Language: UR
<p>۲۳؍جولائی۱۹۰۰ء کو آپؑ نے مخالفین پر اتمام حجت کے لیے چالیس اشتہار شائع کرنے کا ارادہ کیا۔ اور چار صفحات کا ایک اشتہار بھی لکھا جو اربعین نمبر ۱ کے نام سے شائع کیا۔ اور فرمایا کہ پنرہ پندرہ دن کے بعد بشرطیکہ کوئی روک پیش نہ آجائے یہ اشتہار نکلا کرے گا جب تک چالیس اشتہار پورے نہ ہو جائیں۔</p><p>لیکن اربعین نمبر ۲ نمبر ۳ اور نمبر ۴ چونکہ ضخیم رسالوں کی صورت میں نکالنے پڑ گئے اس لیے حضرت اقدس علیہ السلام نے اربعین نمبر ۴ میں زیر اطلاع تحریر فرمایا کہ وہ امر پورا ہو چکا جس کا ارادہ کیا تھا۔ اس لیے ان رسائل کو صرف چار نمبر تک ختم کر دیا اور آئندہ شائع نہیں ہو گا۔</p>
343 نصیحت :.وہ تمام دوست جن کے پاس وقتًا فوقتًا یہ نمبر پہنچتے جائیں چاہئیے کہ وہ ان کو جمع کرتے جائیں اور پھر ترتیب وار ایک رسالہ کی صورت میں بنا لیں.اور اس رسالہ کا نام ہوگا’’اربعین لاتمام الحجّۃ علی المخالفین.‘‘ اربعین نمبر اول 3 آج میں نے اتمام حجت کے لئے یہ ارادہ کیا ہے کہ مخالفین اور منکرین کی دعوت میں چالیس اشتہار شائع کروں* تاقیامت کو میری طرف سے حضرتِ احدیت میں یہ حجت ہو کہ مَیں جس امر کے لئے بھیجا گیا تھا اس کو میں نے پورا کیا.سو اب میں بکمال ادب و انکسار حضرات علماء مسلمانان و علماء عیسائیان و پنڈتان ہندوان و آریان یہ اشتہار بھیجتا ہوں اور اطلاع دیتا ہوں کہ میں اخلاقی و اعتقادی و ایمانی کمزوریوں اور غلطیوں * اس اشتہار کے بعد انشاء اللہ ہر ایک اشتہار پندرہ پندرہ دن کے بعد بشرطیکہ کوئی روک پیش نہ آجائے نکلا کرے گا جب تک کہ چالیس اشتہار پورے ہو جائیں یا جب تک کہ کوئی مخالف صحیح نیت کے ساتھ بغیر گندی حجت بازی کے جس کی بدبو ہر ایک کو آسکتی ہے میدان میں آکر میری طرح کوئی نشان دکھلا سکے.مگر یاد رہے کہ اس مقابلہ میں کسی شخص سے کوئی مباہلہ مقصود نہیں ہے اور نہ کسی مخالف کی ذات کی نسبت کوئی پیشگوئی ہے بلکہ صرف یہ مقابلہ ہوگاکہ کس کے ہاتھ پر خدا تعالیٰ غیب کی باتیں اور خوارق ظاہر کرتا اور دعائیں قبول فرماتا ہے.اور ذاتیات اور مباہلہ اور ملاعنہ یہ دونوں امر مستثنیٰ میں داخل رہیں گے اور ہر ایک ایسی پیشگوئی سے اجتناب ہوگا جو امن عامہ اور اغراض گورنمنٹ کے مخالف ہو یا کسی خاص شخص کی ذلّت یا موت پر مشتمل ہو.منہ
344 کی اصلاح کے لئے دنیا میں بھیجا گیا ہوں.اور میرا قدم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قدم پر ہے انہی معنوں سے میں مسیح موعود کہلاتا ہوں کیونکہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ محض فوق العادت نشانوں اور پاک تعلیم کے ذریعہ سے سچائی کو دنیا میں پھیلاؤں.میں اِس بات کا مخالف ہوں کہ دین کے لئے تلوار اٹھائی جائے اور مذہب کے لئے خدا کے بندوں کے خون کئے جائیں اور میں مامور ہوں کہ جہاں تک مجھ سے ہو سکے ان تمام غلطیوں کو مسلمانوں میں سے دُور کر دوں اور پاک اخلاق اور بُردباری اور حلم اور انصاف اور را ستبازی کی راہوں کی طرف اُن کو بلاؤں.میں تمام مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں اور آریوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ دنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے.میں بنی نوع سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر.میں صرف ان باطل عقائد کا دشمن ہوں جن سے سچائی کا خون ہوتا ہے.انسان کی ہمدردی میرا فرض ہے اور جھوٹ اور شرک اور ظلم اور ہر ایک بدعملی اور ناانصافی اور بد اخلاقی سے بیزاری میرا اصول.میری ہمدردی کے جوش کا اصل محرک یہ ہے کہ میں نے ایک سونے کی کان نکالی ہے اور مجھے جواہرات کے معدن پر اطلاع ہوئی ہے اور مجھے خوش قسمتی سے ایک چمکتا ہوا اور بے بہا ہیرا اُس کان سے ملا ہے اور اس کی اس قدر قیمت ہے کہ اگر مَیں اپنے ان تمام بنی نوع بھائیوں میں وہ قیمت تقسیم کروں تو سب کے سب اس شخص سے زیادہ دولت مند ہو جائیں گے جس کے پاس آج دنیا میں سب سے بڑھ کر سونا اور چاندی ہے.وہ ہیرا کیا ہے؟ سچا خدا.اور اس کو حاصل کرنا یہ ہے کہ اس کو پہچاننا.اور سچا ایمان اس پر لانا اور سچی محبت کے ساتھ اس سے تعلق پیدا کرنا اور سچی برکات اس سے پانا پس اس قدر دولت پاکر سخت ظلم ہے کہ میں بنی نوع کو اس سے محروم رکھوں اور وہ بھوکے مریں اور میں عیش کروں.یہ مجھ سے ہر گز نہیں ہوگا
345 میرا دل ان کے فقروفاقہ کو دیکھ کر کباب ہو جاتا ہے.ان کی تاریکی اور تنگ گذرانی پر میری جان گھٹتی جاتی ہے.مَیں چاہتا ہوں کہ آسمانی مال سے اُن کے گھر بھر جائیں اور سچائی اور یقین کے جواہر ان کو اتنے ملیں کہ اُن کے دامن استعدادپُر ہو جائیں.ظاہر ہے کہ ہر ایک چیز اپنے نوع سے محبت کرتی ہے یہاں تک کہ چیونٹیاں بھی اگر کوئی خود غرضی حائل نہ ہو.پس جو شخص کہ خدا تعالیٰ کی طرف بلاتا ہے اس کا فرض ہے کہ سب سے زیادہ محبت کرے.سو میں نوع انسان سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہوں.ہاں ان کی بد عملیوں اور ہر ایک قسم کے ظلم اور فسق اور بغاوت کا دشمن ہوں کسی کی ذات کا دشمن نہیں.اس لئے وہ خزانہ جو مجھے ملا ہے جو بہشت کے تمام خزانوں اور نعمتوں کی کنجی ہے وہ جوش محبت سے نوع انسان کے سامنے پیش کرتا ہوں اور یہ امر کہ وہ مال جو مجھے ملا ہے وہ حقیقت میں ازقسم ہیرا اور سونا اور چاندی ہے کوئی کھوٹی چیز یں نہیں ہیں بڑی آسانی سے دریافت ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ اُن تمام دراہم اور دینار اور جواہرات پر سلطانی سکہ کا نشان ہے یعنی وہ آسمانی گواہیاں میرے پاس ہیں جو کسی دوسرے کے پاس نہیں ہیں.مجھے بتلایا گیا ہے کہ تمام دینوں میں سے دین اسلام ہی سچا ہے.مجھے فرمایا گیا ہے کہ تمام ہدایتوں میں سے صرف قرآنی ہدایت ہی صحت کے کامل درجہ پر اور انسانی ملاوٹوں سے پاک ہے.مجھے سمجھا یا گیا ہے کہ تمام رسولوں میں سے کامل تعلیم دینے والا اور اعلیٰ درجہ کی پاک اور پُرحکمت تعلیم دینے والا اور انسانی کمالات کا اپنی زندگی کے ذریعہ سے اعلیٰ نمونہ دکھلانے والا صرف حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور مجھے خدا کی پاک اور مطہّر وحی سے اطلاع دی گئی ہے کہ میں اس کی طرف سے مسیح موعود اور مہدی معہود اور اندرونی اور بیرونی اختلافات کا حَکم ہوں.یہ جو میرا نام مسیح اور مہدی رکھا گیا ان دونوں ناموں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے مجھے مشرف فرمایا اور پھر خدا نے اپنے بلاواسطہ مکالمہ سے یہی میرا نام رکھا اور پھر زمانہ کی حالت موجودہ نے تقاضا کیا کہ یہی میرا نام ہو.غرض میرے اِن ناموں پر یہ تین گواہ ہیں.میرا خدا جو آسمان اور زمین کا مالک ہے میں اُس کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ مَیں اُس کی طرف سے ہوں اور وہ اپنے نشانوں سے میری گواہی دیتا ہے.اگر آسمانی نشانوں میں کوئی میرا
346 مقابلہ کر سکے تو میں جھوٹا ہوں.اگر دعاؤں کے قبول ہونے میں کوئی میرے برابر اُتر سکے تو میں جھوٹا ہوں.اگر قرآن کے نکات اور معارف بیان کرنے میں کوئی میرا ہم پلّہ ٹھہر سکے تو میں جھوٹا ہوں.اگر غیب کی پوشیدہ باتیں اور اسرار جو خدا کی اقتداری قوت کے ساتھ پیش از وقت مجھ سے ظاہر ہوتے ہیں ان میں کوئی میری برابری کر سکے تو میں خدا کی طرف سے نہیں ہوں.اب کہاں ہیں وہ پادری صاحبان جو کہتے تھے کہ نعوذ باللہ حضرت سیدنا و سید الورےٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی پیشگوئی یا اَور کوئی امر خارق عادت ظہور میں نہیں آیا.مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ زمین پر وہ ایک ہی انسان کامل گذرا ہے جس کی پیشگوئیاں اور دعائیں قبول ہونا اور دوسرے خوارق ظہور میں آنا ایک ایسا امر ہے جو اب تک امت کے سچے پیروؤں کے ذریعہ سے دریا کی طرح موجیں مار رہا ہے.بجز اسلام وہ مذہب کہاں اور کدھر ہے جو یہ خصلت اور طاقت اپنے اندر رکھتا ہے اور وہ لوگ کہاں اور کس ملک میں رہتے ہیں جو اسلامی برکات اور نشانوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں.اگر انسان صرف ایسے مذہب کا پیرو ہو جس میں آسمانی روح کی کوئی ملاوٹ نہیں تو وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے.مذہب وہی مذہب ہے جو زندہ مذہب ہو اور زندگی کی رُوح اپنے اندر رکھتا ہو اور زندہ خدا سے ملاتا ہو.اور میں صرف یہی دعویٰ نہیں کرتا کہ خدا تعالیٰ کی پاک وحی سے غیب کی باتیں میرے پر کھلتی ہیں اور خارق عادت امر ظاہر ہوتے ہیں بلکہ یہ بھی کہتا ہوں کہ جو شخص دل کو پاک کرکے اور خدا اور اس کے رسول پر سچی محبت رکھ کر میری پیروی کرے گا وہ بھی خدا تعالیٰ سے یہ نعمت پائے گا.مگر یاد رکھو کہ تمام مخالفوں کے لئے یہ دروازہ بندہے.اور اگر دروازہ بند نہیں ہے تو کوئی آسمانی نشانوں میں مجھ سے مقابلہ کرے.اور یاد رکھیں کہ ہر گز نہیں کر سکیں گے.پس یہ اسلامی حقیت اور میری حقانیت کی ایک زندہ دلیل ہے.ختم ہوا پہلا نمبر اربعین کا.والسلام علٰی من اتّبع الہدیٰ.۲۳؍جولائی۱۹۰۰ء المشتھر مرزا غلام احمد مسیح موعود از قادیاں مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیاں
347 نحمدہٗ و نصلّی اربعین نمبر۲ رب اغفر ذنوبنا واھد قلوبنا انک الذّ الاشیاء ان یُسْقَ *جرعۃ من عرفانک ولا یُسْقٰی الّا بفضلک وامتنانک.ربّ انّی اشکو الٰی حضرتک من مصیبۃٍ نزلت علٰی ھٰذہ الامۃ من انواع الفتن والتفرقۃ.ربّ اَدْرک فاِنّ القوم مُدْرَکون.چونکہ انسان خدا تعالیٰ کی عبادت اور معرفت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس لئے خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ لوگ اس کی عبادت اور معرفت میں ترقی کریں اور جب کبھی کوئی ایسا زمانہ آجاتا ہے کہ اکثر طوائف مخلوقات دنیا کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور دنیا سے دل لگاتے اور اُنس پکڑتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی محبت اور اخلاص اور ذوق اور شوق دلوں میں سے اُٹھ جاتا ہے اور خدا شناسی کی راہیں مخفی ہو جاتی ہیں اور خدا کے گذشتہ نشان جو اس کے پاک نبیوں کے ہاتھ پر ظاہر ہوئے تھے یا تو محض قصوں اور کہانیوں کی طرح مانے جاتے ہیں اور دلوں کی تبدیلی اور انقطاع الی اللہ اور صفائی اُن سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ اُن کی کچھ بھی ہیبت اور عظمت دلوں میں باقی نہیں رہتی اور یا وہ محض جھوٹے سمجھے جاتے ہیں اور اُن پر ہنسی اور ٹھٹھا کیا جاتا ہے جیسا کہ آج کل کے نیچری صاحبان یا برہمو صاحبان میں سے اکثر لوگ ایسا ہی خیال کرتے ہیں غرض ایسے وقت میں اور ایسے زمانہ میں جبکہ خدا شناسی کی روشنی کم ہوتے ہوتے آخر ہزارہا نفسانی ظلمتوں کے پردہ میں چُھپ جاتی ہے بلکہ اکثر لوگ * ایڈیشن اول میں سہو کتابت ہے.درست ’’ اَنْ یُسْقٰی ‘‘ہے جیسا کہ اگلی سطر میں درست لفظ موجود ہے (ناشر
348 دہریہ کے رنگ میں ہو جاتے ہیں اور زمین گناہ اور غفلت اور بے باکی سے بھر جاتی ہے.خدا تعالیٰ کی غیرت اور جلال اور عزّت تقاضا فرماتی ہے کہ دوبارہ اپنے تئیں لوگوں پر ظاہر فرماوے سو جیسا کہ اس کی قدیم سے سنّت ہے ہمارے اس زمانہ میں جو ایسے ہی حالات اور علامات اپنے اندر جمع رکھتا ہے خدا تعالیٰ نے مجھے چودھو۱۴ یں صدی کے سر پر اس تجدید ایمان اور معرفت کے لئے مبعوث فرمایا ہے اور اس کی تائید اور فضل سے میرے ہاتھ پر آسمانی نشان ظاہر ہوتے ہیں اور اُس کے ارادہ اور مصلحت کے موافق دُعائیں قبول ہوتی ہیں اور غیب کی باتیں بتلائی جاتی ہیں اور حقائق اور معارف قرآنی بیان فرمائے جاتے اور شریعت کے معضلات و مشکلات حل کئے جاتے ہیں اور مجھے اُس خدائے کریم وعزیز کی قسم ہے جو جھوٹ کا دشمن اور مفتری کا نیست و نابود کرنے والا ہے کہ میں اُس کی طرف سے ہوں اور اس کے بھیجنے سے عین وقت پر آیا ہوں اور اس کے حکم سے کھڑا ہوا ہوں اور وہ میرے ہر قدم میں میرے ساتھ ہے اور وہ مجھے ضائع نہیں کرے گا اور نہ میری جماعت کو تباہی میں ڈالے گا جب تک وہ اپنا تمام کام پورا نہ کر لے جس کا اُس نے ارادہ فرمایا ہے.اُس نے مجھے چودھویں صدی کے سر پر تکمیل نور کے لئے مامور فرمایا اور اس نے میری تصدیق کے لئے رمضان میں خسوف کسوف کیا اور زمین پر بہت سے کھلے کھلے نشان دکھلائے جو حق کے طالب کے لئے کافی تھے اور اس طرح اُس نے اپنی حجت پوری کر دی.کوئی شخص واقعی طور پر میرے پر کوئی الزام نہیں لگا سکتا اور نہ میرے نشانوں پر کوئی جرح کر سکتا ہے کیونکہ وہ مجھ پر کوئی ایسی نکتہ چینی نہیں کرسکتااور نہ میرے بعض آسمانی نشانوں پر کوئی ایسی حرف گیری کر سکتا ہے جو وہی حرف گیری انبیاء گذشتہ پر اور اُن کے بعض نشانوں پر دشمنوں نے نہیں کی جن کی حقیقت کو اُن نادان متعصبوں نے نہیں سمجھا.بھلا اگر میرے مخالفوں میں ایک ذرہ بھی سچائی ہے تو وہ آرام سے ایک مختصر مجلس چندشریف اور معزز انسانوں کی مقرر کرکے چندوہ باتیں میرے آگے پیش کریں جو اُن کے نزد یک
349 وہ عیب میں داخل ہیں یا چند ایسی پیشگوئیاں پیش کریں جو ان کے نزدیک وہ پوری نہیں ہوئیں مگر وہ امور ایسے ہوں جو انبیاء کے سوانح یا اُن کی پیشگوئیوں میں اُن کی نظیر مل نہ سکے.مگر یاد رہے کہ اگر وہ ایسی مہذب اور دانشمند مجلس میں یہ تصفیہ کرنا چاہیں تو ضرور ثابت ہو جائے گا کہ وہ صرف بہتان اور افترا کرنے والے ہیں.غائبانہ ذکر تو صرف غیبت کہلاتا ہے اِس سے زیادہ نہیں اور اس سے کچھ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اس میں شخص غیبت کنندہ کو بوجہ اکیلا ہونے کے ہر ایک کذب اور افترا کی بہت گنجائش ہوتی ہے.پس بلا شبہ ایسی غیبت جس مجلس میں سُنی جاتی ہے وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک صلحاء کی مجلس نہیں ہے.اگر انسان اپنے دل میں سچائی کی طلب رکھتا ہے تو جو بات اس کو سمجھ نہ آوے اس کو پوچھ لینا چاہئے.اگر میرے پر یہ الزام لگایا جائے کہ کوئی پیشگوئی میری پوری نہیں ہوئی یا پورا ہونے کی اُمید جاتی رہی تو اگر میں نے بحوالہ انبیاء علیہم السلام کی پیشگوئیوں کے یہ ثابت نہ کر دیا کہ درحقیقت وہ تمام پیشگوئیاں پوری ہو گئی ہیں یا بعض انتظار کے لائق ہیں اور وہ اُسی رنگ کی ہیں جیسا کہ نبیوں کی پیشگوئیاں تھیں تو بلاشبہ میں ہر ایک مجلس میں جھوٹا ٹھہروں گا.لیکن اگر میری باتیں نبیوں کی باتوں سے مشابہ ہیں تو جو مجھے جھوٹا کہتا ہے اُس کو خدا تعالیٰ کا خوف نہیں ہے.بعض بے خبر ایک یہ اعتراض بھی میرے پر کرتے ہیں کہ اس شخص کی جماعت اس پر فقرہ علیہ الصلوٰۃ والسلام اطلاق کرتے ہیں اور ایسا کرنا حرام ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ میں مسیح موعود ہوں اور دوسروں کا صلوٰۃ یا سلام کہنا تو ایک طرف خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جوشخص اس کو پاوے میرا سلام اُس کو کہے اور احادیث اور تمام شروح احادیث میں مسیح موعود کی نسبت صدہا جگہ صلوٰۃ اور سلام کا لفظ لکھا ہوا موجود ہے.پھرجبکہ میری نسبت نبی علیہ السلام نے یہ لفظ کہا صحابہ نے کہا بلکہ خدا نے کہا تو میری جماعت کا میری نسبت یہ فقرہ بولنا کیوں حرام ہو گیا.خود عام طور پر تمام مومنوں کی نسبت قرآن شریف میں
350 صلوٰۃ اور سلام دونوں لفظ آئے ہیں اور مولوی محمد حسین بٹالوی رئیس المخالفین نے جب براہین احمدیہ کا ریویو لکھا اس کو پوچھنا چاہئے کہ کتاب مذکور کے صفحہ ۲۴۲ میں یہ الہام اُس نے درج پایا یا نہیں.اصحاب الصُفّۃ.وما ادراک ما اصحاب الصُفّۃ ترٰی اعینھم تفیض من الدمع.یصلّون علیک.ربّنا اننا سمعنامنادیا ینادی للایمان وداعیا الی اللّٰہ وسراجًا مُّنیرا.ترجمہ یہ ہے کہ یاد کر صُفّہ میں رہنے والے اورتو کیا جانتا ہے کہ کس مرتبہ کے آدمی اور کس کامل درجہ کی ارادت رکھنے والے ہیں صُفّہ کے رہنے والے.تو دیکھے گا کہ اُن کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوں گے.اور تیرے پر درود بھیجیں گے* اور کہیں گے کہ اے ہمارے خدا ہم نے ایک آواز دینے والے کو سُنا یعنی ہم اُس پر ایمان لائے اور اس کی بات سُنی اُس کی یہ آواز ہے کہ اپنے ایمانوں کو خدا پر قوی کرو وہ خدا کی طرف بلانے والا اور چمکتا ہوا چراغ ہے.اب دیکھو کہ اس الہام میں نیک بندوں کی یہ علامت رکھی ہے کہ میرے پر درود بھیجیں گے اور مولوی محمد حسین سے پوچھو کہ اگر یہ اعتراض کی جگہ تھی تو کیوں اُس نے ریویو کے لکھنے کے وقت اعتراض نہ کیا بلکہ اس الہام میں تو اس اعتراض سے سخت تر ایک اور اعتراض ہو سکتا تھا اور وہ یہ کہ داعی الی اللہ اور سراج منیر یہ دو نام * انسانی عادت اور اسلامی فطرت میں داخل ہے کہ مومن کسی ذوق کے وقت اور کسی مشاہدہ کر شمہ قدرت کے وقت درود بھیجتا ہے.سو اس یصلّون علیک کے فقرہ میں اشارہ ہے کہ وہ لوگ جو ہر دم پاس رہیں گے وہ کئی قسم کے نشان دیکھتے رہیں گے پس ان نشانوں کی تاثیر سے بسا اوقات اُن کے آنسو جاری ہو جائیں گے اور شدّتِ ذوق اور رقت سے بے اختیار درود اُن کے مُنہ سے نکلے گاچنانچہ ایسا ہی وقوع میں آرہا ہے اور یہ پیشگوئی بار بار ظہور میں آرہی ہے بشرط صحبت ہر ایک سعادت مند اس کیفیت کو حاصل کر سکتا ہے.منہ
351 اور دو خطاب خاص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن شریف میں دیئے گئے ہیں.پھر وہی دو خطاب الہام میں مجھے دیئے گئے.کیا یہ اعتراض درود بھیجنے سے کچھ کم تھا.پھر اس سے بھی بڑھ کر براہین احمدیہ کے دوسرے الہامات پر اعتراض ہو سکتے تھے جن کا مولوی محمد حسین بٹالوی نے ریویو لکھا.* اور جا بجا قبول کیا کہ یہ الہامات خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں بلکہ اس کے استاد میاں نذیر حسین دہلوی نے چند گواہوں کے روبرو براہین احمدیہ کی نسبت جس میں یہ الہامات تھے حد سے زیادہ تعریف کی اور فرمایا کہ جب سے اسلام میں سلسلہ تالیف و تصنیف شروع ہوا ہے براہین کی مانند افاضہ اور فضل اور خوبی میں کوئی ایسی تالیف نہیں ہوئی.اور اُن کی غرض اس قدر تعریف سے براہین احمدیہ کے الہامات اور اس کی پیشگوئیاں تھیں جن سے اسلام کے مخالفوں پر حجت پوری ہوتی تھی.ایسا ہی پنجاب اور ہندوستان کے تمام علماء نے بجز معدودے چند ان الہامات کو خدا تعالیٰ کی طرف سے سمجھ لیا تھا جو حقیقت میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں حالانکہ اُن میں اس عاجز کا اس قدر اکرام کیا گیا ہے جس سے بڑھ کر ممکن نہیں اور بطور نمونہ اُن میں سے یہ ہیں:.یا احمد بارک اللّٰہ فیک.الرحمٰن علّم القراٰن لتنذرقوما ما انذر آباء ھم * براہین احمدیہ کی تالیف کو بیس۲۰ برس گذر گئے ہیں.اس کتاب میں وہ پیشگوئیاں ہیں جو سال ہا سال کے بعد اب پوری ہو رہی ہیں.جیسا کہ یہ پیشگوئی کہ ہم تمام دنیا میں تجھے شہرت دیں گے اور تیرا نام تمام دیار میں بلند کیا جائے گا اور کوئی نہیں ہوگا جو تیرے نام سے بے خبر رہے یہ اُس وقت کی پیشگوئی ہے جبکہ اس قصبہ میں بھی سب لوگ مجھے نہیں جانتے تھے.اور پھر دوسری پیشگوئی اسی کے ساتھ ہے اور وہ یہ کہ لوگ دُور دراز ملکوں سے تحف تحائف تجھے بھیجیں گے اور دُور دُور سے چل کر آئیں گے یہ بھی اس زمانہ کی پیشگوئی ہے جبکہ دس۱۰ کوس سے بھی میرے پاس کوئی نہیں آتا تھا اور نہ کوئی ایک پیسہ بطور تحفہ بھیجتا تھا.اب اس طرح پر یہ پیشگوئیاں پوری ہوئیں کہ ہزارہا کوس سے لوگ آتے ہیں اور ہزارہا روپیہ سے مدد کرتے ہیں اور ایک دنیا میں خدا نے شہرت دے دی اور کوئی قوم بے خبر نہیں رہی.والحمدللّٰہ علٰی ذالک.منہ
352 ولتستبین سبیل المجرمین.قل انی امرت وانا اول المومنین.ھو الذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ، وکنتم علی شفا حفرۃ فانقذکم منھا.وکان امر اللّٰہ مفعولا.لا مبدّل لکلمات اللّٰہ.اناکفیناک المستھزئین.ھٰذا من رحمت ربک یتم نعمتہ علیک لتکون اٰیۃ للمؤمنین.قل ان کنتم تحبّون اللّٰہ فاتبعونی یحببکم اللّٰہ.قل عندی شھادۃ من اللّٰہ فھل انتم مومنون.قل عندی شھادۃ من اللّٰہ فھل انتم مسلمون.وقل اعملوا علی مکانتکم انی عامل فسوف تعلمون.عسٰی ربکم ان یرحمکم وان عدتم عدنا وجعلنا جھنّم للکافرین حصیر ا.یخوفونک من دونہ.انک باعیننا سمیتک المتوکل.یحمدک اللّٰہ من عرشہ.نحمدک ونصلّی.یریدون ان یطفؤا نور اللّٰہ بافواھھم واللّٰہ متم نورہ ولوکرہ الکافرون.سنلقی فی قلوبھم الرعب.اذا جاء نصر اللّٰہ والفتح وانتھٰی امر الزمان الینا الیس ھٰذا بالحق.وقالوا ان ھٰذا الا اختلاق.قل اللّٰہ ثمّ ذرھم فی خوضھم یلعبون.قل ان افتریتہ فعلیّ اجرامی.ومن اظلم ممن افتریٰ علی اللّٰہ کذبا.وامانرینک بعض الذی نعدھم اونتوفینک انی معک فکن معی اینما کنت.کن مع اللّٰہ حیثماکنت.اینما تولوا فثم وجہ اللّٰہ.کنتم خیر اُمّۃ اخرجت للناس وافتخارًا للمومنین.ولا تیئس من روح اللّٰہ الا ان روح اللّٰہ قریب.الا نصر اللّٰہ قریب*.یأْتیک من کلّ فج عمیق.یأتون من کل فج عمیق.ینصرک اللّٰہ من عندہ.ینصرک رجال نوحی الیھم من السماء.انی منجّیک من الغمّ وکان ربّک قدیرًا.انا فتحنا لک فتحامبینا فتح الولی فتح وقرّبناہ نجیّا.اشجع الناس.ولو کان الایمان معلّقا بالثریالنالہ.اناراللّٰہ برھانہ.* غالبًا’’ أن‘‘ کاتب سے سہوًا ر ہ گیا ہے براہین احمدیہ میں’’ ألا انّ نصراللّٰہ قریب‘‘ ہے.( روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۲۶۷)
353 یا احمد فاضت الرحمۃ علٰی شفتیک.انک باعیننا.یرفع اللّٰہ ذکرک.ویتم نعمتہ علیک فی الدنیا والاخرۃ.یا احمدی أنت مرادی ومعی.غَرسْتُ کرامتک بیدی.ونظرنا الیک وقلنا یانار کونی بردا وسلامًا علٰی ابراھیم.یا احمد یتم اسمک ولا یتم اسمی.بورکت یا احمد وکان ما بارک اللّٰہ فیک حقافیک.شانک عجیب.واجرک قریب.انّی جاعلک للناس امامًا.أکان للناس عجبا.قل ھواللّٰہ عجیب.یجتبی من یشاء من عبادہ.ولا یُسئل عمّایفعل وھم یسئلون.انت وجیہ فی حضرتی اخترتک لنفسی.الارضُ والسّماء معک کما ھو معی.وسرّک سرّی.انت منّی بمنزلۃ توحیدی و تفریدی.فحان ان تعان وتعرف بین النا س.ھل اتی علی الانسان حین من الدھرلم یکن شیئا مذکورا.وکاد ان یعرف بین الناس.وقالوا انّٰی لک ھٰذا.وقالوا ان ھٰذا الا اختلاق.اذا نصر اللّٰہ المؤمن جعل لہ الحاسدین فی الارض.قل ھو اللّٰہ ثم ذرھم فی خوضھم یلعبون.سبحان اللّٰہ تبارک وتعالٰی زاد مجدک.ینقطع آباء ک ویبدء منک.وما کان اللّٰہ لیترکک حتّی یمیز الخبیث من الطیّب.اردت ان استخلف فخلقت اٰدم.یا آدم اسکن انت وزوجک الجنّۃ.یااحمد اسکن انت وزوجک الجنّۃ.یامریم اسکن انت وزوجک الجنّۃ.تموت وانا راض منک.فادخلوا الجنّۃ ان شاء اللّٰہ اٰمنین.سلام علیکم طبتم فادخلوھا آمنین.خدا تیرے سب کام درست کر دے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا.سلام علیک جعلت مبارکا.وانی فضلتک علی العالمین.وقالوا ان ھو الّا افک افتری وما سمعنا بھٰذا فی آبائنا الاوّلین.وکان ربّک قدیرًا.یجتبی الیہ من یّشاء.ولقد کرّمنا بنی اٰدم
354 وفضلنا بعضھم علٰی بعض.قل جاء.کم نور من اللّٰہ فلا تکفروا ان کنتم مؤمنین.ان الذین کفروا وصدّوا عن سبیل اللّٰہ ردّ علیھم رجل من فارس شکر اللّٰہ سعیہ.کتاب الولی ذوالفقار علی.ولو کان الایمان معلقا بالثریا لنالہ.یکاد زیتہ یضئ ولولم تمسسہ نار.دنٰی فتدلّٰی فکان قوسین۱ ادنٰی.انا انزلناہ قریبا من القادیان.وبالحق انزلناہ وبالحق نزل.صدق اللّٰہ ورسولہ وکان امر اللّٰہ مفعولا.قول الحق الذی فیہ تمترون.وقالوا لولا نزّل علٰی رجل من قریتین عظیم.وقالوا ان ھٰذا لمکرمکرتموہ فی المدینۃ.ینظرون الیک وھم لا یبصرون.الرّحمٰن.علّم القراٰن.ولا یمسّہٗ الا المطھّرون.یا عبد القادر انی معک وانّک الیوم لدینا مکین امین.وان علیک رحمتی فی الدنیا والدین.وانک من المنصورین.وجیھا فی الدنیا والاٰخرۃ ومن المقربین.انا بُدّک اللازم انا مُحْییک نفخت فیک من لدنّی روح الصدق.والقیت علیک محبّۃ منی ولتصنع علی عینی.یحمدک اللّٰہ ویمشی الیک.خلق اٰدم فاکرمہ.جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء.ومن رُدّ من مطبعہ فلا مَردّ لہ.واذ یمکربک الذی کَفّر اوقدلی یاھامان لعلّی اطلع علی الٰہ موسٰی وانّی لاظنہ من الکاذبین.تبت یدا ابی لھب وتب ماکان لہ ان یدخل فیھا الا خائفا.وما اصابک فمن اللّٰہ.الفتنۃ ھٰھنا فاصبر کما صبر اولوالعزم.واللّٰہ موھن کید الکافرین.الا انھا فتنۃ من اللّٰہ.لیحب حبا جما.حبامن اللّٰہ العزیز الاکرم.عطاءً غیر مجذوذ.کنت کنزًا مخفیا فاحببتُ ان اعرف.ان السماوات والارض کانتا رتقا ففتقناھما.وان یتخذونک الّا ھزوا اھٰذا الذی بعث اللّٰہ.قل انما انابشر مثلکم یوحی الیّ انّما الٰھکم الٰہٌ واحد غالبًا سہو کاتب ہے براہین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد نمبر۱ صفحہ ۵۸۶ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳ میں یہ الہام اس طرح درج ہے’’ فکان قاب قوسین او ادنٰی‘‘ (مصحح)
355 والخیر کلّہ فی القراٰن.بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں برمنار بلند تر محکم افتاد.پاک محمد مصطفےٰ نبیوں کا سردار.یاعیسٰی انّی متوفیک و رافعک الیّ وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الٰی یوم القیامۃ.ثلۃ من الاولین وثلۃ من الاخرین.میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا.اللّٰہ حافظہ عنایۃ اللّٰہ حافظہ.نحن نزلناہ وانالہ لحافظون.اللّٰہ خیر حافظا وھو ارحم الراحمین.یخوفونک من دونہ.ائمۃ الکفر.لا تخف انک انت الاعلٰی.ینصرک اللّٰہ فی مواطن.ان یومی لفصل عظیم.کتب اللّٰہ لا غلبن اناورسلی.لا مبدل لکلماتہ.انت معی وانا معک.خلقتُ لک لیلا و نھارا.اعمل ماشئت فانّی قد غفرت لک.انت منی بمنزلۃ لا یعلمھا الخلق.ام حسبتم ان اصحاب الکھف والرقیم کانوا من اٰیاتنا عجبا*.قل ھواللّٰہ عجیب.کل یوم ھو فی شان.ھو الذی ینزل الغیث من بعد ما قنطوا.قل ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین.وبشر الذین اٰمنوا ان لھم قدم صدق عندربھم.الیہ یصعد الکلم الطیب سلام علی ابراھیم صافیناہ ونجیناہ من الغم تفردنا بذالک فاتخذوا من مقام ابراھیم مصلّٰی.ترجمہ:.اے احمد! خدا نے تجھ میں برکت ڈالی.اُس نے تجھے قرآن سکھایا تا تو اُن * یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خیالی مسیح جو بگمان مخالفین آسمان پر ہے اور خیالی مہدی جو بگمان بعض مخالفین کسی غار میں ہے کیا یہ دونوں ہمارے اُن نشانوں سے جو علم صحیح اورسچے فلسفہ سے بھرے ہوئے ہیں عجیب تر ہیں.بے شک علمی سِلسلہ زیادہ عجیب ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے ساتھ حکمت رکھتا ہے جس میں خیر کثیر ہے.منہ
356 لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے اور تاکہ مجرموں کی راہ کھل جائے یعنی معلوم ہو جائے کہ کون کون مجرم ہے.کہہ دے کہ میرے پر خدا کا حکم نازل ہوا ہے اور مَیں تمام مومنوں سے پہلا ہوں وہ خدا جس نے اپنے فرستادہ کو بھیجا اُس نے دو امر کے ساتھ اُسے بھیجا ہے ایک تو یہ کہ اس کو نعمت ہدایت سے مشرف فرمایا ہے یعنی اپنی راہ کی شناخت کے لئے روحانی آنکھیں اس کو عطا کی ہیں اور علم لدنّی سے ممتاز فرمایا ہے اور کشف اور الہام سے اس کے دل کو روشن کیا ہے اور اس طرح پر الٰہی معرفت اور محبت اور عبادت کا جو اس پر حق تھا اس حق کی بجا آوری کے لئے آپ اس کی تائید کی ہے اور اس لئے اس کا نام مہدی رکھا.دوسرا امر جس کے ساتھ وہ بھیجا گیا ہے وہ دین الحق کے ساتھ روحانی بیماروں کو اچھا کرنا ہے یعنی شریعت کے صدہا مشکلات اور معضلات حل کرکے دلوں سے شبہات کو دور کرنا ہے.پس اس لحاظ سے اس کا نام عیسیٰ رکھا ہے یعنی بیماروں کو چنگا کرنے والا.غرض اس آیت شریف میں جو دو فقرے موجود ہیں ایک بالھدٰی اور دوسرے دین الحق اِن میں سے پہلا فقرہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ فرستادہ مہدی ہے اور خدا کے ہاتھ سے صاف ہوا ہے اور صرف خدا اس کا معلّم ہے اور دوسرا فقرہ یعنی دین الحق ظاہر کر رہا ہے کہ وہ فرستادہ عیسیٰ ہے اور بیماروں کے صاف کرنے کے لئے اور ان کو ان کی بیماریوں پر متنبہ کرنے کے لئے علم دیا گیا ہے اور دین الحق عطا کیا گیا ہے تا وہ ہر ایک مذہب کے بیمار کو قائل کر سکے اور پھر اچھا کر سکے اور اسلامی شفاخانہ کی طرف رغبت دے سکے کیونکہ جب کہ اس کو یہ خد مت سپرد ہے کہ وہ اسلام کی خوبی اور فوقیت ہر ایک پہلو سے تمام مذاہب پر ثابت کر دے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ علم محاسن وعیوب مذاہب اس کو دیا جائے اور اقامت حجج اور افحام خصم میں ایک ملکہ خارق عادت اس کو عطا ہو.اور ہر ایک پابند مذہب کو اس کے قبائح پر متنبہ کرسکے اور ہر ایک پہلو سے اسلام کی خوبی ثابت کر سکے اور ہر ایک طور سے روحانی بیماروں کا
357 علاج کر سکے.غرض آنے والے مصلح* کے لئے جو خاتم المصلحین ہے دو۲ جو ہر عطا کئے گئے ہیں ایک علم الہدیٰ جو مہدی کے اسم کی طرف اشارہ ہے جو مظہر صفت محمدیت ہے یعنی باوجود اُمیت کے علم دیا جانا اور دوسرے تعلیم دین الحق جو انفاس شفا بخش مسیح کی طرف اشارہ ہے یعنی روحانی بیماریوں کے دُور کرنے کے لئے اور اتمام حجت کے لئے ہر ایک پہلو سے طاقت عطا ہونا.اور صفت علم الہدیٰ اس فضل پر دلالت کرتی ہے جو بغیر انسانی واسطہ کے خدا تعالیٰ کی طرف سے ملا ہو اور صفت علم دین الحق افادہ اور تسکین قلوب اور روحانی علاج پر دلالت کرتی ہے.پھر اس کے بعد ترجمہ یہ ہے کہ ان دو صفتوں کے ساتھ اس کو اس لئے بھیجا گیا ہے تا کہ وہ دین اسلام کو تمام دینوں پر غالب کر دکھاوے کیونکہ ظاہر ہے کہ اگر ایک انسان مہدی کے خلعت فاخرہ سے ممتاز نہ ہو یعنی خدا سے علم لد ّ نی کے ذریعہ حقیقی بصیرت نہ پا وے اور خدا اس کا معلّم نہ ہو تو محض معمولی طور پر دین کی واقفیت اور ادیان باطلہ پر اطلاع پانے سے حقیقی نیکی تک نہیں پہنچا سکتا کیونکہ جب تک انسان کو خدا اور روز جزا پر علم لانے کے ذریعہ سے پورا پورا ایمان اور یقین نہ ہو تب تک وہ کیونکر کسی کو حقیقی نیکی کی طرف کھینچ سکتا ہے کیونکہ اندھا * کئی مناسبتوں کے لحاظ سے اس عاجز کا نام مسیح رکھا گیا ہے.ایک یہی کہ بیماروں کو اچھا کرنادوسرے سرعت سیر اور سیاحت اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خلاف عادت اس عاجز کی مشرق یا مغرب میں جلد شہرت ہو جائے گی جیسے بجلی کی روشنی ایک طرف سے نمودار ہو کر دوسری طرف بھی فی الفور اپنی چمک ظاہر کر دیتی ہے.ایسا ہی انشاء اللہ ان دنوں ہوگا اور ایک معنے مسیح کے صدیق کے بھی ہیں اور یہ لفظ دجال کے مقابل پر ہے اور اس کے یہ معنے ہیں کہ دجّال کوشش کرے گا کہ جھوٹ غالب ہو اور مسیح کوشش کرے گا کہ صدق غالب ہو اور مسیح خلیفۃ اللّٰہ کو بھی کہتے ہیں.جیسا کہ دجّال خلیفۃ الشیطان ہے.منہ
358 اندھے کو راہ نہیں دکھا سکتا اور یہ صفت مہدویت اگرچہ تمام نبیوں میں پائی جاتی ہے کیونکہ وہ سب خدا تعالیٰ کے شاگرد ہیں لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں خاص طور پر اور اکمل اور اتم تھی.وجہ یہ کہ دوسرے نبیوں نے انسانوں سے بھی تعلیم پائی ہے چنانچہ حضرت موسیٰ نے گویا شاہزادگی کی حیثیت میں زیر نگرانی فرعون تعلیم پائی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اُستاد ایک یہودی تھا جس سے انہوں نے ساری بائبل پڑھی اور لکھنا بھی سیکھا ایسا ہی اگر ایک انسان مہدی اور خدا سے تعلیم پانے والا ہو لیکن روحانی بیماریوں کے دُور کرنے کے لئے اس کو رُوح القدس عطا نہ کیا گیا ہو تب بھی وہ لوگوں پر حجت پوری نہیں کر سکتا اور رُوح القدس کی تائید کا متقدم بالزمان نمونہ حضرت مسیح ہیں.سو اس زمانہ میں عقلی پہلو سے بھی رُوح القدس کی تائید کی ضرورت ہے کیونکہ ہر ایک انسان طبعًا عقلی اور نقلی دلائل سے ایسا متاثر ہو جاتا ہے کہ اگران کے مخالف کوئی معجزہ بھی دکھایا جائے تو کچھ اثر نہیں کرتا اس لئے کامل مصلح کے لئے ہمیشہ سے یہ ضروری شرطیں ہیں کہ وہ ان دونوں صفتوں سے متصف ہو.یعنی وہ خدا کا خاص شاگرد ہو اور پھر ہر ایک میدان میں رُوح القدس سے تائید پاتا ہو.* اور مہدی آخر الزمان کے لئے جس کا دوسرا نام * یاد رہے کہ اگرچہ ہر ایک نبی میں مہدی ہونے کی صفت پائی جاتی ہے کیونکہ سب نبی تلامیذالرحمان ہیں اور نیز اگرچہ ہر ایک نبی میں مؤید بروح القدس ہونے کی صفت بھی پائی جاتی ہے کیونکہ تمام نبی رُوح القدس سے تائید یافتہ ہیں لیکن پھر بھی یہ دو نام دو نبیوں سے کچھ خصوصیت رکھتے ہیں یعنی مہدی کا نام ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص ہے.اور مسیح یعنی مؤید بروح القدس کا نام حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کچھ خصوصیت رکھتا ہے گو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس نام کے رو سے بھی فائق ہیں کیونکہ اُن کو شدید القویٰ کا دائمی انعام دیا گیا ہے لیکن رُوح القدس کے مرتبہ میں جو شدید القویٰ سے کم مرتبہ ہے حضرت
359 مسیح موعود بھی ہے بوجہ ذوالبروزین ہونے کے ان دونوں صفتوں کا کامل طور پر پایا جانا از بس ضروری ہے کیونکہ جیسا کہ اس آیت سے سمجھا جاتا ہے.حالت فاسدہ زمانہ کی یہی چاہتی ہے کہ ایسے گندے زمانہ میں جو امام آخر الزمان آوے وہ خدا سے مہدی ہو اور دینی امور میں کسی اور کا شاگرد نہ ہو اور نہ کسی کا مرید ہو اور عام علوم و معارف خدا سے پانے والا ہونہ علم دین میں کسی کا شاگرد ہو اور نہ امور فقر میں کسی کا مرید اور ایسا ہی رُوح پاک مقدس سے تائید یافتہ ہو اور ان امراض میں سے جو دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ہر ایک قسم کے روحانی مرض کے دور کرنے پر قادر ہو.اور ظاہر ہے کہ بعض اشخاص عقلی ابتلاؤں کی وجہ سے مریض ہوتے ہیں اور بعض نقلی ابتلاؤں کی وجہ سے اور عیسیٰ ہونے کے لئے شرط ہے کہ رُوح القدس سے تائید پاکر ہر ایک بیمار کو اچھا کرے اور ظاہر ہے کہ اگر ایک شخص محض ایک عقلی غلطی سے شبہات میں مبتلا ہے اس کو تسلّی دینے کے لئے صرف یہ کافی نہیں ہے کہ معجزہ کے طور پر مثلاً ایک بیمار اس کے سامنے اچھا کر دیا جائے کیونکہ وہ ایسے معجزہ سے عقلی غلطی کے دھوکہ سے نجات نہیں پا سکتا جب تک کہ اسی راہ سے وہ غلطی نکالی نہ جائے جس راہ سے وہ غلطی پڑی ہے.اسی واسطے مَیں بار بار کہتا ہوں کہ یہ زمانہ جس میں ہم ہیں مسیح کو بھی چاہتا ہے اور مہدی کو بھی.مہدی کو اس لئے کہ اس گندہ زمانہ میں لاحقین کا ربط سابقین سے ٹوٹ گیا ہے اس لئے ضرور ہے مسیح کو یہ خصوصیت دی گئی ہے جیسا کہ یہ دونوں خصوصیتیں قرآن شریف سے ظاہر ہیں.آنحضرت کا نام امّی مہدی رکھا اور 33۱ فرمایا.اور حضرت مسیح کو رُوح القدس سے تائید یافتہ قرار دیاجیسا کہ کسی شاعر نے بھی کہا ہے : فیض روح القدس ارباز مدد فرماید ہمہ آں کارکنند آنچہ مسیحامے کرد اور نبیوں کی پیشگوئیوں میں یہ تھا کہ امام آخرالزمان میں یہ دونوں صفتیں اکٹھی ہو جائیں گی.یہ اس طرف اشارہ ہے کہ وہ آدھا اسرائیلی ہوگا اور آدھا اسماعیلی.منہ
360 کہ ظاہر ہونے والا آدم کی طرح ظاہر ہو جس کا استاد اور مرشد صرف خدا ہو اور اسی کو دوسرے لفظوں میں مہدی کہتے ہیں یعنی خاص خدا سے ہدایت پانے والا اور تمام رُوحانی وجود اُسی سے حاصل کرنے والا اور اُن علوم اور معارف کو پھیلانے والا جن سے لوگ بے خبر ہو گئے ہیں کیونکہ یہ ضروری لازمہ صفت مہدویت ہے کہ گم شدہ علوم اور معارف کو دوبارہ دنیا میں لاوے کیونکہ وہ آدم روحانی ہے.ایسا ہی چاہئے کہ وہ بذریعہ نشانوں کے دوبارہ خدا تعالیٰ پر یقین دلانے والا ہو اور ایمان جو آسمان پر اُٹھ گیا اس کو بذریعہ نشانوں کے دوبارہ لانے والا ہو کیونکہ یہ بھی ضروری خاصہ صفت مہدویت ہے.مہدی کے لئے ضروری ہے کہ ہر ایک پہلو سے آدم وقت ہو.حقیقی اور کامل مہدی نہ موسیٰ تھا کیونکہ اس نے صحف ابراہیم وغیرہ پڑھے تھے اور نہ عیسیٰ تھا کیونکہ اُس نے توریت اور صحف انبیاء پڑھے تھے.حقیقی اور کامل مہدی دنیا میں صرف ایک ہی ہے یعنی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو محض امّی تھا.ایسا ہی یہ زمانہ جس میں ہم ہیں مسیح کو بھی چاہتا ہے کیونکہ اس زمانہ میں ہزارہا رُوحانی بیماریاں پیدا ہو گئی ہیں.پس ضرورت پڑی کہ اتمام حجت ہو کر ہر ایک قسم کی روحانی بیماری دُور ہو.اور مہدی اور مسیح میں کھلا کھلا فرق یہ ہے کہ مہدی کے لئے ضروری ہے کہ آدم وقت ہو اور اس کے وقت میں دنیا بکلّی بگڑ گئی ہو اور نوع انسان میں سے اُس کا دین کے علوم میں کوئی استاد اور مرشد نہ ہو بلکہ اس لیاقت کا آدمی کوئی موجود ہی نہ ہو اور محض خدا نے اسرار اور علوم آدم کی طرح اس کو سکھائے ہوں.لیکن مسیح کے صرف یہ معنے ہیں کہ رُوح القدس سے تائید یافتہ ہو اور وقتاً فوقتاً فرشتے اس کی مدد کرتے ہوں.* * اس جگہ بظاہر یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ مہدی کو بھی بذریعہ روح القدس ہی ہدایت ملتی ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ مہدی کے مفہوم میں یہ معنے ماخوذ ہیں کہ وہ کسی انسان کا علم دین میں
361 بقیہ ترجمہ یہ ہے:.اور تم ایک گڑھے کے کنارہ پر تھے خدا نے تمہیں اس سے نجات دی اور یہ ابتدا سے مقدر تھا.خدا کی باتوں کو کوئی ٹال نہیں سکتا.اور وہ ہنسی کرنے والوں کے لئے کافی ہوگا.یہ تمام کاروبار خدا کی رحمت سے ہے وہ اپنی نعمت تیرے پر پوری کرے گا تا کہ لوگوں کے لئے نشان ہو.ا ن کوکہہ دے کہ اگر خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت رکھے اور ان کو کہہ دے کہ میرے پاس میری سچائی پر خدا کی گواہی ہے پس کیا تم خدا کی گواہی قبول کرتے ہو یا نہیں.اور ان کو کہہدے کہ تم اپنی جگہ پر کام کرو اور مَیں اپنی جگہ پر کرتا ہوں پھر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ خدا کس کے ساتھ ہے.خدا نے تجلی فرمائی ہے کہ تا تم پر رحم کرے اور اگر تم نے مُنہ پھیر لیا تو وہ بھی مُنہ پھیر لے گا اور سچائی کے مخالف ہمیشہ کے زندان میں رہیں گے.تجھ کو یہ لوگ ڈراتے ہیں.تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے.میں نے تیرا نام متوکل رکھا.خدا عرش پر سے تیری تعریف کر رہا ہے.ہم تیری تعریف کرتے اور تیرے پر درود بھیجتے ہیں.لوگ چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو اپنے منہ کی پُھونکوں سے بُجھادیں.مگر خدا اُس نور کو نہیں چھوڑے گا جب تک پورا نہ کر لے اگرچہ شاگرد یا مرید نہ ہو اور خدا کی ایک خاص تجلّی تعلیم لدّ نی کے نیچے دائمی طور پر نشوو نما پاتا ہو جو رُوح القدس کے ہریک تمثل سے بڑھ کر ہے اور ایسی تعلیم پانا صفت محمدی ہے اور اِسی کی طرف آیت 3۱ میں اشارہ ہے اور اس فیض کے دائمی اور غیر منفک ہونے کی طرف آیت 33 ۲ میں اشارہ ہے اور مسیح کے مفہوم میں یہ معنے ماخوذ ہیں جو دائمی طور پر وہ رُوح القدس اس کے شامل ہو.جو شدید القویٰ کے درجہ سے کمتر ہے کیونکہ روح القدس کی تاثیر یہ ہے کہ وہ اپنے منزل علیہ میں ہو کر انسانوں کو راستے کا ملزم بناتاہے مگر شدید القویٰ راستے کا اعلیٰ رنگ منزل علیہ میں ہو کر انسانوں کے دلوں میں چڑھاتاہے.منہ
362 منکر کراہت کریں.ہم عنقریب ان کے دلوں میں رعب ڈالیں گے.جب خدا کی مدد اور فتح آئے گی اور زمانہ ہماری طرف رجوع کر لے گا تو کہا جائے گاکہ کیا یہ سچ نہ تھا جیسا کہ تم نے سمجھا.اور کہتے ہیں کہ یہ صرف بناوٹ ہے.ان کوکہہ دے کہ خدا ہے جس نے یہ کاروبار بنایا پھر انکو چھوڑ دے تا اپنے بازیچہ میں لگے رہیں.ان کو کہہ دے کہ اگر میں نے افترا کیا ہے تو اس کا گناہ میرے پر ہوگا اور افترا کرنے والے سے بڑھ کر کون ظالم ہے.اور ہم قادر ہیں کہ تیری موت سے پہلے کچھ ان کو اپنا کرشمہ قدرت دکھاویں جس کا ہم وعدہ کرتے ہیں یا تجھ کو وفات دیدیں.میں تیرے ساتھ ہوں سو تو ہر ایک جگہ میرے ساتھ رہ.تم بہترین اُمت ہو جو لوگوں کے فائدہ کے لئے نکالے گئے.اور تم مومنوں کا فخر ہو اور خدا کی رحمت سے نومید مت ہو.اس کی رحمت تجھ سے قریب ہے اس کی مدد تجھ سے قریب ہے.اس کی مدد ہر ایک دور کی راہ سے تجھے پہنچے گی.دور کی راہ سے مدد کرنے والے آئیں گے خدا اپنے پاس سے تیری مدد کرے گا.وہ لوگ تیری مدد کریں گے جن کے دلوں میں مَیں الہام ڈالوں گامیں غم سے تجھے نجات دوں گا.میں خداقادر ہوں.ہم تجھے ایک کھلی فتح دیں گے.جو ولی کو فتح دی جاتی ہے وہ بڑی فتح ہوتی ہے اور ہم نے اس کو خاص اپنا رازدار بنایا.سب انسانوں سے زیادہ بہادر ہے اور اگر ایمان ثریا پر ہوتا تو وہیں سے وہ لے آتا.خدا اس کے برہان کو روشن کرے گا.اے احمد! رحمت تیرے لبوں پر جاری کی گئی.تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے.خدا تیرے ذکر کو اونچا کرے گا.اور دنیا اور آخرت میں اپنی نعمت تیرے پر پوری کرے گا.اے میرے احمد! تو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے.مَیں نے تیرا درخت اپنے ہاتھ سے لگایا.اور ہم نے تیری طرف نظر کی اور کہا کہ اے آگ جو فتنہ کی آگ قوم کی طرف سے ہے اس ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی ہو جا.یعنی آخر کار یہ تمام آتش فتنہ فرو ہو جائے گی.(یہ پیشگوئی دونوں طرف سے
363 ہے یعنی اس وقت یہ خبر دی جبکہ قوم میں کوئی فتنہ نہ تھا اور مولوی لوگ مصدق تھے اور پھر اس آخری وقت کی خبر دی کہ جبکہ اس فتنہ کے بعد قوم سمجھ جائے گی).اور پھر فرمایا کہ اے احمد تیرا نام پورا ہو جائے گا اور میرا نام پورا نہیں ہوگا.اے احمدتو مبارک کیا گیا اور جو تجھے برکت دی گئی وہ تیرا ہی حق تھا.تیری شان عجیب ہے اور تیرا بدلہ قریب ہے.میں تجھے لوگوں کے لئے امام معہود بناؤں گا یعنی تجھے مسیح موعود اور مہدی معہود کروں گا.کیا لوگ اس سے تعجب کرتے ہیں.ان کو کہہ دے کہ خدا ذو العجائب ہے اِسی طرح ہمیشہ کیا کرتا ہے.جس کو چاہتا ہے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور اپنے برگز یدوں میں داخل کر دیتا ہے.اور وہ اپنے کاموں سے پوچھا نہیں جاتااور لوگ اپنے اعمال سے پوچھے جاتے ہیں.تو میری درگاہ میں وجیہ ہے.میں نے تجھے اپنے لئے چنا.زمین اور آسمان تیرے ساتھ ایسے ہی ہیں جیسا کہ میرے ساتھ.تیرا بھید میرا بھید ہے تو مجھ سے ایسا ہے جیسے میری توحید اور تفرید.پس وقت آگیا ہے کہ تجھ کو لوگوں میں شہرت دی جائے گی.اب تو تیرے پر وہ وقت ہے کہ کوئی بھی تجھ کو نہیں پہچانتا اور نزدیک ہے کہ تو تمام لوگوں میں شہرت پا جائے گا.اور کہیں گے کہ یہ رتبہ تجھے کہاں سے ملا یہ تو جھوٹ ہی معلوم ہوتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ اپنے کسی بندہ کی مدد کرتا ہے اور اس کو اپنے برگزیدوں میں داخل کر لیتا ہے تو زمین پر کئی حاسد اس کے لئے مقرر کر دیتا ہے.یہی سنت اللہ ہے.پس ان کوکہہ د ے کہ میں تو کچھ چیز نہیں مگر خدا نے ایسا ہی کیا.پھر ان کو چھوڑ دے کہ تا بیہودہ فکروں میں پڑے رہیں.وہ خدا بہت پاک اور بہت مبارک اور بہت اونچا ہے جس نے تیری بزرگی کو زیادہ کیا.وہ وقت آتا ہے کہ تیرے باپ دادے کا ذکر کوئی بھی نہیں کرے گا.* اور ابتدا سلسلہ خاندان کا * یہ اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ اس خاکسار کے باپ دادے رئیس ابن رئیس اور
364 تجھ سے شروع ہوگا.(اور یہی انبیاء اور مامورین عظام میں خدا تعالیٰ کی عادت ہے) اور خدا ایسا نہیں ہے جو تجھے چھوڑ دے جب تک پاک اور پلید میں فرق کرکے نہ دکھلاوے.مَیں نے ارادہ کیا کہ ایک خلیفہ پیدا کروں سو میں نے آدم کو بنایا.اے آدم تو اور تیرے دوست اور تیری بیوی بہشت میں داخل ہو.اے احمد تو اور تیرے دوست اور تیری بیوی بہشت میں داخل ہو.اے مریم تو اور تیرے دوست اور تیری بیوی بہشت میں داخل ہو.تو اس حالت میں مرے گا کہ میں تجھ سے راضی ہوں گا.اور خدا کے فضل سے تو بہشت میں داخل ہوگا.سلامتی کے ساتھ پاکیزگی کے ساتھ امن کے ساتھ بہشت میں داخل ہوگا.خدا تیرے سب کام درست کر دے گا اور تیری ساری مُرادیں تجھے دے گا.تیرے پر سلام تو مبارک کیا گیا.اور جس قدر لوگ تیرے زمانہ میں ہیں سب پر میں نے تجھے فضیلت دی.کہیں گے کہ یہ تو افترا ہے ہم نے اپنے باپ دادوں سے ایسا نہیں سُنا اور تیرا خدا قادر ہے جس کو چاہتا ہے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے.اور ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور بعض کو بعض پر فضیلت بخشی.ان کو کہہ دے کہ خدا کی طرف سے نور تمہارے پاس آیا ہے.پس اگر تم مومن ہو تو انکار مت کرو.جو لوگ کافر ہو گئے اور خدا کی راہ کے مزاحم والیان ملک تھے اور وہ اس ملک میں بھی اس قدر دیہات کے مالک اور خود سروالی رہ چکے ہیں جو طول میں پچاس کوس سے زیادہ تھے.پس ان الہامات میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اب ایک نئی شہرت کا سِلسلہ پیدا ہوگا جو آبائی مرتبہ اور بزرگی پر غالب آجائے گا یہاں تک کہ اس کا کوئی بھی ذکر نہیں کرے گا.منہ
365 ہوئے اُن پر ایک مرد نے جو فارس کی نسل میں سے ہے* ردّ کیا.کتاب ولی کی علی کی ذوالفقار ہے اور اگر ایمان ثریا پر ہوتا تو وہاں سے اُس کو لے آتا.قریب ہے کہ اس کا تیل خود بخود بھڑک اُٹھے اگرچہ آگ اس کو نہ چُھوئے.وہ خدا سے نزدیک ہوا اور آگے سے آگے بڑھا یہاں تک کہ دو قوسوں کے درمیان کھڑا ہو گیا.3 ہم نے اس کو قادیان کے قریب اتارا اور حق کے ساتھ اتارا اور حق کے ساتھ اُترا اور اس میں وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو قرآن اور حدیث میں تھی یعنی وہی مسیح موعود ہے جس کا ذکر قرآن شریف اور حدیثوں میں تھا.سچی بات یہی ہے جس میں تم لوگ شک کرتے ہو.اور بعض کہیں گے کہ اس عہدہ اور منصب کے لائق فلاں فلاں تھا جو فلاں جگہ رہتا ہے اور کہیں گے کہ یہ تو مکر ہے جو تم نے شہر میں مل جل کر بنا لیا.یہ لوگ تیری طرف دیکھتے ہیں اورتو انہیں نظر نہیں آتا.دیکھو یہ کیسا نشان ہے کہ خدا نے اسے سکھلایا اور بغیر اُن کے جو پاک کئے جاتے ہیں کسی کو علمِ قرآن * یاد رہے کہ اس خاکسار کا خاندان بظاہر مغلیہ خاندان ہے کوئی تذکرہ ہمارے خاندان کی تاریخ میں یہ نہیں دیکھا گیا کہ وہ بنی فارس کا خاندان تھا ہاں بعض کاغذات میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ہماری بعض دادیاں شریف اور مشہور سادات میں سے تھیں.اب خدا کی کلام سے معلوم ہوا کہ دراصل ہمارا خاندان فارسی خاندان ہے.سو اس پر ہم پورے یقین سے ایمان لاتے ہیں کیونکہ خاندانوں کی حقیقت جیسا کہ خدا تعالیٰ کو معلوم ہے کسی دوسرے کو ہرگز معلوم نہیں اسی کا علم صحیح اور یقینی ہے اور دوسروں کا شکی اور ظنّی.منہ
366 نہیں دیا جاتا.اے قادر کے بندے میں تیرے ساتھ ہوں اور آج تو میرے پاس امین ہے اور تیرے پر دنیا اور دین میں میری رحمت ہے اور تو منصور اور مظفر ہے دنیا اور آخرت میں وجیہ اور خدا کا مقرب.مَیں تیرا ضروری چارہ ہوں اور میں نے تجھے زندہ کیا.میں نے اپنے پاس سے سچائی کی رُوح تجھ میں پُھونکی اور اپنی محبت تیرے پر ڈال دی اورتو نے میری آنکھوں کے سامنے پرورش پائی.خدا تیری تعریف کرتا ہے اور تیری طرف چلا آتا ہے.اس نے اس آدم کو یعنی تجھ کو پیدا کیا اور اس کو عزت دی.یہ خدا کا رسول ہے نبیوں کے حُلّوں میں.* جو شخص اس کے مطبع سے ردّ کیا گیا اس کا کوئی ٹھکانا نہیں.اور یاد کر وہ آنے والا زمانہ جبکہ ایک شخص تیرے پر تکفیر کا فتویٰ لگائے گا اور اپنے کسی ایسے شخص کو جس کے فتوے کا دنیا پر عام اثر ہوتا ہو کہے گا کہ اے ہامان میرے لئے اس فتنہ کی آگ بھڑکا تا میں اس شخص کے خدا پر اطلاع پاؤں.اور میں خیال کرتا ہوں کہ یہ جھوٹا ہے.ہلاک ہو گئے دونوں ہاتھ ابی لہب کے اور وہ بھی ہلاک ہو گیا (یعنی جس نے یہ فتویٰ لکھا یا لکھوایا) * یہ الفاظ بطور استعارہ ہیں جیسا کہ حدیث میں بھی مسیح موعود کے لئے نبی کا لفظ آیا ہے.ظاہر ہے کہ جس کو خدا بھیجتا ہے وہ اس کا فرستادہ ہی ہوتا ہے اور فرستادہ کو عربی میں رسول کہتے ہیں.اور جو غیب کی خبر خدا سے پاکر دیوے اس کو عربی میں نبی کہتے ہیں.اسلامی اصطلاح کے معنے الگ ہیں.اس جگہ محض لغوی معنے مراد ہیں.ان سب مقامات کا مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے ریویو لکھا ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ بیس برس سے تمام پنجاب اور ہندوستان کے علماء ان الہامات کو براہین احمدیہ میں پڑھتے ہیں اور سب نے قبول کیا.آج تک کسی نے اعتراض نہیں کیا.بجز دو تین لدھیانہ کے ناسمجھ مولوی محمد اور عبد العزیز کے.منہ
367 اس کو نہیں چاہئے تھا کہ اس معاملہ میں دخل دیتا مگر ڈرتے ڈرتے.یہ پیشگوئی کے طور پر کئی سال پہلے اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جبکہ میری نسبت کفر کا فتویٰ لکھا گیا.اور پھر فرمایا کہ اس فتویٰ تکفیر سے جو کچھ تکلیف تجھے پہنچے گی وہ تو خدا کی طرف سے ہے.یہ ایک فتنہ ہوگا.پس صبر کر جیسا کہ اولوالعزم نبیوں نے صبر کیا اور آخر خدا منکرین کے مکر کو سُست کر دے گا.سمجھ اور یاد رکھ کہ یہ فتنہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوگا تا وہ تجھ سے بہت سا پیار کرے.یہ اس خدا کا پیار ہے جو غالب اور بزرگ ہے اور اس مصیبت کے صلہ میں ایک ایسی بخشش ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوگی.مَیں ایک پوشیدہ خزانہ تھا پس مَیں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں.زمین اور آسمان دونوں ایک سر بستہ گٹھڑی کی طرح ہو گئے تھے جن کے جواہر اور اسرار پوشیدہ تھے پس ہم نے ان دونوں کو کھول دیا یعنی اس زمانہ میں ایک قوم پیدا ہو گئی جو ارضی خواص اور طبائع کو ظاہر کر رہے ہیں اور ان کے مقابل پر ایک دوسری قوم پیدا کی گئی جن پر آسمان کے دروازے کھولے گئے.اور تجھے منکروں نے ایک ہنسی کی جگہ بنا رکھا ہے.اور کہتے ہیں کیا یہی ہے جس کو خدا نے مبعوث فرمایا.کہہ میں تو خدا تعالیٰ کی طرف سے فقط ایک بشر ہوں مجھ کو یہ وحی ہوتی ہے کہ تمہارا خدا ایک خدا ہے.اور تمام بہتری قرآن میں ہے.لٹک کر چل کہ تیرا وقت پہنچ گیا اور محمدیوں کا پَیر ایک بلند اور محکم مینار پر پڑ گیا.وہی پاک محمد جو نبیوں کا سردار ہے.اے عیسیٰ میں تجھے وفات دوں گا اور اپنی طرف اٹھاؤں گا (یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مخالف کوشش کریں گے کہ کسی طرح کوئی ایسے امور پیدا ہو جائیں کہ لوگ خیال کریں کہ یہ شخص ایمان دار اور را ستباز نہیں تھا.سو وعدہ دیا کہ میں علاماتِ بیّنہ سے ظاہر کر دوں گا کہ وہ میرا مقرب ہے اور میری طرف اس کا رفع ہوا ہے اور بد اندیش نامراد رہیں گے) اور پھر فرمایا کہ میں تیری جماعت کو تیرے مخالفوں پر قیامت تک غلبہ دوں گا.ایک گروہ پہلوں میں سے
368 ہوگا جو اوائل حال میں قبول کر لیں گے اور ایک گروہ پچھلوں میں سے ہوگا جو متواتر نشانوں کے بعد مانیں گے.میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا.اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُسے قبول نہ کیا.لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.خدا اس کا نگہبان ہے.خدا کی عنایت اس کی نگہبان ہے.ہم نے اس کو اتارا اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں.خدا بہتر نگہبانی کرنے والا ہے اور وہ رحمان اور رحیم ہے.کفر کے پیشوا تجھے ڈرائیں گے تو مت ڈر کہ تو غالب رہے گا.خدا ہر ایک میدان میں تیری مدد کرے گا.میرا دن ایک بڑے فیصلہ کا دن ہے.میری طرف سے یہ وعدہ ہو چکا ہے کہ مَیں اور میرے رسول فتح یاب رہیں گے.کوئی نہیں کہ میری باتوں میں کچھ تبدیلی کر دے.تو میرے ساتھ اور مَیں تیرے ساتھ ہوں.تیرے لئے مَیں نے رات اور دن پیدا کیا.جو چاہے کر کہ تُو مغفور ہے.تو مجھ سے وہ نسبت رکھتا ہے جس کی دنیا کو خبر نہیں.کیا لوگ خیال کرتے ہیں کہ کوئی آسمان پر رہنے والا یا کسی غار میں چھپنے والا وہ عجیب تر انسان ہے.کہہ خدا عجیب درعجیب باتیں ظاہر کرنے والا ہے ہر ایک دن نیا اعجوبہ ظاہر کرتا ہے.وہی خدا ہے جو نومیدی کے بعد بارش نازل کرتا ہے اور پاک کلمے اس کی طرف چڑھتے ہیں.ابراہیم پر سلام (یعنی اس عاجز پر) ہم نے اس سے محبت کی اور غم سے نجات دی ہم نے ہی یہ کیا پس تم ابراہیم کے قدم پر چلو.اب دیکھو کہ یہ وہ الہامات براہین احمدیہ ہیں جن کا مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے ریویو لکھا تھا اور جن کو پنجاب اور ہندوستان کے تمام نامی علماء نے قبول کر لیا تھا اور ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا حالانکہ ان الہامات کے کئی مقامات میں اس خاکسار پر خدا تعالیٰ کی طرف سے صلوٰۃ اور سلام ہے اور یہ
369 الہامات اگر میری طرف سے اُس موقع پر ظاہر ہوتے جبکہ علماء مخالف ہوگئے تھے تو وہ لوگ ہزارہا اعتراض کرتے لیکن وہ ایسے موقع پر شائع کئے گئے جبکہ یہ علماء میرے موافق تھے.یہی سبب ہے کہ باوجود اس قدر جوشوں کے ان الہامات پر انہوں نے اعتراض نہیں کیا کیونکہ وہ ایک دفعہ ان کو قبول کر چکے تھے اور سوچنے سے ظاہر ہوگا کہ میرے دعویٰ مسیح موعود ہونے کی بنیاد انہی الہامات سے پڑی ہے اور انہی میں خدا نے میرا نام عیسیٰ رکھا اور جو مسیح موعود کے حق میںآیتیں تھیں وہ میرے حق میں بیان کر دیں.اگر علماء کو خبر ہوتی کہ ان الہامات سے تو اس شخص کا مسیح ہونا ثابت ہوتا ہے تو وہ کبھی ان کو قبول نہ کرتے.یہ خدا کی قدرت ہے کہ انہوں نے قبول کر لیا اور اس پیچ میں پھنس گئے.غرض اعتراض کرنے والے اپنے اعتراضوں کے وقت میں یہ نہیں سوچتے کہ جس شخص نے مسیح موعود کا دعویٰ کیا ہے وہ تو وہ شخص ہے جس کی نسبت خداتعا لیٰ کی طرف سے یہ اعزاز اور اکرام کے الہامات ہیں اور جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ عزت دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ کیسی خوش قسمت وہ اُمت ہے جس کے اول سر میں مَیں ہوں اور آخر میں مسیح موعود ہے اور حدیثوں سے صاف طور پر ثابت ہے کہ اگرچہ وہ ایک شخص امت میں سے ہے مگر انبیاء کی اس میں شان ہے.پھر ایسے شخص کے حق میں صلوٰۃ اور سلام کیوں غیر موزوں اور غیر محل ہے.نہ معلوم کہ ان لوگوں کی عقلوں پر کیا پتھر پڑے کہ جس شخص کو تمام نبی ابتدائے دنیا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک عزت دیتے آئے ہیں اس کو ایک ایسا ذلیل سمجھتے ہیں کہ صلوٰۃ اور سلام بھی اس پر کہنا حرام ہے.یہی وجہ تو ہے کہ ہم بار بار ان لوگوں کو متنبہ کرتے ہیں کہ خدا سے ڈرو اور سمجھو کہ جس شخص کو مسیح موعود کرکے بیان فرمایا گیا ہے وہ کچھ معمولی آدمی نہیں ہے بلکہ خدا کی کتابوں میں اُس کی عزت انبیاء علیہم السلام کے ہم پہلو رکھی گئی ہے تم اگر نہ مانو تو تم پر ہمارا
370 جبر نہیں لیکن اگر کتابیں دیکھو گے تو یہی پاؤگے.اور اگر یہ کہو کہ مسیح موعود تو وہ ہے جو آسمان سے اُترتا دیکھا جائے گا* تو یہ خدا تعالیٰ پر جھوٹ اور اُس کی کتاب کی مخالفت ہے.خدا تعالیٰ کی کتاب قرآن شریف سے یہ قطعی فیصلہ ہو چکا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں.تعجب کہ خدا تعالیٰ تو قرآن شریف کے کئی مقام میں حضرت عیسیٰ کی وفات ظاہر فرماتا ہے اور آپ لوگ اس کو آسمان سے اُتار رہے ہیں کیا اب قرآن شریف کے قصے بھی منسوخ ہو گئے؟ یہ وہی قرآن ہے جس کی ایک آیت سُن کر ایک لاکھ صحابہ نے سر جھکا دیا تھا اور بلاتوقف مان لیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تمام نبی عیسیٰ وغیرہ فوت ہو چکے ہیں اور اب وہی قرآن ہے جو بار بار آپ لوگوں کے روبرو پیش کیا جاتا ہے اور آپ لوگوں کو کچھ بھی اس کی پروا نہیں.آپ لوگ میری بڑی بڑی کتابو ں کو تو نہیں دیکھتے اور فرصت کہاں ہے لیکن اگر میرے رسالہ تحفہ گولڑویہ اور تحفہ غزنویہ کو ہی دیکھو جو پیر مہر علی شاہ اور غزنوی جماعت مولوی عبد الجبار وعبد الواحد وعبد الحق وغیرہ کی ہدایت کے لئے لکھی گئی ہیں جن کو آپ لوگ صرف دو گھنٹہ کے اندر بہت غور اور تامّل سے پڑھ سکتے ہیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ مسیح کی نسبت قرآن کیا کہتا ہے.آپ یاد رکھیں کہ اس قدر حیات مسیح پر جو آپ زور دیتے ہیں یہ بر خلاف منشاء کلام الٰہی ہے.اے عزیزو! یاد رکھو کہ جو شخص آناتھا آچکا اور صدی جس کے سرپر مسیح موعود آنا چاہئے تھا اِس میں سے بھی سترہ۱۷ برس گذر گئے اور اس صدی میں جس پر امت کے اولیاء کی نظریں لگی ہوئی تھیں اس میں بقول تمہارے ایک چھوٹا سا مجدد بھی پیدا نہ ہوا اور محض ایک دجّال پیدا ہوا.کیا اِن شوخیوں کا حضرت عزت * آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کی رات میں کسی نے نہ چڑھتا دیکھا اور نہ اُترتا تو پھر کیا ان لوگوں کا فرضی مسیح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل تھا؟ منہ
371 کی درگاہ میں جواب دینا نہیں پڑے گا؟ گو کیسے ہی دل سخت ہو گئے ہیں آخر اس قدر تو خوف چاہئے تھا کہ جو شخص صدی کے سرپر پیدا ہوا اور رمضان کے کسوف خسوف نے اس کی گواہی دی اور اسلام کے موجودہ ضعف اور دشمنوں کے متواتر حملوں نے اُس کی ضرورت ثابت کی اور اولیاء گذشتہ کے کشوف نے اس بات پر قطعی مہر لگا دی کہ وہ چودھویں صدی کے سر پر پیدا ہوگا اورنیز یہ کہ پنجاب میں ہوگا ایسے شخص کی تکذیب میں جلدی نہ کرتے.آخر ایک دن مرنا ہے اور سب کچھ اسی جگہ چھوڑ جانا ہے دیکھو اگر مَیں خدا کی طرف سے ہوا اور تم نے میری تکذیب کی اور مجھے کافر قرار دیا اور دجّال نام رکھا تو جناب الٰہی کو کیا جواب دوگے؟ کیا انہی کی مانند جواب ہیں جو یہودیوں اور عیسائیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے انکار کرنے کے وقت اپنی کتابوں میں لکھے ہیں کہ توریت کے تمام نشان قرار دادہ پورے نہیں ہوئے اور کچھ رہ گئے ہیں.سو مدت ہوئی کہ خدا تعالیٰ اُن کو جواب دے چکا کہ جو کچھ تمہارے ہاتھ میں ہے وہ سب کچھ صحیح نہیں ہے اور نہ وہ تمام معنے صحیح ہیں جو تم کر رہے ہو.جو شخص حَکَم کرکے بھیجا گیا ہے اس کی بات کو سنو.سو یہی جواب خدا تعالیٰ کی طرف سے اب ہے چاہو تو قبول کرو.آہ آپ لوگوں کو چاہئے تھا کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے قصّے سے عبرت پکڑتے.ان لوگوں کی حضرت مسیح اور حضرت خاتم الابنیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہی حجت تھی کہ ہم نہیں مانیں گے جب تک تمام علامتیں پوری نہ ہو لیں اور بوجہ زمانہ دراز اور انواع تغیرات کے یہ غیر ممکن تھا اس لئے وہ کفر پر مرے.سو تم اُسی طرح ٹھوکر مت کھاؤجو یہودی اور نصرانی کھا چکے اگر تمہارا ذخیرہ سب کا سب صحیح ہوتا تو پھر حَکَم مجدد کے آنے کی کیا ضرورت تھی؟ ہر ایک فرقہ کو یہی خیال ہے کہ جو کچھ میرے پاس ہے یہی صحیح ہے.اب یہ تمام فرقے تو سچ پر نہیں اس لئے سچ وہی ہے جو حَکَم کے مُنہ سے نکلے.اگر ایمان ہو تو خدا کے مقرر کردہ حَکَم کے حکم سے بعض حدیثوں کا چھوڑنا یا
372 ان کی تاویل کرنا مشکل امر نہیں ہے یہ تمہارے بزرگوں کی اپنے مُنہ کی تجویزیں ہیں کہ فلاں حدیث صحیح ہے اور فلاں حسن اور فلاں مشہور اور فلاں موضوع ہے.خدا تعالیٰ کا حکم نہیں اور کسی وحی کے ذریعہ سے یہ تقسیم نہیں ہوئی.پھر ایسی حدیث جو قرآن کے مخالف ہو اور بعض دوسری حدیثوں کے بھی مخالف اور خدا کے حکم سے بھی مخالف ہو تو کیا وجہ کہ اس کو ردّ نہ کیا جائے.کیا یہ ضروری ہے کہ جب کوئی خدا کی طرف سے آوے تو اُس پر واجب ہے کہ امت موجودہ کے ہر ایک رطب یابس کو مان لے.اگر یہی معیار ہے تو نہ حضرت مسیح علیہ السلام کی نبوت ثابت ہو سکتی ہے اور نہ حضرت خاتم الابنیاء کی.مثلاً مسیح کے لئے یہودیوں کے ہاتھ میں ملاکی نبی کی کتاب کے حوالہ سے یہ نشان تھا کہ جب تک دوبارہ ایلیا نبی دنیا میں نہ آوے مسیح نہیں آئے گااور دوسرا یہ نشان کہ وہ ایک بادشاہ کی صورت میں ظاہر ہوگا اور غیر طاقتوں کی حکومت سے یہودیوں کو چُھڑائے گا.مگر کیا حضرت مسیح بادشاہ ہو کر آئے؟ یا ان کے آنے سے پہلے ایلیا نبی آسمان سے نازل ہوا؟ بلکہ دونوں پیشگوئیاں غلط گئیں اور کوئی نشان حضرت مسیح پر صادق نہ آیا.آخر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تاویلات سے کام لیا جن تاویلات کو یہودی اب تک قبول نہیں کرتے اور ان پر ہنسی اور ٹھٹھا کرتے ہیں اور نعوذ باللہ اُن کو مفتری جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ملا کی نبی کی کتاب میں تو صریح اور صاف لفظوں میں فرمایا گیا تھا کہ خود ایلیا نبی ہی دوبارہ آجائے گا یہ تو نہیں فرمایا تھا کہ ان کا کوئی مثیل آئے گا.اور ظاہر عبارت پر نظر کرکے یہودی سچے معلوم ہوتے ہیں ایسا ہی آنے والا مسیح ان کی کتابوں میں بادشاہ کے طور پر ظاہر کیا گیا تھا اور ان معنوں میں بھی بظاہر حال یہودی حق بجانب معلوم ہوتے ہیں اور باایں ہمہ اس بات میں کیا شک ہے کہ حضرت مسیح سچے نبی ہیں کیونکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ پیشگوئیوں میں مجاز اور استعارات بھی ہوتے ہیں تبدیل و تحریف کا بھی امکان ہے.لہٰذا ہر ایک نبی یا محدث جو حَکَم ہوکر آتا ہے
373 وہ قوم کی پیش کردہ باتوں میں سے کچھ تو منظور کرتا ہے اور کچھ ردّ کر دیتا ہے اور اس کی نسبت اُن لوگوں نے جو جو علامتیں مقرر کی ہوئی ہوتی ہیں کچھ تو اس پر صادق آجاتی ہیں اور کچھ صادق نہیں آتیں کیونکہ اُن میں کچھ ملونی ہو جاتی ہے یا اُلٹے معنے کئے جاتے ہیں.پس جو شخص میری نسبت یہ ضد کرتا ہے کہ جب تک وہ تمام علامتیں جو سنیوں اور شیعوں نے مسیح اور مہدی کی نسبت بنا رکھی ہیں پوری نہ ہو جائیں تب تک ہم نہیں مانیں گے تو وہ سخت ظلم کرتا ہے ایسا شخص اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پاتا تو آپ کو کبھی نہ مانتا اور اگر حضرت عیسیٰ کے زمانہ میں ہوتا تو ان کو بھی قبول نہ کرتا لہٰذا طالب حق کے لئے یہی طریق صاف اور بے خطر ہے کہ جس شخص کی تصدیق کے لئے آسمانی نشانیاں ظہور میں آگئی ہوں اس کی تکذیب سے ڈریں.کیونکہ حدیثوں کی تحریریں جن میں سے ہریک فرقہ اپنے اپنے مذہب کی تائید میں ایک ذخیرہ اپنے پاس رکھتا ہے دراصل ظن سے کچھ زیادہ مرتبہ نہیں رکھتیں.اور ظن یقین کو رفع نہیں کر سکتا.مثلاً یہ تمام ظنی باتیں ہیں کہ مسیح موعود آسمان سے اُترے گا.بلکہ صرف شکی اور وہمی اور بے اصل ہیں.کیونکہ قرآن کے مخالف ہیں اور حدیث معراج بھی اس کی مکذب ہے.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو آسمان پر گئے تھے.مگر کس نے چڑھتے یا اُترتے دیکھا ہے؟ القصہ اے بزرگان قوم! آپ لوگ جو مجھے دجال اور کافر کہتے اور مفتری سمجھتے ہیں آپ لوگ سوچ کر دیکھ لیں کہ اتنی زبان درازی اور دلیری کے لئے آپ کے ہاتھ میں کیا ہے؟ کیا سچ نہیں کہ قرآن شریف جو خدا کا کلام ہے اس کے نصوص صریحہ سے تو حضرت مسیح کی موت ہی ثابت ہوتی ہے کیونکہ خدا نے صاف لفظوں میں فرما دیا کہ وہ وفات پا چکا جیسا کہ آیت فلمّا توفّیتنی اس پر
374 شاہد ہے.آپ لوگ خوب جانتے ہیں کہ توفّی کے معنے بجز قبض رُوح کے اور کچھ نہیں.* پھر یہ دوسری آیت کہ33 ۱ یہ وہ آیت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں حضرت ابو بکر ر ضی اللہ عنہ نے اِس استدلال کی غرض سے پڑھی تھی کہ تمام گزشتہ انبیاء فوت ہو چکے ہیں اور اس پر تمام صحابہ کا اجماع ہو گیا تھا.ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات میں حضرت مسیح کو وفات شدہ انبیاء کی جماعت میں دیکھا.اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ مسیح نے ایک سو بیس برس عمر پائی اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر موسیٰ اور عیسیٰ زندہ ہوتے تو میری پیروی کرتے اور قرآن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا گیا تو اب بتلاؤ کہ اِن تمام نصوص کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات میں کونسا شبہ باقی رہ گیا.رہا میرا دعویٰ سو وہ بھی بے سندنہیں.بخاری اور مسلم میں صاف لکھا ہے کہ مسیح موعود اسی اُمت میں سے ہوگا.اور خدا نے میرے لئے آسمان پر رمضان میں سورج اور چاند کا خسوف کسوف کیا اور ایسا ہی زمین پر بہت سے نشان ظہور میں آئے اور سنت اللہ کے موافق حجت پوری ہوگئی اور مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر آپ لوگ اپنے دلوں کو صاف کرکے کوئی اور نشان خدا کا دیکھنا چاہیں تو وہ خداوند قدیر بغیر اس کے کہ آپ لوگوں کے کسی اقتراح کا تابع ہو اپنی مرضی اور اختیار سے نشان دکھلانے پر * جیسا کہ لغت میں توفّی کے معنے جہاں خدا فاعل اور انسان مفعول بہٖ ہو بجز مارنے کے اور کچھ نہیں.ایسا ہی قرآن شریف میں اوّل سے آخر تک توفّی کا لفظ صرف مارنے اور قبض روح پر ہی استعمال ہوا ہے.بجز اس کے سارے قرآن میں اور کوئی معنے نہیں.منہ
375 قادر ہے* اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آپ لوگ سچے دل سے توبہ کی نیت کرکے مجھ سے مطالبہ کریں اور خدا کے سامنے یہ عہد کر لیں کہ اگر کوئی فوق العادت امر جو انسانی طاقتوں سے بالاتر ہے ظہور میں آجائے تو ہم یہ تمام بُغض اور شحناء چھوڑ کر محض خدا کو راضی کرنے کے لئے سِلسلہ بیعت میں داخل ہو جائیں گے تو ضرور خدا تعالیٰ کوئی نشان دکھائے گا کیونکہ وہ رحیم اور کریم ہے لیکن میرے اختیار میں نہیں ہے کہ میں نشان دکھلانے کے لئے دو تین دن مقرر کردوں یا آپ لوگوں کی مرضی پر چلوںیہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ جو چاہے تاریخ مقرر کرے.اگر نیت میں طلب حق ہو تو یہ مقام کسی تکرار کا نہیں کیونکہ جب موجودہ زمانہ کو خدا تعالیٰ کوئی جدید نشان دکھلائے گا تو یہ تو نہیں ہوگا کہ وہ کوئی پچاس ساٹھ سال مقرر کر دے بلکہ کوئی معمولی مدت ہوگی جو عدالت کے مقدمات یا امور تجارت وغیرہ میں بھی اہل غرض اس کو اپنے لئے منظور کر لیتے ہیں.اس قسم کا تصفیہ اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ جب دلوں سے بکلّی فساد دور کئے جائیں اور درحقیقت آپ لوگوں کا ارادہ ہو جائے کہ خدا کی گواہی کے ساتھ فیصلہ کر لیں اور اس طریق میں یہ ضروری ہوگا کہ کم سے کم چالیس نامی مولوی جیسے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی اور مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی * ابھی مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے لوگوں کے لئے ایک بھاری نشان ظاہر ہوا ہے اور وہ یہ کہ تیرہ سو برس سے مکہ سے مدینہ میں جانے کے لئے اونٹوں کی سواری چلی آتی تھی اور ہر ایک سال کئی لاکھ اونٹ مکہ سے مدینہ کو اور مدینہ سے مکہ کو جاتا تھا اور ان اونٹوں کے متعلق قرآن اور حدیث میں بالاتفاق یہ پیشگوئی تھی کہ ایک وہ زمانہ آتا ہے کہ یہ اونٹ بے کار کئے جائیں گے اور کوئی اُن پر سوار نہیں ہوگا.چنانچہ آیت3۱ ا ور حدیث یترک القلاص فلا یسعٰی علیھا اس کی گواہ ہے.پس یہ کس قدر بھاری پیشگوئی ہے جو مسیح کے زمانہ کے لئے اور مسیح موعود کے ظہور کے لئے بطور علامت تھی جو ریل کی طیاری سے پوری ہو گئی.فالحمدللّٰہ علٰی ذالک.منہ
376 ثم امرتسری اور مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی اور مولوی پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑی ایک تحریری اقرار نامہ بہ ثبت شہادت پچاس معزز مسلمانان کے اخبار کے ذریعہ سے شائع کر دیں کہ اگر ایسا نشان جو درحقیقت فوق العادت ہو ظاہر ہو گیا تو ہم حضرت ذوالجلال سے ڈر کر مخالفت چھوڑ دیں گے اور بیعت میں داخل ہو جائیں گے.اور اگر یہ طریق آپ کو منظور نہ ہو اور یہ خیالات دامنگیر ہو جائیں کہ ایسا اقرار بیعت شائع کرنے میں ہماری کسرِ شان ہے اور یا اس قدر انکسار ہر ایک سے غیر ممکن ہے تو ایک اور سہل طریق ہے جس سے بڑھ کر اور کوئی سہل طریق نہیں جس میں نہ آپ کی کوئی کسر شان ہے اور نہ کسی مباہلہ سے کسی خطرناک نتیجہ کا جان یا مال یا عزت کے متعلق کچھ اندیشہ ہے اور وہ یہ کہ آپ لوگ محض خدا تعالیٰ سے خوف کرکے اور اس امت محمدیہ پر رحم فرماکر بٹالہ یا امرتسر یا لاہور میں ایک جلسہ کریں اور اس جلسہ میں جہاں تک ممکن ہو اور جس قدر ہو سکے معزز علماء اور دنیادار جمع ہوں اور میں بھی اپنی جماعت کے ساتھ حاضر ہو جاؤں تب وہ سب یہ دعا کریں کہ یا الٰہی اگر تو جانتا ہے کہ یہ شخص مفتری ہے اور تیری طرف سے نہیں ہے اور نہ مسیح موعود ہے اور نہ مہدی ہے تو اس فتنہ کو مسلمانوں میں سے دور کر اور اس کے شر سے اسلام اور اہل اسلام کو بچا لے جس طرح تونے مسیلمہ کذّاب اور اسودعنسی کو دنیا سے اٹھا کر مسلمانوں کو ان کے شر سے بچا لیا اور اگر یہ تیری طرف سے ہے اور ہماری ہی عقلوں اور فہموں کا قصور ہے تو اے قادر ہمیں سمجھ عطا فرما تا ہم ہلاک نہ ہو جائیں اور اس کی تائید میں کوئی ایسے امور اور نشان ظاہر فرما کہ ہماری طبیعتیں قبول کر جائیں کہ یہ تیری طرف سے ہے اور جب یہ تمام دعا ہو چکے تو مَیں اور میری جماعت بلند آواز سے آمین کہیں.اور پھر بعد اس کے میں دُعا کروں گا.اور اس وقت میرے ہاتھ میں وہ تمام الہامات ہوں گے جو ابھی لکھے گئے ہیں اور جو کسی قدر ذیل میں لکھے جائیں گے.غرض یہی رسالہ مطبوعہ جس میں تمام
377 یہ الہامات ہیں ہاتھ میں ہوگا اور دعا کا یہ مضمون ہوگا کہ یا الٰہی اگر یہ الہامات جو اس رسالہ میں درج ہیں جو اِس وقت میرے ہاتھ میں ہے جن کے رُو سے میں اپنے تئیں مسیح موعود اور مہدی معہود سمجھتا ہوں اور حضرت مسیح کو فوت شدہ قرار دیتا ہوں تیرا کلا م نہیں ہے اور میں تیرے نزدیک کاذب اور مفتری اور دجّال ہوں جس نے امت محمدیہ میں فتنہ ڈالا ہے اور تیرا غضب میرے پر ہے تو میں تیری جناب میں تضرع سے دُعا کرتا ہوں کہ آج کی تاریخ سے ایک سال کے اندر زندوں میں سے میرا نام کاٹ ڈال اور میرا تمام کاروبار درہم برہم کر دے اور دنیا میں سے میرا نشان مٹا ڈال اور اگرمیں تیری طرف سے ہوں اور یہ الہامات جو اس وقت میرے ہاتھ میں ہیں تیری طرف سے ہیں اور میں تیرے فضل کا مورد ہوں تو اے قادر کریم اسی آئندہ سال میں میری جماعت کو ایک فوق العادت ترقی دے اور فوق العادت برکات شامل حال فرما اور میری عمر میں برکت بخش اور آسمانی تائیدات نازل کر اور جب یہ دعا ہو چکے تو تمام مخالف جو حاضر ہوں آمین کہیں.* اور مناسب ہے کہ اس دعا کے لئے تمام صاحبان اپنے دلوں کو صاف کرکے آویں کوئی نفسانی جوش وغضب نہ ہو اور ہار و جیت کا معاملہ نہ سمجھیں اور نہ اس دعا کو مباہلہ قرار دیں کیونکہ اس دعا کا نفع نقصان کل میری ذات تک محدود ہے مخالفین پر اس کا کچھ اثر نہیں.اے بزرگو! ظاہر ہے کہ تفرقہ بہت بڑھ گیا ہے * یاد رہے کہ یہ طریق دُعا مباہلہ میں داخل نہیں ہے کیونکہ مباہلہ کے معنے لُغت عرب کے رو سے اور نیز شرعی اصطلاح کے رُو سے یہ ہیں کہ دو فریق مخالف ایک دوسرے کے لئے عذاب اور خدا کی لعنت چاہیں لیکن اس دعا میں تمام اثر دعا صرف میری ہی جان تک محدود ہے دوسرے فریق کے لئے کوئی دُعا نہیں.منہ
378 اور اس تفرقہ اور آپ لوگوں کی تکذیب کی وجہ سے اسلام میں ضعف آرہا ہے اور جبکہ ہزارہا تک اس جماعت کی نوبت پہنچ گئی ہے اور ہر ایک میرے مرید کی تکفیر کی گئی ہے تو اندازہ تفرقہ ظاہر ہے.ایسے وقت میں اسلامی محبت کا یہی تقاضا ہے کہ جیسے نماز استسقاء کے لئے تضرع اور انکسار سے جنگل میں جاتے ہیں ایسا ہی اس مجمع میں بھی متضرعانہ صورت بنائیں اور کوشش کریں کہ حضور دل سے دعائیں ہوں اور گریہ وبکا کے ساتھ ہوں.خدا مخلصین کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے.پس اگر یہ کاروبار اس کی طرف سے نہیں ہیں اور انسانی افترااور بناوٹ ہے تو اُمت مرحومہ کی دعا جلد عرش تک پہنچے گی اور اگر میرا سلسلہ آسمانی ہے اور خدا کے ہاتھ سے برپا ہے تو میری دعا سنی جائے گی.پس اے بزرگو! برائے خدا اس بات کو تو قبول کرو.زیادہ مجمع کی ضرورت نہیں.علماء میں سے چالیس آدمی جمع ہو جائیں اِس سے کم بھی نہیں چاہئے کہ چالیس کے عدد کو قبولیت دعا کے لئے ایک بابرکت دخل ہے اور دنیا داروں میں سے جو چاہے شامل ہو جائے.اور دُعا تضرع سے اور رو رو کر کی جائے.اگرچہ ہر ایک صاحب کو کسی قدر سفر کی تکلیف تو ہوگی اور کچھ خرچ بھی ہوگا لیکن بڑی اُمید ہے کہ خدا فیصلہ کردے گا.اے بزرگو اور قوم کے مشائخ اور علماء! پھر میں آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ اس درخواست کو ضرور قبول فرمائیں.ہاں یہ امر بھی ذکر کرنے کے لائق ہے کہ چونکہ برسات اور گرمی میں سفر کرنا تکلیف سے خالی نہیں اور موسمی بیماریاں بھی ہوتی ہیں اس لئے اس مجمع کے لئے ۱۵؍اکتوبر۱۹۰۰ء جو موسم اچھا ہوگا موزوں ہے.اِس میں کچھ حرج نہیں کہ ہمارے مخالفوں کی طرف سے پِیر مہر علی شاہ صاحب گولڑی یا مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی یا مولوی عبد الجبار صاحب غزنوی اس انتظام کے لئے امیر طائفہ یا بطور سکرٹری بن جائیں اور باہم مشورہ کے بعد منظوری کا اشتہار دے دیں مگر برائے خدا اب کسی اور شرط سے اس اشتہار کو محفوظ رکھیں.میں نے محض خدا کیلئے
379 یہ تجویز نکالی ہے اور میرا خدا شاہد حال ہے کہ میں نے صرف اظہار حق کے لئے یہ تجویز پیش کی ہے اس میں کوئی جز مباہلہ کی نہیں جو کچھ ہے وہ میری جان اور عزت پر ہے برائے خدا اس کو ضرور منظور فرمائیں.دیکھو میری مخالفت میں کس قدر علماء تکلیف میں ہیں.بسا اوقات میرے پر وہ نکتہ چینیاں کی جاتی ہیں جن میں انبیاء بھی داخل ہو جاتے ہیں.نبیوں نے مزدوری بھی کی نوکریاں بھی کیں کافروں کی چیزوں کو انہوں نے استعمال بھی کیا.اُن کے خچروں پر سوار بھی ہوئے جن کو وہ دجّال کہتے تھے.اُن کی پیشگوئیوں کے متعلق بھی بعض لوگوں کو ابتلا پیش آئے کہ اُن کے خیال کے موافق وہ پوری نہ ہوئیں.جیسے یہودی آج تک مسیح بادشا ہ کے متعلق جو پیشگوئی تھی اور جو ایلیا کے دوبارہ قبل از مسیح آنے کی پیشگوئی تھی ان پر اعتراض کرتے ہیں.اور حضرت ابراہیم پر مخالفوں نے درو غ گوئی کا اعتراض کیا ہے اور حضرت موسیٰ پر فریب سے مصریوں کا زیور لینا اور جھوٹ بولنا اور عہد شکنی کرنا اور شیر خوار بچوں کو قتل کرنا اب تک آریہ وغیرہ اعتراض کرتے ہیں.اور حدیبیہ کی پیشگوئی جب بعض نادانوں کے خیال میں پوری نہ ہوئی تو بعض تفسیروں میں لکھا ہے کہ کئی جاہل مرتد ہو گئے اور خود نبی بعض وقت اپنی پیشگوئی کے معنے سمجھنے میں غلطی بھی کر سکتا ہے چنانچہ حدیث ذھب وھلی اس کی شاہد ہے اور یونس نبی کا وعدہ عذاب جس کی میعادقطعی طور پر چالیس دن بتلائی گئی تھی ٹل جانا وعید کی پیشگوئیوں کی نسبت متقی کے لئے ایک صاف ہدایت دیتا ہے جیسا کہ مفصل درمنثور اور یونہ نبی کی کتاب میں ہے.پھر باوجود اِن تمام نظیروں کے میرے پر اعتراض کرنا کیا یہ تقویٰ کا طریق ہے؟ خود سوچ لیں.اور اب ذیل میں بقیہ الہامات درج کرتا ہوں کیونکہ دعا کے وقت میں جب یہ رسالہ ہاتھ میں ہوگا تو ان الہامات کا بھی مندرج ہونا ضروری ہے اور وہ یہ ہیں:.سبحان اللّٰہ تبارک وتعالٰی زاد مجدک ینقطع اٰباء.ک ویبدء منک.
380 عطاءً غیر مجذوذ.سلام قولًامن رب رحیم.وقیل بُعدًا للقوم الظالمین.تریٰ نسلًا بعیدًا.ولنحیینّک حیوٰۃ طیّبۃ.ثمانین حولا اوقریبا من ذالک اوتزیدعلیہ سنینا.وکان وعد اللّٰہ مفعولا.ھٰذا من رحمۃ ربّک.یتم نعمتہ علیک لیکون اٰیۃ للمومنین.ینصرک اللّٰہ فی مواطن.واللّٰہ متمّ نورہ ولوکرہ الکافرون.ویمکرون ویمکر اللّٰہ واللّٰہ خیر الماکرین.الا ان روح اللّٰہ قریب.الا ان نصراللّٰہ قریب.یأتیک من کلّ فج عمیق.یاتون من کل فج عمیق.ینصرک رجال نوحی الیھم من السماء.لا مبدل لکلمات اللّٰہ.انہ ھو العلی العظیم.ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق وتھذیب الاخلاق.وقالوا سیقلب الامر.وما کانوا علی الغیب مطّلعین.انا اٰتیناک الدنیا وخزائن رحمۃ ربک وانّک من المنصورین.وانّی جاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الی یوم القیامۃ* وانک لدینا مکین امین.انت منی بمنزلۃ لا یعلمھا الخلق وما کان اللّٰہ لیترکک حتی یمیز الخبیث من الطیب.فذرنی والمکذبین.خ واللّٰہ غالب علٰی امرہٖ ولٰکن اکثر الناس لا یعلمون.اذا جاء نصر اللّٰہ والفتح.وتمّت کلمۃ ربک ھذا الذی کنتم بہ تستعجلون.اردت ان استخلف فخلقت اٰدم.یقیم الشریعۃ ویحی الدین.ولو کان الایمان معلّقا بالثریا لنالہ.انا انزلناہ قریبًا من القادیان.وبالحق انزلناہ وبالحق نزل.صدق اللّٰہ ورسولہ وکان امراللّٰہ مفعولا.ان السماوات والارض کانتارتقًا ففتقناھما.* یہ پیشگوئی براہین احمدیہ میں آج سے بیس۲۰ برس پہلے ہو چکی ہے.منہ خ یہ پیشگوئی بھی آج سے بیس۲۰ برس پہلے براہین احمدیہ میں شائع ہو چکی ہے.منہ
381 ھوالذی ارسل رسولہ بالھدٰی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلّہ.وقالوا ان ھذا الااختلاق.قل ان افتریتہ فعلیّ اجرامی.ولقد لبثت فیکم عمرًا من قبلہ افلا تعقلون.وقالوا ما سمعنا بھذا فی آباء نا الاولین.قل ان ھدی اللّٰہ ھو الھدٰی.ومن یبتغ غیرہ لن یقبل منہ وھو فی الاٰخرۃ من الخاسرین.انک علٰی صراط مستقیم.وجیھا فی الدنیا والاٰخرۃ ومن المقربین.ویقولون انّی لک ھذا.ان ھٰذا الّا قول البشر واعانہ علیہ قوم اٰخرون.افتاتون السّحر وانتم تبصرون.ھیھات ھیھات لما توعدون.من ھٰذا الذی ھو مھین.ولا یکاد یبین.جاھل او مجنون.قل ان کنتم تحبون اللّٰہ فاتبعونی یحببکم اللّٰہ.وانا کفیناک المستھزئین.ذرنی والمکذبین.الحمدللّٰہ الذی جعلک المسیح ابن مریم.یجتبی الیہ من یشاء.لا یسئل عمّایفعل وھم یسئلون.امم یسّرنا لھم الھدیٰ وامم حق علیھم العذاب.و یمکرون ویمکر اللّٰہ واللّٰہ خیر الماکرین.ولکید اللّٰہ اکبر.وان یتخذونک اِلّا ھزوا اھٰذاالذی بعث اللّٰہ.ان ھٰذا الرجل یجوح الدین.وقد بلجت اٰیاتی.* وجحدوا بھا واستیقنتھم انفسھم ظلمًا وعلوًّا.قاتلھم اللّٰہ * خدا تعالیٰ نے میری تائید میں سو۱۰۰ کے قریب نشان ظاہر فرمائے ہیں چنانچہ چارلڑکے چار پیشگوئیوں کے مطابق پیدا ہوئے جن کا مفصل ذکر کتاب تریاق القلوب میں ہے.ایسا ہی مکرمی اخویم مولوی حکیم نور دین صاحب کی نسبت پیشگوئی کہ اُن کے گھر میں لڑکا پیدا ہوگا اور اس کے بدن پر پھوڑے ہوں گے.اور آتھم کی نسبت شرطی پیشگوئی.لیکھرام کے مارے جانے کی نسبت پیشگوئی اور الزام قتل سے انجام کار میرے بری ہونے کی نسبت پیشگوئی.اور ملک میں وبا پھیلنے کی نسبت پیشگوئی.غرض یہ کہ سو ۱۰۰ پیشگوئی ہے جو پوری ہو چکی اور ہزارہا انسان ان کے گواہ ہیں اور یہ تمام پیشگوئیاں رسالہ تریاق القلوب میں مندرج ہیں.منہ
382 انّی یُؤ فکون.قل ایھا الکفار انی من الصادقین.وعندی شھادۃ من اللّٰہ.وانی امرت وانا اوّل المومنین.واصنع الفلک باعیننا ووحینا.الذین یبایعونک انما یبایعون اللّٰہ.یداللّٰہ فوق ایدیھم.والذین تابوا واصلحوا اولٰئک اتوب علیھم وانا التواب الرحیم.الامام خیر الانام.ویقول العدوّ وَ لست مرسلا.سناخذہٗ من مارن اوخرطوم.واذ قال ربک انّی جاعل فی الارض خلیفۃ.قالوا اتجعل فیھا من یفسد فیھا.قال انی اعلم مالا تعلمون.وینظرون الیک وھم لا یبصرون.یتربّصون علیک الدوائر علیھم دائرۃ السوء.قل اعملوا علٰی مکانتکم انّی عامل فسوف تعلمون.ویعصمک اللّٰہ ولولم یعصمک الناس.ولولم یعصمک الناس یعصمک اللّٰہ.سبحان اللّٰہ انت وقارہ فکیف یترکک.انت المسیح الذی لا یضاع وقتہ.کمثلک درّ لا یضاع.لن یجعل اللّٰہ للکافرین علی المومنین سبیلا.الم تر انا ناتی الارض ننقصھا من اطرافھا الم تر ان اللّٰہ علٰی کل شیء قدیر.فانتظروا الاٰیات حتی حین.انت الشیخ المسیح وانّی معک ومع انصارک.وانت اسمی الاعلٰی وانت منی بمنزلۃ توحیدی وتفریدی.وانت منی بمنزلۃ المحبوبین.فاصبر حتی یاتیک امرنا وانذر عشیرتک الاقربین.وانذرقومک وقل انی نذیر مبین.قوم متشاکسون.کذّبوا باٰیاتنا وکانوا بھا یستھزء ون.فسیکفیکھم اللّٰہ ویردّہا الیک*.لامبدل * یہ پیشگوئی اس نکاح کی نسبت ہے جس پر نادان مخالف جہالت اور تعصب سے اعتراض کرتے ہیں کہ زوجّناک کے کیا معنے ہوئے؟ حالانکہ فقرہ یردّھا الیک سے صاف ظاہر ہے کہ ایک مرتبہ اس عورت کا جانا اور پھر واپس آنا شرط ہے اور بعد اس کے مرتبہ زوجّناک ہے کیونکہ اوّل وہ صورت قرابت قریبہ کی وجہ سے قریب تھی پھر دُور چلی گئی اور پھر واپس آئے گی اور یہی معنی ردّ کے ہیں.منہ
383 لکلمات اللّٰہ.وان وعد اللّٰہ حق و ان ربک فعّال لما یرید.قل ای وربّی انہ لحق ولا تکن من الممترین.انا زوّجناکھا.انماامرنا اذا اردنا شیئا ان نقول لہ کن فیکون انما نؤخرھم الی اجل مسمی اجل قریب وکان فضل اللّٰہ علیک عظیما یاتیک نصرتی انی انا الرحمان.واذا جاء نصر اللّٰہ وتوجّھت لفصل الخطاب.قالوا ربنا اغفرلنا انا کنا خاطئین.ویخرّون علی الاذقان.لا تثریب علیکم الیوم.یغفر اللّٰہ لکم وھو ارحم الراحمین.بشریٰ لکم فی ھٰذہ الایام.شاھت الوجوہ.یوم یعض الظالم علی یدیہ یالیتنی اتخذت مع الرسول سبیلا.وقالوا ان ھذا الا قول البشر.قل لو کان من عند غیر اللّٰہ لوجدوافیہ اختلافًا کثیرا.وبشّر الذین اٰمنوا انّ لھم قدم صدق عند ربھم.لن یخزیھم اللّٰہ.ما اھلک اللّٰہ اھلک.الذین اٰمنوا ولم یلبسوا ایمانھم بظلم اولٰئک لھم الامن وھم مھتدون.تُفتّح لھم ابواب السماء.نرید ان ننزل علیک اسرارًا من السماء ونمزق الاعداء کل ممزّق.* ونری فرعون وھامان وجنودھما ما کانوا یحذرون.قل یا ایھا الکفار انی من الصادقین.فانظروا اٰیاتی حتّی حین.سنریھم اٰیاتنا فی الاٰفاق وفی انفسھم حجۃ قائمۃ وفتح مبین.حکم اللّٰہ الرحمٰن.لخلیفۃ اللّٰہ السلطان.یوتی لہ الملک العظیم.خ وتفتح علی یدہ * فقرہ نُمزِّقُ الْاَعْداء سے یہ مراد ہے کہ ان پر حجت پوری کریں گے اور ہر یک پہلو سے اُن کے عذرات توڑ دیں گے اور فقرہ نُری فرعون سے یہ مطلب ہے کہ حق کو کامل طور پر کھول دیا جائے گاجس کے کھلنے سے مخالف ڈرتے ہیں.منہ خ اس جگہ سلطان کے لفظ سے آسمانی بادشاہت مراد ہے اور ملک سے مراد روحانی ملک اور خزائن سے مراد حقائق اور معارف ہیں.منہ
384 الخزائن وتشرق الارض بنور ربّھا ذالک فضل اللّٰہ وفی اعینکم عجیب.السلام علیک انا انزلناک برھانا وکان اللّٰہ قدیرا.علیک برکات وسلام.سلام قولا من رب رحیم.انت قابل یأْتیک وابل.تنزل الرحمۃ علی ثلث.العین وعلٰی الاُخریین.ولنحیینّک حیٰوۃ طیبۃ.انَّا اٰتیناک الکوثر.فصل لربّک وانحر.انی انا اللّٰہ فاعبدنی ولا تستعن من غیری.انی انا اللّٰہ لا الٰہ الّا انا.لا ید اِلَّا یدی.انا اذا نزلنا بساحۃ قوم فساء صباح المنذرین.انی مع الافواج اٰتیک بغتۃ.فتح و ظفر.انی اموج موج البحر.الفتنۃ ھٰھنا فاصبر کما صبر اولو العزم.انا ارسلنا الیک شواظًا من نار.قد ابتلی المومنون ثم یردالیک السلام.وعسٰی ان تکر ھوا شیئا وھو خیر لکم واللّٰہ یعلم وانتم لا تعلمون.الرحی تدور وینزل القضاء.ان فضل اللّٰہ لاٰت.ولیس لاحدان یرد ما اتی.قل ای وربّی انہ لحق لا یتبدل ولا یخفی.وینزل ما تعجب منہ.وحی من رب السمٰوات العلٰی ان ربّی لا یضل ولا ینسٰی.ظفر مبین.وانما نؤخرھم الٰی اجل مسمّٰی.انت معی وانا معک قل اللّٰہ ثم ذرہ فی غیّہ یتمطّی.انہ معک وانہ یعلم السرّوما اخفٰی.لا الٰہ الّا ھو یعلم کلّ شیء ویری.ان اللّٰہ مع الذین اتقوا والذین ھم یحسنون الحسنٰی.انا ارسلنا احمد الٰی قومہ فاعرضوا وقالوا کذّابٌ اشر.وجعلوا یشھدون علیہ ویسیلون کماء منھمر.ان حبّی قریب.انہ قریب مستتر.ویریدون ان یقتلوک.یعصمک اللّٰہ.یکلأ ک اللّٰہ.انی حافظک.عنایۃ اللّٰہ حافظک.تری نسلًا بعیدًا ابناء القمر.اناکفیناک المستھزئین.ان ربّک لبالمرصاد.انہ سیجعل الولدان شیبا.الامراض تشاع.والنفوس تضاع.وسانزل وانّ
385 یومی لفصل عظیم.لا تعجبن من امری.انا نریدان نعزک ونحفظک.یاتی قمر الانبیاء وامرک یتأتّی.ماانت ان تترک الشیطان قبل ان تغلبہ.ویریدون ان یطفؤا نور اللّٰہ.واللّٰہ غالب علٰی امرہ ولٰکنّ اکثر الناس لا یعلمون.الفوق معک والتحت مع اعدائک.واینما تولّوا فثم وجہ اللّٰہ.قل جاء الحق وزھق الباطل.اللّٰہ الذی جعلک المسیح ابن مریم.لتنذر قومًا ما انذر آباء ھم ولتدعو قومًا اٰخرین.عسی اللّٰہ ان یجعل بینکم وبین الذین عادیتم مودّۃ.انا نعلم الامروانا لعالمون.الحمدللّٰہ الذی جعل لکم الصھر والنسب.ظ اذکر نعمتی رئیت خدیجتی.* ھذا من رحمۃ ربک یتمّ نعمتہ علیک لیکون آیۃ للمؤمنین.انت معی وانا معک یاابراھیم.انت برھان وانت فرقان یری اللّٰہ بک سبیلہ.انت القائم علی نفسہ مظھر الحیّ.وانت منی مبدء الامر.وانت من مائنا وھم من فشل.اذا التقی الفئتان فانی مع الرسول اقوم.وینصرہ الملا!ئکۃ.انی انا الرحمان ذوالمجد والعلٰی.وما ینطق عن الھویٰ ان ھو الّا وحی یوحٰی.اردت ان استخلف فخلقت اٰدم.وللّٰہ الامرمن قبل و من بعد.یاعبدی لاتخف.الم ترانا نأتی الارض ننقصھا من اطرافھا.الم تعلم ان اللّٰہ علٰی کل شیء قدیر.فقط.الراقم مرزا غلام احمد از قادیاں.۲۷؍ستمبر ۱۹۰۰ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان.تعداد اشاعت ۷۰۰ * یہ الہام براہین احمدیہ میں درج ہے اور یہ حصہ اس الہام کا ہے جس میں کئی برس پہلے خبر دی گئی تھی یعنی مجھے بشارت دی گئی تھی کہ تمہاری شادی خاندان سادات میں ہوگی اور اس میں سے اولاد ہوگی تا پیشگوئی حدیث یتزوّج ویولد لہ پوری ہو جائے.یہ حدیث اشارت کر رہی ہے کہ مسیح موعود کو خاندان سیادت سے تعلق دامادی ہوگا کیونکہ مسیح موعود کا تعلق جس سے وعدہ یولدلہ کے موافق صالح اور طیب اولاد پیدا ہو.اعلیٰ اور طیّب خاندان سے چاہئے.اور وہ خاندان سادات ہے اور فقرہ خدیجتی سے مراد اولاد خدیجہ یعنی بنی فاطمہ ہے.منہ ظ ایڈیشن اول میں اس الہام میں الذی کی بجائے الذین اور الصھر کی بجائے الصحر لکھا ہے.یہ دونو سہو کتابت معلوم ہوتے ہیں.درست الذی اور الصھر ہے.(ناشر)
386 اربعین نمبر۳ 3 نحمدہ ونصلّی علٰی رسولہ الکریم 3 آمِینْ اشتہار انعامی پانسو روپیہ بنام حافظ محمد یوسف صاحب ضلع دار نہر.اور ایسا ہی اِس اشتہار میں یہ تمام لوگ بھی مخاطب ہیں جن کے نام ذیل میں درج ہیں.مولوی پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی.مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی.مولوی محمد بشیر صاحب بھوپالوی.مولوی حافظ محمد یوسف صاحب بھوپالوی.مولوی تلطف حسین صاحب دہلوی.مولوی عبدالحق صاحب دہلوی صاحب تفسیر حقّانی.مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی.مولوی محمد صدیق صاحب دیوبند حال مدرس بچھرایوں ضلع مراد آباد.شیخ خلیل الرحمن صاحب جمالی سرساوہ ضلع سہارن پور.مولوی عبد العزیز صاحب لدھیانہ.مولوی محمد صاحب لدھیانہ.مولوی محمد حسن صاحب لدھیانہ.مولوی احمد اللہ صاحب امرتسری.مولوی عبد الجبار صاحب غزنوی ثم امرتسری
387 مولوی غلام رسول صاحب عرف رسل بابا.مولوی عبد اللہ صاحب ٹونکی لاہور.مولوی عبد اللہ صاحب چکڑالوی لاہور.ڈپٹی فتح علی شاہ صاحب ڈپٹی کلکٹر نہر لاہوری.منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ لاہور.منشی عبد الحق صاحب اکونٹنٹ پنشنر.مولوی محمد حسن صاحب ابو الفیض ساکن بھینی.مولوی سید عمر صاحب واعظ حیدرآباد.علماء ندوۃ الاسلام معرفت مولوی محمد علی صاحب سکریٹری ندوۃ العلماء.مولوی سلطان الدین صاحب جے پور.مولوی مسیح الزمان صاحب استاد نظام شاہ جہان پور.مولوی عبد الواحد خاں صاحب شاہ جہان پور.مولوی اعزاز حسین خانصاحب شاہ جہان پور.مولوی ریاست علی خان صاحب شاہجہانپور.سید صوفی جان شاہ صاحب میرٹھ.مولوی اسحاق صاحب پٹیالہ.جمیع علماء کلکتہ وبمبئی و مدراس.جمیع سجادہ نشینان ومشائخ ہندوستان.جمیع اہل عقل وانصاف وتقویٰ وایمان از قوم مسلمان.واضح ہو کہ حافظ محمد یوسف صاحب ضلع دار نہر نے اپنے نافہم اور غلط کار مولویوں کی تعلیم سے ایک مجلس میں بمقام لاہورجس میں مرزا خدا بخش صاحب مصاحب نواب محمد علی خاں صاحب اور میاں معراج الدین صاحب لاہوری اور مفتی محمد صادق صاحب اور صوفی محمد علی صاحب کلرک اور میاں چٹو صاحب لاہوری اور خلیفہ رجب دین صاحب تاجر لاہوری اور شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر اخبار الحکم اور حکیم محمد حسین صاحب قریشی اور حکیم محمد حسین صاحب تاجر مرہم عیسیٰ اور میاں چراغ الدین صاحب کلرک اور مولوی یار محمد صاحب موجود تھے بڑے اصرار سے یہ بیان کیا کہ اگر کوئی نبی یا رسول یا اور کوئی مامور من اللہ ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرے اور اس طرح پر لوگوں کو گمراہ کرنا چاہے تو وہ ایسے افترا کے ساتھ تئیس۲۳ برس تک یا اس سے زیادہ زندہ رہ سکتا ہے یعنی افترا علی اللہ کے بعد اس قدر عمر پانا اس کی سچائی کی دلیل نہیں ہوسکتی اور بیان کیا کہ ایسے کئی لوگوں کا نام میں نظیراً پیش کر سکتا ہوں جنہوں نے نبی یا رسول یا مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کیا اور تیئیس۲۳ برس تک یا اس سے زیادہ عرصہ تک لوگوں کو سُناتے رہے
388 کہ خدا تعالیٰ کا کلام ہمارے پر نازل ہوتا ہے حالانکہ وہ کاذب تھے.غرض حافظ صاحب نے محض اپنے مشاہدہ کا حوالہ دے کر مذکورہ بالا دعوے پر زور دیا جس سے لازم آتا تھا کہ قرآن شریف کا وہ استدلال جو آیات مندرجہ ذیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منجانب اللہ ہونے کے بارے میں ہے صحیح نہیں ہے اور گویا خدا تعالیٰ نے سراسر خلاف واقعہ اس حجت کو نصاریٰ اور یہودیوں اور مشرکین کے سامنے پیش کیا ہے اور گویا اَئمہ اور مفسّرین نے بھی محض نادانی سے اس دلیل کو مخالفین کے سامنے پیش کیا یہاں تک کہ شرح عقائد نسفی میں بھی کہ جو اہل سنت کے عقیدوں کے بارے میں ایک کتاب ہے عقیدہ کے رنگ میں اِس دلیل کو لکھا ہے اور علماء نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ استخفاف قرآن یا دلیل قرآن کلمۂ کفر ہے مگر نہ معلوم کہ حافظ صاحب کو کس تعصب نے اِس بات پر آمادہ کر دیا کہ باوجود دعویٰ حفظِ قرآن مفصلہ ذیل آیات کو بھول گئے.اور وہ یہ ہیں:.3.333.33.3.3.3.3 3.33.33 3.۱ دیکھو سورۃ الحاقہ الجزو نمبر۲۹.اور ترجمہ اس کا یہ ہے کہ یہ قرآن کلام رسول کا ہے یعنی وحی کے ذریعہ سے اس کو پہنچا ہے.اور یہ شاعر کا کلام نہیں مگر چونکہ تمہیں ایمانی فراست سے کم حصہ ہے اس لئے تم اس کو پہچانتے نہیں.اور یہ کاہن کا کلام نہیں.یعنی اس کا کلام نہیں جو جنّات سے کچھ تعلق رکھتا ہو مگر تمہیں تدبّر اور تذکّر کا بہت کم حصّہ دیا گیا ہے اس لئے ایسا خیال کرتے ہو.تم نہیں سوچتے کہ کاہن کس پست اور ذلیل حالت میں ہوتے ہیں بلکہ یہ ربّ العالمین کا کلام ہے جو عالم اجسام اور عالم ارواح دونو ں کا ربّ ہے یعنی جیسا کہ وہ تمہارے اجسام کی تربیت کرتا ہے ایسا ہی وہ تمہاری رُوحوں کی
389 تربیت کرنا چاہتا ہے اور اسی ربوبیت کے تقاضا کی وجہ سے اُس نے اس رسول کو بھیجا ہے.اور اگر یہ رسول کچھ اپنی طرف سے بنا لیتا اور کہتا کہ فلاں بات خدا نے میرے پر وحی کی ہے حالانکہ وہ کلام اس کا ہوتا نہ خدا کا تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے اور پھر اس کی رگ جان کاٹ دیتے اور کوئی تم میں سے اس کو بچانہ سکتا.یعنی اگر وہ ہم پر افترا کرتا تو اس کی سزا موت تھی کیونکہ وہ اس صورت میں اپنے جھوٹے دعویٰ سے افترا اور کفر کی طرف بلا کر ضلالت کی موت سے ہلاک کرنا چاہتا تو اس کا مرنا اس حادثہ سے بہتر ہے کہ تمام دنیا اس کی مفتریانہ تعلیم سے ہلاک ہو.اس لئے قدیم سے ہماری یہی سنت ہے کہ ہم اُسی کو ہلاک کر دیتے ہیں جو دنیا کے لئے ہلاکت کی راہیں پیش کرتا ہے اور جھوٹی تعلیم اور جھوٹے عقائد پیش کرکے مخلوق خدا کی روحانی موت چاہتا ہے اور خدا پر افترا کرکے گستاخی کرتا ہے.اب ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی پر یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ اگر وہ ہماری طرف سے نہ ہوتا تو ہم اس کو ہلاک کر دیتے اور وہ ہر گز زندہ نہ رہ سکتا گو تم لوگ اس کے بچانے کے لئے کوشش بھی کرتے لیکن حافظ صاحب اس دلیل کو نہیں مانتے اور فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی کی تمام وکمال مدت تیئیس۲۳ برس کی تھی اور میں اس سے زیادہ مدت تک کے لوگ دکھا سکتا ہوں جنہوں نے جھوٹے دعوے نبوت اور رسالت کے کئے تھے اور باوجود جھوٹ بولنے اور خدا پر افترا کرنے کے وہ تیئیس۲۳ برس سے زیادہ مدت تک زندہ رہے لہٰذا حافظ صاحب کے نزدیک قرآن شریف کی یہ دلیل باطل اور ہیچ ہے اور اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ثابت نہیں ہو سکتی مگر تعجب کہ جبکہ مولوی رحمت اللہ صاحب مرحوم اور مولوی سیّدآل حسن صاحب مرحوم نے اپنی کتاب ازالہ اوہام اور استفسار میں پادری فنڈل کے سامنے یہی دلیل پیش کی تھی تو پادری فنڈل صاحب کو
390 اس کا جواب نہیں آیا تھا اور باوجود یکہ تواریخ کی ورق گردانی میں یہ لوگ بہت کچھ مہارت رکھتے ہیں مگر وہ اس دلیل کے توڑنے کے لئے کوئی نظیر پیش نہ کر سکا* اور لاجواب رہ گیا اور آج حافظ محمد یوسف صاحب مسلمانوں کے فرزند کہلا کر اس قرآنی دلیل سے انکار کرتے ہیں اور یہ معاملہ صرف زبانی ہی نہیں رہا بلکہ ایک ایسی تحریر اس بارے میں ہمارے پاس موجود ہے جس پر حافظ صاحب کے دستخط ہیں جو انہوں نے محبّی اخویم مفتی محمد صادق صاحب کو اس عہد اقرار کے ساتھ دی ہے کہ ہم ایسے مفتریوں کا ثبوت دیں گے جنہوں نے خدا کے مامور یا نبی یا رسول ہونے کا دعویٰ کیا اور پھر وہ اس دعویٰ کے بعد تیئیس برس سے زیادہ جیتے رہے.یاد رہے کہ یہ صاحب مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کے گروہ میں سے ہیں اور بڑے موحّد مشہور ہیں اور ان لوگوں کے عقائد کا بطور نمونہ یہ حال ہے جو ہم نے لکھا.اور یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں کہ قرآن کے دلائل پیش کردہ کی تکذیب قرآن کی تکذیب ہے.اور اگر قرآن شریف کی ایک دلیل کو ردّ کیا جائے تو امان اٹھ جائے گا اور اس سے لازم آئے گا کہ قرآن کے تمام دلائل جو توحید اور رسالت کے اثبات میں ہیں سب کے سب باطل اور ہیچ ہوں اور آج تو حافظ صاحب نے اِس ردّ کے لئے یہ بیڑا اٹھایا کہ میں ثابت کرتا ہوں کہ لوگوں نے تیئیس برس تک یا اس سے زیادہ نبوت یا رسالت کے جھوٹے دعوے کئے اور پھر زندہ رہے اور کل شائد * پادری فنڈل صاحب نے اپنے میزان الحق میں صرف یہ جواب دیا تھا کہ مشاہدہ اس بات پر گواہ ہے کہ دنیا میں کئی کروڑبت پرست موجود ہیں لیکن یہ نہایت فضول جواب ہے کیونکہ بُت پرست لوگ بت پرستی میں اپنے وحی من اللہ ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے یہ نہیں کہتے کہ خدا نے ہمیں حکم دیا ہے کہ بت پرستی کو دنیا میں پھیلاؤ.وہ لوگ گمراہ ہیں نہ مفتری علی اللہ.یہ جواب امر متنازع فیہ سے کچھ تعلق نہیں رکھتا بلکہ قیاس مع الفارق ہے کیونکہ بحث تو دعویٰ نبوت اور افترا علی اللہ میں ہے نہ فقط ضلالت میں.منہ
391 حافظ صاحب یہ بھی کہہ دیں کہ قرآن کی یہ دلیل بھی کہ 33 ۱ باطل ہے اور دعویٰ کریں کہ مَیں دکھلا سکتا ہوں کہ خدا کے سوا اَور بھی چند خدا ہیں جو سچے ہیں مگر زمین و آسمان پھر بھی اب تک موجود ہیں پس ایسے بہادر حافظ صاحب سے سب کچھ امید ہے لیکن ایک ایما ن دار کے بدن پر لرزہ شروع ہو جاتا ہے جب کوئی یہ بات زبان پر لاوے جو فلاں بات جو قرآن میں ہے وہ خلاف واقعہ ہے یا فلاں دلیل قرآن کی باطل ہے بلکہ جس امر میں قرآن اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر زد پڑتی ہو ایماندار کا کام نہیں کہ اس پلید پہلو کو اختیار کرے.اور حافظ صاحب کی نوبت اس درجہ تک محض اس لئے پہنچ گئی کہ انہوں نے اپنے چند قدیم رفیقوں کی رفاقت کی وجہ سے میرے منجانب اللہ ہونے کے دعویٰ کا انکار مناسب سمجھا اور چونکہ درو غ گو کو خدا تعالیٰ اسی جہان میں ملزم اور شرمسار کر دیتا ہے اس لئے حافظ صاحب بھی اور منکروں کی طرح خدا کے الزام کے نیچے آگئے اور ایسا اتفاق ہوا کہ ایک مجلس میں جس کا ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں میری جماعت کے بعض لوگوں نے حافظ صاحب کے سامنے یہ دلیل پیش کی کہ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں ایک شمشیر برہنہ کی طرح یہ حکم فرماتا ہے کہ یہ نبی اگر میرے پر جھوٹ بولتا اور کسی بات میں افترا کرتا تو میں اس کی رگِ جان کاٹ دیتا اور اس مدت دراز تک وہ زندہ نہ رہ سکتا.تو اب جب ہم اپنے اس مسیح موعود کو اس پیمانہ سے ناپتے ہیں تو براہین احمدیہ کے دیکھنے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دعوےٰ منجانب اللہ ہونے اور مکالماتِ الہٰیہ کا قریبًا تیس۳۰ برس سے ہے اور اکیس۲۱ برس سے براہین احمدیہ شائع ہے پھر اگر اس مدت تک اس مسیح کا ہلاکت سے امن میں رہنا اس کے صادق ہونے پر دلیل نہیں ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تیئیس۲۳ برس تک موت سے بچنا آپ کے سچا ہونے پر بھی دلیل نہیں ہے کیونکہ جبکہ خدا تعالیٰ نے اس جگہ ایک جھوٹے
392 مدعیء رسالت کو تیس برس تک مہلت دی اور لو تقوّل علینا کے وعدہ کا کچھ خیال نہ کیا تو اسی طرح نعوذ باللہ یہ بھی قریب قیاس ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی باوجود کاذب ہونے کے مہلت دے دی ہو مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کاذب ہونا محال ہے.پس جو مستلزم محال ہو وہ بھی محال.اور ظاہر ہے کہ یہ قرآنی استدلال بدیہی الظہور جبھی ٹھہر سکتا ہے جبکہ یہ قاعدہ کلی مانا جائے کہ خدا اس مفتری کو جو خلقت کے گمراہ کرنے کے لئے مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہو کبھی مہلت نہیں دیتا کیونکہ اس طرح پر اس کی بادشاہت میں گڑبڑپڑ جاتا ہے اور صادق اور کاذب میں تمیز اٹھ جاتی ہے.غرض جب میرے دعویٰ کی تائید میں یہ دلیل پیش کی گئی تو حافظ صاحب نے اس دلیل سے سخت انکار کرکے اس بات پر زور دیا کہ کاذب کا تیئیس۲۳ برس تک یا اس سے زیادہ زندہ رہنا جائز ہے اور کہا کہ مَیں وعدہ کرتا ہوں کہ ایسے کاذبوں کی میں نظیر پیش کروں گاجو رسالت کا جھوٹا دعویٰ کرکے تیئیس برس تک یا اس سے زیادہ رہے ہوں مگر اب تک کوئی نظر پیش نہیں کی.اور جن لوگوں کو اسلام کی کتابوں پر نظر ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ آج تک علماء امت میں سے کسی نے یہ اعتقاد ظاہر نہیں کیا کہ کوئی مفتری علی اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح تیئیس برس تک زندہ رہ سکتا ہے بلکہ یہ تو صریح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر حملہ اور کمال بے ادبی ہے اور خدا تعالیٰ کی پیش کردہ دلیل سے استخفاف ہے.ہاں ان کا یہ حق تھا کہ مجھ سے اس کا ثبوت مانگتے کہ میرے دعویٰ مامور من اللہ ہونے کی مدت تیئیس برس یا اس سے زیادہ اب تک ہو چکی ہے یا نہیں.مگر حافظ صاحب نے مجھ سے یہ ثبوت نہیں مانگا کیونکہ حافظ صاحب بلکہ تمام علماءِ اسلام اور ہندو اور عیسائی اس بات کو جانتے ہیں کہ براہین احمدیہ جس میں یہ دعویٰ ہے اور جس میں بہت سے مکالمات الہٰیہ درج ہیں اس کے شائع ہونے پر اکیس برس گذر چکے
393 ہیں اور اسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ قریباً تیس۳۰ برس سے یہ دعویٰ مکالماتِ الہٰیہ شائع کیا گیا ہے.اور نیز الہام الیس اللّٰہ بکافٍ عبدہٗ جو میرے والد صاحب کی وفات پر ایک انگشتری پر کھودا گیا تھا اور امرتسر میں ایک مُہرکن سے کھدوایا گیا تھا وہ انگشتری اب تک موجو دہے اور وہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے طیّار کروائی اور براہین احمدیہ موجود ہے جس میں یہ الہام الیس اللّٰہ بکافٍ عبدہٗ لکھا گیا ہے.اور جیسا کہ انگشتری سے ثابت ہوتا ہے یہ بھی چھبیس برس کا زمانہ ہے.غرض چونکہ یہ تیس سال تک کی مدت براہین احمدیہ سے ثابت ہوتی ہے اور کسی طرح مجال انکار نہیں اور اِسی براہین کا مولوی محمد حسین نے ریویو بھی لکھا تھالہٰذا حافظ صاحب کی یہ مجال تو نہ ہوئی کہ اس امر کا انکار کریں جو اکیس سال سے براہین احمدیہ میں شائع ہو چکا ہے ناچار قرآن شریف کی دلیل پر حملہ کر دیا کہ مثل مشہور ہے کہ مرتا کیا نہ کرتا.سو ہم اس اشتہار میں حافظ محمد یوسف صاحب سے وہ نظیر طلب کرتے ہیں جس کے پیش کرنے کا انہوں نے اپنی دستخطی تحریر میں وعدہ کیا ہے ہم یقیناًجانتے ہیں کہ قرآنی دلیل کبھی ٹوٹ نہیں سکتی یہ خدا کی پیش کردہ دلیل ہے نہ کسی انسان کی.کئی کم بخت بدقسمت دنیا میں آئے اور انہوں نے قرآن کی اس دلیل کو توڑنا چاہامگر آخر آپ ہی دنیا سے رخصت ہو گئے مگر یہ دلیل ٹوٹ نہ سکی.حافظ صاحب علم سے بے بہرہ ہیں اُن کو خبر نہیں کہ ہزارہا نامی علماء اور اولیاء ہمیشہ اسی دلیل کو کفّار کے سامنے پیش کرتے رہے اَور کسی عیسائی یا یہودی کو طاقت نہ ہوئی کہ کسی ایسے شخص کا نشان دے جس نے افترا کے طور پر مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کرکے زندگی کے تیئیس برس پورے کئے ہوں پھر حافظ صاحب کی کیا حقیقت اور سرمایہ ہے کہ اس دلیل کو توڑ سکیں.معلوم ہوتا ہے کہ اسی وجہ سے بعض جاہل اور نافہم مولوی میری ہلاکت کے لئے طرح طرح کے حیلے سوچتے رہے ہیں تا یہ مدت پوری نہ ہونی پاوے جیسا کہ
394 یہودیوں نے نعوذ باللہ حضرت مسیح کو رفع سے بے نصیب ٹھہرانے کے لئے صلیب کا حیلہ سوچا تھا تا اس سے دلیل پکڑیں کہ عیسیٰ بن مریم ان صادقوں میں سے نہیں ہے جن کا رفع الی اللہ ہوتا رہا ہے مگر خدا نے مسیح کووعدہ دیا کہ مَیں تجھے صلیب سے بچاؤں گا اور اپنی طرف تیرا رفع کروں گا جیسا کہ ابراہیم اور دوسرے پاک نبیوں کا رفع ہوا.سو اسی طرح ان لوگوں کے منصوبوں کے برخلاف خدا نے مجھے وعدہ دیا کہ مَیں اسّی۸۰ برس یا دو تین برس کم یا زیادہ تیری عمر کروں گا تا لوگ کمیء عمر سے کاذب ہونے کا نتیجہ نہ نکال سکیں جیسا کہ یہودی صلیب سے نتیجہ عدم رفع کانکالنا چاہتے تھے.اور خدا نے مجھے وعدہ دیا کہ مَیں تمام خبیث مرضوں سے بھی تجھے بچاؤں گا جیسا کہ اندھا ہونا تا اس سے بھی کوئی بد نتیجہ نہ نکالیں.* اور خدا نے مجھے اطلاع دی کہ بعض اِن میں سے تیرے پربد دُعائیں بھی کرتے رہیں گے مگر اُن کی بددُعائیں مَیں انہی پر ڈالوں گا اور در حقیقت لوگوں نے اس خیال سے کہ کسی طرح لو تقوّل کے نیچے مجھے لے آئیں منصوبہ بازی میں کچھ کمی نہیں کی.بعض مولویوں نے قتل کے فتوے دیئے.بعض مولویوں نے جھوٹے قتل کے مقدمات بنانے کے لئے میرے پر گواہیاں دیں.بعض مولوی میری موت کی جھوٹی پیشگوئیاں کرتے رہے.بعض مسجدوں میں میرے مرنے کے لئے ناک رگڑتے رہے.بعض نے جیسا کہ مولوی غلام دستگیر قصوری نے اپنی کتاب میں اور مولوی اسمٰعیل علیگڑھ والے نے میری نسبت قطعی حکم لگایا کہ وہ اگر کاذب ہے تو ہم سے پہلے مرے گا اور ضرور ہم سے پہلے مرے گا کیونکہ کاذب ہے.مگر جب اِن تالیفات کو دنیا میں شائع کر چکے تو پھر بہت جلد آپ ہی مر گئے اور اس طرح پر اُن کی موت نے فیصلہ کر دیا کہ کاذب کون تھا مگر پھر بھی یہ لوگ عبرت نہیں پکڑتے.پس کیا یہ * الہام الٰہی آنکھ کے بارے میں یہ ہے تنزل الرحمۃ علٰی ثلٰث اَلْعَین وعلی الاُخریَین.یعنی تیرے تین عضووں پر خدا کی رحمت نازل ہوگی ایک آنکھیں اور باقی دواَور.منہ
395 ایک عظیم الشان معجزہ نہیں ہے کہ محی الدین لکھوکے والے نے میری نسبت موت کا الہام شائع کیا وہ مر گیا.مولوی اسمٰعیل نے شائع کیا وہ مر گیا.مولوی غلام دستگیر نے ایک کتاب تالیف کرکے اپنے مرنے سے میرا پہلے مرنا بڑے زور وشور سے شائع کیا وہ مر گیا.پادری حمیداللہ پشاوری نے میری موت کی نسبت دس مہینہ کی میعاد رکھ کر پیشگوئی شائع کی وہ مر گیا.لیکھرام نے میری موت کی نسبت تین سال کی میعاد کی پیشگوئی کی وہ مر گیا.یہ اس لئے ہوا کہ تا خدا تعالیٰ ہر طرح سے اپنے نشانوں کو مکمل کرے.میری نسبت جو کچھ ہمدردی قوم نے کی ہے وہ ظاہر ہے اور غیر قوموں کا بغض ایک طبعی امر ہے.ان لوگوں نے کونسا پہلو میرے تباہ کرنے کا اٹھا رکھا.کونسا ایذا کا منصوبہ ہے جو انتہا تک نہیں پہنچایا.کیا بد دعاؤں میں کچھ کسر رہی یا قتل کے فتوے نامکمل رہے یا ایذا اور توہین کے منصوبے کما حقہٗ ظہور میں نہ آئے؟ پھر وہ کونسا ہاتھ ہے جو مجھے بچاتا ہے.اگر مَیں کاذب ہوتا تو چاہیئے تو یہ تھا کہ خدا خود میرے ہلاک کرنے کے لئے اسباب پیدا کرتا نہ یہ کہ وقتاً فوقتاً لوگ اسباب پیدا کریں اور خدا اُن اسباب کو معدوم کرتا رہے.* کیا یہی کاذب کی نشانیاں ہواکرتی ہیں کہ قرآن بھی اُسی کی گواہی دے * دیکھو مولوی ابو سعید محمد حسین بٹالوی نے میرے نابود کرنے کے لئے کیا کچھ ہاتھ پیر مارے اور محض فضول گوئی سے خدا سے لڑا اور دعویٰ کیا کہ مَیں نے ہی اونچا کیا اور مَیں ہی گراؤں گا مگر وہ خود جانتا ہے کہ اس فضول گوئی کا انجام کیا ہوا؟ افسوس کہ اُس نے اپنے اس کلمہ میں ایک صریح جھوٹ تو زمانہ ماضی کی نسبت بولا اور ایک آئندہ کی نسبت جھوٹی پیشگوئی کی.وہ کون تھا اور کیا چیز تھا جو مجھے اونچا کرتا.یہ خدا کا میرے پر احسان ہے اور اس کے بعد کسی کا بھی احسان نہیں.اوّل اُس نے مجھے ایک بڑے شریف خاندان میں پیدا کیا اور حسب نسب کے ہر ایک داغ سے بچایا پھر بعد میں میری حمایت میں آپ
396 اور آسمانی نشان بھی اسی کی تائید میں نازل ہوں اور عقل بھی اسی کی مؤید ہو اور جو اس کی موت کے شائق ہوں وہی مرتے جائیں.مَیں ہر گز یقین نہیں کرتا کہ زمانہ نبوی کے بعد کسی اہل اللہ اور اہل حق کے مقابل پر کبھی کسی مخالف کو ایسی صاف اور صریح شکست اور ذلت پہنچی ہو جیسا کہ میرے دشمنوں کو میرے مقابل پر پہنچی ہے.اگر انہوں نے میری عزت پر حملہ کیا تو آخر آپ ہی بے عزت ہوئے اور اگر میری جان پر حملہ کرکے یہ کہا کہ اس شخص کے صدق اور کذب کا معیار یہ ہے کہ وہ ہم سے پہلے مرے گا تو پھر آپ ہی مر گئے.مولوی غلام دستگیر کی کتاب تو دُور نہیں مدّت سے چھپ کر شائع ہو چکی ہے.دیکھو وہ کس دلیری سے لکھتا ہے کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرے گا اور پھر آپ ہی مر گیا اس سے ظاہر ہے کہ جو لوگ میری موت کے شائق تھے اور انہوں نے خدا سے دعائیں کیں کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرے آخر وہ مر گئے نہ ایک نہ دو بلکہ پانچ آدمی نے ایسا ہی کہا اور اس دنیا کو چھوڑ گئے.اس کا نتیجہ موجودہ مولویوں کے لئے جو محمد حسین بٹالوی اور مولو ی عبدالجبار غزنوی ثم امرتسری اور عبد الحق غزنوی ثم امرتسری اور مولوی پیر مہر علی شاہ گولڑوی اور رشید احمد گنگوہی اور نذیر حسین دہلوی اور رُسل بابا امرتسری اور منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ اور حافظ محمد یوسف ضلعدار نہر وغیر ہم کے لئے یہ تو نہ ہوا کہ اس اعجاز صریح سے یہ لوگ فائدہ کھڑا ہوا.افسوس ان لوگوں کی کہاں تک حالت پہنچ گئی ہے کہ ایسی خلاف واقعہ باتیں مُنہ پر لاتے ہیں جن کی کچھ بھی اصلیت نہیں.سچ تو یہ ہے کہ اس بد قسمت نے ہر ایک طور سے مجھ پر حملے کئے اور نامراد رہا.لوگوں کو بیعت سے روکا.نتیجہ یہ ہوا کہ ہزارہا لوگ میری بیعت میں داخل ہو گئے.اقدام قتل کے جھوٹے مقدمہ میں پادریوں کا گواہ بن کر میری عزت پر حملہ کیا.مگر اُسی وقت کرسی مانگنے کی تقریب سے اپنی نیت کا پھل پا لیا.میرے پرائیویٹ امور میں گندے اشتہار دیئے ان کا جواب خدا نے پہلے سے دے رکھا ہے میرے بیان کی حاجت نہیں.منہ
397 اٹھاتے اور خدا سے ڈرتے اور توبہ کرتے.ہاں ان لوگوں کی ان چند نمونوں کے بعد کمریں ٹوٹ گئیں اور اس قسم کی تحریروں سے ڈر گئے فلن یکتبوا بمثل ھذا بما تقدمت الامثال.یہ معجزہ کچھ تھوڑا نہیں تھا کہ جن لوگوں نے مدارِ فیصلہ جھوٹے کی موت رکھی تھی وہ میرے مرنے سے پہلے قبروں میں جا سوئے.اور مَیں نے ڈپٹی آتھم کے مباحثہ میں قریباً ساٹھ آدمی کے رو برو یہ کہا تھا کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرے گا سو آتھم بھی اپنی موت سے میری سچائی کی گواہی دے گیا.مجھے ان لوگوں کی حالتوں پر رحم آتا ہے کہ بخل کی وجہ سے کہاں تک ان لوگوں کی نوبت پہنچ گئی.اگر کوئی نشان بھی طلب کریں تو کہتے ہیں کہ یہ دعا کرو کہ ہم سات دن میں مر جائیں.نہیں جانتے کہ خود تراشیدہ میعادوں کی خدا پیروی نہیں کرتا اُس نے فرمایا دیا ہے کہ 3 ۱ اور اُس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرما دیا کہ 33 ۲.سو جبکہ سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن کی میعاد اپنی طرف سے پیش نہیں کر سکتے تو مَیں سات دن کا کیونکر دعویٰ کروں.ان نادان ظالموں سے مولوی غلام دستگیر اچھا رہا کہ اُس نے اپنے رسالہ میں کوئی میعاد نہیں لگائی.یہی دعا کی کہ یا الٰہی اگر مَیں مرزا غلام احمد قادیانی کی تکذیب میں حق پر نہیں تو مجھے پہلے موت دے اور اگر مرزا غلام احمد قادیانی اپنے دعوےٰ میں حق پر نہیں تو اُسے مجھ سے پہلے موت دے.بعد اِس کے بہت جلد خدا نے اس کو موت دے دی.دیکھو کیسا صفائی سے فیصلہ ہو گیا.اگر کسی کو اس فیصلہ کے ماننے میں تردّد ہو تو اس کو اختیار ہے کہ آپ خدا کے فیصلہ کو آزمائے لیکن ایسی شرارتیں چھوڑ دے جو آیت 333۳ سے مخالف پڑی ہیں شرارت کی حجت بازی سے صریح بے ایمانی کی بُو آتی ہے.ایسا ہی مولوی محمد اسمٰعیل نے صفائی سے خدا تعالیٰ کے رو برو یہ درخواست کی
398 کہ ہم دونوں فریق میں سے جو جھوٹا ہے وہ مر جائے.سو خدا نے اس کو بھی جلد تر اس جہان سے رخصت کر دیا.اور ان وفات یافتہ مولویوں کا ایسی دعاؤں کے بعد مر جانا ایک خدا ترس مسلمان کے لئے تو کافی ہے.مگر ایک پلید دل سیاہ دل دنیا پرست کے لئے ہر گز کافی نہیں.بھلا علیگڑھ تو بہت دُور ہے اور شائد پنجاب کے کئی لوگ مولوی اسماعیل کے نام سے بھی ناواقف ہوں گے مگر قصور ضلع لاہور تو دُور نہیں اور ہزاروں اہل لاہور مولوی غلام دستگیر قصوری کو جانتے ہوں گے اور اس کی یہ کتاب بھی انہوں نے پڑھی ہوگی تو کیوں خدا سے نہیں ڈرتے.کیا مرنا نہیں؟ کیا غلام دستگیر کی موت میں بھی لیکھرام کی موت کی طرح سازش کا الزام لگائیں گے؟ خدا کی جھوٹوں پر نہ ایک دم کے لئے لعنت ہے بلکہ قیامت تک لعنت ہے.کیا دنیا کے کیڑے محض سازش اور منصوبہ سے خدا کے مقدس مامورین کی طرح کوئی قطعی پیشگوئی کر سکتے ہیں.ایک چورجو چوری کے لئے جاتا ہے اس کو کیا خبر ہے کہ وہ چوری میں کامیاب ہو یا ماخوذ ہو کر جیل خانہ میں جائے.پھر وہ اپنی کامیابی کی زور شور سے تمام دنیا کے سامنے دشمنوں کے سامنے کیا پیشگوئی کرے گا؟ مثلاً دیکھو کہ ایسی پُر زور پیشگوئی جو لیکھرام کے قتل کئے جانے کے بارے میں تھی جس کے ساتھ دن تاریخ وقت بیان کیا گیا تھا کیا کسی شریر بد چلن خونی کا کام ہے؟ غرض ان مولویوں کی سمجھ پر کچھ ایسے پتھر پڑ گئے ہیں کہ کسی نشان سے فائدہ نہیں اٹھاتے.براہین احمدیہ میں قریباً سولہ برس پہلے بیان کیا گیا تھا کہ خدا تعالیٰ میری تائید میں خسوف کسوف کا نشان ظاہر کرے گا.لیکن جب وہ نشان ظاہر ہو گیا اور حدیث کی کتابوں سے بھی کھل گیا کہ یہ ایک پیشگوئی تھی کہ مہدی کی شہادت کے لئے اس کے ظہور کے وقت میں رمضان میں خسوف کسوف ہوگا تو ان مولویوں نے اس نشان کو بھی گاؤ خورد کر دیا اور حدیث سے مُنہ پھیر لیا.یہ بھی احادیث میں آیا تھا کہ مسیح کے وقت میں
399 اونٹ ترک کئے جائیں گے اور قرآن شریف میں بھی وارد تھا کہ3 ۱.اب یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ مکہ اور مدینہ میں بڑی سر گرمی سے ریل طیّار ہو رہی ہے اور اونٹوں کے الوداع کا وقت آگیا اور پھر اس نشان سے کچھ فائدہ نہیں اٹھاتے.یہ بھی حدیثوں میں تھا کہ مسیح موعود کے وقت میں ستارہ ذوالسنین نکلے گا.اب انگریزوں سے پوچھ لیجئے کہ مدّت ہوئی کہ وہ ستارہ نکل چکا.اور یہ بھی حدیثوں میں تھا کہ مسیح کے وقت میں طاعون پڑے گی.حج روکا جائے گا.سو یہ تمام نشان ظہور میں آگئے.اب اگر مثلًا میرے لئے آسمان پر خسوف کسوف نہیں ہوا تو کسی اور مہدی کو پیدا کریں جو خدا کے الہام سے دعویٰ کرتا ہو کہ میرے لئے ہوا ہے.افسوس اِن لوگوں کی حالتوں پر.ان لوگوں نے خدا اور رسول کے فرمودہ کی کچھ بھی عزت نہ کی.اور صدی پر بھی سترہ برس گذر گئے.مگر ان کا مجدد اب تک کسی غار میں پوشیدہ بیٹھا ہے.مجھ سے یہ لوگ کیوں بخل کرتے ہیں اگر خدا نہ چاہتا تو مَیں نہ آتا.بعض دفعہ میرے دل میں یہ بھی خیال آیا کہ مَیں درخواست کروں کہ خدا مجھے اس عہدہ سے علیحدہ کرے اور میری جگہ کسی اَور کو اس خدمت سے ممتاز فرمائے پر ساتھ ہی میرے دل میں یہ ڈالا گیا کہ اس سے زیادہ اَور کوئی سخت گناہ نہیں کہ مَیں خدمت سپرد کردہ میں بُزدلی ظاہر کروں.جس قدر میں پیچھے ہٹنا چاہتا ہوں اُسی قدر خدا تعالیٰ مجھے کھینچ کر آگے لے آتا ہے.میرے پر ایسی رات کوئی کم گذرتی ہے جس میں مجھے یہ تسلّی نہیں دی جاتی کہ مَیں تیرے ساتھ ہوں اور میری آسمانی فوجیں تیرے ساتھ ہیں.اگر چہ جو لوگ دل کے پاک ہیں مرنے کے بعد خدا کو دیکھیں گے لیکن مجھے اسی کے مُنہ کی قسم ہے کہ مَیں اب بھی اس کو دیکھ رہا ہوں.دنیا مجھ کو نہیں پہنچا نتی لیکن وہ مجھے جانتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے.یہ ان لوگوں کی غلطی ہے اور سراسر بد قسمتی ہے کہ میری تباہی چاہتے ہیں.مَیں وہ درخت ہوں جس کو
400 مالک حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے جو شخص مجھے کاٹنا چاہتا ہے اس کا نتیجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ قارون اور یہود ااسکریوطی اور ابو جہل کے نصیب سے کچھ حصہ لینا چاہتا ہے.میں ہر روز اس بات کے لئے چشم پُر آب ہوں کہ کوئی میدان میں نکلے اور منہاج نبوت پر مجھ سے فیصلہ کرنا چاہے.پھر دیکھے کہ خدا کس کے ساتھ ہے.مگر میدان میں نکلنا کسی مخنث کا کام نہیں ہاں غلام دستگیر ہمارے ملک پنجاب میں کفر کے لشکر کا ایک سپاہی تھا جو کام آیا.اب ان لوگوں میں سے اس کے مثل بھی کوئی نکلنا محال اور غیر ممکن ہے.اے لوگو! تم یقیناًسمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر وقت تک مجھ سے وفاکرے گا.اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جائیں تب بھی خدا ہر گز تمہاری دُعا نہیں سُنے گا اور نہیں رُکے گا جب تک وہ اپنے کام کو پورا نہ کر لے.اور اگر انسانوں میں سے ایک بھی میرے ساتھ نہ ہو تو خدا کے فرشتے میرے ساتھ ہوں گے اور اگر تم گواہی کو چھپاؤ تو قریب ہے کہ پتھر میرے لئے گواہی دیں.پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو کاذبوں کے اور مُنہ ہوتے ہیں اور صادقوں کے اَور.خدا کسی امر کو بغیر فیصلہ کے نہیں چھوڑتا.مَیں اس زندگی پر لعنت بھیجتا ہوں.جو جھوٹ اور افترا کے ساتھ ہو اور نیز اس حالت پر بھی کہ مخلوق سے ڈر کر خالق کے امر سے کنارہ کشی کی جائے.وہ خدمت جو عین وقت پر خداوند قدیر نے میرے سپرد کی ہے اور اسی کے لئے مجھے پیدا کیا ہے ہر گز ممکن نہیں کہ مَیں اس میں سُستی کروں اگرچہ آفتاب ایک طرف سے اور زمین ایک طرف سے باہم مل کر مجھے کچلنا چاہیں.انسان کیا ہے محض ایک کیڑا اور بشر کیا ہے محض ایک مضغہ.پس کیونکر مَیں حيّ قیّوم کے حکم کو ایک کیڑے یا ایک مضغہ کے لئے ٹال دوں.جس طرح
401 خدا نے پہلے مامورین اور مکذبین میں آخر ایک دن فیصلہ کر دیا اسی طرح وہ اس وقت بھی فیصلہ کرے گا.خدا کے مامورین کے آنے کے لئے بھی ایک موسم ہوتے ہیں اور پھرجانے کے لئے بھی ایک موسم.پس یقیناً سمجھو کہ مَیں نہ بے موسم آیا ہوں اور نہ بے موسم جاؤں گا.خدا سے مت لڑو یہ تمہارا کام نہیں کہ مجھے تباہ کر دو.اب اس اشتہار سے میرا یہ مطلب ہے کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے اور نشانوں میں مخالفین پر حجت پوری کی ہے اسی طرح میں چاہتا ہوں کہ آیت لوتقوّل کے متعلق بھی حجت پوری ہو جائے.* اسی جہت سے مَیں نے اس اشتہار کو پانسو روپیہ کے انعام کے ساتھ شائع کیا ہے.اور اگر تسلّی نہ ہو تو مَیں یہ روپیہ کسی سرکاری بینک میں جمع کرا سکتا ہوں.اگر حافظ محمد یوسف صاحب اور ان کے دوسرے ہم مشرب جن کے * اس زمانہ کے بعض نادان کئی دفعہ شکست کھا کر پھر مجھ سے حدیثوں کے رو سے بحث کرنا چاہتے ہیں یا بحث کرانے کے خواہشمند ہوتے ہیں مگر افسوس کہ نہیں جانتے کہ جس حالت میں وہ اپنی چند ایسی حدیثوں کو چھوڑنا نہیں چاہتے جو محض ظنّیات کا ذخیرہ اور مجروح اورمخدوش ہیں اور نیز مخالف ان کی اور حدیثیں بھی ہیں اور قرآن بھی ان حدیثوں کو جھوٹی ٹھہراتا ہے تو پھر مَیں ایسے روشن ثبوت کو کیونکر چھوڑ سکتا ہوں جس کی ایک طرف قرآن شریف تائید کرتا ہے اور ایک طرف اس کی سچائی کی احادیث صحیحہ گواہ ہیں اور ایک طرف خدا کا وہ کلام گواہ جو مجھ پر نازل ہوتا ہے اور ایک طرف پہلی کتابیں گواہ ہیں اور ایک طرف عقل گواہ ہے اور ایک طرف وہ صدہانشان گواہ ہیں جو میرے ہاتھ سے ظاہرہو رہے ہیں پس حدیثوں کی بحث طریق تصفیہ نہیں ہے خدا نے مجھے اطلاع دے دی ہے کہ یہ تمام حدیثیں جو پیش کرتے ہیں تحریف معنوی یا لفظی میں آلودہ ہیں اور یا سرے سے موضوع ہیں اور جو شخص حَکم ہو کر آیا ہے اس کا اختیار ہے کہ حدیثوں کے ذخیرہ میں سے جس انبار کو چاہے خدا سے علم پاکر قبول کرے اور جس ڈھیر کو چاہے خدا سے علم پاکر ردّ کر دے.منہ
402 نام مَیں نے اس اشتہار میں لکھے ہیں اپنے اس دعوے میں صادق ہیں یعنی اگر یہ بات صحیح ہے کہ کوئی شخص نبی یا رسول اور مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کرکے اور کھلے کھلے طور پر خدا کے نام پر کلمات لوگوں کو سُناکر پھر باوجود مفتری ہونے کے برابر تیئیس۲۳ برس تک جو زمانہ وحی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہے زندہ رہا ہے تو مَیں ایسی نظیر پیش کرنے والے کو بعد اس کے جو مجھے میرے ثبوت کے موافق یا قرآن کے ثبوت کے موافق ثبوت دے دے پانسو روپیہ نقد دے دوں گا اور اگر ایسے لوگ کئی ہوں تو اُن کا اختیار ہوگا کہ وہ روپیہ باہم تقسیم کر لیں.اس اشتہار کے نکلنے کی تاریخ سے پندرہ روز تک ان کو مہلت ہے کہ دنیا میں تلاش کرکے ایسی نظیر پیش کریں.افسوس کا مقام ہے کہ میرے دعویٰ کی نسبت جب مَیں نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا مخالفوں نے نہ آسمانی نشانوں سے فائدہ اٹھایا او ر نہ زمینی نشانوں سے کچھ ہدایت حاصل کی.خدا نے ہر ایک پہلو سے نشان ظاہر فرمائے پر دنیا کے فرزندوں نے اُن کو قبول نہ کیااب خدا کی اور ان لوگوں کی ایک کشتی ہے یعنی خدا چاہتا ہے کہ اپنے بندہ کی جس کو اس نے بھیجا ہے روشن دلائل اور نشانوں کے ساتھ سچائی ظاہر کرے اور یہ لوگ چاہتے ہیں کہ وہ تباہ ہو اس کا انجام بد ہو اور وہ اُن کی آنکھوں کے سامنے ہلاک ہو اور اس کی جماعت متفرق اور نابود ہوتب یہ لوگ ہنسیں اور خوش ہوں اور ان لوگوں کو تمسخر سے دیکھیں جو اس سلسلہ کی حمایت میں تھے اور اپنے دل کو کہیں کہ تجھے مبارک ہو کہ آج تُو نے اپنے دشمن کو ہلاک ہوتے دیکھا اور اس کی جماعت کو تتر بتر ہوتے مشاہدہ کر لیا.مگر کیا ان کی مرادیں پوری ہو جائیں گے اور کیا ایسا خوشی کا دن اُن پر آئے گا؟ اس کا یہی جواب ہے کہ اگر ان کے امثال پر آیا تھا تو ان پر بھی آئے گا.ابو جہل نے جب بدر کی لڑائی میں یہ دُعا کی تھی کہ اللّٰھم من کان منّا کاذبًا فاحنہ فی ھذا الموطن یعنی اے خدا ہم دونوں میں سے
403 جو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور مَیں ہوں جو شخص تیری نظر میں جھوٹا ہے اُس کو ایسے* موقع قتال میں ہلاک کر تو کیا اس دُعا کے وقت اُس کو گمان تھا کہ مَیں جھوٹا ہوں؟ اور جب لیکھرام نے کہا کہ میری بھی مرزا غلام احمد کی موت کی نسبت ایسی ہی پیشگوئی ہے جیسا کہ اس کی.اور میری پیشگوئی پہلے پوری ہو جائے گی اور وہ مرے گا.* تو کیا اس کو اس وقت اپنی نسبت گمان تھا کہ مَیں جھوٹا ہوں؟ پس منکر تو دنیا میں ہوتے ہیں پر بڑا بد بخت وہ منکر ہے جو مرنے سے پہلے معلوم نہ کر سکے کہ مَیں جھوٹا ہوں.پس کیا خدا پہلے منکروں کے وقت میں قادر تھا اور اب نہیں؟ نعوذ باللہ ہر گز ایسا نہیں بلکہ ہر ایک جو زندہ رہے گا وہ دیکھ لے گا کہ آخر خدا غالب ہوگا.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا.لیکن خدا اُسے قبول کرے گااور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.وہ خدا جس کا قوی ہاتھ زمینوں اور آسمانوں اور اُن سب چیزوں کو جو اُن میں ہیں تھامے ہوئے ہے وہ کب انسان کے ارادوں سے مغلوب ہو سکتا ہے اور آخر ایک دن آتا ہے جو وہ فیصلہ کرتا ہے.پس صادقوں کی یہی نشانی ہے کہ انجام انہی کا ہوتا ہے.خدا اپنی تجلّیات کے ساتھ اُن کے دل پر نزول کرتا ہے.پس کیونکر وہ عمارت منہدم ہو سکے جس میں وہ حقیقی بادشاہ فروکش ہے ٹھٹھا کرو جس قدر چاہو گالیاں دو جس قدر چاہو اور ایذا اور تکلیف دہی کے منصوبے سوچو جس قدر چاہو.اور میرے استیصال کے لئے ہر ایک قسم کی تدبیریں ایسا ہی جب مولوی غلام دستگیر قصوری نے کتاب تالیف کرکے تمام پنجاب میں مشہور کر دیا تھا کہ مَیں نے یہ طریق فیصلہ قرار دے دیا ہے کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مر جائے گا تو کیا اُس کو خبر تھی کہ یہی فیصلہ اس کے لئے لعنت کا نشانہ ہو جائے گا اور وہ پہلے مر کر دوسرے ہم مشربوں کا بھی مُنہ کالا کرے گا.اور آئندہ ایسے مقابلات میں اُن کے مُنہ پر مُہر لگا دے گا اور بُزدل بنا دے گا.منہ * سہو کتابت ہے.یہاں ’’ایسے‘‘ کی بجائے ’’اسی ‘‘ ہونا چاہئے.جیسا کہ عربی عبارت سے واضح ہے.(ناشر)
404 اور مکر سوچو جس قدر چاہو پھر یاد رکھو کہ عنقریب خدا تمہیں دکھلا دے گا کہ اُس کا ہاتھ غالب ہے نادان کہتا ہے کہ مَیں اپنے منصوبوں سے غالب ہو جاؤں گا مگر خدا کہتا ہے کہ اے لعنتی دیکھ مَیں تیرے سارے منصوبے خاک میں ملا دوں گا.اگر خدا چاہتا تو اِن مخالف مولویوں اور ان کے پَیروؤں کو آنکھیں بخشتا.اور وہ ان وقتوں اور موسموں کو پہچان لیتے جن میں خدا کے مسیح کا آنا ضروری تھا.لیکن ضرور تھا کہ قرآن شریف اور احادیث کی وہ پیشگوئیاں پوری ہوتیں جن میں لکھا تھا کہ مسیح موعود جب ظاہر ہوگا تو اسلامی علماء کے ہاتھ سے دکھ اٹھائے گا.وہ اس کو کافر قرار دیں گے اور اس کے قتل کے لئے فتوے دیئے جائیں گے اور اس کی سخت توہین کی جائے گی اور اس کو دائرہ اسلام سے خارج اور دین کا تباہ کرنے والا خیال کیا جائے گا.سو ان دنوں میں وہ پیشگوئی انہی مولویوں نے اپنے ہاتھوں سے پوری کی.افسوس یہ لوگ سوچتے نہیں کہ اگر یہ دعویٰ خدا کے امر اور ارادہ سے نہیں تھا تو کیوں اس مدعی میں پاک اور صادق نبیوں کی طرح بہت سے سچائی کے دلائل جمع ہو گئے؟ کیا وہ رات ان کیلئے ماتم کی رات نہیں تھی جس میں میرے دعوے کے وقت رمضان میں خسوف کسوف عین پیشگوئی کی تاریخوں میں وقو ع میں آیا.کیا وہ دن ان پر مصیبت کا دن نہیں تھا جس میں لیکھرام کی نسبت پیشگوئی پوری ہوئی.خدا نے بارش کی طرح نشان بر سائے مگر ان لوگوں نے آنکھیں بند کر لیں تا ایسا نہ ہو کہ دیکھیں اور ایمان لائیں.کیا یہ سچ نہیں کہ یہ دعویٰ غیر وقت پر نہیں بلکہ عین صدی کے سر پر اور عین ضرورت کے دنوں میں ظہور میں آیا اور یہ امر قدیم سے اور جب سے کہ بنی آدم پیدا ہوئے سنت اللہ میں داخل ہے کہ عظیم الشان مصلح صدی کے سر پر اور عین ضرورت کے وقت میں آیا کرتے ہیں جیسا کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی حضرت مسیح علیہ السلام کے بعد ساتویں صدی کے سر پر جبکہ تمام دنیا تاریکی میں پڑی تھی ظہور فرما ہوئے اور جب سات کو دُگنا کیا جائے
405 تو چودہ ہوتے ہیں.لہٰذا چودھویں صدی کا سر مسیح موعود کے لئے مقدر تھا تا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ جس قدر قوموں میں فساد اور بگاڑ حضرت مسیح کے زمانہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک پیدا ہو گیا تھا اُس فساد سے وہ فساد دو چند ہے جو مسیح موعود کے زمانہ میں ہوگا.اور جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں خدا تعالیٰ نے ایک بڑا اصول جو قرآن شریف میں قائم کیا تھا اور اُسی کے ساتھ نصاریٰ اور یہودیوں پر حجت قائم کی تھی یہ تھا کہ خدا تعالیٰ اُس کاذب کو جو نبوت یا رسالت اور مامورمن اللہ ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرے مہلت نہیں دیتا اور ہلاک کرتا ہے.پس ہمارے مخالف مولویوں کی یہ کیسی ایمانداری ہے کہ منہ سے تو قرآن شریف پر ایمان لاتے ہیں مگر اس کے پیش کردہ دلائل کو ردّ کرتے ہیں.اگر وہ قرآن شریف پر ایمان لاکر اسی اصول کومیرے صادق یا کاذب ہونے کا معیار ٹھہراتے تو جلد تر حق کو پالیتے.لیکن میری مخالفت کے لئے اب وہ قرآن شریف کے اِس اصول کو بھی نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے کہ مَیں خدا کا نبی یا رسول یا مامور من اللہ ہوں جس سے خدا ہم کلام ہو کر اپنے بندوں کی اصلاح کے لئے وقتاً فوقتاً راہ راست کی حقیقتیں اس پر ظاہر کرتا ہے اور اس دعوے پر تیئیس یا پچیس برس گذر جائیں یعنی وہ میعاد گذر جائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی میعاد تھی اور وہ شخص اس مدت تک فوت نہ ہو اور نہ قتل کیا جائے تو اس سے لازم نہیں آتاکہ وہ شخص سچا نبی یا سچا رسول یا خدا کی طرف سے سچا مصلح اور مجدّد ہے اور حقیقت میں خدا اُس سے ہم کلام ہوتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ کلمہ کفر ہے کیونکہ اس سے خدا کے کلام کی تکذیب و توہین لازم آتی ہے.ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت حقّہ کے ثابت کرنے کے لئے اسی استدلال کو پکڑا ہے کہ اگر یہ شخص خدا تعالیٰ پر افترا کرتا تو مَیں اس کو ہلاک کر دیتا اور تمام علماء
406 جانتے ہیں کہ خدا کی دلیل پیش کردہ سے استخفاف کرنا بالا تفاق کفر ہے کیونکہ اِس دلیل پر ٹھٹھا مارنا جو خدا نے قرآن اور رسول کی حقیت پر پیش کی ہے مستلزم تکذیب کتاب اللہ و رسول اللہ ہے اور وہ صریح کفر ہے.مگر ان لوگوں پر کیا افسوس کیا جائے شائد اِن لوگوں کے نزدیک خدا تعالیٰ پر افترا کرنا جائز ہے اور ایک بد ظن کہہ سکتا ہے کہ شائد یہ تمام اصرار حافظ محمد یوسف صاحب کا اور ان کا ہر مجلس میں بار بار یہ کہنا کہ ایک انسان تیئیس۲۳ برس تک خدا تعالیٰ پر افترا کرکے ہلاک نہیں ہوتا اس کا یہی باعث ہو کہ انہوں نے نعوذ باللہ چند افترا خدا تعالیٰ پر کئے ہوں اور کہا ہو کہ مجھے یہ خواب آئی یا مجھے یہ الہام ہوا اور پھر اب تک ہلاک نہ ہوئے تو دل میں یہ سمجھ لیا کہ خدا تعالیٰ کا اپنے رسول کریم کی نسبت یہ فرمانا کہ اگر وہ ہم پر افترا کرتا تو ہم اُس کی رگِ جان کاٹ دیتے یہ بھی صحیح نہیں ہے.* اور خیال کیا کہ ہماری رگِ جان خدا نے کیوں نہ کاٹ دی.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ آیت رسولوں اور نبیوں اور مامورین کی نسبت ہے جو کروڑہا انسانوں کو اپنی طرف دعوت کرتے ہیں اور جن کے افترا سے دنیا تباہ ہوتی ہے.لیکن ایک ایسا شخص جو اپنے تئیں مامورمن اللہ ہونے کا دعوٰی کرکے قوم کا مصلح قرار نہیں دیتا اور نہ نبوت اور رسالت کا مدعی بنتا ہے اور محض ہنسی کے طور پر یا لوگوں کو اپنا رسوخ جتلانے کے لئے دعویٰ کرتا ہے کہ مجھے یہ خواب آئی اور یا الہام ہوا اور جھوٹ بولتا ہے یا اس میں جھوٹ ملاتاہے وہ اس نجاست کے کیڑے کی طرح ہے جو نجاست میں ہی پیدا ہوتا ہے اور نجاست میں ہی مر جاتا ہے.ایسا خبیث اس لائق نہیں کہ خدا اُس کو یہ عزت دے * ہمیں حافظ صاحب کی ذات پرہر گزیہ اُمید نہیں کہ نعوذباللہ کبھی انہوں نے خدا پر افترا کیا ہو اور پھر کوئی سزا نہ پانے کی وجہ سے یہ عقیدہ ہو گیا ہو.ہمارا ایمان ہے کہ خدا پر افترا کرنا پلید طبع لوگوں کا کام ہے اور آخر وہ ہلاک کئے جاتے ہیں.منہ
407 کہ تُونے اگر میرے پر افترا کیا تو مَیں تجھے ہلاک کر دوں گا بلکہ وہ بوجہ اپنی نہایت درجہ کی ذلّت کے قابل التفات نہیں.کوئی شخص اُس کی پیروی نہیں کرتا کوئی اس کو نبی یا رسول یا مامور من اللہ نہیں سمجھتا.ماسوا اس کے یہ بھی ثابت کرنا چاہئے کہ اس مفتریانہ عادت پر برابر تیئیس برس گذر گئے.ہمیں حافظ محمد یوسف صاحب کی بہت کچھ واقفیت نہیں.مگر یہ بھی امید نہیں.خدا ان کے اندرونی اعمال بہتر جانتا ہے.ان کے دو قول تو ہمیں یاد ہیں اور سُنا ہے کہ اب اُن سے وہ انکار کرتے ہیں (۱) ایک یہ کہ چند سال کا عرصہ گذرا ہے کہ بڑے بڑے جلسوں میں انہوں نے بیان کیا تھا کہ مولوی عبد اللہ غزنوی نے میرے پاس بیان کیا کہ آسمان سے ایک نور قادیان پر گرا اور میری اولاد اس سے بے نصیب رہ گئی (۲) دوسرے یہ کہ خدا تعالیٰ نے انسانی تَمثّل کے طور پر ظاہر ہو کر ان کو کہا کہ مرزا غلام احمد حق پر ہے کیوں لوگ اس کا انکار کرتے ہیں.اب مجھے خیال آتا ہے کہ اگر حافظ صاحب ان دو واقعات سے اب انکار کرتے ہیں جن کو بار بار بہت سے لوگوں کے پاس بیان کر چکے ہیں تو نعوذ باللہ بے شک انہوں نے خدا تعالیٰ پر افترا کیا ہے * کیونکہ جو شخص سچ کہتا ہے اگر وہ مر بھی جائے تب بھی انکار نہیں کر سکتا جیسا کہ ان کے بھائی محمد یعقوب نے اب بھی صاف گواہی دے دی ہے کہ ایک خواب کی تعبیر میں مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی نے فرمایا تھا کہ وہ نُور جو دنیا کو روشن کرے گا * مَیں ہرگز قبول نہیں کروں گا کہ حافظ صاحب اِن ہر دو واقعات سے انکار کرتے ہیں.ان واقعات کا گواہ نہ صرف مَیں ہوں بلکہ مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت گواہ ہے اور کتاب ازالہ اوہام میں ان کی زبانی مولوی عبد اللہ صاحب کا کشف درج ہو چکا ہے.مَیں تو یقیناًجانتا ہوں کہ حافظ صاحب ایسا کذب صریح ہر گز زبان پر نہیں لائیں گے گو قوم کی طرف سے ایک بڑی مصیبت میں گرفتار ہو جائیں.اُن کے بھائی محمد یعقوب نے تو انکار نہیں کیا تو وہ کیونکر کریں گے.جھوٹ بولنا مرتد ہونے سے کم نہیں.منہ
408 وہ مرزا غلام احمد قادیانی ہے.ابھی کل کی بات ہے کہ حافظ صاحب بھی بار بار اِن دونوں قصوں کو بیان کرتے تھے.اور ہنوز وہ ایسے پیر فرتوت نہیں ہوئے تا یہ خیال کیا جائے کہ پیرانہ سالی کے تقاضا سے قوت حافظہ جاتی رہی اور آٹھ سال سے زیادہ مدت ہو گئی جب مَیں حافظ صاحب کی زبانی مولوی عبد اللہ صاحب کے مذکورہ بالا کشف کو ازالہ اوہام میں شائع کر چکا ہوں.کیا کوئی عقلمند مان سکتا ہے کہ مَیں ایک جھوٹی بات اپنی طرف سے لکھ دیتا اور حافظ صاحب اس کتاب کو پڑھ کر پھر خاموش رہتے.کچھ عقل و فکر میں نہیں آتا کہ حافظ صاحب کو کیا ہو گیا.معلوم ہوتا ہے کہ کسی مصلحت سے عمداً گواہی کو چھپاتے ہیں اور نیک نیتی سے ارادہ رکھتے ہیں کہ کسی اور موقع پر اس گواہی کو ظاہر کر دوں گا مگر زندگی کتنے روز ہے.اب بھی اظہار کا وقت ہے انسان کو اس سے کیا فائدہ کہ اپنی جسمانی زندگی کے لئے اپنی رُوحانی زندگی پر چھری پھیردے.مَیں نے بہت دفعہ حافظ صاحب سے یہ بات سُنی تھی کہ وہ میرے مصدقین میں سے ہیں اور مکذب کے ساتھ مباہلہ کرنے کو طیار ہیں اور اِسی میں بہت ساحصہ اُن کی عمر کا گذر گیا اور اس کی تائید میں وہ اپنی خوابیں بھی سُناتے رہے اور بعض مخالفوں سے انہوں نے مباہلہ بھی کیامگر کیوں پھر دنیا کی طرف جھک گئے.لیکن ہم اب تک اس بات سے نومید نہیں ہیں کہ خدا ان کی آنکھیں کھولے اور یہ امید باقی ہے جب تک کہ وہ اسی حالت میں فوت نہ ہو جائیں.اور یاد رہے کہ خاص موجب اِس اشتہار کے شائع کرنے کا وہی ہیں کیونکہ ان دنوں میں سب سے پہلے اُنہی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ قرآن کی یہ دلیل کہ ’’اگر یہ نبی جھوٹے طور پر وحی کا دعویٰ کرتا تو مَیں اس کو ہلاک کر دیتا‘‘ یہ کچھ چیز نہیں ہے بلکہ بہتیرے ایسے مفتری دنیا میں پائے جاتے ہیں جنہوں نے تیئیس برس
409 سے بھی زیادہ مدت تک نبوت یا رسالت یا مامور من اللہ ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرکے خدا پر افترا کیا اور اب تک زندہ موجود ہیں.حافظ صاحب کا یہ قول ایسا ہے کہ کوئی مومن اس کی برداشت نہیں کرے گا.مگر وہی جس کے دل پر خدا کی لعنت ہو.کیا خدا کا کلام جھوٹا ہے؟ ومن اظلم من الذی کذّب کتاب اللّٰہ.اَ لَا ان قول اللّٰہ حق وَاَ لَا ان لعنۃ اللّٰہ علی المکذبین.یہ خدا کی قدرت ہے کہ اُس نے منجملہ اور نشانوں کے یہ نشان بھی میرے لئے دکھلایا کہ میرے وحی اللہ پانے کے دن سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دنوں سے برابر کئے جب سے کہ دنیا شروع ہوئی ایک انسان بھی بطور نظیر نہیں ملے گا جس نے ہمارے سیّد و سردار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح تیئیس برس پائے ہوں اور پھر وحی اللہ کے دعوے میں جھوٹا ہو یہ خدا تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خاص عزّت دی ہے جو اُن کے زمانہ نبوت کو بھی سچائی کا معیار ٹھہرا دیا ہے.پس اے مومنو! اگر تم ایک ایسے شخص کو پاؤ جو مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور تم پر ثابت ہو جائے کہ وحی اللہ پانے کے دعوے پر تیئیس برس کا عرصہ گذر گیا اور وہ متواتر اس عرصہ تک وحی اللہ پانے کا دعویٰ کرتا رہا اور وہ دعویٰ اس کی شائع کردہ تحریروں سے ثابت ہوتا رہا تو یقیناًسمجھ لو کہ وہ خدا کی طرف سے ہے کیونکہ ممکن نہیں کہ ہمارے سید و مولیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی اللہ پانے کی مدت اُس شخص کو مل سکے جس شخص کو خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ جھوٹا ہے ہاں اس بات کا واقعی طور پر ثبوت ضروری ہے کہ درحقیقت اس شخص نے وحی اللہ پانے کے دعویٰ میں تیئیس برس کی مدت حاصل کر لی اور اس مدت میں اخیر تک کبھی خاموش نہیں رہا اور نہ اس دعویٰ سے دست بردار ہوا.سو اس امت میں وہ ایک شخص مَیں ہی ہوں جس کو اپنے نبی کریم کے نمونہ پر وحی اللہ پانے میں تیئیس برس کی مدت دی گئی ہے.اور تیئیس برس تک برابر یہ سِلسلہ وحی کا جاری رکھا گیا.اس کے ثبوت کے لئے اوّل
410 مَیں براہین احمدیہ کے وہ مکالمات الٰہیہ لکھتا ہوں جو اکیس برس سے براہین احمدیہ میں چھپ کر شائع ہوئے اور سات آٹھ برس پہلے زبانی طور پر شائع ہوتے رہے جن کی گواہی خود براہین احمدیہ سے ثابت ہے اور پھر اس کے بعد چندوہ مکالماتِ الٰہیہ لکھوں گا جو براہین احمدیہ کے بعد وقتاً فوقتاً دوسری کتابو ں کے ذریعہ سے شائع ہوتے رہے سو براہین احمدیہ میں یہ کلمات اللہ درج ہیں جو خدا تعالےٰ کی طرف سے میرے پر نازل ہوئے اور مَیں صرف نمونہ کے طور پر اختصار کرکے لکھتا ہوں مفصل دیکھنے کے لئے براہین موجود ہے.وہ مکالماتِ الٰہیہ جن سے مجھے مشرف کیا گیا اور براہین احمدیہ میں درج ہیں بشری* لک احمدی.انت مرادی ومعی.غرست لک قدرتی بیدی.سرّک سرّی.انت وجیہ فی حضرتی.اخترتک لنفسی انت منی بمنزلۃ توحیدی وتفریدی.فحان ان تعان وتعرف بین الناس.یا احمد فاضت الرحمۃ علی شفتیک.بورکت یا احمد.وکان ما بارک اللّٰہ فیک حقّافیک.الرّحمٰن علّم القرآن لتنذر قومًا ما انذر آباءھم ولتستبین سبیل المجرمین.قل انی امرت وانا اوّل المؤمنین.قل ان کنتم تحبون اللّٰہ فاتبعونی یحببکم اللّٰہ.ویمکرون ویمکر اللّٰہ واللّٰہ خیر الماکرین.وما کان اللّٰہ لیترکک حتی یمیز الخبیث من الطیب.وان علیک رحمتی فی الدنیا والدین.وانک الیوم لدینا مکین امین.و انک من المنصورین.وانت منی بمنزلۃ لا یعلمھا الخلق.وما ارسلناک الارحمۃ للعالمین.یا احمد اسکن انت وزوجک الجنّۃ.یا آدم اسکن * براہین احمدیہ ہرچہار حصص روحانی خزائن جلد۱ صفحہ ۶۰۲ میں ’’ بُشْرٰی لَکَ یَااَحْمَدِیْ‘‘ ہے (ناشر)
411 انت وزوجک الجنۃ.ھذا من رحمۃ ربک لیکون آیۃ للمومنین.اردت ان استخلف فخلقت آدم لیقیم الشریعۃ ویحی الدین.جریّ اللّٰہ فی حلل الانبیاء.وجیہ فی الدنیا والآخرۃ ومن المقربین.کنت کنزًا مخفیا فاحببت ان اعرف ولنجعلہ آیۃ للناس ورحمۃ منّا وکان امرا مقضیا.یا عیسٰی انّی متوفیک ورافعک الیّ ومطھّرک من الذین کفروا.وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الی یوم القیامۃ.ثلۃ من الاولین وثلۃ من الاخرین.یخوفونک من دونہ.یعصمک اللّٰہ من عندہ ولولم یعصمک الناس.وکان ربک قدیرا.یحمدک اللّٰہ من عرشہ.نحمدک ونصلی.وانا کفیناک المستھزئین.وقالوا ان ھو الا افک انفتریٰ.وما سمعنا بھٰذا فی آبائنا الاوّلین.ولقد کرّمنا بنی آدم وفَضّلنا بعضھم علی بعض.کذالک لتکون آیۃ للمومنین.وجحدوابھا واستیقنتھا انفسھم ظلما وعلوا.قل عندی شھادۃ من اللّٰہ فھل انتم مومنون.قل عندی شھادۃ من اللّٰہ فھل انتم مسلمون.وقالوا انّٰی لک ھٰذا‘ ان ھٰذا الّا سحرٌ یوثر و ان یروا آیۃ یعرضوا ویقولوا سحرٌ مستمر.کتب اللّٰہ لاغلبن انا ورسلی.واللّٰہ غالب علی امرہ ولٰکن اکثر الناس لا یعلمون.ھوالذی ارسل رسولہ بالھدٰی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ لا مبدل لکلمات اللّٰہ.والذین آمنوا ولم یلبسوا ایمانھم بظلم اولٰئک لھم الامن وھم مھتدون.ولا تخاطبنی فی الذین ظلموا انھم مغرقون.وان یتخذونک الاھزوا أھٰذا الذی بعث اللّٰہ.وینظرون الیک وھم لا یبصرون.واذ یمکر بک الذی کفّر.اوقدلی یاھامان لعلّی اطلع علی الٰہ موسٰی وانی لاظنہ من الکاذبین.تبّت یدا ابی لھب وتب ما کان لہ ان ید خل فیھا الّا خائفًا.
412 وما اصابک فمن اللّٰہ.الفتنۃ ھٰھنا فاصبر کما صبر اولو العزم.الا انّھا فتنۃ من اللّٰہ لیحبّ حُبّا جمّا.حبًّا من اللّٰہ العزیز الاکرم.عطاءً غیر مجذوذ.وفی اللّٰہ اجرک.ویرضی عنک ربّک ویتمّ اسمک.وعسٰی ان تحبّوا شیئا وھو شرٌّ لکم وعسٰی ان تکرھوا شیئا وھو خیرلکم واللّٰہ یعلم وانتم لا تعلمون.* ترجمہ:.اے میرے احمد تجھے بشارت ہو.تو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے.مَیں نے اپنے ہاتھ سے تیرا درخت لگایا.تیرا بھید میرا بھید ہے.اور تو میری درگاہ میں وجیہ ہے.مَیں نے اپنے لئے تجھے چنا.تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید.پس وقت آگیا ہے کہ تو مدد دیا جائے اور لوگوں میں تیرے نام کی شہرت دی جائے.اے احمد! تیرے لبوں میں نعمت یعنی حقائق اور معارف جاری ہیں.اے احمد! تُو برکت دیا گیااور یہ برکت تیرا ہی حق تھا خدا نے تجھے قرآن سکھلایا یعنی قرآن کے ان معنوں پر اطلاع دی جن کو لوگ بھول گئے تھے تاکہ تو ان لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے بے خبر گذر گئے اور تاکہ مجرموں پر خدا کی حجت پوری ہو جائے.ان کو کہہ دے کہ میں اپنی طرف سے نہیں بلکہ خدا کی وحی اور حکم سے یہ سب باتیں کہتا ہوں اور مَیں اس زمانہ میں تمام مومنوں میں سے پہلا ہوں.اِن کو کہہ دے کہ اگر تم خدا تعالیٰ سے محبت کرتے ہو * اس قدر الہامات ہم نے براہین احمدیہ سے بطور اختصار لکھے ہیں.اور چونکہ کئی دفعہ کئی ترتیبوں کے رنگ میں یہ الہامات ہو چکے ہیں.اس لئے فقرات جوڑنے میں ایک خاص ترتیب کا لحاظ نہیں ہر ایک ترتیب فہم ملہم کے مطابق الہامی ہے.منہ
413 تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے.* اور یہ لوگ مکر کریں گے اور خدا بھی مکر کرے گا اور خدا بہتر مکر کرنے والا ہے.اور خدا ایسا نہیں کرے گاکہ وہ تجھے چھوڑ دے جب تک کہ پاک اور پلید میں فرق نہ کر لے.اور تیرے پر دنیا اور دین میں میری رحمت ہے اور تو آج ہماری نظر میں صاحب مرتبہ ہے اور ان میں سے ہے جن کو مدد دی جاتی ہے.اور مجھ سے تو وہ مقام اور مرتبہ رکھتا ہے جس کو دنیا نہیں جانتی اور ہم نے دنیا پر رحمت کرنے کے لئے تجھے بھیجا ہے.اے احمد! اپنے زوج کے ساتھ بہشت میں داخل ہو.اے آدم! اپنے زوج کے ساتھ بہشت میں داخل ہو یعنی ہر ایک جو تجھ سے تعلق رکھنے والا ہے گو وہ تیری بیوی * یہ مقام ہماری جماعت کے لئے سوچنے کا مقام ہے کیونکہ اس میں خداوند قدیر فرماتا ہے کہ خدا کی محبت اسی سے وابستہ ہے کہ تم کامل طور پر پَیرو ہو جاؤ اور تم میں ایک ذرہ مخالفت باقی نہ رہے اور اس جگہ جو میری نسبت کلام الٰہی میں رسول اور نبی کا لفظ اختیار کیا گیا ہے کہ یہ رسول اور نبی اللہ ہے یہ اطلاق مجاز اور استعارہ کے طور پر ہے کیونکہ جو شخص خدا سے براہ راست وحی پاتا ہے اور یقینی طور پر خدا اس سے مکالمہ کرتا ہے جیسا کہ نبیوں سے کیا اُس پر رسول یا نبی کا لفظ بولنا غیرموزون نہیں ہے بلکہ یہ نہایت فصیح استعارہ ہے اسی وجہ سے صحیح بخاری اور صحیح مسلم اور انجیل اور دانی ایل اور دوسرے نبیوں کی کتابوں میں بھی جہاں میرا ذکر کیا گیا ہے وہاں میری نسبت نبی کا لفظ بولا گیا ہے اور بعض نبیوں کی کتابوں میں میری نسبت بطور استعارہ فرشتہ کا لفظ آگیا ہے اور دانی ایل نبی نے اپنی کتاب میں میرا نام میکائیل رکھا ہے اور عبرانی میں لفظی معنی میکائیل کے ہیں خدا کی مانند.یہ گویا اس الہام کے مطابق ہے جو براہین احمدیہ میں ہے انت منّی بمنزلۃ توحیدی وتفریدی فحان اَن تعان وتعرف بین الناس یعنی تو مجھ سے ایسا قرب رکھتا ہے اور ایسا ہی میں تجھے چاہتا ہوں جیسا کہ اپنی توحید اور تفرید کو سو جیسا کہ مَیں اپنی توحید کی شہرت چاہتا ہوں ایسا ہی تجھے دنیا میں مشہور کروں گا اور ہریک جگہ جو میرا نام جائے گا تیرا نام بھی ساتھ ہوگا.منہ
414 ہے یا تیرا دوست ہے نجات پائے گا اور اس کو بہشتی زندگی ملے گی اور آخر بہشت میں داخل ہوگا اور پھر فرمایا کہ مَیں نے ارادہ کیا کہ زمین پر اپنا جانشین پیدا کروں سو مَیں نے اس آدم کو پیدا کیا.یہ آدم شریعت کو قائم کرے گا اور دین کو زندہ کردے گا.یہ خدا کا رسول ہے نبیوں کے لباس میں.دنیا اور آخرت میں وجیہ اور خدا کے مقربوں میں سے.مَیں ایک خزانہ پوشیدہ تھا پس مَیں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں اور ہم اس اپنے بندہ کو اپنا ایک نشان بنائیں گے اور اپنی رحمت کا ایک نمونہ کریں گے.اور ابتدا سے یہی مقدر تھا.اے عیسیٰ میں تجھے طبعی طور پر وفات دوں گایعنی تیرے مخالف تیرے قتل پر قادر نہیں ہو سکیں گے اور مَیں تجھے اپنی طرف اٹھاؤں گا.یعنی دلائل واضحہ سے اور کھلے کھلے نشانوں سے ثابت کر دوں گاکہ تو میرے مقربوں میں سے ہے اور ان تمام الزاموں سے تجھے پاک کروں گاجو تیرے پر منکر لوگ لگاتے ہیں اور وہ لوگ جو مسلمانوں میں سے تیرے پَیرو ہوں گے میں اُن* کو اُن دوسرے گروہ پر قیامت تک غلبہ اور فوقیت دوں گا جو تیرے مخالف ہوں گے.تیرے تابعین کا ایک گروہ پہلوں میں سے ہوگا اور ایک گروہ پچھلوں میں سے.لوگ تجھے اپنی شرارتوں سے ڈرائیں گے پر خدا تجھے دشمنوں کی شرارت سے آپ بچائے گا گو لوگ نہ بچاویں اور تیرا خدا قادر ہے.وہ عرش پر سے تیری تعریف کرتا ہے.یعنی لوگ جو گالیاں نکالتے ہیں اُن کے مقابل پر خدا عرش پر تیری تعریف کرتا ہے ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تیرے پر درود بھیجتے ہیں.اور جو ٹھٹھا کرنے والے ہیں اُن کے لئے ہم اکیلے کافی ہیں.اور وہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو جھوٹا افترا ہے جو اس شخص نے کیا.ہم نے اپنے باپ دادوں سے ایسا نہیں سُنا.یہ نادان نہیں جانتے کہ کسی کو کوئی مرتبہ دینا خدا پر مشکل نہیں.ہم نے انسانوں میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے.پس اسی طرح اس شخص کو یہ مرتبہ عطا فرمایا تاکہ مومنوں کے لئے نشان ہو.مگر خدا کے نشانوں سے ان لوگوں نے انکار کیا.دل * سہو کتابت معلوم ہوتا ہے.درست ’’اُس ‘‘ ہونا چاہئے.(ناشر)
415 تو مان گئے مگر یہ انکار تکبر اور ظلم کی وجہ سے تھا.ان کو کہہ دے کہ میرے پاس خاص خدا کی طرف سے گواہی ہے پس کیا تم مانتے نہیں.پھر ان کو کہہ دے کہ میرے پاس خاص خدا کی طرف سے گواہی ہے.پس کیا تم قبول نہیں کرتے.اور جب نشان دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ تو ایک معمولی امر ہے جو قدیم سے چلا آتا ہے (واضح ہو کہ آخری فقرہ اس الہام کا وہ آیت ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ جب کفار نے شق القمر دیکھا تھا تو یہی عذر پیش کیا تھا کہ یہ ایک کسوف کی قسم ہے ہمیشہ ہوا کرتا ہے کوئی نشان نہیں.اب اس پیشگوئی میں خدا تعالیٰ نے اس کسوف خسوف کی طرف اشارہ فرمایا جو اس پیشگوئی سے کئی سال بعد میں وقوع میں آیا جو کہ مہدی معہود کے لئے قرآن شریف اور حدیث دارقطنی میں بطور نشان مندرج تھا اور یہ بھی فرمایا کہ اس کسوف خسوف کو دیکھ کر منکر لوگ یہی کہیں گے کہ یہ کچھ نشان نہیں یہ ایک معمولی بات ہے.یاد رہے کہ قرآن شریف میں اس کسوف خسوف کی طرف آیت3 ۱ میں اشارہ ہے اور حدیث میں اس کسوف خسوف کے بارے میں امام باقر کی روایت ہیجس کے یہ لفظ ہیں کہ ان لمھدینا آیتین اور عجیب تر بات یہ کہ براہین احمدیہ میں واقعہ کسوف خسوف سے قریباً پندرہ برس پہلے اس واقعہ کی خبر دی گئی اور یہ بھی بتلایا گیا کہ اس کے ظہور کے وقت ظالم لوگ اس نشان کو قبول نہیں کریں گے اور کہیں گے کہ یہ ہمیشہ ہوا کرتا ہے حالانکہ ایسی صورت جب سے کہ دنیا ہوئی کبھی پیش نہیں آئی کہ کوئی مہدی کا دعویٰ کرنے والا ہو.اور اس کے زمانہ میں کسوف خسوف ایک ہی مہینہ میں یعنی رمضان میں ہو.اور یہ فقرہ جو دو مرتبہ فرمایا گیا کہ قل عندی شھادۃ من اللّٰہ فھل انتم مومنون.وقل عندی شھادۃ من اللّٰہ فھل انتم مُسلمون.
416 اِس میں ایک شہادت سے مراد کسوف شمس ہے اور دوسری شہادت سے مراد خسوف قمر ہے.) اور پھر فرمایا کہ خدا نے قدیم سے لکھ رکھا ہے یعنی مقرر کر رکھا ہے کہ مَیں اور میرے رسول ہی غالب ہوں گے.یعنی گو کسی قسم کا مقابلہ آپڑے جو لوگ خدا کی طرف سے ہیں وہ مغلوب نہیں ہوں گے اور خدا اپنے ارادوں پر غالب ہے مگر اکثر لوگ نہیں سمجھتے.خدا وہی خدا ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس دین کو تمام دینوں پر غالب کرے کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو بدل دے.اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان کو کسی ظلم سے آلودہ نہیں کیا ان کو ہر ایک بلا سے امن ہے اور وہی ہیں جو ہدایت یافتہ ہیں.اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے کچھ کلام نہ کر وہ تو ایک غرق شدہ قوم ہے اور تجھے ان لوگوں نے ایک ہنسی کی جگہ بنا رکھا ہے.اور کہتے ہیں کہ کیا یہی ہے جو خدا نے مبعوث فرمایا.اور تیری طرف دیکھتے ہیں اور تو انہیں نظر نہیں آتا.اور یاد کر وہ وقت جب تیرے پر ایک شخص سراسر مکر سے تکفیر کا فتویٰ دے گا.(یہ ایک پیشگوئی ہے جس میں ایک بد قسمت مولوی کی نسبت خبر دی گئی ہے کہ ایک زمانہ آتا ہے جب کہ وہ مسیح موعود کی نسبت تکفیر کا کاغذ تیار کرے گا) اور پھر فرمایا کہ وہ اپنے بزرگ ہامان کو کہے گا کہ اس تکفیر کی بنیاد تو ڈال کہ تیرا اثر لوگوں پر بہت ہے اور تو اپنے فتویٰ سے سب کو افروختہ کر سکتا ہے.سو تو سب سے پہلے اس کفر نامہ پر مہر لگا تا سب علماء بھڑک اُٹھیں اور تیری مہر کو دیکھ کر وہ بھی مہریں لگادیں اور تاکہ میں دیکھوں کہ خدا اس شخص کے ساتھ ہے یا نہیں.کیونکہ میں اس کوجھوٹا سمجھتا ہوں (تب اس نے مہر لگا دی) ابو لہب ہلاک ہو گیا اور اس کے
417 دونوں ہاتھ ہلاک ہو گئے.* (ایک وہ ہاتھ جس کے ساتھ تکفیر نامہ کو پکڑا.اور دوسرا وہ ہاتھ جس کے ساتھ مُہر لگائی یا تکفیر نامہ لکھا) اس کو نہیں چاہئے تھا کہ اس کام میں دخل دیتا مگر ڈرتے ڈرتے.اور جوتجھے رنج پہنچے گا وہ تو خدا کی طرف سے ہے جب وہ ہامان تکفیر نامہ پر مُہر لگادے گا تو بڑا فتنہ برپا ہوگا پس تو صبر کر جیسا کہ اولوالعزم نبیوں نے صبر کیا (یہ اشارہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت ہے کہ اُن پر بھی یہود کے پلید طبع مولویوں نے کفر کا فتویٰ لکھا تھا اور اس الہام میں یہ اشارہ ہے کہ یہ تکفیر اس لئے ہوگی کہ تا اس امر میں بھی حضرت عیسیٰ سے مشابہت پیدا ہو جائے.اور اس الہام میں خدا تعالیٰ نے استفتاء لکھنے والے کا نام فرعون رکھا * اِس کلام الٰہی سے ظاہر ہے کہ تکفیر کرنے والے اور تکذیب کی راہ اختیار کرنے والے ہلاک شدہ قوم ہے اس لئے وہ اس لائق نہیں ہیں کہ میری جماعت میں سے کوئی شخص ان کے پیچھے نماز پڑھے.کیا زندہ مردہ کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے؟ پس یاد رکھو کہ جیسا کہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے تمہارے پر حرام ہے اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفر اور مکذب یا متردّد کے پیچھے نماز پڑھو بلکہ چاہئے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہو.اسی کی طرف حدیث بخاری کے ایک پہلو میں اشارہ ہے کہ امامکم منکم یعنی جب مسیح نازل ہو گا تو تمہیں دوسرے فرقوں کو جو دعویٰ اسلام کرتے ہیں بکلّی ترک کرنا پڑے گا اور تمہارا امام تم میں سے ہوگاپس تم ایسا ہی کروکیا تم چاہتے ہو کہ خدا کا الزام تمہارے سر پر ہو.اور تمہارے عمل حبط ہو جائیں اور تمہیں کچھ خبر نہ ہو جو شخص مجھے دل سے قبول کرتا ہے وہ دل سے اطاعت بھی کرتا ہے اور ہریک حال میں مجھے حَکَم ٹھہراتا ہے اور ہریک تنازع کا مجھ سے فیصلہ چاہتا ہے.مگر جو شخص مجھے دل سے قبول نہیں کرتا اس میں تم نخوت اور خود پسندی اور خود اختیاری پاؤگے پس جانو کہ وہ مجھ میں سے نہیں ہے کیونکہ وہ میری باتوں کو جو مجھے خدا سے ملی ہیں عزت سے نہیں دیکھتا اس لئے آسمان پر اس کی عزت نہیں.منہ
418 اور فتویٰ دینے والے کا نام جس نے اوّل فتویٰ دیا ہامان.پس تعجب نہیں کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ ہامان اپنے کفر پر مرے گا لیکن فرعون کسی وقت جب خدا کا ارادہ ہو کہے گا 33 ۱ اور پھر فرمایا کہ یہ فتنہ خدا کی طرف سے فتنہ ہوگا تا وہ تجھ سے بہت محبت کرے جو دائمی محبت ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوگی اور خدا میں تیرا اجر ہے خدا تجھ سے راضی ہوگا اور تیرے نام کو پورا کرے گا.بہت ایسی باتیں ہیں کہ تم چاہتے ہو مگر وہ تمہارے لئے اچھی نہیں.اور بہت ایسی باتیں ہیں کہ تم نہیں چاہتے اور وہ تمہارے لئے اچھی ہیں اور خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تکفیر ضروری تھی اور اس میں خدا کی حکمت تھی.مگر افسوس ان پرجن کے ذریعہ سے یہ حکمت اور مصلحت الٰہی پوری ہوئی اگر وہ پیدا نہ ہوتے تو اچھا تھا.اس قدر الہام تو ہم نے بطور نمونہ کے براہین احمدیہ میں سے لکھے ہیں.لیکن اس اکیس برس کے عرصہ میں براہین احمدیہ سے لے کر آج تک میں نے چالیس۴۰ کتابیں تالیف کی ہیں اور ساٹھ ہزار کے قریب اپنے دعویٰ کے ثبوت کے متعلق اشتہارات شائع کئے ہیں اور وہ سب میری طرف سے بطور چھوٹے چھوٹے رسالوں کے ہیں اور ان سب میں میری مسلسل طور پر یہ عادت رہی ہے کہ اپنے جدید الہامات ساتھ ساتھ شائع کرتا رہا ہوں.اس صورت میں ہر ایک عقلمند سوچ سکتا ہے کہ یہ ایک مدت دراز کا زمانہ ابتدائے دعویٰ مامور من اللہ ہونے سے آج تک کیسی شبا روزی سرگرمی سے گذرا ہے اور خدا نے نہ صرف اِس وقت تک مجھے زندگی بخشی بلکہ ان تالیفات کے لئے صحت بخشی مال عطا کیا وقت عنایت فرمایا.اور الہامات میں خدا تعالیٰ کی مجھ سے یہ عادت نہیں کہ صرف معمولی مکالمہ الٰہیہ ہو بلکہ اکثر الہامات میرے پیشگوئیوں سے بھرے ہوئے ہیں اور دشمنوں کے بد ارادوں کا اُن میں جواب ہے.مثلاً چونکہ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ دشمن میری موت کی تمنا کریں گے تا یہ نتیجہ نکالیں کہ جھوٹا تھا تبھی جلد مر گیا اس لئے پہلے ہی سے اُس نے
419 مجھے مخاطب کرکے فرمایا.ثمانین حولا اوقریبًا من ذالک او تزید علیہ سنینا وتریٰ نسلًا بعیدًا یعنی تیری عمر اسّی برس کی ہوگی یا دو چار کم یا چند سال زیادہ اور تو اس قدر عمر پائے گا کہ ایک دُور کی نسل کودیکھ لے گا.اور یہ الہام قریباً پینتیس۳۵ برس سے ہو چکا ہے اور لاکھوں انسانوں میں شائع کیا گیا.ایسا ہی چونکہ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ دشمن یہ بھی تمنا کریں گے کہ یہ شخص جھوٹوں کی طرح مہجور اور مخذول رہے اور زمین پر اس کی قبولیت پیدا نہ ہوتا یہ نتیجہ نکال سکیں کہ وہ قبولیت جو صادقین کے لئے شرط ہے اور اُن کے لئے آسمان سے نازل ہوتی ہے اس شخص کو نہیں دی گئی لہٰذا اس نے پہلے سے براہین احمدیہ میں فرما دیا.ینصرک رجال نوحی الیھم من السماء یأتون من کل فج عمیق.والملوک یتبرکون بثیابک.اذا جاء نصر اللّٰہ والفتح.وانتھٰی امر الزمان الینا الیس ھٰذا بالحق.یعنی تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں پر میں آسمان سے وحی نازل کروں گا.وہ دُور دُور کی راہوں سے تیرے پاس آئیں گے اور بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.جب ہماری مدد اور فتح آجائے گی تب مخالفین کو کہا جائے گا کہ کیا یہ انسان کا افترا تھا یا خدا کا کاروبار.* ایسا ہی خدا تعالیٰ یہ بھی جانتا تھا کہ اگر کوئی خبیث مرض دامن گیر ہو جائے جیسا کہ جذام اور جنون اور اندہا ہونااور مرگی تو اس سے یہ لوگ نتیجہ نکالیں گے کہ اس پر غضب الٰہی ہوگیا اس لئے پہلے سے اس نے مجھے براہین احمدیہ میں بشارت دی کہ ہریک خبیث عارضہ سے تجھے محفوظ رکھو ں گا اور اپنی نعمت تجھ پر پوری کروں گا.اور بعد اس کے آنکھوں کی نسبت خاص کر یہ بھی الہام ہوا.تنزل الرحمۃ علٰی ثلٰث العین وعلی الاخریَین.یعنی رحمت تین عضووں پر نازل ہوگی ایک آنکھیں کہ پیرانہ سالی ان کو صد مہ نہیں پہنچائے گی.اور نزول الماء وغیرہ سے جس سے نورِ بصارت جاتا رہے محفوظ رہیں گی اور دو عضو اَورہیں
420 ایسا ہی خدا تعالیٰ یہ بھی جانتا تھا کہ دشمن یہ بھی تمنا کریں گے کہ یہ شخص منقطع النسل رہ کر نابود ہو جائے تا نادانوں کی نظر میں یہ بھی ایک نشان ہو لہٰذا اس نے پہلے سے براہین احمدیہ میں خبر دے دی کہ ینقطع آباء ک ویبدء منک یعنی تیرے بزرگوں کی پہلی نسلیں منقطع ہو جائیں گی اور ان کے ذکر کا نام و نشان نہ رہے گا اور خدا تجھ سے ایک نئی بنیاد ڈالے گا.اسی بنیاد کی مانند جو ابراہیم سے ڈالی گئی.اسی مناسبت سے خدا نے براہین احمدیہ میں میرا نام ابراہیم رکھا جیسا کہ فرمایا سلام علی ابراھیم صافیناہ ونجیناہ من الغم واتخذوا من مقام ابراھیم مصلّی.قل رب لا تذرنی فردا وانت خیر الوارثین.یعنی سلام ہے ابراہیم پر (یعنی اس عاجز پر) ہم نے اس سے خالص دوستی کی اور ہر ایک غم سے اس کو نجات دے دی.اور تم جو پیروی کرتے ہو تم اپنی نماز گاہ ابراہیم کے قدموں کی جگہ بناؤ یعنی کامل پیروی کرو تا نجات پاؤ.اور پھر فرمایا کہہ اے میرے خدا! مجھے اکیلا مت چھوڑ اور تو بہتر وارث ہے.اس الہام میں یہ اشارہ ہے کہ خدا اکیلا نہیں چھوڑے گا اور ابراہیم کی طرح کثرت نسل کرے گا اور بہتیرے اس نسل سے برکت پائیں گے اور یہ جو فرمایا کہ واتخذوا من مقام ابراھیم مصلّی.یہ قرآن شریف کی آیت ہے اور اس مقام میں اس کے یہ معنے ہیں کہ یہ ابراہیم جو بھیجا گیا تم اپنی جن کی خدا تعالیٰ نے تصریح نہیں کی اُن پر بھی یہی رحمت نازل ہوگی اور اُن کی قوتوں اور طاقتوں میں فتور نہیں آئے گا.اب بولو تم نے دنیا میں کس کذّاب کو دیکھا کہ اپنی عمر بتلاتا ہے.اپنی صحت بصری اور دوسرے دو اعضائے صحت کا اخیر عمر تک دعویٰ کرتا ہے.ایسا ہی چونکہ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ لوگ قتل کے منصوبے کریں گے اُ س نے پہلے سے براہین میں خبر دے دی یعصمک اللّٰہ ولو لم یعصمک الناس.منہ
421 عبادتوں اور عقیدوں کو اس کی طرز پر بجا لاؤ اور ہر ایک امر میں اس کے نمونہ پر اپنے تئیں بناؤ اور جیسا کہ آیت33 ۱ میں یہ اشارہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آخر زمانہ میں ایک مظہر ظاہر ہوگا گویا وہ اس کا ایک ہاتھ ہوگا* جس کا نام آسمان پر احمد ہو گا.اور وہ حضرت مسیح کے رنگ میں جمالی طور پر دین کو پھیلائے گا.ایسا ہی یہ آیت3 ۲ ا س طرف اشارہ کرتی ہے کہ جب امت محمدیہ میں بہت فرقے ہو جائیں گے تب آخر زمانہ میں ایک ابراہیم پیدا ہوگا اور ان سب فرقوں میں وہ فرقہ نجات پائے گا کہ اس ابراہیم کا پیرو ہوگا.اب ہم بطور نمونہ چند الہامات دوسری کتابوں میں سے لکھتے ہیں چنانچہ ازالہ اوہام میں صفحہ۶۳۴ سے اخیر تک اور نیز دوسری کتابوں میں یہ الہام ہیں:.جعلناک المسیح ابن مریم.ہم نے تجھ کو مسیح ابن مریم بنایا.یہ کہیں گے کہ ہم نے پہلوں سے ایسا نہیں سُنا.سو تو ان کو جواب دے کہ تمہارے معلومات وسیع نہیں تم ظاہر لفظ اورابہام پر قانع ہو.اور پھر ایک اور الہام ہے اور وہ یہ ہے الحمدللّٰہ الذی * یاد رہے کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ کے دو ہاتھ جلالی و جمالی ہیں اسی نمونہ پر چونکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ جلّ شانہٗ کے مظہر اتم ہیں لہٰذا خدا تعالیٰ نے آپ کو بھی وہ دونوں ہاتھ رحمت اور شوکت کے عطا فرمائے.جمالی ہاتھ کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے کہ قرآن شریف میں ہے.3۳ یعنی ہم نے تمام دنیا پر رحمت کرکے تجھے بھیجا ہے اور جلالی ہاتھ کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے33 ۴ اور چونکہ خدا تعالیٰ کو منظور تھا کہ یہ دونوں صفتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے اپنے وقتوں میں ظہور پذیر ہوں اس لئے خدا تعالیٰ نے صفت جلالی کو صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذریعہ سے ظاہر فرمایا اور صفت جمالی کو مسیح موعود اور اس کے گروہ کے ذریعہ سے کمال تک پہنچایا.اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے 3۵.منہ
422 جعلک المسیح ابن مریم.انت الشَّیْخ المسیح الذی لا یضاع وقتہ.کمثلک درٌّ لا یُضاع.یعنی خدا کی سب حمد ہے جس نے تجھ کو مسیح ابن مریم بنایا تو وہ شیخ مسیح ہے جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا.تیرے جیسا موتی ضائع نہیں کیا جاتا.اور پھر فرمایا لنحیینک حیٰو ۃ طیبۃ ثمانین حولا او قریبًامن ذالک.و تریٰ نسلا بعیدا مظھر الحق والعلاء.کَاَنَّ اللّٰہ نزل من السماء.یعنی ہم تجھے ایک پاک اور آرام کی زندگی عنایت کریں گے.اسّی ۸۰ برس یا اس کے قریب قریب یعنی دو چار برس کم یا زیادہ اور تُو ایک دور کی نسل دیکھے گا.بلندی اور غلبہ کا مظہر.گویا خدا آسمان سے نازل ہوا.اور پھر فرمایا یاتی قمرالانبیاء وامرک یتأتی.ما انت ان تترک الشیطان قبل ان تغلبہ.الفوق معک والتحت مع اعدائک.یعنی نبیوں کا چاند چڑھے گا اور تُو کامیاب ہو جائے گا.تُو ایسا نہیں کہ شیطان کو چھوڑ دے قبل اس کے کہ اُس پر غالب ہو.اور اوپر رہنا تیرے حصّہ میں ہے اور نیچے رہنا تیرے دشمنوں کے حصہ میں.اور پھر فرمایا.انی مھین من اراد اھانتک.وماکان اللّٰہ لیتر.کک حتی یمیز الخبیث من الطیب.سبحان اللّٰہ انت وقارہ.فکیفیتر.کک.انی انا اللّٰہ فاخترنی.قل رب انّی اخترتک علی کل شیء.ترجمہ:.مَیں اس کو ذلیل کروں گا جو تیری ذلّت چاہتا ہے اور مَیں اس کو مدد دوں گا جو تیری مدد کرتا ہے.اور خدا ایسا نہیں جو تجھے چھوڑ دے جب تک وہ پاک اور پلید میں فرق نہ کرلے.خدا ہر ایک عیب سے پاک ہے اور تُو اس کا وقار ہے پس وہ تجھے کیونکر چھوڑ دے.مَیں ہی خدا ہوں تو سراسر میرے لئے ہو جا.تو کہہ اے میرے رب مَیں نے تجھے ہر چیز پر اختیار کیا.اور پھر فرمایا سیقول العدوّ لست مرسلا.سنأخذہ من مارن اوخرطوم.وانا من الظالمین منتقمون.انی مع الافواج آتیک بغتۃ.
423 یوم یعض الظالم علی یدیہ یالیتنی اتخذت مع الرسول سبیلا.و قالوا سیقلب الامر وما کانوا علی الغیب مطّلعین.انا انزلناک و کان اللّٰہ قدیرا.یعنی دشمن کہے گا کہ تو خدا کی طرف سے نہیں ہے.ہم اس کو ناک سے پکڑیں گے.یعنی دلائل قاطعہ سے اس کا دم بند کر دیں گے.اور ہم جزا کے دن ظالموں سے بدلہ لیں گے.میں اپنی فوجوں کے ساتھ تیرے پاس ناگہانی طور پر آؤں گا.یعنی جس گھڑی تیری مدد کی جائے گی اُس گھڑی کا تجھے علم نہیں.اور اُس دن ظالم اپنے ہاتھ کاٹے گا کہ کاش میں اس خدا کے بھیجے ہوئے سے مخالفت نہ کرتا اور اس کے ساتھ رہتا اور کہتے ہیں کہ یہ جماعت متفرق ہو جائے گی اور بات بگڑ جائے گی حالانکہ ان کوغیب کا علم نہیں دیا گیا.تو ہماری طرف سے ایک برہان ہے اور خداقادر تھا کہ ضرورت کے وقت میں اپنی برہان ظاہر کرتا.اور پھر فرمایا انا ارسلنا احمد الٰی قومہ فاعرضوا وقالوا کذّاب اشر.وجعلوا یشھدون علیہ و یسیلون کماء منھمر.ان حِبّی قریب مستتر.یأتیک نصرتی انی انا الرحمٰن.انت قابل یاتیک وابل.انی حاشر کل قوم یاتونک جنبا.وانی انرت مکانک.تنزیل من اللّٰہ العزیز الرحیم.بلجت آیاتی.ولن یجعل اللّٰہ للکافرین علی المومنین سبیلا.انت مدینۃ العلم.طیّب مقبول الرحمٰن.وانت اسمی الاعلٰی.بشریٰ لک فی ھٰذہ الایام.انت منّی یاابراھیم.انت القائم علی نفسہ مظھر الحیّ وانت منّی مبدء الامر.انت من مائنا وھم من فشل، ام یقولون نحن جمیع منتصر.سیھزم الجمع ویولون الدبر.الحمد للّٰہ الذی جعل لکم الصھر والنسب.انذر قومک وقل انی نذیر مبین.انا اخرجنا لک زروعا یا ابراھیم.قالوا لنھلکنّک قال لا خوف علیکم لاغلبن انا
424 و رسلی.وانی مع الافواج اٰتیک بغتۃ.وانی اموج موج البحر.ان فضل اللّٰہ لاٰت.ولیس لاحد ان یرد ما اتی.قل ای وربی انہ لحق لا یَتَبَدّلُ ولا یخفی.وینزل ما تعجب منہ و.حی من ربّ السّمٰوات العلٰی.لا الٰہ الّا ھو یعلم کل شئ و یریٰ.ان اللّٰہ مع الذین اتقوا والذین ھم یحسنون الحُسْنٰی.تُفَتّحُ لھم ابواب السماء ولھم بشریٰ فی الحیٰوۃ الدنیا.انت تربی فی حجر النبی* وانت تسکن قنن الجبال.وانی معک فی کل حال.ترجمہ:.ہم نے احمد کو اس کی قوم کی طرف بھیجا.تب لوگوں نے کہا کہ یہ کذاب ہے.اور انہوں نے اِس پر گواہیاں دیں اور سیلاب کی طرح اس پر گرے.اس نے کہا کہ میرا دوست قریب ہے مگر پوشیدہ.تجھے میری مدد آئے گی مَیں رحمان ہوں.تو قابلیت رکھتا ہے اس لئے تو ایک بزرگ بارش کو پائے گا.میں ہر ایک قوم میں سے گروہ کے گروہ تیری طرف بھیجوں گا.مَیں نے تیرے مکان کو روشن کیا.یہ اس خدا کا کلام ہے جو عزیز اور رحیم ہے اور اگر کوئی کہے کہ کیونکر ہم جانیں کہ یہ خدا کا کلام ہے تو ان کے لئے یہ علامت ہے کہ یہ کلام نشانوں کے ساتھ اُترا ہے اور خدا ہر گز کافروں کو یہ موقع نہیں دے گاکہ مومنوں پر کوئی واقعی اعتراض کر سکیں.تو علم کا شہر ہے طیّب اور خدا کا مقبول.* بعض نادان کہتے ہیں کہ عربی میں کیوں الہام ہوتا ہے اس کا یہی جواب ہے کہ شاخ اپنی جڑ سے علیحدہ نہیں ہو سکتی جس حالت میں یہ عاجز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کنار عاطفت میں پرورش پاتا ہے جیسا کہ براہین احمدیہ کا یہ الہام بھی اس پر گواہ ہے کہ تبارک الذی۱ من علّم وتعلّم یعنی بہت برکت والا وہ انسان ہے جس نے اس کو فیض روحانی سے مستفیض کیا یعنی سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرا بہت برکت والا یہ انسان ہے جس نے اس سے تعلیم پائی تو پھر جب معلّم اپنی زبان عربی رکھتا ہے ایسا ہی تعلیم پانے والے کا الہام بھی عربی میں چاہئے تا مناسبت ضائع نہ ہو.منہ ۱ لفظ ’’الذی‘‘ سہو کاتب ہے.براہین احمدیہ میں یہ نہیں ہے.(شمس)
425 اور تو میرا سب سے بڑا نام ہے تجھے ان دنوں میں خوشخبری ہو.اے ابراہیم! تو مجھ سے ہے.تو خدا کے نفس پر قائم ہے زندہ خدا کا مظہراور تو مجھ سے امر مقصود کا مبدء ہے.اور تو ہمارے پانی سے ہے اور دوسرے لوگ فشل سے.کیا یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک بڑی جماعت ہیں انتقام لینے والے.یہ سب بھاگ جائیں گے اور پیٹھ پھیر لیں گے.وہ خدا قابل تعریف ہے جس نے تجھے دامادی اور آبائی عزت بخشی.اپنی قوم کو ڈرا اور کہہ کہ مَیں خدا کی طرف سے ڈرانے والا ہوں.ہم نے کئی کھیت تیرے لئے طیار کر رکھے ہیں اے ابراہیم! اور لوگوں نے کہا کہ ہم تجھے ہلاک کریں گے مگر خدا نے اپنے بندہ کو کہا کہ کچھ خوف کی جگہ نہیں.مَیں اور میرے رسول غالب ہوں گے.اور مَیں اپنی فوجوں کے ساتھ عنقریب آؤں گا.مَیں سمندر کی طرح موجزنی کروں گا.خدا کا فضل آنے والا ہے اور کوئی نہیں جو اس کو ردّ کر سکے.اور کہہ خدا کی قسم یہ بات سچ ہے اس میں تبدیلی نہیں ہوگی اور نہ وہ چھپی رہے گی اور وہ امر نازل ہوگا جس سے تو تعجب کرے گا.یہ خدا کی وحی ہے جو اونچے آسمانوں کا بنانے والا ہے.اس کے سوا کوئی خدا نہیں.ہر ایک چیز کو جانتا ہے اور دیکھتا ہے اور وہ خدا اُن کے ساتھ ہے جو اُس سے ڈرتے ہیں اور نیکی کو نیک طور پر ادا کرتے ہیں اور اپنے نیک عملوں کو خوبصورتی کے ساتھ انجام دیتے ہیں.وہی ہیں جن کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور دنیا کی زندگی میں بھی ان کو بشارتیں ہیں تو نبی کی کنار عاطفت میں پرورش پارہا ہے.اور مَیں ہر حال میں تیرے ساتھ ہوں.اور پھر فرمایا:.وقالوا ان ھذا الّا اختلاق.ان ھٰذا الرجل یجوح الدین.قل جاء الحق وزھق الباطل.قل لو کان الامرمن عند غیر اللّٰہ لوجدتم فیہ اختلافا کثیرا.ھوالذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق وتھذیب الاخلاق.قل ان افتریتہ فعلیّ اجرامی.ومن اظلم
426 ممن افتریٰ علی اللّٰہ کذبا.تنزیل من اللّٰہ العزیز الرحیم.لتنذر قومًا ما انذر آباء ھم ولتدعو قومًا آخرین.عسی اللّٰہ ان یجعل بینکم وبین الذین عادیتم مودۃً.یخرّون علی الاذقان سجدا ربنا اغفرلنا انا کنّا خاطئین.لا تثریب علیکم الیوم یغفر اللّٰہ لکم و ھو ارحم الراحمین.انی انا اللّٰہ فاعبدنی ولا تنسانی واجتھد ان تصلنی واسئل ربک وکن سؤلا.اللّٰہ ولیّ حَنّان.علّم القراٰن.فبایّ حدیث بعدہ تحکمون.نزّلنا علٰی ھٰذا العبد رحمۃ.وما ینطق عن الھوی.ان ھو الاوحی یوحٰی.دنٰی فتدلّٰی فکان قاب قوسین او ادنٰی.ذرنی والمکذبین.انّی مع الرسول اقوم.انّ یومی لفصل عظیم.وانک علی صراط مستقیم.وانا نرینک بعض الذی نعد ھم اونتوفینک.وانی رافعک الیّ.و یاتیک نصرتی.انی انا اللّٰہ ذوالسلطان.ترجمہ:.اور کہتے ہیں کہ یہ بناوٹ ہے اور یہ شخص دین کی بیخ کنی کرتا ہے کہہ حق آیا اور باطل بھاگ گیا.کہہ اگر یہ امر خدا کی طرف سے نہ ہوتا تو تم اس میں بہت سا اختلاف پاتے یعنی خدا تعالیٰ کی کلام سے اس کے لئے کوئی تائید نہ ملتی.اور قرآن جو راہ بیان فرماتا ہے یہ راہ اس کے مخالف ہوتی اور قرآن سے اس کی تصدیق نہ ملتی اور دلائل حقہ میں سے کوئی دلیل اس پر قائم نہ ہو سکتی اور اس میں ایک نظام اور ترتیب اور علمی سلسلہ اور دلائل کا ذخیرہ جو پایا جاتا ہے یہ ہر گز نہ ہوتا اور آسمان اور زمین میں سے جو کچھ اس کے ساتھ نشان جمع ہو رہے ہیں ان میں سے کچھ بھی نہ ہوتا.اور پھر فرمایا خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو یعنی اس عاجز کو ہدایت اور دین حق....اور تہذیب اخلاق کے ساتھ بھیجا.ان کو کہہ دے کہ اگر مَیں نے افترا کیا ہے تو
427 میرے پر اس کا جرم ہے یعنی مَیں ہلاک ہو جاؤں گا.اور اس شخص سے زیادہ تر ظالم کون ہے جو خدا پر جھوٹ باندھے.یہ کلام خدا کی طرف سے ہے جو غالب اور رحیم ہے تا تو ان لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے اور تا دوسری قوموں کو دعوتِ دین کرے.عنقریب ہے کہ خدا تم میں اور تمہارے دشمنوں میں دوستی کر دے گا.* اور تیرا خدا ہر چیز پر قادر ہے.اس روز وہ لوگ سجدہ میں گریں گے یہ کہتے ہوئے کہ اے ہمارے خدا ہمارے گناہ معاف کر ہم خطا پر تھے.آج تم پر کوئی سرزنش نہیں.خدا معاف کرے گا اور وہ ارحم الراحمین ہے.مَیں خدا ہوں میری پرستش کر اور میرے تک پہنچنے کے لئے کوشش کرتا رہ.اپنے خدا سے مانگتا رہ اور بہت مانگنے والا ہو.خدا دوست اور مہربان ہے اُس نے قرآن سکھلایا.پس تم قرآن کو چھوڑ کر کس حدیث پر چلو گے.ہم نے اس بندہ پر رحمت نازل کی ہے اور یہ اپنی طرف سے نہیں بولتا بلکہ جو کچھ تم سنتے ہو یہ خدا کی وحی ہے.یہ خدا کے قریب ہوا یعنی اوپر کی طرف گیا اور پھر نیچے کی طرف تبلیغ حق کیلئے جھکا اس لئے یہ دو قوسوں کے وسط میں آگیا.اوپر خدا اور نیچے مخلوق.مکذبین کے لئے مجھ کو چھوڑ دے مَیں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا.میرا دن بڑے فیصلہ کا دن ہے اور تو سیدھی راہ پر ہے اور جو کچھ ہم ان کے لئے وعدے کرتے ہیں ہو سکتا ہے کہ اُن میں سے کچھ تیری زندگی میں تجھ کو دکھلا دیں اور یا تجھ کو وفات دیدیں اور بعد میں وہ وعدے پورے کریں.اور مَیں تجھے اپنی طرف اٹھاؤں گا یعنی تیرا رفع الی اللہ دنیا پر ثابت کر دوں گا اور میری مدد تجھے پہنچے گی مَیں ہوں وہ خدا جس کے نشان * یہ تو غیر ممکن ہے کہ تمام لوگ مان لیں کیونکہ بموجب آیت3 ۱ اور بموجب آیت کریمہ 33۲ سب کا ایمان لانا خلاف نص صریح ہے پس اس جگہ سعید لوگ مراد ہیں.منہ
428 دلوں پر تسلّط کرتے ہیں اور اُن کو قبضہ میں لے آتے ہیں.اِن الہامات کے سِلسلہ میں بعض اردو الہام بھی ہیں جن میں سے کسی قدر ذیل میں لکھے جاتے ہیں اور وہ یہ ہیں:.ایک عزت کا خطاب ایک عزت کا خطاب.لک خطاب العزّۃ.ایک بڑا نشان اس کے ساتھ ہوگا (عزت کے خطاب سے مراد یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسے اسباب پیدا ہو جائیں گے کہ اکثر لوگ پہچان لیں گے اور عزت کا خطاب دیں گے اور یہ تب ہوگا جب ایک نشان ظاہر ہوگا) اور پھر فرمایا: خدا نے ارادہ کیا ہے کہ تیرا نام بڑھاوے اور آفاق میں تیرے نام کی خوب چمک دکھاوے.مَیں اپنی چمکار دکھلاؤں گا اور قدرت نمائی سے تجھے اُٹھاوں گا.آسمان سے کئی تخت اُترے مگر سب سے اونچا تیرا تخت بچھایا گیا.دشمنوں سے ملاقات کرتے وقت فرشتوں نے تیری مدد کی.آپ کے ساتھ انگریزوں کا نرمی کے ساتھ ہاتھ تھا.اسی طرف خدا تعالیٰ تھا جو آپ تھے.آسما ن پر دیکھنے والوں کو ایک رائی برابر غم نہیں ہوتا.یہ طریق اچھا نہیں اس سے روک دیا جائے مسلمانوں کے لیڈر عبد الکریم کو.* خذوا الرفق الرفق فان الرفق رأس الخیرات.نرمی کرو.نرمی کرو * اس الہام میں تمام جماعت کے لئے تعلیم ہے کہ اپنی بیویوں سے رفق اور نرمی کے ساتھ پیش آویں وہ ان کی کنیز کیں نہیں ہیں.درحقیقت نکاح مرد اور عورت کا باہم ایک معاہدہ ہے.پس کوشش کرو کہ اپنے معاہدہ میں دغاباز نہ ٹھہرو.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے3 ۱ یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک کے ساتھ زندگی کرو.اور حدیث میں ہے خیرکم خیرکم باھلہٖ یعنی تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنی بیوی سے اچھا ہے.سو روحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو.ان کے لئے دُعا کرتے رہو اور طلاق سے پرہیز کرو کیونکہ نہایت بد خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے.جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندہ برتن کی طرح جلد مت توڑو.منہ
429 کہ تمام نیکیوں کا سرنرمی ہے (اخویم مولوی عبد الکریم صاحب نے اپنی بیوی سے کسی قدر زبانی سختی کا برتاؤ کیا تھا اس پر حکم ہوا کہ اس قدر سخت گوئی نہیں چاہئے.حتی المقدور پہلا فرض مومن کا ہر ایک کے ساتھ نرمی اور حسن اخلاق ہے اور بعض اوقات تلخ الفاظ کا استعمال بطور تلخ دوا کے جائز ہے اما بحکم ضرورت و بقدر ضرورت نہ یہ کہ سخت گوئی طبیعت پر غالب آجائے) خدا تیرے سب کام درست کر دے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا.رب الافواج اس طرف توجہ کرے گا.اگر مسیح ناصری کی طرف دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس جگہ اس سے برکات کم نہیں ہیں.اور مجھے آگ سے مت ڈراؤ کیونکہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے (یہ فقرہ بطور حکایت میری طرف سے خدا تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے) اور پھر فرمایا.لوگ آئے اور دعویٰ کر بیٹھے.شیر خدا نے ان کو پکڑا.شیر خدا نے فتح پائی.اور پھر فرمایا بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید وپائے محمدیاں برمنار بلند تر محکم افتاد.* پاک محمد مصطفےٰ نبیوں کا سردار.وروشن شد نشانہائے من.بڑا مبارک وہ دن ہوگا.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیالیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا.آمین.* اس فقرہ سے مراد کہ محمدیوں کا پَیر اُونچے منار پر جاپڑا یہ ہے کہ تمام نبیوں کی پیشگوئیاں جو آخر الزمان کے مسیح موعود کیلئے تھیں جس کی نسبت یہود کا خیال تھا کہ ہم میں سے پیدا ہوگا اور عیسائیوں کا خیال تھا کہ ہم میں سے پیدا ہوگا مگر وہ مسلمانوں میں سے پیدا ہوا.اس لئے بلند مینار عزّت کا محمدیوں کے حصّہ میں آیااور اس جگہ محمدی کہا.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو لوگ اب تک صرف ظاہری قوت اور شوکتِ اسلام دیکھ رہے تھے جس کا اسم محمدؐ مظہر ہے اب وہ لوگ بکثرت آسمانی نشان پائیں گے جو اسم احمدؐ کے مظہر کو لازم حال ہے کیونکہ اسم احمدؐ انکسار اور فروتنی اور کمال درجہ کی محویّت کو چاہتا ہے جو لازم حال حقیقت احمدیّت اور حامدیّت اور عاشقیّت اور محبیّت ہے اور حامدیّت اور عاشقیّت کے لازم حال صدو رِآیات تائیدیہ ہے.منہ
430 ار بعین نمبر۴ اربعین نمبر۳ میں گو ہم دلائل بیّنہ سے لکھ چکے ہیں کہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ جو شخص خدا پر افترا کرے وہ ہلاک کیا جاتا ہے مگر تاہم پھر دوبارہ ہم عقلمندوں کو یاد دلاتے ہیں کہ حق یہی ہے جو ہم نے بیان کیا.خبردار ایسا نہ ہو کہ وہ ہمارے مقابل پر کسی مخالف مولوی کی بات کو مان کر ہلاکت کی راہ اختیار کر لیں.اور لازم ہے کہ قرآن شریف کی دلیل کو بنظر تحقیر دیکھنے سے خدا سے ڈریں.صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت 33 ۱ کو بطور لغو نہیں لکھا جس سے کوئی حجت قائم نہیں ہو سکتی.اور خدا تعالیٰ ہر ایک لغو کام سے پاک ہے.پس جس حالت میں اس حکیم نے اس آیت کو اور ایسا ہی اُس دوسری آیت کو جس کے یہ الفاظ ہیں.33 ۲ * محل استدلال پر بیان کیا ہے تو اس سے ماننا پڑتا ہے کہ اگر کوئی شخص بطور افترا کے نبوت اور مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کرے تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ نبوت کے مانند ہرگز زندگی نہیں پائے گا.ورنہ یہ استدلال کسی طرح صحیح نہیں ٹھہرے گا اور کوئی ذریعہ اس کے سمجھنے کا قائم نہیں ہوگا کیونکہ اگر خدا پر افترا کرکے اور جھوٹا دعویٰ مامور من اللہ ہونے کا کرکے تیئیس برس تک زندگی پالے اور ہلاک نہ ہو تو بلا شبہ ایک منکر کے لئے حق پیدا ہو جائے گا * یعنی اگر یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پر کچھ جھوٹ باندھتا تو ہم اس کو زندگی اور موت سے دو چند عذاب چکھاتے.اس سے مراد یہ ہے کہ نہایت سخت عذاب سے ہلاک کرتے.منہ
431 کہ وہ یہ اعتراض پیش کرے کہ جبکہ اس دروغگونے جس کا دروغگو ہونا تم تسلیم کرتے ہوتیئیسں برس تک یا اس سے زیادہ عرصہ تک زندگی پالی اور ہلاک نہ ہوا تو ہم کیونکر سمجھیں کہ ایسے کاذب کی مانند تمہارا نبی نہیں تھا.ایک کاذب کو تیئیس برس تک مہلت مل جانا صاف اس بات پر دلیل ہے کہ ہر ایک کاذب کو ایسی مہلت مل سکتی ہے.پھر 33 ۱ کا صدق لوگوں پر کیوں کر ظاہر ہوگا؟ اور اس بات پر یقین کرنے کے لئے کون سے دلائل پیدا ہوں گے کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم افترا کرتے تو ضرور تیئیس برس کے اندر اندر ہلاک کئے جاتے.لیکن اگر دوسرے لوگ افترا کریں تو وہ تیئیس برس سے زیادہ مدت تک بھی زندہ رہ سکتے ہیں اور خدا ان کو ہلاک نہیں کرتا.یہ تو وہی مثال ہے.مثلاً ایک دو کاندار کہے کہ اگر میں اپنے دوکان کے کاروبار میں کچھ خیانت کروں یا ردّی چیزیں دوں یا جھوٹ بولوں یا کم وزن کروں تو اُسی وقت میرے پر بجلی پڑے گی اس لئے تم لوگ میرے بارے میں بالکل مطمئن رہو اور کچھ شک نہ کرو کہ کبھی مَیں کوئی ردّی چیز دوں گا یا کم وزنی کروں گا یا جھوٹ بولوں گا بلکہ آنکھ بند کرکے میری دوکان سے سودا لیا کرو اور کچھ تفتیش نہ کرو تو کیا اس بیہودہ قول سے لوگ تسلّی پا جائیں گے.اور اس کے اس لغو قول کو اس کی را ستبازی پر ایک دلیل سمجھ لیں گے؟ ہر گز نہیں.معاذ اللہ ایسا قول اس شخص کی را ستبازی کی ہر گز دلیل نہیں ہو سکتی بلکہ ایک رنگ میں خلق خدا کو دھوکا دینا اور ان کو غافل کرنا ہے.ہاں دو صورت میںیہ دلیل ٹھہرسکتی ہے.(۱) ایک یہ کہ چند دفعہ لوگوں کے سامنے یہ اتفاق ہو چکا ہو کہ اس شخص نے اپنی فروختنی اشیاء کے متعلق کچھ جھوٹ بولا ہو یا کم وزن کیا ہو یا کسی اور قسم کی خیانت کی ہو تو اسی وقت اُس پر بجلی پڑی ہو.اور نیم مردہ کر دیا ہو.اور یہ واقعہ جھوٹ بولنے یا خیانت یا کم وزنی کرنے کا بار بار پیش آیا ہو اور بار بار بجلی پڑی ہو
432 یہاں تک کہ لوگوں کے دل یقین کر گئے ہوں کہ درحقیقت خیانت اور جھوٹ کے وقت اس شخص پر بجلی کا حملہ ہوتا ہے تو اُس صورت میں یہ قول ضرور بطور دلیل استعمال ہوگا.کیونکہ بہت سے لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ جھوٹ بولا اور بجلی گری.(۲) دوسری صورت یہ ہے کہ عام لوگوں کے ساتھ یہ واقعہ پیش آوے کہ جو شخص دوکاندار ہو کر اپنی فروختنی اشیاء کے متعلق کچھ جھوٹ بولے یا کم وزن کرے یا اور کسی قسم کی خیانت کرے یا کوئی ردّی چیز بیچے تو اس پر بجلی پڑا کرے.سو اس مثال کو زیر نظر رکھ کر ہر ایک منصف کو کہنا پڑتا ہے کہ خدائے علیم و حکیم کے مُنہ سے 33۱ کا لفظ نکلنا وہ بھی تبھی ایک برہانِ قاطع کا کام دے گا کہ جب دو صورتوں میں سے ایک صورت اس میں پائی جائے.(۱) اوّل یہ کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اس سے کوئی جھوٹ بولا ہو اور خدا نے کوئی سخت سزا دی ہو اور لوگوں کو بطور امور مشہودہ محسوسہ کے معلوم ہو کہ آپ اگر خدا پر افترا کریں تو آپ کو سزا ملے گی جیسا کہ پہلے بھی فلاں فلاں موقعہ پر سزا ملی لیکن اس قسم کے استدلال کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک وجود کی طرف راہ نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ایسا خیال کرنا بھی کفر ہے.(۲) دوسرے استدلال کی یہ صورت ہے کہ خدا تعالیٰ کا یہ عام قاعدہ ہو کہ جو شخص اُس پر افترا کرے اس کو کوئی لمبی مہلت نہ دی جائے اور جلد تر ہلاک کیا جائے.سو یہی استدلال اس جگہ پر صحیح ہے.ورنہ33 ۲ کا فقرہ ایک معترض کے نزدیک محض دھوکا دہی اور نعوذ باللہ ایک فضول گو دوکاندار کے قول کے رنگ میں ہوگا.جو لوگ خدا تعالیٰ کے کلام کی عزت کرتے ہیں اُن کا کانشنس ہرگز اس بات کو قبول نہیں کرے گا کہ33 کا فقرہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا مہمل ہے جس کا کوئی بھی ثبوت نہیں.صاف ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ
433 کا ان مخالفوں کو یہ بے ثبوت فقرہ سُنانا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو نہیں مانتے اور نہ قرآن شریف کو من جانب اللہ مانتے ہیں محض لغو اور طفل تسلّی سے بھی کمتر ہے.اور ظاہر ہے کہ منکر اور معاند اس سے کیا اور کیونکر تسلّی پکڑیں گے بلکہ ان کے نزدیک تو یہ صرف ایک دعویٰ ہوگا جس کے ساتھ کوئی دلیل نہیں.ایسا کہنا کس قدر بیہودہ خیال ہے کہ اگر فلاں گناہ میں کروں تو مارا جاؤں گو کروڑہا دوسرے لوگ ہر روز دنیا میں وہی گناہ کرتے ہیں اور مارے نہیں جاتے.اور کیسا یہ مکروہ عذر ہے کہ دوسرے گناہگاروں اور مفتریوں کو خدا کچھ نہیں کہتا یہ سزا خاص میرے لئے ہے.اور عجیب تر یہ کہ ایسا کہنے والا یہ بھی تو ثبوت نہیں دیتا کہ گذشتہ تجربہ سے مجھے معلوم ہوا ہے اور لوگ دیکھ چکے ہیں کہ اس گناہ پر ضرور مجھے سزا ہوتی ہے.غرض خدا تعالیٰ کے حکیمانہ کلام کو جو دنیا میں اتمام حجت کے لئے نازل ہوا ہے.ایسے بیہودہ طور پر خیال کرناخدا تعالیٰ کی پاک کلام سے ٹھٹھا اور ہنسی ہے اور قرآن شریف میں صدہا جگہ اس بات کو پاؤ گے کہ خدا تعالیٰ مفتری علی اللہ کو ہر گز سلامت نہیں چھوڑتا اور اسی دنیا میں اس کو سزا دیتا ہے اور ہلاک کرتا ہے.دیکھو اللہ تعالیٰ ایک موقع میں فرماتا ہے کہ 3 ۱.یعنی مفتری نامراد مرے گا.اور پھر دوسری جگہ فرماتا ہے.333 ۲ یعنی اس شخص سے ظالم تر کون ہے جو خدا پر افترا کرتا ہے یا خدا کی آیتوں کی تکذیب کرتا ہے.اب ظاہر ہے کہ جن لوگوں نے خدا کے نبیوں کے ظاہر ہونے کے وقت خدا کی کلام کی تکذیب کی خدا نے ان کو زندہ نہیں چھوڑا اور بُرے بُرے عذابوں سے ہلاک کر دیا.دیکھو نوح کی قوم اور عاد و ثمود اور لوط کی قوم اور فرعون اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن مکہ والے ان کا کیا انجام ہوا.پس جبکہ تکذیب کرنے والے اسی دنیا میں سزا پاچکے تو پھر جو شخص خدا پر
434 افترا کرتا ہے جس کا نام اس آیت میں پہلے نمبر پر ذکر کیا گیا ہے وہ کیونکر بچ سکتا ہے کیا خدا کا صادقوں اور کاذبوں سے معاملہ ایک ہو سکتا ہے اور کیا افتراکرنے والوں کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے اس دنیا میں کوئی سزا نہیں 33۱.اور پھر ایک جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.33333333۲ یعنی اگر یہ نبی جھوٹا ہے تو اپنے جھوٹ سے ہلاک ہو جائے گا اور اگر سچا ہے تو ضرور ہے کہ کچھ عذاب تم بھی چکھو کیونکہ زیادتی کرنے والے خوا ہ افترا کریں خواہ تکذیب کریں خدا سے مدد نہیں پائیں گے.اب دیکھو اس سے زیادہ تصریح کیا ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں بار بار فرماتا ہے کہ مفتری اسی دنیا میں ہلاک ہوگا بلکہ خدا کے سچے نبیوں اور مامورین کے لئے سب سے پہلی یہی دلیل ہے کہ وہ اپنے کام کی تکمیل کرکے مرتے ہیں.اور ان کو اشاعت دین کے لئے مہلت دی جاتی ہے اور انسان کی اس مختصر زندگی میں بڑی سے بڑی مہلت تیئیس۲۳ برس ہیں کیونکہ اکثر نبوت کا ابتدا چالیس برس پر ہوتا ہے اور تیئیس برس تک اگر اور عمر ملی تو گویا عمدہ زمانہ زندگی کا یہی ہے.اسی وجہ سے مَیں بار بار کہتا ہوں کہ صادقوں کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا زمانہ نہایت صحیح پیمانہ ہے اور ہر گز ممکن نہیں کہ کوئی شخص جھوٹا ہو کر اور خدا پر افترا کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ نبوت کے موافق یعنی تیئیس۲۳ برس تک مہلت پا سکے ضرور ہلاک ہوگا.اس بارے میں میرے ایک دوست نے اپنی نیک نیتی سے یہ عذر پیش کیا تھا کہ آیت 33 ۳ میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب ہیں.اس سے کیونکر سمجھا جائے کہ اگر کوئی دوسرا شخص افتراکرے تو وہ بھی ہلاک کیا جائے گا.مَیں نے اس کا یہی جواب دیا تھا کہ خدا تعالیٰ کا یہ قول محلِ استدلال پر ہے اور منجملہ دلائل صدق نبوت کے یہ بھی
435 ایک دلیل ہے اور خدا تعالیٰ کے قول کی تصدیق تبھی ہوتی ہے کہ جھوٹا دعویٰ کرنے والا ہلاک ہو جائے ورنہ یہ قول منکر پر کچھ حجت نہیں ہو سکتا اور نہ اس کے لئے بطور دلیل ٹھہر سکتا ہے بلکہ وہ کہہ سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تیئیس۲۳ برس تک ہلاک نہ ہونا اس وجہ سے نہیں کہ وہ صادق ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ خدا پر افترا کرنا ایسا گناہ نہیں ہے جس سے خدا اسی دنیا میں کسی کو ہلاک کرے کیونکہ اگر یہ کوئی گناہ ہوتا اور سنت اللہ اس پر جاری ہوتی کہ مفتری کو اسی دنیا میں سزا دینا چاہئے تو اس کے لئے نظیریں ہونی چاہئے تھیں.اور تم قبول کرتے ہو کہ اس کی کوئی نظیر نہیں بلکہ بہت سی ایسی نظیریں موجود ہیں کہ لوگوں نے تیئیس ۲۳ برس تک بلکہ اس سے زیادہ خدا پر افتراکئے اور ہلاک نہ ہوئے.تو اب بتلاؤ کہ اس اعتراض کا کیا جواب ہوگا؟ اور اگر کہو کہ صاحب الشریعت افترا کرکے ہلاک ہوتا ہے نہ ہر ایک مفتری.تو اول تو یہ دعویٰ بے دلیل ہے.خدا نے افترا کے ساتھ شریعت کی کوئی قید نہیں لگائی.ماسوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امر اور نہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب الشریعت ہوگیا.پس اس تعریف کے رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی.* مثلاً یہ الہام قل للمؤمنین * چونکہ میری تعلیم میں امر بھی ہے اور نہی بھی اور شریعت کے ضروری احکام کی تجدید ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے میری تعلیم کو اور اس وحی کو جو میرے پر ہوتی ہے فُلک یعنی کشتی کے نام سے موسوم کیا جیسا کہ ایک الہام الٰہی کی یہ عبارت ہے.واصنع الفلک باعیننا و وحینا ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللّٰہ ید اللّٰہ فوق ایدیھم.یعنی اس تعلیم اور تجدید کی کشتی کو ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی سے بنا.جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں.یہ خُدا کا ہاتھ ہے جو ان کے ہاتھوں پر ہے.اب دیکھو خدا نے میری وحی اور میری تعلیم اور میری بیعت کو نوح کی کشتی قرار دیا اور تمام انسانوں کے لئے اس کو مدار نجات ٹھہرایا جس کی آنکھیں ہوں دیکھے اور جس کے کان ہوں سُنے.منہ
436 یغضوا من ابصارھم ویحفظوا فروجھم ذالک ازکٰی لھم.یہ براہین احمدیہ میں درج ہے اور اس میں امر بھی ہے اور نہی بھی اور اس پر تیئیس برس کی مدت بھی گذر گئی اور ایسا ہی اب تک میری وحی میں امر بھی ہوتے ہیں اور نہی بھی اور اگر کہو کہ شریعت سے وہ شریعت مراد ہے جس میں نئے احکام ہوں تو یہ باطل ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 33.3 ۱.یعنی قرآنی تعلیم توریت میں بھی موجود ہے.اور اگر یہ کہو کہ شریعت وہ ہے جس میں باستیفاء امر اور نہی کا ذکر ہو تو یہ بھی باطل ہے کیونکہ اگر توریت یا قرآن شریف میں باستیفاء احکام شریعت کا ذکر ہوتا تو پھر اجتہاد کی گنجائش نہ رہتی.غرض یہ سب خیالات فضول اور کوتہ اندیشیاں ہیں.ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں.اور قرآن ربّانی کتابوں کا خاتم ہے تاہم خدا تعالیٰ نے اپنے نفس پر یہ حرام نہیں کیا کہ تجدید کے طور پر کسی اور مامور کے ذریعہ سے یہ احکام صادر کرے کہ جھوٹ نہ بولو.جھوٹی گواہی نہ دو.زنا نہ کرو.خون نہ کرو.اور ظاہر ہے کہ ایسا بیان کرنابیان شریعت ہے جو مسیح موعود کا بھی کام ہے.پھر وہ دلیل تمہاری کیسی گاؤ خورد ہو گئی کہ اگر کوئی شریعت لاوے اور مفتری ہو تو وہ تیئیس ۲۳ برس تک زندہ نہیں رہ سکتا.یاد رکھنا چاہئے کہ یہ تمام باتیں بیہودہ اور قابل شرم ہیں.جس رات میں نے اپنے اس دوست کو یہ باتیں سمجھائیں تو اسی رات مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے وہ حالت ہو کر جو وحی اللہ کے وقت میرے پر وارد ہوتی ہے وہ نظارہ گفتگو کا دوبارہ دکھلایا گیا.اور پھر الہام ہوا قل انّ ھدَی اللّٰہ ھوالھدٰی یعنی خدا نے جو مجھے اس آیت لو تقوّل علینا کے متعلق سمجھایا ہے وہی معنے صحیح ہیں.تب اس الہام کے بعد مَیں نے چاہا کہ پہلی کتابوں میں سے بھی اس کی کچھ نظیر تلاش کروں.سو معلوم ہوا کہ تمام بائبل ان نظیروں سے بھری پڑی ہے کہ جھوٹے نبی ہلاک کئے جاتے ہیں.سو مَیں
437 مناسب سمجھتا ہوں کہ ان نظائر میں سے چند نظیریں اس جگہ لکھ دوں تا پڑھنے والے اِس سے فائدہ پکڑیں.اور وہ یہ ہیں:.توریت اور دوسری پہلی آسمانی کتابوں کی جھوٹے نبیوں کی نسبت پیشگوئیاں توریت میں لکھا ہے کہ اگر تمہارے درمیان کوئی نبی یا خواب دیکھنے والا ظاہر ہو اور تمہیں کوئی نشان اور معجزہ دکھلاوے اور اس نشان یا معجزہ کے مطابق جو اس نے تمہیں دکھایا بات واقع ہو.اور وہ تمہیں کہے آؤ ہم غیر معبودوں کی جنہیں تم نے نہیں جانا پیروی کریں (یعنی خدا کے سوا کسی اور کا حکم منوانا چاہے یا اپنی ہی پیروی اُن باتوں میں کرانا چاہے جو توریت کے مخالف ہیں) تو ہرگز اس نبی یا خواب دیکھنے والے کی بات پر کان مت دھرو.کہ خداوند تمہارا خدا تمہیں آزماتا ہے تادریافت کرے کہ تم خداوند اپنے خدا کو اپنے سارے دل اور ساری جان سے دوست رکھتے ہو کہ نہیں.چاہئے کہ تم خداوند اپنے خدا کی پیروی کرو.(یعنی اسی کی ہدایتوں کے موافق چلو دوسرا شخص گو کوئی فلاسفر ہو یا حکیم ہو اس کی بات نہ مانو) اور اس سے ڈرو اور اس کے حکموں کو حفظ کرو.اور اس کی بات مانو.تم اسی کی بندگی کرو اور اُسی سے لپٹے رہو.اور وہ نبی یا وہ خواب دیکھنے والا قتل کیا جائے گا.دیکھو توریت استثنا باب ۱۳ آیت ایک سے پانچ تک.اس پیشگوئی کی تشریح یہ ہے کہ جس نبی نے تمہیں خدا کی پیروی سے پھیرنا چاہا اور دوسرے خیالات کا پیرو کرنا چاہا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہیں وہ ہلاک کیا جائے گا.یاد رہے کہ توریت کی اس پیشگوئی میں یہ لفظ نہیں ہیں کہ وہ جھوٹا نبی تب قتل کیا جائے گا جب یہ تعلیم دے کہ غیر معبودوں کو سجدہ کرو یا اُن کی بندگی کرو.بلکہ یہ لفظ ہیں کہ غیر کی پیروی کرانا چاہے یعنی توریت کی تعلیم
438 کے مخالف دوسرے خیالات پر چلانا چاہے جو کسی اَور کے خیالات ہیں نہ خدا کے تب خدا اس کو ہلاک کرے گا کیونکہ خدا کی منشاء کے مخالف وہ تعلیم دیتا ہے.اور پھر توریت میں یہ عبارت ہے:.لیکن وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا مَیں نے اُسے حکم نہیں دیا تو وہ نبی قتل کیا جاوے.اِس آیت میں خدا تعالیٰ نے صاف طور پر فرما دیا کہ افترا کی سزا خدا کے نزدیک قتل ہے اور پہلی آیتوں میں ذکر ہو چکا ہے کہ خدا خود اسے قتل کرے گا.اور ہر گز نہیں بچے گا.دیکھو توریت استثنا باب ۱۸ آیت۲۰.اور پھر حزقیل نبی کی کتاب میں جھوٹے نبیوں کی نسبت یہ عبارت ہے:.خداوند یہوواہ یوں کہتا ہے کہ بیہودہ نبیوں پر واویلا ہے جو اپنی رُوح کی پیروی کرتے ہیں.اور انہوں نے کچھ نہیں دیکھا.وہ دھوکا دے کر کہتے ہیں کہ خداوند کہتا ہے اگرچہ خداوند نے انہیں نہیں بھیجا.(۷) بولتے ہو (اے جھوٹے نبیو!) کہ خداوند نے کہا اگرچہ مَیں نے نہیں کہا.اس لئے خداوند یہوواہ یوں کہتا ہے کہ تم نے جھوٹ کہا ہے.اور خداوند یہوواہ کہتا ہے کہ مَیں تمہارا مخالف ہوں اور میرا ہاتھ اُن نبیوں پر چلے گا جو دھوکا دیتے ہیں (یعنی جن کو صفائی سے کوئی کشف نہیں ہوتا اور اپنی طرف سے یقین کر بیٹھے ہیں کہ یہ خدا کا کلام ہے حالانکہ وہ خدا کا کلام نہیں) اور جانتے ہیں کہ یقین کے اسباب میسر نہیں مگر پھر بھی جھوٹی غیب دانی کرتے ہیں وہ ہلاک کئے جائیں گے کیونکہ گستاخی کرتے ہیں.سو مَیں اے جھوٹے نبیو! اُس دیوار کو جس پر تم نے کچی کہگل کی ہے توڑ ڈالوں گا اور زمین پر گراؤں گا.یہاں تک کہ اس کی نیو ظاہر ہو جائے گی.ہاں وہ گِرے گی اور تم اس کے بیچ میں ہلاک ہوؤگے.دیکھو حز قیل ۱۳ باب آیت۳ سے ۱۴ آیت تک.اور پھر یسعیا نبی کی کتاب میں اِسی کی تائید ہے اور اس کی عبارت یہ ہے:.
439 خداوند اسرائیل کے سر اور دم اور شاخ اور نے کو ایک ہی دن میں کاٹ ڈالے گا اور جو نبی جھوٹی باتیں سکھلاتا ہے وہی دم ہے.دیکھو یسعیا باب ۹ آیت۵.ایسا ہی یرمیا نبی کی کتاب میں جھوٹے نبیوں کی نسبت یہ بیان ہے:.رب الافواج نبیوں کی بابت (یعنی جھوٹے نبیوں کی بابت) یوں کہتا ہے کہ دیکھ مَیں انہیں ناگدونا کھلاؤں گا اور ہلاہل یعنی سمّ قا تل کا پانی پلاؤں گا کیونکہ یروشلم کے نبیوں کے سبب سے ساری زمین میں بے دینی پھیل گئی ہے.دیکھ خداوند کے قہر سے ایک آندھی اس کی طرف (یعنی یروشلم کی طرف) چلے گی.ایک چکّر مارتا ہوا طوفان شریروں کے سر پر (جھوٹے نبیوں کے سر پر) پڑے گا.مَیں نے اُن نبیوں کو نہیں بھیجا پروے دوڑے ہیں.مَیں نے اُن سے نہیں کہا پر انہوں نے نبوت کی.دیکھو یرمیا ۲۳ باب ۵ آیت سے ۲۱ آیت تک.ایسا ہی زکریا نبی کی کتاب میں جھوٹے نبیوں کے بارے میں یہ بیا ن ہے:.مَیں نبیوں کو (یعنی جھوٹے نبیوں کو) اور ناپاک رُوحوں کو دنیا سے خارج کر دوں گا اور ایسا ہوگا کہ جب کوئی نبوت کرے گا تو اس کے ماں باپ اسے کہیں گے کہ تو نہ جیئے گا کیونکہ تو خداوند کا نام لے کر جھوٹ بولتا ہے (یعنی چونکہ جھوٹے نبیوں کو خدا ہلاک کرے گا اس لئے جھوٹی نبوت کرنے والوں کے ماں باپ بہت ڈریں گے کہ اب یہ مریں گے کیونکہ انہوں نے جھوٹ بولا) اور اس کے باپ اور ماں جن سے وہ پیدا ہوا جس وقت وہ پیشگوئی کرے گا اسے دھول ماریں گے (یعنی کہیں گے کہ کیا تو مرنا چاہتا ہے کہ جھوٹی پیشگوئی کرتا ہے) اور اس دن ایسا ہوگا کہ نبیوں میں سے ہر ایک جس وقت وہ نبوت کرے (یعنی جھوٹی نبوت کرے) اپنی رؤیا سے شر مندہ ہوگا اور وے کبھی بال والے لباس نہ پہنیں گے تا کہ فریب دیں بلکہ ایک ایک کہے گا کہ مَیں نبی نہیں ہوں کسان ہوں.دیکھو زکریا باب۱۳ آیت ۲ سے پانچ تک.
440 ایسا ہی انجیل اعمال میں جھوٹے نبیوں کی نسبت یہ عبارت ہے:.اے اسرائیلی مردو! آپ سے خبردار رہو کہ تم ان آدمیوں کے ساتھ کیا کیاچاہتے ہو کیونکہ ان دنوں کے آگے تھیوڈاس نے اُٹھ کے کہا کہ مَیں کچھ ہوں (یعنی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا) اور تخمینًا چار سو مرد اس سے مل گئے.وہ مارا گیا.اور سب جتنے اس کے تابع تھے پریشان و تباہ ہوئے.بعد اس کے یہوداہ جلیلی اسم نویسی کے دنوں میں اُٹھا (یعنی اس نے بھی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا) اور بہت سے لوگوں کو اپنے پیچھے کھینچا وہ بھی ہلاک ہوا.اور سب جتنے اس کے تابع تھے چھتر بتھر ہو گئے.اور اب مَیں تمہیں کہتا ہوں کہ ان آدمیوں سے کنارہ کرو اور ان کو جانے دو کیونکہ اگر یہ تدبیر یا کام انسان سے ہے تو ضائع ہوگی پر اگر خدا سے ہے تو تم اسے ضائع نہیں کر سکتے.ایسا نہ ہو کہ تم خدا سے بھی لڑنے والے ٹھہرو.دیکھو اعمال باب۵ آیت ۳۵ سے ۴۰ تک.ایسا ہی داؤد نبی اللہ کے زبور میں بھی جھوٹے نبیوں کے ہلاک کئے جانے کی نسبت بہت ذکر ہے اور بائبل کی دوسری کتابوں میں بھی ہے.لیکن مَیں جانتا ہوں کہ بالفعل اسی قدر لکھنا کافی ہے کیونکہ یہ امر بدیہی ہے کہ مفتری خدا کے کارخانۂ نبوت کا دشمن اور نور میں تاریکی ملانا چاہتا ہے اور لوگوں کے لئے عمداً ہلاکت کی راہ طیّار کرتا ہے اس لئے خدا اس کا دشمن ہے اور خدا کی حکمت اور رحمت ہزارہا لوگوں کے مرنے کی نسبت اُس کی موت کو سہل تر جانتی ہے.پس جیسا کہ تمام درندوں اور موذیوں کی نسبت خدا سے موت کی سزا ہے وہی حکم اس کے متعلق ہوتا ہے.لیکن صادق کی خدا آپ حفاظت کرتا ہے اور اس کی جان اور آبرو کے بچانے کے لئے آسمانی نشان دکھلاتا ہے اور وہ صادق کیلئے حصنِ حصین ہے اور صادق اس کی گود میں محفوظ ہے جیسا کہ مادہ شیر کا بچہ
441 اُس کے پنجہ کی پناہ میں ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی قسم کھا کر یہ کہے کہ فلاں مامور من اللہ جھوٹا ہے اور خدا پر افترا کرتا ہے اور دجّال ہے اور بے ایمان ہے حالانکہ دراصل وہ شخص خدا کی طرف سے اور صادق ہو اور یہ شخص جو اس کا مکذّب ہے مدارفیصلہ یہ ٹھہرائے کہ جناب الٰہی میں دعا کرے کہ اگر یہ صادق ہے تو مَیں پہلے مروں اور اگر کاذب ہے تو میری زندگی میں یہ شخص مر جائے تو خدا تعالیٰ ضرور اس شخص کو ہلاک کرتا ہے جو اس قسم کا فیصلہ چاہتا ہے.ہم لکھ چکے ہیں کہ مقام بدر میں ابو جہل نے بھی یہی دُعا کی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کرکہا تھا کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے خدا اِسی میدانِ جنگ میں اُس کو قتل کرے.سو اس دُعا کے بعد وہ آپ ہی مارا گیا.یہی دُعا مولوی اسماعیل علی گڑھ والے نے اور مولوی غلام دستگیر قصوری نے میری مقابل پر کی تھی جس کے ہزاروں انسان گواہ ہیں.پھر بعد اس کے وہ دونوں مولوی صاحبان فوت ہو گئے.نذیر حسین دہلوی جو محدّث کہلاتا ہے مَیں نے بہت زور دیا تھا* کہ وہ اسی دُعا کے ساتھ فیصلہ کرے لیکن وہ ڈر گیا اور بھاگ گیا.اس روز دہلی کی شاہی مسجد میں سات ہزار کے قریب لوگ جمع ہوں گے جبکہ اس نے انکار کیا.اسی وجہ سے ابتک زندہ رہا.اب ہم اس رسالہ کو ختم کرتے ہیں اور حافظ محمد یوسف صاحب اور ان کے ہم جنسوں سے جواب کے منتظر ہیں اس بات کو قریباً نو۹ برس کا عرصہ گذر گیا کہ جب میں دہلی گیا تھا اور میاں نذیر حسین غیر مقلد کو دعوت دین اسلام کی گئی تھی.تب ان کے ہر یک پہلو سے گریز دیکھ کر اور ان کی بد زبانی اورد شنام دہی کو مشاہدہ کرکے آخری فیصلہ یہی ٹھہرایا گیا تھا کہ وہ اپنے اعتقاد کے حق ہونے کی قسم کھالے پھر اگر قسم کے بعد ایک سال تک میری زندگی میں فوت نہ ہوا تو مَیں تمام کتابیں اپنی جلا دوں گا اور اس کو نعوذ باللہ حق پر سمجھ لوں گالیکن وہ بھاگ گیا اسی بھاگنے کی برکت سے اب تک اس کو عمر دی گئی.منہ
442 اِطِّلاَع مَیں نے اپنا ارادہ یہ ظاہر کیا تھا کہ اس رسالہ اربعین کے چالیس اشتہار جدا جدا شائع کروں.اور میرا خیال تھا کہ مَیں صرف ایک ایک صفحہ کا اشتہار یا کبھی ڈیڑھ صفحہ یا غایت کار دو صفحہ کا اشتہار شائع کروں گا اور یا کبھی شائد تین یا چار صفحہ لکھنے کا اتفاق ہو جائے گا.لیکن ایسے اتفاقات پیش آگئے کہ اس کے برخلاف ظہور میں آیا اور نمبر دو۲ اور تین اور چار رسالوں کی طرح ہو گئے.چنانچہ اس رسالہ کی قریباً ستر۷۰ صفحہ تک نوبت پہنچ گئی اور درحقیقت وہ امر پورا ہو چکا جس کا مَیں نے ارادہ کیا تھا اس لئے مَیں نے اِن رسائل کو صرف چار نمبر تک ختم کر دیا اور آئندہ شائع نہیں ہوگا.جس طرح ہمارے خدائے عزّوجلّ نے اوّل پچاس نمازیں فرض کیں پھر تخفیف کرکے پانچ کو بجائے پچاس کے قرار دے دیا.اِسی طرح مَیں بھی اپنے ربّ کریم کی سنت پر ناظرین کے لئے تخفیف تصدیع کرکے نمبر چار کو بجائے نمبر چالیس کے قرار دے دیتا ہوں اور اپنی اس تحریر کو اپنی جماعت کے لئے چند نصیحتوں پر ختم کرتا ہوں.نَصَاءِح اے عزیزو! تم نے وہ وقت پایا ہے جس کی بشارت تمام نبیوں نے دی ہے اور اُس شخص کو یعنی مسیح موعود کو تم نے دیکھ لیا جس کے دیکھنے کے لئے بہت سے پیغمبروں نے بھی خواہش کی تھی.اس لئے اب اپنے ایمانوں کو خوب مضبوط کرو اور اپنی راہیں درست کرو.اپنے دلوں کو پاک کرو اور اپنے مولیٰ کو راضی کرو.دوستو! تم اس مسافر خانہ میں محض چند روز کے لئے ہو.اپنے اصلی گھروں کو
443 یاد کرو.تم دیکھتے ہو کہ ہر ایک سال کوئی نہ کوئی دوست تم سے رخصت ہو جاتا ہے.ایسا ہی تم بھی کسی سال اپنے دوستوں کو داغ جدائی دے جاؤگے.سو ہوشیار ہو جاؤ اور اس پُر آشوب زمانہ کی زہر تم میں اثر نہ کرے.اپنی اخلاقی حالتوں کو بہت صاف کرو.کینہ اور بُغض اور نخوت سے پاک ہو جاؤ اور اخلاتی معجزات دنیا کو دکھلاؤ.تم سُن چکے ہو کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو نام ہیں(۱) ایک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور یہ نام توریت میں لکھا گیا ہے جو ایک آتشی شریعت ہے جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے.3333....33.۱ (۲) دوسرا نام احمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم اوریہ نام انجیل میں ہے جو ایک جمالی رنگ میں تعلیم الٰہی ہے جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے.33 ۲ اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جلال اور جمال دونوں کے جامع تھے.مکّہ کی زندگی جمالی رنگ میں تھی اور مدینہ کی زندگی جلالی رنگ میں.اور پھر یہ دونوں صفتیں امت کے لئے اس طرح پر تقسیم کی گئیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو جلالی رنگ کی زندگی عطا ہوئی اور جمالی رنگ کی زندگی کیلئے مسیح موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مظہر ٹھہرایا.یہی وجہ ہے کہ اس کے حق میں فرمایا گیا کہ یضع الحرب یعنی* * جہاد یعنی دینی لڑائیوں کی شدت کو خدا تعالیٰ آہستہ آہستہ کم کرتا گیا ہے حضرت موسیٰ کے وقت میں اس قدر شدت تھی کہ ایمان لانا بھی قتل سے بچا نہیں سکتا تھا اور شیر خوار بچے بھی قتل کئے جاتے تھے.پھر ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بچوں اور بڈھوں اور عورتوں کا قتل کرنا حرام کیا گیا اور پھر بعض قوموں کے لئے بجائے ایمان کے صرف جزیہ دے کرمواخذہ سے نجات پانا قبول کیا گیا اور پھر مسیح موعود کے وقت قطعًا جہاد کا حکم موقوف کر دیا گیا.منہ
444 لڑائی نہیں کرے گا اور یہ خدا تعالیٰ کا قرآن شریف میں وعدہ تھا کہ اس حصے کے پورا کرنے کے لئے مسیح موعود اور اس کی جماعت کو ظاہر کیا جائے گا.جیسا کہ آیت 3 ۱ میں اسی کی طرف اشا رہ ہے اور آیت 33 ۲ بھی یہی اشارہ کر رہی ہے.سو ہوشیار ہو کر سُنو کہ تیرہ سو برس کے بعد جمالی طرز کی زندگی کا نمونہ دکھلانے کے لئے تمہیں پیدا کیا گیا.* یہ خدا کا 3۳ میں وعدہ تھا کہ یہ علوم اور معارف مسیح موعود کو اکمل اور اتم طور پر دیئے جائیں گے کیونکہ تمام دینوں پر غالب ہونے کا ذریعہ علومِحقّہ اور معارف صادقہ اور دلائل بیّنہ اور آیات قاہرہ ہیں اور غلبہ دین کا انہیں پر موقوف ہے.اسی کی طرف اشارہ ہے کہ جو کہا گیا کہ اُن دنوں میں بیت اللہ کے نیچے سے ایک بڑا خزانہ نکلے گا یعنی بیت اللہ کے لئے جو خدا کو غیرت ہے وہ تقاضا کرے گی جو بیت اللہ سے روحانی معارف اور آسمانی خزائن ظاہر ہوں یعنی جب مخالفوں کے ظالمانہ حملے بیت اللہ کی عزت کا انہدام چاہیں گے تو اس انہدام کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کے نیچے سے ایک بھاری خزا نہ نکل آئے گا جو معارف کا خزانہ ہوگا اور یہ بیت اللہ پر موقوف نہیں بلکہ قرآن کے ہر یک ایسے فقرہ کے نیچے ایک خزانہ ہے جس کو کافروں کے ہاتھ مخالفانہ حربہ سے منہدم کرکے جھوٹ کے رنگ میں دکھلانا چاہتے ہیں.کوئی مسلمان نہ بیت اللہ کو گرائے گا اور نہ قرآنی عمارت کو گرانا چاہے گا بلکہ حدیث کے مضمون کے موافق کافر لوگ اس عمارت کو گرا رہے ہیں اور اس کے نیچے سے خزانے نکل رہے ہیں.مَیں کافر کو بھی اس وجہ سے دوست رکھتا ہوں کہ ان کے ذریعہ سے بیت اللہ اور کتاب اللہ کے پوشیدہ خزانے ہمیں مل رہے ہیں.اور ان معنوں کو قائم رکھ کر ایک اور معنے بھی اس جگہ ہیں اور وہ یہ ہے کہ خدا نے اپنے الہامات میں
445 امتحان ہے اور وہ تمہیں آزماتا ہے کہ تم اس نمونہ کے دکھلانے میں کیسے ہو.تم سے پہلے جلالی زندگی کا نمونہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے قابل تعریف دکھلایا اور وہ ایسا ہی وقت تھا کہ جلالی طرز کی زندگی کا نمونہ دکھلایا جاتا کیونکہ ایماندار لوگ بتوں کی تعظیم کے لئے اور مخلوق پرستی کی حمایت میں بھیڑ بکری کی طرح قتل کئے جاتے تھے اور پتھروں اور ستاروں اور عناصر اور دوسری مخلوق کو خدا کی جگہ دی تھی.سو وہ زمانہ بے شک جہاد کا زمانہ تھا تا جو لوگ ظلم سے تلوار اُٹھاتے ہیں وہ تلوار ہی سے قتل کئے جائیں.سو صحابہ رضی اللہ عنہم نے تلوار اٹھانے والوں کو تلوار ہی سے خاموش کیا اور اسم محمد جو مظہر جلال اور شان محبوبیت اپنے اندر رکھتا ہے اس کی تجلّی ظاہر کرنے کے لئے خوب جوہر دکھلائے اور دین کی حمایت میں اپنے خون بہا دیئے.پھر بعد اس کے وہ کذاب پیدا ہوئے جو اسم محمد کا جلال ظاہر کرنے والے نہیں تھے بلکہ اکثر ان کے چوروں اور ڈاکوؤں کی طرح تھے جو مجھ سے پہلے گذر گئے جو جھوٹے طور پر محمدی کہلاتے تھے اور لوگ ان کو خود غرض سمجھتے تھے.جیسا کہ آج کل بھی بعض سرحدی نادان اس قسم کے مولویوں کی تعلیم سے دھوکا کھا کر محمدی جلال کے ظاہر کرنے کے بہانہ سے لوٹ مار اپنا شیوہ رکھتے ہیں اور آئے دن ناحق کے خون کرتے ہیں مگر تم خوب توجہ کرکے سُن لو کہ اب اسم محمد کی تجلّی ظاہر کرنے کا وقت نہیں.یعنی اب جلالی رنگ کی کوئی خدمت باقی نہیں.کیونکہ مناسب حد تک وہ جلال ظاہر ہو چکا.سورج کی کرنوں کی اب برداشت نہیں.اب چاند کی ٹھنڈی روشنی کی ضرورت ہے میرا نام بیت اللہ بھی رکھا ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جس قدر اس بیت اللہ کو مخالف گرانا چاہیں گے اس میں سے معارف اور آسمانی نشانوں کے خزانے نکلیں گے.چنانچہ مَیں دیکھتا ہوں کہ ہریک ایذاکے وقت ضرور ایک خزانہ نکلتا ہے اور اس بارے میں الہام یہ ہے.یکے پائے من می بوسید ومن میگفتم کہ حجرا سود منم.منہ
446 اور وہ احمد کے رنگ میں ہو کر مَیں ہوں اب اسم احمد کا نمونہ ظاہر کرنے کا وقت ہے یعنی جمالی طور کی خدمات کے ایّام ہیں اور اخلاقی کما لات کے ظاہر کرنے کا زمانہ ہے.ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ بھی تھے اور مثیل عیسیٰ بھی.موسیٰ جلالی رنگ میں آیا تھا اور جلال اور الٰہی غضب کا رنگ اُس پر غالب تھا مگر عیسیٰ جمالی رنگ میں آیا تھا اور فروتنی اس پر غالب تھی.سو ہمارے نبی صلے اللہ علیہ وسلم نے اپنی مکّی اور مدنی زندگی میں یہ دونوں نمونے جلال اور جمال کے ظاہر کر دیئے.اور پھر چاہا کہ آپ کے بعد آپ کی فیض یافتہ جماعت بھی جو آپ کے روحانی وارث ہیں انہی دونوں نمونوں کو ظاہر کرے.سو آپ نے محمدی یعنی جلالی نمونہ دکھلانے کے لئے صحابہ رضی اللہ عنہم کو مقرر فرمایا کیونکہ اس زمانہ میں اسلام کی مظلومیت کے لئے یہی علاج قرین مصلحت تھا پھر جب وہ زمانہ جاتا رہا اور کوئی شخص زمین پر ایسا نہ رہا کہ مذہب کے لئے اسلام پر جبر کرے اس لئے خدا نے جلالی رنگ کو منسوخ کرکے اسم احمد کا نمونہ ظاہر کرنا چاہا یعنی جمالی رنگ دکھلانا چاہا.سو اس نے قدیم وعدہ کے موافق اپنے مسیح موعود کو پیدا کیا جو عیسیٰ کا اوتار اور احمدی رنگ میں ہو کر جمالی اخلاق کو ظاہر کرنے والا ہے اور خدا نے تمہیں اس عیسیٰ احمد صفت کے لئے بطور اعضا کے بنایا.سو اب وقت ہے کہ اپنی اخلاقی قوتوں کا حُسن اور جمال دکھلاؤ.چاہئے کہ تم میں خدا کی مخلوق کے لئے عام ہمدردی ہو اور کوئی َ چھل اور دھوکا تمہاری طبیعت میں نہ ہو.تم اسم احمد کے مظہرہو.سو چاہئے کہ دن رات خدا کی حمد و ثنا تمہارا کام ہو اور خادمانہ حالت جو حامد ہونے کے لئے لازم ہے اپنے اندر پیدا کرو اور تم کامل طور پر خدا کی کیونکر حمد کر سکتے ہو جب تک تم اس کو ربّ العالمین یعنی تمام دنیا کا پالنے والا نہ سمجھو اور تم کیونکر اس اقرار میں سچّے ٹھہر سکتے ہو جب تک ایسا ہی اپنے تئیں بھی نہ بناؤ.کیونکہ اگر تو کسی نیک صفت کے ساتھ کسی کی تعریف کرتا ہے
447 اور آپ اس صفت کے مخالف عقیدہ اور خلق رکھتا ہے تو گویا تُو اس شخص سے ٹھٹھا کرتا ہے کہ جو کچھ اپنے لئے پسند نہیں کرتا اس کے لئے روا رکھتا ہے.اور جبکہ تمہارا رب جس نے اپنی کلام کو 3 ۱ سے شروع کیا ہے زمین کی تمام خوردنی و آشامیدنی اشیاء اور فضا کی تمام ہوا اور آسمانوں کے ستاروں اور اپنے سورج اور چاند سے تمام نیک و بد کو فائدہ پہنچاتا ہے تو تمہارا فرض ہونا چاہئے کہ یہی خلق تم میں بھی ہو ورنہ تم احمد اور حامد نہیں کہلا سکتے.کیونکہ احمد تو اس کو کہتے ہیں کہ خدا کی بہت تعریف کرنے والا ہو.اور جو شخص کسی کی بہت تعریف کرتا ہے وہ اپنے لئے وہی خلق پسند کرتا ہے جو اس میں ہیں اور چاہتا ہے کہ وہ خلق اُس میں ہوں.پس تم کیونکر سچے احمد یا حامد ٹھہر سکتے ہو جبکہ اس خلق کو اپنے لئے پسند نہیں کرتے.حقیقت میں احمدی بن جاؤ اور یقیناً سمجھو کہ خدا کی اصلی اخلاقی صفات چار ہی ہیں جو سورۃ فاتحہ میں مذکور ہیں.(۱) رب العالمین سب کا پالنے والا (۲) رحمان.بغیر عوض کسی خدمت کے خود بخود رحمت کرنے والا (۳) رحیم.کسی خدمت پر حق سے زیادہ انعام اکرام کرنے والا اور خدمت قبول کرنے والا اور ضائع نہ کرنے والا.(۴) اپنے بندوں کی عدالت کرنے والا.سو احمدوہ ہے جو ان چاروں صفتوں کو ظلی طور پر اپنے اندر جمع کرلے.یہی وجہ ہے کہ احمد کا نام مظہر جمال ہے اور اس کے مقابل پر محمد کا نام مظہر جلال ہے.وجہ یہ کہ اسم محمدمیں سرّ محبوبیت ہے کیونکہ جامع محامد ہے اور کمال درجہ کی خوبصورتی اور جامع المحامد ہونا جلال اور کبریائی کو چاہتا ہے.لیکن اسم احمد میں سرّ عاشقیت ہے.کیونکہ حامدیت کو انکسار اور عشقی تذلل اور فروتنی لازم ہے.اسی کا نام جمالی حالت ہے اور یہ حالت فروتنی کو چاہتی ہے.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں شانِ محبوبیت بھی تھی جس کا اسم محمد مقتضی ہے.کیونکہ محمد ہونا یعنی جامع جمیع محامد ہونا شان محبوبیت
448 پیدا کرتا ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں شانِ محبّیت بھی تھی جس کا اسم احمد مقتضی ہے.کیونکہ حامد کے لئے محب ہونا ضروری ہے.ہر ایک شخص کسی کی سچی اور کامل تعریف تبھی کرتا ہے جبکہ اس کا محب بلکہ عاشق ہو اور عاشق اور محب ہونے کیلئے فروتنی لازم ہے اور یہی جمالی حالت ہے جو حقیقت احمدیہ کو لازم پڑی ہوئی ہے.محبوبیت جو اسم محمد میں مخفی تھی صحابہ کے ذریعہ سے ظہور میں آئی.اور جو لوگ ہتک کرنے والے اور گردن کش تھے محبوب الٰہی ہونے کے جلال نے ان کی سرکوبی کی لیکن اسم احمد میں شانِ محبّیت تھی یعنی عاشقانہ تذلل اور فروتنی.یہ شان مسیح موعود کے ذریعہ سے ظہور میں آئی.سو تم شانِ احمدیت کے ظاہر کرنے والے ہو.لہٰذا اپنے ہر ایک بیجا جوش پر موت وارد کرو اور عاشقانہ فروتنی دکھلاؤ.خدا تمہارے ساتھ ہو.آمین شتاب کارنکتہ چینوں کیلئے مختصر تحریر اور براہین احمدیہ کا ذکر چونکہ یہ بھی سنت اللہ ہے کہ ہر ایک شخص جو خدا کی طرف سے آتا ہے بہت سے کوتہ اندیش ناخدا ترس اس کی ذاتیات میں دخل دے کر طرح طرح کی نکتہ چینیاں کیا کرتے ہیں کبھی اس کو کاذب ٹھہراتے ہیں کبھی اس کو عہد شکن قرار دیتے ہیں اور کبھی اس کو لوگوں کے حقوق تلف کرنے والا اور مال خور اور بددیانت اور خائن قرار دے دیتے ہیں کبھی اس کا نام شہوت پرست رکھتے ہیں اور کبھی اس کو عیاش اور خوش پوش اور خوش خور سے موسوم کرتے ہیں اور کبھی جاہل کرکے پکارتے ہیں.* اور کبھی اس کو ان * افسوس کہ علمی نشان کے مقابلہ میں نادان لوگوں نے پیر مہر علی شاہ گولڑوی کی نسبت ناحق
449 صفت* سے شہرت دیتے ہیں کہ وہ ایک خود پرست متکبر بد خلق ہے.لوگوں کو گالیاں دینے والا اور اپنے مخالفین کو سبّ وشتم کرنے والا بخیل زر پرست کذّاب دجّال بے ایمان خونی ہے.یہ سب خطاب اُن لوگوں کی طرف سے خدا کے نبیوں اور جھوٹی فتح کا نقارہ بجا دیا اور مجھے گندی گالیاں دیں اور مجھے اس کے مقابلہ پر جاہل اور نادان قرار دیا.گویا مَیں اس نابغہ وقت اور سحبان زمان کے رعب کے نیچے آکر ڈر گیا ورنہ وہ حضرت تو سچے دل سے بالمقابل عربی تفسیر لکھنے کے لئے طیّار ہو گئے تھے اور اسی نیت سے لاہور تشریف لائے تھے.پر مَیں آپ کی جلالتِ شان اور علمی شوکت کو دیکھ کر بھاگ گیا اے آسمان جھوٹوں پر لعنت کر آمین.پیارے ناظرین کاذب کے رسوا کرنے کے لئے اسی وقت جو ۷؍دسمبر۱۹۰۰ء روز جمعہ ہے خدا نے میرے دل میں ایک بات ڈالی ہے اور مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کا جہنم جھوٹوں کے لئے بھڑک رہا ہے کہ مَیں نے سخت تکذیب کو دیکھ کر خود اس فوق العادت مقابلہ کے لئے درخواست کی تھی.اور اگر پیر مہر علی شاہ صاحب مباحثہ منقولی اور اس کے ساتھ بیعت کی شرط پیش نہ کرتے جس سے میرا مدعا بکلّی کالعدم ہو گیا تھا تو اگر لاہور اور قادیاں میں برف کے پہاڑ بھی ہوتے اور جاڑے کے دن ہوتے تو مَیں تب بھی لاہور پہنچتا اور ان کو دکھلاتا کہ آسمانی نشان اس کو کہتے ہیں.مگر انہوں نے مباحثہ منقولی اور پھر بیعت کی شرط لگا کر اپنی جان بچائی اور اس گندے مکر کے پیش کرنے سے اپنی عزت کی پرواہ نہ کی.لیکن اگر پیرجی صاحب حقیقت میں فصیح عربی تفسیر پر قادر ہیں اور کوئی فریب انہوں نے نہیں کیا تو اب بھی وہی قدرت اُن میں ضرور موجود ہوگی.لہٰذا مَیں اُن کو خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ اسی میری درخواست کو اس رنگ پر پورا کر دیں کہ میرے دعاوی کی تکذیب کے متعلق فصیح بلیغ عربی میں سورۃ فاتحہ کی ایک تفسیر لکھیں جو چار ۴ جز سے کم نہ ہو اور مَیں اسی سورۃ کی تفسیر بفضل اللہ وقوتہٖ اپنے دعویٰ کے اثبات کے متعلق * سہو کتابت ہے.یہاں ’’صفات‘‘ ہونا چاہئے.(ناشر)
450 مامورین کو ملتے ہیں جو سیاہ باطن اور دل کے اندھے ہوتے ہیں.چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت بھی یہی اعتراض اکثر خبیث فطرت لوگوں کے ہیں کہ اُس نے اپنی قوم کے لوگوں کو رغبت دی کہ تا وہ مصریوں کے سونے چاندی کے برتن اور زیور اور قیمتی کپڑے عاریتاً مانگیں اور محض دروغگوئی کی راہ سے کہیں کہ ہم عبادت کے لئے جاتے ہیں چند روز تک یہ تمہاری چیزیں واپس لاکر دے دیں گے اور دل میں دغا تھا.آخر عہد شکنی کی اور جھوٹ بولا اور بیگانہ مال اپنے قبضہ میں لاکر کنعان کی طرف بھاگ گئے.اور درحقیقت یہ تمام اعتراضات ایسے ہیں کہ اگر معقولی طور پر ان کا جواب دیا جائے تو بہت سے احمق اور پست فطرت ان جوابات سے تسلّی نہیں پا سکتے اس لئے خدا تعالیٰ فصیح بلیغ عربی میں لکھوں گا.انہیں اجازت ہے کہ وہ اس تفسیرمیں تمام دنیا کے علماء سے مدد لے لیں.عرب کے بلغاء فصحاء بلالیں.لاہور اور دیگر بلاد کے عربی دان پروفیسروں کو بھی مدد کے لئے طلب کر لیں.۱۵؍دسمبر۱۹۰۰ء سے ستر۷۰ دن تک اس کام کے لئے ہم دونوں کو مہلت ہے ایک دن بھی زیادہ نہیں ہوگا.اگر بالمقابل تفسیر لکھنے کے بعد عرب کے تین نامی ادیب ان کی تفسیر کو جامع لوازم بلاغت و فصاحت قرار دیں اور معارف سے پُر خیال کریں تو مَیں پانسو رو ۵۰۰ پیہ نقد ان کو دوں گا.اور تمام اپنی کتابیں جلا دوں گا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا.اور اگر قضیہ برعکس نکلا یا اس مدت تک یعنی ستر۷۰ روز تک وہ کچھ بھی لکھ نہ سکے تو مجھے ایسے لوگوں سے بیعت لینے کی بھی ضرورت نہیں اور نہ روپیہ کی خواہش صرف یہی دکھلاؤں گا کہ کیسے انہوں نے پیر کہلا کر قابل شرم جھوٹ بولا اور کیسے سراسر ظلم اور سفلہ پن اور خیانت سے بعض اخبار والوں نے ان کی اپنی اخباروں میں حمایت کی.مَیں اس کام کو انشاء اللہ تحفہ گولڑویہ کی تکمیل کے بعد شروع کر دوں گااور جو شخص ہم میں سے صادق ہے وہ ہر گز شرمندہ نہیں ہوگا.اب وقت ہے کہ اخباروں والے جنہوں نے بغیر دیکھے بھالے کے ان کی حمایت کی تھی ان کواس کام کیلئے اٹھاویں.ستر۷۰ دن میں یہ بات داخل ہے کہ فریقین کی کتابیں چھپ کر شائع ہو جائیں.منہ
451 کی عادت ایسے نکتہ چینوں کے جواب میں یہی ہے کہ جو لوگ اس کی طرف سے آتے ہیں ایک عجیب طور پر ان کی تائید کرتا ہے اور متواتر آسمانی نشان دکھلاتا ہے یہاں تک کہ دانشمند لوگوں کو اپنی غلطی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے.اور وہ سمجھ لیتے ہیں کہ اگر یہ شخص مفتری اور آلودہ دامن ہوتا تو اس قدر اس کی تائید کیوں ہوتی کیونکہ ممکن نہیں کہ خدا ایک مفتری سے ایسا پیار کرے جیسا کہ وہ اپنے صادق دوستوں سے کرتا رہا ہے.اسی کی طرف اللہ تعالیٰ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے.3.33 ۱.یعنی ہم نے ایک فتح عظیم جو ہماری طرف سے ایک عظیم الشان نشان ہے تجھ کو عطا کی ہے.تاہم وہ تمام گناہ جو تیری طرف منسوب کئے جاتے ہیں اُن پر اس فتح نمایاں کی نورانی چادر ڈال کر نکتہ چینوں کا خطاکار ہونا ثابت کروں.غرض قدیم سے اور جب سے کہ سلسلۂ انبیاء علیہم السلام شروع ہوا ہے سنت اللہ یہی ہے کہ وہ ہزاروں نکتہ چینیوں کا ایک ہی جواب دے دیتا ہے یعنی تائیدی نشانوں سے مقرب ہونا ثابت کر دیتا ہے.تب جیسے نور کے نکلنے اور آفتاب کے طلوع ہونے سے یکلخت تاریکی دُور ہو جاتی ہے ایسا ہی تمام اعتراضات پاش پاش ہو جاتے ہیں.سو مَیں دیکھتا ہوں کہ میری طرف سے بھی خدا یہی جواب دے رہا ہے.اگر مَیں سچ مچ مفتری اور بدکار اور خائن اور دروغگو تھا تو پھر میرے مقابلہ سے ان لوگوں کی جان کیوں نکلتی ہے.بات سہل تھی.* کسی آسمانی نشان کے ذریعہ سے میرا اور اپنا فیصلہ خدا پر مَیں اس مقام تک پہنچا تھا کہ منشی الٰہی بخش اکونٹنٹ کی کتاب عصائے موسیٰ مجھ کو ملی جس میں میری ذاتیات کی نسبت محض سوء ظن سے اور خدا کی بعض سچی اور پاک پیشگوئیوں پر سراسر شتاب کاری سے حملے کئے گئے ہیں.وہ کتاب جب مَیں نے ہاتھ سے چھوڑی تو
452 ڈال دیتے اور پھر خدا کے فعل کو بطورایک حَکم کے فعل کے مان لیتے مگر ان لوگوں کو تو اس قسم کے مقابلہ کا نام سُننے سے بھی موت آتی ہے.مہر علی شاہ گولڑوی کو سچا ماننا اور یہ سمجھ لینا کہ وہ فتح پاکر لاہور سے چلا گیا ہے کیا یہ اس بات پر قوی تھوڑی دیر کے بعد منشی الٰہی بخش صاحب کی نسبت یہ الہام ہوا.یریدون ان یروا طمثک واللّٰہ یرید ان یریک انعامہ.الانعامات المتواترۃ.انت منی بمنزلۃ اولادی.واللّٰہ ولیک وربّک.فقلنا یانارکونی بردا.ان اللّٰہ مع الذین اتقوا والذین ہم یحسنون الحسنٰی.ترجمہ:.یہ لوگ خون حیض تجھ میں دیکھنا چاہتے ہیں یعنی ناپاکی اور پلیدی اور خباثت کی تلاش میں ہیں اور خدا چاہتا ہے کہ اپنی متواتر نعمتیں جو تیرے پر ہیں دکھلاوے.اور خون حیض سے تجھے کیونکر مشابہت ہو اور وہ کہاں تجھ میں باقی ہے.پاک تغیرات نے اس خون کو خوبصورت لڑکا بنا دیا اور وہ لڑکا جو اس خون سے بنا میرے ہاتھ سے پیدا ہوا اس لئے تو مجھ سے بمنزلہ اولاد کے ہے یعنی گو بچوں کا گوشت پوست خون حیض سے ہی پیدا ہوتا ہے مگر وہ خون حیض کی طرح ناپاک نہیں کہلا سکتے.اسی طرح تو بھی انسان کی فطرتی ناپاکی سے جو لازم بشریت ہے اور خون حیض سے مشابہ ہے ترقی کر گیا ہے.اب اس پاک لڑکے میں خون حیض کی تلاش کرنا حمق ہے وہ تو خدا کے ہاتھ سے غلام زکی بن گیا اور اس کے لئے بمنزلہ اولاد کے ہو گیا اور خدا تیرا متولی اور تیرا پرورندہ ہے اس لئے خاص طور پر پدری مشابہت درمیان ہے.جس آگ کو اس کتاب عصائے موسیٰ سے بھڑکانا چاہا ہے ہم نے اس کو بُجھا دیا ہے.خدا پرہیزگاروں کے ساتھ ہے جو نیک کاموں کو پوری خوبصورتی کے ساتھ انجام دیتے ہیں اور تقویٰ کے باریک پہلوؤں کے لحاظ رکھتے ہیں.یعنی وہ لوگ جو بغیر پوری تفتیش کے آیت کریمہ3 ۱ کا مصداق بنتے ہیں خدا ان کے ساتھ نہیں ہے اور ان کیلئے
453 دلیل نہیں ہے کہ ان لوگوں کے دل مسخ ہو گئے ہیں.نہ خدا کا ڈر ہے نہ روز حساب کا کچھ خوف ہے.ان لوگوں کے دل جرأت اور شوخی اور گستاخی سے بھر گئے ہیں.گویا مرنا نہیں ہے.اگر ایمان اور حیا سے کام لیتے تو اُس کارروائی پر نفرین کرتے ویل یعنی جہنم کا وعدہ ہے.افسوس کہ منشی صاحب نے ان بیہودہ نکتہ چینیوں کے پہلے اس آیت پر غور نہیں کی مگر اچھا ہوا کہ انہوں نے باقرار ان کے اس بدگوئی کا خدا تعالیٰ سے دست بدست جواب بھی پا لیا یعنی بار ہا ان کو وہ الہام ہوا جو کتاب عصائے موسیٰ میں درج ہے یعنی انّی مھین لمن اراد اھانتک.یعنی میں تجھے اس شخص کی حمایت میں ذلیل کروں گا جس کی نسبت تیرا خیال ہے جو وہ مجھے ذلیل کرنا چاہتا ہے.یعنی یہ عاجز.اب دیکھو کہ یہ کیسا چمکتا ہوا نشان ہے جس نے آیت3 3 ۱ ۱ کی بلاتوقف تصدیق کر دی.دنیا کے تمام مولویوں سے پوچھ لو کہ اس الہام کے یہی معنے ہیں اور لفظ مھینٌ قائم مقام مھینک کا ہے.اور یہ ایک بڑانشان ہے.اگر منشی الٰہی بخش صاحب خدا سے ڈریں.اہانت کیلئے منشی صاحب کو دو۲ ہی راہ سوجھی ہیں (۱) ایک یہ کہ جس قدر کتابوں کا وعدہ کیا تھا وہ سب شائع نہیں کیں.یہ خیال نہ کیا کہ اگر کچھ دیر ہو گئی تو قرآن شریف بھی تو ۲۳ برس میں ختم ہوا.آپ کو بد نیتی پر کیونکر علم ہو گیا.انسان خدا کی قضاء وقدر کے نیچے ہے و انّما الاعمال بالنیّات.جبکہ یہ بھی بار بار اشتہار دیا گیا کہ جس شتاب کار نے کچھ دیا ہے وہ واپس لے لے تو پھر اعتراض کی کیا گنجائش تھی بجز خبث نفس.(۲) دوسرا یہ اعتراض ہے کہ پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں.اس کا جواب تو یہی ہے کہ لعنۃاللّٰہ علی الکذبین.سو۱۰۰ سے زیادہ پیشگوئی پوری ہو چکی.ہزاروں انسان گواہ ہیں.اور آتھم کی پیشگوئی شرطی تھی اپنی شرط کے موافق پوری ہوئی.بھلا فرمایئے کیا وہ الہام شرطی نہیں تھا.سچ سے انکار کرنا لعنتیوں کا کام ہے.اگر اجتہاد سے ہمارا یہ بھی خیال ہو کہ آتھم میعاد کے اندر مرے گا تو یہ اعتراض صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے
454 جو مہر علی گولڑوی نے میرے مقابل پر کی.کیا مَیں نے اس کو اِس لئے بلایا تھا کہ مَیں اُس سے ایک منقولی بحث کرکے بیعت کر لوں.جس حالت میں مَیں بار بار کہتا ہوں کہ خدا نے مجھے مسیح موعود مقرر کرکے بھیجا ہے اور مجھے بتلا دیا ہے کہ فلاں حدیث سچی ہے اور فلاں جھوٹی ہے اور قرآن کے صحیح معنوں سے مجھے اطلاع بخشی ہے تو پھر مَیں کس بات میں اور کس غرض کے لئے ان لوگوں سے منقولی بحث کروں جبکہ مجھے اپنی وحی پر ایسا ہی ایمان ہے جیسا کہ توریت اور انجیل اور قرآن کریم پر تو کیا انہیں مجھ سے یہ توقع ہو سکتی ہے کہ مَیں اُن کے ظنیات بلکہ موضوعات کے ذخیرہ کو سُن کر اپنے یقین کو چھوڑ دوں جس کی حق الیقین پر بنا ہے اور وہ لوگ بھی اپنی ضد کو چھوڑ نہیں سکتے کیونکہ میرے مقابل پر جھوٹی کتابیں شائع کر چکے ہیں اور اب ان کو رجوع اشدّ من الموت ہے تو پھر ایسی حالت میں بحث سے کونسا فائدہ مترتب ہو سکتا تھا اور جس حالت میں مَیں نے اشتہار دے دیا کہ آئندہ کسی مولوی وغیرہ سے منقولی بحث نہیں کروں گا.تو انصاف اور نیک نیتی کا تقاضا یہ تھا کہ ان منقولی بحثوں کا میرے سامنے نام بھی کہ پہلے آپ اسلام سے مرتد ہو جائیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد بھی حدیث ذھب وھلی کے رو سے غلط نکلا.لہٰذا اس غلطی کی وجہ سے آنحضرت علیہ السلام بھی آپکے اصول کے رو سے کاذب ٹھہرے.پہلے اس سوال کا جواب دو پھر میرے پر اعتراض کرو.اسی طرح احمد بیگ کے داماد کے متعلق بھی شرطی پیشگوئی ہے اگر کچھ ایمان باقی ہے تو کیوں شرط کی انتظار نہیں کرتے اور یہ کیسی دیانت تھی کہ ساری کتاب میں لیکھرام کے متعلق کی پیشگوئی کا ذکر بھی نہیں کیا.کیا وہ پیشگوئی پوری ہوئی یا نہیں؟ کیا احمد بیگ پیشگوئی کے مطابق میعاد کے اندر مر گیایا نہیں؟ ابھی کل کی بات ہے کہ آپ کے معزز دوست ڈپٹی فتح علی شاہ صاحب نے میرے استفسار پر بڑے یقین سے گواہی دی تھی کہ نہایت صفائی سے لیکھرام کے متعلق کی پیشگوئی پوری ہوگئی.اب اسی جماعت میں سے ہو کر آپ تکذیب کرنے لگے.منہ
455 نہ لیتے.کیا.مَیں اپنے عہد کو توڑ سکتا تھا؟ پھر اگر مہر علی شاہ کا دل فاسد نہیں تھا تو اس نے ایسی بحث کی مجھ سے کیوں درخواست کی جس کو مَیں عہد مستحکم کے ساتھ ترک کر بیٹھاتھا اور اس درخواست میں لوگوں کو یہ دھوکا دیا کہ گویا وہ میری دعوت کو قبول کرتا ہے.دیکھو یہ کیسے عجیب مکر سے کام لیا اور اپنے اشتہار میں یہ لکھا کہ اوّل منقولی بحث کرو.اور اگر شیخ محمد حسین بٹالوی اور اس کے دورفیق قسم کھا کر کہہ دیں کہ عقائد صحیح وہی ہیں جو مہر علی شاہ پیش کرتا ہے تو بلا توقف اسی مجلس میں میری بیعت کر لو.اب دیکھو دنیا میں اس سے زیادہ بھی کوئی فریب ہوتا ہے؟ مَیں نے تو اُن کو نشان دیکھنے اور نشان دکھلانے کے لئے بلایا اور یہ کہا کہ بطور اعجاز دونوں فریق قرآن شریف کی کسی سورت کی عربی میں تفسیر لکھیں.اور جس کی تفسیر اور عربی عبارت فصاحت اور بلاغت کے رو سے نشان کی حد تک پہنچی ہوئی ثابت ہووہی موء ید من اللہ سمجھا جائے اور صاف لکھ دیا کہ کوئی منقولی بحثیں نہیں ہوں گی صرف نشان دیکھنے اور دکھلانے کے لئے یہ مقابلہ ہوگا لیکن پیر صاحب نے میری اِس تمام دعوت کو کالعدم کرکے پھر منقولی بحث کی درخواست کر دی.اور اُسی کو مدارفیصلہ ٹھہرا دیا اور لکھ دیا کہ ہم نے آپ کی دعوت منظور کر لی صرف ایک شرط زیادہ لگا دی.اے مکّار! خدا تجھ سے حساب لے.تونے میری شرط کا کیا منظور کیا جبکہ تیری طرف سے منقولی بحث پر بیعت کا مدار ہو گیا جس کو مَیں بوجہ مشتہر کردہ عہد کے کسی طرح منظور نہیں کر سکتا تھا تو میری دعوت کیا قبول کی گئی؟ اور بیعت کے بعد اس پر عمل کرنے کا کونسا موقع رہ گیا.کیا یہ مکر اِس قسم کا ہے کہ لوگوں کو سمجھ نہیں آسکتا تھا.بے شک سمجھ آیا مگر دانستہ سچائی کا خون کر دیا.غرض ان لوگوں کا یہ ایمان ہے.اس قدر ظلم کرکے پھر اپنے اشتہاروں میں ہزاروں گالیاں دیتے ہیں.گویا مرنا نہیں اور کیسی خوشی سے
456 کہتے ہیں کہ مہر علی شاہ صاحب لاہور میں آئے اُن سے مقابلہ نہ کیا.جن دلوں پر خدا لعنت کرے مَیں اُن کا کیا علاج کروں.میرا دل فیصلہ کے لئے دردمند ہے.ایک زمانہ گذر گیا.میری یہ خواہش اب تک پوری نہیں ہوئی کہ ان لوگوں میں سے کوئی راستی اور ایمانداری اور نیک نیتی سے فیصلہ کرنا چاہے مگر افسوس کہ یہ لوگ صدق دل سے میدان میں نہیں آتے.خدا فیصلہ کے لئے طیّار ہے اور اُس اونٹنی کی طرح جو بچہ جننے کے لئے دُم اُٹھاتی ہے زمانہ خود فیصلہ کا تقاضا کر رہا ہے.کاش اِن میں سے کوئی فیصلہ کا طالب ہو.کاش ان میں سے کوئی رشید ہو.مَیں بصیرت سے دعوت کرتا ہوں اور یہ لوگ ظن پر بھروسہ کرکے میرا انکار کر رہے ہیں ان کی نکتہ چینیاں بھی اسی غرض سے ہیں کہ کسی جگہ ہاتھ پڑ جائے.اے نادان قوم! یہ سِلسلہ آسمان سے قائم ہوا ہے.تم خدا سے مت لڑو.تم اس کو نابود نہیں کر سکتے.اس کا ہمیشہ بول بالا ہے.تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟ بجز ان چند حدیثوں کے جو تہتر فرقوں نے بوٹی بوٹی کرکے باہم تقسیم کر رکھی ہیں رؤیت حق اور یقین کہاں ہے؟ اور ایک دوسرے کے مکذّب ہو.کیا ضرور نہ تھا کہ خدا کا حَکَم یعنی فیصلہ کرنے والا تم میں نازل ہو کر تمہاری حدیثوں کے انبار میں سے کچھ لیتا اور کچھ ردّ کر دیتا.سو یہی اس وقت ہوا.وہ شخص حَکَم کس بات کا ہے جو تمہاری سب باتیں مانتا جائے اور کوئی بات ردّ نہ کرے.اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو اور اس سِلسلہ کو بے قدری سے نہ دیکھو جو خدا کی طرف سے تمہاری اصلاح کیلئے پیدا ہوا.اور یقیناً سمجھو کہ اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا اور کوئی پوشیدہ ہاتھ اس کے ساتھ نہ ہوتا تو یہ سلسلہ کب کا تباہ ہو جاتا اور ایسا مفتری ایسی جلدی ہلاک ہو جاتا کہ اب اُس کی ہڈیوں کا بھی پتہ نہ ملتا.سو اپنی مخالفت کے کاروبار میں نظر ثانی کرو.کم سے کم یہ تو سوچو کہ شائد غلطی ہو گئی ہو اور شائد یہ لڑائی تمہاری خدا سے ہو.اور کیوں مجھ پر یہ الزام لگاتے ہو کہ براہین احمدیہ کا روپیہ کھا گیا ہے.* اگر میرے پر تمہارا کچھ حق ہے * منشی الٰہی بخش صاحب نے جھوٹے الزاموں اور بہتان اور خلاف واقعہ کی نجاست سے
457 جس کا ایمانًا تم مواخذہ کر سکتے ہو یا اب تک مَیں نے تمہا را کوئی قرضہ ادا نہیں کیا.یا تم نے اپنا حق مانگا اور میری طرف سے انکار ہوا تو ثبوت پیش کرکے وہ مطالبہ مجھ سے کرو.مثلاً اگر مَیں نے براہین احمدیہ کی قیمت کا روپیہ تم اپنی کتاب عصائے موسیٰ کو ایسا بھر دیا ہے جیسا کہ ایک نالی اور بدر رو گندی کیچڑ سے بھری جاتی ہے یا جیسا کہ سنڈاس پاخانہ سے.اور خدا سے بے خوف ہو کر میری عزت پر افتراکے طور پر سخت دشمنوں کی طرح حملہ کیا ہے وہ یقیناًسمجھ لیں کہ یہ کام انہوں نے اچھا نہیں کیا.اور جو کچھ انہوں نے لکھا ہے ان گالیوں سے زیادہ نہیں جو حضرت موسیٰ کو دی گئیں اور حضرت مسیح کو دی گئیں.اور ہمارے سید صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئیں.افسوس انہوں نے آیت3 ۱ کے ویل کے وعید سے کچھ بھی اندیشہ نہیں کیا.اور نہ انہوں نے آیت 3 ۲ کی بھی کچھ بھی پروا کی.وہ بار بار میری نسبت لکھتے ہیں کہ مَیں نے ان کو تسلی دے دی کہ مَیں آپ کے افترا کی وجہ سے کسی انسانی عدالت میں آپ پر نالش نہیں کروں گا.سو مَیں کہتا ہوں کہ مَیں نہ صرف انسانی عدالت میں نالش (نہ)* کروں گا بلکہ مَیں خدا کی عدالت میں بھی نالش نہیں کرتا.لیکن چونکہ آپ نے محض جھوٹے اور قابل شرم الزام میرے پر لگائے ہیں اور مجھے ناکردہ گناہ دُکھ دیا ہے اس لئے میں ہرگز یقین نہیں رکھتا کہ مَیں اس وقت سے پہلے مروں جب تک کہ میرا قادر خدا ان جھوٹے الزاموں سے مجھے بری کرکے آپ کا کاذب ہونا ثابت نہ کرے.الا ان لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین.اسی کے متعلق قطعی اور یقینی طور پر مجھ کو ۶؍دسمبر۱۹۰۰ء روز پنجشنبہ کو یہ الہام ہوا.’’بر مقام فلک شدہ یارب گر امیدے دہم مدار عجب‘‘ بعد ۱۱.انشاء اللہ تعالیٰ.مَیں نہیں جانتا کہ گیاراں دن ہیں یا گیاراں ہفتہ یا گیاراں مہینے یا گیاراں سال مگر بہر حال ایک نشان میری بریّت کے لئے اس مدت میں ظاہر ہوگا جو آپ کو سخت شرمندہ * ایڈیشن اول میں نہ لکھنے سے رہ گیا ہے(ناشر) ۱ الھمزۃ : ۲ ۲ بنی اسرائیل :
458 سے وصول کیا ہے تو تمہیں خدا تعالیٰ کی قسم ہے جس کے سامنے حاضر کئے جاؤ گے کہ براہین احمدیہ کے وہ چاروں حصے میرے حوالے کرو اور اپنا روپیہ لے لو.دیکھو میں کھول کر یہ اشتہار دیتا ہوں کہ اب اس کے بعد اگر تم براہین احمدیہ کی قیمت کا مطالبہ کرو اور چاروں حصے بطور ویلیو پے ایبل میرے کسی دوست کو دکھا کر میری طرف بھیج دو اور مَیں ان کی قیمت بعد لینے ان ہر چہار حصوں کے ادا نہ کروں تو میرے پر خدا کی لعنت ہو.اور اگر تم اعتراض سے باز نہ آؤ اور نہ کتاب کو واپس کرکے اپنی قیمت لو تو پھر تم پر خدا کی لعنت ہو.اسی طرح ہر ایک حق جو میرے پر ہو ثبوت دینے کے بعد مجھ سے لے لو.اب بتلاؤ اس سے زیادہ مَیں کیا کہہ سکتا ہوں کہ اگر کوئی حق کا مطالبہ کرنے والا یوں نہیں اٹھتا تو مَیں لعنت کے ساتھ اس کو اٹھاتا ہوں اور مَیں پہلے اس سے براہین کی قیمت کے بارے میں تین اشتہار شائع کر چکا ہوں جن کا یہی مضمون تھا کہ مَیں قیمت واپس دینے کو طیّار ہوں.چاہئے کہ میری کتاب کے چاروں حصّے واپس دیں اور جن دراہم معدودہ کے لئے مر رہے ہیں وہ مجھ سے وصول کریں.والسّلام علٰی من اتبع الہدیٰ.المشتھر مرزا غلام احمد قادیانی.۱۵؍دسمبر۱۹۰۰ء کرے گا.خدا کے کلام پر ہنسی نہ کرو.پہاڑ ٹل جاتے ہیں.دریا خشک ہو سکتے ہیں.موسم بدل جاتے ہیں مگر خدا کا کلام نہیں بدلتا جب تک پورا نہ ہولے.اور منکر کہتا ہے کہ فلاں پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.اے سخت دل خدا سے شرم کر، وہ تمام پیشگوئیاں پوری ہو گئیں اور یہ زمانہ نہیں گذرے گا جب تک باقی ماندہ حصہ پورا نہ ہو جائے.اب تک سو۱۰۰ سے زیادہ پیشگوئیاں دنیا نے دیکھ لیں.کیوں حیاکو ترک کرتے اور انصاف کو چھوڑتے ہو.منہ
459 اسلا م کے لئے ایک رُوحانی مقابلہ کی ضرورت ایّہا الناظرین! انصافاً اور ایماناً سوچو کہ آج کل اسلام کیسے تنزّل کی حالت میں ہے اور جس طرح ایک بچہ بھیڑیئے کے مُنہ میں ایک خطرناک حالت میں ہوتا ہے یہی حالت ان دنوں میں اسلام کی ہے اور دو۲ آفتوں کا سامنا اس کو پیش آیا ہے (۱) ایک تو اندرونی کہ تفرقہ اور باہمی نفاق حد سے زیادہ بڑھ گیا ہے اور ایک فرقہ دوسرے فرقہ پر دانت پیس رہا ہے (۲) دوسرے بیرونی حملے دلائل باطلہ کے رنگ میں اس زور شور سے ہو رہے ہیں کہ جب سے آدم پیدا ہوا یا یوں کہو کہ جب سے نبوت کی بنیاد پڑی ہے ان حملوں کی نظیر دنیا میں نہیں پائی جا تی.اسلام وہ مذہب تھا جس میں ایک آدمی کے مرتد ہو جانے سے قوم اسلام میں نمونہ محشر
460 برپا ہوتا تھا اور غیر ممکن سمجھا گیا تھا کہ کوئی شخص حلاوتِ اسلام چکھ کر پھر مرتد ہو جائے.اور اب اسی ملک برٹش انڈیا میں ہزارہا مرتد پاؤ گے بلکہ ایسے بھی جنہوں نے اسلام کی توہین اور رسول کریم کی سبّ و شتم میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی.پھر آج کل علاوہ اس کے یہ آفت برپا ہو گئی ہے کہ جب عین صدی کے سرپر خدا تعالیٰ نے تجدید* اور اس حدیث کو تمام اکابر اہل سنت مانتے چلے آئے ہیں کہ ہر یک صدی کے سر پر مجدّد پیدا ہوگا مگر مجدّدین کے نام جو پیش کرتے ہیں یہ تصریح اور تعیین وحی کے رو سے نہیں صرف اجتہادی خیال ہے.اور وہ نشان جو خدا نے میرے ہاتھ پر ظاہر فرمائے وہ سو۱۰۰ سے بھی زیادہ ہیں جو کتاب تریاق القلوب میں درج کئے گئے ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے مخالف اُن پہلے منکروں کی طرح بن گئے ہیں جو بار بار حدیبیّہ کے متعلق کی پیشگوئی کو پیش کرتے تھے یا اُن یہود کی طرح جو حضرت مسیح کی تکذیب کے لئے اب تک یہ ان کی پیشگوئیاں پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا تھا کہ مَیں داؤد کا تخت قائم کروں گااور نیز یہ پیشگوئی کی تھی کہ ابھی بعض لوگ زندہ ہوں گے جو مَیں واپس آؤں گا.ایسا ہی یہ لوگ بھی اُن تمام پیشگوئیوں پر نظر نہیں ڈالتے جو ایک سو۱۰۰ سے بھی زیادہ پوری ہو چکی ہیں اور ملک میں شائع ہو چکیں.اور جو ایک دو پیشگوئی بباعث ان کی غباوت اور کمی توجہ کے ان کو سمجھ نہیں آئیں بار بار انہیں کاراگ گاتے رہتے ہیں.نہیں سوچتے کہ اگر اس طور پر تکذیب جائز ہے تو اس صورت میں یہ اعتراض تمام نبیوں پر ہوگا اور ان کی پیشگوئیوں پر ایمان لانے کی راہ بند ہو جائے گی.مثلاً جو شخص آتھم کی پیشگوئی یا احمد بیگ کے داماد کی پیشگوئی پر اعتراض کرتا ہے کیا وہ حدیبیّہ کے متعلق کی پیشگوئی کو بھول گیا ہے جس پر یقین کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر کثیر کے ساتھ مکہ معظمہ کا سفر اختیار فرمایا تھا.اور کیا یونس نبی کی پیشگوئی چالیس۴۰ دن والی یاد نہیں رہی.افسوس کہ میری تکذیب کی وجہ سے مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کی پیشگوئی کی بھی خوب عزت کی کہ قادیاں پر نور نازل ہوا اور وہ نور مرزا غلام احمدؐ ہے جس سے میری اولاد محروم رہ گئی (اولاد میں مرید بھی داخل ہیں) اور پھر جس حالت میں موت کی پیشگوئیاں صرف ایک نہیں چار پیشگوئیاں ہیں (۱) آتھم کی نسبت (۲) لیکھرام کی نسبت (۳) احمد بیگ کی نسبت (۴) احمد بیگ
461 اصلاح کے لئے اور خدمات ضرور یہ کے مناسب حال ایک بندہ بھیجا اور اُس کا نام مسیح موعود رکھا.یہ خدا کا فعل تھا جو عین ضرورت کے دنوں میں ظہور میں آیا اور آسمان نے اس پر گواہی دی.اور بہت سے نشان ظہور میں آئے لیکن تب بھی اکثر مسلمانوں نے اس کو قبول نہ کیا بلکہ اس کا نام کافر اور دجال اور بے ایمان اور مکّار اور خائن اور دروغگو اور عہد شکن اور مال خور اور ظالم اور لوگوں کے حقوق دبانے والا اور انگریزوں کی خوشامد کرنے والا رکھا.اور جو چاہا اس کے ساتھ سلوک کیا اور بہتوں نے یہ عذر پیش کیا کہ جو الہامات اس شخص کو ہوتے ہیں وہ سب شیطانی ہیں یا اپنے نفس کا افتراہے.اور یہ بھی کہا کہ کے داماد کی نسبت اور چار میں سے تین مر گئے اور ایک باقی ہے جس کی نسبت شرطی پیشگوئی ہے جیسا کہ آتھم کی شرطی تھی.اب بار بار شور مچانا کہ یہ چوتھی بھی کیوں جلدی پوری نہیں ہوتی.اور اس وجہ سے تمام پیشگوئیوں کی تکذیب کرنا کیا یہ ان لوگوں کا کام ہے جو خدا سے ڈرتے ہیں؟ اے متعصب لوگو! اس قدر جھوٹ بولنا تمہیں کس نے سکھایا؟ ایک مجلس مثلاً بٹالہ میں مقرر کرو اور پھر شیطانی جذبات سے دور ہو کر میری تقریر سنو.پھر اگر ثابت ہو کہ میری سو۱۰۰ پیشگوئی میں سے ایک بھی جھوٹی نکلی ہو تو مَیں اقرار کروں گا کہ مَیں کاذب ہوں اور اگر یوں بھی خدا سے لڑنا ہے تو صبر کرو اور اپنا انجام دیکھو.منہ
462 ہم بھی خدا سے الہام پاتے ہیں اور خدا ہمیں بتلاتا ہے کہ یہ شخص درحقیقت کافر اور دجّال اور دروغ گو اور بے ایمان اور جہنمی ہے.* چنانچہ * منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ نے جو دعویٰ الہام کرتے ہیں حال میں ایک کتاب تالیف کی ہے جس کا نام عصائے موسیٰ رکھا ہے جس میں اشارۃً مجھ کو فرعون قرار دیا ہے اور اپنی اس کتاب میں بہت سے الہام ایسے پیش کئے ہیں جن کا یہ مطلب ہے کہ یہ شخص کذّاب ہے اور اس کو منجانب اللہ جاننے والے اور اس کے دعویٰ کی تصدیق کرنے والے گدھے ہیں.چنانچہ یہ الہام بھی ہے کہ عیسیٰ نتواں گشت بتصدیق خرے چند.صلوٰۃ برا نکس کہ ایں ورد بگوید.اس کے جواب میں بالفعل اس قدر لکھنا کافی ہے کہ اگر میرے مصدقین گدھے ہیں تو منشی صاحب پر بڑی مصیبت پڑے گی کیونکہ اُن کے استاد اور مرشد جن کی بیعت سے ان کو بڑا فخر ہے میری نسبت گواہی دے گئے ہیں کہ وہ خدا کی طرف سے اور آسمانی نور ہے.اگرچہ اس بارے میں انہوں نے ایک اپنا الہام مجھے بھی لکھا تھا لیکن میری شہادت یہ لوگ کب قبول کریں گے اس لئے مَیں عبد اللہ صاحب کے اس بیان کی تصدیق کے لئے وہ دو گواہ پیش کرتا ہوں جو منشی صاحب کے دوستوں میں سے ہیں (۱) ایک حافظ محمد یوسف صاحب جو منشی الٰہی بخش صاحب کے دوست ہیں.ممکن تھا کہ حافظ صاحب منشی صاحب کی دوستی کے لحاظ سے اس گواہی سے انکار کریں لیکن ہمیں ان کو قائل کرنے کیلئے وہ ثبوت مل گیا ہے جس سے وہ اب قابو میں آگئے ہیں.عین مجلس میں وہ ثبوت پیش کیا جائے گا (۲) دوسرا گواہ اس بارے میں اُن کے بھائی منشی محمد یعقوب ہیں.ان کی بھی دستخطی تحریر موجود ہے.اب منشی الٰہی بخش صاحب کا فرض ہے کہ ایک جلسہ کرکے اور ان دونوں صاحبوں کو اُس جلسہ میں بُلا کر میرے روبرو یا کسی ایسے شخص کے روبرو جو مَیں اس کو اپنی جگہ مقرر کروں حافظ صاحب اور منشی یعقوب صاحب سے یہ شہادت حلفاً دریافت کریں.اور اگر حافظ صاحب نے ایمان کو خیر باد کہہ کر انکار کیا تو اس ثبوت کو دیکھیں جو ہماری طرف سے پیش ہوگا اور پھر آپ ہی انصاف کر لیں.اسی پر منشی صاحب کے تمام الہامات پر قیاس کر لیا جائے گا جب کہ ان کے پہلے الہام نے ہی مرشد کی پگڑی اتاری اور ان کا نام خر رکھا بلکہ سب خروں سے زیادہ کیونکہ وہی تو اول المصدقین ہیں تو پھر دوسروں کی حقیقت خود سمجھ لو.ہاں وہ جواب دے سکتے ہیں کہ میرے الہام نے جیسا کہ میرے مرشد پر حملہ کرکے اس کو بے عزت کیا ایسا ہی میری عزت بھی تو اس سے محفوظ نہیں رہی کیونکہ وہ الہام جو انہوں نے اپنی کتاب عصا ئے موسیٰ کے صفحہ ۳۵۵
463 جن لوگوں کو یہ الہام ہوا ہے وہ چار سے بھی زیادہ ہوں گے.غرض تکفیر کے الہامات یہ ہیں.اور تصدیق کے لئے میرے وہ مکالمات اور مخاطبات الٰہیہ ہیں جن میں سے کسی قدر بطور نمونہ اس رسالہ میں لکھے گئے ہیں.اور علاوہ اس کے بعض واصلانِ حق نے میرے زمانہ بلوغ سے بھی پہلے میرا اور میرے گاؤں کا نام لے کر میری نسبت پیشگوئی کی ہے کہ وہی مسیح موعود ہے.اور بہتوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم نے خواب میں دیکھا اور آپ نے فرمایا کہ یہ شخص حق پر ہے اور ہماری طرف سے ہے.چنانچہ پِیر جھنڈے وا لا سندھی نے جن کے مرید لاکھ سے بھی کچھ زیادہ ہوں گے یہی اپنا کشف اپنے مریدوں میں شائع کیا.اور دیگر صالح لوگوں نے بھی دو سو مرتبہ سے میں لکھا ہے یعنی انّی مھین لمن اراد اھانتک جو بوجہ صلہ لام کے اس جگہ بموجب قاعدہ نحو کے فریق مقابل کو حق انتفاع بخشتا ہے اس کے یہ معنے ہوتے ہیں جو مَیں تیرے مخالف کی تائید اور نصرت کے لئے تجھے ذلیل کروں گا اور رسوا کروں گا.اور اگر کہو کہ اس میں سہو کاتب ہے اور دراصل لام نہیں ہے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہی الہام اس کتاب میں کئی جگہ لام کے ساتھ بار بار آیا ہے.بلکہ کتاب کے اول میں بھی اور آخرمیں بھی اور ممکن نہیں کہ ہر جگہ سہو کاتب ہو.غرض یہ خوب الہامات ہیں جو کبھی مولوی عبد اللہ صاحب کو جا پکڑتے ہیں اور کبھی خود ملہم صاحب کو اہانت کا وعدہ دیتے ہیں.منہ
464 بھی کچھ زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف لفظوں میں اس عاجز کے مسیح موعود ہونے کی تصدیق کی اور ایک شخص حافظ محمد یوسف نام نے جو ضلع دار نہر ہیں بلاواسطہ مجھ کو یہ خبر دی* کہ مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی نے خواب میں دیکھا کہ ایک نور آسمان سے قادیاں پر گرا (یعنی اس عاجز پر) اور فرمایا کہ میری اولاد اُس نور سے محروم رہ گئی.یہ حافظ محمد یوسف صاحب کا بیان ہے جس کو مَیں نے بلا کم و بیش لکھ دیا.ولعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین.اور اِس پر اور دلیل یہ ہے کہ یہی بیان دوسرے پیرایہ اور ایک دوسری تقریب کے وقت عبد اللہ صاحب موصوف غزنوی نے حافظ محمد یوسف صاحب کے حقیقی بھائی منشی محمد یعقوب صاحب کے پاس کیا اور اس بیان میں میرا نام لے کر * حافظ محمد یوسف صاحب ضلع دار نہر نے بہت سے لوگوں کے پاس مولوی عبد اللہ صاحب کے اس کشف کا ذکر کیا تھا ایسے ثبوت بہم پہنچ گئے ہیں کہ اب حافظ صاحب کو مجال گریز نہیں.حافظ صاحب کی اب آخری عمر ہے اب ان کے دیانت اور تقویٰ آزمانے کے لئے ایک مدت کے بعد ہمیں موقع ملا ہے.منہ
465 کہا کہ دُنیا کی اصلاح کے لئے جو مجدد آنے والا تھا وہ میرے خیال میں مرزا غلام احمدؐ ہے.یہ لفظ ایک خواب کی تعبیر میں فرمایا اور کہا کہ شائد* اس نور سے مراد جو آسمان سے اترتا دیکھا گیا مرزا غلام احمد ہے.یہ دونوں صاحب زندہ موجود ہیں اور دوسرے صاحب کی دستی تحریر اس بارے میں میرے پاس موجود ہے.اب بتلاؤ کہ ایک فریق تو مجھے کافر کہتا ہے اور دجّال نام رکھتا ہے اور اپنے مخالفانہ الہام سُناتا ہے جن میں سے منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ ہیں جو مولوی عبد اللہ صاحب کے مرید ہیں.اور دوسرا فریق مجھے آسمان کا نور سمجھتا ہے اور اس بارے میں اپنے کشف ظاہر کرتا ہے جیسا کہ منشی الٰہی بخش صاحب * یاد رہے کہ جب منشی محمد یعقوب صاحب برادر حقیقی حافظ محمد یوسف صاحب نے بمقام امرتسر بتقریب مباہلہ عبد الحق غزنوی مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کا یہ بیان لوگوں کو سُنایا تھا جو چار سو ۴۰۰ کے قریب آدمی ہوں گے اُس وقت انہوں نے شائد کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا بلکہ رو رو کر اسی حالت میں کہ ان کا منہ آنسوؤں سے تر تھا یقینی اور قطعی الفاظ میں بیان کیا تھا کہ مولوی عبد اللہ صاحب نے میری بیوی کی خواب سن کر فرمایا تھا کہ وہ نور جو خواب میں دیکھا گیا کہ آسمان سے نازل ہوا اور دنیا کو روشن کر دیا وہ مرزا غلام احمد ؐ قادیانی ہے.منہ
466 کامرشد مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی اور پِیر صَاحِبُ العَلَم ہیں.اب کس قدر اندھیر کی بات ہے کہ مرشد خدا سے الہام پاکر میری تصدیق کرتا ہے.اور مرید مجھے کافر ٹھہراتا ہے.کیا یہ سخت فتنہ نہیں ہے؟ کیا ضروری نہیں کہ اس فتنہ کو کسی تدبیر سے درمیان سے اٹھایا جائے؟ اور وہ یہ طریق ہے کہ اوّل ہم اس بزرگ کو مخاطب کرتے ہیں جس نے اپنے بزرگ مرشد کی مخالفت کی ہے یعنی منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ کو.اور ان کے لئے دو طور پر طریق تصفیہ قرار دیتے ہیں.اوّل یہ کہ ایک مجلس میں ان ہر دو گواہوں سے میری حاضری میں یا میرے کسی وکیل کی حاضری میں مولوی عبداللہ صاحب کی روایت کو دریافت کر لیں اور استاد کی عزت کا لحاظ کرکے اس کی گواہی کو قبول کریں.اور پھر اس کے بعد اپنی کتاب عصائے موسیٰ کو مع اس کی تمام نکتہ چینیوں کے کسی ردّی میں پھینک دیں.* کیونکہ جبکہ منشی الٰہی بخش صاحب کو الہام ہو چکے ہیں کہ مولوی عبد اللہ صاحب کی مخالفت ضلالت ہے تو ان کو چاہئے کہ اپنے اس الہام سے ڈریں اور لا تکونوا اوّل کافربہٖ کا مصداق نہ بنیں.اور حافظ
467 مرشد کی مخالفت آثار سعادت کے برخلاف ہے.اور اگر وہ اب مرشد سے عقوق اختیار کرتے ہیں اور عاق شدہ فرزندوں کی طرح مقابلہ پر آتے ہیں تو وہ تو فوت ہو گئے ان کی جگہ مجھے مخاطب کریں اور کسی آسمانی طریق سے میرے ساتھ فیصلہ کریں مگر پہلی شرط یہ ہے کہ اگر مرشد کی ہدایت سے سرکش ہیں تو ایک چھپا ہوا اشتہار شائع کر دیں کہ مَیں عبداللہ صاحب کے کشف اور الہام کو کچھ چیز نہیں سمجھتا اور اپنی باتوں کو مقدّم رکھتا ہوں اس طریق سے فیصلہ ہو جائے گا.مَیں اِس فیصلہ کے لئے حاضر ہوں.جواب باصواب دو ہفتہ تک آنا چاہیئے مگر چھپا ہوا اشتہار ہو.والسّلام علٰی من اتبع الھدٰی خاکسار مرزا غلام احمد از قادیاں۱۵؍دسمبر۱۹۰۰ء محمد یوسف صاحب کے کسی غائبانہ انکار پر بھروسہ نہ کر بیٹھیں.حافظ صاحب کی ایک مضبوط کل ہمارے ہاتھ میں آگئی ہے اوّل ہم ان کو ایک مجلس میں قسم دیں گے اور پھر وہ قطعی ثبوت کی حقیقت ظاہر کریں گے پھر منشی الٰہی بخش صاحب اپنی کتاب عصائے موسیٰ میں مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی نسبت لکھتے ہیں کہ وہ بڑے بزرگ صاحب انفاس اور صاحب کشف اور الہام تھے ان کی صحبت میں تاثیرات تھیں ہم اُن کے ادنیٰ غلام ہیں.مَیں کہتا ہوں کہ جبکہ وہ ایسے بزرگ تھے اور آپ ان کے ادنیٰ مرید ہیں تو آپ کیوں ایسے بزرگ پر ہاتھ صاف کرنے لگے.تعجب کہ وہ یہ کہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی نور آسمانی ہے.اور اِس طرح پر وہ میری تصدیق کریں اور آپ یہ الہام پیش کریں کہ موسیٰ۱ نتواں گشت بتصدیق خرے چند.اب آپ ہی بتلاویں جو شخص اپنے ایسے مرشد کو گدہا قرار دے وہ کیسا ہے اور اس کا یہ الہام کس قسم کا ہے؟ شرم! شرم!! شرم!!!منہ ۱ سہو کاتب معلوم ہوتا ہے.دراصل لفظ عیسیٰ ہوگا.
468 ضمیمہ اربعین نمبر۳ و ۴ 3 نحمدہ و نصلّی درد دل سے ایک دعوت قوم کو مَیں نے اپنا رسالہ اربعین اس لئے شائع کیا ہے کہ مجھ کو کاذب اور مفتری کہنے والے سوچیں کہ یہ ہر ایک پہلو سے فضل خدا کا جو مجھ پر ہے ممکن نہیں کہ بجز نہایت درجہ کے مقرب اللہ کے کسی معمولی ملہم پر بھی ہو سکے چہ جائے کہ نعوذ باللہ ایک مفتری بدکردار کو یہ شان اور مرتبہ حاصل ہو.اے میری قوم! خدا تیرے پر رحم کرے.خدا تیری آنکھیں کھولے یقین کر کہ مَیں مفتری نہیں ہوں.خدا کی ساری پاک کتابیں گواہی دیتی ہیں کہ مفتری جلد ہلاک کیا جاتا ہے اس کو وہ عمر ہرگز نہیں ملتی جو صادق کو مل سکتی ہے.تمام صادقوں کا بادشاہ ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے اس کو وحی پانے کے لئے تیئیس برس کی عمر ملی.یہ عمر قیامت تک صادقوں کا پیمانہ ہے.اور ہزاروں لعنتیں خدا کی اور فرشتوں کی اور خدا کے پاک بندوں کی اُس شخص پر ہیں جو اس پاک پیمانہ میں کسی خبیث مفتری کو شریک سمجھتا ہے.اگر قرآن کریم میں آیت لو تقوّل بھی نازل نہ ہوتی اور اگر خدا کے تمام پاک نبیوں نے نہ فرمایا ہوتا کہ صادقوں کا پیمانہ عمر وحی پانے کا کاذب کو نہیں مِلتا تب بھی ایک سچے مسلمان کی وہ محبت جو اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہونی چاہئے کبھی اس کو اجازت نہ دیتی
469 کہ وہ یہ بے باکی اور بے ادبی کا کلمہ منہ پر لا سکتا کہ یہ پیمانہ وحی نبوت یعنی تیئیس برس جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا یہ کاذب کو بھی مل سکتا ہے.پھر جس حالت میں قرآن شریف نے صاف لفظوں میں فرما دیا کہ اگر یہ نبی کاذب ہوتا تو یہ پیمانہ عمر وحی پانے کا اس کو عطا نہ ہوتا.اور توریت نے بھی یہی گواہی دی اور انجیل نے بھی یہی، تو پھر کیسا اسلام اور کیسی مسلمانی ہے کہ ان تمام گواہیوں کو صرف میرے بغض کے لئے ایک ردّی چیز کی طرح پھینک دیا گیا اور خدا کے پاک قول کا کچھ بھی لحاظ نہ کیا.مَیں سمجھ نہیں سکتا کہ یہ کیسی ایمانداری ہے کہ ہر ایک ثبوت جو پیش کیا جاتا ہے اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور وہ اعتراضات بار بار پیش کرتے ہیں جن کا صدہا مرتبہ جواب دیا گیا ہے اور جو صرف میرے پر ہی نہیں ہیں بلکہ اگر اعتراض ایسی باتوں کا ہی نام ہے جو میری نسبت بطور نکتہ چینی ان کے منہ سے نکلتے ہیں تو اُن میں تمام نبی شریک ہیں.میری نسبت جو کچھ کہا جاتا ہے پہلے سب کچھ کہا گیا ہے.ہائے! یہ قوم نہیں سوچتی کہ اگر یہ کاروبار خدا کی طرف سے نہیں تھا تو کیوں عین صدی کے سر پر اس کی بنیاد ڈالی گئی اور پھر کوئی بتلا نہ سکا کہ تم جھوٹے ہو اور سچا فلاں آدمی ہے.ہائے یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ اگر مہدی معہو د موجود نہیں تھا تو کس کے لئے آسمان نے خسوف کسوف کا معجزہ دکھلایا.افسوس یہ بھی نہیں دیکھتے کہ یہ دعویٰ بے وقت نہیں.اسلام اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر فریاد کر رہا تھا کہ میں مظلوم ہوں اور اب وقت ہے کہ آسمان سے میری نصرت ہو.تیرھویں صدی میں ہی دل بول اٹھے تھے کہ چودھویں صدی میں ضرور خدا کی نصرت اور مدد آئے گی.بہت سے لوگ قبروں میں جا سوئے جو رو رو کر اس صدی کی انتظار کرتے تھے.اور جب خدا کی طرف سے ایک شخص بھیجا گیا تو محض اس خیال سے کہ اس نے موجودہ مولویوں کی ساری باتیں تسلیم نہیں کیں اُس کے
470 دشمن ہو گئے مگر ہر ایک خدا کا فرستادہ جو بھیجا جاتا ہے ضرور ایک ابتلا ساتھ لاتا ہے.حضرت عیسیٰ جب آئے تو بد قسمت یہودیوں کو یہ ابتلا پیش آگیا کہ ایلیا دوبارہ آسمان سے نازل نہیں ہوا.اور ضرور تھا کہ پہلے ایلیا آسمان سے نازل ہوتا تب مسیح آتا جیسا کہ ملا کی نبی کی کتاب میں لکھا ہے.اور جب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو اہل کتاب کو یہ ابتلا پیش آیا کہ یہ نبی بنی اسرائیل میں سے نہیں آیا.اب کیا ضرور نہ تھا کہ مسیح موعود کے ظہور کے وقت بھی کوئی ابتلا ہو.اور اگر مسیح موعود تمام باتیں اسلام کے تہتّر فرقہ کی مان لیتا تو پھر کن معنوں سے اس کا نام حَکَم رکھا جاتا.کیا وہ باتوں کو ماننے آیا تھا یا منوانے آیا تھا؟ تو اس صورت میں اس کا آنا بھی بے سود تھا.سو اے قوم! تم ضد نہ کرو.ہزاروں باتیں ہوتی ہیں جو قبل از وقت سمجھ نہیں آتیں.ایلیا کے دوبارہ آنے کی اصل حقیقت حضرت مسیح سے پہلے کوئی نبی سمجھا نہ سکا تا یہود حضرت مسیح کے ماننے کے لئے طیّار ہو جاتے.ایسا ہی اسرائیلی خاندان میں سے خاتم الانبیاء آنے کا خیال جو یہود کے دل میں مرکوز تھا اس خیال کو بھی کوئی نبی پہلے نبیوں میں سے صفائی کے ساتھ دُور نہ کر سکا.اِسی طرح مسیح موعود کا مسئلہ بھی مخفی چلا آیا تا سنت اللہ کے موافق اس میں بھی ابتلا ہو.بہتر تھا کہ میرے مخالف اگر ان کو ماننے کی توفیق نہیں دی گئی تھی تو بارے کچھ مدّت زبان بند رکھ کر اور کف لسان اختیار کرکے میرے انجام کو دیکھتے اب جس قدر عوام نے بھی گالیاں دیں یہ سب گناہ مولویوں کی گردن پر ہے.افسوس یہ لوگ فراست سے بھی کام نہیں لیتے.مَیں ایک دائم المرض آدمی ہوں اور وہ دو زرد چادریں جن کے بارے میں حدیثوں میں ذکر ہے کہ ان دو چادروں میں مسیح نازل ہوگا وہ دو۲ زرد چادریں میرے شامل حال ہیں جن کی تعبیر علم تعبیر الرؤیا کے رُو سے دو بیماریاں ہیں.سو ایک چادر میرے اوپر کے حصہ میں ہے کہ ہمیشہ سردرد اور
471 دوران سر اور کمیء خواب اور تشنج دل کی بیماری دورہ کے ساتھ آتی ہے.اور دوسری چادر جو میرے نیچے کے حصّہ بدن میں ہے وہ بیماری ذیابیطس ہے کہ ایک مدت سے دامنگیر ہے اور بسا اوقات سو۱۰۰ سو۱۰۰ دفعہ رات کو یا دن کو پیشاب آتا ہے اور اس قدر کثرت پیشاب سے جس قدر عوارض ضعف وغیرہ ہوتے ہیں وہ سب میرے شامل حال رہتے ہیں.بسا اوقات میرا یہ حال ہوتا ہے کہ نماز کے لئے جب زینہ چڑھ کر اوپر جاتا ہوں تو مجھے اپنی ظاہر حالت پر امید نہیں ہوتی کہ زینہ کی ایک سیڑھی سے دوسری سیڑھی پر پاؤں رکھتے تک مَیں زندہ رہوں گا.اب جس شخص کی زندگی کا یہ حال ہے کہ ہر روز موت کا سامنا اس کے لئے موجود ہوتا ہے اور ایسے مرضوں کے انجام کی نظیریں بھی موجود ہیں تو وہ ایسی خطرناک حالت کے ساتھ کیونکر افتراپر جرأت کر سکتا ہے اور وہ کس صحت کے بھروسے پر کہتا ہے کہ میری اَسّی برس کی عمر ہوگی حالانکہ ڈاکٹری تجارب تو اس کو موت کے پنجہ میں ہر وقت پھنسا ہوا خیال کرتے ہیں.ایسی مرضوں والے مدقوق کی طرح گداز ہو کر جلد مر جاتے ہیں یا کاربینکل یعنی سرطان سے اُن کا خاتمہ ہو جاتا ہے تو پھر جس زورسے میں ایسی حالت پُر خطر میں تبلیغ میں مشغول ہوں کیا کسی مفتری کا کام ہے.جب مَیں بدن کے اوپر کے حصہ میں ایک بیماری.اور بدن کے نیچے کے حصّے میں ایک دوسری بیماری دیکھتا ہوں تو میرا دل محسوس کرتا ہے کہ یہ وہی دوچادریں ہیں جن کی خبر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے.مَیں محض نصیحتًا لِلّٰہ مخالف علماء اور ان کے ہم خیال لوگوں کو کہتا ہوں کہ گالیاں دینا اور بدزبانی کرنا طریق شرافت نہیں ہے.اگر آپ لوگوں کی یہی طینت ہے تو خیر آپ کی مرضی.لیکن اگر مجھے آپ لوگ کاذب سمجھتے ہیں تو آپ کو یہ بھی تو اختیار ہے کہ مساجد میں اکٹھے ہو کر یا الگ الگ میرے پر بددعائیں کریں
472 اور رو رو کر میرا استیصال چاہیں پھر اگر مَیں کاذب ہوں گا تو ضرور وہ دُعائیں قبول ہو جائیں گی اور آپ لوگ ہمیشہ دعائیں کرتے بھی ہیں.لیکن یاد رکھیں کہ اگر آپ اس قدر دعائیں کریں کہ زبانوں میں زخم پڑ جائیں اور اس قدر رو رو کر سجدوں میں گِریں کہ ناک گِھس جائیں اور آنسوؤں سے آنکھوں کے حلقے گل جائیں اور پلکیں جھڑ جائیں اور کثرت گر یہ وزاری سے بینائی کم ہو جائے اور آخر دما غ خالی ہو کر مرگی پڑنے لگے یا مالیخولیا ہو جائے تب بھی وہ دعائیں سُنی نہیں جائیں گی کیونکہ مَیں خدا سے آیا ہوں.جو شخص میرے پر بد دُعا کرے گا وہ بد دُعا اُسی پر پڑے گی جو شخص میری نسبت یہ کہتا ہے کہ اُس پر لعنت ہو وہ لعنت اس کے دل پر پڑتی ہے مگرا س کو خبر نہیں.اور جو شخص میرے ساتھ اپنی کشتی قرار دے کر یہ دُعائیں کرتا ہے کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرے اس کا نتیجہ وہی ہے جو مولوی غلام دستگیر قصوری نے دیکھ لیا کیونکہ اُس نے عام طور پر شائع کر دیا تھا کہ مرزا غلام احمد اگر جھوٹا ہے اور ضرور جھوٹا ہے تو وہ مجھ سے پہلے مرے گا اور اگر مَیں جھوٹا ہوں تو مَیں پہلے مر جاؤں گا.اور یہی دُعا بھی کی تو پھر آپ ہی چند روز کے بعد مر گیا.اگر وہ کتاب چھپ کر شائع نہ ہو جاتی تو اس واقعہ پر کون اعتبار کر سکتا مگر اب تو وہ اپنی موت سے میری سچائی کی گواہی دے گیا.پس ہر ایک شخص جو ایسا مقابلہ کرے گا اور ایسے طور کی دُعا کرے گا تو وہ ضرور غلام دستگیر کی طرح میری سچائی کا گواہ بن جائے گا.بھلا سوچنے کا مقام ہے کہ اگر لیکھرام کے مارے جانے کی نسبت بعض شریروں ظالم طبع نے میری جماعت کو اُس کا قاتل قرار دیا ہے حالانکہ وہ ایک بڑا نشان تھا جو ظہور میں آیا اور ایک میری پیشگوئی تھی جو پوری ہوئی تو یہ تو بتلا ویں کہ مولوی غلام دستگیر کو میری جماعت میں سے کس نے مارا؟ کیا یہ سچ نہیں کہ وہ بغیر میری درخواست کے آپ ہی ایسی دعا کرکے دنیا سے کوچ کر گیا کوئی زمین پر مر نہیں سکتا جب تک آسمان پر نہ مارا جائے.میری رُوح میں وہی
473 سچائی ہے جو ابراہیم علیہ السلام کو دی گئی تھی.مجھے خدا سے ابراہیمی نسبت ہے کوئی میرے بھید کو نہیں جانتا مگر میرا خدا.مخالف لوگ عبث اپنے تئیں تباہ کر رہے ہیں.مَیں وہ پودا نہیں ہوں کہ ان کے ہاتھ سے اکھڑ سکوں.اگر ان کے پہلے اور ان کے پچھلے اور ان کے زندے اور ان کے مُردے تمام جمع ہو جائیں اور میرے مارنے کے لئے دعائیں کریں تو میرا خدا ان تمام دعاؤں کو لعنت کی شکل پر بنا کر اُن کے منہ پر مارے گا.دیکھو صدہا دانشمند آدمی آپ لوگوں کی جماعت میں سے نکل کر ہماری جماعت میں ملتے جاتے ہیں.آسمان پر ایک شور برپا ہے اور فرشتے پاک دلوں کو کھینچ کر اس طرف لا رہے ہیں.اب اس آسمانی کارروائی کو کیا انسان روک سکتا ہے؟ بھلا اگر کچھ طاقت ہے تو روکو.وہ تمام مکرو فریب جو نبیوں کے مخالف کرتے رہے ہیں وہ سب کرو اور کوئی تدبیر اٹھا نہ رکھو.ناخنوں تک زور لگاؤ.اتنی بد دعائیں کرو کہ موت تک پہنچ جاؤ پھر دیکھو کہ کیا بگاڑ سکتے ہو؟ خدا کے آسمانی نشان بارش کی طرح برس رہے ہیں مگر بد قسمت انسان دُور سے اعتراض کرتے ہیں.جن دلوں پر مہریں ہیں ان کاہم کیا علاج کریں.اے خدا! تو اس اُمت پر رحم کر.آمین.المشتھر خاکسار مرزا غلام احمد از قادیاں ۲۹؍دسمبر۱۹۰۰ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیاں
474 تتمہ اربعین اِس پیشگوئی مندرجہ ذیل کو جب اصل عبرانی میں دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ اس میں صاف طور پر لکھا ہے کہ جھوٹا نبی ہلاک ہوگا.اس لئے مناسب سمجھ کر وہ پیشگوئی عبرانی ا لفاظ میں اس جگہ لکھی جاتی ہے.اور وہ یہ ہے:.استثناء باب ۱۸.آیت۱۸.۲۰ نابیا
475 لفظ میت جس کا ترجمہ اردو بائبل میں پادریوں نے قتل کیا جائے کیا ہے یہ ترجمہ بالکل غلط ہے عبرانی لفظ میت اصل میں صیغہ ماضی میں ہے اور اس کے معنے ہیں مر گیا ہے یا مرا ہوا ہے.اس کی مثالیں عبرانی بائبل میں نہایت کثرت سے ہیں جن میں سے چند ایک بطور نمونہ کے یہاں لکھی جاتی ہیں.پیدائش باب ۵۰ آیت ۱۵.جب یوسف کے بھائیوں نے دیکھا (.کی میت ابی ھم) کہ ان کا باپ مر گیا ہے تو انہوں نے کہا کہ یوسف شاید ہم سے نفرت کرے گا.استثناء باب ۱۰ آیت۶.تب بنی اسرائیل نے بیرات بنی یاکان سے موسیرہ کو کوچ کیا (.شام میت احرون) وہاں ہارون کا انتقال ہوا اور وہیں گاڑا گیا.۱.سلاطیب باب ۳ آیت ۲۱.اور جب میں صبح کو اٹھی کہ بچے کو دودھ دوں تو (.و ھنیہ میت) دیکھو وہ مرا پڑا تھا.۱.تواریخ باب ۱۰ آیت۵.جب اس کے زرہ بردار نے دیکھا ( کی میت شااول) کہ ساؤل مر گیا ہے.ایسا ہی کثرت سے اس قسم کی مثالیں موجود ہیں جن میں لفظ کا ترجمہ کیا گیا ہے مر گیا ہے.مرا ہوا ہے.لیکن پیشگوئی کے طور پر جہاں کہ
476 خدا کے کلام میں کسی کو کہاجاتا ہے کہ وہ ضرور مر جائے گا تو وہاں بھی یہ لفظ بول کر ماضی سے استقبال کا کام لیتے ہیں.یعنی اگرچہ وہ موت ابھی وقوع میں نہیں آئی تا ہم اس کا واقع ہونا ایسا یقینی ہے کہ گویا وہ مر گیا ہے یا مرا ہوا ہے.اور اس قسم کے محاورے ہر زبان میں ہوتے ہیں.عبرانی بائبل میں اور بھی کئی جگہ اس طرح سے کہا گیا ہے.مثلاً ۲.سلاطین.باب ۲۰.آیت ۱.انہی دنوں میں حزقیاہ کو موت کی بیماری ہوئی.تب اموص کا بیٹا یسعیا اس پاس آیا اور اسے کہا:.خداوند یوں فرماتا ہے.تو اپنے گھر کی بابت وصیت کر (.کی میت اتاہ ولوتحی یاہ) کیونکہ تُو مر جائے گا اور نہیں جیئے گا.دیکھو اِسی لفظ میت کے معنے جو کہ استثناء ۱۸:۱۸ میں آیا ہے.یہاں مر جائے گا کے معنے کئے گئے ہیں.خروج باب۱۱.آیت ۵ (.ومیت کول بکور بارض مصرائم) اور زمین مصرمیں سارے پلوٹھے مر جائیں گے.۱.سلاطین ۱۴:۱۲.اور جب تیرا قدم شہر میں داخل ہوگا تو (میت ھیالید) وہ بچہ مر جائیگا.یرمیاہ ۲۸:۱۵.تب یرمیاہ نبی نے حننیاہ نبی سے کہا کہ اے حننیاہ اب سُن خداوند نے تجھے نہیں بھیجا پر تو اس قوم کو جھوٹ کہہ کہہ کے امید وار کرتا ہے.اس لئے خداوند یوں کہتا ہے کہ دیکھ مَیں تجھے روئے زمین پر سے خارج کروں گا (.ھشاناہ اقاہ میت) تو اِسی سال میں مرے گا....چنانچہ اسی سال ساتویں مہینے حننیا ہ نبی مر گیا.
477 اِس مقام سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی تمام پاک کتابیں اِس بات پر متفق ہیں کہ جھوٹا نبی ہلاک کیا جاتا ہے.ا ب اس کے مقابل یہ پیش کرنا کہ اکبر بادشاہ نے نبوت کا دعویٰ کیا یا روشن دین جالندہری نے دعویٰ کیا یا کسی اور شخص نے دعویٰ کیا اور وہ ہلاک نہیں ہوئے یہ ایک دوسری حماقت ہے جو ظاہر کی جاتی ہے.بھلا اگر یہ سچ ہے کہ ان لوگوں نے نبوت کے دعوے کئے اور تیئیس برس تک ہلاک نہ ہوئے تو پہلے اُن لوگوں کی خاص تحریر سے ان کا دعویٰ ثابت کرنا چاہئے اور وہ الہام پیش کرنا چاہئے جو الہام انہوں نے خدا کے نام پر لوگوں کو سُنایا.یعنی یہ کہا کہ ان لفظوں کے ساتھ میرے پر وحی نازل ہوئی ہے کہ مَیں خدا کا رسول ہوں.اصل لفظ اُن کی وحی کے کامل ثبوت کے ساتھ پیش کرنے چاہئیں.کیونکہ ہماری تمام بحث وحی نبوت میں ہے جس کی نسبت یہ ضروری ہے کہ بعض کلمات پیش کرکے یہ کہا جائے کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ہمارے پر نازل ہوا ہے.غرض پہلے تو یہ ثبوت دینا چاہئے کہ کونسا کلام الٰہی اس شخص نے پیش کیا ہے جس نے نبوت کا دعویٰ کیا پھر بعد اس کے یہ ثبوت دینا چاہئے کہ جو تیئیس برس تک کلام الٰہی اس پر نازل ہوتا رہا وہ کیا ہے یعنی کل وہ کلام جو کلام الٰہی کے دعوے پر لوگوں کو سُنایا گیا ہے پیش کرنا چاہئے.جس سے پتہ لگ سکے کہ تیئیس برس تک متفرق وقتوں میں وہ کلام اس غرض سے پیش کیا گیا تھا کہ وہ خدا کا کلام ہے.یا ایک مجموعی کتاب کے طور پر قرآن شریف کی طرح اس دعوے سے شائع کیا گیا تھا کہ یہ خدا کا کلام ہے جو میرے پر نازل ہوا ہے.جب تک ایسا ثبوت نہ ہو تب تک بے ایمانوں کی طرح قرآن شریف پر حملہ کرنا اور آیت لو تقوّل کو ہنسی ٹھٹھے میں اُڑانا اُن شریر لوگوں کا کام ہے جن کو خدا تعالیٰ پر بھی ایمان نہیں اور صرف زبان سے کلمہ پڑھتے اور باطن میں اسلام سے بھی منکر ہیں.منہ
478 ضمیمہ اربعین نمبر۲ اعلان! متعلق صفحہ۳۰ اس امر کا اظہار ضروری سمجھا گیا ہے کہ اربعین نمبر۲ کے صفحہ ۳۰ پر جو تاریخ انعقاد مجمع قرار دی گئی ہے یعنی ۱۵؍اکتوبر ۱۹۰۰ء وہ اس وقت تجویز کی گئی تھی جبکہ ہم نے ۷؍اگست ۱۹۰۰ء کو مضمون لکھ کر کاتب کے سپرد کر دیا تھا.لیکن اِس اثناء میں پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کے ساتھ اشتہارات جاری ہوئے اور رسالہ تحفہ گولڑویہ کے تیار کرنے کی وجہ سے اربعین نمبر۲ کا چھپنا ملتوی رہا.اس لئے میعاد مذکور ہماری رائے میں اب ناکافی ہے.لہٰذا ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ بجائے ۱۵؍اکتوبر کے ۲۵؍دسمبر۱۹۰۰ء قرار دی جائے تاکہ کسی صاحب کو گنجائش اعتراض نہ رہے.اور مولوی صاحبان کو لازم ہوگا کہ تاریخ مقررہ کے تین ہفتہ پہلے اطلاع دیں کہ کہاں اور کس موقعہ پر جمع ہونا پسند کرتے ہیں.آیا لاہور میں یا امرتسر میں یا بٹالہ میں.اور یہ بھی یاد رہے کہ جب تک کم از کم چالیس علماء و فقراء نامی کی درخواست ہمارے پاس نہیں آئے گی تب تک ہم مقام مقررہ میں وقت مقررہ پر حاضر نہیں ہوں گے.الراقم مرزا غلام احمد از قادیاں ۲۹؍ستمبر۱۹۰۰ء (ضیاء الاسلام پریس قادیان)
479 ضمیمہ اربعین نمبر ۳و۴ 3 نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی ناظرین کو معلوم ہوگا کہ مَیں نے مخالف مولویوں اور سجادہ نشینوں کی ہر روز کی تکذیب اور زبان درازیاں دیکھ کر اور بہت سی گالیاں سن کر اُن کی اس درخواست کے بعد کہ ہمیں کوئی نشان دکھلایا جائے ایک اشتہار شائع کیا تھا.جس میں ان لوگوں میں سے مخاطب خاص پیر مہر علی شاہ صاحب تھے.اس اشتہار کا خلاصہ مضمون یہ تھا کہ اب تک مباحثات مذہبی بہت ہو چکے جن سے مخالف مولویوں نے کچھ بھی فائدہ نہیں اٹھایا.اور چونکہ وہ ہمیشہ آسمانی نشانوں کی درخواست کرتے رہتے ہیں کچھ تعجب نہیں کہ کسی وقت ان سے فائدہ اُٹھا لیں.اس بنا پر یہ امر پیش کیا گیا تھا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب جو علاوہ کمالات پیری کے علمی توغل کا بھی دم مارتے ہیں اور اپنے علم کے بھروسہ پر جوش میں آکر انہوں نے میری نسبت فتویٰ تکفیر کو تازہ کیا اور عوام کو بھڑکانے کیلئے میری تکذیب کے متعلق ایک کتاب لکھی اور اس میں اپنے مایۂ علمی پر فخر کرکے میری نسبت یہ زور لگایا کہ یہ شخص علم حدیث اور قرآن سے بے خبر ہے.اور اس طرح سرحدی لوگوں کو میری نسبت مخالفانہ جوش دلایا.اور علم قرآن کا دعویٰ کیا.اگر یہ دعویٰ ان کا سچ ہے کہ اُن کو علم کتاب اللہ میں بصیرت تام عنایت کی گئی ہے تو پھر کسی کو اُن کی پیروی سے انکار نہیں چاہئے اورعلم قرآن سے بلاشبہ باخدا اور راستباز ہونا بھی ثابت ہے.کیونکہ بموجب آیت 33 ۱ صرف پاک باطن لوگوں کو ہی کتاب عزیز کا علم دیا جاتا ہے.لیکن صرف
480 دعویٰ قابل تسلیم نہیں بلکہ ہر ایک چیز کا قدر امتحان سے ہو سکتا ہے.اور امتحان کا ذریعہ مقابلہ ہے کیونکہ روشنی ظلمت سے ہی شناخت کی جاتی ہے.اور چونکہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس الہام سے مشرف فرمایا ہے کہ :.الرّحمٰن علّم القرآن کہ خدا نے تجھے قرآن سکھلایا اس لئے میرے لئے صدق یا کذب کے پرکھنے کے لئے یہ نشان کافی ہوگا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب میرے مقابل پر کسی سورۃ قرآن شریف کی عربی فصیح، بلیغ میں تفسیر لکھیں.اگر وہ فائق اور غالب رہے تو پھر اُن کی بزرگی ماننے میں مجھ کو کچھ کلام نہیں ہوگا.پس مَیں نے اس امر کو قرار دے کر اُن کی دعوت میں اشتہار شائع کیا جس میں سراسر نیک نیتی سے کام لیا گیا تھا.لیکن اس کے جواب میں جس چال کو انہوں نے اختیار کیا ہے اس سے صاف ثابت ہو گیا کہ اُن کو قرآن شریف سے کچھ بھی مناسبت نہیں اور نہ علم میں کچھ دخل ہے.یعنی انہوں نے صاف گریز کی راہ اختیار کی اور جیسا کہ عام چال بازوں کا دستور ہوتا ہے یہ اشتہار شائع کیا کہ اوّل مجھ سے حدیث اور قرآن سے اپنے عقائد میں فیصلہ کر لیں پھر اگر مولوی محمد حسین اور اُن کے دوسرے دو رفیق کہہ دیں کہ مہر علی شاہ کے عقائد صحیح ہیں تو بلا توقف اسی وقت میری بیعت کر لیں.پھر بیعت کے بعد عربی تفسیر لکھنے کی بھی اجازت دی جائے گی مجھے اس جواب کو پڑھ کر بلا اختیار اُن کی حالت پر رونا آیا.اور اُن کی حق طلبی کی نسبت جوامیدیں تھیں سب خاک میں مل گئیں.اب اس اشتہار لکھنے کا یہ موجب نہیں ہے کہ ہمیں ان کی ذات پر کچھ امید باقی ہے.بلکہ یہ موجب ہے کہ باوصف اس کے کہ اس معاملہ کو دو مہینے سے زیادہ عرصہ گذر گیا مگر اب تک اُن کے متعلّقین سبّ و شتم
481 سے باز نہیں آتے* اور ہفتہ میں کوئی نہ کوئی ایسا اشتہار پہنچ جاتا ہے جس میں پیر مہر علی شاہ کو آسمان پر چڑھایا ہوا ہوتا ہے اور میری نسبت گالیوں سے کاغذ بھرا ہوا ہوتا ہے.اور عوام کو دھوکا پر دھوکا دے رہے ہیں.اور میری نسبت * منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ نے بھی اپنی کتاب عصائے موسیٰ میں پیر صاحب کی جھوٹی فتح کا ذکر کرکے جو چاہا کہا ہے.بات تو تب ہے کہ کوئی انسان حیا اور انصاف کی پابندی کرکے کوئی امر ثابت بھی کرے.ظاہر ہے کہ اگر منشی صاحب کے نزدیک پیر مہر علی شاہ صاحب علمِ قرآن اور زبان عربی سے کچھ حصہ رکھتے ہیں جیسا کہ وہ دعویٰ کر بیٹھے ہیں تو اب چارجز عربی تفسیر سورۃ فاتحہ کی ایک لمبی مہلت ستر۷۰ دن میں اپنے گھر میں ہی بیٹھ کر اور دوسروں کی مدد بھی لے کر میرے مقابل پر لکھنا اُن کے لئے کیا مشکل بات ہے.اُن کی حمایت کرنے والے اگر ایمان سے حمایت کرتے ہیں تو اب تو اُن پر زور دیں.ورنہ ہماری یہ دعوت آئندہ نسلوں کے لئے بھی ایک چمکتا ہوا ثبوت ہماری طرف سے ہوگا کہ اس قدر ہم نے اس مقابلہ کے لئے کوشش کی.پانسو ۵۰۰ روپیہ انعام دینا بھی کیا لیکن پیر صاحب اور ان کے حامیوں نے اس طرف رُخ نہ کیا.ظاہر ہے کہ اگر بالفرض کوئی کُشتی دو۲ پہلوانوں کی مشتبہ ہو جائے.تو دوسری مرتبہ کشتی کرائی جاتی ہے.پھر کیا وجہ ہے کہ ایک فریق تو اس دوبارہ کشتی کے لئے کھڑا ہے تا احمق انسانوں کا شبہ دُور ہو جائے اور دوسرا شخص جیتتا ہے اور میدان میں اس کے مقابل پر کھڑا نہیں ہوتا اور بیہودہ عذر پیش کرتا ہے ناظرین برائے خدا ذرا سوچو کہ کیا یہ عذر بدنیتی سے خالی ہے کہ پہلے مجھ سے منقولی بحث کرو پھر اپنے تین۳ دشمنوں کی مخالفانہ گواہی پر میری بیعت بھی کر لو اوراس بات کی پرواہ نہ کرو کہ تمہارا خدا سے وعدہ ہے کہ ایسی بحثیں میں کبھی نہیں کروں گا پھر بیعت کرنے کے بعد بالمقابل تفسیر لکھنے کی اجازت ہو سکتی ہے.یہ پیر صاحب کا جواب ہے جس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ انہوں نے شرط دعوت منظور کر لی تھی.منہ
482 کہتے ہیں کہ دیکھو اس شخص نے کس قدر ظلم کیا کہ پیر مہر علی شاہ صاحب جیسے مقدس انسان بالمقابل تفسیر لکھنے کے لئے صعوبت سفر اٹھا کر لاہور میں پہنچے مگر یہ شخص اس بات پر اطلاع پاکر کہ درحقیقت وہ بزرگ نابغہ زمان اور سحبان دوران اور علم معارف قرآن میں لاثانی روزگار ہیں اپنے گھر کے کسی کوٹھہ میں چھپ گیا ورنہ حضرت پیر صاحب کی طرف سے معارف قرآنی کے بیان کرنے اور زبان عربی کی بلاغت فصاحت دکھلانے میں بڑا نشان ظاہر ہوتا.لہٰذا آج میرے دل میں ایک تجویز خدا تعالیٰ کی طرف سے ڈالی گئی جس کو مَیں اتمام حجت کے لئے پیش کرتا ہوں اور یقین ہے کہ پیر مہر علی صاحب کی حقیقت اس سے کھل جائے گی.کیونکہ تمام دنیا اندھی نہیں ہے انہی میں وہ لوگ بھی ہیں جو کچھ انصاف رکھتے ہیں.اور وہ تدبیر یہ ہے کہ آج مَیں اُن متواتر اشتہارات کا جو پیر مہر علی شاہ صاحب کی تائید میں نکل رہے ہیں یہ جواب دیتا ہوں کہ اگر درحقیقت پیر مہر علی شاہ صاحب علم معارف قرآن اور زبان عربی کی ادب اور فصاحت بلاغت میں یگانہ روزگار ہیں تو یقین ہے کہ اب تک وہ طاقتیں اُن میں موجود ہوں گی کیونکہ لاہور آنے پر ابھی کچھ بہت زمانہ نہیں گذرا.اس لئے مَیں یہ تجویز کرتا ہوں کہ مَیں اِسی جگہ بجائے خود سورۃ فاتحہ کی عربی فصیح میں تفسیر لکھ کر اس سے اپنے دعویٰ کو ثابت کروں اور اس کے متعلق معارف اور حقائق سورہ ممدوحہ کے بھی بیان کروں.اور حضرت پیر صاحب میرے مخالف آسمان سے آنے والے مسیح اور خونی مہدی کا ثبوت اس سے ثابت کریں اور جس طرح چاہیں سورۃ فاتحہ سے استنباط کرکے میرے مخالف عربی فصیح بلیغ میں براہین قاطعہ اور معارف ساطعہ تحریر فرماویں.یہ دونوں کتابیں دسمبر ۱۹۰۰ء کی پندرہ تاریخ سے ستر۷۰ دن تک چھپ کر
483 شائع ہو جانی چاہئے.* تب اہل علم لوگ خود مقابلہ اور موازنہ کر لیں گے.اور اگر اہل علم میں سے تین۳ کس جوادیب اور اہل زبان ہوں اور فریقین سے کچھ تعلق نہ رکھتے ہوں قسم کھا کر کہہ دیں کہ پیر صاحب کی کتاب کیا بلاغت اور فصاحت کے رُو سے اور کیا معارف قرآنی کے رُو سے فائق ہے تو مَیں عہد صحیح شرعی کرتا ہوں کہ پانسو روپیہ نقد بلا توقف پیر صاحب کی نذر کروں گا اور اس صورت میں اس کوفت کا بھی تدارک ہو جائے گا جو پیر صاحب سے تعلق رکھنے والے ہر روز بیان کرکے روتے ہیں جو ناحق پیر صاحب کو لاہور آنے کی تکلیف دی گئی.اور یہ تجویز پیر صاحب کے لئے بھی سراسر بہتر ہے کیونکہ پیر صاحب کو شائد معلوم ہو یا نہ ہو کہ عقلمند لوگ ہرگز اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ پیر صاحب کو علم قرآن میں کچھ دخل ہے.یا وہ عربی فصیح بلیغ کی ایک سطر بھی لکھ سکتے ہیں بلکہ ہمیں ان کے خاص دوستوں سے یہ روایت پہنچی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ بہت خیر ہوئی کہ پیر صاحب کو بالمقابل تفسیر عربی لکھنے کا اتفا ق پیش نہیں آیا.ورنہ اُن کے تمام دوست ان کے طفیل سے شاھت الوجوہ سے ضرور حصّہ لیتے.سو اس میں کچھ شک نہیں کہ اُن کے بعض دوست جن کے دلوں میں یہ خیالات ہیں جب پیر صاحب کی عربی تفسیر مزیّن بہ بلاغت وفصاحت دیکھ لیں گے تو ان کے پوشیدہ شبہات جو پیر صاحب کی نسبت رکھتے ہیں جاتے رہیں گے اور یہ امر موجب رجوع خلائق ہوگا.جو اس زمانہ کے ایسے پیر صاحبوں کا عین مدعا ہوا کرتا ہے.اور اگر پیر صاحب مغلوب ہوئے تو تسلّی رکھیں کہ ہم اُن سے یعنی ۱۵؍دسمبر۱۹۰۰ء سے ۲۵؍فروری ۱۹۰۱ء تک میعاد تفسیر لکھنے کی ہے اور چھپائی کے دن بھی اسی میں ہیں.ستر۷۰ دن میں دونوں فریق کی کتابیں شائع ہو جانی چاہئیں.منہ
484 کچھ نہیں مانگتے اور نہ ان کو بیعت کرنے کے لئے مجبور کرتے ہیں.صرف ہمیں یہ منظور ہے کہ پیر صاحب کے پوشیدہ جوہر اور قرآن دانی کے کمالات جس کے بھروسہ پر انہوں نے میری ردّ میں کتاب تالیف کی، لوگوں پر ظاہر ہو جائیں.اور شائد زلیخا کی طرح اُن کی مُنہ سے بھی3 ۱ نکل آئے.اور ان کے نادان دوست اخبار نویسوں کو بھی پتہ لگے کہ پیر صاحب کس سرمایہ کے آدمی ہیں مگر پیر صاحب دل گیر نہ ہوں.ہم ان کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ بے شک اپنی مدد کے لئے مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبد الجبار غزنوی اور محمد حسین بھیں وغیرہ کو بلا لیں.بلکہ اختیار رکھتے ہیں کہ کچھ طمع دے کر دو چار عرب کے ادیب بھی طلب کر لیں.فریقین کی تفسیر چا ۴ ر جز سے کم نہیں ہونی چاہئے....................اور اگر میعاد مجوزہ تک یعنی ۱۵؍دسمبر ۱۹۰۰ء سے ۲۵؍فروری ۱۹۰۱ء تک جو ستر۷۰ دن ہیں فریقین میں سے کوئی فریق تفسیر فاتحہ چھاپ کر شائع نہ کرے اور یہ دن گذر جائیں تو وہ جھوٹا سمجھا جائے گا.اور اس کے کاذب ہونے کے لئے کسی اَور دلیل کی حاجت نہیں رہے گی.والسّلام علٰی من اتبع الھدیٰ.المشتھر مرزا غلام احمد از قادیاں ۱۵؍دسمبر۱۹۰۰ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیاں
مجموعہ آمین