Ijazul-Masih

Ijazul-Masih

اِعجاز المسیح

Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR
Ruhani Khazain

<p>حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۰؍جولائی ۱۹۰۰ء کو حق و باطل میں امتیاز کرنے کے لیے لاہور میں ایک جلسہ کر کے اور قرعہ اندازی کے طور پر قرآن شریف کی کوئی سورہ نکال کر بعد دعا چالیس آیات کے حقائق اور معارف فصیح و بلیغ عربی میں سات گھنٹے کے اندر لکھنے کے لیے تمام علماء کو عموماً اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کو خصوصاً دعوت دی تھی۔ مگر کسی نے اس چیلنج کو قبول نہ کیا اور نہ ہی پیر مہر علی شاہ صاحب نے اس اعجازی مقابلہ یعنی بالمقابل قرآنی آیات کی فصیح بلیغ عربی میں تفسیر لکھنے کی دعوت قبول کی تھی۔ لیکن بغیر اطلاع دیئے لاہور پہنچ کر اور مباحثہ کی شرط لگا کر اس نے لوگوں کو یہ دھوکا دیا تھا کہ گویا وہ بالمقابل تفسیر لکھنے کے لیے تیار ہیں۔ جب اُن کے مریدوں نے ہر جگہ ان کی جھوٹی فتح کا نقّارہ بجایا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گندی گالیاں دیں اور یہ مشہور کیا کہ پیر صاحب تو سچے دل سے بالمقابل عربی تفسیر لکھنے کے لیے تیار ہو گئے تھے اور اسی نیت سے لاہور تشریف لے گئے تھے لیکن خود دعوت دینے والے لاہور نہ پہنچے اور بھاگ گئے اس لیے آپؑ نے اپنے اشتہار ۱۵؍دسمبر۱۹۰۰ء مندرجہ اربعین نمبر۴ میں بالقاء ربّانی تفسیر لکھنے کے لیے ایک اور تجویز پیش کی۔</p><p>اِس اعلان کے مطابق اللہ تعالی کے فضل اور اس کی خاص تائید سے حضرت اقدس علیہ السلام نے مدت معیّنہ کے اندر ۲۳؍فروری ۱۹۰۱ء کو ’اعجاز المسیح‘ کے نام سے فصیح و بلیغ عربی زبان میں سورہ فاتحہ کی تفسیر شائع کر دی۔ اور اس تفسیر کے لکھنے کی غرض یہ بیان فرمائی کہ تا پیر مہر علی شاہ صاحب کا جھوٹ ظاہر ہو کہ وہ قرآن مجید کا علم رکھتا ہے اور چشمۂ عرفان سے پینے والا اور صاحب خوراک و کرامات ہے۔ مگر پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کو اپنے گھر بیٹھ کر بھی بالمقابل تفسیر لکھنے کی جرات نہ ہوئی اور اپنی خاموشی سے اعتراف شکست کرتے ہوئے اپنے جاہل اور کاذب ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے باعلامِ الہی اپنی اس تفسیر کے متعلق لکھا کہ اگر ان کے علماء اور حکماء اور فقہاء اور ان کے باپ اور بیٹے متفق اور ایک دوسرے کے معاون ہو کر اتنی قلیل مدت میں اس تفسیر کی مثل لانا چاہیں تو وہ ہرگز نہیں لا سکیں گے۔</p>


Book Content

Page 1

Page 2

Page 3

Page 4

Page 5

Page 6

Page 7

Page 8

Page 9

Page 10

Page 11

Page 12

Page 13

Page 14

Page 15

Page 16

Page 17

ترتیب روحانی خزائن جلد ۱۸ اعجاز المسیح............۱ ایک غلطی کا ازالہ............۲۰۵ دافع البلاء...............۲۱۷ الھدیٰ..................۲۴۵ نزول المسیح............۳۷۷ گناہ سے نجات کیوں کر مل سکتی ہے...۶۲۱ عصمت انبیاء علیہم السلام.........۶۵۳

Page 18

Page 19

نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم تعارف (از حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس) یہ روحانی خزائن کی اٹھارویں جلد ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصنیفات اعجاز المسیح.ایک غلطی کا ازالہ.دافع البلاء.الہدیٰ و التبصرۃ لمن یرٰی اور نزول المسیح پر مشتمل ہے.* اعجاز المسیح روحانی خزائن جلد ۱۷ کے پیش لفظ میں تحفہ گولڑویہ کے زیر عنوان ہم ذکر کر چکے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۰؍ جولائی ۱۹۰۰ء کو حق و باطل میں امتیاز کرنے کے لئے لاہور میں ایک جلسہ کر کے اور قرعہ اندازی کے طور پر قرآن شریف کی کوئی سورۃ نکال کر بعد دعا چالیس آیات کے حقائق اور معارف فصیح و بلیغ عربی میں سات گھنٹے کے اندر لکھنے کے لئے تمام علماء کو عموماً اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کو خصوصاً دعوت دی تھی.مگر کسی نے اس چیلنج کو قبول نہ کیا اور نہ ہی پیر مہر علی شاہ صاحب نے اس اعجازی مقابلہ یعنی بالمقابل قرآنی آیات کی فصیح بلیغ عربی میں تفسیر لکھنے کی دعوت قبول کی تھی.لیکن بغیر اطلاع دیئے لاہور پہنچ کر اور مباحثہ کی شرط لگا کر اُس نے لوگوں کو یہ دھوکا دیا تھا کہ گویا وہ بالمقابل تفسیر لکھنے کے لئے تیار ہیں.جب اُن کے مریدوں نے ہر جگہ ان کی جھوٹی فتح کا نقّارہ بجایا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گندی گالیاں دیں اور یہ مشہور کیا کہ پیر صاحب تو سچے دل سے بالمقابل عربی تفسیر لکھنے کے لئے تیار ہو گئے تھے اور اسی نیت سے لاہور تشریف لے گئے تھے لیکن خود دعوت دینے والے لاہور نہ پہنچے اور بھاگ گئے اس لئے آپ نے اپنے اشتہار ۱۵؍ دسمبر ۱۹۰۰ء مندرجہ اربعین نمبر ۴ میں بالقاء ربّانی تفسیر لکھنے کے لئے ایک اور تجویز پیش کی.آپ نے فرمایا: ’’اگر پیر جی صاحب حقیقت میں فصیح عربی تفسیر پر قادر ہیں اور کوئی فریب انہوں نے نہیں کیا.تو اب بھی وہی قدرت اُ ن میں ضرور موجود ہو گی.لہٰذا مَیں ان کو خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ اسی میری درخواست کو اس رنگ پر پورا کر دیں کہ میرے

Page 20

دعاوی کی تکذیب کے متعلق فصیح بلیغ عربی میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر لکھیں جو چا۴رجز سے کم نہ ہواور مَیں اسی سورۃ کی تفسیر بفضل اﷲ و قوتہٖ اپنے دعویٰ کے اثبات سے متعلق فصیح بلیغ عربی میں لکھوں گا.انہیں اجازت ہے کہ وہ اس تفسیر میں تمام دنیا کے علماء سے مدد لے لیں.عرب کے بلغاء فصحاء بلا لیں.لاہور اور دیگر بلاد کے عربی دان پروفیسروں کو بھی مدد کے لئے طلب کرلیں.۱۵؍ دسمبر ۱۹۰۰ء سے ستّر ۷۰دن تک اس کام کے لئے ہم دونوں کو مہلت ہے ایک دن بھی زیادہ نہیں ہو گا.اگر بالمقابل تفسیر لکھنے کے بعد عرب کے تین نامی ادیب ان کی تفسیر کو جامع لوازمِ بلاغت و فصاحت قرار دیں اور معارف سے پُر خیال کریں تو مَیں پانسو ۵۰۰روپیہ نقد ان کو دوں گا اور تمام اپنی کتابیں جلا دوں گااور ان کے ہاتھ پر بیعت کرلوں گااور اگر قضیہ برعکس نکلا یا اس مدت تک یعنی ستر روز تک وہ کچھ بھی نہ لکھ سکے تو مجھے ایسے لوگوں سے بیعت لینے کی بھی ضرورت نہیں اور نہ روپیہ کی خواہش.صرف یہی دکھلاؤں گا کہ کیسے انہوں نے پیر کہلا کر قابل شرم جھوٹ بولا.‘‘ (اربعین نمبر۴، روحانی خزائن جلد ۱۷ حاشیہ صفحہ ۴۴۹،۴۵۰) نیز فرمایا:.’’ہم ان کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ بے شک اپنی مدد کے لئے مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبدالجبار غزنوی اور محمد حسن بھیں وغیرہ کو بُلا لیں بلکہ اختیار رکھتے ہیں کہ کچھ طمع دے کر دوچار عرب کے ادیب بھی طلب کر لیں.فریقین کی تفسیر چار۴جز سے کم نہیں ہونی چاہئے...اور اگر میعاد مجوزہ تک یعنی ۱۵؍ دسمبر ۱۹۰۰ء سے ۲۵؍ فروری ۱۹۰۱ء تک جو ستّر۷۰ دن ہیں فریقین میں سے کوئی فریق تفسیر فاتحہ چھاپ کر شائع نہ کرے اور یہ دن گذر جائیں تو وہ جھوٹا سمجھا جائے گا.اور اس کے کاذب ہونے کے لئے کسی اور دلیل کی حاجت نہیں رہے گی.‘‘ (اربعین نمبر ۴، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۸۴) اِس اعلان کے مطابق اﷲ تعالیٰ کے فضل اور اس کی خاص تائید سے حضرت اقدس علیہ السلام نے مدت معیّنہ کے اندر ۲۳؍ فروری ۱۹۰۱ء کو ’’اعجاز المسیح‘‘ کے نام سے فصیح و بلیغ عربی زبان میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر شائع کردی.اور اس تفسیر کے لکھنے کی غرض یہ بیان فرمائی کہ تا پیر مہر علی شاہ صاحب کا

Page 21

جھوٹ ظاہر ہو کہ وہ قرآن مجید کا علم رکھتا ہے اور چشمۂ عرفان سے پینے والا اور صاحبِ خوارق و کرامات ہے.(دیکھو صفحہ ۳۶.۳۹جلدھٰذا) مگر پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کو اپنے گھر بیٹھ کر بھی بالمقابل تفسیر لکھنے کی جرأت نہ ہوئی اور اپنی خاموشی سے اعتراف شکست کرتے ہوئے اپنے جاہل اور کاذب ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر دی.حضرت اقدس علیہ السلام نے باعلامِ الٰہی اپنی اس تفسیر کے متعلق لکھا کہ اگر ان کے علماء اور حکما ء اور فقہاء اور ان کے باپ اور بیٹے متفق اور ایک دوسرے کے معاون ہو کر اتنی قلیل مدت میں اس تفسیر کی مثل لانا چاہیں تو وہ ہرگز نہیں لا سکیں گے (صفحہ ۵۷ جلد ہذا) اور فرمایا کہ (ترجمہ) ’’مَیں نے اس کتاب کے لئے دُعا کی کہ اﷲ تعالےٰ اسے علماء کے لئے معجزہ بنائے اور کوئی ادیب اس کی نظیر لانے پر قادر نہ ہواور ان کو لکھنے کی توفیق نہ ملے اور میری یہ دُعا قبول ہو گئی اور اﷲ تعالےٰ نے مجھے بشارت دی اور کہا منعہ مانع من السماء کہ آسمان سے ہم اسے روک دیں گے اور مَیں سمجھا کہ اس میں اشارہ ہے کہ دشمن اس کی مثل لانے پر قادر نہیں ہو ں گے.‘‘ (اعجاز المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۶۸،۶۹ ) چنانچہ اس عظیم الشان پیشگوئی کے مطابق نہ پیر گولڑوی کو اور نہ عرب و عجم کے کسی اور ادیب فاضل کو اس کی مثل لکھنے کی جرأت ہوئی.اسی طرح اس کتاب کے سرورق پر آپ نے بطور تحدی فرمایا کہ یہ ایک لاجواب کتاب ہے.وَ مَنْ قَامَ لِلْجَوَابِ وَ تَنَمَّرَ.فَسَوْفَ یَرٰی اَنَّہٗ تَنَدَّمَ وَ تَذَمَّرَ کہ جو شخص بھی غصہ میں آ کر اس کتاب کا جواب لکھنے کے لئے تیار ہو گا وہ نادم ہو گا اور حسرت کے ساتھ اس کا خاتمہ ہو گا.چنانچہ ایک مولوی محمد حسن فیضی ساکن موضع بھیں تحصیل چکوال ضلع جہلم مدرس مدرسہ نعمانیہ واقع شاہی مسجد لاہور نے عوام میں شائع کیا کہ مَیں اس کا جواب لکھتا ہوں.ابھی اس نے جواب کے لئے اعجاز المسیح پر نوٹ ہی لکھے تھے اور ایک جگہ لَعْنَۃُ اﷲِ عَلَی الْکَاذِبْیِنَ بھی لکھ دیا تو اس کے بعد ایک ہفتہ بھی نہ گذرا تھا کہ وہ جلد ہلاک ہو گیا.الغرض اس کتاب کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے کئی نشانات ظاہر ہوئے جن کی تفصیل ’’نزول المسیح‘‘ میں درج ہے.نوٹ:.اعجاز المسیح کے ایڈیشن اوّل کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے ۲۰؍ فروری ۱۹۰۱ء کا ایک اشتہار ’’خدا کے فضل سے بڑا معجزہ ظاہر ہوا‘‘ کے عنوان کے تحت اور حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی کا ایک

Page 22

اشتہار ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور پیشگوئی کا پورا ہونا‘‘ شامل اشاعت ہیں.روحانی خزائن کے پہلے ایڈیشن میں یہ دونوں اشتہار کسی وجہ سے شامل نہیں تھے.اب موجودہ ایڈیشن میں اعجاز المسیح کے آخر میں یہ دونوں اشتہار شامل کردئیے گئے ہیں.(ناشر کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن) ایک غلطی کا ازالہ یہ ایک چھوٹا سا رسالہ ہے جو بطور اشتہار ۵؍ نومبر ۱۹۰۱ء کو شائع کیا گیا اس کی تالیف کا باعث یہ ہوا :.’’کہ ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا کہ جس سے تم نے بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا جواب محض انکار کے الفاظ سے دیا گیا حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں ہے.حق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے اس میں ایسے الفاظ رسول اور مرسل اور نبی کے موجود ہیں نہ ایک دفعہ بلکہ صد ہا دفعہ پھر کیونکر یہ جواب صحیح ہو سکتا ہے کہ ایسے الفاظ موجود نہیں ہیں بلکہ اس وقت تو پہلے زمانہ کی نسبت بھی بہت تصریح اور توضیح سے یہ الفاظ موجود ہیں.‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۰۶) یہ رسالہ اس لحاظ سے ایک اہم رسالہ ہے کہ اس رسالہ میں اصولی طور پر اس اختلاف کا حل پیش کیا گیاہے جو بظاہر آپ کی ۱۹۰۱ء سے پہلے کی تحریروں اور ۱۹۰۱ء کے بعد کی تحریروں میں اپنی نبوت کے متعلق نظر آتا ہے.۱۹۰۱ء سے پہلے کی تالیفات میں آپ نے بکثرت اپنے نبی ہونے سے انکار کیا ہے اور ۱۹۰۱ء سے بعد کی تالیفات میں بکثرت اپنے نبی ہونے کا اقرار کیا ہے.اور نبی کے معنے خدا کی طرف سے اطلاع پا کر غیب کی خبر دینے والا ذکر کر کے اور اپنی ڈیڑھ سو پیشگوئیوں کا جو امور غیبیہ پر مشتمل تھیں اور پوری ہو چکی تھیں حوالہ دے کر اس رسالہ میں فرماتے ہیں :.’’میں اپنی نسبت نبی یا رسول کے نام سے کیونکر انکار کر سکتا ہوں اور جبکہ خود خدا تعالیٰ نے یہ نام میرے رکھے ہیں تو مَیں کیونکر ردّ کردوں یا کیونکر اس کے سوا کسی دوسرے سے ڈروں.......اور جس جس جگہ مَیں نے نبوت یا رسالت

Page 23

سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ مَیں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ مَیں مستقل طور پر نبی ہوں.مگر ان معنوں سے کہ مَیں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اُس کا نام پا کر اُس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے.اِس طور کا نبی کہلانے سے مَیں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے.‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ، روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ ۲۱۰،۲۱۱ ) اس اختلاف کو جو آپ کی ۱۹۰۱ء سے پہلے اور ۱۹۰۱ء کے بعد کی تحریروں میں نظر آتا ہے حضرت اقدس علیہ السلام نے حقیقۃ الوحی میں خود تسلیم فرمایا ہے.ایک شخص نے آپ سے سوال کیا کہ ’’تریاق القلوب‘‘ کے صفحہ ۱۵۷ میں لکھا ہے:.’’اس جگہ کسی کو یہ وہم نہ گذرے کہ اس تقریر میں اپنے نفس کو حضرت مسیحؑ پر فضیلت دی ہے کیونکہ یہ ایک جزئی فضیلت ہے جو غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے.‘‘ (دیکھو روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۴۸۱ بحوالہ تریاق القلوب) پھر ریویو جلد اوّل نمبر ۶ صفحہ ۵۷ ۲ میں مذکور ہے:.’’خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے.‘‘ الغرض دونوں عبارتوں میں تناقص ہے.حضرت اقدسؑ اس سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:.’’یہ اسی قسم کا تناقض ہے کہ جیسے براہین احمدیہ میں مَیں نے لکھا تھا کہ مسیح ابن مریم آسمان سے نازل ہو گا.مگر بعد میںیہ لکھا کہ آنے والا مسیح مَیں ہی ہوں.اِس تناقض کا بھی یہی سبب تھا کہ اگرچہ خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں میرا نام عیسیٰ رکھا اور یہ بھی

Page 24

مجھے فرمایا کہ تیرے آنے کی خبر خدا اور رسول نے دی تھی.مگر چونکہ ایک گروہ مسلمانوں کا اس اعتقاد پر جما ہوا تھا اور میرا بھی یہی اعتقاد تھا کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر سے نازل ہوں گے اس لئے میں نے خدا کی وحی کو ظاہر پر حمل کرنا نہ چاہا بلکہ اس وحی کی تاویل کی اور اپنا اعتقاد وہی رکھا جو عام مسلمانوں کا تھا.اور اسی کو براہین احمدیہ میں شائع کیا.لیکن بعد اس کے اس بارہ میں بارش کی طرح وحی الٰہی نازل ہوئی کہ وہ مسیح موعود جو آنے والا تھا تُو ہی ہے......اِسی طرح اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے.وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہو تا تو مَیں اس کو جزئی فضیلت قرار دیتا تھا مگر بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امّتی.‘‘ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۱۵۲تا۱۵۴) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حضرت مسیح عیسیٰ علیہ السلام پر اپنی فضیلت کو جزئی فضیلت قرار دینا صرف اس وجہ سے تھا کہ آپ اپنے آپ کو غیر نبی اور حضرت مسیح عیسیٰ ؑ کو نبی سمجھتے تھے.لیکن جب آپ پر یہ انکشاف ہو گیا کہ آپ بھی نبی ہیں تو آپ نے حضرت مسیح علیہ السلام پر تمام شان میں افضل ہونے کا اعلان کر دیا.اِسی طرح دافع البلاء میں بھی اپنے آپ کو ان سے بہتر قرار دیا.سو آپ کا ۱۹۰۱ء سے پہلے اپنے نبی ہونے سے انکار مسلمانوں میں نبی کی اس عام رائج تعریف کے ماتحت تھا کہ نبی وہ ہوتا ہے جو شریعت لائے یا پہلی شریعت کے بعض احکام کو منسوخ کرے اور یہ کہ وہ نبی سابق کی اُمت نہیں کہلاتے اور براہ راست بغیر استفاضہ کسی نبی کے خدا سے تعلّق رکھتے ہیں (دیکھو الحکم ۱۷؍ اگست ۱۸۸۹ء) اس لئے ۱۹۰۱ء سے پہلے آپ لفظ نبی کو جو الہامات میں آپ کے لئے استعمال ہوا تھا ظاہر پر محمول نہیں فرماتے تھے بلکہ تاویل کر کے اُسے بمعنی محدّث لیتے یا جزئی نبوت کے نام سے تعبیر فرماتے تھے.مگر جب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر یہ منکشف ہو گیا کہ نبی ہونے کے لئے نئی شریعت کا لانا ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کا متبع نہ ہو تو آپ نے اپنے لئے نبی کا استعمال شروع فرما دیا اور اس

Page 25

رسالہ میں تحریر فرمایا:.’’اگر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلاؤ کس نام سے اس کو پکارا جائے.اگر کہو کہ اس کا نام محدّث رکھنا چاہئے تو مَیں کہتا ہوں کہ تحدیث کے معنے کسی لُغت کی کتاب میں اظہارِ غیب نہیں ہے مگر نبوت کے معنی اظہار امر غیب ہے.‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۰۹) اور حقیقۃ الوحی کے حوالہ میں ’’اوائل‘‘ سے مراد ’’تریاق القلوب‘‘ تک کا زمانہ ہے.گویا اواخر ۱۸۸۹ء سے لے کر ۱۹۰۱ء تک کے درمیانی عرصہ میں کسی وقت اﷲ تعالیٰ کی طرف سے یہ حقیقت آپ پرمنکشف ہوئی جس کا اعلان سب سے پہلے آپ نے اس رسالہ میں کیا.اور جیسے حقیقۃ الوحی میں فرمایا کہ صریح طور پر نبی کا خطاب دیا گیااسی طرح اس رسالہ میں فرمایا:.’’اِس وقت تو پہلے زمانہ کی نسبت بھی بہت تصریح اور توضیح سے یہ الفاظ (نبی اور رسول کے...ناقل) موجود ہیں.‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ۲۰۶) اس رسالہ کی اشاعت کے بعد آپ نے اپنی متعدد کتب میں نبوت کی وہی تعریف بیان فرمائی جس کا اعلان اس رسالہ میں کیا گیا تھا.چنانچہ تتمہ حقیقۃ الوحی میں آپ فرماتے ہیں:.’’اے نادانو! میری مراد نبوت سے یہ نہیں ہے کہ مَیں نعوذ باﷲ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقابل پر کھڑا ہو کر نبوت کا دعویٰ کرتا ہوںیا کوئی نئی شریعت لایا ہوں.صرف مُراد میری نبوت سے کثرت مکالمت و مخاطبت الٰہیہ ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اتباع سے حاصل ہے.سو مکالمہ و مخاطبہ کے آپ لوگ بھی قائل ہیں.پس یہ صرف لفظی نزاع ہوئی.یعنی آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ و مخاطبہ رکھتے ہیں مَیں اس کی کثرت کا نام بموجب حُکمِ الٰہی نبوت رکھتا ہوں.ولکل ان یصطلح.اور مَیں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اسی نے مجھے بھیجا ہے اور اُسی نے میرا نام نبی رکھا ہے اور اُسی نے مجھے مسیح موعود کے نام سے پکارا ہے.‘‘ (تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۵۰۳) پس آپ کے دعویٰ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور نہ ہی آپ کا کوئی الہام یا آپ کی کوئی تحریر منسوخ

Page 26

ہوئی.بلکہ نبوت کی مسلمانوں میں رائج تعریف کے پیش نظر ۱۹۰۱ء سے پہلے آپ نبی کے لفظ کو ظاہر سے پھیر کر بمعنی محدّث لیتے تھے لیکن ۱۹۰۱ء کے بعد اﷲ تعالیٰ نے آپ پر جو نبوت کی حقیقت کا انکشاف کیا اسی پہلی چیز کا نام بحکم الٰہی نبوت رکھا اور اس نئی تعریف کے ماتحت اپنے آپ کو نبی قرار دیا.دافع البلاء و معیار اھل الاصطفاء یہ رسالہ آپ نے اپریل ۱۹۰۲ء میں شائع فرمایاجب کہ پنجاب میں طاعون کا بہت زور تھا اس رسالہ میں طاعون سے متعلق آپ نے ان الہامات کا ذکر فرمایا ہے جن میں طاعون کی وباء کے پھیلنے کے متعلق پیشگوئی تھی اور یہ بھی بتایا گیا تھا کہ طاعون دنیا میں اس لئے آئی ہے کہ خدا کے مسیح کا نہ صرف انکار کیا گیا بلکہ اس کو دُکھ دیا گیا.اس کے قتل کرنے کے منصوبے کئے گئے.اس کا نام کافر اور دجّال رکھا گیا.اور پہلی کتابوں میں پیشگوئی پائی جاتی تھی کہ مسیح موعود کے ظہور کے وقت سخت طاعون پڑے گی.اور فرمایا کہ اس کا یقینی علاج تو یہی ہے کہ اس مسیح کو سچے دل اور اخلاص سے قبول کیاجائے اور اپنی زندگیوں میں ایک روحانی تبدیلی پیدا کی جائے نیز وحئ الٰہی کی بنا ء پر آپ نے یہ اعلان فرمایا:.’’کہ خدا تعالیٰ بہرحال جب تک کہ طاعون دنیا میں رہے گو ستّر۷۰ برس تک رہے قادیان کو اس کی خوفناک تباہی سے محفوظ رکھے گا.‘‘ (دافع البلاء، روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ ۲۳۰ ) اور فرمایا:.’’میرا یہی نشان ہے کہ ہر ایک مخالف خواہ وہ امروہہ میں رہتا ہے اور خواہ امرتسر میں اور خواہ دہلی میں اور خواہ کلکتہ میں اور خواہ لاہور میں اور خواہ گولڑہ میں اور خواہ بٹالہ میں اگر وہ قسم کھا کر کہے گا کہ اس کا فلاں مقام طاعون سے پاک رہے گا تو ضرور وہ مقام طاعون میں گرفتار ہو جائے گا کیونکہ اس نے خدا تعالیٰ کے مقابل پر گستاخی کی.‘‘ (دافع البلاء.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۲۳۸ ) لیکن کسی مخالف کو ایسا اعلان کرنے کی جرأت نہ ہوئی.اور طاعون کی وباء پہلی کتب کی پیشگوئیوں کے

Page 27

مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک زبردست نشان ثابت ہوئی.الہد.ٰ ی و التّبصرۃ لمن یر.ٰ ی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے علماء ہند کے تعصب اور انکارِ حق پر اصرار کو دیکھ کر شام اور مصر وغیرہ کے علماء کی طرف توجّہ فرمائی کہ شاید ان میں سے کوئی تائید حق کے لئے کھڑا ہو جائے.شام کے متعلق معلوم ہوا کہ وہاں دینی مناظرات کی اجازت نہیں اس لئے آپ نے جہاں مصر کے بعض علماء اور مدیرانِ جرائد و مجلات کو اعجاز المسیح کے چند نسخے ارسال کئے وہاں ایک نسخہ تقریظ کے لئے الشیخ محمد رشید رضا مدیر المنار کو بھی بھجوایا.مناظراور الہلال کے مدیران نے تو اس کی فصاحت و بلاغت کی بہت تعریف کی مگر الشیخ محمد رشید رضا نے نحویوں اور ادیبوں کے استشہاد پیش کئے بغیر لکھ دیا کہ کتاب سہو و خطا سے بھرپور ہے اور اس کے سجع میں بناوٹ سے کام لیا گیا ہے.اور لطیف کلام نہیں.اور عرب کے محاورات کے خلاف ہے.(صفحہ ۲۵۲تا۲۵۷ جلدھٰذا) اور ستّر دن کی مدّت جو آپ نے اس کی مثل لانے کے لئے مقرر کی تھی اس کا ذکر کر کے اُس نے یہ لاف زنی کی:.’’ان کثیرًا من اھل العلم یستطیعون ان یکتبوا خیرًا منہ فی سبعۃِ ایامٍ‘‘ (المنار جلد ۴ صفحہ ۴۶۶) یعنی بہت سے اہل علم اس سے بہتر سات دن میں لکھ سکتے ہیں:.جب اس کا یہ ریویو ہندوستان میں شائع ہوا تو علمائے ہند نے اس کی آڑلے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف از سر نو مخالفت کا ایک طوفان برپا کر دیا.تب آپ نے احقاق حق اور ابطال باطل اور اتمام حجت کے لئے اﷲ تعالیٰ سے رہنمائی چاہی تو آپ کے دل میں یہ ڈالا گیا کہ آپ اس مقصد کے لئے ایک کتاب تالیف فرمائیں اور پھر مدیر المنار اور ہر اس شخص سے جو ان شہروں سے مخالفت کے لئے اٹھے اس کی مثل طلب کریں.چنانچہ آپ نے اﷲ تعالیٰ کے حضور نہایت تضرّع اور خشوع و خضوع سے دُعا کی یہاں تک کہ قبولیت دعا کے آثار ظاہر ہوئے.و وفقت لتألیف ذالک الکتاب.فسأُرسلہ الیہ بعد الطبع و تکمیل الابواب.فان اتٰی بالجواب الحسن و احسن الردّ علیہ.فاحرق کتبی و اقبّل قدمیہ.

Page 28

واعلق بذیلہ.و اکیل الناس بکیلہ.وھا انا اقسم بربّ البریّۃ.اُؤَکِّدُ العہد لھٰذہ الالیّۃ.(الھدٰی.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۲۶۴ ) اور مجھے اس کتاب کی تألیف کی توفیق بخشی گئی.سو مَیں بعد چھپ جانے اور اس کے بابوں کی تکمیل کے اس کی طرف بھیجوں گا.پھر اگر منار نے اس کا جواب خوب دیا اور عمدہ ردّ کیا تو مَیں اپنی کتابیں جلادوں گا اور اس کے پاؤں ُ چوم لوں گا اور اس کے دامن سے لٹک جاؤں گا اور پھر لوگوں کو اس کے پیمانہ سے ناپوں گا.اور لو مَیں پروردگار جہاں کی قسم کھاتاہوں اور اس قسم سے عہد کو پختہ کرتا ہوں.مگر ساتھ ہی یہ پیشگوئی بھی فر ما دی:.’’اَم لہ فی البراعۃ یدٌطُولٰی سیھزم فلا یُرٰی.نبأ من اﷲ الذی یعلم السرّ و اخفٰی.‘‘ (الھدٰی.روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۲۵۴ ) آیا فصاحت و بلاغت میں اسے بڑا کمال حاصل ہے؟ عنقریب وہ گریز کر جائے گا اور پھر نظر نہ آئے گا یہ پیشگوئی ہے خدا کی طرف سے جو نہاں درنہاں کو جاننے والا ہے.مدیر المنار کے علاوہ دوسرے ادباء و علماء سے متعلق بھی فرمایا:.’’ام یزعمون انھم من اھل اللسان.سیھزمون و یولّون الدبر عن المیدان.‘‘ (الھدٰی.روحانی خزائن جلد۱۸صفحہ ۲۶۸ ) کیا وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اہلِ زبان ہیں.عنقریب شکست کھائیں گے اور میدان سے دم دبا کر بھاگیں گے.‘‘ جب کتاب شائع ہوئی اور اس کا ایک نسخہ شیخ رشید رضا صاحب کو بھی ہدیۃً بھجوایا گیا تو انہوں نے الہدیٰسے قبرِ مسیح سے متعلق مضمون کا بہت سا حصّہ نقل کر کے جو مسیحؑ کی کشمیر کی طرف ہجرت سے متعلق تھااپنے رسالہ المنار میں نقل کر کے لکھا کہ ایسا ہونا عقلاً و نقلاً مستبعد نہیں ہے.لیکن ا نہیں یہ توفیق نہ ملی کہ اس کے جواب میں ایسی فصیح و بلیغ کتاب لکھ کر آپ کی پیشگوئی کو باطل

Page 29

ثابت کرتے.جب مَیں حیفا میں مقیم تھا اس وقت شیخ رشید رضا نے اپنے رسالہ المنار میں یہ ذکر کیا کہ حضرت مسیح موعود نے ’’سیھزم فلا یُریٰ‘‘ میں اس کی موت کی پیشگوئی کی تھی جو غلط نکلی اس پر مَیں نے اُن کو تفصیلی جواب دیا تھا کہ اِس میں کوئی موت کی پیشگوئی نہ تھی بلکہ یہ پیشگوئی تھی کہ ایڈیٹر المنار ،الہدیٰ جیسی فصیح و بلیغ کتاب لکھنے کی توفیق نہیں پائے گاجیسا کہ اوپر تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے اور باوجودیکہ ایڈیٹر المنار، الہدیٰ کی اشاعت کے بعد تیس۳۰ سال سے زائد عرصہ تک زندہ رہالیکن اسے یہ توفیق نہ ملی کہ اس کتاب کے جواب میں بالمقابل کوئی کتاب لکھتااور اﷲ تعالیٰ کی پیشگوئی کمال آب و تاب سے پوری ہوئی.اِس کتاب کی تالیف ربیع الاول ۱۳۲۰ ہجری میں مکمل ہوئی اور ۱۲؍ جون ۱۹۰۲ء کو چھپ کر شائع ہوئی.نزول المسیح رسالہ دافع البلاء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے طاعون کو اپنی صداقت کی علامت قرار دیتے ہوئے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ قادیان طاعون جارف سے محفوظ رہے گی.اور مختلف اہلِ مذاہب کو چیلنج کیا تھا کہ وہ بھی چاہیں تو کسی شہر کے طاعون سے محفوظ رہنے کے متعلق پیشگوئی کر سکتے ہیں.مگر جس شہر کے متعلق بھی ایسی پیشگوئی کی جائے گی وہ طاعون کا ضرور شکار ہو گا.دافع البلائکی اشاعت پر ایڈیٹر پیسہ اخبار لاہور نے قادیان کی حفاظت سے متعلق پیشگوئی کو غلط ثابت کرنے کے لئے جھوٹی اور خلاف واقعہ رپورٹیں شائع کیں اور قادیان کی حفاظت سے متعلق پیشگوئی کو اعتراضات کا نشانہ بنایاتب حضرت اقدس علیہ السلام نے اُن کی ان مفتریات کا جواب اس کتاب میں دیا.اِسی طرح آپ نے دافع البلاء میں لکھا تھا کہ مسیح موعودؑ امام حسینؓ سے افضل ہے اس پر علی حائری لاہوری شیعہ مجتہد نے ایک رسالہ لکھا جس میں امام حسینؓ کو تمام انبیاء سے افضل قرار دیا اور لکھا کہ ’’امام حسین کی وہ شان ہے کہ تمام نبی اپنی مصیبتوں کے وقت میں اسی امام کو اپنا شفیع ٹھہراتے تھے اور اس کی طفیل ان کی مصیبتیں دُور ہوتی تھیں.ایسا ہی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بھی مصیبت کے وقت میں امام حسین کے ہی دست نگر تھے اور آپ کی مصیبتیں بھی امام حسین کی شفاعت سے ہی دُور ہوتی تھیں.‘‘

Page 30

ان کے اس غیر معقول اور بے دلیل دعویٰ کی حضرت اقدس علیہ السلام نے اس کتاب میں نہایت احسن طور پر تردید فرمائی.اِسی اثناء میں پیر مہر علی شاہ کی طرف سے ایک کتاب سیف چشتیائی شائع ہوئی جس میں اُس نے ’’اعجاز المسیح‘‘ کے بالمقابل تفسیر لکھنے کی بجائے اعجاز المسیح پر بیہودہ نکتہ چینیاں کی تھیں اور اعجاز المسیح کے چند فقروں کے متعلق لکھا تھا کہ وہ بعض امثلہ عرب اور مقامات حریری وغیرہ سے سرقہ کئے گئے ہیں.نیز لکھا تھا کہ چونکہ آپ کی وحی وحئ نبوت نہیں کیوں نہ اِسے از قبیل اضغاثِ احلام سمجھا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی ان بیہودہ نکتہ چینیوں کا اس کتاب میں مفصّل و مدلّل اور مُسکت جواب دیا ہے اور اپنی وحی کو یقینی اور قطعی رحمانی وحی ثابت کیا ہے اور الہام رحمانی کی گیارہ فیصلہ کن نشانیاں تحریر فرمائی ہیں (دیکھو صفحہ ۴۹۲،۴۹۳ جلد ھٰذا) پھر اپنے یقینی الہامات میں سے جو خوارق اور غیب کی خبروں پر مشتمل تھے ان میں سے بطور نمونہ ایک سو تیئیس پیشگوئیوں کو جو پوری ہوئیں ذکر فرمایا ہے.پیر مہر علی شاہ صاحب نے جو آپ پر سرقہ کا الزام لگایا تھا اس کا علمی اور تحقیقی جواب دیتے ہوئے حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں کہ محل اور موقع کے مناسب اقتباس بھی فنِّ بلاغت میں سے شمار کیا گیا ہے.اسی طرح توارد بھی مسلّمہ ادباء و شعراء ہے اور اسے سرقہ نہیں کہا جاتاورنہ سرقہ کے الزام سے کوئی نہیں بچا.نہ خدا کی کتابیں اور نہ انسانوں کی کتابیں.لیکن اس جگہ تو اﷲ تعالیٰ نے اپنے خاص تصرّف سے یہ انکشاف فرما دیا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی جس نے سرقہ کا الزام لگایا تھا وہ خود سارق ثابت ہوا.پیر مہر علی شاہ صاحب نے اپنی کتاب سیف چشتیائی میں جو اعجاز المسیح اور شمس بازغہ پر نکتہ چینیاں اور اعتراضات کئے تھے وہ درحقیقت مولوی محمد حسن فیضی کے نوٹوں کی ہوبہو نقل تھے جو اس نے بطور یادداشت کتاب اعجاز المسیح اور شمس بازغہ کے حواشی پر لکھے تھے.جو پیر صاحب نے اپنی علمیت جتانے کے لئے ان کی طرف منسوب کرنے کی بجائے اپنی طرف منسوب کر کے شائع کر دیئے اور ا س کی اطلاع میاں شہاب الدین اور مولوی کرم دین سکنہ بھیں نے خطوط کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور مولوی فضل الدین صاحب بھیروی کو دی اور آخرکار وہ اصل کتابیں جن پر محمد حسن فیضی نے نوٹ لکھے تھے خرید کر لی گئیں اور اس طرح پیر مہر علی شاہ صاحب خود سارق ثابت ہوئے اور اس رنگ میں آپ کے الہام انّی مھین من اراد اھانتک میں مندرجہ پیشگوئی

Page 31

نہایت شان سے پوری ہوئی.حضرت اقدسؑ نے میاں شہاب الدین اور مولوی کرم دین کی وہ خط و کتابت جس میں انہوں نے پیر مہر علی شاہ صاحب کے سرقہ کا ذکر کیا تھا.اس کتاب (نزول المسیح) میں شائع کر دی.(دیکھو حاشیہ صفحہ ۴۵۰تا۴۵۸ جلد ھٰذا) یہ کتاب جولائی اور اگست ۱۹۰۲ء میں زیر تصنیف تھی.ملاحظہ ہو صفحہ ۴۹۵ جس میں ۱۰؍ اگست ۱۹۰۲ء اور صفحہ ۵۱۰ جس میں ۲۰؍ اگست ۱۹۰۲ء کی تاریخ تحریر فرمائی ہے اور ساتھ ساتھ یہ کتاب چھپ بھی رہی تھی.اسی اثناء میں وہی خطوط جو حضرت اقدسؑ نے اس میں شائع کئے تھے حضرت شیخ یعقوب علی صاحبؓ نے اپنے اخبار الحکم مؤرخہ ۱۷؍ ستمبر ۱۹۰۲ء میں شائع کر دیئے.جس پر مولوی کرم دین بگڑ گیاکیونکہ اُس نے اپنے ایک خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ مصلحت اِسی میں ہے کہ شائع نہ کیا جائے کیونکہ وہ درحقیقت پیر مہر علی شاہ کے مریدوں سے بہت خائف تھا.الحکم میں اس کے خطوط شائع ہونے پر سراج الاخبار جہلم مؤرخہ ۶؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء میں ایک خط اور ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء میں ایک قصیدہ مولوی کرم دین صاحب کے نام سے شائع ہوا جس میں اُس نے یہ ظاہر کیا کہ یہ خطوط جعلی اور جھوٹے ہیں.اس کے لکھے ہوئے نہیں اور لکھا کہ مرزا غلام احمد کی ملہمیت کی آزمائش کے لئے مَیں نے انہیں دھوکا دیا تھا وغیرہ.اس پر حکیم فضل الدین صاحب مالک و مہتمم ضیاء الاسلام پریس قادیان نے(جن کے نام مولوی کرم دین نے ابتدائی خطوط لکھے تھے) ۱۴؍ نومبر ۱۹۰۲ء کو گورداسپور کی عدالت میں ان کے خلاف زیر دفعہ ۴۲۰ استغاثہ دائر کر دیا.دوران مقدمہ ۲۲؍ جون ۱۹۰۳ء کو مولوی کرم دین نے زیر طبع کتاب نزول المسیح کے اوراق پیش کئے اور مستغیث سے تصدیق کروانا چاہی.جس پر حکیم فضل الدین صاحب نے ۲۹؍ جون ۱۹۰۳ء کو زیر دفعہ ۴۱۱ تعزیرات ہند دوسرا استغاثہ دائر کر دیا اور بیان دیا کہ یہ کتاب بحیثیت مہتمم مطبع ضیاء الاسلام قادیان میری ملکیت تھی اور چونکہ ابھی تک باضابطہ شائع نہیں ہوئی اس لئے یہ مال مسروقہ ہے اور ملزم کرم دین مال مسروقہ کو اپنے قبضہ میں رکھنے کا مجرم ہے.چونکہ سراج الاخبار کے مضامین میں مولوی کرم دین نے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم کے خلاف بھی ہرزہ سرائی کی تھی اس لئے شیخ صاحب موصوف نے بھی مولوی کرم دین صاحب اور مولوی فقیر محمد صاحب ایڈیٹر و مالک سراج الاخبار کے خلاف زیر دفعات ۵۰۰.۵۰۱و ۵۰۲ ازالہ حیثیت عرفی کا دعویٰ دائر کر دیا.ان حالات میں جبکہ مولوی کرم دین صاحب اپنے خطوط کے منکر ہو چکے تھے.حضرت اقدس

Page 32

مسیح موعود علیہ السلام نے اس کتاب کی اشاعت اس وقت تک مناسب نہ خیال کی جب تک کہ عدالت سے یہ فیصلہ نہ ہو جائے کہ یہ خطوط مولوی کرم دین صاحب کے اپنے لکھے ہوئے ہیں یا نہیں.اور اس اثناء میں آپ بعض اور دوسری اہم تصانیف کی طرف متوجہ ہو گئے اور یہ کتاب چھپی ہوئی پڑی رہی.جو ٹائیٹل پیج طبع کر ا کر ۲۵؍ اگست ۱۹۰۹ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اﷲ عنہ کے عہد سعادت مہد میں پہلی بار شائع ہوئی.(دیکھو صفحہ ۶۱۹،۶۲۰جلد ھٰذا) اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دعا ہے کہ وہ ان روحانی خزائن سے ہمیں اور ہماری اولادوں کو اور اقوامِ عالم کو کماحقہٗ مستفید ہونے کی توفیق بخشے.آمین.اللّٰھم آمین خاکسار جلال الدین شمس ربوہ گناہ سے نجات کیوں کر مل سکتی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ مضمون رسالہ ریویو آف ریلیجنز اردو کے پہلے شمارہ جنوری ۱۹۰۲ء میں حضور کے نام کے بغیر شائع ہوا تھا.طرز تحریر اور مضمون کی اندرونی اور بیرونی شہادات سے ثابت ہے کہ یہ مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہی تحریر فرمایا ہوا ہے.رسالہ ریویو آف ریلیجنز انگریزی کے پہلے شمارہ (اشاعت ۲۰؍جنوری ۱۹۰۲ء ) میں بھی یہ مضمون شامل ہے.اس رسالہ کی اشاعت کے چار دن بعد ایڈیٹر الحکم نے اپنے اخبار کی۲۴؍جنوری ۱۹۰۲ء کی اشاعت میں ریویوکا ذکر کرتے ہو ئے لکھا کہ’’ میگزین کے مضامین کے متعلق کہ وہ کیسے ہیں ؟ہمیں بغیر اس کے اور کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کے قلم سے نکلے ہوئے ہیں.‘‘ اس کے بعد انہوں نے اس رسالہ میں شائع ہونے والے مضامین کی مکمل فہرست دی ہے جس میں تیسرے نمبر پر اس مضمون کا ذکر ہے اور پھر لکھا ہے کہ :.’’مندرجہ بالامضامین جو سب کے سب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قلم سے نکلے ہیں لئے ہوئے پہلا رسالہ شائع ہوا ہے.‘‘ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت سے یہ مضمون پہلی بار روحانی خزائن میں شامل کیا جارہا ہے.

Page 33

عصمت انبیاء علیہم السلام نجات کس طرح مل سکتی ہے اور اس کی حقیقی فلاسفی کیا ہے؟ حضرت سلطان القلم مسیح موعود ومہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ پُرمعارف اور معرکۃ الآراء مضمون ریویو آف ریلیجنز کے اردو شمارہ مئی ۱۹۰۲ء میں شائع ہوا تھا.اس کا اصل مسودہ حضور علیہ السلام کے دست مبارک سے تحریر فرمودہ ہے جو صاحبزادہ مرزاعبدالصمدصاحب سکرٹری مجلس کارپرداز کے پاس محفوظ ہے.ہماری درخواست پر انہوں نے اس مسودہ کی نقل نظارت کو مہیا کی جس کے لئینظارت اشاعت محترم صاحبزادہ صاحب کی ممنون ہے.اس قلمی مسودہ کے جو ۲۹ صفحات ہمیں ملے ہیں ان میں مضمون مکمل نہیں ہوتاتھا چنانچہ اس کو ریویو اردو مئی ۱۹۰۲ء سے مکمل کیا گیا ہے.حوالہ کے لئے صفحہ کے باہر ریویو کے صفحات کا نمبر درج ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے روحانی خزائن میں یہ مضمون پہلی بار شامل کیا جا رہا ہے.والسلام سید عبد الحی ناظر اشاعت

Page 34

Page 35

Page 36

Page 37

Page 38

Page 39

Page 40

اطلاع عام اطلاع کے لئے اردو میں لکھا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ستر دن کے اندر ۲۰ فروری ۱۹۰۱ء کو اس رسالہ کو اپنے فضل وکرم سے پورا کر دیا.سچ یہی ہے کہ یہ سب کچھ اس کے فضل سے ہوا.ان دنوں میں یہ عاجز کئی قسم کے امراض اور اعراض میں بھی مبتلا ہوا جس سے اندیشہ تھا کہ یہ کام پورا نہ ہو سکے کیونکہ بباعث ہر روز کے ضعف اور حملہ مرض کے طبیعت اس لائق نہیں رہی تھی کہ قلم اٹھا سکے.اور اگر صحت بھی رہتی تو خود مجھ میں کیا استعداد تھی.من آنم کہ من دانم.لیکن اخیر پر ان مراض بدنی کا بھید مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ تا یہ جماعت بھی جو اس جگہ میرے دوستوں میں سے موجود ہیں یہ خیال نہ کریں کہ میری اپنی دماغی طاقتوں کا یہ نتیجہ ہے.سو اس نے ان عوارض اور موانع سے ثابت کر دیا کہ میرے دل اور دماغ کا یہ کام نہیں.اس خیال میں میرے مخالف سراسر سچ پر ہیں کہ یہ اس شخص کا کام نہیں کوئی اور پوشیدہ طور پر اس کو مدد دیتا ہے.سو میں گواہی دیتا ہوں کہ حقیقت میں ایک اور ہے جو مجھے مدد دیتا ہے لیکن وہ انسان نہیں بلکہ وہی قادر توانا ہے جس کے آستانہ پر ہمارا سر ہے.اگر کوئی اور بھی ایسے کاموں میں مدد دے سکتا ہے جن میں معجزانہ طاقت ہے تو پھر اس صورت میں ناظرین کو توقع کرنی چاہئے کہ اس کتاب کے ساتھ اور اس کے مانند انہی ستر دنوں میں صدہا اور تفسیریں سورۃ فاتحہ کی میری شرط کے موافق شائع ہو نے والی ہیں یا شائع ہو چکی ہیں کیونکہ اسی پر مدار فیصلہ رکھا گیا ہے.بالخصوص سید مہر علی شاہ صاحب پر تو یقین ہے کہ انہوں نے اس وقت تفسیر لکھنے کے لئے ضرور کچھ کوشش کی ہو گی ورنہ اب وہ ان لوگوں کو کیونکر منہ دکھا سکتے ہیں جن کو یہ کہا گیا تھا کہ وہ تفسیر لکھنے کے لئے لاہور آئے ہیں.ظاہر ہے کہ اگور وہ ستر دن میں لکھ نہ سکے تو سات گھنٹہ میں کیا لکھ سکتے.غرض منصفین کے لئے خدا کی تائید دیکھنے کے لئے یہ ایک عظیم الشان نشان ہے کیونکہ ستر دن کی میعاد ٹھہرا کر صدہا مولوی صاحبان بالمقابل بلائے گئے.اب ن کا کیا جواب ہے کہ کیوں وہ ایسی تفسیر شائع نہ کر سکے.یہی تو معجزہ ہے اور معجزہ کیا ہوتا ہے؟ اے دوستو جو پڑھتے ہو اُمّ الکتاب کو اب دیکھو میری آنکھوں سے اس آفتاب کو سوچو دعاء فاتحہ کو پڑھ کے بار بار کرتی ہے یہ تمام حقیقت کو آشکار دیکھو خدا نے تم کو بتائی دعا یہی اس کے حبیب نے بھی پڑھائی دعا یہی پڑھتے ہو پنج وقت اسی کو نماز میں جاتے ہو اس کی رہ سے در بے نیاز میں اس کی قسم کہ جس نے یہ سورت اُتاری ہے اس پاک دل پہ جس کی وہ صورت پیاری ہے یہ میرے رب سے میرے لئے اک گواہ ہے یہ میرے صدق دعویٰ پہ مہر الٰہ ہے میرے مسیح ہونے پہ یہ اِک دلیل ہے میرے لئے یہ شاہد رب جلیل ہے پھر میرے بعد اوروں کی ہے انتظار کیا؟ توبہ کرو کہ جینے کا ہے اعتبار کیا الراقم خاکسار مرزا غلام احمد از قادیاں.۲۰ فروری ۱۹۰۱ء

Page 41

الحَمْد لِلّٰہ الذی أنطق الإنسان.وعلّمہ البیان.وجعل کلام البشر مظہر حُسنہ المستتر.ولَطّف أسرار العارفین بإلہامہٖ.وکمّل أرواح الروحانیین بإنعامہ.وکفّل أمرہم بعنایتہ.واستودعہم ظلّ حمایتہٖ.وعادا من عادا أولیاء ہٗ وما غادرہم عند الأہوال.وسمع دعاء ہم إذا أقبلوا علیہ کل الإقبال.وأری لہم غیرتہ وصار لہم کقسورۃ للأشبال.ولوٰی إلیہم کزافرۃٍ فی مواطن الجدال.وما زایلہم فی موقف ہمہ حمد آں خدارا کہ انسان را گویائی بخشید و سخن فصیح گفتن او را تعلیم فرمود و کلام انسان را برائے حُسن پوشیدہ او مظہر مقرر فرمود و بہ الہام خود رازہائے عارفان را لطیف کرد.و بانعام خود روحہائے روحانیاں را کمال بخشید واز راہ عنایت خود متکفل امور شاں شد و بہ سایہ حمایت خود ایشاں را سپرد و دشمن گرفت آناں را کہ دشمن داشتند اولیاء او را.و اولیاء خود را بر وقت خوفہا فرو نگذاشت و دُعائے ایشاں شنید چوں بہمہ ہمت سوئے او توجہ کردند.وبرائے شاں غیرت خود نمود.و برائے شاں چناں گردید کہ شیر بابچگان خود می باشد.و میل کرد سوئے ایشاں ہمچو خویشاں دیاراں درمقامہائے خصومت کردن و جدائی نگزید ازایشاں درمقامے

Page 42

وما نسیہم عند الابتہال.وألزمہم کلمۃ التقویٰ.وثبّتہم علی سُبُل الہدیٰ.وجذبہم إلی حضرتہ العُلیا.ووہب لہم أعینا یُبصرون بہا.وقلوبًا یفقہون بہا.وجوارح یعملون بہا.وجَعَلہم حرز المخلوقین.وروح العالمین.وَالسّلام والصّلٰوۃ علی رسولٍ جاء فی زمن کان کدستٍ غاب صدرہ.أو کلیل أفل بدرہ.وظہر فی عصر کان الناس فیہ یحتاجون إلی العُصرۃ.و کانت الأرض أمحَلَت وخلت راحتہا من بُخل المزنۃ.فأَروی الأرض التی احترقت لإخلاف و فراموش نکرد ایشاں را بوقت زاری در دُعا و لازم حال ایشاں کرد کلمہ تقویٰ را و ثابت کرد ایشاں را بر راہ ہائے ہدایت.و کشید ایشاں را سوئے جناب بلند خود و ایشانرا چشم بینندہ عطا کرد.و دلے داد کہ فہمندہ است.و اعضاہا داد کہ بداں کار ہا مے کنند و ایشاں را پناہ مخلوقات کرد.و جان عالمیاں بگردانید.و سلام و درود براں رسول کہ در چناں زمانہ آمد کہ بداں چار بالش مشابہ بود کہ بالا نشین او ناپدید باشد یا بداں شب مماثلت می داشت کہ ماہ چہاردہم او ناپیدابود و در آں زمانہ ظاہر شد کہ مردم محتاج پناہ و نجات بودند.وزمین صاحب خشک سال شدہ بود و از وجہ بخل باران کف دست او تہی بود.پس آں نبی آں زمینے را سیراب کرد کہ از تخلف باراں

Page 43

العہاد.وأحیا القلوب کإحیاء الوابل للسنۃ الجماد.فتہلّل الوجوہ وعاد حبرہا وسبرہا.و تراء ت معادن الطبائع وظہرت فضّتہا وتبرہا.وطُہّر المؤمنون من کل نوع الجناح.وأُعطُوا جناحًا یطیر إلی السماء بعد قصّ ہذا الجناح.وأُسِّسَ کل أمرہم علی التقویٰ.فما بقی ذرّۃ من غیر اللّٰہ ولا الہوٰی.وطُہّرت أرضُ مکّۃ بعد ما طیف فیہا بالأوثان.فما سُجد علی وجہہا لغیر الرحمان.إلٰی ہذا الأوان.فصلّوا علی ہذا النبیّ المحسن الذی ہو مظہر صفات الرحمان المنّان.وَہَلْ جزاء معہود سوختہ بود.و دلہا را چناں زندہ کرد کہ زندہ مے کند باراں بزرگ سال بے باراں را.پس روشن شدند رُوہا و باز آمد ہیئت شاں و حسن شاں ونمودار شدند معدنہائے طبیعتہا و ظاہر شد سیم آں ہا و زر آنہا و پاک کردہ شدند مومناں از ہر قسم گناہ.و آں پر دادہ شدند کہ سوئے آسمان مے پرد بعد بریدن ایں پرہا.وہر امر شاں بر پرہیزگاری بنا کردہ شد.پس یکذرہ از غیراللہ نماند.و نہ خواہش نفس ماند و پاک کردہ شد زمین مکہ بعد ازینکہ بہ بت ہا درو مے گشتند.پس سجدہ نہ کردہ شد بر رُوئے آں بجز خدا تا ایں وقت پس درود بفریسید بریں نبی کہ او مظہر صفات خدائے رحمان و منّان ہست.و پاداش احسان بجز

Page 44

الإحسان إلَّا الإحسان.والقلب الذی لا یدری إحسانہ.فلا إیمان لہ.أو یضیع إیمانہ.اللّٰہم صلّ علی ہذا الرسول النبیّ الأمّی الذی سقی الآخرین.کما سقی الأوّلین.وصبّغہم بصبغ نفسہ وأدخلہم فی الْمُطَہّرین.فنوّرہم اللّٰہ بإشراق أشعۃ المحبّۃ.وسقاہم من أصفی المُدامۃ.وألحقہم بالسابقین من الفانین.وقرّبہم وقبّل قربانہم.ودقّق مشاعرہم وجلّٰی جنانہم.ووہب لہم من عندہ فہم المقَرّبین.وزکّی نفوسہم وصفّی ألواحہم.وحلّی ارواحھم.ونجّا نفوسہم من سلاسل المحبوسین.وکفّل أمورہم کما ہی عادتہاحسان چیزے نیست و دلے کہ احسان او نمی داند او را نصیبے از ایمان نیست یا ایمان خود ضائع خواہد کرد اے خدائے ما بریں رسول امّی درود بفرست.ایں آں رسول است کہ گروہ آخر را آں جام نوشانیدہ کہ گروہ اول را نوشانید و او شاں را برنگ خود آورد و در پاکاں اوشانرا داخل کرد.پس روشن کرد خدا تعالیٰ اوشاں را.بشعاعہائے محبت خود و از صاف تر شراب او شانرا نوشانید و بافانیاں او شانرا پیوند داد و او شانرا قرب خود بخشید و قربانی شاں قبول فرمود و حواس شاں باریک کرد و دل شاں روشن کرد و اوشانرا از طرف خود فہم مقرباں عطا فرمود و نفسہائے شاں پاک کرد و روحہائے شانرا صفائی ہا داد و لوحہائے ایشانرا آراستہ کرد* ونفوس ایشانرا از زنجیر گرفتاراں نجات داد و خود متکفل امور ایشاں شد چنانچہ عادت

Page 45

بأصفیاۂ.وشرح صدورہم کما ہی سیرتہ فی أولیاۂ.ودعاہم إلی حضرتہ.ثم تبادر إلی فتح الباب برحمتہ.وأدخلہم فی زمرتہ.وألحقہم بسکّان جنّتہ.وقیل دارکم أتیتم.وأہلکم وافیتم.وجُعلوا من المحبوبین.وہذا کلّہ من برکات محمدٍ خیر الرسل وخاتم النبیّین.علیہ صلوات اللّٰہ وملائکتہٖ وأنبیاۂ وجمیع عبادہ الصالحین.أمّا بعد.فاعلموا أیّہا الطالبون المنصفون.والعاقلون المتدبّرون.انی عبد من عباد الرحمان.الذین یجیؤن من الحضرۃ.وینزلون بأمر ربّ العزّۃ.او بادوستاں خود است و سینہ او شانرا منشرح کرد چنانچہ سیرت او با اولیاء خود است.و سُوئے جناب خود ایشانرا بخواند باز برائے کشادن در برحمت خود جلدی فرمود و در گروہ خود ایشانرا داخل کرد و بساکنان بہشت ملحق فرمود و گفتہ شد کہ بخانہ خود آمدہ اید و اہل خود را ملاقات کردہ اید و از جملہ محبوبان گردانیدہ شدند.و ایں ہمہ از برکتہائے محمد خیر الرسل وخاتم الانبیاء است.برو درود خدا و فرشتگان و پیغمبران و تمام بندگان نیک است.بعد زیں بدانید اے طالبان و منصفان.و عاقلان فکر کنندگان کہ من بندہ ام از بندگان رحمان.آنانکہ از حضرت احدیت مے آیند و بامر الٰہی نازل مے شوند.

Page 46

عند اشتداد الحاجۃ.وعند شیوع الجہلات و البدعات وقلّۃ التقویٰ والمعرفۃ.لیُجدّدوا ما أَخْلَقَ.ویجمعوا ما تَفَرَّق.ویتفقّدوا ما افْتُقِد.و یُنجزوا ویُوفوا ما وُعِد من ربّ العالمین.وکذالک جئتُ وأنا أوّل المؤمنین.وإنی بُعثت علی رأس ہذہ الماءۃ المبارکۃ الربّانیۃ.لأجمع شمل المِلّۃ الإسلامیۃ.وأدفع ما صیل علی کتاب اللّٰہ وخیر البریۃ.وأکسر عصا من عصٰی وأقیم جدران الشریعۃ.وقد بیّنتُ مرارًا وأظہرتُ للناس إظہارًا.انی أنا المسیح الموعود.والمہدی المعہود.وکذالک أُمرتُ وما کان لی أن وقتیکہ سخت ضرورت شاں پیش آمد و امور باطلہ و بدعتہا شائع مے شوند و تقویٰ و معرفت کم مے گردد تا تازہ کنند آنچہ کہنہ شد و جمع کنند آنچہ متفرق گشت و گم شدہ را باز جویند.و وعدہ خود را بظہور رسانند.و ہم چنیں من آمدم و من اول المومنین ہستم.و من بر سر صدی مبعوث شدہ ام.تا کہ ملّت اسلام را جمعیت بخشم و ہر حملہ کہ بر قرآن و حضرت نبوی کردہ شد آنرا دفع کنم و عصائے آنکس بشکنم کہ نافرمان است و شریعت را قائم کنم و من بارہا بیان کردہ ام و چنانچہ شرط اظہار است ظاہر کردم و من مسیح موعود و مہدی معہود ہستم.وہم چنیں مرا حکم شد و مرا نہ می سزد کہ

Page 47

أعصی أمر ربّی وألحَقَ بالمجرمین.فلا تعجلوا علیّ وتدبّروا أمری حق التدبّر إن کنتم متّقین.وعسیٰ أن تُکذّبوا امرءًا وھومن عنداللّٰہ.وعسٰی ان تُفسّقوا رجلاً وہو من الصالحین.وإن اللّٰہ أرسلنی لاُصلح مفاسد ہذا الزمن.وأُفرّق بین روض القدس وخضراء الدمن.وأُرِی سبیل الحق قومًا ضالین.وما کان دعوای فی غیر زمانہ.بل جئتُ کالربیع الذی یُمطر فی إبّانہ.وعندی شہاداتٌ من ربی لقوم مستقرین.وآیاتٌ بیّناتٌ للمبصرین.و وجہ کوجہ الصادقین للمتفرّسین.وقد جاء ت نافرمانی حکم ربّ خود کنم و بمجرمان لاحق شدم.پس بر من جلدی مکنید و اگر تقویٰ دارید در امر من تدبر کنید ممکن است کہ شما تکذیب کسے کنید و او از خدا تعالیٰ باشد و ممکن است کہ شما کسے را فاسق بگوئید و او صالح باشد.وخدا مرا برائے اصلاح ایں زمانہ فرستادہ تا کہ در باغہائے قدس و سبزہ سرگین فرق کردہ بنمایم و تا کہ راہ حق قومے را بنایم کہ راہ گم کردہ اند و ایں دعویٰ من بے وقت نیست بلکہ من ہمچو آں باران بہاری آمدہ ام کہ در موسم و وقت خود می بارد.و نزد من از طرف رب من گواہی ہا ہستند برائے قومے کہ حق را می جویند و روشن نشانہا ہستند برائے آنانکہ مے بینند و رُوئے ہست ہمچو رُوہائے صادقاں برائے

Page 48

أیام اللّٰہ وفُتحت أبواب الرحمۃ للطالبین.فلا تکونوا أوّل کافرٍ بہا وقد کنتم منتظرین.أین الخفاء.فافتحوا العین أیہا العقلاء.شہدت لی الأرض و السماء.وأتانی العلماء الأمناء.وعرفنی قلوب العارفین.وجری الیقین فی عروقہم کأقْریۃٍ تجری فی البساتین.بید أن بعض علماء ہذہ الدیار.ما قبلونی من البخل والاستکبار.فما ظلمونا ولکن ظلموا أنفسہم حسدًا واستعلاءً.ورضوا بظلمات الجہل وترکوا عِلمًا وضیاءً ا.فتراکم الظلام فی قولہم وفعلہم وأعیانہم.حتی اتخذ الخفافیش آنانکہ اہل فراست اند.و بہ تحقیق روزہائے خدا آمدہ اند و برائے طالباں در ہائے رحمت مفتوح شدہ اند پس از ہمہ پیشتر شما کافر نہ شوید و شما انتظار می کردید کجاست پوشیدگی در امر من پس چشم بکشائید اے عاقلاں.زمین و آسمان گواہی من دادند و عالمان امین نزد من آمدند و دلہائے عارفاں مرا شناخت و یقین در رگہائے دلہائے شاں چناں جاری شد کہ آبریزہا در باغہا جاری می باشند.مگر ایں است کہ بعض عالمان ایں دیار از بخل و تکبّر مرا قبول نہ کردہ اند.پس بر ما ستم نہ کردہ اند ہمہ ظلم شاں بر جان شان است کہ موجب آں حسد و تکبر است و راضی شدہ اند بتاریکی جہالت و علم و نور را بگذاشتند.پس گرد آمد تاریکی در گفتار ایشاں و کردار ایشاں و وجود ایشاں سجدے کہ شپرہ ہا در دِل

Page 49

وکرًا لجنانہم.وما قعد قاریۃ علی أغصانہم.وکانوا من قبل یتوقعون المسیح علی رأس ہذہ الماءۃ.ویترقّبونہ کترقّب أہلّۃ الأعیاد أو أطایب المأدبۃ.فلمّا حُمّ ما توقعوہ.وأُعطی ما طلبوہ.حسبوا کلام اللّٰہ افتراء الإنسان.وقالوا مفتری یُضل الناس کالشیطان.وطفقوا یشکّون فی شأنہ بل فی إیمانہ.وکذّبوہ وفسّقوہ وکفّروہ مع مریدیہ وأعوانہ.وأنزل اللّٰہ کثیرا من اٰلآی فما قبلوا.وأَرَی التأیید فی المبادی والغای فما توجہوا.وقالوا کاذب وما آشیانہ گرفتند.و مرغ مبارک برشاخہائے شاں نہ نشست.و پیش زیں امید ہا مے داشتند کہ مسیح موعود بر سر ایں صدی ظاہر خواہد شد.انتظار او چناں مے کردند کہ مردم انتظار ہلالہائے عید مینمایند یا انتظار الوان نعمت دعوتے می کنند.پس چوں طیار کردہ شد آنچہ انتظار می کردند و دادہ شد آنچہ می جستند.کلام خدا را افتراء انسان پنداشتند.وگفتند کہ ایں شخص مفتری است ہمچو شیطان مردم را گمراہ می کند.و شروع کردند کہ در شان او شک می کردند بلکہ در ایمان او نیز ہم.و تکذیب او کردند واو را فاسق گفتند.و نام او کافر نہادند و ہم چنیں مریداں و انصار او را بکفر منسوب کردند و خدا تعالیٰ بسیارے از نشان ہا فرود آورد پس قبول نکردند.و در ابتدا و انتہا تائیدہا فرمود مگر ہیچ توجہے ننمودند.و گفتند کہ دروغگوست و

Page 50

تفکّروا فی مآل الکاذبین.وقالوا مُختلق وما تذکّروا من دَرَجَ من المختلقین.والأسف کل الأسف أنہم یقولون ولا یسمعون.ویعترضون ولا یُصغون.ویلمزون ولا یُحقّقون.وحصحَصَ الحق فلا یُبصرون.وإذا رموا البری بأفیکۃ فضحکوا وما یبکون.ما لہم لا یخافون.أم لہم براء ۃ فی الزبر فہم لا یُسألون.وما أری خوف اللّٰہ فی قلوبہم بل ہم یؤذون الصادقین ولا یُبالون.ما أری فناء صدورہم رحبًا.وکمثلہم اختاروا صحبًا.ویہمزون ویغتابون وہم یعلمون.ولا یتکلموندر انجام دروغگویاں فکرے نہ کردند.و گفتند کہ مفتری است و آناں را یاد نہ کردند کہ در حالت افترا ازیں جہاں بگذشتند.و تمامتر افسوس ایں است کہ ایں مردم بگویند و نمی شنوند.و اعتراض می کنند و سوئے جواب گوش نمی دارند و عیب گیری می نمایند و تحقیق نمی کنند.و ظاہر شد حق پس نہ می بینند.و چوں ناکردہ گناہ را بتہمتے متہم می کنند پس می خندند و نہ می گریند.چہ شد او شانرا کہ نمی ترسند.آیا در کتابہا از مواخذہ بروں داشتہ شدہ اند و باز پرس نخواہد شد.نہ می بینم خوف خدا در دلہائے ایشاں بلکہ ایشاں ایذا می دہند راستاں را و ہیچ پروا نمی دارند.نمی بینم صحن سینہ ایشاں را کشادہ و ہمچو خود دوستان خود چیدہ اند.عیب مردم مے کنند و غیبت می نمایند و می دانند کہ بد میکنیم.و کلام نہ می کنند

Page 51

إلَّا کطائر یخذق.أو کمسلول یبصق.لا یَبطُنون أمرنا.ولا یعرفون سرّنا.ثم یُکفرون ویسبّون ویہذرون من غیر فہم الکتاب.ولا کہریر الکلاب.وما بقی فیہم فہم یہدیہم إلی صراطٍ مستقیم.ولا خوف یجذبہم إلی سُبُل مرضات اللّٰہ الرحیم.ومنہم مقتصدون.یُکذّبون ولا یعلمون.وبعضہم یکفّون الألسنۃ ولا یسبّون.وتجد أکثرہم مُفحشین علینا ومُکَفّرین، سابّین غیر خائفین.فلیبک الباکون علی مصیبۃ الإسلام.وعلی فتن ہذہ الایّام.وأی فتنۃ أکبر من فتن ہذہ العلماء.فإنہم ترکوامگر ہمچو آں پرندہ کہ سرگین خود می اندازد یا ہمچو آں مسلول کہ تف خود می افگند از کار ما ایشاں را ہیچ آگاہی نیست و بر راز ما ہیچ اطلاعے نے.باز کافر می گویند و دشنام می دہند.وبغیر فہمیدن کتاب بیہودہ گوئی ہا می کنند و نہ ہمچو سگانے کہ عو عو می کنند در ایشاں آں فہم نماندہ کہ سوئے راہ راست ایشاں را رہبری کند و نہ آں خوفے ماندہ کہ بجانب سبیل ہائے رضائے خداوند رحیم بکشند.بعض ازیشاں میانہ رو ہستند.تکذیب می کنند ونہ می دانند کہ کرا ردّ کردیم و بعض از یشاں زبان بندمی دارند و دشنام نمی دہند.و اکثر ایشاں را خواہی یافت کہ برما ہیچ دقیقہ فحش گوئی نمی گذارند و کافر می گویند و نمی ترسند.پس باید کہ گریہ کنندگان بر مصیبت اسلام بگریند.و بر فتنہ ہائے ایں زمانہ نالہ ہا کنند.وکدام فتنہ بزرگتر از فتنہائے ایں علماء است.پس ایشاں دین

Page 52

الدّین غریبًا کشہداء الکربلاء.وإنہا نار أذابت قلوبنا.وجنّبت جنوبنا.وثقّلت علینا خطوبنا.ورمت کتاب اللّٰہ بأحجار من جہلات الجاہلین.ونریٰ کثیرا منہم یخفون الحق ولا یجتنبون الزور کالصلحاء.وتکذب ألسنتہم عند الإفتاء.غشوا طبائعہم بغواشی الظلمات.وقدّموا حَبّ الصِلات علی حُبّ الصَلٰوۃ.نبذوا القرآن وراء ظہورہم للدنیا الدنیّۃ.وأمالوا طبائعہم إلی المقنیات المادیۃ.واشتدّ حرصہم ونہتمہم وشغفہم باللذات الفانیۃ.وجاوز الحدّ شُحّہُم فی الأمانی النفسانیۃ.را بحالت غربت گذاشتند ہمچو شہیدان کربلا وایں آتشے است کہ دل مارا گداخت و پہلوہائے مارا بشکست و کار ہائے مارا در مشکل انداخت وکتاب اللہ را بہ سنگہائے باطل سنگسار کردند وبسیارے را ازیشاں مے بینیم کہ راستی را مے پوشند و ہمچو نیکاں از دروغ پرہیز نمی کنند.و زبانہائے شاں فتویٰ ہائے دروغ می دہند.طبیعتہائے خود را پردہ ہائے تاریکی پوشیدہ اند.و دانہ بخشش ہائے را بر محبت نماز مقدم مے د۱رند.قرآن را از پے دنیاء خود پس پشت انداختند.وطبیعتہائے خود را سوئے ذخیرہ ہائے مادی میل دادند.و حرص و آرزو و رغبت شاں سوئے لذتہائے فانیہ بدرجۂ نہایت رسید.وشدت حرص شاں در آرزوہائے نفسانی از حد متجاوز

Page 53

ما بقی فیہم علم کتاب اللّٰہ الفرقان.ولا تقوی القلوب وحلاوۃ الإیمان.وتباعدوا من أعمال البرّ وأفعال الرشد والصلاح.وانتقلوا من سُبل الفلاح إلی طرق الطلاح.وعاد جمرہم رمادًا.وصلاحہم فسادًا.بعدوا من الخیر والخیر بعد منہم کالأضداد.وصاروا لإبلیس کالمُقرّنین فی الأصفاد.وانجذبوا إلی الباطل کأنّہم یُقادون فی الأقیاد.یخونون فی فتاواہم ولا یتّقون.ویُکذّبون ولا یُبالون.ویقربون حرمات اللّٰہ ولا یبعدون.ولا یسمعون قول الحق بل یریدون أن یسفکوا قائلہ ویغتالون.ولمّا جاء ہم إمام بماگشت.باقی نماند در ایشاں علم قرآن شریف و نہ پرہیزگاری دلہا و شیرینی ایمان.و از کار ہائے نیکی و کار ہائے رشد دُور افتادند و از راہ ہائے نجات سوئے طریقہائے تباہی منتقل شدند و اخگر شوق دین شاں خاکستر گردید و صلاح شاں بفساد متبدل گشت.ایشاں از نیکی دور شدند و نیکی ازیشاں ہمچو ضدہا دور شد.و برائے شیطان چناں شدند کہ گویا در قید او مضبوط بستہ شدند و سوئے باطل چناں منجذب شدند کہ گویا ایشاں در قیدہا کشیدہ می شوند.در فتویٰ ہا خیانت می کنند و نہ می ترسند و دروغ می گویند و پروا ندارند و اقدام برگنہ ہا می کنند و دور نہ مے مانند و سخن حق نمی شنوند بلکہ می خواہند کہ حق گو را بکشند و وچوں امامے آمد کہ مخالف

Page 54

لا تہوی أنفسہم أرادوا أن یقتلوہ وہم یعلمون.وما کان لبشر أن یموت إلَّا بإذن اللّٰہ فکیف المرسلون.إنہ یعصم عبادہ من عندہ ولو مکر الماکرون.یقولون نحن خدام الاسلام وقد صاروا أعوانًا للنصارٰی فی أکثر عقائدہم.وجعلوا أنفسہم کحبالۃ لصائدہم.یقولون سمعنا الأحادیث بالأسانید.ولا یعلمون شیئا من معنی التوحید.ویقولون نحن أعلم بالأحکام الشرعیۃ.وما وطئت أقدامہم سکک الأدلّۃ الدینیۃ.یطیرون فی الہوی کالحَمام.ولا یُفکّرون فی ساعۃ الحِمام.یسعون لحطامٍ بأنواع قلقٍ.ویُخرجون کأہلنفس ایشاں بود خواستند کہ او را قتل کنند و ہیچ نفسے بجز اذن رب نہ می میرد پس چگونہ مرسلاں بمیرند.و خدا تعالیٰ بندگان خود را نگہ می دارد اگرچہ مکر کنندگان مکر کنند.می گویند کہ ما خادمان اسلام ہستیم حالانکہ در عقائد خود نصاریٰ را مدد مے دہند.و صیادان آں گروہ را ہمچو دامے مدد می دہند می گویند کہ ما حدیثہا را باسانید شنیدیم و از معنی توحید ہیچ خبر نہ مے دارند.ومے گویند کہ ما احکام شریعت را مے دانیم و حال ایں است کہ قدم ایشاں در کوچہ ہائے ادلہ دینیّہ نیفتادہ است.ہمچو کبوتر در حرص و ہوا می پرند و در ساعت موت فکر نہ می کنند برائے اندک نفعے دنیا بصد بے قراری می دوند.و ہمچو منافقان

Page 55

النفاق رؤوسہم من کل نفقٍ.یقعون من الشحّ علی کل غضارۃ.ولو کان فیہ لحم فارۃ.إلَّا الذین عصمہم اللّٰہ بأیدی الفضل والکرامۃ.فأولئک مُبرّؤن مِمّا قیل ولیس علیہم شیء من الغرامۃ.وإنّہم من المغفورین.ومن الفتن العظمٰی والآفات الکبریٰ صول القسوس.بقسی الہمز واللمز کالعسوس.وکل ما صنعوا لجرح دیننا من النبال والقیاس.بنوہ علی المکائد کالصائد لا علی العقل والقیاس.نبذوا الحق ظہریّا.وما کتبوا فیما دوّنوہ إلَّا أمرًا فریّا.وقد اجتمعت ہممہم علٰی إعدام الإسلام.واتفقت آراء ہمسرہائے خود را از سوراخہا بروں مے آرند و از شدت حرص بر ہر پیالہ مے افتند اگرچہ درآں موشے مُردہ باشد مگر کسانے کہ خدا ایشاں را نگہ داشت.پس ازیں عیوب بری ہستند و بر ایشاں تاوانے نیست و مغفرت شامل حال او شاں است.ویکے از فتنہ ہائے عظیم و آفتہائے بزرگ حملہ پادریان است کہ بکمانہائے عیب گیری و نکتہ چینی ہمچو صیادے می کنند.و ہمہ آں تیرہا و کمانہا کہ برائے مجروح کردن دین ما ساختہ اند ہمچو صید گیرندہ برفریبہا بنیادش نہادہ اند نہ بر عقل و قیاس.حق را پسِ پشت انداختند و در کتب خود بجز دروغ ہیچ ننوشتند و بر معدوم کردن اسلام ہمتہائے ایشاں مجتمع شدند.و برائے محو کردن

Page 56

لمحو آثار سیدنا خیر الأنام.یدعون الناس إلی اللظٰی والدرک.ناصبین شَرَک الشرک.وما وجدوا کیدًا إلَّا استعملوہ.وما نالوا جہدًا إلَّا بذلوہ.استحرت حربہم.وکثر طعنہم وضربہم.ونعرت کوساتہم.و صاحت من کل طرف بوقاتہم.وجالت خیولہم.وسالت سیولہم.وسعوا کل السعی حتی جمعوا عساکر الإلحاد.ورفعوا رایات الفساد.وصُبّت علی المسلمین مصائب وخُرّبت تلک الربوع.وأہدیت لسُقیاہا الدموع.وکثر البدعۃ وما بقی السُنّۃ ولا الجماعۃ.ورُفع القرآن وضاقت عن صونہ الاستطاعۃ.فحاصلشانہائے سیّدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتفاق رائے ایشاں شد.مردم را سوئے دوزخ و ہاویہ می خوانند و دام شرک را گستردہ اند.و ہیچ مکرے نیافتند مگر آنرا استعمال کردند و نہ کوششے مگر آنرا خرچ کردند.جنگ ایشاں گرم شد و طعن و ضرب ایشاں بسیار شد.آوازہ نقارہ شاں و آواز بوق شاں از ہر طرف بلند گردید و اسپ ہائے شاں جولان کردند وسیلہائے شاں رواں شدند.و چنداں کوشش کردند کہ شرط کوشش است تا بحدے کہ لشکرہائے الحاد را جمع کردند و رایت ہائے فساد را بلند کردند وبر مسلماناں مصیبتہائے ریختہ شد وایں قصر ہا و کاخہا خراب شدند.و برائے آب نوشی شاں اشکہا بطور ہدیہ فرستادہ شدند.و بدعت بکثرت شدہ و نہ سنت باقی ماندو نہ جماعت.وقرآن برداشتہ شد و نگہداشت آں در وسعت اختیار نماند.پس حاصل

Page 57

الکلام إن الإسلام مُلِئَ من الآلام.وأحاطت بہ دائرۃ الظلام.و أَرَی الزمان عجائب فی نقض أسوارہ.وأسال الدہر سیولا لتعفیۃ آثارہ.واکمل القدرامرہ لإِطفاء انوارہ.ولمّا کان ہذا من المشیّۃ الربّانیۃ.مبنیّا علی المصالح الخفیۃ.فما تطرّق الٰی عزم العدا خلل.ولا إلٰی أیدیہم شلل.ولا إلٰی ألسنتہم فلل.وکان من نتائجہ أن المِلّۃ ضعفت.والشریعۃ اضمحلت.وجرفتھا المجارف.حتی أنکرہا العارف.وکثراللغو وذہب المعارف.باخت أضواء ہا.وناء ت أنواء ہا.ودیس المِلّۃ وطالت لأواء ہا.وکان ہذا جزاء قلوبٍکلام این است کہ اسلام از دردہا پر کردہ شد و دائرہ تاریکی برو محیط شد.و زمانہ در شکستن دیوارہائے اسلام کار عجیب نمود و زمانہ برائے محو کردن آثار او سیلہا جاری کرد و قضاء و قدر امر خود را برائے اطفاء نور او بکمال رسانید و چونکہ ایں ہمہ بارادہ الٰہی بود و بر مصلحتہائے پوشیدہ بنا می داشت لہٰذادر قصد دشمناں ہیچ خلل واقع نشد ونہ دستہائے شاں شل گشتند ونہ زبانہائ شاں کند شدند.و از نتیجہ ہائے آں این بود کہ شریعت نابود شد و او را بیل ہا ازبُن برکندند تا بحدے کہ چشم عارفاں او را نشاخت و امور بیہودہ بسیار شدند و معارف را نشانے نماند و در روشنی ہائے او فتور آمد و ستارہ ہائے او دور شدند.و ملّت اسلام زیر پا کوفتہ شد و سختی آں زیادہ

Page 58

مقفلۃ.وأثام صدورٍ مغلقۃ.فإن أکثر المسلمین فقدوا تقواہم.وأغضبوا مولاہم.وتری کثیرا منہم شغفہم حبّ الأموال والعقار والعقیان.وملک فؤادہم ہوی الأملاک والنسوان.وقلّب قلوبہم لوعۃ اِمرتہا فشُغلوا بہا عن الرحمٰن.وتری أکثرہم اعتضدوا قِربۃ الملحدین.وانقادوا کَقَءُوْدٍ لسیر الکافرین.وحسبوا أن الوصلۃ إلی الدولۃ طرق الاحتیال او القتال.وزعموا أن النبالۃ لا یحصل إلاَّ بالنبال.فلیس عندہم تدبیر تأیید المِلّۃ من غیر سفک الدماء بالمرہفات والأسنّۃ.ویستقرون فی کل وقتشد وایں ہمہ پاداش آں دلہا بود کہ بر خود قفل می داشتند و جزائے آں سینہ ہا بود کہ بند بودند چراکہ اکثر مسلماناں پرہیزگاری خود را گم کردند ومولائے خود را رنجانیدند.وبسیارے را ازیشاں می بینی کہ فریفتہ محبت مال و زمین و زر ہستند و خواہش املاک و زن ہا مالک دلہائے ایشاں شدہ و گردش داد دِلہائے ایشاں را سوزش برکتہائے آں یعنی می خواہند کہ در آں مال ہا برکت و زیادت شود پس ازیں باعث از رحمان دور افتادند.و می بینی اکثر ایشاں را کہ مشک ملحدان ببازو آویختہ اند و سیرت کافراں را ہمچو اسپ رام شوندہ مطیع گشتند او خیال کردند کہ وسیلہ سوئے دولت طریقہائے حیلہ گری است یا جنگ و پیکار و گمان کردند کہ ہمہ بزرگی و فضل در تیرہا یعنی جنگ کردن است پس نزد ایشاں تدبیر تائید ملت بجز خونریزی بہ تیغہا و نیزہ ہا بطریقے دیگر نیست و در ہر وقت می جویند کہ کدام موقع می آید

Page 59

مواضع الجہاد.وإن لم یتحقّق شروطہ ولم یأمر بہ کتاب ربّ العباد.ومن المعلوم أن ہذا الوقت لیس وقت ضرب الأعناق لإشاعۃ الدین.ولکل وقت حکم آخر فی الکتاب المبین.بل یقتضی حکمۃ اللّٰہ فی ہذہ الأوقات.أن یؤیّد الدین بالحجج والآیات.وتُنقّد أمور المِلّۃ بعین المعقول.ویُمعن النظر فی الفروع والأصول.ثم یُختار مسلک یہدی إلیہ نور الإلہام ویضعہ العقل فی موضع القبول.وأن یُعدّ عُدّۃ کمثل ما أعدّ الأعداء.ویُفلّ السیف ویُحدّ الدہاء.و یُسلک مسلکُ التحقیق والتدقیق.وتشرب الکأسکہ جہاد کنیم.اگرچہ شرطہائے جہاد متحقق نشوند و کتاب خدا برائے جنگ کردن اجازت ندہد.و معلوم است کہ ایں وقت وقت جنگ و خونریزی برائے دین نیست.و برائے ہر وقت در قرآن شریف حکمے علیحدہ است.بلکہ دریں زمانہ حکمت الہٰی تقاضا می فرماید کہ تائید دین بہ دلائل و نشانہا کردہ شود.و امور بچشم معقولیت تحقیق کردہ شوند.و در فروع و اصول نظر را دوانیدہ شود باز آں مسلک اختیار کردہ شود کہ الہام الہٰی سوئے آں رہ نماید و عقل او را در موضع قبول نہد.وبرائے مقابلہ مخالفین ہمچو آں طیاری کردہ شود کہ دُشمناں کردہ اند و شمشیر را کند کردہ شود و عقل را تیز کردہ شود و مسلک تحقیق و تدقیق اختیار کردہ شود و ازیں

Page 60

الدہاق من ہذا الرحیق.فإن أعدائنا لا یسلّون النواحل للنحلۃ.ولا یشیعون عقائدہم بالسیوف والأسنّۃ.بل یستعملون ما لطف ودق من أنواع المکائد.ویأتون فی صور مختلفۃ کالصائد.وکذالک أراد اللّٰہ لنا فی ہذا الزمان.أن نکسر عصا الباطل بالبرہان لا بالسنان.فأرسلنی بالآیات لا بالمرہفات.وجعل قلمی وکلمی منبع المعارف والنکات.وما أعطانی سیفًا و سنانًا.وأقام مقامہما برہانا وبیانًا.لیجمع علی یدی الکلم المتفرّقۃ.ویُنظم بی الأمور المتبدّدۃ.و یُسکّن القلوب الراجفۃ.ویُبکّت الألسنۃ المرجفۃ.شراب پیالہ ہائے پر نوشیدہ شوند.چراکہ دشمنان ما برائے مذہب شمشیر ہا نمی کشند و عقائد خود را بہ شمشیر ہا و نیزہ ہا شائع نہ می کنند بلکہ باریک در باریک فریبہا برائے ثبات دین خود استعمال می کنند وہمچو صیاد در مختلف صورتہا می آیند.و ہم چنیں خدا تعالیٰ دریں زمانہ ارادہ فرمودہ است کہ عصائے باطل را ببرہان بشکنیم نہ بنیزہ.پس خداوند تعالیٰ بہ نشانہا مرا فرستاد بہ تیغہا نفرستاد و قلم مرا و کلمات مرا چشمۂ معارف و نکتہ ہا کرد و مرا تیغ و سنان نداد وبجائے آں برہان و بیان عطا فرمود من کلمہ ہائے متفرقہ را جمع کند.و امور پریشان را در سِلک انتظام بکشد و دِلہائے لرزندہ را تسکین بخشد و زبان ہائے دروغ گویندہ را لاجواب کند.و دِل ہائے

Page 61

ویُنیر الخواطر المظلمۃ.ویُجدّد الأدلۃ المخلقۃ.حتی لا یبقی أمر غیر مستقیم.ولا نہج غیر قویم.فحاصل القول ان البیان والمعارف من معجزاتی.وإن مرہفاتی آیاتی وکلماتی وکنت دعوت بعض أعدائی لإراء ۃ ہذہ المعجزۃ.لعل اللّٰہ یشرح صدورہم أو یجعل لہم نصیبًا من نور المعرفۃ.فقلت إن کنتم تنکرون بإعجازی.وتصولون علیّ کالغازی.وتظنون أنکم أُعطیتم علم القرآن.وبلاغۃ سحبان.فتعالوا ندع شہداء نا وشہاداء.کم.وعلماء نا وعلماء کم.ثم نقعد مقابلین.ونکتب تفسیر سورۃ مرتجلین.منفردین غیر مستعینین.فما کان أحدٌ منہم أن یقبلتاریک را روشن کند.و دلائل کہنہ را تازہ گرداند.تاآنکہ ہیچ امر غیر مستقیم نماند.و ہیچ راہ کج نماند.پس حاصل کلام ایں است کہ بیان و معارف از معجزات من اند و شمشیرہائے من نشانہائے من و کلمات من اند و من بعض دشمنان خود را برائے نمودن ایں معجزات خواندم تا مگر شرح صدر اوشاں را میسر آید یا از معرفت نصیبے او شانرا حاصل شود.پس گفتم اگر شما ازیں معجزہ من منکر ہستید و ہمچو غازیاں حملہ می کنید.و گمان شما این است کہ شمارا علم قرآن و فصاحت سحبان دادہ شدہ است.پس بیائید ما می خوانیم گواہان شمارا و گواہان خود را و عالمان شمارا و عالمان خود را باز بالمقابل مے نشینیم وبطور بدیہہ تفسیر سورتے می نویسیم.وبذاتِ خود مے نویسیم و از کسے مدد نمی جوئیم پس مجال ہیچکس از ایشاں

Page 62

الشرط المعروض.ویتبع الأمر المفروض.ویقعد بحذائی.ویُملی التفسیر کإملا ئی.بل جعلوا یکیدون لیطفؤا النور.ویُکذّبوا المأمور.وکان أحدٌ منہم یُقال لہ مہر علی.وکان یزعم أصحابہ أنہ الشیخ الکامل والولی الجلی.فلمّا دعوتہ بہذہ الدعوۃ.بعد ما ادّعی أنہ یعلم القرآن وأنہ من أہل المعرفۃ.أبی من أن یکتب تفسیرا بحذاء تفسیری.وکان غبیّا ولو کان کالہمدانی أوالحریری.فماکان فی وسعہ أن یکتب کمثل تحریری.و مع ذالک کان یخاف الناسَ.وکان یعلم أنہ إن تخلّف فلا غلبۃ ولا جحاسَ.فکاد کیدًا وقال إنی سوف أکتبنبود کہ ایں شرط قبول کند و ایں امر قرار دادہ را پیروی نماید.وبرابر من نشیند.و ہمچو من در عربی تفسیر نویسد بلکہ طریق مکاری اختیار کردند.تا نور را معدوم کنند و مامور را کاذب ظاہر کنند.ویکے ازیشاں بود کہ مہر علی نام داشت و اصحاب او گمان بردند کہ او شیخ کامل و ولی جلی است.پس ہرگاہ من او را بایں دعوت خواندم بعد زانکہ او دعویٰ کرد کہ من قرآن مے دانم و اہل معرفت ام.ازیں امر انکار کرد کہ بمقابل من تفسیر بنویسد.و در اصل غبی بود و دانشمند نبود و در طاقت او نبود کہ ایں چنیں تفسیر در فصیح عربی تواند نوشت و نیز از مردم مے ترسید و مے دانست کہ اگر تخلف ورزید پس نہ او را غلبہ است و نہ خصم را ازیں آزارے رسد پس مکرے اندیشید و گفت

Page 63

التفسیر کما أشیر.ولکن بشرط أن تُباحثنی قبلہ بنصوص الأحادیث والقرآن.ویُحَکّمُ من کان لک عدوًّا وأشد بُغضًا من علماء الزمان.* فإن صدّقنی وکذّبک بعد سماع البیان.فعلیک أن تُبایعنی بصدق الجنان.ثم نکتب التفسیر ولا نعتذر ونترک الأقاویل.وإنّا قبلنا شرطک وما زدنا إلَّا القلیل.ہذا ما کتب إلیّ وطبعہ وأشاع بین الأقوام.واشتہر أنہ قبل الشرائط وما کان ہذا إلَّا کیدا لإغلاط العوام.ولمّا جاء نی مکتوبہ المطبوع.وکیدہ المصنوع.قلت إنّا للّٰہ و لعنتُ ما أشاع.وتأسّفتُ علی وقت ضاع.ثم إنہکہ من تفسیر مے نویسم لیکن بدیں شرط کہ اوّل بامن از روئے قرآن و و حدیث بحث کردہ شود و آنکس را حَکَم مقرر کردہ شود کہ ترا سخت ترین دشمنان است پس اگر آں شخص تصدیق من کرد و تکذیب تو نمود پس لازم خواہد بود کہ بصدق دل بیعت من کنی باز ما تفسیر خواہیم نوشت و عذرے نخواہیم کرد و ما شرط تو قبول کردیم و زیادہ نہ کردیم مگر اندکے.این است کہ سوئے من نوشت و طبع کرد و شائع کرد و شہرت داد کہ او شرط را قبول کردہ است حالانکہ صرف ایں فریبے بود تا عوام را در غلط اندازد و ہرگاہ نامہ مطبوع او و مکر مصنوع او مرا رسید.گفتم انّا للّہ و برآنچہ شائع کرد او لعنت کردم و بر ضائع شدن دریغ خوردم باز مکرے

Page 64

استعمل کیدًا آخر.ورحل من مکانہ وسافر.ووصل لاہور.وأثار النقع کالثور.وأرجفت الألسنۃ أنہ ما جاء إلَّا لیکتب التفسیر فی الفور.فلمّا رأیت أنہم حسبوا الدودۃ ثعبانا.والشوکۃ بستانا.قلت فی نفسی ان نذہب إلی لاہور فأیّ حرجٍ فیہ.لعلّ اللّٰہ یفتح بیننا ویسمع الناس ما یخرج من فینا وفیہ.فشاورتُ صحبتی فی الأمر.وکشفتُ عندہم عن ہذا السرّ.واستطلعتُ ما عندہم من الرأی.وسردتُ لہم القصۃ من المبادی إلی الغای.فقالوا لا نری أن تذہب إلی لاہور.وإن ہو إلَّا محلّ الفتن والجور.وقددیگر بکار آورد واز جائے خود کوچ کردہ و سفر اختیار نمود و بہ لاہور آمد وبر انگیخت غبار مانند ثور و بہ دروغ مشہور کردند کہ برائے تفسیر نوشتن در لاہور آمدہ است.پس چوں دیدم کہ آں مردم کرمے را اژدہائے تصور کردہ اند و خارے را بستانے گمان بردہ اند در دل خود گفتم کہ اگر ما نیز ہم بہ لاہور رویم کدام حرج است.تا شاید خدا در ما حکم کند و مخلوق را ازاں سخنہا آگاہ کند کہ از دہن ما و دہن او برآیند پس دریں امر بدوستان خود مشورہ کردم و ایں راز برایشاں کشودم و از ایشاں آگہی خواستم کہ دریں رائے شاں چیست و تمام قصّہ از اول تا آخر بر ایشاں خواندم.پس در جواب گفتند کہ نزد ما حاجتے نیست کہ بہ لاہور روی نہ آنجا بجز فتنہ و ظلم چیزے نیست و ظاہر

Page 65

تبیّن أنہ ما قبل الشروط.وأری الضمور والمقوط.و تشحّط بدمہ وما رأی سبیل الخلاص إلَّا الشحوط.وہمط وغمط.وما ذبح کبش نفسہ وما سمط وما قمط.وإنّا سمعنا أنہ ما جاء بصحۃ النیّۃ.ولیس فیہ رائحۃ من صدق الطویۃ.ہذا ما رأینا والأمر إلیک.والحق ما أراک اللّٰہ وما رأیت بعینیک.وکذالک کانت جماعتی یمنعوننی و یردعوننی.ویُصرّون علیّ ویکفّوننی.حتی تلوّیت عما نویتُ.وحُبّب إلیّ رأیہم فقبلتُ وما أبیتُ.وترکت ما أردت.وطویتُ الکشح عمّا قصدتُ.ثم طفق المخالفون یمدحونہ علی فتح المیدان.ویطیرونہشدہ است کہ ایں شخص شرط ہا قبول نکرد.و لاغری نمود و ہمچو شتر لاغر ظاہر شد.و در خونِ خود طپید و بجز دوری سبیل رہائی ندید و ستم کرد و کفران نعمت نمود.و نفس خود را ذبح نکرد و نہ موہائے او برکند و نہ پاہائے او جہت کشتن بست وما شنیدیم کہ او بصحت نیت نیامدہ است و یک ذرہ صدق در دل او نیست ایں رائے ماست و اختیار در دست تست و حق ہماں است کہ تو بہ بینی.و ہم چنیں جماعت من ایں جوش مے داشت کہ مرا منع مے کردند و باز مے داشتند.تا بحدے کہ اعراض کردم از نیتے کہ کردہ بودم و مرا رائے شاں پسند آمد.پس ہماں رائے اختیار کردم و انکار نکردم و ترک کردم آنچہ مے خواستم.باز شروع کردند مخالفان کہ تعریف او بر فتح میدان مے کردند.و بغیر

Page 66

من غیر جناح العرفان.وکانوا یکذبون ولا یستحیون.ویتصلّفون ولا یتقون.ویفترون ولا ینتہون.وینسبون إلیہ بحار محامد ما استحقّہا.وأبکار معارف ما استرقّہا.وکانوا یسبّوننی کما ہی عادۃ السفہاء.ویذکروننی بأقبح الذکر وبالاستہزاء.ویقولون إن ہذا الرجل ہاب شیخنا وخاف.وأکلہ الرعب فما حضر المصاف.وما تخلّف إلَّا لخطب خشَّی وخوف غَشَّی.ولو بارز لکلمہ الشیخ بأبلغ الکلمات.وشبّح رأسہ بکلام ہو کالصَفات فی الصِفات.وکذالک کانوا یہذرون.ویستہزء ون بی ویسبّون.وواللّٰہ لا أحسب نفسی إلَّاپر ہائے معرفت او را پرانیدند و بودند کہ دروغ مے گفتند وحیا نمے کردند و لاف می زدند و نمی ترسیدند و افترامے کردند وباز نمے آمدند و بسوئے او آں دریاہائے محامدرا نسبت مے دادند کہ او حق آنہا ندارد و آں ابکار معارف را بوے منسوب می کردند کہ او آنہا را بکنیزگی نہ گرفتہ است و بودند کہ دشنام می دادند مرا.چنانچہ عادت سفہا است و مرا بہ بدترین طریقہ و باستہزا یاد می کردند ومی گفتند کہ ایں شخص از شیخ ما ترسیدہ است و ہیبت شیخ ما او را بخورد ازہمیں سبب حاضر مباحثہ نشدہ است وتخلف او از وجہ ایں کارے بزرگ است کہ او را ترسانید و نیز آں خوفیست کہ بروطاری شد واگر برائے مباحثہ بیروں آمدے شیخ ما بفصیح ترین کلمہا او را خستہ کردے و بکلامے سرِ او شکستے کہ در صفات ہمچو سنگے روشن و سپید است.و ہمچنیں بودند کہ بیہودہ گوئیہامے کردند واستہزامی نمودند و دشنام می دادند.وبخدا کہ من نفس خود را نمی شمارم مگر

Page 67

کمیْتٍ تُرّبَ.أو کبیتٍ خُرّبَ.والناس یحسبوننی شیءًا ولستُ بشیء.وما أنا إلَّا لربی کفیء.وما کان لی أن أبارز وأدعو العدا.ولکن اللّٰہ أخرجنی لہذا الوغیٰ.وما رمیتُ إذ رمیتُ ولکن اللّٰہ رمٰی.ولی حِبٌّ قدیر وإعانتہ تکفینی.ومتُّ فظہر الحِبُّ بعد تجہیزی وتکفینی.ووہب لی بعد موتی کلامًا کالریاض.و قولًا أصفی من ماء یسیح فی الرضراض.وحجۃ بالغۃ تلدغ الباطل کالنضناض.وکلہا من ربی وما أنا إلَّا خاوی الوفاض.وأُمرتُ أن أنفق ہذہ الأموال علی الأوفاض.وأن أرُمّ جدران الإسلام قبل الانقضاض.ہمچو آں مردہ کہ بروخاک انداختہ باشند یا ہمچو آں خانہ کہ او را خراب کردہ باشند.ومردم مرا چیزے می شمارند ومن چیزے نیستم.ومن نیستم مگر برائے خداوند خود ہمچو سایہ و ایں کار من نبود کہ من بمیدان مباحثہ بیروں آیم و دشمناں را دعوت کنم مگر خدا برائے ایں جنگ مرا بیروں آورد.ومن ہر تیرے کہ می اندازم نمے اندازم آں تیررا بلکہ خدائے من مے اندازد.ومرادوستے قادر است وامدادِ او مرا کافیست.ومن مُردم پس ظاہر شد آں دوست بعد تجہیز و تکفین من.و بخشید مرا پس از مردن من کلامے کہ ہمچو روضہ ہا است.و سخنے عطا کرد کہ آں ازاں آب صافی تر است کہ بر زمین سنگریزہ ہا جاری می باشد.و مراآں حجت بالغہ داد کہ باطل را چناں می گزد کہ مارے مہلک انساناں را.وایں ہمہ از پروردگار من است ومن ترکش خود خالی می دارم.ومن حکم دادہ شدہ ام کہ ایں مالہا را بر ہر قسم مردم خرچ کنم.و دیوارہائے اسلام را قبل از افتادن آنہا از سرِ نو مرمت نمایم

Page 68

ومن بارزنی فقد بارز اللّٰہ رب العالمین.وما جئتُ إلَّا بزیّ المساکین.وما أجیز حزنا من حولی.ولا بطنًا من جولی.بل معی قادر یواری عیانہ.ویُری برہانہ.فلأجل ذالک تحامت العدا عن طریقی.وقطّعت النحور والأعناق من منجنیقی.وما لأحد بمقاومتی یدان.ویدی ہذہ تعمل تحت ید اللّٰہ الرحمان.نزلت علیّ برکات ہی حرز للصالحین.فجمعتُ بہا لنفسی التحصین والتحسین.ومن نوادر ما أُعْطی لی من الکرامات.أن کلامی ہذا قد جُعل من المعجزات.فلو جَہّزسلطانٌ عسکرًا من العلماء.لیبارزونی فی تفسیر و ہر کہ بمقابلہ من بیروں آمد پس او بیرون نہ آمدہ است مگر بمقابلہ خدا تعالیٰ.ومن نیامدہ ام مگر بر پیرایہ مسکیناں.ومن ہیچ زمینے بلند را از قوت خود قطع نمی کنم و نہ زمینے نشیب را بہ طاقت خود می نوردم بلکہ بامن قادریست کہ وجود خود پوشیدہ می دارد و برہان خود می نماید پس ہمیں سبب است کہ دشمنان از راہ من دورمے مانند بسیار گردنہا وچنبرگردنہا کہ از منجنیق من پارہ پارہ شدند.و ہیچکس را بمن تاب مقابلہ نیست ونہ قوت برابر ایستادن.وایں دست من زیر دست خدا تعالیٰ کار می کند.بر من آں برکتہا فرود آمدہ اند کہ برائے نیکوکاراں در حکم تعویذ اند.پس فراہم کردم بآں برکتہا برائے نفس خود حصن حصین را و نیز حمد و ثنا را.و از عجائب عنایات خداوندی و کرامات او ایں است کہ کلام من بطور معجزہ گردانیدہ شدہ.پس اگر بادشاہے لشکرے از علماء طیار کند تا در تفسیر قرآن و بلاغت و فصاحت

Page 69

القرآن ومُلح الإنشاء.فواللّٰہ إنی أرجو من حضرۃ الکبریاء.ان یکون لی غلبۃ وفتحٌ مبینٌ علی الأعداء.ولذالک بثثتُ الکتب وأشعتُ الصحف النخب فی الأقطار.وحثثتُ علی ہٰذا*المصارعۃ کل من یزعم نفسہ من أبطال ہٰذہ المضمار.وما کان لأحد من علماء ہذہ الدیار.أن یُبارزنی فیما دعوتہم بإذن اللّٰہ القہّار.فما أنت وما شأنک أیہا المسکین الجولروی.أتتغاوی علیّ بأخلاط الزمر وأوباش الناس أیہا الغوی.أیّہا الغافل اعلم أن السماء أہدتک إلیّ لتکون نموذج وعبرۃ فی الأرضین.وقادک إلیّ القدر لیُرِی الناسَ ربّی قدربامن مقابلہ کند.پس بخدا من از جناب او امید دارم کہ غلبہ و فتح بر دشمنان مرا باشد و از بہر ہمیں شائع کردم کتابہا را و فرستادم رسالہ ہائے فصیح و بلیغ را در ہر طرف و برائے کشتی کردن آں ہمہ را ترغیب دادم کہ گمان مے کنند کہ از بہادران میدان اند و ہیچکس را از علمائے ایں دیار یا رائے ایں امر نیست کہ بمقابلہ من درآں امور کہ من باذن الہٰی دعوت کردہ ام بیروں آیند.پس تو چیستی و شانِ تو چیست اے مسکین گولڑوی.آیا بر من بچند مجہول الحال مردم و اوباش آنہا تاخت مے کنی.اے غافل بداں کہ آسمان ترا بطور ہدیہ پیش من آوردہ است تاکہ بر زمین نمونہ عبرت شوی و قضاء و قدر ترا سوئے من کشیدہ است تا خدا

Page 70

المقبولین.وإنّا إذا نزلنا بساحۃ قوم فساء صباح المنذرین.أیہا المسکین.لا تقل غیر الصدق.ولا تشہد لغیر الحق.واتّق اللّٰہ ولا تکن من المجترئین.أأنت تجد فی نفسک قدرۃ علی تفسیر القرآن.برعایت مُلح الأدب ولطائف البیان.سبحان ربی!إن ہذا إلَّا کذب مبین.وأنت تعلم مبلغ علمک وتعلم علم من معک ومن تبعک ثم تدّعی الفضل کالماکرین.ویعلم العلماء أنک لست رجل ہذا المیدان.ولکنّہم یکتمون عوارک کما یُکتم الداء الدخیل ویُسعی للکتمان.فحاصل الکلام..إنک لست أہل ہذا المقام.وماقدر مقبولاں بنماید و ما چوں بصحن قومے فرود مے آئیم پس صبح آں مردم کہ انذار شاں مقصود می داریم بدصباحے می باشد.اے مسکین بجز راستی چیزے مگو.و بجز حق ہیچ گواہی مدہ.واز خدا بترس و دلیری مکن.آیا در نفس خود قدرت مے یابی کہ تفسیر قرآن برعایت بلاغت و لطائف بیان بنویسی.سبحان اللہ ایں دروغے صریح است.و تو خود مے دانی کہ چہ قدر علم تست.و چہ اندازہ علم کسانے است کہ نزد تو ہستند یا پیروی تو کنند باز دعویٰ فضل و کمال میکنی و علماء مے دانند کہ تو مرد ایں میدان نیستی مگر ایشاں عیب تو می پوشند ہمچو کسے کہ اندرونی بیماری را می پوشد وبرائے پوشیدن سعی کردہ می شود.پس حاصل کلام ایں است کہ تو اہلِ ایں مقام نیستی.نہ بطور

Page 71

علّمک اللّٰہ العلم والأدب من لدنہ موہبۃ.وما اقتنیتَ المعارف مکتسبۃ.ومع ذالک لمّا حللتَ لاہور.إِدّعیتَ کأنک تکتب التفسیر فی الفور.تعامیت أوما رأیتَ عند غلوائک.وفعلت ما فعلت وسدرتَ فی خیلا!ئک.و خدعت الناس بأغلو.طاتک.ولوّنتہم بألوان خزعبیلا!تک.و خدعتَ کل الخدع حتی أجاح القوم جہلا!تک.وأہلک الناس حَیَواتک.ثم ما ترکتَ دقیقۃ من الإغلاظ والازدراء.وتفرّدتَ فی کمال الزرایۃ والسب والہذر والاستہزاء.وما قصدتَ لاہور إلا لطمعٍ فی محامد العامۃ.ولِتُعَدّ فی أعینہم من حُماۃ المِلّۃ.ومن مُواسی الدین ومعالجیموہبت علم را از خدا یافتی و نہ بطور کسب.ذخیرہ آں کردی.و باوجود ایں چوں بہ لاہور آمدی دعویٰ کردی کہ گویا بلاتوقف تفسیر خواہی نوشت چوں از حدود در گذشتی پس دیدہ و دانستہ خود را کور ساختی یا خود ندیدی و کردی آنچہ کردی و بتمامتر بیباکی تکبر خود نمودی ومردم را بغلط بیانیہائے خود فریب دادی.و بگفتار باطل خود رنگین کردی.فریب بر فریب کردی و با اباطیل قوم را از بیخ برکندی.و مارہائے تو مردم را ہلاک کردند.باز با ایں ہمہ از سخت گوئی و عیب گیری ہیچ دقیقہ نگذاشتی.و در بد گفتن و دشنام دادن و ژاژخائی و استہزاء یگانہ بر آمدی.وقصد لاہور بدیں طمع کردہ بودی کہ مردم تعریف تو کنند و ترا از حامیان ملت و از جملہ درد خواہانِ دین چارہ گراں ایں غم

Page 72

ہذہ الغمّۃ ببذل المال والہمّۃ.ولعلک تامن بہذا القدر حصائد الألسنۃ.ولا تُرہق بالتبعۃ و المعتبۃ.ولیحسب الناس کأنک مُنزّہ عن معرّۃ اللکن.ولست کعنین فی رجال اللسن.ولیظن العامۃ الذین ہم کالأنعام.أنک رُزقتَ من کل علمٍ وأُنعمتَ من أنواع الإنعام.وأُعطِیتَ بصیرۃ تُدرک منتہی العرفان.وإصابۃ تُکمّل دائرۃ البیان.و فہمًا کفہم ذوّادٍ عن الزیغ والطغیان.وعقلًا کبازی یصید طیر البرہان.ونطقًا مُؤیّدًا بالحجج القاطعۃ المنیرۃ.ونفسًا مُتحلّیۃ بأنواع المعارف وحسن السریرۃبشمارند.و بخرچ مال و ہمت تعریف کردہ شوی و تاکہ بدیں سفر ازملامت زبانہا در امن بمانی.ہیچ عتابے و انجام بد لاحق حال تو نشود و تاکہ مردم بدانند کہ گویا دامن تو از عیب لکنت و عدم قدرت برتقریر پاک است و ہمچو نامردے نیستی در مردان زبان آوردے و تا عام مردم کہ ہمچو چارپایاں ہستند گمان کنند کہ گویا از ہر قسمے علم ترا دادہ اند وبانواع انعام ترا مخصوص فرمودہ اند وآں بصیرت دادہ شدی کہ انتہائی مرتبہ معرفت است و آں رائے صائب کہ دائرہ بیان را مکمل می کند و آں فہم دادہ شدی کہ رفع کنندہ کجی و طغیان است وآں عقل کہ پرندگان برہان را ہمچو باز شکار میکند و آں نطق کہ بہ حجتہائے قاطعہ تائید یافتہ است وآں نفس کہ بانواع معارف و حسن باطن آراستہ است.

Page 73

.وتوفیقًا قائدًا إلی الرشد والسداد.وإلہامًا مُغنیا عن غیر رب العباد.ثم ما بقی منک من تحمیدک.کمّلہ صحبک فی تأییدک.وأُنشِد الأشعار فی ثنائک.وما تُرک دقیقۃ فی إطرائک.ثم سبّونی وحقّرونی بعد رفعک وإعلائک.وکانوا لا یُلاقون أحدًا ولا یوافون رجلًا إلا ویذکروننی عندہم استخفافا.و أکلوا لحمی بالغیبۃ فما أکلوا إلا سمًّا زعافا.فلمّا بلغت إہانتہم منتہاہا.وکَلَّمنی کَلِمہم بمُداہا.ووصل الأمر إلی مداہا.ورأیتُ أنہم جاروا کل الجور.وأثاروا کالثور.وترکوا طریق الانصاف.وسلکوا مسلکو توفیق کہ سوئے ہدایت بکشد و الہامے کہ از غیر خدا مستغنی سازد.باز ہر چہ از خود ستائی تو باقی ماندہ بود دوستان تو آنرا بکمال رسانیدند و شعرہا در تعریف تو خواندہ شدند.و در تجاوز از حد در صفت وثنائے تو ہیچ دقیقہ نگذاشتند باز بعد از بلند کردن تو مرا دُشنام دادند و بہ تحقیر یاد کردند و بودند کہ بہر کہ ملاقی مے شدند و ملاقات مے نمودند مرا بہ تحقیر یاد مے کردند باگلہ گوشت من بخوردند پس نخوردند مگر زہر ہلاہل را و ہرگاہ کہ توہین شاں بانتہا رسید و کلمات شاں مرا بکارد ہا خستہ کردند وامر توہین تا بغایت رسید و دیدم کہ ایشاں بدرجہ کمال ظلم کردند.وہمچو گاؤ گرد برانگیختند وطرق انصاف گذاشتند و راہ ظلم اختیار کردند

Page 74

الاعتساف.وکثر الہذر والہذیان.ومُلِئت بکلمات السبّ القلوب والآذان.وتاہت الخیالات وکُذّبت المعارف وصُدّقت الجہلات.أُلقیَ فی روعی أن أُنجّی العامۃ من أغلوطاتہم.وأُطفئَ بقولٍ فیصلٍ ما سعّروا بتُرہاتہم.وأکتب التفسیر وأُرِی الصغیر والکبیر أنہم کانوا کاذبین.وما حملنی علی ذالک إلا قصد إفشاء کذب ہذا المکّار.فإنہ مکر مکرًا کُبَّارًا وأظہر کأنہ من العلماء الکبار.وادّعی أنہ یعلم القرآن.وفاق الأقران.وحان أن یَغلب ویُعان.والغرض منو بیہودہ گوئی شاں بسیار شد و باکلمہ ہائے دُشنام دہی دل ہا و گوش ہا پر شدند و خیالات آوارہ شدند و تکذیب معارف کردند و تصدیق امور باطلہ کردند در دل من انداختند کہ عامہ مردم را از غلط بیانی شاں خلاص دہم و بقول فیصل افروختہ او شانرا منطفی گردانم وتفسیر بنویسم.ومردم را از خورداں و بزرگاں بنمایم کہ ایشاں کاذب اند.ومرا بر تالیف ایں تفسیر بجز قصدانشاء دروغ ایں مکّار ہیچ چیزے آمادہ نکرد چرا کہ او از بس بزرگ مکرے نمود و ظاہر کرد کہ گویا او از علماء کبار است و دعویٰ کرد کہ قرآن می داند و بر ہمگناں سبقت دارد.و قریب است کہ غالب شود و مدد دادہ شود.واز نوشتن

Page 75

تفسیری ہذا تفریق الظلام والضیاء.و إراء ۃ تضوّع المسک بحذاء جیفۃ البیداء.وإظہار خدع الخادع ومواسات الرجال والنساء.و الاشفاق علی العُمی ومُتّبعی الأہواء.وقضاءُ خطبٍ کان کحق واجب ودین لازم لا یسقط بدون الأداء.فہذا ہو الأمر الداعی إلی ہذہ الدعوۃ.مع قلّۃ الفرصۃ.لیکون تفسیر الفرقان فرقانا بین أہل الہدی وأہل الضلالۃ.ولولا التصلّف وتطاول اللسان.وإظہار شجاعۃ الجنان من ہذا الجبان.لمررتُ بلغوہ مرور الکرام.وماایں تفسیر غرض اینست کہ در تاریکی و روشنی فرق کردہ آید و در خوشبوئے مشک و بد بوئے مردار بیابان امتیاز ظاہر کردہ شود.ونیز غرض من اظہار مکر ایں مکار است و ہمدردی مرداں و زناں و شفقت برکوراں و پیروان حرص و ہوا ازاں مقصود است.و نیز ایں ارادہ کردہ شد کہ ایں کارے بزرگ را کہ ہمچو حق واجب و قرض لازم است کہ بجز ادا کردن ساقط نتواند شد ادا کردہ آید پس ہمیں امر برائے ایں دعوت تفسیر نوشتن باوجود کمی فرصت موجب گشت تاکہ تفسیر قرآن فرق کند در اہلِ ہدایت و اہل ضلالت.و اگر لاف زنی و دراز زبانی و اظہار شجاعت باوجود بُزدلی ازیں شخص بظہور نیامدے البتہ من بر لغو ایں کس بعفو مے گذشتمے.و او را

Page 76

جعلتہ غرض السہام.ولکنہ ہتک سترہ بیدیہ.فکان منہ ما ورد علیہ.وإنہ کذب کذبا فاحشا وما خاف.بل خدع وزوّر وأغری علیّ الأجلاف.وزعم نفسہ کأنہ صاحب الخوارق والکرامات.وعالم القرآن وشارب عین العرفان ومالک الدقائق والنکات.فوجب علینا أن نُرِی الناس حقیقۃ ما ادّعاہ.ونُظہر ما أخفاہ.ولولا الامتحان.لصعب التفریق بین الجماد والحیوان.وکنتُ أقدر أن أُرِی ظالعہ کالضلیع وحُمرہ کالأفراس.ولکن ہذا مقام العماسنشانہ تیر ہا نہ مے ساختم.مگر او پردہ خود را خود بدرید و ہر چہ برو آمد ازو آمد.و او دروغ فاحش گفت و نہ ترسید.بلکہ فریب کرد و دروغ را راست نمود و مردم سفلہ را برمن انگیخت.و در بارہ نفس خود گمان کرد کہ گویا او صاحب خوارق و کرامات و دانندہ قرآن و نوشندہ چشمہ معرفت و مالک دقائق و نکتہ ہا ہست.پس واجب شد برما کہ مردم را حقیقت دعویٰ او بنمائیم و ہر چہ پوشیدہ کرد او را ظاہر کنیم.و اگر در دُنیا امتحان نبودے البتہ فرق کردن در جاندار و بیجان مشکل بودے و من قدرت میداشتم کہ اسپ لنگ او را ہمچو اسپے مضبوط و توانا بنمایم و خران او را ہمچو اسپان مضبوط جلوہ دہم

Page 77

لا وقت عفو عثار الناس.والمتکبّر لیس بِحَرِیّ أن یُقال عِثارُہ.وستر عوارہ.وکذالک لا یلیق بہ ان یعرض عن ذالک الخصام.ویستقیل من ہذا المقام.مع دعاوی العلم وکونہ من العلماء الکرام.بل ینبغی أن یُسبر عقلہ.ویُعرف حقلہ.وقد ادّعی أنہ صبّغ نفسہ بألوان البلاغۃ کجلودٍ تُحَلَّی بالدباغۃ.فإن کان ہذا ہو الحق ومن الأمور الصحیحۃ الواقعۃ.فأی خوف علیہ عند ہذہ المقابلۃ.بل ہو محلّ الإبشار والفرحۃ.لا وقت الفزع والرِعْدۃ.فإن کمالاتہ المخفیۃ تظہرعندمگر ایں مقام جنگ سخت است نہ وقت درگزر کردن از لغزشہائے مردمان.و تکبر کنندہ لائق ایں نیست کہ از لغزش او درگزر کردہ شود و عیب او پوشیدہ آید و ہم چنیں او را نیز لائق نیست کہ ازیں پیکار رُوئے خود بگرداند وازیں مقام درخواست درگزر کند.باوجود دعویٰ ہائے علم و از علمائے کرام بودن.بلکہ مے سزد کہ عقل او آزمودہ شود.و زراعت خام او شناختہ آید.و او دعویٰ کردہ است کہ بگوناگوں بلاغت نفس او را رنگین کردہ اند و ہمچو آں چرم ہا کردہ اند کہ بدباغت آراستہ و پیراستہ می کنند.پس اگر ایں دعویٰ ہائے او صحیح و واقعی ہستند.پس کدام خوف در وقت مقابلہ دامن او مے گیرد بلکہ مقابلہ جائے شاد شدن و مقام فرحت است نہ وقت ترس و لرزہ بر بدن افتادن.چراکہ کمالات پوشیدہ او در وقت امتحان

Page 78

ہذا الامتحان والتجربۃ.ویری الناس کلہم ما کان لہ مستورًا من الشأن والرتبۃ.ومن المعلوم أن قیمۃ المرء الکامل یزید عند ظہور کمالہ.کما أن البئر یُحَبّ ویؤثر عند شرب زلالہ.ولا یخفی أن القادر علی تفسیر القرآن.یفرح کل الفرح عند السؤال عن بعض معارف الفرقان.فإنہ یعلم أن وقت اشراق کو!کبہ جاء.وحان أن یُعرَف ویُخزی الأعداء.فلا یحزن ولا یغتمّ إذا دُعِی لمقابلۃ.ونودی لمناضلۃ.بل یزید مسرّۃ ویحسبہا لنفسہ کبشارۃ.أو کتفاؤل لإمارۃ.فإن العالم الفاضل لا یُقَدّرُ حق قدرہ.إلَّاو تجربہ ظاہر خواہند شد.و مردم شان و مرتبہ او را کہ پوشیدہ بود خواہند دید.و ایں امر معلوم خاص و عام است کہ قدر و قیمت انسان کامل در وقت ظہور کمال او زیادہ میگردد و ہم چناں کہ آں چاہے محبوب دلہامے شود کہ آب شیرین او بنوشند.و پوشیدہ نیست کہ ہر کہ قادر برتفسیر قرآن باشد.او بروقت سوال از بعض معارف قرآن خوش و خورم خواہد گردید.چراکہ او ازیں سوال بداند کہ وقت تافتن ستارہ او آمدہ است.و آں وقت رسیدہ است کہ شناختہ شود و رسواکند دشمناں را.پس او چوں برائے مقابلہ خواندہ شود ازیں امر غمگین نمی شود و اندو ہش نمی گیرد بلکہ بشنیدن ایں دعوت مسّرت او زیادہ می گردد وایں مقابلہ را در حق نفس خود بشارتے می پندارد.یا او برائے بزرگی خود فالے نیکو می انگارد چراکہ عالمے و فاضلے

Page 79

بعد رؤیۃ أنوار بدرہ.ولا یخضع لہ الأعناق بالکلیۃ.إلَّا بعد ظہور جواہرہ المخفیۃ.وإنّا اخترنا الفاتحۃ لہذا الامتحان.فإنہا أمّ الکتاب ومفتاح الفرقان ومنبع اللؤلؤ والمرجان.وکو.کنۃ لطیر العرفان.ولیکتب کلٌّ منّا تفسیرہا بعبارۃ تکون من البلاغۃ فی أقصاہا.و تُنیر القلب وتُضاہی الشمس فی بعض معناہا.لیری الناس من اقتعد منّا غارب الفصاحۃ.و امتطٰی مطایا الملاحۃ.ولِیُعرفَ أریبٌ حداہ العقلُ إلی ہذا الأرب.ویعلم أدیبٌ ساقہ الفہم إلی ریاض العرب.ولیُضمر کلّ منّا لہذا المراد.کل مارا قدر نہ می کنند مگر بعد از دیدن بدر او.و گردنہا برائے او خم نہ می شوند.مگر بعد ظاہر شدن جوہر ہائے پوشیدہ او.و ما برائے ایں امتحان سورۃ فاتحہ را برگزیدیم.چراکہ او ام الکتاب است و جائے بر آمدن درہا و مرجانہا.و ہمچو آشیانہ است برائے پرندہ ہائے معرفت و باید کہ ہر یک از ما تفسیر ایں سورۃ بعبارتے نویسد کہ بغایت درجہ بلاغت رسیدہ باشد و چناں تفسیرے بود کہ دل را روشن کند و آفتاب را در بعض خوبیہائے او مشابہ باشد تاکہ مردم بہ بینند کہ کدام کس از ما ہر دو فریق بر کوہان فصاحت سوار شدہ است و سواری ملاحت را زیر ران کردہ و تاکہ آں دانشمند شناختہ شود کہ عقل او را سوئے ایں حاجت راندہ است و آں ادیب دانستہ شود کہ فہم او را سوئے ایں باغ عرب کشیدہ شدہ است.و باید کہ لاغر کند ہر یکے ازیں دو فریق برائے

Page 80

عندہ من الجیاد.ویفری کل طریق من الوہاد والنجاد.بزاد الیراع والمداد.لیشاہد الناس مَنْ تُدارکہ العنایۃ الإلٰہیۃ.وأخذ بیدہ الید الصمدیۃ.ومن کان یزعم نفسہ أنہ ہو العالم الربّانی.فلیس علیہ بعزیز أن یکتب تفسیر السبع المثانی.مع رعایۃ مُلح الأدب وشوارد المعانی.ثم إنی أرخیتُ لہ الزمام کل الإرخاء.ووسّعتُ لہ الکلامَ لتسہیل الإنشاء.وکتبتُ من قبلُ فی صحیفۃٍ أشعتُہا.ونمیقۃٍ إلیہ دفعتہا.أن ذالک الرجل الغُمْرَ إن لم یستطع أن یتولّی بنفسہ ہذا الأمر.فلہ أنایں مراد ہمہ آں اسپان تازی را کہ نزد خود میدارند و قطع کند ہر پستی وبلندی را بسفر خرچ قلم و سیاہی تاکہ مردم بہ بیند کہ آں کیست کرا عنایت الہٰی تدارک فرمودہ است و دستِ او گرفتہ.و ہر کہ گمان مے کند کہ او عالم ربانی است پس برو ہیچ مشکلے نیست کہ تفسیر سورہ فاتحہ برعایت ادب و بلاغت بنویسد.و علاوہ ازیں ایں ہم باید اندیشید کہ من زمام را برائے ایں شخص از بس نرم و سُست کردہ ام و کلام را برو کشادہ نمودم تا بآسانی تواند نوشت.و در آں اشتہارے کہ پیش ازیں شائع کردہ ام و دراں نامہ کہ من سوئے او فرستادہ ام درج کردہ ام کہ اگر ایں شخص نادان بنفس خود طاقت تفسیر نوشتن ندارد پس او را اختیار است کہ

Page 81

یُشرک بہ من العلماء الزمر.أو یدعو من العرب طائفۃ الأدباء.أو یطلب من صلحاء قومہ ہمّۃً و دعاءً لہذہ اللأواء.وما قلتُ ہذا القول إلَّا لیعلم الناس أنہم کلہم جاہلون.ولا یستطیع أحدٌ منہم أن یکتب کمثل ہذا ولا یقدرون.ولیس من الصواب أن یُقال أن ہذا الرجل المدعو کان عالمًا فی سابق الزمان.وأمّا فی ہذا الوقت فقد انعدم علمہ کثلج ینعدم بالذوبان.ونسج علیہ عناکب النسیان.فإن العلم الذی ادّعاہ.وحفظہ ووعاہ.وقرأہ وتلاہ.لا بدّ أن یکون لہ ہذا العلم کَدَرٍّ ربّاہ.از گروہ خود چند مولویاں را شریک خود کند یا برائے ایں کار گروہ ے از ادیبان عرب بخواند یا از زاہدان قوم خود دعائے و ہمتے برائے ایں سختی پیش آمدہ بجوید و من ایں سخن نگفتہ ام مگر برائے ایں کہ تا مردم بدانند کہ ایں ہمہ جاہلاں ہستند و ہیچکس ازیشاں قدرت ندارد کہ مانند ایں تفسیر بنویسد.وایں عذر خوب نباشد کہ گفتہ شود کہ ایں شخص کہ برائے تفسیر نوشتن خواندہ شدہ در زمان نخستین عالمے بود و امادریں وقت پس علم او معدوم شدہ است ہمچو برفے کہ بگداختن ناپیدا می گردد و بر دماغ او تارہائے نسیان تنیدہ شدہ چراکہ آں علمے کہ دعویٰ آں ایں شخص مے کند و میگوید کہ من ایں ہمہ علوم را خوب یاد میدارم و خواندہ ام

Page 82

أو کسراج أضاء بیتہ وجَلَّاہ.فکیف یزول ہذا العلم بہذہ السرعۃ.ویخلو کظرف مُنثلمٍ وعاء الحافظۃ.وتنزل آفۃ مُنْسیۃ علی المدارک والجنان.حتّی لا یبقی حرف علی لوحہا إلی ہذا القدر القلیل من الزمان.وکیف تہبّ صراصر الذہول.علی علوم کُسبت بشق النفس والقحول.ولو فرضنا أنّ آفۃ النسیان أجاح شجرۃ علمہ من البنیان.وسقطت علی زہر درایتہ صواعق الحرمان.فکیف نفرض أن ہذا البلاء.ورد علی ألوف من العلماء الذین جُعلوا لہ کالشرکاء.وأُشرِکوا فی وزرہ کالوزراء.بل أُذن لہضرور است کہ ایں علم برائے او ہمچو شیرے باشد کہ پرورش او نمودہ یا ہمچو چراغے باشدکہ خانہ او را روشن کردہ پس چگونہ چنیں علم بدیں زودی فراموش تواند گشت و چگونہ ظرف حافظہ او ہمچو آوند سُوراخ داربگردد و چناں آفت بر حواس و دل نازل شود کہ ہمہ یاد کردہ را فراموش کند تا بحدے کہ باندک زمانہ حرفے بر لوح حواس باقی نماند وچگونہ تُند ہَوائے نسیان براں علمہا بوزد کہ بمشقت حاصل کردہ شدہ.و اگر فرض کنیم کہ آفت نسیان درخت علم او را از بیخ بر کندہ است و بر شگوفہ ہائے درایت او صاعقہ محرومی افتاد.پس چگونہ فرض توانیم کرد کہ ایں بلا براں ہزار ہا علماء نیز وارد شدہ کہ شریک او کردہ شدند و انباز بار او ہمچو وزیراں کردہ شدند بلکہ

Page 83

أن یطلب کل ما استیسر لہ من الأدباء.لعلّہ یکتب قولًا بلیغا ولا یتیہ کالناقۃ العشواء.ثم من المُسَلّم أن اللّٰہ یُربّی عقول الصالحین.ویُسعدہم بالہدایۃ إلی طرق الروحانیین.ویُذکّرہم إذا ما ذہلوا معارف کلام اللّٰہ القدّوس.ویُنزل السکینۃ عند الزلزال علی النفوس.ویؤیّدہم بروحٍ منہ.ویُعضد بالإعانۃ علی الإبانۃ.ویتولی أمورہم ویُمیّزہم بالحصات والرزانۃ.ویصرفھم من السفاھۃ.ویَعصمہم من الغوایۃ ویحفظہم فی الروایۃ والدرایۃ.فلا یقفون موقف مندمۃٍ.او را اجازت دادہ شد کہ ہر کرا از ادیباں بخواہد برائے مدد خود بخواند شاید بدیں طور سخن فصیح تواند نوشت و ہمچو ناقہ کور سرگردان نشود.باز این امر ہم از مسلمات است کہ خدا تعالیٰ عقل نیکوکاراں را خود پرورش می فرماید و مدد ایشاں می کند تا راہ رُوحانیاں بیابند و ایشاں را یاد می دہاند چوں معارف کلام الہٰی را فراموش کنند و بر ایشاں وقت زلزلہ سکینت نازل می فرماید و از روح القدس تائید ایشاں می کند و بازوئے ایشاں برائے بیان کردن استوار می سازد و متولی امور ایشاں می گردد و بعقل و آہستگی در ایشاں وغیر ایشاں فرق ظاہر مے فرماید و ایشاں را از سفاہت باز می دارد و از گمراہی نگہ می دارد و در روایت و درایت خود حافظہ ایشاں می گردد و پس درجاہائے ندامت

Page 84

ولا یرون یوم تندّم ومنقصۃ.ولا تغرب أنوارہم.ولا تخرب دارہم.منابعہم لا تغور.وصنائعہم لا تبور.ویُؤَیّدُون فی کل موطن ویُنصرون.ویُرزَقون من کل معرفۃ ومن کل جہل یُبعدون.ولا یموتون حتی تُکَمّل نفوسہم فإذا کُمّلت فإلی ربہم یُرجعون.فإن اللّٰہ نورٌ فیمیل إلی النور.وعادتہ البَدور إلی البدور.ولمّا کانت ہذہ عادۃ اللّٰہ بأولیاۂ.وسُنّتہ بعبادہ المنقطعین وأصفیاۂ.لزم أن لا یری عبدہ المقبول وجہ ذلّۃ.ولا یُنسب إلی ضعفٍ وعلّۃ عند مقابلۃٍ من أہل ملّۃ.ویفوق الکل عند تفسیرنمی ایستند و روز خجالت و نقصان نمی بینند و نورہائے ایشاں ناپدید نمی شوند و خانہ شاں خراب نمی گردد چشمۂ ایشاں خشک نمی شود و کار ہائے شاں تباہ نمی گردند و ایشاں در ہر جائگاہ و مقام حرب منصور و مؤیّد می شوند و از معارف رزق دادہ می شوند و از جہل او شانرا دُور میدارند و نمی میرند تا وقتیکہ نفوس شاں مکمل نکردہ شوند و بعد از تکمیل نفوس خود سوئے رب خود باز می گردند.چرا کہ خدا نور است پس سوئے نور میلان او می گردد و عادت اوست کہ سوئے آناں می شتابد کہ در چشم او ماہِ تمام اند.و چوں عادت او بااولیاء خود و سنت او بہ بندگان فناشدہ و برگزیدگان ہمیں است لازم آمد کہ بندہ مقبول او روئے ذلت نہ بیند و ہیچ کمزوری و بیماری در وقت مقابلہ از احدے اہلِ مذہب سوئے او منسوب کردہ نشود و در تفسیر

Page 85

القرآن.بأنواع علم ومعرفۃ.وقد قیل أن الولیّ یخرج من القرآن والقرآن یخرج من الولی.وإنّ خفایا القرآن لا یظہر إلَّا علی الذی ظہر من یَدَیِ العلیم العلیّ.فإن کان رجلٌ ملک وحدہ ہذا الفہم الممتاز.فمثلہ کمثل رجل أخرج الرُکاز.وما بذل الجہد وما رأی الارتماز.فہو ولیّ اللّٰہ وشأنہ أعظم وذیلہ أرفع من ہمز الہمّاز.ولمز اللمّاز.وما أُعطی ہذا الولیّ الفانی من معارف القرآن کالجَہَاز.فہو معجزۃ بل ہو أکبر من کل نوع الإعجاز.وأیّ معجزۃ أعظم من اعجازٍ قد وقع ظل القرآن.وشابہ کلامقرآن و گوناگوں علم و معرفت فائق ثابت گردد و بہ تحقیق گفتہ شدہ کہ ولی از قرآن بیروں می آید و قرآن از ولی ظہور می فرماید و بہ تحقیق باریکیہائے پوشیدہ قرآن ظاہر نمی شوند مگر برکسے کہ از دست خدائے علیم و برتر ظہور یافتہ باشد پس اگر مردے مالک ایں فہم گردد تن تنہا پس مثل او مثل کسے است کہ خزانہ بے نشان بر آرد و آنجا کہ امید ندارد بغیر اینکہ کوششے کردہ باشد یا اضطرابے کشیدہ پس او ولی خداست و شان او بزرگ تر و دامن او برتر از عیب گرفتن عیب گیر است و ہر چہ ایں ولی فانی را از معارف قرآن ہمچو رخت مُردہ دادہ شد پس آں معجزہ است بلکہ از ہر قسم معجزہ بزرگتر است و کدام معجزہ ازاں معجزہ بزرگ تر خواہد بود کہ قرآن را ہمچو ظل واقع شدہ و

Page 86

اللّٰہ فی کونہ أبعد من طاقۃ الإنسان.ولیس ہذا الموطن إلَّا للمتّقین.ولا تُفتح ہذہ الأبواب إلَّا علی الصّالحین.ولا یمسّہ إلَّا الذی کان من المُطَہّرین.وإن اللّٰہ لا یہدی کید الخائنین.الذین یجعلون المکائد منتجعًا.والأکاذیب کہفًا ومرجعًا.ولہم قلوبٌ کلَیْلٍ أردف أذنابہ.وظلام مدّ إلی مدی الأبصار أطنابہ.لا یعلمون ما القرآن.وما العلم و العرفان.ومن لم یعلم القرآن وما أوتی البیان.فہو شیطان أو یُضاہی الشیطان.وما عرف الرحمان.وما کان لفاسق أن یبلغ ہذہ المنیۃ العلیّۃ.ولوکلام الٰہی را در خارق عادت بودن مماثل گشتہ.و ایں مقام بجز پرہیزگاراں کسے را مسلّم نیست.و ایں درہا بجز امینے برکسے نے کشانید.و دست کسے بجز پاک آنجا نمے رسد.و خدا تعالیٰ کامیاب نمی کند خیانت پیشگاں را آنانکہ مکر ہا را معاش خود گرفتہ اند و دروغہا را پناہے ساختہ اند کہ بوقتِ ضرورت سوئے شاں رجوع مے کنند.و دلہائے ایشاں ہمچو آں شب اند کہ دمہائے تاریکی خود رابتمامتر کشیدنی کشیدہ اند وطنابہائے ظلمت خود را تا انتہائے نظر گستردہ اند.نمی دانند کہ قرآن چیست و علم و معرفت چہ باشد.و ہر کہ قرآن نداند و بیان ندادہ شدہ.پس او شیطان است یا مثیل شیطان و خدا را نشناختہ و مجال فاسقے نیست کہ ایں آرزوئے بلند را بیاید اگرچہ نفس

Page 87

شحذ إلیہا النفس الدنیّۃ.بل ہو یختار طریق الفرار.خوفًا من ہتک الأستار.وظہور العثار.وکذالک فَعَلَ ہذا الرجل الکائد.والْمُزَوّرُ الصائد.فانظرواکیف زوّر.وأری التہوّر.وقال لبّیْتُ الدعوۃ وما لبّٰی.وقال عبّیتُ العسکر للخصام وما عبّٰی.وما بارز بل خدع وخبّ.وإلی حُجرہِ أبّ.وتراء ی نَحیفا ضعیفا وکان یُری نفسہ رجلًا ببّا.وأخلد إلی الأرض وشابہ الضبّ.وما صعد وما وثبّ.وجمع الأوباش وما دعا الربّ.وحقّرنی وشتم وسبّ.وتبع الحیَل وما صافی اللّٰہ وما أحبّ.وما قطع لہ العُلَق وماخسیس خود را سوئے آں تیز کند.بلکہ فاسق را عادت ایں باشد کہ طریق گریختن را اختیار می کند تا پردہ او دریدہ نشود و لغزش او ظاہر نگردد.و ہم چنیں ایں شخص مکار و دروغ آرایندۂ جویائے شکارطریق و عادت خود نمودہ.پس بہ بینید کہ چگونہ دروغ آراست و دلیری و بیباکی نمود و گفت کہ من دعوت تفسیر نوشتن قبول کردم حالانکہ قبول نکرد.و گفت من لشکر برائے پیکار طیار کردہ ام حالانکہ طیار نہ کرد و در میدان نیامد بلکہ فریب کرد و مکر نمود و بسوئے سوراخ خود رجوع نمود و ظاہر شد کہ لاغرے است و نزار و بود کہ مے نمود خود را مردے قوی ہیکل و میل کرد سوئے زمین و مشابہ شد سُوسمار را و صعود نہ کرد و نہ استقامت ورزید و اوباش را جمع کرد و خدا را یاد نہ کرد و مرا دُشنام داد و تحقیر من نمود و حیلہ گریہا کرد و باخدا محبت صافی نداشت و برائے او قطع تعلق غیر

Page 88

جبّ.وقال إنی عالم والآن نجم علمہ أزبّ.وکلّ ما دبّر تبّ.وإن کان عالمًا فأی حرج علی عالم أن یُفسّر سورۃ من سور القرآن.ویکتب تفسیرہ فی لسان الفرقان.بل یُحمد لہذا ویُثنی علیہ بصدق الجنان.ویُعلَم أنہ من رجال الفضل والعلم والبیان.ویُشکر بما ینفع الناس من معارفٍ عُلّم من الرحمان.فلذالک أقول أنہ من کان یدّعی ذُرَی المکان المنیع.فلیبذل الآن جہد المستطیع.ویُثبّت نفسہ کالضلیع.ولا شکّ أن إظہار الکمال من سیرۃ الرجال وعادۃ الأبطال.لینتفع بہ الناس ولیُخرَجَ بہ مسکینٌ من سجن الضلال.نہ نمود.و گفتہ بود کہ من عالم ام مگر اکنوں ستارہ علم او غروب شد و ہر چہ تدبیر کردہ بود آں ہمہ تدبیر تباہ گشت.واگر عالم بودے پس کدام حرج بر عالم بود کہ تفسیر قرآن نویسد.بلکہ بدیں طریق ثنا کردہ شدے و مردم دانستندے کہ او صاحب عقل و علم و بلاغت است و شکر او کردہ شدے چراکہ مردم را از معارف خود نفع رسانیدے پس ازبہر ہمیں می گویم کہ ہر کہ مکان بلند را دعویدار است اکنوں می باید کہ تا تواند کوشش کند.و نفس خود را ہمچو اسپے مضبوط و تیز رو بنماید.و ہیچ شک نیست کہ ظاہر کردن کمال از عادت مردان و سیرت بہادران است تا کہ مردم بدو منتفع شوند و تاکہ بدو مسکینے از زندان گمراہی بیروں آید.

Page 89

ولا یرضی الکامل بأن یعیش کمجہول لا یُعرف.ونکرۃ لا تُعَرّف.وإن الفضل لا تتبیّن إلَّا بالبیان.ولایُعرف الشمس إلَّا بالطلوع علی البلدان.وإنی ألزمتُ نفسی أن أکتب تفسیری ہذا فی إثبات ما أُرسِلتُ بہ من الحضرۃ.وأن أفتح ہذہ الأبواب بمفاتیح الفاتحۃ.مع لطائف البیان ورعایۃ الملح الأدبیۃ.والتزام الفصاحۃ العربیۃ.ومن المعلوم أن نمق الدقائق الدینیۃ.والرموز العلمیّۃ.والإیماضات والإشارات.مع توشیح العبارات وترصیع الاستعارات.والتزام محاسن الکنایات.وحسن البیان ولطائف و مرد کامل خوش نمے شود کہ ہمچو شخصے ناشناختہ زندگی بسر کند یا ہمچو نکرہ غیر متعین بماند و بتحقیق فضل بجز بیان کردن ظاہر نمی گردد و آفتاب بجز طلوع شناخت نمی شود.و من بر نفس خود لازم کردہ ام کہ ایں تفسیر خود را در اثبات دعاوی خود بنویسم وایں درہا را بکلید ہائے سورہ فاتحہ بکشایم.و رعایت فصاحت و بلاغت مرعی دارم و ایں امر معلوم است کہ نوشتن دقائق دینیہ مع آراستن عبارت ہا و لازم گرفتن محاسن کنایہ ہا مع حُسن بیان امرے است از بس

Page 90

الإیماء ات.أمرٌ قد عُدّ من المعضلات.وخطبٌ حُسبَ من المشکلات.وما جمع ہذین الضدّین إلَّا کتاب اللّٰہ مظہر الآیات البینات.وماحی الأباطیل والجہلات.وإنّ الشعراء لا یملکون أعنّۃ ہذہ الجیاد.فتنتشر کلماتہم انتشار الجراد.ولکنی سألتُ اللّٰہ فأعطانی.وجئتہ عطشان فأروانی.فنحن الموفّقون.ونحن المؤیّدون.تُؤاتینا الأقلام.کأنہا السہام والحسام.ولنا من ربّنا کلام تام وظلّ ظلیل.فکلّ رداء نرتدیہ جمیل.ولنا جبلّۃٌ لا تبلغہا الجبال.و قوّۃٌ لا تُعجزہا الأثقال.وحالٌ لا تُغَیّرہا الأحوال.و دشوار و کارے است بزرگ کہ از مشکلات شمردہ شدہ و ایں ہر دو امر را بجز کتاب الہٰی ہیچ کس جمع نکردہ است.و شاعران مالک نمے باشند عنانہائے ایں اسپان را پس کلمہ ہائے ایشاں ہمچو ملخ پراگندہ مے باشند مگر من سوال کردم از خدا تعالیٰ پس داد مرا و آمدم نزد او تشنہ پس مرا سیراب کرد پس ما توفیق و تائید یافتہ ہستیم.قلم ہا بما موافقت می نمایند گویا آں تیرہا ہستند یا تیغ و مارا از خدائے خود کلام کامل و سایۂ کامل است پس ہر چادرے کہ ما بپوشیم آں چادر خوب است و مارا طبیعتے است کہ کوہ ہا بآں نمی رسند و مارا قوتے است کہ بارہا

Page 91

ربٌّ لا تُرَدّ من حضرتہ الآمال.فحاصل الکلام أنی من اللّٰہ وکلامی من ہذا العلَّام.وإنی کتبتُ دعوای ودلائلہا فی ہذا الکتاب.لِاسعف الخصم بحاجتہ وأُنجّیہ من الاضطراب.فإن الخصم کان یدعونی إلی المباحثات.بعد ما دعوتہ لنمق التفسیر فی حلل البلاغۃ ومحاسن الاستعارات.فلمّا لویتُ عذاری وتصدّیت لاعتذاری من المناظرات.حمل إنکاری علی فراری من ہذہ الغزاۃ.وما کان ہذا إلَّا کیدًا منہ وحیلۃً للنجاۃ.لیستعصم من اللا ئمین واللا ئمات.وکان یعلم أن إعراضی کان لعہدٍ سبق.وما کنتُ کعبدٍ او را عاجز نمی کنند و حالے است کہ تغیر حالات آں حال را متغیر نمی کنند و خدائے است کہ از جناب او امیدہا رو نمی شوند.پس حاصل کلام ایں است کہ من از خدایم و کلام من از دست کہ من دعویٰ خود و دلائل دعویٰ دریں کتاب نوشتہ ام تا حاجت روائی دشمن خود کنم چراکہ دشمن مرا سُوئے مباحثات مے خواند بعد زانکہ من او را برائے نوشتن تفسیر فصیح خواندہ بودم پس ہرگاہ اعراض کردم و عذرِ خود پیش کردم در بارہ عدم حاضری برائے مباحثہ حمل کرد انکار مرا بر گریختن از جنگ و ایں سراسر فریب او بود تا برائے نجات خود حیلہ پیدا کند تا از ملامت کنندگان خود را محفوظ دارد و مے دانست کہ اعراض من برائے آں عہد بود کہ پیش زیں کردہ شد

Page 92

أبق.ولکنہ طلب الفرار بہذہ المعاذیر الکاذبۃ.لعل الناس یفہمونہ بطل المضمار ومُتمّ الحجۃ.فأردنا الآن أن نُعطیہ ماسأل ولا نردّہ بالحرمان.ونُجَلّی مطلع صدقنا بنور البرہان.ونقطع معاذیرہ کلہا بسیف البیان.لعلّ اللّٰہ یجلو بہ صداء الأذہان.ویُفَہّم ما لم یفہموہ قبل ہذا المیدان.فہذا ہو السبب الموجب لنمق الدعوی والدلائل.لئلا یبقی عذر للسائل.وإن ہذا التفسیر جمع المباحثات.مع اللطائف والنِکات.فالیوم أدرک الخصم کل ما طلب منّا فی حُلل المناظرات.مع أنہ ترک طرق الدیانات.وتصدی للأمر بأنواع الاہتضام والخیانات.وبقی دَیْنُنا فعلیہ أن یقضی و ہمچو آں بندہ نبودم کہ گریختہ مگر او طلب کرد گریختن را بدیں عذر ہائے دروغ تاکہ مردم او را بہادر میدان بفہمند.پس ارادہ کردیم کہ ہرچہ خواستہ است او را دہیم و بمحرومی او را رد نہ کنیم و مطلع صدق خود را بنور برہان روشن کنیم تا شاید خدا تعالیٰ بایں طریق ما زنگ ذہن ہا دور فرماید و ہر چہ نہ فہمیدہ اند بفہم ایشاں در آرد پس ایں سبب موجب است برائے نوشتن دعویٰ و دلائل تاکہ باقی نماند عذر مر سائل را و ایں تفسیر جمع کردہ است مباحثات را بالطائف و نکات.پس امروز دشمن ہر چہ از ما در پیرایۂ مناظرات خواست یافت باوجود ایں امر کہ او طریق دیانت را ترک کرد و بانواع حق تلفی و خیانت ہا پیش آمد و باقی ماند قرض ما برو پس باید کہ ادا کند قرض

Page 93

الدَّیْن کَرَدّ الأمانات.وإنی عاہدتُ اللّٰہ أن لن أحضر مواطن المباحثات.وأشعتُ ہذا العہد فی التألیفات.فما کان لی أن أنکُث العہود.وأعصی الربّ الودود.فلأجل ذالک أغلقتُ ہذا الباب.وما حضرت الخصم للبحث ولو عیّبنی واغتاب.وإنی کلّمتہ کالخلیط فکَلِمنی بالتخلیط.وقد دعوتُہ من قبل ففرّمن شوکتی.ثم دعوتُ فہابَہُ ہیبتی.وہذہ ثالثۃلیتم علیہ حجّۃ اللّٰہ وحُجّتی.إنہ مال إلی الزمر وملناإلی الذمار.وإن المعارف منّا کبعوث جُمّروا علیالثغور من قِبَلِ ملک الدیار.ثم اعلموا را ہمچو رد کردن امانت ہا و من بخدائے خود عہد می دارم کہ در مقامات مباحثات ہرگز حاضر نشوم وایں عہد را بذریعہ کتابہائے خود شائع کردہ ام پس مرا جائز نبود کہ عہد ہا را بشکنم و خدائے خودرا نافرمان شوم پس برائے ہمین ایں در را بند کردم و برائے بحث حاضر نشدم اگرچہ مرا بعیب منسوب کرد و گلہ کرد و من او را ہمچو دوست مخاطب کردم پس خستہ کرد مرا بعداوت و من او را پیش زیں دعوت کردم پس از رعب من بگریخت.باز دعوت کردم پس ہیبت برو زیادہ شد و ایں بمرتبہ سوم است تا حجۃ اللہ برو کامل شود.او سُوئے سرود مائل گشت و ما سوئے فرائض منصبی.ومعارف از طرف ما ہمچو آں لشکرے است کہ بر سرحد ہا از سلطان وقت مامور شود

Page 94

أن رسالتی ہذہ آیۃ من آیات اللّٰہ رب العالمین.وتبصرۃ لقوم طالبین.وإنّہا من ربّی حجۃ قاطعۃ وبرہان مبین.کذالک.لیذیق الأفّاکین قلیلا من جزاء ذنوبہم.ویُرِی الناس ما ترشّح من ذَنوبہم.ویُجنّبہم بمعجزۃ قاہرۃ.ویزیل اضطجاع الأمن من جنوبہم.ویستأصل راحۃ کاذبۃ من قلوبہم.والحق والحق أقول.إن ہذا کلام کأنہ حسام.وإنہ قطع کل نزاع وما بقی بعدہ خصام.ومن کان یظنّ أنہ فصیح وعندہ کلام کأنہ بدر تام.فلیأت بمثلہ والصمتُ علیہ حرام.وإن اجتمع آباء ہم وأبناء ہم.باز بدانید کہ ایں رسالہ من نشانے است از نشانہائے خدا تعالیٰ و بصیرت افزایندہ است طالبان را.وایں از طرف پروردگار من حجتے قاطعہ و برہانے روشن است تا کہ او دروغگویاں را قدرے پاداش دروغ شاں بچشاند.و مردم را بنماید کہ از دلو شاں چہ چکیدہ است و بمعجزہ قاہرہ پہلوئے شاں بشکند و خواب امن از پہلوئے شاں برباید.و راحت دروغ از دل شاں مستاصل فرماید.ومن راست راست می گویم کہ ایں کلام ہمچو تیغے است و ایں ہمہ نزاع ہا را بریدہ است و بعد زیں ہیچ نزاعے نماند.و ہر کہ گمان مے کند کہ او فصیح است و نزد او کلامے است کہ گویا ماہ تمام است پس باید کہ بیارد آں کلام را و خاموشی بر او حرام است و اگر جمع شوند

Page 95

وأکفاء ہم وعلماء ہم.وحکماء ہم وفقہاء ہم.علی أن یأتوا بمثل ہذا التفسیر.فی ہذا المُدی القلیل الحقیر.لا یأتون بمثلہ ولوکان بعضہم لبعضٍ کالظہیر.فإنی دعوتُ لذالک وإن دُعائی مُستجاب.فلن تقدر علٰی جوابہ کتّاب.لا شیوخ ولا شاب.وإنہ کنز المعارف ومدینتہا.وماء الحقائق وطینتہا.وقد جاء ألطف صُنعًا.وأرق نسجًا.وأکثر حکمًا.وأشرف لفظًا.وأقلّ کلمًا.وأوفر معنًی.وأجلی بیانًا.وأسنٰی شأنًا.وما کتبتُہ من حولی.وإنی ضعیف وکمثلی قولی.بل اللّٰہ وألطافہ اغلاق خزائنہ.ومن پدران ایشاں و پسرانِ ایشاں و ہمسرانِ ایشاں و عالمانِ ایشاں و حکیمانِ ایشاں وفقیہانِ ایشاں بر ایں امر کہ مثل ایں تفسیر بیارند دریں مدّتے اندک و ناچیز نتوانند کہ بیارند اگرچہ بعض بعض را مددگار شوند.چرا کہ من دریں بارہ دُعا کردہ ام و دعائے من مستجاب است.پس بجواب ایں کتاب ہرگز قادر نخواہند شد پیرے ازیشاں باشد یا جوانے و ایں خزانہ معارف است و شہر آنہا و آب حقیقتہا است و تراب آنہا و بطرز لطیف و ببافت باریک انجام پذیرفتہ است و دریں کتاب حکمتہا بسیار اند و الفاظ درکمال مرتبہ شرف و بزرگی افتادہ و کلمہ ہا کمتر اند و معنی بسیار و بیان شیریں و شان بلند ومن ایں کتاب را از طاقت خود ننوشتم چرا کہ من ضعیف امر و قول من نیز ضعیف بلکہ خدا تعالیٰ و مہربانیہائے او کلیدہائے خزائن ایں کتاب

Page 96

عندہ أسرار دفائنہ.جمعت فیہ أنواع المعارف ورتّبت.وصفّفت شوارد النکات وألجمت.من عرفہ عرف القرآن.ومن حسبہ کذبًا فقد مان.فیہ باکورۃ العرفان.ودقائق الفاتحۃ والفرقان.وفیہ بلاد الأسرار وحصونہا.وسہل الحقائق وحزونہا.وعیون البصیرۃ وعیونہا.وخیل البراہین ومتونہا.وذالک من برکات أمّ الکتاب.وما اطّلعتُ علیہا إلَّا بعد تفہیم ربّی التوّاب.فإنہا سورۃ لا تطوی عرصتہا بانضاء المراکب.ولا یبلغ نورَہا نورُ الکواکب.ولمّا کان الظالمون نسبونی إلی الہزیمۃ.أعوزنی فریتہم ہذہ اند و از طرف او دفینہائے اسرار ایں کتاب است.و دریں کتاب گوناگوں معارف جمع کردم و آنہا را ترتیب دادم و اسپان نکتہ ہا را صف بصف ایستادہ کردہ ام و لگام دادم.ہر کہ ایں کتاب را شناخت قرآن را شناخت.و ہر کہ دروغ پنداشت ایں را او خود دروغ گفت.دریں میوہ ہائے نورسیدہ از معرفت اند.و دقائق سورہ فاتحہ و فرقان دریں موجود اند.ودریں شہر ہائے رازہا و قلعہ ہائے اسرار است وزمینے نرم از حقائق وزمینے سخت از دقائق است وچشمہ ہائے بصیرت دریں موجود اند و نیز چشم ہائے آں وایں از برکت ہائے امّ الکتاب است بہ تفہیم خدائے ما کہ توّاب است چرا کہ آں سورتے است کہ بلاغر کردن سواریہا میدان آں نتواں پیمود.و نور ستارہ ہا بنور او نہ تواند رسید و ہرگاہ کہ ظالمان مرا سوئے شکست نسبت دادند ایں کذبِ صریح ایشاں مرا سوئے

Page 97

إلی تفسیر سورۃ الفاتحۃ.لأُخلّص نفسی من النواجذ والأنیاب.فإن صول الکلاب أہون من صول المفتری الکذّاب.وہذا من فضل اللّٰہ ورحمتہ لیکون آیۃ للمؤمنین.وحسرۃ علی المنکرین.وحجّۃ علی کل خصم إلی یوم الدین.وہدًی للمتقین.ولیعلم الناس أن الفوز بصدق المقال.لا بالتصلّف کالجہال.والفتح بطہارۃ البال.لا بِعَذِرَۃِ الأقوال.التی ہی کالأبوال.وصلاح الحال بسلاح العلم والکمال.لا بالاحتیال والاختیال.فویلٌ للذین قصدوا الفتح بالمکائد.ورصدوا مواضعہا کالصائد.ایں تفسیر محتاج کرد تا کہ خلاص دہم نفس خود را از دندان اوشاں چرا کہ حملہ سگان نرم تر است از حملہ مفتریان و کاذبان و ایں از فضل خدا و رحمت اوست تا کہ برائے مومناں نشانے شود و برمنکران حسرت گردد.و حجت گردد بر ہر پیکار کنندہ تا روزِ قیامت و ہدایت شود برائے پرہیزگاراں و تاکہ مردم بدانند کہ کامیابی براست گفتاری است نہ بہ لاف زنی و فتح بہ پاکی دل است نہ بہ پلیدی سخنانے کہ ہمچو بولہا ہستند.و درستی حال باسلحہ علم و کمال ہست نہ بہ حیلہ گری و ناز و تکبر.پس واویلا براں مردم است کہ بامکر ہا فتح را می خواہند و ہمچو جویائے شکار در کمین می نشینند

Page 98

وإن ہو إلَّا من أحکم الحاکمین.وینصر من یشاء ویُکفّل الصالحین.فیندمل جریحہم.ویستریح طلیحہم.ولا ترکد ریحہم.ولا تَخْمُدُ مصابیحہم.ومنصورہ یُملأ من علم الفرقان ولسان العرب.کما یُملأ الدلو إلی عقد الکرب.وإنہ أنا ولا فخر.وإن دعائی یذیب الصخر.وإنّ یومی ہذا یوم الفتح ویوم الضیاء بعد اللیلۃ اللیلاء.الیوم خرس الذین کانوا یہذرون.وغُلّت أیدیہم إلٰی یوم یبعثون.وکنتُ أطوف حول ہذہ الأوراق.کسائل یطوف فی السکک والأسواق.فأرانی اللّٰہ تا بر موقع مکر و فریبہا کنند وفتح میسر نمی شود مگر بحکم احکم الحاکمین.او مدد می کند ہر کرامے خواہد و متکفل نیکاں می شود.پس ہر کہ ازیشاں خستگی دارد زخم او بفضل الہٰی مندمل می گردد.وشتر درماندہ شاں آرام می یابد و ہوائے شاں نمی ایستد و چراغ شاں مُنْطفی نمی گردد.و نصرت دادۂ خدا پرکردہ می شود از علم فرقان و زبان عرب ہم چناں کہ پر کردہ می شود دلو از آب تا برسنے کہ می بندند درمیان ہر دو گوشہ دلو.وآں منصور منم وہیچ فخر نیست و دعائے من بگدازد سنگ را و ایں روز من روز فتح و بلندی است و روز نور بعد شبہائے تاریک.امروز بے زبان شدند آنانکہ بیہودہ گوئیہا می کردند.و دستہائے شاں تا بقیامت بستہ شد و بودم کہ مے گشتم گرد ایں اوراق ہمچو سائلے کہ مے گردد گرد بازمارہا و کوچہ ہا پس بنمود مرا

Page 99

ما أرانی.وسقانی ما سقانی.فوافیتُ دروبہا کما ہدانی.وأُعطی لی ما سألتُ.وفُتح علیّ فحللتُ.وکل ما رقّمتُ فہو من أنفاس العلام.لا من أفراس الأقلام.فما کان لی أن أقول إنی أعلم من غیری.أو زاد منہم سیری.ولا أقول أن روحی التفّ بأرواح فتیان کانوا من الأدباء.أو غالت نفسی جمیع نفائس الإنشاء.ولا أدّعی أنی انتہیت إلی فناء منتہی الأدب.أو أکلتُ کل باکورۃ من المعانی النخب.بل دعوتُ مُخدّراتہ فوافتنی فتیاتہ فقبلہن فتاہ مفتّرۃ شفتاہ متہلّلا مُحیّاہ.فلا تستطلعونی طِلع أدیب.وما أنا فی بلدۃ الأدب إلَّ خدا آنچہ بنمود و نوشانید مرا آنچہ نوشانید.پس درآمدم براہ ہائے باریک سورہ فاتحہ ہم چناں کہ ہدایت کرد مرا خدا و دادہ شدم آنچہ خواستم.و کشادند برمن پس درآمدم و ہر چہ نوشتم دریں کتاب آن از جرعہ ہائے عالم الغیب است از اسپان قلمہائے من نیست.پس مرا سزاوار نبود کہ بگویم کہ من از غیر خود دانا تر ام یا سیر من از و زیادہ تر است و نمی گویم کہ روح من بآں جواناں پیوستہ است کہ از ادیباں بودند و نہ اینکہ نفس من ہمہ جنس نفیس انشاء را ربودہ است و نہ ایں دعویٰ می کنم کہ تا پیش خانہ انتہائی مرتبہ ادب رسیدہ ام و نہ اینکہ ہر میوہ نو رسیدہ معانی برگزیدہ را خوردہ ام بلکہ پروگیان ادب را خواندہ بودم پس زنان جوان بلاغت نزد من آمد پس قبول کرد آں زنان را جوانے کہ کامل درفن ادب است و ہر دو لب او خنداں بودند و رُوئے او روشن و درخشندہ بود پس از من خبرادیبے نپرسید ومن در شہر ادب صرف ہمچو

Page 100

کغریب.وکل ما ترون منی فہو من تأیید ربی.ومن حضرۃٍ ألقیتُ بہا جِرانی وحملتُ إلیہا إربی.وإنہ فی العُقبیٰ وہذہ حبّی.وإنی مسیحہ وحماری حمارۃ حفظہ ولطفہ قُتبی.ولولا فضل اللّٰہ ورحمتہ لکان کلامی ککلم حاطب لیل.أو کغثاء سیل.وواللّٰہ إنی ما قدرتُ علی ہذا بقریحۃٍ وقّادۃ.بل بفضل من اللّٰہ وسعادۃ.وإن ہذہ المخدرۃ ما سفرت عن وجہہا بیدی القصیرۃ.ولکن بفضل اللّٰہ و عنایاتہ الکثیرۃ.فإنہ رأی الإسلام کسقیم فی موماۃٍ.فیہ رمق حیاۃ.ساقطًا علی صلاتٍ کقذائف مسافرے ام.و ہرچہ از من مے بینند آں از تائید رب من است و ازاں جناب است کہ درانجا پیش گردن خود انداختم و سوئے او حاجت خود برداشتم و او مرا در دنیا و دین محبوب است.و من مسیح او ہستم و خرمن سنگ حفاظت اوست کہ گردا گرد خانہ من است و لطف او پالان من است.و اگر فضل خدا و رحمت او نبودے کلام من ہمچو ہیزم چین شب بودے یا بہ خس و خاشاک کہ برسیل می باشد مشابہت داشتے و بخدا کہ من بریں کلام از طبیعت تیز خود قادر نشدم بلکہ ایں سعادت محض از فضلِ خداوندی است.وایں پردہ نشین معانی از روئے خود پردہ بدست کوتاہ من نہ برادشتہ است مگر عنایات کثیرہ خدا تعالیٰ ایں پروگیاں معارف و دقایق را از نقاب برکشیدہ.چرا کہ او تعالیٰ اسلام را دید ہمچو بیمارے و ناتوانے در بیابانے از حیاتِ او بجز دمے چند باقی نماندہ.و برسنگ افتادہ بود ہمچو خشک چوبہائے

Page 101

فلوات.وعلاہ صغار.وعلیہ أطمار.فأدرکہ کإدراک عہاد.لسنۃٍ جماد.ورحض وجہہ و أزال وسخ مئین.وصب علیہ الماء المعین.فبعث عبدًا من عبادہ لإ تمام الحجۃ.وأودع کلامہ إعجازًا لیکون ظلًّا للمعجزۃ النبویۃ.علیہ ألوف الصلاۃ والتحیّۃ.ولا یمسّ منہ منقصۃ شأن کلام رب الکائنات.فإن الکرامات أظلال للمعجزات.وکذالک دمّر اللّٰہ کل ما دبّر العِدا کالصائد.وہدم کل ما بنوا من المکائد.وأبطل کل ما حققوا مکیدۃً.وأخّر کل ما قدموا حربۃً.وعطّل کلّ ما صحرا.ذلت و حقارت بر رُوئے او دویدہ و برو پارچہ کہنہ و فرسودہ و دریدہ.پس در عین وقت ضرورت برسرِاو رسید.و برغمخواری او چناں شتافت کہ باران بہاری برائے غمخواری سال خشکمی شتابد و گرد از روئے او شست و چرک صدی ہا بآب صافی دور کرد.و بندۂ از بندگان فرستاد.و معجزہ در کلام او ودیعت نہاد تا کہ آں کلام معجزہ نبویہ را بطور ظل باشد.براں نبی ہزار ہا درود و تحیۃ باد.و ازیں معجزہ در کلام الہٰی ہیچ منقصت و کسرِ شان لازم نمی آید چراکہ کرامات ظل معجزات ہستند و ہم چنیں تباہ و ویران کرد خدا تعالیٰ ہر چہ دشمنان بتدبیرہا قرار دادہ بودند و منہدم کرد ہر چہ از فریبہا ساختہ بودند و باطل کرد ہر فریبے را کہ ثابت و متحقق کردہ بودند ومؤخر کرد آں حربہ ہا را کہ پیش آوردہ

Page 102

نصبوا حیلۃ.وہدّم کل ما أشادوا بروجًا مشیدۃ.وأطفأ کلّ ما أوقدوا نارًا.وأغلق الدروب کلما أرادوا فرارًا.فما کان فی وسعہم أن یبارزوا کأبطال المضمار.أو یخرجوا من ہذا السجن بتسوّر الخنادق والأسوار.وما قدّموا قدمًا إلَّا رجعوا بأنواع النکال.حتی جاء وقت ہذا التفسیر الذی ہو آخر نبل من النبال.وإنّا کمّلناہ بفضل اللّٰہ ذی الجلال.وجاء أرسی و ارسخ من الجبال.وصارکحصن حصین بُنی بالأحجار الثقال.وإنہ بلغ حدّ الإعجازمن اللّٰہ الفعّال.وإنہ محفوظ بودند.و بیکار کرد ہر حیلہ را کہ اوشاں نصب کردہ بودند و ویران کرد و منہدم ساخت آن برج ہا را کہ برافراشتہ بودند.و مُنطفی کرد ہر آتشے را کہ افروختہ بودند و در ہا بہ بست چوں ارادہ گریختن داشتند.پس طاقتے او شاں نماند کہ ہمچو بہادراں در میدان بیایند.یا ببرجستن خندق ہا و دیوار ہا ازاں زندان بیروں شوند.و ہیچ قدمے پیش نہ کردند مگر بہ انواع عذاب پس!پا کردہ شدند.تا ایں کہ وقت ایں تفسیر رسید کہ آخرین تیر از تیرہا است.و ما کامل کردیم ایں را بفضل خدائے ذوالجلال.و آمد مضبوط تر و قوی تر از کوہ ہا و ہمچو آں حصن حصین شد کہ از سنگہائے گراں طیار کردہ می شد وایں تفسیر بمرتبہ اعجاز از خدا تعالیٰ رسیدہ است.وایں نگاہ داشتہ

Page 103

من قصد العدوّ المدحور الضّال.وانتصفنا بہ من العِدا بعض الانتصاف.وکسرنا خیامًا ضربوہا وقبابا نصبوہا فی المصاف.وکان ہذا الأمر صعبا ولکن اللّٰہ الان لی شدیدًا.وأدنٰی إلیّ بعیدًا.ونقل العدوّ من السعۃ إلی المضایق.وأعمی أبصارہ وصرف ہمتہ عن العلوم الحقائق.وألقی الرعب فی قلوبہم.وأخذہم بذنوبہم فنبذوا سلاحہم.وترکوا لقاحہم.وأنفدوا وجاحہم.وقوّضوا قبابہم.ونثلوا جعابہم.ونفضوا جرابہم.وأروا من العجز أنیابہم.وأذن لہم أن یأ توا بجمیع جنودہم شدہ است از دشمنے راندہ شدہ گمراہ و ما انتقام گرفتیم از دشمنان بدیں تفسیر اندکے از انتقام ہا.وشکستیم آں خیمہ ہا را کہ زدہ بودند و آں پردہ ہا راکہ از بہر جنگ نصب کردہ بودند وایں امر خیلے سخت بود مگر خدا تعالیٰ برائے من سخت را نرم ساخت و دور را قریب کرد و دشمن را در مشکل انداخت.و چشم او را کور کرد و ہمت او را از علوم و حقایق بجانب دیگر بگردانید و در دل شان رعب انداخت و بباعث گناہ شاں از رُسوائی ایشانرا نصیبے داد.پس اسلحہ خود را انداختند و شتران خود را بگزاشتند وآب اندک کہ می داشتند آں ہم خرچ کردند.و خیمہ ہا را بکندند و ترکشہا را خالی نمودند وزنبیل زادرابیفشاندندو از عجز دندان خود وا نمودند و اوشانرا اجازت دادہ شد کہ بہمہ لشکر خود

Page 104

من خیلہا ورجلہا وحفلہا وجحفلہا.وزمرہا وقوافلہا.فصاروا کمیت مقبور.أو زیت سراج احترق وما بقی معہ من نور.وسکّتنا من بارز من صغیرہم وکبیرہم.وأوکفنا من نہق من حمیرہم.فما کانوا أن یتحر!کوا من المکان.أو یمیلوا من السِنۃ إلی السنان.بل جرّبنا من شرخ الزمن إلی ہذا الزمان.إن ہؤلاء لا یستطیعون أن یبارزونا فی المیدان.ولیس فیہم إلَّا السب والشتم قاعدین فی الحجرات کالنسوان.یفرّون من کل مأزق.ویتراء ی أطمارہم من تحت یلمقٍ.ثم لا یقرّون ولا یتندّمون.ولا یتقون اللّٰہ و سواران خود و پیادگان خود و جماعت خود و لشکر خود و گروہ ہائے خودو قافلہ ہائے خود بیایند.پس ہمچو آں مُردہ شدند کہ در قبر نہادہ می شود و ہمچو آں روغن چراغے گشتند کہ ہمہ آں سوخت و چیزے نور بادے نماند و ما دہن ہر خورد و کلاں ایشاں بہ بستیم کہ بمیدان بیروں آمد و برخرہائے ایشاں کہ آواز مکروہ می برداشتند خرکین مضبوط کشیدیم پس نبود طاقت شاں کہ از مقام خود حرکت کنند یا از غنودگی سوئے نیزہ بیایند.بلکہ ما از ابتدائے زمانہ ایشاں را تجربہ کردہ ایم کہ ایں مردم طاقت مقابلہ ندارند.و در ایشاں طاقت بجز دشنام دادن و سخت گفتن ہمچو زنان نیست.از ہر حرب گاہ تنگ و خطرناک می گریزند و ظاہر می شود پارچہ ہائے کہنہ شاں کہ زیر قبا می دارند.بعض نہ اقرار می کنند و نہ شرمندہ می شوند و نہ از خدا بترسند

Page 105

ولا یرجعون.فہذا التفسیر علیہ سہم من سہام.وکَلْمٌ بکلام.لعلہم یتنبّہون.وإلی اللّٰہ یتوبون.وإنّا شرطنا فیہ أن لا یجاوز فریق منّا سبعین یومًا.ومن جاوز فلن یُقبل تفسیرہ ویستحق لومًا.وکذالک من الشرائط أن لا یکون التفسیر أقل من أربعۃ أجزاء.وہذہ شروط بینی وبین خصمی علی سواء.وقد شہر.ناہا من قبل وبلّغناہا إلی الأحباب والأعداء.بعد الطبع والإملاء.والآن نشرع فی التفسیر بعون اللّٰہ النصیر القدیر.ورتبناہ علی أبواب لئلا یشقّ علی طُلَّاب.ومع ذالک سلکنا مسلک و نہ از بیہودہ گوئی باز می آیند.پس ایں تفسیر برائے شاں تیرے است از تیرہا و خستہ کردن است بکلام شاید متنبہ شوند و سوئے خدا میل کنند.و ما دریں تفسیر شرط کردیم کہ کسے از ما ہر دو فریق در نوشتن تفسیر از ہفتاد روز تجاوز نکند و ہر کہ تجاوز کند پس تفسیر او بمنصّہ قبول نخواہد افتاد و مستحق ملامت خواہد شد.و ہم چنیں از شرائط یکے این است کہ تفسیر از چار جزو کم نباشد.و ایں شرطہا در من و فریق ثانی برابر اند.و ما ازیں پیشتر مشتہر کردیم ایں شرط ہا را و رسانیدیم آں اشتہارہا بعد طبع کردن سوئے دوستاں و دشمناں و اکنوں ما شروع مے کنیم در تفسیر بمدد خدائے نصیر و قدیر و مرتب کردیم ایں تفسیر را برچند باب تا گراں نیاید برطلاب و باوجود ایں رفتیم بر مسلک اعتدال

Page 106

الوسط لیس بإیجاز مُخلّ.ولا إطنابٍ مُملّ.وإنہ لہ عن ہذا العاجز کالعجزۃ.وأُخرج من رحم القدر برحم من اللّٰہ ذی العزّۃ.فی أیام الصیام ولیالی الرحمۃ.وسمّیتُہ ’’ إعجاز المسیح فی نمق التفسیر الفصیح‘‘.وإنی أُرِیتُ مبشرۃً فی لیلۃ الثلثاء.إذ دعوتُ اللّٰہ أن یجعلہ معجزۃ للعلماء.ودعوتُ أن لایقدر علی مثلہ أحدٌ من الأدباء.ولا یُعطی لہم قدرۃ علی الإنشاء.فأجیب دعائی فی تلک اللیلۃ المبارکۃ من حضرۃ الکبریاء.وبشّرنی ربی وقال’’منعہ مانع من السماء‘‘ ففہمت نہ چناں اختصار است کہ بمضمون مخل آید و نہ چنداں اطناب است کہ ملال افزاید.و ایں رسالہ از طرف ایں عاجز برائے مہر علی بطور فرزند آخرین است.و از رحم قضاء و قدر برحمت الہٰی بیروں کردہ شدہ.و ایں کتاب در ماہ رمضان و شبہائے نزول رحمت پیرایہ تالیف یافتہ و نام ایں کتاب است اعجاز المسیح فی نمق التفسیر الفصیح.ومن در شب سہ شنبہ خوابے دیدہ بودم بوقتے کہ ایں دعا کردم کہ یا الہٰی ایں کتاب را بطور معجزہ بگرداں و دعا کردم کہ بر مثیل ایں کسے از ادیباں قادر نشود و ہیچکس را توفیق ایں کار میسر نہ آید.پس دراں شب مبارک دعائے من بمرتبہ قبول رسید و خدائے من مرا بشارت داد کہ از آسمان منع کردہ شد کہ کسے نظیر ایں کتاب بنویسد.و ازیں بشارت فہمیدم

Page 107

أنہ یشیر إلی أن العدا لا یقدرون علیہ.و لا یأتون بمثلہ ولا کصفتیہ.وکانت ہذہ البشارۃ من اللّٰہ المنّان.فی العشر الآخر من رمضان.الذی أنزل فیہ القرآن.ثم بعد ذالک کُتب فیہ ہذا التفسیر.بعون اللّٰہ القدیر.ربّ اجعل أفئدۃ من الناس تہوی إلیہ.واجعلہ کتابًا مُبارکًا وأنزل برکات من لدنک علیہ.فإنّا تو.کلنا علیک.فانصرنا من عندک وأیّدنا بیدیک.وکفّل أمرنا کما کفلتَ السابقین من الصالحین.واستجب ہذہ الدعوات کلہا و إنّا جئناک متضرعین.کہ خدا دریں الہام ایں اشارت کردہ است کہ ایشاں براں قادر نخواہند شد.و مثل آں نتوانند آورد نہ در بلاغت نہ در حقائق سورہ فاتحہ و ایں بشارت در عشرہ آخری از رمضان بود کہ ماہ نزول قرآن است.باز بعد زیں ایں تفسیر نوشتہ شد بمدد خدائے قادر.اے خدا بعض دِلہا را سوئے ایں تفسیر مائل کن و ایں را کتابے مبارک بگرداں.و از نزد خود بریں برکات نازل کن زیرا کہ ما بر تو توکل کردیم.پس مدد ما از جانب خود کن و بہر دو دستِ خود در تائید ماباش و متکفل امر ما شو ہم چنانکہ متکفل امر گزشتگان از نکوکاران بودہ.وایں ہمہ دعاہائے ما قبول فرما و ما بحالت تضرع پیشِ تو آمدیم.

Page 108

فکن لنا فی الدنیا والدین.آمین.پس ما را باش چہ در دنیا و چہ در آخرت.آمین.الباب الأول باب اوّل فی ذکر أسماء ہذہ السورۃ وما یتعلق بہا اعلم أن ہذہ السورۃ لہا أسماء کثیرۃ.فأوّلہا فاتحۃ الکتاب.وسُمّیَت بذالک لأنہا یُفتتح بہا المصحف و فی الصلاۃ وفی مواضع الدعاء من رب الأرباب.وعندی أنہا سُمّیت بہا لما جعلہا اللّٰہ حکَمًا للقرآن.ومُلیء فیہا ما کان فیہ من أخبار ومعارف من اللّٰہ المنّان.وإنہا در نامہائے ایں سورۃ و دیگر متعلقات بداں کہ ایں سورۃ را نام ہا بسیار اند.پس اوّل آنہا فاتحۃ الکتاب است و ایں نام برائے ایں نہادہ شد کہ در قرآن و در نماز و در وقتہائے دعا از خدا تعالیٰ ابتداء بدیں مے کنند.و نزدیک من اصل حقیقت این است کہ ایں سورۃ ازیں وجہ فاتحہ میگویند کہ او تعالیم قرآن را حکم است و پُرکردہ شد درو ہمہ آنچہ در قرآن بود از اخبار و معارف

Page 109

جامعۃ لکل ما یحتاج الإنسان إلیہ فی معرفۃ المبدء والمعاد کمثل الاستدلال علی وجود الصانع و ضرورۃ النبوۃ و الخلافۃ فی العباد.ومن أعظم الأخبار وأکبرہا أنہا تبشر بزمان المسیح الموعود وأیام المہدی المعہود.وسنذکرہ فی مقامہ بتوفیق اللّٰہالودود.ومن أخبارہا أنہا تبشر بعمر الدنیا الدنیۃ.وسنکتبہ بقوّۃٍ من الحضرۃ الأحدیّۃ.وہذہ ہی الفاتحۃ التی أخبر بہا نبی من الأنبیاء.وقال رأیتُ ملکا قویًّا نازلا من السّماء.وفی یدہ الفاتحۃ علی صورۃ وایں سورۃ جامعہ است آں ہمہ چیزہا را کہ انسان از بہر معرفت مبدء ومعاد محتاج آنہا است.ہمچو استدلال بر وجود صانع و ضرورت نبوۃ و خلافت در بندگان.و از بزرگ تر خبرہا ایں است کہ ایں سورۃ بشارت می دہد بزمانہ مسیح موعود و روزہائے مہدی معہود و ما در مقام خود ایں را ذکر خواہیم کرد بتوفیق خدائے ودود.و از جملہ اخبار فاتحہ ایں است کہ او عمر دنیا بیان می فرماید و عنقریب از خدا تعالیٰ قوت یافتہ آں را خواہیم نوشت و ایں ہماں فاتحہ است کہ ازو خبر دادہ است پیغمبرے از پیغمبران.و گفت کہ من فرشتہ را دیدم کہ قوی بود و از آسمان فرود آمدہ بود و در دست او سورہ

Page 110

الکتاب الصغیر.فوقع رجلہ الیُمنٰی علی البحر والیسرٰی علی البر بحکم الربّ القدیر.وصرخ بصوت عظیم کما یزأر الضرغام.وظہرت الرعود السبعۃ بصوتہ وکلٌّ منہا وُجِد فیہ الکلام.وقیل اختم علی ما تکلّمت بہ الرعود.ولا تکتب کذالک قال الرب الودود.والملک النازل أقسم بالحیّ الذی أضاء نورہ وجہ البحار والبلدان.أن لا یکون زمانٌ بعد ذالک الزمان بہذا الشان.وقد اتفق المفسرون أن ہذا الخبر یتعلق بزمان المسیح الموعود الربّانی.فقد جاء فاتحہ است بر شکل کتابے خورد.پس آں فرشتہ پائے بر دریا نہاد و پائے دیگر بر زمین بحکم ربّ قدیر و بآواز بلند فریاد کرد ہم چناں کہ شیر می غرّد.و بآواز او ہفت رعد پیدا شد و دراں ہمہ کلامے محسوس بود.و گفتہ شد کہ ایں کلمات رعد ہا را سر بمہر کن و منویس ہم چنیں حکم رب ودود است.و فرشتہ نازل شوندہ قسم بآں خدائے زندہ یاد کرد کہ دریا ہا و آبادی ہا را نور بخشیدہ است.کہ بعد ایں زمانہ مسیح موعود ہیچ زمانہ بدیں شاں و مرتبہ نخواہد آمد و مفسراں اتفاق کردہ اند کہ ایں خبر در حق مسیح موعود ربانی است.پس زمانہ مسیح موعود

Page 111

الزمان وظہرت الأصوات السبعۃ من السبع المثانی.وہذا الزمان للخیر والرشد کآخر الأزمنۃ.ولا یأتی زمان بعدہ کمثلہ فی الفضل والمرتبۃ.وإنّا إذا ودّعنا الدنیا فلا مسیح بعدنا إلی یوم القیامۃ.ولا ینزل أحدٌ من السماء ولا یخرج رأس من المغارۃ.إلَّا ما سبق من ربی قولٌ فی الذریّۃ.* وإنّ ہذا ہو الحق و قد نزل من کان نازلا من الحضرۃ.وتشہد علیہ السماء والأرض ولکنکم لا تطّلعون علی ہذہ الشہادۃ.وستذکروننی بعد الوقت والسعید من أدرک الوقت وما أضاعہ بالغفلۃ.آمد و ہفت آواز از سورہ فاتحہ کہ ہفت آیت است ظاہر شد و ایں زمانہ برائے خیر و رشد آخری زمانہ است.و بعد زیں ہیچ زمانہ در فضل و مرتبہ بدیں زمانہ نتواند رسید.و ما چوں پدرود کردیم دنیارا پس بعد ما ہیچ مسیحے تا قیامت نخواہد آمد و نہ کسے از آسمان نازل شد و نہ از غار بیروں خواہد آمد.مگر آنچہ دربارہ اولاد من خدائے من گفت و ایں راست است و فرود آمد آنکہ فرود آیندہ بود.و آسمان و زمین بریں گواہی می دہند لٰکن شما بریں گواہی اطلاع نمی دارید و عنقریب بعد از وقت مرا یاد خواہید کرد و سعادت مند کسے است کہ وقت را دریافت و بغفلت ضائع نکرد الیہ اشارۃ فی قولہ علیہ السلام یتزوج ویولد لہ.منہ اسی کی طرف اشارہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں کہ مسیح موعود نکاح کرے گا اور اس کو اولاد دی جائے گی.منہ

Page 112

ثم نرجع إلی کلمنا الأولی.فاسمعوا منی یا أولی النُّہٰی.إن للفاتحۃ أسماء أخریٰ.منہا سورۃ الحمد بما افتتح بحمد ربّنا الأعلٰی.ومنہا أم القرآن بما جمعت مطالبہ کلہا بأحسن البیان.وتأبطت کصدفٍ دررَ الفرقان.وصارت کعُشٍّ لطیر العرفان.فإن القرآن جمع علوما أربعۃ فی الہدایات.علم المبدء وعلم المعاد وعلم النبوۃ وعلم توحید الذات والصفات.ولا شک أن ہذہ الأربعۃ موجودۃ فی الفاتحۃ.وموؤودۃ فی صدور أکثرعلماء الأمۃ.یقرء ونہا وہی لا تجاوز من الحناجر.لا یفجرون أنہارہا السبعۃ بل باز سوئے کلمہ اول خود رجوع می کنیم.پس بشنوید اے دانشمنداں!کہ برائے سورہ فاتحہ دیگر نامہا نیز ہستند ازانجملہ سورۃ الحمد است چرا کہ ابتدائے آں سورۃ بحمد است.و ازاں جملہ نام او ام القرآں است چراکہ تمام مطالب قرآن را جمع کردہ است و ہمچو صدف در بغل گرفت دُرّ ہائے فرقان را و ہمچو آشیانہ شد برائے پرندہ ہائے معرفت چراکہ قرآن در ہدایت پائے خود چار علم را جمع کردہ است.علم مبدء و علم معاد و علم نبوت و علم توحید ذات و صفات و ہیچ شک نیست کہ ایں ہر چہار علم در سورہ فاتحہ موجود اند.و زندہ بگور اند در سینہ ہائے اکثر علماء امت.می خوانند سورہ فاتحہ را وآں از حنجرہائے او شاں بزیرنمی رود.و نہر ہائے او را کہ ہفت اند نمی شگافند

Page 113

یعیشون کالفاجر.ومن الممکن أن یکون تسمیۃ ہذہ السورۃ بأمّ الکتاب.نظرًا إلٰی غایۃ التعلیم فی ہذا الباب.فإن سلوک السالکین لا یتم إلَّا بعد أن یستولی علی قلوبہم عزّۃ الربوبیّۃ وذلّۃ العبودیۃ.ولن تجد مرشدًا فی ہذا الأمر کہذہ السورۃ من الحضرۃ الأحدیۃ.ألا تری کیف أظہر عزّۃ اللّٰہ وعظمتہ بقولہ ’’3‘‘.۱؂ إلی’’3‘‘.۲؂ ثم أظہر ذلّۃ العبد وہوانہ وضعفہ بقولہ ’’3‘‘.۳؂ ومن الممکن أن یکون تسمیۃ ہذہ السورۃ بہ نظرًا بلکہ ہمچو فاجرے زندگی می کند و ممکن است کہ ایں سورۃ را اُمُّ الکتاب نام نہادن بدیں خیال باشد کہ جامع تعلیمات ضروریہ است.چرا کہ سلوک سالکان تمام نمی شود مگر بعد اینکہ عزت ربوبیت و ذلت عبودیت بر ایشاں غالب شود.و دریں امر ہیچ مرشد ہمچو سورہ فاتحہ نہ خواہی یافت.آیا نہ می بینی کہ چگونہ ظاہر کرد عزت و عظمت خدا تعالیٰ را بقول او کہ الحمد لِلّٰہ رب العالمین تا مالک یوم الدین.بعد زاں بقول او کہ ایاک نعبد و ایاک نستعین ذلت و ضعف بندہ را بیان فرمود.وایں ہم ممکن است کہ نام ایں سورۃ اُمُّ الکتاب باعتبار

Page 114

إلی ضرورات الفطرۃ الإنسانیۃ.وإشارۃً إلی ما تقتضی الطبائع بالکسب أو الجواذب الإلہیۃ.فإن الإنسان یُحبّ لتکمیل نفسہ أن یحصل لہ علم ذات اللّٰہ وصفاتہ وأفعالہ.ویُحبّ أن یحصل لہ علم مرضاتہ بوسیلۃ أحکامہ التی تنکشف حقیقتہا بأقوالہ.وکذالک تقتضی روحانیتہ أن تأخذ بیدہ العنایۃ الربّانیۃ.ویحصل بإعانتہ صفاء الباطن والأنوار والمکاشفات الإلٰہیۃ.وہذہ السورۃالکریمۃ مشتملۃ علی ہذہ المطالب.بل وقعت بحُسن بیانہا و قوۃ ضروۃ ہائے فطرت انسانیہ داشتہ باشد.و اشارۃ باشد سوئے آں امور کہ طبیعت انسانی می خواہد بکسب یا بجذبہ الہٰی چراکہ انسان برائے تکمیل نفس خود می خواہد کہ او را علم ذات باری عزّاسمہٗ و علم صفات و افعال او حاصل گردد و دوست میدارد کہ حاصل شود علم رضامندی ہائے او بذریعہ احکام او کہ کاشف حقیقت آنہا اقوال او ہستند و ہم چنیں تقاضا می کند روحانیت او کہ عنایت ربّانی دست او بگیرد و بمدد او صفاء باطن و انوار و مکاشفات الہٰیہ حاصل شوند و ایں سورہ کریمہ بریں مطالب مشتمل است بلکہ بوجہ حسن بیان و قوتِ تقریر خود سوئے

Page 115

تبیانہا کالجالب.ومن أسماء ہذہ السورۃ ’’السبع المثانی‘‘.وسبب التسمیۃ أنہا مُثنّی نصفہا ثناء العبد للرب نصفہا عطاء الرب للعبد الفانی.وقیل أنہا سُمّیت المثانی بما أنہا مُستثناۃ من سائر الکتب الإلٰہیۃ.ولا یوجد مثلہا فی التوراۃ ولا فی الإنجیل ولا فی الصحف النبویّۃ.وقیل أنہا سُمّیت مثانی لأنہا سبع آیات من اللّٰہ الکریم.وتعدل قرائت کل آیۃ منہا قراءۃ سُبْعٍ من القرآن العظیم.وقیل سُمّیت سبعًا إشارۃ إلی الأبواب السبعۃ من النیران.ولکل منہا جزء مقسوم یدفع ایں مطالب می کشد.و از جملہ نامہائے ایں سورۃ سبع مثانی است و سبب تسمیہ این است کہ ایں سورۃ مثنیٰ است نیمہ آں تعریف است از بندہ مر رب خود را و نصف آں عطائے ربّ است مر بندہ فانی را.و گفتہ شد کہ نام ایں سورۃ برائے ایں مثانی نہادہ اند کہ ایں سورۃ از تمام کتب الہٰیہ مستثنیٰ است و مثل ایں نہ در توریت و نہ در انجیل و نہ در قرآن است.و گفتہ شد کہ ازیں وجہ نام او سبع مثانی است کہ آں ہفت آیت اند از خدا تعالیٰ و ہر یک از آیت برابر است ہفتم حصہ قرآن را و گفتہ اند کہ ازیں وجہ نام او سبع مثانی نہادہ شد کہ آں اشارہ سوئے ہفت دروازہ دوزخ است و برائے ہر دروازہ دوزخ از سورۃ جز مقسوم

Page 116

شُواظَہا بإذن اللّٰہ الرحمان.فمن أراد أن یمرّ سالمًا من سبع أبواب السعیر.فعلیہ أن یدخل ہذہ السبع ویستأنس بہا ویطلب الصبر علیہا من اللّٰہ القدیر.وکل ما یُدخِل فی جہنم من الأخلاق والأعمال والعقائد.فہی سبع موبقات من حیث الأصول.وہذہ سبع لدفع ہذہ الشدائد.ولہا أسماء أخری فی الأخبار.وکفاک ہذا فإنہ خزینۃ الأسرار.ومع ذالک حصر ہذا التعداد.إشارۃ إلی سنوات المبدء والمعاد.أعنی أن آیاتہا السبع إیماء إلی عمر الدنیا فإنہا سبعۃ آلاف.ولکل منہا دلالۃ علی کیفیۃ ایلاف.والألف الأخیر فی الضلال کبیر.وکان ہذا المقام یقتضی ہذا الإعلام کما کفلت الذکر است کہ شعلہ آں را دور مے کند.پس ہر کہ می خواہد کہ از دوزخ بسلامت برود.پس برو لازم است کہ در ابواب ایں ہفت آیہ در آید و بآنہا انس و از خدا صبر بخواہد و ہر آں امور کہ داخل جہنم می کنند آں از روئے اصول ہفت اند و ایں آیتہا ہم ہفت اند برائے دفع ایں شدائد.و برائے ایں سورۃ نام ہائے دیگر نیز ہستند مذکور در احادیث.مگر ترا ہمیں قدر کافی است کہ آں خزانہ راز ہا است.ممکن است کہ تعداد آیتہا اشارۃ باشد سوئے تاریخ مبدء و معاد.و نزدِ من ہفت آیت سورہ فاتحہ اشارۃ است سوئے ہفت ہزار سال عمر دنیا.و ہر یک را از آیات سورہ فاتحہ دلالت است برکیفیت ہزار تمام کردن و ہزار آخری در ضلالت کبیرہ است و ایں مقام بیان ایں مدت را مے خواست چراکہ سورۂ فاتحہ متکفل

Page 117

إلی معاد من اءْتِناف.وحاصل الکلام أن الفاتحۃ حصن حصین.ونور مبین.ومُعلّم ومُعین.وإنہا یحصن أحکام القرآن من الزیادۃ والنقصان.کتحصین الثغور بامرار الأمور.ومثلہا کمثل ناقۃ تحمل کل ما تحتاج إلیہ.وتوصل إلی دیار الحِبّ من رکب علیہ.وقد حُمل علیہا من کل نوع الأزواد والنفقات.والثیاب والکسوات.أو مثلہا کمثل برکۃ صغیر.فیہا ماء غزیر.کأنہا مجمع بحار.أو مجری قلہذم زخار.وإنی أری أن فوائد ہذہ السورۃ الکریمۃ ونفائسہا لا تُعدّولا تُحصٰی.ولیس فی وُسع الإنسان ذکر مبدء و معاد شدہ است.و حاصل کلام ایں است کہ سورہ فاتحہ حصنِ حصین و نور مبین و معلّم و معین.و او نگہ می دارد احکام قرآن را از زیادت و نقصان ہمچو نگہداشتن سرحد ہا باحسن انتظام.و سورۃ فاتحہ ہمچو شُتر مادّہ است کہ تمام ما یحتاج بر خود برداشتہ است و آنرا کہ برو سوار است سوئے دیار دوست می برد و ہر قسم زاد و نفقہ و پارچات و کسوت ہا برو محمول است.یا مثال او ہمچو حوضے خورد است و آب بسیار است گویا آں مجمع دریا ہاست یا گذرگاہ دریائے بزرگ است و من بینم فائدہ ہائے ایں سورۃ و خوبی ہائے آں بیشمار است و در طاقت انسان نیست کہ آں را شمار کند.اگرچہ

Page 118

أن یحصیہا وإن أنفد عمرًا فی ہذا الہوی.وإن أہل الغیّ والشقاوۃ.ما قدروہا حق قدرہا من الجہل والغباوۃ.وقرأوہا فما رأوا طلاوتہا مع تکرار التلاوۃ.وإنہا سورۃ قوی الصَّول علی الکفرۃ.سریع الأثر علی الأفئدۃ السلیمۃ.ومن تأمّلہا تأمّل المنتقد.وداناہا بفکر منیر کالمصباح المتّقد.ألفاہا نور الأبصار.ومفتاح الأسرار.وإنہ الحق بلا ریب.ولا رجم بالغیب.وإن کنتَ فی شکٍّ فقم وجرّب واترک اللغوب والأیْن.ولا تسأل عن کیف دریں تمنّا عمرے خرچ کُند.بہ تحقیق اہل!گمراہی و بدبختی نشناختند حق شناخت او از جہل و غباوت.وخواندند او را مگر خوبی و خوبصورتی او را باوجود کثرت تلاوت * و آں سورتے است قوی الحملہ بر منکران.و جلد اثر کنندہ بردِلہائے سلیم.و ہر کہ درو نگریست ہمچو نگریستن سرہ کنندہ و نزدیک شد او را تفکر روشن ہمچو چراغ روشن کردہ.خواہد یافت او را نور چشمہ ہا و کلید راز ہا.وہمیں حق است بلا ریب و بغیر سخن گفتن بگمان.و اگر تو در شک ہستی پس برخیز و آزمایش کن و ماندگی و سُستی را بگذار و از چگونہ و کجا سوال

Page 119

وأین.ومن عجائب ہذہ السورۃ أنہا عرَّف اللّٰہ بتعریف لیس فی وُسْع بشرٍ أن یزید علیہ.فندعو اللّٰہ أن یفتح بیننا وبین قومنا بالفاتحۃ.وإنّا توکلنا علیہ.آمین یا رب العالمین.مکن.و از عجائب ایں سورۃ یکے ایں است کہ آں تعریف اللہ جلّشانہٗ نہ انساں کردہ است کہ زیادت براں ممکن نیست.پس ما از خدا می خواہیم کہ درمیان ما و قوم ما بفاتحہ فیصلہ بکند و ما بر اُو توکل کردیم.آمین اے پروردگار عالمیان.الباب الثانی باب دوم فی شرح ما یُقال عند تلاوۃ الفاتحۃ والقرآن العظیم أعنی أعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم درشرح کلمہ اعوذباللہ من الشیطان الرجیم اعلم یا طالب العرفان.أنہ من أحلّ نفسہ محل تلاوۃ الفاتحۃ والفرقان.فعلیہ أن یستعیذ من الشیطان.کما جاء فی القرآن.فإن الشیطان قد یدخل حِمی الحضرۃ کالسارقین.و بدان اے طالب معرفت ہر کہ نفس خود را در محل خواندن فاتحہ و فرقان در آرد.پس برو لازم است کہ اعوذ باللّٰہ من الشیطان بگوید چنانکہ در قرآن آمدہ است.چراکہ شیطان گاہے داخل می شود در مرغزار حضرت عزّت ہمچو دزدان.و

Page 120

یدخل الحرم العاصم للمعصومین.فأراد اللّٰہ أن یُنجّی عبادہ من صول الخناس.عند قراء ۃ الفاتحۃ وکلام رب الناس.ویدفعہ بحربۃ منہ ویضع الفاس فی الراس.ویُخلّص الغافلین من النعاس.فعلّم کلمۃ منہ لطرد الشیطان المدحور إلی یوم النشور.و کان سرّ ہذا الأمر المستور.أن الشیطان قد عادی الإنسان من الدہور.وکان یُرید إہلاکہ من طریق الاخفاء والدمور.وکان أحبّ الأشیاء إلیہ تدمیر الإنسان.ولذالک الزم نفسہ أن تُصغی إلی کل أمر ینزل من الرحمٰن.لدعوۃ الناس در آں حرم داخل می شود کہ مخصوص بمعصومان است.پس ارادہ کرد اللہ تعالیٰ کہ نجات دہندگان خود را از شیطان چوں فاتحہ و قرآن بخوانند.و بحربہ خود شیطان را دفع کند و برسر او تبر نہد و غافلان را از غفلت نجات دہد.پس مردم را یک کلمہ از طرف خود برائے راندن شیطان آموخت و تا قیامت ہمیں تدبیر راندن شیطان است و راز ایں امر پوشیدہ ایں است کہ شیطان از قدیم دشمن انسان است و او می خواست کہ بطور پوشیدہ ہمچو شخصے کہ ناگہ بے اجازت می آید انسان را ہلاک کند.وبرائے ہمیں بر نفس خود لازم گرفتہ است کہ بر ہر امرے گوش دارد کہ از خدا تعالیٰ برائے دعوت مردم

Page 121

إلی الجِنان.ویبذل جہدہ للإضلال والافتنان.فقدّر اللّٰہ لہ الخیبۃ والقوارع ببعث الأنبیاء.وما قتلہ بل أنظرہ إلی یومٍ تُبعث فیہ الموتی بإذن اللّٰہ ذی العزۃ والعلاء.وبشّر بقتلہ فی قولہ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ.فتلک ہی الکلمۃ التی تُقرأ قبل قولہ :3.وہذا الرجیم ہو الذی ورد فیہ الوعید.أعنی الدجّال الذی یقتلہ المسیح المبید.والرجم القتل کما صُرّح بہ فی کتب اللسان العربیۃ.فالرجیم ہو الداجل الذی یُغال فی زمان من الأزمنۃ الآتیۃ.وعدٌ من اللّٰہ الذی یخول علی أہلہ ولا تبدیل للکلم الإلٰہیۃ.فہذہ بشارۃ سوئے بہشت نازل می شود.و کوشش خود از بہر گمراہ کردن خرچ میکند.پس مقدر کرد برائے او خدا تعالیٰ نومیدی و سختی ہا را از بعث انبیاء و مہلت داد او را تا آں روز کہ مردگان برخیزند و خبر داد از قتل او بہ قول خود شیطان مقتول است یعنی قتل خواہد شد.پس ایں ہماں کلمہ است کہ قبل بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم می خوانند وایں رجیم آسمان است کہ در حق او وعید وارد است.یعنے آں دجال کہ بر دستِ مسیح ہلاک کنندہ قتل خواہد شد.ولفظ رجم بمعنی قتل است چنانچہ درکتابہائے لُغت عربی تصریح آں موجود است.پس رجیم ہماں گمراہ کنندہ است کہ در آیندہ زمانہ قتل خواہد شد.ایں وعدہ خداست کہ نگہ میدارد اہل خود را و در کلمات الہٰیہ تبدیلی ممکن نیست.پس ایں از

Page 122

للمسلمین من اللّٰہ الرحیم.وإیماءٌ إلٰی أنہ یُقتل الدجّال فی وقتٍ کما ہو المفہوم من لفظ الرجیم.خدائے رحیم برائے مسلماناں بشارتے است.و اشارۃ است سوئے ایں امر کہ او دجّال را خواہد کشت چنانچہ از لفظ رجیم فہمیدہ می شود.اشعار* وَمَعْنَی الرَّجْمِ فِی ہَذَا الْمُقَامِ کَمَا عُلِّمْتُ مِنْ رَبِّ الأَنَامِ و معنے رجم دریں مقام چنانچہ از خدا تعالیٰ تعلیم دادہ شدم ہُوَ الإِعْضَالُ إِعْضَالُ اللِّءَامِ وَإِسْکَاتُ الْعِدَا کَہْفِ الظَّلامِ آں درماندہ کردن است چنانچہ لئیماں درماندہ گردند و خاموش کردن دشمناں کہ پناہ تاریکی اند وَضَرْبٌ یَخْتَلِی أَصْلَ الْخِصَامِ وَلا نَعْنِیْ بِہٖ ضَرْبَ الْحُسَامِ و زدن است کہ ببرد بیخ خصومت را و مراد ما از زدن شمشیر زدن نیست تَرَی الإِسْلامَ کُسِّرَ کَالْعِظَامِ وَکَمْ مِّنْ خَامِلٍ فَاقَ الْعِظَامِ می بینی اِسلام را کہ شکستہ کردہ شد ہمچو استخوان و بسیار گمنام اند کہ سبقت بُردند از بزرگان فَنَادَی الْوَقْتُ أَیَّامَ الإِمَامِ لِتُنْجَی الْمُسْلِمُونَ مِنَ السِّہَامِ پس آواز داد وقت روز ہائے امام را تا نجات یابند مسلمانان از تیرہا فَلا تَعْجَلْ وَفَکِّرْ فیِ الْکَلامِ أَلَیْسَ الْوَقْتُ وَقْتُ الِانْتِقَامِ پس جلدی مکن و فکرکن در کلام آیا وقت وقت انتقام نیست أَتَیژ فَوْج الْمَلاءِکَۃِ الْکِرَامِ بِکَفِّ الْمُصْطَفٰی أَضْحَی الزِّمَامِ می بینم فوجِ ملائکہ کرام را بدستِ مصطفی زمام دادہ شد

Page 123

وقد أتی زمان تہلک فیہ الأباطیل ولا تبقی الزور والظلام.وتفنی المللُ کلہا إلَّا الإسلام.وتُمْلأ الأرضُ قسطًا وعدلًا ونورًا.کما کانت مُلئت ظلمًا وکفرًا وجَوْرًا وزورًا.فہناک تقتل من سبق الوعید لتدمیرہ.ولا نعنی من القتل إلَّا کسر قوّتہ وتنجیۃ أسیرہ.فحاصل الکلام أن الذی یُقال لہ الشیطان الرجیم.ہو الدجّال اللئیم.والخنّاس القدیم.وکان قتلہ أمرًا موعودًا.وخطبًا معہودًا.ولذالک ألزم اللّٰہ کافّۃ أہل الملّۃ.أن یقرء وا لفظ ’’الرجیم‘‘ قبل قراء ۃ الفاتحۃ وقبل البسملۃ.لیتذکر القاریء أن وقت الدجّال لا یُجاوز وقت وآں زمانہ می آید کہ باطل درآں ہلاک خواہد شد و دروغ نخواہد ماند و بجز اسلام ہمہ مللہا چوں مردہ خواہند گردید و زمین از انصاف و نور پُر کردہ خواہد شد چنانکہ از ظلم و کفر و دروغ پُر شدہ بود.و دریں وقت آں دجال را خواہند کشت کہ در کتب پیغمبران وعدہ کشتن اوست و مراد از قتل شکستن قوّت و نجات اسیران است.پس حاصل کلام ایں است کہ آنکہ او را شیطان رجیم مے گویند ہمچو دجال لئیم است و خناس قدیم.و کشتن او امرے است وعدہ کردہ شدہ و کارے است عہد کردہ شدہ و از بہر ہمیں خدا تعالیٰ لازم حال مومناں کردہ است کہ در وقت قراء ت فاتحہ قبل از بسم اللّہ اعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم خواندہ باشند تا کہ خوانندہ یاد کند کہ وقتِ دجال از وقت قومے تجاوز نخواہد کرد

Page 124

قومٍ ذُکروا فی آخر آیۃ من ہذہ الآیات السبعۃ.وکان قدر اللّٰہ کُتب من بدء الأوان.أنہ یقتل الرجیم المذکور فی آخر الزمان.ویستریح العباد من لدغ ہذا الثعبان.فالیوم وصل الزمان إلی آخر الدائرۃ.وانتہی عمر الدنیا کالسبع المثانی إلی السابعۃ.من الألوف الشمسیّۃ والقمریّۃ.الیوم تجلّی الرجیم فی مظہرٍ ہو لہ کالحُلل البروزیۃ.واختتم أمر الغی علی قوم اختتم علیہ آخر کلم الفاتحۃ.ولا یفہم ہذا الرمز إلَّا ذو القریحۃ الوقّادۃ.ولا یُقتل الدجّال إلَّا بالحربۃ السماویۃ.أی بفضلٍ من اللّٰہ لا بالطاقۃ کہ در آخر آیت ایں سورہ ذکر آنہا است.و تقدیر خدا چنیں بود کہ آں دجال رجیم یعنی کشتنی در آخر زمانہ کشتہ خواہد شد.و مردم از گزیدن ایں مار در امن خواہند آمد.پس امروز زمانہ تا انتہائے دائرہ خود رسیدہ است.و عمر دنیا ہمچو ہفت آیت سورہ فاتحہ بر ہزار ہفتم رسید.وایں ہفت ہزار بحساب شمسی و قمری است.امروز آں شیطاں قومے را مظہر خود گرفتہ است بطور بروز.و امر گمراہی بر قومے ختم شد کہ ذکر آں قوم در آخر کلمہ سورہ فاتحہ است و ایں امر را کسے فہمد کہ طبیعت تیز می دارد.و دجال را کسے نتواند کشت مگر بحربہ سماوی.اے بفضل الہٰی غلبہ برو خواہد شد نہ بطاقت

Page 125

البشریۃ.فلا حرب ولا ضرب ولکن أمرٌ نازلٌ من الحضرۃ الأحدیۃ.وکان ہذا الدجّال یبعث بعض ذراریہ فی کل ماءۃ من مئین.لیُضل المؤمنین والموحّدین والصالحین والقائمین علی الحق والطالبین.ویہدّ مبانی الدین.ویجعل صحف اللّٰہ عضین.وکان وعدٌ من اللّٰہ أنہ یُقتَل فی آخر الزمان.ویغلب الصلاح علی الطلاح والطغیان.وتُبَدّل الأرض ویتوب أکثر الناس إلی الرحمٰن.وتُشرِق الأرض بنور ربّہا.وتخرج القلوب من ظلمات الشیطان.فہذا ہو بشری.پس نہ جنگ خواہد شد نہ زد و کوب مگر امرے است از خدا تعالیٰ.و بود ایں دجال کہ بعض ذریات خود را در ہر صدی مامور مے کرد تا مومناں و موحداں و صالحاں و اہل حق و طالبان حق را گمراہ کند و تاکہ بنیاد ہائے دین را بشکند و کتاب الہٰی را پارہ پارہ کند.و وعدہ خدا تعالیٰ ایں بود کہ دجال در آخر زمانہ قتل کردہ خواہد شد و نیکی بر فساد و گمراہی غالب خواہد گردید و زمین دیگر خواہد شد و مردم سوئے خدا رجوع خواہند کرد و زمین بنورِ پروردگار خود روشن کردہ خواہد شد.و دِل ہا از تاریکی ہا بروں خواہند آمد.پس ہمیں

Page 126

موت الباطل وموت الدجّال وقتل ہذا الثعبان.أم یقولون إنہ رجل یُقتل فی وقت من الأوقات.کلا.بل ہو شیطان رجیم أبو السّیئات.یُرجم فی آخر الزمان بإزالۃ الجہلات.واستیصال الخزعبیلات.وعدٌ حقٌّ من اللّٰہ الرحیم.کما أُشیر فی قولہ: ’’الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ‘‘.فقد تمّت کلمۃ ربنا صدقًا وعدلًا فی ہذہ الأیام.ونظر اللّٰہ إلی الإسلام.بعد ما عَنَتْ بہ البلایا والآلام.فأنزل مسیحہ لقتل الخنّاس وقطع ہذا الخصام.وما سُمِّیَ الشیطان رجیمًاإلَّا علی طریق أنباء الغیب.فإن الرجم ہو القتل من غیر الریب.ولما کان القدر قد است موت باطل و موت دجال و قتل ایں اژدہائے بزرگ آیا مردم ایں می گویند کہ دجال انسانے است کہ دروقتے از اوقات قتل کردہ خواہد شد.ہرگز نیست بلکہ او شیطان کشتنی است پدر بدیہا.کہ در آخر زمانہ بدور کردن امور باطلہ کشتہ خواہد شد.وعد حق است از خدا تعالیٰ.چنانچہ در کلمہ شیطان رجیم سوئے او اشارہ شدہ پس کلمہ رب ما از روئے راستی و عدل دریں روز بظہور رسید.و نظر کرد سوئے اسلام.بعد زانکہ نازل شد برو بلاہا و دردہا.پس مسیح خود را برائے قتل ابلیس نازل کرد تا قطع خصومت کند.و نام شیطان از بہر ہمیں رجیم داشتہ شد کہ وعدہ قتل او بود چراکہ معنی رجم قتل است بے شک و شبہ.و چونکہ تقدیر چنیں رفتہ بود

Page 127

جری فی قتل ہذا الدجّال.عند نزول مسیح اللّٰہ ذی الجلال.أخبر اللّٰہ من قبلِ ہذہ الواقعۃ تسلیۃً وتبشیرًا لقوم یخافون أیام الضلال.کہ دجال در زمانہ مسیح قتل خواہد شد.خبر داد خدا تعالیٰ ازیں واقعہ برائے بشارت قومے کہ از روز ہائے ضلالت مے ترسند.الباب الثالث باب سوم فی تفسیر آیۃ 3 درتفسیر آیت 3 اعلم وہب لک اللّٰہ علم أسماۂ.وہداک إلی طرق مرضاتہ وسبل رضاۂ.أن الاسم مشتق من الوسم الذی ہو أثر الکیّ فی اللسان العربیۃ.یُقال ’’اتّسم الرجل‘‘ إذا جعل لنفسہ سِمۃً یُعرف بہا بداں اے خوانندہ خدا ترا علم نامہائے خود بہ بخشد و سوئے راہ ہائے رضامندی خود ترا ہدایت فرماید کہ لفظ اسم کہ در بسم اللہ آمدہ است از وسم مشتق است و وسم در زبان عربی نشان داغ را مے گویند در امثال عرب مشہور است کہ می گویند اتّسم الرجل

Page 128

ویُمیّز بہا عند العامۃ.ومنہ سمت البعیر ووسامہ عند أہل اللسان.وہو ما وُسِم بہ البعیر من ضُروب الصور لیُعین للعرفان.ومنہ ما یُقال إنّی توسّمتُ فیہ الخیر.وما رأیت الضیر.أی تفرّستُ فما رأیت سمۃَ شرٍّ فی محیّاہ.ولا أثر خبث فی مَحیاہ.ومنہ الوسمی الذی ہو أوّل مطر من أمطار الربیع.لأنہ یَسِمَ الأرض إذا نزل کالینابیع.ویُقال ’’أرض موسومۃ‘‘ إذا أصابہا الوسمی فی إبّانہ.وسکّن قلوب الکفار بجریانہ.ومنہ موسم الحج والسوق وجمیع مواسم الاجتماع.لأنہا معالم یجتمع إلیہا لنوع و ایں وقتے می گویند چوں شخصے برائے خود نشانے مقرر کند کہ بداں شناختہ شود و از غیر خود امتیاز یابد.و از ہمیں لفظ وسم لفظ سمت البعیر و وسام البعیر بر آوردہ اند و آں چیزے است کہ بداں بر شتر داغ می کنند یعنے از قسم صورت ہا کہ از بہر شناختن بر جلد شتر می کنند.واز ہمیں لفظ وسم است قول ایشاں کہ توسّمتُ فیہ الخیر یعنے من بنظر فراست درو نگہ کردم پس در رُوئے او نشانے از شر ندیدم و در زندگی او اثرے از خبث.و از ہمیں لفظ وسم است لفظ وسمی کہ آں باراں بہاری را می گویند کہ در ابتدائے موسم مے بارد چراکہ آں باراں چوں می بارد بر زمین نشان می کند و می گویند کہ ایں زمین موسومہ است وقتیکہ آں باراں برو باریدہ باشد و مزارعان را بباریدن او تسکین دل حاصل شدہ باشد.واز ہمیں لفظ وسم است لفظ موسم حج و موسم سوق وغیرہ موسم ہا کہ بمعنی مجمع است چراکہ لفظ موسم براں جاہائے معیّنہ

Page 129

غرض من الأنواع.ومنہ المیسم الذی یُطلق علی الحسن والجمال.ویستعمل فی نساء ذات ملاحۃ فی أکثر الأحوال.وقد ثبت من تتبّع کلام العرب ودواوینہم.أنہم کانوا لا یستعملون ہذا اللفظ کثیرًا إلَّا فی موارد الخیر من دنیاہم ودینہم.وأنت تعلم أن اسم الشیء عندالعامۃ ما یُعرف بہ ذالک الشیء.وأما عند الخواص وأہل المعرفۃ فالاسم لأصل الحقیقۃ الفیء.بل لاشکّ أن الأسماء المنسوبۃ إلی المسمّیات من الحضرۃ الأحدیۃ.قد نزلت منہا منزلۃ الصور النوعیۃ.وصارت کوکناتٍ لطیورِ اطلاق می یابد کہ دراں جا مردم جمع مے شوند واز ہمیں لفظ وسم لفظ میسم است کہ بر حسن و جمال اطلاق می یابد و اکثر بر زنانے اطلاق آں می شود کہ ملاحت و حسن می دارند.و از تتبع کلام عرب و دیوان ہائے شاں ثابت شدہ است کہ لفظ میسم اکثر در موارد خیر و خوبی استعمال می یابد.خواہ در دین و خواہ در دُنیا.و تو میدانی کہ نزد عامہ مردم تعریف اسم ایں است کہ او چیزے است کہ بدو چیزے را می شناسند مگر نزد خواص و اہل معرفت.پس اسم اصل حقیقت را بمرتبہ سایہ است بلکہ ہیچ شکے و شبہے نیست کہ آں ہمہ اسماء کہ سوئے مسمیات منسوب اند آنہا مسمیات خود را بمنزلہ صُورتہائے نوعیہ ہستند و برائے پرندہ ہائے معانی علوم حکمیہ ہمچو

Page 130

المعانی والعلوم الحِکَمیۃ.وکذالک اسم اللّٰہ و الرحمٰن و الرحیم فی ہذہ الآیۃ المبارکۃ.فإن کل واحد منہا یدل علی خصائصہ وہویّتہ المکتومۃ.واللّٰہ اسمٌ للذات الإلہیۃ الجامعۃ لجمیع أنواع الکمال.والرحمٰن والرحیم یدلاَّن علی تحقق ہاتین الصفتین لہذا الاسم المستجمع لکل نوع الجمال والجلال.ثم للرحمٰن معنی خاص یختص بہ ولا یوجد فی الرحیم.وہو أنہ مُفیضٌ لوجود الإنسان وغیرہ من الحیوانات بإذن اللّٰہ الکریم.بحسب ما اقتضی الحِکَم الإلٰہیۃ من القدیم.وبحسب آشیانہ ہستند.و ہم چنیں است اسم اللہ و رحمان و رحیم دریں آیت مبارکہ چرا کہ ہر واحد از اسم اللہ و رحمان و رحیم برخاصیتہائے پوشیدہ خود دلالت می کند واسم اللہ خدا تعالیٰ را اسم ذات است کہ جامع جمیع انواع کمال است.و صفت رحمان و رحیم دلالت می کند کہ ایں ہر دو صفت دریں اسم اللہ متحقق اند.باز در صفت رحمان معنے خاص ثابت است کہ در صفت رحیم یافتہ نمی شود.و آں ایں است کہ رحمان آں را گویند کہ فیض او بر انسان و غیر انسان کہ جان می دارند جاری است لیکن ہماں قدر ہر یکے رامی رسد کہ

Page 131

تحمّل القوابل لا بحسب تسویۃ التقسیم.ولیس فی ہذہ الصفۃ الرحمانیۃ دخل کسبٍ وعملٍ وسعیٍ من القوی الإنسانیۃ والحیوانیۃ.بل ہی مِنّۃٌ من اللّٰہ خاصۃ ما سبقہا عمل عامل.ورحمتہ من لدنہ عامّۃ ما مسّہا أثر سعیٍ من ناقصٍ أو کامل.فالحاصل أن فیضان الصفۃ الرحمانیۃ لیس ہو نتیجۃ عملٍ ولا ثمرۃ استحقاقٍ.بل ہو فضلٌ من اللّٰہ من غیر إطاعۃ أو شقاق.وینزل ہذا الفیض دائما بمشیّۃ من اللّٰہ و إرادۃ.من غیر شرط إطاعۃ و عبادۃ و تُقاۃ و زہادۃ.و مقتضائے حکمت الہٰیہ باشد و نیز قابلیت جوہر تحمل آں تواند کرد و دریں صفت رحمانیت دخل کسب و عمل و کوششِ انسانی نیست و نہ دخل کوشش حیوانی.بلکہ ایں احسانے است خالص از خدا تعالیٰ بے آنکہ کسے کارے کردہ باشد و رحمتے ازو عام است.ہیچ سعی بدو مس نکردہ.پس حاصل کلام ایں است کہ فیضان صفت رحمانیت آں نتیجہ عمل عاملے نیست و نہ ثمرہ استحقاقے بلکہ آں فضلے خاص است از خدا تعالیٰ بے آنکہ فرمانبرداری یا مخالفت را درو دخلے باشد.وفرود مے آید ایں فیض ہمیشہ بہ ارادۂ الہٰی بغیر شرط فرمانبرداری و پرہیزگاری.و بناء ایں

Page 132

کان بناءُ ہذا الفیض قبل وجود الخلیقۃ وقبل أعمالہم.وقبل جہدہم وقبل سؤالہم.فلأجل ذالک توجد آثار ہذا الفیض قبل آثار وجود الإنسان والحیوان.وإن کان ساریًا فی جمیع مراتب الوجود والزمان والمکان.والطاعۃ والعصیان.ألا تری أن رحمانیۃ اللّٰہ تعالی وسعت الصالحین والظالمین.وتری قمرہ وشمسہ یطلعان علی الطائعین والعاصین.وانہ أعطی کل شیء خلقہ وکفّل أمر کلہم أجمعین.وما من دابّۃ إلَّا علی اللّٰہ رزقہا ولو کان فی السمٰوات أو فی الأرضین.وانہ خلق لہم الأشجار وأخرج منہا فیض قبل از وجود انسان و حیوان و اعمال اوشان است.و پیش از کوشش ایشاں و سوال ایشاں.از بہر ہمیں است کہ آثار ایں فیض پیش از آثار وجود انسان و حیوان اند.اگرچہ ایں فیض در تمام مراتب وجود و زمان و مکان و حالت طاعت و عصیان سرایت می دارد آیا نہ می بینی کہ رحمانیت الہٰی ہمہ نیکاں و بداں ہر دو را فرو گرفتہ است و می بینی کہ آفتاب و ماہتاب او تعالیٰ بر فرمانبرداران و نافرماناں ہر دو طلوع می کند و خدا تعالیٰ ہر چیز را مناسب ضرورت او پیدائش عطاء فرمودہ است و متکفل تمام امور شاں شدہ.و ہیچ حرکت کنندہ نیست کہ متکفل رزق او خدا نباشد اگرچہ او در آسمان باشد یا در زمین و او برائے شاں درختہا و شگوفہ ہا

Page 133

الثمار والزہر والریّاحین.وإنہا رحمۃ ہیّأہا اللّٰہ للنفوس قبل أن یبرأہا وإن فیہا تذکرۃ للمتّقین.وقد أعطی ہذہ النعم من غیر العمل ومن غیر الاستحقاق.من اللّٰہ الراحم الخلاَّق.ومنہا نعماء أخری من حضرۃ الکبریاء.وہی خارجۃ من الإحصاء.کمثل خلق أسباب الصحۃ وأنواع الحیَل والدواء لکل نوع من الدّاء.وإرسال الرسل وإنزال الکتب علی الأنبیاء.وہذہ کلہا رحمانیۃ من ربنا أرحم الرحماء.وفضل بحتٌ لیس من عمل عامل ولا من التضرّع والدعاء.وأمّا الرحیمیۃ و ریاحین پیدا کردہ است و آں رحمت الہٰی است کہ برائے نفسہا قبل پیدائش آنہا طیار کردہ شد و یاددہانی برائے متقیان است و ایں نعمت ہا بے عمل و بے استحقاق دادہ شد.از طرف خدا تعالیٰ و از قسم ایں رحمت نعمت ہائے دیگر اند از حضرت کبریا وآں نعمتہا از شمار خارج اند و منجملہ شاں اسباب صحت و حیلہ ہا و دواست.و ازیں قسم است فرستادن پیغمبران و کتاب ہا.و ایں ہمہ رحمانیت است از خدا تعالیٰ و فضل خاص است بغیر عمل عاملے و نہ از زاری و دعا.مگر فیض رحیمیت

Page 134

فہی فیض أخص من فیوض الصفۃ الرحمانیۃ.ومخصوصۃ بتکمیل النوع البشری وإکمال الخلقۃ الإنسانیۃ.ولکن بشرط السعی والعمل الصالح وترک الجذبات النفسانیۃ.بل لا تنزل ہذہ الرحمۃ حق نزولہا إلَّا بعد الجہد البلیغ فی الأعمال.وبعد تزکیۃ النفس وتکمیل الإخلاص بإخراج بقایا الریاء وتطہیر البال.وبعد إیثار الموت لابتغاء مرضات اللّٰہ ذی الجلال.فطوبی لمن أصابہ حظ من ہذہ النِعم.بل ہو الإنسان وغیرہ کالنَعم.وہہنا سؤال عضال نکتبہ فی الکتاب مع الجواب.لیفکّر فیہ فیضے است خاص تر از فیض ہائے صفت رحمانیت و مخصوص است بتکمیل نوع بشری مگر دریں سعی و کوشش کردن شرط است.و ترک جذبات نفسانیہ ضروری است.بلکہ ایں رحمت فرود نیاید چنانچہ حق فرود آمدن است مگر پس از کوشش بلیغ در عمل ہا.و پس از تزکیہ نفس و تکمیل اخلاص باخراج بقایا ریا و پاک کردن دل بلکہ پس از اختیار کردن موت از بہر خوشنودی خدائے ذوالجلال.پس خوش زندگی کسے راست کہ ازیں نعمت بہرہ مے دارد بلکہ ہماں انسان است باقی ہمچو چارپایاں اند.واینجا سوالے است سخت مے نویسم او را کتاب مع جواب.تا کہ فکر کند

Page 135

من کان من أولی الألباب.وہو أن اللّٰہ اختار من جمیع صفاتہ صفتی الرحمان والرحیم فی البسملۃ.وما ذکر صفتا أخری فی ہذہ الآیۃ.مع أن اسمہ الأعظم یستحق جمیع ما ہو من الصفات الکاملۃ.کما ہی مذکورۃ فی الصحف المطہّرۃ.ثم إن کثرۃ الصفات تستلزم کثرۃ البرکات عند التلاوۃ.فالبسملۃ أحق وأولی بہذاالمقام والمرتبۃ.وقد نُدِب لہا عند کل أمرٍ ذی بال کما جاء فی الأحادیث النبویۃ.وإنہا أکثر وردًا علی ألسن أہل الملّۃ.وأکثر تکرارًا فی کتاب اللّٰہ در و ہر کہ از دانشمنداں باشد وآں ایں است کہ خدا تعالیٰ در بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم از ہمہ صفات خود ایں ہر دو صفت رحمان و رحیم را اختیار کردہ و دیگر ہیچ صفتے بیان نفرمودہ باوجود اینکہ اسم اعظم او کہ اللہ است مستحق تمام صفات کاملہ است.چنانچہ آں ہمہ صفات در قرآن شریف مذکور اند باز ایں امر ہم سوال را مضبوط مے کند کہ کثرت ذکر صفات در وقت تلاوت موجب برکت است بسم اللہ برائے ایں برکت زیادہ تر حق میدارد و در ہر امر مہتم بالشان خواندن بسم اللہ مندوب است چنانکہ در احادیث آمدہ است و نیز بسم اللہ اکثر بر زبان ہائے مسلماناں جاری است و در قرآن شریف اکثر تکرار

Page 136

ذی العزّۃ.فبأی حکمۃ ومصلحۃ لم یُکتب صفاتٌ أخری مع ہذہ الآیۃ المتبرّکۃ.فالجواب أن اللّٰہ أراد فی ہذا المقام.أن یذکر مع اسمہ الأعظم صفتین ہما خلاصۃ جمیع صفاتہ العظیمۃ علی الوجہ التام.وہما الرحمن والرحیم.کما یہدی إلیہ العقل السلیم.فإن اللّٰہ تجلّی علی العالم تارۃ بالمحبوبیۃ ومرۃ بالمحبیّۃ.وجعل ہاتین الصفتین ضیاءً ینزل من شمس الربوبیّۃ علی أرض العبودیّۃ.فقد یکون الرب محبوبًا والعبد مُحِبًّا لذالک المحبوب.وقد یکون العبد بسم اللہ است پس از کدام حکمت و مصلحت صفات دیگر دریں آیت ننوشتہ شد.پس جواب ایں است کہ خدا تعالیٰ دریں آیت ارادہ فرمودہ است کہ با اسم اعظم او ذکر آں صفات او کردہ آید کہ آں صفتہا خلاصہ جمیع صفات عظیمہ است وآں رحمان و رحیم است.چنانچہ عقل سلیم سوئے آں ہدایت مے فرماید.چراکہ خدا تعالیٰ بریں عالم گاہے بطور محبوبیت تجلی فرمودہ است و گاہے بطور محبیّت.وایں ہر دو صفت را روشنی قرار دادہ کہ از آفتاب ربوبیت بر زمین عبودیت می افتد.پس گاہے رب محبوب می باشد و بندہ محب ایں محبوب.و گاہے بندہ محبوب

Page 137

محبوبًا والرب مُحبًّا لہ وجاعلہ کالمطلوب.ولا شک أن الفطرۃ الإنسانیۃ التی فُطرت علی الْمُحبّۃ والخلّۃ ولوعۃ البال.تقتضی أن یکون لہا محبوبًا یجذبہا إلی وجہہ بتجلّیات الجمال والنعم والنوال.وأن یکون لہ مُحِبًّا مُواسیًا یُتَدارکُ عند الأہوال وتشتت الأحوال.ویحفظہا من ضیعۃ الأعمال.ویوصلہا إلی الآمال.فأراد اللّٰہ أن یُعطیہا ما اقتضتہا ویُتمّ علیہا نعمہ بجودہ العمیم.فتجلّی علیہا بصفتیہ الرحمٰن والرحیم و رب محب کہ آں بندہ را مطلوب میگرداند و ہیچ شک نیست کہ فطرت انسانی تقاضا مے کند کہ او را محبوبے باشد کہ بہ تجلیات جمالیہ و نعمتہائے سوئے خود بکشد وایں کہ او را محبے باشد کہ در وقتِ خوفہا تدارک او کند.و کار ہائے او را از ضائع شدن نگہ دارد و تا امید ہا برساند.پس خدا تعالیٰ ارادہ فرمود کہ ہرچہ طبیعت انسانی خواستہ است او را بدہد.پس برو بصفت رحمان و رحیم تجلی کرد قدعرفت ان اللّٰہ بصفۃ الرحمٰن ینزل علی کل عبدمن الانسان والحیوان والکافر بدانستی کہ خدا بصفت خود کہ رحمان است نازل مے فرمائدبر ہر بندہ خواہ انسان باشد واھل الایمان انواع الاحسان والامتنان.بغیر عمل یجعلھم مستحقین فی خواہ حیوان وخواہ کافر باشدوخواہ مومن قسم ہائے احسان ومنّت را.بغیر کارے کہ بدو مستحق

Page 138

ولا ریب أن ہاتین الصفتین ہما الوُصلۃ بین الربوبیۃ والعبودیۃ.وبہما یتم دائرۃ السلوک والمعارف الإنسانیۃ.فکل صفۃٍ بعدھما داخلۃ فی أنوارہما.وقطرۃ من بحارہما.ثم إن ذات اللّٰہ تعالٰی کما اقتضت لنفسہا أن تکون لنوع الإنسان محبوبۃ ومُحبّۃ.کذالک اقتضت لعبادہ الکُمّل أن یکونوا لبنی نوعہم کمثل ذاتہ وہیچ شک نیست کہ ایں ہر دو صفت پیوند دہندہ است در ربوبیت و عبودیت و بہ آں ہردو تمام مے شود دائرہ سلوک و معارف انسانیہ.پس ہر صفت ماسوائے آں ہر دو داخل در نور آں ہر دوست و قطرہ از دریائے آنہاست باز ذات الہٰی ہم چناں کہ برائے نفس خود ارادہ کرد کہ محبوب و محب باشد.ہم چنیں برائے بندگان کاملین خود ارادہ فرمود کہ برائے بنی نوع خود حضرۃ الدیّان.اذ لاشک ان الاحسان علٰی ہٰذا المِنْوال یجعل جزا باشند.وہیچ شک نیست کہ احسان بدیں طریق محسن را محبوب المحسنینمحبوباً فی الحال فثبت ان الافاضۃ علی الطریقۃ الرحمانیۃ.مے گردند پس ثابت شد کہ فیض رسانیدن بر طریق رحمانیت ظاہر میکند در چشم یظھرفی اعینالمستفیضین شان المحبوبیّۃ.واما صفۃ الرحیمیّۃ.فقد فیض یابان شان محبوب را.مگر صفت رحیمیت لازم کردہ است بر نفس خود الزمت نفسھا شان المحبّیۃ.فان اللّٰہ لا تتجلّٰی* علٰی احدٍ بھذا الفیضان الَّا شان محبیت را.چرا کہ خُدا برحیمیت بر ہر کسے تجلی نمے فرماید مگر بعد بعد ان یحبّہ و یرضٰی بہ قولا و فعلا من اھل الایمان.منہ زینکہ اورا دوستمیدارد و از روئے قول و فعل برو راضی میباشد.منہ

Page 139

خُلُقًا وسیرۃ.ویجعلوا ہاتین الصفتین لأنفسہم لباسًا وکسوۃً.لیتخلّق العبودیۃ بأخلاق الربوبیۃ.ولا یبقی نقص فی النشأۃ الإنسانیۃ.فخلق النبیین والمرسلین.فجعل بعضہم مظہر صفتہ الرحمان وبعضہم مظہر صفتہ الرحیم.لیکونوا محبوبین ومُحبین ویُعاشروا بالتحابب بفضلہ العظیم.فأعطی بعضہم حظًّا وافرًا من صفۃ المحبوبیۃ.وبعضًا آخر حظًّا کثیرًا من صفۃ المُحبیّۃ.وکذالک أراد بفضلہ العمیم.وجودہ القدیم.ولَمّا جاء زمن خاتم النبیین.وسیدنا محمد سید المرسلین.أراد ہو سبحانہ أن یجمع ہاتین مثل ذات باری شوند در خلق و سیرت و برائے نفسہائے خود ایں ہر دو صفت را بطور لباس بسازند تا کہ عبودیت باخلاق ربوبیت متخلق گردد و در نشاء انسانیہ ہیچ نقصے نماند.پس پیدا کرد انبیاء و مرسلان را و بگردانید بعض او شاں را مظہر صفت رحمانیت و بعض او شانرا مظہر رحیمیت.تا کہ بعض محبوب باشند و بعض محب و تا کہ محبت یکدگر معاشرت کنند.پس بعض افراد را حظّے وافر از محبوبیّت عطا فرمود.و بعض را حظے کثیر از محبت عطا کرد.و ہم چنیں بجود عمیم خود ارادہ فرمود.و چوں زمانہ خاتم النبیین آمد کہ سیّدِ ما و سیّد المرسلین است.خدا تعالیٰ ارادہ فرمود کہ ایں

Page 140

الصفتین فی نفسٍ واحدۃٍ.فجمعہما فی نفسہ علیہ ألف ألف صلوۃ و تحیۃ.فلذالک ذکر تخصیصًا صفۃ المحبوبیۃ والمحبیّۃ علی رأس ہذہ السورۃ.لیکون إشارۃً إلی ہذہ الإرادۃ.وسمّی نبینا محمّدًا و أحمد کما سمّی نفسہ الرحمان والرحیم فی ہذہ الآیۃ.فہذہ إشارۃ الٰی أنہ لا جامع لہما علی الطریقۃ الظلیۃ إلَّا وجود سیدنا خیر البریّۃ.وقد عرفتَ أن ہاتین الصفتین أکبر الصفات من صفات الحضرۃ الأحدیۃ.بل ہما لبّ اللباب وحقیقۃ الحقائق لجمیع أسماۂ الصفاتیۃ.وہما معیار کمال کل من ہر دو صفت در نفس واحد جمع فرماید.پس در نفس آں نبی ایں ہر دو صفت جمع کرد برو ہزار ہزار سلام و تحیت باد.پس از بہر ہمیں بطور خاص صفت محبوبیت و محبیت را.بر سر ایں سورۃ بسم اللہ ذکر کرد.تا کہ اشارت گردد سوئے ایں ارادہ.و نام نبیء ما احمد و محمد نہاد چنانکہ نام خود دریں آیت رحمن و رحیم نہاد.پس ایں اشارہ است سوئے ایں امر کہ جمع کنندہ ایں ہر دو صفت بطریق ظلیت بجز نبی ما ہیچ کس نیست.و تو دانستی کہ ایں ہر دو صفت بزرگتر از تمام صفات حضرت احدیت اند.بلکہ آں مغز مغزہا و حقیقت حقیقتہا است برائے اسمائے صفاتیہ خدا تعالیٰ.و آں ہر دو

Page 141

استکمل وتخلّق بالأخلاق الإلہیۃ.وما اُعطی نصیبًا کاملا منہما إلَّا نبیّنا خاتم سلسلۃ النبوّۃ.فإنّہ أُعطی اسمین کمثل ھاتین الصفتین.اوّلھما محمد و الثانی احمد من فضل ربّ الکونین.اما محمد فقد ارتدی رداء صفت الرحمٰن.وتجلّٰی فی حُلل الجلال والمحبوبیّۃ.وحُمِّد لبرٍّ منہ والإحسان.وأمّا أحمد فتجلّی فی حلّۃ الرحیمیۃ والْمُحبّیۃ والجمالیۃ.فضلا من اللّٰہ الذی یتولی المؤمنین بالعون والنصرۃ.فصار اسما نبیّنا بحذاء صفتی ربّنا المنّان.کصورٍ مُنعکسۃٍ تُظہرہا مرآتان متقابلتان.وتفصیل ذالک أن حقیقۃ صفۃ الرحمانیۃ عند أہل العرفان.ہی إفاضۃ الخیر محک کمال ہر آں کس است کہ طالب کمال است و تخلق باخلاق الہٰی دارد و نصیبے کامل ازاں ہر دو صفت ہیچکس دادہ نشد مگر رسول ما صلی اللہ علیہ وسلم کہ خاتم انبیاء است چراکہ او دو نام دادہ شد ہمچو ایں دو صفت اول محمدؐ و دوم احمدؐ از فضل رب الکونین.مگر محمدؐ پس آں پوشیدہ است چادر از صفت رحمان.و تجلّی فرمود در حلّہ ہائے جلال و محبوبیت و تعریف کردہ شد از وجہ نیکی کردن و احسان کردن.و نام احمد تجلّی کرد در حلّہ رحیمیت و مُحبیت و جمالیت از فضلِ الہٰی کہ متولّی امر مومناں می گردد بمدد کردن.پس گردیدند ہر دو نام نبیء ما بمقابل ہر دو صفت خدائے ما مثل آں صورت ہائے منعکسہ کہ ظاہر میکند آں ہا را آں دو شیشہ کہ مقابل یکدیگر باشند.و تفصیل آں ایں است کہ حقیقت صفت رحمانیت فیض رسانیدن است انسان را وغیر انسان را

Page 142

لکل ذی روح من الإنسان وغیر الإنسان.من غیر عمل سابقٍ بل خالصًا علی سبیل الامتنان.ولا شک ولا خلاف أن مثل ہذہ المنّۃ الخالصۃ.التی لیست جزاء عمل عامل من البریّۃ.ہی تجذب قلوب المؤمنین إلی الثناء والمدح والمحمدۃ.فیحمدون المحسنَ ویُثنون علیہ بخلوص القلوب وصحۃ النیّۃ.فیکون الرحمان مُحَمّدًا یقیناًمن غیر وہم یجر إلی الریبۃ.فإن المنعم الذی یُحسن إلی الناس من غیر حقٍّ بأنواع النعمۃ.یحمدہ کل من أُنعم علیہ.وہذا من خواص النشأۃ الإنسانیۃ.ثم إذا کمل بغیر عمل کہ پیش رفتہ باشد بلکہ محض بر سبیل احسان و ہیچ شک نیست کہ ہمچو ایں احسان خالص آنکہ جزاء عمل عاملے نیست آں مے کشد دل ہائے مومناں را سوئے ثنا و مدح.پس او شاں تعریف محسن مے کنند و برو ثنا مے گویند بخلوص قلب و صحت نیت.پس آنگاہ رحمان محمد می شود بغیر وہمے کہ شک افگند.چرا کہ آں انعام کنندہ کہ بمردم بغیر حق نیکی مے کند.ستائش او آناں مے کنند کہ بآں ہا نیکی کردہ شد و ایں از خواص نشاء انسانی است باز چوں

Page 143

الحمد بکمال الإنعام.جذب ذالک إلی الحب التام.فیکون المحسن محَمّدًا ومحبوبًا فی أعین المحبّین.فہذا مآل صفۃ الرحمان ففکر کالعاقلین.وقد ظہر من ہذا المقام لکل من لہ عرفان.أن الرحمن محمّدٌ وأن محمدًا رحمان.ولا شک أن مآلہما واحدٌ.وقد جہل الحق من ہو جاحدٌ.وأمّا حقیقۃ صفۃ الرحیمیۃ.وما أُخفی فیہا من الکیفیۃ الروحانیۃ.فہی إفاضۃ إنعامٍ و خیرٍ علی عملٍ من أہل مسجدٍ لا من أہل دَیْرٍ.و تکمیل عمل العاملین المخلصین.وجبر نقصانہم کالمتلافین والمعینین والناصرین.ولا شک حمد بوجہ انعام کثیر بدرجہ کمال برسد موجب محبت تام مے گردد.پس احسان کنندہ محمد می گردد و محبوب نیز و ایں انجام کار صفت رحمان است پس فکر کن ہمچو عاقلاں و ازیں مقام بر صاحب معرفت ظاہر شد کہ رحمان محمد است و محمد رحمان است و ہیچ شک نیست کہ مآل محمد و رحمان واحد است و ہر کہ انکار کرد او حق را نشاخت.مگر حقیقت صفت رحیمیت.و آنچہ پوشیدہ کردہ شد درو از کیفیت روحانیہ.پس آں افاضۂ خیر است بر اعمال اہل مسجد نہ اہل دیر و کامل کردن است عمل عاملاں و نیکو کردن نقصان شان ہمچو تدارک کنندگان و مدد کنندگان.و ہیچ شک نیست

Page 144

أن ہذہ الإفاضۃ فی حکم الحمد من اللّٰہ الرحیم.فإنہ لا یُنزِل ہذہ الرحمۃ علی عاملٍ إلَّا بعد ما حمدہ علی نہجہ القویم.ورضی بہ عملا ورآہ مُستحقًّا للفضل العمیم.ألا تری أنہ لا یقبل عمل الکافرین والمشرکین والمرائین والمتکبّرین.بل یُحبط أعمالہم ولا یہدیہم إلیہ ولا ینصرہم بل یترکہم کالمخذولین.فلا شک أنّہ لا یتوب إلی أحدٍ بالرحیمیۃ ولا یُکمّل عملہ بنصرۃ منہ والإعانۃ.إلَّا بعد ما رضی بہ فعلا وحمدہ حمدًا یستلزم نزول الرحمۃ.ثم إذا کمل الحمد من اللّٰہ بکمال أعمال المخلصین.فیکون اللّٰہ أحمد و کہ ایں فیض رسانیدن در حکم تعریف کردن است از طرف خدا چراکہ نازل نمی کند ایں رحمت را بر عاملے مگر بعد زاں کہ تعریف کرد او را بر راہ راست او و بر عمل او راضی شد و او را مستحق فضل عمیم دانست.آیا نمی بینی کہ او قبول نمے کند عمل کافران و مشرکان و ریاکاران و متکبران بلکہ حبط اعمال شاں می کند و سوئے خود ہدایت نمی فرماید و مدد نمی کند و ہمچو مخذولاں می گزارد.پس ہیچ شک نیست کہ او تعالیٰ سوئے کسے برحمت رجوع نمی فرماید و عمل او را بمددِ خود کامل نمی فرماید مگر بعد زانکہ بر کار او راضی شد و او را تعریف کرد کہ مستلزم نزول رحمت است.باز چوں حمد کردن خدا تعالیٰ بندہ را بوجہ عمل خالص بندہ بکمال می رسد.پس دریں صورت خدا احمد می گردد

Page 145

العبد محمّدًا.فسبحان اللّٰہ أوّل المحمّدین والأحمدین.وعند ذالک یکون العبد المخلص فی العمل محبوبًا فی الحضرۃ.فإن اللّٰہ یحمدہ من عرشہ.وہو لا یحمد أحدًا إلَّا بعد المحبّۃ.فحاصل الکلام ان کمال الرحمانیۃ یجعل اللّٰہ مُحمّدًا ومحبوبًا.ویجعل العبد أحمد ومُحِبًّا یستقری مطلوبًا.وکمال الرحیمیۃ یجعل اللّٰہ أحمد ومُحِبًّا.ویجعل العبد مُحمّدًا وحِبًّا.وستعرف من ہذا المقام شأن نبینا الإمام الہمام.فإن اللّٰہ سمّاہ مُحَمّدًا وأحمد وما سمّا بہما عیسی ولا کلیمًا.وأشرکہ فی صفتیہ الرحمان وبندہ محمد.پس پاک است آنکہ اول المحمدین والاحمدین است.و دریں ہنگام بندہ مخلص بوجہ عمل خود محبوب باری می شود.چراکہ خدا از عرش خود تعریف او میکند و او تعریف کسے نمی کند مگر بعد زانکہ او را محبوب خود میگرداند.پس حاصل کلام ایں است کہ کمال رحمانیت خدا را محمد و محبوب میگرداند و بندہ را احمد و محب می گرداند کہ مطلوب را می جوید و کمال رحیمیت خدا را احمد و محب می گرداند و بندہ را محمد و محبوب میگرداند.و خواہی دانست ازیں مقام شاں پیغمبرِ ما را کہ امامِ بزرگ است چرا کہ خدا تعالیٰ نام او محمد و احمد نہاد.و ایں ہر دو نام نہ عیسیٰ را داد و نہ موسیٰ را و در صفت رحمان

Page 146

والرحیم بما کان فضلہ علیہ عظیمًا.وما ذکر ہاتین الصفتین فی البسملۃ إلَّا لیعرف الناس أنہما للّٰہ کالاسم الأعظم وللنبی من حضرتہ کالخلعۃ.فسمّاہ اللّٰہ محمدًا إشارۃ إلی ما فیہ من صفۃ المحبوبیۃ.وسمّاہ أحمد إیماءً إلی ما فیہ من صفۃ الْمُحبّیۃ.أمّا محمد فلأجل أن رجلا لا یحمدہ الحامدون حمدًا کثیرًا إلَّا بعد أن یکون ذالک الرجل محبوبا.وأمّا أحمد فلأجل أن حامدًا لا یحمد أحدًا بحمدٍ کاثر إلَّا الذی یُحبّہ ویجعلہ مطلوبًا.فلا شک أن اسم محمد یوجد فیہ معنی المحبوبیّۃ بدلالۃ الالتزام.و رحیم او را شریک کرد چراکہ برو فضل عظیم بود و ایں ہر دو صفت را در بسم اللہ ازیں جہت ذکر کرد تا مردم بدانند کہ ایں ہر دو صفت خدا را ہمچو اسمِ اعظم اند نسبت باقی صفات و نبی کریم را ہمچو خلعت.پس نام او محمد نہاد(صلی اللہ علیہ وسلم)تا اشارہ کند سوئے صفت محبوبیت کہ دروست ونام او احمد نہاد تا اشارہ کند سوئے صفت محبیت کہ در اوست مگر محمد از بہر ایں مستلزم محبوبیت است کہ مردم ہیچکس را بکثرت تعریف نمی کنند.مگر اینکہ شخص تعریف کردہ شدہ نزد شاں محبوب می باشد مگر احمد از بہر ہمیں مستلزم محبیت است کہ ہیچ تعریف کنندہ تعریف کسے نمی کند مگر دراں حلت محب او می باشد.پس ہیچ شک نیست کہ در اسم محمد بدلالت

Page 147

وکذالک یوجد فی اسم أحمد معنی الْمُحبّیۃ من اللّٰہ ذی الأفضال والإنعام.ولا ریب أن نبیّنا سُمّی محمدًا لما أراد اللّٰہ أن یجعلہ محبوبًا فی أعینہ و أعین الصالحین.وکذالک سمّاہ أحمد لما أراد سبحانہ أن یجعلہ مُحِبَّ ذاتِہ ومُحبَّ المؤمنین المسلمین.فہو محمد بشأن وأحمد بشأن.واختصّ أحد ہذین الاسمین بزمان والآخر بزمان.وقد أشار الیہ سبحانہ فی قولہ ’’3‘‘ ۱؂ وفی ’’3‘‘.۲؂ ثم لمّا کان یُظَنُّ أن اختصاص ہذا النبی المُطاع السَجّاد.بہذہ المحامد من رَبّ العباد.التزام معنی محبوبیت موجود اند و ہم چنیں در اسم احمد معنی محبیت یافتہ می شوند از طرف خدائے فضل و انعام کنندہ.وہیچ شک نیست کہ خدا تعالیٰ نام پیغمبرما محمد نہاد تا کہ او را در چشم خود و در چشم مردم محبوب بگرداند.و ہم چنیں خدا تعالیٰ نام آں نبی احمد نہاد چرا کہ ارادہ فرمود کہ او ذات او را دوست دارد و نیز مسلماناں و مومناں را دوست دارد.پس آں نبی دو شان دارد از روئے شانے نام او محمد است و از روئے شانے دیگر نام او احمد است.و نام ازیں ہر دو بزمانے خاص است و نامے دیگر بزبان دیگر و بہ تحقیق اشارہ کردہ حق تعالیٰ در قول یعنی در آیت دَنٰی فتدلّٰی و آیت قاب قوسین او ادنٰی.باز چوں خاص کردن ایں نبی مطاع الخلق و مطیع الحق بدیں ہر دو اسم دریں گمان مردم را مے انداخت کہ گویا او

Page 148

یجرّ إلی الشرک کما عُبِد عیسٰی لہذا الاعتقاد.أراد اللّٰہ أن یورثہما الأمّۃ المرحومۃ علی الطریقۃ الظلّیّۃ.لیکونا للأمّۃ کالبرکات المتعدّیۃ.ولیزول وہم اشتراک عبدٍ خاصٍ فی الصفات الإلہیۃ.فجعل الصحابۃ ومن تبعہم مظہراسم محمد بالشؤون الرحمانیۃ الجلالیۃ.وجعل لہم غلبۃ ونصرہم بالعنایات المتوالیۃ.وجعل المسیح الموعود مظہر اسم أحمد وبعثہ بالشؤون الرحیمیۃ والجمالیۃ.وکتب فی قلبہ الرحمۃ والتحنّن وہذّبہ بالأخلاق الفاضلۃ العالیۃ.فذالک ہو دریں خصوصیت شریک باری است چنانکہ عیسیٰ را شریک گردایندہ شد.ارادہ کرد خدا تعالیٰ کہ وارث ایں ہر دو نام بر طریق ظلیت امت مرحومہ را بکند.تا ایں ہر دو اسم برائے امت ہمچو برکات متعدیہ شوند و تا کہ ایں وہم دور شود کہ بندہ خاص در صفت الہٰیہ شرکتے میدارد.پس صحابہ را و امثال او شاں را باشیون جلالیہ رحمانیہ مظہر اسم محمد ساخت.و او شاں را غلبہ داد و بعنایات متواترہ مدد او شاں کرد.و مسیح موعود را مظہر اسم احمد ساخت و او را بشان رحیمیت و جمال مبعوث فرمود.و در دل او رحمت نوشت و بہ اخلاق مہذب کرد.پس ایں ہماں

Page 149

المہدی المعہود الذی فیہ یختصمون.وقد رأوا الآیات ثم لا یہتدون.ویصرّون علی الباطل وإلی الحق لا یرجعون.وذالک ہو المسیح الموعود ولکنہم لا یعرفون.وینظرون إلیہ وہم لا یُبصرون.فإن اسم عیسٰی واسم احمد متّحدان فی الہویّۃ.ومتوافقان فی الطبیعۃ.ویدلَّان علی الجمال وترک القتال من حیث الکیفیۃ.وأمّا اسم محمد فہو اسم القہر والجلال.وکلاہما للرحمان والرحیم کالاظلال.ألا تریٰ أن اسم الرحمٰن الذی ہو منبع للحقیقۃ المحمدیۃ یقتضی الجلال کما یقتضی شأن المحبوبیۃ.مہدی معہود است کہ درو خصومت می کنند.و دیدند نشانہا باز ہدایت نمی یابند و بر باطل اصرار می کنند و سوئے حق رجوع نمی نمایند و ہمیں مسیح موعود است مگر ایشاں شناخت نمی کنند.و سوئے او نظر می کنند مگر نمی بینند.چرا کہ اسم عیسیٰ و اسم احمد در ماہیت یکے اند.و آں ہر دو از روئے کیفیت بر جمال و ترک قتال دلالت می کنند.و اما اسم محمد پس آں قہر و جلال است و آں ہر دو مر رحمان و رحیم را ہمچو اظلال اند.نمی بینی کہ اسم رحمان کہ منبع اسم محمد است تقاضا می کند جلال چنانکہ تقاضا مے کند شان محبوبیت را.

Page 150

ومن رحمانیتہ تعالی أنہ سخّر کل حیوان للإنسان.من البقر والمعز والجمال والبغال والضان.وإنہ أہرق دماءً کثیرۃ لحفظ نفس الإنسان.وما ہو إلَّا أمرٌ جلالی ونتیجۃ رحمانیۃ الرحمان.فثبت أن الرحمانیۃ یقتضی القہر والجلال.ومع ذالک ہو من المحبوب لطف لمن أراد لہ النوال.وکم من دود المیاہ والأہویۃ تُقتل للإنسان.وکم من الأنعام تُذبح للناس إنعامًا من الرحمان.فخلاصۃ الکلام إن الصحابۃ کانوا مظاہر للحقیقۃ المحمّدیۃ الجلالیۃ.ولذالک قتلوا قومًا کانوا کالسباع ونعم البادیۃ.واز رحمانیت خدا تعالیٰ است کہ برائے انسان گاؤ گوسپند شتر و میش مسخر کرد و برائے حفاظت انسان بسیار خونہا ریخت و نیست ایں امر جلالی مگر نتیجہ رحمانیت رحمان.پس ثابت شد کہ رحمانیت قہر و جلال را می خواہد.و آں از محبوب لطیف است برائے کسے کہ ارادہ عطا کردن برائے اوست.و بسیارے از کرمہائے آبہا و ہوا ہا کُشتہ می شوندبرائے انسان.وبسیارے از چارپایان ذبح کردہ میشوند برائے مردم بطور نعمت از رحمان.پس خلاصہ کلام ایں است کہ صحابہ رضی اللہ عنہم مظہر حقیقت محمدیہ جلالیہ بودند.و از بہر ہمیں قتل کردند قومے را کہ ہمچو درندگان

Page 151

لیُخلّصوا قومًا آخرین من سجن الضلالۃ والغوایۃ.ویجرّوہم إلی الصلاح والہدایۃ.وقد عرفتَ أن الحقیقۃ المحمدیۃ ہو مظہر الحقیقۃ الرحمانیۃ.ولا منافاۃ بین الجلال وہذہ الصفۃ الإحسانیۃ.بل الرحمانیۃ مظہرٌ تامٌ للجلال والسطوۃ الربّانیۃ.وہل حقیقۃ الرحمانیۃ إلَّا قتل الذی ہو أدنی للذی ہو أعلی.وکذالک جرت عادۃ الرحمٰن مذ خلق الإنسان وما وراء ہ من الورَی.ألا تری کیف تُقتل دود جُرح الإبل لحفظ نفوس الجمال.وتُقتل الجمال لینتفع الناس من لحومہا وجلودہا.و و چارپایاں جنگل بودند تا قومے دیگر را از زندان گمراہی خلاص دہند و بکشند ایشانرا سوئے صلاحیت و ہدایت و بہ تحقیق دانستی کہ حقیقت محمدیہ مظہر حقیقت رحمانیہ است.و ہیچ منافات نیست در رحمانیت و دریں صفت احسانی.بلکہ رحمانیت مظہر تام است مرجلال و سطوت ربانی را و حقیقت رحمانیت بجز ایں چیست کہ ادنٰے را برائے اعلیٰ قتل کردہ شود.و ہمیں ساں عادت رحمان جاری شدہ از روزیکہ دنیا را پیدا کرد.آیا نمی بینی کہ چگونہ کشتہ می شوند کرمہائے زخم شتر برائے حفاظت جان شتراں و کشتہ می شوند شتران تا مردم بگوشت و پوست شاں نفع بگیرند و

Page 152

یتّخذوا من أوبارہا ثیاب الزینۃ والجمال.وہذہ کلہا من الرحمانیۃ لحفظ سلسلۃ الإنسانیۃ والحیوانیۃ.فکما أن الرحمان محبوب کذالک ہو مظہر الجلال.وکمثلہ اسم محمدٌ فی ہذا الکمال.ثم لما ورث الأصحاب اسم محمد من اللّٰہ الوہّاب.وأظہروا جلال اللّٰہ وقتلوا الظالمین کالأنعام والدواب.کذالک ورث المسیح الموعود اسم أحمد الذی ہو مظہر الرحیمیۃ والجمال.واختار لہ اللّٰہ ہذا الاسم ولمن تبعہ وصار لہ کالآل.فالمسیح الموعود مع جماعتہ مظہر من اللّٰہ لصفۃ الرحیمیۃ والأحمدیۃ.لیتم قولہ از موہائے شاں پارچات زینت طیار کنند.وایں ہمہ از طرف رحمانیت است برائے حفاظت سلسلہ انسانی و حیوانی پس ہمچناں کہ رحمان محبوب است ہموں طور مظہر جلال نیز ہست.و مثل اوست نام محمد ازیں کمال.باز چوں اصحاب وارث اسم محمد شدند از خدا تعالیٰ و ظاہر کردند جلال الہٰی را و قتل کردند ظالمان را ہمچو چارپایاں.ہم چنیں وارث شد مسیح موعود اسم احمد را و اختیار کرد برائے او ایں اسم را و برائے تابعان او کہ برائے او ہمچو آل شدند.پس مسیح موعود مع جماعت خود مظہر است برائے صفت رحیمیت و احمدیت تا کہ کامل شود قول

Page 153

’’3‘‘ ۱؂.ولا رادّ للإرادات الربانیۃ.ولیتم حقیقۃ المظاہر النبویۃ.وہذا ہو وجہ تخصیص صفۃ الرحمانیۃ والرحیمیۃ بالبسملۃ.لیدل علی اسمی محمد وأحمد ومظاہرہما الآتیۃ.أعنی الصحابۃ ومسیح اللّٰہ الذی کان آتیًا فی حلل الرحیمیۃ والأحمدیۃ.ثم نکرر خلاصۃ الکلام فی تفسیر’’3‘‘.فاعلم أن اسم اللّٰہ اسم جامد لا یعلم معناہ إلَّا الخبیر العلیم.وقد أخبر عزّ اسمہ بحقیقۃ ہذا الاسم فی ہذہ الآیۃ.وأشار إلی أنہ ذاتٌ مُتّصفۃٌ بالرحمانیۃ والرحیمیۃ.أی متصفۃ برحمۃ الامتنان.و او تعالیٰ کہ از قسم صحابہ قومے دیگر نیز ہست کہ ہنوز بہ صحابہ نہ پیوستہ اند و ارادہ الہٰی را کسے ردّ نتواند کرد و تا کہ مظاہر نبویہ صورت کمال بگیرد.و ہمیں وجہ خاص کردن صفت رحمان و رحیم در بسم اللہ است.تا کہ دلالت کند بر اسم محمد و احمد و مظاہر آں ہر دو کہ آیندہ ظہور شاں مقدر بود یعنی صحابہ و مسیح موعود کہ در پیرایہائے رحیمیت و احمدیت آیندہ شود.باز دوبارہ بیان کنیم وخلاصہ کلام در تفسیر بسم اللہ الرحمن الرحیم.پس بدان کہ اسم اللہ اسمے است جامد نمی داند معنی آں مگر خدائے علیم و خبیر.و بہ تحقیق خبرداد بحقیقت ایں اسم خدا تعالیٰ دریں آیت اشارت کرد سوئے ایں کہ آں ذات متصف است برحمانیت و رحیمیت.اے برحمت احسان و برحمت

Page 154

رحمۃٌ مقَیَّدَۃٌ بالحالۃ الإیمانیۃ.وہاتان رحمتان کماءٍ أصفی وغذاءٍ أحلٰی من منبع الربوبیۃ.وکل ما ہو دونہما من صفات فہو کشعب لہذہ الصفات.والأصل رحمانیۃ ورحیمیۃ وہما مظہر سر الذات.ثم أعطی منہما نصیبٌ کاملٌ لنبیّنا إمام النہج القویم.فجعل اسمہ مُحمّدًا ظل الرحمان.و اسمہ أحمد ظلّ الرحیم.والسرّ فیہ أن الإنسان الکامل لا یکون کاملا إلَّا بعد التخلّق بالأخلاق الإلٰہیّۃ وصفات الربوبیّۃ.وقد علمتَ أن أمر الصفات کلہا تؤول إلی الرحمتین اللتین سمّیناہما بالرحمانیۃ مقید بحالت ایمانیہ.و ایں ہر دو رحمت ہمچو آب صافی و غذاء شیریں از چشمہ ربوبیت اند.و ہر چہ سوائے ایں ہر دو از صفت ہا است پس آں ہمچو شعبہ ہاست برائے ایں صفات و اصل رحمانیت و رحیمیت است.باز ازاں ہر دو پیغمبر مارا نصیبے کامل دادہ شد.پس اسم او محمد ظلّ رحمان قرار دادہ شد واسمِ احمد ظلّ رحیم.و دریں راز ایں است کہ انسان کامل کامل نمی گردد مگر بعد تخلق بہ اخلاق الہٰیہ و صفات ربوبیت.و بدانستی کہ امر ہمہ صفات باری بمآل کار سوئے دو رحمت باز گشت می کند یکے رحمانیت

Page 155

والرحیمیۃ.وعلمت أن الرحمانیۃ رحمۃٌ مطلقۃٌ علی سبیل الامتنان.ویَرِدُ فیضانہا علی کل مؤمن وکافر بل کل نوع الحیوان.وأمّا الرحیمیۃ فہی رحمۃٌ وجوبیۃ من اللّٰہ أحسن الخالقین.وجبت للمؤمنین خاصۃ من دون حیوانات أخری والکافرین.فلزم أن یکون الإنسان الکامل أعنی محمدًا مظہر ہاتین الصفتین.فلذالک سُمّی محمدًا وأحمد من رب الکونین.وقال اللّٰہ فی شأنہ ’’333333‘‘.۱؂ فأشار اللّٰہ فی قولہ ’’عَزِیزٌ‘‘ وفی قولہ ’’حَرِیصٌ‘‘إلی دوم رحیمیت.و بدانستی کہ رحمانیت رحمت مطلقہ است بر سبیل احسان.و وارد مے شود فیضان او بہ ہر مومن و کافر بلکہ ہر قسم نوع جانداراں.مگر رحیمیت پس آں رحمت وجوبیہ ہست خاص برائے مومناں بجز دیگر حیوانات و کافران.پس لازم آمد کہ انسان کامل اعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم مظہر ایں ہر دو صفت باشد واز بہر ہمیں نام او محمد و احمد است.و خدا تعالیٰ در شان او فرمود کہ مردم از ہر قوم نزد شما رسول آمد کہ از بہترین خاندان شماست برو گراں می آید کہ شما را در وے رسد و بر سلامتی شما حریص است و ایں صفت رحمانیت

Page 156

أنہ علیہ السلام مظہر صفتہ الرحمان*بفضلہ العظیم.لأنہ رحمۃ للعالمین کلہم ولنوع الإنسان والحیوان.وأہل الکفر والإیمان.ثم قال ’’بِالْمُؤْمِنِینَ رَؤُوفٌ رَّحِیمٌ‘‘.فجعلہ رحمانًا ورحیمًا کما لا یخفی علی الفہیم.وحمدہ وعزا إلیہ خُلُقًا عظیمًا من التفخیم والتکریم.کما جاء فی القرآن الکریم.وإن سألتَ ما خُلُقُہُ العظیم فنقول إنہ رحمان ورحیم.ومُنِحَ ہو علیہ الصلاۃ ہذین النورین وآدم دروست کہ بے استحقاق ہمدردی تمام مخلوق مے کند وصفتے دیگر رحیمیت است دریں رسول زیرانکہ او نمی خواہد کہ اعمال مومناں ضایع شوند پس خدا تعالیٰ در قول خود عزیز ودر قول خود حریص سوئے ایں اشارہ کردہ است زیرانکہ آں نبی رحمت است برائے تمام عالم انسان باشند یا حیوان.پس تعریف کرد او را و منسوب کرد سوئے او خلق عظیم را از روئے بزرگ دانستن.و اکرام کردن چنانچہ در قرآن شریف آمدہ است و اگر سوال کنی کہ خلق عظیم او چیست پس می گویم کہ او رحمان است و رحیم و دادہ شد او را ایں ہر دو نور و آدم درمیان آب و گل بود قال اللّٰہ تعالٰی 3 ۱؂.ولایستقیم ھٰذا گفت خدا تعالیٰ(کہ اے نبی)ما ترا برائے ہمہ چیز ہا رحمت فرستادیم و ایں معنے درست المعنی الا فی الرحمانیّۃ فان الرحیمیّۃ یختص بعالمٍ واحد من المؤمنین.منہ نمی شوند مگر در رحمانیت چرا کہ رحیمیت بعالم واحد مخصوص است کہ عالم مومنان ست.منہ

Page 157

بین الماء والطین.وکان ہو نبیًّا وما کان لآدم أثر من الوجود ولا من الأدیم.وکان اللّٰہ نورًا فقضی أن یخلق نورًا فخلق محمدَ نِ الذی ہو کدُرّ یتیم.و أشرک اسمیہ فی صفتیہ ففاق کل من أتی اللّٰہ بقلب سلیم.وإنہما یتلألآن فی تعلیم القرآن الحکیم.وإن نبیّنا مرکّب من نور موسٰی ونور عیسٰی کما ہو مُرکّب من صفتی ربّنا الأعلٰی.فاقتضی الترکیب أن یُعطٰی لہ ہذا المقام الغریب.فلأجل ذالک سمّاہ اللّٰہ محمّدًا وأحمد.فإنہ ورث نور الجلال والجمال وبہ تفرّد.وإنہ او را از وجودِ خود نشانے نہ بود و نہ پوست ظاہر بود.و خدا نور بود پس خواست کہ نورے پیدا کند پس پیدا کرد محمد را کہ ہمچو لؤلؤ یکدانہ است و ہردو اسم او محمد واحمد را در ہر دو صفت خود کہ رحمن و رحیم است شریک ساخت پس سبقت برو برہمہ آں مردم کہ بدل سلیم پیش خدا حاضر شدند وآں ہر دو نام می درخشند در تعلیم قرآنِ حکیم ورسول ما صلی اللہ علیہ وسلم مرکب است از نور موسیٰ و نورِ عیسیٰ ہم چناں مرکب است از ہر دو صفت خدائے بزرگ پس تقاضاکرد ترکیب کہ ایں مقام عجیب او را دادہ شود.پس از بہر ہمیں خدا تعالیٰ نام او محمد و احمد نہاد چرا کہ او وارث شدہ است نور جلال و جمال را و بداں نور متفرد است و او را

Page 158

اُعطی شأن المحبوبین وجَنَانُ الْمُحِبِّین.کما ہو من صفتی رب العالمین.فہو خیر المحمودین و خیر الحامدین.وأشرکہ اللّٰہ فی صفتیہ وأعطاہ حظًّا کثیرًا من رحمتیہ.وسقاہ من عینیہ.وخلقہ بیدیہ.فصار کقارورۃ فیہا راح.أو کمشکٰوۃ فیہا مصباح.وکمثل صفتیہ أنزل علیہ الفرقان.وجمع فیہ الجلال والجمال ورکّب البیان.وجعلہ سلالۃ التوراۃ والإنجیل.ومرأۃً لرؤیۃ وجہہ الجلیل والجمیل.ثم أعطی الأمّۃ نصیبًا من کأس ہذا الکریم.وعلّمہم من أنفاس ہذا المتعلّم من العلیم.فشرب دادہ شدہ است شان محبوباں و دل محبّاں چنانچہ آں ہر دو صفت ربّ العالمین است.پس بہترین محمودان است و بہترین حامداں و شریک کرد او را خدا تعالیٰ در ہر دو صفت خود و عطا کرد او را حظّ کثیر از ہر دو رحمت واز ہر دو چشمہ خود او را نوشانید وپیدا کرد او را بہر دو دست خود کہ دستِ جلال و جمال است.پس ہمچو آں شیشہ شد کہ در وشراب باشد یا ہمچو آں قندیل کہ درو چراغ بود و ہمچو آں ہردو صفت نازل کرد برو فرقان را.و جمع کرد در قرآن جلال و جمال ہر دو را و مرکب کرد بیان را و کرد او را بطور عرق کشیدہ از تورات و انجیل و آئینہ برائے دیدن حضرت باری کہ صاحب جلال و جمال است باز عطا کرد امت را حصہ از پیالہ ایں کریم و تعلیم داد اوشاں را از نفسہائے ایں تعلیم یافتہ ازاں دانندہ.پس

Page 159

بعضہم من عین اسم محمد نالتی انفجرت من صفۃ الرحمانیۃ.وبعضہم اغترفوا من ینبوع اسم أحمد نالذی اشتمل علی الحقیقۃ الرحیمیۃ.وکان قدرًا مُقدّرًا من الابتداء ووعدًا موقوتا جاریًا علی ألسُن الانبیاء.أن اسم أحمد لا تتجلّی بتجلّی تامٍ فی أحدٍ من الوارثین.إلَّا فی المسیح الموعود الذی یأتی اللّٰہ بہ عند طلوع یوم الدین.وحشر المؤمنین.ویری اللّٰہ المسلمین کالضعفاء.والإسلام کصبی نُبِذ بالعراء.فیفعل لہم أفعالا من لدنہ وینزل لہم من السماء.فہناک تکون لہ السلطنۃ فی الأرض کما ہی فی الأفلاک.وتہلک الأباطیل من غیر ضرب الأعناق و بعض مردم از چشمہ اسم محمد بخوردند کہ از صفت رحمان جوش زدہ است و بعض ایشاں از چشمہ اسم احمد مشت آب گرفتند کہ بر حقیقت رحیمیت اشتمال دارد و بود اندازہ مقرر کردہ شدہ از ابتدا و وعدہ بوقت وابستہ و جاری شدہ بر زبان انبیاء کہ اسم احمد بتجلی تام در احدے از وارثین متجلی نخواہد شد.مگر در مسیح موعود کہ بدو وقت مالک یوم الدین خواہد آمد و خواہد دید خدا تعالیٰ مسلماناں را کمزوراں و اسلام را ہمچو طفل افتادہ در دشت پس خواہد کرد برائے او شاں کار ہا و فرود آید برائے شاں.پس آں وقت او را بر زمین سلطنت چناں خواہد بود کہ بر آسمان ہا و ہمہ باطل ہا ہلاک خواہند شد بغیر کشتن مردم و

Page 160

تنقطع الأسباب کلہا وترجع الأمور إلی مالک الأملاک.وعدٌ من اللّٰہ حق کمثل وعدٍ تمّ فی آخر زمن بنی إسرائیل.إذ بُعث فیہم عیسی بن مریم فأشاع الدین من غیر أن یقتل من عصی الرب الجلیل.وکان فی قدر اللّٰہ العلیّ العلیم.أن یجعل آخر ہذہ السلسلۃ کآخر خلفاء الکلیم.فلأجل ذالک جعل خاتمۃ أمرہا مستغنیۃ من نصر الناصرین.ومظہرًا لحقیقۃ مالک یوم الدین.کما یأتی تفسیرہ بعد حین.ومن تتمّۃ ہذا الکلام.أن نبینا خیرالانام لما کان خاتم الانبیاء واصفی الأصفیاء.وأحبّ الناس إلی حضرۃ الکبریاء.أراد اللّٰہ سبحانہ أن یجمع فیہ صفتیہ العظیمتین علی اسباب ہمہ منقطع خواہند شد و امرے مالک الملک منتقل خواہد شد.ایں وعدہ حق از خدا تعالیٰ است ہمچو آں وعدہ کہ در آخر زمانہ بنی اسرائیل باتمام رسید یعنی آن وقت کہ درآں عیسیٰ بن مریم مبعوث شد و دین را بغیر شمشیر شایع کرد.و بود در تقدیر خدائے علیم و حکیم کہ آخر ایں سلسلہ را ہمچو آخر سلسلہ خلفاء موسیٰ را بگرداند.پس برائے ہمیں خاتمہ اسلام مستغنی کردہ شد از مدد مددکنندگاں و مظہر برائے حقیقت مالک یوم الدین چنانچہ تفسیرآں قریب می آید و از تتمہ ایں کلام است کہ چونکہ نبی ما صلی اللہ علیہ وسلم کہ خاتم الانبیاء است و صافی تر از مقام برگزیدگان و از ہمہ محبوب تر نزد حضرت احدیت ارادہ کرد او سُبحانہ کہ بطور ظلیت صفات عظیمہ خود

Page 161

الطریقۃ الظلیۃ.فوہب لہ اسم محمد واحمد لیکونا کالظلین للرحمانیۃ والرحیمیۃ.ولذالک أشار فی قولہ 3.۱؂ إلی أن العابد الکامل یُعطَی لہ صفات رب العالمین.بعد أن یکون من العابدین الفانین.وقد علمتَ أن کل کمال من کمالات الأخلاق الإلہیۃ.مُنحصرٌ فی کونہ رحمانًا ورحیمًا و لذالک خصّہما اللّٰہ بالبسملۃ.وعلمتَ أن اسم محمد وأحمد قد أُقیما مقام الرحمان والرحیم.و أودعہما کل کمال کان مخفیّا فی ہاتین الصفتین من اللّٰہ العلیم الحکیم.فلا شک أن اللّٰہ درو جمع کند.پس بخشید او را اسم محمد و اسم احمد تا کہ ایں ہر دو اسم برائے رحمانیت و رحیمیت بطور ظل باشند و از بہر ہمیں در قول خود ایاک نعبد و ایاک نستعین اشارہ فرمود است کہ پرستار کامل را بطور ظل صفات رب العالمین دادہ می شود بعد زانکہ از عابداں فنا شدہ شود.و تو دانستی کہ ہر کمال از کمالات اخلاق الہٰیہ منحصر است در صفت رحمان و رحیم و از بہر ہمیں ایں ہر دو اسم بہ بسم اللہ خاص کردہ شدند.و دانستی کہ اسم محمد واحمد قائم مقام صفت رحمان و رحیم است.و ہر کمال کہ دریں ہر دو صفت مخفی بود دریں ہر دو نام نہادہ شد.پس ہیچ شک نیست کہ خدا تعالیٰ

Page 162

جعل ہذین الاسمین ظلّین لصفتیہ.ومظہرین لسیرتیہ.لیُری حقیقۃ الرحمانیۃ والرحیمیۃ فی مراۃ المحمدیۃ والأحمدیۃ.ثم لمّا کان کُمّل أمّتہ علیہ السلام من أجزاۂ الروحانیۃ.وکالجوارح للحقیقۃ النبویۃ.أراد اللّٰہ لإبقاء آثار ہذا النبی المعصوم.أن یورثہم ہذین الاسمین کما جعلہم وُرثاء العلوم.فأدخل الصحابۃ تحت ظل اسم محمد نالذی ہو مظہر الجلال.وأدخل المسیح الموعود تحت اسم أحمد نالذی ہو مظہر الجمال.وما وجد ہؤلاء ہذہ الدولۃ إلَّا بالظلیۃ.فإذن ما ثَمَّ شریکٌ ایں ہر دو اسم را برائے ہر دو صفت خود بطور ظل و مظہر کردہ است تا کہ بینند حقیقت رحمانیت و رحیمیت را در آئینہ محمدیت و احمدیت باز چوں کاملان امت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم را ہمچو اجزاء روحانیت بودند و ہمچو اعضا بودند حقیقت نبویہ را ارادہ فرمود خدا تعالیٰ برائے باقی داشتن نشان ہائے ایں نبی معصوم.اینکہ وارث کند ایشاں را دریں ہر دو صفت ہم چناں کہ وارث علوم کردہ است.پس صحابہ را زیر ظل اسم محمد داخل کرد آں اسم کہ مظہر جلال است و داخل کرد مسیح موعود زیر ظل احمد کہ مظہر جمال است و ایں دولت را نیافتند مگر بظلیت.پس اکنوں نیست اینجا شریکے

Page 163

علی الحقیقۃ.وکان غرض اللّٰہ من تقسیم ہذین الاسمین.أن یُفرّق بین الأمۃ ویجعلہم فریقین.فجعل فریقًا منہم کمثل موسٰی مظہر الجلال.وہم صحابۃ النبی الذین تصدّوا أنفسہم للقتال.وجعل فریقًا منہم کمثل عیسٰی مظہر الجمال.وجعل قلوبہم لیّنۃً وأودع السلم صدورہم وأقامہم علی أحسن الخصال.وہوالمسیح الموعود والذین اتّبعوہ من النساء والرجال.فتمّ ما قال موسٰی وما فاہ بکلام عیسٰی وتمّ وعد الربّ الفعّال.فإن موسٰی أخبر عن صحبٍ کانوا مظہر اسم محمد نبینا المختار.وصور جلال اللّٰہ علی وجہ الحقیقت و غرض خدا تعالیٰ از تقسیم ایں دو اسم ایں بود.کہ یک امت را دو امت سازد.پس گروہ ے را ازیشاں ہمچو موسیٰ از روئے جلال کرد وآں صحابہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اند کہ برائے قتال خویشتن را پیش کردند و فریقے را ازوشاں ہمچو عیسیٰ مظہر جمال کرد و دل شاں نرم گردانید و آشتی را در سینہ شاں نہاد و بر احسن خصال اوشانرا قائم کرد و آں مسیح موعود است و تابعان او از زنان و مردان پس بہ تمام رسید آنچہ موسیٰ گفت و آنچہ عیسیٰ گفت و تمام شد وعدہ خدا تعالیٰ.چرا کہ موسیٰ خبرداد ازاں اصحاب کہ مظہر اسم محمد بودند و صورت ہائے جلال الہٰی

Page 164

القہّار.بقولہ ’’3‘‘.۱؂ وإن عیسی أخبر عن ’’آخَرَینَ مِنْہُمْ‘‘ وعن إمام تلک الأبرار.أعنی المسیح الذی ہو مظہر أحمد الراحم الستّار.ومنبع جمال اللّٰہ الرحیم الغفّار.بقولہ ’’3‘‘۲؂ الذی ہو معجب الکفار.وکل منہما أخبر بصفاتٍ تناسب صفاتہ الذاتیۃ.واختار جماعۃ تشابہ أخلاقہم أخلاقہ المرضیۃ.فأشار موسٰی بقولہ ’’3‘‘.۳؂ إلی صحابۃٍ أدرکوا صُحبۃ نبیّنا المختار.وأَروا شدّۃً وغلظۃً فی المضمار.وأظہروا جلال اللّٰہ بالسیف البتّار.وصاروا ظل اسم محمد رسول اللّٰہ القہّار.بودند بقول او کہ اوشاں سخت برکافراں اند.و بہ تحقیق عیسیٰ از گروہ ے دیگر خبر داد و از امام آں نیکاں.مراد من آں مسیح است کہ مظہر احمد است کہ رحم کنندہ و ستار است.ومنبع جمال رحیمیت است.و ایں در قول اوست کہ گفت کہ آں گروہ ہمچو سبزہ نبات است کہ بہ نرمی سر می بردارد و آخر مزارعین را در تعجب می اندازد و ہر یک ازیں ہر دو موسیٰ و عیسیٰ بداں صفتہا خبرداد کہ مناسب صفات ذاتیہ اوبودند.و اختیار کرد جماعتے را کہ اخلاق او شاں باخلاق او مشابہ بودند.پس موسیٰ بقول خود کہ اشدّاء علی الکفار سوئے صحابہ رضی اللہ عنھم اشارہ کرد آنانکہ صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یافتند و شدّت و سختی در میدان نمودند.و جلال الہٰی بشمشیر برّان ظاہر نمودند و ظل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شدند

Page 165

علیہ صلوات اللّٰہ وأہل السماء وأہل الأرض من الأبرار والأخیار.وأشار عیسی بقولہ ’’کَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَہُ‘‘* إلی قومٍ ’’آخَرَینَ مِنْہُمْ‘‘ وإمامہم المسیح.بل ذکر اسمہ أحمد بالتصریح.وأشار بہذا المثل الذی جاء فی القرآن المجید.إلی أن المسیح الموعود لا یظہر إلَّا کنباتٍ لیّنٍ لا کالشیء الغلیظ الشدید.ثم من عجائب برو سلام خدا و آسمانیاں و زمیناں از نیکاں.وعیسیٰ بقول خود معنی فقرہ کزرع اخرج شطأہ سوئے قومے دیگر و امام شاں کہ مسیح است اشارہ کرد.و بدیں مثل کہ در قرآن شریف است اشارہ کرد کہ مسیح موعود ظاہر نہ شود.مگر ہمچو سبزہ نرم نہ ہمچو چیزے کہ غلیظ و شدید است باز از عجائب اعلم یا طالب العرفان انہ ما جاء فی کتاب اللّٰہ الفرقان ان الصحابۃ کانوارحماء علی اھل البغی والعدوان.واما رُحْم بعضھم علی بعضٍ فلا یخرجھم من الجلالیّۃ.بل تزید قوّۃ الجلال کونھم فی صورۃ الوحدۃِ فانّھم کشخص واحدٍ عنداللّٰہ وکالجوارح لحضرۃ الرسالۃ.ولایختلج فی قلبٍ انّ مثل الزرع مشترکٌ فی التوراۃ والانجیل فانّ ھٰذا المثل قد خُصّ بکتاب عیسٰی فی التنزیل.ثم لا نجدہ فی التوراۃ ونجدہ فی الانجیل بالتفصیل ومن المعلوم انّ القرّاء الکبار یقفون علی قولہ تعالٰی مثلھم فی التوراۃِ.و لایلحقون بہ ھٰذا المثل عندقراء ۃ ھٰذہ الاٰیات.بل یخصونہ بالانجیل یقینًا من غیر الشبھات ولاجل ذالک کتب الوقف الجائزعلیہ فی جمیع المصاحف المتداولۃ وان کنت فی شک فانظرالیھالزیادۃالمعرفۃ.منہ

Page 166

القرآن الکریم أنہ ذکر اسم أحمد حکایتًا عن عیسٰی وذکر اسم محمد حکایتًا عن موسٰی.لیعلم أن النبی الجلالی أعنی موسی اختار اسمًا یُشابہ شأنہ.أعنی محمد نالذی ہو اسم الجلال.وکذالک اختار عیسی اسم أحمد نالذی ہو اسم الجمال بما کان نبیّا جمالیًا وما اعطی لہ شیء من القہر والقتال.فحاصل الکلام أن کُلًّا منہما أشار إلی مثیلہ التام.فاحفظ ہذہ النکتۃ فإنہا تُنجیک من الأوہام.وتکشف عن ساقی الجلال والجمال.وتُری الحقیقۃ بعد رفع الفدام.وإذا قبلتَ ہذا فدخلتَ فی حِفظ اللّٰہ وکلاء ہ من کل دجّال.ونجوتَ من کل ضلال.قرآن کریم این است کہ او از زبان عیسیٰ علیہ السلام احمد را نقل کرد و از موسیٰ علیہ السلام اسم محمد تا کہ خوانندہ بداند کہ نبی جلالی یعنے موسیٰ مناسب حال خود اسمے اختیار کرد یعنے محمد کہ اسم جلالی است.و عیسیٰ علیہ السلام اسم احمد اختیار کرد کہ اسم جمالی است چرا کہ عیسیٰ نبی جمالی بود و ہیچ چیزے از قہر و جلال نداشت.پس حاصل کلام این است کہ ایں ہر دو نبی سوئے مثیل خود اشارت کردہ اند.یادگیر ایں نکتہ را چرا کہ آں نجات دہد ترا از وہم ہا.و ہر دو ساق جلال و جمال را برہنہ مے کند و بعد رفع سرپوش حقیقت را وامی نماید.پس اگر ایں قبول کردی پس داخل شدی در حفظ خدا تعالیٰ از ہر دجال.ونجات یافتی از ہر گمراہی.

Page 167

الباب الرابع باب چہارم فی تفسیر33.3.اعلم أن الحمد ثناءٌ علی الفعل الجمیل لمن یستحق الثناء.ومدحٌ لِمُنعمٍ أنعم من الإرادۃ وأحسن کیف شاء.ولا یتحقق حقیقۃ الحمد کما ہو حقّہا إلَّا للذی ہو مبدءٌ لجمیع الفیوض والأنوار.ومُحسنٌ علی وجہ البصیرۃ لا من غیر الشعور ولا من الاضطرار.فلا یوجد ہذاالمعنی إلَّا فی اللّٰہ الخبیر البصیر.وإنہ ہو المحسن ومنہ المنن کلہا فی الأول والأخیر.و بدانکہ حمد تعریفے است بر فعل جمیل کسے را کہ می سزد تعریف را و مدح است مر منعمے را کہ بارادہ خود انعام کردہ است و نیکی کردہ است بطوریکہ خواستہ و متحقق نمی شود حقیقت حمد چنانکہ حق اوست مگر برائے کسے کہ او مبدء تمام فیضہا ونورہاست و بر وجہ بصیرت احسان کنندہ است نہ بغیر ارادہ و نہ در وقت انتظار.پس یافتہ نمی شوند ایں معنی مگر در خبیر و بصیر.و فی الحقیقت محسن ہموں است و ہمہ احسانہا از دست در اول و در آخر

Page 168

لہ الحمد فی ہذہ الدار وتلک الدار.وإلیہ یرجع کل حمد یُنسب إلی الأغیار.ثم إن لفظ الحمد مصدرٌ مبنیٌّ علی المعلوم والمجہول.وللفاعل والمفعول.من اللّٰہ ذی الجلال.ومعناہ أن اللّٰہ ہو محمّدٌ و ھو أحمد علی وجہ الکمال.والقرینۃ الدالۃ علی ہذا البیان.أنہ تعالی ذکر بعد الحمد صفاتا تستلزم ہذا المعنی عند أہل العرفان.واللّٰہ سبحانہ أومأ فی لفظ الحمد إلی صفات توجد فی نورہ القدیم.ثم فسّر الحمد وجعلہ مخدّرۃ سَفَرَتْ عن وجہہا عند ذکر الرحمان والرحیم.فإن الرحمان یدل علی أن الحمد مبنی علی المعلوم.و او راست تعریف درینجا و در آنجا وسوئے او آں ہمہ راجع مے گردد کہ سوئے اغیار منسوب کردہ می شود.باز لفظ حمد مصدر است کہ مبنی است بر معلوم و مجہول.و برائے فاعل و مفعول از خدا تعالیٰ.و معنی او ایں است کہ خدا محمد است و خدا احمد بر وجہ کمال و قرینہ دلالت کنندہ بریں بیان ایں است کہ خدا تعالیٰ ذکر کرد بعد حمد آں صفتہا را کہ مستلزم ایں معنے اند و خدائے سُبحانہ اشارت کرد در لفظ احمد سوئے آں صفات کہ در نور قدیم او یافتہ مے شوند و لفظ حمد را آں عروس ساخت کہ در وقت ذکر رحمان و رحیم از برقع روئے خود بیروں آورد.چراکہ لفظ رحمان دلالت میکند براینکہ صیغہ حمد مبنی بر معلوم است.

Page 169

والرحیم یدل علی المجہول کما لا یخفٰی علی أہل العلوم.وأشار اللّٰہ سبحانہ فی قولہ ’’رَبِّ الْعَالَمِینَ‘‘ إلی أنہ ہو خالق کل شیء ومنہ کلما فی السّمٰوات والأرضین.ومن العالمین ما یوجد فی الأرض من زمر المہتدین.وطوائف الغاوین والضالین.فقد یزید عالم الضلال والکفر والفسق وترک الاعتدال.حتی یملأ الأرض ظلمًا وجورًا ویترک الناس طرقَ اللّٰہِ ذاالجلال.لا یفہمون حقیقۃ العبودیۃ.ولا یؤدّون حق الربوبیۃ.فیصیر الزمان کاللیلۃ اللیلاء.ویُداسُ الدین تحت ہذہ اللأوَاء.و لفظ رحیم دلالت بریں میکند کہ لفظ حمد مبنی بر مجہول است چنانچہ بر اہل علم پوشیدہ نیست و اشارت کرد در قول او کہ رب العالمین است سوئے اینکہ پیدا کنندہ ہر یک چیز خداست و ازدست ہرچہ در آسمانہا و زمینہا است.و از جملہ عالمہا آناں ہستند کہ برزمین یافتہ می شوند از گروہ ہا ہدایت یافتگاں و گروہ ہائے گمراہاں.پس گاہے زیادہ مے شود عالم گمراہی و کفر و فسق و ترک اعتدال تا بحدے کہ زمین از ظلم و جور پُر می شود و مردم راہ ہائے خدا ترک می کنند.نمی فہمند حقیقت عبودیت را و نہ ادا مے کنند حق ربوبیت را پس زمانہ ہمچو شب تاریک مے گردد و دین زیر سختی ہا کوفتہ مے شود.

Page 170

ثم یأتی اللّٰہ بعالم آخر فتُبَدّل الأرضُ غیر الأرض و ینزل القضاء مُبدلا من السماء.ویُعطَی للناس قلبٌ عارفٌ ولسانٌ ناطقٌ لشکر النعماء.فیجعلون نفوسہم کمورٍ مُعَبَّدٍ لحضرۃ الکبریاء.ویأتونہ خوفًا ورجاءً بطرف مغضوضٍ من الحیاء.و وجہ مقبل نحو قبلۃ الاستجداء.وہمّۃ فی العبودیۃ قارعۃ ذُروَۃ العلاء.ویشتد الحاجۃ إلیہم إذ انتہی الأمر إلی کمال الضلالۃ.وصار الناس کسباع أو نَعَمٍ من تغیر الحالۃ.فعند ذالک تقتضی الرحمۃ الإلہیۃ والعنایۃ الأزلیۃ أن یُخلق فی السماء ما یدفع باز خدا تعالیٰ عالمے دیگر ظاہر مے فرماید پس مبدل می شود زمین و نازل می شود تقدیر نو از آسمان.و دادہ می شود مردم را دل شناسندہ و زبان گویندہ برائے شکر نعمت پس نفسہائے خود را برائے خدا تعالیٰ ہمچو راہ نرم کردہ می کنند و می آیند پیش او بخوف و رجاء و بچشم پوشیدہ از حیا.و روئے کہ کردہ باشند سوئے قبلہ طلب بخشش و بہ ہمتے کہ از عبودیت سر بلندی را مس کردہ باشد.و سخت می شود حاجت سوئے شاں چوں امر مردم تا کمال گمراہی برسد.ومردم ہمچو درندگان یا چارپایاں از تغیر حالت شوند پس دریں وقت رحمت الٰہی تقاضا می کند و عنایت ازلی می خواہد کہ درآسمان آنرا پیدا کند کہ دفع

Page 171

الظلام.ویہدم ما عمّر إبلیسُ و أقام.من الأبنیۃ والخیام.فینزل إمامٌ من الرحمٰن.لیذُبّ جنود الشیطان.ولم یزل ہذہ الجنود و تلک الجنود یتحاربان.ولا یراہم إلَّا من اعطی لہ عینان.حتی غُلّ أعناق الأباطیل.وانعدم ما یُری لہا نوع سراب من الدلیل.فما زال الإمام ظاہرًا علی العِدا.ناصرًا لمن اہتدی.معلیا معالم الھدی مُحییًا مواسم التُّقٰی.حتی یعلم الناس أنہ أَسَر طواغیت الکفر وشدّ وثاقہا.وأخذ سباع الأکاذیب وغلّ أعناقہا.وہدم عمارۃ البدعات وقوّض تاریکی کند و بشکند آنچہ ابلیس عمارت کرد و قائم کرد.از مکانہا و خیمہا پس نازل می شود امامے از رحمان تا دفع کند لشکر شیطان را.و ہمیشہ ایں لشکر و آں لشکر جنگ می کنند.و نمے بینند اوشانرا مگر کسے کہ او را چشم دادہ باشند تا بحدے کہ گردنہائے باطل بستہ می شوند و دلائل شاں معدوم می شوند پس ہمیشہ می باشد امام غالب بر دشمناں مدد کنندہ آنرا کہ ہدایت یابد بلند کنندہ نشانہائے ہدایت را زندہ کنندہ نشانہائے تقویٰ را تا بدانند مردم کہ او قید کرد طواغیت کفر را و مضبوط کرد قید آنہا را و گرفت درندہ ہائے دروغ را و بست آنہا را بشکست عمارت بدعات و ویران کرد بنائے

Page 172

قبابہا.وجمع کلمۃ الإیمان ونظم أسبابہا.وقوّی السلطنۃ السماویۃ وسدّ الثغور.وأصلح شأنہا وسدّد الأمور.وسکّن القلوب الراجفۃ.وبکّت الألسنۃ المرجفۃ.وأنار الخواطر المظلمۃ.وجدّد الدولۃ المخلقۃ.وکذالک یفعل اللّٰہ الفعّال.حتی یذہب الظلام والضلال.فہناک ینکص العدا علی أعقابہم.ویُنکّسون ما ضربوا من خیامہم.ویحلّون ما اربوا من آرابہم.ومن أشرف العالمین.وأعجب المخلوقین.وجود الأنبیاء والمرسلین.وعباد اللّٰہ الصالحین الصدّیقین.گرد بر آوردہ او و جمع کرد کلمۂ ایمان را و منتظم کرد اسباب آنرا و قوی کرد آسمانی سلطنت را و رخنہائے او را بند کرد و اصلاح شان او کرد و امور او درست کرد وتسکین داد دلہائے لرزندہ را.و لاجواب کرد زبانہائے دروغ گویندہ را.و روشن کرد دلہائے تاریک را و تازہ کرد دولت کہنہ را.و ہم چنیں مے کند خدائے فعال.تا بحدے کہ دور مے شود تاریکی و گمراہی.پس در آن وقت پس پا می روند دشمن و نگون مے کنند آنچہ زدند از خیمہ ہا و بکشائند آنچہ زدند از گرہ ہا شریف تر عالم ہا وجود انبیاء و مرسلان است.و بندگان خدا کہ صالح و صدیق اند

Page 173

فإنہم فاقوا غیرہم فی بث المکارم وکشفِ المظالم وتہذیبِ الأخلاق.وإرادۃِ الخیر للأنفس والآفاق.ونشرِ الصلاح والخیر.وإجاحۃِ الطلاح والضیر.وأمرِ المعروف والنہیِ عن الذمائم.وسوقِ الشہوات کالبہائم.والتوجّہِ إلی رب العبید.وقطعِ التعلّق من الطریف والتلید.والقیامِ علی طاعۃ اللّٰہ بالقوۃ الجامعۃ.والعُدّۃ الکاملۃ.والصولِ علی ذراری الشیطان بالحشود المجموعۃ.والجموع المحشودۃ.وترکِ الدنیا للحبیب.والتباعُدِ عن مغناہا الخصیب.وترکِ ماۂا چرا کہ اوشاں سبقت بردند از غیر خود در شائع کردن مکارم و دور کردن مظالم و تہذیب اخلاق.و ارادہ کردن نیکی برائے خویشاں و و دوراں و شائع کردن نیکی و دور کردن تباہی و ضرر را و امر معروف و منع کردن از بدی ہا.و از راندن شہوات ہمچو بہائم و توجہ کردن سوئے خدا تعالیٰ.وقطع تعلق کردن از مال نو و مال کہنہ.و قیام کردن بر فرمانبرداری خدا تعالیٰ بقوت جامعہ و طیاری کاملہ و حملہ کردن بر ذریت شیطان با لشکر جمع کردہ و جماعتہائے جمع شدہ و ترک دنیا برائے دوست و دور شدن ازجائے آں کہ با زراعت است

Page 174

ومرعاہا کالہجرۃ.وإلقاء الجران فی الحضرۃ.إنہم قومٌ لا یتمضمض مقلتہم بالنوم.إلَّا فی حبّ اللّٰہ والدعاء للقوم.وإن الدنیا فی أعین أہلہا لطیف البُنیۃ ملیح الحِلیۃ.وأمّا فی أعینہم فہی أخبث من العذرۃ.وأنتن عن المَیْتۃ.أقبلوا علی اللّٰہ کل الاقبال.ومالوا إلیہ کل المیل بصدق البال.وکما أن قواعد البیت مقدّمۃ علی طاقٍ یُعقد.ورواق یُمہّد.کذالک ہؤلاء الکرام مقدّمون فی ہذہ الدار علی کل طبقۃ من طبقات الأخیار.وأُرِیتُ أن أکملہم و ترک کردن آب دنیا و چراگاہ دنیا ہمچو ہجرت و انداختن پیش کردن در حضرت باری.آں قومے است نہ در آورد پیغولہ چشمِ شاں خواب را مگر در حبّ خدا و دعا برائے قوم و دنیا در چشم اہل او لطیف بُنیہ است و ملیح حلیہ اوست.مگر در چشم شاں پس خبیث تر از گندگی و بدبوتر از مردار است.توجہ کردند سوئے خدا کامل توجہ و میل کردند سوئے او ہمہ میل بصدق دِل و چنانکہ قاعدہ ہائے بیت مقدم اند بر طاق ہائے کہ ساختہ می شوند و از پردہ ہائے بیروں کشیدہ از عمارت.ہم چنیں ایں بزرگان مقدم اند دریں خانہ دنیا بر ہر طبقہ از نیکاں و من از کشف در یافتہ ام کہ

Page 175

وأفضلہم وأعرفہم وأعلمہم نبینا المصطفٰی.علیہ التحیۃ والصلاۃ والسلام فی الأرض والسماوات العُلی.وإن أشقی الناس قومٌ أطالوا الألسنۃ وصالوا علیہ بالہمز وتجسس العیب.غیر مطّلعین علی سرّ الغیب.وکم من ملعونٍ فی الأرض یحمدہ اللّٰہ فی السماء.وکم من مُعظّمٍ فی ہذہ الدار یُہان فی یوم الجزاء.ثم ہو سبحانہ أشار فی قولہ ’’رَبِّ الْعَالَمِینَ‘‘ إلی أنہ خالق کل شیءٍ وأنہ یُحمد فی السماء والأرضین.وأن الحامدین کانوا علی حمدہ دائمین.وعلی ذکرہم عاکفین.و اکمل شان و افضل شان و اعرف و اعلم شان پیغمبر ما صلی اللہ علیہ وسلم است.و بدبخت ترین مردم کسانے ہستند کہ زبانہا برو دراز کردند بہ عیب جوئی بے آنکہ بر راز پوشیدہ خبر باشد و بسیار کس اند کہ لعنت کردہ مے شود برو شاں در زمین و تعریف او شاں می کند خدا بر آسمان و بسیار کس دریں دنیا تعریف کردہ می شوند و در آخرت ذلیل کردہ خواہند شد باز اشارت کرد بکلمہ خود رب العالمین کہ او خالق ہر چیز است و تعریف کردہ مے شود در زمین و آسمان و حمد کنندگان بر حمد او مداومت میکنند و بر ذکر او قائم اند و

Page 176

إن من شیءٍ إلَّا یُسَبّحہ ویحمدہ فی کل حین.وإن العبد إذا انسلخ عن إراداتہ.وتجرّد عن جذباتہ.وفنی فی اللّٰہ وفی طرقہ وعباداتہ.و عرف ربّہ الذی ربّاہ بعنایاتہ.حمدہ فی سائر أوقاتہ.وأحبّہ بجمیع قلبہ بل بجمیع ذرّاتہ.فعند ذالک ہو عالمٌ من العالمین.ولذالک سُمّی إبراہیم أمّۃ فی کتاب أعلم العالمین.ومن العالمین زمان أُرسِلَ فیہم خاتم النبیین.و عالم آخر فیہ یأتی اللّٰہ بآخرین من المؤمنین.فی آخر الزمان رحمۃ علی الطالبین.وإلیہ أشار ہر چیز تعریف او می کند و بندہ چوں از ارادہ ہائے خود منسلخ گشت.و از جذبات خود متجرد گشت و در عبادات او و در راہ ہائے او فنا شد شناخت آں رب را کہ پیدا کردہ ہمہ اوقات تعریف او خواہد کرد.و بہمہ دل او را دوست خواہد داشت.پس دریں وقت اوعالمے است از عالمہا.واز بہر ہمیں در قرآن کریم نام ابراہیم امت نہادہ شد و از عالم ہا یکے آں عالم است کہ خاتم النبیین درو فرستادہ شد و عالمے دیگر آں است کہ مؤخر کردہ شدند درو مومنان در آخر زمانہ برائے رحمت طالبان.و سوئے ایں

Page 177

فی قولہ تعالی ’’3‘‘.۱؂ فأومأ فیہ إلی أحمدین وجعلہما من نعماۂ الکاثرۃ.فالأوّل منہما أحمد نالمصطفٰی ورسولنا المجتبٰی.والثانی أحمد آخر الزمان.الذی سُمّی مسیحا ومہدیّامن اللّٰہ المنّان.وقد استنبطت ہذہ النکتۃ من قولہ’’3‘‘.۲؂ فلیتدبّر من کان من المتدبرین.وعرفتَ أن العالمین عبارۃ عن کل موجود سوی اللّٰہ خالق الأنام.سواء کان من عالم الأرواح أو من عالم الأجسام.وسواء کان من مخلوق الأرض اشارہ کردہ است در قول او تعالیٰ کہ او را حمد است در اول و آخر.پس اشارت کرد سوئے دو احمد و گردانید آں ہر دو را از جملہ نعمتہائے بسیار.پس اول ازوشاں احمد مصطفی و نبی ما برگزیدہ است.و دوم احمد آخرالزمان است آنکہ نام او مسیح و مہدی است از خدائے منان.و مستنبط مے شود ایں نکتہ از قول او الحمد للہ رب العالمین.پس باید کہ تدبر کند ہر چہ تدبر کنندہ باشد و تو بدانستی کہ لفظ عالمین مراد است از ہر موجود سوائے خدا تعالیٰ برابر است کہ از عالم ارواح باشد یا از عالم اجسام.و برابر است کہ از مخلوق ارض

Page 178

أو کالشمس والقمر وغیرہما من الأجرام.فکلٌّ من العالمین داخلٌ تحت ربوبیۃ الحضرۃ.ثم إن فیض الربوبیّۃ أعمّ وأکمل وأتمّ من کل فیض یُتَصَوّرُ فی الأفئدۃ.أو یجری ذکرہ علی الألسنۃ.ثم بعدہ فیض عام وقد خُصّ بالنفوس الحیوانیّۃ والإنسانیّۃ.وہو فیض صفۃ الرحمانیّۃ.وذکرہ اللّٰہ بقولہ ’’الرَّحْمٰنِ‘‘ وخصہ بذوی الروح من دون الأجسام الجمادیۃ والنباتیۃ.ثم بعد ذالک فیضٌ خاصٌّ وہو فیضُ صفۃ الرحیمیّۃ.ولا ینزل ہذا الفیض إلَّا علی النفس التی سعَی سعیہا لکسب الفیوض المترقّبۃ.ولذالک باشد یا ہمچو شمس و قمر از اجرام.پس تمام عالم داخل است تحت ربوبیت حضرت باری تعالیٰ و ایں فیض عام تر و تمام تر کامل تر است از ہر فیضے کہ تصور کردہ شود در دل ہا باز بعد زیں فیض صفت رحمانیت است و ذکر آں کرد خدا تعالیٰ بقول او الرحمن و خاص کرد او را بنفوس حیوانی و انسانی.و بہر نفس کہ جانے دارد و بعد زاں فیضے دیگر است و آں فیض صفت رحیمیت است و ایں فیض نازل نمی شود مگر بر نفسے کہ برائے فیوض مترقبہ حق کوشش بجا آرد.و از بہر ہمیں

Page 179

یختص بالذین آمنوا وأطاعو ربًّا کریمًا.کما صُرّح فی قولہ تعالٰی ’’3‘‘.۱؂ فثبت بنص القرآن أن الرحیمیۃ مخصوصۃ بأہل الإیمان.وأمّا الرحمانیۃ فقد وسعت کل حیوان من الحیوانات.حتی ان الشیطان نال نصیبًا منہا بأمر حضرۃ ربّ الکائنات.وحاصل الکلام ان الرحیمیۃ تتعلق بفیوضٍ تترتب علی الأعمال.ویختص بالمؤمنین من دون الکافرین وأہل الضلال.ثم بعد الرحیمیّۃ فیضٌ آخر وہو فیض الجزاء الأَتمّ ایں فیض خاص است بکسانے کہ ایمان آورند و طاعت کنند رب کریم را چنانکہ تصریح کردہ شدہ در قول او تعالیٰ کہ خدا رحیم مومناں است پس ثابت شد از نص قرآن کہ صفت رحیم بودن باہل ایمان خاص است مگر رحمانیت شامل است ہر حیوان را بحدے کہ شیطان ہم نصیبے ازاں یافتہ است بحکم خدائے کائنات.و حاصل کلام این است کہ رحیمیت تعلق میدارد بآں فیض!ہا کہ بر اعمال مترتب می شوند.وخاص است بمومنان بدون کافران و گمراہان.باز بعد رحیمیت فیضے دیگر است وآں فیض جزاء

Page 180

والمکافات.وإیصال الصالحین إلی نتیجۃ الصالحات والحسنات.وإلیہ أشار عزّ اسمہ بقولہ ’’3‘‘.۱؂ و إنہ آخر الفیوض من رب العالمین.وما ذُکر فیضٌ بعدہ فی کتاب اللّٰہ أعلم العالمین.والفرق فی ہذا الفیض وفیض الرحیمیۃ.أن الرحیمیۃ تُبلّغ السالک إلی مقام ہو وسیلۃ النعمۃ.وأمّا فیض المالکیۃ بالمجازات.فہو یُبلّغ السالک إلی نفس النعمۃ وإلی منتہی الثمرات.وغایۃ المرادات.وأقصی المقصودات.فلا و مکافات است.و رسانیدن صالحان تا نتیجہ صلاح و عمل نیک.و سوئے ایں اشارہ کردہ است بقول او کہ رب العالمین.و آں آخر فیوض است از رب العالمین.و ذکر نکردہ شد فیضے بعد آں در کتاب اللہ کہ اعلم العالمین.و فرق دریں فیض و فیض رحیمیت این است کہ رحیمیت سالک را می رساند تا مقامے کہ آں وسیلہ نعمت است مگر فیض مالکیت بجزا دادن.پس آں مے رساند سالک را تا نفس نعمت و ثمرہ آخری.و مراد آخری.و مقصود آخری.پس

Page 181

خفاء أن ہذا الفیض ہو آخر الفیوض من الحضرۃ الأحدیۃ.وللنشأۃ الإنسانیۃ کالعلّۃ الغائیۃ.وعلیہ یتم النعم کلہا و تستکمل بہ دائرۃ المعرفۃ ودائرۃ السلسلۃ.ألا تری أن سلسلۃ خلفاء موسٰی انتہت إلی نُکتۃ مالک یوم الدین.فظہر عیسی فی آخرہا وبُدِّلَ الجور والظلم بالعدل والإحسان من غیر حرب ومُحاربین.کما یُفہم من لفظ الدین فإنہ جاء بمعنی الحلم والرفق فی لغۃ العرب و عندأدباۂم أجمعین.فاقتضت مماثلۃ نبیّنا پوشیدہ نیست کہ ایں فیض فیض آخری است از خدا تعالیٰ.وبرائے پیدائش انسانیہ ہمچو علّت غائیہ و برو کامل می شوند ہمہ نعمت ہا و دائرہ معرفت و سلسلہ بکمال می رسد.آیا نمی بینی کہ سلسلہ خلفاء موسیٰ ختم شد بر نکتہ مالکِ یوم الدین.پس ظاہر شد عیسیٰ علیہ السلام در آخر سلسلہ و مبدل کرد جور و ظلم را بعدل و احسان بغیر جنگ و جنگ کنندگان ہم چناں کہ فہمیدہ می شود از لفظ دین چرا کہ او آمدہ است بمعنی نرمی کردن در زبان عرب.پس تقاضا کرد مماثلت نبی ما

Page 182

بموسی الکلیم.ومشابہۃ خلفاء موسٰی بخلفاء نبینا الکریم.أن یظہر فی آخر ہذہ السلسلۃ رجلٌ یُشابہ المسیح.ویدعو إلی اللّٰہ بالحلم ویضع الحرب ویُقرِبُ السیف الْمُجِیح.فیحشر الناس بالآیات من الرحمان.لا بالسیف والسنان.فیُشابہ زمانہ زمان القیامۃ ویوم الدین والنشور.ویملأ الأرض نورًا کما مُلئت بالجور والزور.وقد کتب اللّٰہ أنہ یُرِی نموذج یوم الدین قبل یوم الدین.ویحشر الناس بعد موت التقویٰ وذالک وقت المسیح الموعود وہو زمان ہذا المسکین.وإلیہ أشار فی آیۃ بموسیٰ.و مماثلت خلفاء موسیٰ بخلفاء نبی کریم ما.اینکہ ظاہر شود در آخر ایں سلسلہ مسیح و بخواند سوئے خدا بہ نرمی و ترک کند جنگ را در خلاف کند شمشیر ہلاک کنندہ را پس حشر مردم بر نشان ہائے خدا شود نہ بہ نیزہ و سنان.پس مشابہ باشد زمانہ او بروز قیامت و پرکردہ شود زمین بنور چنانچہ پُر بود بظلم و دروغ.و نوشتہ است خدا تعالیٰ کہ او بنماید نمونہ قیامت قبل از قیامت و حشر کردہ شوند مردم بعد از موت پرہیزگاری وآں وقت مسیح است و آں وقت ایں مسکین است و سوئے ایں اشارہ

Page 183

یوم الدین.فلیتدبّر من کان من المتدبّرین.وحاصل الکلام ان فی ہذہ الصفات التی خُصّت باللّٰہ ذی الفضل والإحسان.حقیقۃ مخفیّۃ ونبَأً مکتومًا من اللّٰہ المنّان.وہو أنہ تعالی أراد بذکرہا أن یُنبیءَ رسولہ بحقیقۃ ہذہ الصفات.فأرَی حقیقتہا بأنواع التأییدات.فربّی نبیّہ وصحابتہ فأثبت بہا أنہ رب العالمین.ثم أتمّ علیہم نعماء ہ برحمانیتہ من غیر عمل العاملین.فأثبت بہا أنہ أرحم الراحمین.ثم أراہم عند اشارہ کرد در آیت یوم الدین.پس تدبر کند تدبر کنندہ.و حاصل کلام ایں است کہ درایں صفات کہ خاص کردہ شدہ اند بخدائے ذو الفضل و الاحسان حقیقتے پوشیدہ است و خبرے پنہاں از خدا تعالیٰ و آں ایں است کہ ارادہ کرد او سبحانہ کہ رسول خود را از حقیقت ایں صفات خبر دہد.پس خواص آں صفات را بانواع تائیدات بنمود.پس پرورش کرد نبی خود را و صحابہ او را و ثابت کرد کہ او رب العالمین است.باز کامل کرد بروشاں رحمانیت خود را بغیر عمل عاملے.پس ثابت کرد بآں ارحم الراحمین بودن خود باز کوششِ اوشاں

Page 184

عملہم برحمۃ منہ أیادی حمایتہ.وأیّدہم بروح منہ بعنایتہ.ووہب لہم نفوسًا مطمئنۃ.وأنزل علیہم سکینۃ دائمۃ.ثم أراد أن یریہم نموذج مالِکِ یوم الدین.فوہب لہم الملک والخلافۃ وأَلْحَقَ أعداء ہم بالہالکین.وأہلک الکافرین وأزعجہم إزعاجًا.ثم أری نموذج النشور فأخرج من القبور إخراجًا.فدخلوا فی دین اللّٰہ أفواجًا.وبدروا إلیہ فرادی وأزواجًا.فرأی الصحابۃ أمواتًا یلفون حیاۃ ورأوا بعد المحل ماءً ا ثجّاجًا.وسمی ذالک الزمان یوم الدین.لأن الحق حصحص فیہ ودخل فی الدین أفواج من الکافرین.ثم را برحمت خود قبول نمود و در ظل حمایت خود جا داد و از طرف خود مدد ایشاں کرد.و اوشاں را نفوس مطمئنہ بخشید.و برو شاں سکینت نازل فرمود.باز ارادہ کرد کہ اوشانرا نمونہ مالک یوم الدین بنماید.پس بخشید او شانرا ملک و خلافت و لاحق کرد دشمنان ایشاں را بہلاک شدگان و ہلاک کرد کافراں را و از بیخ برکند باز نمونہ حشر بنمود پس از قبرہا بیروں آمدند پس در دین خدا فوج در فوج داخل شدند.و شتابی کردند سوئے او یک یک و گروہ گروہ پس دیدند صحابہ مردگان را کہ مے یابند زندگی را و دیدند بعد خشک سال آب رواں را.و آں زمانہ کہ نام او دین نہادند چراکہ در و حق ظاہر شد و در دین فوجہا داخل شدند کہ پیش ازیں کافر بودند.باز

Page 185

أراد أن یُری نموذج ہذہ الصفات فی آخرین من الأمّۃ.لیکون آخر المِلّۃ کمثل أوّلہا فی الکیفیۃ.و لیتمّ أمر المشابہۃ بالأمم السابقۃ، کما أُشیر إلیہ فی ہذہ السورۃ.أعنی قولہ ’’3‘‘۱؂ فتدبّر ألفاظ ہذہ الآیۃ.وسمّی زمان المسیح الموعود یوم الدین.لأنہ زمان یحیٰی فیہ الدّین.وتحشر الناسُ لیقبلوا بالیقین.ولا شک ولا خلاف أنہ رَبَّی زماننا ہذا بأنواع التربیۃ.وأرانا کثیرًا من فیوض الرحمانیۃ والرحیمیۃ.کما أری السابقین من الأنبیاء والرسل.وأرباب ارادہ کرد کہ ایں صفات را در آخرین بنماید تا کہ امر مشابہت بامم سابقہ بکمال رسد چنانچہ اشارہ کردہ شد سوئے او دریں سورہ مراد میدارم قول او تعالیٰ صراط الذین انعمت علیہم.پس فکر کن در ایں آیت.و نام زمانہ مسیح یوم الدین نہادہ شد چرا کہ او زمانے است کہ درو دین زندہ خواہد شد.و ہیچ شک نیست و نہ خلاف کہ او تربیت ایں امت کردہ است و گوناگوں.و بسیارے از فیض ہائے رحمانیت و رحیمیت مارا بنمود.چنانکہ بنمود سابقان را از انبیاء و رسولاں و

Page 186

الولایۃ والخلّۃ.وبَقِیَت الصفۃ الرابعۃ من ہذہ الصفات.أعنی التجلّی الذی یُظہر فی حُلّۃ ملک أو مالک فی یوم الدین للمجازات.فجعلہ للمسیح الموعود کالمعجزات.وجعلہ حَکَمًا ومَظہرًا للحکومۃ السماویۃ بتأیید من الغیب والآیات.وستعلم عند تفسیر ’’أَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ‘‘ ہذہ الحقیقۃ.وما قلتُ من عند نفسی بل أُعطِیتُ من لدن ربی ہذہ النکات الدقیقۃ.ومن تدبرہا حق التدبر وفکّر فی ہذہ الآیات علم أن اللّٰہ أخبر فیہا عن المسیح ومن زمنہ الذی ہو زمن اولیاء و اصفیاء و باقی ماندہ صفت رابع ازیں صفات اربعہ مراد میدارم آں تجلی را کہ ظاہر شود در لباس بادشاہاں در روز جزا.پس او را گردانید برائے مسیح موعود و مقرر کرد او را حکم و مظہر حکومت سماویہ بتائید غیب و نشانہا.و عنقریب خواہی دانست وقت تفسیر آیت انعمت علیہم ایں حقیقت را.و من از طرف خود نگفتم بلکہ از خدائے خود ایں نکتہ ہائے باریک را یافتہ ام.و آنکہ تدبر کند حق تدبر دریں آیت ہا.خواہد دانست کہ خدا خبر دادہ است دریں آیت از مسیح و زمانہ پُر برکت او

Page 187

البرکات.ثم اعلم أن ہذہ الآیات قد وقعت کحدٍّ مُعَرّفٍ للّٰہ خالق الکائنات.وإن کان اللّٰہ تَعَالٰی ذاتہ عن التحدیدات.ومن ہذا التعلیم والإفادۃ.یتضح معنی کلمۃ الشہادۃ.التی ہی مناط الإیمان والسعادۃ.وبہذہ الصفات استحق اللّٰہ الطاعۃ وخُصّ بالعبادۃ.فإنہ ینزل ہذہ الفیوض بالإرادۃ.فإنک إذا قلتَ لا إلہ إلَّا اللّٰہ فمعناہ عند ذوی الحصات.أن العبادۃ لا یجوز لأحدٍ من المعبودین أو المعبودات.إلَّا لذاتٍ غیر مُدرکۃ مُستجمعۃ باز بداں کہ ایں آیات ہمچو حد معرفت خداوند تعالیٰ است اگرچہ ذات خدا از حد بست بلند تر است.و ازیں تعلیم و شہادت واضح می شود معنی کلمہ شہادت آں کلمہ کہ مدار ایمان و سعادت است.و بدیں صفات خدا تعالیٰ مستحق بندگی شد و خاص کردہ شد برائے پرستش.چرا کہ او ایں فیضہا بالارادہ نازل می فرماید.چرا کہ چوں گفتی لا الٰہ الا اللہ پس معنی او نزد عقملنداں ایں است کہ بجز آں کس کہ ایں صفات مے دارد پرستش کسے را نمے سزد

Page 188

لہذہ الصفات.أعنی الرحمانیۃ والرحیمیۃ اللتین ہما أوّل شرط لموجود مستحق للعبادات.ثم اعلم أن اللّٰہ اسم جامد لا تُدرَک حقیقتہ لأنہ اسم الذات.والذات لیس من المدرکات.وکل ما یُقال فی معناہ فہو من قبیل الأباطیل والخزعبیلات.فإن کُنہَ الباریء أرفع من الخیالات.وأبعد من القیاسات.وإذا قلتَ محمدٌ رسول اللّٰہ فمعناہ أن محمّدًا مظہر صفات ہذہ الذات وخلیفتہا فی الکمالات.ومُتمّمدائرۃ الظلّیۃ وخاتم الرسالات.فحاصل یعنے مراد مے دارم رحمانیت و رحیمیت را و آں اول شرط است برائے مستحق عبادت.باز بدانکہ اسم اللہ جامد است حقیقت او معلوم نیست چرا کہ آں اسم ذات است و ذات او بالاتر از دریافت است و ہرچہ در معنی اللہ می گویند از قبیل باطل است چرا کہ کنہ باری بلند تر از قیاسات و خیالات است.و چوں گفتی محمد رسول اللہ پس معنی آں ایں است کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مظہر صفات ایں ذات و در کمالات خلیفہ اوست.و تمام کنندہ دائرہ ظلیت و خاتم رسالت است.پس حاصل

Page 189

ما أُبصر وأری.أن نبینا خیر الورَی.قد ورث صفتی ربّنا الأعلٰی.ثم ورث الصحابۃ الحقیقۃ المحمدیۃ الجلالیۃ کما عرفتَ فیما مضی.وقد سُلم سیفہم فی قطع دابر المشرکین.ولہم ذکر لا یُنسی عند عبدۃ المخلوقین.وإنہم أدّوا حق صفۃ المحمّدیۃ.وأذاقوا کثیرا من الأیدی الحربیۃ.وبقیت بعد ذالک صفۃ الأحمدیۃ.التی مُصَبّغۃ بالألوان الجمالیۃ.محرقۃ بالنیران الْمُحِبّیۃ.فورثہا المسیح الذی بُعث فی زمن انقطاع الأسباب.وتکسر الْمِلَّۃ من الأنیاب.آنچہ مے بینم ایں است کہ نبی کریم ما وارث ہر دو صفت خدائے ماست.باز صحابہ وارث حقیقت محمدیہ جلالیہ شدند چنانکہ پیش ازیں دانستی و شمشیر شاں در قلع قمع مُشرکاں مسلم است.و یاد شاں چیزے است کہ مشرکاں فراموش نخواہند کرد اوشاں حق صفت محمدیت ادا کردند و بسیارے را دست ہائے حرب چشانیدند و باقی ماند صفت احمدیت کہ رنگین است برنگ ہائے جمال.و سوختہ است بآتش محبت.پس وارث آں مسیح موعود گشت کہ در زمانہ انقطاع اسباب و تباہی ملت آمد.

Page 190

وفقدان الأنصار والأحباب.وغلبۃ الأعداء وصول الأحزاب.لیُرِی اللّٰہ نموذج مالک یوم الدین.بعد لیالی الظلام.وبعد انہدام قوّۃ الإسلام.وسطوۃ السلاطین.وبعد کون المِلّۃ کالمستضعفین.فالیوم صار دیننا کالغرباء.وما بقیت لہ سلطنۃ إلَّا فی السماء.وما عرفہ أہل الأرض فقاموا علیہ کالأعداء.فأُرسل عند ہذا الضعف وذہاب الشوکۃ عبدٌ من العباد.لیتعہّد زمانًا ماحِلا تعہّد العِہاد.و ذالک ہو المسیح الموعود الذی جاء عند ضعف و کمی مددگاراں و دوستاں و در وقت غلبہ دشمناں تا کہ خدا تعالیٰ نمونہ مالکِ یوم الدین بنماید بعد زینکہ قوت اسلام منہدم شد و سطوت سلاطین نماند و ملت کمزور گشت و باقی نماند او را سلطنت مگر بر آسمان.و نشناختند آنرا اہلِ زمین پس ہمچو دشمناں برخواستند.پس فرستادہ شد بر وقت ایں کمزوری دین بندہ از بندگان تا کہ زمانہ قحط را ہمچو باراں تعہد کند و آں ہماں مسیح موعود است کہ در وقت ضعف

Page 191

الإسلام.لِیُرِی اللّٰہ نموذج الحشر والبعث والقیام.ونموذج یوم الدین.إنعامًا منہ بعد موت الناس کالأنعام.فاعلم أن ہذا الیوم یوم الدین.وستعرف صدقنا ولو بعد حین.وہہنا نکتۃ کشفیۃ لیست من المسموع.فاسمع مُصغیًا و علیک بالمودوع.وہو أنہ تعالٰی ما اختار لنفسہ ہہنا أربعۃ من الصفات.إلَّا لِیُرِی نموذجہا فی ہذہ الدنیا قبل الممات.فأشار فی قولہ ’’33‘‘۱؂ إلی أن ہذا النموذج یُعطَی لصدر الإسلام.ثم للآخرین من الأمۃ الداخرۃ.و اسلام آمد تا کہ بنماید خدا تعالیٰ نمونہ حشر و بعث و یوم دین بطور انعام بعد مردن مردم ہمچو چارپایاں پس بدان کہ ایں روز یوم الدین است.و عنقریب صدق ما خواہی دانست و اینجا نکتہ است کشفی کہ از قبیل مسموع نیست.پس بشنو در حالیکہ گوش سوئے من داری و بر تو واجب است کہ سکینت و وقار اختیار کنی وآں ایں است کہ اختیار نکردہ است خدا تعالیٰ برائے نفس خود ایں ہر چہار صفت را مگر برائے اینکہ نمونہ شاں در ہمیں دنیا قبل از موت نماید پس اشارہ نمود در قول خود کہ او را احمد است در اول و آخر سوئے اینکہ ایں نمونہ دادہ خواہد شد صدر

Page 192

کذالک قال فی مقام آخر وہو أصدق القائلین’’3‘‘.۱؂ فقسّم زمان الہدایۃ والعون والنصرۃ.إلی زمان نبیناصلی اللّٰہ علیہ وسلم.وإلی الزمان الآخر الذی ہو زمان مسیح ہذہ الملّۃ.وکذالک قال’’3‘‘.۲؂ فاشار إلی المسیح الموعود وجماعتہ والذین اتّبعوہم.فثبت بنصوصٍ بیّنۃ من القرآن.ان ہذہ الصفات قد ظہرت فی زمن نبیّنا ثم تظہرفی آخر الزمان.و ہو زمانٌ یکثر فیہ الفسق والفساد.ویقل اسلام را باز آخرین را از امت خوار شوندہ وہم گفت در مقامے دیگر خدائے اصدق القائلین است کہ گروہ ے از اولین است و گروہ ے از آخرین.پس تقسیم کرد زمانہ ہدایت و مدد را طرف زمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم وسوئے زمانہ مسیح ایں امت.و ہم گفت کہ در آخر زمانہ نیز از جماعت ہستند کہ ہنوز ظاہر نشدند پس اشارت کرد سوئے مسیح موعود و جماعت او و دیگر تابعان.پس ثابت شد بنصوص بیّنہ از قرآن کہ ایں صفات در زمانہ نبی ما ظاہر شدند و باز در آخر زمان ظاہر شوند.وآں زمانہ است کہ درو فسق و فساد بسیار خواہد شد و صلاح

Page 193

الصلاح والسداد.ویُجاح الإسلام کما تُجاح الدوحۃ.ویصیر الإسلام کسلیم لدغتہ الحیّۃ.ویصیر المسلمون کأنہم المیْتۃ.ویُداس الدین تحت الدوائر الہائلۃ.والنوازل النازلۃ السائلۃ.و کذالک ترون فی ہذا الزمان.وتشاہدون أنواع الفسق والکفر والشرک والطغیان.وترون کیف کثر المفسدون.وقلّ المصلحون المواسون.وحان للشریعۃ أن تُعدَم.وآن للمِلّۃ أن تُکتَم.و ہذا بلاءٌ قد دہم.وعناءٌ قد ہجم.وشرٌّ قد نجم.ونارٌ أحرقت العرب والعجم.و و سدادکم خواہد گردید و از بیخ برکندہ شود اسلام چنانچہ از بیخ برمیکند درخت را و اسلام ہمچو آں مارگزیدہ شود کہ او را مارے گزیدہ باشد و خواہند شد مسلماناں کہ گویا مُردہ اند و دین زیر حوادث خوفناک کوفتہ گردد و زیر مصیبتہائے نازل شوندہ جاری شوندہ.وہم چنیں مے بینید دریں زمانہ و مشاہدہ مے کنید انواع فسق و کفر و شرک و تجاوز از حد و مے بینید کہ چگونہ مفسداں زیادہ شدند و مصلحاں و غمخواراں کم شدند و نزدیک شد کہ دین معدوم کردہ شود و ملت پوشیدہ گردد و ایں بلاء بیکبار آمدہ است و رنجے است کہ ہجوم کرد و بدی است کہ طلوع کرد و آتشے است کہ عرب و عجم را بسوخت

Page 194

مع ذالک لیس وقتنا وقت الجہاد.ولا زمن المرہفات الحداد.ولا أوان ضرب الأعناق والتقرین فی الأصفاد.ولا زمان قَوْد أہل الضلال فی السلاسل والأغلال.وإجراء أحکام القتل والاغتیال.فإن الوقت وقت غلبۃ الکافرین وإقبالہم.وضُرِبت الذلّۃ علی المسلمین بأعمالہم.وکیف الجہاد ولا یُمنع أحدٌ من الصوم والصلٰوۃ.ولا الحج والزکٰوۃ.ولا من العفۃ والتقاۃ.وما سَلّ کافرٌ سیفًا علی المسلمین.لیرتدّوا أو یجعلہم عضین.فمن و باوجود ایں وقت ما وقت جہاد نیست و نہ زمانہ شمشیر ہائے تیز و وقت گردن زدن و پا بزنجیر کردن.و نہ زمانہ کشیدن اہل گمراہی در زنجیر ہا و طوق ہا و حکم قتل دادن چرا کہ وقت وقتِ غلبہ منکران و اقبال شان ہست و بر مسلمین شامت اعمال شان وارد شدہ و چگونہ جہاد کردہ شود و ہیچ کس از نماز منع نمے کند و از حج و زکوٰۃ منع نمی کنند و نہ از عفت و پرہیزگاری مانع می آیند او نمی کشد ہیچ کافرے تیغے بر مسلمانان تا مُرتد شوند یا پارہ پارہ کردہ شوند.پس از

Page 195

العدل أن یُسَلَّ الحسام بالحسام.والأقلام بالأقلام وإنّا لا نبکی علی جراحات السیف والسنان.وإنما نبکی علی أکاذیب اللسان.فبالأکاذیب کُذّبت صحف اللّٰہ واخفی أسرارُہا.وصیل علی عمارۃ المِلّۃ وہُدّمَ دارہا.فصارت کمدینۃ نُقِض أسوارہا.أو حدیقۃ أُحرِق أشجارُہا.أو بُستان أُتلِفَ زہرہا وثمارُہا.وسُقط أنوارہا.أو بلدۃٍ طیّبۃٍ غیض أنہارہا.أو قصورٍ مشیّدۃٍ عُفّیَ آثارُہا.ومزّقہا الممزّقون.وقیل ماتت ونعَی الناعون.وطُبعت طریق عدل ایں است کہ شمشیر بمقابل شمشیر برداشتہ شود و قلم بمقابلہ قلم.و بر زخم ہائے شمشیر و نیزہ نمے گرییم.بلکہ بر دروغہائے زبان مے گرییم.پس بدروغہا تکذیب کلام الہٰی کردہ شد و اسرار او پوشیدہ کردہ شد و حملہ کردہ شد برعمارت ملت و منہدم کردہ شد خانہ او پس ہمچو آں شہرے شد کہ دیوارہائے او مسمار کردہ آید یا ہمچو آں باغے کہ درختہائے آں سوزانند.یا ہمچو آں بستانے کہ گل ہائے او و برہائے او تلف کردہ شوند و شگوفہ او ریختہ اند یا زمین پاک کہ زیر زمین شد نہرہائے او یا کاخہائے برافراشتہ کہ نابود شدند نشانہائے آں ہا.و پارہ پارہ کردند ملت را پارہ پارہ کنندگان و گفتہ شد کہ مرد و خبر رسانندگان خبر موت او آوردند.

Page 196

أخبارُہا وأشاعتہا المشیّعون.ولکل کمال زوال.ولکل ترعرع اضمحلال.کما تری أن السیل إذا وصل إلی الجبل الراسی وقف.و اللیل إذا بلغ الی الصبح المسفر انکشف.کما قال اللّٰہ تعالٰی ’’3‘‘.۱؂ فجعل تنفّس الصبح کأمر لازمٍ بعد کمال ظلمات اللیل.وکذالک فی قولہ ’’3‘‘.۲؂ جُعِلَ کمال السیل دلیل زوال السیل.فاراد اللّٰہ أن یردّ إلی المؤمنین أیّامہم الأولٰی.وأن یریہم أنہ ربّہم وأنہ الرّحمٰن و طبع کردہ شد خبر ہائے آں و اشاعت کردند اشاعت کنندگان.و ہر کمالے را زوالے است و ہر نشو و نما را آخر مضمحل شدن است چنانکہ می بینی کہ چوں سیل تا کوہ بلند می رسد ہماں جا ایستد و شب چوں تا صبح می رسد تاریکی خود بخود دور می گردد چنانکہ خدا تعالیٰ می فرماید کہ قسم شب چوں بوجہ کمال تاریکی آورد و قسم صبح چوں بر آید.پس درینجا تنفس صبح را بعد کمال شب لازم گردانیدہ است.و ہم چنیں در قول یا ارض ابلعی کمال سیل دلیل زوالِ سیل گردانیدہ شدہ.پس ارادہ کرد خدا تعالیٰ کہ باز آرد سوئے مومناں روز ہائے نخستین را و نماید کہ او رب او شان است و رحمان

Page 197

والرحیم ومالک یوم فیہ یُجْزیٰ.ویُبعث فیہ الموتٰی.وإنکم ترون فی ہذا الزمان.ربوبیۃ اللّٰہ المنّان.ورحمانیّتہ للإنسان والحیوان.التی تتعلّق بالأبدان.وترون أنہ کیف خلق أسبابًا جدیدۃ.ووسائل مفیدۃ.وصنائع لم یُر مثلہا فیما مضٰی.وعجائب لم یوجد مثلہا فی القرون الأولی.وترون تجدّدًا فی کلما یتعلق بالمسافر والنزیل والمقیم وابن السبیل.و الصحیح والعلیل.والمحارب والمُصالح المقیل.والإقامۃ والرحیل.وجمیع أنواع و رحیم و مالک یوم جزاء و یوم حشر مردگاں.و شما مے بینید دریں زمانہ ربوبیت خدا تعالیٰ و رحمانیت او را برائے انسان و حیوان آں ربوبیت و رحمانیت کہ بجسم ہا تعلق دارد و چگونہ اسباب نو پیدا کردہ است.و وسیلہ ہائے مفیدہ ظاہر کردہ وآں صنعت ہا کہ نظیر آں در ازمنہ گزشتہ نیست و نہ مثل آں در قرون اولیٰ.و مے بینید طرز نو را و صنعت جدید را در ہر امر کہ تعلق بمسافراں دارد ومقیماں و تندرستاں و بیماراں و جنگ کنندگان و صلح کنندگان و در حالت اقامت و در حالت کوچ و تمام اقسام

Page 198

النعماء والعراقیل.کأن الدنیا بُدّلت کل التبدیل.فلا شک أنہا ربوبیۃ عظمٰی.ورحمانیۃ کبری.وکذالک تری الربوبیۃ والرحمانیۃ والرحیمیۃ فی الأمور الدینیۃ.وقد یُسّر کل أمرٍ لطلباء العلوم الإلہیۃ.ویُسّرَ أمر التبلیغ وأمر إشاعۃ العلوم الروحانیۃ.وأُنزِلت الآیات لکل من یعبد اللّٰہ ویبتغی السکینۃ من الحضرۃ.وانکسف القمر والشمس فی رمضان وعُطّلت العشار فلا یُسْعَی علیہا إلَّا بالندرۃ.وسوف تری المرکب الجدید فی سبیل مکۃ والمدینۃ.وأُیّد نعمت ہا و دشواری ہائے مے بینید.گویا کہ دنیا از ہمہ جہت تبدیل کردہ شد.پس ہیچ شک نیست کہ ایں ربوبیت عظمیٰ است و رحمانیت کبریٰ.وہم چنیں مے بینی ربوبیت و رحمانیت در امور دیں و بہ تحقیق آساں کردہ شد ہر امر برائے طالبان علوم الہٰیہ.و آسان کردہ شد امر تبلیغ و اشاعت علوم ربانیہ.و نازل کردہ شدند آیات برائے ہر کسے کہ پرستد خدا را و طالب سکینت است و کسوف قمر و شمس در رمضان شد.و شتراں معطل شدند مگر بطور نادر و عنقریب بینی مرکب جدید را در راہ مکہ و مدینہ.و مدد کردہ شدند

Page 199

العالمون والطالبون بکثرۃ الکتب وأنواع أسباب المعرفۃ.وعُمّر المساجد.وحُفِظَ الساجد.وفتح أبواب الأمن والتبلیغ والدعوۃ.وما ہو إلَّا فیض الرحیمیۃ.فوجب علینا أن نشہد أنہا وسائل لا یوجد نظیرہا فی القرون الأولی.وإنہ توفیق وتیسیر ما سمع نظیرہ أذنٌ وما رأی مثلہ بصرٌ فانظر إلی رحیمیۃ ربنا الأعلٰی.ومن رحیمیتہ أنّا قدرنا علی أن نطبع کتب دیننا فی أیام.ما کان من قبل فی وسع الأوّلین أن یکتبوہا فی أعوام.وإنّا نقدر علی أن نطّلع علی عالماں و طالباں بہ کثرت کتاب و انواع اسباب معرفت.وآباد کردہ شد مساجد.و نگہداشت نمودہ شد سجدہ کنندہ و کشادہ شد در ہائے امن و درہائے تبلیغ و دعوت و نیست ایں مگر فیض رحیمیت پس واجب شد بر ما کہ گواہی دہیم کہ در زمانہ گذشتہ نظیر ایں وسائل نیست.و ایں توفیقے است و آسانی کہ مثلش ہیچ چشمے ندید پس نظر کن سوئے رحیمیت خدا تعالیٰ و از رحیمیت او تعالیٰ است کہ ما قدرت می داریم کہ در چند روز ہا آنقدر کتب دین بنویسیم کہ در طاقت پیشینیاں نبود کہ در سالہا آنہا را توانند نوشت و نیز ما قدرت میداریم کہ

Page 200

أخبار أقصی الأرض فی ساعات*.وما قدر علیہ السابقون إلَّا لشق ۱؂ الأنفس وبذل الجہد إلی سنوات.وقد فُتِحَ علینا فی کل خیر أبواب الربوبیۃ والرحمانیۃ والرحیمیۃ.وکثرت طرقہا حتی خرج إحصاء ہا من الطاقۃ البشریۃ.و أین تیسّر ہذا للسابقین من أہل التبلیغ والدعوۃ.وإن الأرض زُلزلت لنا زلزالا.فأخرجت أثقالا.و فُجّرت الأنہار.وسُجّرت البحار.وجُدّدت المراکب وعُطّلت العشار.و إن السابقین ما رأوا کمثل ما رأینا من النعماء.بر خبر ہائے انتہائے زمین در چند ساعت اطلاع یابیم مگر پیشینیاں بجز سخت کوشش و سالہائے دراز ایں خبرہانمے دانستند و بہ تحقیق در ہر راہ نیکی بر ما در ہائے ربوبیت و رحمانیت و رحیمیت کشادہ کردہ اند.و بسیار شدند طریقہائے آں تا بحدے کہ خارج است شمار آں از طاقت انسانی و گذشتگان را ایں قدر اسباب کے میسر شدند و بہ تحقیق جنبانیدہ شد زمین جنبانیدنی پس بیروں آورد چیزہائے سنگین کہ پوشیدہ بودند و شگافتہ شدند نہر ہا و خشک کردہ شدند دریا ہا و مراکب نو برآوردہ شدند و شتراں معطل کردہ شدند و گذشتگاں آں نعمتہا ندیدہ اند کہ ما دیدیم

Page 201

وفی کل قدم نعمۃ وقد خرجت من الإحصاء.ومع ذالک کثرت موت القلوب وقساوۃ الأفئدۃ.کأنّ الناس کلہم ماتوا ولم یبق فیہم روح المعرفۃ.إلَّا قلیل نالذی ہو کالمعدوم من الندرۃ.وإنّا فہمنا ممّا ذکرنا من ظہور الصفات.وتجلّی الربوبیۃ والرحمانیۃ والرحیمیۃ کمثل الآیات.ثم من کثرۃ الأموات.وموت الناس من سمّ الضلالات.ان یوم الحشر والنشر قریب بل علی الباب.کما ہو ظاہر من ظہور العلامات والأسباب.فإن الربوبیۃ والرحمانیۃ والرحیمیۃ تموّجت کتموّج و در ہر قدم نعمت است کہ از شمار بیرون است و باوجود ایں موتِ دلہا بسیار شد و دلہا سخت شدند گویا تمام مَردم مُردند و روح معرفت در ایشاں نماند مگر قلیل کہ بوجہ ندرت در حکم نادر است و ما از ظہور صفات باری ربوبیت و غیر فہمیدیم و از کثرت موت مردم از زہر گمراہی کہ روز حشر قریب است بلکہ بر دروازہ است چنانکہ آں از نشانی ہا و اسباب ظاہر است چرا کہ ربوبیت و رحمانیت و رحیمیت ہمچو تموج دریاہا

Page 202

البحار.وظہرت وتواترت وجرت کالأنہار.فلا شک أن وقت الحشر والنشور قد أتی.وقد مضت ہذہ السُنّۃ فی صحابۃ خیر الوَریٰ.ولا شک أن ہذا الیوم یوم الدین.ویوم الحشر و یوم مالکیّۃ ربّ السّماء وظہور آثارہا علی قلوب أہل الأرضین.ولا شک أن الیوم یوم المسیح الحَکَم من اللّٰہ أحکم الحاکمین.وإنہ حشرٌ بعد ہلاک الناس وقد مضی نموذجہ فی زمن عیسٰی وزمن خاتم النبیین.فتدبّر ولا تکن من الغافلین.در موج است و ظاہر و پے در پے شد ہمچو نہرہا پس شک نیست کہ وقت حشر و نشر دین آمدہ است.چنانچہ بر صحابہ آمدہ بود و ہیچ شک نیست کہ ایں روز روزِ دین است و روزِ حشر و روز مالکیت خدائے آسمان و روز ظہور آثارِ آں بر اہل زمین است و ہیچ شک نیست کہ ایں روز روز مسیح است کہ از خدا حَکَم گردانیدہ شدہ و ایں حشر است بعد مردن مردم و نمونہ آں در زمانہ مسیح و در زمانہ خاتم النبیین بگذشت.پس تدبر کن و غافل مباش.

Page 203

البابُ الخامِس باب پنجم فی تفسیر3 درتفسیرایّاکَ نَعْبُدُوَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن.اعلم أن حقیقۃ العبادۃ التی یقبلہا المولٰی بامتنانہ.ہی التذلّل التام برؤیۃ عظمتہ وعلوّ شانہ.والثناء علیہ بمشاہدۃ مننہ وأنواع احسانہ.وإیثارہ علی کل شیء بمحبّۃ حضرتہ وتصوّر محامدہ وجمالہ ولمعانہ.وتطہیر الجنان من وساوس الجنّۃ نظرًا إلٰی جنانہ.ومن أفضل العبادات أن یکون بدان کہ حقیقت آں عبادت کہ قبول می کند آں را خدا تعالیٰ باحسان خود آں تذلل تام است بدیدن عظمت او و علو شان او و تعریف کردن او بمشاہدہ کمال احسان او و اختیار کردن او بر ہر چیز بمحبت درگاہ او و تصور محامد او و جمال او و روشنی او و پاک کردن دل از وسوسہ ہائے شیطانان از جہت نظر داشتن بہ بہشت او.و از بزرگ ترین عبادت ہا این است کہ

Page 204

الإنسان مُحافظًا علی الصلوات الخمس فی أوائل أوقاتہا.وأن یجہد للحضور و الذوق والشوق وتحصیل برکاتہا.مواظبًا علی أداء مفروضاتہا ومسنوناتہا.فإن الصلاۃ مرکبٌ یوصل العبد إلی رب العباد.فیصل بہا إلی مقام لا یصل إلیہ علی صہوات الجیاد.وصیدہا لا یُصاد بالسہام.وسرّہا لا یظہر بالأقلام.ومن التزم ہذہ الطریقۃ.فقد بلغ الحق والحقیقۃ.وأَلْفَی الحِبَّ الذی ہو فی حُجُب الغیب.ونجا من الشک والریب.فتریٰ انسان پنجگانہ نماز را بر اوائل وقت آنہا محافظ باشد.و اینکہ کوشش کند برائے حضور در نماز و ذوق و شوق و حاصل کردن برکتہائے او و لازم گیرندہ باشد ادائے فرائض و سنت ہائے آنرا.چرا کہ نماز مرکبے است کہ بندہ را تا خدا تعالیٰ می رساند.پس بنماز تا آں مقامے می رسد کہ بر پشتہائے اسپاں نتواند رسید.و شکار آں بقابو نمی آید بہ تیر ہا.و راز آں بقلم ہا ظاہر نمی شود.و ہر کہ لازم کرد ایں طریقہ را او حق و حقیقت را رسید.و یافت آں دوست را کہ او در پردہ ہائے غیب است.و نجات یافت از شک و ریب و خواہی دید

Page 205

أیامہ غُرَرًا.وکلامہ دُرُرًا.ووجہہ بدرًا.ومقامہ صدرًا.ومن ذلّ للّٰہ فی صلواتہ أذلّ اللّٰہ لہ الملوک.و یجعل مالکًا ہذا المملوک.ثم اعلم أنّ اللّٰہ حمد ذاتہ أولا فی قولہ ’’3‘‘.۱؂ ثم حث الناس علی العبادۃ بقولہ ’’3‘‘.۲؂ ففی ہذہ إشارۃ إلی أن العابد فی الحقیقۃ.ہو الذی یحمدہ حق الحمدۃ.فحاصل ہذا الدعاء والمسألۃ.أن یجعل اللّٰہ أحمد کل من تصدّی للعبادۃ.وعلی ہذا کان من الواجبات.أن یکون أحمد فی آخر روز ہائے او روشن و کلام او مرواریدہا و روئے او ماہ چاردہ.و مقام او پیش از ہمہ و ہر کہ فروتنی را اختیار کند در نماز فروتنی می کنند برائے او بادشاہاں و مالک خواہد کرد ایں مملوک را.باز بدان کہ تعریف گفت اللہ تعالیٰ ذاتِ خود را نخستین در قول او کہ الحمد للّہ رب العالمین.باز ترغیب داد مردم را بر عبادت بقول او ایاک نعبد وایاک نستعین.پس دریں اشارہ است کہ عابد در حقیقت ہماں شخص است کہ تعریف خدا تعالیٰ کند چنانکہ حق است.پس حاصل ایں دعا و درخواست ایں است کہ خدا عبادت کنندہ را احمد بگرداند.و بناءً علیہ واجب بود کہ در آخر امت احمدے پیدا شود

Page 206

ہذہ الأمّۃ علی قدم أحمد نالأول الذی ہو سید الکائنات.لیُفہم أنّ الدعاء استُجیب من حضرۃ مستجیب الدعوات.ولیکون ظہورہ للاستجابۃ کالعلامات.فہذا ہو المسیح الذی کان وُعِد ظہورہ فی آخر الزمان.مکتوبًا فی الفاتحۃ وفی القرآن.ثم فی ہذہ الآیۃ إشارۃ إلی أن العبد لا یمکنہ الإتیان بالعبودیۃ.إلَّا بتوفیق من الحضرۃ الأحدیۃ.ومن فروع العبادۃ أن تحب من یُعادیک.کما تحب نفسک وبنیک.وأن تکون مُقیلا للعثرات.مُتجاوزًا عن الہفوات.وتعیش تقیًّا نقیًّا سلیم القلب طیب الذات.ووفیًّا صفیًّا مُنزّہًا عن ذمائم بر قدم آں احمد کہ او سید کائنات است.تا فہمیدہ شود کہ ایں دعا کہ در سورۃ فاتحہ کردہ شد در حضرت احدیت قبول شدہ است و تا ظہور آں احمد برائے قبول شدن دعا مثل علامات باشد.پس ایں ہماں مسیح است کہ وعدہ ظہور او در آخر زمان بود کہ نوشتہ شدہ بود در سورۃ فاتحہ و در قرآن.باز دریں آیت اشارت است سوئے اینکہ بندہ را ممکن نیست حق عبادت بجا آوردن مگر بتوفیق حضرت احدیت.و از شاخہائے عبادت این است کہ دشمن خود را دوست داری چنانکہ دوست میداری نفس خود را و پسران خود را و اینکہ از لغزشہائے مردم درگذر کنی و از خطاہائے ایشاں تجاوز کنی.و اینکہ زندگانی تو پاک و بے لوث باشد سلامت باشد دل از عیب ہا و پاک باشد ذات از پلیدیہا.و وفا کنندہ باصفا پاک از بد عادات ہا

Page 207

العادات.وأن تکون وجودًا نافعًا لخلق اللّٰہ بخاصیۃ الفطرۃ کبعض النباتات.من غیر التکلفات والتصنّعات.وأن لا تؤذی اخیک بکبرٍ منک ولا تجرحہ بکلمۃ من الکلمات.بل علیک أن تجیب الأخ المغضوب بتواضعٍ ولا تُحَقّرہ فی المخاطبات.وتموت قبل أن تموت وتحسب نفسک من الأموات.وتُعظّم کلّ من جاء ک ولو جاء ک فی الأطمار لا فی الحلل والکسوات.وتُسلّم علی من تعرفہ ولا تعرفہ.وتقوم متصدّیًا للمواسات.و اینکہ باشی وجود نافع مر خلق را بخاصیت پیدائش ہمچو بعض نباتات بغیر تکلف و تصنع.و ایں کہ ایذا نہ دہی برادر خود را بباعث تکبر نفس خود و نہ خستہ کنی او را ببعض کلمات بلکہ جواب دہی برادر در غضب آرندہ را بتواضع و در مخاطبات تحقیر او نہ کنی بلکہ بمیری قبل زانکہ بمیری و شماری نفس خود را از مردگان و بزرگ داری آنرا کہ نزد تو آید اگرچہ در پارچات کہنہ باشد نہ لباسہائے فاخرہ و سلام بکنی بر ہر کہ او را بشناسی و بر ہر کہ او رانشناسی و برائے غمخواری مردم برخیزی.

Page 208

الباب السَّادس باب ششم فی تفسیرقولہ تعالٰی 3 درتفسیرقول او تعالیٰ اہدناالصراط المستقیم 3* صراط الذین انعمت علیھم.بدان کہ ایں آیت ہا مخزن اند برائے نکتہ ہا.وحجت روشن ہستند برمخالفان و عنقریب ذکر آں را خواہیم کرد اعلمْ أن ہذہ الآیات خزینۃ مملوّۃ من النکات.وحجّۃ باہرۃ علی المخالفین والمخالفات.وسنذکرہا الحاشیۃ: اعلم ان فی آیۃ انعمت علیھم تبشیرللمؤمنین.واشارۃ الی ان اللّٰہ بدان کہ در آیت انعمت علیھم بشارت است مرمومناں را.واشارت سوئے معنی ست اعدلھم کلمااعطی للانبیاء السابقین.ولذالک علم ھذاالدعاء لیکون بشارۃ کہ خدا تعالیٰ برائے او شاں ہمہ آں طیار کردہ است کہ گذشتہ انبیاء را دادہ است و از بہر ہمیں ایں دُعاآموخت للطالبین.فلزم من ذالک ان یختتم سلسلۃ الخلفاء المحمدیۃ علٰی مثیل عیسٰی.تا طالبان را بشارت باشد.پس لازم شد کہ سلسلہ خلفاء محمدیہ بر مثیل عیسیٰ ختم شود.لیتم المماثلۃ بالسلسلۃ الموسویۃ والکریم اذا وعد وفا.منہ تا کہ کامل شود مماثلت بسلسلہ موسویہ و کریم چوں وعدہ کرد وفا مے کند.منہ

Page 209

بالتصریحات.ونُرِیک ما أرانا اللّٰہ من الدلائل والبینات.فاسمعْ منی تفسیرہا لعلّ اللّٰہ ینجیک من الخزعبیلات.أما قولہ تعالی3.۱؂ فمعناہ أَرِنا النہجَ القویم.وثَبِّتْنا علی طریق یوصل إلی حضرتک.وینجی من عقوبتک.ثم اعلم أن لتحصیل الہدایۃ طرقًا عند الصوفیۃ مستخرَجۃً من الکتاب والسنّۃ.أحدہا طلبُ المعرفۃ بالدلیل والحجۃ.والثانی تصفیۃُ الباطن بأنواع الریاضۃ.والثالث الانقطاعُ إلی اللّٰہ وصفاءُ المحبۃ.وطلبُ المدد من الحضرۃ.بتصریحات.و بنمائیم ترا آنچہ خدا مارا بنمود از دلائل.پس بشنو از من تفسیر آں شاید خدا تعالیٰ ترا از امور باطلہ نجات بخشد.مگر قول او تعالیٰ کہ اہدنا الصراط المستقیم.پس معنے او ایں است کہ راہ راست مارا بنما و بر راہے مارا ثابت قدم کن کہ تا درگاہ تو برساند و از عقوبت نجات بخشد باز بدانکہ برائے تحصیل ہدایت راہ ہاست نزد صوفیاں.و آں ہمہ را از کتاب و سنت اخذ کردہ اند یکے ازاں طلب معرفت بدلیل و حجت است و طریق دوم تصفیہ باطن است بہ گوناگوں ریاضت و طریق سوم منقطع شدن سوئے خدا و صفائی محبت و جستن مدد از حضرت باری

Page 210

بالموافقۃ التامۃ وبنفیِ التفرقۃ.وبالتوبۃ إلی اللّٰہ والابتہال والدعاء وعقدِ الہمۃ.ثم لما کان طریقُ طلب الہدایۃ والتصفیۃ لا یکفی للوصول مِن غیر توسُّل الأئمّۃ والمہدیّین من الأُمّۃ.ما رضِی اللہ سبحانہ علی ہذا القدر من تعلیم الدعاء.بل حث بقولہ’’صِراطَ الَّذِینَ‘‘علی تحسُّس المرشدین والہادین من أہل الاجتہاد والاصطفاء من المرسلین والأنبیاء.فإنہم قوم آثروا دار الحق علی دار الزور والغرور.وجُذبوا بحبال المحبّۃ إلی اللہ بحرِ النور.وأُخرجوا بوحیٍ من بموافقت تامہ و نفی تفرقہ و بہ رجوع کردن سوئے خدا و تضرع و عقد ہمت باز چوں طریق طلب ہدایت و تصفیہ کفایت نمی کند برائے وصول بغیر توسّل آئمہ و ہدایت یافتگان از امت راضی نشد او سبحانہ بریں قدر از دعا باز ترغیب داد بقول خود صراط الذین سوئے تلاش کردن مرشدان و ہادیان و از گروہ برگزیدگان از مرسلان و انبیاء.چرا کہ آں قومے است کہ اختیار کردند خانہ راستی را بر خانہ دروغ و غرور و کشیدہ شدند برسنہائے محبت سوئے خدا کہ دریائے نور است و خارج کردہ شدند بوحی الہٰی

Page 211

اللّہ وجذبٍ منہ مِن أرض الباطل.وکانوا قبل النبوّۃ کالجمیلۃ العاطل.لا ینطقون إلَّا بإنطاق المولٰی.ولا یؤْثرون إلاَّ الذی ہو عندہ الأَولی.یسعون کلَّ السعی لیجعلوا الناس أہلا للشریعۃ الربّانیۃ.ویقومون علی ولدہا کالحانیۃ.ویُعطَی لہم بیان یُسمِع الصُمَّ ویُنزِل العُصْمَ.وجنانٌ یجذِب بعَقْدِ الہمّۃ الأُممَ.إذا تکلّموا فلا یرمون إلَّا صائبا.وإذا توجّہوا فیُحیون مَیْتًا خائبا.یسعون أن ینقلوا الناس من الخطیّات إلی الحسنات.ومن المنہیّات إلی الصالحات.ومن الجہلات إلی الرزانۃ و جذبہ او از زمین باطل.و بودند قبل نبوت ہمچو آں زن خوبصورت کہ بے پیرایہ و زیور باشد.نمی گویند مگر بگویانیدن مولیٰ.و اختیار نمے کنند چیزے را مگر آنچہ نزدِ خدا بہتر باشد.بسیار کوشش می کنند تا مردم را اہل شریعت بگردانند وبر فرزندان شریعت چنان قائم می شوند کہ زن شوہر مردہ بر پسران خود و اوشاں را آں بیان دادہ می شود کہ شنواند ناشنوا را و فرود آرد از کوہ ہا آہوئے سفید را و دلے کہ بعقد ہمت امت ہا را می کشد چوں کلام کنند پس تیرشاں خطا نمی رود و چوں توجہ کنند پس مردہ توحید را زندہ می کنند و کوشش می کنند کہ منتقل کنند مردم را از خطاہا سوئے نیکی ہا.و از کار بدی سوئے کار نیک و از جہل ہا سوئے آہستگی

Page 212

والحَصات.ومن الفسق والمعصیۃ إلی العفّۃ والتقات.ومَن أنکرَہم فقد ضیَّع نعمۃ عُرِضتْ علیہ.وبعُد مِن عین الخیر وعن نورِ عینَیْہ.وإن ہذا القطع أکبر من قطع الرحم والعشیرۃ.وإنہم ثمرات الجنۃ فویل للذی ترکہم ومالَ إلی المِیرۃ.وإنہم نور اللّہ و یُعطَی بہم نورٌ للقلوب.وتریاق لسمِّ الذنوب.وسکینۃٌ عند الاحتضار والغرغرۃ.وثباتٌ عند الرحلۃ وترکِ الدنیا الدنیّۃ.أ تظنُّ أن یکون الغیر کمثل ہذہ الفءۃ الکریمۃ.کلَّا والذی أخرجَ العذق من الجریمۃ.ولذالک علّم اللّہُ ہذا الدعاء مِن غایۃ الرحمۃ.و عقلمندی و از فسق و معصیت سُوئے عفت و پرہیزگاری و ہر کہ انکار او شاں کرد پس ضائع کرد آں نعمت را کہ برو پیش کردند و دُور شد از نیکی و از بینائی چشم خود.و ایں قطع تعلق از قطع رحم و قبیلہ بزرگ تر است.و ایشاں میوہ ہائے بہشت اند پس وا ویلا برانکہ اوشانرا ترک کرد و سوئے قوت لا یموت مائل شد و ایشاں نور خدا ہستند چہ بوسیلہ او شاں دِل ہا را نور مے دہند و برائے زہر گناہاں تریاق می بخشند و بدو شاں سکینت دادہ می شود در وقت جان کندن و ثابت قدمی در وقتِ کوچ و ترکِ دُنیا آیا گمان می کنی کہ غیرے ہمچو ایں گروہ ے بزرگ باشد ہرگز نیست قسم بخدائے کہ نخل را از خستہ مے بر آرد و از بہر ہمیں خدا تعالیٰ ایں دعا از غایت رحیمیت تعلیم داد

Page 213

وأمَر المسلمین أن یطلبوا’’3‘‘ مِن النبیّین والمرسلین من الحضرۃ.وقد ظہر من ہذہ الآیۃ.علی کل مَن لہ حظٌّ من الدِرایۃ.أن ہذہ الأمّۃ قد بُعثتْ علی قدم الأنبیاء.وإنْ مِن نبی إلَّا لہ مثیل فی ہؤلاء.ولولا ہذہ المضاہاۃ والسواء.لبطُل طلبُ کمال السابقین وبطُل الدعاء.فاللّٰہ الذی أمَرنا أجمعین.أن نقول ’’اہْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِیمَ‘‘مصلّین ومُمسِین ومصبحین.وأن نطلب صراط الذین أنعمَ علیہم من النبیین والمرسلین.أشار إلی أنہ قد قدّر من الابتداء.أن یبعث فی ہذہ الأمّۃ بعضَ الصلحاء علی قدم الأنبیاء.و امر کرد مسلمانان را کہ بجویند آں راہے را کہ راہ انبیاء و رسولان است و ظاہر شد ازیں آیت برآنکہ نصیبے دارد از عقلمندی کہ ایں امت بر قدم انبیاء مبعوث کردہ شدہ است.و ہیچ نبی نیست کہ او را در یں امت نظیرے نہ باشد و اگر ایں مشابہت و برابری نبودے ہر آئینہ طلب کردن کمال سابقین باطل شدے و ایں دعا ہم باطل گشتے.پس آں خدائے کہ امر کرد ما را بگوئیم در نماز اہدنا الصراط المستقیم نماز کنندگان و شام کنندگان و صبح کنندگان اینکہ بجوئیم راہ کسانیکہ مورد نعمت اند از انبیاء و مرسلاں اشارہ کردہ است سوئے اینکہ او مقدر کردہ است از ابتدا کہ مبعوث فرماید ازیں امت بعض صالحان را بر قدم انبیاء.

Page 214

وأن یستخلفہم کما استخلفَ الذین مِن قبلُ مِن بنی إسرائیل.وإنّ ہذا لہو الحق فاترُک الجدل الفضول والأقاویل.وکان غرض اللّہ أن یجمع فی ہذہ الأمّۃ کمالاتٍ متفرقۃ.وأخلاقًا متبدّدۃ.فاقتضتْ سنّتُہ القدیمۃ أن یعلّم ہذا الدعاء.ثم یفعل ما شاء.وقد سمّی ہذہ الأمّۃ خیرَ الأمم فی القرآن.ولا یحصل خیرٌ إلَّا بزیادۃ العمل والإیمان والعلم والعرفان.وابتغاءِ مرضات اللّہ الرحمٰن.وکذالک وعَد الذین آمنوا وعملوا الصالحات.لیستخلفنّہم فی الأرض بالفضل والعنایات.کما استخلف الذین و خلیفہ بگرداند ازیشاں چنانکہ خلیفہ بگردانید بعض را از بنی اسرائیل.و ہمیں حق است پس ترک کن بحث فضول و قول ہا را.و غرض خدا ایں بود کہ دریں امت کمالات متفرقہ و اخلاق گوناگوں جمع کند.پس تقاضا کرد سنت قدیمہ او کہ ایں دعا بیاموزد.باز بکند ہر چہ خواستہ است و گردانیدہ شدہ است ایں امت خیر الامم در قرآن و مرتبہ قومے زیادہ نمے شود مگر بزیادت عمل و ایمان و علم و معرفت و خواستن رضائے الہٰی.و ہم چنیں وعدہ داد آنانرا کہ مومن صالح اند کہ او شانرا بر زمین خلیفہ خواہد کرد چنانچہ خلیفہ ساخت

Page 215

من قبلہم من أہل الصلاح والتقاۃ.فثبت من القرآن أن الخلفاء من المسلمین إلی یوم القیامۃ.وانہ لن یأتی أحد من السماء.بل یُبعَثون من ہذہ الأمۃ.وما لک لا تؤمن ببیان الفرقان.أتَرَکْتَ کتاب اللّہ أم ما بقِی فیک ذرۃ من العرفان.وقد قال اللّہ’’مِنْکُمْ‘‘.وما قال’’مِن بنی إسرائیل‘‘.وکفاک ہذا إن کنت تبغی الحق وتطلب الدلیل.أیہا المسکین اقرء القرآن ولا تمشِ کالمغرور.ولا تبعُدْ مِن نور الحق لئلَّا یشکو منک إلی الحضرۃ سورۃُ الفاتحۃ وسورۃُ النور.اتّق اللّہ ثم اتّق اللّہ ولا تکنْ أوّلَ پیشینیاں را از اہل صلاح و تقویٰ.پس ثابت شد از قرآن کہ خلیفہ ہا از مسلمانان اند تا روز قیامت و ہیچ کس از آسمان ہرگز نخواہد آمد بلکہ از ،ہمیں امت مبعوث خواہند شد و ترا چیست کہ بر بیان فرقان ایمان نمے آری آیا ترک کردی کتاب اللہ را یا نماند در تو یک ذرہ معرفت و گفت خدا در قرآن لفظ منکم و نہ گفت مِن بنی اسرائیل و ایں قدر ترا کافی است اگر حق مے جوئی و دلیل مے خواہی.اے مسکین قرآن را بخواں و ہمچو مغرور مرو و از نور حق دُور مشو تا سورہ فاتحہ و سورہ نور شکوہ تو بجناب الہٰی نکند بترس از خدا باز بترس از خدا و انکار

Page 216

کافر بآیات النور والفاتحۃ.لکیلا یقوم علیک شاہدان فی الحضرۃ.وأنت تقرأ قولہ’’ 3‘‘.۱؂ وتقرأ قولہ’’3‘‘.۲؂ ففکّرْ فی قولہ ’’3‘‘ فی سورۃ النور واترُک الظالمین وظنَّہم.ألم یأنِ لک أن تعلم عند قراء ۃ ہذہ الآیات.أن اللّٰہ قد جعل الخلفاء کلہم من ہذہ الأمّۃ بالعنایات.فکیف یأتی المسیح الموعود من السماوات.ألیس المسیح الموعود عندک من الخلفاء.فکیف تحسبہ من بنی إسرائیل ومن تلک الأنبیاء.أتترک القرآن وفی القرآن کل الشفاء.أو تغلّبت علیک شِقْوتک.فتترک متعمدًا طریقَ الاہتداء.آیتہائے سورۃ النور و فاتحہ مکن و اول الکافرین مشو تا بر تو دو گواہ قائم نشوند در جناب الہٰی.و تو میخوانی قول او تعالیٰ وَعَد اللّٰہ الذین اٰمنوا منکم و قول او لیستخلفنھم پس فکر کن در قول او کہ منکم است در سورۃ نور و ترک کن ظالمان را و گمان او شانرا آیا وقتت نرسید کہ بدانی وقت قرأت ایں آیتہا کہ تمام خلفاء از ہمیں امت خواہند شد.پس چگونہ مسیح موعود از آسمان خواہد آمد.آیا نزد تو مسیح موعود از جملہ خلیفہ ہا نیست.پس چگونہ مے شماری او را از بنی اسرائیل و ازاں انبیاء مے شماری آیا ترک مے کنی قرآن را حالانکہ در قرآن از ہر قسم شفاء ست یا غالب شد بر تو بد بختی تو پس عمداً طریق ہدایت را ترک مے کنی.

Page 217

ألا تریٰ قولہ تعالی’’3‘‘۱؂ فی ہذہ السورۃ.فوجب أن یکون المسیح الآتی من ہذہ الأمّۃ.لا مِن غیرہم بالضرورۃ.فإن لفظ’’کما‘‘یأتی للمشابہۃ والمماثلۃ.والمشابہۃُ تقتضی قلیلا من المغایرۃ.ولا یکون شیءٌ مُشابِہَ نفسِہ کما ہو من البدیہیات.فثبت بنصٍّ قطعیّ أن عیسی المنتظَر من ہذہ الأمۃ و ہذا یقینیٌّ ومنزّہٌ عن الشبہات.ہذا ما قال القرآن ویعلمہ العالمون.فبأی حدیث بعدہ تؤمنون.وقد قال القرآن إن عیسی نبی اللّہ قد مات.ففکّرْ فی قولہ ’’3‘‘۲؂ ولا تُحْیِ الأمواتَ.ولا تنصُر النصاری آیا نمی بینی فرمودہ خدا تعالیٰ کہ ایں خلیفہ ہا ہمچو آں خلیفہ ہا خواہند بود کہ در بنی اسرائیل بودند پس ازیں آیت واجب شد کہ مسیح موعود ازیں امت باشد و غیر او شاں نہ باشد.چرا کہ لفظ کما می آید برائے مشابہت و مماثلت.و مشابہت تقاضا می کند کہ چیزے مغایرت درمیان باشد و ہیچ چیزے مشابہ نفس خود نتواند شد چنانچہ ایں ظاہر است پس ثابت شد بنص قطعی کہ عیسیٰ منتظر ازیں امت است و ایں یقینی است بغیر شبہ.ایں آں امر است کہ قرآن فرمودہ است و دانندگان او رامے دانند پس بعد از قرآن کدام حدیث را قبول خواہید کرد و قرآن فرمودہ است کہ عیسیٰ نبی اللہ فوت شد.پس فکر کن در قول او لمّا توفیتنی و زندہ مکن مُردگان را و نصاریٰ را

Page 218

بالأباطیل والخزعبیلات.وفِتَنُہم لیست بقلیلۃ فلا تزِدْہا بالجہلات.وإن کنت تحبّ حیاۃَ نبیٍّ فآمِنْ بحیاۃِ نبیِّنا خیرِ الکائنات.وما لک أنک تحسب مَیْتًا مَن کان رحمۃً للعالمین.وتعتقد أن ابن مریم من الأحیاء بل من المُحْیِین.انظُرْ إلی’’النور‘‘ثم انظر إلی’’الفاتحۃ‘‘.ثم ارجِع البصرَ لیرجع البصر بالدلائل القاطعۃ.ألستَ تقرأ ’’3‘‘ ۱؂ فی ہذہ السورۃ.فأَنَّی تُؤفَک بعد ہذا أتنسی دعاء ک أو تقرأ بالغفلۃ.فإنک سألت عن ربک فی ہذا الدعاء والمسألۃ.أن لا یغادر نبیًّا من بنی إسرائیل إلَّا ویبعث مثیلہ فی ہذہ الأمّۃ.بدروغہا مدد مدہ و فتنہ ہائے نصاریٰ کم نیستند پس تو زیادہ مکن آں فتنہ ہا را از جہالت و اگر دوست میداری کہ پیغمبرے زندہ باشد پس بحیات نبی ما کہ خیرالکائنات است ایمان آر و چہ شد ترا کہ تو آنکہ رحمۃٌ للعالمین بود او را مُردہ مے انگاری و اعتقاد داری کہ عیسیٰ ابن مریم از زندگان است بلکہ از زندہ کنندگان.نظر کن سوئے سورہ نور باز نظر کن سوئے سورۃ فاتحہ باز چشم را سوئے آں رجوع دہ تا کہ باز آید چشم تو بدلائل قاطعہ آیا نمی خوانی صراط الذین انعمت علیھم دریں سورۃ پس کجا مے روی بعد زیں آیا فراموش مے کنی دعاء خود را یا از راہ غفلت مے خوانی چرا کہ تو سوال کردی از رب خود دریں دعا و سوال کہ ہیچ نبی را نگذارد از انبیاء بنی اسرائیل مگر اینکہ مثیل او دریں امت پیدا کند

Page 219

وَیْحَک.أنَسِیتَ دعاءَ ک بہذہ السرعۃ.مع أنک تقرأہ فی الأوقات الخمسۃ.عجبتُ منک کلَّ العجب.أہذا دعاؤک.وتلک آراؤک.انظرْ إلی الفاتحۃ وانظرْ إلی سورۃ النور من الفرقان.وأیّ شاہد یُقبَل بعد شہادۃ القرآن.فلا تکنْ کالذی سریٰ إیجاسَ خوفِ اللّہ واستشعارہ.وتَسَرْبَلَ لباسَ الوقاحۃ وشِعارَہ.أتَترُکُ کتاب اللہ لقوم ترکوا الطریق.وما کمّلوا التحقیق والتعمیق.وإنّ طریقہم لا یوصل إلی المطلوب.وقد خالفَ التوحیدَ وسُبُلَ اللّہ المحبوب.فلا تحسبْ وَعْرًا دَمِثًا وإنْ دمَّثہ کثیرٌ من الخُطا.وإن اہتدتْ إلیہا أبابیل من القطا.فإن وائے بر تو فراموش کردی دعائے خود را بدیں جلدی باوجودے کہ آنرا پنج وقت می خوانی من از تو کمال تعجب مے کنم آیا دعائے تو این است و رائے ہائے آن نظر کن سوئے فاتحہ و سوئے سورۃ نور از فرقاں و کدام شہادت قبول خواہی کرد بعد شہادت قرآن.پس مباش ہمچو کسے کہ دور کرد در دل داشتن خوف الہٰی و نہاں داشتن او و پوشید لباس وقاحت و جامہ آں ترک می کنی کتاب الہٰی را برائے قومے کہ ترک کردہ اند راہ را و کامل نکردند تحقیق و تعمیق را و طریق او شاں تا مطلوب نمی رساند و مخالف افتادہ است توحید را و راہ ہائے خدا را.پس سخت را نرم مداں اگرچہ گام ہا آنرا نرم کردہ باشند.و اگرچہ سوئے او رفتہ باشند بسیارے از مرغان سنگ خوار.چرا کہ

Page 220

ہُدی اللہ ہو الہدی.وإن القرآن شہد علی موت المسیح.وأدخلَہ فی الأموات بالبیان الصریح.ما لک ما تفکّر فی قولہ’’3‘‘ ۱؂ وفی قولہ’’33‘‘ ۲؂ وما لک لا تختار سبیل الفرقان وسَرَّک السُّبُلُ.وقد قال’’3‘‘۳؂ فما لکم لا تفکّرون.وقال لکم فیہا مستقرٌّ ومتاع إلی حین.فکیف صار مستقرُّ عیسی فی السماء أو عرشَ رب العالمین.إنْ ہذا إلَّا کذب مبین.وقال سبحانہ’’3 ‘‘۴؂ فکیف تحسبون عیسی من الأحیاء.الحیاء الحیاء.یا عباد الرحمٰن.القرآن القرآن.فاتقوا اللہ ولا تترکوا ہدایت خدا ہموں در اصل ہدایت است و قرآن گواہی دادہ است بر موت مسیح.و داخل کرد او را در مردگان بہ بیان صریح.چہ شد ترا کہ فکر نمی کنی در قول او فلما توفیتنی و در قول او قد خلت مِن قبلہ الرسل.و چہ شد ترا کہ راہ قرآن اختیار نمی کنی و خوش افتاد ترا راہ ہائے دیگر و گفت کہ در زمین زندہ خواہید ماند و در زمین خواہید مرد چہ شد شما را کہ فکر نمے کنید و گفت کہ قرارگاہ شما زمین خواہد بود.پس چگونہ عیسیٰ علیہ السلام بر آسمان قرار گرفت ایں صریح دروغ است و گفت خدا تعالیٰ کہ ذاتش پاک است آنانکہ پرستش شاں می کنند مُردگان اند نہ زندگان پس چگونہ عیسیٰ زندہ است جائے حیاء کردن است.اے بندگانِ خدا قرآن را لازم بگیرید.پس از خدا بترسید و

Page 221

الفرقان.إنہ کتاب یُسأَل عنہ إنسٌ وجانٌّ.وإنکم تقرء ون الفاتحۃ فی الصلاۃ.ففکِّروا فیہا یا ذوی الحصاۃ.ألا تجدون فیہا آیۃ’’3‘‘.۱؂ فلا تکونوا کالذین فقدوا نورَ عینَیْہم.وذہب بما لدیہم.وَیْحَکم وہل بعد الفرقان دلیل.أو بقِی إلی مفرٍّ من سبیل.أیقبَل عقلکم أن یبشّر ربُّنا فی ہذا الدعاء.بأنہ یبعث الأئمّۃَ مِن ہذہ الأمّۃ لمن یرید طریق الاہتداء.الذین یکونون کمثل أنبیاء بنی إسرائیل فی الاجتباء والاصطفاء.ویأمرنا أن ندعو أن نکون کأنبیاء بنی إسرائیل.ولا نکون کأشقیاء بنی إسرائیل.ثم بعد ہذا یدُعُّنا ویُلقینا قرآن را ترک مکنید.آں کتابے است کہ انس و جان را بداں باز پُرس خواہد شد و شما مے خوانید سورہ فاتحہ را در نماز پس فکر کنید درو اے دانشمنداں.آیا نمے یابید دراں آیت صراط الذین انعمت علیھم پس مباش ہمچو کسانے کہ گم کردند نور چشمان خود و ہر چہ نزد شاں بود برباد رفت.وائے بر شما و آیاہست بعد از قرآن دلیلے.یا سوئے گریزگاہ راہے ماندہ است.آیا قبول مے کندعقل شما کہ خدا دریں دعا بشارت دہد اینکہ او تعالیٰ از ہمیں امت برائے ہدایت مردم امامان خواہد فرستاد آنانکہ باشند مثل انبیاء بنی اسرائیل در برگزیدگی.و حکم کند ما را کہ ما ہمچو پیغمبران بنی اسرائیل شویم و ہمچو بدبختاں ایشاں شویم.و بعد ازیں دفع کند ما را و بیند از و

Page 222

فی وِہاد الحرمان.ویرسل إلینا رسولا من بنی إسرائیل وینسی وعدہ کل النسیان.وہل ہذا إلَّا المکیدۃ التی لا یُنسَب إلی اللّہ المنان.وإن اللہ قد ذکر فی ہذہ السورۃ ثلا.ثۃَ أحزاب من الذین أنعمَ علیہم والیہود والنصرانیین.ورَغَّبَنا فی الحزب الأوّل منہا ونہی عن الآخرین.بل حَثَّنا علی الدعاء والتضرع والابتہال.لنکون من المنعَم علیہم لا من المغضوب علیہم وأہل الضلال.ووالذی أنزل المطرَ من الغمام.وأخرج الثمرَ من الأکمام.لقد ظہر الحق من ہذہ الآیۃ.ولا یشکّ فیہ مَن أُعطیَ لہ ذرۃ من الدرایۃ.وإنّ اللّہ قد منَّ علینا بالتصریح در پستی ہائے محرومی و از بنی اسرائیل پیغمبرے بفرستد و وعدہ خود را فراموش کند.و ایں نیست مگر فریبے کہ منسوب نتواں کرد سوئے خدا.و خدا تعالیٰ دریں سورہ ذکر سہ گروہ کردہ است از منعم علیھم و یہود و نصاریٰ.و رغبت داد ما را در گروہ اول و منع کرد از باقی گروہ بلکہ بر انگیخت ما را بر دعا و تضرع و ابتہال.تا کہ ما از منعم علیھم شویم نہ از مغضوب علیھم و اہل ضلالت و قسم بخدائے کہ نازل کرد باران را از ابر و بیروں آورد بار را از شگوفہ ہا.تحقیق ظاہر شدہ است ازیں آیت و شک نخواہد کرد در و ہر کہ دادہ شد یک ذرہ از دانش و خدا تعالیٰ احسان کرد بر ما بتصریح

Page 223

والإظہار.وأماطَ عنا وَعْثاءَ الافتکار.فوجب علی الذین یُنَضْنِضون نضنضۃَ الصِلِّ.ویُحَمْلِقون حملقۃَ البازی المطل.ان لا یُعرِضوا عن ہذا الإنعام.ولا یکونوا کالأنعام.وقد عَلِقَ بقلبی أن الفاتحۃ تأسُوا جِراحَہم.وترِیش جناحَہم.وما مِن سورۃ فی القرآن إلَّا ہی تکذّبہم فی ہذا الاعتقاد.فاقرءْ مِمّا شئتَ من کتاب اللّٰہ یُریک طریق الصدق والسداد.ألا تریٰ أن سورۃ ’’بنی إسرائیل‘‘ یمنع المسیح أن یرقی فی السماء.۱؂ وأن’’آل عمران‘‘ تعِدہ أن اللّٰہ مُتوَفِّیہ ۲؂ وناقِلُہ إلی الأموات من الأحیاء.ثم إن’’المائدۃ‘‘ تبسُط لہ مائدۃ الوفاۃ.فاقرأْ فلمّا توفیتنی و ظاہر کردن و دور کرد از ما مشقت فکر کردن را پس واجب شد بر آنانکہ زبان مے جنبانند ہمچو جنبانیدن مار خورد و می نگرند ہمچو نگریستن بازے کہ صید را مے بیند.کہ ازیں انعام اعراض نکنند و ہمچو چارپایاں شوند و ایں امر بدل من آویخت کہ سورہ فاتحہ ریشہائے او شاں را دور خواہد کرد و باز وے ایشانرا پر خواہد نہاد و در قرآن ہیچ سورتے نیست مگر آں تکذیب شاں می کند.پس بخواں کتاب الہٰی را از ہر جا کہ مے خواہی بنماید ترا راہ صدق و سداد.نمی بینی کہ سورۃ بنی اسرائیل منع می کند مسیح را کہ سوئے آسمان صعود نماید و سورہ آل عمران وعدہ می کند او را کہ خدا وفات دہد او را و از زندگان سوئے مُردگان نقل کند.باز سورہ مائدہ مے گسترد برائے مسیح مائدہ وفات را.پس بخواں آیت فلمّا توفیتنی

Page 224

إنْ کنت فی الشبہات.ثم إن ’’الزُمَر‘‘ یجعلہ مِن زُمَرٍ لا یعودون إلی الدنیا الدنیّۃ.وإنْ شئتَ فاقرأْ’’33‘‘.۱؂ واعلم أن الرجوع حرام بعد المنیّۃ.وحرام علی قریۃ أہلکہَا اللّہ أن تُبعَث قبل یوم النشور.وأما الإحیاء بطریق المعجزۃ فلیس فیہ الرجوع إلی الدنیا التی ہی مقام الظلم والزور.ثم إذا ثبت موت المسیح بالنصّ الصریح.فأزال اللّہ وَہْمَ نزولِہ من السّماء بالبیان الفصیح.وأشار فی سورۃ النور والفاتحۃ.أن ہذہ الأمّۃ یرث أنبیاء بنی إسرائیل علی الطریقۃ الظلیۃ.فوجب أن یأتی فی آخر الزمان مسیح من ہذہ الأمۃ.اگر در شبہات ہستی.باز سورہ زمر ازاں گروہ او را می کند کہ در دنیا باز نمی آیند و اگر بخواہی پس بخواں ایں آیت کہ خدا بند می دارد مردگان را ازینکہ در دنیا باز بیایند.و حرام ست باز آمدن بعد از مرگ.و حرام است بر دیہے کہ خدا ہلاک کرد آنرا کہ قبل از قیامت زندہ شوند مگر زندہ کردن بطریق معجزہ پس درو رجوع نیست سوئے دنیا کہ مقام ظلم است.باز چوں ثابت شد موت مسیح بنص صریح.پس دور کرد خدا تعالیٰ و ہم فرود آمدن او بہ بیان فصیح و اشارت کرد در سورۃ نور و سورۃ فاتحہ کہ ایں امت وارث خواہد شد انبیاء بنی اسرائیل را بر طریق ظلّیت.پس واجب شد کہ بیاید در آخر زمان مسیح ازیں امت.

Page 225

کما أتی عیسی ابن مریم فی آخر السلسلۃ الموسویۃ.فإن موسیٰ ومحمدًا علیہما صلوات الرحمٰن متماثلان بنصّ الفرقان.وإن سلسلۃ ہذہ الخلافۃ تشابہُ سلسلۃَ تلک الخلافۃ.کما ہی مذکورۃ فی القرآن.وفیہا لا یختلف اثنان.وقد اختتمت مئاتُ سلسلۃِ خلفاء موسٰی علی عیسٰی کمثل عِدّۃ أیام البدر.فکان من الواجب أن یظہَر مسیحُ ہذہ الأمّۃ فی مدّۃ ہی کمثل ہذا القدر.وقد أشار إلیہ القرآن فی قولہ’’3‘‘.۱؂ و إن القرآن ذو الوجوہ کما لا یخفی علی العلماء الأجلّۃ.فالمعنی الثانی لہذہ الآیۃ فی ہذا چنانچہ حضرت عیسیٰ بن مریم در آخر سلسلہ موسویہ آمدہ پس بہ تحقیق موسیٰ و محمد علیہما السلام مماثل اند از روئے قرآن و ایں سلسلہ خلافت مشابہ است آں سلسلہ خلافت را و دریں اختلات نیست.چنانچہ در قرآن آمدہ است و بہ تحقیق ختم شد صدی ہائے سلسلہ خلفاء موسیٰ بر مسیح بر شمار روزہائے لیلۃ البدر.پس واجب بود کہ مسیح ایں امت ہم دریں مدت ظاہر شود.و اشارت کرد قرآن سوئے ایں معنی در قول او کہ خدا مدد شما کرد در بدر و شما ذلیل بودید.و قرآن ذوالوجوہ است چنانچہ بر علماء بزرگ پوشیدہ نیست.پس معنی ثانی ایں آیت دریں

Page 226

المقام.ان اللّہ ینصر المؤمنین بظہور المسیح إلی مِءِینَ تُشابہُ عِدّتُہا أیامَ البدر التامّ.والمؤمنون أذلّۃٌ فی تلک الأیام.فانظرْ إلٰی ہذہ الآیۃ کیف تشیر إلی ضعف الإسلام.ثم تشیر إلی کون ہلالہ بدرًا فی أجلٍ مسمّی من اللّٰہ العلَّام.کما ہو مفہوم من لفظ البدر.فالحمد للّٰہ علی ہذا الافضال والإنعام.وحاصل ما قلنا فی ہذا الباب.أن الفاتحۃ تبشّر بکون المسیح من ہذہ الأمّۃ فضلا من رب الأرباب.فقد بُشِّرْنا مِن الفاتحۃ بأئمّۃٍ منّا ہم کأنبیاء بنی إسرائیل.وما بُشِّرْنا بنزول نبیّ من السماء فتَدبَّرْ ہذا الدلیل.وقد سمعتَ من قبل أن مقام کہ خدا مدد مومناں بظہور مسیح تا آں صدی ہا خواہد کرد کہ شمار آنہا بدر تام را مشابہت دارد و مومناں دراں زمانہ ذلیل خواہند بود پس بنگر سوئے ایں آیت چگونہ اشارت می کند سوئے ضعف اسلام باز اشارت میکند سوئے اینکہ آں ہلال در آخر بدر خواہد شد و باز اشارت میکند سوئے وقت ظہور مسیح کہ صدی چہاردہم است چنانچہ از لفظ بدر مفہوم مے شود.پس حمد خدا را بریں فضل و نعمت دادن.و دریں باب ہر چہ گفتیم حاصل آں ایں است کہ سورہ فاتحہ بشارت می دہد بہ مسیح از ہمیں امت.پس بتحقیق بشارت دادہ شدیم از قرآن بہ امامانے کہ ہمچو انبیاء بنی اسرائیل خواہند بود و بشارت نہ دادہ شد مارا کہ پیغمبرے از آسمان نازل خواہد شد پس تدبر کن دریں دلیل.و پیش زیں دانستی کہ

Page 227

سورۃ النور قد بشّرتْنا بسلسلۃ خلفاء تشابہُ سلسلۃَ خلفاء الکلیم.وکیف تتمّ المشابہۃ من دون أن یظہر مسیح کمسیحِ سلسلۃ الکلیم فی آخر سلسلۃ النبی الکریم.وإنّا آمنّا بہذا الوعد فإنہ من رب العباد.وإن اللّہ لا یخلف المیعاد.والعجب من القوم أنہم ما نظروا إلی وعد حضرۃ الکبریاء.وہل یُوفّٰی ویُنجَز إلَّا الوعد فلینظروا بالتقویٰ والحیاء.وہل فی شِرعۃ الإنصاف.أن ینزل المسیح من السماء ویُخلَف وعدُ مماثلۃِ سلسلۃ الاستخلاف.وإنّ تشابُہَ السلسلتین قد وجب بحُکم اللّہ الغیور.کما ہو مفہوم من لفظ’’کَمَا‘‘ فی سورۃ النور.سورۃ النور بشارت دادہ است بسلسلہ آں خلیفہ ہا کہ مشابہ اند بہ خلیفہ ہائے موسیٰ.و چگونہ بکمال رسد ایں مشابہت بجز اینکہ ظاہر شود مسیح دریں امت ہمچو مسیح سلسلہ حضرت موسیٰ و ما ایمان آوردیم بدیں وعدہ کہ آں از رب العباد است و خدا تخلف وعدہ نہ کند و عجب است از قوم کہ او شاں وعدہ خدا تعالیٰ را نظر نہ کردند و ایفاء وعدہ می کنند نہ ایفائے چیزے دیگر پس نظر کنید از تقویٰ و حیاء و آیا جائز ہست در طریقہ انصاف کہ نازل کردہ شود مسیح از آسمان و وعدہ مماثلت سلسلہ استخلاف ترک کردہ شود.و تشابہ ایں ہر دو سلسلہ واجب شد بحکم خدائے غیور چنانچہ فہمیدہ مے شود از لفظ کما در سورۃ نور

Page 228

البابُ السَّابع باب ہفتم فی تفسیر3.درتفسیرغیر المغضوب علیھم و لا الضالین.اعلم أسعدک اللّٰہ أنّ اللّٰہ قسّم الیہود والنصارٰی فی ہذہ السورۃ علی ثلاثۃ أقسام.فرغّبنا فی قسم منہم وبشّر بہ بفضل وإکرام.وعلّمنا دعاءً ا لنکون کمثل تلک الکرام.من الأنبیاء والرسل العظام.وبقی القسمان الآخران.وہما المغضوب علیہم من الیہود والضالون من أہل الصلبان.فأمرنا أن نعوذ بہ من أن نلحق بہم من الشقاوۃ والطغیان.فظہر من ہذہ السورۃ أنّ أمرنا بدانکہ خدا تعالیٰ مددگار تو باشد کہ او تعالیٰ تقسیم کردہ است یہود و نصاریٰ را دریں سورہ بر سہ قسم پس رغبت داد ما را در قسمے ازاں ہر سہ قسم و ما را دعائے آموخت تا ہمچو آں بزرگاں شویم از انبیاء و رسولان بزرگ.و باقی ماند دو قسم دیگر و آں مغضوب علیھم از یہود اند و گمراہان از صلیب پرستاں.پس حکم کرد ما را کہ بدیشاں لاحق شویم.پس ازیں سورۃ ظاہر شد کہ امر ما

Page 229

قد تُرک بین خوف ورجاء.ونعمۃ وبلاء.إمّا مشابہۃ بالأنبیاء.وإما شُربٌ من کأس الأشقیاء.فاتقوا اللّٰہ الذی عظُم وعیدہ.وجلّت مواعیدہ.ومن لم یکن علی ہدی الأنبیاء من فضل اللّٰہ الودود.فقد خیف علیہ أن یکون کالنصاری اوالیہود.فاشتدت الحاجۃ إلی نموذج النبیین والمرسلین.لیدفع نورہم ظلمات المغضوب علیہم وشبہات الضالین.ولذالک وجب ظہور المسیح الموعود فی ہذا الزمان من ہذہ الأمّۃ.لأنّ الضالین قد کثروا فاقتضت المسیحَ ضرورۃُ المقابلۃ.وإنکم ترون أفواجًا من القسیسین الذین ہم الضالون.فأین المسیح گذاشتہ شد در خوف و رجا.و نعمت و بلا.یا مشابہ بہ پیغمبران است و یا نوشیدن است از جام بدبختاں.پس ازاں خدا بترسید کہ وعید او بزرگ است و وعدہ ہائے او نیز بزرگ اند.و ہر کہ بر ہدایت انبیاء نباشد.پس خوف است کہ ہمچو یہود و نصاریٰ باشد.پس سخت شد حاجت سوئے نمونہ انبیاء و مُرسلاں تا کہ نور او شاں تاریکی یہود و نصاریٰ دور کند و از بہر ہمیں واجب شد ظہور مسیح موعود دریں زمانہ ازیں امت.زیرانکہ ضالین بسیار شدہ اند پس ضرورت مقابلہ مسیح را بخواست.و شما مے بینید فوج ہا از علماء نصاریٰ کہ ہماں فرقہ ضالہ است.پس کجا ست آں مسیح

Page 230

الذی یذبّہم إن کنتم تعلمون.أما ظہر أثر الدعاء.أو تُر!کتم فی اللیلۃ اللیلاء.أم عُلّمتم دعاء صراط الذین.لیزید الحسرۃ وتکونوا کالمحرومین.فالحق والحق أقول إن اللّٰہ ما قسّم الفِرق علی ثلا!ثۃ أقسام فی ہذہ السورۃ.إلَّا بعد أن أعدّ کل نموذج منہم فی ہذہ الأمّۃ.وإنکم ترون کثرۃ المغضوب علیہم وکثرۃ الضالین.فأین الذی جاء علی نموذج النبیین والمرسلین من السابقین.ما لکم لا تُفکرون فی ہذا وتمرّون غافلین.ثم اعلم أن ہذہ السورۃ قد أخبرت عن المبدء والمعاد.وأشارت إلی قوم ہم آخر الأقوام ومنتہی الفساد.فإنہا اختتمت علی الضالین.وفیہ إشارۃ کہ دفع کند او شانرا اگر مے دانید.آیا اثر دعا ظاہر نشد یا شما را در شب تاریک گذاشتند.آیا دعاء صراط الذین از بہر ایں آموختہ اند کہ تا حسرت زیادہ شود.پس راست راست مے گوئیم کہ خدا تقسیم نہ کردہ است در سورۃ فاتحہ فرقہ ہا را بر سہ قسم مگر بعد اینکہ طیار کرد ہر نمونہ را ازیشاں در یں امت و چوں ظاہر شد کثرت مغضوب علیھم و کثرت ضالین.پس کجا ست آں شخص کہ بر نمونہ انبیاء آمدہ باشد.چہ شد شما را کہ دریں فکر نمی کنید و می گزرید ہمچو غافلاں.باز بدانکہ ایں سورۃ خبر دادہ است از مبدء و معاد.و اشارہ کرد سوئے قومے کہ او شاں آخر قوم ہا و جائے انتہائے فساد اند چرا کہ آں سورۃ ختم شد بر ضالین و دریں اشارۃ است

Page 231

للمتدبّرین.فإن اللّٰہ ذکر ہاتین الفرقتین فی آخر السورۃ.وما ذکر الدجّال المعہود تصریحًا ولا بالإشارۃ.مع أن المقام کان یقتضی ذکر الدجّال.فإن السورۃ أشارت فی قولہا ’’الضَّالِّینَ‘‘ إلی آخر الفتن وأکبر الأہوال.فلو کانت فتنۃ الدجّال فی علم اللّٰہ أکبر من ہذہ الفتنۃ لختم السورۃ علیہا لا علٰی ہذہ الفرقۃ.ففکروا فی أنفسکم..أنسی أصل الأمر ربّنا ذو الجلال.وذکر الضالین فی مقامٍ کان واجبًا فیہ ذکر الدجّال.وإن کان الأمر کما ہو زعم الجہال.لقال اللّٰہ فی ہذا المقام غیر المغضوب علیہم ولا الدجّال.وأنت تعلم أن اللّٰہ أراد فی ہذہ السورۃ أن یحث الأمّۃ برائے متدبراں.چرا کہ خدا ذکر کرد ایں ہر دو فرقہ را در آخر سورۃ و ذکر دجال معہود نہ کرد نہ تصریحاً نہ اشارۃً باوجود اینکہ مقام تقاضا مے کرد کہ ذکر دجال کردہ آید چرا کہ ایں سورۃ در قول الضالین اشارہ کردہ است سوئے و آں فتنہ کہ آخر فتنہ ہاست و سخت تر از ہمہ خوف ہا پس اگر در علم الہٰی فتنہ دجال بزرگ تر فتنہ بودے.البتہ سورۃ را براں فتنہ ختم مے کرد نہ بریں فرقہ پس فکر کنید در نفس خود آیا فراموش کرد اصل امر را خدائے ذوالجلال.و ذکر کرد ضالین را در مقامے کہ واجب بود در انجا ذکر دجال کردن و اگر امر چناں بودے کہ جاہلاں خیال کردہ اند.البتہ خدا تعالیٰ بگفتے کہ غیر المغضوب علیھم و لا الدجال.و تو میدانی کہ خدا تعالیٰ دریں سورۃ ارادہ فرمودہ است کہ ایں امت را

Page 232

علی طریق النبیّین.ویحذرہم من طرق الکفرۃ الفجرۃ.فذکر قومًا أکمل لہم عطاء ہ.وأتمّ نعماء ہ.ووعد أنہ باعث من ہذہ الأمۃ من ہو یُشابہ النبیّین.ویُضاہی المرسلین.ثم ذکر قومًا آخر تُرکوا فی الظلمات.وجعل فتنتہم آخر الفتن وأعظم الآفات.وأمر أن یعوذ الناس کلہم بہ من ہذہ الفتن إلی یوم القیامۃ.ویتضرّعوا لدفعہا فی الصلوات فی أوقاتہا الخمسۃ.وما أشار فی ہذا إلی الدجّال وفتنتہ العظیمۃ.فأیّ دلیل أکبر من ہذا علی إبطال ہذہ العقیدۃ.ثم من مؤیّدات ہذا البرہان.أن اللّٰہ ذکر النصاری فی آخر القرآن کما ذکر فی أوّل الفرقان.رغبت دہد در راہ ہائے انبیاء و بترساند از راہ کافراں و فاجراں پس ذکر کرد قومے را کہ کامل کرد بر او شاں عطاء خود و تمام کرد برو شاں نعمت خود.و وعدہ کرد کہ او پیدا کند کسے را کہ او مشابہ انبیاء است و مشابہ رسولان است.باز قومے دیگر را ذکر کرد کہ در ظلمات گذاشتہ شدند و گردانید فتنہ اوشانرا اعظم الفتن و حکم کرد کہ مردم بدو پناہ جویند ازیں فتنہا تا قیامت.و برائے دفع آں فتنہ ہا در نماز تضرع کنند پنج وقت.و اشارت نکرد اینجا سوئے دجال و فتنہ بزرگ او.پس کدام دلیل بزرگ تر ازیں است برائے باطل کردن ایں عقیدہ باز از مؤیدات ایں برہان این است کہ خدا ذکر نصاریٰ در آخر قرآن کردہ است چنانکہ در اول قرآن کردہ است

Page 233

ففکر فی لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَد وفی الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ.وما ہم إلَّا النصاریٰ فعذ من علماۂم بربّ الناس.وإن اللّٰہ کما ختم الفاتحۃ علی الضالین.کذالک ختم القرآن علی النصرانییّن.وإن الضالین ہم النصرانیون کما رُویَ عن نبیّنا فی الدر المنثور.وفی فتح الباری فلا تُعرض عن القول الثابت المشہور.ومُسلّم الجمہور.و فکر کن در لم یلد و لم یولد و در وسواس خنّاس.و نیست او شاں مگر نصاریٰ.پس از علماء شاں پناہ خدا بخواہ.و خدا تعالیٰ ہم چناں کہ ختم کردہ است فاتحہ را بر ضالین.ہم چناں ختم کردہ است قرآن را بر نصرانیین.و فرقہ ضالین او شاں نصرانیان اند چنانکہ در درّمنثور آمدہ است.و ہم چنیں در فتح الباری است پس اعراض مکن از قول مشہور و تسلیم کردہ جمہوریہ.البابُ الثّامِن باب ہشتم فی تفسیرالفاتحۃ بقول کلی درتفسیرسورہ فاتحہ بقول کلی اعلم أن اللّٰہ تعالٰی افتتح کتابہ بالحمد لا بالشّکر ولا بالثناء.لأن الحمد أتمّ وأکمل منہما وأحاطہما بدانکہ شروع کرد اللہ تعالیٰ کتاب خود را بحمد و شروع نہ کرد بہ شکر و ثناء چرا کہ حمد اتم و اکمل است ازاں ہر دو و

Page 234

بالاستیفاء.ثم ذالک ردّ علی عبدۃ المخلوقین والأوثان.فإنہم یحمدون طواغیتہم وینسبون إلیہا صفات الرحمٰن.وفی الحمد إشارۃ أخری.وہی أن اللّٰہ تبارک وتعالٰی یقول أ یّہا العباد اعرفونی بصفاتی.وآمنوا بی لکمالا تی.وانظروا إلی السماوات والأرضین.ہل تجدون کمثلی ربّ العالمین.وأرحم الراحمین.ومالک یوم الدین.ومع ذالک إشارۃ إلی أنّ إلٰہکم إلٰہٌ جمع جمیع أنواع الحمد فی ذاتہ.وتفرّد فی سائر محاسنۃ وصفاتہ.وإشارۃ إلی أنہ تعالٰی منزّہ شانہ عن کل نقص وحؤول حالۃ ولحوق وصمۃ کالمخلوقین.بل بر معنے آں ہر دو باستیفاء احاطہ میدارد باز ایں ردّ است بر کسانے کہ پرستش مخلوق مے کنند چرا کہ او شاں تعریف معبوداں خود می کنند و صفات باری سوئے شاں منسوب می کنند.و در حمد اشارتے دیگر نیز ہست و آں ایں است کہ خدا تعالیٰ می فرماید کہ اے بندگان مرا بصفات من شناخت کنید و ایمان آرید بر من برائے کمالات من و نظر کنید در زمین و آسمان.آیا می یابید مانند من آنکہ رب العالمین باشد و آنکہ ارحم الراحمین.و مالک یوم الدین باشد و باجود ایں سوئے ایں اشارہ است کہ خدائے شما خدائے است کہ جمیع انواع حمد در ذات خود جمع می دارد و متفرد است در تمام خوبی ہا و صفات خود و اشارۃ است سوئے اینکہ شان خدا تعالیٰ پاک است از ہر نقص و تغیر حالت و لحوق عیب ہمچو مخلوق بلکہ

Page 235

ہو الکامل المحمود.ولا تحیطہ الحدود.ولہ الحمد فی الأولی والآخرۃ ومن الأزل إلی أبد الآبدین.ولذالک سمّی اللّٰہ نبیّہ أحمد.وکذالک سَمّی بہ المسیح الموعود لیشیر إلی ما تعمّد.وإن اللّٰہ کتب الحمد علی رأس الفاتحۃ.ثم أشار إلی الحمد فی آخر ہذہ السورۃ.فإن آخرہا لفظ الضَّالِّینَ.وہم النصاری الذین أعرضوا عن حمد اللّٰہ وأعطوا حقہ لأحدٍ من المخلوقین.فإن حقیقۃ الضلالۃ ہی ترک المحمود الذی یستحق الحمد والثناء.کما فعل النصاری ونحتوا من عندہم محمودًا آخر وبالغوا فی الاطراء واتبّعوا الأہواء.وبعدوا من عین الحیاۃ.وہلکوا کما یہلک الضال فی الموماۃ.وإن الیہود ہلکوا فی أوّل أمرہم او کامل محمود است.و حدہا احاطہ او نمی کنند و برائے او حمد است در اول و آخر و از ازل تا ابد.و از بہر ہمیں خدا تعالیٰ نام نبی خود احمد نہاد و ہمیں احمد مسیح موعود را داد تا اشارہ کند سوئے آنچہ قصد کردہ است و خدا تعالیٰ نوشت حمد را بر سر سورہ فاتحہ باز در آخر سورہ سوئے حمد اشارہ کرد چرا کہ در آخر سورہ لفظ ضالین است و او شاں نصاریٰ ہستند کہ از حمد الہٰی اعراض کردند و حق او یکے را از مخلوق دادند چرا کہ حقیقت ضلالت ایں است کہ آں محمود را ترک کردہ شود کہ مستحق حمد و ثنا است ہم چناں کہ نصاریٰ کردند و از خود محمودے تراشیدند و در ستودن مبالغہ کردند و پیروی ہوائے نفسانی کردند و از چشمہ حیات دور شدند.و ہلاک شدند ہمچو گمراہے کہ در بیابان بے آب ہلاک شود و یہود در اول امر خود

Page 236

وباء وا بغضبٍ مّن اللّٰہ القہّار.والنصاریٰ سلکوا قلیلا ثم ضلّوا وفقدوا الماء فماتوا فی فلاۃ من الاضطرار.فحاصل ہذا البیان أن اللّٰہ خلق أحمدین فی صدر الإسلام وفی آخر الزمان.وأشار إلیہما بتکرار لفظ الحمد فی أول الفاتحۃ وفی آخرہا لأہل العرفان.وفعل کذالک لیردّ علی النصرانیین.وأنزل أحمدین من السماء لیکونا کالجدارین لحمایۃ الأولین والآخرین.وہذا آخر ما أردنا فی ہذا الباب.بتوفیق اللّٰہ الراحم الوہاب.فالحمد للّٰہ علی ہذا التوفیق والرفاء.وکان من فضلہ أنّ عَہْدنَا قُرِنَ بالوفاء.وما کان لنا أن نکتب حرفًا لولا عون حضرۃ الکبریاء.ہو الذی أَرَی الآیات.وأنزل البیّنات.وعصم قلمی وکلمی من الخطاء.وحفظ از غضب الہٰی ہلاک شدند.و نصاریٰ قدمے چند رفتند باز گمراہ شدند و آب را گم کردند پس در بیابانے بمردند.پس حاصل کلام ایں است کہ پیدا کرد خدا تعالیٰ دو احمد را در صدر اسلام و در آخر زمانہ و اشارہ کرد سوئے آں ہر دو بہ دوبار آوردن لفظ حمد در اول فاتحہ و آخر فاتحہ.و ہم چنیں کرد تا کہ ردّ کند بر نصرانیاں و نازل کرد دو احمد را از آسمان تا کہ آں ہر دو باشند ہمچو دو دیوارے برائے اولین و آخرین.و ایں آخر امر است کہ ارادہ کردیم دریں باب بتوفیق خدائے رحیم و وہاب.پس حمد خدا را ست بریں توفیق و سازداری و ایں فضل اوست کہ عہد ما بوفاء قرین کردہ شد و مجال مانبود کہ ما حرفے نویسیم اگر مدد خدا نبودے.او آں خداست کہ نشانہا نمود و دلائل بیّنہ نازل فرمود و نگہداشت قلم و کلمہ ہائے مرا از خطا و

Page 237

عرضی من الأعداء.وإنہ تبوّء منزلی.وتجلّی علیّ وحضر مَحْفلی.واجتبانی لخلافتہ.وأبقی مرعای علی صرافتہ.وزکّانی فاحسن تزکیتی.وربّانی فبالغ فی تربیتی.وأنبتنی نباتا حسنًا.وتجلّی علیّ وشغفنی حُبًّا.حتی أننی فرغتُ من عداوۃ الناس ومحبتہم.ومدح الخلق ومذمتہم.والآن سواء لی من عاد إلیّ أو عادا.و راد من ضیاعی أو رادا.وصارت الدنیا فی عینی کجاریۃ بُدء ت.واسودّ وجہہا وصفوف الحسن تقوّضت.وشمَمُ الأنف بالفطس تبدّل.ولہب الخدود إلی النمش انتقل.فنجوتُ بحول اللّٰہ من سطوتہا وسلطانہا.وعُصِمتُ من صولۃ غولہا وشیطانہا.وخرجتُ من قومٍ یترکون الأصل ویطلبون عزت مرا از دشمناں و او جا گرفت منزل مرا تجلی کرد بر من و حاضر شد محفل مرا و بر گزید مرا برائے خلافت خود و چراگاہ مرا برائے خود خالص داشت و تزکیہ من کرد پس نیک کرد تزکیہ من و تربیت من کرد پس مبالغہ کرد در تربیت و بطور نیک نشو و نما مراداد و بر من تجلی فرمودو محبت خود در من داخل کرد تا بحدے کہ من از دوستی مَردم فارغ شدم و از مدح خلق و مذمت او شاں و اکنوں برابر است مرا کہ کسے بمن رجوع کند یا عداوت کند.و بجوید از آب و زمین من یا سوئے من سنگ اندازد و دنیا در چشمِ من چنیں شدہ است کہ کنیز کے کہ او را جدری بر آمدہ باشد و رُو سیاہ شدہ و حُسن خیمہ بر کندہ و بلندی بینی بہ پہنائی مبدل شد و سرخی رخسار ہا بنقطہ ہائے سیاہ منتقل گشت پس بقوت خدا تعالیٰ از سلطنت او رہائی یافتم و محفوظ شدم از حملہ شیطان او و از قومے خارج شدم کہ اصل می گذارند و شاخ را می گیرند.و برائے

Page 238

الفرع.ویُضِیعون الورع لہذہ الدنیا ویجبؤن الزرع.ویریدون أن یحتکأ قولہم فی قلوب الناس.مع أنہم ما خلصوا من الأدناس.وکیف یُترقّب الماء المعین من قربۃٍ قُضِئت.والخلوص والدینُ من قریحۃٍ فسدت.وکیف یُعَدُّ الأسیر کمُطلَقٍ من الإسار.وکیف یدخل المُقرف فی الأحرار.وکیف یتداکأ الناس علیہ.وہو خبیث وخبیث ما یخرج من شفتیہ.وإن قلمی بُرّء من أدناس الہوی.وبُرِیَ لإرضاء المولٰی.وإن لِیراعی أثرٌ من الباقیات الصالحات.ولا کأثر سنابک المسوّمات.ونحن کُماۃٌ لا نزلّ عن صہوات المطایا.وإنّا مع ربنا إلٰی حلول المنایا.وإن خیلنا تجول علی العدا دنیا پرہیزگاری را برائے ایں دنیا از دست می دہند و زراعت خام خود را مے فروشند و مے خواہند کہ سخن شاں در دل ہا جاگیرد.باوجود اینکہ ایشاں از چرکہائے بخاست خلاص نیافتہ اند و چگونہ آب صافی از مشک بدبو میسر آید.و خلوص و دین از طبیعتے فاسد و چگونہ قیدی ہمچو رہائی یافتہ شمردہ شود.و چگونہ داخل کردہ شود بد نزاد در نیک اصلان و چگونہ گرد آیند مردم برو و او خبیث است و خبیث است آنچہ از دہن او بیروں می آید.و قلم من بری کردہ شد از چرک ہائے ہوا و تراشیدہ شد برائے راضی کردن مولیٰ و برائے قلم من نشان است از باقیات صالحات.نہ ہمچو نشان سُمہائے اسپان کارزار و ما سواریم از پشتہائے اسپاں نمی افتیم.و ما با خدائے خودیم تا وقت موت و اسپان ما حملہ مے کنند بر دشمناں

Page 239

کالبازی علی العصفور.أو کالأجدل علی الفار المذؤور.روید أعدائی بعض الدعاوی.ولا تدّعوا الشبع مع البطن الخاوی.اتقومون للحرب برماح أشرعت.ولا ترون إلی حُجُبکم وإلی سلاسل ثُقّلت.ترون غمرات الندم ثم تقتحمونہا.وتجدون غمّاء الذلّ ثم تزورونہا.وإنّما مثلکم کمثل عنزٍ تأکل تارۃ من حشیشٍ وتارۃ من کلاء.ولا یطیع الراعی من غیر خلاء.وکل ما ہو عندکم من العلم فلیس ہو إلَّا کالکدوس المدوس الذی لم یُذرّ.وخالطہ روث الفدادین وغیرہا مما ضرّ.ثم تقولون إنّا لا نحتاج إلی حَکَمٍ من السماء وما ہی إلَّا شقوۃ ففکروا یا أہل الآراء.وإنی أعلم کعلم ہمچو باز بر کنجشک یا ہمچو شقرہ بر موش ترسیدہ بگذارید اے دشمنان من بعض دعوے ہا را و دعوے سیری مکنید باوجود شکم خالی.آیا مے استید برائے جنگ بہ نیزہ ہائے کشیدہ.و سوئے حجاب ہائے خود نمی بینید و سوئے زنجیرہائے خود کہ گراں شد.می بینید سختی ہائے ندامت باز دراں داخل می شوید و می یابید خود را مُوگرفتہ از ذلت.باز او را می بینید و مثال شما ہمچو گوسپندے است کہ گاہے گیاہ خشک خورد و گاہ تر.و اطاعت چوپان بغیر سرکشی نمی کند و ہر چہ نزد شما از علم است پس آں ہمچو خرمن ناصاف کردہ است و دراں سرگین گاوان وغیرہ چیزہائے ردّی آمیختہ است باز شما مے گوئید کہ ما محتاج حکم آسمانی نیستیم.و ایں صرف بدبختی است پس فکر کنید اے دانشمندان.و من مے دانم ہمچو علم

Page 240

المحسوسات والبدیہیات.أنی أُرسلتُ من ربی بالہدایات والآیات.وقد أُوحی إلیّ إلٰی مُدّۃ ہی مدّۃ وحی خاتم النبیین.وکُلّمتُ قبل أن أزنأ من الأربعین.إلی أن زنأتُ للستین.وہل یجوز تکذیب رجل ضاہت مدتہ مدۃ نبیّنا المصطفٰی.وإن اللّٰہ قد جعل تلک المدۃ دلیلا علی صدق رسولہ المجتبٰی.وسمعتُ إنکارہ من بعض الناس.وما قبلوا ہذا الدلیل بلمّۃ من الوسواس الخنّاس.فاکتلأت عینی طول لیلی.وجرت من عینی عین سیلی.فکلّمنی ربی برحمتہ العظمٰی.وقال’’ قل انّ ھدی اللّٰہ ھو الھدیٰ‘‘.فلہ الحمد وہو المولٰی.وہو ربّی محسوسات و بدیہات کہ من آمدہ ام از طرف رب خود بہ ہدایتہا و نشانہا.و من بقدر زمانہ وحی نبی صلی اللہ علیہ وسلم زمانہ الہام یافتم و پیش زانکہ بچہل سال نزدیک رسیدہ باشم بدولت مکالمہ الہٰیہ مشرف شدم تا اینکہ بشصت سال رسیدم و آیا تکذیب کسے جائز است کہ مدت وحی او ہمچو مدت پیغمبر ما کہ برگزیدہ است و خدا تعالیٰ ایں مدت را دلیل صدق رسول برگزیدہ خود گردانیدہ است و از بعض مردم انکار ایں دلیل شنیدم.و ایشاں قبول نکردند ایں دلیل را از وسوسہ شیطان.پس مرا ہمہ شب خواب نہ ربود واز چشم من چشمہ اشک رواں شد.پس بمن خدائے من ہمکلام شد و گفت کہ بگو ایں مردم را کہ ہدایت ہماں است کہ از خدا ست پس او را حمد است و او مولائے من است و

Page 241

فی ہذہ وفی یومٍ تُحشرُ کُلّ نفسٍ لتُجزَی.ربّ انزل علی قلبی.واظہر من جیبی بعد سلبی.واملأ بنور العرفان فؤادی.رب أنت مُرادی فاتنی مرادی.ولا تُمتنی موت الکلاب.بوجہک یا ربّ الأرباب.رب إنی اخترتک فاخترنی.وانظر إلی قلبی واحضرنی.فإنک علیم الأسرار.وخبیر بما یُکتَم من الأغیار.ربّ إن کنتَ تعلمُ أن أعدائی ہم الصادقون المخلصون.فأہلکنی کما تُہْلَکُ الکذّابون.وإن کنتَ تعلم أنی منک ومن حضرتک.فقم لنُصرتی فإنی أحتاج إلی نصرتک.ولا تُفوّض أمری إلی أعداء یمرّون علیّ مستہزئین.واحفظنی او رب من است در اینجا و در آخرت.اے خدائے من بر دل من فرود آ و از گریبان من ظاہر شو.و پُر کن از نور معرفت دل من.اے خدا تو مُراد من ہستی پس بدہ مراد من و نہ میران مرا ہمچو موت سگاں بروے تو اے پرورندہ پرورندگان.اے خدائے من ترا اختیار کردہ ام پس تو مرا اختیار کن و سوئے دلِ من بنگر و نزد من بیا چرا کہ تو عالم رازہا ہستی و براں امور آگہی داری کہ از غیر پوشیدہ اند خبر میداری.اے خدا اگر میدانی کہ دشمنان من راستبازان و مخلصان اند پس مرا ہلاک کن چنانکہ دروغ گویان ہلاک کردہ می شوند.و اگر میدانی کہ من از تو ہستم و از جناب تو ہستم پس بر خیز برائے مددِ من کہ من محتاج مددِ تو ام.و امرِ من بداں دشمنان سپرد مکن کہ بر من با استہزاء می گذرند و نگہ دار مرا

Page 242

من المعادین والماکرین.إنک أنت راحی وراحتی.وجَنّتی وجُنّتی.فانصرنی فی أمری واسمع بکائی ورُنّتی.وصلّ علی محمدٍ خیر المرسلین.و إمام المتَقین.وہب لہ مراتب ما وہبتَ لغیرہ من النبیین.ربّ اعطہ ما أردتَّ أن تُعطینی من النعماء.ثم اغفر لی بوجہک وأنت أرحم الرحماء.والحمد لک علی أن ہذا الکتاب قد طُبع بفضلک فی مدۃ عدۃ العین فی یوم الجمعۃ وفی شہرٍ مبارکٍ بین العیدین.رب اجعلہ مُبارکًا ونافعًا للطُلَّاب.وہادیًا إلی طریق الصواب.بفضلک یا مُجیبَ الداعین.آمین ثم آمین.وآخر دعوانا ان الحمد للّہ رب العالمین.از دشمنان و مکر کنندگان.تو شراب من ہستی و آرام من و بہشت من و سِپر من.پس مدد کن مرا در امر من و بشنو گریستن من.و درود بفرست بر محمد کہ خیر المرسلین.و امام المتقین است و آں مراتب او را عطا کن کہ ہیچ کس را از انبیاء ندادہ باشی اے خدا بدہ او را آنچہ بمن دادن ارادہ داری از نعمت ہا باز مرا بہ بخش و تو ارحم الراحمین ہستی.و حمد ترا کہ ایں کتاب چاپ کردہ شد در مدت ہفتاد روز در روز جمعہ و در ماہ مبارک درمیان دو عید.اے رب من بگرداں ایں کتاب را مبارک برائے طالبان و ہدایت کنندہ سوئے راہ صواب.بفضل خود اے قبول کنندہ دعائے دعا کنندگان.و آخر دعا ہمیں است کہ ہمہ حمد خدا را کہ رب العالمین ست.

Page 243

خدا کے فضل سے بڑا معجزہ ظاہر ہوا ہزار ہزار شکراُس قادر یکتا کاہے جس نے اس عظیم الشان میدان میں مجھ کو فتح بخشی اور باوجود اس کے کہ ان ستر۷۰ دنوں میں کئی قسم کے موانع پیش آئے.چند دفع میں سخت مریض ہوابعض عزیزبیمار رہے مگر پھر بھی یہ تفسیر اپنے کمال کو پہنچ گئی.جو شخص اس بات کو سوچے گا کہ یہ وہ تفسیر ہے جو ہزاروں مخالفوں کو اسی امر کے لئے دعوت کرکے بالمقابل لکھی گئی ہے وہ ضرور اس کو ایک بڑا معجزہ یقین کرے گابھلامیں پوچھتا ہوں کہ اگر یہ معجزہ نہیں تو پھر کس نے ایسے معرکہ کے وقت کہ جب مخالف علماء کو غیرت دہ الفاظ کے ساتھ بلایا گیا تھا تفسیر لکھنے سے ان کو روک دیا اور کس نے ایسے شخص یعنی اس عاجز کو جو مخالف علماء کے خیال میں ایک جاہل ہے جوان کے خیال میں ایک صیغہ عربی کا بھی صحیح طور پرنہیں جانتا ایسی لاجواب اور فصیح بلیغ تفسیرلکھنے پر باوجود امراض اورتکالیف بدنی کے قادر کردیا کہ اگر مخالف علماء کوشش کرتے کرتے کسی دماغی صدمہ کا بھی نشانہ ہو جاتے تب بھی اُس کی مانند تفسیر نہ لکھ سکتے اور اگر ہمارے مخالف علماء کے بس میں ہوتایا خدا ان کی مدد کرتا تو کم سے کم اس وقت ہزار تفسیر ان کی طرف سے بالمقابل شائع ہونی چاہیئے تھی لیکن اب ان کے پاس اس بات کاکیا جواب ہے کہ ہم نے اس بالمقابل تفسیرنویسی کومدارفیصلہ ٹھہراکرمخالف علماء کودعوت کی تھی اور ستر۷۰ دن کی میعاد تھی جو کچھ کم نہ تھی اور میں اکیلااور وہ ہزار ہا عربی دان اورعالم فاضل کہلانے والے تھے تب بھی وہ تفسیر لکھنے سے نامر اد رہے اگروہ تفسیر لکھتے اور سورۃ فاتحہ سے میرے مخالف ثبوت پیش کرتے تو ایک دنیا اُن کی

Page 244

طرف اُلٹ پڑتی پس وہ کون سی پوشیدہ طاقت ہے جس نے ہزاروں کے ہاتھوں کو باندھ دیااور دماغوں کوپست کر دیااورعلم اورسمجھ کو چھین لیااور سورہ فاتحہ کی گواہی سے میری سچائی پرمہر لگادی اوراُن کے دلوں کو ایک اور مہر سے نادان اور نافہم کردیا.ہزاروں کے روبرواُن کے چرک آلودہ کپڑے ظاہر کیے.اور مجھے ایسی سفیدکپڑوں کی خلعت پہنادی جو برف کی طرح چمکتی تھی.اور پھر مجھے ایک عزت کی کرسی پر بٹھادیااور سورہ فاتحہ سے ایک عزت کا خطاب مجھے عنایت ہوا.وہ کیا ہے اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ.اور خدا کے فضل اور کرم کودیکھوکہ تفسیر کے لکھنے میں دونوں فریق کے لئے چارجزکی شرط تھی یعنی یہ کہ ستر۷۰ دن کی میعادتک چارجز لکھیں لیکن وہ لوگ باوجود ہزاروں ہونے کے ایک جزبھی نہ لکھ سکے اورمجھ سے خدائے کریم نے بجائے چارجزکے ساڑھے باراں جزلکھوادےئے اب میں علماء مخالفین سے پوچھناچاہتا ہوں کہ کیا یہ معجزہ نہیں ہے اور اس کی کیا وجہ ہے کہ معجزہ نہ ہو.کوئی انسان حتی المقدوراپنے لئے ذلت قبول نہیں کرتا پھراگرتفسیر لکھنامخالف مولویوں کے اختیارمیں تھا تو وہ کیوں نہ لکھ سکے کیایہ الفاظ جو میری طرف سے اشتہارات میں شائع ہوئے تھے کہ جو فریق اب بالمقابل ستردن میں تفسیر نہیں لکھے گا وہ کاذب سمجھاجائے گایہ ایسے الفاظ نہیں ہیں جو انسان غیرت مند کو اس پر آمادہ کرتے ہیں کہ سب کام اپنے پر حرام کرکے بالمقابل اس کام کو پوراکرے تا جھوٹانہ کہلاوے لیکن کیونکرمقابلہ کرسکتے خدا کافرمودہ کیونکرٹل سکتا کہ33 ۱؂ خدا نے ہمیشہ کے لئے جب تک کہ دنیا کا انتہاہو یہ حجت اُن پر پوری کرنی تھی کہ باوجود یکہ علم اور لیاقت کے یہ حالت ہے کہ ایک شخص کے مقابل پر ہزاروں اُن کے عالم و فاضل کہلانے

Page 245

والے دم نہیں مارسکتے پھر بھی کافر کہنے پر دلیر ہیں لازم نہ تھا کہ پہلے علم میں کامل ہوتے پھرکافر کہتے جن لوگوں کے علم کا یہ حال ہے کہ ہزاروں مل کربھی ایک شخص کا مقابلہ نہ کرسکے چارجزکی تفسیر نہ لکھ سکے ان کے بھروسہ پر ایک ایسے مامورمن اللہ کی مخالفت اختیارکرنا جو نشان پرنشان دکھلارہاہے بڑے بدقسمتوں کاکام ہے بالآخرایک ہزارشکر کا مقام ہے کہ اس موقعہ پر ایک پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی پوری ہوئی اور وہ یہ ہے کہ اس ستّر دن کے عرصہ میں کچھ بباعث امراض لاحقہ اور کچھ بباعث اس کے کہ بوجہ بیماری بہت سے دن تفسیر لکھنے سے سخت معذوری رہی اُن نمازوں کوجوجمع ہوسکتی ہیں جمع کرنا پڑااور اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو درمنثور اور فتح باری اور تفسیرابنِ کثیر وغیرہ کتب میں ہے کہ تُجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃُ یعنی مسیح موعود کے لئے نمازجمع کی جائے گی.اب ہمارے مخالف علماء یہ بھی بتلاویں کہ کیا وہ اس بات کو مانتے ہیںیانہیں کہ یہ پیشگوئی پوری ہوکر مسیح موعود کی وہ علامت بھی ظہور میں آگئی اور اگر نہیں مانتے تو کوئی نظیر پیش کریں کہ کسی نے مسیح موعود کا دعویٰ کرکے دو ماہ تک نمازیں جمع کی ہوں یا بغیر دعویٰ ہی نظیر پیش کرو.وَالسَّلامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدیٰ.المشتھر مرزا غلام احمدقادیانی ۲۰فروری ۱۹۰۱ء ؁

Page 246

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور پیشگوئی کا پورا ہونا قال رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان اللہ یبعث لھذہ الامۃ علٰی رأس کل ماءۃ سنۃ من یجدد لھا دینھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ضرور ضرور خدا تعالیٰ مبعوث فرمائے گا اس امت کے لئے کل صدیوں کے سر پرایک شخص(مسیح موعود) کوجو اس امت کے لئے دین کی تجدید کرے گا.یہ حدیث شریف قریباًتواترکے درجہ اور اجماع کے مرتبہ کو پہنچی ہوئی ہے اگرچہ مفسر اور محدث یا صوفی اس کے کچھ ہی معنی کریں مگر اس کا مطلب جو خدا نے مجھے سمجھایا ہے وہ یہ ہے کہ یہ حدیث در حقیقت مسیح موعود کے بارہ میں ہے کیونکہ جس قدرمجدد پہلے گذرے یا آئندہ ہوں وہ سب ظنّی ہیں اور مجمل طورسے ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ ہر صدی کے سر پر کوئی نہ کوئی مجدد ہواہو مگر مفصل اور یقینی طور سے ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس قدر صدیاں جو گذریں کون کون مجددہوئے ؟کس لئے کہ آنحضرت صلعم نے کوئی فہرست مجددوں کی نہیں دی مگر ہم مسیح موعود کے بارہ میںیقینی اور قطعی دلائل اور صحیح رائے سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ مجددجو آنحضرتؐ نے اپنے محاذاور مقابلہ میں بیان فرمایا کہ وہ امت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جس کے اول میں مَیں ہوں اور آخر میں مسیح موعودہے اور درمیانی زمانہ فیج اعوج ہے فی الحقیقت مسیح موعود ہے جس کی بعثت کا یہ نشان بتایاکہ وہ اُس زمانہ میں مبعوث ہوگاجس زمانہ میں کل صدیوں کے سراکھٹے ہو جائیں گے.پس ہم جو بنظرغور دیکھتے ہیں تو وہ زمانہ یہی زمانہ ہے جس میں مجدد اعظم مبعوث ہوااور تمام صدیوں کے سراُس نے لئے یعنی ۱۳۱۸ھ اور۱۹۰۱ء اور۱۳۰۷ فصلی اور۱۹۵۷ بکرمی اور نیزصدیوں کی ماں جو ساتواں ہزارہے موجود ہوا.پس اس مجموعہ سنین سے علی راس کل ماءۃ سنۃ کی پیشگوئی پوری ہوئی اور خسوف و کسوف کی حدیث اور کلام مجید کی آیت واٰخرین منھم اسی کی مصدق ہیں.پس وہ موعود مجدد معہود حضرت مرزا غلام احمدقادیانی ہیں.الحمدللّٰہ علٰی ذٰلک الراقم محمد سراج الحق نعمانی

Page 247

ایک غلطی کا ازالہ از حضرت مسیح موعود علیہ السلام