Language: UR
مسٹر عبداللہ آتھم عیسائی مناظر سے متعلق مباحثہ 'جنگ مقدس' کے اختتام پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ وہ پندرہ ماہ کے عرصہ میں ہاویہ میں گرایا جائے گا بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔ جب پیشگوئی کی مایعاد پندرہ ماہ گزر گئی اور آتھم نہ مرا اور اللہ تعالی نے حسب پیشگوئی رجوع الی الحق کی وجہ سے اسے مہلت عطا فرمائی تو عیسائیوں نے اس پر بڑی خوشیاں منائیں اور اسے عیسائیت کی فتح سمجھ کر ۶؍دسمبر۱۸۹۴ء کو امرتسر میں آتھم کا جلوس بھی نکالا۔ یہ مقابلہ درحقیقت اسلام اور عیسائیت کا تھا جیسا کہ خود مسیحی اخبار نور افشاں نے بھی لکھا تھا۔ لیکن باوجود اس کے بعض بے غیرت ملّاؤں اور ان کے متبعین نے عیسائیوں کے ساتھ مل کر شور و غل اور استہزاء میں برابر کا حصّہ لیا اور پیشگوئی کے پورا نہ ہونے کا شور مچایا اور اس پر اعتراضات کیے۔ گندے اور گالیوں سے پر دل آزار اشتہارات نکالے اور حد درجہ بدزبانی سے کام لیا۔ تب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان مکفّر ملّاؤں کو ترکی بہ ترکی جواب دیا اور ان کی اسلام سے دشمنی کا تذکرہ فرمایا۔
ترتیب روحانی خزائن جلد ۹ انواراسلام..................۱ منن الرحمن.....................۱۲۷ ضیاء الحق.....................۲۴۹ نورالقرآن نمبر۱..................۳۲۴ نورالقرآن نمبر۲..................۳۷۳ معیارالمذاہب..................۴۵۹
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم تعارف (از حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس) روحانی خزائن کی یہ جلد نہم ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی کتب.منن الرحمن.ضیاء الحق.رسالہ نور القرآن نمبر۱ و نور القرآن نمبر۲ اور رسالہ معیار المذاہب پر مشتمل ہے.ان کتب اور رسائل کی تاریخ تالیف و اشاعت ۱۸۹۵ء ہے.انوار الاسلام و ضیاء الحق مسٹر عبداﷲ آتھم عیسائی مناظر سے متعلق مباحثہ ’’جنگ مقدس‘‘ کے اختتام پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ وہ پندرہ ماہ کے عرصہ میں ہاویہ میں گرایا جائے گا بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے.جب پیشگوئی کی میعاد پندرہ ماہ گذر گئی اور آتھم نہ مرا اور اﷲ تعالیٰ نے حسب پیشگوئی رجوع الی الحق کی وجہ سے اُسے مہلت عطا فرمائی تو عیسائیوں نے اِس پر بڑی خوشیاں منائیں اور اُسے عیسائیت کی فتح سمجھ کر ۶؍ دسمبر ۱۸۹۴ء کو امرتسر میں آتھم کا جلوس بھی نکالا.یہ مقابلہ درحقیقت اسلام اور عیسائیت کا تھا جیسا کہ خود مسیحی اخبار نور افشاں نے بھی لکھا:.’’مرزا صاحب نے مسیحیوں کے ساتھ مباحثہ اپنے ملہم اور مثیلِ مسیح ہونے کے بارے میں نہیں کیا بلکہ محمدیّت کو مذہبِ حق اور قرآن کو کتاب اﷲ ثابت کرنے اور مسیحیت کو ردّ کرنے کے لئے کیا تھا اور وہ پیشگوئی اختتامِ مباحثہ پر انہوں نے محمدیّت ہی کے مذہب حق اور منجانب اﷲ ہونے کے ثبوت میں کی تھی.‘‘ (نور افشاں ۲۰؍ دسمبر ۱۸۹۴ء) لیکن باوجود اِس کے بعض بے غیرت ملّاؤں اور اُن کے متبعین نے عیسائیوں کے ساتھ مل کر شور و غل
اور استہزاء میں برابر کا حصّہ لیا اور پیشگوئی کے پورا نہ ہونے کا شور مچایا اور اس پر اعتراضات کئے.گندے اور گالیوں سے پُر دل آزار اشتہارات نکالے اور حد درجہ بد زبانی سے کام لیا.تب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان مکفّر ملاّؤں کو ترکی بہ ترکی جواب دیا اور اُن کی اسلام دشمنی کا اِن الفاظ میں تذکرہ فرمایا:.’’بعض نام کے مسلمان جن کو نیم عیسائی کہنا چاہئے اِس بات پر بہت خوش ہوئے کہ عبداﷲ آتھم پندر ماہ تک نہیں مر سکا اور مارے خوشی کے صبر نہ کر سکے آخر اشتہار نکالے اور اپنی عادت کے موافق بہت کچھ اُن میں گند بکا اور اس ذاتی بخل کی وجہ سے جو میرے ساتھ تھا اسلام پر بھی حملہ کیا کیونکہ میرے مباحثات اسلام کی تائید میں تھے نہ میرے مسیح موعود ہونے کی بحث میں غایت درجہ میں اُن کے خیال میں کافر تھا یا شیطان تھا یا دجّال تھا لیکن بحث تو جناب رسول اﷲ صلعم کی صداقت اور قرآن کریم کی فضیلت کے بارہ میں تھی.‘‘ (انوار الاسلام.رُوحانی خزائن جلد۹ صفحہ۲۴) الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پندرہ ماہ کی میعاد گذرتے ہی ۵؍ ستمبر ۱۸۹۴ء کو رسالہ انوار الاسلام تحریر فرمایا اور مئی ۱۸۹۵ء میں اِسی موضوع پر رسالہ ضیاء الحق تالیف فرمایا جن میں اِس پیشگوئی کے پورا ہونے کا تفصیل سے ذکر فرمایا اور لکھا:.’’ خدا تعالیٰ کے الہام نے مجھے جتلا دیا کہ ڈپٹی عبداللہ آتھم نے اسلام کی عظمت اور اُس کے رعب کو تسلیم کر کے حق کی طرف رجوع کرنے کا کسِی قدر حصہ لے لیا جس حصّہ نے اُس کے وعدۂ موت اور کامل طور کے ہاویہ میں تاخیر ڈال دی اور ہاویہ میں تو گرا لیکن اس بڑے ہاویہ سے تھوڑے دنوں کے لئے بچ گیاجس کا نام موت ہے ‘‘ (.رُوحانی خزائن جلد ۹صفحہ ۲) اور آتھم کے رجوع سے متعلق جو الہامات ہوئے تھے وہ اس رسالہ میں تحریر فرمائے اور قرائن قویّہ سے آتھم کے رجوع بحق ہونے کو ثابت کیا.پھر آپ نے چار اشتہار پے در پے شائع کئے جن میں آپ نے اِس شرط پر کہ اگر آتھم مندرجہ ذیل الفاظ میں قسم کھا جائے تو اُس کو ایک ہزار روپیہ دیا جائے گا.پھر دوسرے اشتہار میں اِس انعامی رقم کو دو ہزار اور تیسرے اشتہار میں تین ہزار اور چوتھے اشتہار میں چار ہزار روپیہ کر دیا.اور قسم کے الفاظ یہ تھے کہ:.’’پیشگوئی کے دنوں میں ہرگز میں نے اسلام کی طرف رجوع نہیں کیا اور ہرگز
اسلام کی عظمت میرے دل پر مؤثر نہیں ہوئی اور اگر مَیں جھوٹ کہتا ہوں تو اے قادر خدا ایک سال تک مجھ کو موت دے کر میرا جھوٹ لوگوں پر ظاہر کر.‘‘ (ضیاء الحق.رُوحانی خزائن جلد ۹صفحہ ۳۱۱،۳۱۲) نیز فرمایا:.’’اب اگر آتھم صاحب قسم کھا لیویں تو وعدہ ایک سال قطعی اور یقینی ہے جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہیں اور تقدیر مبرم ہے اوراگر قسم نہ کھاویں تو پھر بھی خدا تعالیٰ ایسے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑے گا جس نے حق کا اخفا کر کے دنیا کو دھوکا دینا چاہا.‘‘ (.روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۱۱۴) مزید براں آپؑ نے یہ بھی تحریر فرمایا:.’’اگر تاریخ قسم سے ایک سال تک زندہ سالم رہا تو وہ اُس کا روپیہ ہو گا اور پھر اس کے بعد یہ تمام قومیں مجھ کو جو سزا چاہیں دیں.اگر مجھ کو تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے کریں تو مَیں عذر نہیں کروں گا.اور اگر دنیا کی سزاؤں میں سے مجھ کو وہ سزا دیں جو سخت تر سزا ہے تو مَیں انکار نہیں کروں گا اور خود میرے لئے اِس سے زیادہ کوئی رسوائی نہیں ہو گی کہ میں اُن کی قسم کے بعد جس کی میرے ہی الہام پر بنا ہے جھوٹا نکلوں.‘‘ (ضیاء الحق.رُوحانی خزائن جلد ۹صفحہ ۳۱۶، ۳۱۷) مگر آتھم نے قسم کھانے سے گریز کی راہ اختیار کی اور قسم نہ اُٹھائی جس سے اُس کا جھوٹا ہونا اور اﷲ تعالیٰ کے الہام کی صداقت کہ آتھم نے رجوع بحق کیا اور اسی وجہ سے وہ موت کے ہاویہ سے بچ گیا دُنیا پر ظاہر ہو گئی.اِس طرح آتھم سے متعلق پیشگوئی بڑی آب و تاب سے پوری ہوئی.اِس پیشگوئی کو تفصیل سے ہم رُوحانی خزائن جلد گیارہ کے پیش لفظ میں ذکر کریں گے.ان شاء اﷲ تعالٰی منن الرحمٰن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’علماء اسلام کو غفلت میں سوئے ہوئے اور اُن کی ہمدردئ دین اور اس کی خدمت سے عدم توجہی اور دنیا طلبی اور مخالفین کی دین اسلام کے مٹانے کے لئے
مساعی اور ان کے حملوں کو دیکھ کر میرا دل بے قرار ہوا اور قریب تھا کہ جان نکل جاتی.تب مَیں نے اﷲ تعالیٰ سے نہایت عاجزی اور تضرع سے دُعا کی کہ وہ میری نصرت فرمائے.اﷲ تعالیٰ نے میری دُعا کو قبول فرمایا.سو ایک دن جبکہ میں نہایت بے قراری کی حالت میں قرآن مجید کی آیات نہایت تدبّر اور فکر اور غور سے پڑھ رہا تھا اور اﷲ تعالیٰ سے دُعا کرتا تھا کہ مجھے معرفت کی راہ دکھاوے اور ظالموں پر میری حجت پوری کرے تو قرآن شریف کی ایک آیت میری آنکھوں کے سامنے چمکی اور غور کے بعد میں نے اُسے علوم کا خزانہ اور اسرار کا دفینہ پایا.میں خوش ہوا اور الحمد ﷲ کہا اور اﷲ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا اور وہ آیت یہ تھی.۱...الخ اِس آیت کے متعلق مجھ پر کھولا گیا کہ یہ آیت عربی زبان کے فضائل پر دلالت کرتی ہے اور اشارہ کرتی ہے کہ عربی زبان تمام زبانوں کی اور قرآن مجید تمام پہلی کتابوں کی ماں ہے اور یہ کہ مکہ مکرمہ اُمّ الارضین ہے.‘‘ (منن الرحمن.روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۱۷۹تا۱۸۳ملخصًا ) اﷲ تعالیٰ کی اِس راہنمائی کے بعد آپؑ نے کتاب منن الرحمن لکھی اور اس کے متعلق آپؑ نے ایک اشتہار دیا جس میں آپؑ نے اِس کتاب کے متعلق لکھا:.’’یہ ایک نہایت عجیب و غریب کتاب ہے جس کی طرف قرآن شریف کی بعض پُرحکمت آیات نے ہمیں توجہ دلائی سو قرآنِ عظیم نے یہ بھی دنیا پر ایک بھاری احسان کیا ہے جو اختلافِ لُغات کا اصل فلسفہ بیان کر دیا اور ہمیں اِس دقیق حکمت پر مطلع فرمایا کہ انسانی بولیاں کس منبع اور معدن سے نکلی ہیں اور کیسے وہ لوگ دھوکے میں رہے جنہوں نے اِس بات کو قبول نہ کیا جو انسانی بولی کی جڑھ خدا تعالیٰ کی تعلیم ہے اور واضح ہو کہ اِس کتاب میں تحقیق الالسنہ کی رُو سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ دنیا میں صرف قرآن شریف ایک ایسی کتاب ہے جو اس زبان میں نازل ہوا ہے جو اُمّ الالسنہ اور الہامی اور تمام بولیوں کا منبع اور سرچشمہ ہے.‘‘ (ضیاء الحق.روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۲۵۰) دوسرے لوگوں کی کوششوں کی ناکامی کا جو انہوں نے اپنی زبانوں کو اُمّ الالسنہ ثابت کرنے کے
لئے کیں ذکر کر کے فرماتے ہیں:.’’اب ہمیں خدا تعالیٰ کے مقدس اور پاک کلام قرآن شریف سے اِس بات کی ہدایت ہوئی کہ وہ الہامی زبان اور اُمّ الالسنہ جس کے لئے پارسیوں نے اپنی جگہ اور عبرانی دانوں نے اپنی جگہ اور آریہ قوم نے اپنی جگہ دعوے کئے کہ انہیں کی وہ زبان ہے وہ عربی مبین ہے اور دوسرے تمام دعوے دار غلطی پر اور خطا پر ہیں.‘‘ (ضیاء الحق.روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ۳۲۰) پھر اپنی تحقیق اور عربی زبان کے مقابل پر دوسری زبانوں کا ناقص ہونا بیان کر کے فرماتے ہیں:.’’ہم نے زبان عربی کی فضیلت اور کمال اور فوق الالسنہ ہونے کے دلائل اپنی اس کتاب میں مبسوط طور پر لکھ دیئے ہیں جو بتفصیل ذیل ہیں.(۱) عربی کی مفردات کا نظام کامل ہے (۲) عربی اعلیٰ درجہ کی وجوہِ تسمیہ پر مشتمل ہے جو فوق العادت ہیں.(۳) عربی کا سلسلہ اطراد مواد اتم اور اکمل ہے (۴) عربی تراکیب میں الفاظ کم اور معانی زیادہ ہیں.(۵) عربی زبان انسانی ضمائر کا پورا نقشہ کھینچنے کے لئے پوری پوری طاقت اپنے اندر رکھتی ہے.اب ہریک کو اختیار ہے کہ ہماری کتاب کے چھپنے کے بعد اگر ممکن ہو تو یہ کمالات سنسکرت یا کسی اَور زبان میں ثابت کرے......ہم نے اس کتاب کے ساتھ پانچ ہزار روپے کا انعامی اشتہار شائع کر دیا ہے...فتحیابی کی حالت میں بغیر حرج کے وہ روپیہ ان کو وصول ہو جائے گا.‘‘ (ضیاء الحق.رُوحانی خزائن جلد ۹صفحہ ۳۲۱ ، ۳۲۲) اِس تحقیق سے کہ عربی زبان اُمّ الالسنہ ہے آپؑ نے اسلام کی عالمگیر فتح کی بنیاد رکھ دی.کیونکہ عربی زبان کے اُمّ الالسنہ اور الہامی زبان ثابت ہونے سے یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ تمام کتابوں میں سے جو مختلف زبانوں میں مخصوص قوموں کی اصلاح کے لئے انبیاء پر نازل ہوئیں.اعلیٰ اور ارفع ،اتم اور اکمل اور خاتم الکتب اور اُمّ الکتب قرآن مجید ہے اور رسولوں میں سے خاتم النّبیین اور خاتم الرسل حضرت سیّدنا محمد مصطفےٰ صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ خیال تھا کہ یہ کتاب دسمبر ۱۸۹۵ء میں شائع ہو جائے گی
اور رسالہ ضیاء الحق کو جو مئی ۱۸۹۵ء میں لکھا جا چکا تھا اس کا ایک حصّہ بنایا جائے گا لیکن اخبار ’’نور افشاں‘‘ میں عبداﷲ آتھم کی پیشگوئی سے متعلق بعض مضامین کی اشاعت کی وجہ سے ضیاء الحق کے چند نسخوں کا شائع کرنا آپؑ نے مناسب سمجھا.لیکن افسوس ہے کہ کتاب منن الرحمن ناتمام حالت میں رہ گئی اور اُس کی اشاعت بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایّدہ اﷲ بنصرہ العزیز کے عہد میں جون ۱۹۱۵ء میں ہوئی اور جس حالت میں یہ کتاب آپؑ کی موجودگی میں تھی اُسی صورت میں شائع کر دی گئی.مگر اس تحقیق کے متعلق آپ کے بعض خدّام نے اپنی کوششیں جاری رکھیں.چنانچہ خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم نے ایک مختصر کتاب ’’ام الالسنہ‘‘لکھی.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قائم کردہ اصولوں پر مفصّل ریسرچ کی سعادت مکّرم شیخ محمداحمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ لائلپور خلف الرشید حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلویؓ کے حصّہ میں آئی جنہوں نے برسوں کی محنت و کاوش سے دُنیا کی مشہور زبانوں سنسکرت، انگریزی، لاطینی، جرمنی، فرانسیسی، چینی ، فارسی اور ہندی کے گہرے اشتراک اور عربی کے اُمّ الالسنہ ہونے کا نظریّہ پوری شرح و بسط سے نمایاں کیا ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان فرمودہ اصول کی روشنی میں ان زبانوں کے بیس ہزار الفاظ کے حل کرنے میں بھاری کامیابی حاصل کر لی ہے.نور القرآن نمبر ۱ و نور القرآن نمبر ۲ قرآن کریم کے رُوحانی کمالات کے اظہار اور اِن باتوں کے شائع کرنے کے لئے جو راہِ راست کے جاننے اور سمجھنے اور شناخت کرنے کا ذریعہ ہوں اور جن سے وہ سچّا فلسفہ معلوم ہو جو دلوں کو تسلّی دیتا اور رُوح کو سکینت اور آرام بخشتا اور ایمان کو عرفان کے رنگ میں لے آتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک ماہوار رسالہ جاری کرنے کا ارادہ فرمایا اور بالفعل ایک رسالہ بنام نور القرآن جاری فرمایا.مگر افسوس کہ کثرتِ مشاغل و مصروفیات کے باعث اس کے صرف دو نمبر ہی نکل سکے.پہلا نمبر تین ماہ یعنی بابت ماہ جون ، جولائی، و اگست ۱۸۹۵ء شائع ہوا.اور دوسرا نمبر بابت ماہ ستمبر و اکتوبر و نومبر و دسمبر ۱۸۹۵ء اور جنوری و فروری و مارچ و اپریل ۱۸۹۶ء شائع ہوا.نور القرآن نمبر ۱ میں آپؑ نے قرآن کریم اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت پر دلائل
قاطعہ و براہین ساطعہ تحریر فرمائے اور نور القرآن نمبر ۲ میں پادری فتح مسیح سکنہ فتح گڑھ ضلع گورداسپور کے دو خطوط کا جواب تحریر فرمایا.جن میں اِس کور باطن پادری نے سرورِ کائنات فخر موجودات خاتم النّبیّین امام الطیبین و سیّد المعصومین حضرت محمد مصطفےٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے اور بے جا اعتراضات کرتے ہوئے نعوذ باﷲ آپؐ پر زنا کی تہمت لگائی تھی.معیار المذاہب اِس چھوٹے سے رسالہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فطرتی معیار کے لحاظ سے مختلف مذاہب کا مقابلہ کیا ہے.خصوصاً آریہ مذہب اور عیسائی مذہب اور اسلام کی خدا تعالیٰ کے متعلق تعلیم کا موازنہ کر کے بتایا ہے کہ صحیح اور فطرت کے مطابق عقیدہ وہی ہے جو اسلام نے پیش کیا.اور اس رنگ میں دوسرے مذاہب پر آپؑ نے اسلام کی تعلیم کی برتری اور فوقیت ثابت کی ہے.خاکسار ربوہ نومبر ۱۹۶۱ء جلال الدین شمس ژژژ
محمّد عربی کا بروئ ہر دو سراست کسی کہ خاک درش نیست خاک بر سرِ او فتح اسلام لَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہُ لِلْکَافِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا واضح ہو کہ وہ پیشگوئی جو امرت سر کے عیسائیوں کے ساتھ مباحثہ ہوکر ۵ جون ۱۸۹۳ ء میں کی گئی تھی جس کی آخری تاریخ ۵ ؍ستمبر ۱۸۹۴ ء تھی.وہ خدا تعالیٰ کے ارادہ اور حکم کے موافق ایسے طور سے اور ایسی صفائی سے معیاد کے اندر پوری ہوگئی کہ ایک منصف اور دانا کو بجز اس کے ماننے اور قبول کرنے کے کچھ بن نہیں پڑتا.ہاں ایک متعصب اور احمق یا جلد باز جو ان واقعات اور حوادث کو یکجائی نظر سے دیکھنا نہیں چاہتا جو پیشگوئی کے بعد فریق مخالف میں ظہور میں آئی اور الہامی الفاظ کی پیروی نہیں کرتا بلکہ اپنے دل کی آرزوؤں کی پیروی کرتا ہے اس کی مرض نادانی لاعلاج ہے اور اگر وہ ٹھوکر کھائے تو اس کی پست فطرتی اور حمق اور سادہ لوحی اس کا موجب ہوگی ورنہ کچھ شک نہیں کہ فتح اسلام ہوئی اور عیسائیوں کو ذلت اور ہاویہ نصیب ہوگیا.پیشگوئی کے الفاظ یہ تھے کہ دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے.وہ انہیں دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی ۱۵ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے گا اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اور سچے خدا کو مانتا ہے اس کی اس سے عزت ظاہر ہوگی اور اس وقت جب پیشگوئی ظہور میں آئے گی.بعض اندھے سوجاکھے کئے جاویں گے اور بعض لنگڑے چلنے لگیں گے اور بعض بہرے سننے لگیں گے.
اب یاد رہے کہ’’ پیشگوئی میں فریق مخالف کے لفظ سے جس کے لئے ہاویہ یا ذلت کا وعدہ تھا ایک گروہ مراد ہے.جو اس بحث سے تعلق رکھتا تھا خواہ خود بحث کرنے والا تھا یا معاون یا حامی یا سرگروہ تھا.ہاں مقدم سب سے ڈپٹی عبد اللہ آتھم تھا کیونکہ وہی دوسرے عیسائیوں کی طرف سے منتخب ہوکر پندرہ دن جھگڑتا رہا مگر درحقیقت اس لفظ کے حصہ دار دوسرے معاون اور محرک اور ان کے سرگروہ بھی تھے کیونکہ عرفاًفریق اس تمام گروہ کا نام ہے جو ایک کام بالمقابل کرنے والا یا اس کام کا معاون یا اس کام کا بانی یا مجوز یا حامی ہو اور پیشگوئی کی کسی عبارت میں یہ نہیں لکھا گیا کہ فریق سے مراد صرف عبد اللہ آتھم ہے‘‘.ہاں میں نے جہاں تک الہام کے معنے سمجھے وہ یہ تھے کہ جو شخص اس فریق میں سے بالمقابل باطل کی تائید میں بنفس خود بحث کرنے والا ہے اس کے لئے ہاویہ سے مراد سزائے موت ہے لیکن الہامی لفظ صرف ہاویہ ہے اور ساتھ یہ بھی شرط ہے کہ حق کی طرف رجوع کرنے والا نہ ہو.اور حق کی طرف رجوع نہ کرنے کی قید ایک الہامی شرط ہے جیسا کہ میں نے الہامی عبارت میں صاف لفظوں میں اس شرط کو لکھا تھا اور یہ بات بالکل سچ اور یقینی اور الہام کے مطابق ہے کہ اگر مسٹر عبد اللہ کا دل جیسا کہ پہلے تھا ویسا ہی توہین اور تحقیر اسلام پر قائم رہتا اور اسلامی عظمت کو قبول کر کے حق کی طرف رجوع کرنے کا کوئی حصہ نہ لیتا تو اسی میعاد کے اندر اس کی زندگی کا خاتمہ ہو جاتا لیکن خدا تعالیٰ کے الہام نے مجھے جتلا دیا کہ ڈپٹی عبد اللہ آتھم نے اسلام کی عظمت اور اس کے رعب کو تسلیم کر کے حق کی طرف رجوع کرنے کا کسی قدر حصہ لے لیا جس حصہ نے اس کے وعدہ موت اور کامل طور کے ہاویہ میں تاخیر ڈال دی اور ہاویہ میں تو گِرا لیکن اُس بڑے ہاویہ سے تھوڑے دنوں کے لئے بچ گیا جس کا نام موت ہے اور یہ ظاہر ہے کہ الہامی لفظوں اور شرطوں میں سے کوئی ایسا لفظ یا شرط نہیں ہے جو بے تاثیر ہو یا جس کا کسی قدر موجود ہو جانا اپنی تاثیر پیدا نہ کرے.لہٰذا ضرور تھا کہ جس قدر مسٹر عبد اللہ آتھم کے دل نے حق کی عظمت کو قبول کیا اس کا فائدہ اس کو پہنچ جائے سو خدا تعالیٰ نے ایسا ہی کیا اور مجھے فرمایا اطلع اللّٰہ علی ھمہ وغمہ.ولن تجد لسنۃ اللّٰہ تبدیلا و لا تعجبوا و لا تحزنوا و انتم الاعلون ان کنتم مؤمنین و بعزتی و جلالی انک انت الاعلٰی.و نمزق الاعداء کل ممزق و مکر اولئک ھو یبور.انا نکشف السر عن ساقہ یومئذ یفرح المؤمنون.ثلّۃ من الاولین و ثلّۃ من الآخرین و ھذہ تذکرۃ فمن شاء اتخذ الٰی ربہ سبیلا.ترجمہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس کے ہم و غم پر اطلاع پائی اور اس کو مہلت دی جب تک کہ وہ بیباکی اور سخت گوئی اور
تکذیب کی طرف میل کرے اور خدا تعالیٰ کے احسان کو بھلا دے (یہ معنے فقرہ مذکورہ کے تفہیم الٰہی سے ہیں) اور پھر فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی یہی سنت ہے اور تو ربانی سنتوں میں تغیر اور تبدل نہیں پائے گا.اس فقرہ کے متعلق یہ تفہیم ہوئی کہ عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ وہ کسی پر عذاب نازل نہیں کرتا جب تک ایسے کامل اسباب پیدا نہ ہوجائیں جو غضب الٰہی کو مشتعل کریں اور اگر دل کے کسی گوشہ میں بھی کچھ خوف الٰہی مخفی ہو اور کچھ دھڑکہ شروع ہو جائے تو عذاب نازل نہیں ہوتا اور دوسرے وقت پر جا پڑتا ہے اور پھر فرمایا کہ کچھ تعجب مت کرو اور غمناک مت ہو اور غلبہ تمہیں کو ہے اگر تم ایمان پر قائم رہو.یہ اس عاجز کی جماعت کو خطاب ہے اور پھر فرمایا کہ مجھے میری عزت اور جلال کی قسم ہے کہ تو ہی غالب ہے (یہ اس عاجز کو خطاب ہے) اور پھر فرمایا کہ ہم دشمنوں کو پارہ پارہ کر دیں گے یعنی ان کو ذلت پہنچے گی اور ان کا مکر ہلاک ہو جائے گا.اس میں یہ تفہیم ہوئی کہ تم ہی فتح یاب ہو نہ دشمن اور خدا تعالیٰ بس نہیں کرے گا اور نہ باز آئے گا جب تک دشمنوں کے تمام مکروں کی پردہ دری نہ کرے اور ان کے مکر کو ہلاک نہ کردے یعنی جو مکر بنایا گیا اور مجسم کیا گیا اس کو توڑ ڈالے گا اور اس کو مردہ کر کے پھینک دے گا اور اس کی لاش لوگوں کو دکھا دے گا اور پھر فرمایا کہ ہم اصل بھید کو اس کی پنڈلیوں میں سے ننگا کر کے دکھا دیں گے یعنی حقیقت کو کھول دیں گے اور فتح کے دلائل بینہ ظاہر کریں گے اور اس دن مومن خوش ہوں گے پہلے مومن بھی اور پچھلے مومن بھی.اور پھر فرمایا کہ وجہ مذکورہ سے عذاب موت کی تاخیر ہماری سنت ہے جس کو ہم نے ذکر کر دیا اب جو چاہے وہ راہ اختیار کر لے جو اس کے رب کی طرف جاتی ہے.اس میں بدظنی کرنے والوں پر زجر اور ملامت ہے اور نیز اس میں یہ بھی تفہیم ہوئی ہے کہ جو سعادت مند لوگ ہیں اور جو خدا ہی کو چاہتے ہیں اور کسی بخل اور تعصب یا جلد بازی یا سوء فہم کے اندھیرے میں مبتلا نہیں وہ اس بیان کو قبول کریں گے اور تعلیم الٰہی کے موافق اس کو پائیں گے لیکن جو اپنے نفس اور اپنی نفسانی ضد کے پیرو یا حقیقت شناس نہیں وہ بیباکی اور نفسانی ظلمت کی وجہ سے اس کو قبول نہیں کریں گے.الہام الٰہی کا ترجمہ معہ تفہیمات الٰہیہ کے کیا گیا جس کا ماحصل یہی ہے کہ قدیم سے الٰہی سنت اسی طرح پر ہے کہ جب تک کوئی کافر اور منکر نہایت درجہ کا بے باک اور شوخ ہوکر اپنے ہاتھ سے اپنے لئے اسباب ہلاکت پیدا نہ کرے.تب تک خدا تعالیٰ تعذیب کے طور پر اس کو ہلاک نہیں کرتا اور جب کسی منکر پر عذاب نازل ہونے کا وقت آتا ہے تو اس میں وہ اسباب پیدا ہوجاتے ہیں جن کی وجہ سے اس پر حکم ہلاکت لکھا جاتا ہے عذاب الٰہی کے لئے یہی قانون قدیم ہے اور یہی سنت مستمرہ اور یہی غیر تبدل قاعدہ کتاب الٰہی نے بیان کیا ہے اور غور کرنے سے ظاہر ہو گا
کہ جو مسٹر عبد اللہ آتھم کے بارہ میں یعنی سزائے ہاویہ کے بارہ میں الہامی شرط تھی وہ درحقیقت اسی سنت اللہ کے مطابق ہے.کیونکہ اس کے الفاظ یہ ہیں کہ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے لیکن مسٹر عبد اللہ آتھم نے اپنی مضطربانہ حرکات سے ثابت کردیا کہ اس نے اس پیشگوئی کو تعظیم کی نظر سے دیکھا جو الہامی طور پر اسلامی صداقت کی بنیاد پر کی گئی تھی.اور خدا تعالیٰ کے الہام نے بھی مجھ کو یہی خبر دی کہ ہم نے اس کے ہم اور غم پر اطلاع پائی.یعنی وہ اسلامی پیشگوئی سے خوفناک حالت میں پڑا اور اس پر رعب غالب ہوا.اس نے اپنے افعال سے دکھا دیا کہ اسلامی پیشگوئی کا کیسا ہولناک اثر اس کے دل پر ہوا اور کیسی اس پر گھبراہٹ اور دیوانہ پن اور دل کی حیرت غالب آگئی اور کیسے الہامی پیشگوئی کے رعب نے اس کے دل کو ایک کچلا ہوا دل بنا دیا یہاں تک کہ وہ سخت بے تاب ہوا اور شہر بشہر اور ہر یک جگہ ہراساں اور ترساں پھرتا رہا اور اس مصنوعی خدا پر اس کا توکل نہ رہا جس کو خیالات کی کجی اور ضلالت کی تاریکی نے الوہیت کی جگہ دے رکھی ہے وہ کتوں سے ڈرا اور سانپوں کا اس کو اندیشہ ہوا اور اندر کے مکانوں سے بھی اس کو خوف آیا.اس پر خوف اور وہم اور دلی سوزش کا غلبہ ہوا اور پیشگوئی کی پوری ہیبت اس پر طاری ہوئی اور وقوع سے پہلے ہی اس کا اثر اس کو محسوس ہوا اور بغیر اس کے کہ کوئی امرت سر سے اس کو نکالے آپ ہی ہراساں اور ترسان اور پریشان اور بیتاب ہوکر شہر بشہر بھاگتا پھرا اور خدا نے اس کے دل کا آرام چھین لیا اور پیشگوئی سے سخت متاثر ہوکر سراسیموں اور خوف زدوں کی طرح جابجا بھٹکتا پھرا اور الہام الٰہی کا رعب اور اثر اس کے دل پر ایسا مستولی ہوا کہ اس کی راتیں ہولناک اور دن بے قراری سے بھر گئے اور حق کی مخالفت کی حالت میں جو جو دہشتیں اور قلق اس شخص پر وارد ہوتا ہے جو یقین رکھتا ہے یا ظن رکھتا ہے کہ شاید عذاب الٰہی نازل ہو جائے.یہ سب علامتیں اس میں پائی گئیں اور وہ عجیب طور پر اپنی بے چینی اور بے آرامی جابجا ظاہر کرتا رہا اور خدا تعالیٰ نے ایک حیرت ناک خوف اور اندیشہ اس کے دل میں ڈال دیا کہ ایک پات کا کھڑکا بھی اس کے دل کو صدمہ پہنچاتا رہا اور ایک کتے کے سامنے آنے سے بھی اس کو ملک الموت یاد آیا اور کسی جگہ اس کو چین نہ پڑا اور ایک سخت ویرانے میں اس کے دن گذرے اور سراسیمگی اور پریشانی اور بیتابی اور بے قراری نے اس کے دل کو گھیر لیا.اور ڈرانے والے خیال رات دن اس پر غالب رہے اور اس کے دل کے تصوروں نے عظمت اسلامی کو رد نہ کیا بلکہ قبول کیا اس لئے وہ خدا جو رحیم و کریم اور سزا دینے میں دھیما ہے اور انسان کے دل کے خیالات کو جانچتا اور اس کے تصورات کے موافق اس سے عمل کرتا ہے اس نے اس کو اس صورت پر بنایا جس صورت میں فی الفور کامل ہاویہ کی سزا یعنی موت بلا توقف اس پر نازل ہوتی
اور ضرور تھا کہ وہ کامل عذاب اس وقت تک تھما رہے جب تک کہ وہ بے باکی اور شوخی سے اپنے ہاتھ سے اپنے لئے ہلاکت کے اسباب پیدا کرے اور الہام الٰہی نے بھی اسی طرف اشارہ کیا تھا کیونکہ الہامی عبارت میں شرطی طور پر عذاب موت کے آنے کا وعدہ تھا نہ مطلق بلا شرط وعدہ لیکن خدا تعالیٰ نے دیکھا کہ مسٹر عبد اللہ آتھم نے اپنے دل کے تصورات سے اور اپنے افعال سے اور اپنی حرکات سے اور اپنے خوف شدید سے اور اپنے ہولناک اور ہراساں دل سے عظمت اسلامی کو قبول کیا اور یہ حالت ایک رجوع کرنے کی قسم ہے جو الہام کے استثنائی فقرہ سے کسی قدر تعلق رکھتی ہے کیونکہ جو شخص عظمت اسلامی کو رد نہیں کرتا بلکہ اس کا خوف اس پر غالب ہوتا ہے وہ ایک طور سے اسلام کی طرف رجوع کرتا ہے اور اگرچہ ایسا رجوع عذاب آخرت سے بچا نہیں سکتا مگر عذاب دنیوی میں بے باکی کے دنوں تک ضرور تاخیر ڈال دیتا ہے یہی وعدہ قرآن کریم اور بائبل میں موجود ہے اور جو کچھ ہم نے مسٹر عبد اللہ آتھم کی نسبت اور اس کے دل کی حالت کے بارہ میں بیان کیا یہ باتیں بے ثبوت نہیں بلکہ مسٹر عبد اللہ آتھم نے اپنے تئیں سخت مصیبت زدہ بناکر اور اپنے تئیں شداید غربت میں ڈال کر اور اپنی زندگی کو ایک ماتمی پیرایہ پہنا کر اور ہر روز خوف اور ہر اس کی حرکات صادر کر کے اور ایک دنیا کو اپنی پریشانی اور دیوانہ پن دکھلا کر نہایت صفائی سے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ اس کے دل نے اسلامی عظمت اور صداقت کو قبول کر لیا.کیا یہ بات جھوٹ ہے کہ اس نے پیشگوئی کے رعب ناک مضمون کو پورے طور پر اپنے پر ڈال لیا اور جس قدر ایک انسان ایک سچی اور واقعی بلا سے ڈر سکتا ہے اسی قدر وہ اس پیشگوئی سے ڈرا اور اس کا دل ظاہری حفاظتوں سے مطمئن نہ ہو سکا اور حق کے رعب نے اس کو دیوانہ سا بنا دیا سوخدا تعالیٰ نے نہ چاہا کہ اس کو ایسی حالت میں ہلاک کرے کیونکہ یہ اس کے قانون قدیم اور سنت قدیمہ کے مخالف ہے.اور نیز یہ الہامی شرط سے مغائر اور برعکس ہے اور اگر الہام اپنی شرائط کو چھوڑ کر اور طور پر ظہور کرے تو گو جاہل لوگ اس سے خوش ہوں مگر ایسا الہام الہام الٰہی نہیں ہو سکتا اور یہ غیر ممکن ہے کہ خدا اپنی قرار دادہ شرطوں کو بھول جائے کیونکہ شرائط کا لحاظ رکھنا صادق کے لئے ضروری ہے اور خدا اصدق الصادقین ہے.ہاں جس وقت مسٹر عبد اللہ آتھم اس شرط کے نیچے سے اپنے تئیں باہر کرے اور اپنے لئے اپنی شوخی اور بے باکی سے ہلاکت کے سامان پیدا کرے تو وہ دن نزدیک آجائیں گے اور سزائے ہاویہ کامل طور پر نمودار ہوگی اور پیشگوئی عجیب طور پر اپنا اثر دکھائے گی.اور توجہ سے یاد رکھنا چاہیئے کہ ہاویہ میں گرائے جانا جو اصل الفاظ الہام ہیں وہ عبد اللہ آتھم نے اپنے ہاتھ سے پورے کئے اور جن مصائب میں اس نے اپنے تئیں ڈال لیا اور جس طرز سے مسلسل گھبراہٹوں کا سلسلہ اس کے دامن گیر ہوگیا اور ہول اور خوف نے اس کے دل کو پکڑ لیا یہی
اصل ہاویہ تھا اور سزائے موت اس کے کمال کے لئے ہے جس کا ذکر الہامی عبارت میں موجود بھی نہیں بے شک یہ مصیبت ایک ہاویہ تھا جس کو عبد اللہ آتھم نے اپنی حالت کے موافق بھگت لیا لیکن وہ بڑا ہاویہ جو موت سے تعبیر کیا گیا ہے اس میں کسی قدر مہلت دی گئی کیونکہ حق کا رعب اس نے اپنے سر پر لے لیا.اس لئے وہ خدا تعالیٰ کی نظر میں اس شرط سے کسی قدر فائدہ اٹھانے کا مستحق ہو گیا جو الہامی عبارت میں درج ہے اور ضرور ہے کہ ہر ایک امر کا ظہور اسی طور سے ہو جس طور سے خدا تعالیٰ کے الہام میں وعدہ ہوا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اس ہمارے بیان میں وہی شخص مخالفت کرے گا جس کو مسٹر عبد اللہ آتھم کے ان تمام واقعات پر پوری اطلاع نہ ہوگی اور یا جو تعصب اور بخل اور سیہ دلی سے حق پوشی کرنا چاہتا ہے.اور اگر عیسائی صاحبان اب بھی جھگڑیں اور اپنی مکارانہ کارروائیوں کو کچھ چیز سمجھیں یا کوئی اور شخص اس میں شک کرے تو اس بات کے تصفیہ کے لئے کہ فتح کس کو ہوئی آیا اہل اسلام کو جیسا کہ درحقیقت ہے یا عیسائیوں کو جیسا کہ وہ ظلم کی راہ سے خیال کرتے ہیں تو میں ان کی پردہ دری کے لئے مباہلہ کے لئے تیار ہوں اگر وہ دروغ گوئی اور چالاکی سے باز نہ آئیں تو مباہلہ اس طور پر ہوگا کہ ایک تاریخ مقرر ہوکر ہم فریقین ایک میدان میں حاضر ہوں اور مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کھڑے ہوکر تین مرتبہ ان الفاظ کا اقرار کریں کہ اس پیشگوئی کے عرصہ میں اسلامی رعب ایک طرفۃ العین کے لئے بھی میرے دل پر نہیں آیا اور میں اسلام اور نبی اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ناحق پر سمجھتا رہا اور سمجھتا ہوں اور صداقت کا خیال تک نہیں آیا اور حضرت عیسیٰ کی ابنیت اور الوہیت پر یقین رکھتا رہا اور رکھتا ہوں اور ایسا ہی یقین جو فرقہ پروٹسٹنٹ کے عیسائی رکھتے ہیں اور اگر میں نے خلاف واقعہ کہا ہے اور حقیقت کو چھپایا ہے تو اے خدائے قادر مجھ پر ایک برس میں عذاب موت نازل کر.اس دعا پر ہم آمین کہیں گے اور اگر دعا کا ایک سال تک اثر نہ ہوا اور وہ عذاب نازل نہ ہوا جو جھوٹوں پر نازل ہوتا ہے تو ہم ہزار روپیہ* مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کو بطور تاوان کے دیں گے چاہیں تو پہلے کسی جگہ جمع کرا لیں اور اگر وہ ایسی درخواست** نہ کریں تو یقیناً سمجھو کہ وہ کاذب ہیں اور غلو کے وقت اپنی سزا پائیں گے.ہمیں صاف طور پر الہاماً معلوم ہوگیا ہے کہ اس وقت تک *نوٹ.ہم اقرار کرتے ہیں کہ یہ ہزار روپیہ باضابطہ تحریرلینے کے بعد پہلے دے دیں گے.یہ قطعی اقرار ہے.منہ **نوٹ.درخواست کے لئے روز اشاعت سے یعنی بذریعہ اشتہار پہنچنے کے بعد ایک ہفتہ کی میعاد ہے.
عذاب موت ٹلنے کا یہی باعث ہے کہ عبد اللہ آتھم نے حق کی عظمت کو اپنی خوف ناک حالت کی وجہ سے قبول کر کے ان لوگوں سے کسی درجہ پر مشابہت پیدا کر لی ہے جو حق کی طرف رجوع کرتے ہیں اس لئے ضرور تھا کہ ان کو کسی قدر اس شرط کا فائدہ ملتا اور اس امر کو وہ لوگ خوب سمجھ سکتے ہیں کہ جو ان کے حالات پر غور کریں اور ان کی تمام بے قراریوں کو ایک جگہ میزان دے کر دیکھیں کہ کہاں تک پہنچ گئی تھیں کیا وہ ہاویہ تھا یا کچھ اور تھا اور اگر کوئی ناحق انکار کرے تو اس کے سمجھانے کے لئے وہ قطعی فیصلہ ہے جو میں نے لکھ دیا ہے تاسیہ روئے شود ہرکہ دروغش باشد.ہم اپنے مخالفین کو یقین دلاتے ہیں کہ یہی سچ ہے ہاں یہی سچ ہے.اور ہم پھر مکرر لکھتے ہیں کہ ضرور مسٹر عبد اللہ آتھم نے کسی قدر ہاویہ کی سزا بھگت لی ہے اور نہ صرف اسی قدر بلکہ قطرب اور مانیا کے مقدمات بھی ان کے دماغ کو نصیب ہوگئے ہیں جن کی طرف الہام الٰہی کا ہم اشارہ پاتے ہیں اور جس کے نتائج عنقریب کھلیں گے کسی کے چھپانے سے چھپ نہیں سکتے پس اے حق کے طالبو یقیناً سمجھو کہ ہاویہ میں گرنے کی پیشگوئی پوری ہوگئی اور اسلام کی فتح ہوئی اور عیسائیوں کو ذلت پہنچی.ہاں اگر مسٹر عبد اللہ آتھم اپنے پر جزع فزع کا اثر نہ ہونے دیتا اور اپنے افعال سے اپنی استقامت دکھاتا اور اپنے مرکز سے جگہ بجگہ بھٹکتا نہ پھرتا اور اپنے دل پر وہم اور خوف اور پریشانی غالب نہ کرتا بلکہ اپنی معمولی خوشی اور استقلال میں ان تمام دنوں کو گذارتا تو بے شک کہہ سکتے تھے کہ وہ ہاویہ میں گرنے سے دور رہا مگر اب تو اس کی یہ مثال ہوئی کہ قیامت دیدہ ام پیش از قیامت اس پر وہ غم کے پہاڑ پڑے جو اس نے اپنی تمام زندگی میں ان کی نظیر نہیں دیکھی تھی.پس کیا یہ سچ نہیں کہ وہ ان تمام دنوں میں درحقیقت ہاویہ میں رہا اگر تم ایک طرف ہماری پیشگوئی کے الہامی الفاظ پڑھو اور ایک طرف اس کے ان مصائب کو جانچو جو اس پر وارد ہوئے تو تمہیں کچھ بھی اس بات میں شک نہیں رہے گا کہ وہ بے شک ہاویہ میں گرا ضرور گرا اور اس کے دل پروہ رنج اور غم اور بدحواسی وارد ہوئی جس کو ہم آگ کے عذاب سے کچھ کم نہیں کہہ سکتے.ہاں اعلیٰ نتیجہ ہاویہ کا جو ہم نے سمجھا اور جو ہماری تشریحی عبارت میں درج ہے یعنی موت وہ ابھی تک حقیقی طور پر وارد نہیں ہوا کیونکہ اس نے عظمت اسلام کی ہیبت کو اپنے دل میں دھنسا کر الٰہی قانون کے موافق الہامی شرط سے فائدہ اٹھا لیا مگر موت کے قریب قریب اس کی حالت پہنچ گئی اور وہ درد اور دکھ کے ہاویہ میں ضرور گرا اور ہاویہ میں گرنے کا لفظ اس پر صادق آگیا پس یقیناً سمجھو کہ اسلام کو فتح حاصل ہوئی اور خدا تعالیٰ کا ہاتھ بالا ہوا اور کلمہ اسلام اونچا ہوا اور
عیسائیت نیچے گری.فالحمد للّٰہ علٰی ذالک یہ تو مسٹر عبد اللہ آتھم کا حال ہوا مگر اس کے باقی رفیق بھی جو فریق بحث کے لفظ میں داخل تھے اور جنگ مقدس کے مباحثہ سے تعلق رکھتے تھے خواہ وہ تعلق اعانت کا تھا یا بانی کار ہونے کا یا مجوز بحث یا حامی ہونے کا یا سرگروہ ہونے کا ان میں سے کوئی بھی اثر ہاویہ سے خالی نہ رہا اور ان سب نے میعاد کے اندر اپنی اپنی حالت کے موافق ہاویہ کا مزہ دیکھ لیا.چنانچہ اول خدا تعالیٰ نے پادری رائٹ کو لیا جو دراصل اپنے رتبہ اور منصب کے لحاظ سے اس جماعت کا سرگروہ تھا اور وہ عین جوانی میں ایک ناگہانی موت سے اس جہان سے گذر گیا اور خدا تعالیٰ نے اس کی بے وقت موت سے ڈاکٹر مارٹین کلارک اور ایسا ہی اس کے دوسرے تمام دوستوں اور عزیزوں اور ماتحتوں کو سخت صدمہ * پہنچایا اور ماتمی کپڑے پہنا دیئے اور اس کی بے وقت موت نے ان کو ایسے دکھ اور درد میں ڈالا جو ہاویہ سے کم نہ تھا اور ایسا ہی پادری ہاول بھی ایسی سخت بیماری میں پڑا کہ ایک مدت کے بعد مر مر کے بچا اور پادری عبد اللہ بھی سخت بیماریوں کے ہاویہ میں گرا اور معلوم نہیں کہ بچا یا گذر گیا اور جہاں تک ہمیں علم ہے ان میں سے کوئی بھی ماتم اور مصیبت یا ذلت اور رسوائی سے خالی نہ رہا اور نہ صرف یہی بلکہ انہیں دنوں میں خدا تعالیٰ نے ایک خاص طور پر سخت ذلت اور رسوائی ان کو پہنچائی جس سے تمام ناک کٹ گئی اور وہ لوگ مسلمانوں کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے کیونکہ میں نے خدا تعالیٰ سے توفیق پاکر عیسائی پادریوں کی علمی قلعی کھولنے کے لئے اور اس بات کے ظاہر کرنے کے لئے کہ قرآن اور اسلام پر حملہ کرنے کے لئے زبان دانی کی ضرورت ہے اور یہ لوگ زبان عربی سے بے بہرہ ہیں.ایک کتاب جس کا نام نور الحق ہے عربی فصیح میں تالیف کی اور عماد الدین اور دوسرے تمام باقی پادریوں کو رجسٹری کرا کر خط بھیجے گئے کہ اگر عربی دانی کا دعویٰ ہے.جو اسلامی مسائل میں خوض کرنے اور قرآنی فصاحت پر حملہ کرنے کے لئے ضروری ہے تو اس کتاب کے مقابل پر ایسا ہی عربی میں کتاب بنا ویں اور پانچ ہزار روپیہ انعام پاویں اور اگر انعام کے بارہ میں شک ہو تو پانچ ہزار روپیہ پہلے جمع کرا دیں اور یہ بھی لکھا گیا کہ اسلامی صداقت کا یہ خدا تعالیٰ *فٹ نوٹ.پادری رائٹ صاحب کی وفات پر جو افسوس گرجا میں ظاہر کیا گیا.اس میں عیسائیوں کی مضطربانہ اور خوف زدہ حالت کا نظارہ مفصلہ ذیل الفاظ سے آئینہ دل میں منقش ہوسکتا ہے جو اس وقت پریچر کے مرعوب اور مغضوب دل سے نکلے اور وہ یہ ہیں.آج رات خدا کے غضب کی لاٹھی بے وقت ہم پر چلی اور اس کی خفیہ تلوار نے بے خبری میں ہم کو قتل کیا و بس.رائٹ صاحب امرتسر کے آنریری مشنری تھے اور علاوہ ازیں پادری فورمین لاہور میں مرے.
کی طرف سے ایک نشان ہے اگر اس کو توڑ دیں اور عربی میں ایسی کتاب بلیغ فصیح بناویں تو انعام مذکور بلاتامل ان کو ملے گا جس جگہ چاہیں اپنی تسلی کے لئے روپیہ جمع کرا لیں اور بالمقابل کتاب بنانے کی حالت میں نہ صرف انعام بلکہ آئندہ تسلیم کیا جائے گا کہ درحقیقت وہ اپنے دعوے کے موافق مولوی ہیں اور ان کو حق پہنچتا ہے کہ قرآن شریف کی فصاحت بلاغت پر اعتراض کریں اور نیز وہ بالمقابل کتاب بنانے سے ہمارے الہام کا کذب بھی بڑے سہل طریق سے ثابت کر دیں گے اور اگر وہ ایسا نہ کر سکیں تو پھر ثابت ہوگا کہ وہ جھوٹ اور افتراء سے اپنے تئیں مولوی نام رکھتے ہیں اور درحقیقت جاہل اور نادان ہیں اور نیز اس صورت میں دہ ہزار لعنت بھی ان پر پڑے گی جو رسالہ نور الحق کے چار صفحوں میں بلکہ کچھ زیادہ میں صرف اس غرض سے لکھی گئی ہے کہ اگر یہ پادری لوگ بالمقابل رسالہ نہ بنا سکیں اور نہ اپنے تئیں مولوی اور عربی دان کہلانے سے باز آویں اور نہ قرآن کی اعجازی فصاحت پر حملہ کرنے سے رکیں تو یہ ہزار لعنت ان پر قیامت تک ہے لیکن باوجود ان سخت لعنتوں کے جو مرنے سے کروڑہا درجہ بدتر ہیں پادری عماد الدین اور دوسرے تمام پنجاب اور ہندوستان کے عیسائی جو مولوی کہلاتے اور عربی دان ہونے کا دم مارتے تھے جو اب لکھنے سے عاجز رہ گئے اور باوجود اس کے اپنے ناجائز حملوں سے باز نہ آئے بلکہ انہیں دنوں میں پادری عماد الدین نے شرم اور حیا کو علیحدہ رکھ کر قرآن شریف کا ترجمہ چھاپا اور اپنی طرف سے اس پر نوٹ لکھے اور اس ہزار لعنت کا پہلا وارث اپنے تئیں بنایا اور جیسا کہ مباحثہ کی پیشگوئی میں درج تھا کہ اس فریق کو سخت ذلت پہنچے گی جو عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے ویسا ہی وہ تمام ذلت اور رسوائی ان نادان پادریوں کے حصہ میں آئی اور آئندہ کسی کے آگے منہ دکھانے کے قابل نہ رہے اور ہم لکھ چکے ہیں کہ یہ سب لوگ فریق بحث میں داخل اور مسٹر عبد اللہ آتھم کے معین اور حامی تھے بلکہ بحث کے بعد بھی یہ لوگ خیانت کے طور پر اخباروں کے کالم سیاہ کرتے رہے.اب دانا سوچ لے کہ ہریک کو ہاویہ ان میں سے نصیب ہوا یا کچھ کسر رہ گئی اور ہم اس جگہ ہریک دانا اور روشن دل کو انصاف کے لئے منصف بناتے ہیں کہ کیا اس قدر ذلت اور رسوائی ہاویہ کا نمونہ ہے یا نہیں اور کیا وہ ذلت جس کا الہامی عبارت میں وعدہ تھا اس سے یہ لوگ بچ سکے یا پورا پورا حصہ لیا.یہ خدا کا فعل ہے کہ اس نے بعد پیشگوئی کے ہریک پہلو سے ان لوگوں کو ملزم کیا اور سب پر پیشگوئی کو جال کی طرح ڈال دیا بعض کو اسرائیلی قوم کے نافرمانوں کی طرح دن رات کے دھڑکہ اور خوف اور ہول کے گڑھے میں دھکیل دیا جیسے مسٹر عبد اللہ آتھم
کہ خدا تعالیٰ نے اس کے دل پر وہم کو مستولی کر دیا اور وہ قوم یہود کی طرح جان کے ڈر سے جابجا بھٹکتا پھرا اور دیوانہ پن کے حالات ان میں پیدا ہوگئے اور اس کے حواس اڑ گئے اور قطرب اور مانیا کی بیماری کا بہت سا حصہ اس کو دیا گیا اور اس کے دماغ کی صحت جاتی رہی اور ہوش میں فرق آیا اور ہر وقت موت سامنے دکھائی دی اور اس نے اس قدر خوف اور ڈر اور ہول کو اپنے دل میں جگہ دی کہ عظمت اسلام پر مہر لگا دی اور اپنے اس خوف اور دھڑکہ کو شہر بشہر لئے پھرا اور ہزاروں کو اس بات پر گواہ بنا دیا کہ اس کے دل نے اسلام کی بزرگی اور صداقت کو قبول کر لیا ہے.یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ وہ اس لئے شہر بشہر بھاگتا پھرا کہ مسلمانوں کے قتل کرنے سے ڈرتا تھا کیونکہ امرت سر کی پولیس کا کچھ ناقص اور ادھورا انتظام نہ تھا تاوہ لدھانہ کی پولیس کی پنہ لیتا اور پھر لدھانہ میں کسی نے اس پر کوئی حملہ نہیں کیا تھا تاوہ فیروز پور کی طرف بھاگتا.پس اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ اسلامی ہیبت کی وجہ سے اس شخص کی طرح ہوگیا جو قطرب کی بیماری میں مبتلا ہو اور حقانی عظمت نے اس کے دماغ پر بہت کچھ کام کیا جس کی وہ برداشت نہ کر سکا اور خدا تعالیٰ نے اس کو اس غم میں ایک سودائی کی طرح پایا پس اُس نے اپنے الہامی وعدوں کے موافق اس وقت تک اس کو تاخیر دی جب تک وہ اپنی بے باکی کی طرف رجوع کرکے بدزبانی اور توہین اورگستاخی کی طرف میل کرے اور شوخی اور بے باکی کے کاموں کی طرف قدم آگے رکھ کر اپنے لئے ہلاکت کے اسباب پیدا کرے اور خدا تعالیٰ کی غیرت کا محرک ہو اور اگر کوئی انکار کرے کہ ایسا نہیں اور وہ اسلامی عظمت سے نہیں ڈرا تو اس پر واجب ہوگا کہ اس ثبوت کے لئے مسٹر عبد اللہ آتھم کو اس اقرار اور حلف کے لئے آمادہ کرے جس سے ایک ہزار روپیہ بھی اس کو ملے گا ورنہ ایسے شخص کا نام بجز نادان متعصب کے اور کیا رکھ سکتے ہیں.کیا یہ بات سچائی کے کھولنے کے لئے کافی نہیں کہ ہم نے صرف عبداللہ آتھم کے حالات پیش نہیں کئے مگر ہزار روپیہ کا اشتہار بھی دے دیا اور یاد رکھو کہ وہ اس اشتہار کی طرف رخ نہیں کرے گا کیونکہ کاذب ہے اور اپنے دل میں خوب جانتا ہے کہ وہ اس خوف سے مرنے تک پہنچ چکا تھا اور یاد رہے کہ مسٹر عبد اللہ آتھم میں کامل عذاب کی بنیادی اینٹ رکھ دی گئی ہے اور نوٹ.یہ ثابت ہے کہ یہ عاجز کسی جگہ کا بادشاہ نہ تھا بلکہ قوم کا متروک اور مسلمانوں کی نظر میں کافر اور اپنے چال چلن کے رو سے کوئی خونریز اور ڈاکو نہیں تھا.پھر اس قدر دہشت کہاں سے پڑ گئی.اگریہ خوف حق نہیں تھا تو اور کیا تھا.
وہ عنقریب بعض تحریکات سے ظہور میں آجائے گی.خدا تعالیٰ کے تمام کام اعتدال اور رحم سے ہیں اور کینہ ور انسان کی طرح خواہ نخواہ جلد باز نہیں اور اس کی تلوار ڈرنے والے دل پر نہیں چلتی بلکہ سخت اور بے باک پر اور وہ اپنے لفظ لفظ کا پاس کرتا ہے.پس جس حالت میں الہامی عبارت میں مدعا یہ تھا کہ حق کی طرف کسی قدر جھکنے کی حالت میں موت وارد نہیں ہوسکتی بلکہ موت اسی حالت میں ہوگی کہ جب کہ بے باکی اور شوخی میں زیادتی کرے تو پھر کیونکر ممکن تھا کہ مسٹر عبد اللہ آتھم پر ایسے دنوں میں موت آجاتی جبکہ اس نے اپنے مضطربانہ افعال سے ایک جہان کو دکھا دیا کہ عظمت اسلام اس کے دل پر سخت اثر کر رہی ہے اس بات میں کچھ بھی شک نہیں کہ جس دل پر اسلامی پیشگوئی کی عظمت بہت ہی غالب ہوگئی گو اس دل نے اپنی نفسانی تعلقات کی وجہ سے اپنے مذہب کو چھوڑنا نہ چاہا.مگر بے شک اس کے دل نے حق کی تعظیم کرکے رجوع کرنے والوں میں اپنے تئیں شامل کر لیا.بلکہ ایسا ڈرا کہ بہت سے عام مسلمان بھی ایسا نہیں ڈرتے غلبۂ خوف نے اس کو سودائی سا بنا د یا سو خدا تعالیٰ کے کمال رحم نے یہ ادنیٰ فائدہ اس سے دریغ نہ کیا کہ ہاویہ کی کامل سزا میں الہامی شرط کے موافق تاخیر ڈال دی گو ہاویہ کی سزا سے بچ نہ سکا مگر کامل سزا سے بچ گیا.جس قدر خدا تعالیٰ نے اس پر رعب ڈال دیا یہ وہ امر ہے جو اس زمانہ کے صفحہ تاریخ میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی.اور ہم مکرر لکھتے ہیں کہ اس کا ثبوت اس نے اپنی خوف زدہ حالت سے آپ دے دیا اور اگر کوئی متعصب اب بھی شک کرے تو پھر دوسرا معیار وہی ہے جو کہ ہم لکھ چکے ہیں اور ہم زور سے کہتے ہیں کہ مسٹر عبد اللہ آتھم اس مقابلہ کی طرف رجوع نہیں کرے گا کیونکہ وہ اپنے دل کے حالات سے بے خبر نہیں اور اس کا دل گواہی دے گا کہ ہمارا الہام سچا ہے گو وہ اس بات کو ظاہر نہ کرے مگر اس کا دل اس بیان کا مصدق ہوگا لیکن اگر دنیا کی ریاکاری سے اس مقابلہ پر آئے گا تو پھر الٰہی عذاب کامل طور سے رجوع کرے گا اور ہم حق پر ہیں اور دنیا دیکھے گی کہ ہماری یہ باتیں صحیح ہیں یا نہیں اور ہم لکھ چکے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے یہ بھی دکھا دیا کہ فریق مخالف جو بحث کرنے والے یا ان کے حامی یا بانی کار یا مجوز تھے کوئی بھی ان میں سے مس عذاب سے نہیں بچا جیسا کہ ہم ابھی تفصیل کر چکے ہیں یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے مبارک وہ جو اس کے تمام پہلوؤں کو سوچیں اور اپنے نفسوں پر ظلم نہ کریں.ہم بے ثبوت کسی پر جبر کرنا نہیں چاہتے بلکہ یہ واقعات آفتاب کی طرح روشن ہیں اور ہم غور کرنے کے لئے سب کے آگے رکھتے ہیں اور اگر کوئی ایسا ہی اندھا ہو جو کچھ سمجھ نہ سکے تو ہم نے اس اشتہار میں اس کے لئے ایک ایسا معیار جدید مقرر کر دیا ہے جو بڑی صفائی سے اس کو مطمئن کرسکتا ہے
بشرطیکہ فطرتی فہم اور انصاف سے حصہ رکھتا ہو اور تعصب کی تاریکی کے نیچے دبا ہوا نہ ہو اور نہ عقل سے بے بہرہ ہو.اور مسلمان مخالفوں کو چاہیئے جو خدا تعالیٰ سے ڈریں اور تعصب اور انکار میں دوسری قوموں کے شریک نہ بن جائیں کیونکہ دوسری قومیں خدا تعالیٰ کی سنتوں اور عادتوں سے ناواقف ہیں اور اس کے ابتلاؤں اور آزمائشوں سے بے خبر مگر اسلامی تعلیم پانے والے اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ کیونکر خدا تعالیٰ پیشگوئیوں میں اپنی شرائط کی رعایت رکھتا ہے بلکہ بعض وقت خدا تعالیٰ ایسی شرائط کا بھی پابند ہوتا ہے جو پیشگوئیوں میں بتصریح بیان نہیں کی گئی تاکہ اپنے بندوں کی آزمائش کرے اور بعض وقت یہ آزمائش بہت ہی دقیق ہوتی ہے جو بظاہر عدم ایفاء وعدہ سے مشابہت رکھتی ہے.جیسا کہ اس بحث کو سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے اپنی کتاب فتوح الغیب کے انیسویں مقالہ صفحہ ۱۱۵، اور نیز دوسرے مقامات میں بیان کیا ہے اور شاہ ولی اللہ صاحب نے اپنی کتاب فیوض الحرمین کے صفحہ ۷۴ میں اسی بحث کو بہت بسط سے لکھا ہے.تحقیق کرنے والے ان مقامات کو دیکھیں اور غور کریں لیکن یہ پیشگوئی تو صریح فتح کے آثار اپنے ساتھ رکھتی ہے چاہیئے کہ لوگ تعصب کو الگ کر کے سوچیں کہ کیا کیا آثار نمایاں اس پیشگوئی کے ظاہر ہوگئے کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ فریق مخالف پر یعنی اس سارے گروہ پر جو جو حادثے پڑے وہ اتفاقی ہیں اور خدا تعالیٰ کے ارادے کے بغیر ظاہر ہوگئے ہیں.اے مسلمانو! برائے خدا اس میں غور کرو اور ان میں حصہ نہ لو جن کی آنکھیں تعصب سے جاتی رہیں جن کے دل مارے بخل کے موٹے ہو گئے.ہماری پیشگوئی خدا تعالیٰ نے جہاں تک الہامی الفاظ اور شرائط اس کے ذمہ دار تھے بہت صفائی سے پوری کر دی.اب وہ رسہ جو ہم نے دروغ گو نکلنے کی حالت میں اپنے لئے تجویز کیا تھا ان عیسائیوں کے گلے میں پڑ گیا جن پر یہ قضاوقدر نازل ہوئی اور اس رسہ کے وہ نادان بھی شریک ہیں جو سمجھنے والا دل نہیں رکھتے اور تعصب نے ان کو اندھا کر دیا.بے شک فتح اسلام ہوئی اور نصاریٰ کو ہر طرف سے ذلت اور رسوائی پہنچی.خدا تعالیٰ کی آواز نے اس فتح کو روشن کر کے دکھا دیا اور آئندہ اور بھی اپنے فضل و کرم سے دکھائے گا.مگر عیسائی لوگ شیطانی منصوبہ اور شیطانی آواز سے چاہتے ہیں کہ فتح کا دعویٰ کریں لیکن خدا ان کے مکر کو پاش پاش کر دے گا ضرور تھا کہ وہ ایسا دعویٰ کرتے کیونکہ آج سے تیرہ سو برس پہلے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے جس کا ماحصل اور مدعا یہ ہے کہ اس مہدی موعود
کے وقت جو آخری زمانہ میں آنے والا ہے مہدی کے گروہ اور عیسائیوں کا ایک مباحثہ واقعہ ہوگا اور آسمانی آواز یعنی آسمانی نشانوں اور علامتوں اور قرائن سے یہ ثابت ہوگا کہ الحق مع آل محمّد یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لوگ جو آل کی طرح اور اس کے وارث ہیں حق پر ہیں اور شیطانی مکائد سے جابجا یہ آواز آئے گی کہ الحق مع آل عیسٰی یعنی جو عیسیٰ کے لوگ کہلاتے ہیں وہ حق پر ہیں.مگر آخر خدا تعالیٰ کھول کر دکھلا دے گا کہ آل محمد ہی حق پر ہے اور دین اسلام ہی کی فتح ہے.سو اَے مخالف لوگو دانستہ اپنے تئیں ہلاک مت کرو حق اسلام کے ساتھ ہے اور ہوگا مبارک وہ دل جو باریک سمجھ رکھتے ہیں اور تعصب اور بخل کے گڑھے میں نہیں گرتے.والسلام علٰی من اتّبع الھدٰی المشتھر خاکسار غلام احمد از قادیان.گورداسپور.مورخہ ۵ ستمبر ۱۸۹۴ ء
حاشیہ نمبر۱ جو لوگ خدا تعالیٰ کی قدیم عادات اور سنتوں پر اطلاع رکھتے ہیں اور ربانی کتابوں کے منشا اور مغز سے واقف ہیں وہ اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ خدا تعالیٰ اپنی پیشگوئیوں میں ان تمام امور کی پابندی رکھتا ہے جو اس کی غیر متبدل عادتوں اور سنتوں میں داخل ہیں خواہ وہ کسی پیشگوئی میں بتصریح ذکر کی جائیں یا صرف بطور اجمال یا محض اشارہ کے طور پر پائی جائیں یا بالکل ذکر نہ کی جائیں کیونکہ جو امور سنن غیر متبدلہ میں داخل ہو چکے ہیں وہ کسی طرح بدل نہیں سکتے اور اگر فرض کریں کہ کسی پیشگوئی میں ان امور کا ذکر نہیں تاہم یہ غیر ممکن ہوگا کہ کوئی پیشگوئی بغیر ان کے ظاہر ہوسکے کیونکہ سنت اللہ میں فرق نہیں آسکتا مثلاً قرآن کریم اور دوسری الٰہی کتابوں میں معلوم ہوتا ہے کہ جس قدر لوگوں پر اسی دنیا میں عذاب کے طور پر موت اور ہلاکت وارد ہوئی وہ صرف اس لئے نہیں وارد ہوئی کہ وہ لوگ حیثیت مذہبی کی وجہ سے ناحق پر تھے مثلاً بت پرست تھے یا ستارہ پرست یا آتش پرست یا کسی اور مخلوق کی پرستش کرتے تھے کیونکہ مذہبی ضلالت کا محاسبہ قیامت پر ڈالا گیا ہے اور صرف ناحق پر ہونے کا اور کافر ٹھہرانے سے اس دنیا میں کسی پر عذاب وارد نہیں ہو سکتا اس عذاب کے لئے جہنم اور دار آخرت بنایا گیا ہے بلکہ کافروں کے لئے یہ دنیا بطور بہشت کے ہے اور مومن ہی اکثر اس میں دکھ اور درد اٹھاتے ہیں الدنیا جنۃ الکافر و سجن المؤمن پس اس جگہ بالطبع یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس حالت میں دنیا جنت الکافر ہے اور مشاہدہ بھی اسی پر شہادت دے رہا ہے کہ کفار ہریک دنیوی نعمت اور دولت میں سبقت لے گئے ہیں اور قرآن کریم میں جابجا اسی بات کا اظہار ہے کہ کافروں پر ہریک دنیوی نعمت کے دروازے کھولے جاتے ہیں تو پھر بعض کافر قوموں پر عذاب کیوں نازل ہوئے اور خدا تعالیٰ نے ان کو پتھر اور آندھی اور طوفان اور وبا سے کیوں ہلاک کیا.اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ تمام عذاب محض کفر کی وجہ سے نہیں ہوئے بلکہ جن پر یہ عذاب نازل ہوئے وہ تکذیب مرسل اور استہزاء اور ٹھٹھے اور ایذاء میں حد سے بڑھ گئے تھے اور خدا تعالیٰ کی نظر میں ان کا فساد اور فسق اور ظلم اور آزار نہایت کو پہنچ گیا تھااور انہوں نے اپنی ہلاکت کے لئے
آپ سامان پیدا کئے تب غضب الٰہی جوش میں آیا اور طرح طرح کے عذابوں سے ان کو ہلاک کیا.اس سے معلوم ہوا کہ دنیوی عذاب کا موجب کفر نہیں ہے بلکہ شرارت ہے اور تکبر میں حد سے زیادہ بڑھ جانا موجب ہے اور ایسا آدمی خواہ مومن ہی کیوں نہ ہو جب ظلم اور ایذاء اور تکبر میں حد سے بڑھے گا اور عظمت الٰہی کو بھلا دے گا تو عذاب الٰہی ضرور اس کی طرف متوجہ ہوگا.اور جب ایک کافر مسکین صورت رہے گا اور اس کو خوف دامن گیر ہوگا تو گو وہ اپنی مذہبی ضلالت کی وجہ سے جہنم کے لائق ہے مگر عذاب دنیوی اس پر نازل نہیں ہوگا.پس دنیوی عذاب کے لئے یہی ایک قدیم اور مستحکم فلاسفی ہے اور یہی وہ سنت اللہ ہے جس کا ثبوت خدا کی تمام کتابوں سے ملتا ہے جیسا کہ اللہ جلّ شانہ قرآن کریم میں فرماتا ہے.۱ یعنی جب ہمارا ارادہ اس بات کی طرف متعلق ہوتا ہے کہ کسی بستی کے لوگوں کو ہلاک کریں تو ہم بستی کے منعم اور عیاش لوگوں کو اس طرف متوجہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی بدکاریوں میں حد اعتدال سے نکل جاتے ہیں.پس ان پر سنت اللہ کا قول ثابت ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے ظلموں میں انتہا تک پہنچ جاتے ہیں.تب ہم ان کو ایک سخت ہلاکت کے ساتھ ہلاک کر دیتے ہیں اور پھر ایک دوسری آیت میں فرماتا ہے.۲ یعنی ہم نے کبھی کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا مگر صرف ایسی حالت میں کہ جب اس کے رہنے والے ظلم پر کمر بستہ ہوں.یاد رہے کہ اگرچہ شرک بھی ایک ظلم بلکہ ظلم عظیم ہے مگر اس جگہ ظلم سے مراد وہ سرکشی ہے جو حد سے گذر جائے اور مفسدانہ حرکات انتہا تک پہنچ جائیں ورنہ اگر مجرد شرک ہو جس کے ساتھ ایذا اور تکبر اور فساد منضم نہ ہو اور ایسا تجاوز ازحد نہ ہو جو واعظوں پر حملہ کریں اور ان کے قتل کرنے پر آمادہ ہوں یا معصیت پر پورے طور پر سرنگوں ہوکر بالکل خوف خدا دل سے اٹھا دیں تو ایسے شرک یا کسی اور گناہ کے لئے وعدہ عذاب آخرت ہے اور دنیوی عذاب صرف اعتداء اور سرکشی اور حد سے زیادہ بڑھنے کے وقت نازل ہوتا ہے.جیسا کہ دوسری آیت میں فرماتا ہے.۳ یعنی پہلے بھی رسولوں پر ٹھٹھا کیا گیا پس ہم نے ان کافروں کو جو ٹھٹھا کرتے ہیں مہلت دی.پھر جب وہ اپنے ٹھٹھے میں کمال تک پہنچ گئے تب ہم نے ان کو پکڑ لیا اور لوگوں نے دیکھ لیا کہ کیونکر ہمارا عقاب ان پر وارد ہوا اور پھر فرماتا ہے..۴ یعنی کافروں نے اسلام کے مٹانے کے لئے ایک مکر کیا اور ہم نے بھی ایک مکر کیا یعنی یہ کہ ان کو اپنی مکاریوں میں بڑھنے دیا تا وہ ایسے درجہ شرارت پر
پہنچ جائیں کہ جو سنت اللہ کے موافق عذاب نازل ہونے کا درجہ ہے اس مقام میں شاہ عبد القادر صاحب کی طرف سے موضح القرآن میں سے ایک نوٹ ہے جس کی عبارت ہم بلفظہ درج کرتے ہیں اور وہ یہ ہے یعنی ان کے ہلاک ہونے کے اسباب پورے ہوتے تھے.جب تک شرارت حد کو نہ پہنچی تب تک ہلاک نہیں ہوئے.تمّ عبارتہ دیکھو صفحہ ۵۲۸ قرآن مطبع فتح الکریم.ان تمام آیات سے ثابت ہوا کہ عذاب الٰہی جو دنیا میں نازل ہوتا ہے وہ تبھی کسی پر نازل ہوتا ہے کہ جب وہ شرارت اور ظلم اور تکبر اور علو اور غلو میں نہایت کو پہنچ جاتا ہے یہ نہیں کہ ایک کافر خوف سے مرا جاتا ہے اور پھر بھی عذاب الٰہی کے لئے اس پر صاعقہ پڑے اور ایک مشرک اندیشہ عذاب سے جان بلب ہو اور پھر بھی اس پر پتھر برسیں.خداوند تعالیٰ نہایت درجہ کا رحیم اور حلیم ہے عذاب کے طورپر صرف اسی کو اس دنیا میں پکڑتا ہے جو اپنے ہاتھ سے عذاب کا سامان تیار کرے اور جب کہ یہی سنت اللہ ہے اور یہی قانون الٰہی تو پھر عبداللہ آتھم کے حالات اس میزان میں رکھ کر خوب احتیاط سے تولنا چاہیئے اور بہت ہوشیاری سے وزن کرنا چاہیئے کہ ان پندرہ مہینوں میں اس کی حالت کیسی رہی کیا کسی نے سنا کہ اس مدت میں وہ کسی قسم کی بے باکی اور گستاخی اور بدزبانی اسلام کی نسبت ظاہر کرتا رہا.یا تکبر اور شرّ کی حرکات اس سے صادر ہوئیں یا اس نے بے ادبی اور توہین کی کتابیں تالیف کیں اور تحقیر اور توہین کے ساتھ زبان کھولی ہرگز نہیں.اس عرصہ میں اسلامی توہین کے بارہ میں ایک سطر تک اس نے شائع نہیں کی بلکہ برعکس اس کے اپنی جان کے خوف میں سخت مبتلا ہوگیا اور اسلامی عظمت کو ایسا قبول کیا کہ دوسرے عیسائیوں کی نسبت ہمارے پاس کوئی ایسی نظیر نہیں.اس نے خوف دکھایا اور ڈرا.اس لئے خدا تعالیٰ نے اپنی سنت اللہ کے موافق اس سے وہ معاملہ کیا جو کہ ڈرنے والے دل سے ہونا چاہیئے یہی شرط الہام میں بھی درج تھی کیونکہ حق کی طرف جھکنا اور اسلامی عظمت کو اپنی خوفناک حالت کے ساتھ قبول کرنا درحقیقت ایک ہی بات ہے.جو لوگ صداقت کا خون کرنے کو تیار ہوتے ہیں اور اپنے بخلوں کی وجہ سے حق پوشی کی طرف قدم چلاتے ہیں ان کی زبان بند نہیں ہوسکتی اور نہ کبھی بند ہوئی لیکن جو لوگ حیا اور شرم کو استعمال کرکے اس پیشگوئی کی طرف ایک غور کن دل کے ساتھ نظر ڈالیں گے اور تمام واقعات کو آگے رکھ کر پاک اور بے لگاؤ دل کے ساتھ ایک رائے ظاہر کریں گے ان کو ماننا پڑے گا کہ پیشگوئی اپنے مضمون کے لحاظ سے پوری ہوگئی اس نے بلاشبہ وہ آثار دکھائے جو پہلے موجود نہیں تھے.اور اس ہماری تحریر سے کوئی یہ خیال نہ کرے کہ جو ہونا تھا وہ سب ہوچکا اور آگے کچھ
نہیں کیونکہ آئندہ کے لئے الہام میں یہ بشارتیں ہیں و نمزق الاعداء کل ممزق یومئذ یفرح المؤمنون ثلۃ من الاولین و ثلۃ من الاٰخرین یعنی مخالف فاش شکستوں سے پارہ پارہ ہو جائیں گے اور اس دن مومن خوش ہوں گے پہلا گروہ بھی اور پچھلا بھی.پس یقیناً سمجھو کہ وہ دن آنے والے ہیں کہ وہ سب باتیں پوری ہوں گی جوالٰہی الہام میں آچکیں.دشمن شرمندہ ہوگا.اور مخالف ذلت اٹھائے گا اور ہر یک پہلو سے فتح ظاہر ہو جائے گی.اور یقیناً سمجھئے کہ یہ بھی ایک فتح ہے اور آنے والی فتح کا ایک مقدمہ ہے کیا عیسائی اپنی جہالت کھلنے کی وجہ سے ذلیل نہیں ہوئے.کیا بعض لوگ مباحثہ کے حامیوں اور سرگروہوں میں سے اسی میعاد کے اندر موت کے پنجہ میں گرفتار نہیں ہوئے.کیا بعض اسی میعاد کے اندر سخت بیماریوں سے موت تک نہیں پہنچے.کیا ان میں سے مسٹر عبد اللہ آتھم ایسی بلا میں پندرہ ماہ تک گرفتار نہیں رہا جو ہر وقت اس کی جان کھاتی تھی جس کی وجہ سے وہ سخت سراسیمہ اور مسلسل غموں اور اندوہوں میں غرق رہا اور اپنی خوفناک حالت کا ایک عجیب نقشہ اس نے دنیا پر ظاہر کیا اور اب بھی رعب حق نے اس کو میّت کی طرح کر رکھا ہے پس کیا اتنے عجیب واقعات کے ساتھ ابھی پیشین گوئی پوری نہ ہوئی.کیا اس قدر خوف اور دہشت کے قبضہ میں کسی کو کر دینا یہ انسان کا کام ہے کیا کسی کو سخت بیمار کرنا اور کسی کو ہلاک کرنا انسانی افعال میں سے ہے.کاش ہمارے مخالف خاص کر ڈاکٹر مارٹین کلارک صاحب اس بات کو غور سے سمجھیں اور اپنی تار کو جو ہماری طرف بھیجی واپس لیں اور ذرہ ایک منٹ کیلئے عقلمندی کو کام میں لا کر سوچیں کہ پیشگوئی کے بعد کس فریق پر میعاد کے اندر عام مصیبتیں اور ذلتیں پڑیں.کیا وہ انجیل اٹھا کر قسم کھا سکتے ہیں کہ عیسائیوں پر وہ مصیبتیں نہیں پڑیں جن کا پہلے اس سے نام و نشان نہ تھا.کیا خدا نے ہزار لعنت کی ذلت.موت.بیماری.خوف.سراسیمگی یہ سب ان پر مسلط کر دیا یا ابھی اس میں کچھ شک ہے.کیا وہ لاعلاج ذلت جس نے تمام دنیا کو دکھا دیا کہ پادریوں کا قرآن کریم پر حملہ کرنا محض حماقت کی وجہ تھا نہ کسی بصیرت علمی سے.وہ ایسی ذلت نہیں ہے جس سے ہمیشہ کیلئے منہ کالا رہے کیا کوئی پادریوں میں سے نور الحق کے جواب پر قادر ہوسکا اور اگر نہیں قادر ہو سکا تو یہ ہزار لعنت کی ذلت کا رسہ کس کے گلے میں پڑا.ہمارے گلے میں یا ڈاکٹر مارٹن صاحب کے گروہ کے گلے میں.ہم کچھ نہیں کہتے آپ ہی فیصلہ کریں کہ یہ ذلت ہے یا نہیں کیا پادری رائٹ صاحب کی بے وقت موت نے جو پیشگوئی کے میعاد کے اندر تھی آپ نے آنسو جاری نہ کئے.کیا
مسٹر عبد اللہ آتھم کی مصیبتوں اور خوف زدہ ہوکر شہر بشہر پھرنے پر آپ کا دل پگھلتا نہ رہا کیا اس حالت میں مسٹرآتھم صاحب جلتے ہوئے تنور میں رہے یا بہشت میں.کوئی کسی مخالف کو جھوٹا سمجھ کر تو اس قدر رعب اس کی بات کا دل پر غالب نہیں کر سکتا جب تک خدا وہ رعب دل میں نہ ڈالے.سو خدا تعالیٰ نے اس خوف کو موت کا قائم مقام بنا کر اپنے قدیم قانون کے موافق جسمانی موت کو دوسرے وقت پر ڈال دیا کیونکہ مسٹر عبد اللہ آتھم نے زہرہ گداز خوف کے ساتھ اس شرط کو پورا کیا جو الہام میں درج تھی اور موت سے مانع تھی اور اس جگہ یہ بھی بخوبی یاد رہے کہ ہاویہ میں گرنے کی جو پندرہ ماہ کی میعاد تھی اسی میعاد کے اندر عیسائی فریق کے ہریک فردنے ہاویہ میں سے حصہ لیا ہاں مسٹر عبد اللہ آتھم نے اگرچہ ایک ہاویہ تو دیکھ لیا مگر اپنے خیالات کو حق کی عظمت کے نیچے لا کر اور حق کی طرف رجوع دے کر وہ بڑا حصہ ہاویہ کا جو موت ہے نہیں لیا اور الہامی شرط اس کے لینے سے مانع آگئی جیسا کہ پندرہ مہینوں کی میعاد الہام میں درج تھی ویسا ہی یہ شرط بھی جو میعاد کو غیر مؤثر کرتی ہے الہام میں ہی داخل تھی.بالآخر ہم یہ بھی لکھنا چاہتے ہیں کہ اس وقت جو ہم اس حاشیہ کو لکھ رہے تھے.امرتسر کے عیسائیوں اور ڈاکٹر کلارک مارٹن کی طرف سے ایک اشتہار پہنچا جو محمد سعید مرتد کی طرف سے شائع کیا گیا ہے.اس اشتہار کا دندان شکن جواب ہمارے اس اشتہار میں آگیا ہے لیکن اس وقت ناظرین کو پادری صاحبوں کی ایک بڑی خباثت اور خیانت پر مطلع کرتے ہیں جس کے بغیر یہ لوگ اس اشتہار کو لکھ نہیں سکتے تھے اور وہ خیانت یہ ہے کہ ہاویہ اور موت سے بچنے کے لئے جو شرط ہم نے اپنی الہامی عبارت میں لکھی تھی یعنی یہ کہ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اس شرط کو عمداً انہوں نے خیانت اور تحریف کی راہ سے الہامی عبارت میں سے گرا دیا کیونکہ یہ دھڑکا دل میں شروع ہوا کہ یہ شرط تمام منصوبہ ان کا برباد کرتی ہے اور خوب جانتے تھے کہ مسٹر عبد اللہ آتھم نے اپنے افعال کے ساتھ اس شرط کی پناہ لے لی ہے اور افعال کی قید تو صرف ہم نے ظاہر بینوں کے لحاظ سے کی ہے ورنہ جو کچھ باطنی رجوع اور صلاحیت کی طرف قدم اٹھانا پوشیدہ طور پر ظہور میں آیا ہوگا اس حالت کو مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کا جی جانتا ہوگا.غرض انہوں نے جو ہماری الہامی شرط کو عمداً اپنے اشتہار سے گرایا تو اس مجرمانہ خیانت کے اختیار کرنے سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ عیسائی گروہ اس بات کا قائل ہے کہ مسٹر عبد اللہ آتھم نے اپنی حالت کو ایک مصیبت زدہ حالت بنانے سے اور اسلامی عظمت کا ایک سخت خوف اپنے دل پر ڈالنے سے اس شرط
سے فائدہ اٹھایا اور گو ایک درجے تک ہاویہ دیکھ لیا اور الہامی الفاظ کو پورا کر دکھایا لیکن اسی شرط کے طفیل سے موت کے دنوں کے لئے مہلت لے لی.ہم اس دعویٰ میں مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کے دل کو گواہ قرار دیتے ہیں نہ اور کسی کو.پس اگر کوئی ان کے حالات پر نظر ڈالنے سے مطمئن نہ ہوسکے اور اندھوں کی طرح ان کے واقعات سے آنکھیں بند کرے تو ہم اس کو اللہ تعالیٰ کی قسم دیتے ہیں کہ اگر وہ ایسی رائے شرارت اور خیانت کی راہ سے نہیں بلکہ نیک دلی سے رکھتا ہے تو مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کو اس معاملے کے لئے مستعد کرے جس کا ہم ذکر کر چکے ہیں جس میں ان کا کچھ خرچ نہیں آتابلکہ ایک ہزار روپیہ مفت ہاتھ آتا ہے جس حالت میں وہ اس عاجز کو جھوٹا یقین کر چکے ہیں تو دو حرف کا اقرار کرنے میں کون سا ان کا خرچ آتا ہے بلکہ ہم خود اطلاع یابی پر امرت سر آنے پر تیار ہیں ورنہ بغیر اس تصفیہ کے جو شخص ہماری تکذیب کرے وہ خود کاذب اور لعنت اللّٰہ علی الکاذبین کا مستحق ہے.ہم اسی شخص کے ہاتھ میں روپیہ دیتے ہیں وہ باضابطہ تحریر ہم کو دے کر جہاں چاہے جمع کراوے اور ہم اگر درخواست کے بعد تین ہفتہ تک روپیہ جمع نہ کرا ویں تو بے شک کاذب ہیں.مگر درخواست اس اشتہار کے شائع ہونے کے بعد ایک ہفتہ تک ہمارے پاس آنی چاہیئے تا جو جھوٹا ہو وہ ہلاک ہو ہم بار بار کہتے ہیں اور بخدا ہم سچ کہتے ہیں کہ مسٹر عبد اللہ آتھم عظمت اسلامی کو قبول کر کے اور حق کی طرف رجوع کر کے بچا ہے.اب سارا جہان دیکھ رہا ہے کہ اگر مسٹر عبد اللہ آتھم کے نزدیک ہمارا یہ بیان صحیح نہیں ہے تو وہ اس دوسری جنگ کو بھی قبول کریں گے جبکہ سانچ کو آنچ نہیں تو ان کو مقابلہ سے کیا اندیشہ ہے اور پادری صاحبوں نے جو الہامی فقرہ اپنے اشتہار میں سے خباثت کی راہ سے حذف کر دیا ہے اس کا ہمیں اس وجہ سے افسوس نہیں کہ جب کہ ان کے باپ دادا قدیم سے تحریف کرتے آئے ہیں تو وہ بھی فطرتاً تحریف کے لئے مجبور تھے اور ضرور چاہیئے تھا کہ تحریف کریں تاان کے نقش قدم پر چلیں.والسلام علٰی من اتبع الہدٰی.
حاشیہ نمبر ۲ نکتہ لطیفہ یہ بھی ایک سنت اللہ ہے کہ وہ اپنی پیشگوئیوں اور نشانوں کو اس طور سے ظہور میں لاتا ہے کہ وہ ایک خاص ایسے طائفہ کے لئے مفید ہوں جو اس کے کاموں میں تدبر کرنے والے اور سوچنے والے اور اس کی حکمتوں اور مصالح کی تہ تک پہنچنے والے اور عقلمند اور پاکیزہ طبع اور لطیف الفہم اور زیرک اور متقی اور اپنی فطرت سے سعید اور شریف اور نجیب ہوں اور اس طائفہ کو وہ باہر رکھتا ہے جو سفلہ مزاج اور جلد باز اور سطحی خیالات والے اور حق شناسی سے عاجز اور سوء ظن کی طرف جلد جھکنے والے اور فطرتی شقاوت کا اپنے پر داغ رکھتے ہیں وہ نافہموں کے دلوں پر رجس ڈال دیتا ہے یعنی کچھ پردہ رکھ دیتا ہے.تب ان کو نور ایک تاریکی دکھائی دیتا ہے.اور اپنی آرزوؤں کی پیروی کرتے ہیں اور ان کو چاہتے ہیں اور سوچنے کا مادہ نہیں رکھتے اور خدا تعالیٰ کے اس فعل سے غرض یہ ہوتی ہے کہ تاخبیث کو طیب کے ساتھ شامل نہ ہونے دے اور اپنے نشانوں پر ایسے پردے ڈال دے جو نا پاک طبع کو پاکوں کے ساتھ شامل ہونے سے روک دیں اور پاک طبع لوگوں کا ایمان زیادہ کریں اور علم زیادہ کریں اور معرفت زیادہ کریں.اور صدق اور ثبات میں ترقی دیں اور ان کی زیر کی اور حقائق شناسی دنیا پر ظاہر کریں اور ان کو اس کسر شان اور بے عزتی سے محفوظ رکھیں جو اس حالت میں متصور ہے کہ جب ایک کج طبع اور سفلہ خیال اور نفس پرست اور نادان اُن کی جماعت میں شامل ہو جائے اور ان کے ہم پہلو جگہ لے اور چونکہ خدا تعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے جو اس کی جماعت کے آب زلال کے ساتھ کوئی پلید مادہ نہ مل جائے اس لئے وہ ایسی خصوصیت کے ساتھ اپنے نشانوں کو ظاہر کرتا ہے کہ جس خصوصیت سے غبی اور ناپاک طبع لوگ حصہ نہیں لے سکتے اور صرف اس رفیع الشان نشان کو رفیع الشان لوگ دریافت کرتے ہیں اور اپنے ایمان کو اس سے زیادہ کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ قادر تھا کہ کوئی ایسا نشان دکھاتا کہ تمام موٹی عقل کے آدمی اور پست فطرت انسان جو صدہا نفسانی زنجیروں میں مبتلا ہیں
بدیہی طور پر اپنی نفسانی خواہشوں کے مطابق اس کو مشاہدہ کر لیتے مگر درحقیقت نہ کبھی ایسا ہوا اور نہ ہوگا.اور اگر کبھی ایسا ہوتا اور ہر ایک کج فطرت اپنی خواہشوں کے مطابق نشان دیکھ کر تسلی پا لیتے تو گو خدا تعالیٰ تو ایسا نشان دکھلانے پر قادر تھا اور اس بات پر قدرت رکھتا تھا کہ تمام گردنیں اس نشان کی طرف جھک جائیں اور ہر یک نوع کی فطرت اس کو دیکھ کر سجدہ کرے مگر اس دنیا میں جو ایمان بالغیب پر اپنی بناء رکھتی ہیں اور تمام مدار نجات پانے کا ایمان بالغیب پر ہے وہ نشان حامی ایمان نہیں ہو سکتا تھا بلکہ ربانی وجود کا سارا پردہ کھول کر ایمانی انتظام کو بکلی برباد کر دیتا اور کسی کو اس لائق نہ رکھتا کہ وہ خدا تعالیٰ پر ایمان لاکر ثواب پانے کا مستحق رہے کیونکہ بدیہیات کا ماننا ثواب کا موجب نہیں ہو سکتا اور جب ایک ایسا کھوکھلا نشان دیکھ کر تمام نالائق اور پست فطرت اور سفلی خیال کے آدمی اور بدچلن انسان ایک ہا ہو کر کے جماعت میں داخل ہو جاتے تو ان کا داخل ہونا پاک جماعت کے لئے ننگ اور عار ہو جاتا اور نیز خلق اللہ کا یک دفعہ رجوع کرنا اور کئی قسم کے فتنے پیدا کرنا انسانی گورنمنٹوں میں بھی ایک تہلکہ مچاتا.اس لئے خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت نے ابتداء سے نہیں چاہا کہ نشان نمائی میں عوام کا شور و غوغا ہونے دے اس کی باتیں ٹل نہیں سکتیں اور سب پوری ہوتی ہیں اور ہوں گی مگر ایسے طور سے جو قدیم سے سنت اللہ ہے.تنبیہ ہم محض نصیحۃً للہ تمام مسلمانوں کو مطلع کرتے ہیں کہ اللہ جلّ شانہٗ کے فضل اور کرم سے عیسائیوں کے گروہ کے مقابلہ میں ہم کو فتح نمایاں حاصل ہوئی ہے چنانچہ عیسائیوں کے فریق میں سے مسٹر عبد اللہ آتھم جو بحث کے لئے منتخب کئے گئے تھے.انہوں نے اپنے کئی مہینوں کی سرگردانی اور غلبہ، خوف وہم سے ثابت کر دیا کہ حق کی عظمت کو انہوں نے قبول کر لیا اور جو کچھ ان کے حال کے آئینہ سے ظاہر ہے یہ قائم مقام اقرار کے ہے بلکہ ایک صورت میں اقرار سے بھی واضح تر اور زیادہ تر تسلی کے لائق ہے کیونکہ بعض اوقات اقرار نفاق کی وجہ سے بھی ہوا کرتا ہے کئی یورپ کے عیسائی نوٹ.خاص جنڈیالہ میں بھی جہاں سے مباحثہ شروع ہوا تھا ڈاکٹر یوحنا جس کو عین مباحثہ میں اہتمام طبع مباحثہ کا سپرد ہوا تھا اور جو بلحاظ اپنی خدمات کے عیسائیوں میں ایک اعلیٰ رکن متصور ہوتا تھا اس پر ہیبت نشان کی پورا کرنے کے واسطے میعاد مقررہ کے اندر اس جہان سے رخصت ہوا.
لوگ اسلامی ممالک میں نفاق سے اظہار اسلام کر دیتے ہیں یا جیسے بعض دنیا پرست اپنی اغراض دنیوی کے پورا کرنے کے لئے محض نفاق سے بپتسمہ پاکر ربّنا المسیحکہنے لگتے ہیں اور عیسیٰ کے بندے کہلاتے ہیں.لیکن مصیبت زدہ اور خوفناک حالت کے آئینہ سے جو ظاہر ہو اس میں نفاق کی گنجاش نہیں بلکہ وہ فعلی اور حالی اقرار ہے.پس اس میں کچھ شک نہیں کہ مسٹر عبد اللہ آتھم نے مصیبت زدہ حالت اور خوفناک صورت کا وہ نمونہ دکھلایا جس سے بڑھ کر گنجائش نہیں.پھر بعد اس کے ہمارا ایک ہزار روپیہ کا اشتہار ان کے اقرار پر ایک دوسرا گواہ ناطق ہے اور اب بھی اگر کسی کو اقرار میں شک ہو تو بجز دیوانگی اور تاریکی خیال کے اور کیا کہہ سکتے ہیں.پھر ماسوا اس کے یہ بھی نہایت درجہ کی غلطی ہے کہ فریق مخالف میں سے بار بار صرف اس شخص کا ذکر کیا جاتا ہے.جو ان میں سے ان کے مشورہ اور اتفاق رائے سے بحث کیلئے منتخب کیا گیا تھا اور جو باقی اس فریق کے اشخاص ہیں.ان لوگوں کا کوئی نام بھی نہیں لیتا.ہم ایسے لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہمارے الہام میں ہاویہ اور ذلّت کے وعدہ پر صرف مسٹر عبد اللہ آتھم کا نام تھا.یا وہ الہام عام طور پر فریق کے لفظ سے ذکر کیا گیا تھا اگر الہامی الفاظ میں فریق کا لفظ ہے تو کیوں فریق کا لفظ صرف عبد اللہ آتھم کے وجود پر محدود کیا جاتا ہے اور کیوں تمام واقعات کو یکجائی نظر سے دیکھا نہیں جاتا.کیا مسٹر عبد اللہ آتھم نے مستقل طور پر بغیر کسی فریق قائم ہونے کے آپ ہی بحث کی تھی اور کوئی اس کا معاون اور سرگروہ نہ تھا اور اگر ایک فریق مخالف قائم ہوکر اس فریق کے انتخاب سے مسٹر عبد اللہ آتھم بحث کیلئے چنے گئے تھے تو پھر اس فریق کو باوجودیکہ الہامی عبارت میں داخل ہے کیوں باہر رکھا جاتا ہے ہریک منصف پر لازم ہے کہ الہام کے اصل الفاظ کی پیروی کرے نہ کہ اپنے خیال کے موافق کوئی نیا الہام بنا وے سو ہم کو ایسے لوگوں پر بڑا تعجب ہی آتا ہے کہ جو ناحق بے وجہ صرف مسٹر عبد اللہ آتھم تک الہامی پیشگوئی کو محدود رکھتے ہیں اور فریق کے لفظ کو غور سے نہیں دیکھتے اور ایک کامل فتح کو اپنی قلت تدبر اور غفلت کی وجہ سے کامل فتح خیال نہیں کرتے لیکن صداقت رد نہیں ہوسکتی بلکہ ہر ایک لڑائی اور سخت درجہ کے جھگڑے کے بعد بھی اس کو قبول کرنا ہی پڑے گا.اور کاغذات بحث کے مطالعہ کے بعد بہرحال ماننا پڑے گا کہ عبد اللہ آتھم فریق مخالف میں سے ایک جزو تھا جس کو بحث کے لئے فریق مخالف کے دوسرے ممبروں نے منتخب کیا کیونکہ اس فریق نے اپنے کام بانٹ لئے تھے اور بحث کیلئے مسٹر عبد اللہ آتھم اسی وجہ سے منتخب ہوا تھا کہ اس کو اکسٹرا اسسٹنٹی کے زمانہ سے عبارت نویسی اور سخن سازی کی مشق بہت ہے.اب آنکھیں کھولو اور اندھے مت بن جاؤ اور غور سے دیکھو کہ کیا اس تمام فریق نے ہاویہ نوٹ.اب بھی پندرہ ماہ کے بعد جو عیسائیوں کی طرف سے اشتہارنکلا اسکی عبارت یہ ہے.مسیحیوں اور محمدیوں کے جنگ مقدس کا نتیجہ.منہ
اور ذلت کا کچھ مزہ چکھایا اب تک بے لوث اور بالکل محفوظ ہے اور اگر اس فریق میں سے افراد کثیرہ نے ہاویہ کا مزہ چکھ لیا ہے تو کیوں اس پیشگوئی کی عظمت کے قائل نہیں ہوتے.بھلا بتاؤ کہ مزہ چکھنے سے باہر کون رہا.جلدی مت کرو ایک عمیق فکر کے ساتھ سوچو اور زیادہ تر افسوس ان بعض لوگوں پر ہے کہ اس فتح نمایاں پر انہوں نے پوری بشاشت ظاہر نہیں کی.میں ایسے لوگوں کو مطلع کرتا ہوں کہ یہ تو فتح ہے اور کامل فتح اور اس سے کوئی انکار نہیں کرے گا مگر خبیث القلب، لیکن صادق تو ابتلاؤں کے وقت بھی ثابت قدم رہتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ آخر خدا ہمارا ہی حامی ہوگا.اور یہ عاجز اگرچہ ایسے کامل دوستوں کے وجود سے خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہے لیکن باوجود اس کے یہ بھی ایمان ہے کہ اگرچہ ایک فرد بھی ساتھ نہ رہے اور سب چھوڑ چھاڑ کر اپنا اپنا راہ لیں تب بھی مجھے کچھ خوف نہیں.میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے اگر میں پیسا جاؤں اور کچلا جاؤں اور ایک ذرّے سے بھی حقیر تر ہو جاؤں اور ہر ایک طرف سے ایذا اور گالی اور لعنت دیکھوں تب بھی میں آخر فتح یاب ہوں گا مجھ کو کوئی نہیں جانتا مگر وہ جو میرے ساتھ ہے میں ہرگز ضائع نہیں ہوسکتا دشمنوں کی کوششیں عبث ہیں اور حاسدوں کے منصوبے لاحاصل ہیں.اے نادانو اور اندھو مجھ سے پہلے کون صادق ضائع ہوا جو میں ضائع ہو جاؤں گا.کس سچے وفادار کو خدا نے ذلت کے ساتھ ہلاک کر دیا جو مجھے ہلاک کرے گا.یقیناً یاد رکھو اور کان کھول کر سنو کہ میری روح ہلاک ہونے والی روح نہیں اور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں مجھے وہ ہمت اور صدق بخشا گیا ہے جس کے آگے پہاڑ ہیچ ہیں.میں کسی کی پرواہ نہیں رکھتا.میں اکیلا تھا اور اکیلا رہنے پر ناراض نہیں کیا خدا مجھے چھوڑ دے گا کبھی نہیں چھوڑے گا کیا وہ مجھے ضائع کر دے گا کبھی نہیں ضائع کرے گا.دشمن ذلیل ہوں گے اور حاسد شرمندہ اور خدا اپنے بندہ کو ہر میدان میں فتح دے گا.میں اس کے ساتھ وہ میرے ساتھ ہے کوئی چیز ہمارا پیوند توڑ نہیں سکتی اور مجھے اس کی عزت اور جلال کی قسم ہے کہ مجھے دنیا اور آخرت میں اس سے زیادہ کوئی چیز بھی پیاری نہیں کہ اس کے دین کی عظمت ظاہر ہو اس کا جلال چمکے اور اس کا بول بالا ہو.کسی ابتلا سے اس کے فضل کے ساتھ مجھے خوف نہیں اگرچہ ایک ابتلا نہیں کروڑ ابتلا ہو.ابتلاؤں کے میدان میں اور دکھوں کے جنگل میں مجھے طاقت دی گئی ہے من نہ آنستم کہ روز جنگ بینی پشت من آں منم کاندرمیان خاک و خوں بینی سرے پس اگر کوئی میرے قدم پر چلنا نہیں چاہتا تو مجھ سے الگ ہو جائے مجھے کیا معلوم ہے کہ ابھی کون کون سے ہولناک جنگل اور پرخار باد یہ درپیش ہیں جن کو میں نے طے کرنا ہے پس جن لوگوں کے
نازک پیر ہیں وہ کیوں میرے ساتھ مصیبت اٹھاتے ہیں جو میرے ہیں وہ مجھ سے جدا نہیں ہوسکتے نہ مصیبت سے نہ لوگوں کے سب وشتم سے نہ آسمانی ابتلاؤں اور آزمائشوں سے اور جو میرے نہیں وہ عبث دوستی کا دم مارتے ہیں کیونکہ وہ عنقریب الگ کئے جائیں گے اور ان کا پچھلا حال ان کے پہلے سے بدتر ہوگا.کیا ہم زلزلوں سے ڈر سکتے ہیں.کیا ہم خدا تعالیٰ کی راہ میں ابتلاؤں سے خوفناک ہو جائیں گے.کیا ہم اپنے پیارے خدا کی کسی آزمائش سے جدا ہوسکتے ہیں ہرگز نہیں ہوسکتے مگر محض اس کے فضل اور رحمت سے.پس جو جدا ہونے والے ہیں جدا ہو جائیں ان کو وداع کا سلام.لیکن یاد رکھیں کہ بدظنی اور قطع تعلق کے بعد اگر پھر کسی وقت جھکیں تو اس جھکنے کی عند اللہ ایسی عزت نہیں ہوگی جو وفادار لوگ عزت پاتے ہیں.کیونکہ بدظنی اور غداری کا داغ بہت ہی بڑا داغ ہے.اکنون ہزار عذر بیاری گناہ را مرشوے کردہ را نبود زیب دختری نیم عیسائیوں کا ذکر بعض نام کے مسلمان جن کو نیم عیسائی کہنا چاہیئے اس بات پر بہت خوش ہوئے کہ عبد اللہ آتھم پندرہ ماہ تک نہیں مر سکا اور مارے خوشی کے صبر نہ کر سکے آخر اشتہار نکالے اور اپنی عادت کے موافق بہت کچھ ان میں گند بکا اور اس ذاتی بخل کی وجہ سے جو میرے ساتھ تھا اسلام پر بھی حملہ کیا کیونکہ میرے مباحثات اسلام کی تائید میں تھے نہ میرے مسیح موعود ہونے کی بحث میں غایت درجہ مَیں ان کے خیال میں کافر تھا یا شیطان تھا یا دجال تھا.لیکن بحث تو جناب رسول اللہ صلعم کی صداقت اور قرآن کریم کی فضیلت کے بارہ میں تھی اور صادق کاذب کی یہ تشریح لکھی گئی ہے کہ جو شخص سچے دل سے حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہے اور قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ کا کلام سمجھتا ہے وہ صادق ہے اور جو حضرت مسیح کو خدا جانتا ہے اور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے انکاری ہے وہ کاذب ہے.اسی فیصلہ کے لئے الہام پیش کیا گیا تھا لیکن ہمیں آہ کھینچ کر کہنا پڑا کہ مخالف مولویوں نے مجھے دروغ گو ثابت کرنے کیلئے اللہ اور رسول کی عزت کا ذرہ خیال نہ کیا اور میرا مغلوب ہونا اس بحث میں
تسلیم کر لیا اور اس صریح نتیجہ سے کچھ بھی نہ ڈرے جو مغلوب ہونے کی حالت میں فریق مخالف کے ہاتھ میں آتا ہے اور جب میاں ثناء اللہ و سعد اللہ و عبد الحق وغیرہ نے عیسائیوں کا غالب ہونا مان لیا تو پھر کیوں یہ لوگ اپنے اشتہاروں میں عیسائیوں کے حال پر افسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کی تکذیب کے لئے یہ حجت قرار دی جبکہ بحث اسلام اور عیسائیت کے صدق و کذب کی تھی نہ میرے کسی خاص عقیدہ کی تو نعوذ باللہ اگر میں مغلوب ہوں تو پھر دشمن کے لئے حق پیدا ہوگیا کہ اپنی عیسائیت کے صدق کا دعویٰ کرے امور بحث پر نظر چاہیئے نہ مباحث پر مثلاً اگر ہماری طرف سے ایک بھنگی یا چمار جو دین سے بالکل الگ ہے اسلامی حمایت میں عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ کرے تو پھر بھی یہ ممکن نہ ہوگا کہ عیسائی فتح یاب ہوں اور خدا تعالیٰ اس کا بھنگی یا چمار ہونا نہیں دیکھے گا بلکہ اپنے دین کی عزت محفوظ رکھ لے گا اور کبھی اسلام کو سبکی نہیں دکھلائے گا.تمہیں معلوم ہوگا کہ بعض کافر اور بت پرست آنحضرت صلعم سے عہد صلح کر کے دوسرے کافروں کے ساتھ لڑتے تھے اور چونکہ اس حالت میں مؤیّد اسلام تھے تو دشمنوں پر فتح پاتے تھے سو فرض کرو کہ میں تمہاری نظر میں سب کافروں سے بدتر ہوں اور دوسرے کافر تو خالدین فیہا ابدا کے جہنم میں سزا پائیں گے اور میری سزا تمہاری نظر میں اس سے بھی بڑھ کر ہے.کیونکہ تم نے میرا نام نہ صرف کافر بلکہ اکفر رکھا مگر تاہم سوچنے کا مقام تھا کہ امور بحث میں ان باتوں کا کچھ بھی دخل نہ تھا.جن کی وجہ سے مجھ کو آپ لوگ کافر اور اکفر اور دجال کہتے ہیں بلکہ زیر بحث وہی باتیں تھیں جن کیلئے ہریک مسلمان کو غیرت کرنی چاہیئے اور پھر طرفہ تر یہ کہ مجھ کو مغلوب اور عیسائیوں کو غالب بتلاتے ہیں یہ ایسا سفید جھوٹ ہے کہ کسی طرح چُھپ نہیں سکتا.پیشگوئی کے مسٹر عبد اللہ آتھم کی نسبت دو۲ پہلو تھے نہ صرف ایک اور خدا تعالیٰ نے اس پہلو کو جو مشکوک کیا گیا تھا یعنی موت کو چھوڑ دیا کیونکہ عبد اللہ آتھم کی موت کو کچھ ایک معمولی بات اور قریب قیاس سمجھا گیا تھا اور دوسرا پہلو حق کی طرف رجوع کرنا تھا اس پہلو کو خدا تعالیٰ نے عبد اللہ آتھم کے افعال سے ثابت کر دیا.اگر کوئی مولویوں میں سے کہے کہ ثابت نہیں تو اگر وہ اِس بات میں سچا اور حلال زادہ ہے تو عبداللہ آتھم کو اس حلف پر آمادہ کرے جوہم لکھ چکے ہیں اگر عبد اللہ آتھم قسم کھا لے تو ہم بلا توقف ہزار روپیہ بلکہ اب تو دو ہزار روپیہ باضابطہ تحریر لے کر دے دیں گے.پھر اگر وہ ایک سال تک فوت نہ ہوا تو جو مولوی لوگ ہمارا نام رکھیں سب سچ ہوگا ورنہ اس تصفیہ سے پہلے جو شخص اس فتح نمایاں کو قبول نہیں کرتا خواہ وہ امرت سری ہے یا غزنوی یا لدھیانوی یا دہلوی یا بٹالوی وہ سراسر ظلم کرتا ہے اور
خبردار رہے کہ خدا تعالیٰ کی ظالموں اور کاذبوں پر لعنت ہے.جب تک عبد اللہ آتھم دو ہزار روپیہ لے کر ایسا دشمن اسلام نہ ہولے اور حضرت مسیح کو خدا سمجھنے کا اقرار نہ کر لے اور پھر اس پر ایک برس بخیر نہ گذر جائے ہم کسی طرح کاذب نہیں ٹھہر سکتے.ہمیں اپنے الہام سے خدا تعالیٰ نے جتلا دیا ہے کہ اس نے عظمت اسلام قبول کر کے اور اسلامی پیشگوئی کی وجہ سے اپنے پر ہم و غم لے کر شرط الہامی سے فائدہ اٹھا لیا.اب اگر بغیر اس امتحان کے کوئی شخص ہمارا نام کاذب رکھے اور ہمیں مغلوب خیال کرے تو وہ کاذب اور مورد لعنت اللّٰہ علی الکاذبین ہے اور پاک فطرت سے بے نصیب اس کو چاہیئے کہ عبد اللہ آتھم کے پاس جا کر ہاتھ پیر جوڑے اور بہت خوشامد کرے کہ وہ شرط مذکورہ کی پابندی سے ہزار روپیہ مجھ سے لے لے اور اس قطعی فیصلہ کے بالمقابل کھڑا ہو جائے ورنہ میاں عبد الحق غزنوی ہو یا میاں ثناء اللہ یا سعد اللہ یا غلام رسول یا کوئی اور ہو خوب یاد رکھیں کہ مسلمان کہلا کر بے وجہ عیسائیوں کو غالب قرار دینا اور سراسر ظلم کی راہ سے ان کا نام فتح یاب رکھنا یہ حلال زادوں کا کام نہیں چاہیئے کہ اب بھی سمجھ جائیں اور یقیناً اور غور کر کے دیکھ لیں کہ اس بحث میں عیسائی مغلوب ہوئے ہیں.ان کے فریق پر خدا تعالیٰ نے ہر طرح سے آفت اور ذلت ڈالی چنانچہ اس فریق میں سے ایک پادری صاحب تو فوت ہوگئے اور دو مر مر کے بچے اور بعضوں کے گلے میں ہزار لعنت کی ذلت کا رسّہ پڑ گیا جس رسّہ سے وہ اپنی گردنوں کو چھوڑا نہ سکے.اب ایماناً کہو فتح کس کی ہوئی اور مباہلہ کا بد اثر کس پر پڑا خدا تعالیٰ سے ڈرو اور بڑھتے نہ جاؤ وہ تجاوز کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا.توبہ کرو تا توبہ کا پھل پاؤ.غضب کی بات ہے کہ خدا تعالیٰ نے تو اس پیشگوئی کے بعد فریق مخالف کے ہریک فرد پر قہر نازل کیا موت نازل کی ذلت نازل کی بیماری نازل کی خوف نازل کیا اور پھر بھی کہا جاتا ہے کہ عیسائی غالب رہے ہیں.لوگو! ایک دن مرنا ہے یا نہیں، بیشک عیسائیوں کی حمایت کرو اور سچ کو چھوڑ دو.رب العرش دیکھ رہا ہے کہ تم کیا کر رہے ہو جو شخص درحقیقت عزت پا گیا تم اُس کو ذلیل کرسکتے ہو اے غزنوی گروہ کے لوگو! اے امرت سر کے مسلمانو مگر اسلام کے دشمنو اور اے لدھیانہ کے سخت دل مولویو اور منشیو!!! خوب سوچ لو کہ تم کیا کام کر رہے ہو اور اے غزنویو تم ذرا آنکھ کھول کر دیکھ لو کہ تمہارا مباہلہ تم پر ہی پڑا جھوٹے اشتہاروں سے شرم کرو اور یہ میرا تمام رسالہ غور سے پڑھو تا تمہیں معلوم ہو.والسلام علٰی من اتّبع الہدٰی.
میاں عبدالحق صاحب غزنوی اور دوسرے غزنوی صاحبوں کی جھوٹی خوشی اور ان کو للّٰہ نصیحت اور ان کے مباہلہ کا آخری نتیجہ ہم نے سنا ہے کہ میاں عبد الحق اور میاں عبد الجبار اور ان کے گروہ کے آدمی اس بات پر اپنے جوش تعصب اور قلت تدبر کی وجہ سے بہت ہی خوش ہو رہے ہیں کہ عبد اللہ آتھم پندرہ مہینہ میں نہیں مرا اور وہ زندہ امرتسر میں آگیا.اور ان لوگوں نے عبد اللہ آتھم کی زندگی پر نہ صرف خوشی ہی کی بلکہ انہوں نے اس کو میاں عبد الحق کے مباہلہ کا ایک اثر تصور کیا گویا ان خوش فہموں کے خیال میں اس مباہلہ کا یہ ہم پر زوال پڑا ہے.سو اول تو ہم اس جھوٹی خوشی اور اثر مباہلہ کی نسبت ان بزرگواروں کو جواب تک خواب غفلت میں ہیں اور ہنس رہے ہیں یہ دشمن گداز خبر سناتے ہیں کہ ایسا سمجھنا کہ الہام غلط نکلا اور عیسائیوں کو فتح ہوئی.اس سے زیادہ کوئی بھی حمق نہیں* اگر آپ لوگ پہلے تحقیق کر لیتے ایک نادان ہندو زادہ نام کا نومسلم سعد اللہ نام جو عیسائیوں کی فتح یابی ثابت کرنے کیلئے اس قدر اپنی فطرتی شیطنت سے ہاتھ پیر مار رہا ہے کہ گویا اسی غم میں مر رہا ہے لدھیانہ سے اپنے ایک اشتہار میں لکھتا ہے کہ اگر اس بحث کے بعد جو عیسائیت اور اسلام کے صدق و کذب کی تحقیق میں کی گئی تھی.عیسائی فریق پر مصیبتیں پڑیں تو کیا تمہارے بیعت کنندوں میں سے مولوی حکیم نور الدین صاحب کا ایک شیر خواربچہ فوت نہیں ہوگیا.لیکن اس نادان عدو الدین نے نہیں اس تحریر کے لکھنے کے بعد مجھ پر نیند غالب ہو گئی اور میں سو گیا اور خواب میں دیکھا کہ اخویم مولوی حکیم نور الدین صاحب ایک جگہ لیٹے ہوئے ہیں اور ان کی گود میں ایک بچہ کھیلتا ہے جو انہیں کا ہے اور وہ بچہ خوش رنگ خوبصورت ہے اور آنکھیں بڑی بڑی ہیں.میں نے مولوی صاحب سے کہا کہ خدا نے بعوض محمد احمد آپ کو وہ لڑکا دیا کہ رنگ میں شکل میں طاقت میں اس سے بدرجہا بہتر ہے اور میں دل میں کہتا ہوں کہ یہ تو اور بیوی کا لڑکا معلوم ہوتا ہے کیونکہ پہلا لڑکا تو ضعیف الخلقت بیمار سا اور نیم جان سا تھا اور یہ تو قوی ہیکل اور خوش رنگ ہے اور پھر میرے دل میں یہ آیت گذری جس کا زبان سے سنانا
تو آ پ کو شرمندگی اور خجالت اب اٹھانی نہ پڑتی.اب اے تمام حضرات آپ پر واضح رہے کہ دراصل اسلام کی فتح ہوئی اور عیسائیوں کو بڑی بھاری شکست آئی اور اس بالمقابل فریق پر طرح طرح کی آفات نازل ہوئیں کوئی موت کے پنجہ میں پھنسا کوئی اس کا ماتم دار بنا.کسی نے بیماری کا سخت دکھ سمجھا کہ اول تو وہ شیرخوارہ بچہ جو روز ولادت سے ہی بیمار اور ضعیف الخلقت تھا فریق کے لفظ میں داخل نہیں ہو سکتا کیا وہ بھی عیسائیوں کے ساتھ بحث کرنے گیا تھا کہ تا اس کا فوت ہونا عیسائی مذہب کی صداقت پر دلیل ہوسکے اور دوسرے یہ الہام ہماری طرف سے تھا جو عیسائیوں پر یہ یہ آفتیں پڑیں گی.اور ہم برابر اور متواتر شرح کر چکے ہیں کہ اس الہام کا مصداق وہ عیسائی ہیں جو بحث کے وقت مباحث یا حامی بحث تھے اور عیسائیوں کو تو کوئی الہام نہیں ہوا تھا کہ ہمارے بیعت کنندوں میں سے کسی کا کوئی شیر خوارہ بچہ فوت ہو جائے گا.پس جبکہ تفہیم الٰہی کی رو سے الہام صرف فریق مخالف کے نفوس سے خاص تھا اور عیسائیوں کی طرف سے کوئی الہام نہ تھا اور نہ مباہلہ کے طور پر ہماری طرف سے اپنے لئے بددعا تھی اور نہ عیسائیوں کی طرف سے کوئی بددعا تھی صرف عیسائیوں کے بارے میں ایک الہام تھا پس کسی شیر خوارہ بچہ کا فوت ہو جانا کیا اس بات کی دلیل ہوسکتی ہے کہ عیسائی مذہب کی سچائی ثابت ہوئی.کیا عیسائیوں نے بھی کوئی الہام بتلایا تھا یا بددعا کی تھی بلکہ وہ صرف ہمارا الہام تھا جس کے بارہ میں ہم نے بتلا دیا تھا کہ یہ عیسائیوں کی نسبت ہے اور یہ کہنا کہ بعض مسلمان اس الہام کے بعد عیسائی ہوگئے اس سے بھی عیسائیوں کی صداقت پر ایک دلیل سمجھنا صرف ایک خباثت ہے اس سے زیادہ نہیں.اے نادان عدوّ اللہ اگر اس عرصہ میں دو چار فاسق نام کے مسلمانوں میں سے جن کو ہم نے بدمعاش پاکر اپنی جماعت سے پہلے ہی خارج کر دیا تھا.مُردار دنیا کے لئے عیسائی ہوگئے تو ہم تجھے ثبوت دیتے ہیں کہ اس پندرہ مہینہ میں صدہا عیسائی خالصاً للہ مسلمان ہوئے پھر آخری الزام اس ہندو زادہ کا یہ ہے کہ اگر مباحثہ کے بعد دو پادری سخت بیمار ہو گئے تو یہ بھی کچھ دلیل نہیں کیونکہ تم بھی تو اکثر بیمار رہتے ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر میں اس پندرہ مہینہ میں بیمار رہا تھا تو تمہارے کس بزرگ یاد نہیں اور وہ یہ ہے.۱ اورمیں جانتا ہوں کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس عدوّ الدین کا جواب ہے کیونکہ اس نے عیسائیوں کا حامی بن کر اسلام پر حملہ کیا اور وہ بھی بے جا اور بے ایمانی سے بھرا ہوا حملہ.اور ایک جزو اس خواب کی رہ گئی میں نے دیکھا کہ اس بچہ کے بدن پر کچھ پھنسی یا ثولول کی مشابہ بخارات نکل رہے ہیں.اور کوئی کہتا ہے کہ اس کا علاج ہلدی اور ایک اور چیز ہے.واللّٰہ اعلم.منہ
اٹھایا.کوئی ذلیل اور خوار ہوا اور کوئی ہزار لعنت کا نشانہ بنا اور کوئی خوف اور دیوانگی اور سراسیمگی میں مبتلا ہوا اور نہ مردوں میں رہا اور نہ زندوں میں اور ایک بھی ہاویہ سے بچ نہ سکا.پس افسوس ہے کہ جن لوگوں کو مسٹر عبد اللہ آتھم کی زندگی سے خوشی ہوئی وہ کیسے بے وقوف ہیں.انہوں نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ الہامی عبارت نے صرف عبد اللہ آتھم کے مرنے کی ہی خبر دی تھی اور کوئی شرط نہ تھی اور صرف موت پر ہی حصر تھا دوسری کوئی بھی بات نہیں تھی.یہ بخل اور تعصب اور شتاب کاری کی سزا ہے جو اب ہمارے مخالفوں کو ان جھوٹی خوشیوں کی ایسی ندامت اٹھانی پڑے گی جو مرنے سے بدتر ہے.اے حضرات الہام میں تو موت کا ذکر بھی نہیں ہاں ہماری تشریحی عبارت میں ہاویہ کے لفظ سے جو ہم نے عبد اللہ آتھم کی نسبت سمجھا ضرور موت کا لفظ موجود ہے.مگر الہام میں یہ شرط بھی تو تھی کہ اس حالت میں ہاویہ میں گرے گا کہ جب حق کی طرف رجوع نہ کرے.خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کر دیا کہ اس نے حق کی طرف رجوع کیا.اور وہ ڈرا اور اسلامی عظمت اس کے دل میں سما گئی.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت قدیم کے موافق عذاب موت اس سے بے باکی کے دنوں تک اٹھا لیا کیا کبھی قرآن کریم آپ لوگوں نے غور سے پڑھایا کھانے پینے پر ہی کمر باندھ رکھی ہے.کیا یاد نہیں کہ کئی مقام میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ڈرنے والوں پر دنیوی عذاب نازل نہیں ہوتا.دنیوی عذاب کے لئے صرف کفر ہی کافی نہیں.بلکہ شوخی شرارت تکبر استعلاء اور مومنوں کو آزار دینا اور حد سے بڑھنا ضروری ہے.لیکن عبد اللہ آتھم نے ان پندرہ مہینوں میں کوئی شوخی اور تکبر نے وہ تمام عربی کتا بیں ان پندرہ مہینوں میں تالیف کیں جن کے ساتھ عیسائیوں کے لئے پانچ ہزار روپیہ کا انعام تھا اور جن کے مقابل پر اگر تمام پادری کوشش کرتے کرتے مر بھی جائیں تب بھی ان کی نظیر نہیں بنا سکتے.اے عدوّ اللہ جھوٹ اور افترا سے باز آجا.کیا تجھے معلوم نہیں کہ ان پندرہ مہینوں میں کیا کیا عجیب عربی کتابیں میری طرف سے نکلیں اور اس تھوڑے عرصہ میں دس کے قریب تائید اسلام میں میں نے کتابیں لکھیں جو شائع بھی ہوگئیں کیا یہ بیمار کا کام ہے کرامات الصادقین کس زمانہ میں لکھی گئی.سرالخلافہکب تالیف ہوئی نورالحق کی دونوں جلدیں کس نے اور کب بنائیں.تحفہ بغداد کب شائع ہوا کیا یہ کتابیں وہی کتابیں نہیں ہیں جو اس پندرہ مہینہ میعاد پیشگوئی کے اندر لکھی گئیں اگر کوئی مولوی مخالف و مکفر بٹالوی وغیرہ پندرہ برسوں میں بھی ایسی کتابیں بنا کر دکھلاوے تو ہم مان لیں گے کہ ہم اس پندرہ مہینہ میں بیمار رہے ورنہ اب تو بجز اس کے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین.منہ
نہیں دکھلایا.اسلام کی کوئی توہین نہیں کی.اور کوئی تحقیر اور استہزا کا رسالہ نہیں نکالا بلکہ اپنی مصیبت میں پڑا رہا اور اپنے افعال سے دکھا دیا کہ وہ سخت ڈرا اور اسلامی عظمت ایک چمکتی ہوئی تلوار کی طرح اس کو نظر آئی.اس لئے حق کی طرف رجوع کرنے کی جو شرط تھی.اس نے اس سے اس قدر حصہ لیا جس نے اس کامل عذاب میں تاخیر ڈال دی اور یہ تو ظاہر کے خیال سے ہے اور جس قدر اس نے اپنی اندرونی حالت درست کی ہوگی اور تضرع کیا ہوگا.۱ کا مصداق بنا ہوگا.یہ علم اس کو ہے یا خدا تعالیٰ کو وہ خدائے رحیم و کریم کسی کا ایک ذرہ عمل بھی ضائع نہیں کرتا اور جب کہ موت سے بچنے کیلئے عبد اللہ آتھم کیلئے یہ ایک راہ موجود تھی اور اس کی پُر خوف حالتیں جن حالتوں میں اس نے یہ زمانہ گذارا صاف ظاہر کر رہی ہیں کہ اس نے کسی قدر اس راہ کی طرف قدم رکھا.اگرچہ وہ قدم کامل ہو یا ناقص اس کا علم اس کو ہوگا.تو پھر کیوں وہ اس قدم کے رکھنے سے اور کسی قدر اصلاح سے فائدہ نہ اٹھاتا اور خواہ وہ رجوع ایک ذرہ کے موافق تھا.لیکن تب بھی اس کا کم سے کم یہ فائدہ ہونا چاہیئے تھا کہ موت کے عذاب میں تاخیر ڈال دے کیونکہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے ۲.سو اس نے حسب سنت اللہ اور شرط الہام کے اس رجوع کا فائدہ دیکھ لیا اب الہام کا کیا قصور ہے کیا الہام میں یہ نہیں لکھا تھا کہ ہاویہ میں گرے گا لیکن بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے یہ بھی یاد رہے کہ رجوع ایک فعل قلب ہے خلق اللہ کی اطلاع اس میں ضروری نہیں.ہاں اس کی حالت شوریدہ پر نظر ڈالنے والے حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں الغرض خدا تعالیٰ نے اس کو ہم و غم میں پایا اور اس کو رجوع میں داخل سمجھ کر شرط قرار دادہ کو پورا کیا اور یہ بات تمام انبیاء کے اتفاق سے مسلم ہے کہ ڈرنے والے پر عذاب دنیا نازل نہیں ہوتا بلکہ بے باک اور حد سے بڑھنے والے پر ہوتا ہے اور ہم نے تو تمام کتابیں دیکھیں اور قرآن کریم کو اول سے آخر تک پڑھا.مگر یہ واقعہ کسی کتاب میں نہ دیکھا کہ کبھی کسی ڈرنے والے کافر پر پتھر برسے یا کسی ہراساں اور ترسان منکر پر اس کے انکار کی وجہ سے بجلی پڑی بلکہ کفر کی سزا کے لئے دوسرا گھر موجود ہے اس دنیا میں تو شوخوں اور منکر وں اور موذیوں اور ظالموں پر جب وہ حد سے بڑھ جاتے ہیں عذاب نازل ہوتا ہے اب آنکھیں کھول کر سوچنا چاہیئے کہ باوجود اس سنت قدیمہ اور موجودگی شرط کے کیوں عبداللہ آتھم پر عذاب موت نازل ہو ہاں اگر یہ دعویٰ کرو کہ عبد اللہ آتھم نے ایک ذرہ حق کی طرف رجوع نہیں کیا اور نہ ڈرا تو اس وہم کی بیخ کنی کے لئے یہ سیدھا اور صاف معیار ہے کہ ہم عبد اللہ آتھم کو دو ہزار روپیہ نقد دیتے ہیں.وہ تین مرتبہ قسم کھا کر یہ اقرار کر دے کہ میں نے ایک ذرہ بھی اسلام کی طرف رجوع نہیں کیا اور نہ اسلامی پیشگوئی کی عظمت میرے دل میں سمائی
بلکہ برابر سخت دل اور دشمن اسلام رہا اور مسیح کو برابر خدا ہی کہتا رہا.پھر اگر ہم اسی وقت بلا توقف دو ہزار روپیہ نہ دیں تو ہم پر لعنت اور ہم جھوٹے اور ہمارا الہام جھوٹا.اور اگر عبد اللہ آتھم قسم نہ کھائے یا قسم کی سزا میعاد کے اندر نہ دیکھ لے تو ہم سچے اور ہمارا الہام سچا.پھر بھی اگر کوئی تحکم سے ہماری تکذیب کرے اور اس معیار کی طرف متوجہ نہ ہو اور ناحق سچائی پر پردہ ڈالنا چاہے تو بے شک وہ ولد الحلال اور نیک ذات نہیں ہوگا کہ خواہ نخواہ حق سے رو گردان ہوتا ہے اور اپنی شیطنت سے کوشش کرتا ہے کہ سچے جھوٹے ہو جائیں.اب اس سے زیادہ صاف اور کون فیصلہ ہوگا کہ ہم دو کلموں کے مول میں خود امرت سر میں جاکر دو ہزار روپیہ دیتے ہیں.مسٹر عبد اللہ آتھم اگر درحقیقت مجھے کاذب سمجھتا ہے اور جانتا ہے کہ ایک ذرہ بھی اس نے اسلامی عظمت کی طرف رجوع نہیں کی تو وہ ضرور بلا توقف عبارت مذکورہ بالا کے موافق اقرار کر دے گا کیونکہ اب تو وہ اپنے تجربہ سے جان چکا کہ میں جھوٹا ہوں اور مسیح کی حفاظت کو اس نے مشاہدہ کر لیا پھر اس مقابلہ سے اس کو کیا خوف ہے کیا پہلے پندرہ مہینوں میں مسیح زندہ تھا اور مسٹر عبد اللہ آتھم کی حفاظت کر سکتا تھا اور اب مر گیا ہے اس لئے نہیں کر سکتا جبکہ عیسائیوں نے اپنے اشتہار میں یہ کہہ کے اعلان دیا ہے کہ خداوند مسیح نے مسٹر عبد اللہ آتھم کی جان بچائی تو پھر اب بھی خداوند مسیح جان بچائے گا.کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ اب مسیح کے خداوند قادر ہونے کی نسبت مسٹر عبد اللہ آتھم کو کچھ شک اور تردد پیدا ہو جائے اور پہلے وہ شک نہ ہو بلکہ اب تو بہت یقین چاہیئے کیونکہ اس کی خداوندی اور قدرت کا تجربہ ہو چکا اور نیز ہمارے جھوٹ کا تجربہ.لیکن یاد رکھو کہ مسٹر عبد اللہ آتھم اپنے دل میں خوب جانتا ہے کہ یہ باتیں سب جھوٹ ہیں کہ اس کو مسیح نے بچایا جو خود مر چکا وہ کس کو بچا سکتا ہے اور جو مر گیا وہ قادر کیونکر اور خداوند کیسا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ سچے اور کامل خدا کے خوف نے اس کو بچایا اگر اب نادان عیسائیوں کی تحریک سے بے باک ہو جائے گاتو پھر اس کامل خدا کی طرف سے بے باکی کا مزہ چکھے گا.غرض اب ہم نے فیصلہ کی صاف صاف راہ بتا دی اور جھوٹے سچے کیلئے ایک معیار پیش کر دیا.اب جو شخص اس صاف فیصلہ کے برخلاف شرارت اور عناد کی راہ سے بکواس کرے گا اور اپنی شرارت سے بار بار کہے گا کہ عیسائیوں کی فتح ہوئی اور کچھ شرم اور حیا کو کام نہیں لائے گا اور بغیر اس کے جو ہمارے اس فیصلہ کا انصاف کی رو سے جواب دے سکے انکار اور زبان درازی سے باز نہیں آئے گا اور ہماری فتح کا قائل نہیں ہوگا تو صاف سمجھا جاوے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور حلال زادہ نہیں.پس حلال زادہ بننے کیلئے واجب یہ تھا کہ اگر وہ مجھے جھوٹا جانتا ہے اور
عیسائیوں کو غالب اور فتح یاب قرار دیتا ہے تو میری اس حجت کو واقعی طور پر رفع کرے جو میں نے پیش کی ہے پس اس پر کھانا پینا حرام ہے اگر وہ اس اشتہار کو پڑھے اور مسٹر عبد اللہ آتھم کے پاس نہ جائے اور اگر خداوند تعالیٰ کے خوف سے نہیں تو اس گندے لقب کے خوف سے بہت زور لگا وے کہ تا وہ کلمات مذکورہ کا اقرار کردے اور تین ہزار روپیہ لے لے اور یہ کاروائی کر دکھاوے پھر اگر عبد اللہ آتھم میعاد قرار دادہ سے بچ جائے تو بے شک تمام دنیا میں مشہور کر دے کہ عیسائیوں کی فتح ہوئی ورنہ حرام زادہ کی یہی نشانی ہے کہ سیدھی راہ اختیار نہ کرے اور ظلم اور ناانصافی کی راہوں سے پیار کرتا رہے.اگر کسی کو ایسا ہی اسلام سے بغض اور عیسائیت کی طرف میل ہے اور بہر صورت عیسائیوں کو فتح یاب بنانا چاہتا ہے تو اب اس راہ کے سوا اور تمام راہیں بند ہیں نہ ہم کسی کو ولد الحرام کہتے نہ حرام زادہ نام رکھتے بلکہ جو شخص ایسے سیدھے اور صاف فیصلہ کو چھوڑ کر زبان درازی سے باز نہیں رہے گا وہ آپ یہ تمام نام اپنے لئے اختیار کرے گا خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ بے شک اسلام کی فتح ہوئی اور دین محمدی ہی غالب رہا اور عیسائی ذلیل ہوئے اور جو شخص اس فتح کو نہیں مانتا چاہیے کہ وہ اس طریق اور فیصلہ کی راہ سے ہم کو ملزم کرے اور اس فیصلہ کی راہ سے ہم کو جھوٹا اور مغلوب قرار دے ورنہ بجز اس کے کیا کہیں کہ یک خطا دو خطا سویم مادر بخطا.اور ان مخالفوں کی عقل پر تعجب ہے کہ عبد اللہ آتھم کے ساتھ دوسرے لوگ جو فریق مخالف میں داخل تھے اور فریق کے اس لفظ میں شامل تھے جو پیشین گوئی میں تھا ان کے حالات پر کچھ بھی نظر نہیں کرتے کہ ان پر بھی کوئی ذلت آئی یا نہیں کیا پادری رائٹ نہیں مرا.کیا دو معاون مر مر کے نہیں بچے کیا پادری عمادالدین کے گلے میں ہزار لعنت کا رسّہ نہیں پڑا جس کو کوئی جھوٹا منجی اتار نہیں سکتا کیا اس کا علم عربی سے بے بہرہ اور جاہل ہونا ثابت نہیں ہوا.کیا اس ثبوت سے اس کی مصنوعی عزت خاک میں نہ مل گئی بیشک وہ نہایت ذلیل ہوا اور اس کا کچھ باقی نہ رہا اور اس کی علمی آبرو نجاست کے بو دار گڑھے میں جا پڑی.اگر وہ باغیرت آدمی ہوتا تو اس ذلت کی وجہ سے کچھ کھا پی کر مر جاتا حیف ہے تمہارے ایمان اور سمجھ اور دینداری پر کہ ایسی سچی پیشگوئی کی تم نے تکذیب کی کیا ایک دن مرو گے یا نہیں یا ہمیشہ کے جینے کی خبر آگئی ہے...یہ تو اس پیشگوئی کے متعلق بیان ہے جو عیسائیوں کے مقابل پر کی گئی تھی جس کو خدا تعالیٰ نے حسب المراد پورا کیا لیکن اکثر لوگ دریافت کیا کرتے ہیں کہ جو عبد الحق غزنوی کے ساتھ مباہلہ ہوا تھا اس کا کیا اثر ہوا اور کس فریق کو ذلت ہوئی تو اس کے جواب میں ہم بدیہی وجوہات کے ساتھ
ہر ایک پر ظاہر کرتے ہیں کہ عبد الحق اور اس کے گروہ کی ذلت ہوئی کیونکہ اس مباہلہ کے بعد ہر ایک ایسا امر پیدا ہوا کہ جو ہماری عزت کا موجب اور ان کی ذلت کا موجب تھا.(۱) ایک ان میں سے یہ کہ ہمارے لئے کسوف خسوف کا نشان ظاہر ہوا اور صدہا آدمی اسکو دیکھ کر ہماری جماعت میں داخل ہوئے اور اس کسوف خسوف سے ہم کو خوشی پہنچی اور مخالفوں کو ذلت کیا وہ قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ انکا دل چاہتا تھا کہ ایسے موقع پر جو ہم مہدی موعود کا دعویٰ کر رہے ہیں کسوف خسوف ہوجائے اور بلاد عرب میں اس کا نام و نشان نہ ہو اور پھر جبکہ خلاف مرضی ظاہر ہوگیا تو بے شک ان کے دل دکھے ہوں گے اور اس میں اپنی ذلت دیکھتے ہوں گے.(۲) دوئم.جب ہم مباہلہ کے لئے گئے تو ہمارا بڑا بیٹا سخت بیمار تھا اور ایک سخت بیماری دامن گیر تھی ہم نے کچھ بھی اس کی پروا نہ کی اور اسی حالت میں سفر کیا مگر خدا تعالیٰ نے مباہلہ کے بعد ہی اس کو شفا بخش دی کیا وہ قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ یہ شفا ان کی مراد کے موافق ہوئی.(۳) سوئم.یہ بات بھی ظاہر ہے کہ ہم نے اسی پندرہ مہینہ کے اندر تمام مکفّر مولویوں کو ان کی مولویت پرکھنے کی غرض سے بالمقابل عربی رسائل بنانے کیلئے مخاطب کیا تھا تا وہ ذلیل ہوں پس خدا تعالیٰ نے آپ مدد دے کر اس میں ہمیں کامیاب کیا اور پادریوں کی طرح رسالہ نور الحق اور کرامات الصادقین اور سر الخلافہ کے مقابلہ سے وہ عاجز رہ گئے اور ایسی ذلت ان کو پہنچی کہ کچھ بھی مولویت کا نام و نشان باقی نہ رہا.ہم نے صاف طور پر لکھا تھا کہ اگر ان رسائل کا مقابلہ کر دکھاویں تو چھ ہزار ستائیس روپیہ کا انعام پاویں اور الہام کو جھوٹا ثابت کریں اور ہزار لعنت سے بچیں.اب اے مولوی عبد الحق مکفر المسلمین سچ بتا کہ آپ نے کون سا بالمقابل رسالہ بنایا اور اگر نہیں لکھا تو سچ کہو کہ یہ ذلت کس کو پہنچی ہم کو یا تم کو.(۴) چوتھی.یہ بڑی بھاری ذلت ہے جو اب آپ کو نصیب ہوئی اور یہ پیشگوئی سچی نکلی.جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں.ان چار ذلتوں اور رسوائیوں اور ان باتوں کو جو اخیر میں ہم نے اپنی نسبت لکھی ہیں.کسی منصف کے سامنے پیش کرو.اگر وہ قسم کھا کر کہہ دے کہ اس سے تمہاری عزت قائم ہوئی ہے اور کوئی داغ نہیں لگا تو ہم قسمًاکہتے ہیں کہ ہم پانسو روپیہ تم کو انعام دیں گے.چنانچہ ہم شیخ محمد حسین بٹالوی کو ہی منصف قرار دیتے ہیں اور اس کے پاس ہی یہ روپیہ باضابطہ تحریر لے کر جمع کرا سکتے ہیں صرف اتنا ہوگا کہ وہ کھڑا ہوکر تین مرتبہ یہ تقریر کرے کہ یہ تمام وجوہ جو ذلت کی بیان کی گئی ہیں یہ بالکل صحیح نہیں ہیں اور ان باتوں سے جو بعد مباہلہ ظاہر ہوئیں عبد الحق اور
اس کے گروہ کی ذلت نہیں بلکہ عزت ہوئی اور اگر میں جھوٹ کہتا ہوں تو اے قادر خدا اس کا عذاب میرے پر میری آنکھوں پر میرے جسم پر میری عزت پر میری اولاد پر بہت جلد سال* کے اندر وارد کر اور ہم لوگ ہریک اقرار پر آمین کہیں گے.تب اسی وقت پانچ سو روپیہ شیخ محمد حسین کی ضمانت پر ان کو دے دیا جائے گا اگر سال کے اندر شیخ محمد حسین بٹالوی ان بلاؤں سے بچ گئے تو وہ روپیہ ان کی ملک ہو جائے گا.اگر آپ لوگ اس طریق کو اختیار نہ کریں اور بدگوئی سے باز نہ آویں تو جائے شرم ہے اور یاد رہے کہ مباہلہ کے ایک سال کے اندر ہی خدا تعالیٰ نے برکت پر برکت ہم پر نازل کی.اس کی خاص توفیق ا ور تائید پر عمدہ عمدہ کتابیں تالیف ہوئیں.صدہا معارف و دقائق قرآن کھلے اور کتابوں کے چھپنے اور ہمارے سلسلہ کی کاروائیوں کے لئے ہزارہا روپیہ آیا اور ہزارہا نئے لوگ جان و مال فدا کرنے والے ہماری جماعت میں داخل ہوئے.پس لازم ہوگا کہ شیخ محمد حسین اپنی قسم کے وقت ان سب باتوں کو جمع کر کے ان کا انکار کریں.اے غزنوی لوگو بہتر تو یہ ہے کہ باز آ جاؤ اور خدا تعالیٰ سے ڈرو اور اس سے لڑائی مت کرو جس چراغ کو وہ آپ ہی روشن کرے تم اس کو بجھا نہیں سکتے.پس فولادی قلعہ کے ساتھ ٹکریں مت مارو کہ تمہاری ٹکروں سے قلعہ ہرگز نہیں ٹوٹے گا.آخر نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارے ہی سر پاش پاش ہو جائیں گے کیا تمہیں ذرا خوف نہیں کہ مسلمانوں کو کافر بناتے اور کلمہ گوؤں کا بے ایمان نام رکھتے ہو.بتلاؤ کہ عملی حالت میں ہم اور تم میں کیا فرق ہے کیا ہم کوئی شرک کا کام کرتے ہیں.کیا نمازوں کو چھوڑ دیا یا روزہ اور دیگر ارکان اسلام سے منکر ہو گئے ہیں یا حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنا دیا ہے اور کچھ تو بتلاؤ کہ عملی حالت اور اسلام کے ضروری عقائد ہم میں اور تم میں کیا فرق ہے.ہاں اگر مسیح کی وفات کے عقیدہ کی وجہ سے ہمیں کافر کہا جاتا ہے تو امام مالک کو بھی کافر بناؤ کہ ان کا عقیدہ بھی یہی تھا جس سے رجوع ثابت * * نہیں.اور امام بخاری کا بھی یہی عقیدہ تھا.اگر یہ عقیدہ نہ ہوتا تو کیوں وہ آیت فلما توفیتنی کی شرح کے وقت تائید حدیث کیلئے ابن عباس کا یہ قول لاتا متوفیک ممیتک پس اس حساب سے امام بخاری بھی کافر ہوئے اور یہی عقیدہ ابن قیم نے مدارج السالکین میں ظاہر کیا ہے پس بقول تمہارے ابن قیم بھی کافر ہے اور معتزلہ کا یہی عقیدہ ہے پس وہ تمام لوگ * صلحاء کی سنت قدیمہ سے ثابت ہے کہ مباہلہ کی غایت میعاد ایک سال تک ہوتی ہے سو ہم بدیہی ثبوت اپنے پاس رکھتے ہیں کہ جن برکات کوہم نے اپنی نسبت لکھا ہے وہ ایک سال کے اندر ہی ہم پر وارد ہوئیں اور میاں عبدالحق کا جب سارا سال نحوستوں اور گردشوں میں گذرا تو سال کے بعد پندرھویں مہینہ پر مرتے مرتے یہ بات بنانا چاہی کہ آتھم ۵ ستمبر ۱۸۹۴ ء کو نہیں مرا یہی مباہلہ کا اثر ہے مگر بدقسمتی سے اس میں بھی جھوٹا نکلا.منہ ** نوٹ:مجمع البحار میں جو ایک معتبر اہل حدیث کی کتاب ہے لکھا ہے وقال مالک ان عیسی مات مالک نے کہا ہے کہ عیسیٰ مر گیا ہے اور بیان مفصل اس کا ہمارے رسالہ اتمام الحجۃ میں درج ہے.منہ
کافر ٹھہرے لیکن اگر اس وجہ سے کافر کہا جاتا ہے کہ ہم ملائک کا ایسا نزول نہیں مانتے جس سے آسمان خالی ہو جائیں بلکہ قدرت قادر سے ایک وجود ان کا آسمان میں بنا رہتا ہے اور ایک وجود خلق جدید کی طرح زمین میں ظاہر ہوتا ہے انسان کی شکل پر یا کسی اور کی شکل پر سو اس بنا پر آپ کو بہت سے اکابر علماء کو کافر بنانا پڑے گا اور یہی مذہب مدارج النبوت میں شیخ عبد الحق صاحب دہلوی نے بیان کیا ہے اور آسمانوں کے خالی ہونے کا آپ لوگوں کے پاس کوئی ثبوت نہیں صرف افغانی تحکم ہے اور بڑے بڑے مفاسد اس سے پیش آتے ہیں اور بہت سی حدیثوں اور آیتوں سے انکار کرنا پڑتا ہے.پس یہ کیوں نہ کہیں کہ وہ بطور خارق عادت زمین پر بھی نازل ہو جاتے ہیں اور نزول بھی ہوتا ہے اور صعود بھی اور بایں ہمہ آسمان پر بھی موجود رہتے ہیں واللّٰہ علٰی کلّ شیء قدیر اور اگر یہ اعتراض ہے کہ نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور وہ کلمہ کفر ہے تو بجز اس کے کیا کہیں کہ لعنت اللّٰہ علی الکاذبین المفترین.اور اگر یہ اعتراض ہے کہ کسی نبی کی توہین کی ہے اور وہ کلمہ کفر ہے تو اس کا جواب بھی یہی ہے کہ لعنت اللّٰہ علی الکاذبین.اور ہم سب نبیوں پر ایمان لاتے ہیں اور تعظیم سے دیکھتے ہیں بعض عبارات جو اپنے محل پر چسپاں ہیں وہ بہ نیت توہین نہیں بلکہ بتائید توحید ہیں وانما الاعمال بالنیات.اور تمہارے جیسے عقل والوں نے صاحب تقویت الایمان کو بھی اِسی خیال سے کافر کہا تھا کہ بعض کلمات ان کو اس کتاب میں ایسے معلوم ہوئے کہ گویا وہ انبیاء کی توہین کرتا ہے اور چوروں چماروں کو ان کے برابر جانتا ہے.ہماری طرح ان کا بھی یہی جواب تھا کہ انما الاعمال بالنیات.یہی بخاری کی پہلی حدیث ہے اگر یہی آپ لوگوں کو یاد نہ رہی تو کیا یاد ہوگا اور اگر وجہ کفر یہ سمجھی گئی ہے کہ ہم نے نجوم کو عالم ارضی میں باذنہ تعالٰی مؤثر سمجھا ہے تو حیف ہے آپ کے ایسے خیال پر.ہم ہر ایک چیز کی خاصیت کے قایل ہیں یہاں تک کہ مکھی کے بھی لیکن باذن اللہ تعالیٰ اور بغیر اس کے اذن کے ہم کسی چیز کو کچھ چیز نہیں سمجھتے اور تاثیر نجوم کا شاہ ولی اللہ صاحب کو بھی اقرار ہے.دیکھو حجّۃ اللّٰہ البالغہ اور فیوض الحرمین پھر تعجب کہ اب تک ان کو کیوں کافر نہیں ٹھہرایا گیا درحقیقت افغان بڑے ہی بہادر ہوتے ہیں خدا تعالیٰ کے ساتھ بھی لڑنے سے نہیں ڈرتے.عجب بات ہے کہ خدا تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ جو السلام علیکم کہے اس کو کافر مت سمجھو اور پھر افغان ان لوگوں کو کافر ٹھہرا رہے ہیں جو دن رات اسلام کے لئے جان دینے کو تیار ہیں.خیر مرنے کے بعد یہ سب فیصلے ہو جائیں گے خدا تعالیٰ ہمارے دلوں کو دیکھ رہا ہے بجز اس کے کیا کہیں کہ ہم وہ لوگ ہیں جن کا مقولہ ہے لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ اٰمنا باللّٰہ و ملٰٓئکتہ و رسلہ و کتبہ والجنۃ والنار والبعث بعد الموت وآثرنا القراٰن کتابا و محمدًا صلی اللّٰہ علیہ وسلم نبیًّا و لا ندعی النبوۃ
و لا ندعی نسخ القراٰن بعد محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم و نشہد انہ خاتم النبیین وخیر المرسلین وشفیع المذنبین و نشھد ان الحق کلہ فی القراٰن و حدیث النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وکل بدعۃ فی النار و انا مسلمون واللّٰہ یعلم ما فی قلوبنا علیہ توکلنا و الیہ انیب.والحمد للّٰہ اولًا وآخرًا و ظاھرًا و باطنًا ربنا و ربّ العٰلمین.تتمہ متعلقہ اثر مباہلہ میاں عبد الحق غزنوی امرت سری اس وقت مناسب معلوم ہوا کہ عبد الحق غزنوی کے اشتہار اثر مباہلہ کے بعض اقوال کا بطور قال و اقول جواب دیا جاوے.قولہ کیوں مرزا جی مباہلہ کی لعنت اچھی طرح پر پڑ گئی یا کچھ فرق ہے منہ کالا ہوا یا کچھ فرق ہے الخ اقول.اے حضرت اب تو ہم نے اپنے اشتہار میں بہت صفائی ہی سے اور کھول کر لکھ دیا کہ لعنت کس پر پڑی اور منہ کس کا کالا ہوا یہ تو ظاہر ہے کہ جھوٹے پر ہی ہمیشہ لعنت ہوتی ہے اب آنکھ کھول کر دیکھیں کہ جھوٹا کون ہے؟ آپ کا اب تک خیال ہے کہ عیسائی فتح یاب ہوئے لیکن ہم ثابت کر چکے ہیں کہ فتح اسلام کی رہی.اس قدر تو آپ نے بچشم خود دیکھ لیا کہ ہمارے مخالف عیسائیوں کا جو فریق شریک بحث تھا یعنی معاون تھا یا مشورہ میں داخل تھا یا سرگروہ تھا ان پر طرح طرح کے وبال آئے وہ سب اس جنگ مقدس میں اپنی اپنی سزا کو پہنچے بعض اس جنگ میں مارے گئے بعض زخمی ہوئے اور بعض ہزار لعنت کے رسہ میں گرفتار ہوئے اور بعض بھاگ کر اسلامی عظمت کے جھنڈے میں پناہ گزین ہوگئے یہ سب کچھ پندرہ مہینہ میں ہی ہوا یہ وہ لوگ ہیں جو عیسائیوں کے تحریری اور تقریری اقرار سے فریق مخالف میں داخل ہیں اور جو لوگ ان میں سے مرگئے یا مر مر کے بچے یا ہزار لعنت کے رسہ میں گرفتار ہوئے یہ سب وہی ہیں جنہوں نے آتھم صاحب کو اپنے گروہ میں سے بحث کیلئے منتخب کیا تھا اور اس کے معاون اور فریق کے لفظ میں داخل تھے اور اگر یہ خیال ہے کہ اگرچہ اور معاون کار اور حامی بحث موت اور دکھ اور ذلت میں مبتلا ہوئے مگر آتھم صاحب کیوں
نہ مرے.تو اس کا یہی جواب ہے کہ الہامی شرط کی وجہ سے اس کی موت میں تاخیر ہوگئی اس کے دل نے عظمت اسلام کو اس خوف کے وقت میں قبول کر لیا.اس لئے الہامی شرط سے فائدہ لینا ان کا حق ہوگیا کیا کسی عبارت میں یہ لکھا ہے کہ الہامی شرط منسوخ ہوگئی یا وہ قابل اعتبار نہ رہی جب ایک مرتبہ شرط قائم ہو چکی تو اس کا عام عبارتوں میں لحاظ نہ رکھنا ایک گدھے کا کام ہے نہ انسان کا ہم نے حق کی طرف رجوع دلانے کے لئے اور حق کی فتح ظاہر کرنے کی غرض سے اور پوشیدہ حقیقت کو کھولنے کے ارادہ سے ایک نہایت صاف بات کہہ دی کہ اگر آتھم صاحب نے ان خوف کے دنوں میں عظمت اسلام کو قبول نہیں کیا اور ہمارا یہ کہنا جھوٹ ہے کہ قبول کر لیا ہے تو وہ ہم سے دو ہزار روپیہ بلکہ تین ہزار روپیہ لیں اور یہی اقرار کر دیں کہ میں ان خوف کے دنوں میں عیسیٰ کو خدا جاننے میں پکار ہا اور عظمت اسلام کو قبول نہ کیا اور نہ اسلامی پیشگوئی کو ایک دن بھی سچا سمجھا لیکن اگر اقرار نہ کریں یا اقرار کے بعد مدت مقررہ میں اس دنیا سے گذر جائیں تو ہماری کامل فتح ہے*.اگر اس جگہ کوئی نادان عیسائی سوال کرے کہ اب یہ مباحثہ درست نہیں کیونکہ ممکن ہے کہ اب کی دفعہ مسٹر عبد اللہ آتھم اتفاقی طور پر مر ہی جائے تو اس کے جواب میں ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ مارنے والا کون ہوگا کیا ان کا خداوند مسیح یا کوئی اور یا خود بخود بغیر کسی کے مارنے کے مر جائے گا پس اگر درحقیقت ان کے مصنوعی خداوند مسیح کے ہاتھ میں ہی موت اور حیات ہے تو وہ ایسا کیوں کرنے لگا کہ عبد اللہ آتھم کو مار کر اپنے تمام پرستاروں کا جھوٹا ہونا ثابت کرے کیا وہ جو اپنے اختیار اور اقتدار سے مردوں کو زندہ کرتا تھا اور بقول تمہارے زمین و آسمان کا خالق ہے.وہ ایک اور برس مسٹر عبد اللہ آتھم کو زندہ نہیں رکھ سکتا.بہتیرے سو سو برس زندہ رہتے ہیں مگر عبد اللہ آتھم کے جیسا کہ نور افشاں میں لکھا گیا ہے صرف اب تک ۶۴ برس کی عمر ہے جو میری عمر سے صرف چھ سات برس ہی زیادہ ہے.ہاں اگر مسیح کی قدرت پر اب بھروسہ نہیں رہا اور پہلے بھروسہ تھا اور یا اب وہ مر گیا ہے اور پہلے زندہ تھا تو اس کا صاف اقرار کرنا چاہئے تاہم سال کی مدت میں کچھ تخفیف کر دیں کیا اشتہار میں نہیں لکھا کہ مسٹر آتھم خداوند مسیح کے فضل اور قدرت سے بچ گیا تو اب عین موقعہ پر جو جھوٹے اور سچے کیلئے آخری فیصلہ ہے وہ خداوند مسیح کیوں فضل نہیں کرے گا اور اب اس کی قدرت اور فضل کو کون چھین لے جائے گا.اور جس حالت میں ہم اپنے سچے اور کامل خدا پر توکل کر کے کہتے ہیں کہ ہم بغیر الٰہی کام پورا کرنے کے مر ہی نہیں سکتے اور اگرچہ عمر ساٹھ تک پہنچ گئی لیکن ہم اس
اب خوب غور کر کے دیکھو کہ مباہلہ کی لعنت کس پر پڑی منہ کالا کس کا ہوا آپ کا یا کسی اور کا.اور اگر یہ کہو کہ اگرچہ آتھم صاحب کے باقی فریق پر موت، ذلت دکھ نازل ہوگئے مگر آتھم کی نسبت ابھی پورا فیصلہ نہیں ہوا تو خیر اسی قدر بالفعل مان لو کہ لعنت کے چار حصوں میں سے تین حصے تو آپ پر پڑ گئے اور ایک حصہ ابھی کامل طور پر ظہور میں نہیں آیا آتھم اگرچہ پندرہ مہینہ تک ہم اور غم کے ہاویہ میں تو رہا مگر ابھی چونکہ پورا ہاویہ نہیں دیکھا اس لئے اس کے حساب میں سے صرف آدھی لعنت آپ پر پڑی لیکن غور سے دیکھو تو یہ بھی ساری ہی پڑ گئی کیونکہ اس فیصلہ کے بعد جو اول ہم نے ایک ہزار روپیہ اور پھر دو ہزار بلا توقف دینا قبول کیا مگر آتھم صاحب نے اس طرف رخ نہ کیا تو صاف طور پر کھل گیا کہ آتھم صاحب اپنے بیان میں جھوٹے ہیں اور ظاہر ہو گیا کہ درحقیقت آتھم صاحب نے خوف کے دنوں میں در پردہ اسلام کی طرف رجوع کیا تھا پس اس سے بتمام تر صفائی ثابت ہے کہ ہماری فتح ہوئی اور دین اسلام غالب رہا پھر بھی اگر کوئی عیسائیوں کی فتح کا گیت گاتا رہے تو اسے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ آتھم کو قسم کھانے پر مستعد کرے اور ہم سے تین ہزار روپیہ دلاوے اور میعاد گذرنے کے بعد ہم کو بے شک لعنتی منہ کالا دجال کہے.اگر ہم نے اس میں افترا کیا ہے تو بے شک ہمارے آگے آ جائے گا اور ہماری ذلت ظاہر ہوگی لیکن اے میاں عبد الحق اگر اس تقریر کو سن کر چپ ہو جاؤ تو بتلا کہ سچی لعنت کس پر پڑی اور واقعی طور پر منہ کس کا کالا ہوا اور یہ بھی یاد رکھو کہ ہمیں ان کے لئے جو عیسائیوں کو غالب قرار دیتے ہیں اور اس پیشگوئی کو جھوٹی سمجھتے ہیں دل کی آہ سے یہ کہنا پڑا کہ اگر وہ ولد الحرام نہیں ہیں اور حلال زادہ ہیں تو اس مضمون کو پڑھتے ہی اس فیصلہ کیلئے اٹھ کھڑے ہوں پس اگر ان کے کہنے سے آتھم نے قسم کھا لی اور میعاد مقررہ تک بچ گیا تو بے شک ہمارا ہی منہ کالا ہوا اور ہم ہی لعنتی ٹھہرے اور سارے کے فضل سے جئیں گے جب تک دینی خدمت کا کام پورا نہ کر لیں تو پھر اگر عبد اللہ آتھم موت سے ڈر کر قسم کھانے سے گریز کرے تو صاف طور پر ثابت ہوگا کہ اس کو اس مصنوعی خدا پر ایمان نہیں جس کے فضل کا ذکر اشتہار میں کیا ہے مرنے کا قانون قدرت ہریک کے لئے مساوی ہے جیسا آتھم صاحب اس کے نیچے ہیں ہم بھی اس سے باہر نہیں اور جیسا کہ اس عالم کون و فساد کے اسباب ان کی زندگی پر اثر کر رہے ہیں ویسا ہی ہماری زندگی پر بھی مؤثر ہیں اور ہم حلفاًکہتے ہیں اور زور سے کہتے ہیں کہ اگر آتھم صاحب قسم کھا لیں تو ہمارا سچا خدا ایک سال تک ان کو موت دے گا اور ہمیں موت سے بچائے گا اگر اس مصنوعی خدا پر بھروسہ ہے جو مریم کے پیٹ سے نکلا تو سب مل کر اس سے دعا کرو تا اس مباہلہ کے بعد مسٹر آتھم صاحب ایک سال تک جیتے رہیں اور اگر قسم کھانے سے انہوں نے اعراض کیا تو ہماری فتح یابی پر مہر لگا دیں گے زیادہ کیا لکھیں.والسلام علٰی مناتّبع الھدٰی.منہ
الہام ہمارے جھوٹے ہوئے لیکن اگر اس نے قسم کھانے سے گریز کی تو بتلاؤ آپ کا منہ پورے طور پر کالا ہوگا یا نہیں اگرچہ باقی فریق کے لحاظ سے تین حصے آپ کے منہ کے تو ابھی کالے ہو چکے لیکن اب یہ تھوڑا سا ٹکڑہ منہ کا بھی ضرور کالا ہوگا.دیکھو ہم نے بلا توقف دو ہزار تک دینا کیا اس سے زیادہ ہم کیا کریں اب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے مخالفوں میں سے کون بلا توقف اس فیصلہ کے لئے سعی کرتا ہے اور کون ولد الحرام بننے پر راضی ہوتا ہے.افسوس کہ ان لوگوں کو یہ بھی خیال نہ آیا کہ اگر خدا تعالیٰ نے ہمارا منہ کالا کرنا تھا تو کیا یہی طریق تھا کہ ایسی بحث میں منہ کالا کیا جاتا جو ہمارے ذاتی دعاوی سے کچھ بھی تعلق نہیں رکھتی تھی بلکہ صرف یہ بحث تھی کہ اسلام سچا ہے یا عیسائیت.اور قرآن کریم اور آنحضرت صلعم حق پر ہیں یا عیسائیوں کی تعلیم اور عیسیٰ کو خدا بنانا.افسوس کہ ان لوگوں کو یہ بھی خیال نہ آیا کہ ایسا مغلوب ہونے میں تو دین کی سبکی ہوتی ہے اور امور بحث طلب کی طرف خیال جاکر خود اسلام پر بھاری زد ہوتی ہے.مگر انہوں نے میرے بخل سے اسلام کی بھی پرواہ نہ رکھی.اب آپ لوگ سمجھ جائیں گے کہ یہ لعنت کس پر پڑی بلاشبہ آپ پر پڑی اے میاں عبد الحق.اس کے سوا اور لعنتیں بھی جو ہم ذکر کر چکے ہیں کچھ تھوڑی نہیں سچ تو یہ ہے کہ آپ کا منہ تو ایک مرتبہ نہیں بلکہ کئی مرتبہ کالا ہو چکا.جب پندرہ مہینہ کے اندر سرگروہ فریق مباحث کا مراتب منہ کالا ہوا پھر طامس ہاول کی جانکاہ بیماری سے لعنت کی سیاہی آپ کے منہ پر پھر گئی.پھر خسوف کسوف نے منہ پر تھوکا پھر عبد اللہ پادری کی جانکاہ بیماری سے تہ بتہ سیاہی جمی.پھر ہزار لعنت کی ذلت سے جس میں تمام پادری اور سب مکفر شریک تھے.یہ رو سیاہی کمال کو پہنچ گئی آتھم نے بھی منہ کالا کیا اور آئندہ بھی کرے گا اور مباہلہ کے بعد میاں عبد الحق پر کیا برکات نازل ہوئے اس کا تو کوئی بھی ثبوت نہ دیا ہاں میاں عبد الحق نے نزول برکات کے ثبوت میں یہ تو خوب ہی سنائی کہ حقیقی بھائی فوت ہوا اور اس کی رانڈ عورت کو نکاح میں لایا کیا یہ برکات ہیں اور یہ مباہلہ کا اثر جائے شرم.سوچنے والے سوچ لیں اور اگر دینی معارف سے اس عرصہ میں کچھ حصہ ملا تھا تو کیوں کرامات الصادقین کا جواب نہ لکھا اور کیوں ہزار لعنت کو اپنے پر وارد ہونے دیا.دنیوی برکات بھی وہ ہوتی ہیں جن کی دنیا میں کم نظیر ملے نہ یہ کہ رانڈ اور عمر فرسودہ عورت کو فریب سے گھر میں ڈالا جائے اور پھر یہ کہہ دیں کہ برکات نازل ہوگئیں.بھائی کا مرنا بے حساب گیا اور بیوہ کو پیش کر دیا.اگر حقیقی برکات کو دیکھنا ہو تو اس جگہ آکر دیکھ لو دیکھو کیونکر خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک اُمّی کی عربی دانی میں زبان کھولی اور قرآنی نکات اس کی زبان پر جاری کئے اور وہ بلاغت اور فصاحت عنایت کی جس سے
تمہارا اور تمہارے جیسے مخالفوں کا منہ کالا ہوگیا اور وہ مقابلہ سے عاجز آگئے.خدا تعالیٰ نے ہزاروں آدمیوں کو اس طرف رجوع دے دیا چنانچہ وہ لوگ ہزارہا روپیہ کے ساتھ مدد کرتے ہیں اگر پچاس ہزار روپیہ کی بھی ضرورت ہوتو بلا توقف حاضر ہوجائیں مالوں اور جانوں کو فدا کررہے ہیں صدہا لوگ آتے جاتے اور ایک جماعت کثیر جمع رہتی ہے چنانچہ بعض وقت سو سے زیادہ آدمی اور بعض اوقات دو دو سو جمع ہوتے ہیں.یہ تائیدات الٰہی ہیں.یا یہ کہ حقیقی بھائی مرا اور اس کی بے چاری بیوہ عورت کو اپنی طرف گھسیٹ لیا اور باکرہ کے ملنے سے ساری عمر ہی نامراد رہے واہ ری برکات اور واہ ری شرم اور ابھی اس بیوہ سے اولاد ہوئی نہیں پہلے سے دعویٰ ہے کہ ضرور ہوگی.پھر ابھی سے اس خیالی پلاؤ کو مباہلہ کا اثر بھی سمجھ لیا ہے واہ رے شیخ چلی کے بڑے بھائی.ہاں یہ واجب ہے کہ اولاد کے لئے دن رات ہمت کرتے رہو پھر اگر کوئی مردہ لڑکی ہی پیدا ہو تو بے شک کہہ دینا کہ مباہلہ کا اثر ہے افغانی جرگہ میں یہ بات سنی جائے گی.باقی اعتراضات کا جواب یہ ہے کہ لڑکے کی پیش گوئی کی نسبت خدا تعالیٰ نے دو لڑکے عطا کئے جن میں سے ایک قریباً سات برس کا ہے لیکن اگر ہم نے کوئی الہام سنایا تھا کہ پہلی دفعہ ضرور لڑکا ہی پیدا ہوگا تو وہ الہام پیش کرنا چاہیئے ورنہ لعنت اللّٰہ علی الکاذبین.یہ سچ ہے کہ ۸؍ اپریل ۱۸۹۴ ء ہم نے اطلاع دی تھی کہ ایک لڑکا ہونے والا ہے سو پیدا ہو گیا ہم نے اس لڑکے کا نام مولود موعود نہیں رکھا تھا صرف لڑکے کے بارہ میں پیشگوئی تھی اور اگر ہم نے کسی الہام میں اس کا نام مولود موعود رکھا تھا تو تم پر کھانا حرام ہے جب تک وہ الہام پیش نہ کرو ورنہ لعنت اللّٰہ علی الکاذبین.اور یہ کہنا کہ احمد بیگ کے داماد کی میعاد گذر گئی ہے یہ بھی حمق اور جہالت ہے نوٹ: اولاد کے بارے میں میاں عبد الحق نے کوئی الہام تو پیش نہ کیا صرف طول امل ہے لیکن ہم کو اس بارہ میں بھی الہام ہوا اور اللہ جلّ شانہ نے بشارت دی اور فرمایا کہ انا نبشرک بغلام یعنی تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں.منہ
قرآن کریم کا علم تم لوگوں میں نہیں رہا اسلئے بے ہودہ اعتراض تمہارا شیوہ ہوگیا ذرا شرم کرنی چاہیئے جس حالت میں خود احمد بیگ اسی پیشگوئی کے مطابق میعاد کے اندر فوت ہوگیا اور وہ پیشگوئی کے اول نمبر پر تھا تو پھر کیوں اس پیشگوئی کے نفس مفہوم میں شک کیا جاتا ہے جس حالت میں بعض حصے پیشگوئی کے میعاد کے اندر پورے ہوگئے جس سے کسی کو انکار نہیں پھر اگر فرض بھی کر لیں کہ اس کے داماد کی موت میعاد گذرنے کے بعد ہو تو یہ سنت اللہ کی مخالفت کی وجہ سے ہوگا جو خدا تعالیٰ کی کتابوں میں پائی جاتی ہے اور سنت اللہ یہ ہے کہ عذاب کے متعلق جو پیشگوئیاں ہوں ان کی تاریخ اور میعاد تقدیر مبرم نہیں ہوتی بلکہ وہ میعاد ایسی توبہ اور استغفار سے بھی ٹل سکتی ہے جس پر انسان بعد میں قائم نہ رہ سکے اور ہم نے سلطان محمد کے بارے میں اس کی موت کی وجہ تاخیر علیحدہ اشتہار میں ایسے طور سے ثابت کر دی ہے جس کے قبول کرنے سے کسی ایماندار کو عذر نہیں ہوگا.اور بے ایمان جو چاہے سو کہے یاد رکھنا چاہیئے کہ پیشگوئی اپنی تمام عظمتوں کے ساتھ پوری ہوئی جس سے کوئی دانشمند انکار نہیں کر سکتا.غرض یہ تمام اعتراضات بے دینی اور حماقت کی وجہ سے ہیں اعتراض وہ ہے جو ربانی کتابوں کے موافق اعتراض ہو نہ ایسا اعتراض جس کے نیچے تمام نبی اور رسول آ جائیں ایسے اعتراض کرنا بے ایمانوں اور لعنتیوں کا کام ہے اب اس تمام بیان سے میاں محی الدین کے الہامات کی بھی حقیقت کھل گئی.فقط والسلام علیٰ من اتبع الہدٰی
عوام الناس کے بعض اعتراضوں کا جواب اور میاں عبدالحق غزنوی کیلئے ایک ہدیہ پہلا اعتراض.اگر آتھم نے حق کی طرف رجوع کیا تھا تو اس کے آثار کیوں اس میں ظاہر نہیں؟ جواب: درحقیقت یہ رجوع فرعونی رجوع کے موافق تھا نہ حقیقی رجوع کے موافق.فرعون جب رجوع کرتا تھا تو عذاب دور کیا جاتا تھا اور یہی عادت اللہ ہے اور اس عادت اللہ کی تصدیق میں یہ آیت بھی گواہ ہے۱ یعنی اے رب ہم سے عذاب کھول دے کہ ہم ایمان لائے اور پھر اس کے جواب میں فرماتا ہے.۲ سورہ دخان.یعنی ہم تھوڑی مدت تک عذاب کھول دیتے ہیں اور پھر تم عود کرو گے اور کافر بن جاؤ گے.یہ آیت اس بات پر صریح نص ہے کہ خدا تعالیٰ ایک شخص کی تضرّع کو قبول کر کے عذاب ٹال دیتا ہے اور جانتا ہے کہ پھر یہ کفر اور فسق کی طرف رجوع کرے گا اور تضرّع یا استغفار سے عذاب ٹالنا قدیم عادت اللہ ہے اس سے کون انکار کر سکتا ہے بجز ایسے شخص کے جو کمال تعصب سے اندھا ہو گیا ہو.ماسوا اس کے یہ مسلم اور مشہود امر ہے کہ جب ہیبت الٰہی اپنا جلوہ دکھاتی ہے تو اس وقت فاسق انسان کی اور صورت ہوتی ہے اور جب ہیبت کا وقت نکل جاتا ہے تو پھر اپنی شقاوت فطرتی سے اصلی صورت کی طرف عود کر آتا ہے.ایسے لوگ بہتیرے تم نے دیکھے ہوں گے کہ جب ان پر کوئی مقدمہ دائر ہو جس سے سخت قید یا پھانسی یا سزائے موت کا خطرہ ہو گو یہ بھی گمان ہو کہ شاید رہا ہو جائیں تو وہ ایسی ہیبت کو مشاہدہ کر کے اپنی فاسقانہ چال چلن کو بدلا لیتے ہیں نماز پڑھتے ہیں اور توبہ کرتے اور لمبی لمبی دعائیں کرتے ہیں.اور پھر جب ان کی اس تضرع کی حالت پر خدا تعالیٰ رحم کر کے ان کو اس بلا سے خلاصی دیتا ہے تو فی الفور ان کے دل میں یہ خیال گذرتا ہے کہ یہ رہائی خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اتفاقی امر ہے تب وہ اپنے فسق میں پہلے سے بھی بدتر ہو جاتے ہیں اور چند روز میں ہی اپنی عادات کی طرف رجوع کر آتے ہیں.اس کی اور بھی مثالیں ہیں مگر اس
جگہ کلام الٰہی کافی ہے.ا للہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے.۱ سورۃ یونس یعنی جب انسان کو کوئی دکھ پہنچتا ہے تو ہماری جناب میں دعائیں کرنے لگتا ہے کروٹ کی حالت میں اور بیٹھ کر اور کھڑے ہو کر اور جب ہم اس دکھ کو اس سے دفع کر دیتے ہیں تو ایسا چلا جاتا ہے کہ گویا نہ کبھی اس کو دکھ پہنچا اور نہ کبھی دعا کی.پھر ایک دوسرے مقام میں فرماتا ہے۲ سورۃ یونس.یعنی جب تم کشتی میں ہوتے ہو اور کشتی کے سواروں کو ایک خوش ہوا کے ساتھ لے کر کشتیاں چلتی ہیں اور وہ ان کشتیوں کے چلنے سے بہت خوش ہوتے ہیں کہ یک دفعہ ایک تند ہوا چلنی شروع ہوتی ہے اور ہر طرف سے ان پر موج آتی ہے اور ظن غالب یہ ہو جاتا ہے کہ بس اب ہم گھیرے گئے یعنی مارے گئے تب اس وقت اخلاص سے خدا تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں کہ اے خدائے قادر اگر اب ہمیں نجات دے تو ہم شکر گزار ہوں گے.پھر جب خدا تعالیٰ ان کو نجات دیتا ہے تو پھر اسی ظلم اور فساد کی طرف رجوع کرتے ہیں جس پر پہلے جمے ہوئے تھے.اعتراض دوم.آتھم صاحب پندرہ مہینہ میں نہیں مرے اس سے ثابت ہوا کہ میرزا غلام احمد قادیانی نے خدا پر جھوٹ باندھا.الجواب.کیا نعوذ باللہ یونس نبی نے بھی خدا پر جھوٹ باندھا تھا کہ اس کا وعدہ مقررہ ٹل گیا بلکہ اس وعدہ میں جو ہمارے الہام میں تھا صریح شرط تھی یعنی یہ کہ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے.لیکن یونس کے وعدۂ عذاب میں کوئی بھی شرط نہیں تھی بلکہ بغیر کسی شرط کے صرف یہ الفاظ تھے کہ چالیس دن تک اس قوم پر عذاب نازل ہوگا اور خدا تعالیٰ نے حضرت یونس کے ابتلا کے لئے اس شرط ایمان کو مخفی رکھ لیا تھا جس کی وجہ سے حضرت یونس پر وہ ابتلا آیا جو قرآن اور احادیث میں درج ہے.اگر اس شرط پر حضرت یونس کو علم ہوتا تو وہ اس شرط کی تجسس کرتے.اور خدا تعالیٰ نے بھی ان کو بذریعہ الہام مطلع نہیں کیا کیونکہ ابتلا منظور تھا.تب وہ اس ملک سے بھاگ گئے اور سمجھا کہ کفار تکذیب کریں گے اور ٹھٹھا کریں گے.اس قصہ سے علماء کبار نے بہت کچھ استنباط کیا ہے.چنانچہ سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ اپنی کتاب
فتوح الغیب میں لکھتے ہیں کہ کبھی مردان خدا کو جو اس کے خاص بندے ہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک وعدہ ملتا ہے اور اس کا ایفا نہیں ہوتا.اور یہی بحث فیوض الحرمین میں شاہ ولی اللہ صاحب نے کی ہے اور نظیر کے طور پر انبیاء کے بعض واقعات لکھے ہیں.آخر تصفیہ یوں کیا ہے کہ خدا تعالیٰ پر فرض نہیں کہ تمام شرائط اپنے وحی اور الہام کے شخص ملہم پر کھول دے بلکہ جہاں کوئی ابتلا منظور ہوتا ہے بعض شرائط کو مخفی رکھ لیتا ہے جس طرح حضرت یونس کے قصہ میں رکھا.اس میں کیا شک ہے کہ حضرت یونس کی پیشگوئی ایک معرکہ کی پیشگوئی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے ایمان کی شرط کو حضرت یونس پر ظاہر نہ کیا جس سے ان کو بڑا ابتلا پیش آیا.اور اس ابتلا سے حضرت مسیح بھی باہر نہ رہے کیونکہ جس پیشگوئی سابقہ پر ان کی صحت نبوت کا مدار تھا وہ پیشگوئی اپنی ظاہری صورت کے ساتھ پوری نہ ہوئی.یعنی ایلیا نبی کا دوبارہ دنیا میں آنا.اور آخر حضرت مسیح نے تاویلات سے کام لیا مگر تاویلات میں نہایت مشکل یہ امر تھا کہ وہ تاویلات علماء یہود کی اجماع سے بالکل برخلاف تھیں اور ایک بھی ان کے ساتھ متفق نہیں تھا.حضرت مسیح نے کہا تھا کہ ایلیا سے مراد یحییٰ ہے اور ایلیا کے صفات یحییٰ میں اتر آئے ہیں گویا ایلیا ہی نازل ہوگیا.مگر یہ تاویل نہایت سختی سے رد کی گئی اور حضرت مسیح کو نعوذ باللہ ملحد قرار دیا گیا کہ پہلی کتابوں اور نصوص صریحہ کے الٹے معنے کرتا ہے.اسلئے ایک عیسائی یا ایک مسلمان کیلئے ادب سے دور ہے کہ اگر کسی پیشگوئی کو اپنی صورت پر پوری ہوتی نہ دیکھے تو فی الفور ملہم کو کاذب کہہ دے حضرت مسیح کی بعض پیشگوئیاں اپنے وقت پر بھی پوری نہیں ہوئیں یعنی وقت کوئی بتلایا گیا اور ظہور ان کا کسی اور وقت میں ہوا.جیسے دن سے مراد سال لیا گیا.اصل حقیقت یہ ہے کہ بعض وقت دن یا ہفتہ یا مہینہ سے خدا تعالیٰ کے نزدیک ایک متناسب حصہ زمانہ کا مراد ہوتا ہے جس کے تمام اجزاء متشابہ اور یکساں ہوتے ہیں پھر جب دوسرا زمانہ آتا ہے.جو پہلے زمانہ سے امتیاز اور اختلاف رکھتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ وہ دوسرا دن یا دوسرا ہفتہ یا دوسرا مہینہ ہے مثلاً جیسا کہ دن سے مراد وہ وقت محدود ہے جو دو تغیرات کے بیچ میں ہے یعنی آفتاب کا طلوع اور آفتاب کا غروب.ویسا ہی روحانی طور پر اس محدود وقت کا نام دن ہوگا جو دو روحانی تغیرات کے اندر واقع ہے جیسا کہ بدر کی فتح کے لئے ایک دن کا وعدہ دیا گیا اور لکھا گیا کہ صرف ایک دن کی میعاد ہے پھر فتح ہوگی.حالانکہ اس دن سے مراد برس تھا اور دن سے مناسبت یہ تھی کہ یہ فتح بھی دو تغیروں کے اندر تھی ایک یہ تغیر عظیم کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
اپنے آبائی شہر سے ہجرت کے طور پر نکلے اور اس آفتاب صداقت نے مدینہ کی طرف رجوع کیا دوسرے یہ کہ اس آفتاب کا مدینہ منورہ پر طلوع کرنا مکّیوں کے لئے غروب کے حکم میں ہوگیا.سو طلوع بھی متحقق ہوگیا اور غروب بھی.جیسا کہ امریکہ میں آفتاب کا طلوع کرنا ہمارے لئے غروب کے حکم میں ہے پس جب وہ آفتاب مکہ سے چھپ گیا اور وہ عاشق الٰہی ان کوچوں سے نکل گیا تو پھر مکہ میں کیا تھا ایک اندھیری رات تھی نہ وہ انوار رہے نہ وہ برکات رہے.پہلے تو مکہ کو ملائک کی صفوف نے گھیرا ہوا تھا اور پھر شیاطین کی جماعتوں نے گھیر لیا نور جاتا رہا اور ظلمت آگئی.اسی کی طرف اشارہ تھا کہ۱ یعنی خدا ایسا نہیں کہ مکہ والوں پر عذاب نازل کرے اور تو ان میں ہو.کیونکہ وہ آفتاب تھا اور یہ غیر ممکن ہے کہ آفتاب کے ہوتے عذاب کی ظلمت نازل ہو.غرض جب اس آفتاب نے مدینہ میں طلوع کیا تو مدینہ والوں کے لئے دن چڑھ گیا اور مکہ میں علامات غروب پیدا ہوئے اور وہ دو تغیر عظیم ظہور میں آگئے جن میں دن محدود ہوتا ہے.لیکن جب مؤکد اور مکرّر طور پر کسی دن یا تاریخ کا وعدہ ہو جائے تو اس سے انسانی دن اور تاریخیں قطعاً اور یقیناً مراد ہوتی ہیں.ورنہ کبھی ابتلا کے طور پر ربانی اصطلاحات درمیان میں آجاتی ہیں.مگر باایں ہمہ نفس پیشگوئی میں فرق نہیں آتا.پیشگوئی کے بارے میں یہ کامل تحقیق ہے جس پر تمام انبیاء اور اولیاء کا اتفاق ہے.پھر ان لوگوں کے ایمان کا کیا حال ہے جو جلد زبان کو کھولتے ہیں اور حق کے کھلنے تک انتظار نہیں کرتے.لعنتوں کی قسمیں جن سے میاں عبدالحق غزنوی بے خبر ہیں اور ان پر صاف پڑ رہی ہیں (۱)پہلی لعنت یہ کہ عیسائیوں کے حامی بنے اور ایسی بحث میں جو اللہ اور رسول کی سچائی ثابت کرنے کے لئے تھی عیسائیوں کی مدد کی اور ان کے غالب ہونے کا اقرار کیا.ہم ثابت کر چکے ہیں کہ یہ پادری ہی دجال ہیں.پھر جن لوگوں نے دجال کی ہاں کے ساتھ ہاں ملا دی.یہ وہی
یہودی ہیں جن کی نسبت صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ وہ قریب ستر ہزار کے دجال کے ساتھ ہو جائیں گے.ساتھ ہونا یہی ہے کہ ان کی بات کا تصدیق کرنا اور حدیث میں اس بات کی تصریح ہے کہ وہ یہودی دراصل مسلمان ہوں گے لیکن یہودیوں کی طرح اپنی غلطیوں پر جمیں گے اور ظاہر پرست ہوں گے.اس لئے یہودی کہلائیں گے اور حدیثوں کو بنظر تتبع دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ یہودی اس وقت دجال کے تابع ہوں گے جب ایک فتنہ ہوگا اور مسلمانوں کا عیسائیوں کے ساتھ کچھ مقابلہ آپڑے گا.عیسائی اپنی شرارت سے کہیں گے کہ ہمیں فتح ہوئی اور مسلمان کہیں گے کہ ہمیں فتح ہوئی.مسلمانوں کے لئے آسمان گواہی دے گا اور آسمانی آواز آئے گی یعنی خدا کا الہام کہ الحق فی اٰل محمد اور عیسائیوں کے لئے شیطانی آواز آئے گی یعنی وہ لوگ مکر اور فریب سے جو ایک شیطانی طریق ہے لوگوں کو سخت دھوکا دیں گے گویا وہ شیطانی آواز ہوگی جس کا یہ مضمون ہوگا کہ الحق فی اٰل عیسٰی یعنی عیسیٰ کے لوگوں کے ساتھ حق ہے.تب یہودی طبع کے لوگ شیطانی آواز کی طرف جھک جائیں گے اور ہاں میں ہاں ملا کر دجال کے تابع ہوجائیں گے.آخر خدا تعالیٰ فیصلہ کر دے گا اور اسلام کی حقیّت کیلئے نمایاں نشان ظاہر ہوں گے.تب بعض دجال کے تابع ذلت کے ساتھ رجوع کریں گے.یہ خلاصہ اشارات و عبارات احادیث ہے چاہیئے کہ اس میں خوب غور کریں.(۲) دوسری لعنت یہ لعنت خسوف کسوف ہے.یہ بھی ہمارے مخالفوں کے ذلیل کرنے کے لئے کچھ تھوڑی نہیں بشرطیکہ کچھ شرم ہو.آسمانی گواہی خدا تعالیٰ کی گواہی ہے.حدیث کی پیشگوئی پوری ہوئی.اس سے انکار کیا یہ لعنت ہے یا نہیں.اگر یہ لعنت نہیں تو کوئی نظیر بتلاؤ کہ کسی مدعی کے ساتھ کبھی خسوف کسوف ماہ رمضان میں جمع ہوا جب سے دنیا کی بنیاد ڈالی گئی ہے.(۳) تیسری لعنت یہ لعنت ان کتابوں کے مقابلہ سے عاجز آنا ہے جن میں صاف ان لوگوں پر لعنتیں بھیجی گئی تھیں جو مکفر یا منکر دین ہوکر پھر مقابلہ نہ کر سکیں.درحقیقت یہ لعنت بھی کچھ تھوڑی نہیں بلکہ ایک ہزار لعنت ہے کہ اگر زنجیروں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر ان کی لمبائی دکھلائی جاوے تو ایک بڑا رسہ بنتا ہے جو تمام مکفروں کے گلے میں ڈالنے کے لئے کافی ہوگا.پھر عجیب شرم ہے کہ اب تک کہتے ہیں کہ ہم پر کوئی لعنت نہیں پڑی.کیا عیسائیوں کی اس بحث
میں حمایت کرنا جو خالصاً اللہ اور رسول کے لئے تھی لعنت نہیں.کیا یہ ہزار لعنت کا لمبا رسہ کچھ بھی چیز نہیں اور اس سے کچھ ذلت نہیں ہوئی.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے مکفروں کی بڑی پکی عزت ہے کہ مار پر مار پڑتی گئی مگر اس عزت میں فرق نہیں آتا.(۴) چوتھی لعنت عیسائی فریق پر پیشگوئی کا پورا ہونا ہے جس کو ہم بیان کر چکے ہیں.یہ لعنت درحقیقت کئی لعنتوں سے مرکب ہے جس کی تفصیل کی حاجت نہیں.(۵) پانچویں لعنت عنقریب پڑنے والی ہے.اور وہ یہ کہ اگر باوجود اس فتح نمایاں کے جو ہم کو بفضلہ تعالیٰ عیسائیوں کے فریق مباحث پر حاصل ہوئی.یعنی کوئی ان میں سے مرا اور کوئی موت تک پہنچا اور کوئی ماتم دار بنا اور کسی پر ذلت کی لعنت پڑی اور کسی پر اتنا خوف پڑا کہ نہ زندوں میں رہا اور نہ مردوں میں.اب بھی اگر ہماری فتح کا یہ غزنوی لوگ اور دوسرے مکفر اقرار نہ کریں اور نہ آتھم کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ قسم کھاوے اور دو ہزار روپیہ لیوے.اور ایک برس گزرنے کے بعد اس کا مالک بن جاوے تو بے شک ان پر خدا تعالیٰ کی لعنت ہے.اور یہ مسخ ہوگئے اور خنازیر سے جاملے اور عمدًا وہ پہلو اختیار کیا جس میں اللہ ورسول کی اہانت ہے.اب ہم اس بارے میں زیادہ نہیں لکھیں گے اور اسی پر ختم کرتے ہیں.میاں عبدالحق کو اس جواب سے رنجیدہ نہیں ہونا چاہیئے کہ ایں ہمان سنگ ست کہ برسر من زدی.وافوض امری الی اللّٰہ ھو نعم المولٰی و نعم النصیر.ایک فیصلہ کرنے والا اشتہار انعامی ہزار روپیہ میاں رشید احمد گنگوہی وغیرہ کی ایمانداری پرکھنے کے لئے جنہوں نے اس عاجز کی نسبت یہ اشتہار شائع کیا ہے کہ یہ شخص کافر اور دجال اور شیطان ہے اور اس پر لعنت اور سب و شتم کرتے رہنا ثواب کی بات ہے اور اس اشتہار کے وہ سب مکفر مخاطب ہیں جو کافر اور اکفر کہنے سے باز نہیں آتے خواہ لدھیانوی ہیں یا امرتسری یا غزنوی یابٹالوی یا گنگوہی یا پنجاب اور ہندوستان کے کسی اور مقام میں الا لعنۃ اللّٰہ علی الکافرین المکفرین الذین یکفرون المسلمین.اب ان سب پر واجب ہے کہ اپنے ہم جنس مولوی محمد حسن صاحب لدھیانوی کو قسم دلوا کر ہزار روپیہ ہم سے لے لیں ورنہ یاد رکھیں کہ وہ سب بباعث تکفیر مسلم اور انکار حق کے ابدی لعنت میں مبتلا ہوکر تمام شیاطین کے ساتھ جہنم میں پڑیں گے اور نیز یاد رہے کہ قسم اسی مضمون کی ہوگی جو اشتہار ھٰذا میں درج ہے.
اے علمائے مکفرین ان آثار اور اخبار کی نسبت کیا کہتے *ہو جن کو امام عبد الوہاب شعرانی اور دوسرے اکابر متقدمین نے اپنی اپنی کتابوں میں مبسوط طور پر نقل کیا ہے.جن میں سے کچھ حصہ مولوی صدیق حسن خان بھوپالوی نے اپنی فارسی کتابوں حجج الکرامہ وغیرہ میں بطور اختصار لکھا ہے کہ مہدی موعود کے چار نشان خاص ہیں جن میں اس کا غیر شریک نہیں.(۱) یہ کہ علماء اس کی تکفیر کریں گے اور اس کا نام کافر اور دجّال اور بے ایمان رکھیں گے اور تمام مل کر اس کی تکذیب کریں گے اور اس کی تحقیر اور سبّ و شتم کیلئے کمر باندھیں گے اور اس کی نسبت نہایت سخت کینہ پیدا کریں گے اور اس کو ملحد اور مرتد خیال کریں گے اور اس کی نسبت مشہور کریں گے کہ یہ تو اسلام کی بیخ کنی کر رہا ہے یہ مہدی کیسا ہے.اور لعنت اور کافر کافر کہنے کو موجب ثواب اور اجر سمجھیں گے اور اس کو اس زمانہ کے مولوی ہرگز قبول نہیں کریں گے.مگر آخری دنوں میں جب اس کی حقیقت کھل جائے گی محض نفاق سے مان لیں گے دل سے نہیں اور مہدی کو قبول کرنے والے اکثر عوام یا گوشہ گزیں یا پاک دل فقرا ہوں گے جو اپنی صحیح مکاشفات سے اس کو شناخت کرلیں گے.مگر مولویوں کو بجز اس کے اور کوئی حصہ نہیں ملے گا کہ اس کو بے دین اور کافر اور دجال کہیں گے.اور اس وقت کے مولوی ان سب سے بدتر ہوں گے جو زمین پر رہتے ہیں.ان کی زیر کی اور فراست جاتی رہے گی وہ عمیق باتوں کو سن کر فی الفور انکار کردیں گے کہ یہ باتیں تو ہمارے قدیم عقائد کے مخالف ہیں.(۲) دوسرا نشان مہدی موعود کا یہ ہے کہ اس کے وقت میں ماہ رمضان میں خسوف کسوف ہوگا اور پہلے اُس سے جیسا کہ منطوق حدیث صاف بتلا رہا ہے کبھی کسی رسول یا نبی یا محدث کے وقت میں خسوف کسوف کا اجتماع رمضان میں نہیں ہوا.اور جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی ہے.کسی مدعی رسالت یا نبوت یا محدثیت کے وقت میں کبھی چاند گرہن اور سورج گرہن اکٹھے نہیں ہوئے.اور اگر کوئی کہے کہ اکٹھے ہوئے ہیں تو بار ثبوت اس کے ذمہ ہے.مگر حدیث کا مفہوم یہ نہیں کہ مہدی کے ظہور سے پہلے چاند گرہن اور سورج گرہن ماہ رمضان میں ہوگا کیونکہ اس صورت میں تو ممکنات میں سے تھا کہ چاند گرہن اور سورج گرہن کو ماہ رمضان میں دیکھ کر *نوٹ : یہ کہنا بے جاہو گا کہ یہ احادیث ضعیف ہیں یا بعض روایات مجروح ہیں یا حدیث منقطع اور مرسل ہے.کیونکہ جس حدیث کی پیشگو ئی واقعی طور پر سچی نکلی اس کا درجہ فی الحقیقت صحاح سے بھی بڑھ کر ہے کیونکہ اس کی صداقت بدیہی طور پر ظاہر ہوگئی.غرض جب حدیث کی پیشگوئی سچی نکلی تو پھر بھی اس میں شک کرنا صریح بے ایمانی ہے.
ہریک مفتری مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کرے اور امر مشتبہ ہو جائے کیونکہ بعد میں مدعی ہونا سہل ہے اور جب بعد میں کئی مدعی ظاہر ہوگئے تو صاف طور پر کوئی مصداق نہ رہا.بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مہدی موعود کے دعویٰ کے بعد بلکہ ایک مدت گزرنے کے بعد یہ نشان تائید دعویٰ کے طور پر ظاہر ہو جیسا کہ اِنَّ لمھدینا اٰیتین ای لتائید دعوی مھدینا اٰیتین صاف دلالت کر رہی ہے اور اس طور سے کسی مفتری کی پیش رفت نہیں جاتی اور کوئی منصوبہ چل نہیں سکتا کیونکہ مہدی کا ظہور بہت پہلے ہوکر پھر مؤید دعوے کے طور پر سورج گرہن بھی ہوگیا.نہ یہ کہ ان دونوں کو دیکھ کر مہدی نے سر نکالا.اس قسم کے تائیدی نشان ہمارے سید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی پہلی کتابوں میں لکھے گئے تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بعد ظہور میں آئے اور دعویٰ کے مصدق اور مؤید ہوئے.غرض ایسے نشان قبل از دعویٰ مہمل اور بے کار ہوتے ہیں کیونکہ ان میں گنجائش افترا بہت ہے.اور اس پر اور بھی قرینہ ہے اور وہ یہ ہے کہ خسو۱ف اور کسو۲ف اور مہدی کا رمضان کے مہینے میں موجود ہونا خارق عادت ہے اور صرف اجتماع خسوف کسوف خارق عادت نہیں.(۳) تیسرا نشان مہدی موعود کا یہ ہے کہ اس کے وقت میں ایک فتنہ ہوگا.اور نصاریٰ اور مہدی کے لوگوں کا ایک جھگڑا پڑ جائے گا.نصاریٰ کے لئے شیطان آواز دے گا کہ الحق فی اٰل عیسٰی یعنی حق عیسیٰ کے لوگوں میں ہے اور فتح عیسائیوں کی ہے.اور مہدی کے لوگوں کیلئے آسمانی آواز آئے گی یعنی نشانوں اور تائیدوں کے ساتھ ربّانی گواہی یہ ہوگی کہ الحق فی اٰل محمد یعنی حق مہدی کے لوگوں میں ہے.آخر اس آواز کے بعد شیطانی تاریکی اٹھ جائے گی اور لوگ اپنے امام کو شناخت کر لیں گے.(۴) چوتھی مہدی کی یہ نشانی ہے کہ اس کے وقت میں بہت سے مسلمان یہودی طبع دجّال سے مل جائیں گے یعنی وہ لوگ بظاہر مسلمان کہلائیں گے اور دجال کی ہاں کے ساتھ ہاں ملاویں گے یعنی نصاریٰ کے دعویٰ فتح کے مُصدِّق ہوں گے.یہ چار نشانیاں ایسی ہیں کہ مہدی کے لئے خاص ہیں اور اگرچہ اس زمانہ سے پہلے بھی بہت سے اہل اللہ اور بزرگوں کو کافر ٹھہرایا گیا مگر نشانی کا لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مہدی موعود کی اس زور و شور سے تکفیر کی جائے گی کہ اُس سے پہلے کبھی مولویوں نے ایسے زور و شور سے کسی کی تکفیر نہیں کی ہوگی اور نہ کسی کو ایسے زور و شور سے دجال کہا ہوگا.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اس عاجز کو نہ
صرف کافر بلکہ اکفر کہا گیا.ایسا ہی ممکن ہے کہ پہلے بھی کسی مہینہ میں چاند گرہن اور سورج گرہن اکٹھے ہو گئے ہوں مگر یہ کبھی نہیں ہوا اور ہرگز نہیں ہوا کہ بجز ہمارے اس زمانہ کے دنیا کی ابتداء سے آج تک کبھی چاند گرہن اور سورج گرہن رمضان کے مہینہ میں ایسے طور سے اکٹھے ہوگئے ہوں کہ اس وقت کوئی مدعی رسالت یا نبوت یا محدثیت بھی موجود ہو.ایسا ہی اگرچہ پہلے بھی نصاریٰ سے مباحثات مذہبی ہوتے رہے ہیں لیکن جو نصاریٰ نے اب شوخیاں دکھلائیں اور تمام ملک میں شیطانی آوازیں سنائیں اور گدھوں پر سوار ہوئے اور بہروپ بنائے ایسا استہزا ان کی طرف سے کبھی ظہور میں نہیں آیا اور نہ اس استہزا کا بدل جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہونے والا ہے جو ربّانی آواز ہے کبھی ایسا ظاہر ہوا جیسا کہ بعد اس کے ظاہر ہوگا.سننے والے یاد رکھیں.ایسا ہی اگرچہ بعض مسلمان جو منافق طبع ہیں پادریوں کے ساتھ اس سے پہلے بھی مداہنہ کے ساتھ پیش آتے رہے ہیں مگر جو اب مولویوں اور ان کے ناقص العقل چیلوں نے ان پادری دجالوں کی ہاں کے ساتھ ہاں ملائے اور ان کو فتح یاب قرار دیا اور ان کی خوشی کے ساتھ خوشی منائی اور شوخی اور چالاکی سے صدہا اشتہار لکھے اور اہل حق پر لعنتیں بھیجیں اور ان لعنتوں سے نصاریٰ کو خوش کیا اور نصاریٰ کو غالب قرار دیا اس کی نظیر تیرہ سو برس میں کسی صدی میں نہیں پائی جاتی.پس یہ اسی پیشگوئی کا ظہور ہے کہ جو حدیثوں میں آیا ہے کہ ستر ہزار مسلمان کہلانے والے دجال کے ساتھ مل جائیں گے.اب علمائے مکفرین بتلا دیں کہ یہ باتیں پوری ہو گئیں یا نہیں.بلکہ یہ دو علامتیں یعنی مہدی ہونے کے مدعی کو بڑے زور و شور سے کافر اور دجال کہنا اور نصاریٰ کی تائید کرنا اور ان کو فتحیاب قرار دینا اپنے ہاتھ سے مولویوں نے ایسے طور سے پورے کیں جن کی نظیر پہلے زمانوں میں نہیں پائی جاتی.نادانی سے پہلے باہم مشورہ کر کے سوچ نہ لیا کہ اس طور سے تو ہم دو نشانیوں کا آپ ہی ثبوت دے دیں گے جس شدّ و مَد سے اس عاجز کی تکفیر کی گئی ہے اگر پہلے بھی کسی مہدی ہونے کے مدعی کی اس زور و شور سے تکفیر ہوئی ہے اور یہ لعن و طعن کی بارش اور کافر اور دجال کہنا اور دین کا بیخ کن قرار دینا اور تمام ملک کے علماء کا اس پر اتفاق کرنا اور تمام ممالک میں اس کو شہرت دینا پہلے بھی وقوع میں آیا ہے تو اس کی نظیر پیش کریں جو طابق النعل بالنعل کا مصداق ہو ورنہ مہدی موعود کی ایک خاص نشانی انہوں نے اپنے ہاتھ سے قائم کر دی اور اگر پہلے بھی ایسا اتفاق انہوں نے نصاریٰ سے کیا ہے اور ان کو غالب قرار دیا ہے تو اس کی بھی نظیر بتلاویں.اور اگر پہلے بھی کسی ایسے شخص کے
وقت میں جو مہدی ہونے کا دعویٰ کرتا ہو چاند گرہن اور سورج گرہن رمضان میں اکٹھے ہو گئے ہوں تو اس کی نظیر پیش کریں.اور اگر پہلے بھی کسی مہدی کے لوگوں اور نصاریٰ کا کچھ جھگڑا پڑا ہو اور نصاریٰ نے اپنی فتح یابی کے لئے ایسی شیطانی آوازیں نکالی ہوں تو اس کی نظیر بھی بتلا ویں.اور ہم ہر چہار نظیروں کے پیش کرنے والے کے لئے ہزار3 روپیہ نقد انعام مقرر کرتے ہیں.ہم اس روپیہ کے دینے میں کوئی شرط مقرر نہیں کرتے صرف اس قدر ہوگا کہ بعد درخواست یہ ہزار روپیہ مولوی محمد حسن صاحب لدھیانوی کے پاس تین ہفتہ کے اندر جمع کرا دیا جاوے گا اور مولوی صاحب موصوف ایک تاریخ پر جو ان کی طرف سے مقرر ہو فریقین کو اپنے مکان پر بلا کر بلند آواز سے تین مرتبہ قسم کھائیں گے اور کہیں گے کہ میں اللہ جلّ شانہٗ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ واقعات جو پیش کئے گئے بے نظیر نہیں ہیں اور جو کچھ ان کی نظیریں بتلائی گئی ہیں وہ واقعی طور پر صحیح اور درست اور یقینی اور قطعی ہیں.اور بخدا ان نشانیوں کے مصداق ہونے کا مدعی درحقیقت کافر ہے اور میں بصیرت کاملہ سے کہتا ہوں کہ ضرور وہ کافر ہے اور اگر میں جھوٹ بولتا ہوں تو میرے پر وہ عذاب اور قہر الٰہی نازل ہو جو جھوٹوں پر ہوا کرتا ہے.اور ہم ہریک مرتبہ کے ساتھ آمین کہیں گے اور واپسی روپیہ کی کوئی شرط نہیں اور نہ عذاب کے لئے کوئی میعاد مقرر ہے.ہمارے لئے یہ کافی ہوگا کہ یا تو مولوی صاحب خدا تعالیٰ سے ڈریں اور قسم نہ کھاویں اور یا تمام مکفروں کے سرگروہ بن کر قسم کھالیں اور اس کے ثمرات دیکھیں.اور ہم اس جگہ علمائے وقت کی خدمت میں بہ ادب عرض کرتے ہیں کہ وہ تکفیر اور انکار میں جلدی نہ کریں.کیا ممکن نہیں کہ جس کو وہ جھوٹا کہتے ہیں اصل میں سچا وہی ہو.پس جلدی کر کے ناحق کی رو سیاہی کیوں لیتے ہیں.کیا کسی جھوٹے کے لئے آسمانی نشان ظاہر ہوتے ہیں یا کبھی خدا نے کسی جھوٹے کو ایسی لمبی مہلت دی کہ وہ بارہ برس سے برابر الہام اور مکالمہ الٰہیہ کا دعویٰ کر کے دن رات خدا تعالیٰ پر افترا کرتا ہو اور خدا تعالیٰ اس کو نہ پکڑے بھلا اگر کوئی نظیر ہے تو ایک تو بیان کریں ورنہ اس قادر منتقم سے ڈریں.جس کا غضب انسان کے غضب سے کہیں بڑھ کر ہے.اور اس بات پر خوش نہ ہوں کہ بعض مسائل میں اختلاف ہے اور ذرہ دل میں سوچ لیں کہ اگر مہدی موعود تمام مسائل رطب یا بس میں علمائے وقت سے اتفاق کرنے والا ہوتا تو کیوں پہلے سے احادیث میں یہ لکھا جاتا کہ علماء اس کی تکفیر کریں گے اور سمجھیں گے کہ یہ دین کی بیخ کنی کر رہا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ مہدی کی تکفیر کیلئے علماء اپنے پاس اپنے فہم کے
مطابق کچھ وجوہ رکھتے ہوں گے جن کی بنا پر اس کو کافر اور دجال قرار دیں گے.فاتقوا اللّٰہ یا اولی الابصار والسلام علٰی من خشی الرحمٰن واتقٰی واتّبع الحق واھتدٰی.ہمارا انجام کیا ہوگا بجز خدا کے انجام کون بتلا سکتا ہے اور بجز اس غیب دان کے آخری دنوں کی کس کو خبر ہے.دشمن کہتا ہے کہ بہتر ہو کہ یہ شخص ذلت کے ساتھ ہلاک ہو جائے اور حاسد کی تمنا ہے کہ اس پر کوئی ایسا عذاب پڑے کہ اس کا کچھ بھی باقی نہ رہے.لیکن یہ سب لوگ اندھے ہیں اور عنقریب ہے کہ ان کے بدخیالات اور بد ارادے انہیں پر پڑیں.اس میں شک نہیں کہ مفتری بہت جلد تباہ ہو جاتا ہے.اور جو شخص کہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں اور اس کے الہام اور کلام سے مشرف ہوں حالانکہ نہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے نہ اس کے الہام اور کلام سے مشرف ہے وہ بہت بُری موت سے مرتا ہے اور اس کا انجام نہایت ہی بد اور قابل عبرت ہوتا ہے لیکن جو صادق اور اس کی طرف سے ہیں وہ مر کر بھی زندہ ہو جایا کرتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کے فضل کا ہاتھ ان پر ہوتا ہے اور سچائی کی روح ان کے اندر ہوتی ہے.اگر وہ آزمائشوں سے کچلے جائیں اور پیسے جائیں اور خاک کے ساتھ ملائے جائیں اور چاروں طرف سے ان پر لعن و طعن کی بارشیں ہوں اور ان کے تباہ کرنے کے لئے سارا زمانہ منصوبے کرے تب بھی وہ ہلاک نہیں ہوتے.کیوں نہیں ہوتے؟ اس سچے پیوند کی برکت سے جو ان کو محبوب حقیقی کے ساتھ ہوتا ہے.خدا ان پر سب سے زیادہ مصیبتیں نازل کرتا ہے مگر اس لئے نہیں کہ تباہ ہو جائیں بلکہ اس لئے کہ تا زیادہ سے زیادہ پھل اور پھول میں ترقی کریں.ہریک جو ہر قابل کے لئے یہی قانون قدرت ہے کہ اول صدمات کا تختۂ مشق ہوتا ہے.مثلاً اس زمین کو دیکھو جب کسان کئی مہینہ تک اپنی قلبہ رانی کا تختہ مشق رکھتا ہے اور ہل چلانے سے اس کا جگر پھاڑتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ زمین جو پتھر کی طرح سخت اور درشت معلوم ہوتی تھی سرمہ کی طرح پس جاتی ہے اور ہوا اس کو ادھر ادھر اڑاتی ہے اور پریشان کرتی رہتی ہے اور وہ بہت ہی خستہ شکستہ اور کمزور معلوم ہوتی ہے اور ایک انجان سمجھتا ہے کہ کسان نے چنگی بھلی زمین کو خراب کر دیا اور بیٹھنے اور لیٹنے کے لائق نہ رہی لیکن
اس دانا کسان کا فعل عبث نہیں ہوتا.وہ خوب جانتا ہے کہ اس زمین کا اعلیٰ جوہر بجز اس درجہ کی کوفت کے نمودار نہیں ہوسکتا.اسی طرح کسان اس زمین میں بہت عمدہ قسم کے دانے تخم ریزی کے وقت بکھیر دیتا ہے اور وہ دانے خاک میں مل کر اپنی شکل اور حالت میں قریب قریب مٹی کے ہوجاتے ہیں اور ان کا وہ رنگ و روپ سب جاتا رہتا ہے.لیکن وہ دانا کسان اس لئے ان کو مٹی میں نہیں پھینکتا کہ وہ اس کی نظر میں ذلیل ہیں.نہیں بلکہ دانے اس کی نظر میں نہایت ہی بیش قیمت ہیں.بلکہ وہ اسلئے ان کو مٹی میں پھینکتا ہے کہ تا ایک ایک دانہ ہزار ہزار دانہ ہوکر نکلے اور وہ بڑھیں اور پھولیں اور ان میں برکت پیدا ہو اور خدا کے بندوں کو نفع پہنچے.پس اسی طرح وہ حقیقی کسان کبھی اپنے خاص بندوں کو مٹی میں پھینک دیتا ہے اور لوگ ان کے اوپر چلتے ہیں اور پیروں کے نیچے کچلتے ہیں اور ہریک طرح سے ان کی ذلت ظاہر ہوتی ہے.تب تھوڑے دنوں کے بعد وہ دانے سبزہ کی شکل پر ہوکر نکلتے ہیں اور ایک عجیب رنگ اور آب کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں جو ایک دیکھنے والا تعجب کرتا ہے.یہی قدیم سے برگزیدہ لوگوں کے ساتھ سنت اللہ ہے کہ وہ ورطۂ عظیمہ میں ڈالے جاتے ہیں.لیکن غرق کرنے کے لئے نہیں بلکہ اس لئے کہ تا ان موتیوں کے وارث ہوں کہ جو دریائے وحدت کے نیچے ہیں.اور وہ آگ میں ڈالے جاتے ہیں.لیکن اس لئے نہیں کہ جلائے جائیں بلکہ اس لئے کہ تا خدا تعالیٰ کی قدرتیں ظاہر ہوں.اور ان سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے اور لعنت کی جاتی ہے.اور وہ ہر طرح سے ستائے جاتے اور دکھ دیئے جاتے اور طرح طرح کی بولیاں ان کی نسبت بولی جاتی ہیں.اور بدظنیاں بڑھ جاتی ہیں.یہاں تک کہ بہتوں کے خیال و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ وہ سچے ہیں بلکہ جو شخص ان کو دکھ دیتا اور لعنتیں بھیجتا ہے وہ اپنے دل میں خیال کرتا ہے کہ بہت ہی ثواب کا کام کر رہا ہے.پس ایک مدت تک ایسا ہی ہوتا رہتا ہے.اور اگر اس برگزیدہ پر بشریت کے تقاضا سے کچھ قبض طاری ہو تو خدا تعالیٰ اس کو ان الفاظ سے تسلی دیتا ہے کہ صبر کر جیسا کہ پہلوں نے صبر کیا اور فرماتا ہے کہ میں تیرے ساتھ ہوں سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں.پس وہ صبر کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ امر مقدر اپنے مدت مقررہ تک پہنچ جاتا ہے.تب غیرت الٰہی اس غریب کے لئے جوش مارتی ہے اور ایک ہی تجلی میں اعداء کو پاش پاش کر دیتی ہے سو اوّل نوبت دشمنوں کی ہوتی ہے اور اخیر میں اس کی نوبت آتی ہے.اسی طرح خداوند کریم نے بارہا مجھے سمجھایا کہ ہنسی ہوگی اور ٹھٹھا ہوگا اور لعنتیں کریں گے اور بہت ستائیں گے لیکن آخر نصرت الٰہی تیرے شامل ہوگی
اور خدا دشمنوں کو مغلوب اور شرمندہ کرے گا.چنانچہ براہین احمدیہ میں بھی بہت سا حصہ الہامات کا انہی پیشگوئیوں کو بتلا رہا ہے اور مکاشفات بھی یہی بتلا رہے ہیں.چنانچہ ایک کشف میں میں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ میرے سامنے آیا اور وہ کہتا ہے کہ لوگ پھرتے جاتے ہیں.تب میں نے اس کو کہا کہ تم کہاں سے آئے تو اس نے عربی زبان میں جواب دیا اور کہا کہ جئت من حضرۃ الوتر.یعنی میں اس کی طرف سے آیا ہوں جو اکیلا ہے تب میں اس کو ایک طرف خلوت میں لے گیا.اور میں نے کہا کہ لوگ پھرتے جاتے ہیں مگر کیا تم بھی پھر گئے تو اس نے کہا کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں.تب میں اس حالت سے منتقل ہوگیا.لیکن یہ سب امور درمیانی ہیں اور جو خاتمہ امر پر مقدر ہوچکا ہے وہ یہی ہے کہ بار بار کے الہامات اور مکاشفات سے جو ہزارہا تک پہنچ گئے ہیں اور آفتاب کی طرح روشن ہیں خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ میں آخر کار تجھے فتح دوں گا اور ہر یک الزام سے تیری بریت ظاہر کر دوں گا اور تجھے غلبہ ہوگا اور تیری جماعت قیامت تک اپنے مخالفوں پر غالب رہے گی اور فرمایا کہ میں زور آور حملوں سے تیری سچائی ظاہر کروں گا اور یاد رہے کہ یہ الہامات اس واسطے نہیں لکھے گئے کہ ابھی کوئی ان کو قبول کر لے بلکہ اس واسطے کہ ہریک چیز کے لئے ایک موسم اور وقت ہے.پس جب ان الہامات کے ظہور کا وقت آئے گا.تو اس وقت یہ تحریر مستعد دلوں کے لئے زیادہ تر ایمان اور تسلی اور یقین کا موجب ہوگی.والسلام علٰیمن اتبع الہدٰی
ضمیمہ انوار الاسلام فتح اسلام کے بارے میں مختصر تقریر امرت سر کے مباحثہ میں جو عیسائیوں کے ساتھ ہوا تھا.اس میں جو ہم نے پیشگوئی کی تھی.اس کے دو حصے تھے.۱.اوّل یہ کہ فریق مخالف جو حق پر نہیں.ہاویہ میں گرے گا.اور اس کو ذلت پہنچے گی.۲.دوسری یہ کہ اگر حق کی طرف رجوع کرے گا تو ذلت اور ہاویہ سے بچ جائے گا.اب ہم فریق مخالف کی اس جماعت کا پیچھے سے حال بیان کریں گے جنہوں نے بنفس خود بحث نہیں کی بلکہ معاون یا حامی یا سرگروہ ہونے کی حیثیت سے اس فریق میں داخل تھے.اور پہلے ہم مختصر الفاظ میں مسٹر عبد اللہ آتھم کا حال بیان کرتے ہیں جو فریق مخالف سے خاص مباحثہ کے لئے اس فریق کی طرف سے تجویز کئے گئے تھے ان کی نسبت الہامی فقرہ
یعنی ہاویہ کے لفظ کی تشریح ہم نے یہ کی تھی کہ اس سے موت مراد ہے بشرطیکہ حق کی طرف وہ رجوع نہ کریں.اب ہمیں خدا تعالیٰ نے اپنے خاص الہام سے جتلا دیا کہ انہوں نے عظمت اسلام کا خوف اور ہم اور غم اپنے دل میں ڈال کر کسی قدر حق کی طرف رجوع کیا.جس سے وعدہ موت میں تاخیر ہوئی کیونکہ ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ اپنے دل میں لحاظ رکھتا اور وہی رحیم اور کریم خدا ہے جس نے اپنی کتاب مقدس میں فرمایا ہے کہ 3.۱ یعنی جو شخص ایک ذرہ بھر بھی نیک کام کرے وہ بھی ضائع نہیں ہوگا.اور ضرور اس کا اجر پائے گا.سو مسٹر عبد اللہ آتھم نے الہامی شرط کے موافق کسی قدر اسلامی سچائی کی طرف جھکنے سے اپنا اجر پالیا.ہاں جب پھر بے باکی اور سخت گوئی اور گستاخی کی طرف میل کرے گا.تو وہ وعدہ ضرور اپنا کام کرے گا.اس ہمارے وعدے کا ثبوت اگر مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب نے اپنی خوفناک حالت اور وہم اور سراسیمگی اور شہر بشہر بھاگتے پھرنے سے آپ دکھا دیا لیکن ہم اپنی فتح یابی کا قطعی فیصلہ کرنے کے لئے اور تمام دنیا کو دکھانے کے لئے کہ کیونکر ہم کو فتح نمایاں حاصل ہوئی.یہ سہل اور آسان طریق تصفیہ پیش کرتے ہیں کہ اگر مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کے نزدیک ہمارا یہ بیان بالکل کذب اور دروغ اور افترا ہے تو وہ مرد میدان بن کر اس اشتہار کے شائع ہونے سے ایک ہفتہ تک ہماری مفصلہ نوٹ.ایک ہفتہ کی میعاد تھوڑی نہیں بلکہ بہت ہے کیونکہ امرتسر سے قادیان میں دوسرے دن خط پہنچ جاتا ہے اور ہر چند اس قدر میعاد دینا مصلحت کے برخلاف ہے کیونکہ جو فریق درحقیقت شکست یافتہ ہے وہ انہیں چند روز میں سادہ لوحوں کو دھوکہ دے کر ہزاروں کو ورطہ ضلالت میں ڈال سکتا ہے.مگر اتماماً للحجۃ یہ وسیع میعاد دی گئی ہے.۱۲.
ذیل تجویز کو قبول کر کے ہم کو اطلاع دیں.اور تجویز یہ ہے کہ اگر اس پند۱۵رہ مہینہ کے عرصہ میں کبھی ان کو سچائی اسلام کے خیال نے دل پر ڈرانے والا اثر نہیں کیا اور نہ عظمت اور صداقت الہام نے گرداب غم میں ڈالا اور نہ خدا تعالیٰ کے حضور میں اسلامی توحید کو انہوں نے اختیار کیا اور نہ ان کو اسلامی پیشگوئی سے دل میں ذرہ بھی خوف آیا اور نہ تثلیث کے اعتقاد سے وہ ایک ذرہ متزلزل ہوئے تو وہ فریقین کی جماعت کے روبرو تین مرتبہ انہیں باتوں کا انکار کریں کہ میں نے ہرگز ایسا نہیں کیا.اور عظمت اسلام نے ایک لحظہ کے لئے بھی دل کو نہیں پکڑا اور میں مسیح کے ابنیّت اور الوہیّت کا زور سے قائل رہا اور قائل ہوں اور دشمن اسلام ہوں.اور اگر میں جھوٹ بولتا ہوں.تو میرے پر ایک ہی برس کے اندر وہ ذلت کی موت اور تباہی آوے جس سے یہ بات خلق اللہ پر کھل جائے کہ میں نے حق کو چھپایا.جب مسٹر آتھم صاحب یہ اقرار کریں تو ہر ایک مرتبہ کے اقرار میں ہماری جماعت آمین کہے گی.تب اسی وقت ایک ہزار روپیہ کا بدرہ باضابطہ تمسک لے کر ان کو دیا جائے گا اور وہ تمسک ڈاکٹر مارٹن کلارک اور پادری عماد الدین کی طرف سے بطور ضمانت کے ہوگا جس کا یہ مضمون ہوگا کہ یہ ہزار روپیہ بطور امانت مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کے پاس رکھا گیا.اور اگر وہ حسب اقرار اپنے کے ایک سال کے اندر فوت ہوگئے تو اس روپیہ کو ہم دونوں ضامن بلا توقف واپس دے دیں گے اور واپس کرنے میں کوئی عذر اور حیلہ نہ ہوگا.اور اگر وہ انگریزی مہینوں کے رو سے ایک سال کے اندر فوت نہ ہوئے تو یہ روپیہ ان کا مِلک ہو جائے گا.اور ان کی فتح یابی کی ایک علامت ہوگی.اور اگر ہمارا رجسٹری شدہ اشتہار پاکر جو ان کے نام اور ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب
کے نام ہوگا.تاریخ وصول سے ایک ہفتہ تک انہوں نے اس مقابلہ کے لئے درخواست نہ کی تو سمجھا جائے گا کہ فتح اسلام پر انہوں نے مہر لگا دی.اور ہمارے الہام کی تصدیق کر لی.یہ فیصلہ ہے جو خدا تعالیٰ اپنے سچے بندوں کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے کرے گا.اور جھوٹ کے منصوبہ کو نابود کردے گا اور دروغ کے پتلے کو پاش پاش کر دے گا.اور اس اقرار کے لئے ہم مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کو یہ تکلیف نہیں دیتے ہیں کہ وہ امرتسر میں ہمارے مکان پر آویں.بلکہ ہم ان کے بلانے کے بعد معہ ہزار روپیہ کے ان کے مکان پر آویں گے اور ان کے بلانے کی تاریخ سے ہمیں اختیار ہوگا کہ تین ہفتہ تک کسی تاریخ میں روپیہ لے کر ان کے پاس معہ اپنی جماعت کے حاضر ہوجائیں اور ان پر واجب ہوگا کہ ہمارے بلانے کے لئے رجسٹری شدہ خط بھیجیں پھر ہم اطلاع پاکر تین ہفتہ کے اندر معہ ہزار روپیہ کے حاضر نہ ہوں تو بلاشبہ وعدہ خلاف کرنے والے اور کاذب ٹھہریں گے اور ہم خود ان کے مکان پر آئیں گے اور ان کو کسی قدم رنجہ کی تکلیف نہ دیں گے ہم ان کو اتنی بھی تکلیف نہیں دیں گے کہ اس اقرار کیلئے کھڑے ہو جائیں یا بیٹھ جائیں.بلکہ وہ بخوشی اپنے بستر پر ہی لیٹے رہیں.اور تین مرتبہ وہ اقرار کر دیں.جو لکھ دیا گیا ہے.اور ہم ناظرین کو مکرر یاد دلاتے ہیں.کہ مسٹر عبداللہ آتھم صاحب کی نسبت ہماری پیشگوئی کے دو پہلو تھے یعنی یا تو ان کی موت اور یا ان کا حق کی طرف رجوع کرنا اور رجوع کرنا دل کا فعل ہے جس کو خلقت نہیں جانتی.اور خدا تعالیٰ جانتا ہے اور خلقت کے جاننے کے لئے یہ فیصلہ ہے جو ہم نے کر دیا اور خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت نے مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب
کو اس بات کی طرف تحریک نہ دی کہ وہ اس اثناء میں بدزبانی اور سخت گوئی کو کمال تک پہنچا کر موت کے اسباب اپنے لئے جمع کرتے بلکہ ان کے دل میں عظمت اسلام کا خوف ڈال دیا تاوہ اس شرط سے فائدہ اٹھا لیں.جو رجوع کرنے والوں کے لئے الہامی الفاظ میں لکھے گئے تھے اور خدا تعالیٰ کو منظور تھا کہ عیسائیوں کو کچھ عرصہ تک جھوٹی خوشی پہنچاوے اور پھر وہ فیصلہ کرے جس سے درحقیقت اندھے آنکھیں پائیں گے اور بہروں کے کان کھلیں گے اور مردے زندے ہوں گے اور بخیل اور حاسد سمجھیں گے کہ انہوں نے کیسی غلطی کی.امرت سر کے عیسائی اپنے اشتہار میں لکھتے ہیں کہ خداوند مسیح نے مسٹر عبد اللہ آتھم کو بچا لیا.سو اب اگر وہ اپنے تئیں سچے خیال کرتے ہیں تو ان پر واجب ہے کہ مقابلہ سے ہمت نہ ہاریں کیونکہ اگر وہ مصنوعی خدا اُن کا درحقیقت بچانے والا ہی ہے تو ضرور اس آخری فیصلہ پر بچالے گا کیونکہ اگر موت وارد ہوگئی تو سب عیسائیوں کی رو سیاہی ہے چاہیئے کہ اپنے اس مصنوعی خداوند پر توکل کر کے اپنی پیٹھ نہ دکھلاویں.لیکن یاد رکھیں کہ ہرگز ان کو فتح نہیں ہوگی جو شخص آپ فوت ہوگیا ہے وہ دوسرے کو فوت ہونے سے کب روک سکتا ہے.روکنے والا ایک ہے جو حیّ قیوم ہے جس کے ہم پر ستار ہیں.یہ تو ہم نے مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کا حال بیان کیا.جو فریق مخالف سے بحث کے لئے منتخب کئے گئے تھے.لیکن اس جگہ سوال یہ ہے کہ اس فریق مخالف میں سے جو لوگ بطور معاون یا حامی یا سرگروہ تھے ان کا کیا حال ہوا انہوں نے بھی کچھ ہاویہ کا مزہ چکھا ہے یا نہیں تو جواب یہ ہے کہ ضرور چکھا اور میعاد کے اندر ہر ایک نے کامل طور سے چکھا.چنانچہ پادری رائٹ صاحب جو بطور
سرگروہ تھے.میعاد کے اندر عین جوانی میں اس دنیا سے کوچ کر گئے اور مسٹرعبداللہ آتھم صاحب اپنی مصیبت میں رہے غالباً وہ ان کے جنازہ پر بھی حاضر نہیں ہوسکے.ڈاکٹر مارٹن کلارک کے دل کو ان کی بے وقت موت کا ایسا صدمہ پہنچا.کہ بس مجروح کردیا.اور فریق مخالف کے گروہ میں سے جو بطور معاونوں کے تھے ان میں سے ایک پادری ٹامس ہاول تھا.جس نے بار بار محرف کتابوں کو پڑھ کر اپنا حلق پھاڑا اور لوگوں کا مغز کھایا.وہ مباحثہ کے بعد ہی ایسا پکڑا گیا اور ایسی سخت بیماری میں مبتلا ہوا کہ مر مر کے بچا اور ایک معاون عبد اللہ پادری تھا جو چپکے چپکے قرآن شریف کی آیتیں دکھاتااور عبرانی کے ٹوٹے پھوٹے حرف پڑھتا تھا.اس کو بھی میعاد کے اندر سخت بیماری نے موت تک پہنچایا.اور معلوم نہیں کہ بچایا گذر گیا.باقی رہا پادری عماد الدین اس کے گلے میں ہزار لعنت کی ذلت کا لمبا رسہ پڑا جو نور الحق کے جواب سے عاجز ہونے سے اس کو اور اس کے تمام بھائیوں کو نصیب ہوا.اب فرمایئے اس تمام فریق میں سے ہاویہ سے کون بچا کسی ایک کا تو نشان دیں.ہمارے یہ ثبوت ہیں جو ہم نے لکھ دیئے.بالآخر ہم یہ بھی لکھتے ہیں کہ اگر اب بھی کوئی مولوی مخالف جو اپنی بدبختی سے عیسائی مذہب کا مددگار ہو یا کوئی عیسائی یا ہندو یا آریہ یا کیسوں والا سکھ ہماری فتح نمایاں کا قائل نہ ہو تو اس کے لئے طریق یہ ہے کہ مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کو قسم مقدم الذکر کے کھانے پر آمادہ کرے اور ہزار روپیہ نقد ان کو دلا دے جس کے دینے میں ہم ان کے حلف کے بعد ایک منٹ کے توقف کا بھی وعدہ نہیں کرتے اور اگر ایسا نہ کرے اور محض اوباشوں اور بازاری
بدمعاشوں کی طرح ٹھٹھا ہنسی کرتا پھرے تو سمجھا جائے گا کہ وہ شریف نہیں بلکہ اس کی فطرت میں خلل ہے سو اگر بجز اس تحقیق کے تکذیب کرے تو وہ کاذب ہے اور لعنۃاللّٰہ علی الکاذبین کا مصداق.اور اگر مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کے پاس جانے کے لئے اس کو کچھ مسافت طے کرنی پڑتی ہے تو ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اپنے خرچ سے اس کے لئے یکّہ یا ٹٹّویا ڈولی جو کچھ چاہے مہیا کر دیں گے اور اگر وہ ہندو ہے یا کیسوں والا سکھ یا کوئی اور غیر مذہب والا ہے تو اس کی غذا کے لئے بھی ہم نقد دے دیں گے.یہ نہایت صفائی کا فیصلہ ہے اور کسی حلال زادہ کا کام نہیں جو بغیر رعایت اس فیصلہ کے ہم کو جھوٹا اور شکست خوردہ قرار دے یا بازاروں میں ٹھٹھا یا ہنسی کرتا پھرے اور بغلیں بجاتا پھرے ہاں جو لوگ ناجائز طور کی عداوت رکھتے ہیں.وہ ناجائز تہمتوں کا طومار باندھ کر ناحق اسلام کے دشمن بن جاتے ہیں مگر یاد رکھیں کہ اسلام کا خدا سچا خدا ہے.جو نہ کسی عورت کے پیٹ سے نکلا اور نہ کبھی بھوکا اور پیاسا ہوا وہ ان سب تہمتوں سے پاک ہے جو اس کی نسبت کوئی خیال کرے کہ ایک مدت تک اس کی خدائی کا انتظام درست نہ تھا اور نجات دینے کی کوئی راہ اور سبیل اسے نہیں ملتی تھی.یہ تو مدت کے بعد گویا ساری عمر بسر کر کے سوجھی کہ مریم سے اپنا بیٹا پیدا کرے اور مریم کی پیدائش سے پہلے یہ کفارہ کی تدبیر اس کے خیال میں نہ گذری اور نہ کامل خدا کی نسبت ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ صرف نام ہی کا پرمیشر ہے ورنہ سب کچھ جیو اور پر کرتی وغیرہ آپ ہی آپ قدیم سے ہے.نہیں بلکہ وہ قادر مطلق اور کل کا خالق ہے.اور اگر کوئی سوال کرے کہ اس میں کیا بھید ہے کہ پیشگوئی کے دو پہلو میں سے موت کے پہلو کی
طرف خدا تعالیٰ نے مسٹر عبد اللہ آتھم کے لئے رخ نہ کیا اور دوسرا پہلو لے لیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ موت کا پہلو مجروح اور تختہ مشق اعتراضات کا ہوگیا تھا.کوئی کہتا تھا کہ مرنا کیا نئی بات ہے.ایک ڈاکٹر صاحب پہلے موت کا فتویٰ دے چکے ہیں کہ چھ مہینہ تک فوت ہو جاوے گا اور کوئی کہتا تھا کہ بڈھا ہے کوئی کہتا تھا کمزور ہے موت کیا تعجب ہے.کوئی کہتا تھا کہ جادو سے مار دیں گے یہ شخص بڑا جادوگر ہے سو خدائے حکیم و علیم نے دیکھا کہ معترضوں نے اس پہلو کو بہت کمزور اور مشکوک کردیا ہے.اور خیالات پر سے اس کا اثر اٹھا دیا ہے اس لئے دوسرا پہلو اختیار کیا اور اس پہلو سے جادو کا گمان کرنے والے بھی شرمندہ ہوں گے کیونکہ دلوں کو حق کی طرف پھیرنا جادوگروں کا کام نہیں بلکہ خدا اور اس کے نبیوں اور رسولوں کا کام ہے سو اس وقت تک خدا تعالیٰ نے مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کی موت کو ان وجوہات سے ٹال دیا اور مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کے دل پر عظمت اسلام کا رعب ڈال کر پہلو ثانی سے اس کو حصہ دے دیا لیکن اب عیسائیوں کی راہیں بدل گئیں اور بھولا بسرا خداوند مسیح کہیں سے نکل آیا یہ ان زبانوں پر جاری ہوگیا کہ خداوند مسیح بڑا ہی قادر خدا ہے جس نے مسٹر عبد اللہ آتھم کو بچا لیا اس لئے ضرور ہوا کہ خدا تعالیٰ اس مصنوعی خدا کی حقیقت دنیا پر ظاہر کرے کہ کیا یہ عاجز انسان جس کا نام ربنا المسیح رکھا گیا کسی کو موت سے بچا سکتا ہے.سو اب موت کے پہلو کا وقت آگیا اب ہم دیکھیں گے کہ عیسائیوں کا خدا کہاں تک طاقت رکھتا ہے اور کہاں تک اس مصنوعی خدا پر ان لوگوں کا توکل ہے اب ہم اس مضمون کو ختم کرتے ہیں اور جواب کے منتظر ہیں.والسلام علی من اتبع الھدٰی المشتھر ۹؍ستمبر ۱۸۹۴ ء خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور
فتح اسلا م فتح اسلام فتح اسلام اشتہار انعامی دو ہزار روپیہ مرتبہ دوم یہ دو ہزار روپیہ ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب کے حلف پر بلا توقف ان کے حوالہ کیا جائے گا (دوہزار کا اشتہار) بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ (دو ہزار کا اشتہار) الحق مع آل محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہم نے ۹؍ ستمبر ۱۸۹۴ ء کے اشتہار میں لکھا تھا کہ آتھم صاحب نے ایام پیشگوئی میں ضرور حق کی طرف رجوع کر لیا اور اسلام کی عظمت کا اثر اپنے دل پر ڈال لیا.اگر یہ سچ نہیں تو وہ نقد ایک ہزار روپیہ لیں اور قسم کھا لیں کہ انہوں نے اس خوف کے زمانہ میں رجوع نہیں کیا.چنانچہ اسی حقیقت کو خلق اللہ پر ظاہر کرنے کے لئے تین رجسٹری شدہ خط آتھم صاحب اور ڈاکٹر مارٹن کلارک اور پادری عماد الدین مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کی طرف خط: مسٹر آتھم صاحب آپ کو معلوم ہے کہ کس قدر جھوٹے بے ایمانوں نام کے مسلمان یا مولوی یا عیسائیوں نے یہ خلاف واقع خبر اڑا دی ہے کہ آپ نے باوجود یہ کہ خدا تعالیٰ کے سچے اور پاک دین اسلام کی طرف کچھ بھی رجوع نہ کیا.پھر بھی وعید موت سے بچ گئے اور عیسائی غالب رہے اور پیشگوئی جھوٹی نکلی اور اللہ جلّ شانہ جس کی عظمت اور ہیبت سے زمین اور آسمان کانپتے ہیں.اس نے مجھ کو خبر دی ہے کہ آپ نے خوف کے دنوں میں نہایت ہم و غم کی حالت میں در پردہ اسلام کی طرف رجوع کر لیا.یعنی اسلامی عظمت کو آپ نے دل
صاحب کی خدمت میں روانہ کئے گئے.کل ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب کی طرف سے وکیل کے طور پر انکاری خط آیا جس سے صاف طور پر ثابت ہوگیا کہ آتھم صاحب کسی طور سے قسم کھانا نہیں چاہتے اور باوجودیکہ دس ستمبر ۱۸۹۴ ء سے ایک ہفتہ کی میعاد دی گئی تھی مگر وہ میعاد بھی گذر گئی مگر بجز ایک انکاری خط کے اور کوئی خط نہیں آیا.پس کیا اب بھی یہ ثابت نہیں ہوا ہے کہ بقیہ حاشیہ:میں بٹھا لیا.جس کو آپ پوشیدہ رکھتے ہیں اس لئے اس نے جو غیبوں کا جاننے والا اور انسان کے عمیق اور چھپے ہوئے خیالوں کو دیکھنے والا ہے اپنے وعدہ اور شرط کے موافق اس عذاب سے آپ کو بچا لیا جو اس صورت میں نازل ہوتا جبکہ آپ اس شرط کے موافق کچھ بھی اپنی اصلاح نہ کرتے اور نہ اسلامی عظمت سے ہراساں ہوتے اور اگر نعوذ باللہ یہ الہام الٰہی آپ کے نزدیک صحیح نہیں ہے تو میں آپ کو اس ذات پاک کی قسم دیتا ہوں جس نے آپ کو پیدا کیا اور جس کی طرف آپ کو جانا ہے کہ عام جلسہ میں تین مرتبہ قسم کھا کر میرے روبرو اس کی تکذیب کردیں اور صاف کہہ دیں کہ یہ الہام جھوٹا ہے.اور اگر سچا ہے اور میں نے ہی جھوٹ بولا ہے تو اے قادر غیور خدا مجھ کو سخت عذاب میں مبتلا کر اور اسی میں مجھ کو موت دے تب میں مع اپنے چند عاجز مخلصوں کے جو لعنتوں کا نشانہ ہو رہے ہیں آمین کہوں گا اور ربّ العرش سے چاہوں گا کہ میرا اور آپ کا قطعی فیصلہ کر دے جو کچھ میں نے الہام سنایا ہے بجز خدا تعالیٰ اور میرے اور آپ کے دل کے اور کسی کو خبر نہیں.سو میں اسی مالک کی آپ کو قسم دیتا ہوں کہ اگر آپ میرے الہام کے مکذب ہیں تو میرے روبرو حلفاًاقرار مذکور کر کے آسمانی فیصلہ کا دروازہ کھول دیں ہم ستائے گئے اور دکھ دیئے گئے اور ہم پر لعنتیں ہوئیں اور ہم جھوٹے سمجھے گئے اس لئے ناچار میں تیسری مرتبہ آپ کو قسم دیتا ہوں کہ آپ کو اس قادر توانا کی قسم ہے جس کے جلال سے ملائک پر بھی لرزہ پڑتا ہے کہ آپ حلفاًعام جلسہ میں میرے روبرو اس طور کی قسم کھا کر جو میں اشتہار میں بتلا چکا ہوں مجھ سے فیصلہ کرو تا کاذب ہلاک ہو اور جھوٹا تباہ ہو جائے.اور اگر ایسا نہ کرو تو آپ نے میری سچائی اور میری صداقت پر مہر لگا دی اور ان شریر مسلمانوں اور عیسائیوں کا جھوٹا اور رو سیاہ ہونا ثابت کر دیا کہ جو گدھے کی طرح زور زور سے چیخیں مار کر کہہ رہے ہیں عیسائیوں کی فتح ہوئی.اب دعا پر ختم کرتا ہوں اے حی و قیوم حق ظاہر کر اور اپنے وعدہ کے موافق جھوٹوں کو پامال کردے( آمین) *نوٹ.الہامی پیشگوئی نہ صرف آتھم صاحب کے متعلق تھی بلکہ اس تمام مخالف فریق کے متعلق تھی جو اس جنگ مقدس کیلئے اپنے اپنے طور پر خدمتوں کیلئے مقرر تھے آتھم صاحب کے ہاتھ میں تو وہ نابکار اور شکستہ تلوار پکڑائی گئی تھی جو سچائی کا ایک بال بھی نہیں کاٹ سکتی تھی اور باقی فریق میں سے کوئی بطور معاون اور کوئی مشیر جنگ اور کوئی سرگروہ تھا پس آخر اس جنگ کا یہ نتیجہ ہوا کہ کوئی ان سے پندرہ مہینے کے اندر مارا گیا کوئی زخمی ہوا اور کوئی لعنت کی ہزار کڑی والی زنجیر میں گرفتار ہوکر ہمیشہ کی ذلت کے قید خانے میں ڈالا گیا اور آتھم صاحب خوف کھا کر بھاگ گئے اور اسلامی عظمت کے جھنڈے کے نیچے پناہ لی.منہ
مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب نے ضرور پیشگوئی کے زمانے میں اسلامی عظمت کو اپنے دل میں جگہ دے کر حق کی طرف رجوع کرلیا تھا مگر اب بھی بعض متعصب ناقص الفہم لوگ شک رکھتے ہیں تو اب ہم یہ دوسرا اشتہار دو ہزار روپیہ انعام کے شرط سے نکالتے ہیں اگر آتھم صاحب جلسہ عام میں تین مرتبہ قسم کھا کر کہہ دیں کہ میں نے پیشگوئی کی مدت کے اندر عظمت اسلامی کو اپنے دل پر جگہ ہونے نہیں دی اور برابر دشمن اسلام رہا.اور حضرت عیسیٰ کی ابنیت اور الوہیت اور کفارہ پر مضبوط ایمان رکھا تو اسی وقت نقد دو ہزار روپیہ ان کو بہ شرائط قرار دادہ اشتہار ۹ ؍ستمبر ۱۸۹۴ ء بلا توقف دیا جائے گا اور اگر ہم بعد قسم دو ہزار روپیہ دینے میں ایک منٹ کی بھی توقف کریں تو وہ تمام لعنتیں جو نادان مخالف کر رہے ہیں ہم پر وارد ہوں گی اور ہم بلاشبہ جھوٹے ٹھہریں گے اور قطعاً اس لائق ٹھہریں گے کہ ہمیں سزائے موت دی جائے اور ہماری کتابیں جلا دی جائیں اور ملعون وغیرہ ہمارے نام رکھے جائیں اور اگر اب بھی آتھم صاحب باوجود اس قدر انعام کثیر کے قسم کھانے سے منہ پھیر لیں تو تمام دشمن و دوست یاد رکھیں کہ انہوں نے محض عیسائیوں سے خوف کھا کر حق کو چھپایا ہے اور اسلام غالب اور فتح یاب ہے پہلے تو ان کے حق کی طرف رجوع کرنے کا صرف ایک گواہ تھا یعنی ان کی وہ خوف زدہ صورت جس میں انہوں نے پندرہ مہینے بسر کئے اور دوسرا گواہ یہ کھڑا ہوا کہ انہوں نے باوجود ہزار روپیہ نقد ملنے کے قسم کھانے سے انکار کیا ہے اب تیسرا گواہ یہ دو ہزار روپیہ کا اشتہار ہے اگر اب بھی قسم کھانے سے انکار کریں تو رجوع ثابت.کیا کوئی سچا موت سے ڈر کر انکار کر سکتا ہے کیا ہر ایک جان خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں نہیں جبکہ عیسائیوں کا مقولہ ہے کہ ان کی جان مسیح نے بچائی اور ہم کہتے ہیں کہ نہیں ہرگز نہیں ہرگز نہیں.بلکہ اسلامی عظمت کو اپنے دل میں جگہ دینے سے الہام کی شرط کے موافق جان بچ گئی تو اب اس جھگڑے کا فیصلہ بجز ان کی قسم کے اور کیونکر ہو.اگر یہی بات سچی ہے کہ صرف مسیح نے ان پر فضل کیا.تو اب اس معرکہ کی لڑائی میں جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہیں ضرور مسیح ان پر فضل کرے گا.اور اگر یہ بات سچی ہے کہ انہوں نے درحقیقت خوف کے دنوں میں
اپنے دل میں اسلام کی طرف رجوع کر لیا تھا تو اب منکر انہ قسم کھانے کے بعد ضرور بغیر تخلف اور بغیر استثناء کسی شرط کے ان پر موت آئے گی.غرض یہ فیصلہ تو نہایت ضرور ہے.اس سے وہ کہاں اور کیونکر گریز کرسکتے ہیں* اور اگر اب بھی باوجود اس دو ہزار روپیہ کے جو نقد بلا تکلیف حلوائے بے دُود کی طرح ان کو ملتا ہے قسم کھانے سے انکار کریں تو سارا جہان گواہ رہے کہ ہم کو فتح کامل ہوئی اور عیسائی کھلے طور پر شکست پا گئے اور ہمارا تو یہ حق تھا کہ اول دفعہ کے اشتہار پر ہی کفایت کرتے.کیونکہ جب ہزار روپیہ نقد دینے سے وہ قسم نہ کھا سکے تو صریح ان پر حجت پوری ہو گئی مگر ہم نے نہایت موٹی عقل کے لوگوں اور حاسدوں اور متعصبوں کی حالت پر رحم کر کے مکرر یہ دو ہزار روپیہ کا اشتہار بطور تیسرے گواہ اپنی صداقت کے جاری کیا ہے ہمارے مولوی مکفر جو عیسائیوں کی فتح کو بدل و جان چاہتے ہیں سب مل کر ان کو سمجھا ویں کہ ضرور قسم کھاویں اور ان کی بھی عزت رکھ لیں اور اپنی بھی.قطعی فیصلہ تو یہ ہے جو قسم کے کھانے یا انکار کرنے سے ہو نہ وہ یکطرفہ الہام جس کے ساتھ صریح شرط رجوع بحق کرنے کی لگی ہوئی تھی اور جس شرط پر عمل درآمد کا ثبوت آتھم صاحب نے اپنی خوفناک حالت دکھلانے سے آپ ہی دے دیا.بلکہ نور افشاں ۴ا ؍ستمبر ۱۸۹۴ ء صفحہ ۱۲ پہلے ہی کالم کی پہلی ہی سطر میں ان کا یہ بیان لکھا ہے کہ میرا خیال تھا کہ شاید میں مار ابھی جاؤں گا.اسی کالم میں یہ بھی لکھا ہے کہ انہوں نے یہ باتیں کہہ کر رو دیا.اور رونے سے جتلا یا کہ میں بڑے دکھ میں رہا پس ان کا رونا بھی ایک گواہی ہے کہ ان پر اسلامی پیشگوئی کا بہت سخت اثر رہا ورنہ اگر مجھ کو کاذب جانتے تھے تو ایسی کیا مصیبت پڑی تھی جس کو یاد کر کے اب تک رونا آتا ہے پھر اب سب سے بڑھ کر گواہ یہ ہے کہ انہوں نے ہزار روپیہ لے کر قسم کھانا منظور نہیں کیا ورنہ جس شخص کو وہ پندرہ مہینے کے متواتر تجربہ سے جھوٹا ثابت کر چکے ہیں اس کے سراسر جھوٹ بیان کے رد کرنے کے لئے خواہ نخواہ غیرت جوش مارنی چاہیئے تھی اور چاہیئے تھا کہ نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ قسم کھانے کو تیار ہو جاتے کیونکہ اپنے آپ کو سچا سمجھتے تھے اور مجھے صریح کاذب.* نوٹ : مسٹر عبد اللہ آتھم نے بہ ایام انعقاد شرائط مباحثہ اپنے ایک تحریری عہد سے جو ہمارے پاس موجود ہے ہمیں اطلاع دی تھی.کہ وہ کسی
خیر اب ہم الزام پر الزام دینے کے لئے ایک اور ہزار روپیہ خرچ کر دیتے ہیں اور یہ دو ہزار روپیہ کا اشتہار جو ہماری صداقت کے لئے بطور گواہ ثالث ہے جاری کرتے ہیں اور ہمارے مخالف یاد رکھیں کہ اب بھی آتھم صاحب ہرگز قسم نہیں کھائیں گے کیوں نہیں کھائیں گے اپنے جھوٹا ہونے کی وجہ سے اور یہ کہنا کہ شاید ان کو یہ دھڑکا ہو کہ ایک برس میں مرنا ممکن ہے.پس ہم بقیہ حاشیہ: نشان کے دیکھنے سے ضرور اپنے عقائد کی اصلاح کر لیں گے یعنی دین اسلام قبول کر لیں گے.سو یہ خط بھی ایک گواہ ان کی اندرونی حالت کا ہے کہ وہ سچائی کے قبول کرنے کیلئے پہلے ہی سے مستعد تھے.پھر جب یہ الہام اپنے پُر رعب مضمون میں انہیں کے بارہ میں ہوا اور انہیں پر پڑا.اور الہام بھی موت کا الہام جو بالطبع ہر یک پر گراں گزرتی ہے.اور ہریک اپنی چند روزہ زندگی کو عزیز رکھتا ہے.اور یہ اپنے اسلام لانے کا وعدہ انہوں نے اس وقت کیا تھا کہ جب انہیں اس بات کا خیال بھی نہیں تھا کہ وہ نشان مطلوب انہیں کی موت کے بارے میں ہوگا.بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کریں.اور وہ الہام نہایت شد و مد اور تاکید سے اور ایسے پر زور الفاظ میں سنایا گیا جس سے بڑھ کر ممکن نہیں.تو کیا یہ نہایت قریب قیاس نہیں کہ ایسے مستعد اور قابل انفعال دل پر ایسی پرزور تقریر نے بہت ُ برا اثر کیا ہوگا.اور انہوں نے ایسے منذر الہام کو سن کر ضرور متاثر ہوکر اندر ہی اندر اپنی اصلاح کی ہوگی جیسے ان کے دوسرے مضطربانہ حالات بھی اس پر شاہد ہیں اور نیز اس خط سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ وہ ہرگز تثلیث اور مسیح کے خون اور کفارہ پر مطمئن نہیں تھے.کیونکہ ایک ایسا شخص جو اپنے عقائد پر سچے دل سے مطمئن ہو وہ ہرگز یہ بات زبان پر نہیں لاسکتا کہ بعض نشانوں کے دیکھنے سے ان عقائد کو ترک کر دوں گا.اصل خط ان کے ہاتھ سے لکھا ہوا ہمارے پاس موجود ہے.جو صاحب شک رکھتے ہیں دیکھ لیں.منہ
کہتے ہیں کہ کون مارے گا کیا ان کا خداوند مسیح یا اورکوئی پس جبکہ یہ دو خداؤں کی لڑائی ہے ایک سچا خدا جو ہمارا خدا ہے اور ایک مصنوعی خدا جو عیسائیوں نے بنا لیا ہے.تو پھر اگر آتھم صاحب حضرت مسیح کی خدائی اور اقتدار پر ایمان رکھتے ہیں بلکہ آزما بھی چکے ہیں تو پھر ان کی خدمت میں عرض کر دیں کہ اب اس قطعی فیصلہ کے وقت میں مجھ کو ضرور زندہ رکھیو.یوں تو بقیہ حاشیہ: کہ نہ تو وہ اس خلاف حق کلمہ سے منہ بند کریں کہ اسلام اور عیسائیت کی بحث میں عیسائیوں کی فتح ہوئی.اور نہ مسٹر آتھم صاحب کو قسم کھانے پر آمادہ کریں.اور وجہ اعتراض یہ بیان کی گئی ہے کہ آتھم صاحب پر ہمارا کچھ زور اور حکم تو نہیں تاخواہ نخواہ قسم کھانے پر ان کو مستعد کریں.تو اس کا جواب یہی ہے کہ اے بے ایمانو اور دل کے اندھو اور اسلام کے دشمنو اگر آتھم صاحب قسم کھانے سے گریز کر رہے ہیں تو اس سے کیا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پیشگوئی جھوٹی نکلی یا یہ نتیجہ کہ درحقیقت آتھم صاحب نے دل میں اسلام کی طرف رجوع کر لیا ہے.تبھی تو وہ جھوٹی قسم کھانے سے پرہیز کرتے ہیں.جبکہ تم نیم عیسائی ہوکر بدل و جان زور لگا رہے ہو کہ آتھم صاحب کسی طرح اقرار کر دیں کہ میں درحقیقت ایام میعاد پیشگوئی میں اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن رہا اور عاجز انسان کو خدا جانتا رہا.تو پھر اگر آتھم صاحب درحقیقت پکے عیسائی اور دشمن اسلام ہیں.تو ان کو ایسی قسم سے کون روکتا ہے جس کے کھانے کے ساتھ دو ہزار روپیہ نقد ان کو ملے گا اور جس کے نہ کھانے سے یہ ثابت ہوگا کہ عظمت اسلام ضرور ان کے دل میں سما گئی.اور عیسائیت کے باطل اصول ان کی نظر میں حقیر اور مکروہ معلوم ہوئے اے نیم عیسائیو ذرہ اور زور لگاؤ.اور آتھم صاحب کے پیروں پر سر رکھ دو شاید وہ مان لیں اور یہ پلید لعنت تم سے ٹل جائے.ہائے افسوس عیسائی گریز کریں اور تم اصرار کرو عجیب سرشت ہے.اے نیم عیسائیو آج تم نے وہ پیشگوئی پوری کردی.جو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا جو ستر ہزار میری امت میں سے دجّال کے ساتھ مل جائے گا.سو آج تم نے دجالوں کی ہاں کے ساتھ ہاں ملا دی تا جو اس پاک زبان پر جاری ہوا تھا وہ پورا ہو جائے.تمہیں وہ حدیث بھی
موت کی گرفت سے کوئی بھی باہر نہیں اگر آتھم صاحب چوسٹھ برس کے ہیں تو عاجز قریباً ساٹھ برس کا ہے اور ہم دونوں پر قانون قدرت یکساں مؤثر ہے لیکن اگر اسی طرح کی قسم کسی راستی کی آزمائش کے لئے ہم کو دی جائے تو ہم ایک برس کیا دس برس تک اپنے زندہ رہنے کی قسم کھا سکتے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ دینی بحث کے وقت میں ضرور خدا تعالیٰ ہماری مدد کرے گا اور ایسا شخص تو سخت بے ایمان اور دہریہ ہوگا کہ جس کو ایسی بحث میں یہ خیال آوے کہ شاید میں اتفاقاً مر جاؤں کیا زندہ رہنا اور مرنا اس کے خدا کے ہاتھ نہیں.کیا بغیر حکم حاکم کے یوں ہی اتفاقی طور پر لوگ مرجاتے ہیں.اور نیز اتفاق اور امکان تو دونوں پہلو رکھتا ہے مرنا اور نا مرنا بھی بلکہ نامرنے کا پہلو قوی اور غالب ہے کیونکہ مر جانا تو ایک نیا حادثہ ہے جو ہنوز معدوم ہے اور زندہ رہنا ایک معمولی امر ہے جو موجود بالفعل ہے پھر بقیہ حاشیہ:بھول گئی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک فتنہ ہوگا جس میں عیسائی کہیں گے کہ ہماری فتح ہوئی اور مہدی کے لوگ کہیں گے کہ ہماری فتح ہوئی اور عیسائیوں کیلئے شیطان گواہی دے گا کہ الحق فی آل عیسٰی اور مہدی کے لوگوں کیلئے رحمان گواہی دے گا کہ الحق فی آل محمد.سو اب سوچو کہ وہی وقت آگیا.عیسائیوں نے شیطانی مکائد سے پنجاب اور ہندوستان میں کیا کچھ نہ کیا.یہی شیطانی آواز ہے اب رحمانی آواز کے منتظر رہو.والسلام علٰی من اتبع الہدٰی.یقیناً سمجھنا چاہیے کہ ہمارا الہام کی رو سے آتھم صاحب کی پوشیدہ حالت پر اطلاع پانا کہ انہوں نے ضرور اسلامی عظمت اور صداقت کی طرف رجوع کیا ہے آتھم صاحب کے واسطے ایک نشان ہے اور اگرچہ کوئی دوسرا سمجھے یا نہ سمجھے مگر آتھم صاحب کا دل ضرور گواہی دے گا کہ یہ وہ پوشیدہ امر ہے جو ان کے دل میں تھا اور خدا تعالیٰ نے جو علیم و حکیم ہے اپنے بندہ کو اس سے اطلاع دی اور ان کے اس غم وہم سے مطلع فرمایا جو محض اسلامی شوکت اور صداقت کے قبول کرنے کی وجہ سے تھا نہ کسی اور وجہ سے اور یہی وجہ ہے کہ اب وہ میرے سامنے ہرگز مقابل پر نہیں آئیں گے کیونکہ میں صادق ہوں اور الہام سچا ہے.منہ
موت سے غم کرنا صریح اس امر کا ثبوت ہے کہ اپنے خدا کے کامل اقتدار پر ایمان نہیں حضرت یہ تو دو خداؤں کی لڑائی ہے اب وہی غالب ہوگا جو سچا خدا ہے.جبکہ ہم کہتے ہیں کہ ہمارے خدا کی ضرور یہ قدرت ظاہر ہوگی کہ اس قسم والے برس میں ہم نہیں مریں گے لیکن اگر آتھم صاحب نے جھوٹی قسم کھا لی تو ضرور فوت ہو جائیں گے تو جائے انصاف ہے کہ آتھم صاحب کے خدا پر کیا حادثہ نازل ہوگا کہ وہ ان کو بچا نہیں سکے گا اور منجی ہونے سے استعفیٰ دے دے گا.غرض اب گریز کی کوئی وجہ نہیں یا تو مسیح کو قادر خدا کہنا چھوڑیں اور یا قسم کھا لیں.ہاں اگر عام مجلس میں یہ اقرار کردیں کہ ان کے مسیح ابن اللہ کو برس تک زندہ رکھنے کی تو قدرت نہیں مگر برس کے تیسرے حصہ یا تین دن تک البتہ قدرت ہے اور اس مدت تک اپنے پرستار کو زندہ رکھ سکتا ہے تو ہم اس اقرار کے بعد چار مہینہ یا تین ہی دن تسلیم کر لیں گے اگر اب بھی یہ دو ہزار روپیہ کا اشتہار پاکر منہ پھیر لیا تو ہر یک جگہ ہماری کامل فتح کا نقارہ بجے گا اور عیسائی اور نیم عیسائی سب ذلیل اور پست ہو جائیں گے اور ہم اس اشتہار کے روز اشاعت سے بھی ایک ہفتہ کی میعاد آتھم صاحب کو دیتے ہیں اور باقی وہی شرائط ہیں جو اشتہار ۹ ؍ستمبر ۱۸۹۴ ء میں بتصریح لکھ چکے ہیں والسلام علٰی من اتبع الہدٰی.المشتھر میرزا غلام احمد قادیانی ۲۰؍ ستمبر ۱۸۹۴ ء مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر
بسم اللّٰہ الرّحمٰن الرحیم.نحمدہ ونصلی ربنا افتح بیننا وبین قومنا بالحق وانت خیر الفاتحین اشتہار انعامی تین ہزار روپیہ بمرتبہ سوئم اس تحریر میں آتھم صاحب کے لئے تین ہزار روپیہ کا انعام مقرر کیا گیا ہے اور یہ انعام بعد قسم بلا توقف دو معتبر متمول لوگوں کا تحریری ضمانت نامہ لے کر ان کے حوالہ کیا جاوے گا اور اگر چاہیں تو قسم سے پہلے ہی باضابطہ تحریر لے کر یہ روپیہ ان کے حوالہ ہوسکتا ہے یا ایسے دو شخصوں کے حوالہ ہوسکتا ہے جن کو وہ پسند کریں اور اگر ہم بشرائط مذکورہ بالا روپیہ دینے سے پہلوتہی کریں تو ہم کاذب ٹھہریں گے مگر چاہیئے کہ ایسی درخواست روز اشاعت سے ایک ہفتہ کے اندر آوے اور ہم مجاز ہوں گے کہ تین ہفتہ کے اندر کسی تاریخ پر روپیہ لے کر آتھم صاحب کی خدمت میں حاضر ہو جائیں لیکن اگر آتھم صاحب کی طرف سے رجسٹری شدہ خط آنے کے بعد ہم تین ہفتہ کے اندر تین ہزار روپیہ نقد لے کر امرتسر یا فیروز پور یا جس جگہ پنجاب کے شہروں میں سے آتھم صاحب فرماویں ان کے پاس حاضر نہ ہوں تو بلاشبہ ہم جھوٹے ہوگئے اور بعد میں ہمیں کوئی حق باقی نہیں رہے گا جو انہیں ملزم کریں بلکہ خود ہم ہمیشہ کے لئے ملزم اور مغلوب اور جھوٹے متصور ہوں گے.
ہماری اس تحریر کے دو حصے ہیں پہلا حصہ ان مولویوں اور ناواقف مسلمانوں اور عیسائیوں سے متعلق ہے جو خواہ نخواہ عیسائیوں کو فتح یاب قرار دیتے ہیں اور ہماری فتح کے دلائل قاطعہ کو کمزور خیال کرتے ہیں اور اپنی خبث باطنی اور بخل اور غباوت کی وجہ سے اس سیدھی اور صاف بات کو نہیں سمجھتے جو نہایت بدیہی اور واضح ہے اور دوسرے حصہ میں آتھم صاحب کی خدمت میں ایک خط ہے جس میں ہم نے ان پر حجت اللہ پوری کردی ہے.اب سمجھنا چاہیئے کہ بخیل مولویوں اور ناواقف مسلمانوں اور عیسائیوں کے اعتراض یہ ہیں جو ہم ذیل میں لکھ کر دفع کرتے ہیں.(۱) اعتراض اول.پیشگوئی تو جھوٹی نکلی اب تاویلیں کی جاتی ہیں الجواب منصف بنو اور سوچو اور خدا تعالیٰ سے ڈرو اور آنکھیں کھول کر اس الہام کو پڑھو جو مباحثہ کے اختتام پر لکھایا گیا تھا کیا اس کے دو پہلو تھے یا ایک تھا کیا اس میں صریح اور صاف طور پر نہیں لکھا تھا کہ ہاویہ میں گرایا جاوے گا بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے.اب قسمًا کہو کیا اس کو تاویل کہہ سکتے ہیں یا صریح شرط موجود ہے کیا خدا تعالیٰ کا اختیار نہ تھا کہ دو پہلو میں سے جس کو چاہتا اسی کو پورے ہونے دیتا کیا ہم نے پیچھے سے تاویل کے طور پر کوئی بات بنالی یا پہلے سے صاف اور کھلی کھلی شرط موجود ہے.(۲) اعتراض دویم.بے شک شرط موجود تو ہے مگر یہ کہاں سے اور کیونکر ثابت ہوا کہ آتھم صاحب نے خوف کے دنوں میں رجوع اسلام کی طرف کر لیا تھا اور اسلامی عظمت کو دل میں بٹھا لیا تھا کیا کسی نے اس کو کلمہ پڑھتے سنا یا نماز پڑھتے دیکھا بلکہ وہ تو اب بھی اخباروں میں یہی چھپواتا ہے کہ میں عیسائی ہوں اور عیسائی تھا.الجواب آتھم صاحب کا بیان بحیثیت شاہد مطلوب ہے نہ بحیثیت مدعا علیہ پس آتھم صاحب بغیر اس قسم غلیظ کے جس کا ہم مطالبہ کر رہے ہیں اور جس کے لئے اب ہم تین ہزار روپیہ نقد ان کو دیتے ہیں جو کچھ بیان فرما رہے ہیں یا اخباروں میں چھپوا رہے ہیں وہ
سب بیان ایک مدعا علیہ کی حیثیت میں ہے اور ظاہر ہے کہ جب کوئی شخص مدعا علیہ کی حیثیت سے عدالت میں کھڑا ہوتا ہے تو اپنی ذاتی اغراض اور سوسائٹی اور اپنے دوسرے دنیوی مصالح کے لحاظ سے نہ ایک دفعہ بلکہ لاکھ دفعہ جھوٹ بولنے پر آمادہ ہوسکتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس وقت حلف دروغی کا مجرم نہیں، اس قانون قدرت کو ہریک شخص جانتا ہے کہ خدا تعالیٰ قسم کے وقت دروغ گو کو ضرور پکڑتا ہے اس لئے اگر جھوٹے بے ایمان کو کوئی قسم غلیظ دی جاوے مثلاً بیٹا مر جانے کی ہی قسم ہو تو ضرور اس وقت وہ ڈرتا ہے اور حق کا رعب اس پر غالب آجاتا ہے پس یہی سبب ہے کہ آتھم صاحب قسم نہیں کھاتے اور صرف بحیثیت مدعا علیہ انکار کئے جاتے ہیں.پس اس عجیب تماشا کو لوگ دیکھ لیں کہ ہم تو ان کو بحیثیت گواہ کھڑا کر کے اور گواہوں کی طرح ایک قسم غلیظ دے کر اس الہام کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں جس سے وہ منکر ہیں اور وہ بار بار بحیثیت ایک مدعا علیہ کے اپنا عیسائی ہونا ظاہر کرتے ہیں یہ کس قدر دھوکا ہے جو لوگوں کو دے رہے ہیں.اس دجّالی فرقے کے مکروں کو دیکھو جو کیسے باریک ہیں ہمارا مدعا تو یہ ہے کہ اگر وہ درحقیقت خوف کے دنوں میں اور ان دنوں میں جو دیوانوں کی طرح وہ بھاگتے پھرتے تھے اور جبکہ ان پر بہت سا اثر دہشت پڑا ہوا تھا درحقیقت اسلامی عظمت اور صداقت سے متاثر نہیں تھے تو کیوں اب بحیثیت ایک گواہ کے کھڑے ہوکر قسم نہیں کھاتے اور کیوں اس طریق فیصلہ سے گریز کر رہے ہیں اور کیا وجہ ہے کہ اس طور سے قسم کھانے* سے ان کی جان نکلتی ہے جس طور کو ہم نے اپنے اشتہار ہزار روپیہ اور پھر اشتہار دو ہزار روپیہ میں بتصریح بیان کیا ہے یعنی یہ کہ وہ عام مجمع میں ہماری حاضری کے وقت ان صاف اور صریح لفظوں میں قسم کھا جاویں کہ میں نے میعاد پیشگوئی میں اسلام کی *نوٹ: اس قسم کا نام قسم آمینی ہے یعنی وہ قسم مؤکد بعذ اب موت کھائیں اور ہم آمین کہیں آخری فیصلہ قسم ہے اس لئے قانون انگریزی نے بھی ہر یک قوم عیسائی وغیرہ کے لئے عند الضرورت قسم پر حصر رکھا ہے.منہ
طرف ایک ذرہ رجوع نہیں کیا اور نہ اسلامی صداقت اور عظمت نے میرے دل پر کوئی ہولناک اثر ڈالا اور نہ اسلامی پیشگوئی کی روحانی ہیبت نے ایک ذرہ بھی میرے دل کو پکڑا بلکہ میں مسیح کی الوہیت اور ابنیت اور کفارہ پر پورا اور کامل یقین رکھتا رہا اور اگر میں خلاف واقعہ کہتا ہوں اور حقیقت کو چھپاتا ہوں تو اے قادر خدا مجھے ایک سال کے اندر ایسے موت کے عذاب سے نابود کر جو جھوٹوں پر نازل ہونا چاہیئے یہ قسم ہے جس کا ہم ان سے مطالبہ کرتے ہیں اور جس کے لئے ہم اشتہار شائع کرتے کرتے آج تین ہزار روپیہ تک پہنچے ہیں.ہم قسمیہ کہتے ہیں کہ ہم باضابطہ تحریر لے کر یعنی حسب شرائط اشتہار نہم ستمبر ۱۸۹۴ ء تمسک لکھوا کر یہ تین ہزار روپیہ قسم کھانے سے پہلے دے دیں گے اور بعد میں قسم لیں گے.پھر کیوں آتھم صاحب پر اس بات کے سننے سے غشی پر غشی طاری ہو رہی ہے کیا اب وہ مصنوعی خدا فوت ہوگیا جس نے پہلے نجات دی تھی یا اس سے اب منجی ہونے کے اختیار چھین لئے گئے ہیں.ہمیں بالکل سمجھ نہیں آتا کہ کیسی شوخی اور دجالیت ہے کہ یوں تو آتھم صاحب بحیثیت ایک مدعا علیہ کے بہت باتیں کریں یہاں تک کہ اسلام کو جھوٹا مذہب بھی قرار دے دیں اور شیخی کی باتیں منہ سے نکالیں مگر جب بحیثیت شاہد ٹھہرا کر بطرز مذکورہ بالا ان سے قسم لینے کا مطالبہ ہو تو ایسی خاموشی کے دریا میں غرق ہو جائیں کہ گویا وہ دنیا میں ہی نہیں رہے.کیا اے ناظرین ان کے اس طرز طریق سے ثابت نہیں ہوتا کہ ضرور دال میں کالا ہے.غضب کی بات ہے کہ ایک ہزار روپیہ دینا کیا اور رجسٹری کر کے اشتہار بھیجا مگر وہ چپ رہے پھر دو ہزار روپیہ دینا کیا اور رجسٹری کر کے اشتہار بھیجا پھر بھی ان کی طرف سے کوئی آواز نہیں آئی اور دونوں میعادیں گذر گئیں اب یہ تین ہزار روپیہ کا اشتہار جاری کیا جاتا ہے کیا کسی کو امید ہے کہ اب وہ قسم کھانے کیلئے میدان میں آئیں گے ہرگز نہیں ہرگز نہیں.وہ تو جھوٹ کی موت سے مرگئے اب قبر سے کیونکر نکلیں.ان کو تو یہ باتیں سن کر غش آتا ہے کیونکہ وہ جھوٹے ہیں اور ایک عاجز اور خاکی انسان کو خدا بناکر اس کی پرستش کر رہے ہیں.ابتدا میں جب وہ میعاد کی زندان سے نکلے بولتے بھی نہیں تھے اور سرنگوں رہتے تھے پھر رفتہ رفتہ شیطانی سوسائٹی
سے مل کر اور دجالی ہوا کے لگنے سے دل سخت ہوگیا اور خدا تعالیٰ کے احسان کو بھلا دیا پس ان کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک سخت دل اور دنیا پرست آدمی ایک ایسے مقدمہ میں پھنس جائے جس سے اس کو جان کا اندیشہ یادائم الحبسہونے کا خوف ہو تب وہ دل میں خدا تعالیٰ کو پکارتا رہے اور اپنی بدافعالیوں سے باز رہے اور پھر جب رہائی پا جائے تو اس رہائی کو بخت اور اتفاق پر حمل کرے اور خدا تعالیٰ کے احسانوں کو بھلا دیوے.قرآن کو کھول کر دیکھو کہ خدا تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے کہ جو فرعونی صفت کا کوئی شعبہ اپنے اندر رکھتے ہیں کس قدر مثالیں دی ہیں چنانچہ منجملہ ان کے ایک کشتی کی بھی مثال ہے جب غرق ہونے لگی.پس اب آتھم صاحب اپنی دہریت پر ناز نہ کریں ذرہ قسم کھاویں پھر عنقریب دیکھیں گے کہ خدا ہے اور وہی خدا ہے جس کو اسلام نے پیش کیا ہے نہ وہ کہ کروڑہا اور بے شمار برسوں کے بعد مریم عاجزہ کے پیٹ سے نکلا اور پھر حباب کی طرح ناپدید ہوگیا.(۳) اعتراض سوم.یہ ہے کہ یہ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ کسی پنڈت پاہندے یا رمّال یا جفری کی پیشگوئی پر بھی جب کسی کی موت کی نسبت وہ بیان کرے تو ضرور بوجہ بشریت اس پیشگوئی کا خوف اور دہشت دل میں پیدا ہو جاتا ہے پھر اگر آتھم صاحب کے دل پر بھی اسلامی پیشگوئی کی دہشت طاری ہوئی ہو تو کیوں اس خوف کو بھی بشریت کی طرف منسوب نہ کیا جاوے الجواب بشر تو بشریت سے کبھی منفک نہیں ہوتا لیکن جب بقول آپ کے اسلامی پیشگوئی کی عظمت اور صداقت نے آتھم صاحب کے دل پر اثر کیا اور ان کو ایک شدید خوف میں ڈال دیا تو بموجب تصریح قرآن کریم کے یہ بھی ایک رجوع کی قسم ہے کیونکہ اسلامی پیشگوئی کی تصدیق درحقیقت اسلام کی تصدیق ہے مثلاً منجم کی پیشگوئی سے وہ شخص ڈرتا ہے جو نجوم کو کچھ چیز سمجھتا ہے اور رمّال کی پیشگوئی سے وہی شخص خائف ہوتا ہے جو رمل کو کچھ حقیقت خیال کرتا ہے اسی طرح اسلامی پیشگوئی سے وہی شخص ہراساں اور لرزاں ہوتا ہے جس کا دل اس وقت اسلام کا مکذب نہیں بلکہ مصدق ہے اور ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ اس قدر اسلام کی عظمت اور صداقت کو مان لینا اگرچہ نجات اخروی کیلئے مفید نہیں مگر
عذاب دنیوی سے رہائی پانے کے لئے مفید ہے جیسا کہ قرآن کریم نے اس بارہ میں بار بار مثالیں پیش کی ہیں اور بارہا فرمایا ہے کہ ہم نے خوف اور تضرع کے وقت کفار کو عذاب سے نجات دے دی حالانکہ ہم جانتے تھے کہ وہ پھر کفر کی طرف عود کریں گے پس اسی قرآنی اصول کے موافق آتھم صاحب شدید خوف میں مبتلا ہوکر کچھ دنوں کے لئے موت سے نجات پاگئے کیونکہ انہوں نے اس وقت عظمت اور صداقت اسلامی کو قبول کیا اور رد نہ کیا جیسا کہ علاوہ ہمارے الہام کے ان کا پریشان حال ان کی اس اندرونی حالت پر گواہ رہا اور اگر یہ باتیں صحیح نہیں ہیں اور اسلام کا خدا ان کے نزدیک سچا خدا نہیں تو قسم کھانے سے کیوں وہ بھاگتے ہیں اور کون سا پہاڑ ان پر گرے گا جو انہیں کچل ڈالے گا کیا وہ تجربہ نہیں کر چکے جو ہم جھوٹے ہیں پس جھوٹوں کے مقابل پر تو پہلے سے زیادہ دلیری کے ساتھ میدان میں آنا چاہیئے* مگر حقیقت یہ ہے کہ وہی جھوٹے اور ان کا مذہب جھوٹا اور ان کی ساری باتیں جھوٹی ہیں اور اس پر یہی دلیل کافی ہے کہ جیسا کہ جھوٹے بزدل اور ہراساں ہوتے ہیں اور ڈرتے ہیں کہ اپنے جھوٹ کی شامت سے سچ مچ مر ہی نہ جائیں یہی حال ان کا ہو رہا ہے اگر آتھم صاحب پندرہ مہینہ کے تجربہ سے مجھے کاذب معلوم کرلیتے تو ان سے زیادہ میرے مقابل پر اور کوئی بھی دلیر نہ ہوتا اور وہ قسم کھانے کے لئے مستعد ہوکر اس طرح میدان میں دوڑ کر آتے کہ جس طرح چڑیا کے شکار کی طرف باز دوڑتا ہے.مطالبہ قسم پر ان کو باغ باغ ہو جانا چاہیئے تھا کہ اب جھوٹا دشمن قابو میں آگیا مگر یہ کیا *حاشیہ: بعض مخالف مولوی نام کے مسلمان اور ان کے چیلے کہتے ہیں کہ جب کہ ایک مرتبہ عیسائیوں کی فتح ہوچکی تو پھر بار بار آتھم صاحب کا مقابلہ پر آنا انصافاً اُن پر واجب نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اے بے ایمانو نیم عیسائیو دجال کے ہمراہیو اسلام کے دشمنو کیا پیشگوئی کے دو پہلو نہیں تھے پھر کیا آتھم صاحب نے دوسرے پہلو رجوع الی الحق کے احتمال کو اپنے افعال اور اپنے اقوال سے آپ قوی نہیں کیا.کیا وہ نہیں ڈرتے رہے کیا انہوں نے اپنی زبان سے ڈرنے کا اقرار نہیں کیا پھر اگر وہ ڈر انسانی تلوار سے تھا نہ آسمانی تلوار سے تو اس شبہ کے مٹانے کے لئے کیوں قسم نہیں کھاتے پھر جبکہ اس طرف سے ہزارہا روپیہ کے انعام کا وعدہ نقد کی طرح
آفت پڑی کیوں اب تجربہ کے بعد مقابل پر نہیں آتے یہی سبب ہے کہ انہیں میرے الہام کی حقیقت معلوم ہے دوسرے احمق عیسائی اور مسلمان نہیں جانتے مگر وہ خوب جانتے ہیں.ناظرین! کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ میدان میں قسم کھانے کے لئے آجائیں گے ہرگز نہیں آئیں گے.کیا تم نہیں جانتے کہ کبھی جھوٹے بھی ایسی بہادری دکھلاتے ہیں جو ایمانی قوت پر مبنی ہو ان کے تو ڈر ڈر کے دست نکلتے رہے غشی پر غشی طاری ہوتی رہی سو خدا نے جو سزا دینے میں دھیما اور رحم میں سب سے بڑھ کر ہے اپنی الہامی شرط کے موافق ان سے معاملہ کیا اب چڑیا اپنے پنجرہ سے نکلی ہوئی پھر کیونکر اسی پنجرہ میں داخل ہوجائے.پیارے ناظرین! کیا تم ہماری تحریروں کو غور سے نہیں دیکھتے کیا سچائی کی شوکت تمہیں ان کے اندر معلوم نہیں ہوتی کیا نور فراست تمہارا گواہی نہیں دیتا کہ یہ ایمانی قوت اور شجاعت اور یہ استقلال دروغگو سے کبھی ظاہر نہیں ہوسکتا کیا میں پاگل ہوگیا یا میں دیوانہ ہوں کہ اگر قطعی طور پر مجھے علم نہیں دیا گیا تو یوں ہی تین ہزار روپیہ برباد کرنے کو تیار ہوگیا ہوں.ذرہ سوچو اور اپنے صحیح وجدان سے کام لو اور یہ کہنا کہ کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی جس کا اثر عبد اللہ آتھم پر ہوا ہو کس قدر صداقت کا خون کرنا ہے اگر اثر نہیں تھا تو کیوں آتھم صاحب چوروں کی طرح بھاگتے پھرے اور کیوں اپنی سچائی کی بنا پر اب قسم کھانے کے لئے میدان میں نہیں آتے خط پر خط رجسٹری کراکر بھیجے گئے وہ مردے کی طرح بولتے نہیں.(۴) چوتھا اعتراض.یہ ہے کہ ایک صاحب اپنے اشتہار میں مجھ کو مخاطب کرکے لکھتے ہیں کہ تم نے مباحثہ میں آتھم صاحب کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ تم عمداً حق کو چھپا رہے ہو پس اس سے ثابت ہوا کہ وہ اس وقت بھی بقول تمہارے اسلام کو حق جانتے تھے پس پیشگوئی کی میعاد میں کون سی نئی بات ان سے ظہور میں آئی الجواب جاننا چاہیئے بقیہ حاشیہ: پاکر پھر بھی قسم سے انکار اور گریز ہے تو عیسائیوں کی فتح کیا ہوئی کیا تمہاری ایسی تیسی سے.منہ
کہ امن کی حالت میں اپنے کفر کی حمایت کرکے حق کو چھپانا اور اپنے مخالفانہ دلائل کو کمزور سمجھ کر پھر بھی بحث کے وقت انہیں کو فروغ دینا اور اسلامی دلائل کو بہت قوی پاکر پھر بھی ان سے عمدًا حق پوشی کی راہ سے منہ پھیرنا یہ اور بات ہے لیکن خوف کے دنوں میں درحقیقت اسلامی صداقت کا خوف اپنے دل پر ڈال لینا یہاں تک کہ شدت خوف سے دیوانہ سا ہو جانا یہ اور چیز ہے اور دونوں باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور موجب التواء عذاب شق دوم ہے نہ شق اول.(۵) پانچواں اعتراض.یہ ہے کہ ایک سال کی میعاد کی کیا ضرورت ہے خدا ایک دن میں جھوٹے کو مار سکتا ہے الجواب: ہاں بے شک خدائے قادر ذوالجلال ایک دن میں کیا بلکہ ایک طرفۃ العین میں مار سکتا ہے مگر جب اس نے الہامی تفہیم سے اپنا ارادہ ظاہر کر دیا تو اس کی پیروی کرنا لازم ہے کیونکہ وہ حاکم ہے مثلاً وہ اپنی قدرت کے رو سے ایک دن میں انسان کے نطفہ کو بچہ بنا سکتا ہے لیکن جب اس نے اپنے قانون قدرت کے ذریعہ سے ہمیں سمجھا دیا کہ یہی اس کا ارادہ ہے کہ نو مہینہ میں بچہ بناوے تو بعد اس کے نہایت چالاکی اور گستاخی ہوگی کہ ہم ایسا اعتراض کریں کیا ہمیں خدا تعالیٰ کے ارادوں اور حکموں کی پیروی کرنا لازم ہے یا یہ کہ اپنے ارادوں کا اس کو پیرو بناویں اس کی قدرت تو دونوں پہلو رکھتی ہے چاہے تو ایک طرفۃ العین میں کسی کو ہلاک کردے اور چاہے تو کسی اور مدت تک مثلاً ایک سال تک کسی پر موت وارد کرے اور پھر جب اسی کی تفہیم سے معلوم ہوا کہ اپنی قدرت کے وارد کرنے میں اس نے ایک سال کی مدت کو ارادہ کیا ہے تو یہ کہنا سخت بے جا ہے کہ یہ ارادہ اس کی قدرت کے مخالف ہے صدہا کام ہیں جو وہ ایک دم میں کرسکتا ہے مگر نہیں کرتا دنیا کو بھی چھ دن میں بنایا اور کھیتوں کو بھی اس مدت تک پکاتا ہے جو اس نے مقرر کر رکھی ہے اور ہر اک شے کے لئے اس کے قانون قدرت میں اجل مقرر ہے پس قانون الہام بھی اسی قانون قدرت کے مشابہ صفات باری کو ظاہر کرتا ہے لیکن یہ سیاپا ایسے لوگ کیوں کر رہے ہیں جو حضرت مسیح کو
قادر مطلق خیال کرتے ہیں کیا ان کا وہ مصنوعی خدا ایک سال تک آتھم صاحب کو بچا نہیں سکتا حالانکہ ان کی عمر بھی کچھ ایسی بڑی نہیں ہے بلکہ میری عمر سے صرف چند سال ہی زیادہ ہیں پھر اس مصنوعی خدا پر کون سی ناتوانی طاری ہو جائے گی کہ ایک سال تک بھی ان کو بچا نہیں سکے گا ایسے خدا پر نجات کا بھروسہ رکھنا بھی سخت خطرناک ہے جو ایک سال کی حفاظت سے بھی عاجز ہے کیا ہم نے عہد نہیں کیا کہ ہمارا خدا اس سال میں ضرور ہمیں مرنے سے بچائے گا اور آتھم صاحب کو اس جہان سے رخصت کر دے گا کیونکہ وہی قادر اور سچا خدا ہے جس سے بدنصیب عیسائی منکر ہیں اور اپنے جیسے انسان کو خدا بنا بیٹھے ہیں تبھی تو بزدل ہیں اور ایک سال کے لئے بھی اس پر بھروسہ نہیں آسکتا اور سچ ہے باطل معبودوں پر بھروسہ کیونکر ہوسکے اور نور فطرت کیونکر گواہی دیوے کہ ایسا عاجز معبود ایک سال تک بچا سکے گا بلکہ ہم نے تو اشتہار ۲۰؍ ستمبر ۱۸۹۴ ء میں یہ بھی لکھ دیا ہے کہ اگر آتھم صاحب اپنے مصنوعی خدا کو ایسا ہی کمزور اور گیا گذرا یقین کر بیٹھے ہیں تو اتنا کہہ دیں کہ وہ ابن اللہ کے نام کا خدا ایک سال تک مجھے بچا نہیں سکتا تو ہم اس اقرار کے بعد تین دن ہی منظور کر لیں گے مگر وہ کسی طرح میدان میں نہیں آویں گے کیونکہ جھوٹے کو اپنے جھوٹ کا دھڑکا شروع ہوجاتا ہے اور سچے کے مقابل پر آنا اس کو ایک موت کا مقابلہ معلوم ہوتا ہے.( ۶) چھٹا اعتراض.یہ ہے کہ کیا خدا آتھم کے منافقانہ رجوع سے اپنے زبردست وعدہ کو ٹال سکتا تھا حالانکہ وہ خود ہی فرماتا ہے.3.۱ یعنی جب وعدہ پہنچ گیا تو کسی جان کو مہلت نہیں دی جاتی.الجواب آپ سن چکے ہیں کہ وہ وعدہ خدا تعالیٰ کے الہام میں قطعی وعدہ نہ تھا اور نہ فیصلہ ناطق تھا بلکہ مشروط بشرط تھا اور بصورت پابندی شرط کے وہ شرط قرار دادہ بھی وعدہ میں داخل تھی.سو آتھم نے خوف کے دنوں میں بے شک حق کی طرف رجوع کیا اور وہ رجوع منافقانہ نہیں تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق موت میں تاخیر ڈال دی.افسوس کہ نادان لوگ اس بات
کو نہیں سمجھتے کہ انسان کی فطرت میں یہ بھی ایک خاصہ ہے کہ وہ باوجود شقی ازلی ہونے کے شدت خوف اور ہول کے وقت میں خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کر لیتا ہے لیکن اپنی شقاوت کی وجہ سے پھر بلا سے رہائی پاکر اس کا دل سخت ہوجاتا ہے جیسے فرعون کا دل ہریک رہائی کے وقت سخت ہوتا رہا سو ایسے رجوع کا نام خدا تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں منافقانہ رجوع نہیں رکھا کیونکہ منافق کے دل میں کوئی سچا خوف نازل نہیں ہوتا اور اس کے دل پر حق کا رعب اثر نہیں ڈالتا لیکن اس شقی کے دل میں راہ راست کی عظمت کو خیال میں لاکر ایک سچا خوف پیشگوئی کے سننے کے وقت میں بال بال میں پھر جاتا ہے مگر چونکہ شقی ہے اس لئے یہ خوف اسی وقت تک رہتا ہے جب تک نزول عذاب کا اس کو اندیشہ ہوتا ہے اس کی مثالیں قرآن کریم اور بائبل میں بکثرت ہیں جن کو ہم نے رسالہ انوار الاسلام میں بتفصیل لکھ دیا ہے غرض منافقانہ رجوع درحقیقت رجوع نہیں ہے لیکن جو خوف کے وقت میں ایک شقی کے دل میں واقعی طور پر ایک ہراس اور اندیشہ پیدا ہو جاتا ہے اس کو خدا تعالیٰ نے رجوع میں ہی داخل رکھا ہے اور سنت اللہ نے ایسے رجوع کو دنیوی عذاب میں تاخیر پڑنے کا موجب ٹھہرایا ہے گو اخروی عذاب ایسے رجوع سے ٹل نہیں سکتا مگر دنیوی عذاب ہمیشہ ٹلتا رہا ہے اور دوسرے وقت پر پڑتا رہا ہے.قرآن کو غور سے دیکھو اور جہالت کی باتیں مت کرو اور یاد رہے کہ آیت3.۱ کو اس مقام سے کچھ تعلق نہیں اس آیت کا تو مدعا یہ ہے کہ جب تقدیر مبرم آ جاتی ہے تو ٹل نہیں سکتی مگر اس جگہ بحث تقدیر معلق میں ہے جو مشروط بشرائط ہے جبکہ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں آپ فرماتا ہے کہ میں استغفار اور تضرع اور غلبہ خوف کے وقت میں عذاب کو کفار کے سر پر سے ٹال دیتا ہوں اور ٹالتا رہا ہوں پس اس سے بڑھ کر سچا گواہ اور کون ہے جس کی شہادت قبول کی جائے.(۷) سا تواں اعتراض.یہ ہے اگر رجوع کے بعد عذاب ٹل سکتا ہے تو اب بھی
اگر آتھم قسم کھا کر پھر اندر ہی اندر رجوع کر لے تو چاہیئے کہ عذاب ٹل جائے تو اس صورت میں ایک شریر انسان کے لئے بڑی گنجائش ہے اور ربانی پیشگوئیوں کا بالکل اعتبار اٹھ جائے گا الجواب قسم کھانے کے بعد خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ فیصلہ قطعی کرے سو قسم کے بعد ایسے مکار کا پوشیدہ رجوع ہرگز قبول نہیں ہوگا کیونکہ اس میں ایک دنیا کی تباہی ہے اور قسم فیصلہ کے لئے ہے اور جب فیصلہ نہ ہوا اور کوئی مکار پوشیدہ رجوع کر کے حق پر پردہ ڈال سکا تو دنیا میں گمراہی پھیل جائے گی اس لئے قسم کے بعد خدا تعالیٰ کا عزمًا یہ ارادہ ہوتا ہے کہ حق کو باطل سے علیحدہ کر دے تا امر مشتبہ کا فیصلہ ہو جائے.(۸) آٹھواں اعتراض.یہ ہے کہ اگر صداقت کا صرف اقبال یا اقرار باعث تاخیر موت ہے تو ہم اہل اسلام کو کبھی موت نہیں آنی چاہیئے کیونکہ صداقت کے پیرو ہیں.جبکہ دشمن خدا ذرا سے منافقانہ رجوع کے باعث جو وہ بھی پوشیدہ ہے موت سے بچ جائے تو ہم جو علٰی ر ؤس الاشہاد رجوع کئے بیٹھے ہیں.بے شک حیات جاودانی کے مستحق ہیں الجواب عزیز من جو لوگ سچے دل سے لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کے قائل ہیں اور پھر بعد اس کے ایسے کام نہیں کرتے جو اس کلمہ کے مخالف ہیں بلکہ توحید کو اپنے دل پر وارد کر کے رسالت محمدیہ کے جھنڈے کے نیچے ایسی استقامت سے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کوئی ہولناک آواز بندوق یا توپ کی ان کو اس جگہ سے جنبش نہیں دے سکتی اور نہ تیز تلواروں کی چمکیں ان کی آنکھوں کو خیرہ کرسکتی ہیں اور نہ وہ ٹکڑے ٹکڑے بھی ہوکر اس جھنڈے سے باہر آسکتے ہیں بیشک وہ لوگ حیات جاودانی پائیں گے کس خبیث نے کہا کہ نہیں پائیں گے اور وہ دائمی زندگی کے ضرور ہی وارث ہوں گے کون ملعون کہتا ہے کہ نہیں وارث ہوں گے لیکن کافر یا فاسق کا خوف کے دنوں میں کچھ مدت تک عذاب سے بچ جانا یہ خدا رحیم کی طرف سے ایک مہلت دینا ہے تا شاید وہ ایمان لاوے یا اس پر حجت پوری ہو جائے اور جب اللہ تعالیٰ ایک کافر کو اپنے غضب کی آگ سے ہلاک کرنا چاہے تو
اس کی یہی سنت قدیم ہے کہ وہ خوف سے بھرے ہوئے رجوع کے وقت خواہ وہ رجوع بعد ایام خوف قائم رہنے والا ہو یا نہ ہو ضرور عذاب کو کسی دوسرے وقت پر ٹال دیتا ہے مگر مومنوں کی موت اگر اس کا وقت پہنچ گیا ہو تو وہ بطور عذاب نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک پُل ہے جو حبیب کو حبیب کی طرف پہنچاتا ہے اور وہ مرنے کے بعد اس لذت اور راحت کے وارث ہو جاتے ہیں جس کی نظیر اس دنیا میں نہیں مگر کافر کے لئے موت جہنم کا پہلا زینہ ہے جو اس سے گرتے ہی واصل ہاویہ ہوتا ہے.(۹) نواں اعتراض یہ ہے کہ اگر پادری رائٹ فریق مخالف میں سے پیشگوئی کی میعاد میں مر گئے تو اس کے مقابلہ میں آپ کے کئی مقرب عیسائی ہوگئے الجواب اے صاحب آپ متوجہ ہوکر سنیں اور ہم سچ کہتے ہیں اور کاذب پر لعنت اللہ ہے کہ ہمارا کوئی مقرب یا بیعت کا سچا تعلق رکھنے والا عیسائی نہیں ہوا ہاں دو بدچلن اور خراب اندرون آدمی آنکھوں کے اندھے جن کو دین سے کچھ بھی تعلق نہیں تھا منافقانہ طور کے بیعت کرنے والوں میں داخل ہو گئے تھے لیکن ہم نے یہ معلوم کر کے کہ یہ بدچلن اور خراب حالت کے آدمی ہیں ان کو اپنے مکان سے نکال دیا تھا اور ناپاک طبع پاکر بیعت کے سلسلہ سے الگ کر دیا تھا.اب فرمایئے کہ ان کا ہم سے کیا تعلق رہا اور ان کے مرتد ہونے سے ہمیں کیا رنج پہنچا.پادریوں پر یہ بھی زوال آیا کہ ان کو انہوں نے قبول کیا اور آخر دیکھیں گے کہ نتیجہ کیا نکلتا ہے.حرام خور آدمی کسی قوم کیلئے جائے فخر نہیں ہوسکتا اگر آپ کو اس بیان میں شک ہو تو قادیان میں آویں اور ہم سے پورا پورا ثبوت لے لیں لیکن رائٹ تو اپنی اس حیثیت منصبی اور سرگروہی کی عزت سے معطل نہیں کیا گیا تھا اور وہی تھا جس نے مباحثہ کے پہلے انگریزی میں شرائط لکھے تھے پھر آپ کیوں ایسی صریح اور چمکتی ہوئی صداقت پر خاک ڈالتے ہیں یہ بات نہایت صاف ہے کہ اس جنگ میں جس کا نام پادریوں نے خود اپنے منہ سے جنگ مقدس رکھا تھا شکست کی چاروں صورتیں ان بندہ پرست
نصرانیوں کو نصیب ہوئیں کیونکہ کوئی ان میں سے مارا گیا اور کوئی زخمی ہوا یعنی بیمار شدید ہوا اور مر مر کے بچا اور کوئی لعنتوں کے زنجیر میں گرفتار ہوا اور کوئی بھاگ گیا اور اسلامی جھنڈے کے نیچے پناہ لے کر جان بچائی اس کھلی کھلی اور فاش شکست سے انکار کرنا نہ صرف حماقت بلکہ پرلے درجہ کی بے ایمانی اور ہٹ دھرمی ہے لیکن اگر مغلوب اور ذلیل پادریوں کو خواہ نخواہ غالب قرار دینا ہے تو ہم آپ کی زبان کو نہیں پکڑ سکتے ورنہ سچ تو یہی ہے کہ اس پیشگوئی کے بعد پادریوں پر بہت ہی ذلت کی مار پڑی ہے عین میعاد پیشگوئی میں پادری رائٹ صاحب عین جوانی میں جہنم کی رونق افروزی کے لئے اس دنیا سے بلائے گئے اور ان کی موت پر اس قدر سیاپے اور درد ناک نوحے ہوئے کہ عیسائیوں نے آپ اقرار کیا کہ بے وقت ہم پر قہر نازل ہوا پھر دوسری ذلت دیکھو کہ پچاس برس کی مولویت کا دعویٰ جس کی بناء پر عماد الدین وغیرہ کا اسلامی تعلیم میں دخل دینا جاہلوں کی نظر میں معبتر سمجھا جاتا تھا نجاست کی طرح جھوٹ کی بدبو سے بھرا ہوا نکلا اور یکدفعہ بوسیدہ بنیاد کی طرح گر گیا اور ہزار لعنت کا رسہ ہمیشہ کے لئے تمام ان پادریوں کے گلے میں پڑ گیا جو علم عربی میں دخل رکھنے کا دم مارتے تھے کیا یہ ایسی ذلت اور رسوائی ہے جو کسی کے چھپانے سے چھپ سکے اور کیا یہ وہ پہلی ذلت نہیں ہے جو پادریوں کو ہندوستان میں اور پنجاب میں نصیب ہوئی جس کے اشتہارات یورپ اور امریکہ اور تمام بلاد میں پھیل کر عام طور پر جہالت اور دروغگوئی ان پادریوں کی جو مولوی کہلاتے تھے ثابت ہوئی اور ہمیشہ کیلئے یہ داغ ان کی پیشانی پر لگ گیا جواب ابد الدہر تک دور نہیں ہوسکتا.کیا ایسی ذلت کی کوئی نظیر ہمارے فریق میں پیشگوئی کے بعد آپ نے دیکھی.بھلا ذرا کلمہ طیبہ پڑھ کر بیان تو کرو تاہم بھی سنیں اور پھر یہ ذلتیں اور رسوائیاں ابھی ختم کہاں ہوئیں ہمارا اشتہارپر اشتہار نکالنا یہاں تک کہ تین ہزار تک انعام دینا اور آتھم صاحب کی قسم کھانے سے جان نکلنا کیا اس سے اسلام کی ہیبت اور صداقت بدیہی طور پر ثابت نہیں کیا اب بھی عیسائیوں کے ذلیل اور جھوٹے ہونے میں کچھ کسر باقی رہ گئی ہے اور آپ کا یہ کہنا کہ
رات کو آتھم کی موت کے لئے دعائیں مانگنا یہ بھی ایک عذاب تھا.سبحان اللہ کس قدر مسلمان کہلا کر بے ہودہ باتیں آپ کے منہ سے نکل رہی ہیں.سچے مسلمان ہمیشہ غلبہ اسلام کے لئے دعائیں مانگتے ہیں اور تہجد بھی پڑھتے ہیں اور نماز میں بھی ان کو رقت طاری ہوتی ہے اور آیت.۱ کا مصداق ہوتے ہیں اگر یہی عذاب ہے تو ہماری دعا ہے کہ قیامت میں بھی یہ عذاب ہم سے الگ نہ ہو دعاکرنا ہمیشہ نبیوں کا طریق اور صلحاء کی سنت ہے اور عین عبادت ہے اس کا نام عذاب رکھنا انہیں لوگوں کا کام ہے جو دنیا کے کیڑے ہیں اور روحانی جہان سے بے خبر ہیں میں سچ سچ کہتا ہوں کہ مومن صادق پر اس وقت دکھ اور عذاب کی حالت وارد ہوتی ہے کہ جب نماز کی رقت اور پُر رقت دعا اس سے فوت ہو جاتی ہے.اے غافلو یہ تو دین داروں اور را ستبازوں کا بہشت ہے نہ کہ عذاب ہر دم براہ جانان سوزیست عاشقان را ز جہان چہ دید آن کس کہ ندید این جہان را (۱۰) دسواں اعتراض یہ کہ پادری عماد الدین تو ایک جاہل آدمی ہے اور عربی سے بے بہرہ وہ بے چارہ عربی کتابوں کا جواب کیونکر لکھتا.الجواب ایسا جاہل ایک مدت دراز سے مولوی کہلاتا تھا اور ہزاروں نادان اس کو مولوی سمجھتے تھے تو کیا اس کی ان تالیفات سے ذلت نہیں ہوئی اور کیا وہ بباعث عاجز رہ جانے کے اس ہزار لعنت کا مستحق نہ ہوا جو نور الحق کے چار صفحہ میں لکھی گئی ماسوا اس کے اے حضرت اس سے تو ان تمام پادریوں کی ناک کٹ گئی جو مولوی کہلاتے تھے اور مولویت کے دھوکہ سے جاہلوں پر بداثر ڈالتے تھے.نہ صرف عمادالدین کا ناک.کیا ایسی ثابت شدہ ذلت اور لعنت کی نظیر ہماری جماعت کو بھی پیش آئی آپ عیسائیوں کے حامی تو بنے اب حلفاًپورا پورا جواب دیں.(۱۱) گیارواں اعتراض.یہ ہے کہ ایک ہندو زادہ سعد اللہ نام لدھیانہ سے اپنے اشتہار ۱۶ ؍دسمبر ۱۸۹۴ ء میں لکھتا ہے کہ صرف دل میں حق کی عظمت کو ماننا اور اپنے عقائد باطلہ
کو غلط سمجھنا کسی طرح عمل خیر نہیں بن سکتا یہ دجال قادیانی کا ہی کام ہے کہ اس کا نام رجوع بحق رکھے.الجواب اے احمق دل کے اندھے دجال تو تو ہی ہے جو قرآن کریم کے برخلاف بیان کرتا ہے اور نیز اپنی قدیم بے ایمانی سے ہمارے بیان کو محرف کر کے لکھتا ہے ہم نے کب اور کس وقت کہا جو ایسا رجوع جو خوف کے وقت میں ہو اور پھر انسان اس سے پھر جائے نجات اخروی کیلئے مفید ہے بلکہ ہم تو بار بار کہتے ہیں کہ ایسارجوع نجات اخروی کے لئے ہرگز مفید نہیں اور ہم نے کب آتھم نجاست خوارشرک کو بہشتی قرار دیا ہے یہ تو سراسر تیرا ہی افترا اور بے ایمانی ہے ہم نے تو قرآن کریم کی تعلیم کے موافق صرف یہ بیان کیا تھا کہ کوئی کافر اور فاسق جب عذاب کے اندیشہ سے عظمت اور صداقت اسلام کا خوف اپنے دل میں ڈال لے اور اپنی شوخیوں اور بے باکیوں کی کسی قدر رجوع کے ساتھ اصلاح کر لے تو خدا تعالیٰ وعدہ عذاب دنیوی میں تاخیر ڈال دیتا ہے یہی تعلیم سارے قرآن میں موجود ہے جیسا کہ اللہ جلّ شانہ کفار کا قول ذکر کر کے فرماتا ہے.۱...اور پھر جواب میں فرماتا ہے۲ سورۃ الدخان الجزو نمبر ۲۵ یعنی کافر عذاب کے وقت کہیں گے کہ اے خدا ہم سے عذاب دفع کر کہ ہم ایمان لائے اور ہم تھوڑا سا یا تھوڑی مدت تک عذاب دور کر دیں گے مگر تم اے کافرو پھر کفر کی طرف عود کرو گے.پس ان آیات سے اور ایسا ہی ان آیتوں سے جن میں قریب الغرق کشتیوں کا ذکر ہے صریح منطوق قرآنی سے ثابت ہوتا ہے کہ عذاب دنیوی ایسے کافروں کے سر پر سے ٹل جاتا ہے جو خوف کے دنوں اور وقتوں میں حق اور توحید کی طرف رجوع کریں گو امن پاکر پھر بے ایمان ہو جائیں بھلا اگر ہمارا یہ بیان صحیح نہیں ہے تو اپنے معلم شیخ بٹالوی کو کہو کہ قسم کھا کر بذریعہ تحریر یہ ظاہر کرے کہ ہمارا یہ بیان غلط ہے کیونکہ تم تو جاہل ہو تم ہرگز نہیں سمجھو گے اور وہ سمجھ لے گا اور یاد رکھو کہ وہ ہرگز قسم نہیں کھائے گا کیونکہ ہمارے بیان میں سچائی کا نور دیکھے گا اور قرآن کے مطابق پائے گا پس اب بتلا کہ کیا دجال تیرا ہی نام ثابت ہوا یا کسی اور کا.حق سے لڑتا رہ آخر اے مردار دیکھے گا کہ تیرا کیا انجام ہوگا
اے عدو اللہ تو مجھ سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سے لڑ رہا ہے بخدا مجھے اسی وقت ۲۹؍ ستمبر ۱۸۹۴ ء کو تیری نسبت الہام ہوا ہے ان شانئک ہوالابتراور ہم نے اس طرح پر آتھم کا رجوع بحق ہونا بے ثبوت نہیں کہا.کیا تو سوچتا نہیں کہ اگر وہ سچا ہے تو کیوں قسم نہیں کھاتا.اگر یہی سچ ہے تو وہ سچی قسم کھانے سے کس پہاڑ کے نیچے آکر دب جائے گا اور ہم بیان کر چکے ہیں کہ آتھم صاحب کا صرف بحیثیت مدعا علیہ انکار کرتے رہنا کچھ بھی چیز نہیں جھوٹ بولنا نصاریٰ کی سرشت میں داخل ہے اگر بندہ پرست لوگ جھوٹ نہ بولیں تو اور کون بولے مگر ہمارا تو یہ مطلب اور مدعا ہے کہ بحیثیت ایک گواہ کے کھڑا ہوکر مجمع عام میں اس مضمون کی قسم کھا جائیں جس کی ہم بار بار تعلیم کرتے ہیں مگر کیا اس نے اب تک قسم کھائی ہرگز نہیں اور تعجب کہ ہم نے لکھا تھا کہ جو ولد الحلال ہے اور درحقیقت عیسائی مذہب کو ہی غالب سمجھتا ہے تو چاہیئے کہ ہم سے دو ہزار روپیہ لے اور آتھم صاحب سے ہمارے منشاء کے موافق قسم دلاوے پھر جو کچھ چاہے ہمیں کہتا رہے ورنہ یوں ہی اسلامی بحث پر مخالفانہ حملہ کرنا اور زبان سے مسلمان کہلانا کسی ولد الحلال کا کام نہیں مگرمیاں سعد اللہ صاحب نے آج تک آتھم صاحب کو قسم کھانے پر مستعد نہ کیا مگر عیسائیوں کو غالب سمجھتا رہا اور اپنے پر دانستہ وہ لقب لے لیا جس کو کوئی نیک طینت لے نہیں سکتا اور پھر یہ نادان کہتا ہے کہ اگر مرنا ہی عذاب کی نشانی کی ہے تو قادیانی بھی ضرور ایک دن اس عذاب میں مبتلا ہوگا اے احمق تیری کیوں عقل ماری گئی کیا تو قرآن نہیں پڑھتا.یوں تو انبیاء بھی فوت ہو گئے بلکہ بعض شہید ہوئے اور ان کے دشمن فرعون اور ابوجہل وغیرہ بھی مر گئے یا مارے گئے لیکن وہ موت جو مقابلہ کے وقت اہل حق کی دعا سے یا اہل حق کے ایذا سے یا اہل حق کی پیشگوئی سے اشقیا پروارد ہوتی ہے وہ عذاب کی موت کہلاتی ہے کیونکہ جہنم تک پہنچاتی ہے مگر اہل حق اگر شہید بھی ہو جائیں تو وہ خدا کے فضل سے بہشت میں جاتے ہیں.(۱۲) بارواں اعتراض.اسی ہندو زادہ کا یہ ہے کہ جب کوئی عمل نہ چلا تو ڈھکوسلا بنا لیا کہ آتھم نے رجوع بحق کیا ہے الجواب ہاں اے ہندو زادہ اب ثابت ہوگیا کہ
ضرور تو حلال زادہ ہے ہماری اس شرط پرکہ کوئی آتھم کو قسم دینے سے پہلے تکذیب نہ کرے خوب ہی تو نے عمل کیا آفرین آفرین.سچ کہہ کہ یہ ڈھکوسلا اب بنا لیا یا الہام میں پہلے سے شرط تھی اور کیا اس شرط کے تصفیہ کے لئے ضرور نہ تھا کہ آتھم قسم کھا لیتا.کیا قسم کے دو حرف منہ پر لانا اور تین ہزار روپیہ نقد لینا ایک سچے آدمی کے لئے کچھ مشکل ہے!!! (۱۳) بعض شبہات ایسے لوگوں کی طرف سے ہیں جو اخلاص رکھتے ہیں لیکن بباعث کمی معلومات بے خبر ہیں پس ہم اس جگہ ان کے اوہام کو بھی بطور قولہ اقول دفع کر دیتے ہیں.قولہ:آتھم اسلام کی طرف رجوع کرنے سے صریح اپنے خط مطبوعہ میں انکار کرتا ہے صرف قسم کھا لینا اور روپے لینا باقی رہا ہے.اقول :یہ انکار برنگ شہادت انکار نہیں بلکہ ایسے طور کا انکار ہے جیسے بدمعاملہ مدعا علیہم کیا کرتے ہیں پس ایسا انکار اس دعوے کو توڑ نہیں سکتا جو خود آتھم صاحب کی حالی شہادت سے ثابت ہے کیا اس میں کچھ شک ہے کہ آتھم صاحب نے اپنی سراسیمگی اور دن رات کی پریشانی اور گر یہ و بکا اور ہر وقت مغموم اور اندوہناک رہنے سے دکھا دیا کہ وہ ضرور اس پیشگوئی سے متاثر اور خائف رہے ہیں بلکہ آتھم صاحب نے خود رو رو کر مجلسوں میں اس بات کا اقرار کیا ہے کہ وہ اس پیشگوئی کے بعد ضرور موت سے ڈرتے رہے.چنانچہ ابھی ستمبر ۱۸۹۴ ء کے مہینہ میں وہ اقرار نور افشاں میں چھپ بھی گیا ہے جس کی اب وہ یہ تاویل کرتے ہیں کہ پیشگوئی سے ہمیں خوف نہیں تھا اور نہ اسلامی عظمت کا اثر تھا بلکہ یہ خوف تھا کہ کوئی مجھ کو مار نہ دیوے لیکن انہوں نے خوف کا صریح اقرار کر کے پھر اس کا کچھ ثبوت نہیں دیا کہ ایسا خوف جس نے ان کو حیوانوں کی طرح بنا رکھا تھا کیا سارا مدار اس کا صرف اس وہم پر تھا کہ کوئی مجھ کو قتل نہ کر دیوے پس جبکہ ہماری پیشگوئی کے بعد یہ سارا خوف تھا جس کے وہ خود اقراری ہیں جس کو
یاد کر کے اب بھی وہ زار زار روتے ہیں تو ہمارا یہ حق ہے کہ ہم ان کی اس تاویل کو لا نسلم کی مَدمیں رکھ کر ان سے وہ ثبوت مانگیں جو موجب تسلی ہو کیونکہ جب کہ وہ نفس خوف کے خود اقراری ہیں تو ہمیں انصافاًو قانوناً حق پہنچتا ہے کہ ان سے وہ قسم غلیظ لیں جس کے ذریعہ سے وہ حق بیان کر سکیں اور بغیر قسم کے ان کے بیانات لغو ہیں کیونکہ وہ باتیں بحیثیت مدعا علیہ کے ہیں.قولہ آتھم صاحب کے ذمہ اس طرح پر قسم کھانا انصافاًضروری نہیں.اقول جبکہ آتھم صاحب کے وہ حالات جو پیشگوئی کی میعاد میں ان پر وارد ہوئے جنہوں نے ان کو مارے خوف کے دیوانہ سا بنا دیا تھا بلند آواز سے پکار رہے ہیں کہ ایک ڈرانے والا اثر ضرور ان کے دل پر وارد ہوا تھا اور پھر بعد اس کے ان کی زبان کا اقرار بھی نور افشاں میں چھپ گیا کہ وہ ضرور اس عرصہ میں خوف اور ڈر کی حالت میں رہے اور جو ڈر کے وجوہ انہوں نے بیان کئے ہیں وہ ایسا دعویٰ ہے جس کو ثابت نہیں کرسکے.پس اس صورت میں وہ خود انصافاًو قانوناً اس مطالبہ کے نیچے آگئے کہ وہ اس الزام سے قسم کے ساتھ اپنی بریت ظاہر کریں جو خود ان کے افعال اور ان کے بیان سے شبہ کے طور پر ان کے عاید حال ہوتا ہے پس ان کی بریت اس شبہ سے جس کو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے آپ پیدا کیا اسی میں ہے کہ وہ ایسی قسم جو مجھ مدعی کو مطمئن کرسکتی ہو یعنی میرے منشا کے موافق ہو جلسہ عام میں کھالیں اور یاد رہے کہ درحقیقت ان کے ایسے افعال سے جوان کی خوفناک حالت پر اور ان کے ڈر سے بھرے ہوئے دل پر پندرہ مہینہ تک گواہی دیتے رہے اور ان کے ایسے بیان سے جو رو رو کر اس زمانہ کی نسبت بتلایا جو نور افشاں ماہ ستمبر ۱۸۹۴ ء میں چھپ گیا.یہ امر قطعی طور پر ثابت ہوگیا ہے کہ وہ ضرور
ایام پیشگوئی میں ڈرتے رہے پس ان کا یہ دعوے کہ وہ عظمت حق کے خوف سے نہیں ڈرے بلکہ قتل کئے جانے سے ڈرے اس دعوے کا بار ثبوت قانوناً و انصافاًانہیں کے ذمہ تھا جس سے وہ سبکدوش نہیں ہوسکے لہٰذا ہمارے لئے یہ قانونی حق حاصل ہے کہ ایک قابل اطمینان ثبوت کے لئے ان کو قسم پر مجبور کریں اور ان پر قانوناً واجب ہے کہ وہ اس طریق فیصلہ سے گریز نہ کریں جس طریق سے پورے طور پر ان کے سر پر سے ہمارا شبہ اور الزام اٹھ جائے.یہی وہ طریق ہے جس کو قانون و انصاف چاہتا ہے.اب تم خواہ کسی وکیل یا بیرسٹر یا جج کو بھی پوچھ کر دیکھ لو ہاں اگر آتھم صاحب اب حسب تجویز قرار دادہ ہماری کے قسم کھا لیں تو بلا شبہ ان کی صفائی ہوجائے گی اور اگر قسم کے ضرر سے بچ گئے تو ثابت ہو جائے گا کہ وہ واقعی طور پر اسلامی پیشگوئی سے ذرہ نہیں ڈرے بلکہ وہ اس لئے خائف رہے کہ ان کو یہ پرانا تجربہ تھا کہ یہ عاجز خونی آدمی ہے ہمیشہ ناحق کے خون کرتا رہا ہے لہٰذا اب ان کا بھی ضرور خون کر دے گا.قولہ اس قسم کی تحدی اور پھر خفی طریقوں سے اس کا ثبوت.اقول عقلمند کے لئے یہ خفی طریقہ نہیں جس حالت میں پندرہ مہینہ تک آتھم صاحب کے خوف کے قصے اور ان کی سراسیمگی کی حالت دنیا میں مشہور ہوگئی پھر اب تک وہ زبان سے بھی رو رو کر اقرار کرتے ہیں کہ میں ضرور ڈرتا رہا مگر تلواروں کا خوف تھا گویا کسی راجہ یا نواب یا کسی ڈاکو نے ان کو قتل کی دھمکی دی تھی اور جب کہا جاتا ہے کہ یہ کمال درجہ کا خوف جو آپ سے ظاہر ہوا اگر یہ تلوار کا خوف تھا سچے دین کی عظمت اور قہر الٰہی کا خوف نہیں تھا تو آپ قسم کھالیں کیونکہ اب آپ کے یہ دل کا بھید بجز قسم کے فیصلہ نہیں پاسکتا تو آپ قسم کھانے سے کنارہ کر رہے ہیں نہ ہزار روپیہ لیں نہ دو ہزار روپیہ اب اسی غرض سے تین ہزار روپیہ کا اشتہار جاری کیا گیا مگر قسم کی اب بھی امید
نہیں.تو اب انصافاًفرمایئے کہ کیا اب بھی ہمارے ثبوت کا طریقہ پوشیدہ ہے دشمن تو اسی وقت سے پکڑا گیا کہ جب اس نے خوف کا اقرار کر کے پھر قسم کھانے سے انکار کیا اور آپ کو یاد ہوگا کہ حدیبیہ کے قصہ کو خدا تعالیٰ نے فتح مبین کے نام سے موسوم کیا ہے اور فرمایا ہے..۱ وہ فتح اکثر صحابہ پر بھی مخفی تھی بلکہ بعض منافقین کے ارتداد کی موجب ہوئی مگر دراصل وہ فتح مبین تھی گو اس کے مقدمات نظری اور عمیق تھے پس دراصل یہ فتح بھی حدیبیہ کی فتح کی طرح نہایت مبارک فتح اور بہت سی فتوحات کا مقدمہ اور بعض کے لئے موجب ابتلاء اور بعض کے لئے موجب اصطفاء ہے اور اس پیشگوئی کو بھی پوری کرتی ہے جس کے یہ الفاظ ہیں کہ ا لحق فی آل محمّد اور ا لحق فی آل عیسٰی اور جو لوگ ابتلاء میں گرفتار ہوئے انہوں نے اپنی بدنصیبی سے اس پیشگوئی کے سارے پہلو غور سے نہیں دیکھے اور قبل اس کے جو غور کریں محض جہالت اور سادگی سے اپنی کم عقلی کا پردہ فاش کر دیا اور کہا کہ یہ پیشگوئی ہرگز پوری نہیں ہوئی.اگر وہ اس سنت اللہ سے خبر رکھتے جس کو قرآن کریم نے پیش کیا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے۲ الجزو نمبر ۲۵ سورۃ الزخرف تو جلدی کر کے اپنے تئیں ندامت کے گڑھے میں نہ ڈالتے مگر ضرور تھا کہ جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے اس زمانہ کے لئے پہلے سے فرمایا تھا وہ سب پورا ہوا اور دوسرا دھوکا ان کچے معترضوں کو یہ بھی لگا کہ وہ پیشگوئی کی عظمت اور کمال ظہور کو صرف اسی حد تک ختم کر بیٹھے حالانکہ جس الہام پر اس پیشگوئی کی کیفیت مبنی ہے اس میں یہ فقرات بھی ہیں.اطلع اللّٰہ علی ھمہ وغمہ و لن تجد لسنۃ اللّٰہ تبدیلا.و لا تعجبوا و لا تحزنوا و انتم الاعلون ان کنتم مؤمنین.و بعزتی و جلالی انک انت الاعلی.و نمزق الاعداء کل ممزق.و مکر اولئک ھو یبور.انا نکشف
السر عن ساقہ.یومئذ یفرح المؤمنون.ثلۃ من الاولین و ثلۃ من الاٰخرین و ھذہ تذکرۃ فمن شاء اتخذ الی ربہ سبیلا دیکھو انوار الاسلام صفحہ ۲.یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ہر ایک الہام کے لئے وہ سنت اللہ بطور امام اور مہیمن اور پیشرو کے ہے جو قرآن کریم میں وارد ہوچکی ہے اور ممکن نہیں کہ کوئی الہام اس سنت کو توڑ کر ظہور میں آوے کیونکہ اس سے پاک نوشتوں کا باطل ہونا لازم آتا ہے پھر جبکہ قرآنی تعلیم نے صاف طور پر بتلا دیا کہ ایسا رجوع بھی دنیوی عذاب میں تاخیر ڈال دیتا ہے جو محض دل کے ساتھ ہو اور معذالک ایسا ناقص بھی ہو جو امن کے ایام میں قائم نہ رہے تو پھر کیونکر ممکن تھا کہ آتھم اپنے اس رجوع سے فائدہ نہ اٹھاتا بلکہ اگر یہ شرط الہام میں بھی موجود نہ ہوتی تب بھی اس سنت اللہ سے فائدہ اٹھانا ضروری تھا کیونکہ کوئی الہام ان سنتوں کو باطل نہیں کرسکتا جو قرآن کریم میں آچکی ہیں بلکہ ایسے موقع پر الہام میں شرط مخفی کا اقرار کرنا پڑے گا جیسا کہ اس پر تمام اصفیاء اور اولیاء کا اتفاق ہے.(۱۴) اعتراض چودواں.دراصل آتھم صاحب کے حواس قائم نہیں ہیں او راب تک کچھ دہشت زدہ ہیں اس لئے پادری صاحبان ان کو قسم کھانے پر آمادہ نہیں کرسکتے اس اندیشہ سے کہ شاید قسم کھانے کے وقت اسلام کا اقرار ہی نہ کرلیں الجواب اگر آتھم صاحب کے حواس میں خلل ہے تو سوال یہ ہے کہ آیا یہ خلل پیشگوئی کے پہلے بھی موجود تھا یا پیشگوئی کے بعد ہی ظہور میں آیا اگر پیشگوئی کے پہلے موجود تھا تو ایسا خیال بدیہی البطلان ہے کیونکہ وہ اس حالت میں بحث کے لئے کیونکر اور کیوں منتخب کئے گئے اور طرفہ تر یہ کہ خود ڈاکٹر نے ان کو اس بحث کے لئے منتخب کیا تھا تو بجز اس کے کیا کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت ڈاکٹر مارٹن کلارک کے حواس میں بھی خلل تھا اور اگر یہ خلل پیشگوئی کے بعد میں پیدا ہوا تو پھر وہ پیشگوئی کی تاثیرات میں سے ایک تاثیر سمجھی جائے گی اور عذاب مقدر کا ایک جزو متصور
ہوگا اور اس صورت میں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ جیسا کہ اکثروں کا خیال ہے کہ جو تحریریں آتھم صاحب کی طرف سے نور افشاں میں شائع کی گئیں ہیں یا جو ان کے خطوط بعضوں کو پہنچے ہیں یہ باتیں ان کے دل و دماغ سے نہیں نکلیں بلکہ طوطے کی طرح ان کے منہ سے نکلوائی گئیں یا لکھوائی گئیں ہیں ورنہ ان کو معلوم نہیں کہ ان کے منہ سے کیا نکلا یا ان کے قلم نے کیا لکھا کیونکہ جبکہ حواس میں خلل ہے تو کسی بات پر کیا اعتماد.دوسرا حصّہ اس اشتہار کا خاص طور پر آتھم صاحب کی خدمت میں بطور خط کے ہے اور وہ یہ ہے ازطرف عبد اللہ الاحد احمد عافاہ اللہ و ایّد.آتھم صاحب کو معلوم ہو کہ میں نے آپ کا وہ خط پڑھا جو آپ نے نور افشاں ۲۱ ؍ستمبر ۱۸۹۴ ء کے صفحہ ۱۰ میں چھپوایا ہے مگر افسوس کہ آپ اس خط میں دونوں ہاتھ سے کوشش کر رہے ہیں کہ حق ظاہر نہ ہو میں نے خدا تعالیٰ سے سچا اور پاک الہام پاکر یقینی اور قطعی طور پر جیسا کہ آفتاب نظر آجاتا ہے معلوم کر لیا ہے کہ آپ نے میعاد پیشگوئی کے اندر اسلامی عظمت اور صداقت کا سخت اثر اپنے دل پر ڈالا اور اسی بناء پر پیشگوئی کے وقوع کا ہم و غم کمال درجہ پر آپ کے دل پر غالب ہوا.میں اللہ جلّ شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ بالکل صحیح ہے اور خدا تعالیٰ کے مکالمہ سے مجھ کو یہ اطلاع ملی ہے اور اس پاک ذات
نے مجھے یہ اطلاع دی ہے کہ جو انسان کے دل کے تصورات کو جانتا اور اس کے پوشیدہ خیالات کو دیکھتا* ہے اور اگر میں اس بیان میں حق پر نہیں تو خدا مجھ کو آپ سے پہلے موت دے.پس اسی وجہ سے میں نے چاہا کہ آپ مجلس عام میں قسم غلیظ مؤکد بعذاب موت کھاویں ایسے طریق سے جو میں بیان کر چکا ہوں تامیرا اور آپ کا فیصلہ ہو جائے اور دنیا تاریکی میں نہ رہے اور اگر آپ چاہیں گے تو میں بھی ایک برس یا دو برس یا تین برس کے لئے قسم کھا لوں گا.کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ سچا ہرگز برباد نہیں ہوسکتا بلکہ وہی ہلاک ہوگا جس کو جھوٹ نے پہلے سے ہلاک کر دیا ہے.اگر صدق الہام اور صدق اسلام پر مجھے قسم دی جائے تو میں آپ سے ایک پیسہ نہیں لیتا لیکن آپ کے قسم کھانے کے وقت تین ہزار کے بدرے پہلے پیش کئے جائیں گے یا تحریر باضابطہ لے کر پہلے ہی دے دیئے جائیں گے اگر میں روپیہ دینے میں ذرہ بھی توقف کروں تو اسی مجلس میں جھوٹا ٹھہر جاؤں گا مگر وہ روپیہ ایک سال تک بطور امانت آپ کے ضامنوں کے پاس رہے گا.پھر آپ زندہ رہے تو آپ کی مِلک ہو جائے گا.اور اگر اس کے سوا میرے لئے میرے کاذب نکلنے کی حالت میں سزائے موت بھی تجویز ہو تو بخدا اس کے بھگتنے کے لئے بھی تیار ہوں مگر افسوس سے لکھتا ہوں کہ اب تک آپ اس قسم کے کھانے کے لئے آمادہ نہیں ہوئے اگر آپ سچے ہیں اور میں ہی جھوٹا ہوں تو کیوں میرے روبرو جلسہ عام میں قسم مؤکد بعذاب موت نہیں کھاتے مگر آپ کی یہ تحریریں جو اخباروں میں کہ یا خطوط کے ذریعہ سے آپ شائع کر رہے ہیں بالکل *نوٹ: بعض نادان کہتے ہیں کہ یہ الہام پندرہ مہینہ کے اندر کیوں شائع نہ کیا سو واضح ہو کہ پندرہ مہینہ کے اندر ہی یہ الہام ہو چکا تھا پھر جبکہ الہام نے اپنی صداقت کا پورا ثبوت دے دیا تو ثابت شدہ امر کا انکار کرنا بے ایمانی ہے.منہ
سچائی اور راست بازی کے برخلاف ہیں کیونکہ یہ باتیں بحیثیت ایک مدعا علیہ کے آپ کے منہ سے نکل رہی ہیں جو ہرگز قابل اعتبار نہیں اور میں چاہتا ہوں کہ بحیثیت ایک گواہ کے جلسہ عام میں حاضر ہوں یا چند ایسے خاص لوگوں کے جلسہ میں جن کی تعداد فریقین کی منظوری سے قائم ہو جائے آپ خوب سمجھتے ہیں کہ فیصلہ کرنے کے لئے اخیری طریق حلف ہے، اگر آپ اس فیصلہ کی طرف رخ نہ کریں تو آپ کو حق نہیں پہنچتا کہ آئندہ کبھی عیسائی کہلاویں مجھے حیرت پر حیرت ہے کہ اگر واقعی طور پر آپ سچے اور مَیں مفتری ہوں تو پھر کیوں ایسے فیصلہ سے آپ گریز کرتے ہیں جو آسمانی ہوگا اور صرف سچے کی حمایت کرے گا اور جھوٹے کو نابود کر دے گا بعض نادان عیسائیوں کا یہ کہنا کہ جو ہونا تھا ہوچکا عجیب حماقت اور بے دینی ہے وہ اس امر واقعی کو کیوں کر اور کہاں چھپا سکتے ہیں کہ وہ پہلی پیشگوئی دو پہلو پر مشتمل تھی پس اگر ایک ہی پہلو پر مدار فیصلہ رکھا جائے تو اس سے بڑھ کر کون سی بے ایمانی ہو گی اور دوسرے پہلو کے امتحان کا وہی ذریعہ ہے جو الٰہی تفہیم نے میرے پر ظاہر کیا یعنی یہ کہ آپ قسم مؤکد بعذاب موت کھا جائیں اب اگر آپ قسم نہ کھائیں اور یوں ہی فضول گو مدعا علیہوں کی طرح اپنی عیسائیت کا اظہار کریں تو ایسے بیانات شہادت کا حکم نہیں رکھتے بلکہ تعصب اور حق پوشی پر مبنی سمجھے جاتے ہیں سو اگر آپ سچے ہیں تو میں آپ کو اس پاک قادر ذوالجلال کی قسم دیتا ہوں کہ آپ ضرور تاریخ مقرر کر کے جلسہ عام یا خاص میں حسب شرح بالا قسم مؤکد بعذاب موت کھاویں تاحق اور باطل میں خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے فیصلہ ہوجائے.اب میں آپ کی اس مہمل تقریر کی جو آپ نے پرچۂ نور افشاں ۲۱ ؍ستمبر ۱۸۹۴ ء میں چھپوائی ہے حقیقت ظاہر کرتا ہوں کیا وہ ایک شہادت ہے جو فیصلہ کے لئے کارآمد ہوسکے ہرگز نہیں وہ تو مدعا علیہوں کے رنگ میں ایک یک طرفہ
بیان ہے جس میں آپ نے جھوٹ بولنے اور حق پوشی سے ذرا خوف نہ کیا کیوں کہ آپ جانتے تھے کہ یہ بیان بطور بیان شاہد قسم کے ساتھ مؤکد نہیں بلکہ جاہلوں کے لئے ایک طفل تسلی ہے پھر آپ زبان دبا کر یہ بھی اس میں اشارہ کرتے ہیں کہ میں عام عیسائیوں کے عقیدہ ابنیت والوہیت کے ساتھ متفق نہیں اور نہ میں ان عیسائیوں سے متفق ہوں جنہوں نے آپ کے ساتھ کچھ بے ہودگی کی اور پھر آپ لکھتے ہیں کہ قریب ستر برس کی میری عمر ہے اور پہلے اس سے اسی سال کے کسی پرچہ نور افشاں میں چھپا تھا کہ آپ کی عمر چونسٹھ برس کے قریب ہے پس میں متعجب ہوں کہ اس ذکر سے کیا فائدہ کیا آپ عمر کے لحاظ سے ڈرتے ہیں کہ شاید میں فوت ہو جاؤں مگر آپ نہیں سوچتے کہ بجز ارادہ قادر مطلق کوئی فوت نہیں ہوسکتا جبکہ میں بھی قسم کھا چکا اور آپ بھی کھائیں گے تو جو شخص ہم دونوں میں جھوٹا ہوگا وہ دنیا پر اثر ہدایت ڈالنے کے لئے اس جہان سے اٹھا لیا جائے گا.اگر آپ چونسٹھ برس کے ہیں تو میری عمر بھی قریباً ساٹھ کے ہوچکی دو خداؤں کی لڑائی ہے ایک اسلام کا اور ایک عیسائیوں کا پس جو سچا اور قادر خدا ہوگا وہ ضرور اپنے بندہ کو بچا لے گا.اگر آپ کی نظر میں کچھ عزت اس مسیح کی ہے جس نے مریم صدیقہ سے تولّد پایا تو اس عزت کی سفارش پیش کر کے پھر میں آپ کو خداوند قادر مطلق کی قسم دیتا ہوں کہ آپ اس اشتہار کے منشاء کے موافق عام مجلس میں قسم مؤکد بعذاب موت کھاویں یعنی یہ کہیں کہ مجھے خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں نے پیشگوئی کی میعاد میں اسلامی عظمت اور صداقت کا کچھ اثر اپنے دل پر نہیں ڈالا اور نہ اسلامی پیشگوئی کی حقّانی ہیبت میرے دل پر طاری ہوئی اور نہ میرے دل نے اسلام کو حقّانی مذہب خیال کیا بلکہ میں درحقیقت مسیح کی ابنیت اور الوہیت اور کفارہ
پر یقین کامل کے ساتھ اعتقاد رکھتا رہا اگر میں اس بیان میں جھوٹا ہوں تو اے قادر خدا جو دل کے تصورات کو جانتا ہے اس بے باکی کے عوض میں سخت ذلت اور دکھ کے ساتھ عذاب موت ایک سال کے اندر میرے پر نازل کر اور یہ تین مرتبہ کہنا ہوگا اور ہم تین مرتبہ آمین کہیں گے اب ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کو مسیح کی عزت کا کچھ بھی پاس ہے یا نہیں زیادہ کیا لکھوں* والسلام علی من اتبع الہدیٰ * نوٹ:.میں اس جگہ ڈاکٹر مارٹین کلارک اور پادری عماد الدین صاحب اور دیگر پادری صاحبان کو بھی حضرت عیسیٰ مسیح ابن مریم کی عزت اور وجاہت کو اپنے اس قول کا درمیانی شفیع ٹھہرا کر خداوند قادر ذوالجلال کی قسم دیتا ہوں کہ وہ آتھم صاحب کو حسب منشاء میری قسم کھانے کے لئے آمادہ کریں ورنہ ثابت ہوگا کہ ان کے دل میں ایک ذرہ تعظیم حضرت مسیح کی عزت اور وجاہت کی نہیں ہے.منہ راقم میرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ۵ ؍اکتوبر ۱۸۹۴ ء
نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم اشتہار انعامی چار ہزار روپیہ بمرتبہ چہارم یہ چار ہزار روپیہ حسب شرائط اشتھار ۹؍ ستمبر ۱۸۹۴ ء و ۲۰؍ ستمبر ۱۸۹۴ ء و ۵؍ اکتوبر ۱۸۹۴ ء مسٹر عبد اللّٰہ آتھم صاحب کے قسم کھانے پر بلا توقف ان کو دیا جائے گا ناظرین! اس مضمون کو غور سے پڑھو کہ ہم اس سے پہلے تین اشتہار انعامی زر کثیر یعنی اشتہار انعامی ایک ہزار روپیہ اور اشتہار انعامی دو ہزار روپیہ اور اشتہار انعامی تین ہزار روپیہ مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب کے قسم کھانے کے لئے شائع کر چکے ہیں اور بار بار لکھ چکے ہیں کہ اگر مسٹر آتھم صاحب ہمارے اس الہام سے منکر ہیں جس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہم پر یہ ظاہر ہوا کہ آتھم صاحب ایام پیشگوئی میں اس وجہ سے بعذاب الٰہی فوت نہیں ہوسکے کہ انہوں نے حق کی طرف رجوع کر لیا تو وہ جلسہ عام میں قسم کھالیں کہ یہ بیان سراسر افترا ہے اور اگر افترا نہیں بلکہ حق اور منجانب اللہ ہے اور میں ہی جھوٹ بولتا ہوں تو اے خدائے قادر
اس جھوٹ کی سزا مجھ پر یہ نازل کر کہ میں ایک سال کے اندر سخت عذاب اٹھا کر مر جاؤں.غرض یہ قسم ہے جس کا ہم مطالبہ کرتے ہیں*اور ہم یہ بھی کھول کر تحریر کر چکے ہیں کہ قانون انصاف آتھم صاحب پر واجب کرتا ہے کہ وہ اس تصفیہ کے لئے ضرور قسم کھاویں کہ وہ پیشگوئی کے ایام میں اسلامی صداقت سے خائف نہیں ہوئے بلکہ برابر بندہ پرست* *ہی *نوٹ: آتھم صاحب نے نور افشاں ۱۰؍ اکتوبر ۱۸۹۴ ء میں مطالبہ کی قسم کے بارے میں یہ جواب شائع کیا ہے کہ اگر مجھے قسم دینا ہے تو عدالت میں میری طلبی کرایئے یعنی بغیر جبر عدالت میں قسم نہیں کھا سکتا گویا ان کا ایمان عدالت کے جبر پر موقوف ہے مگر جو سچائی کے اظہار کے لئے قسم نہیں کھاتے وہ نیست و نابود کئے جائیں گے.یرمیا ۱۴ /۱۴.**نوٹ: عیسائی لوگ اس لئے بندہ پرست ہیں کہ عیسیٰ مسیح جو ایک عاجز بندہ ہے ان کی نظر میں وہی خدا ہے اور یہ قول ان کا سراسر فضول اور نفاق اور دروغ گوئی پر مبنی ہے جو وہ کہتے ہیں کہ ہم عیسیٰ کو تو ایک انسان سمجھتے ہیں مگر اس بات کے ہم قائل ہیں کہ اس کے ساتھ اقنوم ابن کا تعلق تھا کیونکہ مسیح نے انجیل میں کہیں یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اقنوم ابن سے میرا ایک خاص تعلق ہے اور وہی اقنوم ابن اللہ کہلاتا ہے نہ مَیں بلکہ انجیل یہ بتلاتی ہے کہ خود مسیح ابن اللہ کہلاتا تھا اور جب مسیح کو زندہ خدا کی قسم دے کر سردار کاہن نے پوچھا کہ کیا تو خدا کا بیٹا ہے تو اس نے یہ جواب نہ دیا کہ میں تو ابن اللہ نہیں بلکہ میں تو وہی انسان ہوں جس کو تیس برس سے دیکھتے چلے آئے ہو ہاں ابن اللہ وہ اقنوم ثانی ہے جس نے اب مجھ سے قریباً دو سال سے تعلق پکڑ لیا ہے بلکہ اس نے سردار کاہن کو کہا کہ ہاں وہی ہے جو تو کہتا ہے پس اگر ابن اللہ کے معنی اس جگہ وہی ہیں جو عیسائی مراد لیتے ہیں تو ضرور ثابت ہوتا ہے کہ مسیح نے خدائی کا دعویٰ کیا پھر کیونکر کہتے ہیں کہ ہم مسیح کو انسان سمجھتے ہیں.کیا انسان صرف جسم اور ہڈی کا نام ہے.افسوس کہ اس زمانہ کے جاہل عیسائی کہتے ہیں کہ قرآن نے ہمارے عقیدہ کو نہیں سمجھا حالانکہ وہ خود اس بات کے قائل ہیں کہ مسیح نے خود اپنے منہ سے ابن اللہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے ظاہر ہے کہ سردار کاہن کا یہ کہنا کہ کیا تو خدا کا بیٹا ہے اس کا مدعا یہی تھا کہ تو جو انسان ہے پھر کیونکر انسان ہوکر خدا کا بیٹا کہلاتا ہے کیونکہ سردار کاہن جانتا تھا کہ یہ ایک انسان اور ہماری قوم میں سے یوسف نجّار کی بیوی کا لڑکا ہے لہٰذا ضرور تھا کہ مسیح سردار کاہن کا وہ جواب دیتا جو اس کے سوال اور دلی منشاء کے مطابق ہوتا کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ سوال دیگر اور
رہے کیونکہ جبکہ ڈرنے کا ان کو خود اقرار ہے چنانچہ وہ اس اقرار کو کئی مرتبہ رو رو کر ظاہر کر چکے ہیں تو اب یہ بار ثبوت انہیں کی گردن پر ہے کہ وہ الہامی پیشگوئی اور اسلامی صداقت سے نہیں ڈرے بلکہ اس لئے ڈرتے رہے کہ ان کو متواتر یہ تجربہ ہو چکا تھا کہ اس پیشگوئی سے پہلے اس عاجز نے ہزاروں کا خون کر دیا ہے اور اب بھی اپنی بات پوری کرنے کے لئے ضرور ان کا خون کر دے گا بقیہ حاشیہ: جواب دیگر ہو.پس عیسائیوں کے مصنوعی اصول کے موافق یہ جواب چاہیئے تھا کہ جیسا کہ تم نے گمان کیا ہے یہ غلط ہے اور میں اپنی انسانیت کی رو سے ہرگز ابن اللہ نہیں کہلاتا بلکہ ابن اللہ تو اقنوم دوم ہے جس کا تمہاری کتابوں کے فلاں فلاں مقام میں ذکر ہے.لیکن مسیح نے ایسا جواب نہ دیا بلکہ ایک دوسرے مقام میں یہ کہا ہے کہ تمہارے بزرگ تو خدا کہلائے ہیں.پس ثابت ہے کہ دوسرے نبیوں کی طرح مسیح نے بھی اپنے انسانی روح کے لحاظ سے ابن اللہ کہلایا اور صحت اطلاق لفظ کیلئے گذشتہ نبیوں کا حوالہ دیا.پھر بعد اس کے عیسائیوں نے اپنی غلط فہمی سے مسیح کو درحقیقت خدا کا بیٹا سمجھ لیااور دوسروں کو بیٹا ہونے سے باہر رکھا پس اسی واقعہ صحیحہ کی قرآن مجید نے گواہی دی اور اگر کوئی یہ کہے کہ اقنوم ثانی کا مسیح کی انسانی روح سے ایسا اختلاط ہوگیا تھا کہ درحقیقت وہ دونوں ایک ہی چیز ہوگئے تھے اس لئے مسیح نے اقنوم ثانی کی وجہ سے جو اس کی ذات کا عین ہوگیا تھا خدائی کا دعویٰ کر دیا تو اس تقریر کا مآل بھی یہی ہوا کہ بموجب زعم نصاریٰ کے ضرور مسیح نے خدائی کا دعویٰ کیا کیونکہ جب اقنوم ثانی اس کے وجود کا عین ہوگیا اور اقنوم ثانی خدا ہے تو اس سے یہی نتیجہ نکلا کہ مسیح خدا بن گیا.سو یہ وہی ضلالت کی راہ ہے جس سے پہلے اور پچھلے عیسائی ہلاک ہو گئے اور قرآن نے درست فرمایا کہ یہ بندہ پرست ہیں.منہ * آتھم صاحب نے اپنی متواتر تحریروں میں میرے پر اور میرے بعض مخلصوں پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ اس لئے اپنی موت سے ڈرتے رہے کہ میں اور میرے بعض دوست ان کے قتل کرنے کیلئے مستعد تھے اور گویا انہوں نے کئی دفعہ برچھیوں اور تلواروں کے ساتھ حملہ کرتے بھی دیکھا تو اس صورت میں اگر وہ اپنے بے جا الزاموں کو ثابت نہ کریں تو کم سے کم وہ اس جرم کے مرتکب ہیں جس کی تشریح دفعہ ۵۰۰ تعزیرات میں درج ہے وہ خوب جانتے تھے کہ کبھی میرے پر ڈاکو یا خونی ہونے کا الزام نہیں لگایا گیا
پس اسی وجہ سے ہمیں قانوناً و انصافاًحق پہنچا جو ہم پبلک پر اصل حقیقت ظاہر کرنے کے لئے آتھم صاحب سے قسم کا مطالبہ کریں.ظاہر ہے کہ اگر کوئی کسی کے گھر میں مداخلت بے جا کرتا ہوا پکڑا جاوے تو صرف یہ اپنا ہی عذر اس کا سنا نہیں جائے گا کہ وہ مثلاً حقہ پینے کے لئے آگ لینے آیا تھا بلکہ اس کی بریّت اور صفائی کے لئے کسی شہادت کی حاجت ہوگی.سو اسی طرح جب آتھم صاحب نے اپنے پندرہ مہینہ کے حالات اور نیز اقرار سے ثابت کر دیا کہ وہ ایام پیشگوئی میں ضرور ڈرتے رہے ہیں تو بے شک ان سے یہ ایک ایسی بے جا حرکت صادر ہوئی جو ان کی عیسائیت کے استقلال کے برخلاف تھی اور چونکہ وہ حرکت پیشگوئی کے زمانہ میں بلکہ بعض نمونوں کو دیکھ کر ظہور میں آئی اس لئے وہ اس مطالبہ کے نیچے آگئے کہ کیوں یہ یقین نہ کیا جائے کہ پیشگوئی کے رعب ناک اثر نے ان کا یہ حال بنا دیا تھا اور ضرور انہوں نے اسلامی عظمت کا خوف اپنے دل پر ڈال لیا تھا پس اسی وجہ سے انصاف اور قانون دونوں ان کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ہمارے منشاء کے موافق قسم کھا کر اپنی بریت ظاہر کریں مگر وہ ایک جھوٹا عذر پیش کر رہے ہیں کہ ہمارے مذہب میں قسم کھانا ممنوع ہے پس ان کی یہی مثال ہے کہ جیسے ایک چور بے جا مداخلت کے وقت میں پکڑا جائے اور اس سے صفائی کے گواہ مانگے جائیں تو چور حاکم کو یہ کہے کہ میرے مذہب کی رو سے یہ منع ہے کہ میں صفائی کے گواہ پیش کروں یا اپنی بریت کے لئے قسم کھاؤں اس لئے میں آپ کی منت کرتا ہوں کہ مجھے یوں ہی چھوڑ دو.پس جیسا وہ احمق چور قانون عدالت کے برخلاف باتیں کر کے بقیہ حاشیہ:اور میرا باپ گورنمنٹ میں ایک نیک نام رئیس تھا تو کیا اب تک وہ اس بے جا الزام سے زیر مطالبہ نہیں آئے اور کیا وہ اس بے ہودہ عذر سے جو قسم کھانا میرے مذہب میں درست نہیں قانونی جرم سے بَری ہوسکتے ہیں اور ان کے حق میں موت کی پیشگوئی ان کی درخواست سے تھی نہ خود بخود کیونکہ انہوں نے الہامی نشان مانگا تھا.منہ
یہ طمع خام دل میں لاتا ہے کہ میں بغیر اپنی بریت ظاہر کرنے کے یوں ہی چھوٹ جاؤں گا اسی طرح آتھم صاحب اپنی سادہ لوحی سے بار بار انجیل پیش کرتے ہیں اور اس الزام سے بری ہونے کا ان کو ذرہ فکر نہیں جو خود ان کے اقرار اور کردار سے ان پر ثابت ہوچکا ہے انہیں اس پیشگوئی سے پہلے جو ان کی نسبت کی گئی خوب معلوم تھا کہ احمد بیگ کی نسبت جو موت کی پیشگوئی کی گئی تھی جس کو ایڈیٹر نور افشاں نے چھاپ بھی دیا تھا اور جس کے بہت سے اشتہار بھی شائع ہو چکے تھے وہ کیسی صفائی سے پوری ہوئی ان کو خوب یاد ہوگا کہ انہیں ایام انعقاد مباحثہ میں اس پیشگوئی کا پورا ہونا بذریعہ ایک خط کے ان پر ظاہر کر دیا گیا تھا پس اسی سبب سے اس پیشگوئی کا غم ان کے دل پر بہت ہی غالب ہوا کیونکہ وہ نمونہ کے طور پر ایک پیشگوئی کا پورا ہونا ملاحظہ کر چکے تھے مگر میری قاتلانہ سیرت کی نسبت تو ان کے پاس کوئی نمونہ اور کوئی ثبوت نہ تھا کیا ان کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت تھا کہ میں جس کی نسبت موت کی پیشگوئی کرتا ہوں اس کو خود قتل کر دیتا ہوں.پھر کیا کسی عقلمند کا قیاس اس بات کو باور رکھ سکتا ہے کہ جس بات کا ان کے پاس کھلا کھلا نمونہ تھا بلکہ عیسائی پرچہ بھی اس کا گواہ تھا اس تجربہ کردہ اور آزمودہ بات کا تو کچھ بھی خوف ان کے دل پر طاری نہ ہوا مگر قتل کرنے کا خوف دل پر طاری ہوگیا جس کی تصدیق کے لئے کوئی نمونہ ان کے پاس موجود نہ تھا اور نہ شبہ کرنے کی کوئی وجہ تھی.کیا کوئی ثابت کرسکتا ہے کہ کبھی میں نے کوئی ظالمانہ حرکت کی یا ادنیٰ زد و کوب کا استغاثہ کبھی میرے پر دائر ہوا.پس جبکہ میرے سابقہ اعمال کسی نوٹ: وہ فلاسفر جن کا قول ہے کہ خدا رحم ہے اور خدا محبت ہے وہ بھی اس مقام میں سمجھ سکتے ہیں کہ ایک انسان اگر ایک وقت میں نہایت سرکشی اور ظلم اور بے ایمانی اور بے باکی کی حالت میں ہو اور دوسرے وقت میں وہی انسان نہایت خوف اور تضرع اور رجوع کی حالت میں ہو تو ان دونوں مختلف حالتوں کا ایک ہی نتیجہ ہرگز نہیں ہوسکتا پس کیونکر ممکن ہے کہ وہ حکم سزا کی پیشگوئی
شرّ کا احتمال نہیں پیدا کرتے تھے اور دوسری طرف پیشگوئی کے پورے ہونے کا احتمال آتھم صاحب کی نظر میں کئی وجوہ سے قوی تھا کیونکہ وہ احمد بیگ کی موت کی پیشگوئی کا پورا ہونا مجھ سے سن چکے تھے اور اس پیشگوئی کی کیفیت میرے اشتہارات اور پرچہ نور افشاں میں پڑھ چکے تھے اور نہ صرف اسی قدر بلکہ ان کی نسبت پیشگوئی جس قوت اور شوکت اور پر زور دعویٰ سے بیان کی گئی وہ بھی ان کو معلوم تھا تو اب ظاہر ہے کہ یہ تمام باتیں مل کر ایسا دل پر قوی اثر ڈالتی ہیں جو تازہ بتازہ نمونہ بقیہ نوٹ:جو سرکشی اور بے باکی کی حالت میں ہوئی تھی وہ اطاعت اور خوف کی حالت میں قائم رہے اور اطاعت اور خوف کی حالت کے موافق کوئی پُر رحم امر صادر نہ ہو.منہ * حاشیہ: مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری اور اس کے داماد کی نسبت ایک ہی پیشگوئی تھی اور احمد بیگ کی نسبت جو ایک حصہ پیشگوئی کا تھا وہ نور افشاں میں بھی شائع ہو چکا تھا.غرض احمد بیگ میعاد کے اندر فوت ہوگیا اور اس کا فوت ہونا اس کے داماد اور تمام عزیزوں کیلئے سخت ہم و غم کا موجب ہوا چنانچہ ان لوگوں کی طرف سے توبہ اور رجوع کے خط اور پیغام بھی آئے جیسا کہ ہم نے اشتہار ۶؍ اکتوبر ۱۸۹۴ ء میں جو غلطی سے ۶؍ستمبر ۱۸۹۴ ء لکھا گیا ہے مفصل ذکر کردیا ہے پس اس دوسرے حصہ یعنی احمد بیگ کے داماد کی وفات کے بارے میں سنت اللہ کے موافق تاخیر ڈالی گئی جیسا کہ ہم بار بار بیان کر چکے ہیں کہ انذار اور تخویف کی پیشگویوں میں یہی سنت اللہ ہے کیونکہ خدا کریم ہے اور وعید کی تاریخ کو توبہ اور رجوع کو دیکھ کر کسی دوسرے وقت پر ڈال دینا کرم ہے اور چونکہ اس ازلی وعدہ کی رو سے یہ تاخیر خدائے کریم کی ایک سنت ٹھہر گئی ہے جو اس کی تمام پاک کتابوں میں موجود ہے اسلئے اس کا نام تخلف وعدہ نہیں بلکہ ایفاء وعدہ ہے کیونکہ سنت اللہ کا وعدہ اس سے پورا ہوتا ہے.بلکہ تخلف وعدہ اس صورت میں ہوتا کہ جب سنت اللہ کا عظیم الشان وعدہ ٹال دیا جاتا مگر ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ اس صورت میں خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں کا باطل ہونا لازم آتا ہے.منہ نوٹ: احمد بیگ کے داماد کا یہ قصور تھا کہ اس نے تخویف کا اشتہار دیکھ کر اس کی پروا نہ کی خط پر خط بھیجے گئے ان سے کچھ نہ ڈرا پیغام بھیج کر سمجھایا گیا کسی نے اس طرف ذرا التفات نہ کی اور احمد بیگ سے ترک تعلق(باقی اگلے صفحہ پر)
دیکھ چکا ہے پس جبکہ ایک طرف خوف اور ڈر کے یہ اسباب موجود ہوں اور دوسری طرف خود اقرار ہو کہ میں ایام پیشگوئی میں ضرور ڈرتا رہا.پس کیا اب تک وہ اس مطالبہ کے نیچے نہیں آسکے کہ ہمیں وہ قسم کھا کر مطمئن کریں کہ اس قسم کا ڈر جس کے اسباب اور محرک اور نمونے ان کی نظر کے سامنے موجود تھے وہ ہرگز ان کے دل پر غالب نہیں ہوا بلکہ ان تلواروں اور برچھیوں نے ان کو ڈرایا جن کا خارج میں کچھ بھی وجود نہ تھا.بہرحال اس دعویٰ کا بار ثبوت ان کی گردن پر ہے کہ یہ جان کا خوف جس کا وہ کئی دفعہ اقرار کر چکے اسلامی عظمت کے اثر اور پیشگوئی کے رعب سے نہیں بلکہ کسی اور وجہ سے تھا لیکن افسوس کہ آتھم صاحب نے باوجود تین اشتہار جاری ہونے کے اب تک اس طرف توجہ نہیں کی اور اپنی بریت ظاہر کرنے کے لئے اس اطمینان بخش طریق کو اختیار نہیں کیا جس سے مجھ حق دار مطالبہ کی تسلی ہوسکتی کیا اس میں کچھ شک ہے کہ مجھے بے جا الزام لگانے کی وجہ سے قانوناً و انصافاًو عرفاًحق طلب ثبوت حاصل ہے اور کیا اس میں کچھ شبہ ہے کہ اس بات کا بار ثبوت ان کے ذمہ ہے کہ وہ کیوں پندرہ مہینہ تک ڈرتے رہے اور میں ابھی بیان کر چکا ہوں کہ ڈرنے کی ثابت شدہ وجوہات میرے الہام کی صریح مؤید ہیں کیونکہ پیشگوئی کی شوکت اور قوت میرے پُر زور الفاظ سے ان کے دل میں جم چکی تھی اور پیشگوئی کی صداقت کا نمونہ مرزا احمد بیگ کی موت تھی جس کی سچائی ان پر بخوبی کھل چکی تھی لیکن تلواروں سے قتل کئے جانے کا کوئی نمونہ ان کی نظر کے سامنے نہ تھا سو آتھم بقیہ نوٹ:نہ چاہا بلکہ وہ سب گستاخی اور استہزا میں شریک ہوئے سو یہی قصور تھا کہ پیشگوئی کو سن کر پھر ناطہ کرنے پر راضی ہوئے اور شیخ بٹالوی کا یہ کہنا کہ نکاح کے بعد طلاق کیلئے ان کو فہمایش کی گئی تھی.یہ سراسر افترا ہے بلکہ ابھی تو ان کا ناطہ بھی نہیں ہو چکا تھا جبکہ ان کو حقیقت سے اطلاع دی گئی تھی اور اشتہار تو کئی برس پہلے شائع ہو چکے تھے.منہ
صاحب پر واجب تھا کہ اس الزام کو قسم کھانے سے اپنے سر پر سے اٹھا لیتے لیکن عیسائیت کی قدیم بددیانتی نے ان کو اس طرف آنے کی اجازت نہیں دی بلکہ یہ جھوٹا بہانہ پیش کردیا کہ قسم کھانا ہمارے مذہب میں منع ہے گویا ایسی تسلی بخش شہادت جو قسم کے ذریعہ سے حاصل ہوتی اور خصومت کو قطع کرتی اور الزام سے بری کرتی اور امن اور آرام کا موجب ہوتی ہے اور جو حق کے ظاہر کرنے کا انتہائی ذریعہ اور مجازی حکومتوں کے سلسلہ میں آسمانی عدالت کا رعب یاد دلاتی ہے اور جھوٹے کا منہ بند کرتی ہے وہ انجیلی تعلیم کے رو سے حرام ہے جس سے عیسائی عدالتوں کو پرہیز کرنا چاہیئے.لیکن ہریک دانا سمجھ سکتا ہے کہ یہ بالکل حضرت عیسیٰ پر بہتان ہے حضرت عیسیٰ نے کبھی گواہی اور گواہی کے لوازموں کا دروازہ بند نہیں کرنا چاہا حضرت عیسیٰ خوب جانتے تھے کہ قسم کھانا شہادت کی روح ہے اور جو شہادت بغیر قسم ہے وہ مدعیا نہ بیان ہے نہ شہادت، پھر وہ ایسی ضروری قسموں کو جن پر نظام تحقیقات کا ایک بھارا مدار ہے کیونکر بند کر سکتے تھے.الٰہی قانون قدرت اور انسانی صحیفہ فطرت اور انسانی کانشنس خود گواہی دے رہا ہے کہ خصومتوں کے قطع کے لئے انتہائی حد قسم ہی ہے اور ایک راستباز انسان جب کسی الزام اور شبہ کے نیچے آجاتا ہے اور کوئی انسانی گواہی قابل اطمینان پیش نہیں کرسکتا تو بالطبع وہ خدا تعالیٰ کی * نوٹ: کوئی سچی اور حقّانی تعلیم مجرموں کو پناہ نہیں دے سکتی پس جبکہ آتھم صاحب نے اس ڈر کا اقرار کر کے جس کو وہ کسی طرح سے چھپا نہیں سکتے یہ مجرمانہ عذر پیش کیا کہ یہ عاجز کئی دفعہ اقدام قتل کا مرتکب ہوا تھا اس لئے دل پر موت کا ڈر غالب ہوگیا تو کیا انجیل آتھم صاحب کو اس مطالبہ سے بچا لے گی کہ کیوں انہوں نے بے جا الزام لگایا.پھر کیونکر انجیل ان کو اسی قسم سے روک سکتی ہے جس سے ان کی بریت ہو.منہ
گواہی سے اپنی راستبازی کی بنیاد پر مدد لیتا ہے اور خدا تعالیٰ کی گواہی یہی ہے کہ وہ اس ذات عالم الغیب کی قسم کھا کر اپنی صفائی پیش کرے اور جھوٹا ہونے کی حالت میں خدا تعالیٰ کی لعنت اپنے پر وارد کرے یہی طریق آخری فیصلہ کا نبیوں کے نوشتوں سے ثابت ہوتا ہے مگر آتھم صاحب کہتے ہیں کہ قسم کھانا ممنوع اور ایمانداری کے برخلاف ہے.اب ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ عذر ان کا بھی صحیح ہے یا نہیں کیونکہ اگر صحیح ہے تو پھر وہ فی الحقیقت قسم کھانے سے معذور ہیں لیکن اس بات سے تو کسی کو انکار نہیں کہ عیسائیوں کے ہریک مرتبہ کے آدمی کیا مذہبی اور کیا دنیوی جب کسی شہادت کے لئے بلائے جائیں تو قسم کھاتے اور انجیل اٹھاتے ہیں اور ایک بڑے سے بڑا پادری جب کسی عدالت میں کسی شہادت کے ادا کرنے کے لئے بلایا جائے تو کبھی یہ عذر نہیں کرتا کہ انجیل کی رو سے قسم منع ہے بلکہ بطیبِ خاطر قسم کھاتا ہے بلکہ انگریزی سلطنت کے کُل متعہد عہدے دار اور پارلیمنٹ کے ممبر یہاں تک کہ گورنر جنرل سب حلف اٹھانے کے بعد اپنے عہدوں پر مامور ہوتے ہیں تو پھر کیا خیال کیا جائے کہ یہ تمام لوگ تعلیم انجیل پر ایمان رکھنے سے بے بہرہ ہیں اور صرف ایک آتھم صاحب مرد مسیحی دنیا میں موجود ہیں جو حضرت عیسیٰ کی تعلیم پر ایسا ہی کامل ایمان ان کو نصیب ہے جیسا کہ پطرس حواری اور پولس رسول کو نصیب تھا بلکہ اگر یہ بات فی الواقع سچ ہے کہ قسم کھانا انجیل کے رو سے منع ہے تو پھر آتھم صاحب کا ایمان پطرس اور پولس رسول کے ایمان سے بھی کہیں آگے بڑھا ہوا ہے کیونکہ آتھم صاحب کے نزدیک قسم کھانا بے ایمانی ہے لیکن متی ۲۷ باب ۷۲ آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ پطرس حواری بہشتی کنجیاں والے نے بھی اس بے ایمانی سے خوف نہیں کیا اور بغیر اس کے کہ کوئی قسم کھانے پر اصرار کرے آپ ہی قسم کھالی لیکن اگر آتھم صاحب کہیں کہ پطرس راستباز آدمی نہیں تھا کیونکہ حضرت مسیح
نے اس کو شیطان کا لقب بھی دیا ہے مگر میں راستباز ہوں اور پطرس سے بہتر اس لئے قسم کھانا بے ایمانی سمجھتا ہوں تو ان کی خدمت میں عرض کیا جاتا ہے کہ آپ کے پولس رسول نے بھی جو بقول عیسائیاں حضرت موسیٰ ؑ سے بھی بڑھ کر ہے قسم کھائی ہے اگر اس کو بھی آپ ایمان سے جواب دیں تو خیر آپ کی مرضی اور اگر یہ سوال ہو کہ قسم کھانے کا ثبوت کیا ہے تو قرنتیان ۱۵ باب ۳۱ آیت دیکھ لیں جس میں پولس صاحب فرماتے ہیں مجھے تمہارے اس فخر کی جو ہمارے خداوند مسیح یسوع سے ہے قسم کہ میں ہر روز مرتا ہوں.اس جگہ ناظرین خوب غور سے سوچیں کہ جس حالت میں پطرس اور پولس رسول قسم کھائیں اور آتھم صاحب قسم کھانا بے ایمانی قرار دیں یعنی شرعی ممنوعات کی مدمیں رکھیں جس کا ارتکاب بلاشبہ بے ایمانی ہے تو کیا اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ حسب قول آتھم صاحب مسیح کے تمام حواری اور پولس رسول سب ممنوعات انجیل کے مرتکب اور ایمانی حدود سے تجاوز کرنے والے تھے کیونکہ بعضوں نے ان میں سے قسمیں کھائیں اور بعض اس طرح پر بے ایمانی کے کاموں میں شریک ہوئے کہ قسم کھانے والوں سے جدا نہ ہوئے اور نہ امر معروف اور نہی منکر کیا لیکن آج تک بجز آتھم صاحب کے کسی عیسائی نے اس اعتقاد کو شائع نہیں کیا کہ حضرت مسیح کے تمام حواری یہاں تک کہ پولس رسول بھی ایمانی دولت سے تہی دست اور بے نصیب اور ممنوعات انجیل میں مبتلا تھے صرف اٹھارہ سو برس کے بعد آتھم صاحب کو یہ ایمان دیا گیا تعجب کہ اس قوم کے جھوٹ اور بددیانتی کی کہاں تک نوبت پہنچ گئی کہ اپنے نفس کے بچاؤ کے لئے اپنے بزرگوں کو بھی دولت ایمان سے بے نصیب قرار دیتے ہیں اگر آتھم صاحب جان بچانے کے لئے صرف یہ بہانہ کرتے کہ مجھے اندیشہ ہے کہ میں سال تک مر نہ جاؤں تو اس صورت میں لوگوں کو فقط اتنا ہی خیال ہوتا کہ اس شخص کا ایمان مسیح کی طاقت اور قدرت پر ضعیف ہے اور درحقیقت اپنے دل میں اس کو قادر نہیں سمجھتا لیکن آتھم صاحب
کا یہ ممانعت قسم کا بہانہ ان کی بددیانتی اور ردی حالت کی کھلے طور پر قلعی کھولتا ہے کیونکہ اس بہانہ کو کوئی بھی باور نہیں کر سکتا کہ مسیح کے تمام حواری اور پولس رسول ممنوعات انجیل میں گرفتار ہوکر ایمانی دولت سے بے نصیب رہے اور یہ ایمان آتھم صاحب کے ہی حصہ میں آیا اور پھر مجھے یہ دعویٰ بھی سراسر جھوٹ معلوم ہوتا ہے کہ آتھم صاحب نے اب تک کسی عدالت میں قسم نہیں کھائی اور تمام حکام اس بات پر راضی رہے کہ آتھم صاحب کسی شہادت کے ادا کرنے کے وقت بغیر قسم اظہار لکھوا دیا کریں اور نہ میں یہ باور کر سکتا ہوں کہ اگر آتھم صاحب اب بھی کسی شہادت کے لئے بلائے جائیں تو یہ عذر پیش کریں کہ چونکہ میں پارلیمنٹ کے ممبروں اور تمام متعہد عیسائی ملازموںّ ٰ حتّٰی کہ گورنر جنرل سے بھی زیادہ ایماندار ہوں اس لئے ہرگز قسم نہیں کھاؤں گا.آتھم صاحب خوب جانتے ہیں کہ بائیبل میں نبیوں کی قسمیں بھی مذکور ہیں خود مسیح قسم کا پابند ہوا دیکھو متی ۲۷ باب ۶۳ آیت خدا نے قسم کھائی دیکھو اعمال ۷ باب ۶ آیت ۱۷.اور خدا کا قسم کھانا بموجب عقیدہ عیسائیوں کے مسیح کا قسم کھانا ہے کیونکہ بقول ان کے دونوں ایک ہیں اور جو شخص مسیح کے نمونہ پر اپنی عادات اور اخلاق نہیں رکھتا وہ مسیح میں سے نہیں ہے.اور یرمیا کی تعلیم کی رو سے قسم کھانا عبادت میں داخل ہے دیکھو یرمیا باب ۴ آیت ۲.اور زبور میں لکھا ہے کہ جو جھوٹا ہے وہی قسم نہیں کھاتا دیکھو زبور ۶۳ آیت ۱۱.سو آتھم صاحب کے جھوٹا ہونے پر داؤد نبی حضرت عیسیٰ کے دادا صاحب بھی گواہی دیتے ہیں.فرشتے بھی قسم کھاتے ہیں دیکھو مکاشفات ۱۰۶ پھر عبرانیوں کے چھ۶ باب ۱۶ آیت میں مسیحیوں کا معلم کہتا ہے کہ ہریک قضیہ کی حد قسم ہے یعنی ہریک جھگڑا آخر قسم پر فیصلہ پاتا ہے.توریت میں خدا نے برکت دینے کے لئے قسم کھائی.نوٹ:وہ بولا خداوند کی قسم جس کے آگے میں کھڑا ہوں.سلاطین ۱۶؍۵.
دیکھو پیدائش ۲۲۱۶ اور پھر اپنی حیات کی قسم کھائی.غرض کہاں تک لکھیں اور مضمون کو طول دیں.بائیبل میں خدا کی قسمیں فرشتوں کی قسمیں نبیوں کی قسمیں موجود ہیں اور انجیل میں مسیح کی قسم پطرس کی قسم پولس کی قسم پائی جاتی ہے.اسی جہت سے عیسائیوں کے علماء نے جواز قسم پر فتویٰ دیا ہے.دیکھو تفسیر انجیل مؤلفہ پادری کلارک اور پادری عمادالدین مطبوعہ ۱۸۷۵ ء اور مسیح نے خدا تعالیٰ کی سچی قسم سے کسی جگہ منع نہیں کیا بلکہ اس بات سے منع کیا ہے کہ کوئی آسمان کی قسم کھاوے یا زمین کی یا یروشلم کی یا اپنے سر کی اور جو شخص ایسا سمجھے کہ خدا تعالیٰ کی سچی قسم کسی گواہی کے وقت کھانا منع ہے وہ سخت احمق ہے اور مسیح کے منشاء کو ہرگز نہیں سمجھا.اگر مسیح کا منشاء خدا تعالیٰ کی قسم کی ممانعت ہوتی تو وہ اپنی تفصیلی عبارت میں ضرور اس کا ذکر کرتا لیکن اس نے متی ۵ باب ۳۳ آیت میں ’’کیونکہ‘‘ کے لفظ سے صرف یہ سمجھانا چاہا کہ تم آسمان اور زمین اور یروشلم اور اپنے نفس کی قسم مت کھاؤ.خدا تعالیٰ کی قسم کا اس میں ذکر بھی نہیں اور موسیٰ کی تعلیم پر اس میں یہ تصریح زیادہ ہے کہ صرف جھوٹی قسم کھانا حرام نہیں بلکہ اگر غیر اللہ کی قسم ہو تو اگرچہ سچی ہو وہ بھی حرام ہے یہی وجہ ہے کہ اس تعلیم کے بعد حضرت مسیح کے حواری قسم کھانے سے باز نہیں آئے اور ظاہر ہے کہ حواری انجیل کا مطلب آتھم صاحب سے بہتر سمجھتے تھے اور ابتداء سے آج تک جواز قسم پر مسیحیوں کے اکثر فرقوں میں اتفاق چلا آیا ہے.پھر اب سوچنا چاہیئے کہ جبکہ پطرس نے قسم کھائی پولس نے قسم کھائی مسیحیوں کے خدا نے قسم کھائی فرشتوں نے قسم کھائی نبیوں نے قسمیں کھائیں اور تمام پادری ذرہ ذرہ مقدمہ پر قسمیں کھاتے ہیں پارلیمنٹ کے ممبر قسم کھاتے ہیں ہریک گورنر جنرل قسم کھا کر آتا ہے تو پھر آتھم صاحب ایسے ضروری وقت میں کیوں قسم نہیں کھاتے حالانکہ وہ خود اپنے اس اقرار سے کہ میں پیشگوئی کے بعد ضرور موت سے ڈرتا رہا ہوں ایسے الزام کے نیچے آگئے
ہیں کہ وہ الزام بجز قَسم کھانے کے کسی طرح ان کے سر پر سے اٹھ نہیں سکتا* کیونکہ ڈرنا جو رجوع کی ایک قِسم ہے ان کے اقرار سے ثابت ہوا پھر بعد اس کے وہ ثابت نہ کر سکے کہ وہ صرف قتل کئے جانے سے ڈرتے تھے نہ انہوں نے حملہ کرتے ہوئے کسی قاتل کو پکڑا نہ انہوں نے یہ ثبوت دیا کہ ان سے پہلے کبھی اس عاجز نے چند آدمیوں کا خون کر دیا تھا جس کی وجہ سے ان کے دل میں بھی دھڑکا بیٹھ گیا کہ اسی طرح میں بھی مارا جاؤں گا بلکہ اگر کوئی نمونہ ان کی نظر کے سامنے تھا تو بس یہی کہ ایک پیشگوئی موت کی یعنی مرزا احمد بیگ ہوشیارپوری کی موت ان کے سامنے ظہور میں آئی تھی لہٰذا جیسا کہ الہام الٰہی نے بتلایا ضرور وہ پیشگوئی کی عظمت سے ڈرے اور یہ بات روئداد موجودہ سے بالکل برخلاف ہے کہ وہ پیشگوئی کی صداقت تجربہ شدہ سے نہیں ڈرے بلکہ ہمارا خونی ہونا جو ایک تجربہ کے رو سے ایک تحقیقی امر تھا اس سے ڈر گئے پس اس الزام سے وہ بجز اس کے کیونکر بری ہوسکتے ہیں کہ بحیثیت ایک شاہد کے قسم کھائیں اور بموجب قول پولس رسول کے جو ہریک مقدمہ کی حد قسم ہے اس مشتبہ امر کا فیصلہ کر لیں لیکن یہ نہایت درجہ کی مکّاری اور بددیانتی ہے کہ قسم کی طرف تو رجوع نہ کریں اور یوں ہی حق پوشی کے طور پر جا بجا خط بھیجیں اور اخباروں میں چھپوائیں کہ میں عیسائی ہوں اور عیسائی تھا.اے صاحب! آپ کیوں خلق اللہ کو دھوکا دیتے ہیں آپ کی ان مدعیانہ تقریروں کو وہی لوگ قبول کریں گے جن کا شیطانی مادہ پہلے سے یہی چاہتا ہے کہ حق ظاہر نہ ہو ورنہ ہریک منصف عقلمند جانتا ہے کہ آپکا بیان صرف بحیثیت شاہد *نوٹ:الہامی پیشگوئی کی عظمت سے ڈرنا بموجب تصریح قرآن کریم اور بائبل کے رجوع میں داخل ہے اور رجوع عذاب میں تاخیر ڈالتا ہے اس پر قرآن اور بائبل دونوں کا اتفاق ہے.منہ
معتبر ہوسکتا ہے نہ ان فضول باتوں سے جو آپ شائع کر رہے ہیں دنیا میں عیسائی مذہب جھوٹ بولنے میں اول درجہ پر ہے جنہوں نے خدا کی کتابوں میں بھی بے ایمانی کرنے سے فرق نہیں کیا اور صدہا جعلی کتابیں بنالیں پس کیا ایک بھلا مانس ان کے مدعیانہ بیان کو قبول کرسکتا ہے ہرگز نہیں بلکہ اگر ایک شخص راست باز بھی ہو تو وہ ایک فریق مقدمہ بن کر اس بات کا ہرگز مستحق نہیں کہ اس کا بیان جو بحیثیت مدعی یا مدعا علیہ ہے اس طور سے قبول کیا جائے جیسا کہ گواہوں کے بیانات قبول کئے جاتے ہیں اور اگر ایسا ہوتا تو عدالتوں کو گواہوں کی کچھ بھی ضرورت نہ ہوتی.قانون شہادت میں ایک انگریز نے یہ بات خوب لکھی ہے کہ اگر فلاں تاجر نوٹ: ایک صاحب پشاور سے لکھتے ہیں کہ اگر عذاب کی پیشگوئی رجوع بدل کرنے سے ٹل جاتی ہے تو وہ ہرگز میعار صداقت نہیں ٹھہر سکتی اور اس پر تحدی نہیں ہوسکتی.مگر افسوس کہ وہ نہیں سمجھتے کہ عند اللہ انکار قسم بھی جب منکر پر قسم انصافاًواجب ہو ایک میعار صداقت ہے جس کو کتاب اللہ نے منکر پر حد شرعی جاری کرنے کے لئے معتبر سمجھا ہے پھر جس شخص نے چار ہزار روپیہ تک اتمام حجت کی رقم لے کر قسم کھانے کے لئے جرأت نہ کی تو کیا اس نے اپنے افعال سے ثابت نہ کردیا کہ ضرور اس نے رجوع بحق کیا تھا اور جس قانونی مطالبہ سے یعنی قسم سے ملزم نے سخت گریز کی تو کیا وہ معیار صداقت نہیں اور کیا وہ اب تک ایسا رجوع رہا جس پر کوئی بھی دلیل نہیں اور یہ کہنا کہ اب تک وہ انکار کئے جاتا ہے کیسی بدفہمی ہے اگر وہ حقیقی طور پر منکر ہوتا تو پھر ایسی قسم کے کھانے سے جس کا کھانا اس پر انصافاًواجب تھا کیوں گریز کرتا پس اس کا قسم نہ کھانا یہی اقرار ہے جس کو عقل سلیم سمجھتی ہے اور یہ کہنا کہ اس کی کوئی نظیر نہیں یہ دوسری نافہمی ہے.مماثلت کی نظیریں بتلا دی گئی ہیں غور سے پڑھو اور یہ کہنا کہ ایک جھوٹا بھی ایسی پیشگوئی موت کی کر کے آخر عدم وقوع کے وقت یہ عذر پیش کرسکتا ہے کہ دلی رجوع کے باعث عذاب ٹل گیا ہے یہ بھی انصاف اور تدبر سے بعید ہے بلکہ حق اور ایمان کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی اور شخص بھی ایسی ہی پیشگوئی کرے اور یہی تمام واقعات ہوں تو قانون انصاف سے بعید ہوگا کہ ایسے شخص کو ہم کاذب کہیں جس کا صدق ملزم کے گریز سے ظاہر ہو رہا ہو بلکہ جھوٹا وہی کہلائے گا جو اس مطالبہ سے گریز کرے جو انصافاًاس پر عائد ہوتا ہے(باقی اگلے صفحہ پر)
جو کروڑہا روپیہ کی مالی عزت رکھتا ہے اور صدہا روپیہ روز صدقہ کے طور پر دیتا ہے اگر کسی پر ایک پیسہ کا دعویٰ کرے تو گو وہ کیسا ہی متمول اور مخیر اور سخی سمجھا گیا ہے مگر بغیر کامل شہادت کے ڈگری نہیں ہوسکتی.تو اب بتلاؤ کہ آتھم صاحب کا یک طرفہ بیان جو صرف دعویٰ کے طور پر اغراض نفسانیہ سے بھرا ہوا اور روئیداد موجودہ کے مخالف ہے کیونکر قبول کیا جائے اور کون سی عدالت اس پر اعتماد کر سکتی ہے یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ صرف ہمارے الہام پر مدار نہیں رہا بلکہ آتھم صاحب نے خود موت کے خوف کا اقرار اخباروں میں چھپوا دیا اور جابجا خطوط میں اقرار کیا.اب یہ بوجھ آتھم صاحب کی گردن پر ہے کہ اپنے اقرار کو بے ثبوت نہ چھوڑیں بلکہ قسم کے طریق سے جو ایک سہل طریق ہے اور جو ہمارے نزدیک قطعی اور یقینی ہے ہمیں مطمئن کردیں کہ وہ پیشگوئی کی عظمت سے نہیں ڈرے بلکہ وہ فی الحقیقت ہمیں ایک خونی انسان یقین کرتے اور ہماری تلواروں کی چمک دیکھتے تھے اور ہم انہیں کچھ بھی تکلیف نہیں دیتے بلکہ اس قسم پر* چار ہزار روپیہ بشرائط اشتہار ۹؍ ستمبر ۱۸۹۴ ء و ۲۰؍ ستمبر ۱۸۹۴ ء ان کی نذر کریں گے اور ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ ان کا یہ عذر کہ مسیحیوں کو قسم کھانے کی ممانعت ہے سخت ہٹ دھرمی اور بے ایمانی ہے.کیا پطرس اور پولس اور بہت سے عیسائی راست باز جو اول زمانہ میں گذر چکے مسیحی نہیں تھے یا وہ بے ایمان تھے کیا آتھم صاحب اس گورنمنٹ میں کسی ایک بقیہ نوٹ: یعنی قسم نہ کھاوے پھر خدا تعالیٰ نے اس پیشگوئی کو صرف یہاں تک تو محدود نہیں رکھا اور اس کے کاموں میں عمیق حکمتیں اور مصالح ہیں اور انجام نمایاں فتح ہے پس ان پر افسوس جو جلد بازی سے اپنے ایمان اور عاقبت کو برباد کر رہے ہیں اور جس قدر ایک کسان مولی گاجر کا بیج بو کر ایک وقت تک مولیوں گاجروں کی انتظار کرتا ہے ان لوگوں میں اتنا بھی صبر نہیں.منہ *نوٹ: یہ چار ہزار روپیہ آتھم صاحب کی درخواست آنے کے بعد پانچ ہفتہ میں ان کے پاس حاضر کیا جائے گا.منہ
معزز عیسائی کا حوالہ دے سکتے ہیں جس نے شہادت کے لئے حاضر ہوکر قسم کھانے سے انکار کیا ہو.اب مناسب ہے کہ اگر آتھم صاحب کو بہرحال حیلہ سازی ہی پسند ہے اور کسی طرح قسم کھانا نہیں چاہتے تو اس عذر بے ہودہ کو اب چھوڑ دیں کہ قسم کھانا ممنوع ہے کیونکہ پورے طور پر ہم نے اس کی بیخ کنی کر دی ہے بلکہ چاہیئے کہ اپنے دجالوں کے مشورہ سے جان بچانے کے لئے کوئی نیا عذر پیش کریں اور نیم عیسائی یاد رکھیں کہ آتھم صاحب کبھی قسم نہیں کھائیں گے بلکہ اس عذر کو چھوڑ کر کوئی اور دجّالی حیلہ نکالیں گے کیونکہ ہماری نسبت وہ اپنے دل میں جانتے ہیں کہ ہم سچے اور ہمارا الہام سچا ہے لیکن کوئی عذر پیش نہیں جائے گا جب تک میدان میں آکر ہمارے روبرو آکر قسم نہ اٹھاویں یقیناً آتھم صاحب تمام پادریوں اور نیم عیسائیوں کے منہ پر سیاہی مل رہے ہیں جو قسم نہیں کھاتے.ایک عیسائی صاحب لکھتے ہیں کہ روپیہ دینا صرف لاف و گزاف ہے.یعنی آتھم صاحب قسم تو کھالیں مگر ان کو یہ دھڑکہ ہے کہ روپیہ نہیں ملے گا.سو یاد رہے کہ یہ بالکل فضول گوئی اور ڈوموں کی طرح صرف رندانہ کلام ہے ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم قسم کھانے سے پہلے باضابطہ تمسک لے کر حسب شرائط اشتہار ۹؍ستمبر ۱۸۹۴ ء و ۲۰ستمبر ۹۴ء کل روپیہ آتھم صاحب کے ضامنوں کے حوالہ کر دیں گے اور ہمیں منظور ہے کہ آتھم صاحب کے دو داماد ہیں جو معزز عہدوں پر ہیں ضامن ہو جائیں اگر ہم تکمیل تمسک کے بعد ایک طرفۃ العین کی بھی روپیہ دینے میں توقف کریں تو بلاشبہ ہم جھوٹے ٹھہریں گے اور ضامنوں کو اختیار ہوگا کہ ہمیں آتھم صاحب کی دہلیز میں پیر نہ رکھنے دیں جب تک بعد تکمیل تمسک روپیہ وصول نہ کرلیں اور ایسا انتظام ہوگا کہ دس معزز گواہ کے روبرو اور انکی وساطت سے روپیہ دیا جائے گا اور تمسک لیا جائے گا اور ان د۱۰س گواہوں کی اس تمسک پر شہادت ہوگی اور وہ تمسک
چند اخباروں میں چھپوا دیا جائے گا اور اس تمسک میں ضامنوں کی طرف سے یہ اقرار ہوگا کہ اگر تاریخ تمسک سے ایک سال تک پیشگوئی پوری نہ ہوئی اور آتھم صاحب صحیح و سالم رہے تو یہ کل روپیہ آتھم صاحب کی ملکیت ہو جائے گا.ورنہ ضامن کل روپیہ بلا توقف واپس کریں گے.اب آخر میں ہم پھر آتھم صاحب کو حضرت عیسیٰ مسیح کی عزت بطور سفارشی پیش کر کے اس زندہ خدا کی قسم دیتے ہیں.جو جھوٹوں اور سچوں کو خوب جانتا ہے کہ اس طریق تصفیہ کو ہرگز رد نہ کریں.وہ تو بقول خود ہمارا جھوٹا ہونا اور ہمارے الہام کا باطل ہونا اور مسیح کا معین و مددگار ہونا تجربہ کر چکے اب کیوں بعد تجربہ کے مرے جاتے ہیں اور بار بار کہتے ہیں کہ میری عمر قریب ۶۴ یا ۶۸ برس کی ہے اے صاحب بموجب قول ساٹھا پاٹھا کے آپ تو ابھی بچے ہیں کون سے بڑی عمر ہوگئی ہے.ماسوا اس کے ہم پوچھتے ہیں کہ کیا زندہ رکھنا خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں نہیں یہ کیسی بے ایمان قوم ہے جو اپنے تئیں سچا سمجھ کر پھر بھی خدا تعالیٰ پر توکل نہیں کرسکتی.دیکھو میری عمر بھی تو قریب ساٹھ برس کے ہے اور ہم اور آتھم صاحب ایک ہی قانون قدرت کے نیچے ہیں مگر میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ مقابلہ کے وقت ضرور مجھے زندہ رکھ لے گا کیونکہ ہمارا خدا قادر اور حیّ و قیّوم ہے مریم عاجزہ کے بیٹے کی طرح نہیں اور ہم اس اشتہار کے بعد پھر ایک ہفتہ تک انتظار کریں گے.اے ہماری قوم کے اندھو نیم عیسائیو کیا تم نے نہیں سمجھا کہ کس کی فتح ہوئی.کیا حق بجانب آدمی کی وہ نشانیاں ہیں جو آتھم صاحب ظاہر کر رہے ہیں یا یہ نشانیاں جو ان پُر ہیبت اور متواتر اشتہارات سے روشن ہو رہی ہیں.کیا یہ استقامت کسی جھوٹے میں آسکتی ہے جب تک خدا تعالیٰ اس کے ساتھ نہ ہو.اور اگر یہ کہو کہ یہ سب سچ مگر نشان کون سا ظاہر ہوا
تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں کہ اس پیشگوئی کے قوی اثر نشان کے طور پر ضرور فریق مخالف پر پڑے اور جیسا کہ شکست خوردہ لوگوں کا حال ہوتا ہے یہی برا حال اس جنگ مقدس میں ان کو پیش آیا اور چاروں صورتیں ذلت اور تباہی کی ان کو پیش آگئیں.اور ہنوز بس نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ میں بس نہیں کروں گا جب تک اپنے قوی ہاتھ کو نہ دکھلاؤں اور شکست خوردہ گروہ کی سب پر ذلت ظاہر نہ کروں.ہاں اس نے اپنی اس عادت اور سنت کے موافق جو اس کی پاک کتابوں میں مندرج ہے.آتھم صاحب کی نسبت تاخیر ڈال دی کیونکہ مجرموں کے لئے خدا کی کتابوں میں یہ ازلی وعدہ ہے جس کا تخلف روا نہیں کہ خوفناک ہونے کی حالت میں ان کو کسی قدر مہلت دی جاتی ہے اور پھر اصرار کے بعد پکڑے جاتے ہیں اور ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ اپنی پاک کتابوں کے وعدہ کا لحاظ رکھتا کیونکہ اس پر تخلف وعدہ جائز نہیں لیکن جو الہامی عبارات میں تاریخیں مقرر ہیں وہ کبھی ان سنت اللہ کے وعدوں سے جو قرآن میں درج ہیں برخلاف واقع نہیں ہو سکتیں کیونکہ کوئی الہام وحی الٰہی کے قرار دادہ شرائط سے باہر نہیں ہوسکتا.اب اگر آتھم صاحب قسم کھا لیویں تو وعدہ ایک سال قطعی اور یقینی ہے جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہیں اور تقدیر مبرم ہے اور اگر قسم نہ کھاویں تو پھر بھی خدا تعالیٰ ایسے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑے گا جس نے حق کا اخفا کر کے دنیا کو دھوکا دینا چاہا لیکن ہم اس موخر الذکر شق کی نسبت ابھی صرف اتنا کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اپنے نشان کو ایک عجیب طور پر دکھلانا ارادہ کیا ہے جس سے دنیا کی آنکھ کھلے اور تاریکی دور ہو اور وہ دن نزدیک ہیں دور نہیں مگر اس وقت اور گھڑی کا علم جب دیا جائے گا تب
اس کو شائع کر دیا جائے گا.والسلام علٰی من اتبع الہدٰی شیخ محمد حسین بٹالوی ہم کو ایک مخلص کے ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ بٹالوی صاحب نے اس پیشگوئی کے متعلق اور نیز اشتہار ۶؍ اکتوبر ۱۸۹۴ ء کے متعلق جو احمد بیگ کے داماد کی نسبت شائع کیا گیا تھا چند اعتراض کئے ہیں جن کا جواب مع تصریح اعتراض ذیل میں لکھتا ہوں قولہ بے چارہ عبد اللہ آتھم عیسائی ان کے مذہب میں قسم کھانا منع ہے لالچ کرنا منع ہے الجواب اگر قسم کھانا منع ہے تو پطرس نے کیوں قسم کھائی پولس نے کیوں قسم کھائی خود مسیح نے کیوں قسم کی پابندی کی انگریزی عدالتوں نے کیوں عیسائیوں کے لئے قسم مقرر کی بلکہ قانون کے رو سے دوسروں کے لئے اقرار صالح اور عیسائیوں کے لئے حلف ہے تحریف اور تلبیس یہود اور نصاریٰ کے عادات میں سے ہے لیکن نہ معلوم کہ ان مولویوں نے کیوں یہ عادات اختیار کر لئے سو اے اسلام کے دشمنو اِن خیانتوں سے باز آ جاؤ کیا یہودیوں کا انجام اچھا ہوا کہ تا تمہارا بھی نیک انجام ہو اور لالچ وہ حرص ہے جو دیانت اور دین کے برخلاف ہو پس جبکہ ہم انعام کے طور پر خود روپیہ پیش کرتے ہیں اور آتھم صاحب اپنی نفسانی خواہش سے نہیں مانگتے بلکہ ہم خود دیتے ہیں اور قسم کھانا ان کے مذہب میں نہ صرف جائز بلکہ لکھا ہے کہ جو قسم نہ کھاوے وہ جھوٹا ہے تو ایسے روپیہ کا لینا جو بغیر میل نفس کے ہے نوٹ: اگر میاں محمد حسین بٹالوی آتھم صاحب کی وکالت کر کے یہ رائے ظاہر کرتے ہیں کہ عیسائی مذہب میں قسم کھانا منع ہے تو ان پر واجب ہے کہ اب عیسائیوں کے مددگار بن کر اپنی اس ہذیان کا پورا پورا ثبوت دیں اور اس اشتہار کا رد لکھائیں ورنہ بجز اس کے اور کیا کہیں کہ لعنت اللّٰہ علی الکاذبین.
لالچ میں کیونکر داخل ہوا.قولہ یہ قرآن میں نہیں کہ عذاب کا وعدہ آیا اور کسی قدر خوف سے ٹل گیا الجواب تمام قرآن اس تعلیم سے بھرا پڑا ہے کہ اگر تو بہ و استغفار قبل نزول عذاب ہو تو وقت نزول عذاب ٹل جاتا ہے بائبل میں ایک بنی اسرائیل کے بادشاہ کی نسبت لکھا ہے کہ اس کی نسبت صاف طور پر وحی وارد ہوچکی تھی کہ پندرہ دن تک اس کی زندگی ہے پھر فوت ہو جائے گا لیکن اس کی دعا اور تضرع سے خدا تعالیٰ نے وہ پندرہ دن کا وعدہ پندرہ سال کے ساتھ بدلا دیا اور موت میں تاخیر ڈال دی.یہ قصہ مفسرین نے بھی لکھا ہے بلکہ اور حدیثیں اس قسم کی بہت ہیں جن کا لکھنا موجب طول ہے بلکہ علاوہ وعید کے ٹلنے کے جو کرم مولیٰ میں داخل ہے اکابر صوفیاء کا مذہب ہے جو کبھی وعدہ بھی ٹل جاتا ہے اور اس کا ٹلنا موجب ترقی درجات اہل کمال ہوتا ہے دیکھو فیوض الحرمین شاہ ولی اللہ صاحب اور فتوح الغیب سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہما * * نوٹ: ان بزرگوں نے جو عدم ایفاء وعدہ خدا تعالیٰ پر جائز رکھا ہے تو اس سے یہی مراد ہے کہ جائز ہے کہ جس بات کو انسان نے اپنے ناقص علم کے ساتھ وعدہ سمجھ لیا ہے وہ علم باری میں وعدہ نہ ہو بلکہ اس کے ساتھ ایسے مخفی شرائط ہوں جن کا عدم تحقق عدم تحقق وعدہ کیلئے ضروری ہو اور علامہ محقق سید علی بن سلیمان مغربی نے اپنی کتاب وشی الدیباج علٰی صحیح مسلم بن الحجاج کے صفحہ ۱۲۶ میں تحت حدیث یخشی ان تکون الساعۃ لکھا ہے.فانہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لکمال معرفتہ بربہ لا یری وجوب شیء علیہ تعالٰی ککون الساعۃ لا تقوم الا بعد تلک المقدمات ای خروج الدجال وغیرہ و ان وعد بہ.یعنی آنحضرت صلعم اپنے کمال معرفت کی وجہ سے قبل از قیامت ان علامات کا ظاہر ہونا ضروری نہیں سمجھتے تھے اور خدا تعالیٰ پر یہ حق واجب نہیں خیال کرتے تھے کہ اس کے وعدہ کے موافق دجال اور دآبۃ الارض اور مہدی موعود وغیرہ علامات موعودہ پوری ہوں پھر قیامت آوے بلکہ وہ اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ ممکن ہے کہ قیامت آ جائے اور ان علامتوں میں سے کوئی بھی ظاہر نہ ہو اور کسی قدر اسی کے موافق مواہب لدنیہ کی شرح میں لکھا ہے جو امام علامہ محمد بن عبد الباقی کی طرف سے ہے اور جواز نسخ اخبار کی طرف اشارہ کیا ہے دیکھو صفحہ ۴۵ شرح مذکور لیکن میرے نزدیک ان بزرگوں
اور وقتوں اور میعادوں کا ٹلنا تو ایک ایسی سنت اللہ ہے جس سے بجز ایک سخت جاہل کے اور کوئی انکار نہیں کرسکتا.دیکھو حضرت موسیٰ کو نزول توریت کے لئے تیس رات کا وعدہ دیا تھا اور کوئی ساتھ شرط نہ تھی مگر وہ وعدہ قائم نہ رہا اور اس پر دس دن اور بڑھائے گئے جس سے بنی اسرائیل گو سالہ پرستی کے فتنہ میں پڑے پس جبکہ اس نص قطعی سے ثابت ہے کہ خدا تعالیٰ ایسے وعدہ کی تاریخ کو بھی ٹال دیتا ہے جس کے ساتھ کسی شرط کی تصریح نہیں کی گئی تھی تو وعید کی تاریخ میں عند الرجوع تاخیر ڈالنا خود کرم میں داخل ہے اور ہم لکھ چکے ہیں کہ اگر تاریخ عذاب کسی کے توبہ استغفار سے ٹل جائے تو اس کا نام تخلف وعدہ نہیں کیونکہ بڑا وعدہ سنت اللہ ہے جبکہ سنت اللہ پوری ہوئی تو وہ ایفاء وعدہ ہوا نہ تخلف وعدہ * قولہ عذاب موت اگر استغفار سے ٹل جاتا ہے تو اس کی بقیہ حاشیہ: کا ہرگزیہ منشا نہیں ہوگا کہ آنحضرت صلعم وعدہ کو فی الحقیقت وعدہ سمجھ کر پھر جو ازعدم ایفائے وعدہ کے قائل تھے کیونکہ تخلف وعدہ ایک نقص ہے جو خدا تعالیٰ پر جائز نہیں بلکہ آنحضرت صلعم یہ سمجھتے ہوں گے کہ خروج دجال اور ظہور مہدی وغیرہ یہ سب مواعید تو برحق ہیں لیکن ممکن ہے کہ انکے ظہور کے لئے شرائط ہوں جن کے عدم سے یہ بھی حیز عدم میں رہیں اور یاممکن ہے کہ ایسے طور سے یہ وعدے ظہور میں آجائیں کہ ان پر اطلاع بھی نہ ہو.کیونکہ سنت اللہ میں پیشگوئیوں کے ظہور کے لئے کوئی ایک طور اور طریق مقرر نہیں ہے کبھی اپنے ظاہری معنوں پر پوری ہوتی ہیں اور کبھی تاویلی طورپر.ہاں آنحضرت صلعم کے اس طریق اتقاء سے یہ ثابت ہوگیا کہ اس زمانہ کے علماء کس قدر اس تقویٰ کے طریق سے دور جا پڑے ہیں.منہ *حاشیہ: اگر بے چارے شیخ بٹالوی کے دل کو دھڑکا پکڑتا ہو کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ۱ اور تاریخ مقررہ کی کمی بیشی کرنا تخلف وعدہ کی ایک جز ہے تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ وعدہ سے مراد وہ امر ہے جو علم الٰہی میں بطور وعدہ قرار پاچکا ہے نہ وہ امر جو انسان اپنے خیال کے مطابق اس کو
نظیر دو الجواب اے نادان اس کی نظیر قرآن آپ دیتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے۱ الجزو نمبر ۱۱.اب ظاہر ہے کہ ان آیات کا حاصل مطلب یہی ہے کہ جب بعض گنہگاروں کو ہلاک کرنے کے لئے خدا تعالیٰ اپنے قہری ارادہ سے اس دریا میں صورت طوفان پیدا کرتا ہے جس میں ان لوگوں کی کشتی ہو تو پھر ان کی تضرع اور رجوع پر ان کو بچا لیتا ہے حالانکہ جانتا ہے کہ پھر وہ مفسدانہ حرکات بقیہ حاشیہ: قطعی وعدہ خیال کرتا ہو اسی وجہ سے المیعاد پر جو الف لام ہے وہ عہد ذہنی کی قسم میں سے ہے یعنی وہ امر جو ارادہ قدیمہ میں وعدہ کے نام سے موسوم ہے گو انسان کو اس کی تفاصیل پر علم ہو یا نہ ہو.وہ غیر متبدل ہے ورنہ ممکن ہے جو انسان جس بشارت کو وعدہ کی صورت میں سمجھتا ہے اس کے ساتھ کوئی ایسی شرط مخفی ہو جس کا عدم تحقق اس بشارت کے عدم تحقق کے لئے ضرور ہو کیونکہ شرائط کا ظاہر کرنا اللہ جلّ شانہٗپر حق واجب نہیں ہے چنانچہ اسی بحث کو شاہ ولی اللہ صاحب نے بسط سے لکھا ہے اور مولوی عبد الحق صاحب دہلوی نے بھی فتوح الغیب کی شرح میں اس میں بہت عمدہ بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ آنحضرت صلعم کا بدر کی لڑائی میں تضرع اور دعا کرنا اسی خیال سے تھا کہ الٰہی مواعید اور بشارات میں احتمال شرط مخفی ہے اور یہ اس لئے سنت اللہ ہے کہ تا اس کے خاص بندوں پر ہیبت اور عظمت الٰہی مستولی ہو.پس ماحصل کلام یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے وعدوں میں بے شک تخلف نہیں وہ جیسا کہ خدا تعالیٰ کے علم میں ہیں پورے ہو جاتے ہیں لیکن انسان ناقص العقل کبھی ان کو تخلف کی صورت میں سمجھ لیتا ہے کیونکہ بعض ایسی مخفی شرائط پر اطلاع نہیں پاتا جو پیشگوئی کو دوسرے رنگ میں لے آتے ہیں.اور ہم لکھ چکے ہیں کہ الہامی پیشگوئیوں میں یہ یاد رکھنے کے لایق ہے کہ وہ ہمیشہ ان شرایط کے لحاظ سے پوری ہوتی ہیں جو سنت اللہ میں اور الٰہی کتاب میں مندرج ہوچکی ہیں گو وہ شرائط کسی ولی کے الہام میں ہوں یا نہ ہوں.منہ
میں مشغول ہوں گے.کیا اس طوفان سے یہ غرض ہوتی ہے کہ کشتی والوں کو صرف خفیف خفیف چوٹیں لگیں مگر ہلاک نہ ہوں اے شیخ ذرا شرم کرنا چاہیئے اس قدر عقل کیوں ماری گئی کہ نصوص بدیہیہ سے انکار کئے جاتے ہو قولہیونس کا وعدہ بھی شرطیہ تھا الجواب فتح البیان اور ابن کثیر اور معالم کو دیکھو یعنی سورۃ الانبیاء سورہ یونس اور والصافات کی تفسیر پڑھو اور تفسیر کبیر صفحہ ۱۸۸ سے غور سے پڑھو تا معلوم ہو کہ ابتلا کی وجہ کیا تھی یہی تو تھی کہ حضرت یونس قطعی طور پر عذاب کو سمجھے تھے اگر کوئی شرط منجانب اللہ ہوتی تو یہ ابتلا کیوں آتا.چنانچہ صاحب تفسیر کبیر لکھتا ہے انھم لما لم یؤمنوا اوعدھم بالعذاب فلما کشف العذاب منھم بعد ما توعدھم خرج منھم مغاضبا یعنی یونس نے اس وقت عذاب کی خبر سنائی جبکہ اس قوم کے ایمان سے نومید ہوچکا پس جبکہ عذاب ان پر سے اٹھایا گیا تو غضب ناک ہوکر نکل گیا پس ان تفسیروں سے اصل حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ اول یونس نے اس قوم کے ایمان کے لئے بہت کوشش کی اور جبکہ کوشش بے سود معلوم ہوئی اور یاس کلی نظر آئی تو انہوں نے خدا تعالیٰ کی وحی سے عذاب کا وعدہ دیا جو تین دن کے بعد نازل ہوگا اور صاحب تفسیر کبیر نے جو پہلا قول نقل کیا ہے اس کے سمجھنے میں نادان شیخ نے دھوکا کھایا ہے اور نہیں سوچا کہ اس کے آگے صفحہ ۱۸۸ میں وہ عبارت لکھی ہے جس سے ثابت ہوا ہے کہ عذاب موت کی پیشگوئی بلا شرط تھی اور یہی آخری قول قول مفسرین اور ابن مسعود اور حسن اور شعبی اور سعید بن جبیر اور وہب کا ہے.پھر ہم کہتے ہیں کہ جس حالت میں وعدہ کی تاریخ ٹلنا نصوص قرآنیہ قطعیہ یقینیہ سے ثابت ہے جیسا کہ آیت ۱.اس کی شاہد ناطق ہے تو وعید کی تاریخیں جو نزول عذاب پر دال ہوتی ہیں جس کا ٹلنا اور رد بلا ہونا توبہ اور استغفار اور
صدقات سے باتفاق جمیع انبیاء علیہم السلام ثابت ہے پس ان تاریخوں کا ٹلنا بوجہ اولیٰ ثابت ہوا اور اس سے انکار کرنا صرف سفیہ اور نادان کا کام ہے نہ کسی صاحب بصیرت کا.اور صاحب تفسیر کبیر اپنی تفسیر کے صفحہ ۱۶۴ میں لکھتے ہیں ان ذنبہ یعنی ذنب یونس کان لان اللّٰہ تعالٰی وعدہ انزال الاھلاک بقومہ الذین کذبوہ فظن انہ نازل لا محالۃ فلاجل ھذا الظن لم یصبر علٰی دعاءھم فکان الواجب علیھم ان یستمر علی الدعاء لجواز ان لا یھلکھم اللّٰہ بالعذاب یعنی یونس کا یہ گناہ تھا کہ اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ وعدہ ملا تھا کہ اس کی قوم پر ہلاکت نازل ہوگی کیونکہ انہوں نے تکذیب کی پس یونس نے سمجھ لیا کہ یہ عذاب موت قطعی اور اٹل ہے اور ضرور نازل ہوگا اسی ظن سے وہ دعا ہدایت پر صبر نہ کرسکا اور واجب تھا کہ دعا ہدایت کی کئے جاتا کیونکہ جائز تھا کہ خدا دعاء ہدایت قبول کر لے اور ہلاک نہ کرے.اب بولو شیخ جی کیسی صفائی سے ثابت ہوگیا کہ یونس نبی وعدہ اہلاک کو قطعی سمجھتا تھا اور یہی اس کے ابتلا کا موجب ہوا کہ تاریخ موت ٹل گئی.اور اگر اس پر کفایت نہیں تو دیکھو امام سیوطی کی تفسیر دُر منثور سور ہ انبیاء قال اخرج ابن ابی حاتم عن ابن عباس قال لما دعا یونس علی قومہ اوحی اللّٰہ الیہ ان العذاب یصبحھم.....فلما رأوہ جاروا الی اللّٰہ و بکی النساء والولدان ورغت الا بل وفصلانہا وخارت البقر وعجاجیلہا ولغت الغنم و سخالہا فرحمھم اللّٰہ وصرف ذلک العذاب عنھم وغضب یونس وقال کذبت فھو قولہ اذ ذھب مغاضبا.یعنی ابن ابی حاتم نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ جبکہ یونس نے اپنی قوم پر بددعا کی سو خدا تعالیٰ نے اس کی طرف وحی بھیجی کہ صبح ہوتے ہی عذاب نازل ہوگا پس جبکہ
قوم نے عذاب کے آثار دیکھے تو خدا تعالیٰ کی طرف تضرع کیا اور عورتیں اور بچے روئے اور اونٹنیوں نے ان کے بچوں کے سمیت اور گائیوں نے ان کے بچھڑوں کے سمیت اور بھیڈ بکری نے ان کے بزغالوں کے سمیت خوف کھا کر شور مچایا.پس خدا تعالیٰ نے ان پر رحم کیا اور عذاب کو ٹال دیا اور یونس غضب ناک ہوا کہ مجھے تو عذاب کا وعدہ دیا گیا تھا یہ قطعی وعدہ کیوں خلاف واقعہ نکلا.پس یہی اس آیت کے معنے ہیں کہ یونس غضب ناک ہوا.اب دیکھو کہ یہاں تک یونس پر ابتلا آیا کہ کذبت اس کے منہ سے نکل گیا یعنی مجھ پر کیوں ایسی وحی نازل ہوئی جس کی پیشگوئی پوری نہ ہوئی اگر کوئی شرط اس وعدہ کے ساتھ ہوتی تو یونس باوجود یکہ اس کو خبر پہنچ چکی تھی کہ قوم نے حق کی طرف رجوع کر لیا کیوں یہ بات منہ پر لاتا کہ میری پیشگوئی خلاف واقعہ نکلی.اور اگر کہو کہ یونس کو ان کے ایمان اور رجوع کی خبر نہیں پہنچی تھی اور اس وہم میں تھا کہ باوجود کفر پر باقی رہنے کے عذاب سے بچ گئے اس لئے اس نے کہا کہ میری پیشگوئی خلاف واقعہ نکلی سو اس کا دندان شکن جواب ذیل میں لکھتا ہوں جو سیوطی نے زیر آیت وان یونسالخ لکھا ہے قال واخرج ابن جریر وابن ابی حاتم عن ابن عباس قال بعث اللّٰہ یونس الی اھل قریۃ فردوا علیہ فامتنعوا منہ فلما فعلوا ذلک اوحی اللّٰہ الیہ انی مرسل علیھم العذاب فی یوم کذا وکذا فخرج من بین اظھرھم فاعلم قومہ الذی وعدھم اللہ من عذابہ ایاھم...فلما کانت اللیلۃ التی وعد العذاب فی صبیحتہا فراٰہ القوم فحذروا فخرجوا من القریۃ الی براز من ارضہم و فرقوا کل دابۃ و ولدھا ثم عجوا الی اللّٰہ وانابوا واستقالوا فاقالھم اللّٰہ وانتظر یونس الخبر عن القریۃ واھلہا حتی مر بہ مار فقال ما فعل اھل القریۃ قال فعلوا ان یخرجوا الی براز من الارض ثم فرقوا بین کل ذات
ولد و ولدھا ثم عجوا الی اللّٰہ وانابوا فقبل منھم و اُخّر عنھم العذاب فقال یونس عند ذٰلک لا ارجع الیھم کذابا و مضی علی وجہ.یعنی ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس سے یہ حدیث لکھی ہے کہ خدا نے یونس نبی کو ایک بستی کی طرف مبعوث کیا پس انہوں نے اس کی دعوت کو نہ مانا اور رک گئے سو جبکہ انہوں نے ایسا کیا تو خدا تعالیٰ نے یونس کی طرف وحی بھیجی کہ میں فلاں دن میں ان پر عذاب نازل کروں گا سو یونس نے اس قوم کو اچھی طرح سمجھا دیا کہ فلاں تاریخ کو تم پر عذاب نازل ہوگا اور ان میں سے نکل گیا پس جبکہ وہ رات آئی جس کی صبح کو عذاب نازل ہونا تھا سو قوم نے عذاب کے آثار دیکھے سو وہ ڈر گئے اور اپنی بستی سے ایک وسیع میدان میں نکل آئے جو انہیں کی زمین کی حدود میں تھا اور ہریک جانور کو اس کے بچے سے علیحدہ کر دیا یعنی رحیم خدا کے رجوع دلانے کے لئے یہ حیلہ سازی کی جو شیر خوار بچوں کو خواہ وہ انسانوں کے تھے یا حیوانوں کے ان کی ماؤں سے علیحدہ پھینک دیا اور اس مفارقت سے ایک قیامت کا شور اس میدان میں برپا ہوا ماؤں کو ان کے شیر خوار بچوں کو جنگل میں دور ڈالنے سے سخت رقت طاری ہوئی اور اس طرف بچوں نے بھی اپنی پیاری ماؤں سے علیحدہ ہوکر اور اپنے تئیں اکیلے پاکر درد ناک شور مچایا اور اس کارروائی کے کرتے ہی سب لوگوں کے دل درد سے بھر گئے اور نعرے مار مار کر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف تضرع کیا اور اس سے معافی چاہی تب رحیم خدا نے جس کی رحمت سبقت لے گئی ہے یہ حال زار ان کا دیکھ کر ان کو معاف کر دیا اور ادھر حضرت یونس عذاب کے منتظر تھے اور دیکھتے تھے کہ آج اس بستی اور اس کے لوگوں کی کیا خبر آتی ہے یہاں تک کہ ایک رہ گزر مسافر ان کے پاس پہنچ گیا انہوں نے پوچھا کہ اس بستی کا کیا حال ہے اس نے کہا کہ انہوں نے یہ کاروائی کی کہ اپنی زمین کے ایک
وسیع میدان میں نکل آئے اور ہریک بچہ کو اس کی ماں سے الگ کر دیا.پھر اس دردناک حالت میں ان سب کے نعرے بلند ہوئے اور تضرع کی اور رجوع کیا سو خدا تعالیٰ نے ان کی تضرع کو قبول کر لیا اور عذاب میں تاخیر ڈال دی پس یونس نے ان باتوں کو سن کر کہا کہ جبکہ حال ایسا ہوا یعنی جبکہ ان کی توبہ منظور ہوگئی اور عذاب ٹل گیا تو میں کذّاب کہلا کر ان کی طرف نہیں جاؤں گا*.سو وہ تکذیب سے ڈر کر اس ملک * نوٹ : یونہ یعنی یونس نبی کی کتاب میں جو بائبل میں موجود ہے باب ۳ آیت ۴ میں لکھا ہے اور یونہ شہر میں (یعنی نینوہ میں) داخل ہونے لگا.اور ایک دن کی راہ جا کے منادی کی اور کہا چالیس اور دن ہوں گے تب نینوہ برباد کیا جائے گا.۵ تب نینوہ کے باشندوں نے خدا پر اعتقاد کیا اور روزہ کی منادی کی اور سب نے چھوٹے بڑے تک ٹاٹ پہنا.۱۰.اور خدا نے ان کے کاموں کو دیکھا کہ وہ اپنی بُری راہ سے باز آئے تب خدا اس بدی سے جو اس نے کہی تھی کہ میں ان سے کروں گا پچھتا کے باز آیا اور اس نے ان سے وہ بدی نہ کی.باب ۴ پر یونہ اس سے ناخوش ہوا اور نپٹ رنجیدہ ہوگیا.۲ اور اس نے خداوند کے آگے دعا مانگی.۳ اب اے خداوند میں تیری منت کرتا ہوں کہ میری جان کو مجھ سے لے لے کیونکہ میرا مرنا میرے جینے سے بہتر ہے.تمّ کلامہٗ.اب اے شیخ جی ذرا آنکھیں کھول کر دیکھو کہ یونس نبی کی کتاب سے بھی قطعی طور پر ثابت ہوگیا کہ موت کا عذاب ٹل گیا اور یہ بھی یقینی طور پر ثابت ہوگیا کہ اس پیشگوئی میں کوئی شرط نہ تھی اسی لئے تو یونس نے رنجیدہ ہوکر دعا کی کہ اب میرا مرنا بہتر ہے شیخ جی اب تو آپ ہریک پہلو سے قابو میں آگئے.آپ عام جلسہ میں بمقام لاہور عہد کر چکے ہو کہ میں اس بات کی قسم کھاؤں گا کہ موت کا عذاب نہیں ٹلتا.اب قسم کھاویں تا خدا تعالیٰ جھوٹے کو واصل جہنم کرے ورنہ یہ سخت بے ایمانی ہوگی کہ قسم کھانے کا عہد کر کے پھر توڑ دیا جاوے اور اگر آپ نے قسم نہ کھائی تو یہی سمجھا جائے گا کہ صرف دو سو روپیہ کے طمع نفسانی نے آپ میں یہ جوش پیدا کر دیا تھا اور پھر جب قسم کھانے کی کوئی راہ نہ دیکھی تو اندر ہی اندر وہ جوش تحلیل پاگیا اور بجائے اس کے اپنی بے وقوفی پر ایک ندامت باقی رہ گئی مگر کیا تعجب کہ پھر بھی قسم کھا لو.کیونکہ بے ایمان آدمی پاک نوشتوں کی بھی کچھ بھی پرواہ نہیں رکھتا اور دہریہ پن کی رگ سے(باقی اگلے صفحہ پر)
سے نکل گیا.اب فرمایئے شیخ جی ابھی تسلی ہوئی یا کچھ کسر ہے ظاہر ہے کہ اگر وحی قطعی عذاب کی نہ ہوتی اور کوئی دوسرا پہلو ایمان لانے کا قوم کو بتلایا ہوتا تو وہ میدان میں ایسی درد ناک صورت اپنی نہ بناتے بلکہ شرط کے ایفاء پر عذاب ٹل جانے کے وعدہ پر مطمئن ہوتے ایسا ہی اگر حضرت یونس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے علم ہوتا کہ ایمان لانے سے عذاب ٹل جائے گا تو وہ کیوں کہتے کہ اب میں اس قوم کی طرف نہیں جاؤں گا کیونکہ میں ان کی نظر میں کذّاب ٹھہر چکا جبکہ وہ سن چکے تھے کہ قوم نے توبہ کی اور ایمان لے آئی پس اگر یہ شرط بھی ان کی وحی میں داخل ہوتی تو ان کو خوش ہونا چاہیئے تھا کہ پیشگوئی پوری ہوئی نہ یہ کہ وہ وطن چھوڑ کر ایک بھاری مصیبت میں اپنے تئیں ڈالتے قرآن کا لفظ لفظ اسی پر دلالت کررہا ہے کہ وہ سخت ابتلا میں پڑے اور حدیث نے کیفیت ابتلا کی یہ بتلائی پس اب بھی اگر کوئی شیخ و شاب منکر ہو تو یہ صریح اس کی گردن کشی ہے.اور ہم اس مضمون کو اس پر ختم کرتے ہیں کہ اگر ہم سچے ہیں تو خدا تعالیٰ ان پیشگوئیوں کو پورا کر دے گا اور اگر یہ باتیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہیں تو ہمارا انجام نہایت بدہوگا اور ہرگز یہ پیشگوئیاں پوری نہیں ہوں گی.33.۱ اور میں بالآخر دعا کرتا ہوں کہ اے خدائے قادر و علیم اگر آتھم کا عذاب مہلک میں گرفتار ہونا اور احمد بیگ کی دختر کلاں کا آخر اس عاجز کے نکاح میں آنا یہ پیشگوئیاں تیری طرف سے ہیں تو ان کو ایسے طور پر ظاہر فرما جو خلق اللہ پر حجت ہو اور کور باطن حاسدوں کا منہ بند بقیہ حاشیہ:اپنے انجام کو نہیں سوچتا اور یاد رہے کہ اس معافی سے عیسائیوں کے کفارہ کی بھی بیخ کنی ہوگئی کیونکہ یونس کی قوم صرف اپنی توبہ اور استغفار سے بچ گئی اور یونس تو یہی چاہتا تھا کہ ان پر عذاب نازل ہو.منہ
ہو جائے.اور اگر اے خداوند یہ پیشگوئیاں تیری طرف سے نہیں ہیں تو مجھے نامرادی اور ذلت کے ساتھ ہلاک کر اگر میں تیری نظر میں مردود اور ملعون اور دجال ہی ہوں جیسا کہ مخالفوں نے سمجھا ہے اور تیری وہ رحمت میرے ساتھ نہیں جو تیرے بندہ ابراہیم کے ساتھ اور اسحاق کے ساتھ اور اسمٰعیل کے ساتھ اور یعقوب کے ساتھ اور موسیٰ کے ساتھ اور داؤد کے ساتھ اور مسیح ابن مریم کے ساتھ اور خیر الانبیاء محمد صلعم کے ساتھ اور اس امت کے اولیاء کرام کے ساتھ تھی تو مجھے فنا کر ڈال اور ذلتوں کے ساتھ مجھے ہلاک کر دے اور ہمیشہ کی لعنتوں کا نشانہ بنا اور تمام دشمنوں کو خوش کر اور ان کی دعائیں قبول فرما لیکن اگر تیری رحمت میرے ساتھ ہے اور توہی ہے جس نے مجھ کو مخاطب کر کے کہا انت وجیہ فی حضرتی اخترتک لنفسی اور تو ہی ہے جس نے مجھ کو مخاطب کر کے کہا.یحمدک اللہ من عرشہ اور تو ہی ہے جس نے مجھ کو مخاطب کر کے کہا.یا عیسی الذی لا یضاع وقتہ اور تو ہی ہے جس نے مجھ کو مخاطب کر کے کہا.الیس اللّٰہ بکاف عبدہ اور توہی ہے جس نے مجھ کو مخاطب کرکے کہا.قل انی امرت و انا اول المؤمنین اور تو ہی ہے جو غالباً مجھے ہر روز کہتا رہتا ہے انت معی و انا معک تو میری مدد کر اور میری حمایت کے لئے کھڑا ہو جا و انی مغلوب فانتصر.راقم خاکسار غلام احمد ازقادیان ضلع گورداسپور ۲۷؍ اکتوبر ۱۸۹۴ ء (تعداد اشاعت ۴۰۰۰) ریاض ہند امرتسر
ٹائیٹل طبع اوّل