Language: UR
<p>برصغیر کی نامور شخصیت سرسید احمد خان نے اپنے رسالہ <span class='naskh'>الدعاء والاستجابة</span> میں دعا کے فلسفہ کی ایسی تاویل کی کہ جس سے دعا کی قبولیت اور اس کے اثر اور خارجی وحی کے انکار سے اللہ تعالیٰ کے انبیاء کرام اور اولیا٫ کی شہادت کی تکذیب لازم آتی تھی جبکہ ان کے اکثر معجزات و کرامات کی اصل اور منبع بھی دعاؤں کی قبولیت ہی تھی اس لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے سرسید احمد مرحوم کے اس رسالہ کے جواب میں رسالہ ’برکات الدعاء‘ ۱۸۹۳ء میں تحریر فرمایا جس میں آپ نے ان کے پیش کردہ دلائل کو معقولی اور منقولی رنگ میں ردّ کیا اور خارجی وحی اور دعا کی قبولیت کے متعلق اپنا تجربہ پیش فرمایا۔</p><p>حضور علیہ السلام نے اس رسالہ میں دعا کی اہمیت، افادیت و ماہیت بیان فرما کرہستی باری تعالیٰ کے ثبوت پیش فرمائے کہ وہ خدا بظاہر ناممکن نظر آنیوالے حالات میں بھی اپنے بندوں کی ایسی غیبی مدد فرماتا ہے کہ دنیا دعا کے اثرات کو دیکھ کر ورطہء حیرت میں پڑ جاتی ہے۔</p>
ترتیب روحانی خزائن جلد ۶ برکات الدعا.........۱ حجۃ الاسلام............۴۱ سچائی کا اظہار............۷۱ جنگ مقدس............۸۳ شہادت القرآن.........۲۹۵
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم تعارف (از حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس) روحانی خزائن کی یہ جلد ششم ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی پانچ تالیفات برکات الدعا.حجۃ الاسلام.سچائی کا اظہار.جنگ مقدس اور شہادت القرآن پر مشتمل ہے.زمانہ تالیف ’’برکات الدعاء‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپریل ۱۸۹۳ء میں اور ’’حجۃ الاسلام‘‘ اور’’ سچائی کا اظہار‘‘ مئی ۱۸۹۳ء میں تالیف فرمائیں.اور ’’جنگ مقدس‘‘ یعنی مکمل روئیداد مباحثہ مابین اہل سلام و عیسائیان امرتسر ۲۲؍ مئی ۱۸۹۳ء سے شروع ہو کر ۵؍جون ۱۸۹۳ء کو ختم ہوا.’’کرامات الصادقین‘‘ ’’تحفۂ بغداد‘‘ اور ’’شہادت القرآن‘‘ بھی ۱۸۹۳ء کی تصنیف ہیں لیکن اس خیال سے کہ ’’شہادت القرآن‘‘ اردو میں ہے وہ جلد ششم میں شامل کی گئی ہے اور کرامات الصادقین اور تحفۂ بغداد ساتویں جلد میں.اس لئے کہ اس جلد کی اور کتب بھی عربی زبان میں ہیں.برکات الدعاء (سرسید احمد خان مرحوم کے رسالہ الدعاء والاستجابۃ اور رسالہ تحریر فی اصول التفسیر پر ایک نظر) سرسید احمد خان مرحوم کے متعلق رُوحانی خزائن جلد پنجم میں ہم لکھ چکے ہیں کہ انہوں نے بعض عقائد اسلامیہ کی ایسے رنگ میں تاویلیں کیں جو قرآن مجید کی آیات بیّنہ اور امتِ محمدیہ کے متفقہ مسلّمہ عقائد اسلامیہ کے
صریح مخالف تھیں.مثلاً یہ کہ انہوں نے لفظی یا خارجی وحی اور وجود ملائکہ اور استجابت دعا وغیرہ کا انکار کیا.وجود ملائکہ اور وحی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتاب ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں دلائل قاطعہ اور براہین ساطعہ کے ساتھ ان کے خیالات کا ردّ فرمایا ہے اور ملائکہ کے وجود اور اُن کے کاموں پر جس تفصیل کے ساتھ اس میں بحث کی ہے اس کی نظیر متقدمین کی کتب میں بھی نہیں پائی جاتی.یہ ثابت کرنے کے لئے کہ دعا کی حقیقت بجز اس کے کچھ نہیں کہ اضطرار کی جگہ صبر و استقلال کی کیفیت کا پیدا ہو جانا جو لازمۂ عبادت ہے یہی دُعا کا مستجاب ہونا ہے سرسید مرحوم نے ایک رسالہ الدعاء والاستجابۃ لکھا.چونکہ دعا عبادت کا مغز تھی اور اس کے بغیر عبادت بے معنی چیز ٹھیرتی تھی اور اس کی قبولیت اور اس کے اثر اور خارجی وحی کے انکار سے اﷲ تعالیٰ کے ایک لاکھ سے زائد انبیاء اور کئی کروڑ اولیاء کی شہادت کی تکذیب لازم آتی تھی اور ان کے اکثر معجزات اور کرامات کی اصل اور منبع بھی دعاؤں کی قبولیت ہی تھی اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سرسیّد مرحوم کے اس رسالہ کے جواب میں رسالہ برکات الدعاء لکھا.جس میں آپ نے اُن کے پیش کردہ دلائل کو معقولی اور منقولی رنگ میں ردّ کیا.اور خارجی وحی اور دعا کی قبولیت کے متعلق اپنا تجربہ پیش کرتے ہوئے فرمایا:.’’میں نے دیکھا ہے کہ اس وحی کے وقت جو برنگِ وحی ولایت میرے پر نازل ہوتی ہے.ایک خارجی اور شدید الاثر تصرف کا احساس ہوتا ہے.اور بعض دفعہ یہ تصرف ایسا قوی ہوتا ہے کہ مجھ کو اپنے انوار میں ایسا دبا لیتا ہے.کہ میں دیکھتا ہوں کہ مَیں اس کی طرف ایسا کھینچا گیا ہوں کہ میری کوئی قوت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.اس تصرف میں کھلا اور روشن کلام سُنتا ہوں.بعض وقت ملائکہ کو دیکھتا ہوں (نوٹ حاشیہ میں.صرف اتنا ہی نہیں کہ ملائک بعض وقت نظر آتے ہیں بلکہ بسا اوقات ملائک کلام میں اپنا واسطہ ہونا ظاہر کردیتے ہیں.منہ) اور سچائی میں جو اثر اور ہیبت ہوتی ہے مشاہدہ کرتا ہوں.اور وہ کلام بسا اوقات غیب کی باتوں پر مشتمل ہوتا ہے.اور ایسا تصرف اور اخذخارجی ہوتا ہے.جس سے خدا تعالیٰ کا ثبوت ملتا ہے.اب اس سے انکار کرنا ایک کھلی کھلی صداقت کا خون کرنا ہے.‘‘ ( برکات الدعاء.روحانی خزائن جلد ۶صفحہ ۲۶) اور فرمایا:.
’’اگر کوئی وحئ نبوت کا منکر ہو اور یہ کہے کہ ایسا خیال تمہارا سراسر وہم ہے تو اس کے منہ بند کرنے والی بجز اس کے نمونہ دکھلانے کے اور کون سی دلیل ہو سکتی ہے ؟ ( برکات الدعاء.روحانی خزائن جلد ۶صفحہ ۲۵) اور دُعا کے اثر کا ثبوت دینے کے لئے آپ نے تحریر فرمایا:.’’اگر سید صاحب اپنے اس غلط خیال سے توبہ نہ کریں اور یہ کہیں کہ دعاؤں کے اثر کا ثبوت کیا ہے تو میں ایسی غلطیوں کے نکالنے کے لئے مامور ہوں.میں وعدہ کرتا ہوں کہ اپنی بعض دُعاؤں کی قبولیت سے پیش از وقت سید صاحب کو اطلاع دوں گااور نہ صرف اطلاع بلکہ چھپوا دوں گا مگر سید صاحب ساتھ ہی یہ بھی اقرار کریں کہ وہ بعد ثابت ہو جانے میرے دعویٰ کے اس غلط خیال سے رجوع کریں گے.‘‘ ( برکات الدعاء.روحانی خزائن جلد ۶صفحہ۱۲) پھر اس رسالہ کے آخر میں آپ نے پنڈت لیکھرام کے متعلق اپنی ایک قبول شدہ دُعا کا بھی ذکر کر دیا.چنانچہ فارسی نظم میں آپ نے سرسید احمد خان مرحوم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.از دُعا کن چارۂ آزار انکارِ دُعا چوں علاجِ مے زمے وقتِ خمار و التہاب اے کہ گوئی گر دعاہا را اثر بودے کجاست سوئے من بشتاب بنمائیم ترا چوں آفتاب ہاں مکن انکار زیں اسرار قدر تہائے حق قصّہ کوتاہ کن بہ بیں از ما دُعائے مستجاب ( برکات الدعاء.روحانی خزائن جلد ۶صفحہ۳۳) چنانچہ سید مرحوم کی زندگی میں ہی پنڈت لیکھرام کی ہلاکت سے متعلقہ پیشگوئی آفتاب نیمروز کی مانند پوری ہو گئی اور موافق و مخالف نے اس پیشگوئی کے پورا ہونے کی شہادت دی.دوسرے رسالہ ’’ تحریر فی اصول التفسیر‘‘ میں سرسید مرحوم نے اپنے دوست حریف سے تفسیر کے اصول مانگے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ خدمت بھی میں ہی کر دیتا ہوں.کیونکہ بھولے کو راہ بتانا سب سے پہلے میرا فرض ہے.آپؑ نے تفسیر کے لئے سات معیار تحریر فرما کر لکھا کہ سید صاحب کی تفسیر ان ساتوں معیاروں سے اکثر مقامات میں محروم و بے نصیب ہے.
الغرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس فرقہ کی جن کے قائد سرسید مرحوم تھے ان آراء زائفہ اور خیالاتِ باطلہ کا ردّ فرمایا جو فلسفۂ مغرب سے متأثر ہو کر اور آیاتِ قرآنیہ کی دور از کار تاویلات کرکے انہوں نے اختیار کئے تھے.اگرچہ وہ اپنے خیال میں اسلام کو دشمنوں کے حملوں سے بچانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن ناواقفی سے درحقیقت وہ اسلام کی جڑ پر تبرچلا رہے تھے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک طرف ایسے مسلمانوں کو ان کی غلطیوں پر متنبہ کیا اور دوسری طرف دشمنانِ اسلام کو روحانی مقابلہ کے لئے للکارا اور اسلام کی صداقت اور قرآن مجید کا کلامِ الٰہی ہونا بدلائل عقلیہ و نقلیہ ثابت کیا.حجّۃ الاسلام ’’برکات الدعاء ‘‘کے بعد آپؑ نے اپریل۱۸۹۳ء میں رسالہ حجّۃ الاسلام شائع کیا.اس رسالہ میں حضورؑ نے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک اور بعض دوسرے عیسائی صاحبان کو اس عظیم الشان دعوت کے لئے بلایا کہ دُنیا میں زندہ اور بابرکت اور اپنے اندر آسمانی روشنی رکھنے والا مذہب صرف اسلام ہے جس کے ثبوت کے نشان اب بھی اس کے ساتھ ایسے ہی ہیں جیسے کہ پہلے تھے.اور عیسائی مذہب تاریکی میں پڑا ہوا ہے اور زندہ مذہب کی علامتیں اُس میں نہیں پائی جاتیں.اور ۲۲؍مئی۱۸۹۳ء کو جو مباحثہ ہونے والا تھا اس کی ضروری شرائط بھی اس رسالہ میں درج کر دی گئی ہیں اور آئندہ کے لئے دونوں مذہبوں میں قطعی فیصلہ کرنے کے لئے کہ اِن میں سے کون سا مذہب سچّا اور زندہ ہے.مباحثہ کے علاوہ مباہلہ کرنے اور نشان دکھانے کی بھی عیسائیوں کو دعوت دی گئی ہے اور وہ خط و کتابت بھی درج کی گئی ہے جو مسلمانان جنڈیالہ اور ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مابین ہوئی.اِس رسالہ میں مولوی محمد حسین بٹالوی کی نسبت ایک رؤیا کی بناء پر یہ پیشگوئی بھی کی گئی ہے کہ وہ میرے ایمان کو مان لے گا.اور اپنی موت سے پہلے میری تکفیر سے تائب ہو گا.اور یہ پیشگوئی بزبان حال اُس وقت پوری ہوئی جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعوت مباہلہ پر مباہلہ میں شامل نہ ہو ااور حضورؑ نے مباہلہ سے پہلے بذریعہ اشتہار یہ شائع کر دیا تھا کہ ’’اگر شیخ محمد حسین بٹالوی دہم ذیقعد ۱۳۱۰ ھ کو مباہلہ کے لئے حاضر نہ ہوا تو اسی
روز سے سمجھا جائے گا کہ وہ پیشگوئی جو اس کے حق میں چھپوائی گئی تھی کہ وہ کافر کہنے سے توبہ کرے گا پوری ہو گئی.‘‘ (سچائی کا اظہار.روحانی خزائن جلد ۶صفحہ۸۲) اور قولی لحاظ سے اس وقت پوری ہوئی.جب مولوی محمد حسین بٹالوی نے حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ کے زمانہ میں ضلع گوجرانوالہ کے منصف لالہ دیو کی نندن کے روبرو عدالت میں حلفی شہادت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو مسلمان فرقوں میں سے شمار کیا.سچائی کا اظہار ماہ مئی ۱۸۹۳ء میں آپؑ نے رسالہ سچائی کا اظہار شائع کیا.اس رسالہ میں حضورؑ نے پادری ڈپٹی عبداﷲ آتھم رئیس امرتسر کا بشرط مغلوبیت اسلام لانے کا اقرار نا مہ درج فرمایا.اور ڈاکٹر کلارک کے اشتہار مرقومہ ۱۲؍مئی ۱۸۹۳ء کا جو بطور ضمیمہ ’’نور افشاں‘‘ لدھیانہ شائع ہوا تھا ذکر فرمایا.اس اشتہار میں ڈاکٹر کلارک نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ مباحثہ سے بچنے کے لئے مسلمانان جنڈیالہ کو اس طرف توجہ دلائی کہ آپ نے جسے اپنا پیشوا مقرر کیا ہے اس کو تو علمائے اسلام کافر اور خارج از اسلام قرار دیتے ہیں اور اس کے جنازہ کو بھی جائز نہیں سمجھتے اور اشاعۃ السنہ کا حوالہ دیا.مگر مسلمانانِ جنڈیالہ کی طرف سے میاں محمد بخش صاحب نے انہیں لکھا کہ ہم ایسے مولویوں کو خود مفسد سمجھتے ہیں جو ایک مسلمان مؤید اسلام کو کافر ٹھہراتے ہیں.نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا کہ ’’تمام مستند علماء اسلام جن کو خدا تعالیٰ نے علم و عمل بخشا ہے اور نورِ فراست ایمانیہ عطا کیا ہے وہ میرے ساتھ ہیں اور اس وقت چالیس کے قریب ہیں اور فریقِ ثانی کے ساتھ اکثر ایسے لوگ ہیں جو صرف نام کے مولوی اور علمی اور عملی کمالات سے تہیدست ہیں.‘‘ (سچائی کا اظہار.روحانی خزائن جلد ۶صفحہ۷۴) مزید برآں حضورؑ نے اس امر کے ثبوت کے لئے علمائے حرمین میں سے تین فاضل بزرگوں کے خطوط بھی شائع کئے جنہوں نے آپؑ کے دعویٰ کی تصدیق کی تھی اور اس رسالہ میں وہ اشتہار بھی درج فرمایا جس میں آپؑ نے عبدالحق غزنوی کو جس نے خود مباہلہ کے لئے درخواست کی تھی اور دوسرے علماء کو بھی اس کے ساتھ مباہلہ میں شریک ہونے کی دعوت دی.
جنگ مقدس ۱ کتاب ’’جنگ مقدس‘‘ اس عظیم الشان مباحثہ کی مکمل روئیداد کا نام ہے جو امرتسر میں اہل اسلام اور عیسائیوں کے مابین ۲۲؍مئی ۱۸۹۳ء سے لے کر ۵؍جون۱۸۹۳ء تک ہوا.جس میں اہلِ اسلام کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور عیسائیوں کی طرف سے ڈپٹی عبداﷲ آتھم ۲ مناظر تھے.اسباب مباحثہ:.روحانی خزائن کی جلد اوّل اور سوم میں ہم پنجاب اور ہندوستان کے عیسائی مشنریوں کی مساعی کا ذکر کر چکے ہیں اور لکھ چکے ہیں کہ اس وقت مسیحیت کی تبلیغ عنفوان شباب پر تھی.اور مختلف شہروں اور دیہات میں ان کے مشن قائم تھے.اور ہندوستانی مسلمان اور دیگر اقوام کے لوگ پے در پے عیسائی ہو رہے تھے.یہاں تک کہ یہ خیال کیا جانے لگا تھا کہ چند سالوں میں ہندوستان عیسائیت کی آغوش میں آ جائے گا.چنانچہ ۱۸۸۸ء میں پنجاب کے لفٹنٹ گورنر چارلس ایچی سن نے بمقام شملہ مسیحی مبلغوں کی ایک میٹنگ میں تقریر کرتے ہوئے کہا.’’جس رفتار سے ہندوستان کی معمولی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اس سے چار پانچ گُنا تیز رفتار سے عیسائیت اس ملک میں پھیل رہی ہے.اور اس وقت ہندوستانی عیسائیوں کی تعداد دس لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے.‘‘ (’’دی مشنز‘‘ مصنفہ ریورنڈ رابرٹ کلارک) ۱ ریورنڈ رابرٹ کلارک نے اپنی کتاب ’’دی مشنز آف دی سی.ایم.ایس اِن پنجاب اینڈ سندھ‘‘ مطبوعہ سی.ایم.ایس لنڈن ۱۹۰۴ء میں اس مباحثہ کو The great controversy.یعنی ایک عظیم الشان مباحثہ قرار دیا ہے.اور اس مباحثہ کو جنگ مقدس کا نام خود ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نے دیا.صفحہ ۴۶ و۶۴.شمس ۲ عبداللہ آتھم قریباً ۱۸۳۸ء میں بمقام انبالہ پیدا ہوئے اور ۲۸؍مارچ ۱۸۵۳ء کو انہوں نے کراچی میں بپتسمہ لیا.اور اسی موقعہ پر انہوں نے اپنے نام کے ساتھ آثم یعنی گنہگار کا لفظ لگایا.پہلے انبالہ ‘ ترنتارن اور بٹالہ میں تحصیلدار رہے.پھر سیالکوٹ.انبالہ اور کرنال میں ای.اے.سی کے عہدہ پر رہے اور پھر ریٹائرڈ ہونے کے بعد انہوں نے اپنی خدمات امرتسرمشن کو سپرد کر دیں اور اسلام کے خلاف چند کتب لکھیں.شمس
قبل ازیں ۱۸۵۱ء میں ہندوستانی عیسائی صرف ۹۱۰۹۲ تھے اور ۱۸۸۱ء میں ان کی تعداد ۴۱۷۳۷۲ تھی.جس زمانہ میں یہ مباحثہ ہوا اس وقت مسیحی مناد عیسائی مشنری یوروپین اور ہندوستانی پنجاب کے بیسیوں مقامات پر لوگوں کو عیسائیت کی طرف دعوت دے رہے تھے اور دجال پورے زور سے دین اسلام کی تباہی کے لئے ہمہ تن مصروف تھا.اور علمائے اسلام خواب خرگوش میں تھے.سب سے پہلے چرچ مشنری سوسائٹی نے ہندوستان میں ۱۷۹۹ء میں تبلیغی کام شروع کیا تھا.لیکن اس وقت بہت سی مشنری سوسائٹیاں کام کر رہی تھیں جن کے ہیڈ کوارٹرز انگلستان جرمنی اور امریکہ وغیرہ ممالک تھے.۱۹۰۱ء میں ان مشنری سوسائٹیوں کی تعداد ۳۷ تھی اور ایک بہت بڑی تعداد مشنریوں کی ایسی بھی تھی جو ان سوسائٹیوں سے تعلق نہیں رکھتے تھے.وسط ایشیا میں عیسائیت کے مشنری کام کے لئے وہ پنجاب کو ایک قدرتی بیس (Base) سمجھتے ۱ تھے.اور پنجاب کے تیرہ مشہور شہروں میں ان کے بڑے بڑے مشن قائم تھے.اِن میں سے ایک مشن امرتسر میں قائم تھا.یہ مشن چرچ مشنری سوسائٹی نے ۱۸۵۲ء میں قائم کیا تھا.اور جنڈیالہ ضلع امرتسر میں عیسائی مشن کی بنیاد ۱۸۵۴ء میں رکھی گئی تھی.لیکن جب ہنری مارٹن کلارک۲ ایم.ڈی.سی.ایم (ایڈنبرا) ایم آر اے ایس.سی ایم ایس ضلع امرتسر کے میڈیکل مشنری انچارج تھے تو انہوں نے ۱۸۸۲ء میں امرتسر میڈیکل مشن کی ایک شاخ جنڈیالہ میں بھی جاری کر دی جو عیسائیت کے فروغ کا نیا دروازہ ثابت ہوئی.عیسائی مناد جابجا وعظ کرنے لگے.جنڈیالہ کے مسلمانوں میں سے ایک میاں محمد بخش پاندہ مکتب دیسی تھے وہ باوجود معمولی تعلیم رکھنے کے اُن کے مقابلہ کے لئے کھڑے ہو گئے اور انہوں نے بعض دوسرے مسلمان بھائیوں کو بھی عیسائی منادوں پر سوالات کرنے سکھا دیئے.اب جنڈیالہ کے مسلمانوں اور مسیحی منادوں میں گفتگوئیں شروع ہو گئیں.آخر جنڈیالہ کے عیسائیوں نے ڈاکٹر کلارک سے صورت حالات کا ذکر کیا تو انہوں نے مسیحیان جنڈیالہ کی طرف سے میاں محمد بخش صاحب کو مخاطب کر کے مسلمانانِ جنڈیالہ کے نام ایک خط لکھا جو اس جلد کے صفحہ ۶۰ پر درج ہے اس میں ڈاکٹر کلارک ۱ دیکھو ’’دی مشنز‘‘ صفحہ ۱۷ ، ۲۴۵ مصنفہ ریورنڈ رابرٹ کلاک ۲ یاد رہے کہ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلار ک ہی تھے جنہوں نے ۷؍اپریل ۱۸۸۵ء کو حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کی خدمت میں آٹھ سوالات بھیجے تھے جن کا جواب آپ نے ۱۸۸۸ء میں اپنی کتاب ’’فصل الخطاب‘‘ میں دیا اور ۱۸۸۹ء میں ریورنڈ ٹامس ہاول نے جبکہ وہ پنڈدادنخاں میں مشنری تھے جواب دینے کی کوشش کی.اور ایک رسالہ ’’جواب اہل کتاب‘‘ لکھا جو اخترہند پریس امرتسر میں شائع ہوا.شمس
نے مسیحیان جنڈیالہ کی طرف سے لکھا کہ ’’آپ خواہ خود یا اپنے ہم مذہبوں سے مصلحت کر کے ایک وقت مقرر کریں اور جس کسی بزرگ پر آپ کی تسلّی ہو اُسے طلب کریں اور ہم بھی وقت معیّن پر محفل شریف میں کسی اپنے کو پیش کریں گے کہ جلسہ اور فیصلہ امورات مذکورہ بالا کا بخوبی ہو جاوے.‘‘ اور لکھا ’’کہ اگر صاحبانِ اہل اسلام ایسے مباحثہ میں شریک نہ ہونا چاہیں تو آئندہ کو اپنے اسپِ کلام کو میدان گفتگو میں جولانی نہ دیں اور وقتِ منادی یا دیگر موقعوں پر حجّت بے بنیاد ولاحاصل سے باز آ کر خاموشی اختیار کریں.‘‘ (حجۃ الاسلام.روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۶۰) یہ خط میاں محمد بخش صاحب کو ۱۱؍ اپریل ۱۸۹۳ء کو ملا جو انہوں نے مع اپنے خط کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھیج دیا.اور اپنے خط میں حضور سے یہ التماس کی کہ ’’اہل اسلام جنڈیالہ اکثر کمزور اور مسکین ہیں اس لئے خدمت شریف عالی میں ملتمس ہوں کہ آنجناب ﷲ اہل اسلام جنڈیالہ کو امداد فرماؤ.ورنہ اہلِ اسلام پر دھبّہ آ جائے گا.‘‘ (حجۃ الاسلام.روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ۵۹) اِس خط کے ملنے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بہت خوش ہوئے اور میاں محمد بخش صاحب کو اس کا مناسب جواب بھجوانے کے علاوہ اپنے ایک خط ۱۳ ؍ اپریل ۱۸۹۳ء کو براہِ راست مسیحیان جنڈیالہ کے نام ڈاکٹر کلارک امرتسر کی معرفت بھیج دیا.جس میں آپ نے ان کی دعوت مباحثہ مندرجہ مکتوب بنام میاں محمد بخش صاحب کا ذکر کرکے لکھا:.’’کہ جنڈیالہ کے مسلمانوں کا ہم سے کچھ زیادہ حق نہیں بلکہ جس حالت میں خداوند کریم اور رحیم نے اس عاجز کو اِنھیں کاموں کے لئے بھیجا ہے تو ایک سخت گناہ ہو گا کہ ایسے موقعہ پر خاموش رہوں.اس لئے میں آپ لوگوں کو اطلاع دیتا ہوں کہ اس کام کے لئے میں ہی حاضر ہوں.‘‘ (حجۃ الاسلام.روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ۶۱)
اور تحریر فرمایا کہ ’’یہ بحث زندہ مذہب یا مردہ مذہب کی تنقیح کے بارہ میں ہو گی اور دیکھا جاوے گا کہ جن روحانی علامات کا مذہب اور کتاب نے دعویٰ کیا ہے وہ اب بھی اس میں پائی جاتی ہیں کہ نہیں.‘‘ (حجۃ الاسلام.روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ۶۳،۶۴) اور اس امر کا ثبوت اِس طرح پیش کیا جائے گا.’’اہلِ اسلام کا کوئی فرد اس تعلیم اور علامات کے موافق جو کامل مسلمان ہونے کے لئے قرآن کریم میں موجود ہیں اپنے نفس کو ثابت کرے.اور اگر نہ کر سکے تو دروغ گو ہے نہ مسلمان.اور ایسا ہی عیسائی صاحبوں میں سے ایک فرد اس تعلیم اور علامات کے موافق جو انجیل شریف میں موجود ہیں اپنے نفس کو ثابت کر کے دکھلائے اور اگر وہ ثابت نہ کرسکے تو وُہ دروغ گو ہے نہ عیسائی‘‘ (حجۃ الاسلام.روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ۶۲) اس کے جواب میں ۱۸؍ اپریل ۱۸۹۳ء کو عیسائیان جِنڈیالہ کی طرف سے ڈاکٹر کلارک نے لکھا:.’’ہمارا دعویٰ نہ آپ سے پر جنڈیالہ کے محمدیوں سے ہے.ہم آپ کی دعوت قبول کرنے میں قاصر ہیں.اُن کی طرف ہم نے خط لکھا ہوا ہے.اور تاحال جواب کے منتظر ہیں......اگر وُہ آپ کو تسلیم کر کے اس جنگ مقدس کے لئے اپنی طرف سے پیش کریں تو ہمارا کچھ عذر نہیں بلکہ عین خوشی ہے.‘‘ (حجۃ الاسلام.روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ۶۴) ۲۳؍ اپریل ۱۸۹۳ء کو اِس خط کا جواب دیتے ہوئے پادری صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا کہ میں اپنے چند عزیز دوست بطور سفیر منتخب کر کے آپ کی خدمت میں روانہ کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ اس پاک جنگ کے لئے آپ مجھے مقابلہ پر منظور فرمائیں گے.جب آپ کا پہلا خط جو جنڈیالہ کے بعض مسلمانوں کے نام تھا مجھ کو ملا اور مَیں نے یہ عبارتیں پڑھیں کہ کوئی ہے کہ ہمارا مقابلہ کرے تو میری روح اس وقت بول اٹھی کہ ہاں میں ہوں جس کے ہاتھ پر خدا تعالیٰ مسلمانوں کو فتح دے گا.اور سچائی کو ظاہر کرے گا.وہ حق جو مجھ کو ملا ہے اور وہ آفتاب جس نے ہم میں طلوع کیا ہے وہ اب پوشیدہ رہنا نہیں چاہتا.میں دیکھتا
ہوں کہ اب وہ زور دار شعاعوں کے ساتھ نکلے گا.اور دلوں پر اپنا ہاتھ ڈالے گا.اور اپنی طرف کھینچ لائے گا.اور فرمایا:.’’آپ جانتے ہیں کہ جنڈیالہ میں کوئی مشہور اور نا می فاضل نہیں اور یہ آپ کی شان سے بھی بعید ہو گا کہ آپ عوام سے الجھتے پھریں اور اس عاجز کا حال آپ پر مخفی نہیں کہ آپ صاحبوں کے مقابلہ کے لئے...پورے دس ۱۰سال سے میدان میں کھڑا ہوں.جنڈیالہ میں میری دانست میں ایک بھی نہیں جو میدان کا سپاہی تصوّر کیا جائے.‘‘ (حجۃ الاسلام.روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ۶۵) اور آپؑ نے یہ بھی واضح کر دیا.چاہیئے کہ یہ بحث صرف زمین تک محدود نہ رہے بلکہ آسمان بھی اُس کے ساتھ شامل ہو اور مقابلہ صرف اس بات میں ہو کہ روحانی زندگی اور آسمانی قبولیت اور روشن ضمیری کس مذہب میں ہے اور میں اور میرا مقابل اپنی اپنی کتاب کی تاثیریں اپنے اپنے نفس میں ثابت کریں.‘‘ (حجۃ الاسلام.روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ۶۶) آپؑ کے سفیروں کا وفد اس خط کو لے کر امرتسر پہنچا اور ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک سے اُن کی گفتگو ہوئی اور شرائط مناظرہ طے ہو گئیں.تب ۲۴؍ اپریل ۱۸۹۳ء کو ڈاکٹر کلارک نے آپ کی خدمت میں لکھا کہ ’’جناب نے جو مسلمانوں کی طرف سے مجھے مقابلہ کے لئے دعوت کی ہے اس کو میں بخوشی قبول کرتا ہوں آپ کی سفارت نے آپ کی طرف سے مباحثہ اور شرائط ضروریہ کا فیصلہ کر لیا ہے...اطلاع بخشیں کہ آپ اِن شرائط کو قبول کرتے ہیں یا نہیں.‘‘ (حجۃ الاسلام.روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ۶۶،۶۷) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ۲۵؍ اپریل ۱۸۹۳ء کو پادری ڈاکٹر کلارک کو جواباً لکھا کہ ’’مَیں اُن تمام شرائط کو منظور کرتا ہوں جن پر آپ کے اور میرے دوستوں کے دستخط ہو چکے ہیں.‘‘ (حجۃ الاسلام.روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ۶۹) منظوری دیتے ہوئے آپ نے یہ بھی تحریر فرمایا کہ اس مباحثہ کو دونوں مذہبوں میں فیصلہ کُن بنانے کے لئے یہ بھی ہونا ضروری ہے کہ چھ دن کے مباحثہ کے بعد ساتویں دن ایک روحانی مقابلہ بصورت مباہلہ کیا
جائے اور فریقین مباہلہ میں یہ دعا کریں.’’مثلاً فریق عیسائی یہ کہے کہ وہ عیسیٰ مسیح ناصری جس پرمیں ایمان لاتا ہوں وہی خدا ہے اور قرآن انسان کا افترا ہے خدا تعالیٰ کی کتاب نہیں اور اگر مَیں اس بات میں سچا نہیں تو میرے پر ایک سال کے اندر کوئی ایسا عذاب نازل ہو جس سے میری رسوائی ظاہر ہو جائے اور ایسا ہی یہ عاجز دُعا کرے گا کہ اے کامل اور بزرگ خدا میں جانتا ہوں کہ درحقیقت عیسیٰ مسیح ناصری تیرا بندہ اور تیرا رسول ہے خدا ہرگز نہیں اور قرآن کریم تیری پاک کتاب اور محمد مصطفٰی صلی اﷲ علیہ وآلہ ٖ وسلم تیرا پیارا اور برگزیدہ رسول ہے اور اگر میں اس بات میں سچّا نہیں تو میرے پر ایک سال کے اندر کوئی ایسا عذاب نازل کر جس سے میری رسوائی ظاہر ہو جائے اور اے خدا میری رسوائی کے لئے یہ بات کافی ہو گی کہ ایک برس کے اندر تیری طرف سے میری تائید میں کوئی ایسا نشان ظاہر نہ ہو جس کے مقابلہ سے تمام مخالف عاجز رہیں.‘‘ (حجۃ الاسلام.روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۷۰) آسمانی نشان دکھانے کے لئے دعوت اِس کے بعد آپؑ نے وہ اشتہار لکھا جس کا عنوا ن ہے ’’ڈاکٹر پادری کلارک کا جنگ مقدس اور ان کے مقابلہ کے لئے اشتہار‘‘ ۱ اِس میں مختصر طور پر مناظرہ کی طے شدہ شرائط کے ذکر کے علاوہ مباحثہ کے بعد مباہلہ اور نشان نمائی کی دعوت دی گئی ہے.مباہلہ کے متعلق حضورؑ نے فرمایا:.’’وہ صرف اس قدر کافی ہے کہ فریقین اپنے مذہب کی تائید کے لئے خدا تعالیٰ سے آسمانی نشان چاہیں اور ان نشانوں کے ظہور کے لئے ایک سال کی میعاد قائم ہو پھر جس فریق کی تائید میں کوئی آسمانی نشان ظاہر ہو جو انسانی طاقتوں سے بڑھ کر ہو جس کا مقابلہ فریق مخالف سے نہ ہو سکے تو لازم ہو گا کہ فریق مغلوب اس فریق کا مذہب اختیار کرے جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے آسمانی نشان کے ساتھ غالب کیا ہے اور مذہب
اختیار کرنے سے اگر انکار کرے تو واجب ہو گا کہ اپنی نصف جائداد اس سچے مذہب کی امداد کی غرض سے فریق غالب کے حوالہ کردے.‘‘ (حجۃ الاسلام.روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ۴۸) اور فرمایا ’’اگر ایک سال کے عرصہ میں دونوں طرف سے کوئی نشان ظاہر نہ ہو یا دونوں طرف سے ظاہر ہو تو پھر کیونکر فیصلہ ہو گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ راقم اس صورت میں بھی اپنے تئیں مغلوب سمجھے گا اور ایسی سزا کے لائق ٹھیرے گا جو بیان ہو چکی ہے چونکہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوں اور فتح پانے کی بشارت پا چکا ہوں پس اگر کوئی عیسائی صاحب میرے مقابل آسمانی نشان دکھلاویں یا میں ایک سال تک دکھلا نہ سکوں تو میرا باطل پر ہونا کُھل گیا....میری سچائی کے لئے یہ ضروری ہے کہ میری طرف سے بعد مباہلہ ایک سال کے اندر ضرور نشان ظاہر ہو.اوراگر نشان ظاہر نہ ہو تو پھر میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوں اور نہ صرف وہی سزا بلکہ موت کی سزا کے لائق ہوں.‘‘ (حجۃ الاسلام.روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ۴۹) ’’آپؑ نے نشان نمائی اور مباہلہ کے متعلق مباحثہ کے دوران میں بار بار فریق مقابل کو توجہ دلائی لیکن اُن میں سے کوئی اس روحانی مقابلہ کے لئے آمادہ نہ ہوا.اور عبداﷲ آتھم نے تو اپنے ایک خط میں صاف لکھ دیا.’’ہم اس امر کے قائل نہیں ہیں کہ تعلیماتِ قدیم کے لئے معجزہ جدید کی کچھ بھی ضرورت ہے اس لئے ہم معجزہ کے لئے نہ کچھ حاجت اور نہ استطاعت اپنے اندر دیکھتے ہیں...بہرکیف اگر جناب کسی معجزہ کے دکھلانے پر آمادہ ہیں تو ہم اس کے دیکھنے سے آنکھیں بند نہ کریں گے اور جس قدر اِصلاح اپنی غلطی کی آپ کے معجزہ سے کر سکتے ہیں اس کو اپنا فرض عین سمجھیں گے.‘‘ (حجۃ الاسلام.روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ۵۲) حضورؑ نے نشان دیکھنے کے بعد بلاتوقف مسلمان ہو جانے کی جو شرط لگائی تھی مسٹر عبداﷲ آتھم نے اپنے خط مؤرخہ ۹؍ مئی ۱۸۹۳ء میں اِن الفاظ میں منظور کر لی کہ ’’کہ اگر جناب یا اور کوئی صاحب کسی صورت سے بھی یعنی بہ تحدّی معجزہ یا دلیل قاطع عقلی تعلیماتِ قرآنی کو ممکن اور موافق صفاتِ اقدس ربّانی کے ثابت کر سکیں تو
میں اقرار کرتا ہوں کہ مسلمان ہو جاؤں گا.‘‘ (سچائی کا اظہار.روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۸۰) مباحثہ کی شرائط طے ہو چکیں.مسلمانانِ جنڈیالہ نے بھی اپنی رضا مندی کا اظہار کر دیا لیکن پادری آتھم اور دیگر پادریوں کو ڈاکٹر کلارک کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مناظرہ منظور کر لینا پسند نہ تھا.چنانچہ شیخ نور احمد صاحب۱ مالک ریاض ہند پریس امرتسر اپنے رسالہ ’’نور احمد‘‘ صفحہ ۲۲ میں لکھتے ہیں کہ جب وہ اور مستری قطب الدین صاحب پادری عماد الدین صاحب کے پاس یہ دریافت کرنے کے لئے پہنچے.’’کہ کون سے پادری صاحب ہیں جنہوں نے عیسائیوں کی طرف سے مناظرہ میں پیش ہونا ہے.اور حضرت مرزا صاحب سے خط و کتابت شروع کر رکھی ہے.کیا آپ اس مناظرہ میں بطور مناظر پیش ہوں گے تو انہوں نے کہا کہ میں تو ایسے مناظروں کو فضول سمجھتا ہوں.بھلا میں ایسا کیوں کرنے لگا.اِس پر میں نے اُن کو جنڈیالہ کا واقعہ سنایا تو کہنے لگے ہنری مارٹن کلارک لونڈا ہوگا.‘‘ اور جب وہ حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کے نمائندوں کو جو شرائط طے کرنے کے لئے حضورؑ نے امرتسر بھجوائے تھے ریلوے اسٹیشن سے ہی ڈاکٹر کلارک کی کوٹھی پر لے کر پہنچے تو ڈاکٹر کلارک صاحب اپنے اردلی کو برآمدے میں کرسیاں لگا دینے کا حکم دے کر خود دوسرے دروازے سے عبداﷲ آتھم کی کوٹھی پر گئے جو قریب ہی تھی.اس عرصہ میں میاں محمد بخش صاحب پاندہ بھی جنڈیالہ سے پہنچ گئے تھے.ڈاکٹر کلارک نے آتھم صاحب سے جا کر کہا کہ ’’قادیان سے چند آدمی جلسہ مناظرہ کی شرائط اور تاریخ وغیرہ طے کرنے کے لئے آئے ہیں.آپ چل کر تاریخ و شرائط وغیرہ طے کر لیں.آتھم صاحب نے کانوں پر ۱ شیخ نور احمد صاحب کوبھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ممبران سفارت میں شامل کیا تھا جو شرائط طے کرنے کے لئے حضورؑ کی طرف سے امرتسر گئے تھے اور شیخ صاحب موصوف ہی ڈاکٹر کلارک سے وقت مقرر کرکے ممبران سفارت کوسٹیشن سے ہی اپنے ساتھ لیکر ڈاکٹر کلارک کی کوٹھی پر پہنچے اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام مباحثہ کے لئے امرتسر تشریف لے گئے تھے تو پہلے آپ ہی کے مکان پرفروکش ہوئے تھے.بعد میں حاجی محمود صاحب کی درخواست پر جو خان محمد شاہ صاحب مرحوم رئیس امرتسر کے داماد تھے کہ آپ ان کے مکان پر تشریف لے چلیں حضورؑ نے فرمایا کہ شیخ نور احمد صاحب سے اجازت لے لیں تو شیخ صاحب کے حاجی محمود صاحب کو اجازت دینے پر حضورؑ ان کے مکان پر تشریف لے گئے تھے.امرتسر میں شیخ نور احمد صاحب ہی اس مناظرہ سے متعلقہ امور کو سرانجام دیتے تھے.شمس
ہاتھ دھرا اور کہا.ڈاکٹر صاحب اگر ایک سو دوسرے مولوی ہوتے تو کچھ پروا ہ نہ تھی.تم نے کہاں بھڑوں کے چھتّہ میں ہاتھ ڈال دیا.مرزا قادیانی کا مقابلہ کرنا اور اُن سے نپٹنا آسان نہیں سخت مشکل کام ہے.تم نے ہی یہ فتنہ اُٹھایا ہے.تم ہی اس کام کو کرو.میں ہرگز نہیں جاؤں گا اور نہ اِس میں شریک ہوں گا.ڈاکٹر صاحب نے کہا.عیسائی قوم کے تم ہی پہلوان ہو.تم ہی یہ کام خوش اسلوبی سے سر انجام دے سکتے ہو تمہارے بھروسہ پر میں نے یہ کام شروع کیا ہے اور تم اس سے انکار کرتے ہو.تمہیں ضرور شامل ہونا پڑے گا.آخر پون گھنٹہ کی گفتگو کے بعد ہلاشیری دلاکر ڈاکٹر صاحب آتھم صاحب کو ساتھ ہی لے آئے اس گفتگو کا علم عبداﷲ آتھم صاحب کے مسلمان خانساماں سے بعد میں ہوا.جب دونوں آئے اور کرسیوں پر بیٹھے تو آتھم صاحب کی زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے کہ ’’ہائے مَیں مر گیا‘‘ اس کے بعد شرائط طے ہوئیں‘‘.۱ جب پادری آتھم صاحب سے امرتسر اور بٹالہ کے مولویوں نے اُن کی کوٹھی پر جا کر یہ کہا کہ تم نے دوسرے علماء سے بحث کیوں منظور نہ کی.مرزا صاحب سے کیوں بحث پر رضا مندی ظاہر کی اُن کو تو تمام علماء کافر کہتے ہیں تو انہوں نے اس موقعہ کو غنیمت جان کر ڈاکٹر کلارک سے کہا کہ ’’میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ مرزا صاحب سے بحث کرنا آسان نہیں اب یہ موقعہ اچھا ہاتھ آ گیا ہے.مرزا صاحب کو جواب دے دو اور اِن مولویوں سے بے شک مباحثہ کر لو کوئی ہرج نہیں.۲ ‘‘ اس پر ڈاکٹر کلارک نے ۱۲؍ مئی ۱۸۹۳ء کو ایک اشتہار لکھا جو بطور ضمیمہ ’’نور افشاں‘‘ ۱۲؍ مئی ۱۸۹۳ء کو شائع ہوا اور اس اشتہار کی اشاعت سے اُن کی غرض سوائے اس کے کچھ نہ تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مباحثہ نہ ہو.اس غرض سے ا نہوں نے مسلمانانِ جنڈیالہ کو آپ سے بدظن کرنے کے لئے مولوی محمد حسین بٹالوی اور دیگر علماء کے تکفیری فتاویٰ کا ذکر کیا جو ’’اشاعۃ السنہ‘‘ میں شائع ہوئے تھے اور ’’اشاعۃ السنہ‘‘ کی خریداری کے متعلق بھی اعلان کر دیا کہ ’’ کتاب اشاعۃ السنۃ النبویۃ مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب سے منگوا کر دیکھ
سکتے ہیں.قیمت آنے ہے.لاہور سے مل سکتی ہے.‘‘ اِس اشتہار میں ڈاکٹر کلارک نے مسلمانانِ جنڈیالہ کو مخاطب کر کے لکھا:.’’آپ ایک ایسے بزرگ کو بحث کے لئے پیش کرتے ہو جن کو اوّلاًایک محمدی شخص بھی تصوّر کرنا مشکل ہے آپ کن خیالوں میں مبتلا ہو رہے ہیں کیا آپ نے وہ فتویٰ جو کہ علمائے اسلام پنجاب و ہندوستان نے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے حق میں شائع کئے ہیں نہیں دیکھے.‘‘ نیز لکھا:.’’آپ عجب غفلت میں پڑے ہیں کہ اب تک اس کتاب (یعنی اشاعۃ السنہ.ناقل) کو نہیں دیکھا آفرین آپ پر اور جنڈیالہ کے اہلِ اسلام کی ہمّت پر جس کا جنازہ بھی جائز نہیں اُسی کو آپ نے پیشوا مقرر کیا.واہ صاحب واہ.آپ کی یہ خوش فہمی.‘‘ (سچائی کا اظہار.روحانی خزائن جلد۶ صفحہ ۷۳) مگر جنڈیالہ کے مسلمانوں نے اس اشتہار سے ذرہ جنبش نہ کھائی اور میاں محمد بخش صاحب نے حضرات پادری صاحبان کو نہایت دندان شکن جواب دیا.لکھّا ’’کہ کوئی مذہب اختلاف سے خالی نہیں اور عیسائی بھی اِس سے باہر نہیں اور ہم ایسے مولویوں کو خود مفسد سمجھتے ہیں جو ایک مسلمان موئد اسلام کو کافر ٹھہراتے ہیں.‘‘ (سچائی کا اظہار.روحانی خزائن جلد۶ صفحہ ۷۳، ۷۴) اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پادریوں پر واضح کر دیا کہ آپ کی تحریریں اور وعدے آپ کی منظور کردہ شرائط ہمارے پاس ہیں.لہٰذا اب آپ کو یا تو بحث کرنا ہو گی یا شکست تسلیم کرنا ہو گی.اگر آپ دوسرے مولویوں سے بحث کرنا چاہتے ہیں تو پہلے منظور کردہ بحث میں اپنی شکست کا اخبارات میں اعلان کریں.آخر کار جب پادریوں کو فرار کی کوئی راہ دکھائی نہ دی تو بادلِ ناخواستہ انہیں مباحثہ کا تلخ پیالہ پینا پڑا.اور مباحثہ ڈاکٹر کلارک کی کوٹھی پر فریقین کی منظورشدہ شرائط کے مطابق ۲۲؍ مئی ۱۸۹۳ء سے شروع ہو کر ۵؍ جون ۱۸۹۳ء کو ختم ہوا.
یہ جنگ مقدس جو کاسر صلیب اور حامیان صلیب کے مابین ہوئی.اِس میں میدان اسلام کے پہلوان کے ہاتھ رہا.اور کسرِ صلیب ایسے رنگ میں ہوا کہ پھر صلیب جُڑنے کے قابل نہ رہی.مسلمان خوش ہوئے اورحامیانِ صلیب کے ہاں صفِ ماتم بچھ گئی.مسیح موعودؑ کا روحانی حربہ احادیث میں آتا ہے کہ مسیح موعود دجّال کو اپنے حربہ (برچھی) کے ایک ہی وار سے قتل کر دے گا اور ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ وہ بابِ لُدّ میں قتل کرے گا.اور لُدّ عربی زبان میں اَلَدّ کی جمع ہے یعنی ایسے لوگ جو جدال اور مباحثہ میں غالب آ جائیں.سو اس میں اس طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ مسیح موعودؑ اور آپ کے ساتھی دجّال کو مباحثات کے دروازے سے قتل کریں گے.چنانچہ یہ پیشگوئی اپنی پوری شان سے پوری ہوئی.کاسرِ صلیب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابتدائے مناظرہ میں ہی ایک ایسا وار کیا جس سے آپ کا حریف پادری عبداﷲ آتھم اور اس کے مددگار آخردم تک نیم مُردہ کی مانند آئیں بائیں شائیں تو کرتے رہے لیکن حقیقی جواب نہ اُن سے ہو سکتا تھا اور نہ ہوا.آپؑ کا وہ کامیاب وار یہ تھا.آپؑ نے فرمایا:.’’واضح ہو کہ اِس بحث میں یہ نہایت ضروری ہو گا کہ جو ہماری طرف سے کوئی سوال ہو یا ڈپٹی عبداﷲ آتھم کی طرف سے کوئی جواب ہو وہ اپنی طرف سے نہ ہو بلکہ اپنی اپنی الہامی کتاب۱ کے حوالہ سے ہو.جس کو فریق ثانی حجّت سمجھتا ہو.اور ایسا ہی ہر ایک دلیل۲ اور ہر ایک دعو۳یٰجو پیش کیا جاوے وہ بھی اِسی التزام سے ہو غرض کوئی فریق اپنی اس کتاب کے بیان سے باہر نہ جائے جس کا بیان بطور حجت ہو سکتا ہے.‘‘ (جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد۶ صفحہ۸۹) سارے مباحثہ کو از ابتداء تا انتہا پڑھ جاؤ.یہ امر واضح ہو جائے گا کہ عیسائی مناظر آخر دم تک اس معیارپر پورا نہیں اتر سکا بلکہ تعجب ہے کہ وہ دعویٰ اور دلیل میں بھی فرق نہیں کر سکا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن مجید سے جو دعویٰ پیش کیا اس کے اثبات میں عقلی دلائل بھی قرآن مجید سے ہی پیش کئے.
پادریوں کا وار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب دوران مناظرہ میں بار بار زندہ مذہب کی شناخت کا معیار تازہ نشان دکھانا قرار دیا اور یہ کہ مدعی فریق جس کتاب کو الہامی سمجھتا ہے اُس میں مومن کی بیان کردہ علامات کو اپنے وجود میں ثابت کر دکھائے تو وہ پکا مسلمان یا عیسائی ہو سکتا ہے.اور خود نہایت زور شور سے دعویٰ کیا کہ قرآن مجید میں ایمان کی بیان کردہ علامات کو مَیں اپنے وجود میں ثابت کر دکھاؤں گا.اور ایک سال کے اندر اندر جس رنگ میں اﷲ تعالیٰ چاہے گا ایسا نشان دکھاؤں گا جس پر فریق مخالف ہرگز ہرگز قادر نہ ہو گا.پادری عبداﷲ آتھم نے اس دعوت کو قبول کرنے سے بھی پہلو تہی کی.لیکن کئی دن کے غور و فکر کے بعد ایک سوچی سمجھی سکیم کے ماتحت اپنی طرف ایک ایسا وار کیا جس کے متعلق انہیں یقین تھا کہ اِس وار سے فریق مخالف ضرور شکست یافتہ سمجھا جائے گا اور ہمارے ہاں فتح کے نقارے بجیں گے اور وہ وار یہ تھا کہ ۲۶؍ مئی ۱۸۹۳ء کے مباحثہ کے دن پادری عبداﷲ آتھم نے یہ بیان لکھوایا کہ ’’ہم مسیحی توپرانی تعلیمات کے لئے نئے معجزات کی کچھ ضرورت نہیں دیکھتے اور نہ ہم اس کی استطاعت اپنے دیکھتے ہیں...اور نشانات کا وعدہ ہم سے نہیں لیکن جناب کو اِس کا بہت سا ناز ہے ہم بھی دیکھنے معجزہ سے انکار نہیں کرتے‘‘ ’’پس ہم یہ تین شخص پیش کرتے ہیں جن میں ایک اندھا ایک ٹانگ کٹا اور ایک گونگا ہے اِن میں سے جس کسی کو صحیح و سالم کر سکو کر دو.اور جو اس معجزہ سے ہم پر فرض و واجب ہو گا ہم ادا کریں گے آپ بقول خود ایسے خدا کے قائل ہیں جو گفتہ قادر نہیں لیکن درحقیقت قادر ہے تو وہ اُن کو تندرست بھی کرسکے گا پھر اس میں تأمل کی کیا ضرورت ہے.اور ضرور بقول آپ کے راستباز کے ساتھ ہو گا ضرور ہو گا.آپ خَلق اﷲ پر رحم فرمایئے جلد فرمایئے اور آپ کو خبر ہو گی کہ آج یہ معاملہ پڑنا ہے جس خدا نے الہام سے آپ کو خبر دے دی کہ اس جنگ و میدان میں تجھے فتح ہے اس نے ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا ہو گا کہ اندھے و دیگر مصیبت زدوں نے بھی پیش ہونا ہے سو سب
عیسائی صاحبان و محمدؐی صاحبان کے روبرو اسی وقت اپنا چیلنج پورا کیجئے.‘‘ (جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد۶صفحہ ۱۵۰.۱۵۱) فریق مخالف کا یہ وار کاسر صلیب کے مقابلہ میں بیسیوں موافق و مخالف کے روبرو بالکل ایسا ہی تھا جیسا کہ حضرت موسی علیہ السلام کے مقابلہ میں ساحروں نے اپنے سونٹے اور رسیّاں جو حاضرین کو دوڑتی ہوئی نظر آئیں پھینک کر اپنے غالب آنے کا اعلان کر دیا تھا جس سے حضرت موسیٰ ؑ کے دل میں بھی ڈر پیدا ہوا کہ کہیں مخلوقِ خدا پر اُن کی اس ساحرانہ کارروائی کو دیکھ کر حق مشتبہ نہ ہو جائے.تب اﷲ تعالیٰ نے آپ کو اُسی وقت اپنا عصا پھینکنے کا ارشاد فرمایا اور بشارت دی کہ تو ہی غالب اور فتحیاب ہو گا.لیکن اس جگہ مباحثہ کے سُننے والوں کے دلوں میں پریشانی ہوئی ہو تو ہو اور انہوں نے خیال کیا ہو کہ اب اس وار کا کیا جواب دے سکیں گے.اور عیسائی تو دل میں بے انتہا خوشی محسوس کر رہے تھے کہ ہم نے ایسا وار کیا ہے جس کا نتیجہ لازمی طور پر ہماری فتح ہے لیکن اﷲ تعالیٰ کا شیر جو پہلے سے اپنے حیّ و قادر خدا سے اس جنگ میں فتح کی بشارت پا چکا تھا.مطمئن بیٹھا تھا.آپ کے چہرہ پر پریشانی کا کوئی اثر نہ تھا.البتہ بے تابی سے اپنے وقت کا منتظر تھا تا پادریوں کے دجل کو ھباءً منثورًاکر کے دکھا وے.سو جب پادری آتھم اپنا بیان لکھوا چکے اور آپ کے بیان لکھوانے کا وقت آیا تو آپ نے نہایت جلالی رنگ میں اپنا بیان لکھوانا شروع کیا.فرمایا کہ اگر آپ سچے عیسائی ہیں تو بتائیں کہ ’’آپ کے مذہب میں حضرت عیسٰیؑ نے جو نشانیاں نجات یا بندوں یعنی حقیقی ایمانداروں کی لکھی ہیں وہ آپ میں کہاں موجود ہیں.مثلاً جیسے مرقس ۱۷۱۶میں لکھا ہے:.’’اور وے جو ایمان لائیں گے اُن کے ساتھ یہ علامتیں ہوں گی...وے بیماروں پرہاتھ رکھیں گے تو چنگے ہو جائیں گے‘‘ ’’تو اب مَیں بااَدب التماس کرتا ہوں اور اگر ان الفاظ میں کچھ درشتی یا مرارت ہو تو اس کی معافی چاہتاہوں کہ یہ تین بیمار جو آپ نے پیش کئے ہیںیہ علامت تو بالخصوصیت مسیحیوں کے لئے حضرت عیسٰیؑ قرار دے چکے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر تم سچے ایماندار ہو تو تمہاری یہی علامت ہے کہ بیمار پر ہاتھ رکھو گے تو وہ چنگا ہو جائے
گا.اب گستاخی معاف اگر آپ سچے ایمان دار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو اس وقت تین بیمار آپ ہی کے پیش کردہ موجود ہیں.آپ ان پر ہاتھ رکھ دیں اگر وہ چنگے ہو گئے تو ہم قبول کر لیں گے کہ بے شک آپ سچے ایماندار اور نجات یافتہ ہیں ورنہ کوئی قبول کرنے کی راہ نہیں کیونکہ حضرت مسیح تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر تم میں رائی کے دانہ برابر بھی ایمان ہوتا تو اگر تم پہاڑ کو کہتے کہ یہاں سے چلا جا تو وہ چلا جاتا مگر خیر مَیں اس وقت پہاڑ کی نقلِ مکانی تو آپ سے نہیں چاہتا کیونکہ وہ ہماری اس جگہ سے دُور ہیں لیکن یہ تو بہت اچھی تقریب ہو گئی کہ بیمار تو آپ نے ہی پیش کر دیئے اب آپ اِن پر ہاتھ رکھو اور چنگا کر کے دکھلاؤ.ورنہ ایک رائی کے دانہ کے برابربھی ایمان ہاتھ سے جاتا رہے گا.مگر آپ پر یہ واضح رہے کہ یہ الزام ہم پر عائد نہیں ہو سکتا کیونکہ اﷲ جلّ شانہٗ نے قرآن کریم میں ہماری یہ نشانی نہیں رکھی کہ بالخصوصیت تمہاری یہی نشانی ہے کہ جب تم بیماروں پر ہاتھ رکھو گے تو اچھے ہو جائیں گے.ہاں یہ فرمایا ہے کہ مَیں اپنی رضا اور مرضی کے موافق تمہاری دعائیں قبول کروں گا اور کم سے کم یہ کہ اگر ایک دُعا قبول کرنے کے لائق نہ ہو اور مصلحتِ الٰہی کے مخالف ہو تو اس میں اطلاع دی جائے گی یہ کہیں نہیں فرمایا کہ تم کو یہ اقتدار دیا جائے گا کہ تم اقتداری طور پر جو چاہو وہی کرگذرو گے.مگر حضرت مسیح کا تو یہ حکم معلوم ہوتاہے کہ وہ بیماروں وغیرہ کے چنگا کرنے میں اپنے تابعین کو اختیار بخشتے ہیں جیسا کہ متی ۱۰ باب ۱ میں لکھا ہے...اب یہ آپ کا فرض اور آپ کی ایمانداری کا ضرور نشان ہو گیا کہ آپ ان بیماروں کو چنگا کر کے دکھلاویں یا یہ اقرار کریں کہ ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ہم میں ایمان نہیں...اور آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ اب بھی حضرت مسیح زندہ حی و قیوم قادرِ مطلق عالم الغیب دن رات آپ کے ساتھ ہے جو چاہو وہی دے سکتا ہے.پس آپ حضرت مسیح سے درخواست کریں کہ اِن تینوں بیماروں کو آپ کے ہاتھ رکھنے سے اچھا کر دیویں تا
نشانی ایمانداری کی آپ میں باقی رہ جاوے ورنہ یہ تو مناسب نہیں کہ ایک طرف تو اہل حق کے ساتھ بحیثیت عیسائی ہونے کے مباحثہ کریں اور جب سچّے عیسائی کے نشان مانگے جائیں تب کہیں کہ ہم میں استطاعت نہیں اس بیان سے تو آپ اپنے پر ایک اقبالی ڈگری کراتے ہیں کہ آپ کا مذہب اس وقت زندہ مذہب نہیں ہے.لیکن ہم جس طرح پر خدا تعالیٰ نے ہمارے سچّے ایماندار ہونے کے نشان ٹھہرائے ہیں.اس التزام سے نشان دکھلانے کو تیار ہیں اگر نشان نہ دکھلا سکیں تو جو سزا چاہیں دے دیں اور جس طرح کی چُھری چاہیں ہمارے گلے میں پھیر دیں.‘‘ (جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد۶صفحہ۱۵۳.۱۵۵) اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ خود حضرت مسیحؑ بھی اقتداری نشان دکھلانے سے عاجز رہے جیسا کہ مرقس ۱۱.۸۱۲ میں لکھا ہے : ’’تب فریسی نکلے اور اس سے حجت کر کے یعنی جس طرح اب اس وقت مجھ سے حجت کی گئی.اس کے امتحان کے لئے آسمان سے کوئی نشان چاہا اُس نے اپنے دل سے آہ کھینچ کر کہا کہ اس زمانہ کے لوگ کیوں نشان چاہتے ہیں.مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اس زمانہ کے لوگوں کو کوئی نشان دیا نہ جائے گا...پھر اس سے بھی عجب طرح کا ایک اَور مقام دیکھئے کہ جب مسیحؑ صلیب پر کھینچے گئے تو تب یہودیوں نے کہاکہ اس نے اوروں کو بچایا پر آپ کو نہیں بچا سکتا اگر اسرائیل کا بادشاہ ہے تو اَب صلیب سے اُتر آوے تو ہم اس پر ایمان لاویں گے...لیکن حضرت مسیح اُتر نہیں سکے.‘‘ (جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد۶صفحہ۱۵۵.۱۵۶) نیز فرمایا.برعایت شرائط بحث کے ’’میرے مخاطب اس بارہ میں ڈپٹی عبداﷲ آتھم صاحب ہیں.صاحب موصوف کو چاہئے کہ انجیل شریف کی علامات قرار دادہ کے موافق سچا ایماندار ہونے کی
نشانیاں اپنے وجود میں ثابت کریں اور اس طرف میرے پر لازم ہو گا کہ مَیں سچا ایمان دار ہونے کی نشانیاں قرآن کریم کے رُو سے اپنے وجود میں ثابت کروں مگر اس جگہ یاد رہے کہ قرآن کریم ہمیں اقتدار نہیں بخشتا بلکہ ایسے کلمہ سے ہمارے بدن پر لرزہ آتا ہے ہم نہیں جانتے کہ وہ کس قسم کا نشان دکھلائے گا وُہی خدا ہے سوا اس کے اَور کوئی خدا نہیں ہاں یہ ہماری طرف سے اس بات کا عہد پختہ ہے جیسا کہ اﷲ جلّ شانہٗنے میرے پر ظاہر کر دیا ہے کہ ضرور مقابلہ کے وقت میں فتح پاؤں گا مگر یہ معلوم نہیں کہ خدا تعالیٰ کس طور سے نشان دکھلائے گا اصل مدعا تو یہ ہے کہ نشان ایسا ہو کہ انسانی طاقتوں سے بڑھ کر ہو.‘‘ (جنگ مقدس.روحانی خزائن جلد۶صفحہ ۱۵۷) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ جواب لکھوانا تھا کہ پادریوں نے ان پیش کردہ بیماروں کو مجلس سے ایسے طور پر غائب کر دیا کہ گویا انہیں زمین نگل گئی.اور پادریوں کی یہ ساحرانہ کارروائی بالکل اکارت اور بے فائدہ گئی.اور ہمیشہ کے لئے اُن کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ثابت ہوئی اور خدا تعالیٰ کے جری پہلوان کاسرِ صلیب کی نمایاں فتح کا موجب بنی.نشان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اﷲ تعالیٰ سے نشان دکھانے کے لئے تضرع و ابتہال سے کی ہوئی دُعائیں آخرکار پایۂ قبولیت کو پہنچیں اور اﷲ تعالیٰ نے فریق مخالف سے متعلق آپ کو اس نشان سے اطلاع دی جو اس جلد کے صفحہ ۲۹۱.۲۹۲ پر درج ہے.او ر جس کی تفصیل ہم کتاب انجامِ آتھم کی اشاعت کے وقت لکھیں گے.الغرض یہ جنگ مقدس جو دجالی گروہ اور مسیح موعودؑ کے درمیان ہوئی اس نے صلیبی مذہب کو پاش پاش کر دیا اور دلائل و براہین کی رو سے دجال ہمیشہ کے لئے قتل کر دیا گیا.اِس مباحثہ کے نتائج اِس مباحثہ کے خوشگوار نتائج ایامِ مباحثہ میں ہی ظاہر ہونے شروع ہو گئے.چنانچہ ایّام مباحثہ میں
میاں نبی بخش رفوگر و سوداگر پشمینہ امرتسر اور ہمارے اُستاد ماہر فقہ و حدیث عالم باعمل حضرت قاضی امیر حسینؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے.قاضی صاحب جو اُن دنوں مدرسہ اسلامیہ امرتسر میں مدرس تھے اُن کے احمدی ہونے سے مولویوں کے گھر میں شوربرپا ہو گیا.۱ اِسی طرح کرنل الطاف علی خان صاحب رئیس کپورتھلہ جو عیسائیت اختیار کر چکے تھے.اور بوقت مباحثہ عیسائیوں کی طرف بیٹھے تھے اسلام لے آئے ۲ اور عیسائی پادریوں کو یہ معلوم ہو گیا کہ اُن کا مدّمقابل حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلام کا ایک بے نظیر پہلوان ہے اور جو علم کلام ان کے مذہب کی تردید اور اسلام کی تائید میں اس نے پیدا کیا ہے وہ ایک ایسا حربہ ہے جس کے وار سے کسرِ صلیب کا ہونا ایک یقینی امر ہے.پس اس عظیم الشان مباحثہ میں نامور پادریوں کی شکست اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جس رنگ میں اسلام کو زندہ مذہب اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو زندہ نبی اور قرآن مجید کو زندہ کتاب کے طور پر پیش کیا.وہ ایسے امورنہ تھے جن سے عیسائی دنیا متاثر نہ ہوتی.چنانچہ انگلستان جس کی کئی مشنری سوسائیٹیاں پنجاب اور ہندوستان میں کام کر رہی تھیں متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا.چنانچہ ۱۸۹۴ء میں دنیا بھر کے پادریوں کی جو عظیم الشان کانفرنس لنڈن میں منعقد ہوئی اس کے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے لارڈ بشپ آف گلوسٹر ریورنڈ چارلس جان ایلی کوٹ نے کہا:.’’اسلام میں ایک نئی حرکت کے آثار نمایاں ہیں.مجھے اُن لوگوں نے جو صاحبِ تجربہ ہیں بتایا ہے کہ ہندوستان کی برطانوی مملکت میں ایک نئی طرز کا اسلام ہمارے سامنے آ رہا ہے اور اس جزیرے میں بھی کہیں کہیں اس کے آثار نظر آ رہے ہیں...یہ اُن بدعات کا سخت مخالف ہے جن کی بنا پر محمد (صلعم) کا مذہب ہماری نگاہ میں قابلِ نفرین قرار پاتا ہے.اس نئے اسلام کی وجہ سے محمد (صلعم) کو پھر وہی پہلی سی عظمت حاصل ہوتی رہی جارہی ہے.یہ نئے تغیرات بہ آسانی شناخت کئے جا سکتے ہیں.پھر یہ نیا اسلام اپنی نوعیت میں مدافعانہ ہی نہیں بلکہ جارحانہ حیثیت کا بھی حامل ہے.افسوس ہے تو اِس بات کا کہ ہم سے بعض ذہن اس کی طرف مائل ہو رہے ہیں.‘‘ ۳ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ پر ابھی چار سال ہی گذرے تھے کہ پادریوں کے دلوں پر آپ کا رعب چھا گیا.اور مسیحی دنیا کو محسوس ہو گیا کہ اسلام کے غلبہ اور عیسائیت کی شکست کا وقت آ پہنچا.
شہادت القرآن ایک صاحب عطا محمد نام نے جو امرتسر کے ضلع کی کچہری میں اہلمد تھے اور وفات مسیحؑ کے قائل تھے لیکن کسی مسیح کے اِس امت میں آنے کے منکر تھے اگست ۱۸۹۳ء میں اپنے مطبوعہ خط کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے دریافت کیا کہ اس بات پر کیا دلیل ہے کہ آپ مسیح موعود ہیں یا کسی مسیح کا انتظار کرنا ہم کو واجب و لازم ہے.مسیح موعود کے آنے کی پیشگوئی گو احادیث میں موجود ہے مگر احادیث کا بیان میرے نزدیک پایۂ اعتبار سے ساقط ہے کیونکہ احادیث زمانۂ دراز کے بعد جمع کی گئی ہے اور اکثر مجموعہ احاد ہے.جو مفید یقین نہیں.چونکہ سوال اہم تھا اس لئے حضورؑ نے اس سوال کے جواب میں سائل کی حالت کو مدّنظر رکھتے ہوئے رسالہ ’’شہادت القرآن‘‘ لکھا اور مندرجہ ذیل تین امور تنقیح طلب قائم کر کے مفصل جواب دیا.اول یہ کہ مسیح موعود کے آنے کی خبر جو حدیثوں میں پائی جاتی ہے کیا یہ اس وجہ سے ناقابلِ اعتبار ہے کہ حدیثوں کا بیان مرتبہ یقین سے دُور و مہجور ہے.دوسرے یہ کہ کیا قرآن کریم میں اس پیشگوئی کے بارے میں کچھ ذکر ہے یا نہیں.تیسرے یہ کہ اگر یہ پیشگوئی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے تو اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ اِس کا مصداق یہی عاجز ہے.(شہادت القرآن.روحانی خزائن جلد۶ صفحہ ۲۹۷) اِن تینوں تنقیحات کو بدلائلِ بیّنہ واضح کر کے آخر میں لکھا:.’’اور اگراب بھی یہ تمام ثبوت میاں عطا محمد صاحب کے لئے کافی نہ ہوں تو پھر طریق سہل یہ ہے کہ اس تمام رسالہ کو غور سے پڑھنے کے بعد بذریعہ کسی چھپے ہوئے اشتہار کے مجھ کو اطلاع دیں کہ میری تسلّی ان امور سے نہیں ہوئی اورمیں ابھی تک افترا سمجھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ میری نسبت کوئی نشان ظاہر ہو تو میں انشاء اﷲ القدیر اُن کے بارہ میں توجہ کروں گا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کسی مخالف کے مقابل پر مجھے مغلوب نہیں کرے گا کیونکہ میں اس کی طرف سے ہوں اور اُس کے دین کی تجدید کے لئے اُس کے حکم سے آیا ہوں لیکن چاہئے کہ وہ اپنے اشتہار میں مجھے عام اجازت دیں.کہ جس طور سے میں اُن کے حق میں الہام پاؤں اُس کو شائع کرا دوں.‘‘ * (شہادت القرآن.روحانی خزائن جلد۶صفحہ۳۷۶)
اِس کے بعد میاں عطا محمد صاحب نے خاموشی اختیار کی.مگر ان کا یہ سوال دریافت کرنا اس لحاظ سے خیر وبرکت کا موجب ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا جو جواب رقم فرمایا وہ بہت سے طالبانِ حق کی ہدایت اور قلبی اطمینان کا باعث ہوا.خاکسار جلا ل الدین شمس ژژژ
نمونہ دعائے مستجاب۱ انیس ہند میرٹھ اور ہماری پیشگوئی پر اعتراض اس اخبار کا پرچہ مطبوعہ ۲۵ مارچ ۱۸۹۳ء جس میں میری اس پیشگوئی کی نسبت جو لیکھرام پشاوری کے بارے میں میں نے شائع کی تھی کچھ نکتہ چینی ہے مجھ کو ملا.مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض اور اخباروں پر بھی یہ کلمۃ الحق شاق گذرا ہے اور حقیقت میں میرے لئے خوشی کا مقام ہے کہ یوں خود مخالفوں کے ہاتھوں اس کی شہرت اور اشاعت ہو رہی ہے سو میں اس وقت اس نکتہ چینی کے جواب میں صرف اس قدر لکھنا کافی سمجھتا ہوں کہ جس طور اور طریق سے خدا تعالیٰ نے چاہا اسی طور سے کیا میرا اس میں دخل نہیں ہاں یہ سوال کہ ایسی پیشگوئی مفید نہیں ہوگی اور اس میں شبہات باقی رہ جائیں گے اس اعتراض کی نسبت میں خوب سمجھتا ہوں کہ یہ پیش از وقت ہے میں اس بات کا خود ہی اقراری ہوں اور اب پھر اقرار کرتا ہوں کہ اگر جیسا کہ معترضوں نے خیال فرمایا ہے پیشگوئی کا ماحصل آخر کار یہی نکلا کہ کوئی معمولی تپ آیا یا معمولی طور پر کوئی درد ہوا یا ہیضہ ہوا اور پھر اصلی حالت صحت کی قائم ہوگئی تو وہ پیشگوئی متصور نہیں ہوگی اور بلاشبہ ایک مکر اور فریب ہوگا کیونکہ ایسی بیماریوں سے تو کوئی بھی خالی نہیں ہم سب کبھی نہ کبھی بیمار ہو جاتے ہیں پس اس صورت میں بلاشبہ میں اس سزا کے لائق ٹھہروں گا جس کا ذکر میں نے کیا ہے لیکن اگر پیشگوئی کا ظہور اس طور سے ہوا کہ جس میں قہر الٰہی کے نشان صاف صاف اور کھلے طور پر دکھائی دیں تو پھر سمجھو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.اصل حقیقت یہ ہے کہ پیشگوئی کی ذاتی عظمت ۱ یہ ’’نمونہ دعائے مستجاب‘‘ پہلے ایڈیشن میں صفحہ ۲، ۳، ۴ سرورق پر شائع ہوا ہے.شمس
اور ہیبت دنوں اوروقتوں کے مقرر کرنے کی محتاج نہیں اس بارے میں تو زمانہ نزول عذاب کی ایک حدمقرر کردینا کافی ہے پھر اگر پیشگوئی فی الواقعہ ایک عظیم الشان ہیبت کے ساتھ ظہورپذیر ہوتو وہ خود دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اوریہ سارے خیالات اوریہ تمام نکتہ چینیاں جوپیش از وقت دلوں میں پیدا ہوتی ہیں ایسی معدوم ہوجاتی ہیں کہ منصف مزاج اہل الرائے ایک انفعال کے ساتھ اپنی رایوں سے رجوع کرتے ہیں.ماسوا اس کے یہ عاجز بھی تو قانون قدرت کے تحت میں ہے اگرمیری طرف سے بنیاد اس پیشگوئی کی صرف اسی قدر ہے کہ میں نے صرف یاوہ گوئی کے طورپر چند احتمالی بیماریوں کو ذہن میں رکھ کر اور اٹکل سے کام لیکریہ پیشگوئی شائع کی ہے توجس شخص کی نسبت یہ پیشگوئی ہے وہ بھی توایسا کرسکتا ہے کہ انہی اٹکلوں کی بنیاد پر میری نسبت کوئی پیشگوئی کردے بلکہ میں راضی ہوں کہ بجائے چھ برس کے جو میں نے اس کے حق میں معیاد مقرر کی ہے وہ میرے لئے دس برس لکھ دے لیکھرام کی عمراس وقت شاید زیادہ سے زیادہ تیس برس کی ہوگی اور وہ ایک جوان قوی ہیکل عمدہ صحت کاآدمی ہے اور اس عاجز کی عمراس وقت پچاس برس سے کچھ زیادہ ہے اور ضعیف اوردائم المرض اور طرح طرح کے عوارض میں مبتلا ہے پھرباوجود اس کے مقابلہ میں خود معلوم ہوجائے گا کہ کونسی بات انسان کی طرف سے ہے اورکونسی بات خدا تعالیٰ کی طرف سے.اور معترض کا یہ کہناکہ ایسی پیشگوئیوں کا اب زمانہ نہیں ہے ایک معمولی فقرہ ہے جواکثر لوگ منہ سے بول دیاکرتے ہیں میری دانست میں تو مضبوط اور کامل صداقتوں کے قبول کرنے کیلئے یہ ایک ایسا زمانہ ہے کہ شائد اسکی نظیرپہلے زمانوں میں کوئی بھی نہ مل سکے.ہاں اس زمانہ سے کوئی فریب اورمکر مخفی نہیں رہ سکتامگر یہ تو را ستبازوں کیلئے اور بھی خوشی کا مقام ہے کیونکہ جو شخص فریب اورسچ میں فرق کرنا جانتاہے وہی سچائی کی دل سے عزت کرتا ہے اوربخوشی اور دوڑکر سچائی کو قبول کرلیتا ہے اور سچائی میں کچھ ایسی کشش ہوتی ہے کہ وہ آپ قبول کرالیتی ہے.ظاہر ہے کہ زمانہ صدہاایسی نئی باتوں کو قبول کرتاجاتا ہے جو لوگوں کے باپ دادوں نے قبول نہیں کی تھیں اگر
زمانہ صداقتوں کا پیاسا نہیں تو پھر کیوں ایک عظیم الشان انقلاب اس میں شروع ہے زمانہ بیشک حقیقی صداقتوں کا دوست ہے نہ دشمن اور یہ کہنا کہ زمانہ عقلمند ہے اور سیدھے سادے لوگوں کا وقت گذر گیا ہے یہ دوسرے لفظوں میں زمانہ کی مذمّت ہے گویا یہ زمانہ ایک ایسا بد زمانہ ہے کہ سچائی کو واقعی طور پر سچائی پاکر پھر اس کو قبول نہیں کرتا لیکن میں ہرگز قبول نہیں کروں گا کہ فی الواقع ایسا ہی ہے کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ زیادہ تر میری طرف رجوع کرنے والے اور مجھ سے فائدہ اٹھانے والے وہی لوگ ہیں جو نو تعلیم یافتہ ہیں جو بعض ان میں سے بی اے اور ایم اے تک پہنچے ہوئے ہیں اور میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ یہ نو تعلیم یافتہ لوگوں کا گروہ صداقتوں کو بڑے شوق سے قبول کرتا جاتا ہے اور صرف اسی قدر نہیں بلکہ ایک نو مسلم اور تعلیم یافتہ یوریشین انگریزوں کا گروہ جن کی سکونت مدراس کے احاطہ میں ہے ہماری جماعت میں شامل اور تمام صداقتوں پر یقین رکھتے ہیں.اب میں خیال کرتا ہوں کہ میں نے وہ تمام باتیں لکھ دی ہیں جو ایک خدا ترس آدمی کے سمجھنے کیلئے کافی ہیں آریوں کا اختیار ہے کہ میرے اس مضمون پر بھی اپنی طرف سے جس طرح چاہیں حاشیے چڑھاویں مجھے اس بات پر کچھ بھی نظر نہیں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اس وقت اس پیشگوئی کی تعریف کرنا یا مذمت کرنا دونوں برابر ہیں اگر یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور میں خوب جانتا ہوں کہ اسی کی طرف سے ہے تو ضرور ہیبت ناک نشان کے ساتھ اس کا وقوعہ ہوگا اور دلوں کو ہلا دے گا اور اگر اس کی طرف سے نہیں تو پھر میری ذلت ظاہر ہوگی اور اگر میں اس وقت رکیک تاویلیں کروں گا تو یہ اور بھی ذلت کا موجب ہوگا وہ ہستی قدیم اور وہ پاک و قدوس جو تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے وہ کاذب کو کبھی عزت نہیں دیتا یہ بالکل غلط بات ہے کہ لیکھرام سے مجھ کو کوئی ذاتی عداوت ہے مجھ کو ذاتی طور پر کسی سے بھی عداوت نہیں بلکہ اس شخص نے سچائی سے دشمنی کی اور ایک ایسے کامل اور مقدس کو جو تمام سچائیوں کا چشمہ تھا توہین سے یاد کیا اس لئے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اپنے ایک پیارے کی دنیا میں عزت ظاہر کرے.وَالسّلام علٰی من اتبع الھدیٰ
بسم اللہ الرحمن الرحیم نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ سیّد احمد خان صاحب کے.سی.ایس.آئی.کے رسالہ الدعا والاستجابۃ اور رسالہ تحریر فی اصول التفسیر پر ایک نظر اے اسیرِ عقل خود برہستی خود کم بناز کین سپہر بوالعجائب چون تو بسیار آورد غیر را ہرگز نمی باشد گزر در کوئ حق ہر کہ آید ز آسمان او رازِ آن یار آورد خودبخود فہیمدنِ قرآن گمانِ باطل است ہر کہ از خود آورد او نجس و ُ مردار آورد سیّد صاحب اپنے رسالہ مندرجہ عنوان میں دعا کی نسبت اپنا یہ عقیدہ ظاہر کرتے ہیں کہ استجابت دعا کے یہ معنے نہیں ہیں کہ جو کچھ دعا میں مانگا گیا ہے وہ دیا جائے کیونکہ اگر استجابت دعا کے یہی معنے ہوں کہ وہ سوال بہرحال پورا کر دیا جائے تو دو مشکلیں پیش آتی ہیں اوّل یہ کہ ہزاروں دعائیں نہایت عاجزی اور اضطراری سے کی جاتی ہیں مگر سوال پورا نہیں ہوتا جس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ دعا قبول نہیں ہوئی حالانکہ خدا نے استجابت دعا کا وعدہ کیا ہے.دوسری یہ کہ جو امور ہونے والے ہیں وہ مقدّر ہیں اور جو نہیں ہونے والے وہ بھی مقدّر ہیں.اُن مقدّرات کے برخلاف ہرگز نہیں ہو سکتا پس اگر استجابت دعا کے معنے سوال کا پورا کرنا قرار دئیے جائیں تو خدا کا یہ وعدہ کہ ۱ ان سوالوں پر جن کا ہونا مقدّر نہیں ہے صادق نہیں آ سکتا یعنی ان معنوں کی رو سے یہ عام وعدہ استجا بت دعا کا باطل ٹھہرے گا کیونکہ سوالوں کا وہی حصہ پورا کیا جاتا ہے جس کا پورا کیا جانا مقدّر ہے.لیکن استجابت دعا کا وعدہ عام ہے جس میں کوئی بھی استثناء نہیں پھر جس حالت میں
بعض آیتیں ظاہر کر رہی ہیں کہ جن چیزوں کا دیا جانا مقدّر نہیں وہ ہرگز دی نہیں جاتیں اور بعض آیتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی دعا رد نہیں ہوتی اور سب کی سب قبول کی جاتی ہیں اور نہ صرف اسی قدر بلکہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمام دعاؤں کے قبول کرنے کا وعدہ کرلیا ہے جیسا کہ آیت ۱ سے ظاہر ہے پھر اس تناقض اور تعارض آیات سے بجز اس کے کیونکرَ مخلصی حاصل ہو کہ استجابت دعا سے عبادت کا قبول کرنا مراد لیا جائے یعنی یہ معنے کئے جائیں کہ دعا ایک عبادت ہے اور جب وہ دل سے اور خشوع اور خضوع سے کی جائے تو اُس کے قبول کرنے کا خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے پس استجابت دعا کی حقیقت بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ وہ دعا ایک عبادت متصور ہو کر اس پر ثواب مترتب ہوتا ہے ہاں اگر مقدّر میں ایک چیز کا ملنا ہے اور اتفاقاً اس کے لئے دعا بھی کی گئی تو وہ چیز مل جاتی ہے مگر نہ دعا سے بلکہ اس کاملنا مقدّر تھا اور دعا میں بڑا فائدہ یہ ہے کہ جب دعا کرنے کے وقت خدا کی عظمت اور بے انتہا قدرت کا خیال اپنے دل میں جمایا جاتا ہے تو وہ خیال حرکت میں آکر ان تمام خیالات پر جن سے اضطرار پیدا ہوا ہے غالب ہو جاتا ہے اور انسان کو صبر اور استقلال پیدا ہو جاتا ہے اور ایسی کیفیت کا دل میں پیدا ہو جانا لازمہ عبادت ہے اور یہی دعا کا مستجاب ہونا ہے پھر سیّد صاحب اپنے رسالہ کے اخیر میں لکھتے ہیں کہ جو لوگ حقیقت دعا سے ناواقف اور جو حکمت اس میں ہے اس سے بے خبر ہیں وہ کہہ سکتے ہیں کہ جب یہ امر مسلم ہے کہ جو مقدّر نہیں ہے وہ نہیں ہونے کا تو دعا سے کیا فائدہ ہے یعنی جب کہ مقدّر بہر حال مل رہے گا خواہ دعا کرو یا نہ کرو اور جس کا ملنا مقدّر نہیں اس کے لئے ہزاروں دعائیں کئے جاؤ کچھ فائدہ نہیں تو پھر دعا کرنا ایک امر عبث ہے اس کے جواب میں سیّد صاحب فرماتے ہیں کہ اضطرار کے وقت اِستمداد کی خواہش رکھنا انسان کی
فطرت کا خاصہ ہے سو انسان اپنے فطرتی خاصہ سے دعا کرتا ہے بلا خیال اس کے کہ وہ ہوگا یا نہیں اور بمقتضائے اس کی فطرت کے اس کو کہا گیا ہے کہ خدا ہی سے مانگو جو مانگو.اس تمام تحریر سے جس کو ہم نے بطور خلاصہ اوپر لکھ دیا ہے ثابت ہوا کہ سیّد صاحب کا یہ مذہب ہے کہ دعا ذریعہ حصولِ مقصود نہیں ہو سکتی اور نہ تحصیل مقاصد کے لئے اس کا کچھ اثر ہے اور اگر دعا کرنے سے کسی داعی کا فقط یہی مقصد ہو کہ بذریعہ دعا کوئی سوال پورا ہوجائے تو یہ خیال عبث ہے کیونکہ جس امر کا ہونا مقدّر ہے اسکے لئے دعا کی حاجت نہیں اور جس کا ہونا مقدّر نہیں ہے اسکے لئے تضرع و ابتہال بے فائدہ ہے.غرض اس تقریر سے بتمام تر صفائی کھل گیا کہ سیّد صاحب کا یہی عقیدہ ہے کہ دعا صرف عبادت کیلئے موضوع ہے اور اس کو کسی دنیوی مطلب کے حصول کا ذریعہ قرار دینا طمع خام ہے.اب واضح ہو کہ سیّد صاحب کو قرآنی آیات کے سمجھنے میں سخت دھوکا لگا ہوا ہے مگر ہم انشاء اللہ تعالیٰ اس دھوکے کی کیفیت کو اس مضمون کے اخیر میں بیان کریں گے اس وقت ہم نہایت افسوس سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اگر سیّد صاحب قرآن کریم کے سمجھنے میں فہم رسا نہیں رکھتے تھے تو کیا وہ قانونِ قدرت بھی جس کی پیروی کا وہ دم مارتے ہیں اور جس کو وہ خدا تعالیٰ کی فعلی ہدایت اور قرآن کریم کے اسرار غامضہ کا مفسر قرار دیتے ہیں اس مضمون کے لکھنے کے وقت ان کی نظر سے غائب تھا؟ کیا سیّد صاحب کو معلوم نہیں کہ اگرچہ دنیا کی کوئی خیر و شر مقدّر سے خالی نہیں تاہم قدرت نے اسکے حصول کیلئے ایسے اسباب مقرر کر رکھے ہیں جن کے صحیح اور سچے اثر میں کسی عقلمند کو کلام نہیں مثلاً اگرچہ مقدّر پر لحاظ کر کے دوا کا کرنا نہ کرنا درحقیقت ایسا ہی ہے جیسا کہ دُعا یا ترکِ دُعا مگر کیا سیّد صاحب یہ رائے ظاہر کر سکتے ہیں کہ مثلاً علم طب سراسر باطل ہے اور حکیم حقیقی نے دواؤں میں کچھ بھی اثر نہیں رکھا.پھر اگر سیّد صاحب باوجود ایمان بالتقدیر کے اس بات کے بھی قائل ہیں کہ دوائیں بھی اثر سے خالی نہیں تو پھر کیوں خدا تعالیٰ کے یکساں اور متشابہ
قانون میں فتنہ اور تفریق ڈالتے ہیں؟ کیا سیّد صاحب کا یہ مذہب ہے کہ خدا تعالیٰ اس بات پر تو قادر تھا کہ تربد اور سقمونیا اور سنا اور حب الملوک میں تو ایسا قوی اثر رکھے کہ انکی پوری خوراک کھانے کے ساتھ ہی دست چھوٹ جائیں یا مثلاً سم الفار اور بیش اور دوسری ہلاہل زہروں میں وہ غضب کی تاثیر ڈال دی کہ ان کا کامل قدر شربت چند منٹوں میں ہی اس جہان سے رخصت کر دے لیکن اپنے برگزیدوں کی توجہ اور عقد ہمت اور تضرع کی بھری ہوئی دعاؤں کو فقط مردہ کی طرح رہنے دے جن میں ایک ذرّہ بھی اثر نہ ہو؟ کیا یہ ممکن ہے کہ نظامِ الٰہی میں اختلاف ہو اور وہ ارادہ جو خدا تعالیٰ نے دواؤں میں اپنے بندوں کی بھلائی کے لئے کیا تھا وہ دعاؤں میں مرعی نہ ہو؟ نہیں نہیں ! ہرگز نہیں ! بلکہ خود سیّد صاحب دعاؤں کی حقیقی فلاسفی سے بے خبر ہیں اور ان کی اعلیٰ تاثیروں پر ذاتی تجربہ نہیں رکھتے اور ان کی ایسی مثال ہے جیسے کوئی ایک مدت تک ایک پرانی اور سال خوردہ اور مسلوب القویٰ دوا کو استعمال کرے اور پھر اس کو بے اثر پاکر اس دوا پر عام حکم لگادے کہ اسمیں کچھ بھی تاثیر نہیں.افسوس ! صد افسوس کہ سیّد صاحب باوجودیکہ پیرانہ سالی تک پہنچ گئے مگر اب تک اُن پر یہ سلسلۂ نظام قدرت مخفی رہا کہ کیونکر قضا و قدر کو اسباب سے وابستہ کر دیا گیا ہے اور کس قدر یہ سلسلہ اسباب اور مسببات کا باہم گہرے اور لازمی تعلقات رکھتاہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس دھوکے میں پھنس گئے کہ انہوں نے خیال کرلیا کہ گویا بغیر ان اسباب کے جو قدرت نے روحانی اور جسمانی طور پر مقرر کر رکھے ہیں کوئی چیز ظہور پذیرہو سکتی ہے.یوں تو دنیا میں کوئی چیز بھی مقدّر سے خالی نہیں مثلاً جو انسان آگ اور پانی اور ہوا اور مٹی اور اناج اور نباتات اور حیوانات اور جمادات وغیرہ سے فائدہ اٹھاتا ہے وہ سب مقدّرات ہی ہیں لیکن اگر کوئی نادان ایسا خیال کرے کہ بغیر ان تمام اسباب کے جو خدا تعالیٰ نے مقرر کر رکھے ہیں اور بغیر ان راہوں کے جو قدرت نے معیّن کر دی ہیں ایک چیز بغیر توسط جسمانی یا روحانی
وسائل کے حاصل ہو سکتی ہے تو ایسا شخص گویا خدا تعالیٰ کی حکمت کو باطل کرنا چاہتا ہے.میں نہیں دیکھتا کہ سیّد صاحب کی تقریر کا بجز اس کے کچھ اور بھی ماحصل ہے کہ وہ دعا کو منجملہ ان اسباب مؤثرہ کے نہیں سمجھتے جن کو انہوں نے بڑی مضبوطی سے تسلیم کیا ہوا ہے بلکہ اس راہ میں حد سے زیادہ آگے قدم رکھ دیا ہے مثلاً اگر سیّد صاحب کے پاس آگ کی تاثیر کا ذکر کیا جائے تو وہ ہرگز اس سے منکر نہیں ہوں گے اور ہرگز یہ نہیں کہیں گے کہ اگر کسی کا جلنا مقدّر ہے تو بغیر آگ کے بھی جل رہے گا تو پھر میں حیران ہوں کہ وہ باوجود مسلمان ہونے کے دعا کی تاثیروں سے جو آگ کی طرح کبھی اندھیرے کو روشن کر دیتی ہیں اور کبھی گستاخ دست انداز کا ہاتھ جلا دیتی ہیں کیوں منکر ہیں کیا ان کو دعاؤں کے وقت تقدیر یاد آجاتی ہے اور جب آگ وغیرہ کا ذکر کریں تو پھر تقدیر بھول جاتی ہے؟ کیا ان دونوں چیزوں پر ایک ہی تقدیر حاوی نہیں ہے؟ پھر جس حالت میں باوجود تقدیر ماننے کے وہ اسباب مؤثّرہ کو اس شدت سے مانتے ہیں کہ اسکے غلوّ میں وہ بدنام بھی ہوگئے تو پھر اس کا کیا موجب ہے کہ وہ نظام قدرت جس کو وہ تسلیم کر چکے ہیں دعا میں ان کو یاد نہیں رہا یہاں تک کہ مکھی میں تو کچھ تاثیر ہے مگر دعا میں اتنی بھی نہیں.پس اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ اس کوچہ سے بے خبر ہیں اور نہ ذاتی تجربہ اور نہ تجربہ والوں کی ان کو صحبت ہے.اب ہم فائدہ عام کے لئے کچھ استجابت دعا کی حقیقت ظاہر کرتے ہیں سو واضح ہو کہ استجابت دعا کا مسئلہ درحقیقت دعا کے مسئلہ کی ایک فرع ہے اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس شخص نے اصل کو سمجھا ہوا نہیں ہوتا اس کو فرع کے سمجھنے میں پیچیدگیاں واقع ہوتی ہیں اور دھوکے لگتے ہیں پس یہی سبب سیّد کی غلط فہمی کا ہے.اور دعا کی ماہیت یہ ہے کہ ایک سعید بندہ اور اس کے ربّ میں ایک تعلق مجاذبہ ہے یعنی پہلے خدا تعالیٰ کی رحمانیت بندہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے پھر بندہ کے صدق کی کششوں سے خدا تعالیٰ اس سے نزدیک ہو جاتا ہے
اور دعا کی حالت میں وہ تعلق ایک خاص مقام پر پہنچ کر اپنے خواصِ عجیبہ پیدا کرتا ہے سو جس وقت بندہ کسی سخت مشکل میں مبتلا ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف کامل یقین اور کامل امید اور کامل محبت اور کامل وفاداری اور کامل ہمّت کے ساتھ جھکتا ہے اور نہایت درجہ کا بیدار ہو کر غفلت کے پردوں کو چیرتا ہوا فنا کے میدانوں میں آگے سے آگے نکل جاتا ہے پھر آگے کیا دیکھتا ہے کہ بارگاہ الوہیت ہے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں تب اس کی روح اس آستانہ پر سر رکھ دیتی ہے اور قوتِ جذب جو اس کے اندر رکھی گئی ہے وہ خدا تعالیٰ کی عنایات کو اپنی طرف کھینچتی ہے تب اللہ جلّ شانہ اس کام کے پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس دعا کا اثر ان تمام مبادی اسباب پر ڈالتا ہے جن سے ایسے اسباب پیدا ہوتے ہیں جو اس مطلب کے حاصل ہونے کے لئے ضروری ہیں.مثلاً اگر بارش کے لئے دعا ہے تو بعد استجابت دعا کے وہ اسباب طبعیہ جو بارش کے لئے ضروری ہوتے ہیں اس دعا کے اثر سے پیدا کئے جاتے ہیں.اور اگر قحط کے لئے بد دعا ہے تو قاد رمطلق مخالفانہ اسباب کو پیدا کر دیتا ہے.اسی وجہ سے یہ بات اربابِ کشف اور کمال کے نزدیک بڑے بڑے تجارب سے ثابت ہوچکی ہے کہ کامل کی دعا میں ایک قوتِ تکوین پیدا ہو جاتی ہے.یعنی بِاذنہٖ تعالیٰ وہ دعا عالم سفلی اور علوی میں تصرف کرتی ہے اور عناصر اور اجرام فلکی اور انسانوں کے دلوں کو اس طرف لے آتی ہے جو طرف مؤیّد مطلوب ہے.خدا تعالیٰ کی پاک کتابوں میں اس کی نظیریں کچھ کم نہیں ہیں بلکہ اعجاز کی بعض اقسام کی حقیقت بھی دراصل استجابت دعا ہی ہے اور جس قدر ہزاروں معجزات انبیا سے ظہور میں آئے ہیں یا جو کچھ کہ اولیائے کرام ان دنوں تک عجائب کرامات دکھلاتے رہے اس کا اصل اور منبع یہی دُعا ہے اور اکثر دعاؤں کے اثر سے ہی طرح طرح کے خوارق قدرت قادر کا تماشا دکھلا رہے ہیں وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک
عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مُردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہوگئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑ گئے.او رآنکھوں کے اندھے بینا ہوئے.اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوئے.اور دُنیا میں یکدفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہؤا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا.اور نہ کسی کان نے سُنا.کچھ جانتے ہو کہ وہ کیاتھا ؟وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دُعائیں ہی تھیں جنہوں نے دُنیا میں شور مچا دیا.اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اُس اُمی بیکس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں.اللھم صل و سلم و بارک علیہ وآلہ بعدد ھمہ و غمہ وحزنہ لھٰذہ الا مۃ و انزل علیہ انوار رحمتک الی الابد.اور میں اپنے ذاتی تجربہ سے بھی دیکھ رہا ہوں کہ دُعاؤں کی تاثیر آب و آتش کی تاثیر سے بڑھ کر ہے.بلکہ اسباب طبعیہ کے سلسلہ میں کوئی چیز ایسی عظیم التاثیر نہیں جیسی کہ دُعا ہے.اور اگر یہ شبہ ہو کہ بعض دُعائیں خطا جاتی ہیں اور اُنکا کچھ اثرمعلوم نہیں ہوتا تو میں کہتا ہوں کہ یہی حال دواؤں کا بھی ہے.کیا دوا ؤں نے موت کادروازہ بند کر دیا ہے؟ یا اُن کا خطا جانا غیر ممکن ہے ؟ مگر کیا باوجود اس بات کے کوئی اُن کی تاثیر سے انکار کرسکتا ہے ؟یہ سچ ہے کہ ہر ایک امر پر تقدیر محیط ہو رہی ہے.مگر تقدیر نے علوم کو ضائع اور بے حرمت نہیں کیا اور نہ اسباب کو بے اعتبار کر کے دکھلایا.بلکہ اگر غور کر کے دیکھو تو یہ جسمانی اور روحانی اسباب بھی تقدیر سے باہر نہیں ہیں.مثلاََ اگر ایک بیمارکی تقدیر نیک ہو تو اسباب علاج پورے طور میسّر آجاتے ہیں اور جسم کی حالت بھی ایسے درجہ پر ہوتی ہے کہ وہ ان سے نفع اٹھانے کے لئے مستعد ہوتا ہے.تب دوا نشانہ کی طرح جا کر اثر کرتی ہے.یہی قاعدہ دُعا کا بھی ہے.یعنی دُعا کے لئے بھی تمام اسباب وشرائط
قبولیت اُسی جگہ جمع ہوتے ہیں جہاں ارادۂ الٰہی اُس کے قبول کرنے کا ہے.خدا تعالیٰ نے اپنے نظام جسمانی اور روحانی کو ایک ہی سلسلہ مؤثرات اور متاثرات میں باندھ رکھا ہے.پس سیّد صاحب کی سخت غلطی ہے کہ وہ نظامِ جسمانی کا تو اقرار کرتے ہیں مگر نظامِ روحانی سے منکر ہو بیٹھے ہیں! بالآخر مَیں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر سیّد صاحب اپنے اس غلط خیال سے توبہ نہ کریں اور یہ کہیں کہ دُعاؤں کے اثر کا ثبوت کیا ہے.تو مَیں ایسی غلطیو ں کے نکالنے کے لیے مامور ہوں.میں وعدہ کرتا ہوں کہ اپنی بعض دُعاؤں کی قبولیت سے پیش از وقت سیّد صاحب کو اطلاع دونگا.اور نہ صرف اطلاع بلکہ چھپوا دونگا.مگر سیّد صاحب ساتھ ہی یہ بھی اقرار کریں کہ وہ بعد ثابت ہوجانے میرے دعویٰ کے اپنے اس غلط خیال سے رجوع کریں گے.سیّد صاحب کا یہ قول ہے کہ گویا قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے تمام دعاؤں کے قبول کرنے کاوعدہ فرمایا ہے حالانکہ تمام دُعائیں قبول نہیں ہوتیں یہ اُنکی سخت غلط فہمی ہے.اور یہ آیت۱ اُن کے مدعا کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتی.کیونکہ یہ دُعا جو آیت ۲ میں بطور امر کے بجالانے کے لئے فرمائی گئی ہے.اس سے مراد معمولی دُعائیں نہیں ہیں.بلکہ وہ عبادت ہے جو انسان پر فرض کی گئی ہے کیونکہ امر کا صیغہ یہاں فرضیت پر دلالت کرتاہے.اور ظاہر ہے کہ کُل دُعائیں فرض میں داخل نہیں ہیں.بلکہ بعض جگہ اللہ جَلّ شانہ نے صابرین کی تعریف کی ہے جو اِنَّالِلّٰہ پر ہی کفایت کرتے ہیں.اور اس دُعا کی فرضیت پر بڑا قرینہ یہ ہے کہ صرف امر پر ہی کفایت نہیں کی گئی بلکہ اس کو عبادت کے لفظ سے یاد کرکے بحالت نافرمانی عذابِ جہنم کی وعید اس کے ساتھ لگا دی گئی ہے.
اور ظاہر ہے کہ دوسری دعاؤں میںیہ وعید نہیں.بلکہ بعض اوقات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کو دُعا مانگنے پر زجر و توبیخ کی گئی ہے چنانچہ ۱اس پر شاہد ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ اگر ہر دُعا عبادت ہوتی تو حضرت نوح علیہ السلام کو لَا تَسْءَلْنِ۲ کا تازیانہ کیوں لگایا جاتا ! اور بعض اوقات اولیا اور انبیا دُعاکرنے کو سوء ادب سمجھتے رہے ہیں اور صلحاء نے ایسی دُعاؤں میں استفتاء قلب پر عمل کیا ہے یعنی اگر مصیبت کے وقت دل نے دُعا کرنے کا فتویٰ دیا تو دُعا کی طرف متوجہ ہوئے اور اگر صبر کے لئے فتویٰ دیا تو پھر صبر کیااور دُعا سے مُنہ پھیر لیا.ماسوا اس کے اللہ تعالےٰ نے دوسری دُعاؤں میں قبول کرنے کا وعدہ نہیں کیا بلکہ صاف فرما دیا ہے کہ چاہوں تو قبول کروں اور چاہوں تو ردّ کروں جیسا کہ یہ آیت قرآن کی صاف بتلا رہی ہے اور وہ یہ ہے ۳ سورۃ الانعام الجزء نمبر۷ اور اگر ہم تنزّلًا مان بھی لیں کہ اس مقام میں لفظ اُدْعُوْسے عام طور پر دُعا ہی مُرادہے تو ہم اس بات کے ماننے سے چارہ نہیں دیکھتے کہ یہاں دُعا سے وہ دُعا مُراد ہے جو بجمیع شرائط ہو.اور تمام شرائط کو جمع کرلینا انسان کے اختیار میں نہیں جب تک توفیق ازلی یاور نہ ہو اور یہ بھی یاد رہے کہ دُعا کرنے میں صرف تضرع کافی نہیں ہے.بلکہ تقویٰ اور طہارت اور راست گوئی اور کامل یقین اور کامل محبت اور کامل توجہ اور یہ کہ جو شخص اپنے لئے دُعا کرتاہے یا جس کے لئے دُعا کی گئی ہے اُسکی دنیا اور آخرت کیلئے اس بات کا حاصل ہونا خلاف مصلحت الٰہی بھی نہ ہو.کیونکہ بسا اوقات دُعا میں اور شرائط تو سب جمع ہو جاتے ہیں.مگر جس چیز کو مانگا گیا ہے وہ عند اللہ سائل کے لئے خلاف مصلحت الٰہی ہوتی ہے.اور اس کے پُورا کرنے میں خیر نہیں ہوتی.مثلاً اگر کسی ماں کا پیارا بچہ بہت الحاح اور رونے سے یہ چاہے کہ وہ آگ کا ٹکڑا یا سانپ کا بچہ اس کے ہاتھ میں پکڑا دے.یا ایک
زہر جو بظاہر خوبصورت معلوم ہوتی ہے اس کو کھلا دے تو یہ سوال اس بچہ کا ہرگز اُس کی ماں پورا نہیں کرے گی.اور اگر پورا کردیوے اور اتفاقاََ بچہ کی جان بچ جاوے لیکن کوئی عضو اس کا بے کار ہو جاوے تو بلوغ کے بعد وہ بچہ اپنی اس احمق والدہ کا سخت شاکی ہوگا اور بجز اسکے اور بھی کئی شرائط ہیں کہ جب تک وہ تمام جمع نہ ہوں اُسوقت تک دُعا کو دُعا نہیں کہہ سکتے.اور جب تک کسی دُعا میں پوری روحانیت داخل نہ ہو اور جس کے لئے دعا کی گئی ہے اور جو دُعا کرتا ہے ان میں استعدادِ قریبہ پیدا نہ ہو تب تک توقع اثرِدعا امید موہوم ہے.اور جب تک ارادۂ الٰہی قبولیت دُعا کے متعلق نہیں ہوتاتب تک یہ تمام شرائط جمع نہیں ہوتیں.اور ہمتیں پوری توجّہ سے قاصر رہتی ہیں.سیّد صاحب اس بات کو بھی مانتے ہیں کہ دارِ آخرت کی سعادتیں او رنعمتیں اور لذّتیں اور راحتیں جن کی نجات سے تعبیر کی گئی ہے ایمان او رایمانی دُعاؤں کا نتیجہ ہیں پھر جبکہ یہ حال ہے تو سیّد صاحب کو ماننا پڑا کہ بلاشبہ ایک مومن کی دُعائیں اپنے اندر اثر رکھتی ہیں اور آفات کے دُور ہونے اور مرادات کے حاصل ہونے کا موجب ہوجاتی ہیں کیونکہ اگر موجب نہیں ہوسکتیں تو پھر کیا وجہ کہ قیامت میں موجب ہوجائیں گی.سوچو اور خوب سوچو کہ اگر درحقیقت دُعا ایک بے تاثیر چیز ہے اور دُنیا میں کسی آفت کے دور ہونے کا موجب نہیں ہو سکتی تو کیا وجہ کہ قیامت کو موجب ہوجائے گی؟ یہ بات تو نہایت صاف ہے کہ اگر ہماری دُعاؤں میں آفات سے بچنے کے لئے درحقیت کوئی تاثیر ہے تو وہ تاثیر اس دُنیا میں بھی ظاہر ہونی چاہیئے تا ہمارا یقین بڑھے اور امید بڑھے اور تا آخرت کی نجات کے لئے ہم زیادہ سرگرمی سے دُعائیں کریں.اور اگر درحقیقت دُعا کچھ چیز نہیں صرف پیشانی کا نوشتہ پیش آنا ہے تو جیسا دنیا کی آفات کیلئے بقول سیّد صاحب! دُعا عبث ہے اسی طرح آخرت کے لئے بھی عبث ہوگی اور اس پر اُمید رکھنا طمع خام.اب میں اس بارے میں زیادہ لکھنا نہیں چاہتا کیونکہ
ناظرین باانصاف میرے اس بیان کو غور سے پڑھ کر سمجھ سکتے ہیں کہ میں نے سیّد صاحب کی غلط فہمی کا ثبوت کافی دے دیا ہے.ماسوا اس کے اگر سیّد صاحب اب بھی اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آویں تو ایک دوسرا طریق بھی اُن پر حجت پورا کرنے کے لئے لکھا گیا ہے.اگر وہ طالب حق ہونگے تو اعراض نہیں کریں گے.اور سیّد صاحب کی دوسری کتاب جسکا نام تحریر فی اصول التفسیر ہے.اُن کی اس کتاب سے بالکل مناقض اور مغائر پڑی ہوئی ہے.گویا سیّد صاحب نے کسی مدہوشی کی حالت میں یہ دونوں رسالے لکھے ہیں.کیونکہ سیّد صاحب استجابت دُعا کے رسالہ میں تو تقدیر کو مقدّم رکھتے ہیں.اور اسباب عادیہ کو گویا ہیچ خیال کرتے ہیں اور اسی بنا پر استجابت دُعا سے انکار کرتے ہیں.کیونکہ دُعا منجملہ اسباب عادیہ کے ہے.جس پر ایک لاکھ سے زیادہ نبی اور کئی کروڑ ولی گواہی دیتا چلا آیا ہے* اور نبیوں کے ہاتھ میں بجُز دُعا کے اور کیا تھا.: قطب ربانی و غوث سبحانی سیّد عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے جس قدر اپنی کتاب فتوح الغیب میں کامل کی توجّہ اوردُعا کا اثر اپنے تجارب کے رو سے لکھا ہے.ہم عام فائدہ کے لئے وہ عبارتیں معہ ترجمہ ذیل میں لکھتے ہیں.اس تحریر سے مطلب یہ ہے کہ ہر ایک فن میں اسی شخص کی شہادت معتبر سمجھی جاتی ہے جو اس فن کا محقق ہوتا ہے.پس اس بنا پر استجابت دُعاء کی فلاسفی اس شخص کو سچے طور پر معلوم ہوسکتی ہے جس کو خدا وند تعالےٰ سے سچّے تعلقات صدق اور محبت کے حاصل ہوں.پس سیّد احمد خان صاحب سے اس پاک فلاسفی کا دریافت کرنا ایسا ہے جیسے ایک بَیطار سے کسی انسان کی مرض کا علاج پوچھنا.سیّد صاحب اگر کسی دنیوی گورنمنٹ کے تعلقات اُن کی رعایا کے ساتھ بیان کریں تو بلا شبہ وہ اس بات کے لائق ہیں.مگر خدا تعالےٰ کی باتیں خدائی لوگ جانتے ہیں.اور وہ عبارت یہ ہے :.فاجعل انت جملتک واجزاء ک اصنامًا مع سائر الخلق ولا تطع شیءًا من ذالک ولا تتبعہ جملۃ فتکون کبریتًا احمر فلا تکاد تری فحینئذٍ تکون وار ث کل نبی و رسول و بک تختم الولایۃ و تنکشف الکروب و بک تسقی الغیوث و بک تنبت الزروع و بک تدفع البلایا والمحن عن الخاص والعام واھل الثغور و تقلبک ید القدرۃ ویدعوک لسان الازل وتنزل منازل من سلف من اولی العلم و یرد علیک التکوین و خرق العادات وتؤمن علی الاسرار والعلوم اللّدنیۃ وغرائبھا.ترجمہ :.یعنی اگر تو خدا تعالیٰ کا مقبول بننا
اور دوسرے رسالہ میں گویا سیّد صاحب تقدیر کو کچھ چیز ہی نہیں سمجھتے کیونکہ تمام اشیاء کو انہوں نے ایک مستقل وجود قرار دے دیا ہے کہ گویا وہ تمام چیزیں خدا تعالےٰ کے ہاتھ سے نکل گئی ہیں.اب اس کو ان کی تبدیل اور تغییر پر کچھ بھی اختیار نہیں.اورگویا اُس کی خدائی فقط ایک تنگ دائرہ میں محدود ہے اور اُس کے قادرانہ تصرفات آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئے ہیں.اور جو اشیاء پر حالت وارد ہے وہ اُس کی تقدیر نہیں بلکہ اب وہ مخلوقات کی ایک ذاتی خاصیت ہے جو بقیہ حاشیہ : چاہتا ہے تو اس بات پر یقین کرلے اور ایسا سمجھ لے کہ تیرے ہاتھ تیرے پاؤں تیری زبان تیری آنکھ اور تیرا سارا وجود اور اس کے تمام اجزاء تیری راہ میں بُت ہی ہیں.اور مخلوق میں سے دوسری تمام چیزیں بھی تیری راہ میں بُت ہیں.تیرے بچّے تیری بیوی اور ہریک دنیا کی مراد جو تو چاہتا ہے اور دنیا کا مال اور دنیا کی عزت اور دنیا کا ننگ وناموس اور دنیا کا رجاء اور خوف اور زید و بکر پر توکل یا خالد و ولید کی ضرر رسانی کا خوف یہ سب تیری راہ میں بُت ہیں.سو تو اِن بتوں میں سے کسی کا فرمانبر دار مت ہو اور سارا اسی کی پیروی میں غرق نہ ہو جا.یعنی صرف بقدر حقوق شرعیہ اور سُنن صالحین اس کی رعایت رکھ.پس اگر تو نے ایسا کر لیا تو تو کبریت احمرہوجائیگا اور تیرا مقام نہایت رفیع ہوگا.یہا ں تک کہ تو نظر نہیں آئے گا.اور خدا تعالےٰ تجھے اپنے نبیوں اور رسولوں کا وارث بنادے گا یعنی اُن کے علوم و معارف اور برکات جو مخفی اور ناپدید ہوگئے تھے.وہ از سرِ نو تجھ کو عطا کئے جائیں گے اور ولایت تیرے پر ختم ہوگی یعنی تیرے بعد کوئی نہیں اُٹھے گا جو تجھ سے بڑا ہو.اور تیری دعاؤں اور تیری عقد ہمّت اور تیری برکت سے لوگوں کے سخت غم دُور کئے جائیں گے اور قحط زدوں کے لئے بارشیں ہوں گی.اور کھیتیاں اُگیں گی اور بلائیں اور محنتیں ہریک خاص وعام کی یہاں تک کہ بادشاہوں کی مصیبتیں تیری توجّہ اور دُعا سے دور ہوں گی.اور ید قدرت تیرے ساتھ ہوگا.اور جس طرف وہ پھرے اسی طرف تو پھرے گا.اور لسان الازل تجھے اپنی طرف بلائے گی.یعنی جو کچھ تیری زبان پر جاری ہوجائیگا وہ خدا وند تعالیٰ کی طرف سے ہوگا اور اس میں برکت رکھی جائے گی اور تُو ان تمام راستبازوں کا قائم مقام کیاجائے گا جن کو تجھ سے پہلے علم دیا گیا.اور تکوین تیرے پر ردّ کی جائے گی.یعنی تیری دُعاء ا ور تیری توجّہ عالم میں تصرف کرے گی.اور پھر اگر تو معدوم کو موجود کرنا یا موجود کو معدوم کرنا چاہے گا تو وہی ہو جائے گا اور امور خارق عادت تجھ سے ظاہر ہوں گے.اور تجھ کو اسرار اور علوم لدنیہ اور معارف غریبہ عطا ہوں گے.جن کے لئے تو امین اور مستحق سمجھا جائے گا.مِنہُ
قابل تغیر و تبدیل نہیں کیونکہ تقدیر کے مفہوم کو اختیار مقدّر لازم پڑا ہؤا ہے.پس ظاہر ہے کہ جن خواص پر خدا تعالیٰ کا کچھ بھی اختیار باقی نہیں رہا.تو پھر اُن خواص کو اُس کی تقدیر کیونکر کہنا چاہیئے اور اگر اختیار ہے تو پھر امکان تبدیل باقی ہے.غرض سیّد صاحب نے اس دوسرے رسالہ میں مقدّر حقیقی کی حکومت تمام چیزوں کے سر پر سے ایسی اُٹھا دی ہے کہ وہ اپنے خواص میں (بقول سیّد صاحب ) تابع مرضی مالک نہیں رہیں.بلکہ ایکٹ مزارعان کی پانچویں دفعہ کے موروثیوں کے لئے جو حقوق انگر یزوں نے قائم کئے ہیں.یعنی یہ کہ مالک کو کسی قسم کے تصرف کا اُن پر اختیار نہیں ہوگا.اسی قسم کے موروثی سیّد صاحب نے بھی تمام چیزوں آگ وغیرہ کو ٹھہرا دیا ہے.بلکہ سیّد صاحب کے قانون میں انگریزوں کے قانون سے زیادہ تشدّد ہے کیونکہ انگریزوں نے پانچویں دفعہ کے موروثی کے اخراج کے لئے ایک صورت قائم بھی کر دی ہے اور وہ یہ کہ جب موروثی ایک سال تک لگان واجب کا ایک حصّہ خواہ ۲؍(دو آنہ) بھی ہوں ادا نہ کرے تو خارج ہوسکتا ہے.مگر سیّد صاحب نے تو ہر حال میں حقوق مالک کو تلف کردیا.اور یہ ظلم عظیم ہے.اور سیّد صاحب نے جو اپنے دوست حریف سے تفسیر قرآن کریم کا معیار مانگا ہے سو میں نے مناسب سمجھا کہ اس جگہ بھی سیّد صاحب کی کسی قدر میں ہی خدمت کردوں کیونکہ بھولے کو راہ بتانا سب سے پہلے میرا فرض ہے.سو جاننا چاہیئے کہ سب سے اوّل معیارتفسیر صحیح کا شواہد قرآنی ہیں.یہ بات نہایت توجّہ سے یاد رکھنی چاہیئ کہ قرآن کریم اور معمولی کتابوں کی طرح نہیں جو اپنی صداقتوں کے ثبوت یا انکشاف کے لئے دوسرے کا محتاج ہو.وہ ایک ایسی متناسب عمارت کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ ہلانے سے تمام عمارت کی شکل بگڑ جاتی ہے.اس کی کوئی صداقت
ایسی نہیں ہے جو کم سے کم دس یا بیس شاہد اس کے خود اُسی میں موجود نہ ہوں.سو اگر ہم قرآن کریم کی ایک آیت کے ایک معنے کریں تو ہمیں دیکھنا چاہیئے کہ ان معنوں کی تصدیق کیلئے دوسرے شواہد قرآن کریم سے ملتے ہیں یا نہیں.اگر دوسرے شواہد دستیاب نہ ہوں بلکہ ان معنوں کے دوسری آیتوں سے صریح معارض پائے جاویں تو ہمیں سمجھنا چاہیئے کہ وہ معنی بالکل باطل ہیں.کیونکہ ممکن نہیں کہ قرآن کریم میں اختلاف ہو.اور سچّے معنوں کی یہی نشانی ہے کہ قرآن کریم میں سے ایک لشکر شواہد بینہ کا اس کا مصدق ہو.دوسرا معیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی تفسیر ہے.اس میں کچھ شک نہیں کہ سب سے زیادہ قرآن کے معنے سمجھنے والے ہمارے پیارے اور بزرگ نبی حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم تھے.پس اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم سے کوئی تفسیر ثابت ہو جائے تو مسلمان کا فرض ہے کہ بلا توقف اور بلادغدغہ قبول کر ے نہیں تو اُس میں الحاد اور فلسفیت کی رگ ہوگی.تیسرا معیار صحابہ کی تفسیر ہے.اِس میں کچھ شک نہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم آنحضرت کے نوروں کو حاصل کرنے والے اور علمِ نبوت کے پہلے وارث تھے اور خدا تعالیٰ کا اُن پر بڑا فضل تھا اور نصرتِ الٰہی اُن کی قوتِ مدرکہ کے ساتھ تھی.کیونکہ اُن کا نہ صرف قال بلکہ حال تھا.چوتھا معیار خود اپنا نفسِ مطہر لے کر قرآن کریم میں غور کرنا ہے.کیونکہ نفسِ مطہرہ سے قرآن کریم کو مناسبت ہے.اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے لَا ۱ یعنی قرآن کریم کے حقائق صرف اُن پر کھلتے ہیں جو پاک دل ہوں.کیونکہ مطہر القلب انسان پر قرآن کریم کے پاک معارف بوجہ مناسبت کھل جاتے ہیں اور وہ اُن کو شناخت کرلیتا ہے اور سُونگھ لیتا ہے.اور اُس کا دل بول اُٹھتا ہے.کہ ہاں یہی راہ سچّی ہے.اور اُس کا نورِ قلب سچائی کی پرکھ کیلئے ایک عمدہ معیار ہوتا ہے.پس جب تک انسان صاحبِ حال نہ ہو اور اِس تنگ راہ سے
گزرنے والا نہ ہو جس سے انبیاء علیہم السلام گزرے ہیں.تب تک مناسب ہے کہ گستاخی اور تکبّر کی جہت سے مفسّرالقرآن نہ بن بیٹھے ورنہ وہ تفسیر بالرائے ہوگی جس سے نبی علیہ السلام نے منع فرمایا ہے اور کہا ہے کہ مَنْ فَسَّرَ الْقُرْاٰنَ بِرَأْیِہٖ فَاَصَابَ فَقَدْ اَخْطَأَ یعنی جس نے صرف اپنی رائے سے قرآن کی تفسیر کی.اور اپنے خیال میں اچھی کی.تب بھی اُس نے بُری تفسیر کی.پانچواں معیار لغت عرب بھی ہے لیکن قرآن کریم نے اپنے وسائل آپ اس قدر قائم کردیئے ہیں کہ چنداں لغات عرب کی تفتیش کی حاجت نہیں ہاں موجب زیادتِ بصیرت بے شک ہے بلکہ بعض اوقات قرآن کریم کے اسرار مخفیہ کی طرف لغت کھودنے سے توجہ پیدا ہوجاتی ہے اور ایک بھید کی بات نکل آتی ہے.چھٹا معیار روحانی سلسلہ کے سمجھنے کے لئے سلسلہ جسمانی ہے.کیونکہ خداوند تعالےٰ کے دونوں سلسلوں میں بکلّی تطابق ہے.ساتواں معیار وحی ولایت اور مکاشفاتِ محدثین* ہیں اور یہ معیار گویا * حاشیہ معیار ہفتم.سیّد صاحب نے اپنی کسی کتاب میں وحی کو معیار صداقت نہیں ٹھہرایا اور نہ ٹھہرانا چاہتے ہیں اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ وحی کو خواہ وہ وحئ نبوت ہو یا وحئ ولایت نظر عزت سے نہیں دیکھتے بلکہ اُس کو صرف ملکۂ فطرت خیال کرتے ہیں سو اُن کی اس رائے کی نسبت بھی اس جگہ کسی قدر بیان کرنا قرین مصلحت ہے سو واضح ہو کہ سیّد صاحب کی یہ بڑی غلط اور سخت فتنہ انداز اور حق سے دُور ڈالنے والی رائے ہے کہ وحی اللہ کو صرف ملکۂ فطرت خیال کرتے ہیں.یہ بات ظاہر ہے کہ انسان کی فطرت میں کئی قسم کے ملکات ہوتے ہیں اور تمام ملکات اس قسم کے ہیں کہ ایک کی طرز اور وضع دوسرے کی طرز اور وضع پر شاہد ہے مثلاََ بعض کی فطرت علمِ حساب اور ہندسہ سے ایک مناسبت رکھتی ہے اور بعض کی علم طب سے اور بعض کی علم منطق اور کلام سے لیکن خودبخود یہ استعداد مخفیہ کسی کو محاسب اور مہندس یا طبیب اور منطقی نہیں بناسکتی بلکہ ایسا شخص تعلیم استاد کا محتاج ہوتا ہے ، اور پھر دانا استاد جب اس شخص کی طبیعت کو ایک خاص علم سے مناسبت دیکھتا ہے تو اس کے پڑھنے کی اس کو رغبت دیتا ہے اسکے مناسب یہ شعر ہے کہ ہر کسے را بہر کارے ساختند میل طبعش اندران انداختند
تمام معیاروں پر حاوی ہے کیونکہ صاحب وحی محدثیت اپنے نبی متبوع کا پورا ہمرنگ ہوتاہے اور بغیر نبوّت اور تجدید احکام کے وہ سب باتیں اُس کو دی جاتی ہیں جو نبی کو دی جاتی ہیں اور اُس پر یقینی طور پر سچی تعلیم ظاہر کی جاتی ہے اور نہ صرف اس قدر بلکہ اُس پر وہ سب امور بطور انعام و اکرام کے وارد ہوجاتے ہیں جو نبی متبوع پر وارد ہوتے ہیں.سو اس کا بیان محض اٹکلیں نہیں ہوتیں بلکہ وہ دیکھ کر کہتا ہے.اور سن کر بولتا ہے اور یہ راہ بقیہ حاشیہ.اس تعلیم یابی کے بعد وہ ملکہ جو تخم کی طرح چھپا ہو ا تھا بھڑک اُٹھتا ہے اور طرح طرح کی باریکیاں اس علم کی اُس کوسُوجھتی ہیں اور جو کچھ اس فن کے متعلق نئے نئے امور من جانب اللہ اسکے دل میں پیدا ہوتے ہیں اگر اُن کا الہام اور القا نام رکھیں تو کچھ بعید نہیں ہوتا کیونکہ بلاشبہ وہ تمام عمدہ باتیں جن سے انسانوں کو نفع پہنچتا ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے دل میں ڈالی جاتی ہیں جیسا کہ اللہ جلّ شانہ بھی درحقیقت اسی کی طرف اشارہ فرما کر کہتا ہے ۱ یعنی بُری باتیں اور نیک باتیں جو انسانوں کے دلوں میں پڑتی ہیں وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی الہام ہوتی ہیں اچھا آدمی اپنی اچھی طبیعت کی وجہ سے اس لائق ہوتا ہے کہ اچھی باتیں اس کے دل میں پڑیں اور بُرا آدمی اپنی بُری طبیعت کی وجہ سے اس لائق ٹھہرتا ہے کہ بُرے خیالات اور بد اندیشی کی تجویزیں اُس کے دل میں پید اہوتی رہیں اور درحقیقت نیک انسان اس قسم کے الہامات کے حاصل کرنے کے لئے فطرتاََ ایک نیک ملکہ اپنے اندر رکھتا ہے اور بُرا انسان فطرتاََ ایک بُرا ملکہ رکھتا ہے چنانچہ اسی ملکہ فطرتی کی و جہ سے بہت سے لوگ اچھی اور بُری تالیفیں اور پاک اور ناپاک ملفوظات اپنی یادگار چھوڑ گئے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا انبیاء کی وحی کی بھی یہی حقیقت ہے کہ وہ بھی درحقیقت ایک ملکہ فطرت ہے جو اس قسم کے القاء سے فیضیاب ہوتا رہتا ہے جس کی تفصیل ابھی بیان ہوئی ہے اگر صرف اتنی ہی بات ہے تو حقیقت معلوم شد کیونکہ انبیاء کی وحی کو صرف ایک ملکۂ فطرت قرار دے کر پھر انبیاء اور اسی قسم کے دوسرے لوگوں میں مابہ الامتیاز قائم کرنا نہایت مشکل ہے.شاید سیّد صاحب اس جگہ یہ فرماویں کہ ہم وحی متلو کے قائل ہیں یعنی قرآن کریم بالفاظ وحی ہے مگر میں سیّد صاحب کی اس حکمت عملی کو خوب سمجھتا ہوں وہ اس وحی متلو کے ہرگز قائل نہیں جس کے ہم لوگ قائل ہیں ظاہر ہے کہ یوں تو کوئی القا الفاظ کے بغیر نہیں ہوتا اور ایسے معانی جو الفاظ سے مجرد ہوں ذہن میں آہی نہیں سکتے لیکن پھر خود قرآن اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم میں بھی ایک فرق ہے اور اُسی فرق کی بنا پر حدیث کے الفاظ کو اس چشمہ سے نکلا ہؤا قرار نہیں دیتے جس چشمہ سے قرآن کے الفاظ نکلے ہیں گو عام القا اور الہام کا مفہوم مدّنظر رکھ کر حدیث کے الفاظ بھی من جانب اللہ ہیں چنانچہ آیت۲
اس اُمت کیلئے کھلی ہے ایساہرگز نہیں ہو سکتا کہ وارث حقیقی کوئی نہ رہے اور ایک شخص جو دنیا کا کیڑا اور دُنیا کے جاہ و جلال اور ننگ وناموس میں مبتلا ہے وہی وارث علم نبوّت ہو کیونکہ خدا تعالیٰ وعدہ کر چکا ہے کہ بجز مطہرین کے علم نبوت کسی کو نہیں دیا جائے گا بلکہ یہ تو اس پاک علم سے بازی کرنا ہے کہ ہر ایک شخص باوجود اپنی آلودہ حالت کے وارث النبی ہونے کا دعویٰ کرے اور یہ بھی ایک سخت جہالت ہے کہ ان وارثوں کے وجود سے انکار کیا جائے اور یہ بقیہ حاشیہ.اس پر شہادت دے رہی ہے.یہ بات تو ہم دوبارہ یاد دلادیتے ہیں کہ گو کسی قسم کا القا ہو الفاظ ہمیشہ ساتھ ہونگے مثلاً ایک شاعر جو ایک مصرعہ کے لئے دوسرا مصرعہ تلاش کر رہا ہے تو جب اس کے ذہن پر منجانب اللہ کوئی القاء ہوگا تو الفاظ کے ساتھ ہی ہوگا.اب جبکہ یہ بات پختہ طور پر فیصلہ پاگئی کہ حکماء اور عرفاء اور شعراء کو بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی القاء ہوتا ہے اور وہ بھی الہام متلو ہی ہوتا ہے اور ان میں سے راستبازوں کو راستی کااور بدوں کوبدی کا ایک ملکہ عطا کیا جاتا ہے اور مناسب حال اس ملکہ کے وقتاًفوقتاً ان کو الہام ہوتا رہتا ہے مثلاً جس نے ریل ایجاد کی اس کو بھی القاء ہی ہؤاتھا او رجو تار برقی کا موجد گزرا ہے وہ بھی ان معنوں کر کے ملہم ہی تھا تو وہی اعتراض جس کا ذکر ہم کرچکے ہیں سیّد صاحب پر وارد ہوگا.اگرسیّد صاحب یہ جواب دیں کہ درحقیقت نفسِ القا میں تو انبیاء اور حکماء بلکہ کافر اور مومن برابر ہیں مگر فرق یہ ہے کہ انبیاء کا القاء ہمیشہ صحیح ہوتا ہے تو ایسے جواب میں سیّد صاحب کو اس بات کا قائل ہونا پڑے گا کہ وحی نبوت کفار کے الہام سے کوئی ذاتی امتیاز نہیں رکھتی صرف یہ زائد امر ہے کہ انبیاء کی وحی غلطی سے پاک ہوتی ہے اور ارسطو اور افلاطون وغیرہ حکماء کی وحی غلطی سے پا ک نہیں تھی لیکن یہ دعویٰ بے دلیل ہے بلکہ سراسر تحکم ہے کیونکہ اس صورت میں ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ وہ حصّہ کثیر حکماء کے مواعظ اور نصائح اور اخلاقی باتوں کا جو غلطیوں سے پاک اور قرآن کے موافق ہے اُس کو بلاشبہ کلام الٰہی سمجھیں اور فرقان حمید کے برابر قرار دے دیں اور اس کی وحی متلو ہونے پر ایمان لاویں اور دوسرا حصّہ جس میں غلطی ہو اس کو اُسی طرح اجتہادی غلطیوں کی َ مد میں داخل کر دیں جیسا کہ انبیاء سے بھی کبھی اجتہادی غلطی ہوجاتی ہے اور پھر اس اصول کے لحاظ سے ایسے حکماء بلکہ کفار کو بھی نبی سمجھ لیں.اب ظاہر ہے کہ درحقیقت یہ ایسا خیال ہے کہ قریب ہے کہ سیّد صاحب کا ایمان اس سے ضائع ہوجائے بلکہ شاید کسی موقعہ پر نیوتن وغیرہ حکماء کی وحی کو قرآن کی وحی سے اعلیٰ سمجھنے لگیں.افسوس کہ اگر سیّد صاحب قرآن کے معنے سمجھنے کے لئے قرآن کو ہی معیار ٹھہراتے تو اس ہلاکت کے گڑھے میں گرنے سے بچ جاتے.قرآن نے کسی جگہ اپنی وحی کی یہ مثال پیش نہیں کی
اعتقاد رکھا جائے کہ اسرار نبوت کو اب صرف بطور ایک گذشتہ قصّہ کے تسلیم کرنا چاہئے.جن کا وجود ہماری نظر کے سامنے نہیں ہے اور نہ ہونا ممکن ہے اور نہ ان کا کوئی نمونہ موجود ہے.بات یوں نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اسلام زندہ مذہب نہ کہلا سکتا بلکہ اور مذہبوں کی طرح یہ بھی مُردہ مذہب ہوتا اور اس صورت میں اعتقا د مسئلہ نبوت بھی صرف ایک قصہ ہوتا جس کا گذشتہ قرنوں کی طرف حوالہ دیا جاتا.مگر خدا تعالیٰ نے ایسا نہیں چاہا کیونکہ وہ خوب جانتا تھا کہ بقیہ حاشیہ.کہ وہ اس چشمہ کی مانند ہے کہ جو زمین سے جوش مارتا ہے بلکہ ہر جگہ یہی مثال پیش کی کہ وہ اُس بارش کی مانند ہے کہ جو آسمان سے نازل ہوتی ہے.اور اگر سیّد صاحب لکھنے کے وقت کسی صاحب حال سے پوچھ لیتے کہ وحی اللہ کیاشے ہے اور کیونکر نازل ہوتی ہے تو تب بھی اس لغزش سے بچ جاتے.اس ٹھوکر سے سیّدصاحب نے ایک جماعت کثیر ہ مسلمان کو تباہ کر دیا اور قریب قریب الحاد اور دہریت کے پہنچا دیا اور وحئ نبوت کی عزت کو کھوکر اس فطرتی ملکہ تک محدود کر دیا جس میں کافر اور بے ایمان بھی شریک ہیں.اس وقت میں محض لِلّٰہ اپنی ذاتی شہادت سیّد صاحب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں شاید خدا تعالےٰ اُن پر فضل کرے.سو اے عزیز سیّد !مجھے اس جل شانہ کی قسم ہے کہ یہ بات واقعی صحیح ہے کہ وحی آسمان سے دل پر ایسی گِرتی ہے جیسے کہ آفتاب کی شعاع دیوار پر.میں ہر روز دیکھتا ہوں کہ جب مکا لمۂ الٰہیہ کا وقت آتا ہے تو اوّل یک دفعہ مجھ پر ایک ربودگی طاری ہوتی ہے تب میں ایک تبدیل یافتہ چیز کی مانند ہوجاتا ہوں اور میری حس اور میرا ادراک اور ہوش گوبگفتن باقی ہوتا ہے مگر اُس وقت میں پاتا ہوں کہ گویا ایک وجود شدید الطاقت نے میرے تما م وجود کو اپنی مٹھی میں لے لیا ہے اور اُس وقت احساس کرتا ہوں کہ میری ہستی کی تمام رگیں اُس کے ہاتھ میں ہیں اور جو کچھ میرا ہے اب وہ میرا نہیں بلکہ اُسکا ہے جب یہ حالت ہوجاتی ہے تو اُس وقت سب سے پہلے خدا تعالیٰ دل کے اُن خیالات کو میری نظر کے سامنے پیش کرتاہے جن پر اپنے کلام کی شعاع ڈالنا اس کو منظور ہوتا ہے تب ایک عجیب کیفیت سے وہ خیالات یکے بعد دیگرے نظر کے سامنے آتے ہیں اور ایسا ہوتا ہے کہ جب ایک خیال مثلاً زید کی نسبت دل میں آیا کہ وہ فلاں مرض سے صحت یاب ہوگا یا نہ ہوگا تو جھٹ اُس پرایک ٹکڑا کلامِ الٰہی کا ایک شعاع کی طرح گِرتا ہے اور بسا اوقات اُس کے گرنے کے ساتھ تمام بدن ہل جاتا ہے پھر وہ مقدمہ طے ہو کر دوسرا خیال سامنے آتا ہے ادھر وہ خیال نظر کے سامنے کھڑا ہوا اور ادھر ساتھ ہی ایک ٹکڑا الہام کا اُس پر گِرا جیسا کہ ایک تیر انداز ہر یک شکار کے نکلنے پر تیر مارتا جاتا ہے اور عین اس وقت میں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ خیالات کا ہمارے ملکۂ فطرت سے پیدا ہوتا ہے اور کلام جو اُس پر گرتا ہے وہ اوپر سے نازل ہوتا ہے
اسلام کے زندہ ہونے کا ثبوت اور نبوت کی یقینی حقیقت جو ہمیشہ ہر ایک زمانہ میں منکرین وحی کو ساکت کرسکے اُسی حالت میں قائم رہ سکتی ہے کہ سلسلہ وحی برنگ محدثیت ہمیشہ کیلئے جاری رہے.سو اُس نے ایسا ہی کیا.محدّث وہ لوگ ہیں جو شرف مکالمہ الٰہی سے مشرف بقیہ حاشیہ.اگرچہ شعراء وغیرہ کو بھی سوچنے کے بعد القا ہوتا ہے مگر اس وحی کو اس سے مناسبت دینا سخت بے تمیزی ہے کیونکہ وہ القا خوض اور فکر کا ایک نتیجہ ہوتا ہے اور ہوش و حواس کی قائمی اور انسانیت کی حد میں ہونے کی حالت میں ظہور کرتا ہے لیکن یہ القا صرف اس وقت ہوتا ہے کہ جب انسان اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا تعالیٰ کے تصرف میں آجاتا ہے اور اپناہوش اور اپنا خوض کسی طور سے اُس میں دخل نہیں رکھتا اُسوقت زبان ایسی معلوم ہوتی ہے کہ گویا یہ اپنی زبان نہیں اور ایک دوسری زبردست طاقت اس سے کام لے رہی ہے.اور یہ صورت جو میں نے بیان کی ہے اس سے صاف سمجھ میں آجاتا ہے کہ فطرتی سلسلہ کیا چیز ہے اور آسمان سے کیا نازل ہوتا ہے؟ بالآخر میں دُعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس منحوس نیچریت کو مسلمانوں کے دلوں سے ایسا دھو دیوے کہ کوئی داغ اس کا باقی نہ رہے کیونکہ اسلام کی برکتیں جس آنکھ سے دیکھی جاتی ہیں وہ آنکھ تب تک نہیں کھلے گی جب تک کہ یہ دُخان آگے سے دُور اور دفع نہیں ہوگا.اے نیچر شوخ اِین چہ ایذاست از دستِ تو فتنہ ہر طرف خاست آن کس کہ رہِ کَجَت پسندِید دیگر نہ گُزید جانبِ راست لیکن چو زِ غور و فکر بِینیم از ماست مصیبتے کہ بر ما است متروک شد است درسِ فرقان زان روز ہجوم این بلاہا است نیچر نہ باصلِ خویش بَد بُود دینِ گم شُد و نُورِ عقل ہا کاست برقطرہ نگون شُدند یک بار رو تافتہ زان طرف کہ دریا است برجنت و حَشَر و نَشَر خَندند کین قصّۂ بعید از خِرَدہا است چوں ذِکرِ فرشتگان بیائد گوید خلافِ عقلِ دانا است اے سیّدِ سرگروہ این قوم ہُشدار کہ پائے تو نہ بر جا است پِیرانہَ سر ایں چہ در سر افتاد رو توبہ کُن ایں نہ راہِ تقواست تَرسم کہ بدینِ قیاس یک روز گوئی کہ خدا خیال بیجا است اے خواجہ برو کہ فکرِ انسان درکارِ خدا ز نوعِ سودا است آخر ز قیاس ہا چہ خیزد بنشین کہ نہ جائے شور و غوغا است اے بندۂ بصیرت از خدا خواہ اسرار خدا نہ خوان یغما است
ہوتے ہیں اور اُن کا جوہر نفس انبیاء کے جوہر نفس سے اشد مشابہت رکھتا ہے.اور وہ خواص عجیبہ نبوّت کے لئے بطور آیات باقیہ کے ہوتے ہیں تا یہ دقیق مسئلہ نزول وحی کا کسی زمانہ میں بے ثبوت ہو کر صرف بطور قصّہ کے نہ ہوجائے اور یہ خیال ہرگز درست نہیں کہ انبیاء علیہم السلام دُنیا سے بے وارث ہی گذر گئے اور اب اُن کی نسبت کچھ رائے ظاہر کرنا بجز قصّہ خوانی کے اور کچھ زیادہ وقعت نہیں رکھتا بلکہ ہر ایک صدی میں ضرورت کے وقت اُن کے وارث پیدا ہوتے رہے ہیں اور اس صدی میں یہ عاجز ہے.خدا تعالیٰ نے مجھ کو اس زمانہ کی اصلاح کیلئے بھیجاہے تا وہ غلطیاں جو بجز خدا تعالیٰ کی خاص تائید کے نکل نہیں سکتی تھیں وہ مسلمانوں کے خیالات سے نکالی جائیں اور منکرین کو سچے اور زندہ خدا کا ثبوت دیا جائے اور اسلام کی عظمت اور حقیقت تازہ نشانوں سے ثابت کی جائے سو یہی ہو رہا ہے.قرآن کریم کے معارف ظاہر ہو رہے ہیں لطائف اور دقائق کلام رباّنی کھل رہے ہیں نشان آسمانی اور خوارق ظہور میں آ رہے ہیں اور اسلام کے حسنوں اور نوروں اور برکتوں کا خدا تعالیٰ نئے سرے جلوہ دکھا رہا ہے جس کی آنکھیں دیکھنے کی ہیں دیکھے اور جس میں سچا جوش ہے وہ طلب کرے اور جس میں ایک ذرّہ حبّ اللہ اور رسول کریم کی ہے وہ اُٹھے اور آزمائے اور خدا تعالیٰ کی اس پسندیدہ جماعت میں داخل ہووے جس کی بنیادی اینٹ اُس نے اپنے پاک ہاتھ سے رکھی ہے.اور یہ کہنا کہ اب وحی ولایت کی راہ مسدود ہے اور نشان ظاہر نہیں ہو سکتے اور دُعائیں قبول نہیں ہوتیں یہ ہلاکت کی راہ ہے.نہ سلامتی کی.خدا تعالیٰ کے فضل کو ردّ مت کرو اُٹھو آزماؤ اور پرکھو پھر اگر یہ پاؤ کہ معمولی سمجھ اور معمولی عقل اور معمولی باتوں کا انسان ہے تو قبول نہ کرو لیکن اگرکرشمہ قدرت دیکھو اور اُسی ہاتھ کی چمک پاؤ جو مؤیدانِ حق اورمکلمانِ الٰہی میں ظاہر ہوتا رہا ہے تو
قبول کرلو اور یقیناً سمجھو کہ خدا تعالیٰ کا اپنے بندوں پر بڑا احسان یہی ہے کہ وہ اسلام کو مُردہ مذہب رکھنا نہیں چاہتا بلکہ ہمیشہ یقین اور معرفت اور الزام خصم کے طریقوں کو کھلا رکھنا چاہتا ہے.بھلا تم آپ ہی سوچو کہ اگر کوئی وحی نبوت کا منکر ہو اور یہ کہے کہ ایسا خیال تمہارا سراسر وہم ہے تو اس کے منہ بند کرنے والی بجز اس کے نمونہ دکھلانے کے اور کونسی دلیل ہو سکتی ہے؟ کیا یہ خوشخبری ہے یا بد خبری کہ آسمانی برکتیں صرف چند سال اسلام میں رہیں اور پھر وہ خشک اور مُردہ مذہب ہوگیا ؟ اور کیا ایک سچّے مذہب کے لئے یہی علامتیں ہونی چاہئیں!!! غرض صحیح تفسیر کے لئے یہ معیار ہیں.اور اس میں کچھ شک نہیں کہ سیّد صاحب کی تفسیر ان ساتوں معیاروں سے اپنے اکثر مقامات میں محروم و بے نصیب ہے.اور اسوقت اس سے تعرض کرنا ہمارا مقصود نہیں.سیّد صاحب کو قانون قدرت پر بڑا ہی ناز تھا مگر اپنی تفسیر میں وہ قانون قدرت کا لحاظ بھی چھوڑ گئے.مثلاََ اُن کا یہ اعتقاد کہ وحی نبوت بجز اپنے ہی فطرت کے ملکہ کے اور کچھ چیز نہیں اور اس میں اور خدا تعالیٰ میں ملائکہ کا واسطہ نہیں.کس قدر خدا تعالیٰ کے قانون قدرت کے مخالف ہے.ہم صریح دیکھتے ہیں کہ ہم اپنے جسمانی قویٰ کی تکمیل کے لئے آسمانی توسط کے محتاج ہیں.ہمارے اس بدنی سلسلہ کے قیام اور اغراض مطلوبہ تک پہنچانے کے لئے خدا تعالےٰ نے آفتاب اور مہتاب اور ستاروں اور عناصر کو ہمارے لئے مسخر کیا ہے.او رکئی وسائط کے پیرایہ میں ہو کر اس علت العلل کا فیض ہم تک پہنچتا ہے اور بے واسطہ ہر گز نہیں پہنچتا.مثلاً اگرچہ ہماری آنکھوں کو تو نور خدا وند تعالیٰ ہی سے ملتا ہے کیونکہ وہی تو علت العلل ہے.مگر وہ آفتاب کے واسطے سے ہماری آنکھوں تک پہنچاتا ہے ہم ایک چیز بھی نظام ظاہری میں ایسی نہیں دیکھتے جسکو خدا تعالیٰ بلاواسطہ آپ ہی اپنا مبارک ہاتھ لمبا کرکے ہمیں دیدے.
بلکہ ہر ایک چیز وسائط کے ذریعہ سے ہی ملتی ہے.پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہمارے ظاہری قویٰ کی خلقت تام نہیں ہے یعنی ایسانہیں ہے کہ مثلاََ مستقل طور پر روشن ہوں اور آپ کے مجوزہ ملکہ وحی کی طرح ایسا اُن میں ملکہ موجود ہو جو آفتاب کے واسطہ سے ہم کو مستغنی کردے.پھر اس نظام کے برخلاف بے اصل باتیں آپ کی کیونکر صحیح ٹھہرسکیں.ماسوا اس کے ذاتی تجارب کی شہادت جو سب شہادتوں سے بڑھ کر ہے آپ کی ا س رائے کی سخت تکذیب کرتی ہے کیونکہ یہ عاجز قریباََ گیارہ برس سے شرف مکالمہ الٰہیہ سے مشرف ہے اور اس بات کو بخوبی جانتا ہے.کہ وحی درحقیقت آسمان سے ہی نازل ہوتی ہے.وحی کی مثال اگر دنیا کی چیزوں میں سے کسی چیز کے ساتھ دی جائے.تو شاید کسی قدر تار برقی سے مشابہ ہے جو اپنے ہر یک تغیر کی آپ خبر دیتی ہے.میں نے دیکھا ہے کہ اس وحی کے وقت جو برنگ وحی ولایت میرے پرنازل ہوتی ہے.ایک خارجی اور شدید الاثر تصرف کا احساس ہوتا ہے.اور بعض دفعہ یہ تصرف ایسا قوی ہوتا ہے کہ مجھ کو اپنے انوار میں ایسا دبا لیتا ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ میں اُس کی طرف ایسا کھینچا گیا ہوں کہ میری کوئی قوت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی.اس تصرف میں کھلا اور روشن کلام سُنتا ہوں.بعض وقت ملائکہ کو دیکھتا ہوں*اور سچائی میں جو اثر اور ہیبت ہوتی ہے مشاہدہ کرتا ہوں اور وہ کلام بسا اوقات غیب کی باتوں پر مشتمل ہوتا ہے.اور ایسا تصرف اور اخذ خارجی ہوتا ہے.جس سے خدا تعالیٰ کا ثبوت ملتا ہے.اب اس سے انکار کرنا ایک کھلیکھلی صداقت کا خون کرنا ہے.مناسب ہے کہ سیّد صاحب موت سے پہلے اس صداقت کو آج مان لیں.اور آسمانی وحی کی توہین نہ کریں.تعجب ہے کہ وہ نظامِ ظاہری کو تو دیکھتے ہیں اور پھر نظام باطنی کا *نوٹ :.صرف اتنا ہی نہیں کہ ملائک بعض وقت نظر آتے ہیں بلکہ بسا اوقات ملائک کلام میں اپنا واسطہ ہونا ظاہر کر دیتے ہیں.منہ
اس پر قیاس نہیں کرتے.نہیں سمجھتے کہ وہ خدا جس نے ہمارے نظام جسمانی کو اس طرح بنایا کہ آسمان سے ظاہری روشنی ہمارے لئے اترتی ہے اور حقیقی مؤثر آسمانی وسائط کے ذریعہ سے ہمارے جسمانی قویٰ پر اپنا فیض نازل کرتا ہے.اور بغیر واسطہ علل کے کوئی فیض نازل کرنا اس کی عادت ہی نہیں تو پھر کیونکر وہ خدا ہمارے روحانی نظام میں اس سلسلۂ وسائط سے بالکل ہم کو منقطع کر دیوے.کیا جسمانی طور سے ہم اس سلسلہ سے منقطع ہیں.یا درحقیقت ایک سلسلہ وسائط میں بندھے ہوئے ہیں جو علت العلل سے شروع ہو کر ہم تک پہنچتا ہے.اس بحث پر غور کرنے کے لئے ہماری کتاب توضیح مرام اور آئینہ کمالات اسلام دیکھنی چاہئے خاص کر فرشتوں کی ضرورت میں جس قدر مبسوط بحث آئینہ کمالات اسلام میں ہے اس کی نظیر کسی دوسری کتاب میں نہیں پاؤ گے.اور سیّد صاحب کی خدا شناسی کا اندازہ معلوم کرنے کے لئے یہ ان کے اقوال کافی ہیں.کہ وہ مخلوقات کو مقدّر حقیقی کے تصرفوں اور حکومتوں سے بے نیاز کر بیٹھے ہیں.نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ کی خدائی اس کی قدرت کاملہ سے وابستہ ہے.اور قدرت اِسی کا نام ہے کہ اُس کے تصرفات اُس کی مخلوقات پر ہر آن غیر محدود ہوں.بلاشبہ یہ سچ ہے کہ اگر اس مخلوقات کو اس نے پیدا کیا ہے تو اپنی غیر محدود ذات کی طرح غیرمحدود تصرفات کی گنجائش بھی رکھ لی ہوگی.تا کسی درجہ پر اس کی خدائی کا تعطل لازم نہ آوے* اور اگر نعوذ باللہ آریہ ہندوؤں کا قول صحیح ہے * حاشیہ:.اگریہ اعتراض کیا جائے کہ اس بات کے ماننے سے کہ خدا تعالیٰ کی غیرمتناہی حکمت استحالات غیرمتناہیہ پر قادر ہے.حقائق اشیاء سے امان اٹھ جاتا ہے.مثلاً اگر خدا تعالیٰ اس بات پرقادر سمجھاجائے کہ پانی کی صورت نوعیہ کو سلب کرکے ہوا کی صورت نوعیہ اس جگہ رکھ دے یاہوا کی صورت نوعیہ کو سلب کرکے آگ کی صورت نوعیہ اس کی قائم مقام کردے یا آگ کی صورت نوعیہ کو سلب کرکے ان مخفی اسباب سے جو اس کے علم میں ہیں پانی کی صورت نوعیہ میں لے آوے یامٹی کو کسی زمین کی تہ میں تصرفات لطیفہ سے سونا بنادے یا سونے کو مٹی بنا دے تو اس سے امان اٹھ جائے گا اور علوم و فنون ضائع ہو جائیں گے.تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ خیال سراسر فاسد ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ
کہ پرمیشور ارواح اور ذرات عالم کا پیدا کرنے والا نہیں تو اس صورت میں بلاشبہ ایسا کمزور پرمیشور کسی حد تک کچھ ضعیف سی حکومت کر کے پھر ٹھہر جائے گا.اور ایک رسوائی کے ساتھ اس کی پردہ دری ہوگی.مگر ہمارا خداوند قادر مطلق ایسا نہیں ہے.وہ تمام ذرات عالم اور ارواح اور جمیع مخلوقات کو پیدا کرنے والا ہے.اس کی قدرت کی نسبت اگر کوئی سوال کیا جائے تو بجز اُن خاص باتوں کے جو اسکی صفات کاملہ اور مواعید صادقہ کے منافی ہوں.باقی سب امور پر وہ قادر ہے بقیہ حاشیہ : خدا تعالیٰ اپنی مخفی حکمتوں کے تصرف سے عناصر وغیرہ کو صدہا طور کے استحالات میں ڈالتا رہتا ہے ایک زمین کو ہی دیکھو کہ وہ انواع اقسام کے استحالات سے کیا کچھ بنتی رہتی ہے اسی سے سم الفار نکل آتا ہے اور اسی سے فاذ زہر اور اسی سے سونا اور اسی سے چاندی اور اسی سے طرح طرح کے جواہرات اور ایسا ہی بخارات کا صعود ہوکر کیا کیا چیزیں ہیں جو جَوّ آسمان میں پیدا ہو جاتی ہیں انہیں بخارات میں سے برف گرتی ہے اور انہیں سے اولے بنتے ہیں اور انہیں میں سے برق اور انہیں میں سے صاعقہ اور یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ کبھی جَوّ آسمان سے راکھ بھی گرتی ہے تو کیا ان حالات سے علم باطل ہو جاتے ہیں یا امان اٹھ جاتا ہے اور اگر یہ کہو کہ ان چیزوں میں تو خدا تعالیٰ نے پہلے ہی سے ان کی فطرت میں ان تمام استحالات کا مادہ رکھا ہے تو ہمارا یہ جواب ہوگا کہ ہم نے کب اور کس وقت کہا ہے کہ اشیاء متنازعہ فیہا میں ایسا مادّہ متشارکہ نہیں رکھا گیا بلکہ صحیح اور سچا مذہب تو یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو اپنی ذات میں واحد ہے تمام اشیاء کو شئے واحد کی طرح پیدا کیا ہے تا وہ موجد واحد کی وحدانیت پر دلالت کریں.سو خدا تعالیٰ نے اسی وحدانیت کے لحاظ سے اور نیز اپنی قدرت غیر محدودہ کے تقاضا سے استحالات کا مادہ اُن میں رکھا ہے اور بجز اُن روحوں کے جو اپنی سعادت اور شقاوت میں ۱کے مصداق ٹھہرائے گئے ہیں اور وعدہ الٰہی نے ہمیشہ کے لئے ایک غیر متبدل خلقت ان کے لئے مقرر کر دی ہے باقی کوئی چیز مخلوقات میں سے استحالات سے بچی ہوئی معلوم نہیں ہوتی بلکہ اگر غور کر کے دیکھو تو ہر وقت ہر یک جسم میں استحالہ اپنا کام کر رہا ہے یہاں تک کہ علم طبعی کی تحقیقاتوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ تین برس تک انسان کا جسم بدل جاتا ہے اور پہلا جسم ذرات ہوکر اڑ جاتا ہے.مثلاً اگر پانی ہے یا آگ ہے تو وہ بھی استحالہ سے خالی نہیں اور دو طور کے استحالے ان پر حکومت کر رہے ہیں ایک یہ کہ بعض اجزا نکل جاتے ہیں اور بعض اجزا جدیدہ آملتے ہیں.دوسرے یہ کہ جو اجزا نکل جاتے ہیں وہ اپنی استعداد کے موافق دوسرا جنم لے لیتے ہیں.غرض اس فانی دنیا کو استحالات کے چرخ پر چڑھائے رکھنا خدا تعالیٰ کی ایک سنت ہے اور ایک باریک نگاہ سے معلوم ہوتا ہے کہ
اور یہ بات کہ گو وہ قادر ہو مگر کرنا نہیں چاہتا یہ عجیب بے ہودہ الزام ہے جب کہ اس کی صفات میں۱ بھی داخل ہے.اور ایسے تصرفات کہ پانی سے برودت دور کرے.یا آگ سے خاصیت احراق زائل کر دیوے اس کی صفات کاملہ اور مواعید صادقہ کی منافی نہیں ہیں تو پھر کیوں تحکم کی راہ سے کہا جائے کہ ہمیشہ کے لئے اس پر لازم ہوگیا ہے کہ بقیہ حاشیہ : یہ سب چیزیں بوجہ وحدت مبدء فیض اپنی اصل ماہیت میں ایک ہی ہیں گو ان چیزوں کا کامل کیمیا گر انسان نہیں بن سکتا اور کیونکر بنے حکیم مطلق نے اپنے اسرار حکمیہ غیر متناہیہ پر کسی دوسرے کو محیط نہیں کیا.اور اگر یہ کہو کہ اجرام علوی میں استحالات کہاں ہیں تو میں کہتا ہوں کہ بیشک ان میں بھی استحالات اور تحلیلات کا مادہ ہے گو ہمیں معلوم نہ ہو تبھی تو ایک دن زوال پذیر ہو جائیں گے.ماسوا اسکے ہزار ہا چیزوں کے استحالات پر نظر ڈال کر ثابت ہوتا ہے کہ کوئی چیز استحالہ سے خالی نہیں.سو تم پہلے زمین کے استحالات سے انکار کرلو پھر آسمان کی بات کرنا.تو کار زمین را نکو ساختی کہ با آسماں نیز پرداختی غرض جب انواع اقسام کے استحالات ہر روز مشاہدہ میں آتے ہیں اور وحدت ذاتی الہٰی کا یہ تقاضا بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام چیزوں کا منبع اور مبدء ایک ہو اور خدا تعالیٰ کی الوہیت تامہ بھی تبھی قائم رہ سکتی ہے کہ جب ذرہ ذرہ پر اس کا تصرف تام ہو تو پھر یہ استبعاد اور یہ اعتراض کہ ان استحالات سے امان اٹھ جائے گا اور علوم ضائع ہوں گے اگر سخت غلطی نہیں تو اور کیا ہے اور ہم جو کہتے ہیں کہ اللہ جلّ شانہ قادر ہے کہ پانی سے آگ کا کام لیوے یا آگ سے پانی کا کام تو اس سے یہ مطلب تو نہیں کہ اپنی حکمت غیر متناہی کو اس میں دخل نہ دے یونہی تحکم سے کام لے لیوے کیونکہ خدا تعالیٰ کا کوئی فعل آمیزش حکمت سے خالی نہیں اور نہ ہونا چاہئے بلکہ ہمارا یہ مطلب ہے کہ جس وقت وہ پانی سے آگ کا کام یا آگ سے پانی کا کام لینا چاہے تو اس وقت اپنی اس حکمت کو کام میں لائے گا جو اس عالم کے ذرہ ذرہ پر حکومت رکھتی ہے گو ہم اس سے مطلع ہوں یا نہ ہوں اور ظاہر ہے کہ جو حکمت کے طور پر کام ہو وہ علوم کو ضائع نہیں کرتا بلکہ علوم کی اس سے ترقی ہوتی ہے.دیکھو مصنوعی طور پر پانی کی برف بنائی جاتی ہے یا برقی روشنی پیدا کی جاتی ہے.تو کیا اس سے امان اٹھ جاتا ہے یا علم ضائع ہو جاتے ہیں.اس جگہ ایک اور سرّ یاد رکھنے کے لائق ہے اور وہ یہ ہے کہ اولیاء سے جو خوارق کبھی
ان چیزوں کی خاصیت میں کبھی تصرف نہ کرے!!! اس لزوم پر دلیل کیا ہے.اور وجہ کیا اور خدا تعالیٰ کو اس بے وجہ التزام کی جو اس کی خدائی کو بھی داغ لگاتا ہے ضرورت کیا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ اس رسالہ میں سیّد صاحب بھی اس کمزور خیال کے بودے پن کو سمجھ گئے ہیں اس لئے اپنے رکیک قول کے قائم رکھنے کے لئے انہوں نے ایک اور رکیک عذر پیش کیا ہے.اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں کسی جگہ آگ کے گرم ہونے بقیہ حاشیہ : اس قسم کے ظہور میں آتے ہیں کہ پانی ان کو ڈبو نہیں سکتا اور آگ ان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی اس میں بھی دراصل یہی بھید ہے کہ حکیم مطلق جس کی بے انتہا اسرار پر انسان حاوی نہیں ہو سکتا اپنے دوستوں اور مقربوں کی توجّہ کے وقت کبھی یہ کرشمہ قدرت دکھلاتا ہے کہ وہ توجّہ عالم میں تصرف کرتی ہے اور جن ایسے مخفی اسباب کے جمع ہونے سے مثلاً آگ کی حرارت اپنے اثر سے رک سکتی ہے خواہ وہ اسباب اجرام علوی کی تاثیریں ہوں یا خود مثلاً آگ کی کوئی مخفی خاصیت یا اپنے بدن کی ہی کوئی مخفی خاصیت یا ان تمام خاصیتوں کا مجموعہ ہو وہ اسباب اس توجّہ اور اس دعا سے حرکت میں آتی ہیں.تب ایک امر خارق عادت ظاہر ہوتا ہے مگر اس سے حقائق اشیاء کا اعتبار نہیں اٹھتا اور نہ علوم ضائع ہوتے ہیں بلکہ یہ تو علوم الٰہیہ میں سے خود ایک علم ہے اور یہ اپنے مقام پر ہے اور مثلاً آگ کا محرق بالخاصیت ہونا اپنے مقام پر.بلکہ یوں سمجھ لیجئے کہ یہ روحانی مواد ہیں جو آگ پر غالب آکر اپنا اثر دکھاتے ہیں اور اپنے وقت اور اپنے محل سے خاص ہیں.اس دقیقہ کو دنیا کی عقل نہیں سمجھ سکتی کہ انسان کامل خدا تعالیٰ کی روح کا جلوہ گاہ ہوتا ہے اور جب کبھی کامل انسان پر ایک ایساوقت آجاتا ہے کہ وہ اس جلوہ کا عین وقت ہوتا ہے تو اس وقت ہر یک چیز اس سے ایسی ڈرتی ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ سے.اس وقت اس کو درندہ کے آگے ڈال دو ، آگ میں ڈال دو وہ اس سے کچھ بھی نقصان نہیں اٹھائے گا کیونکہ اس وقت خدا تعالیٰ کی روح اس پر ہوتی ہے اور ہریک چیز کا عہد ہے کہ اس سے ڈرے.یہ معرفت کا اخیری بھید ہے جو بغیر صحبت کاملین سمجھ میں نہیں آسکتا.چونکہ یہ نہایت دقیق اور پھر نہایت درجہ نادر الوقوع ہے اس لئے ہرایک فہم اس فلاسفی سے آگاہ نہیں مگر یاد رکھو کہ ہریک چیز خدا تعالیٰ کی آواز سنتی ہے ہر یک چیز پر خدا تعالیٰ کا تصرف ہے اور ہریک چیز کی تمام ڈوریاں خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اس کی حکمت ایک بے انتہا حکمت ہے جو ہر یک ذرہ کی جڑ تک پہنچی ہوئی ہے اورہر یک چیز میں اتنی ہی خاصیتیں ہیں جتنی اس کی قدرتیں ہیں.جو شخص اس بات پر ایمان نہیں لاتا وہ اس گروہ میں داخل ہے جو
کی طرف اشارہ کیا ہے.اور کسی جگہ پانی کے سَرد ہونے کی طرف ایما فرمایا ہے.اور کبھی کہا ہے کہ سُورج مشرق سے مغرب کی طرف جاتا ہے.تو یہ بیانات جو حالات موجودہ کے اظہار کے لئے ہیں سیّد صاحب کی نظر میں بطور وعدہ کے ہیں جن میں تغییر تبدیل ممکن نہیں اگر استخراجِ دلائل کا یہی طریق ہے تو سیّد صاحب پر بڑی مشکل پڑے گی اور اُن کو ماننا پڑے گا کہ تمام بیانات قرآن کریم کے مواعید میں داخل ہیں.مثلاً خدا تعالیٰ نے جو حضرت زکریاکو بشارت دیکر فرمایا3 ۱ تو بموجب قاعدہ سیّد صاحب کے چاہیئے تھا کہ حضرت یحیی ہمیشہ غلام یعنی لڑکے ہی رہتے.کیونکہ خدا تعالیٰ نے حضرت یحیی کو غلام کر کے پکارا ہے.اور یہ وعدہ ہوگیا.ایسی ہی اور بیسوں مثالیں ہیں سب کو بیان کرنا صرف وقت ضائع کرنا ہے.اگر سیّد صاحب کی نظر میں واقعات موجودہ کے بیان کرنے سے آئندہ کے لئے اور ہمیشہ کے لئے کوئی وعدہ لازم آجاتا ہے تو ان سے ڈرنا چاہیئے کہ ایسا ہی وہ بات بات میں انسانوں پر الزام لگائیں گے.اور ایک موجودہ واقعہ کے بیان کرنے کو وہ ایک دائمی وعدہ سمجھ لیں گے.میرے نزدیک بہتر ہے کہ سیّد صاحب اپنے آخری دن کو یادکرکے چند ماہ اس عاجز کی صحبت میں رہیں.اور چونکہ میں مامور ہوں اور مبشّر ہوں اس لئے میں وعدہ کرتا ہوں کہ سیّد صاحب کے اطمینان کے لئے توجّہ کروں گا.اور اُمید رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کوئی ایسا نشان دکھلائے کہ سیّد صاحب کے مجوزہ قانون قدرت بقیہ حاشیہ: ۲ کے مصداق ہیں.اور چونکہ انسان کامل مظہر اتم تمام عالم کا ہوتا ہے اس لئے تمام عالم اس کی طرف وقتاً فوقتاً کھینچا جاتا ہے وہ روحانی عالم کا ایک عنکبوت ہوتا ہے اور تمام عالم اس کی تاریں ہوتی ہیں اور خوارق کا یہی سرّ ہے.بر کاروبار ہستی اثری صد عارفان را زجہان چہ دید آن کس کہ ندید این جہان را
کو ایک دم میں خاک میں ملادیوے اور اس قسم کے کام اب تک بہت ظہور میں آئے ہیں کہ جو سیّد صاحب کی نظر میں قانون قدرت کے مخالف ہیں.مگر اُن کا بیان کرنا بے فائدہ ہے کہ سیّدصاحب اس کو ایک قصّہ سمجھیں گے.سیّد صاحب وحئ ولایت کی ایسی پیشگوئیوں سے بھی تو منکر ہیں جو بذریعہ الہام اولیا ء اللہ کو معلوم ہوتے ہیں.اور اُن کی نظر میں وہ ایسی ہی خلافِ قانون قدرت ہیں جیسا کہ آگ کا اپنی خاصیتِ احراق کو چھوڑ دینا.ایسا ہی دُعا کی ذاتی تاثیرات بھی جن کے ذریعہ سے وہ مطلب حاصل ہوجاتا ہے.جس کیلئے دُعا کی گئی سیّد صاحب کی نظر میں خلاف قانون قدرت ہیں.سو اگر سیّد صاحب میرے پاس آ نہیں سکتے تو ان دونوں باتوں میں ہی وعدہ قبولِ حق کر کے مجھ کو اجازت دیں کہ اُن کی نسبت جناب الٰہی میں توجّہ کر کے جو کچھ ظاہر ہو وہ شائع کروں اس سے عام لوگوں کو فائدہ ہوجائیگا.اگر سیّد صاحب کی رائے درحقیقت درست ہے ، تو میں اپنے مطلب میں کامیاب نہیں ہوں گا.ورنہ عقلمند لوگ سیّد صاحب کے خراب عقیدوں سے نجات پا کر پھر اپنے عظیم الشان خدا تعالیٰ کو پہچان لیں گے اور محبت سے اُس کی طرف رجوع کریں گے.اور دُعا کے وقت اُس کی رحمتوں سے نااُمید نہیں ہونگے.اور ہاتھ اُٹھانے کے وقت لذّت اٹھا ئینگے.اور خدا تعالیٰ کے وجود کا فائدہ بھی تو یہی ہے کہ ہماری دُعائیں سُنے اور آپ اپنے وجود سے ہمیں خبر دے.نہ کہ ہم ہزار ہزار تکلیف سے ایک بُت کی طرح ایک فرضی خدا دل میں قائم کریں.جس کی ہم آواز نہیں سُن سکتے.اور اُس کی نمایاں قدرت کا کوئی جلوہ نہیں دیکھ سکتے.یقیناً سمجھو کہ وہ قادر خدا موجود ہے جو ہر چیز پر قادر ہے.وما غلت ایدیہ بل یداہ مبسوطتان ینفق کیف یشاء و یفعل مایرید.و ھو علی کل شیء قدیر.واٰخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین.
رُوئے دلبر از طلبگاراں نمی دارد حجاب می درخشَددر خورو می تابد اندر ماہتاب لیکن آن روئے حَسِین از غافلاں مانَد نہاں عاشقی باید کہ بردارند از بہرش نقاب دامنِ پاکش زِنَخْوت ہا نمی آید بَدَست ہیچ راہی نیست غَیر از عجزودرد و اِضطراب بس خطرناک است راہِ کُوچۂ یارِ قدیم جاں سلامت بایدت از خودروی ہا سربتاب تا کلامش فہم و عقلِ ناسزایاں کم رَسَد ہر کہ از خود گم شود اویا بداں راہِ صواب مشکلِ قرآن نہ از ابناء دُنیا حل شود ذوق آں می داندآں مستی کہ نوشدآں شراب اَیکہ آگاہی ندادندت ز انوارِ دروں درحقِ ماہر چہ گوئی نیستی جائے عتاب از سرِ وعظ و نصیحت این سخن ہا گفتہ ایم تا مگر زین مرہمی بہ گردد آں زخمی خراب از دعا کن چارۂ آزارِ انکارِ دُعا چون علاج می زمی وقتِ خُمارو اِلتہاب اَیکہ گوئی گر دُعاہا را اثربودے کجاست سوئی من بشتاب بنمایم ترا چون آفتاب ہان مکن انکار زین اسرار قدرت ہائے حق قِصہ کوتہ کن بہ بیں ازمادُعائے مستجاب دیکھوصفحہ ۲.۳.۴ سرورق * لیکھر ام پشاوری کی نسبت ایک اورخبر آج ۲.اِپریل ۱۸۹۳ء مطابق ۱۴ ماہ رمضان ۱۳۱۰ھ ہے صبح کے وقت تھوڑی غنودگی کی حالت میں َ میں نے دیکھا کہ میں ایک وسیع مکان میں بیٹھا ہو ا ہوں اور چند دوست بھی میرے پاس موجود ہیں.اتنے میں ایک شخص قوی ہیکل مہیب شکل گویا اُس کے چہرے پر سے خون ٹپکتا ہے میرے سامنے آکر کھڑا ہوگیا.میں نے نظر اُٹھا کر دیکھا تو مجھے معلوم ہؤا کہ وہ ایک نئی خلقت اور شمائل کا شخص ہے گویا انسان نہیں ملائک شدّا د غلاظ میں سے ہے اور اسکی ہیبت دلوں پر طاری تھی اور میں اُسکو دیکھتا ہی تھا کہ اُس نے مجھ سے پوچھا کہ لیکھرام کہاں ہے اور ایک اور شخص کا نام لیا کہ وہ کہاں ہے تب میں نے اُسوقت سمجھا کہ یہ شخص لیکھرام اور اس دوسرے شخص کی سزا دہی کیلئے مامور کیا گیا ہے مگر مجھے معلوم نہیں رہا کہ وہ دوسرا شخص کون ہے ہاں یقینی طور پر یاد ہے کہ وہ دوسرا شخص انہیں چند آدمیوں میں سے تھا جن کی نسبت میں اشتہار دے چکا ہوں اور یہ یکشنبہ کا دن اور ۴ بجے صبح کا وقت تھا.فالحمد للّٰہ علٰی ذالک.
اس کو غور سے پڑھو کہ اس میں آپ لوگوں کے لئے خوشخبری ہے بخدمت امراء و رئیسان وُ منعمان ذی مقدرت و والیان ارباب حکومت ومنزلت بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الِکَرِیْمِ اے بزرگانِ اسلام خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے دلوں میں تمام فرقوں سے بڑھ کر نیک ارادے پیدا کرے اور اس نازک وقت میں آپ لوگوں کو اپنے پیارے دین کاسچا خادم بناوے.میں اس وقت محض لِلّٰہ اس ضروری امر سے اطلاع دیتا ہوں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس چودھویں صدی کے سر پر اپنی طرف سے مامور کرکے دین متین اسلام کی تجدید اور تائید کے لئے بھیجا ہے تا کہ میں اس پُرآشوب زمانہ میں قرآن کی خوبیاں اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی عظمتیں ظاہر کروں اور اُن تمام دشمنوں کو جو اسلام پر حملہ کر رہے ہیں اُن نوروں اور برکات اور خوارق اور علوم لدنیہ کی مدد سے جواب دوں جو مجھ کو عطا کئے گئے ہیں سو یہ کام برابر دس برس سے ہو رہا ہے لیکن چونکہ وہ تمام ضرورتیں جو ہم کو اشاعتِ اسلام کیلئے درپیش ہیں بہت سی مالی امدادات کی محتاج ہیں اس لئے میں نے یہ ضروری سمجھا کہ بطور تبلیغ آپ صاحبوں کو اطلاع دوں سو سنو اے عالیجاہ بزرگو.ہمارے لئے اللہ جلّ شانہٗ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی راہ میں یہ مشکلات درپیش ہیں کہ ایسی تالیفات کے لئے جو لاکھوں آدمیوں میں پھیلانی چاہیئے بہت سے سرمایہ کی حاجت ہے اور اب صورت یہ ہے کہ اوّل تو
ان بڑے بڑے مقاصد کے لئے کچھ بھی سرمایہ کا بندوبست نہیں اور اگر بعض پُرجوش مردانِ دین* کی ہمت اور اعانت سے کوئی کتاب تالیف ہو کر شائع ہو تو بباعث کم توجہی اور غفلت زمانہ کے وہ کتاب بجز چند نسخوں کے زیادہ فروخت نہیں ہوتے اور اکثر نسخے اس کے یا تو سالہا سال صندوقوں میں بند رہتے ہیں یا ِ للہ مفت تقسیم کئے جاتے ہیں اور اس طرح اشاعتِ ضروریاتِ دین میں بہت سا حرج ہورہا ہے اور گو خدا تعالیٰ اس جماعت کو دن بدن زیادہ کرتا جاتا ہے مگر ابھی تک ایسے دولتمندوں میں سے ہمارے ساتھ کوئی بھی نہیں کہ کوئی حصّہ معتدبہ اس خدمتِ اسلام کا اپنے ذمہ لے لے اور چونکہ یہ عاجز خدا تعالیٰ سے مامور ہو کر تجدید دین کے لئے آیا ہے اور مجھے اللہ جلّ شانہٗ نے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ وہ بعض امراء اور ملوک کو بھی ہمارے گروہ میں داخل کرے گا اور مجھے اُس نے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دُونگا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.سو اسی بنا پر آج مجھے خیال آیا کہ میں ارباب دولت اور مقدرت کو اپنے کام کی نصرت کے لئے تحریک کروں.اور چونکہ یہ دینی مدد کا کام ایک عظیم الشان کام ہے اور انسان اپنے شکوک اور شبہات اور وساوس سے خالی نہیں ہوتا اور بغیر شناخت وہ صدق بھی پیدا نہیں ہوتا جس سے ایسی بڑی مددوں کا حوصلہ ہوسکے اس لئے میں تمام امراء کی خدمت میں بطور عام اعلان کے لکھتا ہوں کہ اگر ان کو بغیر آزمائش ایسی مدد میں تامل ہو تو وہ اپنے بعض مقاصد اور مہمات اور مشکلات کو اس غرض سے میری طرف لکھ بھیجیں کہ تا میں اُن مقاصد کے پورا ہونے کے لئے دعا کروں.مگر اس بات کو تصریح سے لکھ بھیجیں کہ وہ مطلب کے پورا ہونے کے وقت کہاں تک ہمیں اسلام کی راہ میں مالی مدد دیں گے اور کیا انہوں نے اپنے دلوں * پُرجوش مردانِ دین سے مراد اس جگہ اخویم حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب بھیروی ہیں جنہوں نے گویا اپنا تمام مال اسی راہ میں لٹا دیا ہے.اور بعد ان کے میرے دلی دوست حکیم فضل الدین صاحب اور نواب محمدعلی خانصاحب کوٹلہ مالیر اور درجہ بدرجہ تمام وہ مخلص دوست ہیں جو اس راہ میں فدا ہورہے ہیں.منہ
میں پختہ اور حتمی وعدہ کر لیا ہے کہ ضرور وہ اس قدر مدد دینگے اگر ایسا خط* کسی صاحب کی طرف سے مجھ کو پہنچا تو میں اُسکے لئے دُعا کرونگا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ بشرطیکہ تقدیر مبرم نہ ہو ضرور خدا تعالیٰ میری دُعا سُنے گا اور مجھ کو الہام کے ذریعہ سے اطلاع دے گا.اس بات سے نومید مت ہو کہ ہمارے مقاصد بہت پیچیدہ ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے بشرطیکہ ارادہ ازلی اُس کے مخالف نہ ہو.اور اگر ایسے صاحبوں کی بہت سی درخواستیں آئیں تو صرف اُنکو اطلاع دی جائے گی جن کے کشود کار کی نسبت از جانب حضرتِ عزّو جل خوشخبری ملے گی.اور یہ امور منکرین کیلئے نشان بھی ہونگے اور شاید یہ نشان اس قدر ہو جائیں کہ دریا کی طرح بہنے لگیں.بالآخر میں ہر ایک مسلمان کی خدمت میں نصیحتًا کہتا ہوں کہ اسلام کے لئے جاگو کہ اسلام سخت فتنہ میں پڑا ہے اس کی مدد کرو کہ اب یہ غریب ہے اور میں اسی لئے آیا ہوں اور مجھے خدا تعالیٰ نے علم قرآن بخشا ہے اور حقائق معارف اپنی کتاب کے میرے پر کھولے ہیں اور خوارق مجھے عطا کئے ہیں سو میری طرف آؤ تا اس نعمت سے تم بھی حصّہ پاؤ.مجھے قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں کیا ضرور نہ تھا کہ ایسی عظیم الفتن صدی کے سر پر جس کی کھلی کھلی آفات ہیں ایک مجدد کھلے کھلے دعویٰ کے ساتھ آتا سو عنقریب میرے کاموں کے ساتھ تم مجھے شناخت کروگے ہر ایک جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا اُسوقت کے علماء کی ناسمجھی اُس کی سدِّ راہ ہوئی آخرجب وہ پہچانا گیا تو اپنے کاموں سے پہچانا گیا کہ تلخ درخت شیریں پھل نہیں لا سکتا اور خدا غیر کو وہ برکتیں نہیں دیتاجو خاصوں کو دی جاتی ہیں.اے لوگو ! اسلام نہایت ضعیف ہو گیا ہے ا و راعداء دین کا چاروں طرف سے محاصرہ ہے اور تین ہزار سے زیادہ مجموعہ اعتراضات کا ہوگیا ہے ایسے وقت میں ہمدردی *چاہیئے کہ خط نہایت احتیاط سے بذریعہ رجسٹری سر بمہر آوے اور اس راز کو قبل از وقت فاش نہ کیا جاوے اور اس جگہ بھی پوری امانت کے ساتھ وہ راز مخفی رکھا جائیگا اور اگر بجائے خط کوئی معتبر کسی امیر کا آوے تو یہ امر اور بھی زیادہ مؤثر ہوگا.منہ
سے اپنا ایمان دکھاؤ اور مردانِ خدا میں جگہ پاؤ.والسلام علٰی من اتبع الھدٰی بیکسے شد دین احمد ؐ ہیچ خویش و یارنیست ہر کسے درکار خود بادین احمدؐ کارنیست ہر طرف سیلِ ضلالت صد ہزاران تن ربود حیف بر چشمے کہ اکنون نیز ہم ہشیار نیست اے خدا وندانِ نعمت ایں چنیں غفلت چراست بیخود از خوابید یا خود بختِ دین بیدار نیست اے مسلمانان خدا را یک نظر برحالِ دین آنچہ می بینم بلاہا حاجتِ اظہار نیست آتش افتاد است دررختش بخیزید اے یلان دید نش از دور کارِ مردمِ دیندار نیست ہر زمان از بہرِ دین درخون دلِ من می تپد محرمِ این درد ماجز عالمِ اسرار نیست آنچہ برما می رود از غم کہ داند جُز خدا زہر می نوشیم لیکن زہرہء گفتار نیست ہر کسے غمخواری اہل و اقارب می کند اے دریغ این بیکسی راہیچ کس غمخوار نیست خونِ دین بینم روان چون کشتگانِ کربلا اے عجب ایں مرد مان رامہرآن دلدار نیست حیر تم آید چو بینم بذل شان درکار نفس کاین ہمہ جود و سخاوت در رہِ دا دار نیست اے کہ داری مقدرت ہم عزم تائیداتِ دیں لُطف کن مارا نظر براندک و بسیار نیست بین کہ چون درخاک می غلطدز جورِ ناکساں آنکہ مثل او بزیر گنبدِ دوّار نیست اندرین وقتِ مصیبت چارۂ ما بیکساں جُز دُعاء بامداد و گریۂ اسحار نیست اے خدا ہر گز مکن شادآن دلِ تاریک را آنکہ او را فکرِ دینِ احمدِؐ مختار نیست اے برادرپنج روز ایّام عشرت ہا بود دائمًا عیش و بہار گلشن و گلزار نیست راقم مرزا غلام احمدؐ از قادیان ضلع گورداسپورہ پنجاب
بسم اللہ الرحمن الرحیم اللھم صل علی محمد و اٰ ل محمد افضل الرسل و خاتم النبیین اشتہار کتاب براہین احمدیہ جس کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے مؤلف نے ملہم و مامور ہو کر بغرض اصلاح و تجدید دین تالیف کیاہے جس کے ساتھ دس ہزار روپیہ کا اشتہار ہے جس کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ دُنیا میں منجانب اللہ و سچا مذہب جس کے ذریعہ سے انسان خدا تعالیٰ کو ہریک عیب اور نقص سے َ بری سمجھ کر اس کی تمام پاک اور کامل صفتوں پر دِلی یقین سے ایمان لاتا ہے وُہ فقط اسلام ہے جس میں سچائی کی برکتیں آفتاب کی طرح چمک رہی ہیں اور صداقت کی روشنی دن کی طرح ظاہر ہو رہی ہے اور دوسرے تمام مذہب ایسے بدیہی البطلان ہیں کہ نہ عقلی تحقیقات سے اُن کے اصول صحیح اور درست ثابت ہوتے ہیں اور نہ اُن پر چلنے سے ایک ذرہ روحانی برکت و قبولیت الٰہی مل سکتی ہے بلکہ اُن کی پابندی سے انسان نہایت درجہ کا کور باطن اور سیاہ دل ہو جاتاہے جس کی شقاوت پر اسی جہان میں نشانیاں پیدا ہوجاتی ہیں.اس کتاب میں دین اسلام کی سچائی کو دو طرح پر ثابت کیاگیا ہے.(۱) اوّل تین سو مضبوط اور قوی دلائل عقلیہ سے جن کی شان و شوکت و قدر و منزلت اس سے ظاہر ہے کہ اگر کوئی مخالفِ اسلام ان دلائل کو توڑدے تو اُس کو دس ہزار روپیہ دینے کااشتہار دیا ہوا ہے اگر کوئی چاہے تو اپنی تسلی کے لئے عدالت میں رجسٹری بھی کرالے.(۲) دوم اُن آسمانی نشانوں سے کہ جو سچے دین کی کامل سچائی ثابت ہونے کے لئے از بس ضروری ہیں.اس امر دوم میں مؤلف نے اس غرض سے کہ سچائی
دین اسلام کی آفتاب کی طرح روشن ہوجائے تین قسم کے نشان ثابت کر کے دکھائے ہیں.اوّل ۱ وہ نشان کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کے زمانہ میں مخالفین نے خود حضرت ممدوح کے ہاتھ سے اور آنجناب کی دُعا اور توجّہ اور برکت سے ظاہر ہوتے دیکھے جن کو مؤلف یعنی اس خاکسار نے تاریخی طور پر ایک اعلیٰ درجہ کے ثبوت سے مخصوص و ممتاز کر کے درج کتاب کیا ہے.دوم ۲ وہ نشان کہ جو خود قرآن شریف کی ذات بابرکات میں دائمی اور ابدی اور بے مثل طور پر پائے جاتے ہیں جن کو راقم نے بیان شافی اور کافی سے ہر یک عام و خاص پر کھول دیا ہے اور کسی نوع کا عذر کسی کے لئے باقی نہیں رکھا.سوم۳ و ہ نشان کہ جو کتاب اللہ کی پیروی اور متابعت رسولؐ بر حق سے کسی شخص تابع کو بطور وراثت ملتی ہیں جن کے اثبات میں اس بندۂ درگاہ نے بفضل خداوند حضرت قادرِ مطلق یہ بدیہی ثبوت دکھلایا ہے کہ بہت سے سچّے الہامات اور خوارق اور کرامات اور اخبار غیبیّہ اور اسرار لدنیہ اور کشوف صادقہ اور دعائیں قبول شدہ کہ جو خود اس خادمِ دین سے صادر ہوئی ہیں اور جن کی صداقت پر بہت سے مخالفین مذہب (آریوں وغیرہ سے) بشہادت رویت گواہ ہیں کتاب موصوف میں درج کئے ہیں اور مصنف کو اس بات کا بھی علم دیا گیا ہے کہ وہ مجدّد وقت ہے اور روحانی طور پر اس کے کمالات مسیحبن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں اور ایک کو دوسرے سے بشدّت مناسبت و مشابہت ہے اور اس کو خواص انبیاء ورسل کے نمونہ پر محض ببرکت متابعت حضرت خیر البشر و افضل الرسل صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم ان بہتوں پر اکابر اولیاء سے فضیلت دی گئی ہے کہ جو اس سے پہلے گزر چکے ہیں اور اس کے قدم پر چلنا موجب نجات و سعادت و برکت اور اس کے برخلاف چلنا موجب بُعد و حرمان ہے یہ سب ثبوت کتاب براہین احمدیہ کے پڑھنے سے جو منجملہ تین۳۰۰ سو جزو کے قریب ۳۷ جزو کے چھپ
چکی ہے ظاہر ہوتے ہیں اور طالب حق کے لئے خود مصنف پوری پوری تسلی و تشفی کرنے کو ہر وقت مستعد اور حاضر ہے.وَ ذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ وَلَا فَخْرَ.وَالسَّلامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی.اور اگر اس اشتہار کے بعد بھی کوئی شخص سچا طالب بن کر اپنی عقدہ کشائی نہ چاہے اور دلی صدق سے حاضر نہ ہو تو ہماری طرف سے اس پر اتمام حجت ہے جس کا خدا تعالیٰ کے رُوبرو اُس کو جواب دینا پڑے گا.بالآخر اس اشتہار کو اس دُعا پر ختم کیا جاتا ہے کہ اے خداوند کریم تمام قوموں کے مستعد دلوں کو ہدایت بخش کہ تا تیرے رسول مقبول افضل الرسل محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلّم اور تیرے کامل ومقدس کلام قرآن شریف پر ایمان لاویں اور اُس کے حکموں پر چلیں تا اُن تمام برکتوں اور سعادتوں اور حقیقی خوشحالیوں سے متمتع ہوجاویں کہ جو سچّے مسلمان کو دونوں جہانوں میں ملتی ہیں اور اس جاودانی نجات اور حیات سے بہرہ ور ہوں کہ جونہ صرف عقبیٰ میں حاصل ہوسکتی ہے بلکہ سچے راستباز اسی دُنیا میں اس کو پاتے ہیں بالخصوص قوم انگریز جنہوں نے ابھی تک اس آفتابِ صداقت سے کچھ روشنی حاصل نہیں کی اور جن کی شائستہ اور مہذّب اور بارحم گورنمنٹ نے ہم کو اپنے احسانات اور دوستانہ معاملت سے ممنون کر کے اس بات کیلئے دلی جوش بخشا ہے کہ ہم اُن کے دُنیا و دین کے لئے دِلی جوش سے بہبودی و سلامتی چاہیں تا اُن کے گورے و سپید مُنہ جس طرح دُنیا میں خوبصورت ہیں آخرت میں بھی نورانی و منور ہوں.فنسأل اللہ تعالٰی خیرھم فی الدنیا والاخرۃ اللھم اھدھم بروح منک و اجعل لھم حظًا کثیرًا فی دینک و اجذبھم بحولک و قوتک لیؤمنوا بکتابک و رسولک و یدخلوا فی دین اللہ افواجًا.اٰمین ثم اٰمین والحمدللّٰہ رب العالمین.المشتھر خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپورہ.ملک پنجاب
rank than that of other Prophets, I also by virtue of being a follower of the August Person (the benefactor of mankind, the best of the messangers of God) am favoured with a higher rank than, that assigned to many of the Saints and Holy Personages preceding me.To follow my footsteps will be a blessing and the means of salvation whereas any antogonism to me will result in estrangemen and disappointment.All these evidences will be found by perusal of the book which will consist of nearly 4800 pages of which about 592 pages have been published.I am always ready to satisfy and convince any seeker of truth.'All this is a Grace of God He gives it to whom-soever.He likes and there is no bragging in this.' 'Peace be to all the followers of righteousness!' If after the publication of this notice any one does not take the trouble of becoming earnest enquirer after the truth and does not come forward with an unbiassed mind to seek it then my challenging (discussion) with him ends here and he shall be answerable to God.Now I conclude this notice with the following prayer: Oh Gracious God! guide the pliable hearts of all the nations, so that they may have faith on Thy chosen Prophet (Muhammad) and on Thy holy Al-Quran, and that they may follow the commandments contained therein, so that they may thus be benifitted by the peace and the true happiness which are specially enjoyed by the true Muslims in both the worlds, and may obtain absolution and eternal life which is not only procurable in the next world, but is also enjoyed by the truthful and honest people even in this world.Expecially the English nation who have not as yet availed themselves of the sunshine of truth, and whose civilized, prudent and merciful empire has, by obliging us numerous acts of kindness and friendly treatments, exceedingly encouraged us to try our utmost for their numerous acts of welfare, so that their fair faces may shine with heavenly effulgence in the next We beseech God for their well being in this world and the next.Oh God! guide them and help them with Thy grace, and instil in their minds the love for Thy religion, and attract them with Thy power, so that they may have faith on Thy Book and prophet, and embrace Thy religion in groups Amen! Amen!' 'Praise be to God the supporter of creation!' (Sd) MIRZA GULAM AHMAD Chief of Qadian, District Gurdaspur, Punjab, India
TRANSLATION OF THE VERNACULAR NOTICE ON REVERSE Being inspired and commanded by God, I have undertaken the compilation of a book named_ 'Barahin-i-Ahmadia,' with the object of reforming and reviewing the religion, and have offered a reward of Rs.10,000 to any one who would prove the arguments brought forward therein to be false.My object in this Book is to show that only true and the only revealed religion by means of which one might know God to be free from blemish, and obtain a strong conviction as to the perfection of His attributes is the religion of Islam, in which the blessings of truth shine forth like sun, and the impress of veracity is as vividly bright as the day-light.All other religions are so palpably and manifestly false that neither their principles can stand the test of reasoning nor their followers experience least spiritual edification.On the contrary those religions so obscure the mind and divest it of discernment that signs of future misery among the followers become apparent even in this world.That the Muhammadan religion is the only true religion has been shown in this book in two ways: (1st), By means of 300 very strong and sound arguments based on mental reasoning (their congency and sublimity being inferred from the fact that a reward of Rs.10,000 has been offered by me to any one refuting them, and from my further readiness to have this offer registered for the satisfaction of any one who might ask for it): (2) From those Divine signs which are essential for the complete and satisfactory proof of a true religion.With a view to establish that Muhammadan religion is the only true religion in the world, I have adduced under this latter head 3 kinds of evidences: (1) The miracles performed by the Prophet during his life time either by deeds or words which were witnessed by people of other persuasions and are inserted in this book in a chronological order (based on the best kind of evidences): (2), The marks which are inseparably adherent in the Al-Quran itself, and are perpetual and everlasting, the nature of which has been fully expounded for facility of comprehension (3), The signs which by way of inheritances devolve on any believer in the Book of God and the follower of the true Prophet.As an illustration of this, I, the humble creature of God, by His help have clearly evinced myself to be possessed of such virtues by the achieving of many unusual and supernatural deeds by foretelling future events and secrets, and by obtaining from God the objects of my prayers to all of which many persons of different persuasions like Aryas, & c., have been eye-witness ( A full description of these will be found in the said book).I am also inspired that I am the Reformer of my time, and that as regards spiritual excellence, my virtues bear a very close similarity and strict analogy to those of Jesus Christ, in the same way as the distinguished chief of Prophets were assigned_ a higher