Language: UR
یہ رسالہ ۲۲؍مئی۱۹۰۰ء کو شائع ہوا۔ اس رسالہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حقیقت جہاد اور اس کی فلاسفی بیان فرمائی اور قرآن و حدیث اور تاریخ سے جہاد پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا ہے کہ اوائل اسلام میں مسلمانوں کو بحالت مجبوری جو جنگ کرنی پڑیں وہ محض وقتی اور مدافعانہ اور مذہبی آزادی قائم کرنے کے لیے تھیں۔ ورنہ اسلام سے بڑھ کر صلح و آشتی اور امن اور سلامتی کا علمبردار کوئی اور مذہب نہیں ہے۔ حضرت اقدسؑ نے اپنی متعدد تالیفات میں جہاد کے مسئلہ پر روشنی ڈالی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کا مشن ادیان عالم پر دلائل اور براہین کی رو سے اتمام حجت اور اسلام کا غلبہ ثابت کرنا تھا۔ اور مغربی فلاسفروں اور مستشرقین علماء کا سب سے بڑا اعتراض اسلام پر یہ تھا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے اور وہ مذہب کے معاملہ میں جبر و اکراہ روا رکھتا ہے۔ چونکہ مغرب نے مسئلہ جہاد کی حقیقت نہ سمجھنے کی وجہ سے اسلام کی صورت سخت بھیانک رنگ میں پیش کی تھی اس لیے حضرت اقدسؑ نے اپنی متعدد تالیفات میں مسئلہ جہاد پر بحث کی اور اس کی حقیقت ظاہر فرمائی۔
03 ترتیب روحانی خزائن جلد ۱۷...۱ تحفہ گولڑویہ............۳۵ اربعین...............۳۴۱
05 نَحمدہٗ و نُصلّی علٰی رسولہِ الکریم3 تعارف (از حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس) یہ روحانی خزائن کی سترھویں جلد ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب.تحفہ گولڑویہ اور اربعین نمبر۱،نمبر۲، نمبر۳، نمبر۴ پر مشتمل ہے.یہ رسالہ ۲۲؍ مئی ۱۹۰۰ء کو شائع ہوا.اس رسالہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حقیقتِ جہاد اور اس کی فلاسفی بیان فرمائی اور قرآن و حدیث اور تاریخ سے جہاد پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا ہے کہ اوائلِ اسلام میں مسلمانوں کو بحالت مجبوری جو جنگیں کرنی پڑیں وہ محض وقتی اور مدافعانہ اور مذہبی آزادی قائم کرنے کے لئے تھیں.ورنہ اسلام سے بڑھ کر صلح و آشتی اور امن و سلامتی کا علمبردار کوئی اور مذہب نہیں ہے.حضرت اقدسؑ نے اپنی متعدد تالیفات میں جہاد کے مسئلہ پر روشنی ڈالی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کا مشن ادیانِ عالم پر دلائل وبراہین کی رُو سے اتمامِ حجت اور اسلام کا غلبہ ثابت کرنا تھا.اور مغربی فلاسفروں اور مستشرقین علماء کا سب سے بڑا اعتراض اسلام پر یہ تھا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے اور وہ مذہب کے معاملہ میں جبر و اکراہ روا رکھتا ہے.چنانچہ پادری میلکم میکال لنڈن کے انگریزی رسالہ ’’ دی ٹونٹیئتھہ سینچری‘‘* دسمبر ۱۸۷۷ء کے صفحہ ۸۳۲ میں لکھتا ہے:.’’قرآن دنیا کو دو۲ حصوں میں تقسیم کرتا ہے.دارالاسلام یعنی اسلام کا ملک اور دارالحرب یعنی دشمن کا ملک.جو لوگ مسلمان نہیں ہیں وہ سب اسلام کے مخالف ہیں.لہٰذا سچے مسلمان کا فرض ہے کہ کفار کے خلاف جنگ کریں یہاں تک کہ وہ یا تو اسلام قبول کر لیں یا قتل ہو جائیں جس کو جہاد یا جنگ مقدس کہتے ہیں.جس کا خاتمہ صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ یا تو دنیا کے کفار سب کے سب اسلام قبول کر لیں یا اُن *The 20th century
کا ہر ایک آدمی مارا جائے.پس خلیفۂ اسلام کا مقدس فرض یہ ہے کہ جب موقعہ پیش آئے غیر مسلم دنیا پر جہاد کیا جائے.‘‘ (ترجمہ از انگریزی) سر ولیم میور ’’Life of Muhammad‘‘ صفحہ۵۳۴ ، ۵۳۳ مطبوعہ لنڈن ۱۸۸۷ء میں لکھتے ہیں کہ مدینہ پہنچ کر طاقت حاصل کر لینے کے بعد 'Intolerance quickly took the place of freedom, force of Persuasion........Slay the unbelievers wheresoever ye find them; was now the watchword of Islam.' یعنی ’’مذہبی مزاحمت نے آزادی کی جگہ اور زبردستی نے ترغیب کی جگہ لے لی اور اسلام کا امتیازی نشان اب یہ کلمہ ہو گیا کہ جہاں پاؤ کافروں کو قتل کرو.‘‘ اور میجر آسبرن اپنی کتاب ’’ Islam under the Arab Role‘‘ میں جہاد کے زیر عنوان لکھتا ہے:.’’جب آپ کو تکلیفیں دی جاتی تھیں اس وقت جو اصول آپ نے تجویز کئے تھے اُن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ مذہب میں کوئی زبردستی نہیں ہونی چاہیئے......مگر کامیابی کے نشہ نے آپ کے بہتر خیالات کی آواز کو بہت عرصہ پہلے ہی خاموش کرا دیا تھا.انہوں نے جنگ کا ایک عام فرمان جاری کر دیا تھا (جس کا نتیجہ یہ تھا) کہ اہل عرب نے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں تلوار لے کر جلتے ہوئے شہروں کے شعلوں اور تباہ و برباد شدہ خاندانوں کی چیخ و پکار کے درمیان اپنے دین کی اشاعت کی.‘‘ (ترجمہ انگریزی) (’’اسلام انڈر دی عرب رول‘‘ مطبوعہ لانگ مین گرین اینڈ کمپنی لنڈن صفحہ ۴۶) چونکہ مغرب نے مسئلہ جہاد کی حقیقت نہ سمجھنے کی وجہ سے اسلام کی صورت سخت بھیانک رنگ میں پیش کی تھی اس لئے حضرت اقدسؑ نے اپنی متعدد تالیفات میں مسئلہ جہاد پر بحث کی اور اس کی حقیقت ظاہر فرمائی.علاوہ ازیں کئی ایک دوسری وجوہ اس مسئلہ پر بار بار لکھنے کی یہ ہوئیں:.(۱) آپ کا دعویٰ مسیح موعود اور مہدی معہود ہونے کا تھا اور مسلما نوں کا یہ خیال تھا کہ جب مسیح موعود اور مہدی ظاہر ہوں گے تو وہ کافروں سے جنگ کریں گے اور بزور شمشیر اسلام کی اشاعت
کریں گے.چنانچہ امام نووی حدیث یضع الجزیۃ کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: - ’’وامّا قولہ صلی اﷲ علیہ وسلم یضع الجزیۃ و الصواب فی معناہ انہ لا یقبلھا و لایقبلھا من الکفار الّا الاسلام‘ و من بذل منھم الجزیۃ لم یکف عنہ بھا بل لایقبل الّا الاسلام او القتل ہٰکذا قال الامام ابو سلیمان الخطابی وغیرہ من العلماء‘‘ (شرح النووی مع صحیح مسلم جلد اوّل صفحہ ۸۷ مطبوعہ اصح المطابع دہلی) ’’یعنی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ حضرت عیسیٰؑ جزیہ کو موقوف کر دیں گے اس کا صحیح مفہوم یہی ہے کہ وہ جزیہ قبول نہیں کریں گے اور کفار سے صرف ان کا اسلام لانا قبول کریں گے اور اُن میں سے اپنے آپ کو جو جزیہ دے کر چھڑانا چاہے گا تو وہ اس سے قبول نہ کیا جائے گا بلکہ مسیح علیہ السلام ان کے صرف اسلام لانے کو ہی قبول کریں گے اور اگر کوئی اسلام نہ لائے گا تو اُسے قتل کر دیں گے.امام ابو سلیمان الخطابی وغیرہ علماء نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان یضع الجزیۃ کا یہی مفہوم بیان کیا ہے-‘‘ (نیز دیکھو فتح الباری شرح صحیح بخاری لابن حجر العسقلانی جلد ۲ صفحہ ۳۱۵) اسی طرح نواب مولوی صدیق حسن خان بھوپالی اپنی کتاب ’’حجج الکرامۃ‘‘ صفحہ ۳۷۴ مطبوعہ مطبع شا ہجہانی واقع بلدہ بھوپال اور ان کے صاحبزادے نواب مولوی نور الحسن خان صاحب اپنی کتاب ’’اقتراب الساعۃ‘‘ میں مہدی معہود کی جنگوں کے متعلق لکھتے ہیں: - ’’سارے بادشاہ روئے زمین کے داخل اطاعت ہو جائیں گے.مہدی اپنا ایک لشکر طرف ہندوستان کے روانہ کریں گے.یہاں کے بادشاہ طوق بگردن ہو کر اُن کے پاس حاضر کئے جائیں گے.سارے خزانے ہند کے بیت المقدس بھیج دیئے جائیں گے.وہ سب خزائن حلیۂ بیت المقدس ہوں گے.کئی برس تک مہدی اس حال میں رہیں گے-‘‘ (اقتراب الساعۃ صفحہ ۸۰ مطبوعہ ۱۳۰۹ھ مطبع سعید المطابع بنارس) پس انگریزی گورنمنٹ ایک تو مسلمانوں کے اس عقیدہ کے مطابق کہ مسیح موعود اور مہدی بزورشمشیر کافروں کو مسلمان بنائیں گے یا انہیں قتل کر دیں گے حضرت بانی ٔ جماعت احمدیہ کو ان کے
دعویٔ مسیحیت اور مہدو ّیت کی وجہ سے مشکوک نگاہوں سے دیکھتی تھی.(۲) دوسرے اس وجہ سے کہ آپ کے دعویٔ مہدویت سے چند سال پہلے مہدی سوڈانی نے (۱۸۷۱ء.۱۸۸۲ء) میں مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور سوڈان میں جہاد کا اعلان کر کے انگریزوں سے جو جنگ و قتال کا ہنگامہ برپا کیا تھا اور آخر ۱۸۸۲ء میں شکست کھائی تھی انگریز اسے بھولے نہیں تھے.اس لئے مہدی کا دعویٰ کرنے والے کو گورنمنٹ انگریزی اچھی نظر سے نہیں دیکھ سکتی تھی اور نہ ایسے وجود کو برداشت کر سکتی تھی- (۳) تیسرے یہ کہ بعض علماء آپ کے خلاف حکومت کے پاس یہ ریشہ دوانیاں کر رہے تھے اور حکومت کو مہدی سوڈانی کا زمانہ یاد دلا کر آپ کے خلاف اُکسا رہے تھے.چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی کا تو یہ پیشہ ہو چکا تھا.وہ اپنے رسالہ ’’اشاعۃ السنہ‘‘ میں لکھتے ہیں: - ’’گورنمنٹ کو اس کا اعتبار کرنا مناسب نہیں اور اس سے پُرحذر رہنا ضروری ہے ورنہ اس مہدیٔ قادیانی سے اس قدر نقصان پہنچنے کا احتمال ہے جو مہدی سوڈانی سے نہیں پہنچا-‘‘ (اشاعۃ السنہ جلد ۱۶ نمبر ۶حاشیہ صفحہ ۱۶۸، ۱۸۹۳ء) (۴) چوتھے پادری صاحبان جو مسیح موعود علیہ السلام کا از روئے دلائل مقابلہ کرنے سے عاجز آ چکے تھے وہ اپنی شکست کا آپ سے انتقام لینا اسی صورت میں آسان خیال کرتے تھے کہ گورنمنٹ انگریزی کو جو ان کی ہم مذہب تھی آپ سے بدظن کر کے آپ کو قید کرا ویں یا آپ پر پابندی عائد کرا کے تبلیغ اسلام سے باز رکھیں چنانچہ پادری ہنری مارٹن کلارک نے اس مقدمہ اقدام قتل میں جو آپ کے خلاف پادریوں کی سازش سے کھڑا کیا گیا تھا یہ حلفی بیان دیا تھا کہ: - ’’مرزا صاحب کی نسبت میری ذاتی رائے یہ ہے کہ وہ ایک خراب فتنہ انگیز اور خطرناک آدمی ہے اچھا نہیں ہے-‘‘ (روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۲۰۰) پادری ہنری مارٹن کلارک انگریزی حکام کے ساتھ کُھلے بندوں ملتا اور اُن کے ساتھ کھاتا پیتا.اٹھتا بیٹھتا تھا گورنمنٹ انگریزی کے حکّام کے کان آپ کے خلاف بھرتا رہتا تھا اور اسی طرح دوسرے پادری عماد الدین وغیرہ بھی اپنی تحریروں میں بھی آپ پر اس قسم کے الزام لگاتے تھے.(۵) پانچویں آپ کے دعویٰ کا زمانہ وہ تھا جبکہ ۱۸۵۷ء کی بغاوت پر تھوڑا ہی عرصہ گذرا تھا.بغاوت میں گو ہندوؤں اور مسلمانوں نے حصہ لیا تھا.لیکن ہندوؤں نے یہ کہہ کر کہ اصل میں مسلمانوں نے اپنی
حکومت دوبارہ قائم کرنے کے لئے یہ سب فتنہ کھڑا کیا ہے اپنے آپ کو علیحدہ کر لیا اور حضرت اقدس بانی ٔ جماعت احمدیہ جنہوں نے خدا کے حکم سے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تھا.جس کے معنے انگریزوں کی نظر میں سوائے بغاوت کے اَور کچھ نہ تھے.دوسرے یہ کہ آپ مغل خاندان سے تھے اور اس شجرہ نسب کی ایک شاخ تھے جن کی سلطنت کا خاتمہ ۱۸۵۷ء میں انگریزوں کے ہاتھوں سے ہوا تھا.اس لئے آپ کے متعلق انگریزوں کا خیال کرنا کہ آپ نے مہدی ہونے کا دعویٰ اس لئے کیا ہے کہ تا اپنے خاندان کی کھوئی ہوئی عظمت اور سلطنت کو واپس لیں مستبعد امر نہیں تھا.خصوصاً جبکہ مولوی اور پادری بھی گورنمنٹ کو آپ کے خلاف بھڑکانے میں شب و روز مصروف تھے اور خفیہ رپورٹوں کے ذریعہ گورنمنٹ کو آپ سے بدظن کرانے کے لئے کوششیں کرتے رہتے تھے.انہی وجوہ کی بنا پر حضرت اقدسؑ کو بِکَرّاتٍ وَ مَرَّاتٍ اپنی تالیفات میں جہاد کے متعلق مسلمانوں کے غلط نظریہ کی تردید کرنے اور جہاد کی حقیقت بیان کرنے اور گورنمنٹ کی نسبت اپنے رویہ کی وضاحت کرنے کے لئے اس خاص رسالہ کے لکھنے کی ضرورت پیش آئی.۱۸۵۷ء کی بغاوت میں آپ کے خاندان نے جو گورنمنٹ کی خدمت کی تھی اس کا بار بار ذکر کرنے کی بھی یہی وجہ تھی اور یہ بتانا مقصود تھا کہ اگر دعویٔ مہدویت سے آپ کا مقصد اپنے خاندان کی کھوئی ہوئی ریاست کا واپس لینا ہوتا تو آپ کا خاندان اس وقت جبکہ انگریزوں کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے اُن کی مدد کیوں کرتا.انگریزی حکومت سے جہاد بالسیف نہ کرنے کی وجہ آپ نے انگریزوں سے جہاد بالسیف کو ناجائز اس لئے قرار دیا کہ شریعت اسلامی کی رُو سے ایسی گورنمنٹ سے جو امن و انصاف قائم کرتی اور کامل مذہبی آزادی دیتی اور مسلمانوں کے مال و جان کی حفاظت کرتی ہو‘جہاد بالسیف کرنا جائز نہیں ہے.چنانچہ آپ گورنمنٹ انگریزی کی خوشامد کرنے کا الزام دینے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: - ’’اے نادانو! مَیں اس گورنمنٹ کی کوئی خوشامدنہیں کرتا بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ایسی گورنمنٹ سے جو دین اسلام اور دینی رسوم پر کچھ دست اندازی نہیں کرتی اور نہ اپنے دین کو ترقی دینے کے لئے ہم پر تلواریں چلاتی ہے.قرآن شریف کی رُو سے جنگ مذہبی کرنا حرام ہے.کیونکہ وہ بھی کوئی مذہبی جہادنہیں کرتی-‘‘
(کشتی نوح.روحانی خزائن جلدنمبر۱۹ صفحہ ۷۵حاشیہ صفحہ ۶۹) اور فرماتے ہیں: - ’’جس حالت میں شریعت اسلام کا یہ واضح مسئلہ ہے جس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ ایسی سلطنت سے لڑائی اور جہاد کرنا جس کے زیر سایہ مسلمان لوگ امن اور عافیت اور آزادی سے زندگی بسر کرتے ہوں اور جس کے عطیات سے ممنون منت اور مرہون احسان ہوں اور جس کی مبارک سلطنت حقیقت میں نیکی اور ہدایت پھیلانے کے لئے کامل مددگار ہو قطعی حرام ہے-‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ۶۶) اور یہی مذہب حضرت سید احمد بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ مجدّد تیرھویں صدی کا تھا.مولانا محمد جعفر تھانیسری ۱؎ مؤلف سوانح احمدی لکھتے ہیں کہ ایک سائل نے یہ سوال کیا کہ آپ انگریزوں سے جو دین اسلام کے منکر اور اس ملک کے حاکم ہیں جہاد کر کے ملک ہندوستان کیوں نہیں لے لیتے؟ آپ نے فرمایا: - ’’سرکار انگریزی گو منکر اسلام ہے مگر مسلمانوں پر ظلم اور تعدّی نہیں کرتی اور نہ ان کوفرض مذہبی اور عبادت لازمی سے روکتی ہے.ہم ان کے ملک میں علانیہ وعظ کہتے ہیں اور ترویج مذہب کرتے ہیں وہ کبھی مانع اور مزاحم نہیں ہوتی …… ہمارا اصل کام اشاعتِ توحید الٰہی اور احیائے سُنن سیّد المرسلینؐ ہے.سو وہ بلا روک ٹوک اس ملک میں ہم کرتے ہیں.پھر ہم سرکار انگریزی پر کس سبب سے جہاد کریں.اور خلاف اصولِ اسلام طرفین کا خون بلا سبب گرا ویں.یہ جواب باصواب سن کر سائل خاموش ہو گیا اور اصل غرض جہاد کی سمجھ گیا-‘‘ (سوانح احمدی کلاں صفحہ ۷۱) اور صفحہ ۱۳۹ میں لکھتے ہیں: - ’’سیّد صاحب کا سرکار انگریزی سے جہاد کرنے کا ہرگز ارادہ نہیں تھا.وہ اس آزاد عملداری کو اپنی عملداری سمجھتے تھے-‘‘ ۱؎ مولانا محمد جعفر تھانیسری کے متعلق مولانا محمد علی جالندھری لکھتے ہیں کہ ہندوستان کی تاریخ میں اور سیاست میں کونسا طالب علم ہے جو کہ مولانا جعفر تھانیسری.مولانا فضل حق خیرآبادی کے نام اور آزادیٔ وطن کے لئے مساعی سے آشنا نہیں.(آزاد ۱۷؍ اپریل ۱۹۵۰ء)
اِسی طرح آپ کے دستِ راست شاگردِ رشید حضرت مولانا محمد اسماعیل شہیدؒ سے اثنائے قیامِ کلکتہ جب کہ آپ وعظ فرما رہے تھے.یہ سوال کیا گیا کہ سرکار انگریزی پر جہاد کرنا درست ہے یا نہیں؟ تو آپ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ: - ’’ایسی بے رُو ریا اور غیر متعصب سرکار پر کسی طرح بھی جہاد کرنا درست نہیں ہے-‘‘ (سوانح احمدی کلاں صفحہ ۵۷) اور سرسید احمد خان مرحوم نے اپنی تالیف ’’رسالہ بغاوت ہند‘‘ میں بدلائل ثابت کیا ہے کہ بغاوت ۱۸۵۷ء جہادنہ تھی اور نہ مسلمان انگریزی گورنمنٹ سے جہاد کرنے کے شرعاً مجاز تھے- اِسی طرح مولوی محمد حسین بٹالوی نے ایک رسالہ ’’الاقتصاد فی مسائل الجہاد‘‘ ۱۸۷۶ء میں تصنیف کیا اور علمائے اسلام کی رائے حاصل کرنے کے لئے انہوں نے لاہور سے لے کر عظیم آباد اور پٹنہ تک سفر کیا اور مختلف فرقہائے اسلام کے اکابر علماء کو یہ رسالہ حرف بحرف سُنا کر ان کا توافق رائے حاصل کیا.اس میں آپ دلائل ذکر کر کے لکھتے ہیں: - ’’ان دلائل سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ ملک ہندوستان باوجودیکہ عیسائی سلطنت کے قبضہ میں ہے دارالاسلام ہے.اس پر کسی بادشاہ کو عرب کا ہو خواہ عجم کا.مہدی سوڈانی ہو یا حضرت سلطان شاہ ایرانی، خواہ امیر خراسان ہو مذہبی لڑائی و چڑھائی کرنا ہرگز جائز نہیں -‘‘ (الاقتصاد صفحہ ۱۶) اور لکھتے ہیں: - ’’اہلِ اسلام کو ہندوستان کے لئے گورنمنٹ انگریزی کی مخالفت و بغاوت حرام ہے-‘‘ (اشاعۃ السنہ جلد ۶ نمبر ۱۰ صفحہ ۱۸۷) اور لکھتے ہیں: - ’’اس امن و آزادیٔ عام و حسنِ انتظام برٹش گورنمنٹ کی نظر سے اہل حدیثِ ہند اس سلطنت کو از بس غنیمت سمجھتے ہیں اور اس سلطنت کی رعایا ہونے کو اسلامی سلطنتوں کی رعایا ہونے سے بہتر جانتے ہیں.اور جہاں کہیں وہ رہیں اور جائیں (عرب میں خواہ روم میں خواہ اَ ور کہیں ) کسی اور ریاست کا محکوم و رعایا ہونا نہیں چاہتے-‘‘ (اشاعۃ السنہ نمبر ۱۰ جلد ۶ صفحہ ۲۹۳)
یہی مذہب نواب مولوی محمد صدیق حسن خان آف بھوپال اور مولوی نذیر حسین محدث دہلوی کا تھا اور یہی فتویٰ مولوی رشید احمد گنگوہی اور مولوی اشرف علی تھانوی وغیرہ نے دیا اور یہی مذہب مولوی عبدالعزیز اور مولوی محمد مفتی لدھیانہ کا تھا کہ ’’انگریزی گورنمنٹ کی مخالفت مسلمانوں کے لئے شرعاً حرام ہے-‘‘ (دیکھو ’’نصرۃ الابرار‘‘ مؤلفہ مولوی محمد مفتی لدھیانہ ۱۳۰۶ ہجری) اور مولانا ظفر علی خان مدیر اخبار ’’زمیندار‘‘ بھی ہندوستان کو دارالاسلام قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: - ’’زمیندار اور اس کے ناظرین گورنمنٹ برطانیہ کو سایۂ خدا سمجھتے ہیں اور اس کی عنایاتِ شاہانہ اور انصاف خسروانہ کو اپنی دلی ارادت و قلبی عقیدت کا کفیل سمجھتے ہوئے اپنے بادشاہ عالم پناہ کی پیشانی کے ایک ایک قطرے کی بجائے اپنے جسم کا خون بہانے کے لئے تیار ہیں اور یہی حالت ہندوستان کے تمام مسلمانوں کی ہے-‘‘ (زمیندار ۹؍ نومبر ۱۹۱۱ء) اور لکھتے ہیں: - ’’مسلمان ایک لمحہ کے لئے ایسی حکومت سے بدظن ہونے کا خیال نہیں کر سکتے.اگر کوئی بدبخت مسلمان گورنمنٹ سے سرکشی کی جرأت کرے تو ہم ڈنکے کی چوٹ کہتے ہیں کہ وہ مسلمان مسلمان نہیں‘‘ (زمیندار ۱۱؍ نومبر ۱۹۱۱ء) اِسی طرح علاّمہ السید الحائری مجتہد العصر (شیعی لیڈر) گورنمنٹ برطانیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرماتے ہیں: - ’’ہم کو ایسی سلطنت کے زیر سایہ ہونے کا فخر حاصل ہے جس کی حکومت میں انصاف پسندی اور مذہبی آزادی قانون قرار پا چکی ہے جس کی نظیر اور مثال دنیا کی کسی اور سلطنت میں نہیں مل سکتی غور کرو کہ تم اسلام کی تبلیغ اور اشاعت کے لئے کیونکر بے خوف و خطر پوری آزادی کے ساتھ آج سرِ میدان تقریریں اور وعظ کر رہے ہو.اور کس طرح ہر قسم کے سامان اس مبارک عہد مسعود میں ہمیں میسّر آئے ہیں جو پہلے کسی حکومت میں موجودنہ تھے.گذشتہ غیر مسلم سلطنتوں کے عہد میں یہ حالت تھی کہ مسلمان اپنی مسجدوں میں اذان تک نہ کہہ سکتے تھے اَور باتوں کا تو ذکر ہی کیا ہے.حلال چیزوں کے کھانے سے روکا جاتا تھا-کوئی باقاعدہ تحقیقات ہوتی ہی نہ تھی
…… اس لئے مَیں کہتا ہوں کہ ہر شیعہ کو اس احسان کے عوض میں (جو آزادیٔ مذہب کی صورت میں انہیں حاصل ہے) صمیم قلب سے برٹش حکومت کا رہین احسان اور شکر گذار ہونا چاہئے اور اس کے لئے شرع بھی اُن کو مانع نہیں ہے.کیونکہ پیغمبر اسلام علیہ و آلہٖ السلام نے نوشیروان عادل کے عہد سلطنت میں ہونے کا ذکر مدح و فخر کے رنگ میں بیان فرمایا ہے-‘‘ (موعظہ تحریف قرآن بابت ماہ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۶۷-۶۸ شائع کردہ ینگ مین سوسائٹی خواجگان نارووال لاہور) اِسی طرح شمس العلماء مولانا نذیر احمد دہلوی نے اپنے لیکچر میں جو ۵؍ اکتوبر ۱۸۸۸ء کو ٹاؤن ہال دہلی میں دیا گورنمنٹ انگریزی کے متعلق فرمایا: - ’’کیا گورنمنٹ جابر اور سخت گیر ہے؟ توبہ توبہ ماں باپ سے بڑھ کر شفیق‘‘ (مولانا مولوی حافظ نذیر احمد دہلوی کے لیکچروں کا مجموعہ -بار اول ۱۸۹۰ء صفحہ ۹) اور فرمایا: - ’’جو آسائش ہم کو انگریزی عملداری میں میسر ہے کسی دوسری قوم میں اس کے مہیا کرنے کی صلاحیت نہیں -‘‘ (ایضاً صفحہ ۲۶) اور آنریبل ڈاکٹر سرسید احمد خان بہادر مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے انگریزی گورنمنٹ سے متعلق فرماتے ہیں: - ’’بادشاہ عادل کا کسی رعیت پر مستولی ہونا درحقیقت خدا تعالیٰ کی اپنے بندوں پر رحمت ہے-اور بلاشبہ تمام رعیت اس عادل بادشاہ کی احسان مند ہے.پس ہم رعایائے ہندوستان جو ملکۂ معظمہ وکٹوریہ دام سلطنتہا ملکۂ ہند و انگلینڈ کی رعیت ہیں.او ر جو ہم پر عدل و انصاف کے ساتھ بغیر قومی و مذہبی طرفداری کے حکومت کرتی ہے سرتاپا احسان مند ہیں اور ہم کو یہ ہمارے پاک اور روشن مذہب کی تعلیم ہے.ہم کو اس کی احسان مندی کا ماننا اور شکر بجا لانا واجب ہے-‘‘ (مجموعہ لیکچر ہائے آنریبل ڈاکٹر سرسید احمد خان بہادر ہلالی پریس ساڈھورہ دسمبر ۱۸۹۲ء صفحہ ۱۵) اور ۱۰؍ مئی ۱۸۸۶ء کو بمقام علیگڑھ تقریر میں گورنمنٹ انگریزی سے اپنی خیر خواہی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: - ’’میری نصیحت یہ ہے کہ گورنمنٹ کی جانب سے اپنا دل صاف رکھو اور نیک دلی
سے پیش آؤ اور سب طرح پر گورنمنٹ پر اعتبار رکھو-‘‘ (مجموعہ لیکچر ہائے آنریبل ڈاکٹر سرسید احمد خان بہادر ہلالی پریس ساڈھورہ دسمبر ۱۸۹۲ء صفحہ ۲۳۹) پس جو نظریہ گورنمنٹ انگریزی سے جہاد کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا تمام جید علماء اسی نظریہ کے مؤیّد تھے.مندرجہ بالا اقوال کے علاوہ جو مسلّم سیاسی اور مذہبی مسلم رہنماؤں کے ہیں ایک غیر از جماعت شخص (ملک محمد جعفر خان ایڈووکیٹ) کا بیان پیش کرنا بھی غیر مناسب نہ ہو گا.ملک صاحب لکھتے ہیں: - ’’مرزا صاحب کے زمانے میں ان کے مشہور مقتدر مخالفین مثلاً مولوی محمد حسین بٹالوی، پیرمہر علی شاہ گولڑوی، مولوی ثناء اﷲ صاحب اور سرسید احمد خان سب انگریزوں کے ایسے ہی وفادار تھے جیسے مرزا صاحب.یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں جو لٹریچر مرزا صاحب کے ردّ میں لکھا گیا اُس میں اس امر کا کوئی ذکر نہیں ملتا کہ مرزا صاحب نے اپنی تعلیمات میں غلامی پر رضا مند رہنے کی تلقین کی ہے-‘‘ (احمدیہ تحریک صفحہ ۲۴۳ شائع کردہ سندھ ساگر اکاڈیمی لاہور) خلاصہ کلام یہ کہ آپ کا حکومت برطانیہ کی تعریف کرنا اور اس کے ساتھ وفاداری کا اظہار دراصل ایک اصول کے ماتحت تھا وہ یہ کہ: - (ا) اس حکومت نے پنجاب کے مسلمانوں کو سکھ حکومت کے مظالم سے نجات دلائی (ب) اس نے ملک میں امن قائم کیا.(ج) اس نے ملک میں کامل آزادی عطا کی.جہاد یعنی قتال بالسیف کی ممانعت کی ایک اور وجہ پھر آپؑ نے ممانعت جہاد بالسیف کا ذکر کرتے ہوئے اس امر کی بھی تصریح کی کہ اس ملک اور اس زمانہ میں اس لئے جہاد یعنی قتال بالسیف ممنوع ہے کہ شرائط جہادنہیں پائی جاتیں.چنانچہ آپؑ اپنی تالیف حقیقۃ المہدی میں فرماتے ہیں: - ’’فرفعت ہٰذہ السنّۃ برفع اسبابھا فی ہٰذہ الایّام‘‘ یعنی تلوار کے ساتھ جہاد کے شرائط پائے نہ جانے کے باعث موجودہ ایّام میں تلوار کا جہادنہیں رہا-
اور فرمایا: - ’’وامرنا ان نعد للکافرین کما یعدون لنا ولا نرفع الحسام قبل ان نقتل بالحسام‘‘ (حقیقۃ المہدی.روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ ۴۵۴) اور ہمیں یہی حکم ہے کہ ہم کافروں کے مقابل میں اُسی قسم کی تیاری کریں جیسی وہ ہمارے مقابلہ کے لئے کرتے ہیں یا یہ کہ ہم کافروں سے ویسا ہی سلوک کریں جیسا وہ ہم سے کرتے ہیں.اور جب تک وہ ہم پر تلوار نہ اٹھائیں اس وقت تک ہم بھی اُن پر تلوار نہ اُٹھائیں - اور فرمایا: - ’’وَلَاشَکَّ اَنَّ وُجُوْہَ الْجِہَادِ مَعْدُوْمَۃٌ فِی ہٰذَا الزَّمَنِ وَ ھٰذِہِ الْبِلَادِ‘‘ (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۸۲) اور اس میں شک نہیں کہ جہاد کی وجوہ یا شرائط اس زمانہ اور ان شہروں میں نہیں پائی جاتیں - یہی بات نواب مولوی صدیق حسن خان نے ’’ترجمان وہابیہ‘‘صفحہ ۲۰ میں لکھی ہے: - ’’جہاد بغیر شرائطِ شرعیہ کے اور بغیر وجود امام کے ہرگز جائز نہیں -‘‘ اور مولوی ظفر علی خان لکھتے ہیں: - ’’اسلام نے جب کبھی جہاد کی اجازت دی ہے.مخصوص حالات میں دی ہے.جہاد ملک گیری کی ہوس کا ذریعہ تکمیل نہیں ہے …… اس کے لئے امارت شرط ہے.اسلامی حکومت کا نظام شرط ہے.دشمنوں کی پیش قدمی اور ابتداء شرط ہے-‘‘ (زمیندار ۱۴؍ جون ۱۹۲۶ء) اور مولوی محمد حسین بٹالوی لکھتے ہیں: - ’’ایک بڑی بھاری شرط شرعی جہاد کی یہ ہے کہ مسلمانوں میں امام و خلیفۂ وقت موجود ہو …… مسلمانوں میں ایسی جمعیت حاصل و جماعت موجود ہو جس میں ان کو کسرِ شوکتِ اسلام کا خوف نہ ہو فتح و غلبۂ اسلام کا ظن غالب ہو-‘‘ (الاقتصاد فی مسائل الجہاد صفحہ ۳۱) اور لکھتے ہیں: - ’’اِس زمانہ میں شرعی جہاد کی کوئی صورت نہیں ہے کیونکہ اس وقت نہ کوئی مسلمانوں کا امام موصوف بصفات و شرائط امامت موجود ہے اور نہ ان کو ایسی شوکتِ جمعیت
حاصل ہے جس سے وہ اپنے مخالفوں پر فتحیاب ہونے کی امید کر سکیں -‘‘ (الاقتصاد صفحہ ۴۲) اور خواجہ حسن نظامی دہلوی لکھتے ہیں:.’’جہاد کا مسئلہ ہمارے ہاں بچّے بچّے کو معلوم ہے.وہ جانتے ہیں کہ جب کفار مذہبی امور میں حارج ہوں اور امام عادل جس کے پاس حرب و ضرب کا پورا سامان ہو لڑائی کا فتویٰ دے تو جنگ ہر مسلمان پر لازم ہو جاتی ہے.مگر انگریز نہ ہمارے مذہبی امور میں دخل دیتے ہیں.نہ اور کسی کام میں ایسی زیادتی کرتے ہیں جس کو ظلم سے تعبیر کر سکیں.نہ ہمارے پاس سامانِ حرب ہے.ایسی صورت میں ہم ہرگز ہرگز کسی کا کہنا نہ مانیں گے.اور اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالیں گے-‘‘ (رسالہ شیخ سنوسی صفحہ ۱۷ مؤلفہ خواجہ حسن نظامی) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور سے بلکہ آپ کی ولادت سے بھی قبل ایک موقعہ جہاد کا پیدا ہوا اور حضرت سید احمد بریلوی مجدد تیرھویں صدی نے پنجاب کے سکھوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا.کیونکہ جیسا کہ مولوی مسعود احمدندوی لکھتے ہیں: - ’’اُس وقت پنجاب میں سکّھا شاہی کا زور تھا.مسلمان عورتوں کی عصمت و آبرو محفوظ نہ رہی تھی.ان کا خون حلال ہو چکا تھا.گائے کی قربانی ممنوع تھی.مسجدوں سے اصطبل کا کام لیا جا رہا تھا.غرض مظالم کا ایک بے پناہ سیلاب تھا جو پانچ دریاؤں کی مسلم آبادی کو بہائے لئے جا رہا تھا.آنکھیں سب کچھ دیکھتی تھیں مگر قوائے عمل مفلوج ہو چکے تھے-‘‘ (ہندوستان کی پہلی تحریک صفحہ ۳۷-۴۵) سید صاحب مرحوم کی شہادت اور اُن کی شکست کی وجہ یہ لکھتے ہیں: - ’’اپنی بدنصیبی کا ماتم کن لفظوں میں کیا جائے دل میں ایک ہُوک اٹھتی ہے اور آنکھوں میں خون اُتر آتا ہے.جب کبھی ملاّنوں کے فتوے اور خوانین سرحد کی غداری یاد آتی ہے … جاہل ملاّنوں نے مجاہدین کو وہابی کہنا شروع کیا جن کی اصلاح و بہبودی اور امداد و معاونت کے لئے اس بے برگ و نواسیّد زادے اور اس کے جاں نثاروں نے ہجرت کی مشقتیں گوارا کیں وہ خود جان کے دشمن ہو گئے.
کھانے میں زہر بھی دیا گیا.پشاور فتح ہو چکا تھا مگر سردارانِ پشاور کی غداری کے باعث سیّد صاحب کے مقرر کردہ عمال اور خاص اصحاب کا قتل عام ہوا.اور پھر اتنی بددلی ہوئی کہ وہ نواح پشاور کو چھوڑ کر وادیٔ کاغان سے متصل راج دواری کی وادی کو منتقل ہو گئے …… اور آخر بالا کوٹ میں شہید ہوئے-‘‘ ۱؎ (ہندوستان کی پہلی تحریک صفحہ ۴۷) اسی لئے مولوی محمد حسین بٹالوی نے لکھا: - ’’بھائیو! اب سیف کا وقت نہیں رہا.اب بجائے سیف قلم سے کام لینا ضروری ہو گا-مسلمانوں کے ہاتھ میں سیف کا آنا کیونکر ممکن ہے جبکہ ان کا ہاتھ ہی ندارد ہے.ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا جانی دشمن ہے.شیعہ سُنی کو اور ُسنی شیعہ کو اہلحدیث اہلِ تقلید کو وعلیٰ ہذا القیاس ہر فرقہ دوسرے فرقہ کو اسی نگاہ سے دیکھ رہا ہے-‘‘ (اشاعۃ السنہ جلد ۶ نمبر ۱۲ صفحہ ۳۶۵) پس آپؑ نے شرائط جہاد کی عدم موجودگی کی وجہ سے شریعت اسلامیہ کے مطابق شرعی جہاد بالسیف کو ممنوع قرار دیا تھا- تیسری وجہ آپ نے منع جہاد بالسیف کی یہ بیان فرمائی کہ خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ ایسے زمانہ میں ظاہر ہو گا جبکہ مذہبی آزادی ہو گی اور مذہب کے لئے جنگ اور لڑائی کی ضرورت نہ ہو گی.چنانچہ حضور اسی رسالہ ’’‘‘ میں فرماتے ہیں: - ’’تیرہ سو برس ہوئے کہ مسیح موعود کی شان میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مُنہ سے کلمہ یضع الحرب جاری ہو چکا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ مسیح موعود جب آئے گا تو لڑائیوں کا خاتمہ کر دے گا.اور اسی کی طرف اشارہ اس قرآنی آیت کا ہے.۱؎ ان کی جہاد سے غرض پنجاب کے مسلمانوں کو سکھوں کی جابرانہ و مستبدانہ حکومت سے نجات اور مذہبی آزادی دلانا تھا وہ اس رنگ میں پوری ہو گئی کہ سکھوں کی جگہ انگریز پنجاب کے حاکم ہو گئے اور جیسا کہ مولانا محمد جعفر تھا نیسری لکھتے ہیں:.’’سید صاحب کاسرکار انگریزی سے جہاد کرنے کا ارادہ ہرگز نہیں تھا وہ اس آزاد عملداری کو اپنی عملداری سمجھتے تھے.‘‘ (سوانح احمدی کلاں صفحہ ۱۳۹)
حتّٰی تضع الحرب اوزارھا یعنی اس وقت تک لڑائی کرو جب تک کہ مسیح کا وقت آ جائے-‘‘ (، روحانی خزائن جلد ۱۷، صفحہ ۸) اور فرماتے ہیں: - ’’جبکہ اس زمانہ میں کوئی شخص مسلمانوں کو مذہب کے لئے قتل نہیں کرتا تو وہ کس حکم سے ناکردہ گناہ لوگوں کو قتل کرتے ہیں -‘‘ (، روحانی خزائن جلد ۱۷، صفحہ۱۳) گویا آپ کا التوائے جہاد یعنی دینی قتال کی ممانعت کا فتویٰ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد کی تعمیل میں ہے خود اپنی طرف سے نہیں.اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کا یہ مطلب تھا کہ مسیح موعود کے زمانہ میں بوجہ مکمل مذہبی آزادی پائے جانے کے قتال دینی کی ضرورت نہ ہو گی- اس رسالہ کی اشاعت کے چند دن بعد حضرت اقدسؑ نے فتویٰ ممانعت دینی جہاد کا نظم میں (صفحہ ۷۷ تا صفحہ ۸۰ جلد ہذا) ذکر کیا ہے جس کے ابتدائی اشعار میں سے یہ چار شعر بھی ہیں ؎ اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال اب آ گیا مسیح جو دیں کا امام ہے دیں کے تمام جنگوں کا اب اختتام ہے کیوں بھولتے ہو تم یضع الحرب کی خبر کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر فرما چکا ہے سیّد کونین مصطفیٰ عیسیٰ مسیح جنگوں کا کر دے گا التوا اس نظم میں حضرت اقدس علیہ السلام نے التوائے جہاد کا فتویٰ دیتے ہوئے مذکورہ بالا تینوں وجوہات کا نہایت احسن پیرایہ میں ذکر فرمایا ہے.(تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۷۷ تا ۸۰) اقسام جہاد پھر آپ نے اس امر کی بھی تصریح فرمائی ہے کہ جہاد صرف تلوار سے جنگ کرنا ہی نہیں بلکہ جہاد
کے معنوں میں وسعت پائی جاتی ہے.قرآن مجید کا کفار تک پہنچانا اور تبلیغ حق اور وعظ و نصیحت کرنا بھی جہا د ہے بلکہ جہاد کبیر ہے.چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: - (الفرقان: ۵۳) مولانا ابو الکلام آزاد اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: - ’’اِس میں جہاد بالسیف تو مرادنہیں ہو سکتا.یقینا جہاد کبیر حق کی استقامت اور اس کی راہ میں تمام مصیبتیں اور مشقتیں جھیل لینے کا نام جہاد ہے-‘‘ (مسئلہ خلافت و جزیرہ عرب صفحہ ۱۰۹) اور مولوی ظفر علی خاں اس آیت سے متعلق لکھتے ہیں: - ’’اس آیت میں جَاھِدْھُمْ سے مراد یہ ہے کہ کافروں کو وعظ و نصیحت اور انہیں دعوت و تبلیغ کر کے سمجھانا.امام فخر الدین رازی نے اپنی تفسیر میں یونہی روشنی ڈالی ہے-‘‘ (زمیندار ۲۵؍ جون ۱۹۳۱ء) اور مولانا حیدر زمان صدیقی لکھتے ہیں: - ’’اسی طرح احادیث میں جابر حکمران کے آگے کلمۂ حق بلند کرنے کو اعظم جہاد کہا گیا ہے اِنَّّ مِنْ اَعْظَمِ الْجِہَادِ کَلِمَۃُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ (رواہ ابو داؤد و الترمذی) …… پس اشاعتِ علومِ دینیہ و قیام مدارس دینیہ اور ہر وہ کام جو اقامتِ دین کی غرض سے کیا جائے جہاد کی حقیقت میں شامل ہے-‘‘ (’’اسلام کا نظریہ جہاد‘‘ کتاب منزل لاہور صفحہ ۱۲۸-۱۳۰) پھر حدیث میں آتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جنگ تبوک سے واپس تشریف لائے تو آپ نے فرمایا ’’رَجَعْنَا مِنَ الْجِہَادِ الْاَصْغَرِ اِلَی الْجِہَادِ الْاَکْبَرِ‘‘ (بیہقی) گویا آپ نے جہاد بالسیف کو جہاد اصغر قرار دیا اور تزکیہ نفس کے جہاد کو جہاد اکبر قرار دیا.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شرائط جہاد سیفی کے نہ پائے جانے کی وجہ سے فرمایا:.’’دیکھو میں ایک حکم لے کر آپ لوگوں کے پاس آیا ہوں وہ یہ ہے کہ اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے مگر اپنے نفسوں کے پاک کرنے کا جہاد باقی ہے.
اوریہ بات مَیں نے اپنی طرف سے نہیں کہی بلکہ خدا کا یہی ارادہ ہے.صحیح بخاری کی اس حدیث کو سوچو جہاں مسیح موعود کی تعریف میں لکھا ہے کہ یضع الحرب یعنی مسیح جب آئے گا تو دینی جنگوں کا خاتمہ کر دے گا-‘‘ (، روحانی خزائن جلد ۱۷، صفحہ ۱۵) ممانعت کا وقتی فتویٰ ہے آپؑ نے اس پیشگوئی کے مطابق جو قرآن اور حدیث میں پائی جاتی تھی ہمیشہ کے لئے تلوار کے ساتھ جہاد منسوخ نہیں کیا بلکہ اپنے زمانہ میں جہاد بالسیف کی شرائط نہ پائے جانے کی وجہ سے اُس زمانہ تک منسوخ یا ملتوی کیا جب تک کہ اس کی شرائط نہ پائی جائیں اور جہاد اکبر اور جہاد کبیر پر عمل کرنے کے لئے بکرّات و مرّات زور دیا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: - ’’اس زمانہ میں جہاد روحانی صورت سے رنگ پکڑ گیا ہے اور اس زمانہ میں جہاد یہی ہے کہ اعلائے کلمۂ اسلام میں کوشش کریں.مخالفوں کے الزامات کا جواب دیں.دینِ متین اسلام کی خوبیاں دنیا میں پھیلا ویں.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سچائی دنیا پر ظاہر کریں یہی جہاد ہے جب تک کہ خدا تعالیٰ کوئی دوسری صورت دنیا میں ظاہرنہ کرے-‘‘ (مکتوب حضرت مسیح موعودؑ بنام میر ناصر نواب صاحب مندرجہ رسالہ درود شریف صفحہ ۱۱۳) الفاظ ’’جب تک کہ خدا تعالیٰ کوئی دوسری صورت دنیا میں ظاہر نہ کرے-‘‘اور مصرع ’’عیسیٰ مسیح جنگوں کا کردے گا التوا‘‘ صاف ظاہر کر رہے ہیں کہ آپ کا فتویٰ ممانعت دینی جہاد بالسیف وقتی اور صرف اس وقت تک کے لئے ہے جب تک کہ تلوار سے جہاد کے شروط نہ پائے جائیں.اِسی طرح آپ پادری عماد الدین کے مسئلہ جہاد پر اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: - ’’اس نکتہ چین نے جہاد اسلام کا ذکر کیا ہے اور گمان کرتا ہے کہ قرآن بغیر لحاظ کسی شرط کے جہاد پر برانگیختہ کرتا ہے سو اس سے بڑھ کر اور کوئی جھوٹ اور افترا نہیں اگر کوئی سوچنے والا ہو.سو جاننا چاہئے کہ قرآن شریف یوں ہی لڑائی کے لئے حکم نہیں فرماتا بلکہ صرف ان لوگوں کے ساتھ لڑنے کے لئے حکم فرماتا ہے جو خدا تعالیٰ کے
بندوں کو ایمان لانے سے روکیں اور اس بات سے روکیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے حکموں پر کاربند ہوں اور اس کی عبادت کریں.اور ان لوگوں کے ساتھ لڑنے کے لئے حکم فرماتا ہے جو مسلمانوں سے بے وجہ لڑتے ہیں اور مومنوں کو ان کے گھروں اور وطنوں سے نکالتے ہیں اور خلق اﷲ کو جبراً اپنے دین میں داخل کرتے ہیں اور دینِ اسلام کو نابود کرنا چاہتے ہیں اور لوگوں کو مسلمان ہونے سے روکتے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جن پر خدا تعالیٰ کا غضب ہے.’’وَ وَجَبَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَن یُّحَارِبُوْھُمْ اِنْ لَّمْ یَنْتَھُوْا‘‘ اور مومنوں پر واجب ہے جوان سے لڑیں اگر وہ باز نہ آویں -‘‘ (نور الحق حصہ اوّل.روحانی خزائن جلد۸صفحہ۶۲) آپ کی اس تحریر سے صاف عیاں ہے کہ آپ کے نزدیک جب تلوار کے ساتھ جہاد کرنے کی شرطیں پائی جائیں اس وقت مومنوں پر تلوار کے ساتھ جہاد فرض ہو گا- اسلام نے جہاں اصلاح و تزکیہ نفس کو جہاد اکبر اور وعظ و نصیحت اور تبلیغ کو جہاد کبیر قرار دے کر انہیں دائمی اور لاز می قرار دیا ہے وہاں اس نے تلوار کے ساتھ جہاد کو جہاد اصغر اور وقتی قرار دے کر شرائط کے ساتھ مشروط کر دیا ہے.پس جہاں اس کی شرائط پائی جائیں گی وہاں تلوار کے ساتھ جہاد واجب ہو گا اور جہاں شرائط مفقود ہوں گی وہاں نہیں ہو گا.چونکہ مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہندوستان میں جہادبالسیف کی شرائط نہیں پائی جاتی تھیں اس لئے آپ نے اس کی مخالفت کا فتویٰ دیا اور تمام جیّد علماء نے اپنے عمل اور اپنے قلم سے جیسا کہ اوپر ثابت کیا جا چکا ہے.آپ کے مسلک کی تائید کی.لیکن ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے بعد سے حالات تبدیل ہو گئے.مشرقی پنجاب میں سے مسلمانوں کو ختم کر دینے کے لئے ان پر غیرمسلموں کا حملہ ایک سوچی سمجھی سکیم کے ماتحت ہوا …… پس جبکہ دشمن خود حملہ آور ہوا اور اس کی غرض مسلمانوں کی ہستی کو مٹانا اور ان کے مذہب کو تباہ کرنا ہے تو ایسے ظالم دشمنوں کے مقابلہ میں دفاعی جنگ اسلام کے مطابق عین جہاد ہے.۱۹۵۰ء میں جب ہندوستان کی طرف سے پاکستان کو خطرہ لاحق ہوا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایّدہ اﷲ بنصرہ العزیز نے مجلس مشاورت میں تمام جماعتہائے احمدیہ کے نمائندوں کے سامنے جو ۹؍ اپریل کو تقریر فرمائی اس میں آپ نے فرمایا: - (۱) ’’ایک زمانہ ایسا تھا کہ غیر قوم ہم پر حاکم تھی اور وہ غیر قوم امن پسند تھی
مذہبی معاملات میں وہ کسی قسم کا دخل نہیں دیتی تھی.اس کے متعلق شریعت کا حکم یہی تھا کہ اس کے ساتھ جہاد جائز نہیں.(۲) پہلا زمانہ گیا اور وہ زمانہ آ گیا جس کے متعلق رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ حدیث صادق آتی ہے کہ مَنْ قُتِلَ دُوْنَ مَالِہٖ وَ عِرْضِہٖ فَھُوَ شَہِیْدٌ کہ جو شخص اپنے مال اور اپنی عزّت کے بچاؤ کے لئے مارا جاتا ہے وہ شہید ہوتا ہے.بلکہ صرف مال اور عزت کا ہی سوال نہیں حالات اس قسم کے ہیں کہ اگر کوئی خرابی پیدا ہوئی اور لڑائی پر نوبت پہنچ گئی تو وہ تباہی جو مشرقی پنجاب میں آئی تھی شاید اب وہ ایران کی سرحدوں تک بلکہ اس سے آگے بھی نکل جائے.(۳) پس اب حالات بالکل مختلف ہیں.اب اگر پاکستان سے کسی ملک کی لڑائی ہو گئی تو حکومت کے ساتھ ہمیں لڑنا پڑے گا اور حکومت کی تائید میں ہمیں جنگ کرنی پڑے گی-‘‘ (۴) جیسے نماز پڑھنا فرض ہے اسی طرح دین کی خاطر ضرورت پیش آنے پر لڑائی کرنا بھی فرض ہے.یہ کہنا کہ یہ دین کی خاطر جہادنہیں بالکل لغو بات ہے.سوال یہ ہے کہ کیا اگر پاکستان خطرہ میں پڑا تو لڑنے کے لئے فرشتے آئیں گے؟ جب تک تم فوجی فنون نہیں سیکھو گے اس وقت تک تم ملک کی حفاظت کس طرح کر سکو گے؟ (۵) تمہیں یہ امر اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ جن امور کو اسلام نے ایمان کا اہم ترین حصّہ قرار دیا ہے اُن میں سے ایک جہاد بھی ہے.بلکہ یہاں تک فرمایا ہے کہ جو شخص جہاد کے موقعہ پر پیٹھ دکھاتا ہے وہ جہنمی ہو جاتا ہے.(۶) جب کبھی جہاد کا موقع آئے یا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد مَنْ قُتِلَ دُوْنَ مَالِہٖ وَ عِرْضِہٖ فَھُوَ شَہِیْدٌ کے مطابق ہمیں اپنے اموال اور اپنی عزتوں کی حفاظت کے لئے قربانی کرنی پڑے تو ہم اس میدان میں بھی سب سے بہتر نمونہ دکھانے والے ہوں -‘‘ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء صفحہ ۱۴) اسلام کی لڑائیاں تین قسم سے باہر نہیں: - (۱) دفاعی طور پر یعنی بطریق حفاظت خود اختیاری
(۲) بطور سزا یعنی خون کے عوض میں خون (۳) بطور آزادی قائم کرنے یعنی بغرض مزاحموں کی قوت توڑنے کے جو مسلمان ہونے پر قتل کرتے تھے.اور ان تینوں قسموں پر جہاد کے لغوی معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے لفظ جہاد کا اطلاق جائز ہے.لیکن اسلام اس بات کا سخت مخالف ہے کہ کسی شخص کو جبر اور قتل کی دھمکی سے دین میں داخل کیا جائے یا محض ملک گیری اور توسیع مملکت کے لئے جارحانہ حملہ کیا جائے- تحفہ گولڑویہ ۱۸۹۶ ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب انجام آتھم میں جن سجادہ نشینوں کو دعوتِ مباہلہ دی تھی ان میں پیر مہر علی شاہ گولڑوی کا نام بھی تھا.معلوم ہوتا ہے کہ پیر صاحب پہلے حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کے بارے میں حسنِ ظن رکھتے تھے.چنانچہ ۹۷-۱۸۹۶ء کی بات ہے کہ ان کے ایک مرید بابو فیروز علی اسٹیشن ماسٹر گولڑہ نے (جو بعد ازاں حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کر کے سلِسلہ میں داخل ہو گئے تھے) جب پیر صاحب سے حضرت اقدسؑ کی بابت رائے دریافت کی تو انہوں نے بلاتامّل جواب دیا: - ’’امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ بعض مقامات منازل سلوک ایسے ہیں کہ وہاں اکثر بندگانِ خدا پہنچ کر مسیح اور مہدی بن جاتے ہیں.بعض اُن کے ہم رنگ ہو جاتے ہیں.یہ مَیں نہیں کہہ سکتا آیا یہ شخص (یعنی حضرت اقدس)منازل سلوک میں اس مقام پر ہے یا حقیقتاً وہی مہدی ہے جس کا وعدہ جناب سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس امت سے کیا ہے.مذاہب باطلہ کے واسطے یہ شخص شمشیر برّاں کا کام کر رہا ہے اور یقینا تائید یافتہ ہے-‘‘ (الحکم ۲۴؍ جون ۱۹۰۴ء صفحہ ۵ کالم ۲ و ۳) لیکن اس کے کچھ عرصہ بعد آپ میدانِ مخالفت میں آ گئے اور جنوری ۱۹۰۰ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اردو میں ’’شمس الہدایۃ فی اثبات حیاۃ المسیح‘‘ نامی کتاب شائع کی جو درحقیقت ان کے ایک مرید مولوی محمد غازی کی تالیف کردہ تھی جس کا انہوں نے اپنے ایک خط بنام حضرت مولوی حکیم نور الدینؓ مؤرخہ ۲۶؍ شوال ۱۳۱۷ہجر ی (مطابق ۲۸؍ مارچ ۱۹۰۰ء) تذکرہ بھی کر دیا.جب اس خط کا چرچا ہوا تو پیر صاحب نے اپنے ایک مرید کے سوال پر ایسا ظاہر کیا کہ گویا انہوں نے یہ خود کتاب لکھی ہے.حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ پیر صاحب کی اس دو رنگی پر خاموش نہ رہ سکے اور آپ نے ۲۴؍ اپریل
۱۹۰۰ء کے اخبار الحکم میں یہ سب مراسلات شائع کر دیئے.جس پر اُن کے مریدوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں.اور ادھر مولوی محمد احسن صاحب امروہیؓ نے ’’شمس الہدایہ‘‘ کا جواب ’’شمس بازغہ‘‘ کے نام سے شائع کر دیا.چونکہ ’’شمس الہدایہ‘‘ کے آخر میں مباحثہ کی دعوت بھی دی گئی تھی اس لئے مولوی صاحب نے بتاریخ ۹؍ جولائی ۱۹۰۰ء بذریعہ اشتہار پیر صاحب کو اطلاع دے دی کہ ’’مَیں مباحثہ کے لئے تیار ہوں‘‘ (الحکم ۹؍ جولائی، ۲۳ ؍ جولائی ۱۹۰۰ء) پیر صاحب کی مخالفت اور پھر فریقین کی طرف سے تفسیر نویسی کے مقابلہ سے متعلق جو اشتہارات شائع ہوئے مکرم مولوی دوست محمد صاحب نے ان کا تاریخ احمدیت میں ذکر کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۰؍ جولائی ۱۹۰۰ء کو حق و باطل میں امتیاز کرنے کے لئے تفسیر نویسی میں علمی مقابلہ کرنے کے لئے دعوت دی اور فرمایا.لاہور جو پنجاب کا صدر مقام ہے وہاں ایک جلسہ کر کے اور قرعہ اندازی کے طور پر قرآن شریف کی کوئی سورۃ نکال کر دُعا کر کے چالیس آیات کے حقائق اور معارف فصیح اور بلیغ عربی میں فریقین عین اسی جلسہ میں سات گھنٹے کے اندر لکھ کر تین اہل علم کے سپرد کریں جن کا اہتمام‘ حاضری و انتخاب پیر مہر علی شاہ صاحب کے ذمہ ہو گا- پیر صاحب نے اس چیلنج کو معہ شرائط قبول تو نہ کیا البتہ بغیر تعیین تاریخ اور وقت چپکے سے لاہور پہنچ کر ایک اشتہار شائع کیا جس میں لکھا کہ اوّل ہم نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کی رو سے بحث کریں گے اس میں اگر تم مغلوب ہو جاؤ تو ہماری بیعت کرلو.اور پھر بعد اس کے ہمیں وہ (تفسیری) اعجازی مقابلہ بھی منظور ہے- حضرت اقدسؑ نے پیر صاحب کی اس پُرفریب چال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ بھلا بیعت کر لینے کے بعد اعجازی مقابلہ کرنے کے کیا معنے؟ نیز فرمایا کہ انہوں نے تقریری مباحثہ کا بہانہ پیش کر کے تفسیری مقابلہ سے گریز کی راہ نکالی ہے اور لوگوں کو یہ دھوکا دیا ہے کہ گویا وہ میری دعوت کو قبول کرتا ہے.حالانکہ میں انجام آتھم میں یہ مستحکم عہد کر چکا ہوں کہ آئندہ ہم مباحثات نہیں کریں گے لیکن انہوں نے اس خیال سے تقریری بحث کی دعوت دی کہ ’’اگر وہ مباحثہ نہیں کریں گے تو ہم عوام میں فتح کا ڈنکا بجائیں گے.اور اگر مباحثہ کریں گے تو کہہ دیں گے کہ اس شخص نے خدا تعالیٰ کے ساتھ عہد کر کے توڑا-‘‘ (اس سے متعلق دیکھئے صفحہ ۸۷-۹۰ روحانی خزائن جلد ۱۷ و صفحہ ۴۵۴، ۴۵۵ جلد ہٰذا و حاشیہ صفحہ ۴۴۸تا۴۵۰) حقیقت میں نہ پیر صاحب اتنی علمی قابلیت رکھتے تھے کہ وہ ایسی تفسیر لکھتے اور نہ ہی انہیں فعلاً اس اعجازی مقابلہ کے لئے میدان میں نکلنے کی جرأت ہوئی-
تالیف رسالہ تحفہ گولڑویہ اِسی اثنا میں آپ نے تحفہ گولڑویہ کتاب لکھی جس میں آپ نے اپنے دعویٰ کی صداقت پر زبردست دلائل دیئے اور نصوص قرآنیہ و حدیثیہ سے ثابت کیا کہ آنے والے مسیح موعود کا امتِ محمدیہ میں سے ظاہر ہونا ضروری تھا اور اس کے ظہور کا یہی زمانہ تھا جس میں اﷲ تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا ہے- تحفہ گولڑویہ لکھنے کی غرض جیسا کہ ٹائٹل پیج پر لکھا ہے پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی اور ان کے مریدوں اور ہم خیال لوگوں پر اتمام حجت ہے جیسا کہ ’’اشتہار انعامی پچاس روپیہ‘‘ میں تحریر فرمایا ہے: - ’’مجھے خیال آیا کہ عوام جن میں سوچ کا مادہ طبعاً کم ہوتا ہے وہ اگرچہ یہ بات تو سمجھ لیں گے کہ پیر صاحب عربی فصیح میں تفسیر لکھنے پر قادر نہیں تھے اِسی وجہ سے تو ٹال دیا.لیکن ساتھ ہی ان کو یہ خیال بھی گذرے گا کہ منقولی مباحثات پر ضرور وہ قادر ہوں گے تبھی تو درخواست پیش کر دی اور اپنے دلوں میں گمان کریں گے کہ اُن کے پاس حضرت مسیح کی حیات اور میرے دلائل کے ردّ میں کچھ دلائل ہیں اور یہ تو معلوم نہیں ہو گا کہ یہ زبانی مباحثہ کی جرأت بھی میرے ہی اس عہد ترک بحث نے ان کو دلائی ہے جو انجام آتھم میں طبع ہو کر لاکھوں انسانوں میں مشتہر ہو چکا ہے.لہٰذا میں یہ رسالہ لکھ کر اس وقت اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ اگر وہ اس کے مقابل پر کوئی رسالہ لکھ کر میرے ان تمام دلائل کو اوّل سے آخر تک توڑ دیں اور پھر مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی ایک مجمع بٹالہ میں مقرر کر کے ہم دونوں کی حاضری میں میرے تمام دلائل ایک ایک کر کے حاضرین کے سامنے ذکر کریں او ر پھرہر ایک دلیل کے مقابل پر جس کو وہ بغیر کسی کمی بیشی اور تصرف کے حاضرین کو سنا دیں گے پیر صاحب کے جوابات سنا دیں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہیں کہ یہ جوابات صحیح ہیں اور دلیل پیش کر دہ کی قلع قمع کرتے ہیں تو مَیں مبلغ پچاس روپیہ انعام بطور فتحیابی پیر صاحب کو اسی مجلس میں دے دوں گا …… اگر انعامی رسالہ کا انہوں نے جواب نہ دیا تو بلاشبہ لوگ سمجھ جائیں گے کہ وہ سیدھے طریق سے مباحثات پر بھی قادر نہیں ہیں -‘‘ (تحفہ گولڑویہ.روحانی خزائن جلد ۱۷، صفحہ ۳۶)
26 زمانہ تالیف میرے نزدیک تحفہ گولڑویہ ۱۹۰۰ء میں تالیف ہوا.ابتدائی ضمیمہ تحفہ گولڑویہ جو دراصل اربعین نمبر ۳ ہے وہ ستمبر تا نومبر ۱۹۰۰ء کے درمیانی عرصہ کی تصنیف ہے.کیونکہ اربعین نمبر ۲ جس کے آخر میں ۲۷ ؍ ستمبر ۱۹۰۰ء کی تاریخ درج ہے اس کے متعلق حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں:.’’اربعین نمبر ۲ کے صفحہ ۳۰ پر جو تاریخ انعقاد مجمع قرار دی گئی ہے یعنی ۱۵؍ اکتوبر ۱۹۰۰ء وہ اس وقت تجویز کی گئی تھی جبکہ ہم نے ۷؍ اگست ۱۹۰۰ء کو مضمون لکھ کر کاتب کے سپرد کر دیا تھا.لیکن اس اثناء میں پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کے ساتھ اشتہارات جاری ہوئے اور رسالہ تحفہ گولڑویہ کے تیار کرنے کی وجہ سے اربعین نمبر ۲ کا چھپنا ملتوی رہا.اس لئے میعاد مذکور ہماری رائے میں اب ناکافی ہے لہٰذا ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ بجائے ۱۵؍ اکتوبر کے ۲۵ ؍ دسمبر ۱۹۰۰ء قرار دی جائے.‘‘ (صفحہ ۴۷۸ جلد ہذا بحوالہ ضمیمہ اربعین نمبر ۳ بتاریخ ۲۹؍ ستمبر۱۹۰۰ء) اس سے معلوم ہوا کہ رسالہ تحفہ گولڑویہ اگست ۱۹۰۰ء میں حضرت اقدسؑ تحریر فرما رہے تھے.اِسی طرح حضرت اقدسؑ نے بتاریخ ۵ا؍ دسمبر ۱۹۰۰ء جب پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کو ستّر دن میں سورۃ فاتحہ کی فصیح و بلیغ عربی میں تفسیر لکھنے کے لئے دعوت دی تو اس وقت فرمایا:.’’۱۵؍ دسمبر ۱۹۰۰ء سے ستّر۷۰ دن تک اس کام کے لئے ہم دونوں کو مہلت ہے......مَیں اس کام کو انشاء اﷲ تحفہ گولڑویہ کی تکمیل کے بعد شروع کر دوں گا.‘‘ (حاشیہ صفحہ ۴۵۰ جلد ہذا بحوالہ اربعین نمبر ۴) چنانچہ اس کے مطابق حضرت اقدس کی طرف سے ۲۳؍ فروری ۱۹۰۱ء کو اعجاز المسیح کے نام پر فصیح و بلیغ عربی میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر چھپ کر شائع ہو گئی.(الحکم ۳؍ مارچ ۱۹۰۱ء صفحہ ۲ کالم ۳ و الحکم ۱۱؍ مارچ ۱۹۰۱ء صفحہ ۵ کالم ۱) اِس سے ظاہر ہے کہ رسالہ تحفہ گولڑویہ اعجاز المسیح کے لکھنے سے پہلے تیار ہو چکا تھا.پس یقینی طور پر تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ تحفہ گولڑویہ کی تالیف کا زمانہ ۱۹۰۰ء ہے گو اس کی طباعت و اشاعت میں تاخیر ہو گئی ہو.اور جس طرح تریاق القلوب چھپ کر پڑی رہی اور آخرکار ایک دو صفحات ۱۹۰۲ء میں لکھ کر وہ شائع کر دی گئی اسی طرح تحفہ گولڑویہ سے متعلق ہوا.چنانچہ ٹائیٹل پیج اور اس کے صفحہ ۲ پر اشتہار انعامی پچاس روپیہ ۱۹۰۲ء میں لکھ کر ۱۹۰۲ء میں شائع کی گئی.
27 اربعین لاتمام الحجّۃ علی المخالفین ۲۳؍ جولائی ۱۹۰۰ء کو آپؑ نے مخالفین پر اتمام حجت کے لئے چالیس اشتہار شائع کرنے کا ارادہ کیا.اور چار صفحات کا ایک اشتہار بھی لکھا جو اربعین نمبر ۱ کے نام سے شائع کیا.اور فرمایا کہ پندرہ پندرہ دن کے بعد بشرطیکہ کوئی روک پیش نہ آ جائے یہ اشتہار نکلا کرے گا جب تک چالیس اشتہار پورے نہ ہو جائیں.(دیکھو صفحہ و حاشیہ ۳۴۳ جلد ہذا) لیکن اربعین نمبر ۲ و نمبر ۳و نمبر ۴ چونکہ ضخیم رسالوں کی صورت میں نکالنے پڑ گئے اس لئے حضرت اقدس علیہ السلام نے اربعین نمبر ۴ میں زیر اطلاع تحریر فرمایا:.’’مَیں نے اپنا ارادہ یہ ظاہر کیا تھا کہ اس رسالہ اربعین کے چالیس اشتہار جُدا جُدا شائع کروں اور میرا خیال تھا کہ مَیں صرف ایک ایک صفحہ کا اشتہار یا کبھی ڈیڑھ صفحہ یا غایت کار دو صفحہ کا اشتہار شائع کروں گا اور یا کبھی شاید تین یا چار صفحہ لکھنے کا اتفاق ہو جائے گا.لیکن ایسے اتفاقات پیش آ گئے کہ اس کے برخلاف ظہور میں آیا.اور نمبر دو۲ اور تین۳ اور چار ۴رسالوں کی طرح ہو گئے.چنانچہ اس رسالہ کی قریباً ستّر صفحہ تک نوبت پہنچ گئی.اور درحقیقت وہ امر پورا ہو چکا جس کا مَیں نے ارادہ کیا تھا.اس لئے مَیں نے ان رسائل کو صرف چار نمبر تک ختم کر دیا اور آئندہ شائع نہیں ہو گا.‘‘ (اربعین نمبر ۴ ، روحانی خزائن جلد ۱۷، صفحہ ۴۴۲) اور اربعین نمبر ۴ دسمبر ۱۹۰۰ء میں لکھی گئی اور شائع ہوئی اس لئے زمانۂ تالیف و اشاعت کے لحاظ سے گو تحفہ گولڑویہ بھی اسی عرصہ میں لکھا گیا.اربعین کو اس پر سبقت حاصل ہے اس لئے اربعین کو تحفہ گولڑویہ سے پہلے رکھا جانا مناسب ہے.خاکسار جلال الدین شمس
مجموعہ آمین ’’مجموعہ آمین‘‘ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ، قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمدؓ، حضرت مرزا شریف احمدؓ اور حضرت نواب مبارکہ بیگمؓ کی ختم قرآن شریف کی مبارک تقاریب کے موقع پر جو دو دعائیہ نظمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھیں ان کا مجموعہ ہے.۷؍ جون ۱۸۹۷ء کو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ کی آمین ہوئی اور ۳۰؍ نومبر ۱۹۰۱ء کو حضرت مرزا بشیر احمدؓ، حضرت مرزا شریف احمدؓ اور حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگمؓ کی آمین کی تقریب ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہر دو تقاریب کے موقع پر بطور شکرانہ دعوت کی اور مساکین و یتامیٰ کو کھانا کھلایا.آپؑ نے حضرت سیدنا محمود احمدؓ کی تقریب کے روز حضرت شیخ نور احمدؓ کو ایک آمین لکھ کر دی اور ارشاد فرمایا کہ ’’اس کو جلد چھپوا دیں‘‘ چنانچہ یہ اسی روز ۷؍ جون کو چھپ گئی اور اس تقریب میں پڑھ کر سنائی گئی.یہ نظمیں نہایت درجہ سوز و درد میں ڈوبی ہوئی دعاؤں کا مجموعہ اور اپنی مبشر اولاد بالخصوص سیدنا محمود احمدؓ سے متعلق آپؑ کے دلی جذبات کی آئینہ دار ہیں.یہی وہ نظم ہے جو ’’محمود کی آمین‘‘ کے نام سے معروف ہے.دوسری تقریب کے موقع پر حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے عرض کیا کہ حضور یہ آمین جو ہوئی ہے یہ کوئی رسم ہے یا کیا ہے؟ حضرت اقدس علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا: ’’میں ہمیشہ فکر میں رہتا ہوں اور سوچتا رہتا ہوں کہ کوئی راہ ایسی نکلے جس سے اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کا اظہار ہو اور لوگوں کو اس پر ایمان پیدا ہو.ایسا ایمان جو گناہ سے بچاتا ہے اور نیکیوں کے قریب کرتا ہے اور میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے مجھ پر لا انتہا فضل اور انعام ہیں ان کی تحدیث مجھ پر فرض ہے.پس میں جب کوئی کام کرتا ہوں تو میری غرض اور نیت اللہ تعالیٰ کے جلال کا اظہار ہوتی ہے.ایسا ہی اس آمین کی تقریب پر ہوا ہے.یہ لڑکے چونکہ اللہ تعالیٰ کا ایک نشان ہیں اور ہر ایک ان میں سے خدا کی پیشگوئیوں کا زندہ نمونہ ہیں اس لئے میں اللہ تعالیٰ کے ان نشانوں کی قدر کرنی فرض سمجھتا ہوں کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
نبوت اور قرآن کریم کی حقانیت اور خود اللہ تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت ہیں.اس وقت جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کے کلام کو پڑھ لیا تو مجھے کہا گیا کہ اس تقریب پر چند دعائیہ شعر جن میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا شکریہ بھی ہو لکھ دوں.میں جیسا کہ ابھی کہا ہے اصلاح کی فکر میں رہتا ہوں میں نے اس تقریب کو بہت ہی مبارک سمجھا اور میں نے مناسب جانا کہ اس طرح پر تبلیغ کردوں.پس یہ میری نیت اور غرض تھی.چنانچہ جب میں نے اس کو شروع کیا اور جب یہ مصرع لکھا ہر ایک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے تو دوسرا مصرع الہام ہوا اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے جس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ بھی میرے اس فعل سے راضی ہے.‘‘ (الحکم ۱۰، ۱۷؍ اپریل ۱۹۰۳ء) یہ کتاب ’’روحانی خزائن‘‘ مجموعہ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت سے پہلی بار شامل کی جارہی ہے.
01 ھَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ گورنمنٹ انگریزی اور جہاد ۲۲؍مئی۱۹۰۰ مطبع ضیاء الاسلام قادیان میں باہتمام حکیم فضل الدین صاحب چھپا
03 نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم جہاد کے مسئلہ کی فلاسفی اور اس کی اصل حقیقت ایسا ایک پیچیدہ امر اور دقیق نکتہ ہے کہ جس کے نہ سمجھنے کے باعث سے اس زمانہ اور ایسا ہی درمیانی زمانہ کے لوگوں نے بڑی بڑی غلطیاں کھائی ہیں اور ہمیں نہایت شرم زدہ ہو کر قبول کرنا پڑتا ہے کہ ان خطرناک غلطیوں کی وجہ سے اسلام کے مخالفوں کو موقع ملا کہ وہ اسلام جیسے پاک اور مقدس مذہب کو جو سراسر قانون قدرت کا آئینہ اور زندہ خدا کا جلال ظاہر کرنے والا ہے مورد اعتراض ٹھہراتے ہیں.جاننا چاہئیے کہ جہاد کا لفظ جُہد کے لفظ سے مشتق ہے جس کے معنے ہیں کوشش کرنا اور پھر مجاز کے طور پر دینی لڑائیوں کے لئے بولا گیا اور معلوم ہوتا ہے کہ ہندوؤں میں جو لڑائی کویُدّہ کہتے ہیں دراصل یہ لفظ بھی جہاد کے لفظ کا ہی بگڑا ہوا ہے.چونکہ عربی زبان تمام زبانوں کی ماں ہے اور تمام زبانیں اسی میں سے نکلی ہیں اس لئے یُدّہ کا لفظ جو سنسکرت کی زبان میں لڑائی پر بولا جاتا ہے دراصل جُہد یا جہاد ہے اور پھرجیم کویا کے ساتھ بدل دیا گیا اور کچھ تصرف کرکے تشدید کے ساتھ بولا گیا.اب ہم اس سوال کا جواب لکھنا چاہتے ہیں کہ اسلام کو جہاد کی کیوں ضرو رت پڑی اور جہاد کیا چیز ہے.سو واضح ہو کہ اسلام کو پیدا ہوتے ہی بڑی بڑی مشکلات کا سامنا پڑا تھا اور تمام قومیں اس کی دشمن ہو گئی تھیں جیسا کہ یہ ایک معمولی بات ہے کہ جب
04 ایک نبی یا رسول خدا کی طرف سے مبعوث ہوتا ہے اور اس کا فرقہ لوگوں کو ایک گروہ ہونہار اور راستباز اور با ہمت اور ترقی کرنے والا دکھائی دیتا ہے تو اس کی نسبت موجودہ قوموں اور فرقوں کے دلوں میں ضرور ایک قسم کا بغض اور حسد پیدا ہو جایا کرتا ہے.بالخصوص ہر ایک مذہب کے علماء اور گدی نشین تو بہت ہی بغض ظاہر کرتے ہیں کیونکہ اُس مرد خدا کے ظہور سے ان کی آمدنیوں اوروجاہتوں میں فرق آتا ہے.اُن کے شاگرد اور مرید اُن کے دام سے باہر نکلنا شروع کرتے ہیں کیونکہ تمام ایمانی اور اخلاقی اور علمی خوبیاں اس شخص میں پاتے ہیں جو خدا کی طرف سے پیدا ہوتا ہے.لہٰذا اہل عقل اور تمیز سمجھنے لگتے ہیں کہ جو عزت بخیال علمی شرف اور تقویٰ اور پرہیزگاری کے اُن عالموں کو دی گئی تھی اب وہ اس کے مستحق نہیں رہے اور جو معزز خطاب اُن کو دیئے گئے تھے جیسے نجم الاُمّۃ اور شمس الاُمّۃ اور شَیخ المَشَائخ وغیرہ اب وہ ان کے لئے موزوں نہیں رہے.سو ان وجوہ سے اہل عقل اُن سے مُنہ پھیر لیتے ہیں.کیونکہ وہ اپنے ایمانوں کو ضائع کرنا نہیں چاہتے.ناچار ان نقصانوں کی وجہ سے علماء او رمشائخ کا فرقہ ہمیشہ نبیوں اور رسولوں سے حسد کرتا چلا آیا ہے.وجہ یہ کہ خدا کے نبیوں اور ماموروں کے وقت ان لوگوں کی سخت پردہ دری ہوتی ہے کیونکہ دراصل وہ ناقص ہوتے ہیں اور بہت ہی کم حصہ نور سے رکھتے ہیں اور ان کی دشمنی خدا کے نبیوں اور راستبازوں سے محض نفسانی ہوتی ہے.اور سراسر نفس کے تابع ہو کر ضرر رسانی کے منصوبے سوچتے ہیں بلکہ بسا اوقات وہ اپنے دلوں میں محسوس بھی کرتے ہیں کہ وہ خدا کے ایک پاک دل بندہ کو ناحق ایذا پہنچا کر خدا کے غضب کے نیچے آگئے ہیں اور ان کے اعمال بھی جو مخالف کارستانیوں کے لئے ہر وقت اُن سے سرزد ہوتے رہتے ہیں ان کے دل کی قصور وار حالت کو اُن پر ظاہرکرتے رہتے ہیں مگر پھر بھی حسد کی آگ کا تیز انجن عداوت کے گڑھوں کی طرف ان کو کھینچے لئے جاتا ہے.یہی اسباب تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں مشرکوں اور یہودیوں اور عیسائیوں کے عالموں کو نہ محض حق کے قبول کرنے سے محروم رکھا
05 بلکہ سخت عداوت پر آمادہ کر دیا.لہٰذا وہ اس فکر میں لگ گئے کہ کسی طرح اسلام کو صفحۂ دنیا سے مٹا دیں اور چونکہ مسلمان اسلام کے ابتدائی زمانہ میں تھوڑے تھے اس لئے اُن کے مخالفوں نے بباعث اس تکبّر کے جو فطرتاً ایسے فرقوں کے دل اور دماغ میں جاگزیں ہوتا ہے جو اپنے تئیں دولت میں ،مال میں ،کثرت جماعت میں ،عزت میں، مرتبت میں دوسرے فرقہ سے برتر خیال کرتے ہیں اُس وقت کے مسلمانوں یعنی صحابہ سے سخت دشمنی کا برتاؤ کیا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ آسمانی پودہ زمین پر قائم ہو بلکہ وہ ان راستبازوں کے ہلاک کرنے کے لئے اپنے ناخنوں تک زور لگا رہے تھے اور کوئی دقیقہ آزار رسانی کا اُٹھا نہیں رکھا تھا اور اُن کو خوف یہ تھا کہ ایسا نہ ہو کہ اس مذہب کے پیر جم جائیں اور پھر اس کی ترقی ہمارے مذہب اور قوم کی بربادی کا موجب ہو جائے.سو اسی خوف سے جو اُن کے دلوں میں ایک رُعبناک صورت میں بیٹھ گیا تھا نہایت جابرانہ اور ظالمانہ کارروائیاں اُن سے ظہور میں آئیں اور انہوں نے دردناک طریقوں سے اکثر مسلمانوں کو ہلاک کیا اور ایک زمانہ دراز تک جو تیرہ برس کی مدت تھی اُن کی طرف سے یہی کارروائی رہی اور نہایت بے رحمی کی طرز سے خدا کے وفادار بندے اور نوع انسان کے فخر اُن شریر درندوں کی تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور یتیم بچے اور عاجز اور مسکین عورتیں کو چوں اور گلیوں میں ذبح کئے گئے اس پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے قطعی طور پر یہ تاکید تھی کہ شرّ کا ہر گز مقابلہ نہ کرو چنانچہ اُن برگزیدہ راستبازوں نے ایسا ہی کیا اُن کے خونوں سے کوچے سُرخ ہو گئے پر انہوں نے دم نہ مارا وہ قربانیوں کی طرح ذبح کئے گئے پر انہوں نے آہ نہ کی.خدا کے پاک اور مقدس رسول کو جس پر زمین اور آسمان سے بے شمار سلام ہیں بار ہا پتھر مار مار کر خون سے آلودہ کیا گیا مگر اُس صدق اور استقامت کے پہاڑ نے ان تمام آزاروں کی دلی انشراح اور محبت سے برداشت کی اور ان صابرانہ اور عاجزانہ روشوں سے مخالفوں کی شوخی دن بدن بڑھتی گئی اور اُنہوں نے اس مقدس جماعت کو اپنا ایک شکار سمجھ لیا.تب اُس خدا نے جو نہیں چاہتا کہ زمین پر
06 ظلم اور بے رحمی حد سے گذر جائے اپنے مظلوم بندوں کو یاد کیا اور اُس کا غضب شریروں پر بھڑکا اور اُس نے اپنی پاک کلام قرآن شریف کے ذریعہ سے اپنے مظلوم بندوں کو اطلاع دی کہ جو کچھ تمہارے ساتھ ہو رہا ہے میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں مَیں تمہیں آج سے مقابلہ کی اجازت دیتا ہوں اور میں خدائے قادر ہوں ظالموں کو بے سزا نہیں چھوڑوں گا.یہ حکم تھا جس کا دوسرے لفظوں میں جہاد نام رکھا گیا اور اس حکم کی اصل عبارت جو قرآن شریف میں اب تک موجود ہے یہ ہے :.33 ۱یعنی خدا نے اُن مظلوم لوگوں کی جو قتل کئے جاتے ہیں اور ناحق اپنے وطن سے نکالے گئے فریاد سُن لی اور ان کو مقابلہ کی اجازت دی گئی اور خدا قادر ہے جو مظلوم کی مدد کرے.الجزو نمبر۱۷ سورۃ الحج.مگر یہ حکم مختص الزمان والوقت تھا ہمیشہ کے لئے نہیں تھا بلکہ اس زمانہ کے متعلق تھا جبکہ اسلام میں داخل ہونے والے بکریوں اور بھیڑوں کی طرح ذبح کئے جاتے تھے.لیکن افسوس کہ نبوت اور خلافت کے زمانہ کے بعد اس مسئلہ جہاد کے سمجھنے میں جس کی اصل جڑ آیت کریمہ مذکورہ بالا ہے لوگوں نے بڑی بڑی غلطیاں کھائیں اور ناحق مخلوق خدا کو تلوار کے ساتھ ذبح کرنا دینداری کا شعار سمجھا گیااور عجیب اتفاق یہ ہے کہ عیسائیوں کو تو خالق کے حقوق کی نسبت غلطیاں پڑیں اور مسلمانوں کو مخلوق کے حقوق کی نسبت.یعنی عیسائی دین میں تو ایک عاجز انسان کو خدا بنا کر اس قادر قیوم کی حق تلفی کی گئی جس کی مانند نہ زمین میں کوئی چیز ہے اورنہ آسمان میں اور مسلمانوں نے انسانوں پر ناحق تلوار چلانے سے بنی نوع کی حق تلفی کی اور اس کا نام جہاد رکھا غرض حق تلفی کی ایک راہ عیسائیوں نے اختیار کی اور دوسری راہ حق تلفی کی مسلمانوں نے اختیار کرلی.اور اس زمانہ کی بدقسمتی سے یہ دونوں گروہ ان دونوں قسم کی حق تلفیوں کو ایسا پسندیدہ طریق خیال کرتے ہیں کہ ہر ایک گروہ جو اپنے عقیدہ کے موافق ان دونوں قسموں میں سے کسی قسم کی حق تلفی پر زور دے رہا ہے وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ گویا وہ اس سے سیدھا بہشت
07 کو جائے گا اور اس سے بڑھ کر کوئی بھی ذریعہ بہشت کا نہیں.اور اگرچہ خدا کی حق تلفی کا گناہ سب گناہوں سے بڑھ کر ہے لیکن اس جگہ ہمارا یہ مقصود نہیں ہے کہ اس خطرناک حق تلفی کا ذکر کریں جس کی عیسائی قوم مرتکب ہے بلکہ ہم اس جگہ مسلمانوں کو اُس حق تلفی پر متنبہ کرنا چاہتے ہیں جو بنی نوع کی نسبت اُن سے سرزد ہو رہی ہے.یاد رہے کہ مسئلہ جہاد کو جس طرح پر حال کے اسلامی علماء نے جو مولوی کہلاتے ہیں سمجھ رکھا ہے اور جس طرح وہ عوام کے آگے اس مسئلہ کی صورت بیان کرتے ہیں ہرگز وہ صحیح نہیں ہے اور اس کا نتیجہ بجزاس کے کچھ نہیں کہ وہ لوگ اپنے پُر جوش وعظوں سے عوام وحشی صفات کو ایک درندہ صفت بناویں.اور انسانیت کی تمام پاک خوبیوں سے بے نصیب کر دیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور میں یقیناًجانتاہو ں کہ جس قدر ایسے ناحق کے خون اُن نادان اور نفسانی انسانوں سے ہوتے ہیں کہ جو اس راز سے بے خبر ہیں کہ کیوں اور کس و جہ سے اسلام کو اپنے ابتدائی زمانہ میں لڑائیوں کی ضرورت پڑی تھی اُن سب کا گناہ ان مولویوں کی گردن پر ہے کہ جو پوشیدہ طور پر ایسے مسئلے سکھاتے رہتے ہیں جن کا نتیجہ دردناک خونریزیاں ہیں.یہ لوگ جب حکام وقت کو ملتے ہیں تو اس قدر سلام کے لئے جھکتے ہیں کہ گویا سجدہ کرنے کے لئے طیار ہیں اور جب اپنے ہم جنسوں کی مجلسوں میں بیٹھتے ہیں تو بار بار اصرار ان کا اِسی بات پر ہوتا ہے کہ یہ ملک دارالحرب ہے اور اپنے دلوں میں جہاد کرنا فرض سمجھتے ہیں اور تھوڑے ہیں جو اس خیال کے انسان نہیں ہیں.یہ لوگ اپنے اس عقیدہ جہاد پر جو سراسر غلط اور قرآن اور حدیث کے برخلاف ہے اس قدر جمے ہوئے ہیں کہ جو شخص اس عقیدہ کو نہ مانتا ہو اور اس کے بر خلاف ہو اُس کا نام دجال رکھتے ہیں اور واجب القتل قرار دیتے ہیں.چنانچہ میں بھی مدت سے اِسی فتویٰ کے نیچے ہوں اور مجھے جواس ملک کے بعض مولویوں نے دجّال اور کافر قرار دیا اور گورنمنٹ برطانیہ کے قانون سے بھی بے خوف ہو کر میری نسبت ایک چھپا ہوا فتویٰ شائع کیا کہ یہ شخص واجب القتل ہے اور اس کا مال لوٹنا بلکہ عورتوں کو نکال کر لے جانا بڑے ثواب کا
08 موجب ہے.اس کا سبب کیا تھا؟ یہی تو تھا کہ میرا مسیح موعود ہونا اور اُن کے جہادی مسائل کے مخالف وعظ کرنا اور اُن کے خونی مسیح اور خونی مہدی کے آنے کو جس پر اُن کو لوٹ مارکی بڑی بڑی اُمیدیں تھیں سراسر باطل ٹھہرانا اُن کے غضب اور عداوت کا موجب ہو گیا مگر وہ یاد رکھیں کہ درحقیقت یہ جہاد کا مسئلہ جیسا کہ اُن کے دلوں میں ہے صحیح نہیں ہے اور اِس کا پہلا قدم انسانی ہمدردی کا خون کرنا ہے.یہ خیا ل اُن کا ہر گز صحیح نہیں ہے کہ جب پہلے زمانہ میں جہاد روا رکھا گیا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اب حرام ہو جائے.اِس کے ہمارے پاس دو جواب ہیں.ایک یہ کہ یہ خیال قیاس مع الفارق ہے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز کسی پر تلوار نہیں اٹھائی بجز ان لوگوں کے جنہوں نے پہلے تلوار اٹھائی اور سخت بے رحمی سے بے گناہ اور پرہیزگار مردوں اورعورتوں اور بچوں کو قتل کیا اور ایسے دردانگیز طریقوں سے مارا کہ اب بھی ان قصوں کو پڑھ کر رونا آتا ہے.دوسرے یہ کہ اگر فرض بھی کر لیں کہ اسلام میں ایسا ہی جہاد تھا جیسا کہ ان مولویوں کا خیال ہے تا ہم اس زمانہ میں وہ حکم قائم نہیں رہا کیونکہ لکھا ہے کہ جب مسیح موعود ظاہر ہو جائے گا تو سیفی جہاد اور مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ مسیح نہ تلوار اٹھائے گا اور نہ کوئی اور زمینی ہتھیار ہاتھ میں پکڑے گا بلکہ اُس کی دعا اُس کا حربہ ہوگا اور اُس کی عقدہمت اُس کی تلوار ہوگی وہ صلح کی بنیاد ڈالے گا اور بکری اور شیر کو ایک ہی گھاٹ پر اکٹھے کرے گا اور اس کا زمانہ صلح اور نرمی اور انسانی ہمدردی کا زمانہ ہوگا.ہائے افسوس کیوں یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ تیرہ سو برس ہوئے کہ مسیح موعود کی شان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے کلمہ یضع الحرب جاری ہو چکا ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ مسیح موعود جب آئے گا تو لڑائیوں کا خاتمہ کر دے گا.اور اسی کی طرف اشارہ اس قرآنی آیت کا ہے 3 ۱ یعنی اس وقت تک لڑائی کرو جب تک کہ مسیح کا وقت آجائے.یہی تضع الحرب اوزارھاہے.دیکھو صحیح بخاری موجود ہے جو قرآن شریف کے بعد اصح الکتب مانی گئی ہے.اس کو غور سے پڑھو.اے اسلام کے عالمو اور مولویو! میری بات سنو! میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اب جہاد کا وقت نہیں ہے خدا کے
09 پاک نبی کے نافرمان مت بنو مسیح موعود جو آنے والا تھاآچکا اور اُس نے حکم بھی دیا کہ آئندہ مذہبی جنگوں سے جو تلوار اور کُشت و خون کے ساتھ ہوتی ہیں باز آجاؤ تو اب بھی خونریزی سے باز نہ آنا اور ایسے وعظوں سے مُنہ بند نہ کرنا طریق اسلام نہیں ہے جس نے مجھے قبول کیا ہے وہ نہ صرف ان وعظوں سے مُنہ بند کرے گا بلکہ اس طریق کو نہایت بُرا اور موجب غضبِ الہٰی جانے گا.اس جگہ ہمیں یہ بھی افسوس سے لکھنا پڑا کہ جیسا کہ ایک طرف جاہل مولویوں نے اصل حقیقت جہاد کی مخفی رکھ کر لوٹ مار اور قتل انسان کے منصوبے عوام کو سکھائے اور اس کا نام جہاد رکھا ہے اِسی طرح دوسری طرف پادری صاحبوں نے بھی یہی کارروائی کی اور ہزاروں رسالے اور اشتہار اردو اور پشتو وغیرہ زبانوں میں چھپوا کر ہندوستان اور پنجاب اور سرحدی ملکوں میں اس مضمون کے شائع کئے کہ اسلام تلوار کے ذریعہ سے پھیلا ہے اور تلوار چلانے کا نام اسلام ہے.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام نے جہاد کی دوگواہیاں پاکر یعنی ایک مولویوں کی گواہی اور دوسری پادریوں کی شہادت اپنے وحشیانہ جوش میں ترقی کی.میرے نزدیک یہ بھی ضروری ہے کہ ہماری محسن گورنمنٹ ان پادری صاحبوں کو اس خطرناک افتراسے روک دے جس کا نتیجہ ملک میں بے امنی اور بغاوت ہے.یہ تو ممکن نہیں کہ پادریوں کے اِن بے جا افتراؤں سے اہل اسلام دین اسلام کو چھوڑ دیں گے ہاں ان وعظوں کا ہمیشہ یہی نتیجہ ہوگا کہ عوام کے لئے مسئلہ جہاد کی ایک یاددہانی ہوتی رہے گی اور وہ سوئے ہوئے جاگ اٹھیں گے.غرض اب جب مسیح موعود آگیا تو ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ جہاد سے باز آوے.اگر مَیں نہ آیا ہوتا تو شائد اس غلط فہمی کا کسی قدر عذر بھی ہوتا مگر اب تو میں آگیا اور تم نے وعدہ کا دن دیکھ لیا.اس لئے اب مذہبی طور پر تلوار اٹھانے والوں کا خدا تعالیٰ کے سامنے کوئی عذر نہیں.جو شخص آنکھیں رکھتا ہے اور حدیثوں کو پڑھتا او رقرآن کو دیکھتا ہے وہ بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ یہ طریق جہاد جس پر اس زمانہ کے اکثر وحشی
10 کار بند ہو رہے ہیں.یہ اسلامی جہاد نہیں ہے بلکہ یہ نفس امارہ کے جوشوں سے یا بہشت کی طمع خام سے ناجائز حرکات ہیں جو مسلمانوں میں پھیل گئے ہیں.مَیں ابھی بیان کر چکا ہوں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ میں خود سبقت کرکے ہرگز تلوار نہیں اُٹھائی بلکہ ایک زمانہ دراز تک کفار کے ہاتھ سے دُکھ اُٹھایا اور اس قدر صبر کیا جو ہر ایک انسان کا کام نہیں اور ایسا ہی آپ کے اصحاب بھی اسی اعلیٰ اصول کے پابند رہے اور جیسا کہ اُن کو حکم دیا گیا تھا کہ دُکھ اٹھاؤ اورصبر کرو ایسا ہی انہوں نے صدق اور صبر دکھایا.وہ پیروں کے نیچے کچلے گئے انہوں نے دم نہ مارا.اُن کے بچے اُن کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے وہ آگ اور پانی کے ذریعہ سے عذاب دیئے گئے مگر وہ شرّ کے مقابلہ سے ایسے باز رہے کہ گویا وہ شیرخوار بچے ہیں.کون ثابت کر سکتا ہے کہ دنیا میں تما م نبیوں کی اُمتوں میں سے کسی ایک نے بھی باوجود قدرت انتقام ہونے کے خدا کا حکم سُن کر ایسا اپنے تئیں عاجز اور مقابلہ سے دستکش بنا لیا جیسا کہ انہوں نے بنایا؟ کس کے پاس اِس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں کوئی اور بھی ایسا گروہ ہوا ہے جو باوجود بہادری اور جماعت اور قوت بازو اور طاقت مقابلہ اور پائے جانے تمام لوازم مردی اور مردانگی کے پھر خونخوار دشمن کی ایذا اور زخم رسانی پر تیرہ برس تک برابر صبر کرتا رہا؟ ہمارے سیدو مولیٰ اور آپ کے صحابہ کا یہ صبر کسی مجبوری سے نہیں تھا بلکہ اس صبر کے زمانہ میں بھی آپ کے جان نثار صحابہ کے وہی ہاتھ اور بازو تھے جو جہاد کے حکم کے بعد انہوں نے دکھائے اور بسا اوقات ایک ہزار جوان نے مخالف کے ایک لاکھ سپاہی نبردآزما کوشکست دے دی.ایسا ہوا تا لوگوں کو معلوم ہو کہ جو مکہ میں دشمنوں کی خون ریزیوں پر صبر کیا گیا تھا اس کا باعث کوئی بُزدلی اور کمزوری نہیں تھی بلکہ خدا کا حکم سُن کر انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے تھے اور بکریوں اور بھیڑوں کی طرح ذبح ہونے کو طیار ہو گئے تھے.بیشک ایسا صبر انسانی طاقت سے باہر ہے اور گو ہم تمام دنیا اور تمام نبیوں کی تاریخ پڑھ جائیں تب بھی ہم کسی اُمت میں اور کسی نبی کے گروہ میں یہ اخلاق فاضلہ نہیں پاتے
11 اور اگر پہلوں میں سے کسی کے صبر کا قصہ بھی ہم سُنتے ہیں توفی الفوردل میں گذرتا ہے کہ قرآئن اِس بات کو ممکن سمجھتے ہیں کہ اس صبر کا موجب در اصل بُزدلی اور عدمِ قدرت انتقام ہو مگر یہ بات کہ ایک گروہ جو درحقیقت سپاہیانہ ہنر اپنے اندر رکھتا ہو اور بہادر اور قوی دل کا مالک ہو اور پھر وہ دُکھ دیا جائے اور اس کے بچے قتل کئے جائیں اور اُس کو نیزوں سے زخمی کیا جائے مگر پھر بھی وہ بدی کا مقابلہ نہ کرے یہ وہ مردانہ صفت ہے جو کامل طور پر یعنی تیرہ برس برابر ہمارے نبی کریم اور آپ کے صحابہ سے ظہور میں آئی ہے اس قسم کا صبر جس میں ہر دم سخت بلاؤں کا سامنا تھا جس کا سلسلہ تیرہ برس کی دراز مدّت تک لمبا تھا درحقیقت بے نظیر ہے اور اگر کسی کو اس میں شک ہو تو ہمیں بتلاوے کہ گذشتہ را ستبازوں میں اس قسم کے صبر کی نظیر کہاں ہے؟ اور اس جگہ یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اس قدر ظلم جو صحابہ پرکیا گیا ایسے ظلم کے وقت میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتہاد سے کوئی تدبیر بچنے کی اُن کو نہیں بتلائی بلکہ بار بار یہی کہا کہ ان تمام دکھوں پر صبر کرو اور اگر کسی نے مقابلہ کے لئے کچھ عرض کیا تو اس کو روک دیا اور فرمایا کہ مجھے صبر کا حکم ہے.غرض ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صبر کی تاکید فرماتے رہے جب تک کہ آسمان سے حکم مقابلہ آگیا.اب اس قسم کے صبر کی نظیر تم تمام اول اور آخر کے لوگوں میں تلاش کرو پھر اگر ممکن ہو تو اس کا نمونہ حضرت موسیٰ کی قوم میں سے یا حضرت عیسیٰ کے حواریوں میں سے دستیاب کرکے ہمیں بتلاؤ.حاصل کلام یہ کہ جب کہ مسلمانوں کے پاس صبر اور ترک شرّ اور اخلاق فاضلہ کا یہ نمونہ ہے جس سے تمام دنیا پر اُن کو فخر ہے تو یہ کیسی نادانی اور بدبختی اور شامت اعمال ہے جو اب بالکل اس نمونہ کو چھوڑ دیا گیا ہے.جاہل مولویوں نے خدا اُن کو ہدایت دے عوام کا لانعام کو بڑے دھوکے دیئے ہیں اور بہشت کی کنجی اسی عمل کو قراردے دیا ہے جو صریح ظلم اور بے رحمی اور انسانی اخلاق کے برخلاف ہے.کیا یہ نیک کام ہو سکتا ہے کہ ایک شخص مثلاً
12 اپنے خیال میں بازار میں چلا جاتا ہے اور ہم اس قدر اس سے بے تعلق ہیں کہ نام تک بھی نہیں جانتے اور نہ وہ ہمیں جانتا ہے مگر تاہم ہم نے اُس کے قتل کرنے کے ارادہ سے ایک پستول اس پر چھوڑ دیا ہے کیا یہی دینداری ہے؟ اگر یہ کچھ نیکی کا کام ہے تو پھر درندے ایسی نیکی کے بجا لانے میں انسانوں سے بڑھ کر ہیں.سبحان اللہ! وہ لوگ کیسے راستباز اور نبیوں کی رُوح اپنے اندر رکھتے تھے کہ جب خدا نے مکہ میں اُن کو یہ حکم دیا کہ بدی کا مقابلہ مت کرو اگرچہ ٹکڑے ٹکڑے کئے جاؤ.پس وہ اِس حکم کو پاکر شیر خوار بچوں کی طرح عاجز اور کمزور بن گئے گویا نہ اُن کے ہاتھوں میں زور ہے نہ اُن کے بازوؤں میں طاقت.بعض اُن میں سے اس طور سے بھی قتل کئے گئے کہ دو اونٹوں کو ایک جگہ کھڑا کرکے اُن کی ٹانگیں مضبوط طور پر اُن اونٹوں سے باندھ دی گئیں اور پھر اونٹوں کو مخالف سمت میں دوڑایا گیا پس وہ اک دم میں ایسے چر گئے جیسے گاجر یا مولی چیری جاتی ہے.مگر افسوس کہ مسلمانوں اور خاص کر مولویوں نے ان تمام واقعات کو نظر انداز کر دیا ہے اور اب وہ خیال کرتے ہیں کہ گویا تمام دنیا اُن کا شکار ہے.اور جس طرح ایک شکاری ایک ہرن کا کسی بن میں پتہ لگا کر چھپ چھپ کر اُس کی طرف جاتا ہے اور آخر موقع پاکر بندوق کا فیر کرتا ہے یہی حالات اکثر مولویوں کے ہیں.انہوں نے انسانی ہمدر دی کے سبق میں سے کبھی ایک حرف بھی نہیں پڑھا بلکہ اُن کے نزدیک خواہ نخواہ ایک غافل انسان پر پستول یا بندوق چلا دینا اسلام سمجھا گیا ہے ان میں وہ لوگ کہاں ہیں جو صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح ماریں کھائیں اور صبر کریں.کیا خدا نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم خواہ نخواہ بغیرثبوت کسی جرم کے ایسے انسان کو کہ نہ ہم اُسے جانتے ہیں اور نہ وہ ہمیں جانتا ہے غافل پاکر چھری سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں یا بندوق سے اس کا کام تمام کریں کیا ایسا دین خدا کی طرف سے ہو سکتا ہے جو یہ سکھاتا ہے کہ یونہی بے گناہ بے جرم بے تبلیغ خدا کے بندوں کو قتل کرتے جاؤ اس سے تم بہشت میں داخل ہو جاؤ گے.افسوس کا مقام ہے اور شرم کی جگہ ہے کہ ایک شخص جس سے ہماری کچھ سابق دشمنی بھی نہیں بلکہ
13 روشناسی بھی نہیں وہ کسی دوکان پر اپنے بچوں کے لئے کوئی چیز خرید رہا ہے یا اپنے کسی اور جائز کام میں مشغول ہے اور ہم نے بے و جہ بے تعلق اس پرپستول چلا کر ایک دم میں اس کی بیوی کو بیوہ اور اس کے بچوں کو یتیم اور اس کے گھر کو ماتم کدہ بنادیا.یہ طریق کس حدیث میں لکھا ہے یا کس آیت میں مرقوم ہے؟ کوئی مولوی ہے جو اس کا جواب دے! نادانوں نے جہاد کا نام سُن لیا ہے اور پھر اس بہانہ سے اپنی نفسانی اغراض کو پورا کرنا چاہا ہے یا محض دیوانگی کے طور پر مرتکب خونریزی کے ہوئے ہیں.ابھی ہم لکھ چکے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں جو اسلام نے خدائی حکم سے تلوار اٹھائی وہ اس وقت اٹھائی گئی کہ جب بہت سے مسلمان کافروں کی تلواروں سے قبروں میں پہنچ گئے آخر خدا کی غیرت نے چاہا کہ جو لوگ تلواروں سے ہلاک کرتے ہیں وہ تلواروں سے ہی مارے جائیں.خدا بڑا کریم اور رحیم اور حلیم ہے اور بڑا برداشت کرنے والا ہے.لیکن آخر کار را ستبازوں کے لئے غیرت مند بھی ہے.مجھے تعجب ہے کہ جبکہ اس زمانہ میں کوئی شخص مسلمانوں کو مذہب کے لئے قتل نہیں کرتا تووہ کس حکم سے ناکردہ گناہ لوگوں کو قتل کرتے ہیں.کیوں اُن کے مولوی ان بے جاحرکتوں سے جن سے اسلام بدنام ہوتا ہے اُن کو منع نہیں کرتے.اس گورنمنٹ انگریزی کے ماتحت کس قدر مسلمانوں کو آرام ہے کیا کوئی اس کو گِن سکتا ہے.ابھی بہتیرے ایسے لوگ زندہ ہوں گے جنہوں نے کسی قدر سکھوں کا زمانہ دیکھا ہوگا.اب وہی بتائیں کہ سکھوں کے عہد میں مسلمانوں اور اسلام کا کیا حال تھا.ایک ضروری شعار اسلام کا جو بانگ نماز ہے وہی ایک جرم کی صورت میں سمجھا گیا تھا.کیا مجال تھی کہ کوئی اونچی آواز سے بانگ کہتا اور پھر سکھوں کے برچھوں اور نیزوں سے بچ رہتا.تو اب کیا خدا نے یہ بُرا کام کیا جو سکھوں کی بے جا دست اندازیوں سے مسلمانوں کو چھڑایا اور گورنمنٹ انگریزی کی امن بخش حکومت میں داخل کیا اور اس گورنمنٹ کے آتے ہی گویا نئے سرے پنجاب کے مسلمان مشرف باسلام ہوئے.چونکہ احسان کا عوض احسان ہے اس لئے نہیں چاہئے کہ ہم اس خدا کی نعمت کو جو ہزاروں دعاؤں کے بعد
14 سکھوں کے زمانہ کے عوض ہم کو ملی ہے یوں ہی رد کر دیں.اور میں اس وقت اپنی جماعت کو جو مجھے مسیح موعود مانتی ہے خاص طور پر سمجھاتا ہوں کہ وہ ہمیشہ ان ناپاک عادتوں سے پرہیز کریں.مجھے خدا نے جو مسیح موعود کرکے بھیجا ہے اور حضرت مسیح ابن مریم کا جامہ مجھے پہنا دیا ہے اس لئے میں نصیحت کرتا ہوں کہ شر سے پرہیز کرو اور نوع انسان کے ساتھ حق ہمدردی بجا لاؤ.اپنے دلوں کو بغضوں اور کینوں سے پاک کرو کہ اس عادت سے تم فرشتوں کی طرح ہو جاؤ گے.کیا ہی گندہ اور ناپاک وہ مذہب ہے جس میں انسان کی ہمدردی نہیں اور کیا ہی ناپاک وہ راہ ہے جو نفسانی بغض کے کانٹوں سے بھرا ہے.سو تم جو میرے ساتھ ہو ایسے مت ہو.تم سوچو کہ مذہب سے حاصل کیا ہے کیا یہی کہ ہر وقت مردم آزاری تمہارا شیوہ ہو؟ نہیں بلکہ مذہب اُس زندگی کے حاصل کرنے کے لئے ہے جو خدا میں ہے اور وہ زندگی نہ کسی کو حاصل ہوئی اور نہ آئندہ ہوگی بجز اس کے کہ خدائی صفات انسان کے اندر داخل ہو جائیں.خدا کے لئے سب پررحم کرو تا آسمان سے تم پر رحم ہو.آؤمیں تمہیں ایک ایسی راہ سکھاتا ہوں جس سے تمہارا نور تمام نوروں پر غالب رہے اور وہ یہ ہے کہ تم تمام سفلی کینوں اور حسدوں کو چھوڑ دو اور ہمدردِ نوع انسان ہو جاؤ اور خدا میں کھوئے جاؤ اور اس کے ساتھ اعلیٰ درجہ کی صفائی حاصل کرو کہ یہی وہ طریق ہے جس سے کرامتیں صادر ہوتی ہیں اور دعائیں قبول ہوتی ہیں اور فرشتے مدد کے لئے اُتر تے ہیں.مگر یہ ایک دن کا کام نہیں ترقی کرو ترقی کرو.اُس دھوبی سے سبق سیکھو جو کپڑوں کو اول بھٹی میں جوش دیتا ہے اور دیئے جاتا ہے یہاں تک کہ آخر آگ کی تاثیریں تمام میل اور چرک کو کپڑوں سے علیحدہ کر دیتی ہیں.تب صبح اٹھتا ہے اور پانی پر پہنچتا ہے اور پانی میں کپڑوں کو تر کرتا ہے اور بار بار پتھروں پر مارتا ہے تب وہ میل جو کپڑوں کے اندر تھی اور اُن کا جز بن گئی تھی کچھ آگ سے صدمات اٹھاکر اور کچھ پانی میں دھوبی کے بازو سے مارکھا کر یکدفعہ جدا ہونی شروع ہو جاتی ہے یہاں تک کہ کپڑے ایسے سفید ہو جاتے ہیں جیسے ابتدا میں تھے.یہی انسانی نفس کے سفید ہونے
15 کی تدبیر ہے اور تمہاری ساری نجات اس سفیدی پر موقوف ہے.یہی وہ بات ہے جو قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.3 ۱ یعنی وہ نفس نجات پا گیا جو طرح طرح کے میلوں اور چرکوں سے پاک کیا گیا.دیکھو میں ایک حکم لے کر آپ لوگوں کے پاس آیا ہوں وہ یہ ہے کہ اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے مگر اپنے نفسوں کے پاک کرنے کا جہاد باقی ہے.اور یہ بات میں نے اپنی طرف سے نہیں کہی بلکہ خدا کا یہی ارادہ ہے صحیح بخاری کی اُس حدیث کو سوچو جہاں مسیح موعود کی تعریف میں لکھا ہے کہ یضع الحرب یعنی مسیح جب آئے گا تو دینی جنگوں کا خاتمہ کر دے گا.سو میں حکم دیتا ہوں کہ جو میری فوج میں داخل ہیں وہ ان خیالات کے مقام سے پیچھے ہٹ جائیں.دلوں کو پاک کریں اور اپنے انسانی رحم کو ترقی دیں اور درد مندوں کے ہمدرد بنیں.زمین پر صلح پھیلا ویں کہ اسی سے اُن کا دین پھیلے گا اور اِس سے تعجب مت کریں کہ ایسا کیونکر ہوگا.کیونکہ جیسا کہ خدا نے بغیر توسط معمولی اسباب کے جسمانی ضرورتوں کے لئے حال کی نئی ایجادوں میں زمین کے عناصر اور زمین کی تمام چیزوں سے کام لیا ہے اور ریل گاڑیوں کو گھوڑوں سے بھی بہت زیادہ دوڑا کر دکھلایا ہے ایسا ہی اب وہ رُوحانی ضرورتوں کے لئے بغیر توسّط انسانی ہاتھوں کے آسمان کے فرشتوں سے کام لے گا.بڑے بڑے آسمانی نشان ظاہر ہوں گے اور بہت سی چمکیں پیدا ہوں گی جن سے بہت سی آنکھیں کھل جائیں گی.تب آخر میں لوگ سمجھ جائیں گے کہ جو خدا کے سوا انسانوں اور دوسری چیزوں کو خدا بنایا گیا تھا یہ سب غلطیاں تھیں.سو تم صبر سے دیکھتے رہو کیونکہ خدا اپنی توحید کے لئے تم سے زیادہ غیرتمند ہے اور دُعا میں لگے رہو ایسا نہ ہو کہ نافرمانوں میں لکھے جاؤ.اے حق کے بھوکو اور پیاسو! سُن لو کہ یہ وہ دن ہیں جن کا ابتدا سے وعدہ تھا.خدا ان قصوں کو بہت لمبا نہیں کرے گا اور جس طرح تم دیکھتے ہو کہ جب ایک بلند مینار پر چراغ رکھا جائے تو دور دور تک اس کی روشنی پھیل جاتی ہے اور یا جب آسمان کے ایک طرف بجلی چمکتی ہے تو سب طرفیں ساتھ ہی روشن ہو جاتی ہیں.ایسا ہی ان دنوں میں ہوگا کیونکہ خدا نے اپنی اس پیشگوئی کے پورا کرنے کے لئے کہ
16 مسیح کی منادی بجلی کی طرح دنیا میں پھر جائے گی یا بلند مینار کے چراغ کی طرح دنیا کے چار گوشہ میں پھیلے گی زمین پر ہر ایک سامان مہیا کر دیا ہے اورریل اور تار اور اگن بوٹ اور ڈاک کے احسن انتظاموں اور سیرو سیاحت کے سہل طریقوں کو کامل طور پر جاری فرما دیا ہے.سو یہ سب کچھ پیدا کیا گیا تا وہ بات پوری ہو کہ مسیح موعود کی دعوت بجلی کی طرح ہر ایک کنارہ کو روشن کرے گی اور مسیح کا منارہ جس کا حدیثوں میں ذکر ہے دراصل اُس کی بھی یہی حقیقت ہے کہ مسیح کی ندا اور روشنی ایسی جلد دنیا میں پھیلے گی جیسے اونچے منارہ پر سے آواز اور روشنی دور تک جاتی ہے.اِس لئے ریل اور تار اور اگن بوٹ اور ڈاک اور تمام اسباب سہولت تبلیغ اور سہولت سفر مسیح کے زمانہ کی ایک خاص علامت ہے جس کو اکثر نبیوں نے ذکر کیا ہے.اور قرآن بھی کہتا ہے 3 ۱ یعنی عام دعوت کا زمانہ جو مسیح موعود کا زمانہ *ہے وہ ہے جب کہ اونٹ بے کار ہو جائیں گے یعنی کوئی ایسی نئی سواری پیدا ہو جائے گی جو اونٹوں کی حاجت نہیں پڑے گی اور حدیث میں بھی ہے کہ یترک القلاص فلا یسعٰی علیھا یعنی اس زمانہ میں اونٹ بے کار ہو جائیں گے اور یہ علامت کسی اور نبی کے زمانہ کو نہیں دی گئی.سو شکر کرو کہ آسمان پر نور پھیلانے کے لئے طیاریاں ہیں.زمین میں زمینی برکات کا ایک جوش ہے یعنی سفر اور حضر میں اور ہر ایک بات میں وہ آرام تم دیکھ رہے ہو جو تمہارے باپ دادوں نے نہیں دیکھے گویا دنیا نئی ہوگئی بے بہار کے میوے ایک ہی وقت میں مل سکتے ہیں.چھ مہینے کا سفر چند روز میں ہو سکتا ہے.ہزاروں کوسوں کی خبریں ایک ساعت میں آسکتی ہیں ہر ایک کام کی سہولت کے لئے مشینیں اور کلیں * میں بار بار لکھ چکا ہوں کہ مسیح موعود اسرئیلی نبی نہیں ہے بلکہ اس کی خو اور طبیعت پر آیا ہے جبکہ توریت میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسیٰ قرار دیا گیا ہے تو ضرور تھا کہ موسوی سلسلہ کی مانند محمدی سلسلہ کے اخیر پر بھی ایک مسیح ہو.منہ
17 موجود ہیں.اگر چاہو تو ریل میں یوں سفر کر سکتے ہو جیسے گھر کے ایک بستان سرائے میں.پس کیا زمین پر ایک انقلاب نہیں آیا؟ پس جبکہ زمین میں ایک اعجوبہ نما انقلاب پیدا ہو گیا اس لئے خدائے قادر چاہتا ہے کہ آسمان میں بھی ایک اعجوبہ نما انقلاب پیدا ہو جائے اور یہ دونوں مسیح کے زمانہ کی نشانیاں انہی نشانیوں کی طرف اشارہ ہے جو میری کتاب براہین احمدیہ کے ایک الہام میں جو آج سے بیس برس پہلے لکھا گیا پائی جاتی ہیں.اور وہ یہ ہے33۱ یعنی زمین اور آسمان دونوں ایک گٹھڑی کی طرح بند ھے ہوئے تھے جن کے جوہر مخفی تھے ہم نے مسیح کے زمانہ میں وہ دونوں گٹھڑیاں کھول دیں اور دونو ں کے جوہر ظاہر کر دیئے.* بالآخر یاد رہے کہ اگرچہ ہم نے اس اشتہار میں مفصل طور پر لکھ دیا ہے کہ یہ موجودہ طریق غیر مذہب کے لوگوں پر حملہ کرنے کا جو مسلمانوں میں پایا جاتا ہے جس کا نام وہ جہاد رکھتے ہیں یہ شرعی جہاد نہیں ہے بلکہ صریح خدا اور رسول کے حکم کے مخالف اور سخت معصیت ہے لیکن چونکہ اس طریق پر پابند ہونے کی بعض اسلامی قوموں میں پرانی عادت ہو گئی ہے اس لئے اُن کے لئے اس عادت کو چھوڑناآسانی سے ممکن نہیں بلکہ ممکن ہے کہ جو شخص ایسی نصیحت کرے اسی کے دشمن جانی ہو جائیں اور غازیانہ جوش سے اُس کا قصہ بھی تمام کرنا چاہیں ہاں ایک طریق میرے دل میں گذرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر امیر صاحب والی کابل جن کا رعب افغانوں کی قوموں پر اس قدر ہے کہ شاید اس کی نظیر کسی پہلے افغانی امیر میں * کیا یہ سچ نہیں کہ اس زمانہ میں زمین کی گٹھڑی ایسی کھلی ہے کہ ہزار ہا نئی حقیقتیں اور خواص اور کلیں ظاہر ہوتی جاتی ہیں.پھر آسمانی گٹھڑی کیوں بند رہے.آسمانی گٹھڑی کی نسبت گذشتہ نبیوں نے بھی پیشگوئی کی تھی کہ بچے اور عورتیں بھی خدا کا الہام پائیں گی اور وہ مسیح موعود کا زمانہ ہوگا.منہ
18 نہیں ملے گی نامی علماء کوجمع کرکے اس مسئلہ جہاد کو معرض بحث میں لاویں اور پھر علماء کے ذریعہ سے عوام کو اُن کی غلطیوں پر متنبہ کریں بلکہ اس ملک کے علماء سے چند رسالے پشتو زبان میں تالیف کراکر عام طور پر شائع کرائیں تو یقین ہے کہ اس قسم کی کارروائی کا لوگوں پر بہت اثر پڑے گا اور وہ جوش جو نادان ملا عوام میں پھیلاتے ہیں رفتہ رفتہ کم ہو جائے گا اور یقیناًامیر صاحب کی رعایا کی بڑی بدقسمتی ہوگی اگر اس ضروری اصلاح کی طرف امیر صاحب توجہ نہیں کریں گے اور آخری نتیجہ اس کا اُس گورنمنٹ کے لئے خود زحمتیں ہیں جو ملاؤں کے ایسے فتووں پر خاموش بیٹھی رہے کیونکہ آج کل ان ملاؤں اور مولویوں کی یہ عادت ہے کہ ایک ادنیٰ اختلاف مذہبی کی و جہ سے ایک شخص یا ایک فرقہ کو کافر ٹھہرا دیتے ہیں اور پھر جو کافروں کی نسبت اُن کے فتوے جہاد وغیرہ کے ہیں وہی فتوے ان کی نسبت بھی جاری کئے جاتے ہیں.پس اس صورت میں امیر صاحب بھی ان فتووں سے محفوظ نہیں رہ سکتے.ممکن ہے کہ کسی وقت یہ ملّالوگ کسی جزوی بات پر امیر صاحب پر ناراض ہو کر اُن کو بھی دائرہ اسلام سے خارج کر دیں اور پھر اُن کے لئے بھی وہی جہاد کے فتوے لکھے جائیں جو کفارکے لئے وہ لکھا کرتے ہیں پس بلا شبہ وہ لوگ جن کے ہاتھ میں مومن یا کافر بنانا اور پھر اس پر جہاد کا فتویٰ لکھنا ہے ایک خطرناک قوم ہے جن سے امیر صاحب کو بھی بے فکر نہیں بیٹھنا چاہئے اور بلا شبہ ہر ایک گورنمنٹ کے لئے بغاوت کا سرچشمہ یہی لوگ ہیں.عوام بے چارے ان لوگوں کے قابو میں ہیں اور ان کے دلوں کی کل ان کے ہاتھ میں ہے جس طرف چاہیں پھیر دیں اور ایک دم میں قیامت برپا کر دیں.پس یہ گناہ کی بات نہیں ہے کہ عوام کو ان کے پنجہ سے چھڑا دیا جائے اور خود ان کو نرمی سے جہاد کے مسئلہ کی اصل حقیقت سمجھا دی جائے.اسلام ہر گز یہ تعلیم نہیں دیتا کہ مسلمان رہزنوں اور ڈاکوؤں کی طرح بن جائیں اور جہاد کے بہانہ سے اپنے نفس کی خواہشیں پوری کریں اور چونکہ اسلام میں بغیر بادشاہ کے حکم کے کسی طرح جہاد درست نہیں اور اس کو عوام بھی جانتے ہیں.اس لئے یہ بھی اندیشہ ہے کہ وہ لوگ جو حقیقت سے بے خبر ہیں اپنے دلوں میں
19 امیر صاحب پر یہ الزام لگاویں کہ اُنہی کے اشارہ سے یہ سب کچھ ہوتا ہے.لہٰذا امیر صاحب کا ضرور یہ فرض ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اس غلط فتوے کو روکنے کے لئے جہد بلیغ فرماویں کہ اس صورت میں امیر صاحب کی بریّت بھی آفتاب کی طرح چمک اٹھے گی اور ثواب بھی ہوگا کیونکہ حقوق عباد پر نظر کرکے اس سے بڑھ کر اور کوئی نیکی نہیں کہ مظلوموں کی گردنوں کو ظالموں کی تلوار سے چھڑایا جائے اور چونکہ ایسے کام کرنے والے اور غازی بننے کی نیت سے تلوار چلانے والے اکثر افغان ہی ہیں جن کا امیر صاحب کے ملک میں ایک معتدبہ حصہ ہے اس لئے امیر صاحب کو خدا تعالیٰ نے یہ موقع دیا ہے کہ وہ اپنی امارت کے کارنامہ میں اس اصلاح عظیم کا تذکرہ چھوڑ جائیں اور یہ وحشیانہ عادات جو اسلام کی بدنام کنندہ ہیں جہاں تک اُن کے لئے ممکن ہو قوم افغان سے چھڑا دیں ورنہ اب دورِ مسیح موعود آگیا ہے.اب بہرحال خدا تعالیٰ آسمان سے ایسے اسباب پیدا کردے گاکہ جیسا کہ زمین ظلم اور ناحق کی خون ریزی سے پُر تھی اب عدل اور امن اور صلح کاری سے پُر ہو جائے گی.اور مبارک وہ امیر اور بادشاہ ہیں جو اس سے کچھ حصہ لیں.ان تمام تحریروں کے بعد ایک خاص طور پر اپنی محسن گورنمنٹ کی خدمت میں کچھ گذارش کرنا چاہتا ہوں اور گویہ جانتا ہوں کہ ہماری یہ گورنمنٹ ایک عاقل اور زیرک گورنمنٹ ہے لیکن ہمارا بھی فرض ہے کہ اگر کوئی نیک تجویز جس میں گورنمنٹ اور عامہ خلائق کی بھلائی ہو خیال میں گذرے تو اُسے پیش کریں.اور وہ یہ ہے کہ میرے نزدیک یہ واقعی اور یقینی امر ہے کہ یہ وحشیانہ عادت جو سرحدی افغانوں میں پائی جاتی ہے اور آئے دن کوئی نہ کوئی کسی بے گناہ کا خون کیا جاتا ہے اِس کے اسباب جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں دو۲ ہیں (۱) اول وہ مولوی جن کے عقائد میں یہ بات داخل ہے کہ غیر مذہب کے لوگوں اور خاص کر عیسائیوں کو قتل کرنا موجب ثواب عظیم ہے اور اس سے بہشت کی وہ عظیم الشان نعمتیں ملیں گی کہ وہ نہ نماز سے مل سکتی ہیں نہ حج سے نہ زکوٰۃ سے اور نہ کسی اور نیکی کے کام سے.مجھے خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ درپردہ عوام الناس کے کان میں ایسے وعظ پہنچاتے رہتے ہیں.آخر دن رات
20 ایسے وعظوں کو سُن کر ان لوگوں کے دلوں پر جو حیوانات میں اور ان میں کچھ تھوڑا ہی فرق ہے بہت بڑا اثر ہوتا ہے اور وہ درندے ہو جاتے ہیں اور ان میں ایک ذرہ رحم باقی نہیں رہتا اور ایسی بے رحمی سے خون ریزیاں کرتے ہیں جن سے بدن کانپتا ہے.اور اگرچہ سرحدی اور افغانی ملکوں میں اس قسم کے مولوی بکثرت بھرے پڑے ہیں جو ایسے ایسے وعظ کیا کرتے ہیں مگر میری رائے تو یہ ہے کہ پنجاب اور ہندوستان بھی ایسے مولویوں سے خالی نہیں.اگر گورنمنٹ عالیہ نے یہ یقین کر لیا ہے کہ اس ملک کے تمام مولوی اس قسم کے خیالات سے پاک اور مبرّا ہیں تو یہ یقین بے شک نظر ثانی کے لائق ہے.میرے نزدیک اکثر مسجد نشین نادان مغلوب الغضب ُ ّ ملا ایسے ہیں کہ ان گندے خیالات سے َ بری نہیں ہیں اگر وہ ایسے خیالات خدا تعالیٰ کی پاک کلام کی ہدایت کے موافق کرتے تو میں ان کو معذور سمجھتا.کیونکہ درحقیقت انسان اعتقادی امور میں ایک طور پر معذور ہوتا ہے لیکن میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جیسا کہ وہ گورنمنٹ کے احسانات کو فراموش کرکے اس عادل گورنمنٹ کے چھپے ہوئے دشمن ہیں ایسا ہی وہ خدا تعالیٰ کے بھی مجرم اور نافرمان ہیں.کیونکہ میں مفصل بیان کر چکا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا کلام ہرگز نہیں سکھلاتا کہ ہم اس طرح پر بے گناہوں کے خون کیا کریں اور جس نے ایسا سمجھا ہے وہ اسلام سے برگشتہ ہے (۲) دوسرا سبب ان مجرمانہ خون ریزیوں کا جو غازی بننے کے بہانہ سے کی جاتی ہیں میری رائے میں وہ پادری صاحبان بھی ہیں جنہوں نے حد سے زیادہ اِس بات پر زور دیا کہ اسلام میں جہاد فرض ہے اور دوسری قوموں کو قتل کرنامسلمانوں کے مذہب میں بہت ثواب کی بات ہے.میرے خیال میں سرحدی لوگوں کو جہاد کے مسئلہ کی خبر بھی نہیں تھی یہ تو پادری صاحبوں نے یاد دلایا میرے پاس اس خیال کی تائید میں دلیل یہ ہے کہ جب تک پادری صاحبوں کی طرف سے ایسے اخبار اور رسالے اور کتابیں سرحدی ملکوں میں شائع نہیں ہوئے تھے اس وقت تک ایسی وارداتیں بہت ہی کم سُنی جاتی تھیں یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ بالکل نہیں تھیں.بلکہ جب سکھوں کی سلطنت اس ملک سے اُٹھ گئی
21 اور اُن کی جگہ انگریز آئے تو عام مسلمانوں کو اس انقلاب سے بڑی خوشی تھی اور سرحدی لوگ بھی بہت خوش تھے.پھر جب پادری فنڈل صاحب نے ۱۸۴۹ء میں کتاب میزان الحق تالیف کرکے ہندوستان اور پنجاب اور سرحدی ملکوں میں شائع کی اور نہ فقط اسلام اور پیغمبر اسلام علیہ السلام کی نسبت توہین کے کلمے استعمال کئے بلکہ لاکھوں انسانوں میں یہ شہرت دی کہ اسلام میں غیر مذہب کے لوگوں کو قتل کرنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ بڑا ثواب ہے.ان باتوں کو سُن کر سرحدی حیوانات جن کو اپنے دین کی کچھ بھی خبر نہیں جاگ اُٹھے اور یقین کر بیٹھے کہ درحقیقت ہمارے مذہب میں غیر مذہب کے لوگوں کو قتل کرنا بڑے ثواب کی بات ہے.میں نے غور کرکے سوچا ہے کہ اکثر سرحدی وارداتیں اور پُرجوش عداوت جو سرحدی لوگوں میں پیدا ہوئی اس کا سبب پادری صاحبوں کی وہ کتابیں ہیں جن میں وہ تیز زبانی اور بار بار جہاد کا ذکر لوگوں کو سُنانے میں حد سے زیادہ گذرگئے یہاں تک کہ آخر میزان الحق کی عام شہرت اور اس کے زہریلے اثر کے بعد ہماری گورنمنٹ کو ۱۸۶۷ء میں ایکٹ نمبر۲۳ ۶۷ء سرحدی اقوام کے غازیانہ خیالات کے روکنے کے لئے جاری کرنا پڑا.یہ قانون سرحد کی چھ ۶ قوموں کے لئے شائع ہوا تھا اور بڑی امید تھی کہ اس سے وارداتیں رُک جائیں گی لیکن افسوس کہ بعد اس کے پادری عمادالدین امرتسری اور چند دوسرے بد زبان پادریوں کی تیز اور گندی تحریروں نے ملک کی اندرونی محبت اور مصالحت کو بڑا نقصان پہنچایا اور ایسا ہی اور پادری صاحبوں کی کتابوں نے جن کی تفصیل کی ضرورت نہیں دلوں میں عداوت کا تخم بونے میں کمی نہیں کی.غرض یہ لوگ گورنمنٹ عالیہ کی مصلحت کے سخت حارج ہوئے.ہماری گورنمنٹ کی طرف سے یہ کارروائی نہایت قابل تحسین ہوئی کہ مسلمانوں کو ایسی کتابوں کے جواب لکھنے سے منع نہیں کیا اور اس تیزی کے مقابل پر مسلمانوں کی طرف سے بھی کسی قدر تیز کلامی ہوئی مگر وہ تیزی گورنمنٹ کی کشادہ دلی پر دلیل روشن بن گئی اور ہتک آمیز کتابوں کی و جہ سے جن فسادوں کی توقع تھی وہ اس گورنمنٹ عالیہ کی نیک نیتی اور عادلا نہ طریق ثابت ہو جانے کی و جہ سے اندر ہی اندر دب گئے.پس اگرچہ ہمیں اسلام کے ملاؤں کی نسبت افسوس سے اقرار کرنا پڑتا ہے
22 کہ انہوں نے ایک خط مسئلہ جہاد کی پیروی کرکے سرحدی اقوام کو یہ سبق دیا کہ تا وہ ایک محسن گورنمنٹ کے معزز افسروں کے خون سے اپنی تلواروں کو سُرخ کیا کریں اور اس طرح ناحق اپنی محسن گورنمنٹ کو ایذا پہنچایا کریں مگر ساتھ ہی یورپ کے ملاؤں پر بھی جو پادری ہیں ہمیں افسوس ہے کہ انہوں نے ناحق تیز اور خلاف واقعہ تحریروں سے نادانوں کو جوش دلائے ہزاروں دفعہ جہاد کا اعتراض پیش کرکے وحشی مسلمانوں کے دلوں میں یہ جمادیا کہ اُن کے مذہب میں جہاد ایک ایسا طریق ہے جس سے جلد بہشت مل جاتا ہے اگر ان پادری صاحبوں کے دلوں میں کوئی بد نیتی نہیں تھی تو چاہئیے تھا کہ حضرت موسیٰ اور حضرت یوشع کے جہادوں کا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جہاد سے مقابلہ کرکے اندر ہی اندر سمجھ جاتے اور چُپ رہتے.اگر ہم فرض کر لیں کہ اس فتنہ عوام کے جوش دلانے کے بڑے محرک اسلامی مولوی ہیں تاہم ہمارا انصاف ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم اقرار کریں کہ کسی قدر اس فتنہ انگیزی میں پادریوں کی وہ تحریریں بھی حصہ دار ہیں جن سے آئے دن مسلمان شا کی نظر آتے ہیں.افسوس کہ بعض جاہل ایک حرکت کرکے الگ ہو جاتے ہیں اور گورنمنٹ انگلشیہ کو مشکلات پیش آتی ہیں اِن مشکلات کے رفع کرنے کے لئے میرے نزدیک احسن تجویز وہی ہے جو حال میں رومی گورنمنٹ نے اختیار کی ہے اور وہ یہ کہ امتحاناً چند سال کے لئے ہر ایک فرقہ کو قطعاً روک دیا جائے کہ وہ اپنی تحریروں میں اور نیز زبانی تقریروں میں ہر گز ہرگز کسی دوسرے مذہب کا صراحۃً یا اشارۃً ذکر نہ کرے ہاں اختیار ہے کہ جس قدر چاہے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کیا کرے اس صورت میں نئے نئے کینوں کی تخم ریزی موقوف ہو جائے گی اور پرانے قصے بھول جائیں گے اور لوگ باہمی محبت اور مصالحت کی طرف رجوع کریں گے اور جب سرحد کے وحشی لوگ دیکھیں گے کہ قوموں میں اس قدر باہم انس اور محبت پیدا ہو گیا ہے تو آخر وہ بھی متاثر ہو کر عیسائیوں کی ایسی ہی ہمدردی کریں گے جیسا کہ ایک مسلمان اپنے بھائی کی کرتا ہے اور دوسری تدبیر یہ ہے کہ اگر پنجاب اور ہندوستان کے مولوی درحقیقت مسئلہ جہاد کے مخالف ہیں تو وہ اس بارے میں رسالے تالیف کرکے اور پشتو میں ان کا ترجمہ کرا کر سرحدی اقوام میں مشتہر کریں بلا شبہ اُن کا بڑا اثر ہوگا.مگر ان تمام باتوں کے لئے شرط ہے کہ سچے دل اور جوش سے کارروائی کی جائے نہ نفاق سے.والسلام علٰی من اتبع الھدٰی.المشتھرخاکسار مرزا غلام احمد مسیح موعود عفی اللہ عنہ از قادیاں المرقوم ۲۲؍مئی ۱۹۰۰ء
23 ضمیمہ رسالہ جہاد عیسیٰ مسیح اور محمد مہدی کے دعویٰ کی اصل حقیقت اور جناب نواب وایسرائے صاحب بالقابہ کی خدمت میں ایک درخواست اگرچہ میں نے اپنی بہت سی کتابوں میں اس بات کی تشریح کر دی ہے کہ میری طرف سے یہ دعویٰ کہ میں عیسیٰ مسیح ہوں اور نیز محمد مہدی ہوں اس خیال پر مبنی نہیں ہیں کہ میں درحقیقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہوں اور نیز درحقیقت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہوں مگر پھر بھی وہ لوگ جنہوں نے غور سے میری کتابیں نہیں دیکھیں وہ اس شبہ میں مبتلا ہو سکتے ہیں کہ گویا میں نے تناسخ کے طور پر اس دعویٰ کو پیش کیا ہے اور گویا میں اس بات کا مدعی ہوں کہ سَچ مُچ ان دو بزرگ نبیوں کی روحیں میرے اندر حلول کر گئی ہیں.لیکن واقعی امر ایسا نہیں ہے بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ آخری زمانہ کی نسبت پہلے نبیوں نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ وہ ایک ایسازمانہ ہوگا کہ جو دو قسم کے ظلم سے بھر جائے گا.ایک ظلم مخلوق کے حقوق کی نسبت ہوگا اور دوسرا ظلم خالق کے حقوق کی نسبت.مخلوق کے حقوق کی نسبت یہ ظلم ہوگا کہ جہاد کا نام رکھ کر نوع انسان کی خون ریزیاں ہوں گی.یہاں تک کہ جو شخص ایک بے گناہ کو قتل کرے گا وہ خیال کرے گا کہ گویا وہ ایسی خو ن ریزی سے ایک ثواب عظیم کو حاصل کرتا ہے اور اس کے سوا اور بھی کئی قسم کی ایذائیں محض دینی غیرت کے بہانہ پر نوع انسان کو پہنچائی جائیں گی چنانچہ وہ زمانہ یہی ہے کیونکہ ایمان اور انصاف
24 کے رُو سے ہر ایک خدا ترس کو اس زمانہ میں اقرار کرنا پڑتا ہے کہ مثلاً آئے دن جو سرحدیوں کی ایک وحشی قوم ان انگریز حکام کو قتل کرتی ہے جو اُن کے یا ان کے ہم قوم بھائی مسلمانوں کی جانوں اور عزتوں کے محافظ ہیں.یہ کس قدر ظلم صریح اور حقوق عباد کا تلف کرنا ہے.کیا اُن کو سکھوں کا زمانہ یاد نہیں رہا جو بانگ نماز پر بھی قتل کرنے کو مستعد ہو جاتے تھے.گورنمنٹ انگریزی نے کیا گناہ کیا ہے جس کی یہ سزا اس کے معزز حکام کو دی جاتی ہے.اس گورنمنٹ نے پنجاب میں داخل ہوتے ہی مسلمانوں کو اپنے مذہب میں پوری آزادی دی.اب وہ زمانہ نہیں ہے جو دھیمی آواز سے بھی بانگ نماز دے کر مارکھاویں بلکہ اب بلند میناروں پر چڑھ کر بانگیں دو اور اپنی مسجدوں میں جماعت کے ساتھ نمازیں پڑھو کوئی مانع نہیں.سکھوں کے زمانہ میں مسلمانوں کی غلاموں کی طرح زندگی تھی اور اب انگریزی عملداری سے دوبارہ ان کی عزت قائم ہوئی.جان اور مال اور عزت تینوں محفوظ ہوئے.اسلامی کتب خانوں کے دروازے کھولے گئے تو کیا انگریزی گورنمنٹ نے نیکی کی یا بدی کی؟ سکھوں کے زمانہ میں بزرگوار مسلمانوں کی قبریں بھی اُکھیڑی جاتی تھیں.سرہند کا واقعہ بھی اب تک کسی کو بھولا نہیں ہوگا.لیکن یہ گورنمنٹ ہماری قبروں کی بھی ایسی ہی محافظ ہے جیسا کہ ہمارے زندوں کی.کیسی عافیت اور امن کی گورنمنٹ کے زیر سایہ ہم لوگ رہتے ہیں جس نے ایک ذرہ بھی مذہبی تعصب ظاہر نہیں کیا.کوئی مسلمان اپنے مذہب میں کوئی عبادت بجا لاوے.حج کرے زکوٰۃ دے.نماز پڑھے یا خدا کی طرف سے ہو کر یہ ظاہر کرے کہ میں مجدد وقت ہوں یا ولی ہوں یا قطب ہوںیا مسیح ہوں یا مہدی ہوں اس سے اس عادل گورنمنٹ کو کچھ سروکار نہیں بجز اس صورت کے کہ وہ خود ہی طریق اطاعت کو چھوڑ کر باغیانہ خیالات میں گرفتار ہو.پھر باوجود اس کے کہ گورنمنٹ کے یہ سلوک اور احسان ہیں مسلمانوں کی طرف سے اس کا عوض یہ دیا جاتا ہے کہ ناحق بے گناہ بے قصور اُن حکام کو قتل کرتے ہیں جو دن رات انصاف کی پابندی سے ملک کی خدمت میں مشغول ہیں.اور اگریہ کہو کہ یہ لوگ تو سرحدی ہیں اس ملک کے مسلمانوں اور ان کے مولویوں کا کیا
25 گناہ ہے تو اس کا جواب بادب ہم یہ دیتے ہیں کہ ضرور ایک گناہ ہے چاہو قبول کرو یانہ کرو اور وہ یہ کہ جب ہم ایک طرف سرحدی وحشی قوموں میں غازی بننے کا شوق دیکھتے ہیں تو دوسری طرف اس ملک کے مولویوں میں اپنی گورنمنٹ اور اس کے انگریزی حکام کی سچی ہمدردی کی نسبت وہ حالت ہمیں نظر نہیں آتی اور نہ وہ جوش دکھائی دیتا ہے.اگر یہ اس گورنمنٹ عالیہ کے سچے خیر خواہ ہیں تو کیوں بالاتفاق ایک فتویٰ طیار کرکے سرحدی ملکوں میں شائع نہیں کرتے تا ان نادانوں کا یہ عذر ٹوٹ جائے کہ ہم غازی ہیں اور ہم مرتے ہی بہشت میں جائیں گے.میں سمجھ نہیں سکتا کہ مولویوں اور اُن کے پیروؤں کا اس قدر اطاعت کاد عویٰ اور پھر کوئی عمدہ خدمت نہیں دکھلا سکتے.بلکہ یہ کلام تو بطریق تنزّل ہے.بہت سے مولوی ایسے بھی ہیں جن کی نسبت اس سے بڑھ کر اعتراض ہے.خدا ان کے دلوں کی اصلاح کرے.غرض مخلوق کے حقوق کی نسبت ہماری قوم اسلام میں سخت ظلم ہو رہا ہے.جب ایک محسن بادشاہ کے ساتھ یہ سلوک ہے تو پھر اوروں کے ساتھ کیا ہوگا.پس خدا نے آسمان پر اس ظلم کو دیکھا.اس لئے اُس نے اس کی اصلاح کے لئے حضرت عیسیٰ مسیح کی خو اور طبیعت پر ایک شخص کو بھیجا اور اس کا نام اسی طور سے مسیح رکھا جیسا کہ پانی یا آئینہ میں ایک شکل کا جو عکس پڑتا ہے اس عکس کو مجازاًکہہ سکتے ہیں کہ یہ فلاں شخص ہے کیوں کہ یہ تعلیم جس پر اب ہم زور دیتے ہیں یعنی یہ کہ اپنے دشمنوں سے پیار کرو اور خدا کی مخلوق کی عموماً بھلائی چاہو.اس تعلیم پر زور دینے والا وہی بزرگ نبی گذرا ہے جس کا نام عیسیٰ مسیح ہے.اور اس زمانہ میں بعض مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ بجائے اس کے کہ وہ اپنے دشمنوں سے پیار کریں ناحق ایک قابل شرم مذہبی بہانہ سے ایسے لوگوں کو قتل کر دیتے ہیں جنہوں نے کوئی بدی اُن سے نہیں کی بلکہ نیکی کی ،اس لئے ضرور تھا کہ ایسے لوگوں کی اصلاح کے لئے ایک ایسا شخص خدا سے الہام پاکر پیدا ہو جو حضرت مسیح کی خو اور طبیعت اپنے اندر رکھتا ہے اور صلح کاری کا پیغام لے کر آیا ہے.کیا اِس زمانہ میں ایسے شخص کی ضرورت نہ تھی جو عیسیٰ مسیح کا اوتار ہے؟ بیشک ضرورت تھی.
26 جس حالت میں اسلامی قوموں میں سے کروڑہا لوگ روئے زمین پر ایسے پائے جاتے ہیں جو جہاد کا بہانہ رکھ کر غیر قوموں کو قتل کرنا اُن کا شیوہ ہے بلکہ بعض تو ایک محسن گورنمنٹ کے زیر سایہ رہ کر بھی پوری صفائی سے اُن سے محبت نہیں کر سکتے.سچی ہمدردی کو کمال تک نہیں پہنچا سکتے اور نہ نفاق اور دورنگی سے بکلی پاک ہو سکتے ہیں.اس لئے حضرت مسیح کے اوتار کی سخت ضرورت تھی.سو میں وہی اوتار ہوں جو حضرت مسیح کی رُوحانی شکل اور خو اور طبیعت پر بھیجا گیا ہوں.اور دوسری قسم ظلم کی جو خالق کی نسبت ہے وہ اس زمانہ کے عیسائیوں کا عقیدہ ہے جو خالق کی نسبت کمال غلو تک پہنچ گیا ہے.اس میں تو کچھ شک نہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ کے ایک بزرگ نبی ہیں اور بلاشبہ عیسیٰ مسیح خدا کا پیارا خدا کا برگزیدہ اور دنیا کا نور اور ہدایت کاآفتاب اور جناب الٰہی کا مقرب اور اس کے تخت کے نزدیک مقام رکھتا ہے اور کروڑہا انسان جو اس سے سچی محبت رکھتے ہیں اور اُس کی وصیتوں پر چلتے ہیں اور اس کی ہدایا ت کے کاربند ہیں وہ جہنم سے نجات پائیں گے لیکن باایں یہ سخت غلطی اور کفر ہے کہ اُس برگزیدہ کو خدا بنایا جائے.خدا کے پیاروں کو خدا سے ایک بڑا تعلق ہوتا ہے اس تعلق کے لحاظ سے اگر وہ اپنے تئیں خدا کا بیٹا کہہ دیں یا یہ کہہ دیں کہ خدا ہی ہے جو اُن میں بولتا ہے اور وہی ہے جس کا جلوہ ہے تو یہ باتیں بھی کسی حال کے موقع میں ایک معنی کے رو سے صحیح ہوتے ہیں جن کی تاویل کی جاتی ہے.کیونکہ انسان جب خدا میں فنا ہو کر اور پھر اس کے نور سے پرورش پاکر نئے سرے ظاہر ہوتا ہے تو ایسے لفظ اُس کی نسبت مجازاً بولنا قدیم محاورہ اہل معرفت ہے کہ وہ خود نہیں بلکہ خدا ہے جو اُس میں ظاہر ہوا ہے.لیکن اس سے درحقیقت یہ نہیں کھلتا کہ وہی شخص درحقیقت ربّ العالمین ہے.اس نازک محل میں اکثر عوام کا قدم پھسل جاتا ہے اور ہزارہا بزرگ اور ولی اور اوتار جو خدا بنائے گئے وہ بھی دراصل انہی لغزشوں کی وجہ سے بنائے گئے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ جب
27 روحانی اور آسمانی باتیں عوام کے ہاتھ میں آتی ہیں تو وہ اُن کی جڑ تک پہنچ نہیں سکتے.آخر کچھ بگاڑ کر اور مجاز کو حقیقت پر حمل کرکے سخت غلطی اور گمراہی میں مبتلا ہو جاتے ہیں.سو اسی غلطی میں آج کل کے علماء مسیحی بھی گرفتار ہیں اور اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ کسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا بنا دیا جائے.سو یہ حق تلفی خالق کی ہے اور اس حق کے قائم کرنے کے لئے اور توحید کی عظمت دلوں میں بٹھانے کے لئے ایک بزرگ نبی ملک عرب میں گذرا ہے جس کا نام محمدؐ اور احمد ؐ تھا خدا کے اُس پر بے شمار سلام ہوں.شریعت دو۲ حصوں پر منقسم تھی.بڑا حصہ یہ تھا کہ لا الٰہ الا اللّٰہ یعنی توحید.اور دوسرا حصہ یہ کہ ہمدردی نوع انسان کرو اور ان کے لئے وہ چاہو جو اپنے لئے.سو ان دو حصوں میں سے حضرت مسیح نے ہمدردی نوع انسان پر زور دیا کیونکہ وہ زمانہ اسی زور کو چاہتا تھا.اور دوسرا حصہ جو بڑا حصہ ہے یعنی لا الٰہ الا اللّٰہ جو خدا کی عظمت اور توحید کا سرچشمہ ہے اس پر حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم نے زور دیا کیونکہ وہ زمانہ اسی قسم کے زور کو چاہتا تھا.پھر بعد اس کے ہمارا زمانہ آیا جس میں اب ہم ہیں.اس زمانہ میں یہ دونوں قسم کی خرابیاں کمال درجہ تک پہنچ گئی تھیں یعنی حقوق عباد کا تلف کرنا اور بے گناہ بندوں کا خون کرنا مسلمانوں کے عقیدہ میں داخل ہو گیا تھا اور اس غلط عقیدہ کی وجہ سے ہزارہا بے گناہوں کو وحشیوں نے تہِ تیغ کر دیا تھا.اور پھر دوسری طرف حقوقِ خالق کا تلف کرنا بھی کمال کو پہنچ گیا تھا اور عیسائی عقیدہ میں یہ داخل ہو گیا تھا کہ وہ خدا جس کی انسانوں اور فرشتوں کو پرستش کرنی چاہئے وہ مسیح ہی ہے اور اس قدر غلو ہو گیا کہ اگرچہ اُن کے نزدیک عقیدہ کے رو سے تین اقنوم ہیں لیکن عملی طور پر دُعا اور عبادت میں صرف ایک ہی قرار دیا گیا ہے یعنی مسیح.یہ دونوں پہلو اتلافِ حقوق کے یعنی حق العباد اور حق رب العباد اس قدر کمال کو پہنچ گئے تھے کہ اب یہ تمیز کرنا مشکل ہے کہ ان دونوں میں سے کونسا پہلو اپنے غلو میں انتہائی درجہ تک جاپہنچا ہے.سو اس وقت خدا نے جیسا کہ حقوق عباد کے تلف کے لحاظ سے میرا نام مسیح رکھا
28 اور مجھے خو اور بو اور رنگ اور روپ کے لحاظ سے حضرت عیسیٰ مسیح کا اوتار کرکے بھیجا ایسا ہی اُس نے حقوق خالق کے تلف کے لحاظ سے میرا نام محمد اور احمد رکھا اور مجھے توحید پھیلانے کے لئے تمام خو اور بو اور رنگ اور روپ اور جامہ محمدی پہنا کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اوتار بنا دیا.سو میں ان معنوں کرکے عیسیٰ مسیح بھی ہوں اور محمد مہدی بھی.مسیح ایک لقب ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیا گیا تھا جس کے معنے ہیں خدا کو چھونے والا اور خدائی انعام میں سے کچھ لینے والا.اور اس کا خلیفہ اور صدق اوررا ستبازی کو اختیار کرنے والا.اور مہدی ایک لقب ہے جو حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا تھا جس کے معنے ہیں کہ فطرتًا ہدایت یافتہ اور تمام ہدایتوں کا وارث اور اسم ہادی کے پورے عکس کا محل.سو خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت نے اس زمانہ میں ان دونوں لقبوں کا مجھے وارث بنا دیا اور یہ دونوں لقب میرے وجود میں اکٹھے کر دیئے سو میں ان معنوں کے رو سے عیسیٰ مسیح بھی ہوں اور محمد مہدی بھی اور یہ وہ طریق ظہور ہے جس کو اسلامی اصطلاح میں بروز کہتے ہیں سو مجھے دو بروز عطا ہوئے ہیں بروز عیسیٰ وبروز محمدؐ.غرض میرا وجود ان دونوں نبیوں کے وجود سے بروزی طور پر ایک معجون مرکب ہے.عیسیٰ مسیح ہونے کی حیثیت سے میرا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کو وحشیانہ حملوں اور خونریزیوں سے روک دوں جیسا کہ حدیثوں میں صریح طور سے وارد ہو چکا ہے کہ جب مسیح دوبارہ دنیا میں آئے گا تو تمام دینی جنگوں کا خاتمہ کر دے گا.سو ایسا ہی ہوتا جاتا ہے.آج کی تاریخ تک تیس ہزار کے قریب یا کچھ زیادہ میرے ساتھ جماعت ہے* جو برٹش انڈیا کے متفرق مقامات میں آباد ہے اور ہر ایک شخص جو میری بیعت کرتا ہے اور مجھ کو مسیح موعود مانتا ہے اُسی روز سے اُس کو یہ عقیدہ رکھنا پڑتا ہے کہ اس زمانہ میں جہاد قطعًا حرام ہے کیونکہ مسیح آچکا.خاص کر میری تعلیم * اگرچہ خاص آدمی جو علم اور فہم سے کافی بہرہ رکھتے ہیں دس ہزار کے قریب ہوں گے مگر ہر ایک قسم کے لوگ جن میں ناخواندہ بھی ہیں تیس ہزار سے کم نہیں ہیں بلکہ شائد زیادہ ہوں.منہ
29 کے لحاظ سے اس گورنمنٹ انگریزی کا سچا خیر خواہ اس کو بننا پڑتا ہے نہ محض نفاق سے اور یہ وہ صلح کاری کا جھنڈا کھڑا کیا گیا ہے کہ اگر ایک لاکھ مولوی بھی چاہتا کہ وحشیانہ جہادوں کے روکنے کے لئے ایسا پُر تاثیر سلسلہ قائم کرے تو اس کے لئے غیر ممکن تھا اور میں امید رکھتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو چند سال میں ہی یہ مبارک اور امن پسند جماعت جو جہاد اور غازی پن کے خیالات کو مٹا رہی ہے کئی لاکھ تک پہنچ جائے گی اور وحشیانہ جہاد کرنے والے اپنا چولہ بدل لیں گے.اور محمد مہدی ہونے کی حیثیت سے میرا کام یہ ہے کہ آسمانی نشانوں کے ساتھ خدائی توحید کو دنیا میں دوبارہ قائم کروں کیونکہ ہمارے سیّدو مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے محض آسمانی نشان دکھلا کر خدائی عظمت اور طاقت اور قدرت عرب کے بُت پرستوں کے دلوں میں قائم کی تھی.سو ایسا ہی مجھے رُوح القدس سے مدد دی گئی ہے.وہ خدا جو تمام نبیوں پر ظاہر ہوتا رہا اور حضرت موسیٰ کلیم اللہ پر بمقام طور ظاہر ہوا اور حضرت مسیح پر شعیر کے پہاڑ پر طلوع فرمایا اور حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر فاران کے پہاڑ پر چمکا وہی قادر قدوس خدا میرے پر تجلی فرما ہوا ہے اُس نے مجھ سے باتیں کیں اور مجھے فرمایا کہ وہ اعلیٰ وجود جس کی پرستش کے لئے تمام نبی بھیجے گئے میں ہوں.میں اکیلا خالق اور مالک ہوں اور کوئی میرا شریک نہیں اور میں پیدا ہونے اور مرنے سے پاک ہوں اور میرے پر ظاہر کیا گیاکہ جو کچھ مسیح کی نسبت دنیا کے اکثر عیسائیوں کا عقیدہ ہے یعنی تثلیث و کفارہ وغیرہ یہ سب انسانی غلطیاں ہیں اور حقیقی تعلیم سے انحراف ہے.خدا نے اپنے زندہ کلام سے بلا واسطہ مجھے یہ اطلاع دی ہے اور مجھے اُس نے کہا ہے کہ اگر تیرے لئے یہ مشکل پیش آوے کہ لوگ کہیں کہ ہم کیونکر سمجھیں کہ تو خدا کی طرف سے ہے تو انہیں کہہ دے کہ اس پر یہ دلیل کافی ہے کہ اُس کے آسمانی نشان میرے گواہ ہیں دُعائیں قبول ہوتی ہیں.پیش از وقت غیب کی باتیں بتلائی جاتی ہیں اور وہ اسرار جن کا علم خدا کے سوا کسی کو نہیں وہ قبل از وقت ظاہر کئے جاتے ہیں اور دوسرا یہ نشان ہے کہ اگر کوئی ان باتوں میں مقابلہ کرنا چاہے مثلاً کسی دُعا کا قبول ہونا اور پھر پیش از وقت اس
30 قبولیت کا علم دیئے جانا یااور غیبی واقعات معلوم ہونا جو انسان کی حد علم سے باہر ہیں تو اس مقابلہ میں وہ مغلوب رہے گا گووہ مشرقی ہویا مغربی یہ وہ دو نشان ہیں جو مجھ کو دیئے گئے ہیں تا ان کے ذریعہ سے اس سچے خدا کی طرف لوگوں کو کھینچوں جو درحقیقت ہماری رُوحوں اور جسموں کا خدا ہے جس کی طرف ایک دن ہر ایک کا سفر ہے.یہ سچ ہے کہ وہ مذہب کچھ چیز نہیں جس میں الٰہی طاقت نہیں.تمام نبیوں نے سچے مذہب کی یہی نشانی ٹھہرائی ہے کہ اُس میں الٰہی طاقت ہو.یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ یہ دونوں نام جو خدا تعالیٰ نے میرے لئے مقرر فرمائے یہ صرف چند روز سے نہیں ہیں بلکہ میری کتاب براہین احمدیہ میں جس کو شائع کئے قریباً بیس برس گذرگئے یہ دونوں نام خدا تعالیٰ کے الہام میں میری نسبت ذکر فرمائے گئے ہیں یعنی عیسیٰ مسیح اور محمد مہدی تا میں ان دونوں گروہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو وہ پیغام پہنچا دوں جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے.کاش اگر دلوں میں طلب ہوتی اور آخرت کے دن کا خوف ہوتا تو ہر ایک سچائی کے طالب کو یہ موقع دیا گیا تھا کہ وہ مجھ سے تسلی پاتا.سچا مذہب وہ مذہب ہے جو الٰہی طاقت اپنے اندر رکھتا ہے اور فوق العادت کاموں سے خدا تعالیٰ کا چہرہ دکھاتا ہے.سو میں اس بات کا گواہ رویت ہوں کہ ایسا مذہب توحید کا مذہب ہے جو اسلام ہے جس میں مخلوق کو خالق کی جگہ نہیں دی گئی.اور عیسائی مذہب بھی خدا کی طرف سے تھا مگر افسوس کہ اب وہ اس تعلیم پر قائم نہیں اور اس زمانہ کے مسلمانوں پر بھی افسوس ہے کہ وہ شریعت کے اس دوسرے حصہ سے محروم ہو گئے ہیں جو ہمدردئ نوع انسان اور محبت اور خدمت پر موقوف ہے اور وہ توحید کا دعویٰ کرکے پھر ایسے وحشیانہ اخلاق میں مبتلا ہیں جو قابل شرم ہیں.میں نے بارہا کوشش کی جو ان کو ان عادات سے چھڑاؤں لیکن افسوس کہ بعض ایسی تحریکیں ان کو پیش آجاتی ہیں کہ جن سے وحشیانہ جذبات ان کے زندہ ہو جاتے ہیں.اور وہ بعض کم سمجھ پادریوں کی تحریرات ہیں جو زہریلا اثر رکھتی ہیں.مثلاً پادری عماد الدین کی کتابیں اور پادری ٹھاکر داس کی کتابیں اور صفدر علی کی کتابیں اور امہات المومنین
31 اور پادری ریواڑی کا رسالہ جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نہایت درجہ کی توہین اورتکذیب سے پُر ہیں.یہ ایسی کتابیں ہیں کہ جو شخص مسلمانوں میں سے ان کو پڑھے گا اگر اس کو صبر اور حلم سے اعلیٰ درجہ کا حصہ نہیں تو بے اختیار جوش میں آجائے گا کیونکہ ان کتابوں میں علمی بیان کی نسبت سخت کلامی بہت ہے جس کی عام مسلمان برداشت نہیں کر سکتے.چنانچہ ایک معزز پادری صاحب نے اپنے ایک پرچہ میں جو لکھنؤ سے شائع ہوتا تھا لکھتے ہیں کہ اگر ۱۸۵۷ء کا دوبارہ آنا ممکن ہے تو پادری عماد الدین کی کتابوں سے اس کی تحریک ہوگی.اب سوچنے کے لائق ہے کہ پادری عماد الدین کا کیسا خطرناک کلام ہے جس پر ایک معزز مشنری صاحب یہ رائے ظاہر کرتے ہیں اور گذشتہ دنوں میں مَیں نے بھی مسلمانوں میں ایسی تحریروں سے ایک جوش دیکھ کر چند دفعہ ایسی تحریریں شائع کی تھیں جن میں ان سخت کتابوں کا جواب کسی قدر سخت تھا.ان تحریروں سے میرا مدعا یہ تھا کہ عوض معاوضہ کی صورت دیکھ کر مسلمانوں کا جوش رُک جائے.سو اگرچہ ان حکمت عملی کی تحریروں سے مسلمانوں کو فائدہ تو ہوا اور وہ ایسے رنگ کا جواب پاکر ٹھنڈے ہو گئے لیکن مشکل یہ ہے کہ اب بھی آئے دن پادری صاحبوں کی طرف سے ایسی تحریریں نکلتی رہتی ہیں کہ جو زُود رنج اور تیز طبع مسلمان ان کی برداشت نہیں کر سکتے.یہ نہایت خوفناک کارروائی ہے کہ ایک طرف تو پادری صاحبان یہ جھوٹا الزام مسلمانوں کو دیتے ہیں کہ ان کو قرآن میں ہمیشہ اور ہر ایک زمانہ میں جہاد کا حکم ہے گویا وہ ان کو جہاد کی رسم یاد دلاتے رہتے ہیں.اور پھر تیز تحریریں نکال کر اُن میں اشتعال پیدا کرتے رہتے ہیں نہ معلوم کہ یہ لوگ کیسے سیدھے ہیں کہ یہ خیال نہیں کرتے کہ ان دونوں طریقوں کے ملانے سے ایک خوفناک نتیجہ کا احتمال ہے.ہم بار ہا لکھ چکے ہیں کہ قرآن شریف ہر گز جہاد کی تعلیم نہیں دیتا.اصلیت صرف اس قدر ہے کہ ابتدائی زمانہ میں بعض مخالفوں نے اسلام کو تلوار سے روکنا بلکہ نابود کرنا چاہا تھا سو اسلام نے اپنی حفاظت کے لئے اُن پر تلوار اُٹھائی اور اُنہی کی نسبت حکم تھا کہ یا قتل کئے جائیں اور یا اسلام لائیں.سو یہ حکم مختص الزمان تھا ہمیشہ کے لئے
32 نہیں تھا اور اسلام اُن بادشاہوں کی کارروائیوں کا ذمہ وار نہیں ہے جو نبوت کے زمانہ کے بعد سراسر غلطیوں یا خود غرضیوں کی وجہ سے ظہور میں آئیں.اب جو شخص نادان مسلمانوں کو دھوکا دینے کے لئے بار بار جہاد کا مسئلہ یاد دلاتا ہے گویا وہ ان کی زہریلی عادت کو تحریک دینا چاہتا ہے.کیا اچھا ہوتا کہ پادری صاحبان صحیح واقعات کو مد نظر رکھ کر اس بات پر زور دیتے کہ اسلام میں جہاد نہیں ہے اور نہ جبر سے مسلمان کرنے کا حکم ہے جس کتاب میںیہ آیت اب تک موجود ہے کہ 3 ۱ یعنی دین کے معاملہ میں زبردستی نہیں کرنی چاہئے.کیا اس کی نسبت ہم ظن کر سکتے ہیں کہ وہ جہاد کی تعلیم دیتی ہے.غرض اس جگہ ہم مولویوں کا کیا شکوہ کریں خود پادری صاحبوں کا ہمیں شکوہ ہے کہ وہ راہ انہوں نے اختیار نہیں کی جو درحقیقت سچی تھی اور گورنمنٹ کے مصالح کے لئے بھی مفید تھی.اسی درد دل کی وجہ سے میں نے جناب نواب وائسرائے صاحب بہادر بالقابہ کی خدمت میں دو دفعہ درخواست کی تھی کہ کچھ مدت تک اس طریق بحث کو بند کر دیا جائے کہ ایک فریق دوسرے فریق کے مذہب کی نکتہ چینیاں کرے.لیکن اب تک اُن درخواستوں کی طرف کچھ توجہ نہ ہوئی.لہٰذا اب بارسوم ۳ حضور ممدوح میں پھر درخواست کرتا ہوں کہ کم سے کم پانچ برس تک یہ طریق دوسرے مذاہب پر حملہ کرنے کا بند کر دیا جائے اور قطعاً ممانعت کر دی جائے کہ ایک گروہ دوسرے گروہ کے عقائد پر ہرگز مخالفانہ حملہ نہ کرے کہ اس سے دن بدن ملک میں نفاق بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ مختلف قوموں کی دوستانہ ملاقاتیں ترک ہو گئی ہیں کیونکہ بسا اوقات ایک فریق دوسرے فریق پر اپنی کم علمی کی وجہ سے ایسا اعتراض کر دیتا ہے کہ وہ دراصل صحیح بھی نہیں ہوتا اور دلوں کو سخت رنج پہنچا دیتا ہے اور بسا اوقات کوئی فتنہ پیدا کرتا ہے.جیسا کہ مسلمانوں پر جہاد کا اعتراض بلکہ ایسا اعتراض دوسرے فریق کے لئے بطور یاد دہانی ہو کر بھو لے ہوئے جوش اس کو
33 یاد دلا دیتا ہے اور آخر مفاسد کا موجب ٹھہرتا ہے.سو اگر ہماری دانشمند گورنمنٹ پانچ برس تک یہ قانون جاری کر دے کہ برٹش انڈیا کے تمام فرقوں کو جس میں پادری بھی داخل ہیں قطعاً روک دیا جائے کہ وہ دوسرے مذاہب پر ہر گز مخالفانہ حملہ نہ کریں اور محبت اور خلق سے ملاقاتیں کریں اور ہر ایک شخص اپنے مذہب کی خوبیاں ظاہر کرے تو مجھے یقین ہے کہ یہ زہر ناک پودہ پھوٹ اور کینوں کا جو اندر ہی اندر نشوو نما پا رہا ہے جلد تر مفقود ہو جائے گا اور یہ کارروائی گورنمنٹ کی قابل تحسین ٹھہر کر سرحدی لوگوں پر بھی بے شک اثر ڈالے گی اور امن اور صلح کاری کے نتیجے ظاہر ہوں گے.آسمان پر بھی یہی منشاء خدا کا معلوم ہوتا ہے کہ جنگ و جدل کے طریق موقوف ہوں اور صلح کاری کے طریق اور باہمی محبت کی راہیں کھل جائیں.اگر کسی مذہب میں کوئی سچائی ہے تو وہ سچائی ظاہر کرنی چاہئے نہ یہ کہ دوسرے مذاہب کی عیب شماری کرتے رہیں.یہ تجویز جو میں پیش کرتا ہوں اس پر قدم مارنا یا اس کو منظور کرنا ہر ایک حاکم کا کام نہیں ہے بڑے پُر مغز حکام کا یہ منصب ہے کہ اس حقیقت کو سمجھیں اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارے عالی جاہ نواب معلی القاب وائسرائے بہادر کرزن صاحب بالقابہ اپنی وسعت اخلاق اور موقع شناسی کی قوت سے ضرور اس درخواست پر توجہ فرمائیں گے اور اپنی شاہانہ ہمت سے اس پیش کردہ تجویز کو جاری فرمائیں گے اور اگر یہ نہیں تو اپنے عہد دولت مہد میں اسی قدر خدا کے لئے کارروائی کرلیں کہ خود بدولت امتحان کے ذریعہ سے آزمالیں کہ اس ملک کے مذاہب موجودہ میں سے الٰہی طاقت کس مذہب میں ہے یعنی تمام مسلمانوں آریوں سکھوں سناتن دھرموں* عیسائیوں برہموؤں یہودیوں وغیرہ فرقوں کے نامی علماء کے نام یہ احکام جاری ہوں کہ اگر اُن کے مذہب میں کوئی الٰہی طاقت ہے خواہ وہ پیشگوئی کی قسم سے ہو یا اور قسم سے وہ دکھائیں.اور پھر جس مذہب میں وہ زبردست طاقت جو طاقت بالا ہے ثابت ہو جائے ایسے مذہب کو قابل تعظیم اور سچا سمجھا جائے.اور چونکہ مجھے آسمان سے اِس * سہوًا ایسا لکھا گیا ہے درست ’’سناتن دھرمیوں ‘‘ہے.(ناشر)
34 کام کے لئے رُوح ملی ہے اس لئے میں اپنی تمام جماعت کی طرف سے سب سے پہلے یہ درخواست کرنے والا ہوں کہ اس امتحان کے لئے دوسرے فریقوں کے مقابل پر مَیں طیار ہوں اور ساتھ ہی دُعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہماری اس گورنمنٹ کو ہمیشہ اقبال نصیب کرے جس کے زیر سایہ ہمیں یہ موقع ملا ہے کہ ہم خدا کی طرف سے ہو کر ایسی درخواستیں خدا کا جلال ظاہر کرنے کے لئے کریں.والسلام.۷؍جولائی۱۹۰۰ء الملتمس خاکسار مرزا غلام احمد ازقادیاں مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان
35 الحمدلِلّٰہ والمنہّ کہ یہ رسالہ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی اور ان کے مریدوں اور ہمخیال لوگوں پرا تمام حجت کے لئے محض نصیحتًا للہ شائع کیا گیا ہے اور بغرض اس کے کہ عام لوگوں پر حق واضح ہو جائے اس رسالہ کے ساتھ پچاس۵۰ روپیہ کے انعام کا اشتہار بھی دیا گیا ہے جو اسی ٹائیٹل پیج کے دوسرے صفحہ پر مندرج ہے اور یہ رسالہ موسم بہ تحفۂ گولڑویہّ ہوکر مطبع ضیاء الاسلام قادیان ضلع گورداسپور میں باہتمام حکیم حافظ فضل الدین صاحب بھیروی مالک مطبع چھپکر یکم ستمبر ۱۹۰۲ء کو شائع ہوا قیمت۱۰ محصول ۲؍ جلد۷۰۰ وی پی ۱ کل۱۳؍