Istifta

Istifta

استفتاء

Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR
Ruhani Khazain

یہ رسالہ ۱۲؍مئی۱۸۹۷ء کو لکھا گیا۔ اس کے لکھنے کی غرض آریہ قوم کی اس افترا پردازی کا جواب دینا تھا کہ لیکھرام نعوذ باللہ آپ کی سازش سے قتل ہوا۔ اس رسالہ میں پیشگوئی متعلقہ لیکھرام پر مفصّل بحث کی گئی ہے۔ اور اس پیشگوئی کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈال کر اہل الرائے اور اہل نظر اصحاب سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ الہامات کو پڑھ کر یہ گواہی دیں کہ جو پیشگوئی لیکھرام کی موت کے بارہ میں کی گئی تھی وہ واقعی طور پر پوری ہوئی یا نہیں۔ اس رسالہ کے پڑھنے سے ہر منصف مزاج انسان کو یہ یقینی علم حاصل ہو جاتا ہے کہ فی الحقیقت خدا تعالی موجود ہے۔ اور وہ قبل از وقت اپنے خاص بندوں پر غیب کی باتیں ظاہر کیا کرتا ہے۔


Book Content

Page 140

Page 141

You should not conceal your testimony, and he who does conseal is surely wicked minded; and God is perfectly aware of what you do.- (Sura Baqar R.38) Sir, I beg to enclose herewith a copy of the pamphlet named 'Istifta'.The motive which has led me write it is, that the Aryas entertain quite a false notion that Lekh Ram was murdered at my instigation.I am inclined to excuse them for this, as they are entirely ingorant of the supernatural origin of prophecies, and according to their belief inspiration and revelation from God belonged only to the hoary antiquity, now they have become extinct, in other words the divine influence is not eternal, but a thing of the past.Therefore they cannot reconcile the prophetic phenomena with the present age.However a study of the pamphlet, it is hoped, will not only clear me of any participation direct or indirect in Lekh Ram's murder, but will also be useful to those who deny the existance of prophetic revelation in this age, and who consider the power of telling future events inconsistent with the laws of Nature.At any rate this pamphlet will probably be interesting and instructive to those who sicncerely seek a reply to the questions:-(1) 'Is there a God at all'? (2) 'If so, does He reveal future events to His Elite.'? I have answere these questions by fully explaining such reasons as conclusively prove that tha prophecy about the Lekh Ram was actually revealed by God, and that it was altogether out of the Province of man's capabilities and device.I have repeatedly said that Lekh Ram had challenged me to make the prophecy concerning himself which if it were fulfilled was to be the sole criterion of the truth or falsehood of Islam and the Arya faith.And when the prophecy was made, both the parties agreed to give it a very wide publication and awaited the result most anxiously.At last is has been most clearly and definitely fulfilled.The most curious phase of the prophecy, which has been very thoroughly discussed in these pages, is, that it was published in clear and unequivocal words in the'BURAHIN-I-AHMADIYYAH' about seventeen years ago when Lekh Ram was a mere boy of twelve or

Page 142

thirteen years.The readers of this pamphlet, must carefully consider this fact which, I believe, will improve their faculty of discernment, and by cleary shewing them the difference between Divine and human powers, will settle their thoughts and satisfy their minds.It would not be out of place to invite your attention to another of my books-'SIRAJ-I-MUNIR' or 'THE BRIGHT SUN,'- which deals with this important question from another point of view.All the prophecies which were made and literally fulfilled before Lekh Ram's death, have been collected therein, and a few of them concerned some other Aryas who are still alive to bear testimony to what they experienced in their own cases.If any of my readers before attemting a reply to this pamphlet should like to see the 'SIRAJ-I-MUNIR' it shall be sent to him with great pleasure.I should also mention that those Maulvies, who like the Aryas, bewildered by the too accurate and unexpected fulfilment of the prophecy, and who being utterly devoid of spirtuality are befogged by doubt, will find it worth their while to persue this book.I send this pamphlet to you so that after a careful consideration of the arguments I have given, you may give your impartial opinion as to the following points:- 1.Has the prophecy about Lekh Ram been acutally fulfilled? 2.If so can it be said that the prophecy is suprernatural, that is, neither a design of man nor a mere accident, but a special manifestaion of the Divine powers, which may be termed a revealed prophecy? And communicate the same with your arguments in support of your views to Your ever faithful, Kadian: MIRZA GHULAM AHMED Dated 1st May 1897 Chief of Kadian, Gurdaspur District Punjab.Istifta is an Arabic word and means to cosult a learned man for an opinion

Page 143

3 صاحب من! میں اس چٹھی کے ہمراہ آپ کی خدمت میں ایک رسالہ بھیجتا ہوں جس کا نام ہے اس رسالہ کے لکھنے کی ضرورت یہ ہوئی ہے کہ آریہ قوم نے حد سے زیادہ اس بات پر زور دیا ہے کہ لیکھرام اس شخص یعنی اس راقم کی سازش سے قتل ہوا ہے اور میری دانست میں وہ کسی قدر معذور بھی ہیں کیونکہ الہامی پیشگوئیوں کے فوق العادت طریق سے بالکل بے خبر ہیں.وجہ یہ کہ ان کے عقیدہ کی رو سے ہزار ہا برس سے الہام الٰہی پر مہر لگ چکی ہے اور خدا کا کلام آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گیا ہے.اس لئے وہ کسی طرح سمجھ نہیں سکتے کہ خدا کی طرف سے ایسی پیشگوئیاں بھی ہو سکتی ہیں.بہرحال ہمارے ہاتھ میں جو اپنی بریت کے وجوہ ہیں ان کا بیان کر دینا نہ صرف لیکھرام کے حامیوں کے شبہات کو مٹانا ہے بلکہ ایسے لوگوں کے معلومات کو بھی وسیع کرتا ہے جو اس زمانہ میں کسی الہامی پیشگوئی کے نفس مفہوم پر بھی اعتراض رکھتے ہیں اور غیب کی باتوں کو قبل از وقت بیان کرنا قانون قدرت کے خلاف خیال کرتے ہیں.غالباً یہ رسالہ ان لوگوں کے لئے بھی دلچسپ اور موجب زیادت علم ہوگا جو دلی شوق کے ساتھ اس بات کی تفتیش میں ہیں کہ کیا خدا حقیقت میں موجود ہے اور کیا وہ قبل از وقت کسی پر غیب کی باتیں ظاہر کر سکتا ہے.اسی غرض سے اس رسالہ میں تمام ایسے وجوہ بیان کئے گئے ہیں کہ جو بخوبی ثابت کرتے ہیں کہ وہ پیشگوئی جو لیکھرام کے بارے میں کی گئی تھی وہ واقعی طور پر خدا تعالیٰ کی طرف سے تھی.اور کسی طرح ممکن ہی نہیں کہ وہ انسان کا منصوبہ ہو یا انسان اس پر قادر ہو سکے.اور اس بات کو ہم کئی دفعہ بیان کر چکے ہیں کہ اس پیشگوئی کی درخواست لیکھرام نے خود کی تھی اور اس کو اسلام اور آریہ مذہب کے امتحان صدق و کذب کا معیار قرار دیا تھا.اور پھر بعد اس کے فریقین کی باہمی رضامندی سے دونوں فریق نے بڑے زورسے اس پیشگوئی کو شائع کیا تھا.اور جس طرح پہلوانوں کی کشتی ہوتی ہے اسی طرح دونوں گروہ کا اس پیشگوئی پر خیال لگا ہوا تھا.آخر بڑی صفائی سے یہ پوری ہوئی.اس پیشگوئی میں ایک بات نہایت عجیب ہے جس کو میں نے زبردست دلائل کے ساتھ اس رسالہ میں بیان کر دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ

Page 144

یہ پیشگوئی مارچ ۱۸۹۷ء کے مہینہ سے جس میں لیکھرام قتل ہوا ہے ۱۷ برس پہلے ہماری کتاب براہین احمدیہ کے ایک الہام میں بڑی صفائی سے ذکر کی گئی ہے اور براہین کی تالیف کا وہ زمانہ تھا کہ شاید اس وقت لیکھرام ۱۲ یا۱۳ برس کا ہوگا.یہی وہ بات ہے جس کو خوب غور سے سوچنا چاہئے اور یہی وہ امر ہے جس سے معرفت کی ترقی ہوگی اور خدا کے فعل اور انسان کے فعل میں کھلا کھلا فرق دکھائی دے گا اور دل میں سکینت اور اطمینان پیدا ہو جائیں گے اور غالباً اس جگہ اس بات کا بیان کرنا بھی مفید ہوگا.کہ میں نے ابھی تک ایک دوسرے رسالہ میں جس کا نام سراج منیر ہے اپنی بریّت اور سچائی ثابت کرنے کے لئے ایک اور سلسلہ گواہ کی طرح پیش کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ میں نے وہ تمام پیشگوئیاں جو لیکھرام کے مرنے سے پہلے پوری ہو چکی تھیں رسالہ مذکورہ میں جمع کر کے لکھ دی ہیں اور نہایت لطیف طور پر ان کا نظام دکھلایا ہے.ان پیشگوئیوں کے بعض ایسے آریہ بھی گواہ ہیں جن کے بارے میں یہ پیشگوئیاں کی گئی تھیں سو میرے نزدیک بہتر ہوگا کہ جو صاحب اپنی رائے لکھنے کے وقت سراج منیر کا دیکھنا مناسب سمجھیں وہ مجھ سے طلب کریں میں وہ رسالہ ان کی خدمت میں روانہ کر دوں گا اور یہ بات بھی بیان کر دینے کے قابل ہے کہ جیسا کہ آریوں کو اس پیشگوئی کے بارے میں ناحق کے شبہات ہیں جن کی وجہ بجز اسکے کچھ نہیں کہ پیشگوئی کی عظمت نے ان کو حیرت میں ڈال دیا ہے ایسا ہی ہمارے مخالف مولوی بھی جو روحانیت سے بے بہرہ ہیں اسی گرداب میں پڑے ہوئے ہیں سو ان کیلئے بھی یہ رسالہ مفید ہوگا بشرطیکہ وہ غور سے پڑھیں.اور یہ رسالہ اس چٹھی کے ذریعہ سے آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے کہ آپ رسالہ کے وجوہات پیش کردہ پر غور کر کے اپنے دلی انصاف کے تقاضا سے وہ فتویٰ لکھیں جس کا لکھنا وجوہات معروضہ کی رو سے واجب ہو.یعنی یہ کہ لیکھرام کے مرنے کی نسبت جو پیشگوئی کی گئی تھی کیا وہ فی الواقعہ پوری ہوگئی یا نہیں اور کیا وہ اس اعلیٰ درجہ فوق العادت پر ہے یا نہیں جس کی نسبت وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ نہ وہ انسانی منصوبہ ہے اور نہ اتفاقی امر ہے بلکہ خدا تعالیٰ کا وہ خاص فعل ہے جس کو الہامی پیشگوئی کہنا چاہئے.والسلام علٰی من اتبع الہدیٰ.راقم غلام احمد قادیانی ۸؍ ذی الحجہ ۱۳۱۴ ؁ھ مکرر آنکہ جو صاحب بغرض تصدیق نشان لیکھرام والی پیشگوئی کے اپنی گواہی نقشہ منسلکہ پر کرنا نہ چاہیں انہیں لازم ہوگا کہ یہ رسالہ معہ اس چٹھی کے واپس کریں.

Page 145

3 نحمدہ و نصلی علٰی رسولہ الکریم اِستِفتاء کیا فرماتے ہیں بزرگان اہل النظر و اہل الرائے کہ یہ الہامی شہادتیں جو ذیل میں لکھی جاتی ہیں ان پر نظر ڈالنے سے اطمینان کے لائق یہ نتیجہ نکلتا ہے یا نہیں کہ جو پیشگوئی لیکھرام کی موت کی نسبت کی گئی تھی وہ واقعی طورپر پوری ہوگئی؟ اگر ان کی رائے میں پورے یقین اور اطمینان کے ساتھ نیچے لکھی ہوئی پیشگوئیوں سے جو بطور وثیقہ شہادت ہیں کمال صفائی سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ تحریریں انسانی اٹکلوں اور منصوبوں سے برتر اور فوق العادۃ ہیں تو محض للہ سچائی کی مدد کے لئے جو جوان مردوں اور بہادروں اور خدا ترس بندوں کا کام ہے بغرضِ تصدیق اس مضمون کے ذیل میں اپنی گواہی ثبت کریں.مجھے یقین ہے کہ خدا تعالیٰ ان کو اس سچی گواہی کا اجر دے گا اور دنیا اور دین کی عافیت اور کامیابی سے کامل حصہ عطا فرمائے گا.ورنہ شہادت حقہ کے چھپانے کے جو برے نتائج ہیں ان کا ظہور بھی قانون الٰہی کے رو سے لازمی ہے.لیکن اگر کسی کے نزدیک مندرجہ ذیل الہامی شہادتیں اطمینان کے لائق نہیں بلکہ ان کے خیال میں دراصل انسانی منصوبہ تھا جو الہامی پیشگوئی کے نام سے مشتہر کیا گیا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آخر اسی پختہ سازش کی وجہ سے لیکھرام چھ۶ مارچ ۱۸۹۷ء کو بمقام لاہور مارا گیا تو اسے اختیار ہے کہ اس کاغذ پر اپنی گواہی ثبت نہ کرے اور مجھے قاتلوں میں سے شمار کرتا رہے.لیکن اگر اس کے نزدیک یہ الہامی شہادتیں وزن کے قابل ہیں جن سے ہم فائدہ اٹھانے کے مستحق ہیں تو دینی ہمدردی کا اس وقت ہم کوئی مطالبہ نہیں کرتے مگر انسانی ہمدردی اور وہ بھی ٹھیک ٹھیک انصاف کی رو سے جس قدر قانون ہمیں حق بخشتا ہے اس کو ہم ادب کے ساتھ اہل الرائے سے بطور مانگتے ہیں.ہم اس کے ذریعہ سے اہل نظر سے کیا چاہتے ہیں؟

Page 146

بس یہی کہ جو کچھ ہم ایک مرتب اور مکمل سلسلہ پیشگوئیوں کا لیکھرام کی موت کے بارے میں ان کے سامنے رکھتے ہیں وہ اس پر پوری توجہ کے ساتھ فتویٰ کے طورپر رائے لکھیں اور اپنے پاک کانشنس کے جوش سے شہادت دیں کہ کیا عقل اور دیانت واجب نہیں ٹھہراتی کہ اس الہامی سلسلہ کے فوق العادۃ بیان کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جائے؟ اور کیا ایک عقلمند کے ذہن میں آسکتا ہے کہ پیشگوئی کی یہ تمام شاخیں جو بشری طاقتوں سے بڑھ کر ہیں جھوٹ کی تائید میں یکدفعہ پھوٹ پڑیں؟ اس وقت یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ آریہ صاحبوں کے ہاتھ میں اس پیشگوئی کی تکذیب کیلئے جو کچھ ہے وہ اس سے زیادہ نہیں کہ انہوں نے بجائے اس کے کہ خدا کے عجیب کاموں پر غور کرتے یہ طریق اختیار کیا ہے کہ بدظنی کی وجہ سے انسانی منصوبوں کے احتمال کو وہ درجہ دیا ہے جو خدائے قادر کے کاموں سے مخصوص ہے.چونکہ یہ پیشگوئی چار برس سے کچھ زیادہ کی تھی اور کئی مجلسوں کی تقریروں اور نیز تحریروں سے ہندوؤں تک یہ بات پہنچ گئی تھی کہ پیشگوئی میں یہ لکھا گیا ہے کہ ہیبت ناک طورپر لیکھرام کی زندگی کا خاتمہ ہوگا.اور نیز یہ کہ عید کے دنوں میں اس کی وفات ہوگی اور چھ سال کے اندر ہوگی.اور پیشگوئی اپنے صریح لفظوں میں واقعہ قتل کی طرف اشارہ کرتی تھی اس لئے انہوں نے اس بات کو بہت بعید سمجھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی پیشگوئی ایسے صریح پتوں اور نشانوں کے ساتھ ہو.مگر اس بات کو قرین قیاس خیال نہ کیا کہ قبل از وقت یہ تمام غیب کی باتیں کوئی انسان اپنے منہ سے نکالے اور پھر ویسی ہی پوری کرکے دکھلا دیوے لہٰذا انہوں نے اس الہامی پیشگوئی کو انسانی منصوبہ پر حمل کرلیا اور بڑے اصرار سے بار بار اخباروں میں چھاپا کہ ایسی صفائی سے پیشگوئی کرنا اور ایسے کھلے کھلے اور بے حجاب طریق سے تاریخ اور دن اور صورت موت کو قبل از وقت بیان کرنا خدا کا قانون نہیں ہے بلکہ سچ یہ ہے کہ یہی شخص یعنی یہ راقم لیکھرام کا قاتل ہے اور یہ پیشگوئی عمیق سازشوں اور مدت کی سوچی ہوئی تدبیروں کا نتیجہ ہے.اسی بناء پر انہوں نے باہمی اتفاق کے ساتھ اس راقم کو ملزم بنانے کیلئے زور دیا اور اس خیال کے اظہار میں اخباروں کے کالم کے کالم سیاہ کر ڈالے اور گورنمنٹ میں مخبریاں کیں یہاں تک کہ ۸.اپریل ۱۸۹۷ء کو بروز پنجشنبہ انگریزی افسروں نے قادیان میں آکر میرے گھر کی تلاشی لی.تلاشی کے وقت میں خطوط دستخطی پنڈت لیکھرام برآمد ہوئے اور نیز وہ معاہدہ کا کاغذ بھی نکل آیا جس میں آسمانی نشانوں کے دکھلانے کے بارے میں شرطیں قائم ہوکر دونوں فریق کی رضامندی سے سچی پیشگوئی کو معیار صدق و کذب ٹھہرایا گیا تھا.چنانچہ صاحب ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس کے حضور میں وہ کاغذ پڑھا گیا جسکا یہ مضمون تھا کہ جو پیشگوئی لیکھرام کے حق میں کی جائے گی وہ دین اسلام اور آریہ مذہب میں ایک فیصلہ ناطق ہوگی.اگر پیشگوئی سچی نکلی تو وہ دین اسلام کی سچائی کی گواہ ہوگی اور ہندو مذہب کے بطلان پر دلیل ٹھہرے گی اور اگر جھوٹی نکلی تو وہ ہندو مذہب کی سچائی پر گواہ ہوگی اور نعوذباللہ دین اسلام کے بطلان پر دلالت کرے گی.اور یہ شرط پنڈت لیکھرام نے اپنے

Page 147

اصرا ر سے لکھوائی تھی اور چونکہ مجھے خدا تعالیٰ کے وعدوں پر وثوق تھا اس لئے میں نے بھی اس کو قبول کرلیا تھا.اب وہ مشکل جس کیلئے اس کی ضرورت پڑی صرف اسی قدر نہیں کہ آریہ صاحبوں نے اس راقم پر خفیہ سازش کا الزام لگایا.بلکہ ہماری قوم کے بعض بزرگ لوگوں نے بھی ان سے اتفاق کرلیا اور یہ چاہا کہ ایسی عظیم الشان پیشگوئی جس کی تکذیب کا نتیجہ معاہدہ کے کاغذات کے رو سے اسلام کی تکذیب ہے کسی طرح باطل ٹھہرائی جائے.چنانچہ مولوی ابوسعید محمدحسین صاحب بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنۃاور ایسا ہی بعض چند اور مولویوں نے عام طور پر یہ رائے شائع کر دی ہے کہ یہ پیشگوئی جھوٹی نکلی.چنانچہ انہوں نے ایک خط میری طرف بھی بھیج دیا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ ’’میں نے اپنی نیک نیتی سے یہ فیصلہ کیا ہے کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی یعنی لیکھرام کی موت صرف ایک اتفاقی امر تھا جس میں خدا کا کچھ دخل نہیں‘‘ اور اس بات پر زور دیا کہ کیوں یہ امر ثابت شدہ مان لیا جائے کہ پیشگوئی سچی ہوئی.اور کیوں یہ قبول نہ کیا جائے کہ یہ ایک اتفاقی موت ہے جو پیشگوئی کے زمانہ میں وقوع میں آگئی.اس تکذیب کی ہمیں اپنے ذاتی اغراض کیلئے تو کچھ پرواہ نہ تھی لیکن چونکہ معاہدہ کے کاغذات تلاشی کے وقت میں پکڑے گئے اور صاحب ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس کے حضور میں پڑھے گئے اور ہر ایک دشمن دوست کو ان سے اطلاع ہوگئی.تو اب ایسی سچائی جس میں فروگذاشت کرنے سے اسلام پر بے جا حملہ ہوتا ہے قابل درگذر نہیں.اسی اشد ضرورت کی وجہ سے یہ تمام روئداد اہل الرائے کی خدمت میں پیش کرنی پڑی.تاکہ وہ دیکھیں کہ کس قدر ظلم کا ارادہ کیا گیا ہے.افسوس کہ ان لوگوں نے ان خیالات کے ظاہر کرنے کے وقت یہ نہیں سوچا کہ ان تاویلوں سے دنیا میں کسی نبی کی پیشگوئی قائم نہیں رہے گی کیونکہ ہر ایک جگہ اس وہم کا دروازہ کھلا ہے کہ یہ اتفاقی واقعہ ہے.پس اگر یہی رائے سچی ہے تو انہیں اقرار کرنا چاہئے کہ تمام نبیوں کی نبوت پر کوئی بھی ثبوت نہیں اور سب اتفاقی واقعات ہیں.توریت اور قرآن نے بڑا ثبوت نبوت کا صرف پیشگوئی کو قرار دیا ہے اور ایک مفسد آدمی کسی سچی پیشگوئی کو بڑی آسانی سے اتفاقی امر کہہ سکتا ہے لیکن میں زور سے کہتا ہوں کہ یہ تمام شبہات اس قسم کے ہیں کہ جیسے ایک دہریہ مصنوعات کو ایک نکما سلسلہ ٹھہرا کر خدا تعالیٰ کے وجود کی نسبت شبہات پیدا کرلیتا ہے اور دنیا کے تمام نظام کو اتفاقی امر ٹھہراتا ہے اور پھر جب سمجھ آتی ہے اور خدا کا فضل اس کے شامل حال ہوتا ہے اور اس عالم کی ترتیب ابلغ اور محکم کو مشاہدہ کرتا ہے اور دقائق صنعت باری اور اس کی لطیف حکمتوں پر اطلاع پاتا ہے تو ناچار پہلی رائے اس کو چھوڑنی پڑتی ہے.سو یقیناً سمجھنا چاہئے کہ یہ اعتراضات بھی ایسے ہی ہیں اور یہ اعتراضات اسی وقت تک دل میں اٹھتے ہیں کہ جب تک ایک پیشگوئی کے باریک پہلوؤں پر نظر نہیں پڑتی اور خدا تعالیٰ کی خدائی کے انتظام کو ناقص سمجھا جاتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ ایسے شبہے ہمیشہ ان لوگوں کے دلو ں

Page 148

میں پیدا ہوتے ہیں جن کے دل خدا کی سچی معرفت سے بے نصیب ہیں وہ خدا کے کاموں سے حیرت زدہ ہوکر انکار کرنے کی طرف جھک جاتے ہیں اور واقعات کو اس پہلو کی طرف کھینچ لیتے ہیں جس پہلو تک ان کے موٹے اور سطحی خیال ٹھہر گئے ہیں اور اسی پر وہ زور دیتے رہتے ہیں.ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ اگر لیکھرام اتفاقی طور پر بذریعہ قتل مرگیا تو اس طور پر بھی تو اتفاقی امر کا واقعہ ہونا ممکن تھا کہ کوئی شخص اس کی نسبت ارادہ قتل کا نہ کرتا.یا اگر کرتا تو اپنے ارادہ میں ناکام رہتا یا اگر کسی قدر حملہ کرتا تو ممکن تھا کہ اس سے موت تک نوبت نہ پہنچتی.پھر کیا سبب کہ دوسرے پہلوؤں کے تمام اتفاقات ممکنہ ظہور میں نہ آئے اور یہ اتفاق جو ان پہلوؤں کی نسبت اپنے ساتھ مشکلات بھی رکھتا تھا ظہور میں آگیا.کیا یہ خدا نے کیایا کسی اور نے؟ پس وہ علیم و سمیع خدا جس کے انصاف پر فریقین نے اس مقدمہ کو چھوڑا تھا اور جس کی نسبت ایک فریق نے خبر بھی دی تھی کہ اس نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ میں ایسا ہی کروں گا کیوں اس کی نسبت یہ گمان کیا جائے کہ اس نے منصفانہ فیصلہ نہیں دیا.اور کیوں ایسا سمجھا جائے کہ اس نے مفتری کی حمایت کی.اگر یہ مان لیا جائے کہ خدا کی یہ بھی عادت ہے کہ وہ ایسے جھوٹے کی پیشگوئیاں بھی سچی کر دیتا ہے جن پیشگوئیوں کو وہ اپنے صدق کی وجہ ثبوت ٹھہراتا ہے.تو گویا خدا کا عمداً یہ ارادہ ہے کہ جھوٹوں کو سچوں کے ساتھ برابرکر کے سچ کے تمام سلسلہ کو تباہ اور زیر و زبر کردے.اگر یہ صحیح ہے کہ خدا صادق کا حامی ہوتا ہے اور اپنے وعدوں کو پورا کرتا ہے نہ افتراؤں کو تو اس اصول کو ماننا ایک منصف کیلئے ضروری ہوگا کہ جو پیشگوئی خدا کے نام پر کی جائے اور وہ پوری ہو جائے تو وہ خدا کی طرف سے ہے.اور اگر اس اصول کو نہ مانا جائے تو خدا کی ساری کتابیں بے دلیل رہ جائیں گی اور ان کی سچائی پر یقین کرنے کی راہیں بند ہو جائیں گی.اسی کی طرف خدا تعالیٰ اشارہ فرماتا ہے اور کہتا ہے 3 3 ۱؂ یعنی صادق کی یہ نشانی ہے کہ اس کی بعض پیشگوئیاں پوری ہو جاتی ہیں.بعض کی شرط اس لئے لگا دی کہ وعید کی پیشگوئیوں میں رجوع اور توبہ کی حالت میں عذاب کا تخلف جائز ہے گو کوئی بھی شرط نہ ہو.پس ممکن ہے کہ بعض عذاب کی پیشگوئیاں ملتوی رکھی جائیں اور اپنی میعاد کے اندر پوری نہ ہوں.جیسا کہ یونس کی قوم کیلئے ہوا.غرض خدا کے نام پر جو پیشگوئی پوری ہو جائے اس کی نسبت شک کرنا اور اس کو اتفاق پر محمول کر دینا گویا خدا تعالیٰ کے دینی انتظام پر ایک حملہ ہے اور نبوت کی تمام عمارت کو گرانے کاارادہ ہے.ان تمہیدی امور کو یہاں تک درج کر کے اب ہم ان سلسلہ وار الہامی شہادتوں کو پیش کرتے ہیں جن کا دریافت کرنا فتویٰ دینے سے پہلے اہم اور ضروری ہے.اور ان شہادتوں پر جو سوالات جرح

Page 149

ہو سکتے تھے ہم نے پہلے سے بیانات مذکورہ بالا میں ان کو رد کر دیا ہے اور شاید آئندہ بھی کچھ کچھ لکھا جائے اب ہم ان تمہیدی امور کو یہاں تک لکھ کر اول پنڈت لیکھرام کے ان خطوط اور خلاصہ عہدنامہ کو معہ جواب خود درج کرتے ہیں جو اس پیشگوئی سے پہلے بطور باہمی خط و کتابت ظہور میں آئے اور وہ یہ ہیں: خط از طرف پنڈت لیکھرام.’’بخدمت فیض درجت مرزا صاحب.نمستے.جب سے میں یہاں (قادیان میں) آیا ہوں بہت سی خط و کتابت باہمی ہو چکی ہے کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا.اب چونکہ مجھے بخیال احقاق حق کوئی عمدہ فیصلہ کرنا ضروری ہے اس واسطے متصدعہ خدمت ہوں کہ آج دن کو کوئی وقت مقرر فرما کر مدرسہ میں آپ تشریف لاویں یا کوئی اور جگہ علاوہ دولت خانہ خود تجویز کر کے مطلع فرماویں تاکہ بندہ حاضر ہو کرمعہ بھائی کشن سنگھ و حکیم دیارام و پنڈت نہال چند جی کے آسمانی نشانات و الہامات و بحث کی بابت آپ سے کچھ فیصلہ کر لیوے.ورنہ آپ بخوبی یاد رکھیں کہ اب میری طرف سے اتمام حجت ہوگئی.صداقت کے مقابلہ سے منہ چرانا عقل مندوں سے بعید ہے.زیادہ نیاز.طالب حق لیکھرام.۵؍ دسمبر ۱۸۸۵ء‘‘.دوسرا خط پنڈت لیکھرام.عنایت فرمائے بندہ جناب مرزا صاحب نمستے.زبانی بھائی کشن سنگھ کے مجمل و زبانی مولوی دین محمد و محمد عمر کے مفصل طور پر آپ کا پیغام بجواب میرے خط کے بدین مضمون پہنچا کہ آریہ دھرم و مذہب اسلام کے دو تین مسائل پر بحث کی جاوے اور قواعد مباحثہ حسب پسند فریقین مقرر کئے جاویں.پس بجواب اس کے متصدعہ خدمت ہوں کہ میرا مدعا پشاور سے چل کر قادیان میں آنے سے صرف یہی تھا اور اب تک بھی اسی امید پر یہاں مقیم ہوں کہ آپ کے معجزات و خرق عادات و کرامات و الہامات و آسمانی نشانات کی تصدیق کر کے مشاہدہ کروں اور پیشتر اس سے کہ کسی اور اصول پر بحث کی جاوے یہی معاملہ ایک خاص معزز لوگوں کی مجلس میں بخوبی طے ہو جانا چاہئے.اور اگر اس کے اثبات کرنے میں آپ عاری ہوکر پہلو تہی فرماویں تو اور بحث سے بھی مجھے کسی طرح کا انکار نہیں.یہاں پر یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اپنے گھر میں بیٹھ کر اپنے معتقدوں کے سامنے ثبوت کر دینا اور بات ہے اور مجلس علماء و فضلاء میں تصدیق ہونا اور چیز ہے.امید کہ آپ جواب باصواب سے سرفراز فرمائیں اور عذر معذرت درمیان نہ لاویں.نیاز مند لیکھرام از آریہ سماج قادیان.مکرر سہ کرر آپ سے گذارش کرتا ہوں کہ اگر ذرہ بھی آثار صداقت رکھتے ہو تو دکھلائیے ورنہ خدا کے واسطے باز آئیے.بررسولاں بلاغ باشد وبس.لیکھرام‘‘ تیسرا خط پنڈت لیکھرام.’’مرزا صاحب بندگی.مجھے طول طویل الف لیلہ کے فسانوں سے نفرت ہے.اس واسطے تکرار الفاظ سے بھی خط کو لمبا کرنا نہیں چاہتا ہوں.خلاصہ عرض خدمت ہے

Page 150

کہ وہی شرائط (نشان الٰہی کے دیکھنے کے بارے میں) جو میں نے طیار کر کے ارسال کئے تھے جن کی نقل آپ کے پاس موجود ہے معہ شرائط خود کے چار منصفوں کے پاس روانہ ہونی چاہئے جو منصفوں سے طے ہوکر آوے.ان پر ہم ہر دو کو عمل کرنا چاہئے.کسی حکیم کا قول ہے کہ یکے درگیر و محکم گیر.میرا اس پر عمل ہے مگر افسوس کہ آپ کسی بات پر ٹھہرتے نظر نہیں آتے.اے بھائی یہ تو ضرور ہوگا (کہ نشان آسمانی کے صدق یا کذب ظاہر ہونے کے وقت) اگر میرے واسطے دین محمدی کی شرط ہے تو آپ کے واسطے آریہ دھرم بھی ضروری ہے.بصورت ثانی عوض تین سو 3 روپیہ ہوگا.اگر خداوند کریم نے صداقت کی فتح کی تو روپیہ لے لوں گا.ورنہ آپ کا روپیہ آپ کے حوالہ اور میری محنت برباد اور آپ کی آمدنیات کی ترقی ہم خرما و ہم ثواب.آپ کے تو بہر طرح پانچوں گھی میں ہیں گھبراتے کیوں ہو...آپ کامجیب* الدعوات ہونے کا دعویٰ ہے...اور اگر اسی طرح زبانی جمع خرچ کرنا منظور خاطر ہے تو خوب مزہ ہے.خیالی پلاؤ پکائیے اور تمام دنیا میں کسی کو خاطر شریف میں نہ لائیے.آپ کا اختیار ہے دست خود زبان خود.مجھے آج یہاں آئے پچیس۲۵ یوم کا عرصہ گذر گیا.میں کل پرسوں تک جانے والا ہوں.اگر کچھ بحث کرنی ہے تو بھی اور اگر شرائط (یعنی نشان دکھلانے کا عہد نامہ) منصفوں کے پاس روانہ کرنا ہے تو بھی طے فرمائیے.ورنہ بعدزاں یاروں میں لاف و گزاف کا کچھ فائدہ نہ ہوگا.لیکن بہت بہتر ہوگا کہ آج ہی مدرسہ کے میدان میں تشریف لاویں.شیطان و شفاعت و شق القمر کا ثبوت دیں.انتظامی منصف بھی مقرر کرلیجئے.میری طرف سے مرزا امام الدین صاحب منصف تصور فرماویں.اگر اس پر بھی آپ کو قناعت نہیں ہے تو خدا کے واسطے باز آئیے.نیاز مند لیکھرام.۱۳؍ دسمبر ۱۸۸۵ء‘‘.چوتھا خط.’’جناب مرزا صاحب نمستے.آپ کا دو ورقی مراسلہ ورود ہوا.جس سے صاف طور پر واضح ہوا کہ قرآن شریف محض ابراہیم و موسیٰ و عیسیٰ و محمدؐ و یوسف و لوط و سکندر و لقمان کے قصہ جات و فضولیات اس مجیب الدعوات کے لفظ سے لیکھرام کی عربی دانی نہایت واضح طور پر ثابت ہوتی ہے جس بچہ نے پہلا قاعدہ صرف عربی کا ابھی پڑھا ہو گا وہ جانتا ہے کہ مجیب کا لفظ خدا تعالیٰ کے لئے آتا ہے یعنی دعاوں کا قبول کرنے والا.یہ باب افعال سے فاعل کا صیغہ ہے پس لیکھرام کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ آپ کو مستجاب الدعوات ہونے کا دعویٰ ہوئے ہیں.اب غور کرو کہ آریہ صاحبوں کا کس قدر جھوٹ ہے کہ لیکھرام کو عربی بھی آتی تھی.یہ اس کے ہاتھ کے خط لکھے ہوئے ہیں جو اس جگہ درج کئے جاتے ہیں.سچ تو یہ ہے کہ یہ شخص دونوں زبانوں سے بے نصیب تھا نہ سنسکرت جانتا تھا نہ عربی.اور جھوٹ بولنے والے کی ہم زبان بند نہیں کر سکتے.منہ

Page 151

سے سراپا لبریز ہے.مجھے دیروزہ خط کی شرائط پر بحث کرنی منظور ہے اور آپ صریحاً حیلہ و حوالہ ٹال مٹال و حجت انگیزی کر رہے ہیں- مرزا جی افسوس افسوس آپ کو تصفیہ منظور نہیں ہے کسی نے کیا سچ کہا ہے عذر نامعقول ثابت می کند تقصیر را.علاوہ برآں آپ مسیح ثانی ہیں.دعویٰ خود کو اثبات کر دکھائیے ورنہ بیہودہ شور و شر نہ مچائیے.لیکھرام از آریہ سماج قادیان ۹ بجے دن کے‘‘.پانچواں خط.’’مرزا صاحب.کندن کوہ ( اس کے آگے ایک شکستہ لفظ ہے جو پڑھا نہیں جاتا) افسوس کہ آپ اسپ خود کو اسپ اور اوروں کے اسپ کو خچر قرار دیتے ہیں.میں نے ویدک اعتراص کا عقل سے جواب دیا اور آپ نے قرآنی اعتراض کا نقل سے مگر وہ عقل سے بسا بعید ہے.اگر آپ فارغ نہیں تو مجھے بھی کام بہت ہے اچھا آسمانی نشان تو دکھاویں اگر بحث نہیں کرنا چاہتے تو رب العرش خیرالماکرین سے میری نسبت کوئی آسمانی نشان تو مانگیں تا فیصلہ ہو* لیکھرام‘‘.ان تمام خطوط کے جواب میں مفصل خط لکھے گئے تھے جن کا نقل کرنا اس جگہ ضروری نہیں.لیکھرام کی طبیعت میں افتراء اور جھوٹ کا مادہ بہت تھا.اس لئے وہ بار بار اپنے خطوط میں لکھتا ہے کہ بحث نہیں کرتے اس جگہ لیکھرام نے نشان مانگنے کے وقت خدا تعالیٰ کا نام خیر الماکرین رکھا.اور خدا تعالیٰ کے بارے میں ماکر کا لفظ اس صورت میں بولا جاتا ہے کہ جب وہ باریک اسباب سے مجرم کو ہلاک یا ذلیل کرتا ہے.پس لیکھرام کے مُنہ سے خود وہ الفاظ نکل گئے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنی موت کا نشان مانگتا تھا یعنی ایسا نشان جس کے اسباب بہت باریک ہوں.سو خدا کی قدرت ہے کہ اسی طرح اس کی موت ہوئی اور ایسے قاتل کے ہاتھ سے مارا گیا جس کی کارروائی ہر ایک کو نہایت تعجب میں ڈالتی ہے کہ کیونکر اس نے عین روز روشن میں حملہ کیا.اور کیونکر آباد گھر میں ہاتھ اٹھانے کی اس کو جرأت ہوئی اور کیونکر وہ چھری مار کر صاف نکل گیا اور پھر کیونکر ہندوؤں کی ایک آباد گلی میں باوجود مقتول کے وارثوں کے شور دہائی کے پکڑا نہ گیا.سو جب ہم ان واقعات کو غور سے سوچتے ہیں تو فی الفور طبیعت اس طرف چلی جاتی ہے کہ یہی وہ کام ہے جس کو خیر الماکرین کی طرف منسوب کرنا چاہیے.ہم لکھ چکے ہیں کہ خدا کا نام قرآن شریف کی رو سے خیر الماکرین اس وقت کہا جاتا ہے کہ جب وہ کسی مجرم مستوجب سزا کو باریک اسباب کے استعمال سے سزا میں گرفتار کرتا ہے.یعنی ایسے اسباب اس کی سزا کے اس کے لئے مہیا کرتا ہے کہ جن اسباب کو مجرم کسی اور ارادہ سے اپنے لئے آپ مہیا کرتا ہے.پس وہی اسباب جو اپنی بہتری یا ناموری کے لئے مجرم جمع کرتا ہے وہی اس کی ذلت اور ہلاکت

Page 152

مجھے کوئی نشان نہیں دکھلاتے اور معقول جواب نہیں دیتے.حالانکہ بحث کیلئے یہ صاف طریق اس کے سامنے پیش کیا گیا کہ وہ وید کی پابندی سے اور اس کی شرتیوں کے حوالہ سے بحث کرے اور ہم قرآن شریف کی پابندی سے اور اس کی آیتوں کے حوالہ سے بحث کریں- پس چونکہ وہ محض جاہل تھا اور یہ بھی اس میں طاقت نہیں تھی کہ ہر ایک مقام میں وید کی شرتی پیش کر سکے.اس لئے وہ چالاکی سے ہمارے اصل مطالبہ کو تحریر میں ہی نہیں لاتا تھا.ہاں ٹھٹھے اور ہنسی سے بار بار آسمانی نشان مانگتا تھا.غرض ہم اس جگہ اپنا آخری خط نقل کر دیتے ہیں جو اس کے آخری رقعہ کے جواب میں لکھا گیا تھا اور وہ یہ ہے: جناب پنڈت صاحب.آپ کا خط میں نے پڑھا.آپ یقیناً سمجھیں کہ ہمیں نہ بحث سے انکار ہے اور نہ نشان دکھلانے سے.مگر آپ سیدھی نیت سے طلب حق نہیں کرتے.بے جا شرائط زیادہ کر دیتے ہیں.آپ کی زبان بدزبانی سے رکتی نہیں.آپ لکھتے ہیں کہ اگر بحث نہیں کرنا چاہتے تو ربّ العرش خیرالماکرینسے میری نسبت کوئی آسمانی نشان مانگیں.یہ کس قدر ہنسی ٹھٹھے کے کلمے ہیں گویا آپ اس خدا پر ایمان نہیں لاتے جو بیباکوں کو تنبیہ کر سکتا ہے.باقی رہا یہ اشارہ کہ خدا عرش پر ہے اور مکر کرتا ہے یہ خود آپ کی ناسمجھی ہے.مکر لطیف اور مخفی تدبیر کو کہتے ہیں.جس کا اطلاق خدا پر ناجائز نہیں اور عرش کا کلمہ خدا تعالیٰ کی عظمت کیلئے آتا ہے.کیونکہ وہ سب اونچوں سے زیادہ اونچا اور جلال رکھتا ہے یہ نہیں کہ وہ کسی انسان کی طرح کسی تخت کا محتاج ہے خود قرآن میں ہے کہ ہر ایک چیز کو اس نے تھاما ہوا ہے اور وہ قیوم ہے جس کو کسی کا موجب ہو جاتے ہیں.قانون قدرت صاف گواہی دیتا ہے کہ خدا کا یہ فعل بھی دنیا میں پایا جاتا ہے کہ وہ بعض اوقات بے حیا اور سخت دل مجرموں کی سزا ان کے ہاتھ سے دلواتا ہے سو وہ لوگ اپنی ذلت اور تباہی کے سامان اپنے ہاتھ سے جمع کر لیتے ہیں.اور ان کی نظر سے وہ امور اس وقت تک مخفی رکھے جاتے ہیں جب تک خدا تعالیٰ کی قضا و قدر نازل ہو جائے.پس اس مخفی کارروائی کے لحاظ سے خدا کا نام ماکر ہے.دنیا میں ہزاروں نمونے اس کے پائے جاتے ہیں.سو لیکھرام کے معاملہ میں خدا کا مکر یہ ہے کہ اول اسی کے مونہہ سے کہلوایا کہ میں خیر الماکرین سے اپنی نسبت نشان مانگتا ہوں.سو اس درخواست میں اس نے ایسا عذاب مانگا جس کے اسباب مخفی ہوں اور ایسا ہی وقوع میں آیا.کیونکہ جس شخص کو شدھ کرنے کے لئے اس نے اتوار کا دن مقرر کیا تھا اور اتوار کے دن آریوں کا ایک خوشی کا جلسہ قرار پایا تھا جیسا کہ عید کا دن ہوتا ہے.تا اس شخص کو شدھ کیا جائے.سو وہی خوشی کے اسباب اس کیلئے اور اس کی قوم کیلئے ماتم کے اسباب ہوگئے اور خیرالماکرین کے نام کو خدا تعالیٰ نے تمام آریوں کو خوب سمجھا دیا.منہ

Page 153

چیز کا سہارا نہیں.پھر جب قرآن شریف یہ فرماتا ہے تو عرش کا اعتراض کرنا کس قدر ظلم ہے آپ عربی سے بے بہرہ ہیں آپ کو مکر کے معنے بھی معلوم نہیں.مکر کے مفہوم میں کوئی ایسا ناجائز امر نہیں ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا.شریروں کو سزا دینے کیلئے خدا کے جو باریک اور مخفی کام ہیں ان کا نام مکر ہے.لغت دیکھو پھر اعتراض کرو.میں اگر بقول آپ کے وید سے امّی ہوں تو کیا حرج ہے کیونکہ میں آپ کے مسلّم اصول کو ہاتھ میں لے کر بحث کرتا ہوں.مگر آپ تو اسلام کے اصول سے باہر ہو جاتے ہیں.صاف افتراء کرتے ہیں.چاہئے تھا کہ عرش پر خدا کا ہونا جس طور سے مانا گیا ہے اول مجھ سے دریافت کرتے پھر اگر گنجائش ہوتی تو اعتراض کرتے اور ایسا ہی مکر کے معنے اول پوچھتے پھر اعتراض کرتے اور نشان خدا کے پاس ہیں وہ قادر ہے جو آپ کو دکھلاوے.والسلام علٰی من اتبع الھدٰی.خاکسار میرزا غلام احمد.اور وہ معاہدہ جو نشانوں کے دیکھنے کے لئے اس راقم اور لیکھرام کے مابین تحریر پایا تھا اس کا عنوان جو لیکھرام نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا یہ ہے: ’’اوم پرماتمنے نم.ہی سچداند سروپ پرماتماست کا پرکاش کر اور است کا ناش کرتا کہ تیری ست وید ودیا سب سنسار میں پرمرت ہووے‘‘.* پھر بعد اس کے اس طول طویل معاہدہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی پیشگوئی لیکھرام کو بتلائی جائے اور وہ سچی نہ ہو تو وہ ہندو مذہب کی سچائی کی دلیل ہوگی اور فریق پیشگوئی کرنے والے پر لازم ہوگا کہ آریہ مذہب کو اختیار کرے یا 3تین سو ساٹھ روپیہ لیکھرام کو دیدے جو پہلے سے شرمپت ساکن قادیان کی دوکان پر جمع کرا دینا ہوگا.اور اگر پیشگوئی کرنے والا سچا نکلے تو اسلام کی سچائی کی یہ دلیل ہوگی اور پنڈت لیکھرام پر واجب ہوگا کہ مذہب اسلام قبول کرے*.* پھر بعد اس کے وہ پیشگوئی بتلائی گئی جس کی رو سے ۶؍ مارچ ۱۸۹۷ء کو لیکھرام کی زندگی کا خاتمہ ہوا.لیکن پہلے اس سے جو وہ پیشگوئی لیکھرام پر ظاہر کی جاتی مکرراً بذریعہ اشتہار ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء ان کو اطلاع دی گئی تھی کہ اگر ان کو پیشگوئی کے ظاہر کرنے سے رنج پہنچے تو اس کو ظاہر نہ کیا جائے.مگر لیکھرام نے بڑی شوخی اور دلیری سے جیسا کہ اشتہار ۲۰؍ فروری ۱۸۹۳ء میں اس بات کا ذکر ہے ایک کارڈ اپنا دستخطی میری طرف روانہ کیا کہ ’’میں آپ کی پیشگوئیوں کو واہیات سمجھتا ہوں یہ شرط جو لیکھرام اسلام کو قبول کرے یہ اس وقت کی شرط ہے جبکہ کچھ معلوم نہ تھاکہ جو پیشگوئی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو گی اس کا مضمون کیا ہو گا.منہ یہ لیکھرام نے پیشگوئی کے انجام کے لئے دعا کی تھی کہ اگر اسلام سچا ہے تو ان کی پیشگوئی سچی نکلے اور اگر ہندو مذہب سچا ہے تو ان کی پیشگوئی جو کریں گے جھوٹی نکلے.اب ہم ناظرین سے پوچھتے ہیں کہ اگر اس لیکھرام والی پیشگوئی کو جھوٹی سمجھا جائے تو کس فریق پر اس دعا کا بد اثر پڑے گا.منہ

Page 154

میر ے حق میں جو چاہو شائع کرو.میری طرف سے اجازت ہے اور میں کچھ خوف نہیں کرتا‘‘.اس پر بھی ہماری طرف سے بڑی توقف ہوئی.اور نیز یہ باعث ہوا کہ ابھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر پیشگوئی کی میعاد نہیں کھلی تھی اور لیکھرام کا اصرار تھا کہ میعاد کی قید سے پیشگوئی بتلائی جائے.آخر ۲۰؍ فروری ۱۸۹۳ ؁ء کو بہت توجہ اور دعا اور تضرع کے بعد معلوم ہوا کہ آج کی تاریخ سے یعنی ۲۰؍ فروری ۱۸۹۳ ؁ء سے چھ برس کے درمیان لیکھرام پر عذاب شدید جس کا نتیجہ موت ہے نازل کیا جائے گا اور اس کے ساتھ یہ عربی الہام بھی ہوا عجْل جَسَدٌ لہ خوار.لہ نصبٌ وَ عَذاب.یعنی یہ گوسالہ بے جان ہے جس میں سے مہمل آواز آ رہی ہے پس اس کے لئے دکھ کی مار اور عذاب ہے اور اس اشتہار کے صفحہ ۲ اورتین۳ میں یہ عبارت ہے.اب میں اس پیشگوئی کو شائع کر کے تمام مسلمانوں اور آریوں اور عیسائیوں اور دیگر فرقوں پر ظاہر کرتا ہوں کہ اگر اس شخص پر چھ برس کے عرصہ تک آج کی تاریخ سے یعنی ۲۰؍ فروری ۱۸۹۳ ؁ء سے کوئی ایسا عذاب جو معمولی تکلیفوں سے نرالا اور خارق عادت ہو (یعنی جو عوارض اور بیماریاں انسان کیلئے طبعی اور معمولی ہیں جن سے انسان کبھی صحت پاتا اور کبھی مرتا ہے ان میں سے نہ ہو) اور اپنے اندر الٰہی ہیبت رکھتا ہو.(یعنی الٰہی قہر کے نشان اس میں موجود ہوں) نازل نہ ہو تو سمجھو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور نہ اس کی روح سے میرا یہ نطق ہے (یعنی میرے صدق اور کذب کا مدار یہی پیشگوئی ہے) اور اگر میں اس پیشگوئی میں کاذب نکلا تو ہر ایک سزا کے بھگتنے کیلئے میں تیار ہوں اور اس بات پر راضی ہوں کہ مجھے گلے میں رسہ ڈال کر سولی پر کھینچا جائے.۲۰؍ فروری ۱۸۹۳ ؁ء اس جگہ منصف سوچیں کہ درصورت دروغ نکلنے اس پیشگوئی کے کس ذلت کے اٹھانے کیلئے میں طیار تھا اور اپنے صدق اور کذب کا کس درجہ پر اس پیشگوئی پر حصر کیا گیا تھا.پھر وہ لوگ جو خدا کی ہستی کو مانتے اور اس بات کو جانتے ہیں کہ اس کے ارادہ کے نیچے سب کچھ ہو رہا ہے اور ہر ایک جھگڑے کا آخری فیصلہ اس کے ہاتھ سے ہوتا ہے وہ کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ ایسا عظیم الشان مقدمہ جس کے نتیجہ کی دو بڑی بھاری قومیں منتظر تھیں وہ خدا کے علم اور ارادہ کے بغیر یونہی اتفاقی طور پر ظہور میں آگیا گویا جو مقدمہ خدا کو سونپا گیا تھا.وہ بغیر اس کے جو اس کے فیصلہ کرنے والے فرمان سے مزیّن ہو یونہی اس کی لاعلمی میں داخل دفتر ہوگیا.اگر ایسے خیالات بھروسہ کرنے کے لائق ہیں تو پھر تمام نبوتوں کا سلسلہ اور شریعتوں کا تمام نظام یکدفعہ درہم برہم ہو جائے گا.کیونکہ جو امر تحدی کے بعد اور اس قدر اصرار کے دعویٰ سے پیچھے دشمن کے مقابل آسمانی گواہی کے طور پر ظہور میں آگیا اور نہایت روشن طور پر مقرر کردہ علامتوں کے موافق اس کا ظہور ہوا.اگر وہی بیہودہ اور باطل سمجھا جائے تو پھر کہاں کا مذہب اور کہاں کی خدا کی ہستی بلکہ تمام آسمانی سچائیوں کا

Page 155

یکد فعہ خون ہو جائے گا.پھر دوسری الہامی پیشگوئی جو لیکھرام کی نسبت ہوئی وہ کرامات الصادقین کے صفحہ ۵۴ اور صفحہ اخیر ٹائٹل پیج میں مذکور ہے اور وہ یہ ہے: الا اننی فی کُلّ حرب غالب فکدنی بما زَوّرتَ فالحق یغلبٗ وبشّرنی ربّی و قال مبشّرا ستعرف یوم العید والعید اقربٗ و منھا ما وعدنی ربّی و استجاب دعائی فی رجل مفسد عدوّ اللّٰہ و رسولہ المسمّی لیکھرام الفشاوری.واخبرنی ربّیانّہ من الھالکین.انہ کان یسب نبیّ اللّٰہ و یتکلم فی شانہ بکلمات خبیثۃ فدعوت علیہ فبشرنی ربّی بموتہ فی ستّ سنۃ ان فی ذالک لاٰیۃ للطالبین.ترجمہ.میں ہر ایک جنگ میں غالب ہوں یعنی ہر ایک مقابلہ میں مجھے غلبہ ہے پس (اے محمد حسین بٹالوی) جو کچھ تو مکر کرتا ہے بیشک کر کہ آخر حق ضرور غالب ہوگا.اور مجھے خدا نے ایک نشان کی خوشخبری دے کر کہا کہ تو عید کا دن عنقریب پہچان لے گا.یعنی وہ خوشی کا دن جس میں وہ نشان ظاہر ہوگا اور اس نشان کی یہ علامت ہے کہ اس دن سے معمولی عید قریب ہوگی.اور خدا نے مجھے وعدہ دیا اور ایک مفسد خدا اور رسول کے دشمن کے بارے میں میری دعا سنی جو لیکھرام پشاوری ہے اور مجھے خبر دی کہ وہ مر ے گا.اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو گالیاں دیا کرتا تھا اور پلید باتیں منہ پر لاتا تھا.پس میں نے اس پر بددعا کی سو خدا نے میری دعا قبول کرکے مجھے خبر دی کہ وہ چھ برس کے عرصہ میں مرجائے گا.اور اس میں ڈھونڈنے والوں کیلئے نشان ہیں.اور یہ الہام کہ عجل جسدلہ خوار.لہ نصب و عذاب جس کا ابھی ہم ذکر کر چکے ہیں یعنی لیکھرام گوسالہ سامری ہے اور اسی گوسالہ کی طرح اس کو عذاب ہوگا.یہ نہایت پرمعنی الہام ہے جو گوسالہ سامری کی مشابہت کے پیرایہ میں نہایت اعلیٰ اسرار غیب کے بیان کر رہا ہے.منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ گوسالہ سامری یہودیوں کی عید کے دن میں ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا تھا.جیسا کہ توریت خروج باب ۳۲ آیت ۵ سے ثابت ہوتا ہے اور وہ یہ ہے.’’ہارون نے یہ کہہ کر منادی کی کہ کل خداوند کی عید ہے‘‘ سو ایسا ہی اسلامی عید کے دن کے قریب یعنی ۶؍ مارچ ۱۸۹۷ء کو لیکھرام قتل ہوا اور چونکہ گوسالہ سامری کے تباہ کرنے کیلئے خدا کی کتابوں میں عید کے دن کی خصوصیت

Page 156

تھی اور وہ عید کے دن کا ہی واقعہ تھا جبکہ گوسالہ سامری خدا کے حکم سے پیسا گیا لہٰذا خدا تعالیٰ نے لیکھرام کا نام گوسالہ سامری رکھ کر ایک ایسا لفظ استعمال کیا جو اس بات پر دلالت التزامی کر رہا تھا کہ لیکھرام بھی عید کے دنوں میں ہی قتل کیا جائے گا.اور اگرچہ خدا تعالیٰ کے کلام کے باریک بھید جاننے والے گوسالہ سامری کا نام رکھنے سے اور پھر اس عذاب کا ذکر کرنے سے سمجھ سکتے تھے کہ ضرور ہے کہ لیکھرام کی موت بھی اپنے دن کے لحاظ سے گوسالہ سامری کی تباہی کے دن سے مشابہ ہوگی مگر پھر بھی خدا تعالیٰ نے اپنے الہام میں اس اجمال پر اکتفا نہیں کیا بلکہ صریح لفظوں میں فرما دیا کہ ستعرف یوم العید والعید اقرب یعنی لیکھرام کا واقعہ قتل ایسے دن میں ہوگا جس سے عید کا دن ملا ہوا ہوگا اور یہ پیشگوئی کہ عید کے دن کے قریب لیکھرام کی موت ہوگی ہماری طرف سے ایک ایسی مشہور خبر تھی کہ ہندوؤں نے لیکھرام کے مرنے کے ساتھ ہی شور مچا دیا کہ یہ شخص پہلے سے کہتا تھا کہ لیکھرام عید کے دنوں میں مرے گا.جیسا کہ پرچہ سماچار پنجاب وغیرہ ہندو اخباروں نے اس پر بہت ہی زور دیا.معلوم ہوتا ہے کہ بعض شریر ہندوؤں نے پیشگوئی کی یہ تفصیلیں ہمارے مُنہ* سے سن کر اس وقت ایک غیر ممکن امر کی طرح کسی وقت ہمیں ملزم کرنے کیلئے انہیں یاد رکھا تھا یعنی یہ خیال تھا کہ ایسی کھلی کھلی نشانیاں ہرگز پوری نہیں ہوں گی اور ہم پیچھے سے شرمندہ کریں گے مگر جب لیکھرام حقیقت میں عید کے دوسرے دن مارا گیا تو ان پیشگوئیوں کو دوسرے پہلو پر ناقابل اعتبار کرنا چاہا یعنی یہ کہ عید کا دن پہلے سے سوچ سمجھ کر باہمی مشورہ سے قرار دیا گیا تھا لیکن اگر یہی سچ تھا تو کیوں لیکھرام کی عید کے دنوں میں پوری حفاظت نہ کی گئی تا وہ منصوبہ پیش نہ جاتا جس کا آریوں کو کئی برسوں سے علم تھا.عجیب اتفاق یہ ہوا کہ جس دن لیکھرام کی جان نکلی یعنی اتوار کا روز وہ آریوں نے خاص ایک عید کا دن ٹھہرایا تھا.اول تو وہ خود اتوار کا دن تھا جو ہندوؤں کی عیدوں میں سے ایک عید ہے.دوسرے قاتل کے شدھ کرنے کیلئے جو اپنے تئیں نو مسلم ظاہر کرتا تھا وہ ایک خوشی کا دن ٹھہرایا گیا تھا جس میں عام جلسہ میں قاتل کو پھر ہندو بنانے کا ارادہ تھا.غرض عجل کا نام جو لیکھرام کو الہام الٰہی نے دیا یہ ایک نہایت دقیق راز اپنے اندر رکھتا تھا اور کئی رموز غیبیہ کے اشارے اس میں بھرے ہوئے تھے.ایک تو یہی جو عید کے دنوں میں گوسالہ سامری کی طرح غضب الٰہی کے نیچے آنا.دوسرے یہ کہ گوسالہ سامری انسان کے ہاتھوں سے ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا تھا اور پھر جلایا گیا اور پھر دریا میں ڈالا گیا چنانچہ یہ تینوں باتیں لیکھرام کے ساتھ بھی ظہور میں آئیں تیسرے یہ کہ گوسالہ سامری کی پرستش کی گئی تھی اور خدا نے اس قوم پر ایک وبا کی بیماری بھیجی جو غالباً طاعون تھی.ضمیمہ پنجاب سماچار ۱۰؍مارچ ۱۸۹۷ء میں میری نسبت لکھا ہے کہ’’ کہا کرتے تھے کہ پنڈت کو مار ڈالیں گے اور اس عرصہ میں اور فلاں دن (یعنی عید کے دوسرے دن میں) ایک دردناک حالت میں مرے گا‘‘.سو یہ بات تو ایڈیٹر نے اپنی طرف سے بنالی کہ مار ڈالیں گے لیکن دن اور صورتِ موت کا ذکر یہ خود ہماری پیشگوئی کا ایک مشہور منشاء تھا.جو بلاشبہ بہت مرتبہ بیان کیا گیا تھا.منہ

Page 157

جیسا کہ توریت* باب ۳۲ آیت ۳۵ میں ہے کہ’’ خداوند نے ان کے بچھڑے بنانے کے سبب......لوگوں پر مری بھیجی.ایسا ہی لیکھرام کی بھی تعریف پرستش تک پہنچائی گئی اور مسلمانوں کو ناحق دکھ دیا گیا.یہ لوگ خوب اپنے دلوں میں سمجھتے تھے کہ یہ خدا کا فعل ہے پیشگوئی کرنے والے کا منصوبہ نہیں.تاہم بار بار فریاد کر کے گورنمنٹ سے اس راقم کے گھر کی تلاشی کرائی اور بہت سابے جا شور ڈال کر گوسالہ پرستوں سے مشابہت پوری کی.کوئی کیا جانتا ہے کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے پر ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ جو خدا نے مشابہت بیان فرمائی وہ پوری مشابہت ہے.پھر لیکھرام کی نسبت ایک اور الہامی پیشگوئی ہے جو رسالہ برکات الدعا کے ٹائٹل پیج کے اول اور آخر کے ورق پر درج ہے اور یہ پیشگوئی اپریل ۱۸۹۳ء میں یعنی پہلی پیشگوئی سے تین ماہ بعد کی گئی تھی.اس پیشگوئی کا مختصر بیان یہ ہے کہ سیّد احمد خان صاحب کے.سی.ایس.آئی نے ایک رسالہ استجابت دعا کے انکار میں لکھا تھا اور اس کا نام رسالہ الدعا والاستجابت رکھا تھا.یہ رسالہ سچائی کے بالکل برخلاف تھا اس لئے میں نے اس کے جواب میں رسالہ برکات الدعا لکھا اور اس رسالہ کے لکھنے کے وقت مجھے یہ ضرورت پیش آئی کہ دعا کے قبول ہونے کا سیّد صاحب کے آگے کوئی نمونہ پیش کروں.سو خدا کے فضل سے انہیں دنوں میں لیکھرام کے بارے میں میری دعا قبول ہو چکی تھی.سو میں نے برکات الدعا کے ٹائٹل پیج میں یہ نمونہ پیش کر دیا.برکات الدعا کے پڑھنے والے جب اس رسالہ کو کھولیں گے تو ٹائٹل پیج کے پہلے صفحہ پر ہی جو اندر کا صفحہ ہے رنگین کاغذ پر یہ لکھا ہوا پائیں گے.نمونہ دعائے مستجاب اسی وجہ سے اس رسالہ کا نام برکات الدعا رکھا گیا تھا کہ اس میں دعا کی برکتوں کا نمونہ پیش کیا گیا.اس صفحہ میں لیکھرام کے حق میں یہ عبارت ہے کہ:.میں اقرار کرتا ہوں کہ اگر جیسا کہ معترضوں نے خیال فرمایا ہے (لیکھرام کے متعلق) پیشگوئی کا ماحصل آخرکار یہی نکلا کہ کوئی معمولی تپ آیا یا معمولی طور پر کوئی درد ہوا یا ہیضہ ہوا اور پھر اصلی حالت صحت کی قائم ہوگئی تو وہ پیشگوئی متصور نہیں ہوگی...پس اس صورت میں مَیں بلاشبہ اس سزا کے لائق ٹھہروں گا جس کا ذکر میں نے کیا ہے لیکن اگر پیشگوئی کا ظہور اس طور سے ہوا جس میں قہر الٰہی کے نشان صاف صاف اور کھلے کھلے طور پر دکھائی دیں تو پھر سمجھو کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے * خروج باب ۳۲ آیت ۳۵.

Page 158

ہے...اگر پیشگوئی فی الواقعہ ایک عظیم الشان ہیبت کے ساتھ ظہور پذیر ہو تو وہ خود دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور یہ سارے خیالات اور یہ تمام نکتہ چینیاں جو پیش از وقت دلوں میں پیدا ہوتی ہیں ایسی معدوم ہو جاتی ہیں کہ منصف مزاج اہل الرائے ایک انفعال کے ساتھ اپنی رایوں سے رجوع کرتے ہیں ماسوا اس کے یہ عاجز بھی تو قانون قدرت کی تحت میں ہے.اگر میری طرف سے بنیاد اس پیشگوئی کی صرف اسی قدر ہے کہ میں نے صرف یاوہ گوئی کے طور پر چند احتمالی بیماریوں کو ذہن میں رکھ کر اور اٹکل سے کام لیکر یہ پیشگوئی شائع کی ہے تو جس شخص کی نسبت یہ پیشگوئی ہے وہ بھی تو ایسا کر سکتا ہے کہ انہیں اٹکلوں کی بنیاد پر میری نسبت پیشگوئی کردے...اگر یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور میں خوب جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے تو ضرور ہیبت ناک نشان کے ساتھ اس کا وقوعہ ہوگا اور دلوں کو ہلا دے گا اور اگر اس کی طرف سے نہیں تو میری ذلت ظاہر ہوگی اور اگر میں اس وقت رکیک تاویلیں کروں گا تو یہ اور بھی ذلت کا موجب ہوگا.وہ ہستی قدیم اور وہ پاک و قدوس جو تمام اختیار اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے وہ کاذب کو کبھی عزت* نہیں دیتا.یہ بالکل غلط ہے کہ لیکھرام سے مجھ کو کوئی ذاتی عداوت ہے.مجھ کو ذاتی طور سے کسی سے بھی عداوت نہیں بلکہ اس شخص نے سچائی سے دشمنی کی اور ایک ایسے کامل اور مقدس کو جو تمام سچائیوں کا چشمہ تھا توہین سے یاد کیا اس لئے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اپنے ایک پیارے کی عزت دنیا میں ظاہر کرے.فقط.یہ وہ الہامی پیشگوئی کی تائید میں مضمون ہے جو برکات الدعا کے ٹائٹل پیج کے صفحہ میں لکھا ہوا ہے پھر اسی صفحہ کے حاشیہ پر ایک اور الہامی پیشگوئی لیکھرام کی نسبت ہے جس کا عنوان یہ ہے.لیکھرام پشاوری کی نسبت ایک اور خبر.پھر آگے یہ عبارت ہے:.آج جو ۲؍ اپریل ۱۸۹۳ ؁ء مطابق ۱۴؍ ماہ رمضان ۱۳۱۰ھ ہے صبح کے وقت تھوڑی سی غنودگی کی حالت میں مَیں نے دیکھا کہ میں ایک وسیع مکان میں بیٹھا ہوا ہوں اور چند دوست بھی میرے پاس موجود ہیں اتنے میں ایک شخص قوی ہیکل مہیب شکل گویا اس کے چہرہ پر سے خون ٹپکتا ہے میرے سامنے آکر کھڑا ہوگیا.میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک نئی خلقت اور شمائل کا شخص ہے گویا انسان نہیں ملائک شداد غلاظ میں سے ہے اور اس کی ہیبت دلوں پر طاری تھی اور میں اس کو دیکھتا ہی تھا کہ اس نے مجھ سے پوچھا کہ لیکھرام کہاں ہے؟ اور ایک اور شخص کا نام لیا کہ وہ کہاں ہے.تب میں نے اس وقت سمجھا کہ یہ شخص لیکھرام اور اس دوسرے شخص کی سزا دہی کیلئے مامور کیا گیا ہے مجھے معلوم نہیں رہا کہ وہ دوسرا شخص کون ہے ہاں یہ یقینی طور پر یاد رہا ہے (یعنی عالم کشف میں دل میں گزرا ہے) کہ وہ دوسرا شخص انہیں چند آدمیوں میں سے تھا جس کی نسبت میں اشتہار دے چکا ہوں (یعنی ایسا شخص جو میں نے پہلے صاف کہہ دیا تھا کہ چونکہ خدا تعالیٰ کاذب کو عزت نہیں دیتا اس لئے اگر میں کاذب ہوں تو یہ پیشگوئی ہرگز پوری نہیں ہو گی اور نیز میں نے صاف کہہ دیا تھا کہ یہ پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت ظاہر کرنے کے لئے ہے پس جو شخص کہتا ہے کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اس کوا قرار کرنا چاہیے کہ اس جگہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی کچھ بھی پرواہ نہیں کی.منہ

Page 159

موت کی پیشگوئی کے اشتہار کا نشانہ ہوگیا ہے جس کی نسبت کسی وقت کہہ سکتے ہیں کہ اس کی نسبت اشتہار ہو چکا ہے) اور یہ یکشنبہ کا دن اور چار بجے صبح کا وقت تھا.فالحمد للّٰہ علٰی ذالک فقط.یہ تمام پیشگوئیاں بآواز بلند کہہ رہی ہیں کہ لیکھرام کی زندگی کا بذریعہ قتل کے خاتمہ ہونا مقدر تھا اسی وجہ سے جو نظم لیکھرام کے متعلق الہام کی پیشانی پر لکھی گئی تھی اس میں ایسے الفاظ درج ہیں جو لیکھرام کے قتل پر دلالت کرتے ہیں- چنانچہ وہ الہامی اشتہار جو دربارہ موت لیکھرام کتاب آئینہ کمالات اسلام کے ساتھ شامل ہے اس کی پیشانی کے چند شعر جو قتل پر دلالت کرتے ہیں ذیل میں لکھے جاتے ہیں اور وہ یہ ہیں: عجب نوریست درجان محمدؐ عجب لعلیست در کانِ محمدؐ زظلمت ہادلے آنگہ شود صاف کہ گردد از محبّان محمدؐ عجب دارم دل آن ناکساں را کہ رو تابند از خوانِ محمدؐ ندانم ہیچ نفسے در دو عالم کہ دارد شوکت و شان محمدؐ خدا زان سینہ بیزارست صدبار کہ ہست از کینہ دارانِ محمدؐ خدا خود سوزد آن کرم دنی را کہ باشد از عدوّان محمدؐ اگر خواہی نجات از مستیء نفس بیا در ذیلِ مستانِ محمدؐ اگر خواہی کہ حق گوید ثنایت بشو از دل ثنا خوانِ محمدؐ اگر خواہی دلیلے عاشقش باش محمدؐ ہست برہانِ محمدؐ سرے دارم فدائے خاکِ احمدؐ دلم ہر وقت قربان محمدؐ بگیسوئے رسول اللہ کہ ہستم نثار روئے تابانِ محمدؐ دریں رہ گر کشندم وربسوزند نتابم رُو زِ ایوان محمدؐ بکار دین نترسم از جہانے کہ دارم رنگ ایمانِ محمدؐ بسے سہل است از دنیا بریدن بیاد حسن و احسان محمدؐ فدا شد در رہش ہر ذرّۂِ من کہ دیدم حُسنِ پنہانِ محمدؐ دگر استاد را نامے نہ دانم کہ خواندم در دبستان محمدؐ بدیگر دلبرے کارے ندارم کہ ہستم کشتۂ آنِ محمدؐ مراآن گوشۂ چشمے بباید نخواہم جُز گلستانِ محمدؐ دلِ زارم بہ پہلویم مجوئید کہ بستیمش بدامان محمدؐ من آن خوش مرغ از مرغان قدسم کہ دارد جا بہ بستان محمدؐ تو جان ما منور کر دی از عشق فدایت جانم اے جانِ محمدؐ دریغا گردہم صد جان درین راہ نباشد نیز شایان محمدؐ چہ ہیبت ہا بدادند این جوان را کہ ناید کس بمیدان محمدؐ الا اے دشمن نادان و بے راہ بترس از تیغِ بُرّان محمدؐ رہ مولیٰ کہ گم کردند مردم بجو در آل و اعوان محمدؐ الا اے منکر از شان محمدؐ ہم از نور نمایان محمدؐ کرامت گرچہ بے نام ونشان است بیا بنگر ز غلمان محمدؐ لیکھرام پشاوری کی نسبت ایک پیشگوئی الخ }مفصل دیکھو آئینہ کمالات اسلام صفحہ۱.۲.۳ حاشیہ آخرکتاب{

Page 160

غرض اس پیشگوئی کے سر پر یہ چند شعر ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بترس از تیغ بُرّان محمد جو صاف بتلا رہا ہے کہ لیکھرام کا انجام یہی تھا کہ وہ قتل کیا جائے اور آخیر کے شعر پر لیکھرام کی طرف اشارہ کر کے ہاتھ بنایا ہوا ہے جیسا کہ اس جگہ بنا دیا گیا ہے تا یہ اشارہ ہو کہ تیغ بُرّان اسی پر پڑے گی اور اسی کی موت سے کرامت ظاہر ہوگی.پھر برکات الدعا کے صفحہ ۲۸ میں چند شعروں میں سید احمد خاں صاحب پر ظاہر کیا گیا ہے کہ وہ پیشگوئی لیکھرام میں دعائے مستجاب کے نمونہ کی انتظار کریں اور آخری شعر کے نیچے مد کھینچ کر ان صفحات برکات الدعا کی طرف سید صاحب کو توجہ دلائی گئی ہے جن میں لیکھرام کی ہیبت ناک موت کا ذکر کر کے نمونہ دعائے مستجاب کا ذکر ہے اور وہ شعر یہ ہیں.روئے دلبر از طلب گاران نمی دارد حجاب می درخشد در خورد می تابد اندر ماہتاب لیکن این روئے حسین از غافلان ماند نہان عاشقے باید کہ بردارند ازبہرش نقاب دامن پاکش زِ نخوت ہا نمی آید بدست ہیچ را ہے نیست غیر از عجز و درد و اضطراب بس خطرناک است راہ کوچۂ یار قدیم جان سلامت بایدت از خود روی ہاسربتاب تاکلامش عقل و فہم ناسزایان کم رسد ہرکہ از خود گم شود او یابد آن راہ صواب مشکل قرآن نہ از ابناء دنیا حل شود ذوق آنمَے داند آں مستیکہ نوشدآن شراب ایکہ آگاہی ندادندت زِ انوار درون درحق ما ہرچہ گوئی نیستی جائے عتاب از سر وعظ و نصیحت این سخن ہا گفتہ ایم تامگرزیں مرہمے بہ گردد آن زخمِ خراب از دعا کن چارۂ آزار انکار دعا چون علاج مَے زِمَے وقت خمار و التہاب ایکہ گوئی گر دعاہا را اثر بودے کُجاست سوئے من بشتاب بنمایم ترا چون آفتاب ہاں مکن انکار زین اسرار قدرتہائے حق قصّہ کو تہ کن بہ بین از ما دعائے مستجاب دیکھو صفحہ ۲.۳.۴ سرورق یہ آخری شعر کا دوسرا مصرعہ جس کے نیچے مَد ڈال کرنمبر۲.۳.۴ لکھے گئے ہیں یہ برکات الدعا میں اسی طرح مد ڈال کر لکھے گئے ہیں تا سید احمد خان صاحب ان صفحات کو نکال کر پڑھیں اور تا انہیں نمونہ دعائے مستجاب پر غور

Page 161

کر کے آئندہ آزمائش کے بعد اپنی غلط رائے کے چھوڑنے کیلئے توفیق ملے اور رسالہ برکات الدعا جب تالیف کیا گیا تو اسی زمانہ میں سید صاحب کی خدمت میں بلاتوقف بھیجا گیا اور سید صاحب کا جواب بھی آگیا تھا کہ میں برکات الدعا کو دیکھ رہا ہوں پس ضرور سید صاحب نے ان مقامات کو بھی دیکھا ہوگا جن میں نمونہ دعائے مستجاب پیش کیا گیا تھا.غرض لیکھرام کی موت کیلئے دعا کرنا اگرچہ بوجہ اس کی بدزبانی اور بیباکی کے تھا لیکن یہ بھی مطلوب تھا کہ سید صاحب کی خدمت میں ایک نمونہ دعائے مستجاب پیش کیا جائے.اب سید صاحب کا فرض ہے کہ اپنی اس ناقص رائے کو بدل دیں.ایسا نہ ہو کہ ایک شخص* کی تو جان گئی اور سید صاحب وہیں کے وہیں رہے.یہ وہ پیشگوئیاں ہیں جو لیکھرام کی موت کے بارے میں ۱۸۹۳ ؁ء میں عام طور پر شائع کی گئی تھیں اور جو شخص ان پر غور کرے گا اس کو ماننا پڑے گا کہ ان پیشگوئیوں میں قطعی طور پر ابتدائے ۲۰؍ فروری ۱۸۹۳ ؁ء سے نامبردہ کی موت کیلئے چھ برس کی میعاد بتلائی گئی تھی اور کشفی واقعہ یہ بھی ظاہر کر رہا تھا کہ لیکھرام کی موت اتوار کے دن کو ہوگی.کیونکہ وہ فرشتہ جو لیکھرام کی سزا کیلئے آیا اتوار کی رات کو مجھ پر ظاہر ہوا تھاجس سے پایا جاتا تھا کہ لیکھرام کی موت کا دن اتوار کا دن ہوگا اور الہام میں یہ بھی ظاہر کیا گیا تھا کہ عید کے ساتھ کے دن میں یعنی دوسری شوال میں یہ واقعہ پیش آئے گا اور خدا کی قدرت ہے کہ عید کا پتہ پہلے سے ہندوؤں نے خوب یاد کر رکھا تھا مگر اس وقت یہ امر غیر ممکن سمجھ کر صرف تکذیب کی غرض سے یاد کرلیا تھا کیونکہ وہ اپنی جہالت سے خیال کرتے تھے کہ ایسا ہونا کسی طرح ممکن نہیں کہ پیشگوئی میں ایسا خاص نشان لیکھرام کے متعلق ایک یہ پیشگوئی تھی کہ یقضیٰ امرہ فی ستّ یعنی چھ میں اس کا کام تمام کیا جائے گا.اب تک مجھے معلوم نہیں کہ یہ پیشگوئی ہمارے کسی اشتہار یا کتاب میں یا ہمارے کسی دوست کی تالیف میں چھپ گئی یا نہیں.لیکن ہماری جماعت میں اس کی عام شہرت ہے اور یقین ہے کہ دوسروں تک بھی یہ پیشگوئی پہنچی ہو گی جیسا کہ آریوں میں عید کی پیشگوئی پہنچ گئی کیونکہ ہماری کوئی بات راز کے طور پر نہیں رہتی.اس پیشگوئی کا جیسا کہ مفہوم ہے ایسا ہی ظہور میں آیا.یعنی لیکھرام چھ ۶مارچ کو زخمی ہوا اور دن کے چھٹے گھنٹے میں زخمی ہوا.بٹالوی صاحب اگر اس زبانی روایت سے انکار کرتے ہیں تو حدیثوں کے قبول کرنے میں انہیں بڑی مشکل پڑے گی.کیونکہ وہ نہ صرف زبانی روایتیں ہیں بلکہ کم سے کم سو ڈیڑھ سو برس بعد میں لکھی گئیں.جو بات تازہ ہو اور جس کے دیکھنے اور سننے والے زندہ موجود ہیں اس سے انکار کرنا عقلمندوں کے نزدیک رسوا ہونا ہے.منہ

Page 162

ہو او ر وہ سچا ہو جائے پس یاد رکھنے سے مدعا یہ تھا کہ جب پیشگوئی خطا جائے گی یا عید پر پوری نہیں ہوگی تو ہنسی ٹھٹھے میں اڑائیں گے.لیکن جب خدا نے اسی طرح پیشگوئی کو پورا کر دیا جیسا کہ لکھا گیا تھا تب ہندوؤں نے فی الفور اپنا پہلو بدل لیا اور کہا کہ ’’عید پر قتل کرنے کے لئے پہلے سے سازش ہو چکی تھی ورنہ خدا کی عادت ایسی نہیں ہے جو باریک اور خاص نشانوں کے ساتھ غیب کی خبریں کسی کو بتلاوے‘‘.مگر وہ قادر خدا جو سچائی کو مشتبہ کرنا نہیں چاہتا اس نے اس خیال کو بھی پہلے سے رد کر رکھا تھا جس کی ہندوؤں کو خبر نہیں تھی یعنی اس نے لیکھرام کے واقعہ قتل سے سترہ برس پہلے اس نشان کی براہین احمدیہ میں خبر دی ہے اور یہ خبر اس وقت لکھی گئی اور شائع کی گئی تھی جبکہ لیکھرام بارہ۱۲ یا تیرہ۱۳ برس کا ہوگا.اور یہ ایسے مرتب اور سلسلہ وار طرز پر براہین احمدیہ میں موجود ہے کہ انسانوں کو بجز ماننے کے بن نہیں پڑتا.ہم بفضلہ تعالیٰ رسالہ سراج منیر میں اس کو لکھ چکے ہیں اور مختصر طور پر اس کا یہ بیان ہے کہ براہین احمدیہ کے الہامات میں میری نسبت تین فتنوں کی خبر دی گئی ہے یعنی یہ بیان کیاگیا ہے کہ تین موقعہ پر تین فتنے تم پر برپا ہوں گے.اب قبل اس کے جو ان تینوں فتنوں کا ذکر کیا جائے صفائی بیان کیلئے اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ ہر ایک تکذیب فتنہ کے نام سے موسوم نہیں ہوسکتی.بلکہ صرف اس حالت میں کسی تکذیب کو فتنہ کے نام سے موسوم کیا جائے گا جبکہ وہ تکذیب ایک بلوہ کے رنگ میں ہو اور ایک جماعت باہمی اتفاق کر کے کسی کے مال یا جان یا عزت کی نقصان رسانی کی غرض سے اپنی طاقتوں کو اس حد تک خرچ کریں جہاں تک ایک شخص پورے اشتعال کی حالت میں کر سکتا ہے پس فتنہ میں ضروری ہے کہ ایک جماعت ہو اور وہ جماعت کسی کی ضرر رسانی کے ارادہ کیلئے پورے جوش کے ساتھ باہم اتفاق کر لیوے اور ایک بلوہ کی صورت میں ایک خطرناک مجمع بنا کر کسی کی عزت یا جان یا مال پر حملہ کرنے کیلئے مستعد ہو جائیں اور باہمی مشورہ سے ان تمام فریبوں کو اپنی طبیعتوں کے افروختہ ہونے کی حالت میں ایک غیر معمولی جوش کی طرز پر استعمال میں لاویں جس کے استعمال سے فریق مخالف پر کوئی ناگہانی آفت آنے کا اندیشہ ہو.اب جبکہ فتنہ کے لفظ کی تعریف معلوم ہو چکی تو ان تین فتنوں کو بیان کرتا ہوں مگر شاید سمجھانے کیلئے یہ انسب ہوگا کہ قبل اس کے جو میں ان تینوں فتنوں کی تفصیل براہین احمدیہ کے صفحات سے پیش کروں.اول وہ تینوں فتنے بیان کر دوں جو براہین احمدیہ کی تالیف اور شائع ہونے کے بعد میرے پر گذر چکے ہیں جن کے واقعات سے لکھوکھہا انسان گواہ ہیں بلکہ اگر میں کروڑہا کہوں تو یقیناً مبالغہ نہ ہوگا اس وقت میں اس دعویٰ پر زور دینے کے بغیر رہ نہیں سکتا کہ میری زندگی کا وہ بڑا حصہ جو براہین کی تالیف کے بعد اس

Page 163

وقت تک پورا ہوا ہے وہ ٹھیک ٹھیک تین فتنوں کے نیچے ہوکر گذرا ہے.کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ ان تین فتنوں کے ساتھ کوئی اور فتنہ بھی تھا جس کو فتنہ چہارم کہنا چاہئے اور نہ کوئی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ تین۳ فتنے نہیں ہیں بلکہ دو۲ ہیں.غرض تین کے عدد میں ایک ایسی حصر واقع ہوگئی ہے کہ جو نہ کم ہو سکتی ہے اور نہ قابل زیادت ہے ایک اجنبی شخص بھی جب میری سوانح کے لکھنے کیلئے بیٹھے گا اور میری لائف کے سلسلہ میں تلاش کرے گا کہ براہین احمدیہ کے زمانہ سے ان دنوں تک ایسے غیر معمولی بلوے پورے جوش سے بھرے ہوئے مختلف جماعتوں کی طرف سے کس قدر میرے پر ہو چکے ہیں جن کو فتنہ کے نام سے موسوم کرنا چاہئے تو وہ اس بات کے سمجھنے کیلئے کسی فکر کا محتاج نہ ہوگا کہ ایسے بلوے جو فتنہ کی حد تک پہنچ گئے اور پورے جوش کے ساتھ ظہور میں آئے صرف تین تھے.اوّل آتھم کے معاملہ میں پادریوں کا حملہ جنہوں نے واقعات کو چھپا کر پنجاب اور ہندوستان میں تکذیب کا ایک طوفان مچا دیا چونکہ ان کے دلوں میں بڑا مدعا یہ تھا کہ کسی طرح اسلام کی تکذیب اور توہین کا موقعہ*ملے.سو انہوں نے آتھم کے زندہ رہنے کے وقت سمجھ لیا کہ اس سے بہتر شور و غوغا ڈالنے کیلئے اور کوئی موقعہ نہ ہوگا چنانچہ سب سے پہلے امرتسر میں انہوں نے محض سفلہ پن کی راہ سے خلاف واقعہ شور مچایا**اور گلی کوچہ میں آتھم کو ساتھ لے کر وہ زباں درازیاں کیں کہ جب سے انگریزی آتھم کے عذاب کی نسبت جو پیشگوئی کی گئی تھی وہ نہایت صاف اور کھلے کھلے لفظوں میں تھی.اس میں یہ شرط موجود تھی کہ عذاب موت اس وقت نازل ہوگا کہ جب آتھم حق کی طرف رجوع نہ کرے اور آتھم پندرہ مہینے تک جو پیشگوئی کی میعاد تھی ایسے خلاف عادت طریق سے مذہبی مناظرات و تقریرات سے دستکش اور چپ رہا تھا جو اس کا چپ رہنا ہی اس کے دلی رجوع پر دلالت کرتا تھا پھر اس نے میعاد کے بعد جب یہ جھوٹے بہانے پیش کئے کہ میں ڈرتا تو ضرور رہا مگر وہ خوف تعلیم یافتہ سانپ سے اور دوسرے حملوں سے تھا جو میرے پر کئے گئے تھے.تب اس پر جب اس کو کہا گیا کہ یہ تمام تہمتیں بے ثبوت اور غیر معقول ہیں اور نیز میعاد کے بعد بیان کی گئی ہیں ان کو یا تو قسم سے ثابت کرنا چاہئے یا نالش سے یا کسی اور خانگی طریق سے.تو اس نے کوئی طریق اختیار نہ کیا بلکہ قسم پر چار ہزار روپیہ دینے کا وعدہ کیا گیا تب بھی قسم کھا کر اپنی بریت ظاہر نہ کر سکا اور یہ تمام الزام اپنے ساتھ قبر میں لے گیا.الہام الٰہی میں یہ بھی تھا کہ اگر وہ اخفائے شہادت کرے گا تو جلد مر جائے گا.چنانچہ وہ ہمارے آخری اشتہار سے سات مہینے کے اندر مرگیا.اب کیا اس پیشگوئی پر کوئی تاریکی تھی جس سے عیسائیوں نے شور مچایا؟ نہیں بلکہ ان کو آتھم کے ڈرتے رہنے کی خوب خبر تھی یہاں تک کہ ایک مرتبہ ایک بیماری میں آتھم نے چیخ مار کر کہا کہ’’ ہائے میں پکڑا گیا مگر عیسائیوں کو یہی منظور تھا کہ سچائی پر پردہ ڈالیں.انہوں نے اس شور میں بڑی نا انصافی کی.منہ پادریوں نے یہ تدبیریں بھی بہت کیں کہ کسی طرح آتھم نالش کر کے عدالت کے ذریعہ سے مجھ کو سزا دلائے لیکن چونکہ آتھم درحقیقت حق کے رعب سے مر چکا تھا اس لئے اس نے اس طرف رخ نہ کیا بلکہ نور افشاں میں صاف چھپوا دیا کہ پادریوں کا یہ بلوہ میری مرضی کے مخالف ہوا.منہ

Page 164

عملد اری اس ملک میں آئی ہے اس کی نظیر کسی وقت میں نہیں پائی جاتی اور صرف اسی پر اکتفا نہیں تھی بلکہ پشاور سے لیکر بمبئی کلکتہ الہ آباد وغیرہ میں بڑے بڑے جلسے کئے اور اخباروں میں محض افترا کے طور پر واقعات شائع کئے اور جاہل مولویوں اور عوام کالانعام کو برانگیختہ کیا اور ہزاروں اشتہار جو لعنتوں سے بھرے ہوئے تھے ملک میں تقسیم کئے اور لوگوں پر یہ اثر ڈالنا چاہا کہ دین اسلام ہیچ ہے.اور بعض مولوی دنیا کے کتّے ان کی ہاں کے ساتھ ہاں ملانے لگے اور یہ فتنہ تمام فتنوں سے بڑھا ہوا تھا کیونکہ اس میں صرف میری ذات پر ہی حملہ نہیں تھا بلکہ بڑا مقصد یہ تھا کہ اسلام کو ذلیل اور حقیر کر کے دکھلائیں.مولوی یہودی صفت ان کے ساتھ تکذیب میں شامل ہوگئے اور کہا کہ اگر عیسائی تکذیب کریں تو کیا حرج ہے یہ شخص تو خود کافر ہے.اور حالانکہ وہ خوب جانتے تھے کہ عیسائی اس راقم کو بھی مسلمان جانتے ہیں.غایت کار مسلمانوں میں سے ایک فرقہ کا سرگروہ خیال کرتے ہیں سو ان ظالموں نے ناحق میری دشمنی سے عیسائیوں کی زبان سے دین اسلام سے ٹھٹھے کرائے بلکہ بار بار ان کو نالش کرنے کیلئے ترغیب دی.دوسرا فتنہ.جو دوسرے درجہ پر ہے شیخ محمد حسین بٹالوی کا فتنہ ہے اس ظالم نے بھی وہ فتنہ برپا کیا کہ جس کی اسلامی تاریخ میں گذشتہ علماء کی زندگی میں کوئی نظیر ملنی مشکل ہے مخبط الحواس نذیر حسین کی کفرنامہ پر مہر لگوائی.صدہا مسلمانوں کو کافر اور جہنمی قرار دیا اور بڑے زور سے گواہیاں ثبت کرائیں کہ یہ لوگ نصاریٰ سے بھی کفر میں بدتر ہیں تمام رشتے ناطے ٹوٹ گئے.بھائیوں نے بھائیوں کو اور باپوں نے بیٹوں کو اور بیٹوں نے باپوں کو چھوڑ دیا اور ایسا طوفان فتنہ کا اٹھا کہ گویا ایک زلزلہ آیا جس سے آج تک ہزاروں خدا کے نیک بندے اور دین اسلام کے عالم اور فاضل اور متقی کافر اور جہنم ابدی کے سزاوار سمجھے جاتے ہیں.!!! تیسرا فتنہ.جو تیسرے درجہ پر ہے آریوں کا فتنہ ہے جو ایک چمکدار نشان کے ساتھ ہوا اور یہ فتنہ اس لئے تیسرے درجہ پر ہے کہ باوجود سخت بلوہ کے اس کے ساتھ فتح کا نمایاں نشان تھا.یہ سچ ہے کہ اس میں ہندوؤں کا بڑا شور و غوغا ہوا اور بار بار قتل کرنے کی دھمکیاں دیں اور گالیوں سے بھرے ہوئے خط بھیجے.کئی اخباروں میں حد سے زیادہ سخت گوئی کی گئی اور پھر آخر گورنمنٹ کی معرفت خانہ تلاشی کرائی گئی مگر باوجود ان سب باتوں کے فتح کا جھنڈا ہمارے ہاتھ میں رہا.وہ معاہدہ جو لیکھرام کے ساتھ مذہبی آزمائش کیلئے بذریعہ آسمانی نشان کے کیا گیا تھا اس کی رو سے ہمارے مولیٰ کریم نے ہندوؤں پر ہماری ڈگری کر کے بڑی صفائی سے ہمیں فتح دی اور جیسا کہ پہلے سے براہین احمدیہ میں یہ الہام تھا کہ اگر خدا ایسا نہ کرتا یعنی ایسا

Page 165

چمکد ار نشان نہ دکھاتا تو دنیا میں اندھیر پڑ جاتا.ایسا ہی خدا نے اپنے ان تمام ارادوں کو پورا کیا.لیکھرام کیا مرا تمام آریوں کو مار گیا.اسلام کا بول بالا ہوا.اور ہندو خاک میں مل گئے.بڑی عزت کے ساتھ میدان ہمارے ہاتھ رہا.اور ثابت ہوگیا کہ خدا وہی خدا ہے جو اسلام کا خدا اور قرآن کا نازل کرنے والا ہے.اب اس کے ساتھ اگر ہمیں گالیاں دی گئیں.اگر ہمیں قتل کرنے کیلئے ڈرایا گیا.اگر ہمارے گھر کی تلاشی کرائی گئی تو اس خوشی کے مقابل یہ تمام غم کچھ چیز نہیں ہیں بلکہ اس فتنہ سے ایک اور پیشگوئی پوری ہوئی جو ابھی ہم بیان کریں گے اور لیکھرام کے مرنے سے دشمن کا منہ کالا تو ہو چکا تھا مگر ہمارے گھر کی تلاشی نے اور بھی انکے مکروں پر خاک ڈال دی.اور جھوٹ کاناک بڑی صفائی سے کاٹا گیا! یہ تین فتنے ہیں جو براہین کے زمانہ سے آج تک ہمیں پیش آئے.اور یہ ایسے کھلے کھلے وقوع میں آئے ہیں کہ میں یقین رکھتا ہوں کہ ہمارے ملک کا ہر ایک شخص جو انسان کہلانے کا حق رکھتا ہے ان تینوں فتنوں سے بخوبی واقف ہے.اب تنقیح طلب یہ امر ہے کہ آیا یہ تین فتنے براہین احمدیہ میں ذکر کئے گئے ہیں یا نہیں.سو میں روز روشن کی طرح دیکھتا ہوں کہ یہ تینوں فتنے پادریوں کے فتنہ سے لے کر چمکدار نشان کے فتنہ تک براہین احمدیہ میں ذکر کئے گئے ہیں.بلکہ ہر ایک ذکر کے وقت فتنہ کا لفظ بھی موجود ہے.سو اب ایک پاک دل اور پاک نظر لے کر مندرجہ ذیل عبارتوں کو پڑھو جو براہین احمدیہ سے نقل کر کے میں اس جگہ لکھتا ہوں اور وہ یہ ہیں: پہلا فتنہ.صفحہ ۲۴۱ براہین احمدیہ ولن ترضی عنک الیھود ولا النصاری.و خرقوا لہ بنین و بنات بغیر علم.قل ھو اللّٰہ احد اللّٰہ الصمد لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا احد.و یمکرون و یمکراللّٰہ واللّٰہ خیر الماکرین الفتنۃ ھٰھنا فاصبر کما صبر اولوالعزم و قل ربّ ادخلنی مدخل صدق.ترجمہ یعنی یہود تجھ سے راضی نہیں ہوں گے.یہود سے مراد اس جگہ یہود صفت مولوی ہیں جن کا ذکر براہین میں اس سے پہلے صفحہ میں ہے.اور پھر فرمایا کہ نصاریٰ بھی تجھ سے راضی نہیں ہوں گے یعنی پادری.اور فرمایا کہ انہوں نے نادانی سے خدا کے بیٹے اور بیٹیاں بنا رکھی ہیں.ان پادریوں کو کہہ دے کہ خدا ایک ہے.وہ ذات بے نیاز ہے.نہ کوئی اس کا بیٹا اور نہ وہ کسی کا بیٹا اور نہ کوئی اس کا ہم جنس (یہ اس مباحثہ کی طرف اشارہ ہے جو تثلیث اور توحید کے بارے میں ڈاکٹر مارٹن کلارک کی کوٹھی پر بمقام امرتسر پیشگوئی سے چند روز پہلے کیا گیا تھا) اور پھر فرمایا کہ یہ عیسائی تجھ سے ایک مکر کریں گے اور خدا بھی ان سے مکر کرے گا.یعنی

Page 166

اول ان کو دلیر کر دے گا اور پھر ذلت پر ذلت پہنچائے گا.اور پھر فرمایا کہ خدا بہتر مکر کرنے والا ہے.اور پھر فرمایا کہ اس وقت پادریوں کی طرف سے ایک فتنہ ہوگا اور وہ ایک پرجوش بلوہ کی صورت میں تکذیب کریں گے.سو اس فتنہ کے وقت صبر کر جیسا کہ اولواالعزم نبی صبر کرتے رہے اور دعا کر کہ خدایا میرا صدق ظاہر کر.ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ مکر سے مراد وہ لطیف اور مخفی تدبیر ہے جو دشمن کو ذلیل یا معذب کرنے کیلئے خدا تعالیٰ کی طرف سے ظہور میں آتی ہے.بعض وقت نادان دشمن ایک جھوٹی خوشی سے مطمئن ہو جاتا ہے مگر خدا کی مخفی تدبیر جو دوسرے لفظوں میں مکر کہلاتی ہے اسے کہتی ہے کہ اے نادان کیوں خوش ہوتا ہے دیکھ تیری ذلت کے دن نزدیک آ رہے ہیں تب تیری خوشی غم سے مبدّل ہو جائے گی.غرض یہ پہلا فتنہ ہے جو براہین احمدیہ کے صفحہ ۲۴۱ میں لکھا گیا اور میرے پر گذر چکا.دوسرا فتنہوہ ہے جو براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۱۰ میں مذکور ہے اور وہ یہ ہے.و اذ یمکر بک الذی کفر اوقد لی یا ھامان لعلی اطلع علٰی الٰہ موسٰی و انی لاظنّہ من الکاذبین.تبّت یدا ابی لھب و تب ما کان لہ ان یدخل فیھا الا خائفا.وما اصابک فمن اللّٰہ الفتنۃ ھٰھنا فاصبر کما صبر اولوالعزم.الا انھا فتنۃ من اللّٰہ لیحب حبّا جمّا.حبّا من اللّٰہ العزیز الاکرم عطاء ا غیر مجذوذ.یعنی یاد کر وہ زمانہ جب ایک مکفر تجھ سے مکر کرے گا جو تیرے ایمان سے انکاری ہے اور کہے گا اے ہامان! میرے لئے آگ بھڑکا (یعنی تکفیر کی آگ بھڑکا.ہامان سے مراد نذیر حسین دہلوی ہے) میں چاہتا ہوں کہ موسیٰ کے خدا پر اطلاع پاؤں کیونکہ میں خیال کرتا ہوں کہ وہ جھوٹا ہے.ہلاک ہوگیا ابولہب اور اس کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے (جن سے کفر کا فتویٰ لکھا) اس کو نہیں چاہئے تھا کہ اس تکفیر کے کام میں دخل دیتا* اور جو کچھ تجھے پہنچے گا وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.اس جگہ ایک فتنہ ہوگا.پس صبر کر جیسا کہ اولواالعزم نبیوں نے صبر کیا.یاد رکھ کہ یہ فتنہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوگا.تا وہ تجھے حد سے زیادہ دوست رکھے.دیکھ یہ کیسا مرتبہ ہے کہ خدا کسی کو دوست رکھے.وہ خدا جس کا نام عزیز اکرم ہے.یہ وہ بخشش ہے جو کبھی منقطع نہیں کی جائے گی.فرعون سے مراد محمد حسین ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک کشف ظاہر کر رہا ہے کہ وہ بالآخر ایمان لائے گا.مگر مجھے معلوم نہیں کہ وہ ایمان فرعون کی طرح صرف اس قدر ہو گا کہ آمنت بالذی آمنت بہ بنو اسرائیل یا پرہیز گار لوگوں کی طرح.واللّٰہ اعلم.منہ

Page 167

اس فتنہ میں صاف لفظ کفر کا موجود ہے جس سے سمجھا جاتا ہے کہ یہ کسی مکفر کی طرف سے فتنہ ہوگا.کفر پڑھنا بھی جائز ہے جس کے یہ معنے ہوں گے کہ ہمارے ایمان سے منکر.دونوں لفظوں کا مآل ایک ہی ہے.غرض یہ لفظ کفر باب تفعیل سے ہے اور برعایت معنی مذکور ثلاثی مجرد بھی ہو سکتا ہے.الہام دونوں طور پر ہے اور بعد کا یہ فقرہ کہ اس کو نہیں چاہئے تھا جو اس فتنہ تکفیر میں دخل دیتا.یہ فقرہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ شخص علم و فضیلت کا دعویٰ رکھتا ہوگا یعنی مولوی کہلائے گا.پس جس شان کا اس کو دعویٰ تھا اس سے بہت بعید تھا کہ ایسا فاسقانہ کام کرتا.غرض یہ دوسرا فتنہ ہے جو دوسرے درجہ پر ہے جو براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۱۰ میں نہایت صاف شرح سے مندرج ہے.تیسرا فتنہ.چمکدار نشان کا فتنہ ہے جو براہین کے صفحہ (۵۵۶)و (۵۵۷) میں کمال صفائی سے لکھا ہوا ہے وہ یہ ہے.یا عیسٰی انّی متوفیک و رافعک الیّ و جاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الٰی یوم القیامۃ.ثلّۃ من الاوّلین و ثلّۃ من الاٰخرین.ترجمہ یعنی اے عیسیٰ میں تجھ کو طبعی موت سے وفات دوں گا اور اپنی طرف اٹھاؤں گا اور تیرے تابعین کو ان لوگوں پر قیامت تک غلبہ بخشوں گا.جو تیرے منکر ہیں اور تابعین کا ایک گروہ پہلا ہوگا اور ایک گروہ بعد میں ہو جائے گا.یہ خدا کا تسلی آمیز کلام اس وقت حضرت عیسیٰ پر اترا تھا جبکہ وہ نہایت گھبراہٹ میں تھے اور ان کو ایسی موت کی دھمکی دی گئی تھی جو جرائم پیشہ لوگوں کیلئے خاص ہے یعنی صلیب کی دھمکی جو لعنتی موت ہے اور یہی الہام اور یہی وعدہ اس عاجز کو ہوا جس سے یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہی ابتلا اس عاجز کو پیش آئے گا اور یہی انجام ہوگا.اسی بنا پر اس عاجز کا نام عیسیٰ رکھا گیا اور وعدہ دیا گیا کہ میں تجھے طبعی وفات دوں گا.اور عزت کے ساتھ اٹھاؤں گا.غرض اس الہام کے اندر یہ مخفی پیشگوئی ہے کہ حضرت عیسیٰ کی طرح اس عاجز کے دشمن بھی قتل کرنے کیلئے منصوبے کریں گے اور جرائم پیشہ کی موت یعنی پھانسی کیلئے تدبیریں عمل میں لائیں گے مگر ان ارادوں کی تکمیل میں ناکام رہیں گے.غرض عیسیٰ کا نام اس عاجز پر اطلاق کرنے سے اس وجہ تسمیہ کی طرف اشارہ ہوا کہ اسی طورپر جیسا کہ حضرت عیسیٰ کی اس موت کیلئے جو جرائم پیشہ کی موتیں ہوتی ہیں تجویزیں اور تدبیریں کی گئیں اس جگہ بھی ایسا ہی وقوع میں آئے گا.پھر آگے دوسرے الہامات میں جو اس کے بعد ہیں جن میں صریح اشارہ فرمایا گیا ہے کہ یہ کب اور کس وقت ہوگا اور اس قسم کے ارادے اور قتل کے منصوبے کس زمانہ میں ہوں گے اور اس سے پہلے کیا علامتیں ظاہر

Page 168

ہوں گی.اور وہ الہام یہ ہے جو براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۵۷ میں ہے میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.الفتنۃ ھٰھنا فاصبر کما صبر اولوالعزم.فلمّا تجلّٰی ربّہ لِلجَبَل جعلہ دکّا.ان الہامات میں صاف فرما دیا کہ وہ قتل کے منصوبے اس وقت ہوں گے جبکہ ایک چمکدار نشان ظاہر ہوگا.اسی وجہ سے ان منصوبوں کا نام آخیر کے الہام میں فتنہ رکھا.اور فرمایا کہ اس جگہ ایک فتنہ ہوگا پس اولواالعزم نبیوں کی طرح صبر چاہئے.اور یہ بھی فرمایا کہ آخر وہ فتنہ نابود ہو جائے گا.یہ تین۳ فتنے ہیں جن کا براہین میں ذکر ہوا اور یہ تینوں ظہور میں بھی آگئے.چمکدار نشان کا فتنہ صرف زبانی شور و غوغا تک محدود نہیں رہا بلکہ ۸؍ اپریل ۱۸۹۷ء کو ہمارے گھر کی تلاشی بھی ہوگئی.تا وہ پیشگوئی پوری ہو جو عیسیٰ کا نام رکھنے میں مخفی تھی.اب جیسا کہ براہین احمدیہ کے پڑھنے سے ان تین فتنوں کی خبر ملتی ہے.ایسا ہی اگر کوئی ہماری سوانح کا وہ نسخہ پڑھے جو براہین کے وقت سے اس وقت تک مکمل ہوا.تب بھی اس کو ماننا پڑتا ہے کہ خارج میں بھی تین ہی فتنے ظہور میں آئے.اس تحقیقات سے نہ صرف وہ پیشگوئی جو لیکھرام کی نسبت کی گئی تھی ان تائیدی ثبوتوں سے مضبوط ہوتی ہے بلکہ آتھم کی نسبت جو پیشگوئی کی گئی تھی وہ بھی ایسی کھل جاتی ہے جیسا کہ دن چڑھ جاتا ہے.غرض ان تینوں فتنوں پر نظر غور ڈال کر خدا کی قدرت کاملہ کا پتہ لگتا ہے یہ ایک ایسا مقام ہے کہ اس کو یونہی بیہودہ باتوں سے ٹالنا نہیں چاہئے بلکہ پوری توجہ کے ساتھ اس میں غور کرنی چاہئے.بلاشبہ ایک طالب حق کی پاک روح اور پاک کانشنس اس مقام سے اطلاع پاکر بہت سے حجابوں سے نجات پا سکتی ہے اوربیشک اس جگہ طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر آتھم اور لیکھرام کی نسبت پیشگوئی خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں تھی بلکہ کوئی اتفاقی امر تھا تو کیونکر یہ دونوں پیشگوئیاں آج سے سترہ برس پہلے براہین احمدیہ میں لکھی گئیں؟ اس بات سے کوئی منصف کہاں اور کدھر بھاگ سکتا ہے کہ جیسا کہ خارجی واقعات سے تین فتنوں کا نشان ملتا ہے ایسا ہی براہین احمدیہ

Page 169

بھی ان تینوں فتنوں کی خبر دیتی ہے.اب کیا یہ شہادتیں بہت سے قرائن کے ساتھ مضبوط ہوکر اس درجہ تک نہیں پہنچ گئیں جس کو قطعی اور یقینی کہتے ہیں؟ اور کیا یہ سترہ۷۱ برس کا ممتد سلسلہ الہامات کا جو ہمارے زمانہ سے اس غیر متعلق زمانہ تک جا پہنچتا ہے جہاں منصوبہ بازی کی قلم بکلی ٹوٹ جاتی ہے پوری تسلی پانے کے لئے کافی نہیں ہے؟ کیا اب بھی کوئی شبہ باقی ہے جس پر کوئی وہمی طبیعت کا آدمی زور دے سکتا ہے؟ اور یہ کہنا کہ لیکھرام میعاد کے پانچویں برس میں مرا چھٹے برس میں نہیں مرا.کیا اس اعتراض سے زیادہ کوئی اور حماقت بھی ہوگی؟ ایسے معترض نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ الہام میں چھٹے سال میں مرنا شرط ضروری تھا.یہ الہام تو صاف لفظوں میں بتلا رہا ہے کہ خدا تعالیٰ نے موت کے خاص وقت کو مخفی رکھ کر چھ برس کے عرصہ کا نشان دے دیا تھا کہ اس مدت میں جس وقت ارادۂِ الٰہی ہوگا لیکھرام کو ہلاک کیا جائے گا.کیا خدا پر یہ ممتنع ہے کہ کوئی امر اپنی مصلحت سے مخفی رکھے اور کوئی امر ظاہر کرے.ایسے بیہودہ اعتراض صرف اس بیوقوف کے مونہہ سے نکل سکتے ہیں جس کو الٰہی پیشگوئیوں کی فلاسفی کی خبر نہیں.اصل بات یہ ہے کہ دنیا میں جس قدر نبیوں کی معرفت پیشگوئیاں ظہور میں آئیں ان میں یہ منظور رہا ہے کہ کسی قدر پیشگوئی کے ظہور کے وقتوں کو پوشیدہ بھی رکھا جائے.سو اکثر سنت الٰہی اس طرح پر واقع ہے کہ ایک بات کے ہونے کے لئے ایک حد مقرر کر دی جاتی ہے.آئندہ خدا کا اختیار ہے چاہے تو اس حد کے پہلے حصہ میں ہی اس بات کو پوری کر دے اور چاہے تو آخری حصہ میں پوری کرے اور چاہے کوئی حد نہ لگائے.اور کوئی میعاد بیان نہ فرمائے.خدا کی کتابوں میں صدہا ایسی پیشگوئیاں پاؤ گے جن کے ظہور کا کوئی وقت نہیں بتلایا گیا.یہ نہایت صا ف بات ہے کہ اگر خدا تعالیٰ ایک وعدہ فرمائے کہ اس عرصہ تک ایک کام جس وقت چاہوں کر دوں گا.تو کیا انسان اس پر اعتراض کر سکتا ہے کہ ایک خاص وقت کیوں نہیں بتلایا؟ ہاں اگر خدا تعالیٰ ایک میعاد مقرر کر کے صاف لفظوں میں یہ فرمائے کہ جب تک یہ کل میعاد گذر نہ جائے اور اس کا آخری منٹ یا آخری سیکنڈ نہ پہنچے تب تک

Page 170

یہ پیشگوئی ظہور میں نہیں آئے گی.تو اس صورت میں ضروری ہوگا کہ اس میعاد کے آخری سیکنڈ میں پیشگوئی کا ظہور ہو.لیکن جبکہ خدا اپنی مصلحت سے ایک میعاد مقرر کر کے یہ ظاہر فرمائے کہ اس میعاد کے اندر اندر جس حصہ میں مَیں چاہوں گا.فلاں کام کروں گا تو ایسی پیشگوئی پر اعتراض کرنا خدا تعالیٰ کے تمام کارخانہ پر اعتراض ہے اور لیکھرام کے متعلق کی پیشگوئی میں ایک یہ بڑی عظمت ہے کہ اس میں صرف میعاد چھ۶سال کی نہیں بتلائی گئی بلکہ یہ بھی تو بتلایا گیا تھا کہ وہ ایسے دن میں اپنی سزا کو پہنچے گا جو عید کے دن سے ملا ہوا ہوگا.چنانچہ لیکھرام کا نام گوسالہ سامری اسی لئے رکھا گیا کہ گوسالہ عید کے دن جلایا گیا تھا.اور صریح الہام میں بھی عید کا دن آگیا.اور ایسا شہرت پاگیا جو صدہا ہندوؤں میں وہ الہام مشہور ہوگیا.اور الہام اور کشف نے صاف لفظوں میں یہ بھی بتلا دیا کہ وہ ہیبت ناک موت ہوگی اور قتل کے ذریعہ سے وقوع میں آئے گی.اور کشف نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ موت کا دن اتوار اور رات کا وقت ہوگا.اب دیکھو اس پیشگوئی میں کس قدر اعلیٰ درجہ کی غیب کی باتیں بھری ہوئی ہیں.اب کیا یہ صحیح نہیں کہ اگر ان تمام امور کو بہ ہیئت مجموعی اور بنظر یکجائی دیکھا جائے اور براہین کی پیشگوئی کو بھی ساتھ ملایا جائے تو بیشک یہ ضروری نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ پیشگوئیاں فوق العادت اور بالکل انسانی طاقتوں سے برتر ہیں.ہاں اگر کسی انسان کو یہ قوت حاصل ہے کہ ایسا دقیق در دقیق غیب بیان کرسکے اور ان امور کی سترہ۱۷

Page 171

برس پہلے خبر دے جو بیان کرنے کے زمانہ میں معدوم کی طرح ہوں تو ایسے انسان کو بطور نظیر پیش کرنا چاہئے.اور اس کے واقعات معائنہ کے طور پر دکھلانے چاہئیں اور صرف پرانے کرم خوردہ قصے اس جگہ کام نہیں آئیں گے.نداریم اے یار با نَسْیَہ کار اگر قدرتت ہست نقدے بیار آپ سن چکے ہیں کہ براہین احمدیہ میں صاف طور پر یہ پیشگوئیاں دکھلائی گئی ہیں.پس یہ سلسلہ وار شہادتیں کیونکر ٹوٹ جائیں گی؟ چونکہ بعض ظالم مولوی جیسا کہ محمد حسین بٹالوی*میری دشمنی کے لئے اسلام پر حملہ کرنا چاہتے ہیں اور وہ نشان جو اس دین کی سچائی پر گواہی دینے کے لئے آسمان سے نازل ہوئے ہیں ان کو مٹا دینا ان لوگوں کا مقصود ہے اس لئے یہ قوم کے معزز اہل نظر کی اس شیخ دشمن حق کا یہ بھی میرے پر افترا ہے کہ اور بھی بعض پیشگوئیاں جھوٹی نکلیں.ہم بجز اس کے کیا کہیں کہ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین.ہم شیخ مذکور کو فی پیشگوئی 3سو ر و پیہ نقد دینے کو تیار ہیں اگر وہ ثابت کر سکے کہ فلاں پیشگوئی خلاف واقعہ ظہور میں آئی.مگر کیا وہ یہ بات سن کر تحقیقات کے لئے درخواست کرے گا؟نہیں اس کو نخوت نے اندھا کر دیا.مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ شخص نہایت درجہ کا مفسد اور دشمن حق ہے اس کو اسلام سے کچھ خاص دشمنی ہے اس کا دل نہیں چاہتا کہ اس پُرآشوب چشم زمانہ میں اسلام کی عزت اور شوکت اور بزرگی ظاہر ہو.مگر یہ اس ارادہ میں ناکام رہے گا.میری بات سن رکھو! اب سے خوب یاد رکھو کہ خدا بہت سے نشان دکھائے گا.نہیں چھوڑے گا جب تک ایسے لوگوں کو ذلیل کر کے نہ دکھلائے.منہ

Page 172

خد مت میں پیش کیا جاتا ہے.تمام واقعات اور شہادتیں ہم نے صحیح صحیح لکھ دئیے ہیں اور کتابیں جن سے لکھے گئے ہیں مدت سے شائع شدہ ہیں.ہر ایک اہل الرائے معزز اگر اصل کتابوں کو دیکھنا چاہے تو ہم سے طلب کر سکتا ہے اس لئے ہم معزز اہل الرائے صاحبوں کی خدمت میں ملتمس ہیں کہ وہ اللہ جَلّ شانہٗ اور اس کے رسول کی عظمت اور عزت کیلئے اس فتویٰ کو جو روئداد موجودہ سے پیدا ہوتا ہے کہ کاغذات منسلکہ رسالہ ھٰذا پر لکھ کر اور اپنی اور دوسروں کی گواہی ان پر ثبت فرما کر گم گشتہ لوگوں پر احسان فرماویں اور ایسی تحریریں بذریعہ خط ہمارے پاس بھیج دیں کہ وہ سب مجموعہ کے طور پر چھاپ دی جائیں گی اور میں جانتا ہوں کہ اس بارے میں معزز اہل الرائے کی شہادتیں بڑے جوش سے ہر ایک طرف سے آئیں گی اور سچے ایماندار اس گواہی کو جس میں اسلام کی شان ظاہر ہوتی ہے کبھی پوشیدہ نہیں کریں گے.مگر کمینہ طبع ذلیل خیال دنیاپرست.سو ایسے لوگ یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو سچی گواہی کو چھپائے گا اس کا دل خدا کا گناہ گار ہے.جہاں تک میں دیکھتا ہوں سرکاری عہدہ داروں کو بھی کوئی قانون ایسی سچی گواہی سے نہیں روکتا جس میں جائز طور پر سچائی کی مدد ہو.انسان میں سچائی کی حمایت بڑی عمدہ صفت ہے.ہم کیسی ہی دنیا کی عزت اور وجاہت پاویں خدا کے پنجہ سے باہر نہیں جا سکتے.میرا تجربہ ہے کہ اس زبردست حاکم کا لحاظ نہ رکھنا اور سچی گواہی کو چھپانا اپنے لئے ذلت کی مار خریدنا ہے.جو شخص ایسی صاف صاف روئداد کو دیکھ کر پھر سچی گواہی سے پہلو تہی کرے گا اس کی نسبت ہمیں کم سے کم یہ اعتقاد رکھنا پڑے گا کہ یہ شخص خدا اور دین اور رسول مقبول کی حمایت عزت سے لاپرواہ ہے.لیکن اگر وہ سچی گواہی دے گا تو ہم احکم الحاکمینکے آگے اس کے دین و دنیا کی مرادوں کیلئے دعا کریں گے اور ہم کیا مانگتے ہیں؟ صرف سچی گواہی مبادا دل آں فرو مایہ شاد کہ از بہر دنیا دہد دین بباد میرا ارادہ ہے کہ ان باتوں کو انگریزی میں ترجمہ کرا کر یورپ کے اہل النظر لوگوں کے سامنے بھی پیش کروں کیونکہ ان میں فطرتاً سچائی کی حمایت کے لئے بڑی جرأت پائی جاتی ہے.بشرطیکہ ایک سچائی کا فی الواقع سچا ہونا سمجھ لیں.مگر اول میں اپنے قومی بھائیوں کے سامنے یہ اپیل پیش کرتا ہوں اور ان کو اس مردانہ شہادت کے ادا کرنے کا موقعہ دیتا ہوں جس سے دنیا کے اخیر تک عزت کے ساتھ نیک مردوں کی فہرست میں ان کا نام درج رہے گا.الراقم میرزا غلام احمد قادیانی.۱۲ ؍مئی ۱۸۹۷ء

Page 173

نمبر شمار نام مصدق نشان متعلق لیکھرام سکونت معہ دیگر پتہ بقید ضلع عبارت تصدیق

Page 174

نمبر شمار نام مصدق نشان متعلق لیکھرام سکونت معہ دیگر پتہ بقید ضلع عبارت تصدیق اس طرح کا ایک اور ورق بھی لکھا ہوا ہے.شمس

Page 175

حجہ اللہ مطبوعہ مطبع ضیاء الاسلام قادیان دارالامن و الامان ۲۴ / ذی الحجہ ۱۳۱۴ھ الاعلان فاسمعوا یا اھل العدوان ایھا النظرون اعلمو ارحمکم اللہ ورزقکم رزقا حسنا من التفضیلات الجلیلہ والالطاف الخفیہ ان ھذہ رسالتی قد تمت بالعنایہ الاھلیہ محفوفہ بالاسرار الانیقہ الربانیہ.و مشتملہ علی محاسن الادب.والملح البیانیہ فکانھا حدیقہ مخضرہ تغرد فیہا بلابل علی دوحتہ الصفا.و تصبی ثم اتھا قلوب الادباء.و من امعن فیھا باخلاص النیہ و صدق الطویہ.فلا شک انہ یقر بفصاحہ کلمتھا.و براعہ عباراتھا.و یقر بانھا اعلی و املح من التدوینات الرسمیہ.و علیھا طلاوہ اکثر من المقالات الانسانیہ.واما الذی جبل علی سیرہ النقمہ والعناد.فیجحد بفضلھا و یترک متعمدا طریق القسط والسداد ولو کانت نفسہ من المستیقنین فنحن نقبل الان علی زمر تلک المنکرین.و لقد وعیت اسماء ھم فیما سبق من ذکر المکفرین والمکذبین.اعنی شیخ البطالہ و امثالہ من المفسقین الفسقین.فلینا ضلونی فی ھزا ولو متظاھرین بامثالھم.ولیبرھنوا علی کمالھم ولاکشف عن سبہم و اخزیتہم فی اعین جھالھم و من یکتب منہم کتابا کمثل ھذہ الرسالہ.الی ثلثہ اشھر او الی الاربعہ فقد کذبنی صدقا وعدلا و اثبت انی لست من الحضرہ الاحدیہ فھل فے الحی حی یقضی ذہ الخطہ.و ینجی من التفرقہ الامہ.ولیستظھر بالادباء ان کان جاھلا لا یعرف طرق الانشاء.ولیعلم انہ من المغلوبین.وسیذھب اللہ بصرہ برق من السماء.فیعشیہ کما یعشی الہجیر عین الحرباء ویطفی وطیس المفترین.ایھا المکذبون الکذابون.مالکم لا تجیون ولا تناضلون و تدعون ثم لا تبارزون ویل لکم ولما تفعلون یمعشر الجھلین.المعلن غلام احمد القادیانی ۲۶ مئی ۱۸۹۷ء