاف ڈال دیا اور مسیح کا فوت ہوجانابیان کردیا.سواس قدر بیان کافی تھا.اور چونکہ پیشگوئیوں میں خلق اللہ کے ابتلا کے لئے یہ بھی منظور ہوتا ہے کہ کچھ کیفیت اُن کی پوشیدہ رکھی جائے اس لئے کسی قدر پوشیدہ بھی رکھا گیا تا وقت پر صادقوں اورکاذبوں کا امتحان ہوجائے.اوریہ بیان بھی صحیح نہیں ہے کہ عیسائیوں کا متفق علیہ یہی عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح دنیا میں پھرآئیں گے کیونکہ بعض فرقے اُن کے حضرت مسیح کے فوت ہوجانے کے قائل ہیں.اورحواریوں کی دونو ں ا نجیلوں نے یعنی متی اوریوحنا نے اس بیان کی ہرگز تصدیق نہیں کی کہ مسیح درحقیقت آسمان پر اٹھایا گیا.ہاں مرقس اور لوقا کی انجیل میں لکھاہے مگر و ہ حواری نہیں ہیں اورنہ کسی حواری کی روایت سے انہوں نے لکھا.(۹) سوال.لیلۃ القدر کے اَور معنی کر کے نیچریت اورباطنیت کا دروازہ کھول دیا ہے.امّاالجواب.معترض صاحب نے اس اعتراض سے لوگوں کو دھوکا دیا ہے اس جگہ اصل حقیقت یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ نے اس عاجز پر ظاہر کیا ہے کہ پہلے معنے لیلۃ القدر کے جو علماء کرتے ہیں وہ بھی مسلّم اور بجا ہیں اور ساتھ اُن کے یہ بھی معنے ہیں.اور اِن دونوں میں کچھ منافات نہیں.قرآن شریف ظہر بھی رکھتا اور بطن بھی اور صدہا معارف اس کے اندر پوشیدہ ہیں.پس اگر اس عاجز نے تفہیم الٰہی سے لیلۃالقدر
کے یہ معنے کئے تو کہاں سے سمجھا گیا کہ پہلے معنوں سے انکار کیا ہے کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ خیرالقرون نہیں کہلاتا؟ کیا اس زمانہ کی عبادات ثواب میں بڑھ کر نہیں تھیں ؟ کیا اُس زمانہ میں نصرتِ دین کے لئے فرشتے نازل نہیں ہوتے تھے ؟ کیا روح الامین نازل نہیں ہوتا تھا ؟ پس ظاہر ہے کہ لیلۃ القدر کے تمام آثار و انوار و برکات اُس زمانہ میں موجود تھے ایک ظلمت بھی موجود تھی جس کے دُور کرنے کے لئے یہ انوار و ملائک اور روح الامین اور طرح طرح کی روشنی نازل ہورہی تھی.پھر اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مقدّس زمانہ کا نام بھی الہام الٰہی سے لیلۃ القدر ظاہر کیا گیا تو اس سے کونسی قباحت لازم آگئی؟ جو شخص قرآن شریف کے ایک معنی کو مسلّم رکھ کر ایک دوسرا لطیف نکتہ اس کا بیان کرتاہے تو کیا اس کا نام مُلحد رکھنا چاہیئے؟ اس خیال کے آدمی بلا شبہ قرآن شریف کے دشمن اور ا س کے اعجاز کے منکر ہیں.(۱۰) سوال.ملائک اور جبرئیل علیہ السلام کے وجود سے انکار کیا ہے اور انکو توضیح مرام میں صرف کواکب کی قوتیں ٹھہرایاہے.اماالجواب.یہ آپ کا دھوکا ہے.اصل بات یہ ہے کہ یہ عاجز ملائک اور حضرت جبرائیل ؑ کے وجود کو اُسی طرح مانتا ہے جس طرح قرآن اور حدیث میں وارد ہے اور جیسا کہ قرآن کریم اوراحادیث صحیحہ کی رُو سے ملائک کے اجرامِ سماوی سے خادمانہ تعلقات پائے جاتے ہیں یا جو جو کام خاص طورپر انہیں سپرد ہورہا ہے اسی کی تشریح رسالہ توضیح مرام میں ہے.چو بشنوی سخن اہل دل مگو کہ خطااست سخن شناس نۂ دلبرا خطا اینجااست (۱۱) سوال.رسالہ فتح اسلام میں نبوّت کا دعویٰ کیا ہے.امّاالجواب.نبوت کا دعویٰ نہیں بلکہ محدثیت کا دعویٰ ہے جو خد ا ئے تعالیٰ کے حکم سے کیا گیا ہے.اور اس میں کیا شک ہے کہ محدثیت بھی ایک شعبہ قویہ نبوت کا اپنے اندر رکھتی ہے.جس حالت میں رویائے صالحہ نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصّہ ہے
تو محدثیت جو قرآن شریف میں نبوت کے ساتھ اور رسالت کے ہم پہلو بیان کی گئی ہے جس کے لئے صحیح بخاری میں حدیث بھی موجود ہے اس کو اگر ایک مجازی نبوت قرار دیا جائے یا ایک شعبہ قویہ نبوت کا ٹھہرایا جائے تو کیا اس سے نبوت کا دعویٰ لازم آگیا؟ قرآن شریف کی وہ قرأت یاد کرو کہ جو ابن عباس نے لی ہے اور وہ یہ ہے وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی ولا محدّث الا اذا تمنّٰی القی الشیطٰن فی امنیتہ فینسخ اللہ ما یلقی الشیطٰن ثم یحکم اللہ اٰ یٰتہٖ.وحی الٰہی پر صرف نبوت کاملہ کی حد تک کہاں مُہر لگ گئی ہے اور اگر ایسا ہی ہے تو پھر اس آیت کے کیا معنے ہیں ؟ 333 ۱.اے غافلو! اس اُمت مرحومہ میں وحی کی نالیاں قیامت تک جاری ہیں مگر حسب مراتب.(۱۲) سوال.سورۃ زخرف میں یہ آیت موجود ہے333 ۲ (الجزو نمبر۲۵)یعنی وہ قیامت کے وجود پر نشان ہے سو تم باوجودموجود ہونے نشان کے قیامت کے بارے میں شک مت کرو.نشان سے مراد حضرت عیسیٰ ہیں جو قیامت کے قریب نازل ہوں گے اور اس آیت سے اُن کانازل ہونا ثابت ہوتاہے.اماالجواب.ظاہر ہے کہ خدائے تعالیٰ اس آیت کو پیش کر کے قیامت کے منکرین کو ملزم کرنا چاہتا ہے کہ تم اس نشان کو دیکھ کرپھر مُردوں کے جی اُٹھنے سے کیوں شک میں پڑے ہو.سو اس آیت پر غور کرکے ہریک عقلمند سمجھ سکتاہے کہ اس کو حضرت عیسیٰ کے نزول سے کچھ بھی تعلق نہیں آیت تو یہ بتلا رہی ہے کہ وہ نشان مُردوں کے جی اٹھنے کا اب بھی موجود ہے اور منکرین کو ملزم کررہی ہے کہ اب بھی تم کیوں شک کرتے ہو.اب ہریک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اگر خدائے تعالیٰ کا اس آیت میں یہ مطلب ہے کہ جب حضرت مسیح آسمان سے نازل ہوں گے تب اُن کاآسمان سے نازل ہونا مُردوں کے جی اُٹھنے کے لئے بطور دلیل یا علامت کے ہو گا تو پھر اس دلیل کے ظہور سے پہلے خدائے تعالیٰ لوگوں کو کیوں کر ملزم کرسکتا ہے
کیااس طرح اتمام حجت ہو سکتا ہے؟ کہ دلیل تو ابھی ظاہر نہیں ہوئی اورکوئی نام و نشان اس کا پیدا نہیں ہوا اور پہلے سے ہی منکرین کو کہا جاتا ہے کہ اَب بھی تم کیوں یقین نہیں کرتے کیا اُن کی طرف سے یہ عذر صحیح طورپر نہیں ہو سکتا کہ یا الٰہی ابھی دلیل یا نشان قیامت کا کہاں ظہور میں آیا جس کی وجہ سے فَلَا تَمْتَرُنَّ بِھَا کی دھمکی ہمیں دی جاتی ہے.کیا یہ اتمام حجت کاطریق ہے ؟ کہ دلیل تو ابھی پردۂ غیب میں ہو اور یہ سمجھاجائے کہ الزام پورا ہو گیا ہے.ایسے معنے قرآن شریف کی طرف منسو ب کرنا گویا اس کی بلاغت اورپُرحکمت بیان پر دھبّہ لگانا ہے.سچ ہے کہ بعض نے یہی معنے لئے ہیں مگر انہوں نے سخت غلطی کھائی بلکہ حق بات یہ ہے کہ اِنّہ‘ کا ضمیر قرآن شریف کی طرف پھرتا ہے اور آیت کے یہ معنے ہیں کہ قرآن شریف مُردوں کے جی اُٹھنے کے لئے نشان ہے کیونکہ اس سے مُردہ دل زندہ ہورہے ہیں.قبروں میں گلے سڑے ہوئے باہر نکلتے آتے ہیں اور خشک ہڈیوں میں جان پڑتی جاتی ہے چنانچہ قرآن شریف میں خود اپنے تئیں قیامت کا نمونہ ظاہر کرتاہے جیسا کہ اللہ جلّشانُہٗ فرماتا ہے(سورۃ فرقان الجزونمبر ۱۹) یعنی ہم نے آسمان سے پاک پانی اُتاریعنی قرآن تا ہم اس کے ساتھ مردہ زمین کو زندہ کریں پھرفرماتا ہے