Hujjatullah

Hujjatullah

حجة اللہ

Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR
Ruhani Khazain

اس کتاب کے لکھنے سے پہلے مولوی عبدالحق صاحب غزنوی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف ایک نہایت گندہ اشتہار شائع کیا۔ اور آپ کی عربی دانی پر معترض ہوا۔ اور اپنی قابلیت جتانے کے لیے عربی زبان میں مباحثہ کرنے کی آپؑ کو دعوت دی۔ اس دعوت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے منظور فرماتے ہوئے یہ شرط لگائی کہ چونکہ آپ کے نزدیک میں عربی نہیں جانتا اور محض جاہل ہوں۔ اس لیے اگر آپ مقابلہ کے وقت مجھ سے شکست کھا گئے تو آپ کو خدا تعالی کی طرف سے اسے ایک معجزہ سمجھ کر فی الفور میری بیعت میں داخل ہونا ہوگا لیکن جب مولوی غزنوی نے کوئی جواب نہ دیا اور نہ اس کا ساتھی شیخ نجفی کچھ بولا۔ تو آپ نے مولوی غزنوی اور شیخ نجفی کو مخاطب کر کے یہ رسالہ فصیح وبلیغ عربی میں ۱۷؍مارچ ۱۸۹۷ء کو لکھنا شروع کیا اور ۲۶؍مئی۱۸۹۷ء کو مکمل کر دیا۔ اس رسالہ میں جو اسرار ربانیہ اور محاسن ادبیہ پر مشتمل ہے آپؑ نے مکفّرین علماء پر حجت قائم کرنے کے لئے نجفی اور غزنوی کے علاوہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو بھی ان الفاظ میں دعوت مقابلہ دی کہ اگر وہ تین چار ماہ تک ایسی کتاب پیش کر دیں تو اس سے میرا جھوٹا ہونا ثابت ہو جائے گا بے شک وہ جن ادباء سے مدد لینا چاہیں لے لیں اگر وہ اس رسالہ کی نظیر حجم و وضخامت اور نظم و نثر کے موافق شائع کردیں اور پروفیسر مولوی عبداللہ یا کوئی اور پروفیسر حلف مؤکد بعذاب اٹھا کر ان کے تحریر کردہ رسالہ کو میرے رسالہ کے برابر یا اعلٰی قرار دیں اور پھر قسم کھانے والا میری دعا کے بعد اکتالیس دن تک عذاب الہی میں ماخود نہ ہو تو میں اپنی کتابیں جو اس وقت میرے قبضہ میں ہوں گی جلا کر ان کے ہاتھ پر توبہ کروں گا۔ اور اس طریق سے روز روز کا جھگڑا طے ہو جائے گا اور اس کے بعد جو شخص مقابلہ پر نہ آیا تو پبلک کو سمجھنا چاہیے کہ وہ جھوٹا ہے۔ آپؑ نے اس کتاب کے آخر میں تحریر فرمایا کہ یہ کتاب تکذیب و استہزاء کرنے والے علماء کے لیے آخری وصیت کی طرح ہے۔ اور اس اتمام حجت کے بعد ہم ان سے خطاب نہیں کریں گے۔ لیکن نہ تو بٹالوی صاحب مقابلہ کے لیے سامنے آئے اور نہ غزنوی اور شیخ نجفی اور نامخالف علماء میں سے کسی اور کو اس رسالہ کے مقابلہ میں فصیح و بلیغ عربی رسالہ لکھنے کی جرات ہوئی۔


Book Content

Page 176

اَلإعلانُ فاسمعوا یا أَہل العُدْوَان أیّہا النّاظرون اعلَمُوا، رحِمکم اللّٰہ ورزَقکم رزقًا حسنًا من التفضّلات الجلیّۃ والألطاف الخفیّۃ، أنّ ہذہ رسالتی قد تمّت بالعنایۃ الإلٰہیّۃ محفوفۃً بالأسرار الأنیقۃ الرّبّانیۃ، ومشتملۃً علٰی محاسن الأدب، والمُلَح البیانیّۃ؛ فکأنّہا حدیقۃ مُخضرّۃ، تُغرّد فیہا بلابل علی دوحۃ الصفاء ، وتُصبی ثمراتہا قلوب الأدباء.ومَن أمعنَ فیہا بإخلاص النیّۃ، وصدق الطویّۃ، فلا شکّ أنہ یُقرّ بفصاحۃ کلماتہا، وبراعۃ عباراتہا، ویُقرّ بأنہا أعلٰی وأملح من التدوینات الرسمیّۃ، وعلیہا طلاوۃ أکثر من المقالات الإنسَانیّۃ.وأمّا الذی جُبِلَ علی سیرۃ النقمۃ والعناد، فیجحد بفضلہا ویترک متعمّدًا طریق القسط والسّداد، ولو کانت نفسہ من المستیقنین.فنحن نُقبِل الآن علی زُمر تلک المنکرین، ولقد وعیتَ أسماء ہم فیما سَبَقَ مِن ذکر المکفّرین والمکذّبین..أعنی شیخ 'البَطالۃ' وأمثالہ من المفسّقین الفاسقین.فلیُناضلونی فی ہذا ولو متظاہرین بأمثالہم، ولیبرہنوا علی کمالہم، وإلا کشفتُ عن سبّہم وأخزیتہم فی أَعین جُہّالہم.ومن یکتب منہم کتابا کمثل ہٰذہ الرسالۃ، إلی ثلا ثۃ أشہر أو إلی الأربعۃ، فقد کذّبنی صدقًا وعدلًا، وأثبتَ أنّنی لستُ من الحضرۃ الأحدیۃ.فہل فی الحیّ حیٌّ یقضی ہذہ الخطّۃ، ویُنجّی مِن التفرقۃ الأمّۃَ؟ ولیستظہرْ بالأدباء إن کان جاہلا لا یعرف طرق الإنشآء ، ولیعلم أنہ من المغلوبین.وسیذہب اللّٰہ ببصرہ ببرق من السّماء ، فیُعْشِیہ کما یُعشِی الہجیرُ عینَ الحِربآء ، ویُطفأُ وطیسَ المفترین.أیہا المکذّبون الکذّابون! ما لکم لا تجیئون ولا تناضلون، وتدعون ثم لا تُبارِزون؟ ویلٌ لکم ولما تفعلون یٰمعشر الجٰہلین.المُعْلِنْ غلام احمد القادیَانی ۲۶؍مئی ۱۸۹۷؁ء

Page 177

ضمیمہ  حجّۃُ اللّٰہ نحمدہ و نصلی علٰی رسولہ الکریم قُتِلَ الانسانُ ما اَکْفرہ

Page 178

Page 179

Page 180

Page 181

Page 182

Page 183

ایک گواہی مفصلہ ذیل اشتہار ایک فقیر مجذوب نے جو سیالکوٹ میں قریب بارہ سال سے مقیم ہے ہمارے پاس شائع کرنے کے لئے بھجوایا ہے لہٰذا ہم اس جگہ اس کی نقل مطابق اصل بلفظہ کر دیتے ہیں اور وہ یہ ہے.٭  اشتہار واجب الاظہار خدا کے فضل اور الہام سے.روح جناب رسول مقبول صلعم سے.روح کل شہدا سے.روح کل ابدالوں سے.روح کل اولیاء سے جو زمین پر ہیں.اور ان روحوں سے جو چودہ طبقوں کی خبر رکھتی ہیں.میں نے ان سب سے الہام اور گواہی پائی ہے کہ حضرت مرزا صاحب کو اللہ جلّ شانہٗ نے بھیجا ہے.٭ اس مجذوب کی اس نواح میں بہت عظمت اور شہرت ہے.

Page 184

رسول مقبول کے دین میں سخت فتنے برپا ہوگئے.وہ حد درجہ کا ضعیف ہوگیا.ہزاروں ملعون فرقے جیسے نصاریٰ اور رافضی پیدا ہوکر لوگوں کی گمراہی کا باعث ہوئے.اس لئے مسیح موعود کو بھیجنے کی ضرورت ہوئی.اس وقت یہ جو خوفناک فتنے پیدا ہوئے ان کی اصلاح ایک بھاری نبی کا کام تھا.مگر چونکہ رسول مقبول کے بعد کوئی نبی نہیں آنا تھا خدا تعالیٰ نے حضرت مرزا صاحب کو جو رسول مقبول کی دستار مبارک ہیں بھیجا.جو لوگ خیال کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ اس جسم سے زندہ آسمان پر اٹھائے گئے وہ جھوٹے ہیں کوئی آسمان پر موت کا مزہ چکھے بغیر اور جسم کے ساتھ نہیں گیا.اے علماء گدی نشینو! اے فقرا گدی نشینو! اے اہل بیت گدی نشینو! سن رکھو! عنقریب آسمان سے بڑی بھاری جلالی گواہی اس سلسلہ کی سچائی کی ظاہر ہونے والی ہے! خود خدا بڑے زور سے گواہی دے گا.پھر تم اس مخالفت میں بڑے ذلیل اور شرمندے ہوگے.یہ میرا اشتہار سچا ہے.یہ لوح محفوظ کی نقل ہے.میں دیکھتا ہوں اس مخالفت سے خدا تعالیٰ تم پر سخت ناراض ہے.رسول مقبول تم سے حد درجہ بیزار ہے.المشتہر فقیر محمد.سیالکوٹ.برلب اَیکْ.باغ بستی والا ۲۸؍ مئی ۱۸۹۷ء ایک عمدہ تجویز ارادہ ہے کہ حضرت اقدس جناب مسیح موعود کے وہ مضامین جو متفرق ہیں مثلاً اشتہارات مطبوعہ.قلمی خطوط اور وہ مضامین جو کسی غیر کے رسالہ یا کسی اخبار میں طبع ہوئے ایک جگہ جمع کر کے کتاب کی صورت میں طبع کئے جائیں.پس جس صاحب کے پاس ۱۸۹۶؁ء سے پہلے کا جو کوئی اشتہار (مطبوعہ) ہو اس کے عنوان.تاریخ.خلاصہ مضمون اور تعداد صفحہ سے اطلاع دیں تاکہ اگر دفتر میں وہ نہ ہو تو ان سے عاریتاً طلب کیا جائے.اور جس صاحب کے پاس حضرت اقدس کا کوئی خط جو نج کے معاملہ کی نسبت نہ ہو اور مفید عام ہو اس کی ایک نقل بلکہ وہ اصل خط ہی عاریتاً چند روز کے لئے بھیج دیں بعدنقل انشاء اللّٰہ و انشاء صاحبہٗ واپس کیا جائے گا.یہ بھی واضح رہے کہ خریداران کی کافی درخواستیں بہم پہنچنے پر اس کتاب کی طبع کا انتظام ہوگا.پس شائقین ساتھ ہی درخواست خریداری ارسال فرماویں.خط و کتابت صاحبزادہ سراج الحق صاحب جمالی نعمانی کے نام ہونی چاہیے.فقط المشتہر منظور محمد مہتمم کتب خانہ حضرت اقدس من مقام قادیان دارالامان یکم جون.

Page 185

 الحمد للّٰہ وسلام علٰی عبادہ الذین اصطفٰی سخن نزدم مَران از شہر یارے کہ ہستم بر درے امید وارے خداوندے کہ جان بخش جہان ست بدیع و خالق و پروردگارے کریم و قادر و مشکل کشائے رحیم و محسن و حاجت برارے فتادم بر درش زیر آنکہ گویند بر آید در جہان کارے زِ کارے چو آن یارِ وفادار آیدم یاد فراموشم شود ہر خویش و یارے بغیر او چسان بندم دلِ خویش کہ بے رویش نمے آید قرارے دلم در سینۂ ریشم مجوئید کہ بستیمش بدامانِ نگارے دل من دلبرے را تخت گاہے سر من در رہِ یارے نثارے چگویم فضل او بر من چگون ست کہ فضل اوست ناپیدا کنارے عنایت ہائے او را چون شمارم کہ لطف اوست بیرون از شمارے مرا کاریست با آن دلستانے ندارد کس خبر زان کاروبارے بنالم بر درش زِ انسان کہ نالد بوقت وضع حملے باردارے مرا باعشق او وقتے ست معمور چہ خوش وقتے چہ خرم روزگارے ثناہا گویمت اے گُلشن یار کہ فارغ کردی از باغ و بہارے

Page 186

ذَبُّ الْمُفْتَرینْ اِنَّ الّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَنِی لَایُحَارِبُوْنَ اِلاَّاللّٰہَ فَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْن بُردباری می کند زور آورے جاہلے فہمد کہ ہستم برترے اس وقت میرے سامنے وہ کاغذ پڑے ہیں جن میں نام کے مسلمانوں نے مجھ کو گالیاں دی ہیں چنانچہ ان میں سے ایک عبدالحق غزنوی ہے جو اپنے اشتہار میں مجھے دجال ٹھہرا کر اپنے اشتہار کے عنوان میں لکھتا ہے کہ ضَرْبُ النّعال عَلٰی وَجْہ الدّجال یعنی اس دجال کے منہ پر جوتی مارتا ہوں.سو یہ تو اس نے سچ کہا کیونکہ درحقیقت وہ خود دجال ہے اور آسمان سے اسی کے منہ پر جوتی پڑی نہ کسی اور کے منہ پر.ابھی معلوم نہیں کہ کہاں تک اس کا سرنرم کیا جائے گا.ابھی تو جلسہ مذاہب سے اس وقت تک صرف دو آسمانی جوتے اس کے سر پر پڑے ہاں ضرب شدید سے پڑے جس سے کچھ ہڈیاں ٹوٹی ہوں گی.معلوم نہیں کہ کس وقت اس بدبخت نے یہ کلمہ منہ سے نکالا تھا کہ دعا کی طرح اس کے حق میں قبول ہوگیا.پھر اسی اشتہار میں یہ نادان میری نسبت لکھتا ہے کہ لعنت کا طوق اس کے گلے میں ہے مگر اب اسے پوچھنا چاہئے کہ ذرا آنکھیں کھول کر دیکھے کہ کس کے گلے میں ہے؟ ذرہ سمجھ کر بولے کہ مذہبی جلسہ کے الہامی اشتہار نے کس کے منہ کو سیاہ کیا.لیکھرام کی موت نے کس کے گلے میں لعنت کا طوق ڈال دیا.باربار یہ شخص آتھم کی پیشگوئی کی نسبت اعتراض کرتا ہے.جاہل کو اب تک سمجھ نہیں آتا کہ آتھم کی پیشگوئی ٭جیسا کہ الہام کے الفاظ اور الہام کی شرط تھی کامل صفائی سے پوری تھم کے حالات کے بارے میں جو کچھ انوارالاسلام میں چھپا تھا وہ پھر بطور مختصر فائدہ عام کیلئے لکھا جاتا ہے اور وہ یہ ہے.یہ بات بالکل سچ اور یقینی اور الہام کے مطابق ہے کہ اگر مسٹر عبداللہ کا دل جیسا کہ پہلے تھا ویسا ہی توہین اور تحقیراسلام پر قائم رہتا اور اسلامی عظمت کو قبول کر کے حق کی طرف

Page 187

ہوگئی.شرط کے موافق خدائے کریم نے اس کی موت میں تاخیر ڈال دی اور پھر الہام کے موافق اس کو سات۷ مہینہ کے اندر مار دیا.چونکہ آتھم ڈرا اس لئے خدا نے اس کے معاملہ میں اپنی صفت رحم کو دکھلایا اور لیکھرام نہیں ڈرا اس لئے خدا نے اس کے معاملہ میں اپنی صفت قہر کو دکھلایا.سو خدا نے ان دونوں پیشگوئیوں سے اپنی جمالی اور جلالی صفات کا نمونہ دکھلا دیا اور ہرایک کی حالت کے موافق معاملہ کیا.آتھم پیشگوئی کو سن کر تمام شوخیوں سے کنارہ کش ہوگیا مگر لیکھرام نہ ہوا.آتھم نے تمام مباحثات مسلمانوں سے چھوڑ دئیے مگر اس نے ہرگز نہ چھوڑے.آتھم اس دن تک جو میعاد کے دن پورے ہوئے مردہ کی طرح پڑا رہا اور روتا رہا مگر یہ ہنستا اور ٹھٹھے کرتا رہا.اس نے شرم دکھلائی مگر لیکھرام نے بے شرمی اور شوخی ظاہر کی اور اس نے اپنا منہ بند کرلیا اور لیکھرام نے گالیوں سے اپنا منہ کھولا اور خدا نے آتھم کی نسبت مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ اِطَّلَعَ اللّٰہُ عَلٰی ھَمِّہٖ وَ غَمِّہٖ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلا یعنی خدا نے دیکھا کہ آتھم کا دل ہم و غم سے بھرگیا اس لئے اس رحیم خدا نے تاخیر ڈال دی اور پھر فرمایا کہ یہ کبھی نہیں ہوگا کہ خدا اپنی عادتوں کو بدل لے یعنی وہ ڈرنے والے کے ساتھ سختی نہیں کرتا مگر لیکھرام نہ ڈرا اور اس کی بدقسمتی سے آتھم کا ڈرنا اس کو دلیر کر گیا یہی وجہ ہے کہ آتھم کی نسبت خدا نے نرمی سے معاملہ کیا کیونکہ وہ نرم رہا اور لیکھرام سے سختی سے کیونکہ اس نے سختی دکھلائی اور یہی وجہ ہے کہ آتھم کی نسبت صرف ایک دفعہ الہام ہوا اور وہ بھی شرط کے ساتھ اور لیکھرام کے عذاب کے بارے میں بار بار قہری الہام ہوئے.غرض آتھم رجوع کرنے کا کوئی حصہ نہ لیتا تو اسی میعاد کے اندر اس کی زندگی کا خاتمہ ہو جاتا لیکن خدا تعالیٰ کے الہام نے مجھے جتلا دیا کہ ڈپٹی عبد اللہ آتھم نے اسلام کی عظمت اور اس کے رعب کو تسلیم کر کے حق کی طرف رجوع کرنے کا کسی قدر حصہ لے لیا جس حصہ نے اس کے وعدہ موت اور کامل طور کے ہاویہ میں تاخیر ڈال دی اور ہاویہ میں تو گرا لیکن اس بڑے ہاویہ سے تھوڑے دنوں کے لئے بچ گیا.جس کا نام موت ہے.اور یہ ظاہر ہے کہ الہامی لفظوں اور شرطوں میں سے کوئی ایسا لفظ یا شرط نہیں ہے جو بے تاثیر ہو یا جس کا کسی قدر موجود ہو جانا اپنی تاثیر پیدا نہ کرے لہٰذا ضرور تھا کہ جس قدر مسٹر عبد اللہ آتھم کے دل نے حق کی عظمت کو قبول کیا اس کا فائدہ اس کو پہنچ جائے.سو خدا تعالیٰ نے ایسا ہی کیا اور

Page 188

کی نسبت جو پیشگوئی کی گئی وہ ایسی عظیم الشان پیشگوئی ہے جو سترہ۷۱ برس پہلے اس وقت سے براہین میں بھی اس کا ذکر موجود ہے.اور نیز آثار نبویہ میں بھی اس کا ذکر پایا جاتا ہے.اس پیشگوئی کی دونوں پہلوؤں کے رو سے تکمیل ہو چکی اور آتھم ایک مدت سے مر چکا.پھر کیا اب تک وہ پیشگوئی پوری نہ ہوئی.لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین.کیا آتھم باکرہ لڑکی تھا جو بغیر کسی سبب قوی کے مقابل پر آنے سے شرم کی.آخر کوئی تو سبب تھا.وہ یہی سبب تھا کہ پیشگوئی کو سنتے ہی اسلامی ہیبت اس کو کھا گئی.وہ اندر ہی اندر گداز ہوگیا اور کسی جرأت کے لائق نہ رہا نہ قسم کے لائق اور نہ نالش کے لائق.جب قسم کیلئے بلایا جاتا تھا تو اس کا کلیجہ کانپ جاتا تھا.جب نالش کیلئے ابھارا جاتا تھا تو اس کا کانشنس اس کے منہ پر طمانچے مارتا تھا.مسیح نے خود قسم کھائی.پولوس نے کھائی.اس نے کیوں اشد ضرورت کے وقت نہ کھائی.اگر حملے ہوئے تھے تو نالش کرتا اور سزا دلاتا.اس کا حق تھا.اس نے کیوں نالش نہ کی.اے غزنوی لوگو! کس قدر تمہیں سچائی سے دشمنی ہے.کیا کوئی حد بھی ہے؟ کیا تمہارا یہی تقویٰ ہے جس کو لے کر تم پنجاب میں آئے؟!! ایک مسلمان کو کافر بناتے ہو اور خدا کے صریح اور کھلے کھلے نشانوں کا انکار کرتے ہو.اور پادریوں کو اپنی دجالی باتوں سے مدد دیتے ہو.کیا تمہیں ایسا کرنا روا تھا؟ کیا خدا ایک دجال اور کذاب کی عظمت اور قبولیت کو زمین پر پھیلا رہا ہے؟ اور تم جیسے نیک بختوں کو ذلیل کر رہا ہے یا اس کو دھوکہ لگ گیا ہے.کیا وہ دلوں کے بھیدوں کو جاننے والا نہیں؟ کیا تم سچائی کو نابود کر دو گے؟ کیا وہ نور جو آسمان مجھے فرمایا اطلع اللّٰہ علٰی ھمّہ و غمّہ.و لَن تَجِد لسُنّۃ اللّٰہ تبدیلا ولا تعجبوا ولا تحزنوا و انتم الاعلون ان کنتم مومنین وبعزتی و جلالی انک انت الاعلی.ونمزق الاعداء کل ممزق.ومکر اولئک ھو یَبُور.انا نکشف السرّعن ساقہ یومئذ یفرح المومنون.ثلّۃ من الاولین و ثلۃ من الاٰخرین و ھذہ تذکرۃ فمن شاء اتَّخَذَ الیٰ ربّہ سبیلا.ترجمہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس کے ہم و غم پر اطلاع پائی اور اس کو مہلت دی جب تک کہ وہ بے باکی اور سخت گوئی اور تکذیب کی طرف میل کرے اور خدا تعالیٰ کے احسان کو بھلادے (یہ معنے فقرہ مذکورہ کے تفہیم الٰہی سے ہیں ) اور پھر فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی یہی سنت ہے اور تو ربانی سنتوں میں تغیر اور تبدل

Page 189

سے اترا ہے تم اس کو منہ کی پھونکوں سے بجھا دو گے؟ اگر تم نیک انسان کی ذریت ہو تو بدی میں اپنے تئیں مت ڈالو! سمجھ جاؤ اور سنبھل جاؤ! کہ ابھی وقت ہے اور آیت ۱؎ کو غور سے پڑھو.آگے تمہارا اختیار ہے! پھر اسی اشتہار میں اسی بزرگ عبدالحق نے اور بھی گالیاں دی ہیں.چنانچہ صفحہ ۲و ۳ و ۴ میں میری نسبت لکھتا ہے.’’بدکار شیطان لعنتی.لعن و طعن کا جوت اس کے سر پر ذلیل خوار خستہ خراب اللہ عزّوجلّ کا دشمن.خدا کے ولی عبدالحق کا دشمن‘‘.پھر اخیر اشتہار میں پیشگوئی کرتا ہے کہ ’’عنقریب اللہ کا غضب تیرے پر اترے گا‘‘.میں کہتا ہوں کہ اے نا اہل نادان تو نے یہ اچھا نہیں کیا کہ خدا پر افترا کیا.اب دیکھ! کہ وہ غضب تیرے پر اترا یا کسی اور پر؟ کیا تیرے گلے میں لعنت کا رسہ پڑا یا کسی اور کے گلے میں؟ تو نے اسی اپنے اشتہار میں دعویٰ کیا تھا کہ میں آگ میں جا سکتا ہوں اور نہیں جلوں گا اور دریا پر چلنے کے لئے حاضر ہوں اور نہیں ڈوبوں گا اور ایک مہینہ تک کوٹھڑی میں بند رہنے کے لئے موجود ہوں اور نہیں مروں گا لیکن اے نابکار! انہیں شوخیوں کی وجہ سے اس وقت خدا نے تیرا منہ کالا کیا.خدا کے کھلے کھلے نشان نے تجھے عذاب کی آگ میں ڈالا اور تو جل گیا اور بچ نہیں سکا.تیرے لئے یہ عذاب تھوڑا نہیں ہوا کہ تمام قوموں میں اس نشان کی عظمت ظاہر ہوئی.اس آگ نے بے شک تجھے جلا کر راکھ کر دیا.تو ندامت کے دریا میں بھی ڈوب گیا اور اس پر چل نہ سکا اور تو خذلان کی نہیں پائے گا اس فقرہ کے متعلق یہ تفہیم ہوئی کہ عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ وہ کسی پر عذاب نازل نہیں کرتا جب تک ایسے کامل اسباب پیدا نہ ہو جائیں جو غضب الٰہی کو مشتعل کریں اور اگر دل کے کسی گوشہ میں بھی کچھ خوف الٰہی مخفی ہو اور کچھ دھڑکہ شروع ہو جائے تو عذاب نازل نہیں ہوتا اور دوسرے وقت پر جا پڑتا ہے.اور پھر فرمایا کہ کچھ تعجب مت کرو اور غمناک مت ہو اور غلبہ تمہیں کو ہے اگر تم ایمان پر قائم رہو.یہ اس عاجز کی جماعت کو خطاب ہے اور پھر فرمایاکہ مجھے میری عزت اور جلال کی قسم ہے کہ تو ہی غالب ہے(یہ اس عاجز کو خطاب ہے) اور پھر فرمایا کہ ہم دشمنوں کو پارہ پارہ کردیں گے.یعنی ان کو ذلت پہنچے گی اور ان کا مکر ہلاک ہو جائے گا.اس میں یہ تفہیم ہوئی کہ تم ہی فتحیاب ہو نہ دشمن اور خدا تعالیٰ بس نہیں کرے گا اور نہ باز آئے گا

Page 190

اندھیری کوٹھڑی میں بھی بند کیا گیا اور وہیں مرگیا.دیکھ! خدا کی غیرت نے تجھے کیا کیا دکھلایا.ذرا آنکھ کھول اور دیکھ کہ تیرا تکبر کیسا تجھے پیش آگیا.تو مجھے کہتا تھا کہ تو آگ میں جلے گا.اور دریا میں غرق ہوگا اور کوٹھڑی میں مرے گا.اے بدقسمت اب دیکھ! کہ یہ تینوں باتیں کس پر وارد ہوئیں؟ تجھ پر یا مجھ پر.سچ کہہ! کیا اس عذاب کی آگ نے تجھے نہیں جلایا؟ کیا تو قسم کھا سکتا ہے کہ اس آگ سے تیرا دل کباب نہیں ہوا؟ اور کیوں نہ ہوا جبکہ ایسی کھلی کھلی پیشگوئی پوری ہوئی جس میں تمام ہندوؤں کو خود اقرار ہے کہ یہ وہ اعلیٰ درجہ کی پیشگوئی ہے جس میں پیش از وقت سارے پتے بتلائے گئے تھے.میعاد بتلائی گئی.موت کا دن بتلایا گیا.صورت موت بتلائی گئی.اور آیت  ۱؎ نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ ایسی کھلی کھلی پیشگوئی صرف خدا کے مرسلوں کو دی جاتی ہے.نہ منجموں سے ہو سکتی ہے نہ دجالوں سے.پس کیا یہ وہ آگ نہیں جس نے تیرے دل کو جلا دیا؟ کیا تو اب خدا کے کلام سے انکار کرے گا؟ یا خودکشی کر کے مرجائے گا؟ کیا تو قسم کھا سکتا ہے کہ اب تک تو ندامت کے دریا میں غرق نہیں ہوا.کیا تجھ پر اور تمام لوگوں پر اب تک نہیں کھلا کہ تو خذلان کی اندھیری کوٹھڑی میں بند کیا گیا؟ اور تیری دعاؤں اور تیرے اس شیطانی الہام کے برخلاف جو تو نے اشتہار کے آخر میں لکھا تھا ظہور میں آیا؟ اے تیرہ بخت! کیا تو اب تک جیتا ہے؟ نہیں نہیں ! تیری فضولیوں نے تجھے ہلاک کر دیا.تو ان تین عذابوں میں آپ ہی پڑ گیا جن کے ذریعہ سے میری موت تجویز کرتا تھا!!! فاعتبروا یا اولی الابصار.!! جب تک دشمنوں کے تمام مکروں کی پردہ دری نہ کرے اور ان کے مکر کو ہلاک نہ کردے یعنی جو مکر بنایا گیا اور مجسم کیا گیا اس کو توڑ ڈالے گا اور اس کو مردہ کر کے پھینک دے گا اور اس کی لاش لوگوں کو دکھادے گااور پھر فرمایا کہ ہم اصل بھید کو اس کی پنڈلیوں میں سے ننگا کر کے دکھا دیں گے یعنی حقیقت کو کھول دیں گے اور فتح کے دلائل بینہ ظاہر کریں گے٭ اور اس دن مومن خوش ہوں گے پہلے مومن بھی اور پچھلے مومن بھی.اور پھر فرمایا کہ وجہ مذکورہ سے عذاب موت کی تاخیر ہماری سنت ہے جس کو ہم نے ذکر کر دیا.اب جو چاہے وہ راہ اختیار کرلے جو اس کے رب کی طرف جاتی ہے.اس میں بدظنی کرنے والوں پر زجر اور ملامت ہے اور نیز اس میں یہ بھی تفہیم ہوئی ہے کہ جو سعادت مند لوگ ہیں اور جو خدا ہی کو چاہتے ہیں اور کسی بخل اور تعصب یا جلد بازی یا سوء فہم ٭ یہ لیکھرام کی موت کی طرف اشارہ تھا.منہ

Page 191

پھر عبدالحق نے لکھا ہے کہ ’’آتھم کی پیشگوئی کے نہ پوری ہونے کے وقت میں کس قدر عیسائیوں اور مسلمانوں نے تم پر لعنتیں کیں.یہی سزا دجال کذاب کی تھی‘‘.اس کا جواب یہ ہے کہ حکم خواتیم پر ہے نافہموں اور نادانوں نے نبیوں اور رسولوں سے بھی اوائل حال میں ایسا ہی کیا ہے.پھر آخر اپنی ناسمجھیوں پر روئے.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس جگہ بھی ایسا ہی ہوگا.یہ بھی یاد رہے کہ اس عبدالحق اور اس کی جماعت کا ایک قلمی خط بھی رمضان کے مہینہ کے سر پر میرے پاس پہونچا.چونکہ وہ گالیوں سے بھرا ہوا تھا اس لئے میں نے نہ چاہا کہ رمضان میں اس کا جواب لکھوں مگر وہ خط حضرات غزنوی صاحبوں کا اب تک موجود ہے اور گالیاں جو مجھے دی ہیں وہ یہ ہیں ’’دس ہزار تیرے پر لعنت۰۱ لعنت۰۱ لعنت۰۱ لعنت لعنتعشرہ الف مائۃ.کافر اکفر، دجال، شیطان، فرعون، قارون، ہامان، اڑڑپوپو، وادی کا وحشی، کلب یلہث یعنی جنگلی کتا‘‘.ان افغانوں کی شیریں زبانی اور تقویٰ کا یہ نمونہ ہے.اور ایک اور صاحب جو دشنام دہی میں عبدالحق کے چھوٹے بھائی یا بڑے بھائی ہیں اپنے پرچہ درّۃ الاسلام میں بہت سی گندہ زبانی کے ساتھ آتھم کی پیشگوئی کا ذکر کرتے ہیں.اب میں کہاں تک ان کو بار بار بتلاؤں کہ آتھم تو پیشگوئی کے موافق زندہ بھی رہا اور مرا بھی.اس نے خوف دکھلایا اور بے شرمی ظاہر نہ کی اس لئے خدا نے وعدہ کے موافق اس سے نرمی کی اور کچھ تاخیر کر دی اور لیکھرام نے متواتر شوخیاں ظاہر کیں اس لئے قادر قہار نے کے اندھیرے میں مبتلا نہیں وہ اس بیان کو قبول کریں گے اور تعلیم الٰہی کے موافق اس کو پائیں گے لیکن جو اپنے نفس اور اپنی نفسانی ضد کے پیرو یا حقیقت شناس نہیں وہ بے باکی اور نفسانی ظلمت کی وجہ سے اس کو قبول نہیں کریں گے.الہام الٰہی کا ترجمہ معہ تفہیمات الٰہیہ کے کیا گیا.جس کا ماحصل یہی ہے کہ قدیم سے الٰہی سنت اسی طرح پر ہے کہ جب تک کوئی کافر اور منکر نہایت درجہ کا بیباک اور شوخ ہو کر اپنے ہاتھ سے اپنے لئے اسباب ہلاکت پیدا نہ کرے تب تک خدا تعالیٰ تعذیب کے طور پر اس کو ہلاک نہیں کرتا اور جب کسی منکر پر عذاب نازل ہونے کا وقت آتا ہے تو اس میں وہ اسباب پیدا ہو جاتے ہیں جن کی وجہ سے اس پر حکمِ ہلاکت لکھا جاتا ہے.عذاب الٰہی کے لئے یہی قانون قدیم ہے اور یہی سنت

Page 192

اس کو پکڑ لیا.یہ دونوں نمونے آتھم اور لیکھرام کے معرفت کے بھوکوں پیاسوں کے لئے نہایت مفید ہیں.ان سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خدا کیسا رحیم و کریم ہے جو نرمی کرنے والوں سے نرمی کرتا ہے اور کیسا غیور ہے جو چالاکی کرنے والوں کو جلد پکڑتا ہے.آتھم کا پیشگوئی کے سننے سے ٹھنڈا اور سرد ہو جانا اور لیکھرام کا شوخ ہو جانا ضرور چاہتا تھا کہ دو مختلف نتیجے پیدا ہوں.اے نادانوں ! کیا یہ روا تھا کہ خدا کی الہامی شرط پوری نہ ہوتی؟ یا وہ نرمی کے محل پر نرمی استعمال نہ کرتا اور ڈرنے والے کو فی الفور اٹھا کر پتھر مارتا؟! یہ بھی سن چکے ہو کہ الہام میں رجوع کی شرط لگا کر آتھم کی فطرتی خاصیت کی طرف اشارہ کر دیا تھا.اگر اس کی فطرت میں خوف قبول کرنے کی قوت نہ ہوتی تو خدا رجوع کی شرط الہام میں ظاہر نہ کرتا.اور رجوع ایک فعل قلب ہے جس میں ظاہری اسلام شرط نہیں.سو آتھم نے اپنے اقوال افعال سے ظاہر کر دیا کہ وہ ضرور اس شرط کا پابند ہوگیا.پس وہ رحیم خدا جس نے فرمایا ہے کہ جب کشتی میں بیٹھنے والے غرق ہونے کے وقت میری طرف رجوع کریں تو میں ان کو اس وقت نجات دے دیتا ہوں.گو جانتا ہوں کہ بعد میں پھر اپنی شقاوت کی طرف عود کر آئیں گے.اسی بردبار خدا نے آتھم کو الہامی شرط کا اس کے رجوع پر فائدہ دے دیا اور پھر آتھم بعد اس کے دین اسلام کے رد کی تالیفات میں مشغول نہیں ہوا اور نہ نالش کی اور نہ قسم کھائی.یہاں تک کہ اس دنیا سے گذر گیا اور خوف کا اقرار کیا.پس اگرچہ بے ایمانوں کا تو کچھ علاج نہیں مگر ایمان دار آتھم کی اس مستمرہ اور یہی غیر تبدل قاعدہ کتاب الٰہی نے بیان کیا ہے اور غور کرنے سے ظاہر ہوگا کہ جو مسٹر عبداللہ آتھم کے بارے میں یعنی سزائے ہاویہ کے بارے میں الہامی شرط تھی وہ درحقیقت اسی سنت اللہ کے مطابق ہے کیونکہ اس کے الفاظ یہ ہیں کہ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے لیکن مسٹر عبداللہ آتھم نے اپنی مضطربانہ حرکات سے ثابت کر دیا کہ اس نے اس پیشگوئی کو تعظیم کی نظر سے دیکھا جو الہامی طور پر اسلامی صداقت کی بنیاد پر کی گئی تھی.اور خدا تعالیٰ کے الہام نے بھی مجھ کو یہی خبر دی کہ ہم نے اس کے ہم اور غم پر اطلاع پائی یعنی وہ اسلامی پیشگوئی سے خوفناک حالت میں پڑا اور اس پر رعب غالب ہوا.اس نے اپنے افعال سے دکھا دیا کہ اسلامی پیشگوئی کا کیسا ہولناک اثر اس کے دل پر ہوا اور کیسی اس پر گھبراہٹ اور دیوانہ پن اور دل کی حیرت

Page 193

کنارہ کشی اور خاموشی سے ضرور رجوع کا نتیجہ نکالیں گے.یہ بار ثبوت آتھم کی گردن پر تھا کہ وہ اقرار خوف کے بعد ہم کو اور ہر ایک منصف کو یہ موقعہ نہ دیتا کہ اس کے اقوال اور افعال سے ہم رجوع کا نتیجہ نکال سکتے.بلکہ چاہئے تھا کہ وہ قسم سے یا نالش سے یا کسی اور طرح پر اثبات دعویٰ سے اپنی اس بزدلی کو جو پندرہ مہینہ تک اس سے برابر ظہور میں آتی رہی اسلامی ہیبت کے وجوہ سے الگ کر کے دکھلاتا.پس یہ بڑی بدذاتی ہے کہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ آتھم کے دل نے پیشگوئی کی عظمت کو ایک ذرہ قبول نہیں کیا تھا اور وہ اپنی سابقہ شوخیوں پر میعاد کے اندر برابر قائم تھا.ایڈیٹر درّۃ الاسلام لکھتا ہے کہ ایمان کیلئے اقرار باللسان شرط ہے.تو اس کا یہی جواب ہے کہ اے نادان الہام میں لفظ رجوع ہے جو درحقیقت فعل قلب ہے اور اس کے لئے اقرار لسان شرط نہیں.اقرار لسان معاد کی نجات کیلئے شرط ہے مگر ایسی نجات کیلئے جو صرف دنیا کیلئے ہو صرف دل کا خوف کافی ہے.یہ ضرور نہیں کہ کسی مجمع کو گواہ بنایا جائے بلکہ  ۱؎ بھی تو قرآن میں موجود ہے.! پھر یہی شخص لکھتا ہے کہ مارچ ۱۸۸۶ء میں اشتہار دیا تھا کہ لڑکا پیدا ہوگا یعنی بعد اس کے لڑکی پیدا ہوئی لیکن اے نادانو! دل کے اندھو! میں کب تک تمہیں سمجھاؤں گا.مجھے وہ اشتہار ۱۸۸۶؁ء دکھلاؤ میں نے کہاں لکھا ہے کہ اسی سال میں لڑکا پیدا ہونا ضروری ہے.پھر یہی شخص لکھتا ہے کہ ’’تمہیں اپنے جھوٹھے الہام پر ذرہ شرم نہ آئی‘‘.پر میں کہتا ہوں کہ اے سیاہ دل! الہام جھوٹھا نہیں تھا.تجھ میں خود الٰہی کلام کے سمجھنے کا مادہ نہیں.الہام میں کوئی ایسا لفظ غالب آگئی اور کیسے الہامی پیشگوئی کے رعب نے اس کے دل کو ایک کچلا ہوا دل بنا دیا یہاں تک کہ وہ سخت بیتاب ہوا اور شہر بشہر اور ہر ایک جگہ ہراساں اور ترساں پھرتا رہا اور اس مصنوعی خدا پر اس کا توکل نہ رہا جس کو خیالات کی کجی اور ضلالت کی تاریکی نے الوہیت کی جگہ دے رکھی ہے وہ کتوں سے ڈرا اور سانپوں کا اس کو اندیشہ ہوا اور اندر کے مکانوں سے بھی اس کو خوف آیا.اس پر خوف اور وہم اور دلی سوزش کا غلبہ ہوا اور پیشگوئی کی پوری ہیبت اس پر طاری ہوئی اور وقوع سے پہلے ہی اس کا اثر اس کو محسوس ہوا اور بغیر اس کے کہ کوئی امرتسر سے اس کو نکالے آپ ہی ہراساں اور ترساں اور پریشان اور بیتاب ہوکر شہر بشہر بھاگتا پھرا اور خدا نے اس کے دل کا آرام چھین لیا اور پیشگوئی سے سخت متاثر ہو کر سراسیموں اور خوف زدوں کی طرح جابجا بھٹکتا پھرا اور الہام الٰہی کا رعب اور اثر اس کے دل پر ایسا مستولی ہوا کہ اس کی راتیں ہولناک اور دن بے قراری سے بھرگئے اور حق کی مخالفت کی حالت میں جو جو دہشتیں اور

Page 194

نہ تھا کہ اس حمل میں ہی لڑکا پیدا ہو جائے گا.اب بجز اس کے میں کیا کہوں کہ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین بے شک مجھے الہام ہوا تھا کہ موعود لڑکے سے قومیں برکت پائیں گی مگر ان اشتہارات میں کوئی ایسا الٰہی الہام نہیں جس نے کسی لڑکے کی تخصیص کی ہو کہ یہی موعود ہے.اگر ہے تو لعنت ہے تجھ پر اگر تو وہ الہام پیش نہ کرے.ہاں دوسرے حمل میں جیسا کہ پہلے سے مجھے ایک اور لڑکے کی بشارت ملی تھی لڑکا پیدا ہوا.سو یہ بجائے خود ایک مستقل پیشگوئی تھی جو پوری ہوگئی جس کا ہمارے مخالفوں کو صاف اقرار ہے.ہاں اگر اس پیشگوئی میں کوئی ایسا الہام میں نے لکھا ہے جس سے ثابت ہوتا ہو کہ الہام نے اسی کو موعود لڑکا قرار دیا تھا تو کیوں وہ الہام پیش نہیں کیا جاتا.پس جب کہ تم الہام کے پیش کرنے سے عاجز ہو تو کیا یہ لعنت تم پر ہے یا کسی اور پر اور یہ کہنا کہ اس لڑکے کو بھی مسعود کہا ہے.تو اے نابکار مسعودوں کی اولاد مسعود ہی ہوتی ہے الا شاذ نادر.کون باپ ہے جو اپنے لڑکے کو سعادت اطوار نہیں بلکہ شقاوت اطوار کہتا ہے.کیا تمہارا یہی طریق ہے؟ اور بالفرض اگر میری یہی مراد ہوتی تو میرا کہنا اور خدا کا کہنا ایک نہیں ہے.میں انسان ہوں ممکن ہے کہ اجتہاد سے ایک بات کہوں اور وہ صحیح نہ ہو.پر میں پوچھتا ہوں کہ وہ خدا کا الہام کون سا ہے کہ میں نے ظاہر کیا تھا کہ پہلے حمل میں ہی لڑکا پیدا ہو جائے گا یا جو دوسرے میں پیدا ہوگا وہ درحقیقت وہی موعود لڑکا ہوگا اور وہ الہام پورا نہ ہوا.اگر ایسا الہام میرا تمہارے پاس موجود ہے تو تم پر لعنت ہے اگر وہ الہام شائع نہ کرو! قلق اس شخص پر وارد ہوتا ہے جو یقین رکھتا ہے یا ظن رکھتا ہے کہ شاید عذاب الٰہی نازل ہو جائے.یہ سب علامتیں اس میں پائی گئیں اور وہ عجیب طور پر اپنی بے چینی اور بے آرامی جابجا ظاہر کرتا رہا اور خدا تعالیٰ نے ایک حیرت ناک خوف اور اندیشہ اس کے دل میں ڈال دیا کہ ایک پات کا کھڑکا بھی اس کے دل کو صدمہ پہونچاتا رہا اور ایک کتے کے سامنے آنے سے بھی اس کو ملک الموت یاد آیا اور کسی جگہ اس کو چین نہ پڑا اور ایک سخت ویرانے میں اس کے دن گذرے اور سراسیمگی اور پریشانی اور بے تابی اور بے قراری نے اس کے دل کو گھیر لیا اور ڈرانے والے خیال رات دن اس پر غالب رہے اور اس کے دل کے تصوروں نے عظمت اسلامی کو ردنہ کیا بلکہ قبول کیا اس لئے وہ خدا جو رحیم و کریم اور سزا دینے میں دھیما ہے اور انسان کے دل کے خیالات کو جانچتا اور اس کے تصورات کے موافق اس سے عمل کرتا ہے.اس نے اس کو اس صورت پر نہ پایا جس صورت میں فی الفور کامل ہاویہ کی سز

Page 195

اور پھر تمہارا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ ’’احمد بیگ کا داماد اب تک زندہ ہے‘‘.سو میں کہتا ہوں کہ اے نابکار قوم! کب تک تو اندھی اور گونگی اور بہری رہے گی؟ اور کب تک تیری آنکھیں اس نور کو نہیں دیکھیں گی جو اتارا گیا؟ سن اور سمجھ! کہ اس الہام کے دو ٹکڑے تھے ایک احمد بیگ کے متعلق اور ایک اس کے داماد کے متعلق.سو تم سن چکے ہو کہ احمد بیگ میعاد کے اندر فوت ہوگیا اور وہ دن آتا ہے کہ تم سن لو گے کہ اس کے داماد کی نسبت بھی پیشگوئی پوری ہوگئی.خدا کی باتیں ٹل نہیں سکتیں ! اور یہ اعتراض جو تم کرتے ہو نئے نہیں.نوشتوں کو پڑھو کہ پہلے بدفہم لوگوں نے بھی ایسے ہی اعتراض نبیوں پر بھی کئے ہیں.تمہارے دل ان سے مشابہ ہوگئے.اور تمہارا یہ کہنا کہ ’’میعاد کے اندر وہ کیوں فوت نہیں ہوا؟‘‘.یہ تمہاری بے ایمانی یا ناسمجھی ہے.الہام توبی توبی فانّ البَلاء علٰی عقبک میں صاف توبہ کی شرط تھی اور یہ الہام احمد بیگ اور اس کے داماد دونوں کے لئے تھا کیونکہ عقب لڑکی اور لڑکی کی اولاد کو کہتے ہیں اور یہ احمد بیگ کی بیوی کی والدہ کو خطاب تھا کہ تیری لڑکی اور لڑکی کی لڑکی پر خاوند مرنے کی بلا ہے.اگر توبہ کرو گی تو تاخیر موت کی جائے گی.پس احمد بیگ کی زندگی کے وقت کسی نے اس الہام کی پرواہ نہ کی اور جب احمد بیگ فوت ہوگیا تو اس کی بیوہ عورت اور دیگر پس ماندوں کی کمر ٹوٹ گئی وہ دعا اور تضرع کی طرف بدل متوجہ ہوگئے.جیسا کہ سنا گیا ہے کہ اب تک احمد بیگ کے داماد کی والدہ کا کلیجہ اپنے حال پر نہیں آیا.سو خدا دیکھتا ہے کہ وہ شوخیوں میں کب آگے قدم رکھتے ہیں.پس اس وقت وعدہ اس کا پورا ہوگا جب یہ سب کچھ پورا ہوگا.تب نہ میں بلکہ ہر ایک دانا تم پر لعنت بھیجے گا کیونکہ تم نے خدا کا مقابلہ کیا.! یعنی موت بلاتوقف اس پر نازل ہوتی اور ضرور تھا کہ وہ کامل عذاب اس وقت تک تھما رہے جب تک کہ وہ بے باکی اور شوخی سے اپنے ہاتھ سے اپنے لئے ہلاکت کے اسباب پیدا کرے اور الہام الٰہی نے بھی اسی طرف اشارہ کیا تھا کیونکہ الہامی عبارت میں شرطی طور پر عذاب موت کے آنے کا وعدہ تھا نہ مطلق بلا شرط وعدہ لیکن خدا تعالیٰ نے دیکھا کہ مسٹر عبد اللہ آتھم نے اپنے دل کے تصورات سے اور اپنے افعال سے اور اپنی حرکات سے اور اپنے خوف شدید سے اور اپنے ہولناک اور ہراساں دل سے عظمت اسلامی کو قبول کیا اور یہ حالت ایک رجوع کرنے کی قسم ہے جو الہام کے استثنائی فقرہ سے کسی قدر تعلق رکھتی ہے.

Page 196

اور پھر ایک اور صاحب اپنا نام شیخ نجفی ظاہر کر کے میرے مقابل پر آئے ہیں.اور مجھے کذاب اور دجال اور جاہل ٹھہراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’خسوف و کسوف کا نشان قیامت کو ظاہر ہوگا نہ اب‘‘.اس نادان کو یہ بھی خبر نہیں کہ اگر خسوف کسوف بطور نشان مہدی ظاہر ہوگا جیسا کہ دارقطنی وغیرہ کتب حدیث میں درج ہے تو قیامت کو اس نشان سے فائدہ کون اٹھائے گا بلکہ اس وقت تو مہدی کا آنا ہی لاحاصل ہوگا.جب خدا نے ہی نظام شمسی کو توڑ کر خلقت کا خاتمہ کرنا چاہا تو کون مہدی اور کہاں کے اس کے نشان.وہ تو قیامت کا زمانہ آگیا.اس میں کس کو کلام ہو سکتا ہے کہ مہدی کا زمانہ تجدید کا زمانہ ہے اور خسوف کسوف اس کی تائید کیلئے ایک نشان ہے.سو وہ نشان اب ظاہر ہوگیا.جس کو قبول کرنا ہو قبول کرے اور جیسا کہ حدیث میں لکھا تھا چاند گرہن اس پہلی رات میں ہوا جو چاند کی تین راتوں میں سے پہلی رات ہے اور سورج گرہن ان دنوں کے نصف میں ہوا جو سورج گرہن کیلئے مقرر ہیں اور اس طرح یہ پیشگوئی نہایت صفائی سے پوری ہوگئی.چونکہ زمانہ کے علماء سورج اور چاند کی طرح ہوتے ہیں.سو اس پیشگوئی میں یہ اشارہ تھا کہ سورج اور چاند کا کسوف خسوف علماء کے دلوں کی تاریکی پر شاہد ہے کہ جو کچھ زمین میں ہوتا ہے آسمان اس کو دکھلا دیتا ہے.اور پھر یہی صاحب اپنے خط عربی میں جوژولیدہ زبانی سے بھرا ہوا ہے مجھ کو لکھتے ہیں کہ ’’اگر تو میرے مقابل پر آوے تو میں اپنا علم عربی تجھ کو دکھلاؤں‘‘ حالانکہ ان کے اسی عربی خط سے ان کے علم کا بخوبی اندازہ ہوگیا اور معلوم ہوگیا کہ بجز چند چرائے ہوئے فقروں اور مسروقہ الفاظ کے ان کی کیونکہ جو شخص عظمت اسلامی کو ردنہیں کرتا بلکہ اس کا خوف اس پر غالب ہوتا ہے وہ ایک طور سے اسلام کی طرف رجوع کرتا ہے اور اگرچہ ایسا رجوع عذاب آخرت سے بچا نہیں سکتا مگر عذاب دنیوی میں بے باکی کے دنوں تک ضرور تاخیر ڈال دیتا ہے.یہی وعدہ قرآن کریم اور بیبل میں موجود ہے اور جو کچھ ہم نے مسٹر عبداللہ آتھم کی نسبت اور اس کے دل کی حالت کے بارے میں بیان کیا یہ باتیں بے ثبوت نہیں بلکہ مسٹر عبداللہ آتھم نے اپنے تئیں سخت مصیبت زدہ بنا کر اور اپنے تئیں شدائد غربت میں ڈال کر اور اپنی زندگی کو ایک ماتمی پیرایہ پہنا کر اور ہر روز خوف اور ہر اس کی حرکات صادر کر کے اور ایک دنیا کو اپنی پریشانی اور دیوانہ پن دکھلا کر نہایت صفائی سے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ اس کے دل نے اسلامی عظمت اور صداقت کو قبول کرلیا.کیا یہ بات جھوٹ ہے کہ اس نے پیشگوئی کے رعب ناک مضمون کو

Page 197

گٹھڑی میں اور کچھ نہیں.اور ایسا ہی عبدالحق نے بھی اپنے اشتہار مذکورہ بالا میں یہی لاف زنی کی ہے اور میری نسبت لکھا ہے کہ ’’یہ کتابیں جو وہ شائع کرتا ہے عربی دان لوگوں سے عربی کرا کے چھپواتا ہے اور مجھے یقیناً معلوم ہے کہ اس کو عربی کی ہرگز لیاقت نہیں اگر اس کو ضرور لیاقت دی گئی ہے تو مجھ سے عام علماء کی مجلس میں عربی زبان میں بحث کرے دونوں کی عربی قلمبند ہو جائے گی بعدہ علماؤں پر پیش کی جائے گی.اگر فوقیت لے گیا تو مانا جائے گا کہ یہ رسائل عربی اس نے بنائے ہیں اور بحث تقریری بالمشافہ ہوگی.اگر بحث میں تجھ سے کچھ نہ بنا تو لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین‘‘.اس کے جواب میں ضمیمہ انجام آتھم میں اس کو لکھا گیا کہ ہم اس مقابلہ کیلئے طیار ہیں لیکن تمہیں یاد رہے کہ ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ یہ عربی کتابیں اس لئے تالیف نہیں ہوئیں کہ لوگ ہمیں عربی دان سمجھیں اور مولوی خیال کریں بلکہ ان کتابوں میں بار بار یہ جتلایا گیا ہے کہ یہ خدا کا نشان ہے اور بطور معجزہ کے مجھ کو دیا گیا ہے تا میرے دعویٰ پر یہ بھی ایک دلیل ہو.میں نے کب اور کہاں لکھا ہے کہ عربی کتابوں سے یہ مطلب ہے کہ اگر کوئی مغلوب ہو تو مجھے عربی دان مان لے.سو یہ اقرار کرنا چاہیے کہ اگر تم باوجود اتنے دعویٰ فضیلت اور عربی دانی کے میرے جیسے انسان سے صاف شکست کھا جاؤ جس کی نسبت تمہیں اسی اشتہار میں اقرار ہے کہ اس شخص کو عربی دانی کی ہرگز لیاقت نہیں تو یہ نشان تم تسلیم کرلو گے اور یقین دل سے سمجھ لو گے کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک معجزہ ہے اور اسی وقت توبہ کر کے میری بیعت میں داخل ہو جاؤ گے لیکن دو مہینے کے قریب عرصہ گذر گیا کہ اب تک عبدالحق کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا گویا وہ مرگیا.پورے طور پر اپنے پر ڈال لیا اور جس قدر ایک انسان ایک سچی اور واقعی بلا سے ڈر سکتا ہے اسی قدر وہ اس پیشگوئی سے ڈرا.اس کا دل ظاہری حفاظتوں سے مطمئن نہ ہو سکا اور حق کے رعب نے اس کو دیوانہ سا بنا دیا.سو خدا تعالیٰ نے نہ چاہا کہ اس کو ایسی حالت میں ہلاک کرے کیونکہ یہ اس کے قانون قدیم اور سنت قدیمہ کے مخالف ہے اور نیز یہ الہامی شرط سے مغائر اور برعکس ہے اور اگر الہام اپنی شرائط کو چھوڑ کر اور طور پر ظہور کرے تو گو جاہل لوگ اس سے خوش ہوں مگر ایسا الہام الہام الٰہی نہیں ہو سکتا اور یہ غیر ممکن ہے کہ خدا اپنی قرار دادہ شرطوں کو بھول جائے کیونکہ شرائط کا لحاظ رکھنا صادق کے لئے ضروری ہے اور خدا اصدق الصادقین ہے.ہاں جس وقت مسٹر عبداللہ آتھم اس شرط کے نیچے سے اپنے تئیں باہر کرے اور اپنے لئے اپنی شوخی اور بے باکی سے ہلاکت کے سامان پیدا کرے تو

Page 198

اب منصفین کو سوچنا چاہیے کہ یہ لوگ حق پوشی کے لئے کیسے دجالی کام کر رہے ہیں اور کس قدر شیطانی جھوٹھوں کو استعمال کرکے لوگوں کو تباہ کرتے ہیں.اگر یہ شخص اپنی عربی دانی میں سچا تھا اور فی الواقعہ مجھ کو محض اُمی اور ناخواندہ اور جاہل سمجھتا تھا تو اس کو تو خدا نے موقعہ دیا تھا کہ میں مقابلہ کرنے پر آمادہ ہوگیا تھا اور میں نے حتمی وعدہ سے کہہ دیا تھا کہ اگر میں مغلوب ہوگیا تو میں اپنے تئیں جھوٹھا سمجھوں گا لیکن اگر میں غالب ہوا تو مجھے سچا سمجھنا چاہیے تو پھر کیا سبب تھا کہ وہ گریز کر گیا.کیا یہ انصاف کی بات تھی کہ اگر میں مغلوب ہوجاؤں تو مجھے اپنے دعویٰ میں جھوٹھا سمجھا جائے لیکن اگر میں غالب ہو جاؤں تو مجھے صرف ایک عربی دان سمجھا جائے.کیا میں نے یہ تمام عربی کتابیں مولوی کہلانے کے شوق سے شائع کی تھیں.مجھے تو مولویت کے لفظ سے قدیم سے نفرت ہے اور بدل بیزار ہوں کہ کوئی مجھ کو مولوی کہے.میں نے تو ان کتابوں کی تالیف سے صرف خدا کا نشان پیش کیا تھا کیونکہ یہ ولایت کامل طور پر ظل نبوت ہے.خدا نے نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اثبات کے لئے پیشگوئیاں دکھلائیں سو اس جگہ بھی بہت سی پیشگوئیاں ظہور میں آئیں.خدا۱ نے دعاؤں کی قبولیت سے اپنے نبی علیہ السلام کی نبوت کا ثبوت دیا.سو اس جگہ بھی بہت سی دعائیں قبول ہوئیں.یہی نمونہ استجابت دعا کا جو لیکھرام میں ثابت ہوا غور سے سوچو!!! ایسا۲ ہی خدا نے اپنے نبی کو شق القمر کا معجزہ دیا.سو اس جگہ بھی قمر اور شمس کے خسوف کسوف کا معجزہ عنایت ہوا.ایسا۳ ہی خدا نے اپنے نبی کو فصاحت بلاغت کا معجزہ دیا سو اس جگہ بھی فصاحت بلاغت کو اعجاز کے طور پر دکھلایا.غرض فصاحت بلاغت کا ایک وہ دن نزدیک آجائیں گے اور سزائے ہاویہ کامل طور پر نمودار ہوگی اور پیشگوئی عجیب طور پر اپنا اثر دکھائے گی.اور توجہ سے یاد رکھنا چاہیے کہ ہاویہ میں گرائے جانا جو اصل الفاظ الہام ہیں وہ عبداللہ آتھم نے اپنے ہاتھ سے پورے کئے اور جن مصائب میں اس نے اپنے تئیں ڈال لیا اور جس طرز سے مسلسل گھبراہٹوں کا سلسلہ اس کے دامنگیر ہوگیا اور ہول اور خوف نے اس کے دل کو پکڑ لیا یہی اصل ہاویہ تھا.اور سزائے موت اس کے کمال کے لئے ہے جس کا ذکر الہامی عبارت میں موجود بھی نہیں.بے شک یہ مصیبت ایک ہاویہ تھا جس کو عبداللہ آتھم نے اپنی حالت کے موافق بھگت لیا لیکن وہ بڑا ہاویہ جو موت سے تعبیر کیا گیا ہے اس میں کسی قدر مہلت دی گئی کیونکہ حق کا رعب اس نے

Page 199

الٰہی نشان ہے اگر اس کو توڑ کر نہ دکھلاؤ تو جس دعویٰ کے لئے یہ نشان ہے وہ اس نشان اور دوسرے نشانوں سے ثابت اور تم پر خدا کی حجت قائم ہے.یہ جواب تھا جو عبدالحق کو لکھا گیا تھا لیکن اب چونکہ وقت حد اور اندازہ سے گذر گیا اور اس طرف سے کوئی جواب نہ آیا اور شیخ نجفی نے بھی چند روز کی مصلحت کیلئے صدیق اکبر اور فاروق اعظم کا پیچھا چھوڑ کر میری طرف اپنے تبروں کے تمام فیروں کو جھکا دیا اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس لاف زن نجدی اور غزنوی کی سرکوبی کے لئے چند مختصر ورق عربی کے بطور نشان لکھے جائیں اور ان پر اپنے صدق اور کذب کا حصر رکھا جائے کیونکہ اگر خدا میرے ساتھ ہے اور میں خوب جانتا ہوں کہ وہ میرے ساتھ ہے تو وہ ان لوگوں کو مقابلہ کی طاقت نہیں دے گا اس لئے میں نے لیکھرام کی موت کے بعد ۸؍ مارچ ۱۸۹۷ء کو اس مضمون کے لکھنے کا ارادہ کیا لیکن بباعث ضروری اشتہارات کے شائع کرنے میں کچھ توقف ہوگیا.اب ۱۷؍ مارچ ۱۸۹۷ء سے لکھنا شروع کیا ہے سو یقین رکھتا ہوں کہ میں اس اردو تمہید کے بعد ایک ہفتہ تک اس قدر عربی مضمون انشاء اللہ القدیر اسی کے فضل اور قوت اور توفیق سے لکھ لوں گا جو مخالفوں کیلئے بصورت نشان تجلی کرے گا اور میں اس وقت وعدہ محکم کرتا ہوں کہ اگر کوئی شخص ان دونوں میں سے یعنی نجفی اور غزنوی میں سے اس میعاد کے اندر جو سترہ۷۱ مارچ ۱۸۹۷ء سے اشاعت کے دن تک ہو سکتی ہے یعنی اس دن کہ یہ رسالہ ان کے پاس پہنچ جائے اس مضمون کی نظیر اسی کے حجم اور ضخامت کے مطابق اور اسی کی نظم اور نثر کے موافق بالمقابل شائع کر دے اور پروفیسر عربی مولوی عبداللہ صاحب یا کوئی اور پروفیسر جو مخالف تجویز کریں ایسی قسم کھا کر جو مؤکد بعذاب الٰہی ہو جلسہ عام میں کہہ دیں کہ یہ مضمون تمام مراتب بلاغت اور فصاحت کے رو سے مضمون پیش کردہ سے بڑھ کر یا برابر ہے اور پھر قسم کھانے والا میری دعا کے بعد اکتالیس دن تک عذاب الٰہی میں ماخوذ نہ ہو تو میں اپنی کتابیں جلا کر جومیرے قبضہ میں ہوں گی.اپنے سر پر لے لیا.اس لئے وہ خدا تعالیٰ کی نظر میں اس شرط سے کسی قدر فائدہ اٹھانے کا مستحق ہوگیا جو الہامی عبارت میں درج ہے.اور ضرور ہے کہ ہر ایک امر کا ظہور اسی طور سے ہو جس طور سے خدا تعالیٰ کے الہام میں وعدہ ہوا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اس ہمارے بیان میں وہی شخص مخالفت کرے گا جس کو مسٹر عبداللہ آتھم کے ان تمام واقعات پر پوری اطلاع نہ ہوگی اور یا جو تعصب اور بخل اور سیہ دلی سے حق پوشی کرنا چاہتا ہے.

Page 200

ان کے ہاتھ پر توبہ کروں گا اور اس طریق سے روز کا جھگڑا طے ہو جائے گا اور اس کے بعد جو شخص مقابل پر نہ آیا تو پبلک کو سمجھنا چاہیے کہ وہ جھوٹھا ہے.اور یہ کہنا کہ ممکن ہے کہ تم کسی دوسرے سے لکھوا کر اپنے نام پر پیش کرو گے.اس کا جواب اسی قدر کافی ہے کہ ایسا دوسرا عربی دان تمہیں بھی مل سکتا ہے.بلکہ تم جو ہر وقت لاف مارتے ہو کہ تمہارے ساتھ ہزاروں علماء ہیں اور حسب زعم تمہارے میرے ساتھ صرف جاہلوں یا منشیوں کا گروہ ہے تو اب تمہیں شرم نہیں آتی کہ ایسی باتیں مونہہ پر لاؤ.تمہارے پاس تو مدد دینے کے لئے زیادہ سامان ہیں.کسی ادیب کے آگے ہاتھ جوڑو یا ضرورت کے وقت اس کے قدموں پر ہی گرجاؤ.آخر وہ رحم کرے گا اور تمہیں کچھ بنا دے گا اور پھر یہ بھی ہے کہ یہ تحریر گو میری ہو یا تمہارے پاگلانہ خیال سے کسی اور کی.اس سے تمہیں کیا غرض اور کیا واسطہ جبکہ میں اس پر حصر رکھتا ہوں کہ اس تحریر کی نظیر پیش ہونے سے میں سمجھ لوں گا کہ میں کاذب ہوں تو تمہاری طرف سے کوشش ہونی چاہیے کہ اس کی نظیر پیش کرو.اگر تم سچے ہو تو ضرور اپنی کوشش میں کامیاب ہو جاؤ گے کیونکہ خدا سچوں کو ضائع نہیں کرتا اور اس کے عزیز ذلیل نہیں ہوتے اور میں مکرر کہتا ہوں کہ اسی میعاد میں تمہیں بالمقابل رسالہ شائع کر دینا چاہیے جس میعاد میں ابتدائے سترہ مارچ ۱۸۹۷؁ء سے میرا رسالہ شائع ہو.اگر اس میں تخلف ہوگا تو پھر تمہارے بے ہودہ عذرات کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا.اب میں عربی رسالہ لکھتا ہوں.وَمَا توفیقی الَّا بِاللّٰہ رَبّ انْصُرنِی مِن لدُنک رَبّ ایّدنی مِن لدُنک رَبّ انّ قومی طردونی فآونی مِنْ لدُنک رَبّ انّ قومی لعنونی فارْحمنی من لدنک.ارحمنی یا ربّ الارض والسّماء.ارحمنی یا ارحم الرحماء و لا راحم الَّا انت.انّک انت حِبّی فی الدنیا وَالاٰخرۃ و انت ارحم الراحمین.توکّلتُ علیک وانت لا تضیع المتوکّلیْن.

Page 201

عذر.اس عربی مضمون میں اگر کوئی سخت لفظ ہو تو میاں عبدالحق صاحب غزنوی معذور رکھیں کیونکہ بقول ان کے اس عاجز کو عربی لکھنے کی لیاقت نہیں اور لکھنے والے کوئی اور فاضل ہیں جو عربی کو لکھتے ہیں.پس الزام ان نامعلوم آدمیوں پر ہے نہ ایسے شخص پر جو عربی نہیں جانتا.الحمدُ للّٰہ الّذی جعَلنی مَظہَرَ الآیات، وصیَّرنی ظلَّ سیّدِ الکائنات، وجعل اسمی کاسمہ بأنواع التفضّلات، فأتمّ النعم علیّ لأحمَدَہ وأکون لہ أحمَدَ تحت السماوات، ونضَّر بی إیمان الناس لیُحمّدونی وأکون مُحمَّدًا بین المخلوقات.فأنا أحمَدُ وأنا محمَّد کما جاء فی الروایات، وأُعطیتُ حقیقۃَ اسمَیْ نبیِّنا فخرِ الموجودات، کانعکاس الصُّوَر فی المرآۃ، فنصلِّی ونسلِّم علی ہذا النبی الأمّیّ الذی تنعکس أنوارہ فی الصالحین والصالحات، وتُفتَح باسمہ أبواب البرکات، وتتم بنورہ حجّۃ اللّٰہ علی الکافریْنَ وَالکافرات؛ وَعلٰی آلہ الطّاہرین والطاہرات، وأصحابہ المَحْبُوبین والمَحْبُوْبات، وجمیع عباد اللّٰہ الصّالحین.اس خدا کو تمام تعریف ہے جس نے مجھے نشانوں کا جائے ظہور بنایا اور سرور کائنات کا ظل مجھے ٹھہرا دیا اور میرے نام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے مشابہ بنا دیا.اس طرح پر کہ اپنی نعمتوں کو میرے پر پورا کیا تا میں اس کی بہت تعریف کر کے احمد کے نام کا مصداق بنوں.اور میرے سبب سے لوگوں کے ایمان کو تازہ کیا تا وہ میری بہت تعریف کریں اور میں محمد کے نام کا مصداق بنوں.پس میں احمد ہوں اور میں محمد ہوں جیسا کہ روایات میں آیا ہے اور مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلمکے دونوں ناموں کی حقیقت عطا فرمائی گئی ہے جیسا کہ آئینہ میں صورتوں کا انعکاس ہو جاتا ہے.پس ہم اس نبی اُمی پر درود اور سلام بھیجتے ہیں جس کے انوار نیک مردوں اور نیک عورتوں میں چمکتے ہیں اور اس کے نام کے ساتھ برکتوں کے دروازے کھولے جاتے ہیں.اور اس کے نور کے ساتھ کافروں پر خدا کی حجت پوری ہوتی ہے اور درود اور سلام اس کی آل پر جو پاک مرد اور پاک عورتیں ہیں اور اس کے اصحاب پر جو خدا کے پیارے بندے اور پیاری کنیزکیں ہیں.اور ایسا ہی تمام نیک بندوں پر

Page 202

أمّا بعد.فاعلموا أیہا الطالبون، والأخیار المسترشدون، أن اللہ أتم حجّتی علی الأعداء، وأرَی لی الخوارق وأسبغَ من العطاء، ورأیتم کیف نزلت الآیات من السماء، وکیف فُتِحت الأبواب للطلباء، ثم الذین بخلوا یُنکروننی لاعنین، ویترکون الدیانۃَ والدین.جرّدوا مِن غیر حقّ سیفَ العدوان، وشہّروا حُسام السبّ والطغیان، وما کانوا منتہین.إنہم یؤذوننی ویسبّوننی ویکفّروننی، ولا أعلم لِمَ یُکفّروننی.أیکفّرون رجلا یقول إنی من المسلمین؟ یُصرّون علی سبل الضلال والنکوب، فأین خوف اللّٰہ وتقوی القلوب، وأین سِیَر الصالحین؟ أما جاء تہم الآیات؟ أما ظہرت البیّنات؟ أما حصحص الحق ورُفع الشبہات؟ أفتَعاہدوا علی أنہم لا یرجعون إلی حقّ مبین؟ أو تقاسموا علی أنہم یُصرّون علی تکذیبٍ وتوہینٍ؟ أیُخوّفوننی بالسبّ والشتم والتکفیر، ویتربصون بی الدوائر بالحیل والتدابیر؟ واللہ یعلم کید الخائنین.إنہ یعلم ما فی نفسی ونفسہم، وإنہ لا یُحب المفسدین.وإنی عندہ مکین أمین، وإن بینی بعد اس کے اے طالبو اور اچھے لوگو جو رشد کو ڈھونڈنے والے ہو تمہیں معلوم ہو کہ خدا نے مری حجت کو دشمنوں پر پورا کر دیا اور میرے لئے اس نے نشان دکھلائے اور میرے پر اپنی بخشش کو کامل کیا اور تم نے دیکھا کہ کیونکر آسمان سے نشان اترے.اور کیونکر طالبوں کیلئے دروازے کھولے گئے.پھر وہ جو بخل کرتے ہیں وہ لعنت کرتے ہوئے انکار ظاہر کرتے ہیں.اور دین کو بھی چھوڑتے ہیں اور دیانت کوبھی.انہوں نے ظلم کی تلوار ناحق کھینچ رکھی ہے اور گالی اور زیادہ گوئی کی خنجر ان کے ہاتھ میں برہنہ ہے اور باز نہیں آتے.وہ مجھے دکھ دیتے ہیں اور دشنام دہی کرتے ہیں اور مجھے کافر ٹھہراتے ہیں اور میں نہیں جانتا کہ کیوں ٹھہراتے ہیں.کیا وہ اس آدمی کو کافر کہتے ہیں جو مسلمان ہونے کا اقرار کرتا ہے.گمراہی اور بے راہی کے طریقوں پر اصرار کرتے ہیں.پس کہاں ہے خوف خدا اور دلوں کی پرہیزگاری؟ اور کہاں ہیں صلحاء کی خصلتیں؟ کیا ان کے پاس نشان نہیں آئے؟ کیا کھلے کھلے خوارق ظاہر نہیں ہوئے؟ کیا حق نہیں کھل گیا؟ اور شبہات نہیں مٹ گئے؟ کیا انہوں نے باہم عہد کرلیا ہے کہ حق کی طرف رجوع نہیں کریں گے؟ یا باہم قسمیں کھالی ہیں کہ تکذیب اور توہین پر اصرار کرتے رہیں گے؟ کیا مجھے گالی اور کافر کہنے کے ساتھ ڈراتے ہیں؟ اور تدبیروں اور حیلوں سے میرے پر گردشوں کی امید رکھتے ہیں؟ خدا تعالیٰ خیانت کرنے والوں کے مکر کو خوب جانتا ہے.وہ میرے دل کی باتوں اور ان کے دل کی باتوں کو جانتا ہے اور وہ مفسدوں کو دوست نہیں رکھتا.اور میں اس کے نزدیک بامرتبہ اور امین ہوں اور مجھ میں

Page 203

وبینہ سرّ لا یعلمہ إلا ہو، فویلٌ للمعتدین.أتحسب الأعداء أن العداوۃ خیرٌ لہم، بل ہی شرّ لہم، لو کانوا متفکّرین.أیظنّون أنہم یہدّون ما بنتْہ أنامل الرحمٰن؟ أو یجوحون ما غرستہ أیدی اللّٰہ ذی المجد والسُلطان؟ کلا بل إنہم من المفتونین.اور اس میں ایک بھید ہے جو اس کو بغیر میرے خدا کے کوئی نہیں جانتا پس حد سے بڑھنے والوں پر واویلا ہو.کیا دشمن یہ جانتے ہیں کہ دشمنی کرنا ان کے لئے بہتر ہے؟ نہیں ! بلکہ بد ہے اگر وہ سوچیں.کیا وہ گمان کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی عمارت کو وہ مسمار کر دیں گے؟ یا اس درخت کو جڑ سے اکھاڑ دیں گے جو خدا تعالیٰ کے ہاتھ کا لگایا ہوا ہے؟ ہرگز نہیں ! بلکہ وہ تو آزمائش میں پڑے ہوئے ہیں.یا معشر الجہلاء والسفہاء وزُمر الأعداء والأشقیاء أ أنتم تطفؤن نور حضرۃ الکبریاء، أو تدوسون الصّادقین؟ اتّقوا اللّٰہ، ثم اتّقوا إن کنتم عاقلین.أیہا الناس فارِقوا فُرُشَ الکَرٰی، فإن الوقت قد دنَا، وإنّ أمر اللّٰہ أتٰی، وإنّہ یرید لیُحیی الموتٰی.فہل تریدون حیاۃ لا نزع بعدہ ولا رَدٰی؟ وہل تحبّون أن یرضٰی عنکم ربکم الأعلٰی، أو تُصعّرون خدَّکم مُعرضین؟ اے جاہلوں اور کم عقلوں کے گروہ! اور دشمنوں اور بدبختوں کی جماعتو! کیا تم جناب الٰہی کے نور کو بجھا دو گے؟ یا سچوں کو پیروں کے نیچے کچل دو گے؟ ڈرو خدا سے ڈرو اگر عقلمند ہو.اے لوگو خواب کے فرشوں سے الگ ہو جاؤ! کیونکہ وقت نزدیک آگیا اور خدا کا حکم پہنچ گیا اور وہ ارادہ کرتا ہے کہ مردوں کو زندہ کرے.پس کیا تم ایک ایسی زندگی چاہتے ہو جس کے بعدنہ جان کندن ہے نہ موت.اور کیا تم پسند کرتے ہو کہ خدا تم سے راضی ہو جائے یا منہ پھیرنا اور کنارہ کرنا تمہیں پسند ہے.واعلموا أنّی أُعطِیتُ قمیصَ الخِلافۃ، وتَسَربلتُ لباسہا من حضرۃ العزّۃ، فارحموا أنفسکم ولا تعتدوا کل الاعتداء، ألا ترون إلی ما تنزل من السماء، أمَا بقی فیکم رَجُل من المتّقین؟ ولو کانّ ہذا الأمر من اور جان لو کہ مجھے قمیص خلافت دیا گیا ہے.اور جناب الٰہی سے وہ لباس میں نے پہنا ہے.پس تم اپنے نفسوں پر رحم کرو اور حد سے زیادہ مت بڑھو.کیا تم وہ نشان نہیں دیکھتے جو آسمان سے اتر رہے ہیں؟ کیا تم میں ایک بھی پرہیزگار باقی نہیں رہا؟اور اگر یہ کام بجز خدا کے اور کسی کا

Page 204

غیرالرحمٰن، لمزّقہ اللہ قبل تمزیقکم یَا أہل العُدوان.اُنظروا کیف عَنِتُّم بل مُتُّم فی جُہد الصباح والمساء، ومددتم إلی اللہ ید المسألۃ والدعاء، فرُدِدْتم مخذولین فی الحافرۃ، وما حصل إلا إضاعۃ الوقت وزفرات الحسرۃ.فما لکم لا تتفکّرون فی أقدار تنزل، ولا ترغبون فی أنوار تُستکمل، أہذا فعل الإنسان؟ أہذا من الکاذب الدجّال الشیطان؟ فلا تُہلکوا أنفسکم بجہلات اللسان، واستعینوا متضرّعین.یا حسرۃ علیکم! إنّکم لا تنظرون متوسّمین، وإذا نظرتم نظرتم لاعبین، ولا تُمعِنون خاشعین.أتُترَکون فی ہذا اللہو واللعب، ولا تُقادون إلی نارٍ ذات اللہب، ولا تُسألون عمّا عملتم مستکبرین؟ لا تُلْہِکم أموالکم وأولادکم، فإن الحِمام میعادکم، ثم قہرُ اللہ یصطادکم، وأین المفرّ من ربّ السّماوات والأرضین؟ وقد رأیتم آیۃ الکسوف فنسیتموہا، ثم رأیتم آیۃ اللّٰہ فی 'آتم' فکذّبتموہا، وتجلّت لکم آیۃ موت ' أحمد بیک' فما قبلتموہا، وقرأتم کتبَ بلاغۃٍ ہوتا تو تمہارے کاٹنے سے پہلے خدا اس کو کاٹ دیتا.دیکھو تم نے کیسی تکلیف اٹھائی بلکہ صبح شام کی کوشش میں مر گئے.اور خدا کی طرف سوال اور دعا کا ہاتھ پھیلایا.پس تم ناکام و نامراد رد کئے گئے.اور تمہیں بجز وقت ضائع کرنے اور حسرت کی آہوں کے اور کچھ حاصل نہ ہوا.پس کیا سبب کہ تم اس قضا و قدر میں فکر نہیں کرتے جو اتر رہی ہے؟ اور ان نوروں کیلئے خواہش نہیں کرتے جو کامل ہو رہے ہیں؟ کیا یہ انسان کا فعل ہے؟ اور کیا یہ کاذب اور دجال اور شیطان کی طرف سے ہے؟ پس تم زبان کی جہالت کے ساتھ اپنے نفسوں کو ہلاک مت کرو.اور تضرع کرتے ہوئے خدا سے مدد چاہو.تم پر افسوس! کہ تم فراست کی نگاہ سے نہیں دیکھتے اور جب دیکھتے ہو تو کھیل کے طور پر دیکھتے ہو اور دل کی غربت سے نہیں سوچتے.کیا تم اسی لہو و لعب میں چھوڑے جاؤ گے! اور ایک بھڑکنے والی آگ کی طرف کھینچے نہیں جاؤ گے.اور ان کاموں سے پوچھے نہیں جاؤ گے جو تکبر کی حالت میں تم نے کئے.تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں دھوکہ نہ دے کیونکہ موت تمہارا وعدہ ہے.پھر تم قہر الٰہی کے شکار ہو جاؤ گے.آسمان اور زمین کے پیدا کرنے والے سے تم کہاں بھاگ سکتے ہو.تم نے کسوف کا نشان دیکھا اور اس کو بھلا دیا.پھر تم نے خدا کا نشان آتھم میں دیکھا اور اس کی تکذیب کی.اور تمہارے لئے موت احمد بیگ کا نشان ظاہر ہوا اور تم نے اس کو قبول نہ کیا.اور تم نے ان کتابوں کو

Page 205

رائعۃٍ فیہا آیۃ فصاحۃٍ مُعجبۃ، فکأنکم مَا قرأتموہا، وظَہَرت فی ندوۃ المذاہب آیاتٌ فنبذتموہا، وقد کانت معہا أنباء الغیب فما بالیتموہا، وکأیّنْ من آیاتٍ شاہدتموہا، فکأنّکم ما شاہدتموہا، وکم من عجائب آنستموہا، فما ظلّت لہا أعناقکم خاضعین.والآن أشرقتْ آیۃ فی'عِجل جسد لہ خُوار'، فہل فیکم من یقبلہا کالأحرار، أو تولّون مُدبرین؟وتقولون إنّ 'آتم' ما مات فی المیعاد، وتعلمون أنہ خاف فیہ قہر رب العباد.ففکّروا ألم یجِبْ أن تُرْعَی شریطۃ الإلہام، ویؤخَّر أجلہ إلی یوم یُنکِر کاللئام؟ وقد سمعتم أنہ ما تألّی إذا دُعِیَ للأ قسام، وما ذہب مستغیثا إلی الحکّام، فانظروا أما تحقّقَ کذبہ؟ أما بلغ الأمر إلی الإفحام؟ إنّہ زجّی الزمانَ فی صمتٍ وسکوت، وأ تمّ المیعاد کمضطرب مبہوت، وألقی نفسہ فی متاعب وشوائب، وتراء ی مُنکسرًا کأنّہ رأَی نوائب، وما تفوّہ بکلمۃ یخالف الإسلام، حتیأکمل الأیام.فہذہ القرائن تحکم ببداہۃٍ أنہ خشِی عظمۃ الإسلام بکمال خشیۃ، وکان مِنْ قَبْل یُجادل المُسلمین، ویُخاصم پڑھا جن کی بلاغت تعجب میں ڈالنے والی تھی.پس گویا تم نے انکو نہیں پڑھا اور جلسہ مذاہب میں کئی نشان ظاہر ہوئے سو تم نے ان کو ہاتھ سے پھینک دیا اور ان نشانوں کے ساتھ غیب کی خبریں تھیں سو تم نے کچھ پروا نہ کی اور کئی اور نشان تم نے دیکھے.پس گویا نہ دیکھے اور کئی عجائب کاموں کا تم نے مشاہدہ کیا.پس تمہاری گردنیں ان کیلئے نہ جھکیں اور اب لیکھرام میں جو گوسالہ بے جان تھا نشان ظاہر ہوا.پس کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جو آزادوں کی طرح اس کو قبول کرے یا تم پیٹھ پھیر دو گے.اور تم کہتے ہو کہ آتھم میعاد کے اندر نہیں مرا.اور تم جانتے ہو کہ وہ خدا کے قہر سے ڈرا.پس سوچ لوکہ کیا واجب نہ تھا کہ الہامی شرط کی رعایت کی جاتی اور اس وقت تک اس کو مہلت د ی جاتی جو انکار کرے.اور تم سن چکے ہو کہ جب وہ قسم کیلئے بلایا گیا تو اس نے قسم نہ کھائی اور نہ نالش کی.اب غور کرو کہ کیا اس کا جھوٹھ ثابت نہ ہوا.کیا یہ امر اتمام حجت تک نہیں پہونچا.اس نے پیشگوئی کا زمانہ خاموشی میں گزارا اور بیقراری اور سرگردانی میں میعاد کے زمانہ کو بسر کیا اور اپنے نفس کو طرح طرح کی تکالیف میں ڈالا اور ایسا شکستہ حال اپنے تئیں ظاہر کیا کہ گویا وہ مصیبتوں کا مارا ہوا ہے اور وہ ایک بھی ایسا کلمہ زبان پر نہ لایا جو اسلام کے مخالف ہو یہاں تک کہ اس نے پیشگوئی کی میعاد کو پورا کیا.پس یہ تمام قرائن ببداہت حکم کرتے ہیں کہ وہ عظمت اسلام سے ضرور ڈرا.اور پہلے اس سے وہ مسلمانوں سے بحث و مباحثہ کیا کرتا تھا اور

Page 206

کالموذیّین، وأمّا بعدنبأ الإلہام، فامتنع من النزاع والخصام، وصار کقلمٍ ردیّ، وسیف صدیّ، وجَہِلَ أوصاف المَصاف وأخلاف الخِلاف، وکنتُ أعطیہ أربعۃ آلاف، إذا قمت لإحلاف، فما تألّی، بل ولّی؛ فانظروا أہذہ علامۃ الصادقین؟ ثم إذا انقضت أشہر المیعاد، فقسّی قلبہ ورجع إلی الإنکار والعناد، فلذٰلک مَاتَ بَعْدَ ما أنکر وأبٰی، ولو أنکر فی المیعاد لمات فیہا وفنٰی.فلا شکّ أنّ ہذا النبأ سوّد وجوہ المنکرین، وأرغَمَ مَعاطِسَ المکذّبین، وإنّ فیہ آیات للطالبین، وإنّہ مکتوب فی کتابی 'البراہین'، وإنہ یوجد فی أخبار خاتم النبیین، فآمنوا بہ إن کنتم مؤمنین.ومن آیاتی أنّ الأحرار نافسوا فی مُصافاتی، وآثروا لعن الخَلق لموالاتی، وترکوا أنفسہم لنفائس نکاتی، وصَبَوا إلی رؤیتی وجاء وا تحت رایاتی، إنّ فی ذلک لآیات للمتدبّرین.ومن آیاتی أن العدا رغبوا عن معارضتی، بعد ما رأوا عارضتی، ووَجَدوا کالبخیل القالی، بعد ما وجدوا عذوبۃ مقالی، موذیوں کی طرح لڑتا تھا مگر اس پیشگوئی کے بعد وہ چپ ہوگیا اور تمام بحث و مباحثہ اس نے چھوڑ دیا اور ایک ناکارہ قلم کی طرح یا ایک زنگ خوردہ تلوار کی طرح بن گیا اور لڑائی کی تعریف کو بھول گیا اور مخالفت کے پستانوں کو فراموش کر دیا اور میں نے اس کو قسم کھانے پر چار ہزار روپیہ دینا کیا مگر اس نے قسم نہ کھائی بلکہ منہ پھیردیا.پس دیکھو کیا یہ سچوں کی علامتیں ہیں.پھر جب میعاد کے مہینے گزر گئے تو اس کا دل سخت ہوگیا اور انکار اور عناد کی طرف اس نے رجوع کرلیا.پس وہ اسی لئے مرگیا کہ اس نے انکار کرنا شروع کیا اور اگر میعادکے اندر انکار کرتا تو میعاد کے اندر ہی مر جاتا.پس کچھ شک نہیں کہ اس پیشگوئی نے منکروں کے منہ کو کالا کر دیا اور ان کی ناک کو خاک کے ساتھ رگڑ دیا اور اس میں ڈھونڈنے والوں کیلئے نشان ہیں اور یہ پیشگوئی میری کتاب براہین احمدیہ میں لکھی ہوئی ہے اور نیز احادیث خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم میں پائی جاتیہے.پس ایمان لاؤ اگر ایمان لا سکتے ہو.اور میرے نشانوں میں سے ایک یہ ہے کہ شریف لوگوں نے میری دوستی میں رغبت کی اور میری دوستی کیلئے لعنت خلق کو قبول کیا.اور اپنے عزیزوں کو میرے معارف کیلئے چھوڑا اور میرے دیکھنے کی طرف مائل ہوئے اور میرے جھنڈے کے نیچے آگئے.اس میں تدبر کرنے والوں کے لئے نشان ہیں اور منجملہ میرے نشانوں کے یہ ہے کہ دشمنوں نے میرے مقابلہ سے کنارہ کیا بعد اس کے کہ میری قوت کلام کو پایا.اور بخیل دشمنی رکھنے والے کی طرح غصہ کیا بعد اس کے جو میری شیریں کلامی کو پایا.

Page 207

و أَلِفوا بالحسد کاللئام، بعد ما أَلْفَوا دُرَرَ الکلام، إنّ فی ذلک لآیات للمتعمّقین.ومن آیاتی أنی لبثتُ علی ذلک عُمُرًا من الزمان، ولا یُمہَل مَن افتری علی اللہ الدیّان، إنّ فی ذلک لآیات للمتوسّمین.ومن آیاتی أنّی أُعطیتُ عقیدۃً یدرَأ عن الطالب کلَّ شبہۃ، ویکشف عن بیضۃ السرّ مُحَّ حقیقۃ، إنّ فی ذلک لآیات للمستبصرین.ومن آیاتی أن الزمان نُظِمَ لی فی سِلک الرفاق، وأُنْشِیٔ المناسباتُ فی الأنفس والآفاق، وکذلک أُرسِلتُ عند خفوق رایۃ الإخفاق، إنّ فی ذلک لآیات للمتفرّسین.ومن آیاتی أن اللہ شحّذ سیف بیانی، وأری جواہرہ بغِرارِ بُرہانی، إنّ فی ذلک لآیات للناظرین.ومن آیاتی أن الحقّ ما استسرّعنی حینًا، وجُعِل قلبی لہ عَرِینًا، وجُعِلتُ لہ مُجدِّدًا مُبینًا، إنّ فی ذٰلک لآیات للمتأمّلین.أیہا الناس.قد جاء کم لطفُ ربّ العباد، وتعہَّدَکم فضلہ تعہُّد العِہاد، عند إمحال البلاد، فلا تردّوا نعم اللّٰہ إن کنتم شاکرین..أَأَنْتم اور ناکسوں کیطرح حسد سے الفت کی.بعد اسکے جو میری کلام کے موتی انہیں معلوم ہوئے اس میں غور کرنیوالوں کیلئے نشانیاں ہیں اور میرے نشانوں میں سے ایک یہ ہے کہ میں اس دعویٰ الہام پر ایک عمر سے قائم ہوں اور مفتری کو خدا تعالیٰ کی طرف سے مہلت نہیں دی جاتی.اس میں اہل فراست لوگوں کیلئے نشان ہیں.اور میرے نشانوں میں سے ایک یہ ہے کہ میں ایسا عقیدہ دیا گیا ہوں کہ جو طالب کا ہر یک شبہ دور کرتا ہے.اور بھید کے انڈے میں سے حقیقت کا زردہ ظاہر کرتا ہے.اس میں دیکھنے والوں کے لئے نشان ہیں.اور میرے نشانوں میں سے ایک یہ ہے کہ زمانہ میرے رفیقوں میں منسلک کیا گیا.اور انفسی اور آفاقی مناسبات پیدا ہوگئیں.اور اسی طرح میں اس وقت بھیجا گیا کہ جب نامرادی کا جھنڈا جنبش کر رہا تھا.اس میں فراست والوں کے لئے نشانیاں ہیں.اور میرے نشانوں میں سے ایک یہ ہے کہ خدا نے میرے بیان کی تلوار کو تیزکیا.اور میرے برہان کی تیزی کے ساتھ اسکے جوہر دکھلائے.بہ تحقیق اس میں دیکھنے والوں کیلئے نشان ہیں اور میری نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ ایک دم بھی سچائی مجھ سے پوشیدہ نہیں ہوئی اور میرا دل اس کا نزول گاہ بنایا گیا اور میں اس کے لئے تازہ کرنیوالا اور کھول کر بیان کرنیوالا مقرر کیا گیا.اس میں فکر کرنیوالوں کیلئے نشان ہیں.اے لوگو! تمہارے پاس خدا کی مہربانی آئی.اور اس کے فضل نے تمہاری خبر گیری کی جیسا کہ وقت کی بارش خشک سالی کے وقت خبرگیری کرتی ہے.پس اگر تم شکر گذار ہو تو خدا کی نعمتوں کو ردنہ کرو.کیا تم اس کی

Page 208

تہدّون ما شاد، أَوْ تمنعون ما أراد؟ وقد رأیتم أنکم لم تستطیعوا أَنْ تأتوا بکلامٍ منْ مثل کلامی، حتی سکتّم وصمتّم متندّمین من إفحامی.وأشیع الکتب المملوّۃ بالنکات النُخَب، ولطائف النظم وبدائع النثر ومحاسن الأدب، فما کان جوابکم إلا أن قلتم إنہا من قوم آخرین.فانظروا کیف عجزتم ثم صُرفتْ قلوبکم عن الحق فصرتم قومًا عمین.حتٰی إذا احتدّ منکم الحِجاج، وامتدّ اللَجاج، ونبَح النجفیّ والغزنویّ، وقالا إنہ جاہل غویّ، کتبتُ رسالتی ہذہ لتکون حُجّۃ علی المفترین، ولیفتح اللہ بینی وبینکم وہو خیر الفاتحین.وقال الذی آذانی من جماعۃِ عبد الجبّار، إن ہذا دجّال وأکفر الکفّار، وجاہل لا یعلم العربیّۃ ولا شیئا من النکات والأسرار، وأعانہ علیہ قوم من العلماء المتبحّرین.وکذٰلک ظنَّ النجفیّ، فانظرْ کیف تشابہت قلوب المعتدین.وما أثبتَ أحدٌ منہم أنّہُم أُرضعوا ثَدْیَ الأدب، بنا کردہ کو مسمار کردو گے یا جو کچھ اس نے ارادہ کیا اس کو روک دو گے اور تم نے دیکھ لیا کہ تمہیں طاقت نہیں ہوئی کہ میری کلام جیسی کلام بنالاؤ یہاں تک کہ تم خود شرمندہ ہوکر چپ ہوگئے اور لاجواب ہوگئے اور وہ کتابیں شائع کی گئیں جو برگزیدہ نکتوں کے ساتھ پُر تھیں اور لطائف نظم اور نثر سے لبالب تھیں اور محاسن ادب سے مملوّ تھیں.پس تمہارا بجز اس کے کچھ جواب نہ تھا کہ یہ کتابیں اور لوگوں کی بنائی ہوئی ہیں.پس دیکھو تم کس طرح عاجز ہوگئے پھر تمہارے دل حق سے پھیر دئیے گئے.پس تم ایک اندھی قوم ہوگئے یہاں تک کہ جب تم تیزی سے حجت بازی کرنے لگے اور تمہاری لڑائی لمبی ہوگئی اور نجفی اور غزنوی نے یاوہ گوئی کی اور کہا کہ یہ ایک جاہل گمراہ ہے.تب میں نے یہ رسالہ لکھا تا افتراء کرنے والوں پر حجت ہو.اور تا مجھ میں اور تم میں خدا تعالیٰ فیصلہ کردے اور وہ بہتر فیصلہ کرنے والا ہے.اور عبدالجبار کی جماعت میں سے ایک موذی نے کہا کہ یہ شخص دجال اور اکفر الکفار ہے اور ایک جاہل ہے جو عربی کو نہیں جانتا اور نہ نکات اور اسرار سے خبر رکھتا ہے.اور اس تالیف پر بڑے بڑے علماء نے مدد کی ہے.اور اسی طرح نجفی نے ظن کیا پس دیکھ کہ کیونکر تجاوز کرنے والوں کے دل باہم مشابہ ہوگئے اور ان میں سے کسی نے ثابت نہ کیا کہ وہ پستان ادب سے دودھ پلائے گئے ہیں

Page 209

أو أُعطوا من العلوم النخب، وما جا ء ونی بالدبیب ولا بالخبیب، بل تکلّموا کالنساء متستّرین.وما أنکروا بصحّۃ النیّۃ، بل کبخیل خاطِبِ الدنیا الدنیّۃ.ونبّہہم اللّٰہ فما تنبّہوا، وأیقظتہم الآیات فما استیقظوا.ألم یروا آیۃ کبریٰ، إذ أہراقَ قاتلٌ دمًا وأولغَ فیہ المُدَی؟ وکان المقتول 'آریۃ' خبیثا ومن العدا.فأبکی اللّٰہ مَن سخِر من الدّین وسبّ وہجا، وألقاہ فی عذاب لا یتقضّی، ونارٍ لا یموت فیہا ولا یحیٰی، وضیَّع کل ما صنع وہدّم کل ما علا، إنّ فی ذلک لآیات لأولی النہٰی.وکان نبأ 'آتم' یَحکِی السُہا، بما خفِی من أعین العُمی وما تجلّی، فألقت ہذہ الأیاۃُ علیہ رداء ہا، فأشرقا کشمس الضحی، وأضاء اعقول العاقلین وجذبا إلی الحق من أتی.وہذہ آیۃ عذراء، وشمس بیضاء، فلیہتدِ من شاء، إنّ اللّٰہ یُحِبّ التّوابین ویحبّ المتطہّرین.وإنہا تشفی النفس، وتنفی اللَبْس، وتوضح المُعمَّی، وتکشف السر عن ساقہ والغُمَّی، وتُتمّ الحجّۃ علی المُجْرمیْن.فیا حَسْرۃ علَی المخالفین! إنّہم یا علوم برگزیدہ دئیے گئے ہیں اور میرے پاس نہ نرم رفتار میں آئے اور نہ تیز رفتار میں بلکہ عورتوں کی طرح چھپی چھپی باتیں کیں اور صحت نیت سے انکار نہیں کیا بلکہ اس بخیل کی طرح جو دنیا کا چاہنے والا ہو اور ان کو خدا تعالیٰ نے خبردار کیا پس خبردار نہیں ہوئے اور نشانوں نے ان کو جگایا پس وہ نہیں جاگے کیا انہوں نے ایک بڑا نشان نہ دیکھا جب قاتل نے ایک خونریزی کی اور اس کے اندر اپنی چھری کو داخل کیا اور مقتول ایک آریہ خبیث اور دشمنوں میں سے تھا.پس خدا نے ایک ایسے شخص کو رلایا جو دین اسلام سے ٹھٹھا کرتا اور گالیاں نکالتا تھا.اور اس کو ایسے عذاب میں ڈال دیا.جس کا کبھی خاتمہ نہیں اور ایسی آگ میں جھونک دیا جس میں نہ مریگا اور نہ زندہ رہے گاور اسکے تمام کاروبار کو ضائع کیا اور اسکی ہر ایک بلند کردہ کو مسمارکیا.اس میں عقلمندوں کیلئے نشان ہیں اور آتھم کی نسبت جو پیشگوئی کی گئی تھی وہ خفا میں ستارہ سہاکے مشابہ تھی اور اندھوں کی نظر سے بہت پوشیدہ تھی اور ظاہر نہ تھی.پس اس روشنی نے اس پر چادر ڈال دی.پس دونوں دوپہر کے آفتاب کی طرح چمک اٹھیں اور عقلمندوں کی عقلوں کو روشن کیا اور آنے والے کو حق کی طرف کھینچ لیا.اور یہ ایک نیا نشان ہے.اور آفتاب روشن ہے.پس چاہئے کہ ہدایت قبول کرے جو چاہے خدا توبہ کرنیوالوں اور پاکی طلب کرنیوالوں سے پیار کرتا ہے.اور یہ لیکھرام کے قتل کا نشان جان کو تسلی دیتا ہے اور شبہ کو دور کرتا ہے اور معمّٰی کو کھولتا ہے.اور بھید کی پنڈلی اور امر پوشیدہ کی ساق دکھلاتا ہے.اور مجرموں پر حجت پوری کرتا ہے.پس افسوس مخالفوں پر کہ وہ

Page 210

یترکون أحکم الحاکمین.فکأنّ اللّٰہ شرّقَ وہم غرّبوا، ودعا لجمع الثمار وہم احتطبوا، وأمر أن یؤتونی عَذْبًا فعذَّبوا، وما اجتنبوا الأذی بل کادوا أن یُجنِّبوا، فردّ اللّٰہ نیّاتہم علیہم فانقلبوا مخذولین.ومنہم رجل من الغزنی یسمّونہ عَبْد الحق، وإنہ سبّ وشتَم ووثَب سفاہۃً کالبقّ.وإنہ فُوَیسقۃٌ یُذعِر الأسودَ فی جُحرہ بالغقّ.وإنّ الخنّاس زقَّہ فبالغَ فی الزقّ.وإنہ کذّب آیۃ الکسوف کما کُذِّبَ مِن قبل آیۃُ القمر المنشق.وَإنّ الشیطان لقَّ عینَہ فذہب ببصرہ باللقّ.وَمَا نَقَّ إلَّا کدجاجۃ فنذبحہ بمُدَی الحق، ونُریہ جزاء النقّ، فما ینجو منّا بالہرب والہقّ، ولا ینفعہ کید الکائدین.وإنّہ أرسل إلیّ کتابہ المملوّ من السبّ والتکفیر، وخدع الناس بأنواع الدقاریر، وذکر فیہ کتابی وہذَی، وقال أہذا من ہذا؟ کلَّا بل إنہ من النُوکَی، ولا یکاد یُبِین.وخاطبنی وادّعی کعارف الحقیقۃ، وقال إنک لست مؤلّف ہذہ الکتب الأنیقۃ، ولا أبا عُذر احکم الحاکمین کو چھوڑے جاتے ہیں.پس گویا خدا مشرق کی طرف گیا اور یہ لوگ مغرب کی طرف.اور اس نے پھلوں کے جمع کرنے کے لئے کہا اور انہوں نے خشک لکڑیاں جمع کیں اور حکم کیا کہ مجھے میٹھا پانی دیں اور انہوں نے عذاب کیا اور دکھ دینے سے پرہیز نہ کی بلکہ نزدیک ہوئے کہ پسلی توڑ ڈالیں.پس خدا نے ان کی نیتیں ان پر ڈال دیں.سو انجام ان کا نامرادی تھی.اور ان میں سے ایک غزنوی شخص ہے جس کو عبدالحق کہتے ہیں اور اس نے گالیاں دیں اور پشہ کی طرح اچھلا اور وہ ایک چوہا ہے شیروں کو اپنے سوراخ میں آواز سے ڈراتا ہے اور شیطان نے اس کو غذا دی پس پوری غذا دی اور اس نے کسوف خسوف کے نشان کی تکذیب کی جیسا کہ کفار نے شق القمر کی تکفیر کی اور شیطان نے اس کی آنکھ پر ماری پس آنکھ نکال دی اور وہ مرغی کی طرح آواز کر رہا ہے پس ہم سچائی کی چھری سے اس کو ذبح کر دیں گے اور اس کی آواز کی اس کو جزا چکھائیں گے.پس ہم سے بھاگنے کے ساتھ نجات نہیں پائے گا اور کوئی مکر اس کو فائدہ نہیں دے گا اور اس نے اپنی وہ کتاب جو گالیوں اور تکفیر سے پُرتھی میری طرف بھیجی اور طرح طرح کے جھوٹوں سے لوگوں کو دھوکا دیا.اور میری کتاب کا ذکر کیا اور بکواس کی اور کہا کیا ایسی کتاب اس شخص کی تالیف ہے.ہرگز نہیں بلکہ یہ تو جاہل ہے اور بلیغ بات کہنے پر قادر نہیں اور مجھے مخاطب کر کے ایک حقیقت شناس کی طرح دعویٰ کیا اور کہا کہ تو ان عمدہ کتابوں کا مؤلّف نہیں ہے اور نہ ان لطیف

Page 211

تلک الرسائل الرشیقۃ، والنکات الدقیقۃ العمیقۃ، بل استملیتَہا مِن رجال ہذہ الصناعۃ، ثم عزوتَہا إلٰی نفسک لتُحمَد با لفضل والبراعۃ، وإنّا نعرف مبلغ علمک وماکنّاغافلین.وشابَہَہ فی قولہ شیخ طویل اللسان، کثیر الہذیان، وزعم أنہ من فضلاء الزمان، وأنہ نَجَفیٌّ ومن المتشیّعین.وإنہ أرسل إلیّ مکتوبہ فی العربیۃ، لیخدع الناس بالکلم الملفّقۃ، ولتعظّمہ قلوب العامۃ ولیستمیل إلیہ زُمرَ الجاہلین.وما کان قولہ إلا فُضلۃ قول الفضلاء، وعَذِرۃُ کلمتہم العذراء.فالعجب من جہلہ، إنہ ما خاف إزراء القادحین، ووقف موقف مندمۃ، وما أری الوجہ کالمتندّمین.بل إنہ مع ذالک بلّغ السبّ والشتم إلی الکمال، وما غادر سبًّا إلا کتبہ کالسفیہ الرزال، ولا یعلم ما الإیمان وما شِیَم المؤمنین.ومثل قلبہ المنقبض کمثل یومٍ جَوُّہ مُزْمَہِرٌّ ودَجْنُہ مُکفہرٌّ، عاری الجِلدۃ، بادی الجُردۃ، شقیٌّ رسالوں کا موجد اور نہ ان نکات عمیقہ کا نکالنے والا بلکہ تو نے ان کتابوں کو اس صناعت کے مردوں سے لکھوایا ہے.پھر تو نے ان کو اپنے نفس کی طرف نسبت دے دی ہے تا بزرگی اور کمال عقلمندی کے ساتھ تعریف کیا جائے اور ہم تیرا اندازہ علم جانتے ہیں اور ہم غافل نہیں.اور ایک شیخ لمبی زبان والا بہت ہذیان والا عبدالحق سے مشابہ ہے.اس نے گمان کیا ہے کہ وہ زمانہ کے فاضلوں میں سے ہے اور یہ شیخ نجفی ہے اور شیعہ ہے.اور اس نے عربی میں میری طرف ایک خط لکھا تا اپنے پرتکلف جوڑے ہوئے فقروں کے ساتھ لوگوں کو دھوکا دے او ر تاکہ عوام الناس کے دل اس کی بزرگی کریں اور تاکہ جاہلوں کو اپنی طرف میل دے.اور اس کا قول صرف فاضلوں کے قول کا ایک فضلہ تھا.اور ان کے کلمہ باکرہ کی ایک نجاست تھی.پس اس کی جہالت سے تعجب ہے کہ وہ عیب گیروں کی عیب گیری سے نہیں ڈرا.اور ندامت کی جگہ پر کھڑا ہوا اور شرمندوں کی طرح منہ نہ دکھلایا بلکہ اس نے باوجود اس کے سبّ اور شتم کو کمال تک پہنچا دیا اور کسی گالی کو نہ چھوڑا جس کو کمینہ رذیلوں کی طرح نہ لکھا اور نہیں جانتا کہ ایمان کیا ہے اور مومنوں کی خصلتیں کیا ہیں اور اسکے منقبض دل کی مثال ایسی ہے جیسا کہ وہ دن جو سخت سرد ہو اور اس کا بادل تہ بہ تہ جما ہوا ہو.برہنہ پوست اور آشکارا برہنگی ایک بدبخت ہے

Page 212

خسِر فی الدُنیا والدّین یسُبّنی ویشتمنی بطغواہ، ولا ینظر إلی مآل سابٍّ من 'الآریۃ' ومأواہ، وإنّ السعید من اتّعظ بسواہ.وأنّٰی لہ الرشد والہدیٰ، وإنہ لا یعلم ما التُّقیٰ، ولا الأدب المُنتقَی، وإنہ سلک سُبل الہالکین.لا یُبالی الحشر وأہوالہ، ولا قَہْرَ اللّٰہ ونکالہ، وکل ما کتب فلیس إلَّا ککیدٍ، أو أحبولۃ صیدٍ، أراد أن یفتن قلوب الجماعۃ، بافتنانہ فی البراعۃ، وأرعفَ کفُّہ الیَراعَ، لیُرِیَ السفہاء البَعاعَ، ولکنّہ ہتک أستارہ، وأری فی کل قدمٍ عثارہ، وأفضی فی حدیث یُفضِحہ، ودخل نارًا تلفَحہ، فمثلہ کمثل رجل شہّر خزیَہ بدفّہ، أو جدَع مارنَ أنفہ بکفّہ، فلحق بالملومین المخذولین.ومع ذلک سبّنی لیجیر فُقدانَ فضلِ بیانہ بفضول لسانہ، وأمّا نحن فلا نتأسّف علی ما قلَی وقال، ولا نُطیل فیہ المقال، فإنہ من قوم تعوّدوا السبّ والانتصاب للإزراء ات، وحسبوہ لأنفسہم من أعظم الکمالات، فنستکفی باللّٰہ الافتنانَ بمفتریاتہ، ونعوذ بہ من نیّاتہ وجہلا تہ، وما نعطف إلی السبّ جو دین اور دنیا میں نقصان اٹھانیوالا ہے اپنے حد سے گذر جانیکے سبب سے مجھے گالیاں دیتا ہے اور نہیں دیکھتا کہ آریہ گالیاں دینے والے کا کیا انجام ہوا.اور نیک بخت وہ ہوتا ہے جو دوسرے کے حال سے نصیحت پکڑتا ہے اور اس کو رشد اور ہدایت کہاں نصیب ہو وہ تو نہیں جانتا کہ پرہیزگاری کس کو کہتے ہیں اور نہ ادب برگزیدہ کی اس کو خبر ہے.اور وہ مرنیوالوں کی راہ چلا ہیقیامت اور اس کے خوفوں کی کچھ پروا نہیں رکھتا.اور نہ خدا کے قہر اور وبال سے ڈرتا ہے.اور جو کچھ اس نے لکھا وہ ایک مکر ہے.یا دام صید ہے.اس نے ارادہ کیا کہ اپنی جماعت کے دلوں کو تفنن کلام کے ساتھ فریفتہ کرے.اور اس کے ہاتھ نے قلم کو رواں کیا تا نادانوں کو اپنی متاع دکھلائے مگر اس نے اپنے پردے پھاڑ دئیے اور ہر ایک قدم میں اپنی لغزش دکھلائی اور اس بات کو شروع کیا جو اس کو رسوا کرے گی اور اس آگ میں داخل ہوا جو اس کو جلا دے گی پس اس کی اس شخص کی مثال ہے جس نے اپنی رسوائی کو اپنے دف کے ساتھ مشہور کیا یا اپنی ناک کو اپنے ہاتھ کیساتھ کاٹا.پس ملامت اٹھانیوالے اور گمنام لوگوں میں جاملا.اور باوجود اس کے مجھ کو گالیاں دیں تا اپنی بیہودہ گوئی سے اپنی ژولیدہ بیانی کو پناہ دیوے.مگر ہم اس کی دشمنی اور قول پر کچھ تاسف نہیں کرتے اور نہ اس میں کچھ زیادہ کہنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ ایک ایسی قوم میں سے ہے جن کو گالیاں دینے اور عیب گیری کی عادت ہے.اور اس عادت کو انہوں نے اپنا کمال سمجھا ہوا ہے.پس ہم ان کے فتنہ میں مبتلا ہونے سے خدا کو اپنے لئے کافی جانتے ہیں اور اس کی نیتوں سے خدا کی پناہ ڈھونڈتے ہیں اور ہم گالی کی طرف رجوع نہیں کرتے

Page 213

کما عطف ہو من العناد، ونُفوِّض أمرنا إلٰی ربّ العباد، وہو أحکم الحاکمین.وکیف یکذّبنی مع أنّہ ما نقض براہینی، وما دوّن کتدوینی، وما تصدّیتُ لدعوی ما کان معہ الدلائل، بل عرضتُ دلائل أزیدَ مما یسأل السائل، وما کان کلامی بالغیب بضنین.وقد ثبت عند جمیع الحُکّام، وولاۃ الأحکام، أن الدعاوی تجب قبولہا بعد الأدلّۃ، کما تجب الأعیاد بعد الأہلّۃ، وکنتُ ادّعیت أنّی أنا المسیح الموعود، والإمام المہدی المعہود، فأری اللہ آیاتہ علی ذالک الادّعاء، وسَکَّتَ وبَکَّتَ زُمرَ الأعداء، وأری آیۃً تارۃً فی زیّ الإیجاد، وأخری فی صورۃ الإعدام والإفناد، وأعجزَ الأعداء َ مرّۃ بخوارق الأقوال، وأخری أخزاہم بعجائب الأفعال و أیّدنی ربّی فی کل موطن و مقام، و ما بقِی دقیقۃ من تبکیت وإفحام، ومُزِّقوا کل ممزّق من اللہ مُخزی المفسدین.ثم قیّض قدر اللّٰہ لنصبہم ووصبہم، أنہم طعنوا فی علمی وفخروا ببراعتہم جیسا کہ اس نے عناد سے کیا اور ہم اپنا امر خدا تعالیٰ کو سونپتے ہیں اور وہ احکم الحاکمین ہے.اور کیونکر یہ شخص تکذیب کرتا ہے حالانکہ اس نے میرے دلائل کو نہیں توڑا اور میرے مقابلہ پر کچھ لکھ نہیں سکا اور میں نے ایسے دعویٰ کو پیش نہیں کیا جس کے ساتھ دلائل نہ ہوں بلکہ میں نے زیادہ سے زیادہ جو لوگ پوچھتے ہیں دلائل پیش کر دئیے ہیں اور میرا کلام غیب گوئی سے بخیل نہیں ہے.اور تمام حکام اور والیان حکم کے نزدیک یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ بعد دلائل کے دعوؤں کا قبول کرنا واجب ہو جاتا ہے جیسا کہ بعد ہلال عید کے عید کرنا واجب ہو جاتا ہے اور میں نے دعویٰ کیا تھا کہ میں مسیح موعود اور مہدی موعود ہوں پس اللہ تعالیٰ نے اس دعویٰ پر اپنے نشان دکھلائے اور تمام دشمنوں کو ساکت اور لاجواب کیا اور کبھی نشان کو ایجاد کی صورت پر دکھلایا اور کبھی معدوم کرنے کی صورت پر ظاہر کیا اور کبھی قولی نشان کے ساتھ مخالفوں کو عاجز کیا اور کبھی فعلی نشان کے ساتھ ان کو رسوا کیا.اور میرے رب نے ہر ایک مقام اور میدان میں میری مدد کی اور کوئی دقیقہ اتمام حجت کا باقی نہیں رہا اور خدا تعالیٰ کی طرف سے خوب پارہ پارہ کئے گئے پھر ان کی بدتقدیر کیوجہ سے خدا کی مشیت نے ان کو اس طرف کھینچا کہ انہوں نے میرے علم اور لیاقت میں طعن کیا اور اپنی بلاغت اور ادب پر ناز کیا

Page 214

وأدبہم، وکانوا علیہا مُصرّین، ومکروا ومکر اللّٰہ واللّٰہ خیر الماکرین.فواللّٰہ ما فکّرتُ فی الإملاء والإنشاء، وما کنتُ من الأدباء والفصحاء، وما احتاج یَراعی إلی من یُراعی کالرفقاء، بل کنتُ لا أعلم ما البلاغۃ والبراعۃ، ولا أدری کیف تحصل ہذہ الصناعۃ.فبینما أنا فی حیرۃ من ہذہ الإزراء، وقد تواترَ طعنہم کالسفہاء، إذ صُبّ علی قلبی نورٌ من السّماء، ونزل علیّ شیء کنزول الضیاء، فصرتُ ذا مَقْوَل جریٍّ، وقولٍ سحبانیٍّ، فتبارک اللّٰہ أحسن الخالقین.ولکن ما تسلّتْ بہ عمایات ہذہ العلماء، وظنّوا أن رجلا أعاننی أو جمعًا من الفضلاء، وأنہا ثمرۃ شجرۃ الآخرین.ثم بدا لہم أن یُعارضونی مُشافہین، فإذا قمتُ فکأنّہم کانوا من المیّتین.والآن ما بقی فی کفّہم إلا الرفث والإیذاء، وکذالک سبَّنی النجفیّ وما یدری ما الحیاء.ولکنّا لا ندفع السبّ بالسبّ، وما کان لِحَمامٍ أن یُحجِر نفسہ کالضبّ، أو کالتنّین.وما نشکوہ علٰی ما فعل، ولا نتأسّف علٰی ما افتعل، فإنہم قوم اور اس پر اصرار کیا.اور انہوں نے مکر کیا اور خدا نے بھی مکر کیا اور خدا سب سے بہتر مکر کرنے والا ہے.پس بخدا میں نے املا اور انشاء میں کچھ فکر نہیں کیا اور میں ادیبوں میں سے نہیں تھا اور میری قلم کسی مددگار کی محتاج نہیں ہوئی.بلکہ میں نہیں جانتا تھاکہ بلاغت کسے کہتے ہیں اور نہیں جانتا تھا کہ یہ صناعت کیونکر حاصل ہوتی ہے.پس اس حالت میں کہ میں اس نکتہ چینی سے حیرت میں تھا اور ان کا طعن سفیہوں کی طرح تواتر تک پہنچ چکا تھا پس یکدفعہ ایک نور میرے دل پر ڈالا گیا اور ایک چیز روشنی کی طرح اتری.پس میں صاحب زبان رواں اور صاحب قول سحبان وائل ہوگیا.پس مبارک ہے وہ خدا جو احسن الخالقین ہے لیکن اس کے ساتھ ان علماء کی نابینائی دور نہ ہوئی اور گمان کیا کہ ایک شخص نے میری مدد کی ہے یا ایک گروہ نے فضلاء میں سے مدد کی ہے اور وہ فصاحت اور وں کے درخت کا پھل ہے.پھر ان کو یہ سوجھی کہ دوبدو مجھ سے مقابلہ کریں.پس جب میں کھڑا ہوا تو گویا وہ میت تھے اور اب ان کے ہاتھ میں بجز گالیوں اور ایذا کے اور کچھ باقی نہیں رہا اور اسی طرح نجفی نے مجھے گالیاں دیں اور نہیں جانتا کہ حیا کیا چیز ہے مگرہم گالی کو گالی کے ساتھ جواب نہیں دیتے اور کبوتر کی شان میں یہ داخل نہیں کہ اس سوراخ میں داخل ہو جس میں سو سمار داخل ہوتی ہے یا سانپ اور ہم اس شخص کا اسکے کام پر کچھ شکوہ نہیں کرتے اور نہ اسکے بہتان پرکچھ افسوس کرتے ہیں کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں

Page 215

ما عُصم من ألسنہم خاتم النبیّین، بل اللّٰہ الذی ہو أحکم الحاکمین، ولا خلفاء نبی اللّٰہ ولا أمّہات المؤمنین.ألا تری کیف ظنّوا ظنّ السوء فی حضرۃ أصدق الصادقین، وکذّبوا نبأ 'الاستخلاف' وقالوا إنّ علیًّا من المظلومین، فأرادوا ہدم ما شاد الرحمٰن، وکفروا بما جاء بہ القرآن، وما ہذا إلا ظلم مبین.وقالوا إنّ علیًّا أنفد عمرہ مُبتلًی بلَقْوَۃِ النفاق، وما خُلِقَ فی طینتہ جرأۃُ الصدق وما تفوَّقَ دَرَّ إخلاصِ الأخلاق، وإذا استُخلفَ الکفّارُ فما أبٰی، بل أطاعہم وعقد لہم مع رفقتہ الحُبا.أَمَرَ أمرُ الإسلام فآثرَ الإنصات، وأُمِّرَ الفُسّاق فمعہم أکل و بات، وما ذمّہم بل أنشد فی حمدہم الأبیات، وکان ہذا خُلقہ حتی مات، أہذا ہو أسدُ المتشیّعین؟ وقالوا إنہ عارضَ أُمَّہ الصدّیقۃَ، وما بالی الشریعۃ ولا الطریقۃ، ولم یکن بَرًّا بوالدتہ ولا تقیًّا، بل أعقَّ وصار جبّارًا شقیًّا.آثرَ النفاق ولم یصبر جو ان کی زبان سے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم بھی بچ نہیں سکے بلکہ وہ خدا بھی جو احکم الحاکمین ہے اور نہ رسول اللہﷺ کے خلیفے ان کی زبان سے بچے اور نہ ازواج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو امہات المومنین تھیں.کیا تو نہیں دیکھتا کہ ان لوگوں نے حضرت اصدق الصادقین میں کس طرح ظن بد کیا.اور استخلاف کی پیشگوئی کی تکذیب کی.اور کہا کہ علی مظلوم ہے.پس ان لوگوں نے اس عمارت کو مسمار کرنا چاہا جس کو خدا نے بنایا اور قرآنی اخبار کی تکذیب کی اور یہ صریح ظلم ہے اور ان لوگوں نے کہا کہ علی تمام عمر نفاق کے لقوہ میں مبتلا رہا اور اس کی طینت میں راست گوئی کی جرأت پیدا نہیں کی گئی تھی اور اس نے ظاہر و باطن ایک بنانے کا دودھ نہیں پیا تھا اور جب کفار کو خلافت ملی تو اس نے انکار نہ کیا بلکہ اطاعت کی اور پیٹھ اور پنڈلی کو معہ اپنے رفیقوں کے ان کے لئے باندھا.اسلام کا امر مشکل ہوگیا پس اس نے خاموشی کو اختیار کیا اور فاسق امیر کئے گئے پس اس نے ان کے ساتھ کھایا اور شب باشی اختیار کی اور ان کی بدگوئی نہ کی بلکہ ان کی تعریف میں شعر بنائے اور یہی اس کا خلق تھا یہاں تک کہ مرگیا کیا یہی شیعوں کا شیر ہے؟ اور کہتے ہیں کہ اس نے اپنی ماں صدیقہ کا مقابلہ کیا اور نہ شریعت کی کچھ پروا رکھی اور نہ طریقت کی اور اپنی ماں سے نیکوکار نہیں تھا بلکہ عاق اور جبّار اور شقی تھا.نفاق کو اختیار کیا اور سختی

Page 216

علی ضرّ ومسغبۃ، واتّبعَ النفس وترَک التُّقی کأرض مُعطّلۃ.أسرَّ الغِلَّ ولکن ما نظر بعینٍ غَضْبَی، واختار النفاق فی کل قدم وحابَی، سجد لکل مَن تبرّعَ باللُہَی، ولو کان عدوَّ الدین والتُّقی، وإذا عُرِض علیہ حُطامٌ فقال لنفسہ: ہا.وأثنی علی الکافرین طمعًا فی المَوات، لا خوفا من عقوبات المُوات، وصلّی خلفہم للصِّلات، لا لبرکات الصَّلٰوۃ.اتّخذَ النفاق شِرْعۃ، والاقتباس منہ نُجْعۃ، وصرف اللہ عنہ المعارف، ولو کان زُمَرٌ مِن مَعارف.فما بقی معہ من سَروات الصحابۃ ولا سرایا الملّۃ، حتی رجع مضطرًّا ومخذولًا إلٰی باب الصدّیق، وکان یعلم أنہ کالزندیق لکن البطن ألجأہ إلیہ، وما وجد حطبَ تَنُّورِ المَعِدۃ إلا لدیہ.وإنّ صاحِبَہ اغتال بعضَ ولدہ، فما امتنع من التردد إلیہ، وفجَعہ بالفَدَک فما غارَ علیہ، بل کان علٰی بابہ کالمعتکفین.وتواترَ علیہ جور الشیخَین، حتی جرت عبرۃ العینَین کالعینَین، فما انتہی من الرجوع إلی ہذین الکافرَین، بل أبدی الإطاعۃ بالنفاق والمَین.اور بھوکھ پر صبر نہ کر سکا اور نفس کی پیروی کی اور پرہیزگاری کو زمین خالی کی طرح چھوڑ دیا اور کینہ کو پوشیدہ رکھا مگر خشمگین آنکھ سے نہ دیکھا اور نفاق کو ہر ایک قدم میں اختیار کیا اور خاص کیا جس نے بخشش کے ساتھ احسان کیا اسی کو سجدہ کر دیا اگرچہ وہ دین اور تقویٰ کا دشمن ہو اور جب کوئی مال دنیا اس پر پیش کیا گیا تو اپنے نفس کو کہا کہ لے لے اور زمین کے حاصل کرنے کیلئے کافروں کی تعریف کی نہ اس خیال سے کہ ان کی مخالفت سے عقوبت مرگ کا اندیشہ ہے.اور ان کے انعام کیلئے ان کے پیچھے نماز پڑھتا رہا نہ نماز کی برکتوں کیلئے نفاق کو طریقہ پکڑا اور اس کسب کو اپنی غذا پکڑی اور خدا نے اس سے لوگوں کے منہ پھیر دئیے اور اگرچہ وہ آشنا تھے.پس اس کے ساتھ صحابہ کے جوانمردوں میں سے کوئی نہ رہا اور نہ اسلام کے لشکر میں سے کوئی اس کا ساتھی ہوا یہاں تک کہ بیقرار اور ناکام ہوکر ابوبکر صدیق کے دروازے پر آیا اور جانتا تھا کہ یہ زندیقوں کی طرح ہے.مگر پیٹ نے اس کو اس کی طرف جانے کیلئے بیقرار کر دیا اور اپنے معدہ کے تنور کا ایندھن اس نے اسی کے پاس پایا اور عمرؓ نے اسکی بعض اولاد کو قتل کر دیا مگر وہ پھر بھی اس کی طرف جانے سے باز نہ آیا اور ابوبکر نے فدک کے معاملہ میں اس کو درد پہونچایا مگر پھر بھی اس کو غیرت نہ آئی اور ابوبکر کے دروازے پر اعتکاف کرنیوالوں کی طرح پڑا رہا اور اس پر شیخین کا ظلم متواتر ہوا یہاں تک کہ آنکھوں سے آنسوؤں کے چشمے جاری ہوئے مگر وہ ان کے پاس جانے سے باز نہ آیا بلکہ نفاق اور جھوٹھ سے اطاعت کو ظاہر کیا.

Page 217

واشتدّ عَلَیْہ غصبہم ونہبہم حتی صفَرت الراحۃ، وفُقدت الراحۃ، فما ترک لُقیّاہم، وما کرہ رَیّاہم، بل کان یستمرّ علی بابہم، ویستمری فُضْلۃَ أنیابہم، وَما باعدَہم کالمُستنکفین، بل کان یُخْلِقُ لہم دیباجتہ، ویُعرِض علیہم حاجتہ، ویدور علی أبوابہم کالسّائلین الملحفین وکان علیہ أن یترک المدینۃ وأہلہا الکافرین المرتدّین، ولو کانوا من المترَفین والمخصِبین، بل کان من الواجب أن یقتعد مَہْرِیّا، ویعتقل سَمْہَرِیّا، ویُہاجر من أرضٍ إلی أرض، ویطلب رفعًا مِن خفض، ویُنادی بین الناس أن الصحابۃ ارتدوا کلہم أجمعون، ثم إذا أحسّ الإیمان من قوم فکان علیہ أن یُلقی بأرضہم جِرانہ، ویتخذہم جیرانہ، ویجعلہم لنفسہ معاونین، ویقتل أہلَ المدینۃ کلہم إن لم یکونوا مسلمین.فکیف تمضمضت مُقلتہ بنومہا، وکان یری الملّۃ قد اکفہرّ وجہ یومہا، وأمحلتْ بلاد الإیمان والمؤمنین.لِمَ لم یُہاجر ولم یلق نفسہ اور انہوں نے غارتگری سے اس کو تباہ کیا یہاں تک کہ ہتھیلی خالی ہوگئی اور آرام جاتا رہا مگر اس نے ان کا ملنا نہ چھوڑا اور ان کی خوشبو سے بیزار نہ ہوا بلکہ لازمی طور پر حاضر ہوتا رہا اور ان کے دانتوں کے فُضلہ کو ہضم کرتا رہا اور عار رکھنے والوں کی طرح ان سے علیحدہ نہ ہوا بلکہ ان کی خدمت میں اپنی آبرو کو بٹہ لگاتا تھا اور اپنی حاجت ان کے پاس پیش کرتا تھا اور ان کے دروازوں پر سوالیوں کی طرح پھرتا تھا اور اس کو چاہیے تھا کہ مدینہ کو اور اس کے باشندوں کو جو کافر اور مرتد تھے چھوڑ دیتا اور اگرچہ وہ لوگ خوشحال ہوتے بلکہ واجب تو یہ تھا کہ ایک مضبوط اونٹ پر سوار ہو جاتا اور نیزہ لٹکا لیتا اور ایک زمین سے دوسری زمین میں چلا جاتا اور پستی کے بعد بلندی طلب کرتا اور لوگوں میں بلند آواز سے کہتا کہ صحابہ سب مرتد ہوگئے.پھر جب کسی قوم میں ایمان کو پاتا پس مناسب تھا کہ اس زمین میں بودوباش کرتا اور ان کو اپنا ہمسایہ اور معاون بناتا اور تمام مدینہ کے لوگوں کو قتل کر ڈالتا اگر وہ مسلمان نہیں تھے.پس کیونکر اس کو نیند پڑی اور وہ دیکھتا تھا کہ جو اسلام کا دن تھا اس کا چہرہ تاریک ہوگیا اور ایمان اور مومنوں کے بلاد پر خشک سالی غالب آگئی.کیوں ہجرت نہ کی اور کیوں اپنے نفس کو دوسروں کے

Page 218

فی أرجاء آخرین، وکان أُعطِیَ منطق البلاغۃ، وکان یُزیِّن الکلمَ ویلوّنہا کالدباغۃ، فما نزل علیہ لَمْ یستعمل فی استمالۃ الناس صناعتہ، وما أری فی الإصباء براعتہ، بل تمائل کل التمائل علی النفاق والتقیّۃ، وحسبہ للعدا کالرقیۃ؟ أہذا فعلُ أسدِ اللّٰہ؟ کلَّا بل ھوافتراؤکم یا معشر الکذّابین.إنہ کان حاز من الفضائل مغنمًا، وکان بقوی الإیمان تَوْأمًا، فما اختار نفاقًا أینما انبعث، وما نافق فی کل ما فعل ونفث، وما کان من المرائین.فلما نضنضتم فی شأنہ نضنضۃ الصلّ، وحملقتم إلیہ حملقۃ البازی المطلّ، مع دعاوی الحبّ والمصافاۃ، فکیف تقصّرون فی غیرہ مع جذبات المعاداۃ؟ وکذٰ لک استحقرتم خاتم الأنبیاء، وقلتم دُفن معہ الکافران من الأشقیاء، یمینا وشمالا کالإخوان والأبناء.فانظروا إلی توہینکم یا معشر المجترئین.ونحن نستفسر منک أیہا النجفیّ الضال، فأجب متحملا ولا یکبر علیک السؤال.أترضٰی کناروں میں نہ ڈال دیا اور اس کو بلاغت زبان دی گئی تھی اور کلمات کو خوب زینت دیتا تھا اور رنگین کرتا تھا جیسا کہ چمڑہ کی دباغت کی جاتی ہے.پس اس پر یہ بلا کیا نازل ہوئی کہ اس نے لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے میں بلاغت اور فصاحت سے کام نہ لیا اور دلوں کو اپنی طرف پھیرنے میں اپنے حسن بیان کو نہ دکھلایا بلکہ نفاق اور تقیہ کی طرف جھک گیا اور نفاق کو دشمنوں کیلئے مثل افسوں کے سمجھا کیا یہ فعل شیر خدا کا ہے ہرگز نہیں بلکہ یہ تو اے کاذبوں کے گروہ تمہارا افترا ہے.علی تو جامع فضائل تھا اور ایمانی قوتوں کے ساتھ توام تھا.پس اس نے کسی جگہ نفاق کو اختیار نہیں کیا اور اپنے قول اور فعل میں کبھی منافقانہ طریق نہیں برتا اور ریاکاروں میں سے نہ تھا.پس جبکہ تم اس کی شان میں ایسی زبان ہلاتے ہو جیسا کہ سانپ اور ایسا اس کی طرف دیکھتے ہو جیسا کہ باز جو شکار پر گرتا ہے اور یہ سب کچھ باوجود اس محبت کے ہے جس کا تمہیں دعویٰ ہے تو پھر کیونکر تم اس کے غیر میں کچھ کوتاہی کر سکتے ہو کیونکہ وہاں تو دشمنی کے جذبات بھی ہیں.اور اسی طرح تم نے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی تحقیر کی اور کہا کہ اس کے ساتھ دو کافر دائیں بائیں بھائیوں اور بیٹوں کی طرح دفن کئے گئے.سو تم اے گروہ بے باکان اس توہین کی طرف جو تم کر رہے ہو نظر کرو اور ہم تجھ سے اے نجفی گمراہ ایک بات پوچھتے ہیں.سو ٹھہر کر جواب دے اور تیرے پر سوال بھاری نہ ہو.کیا تو اس بات پر

Page 219

بأن تُدفَن أُمُّک المتوفّاۃ بین البغیّتین الزانیتین المیّتین؟ أو یُقبَر أبوک فی قبر المجذومَین الفاسقین؟ فإن کرہتَ فکیف رضیتَ بأن یُدفَن سیّد الکونَین بین جنبی الکافرَین الملعونَین؟ ولا یعصمہ فضل اللّٰہ من جوار الجارَین الجائرَین الخبیثَین والکفر أکبر من الزنا وأشنع عند ذوی العینین.ففکّرْ کیف تحقّرون خاتم النبیین، وتسوّغون لہ مکروہات لا تسوّغون لأنفسکم ولا بنات وأمّہات ولا بنین.تبًّا لکم ولما تعتقدون یا حُماۃَ الفسق والمَیْن.بل دُفن بجوار رسول اللہ رجلان کانا صالحَین مطہّرَین مقرّبَین طیّبَین، وجعلہما اللّٰہ رفقاء رسولہ فی الحیاۃ وبعد الحَیْن، فالرفاقۃ ہذہ الرفاقۃ وقلَّ نظیرہ فی الثقَلَین.فطوبی لہما أنہما معہ عاشا، وفی مدینتہ وفی مأواہ استُخلِفا، وفی حُجر روضتہ دُفِنا، ومِن جنّۃ مزارہ أُدْنِیا، ومعہ یُبعثان فی یوم الدین.وانظرْ إلٰی علیّ أنہ إذا أُعطِیَ منصب الخلافۃ، فما بعَّد تربۃَ راضی ہو سکتا ہے کہ تیری ماں دو زناکار عورتوں کے درمیان دفن کر دی جائے یا تیرا باپ دو مجذوم بدکاروں کے درمیان گاڑا جائے.پس اگر تو اس سے کراہت کرتا ہے تو تُو کس طرح اس بات پر راضی ہوگیا کہ سید الکونین دو کافروں ملعونوں کے درمیان دفن کر دیا جائے اور خدا تعالیٰ کا فضل اس کو دو ظالم اور ناپاک کی ہمسائیگی سے نہ بچائے.اور کفر زنا سے بہت بڑا اور آنکھوں کے نزدیک زیادہ زبوں ہے.پس سوچ کہ تم لوگ کیوں کر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی کر رہے ہو اور وہ مکروہات اس کے لئے جائز رکھتے ہو جو اپنے بیٹوں اور ماؤں اور بیٹیوں کے لئے جائز نہیں رکھتے.خدا تمہیں ہلاک کرے اے جھوٹھ اور دروغ کی حمایت کرنے والو! بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمسایہ میں دو ایسے آدمی دفن کئے گئے ہیں جو نیک تھے، پاک تھے، مقرب تھے، طیب تھے اور خدا نے ان کو زندگی میں اور بعد مرگ اپنے رسول کے رفقاء ٹھہرایا.پس رفاقت یہی رفاقت ہے جو اخیر تک نبھی اور اس کی نظیر کم پاؤ گے.پس ان کو مبارک ہو جو انہوں نے اس کے ساتھ زندگی بسر کی اور اس کے شہر میں اور اس کی جگہ میں خلیفے مقرر کئے گئے اور اس کے کنار روضہ میں دفن کئے گئے اور اس کے مزار کے بہشت سے نزدیک کئے گئے اور قیامت کو اس کے ساتھ اٹھیں گے اور علی کی طرف نظر کر کہ جب اس کو منصب خلافت دیا گیا.پس اس نے ان دونوں

Page 220

ہٰذین الإمامَیْن مِن روضۃ خیر البریّۃ.فإن کان یزعم أنہما لیسا مؤمنَیْن طیّبَیْن، فکیف ترَکہما ولم یُنزِّہ قبر رسول اللّٰہ عن ہٰذین القبرین؟ فالذنب کلّ الذنب علی عنق ابن أبی طالب، کأنہ لَمْ یبال عِرض رسول اللّٰہ مِن نفاق غالب، وما أری الصدق کالمخلصین.أہذا أسد اللّٰہ وضرغام الدین؟ أہذا ہو الذی یُحسَب من أکابر المتّقین؟ فاعلموا أن تُقاۃَ علیّ لا تثبت إلَّا بعد تقاۃ الصدّیق، ففکِّرْ ولا تعتدِ کالزندیق، ولا تُلق بأیدیک إلی حُفرۃ الہالکین.وإنکم تحبّون أن تُدفَنوا فی أرض الکربلاء، وتظنّون أنکم تُغفَرون بمجاورۃ الأتقیاء، فما ظنّکم بالسعیدَیْن الذین دُفِنا إلی جنبَیْ نَبِیِّہِ القدر خاتم النبیین وإمام المتقین.وسیّد الشافعین؟ ویل لکم لا تتفکّرون کالخاشعین، ولا یسفر عنکم زحام التعصّبات، ولا تُعطَون حسن التوفیقات، ولا تُمعِنون کالمستبصرین.وکیف نشکوکم علی سبّکم وإنکم تلعنون الصحابۃ کلّہم إلَّا قلیلا کالمعدومین، اماموں کی قبر کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ سے علیحدہ نہ کیا.پس اگر وہ یہ گمان کرتا تھا کہ وہ دونوں مومن پاک دل نہیں ہیں تو کیوں کر ان کی قبروں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے ساتھ شامل رہنے دیا.پس تمام گناہ علی کی گردن پر ہے.گویا اس نے بوجہ نفاق کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آبرو کی کچھ پروا نہ کی اور صدق نہ دکھلایا.آیا یہی شیر خدا اور اسد اللہ ہے؟ کیا یہ وہی شخص ہے جو اکابر پرہیز گاروں میں سے سمجھا گیا ہے؟ پس جان لو کہ علی کی پرہیزگاری تب ثابت ہوتی ہے کہ ابوبکر صدیق کی پرہیزگاری ثابت ہو.پس سوچو اور ایک زندیق کی طرح حد سے تجاوز مت کرو اور اپنے ہاتھوں سے ہلاکت کے گڑھے میں مت پڑو.اور تم دوست رکھتے ہوکہ خاک کربلا میں دفن کئے جاؤ اور گمان کرتے ہو کہ پرہیزگاروں کی ہمسائیگی سے تم بخشے جاؤ گے.پس ان دو سعیدوں کی نسبت تمہارا کیا گمان ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن کئے گئے جو امام المتقین اور امام الشافعین اور خاتم النبیین ہے.تم پر افسوس کہ تم عاجزی اور غربت کے ساتھ فکر نہیں کرتے اور تعصبات کا اژدحام تم سے دور نہیں ہوتا.اور نیک کاموں کی تمہیں توفیق نہیں ملتی اور دانشمندوں کی طرح تم نہیں سوچتے اور ہم تمہاری گالیوں کا شکوہ کیا کریں کیونکہ تم تمام صحابہ کو گالیاں دیتے ہو مگر قدر قلیل

Page 221

وتلعنون أزواج رسول اللّٰہ أمّہات المؤمنین، وتحسبون کتاب اللّٰہ کلاما زِیْدَ علیہ ونقص، وتقولون إنہ بیاض عثمان وأنہ لیس من ربّ العالمین.فلعَنکم اللّٰہ بفسقکم وصرتم قومًا عمین.وحسبتم الإسلام کواد غیر ذی زرع خالیا من رجال اللہ المقرّبین.فأیُّ عِرض بقی مِن أیدیکم یا معشر المُسرفین؟ وأَرَیتُم تصویر علیّ کأنہ أجبن الناس، وأطوع للخنّاس.اعتلق بأہداب الکافرین اعتلاق الحرباء بالأعواد، وآثر نار النفاق لیفیض علیہ عُباب المراد.أخزی نفسہ بتنافی قولہ وفعلہ، ورضی بشیء لم یکن من أہلہ.وحمد الکافرین فی المحافل، وأثنی علیہم فی المجامع والقوافل، وحضر جنابہم وما ترک الطمع، حتی انزوی التأمیل وانقمع، فما آووا لِمَفاقرہ، وما فرحوا بمحامد أُترعتْ فی فقرہ، بل اغتصبوا حدیقۃ فَدَکِہ، وقاموا لفتکِہ، وما أبرزوا لہ دینارًا، لیُطعِم بطنًا أمّارًا، وما کانوا اور نیز تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں امہات المومنین کو لعنت سے یاد کرتے ہو اور گمان کرتے ہو کہ خدا کی کتابمیں کچھ زیادہ اور کم کیا گیا ہے اور کہتے ہو کہ وہ بیاض عثمان ہے.اور خدا کی طرف سے نہیں ہے پس خدا نے بباعث فسق تمہارے کے تم پر لعنت کی اور تم اندھے ہوگئے اور تم نے اسلام کو ایسا سمجھ لیا جیسا کہ ایک بیابان جس کی زمین خشک اور زراعت سے خالی ہے یعنی خدا کے مقربوں سے خالی ہے.پس کون سی عزت تمہارے ہاتھوں سے باقی رہی اے حد سے نکلنے والو!؟ اور تم نے علی کی تصویر ایسی ظاہر کی کہ گویا وہ سب سے زیادہ نامرد ہے اور نعوذ باللہ شیطان کا تابع ہے.کافروں کے دامن کو اس نے ایسا پکڑا اور ایسا ان سے آویزاں ہوا جیسا کہ آفتاب پرست شاخوں کے ساتھ اور نفاق کی آگ اس نے اختیار کی تا اس پر مراد کا بہت سا پانی ڈالا جائے.اپنے قول و فعل کے تناقض سے اپنے تئیں رسوا کیا اور اس چیز سے راضی ہوگیا جس کا وہ اہل نہیں تھا.اور کافروں کی اس نے محفل میں تعریف کی اور مجمعوں اور قافلوں میں ان کی ثنا خوانی کی اور انکی جناب میں حاضر ہوا اور طمع کو نہ چھوڑا یہاں تک کہ امید گم ہوگئی اور اس کا قلع قمع ہوگیا پس انہوں نے اسکی قسما قسم کی تہی دستی پر رحم نہ کیا اور ان تعریفوں کے ساتھ خوش نہ ہوئے جو اسکی کلام کے فقروں میں بھری ہوئی تھیں بلکہ انہوں نے اس کا باغ فدک چھین لیا اور اسکے قتل کرنے کیلئے کھڑے ہوگئے اور اس کو ایک مہر نہ دی تا اپنے شکم حکمران کو طعام دیتا

Page 222

راحمین.وما نزلت علیہ من السماء مائدۃ، وما ظہرت من الخَلق فائدۃ، ودِیسَ تحت أقدام الجائرین.وکان لم یزل یدعو ویفتکر، ویصوغ ویکسر، ولم یکن من الفائزین.إلی أن انقطعت الحِیَل ورکد النسیم، وحصحص التسلیم، فخرَّ تقیۃً علی بابہم، وطلب القوۃ من جنابہم، وہم کانوا مستکبرین.وغُلّقتْ علیہ أبواب إجابۃ الدعاء، وسُدّتْ طرق الحیل والاہتداء.فانظر أہذہ علامات عباد اللّٰہ المؤیَّدین، وأمارات الصادقین المقبولین، وآثار المخلصین المتوکّلین؟ ثم انظرْ کیف حقّرتم شأن المرتضی الذی کان من المحبوبین الموفّقین؟ وأمّا ما طلبتَ منّی آیۃ من الآیات، فانظُرْ کیف أراک اللہ أجلَّ الکرامات، وہو أنی کنتُ دعوت علٰی رجل مفسد مُغْوی کالشیطان، وتضرّعتُ فی الحضرۃ لیذیقہ جزاء العدوان، فأخبرنی ربّی أنہ سیُقتَل ویُبعَّد من الإخوان، وکان اسمہ ' لیکہرام' وکان من البراہمۃ، وکان معتدیا اور رحم کرنے والے نہیں تھے اور آسمان سے اس پر کوئی مائدہ نہ اترا اور نہ خلقت سے کچھ فائدہ ہوا اور ظالموں کے قدموں کے نیچے کچلا گیا اور ہمیشہ دعا کرتا تھا اور سوچتا تھا اور زرگری کرتا تھا اور توڑتا تھا اور کامیاب نہیں ہوتا تھا.یہاں تک کہ تمام حیلے منقطع ہوگئے اور ہوا ٹھہر گئے.اور سر جھکانا پڑا.پس ان کے دروازے پر تقیہ کے طور پر گر پڑا اور انکی جناب سے قوت طلب کیا اور وہ متکبر تھے.اور اسپر دعا کے قبول کرنے کے دروازے بند کئے گئے اور حیلہ اور ہدایت پانے کی راہ مسدود کی گئی پس دیکھ کہ کیا یہ ان لوگوں کی علامتیں ہیں جو خدا سے تائید یافتہ ہوتے ہیں اور کیا یہ صادقوں اور مقبولوں کی نشانیاں ہیں؟ اور مخلصوں اور متوکلوں کے آثار ہیں پھر دیکھ کہ تم لوگوں نے کس طرح مرتضیٰ علی کی تحقیر کی ہے وہ علی جو محبوبوں اور توفیق یافتوں میں سے تھا.مگر تو نے جو مجھ سے کوئی نشان مانگا ہے.پس دیکھ کہ خدا نے کیسا تجھے بزرگ نشان دکھلایا اور وہ یہ کہ میں نے ایک مفسد کیلئے جو شیطان کی طرح بہکانے والا تھا بددعا کی تھی اور جناب الٰہی میں مَیں نے تضرع کیا تا اس کو ظلم کا مزہ چکھاوے.پس میرے رب نے مجھے خبر دی کہ وہ قتل کیا جائے گا اور اپنے بھائیوں سے دور ڈال دیا جائے گا اور اس کا نام لیکھرام تھا اور برہمنوں میں سے تھا اور گالی دینے میں

Page 223

فی السبّ والشتم وجاوز الحد فی الخباثۃ.فلما دعوتُ علیہ وتضرّعتُ فی حضرۃ الباری، وأقبلت کل الإقبال علی جبّاری، سُمِع دعائی فی الحضرۃ، ومَنّ علیّ ربّی بالرحمۃ والنصرۃ، وبشّرنی ربی بأنہ یموت فی ستّ سنۃ، فی یوم دنا من یوم العید بلا تفاوۃ، وأومأَ إلی لیلۃِ یومِ الأحد، وإلی أنہ یُقتَل بحکم الربّ الصمد، ولا یموت بمرضۃ، ویموت بقتلٍ مہیب مع حسرۃ، لیکون آیۃ للطالبین.فلما انقضٰی من المیعاد قریبًا من خمسۃ أعوام، واطمأن الہالک وزعم أن النبأ کان کأوہام، نزل أمر اللّٰہ علیہ وأتی بفتح مبین.ففرحتُ فرحۃَ المطلَق من الاسار، وہزّۃَ الناجی من حفرۃ التبار.وقبل أن یأتینی أحد بفصِّ خبر وفاتہ، بشّرنی ربی بمماتہ، وکنتُ أفکّر فی ہذہ البشارات، فإذا عبد اللّٰہ جاء بالتبشیرات، وحصحص الحق وزہق الباطل وقُضِیَ الأمر من ربّ الکائنات، وفرح المؤمنون کما وُعد من قبل واسودّ وجوہ أہل المعادات، وظہر حد سے بڑھ گیا تھا.پس جبکہ میں نے اس پر بددعا کی اور جناب باری میں تضرع کیا اور پوری توجہ کے ساتھ حضرت احدیت میں متوجہ ہوا.پس جناب الٰہی میں میری دعا سنی گئی اور خدا نے رحمت اور مدد کے ساتھ میرے پر احسان کیا اور میرے خدا نے مجھے خوشخبری دی کہ وہ چھ برس کے عرصہ میں مر جائے گا اور اس دن مرے گا جو عید کے بعد کا دن ہوگا اور اتوار کی رات کا اشارہ کیا.اور یہ کہ بحکم خدا تعالیٰ وہ قتل کیا جائے گا اور ہیبت ناک قتل کے ساتھ مرے گا اور حسرت کے ساتھ اور کوئی بیماری نہیں ہوگی تاکہ طالبوں کیلئے نشان ہو.پس جب کہ میعاد قریب پانچ برس کے گزر گئی اور مرنے والا مطمئن ہوگیا کہ پیشگوئی ایک وہم تھا خدا کا امر اس پر نازل ہوا اور فتح عظیم ظاہر کی.پس میں ایسا خوش ہوا جیسا کہ ایک قیدی چھوٹ کر خوش ہوتا ہے اور جیسا کہ ایک شخص ہلاکت کے گڑھے سے نجات پاتا ہے اور قبل اس کے جو کوئی شخص اس کی وفات کی خبر میرے پاس لائے میرے خدا نے اس کی موت کے بارے میں مجھے خوشخبری دی اور میں ان بشارتوں کو سوچ رہا تھا اتنے میں عبداللہ بشارت لے کر آیا.اور ظاہر ہوگیا حق اور نابود ہوگیا باطل اور خدا نے فیصلہ کردیا اور مومن خوش ہو گئے جیسا کہ وعدہ دیا گیا تھا اور دشمنوں کے مونہہ کالے ہوگئے اور خدا کا امر

Page 224

أمر اللّٰہ وہم کانوا کارہین.وکان ہذا الرجل وقاحا طویل اللسان، کثیر السب والہذیان، طلب منی آیۃ ملحِّحًا فی طلبہ، وشرط لی أن أصرّح المیعاد فی عُلَبِہ، وأُصرّح یوم موتہ، مع إظہار شہر فوتہ، وأبیّن کیفیۃ وفاتہ، ووقت مماتہ، وکتب کلہا ثم طالب کالمُصرّین.فلبّیتُہ ممتطیا شملۃ عنایۃ الرحمٰن، ومنتضیا سیف قہر الدیّان.وکنت لفرط اللہج بظہور الآیۃ، والطمعِ فی إعلاء کلمۃ الملّۃ، أجاہد فی الحضرۃ الأحدیۃ، وأصرف فی الدعاء ما جلّ وعظُم من القوّۃ، ثم ترکت الدعاء بعدنزول السکینۃ، وتواتُر الوحی الدالّ علی الإجابۃ.فلما انقضی أربع سنۃ من المیعاد، ودنا منّا عید من الأعیاد، أُلقیَ فی نفسی أن أتوجّہ مرّۃ ثانیۃ إلی الدعاء، وکذالک أشار بعض الأصدقاء فصبرت أنتظر الوقت والمحلَّ، وأتعلل بعسٰی ولعلَّ، إلی أن أدرکتُ لیلۃ القدر فی أواخر رمضان، فعرفتُ أن الوقت قد حان، ورأیت لیلۃً نشرت أردیۃ الاستجابۃ، ظاہر ہوا اور وہ کراہت کرتے رہ گئے.اور یہ شخص نہایت بے شرم دراز زبان تھا بہت گالیاں دیتا اور بکواس کیا کرتا تھا اس نے مجھ سے ایک نشان طلب کیا اور طلب کرنے میں بہت اصرار کیا اور یہ شرط لگائی کہ میں اس کے نشان میں میعاد کو کھول کر بتلادوں اور اس کے موت کے دن کی تصریح کروں اور مرنے کا مہینہ بتلاؤں اور جس طرز سے مرے گا وہ کیفیت بیان کروں اور مرنے کا وقت بتاؤں اور ان سب باتوں کو لکھا اور پھر اصرار کرنیوالوں کی طرح مجھ سے مطالبہ کیا.پس میں نے اسکے سوال کا قبول کے ساتھ جواب دیا اس حالت میں کہ میں عنایت الٰہی کی تیز رو اونٹنی پر سوار تھا اور نیز اس حالت میں جبکہ میں سزا دہندہ کی قہری تلوار کو کھینچ رہا تھا.اور میں از بسکہ نشان کے ظاہر ہونے کیلئے حریص تھا اور اعلاء کلمہ اسلام کیلئے طمع رکھتا تھا حضرت جناب باری میں مجاہدہ کرتا تھا اور جس قدر مجھ میں عظمت قوت تھی دعا میں خرچ کرتا تھا.پھر میں نے سکینہ کے نازل ہونے کے بعد دعا کو ترک کر دیا.اور نیز اس لئے کہ ایسا متواتر الہام جو قبولیت دعا پر دلالت کرتا تھا پس جب میعاد میں سے چار برس گذرگئے اور ایک عید ہم سے قریب آگئی.پس میرے دل میں ڈالا گیا کہ میں پھر دعا کروں اور ایسا ہی بعض دوستوں نے اشارہ کیا.پس میں نے صبر کیا اور میں وقت اور محل کا منتظر تھا اور اب کرتا ہوں اب کرتا ہوں کا گھونٹ پی رہا تھا یہاں تک کہ آخر رمضان میں میں نے لیلۃ القدر کو پایا.پس میں نے جان لیا کہ وقت آگیا اور میں نے ایک ایسی رات کو دیکھا جس نے قبولیت کی چادریں بچھا دی تھیں.

Page 225

ودعت الداعین إلیٰ المأدبۃ، ونادت کل من خاف نابَ النُوَب، وبشّرت کل من أسلمہ الیأس للکرب.فنہضتُ للدعاء نہوض البطل للبِراز، وأَصلتُ لسان التضرّع کالعَضْب الجُراز، حتی أحلَّنی التذلل مقعد العلاء، وبُشّرتُ بالإجابۃ من حضرۃ الکبریاء.فجلستُ کرجل یرجع برُدْنٍ ملآن، وقلبٍ جَذْلان، وسجدتُ لربّ یُجیب دعاء المضطرین.وکان فی ہذہ الآیۃ إعلائَ کلمۃ الملّۃ، وإتمامَ الحجّۃ علی الکَفَرۃ الفَجَرۃ، ولکن الذین ملکوا أثاث عقل صغیر، واتّسموا بحمق شہیر، ما آمنوا بہذہ البیّنات، وترکوا النور واتّبعوا سبل الظلمات، وجحدوا بآیات اللّٰہ ظلمًا وزورًا، وکانوا قومًا بُورًا، ومن المستکبرین.ویقولون إنّا نحن المسلمون.ولیس فیہم سِیَر المسلمین.فی قلوبہم مرض فیزید اللّٰہ مرضہم ویموتون محجوبین، إلاَّ قلیل منہم فإنہم من الراجعین.ویبغون عَرَض الدنیا وعِرضہا ولا یتّقون اللّٰہ ربّ العالمین.فسیُضرَب اور دعا کرنیوالوں کو دعوت کی طرف بلایا تھا اور ہر ایک کو جو مصیبتوں کے دانتوں سے ڈرتا تھا بلایا اور ہر ایک کو جس کو نومیدی نے غموں کے حوالہ کر رکھا تھا بشارت دی.پس میں دعا کے واسطے ایسا اٹھا جیسا کہ ایک دلیر لڑنے کے واسطے اٹھتا ہے اور میں نے تضرع کی زبان ایسی کھینچی جیسا کہ شمشیر بران.یہاں تک کہ فروتنی نے بلندی کی جگہ پر مجھ کو بٹھایا اور قبولیت دعا کی مجھ کو خوشخبری دی گئی.پس میں اس شخص کی طرح بیٹھا جو پر آستین کے ساتھ رجوع کرتا ہے اور دل خوش ہوتا ہے اور میں نے اس پروردگار کو سجدہ کیا جو بیقراروں کی دعا سنتا ہے.اور اس نشان میں کلمہ اسلام کی بلندی تھی.اور کافروں پر حجت پوری ہوتی ہے مگر وہ لوگ جو تھوڑی سی عقل کے مالک ہیں اور وصف حماقت میں مشہور ہیں وہ ان کھلے کھلے نشانوں پر ایمان نہیں لائے اور نور کو چھوڑ دیا اور ظلمات کی پیروی کی اور ظلم اور جھوٹ سے خدا کے نشانوں سے انکار کیا اور وہ ہلاک شدہ قوم تھی اور تکبر کرنیوالے تھے اور انہوں نے کہا کہ ہم مسلمان ہیں اور ان میں مسلمانوں کی خصلتیں نہیں ہیں.ان کے دلوں میں مرض ہے پس خدا ان کے مرض کو زیادہ کرے گا اور حجاب کی حالت میں مریں گے مگر ان میں سے تھوڑے کہ وہ رجوع کریں گے.اور یہ لوگ دنیا کا مال اور دنیا کی عزت چاہتے ہیں اور خدا سے جو ربّ العالمین ہے نہیں ڈرتے.پس عنقریب ان پر

Page 226

علیہم الذلّۃ ویُمْسُون أخا عَیلۃ، یسألون الناس ولا یملکون بِیْتَ لیلۃٍ، کذٰلک یجزی اللّٰہ الفاسقین.وإذا قیل لہم آمِنوا بما أنزل اللّٰہ من الآیات، قالوا لن نؤمن ولو کان إحیاء الأموات، وطبَع اللّٰہ علی قلوبہم بما کانوا مفترین.وکانوا یستفتحون مِن قبل، فلمّا جاء ہم الفتح وصاب النَبل، أعرضوا عنہ، فویل للمعرضین.وجحدوا بہا واستیقنتہا أنفسہم، فما بالہم إذا ماتوا ظالمین.أبَقِیَ فی کنانتہم مرماۃ، أو فی قلوبہم مماراۃ؟ کلَّا بل مزّقہم اللّٰہ کل ممزّق فلا یتحرّکون إلا کالمذبوحین.ألا یرون کیف یُفحَمون الفینۃ بعد الفینۃ، ویُخزَون کل عام مع رقصہم کالقینۃ، وتراءت سُحُبُہم جَہاما، ونُخُبُہم لئاما، ولمعانُہم ظلاما، وجَنانہم عَباما، فبأیّ آیۃ بعدہ یؤمنون؟ أما أحلّنی ربی محلَّ مَن یبلغ قصوی الطلب، ونقلنی مِن وَقْدِ الکُرب إلی رَوح الطَرب، وأیّدنی وأعاننی، وأہان کل من أہاننی، وأرانی العید، ووفّی المواعید، وأری الفتح کل مَن فتَح ذلت مار دی جائے گی اور بھوکھے ننگے ہو جائیں گے.لوگوں سے مانگیں گے اور رات کا قوت ان کے پاس نہیں ہوگا اسی طرح خدا تعالیٰ فاسقوں کو سزا دیتا ہے.اور جب ان کو کہا جائے کہ جو خدا نے نشان اتارے ان پر ایمان لاؤ کہتے ہیں کہ ہم کبھی ایمان نہیں لائیں گے اگرچہ مردے زندہ کئے جائیں اور ان کے دلوں پر خدا نے مہر لگا دی کیونکہ وہ مفتری تھے اور اس سے پہلے وہ کفار پر فتح چاہتے تھے.پس جبکہ فتح آئی اور تیر نشانہ پر لگا.اس سے انہوں نے کنارہ کیا پس ان پر واویلا ہے اور انہوں نے انکار کیا اور دل ان کے یقین کر گئے پس کیا حال ہے ان کا جب ایسی حالت میں مریں گے کیا ان کے تیر دان میں کوئی تیر باقی رہ گیا ہے؟ یا ان کے دلوں میں کوئی خصومت باقی ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ خدا نے ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور اب تو ایک حرکت مذبوحی ہے.کیا نہیں دیکھتے کہ کیسے وہ وقتاً فوقتاً لاجواب کئے جاتے ہیں اور ہر ایک سال باوجود متکبرانہ رقص کے ذلیل کئے جاتے ہیں اور انکے بادل بغیر پانی کے نکلے اور انکے برگزیدہ لئیم ثابت ہوئے اور انکی روشنی اندھیرا اور انکے دل بے عقل اور بے ادب ثابت ہوگئے.پس کس نشان پر اسکے بعد ایمان لائیں گے.کیا میرے خدا نے مجھے اس محل پر نہیں اتارا جو مرادیابی کا محل ہے اور مجھے بیقراریوں کی آگ سے خوشی کی آسائش تک پہنچایا اور میری تائید کی اور میری مدد کی اور ہر ایک جو میری ذلت چاہتا تھا اس کو ذلیل کیا اور مجھے عید دکھلائی اور وعدوں کو پورا کیا اور ہر ایک آنکھ کھولنے والے کے لئے

Page 227

العین، وطوَی قصۃ کیف وأین، وأتمّ الحجّۃ علی المنکرین.فالحمد للّٰہ الذی کفانی من غیر تدبیری، وجعل لی فرقانا وفرّق بین قبیلی ودبیری.وکنتم لا تُصْغُون إلی العظات، ولا تحفظونہا بل تؤذون بالکلم المحفِظات، فدق اللّٰہ رأسکم بالآیات، وجاء کم سُلطانہ بالرایات، وأدّبکم بالزجر والغضب، لتأخذوا نفوسکم بہذا الأدب.فلا تستنّوا استنان الجیاد، وفکِّروا فی فعل ربّ العباد، لعلکم تُعصَمون کالراشدین.ما لکم تتکایدکم کلماتُ الحق والصواب، وتمیلون من الیقین إلی الارتیاب، ولا تترکون سبل المجرمین؟ وانظروا إلٰی آیات رأیتموہا، وخوارق شاہدتموہا، أہذہ من المکائد الإنسانیۃ، أو من الطاقۃ الربّانیۃ؟ وإنّی عزمتُ علیکم فاشہدوا إن کنتم مقسطین.وإنہ مَن کان أُعطیَ حظًّا من التقویٰ، ولو کمُصاصۃ النویٰ، فلا یکتم شہادۃ أبدا.وأمّا الذی اتّبع الہوَی، وما فتح کو دکھلا دیا اور کیونکر اور کہاں کے قصہ کو لپیٹ دیا اور منکروں پر حجت پوری کر دی.پس اس خدا کو تعریف ہے کہ بغیر میری تدبیر کے میرے لئے کافی ہوگیا اور مجھ میں اور میرے مخالفوں اور دوستوں اور دشمنوں میں ایک امر فارق پیدا کردیا اور تم لوگ نصیحت کی طرف کان نہیں دھرتے تھے اور نصائح کو یاد نہیں رکھتے تھے بلکہ غصہ دینے والے لفظوں کے ساتھ یاد کرتے تھے.پس خدا تعالیٰ نے نشانوں کے ساتھ تمہارے سر کو کوفتہ کیا اور اسکی حجت جھنڈوں کے ساتھ تمہارے پاس آئی اور خدا نے زجر اور غضب کے ساتھ تمہیں ادب دیا ہے تا تم اس ادب پر قائم ہو جاؤ.پس تم تیز گھوڑوں کی طرح سرکشی مت کرو اور خدا تعالیٰ کے فعل میں غور کرو تا تم رشیدوں کی طرح بچ جاؤ.تمہیں کیا ہوا کہ حق اور صواب کے کلمے تم پر گراں گذرتے ہیں اور یقین سے شک کی طرف جاتے ہو.اور مجرموں کی راہ نہیں چھوڑتے اور ان نشانوں کی طرف نظر کرو جن کو تم دیکھ چکے ہو اور ان خوارق کی طرف جن کو تم مشاہدہ کر چکے ہو.کیا یہ انسانی فریبوں سے ہے یا خدا کی طاقت سے اور میں تمہیں قسم دیتا ہوں پس گواہی دو اگر منصف ہو اور وہ شخص جو تقویٰ میں سے کچھ حصہ دیا گیا ہے اگرچہ گٹھلی کے چھلکے کے موافق دیا گیا ہو پس وہ کبھی گواہی کو پوشیدہ نہیں کرے گا مگر وہ شخص جو ہوا و ہوس کا پیرو ہوا اور خدا سے

Page 228

خَشِیَ اللّٰہ الأعلٰی، وما تواضعَ وما استحیَا، فلیُظْہِرْ ما نحا وتمنّی، ولینکرِ اللّٰہَ وما أولَی مِن جدوَی، ومِن نصرتہ والعدوَی، فسوف ینظر ہل ینفعہ کیدہ أو یکون من الہالکین.أیہا الناس، لا تُحقّروا اللّٰہ والآیات، واستغفِروا اللّٰہ وَاعْنُوا لہ من الفُرطات.أجَہِلْتم مآلَ قوم کذّبوا من قبل ہذا الزمان، أو لکم براء ۃ فی زُبر اللّٰہ الدیّان؟ فعُوذوا باللّٰہ مِن ذات صدورکم إن کنتم خاشعین.قُوموا فُرادَی فرادَی، واجتنِبوا مَن عادا، ثم فکِّروا أما أُوتیتم مثل ما أوتیَ قبلکم من الکفّار؟ أما جاء تکم آیات اللہ القہّار؟ أما حُقّرتم بتحقیر حضرۃ الکبریاء؟ أما قُضیتْ دیونکم کالغرماء؟ فَوَحَقِّ المنعِم الذی أحلَّنی ہذا المحلّ، وأری لتصدیقی العقد والحلّ، ووہب لی الولد وأہلک لی العِدا اللئام، وأری فی آیاتہ الإیجاد والإعدام، و أری فی ندوۃ المذاہب إعجاز الإنشاء، ثم أری فی العجل المقتول إعجاز الإفناء، وأظہر أیۃ القول نہ ڈرا اور نہ تواضع کی اور نہ حیا کیا.پس چاہیے کہ جو قصد کیا وہ ظاہر کرے اور چاہیے کہ خدا سے اور اس کی بخشش سے منکر ہو جائے اور اس کی نصرت اور عدوی سے یعنی مدد سے انکار کرے.پس عنقریب دیکھے گا کہ کیا اس کا مکر اس کو نفع دیتا ہے یا مرنے والوں میں سے ہو جاتا ہے.اے لوگو! خدا کی اور خدا کے نشانوں کی تحقیر مت کرو اور اس سے گناہوں کی معافی چاہو اور اس کے سامنے اپنے گناہوں کے خوف سے فروتنی کرو.کیا تمہیں اس قوم کا انجام بھول گیا جنہوں نے تم سے پہلے تکذیب کی.یا خدائے سزا دہندہ کی کتابوں میں تمہیں بَری رکھا گیا ہے.پس اپنے بد خطرات سے خدا تعالیٰ کی طرف پناہ لے جاؤ اگر ڈرنے والے ہو.ایک ایک ہوکر کھڑے ہوجاؤ اور عداوت کرنیوالوں سے پرہیز کرو پھر فکر کرو کہ کیا تمہیں وہ ثبوت نہیں دئیے گئے جو تم سے پہلے کافروں کو دئیے گئے اور کیا تمہارے پاس نشان نہیں آئے.کیا تم خدا کی تحقیر کرنے سے حقیر اور ذلیل نہیں ہو چکے.کیا تمہارے یہ تمام قرض قرضداروں کی طرح ادا نہیں کئے گئے.پس اس منعم حقیقی کی قسم ہے جس نے مجھے اس محل میں وارد کیا.اور میری تصدیق کیلئے باندھا اور کھولا اور مجھے اولاد دی اور میرے لئے دشمنوں کو ہلاک کیا اور اپنے نشانوں میں ایجاد اور اعدام کو دکھلایا اور مذاہب کے جلسہ میں پیدا کرنے کا نشان دکھلایا اور گوسالہ مقتول میں مارنے کا نشان دکھلایا اور قولی نشان اور فعلی

Page 229

وآیۃ الفعل للناظرین، وأری الکسوف والخسوف فی رمضان، وأفحمکم ببلاغتی وعلّمنی القرآن، فسکتّم بل متّم مع غلوّکم فی العناد، وأُخزیتُم ورُمیَت عظمتکم بالکساد، فأصبحتم کالمغبونین.إن ہذا لحق فلا تکونوا من الممترین.أیّہا الناس إنی جئتکم من الربّ القدیر، فہل فیکم من یخشی قہر ہذا الغیور الکبیر، أو تمرّون بنا غافلین؟ وإنّکم تناہیتم فی المکائد، وتمادیتم فی الحِیَل کالصائد، فہل رأیتم إلا الخذلان والحرمان؟ وہل وجدتم ما أردتم غیرَ أن تُضیّعوا الإیمان؟ فاتّقوا اللّٰہ یا ذراری المسلمین! أما تنظرون کیف أتمّ اللّٰہ لی قولہ، وأجزلَ لی طَولہ؟ فما لکم لا تلفِتون وجوہکم إلی آیات الخبیر العلَّام، وتنصّلون لی أسہم الملام؟ أما رأیتم بطلَ زعمِکم، وخطأ وہمکم؟ فلا تقوموا بعدہ للذمّ، ولا تنحتوا فِرْیۃ بعد العَجْم، وکُفّوا ألسنکم إن کنتم متّقین.توبوا إلی اللّٰہ کرجل سُقِطَ فی یدہ، وخشِی مآلہ وسوء مقعدہ، وإن اللّٰہ یحبّ التوّابین.نشان دیکھنے والوں کیلئے دکھلایا اور خدا تعالیٰ نے کسوف اور خسوف تم کو رمضان میں دکھلایا اور میری بلاغت کے ساتھ تم کو ملزم کیا اور مجھ کو قرآن سکھلایا.پس تم چپ ہوگئے بلکہ باوجود عناد کے مرگئے اور تم رسوا کئے گئے اور تمہاری بزرگی کی سرد بازاری ہوگئی.پس زیاں کاروں کی طرح تمنے صبح کی.یہ سچ ہے پس تم شک کرنیوالوں میں سے مت ہو.اے لوگو! میں ربّ قدیر کی طرف سے تمہارے پاس آیا ہوں.پس کیا تم میں کوئی ایسا آدمی ہے جو اس غیور کبیر سے خوف کرے یا غفلت کے ساتھ ہم سے گذر جاؤ گے اور تم نے اپنے مکروں کوا نتہا تک پہونچا دیا اور شکاریوں کی طرح حیلہ بازی میں بڑی دیر لگائی.پس کیا تم نے بجز خذلان اور محرومی کے کچھ اور بھی دیکھا اور کیا تم نے وہ امر پایا جس کو ڈھونڈا بغیر اس کے کہ ایمان کو ضائع کرو.پس اے مسلمانوں کی اولاد خدا سے ڈرو.کیا تم نہیں دیکھتے کہ خدا نے کیسے میری بات کو پورا کیا اور اپنی بخشش میرے لئے بہت دکھلائی.پس تمہیں کیا ہوگیا کہ خدا کے نشانوں کی طرف مونہہ نہیں کرتے.اور میرے لئے ملامت کے تیر پیکان پر رکھتے ہو کیا تم نے اپنے زعم کا بطلان نہیں دیکھا اور اپنے وہم کی خطا تم پر ظاہر نہیں ہوئی.پس اس کے بعد مذمت کیلئے کھڑے مت ہو اور بعد آزمائش کے جھوٹھ کو مت تراشو اور زبانوں کو بند کرو اگر تم متقی ہو اس آدمی کی طرح توبہ کرو جو شرمندہ ہوتا ہے اور اپنے انجام اور بد عاقبت سے ڈرتا ہے اور خدا توبہ کرنیوالوں سے پیار کرتا ہے.

Page 230

وإنّی عُلّمتُ مُذ بورکَتْ قدمی، وأُیِّدَ لِسْنی وقلمی.إنّ الّذین اتّخذوا العناد شِرعۃ، وکَلِمَ الخبثِ نُجعۃ، إنہم سیُخذَلون، ویُغلَبون ویُخسَأون، ولا یلقون بُغْیتہم ولا یُنصَرون وتحرقہم جذوتہم، فہم مِن جذوتہم یُعدَمون.وأمّا الذین سُعِدوا منہم فسیُہدَون بعد ضلالہم، ویتدارکہم رُحْم ربّہم قبل نکالہم، فیستیقظون مُسترجعین، ویترکون حقدًا ولَدَدًا، ویخرّون علی الأذقان سُجّدًا، ربنا اغفِرْ لنا إنّا کنّا خاطئین، فیغفر اللّٰہ لہم وہو أرحم الراحمین.فیومئذ ینعکس الأمر کلہ ویتجلّی اللّٰہ للناظرین.وتری الناس یأتوننا أفواجًا، وتری الرحمۃ أمواجًا، وتتمّ کلمۃ ربّنا صدقا وعدلا، وتری کیف ینیر سراجا، فحینئذٍ تشرق أیّام اللّٰہ وتفنٰی فتن المفسدین.ویُقضَی الأمر بإتمام الحجّۃ والإفحام، وتہلک الملل کلہا غیر الإسلام، وتری القَتَرۃ رہَقتْ وجوہ الکافرین.فما لکم إلی ما تکذّبون؟ أتجعلون رزقکم أنکم تکفرون؟ أغَرَّتْکم کثرۃ علمائکم، اور مجھے اس روز سے جو میرا قدم مبارک کیا گیا.اور میری قلم اور زبان کو مدد دی گئی اس بات کا علم دیا گیا ہے کہ جن لوگوں نے عناد کو اپنا طریقہ پکڑا ہے اور ناپاک کلموں کو غذا ٹھہرایا ہے عنقریب وہ ناکام رہیں گے اور مغلوب کئے جائیں گے اور رد کئے جائیں گے اور اپنی مراد کو نہیں پائیں گے اور مددنہیں دئیے جائیں گے اور ان کا شعلہ انہیں کو جلائے گا اور معدوم کئے جائیں گے مگر وہ جو سعید ہیں وہ گمراہی کے بعد ہدایت یاب کئے جائیں گے اور وبال سے پہلے خدا کا رحم انکو سنبھال لے گا پس انا للّٰہ کہہ کر جاگ اٹھیں گے اور کینے اور جھگڑے چھوڑ دیں گے اور سجدہ کرتے ہوئے ٹھوڑیوں پر گریں گے خدایا ہمیں بخش کہ ہم خطا پر تھے پس خدا انکو بخش دے گا اور وہ ارحم الراحمین ہے.پس اس وقت تمام باتیں الٹ جائیں گی اور خدا نظر کرنیوالوں کیلئے ظاہر ہو جائے گا اور تو لوگوں کو دیکھے گا کہ فوج در فوج ہمارے پاس آتے ہیں اور تو رحمت کو دیکھے گا کہ موجزن ہو رہی ہے اور صدق اور عدل سے ہمارے رب کا کلمہ پورا ہو جائے گا اور تو اسے دیکھے گا کہ کس طرح چراغ کو روشن کرتا ہے.پس اس وقت خدا کے دن چمکیں گے اور مفسدوں کے فتنے فنا کئے جائیں گے اور اتمام حجت سے امر پورا کیا جائے گا اور بجز اسلام ہریک ملّت ہلاک ہو جائے گی.اور تو جھوٹھوں کے منہ پر غبار پائے گا.پس تمہیں کیا ہوگیا اور کب تک تم تکذیب کرو گے.کیا اس الٰہی سلسلہ سے تمہارا یہی حصہ ہے کہ تم تکفیر کرو.کیا تمہارے علماء کی کثرت اور تمہاری

Page 231

وتظاہُر آرائکم؟ وقد رأیتم مبلغ علمکم وعلم فضلائکم، وشاہدتم نقص فہمکم ودہائکم، وآنستم کیف ولّیتم مدبرین.وأیہا النجفیّ لِمَ تؤذینی وقد رأیت آیاتی، وشاہدتَ حُججی وبیّناتی؟ ثم أبیتَ وہذیتَ، فقاتلک اللّٰہ کیف ہذیتَ، وقد رأیت آثار الصادقین.أیہا الثعلب أإنک تخوّفنی وتُغری علیّ ہذہ الدولۃ، وما رأتْ منّا الدولۃ إلا الإخلاص والنصرۃ، واللّٰہ یحفظ عبادہ من مکائد الخبیثین.ثم إنّک اخترت فی کل أمرٍ طریق الدجل والضَیْم، ورعدتَ کالجَہام لا کالغیم، ونطقت کالمعارف العرفاء مع البُعد والرَیْم، فما ہذا أصَحِبْتَ إبلیس ذاتَ العُوَیْم، أو ہذا من سِیَر المتشیّعین؟ وخاطبتنی فی رسالاتک، وقلت إنّی جُبتُ البلاد لمباراتک، وما ہذا إلا زور مبین.بل الحق أنک سافرت لہوًی من الأہواء، وسمعتَ الریف، فطمِعتَ الرغیف کالفقراء، ووردتَ ہذہ الدیار من برہۃ طویلۃ، لا من مدّۃ راؤں کے اتفاق نے تمہیں مغرور کیا ہے اور تم نے اپنے علم اور اپنے فاضلوں کے علم کا اندازہ بھی دیکھ لیا اور تم نے اپنے نقص عقل اور فہم کا مشاہدہ بھی کرلیا اور تم نے دیکھ لیا کہ کس طرح تم نے شکست کھائی.اور اے نجفی تو مجھے کیوں دکھ دیتا ہے اور تو میرے نشانوں کو دیکھ چکا ہے اور میری براہین کو سن چکا ہے.پھر تو نے نافرمانی کی اور بکواس کی پس خدا تجھے ہلاک کرے یہ کیسی بکواس تو نے کی حالانکہ صادقوں کے نشان تونے دیکھ لئے.اے لومڑی کیا تو مجھے ڈراتا ہے اور اس گورنمنٹ کو مجھ پر برانگیختہ کرتا ہے.اور اس گورنمنٹ نے ہم سے بجز اخلاص اور نصرت کے کچھ نہیں دیکھا اور خدا تعالیٰ خبیثوں کے فریبوں سے اپنے بندوں کو نگہ رکھتا ہے.پھر تونے ہریک امر میں دجل اور ظلم کا طریق اختیار کیا ہے.اور اس بادل کی طرح تو نے گرج دکھلائی جس میں پانی نہ ہو.اور تو نے روشناسوں کی طرح کلام کی حالانکہ تو دور اور مہجور ہے.پس یہ کیا طریق ہے کیا تو چند روز ابلیس کی شاگردی میں رہا ہے یا یہ شیعوں کی عادت ہی ہوتی ہے اور تونے اپنے خطوں میں مجھ کو مخاطب کر کے کہا ہے کہ ’’ہم نے تیرے مباحثہ کیلئے دور دراز سفر طے کیا ہے‘‘ یہ سراسر جھوٹھ ہے بلکہ حق بات یہ ہے کہ بعض نفسانی خواہشوں کیلئے تونے سفر کیا ہے اور اس ملک کی تونے حالت اچھی سنی پس روٹیوں کی طمع تجھے دامنگیر ہوئی اور تو ایک مدت دراز سے اس ملک میں ہے نہ کہ تھوڑے

Page 232

قلیلۃ، فانظر إلٰی کذبک یا رئیس المفترین.وأظنّ أن بلادک أمحَلَتْ، أو المتربۃ علیک اشتدّت، ففررت إلی بلاد المخصِبین، لتدور حول البیوت، وتکسب القوت کبنی غبرائَ مُشَقْشِقین.فما أجاء ک إلَّا فقرک إلٰی مغنانا الخصیب، فألقیت بہا جِرانک وآثرت الحبوب علی الحبیب، ثم سترت الأمر یا مضطرم الأحشاء، ومضطرًّا إلی العَشاء، وتجافیتَ عن طرق الصادقین.ہذا غرضک ومُنْیتک من ہذا السفر، ولکنّک سترجع خائبا ولا تری فائزا وجہ الحَضَر؛ فاسترجِعْ علی ضَلّۃ الْمَسْعَی، وإمحال المرعَی، وسوء الرجعَی، واخسَأْ فإنّک من المفسدین.وإنّی التقطتُ لفظَک کلَّ ما نفثتَ، ورددتُ علیک جمیع ما رفثتَ، فَکُلُّ مَا سقط علیک فہو منک یا أخا الغول، ولیس منّا إلا جواب الغویّ الجہول، وما کنّا سابقین.ولو کنت تخاف عِرضک وعزّتک، لہذّبتَ قولک ولفظتک، ولکن کنتَ من السفہاء السافلین.عرصہ سے.پس اے رئیس المفترین اپنے جھوٹ کی طرف دیکھ.اور میں گمان کرتا ہوں کہ تیرے ملک میں قحط پڑ گیا یا تجھ پر فقر و فاقہ غالب آگیا.پس تو اس سبب سے ان لوگوں کے ملک کی طرف دوڑا جو رزق کی کشادگی رکھتے ہیں تاکہ گداؤں کی طرح چلا کر بھیک مانگ کر گذارہ کرے.پس ہمارے سرسبز ملک کی طرف تیرا فقر و فاقہ تجھ کو کھینچ لایا.پس تو نے یہاں اپنی گردن کو ڈال دیا اور وطن کے دوستوں پر اناج کو اختیار کرلیا.پھر تو نے اے بھوکھ کے جلائے ہوئے اور طعام شب کے محتاج حقیقت کو پوشیدہ کر دیا.اور سچوں کی راہ سے برگشتہ ہوگیا.یہ تیری غرض اور آرزو اس سفر سے ہے مگر تو خائب و خاسر رجوع کرے گا اور کامیابی میں اپنا وطن نہیں دیکھے گا.پس اپنی سعی ضائع ہونے پر انا للّٰہ کہہ اور نیز چراگاہ کے قحط پر اور بد بازگشت پر افسوس کر اور دور ہو کیونکہ تو مفسد ہے.اور میں نے جو کچھ تو بولا تھا تیرے ہی لفظ لئے ہیں اور جو کچھ تو نے بدگوئی کی میں نے تجھے واپس دیدی.پس جو کچھ تیرے پر گرا وہ تیری ہی طرف سے ہے اے برادر غول.اور ہماری طرف سے تو صرف جواب ہے.اور ہم نے سبقت نہیں کی اور اگر تجھے اپنی عزت اور آبرو کا اندیشہ ہوتا توتُو مہذبانہ کلام کرتا مگر تو کمینوں اور سفلوں میں سے تھا.

Page 233

وأمّا نحن فلا یُصیبنا ضرّ بکلماتکم، ویرجع إلیکم سہم جہلا تکم، وما تفترون کالفاسقین.وکذٰلک إذا اشتہرَ أَفِیْکۃُ الأفّاکین علی غیر سفّاکین، فأمدتم الہنود کالمحتالین، وقلتم إنّ ہذا الرجل کرجلکم فخُذوہ إن کان من المغتالین.وما قام منکم أحد لنستوفی منہ الیمینَ، وما کان أمر أحدٍ منکم مِن غیر أن یَمِینَ.لا تبطَروا ولا تفرَحوا بکثرۃ جمعکم، فإنّ اللّٰہ قادر علی قمعکم.فاجتنِبوا البطر مُرتاعین.ولا تقولوا إنّ الزحام جمعوا علیک لاعنین، وقد کُذّب الرُسل من قبل وأُوذوا ولُعِنوا، حتی إذا جاء أمر اللّٰہ فسوّد وجوہ المکذّبین.و قد جرت عادۃ اللّٰہ فی أولیائہ، و نُخبِ أصفیائہ، أنہم یؤذَون فی مبدء الأمر، ویُسلَّط علیہم أوباشٌ من الزُمر، فیسبّونہم ویشتِمونہم ویکفّرونہم مستہزئین.ولا یُبالون الافتراء، ویقولون فیہم أشیاء، ویُغری بعضہم بعضا بأنواع المکر والتدابیر، ولا یغادرون مگر ہم پس ہمیں تمہاری باتوں سے کچھ تکلیف نہیں پہنچ سکتی.اور تمہارے تیر تمہاری طرف ہی لوٹ جاتے ہیں اور جو کچھ تم افتراء کرتے ہو وہ تم پر ہی آتا ہے اور اسی طرح جب جھوٹھ باندھنے والوں نے ناحق لوگوں کو خونی بنایا جو خونی نہیں تھے.پس تم نے حیلہ گروں کی طرح ناحق ہندوؤں کو مدد دی اور تم نے کہا کہ جیسا کہ لیکھرام ایسا ہی یہ شخص ہے پس اگر یہ قاتل ہے تو اس کو پکڑلو اور کوئی تم میں سے کھڑا نہ ہوا تاہم اس سے قسم لیتے اور تمہارا اور کوئی کام نہ تھا بغیر اس کے جو جھوٹ بولو.مت اتراؤ اور نہ اپنی کثرت کے ساتھ خوش ہو کیونکہ خدا تمہاری بیخ کنی پر قادر ہے پس ڈرتے ہوئے اترانے سے پرہیز کرو اور یہ مت کہو کہ لوگ تجھ پر بالاتفاق لعنت کرتے ہیں.اور پہلے اس سے رسولوں کی تکذیب کی گئی اور دکھ دئیے گئے اور لعنت کئے گئے.یہاں تک کہ جب خدا کا امر آیا تو مکذبوں کا مونہہ کالا کیا گیا.اور خدا تعالیٰ کی عادت اسکے اولیاء اور برگزیدوں میں اس طرح پر جاری ہوئی ہے کہ وہ اپنے ابتداء امر میں دکھ دئیے جاتے ہیں اور اوباش آدمی ان پر مسلط کئے جاتے ہیں.پس وہ اوباش انکو گالیاں دیتے ہیں اور بدزبانی کرتے ہیں اور ٹھٹھا کرتے ہوئے کافر ٹھہراتے ہیں اور افتراؤں کی کچھ پرواہ نہیں کرتے اور طرح طرح کی باتیں ان کے حق میں کہتے ہیں.اور ان کے بعض بعض کو طرح طرح کے مکروں اور تدبیروں سے اکساتے ہیں اور جھوٹ اور فریب سے

Page 234

شیئا من المکائد والدقاریر، ویفترون مجترئین.ویریدون أن یُطفؤا أنوارہم، ویخرّبوا دارہم، ویحرقوا أشجارہم، ویُضیّعوا ثمارہم، وکذلک یفعلون متظاہرین.ویزمعون أن یدوسوہم تحت أقدامہم، ویُمزّقوہم بحسامہم، ویجعلوہم أحقر المحقّرین.فإذا تمّ أمر التوہین والتحقیر والإیذاء، وظہر ما أراد اللّٰہ من الابتلاء، فیتموّج حینئذ غیرۃُ اللّٰہ لأحبّائہ من السماء، ویطّلع اللّٰہ علیہم ویجدہم من المظلومین، ویریٰ أنہم ظُلموا وسُبّوا وشُتموا وکُفّروا من غیر حق وأُوذوا من أیدی الظالمین.فیقوم لیُتِمَّ لہم سُنّتہ، ویُریہم رحمتہ، ویؤیّد عبادہ الصالحین.فیُلقی فی قلوبہم لیُقبِلوا علی اللّٰہ کلّ الإقبال، ویتضرّعوا فی حضرتہ فی الغدوّ والآصال، وکذلک جرت سُنّتہ فی المقرّبین المظلومین.فتکون لہم الدولۃ والنصرۃ فی آخر الأمر، ویجعل اللّٰہ أعداء ہم طُعْمۃَ الأسد والنمر، وکذٰلک جرت سُنّتہ للمُخلصین.إنہم لا یُضاعون ویُبارَکون، ولا یُحقَّرون ویُکرَمون، کوئی چیز بھی اٹھا نہیں رکھتے اور جرأت کے ساتھ افترا کرتے ہیں اور ارادہ رکھتے ہیں کہ ان کے نوروں کو بجھادیں اور انکے گھر کو خراب کر دیں اور ان کے درختوں کو جلادیں اور ان کے پھلوں کو ضائع کر دیں اور اسی طرح ایک دوسرے کی پنہ ہو کر کرتے رہتے ہیں اور ارادہ کرتے ہیں کہ ان کو اپنے پیروں کے نیچے کچل دیں اور تلوار کے ساتھ ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں اور سب ذلیلوں سے زیادہ ذلیل کر دیں.پس جس وقت توہین اور ایذا کا امر کمال کو پہنچ گیا اور جو ابتلا خدا کے ارادہ میں تھا وہ ہوچکا.پس اس وقت خدا تعالیٰ کی غیرت اس کے دوستوں کیلئے جوش مارتی ہے اور خدا انکی طرف دیکھتا ہے اور انکو مظلوم پاتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہ ظلم کئے گئے اور گالیاں دئیے گئے اور ناحق کافر ٹھہرائے گئے اور ظالموں کے ہاتھ سے دکھ دئیے گئے.پس وہ کھڑا ہوتا ہے تاکہ ان کے لئے اپنی سنت پوری کرے اور اپنی رحمت کو دکھلائے اور اپنے نیک بندوں کی مدد کرے.پس انکے دلوں میں ڈالتا ہے تاکہ پورے طور پر خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں اور صبح شام اس کی جناب میں تضرع کریں اور اسی طرح اس کی سنت اس کے مقربین کی نسبت جاری ہے.پس آخرکار دولت اور مدد ان کے لئے ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ ان کے دشمنوں کو شیروں اور پلنگوں کی غذا کر دیتا ہے اور اسی طرح مخلصوں میں سنت اللہ جاری ہے وہ ضائع نہیں کئے جاتے اور برکت دئیے جاتے ہیں اور حقیر نہیں کئے جاتے اور بزرگ کئے جاتے ہیں

Page 235

ویُحمَدون ولا یُسَبُّون، ویسعی الرجال إلیہم ولا یُترَکون یُدخَلون فی النار، ولکن لا للتبار، ویُولَجون فی اللُجّۃ، ولکن لا للضیعۃ، بل اللّٰہ یُظہِر أنوارہم عند الابتلاء، ثم یُہلِک أعداء ہم بأنواع الإخزاء، فیُتبِّر فی ساعۃٍ ما عَلوا فی مدّۃ، ویبرّئہم مما قالوا، وینزّہہم عما افتعلوا، ویفعل لہم أفعالًا یتحیّر الخَلق برؤیتہا، ویُنزل أمورًا یتزعزع القلوب بہیبتہا، ویُرِی کل أمر کالصول المہیب، ویُقلّب أمر العدا کل التقلیب، ویُری الظالمین أنہم کانوا کاذبین؛ ویؤیدہم بتأییدات متواترۃ، وإمدادات متوالیۃ متکاثرۃ، ویجرّد سیفَہ علی المجترئین.فاعلموا أنہ ہو أرسلنی عند فساد الدیار، وأنہ ہو ربّ ہذہ الدار، وأنہ سینصرنی ویبرّئنی من تُہم الأشرار.فاحفظ قصّتی التی ہی أحسن القصص، وذُق ما نذیقک ولو متجرّعًا بالغصص.أزعمتَ أنی أکید کیدًا للدنیا الدنیّۃ، وأصید صیدًا للأہواء النفسانیۃ؟ أیہا الجہول ! ہذا قیاس قِسْتَ علی نفسک الأمّارۃ، فإنّک من قوم لا یعلمون حقیقۃ اور تعریف کئے جاتے ہیں اور بدگوئی نہیں کئے جاتے اور لوگ انکی طرف دوڑتے ہیں اور چھوڑے نہیں جاتے آگ میں داخل کئے جاتے ہیں مگر نہ ہلاک کرنے کیلئے اور دریا میں داخل کئے جاتے ہیں مگر نہ ہلاک کرنے کیلئے بلکہ ابتلاء کے وقت خدا تعالیٰ انکے نوروں کو ظاہر فرماتا ہے.پھر انکے دشمنوں کو قسما قسم کی رسوائی سے ہلاک کرتا ہے.پس ایک ساعت میں اس تمام عمارت کو تباہ کر دیتا ہے جو ایک مدت میں بنائی گئی تھی پس دشمنوں کے قولوں سے انکو بری کرتا ہے اور انکے بہتانوں سے انکو منزّہ کرتا ہے اور ان کیلئے وہ کام کرتا ہے کہ انکے دیکھنے سے خلقت حیران رہ جاتی ہے اور وہ امور نازل کرتا ہے جن کی ہیبت سے دل کانپ جاتے ہیں اور ہر ایک امر ہیبت ناک حملہ کے ساتھ ظاہر فرماتا ہے اور دشمنوں کے کاروبار کو بالکل الٹا دیتا ہے اور ظالموں کو دکھلاتا ہے کہ وہ جھوٹے تھے.اور متواتر تائیدوں کے ساتھ اور پے در پے امدادوں کے ساتھ مدد کرتا ہے اور بیباکوں پر اپنی تلوار کھینچتا ہے.پس جانو کہ اس نے فساد زمانہ کے وقت مجھے بھیجا ہے اور وہی اس گھر کا مالک ہے.اور وہ عنقریب میری مدد کرے گا اور شریروں کی تہمتوں سے مجھے بری کر دے گا پس میرے اس قصہ کو یاد رکھ کہ جو سب قصوں سے بہتر ہے.اور چکھ جو کچھ ہم تجھے چکھاتے ہیں اگرچہ غصہ کے گھونٹ کے ساتھ.کیا تو نے یہ گمان کیا ہے کہ میں ناچیز دنیا کیلئے فریب کر رہا ہوں یا میں نفسانی خواہشوں کیلئے شکار کھیل رہا ہوں.اے جاہل تونے یہ قیاس اپنے نفس پر کیا ہے کیونکہ تو اس قوم میں سے ہے کہ جو پاکیزگی کی حقیقت

Page 236

الطہارۃ، ویلعنون قومًا مُطہَّرین.أیہا الغویّ! إنا لا نبغی المشیخۃ والعلاء، ولا الأمارۃ والاستعلاء، ولا نمیل إلی الترفّہ والاحتشام، ولا نطلب ما طاب وراق من الطعام، ونجد فی نفسنا أذواقَ حُبّ الرحمٰن، وسُکْرًا فاق صہباء الدِنان، فلا نرید أَرائِکَ منقوشۃ، ولا طنافس مفروشۃ، إنْ نرید إلا وجہ المحبوب، فالحَمْدُ لِلّٰہ علٰی ما أوصلَنا إلی المطلوب، وأرانا ما تغیَّبَ من أعین العالمین.والعجب کلّ العجب أن عبد الحق الغزنوی یسبّنی منذ خمس سنین، ولا یُباحثنی کالصّالحین المتّقین، ولا یتّقی اللّٰہ بعد رؤیۃ الآیات، ولا ینتہی عن الافتراء ات، وسلک مسلک الظالمین.وإنی صبرتُ علی مقالاتہ، وأعرضتُ عن جہلا تہ، حتیٰ غلا فی السبّ والشتم والتوہین، وسمّانی بأسماء الفاسقین، وأشاع اشتہارات، وأری جہلات، وکان من المعتدین.فرأینا أن نردّ علیہ وقومہ ونکسّر کو نہیں جانتے اور پاکوں پر لعنت بھیجتے ہیں.اے گمراہ ہم بزرگی اور برتری کو نہیں چاہتے.اور نہ ہم امیری اور بلندی کے خواہاں ہیں اور نہ ہم آسائش اور حشمت کی طرف جھکتے ہیں.اور نہ ہم اچھے کھانے مانگتے ہیں.اور ہم اپنے دل میں محبت رحمان کا ذوق پاتے ہیں.اور وہ نشہ جو شراب سے بڑھ کر ہے.سو ہم تخت منقش نہیں چاہتے اور نہ فرش جو بچھاتے ہیں طلب کرتے ہیں ہم صرف روئے محبوب چاہتے ہیں.پس خدا کا شکر ہے جس نے ہمیں مطلوب تک پہنچایا اور ہم کو وہ دکھلایا جو دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ تھا.اور تما م تر تعجب یہ ہے کہ عبدالحق غزنوی پانچ برس سے مجھے گالیاں نکال رہا ہے اور صلحاء کی طرح مباحثہ نہیں کرتا اور نشانوں کے دیکھنے کے بعد خدا سے نہیں ڈرتا اور افتراؤں سے باز نہیں آتا.اور ظالموں کے طریق پر چلتا ہے اور میں نے اسکی باتوں پر صبر کیا اور اس کی جاہلیت سے اعراض کیا.یہاں تک کہ اس نے گالی اور توہین میں غلو کیا اور فاسقوں کے ناموں کے ساتھ مجھے پکارا اور اشتہار شائع کئے اور جاہلیت دکھلائی اور تجاوز کرنے والوں میں سے تھا.پس ہم نے مناسب دیکھا کہ اس کا اور اس کی قوم کا رد لکھیں اور

Page 237

نفوسہم الأمّارات، ونذیقہم جزاء السَّبُعِیّۃ وسوئِ الجذبات، وإنّما الأعمال بالنیّات، وإنّ اللّٰہ یعلم ما فی القلوب ویعلم ما فی الأرض والسماوات.وإنّا أسّسنا کل ما قلنا علٰی تقویٰ ودیانۃ، وصدقٍ وأمانۃ، واجتنبنا الرفث وفضول الہذر، وکل شجرۃ تُعرَف من الثمر.ونستکفی بربّ النّاس الافتنانَ، بہذا الوسواس الخنّاس.ونعلم بعلم الیقین أنّہ لیس بذاتہ مبدأ ہذا السبّ والتوہین، بل علّمہ إبلیس آخر من الغزنویین.ولا ریب أنہم ہم العلل الموجبۃ لفتنتہ، ومنبتُ شُعبتِہ، وجرموثۃُ شَذَبَتِہ، وحطبُ تلہُّبِ جذوتِہ، ومحرِّکُ عَوْمَرتہ.یذکرون النعلَین عند المقال، کأنہم یتمنّون ضرب النعال، ویتضاغیٰ رأسہم لِیُدَ َّق بالأحذیۃ الثقال.وما قام عبد الحق ہذا المقام الشاین، إلا بعد ما أرَوہ صِفاتی کمَشایِنَ، فویل لہم إلی یوم القیامۃ، ما سلکوا کأبیہم طرق السلامۃ، وترکوا سبل الصلاح معتدین.وإنہم ما استسرّوا عنّی حینًا من الأحیان، وأعلم أنہم ہم المفسدون ان کے نفوس امارہ کو توڑیں اور ان کو درندگی اور بدجذبوں کی سزا چکھائیں.اور تمام کام نیتوں کے ساتھ ہیں اور خدا تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ دلوں میں ہے اور جانتا ہے جو کچھ زمین و آسمان میں ہے اور ہم نے ہر ایک امر کی تقویٰ اور دیانت پر بنیاد ڈالی ہے اور ہم نے فحش گوئی سے پرہیز کی ہے اور ہر ایک درخت پھل سے پہچانا جاتا ہے.اور ہم اس خناس کے فتنہ میں پڑنے سے خدا تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں.اور ہم یقینی علم سے جانتے ہیں کہ وہ بذات خود اس سبّ اور توہین کا موجب نہیں بلکہ اس کو غزنویوں میں سے ایک اور شیطان نے سکھایا ہے.اور کچھ شک نہیں کہ یہی لوگ اس کے فتنہ کے موجب ہیں اور اس کی شاخ کے منبت اور اسکی شاخ کی جڑ ہیں اور اس کے شعلہ کے اشتعال کے ہیزم ہیں اور اسکی آواز اور فریاد کے موجب بات کے وقت جوتوں کا ذکر کرتے ہیں گویا وہ جوتوں کے خواہشمند ہیں اور ان کا سر فریاد کر رہا ہے تاکہ نعلوں کے ساتھ کوفتہ کیا جائے.اور عبدالحق اس بد مقام پر کھڑا نہیں ہوا.مگر بعد اس کے کہ میری صفات اس کو ان لوگوں نے معائب کی طرح دکھائیں پس قیامت تک ان پر واویلا ہے کہ انہوں نے اپنے باپ کی طرح سلامتی کے طریق کی پیروی نہیں کی اور صلاحیت کو چھوڑ دیا اور وہ کبھی مجھ سے چھپے نہیں اور میں جانتا ہوں کہ وہی مفسد اور ظلم کے

Page 238

وأئمّۃ العدوان بید أنی کنتُ أظن أنہم یتعلّقون بأہداب صالحٍ، ویُحسَبون مِن وُلْدِہ مع کونہم کمثل طالحٍ، فدرأتُ السیئات بالحسنات، ونافستُ فی المصافاۃ.وکنتُ أصبر علی ما آذونی بالجور والجفاء، وأرجو أنہم ینتہون من الغلواء، حتی إذا بلغ شرّہم إلی الانتہاء، وما انتہوا من النُباح والعُواء، فعرفت أنہم المردودون المخذولون، والأشقیاء المحرومون.فہناک أردتُ أن أستفلّ غَرْبَہم، ونذیقہم حربَہم، ولا نُجاوز فی قولنا حد الدیانۃ، بل نردّ إلیہم کلما تہم کردّ الأمانۃ.أیہا الغویّ المسمّی بعبد الجبّار، لِمَ لا تخشی قہر القہّار؟ أتتکبر بلحیۃٍ کثّۃ، أو مَشیخۃٍ مجتثّۃ؟ أتُخفی نفسک کالنساء، وتُغری علینا جَرْوَک للإیذاء؟ أیستسنی الناس بہذا الکید شأنَک، أو یستغزرون عرفانک؟ کلَّا.بل ہو سببٌ لہوانک، وعلّۃ موجبۃ لخسرانک.تحسب نفسک من أخائر الصلحاء، وتسلک مسلک الأشقیاء والسفہاء.تعیش عیشۃ الفاسقین، ثم ترجو امام ہیں.مگر میں یہ خیال کرتا تھا کہ وہ لوگ ایک صالح کے دامن سے وابستہ ہیں.اور اس کی اولاد میں سے شمار کئے جاتے ہیں باوجودیکہ وہ ایک طالح کی طرح ہیں.پس میں نے بدی کا نیکی کے ساتھ بدلہ دیا اور دوستی میں رغبت کی اور میں ان کے جور و جفا پر صبر کرتا رہا اور امید رکھتا تھا کہ وہ اپنے تجاوز سے باز آجائیں گے یہاں تک کہ جب انکی شرکمال تک پہنچ گئی اور بکواس سے باز نہ آئے پس میں نے جان لیا کہ وہ مردود اور مخذول ہیں.اور بدبخت اور محروم ہیں پس اس وقت میں نے ارادہ کیا کہ انکی تیزی کو دور کروں.اور ان کی لڑائی کا مزہ انہیں چکھاؤں.اور ہم اپنی بات میں دیانت سے آگے قدم نہیں رکھتے.بلکہ ہم انکے کلمات امانت کی طرح ان کی طرف رد کرتے ہیں.اے گمراہ عبدالجبار نام تو خدا کے قہر سے کیوں نہیں ڈرتا کیا تو گھن دار داڑھی کے ساتھ تکبر کرتا ہے یا تیرا مشیخت پر ناز ہے کیا تو اپنے تئیں عورتوں کی طرح چھپاتا ہے اور اپنے جرو کو ہمارے پر چھوڑتا ہے.کیا اس مکر کے ساتھ لوگ تیری شان بلند خیال کریں گے یا تیری معرفت بہت خیال کی جائیگی ہرگز نہیں بلکہ وہ تیری ذلت کا موجب ہے اور تیرے خسران کا سبب ہے اپنے تئیں تو بہت نیک آدمیوں میں سے خیال کرتا ہے اور بدبختوں کے طریق پر چلتا ہے فاسقوں کی طرح تو زندگی بسر کرتا ہے پھر آرزو رکھتا ہے

Page 239

أن تُعَدّ من الصالحین.وإذا زرعتَ حَبَّ السمّ المبید، فمن الغباوۃ أن تطمع اجتناء الثمر المفید.انظرْ نظرۃ فی أعمالک، ولا تُہلِکْ نفسک بسوء أفعالک.أیہا الغویّ! الوقت وقت التوبۃ، لا أوان الجدال والخصومۃ.وقد تجلّی ربّنا لیُظہر دینہ علی الأدیان، وقد أشرقت شمس اللّٰہ لإزالۃ ظلام العدوان.فالآن ینظر اللّٰہ إلی کلّ مکذّب بعین غضبَی، فکیف تظن نفسک من أہل الصلاح والتقوی؟ صدء بالک، وأرداک أعمالک ومالک، حتی أحالت نَخْوتُک حلیتَک، وغَیَّرتْ عَذِرۃُ باطنک صورتَک.فمن أمعنَ النظر فی وشمک، وسَرّح الطرف فی مَیْسمک، عرف أنّک کالسِّرحان، لا من نوع الإنسان، ومن الأشرار، لا من الصلحاء الأخیار، فاتق اللّٰہ ولا تکن من الظالمین.انظُرْ ما ہذا المسلک الذی سلکتَ، واتق فإنک ہلکت ہلکتَ.أُوتیت الدنیا فما شکرتَ، وذُکّرت فما تذکّرت.تُبْ أیہا الغویّ اللئیم، کہ نیک بختوں سے شمار کیا جائے اور ہرگاہ کہ تو نے زہر کے بیج کو بویا پس یہ بیوقوفی ہے کہ تو مفید پھل چننے کی امید رکھے اپنے اعمال کو ذرا دیکھ اور برے کاموں سے اپنے تئیں ہلاک مت کر.اے گمراہ یہ وقت توبہ کا وقت ہے نہ جنگ اور خصومت کا وقت اور ہمارے رب نے تجلی کی ہے تا اپنے دین کو دوسرے دینوں پر غالب کرے اور خدا کا سورج اندھیرے کے دور کرنے کیلئے چمک اٹھا ہے پس اس وقت خدا تعالیٰ ہر ایک مکذب کی طرف غضب کی نظر سے دیکھ رہا ہے پس کیونکر تو اپنے تئیں اہل صلاح میں سے خیال کرتا ہے تیرا دل زنگ پکڑ گیا اور تیرے عملوں اور تیرے مال نے تجھے ہلاک کیا یہاں تک کہ تیرے تکبر نے تیری شکل کو بدل ڈالا اور تیری باطنی پلیدی نے تیری صورت کو متغیر کردیا پس جس نے تیرے نقش و نگار کو امعان نظر سے دیکھا اور تیرے چہرہ کی تفتیش کے لئے آنکھ کو چھوڑا وہ جان لے گا کہ تو ایک بھیڑیا ہے نہ انسان کی قسم اور شریروں میں سے ہے نہ نیکوں اور صالحوں میں سے پس خدا سے خوف کر اور ظالموں میں سے نہ ہو.دیکھ یہ کیا طریق ہے جو تو نے اختیار کیا اور ڈر کہ تو ہلاک ہوگیا تجھے دنیا دی گئی پس تو نے شکر نہیں کیا اور تجھے یاد دلایا گیا پس تو نے یاد نہیں کیا.توبہ کر اے گمراہ

Page 240

وقد شِخْتَ واستشنَّ الأدیمُ، وقرُب أن یتأوّد القویم، وحان الوقت الوخیم.ما لک لا تعنو ناصیتک لربّ العباد، ولا تترک طرق الخبث والفساد؟ ألا تؤمن بیوم المَعاد، أو تنکر وجود اللّٰہ القادر علی الإعدام والإیجاد؟ فأصلِحْ نفسک قبل أن تأکلک الدودُ، ویجیئک الأجل الموعود، وبادِرْ لما یحسن بہ المآل، قبل أن یأخذک الوبال، وحَیَّہَلْ بالتوبۃ قبل أن تنخر عظمک فی التربۃ، فإن اللّٰہ یحبّ التوابین ویحبّ المتطہرین.وإنما الوُصْلۃ إلی الرحمٰن.التقویٰ وتطہیر الجنان.فاتّق اللّٰہ ولا تکن من المجترئین.ثم نرجع إلی عبد الحق، الذی تکبر ووثب کالبقّ، فاعلم یا عدوَّ الصالحین، ومکفِّرَ المؤمنین، إنک آذیتنی، فقاتلَک اللّٰہ کیف آذیتنی، وعادیتنی، فتبًّا لک لما عادیتنی.أما کنتُ من المہلِّلین المسلمین؟ أما کنتُ من المصلّین الصائمین؟ فکیف کفّرتنی قبل تفتیش الأحوال، وأفَحْتَ دمَ الصدق بأباطیل المقال؟ اور تو بوڑھا ہوگیا اور چمڑا پرانا ہوگیا اور وقت نزدیک آگیا کہ پیٹھ ٹیڑھی ہو جائے اور وقت بھاری نزدیک آگیا.کیا سبب ہے کہ تیری پیشانی خدا تعالیٰ کے لئے نہیں جھکتی اور خبث اور فساد کے طریقوں کو تو نہیں چھوڑتا.کیا تو قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتا.یا تو خدا تعالیٰ کے وجود پر ایمان نہیں رکھتا جو مارنے اور پیدا کرنے پر قادر ہے پس قبل اس کے جو تجھ کو کیڑے کھالیں اور موت آجائے اپنے نفس کی اصلاح کر اور ان چیزوں کے حصول کیلئے جلدی کر جس سے انجام اچھا ہو جاوے قبل اس کے جو تجھ کو وبال پکڑلے اور توبہ کی طرف جلدی کر قبل اس کے جو قبر میں تیری ہڈی بوسیدہ ہو جائے اور خدا تعالیٰ توبہ کرنیوالوں اور پاکیزگی ڈھونڈنیوالوں کو دوست رکھتا ہے.اور خدا کی طرف وسیلہ دو ہی چیزیں ہیں.تقویٰ اور دل کا پاک کرنا.پس خدا سے ڈر اور دلیروں میں سے مت ہو.پھر ہم عبدالحق کی طرف رجوع کرتے ہیں جس نے تکبر کیا اور پشہ کی طرح کودا ہے پس اے عدو صالحین اور مومنوں کے کافر کہنے والے تجھے معلوم ہو.تو نے مجھے دکھ دیا پس خدا تجھے ہلاک کرے تونے یہ کیسا دکھ دیا اور تونے مجھ سے دشمنی کی پس خدا تجھے تباہ کرے تونے یہ کیوں دشمنی کی کیا میں کلمہ گو اور مسلمان نہیں تھا؟ کیا میں نماز پڑھنے والوں اور روزہ رکھنے والوں میں سے نہیں تھا.پس تو نے اصل حقیقت کی تفتیش سے پہلے کیونکر مجھے کافر ٹھہرا دیا.اور باطل باتوں کے ساتھ تونے سچائی کا خون کیا.

Page 241

وعزوتَ فتح المباہلۃ إلی نفسک الأمّارۃ، مع أنّ اللّٰہ أذلّک وأراک سوء العاقبۃ.وکان مرام دعائک المتہالک، أَنْ یجعلنی اللّٰہ کالہالک، فسوّد اللّٰہ وجہک وأسلمَک إلی لَحْدِ الذلّۃ، وأَدْخلک فی جَدَثٍ أضیقَ مِن سمّ الإبرۃ، وأکرمنی إکرامًا کثیرا بعد المباہلۃ، وأعزّنی وخصّنی بأنواع النعمۃ، حتی ما انقطع آثارہا إلٰی ہٰذا الوقت من الحضرۃ، وإن فیہا لآیات للمتوسّمین.وأنت رأیت کلَّ رفعتی وعلا ئی، ثم انتصبتَ بترک الحیاء بسبّی وإزرائی.وکیف نأمن حصائد ألسن الفجّار، وما نجا الرسل کلہم من کَلِمِ اللئام الکفّار.ولکن علیک أن تعی منّی أن غوائل کلامک علیک، وأنّ رأسک تلیَّن بنعلیک، وما ظلمتنا ولکن ظلمت نفسک یا أجہل الجاہلین.أیہا الجہول! تحارب ربک ولا تخشاہ، وتختار الفسق و لا تتحاماہ.کلما تواضعتُ استکبرتَ، وکلما أکرمتُ حقّرتَ.اور تونے فتح مباہلہ کو اپنی طرف منسوب کیا باوجود اس بات کے کہ خدا نے تجھے ذلیل کیا اور بدانجام تجھے دکھلایا اور تیری بہت بہت دعا کا یہ منشاء تھا کہ خدا مجھے مرنے والے کی طرح کرے.پس خدا نے تیرا منہ کالا کیا اور ذلت کی قبر میں تجھ کو سونپا اور ایسی قبر میں تجھ کو داخل کیا جو سوئی کے ناکہ سے تنگ تر تھی اور بعد مباہلہ مجھے بہت بزرگی بخشی اور قسما قسم کی نعمت سے مجھے خاص کیا یہاں تک کہ اس وقت تک اس کے آثار منقطع نہیں ہوئے.اور اس میں غور کرنے والوں کے لئے نشان ہیں اور تو نے میری تمام بلندی کو دیکھا پھر حیا کو ترک کر کے میری بدگوئی میں تو مشغول ہوگیا اور ہم بدکاروں کی زبان سے کیونکر نجات پا سکیں اور کسی رسول نے لئیموں کے کلموں سے نجات نہیں پائی لیکن تیرے پر واجب ہے کہ میری یہ بات یاد رکھے کہ تیری کلام کے آفات تجھ پر ہیں اور تیرا سر تیرے ہی جوتوں کے ساتھ نرم کیا جائے گا اور تونے ہم پر ظلم نہیں کیا بلکہ اپنے نفس پر ظلم کیا.اے جاہل تو اپنے رب سے لڑائی کرتا ہے اور نہیں ڈرتا اور بدکاری کو اختیار کرتا ہے اور نہیں پرہیز کرتا.جس قدر میں نے تواضع کی تو نے تکبر کیا اور جس قدر میں نے تیری بزرگی کی تو نے تحقیر کی.

Page 242

وما کان ہذا إلَّا لضیق ربعک، وقساوۃ زرعک، ثم کان قدرُ اللّٰہ فیک افتضاحک، فما اخترتَ طریقًا کان فیہ صلاحک، وما أقصرتَ عن السبّ والإیذاء، وآذیتنی فبلّغت الأمر إلی الانتہاء، والآن أکتب جواب اعتراضاتک، لیعلم الناس تعصّبک وجہلا تک، ولتستبین سبیل المجرمین.فمنہا ما ہذیتَ فی قصۃ آتم، وترکتَ الحیاء واخترت الإفک الأعظم.وقد علمتَ أن آتم قَدْ مات، وتمّ فیہ نبأُ اللّٰہ فلحِق الأمواتَ، وصدّق اللّٰہ فیہ قولی وأخزی القتّاۃ، فلا تغضّ عینک کالعمین.وأمّا ما تکلمتَ فی موتہ بعد المیعاد، فہذا حُمقک یا قُضاعۃَ العناد.أیّہا الجہول! کان موت ’’آتم‘‘مشروطًا بعدم الرجوع، وقد ثبت أنہ خاف فی المیعاد وزجّیٰ أوقاتہ بالخوف والخشوع، فلما انقضی میعادہ وعاد إلی سیرۃ الإنکار، أخذہ نکال اللّٰہ ومات فی سبعۃ أشہر اور یہ سب تیری تنگدلی اور سخت دلی کے سبب سے ہوا.پھر خدا کی تقدیر یہ تھی کہ تو رسوا ہو پس تونے کوئی طریق صلاحیت کا اختیار نہ کیا اور تونے کوئی دقیقہ گالی اور ایذا کا اٹھا نہیں رکھا اور تونے مجھے دکھ دیا پس امر کو انتہا تک پہنچادیا اور اب میں تیرے اعتراضات کا جواب لکھتا ہوں تاکہ لوگ تیری جاہلیت پر اطلاع پاویں اور تاکہ مجرموں کی راہ کھل جائے.پس ایک وہ اعتراض ہے جو تونے قصہ آتھم میں بکواس کی.اور حیا کو ترک کرکے جھوٹ باندھا ہے.اور تو جانتا ہے کہ آتھم مرگیا اور اس میں خدا کی خبر پوری ہوئی اور وہ مردوں کو جاملا.اور خدا نے اس میں میرے قول کو سچا کیا اور نکتہ چینی کو رسوا کیا پس اندھوں کی طرح آنکھیں بند مت کر اور جو کچھ تو نے یہ گفتگو کی ہے کہ وہ میعاد کے بعد فوت ہوا ہے پس یہ تیری حماقت ہے اے کلب العناد.اے نادان آتھم کی موت عدم رجوع کے ساتھ مشروط تھی اور ثابت ہوگیا کہ وہ میعاد میں ڈرتا رہا اور اپنے وقتوں کو خوف میں گذارا پس جبکہ اس کی میعاد گذر گئی اور اس نے خصلت انکار کی طرف رجوع کیا پس خدا کے عذاب نے اس کو پکڑا اور آخری اشتہار سے

Page 243

من آخر الاشتہار.ومکَر النصاری مکرًا کُبّارًا، واشتہروا خلاف ما وارا، وأمّا 'آتم' فما تألّی وما بارا.وقد کان ذکرُ مکرہم فی 'البراہین'، وکان فیہا ذکرُ فتنتہم المتطائرۃ، وبیان فِریتہم المنسوجۃ، قبل ظہور ذالک الواقعۃ.فانظر إلی دقائق علم اللّٰہ الخبیر، وحکم اللّٰہ اللطیف القدیر، ولا تہذِ کالمستعجلین.ألا تری إلی شریطۃ کانت فی نبأ 'آتم'، واللّٰہ أحقُّ أن یوفی شرطَہ الذی قدّم، فاتّق اللّٰہ واجتنبْ بہتانًا أعظم.ألا تُنزّہ نفسک عن نقض الشرائط یا عدوّ الأخیار، فکیف لا تُنزِّہ السبّوحَ القدّوس عن تلک الأقذار؟ وتعلم أنّ 'آتم' ما تفوّہَ بلفظۃ فی أیام المیعاد، وترک سیرتہ الأولٰی وما أظہر ذرّۃ من العناد، بل أظہر رجوعہ من الأقوال والأفعال، والحرکات والسکنات والأحوال، وما أثبتَ ما ادّعٰی، مِن صولِ الحیّۃ وغیرہا من البہتانات الواہیۃ وما تألّٰی، بل أعرض وولّٰی، وشہد قوم من الأشہاد، أنہ أنفد أیّام المیعاد، سات مہینہ میں مرگیا اور نصاریٰ نے بڑا مکر کیا اور خلاف اس امر کے مشہور کیا جو آتھم نے چھپایا مگر آتھم نے نہ قسم کھائی اور نہ میدان میں آیا اور نصاریٰ کے مکر کا ذکر براہین میں موجود ہے اور اس میں اس فتنہ اڑنے والے کا ذکر تھا اور اس باہم بافتہ جھوٹ کا قبل از واقعہ بیان تھا پس خدا تعالیٰ کے دقائق علم پر نظر ڈال اور اس قدیر اور لطیف کی حکمتوں کو دیکھ اور جلد بازوں کی طرح بکواس مت کر کیا تو اس شرط کی طرف نہیں دیکھتا جو آتھم کی پیشگوئی میں تھی اور خدا سب سے زیادہ یہ حق رکھتا ہے کہ اپنی شرط کو جو پہلے ذکر کر دی پورا کرے پس خدا سے ڈر اور بہتان سے پرہیز کر کیا تو اپنے نفس کو شرائط کے توڑنے سے پاک نہیں سمجھتا پس کس طرح اس سبّوح قدوس کو ان پلیدیوں سے ملوث کرتا ہے اور تو جانتا ہے کہ ایّام میعاد میں آتھم کوئی بات زبان پر نہیں لایا اور پہلی سیرت کو اس نے چھوڑ دیا اور ایک ذرہ عناد ظاہر نہ کیا بلکہ اپنے رجوع کو اقوال اور افعال اور حرکات اور سکنات اور حالات سے ظاہر کیا.اور سانپ کے حملہ وغیرہ بہتانات کو وہ ثابت نہ کر سکا اور قسم نہ کھائی بلکہ کنارہ کیا اور منہ پھیرا اور ایک قوم نے گواہوں میں سے گواہی دی کہ اس نے میعاد کے دنوں کو

Page 244

بالخوف والارتعاد.ثم إذا أنکر بعد الأشہر المعیّنۃ، فأخذہ صولُ المَرْضۃ، وأوصلہ الموت إلی التربۃ.فلو کان ہذا الإنکار فی المیعاد، لمات فیہ بحکم ربّ العباد، وما کانَ اللّٰہ أن یأخذہ مع خوف استولٰی علی مُہْجتہ، ولا یبالی ما ذکر فی شریطتہ، إنہ لا یُخلِف ما وعد، ولا یطوی ما مہَد، وإنہ لا یظلم الناس حتی یظلموا أنفسہم، وإنہ أرحم الراحمین.وإن کنتَ لا تنتہی من التکذیب کاللئام، وتظنّ أنّ الفتح کان للنصاری لا للإسلام، فعلیک أن تُقسِم باللّٰہ ذی العزّۃ، وتشہد حالفا أنّ الحق مع النصاری فی ہذہ القضیّۃ، وتدعو اللہ أن یضرب علیک ذلّۃً وخزیًا من السماء، إن کان الأمر خلاف ذلک الادّعاء.فإن لم یُصبک بعد ذالک ہوان وذلّۃ إلٰی عام، فأُقِرُّ بأنی کاذب وأحسبک کإمام.وإن لم تُقسِم خوف اور لرزہ میں گذارا پھر جب معیّن دنوں کے بعد منکر ہوگیا پس اس کو مرض کے حملہ نے پکڑا اور موت نے قبر تک اسکو پہنچایا پس اگر یہ انکار میعاد کے اندر ہوتا تو آتھم میعاد کے اندر ہی مرتا اور خدا تعالیٰ ایسا نہ تھا کہ باوجود اس کے کہ آتھم کی جان پر خوف غالب رہتا پھر بھی اس کو پکڑ لیتا اور اپنی شرط کی کچھ پرواہ نہ رکھتا وہ اپنے وعدہ کے برخلاف نہیں کرتا اور جو بچھایا اس کو نہیں لپیٹتا وہ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا جب تک وہ خود ظلم نہ کریں اور وہ ارحم الراحمین ہے.اور اگر تو تکذیب سے بازنہیں آتا اور خیال کرتا ہے کہ فتح نصاریٰ کے لئے ہوئی نہ اسلام کیلئے پس تیرے پر لازم ہے کہ تو جناب باری تعالیٰ کی قسم کھا جائے اور قسم کھا کر کہے کہ اس مقدمہ میں حق نصاریٰ کے ساتھ ہے اور خدا تعالیٰ سے دعا کرے کہ وہ آسمان سے تیرے پر ذلت کی مار نازل کرے.اگر حقیقت امر خلاف واقعہ ہو پس اگر بعد اس کے ایک برس تک تجھ کو ذلت اور رسوائی نہ ہوئی پس میں اقرار کرلوں گا کہ میں جھوٹا ہوں اور تجھ کو امام کی طرح جانوں گا اور اگر تو قسم نہ کھائے

Page 245

ولم تنتہِ فلعنۃ اللّٰہ علیک یا عدوّ الإسلام.إنّک ترید عزۃ نفسک لا عزۃ خیر الأنام.وأمّا ما ذکرت أنّ النصاری ومثلک من الیہود، لعنونی فی أمر ’’آتم‘‘وحسبونی کالمردود، فاعلم أیہا الممسوخ أن الحُکم علی الخواتیم، وکذالک جرت عادۃ اللّٰہ من القدیم.إن أولیاء اللّٰہ وأصفیاء ہ یُؤذَون فی ابتداء الحالات، ویُلعَنون ویُکفَّرون ویُذکَرون بأنواع التحقیرات، ثم یقوم لہم ربہم فی آخر الأمر، ویبرّئہم مما قالوا وینجّیہم من ألسن الزمر، وکذالک یفعل بالمحبوبین.أما قرأت أن العاقبۃ للمتّقین؟ فالفرح بمبدأ الأمر من سِیَرِ الفاسقین، واللعنۃ التی تُرسَل إلی أہل الفلاح والسعادۃ، تُرَدّ إلی اللاعنین، فتظہر فیہم آثار اللعنۃ.فالإبشار بمثل ذلک اللعن ندامۃ فی الآخرۃ، وجعلُہ أمارۃ الفتح من أمارات الحمق والسفاہۃ، بل الفتح فتحٌ یُبدیہ اللّٰہ لعبادہ فی مآل الأمر والعاقبۃ، وکذٰلک اور نہ باز آئے پس تجھ پر لعنت اے دشمن اسلام تو اپنے نفس کی عزت چاہتا ہے نہ عزت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی.مگر یہ جو تونے ذکر کیا کہ نصاریٰ اور تیرے جیسے یہودیوں نے آتھم کے مقدمہ میں میرے پر لعنت کی اور مردود سمجھا پس اے مسخ شدہ سمجھ کہ حکم خاتمہ پر ہوتا ہے اور اسی طرح قدیم سے عادۃ اللہ جاری ہے بہ تحقیق اسکے اولیاء اور برگزیدہ اوائل میں ستائے جاتے ہیں اور لعنت کئے جاتے ہیں اور کافر ٹھہرائے جاتے ہیں اور طرح طرح کی تحقیر کی جاتی ہے پھر ان کا رب ان کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے اور ان کو مخالفین کے قول سے بری کر دیتا ہے اور اسی طرح وہ محبوبوں سے کرتا ہے.کیا تو نے نہیں پڑھا کہ انجام کار متقیوں کیلئے ہے.پس ابتداء حالات سے خوشی کرنا بدکاروں کی سیرت میں سے ہے.اور وہ لعنت جو اہل فلاح اور سعادت کی طرف بھیجی جاتی ہے وہ لعنت کرنیوالوں کی طرف واپس بھیجی جاتی ہے پس انمیں لعنت کی نشانیاں ظاہر ہو جاتی ہیں پس ایسی لعنتوں کے ساتھ خوش ہونا انجام کار ندامت ہے.اور اسکو فتح کی نشانیوں میں سے قرار دینا حمق اور سفاہت کی نشانیوں میں سے ہے بلکہ فتح وہ فتح ہے جس کو خدا تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے انجام اور خاتمہ امور پر ظاہر فرماتا ہے.اور اسی طرح

Page 246

الخزی خزیُ الخاتمۃ، ولا اعتبار لمبادیٔ الأمور، بل الحکم کلہ علی آخر المصارعۃ، وعلیہ مدار العزۃ والذلّۃ، والفتح والہزیمۃ.وکلّ لعنٍ لم یُبْنَ علی الواقعۃ الصحیحۃ، فہو بلاء علی اللاعن وعذاب علیہ فی الدنیا والآخرۃ.والعاقلون یتدبّرون الخاتمۃ والمآل، والسفیہ یفرح بمبادی الأمر ویخدَع الجُہّال.فانظر الآن وتطلّب أین’’آتم‘‘عمّک الکبیر؟ فلو لم یمت فأین ذہب أیہا الشریر؟ وتعلم أنّ اللّٰہ ذکر شرطًا فی إلہامہ فرعاہ، فأخَّر موت’’آتم‘‘لخوف عراہ، وأکمل شرط نبئہ ووفّاہ.ثم إذا تمرّد أرداہ، فتمّ ما قال ربّنا وفاح ریّاہ، وأذلّ اللّٰہ من کذّب وأخزاہ، وحصحص الحق وبورک مغناہ، فہذہ شقوتک إن کنت ما تراہ.رسوائی وہ ہے جو انجام کار رسوائی ہو اور مبادی امور کا کچھ اعتبار نہیں بلکہ تمام حکم کشتی کے انجام پر ہے اور اس پر مدارعزت اور ذلت اور فتح اور شکست کا ہے اور ہر ایک لعنت جس کی واقعہ صحیحہ پر بنا نہیں وہ لعنت کرنے والے پر بلا اور دنیا اور آخرت میں اسپر عذاب ہے اور عقلمند لوگ خاتمہ اور انجام کو سوچتے ہیں اور نادان ابتدائے حالات سے خوش ہوتا ہے اور نادانوں کو دھوکہ دیتا ہے پس دیکھ اور ڈھونڈ کہ اس وقت آتھم تیرا چچا کہاں ہے اور اگر نہیں مرا تو اے شریر کہاں گیا اور تو جانتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایک شرط اپنے الہام میں ذکر فرمائی پس اسکی رعایت کی.پس اسلئے کہ آتھم ڈرا اس کی موت میں تاخیر ڈال دی اور اپنی شرط کو پورا کیا پھر جب آتھم سرکش ہوگیا تو اسکو ہلاک کیا پس ہمارے رب کا فرمودہ پورا ہوگیا اور اسکی خوشبو پھیل گئی اور خدا نے مکذب کو ذلیل کیا اور رسوا کیا اور حق ظاہر ہوگیا اور اس کا گھر مبارک کیا گیا.پس یہ تیری بدقسمتی ہے اگر تو اس کو نہیں دیکھتا.یاقرد غزنی این آتم سل عشیرتہ ھَل مَاتَ اَوْ تُلْفِیہِ حَیًّا بین احباب اے غزنی کے بندر آتھم کہاں ہے اسکے قبیلہ سے پوچھ کیا وہ مرگیا یا تو اسکو اسکے دوستوں میں زندہ پاتا ہے ھل تَمّ ما قلنا من الرحمٰن فی الخصم ھَل حَان اَوْ فِی حَیْنِہٖ شک لمرتاب کیا اس دشمن میں ہمارے خدا کی بات پوری ہوگئی کیا وہ مرگیا یا اسکے مرنے میں شک کرنیوالے کو شک ہے

Page 247

ان کُنْتَ تُبصر ایّھا المحجوبُ من بخل فانظر الی الشرط الذی اَلْغیت لعتابی اے محبوب بوجہ بخل اگر تجھے کچھ نظر آتا ہے پس پیشگوئی کی اس شرط کو دیکھ جسکو تو نے نظر انداز کردیا ہے قَدمَاتَ آتم ایّھا اللّعّان من فسق اِخْسَأْ فانّ اللّٰہ صدّقنی واحبابی اے لعنت کرنے والے آتھم مرگیا دفع ہو کہ خدا نے ہماری باتیں پوری کیں انظر الٰی نبأ تجلّی الاٰن کذکاء اردی المھیمن عجل اَھْل الوید بعذاب اس پیشگوئی کی طرف دیکھ جو اب آفتاب کی طرح پوری ہوگئی خدا نے ہنود کے گو سالہ کو عذاب کے ساتھ ہلاک کیا للصدق فیہ لارباب النُہی ارج یشفی الصدور و یروی قلب طُلَّا ب اس پیشگوئی میں صدق کی ایک خوشبو ہے سینوں کو شفا بخشتی ہے اور دل کو سیراب کرتی ہے عَیْنٌ جرت لریاض دین اللّٰہ تونسھا عین الرجال ولکن کُنتَ ککلاب یہ چشمہ دین کے باغ کے لئے رواں ہوا ہے اس کو مَردوں کی آنکھ دیکھتی ہے مگر تو کتوں کی طرح تھا ثم إن کنتَ تجعل لعنۃ الخَلق دلیلا علٰی سخط ربّ العالمین، ففکِّرْ فی’’عبد اللّٰہ‘‘ الذی تحسبہ من الصالحین، کیف انصبّ علیہ مطر الذلّۃ والہوان واللعنۃ، وکیف صار ذلیلا محقَّرًا مِن أیدی العلماء وعامّۃ البریّۃ، وکیف أخرجوہ من بلادہ کالکَفَرۃ الفَجَرۃ، حتّٰی اشتدّت علیہ الأہوال، وصفرت الراحۃ ونُہب المال، وأعوَلَ العیال، وعُذِّب بالعذابالموقع، ودُقِّق بالفقرالمُوقع.وطالما احتذی الوَجَی، واغتذَی الشَجَی، واستبطن الجَوَی.وکذٰلک أنفدَ عمرَہ فی الکُرَب، وانتیاب پھر اگر تو خلقت کی لعنت کو خدا کے غضب کی دلیل ٹھہراتا ہے پس عبداللہ کے حال میں سوچ جسکو تو صلحاء میں سے گمان کرتا ہے کس طرح اُسپر ذلت اور لعنت کی بارش پڑی اور کیونکر علماء کے ہاتھ سے ذلیل اور حقیر ہوا اور کیونکر اس کو اس ملک میں سے کافروں کی طرح نکال دیا یہاں تک کہ خوف اس پر غالب ہوا اور ہاتھ خالی ہوگیا اور مال لوٹا گیا اور عیال فریاد کرنے لگا.اور ایسے عذاب سے معذّب کیا گیا جو اسکو بُرا معلوم ہوتا تھا اور اس محتاجی کے ساتھ پیسا گیا جو زخمی اور مجروح کرنیوالی تھی.اور ایک مدت تک پیر گھساتے پھرنا اس کیلئے بمنزلہ جوتی کے تھا اور غم کھانا اسکی غذا تھی اور بھوک کو پوشیدہ رکھتا تھا اور اسی طرح اس نے بیقراری میں عمر گذاری اور

Page 248

النُوَبَ، ثم ہاجر إلی الہند مخذولًا ملومًا، وعاش مطعونًا مکلومًا.ما زال بہ قطوب الخطوب، وحروب الکروب، ولعنُ اللاعنین، وطعن الطاعنین، حتی تواترت المِحَنُ، وتکاثرت الفتن، وأقوَی المجمع، ونبا المرتَع.وکان یُداس تحت ہذہ الشدائد حتی فاجأہ الموت، وأخذہ کالصائد الفوتُ، وأدخلہ فی الزمر الفانیین.فما ظنّک أکان ہو من الصلحاء أو من الفاسقین؟ فثبت أنّ لَعْن الفاسقین وأہل العُدوان، لا یدلّ علی سخط الرحمٰن، وإیذاء المفسدین وأہل الشرور، لا ینقُص مراتب أہل العمل المبرور، بل یکون لعنہم وسیلۃَ رُحمِ حضرۃ الکبریاء، ووُصلۃ الاجتباء والاصطفاؤکذلک بشّرنی ربی فی تلک الفتنۃ، وإن شئتَ فارجع إلی 'البراہین الأحمدیۃ' وانظُرْ کیف أخبر ربّی فیہا عن ہذہ القصۃ، وأنبأَ مِن نبأ 'آتم' وفتن النصاریٰ ویہود ہذہ الملّۃ، وأخبر أن النصاری یمکرون بک فی الأزمنۃ الآتیۃ، ویہیّجون فتنۃ عظیمۃ پے در پے مصیبتوں میں وقت گذاری کی.پھر ملک ہند کی طرف اس حالت میں ہجرت کی کہ نشانہ ملامتوں کا تھا.اور مطعون اور مجروح ہونے کی حالت میں زندگی گذاری.ہمیشہ حوادث سے ترش رو ہونا اسکے نصیب تھا اور بیقراریاں اس سے لڑ رہی تھیں اور لعنت کرنیوالوں کی لعنت اور طعن کرنیوالوں کا طعنہ.یہاں تک کہ محنتیں متواتر ہوئیں اور فتنے بہت ہوئے اور مجمع خالی ہوگیا.اور چراگاہ دور جاپڑی اور ان مصیبتوں کے نیچے کچلا جا رہا تھا کہ یک دفعہ اس کو موت آگئی اور شکاری کی طرح اس کو وفات نے پکڑ لیا اور فانیوں میں اس کو داخل کر دیا.پس تیرا کیا گمان ہے.کیا وہ نیک تھا یا بدکار.پس ثابت ہوا کہ بدکاروں اور ظالموں کی لعنت خدا تعالیٰ کے غضب پر دلالت نہیں کرتی اور مفسدوں کا دکھ دینا صاحب اعمال صالحہ کے مراتب کو کم نہیں کرتا.بلکہ ان کی لعنت خدا تعالیٰ کے رحم کا وسیلہ ہو جاتی ہے.اور برگزیدگی کا سبب بن جاتی ہے اور اسی طرح آتھم کے فتنہ میں مجھے میرے خدا نے بشارت دی.اور اگر چاہے تو کتاب براہین احمدیہ کی طرف رجوع کر اور دیکھ کس طرح خدا نے اس میں اس قصہ کی خبر دی اور اس پیشگوئی سے خبر دی جو آتھم کے بارے میں تھی اور نصاریٰ کے فتنوں اور اس ملت کے یہود کے فتنہ سے خبر دی اور یہ خبر دی کہ نصاریٰ آئندہ زمانہ میں تجھ سے ایک مکر کریں گے اور ایک فتنہ عظیمہ برپا کریں گے.

Page 249

ویکونون معہم علماء ہذہ الأمّۃ.فہذہ شہادۃ من اللّٰہ قبل ہٰذہ الواقعۃ، فہل أنتم تؤمنون بشہادات حضرۃ العزّۃ؟ وإن کنتَ لا تترک الآن ذکر اللعنۃ، ففکِّرْ فی ہذا النبأ وانظُرْ مَن لعَنہ اللہ فیہ ومَن جعلہ مورد الرحمۃ.وانظر أنّہ کیف أخبر أنّ النصاریٰ یمکرون ویأتون بالفِریۃ، ثم یفتح اللّٰہ ویجعل الکرّۃ لأہل الحق بإراء ۃ الآیۃ الواضحۃ، وینصر عبدہ ویُحقّ الحقّ ویُبطل الباطل بالصولۃ العظیمۃ، ویخزی قومًا کافرین.فہذہ الأنباء التی کُتبَت فی 'البراہین' من اللّٰہ العلَّام، کانت مکنونۃً فیہا لہذہ الأیام، لیُتمّ اللّٰہ حجّتہ علی الخواص والعوام، ولتستبین سبیل المجرمین.أیّہا المسارعون إلَی الحرب والخصام، والسّاعون من النور إلی الظلام، ما لکم لا تتفکّرون فی الکلام، ولا تتّقون قہر اللّٰہ ذی الجلال والإکرام؟ أ تُترکون فی دنیاکم ولا ترون وجہ الحِمام؟ أ آثرتم عیشۃ الحیٰوۃ الدنیا، أو نسیتم یوم الأَثام والعقبٰی؟ توبوا توبوا، اور ان کے ساتھ مولوی ہو جائیں گے.پس اس واقعہ سے پہلے یہ ایک خدا کی گواہی ہے پس کیا تم خدا کی گواہیوں پر ایمان لاتے ہو؟ اور اگر تو اب بھی لعنت کا ذکر نہیں چھوڑتا تو اس خبر میں فکر کر اور دیکھ کہ اس میں کس کو خدا نے ملعون ٹھہرایا اور کس کو مورد رحمت ٹھہرایا اور دیکھ کہ اس نے کس طرح خبر دی کہ نصاریٰ مکر کریں گے اور جھوٹ باندھیں گے پھر خدا فتح دے گا اور اہل حق کی نوبت لائے گا اور نشان واضح دکھلائے گا اور اپنے بندہ کی مدد کرے گا اور باطل کو حملہ عظیمہ سے نابود کر دے گا اور قوم کفار کو رسوا کرے گا.پس یہ خبریں جو براہین احمدیہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے لکھی گئیں ان دنوں کے لئے چُھپی ہوئی تھیں تاکہ اللہ تعالیٰ اپنی حجت کو خواص اور عوام پر پوری کرے.اور تاکہ مجرموں کی راہ کھل جائے.اے وہ لوگو جو جنگ و جدل کی طرف دوڑتے ہو اور نور سے اندھیرے کی طرف دوڑنے والے ہو تمہیں کیا ہوگیا کہ تم کلام میں فکر نہیں کرتے اور خدا کے قہر سے نہیں ڈرتے؟ کیا تم اپنی دنیا میں چھوڑے جاؤ گے اور موت کا منہ نہیں دیکھو گے کیا تم نے اس دنیا کی زندگی کو قبول کرلیا.یا پاداش کے دن اور عاقبت کو تم نے بھلا دیا.توبہ کرو

Page 250

وإلی اللّٰہ ارجعوا، فإنّہ لا یُحبّ قومًا فاسقین.وممّا ادّعیتَ یا مَن أضاع الدین، أنک قلتَ إنی أناضل فی العربیّۃ کالمرتجلین، وأستملی کالأدباء الماہرین، وأکون من الغالبین.وَیْحَک یا مسکین، لِمَ تُخزی اسم دنیاک وقد ضاع الدین؟ ألستَ الذی أعرفک من قدیم الزمان.غبیُّ الفطرۃ سفیہ الجَنان، کثیر الہذیان قلیل العرفان، الموصوم بمَعرّۃ لَکَنِ اللسان؟ أتصارع بہذہ القوۃ الفاتکَ البازل، وتحارب الکَمِیَّ الجازل؟ کلا بل ترید أن تُری الناس وَصْمتک، وتشہد علٰی جہلک أُبْنتک، وإن کنتَ عزمتَ علٰی مناضلتی، وأردتَ أن تذوق حَرْبی وحربتی، فأدعوک کما یُدعی الصَیْد للاصطیاد، أو یُدنَی النار للإخماد.بید أنّی اشترطتُ من الابتداء أن لا یُعارضنی أحد إلَّا بنیّۃ الاہتداء، فاسمع منّی أنّی أُناضلک علٰی ہٰذہ الشریطۃ، لیہلک اور خدا کی طرف رجوع لاؤ کیونکہ وہ فاسقوں کو دوست نہیں رکھتا.اور اے دین کے ضائع کرنے والے تیرے دعووں میں سے ایک یہ ہے کہ تو نے کہا ہے کہ میں عربی میں بدیہہ گو لوگوں کی طرح مقابلہ کروں گا اور ماہر ادیبوں کی طرح لکھوں گا.اور غالب رہوں گا.وائے تجھ پر اے مسکین.تو اپنے دنیا کے نام کو کیوں رسوا کرنے لگا اور دین تو ضائع ہو چکا.کیا تو وہی نہیں جس کو میں قدیم زمانہ سے جانتا ہوں.فطرت کا غبی دل کا سفیہ بہت بک بک کرنیوالا کم معرفت لکنت لسان کا داغ رکھنے والا کیا تو اس قوت سے دلیر شدید القوت کے ساتھ کشتی کرے گا.اور سوار کاٹنے والے کے ساتھ جنگ کرے گا.ہرگز نہیں بلکہ تُو تو اپنا عیب لوگوں کو دکھلانا چاہتا ہے.اور اپنی ژولیدہ زبانی کو اپنی جہالت پر گواہ بنانا چاہتا ہے.اور اگر تونے میرے جنگ کا قصد کرلیا ہے.اور ارادہ کرلیا ہے کہ میری جنگ اور میرے حربہ کا مزہ چکھے.پس میں تجھے اس طرح بلاتا ہوں جیسا کہ شکار پکڑنے کیلئے بلایا جاتا ہے.یا آگ بجھانے کیلئے نزدیک کی جاتی ہے.مگر یہ بات ہے کہ میں پہلے سے یہ شرط رکھتا ہوں کہ کوئی شخص بجز نیت ہدایت پانے کے مجھ سے مقابلہ نہ کرے.پس مجھ سے سن کہ میں اسی شرط کے ساتھ تجھ سے مقابلہ کروں گا تاکہ جو بیّنہ

Page 251

من ہلک بالبیّنۃ.فإناتّفقَ أن أُغلَب فی النضال، وتغلب فی محاسن المقال، فأتوب علی یدک بالإخلاص التام، وأحسبک من الأتقیاء الکرام، وإن اتّفقَ أنّ اللّٰہ أظہر غلبتی فی الجدال، فما أرید منک شیئا إلَّا أن تتوب فی الحال، وتبایعنی بالتّذلّل والانفعال وتُصدّق دعواتی بصدق البال، وتدخل فی سِلک جماعتی بالاستعجال، وتؤثرنی علی النفس والعِرض والمال.فإن کنتَ رضیت بہذہ الشریطۃ، فتعالَ تعالَ بصحّۃ النیّۃ، واشْہَدْ مجمعَ الحیّ، لیتبیّن الرشد من الغیّ، وتعلم أنی ما أرید فی ہذہ الدعوۃ، أن تحسبنی الناس أدیبًا فی العربیۃ، ولا أبالی أن یرمونی بجہالۃ، أو یقولوا أُمِّیٌّ لا یطّلع علی صیغۃٍ، إنْ أریدُ إلَّا إقامۃ الآیۃ، وإثبات الدعوی بہذہ البیّنۃ، لیتم حجّۃ اللّٰہ علی الناس، ولینجو الخلق من الوسواس، ولیمتنعوا کے ساتھ ہلاک ہوا وہ ہلاک ہو جائے.پس اگر یہ اتفاق ہوگیا کہ میں مغلوب ہوگیا اور بلاغت میں تو غالب آیا پس میں تیرے ہاتھ پر اخلاص سے توبہ کروں گا اور تجھے نیک بخت بزرگوں میں سے سمجھوں گا.اور اگر یہ اتفاق ہوا کہ میں غالب آگیا.پس میں تجھ سے بجز توبہ کے اور کچھ نہیں چاہتا اور نیز کہ اسی وقت بکمال تذلل مجھ سے بیعت بھی کرے اور صدق دل سے میرے دعوے کی تصدیق کرے.اور جلدی سے میری جماعت میں داخل ہو جائے.اور اپنی جان اور آبرو اور مال پر مجھے اختیار کرے.پس اگر تو اس شرط سے راضی ہوگیا.پس صحت نیت کے ساتھ آجا آجا اور ایک مجمع میں حاضر ہو تاکہ رُشد اور گمراہی میں فرق ہو جائے.اور تو جانتا ہے کہ میں اس دعوت میں یہ نہیں چاہتا کہ مجھے لوگ عربی میں ادیب سمجھیں اور میں اس بات کی پرواہ نہیں رکھتا کہ لوگ مجھے جاہل کہیں.یا یہ کہیں کہ ایک ناخواندہ ہے اسکو ایک صیغہ بھی معلوم نہیں.میں تو صرف نشان کو قائم کرنا چاہتا ہوں اور اس دلیل کے ساتھ دعوے کو ثابت کرنا میرا مقصد ہے.تا لوگوں پر خدا کی حجت پوری ہو جائے اور تا شیطان سے لوگ نجات پاویں اور تا گمراہی سے

Page 252

من الغوایۃ، و تنکشف علیہم أبواب الہدایۃ، ویأتونی توّابین مُصدّقین.فإن کنتَ تُعاہدنی علی ہذا، ولستَ کالذی نقَض العہد وآذَی، فقُمْ بہذا الشرط للنضال، وأْتِنی حالفًا بوجہ اللّٰہ ذی الجلال، وأَشہِدْ علیہ عشرۃَ عَدْلٍ من الرجال، ثم اشتہِرْہ بعد طبعہ بصدق البال، فترانی بعدہ حاضرًا عندک فی الحال، کبازی متقضّی علٰی طیور الجبال، فتُمزَّق کلّ ممزَّق بإذن ربّ العالمین.ہذا عہد بینی وبینک، لیظہر منہ مَیْنی أو مَیْنُک، ولیہلک من کان من الکاذبین.وإنّ الکذب یُخزی أہلہ، ویُحرق رحلہ، ولکنکم لا تبالون اللّٰہ ویوم الإخزاء، وتقولون ما تشاء ون بترک الحیاء.ألا إنّ لعنۃ اللّٰہ علی المزوِّرین، الذین باز آجائیں اور ان پر ہدایت کی راہیں کھل جائیں اور توبہ اور تصدیق کی حالت میں میرے پاس آئیں.پس اگر تو اس بات پر میرے ساتھ معاہدہ کرتا ہے اور تو ایسا آدمی نہیں کہ عہد کو توڑے اور دکھ دیوے.پس اس شرط کے ساتھ لڑائی کیلئے کھڑا ہو اور خدا کی قسم کھا کر میرے پاس آجا اور اس پر دس۰۱ عادل گواہوں کی گواہی کرلے.پھر وہ مضمون چھپوا کر مشتہر کردے.پس بعد اسکے تو مجھے بلا توقف اپنے پاس حاضر پائے گا ایسا جیسے باز جو پہاڑ کے پرندہ پر پڑتا ہے پس اسوقت تو بحکم جناب الٰہی ٹکڑے ٹکڑے کیا جائے گا.یہ وہ عہد ہے جو مجھ میں اور تجھ میں ہے تاکہ میرا یا تیرا جھوٹ ظاہر ہو جائے.اور تاکہ جھوٹا ہلاک ہو جائے.اور جھوٹ اس کے اہل کو رسوا کرتا ہے اور اسکے اسباب کو جلا دیتا ہے لیکن تم لوگ خدا اور اسکے رسوا کرنے کے دن کی پرواہ نہیں کرتے.اور حیا کو ترک کر کے جو چاہتے ہو کہتے ہو.خبردار ہوکہ جھوٹ کو آراستہ کرنے والوں پر خدا کی لعنت ہے.وہ لوگ جو

Page 253

یُخفون الحق ویزیّنون الباطل ویریدون أن یُطفؤا نور اللّٰہ مفسدین.وقالوا اہجُروا ہؤلاء ولا تلاقوہم مسلِّمین، ولا تُصلّوا علی أمواتہم، ولا تتّبعوا جنازاتہم، واقتلوہم إنْ قدرتم علی قتلہم فی حین، واسرقوا أموالہم، وانہبوا رِحالہم، وکفّروہم وسبّوہم واشتموہم، ولا تذکروہم إلا مُحقّرین.تبًّا لہم! کیف نحتوا مسائل من عند أنفسہم وما خافوا أحکم الحاکمین.أولئک علیہم لعنۃ اللّٰہ والملائکۃ وأخیارالناس أجمعین، وأولئک ہم شرّ البریّۃ تحت السماء ولو سمّوا أنفسہم عالِمین.ثم اعلم أنی کتبتُ مکتوبی ہٰذا فی اللسان العربیّۃ، لأختبرک قبل أن أجیئک للمناضلۃ، فإنی أظنّک غبیًّا ومن الجاہلین.وما أرید أن یکون ذہابی إلیک صُلفۃ، وأکون کالذی یقصد عَذِرۃ، أو یأخذ فی یدہ رَوثۃ، وما أرید أن أُعطی حق کو چھپاتے ہیں اور باطل کو زینت دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو مفسدانہ باتوں سے بجھادیں.اور کہا کہ ان لوگوں کو چھوڑ دو اور السلام علیکم کے ساتھ ان کو مت ملو اور ان کے مردوں پر نماز مت پڑھو.اور ان کے جنازوں کے ساتھ مت جاؤ اور اگر قدرت پاؤ تو ان کو قتل کرڈالو.اور ان کے مالوں کو چراؤ اور ان کے اسباب لوٹ لو اور ان کو گالیاں دو اور تحقیر کرتے ہوئے ان کا ذکر کرو ان کو ہلاکی ہو کیوں کر اپنے پاس سے مسئلے گھڑ لئے اور خدا تعالیٰ سے نہیں ڈرے ان پر خدا کی لعنت ہے اور فرشتوں کی لعنت اور تمام نیک مردوں کی لعنت اور یہ لوگ آسمان کے نیچے بدترین خلائق ہیں اگرچہ اپنے تئیں مولوی کر کے پکاریں.پھر تجھے معلوم ہو کہ میں نے یہ مکتوب اس لئے لکھا ہے تاکہ میں قبل اس کے کہ تیرے پاس آؤں تجھ کو آزمالوں کیونکہ میں تجھے جاہلوں میں سے خیال کرتا ہوں اور میں نہیں چاہتا کہ میرا تیرے پاس آنا بے سود ہو اور میں نہیں چاہتا کہ میں ایسے شخص کی طرح ہو جاؤں جو پلیدی کا قصد کرتا ہے یا اپنے ہاتھ میں گوبر لیتا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ ایک جاہل

Page 254

جاہلا بحتًا عزّۃ المقابلۃ، وأرفع لہ ذِکرہ فی العامّۃ.فإن کنتَ من أدباء ہذا اللسان، فلا یشقّ علیک أن ترینی فی العربیّۃ بعض درر البیان، بل إن کنتَ بارعًا من غیر التصلّف والمَیْن، فستکتب جواب ذلک المکتوب فی ساعۃ أو ساعتین، ولا تردّ مسألتی کالجاہل المحتال، بل تُملی بقدر ما أملیتُ وترسل فی الحال.وعلیک أن تراعی مماثلتی فی النظم والنثر والمقدار، وتأتی بما أتیتُ بہ من درر کدرر البحار.وإذا فعلتَ کلہ فأَرسِلْ إلیّ مکتوبک العربیّ بالسرعۃ، ثم أَنزِلُ ساحتک کالصاعقۃ المحرقۃ، ویفتح اللّٰہ بیننا بالحق وہو خیر الفاتحین.وإن کنتَ ما أرسلتَ جوابک إلی سبعۃ أیام، أو أرسلت فی الہندیۃ کعوام، أو عربیۃ غیر فصیحۃ کجَہام، أو أرسلت قلیلا من کلام، فیثبت أنک من السفہاء الجاہلین، لا من الأدباء المتکلّمین، ومن العجماوات، لا کو مقابلہ کی عزت دوں اور عام لوگوں میں اس کا ذکر بلند کروں پس اگر تو اس زبان کے ادیبوں میں سے ہے پس یہ بات تجھ پر گراں نہیں آئے گی کہ تو عربی میں بعض گوہر بیان دکھلائے بلکہ اگر تو بغیر لاف و گزاف کے درحقیقت فصیح و بلیغ ہے پس عنقریب تو اس خط کا جواب ایک گھڑی یا دو گھڑی میں لکھ دے گا.اور میرے سوال کو جاہل حیلہ گر کی طرح ردنہیں کرے گا بلکہ جس قدر میں نے لکھا ہے اسی قدر تو لکھے گا اور فی الفور روانہ کر دے گا.اور تیرے پر لازم ہوگا کہ نظم اور نثر اور مقدار میں مماثلت کی رعایت رکھے اور میری طرح اپنے کلام کو جواہرات بلاغت سے پُر کرے.اور جب تو نے یہ سب کچھ کرلیا پس اپنا مکتوب عربی جلدی میری طرف بھیج دے.پھر میں تیرے صحن خانہ میں جلانے والی بجلی کی طرح نازل ہو جاؤں گا.اور خدا تعالیٰ ہم میں سچا فیصلہ کر دے گا اور وہ بہتر فیصلہ کرنیوالا ہے.اور اگر تونے سات دن تک جواب نہ بھیجا یا ہندی زبان میں عوام کی طرح بھیجا یا عربی غیر فصیح میں جو اس بادل کی طرح ہے جس میں پانی نہیں یا تو نے کچھ تھوڑا سا کلام بھیجا.پس ثابت ہو جائے گا کہ تو جہلاء میں سے ہے نہ ادیبوں میں سے اور چارپایوں میں سے ہے نہ

Page 255

من رجال یؤثر نطقہم علی ثمار العجمات، فأترُکُک کما یُترَک سقطٌ من المتاع، وأُعرض عنک کإعراض الناس عن السباع، وأشیع فی ہذا الباب شیئا لأولی الألباب والمستبصرین.وأمّا ما تدعونی متفرّدًا فی المباہلۃ، فہذا دجلک وکیدک یا غُول البادیۃ.ألا تعلم أیّہا الدجّال، والغویّ البطّال، أن الشرط منی فی المباہلۃ مجیئُ عشرۃ رجال، لملاعنۃ وابتہال، فی حضرۃ مُعین الصادقین؟ فما قبلتَ شریطتی، وکان فیہ نفعک لا منفعتی.ثم أردتُ أن أتمّ الحجّۃ علیک وعلی رہطک المتعصّبین، فرضیتُ بثلا ثۃ من رجال عالمین، وخفّفتُ علیک وقنِعتُ یا عدوّ الأخیار، بأن تباہلنی مع عبد الواحد وعبد الجبّار، وإنہما أکابر جماعتک وحرثاء زراعتک، وابنا شیخٍ أمین.ففررتَ فرار الظلام من النور، وولّیتَ دُبُر الکذب والزور، ودخلتَ الجُحر کالمتخوّفین.وما وَرَدَ ان مردوں میں سے ہے کہ ان کا نطق کھجوروں سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے.پس میں تجھے چھوڑ دوں گا جیسا کہ ردی متاع چھوڑ دی جاتی ہے اور تجھ سے کنارہ کروں گا جیسا کہ درندوں سے کنارہ کیا جاتا ہے.اور عقلمندوں کے لئے اس بارے میں کچھ چھپوا دوں گا.اور تُو جو مباہلہ کے لئے اکیلا مجھے بلاتا ہے سو یہ اے دیو بادیہ تیرا مکر ہے کیا تو اے دجال اور گمراہ بطال نہیں جانتا کہ میری طرف سے مباہلہ کے لئے دس آدمی کی شرط ہے جو ملاعنہ اور ابتہال کے لئے آئیں پس تو نے میری شرط کو قبول نہیں کیا اور اس میں تیرا نفع تھا نہ میرا پھر میں نے ارادہ کیا کہ تجھ پر اور تیرے گروہ پر حجت کو پوری کروں پس میں تین آدمیوں کے ساتھ راضی ہوگیا اور تیرے پر میں نے تخفیف کر دی اور میں نے کہا کہ اے نیکوں کے دشمن عبدالواحد اور عبدالجبار کو لیکر میرے ساتھ مباہلہ کر اور وہ دونوں تیری جماعت کے بزرگ اور تیری کھیتی کے زمیندار اور امین شیخ کے بیٹے ہیں پس تو ایسا بھاگا جیسا کہ اندھیرا روشنی سے بھاگتا ہے اور جھوٹ کی پیٹھ کو تو نے پھیرلیا.اور ڈرنے والوں کی طرح سوراخ میں جا چھپا.اور تیرے

Page 256

علی صاحبَیْک؟ إنہما فرّا وفقاء اعینیک، وما جاء انی کالمباہلین.وأیُّ خوف منعہما من المباہلۃ إنْ کانا یُکفّرانی علی وجہ البصیرۃ؟ فأین ذہبا إن کانا من الصادقین؟ ومن أقوالک فی اشتہارک، أنک خاطبتنی وقلتَ بکمال إصرارک: إنک تحترق فی النار وتغرق فی الماء، ولا یمسّنی ضرٌّ لو دخلتہما وأُحفَظُ من البلاء أمّا الجواب.فاعلم أیہا الکذّاب أنک رأیتَ کلّ ذالک بعد المباہلۃ الأولی، وأُغرقتَ وأُحرقتَ یا فُضلۃَ النُّوکیٰ.فأنبِئْنا أین خرجتَ من الماء؟ بل مُتّ فی ماء التندّ م کالأشقیاء.وأین نُجّیتَ من النار؟ بل احترقتَ بنار الحسرۃ التی تطّلع علی الأشرار، وما صارت النار علیک بردًا وسلامًا، بل أکلتک نار إخزاء اللّٰہ ولقیت آلامًا، وکذٰ لک یُخزی اللّٰہ المفترین.إنّ الّذین یتکبّرُون بغیر الحق ہم الفاسقون حقّا ولو حَسِبُوا أنفسہم منَ الصّالحیْن.وَالذینَ وَجَدُوا فضل ربّہم یُعرَفون بأنوارہم، ویمشون علَی الأرض ہونًا لانکسارہم، ولا یمشون مستکبرین.وآخر دعوانا أن الحمد للّٰہ ربّ العالمین.دونوں صاحبوں کو کیا پیش آیا وہ دونوں بھاگ گئے اور تجھے اندھا کر گئے.اور مباہلہ کرنیوالوں کی طرح میرے مقابل پر نہ آئے.اور کس خوف نے ان کو مباہلہ سے منع کیا اگر وہ علیٰ وجہ البصیرت مجھ کو کافر جانتے تھے.پس کہاں چلے گئے اگر وہ سچے تھے.اور منجملہ تیرے اقوال کے جو تیرے اشتہار میں ہیں جو تونے مجھے مخاطب کر کے بکمال اصرار کہا ہے کہ تو آگ میں جل جائے گا اور پانی میں غرق ہو جائے گا اور مجھے اگر ان دونوں میں داخل ہوں کچھ دکھ نہیں پہنچے گا.مگر ہمارا جواب اے کذاب یہ ہے کہ تو پہلے مباہلہ کے بعد یہ سب کچھ دیکھ چکا ہے.اور تو غرق کیا گیا اور جلایا گیا اے احمقوں کے فضلے.پس ہمیں بتلا کہ کب تو پانی میں سے نکلا.بلکہ تُو تو ندامت کے پانی میں بدبختوں کی طرح ڈوب گیا اور کہاں تجھے آگ سے نجات حاصل ہوئی.بلکہ تو اس حسرت کی آگ سے جل گیا جو شریروں پر بھڑکتی ہے اور تیرے پر آگ ٹھنڈی نہ ہوئی بلکہ خدا کی رسوا کرنے کی آگ تجھ کو کھا گئی اور کئی دردوں کو تو جاملا.اور اسی طرح خدا مفتریوں کو رسوا کرتا ہے.وہ لوگ جو ناحق تکبر کرتے ہیں وہی درحقیقت فاسق ہیں اگرچہ اپنے تئیں صالح سمجھیں اور جو لوگ خدا تعالیٰ کا فضل پانے والے ہیں وہ اپنے نوروں سے پہچانے جاتے ہیں اور تواضع کے ساتھ زمین پر چلتے ہیں اور تکبر سے قدم نہیں رکھتے.اور آخری دعا ہماری الحمد للّٰہ رب العالمین ہے.

Page 257

قَصِیْدَۃٌ مِّنَ المُؤلّف إنّی صَدوقٌ مصلِحٌ متردمُ سَمٌّ مُعاداتی وسِلْمِی أسلمُ میں صادق اور مصلح ہوں اور میری دشمنی زہر اور میری صلح سلامتی ہے إنی أنا البستان بستانُ الہُدیٰ تأتی إلیّ العَین لا تتصرّمُ میں باغ ہدایت ہوں میری طرف وہ چشمہ آتا ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوتا روحی لتقدیس العلیِّ حمامۃٌ أو عند لیبٌ غارِدٌ مترنّمُ میری روح خدا کی تقدیس کے لئے ایک کبوتر ہے یا بلبل ہے جو خوش آوازی سے بول رہی ہے مَا جئتکم فی غیر وقت عابثًا قد جئتکم والوقت لیل مظلِمُ میں تمہارے پاس بے وقت نہیں آیا میں اس وقت آیا کہ ایک اندھیری رات تھی صارت بلاد الدین مِن جَدبٍ عتا أَقْوَی وأقفَرَ بعد روضٍ تعلَمُ دین کی ولایت بباعث قحط کے جو غالب آگیا خالی ہو گئی بعد اس کے جو وہ ایک باغ کی طرح تھی ہل بقی قوم خادمون لدینِنا أم ہل رأیتَ الدین کیف یُحطَّمُ کیا وہ قوم باقی ہے جو ہمارے دین کی خدمت کریں اور کیا تو نے نہیں دیکھا کہ دین کو کس طرح مسمار کیا جاتا ہے فاللّٰہ أرسلنی لأُحییَ دینہُ حقٌّ فہل من راشدٍ یستسلمُ سو خدا نے مجھے بھیجا تا کہ میں اس کے دین کو زندہ کروں یہ سچ ہے پس کیا کوئی ہے جو اطاعت کرے جُہد المخالف باطل فی أمْرنا سیف من الرحمٰن لا یتثلَّمُ مخالف کی کوشش ہمارے امر میں باطل ہے یہ خدا کی تلوار ہے جس میں رخنہ نہیں ہو سکتا فی وجہنا نور المہیمن لائِحٌ إن کان فیکم ناظرٌ متوسّمُ ہمارے منہ میں خدا تعالیٰ کا نور واضح ہے اگر کوئی تم میں دیکھنے والا ہو الیوم یُنقَض کلّ خیطِ مکائدٍ لَیْنٌ سَحیلٌ أو شدید مُبْرَمُ آج ہر ایک مکر کا تاگا توڑ دیا جائے گا نرم اک تارہ ہو یا سخت دو تارہ ہو مَن کان صَوَّالًا فیُقطَع عِرْقہُ یُردیہ عالیۃُ القنا أو لَہْذَمُ جو شخص حملہ آور ہو پس اس کی رگ کاٹ دی جائے گی اور نیزہ کا اوپر کا سرا یا نیچے کا سرا اس کو ہلاک کر دے گا اَللّٰہُ آثرَنا وکفَّل أمرَنا فالقلب عند الفتن لا یتجَمْجَمُ خدا نے ہمیں چن لیا اور ہمارے کام کا متکفل ہو گیا پس دل فتنوں کے وقت مترددنہیں ہوتا

Page 258

ملِکٌ فلا یُخزَی عزیزُ جنابہِ إن المقرَّب لا أبا لکَ یُکرَمُ وہ بادشاہ ہے اس کی جناب کا عزیز کبھی رسوا نہیں ہوتا اور مقرب ضرور عزت پالیتا ہے کَفِّرْ وما التکفیر منک ببدعۃٍ رسمٌ تقادمَ عہدہ المتقدّمُ تو مجھے کافر کہتا رہ اور کافر کہنا کوئی بدعت نہیں یہ تو ایک پرانی رسم چلی آتی ہے قد کُفِّرتْ مِن قبل صحبُ نبیِّنا قالوا لئام کفرۃٌ، وہُمُ ہُمُ اس سے پہلے ہمارے نبیﷺ کے اصحاب کافر ٹھیرائے گئے اور روافض نے کہا کہ یہ لئیم کافر ہیں اور ان کی شان وہی ہے جو ہے اُنظُرْ إلی المتشیعین ولعنہم ما غادروا نفسا تُعَزُّ وتُکرَمُ شیعوں اور ان کی لعنت کی طرف دیکھ جو کسی ذی عزت کو انہوں نے نہیں چھوڑا جاء تک آیاتی فأنت تکذِّبُ شاہدتَ رایاتی فأنت تُکتِّمُ میرے نشان تیرے پاس آئے اور تو تکذیب کر رہا ہے اور میرے جھنڈوں کو تو نے مشاہدہ کیا اور پھر پوشیدہ رکھتا ہے یا من دنا منّی بسیف زجَاجۃٍ فاحذَرْ فإنی فارسٌ مستلئِمُ اے وہ شخص جو آبگینہ کی تلوار کے ساتھ میرے پاس آیا مجھ سے ڈر کہ میں سوار زرہ پوش ہوں یُدرِیْک مَن شہِد الوقائع أنّنی بطلٌ وفِیْ صفِّ الوغی متقدّمُ وقائع شناس آدمی تجھے جتلا دے گا کہ میں دلیر ہوں اور جنگ کی صف میں سب سے پہلے کمْ من قلوبٍ قد شققتُ جذورَہا کمْ من صدورٍ قد کلَمتُ وأکلُمُ بہت سے دلوں کی جڑیں میں نے پھاڑ دیں اور بہت سے سینوں کومیں نے زخمی کر دیا اور کرتا ہوں وإذا نطقتُ فإن نطقی مفحِمٌ سیفٌ فیقطَع مَن یکید ویجذِمُ اور جب میں بولوں تو میرا نطق منہ بند کرنیوالا ہے تلوار ہے پس وہ مکر کر نیوالوں کو کاٹ دیتی ہے حاربتُ کلَّ مکذِّب وَبآخَرٍ للحرب دائرۃ علیک فتعلَمُ ہر ایک مکذب سے میں لڑا اور سب سے آخر تیرے پر لڑائی کا چکر آئے گا اور پھر تو جان لے گا یَا لائِمِیْ إنّ المکارم کلّہا فی الصّدق فاسْلُکْ سُبْلَ صدقٍ تسلَمُ اے میرے ملامت کرنیوالے تمام بزرگیاں صدق میں ہیں پس صدق کا طریق اختیار کر تا سلامت رہے إن کنت أزمعتَ النِّضال فإنّنا نأتی کما یأتی لصیدٍ ضَیغَمُ اگر تو نے مقابلہ کا قصد کیا ہے پس ہم اس شیر کی طرح آئیں گے جو شکار کیلئے آتا ہے

Page 259

ہَلَّا أریتَ العِلم یا ابنَ تصلُّف إن کنتَ عَلَّامًا بما لا أعلَمُ اے لاف کے بیٹے تو نے اپنا علم کیوں نہ دکھلایا اگر تو وہ چیزیں جانتا تھا جو مجھے معلوم نہیں قد ضاع عمرک فی السّفاہۃ والعَمی طوبٰی لمن بعد السَّفاہۃ یحلُمُ تیری عمر سفاہت میں اور نابینائی میں ضائع ہو گئی مبارک وہ شخص جو سفاہت کے بعد عقلمند ہو جائے قد جآء إنّ الظنّ إثمٌ بعضُہُ فارفقْ ولا یُضْلِلْ جَنانَک مأثَمُ قرآن شریف میں آیا ہے کہ بعض ظن گناہ ہیں پس نرمی کر اور تیرے دل کو گناہ گمراہ نہ کرے الکِبر یُخزی أہلَہ العاتی ومَنْ لِلّٰہِ یصغُر فالمہیمن یُعظِمُ تکبر، تکبر کرنے والے کو رسوا کرتا ہے اور جو خدا کیلئے چھوٹا ہوتا ہے خدا اس کو بڑاکر دیتا ہے یَا أیّہا الناس اذکروا آجالکم إن المنایا لا تُرَدّ وتہجُمُ اے لوگو اپنا وقت موت یاد رکھو اور موت جب آتی ہے تو روکی نہیں جاتی اور یکدفعہ آتی ہے یَا أیّہا الناس اعبدوا خلَّا قَکم توبوا وإنّ اللّٰہ ربٌّ أرحَمُ اے لوگو اپنے پیدا کرنے والے کی پرستش کرو توبہ کرو اور خدا ارحم الراحمین ہے إنّی أری الدنیا تمرّ بساعۃٍ غَیمٌ قلیل الماء لا یتلوَّمُ میں دنیا کو دیکھتا ہوں کہ جلد گذر جاتی ہے یہ ایک ایسا بادل ہے جس میں پانی تھوڑا ہے اور زیادہ توقف نہیں کرتا فلہذہ لا تُسخِطوا معبودکم توبوا وطوبٰی لِلّذی یتندّمُ پس اس دنیا کیلئے اپنے معبود کو ناراض مت کرو توبہ کرو اور مبارک وہ جو متندم ہوتا ہے توبوا وإن العُذر لغوٌ بعد ما کُشِفَتْ سرائرکم واُخِذَ المجرمُ توبہ کرو اور اس وقت توبہ کرنا بے فائدہ ہے جبکہ تمہارے بھید کھولے گئے اور مجرم پکڑا گیا إنا صرَفنا فی النصیحۃ رحمۃً ما حَملَ حسنُ بیاننا وتکلُّمُ ہم نے از روئے رحمت وہ سب نصیحت دینے میں خرچ کر دیا ہے جو کچھ کہ ہمارا حق بیان برداشت کر سکا واللّٰہِ إنی قد بُعثْتُ لخیرکُمْ واللّٰہ إنی مُلہَمٌ ومُکلَّمُ بخدا میں تمہاری بھلائی کیلئے مبعوث کیا گیا ہوں اور بخدا میں ملہم اور مکلّم ہوں إن کنتَ تبغی حربنا فنحاربُ بارِزْ فإنی حاضر متخیّمُ اگر تو ہماری لڑائی کو چاہتا ہے پس ہم لڑائی کریں گے میدان میں آکہ ہم حاضر ہیں اور خیمہ لگا رہے ہیں

Page 260

القَصِیْدَۃ الثانیۃ لکَ الحمدُ یا تُرْسی وحِرْزی وجَوْسَقی بحمدک یُرْوَی کلُّ مَن کان یستقی اے میری پناہ اور میرے قلعہ تیری تعریف ہو تیری تعریف سے ہر ایک شخص جو پانی چاہتا ہے سیراب ہو جاتا ہے بذکرک یجری کلُّ قلب قد اعتقٰی بحبک یحیٰی کل مَیْتٍ مُمَزّق تیرے ذکر کیساتھ ہر ایک دل ٹھہرا ہوا جاری ہو جاتا ہے اور تیری محبت کے ساتھ ہر ایک مردہ زندہ ہو جاتا ہے وباسمک یُحفَظ کلُّ نفس من الردا وفضلُک یُنجی کلَّ مَن کان یُزبَقِ اور تیرے نام کے ساتھ ہر ایک شخص ہلاکت سے بچتا ہے اور تیرا فضل ہر ایک قیدی کو رہائی بخشتا ہے وما الخیر إلا فیک یا خالقَ الوریٰ وما الکہف إلا أنت یا مُتَّکَأَ التَّقِی اور تمام نیکی تیری طرف سے ہے اے جہان آفرین اور تو ہی پرہیز گاروں کی پناہ ہے وتعنو لک الأفلاک خوفا وہیبۃ وتجری دموع الراسیات وتَثبِقِ اور تیرے آگے خوفناک ہو کر آسمان جھکے ہوئے ہیں اور پہاڑوں کے آنسو جاری اور رواں ہیں ولیس لقلبی یا حفیظی وملجأِی سواک مُریح ٌ عند و قت التأزُّقِ اور میرے دل کیلئے اے میرے نگہبان اور پناہ کوئی دوسرا آرام پہنچانے والا نہیں جب تنگی وارد ہو یمیل الوری عند الکروب إلی الوری وأنت لنا کہفٌ کبیتٍ مُسَردَقِ دکھ کے وقت خلقت خلقت کی طرف توجہ کرتی ہے اور تو ہمارے لئے ایسی پناہ ہے جیسے نہایت مضبوط گھر وإنک قد أنزلتَ آیاتِ صدقنا فویلٌ لغُمْرٍ لا یراہا وینہَقِ اور تو نے ہمارے صدق کے نشان اتارے ہیں پس وہ نادان ہلاک شدہ ہے جو ان نشانوں کو نہیں دیکھتا اور بے معنی شور کرتا ہے ألم یرَ عِجْلًا مات فی الحیّ دامیًا أہذا من الرحمن أو فعل بُنْدقی؟ کیا اس گوسالہ کو اس نے نہیں دیکھا جو اپنے قبیلہ میں خون آلودہ ہو کر مر گیا کیا یہ خدا کا فعل ہے یامیری بندوق کاکام ہے أری اللّٰہ آیتہ بتدمیرِ مفسدٍ وتعرفہا عین رأتْ بالتعمّقِ خدا نے اپنا نشان ایک مفسد کو ہلاک کر کے دکھلا دیا اور اس نشان کو وہ آنکھ پہچان سکتی ہے جو غور سے دیکھے وما کان ہذا أوّلَ الآی للعدا بل الآیُ قد کثرتْ فأمعِنْ وحقِّقِ اور یہ دشمنوں کے لئے کوئی پہلا نشان نہیں بلکہ نشان بہت ہیں پس سوچ اور تحقیق کر

Page 261

و لِلّٰہِ آیات لتأیید دعوتی فآنِسْ بعین الناظر المتعمقِ اور میری تائید دعویٰ میں خدا کے لئے نشان ہیں پس اس آنکھ سے دیکھ جو سوچنے والی اور غور کر کے دیکھا کرتی ہے ألا رُبَّ یوم قد بدت فیہ آیُنا ولا سیّما یوم علا فیہ منطقی خبردار ہو بہت سے ایسے دن ہیں جن میں ہماری نشانیاں ظاہر ہوئیں بالخصوص وہ دن جس دن میری تقریر غالب آئی إذا قام عبد اللّٰہ عبدُ کریمِنا وکان بحسن اللحن یتلو ویبعُقِ اور جس وقت مولوی عبد الکریم صاحب کھڑے ہوئے اور حسن آواز سے پڑھتے اور ترجیع کے ساتھ آواز کرتے تھے فکلٌّ من الحُضّار عند بیانہِ کمثل عُطاشی أہرعوا أو کأَعْشُقِ پس تمام حاضرین اس کے بیان کے وقت پیاسوں کی طرح یا عاشقوں کی طرح دوڑے وقاموا بجذبات النشاط کأنّہم تعاطَوا سُلا فًا مِن رحیقٍ مُزَہْزِقِ اور نشاط کے جذبوں کے ساتھ کھڑے ہو گئے گویاکہ انہوں نے وہ شراب لے لی جو اس شراب کی قسم میں سے تھی جو رقص آور ہو ومالت خواطرہم إلیہ لذاذۃً کمثلِ جیاعٍ عند خبزٍ مُرَقَّقِ اور ان کے دل اس کی طرف لذت کے ساتھ ایسے میل کرگئے جیسا کہ بھوکے نرم چپاتیوں کی طرف فأخرجَ حیواتِ العدا مِن جحورہا وأنزَلَ عُصْمًا من جبال التعَزُّقِ پس اس نے دشمنوں کے سانپوں کو ان کے سوراخوں سے باہر نکالا اور پہاڑی بکروں کو بخل کے پہاڑوں سے نیچے اتارا وکانوا بِہَمْسٍ یحمدون کأنہ حفیفُ طیور أو صداء التمطُّقِ اور نرم آواز سے تعریف کرتے تھے گویا وہ پروں کی ہلکی آواز تھی جب جانور صف باندھ کر اڑتے ہیں یا زبان کے ساتھ بقیہ عذر کو چاٹنے کی آواز تھی حداہم فلم یترک بہا قلبَ سَامِعٍ ولا أُذنًا إلا حدا مثلَ غَیْہَقِ ان کو خوش آوازی سے جلایا اور کسی دل کو نہ چھوڑا اور نہ کسی کان کو مگر اونٹ کی طرح اس کو چلایا کأن قلوب الناس عند کلامہ علٰی قلبہ لُفَّتْ کنبتٍ مُعَلّقِ گویا لوگوں کے دل اس کے کلام کے وقت اس کے دل پر لپیٹے گئے جیسا کہ ایک بوٹی درخت پر لپٹتی جاتی ہے وکان کسِمْطَیْ لُؤلوئٍ وَّزبرجدٍ وکان المعانی فیہ کالدُّرَر تبرقِ اور موتی اور زبرجد کی دو لڑیوں کی طرح وہ مضمون تھا اور معانی اس میں موتیوں کی طرح چمکتے تھے إلیہ صبَتْ رَغَبًا قلوبُ أولی النُّہی إذا ما رأوا دُرَرًا وسِمْطَ التزیُّقِ عقلمندوں کے دل اس کی طرف رغبت سے جھک گئے جس وقت انہوں نے موتی دیکھے اور زینت کی لڑی دیکھی

Page 262

ومِن عجب قد أخَذ کلٌّ نصیبَہ وفی السِمط کانت دُررہ لم تُفرَّقِ اور تعجب تو یہ ہے کہ ہر ایک نے اپنا حصہ لے لیا حالانکہ رشتہ کے موتی رشتہ میں موجودر ہے اور اس سے الگ نہ ہوئے إذا رُفِعَتْ أستارہا فکأنّہا عذاریٰ أَرَیْنَ الوجہَ مِن تحت بُخْنُقِ اور جب ان کے پردے اٹھائے گئے پس گویاوہ باکرہ عورتیں تھیں جنہوں نے برقع میں سے منہ نکالا فظلّ العذاریٰ ینتہبن بجلوۃ بَعاعَ قلوب المبصِرین بمأزقِ پس ان باکرہ عورتوں نے یہ شروع کیا کہ وہ عارفوں کے دلوں کے مال کو لڑائی میں لوٹتی تھیں فشِبْرٌ من الإیوان لم یبقَ خالیًا لِمَا ملأ الإیوان عشّاق منطقی پس میدان میں سے ایک بالشت جگہ خالی نہ رہی کیونکہ اس ایوان کو میرے سخن کے عاشقوں نے بھر دیا وکان الأناس لمیلہم نحو کلمتی بأقطارہ القصوی کطیرٍ مُرَنَّقِ اور لوگ بباعث اس کے کہ ان کو میرے کلام کی طرف میل تھا اس ایوان کے کناروں میں ایسے تھے کہ جیسے ایک پرندہ ایک طرف پرواز کر کے جانا چاہے اور جا نہ سکے وُقوفًا بہم صحبی لخدمۃ دینہم یرون عجائب ربہم مِن تعمُّقِ اور ان کے پاس میرے دوست کھڑے تھے جو خدا تعالیٰ کے عجائب کام دیکھ رہے تھے وکم من عیون الخلق فاضت دموعہا إذا ما رأوا آیاتِ ر بٍّ مُوفِّقِ اور بہتوں کے آنسو جاری ہو گئے جبکہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے نشان دیکھے وکانوا إذا سمعوا کلاما کلؤلؤٍ وکَلِمًا تُفرِّحہم کمِسْکٍ مدقَّقِ اور لوگوں کی یہ حالت تھی کہ جس وقت وہ اس کلام گوہر مثال کو سنتے تھے اور ان کلمات کو سنتے تھے جو مشک باریک کردہ کی طرح تھے یقولون کرِّرْہا وأرْوِ قلوبَنا وہُزَّ علینا من عُذَیْقک وانتَقِ کہتے تھے دوبارہ پڑھ اور ہمارے دلوں کو سیراب کر اور اپنی کھجوروں کو ہمارے پر ہلا اور جھاڑ ہنالک لاحتْ آیۃُ الحقّ کالضُّحیٰ فہل عند أمرٍ واضح مِن مُبَرِّقِ؟ اس جگہ دن کی طرح نشان خدا کا ظاہر ہو گیا پس کوئی ہے کہ ایک واضح امر کو آنکھ کھول کر دیکھے وإنی سُقیتُ المآء ماء َ المعارفِ وأُعطیت حکما عافہا قلب أحمقِ اور میں معارف کا پانی پلایا گیا ہوں اور وہ حکمتیں بھی مجھے عطا کی گئی ہیں جو صرف احمق ان سے کراہت کرتا ہے یمانیّۃٌ بیضاء ُ دُرَرٌ کأنہا جواہرُ سیف قد فداہا لمُوْبَقِ وہ یمنی حکمتیں موتیوں کی مانند ہیں گویا وہ تلوار کے جوہر ہیں جو کشتہ حسن کا خون بہا ہیں

Page 263

فکان بکلماتی یجرّ قلوبہم إلیہ ولم یسحَرْ ولم یتملَّقِ پس وہ میرے کلموں کے ساتھ ان کے دلوں کو کھینچتا تھا اور نہ کوئی سحر تھا اور نہ کوئی دلجوئی تھی وأضحی یسُحُّ المائَ مائَ فصاحۃٍ علی کل قلب مستعدّ مُجَعْفِقِ اور اس نے شروع کیا کہ ہر ایک مستعد دل پر جو طیار ہو فصاحت کا پانی گراتا تھا وکلٌّ أراؤوا مِن أساریر وجہہم سرورًا و ذوقًا ما ینافی التأزّقِ اور ہر ایک نے اپنے چہرہ کے نقشوں سے وہ سرور ظاہر کیا جو تنگ دلی کے منافی تھا ومَن سمع قولا غیرَ ما قرأ فاشتکی کما تشتکی إبلٌ عُقَیبَ التبرُّقِ اور جس نے میرے قول کے سوا کوئی اور قول سنا پس اس نے گلہ کیا جیسا کہ اونٹ بروق کی بوٹی کھا کر زحمت کی شکایت کرتا ہے وکانوا کمَمْحُوٍّ بعالَمِ سکتۃٍ فیا عجبًا مِن میلہم کالتعشّقِ اور وہ لوگ عالم سکتہ میں محو کی طرح تھے پس کیا عجیب ان کی میل تھی جو عشق کے مانند ساتھ تھی وکم حِکمٍ کانت بلَفِّ کلامنا وکم دررٍ کانت تلوح وتبرُقِ اور بہت سی حکمتیں ہمارے کلام میں تھیں اور بہت سے موتی ستارہ کی طرح چمک رہے تھے جرائدُ أقوام تصدّتْ لذکرہا لما رغبوا فی وصف قولی کمنشقی قوموں کے اخباروں نے اس کا ذکر کیا ہے کیونکہ انہوں نے بات کے چننے والوں کی طرح میرے قول کی طرف رغبت کی ہے تری زمرَ الأدباء فی أخبارہم أشاعوا کلامی للأناس کمُشْفِقِ تو ان کو دیکھتا ہے کہ انہوں نے اپنے اخباروں میں میرے کلام کو لوگوں میں مشفق کی طرح شائع کیا وکانت مضامینی کغِیْدٍ بلطفہا فأصبَتْ بحسنٍ ثم لحنٍ کیَلْمَقِ اور میرے مضامین نازک اندام عورتوں کی طرح تھے پس حسن کے ساتھ پھر اس آواز کیساتھ جو بطور قبا کے تھی دل اس کی طرف جھک گئے ولما رآہا أہلُ رأی تمایلتْ علَیْہِ عیونُ قلوبہم بالتوَمُّقِ اور جب اس مضمون کو اہل الرائے لوگوں نے دیکھا توان کے دلوں کی آنکھیں دوستی کیساتھ اس طرف جھک گئیں ومرَّ علی الأعداء بعضُ رشاشہَا فنَفیانُہا قد غسّل أوساخَ خُنْبُقِ اور بعض رشحات اس کے دشمنوں پر گرے پس اس کے اڑنے والے قطروں نے متکبر بخیل کے میلوں کو دھودیا إلی ہذہ الأیام لم یُنْسَ ذکرُہا وکل لطیف لا محالۃَ یُرمَقِ ان دنوں تک ان کا ذکر فراموش نہیں ہوا اور ہر ایک لطیف ناچار ہمیشہ دیکھا جاتا ہے اور نظریں اس کی طرف لگی رہتی ہیں

Page 264

جزی اللّٰہ عنی مخلصی حین قرأہا فصارت مضامین العدا کالممزَّقِ میرے مخلص کو خدا جزائے خیر دے جبکہ اس نے وہ مضمون پڑھا پس دشمنوں کے مضمون پارہ پارہ ہو گئے و کان الأ ناس غداۃ یوم قیامہِ حِراصًا إلیہ کمثل طفلٍ لِبَلْعَقِ اور جس دن وہ پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا تو لوگ اس کی طرف ایسے حریص تھے جیسا کہ ایک بچہ عمدہ کھجور کیلئے وأخبرَنی مِن قبلُ ربّی بوحیہ وقال سیعلوا ما کتبتَ ویبرُقِ اور خدا نے پہلے سے بذریعہ وحی مجھے خبر دی اور کہا کہ جو کچھ تو نے لکھا ہے غالب رہے گا اور اس کی چمک ظاہر ہو گی فشہدتْ جذور قلوبہم أنہا علَتْ وفاقتْ و راقتْ کلَّ قلب کصَمْلَقِ پس ان کے دلوں نے گواہی دی کہ وہ مضمون غالب رہا اور فائق ہوا اور ہر ایک سیدھے اور صاف دل کو اچھا معلوم ہوا تراء ی بعین الناس حسنُ نکاتہا وکلماتہا کأنہا بیضُ عَقْعَقِ لوگوں کی نظر میں اس کے نکات اور کلمات ایسے دکھائی دیئے کہ گویا وہ عقعق کے انڈے ہیں فوقعتْ مضامینی علی کل منکر کعَضْبٍ رقیقِ الشفرتَین مُشقِّقِ پس میرے مضامین منکروں پر ایسے پڑے جیسے کہ ایک تلوار پتلے کنارہ والی پھاڑنے والی وکلٌّ من الأحرار ألقَوا قلوبہم إلینا بصدقٍ غیرَ مَن کان مُمْحَقِ اور تمام آزاد طبعوں نے اپنے دل ہماری طرف پھینک دیئے صدق کیساتھ بجز ایسے شخص کے جو خیرا ور برکت سے بے نصیب تھا فصِدْنا بکلمٍ کلَّ صید معظَّمٍ کأسدٍ ونمر غیر فأر وخِرْنِقِ پس ہم نے بڑے بڑے شکاروں کو شکار کر لیا مثل شیر اور چیتا کے اور چوہا اور خرگوش باہر رہ گیا وترکوا لقولی رأیہم فکأنہم خَذولٌ أتتْ ترعی خمیلۃَ منطقی اور میرے قول کیلئے انہوں نے اپنے قول چھوڑ دئیے پس گویا کہ وہ منفرد ہرنیاں تھیں جو میرے سخن کے باغ میں چرنے لگیں علی ألْسُنٍ قد دارَ ذکرُ کلامنا و قد ہنَّؤُ ونا کالحبیب المشوِّقِ اور زبانوں پر ہمارے کلام کا ذکر وارد ہوا اور دوست آرزومند کی طرح ہمیں مبارکباد دی و سَرَّ عیونَ الناظرین صفاؤُہ کوردٍ طَرِیّ الجسم لم یتشقّقِ اور دیکھنے والوں کے دلوں کو اس کی صفائی نے خوش کیا مثل گلاب کے پھول کے جو تازہ ہو اور پھٹا ہوا نہ ہو ولما بدَتْ روضُ الکلام تضعضعتْ قلوبُ العدا وتواردوا بالتأنُّقِ اور جب کلام کے باغ ظاہر ہوئے تو دشمنوں کے دل ہل گئے اور تعجب کرتے ہوئے ان باغوں میں داخل ہوئے

Page 265

وقد جَدَّ شیخُ المبطِلین لمنعہم فہل عند شوقٍ غالبٍ مِن مُعوِّقِ اور شیخ بٹالوی نے ان کے منع کرنے کے لئے کوشش کی مگر شائق کو کون روک سکتا ہے تسلَّتْ عَمایاتُ الہنود بسمعہا وما قلَّ بخلُ الشیخ فانظُرْ وعَمِّقِ ہندوؤں کے کورانہ خیال اس مضمون سے دور ہو گئے اور شیخ بطالوی کا بخل دور نہ ہوا پس سوچ اور غور کر ففاضت دموعی مِن تذکُّرِ بخلہ أہذا ہو الرجل الذی کان یتقی پس مجھے اس کے بخل کا خیال کر کے رونا آیا کیا یہ وہی شخص ہے جو پرہیزگاری دکھلاتا تھا إذا قام للإسماعِ شیخُ 'بطالۃ' ففرّتْ جموعٌ کارہین کجَوْرَقِ اور جب سنانے کے لئے شیخ بٹالوی اٹھا تو اکثرلوگ کراہت کر کے شتر مرغ کی طرح بھاگے ولما تلا الشیخ المزوّر ما تلا فکان الأناس یرونہ کیف ینطِقِ اور جب شیخ دروغ آرا نے پڑھا جو پڑھا پس لوگ اس کو دیکھتے تھے کہ کیونکر پڑھتا ہے وکان یَعُتُّ الکلِمَ مِن غیر حاجۃ و یأ تی بألفاظ کصخرٍ مُدَمْلَقِ اور وہ کلموں کو بغیر حاجت کے بار بار پڑھتا تھا اور بڑے بھاری پتھر کی طرح الفاظ لاتا تھا ومَن سمع قولی قبلہ ظنَّ أنّہ لدی ثمرات العَذْق نافضُ عَسْبِقِ اور جو شخص میرا قول اس سے پہلے سن چکا تھا وہ خیال کرتا تھا کہ کھجور کے پھلوں کے ہوتے ہوئے ایک کڑوے درخت کا پھل توڑ رہا ہے وقال أری الإسلام کالجوّ خالِیًا وما إنْ أری الآیاتِ مِن صالحٍ تقی اور کہا کہ میں اسلام کو پول کی طرح خالی دیکھتا ہوں اور کوئی صاحب کرامت اس میں پایا نہیں جاتا فصال علی الإسلام فی جمع العدا وقد کان یعلم أنہ یتخلَّقِ پس دشمنوں کے مجمع میں اسلام پر حملہ کیا اور وہ خوب جانتا تھا کہ وہ جھوٹ بولتا تھا وحمّد کبراء َ الہنود ودینَہم وداہنَ مِن وجہ النفاق کمُنفِقِ اور ہندوؤں کے بزرگوں اور ان کے دین کی تعریف کی اور محتاجوں کی طرح نفاق سے مداہنہ کیا أراد لیُخزِیَ دیننا من عداوتی فأخزاہ ربٌّ قادرٌ حافِظُ الحَقِ اس نے ارادہ کیا کہ میری عداوت سے دین کو رسوا کرے سو خدائے قادر حق کے محافظ نے اس کو ہی رسوا کر دیا فلمّا رأوا سِیَرَ الغراب بنطقہ فقالوا لک الویلاتُ إنک تنعِقِ پس جب لوگوں نے کوّے کی سیرت اس کے نطق میں دیکھی تو انہوں نے کہا تجھ پر واویلا تُو تو کاں کاں کر رہا ہے

Page 266

وقالوا لہ یا شیخُ وقتُک قد مضی فأحسِنْ إلینا بالسّکوت وأَطْرِقِ اور لوگوں نے کہا کہ اے شیخ تیرا وقت گزر گیا پس اپنی خاموشی سے ہم پر احسان کر ولما أصرّ علی القیام وما نآی فقیل: علی عقبیک إنک تَدمُقِ پس جب اپنے قیام پر اصرار کیا اور دور نہ ہوا پس کہا گیا کہ پیچھے ہٹ جا تو بے اجازت کھڑا ہوتا ہے فما طاوعَ الأحرارَ حمقًا وما انتہی فقالوا إذًا صَہْ صَہْ وَلا تکُ مُقلِقِ پس حماقت کی وجہ سے اس نے اچھوں کی بات کو نہ مانا اور باز نہ آیا پس لوگوں نے کہا کہ چپ رہ چپ رہ اور بے آرام نہ کر فلمّا أبیٰ فنفاہ صدرُ المُنْتدیٰ بزجرٍ یلیق بذی مکائدَ أَفْسَقِ پس جبکہ سرکشی کی تو میر مجلس نے اس کو نکال دیا اور اسے جھڑکی کے ساتھ نکالا جو فاسقوں کا علاج ہے أَہَانَ المُہَیمنُ مَن أراد إہَانتی فرَمِّقْ ومیضَ الحق إن کنت ترمُقِ خدا نے اس شخص کو ذلیل کیا جو میری ذلت چاہتا تھا پس حق کی چمک کو دیکھ اگر دیکھ سکتا ہے یدُ اللّٰہ تحمی نفسَ مَن ہو صادق وإن المزوّر یضمحلّ ویزہَقِ خدا کا ہاتھ صادق کی حمایت کرتا ہے اور جھوٹا مضمحل ہو جاتا ہے اور ہلاک ہوجاتا ہے وتبقی رجالُ اللّٰہ عند نہابِرٍ علی النار تفنی الکاذبون کزِیبَقِ اور خدا کے مرد مصیبتوں کے وقت باقی رہتے ہیں اور جھوٹے آگ پر پارہ کی طرح فنا ہوجاتے ہیں إذا ما بدتْ نارٌ من اللّٰہ فتنۃً فکل کذوبٍ لا محالۃ یُحْرَقِ جس وقت خدا کی آگ آشکارا ہوتی ہے پس ہر ایک جھوٹا جلایا جاتا ہے ومَن یُحرِق الصدّیقَ حِبَّ مہیمنٍ فطُوْبٰی لمن یُصْلٰی بنار التوَمُّقِ اور صدیق کو جو خدا کا دوست ہے کوئی جلا نہیں سکتا پس مبارک وہ جو دوستی کی آگ سے جلتا ہے ومن کذّب الصدّیقَ خبثًا وَفِرْیَۃً فیَسفِیہ إعصارٌ ویُخزی ویَسفُقِ جو شخص خباثت اور جھوٹ کی راہ سے صدیق کی توہین کرے پس ایک گردباد کی ہوا اس کو اڑا کر لے جاتی اور اس کو رسواکرتی ہے اور اس کے منہ پر طمانچہ مارتی ہے ومہما یکُنْ حقٌّ من اللّٰہ وَاضِحٌ وإنْ ردَّہا زُمْرٌ مِّنَ النَّاس یبرُقِ اور جس جگہ حق واضح ہو اگرچہ لوگ اس کو رد کریں تب بھی وہ چمک اٹھتا ہے ومَن کان مُفتریًا یُضَاع بسُرْعۃٍ ویہلک کذّاب بسمّ التّخَلُّقِ اور مفتری جلد ہلاک کیا جاتا ہے اور کاذب جھوٹ کے زہر سے مرجاتا ہے

Page 267

تریٰ قولہ مِن کُل خیرٍ خَالیًا کنبتٍ خبیثِ الریح مُرٍّ سَنَعْبَقِ تو اس کی بات کو ہر ایک نیکی سے خالی پائے گا جیسا کہ ایک پلید بوٹی بدبو والی کڑوی جس کا نام سنعبق ہے فَیُقْطَع نبتٌ لا مُریحٌ وجودُہ وکل نخیل لا محالۃ یَسمُقِ پس ایسی بوٹی کاٹ دی جاتی ہے جس کا وجود کچھ فائدہ نہیں دیتا اور ہر ایک کھجور کا درخت ضرور اپنی لمبائی تک پہنچ جاتا ہے وإنی من المولٰی عُذَیقٌ مُرَجَّبٌ فیُعرَقُ قاطعُ شجرتی کلَّ مَعْرَقِ اور میں خدا تعالیٰ کی طرف سے وہ کھجور ہوں جو ببار کثرت میوہ کے اس کے نیچے ستون دیا گیا ہے پس جو شخص میرے درخت کو قطع کرنا چاہے گا اس کے بدن سے گوشت علیحدہ کیا جائیگا حسبتم قتال الصادقین کہیِّنٍ وإن سہام الصَّادقین سیَخزِقِ تم نے صادقوں کی لڑائی کو آسان سمجھ لیا ہے اور صادقوں کے تیر آخر نشانہ پر لگا کرتے ہیں تقدّمتَ 'عبد الحق' فی السبّ والھجا فأُقْرِیْک ما أہدیتَ لی کالمُشوِّقِ اے عبد الحق تو نے گالیوں میں پیشقدمی کی پس میں تیری ویسی ہی دعوت کروں گا جیسا کہ تو نے اپنی آرزو سے تحفہ دیا وسمّیتَنی کلبًا وقد فُہْتَ شا تما وجاوزتَ حدّ الأمر یا أیہا الشقی اور میرا نام تو نے کتا رکھا اور گالیوں سے تو نے منہ کھولا اور اے شقی تو حد سے زیادہ گزر گیا وما الکلب إلا صورۃٌ أنت روحُہا فمثلک ینبح کالکلاب ویزعَقِ اور کتا ایک صورت ہے اور تو اس کی روح ہے پس تیرے جیسا آدمی کتے کی طرح بھونکتاہے اور فریاد کرتا ہے رمیتُک إذ عرّضتَ نفسَک رمیۃً ومَن أکثرَ التفسیق یوما یُفسَّقِ میں نے تجھے اس وقت گالی دی جبکہ تو نے اپنے نفس کو گالی کا نشانہ بنا دیا اور جو بدکارکہنے میں حد سے زیادہ گزر جائے آخر وہ بدکار ٹھہرایا جاتا ہے فأسقِیک مِمّا قلتَ کأسًا رویّۃً وذالک دَینٌ لازمٌ کیف یُمحَقِ میں تیرے ہی قول سے تجھے لبالب پیالے پلاؤں گا اور یہ لازم الادا قرض ہے پس اس سے کم نہیں کیا جائے گا فذُقْ أیہا الغالی طعامَ التبادلِ صَفیفٌ شِواء ٌ بالجَبِیز المرقَّقِ پس اے غلو کرنے والے بھاجی کا کھانا کھا بھنا ہوا گوشت ہے چپاتی کے ساتھ لطَمْناک تنبیہًا فألغیتَ لَطْمَنا فلیتَ لنا النعلینِ مِن جلدِ عَوہَقِ ہم نے تنبیہ کے لئے تجھے طمانچہ مارا مگر تو نے طمانچہ کو کچھ نہ سمجھا پس کاش ہمارے پاس مضبوط اونٹ کے چمڑے کا جوتا ہوتا وتسمع منی کلَّ سبٍّ تریْدہُ وإنْ ترفُقَنْ فی القول والصول أرفُقِ اور جو گالی تو دینا چاہے گا وہ ہم سے سنے گا اور اگر تو بات اور حملہ میں نرمی کرے گا تو ہم بھی نرمی کریں گے

Page 268

أطلتَ لسَانک کالبغایا وقاحۃً ظلمتَک جہلًا یا أخا الغُول فاتّقِ تو نے بدکار عورتوں کی طرح اپنی زبان دراز کی اور اے دیو تو نے اپنے پر ظلم کیا وأعلمُ أنّ جموعکم أیہا الغوی علیَّ حِراصٌ لو تُسرّون مُوْبِقی اور اے گمراہ میں خوب جانتا ہوں کہ تمہارے گروہ میرے قتل کے لئے سخت حریص ہیں اگر میرے قتل کا موقع پاؤ فأقسمتُ جَہْدًا بالذی ہُوَ رَبّنا سأُصلِی قلوبَ المفسدین وأُحْرِقِ پس میں نے خدا تعالیٰ کی قسم کھائی ہے کہ عنقریب میں مفسدوں کے دل جلاؤں گا أکفُّ لسانی کلَّ کفٍّ فإنْ تَرُمْ بِخُبثٍ فإنی دامغُ ہامۃِ الشقی میں جہاں تک ممکن ہے زبان کو بند رکھتا ہوں پس اگر تو خبث کا ارادہ کرے تو میں شقی کا سر توڑنے والا ہوں وأشْرَاک ما قُلْنا وقد فُہْتَ بالہجا بکلِمٍ أسالتْنی إلیک فأَغْلَقِ اور میری بات تجھے غصہ میں لائی اور تو پہلے بدگوئی کر چکا ایسے کلموں کے ساتھ جنہوں نے مجھے غصہ دلایا پس میں غصہ کرتا ہوں ولا خیرَ فی رفق إذا لم تکن بہ مواضعُ رفقٍ تطلُب الرفقَ کالحقِ اور اس نرمی میں بہتری نہیں جو نرمی کے محل پر نہ ہو ایسا محل جو نرمی کو چاہتا ہے اور حقکی طرح اس کو مانگتا ہے ولو قَبْلَ سبِّ المُکْفِرین سببتُہم لکنتُ ظلوما مُسْرفًا غیرَ متّقی اور اگر کافر ٹھہرانے والوں کے گالی دینے سے پہلے میں گالی دیتا تو میں ظالم اور حد سے گزرنے والا اور ناپرہیزگار ہوتا ولکن ہجَوا قبلی فأوجَبَ لی الہجا ہجاہم فما عُدْوانُ عبدٍ مُسَبَّقِ مگر انہوں نے مجھ سے پہلے ہجو کی پس ان کی ہجو نے مجھے ہجو پر برانگیختہ کیا پس اور اس شخص پر کیا الزام جس پر سبقت کئے گئے وقد کفَّرونِ وفسّقونِ وإنہم کذئب سطَوا أو مثل سیفٍ مُشَقِّقِ انہوں نے مجھے کافر ٹھہرایا اور فاسق ٹھہرایا اور انہوں نے بھیڑیئے کی طرح حملہ کیا یا پھاڑنے والی تلوار کی طرح وما کان قصدی أن أکلّم مثلہم ولٰکِنّہم قد کلّفونی فأُقْلَقِ اور میری نیت نہ تھی کہ ان کی طرح گفتگو کروں مگرمجھے انہوں نے تکلیف دی پس میں بے آرام کیا گیا لہم صولُ کَلْبٍ والتحَوِّی کحیّۃٍ وعاداتُ سِرْحانٍ وقلبٌ کخِرْنِقِ ان کا کتے کی طرح حملہ ہے اور سانپ کی طرح پیچ و تاب ہے اور بھیڑیئے کی طرح عادتیں ہیں اور خرگوش کا دل ہے

Page 269

و أرسلنی ربی لکَفْئِ سیولہم وغیضِ میاہٍ قد عَلَتْ مِن تدفُّقِ اور میرے خدا نے مجھے بھیجا ہے تا میں اسلام کی طرف سے ان کے سیلاب کو ہٹا دوں اور تا میں ان پانیوں کو خشک کروں جو گرتے گرتے زیادہ ہو گئے ہیں وإنی من المَوْلٰی وعُلِّمتُ سُبُلَہُ وأُعطیتُ حِکمًا مِن خبیر مُوفَِّقِ اور میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں اور حکیم توفیق دہندہ سے مجھے حکمتیں عطا ہوئی ہیں فنجَّیتُ مِن بِدَعِ الزمان وفِتَنِہ أناسا أطاعونی وزادوا تعلُّقی پس میں نے زمانہ کی بدعتوں اور فتنوں سے ان لوگوں کو نجات دی ہے جنہوں نے میری اطاعت کی اور میرا تعلق زیادہ کیا ألم تر کیف یشقُّ فُلْکی حُبابَہا وتجری علی راس العدا کالمُصَفِّقِ کیا تو دیکھتا نہیں کہ میری کشتی فتنہ کے بھاری پانی کو کیونکر پھاڑ رہی ہے اور دشمنوں کے سروں پر ایسی چلتی ہے کہ ایک حال سے دوسرے حال تک پہنچادیتی ہے وأُعطیتُ مِن علم الہُدٰی وتأفَّقَتْ بنا شمسُ جلوتِہ فصرتُ کمَشرِقِ اور میں علم ہدایت دیا گیا اور اس کے جلوہ کا آفتاب مجھے پہنچا اور میری افق میں سے نکلاپس میں مشرق کی طرح ہو گیا ولی آیۃ کبریٰ فمَن غضَّ بصرَہُ عنادًا فمَن یعطیہ عینَ التأنُّقِ اور میرے لئے نشان عظیم ہے پس جو شخص عناد سے اپنی آنکھ بند کرے اس کو محاسن پر غور کرنے کی کون آنکھ بخشے ألم تر فتنَ الدّہر کیف تکنّفتْ وہبَّتْ ریاحٌ لا کہیجانِ سَوْہَقِ کیا تو دیکھتا نہیں کہ زمانہ کے فتنے کیسے محیط ہو گئے اور ایسی ہوائیں چلیں جو تیز ہوا کا گردباد کیا ہوتا ہے فجئتُ من الربّ الذی یرحم الوری ویُرْسل غیمًا عند قحطٍ مُعَنْزِقِ پس میں اس ربّ کی طرف سے آیا جو خلقت پر رحم کرتا ہے اور بادل کو تنگ کرنے والے قحط کے وقت بھیجتا ہے أنا الضیغم البطل الذی تعرفونہ ثِمال الصّدوقِ مُبیدُ أہلِ التخَلُّقِ میں وہ شیر بہادر ہوں جس کو تم پہچانتے ہو پناہ راستباز کی اور دروغ گو کو ہلاک کرنے والا علی موطن یخشی الکذوبُ ہلاکَہ نقوم بصَمْصَامٍ حدیْدٍ وأذلَقِ اس میدان میں جو جھوٹا اپنی موت سے ڈرتا ہے ہم تیز تلوار کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں فمن جَاء نا فی موطن الحرب وَالوغیٰ یُداسُ ویُسحَق کالدواء المدقَّقِ پس جو شخص لڑائی کے میدان میں ہمارے پاس آیا پس وہ پیسا جائے گا جیسا کہ دوائی پیسی جاتی ہے و واللّٰہِ أَلقیتُ المراسی للعدا وقمتُ لسِلْمٍ أو لحرب مُمَزَّقِ اور بخدا میں نے دشمنوں کے لئے لنگر ڈالا ہے اور میں صلح کیلئے کھڑہو ا ہوں اور یا اس لڑائی کے لئے جوٹکڑے ٹکڑے کرنیوالی ہے

Page 270

فإن جنحوا للسَّلم فالسِّلمُ دیننا وإن نُدْعَ فی الہیْجائِ لَمْ نتأبَّقِ پس اگر صلح کے لئے جھکیں تو صلح ہمارا دین ہے اور اگر ہم لڑائی میں بلائے جائیں تو ہم پوشیدہ نہیں أراہم کآرامٍ وعِیْنٍ بصورہم وإن القلوب کمثل حجرٍ مُدَمْلقِ میں ان کو بظاہر صورت ہرنیوں اور گاؤدشتی کی طرح دیکھتا ہوں اور دل ان کے پتھر کی طرح سخت ہیں وإن تبغِنی فی ندوۃ السِّلم تُلْفِنی وإن تَدْعُنی فی موطن الحرب تلتَقِ اور اگر تو مجھے صلح کی مجلس میں بلائے گا تو مجھے وہاں پائے گا اور اگر تو مجھے جنگ کے میدان میں بلائے گا تو میں تجھے ملوں گا ونخضعُ للأعداء قبل خضوعہم ونرحل بعد الخصم مِن کلّ مأزَقِ اور ہم دشمنوں کے لئے جھکتے ہیں قبل اس کے جو وہ جھکیں اور ہم میدان سے جب تک دشمن کوچ نہ کرے کوچ نہیں کرتے فإن أسلموا خیر لہم ولئن عصوا فنکلِّمہم مِن بعدہ کالمشقَّقِ پس اگر اسلام لائے تو ان کے لئے بہتر ہے اور اگر نافرمان ہوئے پس ہم بعد اس کے ان کو ایسا مجروح کریں گے جیسا کہ کوئی پھاڑا جاتا ہے وقد جئتکم من نحو عشرین حِجّۃً ففکِّرْ أ ہذا مدّۃُ المتخَلِّقِ اور میں تمہارے پاس تخمیناً بیس برس سے آیا ہوں پس سوچ کہ کیا یہ دروغ گو مدّت ہے عجبتَ عَمائً أن أکون ابنَ مریم وإن شاء ربی کنتُ أعلی وأسبَقِ تو نے نابینائی سے تعجب کیا کہ میں ابن مریم ہو جاؤں اور اگر خدا چاہے تو میں اس مرتبہ سے بھی برتر ہو جاؤں وتُذکِّرُ لَعْنَ الخَلق فی أمر 'آتمٍ' وقد لُعِنَ الأبرارُ قبلی فحَقِّقِ اور آتھم کے مقدمہ میں تو لوگوں کی لعنت کا ذکر کرتا ہے حالانکہ ہمیشہ پہلے اس سے نیکوں پر لعنت بھیجی گئی تو تحقیق کرلے وإن الوری عُمیٌ یسبّون عُجْلۃً فلیس بشیء لعنُہم یا ابنَ أحمقِ اور لوگ اندھے ہیں جلدی سے گالیاں دینی شروع کر دیتے ہیں پس ان کا لعنت کرنا اے ابن احمق کچھ چیز نہیں ہے بل اللّٰہ یُرجِع لعنَ کُلّ مزوّرٍ إلیْہ فیُمسی بالملاعین مُلحَقِ بلکہ خدا تعالیٰ ہریک جھوٹے کی لعنت ایسے پر ڈالتا ہے پس وہ ایسی حالت میں شام کرتا ہے کہ ملعون ہوتا ہے فدَعْ عنک ذِکر اللّعن یا صیدَ لعنۃٍ ألم تر ما لاقیتَ بعد التَلَقْلُقِ اے لعنت کے شکار لعنت کا ذکر چھوڑ دے کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بکواس کے بعد تیرا کیا حال ہوا أ تزعم یا مَن لَعَنَنی بالجفاء أَن تخلّص منّی بل تُدَق وتُسْحَقِ اے وہ شخص جو ظلم کے ساتھ مجھ پر لعنت کی کہ تو مجھ سے رہائی پا جائے گا بلکہ پیسا جائے گا

Page 271

کحَبٍّ إذا مَا وقع فی مِطْحَن الرَّحیٰ فیعرُکُہ دور الرّحیٰ ویُدقِّقِ مثل اس دانہ کے جو چکی کے پیسنے کی جگہ میں پڑجائے پس چکی اس کو پیس ڈالے گی اور باریک کر دے گی لعنتم وإنّ اللّٰہ یلعن وجہکم ولا لَعْنَ إلاَّ لعن رَبٍّ ممزِّقِ تم نے لعنت کی اور خدا تمہارے منہ پر لعنت بھیجتا ہے اور لعنت خدا کی لعنت ہے وکنت أغُضُّ الطرفَ صبرًا علی الأذیٰ فلما انتہی الإیذاء ذقتم تخفُّقی اور میں ایذا پر چشم پوشی کرتا رہا اور جب ایذا انتہاء کو پہنچی تو تم نے میرے دُرّہ کو چکھ لیا وإن کان صلحاء الزمان کمثلکم فلا شک أنی فاسق بل کأفسَقِ اور زمانہ کے صلحاء اگر تمہارے جیسے ہوں تو کچھ شک نہیں کہ میں فاسق بلکہ افسق ہوں وما إن أری فی نفسک العلم والتُّقیٰ تصول کخنْزیرٍ وکالحمرِ تشہَقِ اور میں تیرے نفس میں علم اور عقل نہیں دیکھتا اور تو خنزیر کی طرح حملہ کرتا ہے اور گدھوں کی طرح آواز کرتا ہے رقصتَ کرقصِ بغیّۃٍ فی مجالسٍ وفَسَّقتَنی مع کون نفسک أفسَقِ اور تو نے بدکار عورت کی طرح رقص کیا اور مجھے فاسق ٹھہرایا حالانکہ تو سب سے زیادہ فاسق ہے وما نکرَہ المضمار إن کنتَ أہلہ ونأتیک یومَ نضالکم بالتّشوّقِ اور ہم میدان سے کراہت نہیں کرتے اگر تو اس کا اہل ہو اور ہم تمہاری لڑائی میں شوق کے ساتھ آئیں گے ومہما یکنْ حقٌّ من اللّٰہ وَاضِحٌ وإنْ ردَّہا زمرٌ من الناس یبرُقِ اور جس جگہ خدا تعالیٰ کی طرف سے حق واضح ہو اور اگرچہ لوگ اس کو رد کردیں وہ حق چمک اٹھتاہے فذَرْنی و ربّی إننی لک نَاصِحٌ وإن أ کُ کذّابًا فأُرْدَی وأُوْبَقِ پس مجھے میرے رب کے ساتھ چھوڑ دے اگر میں کاذب ہوں تو ہلاک کیا جاؤں گا دعوتَ علیّ فردَّہ اللّٰہ سَاخطا علیک فصرتَ کمثل ثوبٍ مُخَرْبَقِ تو نے میرے پر بددعا کی سو خدا نے تیری بددعا کو تجھ پر رد کر دیا پس تو پھٹے ہوئے کپڑے کی طرح ہو گیا تعالوا نناضِلْ أَیّہا الزمر کلکم لیہلک مَن أرداہ سمّ التخلُّقِ اے تمام گروہ کے لوگو آجاؤ تاکہ وہ شخص ہلاک ہو جو جھوٹ کے زہر سے ہلاک ہوا أراکم کذئب أو ککلب بصولکم وضَاہَی تکلُّمُکم حمارًا ینہَقِ میں تمہیں بھیڑیئے کی طرح دیکھتا ہوں یا کتے کی طرح حملہ میں اور تمہاراکلام گدھے کی آواز سے مشابہ ہے

Page 272

لقد ذاق منا قومنا غیرَ مرّۃٍ حُسامًا جراحتُہ إلی الفَرْقِ ترتقی ہماری قوم نے بے شمار مرتبہ ہماری تلوار کا وہ مزہ چکھا ہے کہ جن کا زخم چوٹی تک پہنچتا ہے وإن کنتَ فی شکّ فسَلْ شیخَ فَجرۃٍ غویًّا غبیًّا فی البطالۃِ مُوبَقِ پس اگر تجھے شک ہے تو شیخ بطالوی کو پوچھ لے جو غبی اور غوی اور بطالت میں ہلاک کیا گیا ہے لکلّ امرئٍ عزمٌ لأمرٍ، وعزمُہ إہانۃُ دین اللہ فاذہَبْ و حَقِّقِ ہریک شخص کسی امر کے واسطہ ایک قصد رکھتا ہے اور قصد اس شخص کا اہانت دین کی ہے جااور تحقیق کر لے ألا أیہا الشیخ الشقیّ تَعمَّقِ وفکِّرْ کإنسان إلی ما تَنہقِ اے شیخ شقی سوچ اور انسان کی طرح فکر کر اور گدھے کی طرح آواز نہ کر أ کفّرتَ قومًا مسلمین خباثۃً؟ ظلمتَک جہلًا فاتّقِ اللّٰہ وارفُقِ کیا تو نے مسلمان کو ازروئے خباثت کے کافر ٹھہرایا تو نے جہالت سے اپنے پر ظلم کیا پس ڈر اور نرمی کر وتُقطَع أیدی السّارقین لدرنھم فقُلْ ما جزاء مکفِّرٍ ومفسِّقِ اور ایک درہم کیلئے چوروں کے ہاتھ کاٹے جاتے ہیں پس کہہ کہ کافر ٹھہرانے والے کی سزا کیا ہے صبرنا علی طغواک فازددتَ شقوۃً وخادعتَ أنعامًا بقولٍ ملفَّقِ ہم نے تیری زیادتی پر صبر کیا اور چارپایوں کو تو نے محض باتوں سے دھوکہ دیا وإن شئتَ بارِزْنی وإن شئت فاستتِرْ فإنی سأمحو کلَّ ما کنتَ تنمقِ اگر چاہے تو مقابلہ کر اور اگر چاہے تو چُھپ جا پس میں ہر ایک جو تو نے لکھا تھا عنقریب محو کر دوں گا وجدتُک مِن قوم لئام تأبّطوا شرورًا وسبّوا الصالحین کحِذْلقِ میں نے تجھ کو اس قوم میں سے پایا ہے جنہوں نے شرارتوں کو بغل میں اور صلحاء کو گالیاں دیں جیسے دروغگو لاف زن دیتے ہیں سببتَ وأغریتَ اللئام خباثۃً علیّ فآذَونی ککلب یحرّقِ تو نے گالیاں دیں اور بہت جاہلوں کو گالی کیلئے ترغیب دی پس انہوں نے مجھے کتے دانت پیسنے والے کی طرح تکلیف دی فأُقسِم لو لا خشیۃ اللّٰہ والحیا لأزمعتُ أَنْ أُفنیک سَبًّا و أَدہَقِ پس میں قسم کھاتا ہوں کہ اگر خدا کا خوف اور حیا نہ ہوتا تو میں قصد کرتا کہ گالیوں سے تجھے فنا کر دیتا وقد ضاقت الدنیا علیک کما تریٰ ودینک ہذا فاتّقِ اللہ و ارفُقِ اور دنیا تجھ پر تنگ ہو گئی جیسا کہ تو دیکھتا ہے اور دین تیرا یہ ہے پس خدا سے ڈر اور نرمی کر

Page 273

وإن کنتَ قد سرّتْک عادۃُ غلظۃٍ فمَزِّقْ ثیابی، مِن ثیابک أَمزِقِ اور اگر تجھے درشت گوئی کی عادت اچھی معلوم ہوتی ہے پس تو میرے کپڑے پھاڑ اور میں تیرے پھاڑوں گا ألم ترَ شمل الدین کیف تفرّقتْ فلیتَ کمثلک جاہلٌ لم یُخلَقِ کیا تو نے دیکھا نہیں کہ دین میں کس طرح تفرقہ پڑ گیا ہے پس کاش تیرے جیسا جاہل پیدا ہی نہ ہوتا وکذّبتَ نبأ اللّٰہ فی خائرٍ فنا وقلتَ بخبثٍ أنّہ لم یَصْدَقِ اور لیکھرام کی پیشگوئی کے بارے میں تو نے تکذیب کی اور خباثت کی رو سے کہا کہ وہ سچی نہیں ہوئی وتنحتَ بُہتانًا علیّ کَفَاسِقٍ وتُعزی إلٰی نفسی جرائمَ مُوبِقِ اور میرے پر تُو ایک فاسق کی طرح بہتان باندھ رہا ہے اور لیکھرام کے ہلاک کرنیوالے کا جرم میری طرف منسوب کرتا ہے أ ترمی بریًّا یا خبیث بذنبہ ألا تتّقی الدیّانَ یا أیّہا الشّقی کیا تو اے خبیث قتل کرنیوالے کا گناہ مجھ پر لگاتا ہے اے شقی کیا تو خدا سے نہیں ڈرتا فطورًا تشیر إلیّ خبثًا وتارۃً تشیر إلی حزبی بکذبِ تخلُّقِ پس کبھی تو تُو میری طرف اشارہ کرتا ہے اور کبھی میری جماعت کی طرف اس جھوٹ سے جو بنا رہا ہے وَوَاللّٰہِ إن جماعتی فی جموعکم کشجرۃٍ عَذْقٍ عندنبت السَنَعْبَقِ اور بخدا میری جماعت تمہاری جماعتوں میں کھجور کے درخت کی طرح ہے جو ایک خراب بوٹی کے پاس ہو جس کا نام سنعبق ہے ومثل الذی یتّبعنی بعد سِلمہ کمثل ذُرَی سِرٍّ مُرَبًّی بأودَقِ اور جواسلام کے بعد میرا تابعدار ہوا اس کی یہ مثال ہے جیسے کہ وادی کی زمین عمدہ کی چوٹی جس پر کالا بادل برس گیا ہے فلما عراہ المَحْلُ رُبِّیَ ثانیًا فصار کمَوْلِیِّ الأَسِرَّۃِ مُوْرِقِ پس جب خشک سال اس پر طاری ہواتو پھر اس پر پانی برسا پس وہ اس عمدہ زمین کی طرح ہو گئے جس پر دوبارہ بارش ہوتی ہے اور اپنی سبز پتی باہر لے آتی ہے أ تنکر آیَ اللّٰہ خُبْثًا و شِقْوۃً وآیۃَ مَیْتٍ با لدّم المندفِقِ کیا تو خدا کے نشانوں کا انکار کرتا ہے اور اس مردہ کے نشان کو جس کے ساتھ خون ٹپکتا ہے أَذَلَّتْ لی الأَعْنَاقُ من غیر آیۃ؟ أ جآء تنی العُلمَاء من غیر مُقْلِقِ؟ کیا نشان کے بغیر ہی گردنیں میری طرف جھک گئیں کیا علما بغیر کسی محرک اور بے آرام کرنیوالے کے یونہی آگئے إلی اللّٰہ نشکو مِن ظنونِ مُکذِّبٍ وإنّ المکذّب سوف یُخْزی ویُسحقِ ہم خدا کی طرف مکذبوں کی بدگمانیوں سے شکایت لیجاتے ہیں اور مکذب رسوا کیا جائے گا اور پیسا جائے گا

Page 274

أ تنکر آیۃَ خالقِ الأَرض والسَّما أ أنت تحارب قَدْرَہ أیّہا الشقی کیا تو خدا کے نشانوں سے انکار کرے گا کیا تو اے شقی اس کی تقدیر سے جنگ کرے گا أ تُذعِرنا کالذئب یا کلبَ جیفۃٍ وإنا توکلنا علی حافظٍ یقِی اے مردار کے کتے کیا تو ہمیں بھیڑیئے کی طرح ڈراتا ہے اور ہمیں اس نگہبان پر توکل ہے جو نگہ رکھنے والا ہے رضینا بربٍّ یُظہِر الخیر وَالہُدیٰ رَضیْنا بعُسرٍ إنْ قَضیٰ أو تَفَنَّقِ ہم خدا سے جو خیر اور ہدایت کو ظاہر کرتا ہے راضی ہو گئے اور ہم تنگدستی پر راضی ہو گئے اگر وہ چاہے اور یا تنعم پر أأنت تُؤَیّد فاسقا غیر صالح أَحَلْتَ بجہلک أیہا الغُوْل فاتَّق کیا تو فاسق ہونے کی حالت میں مدد کیا جائے گا یہ تو کلمہ محال منہ پر لایا پس توبہ کر وإنی إذا ما قمتُ للّٰہ مُخلصًا فأیَّدنی ربّی معینی مُوفِّقِی اور میں جب اخلاص سے خدا کے لئے کھڑا ہوا پس خدا توفیق دہندہ نے میری مدد کی وکان لی الرحمٰن فی کل مَوْطِنٍ فمَزَّقْتُکم باللہ کلَّ المُمَزَّقِ اور خدا میرے لئے ہر میدان میں تھا پس میں نے خدا کے ساتھ تم کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا وأُعطیتُ قلمًا مثل منجرِد الوغٰی فیُسعِر نیرانا وکالبرق یخفُقِ اور میں قلم لڑائی کے گھوڑے کی طرح دیا گیا ہوں پس آگ کو سلگاتی ہے اور برق کی طرح ہلتی ہے مِکَرٌّ مِفَرٌّ مُقبِلٌ مُدبِرٌ معًا کدأبِ أجارِدَ عند مَوْقدِ مأزَقِ حملہ کرنیوالے بھاگنے والے آگے ہونیوالے پیچھے ہونیوالے جیسا کہ لڑائی کے میدان میں عمدہ گھوڑوں کی عادت ہے وإنّ یَراعی صارمٌ یحرق العَدا کنار وما النیران منہ بأحرَقِ اور میرا قلم ایک تلوار ہے جو دشمنوں کو جلاتا ہے اور آگ اس سے کچھ زیادہ جلانے والی نہیں وإن کلامی مثل سَیْفٍ مقطّعٍ یَجُذُّ رؤوس المفسدین ویفرُقِ اور میرا کلام تیغ برّان کی طرح ہے مفسدوں کا سر کاٹتی اور جدا کرتی ہے وإنی إذا حاوَلْتُ کَلِمًا فصیْحۃٍ فناولَنی ربی أفانینَ منطِقی اور جب میں نے خدا سے کلمات فصاحت طلب کئے پس میں اپنے رب سے گوناگوں فصاحت کلام دیا گیا وأُعطیتُ فی سُبُل الکلام قریحۃً کحوجاء٭ مِرقال تزُجُّ وتدبقژ اور کلام کی راہوں میں ایسی طبیعت دیا گیا ہوں جو اس اونٹنی لاغر کی طرح ہے جو جلد اور ہر ایک اونٹنی پر مقدم رہتی ہے ٭ سہو کتابت معلوم ہوتا ہے ’’عَوجاء‘‘ہونا چاہیے.سبع معلقات کے دوسرے قصیدہ میں ’’عوجاء مرقالٍ‘‘ استعمال ہوا ہے.(ناشر) ژ سہو کتابت معلوم ہوتا ہے ’’تدلق‘‘ ہونا چاہیے.(ناشر)

Page 275

ونزَّہہا الرحمٰن عن کُلِّ أَبْلَۃٍ وصُیِّرَ غیری کالحقیر الحَبَلَّقِ اور خدا نے ان کلموں کو ہر ایک نقصان سے منزہ کیا اور میرا غیر حقیر کوتہ قد کی طرح کیا گیا علونا ذری قنن الکلام و قولنا زلالٌ نَمیرٌ لا کَمَائٍ مُرَنَّقِ ہم کلام کے پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ گئے اور ہمارا قول آب خوش اور صافی ہے اور میلا کچیلا نہیں فلو جاء نا بالزمر سَحبانُ وائلٍ لفرَّ من المیدان خوفًا کخِرْنِقِ پس اگر اپنے گروہ کے ساتھ سحبان وائل بھی ہمارے پاس آئے ہر آئینہ ٭ ڈر کر خرگوش کی طرح میدان سے بھاگ جائے وفاضت علی شفتی من اللہ رَحْمۃٌ فقولی ونطقی آیَۃٌ للمُحقّقِ اور خدا کی طرف سے میرے لبوں پر رحمت جاری کی گئی ہے پس میرا قول اور نطق محقق کے لئے ایک نشان ہے وکلِم کسِمطَی لُؤلُوئٍ قدنظمتُہا وجمل کأفنان العُذَیْق الأسْمَقِ اور کلمے موتیوں کی طرح ہیں جن کو میں نے منظوم کیا اور جملے لطیف جو کھجور کی شاخوں کی طرح ہیں وہ کھجور جو بہت لمبی چلی گئی ہے إذا ما عرضْنا قولنا کالمناضلِ کَمَیتٍ سقطم ژ أو کثوبٍ مُخَرَّقِ جب ہم نے لڑنے والے کی طرح اپنا سخن پیش کیا پس تم مردہ کی طرح یا پھٹے ہوئے کپڑے کی طرح گر گئے فما کان یوم الجمع إلَّا لذلّکم لیُبْدی ربّی شأنَ رجلٍ موفَّقِ پس جلسہ ہدایت کا دن ایسی غرض سے تھا کہ تمہاری ذلت ظاہر ہو اور تا خدا تعالیٰ توفیق یافتہ انسان کی شان ظاہر کرے أبادکم الرحمٰن خزیًا وَّ ذِلّۃ و أ یّدنی فضلًا ففکِّرْ وعَمِّقِ خدا نے تم لوگوں کو ذلت کی مار سے مار دیا اور اپنے فضل سے میری تائید کی پس سوچ اور خوب سوچ ألا رُبَّ خصمٍ کان أَکْوٰی کمثلکم مُصِرًّا علی تکفیرہ غیر مُعتِقی خبردار ہو بہت سے دشمن تمہاری طرح سخت لڑنے والے تھے تکفیر پر اصرار کرنے والا باز نہ آنے والا فلما أ تاہ الرشد مِن واہبِ الہدی أ تانی وبایَعَنی بقلبٍ مصدِّقِ پس جبکہ اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہدایت پہنچی میرے پاس آیا اور دل کی تصدیق سے بیعت کی رأیتُ أولی الأبصار لا ینکروننی وینکر شأنی جاہلٌ مُتحزِّقِ میں نے دانشمندوں کو دیکھا ہے کہ میرا انکار نہیں کرتے اور جو جاہل اور بخیل ہو وہ میری شان سے انکار کرتا ہے لہم أعین لا یبصرون بہا فمَنْ یُریہم إذا فقدوا عیونَ التأنُّقِ ان کے واسطے آنکھیں ہیں جن سے وہ نہیں دیکھتے پس ان کو کون دکھاوے جب وہ اچھی باتوں کے دیکھنے کی آنکھ نہیں رکھتے ٭ ’’ہر آئینہ‘‘ سہو کتابت سے زائد لکھا گیا ہے صرف ’’تو‘‘ ہونا چاہیے (ناشر) ژ سہو کتابت معلوم ہوتا ہے ’’سقطتم‘‘ ہونا چاہیے.(ناشر)

Page 276

ألا أیہا الغالی إلامَ تُفسِّقُ؟ فدونک نُصحی واتّق اللّٰہ وارفُقِ اے غلو کرنے والے تو کب تک گالیاں دے گا پس میری نصیحت قبول کر اور خدا سے ڈر اور نرمی کر وما جئتکم مِن غیر آیٍ وحُجّۃٍ وقد أشرقتْ آیاتُ ربّی وتُشرِقِ اور میں بغیر نشانوں کے تمہارے پاس نہیں آیا اور میرے رب کے نشان چمکے ہیں اور بعد اس کے چمکیں گے فما وقع منہا خُذْ کمَنْ یطلب الہدی وما لم یقَعْ فاترُکْ ہواک ورَنِّقِ پس جو کچھ اس میں سے واقع ہو گیا اس کو طالب ہدایت کی طرح لے لے اور جو واقع نہیں ہوا اس کے لینے کا منتظر رہ رأیتُ کثیرا مِن لئامٍ وّ إنّنِی کمثلک ما آنستُ رَجُلاً زَبَعْبَقِ میں نے بہت لئیم دیکھے مگر میں نے تیرے جیسا بدخو کوئی نہ دیکھا تستَّرَ لُبُّک تحتَ کبرٍ وَّنخوۃٍ کلُبٍّ عفا فی بطنِ جوزٍ مُرَصَّقِ تیری عقل تکبر اور نخوت کے نیچے چھپ گئی اس مغز اخروٹ کی طرح جو تنگ اور سخت چھلکے والے اخروٹ میں چھپ گیا ہو أراک کفَدَّانٍ تخاذَلُ رجلُہ فلا بدّ من رجلٍ یسوق ویزعَقِ میں تجھے اس بیل کی طرح دیکھتا ہوں جو چلنے میں سستی کرتا ہے پس ایسے آدمی کا ہونا ضروری ہے کہ ہانکے اور بلند آواز سے زجر کرے ومَا أَنتَ إلَّا کالعصَافیر ذلۃً وتحسب نفسک مِن عَمائٍ کسَوذَقِ اور تو کچھ نہیں مگر ایک چڑیا ہے اور نابینائی سے اپنے تئیں ایک شاہین سمجھتا ہے فتُرجَم یا إبلیس ثم بحَربۃٍ تُمزَّقُ تمزیقا کثوبٍ مُشَبْرَقِ پس اے ابلیس تو سنگسار کیا جائے گا اور پھر ایک حربہ کے ساتھ پتلے کپڑے کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کیا جائے گا ورثت لئامًا قد خلوا قبل وقتکم تشابہت الأطوارُ یَا أیُّہَا الشقی تو ان لئیموں کا وارث ہو گیا جو تمہارے پہلے گزر گئے اے شقی تمہارے طور ان سے مشابہ ہو گئے وساء تْک ما قلنا فعینُک قد عمتْ کمثل خفافیشٍ إذا الشمس تُشرِقِ اور تجھے ہماری بات بری معلوم ہوئی اور تو اندھا ہو گیا ان شپروں کی طرح جو سورج کے چمکنے کے وقت اندھی ہو جاتی ہیں ومَن لم یکن فی دینہٖ ذا بصیرۃٍ یکُنْ أمرُہ تکذیبُ أمرٍ محقَّقِ اور جو شخص اپنے دین میں بصیرت نہ رکھتا ہو محققوں کی تکذیب اس کی عادت ہو گئی قفَوتم أمورًا لم یکن عِلمُہا لکم فإنی عَلَیْکم یا عدا الحقِّ أُشفِقِ تم ان امور کے پیرو ہو گئے جن کا تمہیں علم نہ تھا و میں او دشمنانِ حق تمہاری حالت پر ہراساں ہوں

Page 277

و تُنکِر ما أَبْدی المُہَیمنُ عزّتی ولا تنتہی بل کالمجانین تَشمَقِ اور خدا نے جو ہماری عزت ظاہر کی اس سے تو انکار کرتا ہے اور باز نہیں آتا بلکہ دیوانوں کی طرح خوش ہوتا ہے وبونٌ بعید بین شِلْقٍ وقِرْشِنا فنبلَعکم کالقرش یا أہلَ عَمْلَقِ اور چھوٹی مچھلی اور ہماری بڑی مچھلی میں بڑا فرق ہے پس ہم تمہیں بڑی مچھلی کی طرح نگل لیں گے اے ظالمو ونحن بحمد اللّٰہ نِلْنا مدارجًا وصرتم کمَیتٍ أو کخَشْبٍ مُدَہْدَقِ اور ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے مدارج تک پہنچ گئے اور تم مردہ کی طرح ہو گئے یا ٹوٹی ہوئی لکڑی کی طرح أحاطت بنا الأنوار من کل جانب ومِن أفقنا شمسُ المحاسن تُشرِقِ ہر ایک طرف سے ہمیں نور محیط ہو گئے ہیں اور ہمارے اُفق سے آفتاب محاسن طلوع کرتا ہے وینمو من الرحمن حقٌّ مطہَّرٌ وما کان مِن غُولٍ فیَفنَی ویُمحَقِ اور خدا کی بات نشو و نما پاتی ہے اور جو شیطان کی طرف سے ہو وہ فنا ہو جاتا ہے اور نقصان پذیر ہو جاتا ہے وَوَاللّٰہِ إنی مؤمنٌ ومُحِبّہُ أأنت علینا بابَ ذی المجد تُغلِقِ اور بخدا میں مومن اور محب خدا ہوں کیا تو ہم پر خدا تعالیٰ کا دروازہ بند کرتا ہے وتذکُرنی کالمفسدین مُحقِّرًا تقول فقیرٌ مفلِسٌ بل کمُدْحَقِ اور مجھے تحقیر سے تو یاد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ایکمحتاج مفلس بلکہ ایسے آدمی کی طرح ہے جو بالکل بے نصیب ہو أتفخر یا مسکین مِن قِلّۃ النّہٰی بمالٍ وأولادٍ وجاہٍ ونُسْتُقِ اے مسکین کیا کم عقلی کی وجہ سے مال اور اولاد اور مرتبہ اور نوکر چاکروں سے فخر کرتا ہے وما الفخر إلا بالتقاۃ وبالہُدٰی ولا مالَ فی الدنیا کقلبٍ یتّقی اور فخر محض پرہیز گاری کے ساتھ ہے اور دنیا میں کوئی مال پرہیز گار دل کی طرح نہیں تسبُّ وقد شاہدتَ صِدْقی وآیتی وإن الفتٰی بعد البصیرۃ یَعْتَقِی تو مجھے گالی دیتا ہے اور میرا صدق اور میری شان دیکھ چکا ہے اور مرد آدمی بصیرت کے بعد بدگوئی سے ٹھہر جاتا ہے علی رأس مائۃٍ بُعث رجلٌ مجدّدٌ حدیث صحیح لا کقولٍ مُلفَّقِ صدی کے سر پر ایک مجدد آیا یہ حدیث صحیح ہے کوئی بناوٹی کا قول نہیں أتعزو إلیَّ الافترائَ خباثۃً وقد عصمنی ربُّ الوری مِن تخَلُّقِ کیا میری طرف خباثت سے افترا کی تہمت کرتا ہے اور خدا نے مجھے جھوٹ بولنے سے بچایا ہوا ہے

Page 278

نشأتُ أحِبُّ الصّدقَ طفلاً ویافِعًا وکہلاً ولو مُزِّقتُ کلَّ الممزَّقِ میں بچپن سے جوانی اور کہولت کے زمانہ تک سچائی سے دوستی رکھتا ہوں اگرچہ ٹکڑے ٹکڑے کیا جاؤں شرِبنا زُلالاً لا یُکدَّر صفوُہ وذُقنا شرابا محیِیًا مِن تذوُّقِ ہم نے وہ پانی پیا ہے جس کی صفائی مکدر نہیں ہوتی اور ہم نے وہ شربت پیا ہے جو وقتاً فوقتاً پینے سے زندہ کر دیتاہے عجبتُ لعقلک یا أسیرَ ضلالۃٍ ! ترکتَ نمیرَ الماء مِن حُبِّ غَلْفَقِ تیری عقل پر اے گرفتار ضلالت تعجب ہے تونے اچھا پانی کائی کی خواہش سے ترک کر دیا أتُبصِر فی عَیْنَیْ مخالفک القَذی وعینُک مِن جِذْلٍ عتا تتشقَّقِ کیا تو اپنے مخالف کی آنکھ میں ایک تنکا دیکھتا ہے اور تیری آنکھ ایک موٹی جڑ کے اندر جانے سے پھٹ رہی ہے تموت بوادٍ ذی حِقافٍ عَقَنْقَلٍ وتکرہ روضًا مِن عُذَیْقٍ مُلبَّقِ تو ایک ریتلے اور تہ بتہ ریت کے جنگل میں مرتا ہے اور کھجوروں کے باغ سے پرہیز کرتا ہے تجلّی الہُدی والشمسُ نضَّتْ نقابَہا وأنت کخفّاش الدُّجی تتأبَّقِ ظاہر ہو گئی ہدایت اور سورج نے برقع اتار ڈالا اور تو خفاش کی طرح چھپتا ہے وسمّیتَنی أشقی الرّجال تعصّبًا فتعلَم إنْ مِتنا غدًا أیُّنا الشّقی اور میرا نام تو نے اشقی الرجال رکھا ہے پس مرنے کے بعد تجھے معلوم ہو گا کہ ہم دونوں میں سے کون شقی ہے ولا یستوی المرء انِ ہذا محقِّقٌ وآخر یتبَع کلَّ قولٍ مُلفَّقِ اور ایسے دو آدمی برابر نہیں ہو سکتے کہ ایک ان میں سے محقق ہے اور دوسرا ہر ایک رطب و یابس کی پیروی کرتا ہے أری رأسک المنحوس قَفْرًا من النُّہٰی وقلبًا کمَوماۃٍ ونفسًا کسَلْمَقِ میں تیرے منحوس سرکو عقل سے خالی دیکھتا ہوں اور تیرے دل کو بے آب و دانہ جنگل کی طرح اور تیرینفس کو بنجر زمین کی طرح متی ضلَّ عقلُ المَرْء ضلَّت حواسُہُ فلا یُؤنِس الوَحْلَ المُزِلَّ ویزْمقِ جب انسان کی عقل گمراہ ہو جاتی ہے تو ساتھ ہی حواس بھی گمراہ ہو جاتے ہیں پس وہ پھسلانے والے کیچڑ کو نہیں دیکھتا اور پھسل جاتا ہے کذلک متّمْ مِن عنادٍ وّ نقمۃٍ فأَنّٰی لکم تأییدُ رَبٍّ مُوفِّقِ اسی طرح تم عناد اور کینہ سے مر گئے پس خدا کی تائید تمہیں کہاں ہے أفی الکفر أمثالٌ جفائً وَّغلظۃً لکم أیہا الرامون رَمْیَ التخَلُّقِ کیا کافروں میں ظلم اور درشتی میں تمہارا کوئی نمونہ پایا جاتا ہے اے وے لوگو جو محض دروغگوئی سے گالیاں دے رہے ہو

Page 279

أہذا ہو التقوی الذی فی جموعکم أتلک الأمور ومثلہا شأنُ متّقی کیا یہی تمہاری جماعتوں کا تقویٰ ہے کیا یہ امور اور ان کی مانند متقی کی شان کے لائق ہیں وَقُلتُ لکم توبوا وکُفُّوا لسَانَکُم فما کان فیکم مَن یتوب ویتّقی اور میں نے تمہیں کہا کہ توبہ کرو اور زبان کو بند رکھو پس تم میں کوئی بھی ایسا نہ تھا کہ توبہ اور تقویٰ اختیار کرتا ولِلّٰہِ آیاتٌ لتأیید أمرنا وإنا کتبنا بعضہا للمُحقّقِ اور خدا نے ہمارے امر کی تائید میں کئی نشان ظاہر کئے ہیں اور بعض کو ہم نے محققوں کے لئے لکھ دیا علٰی قلبِ أہلِ اللّٰہ نزلتْ سَکینۃٌ وقلبک یا مفتونُ یَعوِی وینہَقِ اہل اللہ کے دل پر سکینت نازل ہو گئی اور تیرا دل اے فتنہ میں پڑے ہوئے گدھے کی طرح آواز کر رہا ہے أیا لاعِنِی إن السعادۃ فی التُّقَی فخَفْ قہرَ ربٍّ حافظِ الحقّ وَاتَّقِ اے میرے لعنت کرنے والے سعادت نیک بختی میں ہے پس خودنگہدارندۂ حق سے ڈر اور تقویٰ اختیار کر إذا کُتِبَ أنّ الموت لا بد تُدرِکُ فموت الفتی خیر لہ مِن تَخلُّقِ جب لکھا گیا کہ موت ضرور ہے پس مرد کا مرنا جھوٹ بولنے سے بہتر ہے ولا یفلح الإنسان إلَّا بصدقہِ وکل کَذُوبٍ لا محالۃَ یُوبَقِ اور انسان محض صدق سے نجات پاتا ہے اور ہر ایک دروغگو آخر ہلاک ہوتا ہے وما انفتحتْ شدقاک بالسبّ والہجا وتکذیبِ أہل الحق إلاَّ لِتُمْلَقِ اور تو نے گالیوں کے ساتھ اس لئے منہ کھولا ہے اور اس لئے تکذیب کرتا ہے کہ تا محو کیا جائے وإنّ سِقام الجسم ملتمَسُ الشفا ولیس دواء فی الدکاکین للشقی اور جسم کی بیماری قابل شفا ہے مگر شقاوت کی کسی دوکان میں دوا نہیں وَوَاللّٰہِ لو لا حَربتی لم تکَدْ ترٰی نَہِیکًا تَحُطُّ ضلالۃً حین تَسْمُقِ اور بخدا اگر میرا حربہ نہ ہوتا تو تو کوئی ایسا بہادر نہ پاتا کہ گمراہی کو بلند ہونے سے روکتا وإنی کتبتُ قصیدتی ہٰذہ لکم فمِن حَیِّکم مَن کان حیًّا لیَنْمُقِ اور میں نے یہ قصیدہ تمہارے مقابلہ کیلئے لکھا ہے پس تمہارے گروہ میں سے جو زندہ ہے وہ بھی لکھے کَبُکْمٍ أراکم أو کأَ حْمِرَۃِ الفلا غدَا طَلْقُ ألسُنِکم کزوجٍ تُطلَّقِ میں گونگوں کی طرح تمہیں دیکھتا ہوں یا جنگل کے گدھوں کی طرح اور تمہاری زبان کی روانگی ایسی کھوئی گئی جیسا کہ عورت کو طلاق دی جاتی ہے

Page 280

أ تحسبُ أن القول قولُ الأجانبِ وقد صُبَّ مِن عینی کماء ٍ مُدَغْفِقِ کیا تو گمان کرتا ہے کہ یہ قول غیروں کا قول ہے حالانکہ یہ میرے چشمہ سے پانی ٹپکنے والے کی طرح گرایا گیا ہے فما ہی إلَّا کلمۃٌ قیل مثلہا فقالوا أعانَ علیہ قومٌ کمُشْفِقِ پس یہ تو ایسا کلمہ ہے کہ پہلے ایسا کہا گیا ہے اور لوگوں نے کہا کہ اس کی دوسروں نے مدد کی ہے ففَکِّرْ أَتَعلمُ مُنشئًا لی کتَمْتُہ فیملوا٭ القصائد لی بحِجْرِ التأبُّقِ پس فکر کر کیا ایسا منشی تجھے معلوم ہے جو میں نے چھپا رکھا ہے پس وہ میرے لیے پوشیدہ بیٹھ کر قصیدہ لکھتا ہے أ تنحَتُ کذبًا لیس عندک شاہدٌ علیہ وتنبَح کالکلاب وتَزْعَقِ کیا تو ایسا جھوٹ تراشتا ہے کہ اس پر تیرے پاس کوئی گواہ نہیں اور کتوں کی طرح بھونکتا اور فریاد کرتا ہے رضیتَ بحکَّاکاتِ إبلیس شقوۃً وآثرتَ سبل الغیّ یا أیّہا الشّقی شیطانی وساوس کے ساتھ تو راضی ہو گیا اور گمراہی کی راہیں اے شقی تو نے اختیار کیں أ تنکر آیاتی وقد شاہدتَہا أ تُعرِض عن حق مبین مُزَوَّقِ کیا تو دیدۂ و دانستہ میرے نشانوں سے اعراض کرتا ہے کیا تو کھلے کھلے اور آراستہ حق سے انکار کرتا ہے وقد مات 'آتم' عمُّک المتنصّرُ وقد حُقَّ أن تُمحٰی لُحاکُم وتُحْلَقِ اور آتھم تیرا چچا نصرانی مر گیا اور واجب ہوا کہ تمہاری داڑھیاں نابود کی جائیں اور منڈائی جائیں رأیتم جوازیکم من اللّٰہ ربِّنا ومُتّمْ کموت المفسد المتخلِّقِ لو تم نے خدا تعالیٰ کی طرف سے اپنی سزائیں دیکھ لیں اور تم اس طرح مر گئے جس طرح مفسد دروغ گو مرتا ہے وقد قطع ربّی آنُفَ الجمع کلِّہم وأخزی العِدا وأبادَ کُلاًّ بمأزِقِ اور میرے خدا نے تمام مخالفوں کی ناک کاٹ دی اور دشمنوں کو رسوا کیا اور سب کو میدان میں ہلاک کر دیا تکنَّفَ قلبَک صَدأُ ظلماتِ الشقا فما إنْ أَرَی فیک الہدایۃَ تُشرِقِ تیرے دل پر انکار شقاوت محیط ہو گیا ہے پس میں نہیں دیکھتا کہ ہدایت تجھ میں چمکے وقد ضاع ما عُلِّمتَ إن کنتَ عالمًا کزُبُرٍ إذا حُمِلتْ علی ظہرِ زِہْلِقِ اگر تو عالم تھا تو تیرا سب علم برباد ہو گیا ان کتابوں کی طرح جبکہ گدھے پر لادی جائیں أراک ومَن ضاہاک رَبْرَبَ جہلۃٍ تلا بعضُکم بعضا کأحمقَ أنْزَقِ میں تجھے اور تیرے امثال کو جاہلوں کا ریوڑ دیکھتا ہوں بعض بعض کے پیچھے لگے جیسے نادان شتاب کار ٭ یبدو انہ سہو والصحیح ’’ فیملی‘‘.(ناشر)

Page 281

رأیتم عواقبکم بترک سفینتی وضاعتْ خلایاکم ومُتّم کمُغْرَقِ تم نے میرے سفینہ کے ترک سے اپنا انجام دیکھ لیا اور تمہاری بڑی بڑی کشتیاں تباہ ہو گئیں اور تم غرق شدہ انسان کی طرح مر گئے وعندی عیونٌ جاریات من الہُدی ہنیئًا لرجلٍ قد دناہا لیستقی اور میرے پاس ہدایت کے چشمے جاری ہیں اس آدمی کو وہ چشمے گوارا ہوں کہ ان سے نزدیک ہوا تا پانی پیئے وأُعطیتُ علمًا یملأ العَین قُرّۃً ونورًا علی وجہ المخالف یَبْزُقِ اور میں خدا تعالیٰ کی طرف سے علم دیا گیا ہوں جو آنکھ کو ٹھنڈا کرتا ہے اور نور دیا گیا ہوں جو مخالف کے منہ پر تھوکتا ہے وإنی أری العادین فی تیہۃ الشقا ومن جاء نی صدقًا فقد دخل جَوسَقِی اور میں ظالموں کو شقاوت کے جنگل میں دیکھتا ہوں اور جو صدق کے ساتھ میرے پاس آیا وہ میرے قلعہ میں داخل ہو گیا ولو کنتُ دجّالًا کذوبا لضرَّنی عداوۃُ مَن یّدعو علیَّ لِأُوبَقِ اور اگر میں دجال اور دروغگوہوتا تو مجھے اس شخص کی عداوت ضرر پہنچاتی جو مجھ پر میرے ہلاک ہونے کے لئے بددعا کرتا تھا دعَوا ثم سبُّوا ثم کادُوا فخُیِّبوا لِما حفظتْنی عینُ ربٍّ مُرَمِّقِ انہوں نے بددعائیں کیں پھر گالیاں دیں پھر مکر کیا پھر نااُمید ہو گئے کیونکہ خدا تعالیٰ کی آنکھ نے مجھے بچالیا وہ خدا جو ہمیشہ مجھے اپنی نظر میں رکھتا ہے ینازع أقوامٌ ویشتدّ حَرْبہم فیُعلِی المہیمن کلَّ مَن کان أصدَقِ قومیں جھگڑتی ہیں اور ان کی لڑائی سخت ہوتی ہے پھر خدا تعالیٰ اس شخص کا غلبہ ظاہر کرتا ہے جو اس کے نزدیک صادق ہوتا ہے فلیتَ عقولَ الزّمر قبلَ افتضاحہا یَصِلْنَ إلی حقٍّ مبین مُحقَّقِ پس کاش کہ مخالف جماعتوں کی عقلیں ان کی رسوائی سے پہلے کھلے کھلے حق کو پا لیں وما أنا إلا منذرٌ عند فتنۃٍ وقد جئتُ مِن ربّی کراعٍ مُعَفِّقِ اور میں فتنہ کے وقت ایک منذر ہو کر آیا ہوں اور میں اپنے رب کی طرف سے ایسا چرواہا ہوں جوبکریوں پراگندہ کو اپنی طرف لاتا ہے ولی قِرْبۃ شدُّوا علیَّ عِصامَہا لأُروِیَ أقواما بمائٍ أغدَقِ اور میری ایک مشک ہے جس کا بند میرے پر مضبوط کیا گیا ہے تا کہ میں قوموں کو بہت سے پانی سے سیراب کروں فمَن یأتِنی صدقًا کعطشانَ سَاعیًا یَجِدْ کاہلی ہذا ذَلولًا لمُسْتقِی پس جو شخص صدق کے ساتھ پیاسے کی طرح دوڑتا ہوا میرے پاس آئیگا میرے اس موہنڈے کو پانی کے طلب کرنیوالے کیلئے جھکا ہوا پائیگا فقُمْ شاہدًا لِلّٰہِ إن کنتَ خَاشِعًا وأکرَمُ ناسٍ عندہ فاتِکٌ تقِی پس اگر تو خدا کے لئے خشوع رکھتا ہے تو لِلّٰہگواہی کے لئے کھڑا ہو جا اور خدا کے نزدیک بزرگ آدمی وہی ہے جو دلیر اور نیک بخت ہے

Page 282

وقد کنتُ لِلّٰہِ الّذی کَانَ مَلْجَأِیْ وذٰلک سرٌّ بین روحی ومُزعِقی اور میں اس خدا کے لئے ہو گیا جو میری پناہ ہے اور یہ بھید ہے مجھ میں اور میری فریادگاہ میں رأیتُ وجوہًا ثم آثرتُ وَجْہَہٗ فواہًا لہ ولوجہہ المتألِّقِ میں نے کئی منہ دیکھے پس اس کا منہ اختیار کر لیا پس کیا اچھا وہ ہے اور کیا اچھا ہے اس کا منہ چمکنے والا أُحِبُّ بروحی فالِقَ الحبِّ والنّوٰی وإنّی لَأَوَّلُ مَن نَوَی کلَّ مُلْزَقِ میں اپنی جان کے ساتھ اس کودوست رکھتا ہوں جو دانہ اس کے جرم سے علیحدہ کرنے والا ہے اور میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے ہر ایک پیوستہ کو پھینک کر دیا ٭ہے وللہِ أسرار بعاشق وجہہ فسَلْ مَن یشاہد بعضَ ہذا التعلُّقِ اور خدا کو اس کے عاشق کے ساتھ بھید ہیں پس اس شخص سے پوچھ جو اس تعلق کو دیکھنے والا ہے لِحِبِّی خواصٌّ فِی الوصَالِ وفُرقۃٍ ففی القُرْب یحیینی وفی البُعْد یُوبِقِ میرے دوست کے لئے وصال اور جدائی میں خواص ہیں پس وہ قرب میں زندہ کرتا ہے اور دوری میں ہلاک کرتا ہے وأُعطیتُ مِن حِبِّی قمیصَ خلافۃٍ قمیصَ رسول اللّٰہ أبیضَ أَمْہَقِ اور میں اپنے پیارے کی طرف سے قمیص خلافت دیا گیا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قمیص جو بہت سفید ہے وأُعطیتُ عَلَمَ الفتح عَلَمَ محمَّدؐ ٍ وأُعْطِیتُ سیفًا جَذَّ أصلَ التَّخَلُّقِ اور میں فتح کا جھنڈا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ہے دیا گیا ہوں اور میں وہ تلوار دیا گیا ہوں جس نے جڑ دروغگوئی کی کاٹ دی فتلک علاماتٌ علٰی صدق دعوتی فإن کنتَ تطلبہا ففَتِّشْ وعَمِّقِ پس میرے صدق دعویٰ پر یہ علامتیں ہیں پس اگر تو ان علامتوں کو طلب کرتا ہے پس تفتیش کر اور سوچ وإنّ صراطی مثل جَسْرٍ علی اللظی حفافاہ نارٌ فَأْتِنی أیّہا التّقی اور میری راہ دوزخ پر پُل ہے اور دونوں کنارے اس کے آگ ہے پس اے پرہیز گار میرے پاس آجا إذا ما تحامَتْنی الأراذلُ کلہم فأیقنتُ أن شریفَ قومی سیلتقی اور جب تمام رزیلوں نے مجھے چھوڑ دیا پس میں نییقین کیا کہ جو میری قوم کا شریف ہے وہضرور مجھ سے ملے گا أری اللہَ یُخزی الفاسقین ویصطفی عبادًا لہٗ قُتِلوا بسَیْفِ التعشُّقِ میں دیکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ فاسقوں کو رسوا کرے گا اور اپنے بندوں کوجو عشق کی تلوار سے قتل کئے گئے چن لے گا ویأتی زمانٌ إنّ ربّی بفَضْلِہٖ یَجُذُّ رؤوس المُفْسدین ویفرُقِ اور وہ زمانہ آتا ہے کہ میرا رب اپنے فضل سے مفسدوں کے سرکاٹے گا اور جدا کرے گا ٭ سہو کتابت معلوم ہوتا ہے ’’ پھینک دیا ‘‘ ہونا چاہیے.(ناشر)

Page 283

وقد صُقِلَتْ کَلِمی کمثلِ سَجَنْجَلٍ فترنو إلیہا مُقْلۃُ المتأنِّقِ اور میرے کلمے آئینہ کی طرح صاف کئے گئے ہیں پس تعجب کرنیوالے کی نظر اس کو ٹکٹکی لگا کر دیکھتی ہے أری غِیْدَ أسرارٍ نَضَضْنَ لِرَمْقِنا ومِن غیرنا باعَدْنَ کالمتأبِّقِ میں دیکھتا ہوں کہ نرم اندام عورتیں اسرار کی ہمارے لئے ننگی ہو گئیں اور غیروں سے وہ چھپنے والیوں کی طرح دور ہو گئیں إذا ما خرَجنَ من الغَبِیط بزینۃ فأصبی رَشاقتُہنّ قلبَ مُرَمِّقِ اور جبکہ وہ ہودہ سے زینت کے ساتھ نکلیں پس ان کا حسن اندام دیکھنے والوں کا دل لے گیا إذا ما تجلّٰی حسنُہن بنورہ فرحَلتْ کجالیۃٍ ظلامٌ یَغْسِقِ اور جب ان کا حسن اپنے نور کے ساتھ چمکا پس اندھیرا یوں چلا گیا جیسا کہ وہ لوگ جو اپنے گھروں سے آوارہ پھرتے ہیں وقَلَّ مِن الأخْدانِ مَن کان حُسنُہ کحسنِ عذارانا وخَدٍّ أبرَقِ اور معشوقوں میں سے بہت کم ہو گا جس کا حسن ہمارے ان باکرہ مضامین کی طرح ہو گا اور رخسار روشن ہوں گے فجُعِلَتْ بہ ذاتُ الکسور لنا السُّوَی وآنستُ وَہْدَ الجائرین کصَمْلَقِ پس ہمارے لئے ان کے ساتھ نشیب و فراز کی راہ سیدھی کی گئی اور میں نے ظلم کرنیوالوں کے گڑھوں کو برابر زمین کی طرح دیکھا ولیس کشرح الصدر للمرء نِعْمَۃٌ ومِن أردئِ الأوقاتِ وقتُ التأزُّقِ اور انسان کے لئے شرح صدر جیسی اور کوئی نعمت نہیں اور سب وقتوں سے زیادہ ردی وقت تنگدلی کا وقت ہے ونفسٌ کمَوماۃِ السباع مُبیدۃٌ بہا الذئب یعوی کالأسیر المخَنَّقِ اور بہت ایسے نفس ہیں کہ جنگل کے درندوں کی طرح ہلاک کرنیوالے انمیں بھیڑیا چیخیں مارتا ہے جیسا کہ قیدی جس کا گلا گھونٹا گیا ہو فما خفتُ صولتَہم وحقَّرتُ أمرَہم بما صاننی ربّی بعین التومُّقِ پس میں ان کے حملہ سے نہیں ڈرا اور ان کے کاروبار کو حقیر جانا کیونکہ خدا نے مجھے اپنی محبت کی آنکھ سے بچا لیا وکائِنْ تریٰ مِن مفسدٍ ہو صائلٌ علیّ فیدفعہ الحفیظ ویَغْفِقِ اور بہت مفسد تو دیکھے گا کہ وہ مجھ پر حملہ کرنیوالے ہیں پس خدا ایسے دشمن کو دفع کرتا اور اس کو تازیانہ مارتا ہے تجلّتْ من الرحمٰن أنوارُ حجّتی فما الخوف إن تُعْرِضْ وإنْ تتعزَّقِ خدا کی طرف سے میری حجت کے نور ظاہر ہو گئے ہیں پس کچھ خوف کی جگہ نہیں اگر تو کنارہ کرے یا بخل کرے سینصرنی ربی ویُعلِی عمارتی فہُدُّوا ورُضُّوا مِن أکُفٍّ وأسْوُقِ عنقریب خدا مجھے مدد دیگا اور میری عمارت کو بلند کرے گا پس اگر ممکن ہے تو اُس عمارت کو ہتھیلیوں اور پنڈلیوں سے مسمار کر دو

Page 284

تبصَّرْ خصیمی ہل تری مِن علامۃٍ بہا یُعرَف الکذّابُ عند المحقِّقِ اے میرے دشمن خوب دیکھ کیا تو کوئی علامت پاتا ہے جس سے جھوٹا پہچانا جاتا ہے إذا ما نقول ہلُمَّ لا تنبری لنا وفی بیتک المنحوس تہذی وترتقی جب کہیں آ تو ہمارے مقابل پر آتا نہیں اور اپنے منحوس گھر میں لکھتا اور اوپر چڑھتا ہے دعوتَ فأکثرتَ الدعاء لنَکْبَتی فواللہِ زِدْنا بعدہ فی التفَنُّقِ تو نے بددعا کی اور میرے ادبار کیلئے بہت بددعا کی پس بخدا ہم بعد اس کے تنعم میں زیادہ ہوئے عرَضْنا علیکم رحمۃً أمرَ ربِّنا فلم تحفِلوا کِبرًا وقد کنتُ أُشْفِقِ ہم نے مہربانی سے اپنا٭ رب کا امر تمہارے پیش کیا پس تم نے کچھ پرواہ نہ کی اور میں ڈرتا تھا وقلتُ لکم توبوا ولا تترکوا الحیا فزدتم عنادا واعتدیتم کأفسَقِ اور میں نے کہا کہ توبہ کرو اور حیا کو مت چھوڑو پس تم عناد کی رو سے بڑھ گئے اور حد سے زیادہ گذر گئے جیسا کہ فاسق ہوتے ہیں وإنی حبَستُ النفسَ عند فضولِکم صَبورًا علی سبٍّ وشتمٍ مُحرِّقِ اور میں نے تمہاری بکواس کے وقت اپنے تئیں روکا اور تمہاری گالیوں پر صبر کیا وواللّٰہ لا یُخزَی الصدوقُ بقولکم أیُرْہِقُ قتَرٌ وجہَ مَن کانَ أصْدَقِ اور بخدا صادق تمہاری بات کے ساتھ رسوا نہیں کیا جائیگا کیا صادق کے منہ پر غبار آسکتی ہے فتوبوا إلی الربّ الورٰیژ واستغفروا ولا تشتروا بالحق عیشًا مُرَمَّقِ پس خدا کی طرف توبہ کرو اور گناہ کی معافی چاہو اور تھوڑے عیش کے لئے حق کو مت چھوڑو خَاتمۃ الکتاب إنّ کتابی ہٰذا آخر الوصَایا للعُلَمَاء، الذین تَصدَّوا للتکذیب والاستہزاء یاحسرۃ علیہم وعلٰی ما أروا من حالۃٍ ! إنّہم فتحوا علی الناس أبواب ضلالۃٍ، فی زمنٍ تطایرت فیہالفتن کشُعلۃٍ جَوّالۃٍ، والناس کانوا تائہین فی مَوماۃٍ بَطالۃٍ، فألقاہم العلماء فی وہدٍ مُغتالۃٍ، وجمعوا لہم قذائفَ جہالۃٍ، ثم أوقدوا قذائفہم بقَبسٍ وذُبالۃٍ، وصاروا لہم کضِغْثٍ علٰی إِبّالۃٍ، واختارُوا مَدرَج الیہود، وسلکوا مَسلکَ الغیّ والعنود، وما کانوا مُنْتَہِیْن.

Page 285

فغلّظتُ علیہم بعد ما أَکدَی الاستعطافُ، ولم ینفع التملّق والاِئْتلاف، ولم أر فیہم أہل قلبٍ صافٍ، ولا فتًی مُصافٍ.وإنہم رغبوا من العِلم فی المَشُوف المُعْلَم، ومن الدَّر فی الدرہم، وترکوا طوائفَ أسرارٍ فاقت فی السَّناعۃ، کرجُلٍ یتخطّی رقابَ نُخب الجماعۃ، أو کامرء ۃ تتحرّی طرق الشناعۃ، وکانوا یعرفون شأنی ومقامی، ورأوا آیاتی وسمعوا کلامی.وإنی أکثرتُ لہم وصیّتی حتی قیل أِنّی مِکثارٌ، وما عُفْتُ أن یسبّنی أشرارٌ، فما نفعہم کلامی ومقالی، وما انتفعوا بتفصیلی وإجمالی، وکان ہٰذا أعظمَ المصائب علی الإسلام، لو لا رحمۃ اللہ ذو الجلال والإکرام.فالحمد للّٰہ علی مَا رحم وأرسل عبدہ بالآیات، وأنزل من البیّنات المفحِمات، وقَطَعَ دابر المفسدین.إنّہ أَحْسَن إلی الخَلْق وأتمّ حُجّتی، وأظہر لہم اٰیتی، وأعلا لہم رایتی، وأماط جلباب الشبہات، وما بقی إلا جَہام التعصّبات.وأبدَی فی تأییدی أنواع العُجاب، ونجّٰی أولی الألباب من حُجُبِ الارتیاب.وحان أن أطوی البیان وأقصّ جناح القصّۃ، وأُعرِض عن قوم لا یبالون الحق بعد إتمام الحجّۃ، فاعلموا أننی الآن أصرف وجہی عن کلّ من أہان، من الظالمین المتجاہلین، وأُبعِدُ نفسی من المنکرین الخائنین، وأعاہد اللہ أن لا أخاطبہم من بعد وأحسبہم کالمیّتین المدفونین، ولا أکلّم المکفّرین المکذّبین، ولا أسُبّ السابّین المعتدین، ولا أضیّع وقتی لقومٍ مُسْرفین، إلَّا الذین تابوا وأصلحوا وجاء ونی مسترشدین، ودقُّوا باب طلب الہدایۃ، واستفسروا لثلجِ القلب لا کأہل الغوایۃ، واٰمنوا مع المؤمنین.وہذا اٰخر ما کتبنا فی ہٰذا الباب، وندعو اللّٰہ أن یفتح لعبادہ سبل الصدق والصّواب، والحمد للہ فی المبدأ والمآب.وعلیہ توکّلنا، وإلیہ أنبنا، وإیاہ نستعین.رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَیْرُ الْفَاتِحِینَ، آمین.تمّت الرَّاقم میرزا غُلام أَحمد القادیانی ۲۶؍مئی سنۃ ۱۸۹۷ء

Page 286

Page 287

الہدیہ المبارکہ یعنی کتاب تحفۂ قیصریہ بمقام قادیان مطبع ضیاء الاسلام میں چھپا ۲۵ مئی ۱۸۹۵ء