Language: UR
یہ کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پادری ڈیپٹی عبداللہ آتھم کی وفات پر تالیف فرمائی جو ۲۷؍جولائی۱۸۹۶ء کو بمقام فیروزپور واقع ہوئی۔ اس کتاب میں آپ نے آتھم سے متعلقہ پیشگوئی پر روشنی ڈالی اور عیسائیوں، مسلمان علماء ،صوفیاء اور سجادہ نشینوں کو مباہلہ کے لیے دعوت دی اور عربی زبان میں ایک مکتوب باعمل اہل علم اور فقراء منقطعین کے نام لکھا جس میں آپ نے تائیدات الہیہ اور ان نشانوں کا ذکر فرمایا جو اللہ تعالی نے آپ کو عطا فرمائے۔ اسی طرح ضمیمہ انجام آتھم میں آپ نے بزبان اردو نشانات کا ذکر فرماتے ہوئے اپنے تین سو تیرہ (۳۱۳) اصحاب کی فہرست لکھی ہے جو حدیث نبویؐ کی اس پیشگوئی کو پورا کرنے والی ہے کہ مہدی کے پاس ایک کتاب میں بدری اصحاب کی تعداد کے مطابق ۳۱۳؍ اصحاب کے نام لکھے ہوئے ہوں گے۔
ترتیب روحانی خزائن جلد ۱۱
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہٖ الکریم تعارف (از حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس) روحانی خزائن کی یہ گیارھویں جلد ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’’‘‘ مع ضمیمہ پر مشتمل ہے.یہ کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پادری ڈپٹی عبداﷲ آتھم کی وفات پر تالیف فرمائی جو ۲۷؍ جولائی ۱۸۹۶ء کو بمقام فیروز پور واقع ہوئی.اِس کتاب میں آپ نے آتھم سے متعلقہ پیشگوئی پر روشنی ڈالی ہے اور عیسائیوں، مسلمان علماء، صوفیاء اور سجادہ نشینوں کو مباہلہ کے لئے دعوت دی ہے اور عربی زبان میں ایک مکتوب باعمل اہلِ علم اور فقراء منقطعین کے نام لکھا ہے جس میں آپ نے تائیداتِ الٰہیہ اور ان نشانوں کا ذکر فرمایا ہے جو اﷲ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائے.اِسی طرح ضمیمہ میں آپ نے بزبان اردو نشانات کا ذکر فرماتے ہوئے اپنے تین سو تیرہ (۳۱۳) اصحاب کی فہرست لکھی ہے جو حدیث نبویؐ کی اس پیشگوئی کو پورا کرنے والی ہے کہ مہدی کے پاس ایک کتاب میں بدری اصحاب کی تعداد کے مطابق ۳۱۳ ؍اصحاب کے نام لکھے ہوئے ہوں گے.پیشگوئی متعلقہ آتھم روحانی خزائن جلد ششم کے پیش لفظ میں جنگ مقدس کے کوائف کا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور پادریوں کے درمیان ہوئی ذکر کر کے ہم نے لکھا تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کے نتیجہ میں آپ کو جو
نشان دیا اُس کی تفصیل ہم کتاب کی اشاعت کے وقت لکھیں گے.جنگِ مقدس یعنی مباحثہ کے آخری دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا:.’’ آج رات جو مجھ پر کھلا وہ یہ ہے کہ جبکہ میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے جناب الٰہی میں دُعا کی کہ تُو اِس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے ہیں.تیرے فیصلہ کے سوا کچھ نہیں کر سکتے تو اُس نے مجھے یہ نشان بشارت کے طور پر دیا ہے کہ اِس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچّے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی ۱۵ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے گا اور اُس کو سخت ذلّت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اور سچے خدا کو مانتا ہے اُس کی اس سے عزّت ظاہر ہو گی.‘‘ (جنگِ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ ، صفحہ ۲۹۱، ۲۹۲) اِس پیشگوئی کے اعلان پر یہ پندرہ دن کی جنگِ مقدس ختم ہو گئی اور اِس پیشگوئی کے نتیجہ کا لوگ انتظار کرنے لگے.اور اﷲ تعالیٰ کا چونکہ منشا تھا کہ اِس نشان کو ایک عظیم الشان صورت میں ظاہر کرے اور اُس کی صورت یوں ہوئی کہ جب پیشگوئی کی میعاد پندرہ ماہ (از ۵؍ جون ۱۸۹۳ء تا ۵ ؍ ستمبر ۱۸۹۴ء) ختم ہو گئی اور عبداﷲ آتھم جو اس جنگ مقدس میں مناظر تھا مطابق پیشگوئی رجوع الی الحق کرنے کی وجہ سے نہ مرا تو عیسائیوں نے اُسے عیسائیت کی اسلام پر فتح قرار دیا.اور چھ ستمبر کو انہوں نے امرتسر میں ایک جلوس بھی نکالا.اور اُن کی خوشی منانے میں بعض نادان علماء اور اُن کے تابع نام کے مسلمان بھی شریک ہوئے.اور ادھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میعاد گذرتے ہی ۶؍ ستمبر ۱۸۹۴ء کو رسالہ ’’انوار الاسلام‘‘ شائع فرمایا جس میں آپ نے یہ تحریر فرمایا کہ یہ پیشگوئی خدا تعالیٰ کے ارادہ اور حکم کے موافق نہایت صفائی سے میعاد کے اندر پوری ہو گئی.اور اگر عبداﷲ آتھم کا دل جیسا کہ پہلے تھا ویسا ہی توہین اور تحقیرِ اسلام پر قائم رہتا اور اسلامی عظمت کو قبول کر کے حق کی طرف رجوع کرنے کا کوئی حصّہ نہ لیتا تو اس میعاد کے اندر اُس کی زندگی کا خاتمہ ہو جاتا.لیکن خدا تعالیٰ کے الہام نے مجھے جتلا دیا کہ ڈپٹی عبداﷲ آتھم نے اسلام کی عظمت اور اس کے رُعب کو تسلیم کر کے حق کی طرف رجوع کرنے کا کسی قدر حصّہ لیا.جس حصّہ نے اُس کے وعدۂ موت اور کامل طور کے ہاویہ میں تاخیر ڈال دی اور ہاویہ میں تو گرا لیکن اس بڑے ہاویہ سے تھوڑے دنوں کے لئے بچ گیا جس کا نام موت
ہے اورپیشگوئی ’’بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے‘‘ کا فقرہ بے فائدہ نہ تھا.اِس لئے جس قدر اُس نے رجوع کیا اُس کا اُسے فائدہ پہنچ گیا.پس فتح اسلام کی ہوئی اور عیسائیوں کو ذلّت اور ہاویہ نصیب ہوا.اور اﷲ تعالیٰ نے آتھم کے رجوع کے متعلّق جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اطلاع د ی وہ یہ تھی:.’’اِطَّلَعَ اللّٰہُ عَلٰی ہَمِّہٖ وَ غَمِّہٖ.وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اﷲِ تَبْدِیْلًا وَلَاتَعْجَبُوْا وَلَاتَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنْیِنَ وَبِعِزَّتِیْ وَجَلَالِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی.وَ نُمَزِّقُ الْاَعْدَآءَ کُلَّ مُمَزَّقٍ.وَ مَکْرُ اُوْلٰءِکَ ھُوَ یَبُوْرُ.اِنَّا نَکْشِفُ السِّرَّ عَنْ سَاقِہٖ یَوْمَءِذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ.‘‘ (انوار الاسلام روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۲) ’’ترجمہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس (آتھم.ناقل) کے ہمّ و غم پر اطلاع پائی اور اُس کو مہلت دی جب تک کہ وہ بے باکی اور سخت گوئی اور تکذیب کی طرف میل کرے اور خدا تعالیٰ کے احسان کو بھلا دے.......اورپھر فرمایاکہ خدا تعالیٰ کی یہی سنّت ہے...عادت اﷲ اسی طرح پر جاری ہے...اگر دل کے کسی گوشہ میں بھی کچھ خوف الٰہی مخفی ہو اور کچھ دھڑکا شروع ہو جائے تو عذابِ الٰہی نازل نہیں ہوتا.‘‘ اور جماعت کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا.’’تعجب مت کرو اور غمناک مت ہو اور غلبہ تُمہیں کو ہے.اگر تم ایمان پر قائم رہو...مجھے میری عزّت اور جلال کی قسم ہے کہ تُو ہی غالب ہے...ہم دشمنوں کو پارہ پارہ کر دیں گے یعنی اُن کو ذلّت پہنچے گی اور اُن کا مکر ہلاک ہو جائے گا...اور خدا تعالیٰ بس نہیں کرے گا اور نہ باز آئے گا جب تک دشمنوں کے تمام مکروں کی پردہ دری نہ کرے اور اُن کے مکر کو ہلاک نہ کر دے......پھر فرمایا کہ ہم اصل بھید کو اس کی پنڈلیوں میں سے ننگا کر کے دکھا دیں گے...اُس دن مومن خوش ہوں گے.‘‘ (انوار الاسلام روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۲،۳) نیز حضورؑ نے فرمایا :.’’یہ تو مسٹر عبداللہ آتھم کا حال ہوا مگر اس کے باقی رفیق بھی جو فریق بحث کے لفظ میں داخل تھے اور جنگ مقدس کے مباحثہ سے تعلق رکھتے تھے خواہ وہ تعلق اعانت کا تھا یا بانی کار ہونے کا یا مجوز بحث یا حامی ہونے کا یا سرگروہ ہونے کا ان میں سے کوئی بھی اثر ہاویہ سے خالی نہ رہا‘‘.(انوار الاسلام روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۸) مثلاً:.
۱.اوّل خدا تعالیٰ نے پادری رائٹ کو لیا جودراصل اپنے رتبہ اور منصب کے لحاظ سے اس جماعت کا سرگروہ تھا اور وہ عین جوانی میں ایک ناگہانی موت سے اس جہان سے گذر گیا اور خدا تعالیٰ نے اس کی بے وقت موت سے ڈاکٹر مارٹن کلارک اور ایسا ہی اس کے دوسرے تمام دوستوں اور عزیزوں اور ماتحتوں کو سخت صدمہ پہنچایا اور ماتمی کپڑے پہنا دیے اور اس کی بے وقت موت نے ان کو ایسے دکھ اور درد میں ڈالا جو ہاویہ سے کم نہ تھا.(انوارالاسلام روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۸) پادری رائٹ صاحب کی وفات پر جو افسوس گرجا میں ظاہر کیا گیا.اس میں عیسائیوں کی مضطربانہ اور خوف زدہ حالت کا نظارہ مفصلہ ذیل الفاظ سے آئینہ دل میں منقش ہو سکتا ہے جو اس وقت پریچر کے مرعوب اور مغضوب دل سے نکلے اور وہ یہ ہیں ’’آج رات خدا کے غضب کی لاٹھی بے وقت ہم پر چلی اور اُس کی خفیہ تلوار نے بے خبری میں ہم کو قتل کیا.‘‘ (انوار الاسلام روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ۸حاشیہ) ۲.پادری فورمین لاہور میں مرے.(صفحہ ۸ح) ۳.پادری ہاول اور پادری عبداﷲ بھی سخت بیماریوں کے ہاویہ میں گرائے گئے.(صفحہ ۸مفہوماً) ۴.جنڈیالہ کا ڈاکٹر یوحنا جو عیسائیوں کا ایک اعلیٰ رکن تھا جس کو عین مباحثہ میں طبع مباحثہ کا کام سپرد کیا گیا تھا میعاد مقررہ کے اندر مرا.(انوارالاسلام صفحہ ۸،۹مفہوماً ) ۵.پھر سب پادریوں اور خصوصاً پادری عماد الدین کو جو اپنے آپ کو مولوی کے لقب سے ملقّب کرتے تھے اور قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت پر معترض تھے سخت ذلّت پہنچی.جب انہیں رسالہ نور الحق کے مقابلہ میں جو آ پؑ نے میعاد پیشگوئی کے اندر لکھا تھا پانچ ہزار روپیہ انعام کے وعدہ کے ساتھ رسالہ لکھنے کی دعوت دی گئی اور بالمقابل ویسا رسالہ لکھنے سے اُن کے عاجز آنے سے انہیں سخت ذلّت پہنچی اور پانچ ہزار روپیہ لینے کی بجائے ہزار لعنت اُن کے حصّہ میں آئی.(؍؍ ؍؍ ؍؍) آتھم کے رجوع بحق ہونے کے قرائن نیز آپ نے فرمایا کہ الہام کے علاوہ بعض ایسے قرائن بھی موجود ہیں جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آتھم نے رجوع الی الحق کیا.
اوّل پیشگوئی سُنتے ہی آتھم کے چہرہ پر ایک خوفناک اثر پیدا ہوگیا تھا اور اُس کے حواس کی پریشانی اُسی وقت سے دکھائی دینے لگی تھی.پھر وہ روز بروز بڑھتی گئی اور آتھم کے دل و دماغ پر اثر کرتی گئی اور یہاں تک کہ جیسا کہ اخبار ’’نور افشاں‘‘ میں آتھم نے خود شائع کروایا ڈرانے والی تمثلات کا نظارہ شروع ہو گیا.اور اس پیشگوئی کو سُناتے وقت نہ صرف آتھم پر اثر ہوا بلکہ تمام عیسائیوں پر ہوا.اِس لئے انہوں نے پیش بندی کے طور پر اُسی دم کہنا شروع کر دیا تھا کہ آتھم کے مرنے کی تو ایک ڈاکٹر نے خبر بھی دے رکھی ہے کہ چھ ماہ تک مر جائے گا.دوسرا قرینہ آتھم کے رجوع بحق ہونے کا وہ تین حملے ہیں جو بقول اُس کے اُس کی جان لینے کے لئے کئے گئے.پہلا حملہ اُس نے یہ بیان کیا کہ اُسے ایک خونی سانپ دکھائی دیا جو بقول اُس کے تعلیم یافتہ تھا جو ہماری جماعت کے بعض لوگوں نے اُسے ڈسنے کے لئے چھوڑا تھا.اُس سانپ کی قہری تجلّی سے مرعوب ہو کر سخت گرمی کے موسم میں اپنی بیوی اور بچوں کی جدائی برداشت کر کے امرتسر چھوڑ کر آتھم صاحب لدھیانہ میں اپنے داماد کے پاس پناہ گزیں ہوئے تو وہاں بعض مسلّح آدمی نیزوں کے ساتھ اُن کو دکھائی دیئے جو اُن کے احاطہ کوٹھی کے اندر آ کر بس قریب ہی آ پہنچے ہیں اور قتل کرنے کے لئے مستعد ہیں.اُن کا یہ خوف اور بے آرامی اور دل کی غمناکی اور پریشانی بڑھتی چلی گئی.اور حق کے رُعب نے انہیں دیوانہ سا بنا دیا.تب لدھیانہ سے بھی وہ بھاگے اور فیروز پور اپنے دوسرے داماد کے ہاں پہنچے.اور پیشگوئی کی عظمت نے اُن کی وہ حالت بنا رکھی تھی جو ایسے شخص کی ہوتی ہے جو یقین یا ظن رکھتا ہو کہ شائد عذابِ الٰہی نازل ہو جائے.فیروز پور میں جیسا کہ وہ لکھتے ہیں انہوں نے دیکھا کہ بعض آدمی تلواروں اور نیزوں کے ساتھ آ پڑے اور انہیں خطرناک خوف طاری ہوا.اور اس تمام عرصہ میں ایک حرف بھی اسلام کے برخلاف مُنہ سے نہ نکالا اور یہ تینوں حملے جیسا کہ انہوں نے الزام لگایا ہماری جماعت کی طرف سے نہیں تھے.نہ کسی احمدی نے کوئی سانپ سکھا کر آتھم صاحب کو ڈسنے کے لئے چھوڑا تھا اور نہ نیزوں اور تلواروں سے مسلّح آدمی اُن کے قتل کے لئے بھیجے جو پولیس کے پہرہ کی موجودگی میں حملہ کے لئے کوٹھی میں داخل ہوئے اور سوائے آتھم کے اَور کسی کو نظر نہ آئے.اور نہ انہیں کسی نے پکڑا اور پھر آتھم صاحب نے باوجود ریٹائرڈ اکسٹرا اسسٹنٹ ہونے کے کسی پر نالش بھی نہ کی.یہ تینوں حملے
درحقیقت اسلامی پیشگوئی کی ہیبت کا نتیجہ تھے اور یہ حملے اُن کے مرعوب او ر خوف زدہ دل اور دماغ کے تصوّری تمثّلات تھے.پس اسلامی پیشگوئی کا ہولناک اثر اس کے دل پر ہوا اور اُس نے اپنے دل کے تصوّرات اور اپنے افعال و حرکات اور خوفِ شدید اور اپنے ہراساں دل سے عظمتِ اسلامی کو قبول کر لیا.اور خوف دکھایا.اور سخت ڈرا.اِس لئے خدا تعالیٰ نے اپنی سنّت کے موافق اُس سے وہ معاملہ کیا جو ڈرنے والے دل سے ہونا چاہئے.حق کی طرف جُھکنا اور اسلامی عظمت کو اپنی خوفناک حالت کے ساتھ قبول کرنا درحقیقت ایک ہی بات ہے.اور یہ حالت ایک رجوع کرنے کی قسم ہے.اگرچہ ایسا رجوع عذاب آخرت سے نہیں بچا سکتا.مگر عذاب دنیوی میں ضرور تاخیر ڈال دیتا ہے.آپؑ نے قرآن و بائیبل کے حوالہ جات سے ثابت کیا کہ الہامی پیشگوئیوں سے ڈرنا رجوع میں داخل ہے اور رجوع عذاب میں تاخیر ڈال دیتا ہے.تیسرا قرینہ آتھم کے رجوع الی الحق کا یہ ہے کہ الہام نے ظاہر کر دیا ہے کہ اس نے پیشگوئی کی شرط کے مطابق ایسا رجوع الی الحق کیا ہے جس کی وجہ سے وہ کامل ہاویہ یعنی موت کے عذاب سے بچ گیا.اور ایسا اس لئے بھی ہونا چاہئے تھا کہ آتھم کی موت کے معاملہ کو فریقِ مخالف نے پہلے مشتبہ کر دیا تھا کہ آتھم کے مرنے کی تو ایک ڈاکٹر نے خبربھی دے رکھی ہے کہ چھ ماہ تک مر جائے گا.کوئی کہتا مرنا کوئی نئی بات ہے.کوئی کہتا کمزور بڈھا ہے موت کیا تعجب.کوئی کہتا جادو سے مار دیں گے.اِس لئے خدا تعالیٰ نے موت کے پہلو کو ٹال دیا اور مسٹر آتھم کے دل پر عظمتِ اسلام کا رُعب ڈال کر پیشگوئی کے شرط والے پہلو سے اُس کو حصّہ دے دیا اور وہ خدا تعالیٰ کی قدیم سنّت کے موافق موت سے بچ گیا.چوتھا قرینہ آتھم کے رجوع الی الحق کا اُس کا باوجود چار ہزار روپیہ انعام دیئے جانے کے قسم کھانے سے انکار ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آتھم کو ایک رجسٹری خط میں اپنے الہام کا ذکر کر کے لکھا کہ بجز خدا تعالیٰ اور میرے اور آپ کے دل کے اور کسی کو خبر نہیں.سو اگر آپ الہام کو سچا نہیں سمجھتے تو تین مرتبہ قسم کھا کر صاف کہہ دیں کہ یہ الہام جھوٹا ہے.اگر الہام سچا ہے اورمیں نے ہی جھوٹ بولا ہے تو اے قادر غیّور خدا مجھ کو سخت عذاب میں مبتلا کر اور اُسی میں مجھ کو موت دے دے.آپؑ نے ایسی قسم کھانے پر
ایک ہزار روپیہ انعام مقرر کیا.پھر دوسرے اشتہار میں دو ہزار روپیہ اور تیسرے اشتہار میں تین ہزار روپیہ اور چوتھے اشتہار میں چار ہزار روپیہ دینے کا وعدہ کیا اگر وہ یہ قسم کھا جائیں کہ ’’اس پیشگوئی کے عرصہ میں اسلامی رُعب ایک طرفۃ العین کے لئے بھی میرے دل پر نہیں آیا اور میں اسلام اور نبی اسلام (صلی اﷲعلیہ وسلم ) کو ناحق پر سمجھتا رہا اور سمجھتا ہوں اور صداقت کا خیال تک نہیں آیا اور حضرت عیسٰی کی ابنیت اور الوہیت پر یقین رکھتا رہا اور رکھتا ہوں اور ایسا ہی یقین جو فرقہ پروٹسٹنٹ کے عیسائی رکھتے ہیں اور اگر میں نے خلافِ واقعہ کہا ہے اور حقیقت کو چھپایا ہے تو اے خدائے قادر مجھ پر ایک برس میں عذاب موت نازل کر.(انوار الاسلام روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۶) نیز فرمایا:.’’اب اگر آتھم صاحب قسم کھا لیویں تو وعدہ ایک سال قطعی اور یقینی ہے جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہیں اور تقدیر مبرم ہے اور اگر قسم نہ کھاویں تو پھر بھی خدا تعالیٰ ایسے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑے گا.‘‘ (انوار الاسلام روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۱۱۴) نیز آپؑ نے فرمایا:.’’اگر تاریخ قسم سے ایک سال تک زندہ سالم رہا تو وہ اُس کا روپیہ ہو گا اور پھر اُس کے بعد یہ تمام قومیں مجھ کو جو سزا دینا چاہیں دیں.اگر مجھ کو تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے کریں تو مَیں عذر نہیں کروں گا.اور اگر دنیا کی سزاؤں میں سے مجھ کو وہ سزا دیں جو سخت تر سزا ہے تو میں انکار نہیں کروں گا اور خود میرے لئے اِس سے زیادہ کوئی رسوائی نہیں ہو گی کہ مَیں اُن کی قسم کے بعد جس کی میرے ہی الہام پر بِنا ہے جھوٹا نکلوں.‘‘ (ضیاء الحق، روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۳۱۶،۳۱۷) مگر آپؑ نے واضح الفاظ میں فرما دیا:.’’اور یاد رکھو کہ وہ اِس اشتہار کی طرف رُخ نہیں کرے گا کیونکہ کاذب ہے اور اپنے دل میں خوب جانتا ہے کہ وہ اِس خوف سے مرنے تک پہنچ چکا تھا...اور اُس کا دل گواہی دے گا کہ ہمارا الہام سچّا ہے گو وہ اِس بات کو ظاہرنہ کرے مگر اس کا دل اس
بیان کا مصدّق ہو گا.لیکن اگر دُنیا کی ریاکاری سے اِس مقابلہ پر آئے گا تو پھر الٰہی عذاب کامل طور سے رجوع کرے گا.‘‘ (انوار الاسلام روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۱۰،۱۱) اور فرمایا:.’’اگر آتھم کو عیسائی لوگ ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیں اور پھر ذبح بھی کر ڈالیں تب بھی وہ قسم نہیں کھائیں گے.‘‘ (.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۳) اور آپؑ نے نہایت تحدّی سے فرمایا کہ اگر رجوع کیا ہے اور پھر منکر ہے تو قسم کھانے کے بعد ’’ضرور بغیر تخلّف اور بغیر استثناء کسی شرط کے ان پر موت آئے گی‘‘ (انوارالاسلام.روحانی خزائن جلد نمبر ۹صفحہ ۶۶مفہوماً ) اور فرمایا:.’’اگر آتھم صاحب نے جھوٹی قسم کھا لی تو ضرور فوت ہو جائیں گے.‘‘ (انوارالاسلام.روحانی خزائن جلد نمبر ۹صفحہ ۷۰) نیز فرمایا:.قسم کھانے کے بعد خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ فیصلہ قطعی کرے.سو قسم کے بعد ایسے مکّار کا پوشیدہ رجوع ہرگز قبول نہیں ہو گا.‘‘ (انوارالاسلام.روحانی خزائن جلد نمبر ۹صفحہ ۸۱) پھر آپؑ نے پادریوں کو قسم کا واسطہ دے کر آتھم کو قسم کھانے پر آمادہ کرنے کے لئے اپیل کی اور فرمایا کہ ’’جو ولد الحلال ہے اور درحقیقت عیسائی مذہب کو ہی غالب سمجھتا ہے تو چاہئے کہ ہم سے دو ہزار روپیہ لے اور آتھم صاحب سے ہمارے منشاء کے موافق قسم دلا دے پھر جو کچھ چاہے ہمیں کہتا رہے.‘‘(انوارالاسلام.روحانی خزائن جلد نمبر ۹صفحہ ۸۶) مگر آتھم صاحب پر کسی کی اپیل کا اثر نہ ہوا اور قسم کھانے پر آمادہ نہ ہوئے.آتھم صاحب کا عذر آتھم صاحب سے جب قسم کا باصرار مطالبہ کیا گیا تو انہوں نے کہا :.اگر مجھے قسم دینا ہے تو عدالت میں میری طلبی کرایئے یعنی بغیر جبر عدالت میں قسم نہیں
کھا سکتا گویا ان کا ایمان عدالت کے جبر پر موقوف ہے مگر جو سچائی کے اظہار کے لئے قسم نہیں کھاتے وہ نیست و نابود کئے جائیں گے.(یرمیاہ باب ۱۲ آیت ۱۶) (انوارالاسلام.روحانی خزائن جلد نمبر ۹صفحہ ۹۹حاشیہ) نیز انہوں نے کہا کہ ہمارے مذہب میں قسم کھانا ممنوع ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اِس کا مفصّل جواب دیا.کہ حضرت عیسیٰ ؑ جانتے تھے کہ قسم کھانا شہادت کی رُوح ہے.وہ اس کو حرام قرار نہیں دے سکتے تھے.الٰہی قانون قدرت اور انسانی صحیفۂ فطرت اور انسانی کانشنس گواہ ہے کہ قطع خصومات کے لئے انتہائی حد قسم ہے.گورنمنٹ کے تمام عہدیدار قسم اٹھاتے ہیں پطرس، پولوس اور خود مسیح نے قسم کھائی.فرشتے بھی قسم کھاتے ہیں.خدا بھی قسم کھاتا ہے.نبیوں نے بھی قسمیں کھائیں.آپؑ نے یہ تمام امور مع حوالہ جات بائیبل لکھے.بعض معترضین نے کہا.ہوسکتا ہے کہ ایک برس میں انہوں نے مر ہی جانا ہو.آپؑ نے اِس کے جواب میں فرمایا:.’’جبکہ یہ دو خداؤں کی لڑائی ہے.ایک سچا خدا جو ہمارا خدا ہے اور ایک مصنوعی خدا جو عیسائیوں نے بنا لیا ہے......(یہ شک ٹھیک نہیں کہ شائد برس میں مرنا ممکن ہے.ناقل) اگر اِسی طرح کی قسم کسی راستی کی آزمائش کے لئے ہم کو دی جائے تو ہم ایک برس کیا دس برس تک اپنے زندہ رہنے کی قسم کھا سکتے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ دینی بحث کے وقت میں ضرور خدا تعالیٰ ہماری مدد کرے گا.‘‘ (انوارالاسلام.روحانی خزائن جلد نمبر ۹صفحہ ۶۸،۶۹) اور فرمایا:.’’میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ مقابلہ کے وقت ضرور مجھے زندہ رکھ لے گا (اور اس قسم والے برس میں ہم نہیں مریں گے.ناقل)کیونکہ ہمارا خدا قادر اور حیّ و قیّوم ہے.مریم عاجزہ کے بیٹے کی طرح نہیں‘‘ (انوارالاسلام.روحانی خزائن جلد نمبر ۹صفحہ ۱۱۳)
پھر آپؑ نے آتھم کے خط مطبوعہ ’’نور افشاں‘‘ مؤرخہ ۲۱؍ ستمبر ۱۸۹۴ء کے جواب میں جو خط لکھا اُس میں آپؑ نے تحریر فرمایا:.’’مَیں نے خدا تعالیٰ سے سچّا اور پاک الہام پا کر یقینی اور قطعی طور پر جیسا کہ آفتاب نظر آجاتا ہے معلوم کر لیا ہے کہ آپ نے میعاد پیشگوئی کے اندر اسلامی عظمت اور صداقت کا سخت اثر اپنے دل پر ڈالا اور اِسی بنا پر پیشگوئی کے وقوع کا ہمّ و غم کمال درجہ پر آپ کے دل پر غالب ہوا.میں اﷲ جلّ شانہٗ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ بالکل صحیح ہے اور خدا تعالیٰ کے مکالمہ سے مجھ کو یہ اطلاع ملی ہے اور اُس پاک ذات نے مجھے یہ اطلاع دی ہے کہ جو انسان کے دل کے تصوّرات کو جانتا اور اُس کے پوشیدہ خیالات کو دیکھتا ہے اور اگر میں اس بیان میں حق پر نہیں تو خدا مجھ کو آپ سے پہلے موت دے.پس اِسی وجہ سے میں نے چاہا کہ آپ مجلسِ عام میں قسم غلیظ مؤکد بعذاب موت کھاویں ایسے طریق سے جو مَیں بیان کر چکا ہوں.تا میرا اور آپ کا فیصلہ ہو جائے اور دنیا تاریکی میں نہ رہے اور اگر آپ چاہیں گے تو میں بھی ایک برس یا دو برس یا تین برس کے لئے قسم کھا لوں گا.کیونکہ مَیں جانتا ہوں سچا ہرگز برباد نہیں ہو سکتا بلکہ وہی ہلاک ہو گا جس کو جھوٹ نے پہلے سے ہلاک کر دیا ہے.اگر صدقِ الہام اور صدقِ اسلام پر مجھے قسم دی جائے تو مَیں آپ سے ایک پیسہ نہیں لیتا.لیکن آپ کی قسم کھانے کے وقت تین ہزار کے بدرے پہلے پیش کئے جائیں گے.‘‘ (انوارالاسلام.روحانی خزائن جلد نمبر ۹صفحہ۹۲، ۹۳) لیکن آتھم صاحب نہ قسم کھانے کے لئے تیار ہوئے اور نہ انہوں نے حق کو ظاہر کیا.اِخفائے حق کی صورت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بار بار انہیں موت سے بھی ڈرایا تھا.چنانچہ آپؑ نے ’’انوار الاسلام‘‘ میں تحریر فرمایا:.
۱.’’ضرور تھا کہ وہ کامل عذاب (یعنی موت) اُ س وقت تک تھما رہے جب تک کہ وہ (یعنی آتھم) بے باکی اور شوخی سے اپنے ہاتھ سے اپنے لئے ہلاکت کے اسباب پیدا کرے‘‘ ۲.’’وہ بڑا حصّہ ہاویہ جو موت سے تعبیر کیا گیا ہے اُس میں کسی قدر (آتھم صاحب کو) مہلت دی گئی ہے.‘‘ ۳.’’یاد رہے کہ مسٹر عبداﷲ آتھم میں کامل عذاب (یعنی موت.ناقل) کی بنیادی اینٹ رکھ دی گئی ہے اور وہ عنقریب بعض تحریکات سے ظہور میں آ جائے گی.‘‘ (انوارالاسلام.روحانی خزائن جلد نمبر ۹ صفحہ ۱۰،۱۱ مفہوماً) ۴.اشتہار انعامی چار ہزار روپیہ میں لکھا :.’’اور ہنوز بس نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ مَیں بس نہیں کروں گا جب تک اپنے قوی ہاتھ کو نہ دکھلاؤں اور شکست خوردہ گروہ کی سب پر ذلّت ظاہر نہ کروں.ہاں اُس نے اپنی اس عادت اور سُنت کے موافق جو اس کی پاک کتابوں میں مندرج ہے آتھم صاحب کی نسبت تاخیر ڈال دی کیونکہ مجرموں کے لئے خدا کی کتابوں میں یہ ازلی وعدہ ہے جس کا تخلّف روا نہیں کہ خوفناک ہونے کی حالت میں اُن کو کسی قدر مہلت دی جاتی ہے اور پھر اصرار کے بعد پکڑے جاتے ہیں...اب اگر آتھم صاحب قسم کھالیویں تو وعدہ ایک سال قطعی اور یقینی ہے جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہیں اور تقدیر مبرم ہے اور اگر قسم نہ کھاویں تو پھر بھی خدا تعالیٰ ایسے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑے گا جس نے حق کا اخفاء کر کے دنیا کو دھوکا دینا چاہا.‘‘ (انوار الاسلام روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۱۱۴) ۵.رسالہ ’’ضیا ء الحق‘‘ مطبوعہ مئی ۱۸۹۵ء میں فرمایا:.’’مگر تاہم یہ کنارہ کشی بے سود ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑتا.نادان پادریوں کی تمام یاوہ گوئی آتھم کی گردن پر ہے......آتھم اس جرم
سے بَری نہیں ہے کہ اُس نے حق کو علانیہ طور پر زبان سے ظاہر نہیں کیا.‘‘ (ضیاء الحق.روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۲۶۹) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اِس سلسلہ میں سات اشتہارات شائع کئے.آخری ساتواں اشتہار جو آتھم صاحب سے مطالبہ قسم کے سِلسلہ میں دیا گیا اُس کی تاریخ ۳۰؍ دسمبر ۱۸۹۵ء ہے.اس کے بعد آتھم صاحب کا انکار کمال کو پہنچ گیا اور اس کے بعد ہم نے تبلیغ کو چھوڑ دیا اور خدا تعالیٰ کے وعدہ کا انتظار کرنے لگے.سو آتھم صاحب نے اس ساتویں اشتہار کی اشاعت کے بعد سات مہینے ختم نہ کئے تھے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق بسزائے موت اسے ہاویہ میں گرا دیا.جیسے اُس نے دُنیا سے حق کو چھپایا تھا خدا تعالیٰ نے اُسے دنیا کی نظروں سے زمین کے نیچے چھپا دیا.اُس کی موت سے فریق مخالف میں صف ماتم بچھ گئی.بلکہ سُنا گیا ہے کہ ایک عیسائی بھولے خاں پر اس کی موت کی خبر اس قدر شاق گذری کہ اُس نے کہا یقیناًاب میرا جینا مشکل ہے.چنانچہ دل پر سخت صدمہ پہنچنے کی وجہ سے وہ مر ہی گیا.اور اِس پیشگوئی کے پورا ہونے سے ایک تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ گویا مہدی کے وقت عیسائیوں سے کچھ مناظرہ واقع ہو گا.جو بعد میں ایک فتنۂ عظیمہ کی طرح ہو جائے گا.اُس وقت آسمان سے یہ آواز آئے گی کہ حق آلِ مہدی میں ہے.اور شیطان سے یہ آواز آئے گی کہ حق آلِ عیسیٰ کے ساتھ ہے.یعنی عیسائی سچّے ہیں.لیکن آسمانی آواز درست ہو گی کہ حق آلِ مہدی میں ہے.یعنی فتح اسلام کی ہو گی نہ کہ عیسائیوں کی.اِسی طرح اِس پیشگوئی سے قریباً سولہ سال پہلے کے وہ الہامات جو براہین احمدیہ میں طبع شدہ تھے پورے ہوئے جن میں عیسائیوں کے ایک مکر کا اور پھر مسلمانوں اور عیسائیوں کے مل کر ایک فتنہ برپا کرنے کا ذکر ہے.(دیکھئے تفصیل رُوحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۲۹۳ و جلد ھٰذا صفحہ ۲۸۶تا۲۹۰ و حاشیہ صفحہ ۳۰۵، ۳۰۶) آتھم کے مر جانے کے بعد بھی جب عیسائی اور اُن کے ہم نوا مولوی یہ کہنے سے باز نہ آئے کہ آتھم سے متعلقہ پیشگوئی غلط نکلی اور عیسائیوں کی فتح ہوئی تو آپؑ نے ’’‘‘ میں لکھا.’’آتھم کے معاملہ میں کسی پادری صاحب یا کسی اور عیسائی کو شک ہے اور خیال کرتا ہو کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی تو لازم ہے کہ مجھ سے مباہلہ کرے‘‘ (.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۳۲)
اور مسلمان مولویوں سے خطاب کرتے ہوئے ضمیمہ صفحہ ۲۵ میں تحریر فرمایا:.’’مَیں یقیناًجانتا ہوں کہ اگر کوئی میرے سامنے خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر اِس پیشگوئی کے صدق سے انکار کرے تو خدا تعالیٰ اُس کو بغیر سزا نہیں چھوڑے گا.اوّل چاہئے کہ وہ اِن تمام واقعات سے اطلاع پاوے تا اس کی بے خبری اُس کی شفیع نہ ہو پھر بعد اس کے قسم کھاوے کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور جھوٹی ہے پھر اگر وہ ایک سال تک اس قسم کے وبال سے تباہ نہ ہو جائے اور کوئی فوق العادت مصیبت اس پر نہ پڑے تو دیکھو کہ مَیں سب کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ اس صورت میں میں اقرار کروں گا کہ ہاں میں جھوٹا ہوں.اگر عبدالحق اس بات پر اصرار کرتا ہے تو وہی قسم کھاوے اور اگر محمدحسین بطالوی اِس خیال پر زور دے رہا ہے تو وہی میدان میں آوے.اور اگر مولوی احمد اﷲ امرتسری یا ثناء اﷲ امرتسری ایسا ہی سمجھ رہا ہے تو انہیں پر فرض ہے کہ قسم کھانے سے اپنا تقویٰ دکھلاویں اور یقیناًیاد رکھو کہ اگر اِ ن میں سے کسی نے قسم کھائی کہ آتھم کی نسبت پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور عیسائیوں کی فتح ہوئی تو خدا اُس کو ذلیل کرے گا.روسیاہ کرے گا.اور لعنت کی موت سے اُس کو ہلاک کرے گا.کیونکہ اُس نے سچائی کو چھپانا چاہا جو دین اسلام کے لئے خدا کے حکم اور ارادہ سے زمین پر ظاہر ہوئی.مگر کیا یہ لوگ قسم کھالیں گے؟ ہرگز نہیں کیونکہ یہ جھوٹے ہیں.‘‘ (.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۳۰۸،۳۰۹ حاشیہ) لیکن نہ عیسائیوں میں سے کسی کو جرأت ہوئی کہ وہ مباہلہ کرتا اور نہ مولویوں میں سے کسی کو قسم کھانے کی جرأت ہوئی.اس طرح آتھم سے متعلقہ پیشگوئی اپنی تمام شوکت اور کمال شان سے پوری ہوئی.فالحمد ﷲ علیٰ ذالک.اور اﷲ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو آتھم کے رجوع الی الحق اور مطابق سنّت الٰہیہ کامل عذاب کے التواء سے متعلق جو بذریعہ وح ئ الٰہی اطلاع دی تھی اُس کی صداقت روز روشن کی طرح ظاہر ہو گئی اور اس وحی کا یہ حصّہ ’’وَبِعِزَّتِیْ وَجَلَالِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی وَ نُمَزِّقُ الْاَعْدَآءَ کُلَّ مُمَزَّقٍ وَ مَکْرُ اُوْلٰءِکَ ھُوَ
یَبُوْرُ.اِنَّا نَکْشِفُ السِّرَّ عَنْ سَاقِہٖ یَوْمَءِذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ.‘‘(انوار الاسلام روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۲) یعنی اور مجھے میری عزّت اور جلال کی قسم ہے کہ تُو ہی غالب ہے.اور ہم دشمنوں کو پارہ پارہ کر دیں گے یعنی اُن کو ذلّت پہنچے گی اور اُن کا مکر ہلاک ہو جائے گا.اور خدا تعالیٰ بس نہیں کرے گا.اور باز نہیں آئے گا جب تک دشمنوں کے تمام مکروں کی پردہ دری نہ کرے اور اُن کے مکر ہلاک نہ کر دے.اور ہم حقیقت کو ننگا کر کے رکھ دیں گے.اُس دن مومن خوش ہوں گے.یہ حصّہ وحی الٰہی کا جس عجیب انداز اور ایمان افروز رنگ میں پورا ہوا اس کی تفصیل ہم روحانی خزائن جلد ۱۳ میں پیش لفظ میں بیان کریں گے.انشاء اﷲ تعالیٰ حضرت عیسیٰ ؑ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ نبی تھے ضمیمہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انجیلی بیانات کی بنا پر الزامی رنگ میں یسوع مسیح کے کچھ حالات بیان کئے ہیں جنہیں آپ کے مخالفین بطور اعتراض پیش کرتے ہیں کہ گویا آپؑ نے خدا تعالیٰ کے ایک برگزیدہ نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کی ہے.مثلاً مولوی مرتضیٰ حسن صاحب دربھنگی نے اپنی کتاب ’’اشد العذاب‘‘ میں اور مولوی احمد علی صاحب نے اپنے کتابچہ کہ’’مسلمان مرزائیوں سے کیوں متنفر ہیں؟‘‘ اور اِ سی طرح مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی اور مولوی محمد علی صاحب کانپوری نے یہی اعتراض کیا ہے.اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اِس جگہ اِس اعتراض کا جواب اختصار سے دے دیا جائے.یاد رہے کہ ضمیمہ کی جس عبارت کو مذکورہ بالا علماء نے قابل اعتراض قرار دیا ہے اُسی کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ وضاحت کی ہے:.۱.’’کہ ہمیں پادریوں کے یسوع اور اس کے چال چلن سے کچھ غرض نہ تھی.انہوں نے ناحق ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو گالیاں دے کر ہمیں آمادہ کیا کہ اُن کے یسوع کا کچھ تھوڑا سا حال اُن پر ظاہر کریں......اور مسلمانوں کو واضح رہے کہ خدا تعالیٰ نے یسوع کی قرآن شریف میں کچھ خبر نہیں دی کہ وہ کون تھا.اور پادری اِس
بات کے قائل ہیں کہ یسوع وہ شخص تھا جس نے خدائی کا دعویٰ کیا.الخ‘‘ (.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۲۹۲،۲۹۳ حاشیہ) اور فرمایا کہ :.’’اگر پادری اَب بھی اپنی پالیسی بدل دیں اور عہد کر لیں کہ آئندہ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو گالیاں نہیں نکالیں گے تو ہم بھی عہد کریں گے کہ آئندہ نرم الفاظ کے ساتھ اُن سے گفتگو ہو گی.ورنہ جو کچھ کہیں گے اُس کا جواب سُنیں گے.‘‘ (.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۲۹۲حاشیہ در حاشیہ ) ۲.اور فرماتے ہیں :.’’سو ہم نے اپنے کلام میں ہر جگہ عیسائیوں کا فرضی یسوع مراد لیا ہے.اور خدا تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ عیسیٰ ابن مریم جو نبی تھا جس کا ذکر قرآن میں ہے وہ ہمارے درشت مخاطبات میں ہرگز مراد نہیں.اور یہ طریق ہم نے برابر چالیس برس تک پادری صاحبوں کی گالیاں سُن کر اختیار کیا ہے.‘‘ (اشتہار ۲۰ ؍ دسمبر ۱۸۹۵ء.مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۵۳۰جدید ایڈیشن) پھر ایسے معترض مولویوں کا ذکر کر کے جو عیسائیوں کو معذور خیال کرتے اور کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وہ کچھ بے ادبی نہیں کرتے.فرماتے ہیں:.’’ہمارے پاس ایسے پادریوں کی کتابوں کا ایک ذخیرہ ہے جنہوں نے اپنی عبارت کو صد ہا گالیوں سے بھر دیا ہے.جس مولوی کی خواہش ہو وہ آ کر دیکھ لے.‘‘ (اشتہار ۲۰ ؍ دسمبر ۱۸۹۵ء.مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۵۳۰ اشتہار نمبر۱۴۳) ۳.اسی طرح اشتہار ’’قابل توجہ ناظرین‘‘ میں فرماتے ہیں:.’’اِس بات کو ناظرین یاد رکھیں کہ عیسائی مذہب کے ذکر میں ہمیں اسی طرز سے کلام کرنا ضروری تھا.جیسا کہ وہ ہمارے مقابل پر کرتے ہیں.عیسائی لوگ درحقیقت ہمارے اُس عیسیٰ علیہ السلام کو نہیں مانتے جو اپنے تئیں صرف بندہ اور نبی کہتے تھے اور پہلے نبیوں کو راستباز جانتے تھے اور آنے والے نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلی اﷲ علیہ وسلم
پر سچّے دل سے ایمان رکھتے تھے.اور آنحضرتؐ کے بارے میں پیشگوئی کی تھی بلکہ ایک شخص یسوع نام کو مانتے ہیں جس کا قرآن میں ذکر نہیں اور کہتے ہیں کہ اس شخص نے خدائی کا دعویٰ کیا اور پہلے نبیوں کو بٹمار وغیرہ ناموں سے یاد کرتا تھا.یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ شخص ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا سخت مکذّب تھا اور اُس نے یہ بھی پیشگوئی کی تھی کہ میرے بعد سب جھوٹے ہی آئیں گے.سو آپ لوگ خوب جانتے ہیں کہ قرآن شریف نے ایسے شخص پر ایمان لانے کے لئے ہمیں تعلیم نہیں دی بلکہ ایسے لوگوں کے حق میں صاف فرما دیا ہے کہ اگر کوئی انسان ہو کر خدائی کا دعویٰ کرے تو ہم اس کو جہنم میں ڈالیں گے اِسی سبب سے ہم نے عیسائیوں کے یسوع کے ذکر کرنے کے وقت اِس ادب کا لحاظ نہیں رکھا جو سچے آدمی کی نسبت رکھنا چاہئے......پڑھنے والوں کو چاہئے کہ ہمارے بعض سخت الفاظ کا مصداق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہ سمجھ لیں بلکہ وہ کلمات اُس یسوع کی نسبت لکھے گئے ہیں جس کا قرآن و حدیث میں نام و نشان نہیں.‘‘ ( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ۵۱۱ جدید ایڈیشن) ۴.اور پادری فتح مسیح کو جس نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلّق حددرجہ ناپاک اتہام لگائے تھے.مخاطب کر کے فرماتے ہیں:.’’ہم کسی عدالت کی طرف رجوع نہیں کرتے اور نہ کریں گے مگر آئندہ کے لئے سمجھاتے ہیں کہ ایسی ناپاک باتوں سے باز آ جاؤ اور خدا سے ڈرو جس کی طرف پھرنا ہے اور حضرت مسیح کو بھی گالیاں مت دو یقیناًجو کچھ تم جناب مقدس نبویؐ کی نسبت بُرا کہو گے وہی تمہارے فرضی مسیح کو کہا جائے گا مگر ہم اُس سچّے مسیح کو مقدس اور بزرگ اور پاک جانتے اور مانتے ہیں جس نے نہ خدائی کا دعویٰ کیا نہ بیٹا ہونے کا اور جناب محمد مصطفےٰ احمد مجتبیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کے آنے کی خبر دی اور اُن پر ایمان لایا.‘‘ (نُور القرآن نمبر ۲.روحانی خزائن جلد۹ صفحہ ۳۹۵) ۵.اور فرماتے ہیں:.
ہم لوگ جس حالت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا سچّا نبی اور نیک اور راستباز مانتے ہیں تو پھر کیونکر ہماری قلم سے اُن کی شان میں سخت الفاظ نکل سکتے ہیں.‘‘ (کتاب البریّہ،روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۱۹) ۶.اور فرماتے ہیں:.’’ہم اس بات کے لئے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا سچّا اور پاک اور راستباز نبی مانیں اور اُن کی نبوت پر ایمان لاویں.سو ہماری کسی کتاب میں کوئی ایسا لفظ بھی نہیں ہے جو اُن کی شان بزرگ کے برخلاف ہو.اور اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ دھوکہ کھانے والا اور جھوٹا ہے.‘‘ (ایام الصلح.روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۲۲۸) ۷.اور فرماتے ہیں:.’’حضرت مسیحؑ کے حق میں کوئی بے ادبی کا کلمہ میرے مُنہ سے نہیں نکلا یہ سب مخالفوں کا افتراء ہے.ہاں چونکہ درحقیقت کوئی ایسا یسوع مسیح نہیں گذرا جس نے خدائی کا دعویٰ کیا ہو اور آنے والے نبی خاتم الانبیاء کو جھوٹا قرار دیا ہو اور حضرت موسیٰ کو ڈاکو کہا ہو اِس لئے مَیں نے فرض محال کے طور پر اس کی نسبت ضرور بیان کیا ہے کہ ایسا مسیح جس کے یہ کلمات ہوں راستباز نہیں ٹھہر سکتا لیکن ہمارا مسیح ابن مریم جو اپنے تئیں بندہ اور رسول کہلاتا ہے اور خاتم الانبیاء کا مصدّق ہے اُس پر ہم ایمان لاتے ہیں.‘‘ (تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۳۰۵ حاشیہ ) کیا کوئی منصف مزاج مذکورہ بالا تصریحات کے باوجود کہہ سکتا ہے کہ آپؑ نے نعوذ باﷲ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گالیاں دی ہیں اور اُن کی توہین کی ہے.اور متکلّمین کا ہمیشہ سے یہ طریق چلا آیا ہے کہ وہ فریقِ مخالف کی مسلّمات کی بنا پر بطور الزامی جواب کلام کرتے ہیں حالانکہ اُن کا اپنا وہ عقیدہ نہیں ہوتا.مثال کے طور پر میں اہلسنت و الجماعت کے اُن دو علماء کے اقوال پیش کرتا ہوں جو فنِّ مناظرہ میں غایت درجہ شہرت رکھتے ہیں بلکہ علمائے اہل سنت کے مقتداء مانے جاتے ہیں.اُن میں سے ایک مولوی آل حسن صاحب ہیں.وہ اپنی کتاب ’’استفسار‘‘ میں جو ’’ازالۃ الاوہام‘‘ مؤلفہ مولوی رحمت اﷲ
صاحب کرانوی مہاجر مکّی کے حاشیہ پر چھپی ہے تحریر فرماتے ہیں:.۱.’’حضرت عیسیٰ کا بن باپ ہونا تو عقلاً مشتبہ ہے اس لئے کہ حضرت مریم یوسف کے نکاح میں تھیں چنانچہ اس زمانہ کے معاصرین لوگ یعنی یہود جو کچھ کہتے ہیں سو ظاہر ہے.‘‘ (صفحہ ۲۲) ۲.’’اور ذرے گریبان میں سر ڈال کر دیکھو کہ معاذ اﷲ حضرت عیسیٰ کے نسب نامہ مادری میں دو جگہ تم آپ ہی زنا ثابت کرتے ہو (یعنی تامار اور اوریاہ‘‘ (صفحہ ۷۳) ۳.’’ازانجملہ کلّیۃً یہ بات ہے کہ اکثر پیشین گوئیاں انبیائے بنی اسرائیل اور حواریوں کی ایسی ہیں جیسی خواب اور مجذوبوں کی بڑ.......پس اگر انہیں باتوں کا نام پیشگوئی ہے تو ہر ایک آدمی کے خواب اور ہر دیوانہ کی بات کو ہم پیشگوئی ٹھہرا سکتے ہیں.‘‘ (صفحہ ۱۳۳) ۴.’’عیسیٰ بن مریم کہ آخر درماندہ ہو کر دنیا سے انہوں نے وفات پائی‘‘ (صفحہ ۲۳۲) ۵.’’اور سب عقلاء جانتے ہیں کہ بہت سے اقسام سحر کے مشابہ ہیں معجزات سے خصوصاً معجزاتِ موسویہ اور عیسویہ سے.‘‘ (صفحہ ۳۳۶) ۶.’’اشعیاہ اور ارمیاہ اور عیسیٰ کی غیب گوئیاں قواعد نجوم اور رمل سے بخوبی نکل سکتی ہیں بلکہ اس سے بہتر.‘‘ (صفحہ ۳۳۶) ۷.’’حضرت عیسیٰ کا معجزہ احیائے میت کا بعضے بھان متی کرتے پھرتے ہیں کہ ایک آدمی کا سر کاٹ ڈالا.بعد اس کے سب کے سامنے دھڑ سے ملا کر کہا اُٹھ کھڑا ہو.وہ اُٹھ کھڑا ہوا.اور سانپ کو نیولے سے ٹکڑے ٹکڑے کروا دیا بعد اس کے سب ٹکڑے اس کے برابر رکھ کر تونبی بجائی اور وہ رینگنے لگا.اور اچھا بھلا ہو گیا.اور منتر سے جھاڑ پھونک کر دیو بھوت کو دفع کرنا اور بعض بیماریوں سے چنگا کرنا یہ تو سینکڑوں سے ہوتا دیکھا ہے.‘‘ (صفحہ ۳۳۶) ۸.’’یسوع نے کہا....میرے لئے کہیں سر رکھنے کی جگہ نہیں.دیکھو یہ شاعرانہ مبالغہ ہے اور صریح دنیا کی تنگی سے شکایت کرنا اقبح ترین امور ہے.‘‘ (صفحہ ۳۴۹)
۹.’’اِن (پادری صاحبان) کا اصل دین و ایمان آ کر یہ ٹھہرا ہے کہ خدا مریم کے رحم میں جنین بن کر خون حیض کا کئی مہینے تک کھاتا رہا.اور علقہ سے مضغہ بنا اور مضغہ سے گوشت اور اُس میں ہڈیاں بنیں.بعد اس کے مخرج معلوم سے نکلا.اور ہگتا موتتا رہا.یہاں تک کہ جوان ہو کر اپنے بندے یحییٰ کا مرید ہوا اور آخر کار ملعون ہو کر تین دن دوزخ میں رہا.‘‘ (صفحہ ۳۵۰،۳۵۱) ۱۰.پس معلوم ہو اکہ حضرت عیسیٰ کا سب بیان معاذ اﷲ جھوٹ ہے اور کرامتیں اگر بالفرض ہوئی بھی ہوں تو ویسی ہی ہوں گی جیسی مسیح دجّال کی ہونے والی.‘‘ (صفحہ ۳۶۹) ۱۱.’’یہودی لوگ کہتے ہیں کہ ہم میں سے جو لوگ توریت کے عالم تھے انہوں نے تو حضرت عیسیٰ سے کوئی معجزہ دیکھا نہیں اور چند مچھووں اور ملاّحوں احمقوں کا کیا اعتبار.عوام الناس تو ذرے سے شعبدہ میں آ جاتے ہیں.‘‘ (صفحہ۳۷۱) ۱۲.’’تیسری انجیل کے آٹھویں باب کے دوسرے اور تیسرے درس سے ظاہر ہے کہ بہتیری رنڈیاں اپنے مال سے حضرت عیسیٰ کی خدمت کرتی تھیں اور سات سات پھرا کرتی تھیں.پس اگر کوئی یہودی از راہ خباثت اور بدباطنی کے کہے کہ حضرت عیسیٰ خوش رو نوجوان تھے.رنڈیاں اُن کے ساتھ صرف حرام کاری کے لئے رہتی تھیں.اِسی لئے حضرت عیسیٰ نے بیاہ نہ کیا اور ظاہر یہ کرتے تھے کہ مجھے عورت سے رغبت نہیں توکیا جواب ہو گا؟ اور پہلی انجیل کے باب یازدہم کے درس نوزدہم میں حضرت عیسیٰ نے مخالفوں کا خیال اپنے حق میں قبول کر کے کہا کہ میں تو بڑا کھاؤ اور شرابی ہوں پس دونوں باتوں کے ملانے سے اور شراب کی بدمستیوں کے لحاظ سے جو کوئی کچھ بدگمانی نہ کرے سو تھوڑا ہے اور دشمن کی نظر میں ان باتوں سے کیسی تن آسانی اور بے ریاضتی حضرت عیسیٰ کی بُوجھی جاتی ہے.‘‘ (صفحہ ۳۹۰،۳۹۱) ۱۳.’’حضرت عیسیٰ نے یہودیوں کو حد سے زیادہ جو گالیاں دیں تو ظلم کیا‘‘ (صفحہ ۴۱۹) ہم نے یہ بطور نمونہ اُن کی کتاب سے بعض عبارات پیش کی ہیں.اور وہ آخر میں
لکھتے ہیں.’’خداوند تعالیٰ مجھے انبیاء کی توہین اور تکذیب سے محفوظ رکھے.مگر صرف پادری صاحبوں کے الزام کے لئے نقل کرتاہوں.‘‘ (استفسار صفحہ ۴۱۹،۴۲۰) اب چند حوالے مولوی رحمت اﷲ صاحب مرحوم مہاجر مکّی کی کتاب ’’ازالۃ الاوہام‘‘ سے پیش کئے جاتے ہیں.فرماتے ہیں.۱.’’معجزات موسویہ مثل عصا وغیرہ......معجزہ ندانند زیرا کہ مثل آنہا ساحراں ہم کردہ بودند.اکثر معجزات عیسویہ را معجزات ندا نند زیرا کہ مثل آنہا ساحراں ہم میسازند.ویہود آنجناب را چون نبی نمے دا نند و ہمچو معجزات ساحر میگویید.‘‘ (صفحہ ۱۲۹) ۲.’’جناب مسیح اقرار میفرمایند کہ یحییٰ نہ نان میخورانیدند نہ شراب می آشامیدند وآنجناب شراب ہم مے نوشیدند و یحییٰ در بیابان مے ماندند و ہمراہ جناب مسیح بسیار زنان ہمراہ مے گشتند و مال خود را مے خورا نیدند.و زنانِ فاحشہ پاۂا آنجناب را بوسیدند و آنجناب مرتا مریم را دوست میداشتند و خود شراب برائے نوشیدند و دیگر کساں عطا مے فرمودند‘‘ (صفحہ ۳۷۰) ۳.’’و نیز وقتیکہ یہودا فرزند سعادتمند شاں از زوجۂ پسر خود زنا کرد و حاملہ گشت وفارص را کہ از آباء و اجداد و سلیمان و عیسیٰ علیھما السلام بود زائید ہیچ کس را از ینہا سزائے ندادند‘‘ (یعنی یعقوب) (صفحہ ۴۰۵) اس کتاب میں ایسی باتیں بکثرت پائی جاتی ہیں.اور انہوں نے الزامی جواب دینے کی غرض یہ لکھی ہے:.’’و ادب تقاضا نمیکرد کہ بر پیشینگوئی جناب مسیح حرفے بر زبان قلم آید مگر چونکہ علمائے مسیحیہ پیشینگوئیہا جناب سید الانس و الجانّ چشم انصاف بستہ باعتراض پیش مے آئند ازیں جہت بطور الزامے و محض برائے آگاہی ایں فرقہ بر پیشینگوئیہا مندرجہ عہد جدید چیزے آشنائے زبان قلم مے گردد تا ایں فرقہ را اطلاع شود کہ مخالف را بحسب رائے خود اگر از انصاف چشم بندد راہیست وسیع.‘‘ (صفحہ ۳۴۸)
.اب انصاف کرنا چاہئے کہ اگر مذکورہ بالا مقتدر علماء پر باوجود اِن اقوال کے جو انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت لکھے ہیں توہینِ مسیح علیہ السلام کا اعتراض نہیں کیا جاتا اور اُن کا عذر کہ یہ جوابات الزامی طور پر دیئے گئے ہیں قابلِ قبول ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے یہی اقوال موجب توہینِ مسیحؑ کیوں قرار دیئے جاتے ہیں؟ حالانکہ آپؑ نے تو اتنی احتیاط فرمائی ہے کہ جس کے بعد کوئی عقلمند شخص جو تعصّب سے خالی ہو وہم بھی نہیں کر سکتا کہ آپ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کی ہے.آپؑ نے اپنی متعدد کُتب میں یہ تحریر فرمایا ہے کہ آپؑ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مثیل ہیں اور ایک دوسرے سے ایسے مشابہ اور مماثل ہیں گویا ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے ہیں تو پھر آپؑ اپنے مثیل اور ہمنام کی کیونکر توہین کر سکتے تھے.چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:.’’موسیٰ کے سِلسلہ میں ابن مریم مسیح موعود تھا اور محمدی سِلسلہ میں میں مسیح موعود ہوں سو میں اُس کی عزّت کرتا ہوں جس کا ہمنام ہوں اور مفسد اور مفتری ہے وہ شخص جو مجھے کہتا ہے کہ مَیں مسیح ابن مریم کی عزّت نہیں کرتا.‘‘ (کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ۱۷،۱۸) اور فرماتے ہیں:.’’اور یاد رہے کہ ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عزّت کرتے ہیں اور ان کو خدا تعالیٰ کا نبی سمجھتے ہیں اور ہم اُن یہودیوں کے اُن اعتراضات کے مخالف ہیں جو آج کل شائع ہوئے ہیں مگر ہمیں یہ دکھلانا منظور ہے کہ جس طرح یہود محض تعصّب سے حضرت عیسیٰ ؑ اور اُن کی انجیل پر حملے کرتے ہیں اسی رنگ کے حملے عیسائی قرآن شریف اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر کرتے ہیں.عیسائیوں کو مناسب نہ تھا کہ اِس بد طریق میں یہودیوں کی پیروی کرتے.‘‘(چشمۂ مسیحی.روحانی خزائن جلد ۳۳۶،۳۳۷) پھر آپؑ نے دو مسیحوں کا ذکر بار بار کیا ہے.ایک کے لئے ’’حضرت مسیح علیہ السلام‘‘ ’’سچا مسیح‘‘ اور ’’عیسیٰ علیہ السلام‘‘ اور ’’عیسیٰ ابن مریم‘‘ جن کا ذکر قرآن میں ہے کے الفاظ لکھے ہیں اور دوسرے مسیح کے لئے ’’فرضی مسیح‘‘ ’’تمہارے فرضی مسیح‘‘ ’’فرضی خدا‘‘ ’’اور ایک شخص یسوع نام‘‘.’’وہ یسوع جس کا ذکر قرآن
میں نہیں‘‘ ’’عیسائیوں کا فرضی یسوع‘‘ اور ’’پادریوں کے یسوع‘‘ کے الفاظ تحریر کئے ہیں اور تمام بڑے بڑے علماء اس طریق پر کلام کرتے چلے آئے ہیں کہ مخاطب کے عقائد باطلہ کے مطابق اُس کے بزرگ کو فرض کر کے بعض اوقات بات کی جاتی ہے.چنانچہ سب جانتے ہیں کہ حضرت علیؓ سُنیوں اور شیعوں کے ایک ہی ہیں.لیکن مولانا جامی ایک حکایت لکھتے ہیں کہ ایک شیعی نے ایک سُنّی فاضل سے دریافت کیا کہ علیؓ کی تعریف کرو تو اُس نے پوچھا ’’کونسا علیؓ؟ وہ علی جس پر تُو اعتقاد رکھتا ہے یا وہ علی جس پر میں اعتقاد رکھتا ہوں تو اُس کے اِس جواب پر کہ مَیں تو صرف ایک ہی علی جانتا ہوں.اس عالم نے دونوں کے علی کے مختلف اوصاف بیان کئے.(دیکھو سِلسلۃ الذھب بر حاشیہ نفحات الانس مطبوعہ نولکشور کانپور صفحہ ۱۰۲تا۱۰۴) اِسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انجا م آتھم میں تحریر فرمایا:.’’یاد رہے کہ یہ ہماری رائے اُس یسوع کی نسبت ہے جس نے خدائی کا دعویٰ کیا اور نبیوں کو چور اور بٹمار کہا.اور خاتم الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کی نسبت بجز اس کے کچھ نہیں کہا کہ میرے بعد جھوٹے نبی آئیں گے.ایسے یسوع کا قرآن میں کہیں ذکر نہیں.‘‘ (.روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۱۳) الغرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نزدیک جیسا کہ اوپر حوالے درج کئے جا چکے ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ کے سچّے اور برگزیدہ نبی اور رسول تھے اور آپؑ اُن کے نبی اور رسول ہونے پر ویسے ہی ایمان رکھتے تھے جیسا کہ دوسرے رسولوں پر.اور آپؑ نے اُن کے حق میں کوئی توہین اور بے ادبی کا کلمہ نہیں لکھا اور نہ ایسا کر سکتے تھے.کیونکہ آپ اُن کے ہمنام اور مثیل ہونے کے مدعی تھے.خاکسار جلال الدین شمس رمضان المبارک ۱۳۸۲ھ مطابق فروری ۱۹۶۳ء.ربوہ
نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم خدا کا مارا کبھی نہیں بچتا خدا کی قسم سے انکار کرنے والا نیست و نابود کیا جائے گا مفہوم یرمیاہ ۱۷/۱۲ چونکہ مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب ۲۷ ؍جولائی ۱۸۹۶ء کو بمقام فیروز پور فوت ہوگئے ہیں اس لئے ہم قرین مصلحت سمجھتے ہیں کہ پبلک کو وہ پیشگوئیاں دوبارہ یاد دلا دیں جن میں لکھا تھا کہ آتھم صاحب اگر قسم نہیں کھائیں گے تو اس انکار سے جو ان کا اصل مدعا ہے یعنی باقی ماندہ عمر سے ایک حصہ پانا یہ ان کو ہرگز حاصل نہیں ہوگا.بلکہ انکار کے بعد جو ان کی بیباکی کی علامت ہے جلدی اس جہان سے اٹھائے جائیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اور ابھی ہمارے اشتہار ۳۰؍ دسمبر ۱۸۹۵ء پر سات مہینے نہیں گزرے تھے کہ وہ اس جہان سے گزر گئے.اور وہ پیشگوئیاں جو کہ ان کی اس موت پر دلالت کرتی ہیں اور پہلے اشتہارات میں درج ہیں یہ ہیں.اول.ضرور تھا کہ وہ کامل عذاب )یعنی موت( اس وقت تک تھما رہے جب تک کہ وہ )یعنی آتھم( بیباکی اور شوخی سے اپنے ہاتھ سے اپنے لئے ہلاکت کے اسباب پیدا کرے.دیکھو انوار الاسلام صفحہ ۴.دوم.وہ بڑا ہاویہ جو موت سے تعبیر کیا گیا ہے اس میں کسی قدر(آتھم صاحب کو) مہلت دی گئی ہے.)یعنی تھوڑی سی مہلت کے بعد پھر موت آئے گی( دیکھو انوار الاسلام صفحہ ۶.
سوم.اور یاد رہے کہ مسٹر عبد اللہ آتھم میں کامل عذاب )یعنی موت( کی بنیادی اینٹ رکھ دی گئی ہے اور وہ عنقریب بعض تحریکات سے ظہور میں آجائے گی خدا تعالیٰ کے تمام کام اعتدال اور رحم سے ہیں اور کینہ ورانسان کی طرح خواہ نخواہ جلد باز نہیں.دیکھو انوار الاسلام صفحہ ۱۰.چہارم.اس ہماری تحریر سے کوئی یہ خیال نہ کرے کہ جو ہونا تھا وہ سب ہوچکا اور آگے کچھ نہیں.کیونکہ آئندہ کے لئے الہام میں یہ بشارتیں ہیں.وَنُمَزُِّ ق الْاَعْدَآءَ کُلَّ مُمَزَّقٍ.ہم دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیں گے یعنی اپنی حجت کامل طور پر ان پر پوری کردیں گے.دیکھو انوار الاسلام صفحہ ۱۵.پنجم.اب اگر آتھم صاحب قسم کھا لیویں تو وعدہ ایک سال قطعی اور یقینی ہے جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہیں اور تقدیر مبرم ہے اور اگر قسم نہ کھاویں تو پھر بھی خدا تعالیٰ ایسے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑے گا جس نے حق کا اخفا کرکے دنیا کو دھوکہ دینا چاہا اور وہ دن نزدیک ہیں دور نہیں.یعنی اُس کی موت کے دن.دیکھو اشتہار انعامی چار ہزار روپیہ صفحہ ۱۱.ششم.مگر تاہم یہ کنارہ کشی آتھم کی )یعنی قسم سے انکار کرنا( بے سود ہے کیونکہ خدا تعالیٰ مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑتا.نادان پادریوں کی تمام یا وہ گوئی آتھم کی گردن پر ہے.اگرچہ آتھم نے نالش اور قسم سے پہلوتہی کرکے اپنے اس طریق سے صاف جتلایا کہ ضرور اس نے رجوع بحق کیا.اور تین حملوں کے طرز وقوع سے بھی جن کا وہ مدعی تھا کھلے طور پر بتلا دیا کہ وہ حملے انسانی حملے نہیں تھے مگر پھر بھی آتھم اس جرم سے بری نہیں ہے کہ اس نے حق کو علانیہ طور پر زبان سے ظاہر نہیں کیا.دیکھو رسالہ ضیاء الحق مطبوعہ مئی ۱۸۹۵ء صفحہ ۱۶.ایسا ہی ان رسائل اور اشتہارات کے اور مقامات میں بار بار لکھا گیا ہے کہ موت میں صرف مہلت
دی گئی ہے اور وہ بہرحال انکار پر جمے رہنے کی حالت میں آتھم صاحب کو پکڑ لے گی چنانچہ ہمارا آخری اشتہار جو آتھم صاحب کے قسم کھانے کے لئے دیا گیا اس کی تاریخ ۳۰ ؍دسمبر ۱۸۹۵ء ہے اس کے بعد آتھم صاحب کا انکار کمال کو پہنچ گیا کیونکہ انہوں نے باوجود اس قدر ہمارے اشتہارات کے کہ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا نکلا یہاں تک کہ سات اشتہارات دیئے گئے مگر پھر بھی انہوں نے وہ گواہی جو ان پر فرض تھی ادا نہیں کی اس لئے خدائے تعالیٰ نے ان کو اس پیشگوئی کے اثر سے خالی نہ چھوڑا.چنانچہ سات اشتہار پر سات دفعہ انکار کرنے کے بعد آخر ساتویں اشتہار سے سات مہینے پیچھے موت* ان پر وارد ہوگئی اور وہ ہاویہ کے عذاب سے پہلے بھی نجات یافتہ نہ تھے اس وقت سے جو ان کو پیشگوئی سنائی گئی اس وقت تک کہ ان کی جان نکل گئی غضب الٰہی کی آگ ہر وقت ان کو جلا رہی تھی.اور ایک خوف اور بے آرامی اور بے چینی ان کے لاحق حال ہوگئی تھی.پس کچھ شک نہیں کہ وہ پیشگوئی کے وقت سے عذاب الٰہی میں پکڑے گئے جیسے کوئی سخت بیماری میں پکڑا جاتا ہے اور ان کا آرام اور خوشی سب جاتی رہی.سو الحمدللّٰہ والمنّہ کہ جب آتھم صاحب نے اپنے رجوع الی الحق سے سات دفعہ انکار کیا تو خدا نے اس دروغ گوئی کی سزا میں ان کو جلد لے لیا.ناظرین یاد رکھیں کہ آخری پیغام جو آتھم صاحب کو قسم کھانے کے لئے پہنچایا گیا وہ اشتہار ۳۰؍ دسمبر ۱۸۹۵ء کا تھا.اس میں یہ غیرت دلانے والے الفاظ بھی تھے کہ اگر آتھم کو عیسائی لوگ ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیں اور ذبح بھی کر ڈالیں تب بھی وہ قسم نہیں کھائیں گے.سو چونکہ آتھم نے سچی قسم سے منہ پھیرا اور نہ چاہا کہ حق ظاہر ہو سو جیسا کہ اس نے حق کو چھپایا حاشیہ.بلاشبہ آتھم کے دوستوں کو اس کی موت کا بہت ہی غم ہوا ہوگا بلکہ ہم نے سنا ہے کہ ایک عیسائی بھولے خان نامی اس کی موت کے غم سے مر ہی گیا.اور اس کو آتھم کی ناگہانی موت نے ایسے درد سے پکڑا کہ اس نے خود کہہ دیا کہ یقیناً اب میرا جینا مشکل ہے.چنانچہ دل پر سخت صدمہ پہنچنے کی وجہ سے وہ مر ہی گیا اور پھر عیسائیوں نے اپنی قدیم عادت جھوٹ کی وجہ سے اس کی موت کو اس کی کرامت بنا لیا.بہتر ہو کہ اس قسم کی کرامت دوسرے شر یر پادریوں سے بھی ظاہر ہو تا خس کم جہاں پاک کی مثال صادق آوے.منہ
خدا نے اپنے وعدہ کے موافق اس کے وجود کو اس کے ہم مذہب لوگوں کی نظر سے چھپا لیا اور جیسا کہ اس نے وعدہ کیا تھا ویسا ہی ظہور میں آیا.تیس۳۰ دسمبر ۱۸۹۵ء تک ہماری طرف سے اس کو تبلیغ ہوتی رہی کہ شائد وہ خدا تعالیٰ سے خوف کرکے سچی گواہی ادا کرے.پھر ہم نے تبلیغ کو چھوڑ دیا اور خدا تعالیٰ کے وعدہ کے انتظار میں لگے سو آتھم صاحب نے ۳۰ ؍دسمبر ۱۸۹۵ء میں سے ابھی سات مہینے ختم نہ کئے تھے کہ قبر میں جا پڑے.یہ خدا تعالیٰ کے کام ہیں جس کو لوگ عبرت کی نظر سے نہیں دیکھتے بلکہ جن کے دل سیاہ اور آنکھیں اندھی ہیں وہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح خدا تعالیٰ کے نشانوں کو چھپا دیں.چنانچہ پرچہ کشف الحقائق بمبئی یکم اگست ۱۸۹۶ء جو حسام الدین عیسائی کی طرف سے نکلتا ہے اس میں اسی پرانی عادت جھوٹ کی نجاست خوری کی وجہ سے چند سطریں صفحہ ۱۰۸ پرچہ مذکور میں لکھی ہیں جو مناسب سمجھ کر ذیل میں ان کا جواب دیا جاتا ہے.قولہ.ہم نے سنا ہے کہ جنگ مقدس نہایت مفید اور عمدہ کتاب ہے اس میں قادیانی صاحب کے ناجائز خیالات کی پردہ دری آتھم صاحب نے نہایت شائستگی سے کی ہے.اقول.بیشک اس قدر تو میں بھی قائل ہوں کہ جنگ مقدس کا واقعی نقشہ ان لوگوں کو بلاشبہ مفید ہے جو غور اور انصاف کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہیں.لیکن جو مردہ پرست ہیں اور وہ مردہ پرستی کی عادت ان کی طبیعت کی جز ہوگئی ہے ان کو مفید نہیں.کیونکہ وہ آنکھیں رکھتے ہوئے نہیں دیکھتے اور کان رکھتے ہوئے نہیں سنتے اور دل رکھتے ہوئے نہیں سمجھتے.ظاہر ہے کہ جنگ مقدس کے مباحثہ میں عیسائیوں سے بڑا بھاری مطالبہ یہ تھا کہ وہ ابن مریم کی خدائی کو عقل اور نقل کی رو سے ثابت کریں.سو عقل تو دور سے ایسے عقیدہ پر نفرین کرتی تھی.اس لئے انہوں نے عقل کا نام ہی نہ لیا.کیونکہ عقل اسلامی توحید تک ہی گواہی دیتی ہے اور اسی لئے تمام عیسائی اس بات کو مانتے ہیں کہ اگر ایک گروہ ایسے کسی جزیرہ کا رہنے والا ہو جس کے پاس نہ قرآن پہنچا ہو اور نہ انجیل اور نہ اسلامی توحید پہنچی ہو اور نہ نصرانیت کی
تثلیث ان سے صرف اسلامی توحید کا مواخذہ ہوگا.جیسا کہ پادری فنڈل نے میزان الحق میں یہ صاف اقرار کیا ہے.پس لعنت ہے ایسے مذہب پر جس کے اصل الاصول کی سچائی پر عقل گواہی نہیں دیتی.اگر انسان کے کانشنس اور خدا داد عقل میں تثلیث کی ضرورت فطرتاً مرکوز ہوتی تو ایسے لوگوں کو بھی ضرور تثلیث کا مواخذہ ہوتا جن تک تثلیث کا مسئلہ نہیں پہنچا حالانکہ عیسائی عقیدہ میں بالاتفاق یہ بات داخل ہے کہ جن لوگوں تک تثلیث کی تعلیم نہیں پہنچی ان سے صرف توحید کا مواخذہ ہوگا.اس سے ظاہر ہے کہ توحید ہی وہ چیز ہے جس کے نقوش انسان کی فطرت میں مرکوز ہیں.باقی رہا یسوع کی خدائی کو منقولات سے ثابت کرنا.سو جنگ مقدس میں آتھم مقتول ہرگز ثابت نہ کر سکا کہ یہی تعلیم جو انجیل کے حوالہ سے اب ظاہر کی جاتی ہے موسیٰ کی توریت میں موجود ہے ظاہر ہے کہ اگر باپ بیٹے روح القدس کی تعلیم جو دوسرے لفظوں میں تثلیث کہلاتی ہے بنی اسرائیل کو دی جاتی تو کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ سب کے سب اس کو بھول جاتے جس تعلیم کو موسیٰ نے چھ سات لاکھ یہود کے سامنے بیان کیا تھا اور بار بار اس کے حفظ رکھنے کے لئے تاکید کی تھی اور پھر حسب زعم عیسائیاں متواتر خدا کے تمام نبی یسوع کے زمانہ تک اس تعلیم کو تازہ کرتے آئے ایسی تعلیم یہود کو کیونکر بھول سکتی تھی.کیا یہ بات ایک محقق کو تعجب میں نہیں ڈالتی کہ وہ تعلیم جو لاکھوں یہودیوں کو دی گئی تھی اور خدا کے نبیوں کی معرفت ہر صدی میں تازہ کی گئی تھی جو اصل مدار نجات تھی اس کو یہود کے تمام فرقوں نے بھلا دیا ہو حالانکہ یہود اپنی تالیفات میں صاف گواہی دیتے ہیں کہ ایسی تعلیم ہمیں کبھی نہیں ملی.اور ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ یہود اس بات میں ضرور سچے ہیں.کیونکہ اگر تنزّل کے طور پر یہ بھی فرض کرلیں کہ صرف یسوع کے زمانہ میں یہود میں تثلیث کی تعلیم پر عمل تھا.تب بھی یہ فرض صریح باطل ٹھہرتا ہے کیونکہ اگر ایسا عمل ہوتا تو ضرور اس کے آثار یہود کی منقولات اور تالیفات میں باقی رہ جاتے اور غیر ممکن تھا کہ یہود یک دفعہ اس تعلیم سے روگرداں ہو جاتے کہ جو تعامل کے طور پر برابر ان میں چلی آئی
تھی.اور اگر کسی پیشگوئی میں یہود کو خبر دی جاتی کہ ایک خدا بھی عورت کے پیٹ سے پیدا ہونے والا ہے تو پیشگوئی کے ایسے مفہوم سے جو نبیوں کی معرفت سبق کے طور پر ان کو ملا تھا ہرگز انکار نہ کرتے.ہاں یہ ممکن تھا کہ یہ عذر پیش کرتے کہ ایک خدا ایک عورت کے پیٹ میں سے نکلنے والا تو ضرور ہے مگر وہ خدا ابن مریم نہیں ہے بلکہ وہ کسی دوسرے وقت میں آئے گا.حالانکہ ایسے عقیدہ پر یہود ہزار لعنت بھیجتے ہیں.پس میں پوچھتا ہوں کہ جنگ مقدس میں آتھم نے ان باتوں کا کیا جواب دیا ہے.کیا یہود کی گواہی سے ثابت کیا کہ نبیوں سے یہی تعلیم ان کو ملی تھی یا نبیوں کی معرفت جو پیشگوئیوں کے معنے ان کو سمجھائے گئے تھے وہ یہی معنی ہیں.سچ ہے کہ آتھم اور اس کے ہم مشربوں نے بائیبل میں سے چند پیش گوئیاں پیش کی تھیں.مگر وہ ہرگز ثابت نہ کرسکے کہ یہود جو وارث توریت کے ہیں وہ یہی معنے کرتے ہیں.صرف تاویلات رکیکہ پیش کیں.مگر ظاہر ہے کہ صرف خود تراشیدہ تاویلات سے ایسا بڑا دعویٰ جو عقل اور نقل کے برخلاف ہے ثابت نہیں ہوسکتا.مثلاً یہ لکھنا کہ ’’عما نوایل نام رکھنا‘‘ یہ یسوع کے حق میں پیشگوئی ہے.حالانکہ یہود نے بڑی صفائی سے ثابت کردیا ہے کہ یسوع کی پیدائش سے مدّت پہلے یہ پیشگوئی ایک اور لڑکے کے حق میں پوری ہوچکی ہے.اور مثلاً یہ کہنا کہ الوہیم کا لفظ جو جمع ہے تثلیث پر دلالت کرتا ہے.حالانکہ یہود نے کھلے کھلے طور پر ثابت کردیا ہے کہ الوہیم کا لفظ توریت میں فرشتہ پر بھی بولا گیا ہے.اور ان کے نبی پر بھی اور بادشاہ پر بھی.اور لفظ الوہیم سے صرف تین۳ شخص ہی کیوں مراد لئے جاتے ہیں کیونکہ جمع کا صیغہ تین۳ سے زیادہ سینکڑوں ہزاروں پر بھی تو دلالت کرتا ہے.سو ان بے ہودہ تاویلات سے بجز اپنی پردہ دری کرانے کے اور کیا آتھم کے لئے نتیجہ نکلا تھا.مگر عیسائی بھی عجیب قوم ہے کہ اتنی ذلتیں اٹھا کر پھر بھی شرمندہ نہیں ہوتی.قولہ.’’قادیانی صاحب باضابطہ مباحثہ میں کامیاب نہ ہوئے تو انہوں نے آتھم صاحب کے مرنے
کی پیشگوئی کی.مگر وہ بھی وقت متعینہ پر پوری نہ ہوئی.‘‘ اقول.مباحثہ کا نمونہ تو میں نے کسی قدر ابھی بتلا دیا.اور پھر بھی انکار کرتے رہنا ان لوگوں کا کام ہے جو جھوٹ سے محبت رکھتے ہیں.اور رہا یہ کہ آتھم تاریخ مقررہ پر نہیں مرا بلکہ اس کے بعد مرا یہ عیسائیوں کی حماقت ہے جو ایسا سمجھتے ہیں.کیا پیشگوئی میں یہ شرط نہ تھی کہ آتھم اس حالت میں ہاویہ میں گرے گا کہ جب رجوع الی الحق نہ کرے*.اب ذرہ دل کو ٹھہرا کر اور آنکھوں کو کھول کر سوچو اور فکر کرو کہ کیونکر آتھم نے اپنے اقوال سے اپنے افعال سے اپنی مضطربانہ حرکات سے اپنے مفتریانہ دعاوی سے اس بات کو ثابت کردیا کہ درحقیقت پیشگوئی کی عظمت نے اس کے دل پر اثر کیا اور درحقیقت وہ پیشگوئی کے زمانہ میں نہ معمولی طور پر بلکہ بہت ہی ڈرا اور وہ خوف اس بات کے لئے بڑے زبردست دلائل ہمارے ہاتھ میں ہیں کہ آتھم کی یہ موت کوئی معمولی موت نہیں.آتھم کی عمر قریباً میرے برابر تھی.اور میں تو اکثر عوارض لاحقہ سے بیمار رہتا ہوں اور درد سر کی بیماری مجھے مدت تیس سال سے ہے.مگر آتھم ایک پرورش یافتہ بیل کی طرح موٹا تھا اور دن رات شراب پینے اور عمدہ غذائیں کھانے کے سوا اور کوئی کام نہیں تھا.سو اس کی موت درحقیقت انہیں پیشگوئیوں کا ظہور ہے کہ جو قطعی طور پر اس کے لئے کی گئی تھیں.اور علاوہ پیشگوئیوں کے جن کا اپنے وقت پر پورا ہونا ضروری تھا.یہ بھی انوار الاسلام اور دیگر اشتہارات میں بار بار لکھ چکے ہیں کہ یہ قدیم سے سنت اللہ ہے کہ جو شخص خوف کی حالت میں رجوع کرکے اور پھر امن پاکر برگشتہ ہوجائے خدا اس کو تھوڑی مہلت دیکر پھر پکڑ لیتا ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے.3۱یعنی ہم رجوع کے بعد کچھ تھوڑی مدت عذاب کو موقوف رکھیں گے اور پھر پکڑ لیں گے اور تھوڑی مدت اس لئے کہ پھر تم انکار کی طرف رجوع کرو گے.سو ایسا ہی ہوا.یہ بات مسلمانوں کو بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ گو ایک شخص کا انجام خدائے تعالیٰ کے علم میں کفر ہو مگر عادت اللہ قدیم سے یہی ہے کہ اس کی تضرع اور خوف کے وقت عذاب کو دوسرے وقت پر ڈال دیا جاتا ہے.اسی وجہ سے اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ وعید میں خدا کے ارادہ عذاب کا تخلّف جائز ہے مگر بشارت میں جائز نہیں جیسا کہ قوم یونس کی وعید میں نزول عذاب کی قطعی تاریخ بغیر کسی شرط کے بتلا کر پھر اس قوم کی تضرّع پر وہ عذاب موقوف
کے تمثلات اس کی آنکھوں کے سامنے بار بار آئے جو قانون فطرت کی رو سے ان لوگوں کو دکھائی دیا کرتے ہیں جو حد سے زیادہ ڈرتے ہیں.مثلاً امرتسر کے مقام میں اس نے سانپ دیکھا کہ گویا وہ ہمارے اشارہ سے اس پر حملہ کرتا ہے اور لدھیانہ کے مقام میں نیزوں والے دیکھے جو اس کو مارنا چاہتے ہیں.اور فیروز پور کے مقام میں بندوقوں والوں کو دیکھا کہ گویا اس کا کام تمام کرنا چاہتے ہیں.اگر یہ حملے کسی انسان کی طرف سے ہوتے تو ضرور آتھم صاحب اس سانپ کو مار سکتے اور اگر سانپ ہاتھ سے نکل گیا تھا تو ان لوگوں میں سے کسی کو پکڑ سکتے جنہوں نے لودیانہ میں ان پر حملہ کیا تھا.اور اگر ان کو نہ پکڑ سکتے تو ان لوگوں میں سے تو ضرور کسی کو پکڑتے جنہوں نے مقام فیروز پور میں ان کے داماد کی کوٹھی پر پہرہ والوں کے ہوتے ہوئے ان پر حملہ کیا تھا.کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ آتھم جیسے پیر جہاں دیدہ پر اس درجہ کی مذہبی دشمنی کی وجہ سے تین حملے ہوں تو وہ نہ کسی اقدام قتل کرنے والے کو پکڑ سکے اور نہ اس مدت میں کسی عیسائی کو اس واقعہ کی خبر دے سکے اور نہ تھانہ میں رپورٹ لکھوا سکے اور نہ عدالت میں نالش کر سکے اور رکھا گیا اور قرآن شریف اور توریت کے اتفاق سے یہ بھی ثابت ہے کہ فرعون کے ایمان کے وعدہ پر خدا تعالیٰ بار بار عذاب کو اس سے ٹالتا رہا حالانکہ جانتا تھا کہ فرعون کا خاتمہ کفر پر ہے مگر اس بات کا سِرکہ وعید میں تخلف ارادہ عذاب کا کیوں اور کس وجہ سے بعض اوقات میں ہوجاتا ہے حالانکہ بظاہر تخلف وعید میں بھی رائحہ کذب ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ کسی کو سزا دینا دراصل خدا تعالیٰ کے ذاتی ارادہ میں داخل نہیں ہے اس کے صفاتی نام جو اصل الاصول تمام ناموں کے ہیں چار ہیں اور چاروں جُود اور کرم پر مشتمل ہیں.یعنی وہی نام جو سورہ فاتحہ کی پہلی تین آیتوں میں مذکور ہیں یعنی ربّ العالمین اور رحمان اور رحیم اور مٰلک یوم الدّین یعنی مالک یوم جزا.ان ہر چہار صفات میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کے لئے سراسر نیکی کا ارادہ کیا گیا ہے.یعنی پیدا کرنا پرورش کرنا جس کا نام ربوبیت ہے اور بے استحقاق آرام کے اسباب مہیا کرنا جس کا نام رحمانیت ہے.اور تقویٰ اور خدا ترسی اور ایمان پر انسان کے لئے وہ اسباب مہیا کرنا جو
ہمارا مچلکہ بذریعہ عدالت لے سکے اور منہ پر مہر لگ جائے.کیا تم انسان ہویا حیوان ہو کہ اتنی موٹی بات کو سمجھ نہیں سکتے کہ جس آتھم پر جو اکسٹرا اسٹنٹ بھی رہ چکا تھا ایسے ایسے سخت حملے ہوئے اور نہ صرف اسی قدر بلکہ بقول تمہارے اس کو زہر دینے کا بھی ارادہ کیا گیا مگر اس نے عدالت کے ذریعہ سے خونخوار حریف کا کچھ بھی تدارک نہ کرایا.ایسے بدذات اور پلید طبع جنہوں نے زہر دینے کی تجویز کی اور ڈاکوؤں کی طرح تین مرتبہ اس پر سخت حملے کئے کیا ایسے خبیثوں کو چھوڑنا روا تھا.خدا کی لعنت اس شخص پر جس نے سانپ چھوڑا اور زہر دینے کی تجویز کی اور سوار اور پیا دے بندوقوں اور تلواروں اور نیزوں کے ساتھ بمقام لودیانہ اور فیروز پور آتھم کی کوٹھی پر بھیجے تا اس کو قتل کریں.اور اگر یہ بات صحیح نہیں تو پھر اس شخص پر ہزار لعنت جس نے ایسا بے بنیاد افتراکیا اور حق کو مخفی رکھنے کے لئے اور اپنے خوف کو چھپانے کیلئے یہ منصوبہ گھڑا.اسی قسم کے افتراؤں سے جن کو ہم نے بچشم خود دیکھ لیا ہم یقین رکھتے ہیں کہ اس عیسائی قوم میں سخت بد ذات اور شریر پیدا ہوتے ہیں اور بھیڑوں کے لباس میں اپنے تئیں ظاہر کرتے ہیں اور اصل میں شریر بھیڑیئے ہوتے ہیں.اور ایسی بدذاتی سے بھرے ہوئے جھوٹ بولتے ہیں اور افترا کرتے آئندہ دکھ اور مصیبت سے محفوظ رکھیں.جس کا نام رحیمیّت ہے.اور اعمال صالحہ کے بجا لانے پر جو عبادت اور صوم اور صلٰوۃ اور بنی نوع کی ہمدردی اور صدقہ اور ایثار وغیرہ ہے وہ مقام صالح عطا کرنا جو دائمی سرور اور راحت اور خوشحالی کا مقام ہے جس کا نام جزاء خیر از طرف مالک یوم الجزاء ہے.سو خدا نے ان ہر چہار صفات میں سے کسی صفت میں بھی انسان کے لئے بدی کا ارادہ نہیں کیا سراسر خیر اور بھلائی کا ارادہ کیا ہے لیکن جو شخص اپنی بدکاریوں اور بے اعتدالیوں سے ان صفات کے پرتوہ کے نیچے سے اپنے تئیں باہر کرے اور فطرت کو بدل ڈالے اس کے حق میں اسی کی شامت اعمال کی وجہ سے وہ صفات بجائے خیر کے شر کا حکم پیدا کرلیتے ہیں چنانچہ ربوبیت کا ارادہ فنا اور اعدام کے ارادہ کے ساتھ مبدل ہوجاتا ہے اور رحمانیت کا ارادہ غضب اور سُخط کی صورت میں ظاہر ہوجاتا ہے اور رحیمیت کا ارادہ انتقام اور سخت گیری کے رنگ میں جوش مارتا ہے اور جزاء خیر کا ارادہ سزا اور تعذیب کی صورت میں اپنا ہولناک چہرہ دکھاتا ہے.سو یہ تبدیلی خدا کی صفات میں انسان کی اپنی حالت کی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے
ہیں جن کی کچھ بھی اصلیت نہیں ہوتی.عیسائی اس بات کو مانیں یا نہ مانیں مگر منصف لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ آتھم کو ان بیہودہ افتراؤں کی کیوں ضرورت پیش آئی اور کیوں اور کس وجہ سے یہ باتیں اس نے میعاد گزرنے کے بعد پیش کیں اور میعاد کے اندر میّت کی طرح کیوں خاموش رہا حالانکہ دشمن کی مجرمانہ حرکت کو اسی وقت شائع کرنا چاہئے تھا جبکہ دشمن کی طرف سے ارتکاب جرم کا ہوا تھا.اس افترا کا یہی سبب تھا کہ آتھم نے اپنی کمال سراسیمگی سے پیشگوئی کی میعاد میں دنیا پر ظاہر کردیا تھا کہ وہ پیشگوئی کی عظمت سے سخت خوف میں پڑگیا اور اس کے دل کا آرام جاتا رہا.اکثر وہ روتا تھا.اور اس کے ڈرنے والے دل کا نقشہ اس کے چہرہ پر نمودار تھا اور مُردہ پرستی کا ایمان اس کو قوت اور استقامت نہیں بخش سکتا تھا بلکہ اس وقت سچائی کے خوف نے اس کے ایسے پلید خیالات کو اپنے پیروں کے نیچے کچل دیا تھا.سو جس خوف کا اس نے اپنی سخت بیقرار ی سے ثبوت دے دیا تھا میعاد گزرنے پر ضرور تھا کہ وہ اپنی قوم کے آگے اس کی کچھ تاویل کرتا اور اس کی کوئی وجہ بتلاتا.تاکسی کے ذہن کا اس طرف انتقال نہ ہو کہ وہ تمام خوف پیشگوئی کی وجہ سے تھا سو اس نے تین حملوں اور زہر دینے کی تجویز کو بہانہ بنایا.تاسب لوگ بول اٹھیں کہ جبکہ آتھم بیچارہ پر اس قدر سخت حملے ہوئے تو وہ بیچارہ کیوں سراسیمہ اور بیقرار نہ رہتا.اگر یہ بہانہ نہیں تھا اور واقعی طور پر ہم نے کوئی تعلیم یافتہ سانپ چھوڑا تھا.یا ہمارے سوار اور پیادے اس کے قتل کرنے کے لئے اس کی کوٹھی پر آئے تھے یا اس کو زہر دینے کے لئے ہماری غرض چونکہ سزا دینا یا سزا کا وعدہ کرنا خدائے تعالیٰ کی ان صفات میں داخل نہیں جو اُمّ الصفات ہیں کیونکہ دراصل اس نے انسان کے لئے نیکی کا ارادہ کیا ہے اس لئے خدا کا وعید بھی جب تک انسان زندہ ہے اور اپنی تبدیلی کرنے پر قادر ہے فیصلہ ناطقہ نہیں ہے.لہٰذا اس کے برخلاف کرنا کذب یا عہد شکنی میں داخل نہیں.اور گو بظاہر کوئی وعید شروط سے خالی ہو مگر اس کے ساتھ پوشیدہ طور پر ارادہ الٰہی میں شروط ہوتی ہیں بجز ایسے الہام کے جس میں ظاہر کیا جائے کہ اس کے ساتھ شروط نہیں ہیں.پس ایسی صورت میں قطعی فیصلہ ہوجاتا ہے اور تقدیر مبرم قرار پاجاتا ہے یہ نکتہ معارف الٰہیہ سے نہایت قابل قدر اور جلیل الشان نکتہ ہے جو سورہ فاتحہ میں مخفی رکھا گیا ہے.فتدبّر.منہ
طرف سے کوئی اقدام ہوا تھا تو اس کو خدا نے خوب موقعہ دیا تھا کہ ہماری پیشگوئی کی قلعی کھولتا اور حملہ آوروں کو پکڑتا اور ان حملوں کے وقوع کا ثبوت دیتا.یا کم سے کم اثناء پیشگوئی میں کسی تھانہ میں رپورٹ لکھواتا یا کسی حاکم سے ذکر کرتا.یا اخباروں میں چھپوا دیتا.جس شخص نے اول جھوٹی پیشگوئی کرکے اس قدر اس کے دل کو دکھایا اور اس درجہ کا صدمہ پہنچایا اور پھر زہر دینے کی فکر میں رہا.اور پھر تین حملے کئے تااس کو نیست و نابود کرے اور اس کی موت کو اس کے مذہب کے بطلان پر دلیل لاوے.کیا ضرور نہ تھا کہ ایسے ظالم کے ظلم پر ہرگز صبر نہ کیا جاتا.اگر اپنے لئے نہیں تو اپنے مذہب کی حمایت کے لئے ہی ایسے مفسد کا واجب تدارک کرنا چاہئے تھا.چنانچہ اخبار والوں نے بھی ہر طرف سے زور دیا کہ آتھم صاحب لوگوں پر احسان کریں گے اگر ایسے مفسد کو عدالت کے ذریعہ سے سزا دلائیں گے.مگر آتھم صاحب موت سے پہلے ہی مرگئے اور ہماری سچائی کے پوشیدہ ہاتھ نے انہیں ایسا دبایا کہ گویا وہ زندہ ہی قبر میں داخل ہوگئے.دنیا تمام اندھی نہیں ہریک منصف سوچ سکتا ہے کہ جو ناحق کے الزاموں کے تیر انہوں نے میری طرف پھینکے تھے وہی تیر بوجہ عدم ثبوت ان کو زخمی کرگئے اور ان افتراؤں سے عقلمندوں نے سمجھ لیا کہ ضرور دال میں کالا ہے.غرض جبکہ وہ اس بار ثبوت سے سبکدوش نہ ہوسکے جس سے انہیں سبکدوش ہونا چاہئے تھا بلکہ قسم کھانے سے بھی محض حق پوشی کے طریق پر انکار کرگئے تو کیا اب بھی یہ ثابت نہ ہوا کہ ضرور انہوں نے پیشگوئی کی عظمت کا خوف دل میں ڈال کر اس شرط سے فائدہ اٹھایا تھا جو الہامی عبارت میں درج تھی.قولہ.قادیانی صاحب کے پیرو پیشگوئی کے سبب سے ان سے منحرف ہوگئے.اقول.میاں حسام الدین کی یہ دروغ گوئی درحقیقت افسوس کی جگہ نہیں کیونکہ جبکہ ان کے بزرگ عیسائی ایک مردہ کو خدا بنانے کے لئے کئی جھوٹی انجیلیں بناکر چھوڑ گئے تو
جھوٹ بولنا ان کی وراثت ہے.یہ بھی یاد رہے کہ اگر انحراف سے ان کی مراد کسی ایک آدھ ناسمجھ کا انحراف ہے تو آپ کے یسوع صاحب پر سب سے پہلے یہ الزام ہے کیونکہ یہودا اسکریوطی یسوع صاحب سے بڑے زور شور کے ساتھ منحرف ہوا تھا اور نہ صرف منحرف ہوا بلکہ نہایت بدظن ہوکر یہ چاہا کہ ایسا شخص ہلاک ہی ہوجائے تو بہتر ہے.تیس روپیہ لینے پر اسی وجہ سے راضی ہوا کہ یہ رقم قلیل بھی اس کے وجود سے بدرجہا افضل ہے.بات یہ ہے کہ یسوع صاحب نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ میں داؤد کے تخت کو قائم کرنے آیا ہوں اور اس طرح پر یہود کو اپنی طرف کھینچنا چاہا تھا کہ دیکھو میں تمہاری بادشاہی پھر دنیا میں دوبارہ قائم کرنے آیا ہوں اور رومی گورنمنٹ سے اب جلد تم آزاد ہوا چاہتے ہو.مگر وہ بات نہ ہوئی بلکہ حضرت یسوع صاحب نے نہایت درجہ کی ذلت دیکھی.مُنہ پر تھوکا گیا.اور آپ کے اس حصہ جسم پر کوڑے لگائے گئے جہاں مجرموں کو لگائے جاتے ہیں اور حوالات میں کیا گیا.پس یہودا اور ایسا ہی اور بہت سے آدمیوں نے بخوبی سمجھ لیا کہ اس شخص کی پیشگوئی صاف جھوٹی نکلی اور یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے.لہٰذا انہوں نے اس کے ساتھ رہنا پسند نہ کیا.اور ان کے دل پہلے ہی سے شکستہ ہوگئے تھے کیونکہ پہلے نبیوں کی پیشگوئیوں کے مطابق یسوع میں مسیح موعود ہونے کی علامتیں نہ پائی گئیں.اور خاص کر یہ کہ ان سے پہلے ایلیا آسمان سے نہ اُترا جس کا اُترنا ضروری تھا.اور پھر اس بات سے تو طبیعتیں نہایت بیزار ہوگئیں کہ داؤد کے تخت کے بحال کرنے کی پیشگوئی جو مسیح موعود کی علامت تھی ان کے حق میں صادق نہ آئی.انہوں نے دعویٰ بھی کردیا کہ میں پہلے نبیوں کی پیشگوئی کے مطابق داؤد کے تخت کو پھر بحال کرنے آیا ہوں بلکہ شوق ظاہر کیا کہ لوگ مجھ کو شہزادہ کہیں مگر ان کی بدقسمتی سے داؤد کا تخت بحال نہ ہوا اور وہ دعویٰ جھوٹا نکلا.اور درحقیقت یسوع صاحب کی یہ ایک فضولی تھی اور یا ایک قسم کی چالاکی اور
دام اندازی کہ انہوں نے یہودیوں کو داؤد کے تخت کی امید دلائی تا وہ لوگ اگر اور طرح نہیں تو اسی طرح ان کے قبضہ میں آجائیں.مگر چاہئے تھا کہ وہ ایسی لاف و گزاف سے اپنی زبان کو بچاتے اور اسی پہلی بات پر قائم رہتے کہ میری بادشاہت دنیا کی بادشاہت نہیں مگر نفسانی جذبات کی وجہ سے صبر نہ کرسکے اور اپنے پہلے پہلو میں ناکامی دیکھ کر ایک اور چال اختیار کی اور پھر جب باغی ہونے کے شبہ میں پکڑے گئے تو پھر اپنے تئیں بغاوت کے الزام سے بچانے کے لئے وہی پہلا پہلو اختیار کرلیا.دعویٰ خدائی کا اور پھر یہ چال بازیاں.جائے تعجب ہے.اور یاد رہے کہ یہ ہماری رائے اس یسوع کی نسبت ہے جس نے خدائی کا دعویٰ کیا اور پہلے نبیوں کو چور اور بٹمار کہا اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بجز اس کے کچھ نہیں کہا کہ میرے بعد جھوٹے نبی آئیں گے.ایسے یسوع کا قرآن میں کہیں ذکر نہیں.قولہ.ہر ایک شریف مسلمان کو اس بات کے سننے سے نہایت رنج ہوگا کہ مسلمان مخالفین نے ان کے یعنی آتھم صاحب کے مارنے کے لئے وحشیانہ حرکتیں کیں ان کے گھر میں زندہ سانپ چھوڑے گئے ان کو زہر کھلانے کی تجویز کی گئی.اقول.میں پوچھتا ہوں کہ اب آتھم صاحب جو مرگئے کس زہر سے مارے گئے یا کس سانپ نے ان کو ڈسا یا کس نے ان پر بندوق فیر کی یا تلوار چلائی.اگر کہو کہ اب پیشگوئی کی میعاد کے بعد فوت ہوئے تو یہ صاف حماقت ہے کیونکہ پیشگوئی نے یہ قطعی فیصلہ نہیں دیا تھا کہ ضرور اس کی میعاد کے اندر ہی فوت ہوں گے.بلکہ پیشگوئی میں یہ صاف شرط موجود تھی کہ اگر وہ عیسائیت پر مستقیم رہیں گے اور ترک استقامت کے آثار نہیں پائے جائیں گے اور ان کے افعال یا اقوال سے رجوع الی الحق ثابت نہیں ہوگا تو صرف اس حالت میں پیشگوئی کے اندر فوت ہوں گے ورنہ ان کی موت میں تاخیر ڈال دی جائے گی.ہاں کسی قدر ہاویہ کا بھی مزہ چکھ لیں گے
سو بلاشبہ پیشگوئی نے میعاد کے اندر اس ہاویہ کا مزا ان کو چکھا دیا جس ہاویہ کی تکمیل رفتہ رفتہ ۲۷؍جولائی ۱۸۹۶ء کو ہوگئی اور ضرور تھا کہ وہ پیشگوئی کی میعاد میں ہاویہ کے پورے اثر سے بچے رہتے.کیونکہ انہوں نے اسلامی پیشگوئی کا ڈر اپنے پر ایسا غالب کیا کہ ایک قسم کی موت ان پر آگئی وہ مردوں کی طرح چپ ہوگئے اور عیسائیت کے پلید عقائد کی حمایت میں جو پہلے تالیفات کرتے رہتے تھے ان سے یکلخت دستکش ہوگئے اور خوف کے صدمات نے ان کو سراسیمہ کردیا پس کیا ضرور نہ تھا کہ خدا تعالیٰ اپنے الہام کی شرط کے موافق موت کو دوسرے وقت پر ٹال دیتا.اور کیا ان کی موت سے پہلے یہ پیشگوئی شائع نہیں کی گئی کہ انکار قسم کے اصرار پر یہ پیشگوئی پورے طور پر پوری ہو جائے گی.سو اب بیشک آتھم صاحب پیشگوئی کے مطابق مرے اور آخری انکار کے بعد صرف سات مہینے زندہ رہے.سو یہ ہمارا حق ہے کہ ہم کہیں کہ ہریک شریف عیسائی کو اس بات کے سننے سے نہایت رنج ہوگا کہ آتھم باطل اندیش نے پیشگوئی کی سچائی کو چھپانے کے لئے کیا کیا مکروہ اور نالائق افتراؤں سے کام لیا اور کس طرح دلیری کے ساتھ بے بنیاد جھوٹ کو پیش کیا.نالائق آتھم نے سراسر بے وجہ مجھے زہر خورانی کے اقدام کی تہمت دی.میرے پر یہ افترا باندھا کہ گویا میں نے اس کے قتل کرنے کے لئے اس کی کوٹھی میں سانپ چھوڑے تھے.اور گویا میں ایسا پرانا خونی تھا کہ تین مرتبہ میں نے تین مختلف شہروں میں اس کے مارنے کے لئے اپنی جماعت کے جوانوں سے حملے کرائے اور کئی سوار اور پیادے معہ بندوقوں اور تلواروں اور نیزوں کے اس کی کوٹھی میں لودیانہ اور فیروز پور میں میرے حکم سے گھس گئے.خدا کی لعنت کا مارا بہت سا جھوٹ بول کر بھی آخر موت سے بچ نہ سکا.شرطی پیشگوئی سے تو اس کی جان بوجہ ادائے شرط کی بچ گئی لیکن قطعی پیشگوئی نے آخر اس کو کھا لیا.میں اپنے اشتہارات انوارالاسلام وغیرہ اور ضیاء الحق میں نہایت دلائل قاطعہ سے ثابت کر چکا ہوں کہ آتھم کا یہ نہایت گندہ جھوٹ ہے کہ اس نے ان حملوں کا میرے پر الزام لگایا اور ایک راستباز انسان کی طرح کبھی یہ ارادہ نہ کیا کہ اس الزام کو ثابت کرے نہ نالش سے نہ بذریعہ پولیس ثبوت
دینے سے اور نہ قسم کھانے سے اور نہ کسی خانگی طور سے.اور میں یقیناً جانتا ہوں کہ کسی منصف کا کانشنس ہرگز یہ گواہی نہیں دے گا کہ درحقیقت واقعی طور پر یہ حملے ہوئے تھے.میں دشمنوں سے اس وقت امید نہیں رکھتا کہ وہ اپنے کانشنس سے مجھ کو اطلاع دیں مگر ایک حق پسند کے لئے یہ ثبوت تسلی بخش ہے کہ آتھم نے ان چار الزاموں میں سے کسی الزام کو ثابت نہیں کیا بلکہ قسم کھانے سے بھی اعراض کیا جس سے بآسانی صفائی ہوسکتی تھی.اور اس سوال کا جواب ہریک منصف کا کانشنس دے سکتا ہے کہ ان بہتانوں کے لئے اس کو کونسی ضرورت پیش آئی تھی.کیا بجز اس کے اور بھی کوئی ضرورت عقل میں آسکتی ہے کہ اس نے بہتانوں کے ساتھ اپنے اس خوف پر پردہ ڈالنا چاہا جو اس کی سراسیمگی کی وجہ سے ہر ایک شخص پر ظاہر ہوچکا تھا.کیا عقل باور کرسکتی ہے کہ جس کی جان لینے کے لئے ہم نے سو کوس تک تعاقب کیا اور بار بار حملے کئے اس کے منہ پر اخیر میعاد تک مہر لگی رہی اور نہ صرف اس کے منہ پر بلکہ ان سب کے منہ پر جنہوں نے ایسے حملہ آوروں کو دیکھا تھا.نہ نالش کرنا نہ قسم کھانا نہ خانگی طور پر کوئی گواہ پیش کرنا کیا یہ وہ علامات ناطقہ نہیں ہیں جن سے اصل حقیقت کھلتی ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ صرف پیشگوئی کی شرط سے لوگوں کے خیالات ہٹانے کے لئے یہ حرکت مذبوحی تھی.مگر تاہم اگر اب تک کسی عیسائی کو آتھم کے اس افترا پر شک ہو تو آسمانی شہادت سے رفع شک کرا لیوے.آتھم تو پیشگوئی کے مطابق فوت ہوگیا اب وہ اپنے تئیں اس کا قائم مقام ٹھہرا کر آتھم کے مقدمہ میں قسم کھا لیوے.اس مضمون سے کہ آتھم پیشگوئی کی عظمت سے نہیں ڈرا بلکہ اس پر یہ چار حملے ہوئے تھے.اگر یہ قسم کھانے والا بھی ایک سال تک بچ گیا تو دیکھو میں اس وقت اقرار کرتا ہوں کہ میں اپنے ہاتھ سے شائع کردوں گا کہ میری پیشگوئی غلط نکلی.اس قسم کے ساتھ کوئی شرط نہ ہوگی.یہ نہایت صاف فیصلہ ہو جائے گا اور جو شخص خدا کے نزدیک باطل پر ہے اس کا بطلان کھل جائے گا.اگر عیسائی لوگ سچے دل سے یقین رکھتے ہیں کہ پیشگوئی جھوٹی نکلی تو اس طریق امتحان سے
کونسی چیز ان کو مانع ہے.آتھم کا مقدمہ ایک ایسا صاف ہے کہ اگریہ بہ ہیئت کذائی چیف کورٹ کے ججوں کے سامنے بھی پیش ہو تو ان سے کچھ نہیں بن سکے گا بجز اس کے کہ ہمارے حق میں ڈگری دیں.کیا آتھم ان بہتانوں میں سے کسی ایک بہتان کو بھی ثابت کرسکا جو اس نے پیشگوئی کی میعاد کے بعد مجھ پر لگائے کیا یہ سفید جھوٹ نہیں کہ بقول اس کے میں نے زہر خورانی کا اقدام کیا.جیسا کہ میاں حسام الدین عیسائی کشف الحقائق پرچہ اگست ۱۸۹۶ء میں مجھ پر الزام لگاتے ہیں کہ گویا میں نے زہر خورانی کی تجویز کی اور سانپ چھوڑے.شاید اس سے ان کا مطلب یہ ہے کہ آتھم کو ایک کراماتی عیسائی بنادیں کیونکہ انجیلوں میں لکھا ہے کہ راستباز مسیحی کی یہ علامت ہے کہ سانپ اس کو ڈس نہ سکے اور زہر اس میں اثر نہ کرسکے.سو گویا یہ دونوں کرامتیں آتھم سے ظہور میں آگئیں اب اس کے ولی ہونے میں کیا کسر رہ گئی.لیکن عقلمند خوب سمجھتے ہیں کہ یہ ساری باتیں اس خوف کے چھپانے کے لئے ہیں جس نے آتھم کو پیشگوئی سننے کے بعد ہوش و حواس سے الگ کر دیا تھا.اگر یہ بات صحیح نہیں ہے تو کوئی ثبوت پیش کرنا چاہئے تھا کہ یہ خوف آتھم صاحب کا جس کا ان کو اقرار ہے اس سبب سے نہیں تھا جو پہلے موجود تھا وہی سبب جس سے طبعی طور پر متاثر ہونا ممکن بھی تھا جس کی فریق ثانی کو بوجہ موجودگی شرط کے انتظار بھی تھی یعنی الہامی پیشگوئی.بلکہ یہ خوف اس وجہ سے ہوا کہ فریق ثانی درحقیقت خون کرنے کا ارادہ رکھتا تھا.کیا آتھم صاحب نے کوئی ایسے قرائن ثابت شدہ پیش کئے جن سے شبہ بھی گزر سکتا ہو کہ خونریزی کی نیت کی گئی تھی.پھر اگر یہ پہلو ڈرنے کا غیر ثابت اور غیر معقول تھا اور چار حملے جو بیان کئے گئے ان میں علاوہ عدم ثبوت کے بناوٹ کی بدبو بھی ظاہر تھی تو ایک عادل جج کو ماننا پڑتا ہے کہ ڈرنے کی کوئی اور و!جہ ہوگی.پس وہ اور و!جہ بجز اس کے کیا تھی کہ آتھم صاحب عرصہ تیس برس سے میرے حال اور میرے چال چلن سے بخوبی واقف تھے اور ہمارے اس ضلع میں وہ مدت تک اسی علاقہ کی تحصیل میں ملازم بھی رہ چکے تھے ان کو خوب معلوم تھا کہ یہ شخص کاذب نہیں اور نیز سچائی کی ذاتی خاصیت نے اسی وقت ان کو ہراساں اور
ترساں کردیا تھا.سو اسی لئے وہ ڈرے اور ان کے ڈرنے نے ان کو اس وقت تک مرنے سے محفوظ رکھا جب تک ان سے بیباکی پر اصرار ظاہر ہوا.سو میعاد گزرنے کے بعد شیطان نے ان کے دل میں شبہات ڈالے کہ پیشگوئی کچھ چیز نہیں.بہرحال بچنا ہی تھا.سو یہ شبہات بڑھتے گئے اور قوت پکڑ گئے یہاں تک کہ وہ ہمارے اشتہار ۳۰ ؍دسمبر ۱۸۹۵ء کے شائع ہونے تک پورے منکر اور بیباک ہوچکے تھے.سو خدا نے ان کو جیسا کہ پیشگوئی میں وعدہ تھا اور پہلے شائع ہوچکا تھا بیباکی کے بعد اشتہار آخری سے سات مہینہ تک لے لیا اور ابھی یہ ہمارے آخری اشتہار شائع ہورہے تھے کہ ان کی موت کی خبر پہنچ گئی.افسوس کہ عیسائیوں کی تمام دیانت آزمائی کے لئے یہ پہلا موقعہ تھا.مگر کسی نے بھی ان میں سے سچ کی پرواہ نہ کی.یہاں تک کہ ایڈیٹر سول ملٹری نے جس کو آزادی اور راست گوئی کا دعویٰ تھا اس مقام میں گندہ جھوٹ بولا.حسام الدین پر تو کچھ بھی افسوس نہیں کیونکہ یہ لوگ جو پادریانہ مشرب رکھتے ہیں اکثر وہ جھوٹ کے پتلے اور نجاست خوری کے کیڑے ہیں ان کو نہ فطرتی حیا ہے اور نہ خدا تعالیٰ کا خوف.یہ کہنا غلط ہے کہ بباعث بے خبری یہ لوگ معذورہیں کیونکہ میں نے اس مقدمہ میں پانچ ہزار کے قریب اشتہار جاری کیا ہے اور کھلے کھلے دلائل کے ساتھ دکھلا دیا ہے کہ آتھم خدا اور خلقت کے نزدیک ملزم ہے*اور پیشگوئی اپنے دو پہلوؤں میں سے ایک پہلو پر پوری ہوچکی ہے.پھر کیونکر یہ کس کو خبر نہیں کہ آتھم صاحب نے پرچہ نور افشاں میں صاف اقرار چھپوایا کہ میں اثناء ایام پیشگوئی میں ضرور خونی فرشتوں سے ڈرتا رہا.یہ کس کو معلوم نہیں کہ ڈرنے کی علامات ان سے اس قدر صادر ہوئیں کہ جن کو چھپانا ممکن نہیں.کون عیسائی اس سے انکار کرے گا کہ آتھم صاحب ایام پیشگوئی میں روتے رہے.کس کے کانوں تک یہ خبر نہیں پہنچی کہ اس وقت بھی آتھم صاحب کے آنسو نہیں تھمے تھے جبکہ وہ اکراہ اور جبر کے طور پر پیشگوئی کے دنوں میں عیسائیوں کے جلسہ میں بلائے گئے.پھر جب تھوڑے دنوں کے بعد آتھم صاحب کے ہوش و حواس قائم ہوئے اور قوم کے خنّاسوں کا اثر ان پر پڑا اور دل سخت ہوگیا تب ان کو سمجھ آیا کہ یہ میں نے اچھا نہیں کیا کہ اسلامی پیشگوئی کے خیال سے اس قدر بے قراری ظاہر کی.تب زہر خورانی کے اقدام کا منصوبہ اور تین حملوں کا بہانہ بنایا گیا کیونکہ جس قدر خوف
یہ لو گ بے خبر ہیں دیکھو انوار الاسلام اور اشتہار ہزار روپیہ.دو ہزار روپیہ.تین ہزار روپیہ.چارہزار روپیہ اور رسالہ ضیاء الحق اور آخری اشتہار ۳۰ ؍دسمبر ۱۸۹۵ء جس کے سات ماہ بعد آتھم اپنی بیباکی کی جزا کو پہنچ گیا.میرا یہ خیال بھی ہے کہ آتھم زہر خورانی کے دعویٰ میں تو بالکل جھوٹا ہے لیکن باقی تین حملوں کے دعویٰ میں شائد ایک اصلیت بھی ہو اور وہ یہ ہے کہ شاید یونس کی قوم کی طرح ایسے پیرایوں میں فرشتے اس کو نظر آئے ہوں جن کا وہ خود خونی فرشتے نام رکھتا ہے اور پھر اس نے عمدً ا کسی قدر سہو کی آمیزش سے ان حملوں کو انسانی حملے خیال کرلیا ہو اور اصل واقعہ کو گڑ بڑ کردیا ہو یہ اس حالت میں ہے کہ کسی قدر اس کو بھلا مانس آدمی خیال کرلیا جائے.لیکن یقیناً عیسائی لوگ اس تاویل پر راضی نہیں ہوں گے.پس دوسرا احتمال صرف یہ ہے کہ اس نے عمداً ایک گندے اور ناپاک جھوٹ اور افترا سے کام لیا تا اس خوف کو چھپا وے جو اس کے مضطربانہ افعال سے ظاہر ہوچکا تھا.غرض اگر اس کے بیان پر اعتبار کیا جائے تو ان حملوں کو فرشتوں کے تمثلات مان لینا چاہئے ورنہ اس میں کچھ شک نہیں کہ سخت نالائق اور مکروہ جھوٹ کو اس نے حق پوشی کے لئے استعمال کیا ہے.ان کی سراسیمگی اور بیقراری سے ظاہر ہوچکا تھا وہ چاہتا تھا کہ اگر اس کا سبب الہامی پیشگوئی نہیں تو ایسا سبب ضرور ہونا چاہئے جو نہایت ہی قوی اور عظیم الشان ہو جس سے یقینی طور پر موت کا اندیشہ دل میں جم سکے.سو جھوٹ کی بندشوں سے کام لے کر یہ خوف کے اسباب تراشے گئے مگر ان بہتانوں نے جو نہایت مکروہ طور پر غیر محل پر استعمال کئے گئے آتھم صاحب کی اندرونی حالت بلکہ عیسائیت کے لبِّ لُباب کو اور بھی پبلک کے سامنے رکھ دیا.اور اس نظیر نے ثابت کردیا کہ ان کی فطرت میں کس قدر قابل شرم خُبث بھرا ہوا ہے جو ایسے ظلم اور جھوٹ اور بناوٹ اور سراسر بے اصل بہتان باندھنے کا محرک ہوا.مگر یہ چاروں بہتان آتھم صاحب کو ملزم کرتے تھے.افسوس کہ آتھم صاحب کے ان بہتانوں سے عقلمندوں کے نزدیک اگر کچھ نتیجہ پیدا ہوا تو صرف یہی کہ یہ عیسائی لوگ جھوٹ بولنے میں سخت بیباک اور بے شرم ہیں.کون نہیں سمجھ سکتا کہ ان جھوٹے اور بے ثبوت بہتانوں سے ان کا مُنہ کالا ہوگیا تھا اور اس کلنک کو دور کرنے کے لئے بجز اس کے اور کوئی تدبیر نہ تھی کہ یا توعدالت
اگر چہ حال کے فلاسفروں کی نظر میں یہ پہلا احتمال بہت قدر کے لائق نہیں ہے یعنی یہ کہ آتھم کو فرشتے نظر آئے ہوں مگر چونکہ خود اس کے مُنہ سے یہ الفاظ نکلے تھے کہ’’ میں خونی فرشتوں سے ڈرتا رہا‘‘ اس لئے ہمیں مناسب ہے کہ اس کے ان الفاظ کو بھی اس سچائی پر قیاس کریں کہ جو بعض اوقات بے اختیار مجرم کی زبان پر جاری ہوجاتی ہے.ایک محقق کی نظر میں یہ امر بہت مشکل ہے کہ اگر یہ تمام حملے انسان ہی کے حملے تھے تو ان مختلف حملوں میں کوئی دوسرا شخص کسی موقعہ پر بھی آتھم کا شریک رؤیت نہ ہو سکا اور آتھم کی زبان پر بھی مہر لگی رہی اور اس نے اس میعاد میں کوئی کارروائی ایسی نہ دکھلائی جیسا کہ ایک شخص خونیوں کے حملوں سے ڈرنے والا طبعی جوش سے دکھلاتا ہے بلکہ اس نے تو اپنا دامن قسم کھانے سے بھی پاک نہ کیا جس کے کھانے میں نہ صرف آسانی بلکہ نقد چار ہزار روپیہ ملتا تھا.پس ان واقعات سے یہ نتیجہ نکالنا عین انصاف ہے کہ کوئی ڈرانے والا امر اس کو اس جرأت کرنے سے روکتا تھا کہ وہ نالش کرتا یا قسم کھاتا یا خانگی تحقیقات کرواتا.اگر ایک پاک نظر لے کر اس مقدمہ پر سلسلہ وار غور کرو تو تمہیں بہت جلد سمجھ آجائے گا کہ اول سے آخر تک تمام سلسلہ اس نتیجہ کو چاہتا ہے کہ آتھم کا وہ خوف جس کا اس کو اقرار ہے صرف پیشگوئی کی عظمت کی وجہ سے تھا نہ کسی اور و!جہ سے.اور آتھم کے دروغ گو ہونے پر وہ اختلاف اور تناقض بھی شاہد ہے جو اس کے دعویٰ عیسائیت اور اس قدر بزدلی سے مترشح ہو رہا ہے کیونکہ اس نے عیسائیت کا اقرار کر کے اسلام کے مقابل وہ خوف دکھلایا کہ جب تک انسان کم سے کم تذبذب کی حالت میں نہ ہو ہرگز دکھلا نہیں سکتا اور نیز اس کی کلام میں یہ فوجداری میں نالش کرکے ان بہتانوں کو ثابت کراتے اور یا چند گواہوں کے پیش کرنے سے ان کا ثبوت دیتے اور یا جلسہ عام میں قسم کھا لیتے.مگر آتھم صاحب نے ان طریقوں میں سے کسی طریق کو اختیار نہیں کیا.پھر آتھم صاحب کے جھوٹا ہونے کی ایک یہ بھی نشانی ہے کہ ان الزاموں کو انہوں نے نہ ایام میعاد پیشگوئی میں بیان کیا اور نہ ان ایام کے گزرنے کے بعد ان چاروں حملوں کو یکدفعہ بیان کردیا بلکہ جیسا کہ جھوٹ رفتہ رفتہ فکر اور سوچ کے ساتھ بنایا جاتا ہے ایسا ہی کیا.اب اے عزیزو آپ ہی سوچو کہ کیا وہ اس خوف کا اقرار کرکے جو الہامی شرط کا مؤید تھا اس خوف کے کوئی اور اسباب ثابت کرسکا اور کیا وہ اس بات کا کچھ ثبوت دے سکا کہ درحقیقت اس پر چار حملے ہوئے اور انہیں حملوں کی و!جہ سے اس کا یہ ساراخوف تھا.منہ
تناقض بھی ہے کہ کبھی وہ حملے کرنے والوں کا نام فرشتے رکھتا ہے جو گناہ سے پاک ہیں اور کبھی ان کو ناپاک طبع انسان ٹھہراتا ہے جن کا کام ناحق کا خون کرنا ہے اور پھرُ طرفہ یہ کہ ان میں وہ کسی کا نام نہیں بتلا سکا اور یہ بھی نہیں کہا کہ میں ان کو شناخت کرسکتا ہوں اور وہ خوب جانتا تھا کہ ایسے بیہودہ اور بے اصل بہتان سے اس راقم کے مخالف کوئی قیاس نہیں نکل سکتا.اس لئے اس نے ان بہتانوں کو عام طور پر شائع بھی نہیں کیا.صرف نور افشاں میں ایک دجل آمیز تقریر میں چھپوا دیا.اس سے یہ امر قابل لحاظ پیدا ہوتا ہے کہ یہ چھپوانا صرف عیسائیوں کی دلجوئی کی و!جہ سے تھا جس کو اس نے بار بار بیان کرنا بھی نہیں چاہا.قاعدہ فطرت کے مطابق یہ بات عادات میں داخل ہے کہ انسان حریف کی تکذیب کے لئے اصل واقعات کو چھپاتا ہے.یہ ایک معمولی بات ہے اور گو اس پر بہت کچھ منحصر نہیں مگر بے ثبوت عذروں کے پیش ہونے کے بعد اس فطرتی امر کا ملحوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے.آتھم کے تمام حالات میں اس خیال کے پیدا کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے کہ وہ بجز اقدام قتل کے حملوں کے صرف پیشگوئی کی عظمت سے ڈر نہیں سکتا تھا کیونکہ ایسا خیال ان حملوں کی صحت اور آتھم کی طرز استقامت کے ثبوت پر موقوف تھا جس کا ثبوت نہ آتھم پیش کرسکا اور نہ اس کا کوئی اور حامی.اور ظاہر ہے کہ اگر اس بیان میں کچھ سچائی ہوتی تو آتھم کو طریقہ فطرت فی الفور سکھلاتا کہ آئندہ حملوں کے روکنے کے لئے جن میں ابھی ایک برس پڑا تھا کوئی قانونی کارروائی کرے.*کیا یہ عذر قابل اطمینان یا عدالت کو تشفی بخش ہے کہ ہر ایک حملہ کے وقت اس کی نادان بطّالوی محمد حسین اپنے پرچہ اشاعت السنہ میں ہم پر یہ اعتراض کرتا ہے کہ جس حالت میں آتھم نے تم پر جھوٹا الزام لگایا تھا کہ میرے قتل کرنے کے لئے کئی حملے میرے پر کئے گئے تو چاہئے تھا کہ تم اس پر نالش فوجداری کرتے اور اگر الزام فی الواقعہ جھوٹا تھا تو اس کو سزا دلاتے.مگر افسوس کہ بطالوی نے اس اعتراض میں بھی شیطان ملعون کی طرح دانستہ لوگوں کو دھوکا دینا چاہا.اعتراض کے وقت اس کو خوب معلوم تھا کہ پیشگوئی کے الفاظ میں بار بار یہ ذکر ہے کہ آتھم انکار کی حالت میں بے سزا نہیں چھوڑا جائے گا اور خدا اس کو اصرار انکار کے بعد جلد پکڑے گا اور ہلاک کرے گا پس جس حالت میں آسمانی عدالت سے ہمیں یقین دلایا گیا تھا کہ عنقریب آتھم آسمانی وارنٹ سے گرفتار کیا جائے گا اور اپنے جرم بے باکی اور انکار پر ماخوذ ہوکر جلد سزائے موت سے سزا یاب ہوگاتو
رحیما نہ عادت مجرموں کا واجب تدارک کرانے سے روکتی رہی بلکہ جس حالت میں پہلے حملہ کی و!جہ سے آئندہ زندگی کا امن اٹھ گیا تھا تو کیا عقل باور کرسکتی ہے کہ پھر بھی آتھم صاحب نے درگذر اور عفو کو ہاتھ سے نہ چھوڑا اور کسی نے اس کو یہ مشورہ نہ دیا کہ اب دشمن کا تدارک بہت ضروری ہے اور اس میں دو فائدے ہیں.ایک یہ کہ اپنی جان کا بچاؤ اور دوسرے دشمن کے مذہب کی ذلت جو عیسائیوں کا عین مطلب ہے.یہ بھی یادر رکھنے کے لائق ہے کہ آتھم کا بیان صرف اس اعتبار تک محدود تھا کہ جو ایک مدعا علیہ کے ایسے بیان پرکرسکتے ہیں جس کا اس کے پاس کچھ بھی ثبوت نہ ہو اگر اس نے ان حملوں کا واقعی طور پر معائنہ کیا تھا تو وہ بڑا ہی بدقسمت تھا کہ باوجود یکہ اس کی کوٹھی بہت سے آدمیوں سے بھری ہوئی تھی.تب بھی وہ کسی اپنے آدمی کو کوئی سوار یا پیادہ یا گھوڑا یا ہتھیار دکھلا نہ سکا اور نہ بیان کرسکا یہاں تک کہ پیشگوئی کی معیاد گزر گئی گویا جس طرح فری میسن کے لوگ اپنا راز ظاہر کرنا مناسب نہیں سمجھتے.پھر ہمیں کون سی ضرورت پیش آئی تھی کہ انگریزوں کی عدالتوں کے دروازہ پر اپنے تئیں سرگردان کرتے.ہم تو اس وقت سے ہی آتھم کو مرا ہوا دیکھتے تھے جبکہ جاہل عیسائی اور نادان بطّالوی اور اس کے ہم خیال آتھم مذکور کو زندہ سمجھتے تھے.لیکن یہ فرض آتھم کا تھا کہ جن بے ثبوت حملوں کے الزاموں سے قطعی طور پر یہ نتیجہ نکلتا تھا کہ وہ ضرور اس پیشگوئی کی عظمت سے ڈرتا رہا جو نہایت ہولناک لفظوں میں بیان کی گئی تھی اور ضرور اس نے پیچھے سے اپنے خوف کی اصل حقیقت چھپانے کے لئے اقدام قتل کا بے ثبوت افترا بنا لیا.عدالت میں نالش کرکے ان حملوں کا ثبوت دیتا اور مجرموں کو واقعی سزا دلاتاکیونکہ اس کے بے ثبوت دعووں کا بار ثبوت تو اسی کے ذمہ تھا.لیکن وہ ظالم مفتری تو قسم بھی نہ کھا سکا چہ جائیکہ نالش کرتا.کیا ضرور نہ تھا کہ وہ کسی طرح نالش سے یا قسم سے یا خانگی طور پر ثبوت دینے سے اپنی صفائی ظاہر کردیتا.کیا وہ چار حملے یعنی ارادہ زہر خورانی اور سانپ چھوڑنا اور لودیانہ اورفیروز پور میں جو بقول آتھم قتل کے لئے حملے ہوئے ان تمام حملوں کا ثبوت میرے ذمہ تھا یا آتھم کی گردن پر تھا.اے بدذات فرقہ مولویان ! تم کب تک حق کو چھپاؤ گے کب وہ وقت آئے گا کہ تم یہودیانہ خصلت کو چھوڑو گے.اے ظالم مولویو! تم پر افسوس! کہ تم نے جس بے ایمانی کا پیالہ پیا وہی عوام کالانعام کو بھی پلایا
اسی طرح آتھم کو بھی اس راز کے افشا میں اپنی جان کا اندیشہ تھا کیا کوئی سچا اس پر راضی ہوسکتا ہے کہ اس کے ایسے دعاوی جو اس کی سچائی کا مدار ہیں اندھیرے میں چھوڑے جائیں اور کوئی بھی سچائی کی چمک ان میں نظر نہ آوے.سچا مدعی اپنے کسی پہلو کو قابل اعتراض چھوڑنا نہیں چاہتا اور پوری صفائی کے لئے تیار ہوتا ہے مگر حسام الدین صاحب مجھے بتلاویں کہ کس بات میں آتھم نے پوری صفائی دکھلائی.کیا اس نے حملوں کے وقت کسی تھانہ یا عدالت میں رپورٹ کی.اور اگر یہ نہیں تو کیا زبانی ہی کسی حاکم سے یہ ذکر کیا.یا کسی دوست کو اس راز سے اطلاع دی.کیا اس نے سزا دلانے کے لئے کسی نالش یا مچلکہ کے لئے کوئی کوشش کی یا خانگی طور پر کوئی ثبوت دیا.یا اس نے قسم سے اس الزام کو اپنے پر سے دیکھو آج جیسا کہ خدا نے پیش از وقت وہ الہام کیا تھا جو انوار الاسلام صفحہ ۲ میں درج ہے.کیا صفائی سے پورا ہوا.اور وہ یہ ہے.اِطَّلَعَ اللّٰہُ عَلٰی ھَمِّہٖ وَغَمِّہٖ.وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبْدِ یْلًا.وَلَا تَعْجَبُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ.وَبِعِزَّتِیْ وَجَلَالِیْ.اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی وَنُمَزِّقُ الْاَعْدَاءَ کُلَّ مُمَزَّق.وَمَکْرُ اُولٰءِٓکَ ھُوَ یَبُوْر.اِنَّا نَکْشِفُ السِّرَّعَنْ سَاقِہٖ.یَوْمَءِذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ.ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ.وَھٰذِہٖ تَذْکِرَۃٌ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلا.دیکھو انوار الاسلام صفحہ ۲ اور پھر اسی انوار الاسلام صفحہ ۲ میں اس الہام کا ترجمہ یہ لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس کے(یعنی آتھم کے )ہم و غم پر اطلاع پائی اور اس کو مہلت دی.جب تک کہ وہ بے با کی اور سخت گوئی اور تکذیب کی طرف میل کرے اور خدا تعالیٰ کے احسان کو بھلا دے.یہ معنی فقرہ مذکور کے تفہیم الٰہی سے ہیں اور پھر فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی یہی سنت ہے.اور تو ربّانی سنتوں میں تغیر و تبدل نہیں پائے گا.اس فقرہ کے متعلق یہ تفہیم ہوئی کہ عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ وہ کسی پر عذاب نازل نہیں کرتا جب تک ایسے کامل اسباب پیدا نہ ہو جائیں جو غضب الٰہی کو مشتعل کریں.اور اگر دل کے کسی گوشہ میں کچھ خوف الٰہی مخفی ہو اور کچھ دھڑکہ شروع ہو جائے تو عذاب نازل نہیں ہوتا.اور دوسرے وقت پر جا پڑتا ہے.اور پھر فرمایا کہ کچھ تعجب مت کرو اور غمناک مت ہو اور غلبہ تمہیں کو ہے اگر تم ایمان پر قائم رہو.یہ اس عاجز کی جماعت کو خطاب ہے.اور پھر فرمایا کہ مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم ہے کہ تو ہی غالب ہے.یہ اس عاجز کو خطاب ہے.اور
ٹالنا چاہا مگر ہم نے قسم کو قبول نہ کیا.کیا یہ روا ہے کہ بے دلیل کسی کو ایسے سنگین جرائم کا ملزم ٹھہرایا جائے اور اس کی روش اور چال چلن پر ناحق دھبّہ لگایا جاوے.برائے خدا ذرا سوچو کہ کسی بھلے مانس پر بے ثبوت تہمتیں لگا کر پھر کسی طور سے ان تہمتوں کا ثبوت نہ دینا کیا یہ نیک آدمیوں کا کام ہے یا بدمعاشوں کا!!! عیسائیوں نے آتھم کے ان بہتانوں کا بار بار ذکر تو کیا مگر یہ نہیں دکھلایا کہ ان کے نزدیک اس کا ثبوت کیا ہے.کیا وہ لوگ جو ان واقعات سے ذاتی واقفیت کا اقرار رکھتے ہیں کسی غار میں زندہ موجود ہیں یا وہ بھی آتھم کے ساتھ ہی مر گئے؟.کیا عیسائی دیانت یہی تھی جواب ظاہر ہوگئی.اگر کامل ثبوت موجود نہیں تو مختصر اور ناکافی پھر فرمایا کہ ہم دشمنوں کو پارہ پارہ کریں گے.یعنی ان کو ذلت پہنچے گی اور ان کا مکر ہلاک ہو جائے گا اس میں یہ تفہیم ہوئی کہ تم ہی فتح یاب ہو نہ دشمن اور خدا تعالیٰ بس نہیں کرے گا اور نہ باز آ ئے گا جب تک دشمنوں کے تمام مکروں کی پردہ دری نہ کرے اور ان کے مکر کو ہلاک نہ کر دیوے یعنی جو مکر بنایا گیااور مجسم کیا گیا اس کو توڑ ڈالے گا اور اس کو مردہ کرکے پھینک دے گا اور اس کی لاش لوگوں کو دکھاوے گا.اور پھر فرمایا کہ ہم اصل بھید اس کی پنڈلیوں سے ننگا کرکے دکھا دیں گے یعنی حقیقت کو کھول دیں گے اوفتح کے دلائل ظاہر کر دیں گے اور اس دن مومن خوش ہوں گے.پہلے مومن بھی پچھلے مومن بھی.دیکھو انوار الاسلام صفحہ ۲.اب دیکھو آج اس الہام کے موافق کیسے صفائی سے اس پیشگوئی کی حقیقت کھل گئی.کیا آج وہ سب مرگئے یا نہیں جنہوں نے امرتسر میں آتھم کو گاڑی میں بٹھا کر بازاروں میں پھرایا تھا.کیا آج ثابت ہوگیا یا نہیں کہ ان کی وہ ساری خوشیاں جھوٹی تھیں.اس پیشگوئی میں خدائے رحیم نے صاف وعدہ فرمایا تھا کہ گو آتھم نے الہامی پیشگوئی کی وجہ سے بہت غم وہم اپنے دل پر ڈال کر خدا کی سنت قدیمہ سے فائدہ اٹھایا اور اس کی موت میں تاخیر ہوگئی مگر بیباکی کے وقت پھر خدا اس کو پکڑے گا اور ہلاک کرے گا.سو اب یہ پیشگوئی دُہرے طور پر دونوں پہلوؤں پر پوری ہوگئی.اول آتھم کے ہم و غم کی وجہ سے اس طرح پر پوری ہوئی کہ موافق الہامی شرط کے اس کی موت میں تاخیر ڈال دی گئی پھر آتھم کی بے باکی اور سخت انکار کی حالت میں اس طرح پر پوری ہوئی کہ خدا نے اپنے وعدہ کے موافق
ثبوت ہی پیش کریں تا افترا اور بہتان کا کلنک کسی قدر تو ہلکا ہو جائے.اور اگر کچھ بھی ثبوت نہیں تو کیا یہ معقول قیاس نہیں کہ یہ سب کچھ صرف ایک ہی بات کے واسطے بنایا گیاتااس خوف کی دھار کو جو اسلامی پیشگوئی کی عظمت سے زور سے بہہ رہی تھی خوانخواہ دوسری طرف پھیر دیا جائے.اب اس امر کو کون ہے کہ ثابت شدہ تسلیم نہ کرے کہ آتھم نے اس حد تک رجوع الی الحق ضرور کیا جو ایک خائف اور ترساں اور ہراساں کی نسبت خیال کرسکتے ہیں.میں اس واقعہ کو قبول کرتا ہوں کہ جیسا کہ وہ پیشگوئی سے پہلے عیسائی تھا ایسا ہی پیشگوئی کی میعاد گذرنے کے بعد اس نے اپنی عیسائیت کو ظاہر کیا لیکن کیا کوئی اس بات کا ثبوت دے سکتا ہے کہ اس نے پیشگوئی کے ایام میں کبھی تحریرًا یاتقریرًاعیسائیت کے اصول کی تائید کرکے اپنا سرگرم عیسائی ہونا ظاہر کیا جیسا کہ پہلے اس کا شیوہ اور طریق تھا.بلکہ سچ تو یہ بات ہے کہ وہ ان تمام دنوں میں عیسائیت کا چولہ اتار کر حقیقی خدا کے آگے تضرع میں رہاجیسا کہ مختلف شہادتیں اس کے ثبوت میں اب تک گزر رہی ہیں.پھر فرعون کی طرح خطرناک ایام کے گزرنے کے بعد دن بدن سخت دل ہوتا گیا.یہاں تک کہ ہمارے اشتہار ۳۰ ؍دسمبر ۱۸۹۵ء کے وقت میں پورے طور پر وہ کفر کے گڑھے میں گر گیا اور بلعم کی طرح دنیا سے محبت کرکے ۲۷؍ جولائی ۱۸۹۶ء میں ان روحوں میں جا ملا جو دوزخ کی تاریک آگ میں جل رہی ہیں.سنو اے عزیزو! آتھم کے بیان پر کیونکر راستی کی امید ہوسکتی ہے جو محض بے ثبوت اور جس میں بناوٹ اور جذبات کی دور سے بُو آرہی ہے اور جو نہ بادی النظر میں اور نہ عمیق نگاہ میں درست ٹھہر سکتا ہے.اور نہ صرف بے دلیل بلکہ فطرتی طور پر حق کو چھپانے کے لئے یہی عام طریقہ حیلہ سازوں کا ہے.جو بات قرین قیاس نہیں کیا وہ ایسی بات کے مقابل پر کچھ وزن رکھتی ہے.اس پر موت نازل کردی سو اس مبارک پیشگوئی میں خدا تعالیٰ نے اپنی صفات جمالی اور جلالی دونوں دکھلا دئیے اور نا سمجھ عیسائیوں اور نالائق مولویوں کو ذلت پر ذلت نصیب ہوئی.اسلام کا بول بالا ہوا اور مردہ پرست پادری اور نفاق زدہ یہودی سیرت مولوی سخت ذلیل ہوگئے.مگر کیا وہ اب بھی سچائی کی طرف واپس آئیں گے.ہرگز نہیں.قلوبٌ ملعونۃٌ فمن یُّرد من لعنہُ اللّٰہ.فتدبّر ان کنتَ مِن الصّالحین.منہ
جو ہر ایک سچائی سے بھرا ہوا کانشنس بآسانی اس کو قبول کرسکتا ہے.زہر خورانی کے اقدام اور تین حملوں کا منصوبہ ایک ایسی مکروہ بناوٹ ہے کہ میں خیال نہیں کرسکتا کہ کسی شریف عیسائی کے دل نے بھی اس کو قبول کیا ہو.یا ایک طُرفۃ العین کے لئے بھی اس کی طرف خیال آسکتا ہو.لیکن ہر ایک محقق اور پاک دل کو اس امر میں شک کرنے کے لئے کوئی وجہ دکھائی نہیں دے گی کہ وہ خوف جس کا آتھم کو اقرار ہے بجز پیشگوئی کی عظمت کے اور کوئی صحیح مصداق اس کا موجود نہیں اگر آتھم نے ان جھوٹے بہتانوں کو بیان نہ کیا ہوتا.اور یہ عذر کرتا کہ وہ اس سے ڈرا کہ کوئی خود غرض اس کو ضرر نہ پہنچاوے تو شاید کوئی سادہ طبع اس کو قبول کرلیتا اور کم سے کم یہ سمجھ لیتا کہ آتھم کا یہ فیصلہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس نے لوگوں پر حق کو مشتبہ کردیا لیکن ایسے سادہ طور سے بیان کرنا ایسے مفتری کے لئے کب ممکن تھا کہ جو درحقیقت پیشگوئی سے ڈر کر اپنی مجرمانہ حالت کی تحریک سے ناجائز بہانوں کے سوچ میں پڑا اور اس نے سچائی سے آگے قدم رکھ کر جھوٹ اور بہتان سے کام لینا چاہا جس سے وہ بازپُرس اور طلب ثبوت کے لائق ہوا.یہ کہنا بے جا ہے کہ پیشگوئی سے ڈرنے کا بار ثبوت آتھم پر نہیں تھاکیونکہ جبکہ اس نے ڈرنے کا اقرار کرکے بلکہ خوف کو اپنی حرکات سے ظاہر کرکے پھر وجوہ خوف کے ایسے بے ہودہ اور جعلی بیان کہے جو سراسر بہتان اور بے دلیل تھے تو بلاشبہ یہ بوجھ اسی کی گردن پر تھا کہ وہ اس کو ثابت کرتا اور اس کو چاہئے تھا کہ اس افترا کے الزام سے بَری ہونے کے لئے کہ جو طریقہ مستقیمہ انصاف سے اس کی نسبت عائد ہوتا تھا اپنی صفائی کے گواہ پیش کرتا.نالش اور قسم سے اس کا گریز کرنا صریح حقیقت کو چھپانے کے لئے تھا جبکہ اس کو اور اس کے رشتہ داروں اور دوستوں کو ہماری طرف سے اس قدر دکھ اور صدمہ پہنچ چکا تھا جس سے زیادہ دنیا میں پہنچنا غیر ممکن ہے.تو ایسا مظلوم کس طرح خاموش رہ سکتا تھا.ہم نے یہ سزا اپنے لئے خود تجویز کرلی تھی کہ وہ قسم کھاکر چار ہزار روپیہ نقد ہم سے لے لے.سو اس نے نہ چاہا کہ قسم کھانے کی طرف متوجہ ہو.اب منصفین کے سوچنے کا یہ بڑا بھاری موقعہ *ہے کہ کیوں اس نے ایسے پہلو سے حاشیہ.پرچہ شحنہ ہند میرٹھ یکم ستمبر ۱۸۹۶ء سے پہلے صفحہ میں ہی ایک نامہ نگار صاحب نے اس عاجزکی پیشگوئی آتھم وغیرہ کی نسبت کچھ نکتہ چینی کرکے اخیر پر اپنا نام انصاف طلب لکھا ہے.یہ تو خوشی کی بات ہے کہ کوئی
اجتنا ب کیا جس سے اس کے دعویٰ کے تمام نقص اور عیوب پبلک کی نگاہ میں کالعدم ہوسکتے تھے.اور پورے طور پر اس کی صفائی ہوسکتی تھی.اس کا فرض تھا کہ وہ جس طرح ہوسکتا ان الزاموں سے اپنے تئیں بَری کرکے دکھلاتا کہ جو اس پر وارد ہوچکے تھے.نالش سے یا خانگی تحقیقات پیش کرنے سے یا قسم سے یا کسی اور طریق سے.لیکن وہ اپنے تئیں اس داغِ الزام سے بری نہ کرسکا یہاں تک کہ قبر میں داخل ہوگیا سو اس کے کذب پر ایک تو یہی ثبوت تھا کہ اس نے اپنی بریت ظاہر کرنے سے باوجود بہت وسیع موقعہ ملنے کے عمدًا پہلوتہی کیا لیکن علاوہ اس کے ایک دوسری جزو ثبوت کی اس کے کذب پر یہ پیدا ہوئی جو وہ اس دوسری پیشگوئی کے اثر سے جس کا ہم صدر اشتہار میں ذکر کرچکے ہیں اپنی زندگی کو بچا نہ سکا اور یہی بیباکی اور قسم کھانے سے انکار جس کے نتیجہ بد کی نسبت بار بار پیشگوئی کی گئی تھی اور بیان کیا گیا تھا کہ اس کے اصرار کے زمانہ کے بعدعذاب موت شخص انصاف طلب یا انصاف کا خواہاں ہو.لیکن افسوس تو یہ ہے کہ اکثر لوگ حق پسند اور انصاف طلب کہلا کر پھر جلدی سے انصاف کا خون کردیتے ہیں اور قبل اس کے جو کسی بات کی تہ تک پہنچیں اور کسی اصل حقیقت کو دریافت کریں رائے ظاہر کرنے کے لئے طیار ہوجاتے ہیں.پھر ایسی رائے جو صرف سرسری اور سطحی خیال سے پیدا ہوئی ہے کیونکر غلطی سے محفوظ رہ سکتی ہے.ناچار وہ اپنی شتاب کاریوں کی وجہ سے قابل شرم غلطیوں میں پڑتے ہیں اور پھر اپنی غلطی کی پچ میں ایسا تعصب پیدا ہو جاتا ہے کہ کیا ممکن ہے کہ اس سے رجوع کرسکیں.اگرچہ سچائی روز روشن کی طرح کھل جائے.بہرحال صاحب انصاف طلب کی خدمت میں ان کے بعض کلمات کا جواب دیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے:.قولہ.’’میرزا صاحب کے موافقین اور مخالفین نے پرلہ درجہ کی افراط اور تفریط کی ہے.جو شخص یہ کہتا ہو کہ میں قرآن شریف کو مانتا ہوں.نماز پڑھتا ہوں.روزے رکھتا ہوں.اور لوگوں کو اسلام سکھاتا ہوں.اس کو کافر کہنا زیبانہیں.مگر ایک عالم کے رتبہ سے بڑھا کر پیغمبری تک پہنچانا بھی نہیں.‘‘ اقول.صاحب انصاف طلب کے بیان میں یعنی ان کے پہلے ہی قول شریف میں تناقض پایا جاتا ہے کیونکہ ایک طرف تو وہ بہت ہی حق پسند بن کر نہایت مہربانی سے فرماتے ہیں کہ مسلمان کو کافر کہنا زیبا نہیں اور پھر دوسری طرف اُسی منہ سے میری نسبت رائے ظاہر کرتے ہیں کہ گویا میری جماعت درحقیقت مجھے رسول اللہ جانتی ہے اور گویا میں نے درحقیقت نبوت کا دعویٰ کیا ہے.اگر راقم صاحب کی پہلی رائے صحیح ہے کہ میں مسلمان ہوں اور قرآن شریف پر ایمان رکھتا ہوں تو پھر یہ دوسری رائے غلط ہے جس میں ظاہر کیا گیا ہے کہ میں خود نبوت کا مدعی ہوں.اور اگر دوسری رائے صحیح ہے تو پھر وہ پہلی رائے غلط ہے جس میں ظاہر کیا گیا میں کہ مسلمان
اُس پر وارد ہوگا اُس کے جلد مرنے کا موجب ہوگئی اور جیسا کہ ہم کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں وہ ہمارے اشتہار ۳۰؍ دسمبر ۱۸۹۵ء کے بعد جو ہمارا آخری اشتہار بطور اتمام حجت تھا پورے سات مہینے بھی زندہ نہ رہ سکا.پس کیا یہ خدا کا فعل نہیں ہے کہ اس نے آتھم کے اصرار انکار پر موت کی سزا سے اس کا تمام جھوٹ اور افترا یک لخت ظاہر کردیا.اب بیان کرو کہ کونسا قانونی سُقم ہماری اس تقریر میں ہے.اور آتھم کو ملزم قرار دینے کے لئے کس ثبوت کی کسر رہ گئی ہے.بلاشبہ اُسی کی عملی حالت نے اس پر فرد قرار داد جرم لگا دی جس پر وہ ایک بھی صفائی کا گواہ پیش نہ کرسکا.اب عیسائیوں کو اس کی ناحق کی حمایت سے کچھ حاصل نہیں ہوگا.ہم نے بہت صفائی سے بار بار اس بات پر زور دیا کہ آتھم اس بیان میں بالکل جھوٹا ہے کہ اس کے قتل کے ہوں اور قرآن شریف کو مانتا ہوں.کیا ایسا بدبخت مفتری جو خود رسالت اور نبوت کا دعویٰ کرتا ہے قرآن شریف پر ایمان رکھ سکتا ہے اور کیا ایسا وہ شخص جو قرآن شریف پر ایمان رکھتا ہے.اور آیت 33 ۱ کو خدا کا کلام یقین رکھتا ہے وہ کہہ سکتا ہے کہ میں بھی آنحضر ت صلی۱للہ علیہ وسلم کے بعد رسول اور نبی ہوں.صاحب انصاف طلب کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس عاجز نے کبھی اور کسی وقت حقیقی طور پر نبوت یا رسالت کا دعویٰ نہیں کیا اور غیر حقیقی طور پر کسی لفظ کو استعمال کرنا اور لغت کے عام معنوں کے لحاظ سے اس کو بول چال میں لانا مستلزم کفر نہیں.مگر میں اس کو بھی پسند نہیں کرتا کہ اس میں عام مسلمانوں کو دھوکہ لگ جانے کا احتمال ہے.لیکن وہ مکالمات اور مخاطبات جو اللہ جلّ شانہٗ کی طرف سے مجھ کو ملے ہیں جن میں یہ لفظ نبوت اور رسالت کا بکثرت آیا ہے ان کو میں بوجہ مامور ہونے کے مخفی نہیں رکھ سکتا.لیکن بار بار کہتا ہوں کہ ان الہامات میں جو لفظ مُرْسَلْ یا رسول یا نبی کا میری نسبت آیا ہے*.وہ اپنے حقیقی معنوں پر مستعمل نہیں ہے.اور اصل حقیقت جس کی میں علی رؤس الاشہاد گواہی دیتا ہوں یہی ہے جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں.اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا نہ کوئی پرانا اور نہ کوئی نیا.ومن قال بعد رسولنا وسیّدنا انّی نبیّ او رَسُول علٰی وجہ الحقیقۃ والافتراء وترک القرآن واحکام الشریعۃ الغرّاء فھو کافرٌ کذّابٌ.غرض ہمارا مذہب یہی ہے کہ جو شخص حقیقی طور پر نبوت کا دعویٰ کرے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن فیوض سے اپنے تئیں الگ کرکے اور اس پاک سرچشمہ سے جدا ہوکر آپ ہی براہ راست نبی اللہ بننا چاہتاہے تو وہ ملحد بے دین ہے اور غالباً ایسا شخص اپنا کوئی نیا * نوٹ.ایسے لفظ نہ اب سے بلکہ سولہ۱۶ برس سے میرے الہامات میں درج ہیں چنانچہ براہین احمدیہ میں ایسے کئی مخاطبات الٰہیہ میری نسبت پاؤ گے.منہ
لئے ہماری طرف سے ناجائز حملے ہوئے.ہم نے اس کو اپنے پہلے اشتہاروں میں بہت غیرت دلائی اور غیرت دینے والے الفاظ استعمال کئے مگر کچھ ایسا دھڑکا اس کے دل میں بیٹھ گیا تھا کہ وہ سر نہ اٹھا سکا.پھر ہم نے نہایت الحاح اور انکسار کے ساتھ یسوع کی عزت اور مرتبہ کو یاد دلا کر قسم دی اور جہاں تک الفاظ ہمیں مل سکے ہم نے اس بات پر زور دیا کہ وہ اس بہتان کو جو ہم پر لگاتا ہے ثابت کرے یا قسم کھاوے.لیکن وہ ان بدبخت جھوٹوں کی طرح چپ رہا جن کا کانشنس ہر وقت ان کو ملامت کرتا ہے کہ تم خدا کی لعنت کے نیچے کارروائی کر رہے ہو.یقیناً اس کو یہ خوف کھا گیا کہ تحقیق کرانے کے وقت اس کے جھوٹے منصوبہ کے تمام پر وبال گر جائیں گے اور قسم کھانے کی حالت میں خدا کا قہر اس پر نازل ہوگا.سو اس نے نہ نالش کی اور نہ قسم کھائی کلمہ بنائے گا.اور عبادت میں کوئی نئی طرز پیدا کرے گا اور احکام میں کچھ تغیر و تبدل کردے گا.پس بلاشبہ وہ مسیلمہ کذّاب کا بھائی ہے اور اس کے کافر ہونے میں کچھ شک نہیں.ایسے خبیث کی نسبت کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ وہ قرآن شریف کو مانتا ہے.لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ جیسا کہ ابھی ہم نے بیان کیا ہے بعض اوقات خدائے تعالیٰ کے الہامات میں ایسے الفاظ استعارہ اور مجاز کے طور پر اس کے بعض اولیاء کی نسبت استعمال ہو جاتے ہیں اور وہ حقیقت پر محمول نہیں ہوتے سارا جھگڑا یہ ہے جس کو نادان متعصب اور طرف کھینچ کرلے گئے ہیں.آنے والے مسیح موعود کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبان مقدس حضرت نبوی ؐسے نبی اللہ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کے رو سے ہے جو صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلّم اور ایک معمولی محاورہ مکالمات الٰہیہ کا ہے.ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا.قولہ.حضرت اقدس میرزا صاحب نے اپنے صادق یا کاذب ہونے کا معیار اپنی بیش بہا اور لاثانی کتاب شھادۃ القرآن میں درج فرمایا ہے )یعنی آتھم اور احمد بیگ ہوشیار پوری کے داماد کی موت کی پیشگوئی اور لیکھرام پشاوری کی موت کی نسبت پیش خبری( اب ناظرین خود بخود سمجھ لیں گے کہ وہ سچا دعویٰ ہے یا دروغ بے فروغ.اقول.میں کہتا ہوں کہ لیکھرام کی پیشگوئی کی میعاد تو ابھی بہت باقی ہے سو اس کا ذکر پیش ازوقت ہے ہاں آتھم۱ اور احمد بیگ۲ اور دا۳ماد احمد بیگ کی نسبت جو پیشگوئی تھی اس کی میعاد گزر چکی ہے.درحقیقت یہ دو پیشگوئیاں تھیں.ایک آتھم کی موت کی نسبت دوسری احمد بیگ اور اس کے داماد کی موت کی نسبت سو آتھم ۲۷؍ جولائی ۱۸۹۶ء کو بروز دو شنبہ فوت ہوگیا.اور ایک آنکھیں رکھنے والا سمجھ سکتا ہے کہ پیشگوئی
بلکہ اس نے امور واقعہ کی طرف نظر کرکے یہ امر صاف دیکھا کہ ان دونوں کارروائیوں میں سے کوئی کارروائی بھی اس کے لئے مبارک نہیں ہوگی اور انجام بد ہوگا.یہی وجہ ہے کہ اس کا اپنے تئیں عیسائی کہلانا اس کی عملی حالت سے اخیر دم تک متناقص رہا.اس کے رفیق پادری اور ڈاکٹر کلارک سر پیٹ پیٹ کر تھک گئے مگر اس نے نہ چاہا کہ ان دعاوی کو عدالت کے ذریعہ سے ثابت کراوے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ایسے بڑے بہتان پیشتر اس کے کہ وہ صحیح سمجھے جاویں طبعی طور پر پختہ ثبوت کے واسطے تقاضا پیدا کرتے ہیں.اور درحالت عدم ثبوت عدالتیں فریق ثانی کو انتقامی استغاثہ کی جازت دیتی ہیں.سو سوچنا چاہئے کہ وہ کس قدر اپنے اس بہتان اور جھوٹ سے ہراساں اور ترساں تھا کہ باوجود یکہ اس کے داماد بڑی بڑی حکومت کے عہدوں پر معزز تھے اور اس کے عیسائی دوست گورنمنٹ میں کے مطابق اس کی موت ہوئی.اور اس پیشگوئی میں دو پہلو تھے.سو اپنے دونوں پہلوؤں کے رو سے یہ پیشگوئی پوری ہوگئی.ہم کسی متعصب بے حیا کا منہ بند تو نہیں کرسکتے اور نہ ہم سے پہلے کوئی نبی یا رسول بند کرسکا.لیکن ایک متقی کے لئے اس پیشگوئی کی صداقت سمجھنے میں کچھ بھی مشکلات نہیں چنانچہ ہم اسی رسالہ اور پہلے رسائل میں بھی بہت کچھ بیان کرچکے ہیں.باقی رہی احمد بیگ کی موت اور اس کے داماد کی موت کی نسبت پیشگوئی سو احمد بیگ تو پیشگوئی کی میعاد کے اندر فوت ہوگیا.جس سے ہمارے کسی مخالف کو انکار نہیں گویا پیشگوئی کی دو ٹانگوں میں سے ایک ٹانگ ٹوٹ گئی.رہا داماد اُس کا.سو وہ اپنے رفیق اور خسر کی موت کے حادثہ سے اس قدر خوف سے بھر گیا تھا کہ گویا قبل از موت مرگیا.اور اس بات کو کون نہیں سمجھ سکتا کہ جب ایک ہی پیشگوئی دو شخص کی موت کی خبر دیوے اور ایک ان میں سے مرجائے تو دوسرے پر اس موت کا طبعاً و فطرتاً اثر پڑ جاتا ہے.سو اس جگہ ایسا ہی ہوا.لہٰذا سنت اللہ کے موافق جس کا ذکر ہم بار بار لکھ چکے ہیں اس وعید کی میعاد میں تخلف ہوگیا.ہم اپنے پہلے اشتہاروں میں ان بعض خطوط کا ذکر کرچکے ہیں جو ان لوگوں کی طرف سے ہمیں پہنچے جن میں توبہ اور خوف و رجوع کا اقرار تھا.پھر اگر یہ امر قرآن اور توریت کی رو سے صحیح نہیں ہے کہ وعید کی پیشگوئی کی میعاد کا تخلّف جائز ہے تو ہر ایک معترض کا اعتراض بجا اور درست ہے لیکن اگر قرآن اور توریت کی رو سے یہی امر بتواتر ثابت ہوتا ہے کہ وعید کی میعاد توبہ اور خوف سے ٹل سکتی ہے تو سخت بے ایمانی ہوگی کہ کوئی شخص مسلمان کہلا کر یا عیسائی کہلا کر پھر ایسی بات پر اعتراض کرے جو قرآن شریف اور پہلی آسمانی کتابوں سے ثابت ہے اس صورت میں ایسا شخص ہم پر اعتراض نہیں کرتا بلکہ ایسے نالائق
اول درجہ کی رسائی رکھتے تھے.پھر بھی اس کا دل اس بات پر مطمئن نہ ہوسکا کہ وہ ایسی نالش کے بعد پھر بچ کر اپنے گھر میں آجائے گا.اگر رؤیت کی شہادتوں سے یہ ثابت کرنا آتھم کو میسر آسکتا کہ درحقیقت یہ ناجائز حملے ہوئے تو کم سے کم وہ اخباروں کے ذریعہ سے اس ثبوت کو پبلک پر ظاہر کرتا.کیونکہ اس کامیابی کے اندر عیسائیوں کا بڑا مدعا بھرا ہوا تھا وجہ یہ کہ اس کا عام نتیجہ یہ تھا کہ ہمارا کاذب اور مفتری ہونا ہر ایک پر کھل جاتا اور کم سے کم یہ کہ ہمارے چال چلن کی نسبت ہر ایک کو قوی شبہ پیدا ہو جاتا اور صفحات تاریخ میں ہمیشہ یہ واقعہ قابل ذکر سمجھا جاتا اس امر میں کس کا اطمینان ہوسکتا ہے کہ آتھم نے ان بہتانوں کو پیش کرکے اور پھر ثبوت دینے سے رو گردان ہوکر بے ایمانی اور دروغ گوئی کی راہ کو اختیار نہیں کیا- کا خدائے تعالیٰ کی پاک کتابوں پر اعتراض ہے.ہمارے اشتہار چہارم کو پڑھو جس کے ساتھ چار ہزار روپیہ کا انعام ہے تامعلوم ہو کہ کیونکر خدائے تعالیٰ نے یونس نبی کو قطعی طور پر چالیس دن تک عذاب نازل ہونے کا وعدہ دیا تھا اور وہ قطعی وعدہ تھا جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہیں تھی.جیسا کہ تفسیر کبیر صفحہ ۱۶۴ اور امام سیوطی کی تفسیر درّمنثور میں احادیث صحیحہ کی رو سے اس کی تصدیق موجود ہے.دیکھو اشتہار انعامی چار ہزار روپیہ صفحہ ۱۲.اور یونہ یعنی یونس نبی کی کتاب میں جو بائبل میں موجود ہے.باب ۳ آیت ۴ میں لکھا ہے.’’اور یونہ شہر میں یعنی نینوہ میں داخل ہونے لگا اور ایک دن کی راہ جا کے منادی کی اور کہا چالیس اور دن ہوں گے تب نینوہ برباد کیا جائے گا.تب نینوہ کے باشندوں نے خدا پر اعتقاد کیا اور روزہ کی منادی کی اور سب نے چھوٹے بڑے تک ٹاٹ پہنا اور خدا نے ان کے کاموں کو دیکھا کہ وہ اپنی بُری راہ سے باز آئے.تب خدا اس بدی سے کہ اس نے کہی تھی پچھتا کے باز آیا اور اس نے ان سے وہ بدی نہ کی.باب ۴.پر یونہ اس سے ناخوش ہوا اور نپٹ رنجیدہ ہوگیا.۲.اور اس نے خداوند کے آگے دعا مانگی.۳.اب اے خداوند میں تیری منت کرتا ہوں کہ میری جان کو مجھ سے لے لے.کیونکہ میرا مرنا میرے جینے سے بہتر ہے.‘‘ اور درّمنثور میں ابن عباس سے یہ روایت ہے.اوحی اللّٰہ الٰی یونس انّی مرسل علیھم العَذاب فی یوم کذا وکذا.فعجّوا الی اللّٰہ وانابوا فاقالھم اللّٰہ واَخَّر عنھم العَذَاب.فقال یونس لا ارجع الیھم کذّابًا ومضیٰ علٰی وجھہٖ.یعنی خدا نے یونس پر یہ وحی نازل کی کہ فلاں تاریخ مَیں عذاب نازل کروں گا.سو ان لوگوں نے خدا کی طرف تضرع کی اور رجوع کیا.سو خدا نے ان کو معاف کر دیا اور کسی دوسرے وقت پر عذاب ڈال دیا.تب یونس کہنے لگا
اگر اب بھی عیسائی باز نہ آویں تو بہتر ہے کہ ہم اور ان کے چند سرگروہ مباہلہ کے طور پر میدان میں آکر خدا کے انصاف سے فتویٰ لے لیں جھوٹے پر بغیر تعین کسی فریق کے لعنت کرنا کسی مذہب میں ناجائز نہیں.نہ ہم میں نہ عیسائیوں میں نہ یہودیوں میں.یہی وجہ ہے کہ پادری وایٹ بریخت شملہ جانے سے کچھ عرصہ پہلے چند اپنے عیسائیوں کے ساتھ قادیان میرے پاس آئے اور مجھے کہا کہ آتھم نہیں مرا.میں نے کہا کہ اس نے اسلامی پیشگوئی سے ڈر کر پیشگوئی کی شرط سے فائدہ اٹھایا اور خود اقرار کیا کہ میں ڈرتا رہا اور ان حملوں کا ثبوت نہ دے سکا جو ڈرنے کی وجہ ٹھہرائی.وایٹ نے کہا کہلعنت اللّٰہ علی الکاذبین یعنی جھوٹوں پر لعنت ہو.میں نے کہا کہ بیشک جھوٹوں پر لعنت وارد ہوگی.اگر آتھم جھوٹا ہے یا میں تو خدا اس کا فیصلہ کردے گا.چنانچہ تھوڑے عرصہ کے بعد اس لعنت کا اثر آتھم پر وارد ہوگیا کہ اب میں کذاب کہلا کر اپنی قوم کی طرف واپس نہیں جاؤں گا اور دوسری راہ لی.دیکھو تفسیر درمنثور تحت تفسیر آیت مُغَاضِبًا۱.اور دیکھو صفحہ ۱۴ اشتہار چہارم انعامی چار ہزار روپیہ.ہم اس جگہ حضرت مولوی احمد حسن صاحب کو ہی منصف ٹھہراتے ہیں کہ کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ خدا کا یہ الہام جھوٹا نکلا اور نعوذ باللہ یونس کذاب تھا.اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم کا علم اکثر لوگوں سے جاتا رہا ہے.اور بظاہر اہل حدیث بھی کہلاتے ہیں مگر حدیثوں کے مغز سے ناواقف ہیں.ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ انہی قصوں کے لحاظ سے اہل سنت کا یہ عام عقیدہ ہے کہ وعید کی میعاد کی تاخیر کسی سبب توبہ یا خوف کی وجہ سے جائز ہے.کس قدر افسوس کی بات ہے کہ مسلمان کہلا کر اور ان احادیث کو پڑھ کر پھر اس پیشگوئی کی تکذیب کی جائے جو یونس کی پیشگوئی سے ہم شکل ہے اور ایسے امور میں اس عاجز کو کاذب ٹھہرایا جائے جن میں دوسرے انبیاء بھی شریک ہیں.میں بار بار کہتا ہوں کہ نفس پیشگوئی داماد احمد بیگ کی تقدیر مبرم ہے اس کی انتظار کرو اور اگر میں جھوٹا ہوں تو یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوگی اور میری موت آجائے گی.اور اگر میں سچا ہوں تو خدا ئے تعالیٰ ضرور اس کو بھی ایسا ہی پوری کردے گا جیسا کہ احمد بیگ اور آتھم کی پیشگوئی پوری ہوگئی.اصل مدعا تو نفس مفہوم ہے اور وقتوں میں تو کبھی استعارات کا بھی دخل ہو جاتا ہے یہاں تک کہ بائبل کی بعض پیشگوئیوں میں دنوں کے سال بنائے گئے ہیں جو بات خدا کی طرف سے ٹھہر چکی ہے کوئی ا س کو روک نہیں سکتا.ذرا شرم کرنی چاہئے کہ جس حالت میں خود احمد بیگ اسی پیشگوئی کے مطابق میعاد کے اندر فوت ہوگیا اور وہ پیشگوئی کے اول نمبر پر تھا تو پھر اگر خدا کا خوف ہو تو اس پیشگوئی کے نفس مفہوم میں شک نہ کیا جاوے کیونکہ ایک وقوع یافتہ امر کی یہ دوسری جز ہے جس حالت میں خدا اور رسول
اور چار دن تک جان کندن کا سخت عذاب اٹھا کر دائمی عذاب کے زندان میں جا پڑا.پادری وائٹبریخت کو اگر خدا کا خوف ہے تو اب سمجھ سکتا ہے کہ ہم دونوں یعنی آتھم اور اس راقم میں سے کون لعنتی تھا.اب اس قصہ کے لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ پادری وائٹ بریخت نے بھی چاہا تھا.کہ جھوٹے پر لعنت ہو سو چونکہ آتھم جھوٹا تھا اس لئے اس پر لعنت پڑگئی.سو اسی لئے میں کہتا ہوں کہ آتھم کے معاملہ میں کسی پادری صاحب یا کسی اور عیسائی کو شک ہے اور خیال کرتا ہو کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی تو لازم ہے کہ مجھ سے مباہلہ کرے.اور لعنت کا مفہوم اپنے مخالفوں کے لئے خود یسوع نے بھی استعمال کیا ہے کیونکہ واویلا یہودیوں پر یسوع کے کلام میں آیا ہے اور واویلا اور لعنت ایک ہی چیز ہے اور یسوع نے مخالفوں کے اور پہلی کتابوں کی شہادتوں کی نظیریں موجود ہیں کہ وعید کی پیشگوئی میں گو بظاہر کوئی بھی شرط نہ ہو تب بھی بوجہ خوف تاخیر ڈال دی جاتی ہے.تو پھر اس اجماعی عقیدہ سے محض میری عداوت کے لئے منہ پھیرنا اگر بدذاتی اور بے ایمانی نہیں تو اور کیا ہے.فیصلہ تو آسان ہے احمد بیگ کے داماد سلطان محمد کو کہو کہ تکذیب کا اشتہار دے پھر اس کے بعد جو میعاد خدائے تعالیٰ مقرر کرے اگر اس سے اس کی موت تجاوز کرے تو میں جھوٹا ہوں.ورنہ اے نادانوں! صادقوں کو جھوٹا مت ٹھہراؤ کہ روسیاہی کے ساتھ مرو گے میری عداوت سے اسلام سے باہر مت جاؤ کیا تم نہیں سمجھتے کہ اس ضمن میں قرآن شریف اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسری الہامی کتابوں کی تکذیب لازم آتی ہے یقیناً سمجھو کہ کسی کی عداوت سے اللہ اور رسول اور دوسرے نبیوں کی کتابوں سے روگردان ہو جانا لعنتیوں کا کام ہے نہ نیک دل مسلمانوں کا.صاف ظاہر کہ آتھم کی پیشگوئی اور اس پیشگوئی میں تین ۳ شخص کی موت کی خبر دی گئی تھی.سو ان میں سے دو تو فوت ہوچکے صرف ایک باقی ہے سو اس ایک کا انتظار کرو.اور ضرور ہے کہ یہ وعید کی موت اس سے تھمی رہے جب تک کہ وہ گھڑی آجائے کہ اس کو بیباک کردیوے سو اگر جلدی کرنا ہے تو اٹھواور اس کو بیباک اور مکذب بناؤ اور اس سے اشتہار دلاؤ اور خدا کی قدرت کا تماشا دیکھو.اور اس پیشگوئی میں عربی الہام کے الفاظ یہ ہیں.کذّبوا باٰیاتنا وکانوا بہا یستھزؤن.فسیکفیکہم اللّٰہ ویردھا الیک.لا تبدیل لکلمات اللّٰہ انّ ربّک فعّال لما یرید.اگر کوئی اسی بات میں خوش ہے کہ مجھ سے ٹھٹھا کرے تو میں اس میں بھی ناخوش نہیں کیونکہ صادقوں اور راستبازوں کے ساتھ مجھ سے پہلے بھی ٹھٹھا کیا گیا ہے.پھر بہت جلد ٹھٹھا کرنے والے نابود ہوگئے اور کوئی نہ بتلا سکا کہ کہاں گئے.وانّی باعین اللّٰہ ھو یرانی ومن یکذبنی واعلم منہ انّہ لا یضیعنی ولا یخزینی فویل للذین کفّرونی ولعنونی وسبّونی و شتمونی وکذبوا کلماتی ولم یحیطوا بھا علما فالموت کان خیرًالہم من ھذا لو کانوا یعلمون.منہ
عذاب کی پیشگوئی بھی کی ہے اس صورت میں وہ طریق جو عیسائیوں کے مرشد اور گرو نے استعمال کیا ہے اس پر اعتراض کرنا سخت ناسعادت مندی ہے.ماسوا اس کے اگر اس لعنت کے لفظ کو استعمال کرنا نہیں چاہتے تو سزا یا عقوبت کے لفظ کو استعمال کریں اور اگر ایک سال تک ایسا آدمی جو مباہلہ کے میدان میں آوے آسمانی عقوبت سے سزا یاب نہ ہو جاوے تو میں لکھ دوں گا کہ بیشک میری پیشگوئی غلط نکلی اور اگر کوئی مقابل پر نہ آیا توتمام ناظرین سمجھ لیں کہ عیسائی بوجہ ناحق پر ہونے کے بھاگ گئے.یہ بھی مناسب دیکھتا ہوں کہ چونکہ عیسائیوں کا مذہبی عناد بہت بڑھ گیا ہے اس لئے نہایت ضروری ہے کہ روز کا جھگڑا طے کرنے کے لئے ساتھ ہی اسلام اور عیسائیت کا مباہلہ بھی میرے ساتھ کرلیں.اگر عیسائی لعنت کے لفظ سے متنفر ہیں تو اس لفظ کو جانے دیں بلکہ دونوں فریق یہ دعا کریں کہ یاالٰہ العالمین اسلام تو یہ تعلیم دیتا ہے کہ تثلیث کی تعلیم سراسر جھوٹی اور شیطانی طریق ہے اور مریم کا بیٹا ہرگز خدا نہیں تھا بلکہ ایک انسان تھا اور نبی اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم خداکے سچے پیغمبر اور رسول اور خاتم الانبیاء تھے اور قرآن خدا کا پاک کلام ہے جو ہر ایک غلطی اور ضلالت سے پاک ہے.اور عیسائی اس تعلیم کو پیش کرتے ہیں کہ مریم کا بیٹا یسوع درحقیقت خدا تھا وہی تھا جس نے زمین و آسمان پیدا کیا اسی کے خون سے دنیا کی نجات ہوگئی.اور خدا تین اقنوم ہیں باپ، بیٹا روح القدس اور یسوع تینوں کا مجموعہ کامل خدا ہے.اب اے قادران دونوں گروہ میں اس طرح فیصلہ کر کہ جو ہم دو فریق میں سے جو اس وقت مباہلہ کے میدان میں حاضر ہیں جو فریق جھوٹے اعتقاد کا پابند ہے اس کوایک سال کے اندر بڑے عذاب سے ہلاک کر کیونکہ تمام دنیا کی نجات کے لئے چند آدمی کا مرنا بہتر ہے.غرض ہر ایک فریق ہم میں سے اور عیسائیوں میں سے دعا کرے اس طرح پرکہ اول ایک فریق یہ دعا کرے اور دوسرا فریق آمین کہے اور پھر دوسرا فریق دعا کرے اور پہلا فریق آمین کہے اور پھر ایک سال تک خدا کے حکم کے منتظر رہیں اور میں اس وقت اقرار صالح شرعی کرتا ہوں کہ ان دونوں مباہلوں میں دو ہزار روپیہ ان عیسائیوں کے لئے جمع کرا دوں گا جو میرے مقابل پر مباہلہ کے میدان میں آویں گے یہ کام نہایت ضروری ہے جیسا کہ ہم کہتے ہیں کہ زندہ اور قادر خدا ہمارے ساتھ ہے.عیسائی بھی کہتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ ہے.اب اس مباہلہ سے یہ بڑا فائدہ ہوگا کہ پبلک کو معلوم ہو جائے گا کہ کس قوم کے ساتھ خدا ہے.اور اگر عیسائی قبول نہ کریں تو لعنت کا ذخیرہ ان کے لئے آسمان پر جمع ہوگا اور لوگ سمجھ جائیں گے کہ وہ جھوٹے ہیں.ہمارے مخاطب ڈاکٹر کلارک.پادری عماد الدین.حسام الدین ایڈیٹر کشف الحقائق.منشی صفدر علی بھنڈارہ.پادری فتح مسیح اور ہر ایک ایسا شخص جو پادری اور معاند اسلام ہو درخواست کرے.یہ طریق فیصلہ بہتر ہے تادنیا روز کے جھگڑوں سے نجات پاوے.تاسیاہ روئے شودہر کہ دروغش باشد.وَالسّلام علٰی من اتّبع الہدٰی.المشتہر مرزا غلام احمد از قادیان
س نحمدہٗ ونصلّی علٰی رسولہ الکریم یہ وہ رسالہ ہے جس کا نام خدا کا فیصلہ ہے پنجاب اور ہندوستان کے تمام پادری صاحبوں کے لئے ایک احسن طریق فیصلہ عیسائی صاحبوں کا یہ اعتقاد ہے کہ جو لوگ تثلیث کا عقیدہ اور یسوع کا کفارہ نہیں مانتے وہ ہمیشہ کے جہنم میں ڈالے جائیں گے.اور وہ اعتقاد جو خدا تعالیٰ نے اپنی پاک کلام قرآن شریف کے ذریعہ سے مسلمانوں کو سکھایا ہے وہ یہ ہے کہ بجز توحید کے نجات نہیں.یہی توحید ہے جس کی رو سے تمام دنیا سے مواخذہ ہوگا خواہ قرآن ان کو نہ پہنچا ہو.کیونکہ یہ انسان کے دل میں فطرتی نقش ہے کہ اس کا خالق اور مالک اکیلا خدا ہے جس کے ساتھ کوئی شریک نہیں.اس توحید میں کوئی بھی ایسی بات نہیں جو زبردستی منوانی پڑے کیونکہ انسانی دل کی بناوٹ کے ساتھ ہی اس کے نقوش انسان کے دل میں منقش کئے جاتے ہیں.مگر جیسا کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے غیر محدود خدا کو تین اقنوم میں یاچار اقنوم میں محدود کرنا اور پھر ہر ایک اقنوم کو کامل بھی سمجھنا اور ترکیب کا محتاج بھی اور پھر خدا پر یہ روا رکھنا کہ وہ ابتدا میں کلمہ تھا پھر وہی کلمہ جو خدا تھا مریم کے پیٹ میں پڑا اور اس کے خون سے مجسم ہوااور معمولی راہ سے پیدا ہوا اور سارے دکھ خسرہ، چیچک دانتوں کی تکلیف جو انسان کو ہوتی ہیں سب اٹھائے آخر کو جوان ہوکر پکڑا گیا اور صلیب پر چڑھایا گیا.یہ نہایت گندہ شرک ہے جس میں انسان کو خدا ٹھہرایا گیا ہے خدا اس سے پاک ہے کہ وہ کسی کے پیٹ میں پڑے اور مجسم ہو اور دشمنوں کے ہاتھ میں گرفتار ہو.انسانی فطرت اس کو قبول نہیں کرسکتی کہ خدا پر ایسے دکھ کی مار اور یہ مصیبتیں پڑیں اور وہ جو تمام عظمتوں کا مالک اور تمام عزتوں کا سرچشمہ ہے اپنے لئے یہ تمام ذلتیں روا رکھے عیسائی اس بات کو مانتے ہیں کہ خدا کی اس رسوائی کا یہ پہلا ہی موقعہ ہے اور اس سے پہلے اس قسم کی ذلتیں خدا نے کبھی نہیں اٹھائیں.کبھی یہ امر وقوع میں نہیں آیا کہ خدا بھی انسان کی طرح کسی عورت کے رحم میں نطفہ میں مخلوط ہوکر قرار پکڑ گیا ہو.جیسے کہ لوگوں نے خدا کا نام سنا کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ بھی انسان کی طرح کسی عورت کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو.یہ تمام وہ باتیں ہیں جن کا عیسائیوں کو خود اقرار ہے اور اس بات کا بھی اقرار ہے کہ گو پہلے یہ تین اقنوم تین جسم علیحدہ علیحدہ نہیں رکھتے تھے مگر اس خاص زمانہ سے جس کو اب ۱۸۹۶ء برس جاتا ہے تینوں اقنوم کے لئے تین علیحدہ علیحدہ جسم مقرر ہوگئے باپ کی وہ شکل ہے جو آدم کی کیونکہ اس نے
آدم کو اپنی شکل پر بنایا.دیکھو توریت پیدائش باب ۱ آیت ۲۷ اور بیٹا یسوع کی شکل پر مجسم ہوا دیکھو یوحنا باب ۱ آیت ۱ اور روح القدس کبوتر کی شکل پر متشکل ہوا.دیکھو متی باب ۳ آیت ۱۶.اب جس نے عیسائیوں کے ان تینوں مجسم خداؤں کا درشن کرنا ہو اور ان کی جسمانی تثلیث کا نقشہ دیکھنا منظور ہو توکچھ ضرور نہیں کہ ان کی طرف التجا لے جائے بلکہ جیسا کہ ہم نے کتاب ست بچن میں سکھ صاحبوں کے مخفی چولہ کی تمام گرو کے چیلوں کو زیارت کرا دی ہے اسی طرح ہم یسوع کے شاگردوں کو بھی ان کے تین مجسم خداؤں کے درشن کرا دیتے ہیں اور ان کے سہ گوشہ تثلیثی خدا کو دکھا دیتے ہیں چاہیے کہ اس کے آگے جھکیں اور سیس نوادیں اور وہ یہ ہے جس کو ہم نے عیسائیوں کی شائع کردہ تصویروں سے لیا ہے.عیسائیوں کا مثلث خدا اور اس کے تین ممبران کمیٹی جواقنوم کہلاتے ہیں.
یہ تینو ں مجسم خدا عیسائیوں کے زعم میں ہمیشہ کے لئے مجسم اور ہمیشہ کے لئے علیحدہ علیحدہ وجود رکھتے ہیں اور پھر بھی یہ تینوں مل کر ایک خدا ہے لیکن اگر کوئی بتلا سکتا ہے تو ہمیں بتلا وے کہ باوجود اس دائمی تجسم اور تغیر کے یہ تینوں ایک کیونکر ہیں.بھلا ہمیں کوئی ڈاکٹر مارٹن کلارک اور پادری عماد الدین اور پادری ٹھاکر داس کو باوجود ان کے علیحدہ علیحدہ جسم کے ایک کرکے تو دکھلا وے.ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ اگر تینوں کو کوٹ کر بھی بعض کا گوشت بعض کے ساتھ ملا دیا جاوے پھر بھی جن کو خدا نے تین بنایا تھا ہرگز ایک نہیں ہوسکیں گے.پھر جبکہ اس فانی جسم کے حیوان باوجود امکان تحلیل اور تفرّق جسم کے ایک نہیں ہوسکتے پھر ایسے تین مجسّم جن میں بموجب عقیدہ عیسائیاں تحلیل اور تفریق جائز نہیں کیونکر ایک ہوسکتے ہیں.یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ عیسائیوں کے یہ تین خدا بطور تین ممبر کمیٹی کے ہیں اور بزعم ان کے تینوں کی اتفاق رائے سے ہر ایک حکم نافذ ہوتا ہے یا کثرت رائے پر فیصلہ ہوجاتا ہے گویا خدا کا کارخانہ بھی جمہوری سلطنت ہے اور گویا ان کے گاڈ صاحب کو بھی شخصی سلطنت کی لیاقت نہیں.تمام مدار کونسل پر ہے.غرض عیسائیوں کا یہ مرکب خدا ہے جس نے دیکھنا ہو دیکھ لے.پادری صاحبان ایسے خدا والے مذہب پر تو ناز کرتے ہیں لیکن اسلام جیسے مذہب کی جو ایسی خلاف عقل باتوں سے پاک ہے توہین اور تحقیر کررہے ہیں اور دن رات یہی شغل ہے کہ اپنے دجّالی فریبوں سے خدا کے پاک اور صادق نبی کو کاذب ٹھہرا ویں اور بُری بُری تصویروں میں اس نورانی شکل کو دکھلاویں.بعض پلید فطرت پادریوں نے اپنی تالیفات میں اس طرح ہمارے سید و مولیٰ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر کھینچ کر دکھلائی ہے کہ گویا وہ ایک ایسا شخص ہے جس کی خونی صورت ہے اور غصہ سے بھرا ہوا کھڑا ہے اور ایک ننگی تلوار ہاتھ میں ہے اور بعض غریب عیسائیوں وغیرہ کوٹکڑہ ٹکڑہ کرنا چاہتا ہے لیکن اگر ان لوگوں کو کچھ انصاف اور ایمان میں سے حصہ ہوتا تو اس تصویر سے پہلے موسیٰ کی تصویر کھینچ کر دکھلاتے اور اس طرح کھینچتے کہ گویا ایک نہایت سخت دل اور بے رحم انسان ہاتھ میں تلوار لے کر شیر خوار بچوں کو ان کی ماؤں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کررہا ہے اور ایسا ہی یشوع بن نون کی تصویر پیش کرتے اور اس تصویر میں یہ دکھلاتے کہ گویا اس نے لاکھوں بے گناہ بچوں کو ان کی ماؤں کے سمیت ٹکڑے ٹکڑے کرکے میدان میں پھینک دیا ہے.
اور چونکہ ان کے عقیدہ کے موافق یسوع خدا ہے اور یہ ساری بے رحمی کی کارروائیاں اس کے حکم سے ہوئی ہیں اور وہ مجسم خدا ہے جیسا کہ بیان ہوچکاتو اس صورت میں نہایت ضروری تھا کہ سب سے پہلے اس کی تصویر کھینچ کر اس کے ہاتھ میں کم سے کم تین تلواریں دی جاتیں.پہلی وہ تلوار جو اس نے موسیٰ کو دی اور بے گناہ شیر خوار بچوں کو قتل کروایا.دوسری وہ تلوار جو یشوع بن نون کو دی.تیسری وہ تلوار جو داؤد کو دی.افسوس !کہ اس حق پوش قوم نے بڑے بڑے ظلموں پر کمر باندھ رکھی ہے.اگر تلوار کے ذریعہ سے خدا کا عذاب نازل ہونا خدا کی صفات کے مخالف ہے تو کیوں نہ یہ اعتراض اول موسیٰ سے ہی شروع کیا جائے جس نے قوموں کو قتل کرکے خون کی نہریں بہا دیں اور کسی کی توبہ کو بھی قبول نہ کیا.قرآنی جنگوں نے تو توبہ کا دروازہ بھی کھلا رکھا جو عین قانون قدرت اور خدا کے رحم کے موافق ہے کیونکہ اب بھی جب خدا تعالیٰ طاعون اور ہیضہ وغیرہ سے اپنا عذاب دنیا پر نازل کرتا ہے تو ساتھ ہی طبیبوں کو ایسی ایسی بوٹیاں اور تدبیروں کا بھی علم دے دیتا ہے جس سے اس آتش وبا کا انسداد ہوسکے سو یہ موسیٰ کے طریق جنگ پر اعتراض ہے کہ اس میں قانون قدرت کے موافق کوئی طریق بچاؤ قائم نہیں کیا گیا.ہاں بعض بعض جگہ قائم بھی کیا گیا ہے مگر کلّی طور پر نہیں الغرض جبکہ یہ سنت اللہ یعنی تلوار سے ظالم منکروں کو ہلاک کرنا قدیم سے چلی آتی ہے تو قرآن شریف پر کیوں خصوصیت کے ساتھ اعتراض کیا جاتا ہے.کیا موسیٰ کے زمانہ میں خدا کوئی اور تھا اور اسلام میں کوئی اور ہوگیا یاخدا کو اس وقت لڑائیاں پیاری لگتی تھیں اور اب بُری دکھائی دیتی ہیں.اور یہ بھی فرق یاد رہے کہ اسلام نے صرف ان لوگوں کے مقابل پر تلوار اٹھانا حکم فرمایا ہے کہ جو اول آپ تلوار اٹھائیں اور انہیں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے جو اول آپ قتل کریں.یہ حکم ہرگز نہیں دیا کہ تم ایک کافر بادشاہ کے تحت میں ہوکر اور اس کے عدل اور انصاف سے فائدہ اٹھا کر پھر اسی پر باغیانہ حملہ کرو.قرآن کے رو سے یہ بدمعاشوں کا طریق ہے نہ نیکوں کا.لیکن توریت نے یہ فرق کسی جگہ کھول کر بیان نہیں فرمایا اس سے ظاہر ہے کہ قرآن شریف اپنے جلالی اور جمالی احکام میں اس خط مستقیم عدل اور انصاف اور رحم اور احسان پر چلتا ہے جس کی نظیر دنیا میں کسی کتاب میں موجود نہیں مگر اندھے دشمن
پھر بھی اعتراض کرتے ہیں کیونکہ ان کی فطرت روشنی سے عداوت اور ظلمت سے محبت رکھتی ہے.اب اس اشتہار کی تحریر سے یہ غرض ہے کہ ہم نے بڑے لمبے تجربہ سے آزما لیا ہے کہ یہ لوگ بار بار ملزم اور لاجواب ہوکر پھر بھی نیش زنی سے باز نہیں آتے اور اس شخص کو تمام عیبوں سے مبرّا سمجھتے ہیں جس نے خود اقرار کیا کہ ’’میں نیک نہیں‘‘ اور جس نے شراب خواری اور قمار بازی اور کھلے طور پر دوسروں کی عورتوں کو دیکھنا جائز رکھ کر بلکہ آپ ایک بدکار کنجری سے اپنے سر پر حرام کی کمائی کا تیل ڈلوا کر اور اس کو یہ موقعہ دے کر کہ وہ ا س کے بدن سے بدن لگاوے اپنی تمام اُمت کو اجازت دے دی کہ ان باتوں میں سے کوئی بات بھی حرام نہیں.سو ایسے شخص کو تو انہوں نے خدا بنا لیا مگر خدا کے مقدس نبیوں کو جن کی زندگی محض خدا کے لئے تھی اور جو تقویٰ کی باریک راہوں کو سکھا گئے برا کہنا اور گالیاں دینا شروع کردیا چنانچہ اب تک یہ لوگ باز نہیں آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو میں نہایت ناپاک اور رنجدہ تھیئٹر نکالتے ہیں اور نہایت بری تصویروں میں اس پاک وجود کو دکھلاتے ہیں.اب ایسے کذَّابوں سے زبانی مباحثات سے کیونکر فیصلہ ہو.ہم جھوٹے کو دندان شکن جواب سے ملزم تو کرسکتے ہیں مگر اس کا منہ کیونکر بند کریں اس کی پلید زبان پر کونسی تھیلی چڑھا ویں؟ اس کے گالیاں دینے والے منہ پر کونسا قفل لگاویں؟ کیا کریں؟ کیا کوئی اس سے بے خبر ہے کہ نالائق عماد الدین نے اس پاک ذات نبی کی نسبت کیا کیا گندے الفاظ استعمال کئے جس سے تمام مسلمانوں کے کلیجے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے.نور افشاں پرچہ لودیانہ میں کیسے کیسے ہفتہ وار محض افترا کی بنیاد پر توہین اسلام کے کلمات لکھے جارہے ہیں.ریواڑی والے پادری نے کس قدر مسلمانوں کا دل جلایااور ہمارے سید و مولیٰ کو ڈاکو اور رہزن قرار دیا.غرض کہاں تک لکھیں ان ظالم پادریوں نے لاکھوں گالیاں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دے کر ہمارے دلوں کو زخمی کردیا.لیکن ہم ظالم ہوں گے اگر ساتھ ہی یہ بھی گواہی نہ دیں کہ ان کارروائیوں میں گورنمنٹ پر کوئی الزام نہیں بلاشبہ گورنمنٹ ہریک قوم کو ایک ہی آنکھ سے دیکھتی ہے.مذہبی مناظرات
کی آزادی جیسا کہ پادریوں کو حاصل ہے ویسا ہی ہمیں بھی ہے اگر ہم گورنمنٹ کے انصاف پر یقین نہ رکھتے تو ممکن نہ تھا کہ ان اپنی شکایتوں کا اظہار بھی کرسکتے لیکن ہم گورنمنٹ کو یہ تکلیف دینا ہی نہیں چاہتے کہ وہ مذہبی مباحثات کی آزادی کو بالکل بند کردے.ہاں ہمارا مدعا یہ ہے کہ ان شرائط کی پابندی سے کسی قدر اس آزادی کو محدود کر دیا جائے جس کی نسبت ہم ایک علیحدہ اشتہار شائع کرچکے ہیں لیکن گورنمنٹ اپنی مہمات ملکیہ میں مصروف ہے اس کو اس فیصلہ کے لئے تو فرصت نہیں کہ توحید اور تین مجسم خداؤں کے عقیدہ کے بارے میں کچھ اپنی رائے لکھے اور وہ کارروائی کرے جیسا کہ تیسری صدی کے بعد کانسٹنٹائن فرسٹ قسطنطنیہ کے بادشاہ نے اڑھائی سو بشپ کو جمع کرکے اپنے اجلاس میں موحد عیسائیوں اور تین اقنوم کے قائل عیسائیوں کا باہم مباحثہ کرایا تھااور آخر کار فرقہ موحدین کو ڈگری دی تھی اور خود ان کا مذہب بھی قبول کر لیا تھا ایسا ہی یہ گورنمنٹ عالیہ بھی کرے* لیکن یہ گورنمنٹ ایسے تنازعات میں پڑنا نہیں چاہتی.پس یہ روز افزوں جھگڑے کیونکر فیصلہ پاویں.مباحثات کے نیک نتیجہ سے تو نومیدی ہوچکی بلکہ جیسے جیسے مباحثات بڑھتے حاشیہ.عیسائیوں میں تثلیث کا مسئلہ تیسری صدی کے بعد ایجاد ہوا ہے.جیسا کہ ڈریپر بھی اپنی کتاب میں بڑے بڑے علماء کے حوالہ سے لکھتا ہے موجد اس مسئلہ کا بشپ اتھاناسی اس الگزنڈرائن تھا جو صدی سوم کے بعد ہوا ہے.جب اس نے یہ مسئلہ شائع کرنا چاہا تو اسی وقت بشپ ایری اس اسکا منکر کھڑا ہوگیا اور یہاں تک اس مباحثہ میں عوام اور خواص کا مجمع ہوا کہ روم کے بادشاہ تک خبر پہنچ گئی.اتفاقاً اس کو مباحثات سے دلچسپی تھی اس نے چاہا کہ اس اختلاف کو اپنے حضور میں ہی فریقین کے علماء سے رفع کرا دے چنانچہ اس کے اجلاس میں بڑی سرگرمی سے یہ مباحثات ہوئے اور نہایت لطف کے ساتھ کونسل کی کرسیاں بچھیں اور مناظرہ کرنے والے دو سو پچاس نامی پادری تھے.آخر موحدین کا فرقہ جو یسوع کو محض انسان اور رسول جانتا تھا غالب آیا.اسی دن بادشاہ نے یونی ٹیرین کا مذہب اختیار کیا اور چھ بادشاہ اس کے بعد موحد رہے.چنانچہ جس قیصر کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خط لکھا تھاجس کا ذکر صحیح بخاری میں پہلے صفحہ میں ہی موجود ہے وہ بھی موحد ہی تھا اس نے قرآن کے اس مضمون پر اطلاع پاکر کہ مسیح صرف انسان ہے تصدیق کی
جاتے ہیں ویسے ہی کینے بھی ساتھ ترقی پکڑتے جاتے ہیں سو اس نومیدی کے وقت میں میرے نزدیک ایک نہایت سہل و آسان طریق فیصلہ ہے اگر پادری صاحبان قبول کرلیں اور وہ یہ ہے کہ اس بحث کا جو حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے خدا تعالیٰ سے فیصلہ کرایا جائے- اول مجھے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ ایسا خدائی فیصلہ کرانے کے لئے سب سے زیادہ مجھے جوش ہے اور میری دلی مراد ہے کہ اس طریق سے یہ روز کا جھگڑا انفصال پا جائے.اگر میری تائید میں خدا کا فیصلہ نہ ہو تو میں اپنی کل املاک منقولہ وغیر منقولہ جو دس ۱۰ ہزار روپیہ کی قیمت سے کم نہیں ہوں گی عیسائیوں کو دے دوں گا اور بطور پیشگی تین ہزار روپیہ تک ان کے پاس جمع بھی کرا سکتا ہوں.اس قدر مال کا میرے ہاتھ سے نکل جانا میرے لئے کافی سزا ہوگی.علاوہ اس کے یہ بھی اقرار کرتا ہوں کہ میں اپنے دستخطی اشتہار سے شائع کردوں گا کہ عیسائی فتح یاب ہوئے اور میں مغلوب ہوا اور یہ بھی اقرار کرتا ہوں کہ اس اشتہار میں کوئی بھی شرط نہ ہوگی لفظاً نہ معناً.اور ربَّانی فیصلہ کے لئے طریق یہ ہوگا کہ میرے مقابل پر ایک معزز پادری صاحب جو پادری صاحبان مندرجہ ذیل میں سے منتخب کئے جائیں*.میدان مقابلہ کے لئے جو تراضی طرفین سے مقرر کیا جائے طیّار ہوں.پھر بعد اس کے ہم دونوں معہ اپنی اپنی جماعتوں کے میدان مقررہ میں حاضر ہو جائیں اور خدائے تعالیٰ سے دعا کے ساتھ یہ فیصلہ چاہیں کہ ہم دونوں میں سے جو شخص درحقیقت خدا تعالیٰ کی نظر میں کاذب اور مورد غضب ہے خدا تعالیٰ ایک سال میں اس کاذب پر وہ قہر نازل کرے جو اپنی غیرت کے رو سے ہمیشہ کاذب اور مکذب قوموں پر کیا کرتا ہے جیسا کہ اس نے فرعون پر کیا نمرود پر کیا اور نوح کی قوم پر کیااور یہود پر کیا.حضرات پادری صاحبان یہ بات یاد رکھیں کہ اس باہمی دعا میں کسی خاص فریق پر نہ لعنت ہے نہ بددعا ہے بلکہ اس جھوٹے کو سزا دلانے کی غرض سے ہے جو اپنے جھوٹ کو چھوڑنا نہیں چاہتا.ایک جہان کے زندہ ہونے کے لئے ایک کا جیسا کہ نجاشی نے بھی جو عیسائی بادشاہ تھا قسم کھاکر کہا کہ یسوع کا رتبہ اس سے ذرہ زیادہ نہیں جو قرآن نے اس کی نسبت لکھا ہے مگر نجاشی اس کے بعد کھلا کھلا مسلمان ہوگیا.منہ نوٹ.ان صاحبوں میں سے کوئی منتخب ہونا چاہئے.اول ڈاکٹر مارٹن کلارک.دوسرے پادری عماد الدین پھر پادری ٹھاکر داس یا حسام الدین بمبئی یا صفدر علی بھنڈارہ یا طامس ہاول یا فتح مسیح بشرط منظوری دیگران
مرنا بہترہے.پادری صاحبان خوب جانتے ہیں کہ جھوٹوں پر یسوع نے بھی بددعائیں کی ہیں.چنانچہ یسوع متی باب ۲۳ میں یہود کے علماء کو مخاطب کرکے کہتا ہے.’’اے سانپو اور سانپ کے بچو تم جہنم کے عذاب سے کیونکر بھاگو گے.۳۶.میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ یہ سب کچھ اس زمانہ کے لوگوں پر آوے گا یعنی عذاب اور باب ۲۳ آیت ۱۳ میں یسوع بار بار جھوٹوں مکاروں کی تباہی چاہتا ہے اور ویل کا لفظ استعمال کرتا ہے جو ہمیشہ بددعا کے لئے آتا ہے.غرض ایسا جھوٹا جو جھوٹ کو کسی طرح چھوڑنا نہ چاہے اس کا وجود تمام فتنوں سے زیادہ فتنہ ہے اور فتنہ کو ہریک طرح سے فرو کرنا راستبازوں کا فرض ہے.پس جس حالت میں عیسائی نہایت غلوّ سے کہتے ہیں کہ دین اسلام انسان کا افترا ہے.اور اہل اسلام دلی یقین رکھتے ہیں کہ عیسائی درحقیقت انسان پرست ہیں تو کیا لازم نہیں ہے کہ جس طرح ہوسکے یہ بات فیصلہ پا جائے.ہم نے بار بار سمجھایا کہ عیسیٰ پرستی بت پرستی اور رام پرستی سے کم نہیں.اور مریم کا بیٹا کشلّیا کے بیٹے سے کچھ زیادت نہیں رکھتا مگر کیا کبھی آپ لوگوں نے توجہ کی.یوں تو آپ لوگ تمام دنیا کے مذہبوں پر حملہ کررہے ہیں مگر کبھی اپنے اس مثلث خدا کی نسبت بھی کبھی غور کی.کبھی یہ خیال آیاکہ وہ جو تمام عظمتوں کا مالک ہے اس پر انسان کی طرح کیونکر دکھ کی مار پڑ گئی.کبھی یہ بھی سوچا کہ خالق نے اپنی ہی مخلوق سے کیونکر مار کھالی.کیا یہ سمجھ آسکتا ہے کہ بندے ناچیز اپنے خدا کو کوڑے ماریں، اس کے منہ پر تھوکیں، اس کو پکڑیں، اس کو سولی دیں اور وہ مقابلہ سے عاجز رہ جائے بلکہ خدا کہلا کر پھر اس پر موت بھی آجائے.کیا یہ سمجھ میں آسکتا ہے کہ تین مجسم خدا ہوں ایک وہ مجسم جس کی شکل پر آدم ہوا.دوسرا یسوع.تیسرا کبوتر* اور تینوں میں سے ایک بچہ والا اور دو لاولد.کیا یہ سمجھ میں آسکتا ہے کہ خدا شیطان کے * نوٹ.عیسائی صاحبان کبوتروں کو شوق سے کھاتے ہیں.حالانکہ کبوتر ان کا دیوتا ہے.ان سے ہندو اچھے رہے کہ اپنے دیوتا بیل کو نہیں کھاتے.منہ
پیچھے پیچھے چلے اور شیطان اس سے سجدہ چاہے اور اس کو دنیا کی طمع دے.کیا یہ سمجھ میں آسکتا ہے کہ وہ شخص جس کی ہڈیوں میں خدا گھسا ہوا تھا ساری رات رو رو کر دعا کرتا رہا اور پھر بھی استجابت دعا سے محروم اور بے نصیب ہی رہا.کیا یہ بات تعجب میں نہیں ڈالتی کہ خدائی کے ثبوت کے لئے یہود کی کتابوں کا حوالہ دیا جاتا ہے حالانکہ یہود اس عقیدہ پر ہزار لعنت بھیجتے ہیں اور سخت انکاری ہیں اور کوئی ان میں ایسا فرقہ نہیں جو تثلیث کا قائل ہو اگر یہود کو موسیٰ سے آخری نبیوں تک یہی تعلیم دی جاتی تو کیونکر ممکن تھا کہ وہ لاکھوں آدمی جو بہت سے فرقوں میں منقسم تھے اس تعلیم کو سب کے سب بھول جاتے.کیا یہ بات سوچنے کے لائق نہیں کہ عیسائیوں میں قدیم سے ایک فرقہ موحد بھی ہے جو قرآن شریف کے وقت میں بھی موجود تھا.اور وہ فرقہ بڑے زور سے اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ تثلیث کا گندہ مسئلہ صرف تیسری صدی کے بعد نکلا ہے اور اب بھی اس فرقہ کے لاکھوں انسان یورپ اور امریکہ میں موجود ہیں اور ہزارہا کتابیں ان کی شائع ہورہی ہیں.پس جبکہ اس قدر ملزم ہوکر پھر بھی پادری صاحبان اپنی بدزبانیوں سے باز نہیں آتے تو کیا اس وقت خدا کے فیصلہ کی حاجت نہیں؟ ضرور حاجت ہے.تا جو جھوٹا ہے ہلاک ہو جائے جو گروہ جھوٹا ہوگا اب بلاشبہ بھاگ جائے گا اور جھوٹے بہانوں سے کام لے گا.سو اے پادری صاحبان دیکھو کہ میں اس کام کیلئے کھڑا ہوں اگر چاہتے ہو کہ خدا کے حکم سے اور خدا کے فیصلہ سے سچے اور جھوٹے میں فرق ظاہر ہو جائے تو آؤ.تاہم ایک میدان میں دعاؤں کے ساتھ جنگ کریں تا جھوٹے کی پردہ دری ہو.یقیناً سمجھو کہ خدا ہے اور بے شک وہ قادر موجود ہے اور وہ ہمیشہ صادقوں کی حمایت کرتا ہے.سو ہم دونوں میں سے جو صادق ہوگا خدا ضرور اس کی حمایت کرے گا.یہ بات یاد رکھو کہ جو شخص خدا کی نظر میں ذلیل ہے وہ اس جنگ کے بعد ذلت دیکھے گااور جو اس کی نظر میں عزیز ہے وہ عزت پائے گا
آتھم کے مقدمہ میں دیکھ چکے ہو کہ باوجود اس کے بہت سے منصوبوں کے پھر آخر حق ظاہر ہوگیا.کیا تمہارے دل قبول نہیں کرگئے کہ آتھم کا قسم سے انکار کرنا اور نالش سے انکار کرنا اور حملوں کا ثبوت دینے سے انکار کرنا صرف اسی وجہ سے تھا کہ اس نے ضرور الہامی شرط کے موافق حق کی طرف رجوع کرلیا تھا.تمہیں معلوم ہے کہ باجود اس کے کہ ملامتی اشتہاروں کی بہت ہی اس کو مار پڑی مگر وہ اس الزام سے اپنے تئیں بری نہ کرسکا جو اس کے اقرار خوف اور بے ثبوت ہونے عذر حملوں سے اس پر وارد ہوچکا تھا.یہاں تک کہ اس موت نے اس کو آپکڑا جس سے وہ ڈرتا رہا اور ضرور تھا کہ وہ انکار کے بعد جلد مرتا.کیونکہ خدائے تعالیٰ کی پاک پیش گوئیوں کے رو سے یہی سزا اس کے لئے ٹھہر چکی تھی.سو اس خدا سے خوف کرو جس نے آتھم کو بڑی سرگردانیوں کے گرداب میں ڈال کر آخر اپنے وعید کے موافق ہلاک کردیا.خدا کی کھلی کھلی پیشگوئیوں سے منہ پھیرنا یہ بدطینتوں کا کام ہے نہ نیک لوگوں کا.اور جھوٹ کے مردار کو کسی طرح نہ چھوڑنا.یہ کتوں کا طریق ہے نہ انسانوں کا.میاں حسام الدین عیسائی لکھتے ہیں کہ آتھم چار دن تک بے ہوش رہا.مگر وہ اس کا سرّ نہیں بیان کرسکے کہ کیوں چار دن تک بے ہوش رہا.سو جاننا چاہئے کہ یہ چار دن کی سخت جان کندن کے ان چار افتراؤں کی اسی دنیا میں اس کو سزا دی گئی.جو اس نے زہر خورانی کے اقدام کا افترا کیا.سانپ چھوڑنے کا افترا کیا.لودیانہ اور فیروز پور کے حملہ کا افترا کیا اور عیسائیوں کے خوش کرنے کے لئے اصل وجہ خوف کو چھپایا.سو عیسائیوں کے لئے اس سے زیادہ اور کوئی شرم کی جگہ نہیں کہ آتھم ان کے مذہب کے جھوٹا ہونے پر گواہی دے گیا.اب اگر آتھم کی گواہی پر اعتبار نہیں تو اس نئے طریق سے دوبارہ حجت اللہ کو پورا کرا لینا چاہئے.اور اس نئے طریق میں کوئی شرط بھی نہیں.سیدھی بات ہے کہ اگر باہم دعا کرنے کے بعد جس کے ساتھ فریقین کی طرف سے آمین بھی ہوگی.میرے مقابل کا شخص ایک سال تک خدا تعالیٰ کے فوق العادت عذاب سے بچ گیا تو جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں تاوان مذکورہ بالا ادا کروں گا.اور میں حضرات پادری صاحبان کو دوبارہ یاد دلاتا ہوں کہ اس طرح کا طریق دعا ان کے
مذہب اور اعتقاد سے ہرگز منافی نہیں اور حضرت یسوع صاحب نے باب ۲۳ آیت ۱۳ متی میں خود اس طریق کو استعمال کیا ہے اور ویل کے لفظ سے فقیہوں اور فریسیوں پر بددعا کی ہے اب اگر عیسائی صاحبان کوئی اور لفظ استعمال کرنے سے تامل کریں تو ویل کے لفظ کو ہی استعمال کرنا تو خود ان پر واجب ہے کیونکہ ان کے مرشد اور ہادی نے بھی یہی لفظ استعمال کیا ہے.ویل کے معنی سختی اور لعنت اور ہلاکت کے ہیں.سو ہم دونوں اس طرح پر دعا کریں گے کہ اے خدائے قادر اس وقت ہم بالمقابل دو فریق کھڑے ہیں ایک فریق یسوع بن مریم کو خدا کہتا اور نبی اسلام کو سچا نبی نہیں جانتا اور دوسرا فریق عیسیٰ ابن مریم کو رسول مانتا اور محض بندہ اس کو یقین رکھتا اور پیغمبر اسلام کو درحقیقت سچا اور یہود اور نصاریٰ میں فیصلہ کرنے والا جانتا ہے سو ان دونوں فریق میں سے جو فریق تیری نظر میں جھوٹا ہے اس کو ایک سال کے اندر ہلاک کر اور اپنا ویل اس پر نازل کر.اور چاہیے کہ ایک فریق جب دعا کرے تو دوسرا آمین کہے اور جب وہ فریق دعا کرے تو یہ فریق آمین کہے.اور میری دلی مراد ہے کہ اس مقابلہ کے لئے ڈاکٹر مارٹن کلارک کو منتخب کیا جائے کیونکہ وہ موٹا اور جوان عمر اور اول درجہ کا تندرست اور پھر ڈاکٹر ہے اپنی عمر درازی کا تمام بندوبست کرلے گا.یقیناً ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب ضرور ہماری اس درخواست کو قبول کرلیں گے کیونکہ انہیں یسوع ابن مریم کے خدا بنانے کا بہت شوق ہے.اور سخت نامردی ہوگی کہ اب وہ اس وقت بھاگ جائیں اور اگر وہ بھاگ جائیں تو پادری عماد الدین صاحب اس مقابلہ کے لائق ہیں جنہوں نے ابن مریم کو خدا بنانے کے لئے ہر ایک انسانی چالاکی کو استعمال کیا اور آفتاب پر تھوکا ہے.اور اگر وہ بھی اس خوف سے بھاگ گئے کہ خدا کا ویل ضرور انہیں کھا جائے گا تو حسام الدین یا صفدر علی یا ٹھاکر داس یا طامس ہاول اور بالآخر فتح مسیح اس میدان میں آوے.یا کوئی اور پادری صاحب نکلیں اور اگر اس رسالہ کے شائع ہونے کے بعد دو ماہ تک کوئی بھی نہ نکلا اور صرف شیطانی عذر بہانہ سے کام لیا تو پنجاب اور ہندوستان کے تمام پادریوں کے جھوٹے ہونے پر مہر لگ جائے گی اور پھر خدا اپنے طور سے جھوٹ کی بیخ کنی کرے گا یاد رکھو کہ ضرور کرے گا کیونکہ وقت آگیا.والسّلام علٰی من اتّبع الہدیٰ.میرزا غلام احمداز قادیان ۱۴؍ستمبر ۱۸۹۶ء
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحمدہٗ ونُصَلّی عَلٰی رَسُولِہِ الکَریم )رسالہ دعوت قوم( اشتہار مباہلہ بغرض دعوت ان مسلمان مولویوں کے جو اس عاجز کو کافر اور کذّاب اور مفتری اور دجّال اور جہنمی قرار دیتے ہیں 3 اے ہمارے خدا ہم میں اور ہماری قوم میں سچا فیصلہ کردے اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے چونکہ علماء پنجاب اور ہندوستان کی طرف سے فتنہ تکفیر و تکذیب حد سے زیادہ گزر گیا ہے ا ور نہ فقط علماء بلکہ فقرا اور سجادہ نشین بھی اس عاجز کے کافر اور کاذب ٹھہرانے میں مولویوں کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں.اور ایسا ہی ان مولویوں کے اغوا سے ہزارہا ایسے لوگ پائے جاتے ہیں کہ وہ ہمیں نصاریٰ اور یہود اور ہنود سے بھی اکفر سمجھتے ہیں.اگرچہ اس تمام فتنہ تکفیر کا بوجھ نذیر حسین دہلوی کی گردن پر ہے مگر تاہم دوسرے مولویوں کا یہ گناہ ہے کہ انہوں نے اس نازک امر تکفیر مسلمانوں میں اپنی عقل اور اپنی تفتیش سے کام نہیں لیا.بلکہ نذیر حسین کے دجّالانہ فتویٰ کو دیکھ کر جو محمد حسین بٹالوی نے طیّار کیا تھا بغیر تحقیق اور تنقیح کے اس پر ایمان لے آئے.ہم کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں کہ اس نالائق نذیر حسین اور اس کے ناسعادت مند شاگرد محمد حسین کا یہ سراسر افترا ہے کہ ہماری طرف یہ بات منسوب کرتے ہیں کہ گویا ہمیں معجزات انبیاء علیہم السلام سے انکار ہے یا ہم خود دعویٰ نبوت کرتے ہیں یا نعوذ باللہ حضرت سید المرسلین محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء نہیں سمجھتے یا ملائک سے انکاری یا حشر و نشر وغیرہ اصول عقائد اسلام سے منکر ہیں.یا صوم و صلٰوۃ وغیرہ ارکان اسلام کو نظر استخفاف سے دیکھتے یا غیر ضروری سمجھتے ہیں.نہیں.بلکہ خدا تعالیٰ گواہ ہے کہ ہم ان سب باتوں کے قائل ہیں.اور ان عقائد اور ان اعمال کے منکر کو ملعون اور 3 یقین رکھتے ہیں.اگر ہمیں ہمارے دعویٰ کے موافق قبول کرنے کے لئے یہی مابہ النزاع ہے تو ہم بلند آواز سے باربار سناتے ہیں کہ ہمارے یہی عقائد ہیں جو ہم بیان کرچکے ہیں.ہاں ایک بات ضرور ہے جس کے
لئے یہ اشتہار مباہلہ لکھا گیا ہے.اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس عاجز کو شرف مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف فرما کر اس صدی چہار دہم کا مجدّد قرار دیا ہے اور ہریک مجدّد کا بلحاظ حالت موجودہ زمانہ کے ایک خاص کام ہوتا ہے جس کے لئے وہ مامور کیا جاتا ہے.سو اس سنت اللہ کے موافق یہ عاجز صلیبی شوکت کے توڑنے کے لئے مامور ہے یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے اس خدمت پر مقرر کیا گیا ہے کہ جو کچھ عیسائی پادریوں نے کفاّرہ اور تثلیث کے باطل مسائل کو دنیا میں پھیلایا ہے اور خدائے واحد لاشریک کی کسر شان کی ہے.یہ تمام فتنہ سچے دلائل اور روشن براہین اور پاک نشانوں کے ذریعہ سے فرو کیا جائے.اس بات کی کس کو خبر نہیں کہ دنیا میں اس زمانہ میں ایک ہی فتنہ ہے جو کمال کو پہنچ گیا ہے اور الٰہی تعلیم کا سخت مخالف ہے یعنی کفاّرہ اور تثلیث کی تعلیم جس کو صلیبی فتنہ کے نام سے موسوم کرنا چاہئے.کیونکہ کفارہ اور تثلیث کے تمام اغراض صلیب کے ساتھ وابستہ ہیں.سو خدا تعالیٰ نے آسمان پر سے دیکھا کہ یہ فتنہ بہت بڑھ گیا ہے اور یہ زمانہ اس فتنہ کے تموّج اور طوفان کا زمانہ ہے.پس خدا نے اپنے وعدہ کے موافق چاہا کہ اس صلیبی فتنہ کو پارہ پارہ کرے اور اس نے ابتدا سے اپنے نبی مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے خبر دی تھی کہ جس شخص کی ہمت اور دعا اور قوت بیان اور تاثیر کلام اور انفاس کافر کش سے یہ فتنہ فرو ہوگا اسی کا نام اس وقت عیسیٰ اور مسیح موعود ہوگا.اگرچہ وہ پیشگوئیاں بہت سے نازک اور لطیف استعارات سے بھری پڑی ہیں مگر ان میں جو نہایت واضح اور کھلا کھلا اور موٹا نشان مسیح موعود کے بارے میں لکھا گیا ہے.وہ کسر صلیب ہے یعنی صلیب کو توڑنا.یہ لفظ ہریک عقلمند کے لئے بڑی غور کے لائق ہے اور یہ صاف بتلا رہا ہے کہ وہ مسیح موعود عیسائیت کے موجزن فتنہ کے زمانہ میں ظاہر ہوگا نہ کسی اور زمانہ میں.کیونکہ صلیب پر سارا مدار نجات کا رکھنا کسی اور دجّال کا کام نہیں ہے.یہی گروہ ہے جو صلیبی کفّارہ پر زور دے رہا ہے اور اس کو فروغ دینے کے لئے ہر ایک دجل کو کام میں لا رہا ہے.دجّال بہت گزرے ہیں اور شائد آگے بھی ہوں.مگر وہ دجّال اکبر جن کا دجل خدا کے نزدیک ایسا مکروہ ہے کہ قریب ہے جو اس سے آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں.یہی گروہ مشت خاک کو خدا بنانے والا ہے.خدا نے یہودیوں اور مشرکوں اور دوسری قوموں کے
طرح طرح کے دجل قرآن شریف میں بیان فرمائے مگر یہ عظمت کسی کے دجل کو نہیں دی کہ اس دجل سے آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہوسکتے ہیں.پس جس گروہ کو خدا نے اپنے پاک کلام میں دجّالِ اکبر ٹھہرایا ہے ہمیں نہیں چاہئے کہ اس کے سوا کسی اور کا نام دجّالِ اکبر رکھیں.نہایت ظلم ہوگا کہ اس کو چھوڑ کر کوئی اور دجّالِ اکبر تلاش کیا جائے.یہ بات کسی پہلو سے درست نہیں ٹھہر سکتی کہ حال کے پادریوں کے سوا کوئی اور بھی دجّال ہے جو ان سے بڑا ہے کیونکہ جبکہ خدا نے اپنی پاک کلام میں سب سے بڑا یہی دجّال بیان فرمایا ہے تو نہایت بے ایمانی ہوگی کہ خدا کے کلام کی مخالفت کرکے کسی اور کو بڑا دجّال ٹھہرایا جائے.اگر کسی ایسے دجّال کا کسی وقت وجود ہوسکتا تو خدا تعالیٰ جس کا علم ماضی اور حال اور مستقبل پر محیط ہے اسی کا نام دجّالِ اکبر رکھتا نہ ان کا نام.پھر یہ نشان دجّال اکبر کا جو حدیث بخاری کے صریح اس اشارہ سے نکلتا ہے کہ یَکْسِرُ الصّلیبصاف بتلا رہا ہے کہ اس دجّالِ اکبر کی شان میں سے یہ ہوگا کہ وہ مسیح کو خدا ٹھہرائے گا اور مدار نجات صلیب پر رکھے گا.یہ بات عارفوں کے لئے نہایت خوشی کا موجب ہے کہ اس جگہ نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کا تظاہر ہوگیا ہے جس سے تمام حقیقت اس متنازعہ فیہ مسئلہ کی کھل گئی.کیونکہ قرآن نے تو اپنے صریح لفظوں میں دجّالِ اکبر پادریوں کو ٹھہرایا اور ان کے دجل کو ایسا عظیم الشان دجل قرار دیا کہ قریب ہے جو اس سے زمین و آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں.اور حدیث نے مسیح موعود کی حقیقی علامت یہ بتلائی کہ اس کے ہاتھ پر کسر صلیب ہوگا.اور وہ دجّال اکبر کو قتل کرے گا.ہمارے نادان مولوی نہیں سوچتے کہ جبکہ مسیح موعود کا خاص کام کسر صلیب اور قتل دجّال اکبر ہے اور قرآن نے خبر دی ہے کہ وہ بڑا دجل اور بڑا فتنہ جس سے قریب ہے کہ نظام اس عالم کا درہم برہم ہو جائے اور خاتمہ اس دنیا کا ہو جائے وہ پادریوں کا فتنہ ہے تو اس سے صاف طور پر کھل گیا کہ پادریوں کے سوا اور کوئی دجّالِ اکبر نہیں ہے اور جو شخص اب اس فتنہ کے ظہور کے بعد اور کی انتظار کرے وہ قرآن کا مکذب ہے.اور نیز جبکہ لغت کی روسے بھی دجّال ایک گروہ کا نام ہے جو اپنے دجل سے زمین کو پلید کرتا ہے.اور حدیث کی روسے نشان دجّالِ اکبر کا حمایت صلیب ٹھہرا تو باوجود اس کھلی کھلی
تحقیق کے وہ شخص نہایت درجہ کو رباطن ہے کہ جواب بھی حال کے پادریوں کو دجّال اکبر نہیں سمجھتا.ایک اور بات ہے جس سے ہمارے نادان مولوی اس حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں کہ وہ اس بات کے خود قائل ہیں کہ دجّال معہود کا بجز حرمین کے تمام زمین پر تسلط ہو جائے گا.سو اگر دجّال سے مراد کوئی اور رکھا جائے تو یہ حدیث قرآن کی صریح پیشگوئی سے مخالف ہوجائے گی.کیونکہ قرآن شریف نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ قیامت تک زمین پر غلبہ اور تسلط دو قوموں میں سے ایک قوم کا ہوتا رہے گا.یا اہلِ اسلام کا یا نصاریٰ کا.پس قرآن کے رو سے ایسے دجّال کو جو اپنی خدائی کا دعویٰ لے کر آئے گا.زمین پر قدم رکھنے کی جگہ نہیں اور قرآن اس کے وجود کو روکتا ہے.ہاں استعارہ کے طور پر نصاریٰ کا دعویٰ خدائی ثابت ہے کیونکہ چاہتے ہیں کہ کَلوں کے زور سے تمام زمین و آسمان کو اپنے قابو میں کرلیں یہاں تک کہ مینہ برسانے کی قدرت بھی حاصل ہوجائے.پس اس طرح پر وہ خدائی کا دعویٰ کرتے ہیں- غرض یہ وہ امور ہیں جن کو حال کے مولوی نہیں سمجھتے اور اہل اسلام میں انہوں نے بڑا بھاری فتنہ اور تفرقہ ڈال رکھا ہے اور نہایت بیہودہ اور رکیک تاویلات سے نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ سے منہ پھیر رہے ہیں.دعویٰ کرتے تھے کہ ہم اہل حدیث ہیں مگر اب تو انہوں نے قرآن کو بھی چھوڑا اور حدیث کو بھی.سو جبکہ میں نے دیکھا کہ قرآن شریف اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کے دلوں میں عظمت نہیں اور جلیل الشان اکابراَئمہ کی شہادت بھی جیسا کہ امام بخاری اور ابن حزم اور امام مالک کی شہادت جو حضرت عیسیٰ کے فوت ہو جانے کی نسبت بار بار لکھی گئی ہے ان کے نزدیک کچھ چیز نہیں سو مجھ کو اس پہلو سے بکلی نومیدی ہوئی کہ وہ منقولی بحث و مباحثہ کے ذریعہ سے ہدایت پاسکیں* پس خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ میں دوسرا پہلو اختیار کروں جو اصل بنیاد میرے دعویٰ کی ہے یعنی اپنے سچے ملہم ہونے کا ثبوت کیونکہ اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر وہ لوگ مجھے خدائے تعالیٰ کی طرف سے سچا ملہم سمجھتے اور میرے الہامات کو میرا ہی افترا یا شیطانی وساوس خیال نہ کرتے تو اس قدر سبّ اور شتم اور ہنسی اور ٹھٹھا اور تکفیر اور بد تہذیب کے ساتھ پیش نہ آتے بلکہ اپنے بہت سے ظنون *حاشیہ.منقولی بحث مباحثہ کی کتابیں جو میری طرف سے چھپی ہیں جن میں ثابت کیا گیا ہے جو درحقیقت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں اور دوبارہ آنا ان کا بطور بروز مراد ہے نہ بطور حقیقت وہ یہ ہیں.فتح اسلام.توضیح مرام.ازالہ وہام.اتمام الحجۃ.تحفہ بغداد.حمامۃ البشریٰ.نور الحق دو۲ حصے.کرامات الصادقین.سر الخلافہ.آئینہ کمالات اسلام.
فاسدہ کا حسن ظن کے غلبہ سے آپ فیصلہ کرلیتے کیونکہ کسی کی سچائی اور منجانب اللہ ہونے کے یقین کے بعد وہ مشکلات ہرگز پیش نہیں آتیں کہ جو اس حالت میں پیش آتی ہیں کہ انسان کے دل پر اس کے کاذب ہونے کا خیال غالب ہوتا ہے.یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ نے میری سچائی کے سمجھنے کے لئے بہت سے قرائن واضح ان کو عطا کئے تھے.میرا دعو یٰ صدی کے سر پر تھا.میرے دعوے کے وقت میں خسوف کسوف ماہ رمضان میں ہوا تھا.میرے دعویٰ الہام پر پورے بیس ۲۰ برس گزر گئے اور مفتری کو اس قدر مہلت نہیں دی جاتی.میری پیشگوئی کے مطابق خدا نے آتھم کو کچھ مہلت بھی دی اور پھر مار بھی دیا.مجھ کو خدا نے بہت سے معارف اور حقائق بخشے اور اس قدر میری کلام کو معرفت کے پاک اسرار سے بھر دیا کہ جب تک انسان خدا تعالیٰ کی طرف سے پورا تائید یافتہ نہ ہو اس کو یہ نعمت نہیں دی جاتی لیکن مخالف مولویوں نے ان باتوں میں سے کسی بات پر غور نہیں کی.سو اب چونکہ تکذیب اور تکفیر ان کی انتہا تک پہنچ گئی اس لئے وقت آگیا کہ خدائے قادر اور علیم اور خبیر کے ہاتھ سے جھوٹے اور سچے میں فرق کیا جائے.ہمارے مخالف مولوی اس بات کو جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں ایسے شخص سے کس قدر بیزاری ظاہر کی ہے جو خدا تعالیٰ پر افترا باندھے یہاں تک کہ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا ہے کہ اگر وہ بعض قول میرے پر افترا کرتا تو میں فی الفور پکڑ لیتا اور رگ جان کاٹ دیتا.غرض خدا تعالیٰ پر افترا کرنا اور یہ کہنا کہ فلاں فلاں الہام مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوا ہے حالانکہ کچھ بھی نہیں ہوا.ایک ایسا سخت گناہ ہے کہ اس کی سزا میں صرف جہنم کی ہی وعید نہیں بلکہ قرآن شریف کے نصوص قطعیہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا مفتری اسی دنیا میں دست بدست سزا پالیتا ہے اور خدائے قادر و غیور کبھی اس کو امن میں نہیں چھوڑتا اور اس کی غیرت اس کو کچل ڈالتی ہے اور جلد ہلاک کرتی ہے.اگر ان مولویوں کا دل تقویٰ کے رنگ سے کچھ بھی رنگین ہوتا اور خدا تعالیٰ کی عادتوں اور سنتوں سے ایک ذرہ بھی واقف ہوتے تو ان کو معلوم ہوتا کہ ایک مفتری کا اس قدر دراز عرصہ تک افترا میں مشغول رہنا بلکہ روز بروز اس میں ترقی کرنا اور خدا تعالیٰ کا اس کے افترا پر اس کو نہ پکڑنا بلکہ لوگوں میں اس کو عزت دینا دلوں میں اس کی قبولیت ڈالنا اور اس کی زبان کو چشمہ حقائق و معارف بنانا یہ ایک ایسا امر ہے کہ جب سے خدائے تعالیٰ نے دنیا کی بنیاد ڈالی ہے اس کی نظیر ہرگز نہیں پائی جاتی.افسوس کہ کیوں یہ منافق مولوی خدا تعالیٰ کے احکام
اور مواعید کو عزت کی نظر سے نہیں دیکھتے.کیا ان کے پاس حدیث یا قرآن شریف سے کوئی نظیر موجود ہے کہ ایسے خبیث طبع مفتری کو خدا تعالیٰ نہ پکڑے جو اس پرافترا پر افترا باندھے اور جھوٹے الہام بناکر اپنے تئیں خدا کا نہایت ہی پیارا ظاہر کرے اور محض اپنے دل سے شیطانی باتیں تراش کر اس کو عمداً خدا کی وحی قرار دیوے اور کہے کہ خدا کا حکم ہے کہ لوگ میری پیروی کریں اور کہے کہ خدا مجھے اپنے الہام میں فرماتا ہے کہ تو اس زمانہ میں تمام مومنوں کا سردار ہے حالانکہ اس کو کبھی الہام نہ ہوا ہو اور نہ کبھی خدا نے اس کو مومنوں کا سردار ٹھہرایا ہو اور کہے کہ مجھے خدا مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ توہی مسیح موعود ہے جس کو میں کسر صلیب کے لئے بھیجتا ہوں.حالانکہ خدا نے کوئی ایسا حکم اس کو نہیں دیا اور نہ اس کا نام عیسیٰ رکھا اور کہے کہ خدا ئے تعالیٰ مجھے مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ مجھ سے تو ایسا ہے جیسا کہ میری توحید.تیرا مقام قرب مجھ سے وہ ہے جس سے لوگ بے خبر ہیں.حالانکہ خدا اس کو مفتری جانتا ہے.اس پر لعنت بھیجتا ہے اور مردودوں اور مخذولوں کے ساتھ اس کا حصہ قرار دیتا ہے.پھر کیا یہی خدائے تعالیٰ کی عادت ہے کہ ایسے کذّاب اور بیباک مفتری کو جلد نہ پکڑے.یہاں تک کہ اس افترا پر بیس ۲۰ برس سے زیادہ عرصہ گزر جائے.کون اس کو قبول کرسکتا ہے کہ وہ پاک ذات جس کے غضب کی آگ وہ صاعقہ ہے کہ ہمیشہ جھوٹے ملہموں کو بہت جلد کھاتی رہی ہے اس لئے عرصہ تک اس جھوٹے کو چھوڑ دے جس کی نظیر دنیا کے صفحہ میں مل ہی نہیں سکتی.اللہجلّ شانہٗ فرماتا ہے.3۱ اس سے زیادہ تر ظالم اور کون ہے جو خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھے.بیشک مفتری خدا تعالیٰ کی لعنت کے نیچے ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ پر افترا کرنے والا جلد مارا جاتا ہے.سو ایک تقویٰ شعار آدمی کیلئے یہ کافی تھا کہ خدا نے مجھے مفتریوں کی طرح ہلاک نہیں کیا بلکہ میرے ظاہر اور باطن اور میرے جسم اور میری روح پر وہ احسان کئے جن کو میں شمار نہیں کرسکتا.میں جوان تھا جب خدا کی وحی اور الہام کا دعویٰ کیااور اب میں بوڑھا ہوگیااور ابتداء دعویٰ پر بیس ۲۰ برس سے بھی زیادہ عرصہ گزر گیا.بہت سے میرے دوست اور عزیز جو مجھ سے چھوٹے تھے فوت ہوگئے اور مجھے اس نے عمر دراز بخشی اور ہریک مشکل میں میرا متکفّل اور متو ّ لی رہا.پس کیا ان لوگوں کے یہی نشان ہوا کرتے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ پر افترا باندھتے
ہیں.اب بھی اگر مولوی صاحبان مجھے مفتری سمجھتے ہیں تو اس سے بڑھ کر ایک اور فیصلہ ہے.اور وہ یہ کہ میں ان الہامات کو ہاتھ میں لے کر جن کو میں شائع کرچکا ہوں مولوی صاحبان سے مباہلہ کروں.اس طرح پر کہ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر بیان کروں کہ میں درحقیقت اس کے شرف مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف ہوں اور درحقیقت اس نے مجھے چہاردہم صدی کے سر پر بھیجا ہے کہ تا میں اس فتنہ کو فرو کروں کہ جو اسلام کے مخالف سب سے زیادہ فتنہ ہے اور اسی نے میرا نام عیسیٰ رکھا ہے.اور کسر صلیب کے لئے مجھے مامور کیا ہے لیکن نہ کسی جسمانی حربہ سے بلکہ آسمانی حربہ سے اور یہ سب اس کا کلام ہے اور وہ خاص الہامات اس کے جو اس وقت میں مخالف مولویوں کو سناؤں گا ان میں سے بطور نمونہ چند الہامات اس جگہ لکھتا ہوں ان میں سے بعض الہامات بیس ۲۰ برس کے عرصہ سے ہیں.جو مختلف ترتیبوں اور کمی بیشی کے ساتھ بار بار القاء ہوئے ہیں.اور وہ یہ ہیں:.یا عِیْسَی الّذی لَا یُضاعُ وقتہٗ.اَنتَ مِنّی بمنزِلَۃٍ لَّا یَعلمہَا الخَلق.اَنتَ مِنّی بمنزِلۃِ تَوحِیْدِی وَ تفرِیْدِیْ فَحَانَ اَنْ تُعَانَ وَ تُعرَفَ بَین النّاس.ھُوَ الذِی اَرسَل رَسُولہ بِالہُدیٰ و دِیْنِ الحَقِّ لِیُظہِرَہٗ عَلی الدِّین کُلِّہٖ.لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہ.قُل اِنِّی اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوّل الْمُؤْمِنِیْن.اَلرَّحمٰن عَلَّمَ القراٰن لِتُنْذِرَ قَومًا مَا اُنْذِرَ آبَاءُ ھُم ولِتَسْتَبِِِیْنَ سَبِیل المُجْرمین.اِنّا کفَینَاکَ المُستھزءِینَ.قُل عِندِی شھادۃٌ مِّنَ اللّٰہ فھَل انتم مُؤْمِنُون اے وہ عیسیٰ جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا.تو میری جناب میں وہ مرتبہ رکھتا ہے جس کا لوگوں کو علم نہیں تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید ا ور تفرید سو وقت آگیا کہ تو لوگوں میں شناخت کیا جائے اور مدد دیا جائے.وہ خدا جس نے اپنے رسول کو ہدایت اوردین حق کے ساتھ بھیجا تا اس دین کو سب دینوں پر غالب کرے.خدا کی پیشگوئیوں کو کوئی بدل نہیں سکتا کہہ میں مامور ہوں اور میں سب سے پہلا مومن ہوں.وہ رحمن ہے جس نے قرآن سکھلایا تاکہ تو ان لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے اور تاکہ مجرموں کی راہ کھل جائے.ہم تیرے لئے ٹھٹھا کرنے والوں کے لئے کافی ہیں.کہہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے پس کیا تم ایمان لاتے ہو
قُلْ عِنْدی شَھادۃ مِّن اللّٰہ فھَل انتم مُسْلِمُوْن.اِنَّ مَعِیَ رَبّی سَیَھْدِیْن.قُلْ اِنْ کُنتُم تحِبُّونَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنی یُحبِبکُمُ اللّٰہ.ھَلْ اُنَبِّءُکُمْ عَلٰی مَنْ تنزّل الشیَاطِین تنزل عَلٰی کلّ اَفَّاکٍ اثیم.یُریدُونَ اَنْ یُّطفِءُوا نورَ اللّٰہِ باَفْواھِھِمْ وَاللّٰہ مُتِم نُورِہٖ ولو کرِہَ الکافِرُوْنَ سَنلقی فی قلوبھمُ الرُّعبَ.اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالفتح وَانتھی اَمر الزَمَانِ اِلینَا الیسَ ھٰذا بِالحَق.اِنّی مَعَک.کُن مَعِی اَینما کُنتَ.کُن مَعَ اللّٰہ حَیْث ماکنتَ.کنتم خَیرَ امّۃٍ اُخرِجَتْ لِلنّاس.اِنّکَ بِاَعْیُنِنَا یرفعُ اللّٰہ ذِکرک.وَیتمّ نعمتہ عَلَیْکَ فِی الدّنیا وَالْآخِرۃِ.یَا اَحْمد یتم اِسْمُک ولایتم اِسْمِیْ.اِنّی رافعُکِ اِلیّ.اَلقیتُ عَلَیْکَ محبَّۃ مِنِّیْ شَانُکَ عَجیْبٌ وَاَجْرُکَ قَریبٌ.اَلاَرض والسَّمَاءُ مَعَکَ کَمَا ھُو معی * اَنْتَ وَجیْہٌ فِی حَضْرَتی.اِخترتُکَ لنفسِیْ.اَنْتَ وَجیْہٌ فِی الدّنیا کہہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے پس کیا تم قبول کرتے ہو.میرے ساتھ میرا خدا ہے وہ عنقریب مجھے کامیابی کی راہ دکھائے گا.ان کو کہہ کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو آؤ میرے پیچھے ہو لو تا خدا بھی تم سے محبت کرے کیا میں بتلاؤں کہ کن پر شیطان اترا کرتے ہیں.ہر ایک جھوٹے مفتری پر اترتے ہیں.ارادہ کرتے ہیں کہ خدا کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں اور خدا اپنے نور کو کامل کرے گا اگرچہ کافر کراہت ہی کریں عنقریب ہم ان کے دلوں پر رعب ڈال دیں گے.جب خدا کی مدد اور فتح آئے گی اور زمانہ کا امر ہماری طرف رجوع کرے گا کہا جائے گا کہ کیا یہ سچ نہ تھا.میں تیرے ساتھ ہوں.میرے ساتھ ہو جہاں تو ہووے.خدا کے ساتھ ہو جہاں تو ہووے.تم بہتر امت ہو جو لوگوں کے نفع کیلئے نکالے گئے.تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے.خدا تیرے ذکر کو بلند کرے گا اور دنیا اور آخرت میں اپنی نعمت تیرے پر پوری کرے گا.اے احمد تیرا نام پورا ہو جائے گا قبل اس کے جو میرا نام پورا ہو میں تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں.میں نے اپنی محبت کو تجھ پر ڈال دیا.تیری شان عجیب ہے.تیرا اجر قریب ہے.زمین و آسمان تیرے ساتھ ہے جیسا کہ وہ میرے ساتھ ہے تو میری جناب میں وجیہ ہے.میں نے تجھے اپنے لئے چن لیا.تو دنیا اور میری جناب میں وجیہ ہے حاشیہ.ھُوَکا ضمیرواحد باعتبار واحدفی الذہن یعنی مخلوق ہے اور ایسا محاورہ قرآن شریف میں بہت ہے.منہ
وَحَضرَتیْ سُبْحَانَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی.زَادَ مَجْدَکَ.ینقطع آباء ک وَیُبْدَءُ مِنُکَ.نُصرتَ بِالرعب وَاُحیِیْتَ بالصِّدق ایّھَا الصِّدیق نصرتَ.وقالوا لَات حِیْنَ مناص.آثرکَ اللّٰہُ عَلینا وَلَوْ کُنّا کارِھیْن.رَبّنا اغفِرلنا انّا کنّا خاطِئین.لَا تثریبَ علیکمُ الیَومَ یغفِر اللّٰہ لکم وَھُوَ اَرحم الرّاحمین.وَمَا کَانَ اللّٰہ لیترکک حَتّی یمیز الخبیث مِن الطّیب.وَاللّٰہُ غالِبٌ علٰی اَمرہٖ ولٰکنّ اکثر النّاسِ لَا یعلمُونَ.اِذا جَاءَ نَصر اللّٰہِ وَالفَتح وتمّت کلِمۃ ربِّکَ ھٰذا الّذِی کُنتم بہٖ تستَعجِلُوْن.اَرَدْتُ اَنْ استخلفَ فخلقتُ اٰدَمَ.سَوّیتُہٗ وَنفختُ فیہ من رُوحیْ.یقیم الشّریعۃ ویُحْیِی الدّین.وَلَو کانَ الْاِیمانُ مُعلّقًا بالثریّا لنالَہ.سُبْحان الّذیْ اَسْریٰ بعبدہٖ لَیلًا خلق اٰدَمَ فاکرمَہٗ جری اللّٰہ فی حُلل الاَنبیَاء.اِنَّ الّذین کفرُوا وَصَدُّوا عن سبیل اللّٰہ رَدَّ علیھم رجلٌ مِن فارِسَ.شکرَ اللّٰہ سَعْیَہٗ پاک ہے وہ خدا جو بہت برکتوں والا اور بہت بلند ہے.تیری بزرگی کو اس نے زیادہ کیا.اب سے تیرے باپ دادے کا ذکر منقطع ہو جائے گا اور خدا تجھ سے شروع کرے گا.تو رعب کے ساتھ مدد دیا گیا اور صدق کے ساتھ زندہ کیا گیا اے صدیق تو مدد دیا گیا.اور مخالف کہیں گے کہ اب گریز کی جگہ نہیں.خدا نے تجھے ہم پر اختیار کر لیا اگرچہ ہم کراہت کرتے تھے.اے ہمارے خدا ہمیں بخش کہ ہم خطا پر تھے.آج تم پر اے رجوع کرنے والو کچھ سرزنش نہیں خدا تمہیں بخش دے گا اور وہ ارحم الراحمین ہے اور خدا ایسا نہیں کہ تجھ یونہی چھوڑ دے جب تک پاک اور پلید میں فرق کرکے نہ دکھلاوے اور خدا اپنے امر پر غالب ہے مگر اکثر آدمی نہیں جانتے جب خدا کی مدد اور فتح آئی اور اس کا کلمہ پورا ہوا کہا جائے گا کہ یہ وہی ہے جس میں تم جلدی کرتے تھے.میں نے ارادہ کیا کہ اپنا خلیفہ بناؤں تو میں نے آدم کو پیدا کیا میں نے اس کو برابر کیا اور اپنی روح اس میں پھونکی شریعت کو قائم کرے گا اور دین کو زندہ کرے گا اور اگر ایمان ثریا سے معلق ہوتا تب بھی اسے پالیتا.پاک ہے وہ جس نے اپنے بندہ کو رات میں سیر کرایا آدم کو پیدا کیا اور اس کو عزت دی خدا کافرستادہ نبیوں کے حلّہ میں.وہ لوگ جو کافرہوگئے اور خدا کی راہ سے روکنے لگے.ایک فارسی الاصل آدمی نے ان کے خیالات کو رد کیا.خدا اس کی کوشش کا شکر گزار ہے
کتابُ الوَلیّ ذوالفقار علیّ.یکَاد زَیتہٗ یُضِی ئُ ولَولَم تَمْسَسْہ نار خُذواالتّوحِیْدَ التَّوحِیْدَ یَا اَبناء الفَارِس.انا انزلنٰہُ قَرِیْبًا مِن القادیان وَبالحقِّ انزلنٰہ وَبالحقِّ نزل وَکَانَ اَمْرُ اللّٰہِ مفعُولًا.اَم یقولون نحن جمیع مُّنتصِر.سَیُھزمُ الجَمع ویولّون الدُّبُر.یاعَبْدی لا تخف انّی اسمع وَاَریٰ.الم ترانّانأتی الْاَرضَ ننقصُہَا مِن اطرافھَا.اَلَمْ تَرَاَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کلِّ شیْءٍ قدیر.صلّ علٰی محمّدٍ واٰلِ محمّدٍ سیّدِ ولد اٰدَمَ وَخَاتم النّبیینَ.انک علٰی صراطٍ مستقیم.فاصدع بما تؤمَر وَاَعرِضْ عن الجاھلِینَ.وَقَالوا لوْلَا نُزِّل علٰی رجلٍ من قریتین عَظِیم.وَقالوا انّٰی لک ھٰذا ان ھٰذا لمکرٌمکر تموہُ فی المدینۃ.وَأَعَانَہٗ عَلیہِ قومٌ اٰخرونَ.ینظرُون الیکَ وھم لا یُبصرون.اِعلمُوا انّ اللّٰہ یحی الارضَ بَعدَ مَوتِہَا ومن کان لِلّٰہ کان اللّٰہُ لَہُ.اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الّذینَ اتّقوا وَالّذینَ اس ولی کی کتاب ایسی ہے جیسے علی کی ذوالفقار.اس کا تیل یونہی چمکنے کو ہے.اگرچہ آگ چھو بھی نہ جائے.توحید کو پکڑو توحید پکڑو اے فارس کے بیٹو.ہم نے اس کو قادیان کے قریب اتارا ہے اور حق کے ساتھ اتارا ہے اور ضرورتِ حقہ کیساتھ اترا ہے اور جو خدا نے ٹھہرا رکھا تھا وہ ہونا ہی تھا.کیا یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک جماعت انتقام لینے والی ہیں.سب بھاگ جائیں گے اور پیٹھ دکھلائینگے اے میرے بندے مت خوف کر میں دیکھتا ہوں اور سنتا ہوں.کیا تو نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کو کم کرتے چلے آتے ہیں اس کی طرفوں سے.کیا تو نے نہیں دیکھا کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے.محمدؐ پر اور اس کی آل پر درود بھیج وہ بنی آدم کا سردار اور خاتم الانبیاء ہے.تو صراط مستقیم پر ہے پس جو کچھ حکم ہوتا ہے کھول کر بیان کر اور جاہلوں سے کنارہ کر.اور کہتے ہیں کہ دو شہروں میں سے ایک بڑے آدمی کو خدا نے کیوں مامور نہ کیا.اور کہتے ہیں کہ تجھے کہاں یہ رتبہ یہ تو مکر ہے کہ مل جل کر بنایا گیا ہے اور کئی لوگوں نے اس مکر میں اس شخص کی مدد کی ہے.تجھے دیکھتے ہیں اور تو انہیں نظر نہیں آتا اے لوگو جان لو کہ زمین مر گئی تھی اور خدا پھر اسے نئے سرے زندہ کررہا ہے اور جو خدا کا ہو خدا اس کا ہو جاتا ہے.خدا ان کے ساتھ ہے جو پرہیز گاری اختیار کرتے ہیں
ھم محسِنُون قالوا ان ھٰذا اِلَّااختِلاق.قل ان افتریتُہٗ فعلیّ اجرامٌ شدید.اِنّک الیوم لدَینامکینٌ اَمیْنٌ.وَاِن علیکَ رَحمتِی فی الدّنیا والدّین.وَاِنّکَ مِن المنصورِین.یحمدک اللّٰہ مِن عَرْشِہٖ.یحمدکَ اللّٰہ وَیمشی الَیک.الَا اِنّ نصرَ اللّٰہِ قریب.کَمِثلکَ دُرٌّ لَا یُضاع.بشریٰ لکَ یااَحْمدی.انتَ مُرادِی ومعی.اِنِّی ناصرک.اِنّی حافظکَ انّی جاعلک لِلنّاسِ امَامًا.اکان لِلنَّاسِ عَجَبًا.قل ھواللّٰہ عجیبٌ یجتبی من یّشاء مِن عبادہٖ.لَا یُسئل عمّا یَفعل وَھُمْ یُسئلوْن.وتلک الایّام نُدَاوِالھَا بین النّاس.وقالوا ان ھٰذا اِلَّا اختِلاق.اِذا نصَر اللّٰہ المُؤمِن جعل لہ الحاسدِین فی الارض قل اللّٰہ ثم ذَرھم فی خوضِہم یَلعَبون.لا تحاط اَسرار الاءَولیاء تلطّف بالنّاس وترحم علیھم.اَنْتَ فیھِم بمنزلۃِ مُوسٰی.وَاصْبِر علٰی ما یقولون.وذرنی والمکذّبین اولی النّعمۃ.اَنْتَ مِنْ مَائنا اور ان کے ساتھ ہے جو نیکوکار ہیں.کہتے ہیں کہ یہ تمام افتراء ہے کہہ اگر میں نے افترا کیا ہے تو یہ سخت گناہ میری گردن پر ہے آج تو ہمارے نزدیک بارتبہ اور امین ہے.اور تیرے پر دین اور دنیا میں میری رحمت ہے.اور تو مدد دیا گیا ہے.خدا عرش پر سے تیری تعریف کرتا ہے.خدا تیری تعریف کرتا ہے.اور تیری طرف چلا آتا ہے.خبر دار خدا کی مدد قریب ہے.تیرے جیسا موتی ضائع نہیں کیا جاتا.تجھے خوشخبری ہو اے میرے احمد.تو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے.میں تیرا مددگار ہوں.میں تیرا حافظ ہوں میں تجھے لوگوں کا امام بناؤں گا کیا لوگوں کو تعجب ہوا.کہہ وہ خدا عجیب ہے جس کو چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے چن لیتا ہے.وہ اپنے کاموں میں پوچھا نہیں جاتا اور دوسرے پوچھے جاتے ہیں.اور یہ دن ہم لوگوں میں پھیرتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو ضرور افترا ہے.خدا جب مومن کو مدد دیتا ہے تو زمین پر اس کے کئی حاسد بنا دیتا ہے کہہ خدا ہے جس نے یہ الہام کیا پھر ان کو چھوڑ دے تا اپنی کج فکریوں میں بازی کریں.اولیاء کے اسرار پر کوئی احاطہ نہیں کرسکتا.لوگوں سے لطف کے ساتھ پیش آ اور ان پر رحم کر.تو ان میں بمنزلہ موسیٰ کے ہے اور ان کی باتوں پر صبر کر اور منعم مکذبوں کی سزا مجھ پر چھوڑ دے.تو ہمارے پانی میں سے ہے
وَھُم مِن فشل.* وَ اِذا قیل لَھم اٰمِنوا کما اٰمن النّاسُ قالوا انؤمِن کَمَا آمَنَ السّفھاءُ الَا اِنّھم ھُم السّفھَاءُ ولٰکِن لَّا یعلمون.قل اِن کنتم تحِبّون اللّٰہ فَاتبِعُونی یُحبِبْکمُ اللّٰہ.قِیل ارجِعُوا اِلی اللّٰہ فلا ترجعون.وَقیل استحوذوا فلا تستحوذون.الحَمدُ للّٰہ الّذی جَعَلکَ المسِیح ابنَ مَریَمَ.الفتنۃ ھٰہُنا فاصبر کما صَبَرَ اُولو العزم تبت یدا ابی لَھَبٍ وَّتبّ.ماکان لہٗ اَنْ یدخل فیھا اِلّا خائفًا.وَ مَا اَصَابک فَمِنَ اللّٰہ.أَ َ لا اِنّھا فتنۃ من اللّٰہ لیحبّ حُبّا جمّا.حُبّا مِن اللّٰہ العَزیز الاکرم.عَطَاءً غیر مجذوذ.وقت الابتلاء اور وہ لوگ فشل سے.اور جب ان کو کہا جائے کہ ایمان لاؤ جیسا کہ اچھے آدمی ایمان لائے.تو جواب میں کہتے ہیں کہ کیا اس طرح ایمان لائیں جیسا کہ سفیہ اور بیوقوف ایمان لائے.خوب یاد رکھو کہ درحقیقت بیوقوف اور سفیہ یہی لوگ ہیں مگر انہیں معلوم نہیں کہ ہم کیسی غلطی پر ہیں.ان کوکہہ دے کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت رکھے.کہا گیا کہ تم رجوع کرو سو تم نے رجوع نہ کیا اور کہا گیا کہ تم اپنے وساوس پر غالب آجاؤ سو تم غالب نہ آئے.سب تعریف خدا کو ہے جس نے تجھے مسیح ابن مریم بنایا.اس جگہ فتنہ ہے.سو اولو العزم لوگوں کی طرح صبر کر.ابی لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے اور وہ آپ بھی ہلاک ہوگیا.اس کو نہیں چاہئے تھا کہ وہ اس فتنہ میں دخل دیتا یعنی اس کا بانی ہوتا مگر ڈرتے ہوئے.اور تجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی مگر اسی قدر جو خدا نے مقرر کی.یہ فتنہ خدا کی طرف سے ہے تا وہ تجھ سے بہت ہی پیار کرے یہ خدا کا پیار کرنا ہے جو غالب اور بزرگ ہے اور یہ پیار وہ عطا ہے جو کبھی یہ جو فرمایا کہ تو ہمارے پانی میں سے ہے اور وہ لوگ فشل سے.اس جگہ پانی سے مراد ایمان کا پانی، استقامت کا پانی، تقویٰ کا پانی، وفا کا پانی، صدق کا پانی، حُبّ اللّٰہ کا پانی ہے.جو خدا سے ملتا ہے اور فشل بزدلی کو کہتے ہیں جو شیطان سے آتی ہے.اور ہریک بے ایمانی اور بدکاری کی جڑ بزدلی اور نامردی ہے.جب قوتِ استقامت باقی نہیں رہتی تو انسان گناہ کی طرف جھک جاتا ہے.غرض فشل شیطان کی طرف سے ہے اور عقائد صالحہ اور اعمال طیبہ کا پانی خدا تعالیٰ کی طرف سے.جب بچہ پیٹ میں پڑتا ہے تو اس وقت اگر بچہ سعید ہے اور نیک ہونے والا ہے تو اس نطفہ پر روح القدس کا سایہ ہوتا ہے اور اگر بچہ شقی ہے اور بد ہونے والا ہے تو اس نطفہ پر شیطان کا سایہ ہوتا ہے اور شیطان اس میں شراکت رکھتا ہے اور بطور استعارہ وہ شیطان کی ذُرّیت کہلاتی ہے اور جو خدا
ووقت الاصطفاء.ولا یرد وقت العذاب عن القوم المجرمین.وَلا تھنوا ولا تحزنوا وَانتم الاعلونَ ان کنتُم مؤمنین.وَعَسیٰ اَنْ تحبّوا شیءًا وھو شرٌّلکم وعسیٰ اَنْ تکرھوا شیءًا وھوَ خیرٌ لّکُم واللّٰہ یَعلم وَانتم لا تعلمون.کنتُ کنزًا مخفیًّا فاَحْببتُ اَن اُعرف.انّ السّمٰوات والارض کانتا رتقًا ففتقنٰھُمَا.واِن یتّخِذونکَ اِلّا ھزوًا.اَھٰذا الّذی بعث اللّٰہ.قل انما اَنا بشرٌ مِثلکُم یوحیٰ الّی انَّما اِلٰھُکُمْ الٰہ واحد والخیر کلہ فِی القراٰن.ولقد لبثت فیکم عمرًا مِّن قبلہ أفلا تعقلون.وقالوا ان ھٰذا الّا افتراء منقطع نہیں ہوگی.ابتلاء کا وقت ہے اور اصطفاء کا وقت ہے اور عذاب کا وقت مجرموں کے سر پر سے کبھی نہیں ٹل سکتا.اور اے اس مامور کی جماعت سست مت ہو جانا اور غم میں نہ پڑ جانا اور با لآخر غلبہ تمہیں کو ہے اگر تم ایمان پر ثابت رہو گے.یہ ممکن ہے کہ ایک چیز کو تم چاہو اور وہ دراصل تمہارے لئے اچھی نہ ہو اور ایک چیز سے نفرت کرو اور وہ دراصل تمہارے لئے اچھی ہو اور خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے.میں ایک خزانہ پوشیدہ تھا سو میں نے چاہا کہ شناخت کیا جاؤں.زمین و آسمان بندھے ہوئے تھے سو ہم نے دونوں کو کھول دیا.اور تجھے انہوں نے ایک ہنسی کی جگہ بنا رکھا ہے.کیا یہی ہے جو خدا کی طرف سے بھیجا گیا.کہہ میں ایک آدمی ہوں تم جیسا مجھے خدا سے الہام ہوتا ہے کہ تمہارا خدا ایک خدا ہے اور تمام بھلائی قرآن میں ہے.اور میں اس سے ایک مدت سے تم میں ہی رہتا تھا کیا تمہیں میرے حالات معلوم نہیں.اور انہوں نے کہا کہ یہ باتیں افتراء ہیں کے ہیں وہ خدا کے کہلاتے ہیں جن کو پہلی کتابوں میں بطور استعارہ ابناء اللّہ کہا گیا ہے.چنانچہ یہ لفظ آدم اور یعقوب وغیرہ بہت سے نبیوں پر استعمال ہوا ہے اور انجیل میں مسیح ابن مریم پر بھی استعمال پایا ہے اور کسی کی اس میں کچھ خصوصیت نہیں صرف بلحاظ مذکورہ بالا استعمال پاتا رہا ہے چنانچہ مسیح ابن مریم کی نسبت احادیث سے جو معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کے مس سے وہ اور اس کی ماں پاک ہے تو یہ لفظ اسی اظہار کی غرض سے ہے کہ عیسیٰ بن مریم کی ناجائز پیدائش نہیں جیسا کہ یہودیوں کا خیال ہے تانطفہ پر شیطان کا سایہ مانا جائے.بلکہ بلاشبہ برخلاف زعم یہودیوں کے وہ حلال زادہ تھا اور مریم بدکار عورت نہیں تھی.اس مسئلہ میں اصول یہ ہے کہ شیطان کا سایہ جس کو مسّ اور اشتراک بھی کہتے ہیں جس کے لحاظ سے کہا جاتا ہے کہ یہ شخص ذرّیتِ شیطان ہے یا بائبل کے محاورہ کے رو سے نحّاش کا بچہ ہے یعنی سانپ کا
قل انّ ھُدی اللّٰہ ھُو الھدیٰ.الَا اِنّ حزبَ اللّٰہِ ھُمُ الغالِبُون.انا فتحنالک فتحًا مّبینا لیغفرلک اللّٰہ ما تقدّم مِن ذنبک وَمَا تَاخّرَ.الیسَ اللّٰہ بِکافٍ عبدہٗ.فبرّأَہ اللّٰہ مِمَّا قَالوا وَکانَ عند اللّٰہ وَجیھًا.وَاللّٰہ موھن کید الکاذبین.وَلنجعَلہ آیۃً لِّلنّاس ورحمۃ مِّنّا وکان اَمرًا مقضیّا.قول الحق الّذی فیہ تمترون.یَا اَحْمَدُ فاضت الرحمۃ علٰی شفتیک.انّا اَعْطینٰک الکوثر.فصل لربّک وانحر.انّ شانئک ھو الابتر.* یا تی قمر الانبیاء وَاَمْرُکَ یَتَأتّی یوم یجئ الحقّ ویکشف الصِّدق.کہہ حقیقی ہدایت جس میں غلطی نہ ہو خدا کی ہدایت ہے اور خبردارر ہو کہ خدا کا گروہ ہی آخر کار غالب ہوتا ہے ہم نے تجھے کھلی کھلی فتح دی ہے تا تیرے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کئے جائیں کیا خدا اپنے بندہ کیلئے کافی نہیں ہے.سو خدا نے ان کے الزاموں سے اس کو بری کیااور وہ خدا کے نزدیک وجیہ ہے اور خدا کافروں کے مکر کو سست کردے گا اور ہم اس کو لوگوں کے لئے نشان بنائیں گے اور رحمت کا نمونہ ہوگا اور یہی مقدر تھا یہ وہ سچا قول ہے جس میں لوگ شک کرتے ہیں اے احمد رحمت تیرے لبوں پر جاری ہورہی ہے ہم نے تجھے بہت سے حقائق اور معارف اور برکات بخشے ہیں اور ذرّیت نیک عطا کی ہے سو خدا کیلئے نماز پڑھ اور قربانی کر.تیرا بدگو بے خیر ہییعنی خدا اسے بے نشان کردے گا اور وہ نامراد مرے گا.نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام تجھے حاصل ہوجائے گا.اس دن حق آئے گا اور سچ یہ الہام کہ ان شانئک ھوالابتر.اس وقت اس عاجز پر خدا تعالیٰ کی طرف سے القا ہوا کہ جب ایک شخص نومسلم سعد اللہ نام نے ایک نظم گالیوں سے بھری ہوئی اس عاجز کی طرف بھیجی تھی اور اس میں اس عاجز کی نسبت اس ہندو زادہ نے وہ الفاظ استعمال کئے تھے کہ جب تک ایک شخص درحقیقت شقی خبیث طینت فاسد القلب نہ ہو.ایسے الفاظ استعمال نہیں کرسکتا.جو شیطان ہے صرف اس صورت میں کسی نطفہ پر پڑتا ہے جبکہ نطفہ ڈالنے والا یا وہ جس کے رحم میں نطفہ ٹھہرا.نہایت بری حالت میں ہوں اور گناہ اور سخت دلی کی تاریکی ان پر ایسی محیط ہو کہ کوئی گوشہ خالی نہ ہو اور فطرتی نور بالکل محجوب ہو اور ایسی صورت میں بچے نہایت خبیث پیدا ہوتے ہیں کیونکہ شیطان کے سایہ کے نیچے ان کا خاکہ بنتا ہے.اور یہی وجہ ہے کہ اکثر چوروں اورڈاکوؤں کے بچے چور اور ڈاکو ہی نکلتے ہیں اور راستبازوں کے راستباز.فتامّل.منہ
وَیخسِر الخاسِرُونَ.اَقِمِ الصّلٰوۃ لذکری.اَنتَ مَعِی و اَنَا مَعَکَ.سِرّکَ سِرّی.وضعنا عنکَ وزرکَ الّذی انقض ظَھرکَ.وَرَفَعْنَالکَ ذِکرکَ.یخوّفونکَ من دونہٖ.ائمّۃ الکفر.لَا تخف اِنّک اَنت الْاَعلٰی.غرستُ لکَ بیدی رحمتی وَقُدرتی.لن یجعل اللّٰہ لِلکافرین علی المؤمِنینَ سبیلا ینصرکَ اللّٰہ فی مواطن.کتب اللّٰہ لاغلبنّ انا ورسُلی.لا مبدّل لِکلماتہ.اَللّٰہ الّذی جَعَلکَ المسِیْحَ ابْنَ مَریَم.قل ھٰذا فضل ربّی و اِنّی اُجرّد نفسِی من ضروب الخطاب یاعیسٰی اِنّی متوفّیکَ ورافِعُکَ اِلَیَّ وجاعِل الّذین اتبعوک فوق الّذین کفروا اِلٰی یومِ القیامَۃ.کھولا جائے گا اور جو خسران میں ہیں ان کا خسران ظاہر ہو جائے گا.میری یاد میں نماز کو قائم کر.تو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں.تیرا بھید میرا بھید ہے.ہم نے تیرا وہ بوجھ اتار دیا جس نے تیری کمر توڑ دی اور تیرے ذکر کو ہم نے بلند کیا تجھے خدا کے سوا اوروں سے ڈراتے ہیں.یہ کفر کے پیشوا ہیں مت ڈر غلبہ تجھی کو ہے میں نے اپنی رحمت اور قدرت کے درخت تیرے لئے اپنے ہاتھ سے لگائے.خدا ہرگز ایسا نہیں کرے گا کہ کافروں کا مومنوں پر کچھ الزام ہو خدا تجھے کئی میدانوں میں فتح دے گا.خدا کا یہ قدیم نوشتہ ہے کہ میں اور میرے رسول غالب رہیں گے.اس کے کلموں کو کوئی بدل نہیں سکتا.وہ خدا جس نے تجھے مسیح ابن مریم بنایا.کہہ یہ خدا کا فضل ہے.اور میں تو کسی خطاب کو نہیں چاہتا.اے عیسیٰ میں تجھے وفات دوں گا اور اپنی طرف اٹھاؤں گا اور تیرے تابعداروں کو تیرے مخالفوں پر قیامت تک غلبہ بخشوں گا.اگرچہ ایسے لفظوں اور ایسی گالیوں میں جو دجّال، شیطان، کذّاب، کافر، اکفر،مکار کے نام سے ہیں اور دوسرے مولوی بھی اس کے ساتھ شریک ہیں بلکہ باطل پرست بطالوی جو محمد حسین کہلاتا ہے شریک غالب اور اعدی الاعداء ہے لیکن اس ہندو زادہ کی خباثت فطرتی اسلئے سب سے بڑھ کر ہے کہ باوجود محض جاہل ہونے کے یہ شعر بھی اردو میں کہتا ہے اور شعروں میں گالیاں نکالتا ہے اور نہایت بدگوئی سے افتراء بھی کرتا ہے اور بہتان کے طور پر ایسی دشنام دہی کرتا ہے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب کے شاعر بے ایمان گالیاں نکالا کرتے تھے.سو یہ الہام اس کے اشتہار اور رسالہ کے پڑھنے کے وقت ہوا کہ ان شانئک ھو الابتر.سو اگر اس ہندو زادہ بدفطرت کی نسبت ایسا وقوع میں نہ آیا اور وہ نامراد اور ذلیل اور رسوا نہ مرا تو سمجھو کہ یہ خدا کی طرف سے نہیں.منہ
نظر اللّٰہ اِلیک معطرًا.وَقالُوا أَتجعَلُ فیھا مَن یُّفسِد فیھا قال اِنّی اعلمُ مَالَا تعلمُون.وقالُوا کتابٌ ممتلیءٌ مِن الکُفر وَ الکذب.قل تعالَوا نَدْعُ ابناءَ نا وَابناء کُم وَنساءَ نا وَنساءَ کُم وَ انفُسَنَا وَانفسَکُم ثمّ نبتھل فنجعل لعنَۃ اللّٰہِ علَی الکَاذبِینَ.سَلامٌ علٰی ابراہِیم صَافینَاہ وَنَجّینَاہ مِن الغمِّ.تفردْنا بذالکَ یاداؤدُ عَامِل بالنّاسِ رفقًا واحسانًا.تموت وانَا راضٍ مِّنکَ واللّٰہ یَعصِمکَ مِن النّاس.کذّبوا باٰیاتی وکانُوا بھَا یستھزءُ ون.فسیَکْفیکہمُ اللّٰہ ویردّھا الیک* اَمْرٌ مِنْ لّدنا اِنّا کُنَّا فاعِلین.زوّجناکہَا.الحقّ مِن ربّک فلَا تکونَنّ مِن الممْترینَ.لَا تبدیلَ خدا نے تیرے پر خوشبو دار نظر کی اور لوگوں نے دلوں میں کہا کہ اے خدا کیا تو ایسے مفسد کو اپنا خلیفہ بنائے گا خدا نے کہا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں تمہیں معلوم نہیں.اور لوگوں نے کہا کہ یہ کتاب کفر اور کذب سے بھری ہوئی ہے ان کو کہہ دے کہ آؤ ہم اور تم اپنے بیٹوں اور عورتوں اور عزیزوں سمیت ایک جگہ اکٹھے ہوں پھر مباہلہ کریں اور جھوٹوں پر لعنت بھیجیں ابراہیم یعنی اس عاجز پر سلام ہم نے اس سے دلی دوستی کی اور غم سے نجات دی.یہ ہمارا ہی کام تھا جو ہم نے کیا.اے داؤد لوگوں سے نرمی اور احسان کے ساتھ معاملہ کر.تو اس حالت میں مرے گا کہ میں تجھ سے راضی ہوں گا.اور خدا تجھ کو لوگوں کے شر سے بچائے گا.انہوں نے میرے نشانوں کی تکذیب کی اور ٹھٹھا کیا سو خدا ان کیلئے تجھے کفایت کرے گا.اور اس عورت کو تیری طرف واپس لائے گا.یہ امر ہماری طرف سے ہے اور ہم ہی کرنیوالے ہیں بعد واپسی کے ہم نے نکاح کردیا.تیرے رب کی طرف سے سچ ہے پس تو شک کرنے والوں سے مت ہو.خدا کے حاشیہ.شیخ محمد حسین بطالوی کا یہ اعتراض ہے کہ الہام کا یہ فقرہ کہ یردھا الیک خلاف محاورہ ہے.کیونکہ ردّ کا لفظ اس صورت میں آتا ہے کہ ایک چیز اپنے پاس ہو پھر چلی جائے اور پھر واپس آوے.لیکن افسوس کہ اس کو بباعث کمی واقفیت علم زبان کے معلوم نہیں کہ یہ لفظ ادنیٰ تعلق کے ساتھ بھی استعمال ہوجاتا ہے.اس کی کلام عرب میں ہزاروں مثالیں ہیں جن کے لکھنے کا اس مقام میں موقعہ نہیں چونکہ اس جگہ قرابت قریبہ تھی اور نزدیک کے رشتہ کے تعلقات نے اپنے پاس کے حکم میں اس کو کیا ہوا تھا.اس لئے خدا تعالیٰ نے ایسا لفظ استعمال کیا جو ان چیزوں کے لئے مستعمل ہوتا ہے جو اپنے پاس سے چلی جائیں اور پھر واپس آویں.ہاں اس جگہ یہ نہایت لطیف اشارہ تھاکہ خدا نے یردھاکا لفظ استعمال کیا تامعلوم ہو کہ اول اس کا اپنے پاس سے بے تعلق لوگوں میں چلے جانا ضروری ہے پھر واپس آنا تقدیر میں ہے فقط.منہ
لکلمات اللّٰہ انّ ربّک فعّال لما یُریْد.اِنّا رادّوھا اِلَیک.یَوْمَ تُبدّل الارض غیر الارض.اذا نفِخ فی الصّور فلا اَنْسابَ بینھم انما یوخّرھم الٰی اجل مسمّی اجل قریب.یاتی قمر الانبیاء وَامرک یَتَأَ تّی.ھٰذا یومٌ عصیب.توجہتُ لفصل الخطاب.انا رادّوھا الیک.اِن استجارتک فاجرھا.ولَا تخف سنعیدھا سِیرتھا الاولٰی.اِنا فتحنالک فتحًا مّبینًا.یا نوح اسر رؤیاک.و قالوا متی ھٰذا الوعد.قل اِنّ وَعد اللّہ حَق.اَنتَ مَعی وانا مَعک ولا یَعلمون الا المسترشدون.لا تیئس من رَّوح اللّٰہ.انظر الٰی یوسف واقبالہ.اِطّلع اللّٰہ علٰی ھمّہٖ وغمّہٖ.ولن تجد لِسنّت اللّٰہ تبدیلا.وَلا تعجبوا ولا تحزنوا وانتم الاعلون اِن کنتم مؤمنین وبعزتی وجلالی انک انت الاعلی.ونمزق الاعداء کل ممزق وَمَکر اولئک ھُوَ یَبُوْر.انا نکشف السِرّ عن ساقہٖ.یومَءِذٍ کلمے بدلا نہیں کرتے.تیرا رب جس بات کو چاہتا ہے وہ بالضرور اس کو کردیتا ہے.کوئی نہیں جو اس کو روک سکے ہم اس کو واپس لانے والے ہیں.اس دن زمین دوسری زمین سے بدلائی جائے گی.جب صور میں پھونکا گیا تو کوئی رشتہ ان میں باقی نہیں رہے گا.خدا ان کو ایک مقررہ وقت تک مہلت دے رہا ہے جو نزدیک وقت ہے نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام حاصل ہو جائے گا.یہ سخت دن ہے.آج میں فیصلہ کرنے کیلئے متوجہ ہوا ہم اس کو تیری طرف واپس لائیں گے اگر تیری طرف پناہ ڈھونڈے تو پناہ دے دے.اور مت خوف کر ہم اس کی پہلی خصلت پھر اس میں ڈال دیں گے.ہم نے تجھ کو کھلی کھلی فتح دی.اے نوح اپنے خواب کو پوشیدہ رکھ.اور کہا لوگوں نے کہ یہ وعدہ کب ہوگا.کہہ خدا کا وعدہ سچا ہے.تو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں.اور اس حقیقت کو کوئی نہیں جانتا.مگر وہی جو رشد رکھتے ہیں.خدا کے فضل سے نومید مت ہو.یوسف کو دیکھ اور اس کے اقبال کو.خدا اس کے یعنی آتھم کے غم پر مطلع ہوا.اس لئے اس نے عذاب میں تاخیر کی.یہ خدا کی سنت ہے.اور تو خدا کی سنت میں تبدیلی نہیں پائے گا.اور تعجب مت کرو اور غمناک مت ہو اور تم ہی غالب ہو اگر تم ایمان پر ثابت قدم رہے اور مجھے میری عزت اور جلال کی قسم ہے کہ غلبہ تجھ ہی کو ہے.اور ہم دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیں گے اور انکا مکرہلاک ہوجائے گا.اور ہم حقیقت کو اسکی پنڈلی سے کھول دیں گے.اس دن مومن خوش ہونگے
یّفرح المؤمنون.ثلۃٌ من الاولین وثلۃٌ من الاٰخرین.وھٰذا تذکرۃ فَمن شاء اتخذ الٰی ربّہٖ سبیلا.اِنّ النّصاریٰ حَوّلوا الامر.سنردّھا علی النَّصَارٰی.لیُنبذن فی الحطمۃ.انا نبشّرک بغلام حلیم مظھر الحق والعلاء کَاَنّ اللّٰہ نزل من السّماء.اسمُہ عمانوایل.یُولد لک الولد.ویُدنٰی منک الفضل.اِنّ نوری قریب قل اعوذ بربّ الفلق من شر ما خلق.عجل جسدلہ خوار.فلہٗ نصبٌ وَّ عذاب.اور گروہ پہلوں میں سے اور ایک پچھلوں میں سے.اور یہ تذکرہ ہے پس جو چاہے خدا کی راہ کو اختیار کرے.نصاریٰ نے حقیقت کو بدلا دیا ہے سو ہم ذلت او ر شکست کو نصاریٰ پر واپس پھینک دیں گے.اور آتھم نابود کرنے والی آگ میں ڈال دیا جاوے گا.ہم تجھے ایک حلیم لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جو حق اور بلندی کا مظہر ہوگا گویا خدا آسمان سے اترا.نام اس کا عمّانوایل ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے.تجھے لڑکا دیا جائے گا اور خدا کا فضل تجھ سے نزدیک ہوگا.میرا نور قریب ہے کہہ میں شریر مخلوقات سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں.یہ بیجان گو سالہ ہے اور بیہودہ گو یعنی لیکھرام پشاوری سو اس کو دکھ کی ماراور عذاب ہوگا.یعنی اسی دنیا میں.(فارسی و اردو الہام) بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں برمنار بلندتر محکم افتاد.خدا تیرے سب کام درست کردے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا.میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا.اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا اور تیری برکتیں پھیلاؤں گا.یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا ا ور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کردے گا آمین یہ کسی قدر نمونہ ان الہامات کا ہے جو وقتاً فوقتاً مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوئے ہیں اور ان کے سوا اور بھی بہت سے الہامات ہیں مگر میں خیال کرتا ہوں کہ جس قدر میں نے لکھا ہے وہ کافی ہے.اب ظاہر ہے کہ ان الہامات میں میری نسبت بار بار بیان کیا گیا ہے کہ یہ خدا کا فرستادہ ،خدا کا مامور، خدا کا امین اور خدا کی طرف سے آیا ہے جو کچھ کہتا ہے اس پر ایمان لاؤ اور اس کا دشمن جہنمی ہے اور نیز ان تمام الہامات میں اس عاجز کی اس قدر تعریف اور توصیف ہے کہ اگر یہ تعریفیں درحقیقت خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں تو ہریک مسلمان کو چاہئے کہ تمام تکبر اور نخوت اور شیخی سے الگ ہوکر ایسے
شخص کی فرمانبرداری کا جُوَا اپنی گردن پر لے لے جس کی دشمنی میں خدا کی لعنت اور محبت میں خدا کی محبت ہے لیکن اگر یہ تعریفیں خدائے تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہیں اور یہ تمام کلمات جو الہام کے دعویٰ پر پیش کئے گئے ہیں خدائے قادر و قدوس کا الہام نہیں ہیں بلکہ ایک دجّال کذّاب نے چالاکی کی راہ سے ان کو آپ بنا لیا ہے اور بندگان خدا کو یہ دھوکہ دینا چاہا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کے الہام ہیں تو درحقیقت وہ جو نہایت بے باکی سے خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھتا ہے خدا تعالیٰ کی گرجنے والی صاعقہ کے نیچے کھڑا ہے اور اس کے مشتعل غضب کا نشانہ ہے اور کوئی اس کو اس قہار اور غیور کے ہاتھ سے چھڑا نہیں سکتا.کیا یہ بات تعجب میں نہیں ڈالتی کہ ایسا کذّاب اور دجّال اور مفتری جو برابر بیس برس کے عرصہ سے خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھ رہا ہے اب تک کسی ذلّت کی مار سے ہلاک نہ ہوا.اور کیا یہ بات سمجھ نہیں آسکتی کہ جس سلسلہ کا تمام مدار ایک مفتری کے افترا پر تھا وہ اتنی مدت تک کسی طرح چل نہیں سکتا تھا*.توریت اور قرآن شریف دونوں گواہی دے رہے ہیں کہ خدا پر افترا کرنے والا جلد تباہ ہو جاتا ہے.نوٹ.اگر کسی کے دل میں یہ سوال پیدا ہو کہ دنیا میں صدہا جھوٹے مذہب ہیں جو ہزاروں برسوں سے چلے آتے ہیں.حالانکہ ابتدا ان کی کسی کے افترا سے ہی ہوگی تو اس کا جواب یہ ہے کہ افترا سے مراد ہمارے کلام میں وہ افترا ہے کہ کوئی شخص عمداً اپنی طرف سے بعض کلمات تراش کر یا ایک کتاب بناکر پھر یہ دعویٰ کرے کہ یہ باتیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور اس نے مجھے الہام کیا ہے اور ان باتوں کے بارے میں میرے پر اس کی وحی نازل ہوئی ہے حالانکہ کوئی وحی نازل نہیں ہوئی.سو ہم نہایت کامل تحقیقات سے کہتے ہیں کہ ایسا افترا کبھی کسی زمانہ میں چل نہیں سکا.اور خدا کی پاک کتاب صاف گواہی دیتی ہے کہ خدا تعالیٰ پر افترا کرنے والے جلد ہلاک کئے گئے ہیں.اور ہم لکھ چکے ہیں کہ توریت بھی یہی گواہی دیتی ہے اور انجیل بھی اور فرقان مجید بھی ہاں جس قدر دنیا میں جھوٹے مذہب نظر آتے ہیں جیسے ہندوؤں اور پارسیوں کا مذہب.ان کی نسبت یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ وہ کسی جھوٹے پیغمبر کا سلسلہ چلا آتا ہے بلکہ اصل حقیقت ان میں یہ ہے کہ خود لوگ غلطیوں میں پڑتے پڑتے ایسے عقائد کے پابند ہوگئے ہیں.دنیا میں تم کوئی ایسی کتاب دکھا نہیں سکتے جس میں صاف اور بے تناقض لفظوں میں کھلا کھلا یہ دعویٰ ہو کہ یہ خدا کی کتاب ہے حالانکہ اصل میں وہ خدا کی کتاب نہ ہو.بلکہ کسی مفتری کا افترا ہو اور ایک قوم اس کو عزت کے ساتھ مانتی
کو ئی نام لینے والا اس کا باقی نہیں رہتا اور انجیل میں بھی لکھا ہے کہ اگر یہ انسان کا کاروبار ہے تو جلد باطل ہوجائے گا.لیکن اگر خدا کا ہے تو ایسا نہ ہو کہ تم مقابلہ کرکے مجرم ٹھہرو.اللہ جلّ شانہ قرآن شریف میں فرماتا ہے.333.۱ یعنی اگر یہ جھوٹا ہے تو اس کا جھوٹ اس پر پڑے گا.اور اگر یہ سچا ہے تو تم اس کی ان بعض پیشگوئیوں سے بچ نہیں سکتے جو تمہاری نسبت وہ وعدہ کرے خدا ایسے شخص کو فتح اور کامیابی کی راہ نہیں دکھلاتا جو فضول گو اور کذّاب ہو.اب اے مخالف مولویو! اور سجادہ نشینو!! یہ نزاع ہم میں اور تم میں حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے.اور اگرچہ یہ جماعت بہ نسبت تمہاری جماعتوں کے تھوڑی سی اور فۂ قلیلہ ہے اور شائد اس وقت تک چار ہزار پانچ ہزار سے زیادہ نہیں ہوگی تاہم یقیناً سمجھو کہ یہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودہ ہے خدا اس کو ہر گز ضائع نہیں کرے گا.وہ راضی نہیں ہوگا جب تک کہ اس کو کمال تک نہ پہنچا دے.اور وہ اس کی آبپاشی کرے گا اور اس کے گرد احاطہ بنائے گا اور تعجب انگیز ترقیات دے گا.کیا تم نے کچھ کم زور لگایا.پس اگر یہ انسان کا کام ہوتا تو کبھی کا یہ درخت کاٹا جاتا اور اس کا نام و نشان باقی نہ رہتا- اسی نے مجھے حکم دیا ہے کہ تا میں آپ لوگوں کے سامنے مباہلہ کی درخواست پیش کروں.تا جو راستی کا دشمن ہے وہ تباہ ہو جائے اور جو اندھیرے کو پسند کرتا ہے وہ عذاب کے اندھیرے میں پڑے.پہلے میں نے کبھی ایسے مباہلہ کی نیت نہیں کی اور نہ چاہا کہ کسی پر بددعا کروں.عبد الحق غزنوی ثمّ امرتسری نے مجھ سے مباہلہ چاہا مگر میں مدت تک اعراض کرتا رہا.آخر اس کے نہایت اصرار پر مباہلہ ہوا مگر میں نے اس کے حق میں کوئی بددعا نہیں کی لیکن اب میں بہت ستایا گیا اور دکھ دیا گیا مجھے کافر ٹھہرایا گیا مجھے دجّال کہا گیا.میرا نام شیطان رکھا گیا.مجھے چلی آئی ہو.ہاں ممکن ہے کہ خدا کی کتاب کے الٹے معنی کئے گئے ہوں جس حالت میں انسانی گورنمنٹ ایسے شخص کو نہایت غیرت مندی کے ساتھ پکڑتی ہے کہ جوجھوٹے طور پر ملازم سرکاری ہونے کا دعویٰ کرے تو خدا جو اپنے جلال اور ملکوت کیلئے غیرت رکھتا ہے کیوں جھوٹے مدعی کو نہ پکڑے.منہ
کذّا ب اور مفتری سمجھا گیا.میں ان کے اشتہاروں میں لعنت کے ساتھ یاد کیا گیا.میں ان کی مجلسوں میں نفرین کے ساتھ پکارا گیا.میری تکفیر پر آپ لوگوں نے ایسی کمر باندھی کہ گویا آپ کو کچھ بھی شک میرے کفر میں نہیں.ہریک نے مجھے گالی دینا اجر عظیم کا موجب سمجھا اور میرے پر لعنت بھیجنا اسلام کا طریق قرار دیا.پر ان سب تلخیوں اور دکھوں کے وقت خدا میرے ساتھ تھا.ہاں وہی تھا جو ہریک وقت مجھ کو تسلی اور اطمینان دیتا رہا.کیا ایک کیڑا ایک جہان کے مقابل کھڑا ہوسکتا ہے.کیا ایک ذرہ تمام دنیا کا مقابلہ کرے گا.کیا ایک دروغ گو کی ناپاک روح یہ استقامت رکھتی ہے.کیا ایک ناچیز مفتری کو یہ طاقتیں حاصل ہوسکتی ہیں- سو یقیناً سمجھو کہ تم مجھ سے نہیں بلکہ خدا سے لڑرہے ہو.کیا تم خوشبو اور بدبو میں فرق نہیں کرسکتے.کیا تم سچائی کی شوکت کو نہیں دیکھتے.بہتر تھا کہ تم خدا تعالیٰ کے سامنے روتے اور ایک ترساں اور ہراساں دل کے ساتھ اس سے میری نسبت ہدایت طلب کرتے اور پھر یقین کی پیروی کرتے نہ شک اور وہم کی- سو اب اٹھو اور مباہلہ کیلئے تیار ہو جاؤ.تم سن چکے ہو کہ میرا دعویٰ دو ۲ باتوں پر مبنی تھا.اول نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ پر.دوسرے الہامات الٰہیہ پر.سو تم نے نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کو قبول نہ کیا اور خدا کی کلام کو یوں ٹال دیا جیسا کہ کوئی تنکا توڑ کر پھینک دے.اب میرے بناء دعویٰ کا دوسرا شق باقی رہا.سو میں اس ذات قادر غیور کی آپ کو قسم دیتا ہوں جس کی قسم کو کوئی ایماندار رد نہیں کرسکتا کہ اب اس دوسری بناء کی تصفیہ کیلئے مجھ سے مباہلہ کر لو.اور یوں ہوگا کہ تاریخ اور مقام مباہلہ کے مقرر ہونے کے بعد میں ان تمام الہامات کے پرچہ کو جو لکھ چکا ہوں اپنے ہاتھ میں لے کر میدان مباہلہ میں حاضر ہوں گااور دعا کروں گا کہ یا الٰہی اگر یہ الہامات جو میرے ہاتھ میں ہیں میر اہی افترا ہے اور تو جانتا ہے کہ میں نے ان کو اپنی طرف سے بنا لیا ہے یا اگر یہ شیطانی وساوس ہیں اور تیرے الہام نہیں تو آج کی تاریخ سے ایک برس گزرنے سے پہلے مجھے وفات دے.یا کسی ایسے عذاب میں مبتلا کر جو موت سے بدتر ہو اور اس سے رہائی عطا نہ کر جب تک کہ موت آجائے.
تا میری ذلت ظاہر ہو اور لوگ میرے فتنہ سے بچ جائیں کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میرے سبب سے تیرے بندے فتنہ اور ضلالت میں پڑیں.اور ایسے مفتری کا مرنا ہی بہتر ہے.لیکن اے خدائے علیم و خبیر اگر تو جانتا ہے کہ یہ تمام الہامات جو میرے ہاتھ میں ہیں تیرے ہی الہام ہیں.اور تیرے منہ کی باتیں ہیں.تو ان مخالفوں کو جو اس وقت حاضر ہیں ایک سال کے عرصہ تک نہایت سخت دکھ کی مار میں مبتلا کر.کسی کو اندھا کردے اور کسی کو مجذوم اور کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنون اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یا سگ دیوانہ کا شکار بنا.اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر.اور جب میں یہ دعا کرچکوں تو دونوں فریق کہیں کہ آمین.ایسا ہی فریق ثانی کی جماعت میں سے ہریک شخص جو مباہلہ کیلئے حاضر ہو جناب الٰہی میں یہ دعا کرے کہ اے خدائے علیم و خبیر ہم اس شخص کو جس کا نام غلام احمد ہے درحقیقت کذاب اور مفتری اور کافر جانتے ہیں.پس اگر یہ شخص درحقیقت کذاب اور مفتری اور کافر اور بے دین ہے اور اس کے یہ الہام تیری طرف سے نہیں بلکہ اپنا ہی افترا ہے.تو اس امت مرحومہ پر یہ احسان کر کہ اس مفتری کو ایک سال کے اندر ہلاک کردے تالوگ اس کے فتنہ سے امن میں آجائیں.اور اگر یہ مفتری نہیں اور تیری طرف سے ہے اور یہ تمام الہام تیرے ہی منہ کی پاک باتیں ہیں تو ہم پر جو اس کو کافر اور کذاب سمجھتے ہیں.دکھ اور ذلت سے بھرا ہوا عذاب ایک برس کے اندر نازل کر اور کسی کو اندھا کر دے اور کسی کو مجذوم اور کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنون اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یا سگ دیوانہ کا شکار بنا اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر.اور جب یہ دعا فریق ثانی کرچکے تو دونوں فریق کہیں کہ آمین.اور یاد رہے کہ اگر کوئی شخص مجھے کذاب اور مفتری تو جانتا ہے مگر کافر کہنے سے پرہیز رکھتا ہے تو اس کو اختیار ہوگا کہ اپنے دعائی مباہلہ میں صرف کذاب اور مفتری کا لفظ استعمال کرے جس پر اس کو یقین دلی ہے.اور اس مباہلہ کے بعد اگر میں ایک سال کے اندر مر گیا یا کسی ایسے عذاب میں مبتلا ہوگیا جس میں جان بری کے آثار نہ پائے جائیں تو لوگ میرے فتنہ سے بچ جائیں گے اور میں ہمیشہ کی لعنت کے ساتھ ذکر کیا جاؤں گا اور میں ابھی لکھ دیتا ہوں کہ اس صورت میں مجھے کاذب اور مورد لعنت الٰہی یقین کرنا چاہئے اور پھر اس کے بعد میں دجّال یا ملعون یا شیطان کہنے سے ناراض نہیں
اور اس لائق ہوں گا کہ ہمیشہ کیلئے لعنت کے ساتھ ذکر کیا جاؤں اور اپنے مولیٰ کے فیصلہ کو فیصلہ ناطق سمجھوں گا.اور میری پیروی کرنے والا یا مجھے اچھا اور صادق سمجھنے والا خدا کے قہر کے نیچے ہوگا.پس اس صورت میں میر انجام نہایت ہی بد ہوگا جیسا کہ بدذات کاذبوں کا انجام ہوتا ہے.لیکن اگر خدا نے ایک سال تک مجھے موت اور آفات بدنی سے بچا لیا اور میرے مخالفوں پر قہر اور غضب الٰہی کے آثار ظاہر ہوگئے اور ہریک ان میں سے کسی نہ کسی بلا میں مبتلا ہوگیا.اور میری بددعا نہایت چمک کے ساتھ ظاہر ہوگئی تو دنیا پر حق ظاہر ہو جائے گا.اور یہ روز کا جھگڑا درمیان سے اٹھ جائے گا.میں دوبارہ کہتا ہوں کہ میں نے پہلے اس سے کبھی کلمہ گو کے حق میں بددعا نہیں کی اور صبر کرتا رہا.مگر اس روز خدا سے فیصلہ چاہوں گا.اور اس کی عصمت اور عزت کا دامن پکڑوں گا کہ تاہم میں سے فریق ظالم اور دروغگو کو تباہ کرکے اس دین متین کو شریروں کے فتنہ سے بچاوے.میں یہ بھی شرط کرتا ہوں کہ میری دعا کا اثر صرف اس صورت میں سمجھا جائے کہ جب تمام وہ لوگ جو مباہلہ کے میدان میں بالمقابل آویں ایک سال تک ان بلاؤں میں سے کسی بلا میں گرفتار ہوجائیں.اگر ایک بھی باقی رہا تو میں اپنے تئیں کاذب سمجھوں گا اگرچہ وہ ہزار ہوں یا دو ہزار اور پھر ان کے ہاتھ پر توبہ کروں گا.اور اگر میں مر گیا تو ایک خبیث کے مرنے سے دنیا میں ٹھنڈ اور آرام ہوجائے گا.میرے مباہلہ میں یہ شرط ہے کہ اشخاص مندرجہ ذیل میں سے کم سے کم دس۱۰ آدمی حاضر ہوں اس سے کم نہ ہوں اور جس قدر زیادہ ہوں میری خوشی اور مراد ہے کیونکہ بہتوں پر عذاب الٰہی کامحیط ہو جانا ایک ایسا کھلا کھلا نشان ہے جو کسی پر مشتبہ نہیں رہ سکتا.گواہ رہ اے زمین اور اے آسمان کہ خدا کی لعنت اس شخص پر کہ اس رسالہ کے پہنچنے کے بعد نہ مباہلہ میں حاضر ہو اور نہ تکفیر اور توہین کو چھوڑے اور نہ ٹھٹھا کرنے والوں کی مجلسوں سے الگ ہو.اور اے مومنو! برائے خدا تم سب کہو کہ آمین.مجھے افسوس سے یہ بھی لکھنا پڑا کہ آج تک ان ظالم مولویوں نے اس صاف اور سیدھے فیصلہ کی طرف رخ ہی نہیں کیا.تا اگر میں ان کے خیال میں کاذب تھا تو احکم الحاکمین کے حکم سے اپنی سزا کو پہنچ جاتا.ہاں بعض ان کے اپنی بدگوہری کی
وجہ سے گورنمنٹ انگریزی میں جھوٹی شکائتیں میری نسبت لکھتے رہے اور اپنی عداوت باطنی کو چھپا کر مخبروں کے لباس میں نیش زنی کرتے رہے اور کر رہے ہیں جیسا کہ شیخ بطالوی عَلَیْہِ مَا یَسْتَحِقُّہ اگر ایسے لوگ خدا تعالیٰ کی جناب سے رد شدہ نہ ہوتے تو مجھے دکھ دینے کیلئے مخلوق کی طرف التجا نہ لے جاتے.یہ نادان نہیں جانتے کہ کوئی بات زمین پر نہیں ہوسکتی جب تک کہ آسمان پر نہ ہو جائے اور گورنمنٹ انگریزی میں یہ کوشش کرنا کہ گویا میں مخفی طور پر گورنمنٹ کا بدخواہ ہوں یہ نہایت سفلہ پن کی عداوت ہے.یہ گورنمنٹ خدا کی گناہ گار ہوگی اگر میرے جیسے خیر خواہ اور سچے وفادار کو بدخواہ اور باغی تصور کرے.میں نے اپنی قلم سے گورنمنٹ کی خیر خواہی میں ابتدا سے آج تک وہ کام کیا ہے جس کی نظیر گورنمنٹ کے ہاتھ میں ایک بھی نہیں ہوگی اور میں نے ہزارہا روپیہ کے صرف سے کتابیں تالیف کرکے ان میں جابجا اس بات پر زور دیا ہے کہ مسلمانوں کو اس گورنمنٹ کی سچی خیر خواہی چاہیئے اور رعایا ہوکر بغاوت کا خیال بھی دل میں لانا نہایت درجہ کی بدذاتی ہے اور میں نے ایسی کتابوں کو نہ صرف برٹش انڈیا میں پھیلایا ہے بلکہ عرب اور شام اور مصر اور روم اور افغانستان اور دیگر اسلامی بلاد میں محض للّہی نیت سے شائع کیا ہے نہ اس خیال سے کہ یہ گورنمنٹ میری تعظیم کرے یا مجھے انعام دے کیونکہ یہ میرا مذہب اور میرا عقیدہ ہے جس کا شائع کرنا میرے پر حق واجب تھا.تعجب ہے کہ یہ گورنمنٹ میری کتابوں کو کیوں نہیں دیکھتی اور کیوں ایسی ظالمانہ تحریروں سے ایسے مفسدوں کو منع نہیں کرتی.ان ظالم مولویوں کو میں کس سے مثال دوں.یہ ان یہودیوں سے مشابہ ہیں جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ناحق دکھ دینا شروع کیا اور جب کچھ پیش نہ گئی تو گورنمنٹ روم میں مخبری کی کہ یہ شخص باغی ہے.سو میں بار بار اس گورنمنٹ عادلہ کو یاد دلاتا ہوں کہ میری مثال مسیح کی مثال ہے میں اس دنیا کی حکومت اور ریاست کو نہیں چاہتا اور بغاوت کو سخت بدذاتی سمجھتا ہوں میں کسی خونی مسیح کے آنے کا قائل نہیں اور نہ خونی مہدی کا منتظر.صلح کاری سے حق کو پھیلانا میرا مقصد ہے.اور میں تمام ان باتوں سے بیزار ہوں جو فتنہ کی باتیں ہوں یا جوش دلانے والے منصوبے ہوں.گورنمنٹ کو چاہئے کہ بیدار طبعی سے میری حالت کو جانچے اور گورنمنٹ روم کی شتاب کاری سے عبرت پکڑے اور خود غرض مولویوں یا دوسرے لوگوں کی باتوں کو سند نہ سمجھ لیوے کہ میرے اندر کھوٹ نہیں اور میرے لبوں پر نفاق نہیں.اب میں پھر اپنے کلام کو اصل مقصد کی طرف رجوع دے کر ان مولوی صاحبوں کا نام ذیل میں درج
کرتا ہوں جن کو میں نے مباہلہ کیلئے بلایا ہے اور میں پھر ان سب کو اللہ جل شانہٗ کی قسم دیتا ہوں کہ مباہلہ کیلئے تاریخ اور مقام مقرر کرکے جلد میدان مباہلہ میں آویں اور اگر نہ آئے اور نہ تکفیر اور تکذیب سے باز آئے تو خدا کی لعنت کے نیچے مریں گے.اب ہم ان مولوی صاحبوں کے نام ذیل میں لکھتے ہیں جن میں سے بعض تو اس عاجز کو کافر بھی کہتے ہیں اور مفتری بھی.اور بعض کافر کہنے سے تو سکوت اختیار کرتے ہیں.مگر مفتری اور کذّاب اور دجّال نام رکھتے ہیں.بہرحال یہ تمام مکفّرین اور مکذّبین مباہلہ کیلئے بلائے گئے ہیں اور ان کے ساتھ وہ سجادہ نشین بھی ہیں جو مکفّر یا مکذّب ہیں اور درحقیقت ہریک شخص جو باخدا اور صوفی کہلاتا ہے اور اس عاجز کی طرف رجوع کرنے سے کراہت رکھتا ہے وہ مکذّبین میں داخل ہے.کیونکہ اگر مکذّب نہ ہوتا تو ایسے شخص کے ظہور کے وقت جس کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی تھی کہ اس کی مدد کرو اور اس کو میرا سلام پہنچاؤ اور اس کے مخلصین میں داخل ہوجاؤ تو ضرور اس کی جماعت میں داخل ہوجاتا.اور صاف باطن فقراء کیلئے یہ موقعہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے ڈر کر اور ہریک کدورت سے الگ ہوکر اور کمال تضرع اور ابتہال سے اس پاک جناب میں توجہ کرکے اس راز سربستہ کا اسی کے کشف اور الہام سے انکشاف چاہیں.اور جب خدا کے فضل سے انہیں معلوم کرایا جائے تو پھر جیسا کہ ان کی اتّقاء کی شان کے لائق ہے محبت اور اخلاص اور کامل رجوع سے ثواب آخرت حاصل کریں اور سچائی کی گواہی کیلئے کھڑے ہوجائیں.مولویان خشک بہت سے حجابوں میں ہیں کیونکہ ان کے اندر کوئی سماوی روشنی نہیں.لیکن جو لوگ حضرت احدیت سے کچھ مناسبت رکھتے ہیں اور تزکیہ نفس سے انانیّت کی تاریکیوں سے الگ ہوگئے ہیں.وہ خدا کے فضل سے قریب ہیں.اگرچہ بہت تھوڑے ہیں جو ایسے ہیں مگر یہ امت مرحومہ ان سے خالی نہیں.وہ لوگ جو مباہلہ کیلئے مخاطب کئے گئے ہیں یہ ہیں:.مولوی نذیر حسین دہلوی شیخ محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ مولوی عبد الحمید دہلوی مہتمممطبع انصاری مولوی رشید احمد گنگوہی مولوی عبد الحق دہلوی مؤلف تفسیر حقّانی مولوی عبد العزیز لدھیانوی مولوی محمد لدھیانوی مولوی محمد حسن رئیس لدھیانہ
سعد اللہ نو مسلم مدرس لدھیانہ مولوی احمد اللہ امرتسری مولوی ثناء اللہ امرتسری مولوی غلام رسول عرف رسل بابا امرتسری مولوی عبد الجبار غزنوی مولوی عبد الواحد غزنوی مولوی عبد الحق غزنوی محمد علی بھوپڑی واعظ مولوی غلام دستگیر قصور ضلع لاہور مولوی عبد اللہ ٹونکی مولوی اصغر علی لاہور حافظ عبد المنان وزیر آباد مولوی محمد بشیر بھوپالی شیخ حسین عرب یمانی مولوی محمد ابراہیم آرہ مولوی محمد حسن مولف تفسیر امروہہ مولوی احتشام الدین مراد آباد مولوی محمد اسحٰق اجراوری مولوی عین القضاۃ صاحب لکھنو فرنگی محل مولوی محمد فاروق کانپور مولوی عبد الوہاب کانپور مولوی سعید الدین کانپور رامپوری مولوی حافظ محمد رمضان پشوری مولوی دلدار علی الور مسجد دائرہ مولوی محمد رحیم اللہ مدرس مدرسہ اکبر آباد مولوی ابو الانوار نواب محمد رستم علی خاں چشتی مولوی ابو المویّد امروہی مالک رسالہ مظہر الاسلام اجمیر مولوی محمد حسین کوئلہ والا دہلی مولوی احمد حسن صاحب شوکت مالک اخبار شحنہ ہند میرٹھ مولوی نذیر حسین ولد امیر علی انبیٹھہ ضلع سہارنپور مولوی احمد علی صاحب سہارنپور مولوی عبد العزیز دینا نگر ضلع گورداسپور قاضی عبد الاحد خان پور ضلع راولپنڈی مولوی احمد رامپور ضلع سہارنپور محلہ محل مولوی محمد شفیع رامپور ضلع سہارنپور مولوی فقیر اللہ مدرس مدرسہ نصرت الاسلام واقع لال مسجد بنگلور مولوی محمد امین صاحب بنگلور مولوی قاضی حاجی شاہ عبد القدوس صاحب پیش امام جامع مسجد بنگلور مولوی عبد الغفار صاحب فرزند قاضی عبد القدوس صاحب بنگلور مولوی محمد ابراہیم صاحب ویلوری حال مقیم بنگلور مولوی عبد القادر صاحب پیارم پیٹی ساکن پیارم پیت علاقہ بنگلور مولوی محمد عباس صاحب ساکن دانمباری علاقہ بنگلور مولوی گل حسن شاہ صاحب میرٹھ مولوی امیر علی شاہ صاحب اجمیر مولوی احمد حسن صاحب کنجپوری حال دہلی خاص جامع مسجد
مولوی محمد علی صاحب دہلی فراشخانہ مولوی مستعان شاہ صاحب سانبھر علاقہ جے پور مولوی حفیظ الدین صاحب دوجانہ ضلع رہتک مولوی فضل کریم صاحب نیازی غازی پور زمینا مولوی حاجی عابد حسین صاحب دیوبند اور سجادہ نشینوں کے نام یہ ہیں غلام نظام الدین صاحب سجادہ نشین نیاز احمد صاحب بریلی میاں اللہ بخش صاحبسجادہ نشین سلیمان صاحب تونسوی سنگہڑی سجادہ نشین صاحب شیخ نور احمد صاحب مہارانوالہ میاں غلام فرید صاحب چشتی چاچڑاں علاقہ بہاولپور التفات احمد شاہ صاحب سجادہ نشین ردولے مستان شاہ صاحب کابلی محمد قاسم صاحب سجادہ نشین شاہ معین الدین شاہ خاموش حیدرآباد دکن محمد حسین صاحب گدی نشین شیخ عبدالقدوس صاحب گنگوہی گدی نشین اوچہ شاہ جلال الدین صاحب بخاری ظہور الحسین صاحب گدی نشین بٹالہ ضلع گورداسپور صادق علی شاہ صاحب گدی نشین رتر چھتر ضلع گورداسپور سید صوفی جان صاحب مرادآبادی صابری چشتی مہر شاہ صاحب سجادہ نشین گولڑہ ضلع راولپنڈی مولوی قاضی سلطان محمود صاحب آی اعوان والہ پنجاب حیدر شاہ صاحب جلال پور کنکیاں والہ توکل شاہ صاحب انبالہ مولوی عبد اللہ صاحب تلونڈی والہ محمد امین صاحب چکوتری علاقہ گجرات پنجاب مولوی عبد الغنی صاحب جانشین قاضی اسمٰعیل صاحب مرحوم بنگلور مولوی ولی النبی شاہ صاحب نقشبند رامپور دار الریاست حاجی وارث علی شاہ صاحب مقام دیوا ضلع لکھنؤ میر امداد علی شاہ صاحب سجادہ نشین شاہ ابو العلا نقشبند سید حسین شاہ صاحب مودودی دہلی عبد اللطیف شاہ صاحب خلف حاجی نجم الدین شاہ صاحب چشتی جودھپور قطب علی شاہ صاحب دیوگڈھ علاقہ اودے پور میواڑ میرزا بادل شاہ صاحب بدایونی مولوی عبد الوہاب صاحب جانشین عبد الرزاق صاحب لکھنؤ فرنگی محل علی حسین صاحب کچھوچھا ضلع فقیر آباد
شیخ غلام محی الدین صوفی وکیل انجمن حمایت اسلام لاہور حافظ صابر علی صاحب رامپور ضلع سہارنپور امیر حسن صاحب خلف پیر عبد اللہ صاحب دہلی منور شاہ صاحب فاضل پور ضلع گوڑگانواں قریب دہلی محمد معصوم شاہ صاحب نبیرہ شاہ ابو سعید صاحب رام پوردارالریاست بدر الدین شاہ صاحب سجادہ نشین پھلواری ضلع پٹنہ شاہ اشرف صاحب سجادہ نشین پھلواری ضلع پٹنہ مظہر علی شاہ صاحب سجادہ نشین لوادا ضلع پٹنہ لطافت حسین شاہ صاحب سجادہ نشین لوادا نثار علی شاہ صاحب الور دار الریاست وزیر الدین شاہ صاحب سجادہ نشین مخدوم صاحب الور مولوی سلام الدین شاہ صاحب مہم ضلع رہتک غلام حسین خاں شاہ صاحب ٹھانوی ضلع حصار سید اصغر علی شاہ صاحب نیازی اکبر آباد واجد علی شاہ صاحب فیروز آباد ضلع اکبر آباد سید احمد شاہ صاحب ہردوئی ضلع لکھنؤ مقصود علی شاہ صاحب شاہجہان پور مولوی نظام الدین چشتی صابری جھجر مولوی محمد کامل شاہ اعظم گڈھ ضلع خاص محمود شاہ صاحب سجادہ نشین بہار ضلع خاص ان تمام حضرات کی خدمت میں یہ رسالہ پیکٹ کرکے بھیجا جاتا ہے لیکن اگر اتفاقاً کسی صاحب کو نہ پہنچا ہو تو وہ اطلاع دیں تاکہ دوبارہ بذریعہ رجسٹری بھیجا جائے راقم میرزا غلام احمداز قادیان
73 الحمدُ للّٰہِ الذی مَنَّ عَلینا بإرسال الرُّسل والکُتب، وجَعَل الأنبیاءَ لِخیَام التوحید کالطُنُب، وقَفَّی علی آثارہم بالأولیاء لیکونوا کالأوتاد للسَّبب.والصَّلاۃ والسَّلام علی خیر الرسُل ونخبۃ النخب، محمّد خاتَم النبیّین وشفیع المذنبین، وأفضل الأولین والآخرین، وآلہ الطّاہرین المطہّرین، وأَصحَابِہِ الذین ہُم آیات الحقّ وحُجّۃ اللّٰہ علی العالمین، وعلی کل عبدٍ من عبادہ الصّالحین.أمّا بعد.فہذا مکتوبٌ کتبتُہ إلی الذین أنعم اللّٰہ علیہم بأنواع الکرامۃ، وہذّبہم بالعلم الکامل والمعرفۃ التّامّۃ، وکَشَف علیہم سُبُلَ الاصطفاء والقُربۃ، وحَبَّبَ إلیہم طُرقَ الانکسار والغُربۃ، مِن العلماء العاملین الراسخین المتوَغّلین، والفقراء المنقطعین المتبتِّلین، الذین جذَبہم اللّٰہ إلی ملکوتہ، وأذاقہم حظَّ لاہوتہٖ، ورزقہم خشیۃ عظمتہٖ، وسقاہم ہمہ ثناہا خدائے راست کہ بفرستادن پیغمبران و کتاب ہا برما منت نہاد.وانبیاء را برائے خیمہ ہائے توحید ہمچو طنابے گردانید کہ خیمہ را بدان استوار میکنند و پس انبیاء اولیاء را آورد تاایشان ہمچو میخہا باشند برائے رسن انبیاء.و درود و سلام بر بہترین پیغمبران و برگزیدہ گزید گان محمد کہ خاتم الانبیاء وشفیع المذنبین است و بزرگتر ست از ہمہ آنانکہ گزشتندو از ہمہ آنانکہ بیانید.وبرآل او کہ طاہر و مطہر اند و براصحاب او کہ نشان حق وحجت اللہ اند برجہانیان.و بر ہر بندۂ از بندگان نیکوکار او.امابعد.پس این نامہ یست کہ سوئے کسانے نبشتہ ام کہ خدا تعالیٰ بانواع کرامت ایشانرا مخصوص گردانید و بعلم کامل و معرفت تامہ پاکیزگی ہا بخشید.و راہ ہائے برگزیدگی و قربت بر ایشان کشود و انکسار و غربت مرغوب طبیعت ایشان گردانید انانکہ علماء راسخین اند و در علم مہارتے تام میدارند وعلم ایشان بعمل مقرون ست ونیز انانکہ از دنیا بجانبِ حق بریدہ شدہ اند و خدا تعالیٰ سوئے ملکوت خود ایشانراکشیدہ است وحظے از لاہوت خود ایشانرا چشانیدہ.وخوف عظمت خود
74 کأ س محبّتہ، فلا ترہَقہم ذلّۃ الزَّلّۃ، ولا نکال المَعصِیۃ، وہم من المحفوظین.وإنما نخاطبہم لجلالۃ شأنہم، وصفاء وجدانہم، وسَعۃ ظروفہم، وحلاوۃ قطوفہم، لعلّہم یُؤیَّدون من اللّٰہ ویُلہَمون، ولعلّہم یفقہون ما لا فَقِہَ الآخرون ویعلمون ما لم یعلمہ المحجوبون.ولعلہم یتدبّرون بالفراسۃ الإیمانیۃ، ویتفکرون بالتقاۃ الرّوحانیۃ، ویقومون للّٰہ شاہدین، لیکونوا حجّۃ اللّٰہ علی الظالمین المعتدین، ولینقطع معاذیر المعتذرین الأفّاکین، ولیَضْمَحلّ کل قولٍ یُقال من بعد موتی ولتستبین سبیل المجرمین.وإنّا ندعو اللّٰہ أن یؤیّدہم ویلہمہم ویحفظہم ویعصمہم ویعطیہم حظّ الصّالحین.ولما کان المقصد أن یتبیّن الحق الذی جئنا بہ لکلّ تقیّ وسعید من قریب وّبعید، أُلقیَ فی روعی أن أکتب ہٰذا المکتوب فی العربیۃ، وأترجمہ بالفارسیۃ، وأَرعَی النواظرَ فی النواضر الأصلیۃ، وأُوسّع التبلیغ بالألسن مقسوم ایشان کرد و جامہائے محبت خود نوشانیدہ پس نمے گیرد ایشانرا ذلت لغزش و نہ وبال معصیت و درحفاظت حق میباشند.وماکہ ایشا نرا مخاطب کردیم سبب آن بزرگی شان ایشان ست وصفائی وجدان ایشان ونیز ازینکہ ایشان تنگ ظرف نیستند وانگور ایمان ایشان حلاوتے دارد.تاباشد کہ ایشانرا خدا تائید کندو ایشان دربارہ ما از خدا الہام یابند و تاباشد کہ ایشان آن حقائق را بفہمند کہ دیگران نفہمیدہ اندوآن امور را بدانندکہ محجوبا ن ندانستہ اندو تابفراست ایمانی خود تدبر کنند.وتابا پرہیز گاری روحانی خود فکرے بکار برند وبرائے گواہی حق بخیر ند.تاکہ برجفا پیشگان وازحد گز شتگان حجتہ اللہ باشند.وتاکہ ہمہ عذر ہائے عذر کنندگان از دروغ گویان مردود و منقطع شوند و تاکہ ہر سخنے کہ پس از مردن من گفتہ شودآن ہمہ ہیچ و متلاشی گردد و راہ مجرمان ہوید ا گردد.وما دعامی کنیم کہ خدا خود او شانرا تائید کند و خود در دل ایشان القا کندو خود نگہبان شان باشد واز لغز شہادور دارد و آنچہ صلحاء را مید ہداو شانر ا دہد.وہرگاہ کہ مقصود این بود کہ بر ہر پرہیز گارے و نیک نہادے آن امر حق ہویدا گردد کہ ما آوردیم گوآن مرد ازسرزمین قریب باشد یا ازبعید لہٰذا در دلم انداختہ شد کہ این مکتوب را در زبان عربی بنویسم و ترجمہ آن در فارسی کنم و نظارگیان را درچراگاہ اصلی سیر کنانم و بزبان ہائے اسلامیان تبلیغ را وسیع کنم
75 الإسلامیۃ، لیکون بلاغًا تامًّا للطالبین.فاعلموا یا معشر الکرام، وجموع أولی الأبصار والأفہام، أن اللّٰہ قد بعثنی مجدِّدًا علی رأس ہذہ الماءۃ، واختصّ عبدًا لمصالح العامّۃ، وأعطانی علومًا ومعارف تجب لإصلاح ہذہ الأمّۃ، ووہب لی من لدنہ علمًا حیًّا لإتمام الحجّۃ علی الکَفَرۃ الفَجَرۃ، وأعطانی ثمرًا غَضًّا طریًّا لتغذیۃ جِیاع المِلّۃ، وکأسًا دہاقًا لعُطاشی الہدایۃ والمعرفۃ، وجعلنی إمامًا لکل من یرید صلاح نفسہٖ، ویحبّ رضاء ربّہ، وجعلنی من المکلَّمین الملہَمین.وأکملَ علیّ نعمہ وأتمّ تفضّلہ وسمّانی المسیح ابن مریم بالفضل والرحمۃ، وقدّر بینی وبینہ تشابُہَ الفطرۃ کالجوہرَین من المادّۃ الواحدۃ، و وہب لی علومًا مقدّسۃ نقیّۃ، ومعارف صافیۃ جلیّۃ، وعلّمنی ما لم یعْلم غیری من المعاصرین.وصبّ فی قلبی ما لم یُحیطوا بہا علمًا، ونورًا لم یمسَّہ أحدٌ منہم وجعلنی من تابرائے طالبان این تبلیغ بمرتبہ کمال رسد.پس بدانید اے گروہ بزرگان و جماعتہائے صاحبان بصیرت وفہم کہ خدائے عزوجل مرا برسراین صدی مجدد مبعوث فرمودہ است وبندہ را برائے مصلحت عامہ خاص گردانیدہ است.ومرا آن علوم ومعارف بخشید کہ برائے اصلاح این امت از واجبات اند.ومرا علم زندہ بخشید تاکہ برکافران وفا سقان حجت تمام شود.ومرا ثمرہ تازہ و تر عنایت کرد تاگرسنگانِ ملت را غذا دادہ شود.وجامہائے پر بخشید تاتشنگان ہدایت و معرفت رانوشانیدہ شود.ومرا برائے ہرآن شخصے کہ صلاحیت نفس خود میجوید ورضائے رب خود مے خواہد امام گردانید ومرا از آنان گردانید کہ بشرف مکالمہ الٰہیہ مشرف می باشند.وبرمن نعمتہائے خود کامل کرد و تفضلات خود باتمام رسانید ونام من از فضل خود مسیح ابن مریم نہاد.ودرمن ومسیح ابن مریم تشابہ فطرت مقدر کرد.چنانچہ دو جوہر ازیک مادہ می باشند ومرا علوم مقدس ومصفا بخشید و معارف صاف و روشن عطا کرد و مرا چیزہا بیاموخت کہ غیر من از مردم ہم زمانہ من ازان ہا بیخبر اند.و در دل من معارفے بریخت کہ علم آن ازایشان احدے رانیست و در دل من نورے ریخت کہ ہیچ کس از ایشان بدان آشنائی ندارد
76 المنعَمین.ومِن أجلِّ آلاۂ أنہ استودعنی سرَّہ الذی یُکشف للأولیاء والروحَ الذی لا یُنفَخ إلا فی أہل الاصطفاء ، وأعطانی کل ما یُعطَی لأہل الموالاۃ و الولاء ، و صافانی و وافانی، و شرح صدری و أتم بدری، و أخبرنی بأکثر ما ہو مُزمِعٌ علیہ فی سابق علمہ، وصبّغنی بصبغۃ حُبّہ، وہدانی طرق إسلامہ وسِلمہ، وأخرجنی من المحجوبین.ومن آلاۂ أنہ وفّقنی لفعل الخیرات، وہدانی إلی الصالحات الطیبات، وأجری لطائف قلبی فأحسن إجراء ہا، وزکّی ینابیعہا وماء ہا، وأتمّ نورہا وصفاء ہا، وطہّر مجراہا وفِناء ہا، وبدّل أرضی غیر الأرض وجعلنی من المطہَّرین.ومن آلاۂ أنہ وہب لی حُبَّ وجہہ حُبًّا جَمًّا، وصدقًا أکمل وأتمَّ، وسألتہ أن یہب لی حُبًّا لا یزید علیہ أحدٌ من بعدی، فأعلمُ منہ أنہ استجاب دعوتی، وأعطانی مُنیتی، وأحاطنی فضلا ورُحمًا، فالحمد للّٰہ أحسن المُحسنین.و در انعام یا بندگان مرا داخل کرد.واز بزرگترین نعمتہائے او کہ برمن ارزانی داشت آن رازیست کہ در دل من امانت نہاد آن رازے کہ بر اولیاء مکشوف میگردد وروحے کہ دمیدہ نمی شود مگر دربرگزیدگان او.ومرا تمام آن چیزہا داد کہ اہل محبت رامیدہند وبامن محبت خالص کردو نزدم آمدو سینہء من کشاد و بدر من کامل کرد واز امور پوشیدہ علم ازلی خود مرا خبر داد.وبرنگ محبت خود مرا رنگین کرد.وطریق اسلام پسندیدہ خود مرا نمود.واز محجوبین مرا بیرون آورد.و از نعمتہائے او یکے این ا ست کہ مرا برائے کار ہائے نیکو توفیق داد.وبسوئے اعمال پاک و صالح راہ نمود.و لطیفہ ہائے دل من باحسن طریق جاری کرد وچشمہ ہاو آب آن لطائف را پاک کرد و نور وصفاء آنہارا باتمام رسانید ومجریٰ و صحن آنہارا پاک گردانید و زمین مرا بزمینے دیگر تبدیل کرد.و مرا از پاک شدگان گردانید.وازجملہ نعمتہائے او اینکہ مرا محبت روئے خود بسیار دربسیار بخشید و صدق اکمل و اتم عنایت کرد.و من از و خواستہ بودم کہ مرا محبتے بخشد کہ ہیچکس بعداز من بران زیادت نتواند کرد.پس من باعلام اومیدانم کہ او دعائے من قبول کرد وآرزوئے من مراد او و فضل و رحمت را برمن محیط کرد پس ہمہ ستائش او راست کہ
77 الحمد للّٰہ الذی أذہب عنی الحزن وأعطانی ما لم یُعطَ أحدٌ من العالمین.وما قلتُ ہذا من عند نفسی بل قلتُ ما قال علی السماوات ربی، وما کان لی أن أتکبّر وأرفع نفسی، إن اللّٰہ لا یُحب المستکبرین، بل ہٰذا إلہام من حضرۃ العزّۃ، وأراد من العالمین ما ہو فی زماننا من الکائنات الموجودۃ فی الأرضین.ومن آلاۂ أنہ علّمنی القرآن، ورزقنی منہ معارف تُجاوز الحدّ والحسبان لأذکّر الغافلین المنہمکین فی ہموم الدنیا الدنیّۃ، وأُنذِر قومًا ما أُنذرَ آباؤہم فی الأیام السابقۃ، ولأقیم الحجّۃ علی المجرمین.ومن آلاۂ أنہ خاطبنی وقال: ’’أنت وجیہ فی حضرتی.اخترتُک لنفسی‘‘.وقال: ’’أنت منی بمنزلۃ لا یعلمہ الخلق‘‘.وقال: ’’أنت منی بمنزلۃ توحیدی وتفریدی‘‘.وقال: ’’یا أحمدی، أنت مرادی ومعی.یحمدک اللّٰہ مِن عرشہ‘‘.وقال: ’’أنت عیسی الذی لا یضاع وقتہ.کمثلک دُرٌّ لا یضاع.جَرِیُّ اللّٰہِ ازہر محسن نیکو تراست.ہمہ تعریفہا خدائے را کہ اند وہ من دور کرد ومرا چیزہا داد کہ از جہانیان احدے را مثل آن نداد.واین کلمہ از طرف خود نگفتم بلکہ ہمان گفتمکہ برآسما نہا خداوند من گفت.ومرا نمے سزد کہ تکبر کنم ونفس خود را بلند بردارم کہ خدا متکبران را دوست نمی دارد.بلکہ این الہام از حضرت عزت است و از عالمین مخلوقے را مراد داشت کہ درین زمانہ بر زمین موجودست.و از نعمت ہائے اویکے این است کہ اومرا قرآن بیاموخت وآن معارف قرآنیہ نصیبہ ء من کرد کہ آن را حد وشمار نیست تاکہ من غافلان رایاد دہانم انانکہ درہموم دنیائے دون مستغرق اند وتاکہ من آنانرا بترسانم کہ آباء ایشان را ہیچ کس پیش از من نترسانیدہ است وتاکہ من حجت را بر مجرمان قائم کنم.وازجملہ نعمتہائے اویکے این ست کہ او مرا مخاطب کرد و گفت کہ تو دربار گاہ من وجیہ ہستی ترا برائے خود پسندیدم و توازمن بمقامے ہستی کہ مخلوق رابعلم آن راہ نیست.وگفت توازمن بدان قربتے رسیدی کہ ہمچو توحید من و تفرید من گردیدی.وگفت اے احمد من تو مراد منی و بامنی.خدا از عرش خود ثنائے تو میگوید وگفت تو آن عیسیٰ ہستی کہ وقت او ضایع نہ خواہد شد و ہمچو تو لولوئے برباد شدنی نیست.فرستادۂ خدا
78 فی حلل الأنبیاء ‘‘.وقال: ’’قُلْ إنی أُمرتُ وأنا أول المؤمنین‘‘.وقال: ’’اصنَعِ الفُلْکَ بأعیننا وَوَحْینا.إنّ الذین یبایعونک إنما یبایعون اللّٰہ، ید اللّٰہ فوق أیدیہم‘‘.وقال: ’’وما أرسلناک إلّا رحمۃً للعالمین‘‘.ومن آلاۂ أنہ لما رأی القسّیسین غالین فی الفساد، ورأی أنہم علَوا فی البلاد أرسلنی عند طوفان فتنہم وتراکُمِ دُجْنہم، وقال: ’’إِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِینٌ أَمِینٌ‘‘.فجئتُ من حضرۃ العزّۃ وعَتبۃ الوحدۃ، عند شیوع الفتن والبدعات، وظہور المفاسد وَالسّیّءَات، وضعف المؤمنین المسلمین.وقد جرت عادۃ اللّٰہ الرحیم، وسُنّۃ المولی الکریم، أنہ یبعث مجدِّدًا علی رأس کل ماءۃٍ، فکیف إذا کان معہا طِباقُ ظلمۃٍ، وطوفان ضلالۃٍ، ألیس اللّٰہ أرحم الراحمین؟ وترون الناس کیف سقطوا فی ہُوّۃ النصاریٰ، وکیف تمایلوا علیہم کالسُّکاریٰ، وخرجوا من دین اللّٰہ المتین.أسمعتم درحلہ انبیاء.وگفت بگو کہ من مامورم ومن ازہمہ مومنان در اول مرتبہ ام.وگفت کشتی را روبروئے چشمان من طیار کن.انانکہ بتو بیعت می کنند بخدا بیعت می کنند دست خدا بردست ایشان است.وگفت ترا از بہر ہمیں غرض فرستادم کہ برتمام جہانیان رحمت کنیم.واز جملہ نعمتہائے اویکے این ست کہ چوں پادریان رادید کہ در فساد خود غلومے کنند ودید کہ اوشان در ملک ہا تسلط پیدا کردہ اند مرا در وقت طوفان فتنہ ایشان فرستاد ودر زمان تہہ بتہہ بودن تاریکی ایشان مامور کرد.وگفت بہ تحقیق تونزدمن مردے امین وبامرتبہ ہستی.پس من از حضرت عزت وآستانہ وحدت آمدم ووقتے آمدم کہ فتنہہا وبدعات درملک شایع بودند وفسادہاوبدی ہا غلبہ می نمودند ومومنان و مسلمانان درحالت ضعف بودند.وعادت خداوند رحیم وسنت مولائے کریم برین رفتہ است کہ اوبر سرہر صدی مجددے برپا میکند پس چگونہ درچنین زمانہ برپا نکند کہ چون سر صدی باشد ونیزبا او ظلمتہاتہہ بتہہ باشند وطوفانے از ضلالت موجود باشد آیا خدا ارحم الراحمین نیست و مردم رامے بینید کہ چگونہ درمغاک نصاریٰ افتادہ اند وچگونہ ہمچو مستان بریشان نگو نسار شدہ اند واز دین متین رخت خود بیرون کشیدہ اند.آیا شنیدہ آید کہ کسے
79 مَنْ جاء کم من دونی لإصلاح ہذہ الآفات، أو تظنّون أنہ نَسِیَ ہذہ الأمۃ عند تلک الصدمات؟ ما لکم لا تتفکرون، وتنظرون ثم لا تنظرون؟ أو غلبت علیکم ہموم أخری فلا تتوجّہون؟ کلا..إنّ اللّٰہ لا یُخلف وعدہ، ولا یُخزی عبدہ، فتفکروا إن کنتم متفکّرین.أیہا الکرام..إن الفتن اشتدّت، والأرض فسدت، والمفاسد کثرت، وعلا فی الأرض حزب المتنصّرین.وقیل لہم مرارًا، لا تجعلوا مَیتًا إلٰہًا غفّارًا، واتّقوا اللّٰہ مُحاسبًا قہّارًا، فما خافوا اللّٰہ وأصرّوا علی کفرہم متشدّدین.ہنالک اقتضتْ أحدیّتُہ، وقضت غیرتہ، أن یکسر صلیبَہم، ویُبطل أکاذیبہم، ویوہن کید الخائنین.فکلّمنی ونادانی وقال: ’’إنی مرسلک إلی قوم مفسدین، وإنی جاعلک للنّاس إماما, وإنی مستخلفک إکراما، کما جرت سُنّتی فی الأولین‘‘.وخاطبنی بجزمن از طرف خدا تعالیٰ برائے اصلاح این آفات آمد یا گمان می کنید کہ خدا تعالیٰ دروقت ہمچو این صدمات امت را فراموش کرد.چہ پیش آمد شمارا کہ فکر نمی کنید و بینید وباز نمی بینید.چہ برشما غمہائے دیگر غالب شدند کہ توجہ نمی کنید این چنیں گمان می کنید کہ خدا خلاف وعدہ خود بکند وبندہ خود را رسوا کند پس فکر کنید اگر فکر کنندگان ہستید.اے بزرگان فتنہہا سخت شدند و زمین فاسد شد و مفاسد بسیار شدند و بر زمین گروہ نصرانی شدگان غلبہ یافت.وبارہا ایشان راگفتہ شد کہ مردہ را خدائے آمرزگار مسازید و از خدائے قہار بترسید کہ محاسبہ در دست اوست پس نترسیدند وبرکفر خود تشدد ورزیدند.پس کارچون بدین حد رسید احدیت خدا وغیرت او تقاضا کرد کہ صلیب اوشان را بشکند و دروغ ہائے او شان را باطل کند و مکر خیانت پیشگان را سُست گرداند.پس مرا ہمکلام خود کرد و ندا در داد کہ من بسوئے قومے مفسد ترا مے فرستم.وترا برائے مردم امام می گردانم.وترابہ خلافت خود اعزاز می دہم ہمچنان کہ در پیشنیان سنت من بودہ است.ومرا مخاطب
80 وقال: ’’إنک أنت منی المسیح ابن مریم، وأُرسلتَ لیتمّ ما وعَد من قبلُ ربُّک الأکرم، إن وعدہ کان مفعولا وہو أصدق الصّادقین‘‘.وأخبرنی أنّ عیسٰی نبی اللّٰہ قد مات، ورُفع من ہذہ الدّنیا ولقی الأموات، وما کان من الراجعین، بل قضی اللّٰہ علیہ الموت وأمسکہ، ووافاہ الأجل وأدرکہ، فما کان لہ أن ینزل إلا بروزًا کالسّابقین.وقال سُبحَانہٗ: ’’إنک أنت ہو فی حُلل البروز، وہذا ہو الوعد الحق الذی کان کالسرّ المرموز، فاصدَعْ بما تُؤمَر ولا تخَفْ ألسنۃَ الجاہلین، وکذالک جرت سنّۃ اللّٰہ فی المتقدمین.فلما أخبرتُ عن ہذا قومی، قامت علماؤہم لِلَعْنی ولَوْمی، وکفّرونی قبل أن یحیطوا قولی، ویَزِنوا حولی، وقالوا دجّال ومن المرتدّین.وسلّطوا علیّ أوقَحَہم وأدَمَّہم، وحرّقوا علیّ أرَمَّہم کالسّباع والتنّین.فتَکَادَنی شرُّہم وتضوّرتُ، وغلوا وصبرت، واستباحوا أعراضنا ودماء نا وکانوا فیہ من المفرِطین.وقال کبیرہم الذی أفتٰی، وأغوی الناس کرد وگفت کہ توازمن و از ارادہ من مسیح ابن مریم ہستی وفرستادہ شدی تاآن وعدہ باتمام رسد کہ رب بزرگ تو درایام پیشین کردہ است کہ وعدہ رب توشدنی بود و او ازہمہ راست گویان راست گو تراست.ومرا خبرداد کہ عیسیٰ نبی اللہ وفات یافتہ است وازین دنیا برداشتہ شدہ و بآنان پیوست کہ فوت شدہ اند وباز در دنیا نخواہد آمد بلکہ خدا برو حکم موت نافذ کرد واز باز آمدن نگہ داشت وآمد او را اجل مقدر پس نماند برائے او این گنجائش کہ باز در دنیا آید مگر بطور بروز چنانچہ پیشینیان آمدند وگفت مرا او سبحانہ کہ توئی مسیح درپیرایہ بروز.واین ہمان وعدہ حقہ است کہ بطور راز واشارہ گفتہ شدہ بود.پس ہر فرمانے کہ ترا میر سد بلا پردہ بمخلوق برسان و از ز با نہائے جاہلان غم مدار کہ ہمچنینسنت خدا درپیشینیان رفتہ است پس ہرگاہ کہ من پیغام بقوم رسانیدم علماء ایشان بہ لعنت و ملامت برخاستند.وپیش ازان کہ برگفتہ من احاطہ کنند وطاقت مرا وزن کنند تکفیر من کردند وگفتند دجالے ست مرتد وبرمن آن ناکسے را مسلط کردند کہ از ہمہ دربیحیائی وزشت روئے سبقت میداشت وبرمن ہمچو درندگان واژدہا دندان خود بسائیدند پس شرارت ایشان مرا گران آمد و پریشان خاطر شدم و غلو کردند و صبر نمودم و عزتہائے ما را وخونہائے مارا مباح پنداشتند و از افراط کنندگان بودند.و
81 وأغری إنّ ہؤلاء کَفَرۃ فَجَرۃ، فلا یسلِّم علیہم أحد، ولا یتبع جنازتہم، ولا یُدفَنوا فی مقابر المسلمین.فلما رأیتہم کالعمین المحجوبین، ورأیت أنہم جاوزوا الحدّ وآذوا الصادقین، ألّفتُ لہم کتبا مفحمۃ ورسائل نافعۃ للطالبین.فما کان لہم أن یستفیدوا أو یقبلوہا وما کانوا متدبرین.وقاموا للردّ فلم یقدروا علیہ، وصالوا للإہانۃ فردَّہا اللّٰہ علیہم، فجلسوا متندمین.وعاندوا کل العناد، وأفسدوا کل الفساد، وحسبوا أنہم من المصلحین.وإن غُلُوَّہم الآن کما کان، وما لہم عندی إلا المداراۃ والإدراء ، والصّبر والدعاء ، وإنا نصبر إلی أن یحکم اللّٰہ بینی وبینہم وہو خیر الحاکمین.وما کان عندہم عذر إلا قطعتُہ، وما شکّ إلا قلعتُہ، وما کانت دعوتی إلاَّ بنصوص الآثار وکتاب مبین.ولیسوا سواءً من العلماء والفقراء ، فمنہم الذین یخافون حضرۃ الکبریاء ، ولا یَقْفُون ما لیس لہم بہ علم ویخشون یوم الجزاء ، بزرگ ایشان کہ فتوائے کفر داد و مرد مان را اغوا کرد وچون سگان برمن تیز کرد.وگفت کہ این مردم کافر و فاجر اند پس نمی باید کہ مسلمانے ایشان را السلام علیکم بگوید یا باجنازہ ایشان را رود و باید کہ ایشان را در گورستان مسلمانان دفن کردن ندہند.پس چون دیدم کہ این مردم نابینا ومحجوب ہستندو دیدم کہ اوشان ازحد درگزشتند وصادقان را ایذا می رسانید ند برائے ایشان کتابے چند نوشتم و رسائل تالیف کردم کہ طالبان رامفید باشند مگر ایشان چنان نبودند کہ ازان کتابہا مستفید شوند یا آنہارا قبول کنند وہمہ خرابی این بود کہ تدبرنمے کردند وخواستند کہ این کتابہا راردّ بنویسند پس مجال ردّ نیا فتند و باز بدین غرض حملہ ہاکردند کہ عزت مارا برباد دہند لیکن خداوند قادرآن حملہ ہائے ایشان ہم بریشان انداخت پس بشرمساری نشستند وتمامتر عناد و تمام تر فسادبجا آور دند و گمان کردند کہ مامصلح ہستیم وکنیکینۂ اوشان تاایندم ہم چنان ست کہ بود وبرائے شان نزدمن بجز مدارات واگاہانیدن وصبر و دعا چیزے دیگر نیست وما صبر خواہیم کرد تا وقتیکہ خدا در ما و در ایشان فیصلہ کندو او بہترین فیصلہ کنندگان ست.وہیچ عذرے نزد ایشان نماند کہ آنرانبریدم ونہ شکے کہ قلع و قمع آن نہ کردم.ودعوت من امرے بودکہ برنصوص قرآنیہ و حدیثیہ بنا میداشت.وعلما و فقرا ہم یکسان نیستند بعض از ایشان قومی ہستند کہ از حضرت رب العزۃ مے ترسند وبر چیزے اصرار نمی کنند کہ بران علم یقینی ندارند و از روز جزا مے ترسند.
82 ویفوّضون الأمر إلی اللّٰہ ذی الجلال والعلاء ، ویقولون ما لنا أن نتکلم فی ہٰذا وما أوتینا علم عواقب الأشیاء ، إنا نخاف أن نکون من الظالمین.أولئک الذین اتقوا ربہم فسیہدیہم اللّٰہ، إنہ لا یضیع الخاشعین.وأما الذین لا یخشون اللّٰہ ولا یترکون سبل الأہواء ، ویُخلِدون إلی خبیثات الدنیا و لا تبالی قلوبہم عالَمَ القدس والبقاء ، ولا یرون ما یخرج من أفواہہم من کلمات الکبر والخیلاء ، ولا یعیشون عیشۃ الأ تقیاء ، ویجعلون الدنیا أکبر ہمِّہم، والبخل أعظم مقاصدہم، ویمشون فی الأرض مشی المرح والاعتداء ، فأولئک الذین نسوا أیام اللّٰہ ومواعیدہ ویئسوا من یوم الصّادقین، واختاروا سبیل المفسدین.لا یزہَدون فی الدنیا ویموتون للفانیات، ولا یتحلّون بحُلِیِّ العفّۃ والتقاۃ، وحسنِ الخلق ورزانۃ الحَصاۃ، ولا یدخلون الأمور بالقلب المزؤود، ویجترؤون علی محارم اللّٰہ والحدود، فلمّا وامرا را بہ خدائے عزوجل سپرد می کنند.ومیگویند کہ مارا نشاید کہ درین گفتگو کنیم.ومارا علم عواقب اشیاء ندادہ اند.مامے ترسیم کہ از ظالماں نشویم.این آن گروہ است کہ ازخدائے خود مے ترسد.پس قریب است کہ خدا ایشان را ہدایت دہد.چرا کہ او بندگان فرو تن را ضائع نمی کند مگر آنانکہ از خدانمی ترسند وراہ ہائے حرص وہوارا ترک نمی کنند وسوئے پلیدی ہائے دنیا میل میدارند وبرائے عالم قدس وبقا در دل شان ہیچ پروائے نماندہ.ونمے بینند کہ چگونہ کلمات تکبر وناز از دہن شان بیرون مے آید وچون پرہیز گاران زندگی نمے کنند.ودنیارا بزرگتر مقصود قرار دادہ اند و بخل از اعظم مقاصد ایشان است و برزمین می روند ہمچو رفتن تکبر و تجاوز کردن.پس این مردم کسانے اندکہ روز ہائے خدارا ووعدہ ہائے اور افراموش کردہ اند.واز روز صادقین نومید شدند.و راہ مفسدان گرفتند.وبرکمی دنیا قناعت نمے کنند وبرائے چیز ہائے فانی مے میرند.و بزیور عفت وپرہیز گاری آراستہ نمے شوند.و بحسن خلق ودرستی عقل خود رانمی آرایند.ودرکار ہا بدل ترسان داخل نمے شوند و بر محرمات وحدود خدا دلیری مے نمایند.پس چونکہ
83 زاغوا أزاغ اللّٰہ قلوبہم، وختم علی آذانہم، فصاروا من المحرومین.وإذا قیل لہم آمِنوا بما ظہر من وعد اللّٰہ، قالوا: أین ظہر وعد اللّٰہ؟ وما نزل ابن مریم وما رأینا أحدًا من النازلین، بل إنا نحن من المنتظرین.وہم یقرأون کتاب اللّٰہ ثم ینسون ما قرأوا، ولا یتدبرون کَلِمَ اللّٰہ بل ینبذونہا وراء ظہورہم، وما کانوا ممعِنین.والعجب کل العجب أنہم یقولون إنا آمنّا بآیات اللّٰہ ثم لا یؤمنون، ویقولون إنا نتبع صحف اللّٰہ ثم لا یتبعون.ألا یقرأون فی الکتاب الأعلی ما قال اللّٰہ فی عیسٰی إذ قال: یَا عِیسٰی إِنِّی مُتَوَفِّیکَ، وقال: فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِی، وما قال: ’’إنی مُحْیِیک‘‘.فمِن أین عُلِمَ حیاۃ المسیح بعد موتہ الصریح؟ یؤمنون بأنہ لقی الأموات، ثم یقولون ما مات.تلک کلمٌ متہافتۃ متناقضۃ، لا ینطق بہا إلا الذی ضلت حواسّہ، وغرَب عقلہ وقیاسہ، وترَک طریق المہتدین.یا أسفا علیہم ! إنہم اتفقوا علی الضلالۃ جمیعًا، و کج شدند لہٰذا خدا دل ایشان راکج کرد.وبرگو شہائے ایشان مہرنہاد و پس از محرومان شدند.وچون ایشان را گفتہ شود کہ باآنچہ ظاہر شد از وعدہ خدا ایمان آرید.میگویند کجا ظاہر شد وعدہ خدا و تا ہنوز ابن مریم نازل نشدو نہ ماکسے رافرود آیندہ دیدیم.بلکہ ما از منتظران ہستیم.وایشان کتاب اللہ رامیخوانند وبازہمہ خواندہ را فراموش می کنند و در کلمات الٰہیہ تدبر نمی کنند بلکہ آنرا پس پشت خودمی اندازند و بنظر تامل نمے نگرند.و اعجب العجائب این امراست کہ ایشان میگویند کہ مابہ آیات الٰہی ایمان آوردیم وباز ایمان نمی آرند.ومیگویند کہ صحف الٰہی را پیروی میکنیم و باز پیروی نمی کنند.آیا نمی خوانند در قرآن شریف کہ چہ گفت خدا دربارہ عیسیٰ ہرگاہ کہ گفت کہ اے عیسیٰ من ترا وفات دہندہ ام.وگفت عیسیٰ ہرگاہ کہ مرا وفات دادی.واین نگفت کہ اے عیسیٰ من ترا زندہ کنندہ ام پس از کجا حیات مسیح دانستہ شد بعدازان کہ بمرد.ایمان می آرند کہ عیسیٰ بگذشتگان پیوست و باز میگویند کہ عیسیٰ نمردہ است.این کلمات ازیکدگر نقیض و متناقض افتادہ اند.این چنین کسے گوید کہ حواس اوبجا نباشد وعقل وقیاس اوقائم نماند.وطریق ہدایت یافتگان ترک کند.برایشان افسوس کہ این مردم ہمگنان طریق ضلالت اختیار نمودند و در کلام
84 خلّطوا فی الکلام تخلیطًا شنیعًا.فکیف نقبل قولہم الذی یخالف القرآن؟ وکیف نسلّم وَہْمَہُم الذی لا یشفی الجَنان؟ أنقبل خرافاتہم التی لیست معہا حجۃ قاطعۃ، ولا دلائل مقنعۃ واضحۃ؟ أیصدر مثل ذالک مِن رجل یخاف الرحمٰن، ویتقی الضلالۃ والخسران؟ ألیس مِن بعد ہذہ الدنیا یوم الدّین؟ وہل ترون یا معشر الأشراف، أن نقبل أمانیّہم ونعدل عن خطۃ الإنصاف، أو نتبع غرورہم وجہلہم وخدعہم بعد ما أرانا اللّٰہ صراطًا مستقیمًا، ورزقنا نہجًا قویمًا، وعلّمنا سبل العارفین.وکم من أمور أُخفیتْ علی الناس حقائقہا، وسُترتْ حِکمہا ودقائقہا، ثم کُشفتْ علی رجال آخرین خفایاہا، وفہّمہم اللّٰہ أضلاعہا وزوایاہا.إنہ یُظہِر علی غیبہ من یشاء ، ویفتح عین من یشاء ویجعل من یشاء من الغافلین.ألیس اللّٰہ بقادر علی أن یجتبی مثلی بعنایتہٖ، ویعطی درایۃً من درایتہٖ؟ آمیز شے بد کردند.پس ما چگونہ چنین سخنے را قبول کنیم کہ مخالف قرآن افتادہ است.و چگونہ آن وہم ایشان رامسلّم داریم کہ دل را تشفی نمی دہد.آیا چہ قبول کنیم.آن خرافات ایشان کہ باآنہا حجتے قاطعہ نیست ونہ دلائل واضح تسکین دہندہ.آیا چنین حرکتے ازان کس صادر می نواند شد کہ از عقوبت خدا می ترسد واز مواضع گمراہی وزیان کاری خود رانگہ میدارد آیا چہ بعد از گزشتن این دنیا روز جزا نیست.واے معشر بزرگان آیا مناسب می بینید کہ ماآرزوہائے ایشان را قبول کنیم و از جائے انصاف درگزریم یا ما غرور وجہل ومکر ایشان را پیروی کنیم بعد ازانکہ خدا مارا راہ راست نمود واز طریق مستقیم روزی داد و راہ عارفاں تعلیم کرد.وبسیارے از حقائق چنیں ہستند کہ بر عامہ مردم پوشیدہ داشتہ شدند.وبرایشان حکمت ہائے امور وباریکی آنہا مستور بماند.بازآن باریکی ہا برمردم دیگر مکشوف شدند وخدا اوشان را ازتمام اضلاع و گوشہ ہائے آن چیزہا اطلاع داد چرا کہ خدا ہر کرا خواہد بر امور غیبیہ خود مطلع مے فرماید و ہرکرا میخوا ہدچشم بینامی بخشد وہرکرا میخواہد از غافلاں میدارد.آیا خدا برین قادر نیست کہ ہمچو منے رابعنایت خود سوئے خود کشد و از علم خود علمے بخشد.
85 وللّٰہ أسرارٌ فی أنباۂ، وحِکم تحت قضاۂٖ، وإن فی أقوالہ حِکم روحانیۃ تضلّ عندہا عقول الفلاسفۃ، ولا یُظہِر علی غیبہ أحدا إلا الذی طہّرہ بید القدرۃ، أأنتم تحیطون أسرارہ أو تجادلونہ معترضین؟ وکم من الصلحاء رغبوا فی أن ینظُروا مَن أنتم تنظُرون، ویجدوا ما أنتم تجدون فلَمْ یتّفق، حتی مضوا بسبیلہم وماتوا متأسّفین.ثم جاء اللّٰہ بکم وأقامکم مقامہم، فأدرکتم وقتا ما أدرکوہ، وآنستم عبدًا ما آنسوہ.فاشکروا اللّٰہ الرحمٰن، الذی مَنّ علیکم وأسبغ الإحسان، وخذوا نعم اللّٰہ ولا تعرضوا عن قبولہا، ولا تردّوا نعمۃ اللّٰہ بعد نزولہا، ولا تکونوا أول المعرضین.و اتقوا یا معشر الکرام سُخْطَ اللّٰہ العزیز العلاَّم، ولا تعاندوا ولا تستعملوا البُہْتَ وسوءَ التمیّز کالعوامّ، وقوموا للّٰہ شاہدین.وانظروا أیّدکم اللّٰہ نظرًا شافیا، وأمعِنوا إمعانًا کافیًا، بالفراسۃ الإیمانیۃ، والرؤیۃ الروحانیۃ وخدا را دراخبار خود رازہاست و درحکم ہائے خود حکمت ہاست.و درکلمات او آنچنان حکمت ہائے روحانیہ است کہ درآنجا عقول فلاسفہ را خود گم می کنند.وبرغیب خود ہیچ کس را آگہی نہ بخشد بجز کسے کہ بدست خود او را پاک کردہ باشد.آیا شما بر راز او احاطہ دارید یا بطور معترضان بد وپیکار میکنید.وبسیار نیکوکاران بودند کہ رغبت کردند کہ بینند آنچہ شمامے بینند مگر نہ دیدندورغبت کردند کہ بیابند آنچہ شما یافتہ اید مگر نیا فتند تاآنکہ براہ خود از دنیا برفتند ودرحالت افسوس بمردند.باز خدا شمارا آورد وبجائے شان شمارا قائم کرد پس شماآن وقت را یافتید کہ ایشان نیا فتند و آن بندہ رادیدید کہ ایشان ندیدند پس آن خدارا شکر کنید کہ برشما احسان کرد واحسان خود برشما تمام کرد.پس بگیرید نعمت ہائے خدارا و کنارہ مکنید.ومنت خدارا رد نکنید.بعدزان کہ برشما فرود آورد و اولین اعراض کنندگان نباشید وائے معشر بزرگان از غضب خدائے بزرگ و دانائے راز بپرہیزید.ومعاند حق نباشید.و دروغ و بے تمیزی راہمچو عوام استعمال نکنید وبرائے خدا بحیثیت شاہدان برخیزید.وبہ بینید ایدکم اللہ بہ نگاہ شافی وبامعان کافی از روئے فراست ایمانی و رویت روحانی چرا کہ اولیاء اللہ از ہر کجی
86 فإن أولیاء اللّٰہ یُعصَمون مِن کل زیغٍ وَمَیلٍ، ولا یشوب مَعینَہم غثاءُ سیل، وتحفظہم عین اللّٰہ مِن طُرق الضالین.أترون دلیلًا، یا معشر الصّلحاء ، فی أیدی الأعداء لنقبَلہ منہم من غیر الإباء ، وننقاد لہم فیہ کالخدماء التابعین؟ فإنا لا نعاند الحق إذا تجلّی، ولا نردّہ من حیث أتٰی، ونعلم أن الحکمۃ ضالّۃ مَن تزکّٰی، فنأخذہا ولا نأبٰی، ونعوذ باللّٰہ أن نکون من الجاہلین.وقد علمتم یا معشر الأعزۃ، أنّ ’’مالِک‘‘ الذی کان أحد من الأئمّۃ الأجلّۃ، کان یعتقد بموت عیسٰی، وکذٰلک ’’ابن حزم‘‘ المشہود علیہ بالعلم والتقویٰ، وکذلک کثیر من الصالحین.فما کنتُ بدعًا فی ہٰذا وما کنت من المتفردین.وما جئت فی غیر وقتٍ، ألا تعرفون وقت المجدِّدین؟ ألا ترون أن السماء للرَجْع تہیّأتْ، والأرض أَجْعَلتْ؟ وکانتا رَتْقًا فالأرض فُتِقتْ، ثم السّماء فُتِحتْ، و میل نگہ داشتہ مے شوند و آب روان ایشان را خس و خاشاک سیل نمے آمیزد.و چشم خدا ایشان را ازراہ ہائے گمراہان نگہ میدارد.اے گروہ صالحاں چہ شما در دست مخالفان دلیلے مے بینید تا ما بغیر انکارے آن دلیل را قبول کنیم وہمچو خادمان فرمانبردار شویم.چرا کہ ما باراستی چون ظاہر شود عناد نداریم.وآنرا رد نکنیم ازہر جاکہ بیاید ومیدانیم کہ حکمت مالے گمشدہ از ملک پاک اندرونان ست پس میگیریم وانکار نمی کنیم و پناہ بخدا مے بریم و از اینکہ از جاہلان باشیم.و اے معشر عزیزان شمارا معلوم است کہ مالک رضی اللہ عنہ باآن ہمہ جلالت شان کہ در اَئمہ میداشت بموت عیسیٰ علیہ السلام قائل بود.و ہم چنین ابن حزم رضی اللہ عنہ باہمہ علم و تقویٰ کہ بران شہادتہائے علماء ربانی ست میگفت کہ عیسیٰ علیہ السلام وفات یافتہ است وہم چنین بسیارے از صالحین برہمین مذہب گذشتہ اند.پس من اول آن شخص نیستمکہ این بدعتے برآوردہ باشد و درآن تفردے دارد.و من بیوقت نامدم.آیا وقت مجددان را نمی دانید.آیا نمی بینید کہ آسمان برائے باریدن طیار شدہ است وزمین برائے قبول آن استعدادے پیدا کردہ.و پیش ازین
87 الکلمۃ تمّتْ، فقوموا وانظروا إن کنتم ناظرین.وما کان اللّٰہ أن یخلف وعدہ وإنہ أصدق الصّادقین.وللّٰہ دقائق فی أسرارہ، واستعارات فی أخبارہ، أأنتم تحیطونہا أو تنکرون کالمستعجبین؟ وکم من أفعال اللّٰہ سُترتْ حقائقہا، وشُوّہ وجہُہا وأُخفِیَ حدائقہا، ودُقّقت لطائفہا ودقائقہا، حتی ضلّت عندہا عقول العاقلین، وعجز عن إدراکہا فکر المتفکرین.وأنتم تعلمون أن شأن أقوال اللّٰہ لیس متنزلاً من شأن أفعال اللّٰہ، بل ہما من منبع واحد، وأحدہما للآخر کشاہد.فتلک من الوصایا النافعۃ للطالبین، أن ینظروا إلی أفعال اللّٰہ متأملین، ثم یقیسوا الأقوال علی الأفعال متدبرین، فإن إمعان النظر فی النظائر من أقویٰ مجالب العلوم، وأشدّ وطأً للأوہام التی تعصِف کالسموم، فلأجل ذلک رأینا أن نکتب ہٰہنا بعض أفعال الربوبیۃ، الذی تحیرت فیہا عقول الفلاسفۃ، فأضاع أکثرہم الصراط ہر دو بستہ بودند.پس زمین شگافتہ شد و آسمان کشادہ شد.و وعدہ حق باتمام رسید.پس برخیزید و بہ بینید اگر شما بینا ہستید.و خدا چنان نیست کہ خلاف وعدہ خود کند چرا کہ او از ہمہ راست گویان راست گو تراست وخدا را در رازہائے خود باریکی ہاست و در اخبار خود استعارات دارد.آیا چہ شما احاطہ آن کردہ آید یا ازروئے تعجب انکار می کنید و بسیارے ازکار ہائے خدا تعالیٰ ست کہ حقائق آن پنہان داشتہ شد و روئے شان زشت کردہ شدو باغہائے شان پوشیدہ داشتہ شد و لطائف آن بسیار باریک کردہ شد بحدیکہ عقل عاقلان در آنجاگم شد.و از دریافت آن فکر پژدہندگان فرو ماند.و شما میدانید کہ شان اقوال الٰہی از شان افعال الٰہی کمتر نیست.بلکہ آن ہر دو از چشمۂ واحد بیرون مے آیند ویک دیگر را بطور گواہ ہستند.پس این ذکرے کہ ماکردیم برائے جویندگان وصایا نافعہ است.وبرایشان لازم است کہ در افعال الٰہی بچشم تامل نظر کنند.باز اقوال را برافعال قیاس کنند.چراکہ نظائر رابامعان نظر دیدن چیزے ست کہ بدان ترقیات علم متصورست.ونیز این طریق برائے فرو کوفتن آن وہم ہاکہ ہمچو باد سموم می وزند اثرے قوی دارد پس از ہمین وجہ مناسب دیدیم کہ درین جا بعض آن افعال ربوبیت بنویسیم کہ درآن عقول فلاسفہ را حیرتے پیش آمدہ است.پس اکثرے ازیشان گمراہ شدند
88 وما کانوا مہتدین فمنھا ما یوجد تفاوُت المدارج فی أفعال الرب الکریم، والمولی الرؤوف الرحیم، لأنہ خلق مخلوقہ علی تفاوُت المراتب، فجعل قوما مورد المراحم، والآخرین محلّ المعاتب، وما جعلہم فی شأنہم متحدین.مثلا إنکم ترون امرأۃ تموت بعلہا ویترکہا حاملۃ ضعیفۃ، فترٰی حولہا نکبۃ ومصیبۃً، لا یُوحِّم أحدٌ وِحامَہا، ولا یحصل لہا لطرفۃ عین مَرامُہا، ولا تجد طَمْرًا للارتداء ، ولا تمرًا للاغتذاء ، بل لا یحصل لہا جَوْبٌ تستر بہا صدرہا، فتقصد عاشبۃً و تجعَل کمِجْولٍ جُدَرَہا، تَکنَبُ یداہا من الرحٰی، والمُخَدَّمۃ تُجرَح من شوک الفلا، وتعیش کإماء الظالمین.ثم تَخدُجُ وتلِد صبیًّا نَغّاشًا مقصوعًا أعمی ناقِصَ الخِلْقۃ، بعد شدّۃ المخاض وضِیق النفس والکُربۃ.فیری الصبیُّ مِن ساعۃ تولُّدہ أنواعَ المحن والصعوبۃ، لا یحصُل خُرْسۃٌ لاءُ مِّہ النُفساء ، لیزید لبنہا ویکفی للاغتذاء ، فیمصّ ثدیہا ثم یترک قبل الحَساء.ولما بلَغ أشُدَّہ وبلغ الحُلم وچنان افتادند کہ ہدایت نصیب نہ شد.پس آن کار ہائے خدا تعالیٰ کہ موجب ضلالت ایشان شدند یکے از انہا تفاوت مدارج است.چرا کہ خدا تعالیٰ مخلوق خود را بر تفاوت مراتب پیدا کرد.و قومے را در دنیا مورد رحم و قومے دیگر را محل غضب گردانید.وہمہ دنیا را برحالے واحد نداشت.مثلاً شما مے بینید کہ زنِ میباشد کہ شوہر او برسرش نمی ماند ومی میرد و او را حاملہ ضعیفہ میگذارد.وچنان بیکس مے افتد کہ کسے آرزو ہائے بارداری او برائے او مہیا نمی کند.وہیچ مقصد او او را میسر نمی گردد.وچادرے کہنہ نمی یا بد کہ تابدان ستر خود بپوشد و نہ یک دانہ خرما کہ خوراک کند.بلکہ برائے پوشیدن سینہ خود سینہ بند نمے یا بد.واز زمین گیاہ ناک دستہ گیاہے میگیرد و بدان سینہ خود را می پوشد.و از آسیا گردانیدن ہر دو دست او متورم میشوند.و از خارہائے بیابان جائے خلخال او مجروح میگردد بازیک بچہ ناقص می آورد کہ کوتاہ قد و نابینا و ناقص الخلقت می باشد واین ہم بعد شدت درد و تنگی نفس و سخت بیقراری بظہور می آید.وآن پسر کہ زائیدہ است ازوقت تولد خود محنت ہائے انواع واقسام مے بیند.و مادرش را غذائے زچگان میسر نمی گردد تاشیر زیادہ گردد و برائے خوراک بچہ کافی باشد.پس پستانش رامی مکد و پیشتر زانکہ شکمش سیر شود باز می ایستد.وچون بلوغ را میرسد
89 التامّ وأکمل الأیام، یدخل فی الغلمان والخدام، ویستخدمہ شَکِسٌ زُعْرُورٌ من اللئام، أو یؤخذ قبل البلوغ ویباع کالأنعام؛ ثم یحمِل متاعب الخدمۃ مع شوائب الوحدۃ.وقد یُلجِۂ صفرُ الید إلی کافرٍ سَمّادٍ لطلبِ سَدادٍ، فیأتیہ کسَجّادٍ ولو کان أبا فرعون وشدّادٍ، فیدخل فی خَدَمہ کالعبید من العَوز المُبید.وربما یسبّہ مولاہ ویضربہ، أو یدیر علیہ عصاہ فیُجنُبہ، ویؤاخذہ علی أنہ لِمَ غاب لطرفۃ عین أو فرَّ، وہو إذ ذاک صبیٌّ أبلَہُ لا یعلم الخیر ولا الشر، ویقال مثلا: أَخْثِ فی الثفیّۃ، فإنْ لم یُحْسِنِ الفِعلَ فیلطمون أو یَتَہرَّون علی الخطیّۃ، ولا یرضون بأن یأکل، وأکلُہ یُغضِب المحفلَ ولو أکَل أدنی الطعام وطَہْفَلَ، ویفتّشون النَطَفَ، ولا یوجد مَن عطَف.فیلقَی مِن کل جہۃٍ التَرَحَ والبَرَحَ، ولا تلقیالفَرَحَ، فقد یُضرَب علی سَحْقِ الأبازیر علی المِداک، وقد یُلطَم علی مکثٍ فی الاستتاک.یؤتونہ ما خلَف من کُدادۃِ المطعومات، وجوان می گردد وروزہائے خوردسالی را باتمام می رساند در نوکران و چاکران داخل کردہ میشود.وشخصے نہایت بدخو شریر النفس او را خدمتگار خود میگرداند.یا قبل از بلوغ ہمچو چار پایان فروختہ میشود باز تکالیف خدمت را باکدورتہائے تنہائی می بر دارد.و گاہے تہیدستی او بسوئے کافرے سرکش میکشد تا قوت خود حاصل کند.پس ہمچو سجدہ کنندگان پیش او می آید.اگرچہ او پدر فرعون و شداد باشد.پس ہمچو غلامان در خادمان او داخل میشود.واین ہمہ بباعث درویشئے کہ ہلاک کنندہ می باشد پیش می آید.وبسا اوقات آقائے او او را میزند.وعصائے خود بار بار برو فرو می آرد.بحدیکہ استخوان ہائے پہلوے او رامی شکند.واو را سخت میگیرد کہ چرایکدم از پیش او غائب شد وبگریخت.حالانکہ او دران زمانہ طفلی سادہ لوح است کہ نیک و بد را نمی شناسد و اورا مثلاً میگویند کہ زیر دیگدان اُپلہ بنہ.وچون این کار رانیکو نکند پس برروئے او طمانچہ مے زنند یا ازین خطا بعصا او را مجروح مے کنند.و راضی نمے شوند کہ چیزے بخورد و خوردن او مردمان محفل را در غضب مے آرد اگرچہ ادنیٰ طعام بخورد.و اگرچہ برار زن ہمیشہ کفایت کند.ونخواہد کہ مدت العمر بجزنان ارزان چیزے دیگر خورد و ہردم درعیب گیری او مشغول میباشند.و کسے نمی باشد کہ برو مہربانی کند.پس از ہر سو غم و
90 وبلغ إلی الإیْہات، أو یترکونہ جائعًا کالصّائمین.یشرب من بالوعۃ یجتنِبہا الدواب، ویأکل من متأبّسات یأنَف منہا الکلاب، إذا أجدب المُلک فہو أول الأغراض، وإذا نزل وباءٌ فہو مورّد الأمراض.وإذا بُدِءَ الأطفالُ فہو کعصفٍ مأکول، وإذا أَبْدَؤوا فہو بَقِیَ کمخدول، لا یقدر علی أکل العَضاض، وإذا جُرِحَ فلا یَظہر أریکۃُ الجُرْحِ، ولا یَظہر لحمٌ صحیحٌ بعد القرح.وقد یؤمر لکسح الکِناسۃ، أو لغسل الکاسۃ، فیُضرَب علی خطاء قلیل من الخباثۃ، وقد یُجعَل حَمولۃً لأحمالٍ، فلا تبکی علیہ عینٌ بدمع ہمال، بل یحمل مرارًا أثقالا فیجری دمہ کالحائض، ویُعْدُونہ علی أرض دمثۃٍ کالمُہر تحت الرایض، وقد یُجعَل کالوَجْناء و یُرکَب علیہ، وقد یَہجُد للخدمۃ واللیلُ یتَصَبْصَبُ أو یجثُم أمام عینیہ، وقد یؤمر لِشَقِّ الحطب حتی تَمْجُل یداہ، وتتخاذل رجلاہ، ثم یؤتی الخبز قَفَارًا تکلیف رامے یابد.و روئے شادی نمے بیند.و گاہے او را برسائیدن مصالحہ طعام میزنند چون برسنگ خوب نساید.وگاہے او را ازین سبب زد و کوب میکنند کہ ازار بند را در ازار بتوقفے انداختہ است.و او را طعامے می دہند کہ در دیگہا چسپان میماند سوختہ ومتعفن شدہ وفاسد گشتہ.وہم چنین فاسد شدہ گوشت او را بخوردن میدہند.یا او را ہمچو روزہ دارتہی شکم میگذارند.و ازان جائے دست د روشستن آب می نو شد کہ چارپایان نیز ہم ازان پرہیز میکنند.وآن اشیاء متعفنہ میخورد کہ سگان ہم ازان نفرت میدارند.چون در ملک قحط می افتد پس او اول نشانہ قحط میگردد.وچون و با فرومی آید پس او اول شخصے باشد کہ مورد امراض می شود.وچون طفلان بمرض چیچک مبتلا شوند پس او از چیچک ہمچو گیاہے میگردد کہ از خوردن باز ماندہ وپامال شدہ باشد وچون طفلان بعد از سقوط دندان بار دوم دندان برآورند او ہمچو ناکامے میماند ونتواند کہ چیزہا خورد کہ از دندان توانند خورد.وچون اتفاقاً مجروح شود پس زخم او پُر نمے شود بعد از زخم گوشتے تندرست بیرون نمی آید.وگاہے او را برائے صاف کردن خس و خاشاک یا برائے شوئیدن پیالہ میفرمایند.پس بخطائے اندک میزنند.وگاہے اورا اسپ بار برداری مے کنند.پس ہیچ چشمے برو نمے گرید وہیچ اشکے روان نمے گردد
91 فتبکی عیناہ.یأکل جبیزًا وینفز خفیزًا، وقد یُضرَب ضربا شدیدا، فلا یَجْنَأُ علیہ أحدٌ، بل یَجْفَأُ قِدرُ غضبِہم فیدوسونہ بضَہْدٍ.وہو یشکو کثیرًا، فما ینجَع قولہ فی قلب، بل یُقَدُّ شدقُہ دعابۃً ویُخسؤن ککلب.ویطیر نفسُہ شعاعًا من کل طبع صُلْب، لا یحبہ شقیقٌ ولا الأخیافیّ، ویظنون أنہ ثالثۃ الأثافی.إذا صافی رجلا فما أحبَّ، وإذا زَرَع فما أَحَبَّ، وإن أَحَبَّ فما ألَبَّ، أو بُرِدَتْ أرضُہ أو أَجْبَی زرعَہ ثم بالجوع تَبَّ.وإذا تَخَبَّشَ مالًا من الأموال فیہیج علیہا زوبعۃ الزوال، ثم یأخذہ نَوْجَۃُ الحسرۃ ووجعُ البال، وإذا شکٰی فحُماداہ أن یُضحَک علیہ ویُعزَی إلی الجہل والجاہلین.وأنفَدَ عمرَہ عَزَبًا، حتی اشتعل رأسُہ شیبًا، وإذا تزوّجَ فزَوَّجَ بجالِعَۃٍ مفسدۃ ناشزۃ، کریہ المنظر مسنون الوجہ ونافرۃ، فینفد عمرہ فی نائبات الدہر وتحت أنیاب النکد، وربما یرید أن ینتہر لقلۃ ذات الید، ویری نفسہ فی بارہا برسرش می نہند.پس ہمچو زن حائض خون او روان میگردد.و اورا برزمینے کہ پادر وفرو رودمے دوانند ہمچو کرہ اسپ کہ زیر چابک سوارمے باشد.وگاہے ہمچو ناقہ براو سوار میشوند.و گاہے شب درخدمت میدارند.پس شب دراز یا نصف آن ازچشمان او میگذرد.و گاہے برائے شگافتن ہیزم مامور میشود تاآنکہ دستہائے او متورم میشوند.و پائے ہاسست می ا فتند.باز نانے خشک پیش اومی آرند.پس ہر دو چشم او میگریند.و گاہے بضرب شدید اور امیز نند پس ہیچکس برونمی افتدتا اورا از زد و کوب نگہدارد.بلکہ کفک غضب ایشان بجوش می آید.پس بقہرآن بیچارہ را زیرپا میکوبند.واو بسیار شکا یتہا میکند.لیکن درہیچ دلے سخنش نمے گیرد بلکہ کنج دہن او را باستہزامی شگافند.وہمچو سگ او را ز پیش میر انند.پس از طبیعت ہائے سخت حواس او باختہ می شوند.نہ اورا آن برادرے دوست دارد کہ ازما در و پدر برادرا و باشد ونہ آن برادرے کہ صرف از طرف مادر برادر او گرویدہ.وگمان می کنند کہ او مردے بداست.چون بکسے محبتے کندپس اوبمحبت پیش نمی آید.وچون کشتے بکارد درکشت او دانہ نمی افتد.واگردانہ افتاد پس از مغز خالی میماند یابرزمین او ژالہبارد یا کشت خود را بحالت خامی میفرو شد بازبگر سنگی بمیرد.و چون ازین سود ازان سومالے فراہم می آرد پس بران مال گرد باد نیستی برمی خیزد.باز او ر اگرد باد حسرت میگیرد د ودر دل می آزارد.وچون شکوہ کند پس آخری نتیجہ شکوہ این می باشد کہ مردم برومی خندیدند و
92 فلاۃ عوراءَ ، لا شجرۃ فیہا ولا غذاء ، وکذالک یعیش أخا غمراتٍ فی آلام، ویمرض کل عام، فتارۃ یَرمَد وتارۃ یَطْحَل أو یؤخذ فی زکام، وقد یعروہ مرضٌ فیمتدّ مَداہ، حتی تعرقہ مُداہ، وبالآخر یُنزَع عنہ ثوب المَحْیا، ویُسلَّم إلی أبی یحیٰی.فالآن فکِّرْ ثم فکِّرْ، ثم تذکَّرْ سنن اللّٰہ فی العالمین ألَیْسَتْ فی أفعال اللّٰہ معضلاتٌ لا تُدرَی، وأسرار لا تحصٰی؟ فقِسْ أیہا المسکین أقوالَ اللّٰہ علی أفعالہٖ، ولا تعجب لمعضلاتِ أنباء اللّٰہ وعُضالِہ، ولا تعجَلْ فی أمر مجدّدٍ وصدق مقالِہ، ولا تقُلْ إنی ما رأیتُ علامات أُخبرتُ عنہا، وما شہدتُ أماراتٍ بلغنی أنباؤہا، فإن اللّٰہ قد أتمّ کلماتہ کلہا، وأظہر علاماتہ جمیعہا، ولکن عُمِّیتْ علیک حقیقۃُ أقوال اللّٰہ، کما عُمِّیتْ علیک حقیقۃ أفعال اللّٰہ.وکم مِن أنباء تُکسَی وجودہا بالاستعارات ولطائف الإیماء، وتُنکَّرُ بجاہلیت منسوب کردہ میشود.وخرچ کرد عمر خود را حالت بیزنی تاآنکہ سر او سفید شد ازپیری.وچون زن کرد پس بزنے عقدش بستہ شد کہ بیحیا و فساد انگیز و نافرمان بود.وبا این ہمہ بدشکل دراز رو و نفرت کنندہ.پس این شخص عمر خودرا درحوادث زمانہ و زیر دندان رنج میگذارد.وبسا اوقات ارادہ میکند کہ بوجہ تنگدستی خود را کشد.وخویشتن را در بیابانے مے بیند کہ نہ آب ست دران و نہ درخت و نہ غذا.وہم چنین بحالت مصیبت کشی در درد ہائے خود میگذارد.وبہر سالے بیمار میشود پس گاہے چشم اودرد میکند.وگاہے عارضہ طحال مے گردد ووقت در زکام مبتلا میشود.وگاہے چنان مرضے لاحقش میگردد کہ بطول می انجامد تاآنکہ از کار دہائے آن استخوانش می برآید.وانجام کار جامہ حیات از و میکشد وبسوئے مرگ او ر امی سپارد پس اکنون فکر کن و باز یاد کن سنتہائے خدارا او در جہانیان.آیاچہ درکار ہائے خدا چنان پیچیدہ امور نیستند کہ از فہم بالاتر ہستند.وآیا چنان رازہا نیست کہ شمار کردہ نمی شوند.پس اے مسکین اقوال خدا را بر افعال خدا قیاس کن و از پچیدگی ہائے پیشگوئی خدا تعجب مکن وبر دقیقہ ہائے اوشگفت مدار.و در امر مجدد و صدق مقال او شتاب کاری مکن واین مگو کہ من آن نشانیہا ندیدم کہ ازانہا آگاہی دادہ بودند ونہ آن آثار مشاہدہ کردم کہ مرا رسیدند چرا کہ خدائے عزوجل ہمہ سخنہائے خود را بانجام رسانید وہمہ نشانہائے خود را بظہور آورد.مگر بر توحقیقت اقوال الٰہی پوشیدہ
93 أشخاصہا عند إتمام الوعد والإیفاء ، ویُدقَّقُ معانیہا من حضرۃ الکبریاء ، بما یراد أنواع الابتلاء.ألا تریٰ إلٰی رؤیا الناس، کیف تتراء ی فی أنواع اللباس، وکیف یخفی مفہومہا فلا یتجلی حقیقتہا إلا علی الأکیاس، الذین یعلَّمون العلم من ربہم ولا ینطقون بالقیاس، فأین تذہب من سنن ربّ العالمین؟ وإذا قیل لک فی الرؤیا إن ابنک المیّت سیعود ویرجع إلیک، فلا تحمِلُہا قطّ علی الحقیقۃ أنت ومن لدیک، ولا تمدّ إلی قبرہ عینیک، ولا تحفِرُ لَحْدَہ طمعًا فی حیاتہ، ولا تجادل الناس فی رجوعہ بعد مماتہ، بل تؤوِّل الرؤیا وتقُول: إنّ ابنًا مثلہ یولد لی فکأنہ ہو یَؤُول.فأَنَّی تقلّبُ فی أمر عیسٰی، تلک إذًا قسمۃ ضیزیٰ، وکلٌّ من اللّٰہ الأعلٰی، فلا تعجَلْ کالذین ہلکوا من قبلک وضلّوا وأضلّوا کمثلک.وقد علمتَ أنّ القوم جہدوا جہدہم لیضیعوا أمری ویفرّقوا تفریقًا، فلو کان ماند چنانکہ حقیقت افعال الٰہی پوشیدہ ماند.وبسیار از پیشگوئیہا ہستند کہ وجود آنہا باستعارات ولطائف اشارات متلبس کردہ میشود.ووقت ظہور آنہا قالب آنہارا ہمچو مردم ناشناختہ ظاہر کردہ میشود.ومعانی آنہارا ازحضرت کبریا سبحانہ باریک کردہ میشود.چرا کہ خدا تعالیٰ در آنہا امتحان بندگان خود ارادہ میفرماید.آیا بسوئے آن خوابہانگہ نمی کنی کہ مردم می مینند.کہ چگونہ درانواع و اقسام لباس ہا ظاہر میشوند و چگونہ مفہوم آنہا از نگاہ عوام مخفی میماند.وصرف بر دانایان منکشف میشود.یعنی آن دانایان کہ ازجانب خدا تعالیٰ علم می یابند.وصرف ازروئے قیاس لب نمی کشایند.پس از سنت ہائے خدا تعالیٰ کجا میروی.وہرگاہ کہ ترا در خواب گفتہ شود کہ آن پسر توکہ مردہ بود بازمی آید و عنقریب باز بسوئے تو واپس خواہد آمد.پس آن خواب را ہرگز برحقیقت حمل نمی کنی و چشمان خود سوئے گور پسر خود دراز نمی کنی و قبر او را بدین امید نمی کنی کہ پسر تو ازان زندہ بیرون خواہد آمد وبا مردم دربارہ باز آمدن اور بعد از مردن جنگ نمی کنی.بلکہ خواب خود را تاویل میکنی ومیگوئی کہ مراا ززندہ شدن پسرآن ست کہ خدا پسرے دیگر مانند او مرا خواہد داد.پس گویا ہمان خواہد آمد.پس دربارہ عیسیٰ علیہ السلام چہ گرد شے برعقل تومی آید کہ آنجا این اصول ازدست میدہی کہ آنچہ درغیر عیسیٰ تاویل کنی در عیسیٰ روا نہ داری.این قسمت مبنی برانصاف نیست.حالانکہ ہر د و ا مر از خد ا ئے تعا لیٰ ست.پس مثل
94 من عند غیر اللّٰہ لمزّقوہ تمزیقا، ولیجعلونا کالمعدومین الفانین.إنہم مکروا کل مکر، وہیّجوا عشائر، وتربّصوا علینا الدوائر، فدِیْسُوا تحت دوائر السّوء مخذولین، وأعظم اللّٰہ شأننا، وأعلی برہاننا، وسوّد وجوہ الحاسدین.وقال فرعونُہم: ذَرُونی أَقتُلْ موسٰی، إنی أنا الذی رفَعہ، وإنی أنا الذی سیحُطّہ، ویلقیہ فی جُبِّ المُہانین.وقال ربی: ’’إنی مُہینٌ مَن أراد إہانتَک، ومُعینٌ مَن أراد إعانتک‘‘، فأذاقہ ربی طَعْمَ نَخْوتہ الکبریٰ، وجعَل مکانتہ ہی السفلیٰ، إنّ اللّٰہ لا یحبّ المستکبرین.وتری الناس کیف یرِدون إلینا، وکیف یمنّ ربُّنا علینا، وکیف یأتی اللّٰہ أرضَہ ینقُصہا من أطرافہا، وکیف یأتینا خیار الناس من أقطارہا وأکنافہا، ذٰلک من فضل اللّٰہ لیُری الناس أن أعداء نا کانوا کاذبین.إنہ یُعزّ من یشاء ، ویرفع من یشاء ، لا رادَّ لفضلہ، ألا إن الحق علا، وتَعْسًا للقوم الکائدین المزاحمین.کسانے شتابکاری مکن کہ پیش از تو ہلاک شدند و گمراہ شدند.وامثال ترا گمراہ کردند.و تو میدانی کہ قوم ماچہ کو ششہا کردند کہ تاکار مرا برباد کنند وجماعت مرا متفرق سازند.پس این کار اگر بجز خدا از طرف دیگرے بودے ہر آئینہ طاقت می یافتند کہ این ہمہ سلسلہ را پارہ پارہ کنند ومارا بزاویہ عدم رسانند.ایشان ازہر گونہ فکر ہا کردند وقبائل را انگیختند.وانتظار کردند کہ برما گرد شہا بیایند.پس خود زیر گرد شہائے رنجدہ کوفتہ شدند.وخدا شان مارا بزرگ کرد وبرہان مارا بلند نمود و روئے حاسدان سیاہ گردانید.وآنکہ فرعون ایشان ست اوگفت کہ بگذارید مراتا موسیٰ راقتل کنم منم آن مردے کہ اورا بلند کردہ بودومنم آن مردے کہ باز اور ادر چاہ ذلت خواہد انداخت.وخدائے من گفت کہ من آنکس را ذلیل خواہم کرد کہ ارادہ ذلت تو کند.ومن آنکس را مدد خواہم داد کہ ارادہ امداد توکند.پس خدائے من اورا ذائقہ تکبر او چشانید.وجائے اورا در مقام پائین نہاد.چرا کہ او متکبران را دوست نمی دارد.ومی بینی کہ چگونہ مردم بسوئے ما واپس کردہ می شوند.وچگونہ خدائے ما برما احسان می کند.وچگونہ خدا سوئے زمین توجہ نمود وابتداء از اطراف آن کردہ.وچگونہ مردمان نیک از اطراف زمین سوئے مامی آیند.واین ہمہ از فضل خدا تعالیٰ ہست.تابر مردمان ظاہر کندکہ دشمنان مادروغگو بودند.او ہر کرا خواہد عزت میدہد.وہرکرا خواہد بلندی بخشد.ہیچکس نیست کہ فضل اور ارد تواند کرد.خبردار باش کہ حق غالب شد.وآنان ہلاک شدند کہ برائے مزاحمت انواع مکر
95 وانظُرْ إلی آثار سنن اللّٰہ فی أفعالِہ، أتفہَمُ معضلا تِہا أو تحیط حِکَمَ کمالِہ؟ فما لک لا تہتدی مِن طَرْزِ أفعالہ إلی طرز أقوالہ، وتختار سبل الغاوین؟ أما تریٰ أن عبدًا قد یُبتلی بالنائبات، ولا یُدری مِن ظاہرِ سَمْتِہ أنہ من الفاسقین والفاسقات، فالآفات تنزّل علیہ کالعوائر، أو کالسہم العائر، ویتیہُ کالمستہام الحائر، وکان فی وقتٍ یملِک المال النفیسَ، والآن یُعَدُّ مِن عُصبۃ مَفالیسَ، حتی یبدو بادِیَ اللُبانۃ، بالِیَ الکِسوۃ، وکان یقول: أنا أکثر مالًا وولدا، وأُعطیتُ التنعم والمَلَدَ، وکان یقول: إنّی من الصالحین، وجحیشٌ وشَیحانُ وفاتِکٌ وأمین، وکان یدّعی أن لہ دخل عظیم فی الحدیث والقرآن، وأنہ جمع فی نفسہ أنواع العرفان، فأتی أمرُ اللّٰہ وقضاؤہ، ونزل علیہ بلاؤہ، فذہب بسمعہ وأبصارہ، وختم علی قلبہ وجعلہ أوّل الجاہلین.استعمال کردند.وآن نشانہائے سنت خدا کہ درکار ہائے اُو مشہود اند ملاحظہ کن.آیا پیچیدگی ہائے آنرامے فہمی یابر حکمتہائے آنہا احاطہ توانی کرد.پس چہ پیش آمد ترا کہ از طرز افعال خدا طرز اقوال خدا رایقین نمی کنی وراہ گمراہان اختیار مے کنی.آیا نمی بینی کہ گاہے بندہ درحوادث مبتلا مے شود.وازظاہر روش او معلوم نمی شود کہ اواز بدکاران ست.پس آفتہا ہمچو ملخ برو نازل می شوند.یا مانند تیرے کہ اندازندہ آن معلوم نیست و در و قتے مالے نفیس را مالک بود.و اکنون از گروہ مفلسان شمارمے شود.تاآنکہ ببداہت آشکارا مے شود کہ حاجتمندیست کہنہ جامہ.وپیش زین میگفت کہ من بکثرت مال و اولاد میدارم.ومرا نعتمہا و اقبال تابان دادہ اند.ومیگفت کہ من از مردمان نیکو ہستم.مستقل ارادہ بیدار طبع و امینم.و دعویٰ میکرد کہ مرا در حدیث و قرآن کریم دخلے عظیمست.و انواع معرفت در نفسخود جمع میدارم.پس قضا و قدر خدا و بلاء او نازل شد.و گوش و چشمان او را ربود و بردل او مہر نہاد و او را صدر نشین جاہلان کرد.
96 فاشتہر بحمقٍ فاضح، وجہل واضح، وأُخرِجَ من الجنۃ التی کان فیہا کالمکرمین.فصارت لہ السفاہۃ والذلۃ، والجہل والنکبۃ، کالمواریث المعیَّنۃ والحصص المفروضۃ المسلَّمۃ، وسقَط من سماء العروج کالملعونین.ویعلم الناس أن مصیبتہ جلّتْ، ونوائبہ عظمتْ، ثم یمرّون بہ مستہزئین.وہو یُدبِّر فلا یقدر علی أن یفرّ من قدر اللّٰہ ذی الجلال، ولو فرّ علی لاحقۃ الآطال، وربما یتبصّر کالجَذع ویُقدِم کالقارح، فیجیء قدرُ اللّٰہ ویطرحہ کالصّبیّ فی البارح، فیرتعد کلَّ وقت کالیَراع، ویتحرک کاللُّعاع، ویفکّر أزیدَ من القدر اللازم، ثم لا ینجو من الہمّ الہاذم، ویبقی کالخائبین.ثم یبدء لہ أن یقطع المسافۃ النائیۃ لیعالج الآلام القضائیۃ ویکون من الفائزین.فیقال مثلا إن أمیر ’’کابلَ’’، یربی العلماء ویشابہ الوابلَ، فیفرح فرحًا پس او بحمق رسوا کنندہ وبجہالتے مشہور شد کہ دران ہیچ خفائے نیست.و ازان بہشت بیرون کردہ شد کہ ہمچو عزت یا بندگان دران داخل بود.پس بے خردمی و ذلت وجہالت وبدبختی مثل مال موروثی اورا شد کہ بحصہ کشی در حصہ او آمد پس از آسمان بلندی ہمچو ملعونان فرو افتاد.و مردم میدانند کہ مصیبت او بزرگ است.وحادثہ او بزرگ است.باز استہزاء مے کنند و او تدبیر مے کند و باز از تقدیرالٰہی نتواند گریخت.اگرچہ بر اسپان باریک کمر بگریزد.وبسا اوقات ہمچو اسپ دو سالہ زیر کی ہامی نماید و ہمچو اسپ جوان کامل العمر پیشقدمی مے کند.پس تقدیر خدا مے آید و اورا در ہوائے گرم ہمچو طفلے می اندازد.پس ہر وقت ہمچو بزدلے میلرزد وہمچو سبزہ گیاہے حرکت می کند.وزیادہ از قدر لازم فکرمی کند.باز از غم پارہ پارہ کنندہ نجات نمی یا بد.وہمچو نومیدان میماند.باز در دلش مے افتد کہ سفر دور دراز کند.تاتکالیف قضاء وقدر را علاج تواند کرد.و از مراد یابان گردد.پس مثلاً اورا میگویند کہ امیر کابل پرورش علماء می کند.وہمچو باران بزرگ ست.پس این شخص بشنیدن
97 شدیدًا کالسکران، ویقصد ’’کابل‘‘ مع بعض الإخوان، لیوطنوہ أمنعَ جنابٍ، ویُمطَروا دراہم کسحاب، وہو یجعل ابنہ الذی ہو سرُّہ رفیقَ عَتادہ، خوفًا من ارتدادہ، ولم تزَلْ تعانی عینُہ السُّرَی، وتُعاصی الکُرَی، فیصِل کابل بشق النفس وجہدِ المُہْجۃ، بعد مکابدۃ أنواع الصعوبۃ، ویلقی بعضَ العَمَلۃِ، ویصافی بالنفاق والمداہنۃ، ویخفی مذہبہ خوفًا من الحرمان، أو الہوان من أیدی ’’عبد الرحمٰن‘‘.وکذٰلک تُسوِّل لہ النفس مِن عُسْر المعیشۃ، فیسجُد تواضعًا لکل ذوی الثروۃ، ویخرّ أمام أرکان الحکومۃ، وحینئذ یصدُق فیہ ما قیل فی أہل التزویر: ’’بِءْسَ الفقیر علی باب الأمیر‘‘.فالحاصل أنہ یصدَع عَمَلۃَ الأمیر بالمحبّۃ، ویتبخبخ بالصُّحبۃ، ویُوجی أقدامُہ إلٰی قصر الأمیر غربۃً، این سخن ہمچومستان شادان وفرحان میگردد.وباچند رفیقان خود قصد کابل میکند.تاکہ اورا در بلند مرتبہ جادہند وہمچو ابر روپیہ ہا بارانند.واو پسر خودرا کہ راز طبیعت اوست رفیق آمادگی خود میکند.ازین اندیشہ کہ پس از رفتن او مرتد نشود.وہمیشہ چشم اوشب روی رامی بیند.وخواب راترک میکند.پس بمشقت نفس و کوشش جان تابشہر کابل میرسد.وبعد برداشتن مصیبت ہائے گونا گون درآن شہر می آید.وبہ بعض عملہ امیر ملاقات میکند.واز روئے نفاق و مداہنہ دوستی ظاہر می نماید.و مذہب ترک تقلید خود را از اندیشہ محرومی از انعام مخفی میدارد.یا ازین اندیشہ کہ امیر عبد الرحمن اورا در شکنجہ ذلت نہ کشد.وہم چنین اوبباعث تنگی معیشت این کار ہا برائے او می آراید.پس برنیت تواضع ہر تونگرے را سجدہ میکند.وپیش ہر رکن حکومت بزمین مے افتد.و درین وقت برو آن مثال صادق مے آید کہ بدترین فقراء آن ست کہ بر در امیر باشد.پس حاصل کلام این ست کہ او باعملہ امیر بمحبت می آمیزد.ودرصحبت شان کشادہ دلی ظاہر میکند.وپاہائے خود راتا محل امیرمی ساید
98 فلا یقول لہ أحدٌ ارکَبْ مطیّۃً، أو تسلَّمْ عطیّۃ، ویسأل إلحافًا کالشحّاذین.وینکِّر شخصَہ ویلفِّع وجہہ، لئلا یؤخذ کالمجرمین.ویکون لہم أطوعَ مِن حذاۂم، وأفنٰی فیہم من غذاۂم، ویسلّم علیہم تحیۃ الخادمین.ثم یقودونہ إلی حضرۃ الأمیر، ویذہبون بہ کالأسیر، فیخرّ أمامہ کالسّاجدین، ویثنی علیہ قائلا: یا أیہا الأمیر الأکرم، والسلطان الأعظم، مسّنی و أہلی ضرٌّ، وبعمرک إنّ عیشی مُرٌّ، وجئتک من دیار بعیدۃ، بمصائب شدیدۃ، فتصدَّقْ علیّ إن اللّٰہ یجزی المتصدقین.ویخاطبہ الأمیر بلسانٍ ذَلق، ولا یُریہ رائحۃ مِن مَلَقٍ، ویقول اجلِسْ ویتکلم بہ غضبان، فیظنّ المسکین أنّ أجلہ قد حان، فہناک لا یبقی إیمانہ بالألطاف الرحمانیۃ، ویکاد یخرج بولہ من الہیبۃ السلطانیۃ، وکذٰلک یخزی تااظہار غربت کند.پس ہیچکس نمے گوید کہ سوار شو یا چیزے از عطیہ بگیر.وہمچو گدایان باصرار سوال مے کند و خویشتن رابہ ہیئت ناشنا ساں ظاہر میکند و روئے خودمی پوشد تاکہ ہمچو مجرمان گرفتار نگردد.وایشان را از کفش ایشان زیادہ تر فرمانبردار میشود.واز غذائے ایشان زیادہ تر در ایشان فنا میگردد.وبرایشان بران طور سلام میکند کہ خدمت گاران وچاکران می کنند.باز اورا بسوئے درگاہ امیر میکشند.وہمچو ا سیرے می برند.پس پیش او مثل سجدہ کندگان می افتد.وبرو بدین طرز ثنا میگوید.کہ اے امیر بزرگتر و بادشاہ کلان تر مرا و عیال مرا فقر و فاقہ رسیدہ است.وقسم بزندگانی تو کہ زندگی من تلخ ست.واز ملک دور دراز بخدمتت رسیدم ودرین سفر مصیبت ہا کشیدم.پس برمن صدقہ کن کہ خدا صدقہ کنندگان را دوست مے دارد.پس امیر او را بزبان تند مخاطب میکند.وبوئے از نرمی اورا نمی نماید.ومیگوید بنشین وبصورت غضبناک با او مکالمہ میکند.پس این مسکین گمان می کند کہ وقت مُردن او در رسید.پس درین وقت ایمان او بر الطاف رحمانیہ نمی ماند.ونزدیک میگردد کہ پیشاب او از ہیبت سلطانیہ بیرون آید.و ہم چنین
99 اللّٰہ عَبَدۃَ المخلوقین.ثم یخرج من بیت الأمیر، ویستیقن الأمیر أنہ أحد من أہل التزویر، فلا یُؤوَی إلیہ کرجال متّقین.وأمّا ذالک المغرور الجہول، والسفیہ المخذول، فیظن أن العطایا العظام ستسلَّم إلیہ، ویکرمہ الأمیر ویکون لہ مکانۃ لدیہ، أو یُدخل فی المقرّبین.فبینما ہو فی نسج ہٰذہ التخیّلات، وتغییر اللباس کالصّائد والصّائدات، یطّلع بعض المتوسّمین علی شِقاقہ، ویُخبَرون عن فطرتہ وطریق نفاقہ، فیفاجۂ داءُ الإشقاق، ولا یسری الوسن إلی الآماق، ویظن أنہ من المقتولین.ویُوجِس فی نفسہ خِیفۃً علی خیفۃ، بما یری رعب الأمیر وطریق عقوبۃ، فتکاد تزہق نفسہ ویسقط کجیفۃ، أو یغمیٰ علیہ کالمفسدین الخائفین.فیفر ویرتحل بالمُدلِجین المُجِدّین، ویحسب حیاتہ صِلۃً من أمیر المسلمین.أو یعطیٰ لہ خدا بندہ پرستان را ذلیل میکند باز آن شخص ازخانہ امیر بیرون کردہ میشود.وامیر را یقین میشود کہ او یکے از دروغ آرایان ست.پس ہمچو پرہیزگاران نزد او جانمے یابد.مگرآن مغرور و نادان و ابلہ و گمنام.گمان مے کند کہ عنقریب عطیہہائے بزرگ سپرد او خواہد کرد.وامیر اعزاز او خواہد کرد و او را نزد او مرتبہ خواہد بود و او را در مقربان خود داخل خواہد کرد.پس او ہنوز دربافتن ہمین خیالہامے باشد.وہمچو شکاریان در تبدیل لباس مشغولیہا دارد.کہ بعض دانایان برکینہ مخفی او مطلع میشوند.واز فطرت و طریق نفاق او خبرمے یابند.پس او را بیماری خوف ناگاہ مے گیرد و خواب از چشمان اومے رود.و گمان میکند کہ عنقریب از کشتگان ست و در دل خود خوف برخوف مے کند چرا کہ بچشم خود رعب امیر وطریق سزائے اورا مے بیند.پس نزدیک است کہ جان او بیرون آید ومثل مردارے بیفتد.یا او را مانند مفسدان ترسندہ غشی افتد.پس میگریزد و باشب روندگان سرگرم کوچ میکند و زندگی خودرا انعامے از امیرمے انگارد.یا اند کے از انعام
100 قلیل إنعامہ، فلا یقِلُّ بہ شیء مِن إصرامہ، ولا تفیدہ سجدتُہ ولا جہدُ اصلخمامہ، بل یعرف أنہ لیس أہل إکرامہ، فلا یظلمہ الأمیر النحریر، بل ہو یظلم نفسہ فلا ینفعہ البحر ولا الغدیر، فیقصد دارہ مخذولا وملوما، ومریضا محموما، ویُظہِر أنہ رجع فائزًا مقبولا، مع أنہ رُدَّ فی الحافرۃ، ورجع بالکَرّۃ الخاسرۃ، ولکن یستر أمرہ خوفا من اللاعنین، وکذٰلک ینفد عمرہ کالمصابین.ثم یرجع من تلک البلدان، ویصبر ملیًّا من الزمان، وبعد برہۃ یقصد أناسًا آخرین، فلا یری وجہَ خیر من جنابٍ، ویتردّد من باب إلی باب، و یخسأ ککلاب، وتترامیٰ بہ مرامی الإفلاس، إلٰی فلوات الہوان والانتکاس، ویجلأ من أرض إلی أرضٍ، ویکابد محن السفر لعَرَضٍ، حتی یصیر ابنَ کلِّ تربۃ، وأخا کلِّ غربۃ، یقطع کل واد، ویشہد کل نادٍ، ثم یرجع بجَرْدٍ او می یابد.پس بدان اندک چیزے از درویشئ اوکم نمی شود.و او را سجدہ او فائدہ نمی دہد و نہ کوشش برپا استادن اومفید افتد.بلکہ این ثابت میشود کہ اوبرائے اکرام امیر اہلیتے ندارد.پس امیر دانا ہیچ ظلمے برونمی کند بلکہ اوخود ظالم نفس خود می باشد.پس اورا نہ دریا نفع بخشد نہ غدیر سود مند آید.پس خانہ خودرا قصد مے کند بحالت گمنامی وملامت زدگی وبیماری.وظاہر میکند کہ او درحالت کامیابی واپس آمدہ است.باوجودیکہ او ہم چنان کہ رفتہ بود تہیدست می آید.مگر خوف لعنت کنندگان امر خود را می پوشد.وہم چنین عمر خودرا درمصیبتہا میگزراند.باز ازین دیارہا مے گردد.ولختے از زمانہ صبر مے کند وپس از مدتے قصد ملاقات مردمان آخر میکند.لیکن از ہیچ درگاہے روے نیکی نمے بیند واز درے سوئے درے میرود.وہمچو سگان راندہ میشود.وافلاس وتہیدستی او را سوئے بیابانہائے ذلت وسرنگونی مے اندازد.واز زمینے سوئے زمینے جلا وطن میکند.وبرائے متاعے محنتہائے سفر میکشد تاآنکہ ہرخاک راہمچو پسرے میگردد.وہر غربت راہمچو برادر میشود.ہربیابانے راقطع مے نماید.وہر مجلسے را حاضر میشود.باز بہ تن برہنہ و روئے
101 ووجہٍٍ کرمادٍ، ومرضٍ جلادٍ کالخائبین.لا یری یومًا مُسلِیًا عن الأشجان، ولا قومًا مواسین کالأعوان، ولا یأتیہ الحِمام، لینقطع الآلام، فیلعَن بَخْتَہ کالملعونین، وکذالک یعیش بشِنْشِنۃِ الشحّاذین والسائلین إلحافًا والمعترّین.یأکلہ الإفلاس، ویدوسہ الانتکاس، حتی یذہب عقلہ ویختلّ الحواسّ، و یرید أن ینبُط فیغیض، ویسعی أن یصعد فیتصدی لہ الحضیض، و لا یزال یسمع لعن القوم، ویوخزونہ بأسنّۃ اللوم، وربما یضربونہ علٰی ہفوتہ، مغاضبین علی ما یخرج من فوہتہ، ویُضِبّون علیہ بأدنی العثار، وکادوا أن یقتلوہ بالسّیف البتّار، ولا یعُدُّون عن اللَذْع والقَذَع، ولا یذیقونہ رائحۃ کرم الطبع، بل ربما یضربونہ بالنّعال، أو العصیّ والحبال، حتّی یجد ما یجد الحائر الوحید، ویری کل ما کان عنہ یحید، ویقول یا لیتنی ہمچو خاکستر.و مرض مہلک واپس مے آید.آن روزے را نمے بیند کہ ازغمہا دور کنندہ باشد وآن قومے را نمی بیند کہ معاون وغمخوار باشند.و اورا مرگ نیز نیاید تاہمہ دردہا منقطع شوند.پس ہمچو زیان کاران برطالع خود لعنت میفرستد.وہم چنین بسیرت گدایان مے زید.وہمچوآن سائلان و محتاجان کہ درپے شدہ چیزے میگیرند عمر بسر میکند.تہیدستی اورا میکشد.و نگو نساری اورا بپامیکوبد.تا بحدے کہ عقل او خلل مے پذیر دو حواس او مختل می گردند.و ارادہ میکند کہ ازجائے آب برون آید.پس آن آب فرو میرود.وکوشش میکند کہ با لا تر رود پس نشیب پیش می آید.وہمیشہ لعنت قوم میشنود.و نیزہ ہائے ملامت در اومی سپوزند.وبسا اوقات برلغزشے اورا میز نند بو جہ سخنے کہ از دہن اوبیرون آمدہ باشد و بادنی لغزش بسیار ملامت مے کشد.و نزدیک گردد کہ باتیغ بران او را قتل کنند.واز سوختن دل و دشنام دادن باز نمی مانند.وبوئے بخشش طبع نمی چشانند بلکہ بسا اوقات او را بکفش میزنند.یا بچوب ہا و رسن ہا او ر ا می کو بند تاآنکہ آن می یا بد کہ حیرت زدہ تنہا مے یا بد.وآن ہمہ بلا ہامے بیند کہ ازانہا کنارہ می کرد.ومی گوید کہ کاش
102 مِتُّ قبل ہٰذا وما مسّنی الخزی المبید.فیضطر إلٰی أن یختار البَین المطوِّح، والسّیر المبرِّح کالمصابین.فیمشی راجلا، ویرکض عاجلا یغتمد اللَّیلَ، ویلِج السَیل، وربما یتراء ی لہ شَبَحُ مرادٍ، أو یدعوہ أحد بإظہار ودادٍ، فیفرح ویُعدی إلیہ نِضْوَ عَتادٍ، بِنآدٍ واستیساد، ویُنضِی عِرْباضَہ بوَقْدٍ۱ وذَمیلٍ، وإجازۃِ مِیلٍ بعد میل، فبالآخر یلقی الخسران و الحرمان، ویظہر أن الداعی قد مان، ویتحقق أن سفرہ ابتلاء ومحلّ الاستہزاء ، والأمل باطل وخیالٌ کتخیّلاتِ ’’نزول الماء‘‘، والمآلُ خسران مع شماتۃ الأعداء.وبالآخر تُشیّبہ النوائب، ویحضُرہ الأجل الغائب، فیموت وہو ہِمٌّ، وعلیہ ہدمٌ، فلا یبکی باکٍ عند رفع جنازتہ، ولا تذرف عین علی فُرقتہ، ویرتدّ أبناؤہ بعد موتہ من الدین، ویتنصّرون من قبل ازین مردمے ومرا رسوائی ہلاک کنندہ مس نمی کرد.وبیقرار میشود برائے اینکہ پسند کند جدائی دور اندازندہ را و سیر اندوہگن کنندہ راہمچو مصیبت زدگان.پس میرود حالانکہ پیادہ است.وبجلدی پامی جنباند.درمی آید شب را وداخل میشود سیل را.وبسا اوقات ظاہر میشود او را قالب مراد یا اورا کسے باظہار محبت سوئے خود میخواند پس خوش میشود ومی دواند سوئے اوشتر لاغر آمادگی را و می دود برنج کشیدن ودلیری نمودن بزودی و نرم روی و بقطع میل بعد از میل وبانجام کار زیان کاری و محرومی را می بیند.وظاہر میشود کہ آنکہ اورا خواندہ بود دروغ گفتہ است.وثابت میشود کہ سفر او اورا ابتلائے پیش آمد.وامیدے کہ داشت باطل است وخیال کامیابی ہمچو خیالات نزول الماء ست.وانجام بزیان مال معہ بدگوئی و استہزاء دشمنان ست.وبالآخر حوادث او را پیر می کنند.وموت حاضر میشود.پس درحالتے میرد کہ او پیریست وبروجامہ کہنہ است.پس ہیچ گرنیدہ بروقت برداشتن جنازہ اونمی گرید تذرف عین علی فُرقتہ، ویرتدّ أبناؤہ بعد موتہ من الدین، ویتنصّرون و ہیچ چشمے برو اشک نمی بارد.و پسران او بعد موت او مرتد میشوند و نصرانی میشوند
103 ویلحقون بالشیاطین.ویملک شرکاؤہ دارہ الخرِبۃ، ولا یُہْدُون إلیہ إلا اللعنۃ، فیُقطَع اسمہ من الدنیا، ویکون مآل أمرہ خسران الدنیا والدین، و سواد الوجہ فی الدارین، والبعد من رب العالمین.ورجل آخر وُلد فی بیت الشرف والکمال، والعزۃ والإقبال، ما مسّ أبویہ الإفلاسُ، وما عَلِمَ ما البأس وخرَّجہ الأکیاسُ، و یہتزّ الخدام عند حرکۃ شفتَیہ، ویثِبُون لتحصُّل ما أحبَّ لدَیہ، وتری جَفْرَہ مُنبِطا، وقَفْرَہ مُعْشَوشِبًا، ومِن کل فعلٍ یُترَع کِیْسُہ، و تمیسُ خَنْدَلِیسُہ، ویعیش حمیدًا ویحسبہ الناس سعیدًا ومن الصالحین.بل ربما تجد رجلا فاسقا قویمَ الشاط جمومَ النشاط، یمیس فی حلل المِراح، و باشیاطین مے آمیزند.و شریکان مالک خانہ خراب او میشوند.و بجز لعنت ہیچ ہدیہ سوئے اونمی فرستند.پس نام او از دنیا بریدہ میشود.و انجام کار زیان دنیا و دین می باشد.و نیزسیاہی روبہر دوجہان درحصہ او می آید.و از خدا دور کردہ مے شود.و مردے دیگرست کہ درخانہ شرف و کمال پیدا شد.و در حریم عزت و اقبال وجود یافت پدر و مادر او را گاہے افلاس نزدیک نیامدہ و ندانست کہ سختی چہ باشد.و دانشمندان اورا ادب آموختہ و بروقت لب جنبانیدن چاکران او مے دوند.و برائے تحصیل مراد اومے دوند.وبہ بینی کہ چاہ او منبع آب و زمین او بکثرت گیاہ می دارد.و از ہرکارے کیسہء او پُر میشود.و شتر ناقہ او بناز می رود.و زندگی مے گذراند درحالیکہ تعریف کردہ میشود.ومردم اورا سعیدمے پندارند.واز صالحان می انگارند.بلکہ بسا اوقات مردے فاسقے راخواہی یافت کہ مضبوط وکثیر النشاط می باشد.درلباس خوشی می خرامد
104 ولا یخطی سہمہ من غرض الأفراح یُسفَّد لہ کل لحمٍ غریضٍ علی السَّفود، ویُشوَی لہ الفراریج مع الرغیف المثرود، وہو یأبِز کأُبوزِ الظباء ، وقد یجد کنْزا فی الجَہْراء، ویصید أناسًا کالدواب بإراء ۃ ملامح السراب، ومع ذالک لا یری البأساء والحُوبۃ، ولا یکابد الصعوبۃ، ویعطَی حظا کثیرا من رؤیۃ غِیدٍ، وسماعِ أغارید، وأموال وبنین، وأملاک وأرضین، وغلمان وخادمین.مع أنہ یسارع فی السیّئات، ولا یتوب من الممنوعات، ولا یأخذ فی کُسْعِ الہنات بالحسنات، وتَلافِی الہفوات قبل الوفاۃ، بل یجترء علی المنہیّات، ویجاوز حدود اللّٰہ کالغالین.ولا یتقی بل یتبرأ من ملاقاۃ التُقاۃ، ولقاء الثِقات، ومداناۃ أہل الدیانات، بل یرغب فی مُقاناۃ القَینات، ومعاناۃ الفاسقات، ولا یسمع نصح الأجانب ولا الأقارب، بل یأبِر وتیر او از نشانہ خوشی خطا نمی کند.از گوشت نرم برائے او برسیخ کباب طیارمے کنند.وچوزہ ہائے مرغ ہا بہ ہمراہ کلچہ در شوربا شکستہ بریان میکنند.واو ہمچو آہوہامے جہد.وگاہے گنجے در بیابانے مے یابد ومردم راہمچو چارپایان شکار میکند.و درخش سراب مینماید.و باوجود این ہیچ تنگی وتکلیف را نمی بیند وسختی رانمے بر دارد واز زنان نرم وسرود گویان بہرہ بسیار دادہ می شود ونیز اورا مالٍ وپسران واملاک وزمین ہا میسرمی آیند.و غلامان و نوکران میباشند.باوجودیکہ اور دربدی ہامے دود واز ممنوعات توبہ نمی کند.و درین فکر نمی باشد کہ بدی ہارا بہ نیکی ہادورکند.وقبل از وقت لغزشہائے خود را تدارک نماید.بلکہ برممنوعات دلیری می کند.و از حدود خدا تعالیٰ ہمچو غلو کنندگان تجاوز میکند.وپرہیز گاری اختیار نمی کند.بلکہ ازملاقات پرہیز گاران بیزار می باشد واز قرب اہل دیانت نفرت می کند.بلکہ در آمیزش زنان سرود گویان رغبت می نماید و برائے دیدن زنان بدکار خواہش میکند.و نصیحت نزدیکان و بیگانگان نمی شنود.بلکہ نصیحت کنندگان
105 الناصحین کالعقارب، ولا یلتفت إلی وصایا الحیّ، بل یصول علیہم کالحَیّ، ولا یَفیء مَنْشَرُہ إلی الطیِّ، بل یزید کل یوم فی إثم مبین.ویرکَب کلَّ فرسٍ أَوْظفۃِ القوائمِ ہیکلٍ، ویسبِق کلَّ ألدَّ ذی حَنَق ویشابہ العَنْدَل، ویُنفِد أیام العمر کخلیع الرَسَن مدیدِ الوَسَن، یباعد دارَہ عن دار أہل الصلاح، ویثافن بأہل الفسق والطلاح، لا یحلّ مسجدًا بل یطلب عَسْجَدًا، ویمیل * حاشیۃ: قال بعض البراہمۃ إن التفاوت مِن أعمال النشأۃ السابقۃ.واعلم أنہم قوم یعتقدون بالتناسخ نظرًا علی تفاوت مراتب المخلوقات، ویقولون إن أنواع الحیوانات قد حدَثتْ من أنواع الحسنات والسیئات، وأصرّوا علی ہذا وجاء وہ مُوعِبین.وأنت تعلم أنّ ہذہ الأوہام ما ظہرت من منبعِ بصیرۃ، ولا من لُجّۃ معرفۃ صحیحۃ، وما قامت علیہا حجۃ من حجج قاطعۃ، بل تشبّثوا بہا عند عَمَہٍ راہمچو کژو مہانیش مے زند.وسوئے وصیتہائے قبیلہ التفات نمی دارد.بلکہ ہمچو مارے برایشان حملہ مے کند وبازنمی گردد نامہ پراگندہ او سوئے پیچیدن.بلکہ ہر روز درگناہ ترقی مے کند.وسوار میشود براسپانے کہ دست وپائے شان سبک اند و طویل و عریض اند.واز ہر خصومت کنندہ شدید العداوت قدمش پیشترمے باشد ودر بدن شتر بزرگ سررا میماند.و ایام عمر خودرا ہمچو رہا کردہ رسن شہوات و درازی خواب میگذر اند.وخانہ خودرا ازخانہ اہل صلاح دور میگرداند.وبا اہل فسق وبدبختی مے نشیند.وہیچ مسجدے را اندر نیاید.بلکہ زرمی طلبد.وسوئے بعض براہمہ می گوئیند کہ تفاوت مراتب مخلوقات بباعث اعمال پیدائش سابقہ است.وبدان کہ این قو مے ہست کہ اعتقاد تناسخ دارند.بدین خیال کہ تفاوت مراتب مخلوقات رابجز این وجہے نیست.ومیگویند کہ انواع جانداران از انواع نیکی ہاوبدی ہا پیدا شدہ اند وبرین اصرارمے کنند واتفاق میدارند کہ ہم چنین ست.وتو میدانی کہ این اوہام محض اند.واز چشمہ بصیرت ظاہر نشدہ اند.ونہ از دریائے معرفت صحیحہ بیرون آمدہ اند.وہیچ حجتے برآن ہاقائم نشدہ است.بلکہ این مردم در وقتِ حیرت و
106 إلی ناجُودٍ وباطءۃٍ، مملوّۃٍ من صہباء محمرّۃ، فی حَلَقۃ ملتحمۃ، ونظّارۃ مزدحمۃ.یتخذ دنیاہ صنمًا ففیہ یرغب، وبہا یکلَف وعلیہا یکلَب، وفیہا یتنافس فی کل حین، ولا یتزوّد من العقبیٰ والدّین.یذہب عمرہ فی اکتناز الذہب، وتطلَّعَ الشحُّ علی قلبہ کذات اللَّہب، ومِن کلِّ طرف یعطِف علیہ القلوبُ، ویُسنَّی لہ المطلوب، ولا تعطَّلُ قدورہ ولا جِعالہا، ولا ینصاع أیامہ ولا إقبالہا، ویُذَبُّ پیالہ ہائے شراب می خمد.ومیخواہد کہ پیالہ ہائے از شرابے سرخ اورا دادہ باشند.وشراب را در رفیقان یک جہت ودرانبوہ مرد مان می نوشد.دنیائے خو درابتے میگیرد.پس دران رغبت میکند وبد وحریص می باشد وبرو آرز و مند میماند وہر وقت برو فخر میکند.وہیچ توشہ از عقبیٰ ودین نمی گیرد.ہمہ عمر او در فراہم آور دن زرمیرود.وآرزومندے دنیا بردل او ہمچو آتش افروختہ مشتعل میباشد.و از ہر طرف دلہا بر و مہربانی میکنند.ومطلب اوبرائے او آسان کردہ میشود ودیگہائے او معطل کردہ نمی شوند ونہ دستمالہائے آن دیگہا بیکار میماند و روز ہائے او ازوے وحیرۃ ، وعدمِ الوصول إلی حقیقۃ أصلیۃ، ولغوبِ الفکر وقلّۃ درایۃ، وما وسرگردانی.ومحرومی ازحقیقت اصلیہ.ونیز بباعث فرو ماندن فکر و کمی درایت بدین اوہام استطاعوا أن یقیموا دلیلا علیہا، بل أنت ستعلم أن الدلائل قامت علٰی ما خالفہا کما لا یخفی پنجہ زدند.وطاقت ند اشتند کہ بران دلیلے قائم کنند.بلکہ تو عنقریب خواہی دانست کہ دلائل برمخالف وہم شان علی المستبصرین.وکان علیہم أن یُثبِتوا أنّ الروح الذی انتقل من الدنیا بالیقین قائم شدہ اند.واین بارثبوت برگردن شان بود کہ ثابت کنند کہ روحیکہ ازین جہان رفتہ بود.کدام رجع إلیہا ثانیًا، ورآہ حزبٌ من الشاہدین، فما أتوا بالشہداء کالصادقین گواہان ہستند کہ روبروئے شان باز آمد.پس ہیچ گواہے پیش نکردند.وکفاک من وجوہ بطلان ہذہ العقیدۃ الفاسدۃ، أنہا یخالف نظام الرحمانیۃ وترا بربطلان این عقیدہ این دلیل کافی ست کہ این عقیدہ ہا بنظام الہیہ مخالف افتادہ اند.
107 جُحالُہ، ویبارَک لہ زُلالہ، لا یری یوم الحرمان فی النعماء ، ولا ینحو بَخْتُہ نحو الانکفاء ، مع أنہ ینفد عمرہ فی الفحشاء.لا تسقط علیہ صاعقۃ، ولا تلدَغہ حیّۃٌ، ولا یُمحیٰ اسمہ من الأرضین، بل یکثر أولادہ، ویجمع حولہ أحفادہ.یملک الصدرَ فی کل ناد محشود، ومحفل مشہود، ویُحسَب مِن بدور المحافل، ورؤوس الأسافل، ویقوم خَدَمُہ عند رأسہ، حتی یہبّ من نعاسہ، نمی گریزند و نہ اقبال آن روزہا.و زبنورہائے او دفع کردہ میشوند.و درآب شیرین او برکت داشتہ می آید.در نعمتہائے خود روز محرومی نمی بیند ونہ طالع او سوئے برگشتگی قصہ میکندباوجودیکہ اوعمر خود در بدکاریہا میگزراند.نہ بر وے صاعقہ می افتد.و نہ او را مارے میگزد.و نام او از زمین محو کردہ نمی شود بلکہ اولاد او اولاد اولاد او بسیار مے شود.در ہر مجلسے کہ مجمعے دارد صدر نشین مے گردد.و در ہر مجلسے کہ درو اکابر حاضر می آیند امیر ایشان او می باشد.و اورا ماہ تمام محافل وراس ورئیس تمام مردمان می دانند.وخدمتگاران برسراو ایستادہ مے باشند الإلہیۃ، ویجعل اللّٰہَ الکامل القادر الخالق کالضعفاء المعطَّلین.وأنت تعلم أنہ واین عقیدہ خدائے کامل راہمچو کمزوران وبیکاران میگرداند و تومیدانی کہ خدا تعالیٰ خلق کثیرا من الآلاء والنعماء للإنسان،وما کان وجودُ الإنسان ولا وجودُ أعمالہ بسیارے از نعمتہا برائے انسان پیدا کردہ است ودر وقت پیدا کردن آن نعتمہا از انسان واعمال اونام فی تلک الأوان، کما أنہ خلق الأرض والسماء ، والشمس والقمر وکل ما شاء ، فی الأفلاک ونشانے نبود.چنانچہ او تعالیٰ زمین و آسمان و شمس وقمر وہرچہ خواست در آسمان و زمین پیدا والأرضین، لینتفع بہا الناس بإذن رب العالمین.ولا شک أن وجود الإنسان ووجود کرد.تاکہ تمام مردم از آنہا فائدہ بردارند و ہیچ شک نیست کہ وجود انسان و وجود اعمال أعمالہ بعد وجود ہذہ المخلوقات، کما تریٰ أن وجودنا مسبوقۃ لوجود الأرض اوپس ازوجود این مخلوقات ست.چنانچہ می بینی کہ وجود ما برائے وجود زمین و آسمان مسبوق
108 ویأکل ویشرب حتّٰی یکون بطنہ کالقُبّۃ، ویشرب الحَلَبَ مِلْأَ العُلْبۃ، و لا یأخذہ توخُّمٌ ولا یکون من المبطونین.یرکب علی کل مطیّۃٍ وَطِیّۃٍ، ویکون لہ تنعُّمہ کعطیّۃ، ویشغَفہ الأملاک والغلمان، ولا یدری ما الإیمان.لا یغادر صغیرۃ ولا کبیرۃ، ولا یُثنی علیہ خُلقًا وسیرۃ، ومع ذٰلک یکون مرجَعَ الخواصّ والعوامّ، ویصافونہ بالحبّ التامّ، حتی یکون قبرہ بعد موتہ معتمَرَ تابو قتیکہ از خواب خود بیدار شود.ومی نوشد ومی خورد تاآنکہ شکم اوہمچو گنبدے میشود.وشیر چندان می نوشد کہ ظرف کلان شیر را خالی میکند.مگر طعام او در معدہ فاسد نمی شود.ونہ او را درد شکم می گیرد.برچنان اسپے سوار میشود کہ نمی جنباند او را.وتنعم او او را مثل عطیہ می باشد.ومحبت ملک ہا وغلامان در دل اومی نشیند.و نمی داند کہ ایمان چہ باشد.نمی گزارد صغیرہ را و نہ کبیرہ را.و کسے تعریف خلق و سیرت او نمی کند.وباوجود این ہمہ خرابی ہا او مرجع خواص و عوام می باشد.وبکمال محبت اورا دوست میگیرند.تاآنکہ قبر اوبعد از مردن او زیارت گاہ زائران والسماوات والعناصر التی علیہا مدار الحیاۃ، والإنکار جہل وسفاہۃ، ومن افتادہ است.وہمچنان درمرتبہ وجود بعد ازعناصر است.چراکہ این ہمہ چیزہا مدارحیات انسان اند.و ازین قبیل المکابرات، فالرحیم الذی خلق لنا قبل وجودنا کثیرا من النعماء ، کیف یُظَن واقعہ انکار کردن از قبیل جہالت وکم عقلی و مکابرہ است.پس آن مہربان کہ قبل از پیدائش ماچندین أنہ بدّل قانونہ بعد تلک الآلاء ، وفوّضنا إلی أعمالنا کبخیل وضنین؟ ثم نعمتہا پیدا کرد.چسان گمان کردہ آید کہ اوبعد عطائے این نعتمہا قانون خودرا تبدیل کردوہمچو بخیلے مارا باعمال الذین انغمسوا فی ہذہ التوہّمات، وظنّوا أن ہٰذا العالم یدور علی مِحْوَر التناسخات ماگذاشت.باز آنانکہ درین توہمات غرق شدہ اند.وگمان کردہ اند کہ این جہان برمحور تناسخہا گردش میکند یقولون إنہ لیس أحدٌ خالقَ أصلِ المخلوقات، بل کل روح قدیم وواجب این مردم میگویند کہ اصل مخلوقات راکسے پیدا نکردہ است.بلکہ ہر روح بمثل خدا تعالیٰ واجب الوجود
109 الزائرین، وتتعہدہا صباح ومساء زُمَرُ المعتقدین.وما قام دلیل علی کَوْرِ ہٰذا الإنسان، وحَوْرِ الرّجال الذین سمعتَ ذکرہم فی سابق البیان، ولا یُدرَی کیف وقع قوم فی ید النخّاسین، وآخرین دخلوا فی المنعَمین.فہذہ أسرار لا تبلغ الأنظار منتہاہا، ولا تدری الأفکار مغناہا، فإذا مے گردد.وہر صبح و شام معتقدان برمزار شریف او بتعہد مے روند.وہیچ دلیلے بر اقبال این شخص قائم نشدہ است کہ چرا این چنین نعمت وعزت حاصل کردہ ونہ دلیلے بر ادبار آن کسانے تاحال بدست آمدہ کہ ذکر مصیبت شان پیش زین شنیدی وہیچ معلوم نمی گردد کہ چرا قومے در دست بردہ فروشان افتادند.وچرا قومے دیگر درمنعمان داخل کردہ شدند پس این رازہا ہستند کہ دیدہ ہاتا انتہائے آن نتوانند رسید.وہیچ فکرے مرکز اقامت آنہارا نمے داند.کمثل اللّٰہ وکذٰلک أجزاء المرکبات، وہذا ہو الأمر الذی لزِمہم من إنکار صانِع است.وہم چنین مادہ اجسام واجب الوجود است.واین ہمان امراست کہ بوجہ انکار صانع موجودات المصنوعات.فإنہم لما أنکروا بوجود البارء الصَنّاع، اضطرّوا إلی أن یُقرّوا بقِدم اوشان را لازم آمد.چرا ک اوشان ہرگاہ کہ از وجود صانع عالم انکار کردند.برائے تراشیدن این عقیدہ الأشیاء ، فجعلوا کل شیء واجب الوجود، مضطرین.وظنوا أن صانِع العالم مضطر شدند کہ عالم قدیم ست.پس در حالت اضطرار ہر چیزے را واجب الوجود قرار دادند وگمان کردن کہ صانع عالم أحدٌ منہم فی الوجوب والقِدم کالمتشارکِین.فہذا دلیل آخر علی إبطال أوہامہم، ہمچو شریکان یکے ازیشان ست.پس این دلیل دیگر بر ابطال عقیدہ ایشان ست وردِّ کلامہم عند المحققین.فإن اللّٰہ الذی ہو قیّوم الأشیاء ، وبہ بقاء الأرض چرا کہ اللہ آن ذاتے کہ قیوم اشیاء ست و بقائے زمین و آسمان
110 وجدتَ ہٰذہ المُعضلات فی أفعال اللّٰہ فکیف لا یوجد مثلہا فی أقوال اللّٰہ؟ ما لک لا تقیس أقوال الحکیم علی أفعال الحکیم؟ مع أنہما کالمرایا المتقابلۃ، وکالتوأَمَین فی المشاکلۃ، فلا بدّ فیہما من وجود المناسبۃ، وتحقُّق المشابہۃ.فلا تجاوِزِ الحد الذی یسنّی الأمرَ المعضل، ولا تردّ الأمر الصحیح الذی یجب أن یُقبَل، ولا تکن من المتعصبین.پس ہرگاہ کہ این عقدہ ہائے لاینحل درکار ہائے خدا تعالیٰ موجود اند.پس چرا در گفتارہائے او نظا*ئرنباشند تراچہ پیش آمد کہ اقوال حکیم را برافعال حکیم قیاس نمی کنی.باوصف اینکہ آن ہر دو مثل آئینہ ہائے متقابلہ ہستند.ومثل دو بچہ توام درمشابہت ہستند.پس وجود مناسبت درآن ہر دو ضروری ست وتحقق مشابہت ازواجبات است.پس ازان حدے بیرون مشوکہ آن مشکل را آسان میکنند.و آن امر صحیح را رد مکن کہ قابل قبول است.واز متعصبان مشو.والسماء ، کیف یمکن أن یکون أحدٌ من الموجودات، ویساویہم فی الوجوب وقدم بادیست.چگونہ ممکن است کہ یکے ازموجودات باشد و در وجوب وقدامت بدیشان برابر الذات؟ ولو کان البارئُ أحدًا منہم وعلی درجۃ المساواۃ، فکیف تکون ربوبیتہ باشد.اگر خدا تعالیٰ یکے از مخلوقات بودے وبہمہ ممکنات درجہ مساوات داشتے.پس چگونہ ممکن بود کہ ربوبیت محیطۃً علی الأرواح وأجساد الکائنات؟ بل ہو إذ ذاک یکون کالإخوان للآخرین، لا مبدأَ اوبر جمیع ارواح واجساد احاطہ کردے.بلکہ درین وقت دیگران راہمچو برادران بودے.نہ کہ مبدء الفیض ورب العالمین.وشتّان بین ہذہ الحالات وبین قیّومِ السماوات و فیض ورب العالمین.وبنگرچہ نسبت است این حالات را با ذات قیوم السمٰوات والارض الأرضین.ثم حینئذٍ لا تبقی دلالۃُ شیء علی وجودہ، وکیف الدلالۃ إذ لم یخلق باز این فساد لازم می آید کہ درین صورت بروجود باری ہیچ دلیلے قائم نمی تواندشد.وچگونہ دلیل قائم
111 یا عباد اللّٰہ، اسمعوا، ثم فکّروا ثم اقبَلوا إن کنتم طالبین قد مات نبی اللّٰہ عیسیٰ، و أخبرنا عن موتہ خیرُ الخَلق وسیّدُ الوریٰ ، ثم شہد علی موتہ کثیر من أہل العلم والنہیٰ، کما شہد شاہدٌ عند وفاۃ نبیّنا المصطفٰی، أعنی خلیفۃ اللّٰہ الصدّیق الأتقٰی.وکذٰلک ذہب إلیہ کثیر من الأکابر والأئمۃ، وما جاء لفظ ’’رجوع‘‘ اے بندگان خدا بشنوید.باز فکر کنید باز قبول کنید اگر جو یندگان ہستید.درین شک نیست کہ نبی اللہ عیسیٰ وفات یافت ومارا از موت او بہترین مخلوقات صلی اللہ علیہ وسلم خبرداد.باز برموت اوبسیارے از عالمان وعاقلان گواہی دادند چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کہ خلیفۃ اللہ وصدیق واتقیٰ بود وہم چنین بسیارے از اکابر وامامان بسوئے موت مسیح رفتہ اند.ولفظ رجوع مسیح درپیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شیءًا بل تباعد عن حدودہ؟ ولا یفتی القلب السلیم، والعقل القویم، أن یبقی وجود شود.چرا کہ او چیزے پیدا نکرد.بلکہ از مخلوقات دور ماندہ ودل سلیم وعقل درست فتویٰ نمی دہدکہ وجود الباری بغیر دلیل وبرہانٍ مبین ثم لَمَّا سلّموا أنّ أنواع المخلوقات نتیجۃ ضروریۃ باری از دلیل خالی باشد.باز این مردم چون تسلیم کردند کہ انواع مخلوقات اقسام نیکی ہا و لأنواع الحسنات والسیّئات، لزِمہم أن یُقرّوا بأن أقسام الحیوانات لا یُجاوز أقسامَ الحسنۃ بدی ہارا بطور نتیجہ ضروریہ است.ایشان را لازم آمد کہ این ہم اقرار کنند کہ اقسام جانوران از اقسام نیکی و بدی والسیّءۃ، وہٰذا باطل بالبداہۃ والمشاہدۃ الحسّیّۃ.فلا شک أن ہٰذہ متجاوز نیستند.واین خیال بہ بداہت باطل واز مشاہدات حسیہ دروغش ظاہر است.پس ہیچ شک نیست الأوہام قد نُحِتت من تلفیقات إنسانیۃ، وتجویزات اضطراریۃ، فإنہم إذ لم کہ این خیالات از منصوبہ ہائے انسانی اند.واز قبیل تجویزات اضطرار یہ ست.چرا کہ اوشان چون یہتدوا إلی الحق، ألقوا الآراء رجمًا بالغیب کالعامہین، وما کانوا مہتدین.* حق رانیا فتند.رجمًا بالغیب رائے ہا ظاہر کردند.وچون سرگشتگان سخنہا گفتند.ربہم لکشف العذاب عنہم عند المکارہ والامراض والخسران.بل بعضہم یدعون بالاصرار.ویجلسون فی موقد النار.بکد وتعب فی ھواجر ذات لھب.ولا یفکرون فی ھذہ التناقض کالعاقلین.دعاہا میکنند.بلکہ بعض مردم از یشان باصرار دعائے میکنند.ودر جائے افروختن آتش مے نشینند وسختی ورنج می بردارند.ودر آتش نشستن اوشان دروقتے می باشد کہ آفتاب بہ نیم روز میر سدو شدت تپش میباشد ودرین تناقض ہمچو عاقلان فکر نمی کنند.منہ نوٹ: اعجبنی عقل البراھمۃ انھم جمعوا التناقض فی العقیدۃ.ویعتقدون بوجوب العذاب علی سیّئات سابق الزمان.ثم یدعون مرا عقل براہمہ در تعجب انداخت.ایشان تناقض را درعقیدہ خود جمیع میکنند.اعتقاد میدارند کہ عذاب بوجہ گناہان سابقہ ضروری ست باز برائے دور کردن عذاب
112 المسیح فی نبأ خیر البریّۃ، بل لفظ ’’النزول‘‘ إلی ہٰذہ الأُمّۃ.وشتّان ما بین نیامدہ است بلکہ لفظ نزول مسیح آمدہ است و در لفظ رجوع و الرجوع وبین النزول عند أہل المعرفۃ.فاتقوا اللّٰہ یا معشر المؤمنین، لفظ نزول فرقے ست بسیار کہ اہل معرفت میدانند پس اے گروہ مومنان از خدا بترسید.واقبلوا الحق یا حزب الصّالحین.و اے صالحان حق را قبول کنید.واعلموا أن قُرْب اللّٰہ لیس إرثًا مقبوضًا لأحدٍ، بل تداولُ ہذہ الأیام من وبدانید کہ قرب خدا ورثہ کسے نیست بلکہ این ایام از خدا تعالیٰ دست بدست ثم من المعلوم أن الأمر لو کان کذٰلک من ربّ الکائنات، لوجب أن یکون قلّۃ باز این امر معلوم ست کہ اگر تناسخ درست ست پس می باید کہ قلت مردم و کثرت الناس وکثرتہم تابعا لتغیُّر عدد الحیوانات، وہٰذا باطل بالبداہۃ، وکذب بَحْتٌ اوشان تابع قلت وکثرت حیوانات باشد.یعنی چون حیوانات بسیار شوند ایشان کم شوند.وچون حیوانات عند نظر التجربۃ، لأنّا نشاہد غیر مرۃ فی أیام البُسْرات، کثیرا من الأَذِبّۃ والحشرات شوند ایشان بسیار شوند.واین امر ببداہت باطل ودروغ محض ست.چرا کہ مادر ایام برشکال بارہا مشاہدہ والہوامّ والدیدان والضفادع وأنواع الحیوانات، ونعلم أنہا أضعاف مضاعفۃ من میکنیم کہ بسیارے از جانوران خورد وگزندہ وکرمہاو غوک ہا ودیگر اقسام حیوانات می برآیند.ومیدانیم کہ آنہا عدد نوع الإنسان، بل لا یوجد الناس عُشْرَ عَشیرہا عند الحُسبان.فلو کانت ہذہ از عدد نوع انسان چند درچند زیادہ است.بلکہ انسان بقدر عشر عشیر آنہا ہم نیست.پس اگر این جانداران الحیوانات أرواح الآدمیین، فلزم أن لا یبقی فی الخریف نفس واحدۃ منہم فی ارواح آدمیان بودندے پس لازمی می آید کہ در ایام برشکال ہیچ فردے از نوع انسان درزمین موجود
113 أمر ربّ صمد، یلقی الروح علٰی من یشاء ، وکذالک تقتضی العظمۃ والکبریاء مے گردند.برہر کہ میخواہد کلام خود مے اندازد.وہم چنین عظمت وکبریاء او تقاضا کردہ است أأنتم تجادلونہ علٰی ما فعل أو تقومون محاربین؟ ففکّروا بفکر لا یشوبہ زیغ آیا شما با وے جنگ خواہید کرد کہ چراچنین کرد یا برائے محاربہ او خواہید ایستاد.پس چنان فکر کنید کہ درآن شائبہ کجی ولا مَیل، وطَہِّروا قلوبکم من کل تعصب ولا یُذْہِبْکم سَیل.أَرُوا تقواکم تقواکم، ومیل نباشد.و دلہائے خودرا صاف کنید چنان مبادکہ سیل تعصب شمارا برباید.پرہیز گاری خود بنمائید پرہیز گاری یا أبناء المتقین.واعلموا أن اللّٰہ قد أقامنی وبعثنی وکلّمنی، فاتقوا أن تحاربوا خود بنمائید اے فرزندان پرہیز گاران.وبدانید کہ مراخدا قائم کردہ است ومرا مبعوث کردو مرا ہمکلام شد.پس بترسید الأرضین، ولکنا لا نریٰ ہناک نقصانًا فی عدد نوع الإنسان، مع کثرۃ تکوُّن نماندے.مگر مادران وقت ہیچ نقصانے درشمار نوع انسان نمی یابیم.باوجودیکہ حشرات حشرات الأرض والدیدان، بل نراہم کل یوم متزایدین.وأمّا قولہم أنہا الارض وکرمہا بکثرت در زمین متولد میشوند.بلکہ روز بروز آنہا را زیادہ مے یابیم.لیکن این قول اوشان کہ أرواح تتنزّل من معمورۃ السماوات، فٰہذہ تکلفات واہیۃ ومن قبیل کرم وغیرہ کہ درایام پرشکال پیدامی شوند آن جانہا ہستند کہ از معمورہ آسمان فرودمی آیند.پس این تکلفات واہیہ ہستند الخرافات، نُحتتْ عند فقدان الدلائل وورود الاعتراضات، وما أری واز قبیل خرافات.کہ بوجہ نہ پیدا شدن و ورود اعتراضات ساختہ شدہ اند.وما ہیچ دلیلے نمی بینیم دلائل أقیمتْ علی تلک الخیالات، بل ہی کلمات غیر معقولۃ تخرج من أفواہہم کہ برین خیالات قائم کردہ باشند بلکہ این کلمات غیر معقول اند کہ بے ثبوت ازدہان شان مے من غیر الإثبات، کمثل غریق یتشبّث بالحشائش خوفًا من الممات برآیند.ہمچو غریقے کہ نجس و گیاہ پنجہ میزند بدین خوف کہ مبادا بمیرد
114 اللّٰہ متعمّدین.لا فُلْکَ فی یومی ہذا إلا فُلْکی، وإنّ یدی ہٰذہ فوق کل ید ازین کہ دیدہ دانستہ بمقابلہ خدا بجنگ بیرون آئید.امروز بجز کشتی من ہیچ کشتی نیست.و این دست من برتمام تبتغی مرضاۃ ربّی، فلا تنبذوا الحق بعد ظہورہ، ولا تجعلوا أنفسکم من آن دستہا واقعہ است کہ رضاء رب من میخواہند.پس راستی رابعد ظہور آن از دست میفگیند.وخود را مورد سوال المسؤلین.وبعزۃ ربّی وجلالہ، لستُ بکافر ولا معتدٍ من أقوالہ ولا مرتدّ ول الٰہی مگردانید.ومراقسم عزت خدا وقسم بزرگی او کہ من نہ کافرم ونہ ازکلام اوبیرون روندہ ام ونہ مرتدم ونہ من الملحدین.بل جاء کم الحق فلا تُعرضوا عن الحق کارہین.وقد تقوَّی مذہبنا ملحدم بلکہ بشما حق رسید.پس بکراہت ازان اعراض مکنید.ومذہب مابشہادتہائے احادیث ولو کان فی السّماوات ونجومہا وشموسہا وأقمارہا أناس ساکنین مطمئنین، و اگر در آسمان ہا و ستارہ ہا و آفتاب و ماہتاب مردمان آباد بودندے لکان معہم کثیر من الحیوانات والحشرات التی انتقلت أرواحہا من أجساد ہر آئینہ لازم بود کہ بان مردم دیگر ازان جانوران ہم بودندے کہ بطور تناسخ صورت آن جانوران الآدمیین، ولکان ذٰلک النظام أکملَ وأتمَّ کنظام الأرضین، غیرَ محتاج قبول کردہ اند.وہر آئینہ آن نظام ہمچو نظام زمین ہا کامل بودے.وبہ دیگر معمورہ إلی معمورۃ الآخرین.فبأی ضرورۃ تَلْجَأُ الأرواح حینئذ إلی النزول؟ محتاج نبودے.پس درین ہنگام کدام ضرورۃ ارواح راپیش آمدہ بود.تابر زمین نازل شوند وکیف یستقیم ہٰذا التأویل عند العقول؟ ألیس فی حُماۃ ہٰذہ وچگونہ این تاویل نزد عقول صحیح متصورمے تواندشد.آیا از پابندان این عقیدہ ہیچکس العقیدۃ رجل من المستبصرین؟ بصیرتے ندارد.
115 بتظاہر الأحادیث والفرقان، ثم بشہادۃ الأئمۃ وأہل العرفان، ثم بالعقل وفرقان قوت یافتہ است باز قوت آن بشہادت ائمہ واہل عرفان دوچند شد.باز عقل او را کہ الذی ہو مدار التکالیف الشرعیّۃ، ثم بالإلہام المتواتر الیقینی من حضرۃ العزۃ، مدار تکالیف شرعیہ است قوت داد.باز از الہامات متواترہ یقینیہ قوت یافت فکیف نرجع إلی الظن بعد الیقین؟ بل نحن أوینا إلی الرکن الشدید، واعتصمنا پس چگونہ ازیقین بسوئے ظن رجوع کنیم بلکہ ما بسوے رکن شدید رجوع کردیم وبرسن خدا تعالیٰ بحبل اللّٰہ المجید، وما جئنا بمحدَثات کالمبتدعین.پنجہ زدیم.و ہیچ بدعتے ہمچو بدعتیان نیا ور دیم.ثم لَمَّا جرت العادۃ أن کل حشرۃ تتکون فی تلک الأیام، وکذالک وقعت بازچون عادت ہم چنین رفتہ است کہ ہر قسم جانور خورد درین موسم پیدامی شود.وہم چنین نظام فی قانون اللّٰہ صورۃ النظام ، ولا تبلغ إلی ہٰذہ الکثرۃ فی غیر قانون الٰہی واقعہ شدہ وبجز این روزہا این کثرت جانوران نمی باشد.تلک الأیام المعدودۃ، فلو کان سبب ہٰذا انتقال أرواح الناس إلی پس اگر سبب آن این باشد کہ در موسم پرشکال ارواح آدمیان در الحشرات فی أیام البُسْرات، لکان ہذا الأمر من معضلاتٍ غیر منحلّۃ حشرات منتقل مے شوند.ہر آئینہ این محل از مشکلات لاینحل خواہد بود عند التحقیقات، بل من أمور بدیہی البطلان والمحالات، ومورد کثیر بلکہ ازان امور خواہد بود کہ بدیہی البطلان ومحال اند.وبسیارے از من الاعتراضات، عند کل ذی رأی متین.اعتراض ہا بران وارد خواہند شد.
116 وقد علمتم أن المسیح الموعود، یکسر الصلیب المعضود، فہٰذا ہو الزمان وشما دانستہ اید کہ مسیح موعود صلیب نصاریٰ راکہ حمایت آن کردہ می شود خواہد شکست.پس این زمان ہمان زمان ست إن کنتم موقنین.أما ترون کیف یُعلَی الصلیب، وکیف تُفشَّی فی شأنہ الأکاذیب، اگر شما یقین کنندگان ہستید.آیا نمی بینید کہ چگونہ شان صلیب بلند کردہ شد.وچگونہ خبرہائے دروغ درشان آن وإلی أیّ حدود بلغ الأمر، وکثر الخنزیر والخمر، ودِیْسَ الإسلام تحت أقدام منتشر میشوند ومے بینید کہ این امر را نوبت بکجا رسیدہ است.و خنزیر و خمر بسیارشد.واسلام زیر قدم مفسدان و المُغْوِین المفسدین؟ ألیس فی أحادیث خیر الکائنات، وأفضلِ الرسل ونُخبۃِ المخلوقات، اغواکنندگان پامال گشت.آیا این امر در احادیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کہ افضل الرسل وبرگزیدہ مخلوقات ست أتظن أن بنی آدم یُذنبون فی تلک الأیام أکثر من أیام أخریٰ، فیموتون آیا گمان مے کنی کہ مردمان درہمین روزہا آن قدر گناہ می کنند کہ در روزہائے دیگر نمی کنند.پس می میرند و ینقلبون إلی الحشرات جزآءً من ربّہم الأعلٰی؟ و ارواح شان در حشرات برائے سزا دادن داخل کردہ مے شوند.فانظر..أہذا أمر یقبلہ قلبک بالثلج التام، أو یشہد علیہ قانون اللّٰہ پس غور کن آیا این امرے ست کہ دل تو آنرابہ تسلی نام قبول میکند.یا قانون خدا ونظام خدا بروگواہی وصورۃ النظام؟ ثم إنّا نشاہد أن کثیرًا من الحشرات والدیدان الصغار، مے دہد بازمے بینیم کہ بسیارے از جانور ہائے خورد وکرم ہائے خورد تخرج من أقصی طبقات الأرض عند حفر الآبار، بل توجد فی میاہہا وقت کندیدن چاہ ہا از طبقہ ہائے زیر زمین مے برآیند.کہ دور تر از سطح زمین می باشندبلکہ درچاہ ہائے نو دیدان دقیقۃ کالصِئبان، لا یخفی عند الامتحان، أو تتراء ی بآلاتِ کندیدہ این چنین کرمان وجانوران ہمچو بیضہ سپش یافتہ می شوند کہ پوشیدہ نمی مانند یا بخورد بینہا مشہودمی شوند
117 أن المسیح الموعود لا یجیء إلا عند غلبۃ الصّلیب وفتنِہا الموّاجۃ فی الجہات؟ یافتہ نمی شود کہ ضرور است کہ مسیح موعود درہمان وقت آید کہ وقت غلبہ صلیب باشد و فتن ہائے صلیب ہر طرف درتموج فہذا ہو الأصل المحکم لمعرفۃ وقت المسیح ومِن أعظم العلامات.فإن کنتم باشند پس برائے شناخت وقت مسیح این اصل محکم است واز بزرگتر علامت ہاست.پس اگر شما این تظنون أن المسیح ما جاء علٰی رأس ہذہ الماءۃ، وفتن النصاری لم تبلغ إلٰی گمان میکنید کہ مسیح موعود برسر این صدی نیامدہ ست وفتنہ ہائے نصاریٰ تاہنوز بدرجہ کمال غایتہا المقصودۃ، فلزمکم أن تعتقدوا بامتداد ہذہ الفتن إلٰی رأس الماءۃ الثانیۃ، أو نرسیدہ اند.پس این امر شمارا لازم می آید کہ اعتقاد کنید کہ این فتنہ ہاتا سر صدی دوم طول خواہند کشید.یا تحدیدِ البصر بالیقین.فالآن ما رأیک؟ أتزعم أن الأرواح تنزلت أولًا علٰی پس اکنون رائے تو چیست.آیا گمان تواین ست کہ اول روحہا برسطح سطح الأرض من العلی، ثم خُسفت وبلغت إلی منتہی طبقات الثریٰ؟ فاتق اللّٰہ یا زمین نازل شدند باز درزمین فروشدند تاآنکہ تاآخری طبقات زمین رسیدند.پس اے مسکین از خدا بترس مسکین.وإن قلتَ: فما بال الناقصین الذین ماتوا علٰی حالۃ النقصان، وانتقلوا اگر بگوئی کہ حال آن ناقصان چیست کہ درحالت نقصان بمردند وازین دنیا من ہٰذہ الدنیا مع أثقال العصیان، فإنہم ما یُرَدّون إلی الدنیا لیتدارکوا ما فات، فکیف ببارہائے عصیان درگز شتند چراکہ اوشان وسوئے دنیا باز نیایند تاتدارک مافات کنند.پس یُکمَّلون ویجدون النجاۃ، أو یدخلون فی الجنّۃ غیر مکمّلین، أو یُترَکون إلی چگونہ تکمیل ایشان می گردد و چگونہ نجات می یابند.آیا این ست کہ درجنت درحالت نقصان داخل کردہ میشوند الأبد معذَّبین؟ فاسمع..إننا نعتقد بأن جہنم مُکمِّلۃٌ للناقصین، ومنبِّہۃٌ للغافلین، یاہمیشہ درعذاب خواہند ماند.پس بشنوکہ اعتقاد ما این ست کہ دوزخ ناقصان رابکمال میر ساند.وغافلان رامتنبہ
118 علی رأس ماءۃ أخریٰ من المئین الآتیۃ البعیدۃ.فلو کان عمر فتن النصاریٰ إلی شورو شغب این فتنہ ہاتا صدی ہائے دیگر خواہد ماند.پس اگر ہمین راست ست کہ عمر فتنہ ہائے نصاریٰ تا ہذہ الأزمنۃ الطویلۃ، فما بال الإسلام إلی تلک المدۃ یا معشر المتفرسین؟ زمانہ ہائے دور و درازست پس تااین مدت حال اسلام چہ خواہد شد.وموقظۃ للنائمین.وسمّاہا اللّٰہ أُمَّ الداخلین، بما ترُبُّہم کالأمّہات للبنین.مے کند.دانانکہ درخوابند ایشان رابیدار میگرداند.وخدا تعالیٰ نام او مادر داخل شوندگان داشتہ است کہ ہمچو مادر پرورش میکند واعتقاد میداریم کہ دران روز ہر چشمے تیزبین خواہد بود واین تیزی بعد از زمانہ دراز پیدا خواہد شد.پس بعد شقی سعیدًا بعد حقب من الدوران، ولا یلبثون إلا أحقابًا فی النیران، إلا روزگارے دراز ہر بدبختے نیک بخت خواہد شد.و توقف شان درجہنم صرف مدتے دراز خواہد بود ما شاء اللّٰہ من طول الزمان، فإنّا ما أُعطِینا علم تحدیدہ بتصریح البیان، مگر تحدید آن زمانہ درحد علم ما نیست فہو زمان أبدی نسبۃً إلی ضعف الإنسان، ومحدود نظرًا علی مِنن المنّان، پس آن زمانہ بہ نسبت ضعف انسان ابدی ست.وچون نظر براحسان ہائے الٰہی کنیم ولا یُترَکون کالأعمٰی إلی الأبد علی وجہ الحقیقۃ، ویکون مآل أمرہم پس آن زمانہ محدود است وزمانہ نابینائی را از روئے حقیقت ابدیت و دوام نیست وانجام کار ایشان رُحْمَ اللّٰہ والرشد ومعرفۃ الحضرۃ الأحدیۃ، بعد ما کانوا قومًا عمین.ونعتقد رحمت الٰہی ورشد و معرفت حضرت احدیت خواہد بود بعد زانکہ قومے نابینا بودند و ما اعتقاد أن خلود العذاب لیس کخلود ذات اللّٰہ رب الأرباب، بل لکل عذابٍ انتہاءٌ ، میداریم کہ دوام عذاب دوزخیان ہمچو دوام ذات باری نیست.بلکہ ہر عذاب را انجامے ست
119 أرضیتم أن تتزاید فتن الدجالین القِسّیسین وتمتدّ إلی مائتین أو مئین؟ فإن غلبتہم آیا بدین امر راضی شدہ آید کہ فتنہ ہائے پادریان تادو صد سال یا چند صدیہائے دیگر در زیادت باشند.چرا کہ ضروری إلی أیّام ظہور المسیح، کما جاء بالبیان الصریح، فی أنباء خیرالمرسلین.غلبہ پادریان تا ایام ظہور مسیح ضروری ست.وہم چنین در احادیث حضرت خیر الرسل آمدہ است.وبعد کلّ لعنٍ رُحْمٌ وإیواءٌ ، وإنّ اللّٰہ أرحم الراحمین.ومع ذالک لیسوا سواء وبعد ہر لعنت رحمت وجا دادن ست.وخدا ازہمہ رحمت کنندگان در رحمت افزون تر وپیش قدم ست فی مدارج النجاۃ، بل اللّٰہ فضّل بعضہم علی بعض فی الدرجات والمثوبات، وباوجود این امر مدارج نجات یکسان نیستند بلکہ خدا تعالیٰ بعض را بربعض در درجہ ہا و پاداش ہا بزرگی داد وما یرِد علی فعلہ شیء من الإیرادات، إنہ مالک الملک فأعطی بعض عبادہ وہیچ اعتراضے برکار اونمی تواند شد.چراکہ او مالک الملک است بعض را در کمالات أعلی المراتب فی الکمالات، وبعضہم دون ذالک من التفضلات، لیُثبت اعلیٰ مراتب بخشید.وبعض را از آنہا کم داشت تا ثابت کند کہ أنہ ہو المالک یفعل ما یشاء ، لیس فیہ إتلافُ حقّ من حقوق المخلوقین.و مالک الملک است ہرچہ میخواہد میکند.درآن حق تلفی احدے نیست ولما کان وجود اللّٰہ تعالٰی علّۃً لکل علّۃ، ومبدءً لکل سکون وحرکۃ، وہو وہرگاہ کہ وجود خدا علت ہر علت و مبدء ہر حرکت وسکون است.و او بر ہر قائم علی کل نفس، فلیس من الصواب أن یُعزَی إخلاد العذاب إلی ہٰذا جانے قائم ومتصرف وقادرست پس این قرب بصواب نیست کہ ہمیشہ معذب داشتن بسوئے او منسوب الجناب، وما کان العبد مُختارًا من جمیع الجہات، بل کان تحت قضاء اللّٰہ کردہ شود.وبندہ از جمیع جہات مختار نیست.بلکہ تحت قضاء و قدر خدا تعالیٰ ست
120 فما تأمرون فی ہذہ القضیۃ؟ أترضون بأن یمہلہم اللّٰہ لإغواء الناس إلی تلک پس درین مقدمہ رائے شماچیست.آیا بدین راضی ہستید کہ خدا تعالیٰ ایشان را برائے اغوائے مردم تابدین المدی الطویلۃ، ویُجاح الإسلام من أصولہ المبارکۃ، ولا یبقٰی أحد علی وجہ الأرض مدت مدیدہ مہلت دہد.واصول مبارکہ اسلام از بیخ برکندہ شوندو ہیچکس ازمسلمانان بروئے زمین نماند خالقِ المخلوقات وقیّوم الکائنات، وکان کل قوتہ مفطورۃً مِن یدہ ومن إرادتہ، کہ خالق و قیوم ست وہر قوت بندہ پیدا کردہ دست خدا تعالیٰ ست واز فلہ دخلٌ عظیم فی شقاوتہ وسعادتہ.فکیف یترک عبدًا ضعیفًا فی عذاب ارادہ اوست.و اورا در شقاوت وسعادت بندہ دخلے عظیم ست.پس چگونہ ممکن ست کہ بندہ ضعیف را الخلود، مع أنہ یعلم أنہ خالِقُ الشقی والمسعود، والعبدُ یفعل أفعالا ولکنہ أوّلُ درعذاب دائمی فرو گزارد باوجودیکہ میداند کہ پیدا کنندہ ہر شقی وسعید خود اوست.وبندہ کار ہامے کند الفاعلین، وکل عبدٍ صُنْعُ یدہ وہو صانع العالمین.وإنہ رحیم وجوّاد وکریم، سبقت لیکن او اول کسے ست کہ کار کرد.وہر بندہ صنعت دست اوست واوصانع ہمہ جہانیان ست.واو رحمتُہ غضبَہ، ورِفقُہ شِصْبَہ، ولا یُساویہ أحدٌ من الراحمین.فلا یُفنی کل الإفناء ، رحیم ست وجوادست وکریم ست.غضب او بررحمت او پیش قدمی ہاکرد.ونرمی اواز سختی او درگزشت و ہیچکس در ویرحم فی آخر الأمر وانتہاء البلاء ، ولا یدوس کل الدوس بالإیذاء کالمتشدّدین، رحمت برابری اونتواند کرد.ونمی خواہد کہ مخلوق رابہمہ وجوہ معدوم کند ودرآخر امر رحمت میفر ماید وبکلی بپانمی کوبد بل یبسط فی آخر الأیام یدہ رأفۃً ویأخذ حُزْمۃً من الناریّین.فانظر إلی ید اللّٰہ بلکہ درآخر ایام دست خود برحمت دراز خواہد کرد.ومشتے ازدوز خیان بیرون خواہد آورد.پس بسوئے دست خدا وحزمتہ، ہل تغادر أحدًا من المعذَّبین؟ وکذالک أشار فی أہل النار وقال ومشت اوبنگر.آیا این دستے ست کہ معذبے را از گرفتن محروم تواند گذاشت وہمچنین اوخود دربارہ
121 من المسلمین؟ أیہا الناس اعلموا أن وقت ظہور المسیح عند اللّٰہ ہو وقت ظہور اے مردان بدانید کہ زمانہ ظہور مسیح نزد خدا ہمان زمانہ ظہور فتن صلیب است.فتن الصلیب، ولأجل ذالک قیل ہو یکسر الصلیب، فتدبروا کالمستدلّ اللبیب، وبرائے ہمیں گفتہ شد کہ مسیح موعود صلیب راخواہد شکست.پس شما ہمچو دانشمندے کہ دلیلے قولا کریما، فیہ إطماعٌ عظیم ونسیم الإبشار، فقال:3 دوزخیان بشارت دادہ است آن بشارتے کہ دروے امیدے بزرگ پیدامی شود.پس گفت کہ دوزخیان ہمیشہ درجہنم 33 ۱.فانظر إلی استثناۂ ببصر خواہند ماند مگر چون خدائے تو ارادہ فرماید چرا کہ خدائے تو ہرچہ میخواہد مے کند.پس این استثنا را بنظر حدید ونظر رشید، ولا تظن ظن السوء کالیائسین.عمیق بنگر.و ہمچو نومیدان ظن بد مکن.والعجب کل العجب من إلٰہ النصارٰی، أنہ بزعمہم صلَب ابنہ وأضاع وحیدہ وتمام تر تعجب از خدائے نصرانیان ست.کہ اوبگمان نصاریٰ پسر خود را بردار کشید وفرزند کالمجنون الغَضبان، وما سلک فی المجازاۃ طریق العدل والرفق والإحسان، یکتائے خود را ہمچو دیوانہ غضبناک ضائع کرد.ودر جزاء وسزا طریق انصاف ونرمی واحسان را مرعی نداشت بل خوّف من العذاب الأبدی الذی لا ینقطع فی حین من الأحیان.فأین و ازان عذاب ابدی ترسانید کہ بہ ہیچ وقتے منقطع نخواہد شد.پس درچنین الرحم فی مثل ہٰذا القہّار، الذی فوّض الابن المحبوب إلی الکفّار؟ وما قہارے رحم کجاست کہ فرزند محبوب خود را حوالہ کافران کرد.وہمچو رحیمان خفّف عذابہ کالرحماء الأخیار، بل ألقی عبادہ فی جہنم لأبد الآبدین.زاد ونیکان در عذاب تخفیف نہ نمود.بلکہ بندگان خود را برائے ہمیشہ در جہنم انداخت.ودر عذاب
122 وقوموا للّٰہ شاہدین.ثم من المسلَّمات الأمۃ المرحومۃ، أن المسیح لا یجیء إلا علی می جوید تدبر کنید.وبرائے خدا بہر شہادت برخیزید.بازاز مسلّمات این امت مرحومہ است کہ مسیح ہرگز نخواہد آمد مگر در وقتیکہ رأس الماءۃ، فہذا الرأس بزعمکم قد انقضی خالیًا ومضیٰ، وانقطع الرَجَاء إلٰی رأس ماءۃٍ أُخریٰ سرصدی باشد.پس این سرصدی بزعم شما خالی گذشت وہیچکس نیامد.وتا سرصدی آخر از آمدن امید منقطع العذاب زیادۃ فاحشۃ مکروہۃ، ثم ادّعی أنہ قتل ابنہ لینجّی المذنبین رحمۃ، فما ہٰذا آن زیادتی کرد کہ مکروہ واز حد تجاوز کنندہ است.باز دعویٰ کرد کہ اوپسر خود را محض از رحمت برائے رہانیدن إلا طریق الظالمین المزوّرین ثم نرجع و نقول إنّ البراہمۃ قد ترکوا سبل الہدی، گنہگاران قتل کرد.پس این طریق خاصہ مرد مان نیست کہ بسیار ظالم ومکار باشند.باز رجوع میکنیم ومیگویم کہ ہندوان فلا تتبع خرافات قومٍ نَوکَی، واسألِ اللّٰہ أن یہدیک إلی صراط الراشدین.ترک طریق ہدایت کردند.پس آن خرافات راپیروی مکن کہ جاہلان تراشیدہ اند.واز خدا بخواہ کہ ترا ہدایت راہ رشیدان کند ألا تری أنہم جَمَعوا تناقضات فی خیالا تہم، وأضحکوا الناس بخزعبیلا تہم، و آیا نمی بینی کہ اوشان تناقضات را درخیالات خود جمع کردہ اند.ومردم رابسخنان باطل خود درخندہ آوردہ اند جاء وا بإفکٍ مبین؟ قد لزمہم من جہۃِ عقید تہم أن یَدْعوا ربہم بالتضرعات، لیفنی و دروغ صریح آوردہ اند.برایشان از عقیدہ ایشان لازم بود کہ از خدائے خود بتضرع تمامتر بخواہند.کہ تااوبجز کلَّ حیوان من دون رجال یوجد تحت السماوات، من بقرٍ وجاموسٍ وماعزٍ مردان تمام آن جانوران را بمیراندکہ زیر آسمان موجود اند.ازقسم گاؤہا وگاؤ میش ہا وگوسپندہا وغیرہا من الحیوانات، وکلّ امرأۃ زوجًا کانت لہم أو من الأمّہات والبنات والأخوات، وغیرہ از جانوران وہمچنان لازم بود کہ ہرزنے را نیز بمیر اند گو اوزوجہ اوشان باشد.یا ازمادران ایشان یا از دختران ایشان لیستخلص أرواح آباۂم من تناسُخ ومن عذاب مہین* بل کان ہذا الدعاء یا ہمشیرگان ایشان تاکہ روحہائے پدران ایشان از تناسخ وعذاب رسوا کنندہ آزاد شوند.نوٹ: ان کان التناسخ ھو الحق فیجب ان یجتنب التزویج کل من تمسک بھذہ الاعتقادات.لعل النساء و اگر تناسخ حق ست پس واجب است کہ اہل آن از نکاح کردن بپرہیزند کہ شاید زنان منکو حہ دختران باشند یا ہمشیرہ ہائے ایشان یا مادران المنکوحات کن بناتھم اواخواتہم او امھاتھم اوامہات الامہات.منہ ایشان یا مادران مادران ایشان.
123 ووجب بزعمکم أن تبقی فتنُ قسّیسین أعداء الہدی، مع تزاید ہا إلی تلک المدیٰ، گشت.وحسب زعم شما این واجب شد کہ فتنہ ہائے پادریان تابدین مدت ہا در تزاید باشند فإن وقتہا شریطۃُ وقتِ المسیح کما أخبر سیّد الوریٰ.فہٰذا أعظم المصائب علی چرا کہ وقت آن فتنہ ہا بطور شرط برائے وقت مسیح موعود است.پس این مصیبتے بزرگ براسلام ست أہم مقاصد ہم وأعظم مآربہم إن کانوا راسخین علی عقیدتہم ومستیقنین.بلکہ این دعا از اہم مقاصد وبزرگتر مرادات ایشان بود.اگر ایشان برعقیدہ خود یقین داشتندے ولکنہم یَدْعون خلاف ذالک، وقد حثّہم ’’ویدھم‘‘ علی أن یدعوا ربہم یعطہم مگر ایشان برخلاف این دعاہا می کنند.و وید ایشان ایشان را رغبت می دہدتا ازو بسیار از بسیار کثیر من البقر والفرس ویجعلہم من المواشی متموّلین.گاوان واسپان بخواہند و او شان را از چارپایان مالدار کند.و’’الوید‘‘ مملوٌّ من مثل ہذہ الأدعیۃ، کما لا یخفی علی الذین قرأوا ’’رک وید‘‘ بالبصیرۃ، و وید از ہمچو این دعاہا پراست چنانچہ بران کسانے پوشیدہ نیست کہ وید را میخوانند یا از وسمعوہ من البراہمۃ متأملین.فلو کان ’’الوید‘‘ من عند اللّٰہ، لما وُجِدَ فیہ دعاء برہمنان مے شنوند.پس اگر وید از طرف خدا تعالیٰ بودے ہرگز ممکن نہ بود کہ چنین لا یتأتّی إلا بفسق الفاسقین.وتری الہنود کیف یودّون أن یکون لہم أقاطیع دعاہا دران موجود بودندے کہ بغیر بدکاری بدکاران حصول آنہا ممکن نیست وتومی بینی کہ چگونہ ہنودمے خواہند من البقر والجوامیس ویصرفون ہممہم إلٰی ہذا الأمر مدبّرین، فکأنہم یحبون کہ برائے شان رمہ ہا ازگاوان وگاؤ میشان باشند.وبرائے این امور بگونا گون تدبیرہا ہمتہائے خود مصروف میدارند پس گویا أن تبقی الفاحشۃ إلی أبد الآبدین، بل یحب ویدہم أن لا یقطع أبدًا سلسلۃ ذنب اوشان میخواہند کہ بدکاریہا برائے ہمیشہ موجود باشند.بلکہ وید ایشان دوست میدارد کہ سلسلہ گناہ گنہگاران گاہے منقطع
124 الإسلام أن تعلو شوکۃ الصلیب إلی تلک الأیام البعیدۃ من الأنام، ویمتد زمان إغواء الخواص کہ شوکت صلیب تاآن روزہا بماند کہ ہنوز ازخلق بسیار دوراند.وزمانہ اغوائے مخلوقات بدرازی کشد والعوام.فما لکم لا تتفکرون، وتبدّلون شُکْرَ نعم اللّٰہ بالکفران وتنکرون؟ وجاء کم پس چہ پیش آمد شمارا کہ فکر نمی کنید.وبجائے شکر نعمتہائے الٰہی کفران مے ورزید.وحق در وقت المذنبین.وأمّا القول الأحسن الأقوم فی ہذا الباب، والحق القائم علی أعمدۃ الصواب، نگردد.مگر آن سخنے کہ درین باب احسن دراست ترست.وبرستون ہائے صواب قائم است فہو الذی بیّنہ اللّٰہ فی الکتاب لقوم طالبین.وہو أن ہذا العالم لا یدوم پس آن ہمان ست کہ خدا تعالیٰ برائے طالبان درقرآن شریف فرمودہ ست.وآن این ست کہ این جہان إلی أبد الآبدین، بل لہ انقطاع وانتہاء ، وبعدہ عالم آخر یقال لہ یوم الدّین.ولا یُلقَّی تاہمیشہ نخواہد ماند.بلکہ برائے او انقطاعے وانتہائے ست.وپس آنجہانے دیگرست کہ آنرا یوم الدین می نامند نعماء ہ إلا الذی اختار الشدائد علی النعماء ، وآثر الآلام علی الآلاء ، وصبر علی أنواع البأساء ، ونعمتہائے آن جہان را ہمان کس خواہد یافت کہ سختی ہا را برنعمت ہا اختیار کند.ودرد ہا را براسباب آسایش لرضاء ربّ العالمین.فالذین وصلوا ہٰذہ السعادۃ، وبلغوا الشرف والسیادۃ، مقدم دارد.وبرانواع سختی ہا برائے رضاء رب العالمین صبر کند.پس آنانکہ این سعادت رایا فتند وبزرگی ومہتری فہم قومانِ عند الربّ المنّان.منہم قوم یجاہدون فی اللّٰہ بأموالہم وأنفسہم، رارسیدند.پس ایشان نزد خدائے منان دو ۲ قوم اند یکے ازیشا ن آن قوم است کہ در راہ خدا تعالیٰ بامال وجان ویؤتون فی سبیل اللّٰہ کلَّ أَحَبِّہم وأنفَسِہم، ویشرون نفوسہم ابتغاء مرضاۃ اللّٰہ، خود مجاہدہ میکنند وہرچہ ازمال عزیز تردوست میدارند آن ہمہ براہ خدا تعالیٰ می دہند وبرائے تحصیل ویؤثرون علی أنفسہم ولو کان بہم خصاصۃ، ویبیتون لربّہم سجّدًا وقیامًا وباکین.رضا مندی ہائے الٰہی جان ہائے خود را میفرو شند.وبر نفوس خود دیگران را اختیار میکنند اگرچہ خود در تکلیف و تنگی
125 الحق فی وقتہ فتعرضون، وتجعلون حظکم أن تکفّرونی ولا تتّقون.أتکفرون خود شمارا رسید وشما کنارہ میکنید.وحصہ خود این می گردانید کہ مرا کافر قرار دادہ اید ونمی ترسید.آیا شما بندہ عبد اللّٰہ المأمور، وتَقْفُون ما لیس لکم بہ علم من اللّٰہ الغیور، وتتکلمون مستعجلین؟ مامور را کافر میگوئید.وبران چیزہا اصرارمی کنید کہ علم آنہا شما را ندادہ اند.واز روئے جلدی کلام میکنید.ولا یُفرّطون فی حظّ أنفسہم، بل ینفقون أموالہم فی مراضی اللّٰہ، ویعیشون کالفقراء باشند.وبرائے پروردگار خود درحالت سجدہ وقیام وگریہ شب میگذرانند.ودرحظ نفس خود از حد اعتدال بیرون نمی روند والمساکین.وقوم آخرون یتولّی اللّٰہ أمر نجاتہم، ویفعل بہم أمورًا ما کان لہم أن بلکہ مال ہائے خود را در رضا ہائے خدا تعالیٰ خرچ میکنند.وہمچو مساکین وفقراء زندگی بسر میکنند.وقومے دیگرست کہ خدا خود یفعلوہا لنجاۃ أنفسہم، فیصبّ علیہم مصائب وشدائد وأنواع النائبات، ویبتلیہم متولی امر نجات شان میگردد.وبرائے شان آن کار ہا میکند کہ درطاقت شان نبود کہ خود برائے نجات خود کنند.پس بنقص من الأموال والأنفس والثمرات، ثم یرحمہم بذٰلک، وینزل علیہم صلواتِہ برایشان سختی ہاو شدّتہا واقسام حوادث نازل میکند.وایشان رابہ نقصان مال وجان وثمرہامی آزماید.بازبدین وأنواع البرکات، کما ینزل علی أہل الباقیات الصالحات، ویلحقہم بقوم محبوبین.آزمائش برایشان رحم میفرماید وبرایشان رحمت ہاو انواع برکات نازل میفر ماید.وبا محبوبان خود ایشان را وتُحسَب تلک الآفاتُ عبادۃً منہم، ومجاہدۃً من عند أنفسہم بما صبروا پیوند مے بخشد.واین آفات را از ایشان درحکم عبادت و مجاہدہ می پندارد چرا کہ اوشان بر علیہا مستقیمین.فیبلّغہم اللّٰہ مقاماتٍ بلغہا قوم زاہدون صالحون وحزب سختی ہا صبر میکنند.پس خدا تعالیٰ اوشان رابدان مقامات می رساند کہ مقام زاہدان وصالحان عابدون مرتاضون، ویرضیٰ عنہم کما رضی عن قوم یعبدونہ ویؤثرونہ ویجعلہم وعابدان ومرتاضان ست و از ایشان آنچنان خوش میشود کہ از قومے خوش شد کہ پرستش اومیکنند و او را
126 أنسیتم ما جاء الناموس بہ أو کنتم قومًا غافلین؟ أ تَوانَون فی أمر الدین، وأَخْلَدْتم آیا قرآن کریم را فراموش کردہ اید یاخود درغفلت زندگی بسر میکنید.آیا در امر دین سستی میکنید.وبکوشش تمامتر إلی الدنیا مُجِدّین؟ وإذا مررتم بالحق مررتم مستہزئین إلا قلیل من الراشدین.بردنیا افتادہ اید.وچون برحق گزر میکنید باستہزا گذر میکنید.مگراند کے از ہدایت یابان فائزین.ویختار لکل ما صلح لنفسہ، وہو یعلم مصالح المخلوقین.اختیار میکنند.واوشان را از کامیابان میگرداند.وبرائے ہریکے آن می پسندد کہ برائے نفس او بہترست.و او فما بقی محل اعتراض فی ہذا المقام، فإنہم وجدوا جزاء ہم علی الآلام، وأصابہم مصالح مخلوق خود را خوب میداند.پس دریں جا ہیچ محل اعتراض نماند.چرا کہ اوشان جزائے درد ہائے خود یافتند حظ کثیر وأُعطوا نعمًا غیر محدودۃ من الفضل التام، ودخلوا فی مقعدِ صدقٍ واز فضل کامل خدا تعالیٰ نعمتہائے غیر محدودہ یافتند.و درمجلس صدق ہمچو راستبازان بزرگ کالأبرار الکرام، ووصلوا اللذّات الأبدیۃ فرحین.وورثوا جنۃً لا تنقطع داخل کردہ شدند.و درحالت خوشی وخرمی لذات ابدیہ رارسیدند.و وارث آن جنت شدند کہ درہیچ وقتے نعماؤہا ولا تنفد آلاؤہا، ووجدوا نعماءً أبدیۃ بنصبِ أیامٍ قلائل، ودخلوا نعمتہائے آن منقطع نخواہند شد.وبعوض تکالیف چند روزہ نعمتہائے جاودانی یافتند.وبرائے دوام در فردوس ربہم خالدین.وما ہذہ الدنیا إلا طرفۃ عین تنقضی مرارتہا وحلاوتہا، بہشت داخل شدند.واین دنیا ہمچو مدت پلک زدن ست.تلخی وشیرینی اوہمہ مے گذرد.وتنعدم نضارتہا وطراوتہا، ولا تبقی لذتہا ولا عقوبتہا، فلا تتمایلُ علیہا أعین العارفین.وتازگی او معدوم می شود.و لذّت وعقوبت آن باقی نمی ماند.پس از ہمین وجہ چشم عارفان برومائل نمی گردد ہٰذَا مِمَّا أَلْہَمَنِی رَبِّی فخُذْہا وَکُنْ مِّنَ الشَّاکِرِین.منہ.این آن چیز است کہ خدا در دلم انداخت.پس بگیرد شکر کن.منہ
127 وأکثرکم ینظرون إلی أہل الحق بنظر السّخط محقّرین.وإنّ سُخط اللّٰہ أکبر واکثر شما اہل حق رابنظر غضب واہانت مے بینند.وغضب خدا از غضب ایشان من سخطہم وہو غیور لعبادہ المأمورین.بزرگترست واو برائے بندگان مامور خود غیرت مے دارد.وما کنتُ أن أفتری علیہ، إنہ ربی أحسنَ مثوای، وإنہ لا یُمہّل المفترین.ومن نہ آنستم کہ برخدا تعالیٰ افترا کنم.اوآن خداوندے ست کہ مرارا حتہا بخشید وبمن نیکی ہاکرد.واو افترا کنندگان وأنتم تعرفون سنن اللّٰہ ثم تنقلبون منکرین.وتدرسون کتابہ ثم لا را ہرگز مہلت نمی دہد.وشما سنتہائے خدارا میدانید باز برگشتہ می شوید.وکتاب او را میخوانید.بازروز ہائے تفہمون أیّام الصّادقین.فضّلکمُ اللّٰہ بعقل ودرایۃٍ، وفراسۃٍ مانعۃٍ من غوایۃٍ، صادقان را نمی فہمید.خدا برشما بعقل و دانش فضل کرد.وشمارا فراستے بخشید کہ از گمراہی باز دارد فالحجۃ علیکم أَ تَمُّ مِن أحبابکم، وذنبُ الأُمّیّین والمحجوبین کلہ علی رقابکم، پس حجت الٰہی برشما از دیگر دوستان شما اکمل و اتم است.وگناہ ناخواندگان ومحجوبان ہمہ برگردن شماست إن کنتم معرضین.وإنی قد بلّغتُ کما أُمرْتُ، وصدَعتُ بما أُلہِمتُ، فالآن اگر شما کنارہ کش بمانید.ومن چنانکہ حکم کردند تبلیغ کردم.والہام الٰہی را پوست کندہ بیان نمودم.پس اکنون لا عذرلجاحدٍ، ولا محلَّ قولٍ لمعاندٍ، وظہر الأمر وحصحص الحق ہیچ منکرے را عذرے باقی نماندہ.ونہ ہیچ معاندے راجائے سخن.وامر ظاہر شدو حق بظہور پیوست وخدا وقطَع اللّٰہ دابِر المرتابین.ما بقی الأمر مرموزا مکتومًا، وصار المستور مکشوفًا قطع شکوک شک کنندگان کرد.اکنون این امر مخفی ومستور نماندہ.وہرچہ پنہان بود منکشف گشت.پس معلومًا، فلا تکتموا الحق بعد ظہورہ إن کنتم صالحین.راستی را پس زانکہ ظاہر شد نپوشید.اگر مردان نیکو ہستید.
128 ولا یختلج فی قلبک أن العلماء ینتظرون نزول المسیح من السّماء ، فکیف نقبل قولًا یخالف قول العلماء ؟ فإن وفاۃ المسیح ثابت بالآیات المحکمۃ القاطعۃ، و الآثارِ المتواترۃ المتظاہرۃ، فالأمر الذی ثبت بتظاہر الأحادیث والقرآن، و الیقین والبرہان، لا یبلغ شأنَہ أمرٌ یؤخذ من ظنون لا مِن سبل الإیقان، وَلا یخلو من أوساخ مَسِّ ید الإنسان، فالأمن کل الأمن فی قبول أمر تظاہرَ فیہ الحدیث والفرقان، والعقل والوجدان، ولہ نظائر فی کتب الأولین.فإن النزول علی طریق البروز قد سُلِّمَ فی الصّحف السّابقۃ، وأمّا نزول أحد بنفسہ من السّماء فلیس نظیرہ فی الأزمنۃ الماضیۃ.أما سمعتَ کیف أوَّلَ عیسٰی علیہ السلام و در دل تواین نہ بگذرد کہ عالمان این انتظارمیدارند کہ مسیح از آسمان نازل خواہد شد.پس چگونہ قول عالماں را قبول نکنیم چرا کہ وفات مسیح بآیات محکمہ قطعیتہ الدلالت ثابت است.و از روئے آثار متواترہ بپایہ ثبوت رسیدہ.پس امرے کہ از تظاہر حدیث وقرآن ثابت شدہ است.وازیقین وبرہان محقق گشتہ بشان آن آن امردیگر نتواند رسید کہ ماخذ آن صرف ظنون اند نہ یقین.ونیز از چرک ہائے مس انسانی خالی نیست.پس ہمہ امن در قبول آن امراست کہ دران حدیث و قرآن بہ پشتئ یکدیگر افتادہ اند.ونیز عقل و وجدان ونظائر کتب اولین مویّد وشاہدآن ہستند.چرا کہ نزول از آسمان بطریق بروز امرے ست کہ درصحف سابقہ تسلیم داشتہ شدہ است.مگر نزول کسے بذات خود از آسمان امرے ست کہ نظیرآن در ازمنہ گزشتہ یافتہ نمی شود.آیا نشنیدہ کہ عیسیٰ علیہ السلام نبأَ نزولِ إیلیا عند السؤالات، وصرَفہ عن الحقیقۃ إلی الاستعارات؟ چگونہ دربارہ نزول الیاس تاویل کرد.و نزول او را از حقیقت گردانیدہ بصورت استعارہ قرار داد والیہود أخذوا بظاہر النصوص وما مالوا إلٰی التأویلات، بل کفّروا المسیح مگر یہودیان بظاہر نصوص پنجہ زدند.وہیچ تاویلے نکردند بلکہ مسیح رابوجہ تاویل او کافر قرار دادند
129 علٰی تأویلہ ورموہ بالتکذیبات، وقالوا ملحد یصرف النصوص عن ظواہرہا ویُعرِض عن البیّنات، فغضب اللّٰہ علیہم وجعلہم من الملعونین.فاتقوا جُحْرَ الیہود والقول المردود، واتقوا موطاءَ قدمِ الفاسقین، واقبَلوا ما قال عیسٰی مِن قبل وفی ہذا الحین.إن مثل نزول عیسیٰ فی ہذا الوقت الأغسیٰ ، کمثل نزول إیلیا فیما مضیٰ ، فاعتبروا یا أولی الأبصار، ولا تختاروا سبل الأشرار، ولا تخالفوا ما بیّن اللّٰہ علٰی لسان النبیین.وأمّا ما جاء فی حدیث خیر الأنبیاء ، مِن ذکر دمشق وغیرہ من الأنباء ، فأ کثرُہ استعارات ومجازات من حضرۃ الکبریاء ، وتحتہا أسرار فی حلل لطائف الإیماء وگفتند ملحدے ست کذاب نصوص را از ظاہر آن می گرداند.و از بینات اعراض میکند.پس خدا تعالیٰ برایشان لعنت کرد وغضب خود نازل فرمود.پس شما از سوراخ یہود پرہیز کنید.و قول مردود راپیروی مکنید.و ازجائے قدم فاسقان دور بمانید.و آنچہ عیسیٰ پیش زین گفت واکنون گفت آنرا قبول کنید.بہ تحقیق مثال نزول عیسیٰ درین وقت تاریخ ہمچو مثال نزول ایلیا ست در وقت گذشتہ.پس اے صاحبان دانش از امرے امرے دیگر را بفہمید.وطریق شریران را اختیار مکنید.وآن امر را مخالفت مکنید کہ خدا تعالیٰ برزبان انبیاء بیان فرمود.مگر آنچہ درحدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ذکر دمشق وغیرہ آمدہ است پس اکثر آن از قبیل استعارات و مجازات ست.و زیرآن اسرار اند کما مضت سنۃ اللّٰہ فی صحف السابقین.ثم من الممکن أن ننزل بساحۃ دمشق أو چنانچہ درصحف سابقین ہمین سنت گزشتہ است.باز از ممکنات کہ ماوقتے بدمشق نزول کنیم یا أحدٌ من أتباعنا المخلصین، وما جاء فی الحدیث لفظُ ’’النزول من السّماء ‘‘ لیرتاب احدے از اتباع ماداخل شود.ودرحدیث لفظ نزول از آسمان نیست تاکسے شک کنندہ
130 أحد من المرتابین.أو لم تَکْفِکم فی موت المسیح شہادۃُ الفرقان وشہادۃ نبیّنا المصطفٰی رسول الرحمٰن؟ فبأی حدیث تؤمنون بعدہما یا معشر الإخوان؟ ما لکم لا تتفکرون کالمحقّقین؟ أعندکم سندٌ من اللّٰہ ورسولہ خیر الوریٰ، فی معنی التوفّی الذی جاء فی القرآن الأزکیٰ، فأنتم تتّکؤن علٰی ذالک السند وتسلکون سبل التقٰی، أو تؤوّلونہ من عند أنفسکم ومن الہوٰی؟ فإن کان سند فأخرِجوہ لنا إن کنتم صادقین.ولن تستطیعوا أن تأتوا بسندٍ، فلا تُخْلِدوا إلی فَنَدٍ، إن کنتم متقین.وإیاکم والتفسیرَ بالرأی ولا تترکوا الہُدٰی، فتؤخذون من مکان قریب ولا یبقٰی لکم عذر ولا حجۃ أخرٰی، فما لکم لا تخافون یوم الدین؟ شک کند.آیا شمارا دربارہ موت مسیح شہادت قرآن شریف کافی نیست.وآیا شہادت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کفایت ندارد.پس باوجود این ہر دو گواہان چہ حاجتے بحدیثے دیگرے ماندہ اے برادران چہ شد شمارا کہ ہمچو محققان فکر نمی کنید.آیا نزد شما از خدا ورسول اودرمعنی توفی کہ درقرآن شریف درمحل ذکرحضرت عیسیٰ موجودست سندے ست.پس شما بران سند تکیہ میکنید وراہ پرہیز گاری اختیارمے کنید.یا ازطرف خود تاویل ہامے کنید.اگر سندے باشد پس آن سند برائے مابیرون آرید اگر میدانید کہ شما برراستی ہستید.وہرگز نتوانید کہ سندے پیش کنید.بس بسوئے دروغ میل مکنید.اگر پرہیز گارہستید.وخودرا از تفسیر بالرائے دور دارید وہدایت را مکنید.ورنہ ازمکان قریب گرفتار خواہید شد.وہیچ عذر ے وحجتے نخواہد ماند.چہ پیش آمد شمارا کہ از روز قیامت نمی ترسید.وأما نحن فما نقول فی معنی التوفّی إلا ما قال خیر البریّۃ، وأصحابہ الذین مگر ماکہ ہستیم پس درمعنی توفی ہمان میگوئیم کہ رسول ماصلی اللہ علیہ وسلم گفت.ونیز آنچہ اصحاب أوتوا العلم من منبع النبوۃ، وما نقبل خلاف ذالک رأیَ أحدٍ ولا قول قائلٍ، إلّا او گفتند کہ ازچشمہ نبوت بہرہ ور بودند.وآنچہ برخلاف این باشد از قولے ورائے قبول نمے کنیم.مگر
131 ما وافقَ قولَ اللّٰہ وقولَ خیر المرسلین.وإذا حصحص الحق فی معنی التوفّی مِن لسان خاتم النبیین، وثبت أن التوفّی ہو الإماتۃ والإفناء ، لا الرفع والاستیفاء ، کما ہو زعم المخالفین.فوجب أن نأخذ الحق الثابت بأیادی الصدق والصفاء ، ولا نبالی قولَ السفہاء والجہلاء ، ونؤوّل کل ما خالف الأمر الثابت بالنصوص والبراہین، ولا نقدّم الظنون علی الیقین، ولا نؤثر الظلمۃ علی الأنوار، ولا قولَ المخلوق علی قول اللّٰہ عالِمِ الأسرار.أنترک البینات للمتشابہات، أو نضیع الیقینیات للظنیات؟ ولن یفعل مثل ہذا إلا جہول أو سفیہ من المتعصبین.آنچہ موافق قول اللہ و رسول باشد.وہرگاہ کہ دربارہ معنی متوفی امر حق از زبان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر گشت وثابت شد کہ معنی توفی میرانیدن ست.نہ آنکہ برداشتہ شدن یاتمامتر گرفتہ شدن.چنانکہ زعم مخالفان ست.پس واجب شد کہ ماحق ثابت شدہ را بدستہائے صدق و صفا بگیریم.وبقول سفہاء وجہلا ہیچ پروائے نداریم.وہرچہ از احادیث وآثار مخالف نصوص وبراہین افتادہ است آنرا تاویل کنیم.و ظن را بریقین مقدم نداریم.و نہ تاریکی را برنور مقدم کنیم ونہ قول مخلوق رابر قول خدا مقدم داریم.آیا بینات را برائے متشابہات فرو گزاریم یایقینیات را برائے ظنیّات ضائع کنیم.وہمچو این کارے ہرگز کسے نخواہد کرد.مگر آنکہ جاہلے وسفیہے از متعصبان باشد.ألا ترٰی أن نزول المسیح عند منارۃ دمشق یقتضی أن ینزل ہو بنفسہ آیا نمی بینی کہ فرود آمدن مسیح نزد منارہ دمشق میخواہد کہ اوبنفس خود در آنجا فرود آید عند تلک البقعۃ، وذٰلک غیر جائز بالنصوص القاطعۃ المحکمۃ.ولا شک أنّ واین امر از روئے نصوص قاطعہ محکمہ ناجائز وغیر ممکن ست.ودرین ہیچ شک
132 اعتقاد نزول المسیح عند ذٰلک المکان یخالف أمر موتہ الذی یُفہَم مِن بیّنات نصوص القرآن.ولأجل ذٰلک ذہب الأئمۃ الأتقیاء إلی موت عیسیٰ، وقالوا إنہ مات ولحق الموتٰی، کما ہو مذہب مالک وابن حزم والإمام البخاری، وغیر ذٰلک من أکابر المحدثین، وعلیہ اتفق جمیع أکابر المعتزلین.وقال بعض کرام الأولیاء إن حیاۃ عیسٰی، لیس کحیاۃ نبینا بل ہو دون حیاۃ إبراہیم وموسیٰ، فأشار إلی أنّ حیاتہ مِن جنس حیاۃ الأنبیاء ، لا کحیاۃ ہذا العالم کما ہو زعم الجہلاء.واعلم أن الإجماع لیس علٰی حیاتہ، بل نحن أحقّ أن ندّعی الإجماع علی مماتہ کما سمعتَ آراء الأوّلین.نیست کہ این اعتقاد نزول مسیح مخالف آن واقعہ موت ست کہ از نصوص قرآن شریف فہمیدہ می شود.ہمین باعث است کہ امامان پرہیز گاران سوئے موت عیسیٰ علیہ السلام رفتہ اند.وگفتہ اند کہ اوبمرد وبمردگان پیوست.چنانچہ ہمین مذہب مالک رضی اللہ عنہ وامام ابن حزم وامام بخاری وغیرہ اکابر محدثین ست.وبرہمین مذہب تمام اکابر معتزلہ اتفاق میدارند.وبعض بزرگان از اولیا گفتہ اندکہ زندگی عیسیٰ از زندگی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کمترست.بلکہ از زندگی ابراہیم علیہ السلام وموسیٰ علیہ السلام ہم فروتر افتادہ.پس درین قول آن بزرگ اشارہ فرمودہ است کہ حیات عیسیٰ از جنس حیات انبیاء ست نہ از جنس حیات این دنیا.چنانکہ آن زعم جاہلان ست.وبدانکہ اجماع برحیات عیسیٰ علیہ السلام ہرگز نیست بلکہ ماحق میداریم کہ دعویٰ اجماع برموت اوکنیم.چنانچہ پیش زین شنیدی وتعلم أن أکثر أکابر الأُمّۃ ذہبوا إلی موتہ بالصّراحۃ، والآخرون صمتوا و میدانی کہ اکثر اکابر امت بسوئے موت او رفتہ اند.ودیگران بعد شنیدن سخن ایشان بعد ما سمعوا قول تلک الأئمۃ، وما ہذا إلا الإجماع عند العاقلین.ثم تعلم أنّ خاموش ماندند.وہمین است کہ آنرا اجماع نام بایدنہاد.باز میدانی کہ
133 کتاب اللّٰہ قد صرّح ہذا البیان، فمَن خالفہ فقد مان، ولا نقبَل إجماعًا یخالف القرآن، وحَسْبُنا کتاب اللّٰہ ولا نسمع قول الآخرین.ومِن فضل اللّٰہ ورحمتہ أن الصحابۃ والتابعین، والأئمۃ الآتون بعدہم ذہبوا إلی موت عیسیٰ، ورآہ نبیّناصلی اللہ علیہ وسلم لیلۃَ المعراج فی أنبیاء ماتوا ودخلوا دارًا أخرٰی، ورؤیتہ لیس بباطل بل ہو حق واضح وکشفٌ من اللّٰہ الأعلٰی.فما لک لا تقبل شہادۃ الرسول المقبول، ولا تقبل شہادۃ القرآن وترضٰی بالقول المردود کالجہول، ولا تنظر بعین المحققین ثم لا یمکن لأحد أن یأتی بأثر من الصحابۃ أو حدیث من خیر البریّۃ، فی تفسیر لفظ التوفّی کتاب اللہ بیان موت مسیح بتصریح کردہ است.پس ہر کہ مخالف آن بیان گوید دروغ گو ست.وماچنین اجماعے را قبول نکنیم کہ مخالف قرآن باشد.ومارا کتاب اللہ کافی ست وسخن دیگران نمی شنویم.واین فضل خدا ورحمت او ست کہ صحابہ وتابعین وامامان کہ بعد زیشان آمدند بسوئے موت عیسیٰ علیہ السلام رفتہ اند.وآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم درشب معراج او را در پیغمبرانے دید کہ بمردند و در دار آخرت رسیدند.ودیدن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باطل نتواند شد بلکہ آن حق واضح وکشف صریح از خدا تعالیٰ ست.پس چہ شد ترا کہ شہادت نبی صلی اللہ علیہ وسلم قبول نمی کنی ونہ شہادت قرآن رامی پذیری.و ہمچو نادانے بقول مردود و خوش ہستی و بچشم تحقیق نمی بینی باز درحد امکان کسے نیست کہ چنین اثرے از صحابہ یا حدیثے از آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیش کند کہ معنی لفظ توفی بجز میرا نیدن چیزے بغیرمعنی الإماتۃ، ولا یقدرون علیہ أبدًا ولو ماتوا بالحسرۃ، فأیّ دلیل أکبر دیگر دران بیان کردہ باشند.وہرگز مخالفان برین قدرت نخواہند یافت اگرچہ از حسرت بمیرند.پس کدام دلیل من ذلک لو کان فی قلب مثقال ذرۃ من الخشیۃ؟ فإن بحث الوفاۃ والحیاۃ أصلٌ ازین بزرگتر خواہد بود.اگر در دلے مقدار یکذرہ خوف خدا باشد.چرا کہ بحث وفات وحیات عیسیٰ علیہ السلام
134 مقدَّم فی ہذہ المناظرات، فلمّا حصحص صدقُنا فی الأصل ما بقی بحث فی الفروعات، بل وجب أن نصرفہا إلی معنی یناسب معنی الأصل، کما ہو طریق الدیانۃ والعدل، ولن نقبل معانیَ تنافی الأصل وتستلزم التناقض، بل نرجعہا إلی الأصل المحکم کالمحققین.وقال بعض المخالفین من العلماء المجادلین: إن معنی التوفّی إماتۃ، و لیس فیہ شک ولا شبہۃ، فإنہا ثبت بلسان النبی وصحابتہ، وما کان لأحد أن یعصی بیانَ فُوْہتہ، بل فیہ مخافۃُ کفر ومعصیۃٍ، وخوفُ نکال و عقوبۃٍ، وخسران الدّین؛ ولکنّا لا نقول أن عیسیٰ علیہ السلام تُوُفِّیَ وصار اصل مقدم درین مباحثات است.پس ہرگاہ کہ ثابت شد کہ ما دراصل بحث حق بجانب ہستیم.پس در فروعات بحثے نماند.بلکہ مافروعات رابسوئے اصل خواہیم گردانید وآن معنی خواہیم کرد کہ بمعنی اصل مناسبت دارند.چنانچہ طریق عدل و دیانت است.وہرگز آن معنی ہا قبول نخواہیم کرد کہ بااصل منافات دارند و موجب تناقض باشند.بلکہ آنرا سوئے اصل محکم ہمچو محققان رجوع خواہیم داد.و بعض مخالفان ما از علماء چنین گفتہ اند کہ بلاشبہ معنی توفی میرا نیدن است.و درین ہیچ شک و شبہ نیست.چرا کہ این معنی بزبان نبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحاب اوثابت شدہ ومجال احدے نیست کہ آن معنی را رد کند کہ از دہان مبارک او بیرون آمد اند.بلکہ درین انکار اندیشہ کفر ومعصیت ست.وبیم عذاب وعقوبت وزیان دین ست.مگر مااین نمی گوئیم کہ عیسیٰ علیہ السلام بمرد و از میرندگان من الأموات، لیلزمنا القول بالبروز فی نبأ خیر الکائنات، بل معنی الآیۃ شد.تانزول او را بطور بروز اعتقاد داریم.بلکہ معنے آیت این ست أنہ سیُتَوَفّی بعد نزولہ، فلم یبق من الشبہات، وبطل قول المعترضین.کہ عیسیٰ علیہ السلام بعد نزول وفات خواہد یافت.پس بدین توجیہ ہیچ اعتراضے باقی نمی ماند.
135 و أمّا جوابنا فاعلم أن ہذا القول قد قیل مِن قِلّۃ التدبّر والاستعجال، ولو فکّر قائلہ لندم من ہذا القِیل والقال، ولاستغفر کالمذنبین المفرطین.أَمَا تَدَبَّرَ آیۃَ (فلمّا تَوفَّیتَنی) بالفکر والإمعان؟ فإنہ نصٌّ صریح علی أن عیسٰی مات فی سابق الزمان، لا أنہ یموت فی حین من الأحیان، فإن الصیغۃ تدل علٰی الزمان الماضی، والصرف ہٰہنا کالقاضی.ثم إن کنتَ لا ترضی بحکم الصرف، وتجعل الماضی استقبالًا بتبدیل الحرف، فہٰذا ظلمٌ منک ومن أمثالک، ومع ذالک لا یفیدک غلوُّ جدالک، وتکون فی ہذا أیضًا من الکاذبین.فإن المسیح یقول فی ہذہ الآیات: إن قومی مگر جواب ماپس بدانکہ این سخن از قلت تدبر وشتاب کاری گفتہ شدہ است.واگر قائل این سخن فکر کردے البتہ شرمندہ شدے.وہمچو گناہگاران استغفار کردے آیا او در آیت فلما توفیتنی تدبر نہ کرد و بفکر وغور ندید.چرا کہ این آیت نص صریح برین امر است کہ عیسیٰ علیہ السلام درزمانہ گزشتہ وفات یافت.نہ اینکہ آئندہ در وقتے خواہد مرد.چرا کہ این صیغہ دلالت بر زبان ماضی میکند وعلم صرف اینجا مثل حاکم است.باز اگر حال چنین ست کہ تو بحکم صرف راضی نیستی.وماضی را بہ تبدیل حرف استبقال میگردانی.پس این ظلمے ست از تو وامثال تو.وباوجود این اینجا نزاع تو ہیچ فائدہ ترانمی بخشد.وبدین پہلو نیز ہم دروغگو ثابت خواہی شد.چرا کہ مسیح درین آیات میگوید کہ قوم من بعداز مردن من گمراہ قد ضلّوا بعد موتی لا فی الحیاۃ، فإن کنتَ تحسب عیسٰی حیًّا إلٰی ہٰذا الزمان شدند نہ در زندگی من.پس اگر گمان میکنی کہ عیسیٰ علیہ السلام تا این زمانہ درآسمان زندہ فی السماء ، فلزِمک أن تقرّ بأن النصارٰی قائمون علی الحقّ إلٰی ہٰذا العصر لا است پس ازین لازم می آید کہ اقرار کنی کہ نصاریٰ ہم تا ہنوز برحق اند نہ از گمراہان و ہوا
136 من أہل الضلالۃ والہواء.فأین تذہب یا مسکین، وقد أحاطت علیک البراہین، وظہر الحق وأنت تکتمہ کالمتجاہلین.أیہا الغالی اتَّقِ سبلَ الغلواء ، واترُکْ طریق الخیلاء ، ولا تُغضِب اللّٰہ بالمعصیۃ، ولا ترِدْ مَورِدَ المأثمۃ، وسارِعْ إلی التوبۃ والمعذرۃ، ولا تکن کالذی بَسَأَ بأکل الجیفۃ، وما اکترث لما فیہ من العَذِرۃ، و فِرّ إلی اللّٰہ کالمستغفرین.پرستان پس اے مسکین کجا میروی و بر تو دلائل احاطہ کردہ اند وحق ظاہر شد وتو او را ہمچو تجاہل کنندگان می پوشی.اے غلوّ کنندہ از طریق ہائے غلو بپرہیز.وراہ تکبر را ترک کن.وخدا را بمعصیت درغضب میار.و درمقام گناہ وارد مشو.وبسوئے توبہ ومعذرت جلدی کن.وہمچوآن کسے مشوکہبخوردن مردار خو گرفتہ است.واز گندگی ہائے آن ہیچ پروائے ندارد.وبسوئے خدا ہمچو کسے بگریز کہ معافی می خواہد اَطِعْ ربَّکَ الجَبّار أھلَ لأَوَامِر خدائے خود راکہ جبّار ست واہل احکام اطاعت کن وکَیفَ عَلی نَارا النَّھَابِرِتصبِر وچگونہ برآتش مصیبت ہاصبر توانی کرد وَحُبُّ الھَویٰ واللّٰہِ صِلٌّ مُدمِّرٌ ومحبت ہوا و ہوس بخدا ماریست ہلاک کنندہ فَلا تختَرُوا الطَغْویٰ فَإنّ إلٰھنَا پس از حد در گزشتن اختیار مکنید چرا کہ خدائے ما ولا تقعُدَنْ یَا ابْنَ الکِرام بمُفسِدٍ وای پسر بزرگان بامفسدے منشین وَخَفْ قَھْرَہ وا ترُکْ طریق التجاسرٖ وازقہر اوبترس و طریق دلیری ہا بگذار وأَنْتَ تَأَذَّی عِنْد حَرّ الھَواجِر وتو درتپش ہائے نیم روز تکالیف می برداری وطاقت نداری کمَلْمَسِ أفعیٰ ناءِمٍ* فی النَّواظرٖ واز بیرون ہمچو جلد مار صاف و ملائم است غَیورٌ عَلٰی حُرُما تِہ غَیر قاصِرٖ برحدود خود غیرتمندست ومجرمان را معذور نخواہد گذاشت فترجِعَ مِن حُبِّ الشّریر کخاسر پس از محبت بد سرشت ہمچو زیان کارے خواہی گردید * ایڈیشن اول میں غالباً سہوکتابت ہے.درست لفظ ’’ناعِمٍ ‘‘ معلوم ہوتا ہے.(ناشر)
137 وَلَا تَحْسَبَنْ ذَنْبًا صَغِیرًا کھیِّنٍ و گناہ خورد را آسان مدان وآخرُ نُصحِي توبَۃ ثم توبَۃ وآخر پند من این ست کہ توبہ کن توبہ کن فَإِنّ وَدادَ اللَّمَمِ إِحدَی الکبَاءِرٖ چرا کہ دوستی گناہ خورد از گناہان بزرگ است وَمَوتُ الفتٰی خَیرٌ لّہٗ مِن مَناکِرٖ ومردن مرد از ارتکاب منکرات ومعاصی نیکو ترست أیّہا الصّلحاء ! إنّی بلّغتُکم الحق لإ تمام الحجّۃ، ولو کان فیہ بعض المرارۃ، فتدبَّروا اے مردان نیک من امر حق را برائے اتمام حجت بشمارسا نیدم.اگرچہ دران بعض تلخی ہاست.پس تدبر کنید نصَرکم اللّٰہ إن اللّٰہ ینصر المتدبّرین.ولا یختلج فی قلبکم أن المسیح الموعود خدا مدد شماکند.وخدا بالضرور مدد کسانے میفرماید کہ تدبر میکنند.و در دل شما این نبگذرد کہ مسیح موعود یُحارب الکفار، ویقتل الأشرار، ویخرج کملوکٍ مقتدرین.ولیست ہٰہنا باکافران جنگہا خواہد کرد.وشریر اں را خواہد کشت.وہمچو بادشاہان خروج خواہد کرد.و درینجانہ این قوت ہٰذہ القوۃ، وَلا العساکر والشوکۃ، وسطوۃ السلاطین؟ است.نہ لشکرہا و نہ شوکت و نہ دبدبہ شاہانہ.فاعلموا أنّ ہذہ الحکایات والروایات لیست بِصَحِیْحَۃٍ، ویَعرِف سُقْمَہا پس بدانید کہ این حکایتہا وروایتہا صحیح نیستند وہرکہ بسلامت طبع در کتب حدیث کلُّ من تفکّر بسلامۃ قریحۃ، ویتدبّر کتب المحدّثین.وأنتم تعلمون أن صحیح فکر کند سقم این روایتہا را خواہد شناخت وشمامیدانید کہ صحیح بخاری الإمام البخاری أصح الکتب بعد کتاب اللّٰہ الفرقان، وقد جاء فیہ أن المسیح بعد کتاب اللہ از ہمہ کتاب ہا صحیح تراست و درآن آمدہ است کہ مسیح ’’یضَع الحربَ‘‘ ففکِّروا بالإمعان.فإن ہٰذہ الفقرۃ وأمثالہا تشفیکم جنگ نخواہد کرد پس درین فقرہ فکر کنید.چرا کہ این فقرہ وامثال آن شمار ا شفا خواہد بخشید
138 وتُخرج شکوک الجَنان،لأنہا تدلّ أن المسیح لا تحارب* الناس، بل یُفحم الأعداء ویزیل الأوہام والوسواس، ویأتی بکلمات حِکْمِیّۃ، وآیاتٍ سماویّۃ، حَتّٰی یُخرِج من الصدور أضغانہا، ویقتُل شیطانہا، ولکن لا بسیوف ورُمح وقناۃ، بل بحربۃ من سماوات، ویستفتح بتضرعات وأدعیۃ، لا بسہام وأسنّۃٍ، ولأجل ذٰلک لا یحارب یأجوجَ ومأجوج، بل یسأل اللّٰہ أن یعطیہ من لدنہ الغلبۃَ وشک ہائے دل بیرون خواہد کرد.زیراکہ این فقرہ وامثال آن دلالت میکندکہ مسیح بامردم کارزارے نکند بلکہ دشمنان را بازالہ اوہام ووساوس ملزم خواہد کرد.وکلمات پرحکمت بیان خواہد فرمود.ونشانہائے آسمانی خواہد نمود.بحد یکہ کینہ ہا از سینہ ہا خواہد ربود.وشیطان کینہ وران راقتل خواہد کرد مگرنہ بہ تیغہا ونہ بہ نیزہ ہا بلکہ بحربہ آسمانی.و فتح خود بتضرعہا و دعاہا بخواہد نہ بہ تیرہا و نیزہ ہا واز ہمین سبب ست کہ با یاجوج وماجوج جنگ نخواہد کرد بلکہ از خدا خواہد خواست کہ اورا غلبہ وعروج والعروج، فیکون فی آخر الأمر من الغالبین.بخشد.پس درآخر امر غالب خواہد شد.فالقول الذی یخالف ہذا الحدیث الصّحیح والخبر الصّحیح پس سخنے کہ این حدیث صحیح را مخالف ست.وبدین خبر صحیح مخالفت دارد آن سخن مردود وباطل ولا یقبلہ إلا جاہل من الجاہلین.ثم اعلموا أن قتل الناس مردود است وباطل وآنرا قبول نخواہد کرد مگر کسے کہ از جاہلان باشد.باز بدانید کہ بغیر تفہیم و تبلیغ و من غیر تفہیمٍ وتبلیغٍ وإتمامِ حجّۃٍ أمرٌ شنیع لا یرضیٰ بہ أہل فطنۃ، اتمام حجت مردم راکشتن امرے زشت ست کہ ہیچ دانشمندے بدان راضی نیست.ونہ ہیچ نور فطرت ولا نورُ فطرۃ، فکیف یُعزَی إلی اللّٰہ العادل الرحیم، والمنّان الرؤوف الکریم؟ بدان خوشنودست.پس چگونہ این امر بسوئے عادل ورحیم ومحسن ورؤف وکریم نسبت کردہ شود.
139 ولو کان ہذا جائزًا لکان أحقَّ بہ سَیّدُنا خیر البریّۃ، وقد سمعتم أنہ صبَر مدّۃ و اگر این امر جائز بودے.پس زیادہ تر حقدار این آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بود.وشما شنیدہ آید کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم طویلۃ علی تطاول الکَفَرۃ الفَجَرۃ، ورأی منہم کثیر*من الظلم والأذیّۃ، وأنواع تا مدتے برگردن کشی کافران و فاجران صبر کرد.و از ایشان بسیارے از ظلم واذیت وگوناگون الشدّۃ والصعوبۃ، حتی أخرجوہ من البلدۃ، ثم أہرعوا إلیہ متعاقبین مُغاضبین سختی وصعوبت دید.تاآنکہ اورا از مکہ معظمہ بیرون کردند.باز بطور تعاقب بہ نیت قتل سوئے او بتمامتر بنیّۃ القتل و الإبادۃ، فصبر صبرًا لا یوجد نظیرہ فی أَحدٍ من رُسل حضرۃ غضب شتافتند.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آن صبر اختیار کرد کہ نظیرآن در پیغمبران پیشین یافتہ العزّۃ، حتی بلغ الإیذاء منتہاہ، وطال مَداہ، فہناک نزلت ہٰذہ الآیۃ نمی شود.تاآنکہ ایذا بنہایت رسید.ومدت آن دراز کشید.پس درآن وقت این آیت از خدائے سمیع و من اللّٰہ السمیع الخبیر: 3 خبیر نازل شد.ومضمون آیت این ست.کہ آن گروہ ے را اجازت مقابلہ میدہیم کہ مظلوم اند.3 ۱.وخدا قادر است کہ ایشان را مدد دہد.فانظروا کَیفَ صَبَرَ رَسُول اللّٰہ وَخَیر الرُسُل عَلی ظلم الکَفَرۃ إلٰی پس بنگرید کہ چگونہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم برظلم کافران تاروزگارے دراز صبر کرد.برہۃ مِنَ الزَّمَان، وَدفَع بالحَسَنۃِ السّیءۃَ حتی تمّتْ حُجّۃ اللّٰہ الدیّان، وجواب بدی بہ نیکی داد تا آنکہ حجت خدائے جزا دہندہ باتمام رسید.وانقطعَتْ مَعَاذِیْر الکافرین.فاعلموا أن اللّٰہ لیس کقصّابٍ یعبِط الشاۃَ بغیر و ہمہ عذر کافران منقطع شد.پس بدانید کہ خدا تعالیٰ مثل آن قصاب نیست کہ بغیر جرمے گو سپند * سہو کتابت سے کثیر لکھا گیا ہے.درست کثیرًا ہے.(ناشر) ۱ الحج:
140 جریمۃٍ، بل ہو حلیم عادل لا یأخذُ من غیر إتمام حجّۃ، وَہُوَ الّذی أَرْسلنی رامی بکشد.بلکہ اوحلیم وعادل است کہ بغیر اتمام حجت ہیچکس رانمی گیرد.واو ہمان ست کہ مرا از من حضرتہ العلیّۃ، فإیاکم وحُجُبَ الجہل والعصبیّۃ.جناب بلند خود فرستاد.پس برشماست کہ از جہل وتعصب دور باشید.وکم من العلماء والصلحاء اتّبعونی مع کمال العلم والخبرۃ، و وبسیارے از عالمان وصالحان واہل علم ہستند کہ باوجود کمال علم وتجربہ پیروی من کردند.ومی کنند کُفِّروا ولُعِنوا وأُوذُوا بأنواع الفِرْیۃ والتہمۃ، فاستقاموا بما أشرقَ لہم نورُ الحق ومردم اوشانرا کافر قرار دادند وبریشان لعنت فرستادند وبگونا گون دروغ وتہمت ایذا دادند.پس ایشان والمعرفۃ، وصدّقوا قولی مستیقنین، وآمَنوا مصدّقین غیر مرتابین، وألّفوا استقامت ورزیدند.چرا کہ نور حق و معرفت برایشان تافتہ بود.وقول مرا بہ تمامتر یقین تصدیق کردند وایمان آوردند کُتُبًا ورسائل لیعلم الناس أنہم من الشّاہدین.وتری نور الصدق یتلألأ فی وہیچ شکے در دل خود نگذاشتند.ورسالہ ہا و کتاب ہا تالیف کردند تا مردم بدانند کہ ایشان از گواہان ہستند جباہہم، وتخرج کَلِمُ الحِکم من أفواہہم، والاستقامۃُ تترشّح مِن سموۂم، والزہادۃ وتومی بینی کہ نور صدق درپیشانیہائے ایشان می درخشد.وکلمات حکمت ازدہان شان می برآیند.واستقامت یُشاہَد فی وجوہہم، لا یجترؤن علی المحارم ویخافون ربّ العالمین، وتتنزّل از رفتار شان مترشح میگردد.وپرہیز گاری در روہائے ایشان می تابد.برمحرمات جرأت نمی کنند.واز پروردگار عالمیان علیہم سکینۃ کل حین.زکّی اللّٰہ جوہر نفوسہم، وزاد عرفانہم، وجلّی مرآۃ إیمانہم، مے ترسند.وہروقت سکینت برایشان نازل میگردد.خدا تعالیٰ جوہر نفسہائے ایشان پاک کرد.وعرفان ایشان را وسقاہم کأس صدقٍ وعفۃٍ، وأعطاہم أنواع علمٍ ومعرفۃٍ، وأدخلہم فی ترقی داد.وآئینہ ایمان ایشان را روشن کرد.وجامہائے صدق و پرہیز گاری ایشان را نوشانید و گوناگون
141 عبادہِ الصَّالِحِین.فقاموا لِلّٰہ لإطاعتی، وترکوا إرادتہم لإرادتی، و علم و معرفت بخشید.ودربندگان نیکوکار داخل کرد.پس براہ خدا در اطاعت من استادہ اند.وارادہ خودرا خالفوا لی أزواجہم وأحبابہم، وأبناء ہم وآباء ہم، وجاء ونی تائبین.إنہم برائے ارادہ من ترک کردند.وزنان خود را و دوستان خود را وپسران خودرا وپدران خود را برائے من مخالفت کردند من قوم أثنی علیہم ربّی وألہمنی وقال: ’’ تَرَی أَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنَ ونزدم توبہ کنندگان آمدند.ایشان ازان جماعت ماہستند کہ خدا تعالیٰ تعریف ایشان کرد ومرا الہام داد الدَّمْعِ، یُصَلُّونَ عَلَیْکَ.رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُنَادِی وگفت کہ تومی بینی کہ اشک ہا ازچشم شان روان می گردد.برتو درودمی فرستند ومی گویند کہ اے خداوندما لِلإِیمَانِ فَآمَنَّا.رَبَّنَا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِینَ.‘‘ ما آواز منادی کنندہ راشنیدیم کہ برائے قوی کردن ایمان ہا منادی میکند.پس اے خداوندما.ما ایمان آوردیم.پس مارا فہُم مِنّی وأنا منہم، إلا قلیلٌ من الغافلین، فإنہم لحقوا بنا بألسِنہم در گواہان بنویس.پس ایشان از من اند ومن از ایشانم مگر اند کے از غافلان کہ ایشان بزبانہائے خود بما پیوستند لا بقلوبہم، أو أَمْحَلوا بعد شُؤْبُوبِہم، واللّٰہ یعلم ما فی صدور العالمین.نہ بدلہائے خود.یا خشک شدند بعدیکہ نوبت باران اخلاص و خدا خوب میداند کہ درسینہ ہائے جہانیان چیست فطوبیٰ للَّذین سَمِعُوا وَصَایا الحق واستقامُوا عَلَیہا وما سَمِعُوْا بَعْدُ قولَ پس مبارک قومے کہ وصیتہائے حق شنیدند واستقامت ورزیدند وبعد زان نہ سخن زنان خود نساۂم أو أبناۂم أو عشیرتہم، وما صاروا کالکسالٰی بل زادوا فی الیقین.شنیدند ونہ سخن پسران خود و نہ سخن قبیلہ خود وبعد از یقین سست نشدند.فالحاصل أن الرشد قد تبیّن، وأظہر اللّٰہ الحق وبیَّن، وأشرقتْ پس حاصل کلام این است کہ رشد ظاہر شد.وحق پیدا گشت وآن روزہا
142 أیام کانت تنتظرہا الأمم وتترجّاہا الفِرق، وکلُّ أمرٍ موعود حانَ، وخُسِفَ القمر بتافتند کہ مردم و فرقہ ہا انتظار آنہامی داشتند وہر امر موعود نزدیک رسید.وآفتاب وماہ وَالشَّمْس فی رمضان، ورأیتم أن القِلاص تُرکتْ، وَالعِشار عُطِّلتْ، والبحار را در رمضان خسوف شد.و شما دیدہ اید کہ شتران بار برداری و سواری متروک شدند.و دریاہا فُجّرتْ، وَالصّحف نُشرت، ویَأجوجَ ومَأجوج وأفواجہما أُخرجتْ، والجبال شگافتہ شدند.وکتب ورسائل واخبار منتشر گشتند.ویاجوج وماجوج بیرون آمدند.وکوہ ہا دُکّتْ، ومُقدِّمات الساعۃ ظہرتْ، والفتن کُملتْ، والأرض زُلزلتْ، والسماء کوفتہ شدند.ومقدمات قیامت ظاہر گشتند.وفتنہ ہا بکمال رسیدند.وزمین جنبانیدہ شد.وآسمان انفجرت، فاتقوا اللّٰہ ولا تکونوا أوّل المعرضین.منفجر گشت.پس از خدا بترسید و اول معرضان نشوید.وقد تفرّدتُ بفضل اللّٰہ بکشوفٍ صادقۃٍ، ورؤیا صالحۃ، و ومن از بفضل خدا تعالیٰ بکشوف صادقہ و رؤیا صالح و مکالمات الٰہیہ.و مُکالماتٍ إلہیۃ، وکلماتٍ إلہامیۃ، وعلومٍ نافعۃ، وزادنی ربّی بسطۃً کلمات الہامیہ وعلوم نافعہ مخصوصم.وخدائے من درعلم ودین مرا فی العلم والدّین.وَأَرْسلنی مجدِّدًا لہذہ المِاءَۃ، وَسَمّانی عیسیٰ نظرًا علی المفاسد معلومات وسیع داد.وبرائے این امت مرا مجدد فرستاد.ونام من بلحاظ مفاسد موجودہ عیسیٰ المَوْجُوْدَۃ، فَإِن أکثرہَا مِن قَومٍ مَسیحیّین.نہاد.زیرا کہ اکثر مفسدان از مسیحیان ہستند.ومَن جاء نی بقلب سلیم ونیّۃٍ صَحِیْحۃٍ، وإخلاصٍ تامٍّ وإرادۃٍ صادقۃٍ، و ہرکہ بدل سلامت و نیت صحیح و اخلاص تام و ارادت صادقہ نزدم بیاید.
143 ومکث عندی إلٰی مدۃ، فیکشف اللّٰہ عَلَیہ سِرّی فی صحبتی، ویراہ۱ من بعض وتا مدتے درصحبت من بماند.پس خدا تعالیٰ برو راز من خواہد کشود واز بعض نشانہا آیاتٍ و عجائبٍ لإراء ۃ منزلتی، إلا الذین یجیؤننی غافلین منافقین، وَ ل وعجائب ہا اورا خواہد نمود.تاشناسائے رتبہ من گردد.مگر آنانکہ بصورت غافلان ومنافقان می آیند و یطلبون الحق کالخَاشِعین التّائبین، فأولئک الذین بعدُوا مِنّی و حق راہمچو خاشعان وتائبان نمی جویند.پس اینان از من دور ہستند اگرچہ نزدیکان لو کانوا قریبین.رَضُوا بالبُعد والحِرْمان، وَمَا أرادوا أن یُعطَوا حظًّا من العرفان، باشند ایشان بدوری و محرومی راضی شدہ اند.و نمی خواہند کہ حظّے از معرفت ایشان را وما حملہم علی ذٰلک إلا فساد نیّاتہم، وَقِلّۃ مُبالاتہم، وغفلتہم فی أمر الدین.حاصل گردد.وہیچ چیزے بجز فساد نیت ولا پروائی وغفلت دینیہ برین امر ایشان را آمادہ نہ کردہ.والحق والحق أقول، إنّ أحدًا من الناس لا یرانی، إلا بعد ترک الأہواء وراست ست وراست میگویم کہ مراہمان کس خواہد دید کہ از ہوا و ہوس وآرزوہا والأمانی، وَلَیس مِنّی من یقول: ’’أَبنائی ونسوانی، وبیتی وبُستانی’’، وَإنّہ من دست بردار گردد.وآن کسے ازمن نیست کہ میگوید پسران من وزنان من.وخانہ من وباغ من.بلکہ اواز المحجوبین.وَإنّی جئت قومی لأمنعہم من مساوی الأخلاق وشُعب النفاق، محجوبان ست.ومن برائے این آمدم کہ از اخلاق بد منع کنم وطریق اخلاص وتوحید بنمائم.واراہم۲ طریق المخلصین الموحّدین.ولا دینَ لنا إلا دین الإسْلام، ولا کتاب لنا وہیچ دینے نداریم بجز دین الام وہیچ کتابے نداریم إلا الفرقان کتاب اللّٰہ العَلام، ولا نبیّ لنا إلا مُحمّدٌ خاتم النبیّین صَلّی اللّٰہ علیہ وسلم بجز قرآن شریف وہیچ پیغمبرے نداریم بجز حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہ خاتم الانبیاء سہو کتابت ہے درست یُریہ ہے.(ناشر) ۲ سہو کتابت ہے درست اُریھم ہے.ناشر
144 وبارَکَ وَجَعَل أعداء ہ من الملعونین.اشہدوا أنّا نتمسّک است خدا برو درودہا فرستاد وبرکت نازل کرد وبردشمنان او لعنت فرود آورد.گواہ باشید کہ ما بکتاب اللّٰہ القرآن، وَنتّبع أقوال رسول اللّٰہ منبعِ الحق والعرفان، ونقبَل بکتاب الٰہی کہ قرآن شریف است پنجہ می زنیم.وسخنان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم را کہ چشمہ حق و معرفت است ما انعقد علیہ الإجماع بذٰلک الزمان، لا نزید علیہا ولا ننقص منہا، پیروی مے کنیم وہمہ آن اموررا قبول مے کنیم کہ درآن زمانہ باجماع صحابہ صحیح قرار یافتند.نہ بران امور وعلیہا نحیا وعلیہا نموت، وَمَن زاد علٰی ہذہ الشریعۃ مثقال ذرّۃ أو نقص زیادہ می کنیم ونہ از آنہا کم میسازیم.وبر آنہا زندہ خواہیم ماند وبر آنہا خواہیم مرد.وہرکہ بمقداریک ذرہ برین شریعت منہا، أو کفر بعقیدۃ إجماعیّۃ، فعلیہ لعنۃ اللّٰہ والملائکۃ والناس أجمعین.زیادہ کرد یاکم نمود یا انکار عقیدہ اجماعیہ کرد.پس برو لعنت خدا ولعنت فرشتگان وہمہ آدمیان ست.ھٰذا اِعتِقادِیْ، وَ ہُو مَقصُودی و مرادی ، و لا أخالف این اعتقاد من است وہمین مقصود من است ومراد من.ومن قومی فی الأصول الإجماعیۃ، وَمَا جئتُ بمحدَثاتٍ کَالفِرق المبتدعۃ، باقوم خود در اصول اجماعیہ اختلافے ندارم.وہمچو بدعتیان چیزہائے نو پیدا نیاوردہ ام.بید أنی أُرسِلتُ لتجدید الدّین وإصلاح الأمّۃ، علی رأس ہذہ الماءۃ، فأُذکّرہم مگر این ست کہ من برائے تازہ کردن دین واصلاح امت برسر این صدی فرستادہ شدہ ام.پس ایشان را بعض ما نسوا مِن العُلوم الحکمیّۃ.والواقعات الصَّحیْحَۃ الاَصْلیۃ.وَجَعَلنی بعض آن امور ازعلوم حکمیہ وواقعات صحیحہ یادمی دہانم کہ آن را فراموش کردہ بودند ومرا پروردگار من رَبّی عیسی ابن مریم علی طریق البروزات الروحانیۃ لمصلحۃٍ أراد لنفع العامۃ، برطریق بروزات روحانیہ عیسیٰ بن مریم گردانید.برائے مصلحتے کہ بغرض افادہ مخلوقات
145 ولإ تمام الحُجَّۃ علی الکَفَرۃ الفَجَرۃ ولیُکمِّل نَبَأَہ ولیُنجِزَ وَعْدَہ ویُتمّ کلمتہ یُفحِم قومًا مجرمین.ارادہ فرمود.ونیز برائے اتمام حجت برکافران وفاجران.ونیز بدین غرض کہ تاپیشگوئی خود رابپایہ کمال رساند وقوم مجرمان راملزم کند ہٰذَا دَعْوَایَ وتلکَ دَلائلی، وَلَن تَجدوا زَیْغًا فی دَعْوایَ وَمَسَائلی، این دعویٰ من است و آن دلائل من است.و در دعویٰ ومسائل من ہیچ کجی نیست وإن کتابی ہٰذَا لَبلاغٌ لِقَوم طَالبیْن.ففکّروا یا علماء القوم، وفتّشوا الأمر واین کتاب من برائے طالبان بلاغے است.پس اے علماء قوم فکر کنید.و قبل از ملامت تفتیش امر قَبل اللَوم.یَا عِبَاد اللّٰہ اسمعوا، واتقوا اللّٰہ ثم اتقّوا، وَإنّی بلّغتُ مَا أمر بہٖ رَبّی، کنید.اے بندگان خدا بشنوید.وبتر سید از خدا باز بترسید.ومن آنچہ خدائے من حکم کرد رسانیدم وما بقی الإخفاء.فاسمعی أیتہا الأرض، واشہدی أیتہا السّماء.پس اے زمین بشنو واے آسمان گواہ باش.وَمَا أخشی الخَلق ومکائدہم، وأتّبع الحق ولا أتّبع زوائدہم، وَإنی ومن از مخلوق ومکر ہائے ایشان نمی ترسم.وپیروی حق میکنم دامور زائدہ ایشان را پیرو نیستم.ومن بر واثق بما وَعَدَ رَبِّی، وَہُو مَوئلُ کلِّ أَمَلی وأَرَبی.إنّ الأرض وَالسَّماء تتغیران، وعدہ رب خود اعتماد کلی دارم.و اوجائے بازگشت ہرامید وحاجت من است.وزمین وآسمان متبدل می شوند والصَّیْف وَالشّتاء ینقلبان، ولکن لا یتغیّر قول الرَّحْمٰن، ولا ینقلب مشیئتہ وسرما وتابستان میگردند.مگر قول خدا تعالیٰ تبدلے نمی یابد.وخواستہ او بمکر انسان منقلب بمکر الإنسان، وَإن مُحاربیہ مِن الخاسرین.أَیّہا الناس لا تُعرِضوا عن أیام اللّٰہ نہ تواندشد.وآنانکہ او جنگ میکنند از زیان کاران اند اِے مردمان از روزہائے خدا و روشنی آن اعراض وَضیَاۂا، وَلا تغفلوا فحسراتٌ بَعْد انقضاۂا، ولا تَغْلُوا وَلا تظلموا ولا تعتدوا مکنید.وغافل مشوید کہ پس از گزشتن آن حسرتہا خواہند ماند.وغلومکنید وبرجفا کمر مبندید و از حد مگذرید
146 إن اللّٰہ لا یُحبّ المعتدین.اتقوا اللّٰہ یَا مَعشر المُسْلمین والمسلمات، وَإنما التقوی کہ خدا آنا نرادوست نمی دارد کہ ازحد بیرون روند.از خدا بترسید اے مردان مسلمان وزنان مسلمہ کہ تقویٰ برائے لہذہ الأیّام والأوقات، وفکِّروا وقوموا فُرادَی فُرادَی، ثم فکِّروا کالأتقیاء ہمین روز و وقت ہاست.ویک یک شدہ بایستید باز مثل پرہیز گاران فکر کنید لا کرجُلٍ عَادَی، واسألوا اللّٰہ مبتہلین طالبین.نہ ہمچو شخصے کہ دشمنی می کند.واز خدا بتضرع تمام بخواہید.وکیف رضی عقلکم وَإیمانکم، وَدرایتکم وَعرفانکم، بأَوہامٍ لا تجدون وچگونہ عقل شما و ایمان شما و دانش شما و عرفان شما بدان اوہام را راضی میگردد کہ از آنہا در فی کتاب اللّٰہ أثرًا منہا؟ وتترکون طرق السلامۃ وتُعرضون عنہا، ولا تتّبعون کتاب اللہ اثرے و نشانے نیست.و راہ سلامتی رامی گزارید.و ازان کنارہ میکنید.و اصل محکم را کہ أصلا مُحکَمًا بَیِّنَ الوقوع، وتأخذون بأنیابکم صُوَرَ مسائلِ الفروع، مع أنہا بین الوقوع است پیروی نمی کنید.وصورت مسائل فرعیہ را بدندان مے گیرید باوجودیکہ آن فی أنفسہا مملوّۃ مِن الاختلافات وَالتناقضات، ثم لا یوجد تطابُقہا بالأصل الذی مسائل درحد ذات خود از اختلافات وتناقضات پرہستند.باز تطابق آن فروع باصل یافتہ نمی شود ہو لہا کالأمّہات، وأین التطابق بل یوجد کثیر من التباین والمنافاۃ.کہ ہمچو امہات برائے فروع است.وتطابق کجا بلکہ مبائن ست ومنافات بکثرت موجود است.فانظروا کیف جمعتم فی عقائدکم مِن أنواع الشناعۃ والتناقض و پس بنگرید کہ چگونہ درعقائد خود انواع زشتے و تناقض و دروغ جمع کردہ اید.الفریۃ، وأمَدْتم بجہلکم أَعْداء المِلّۃ وعداء الشریعۃ المقدّسۃ، فہم یصولون و از نادانی خود دشمنان دین و ملت را مدد دادہ اید.پس ایشان
147 علی الحق مستہزئین.وَأمّا السّلف الصّالحون فما کانوا کمثلکم فی الاعتقادات، ولا فی الخیالات، بل کانوا یُفوّضون إلی اللّٰہ علم المخفیّات، وکانوا متّقین.وما کان جوابہم فی ہذہ المسائل، عند اعتراض المعترض السائل، إلّا تفویض الأمر المخفیّ إلی اللّٰہ الخبیر العلیم.وکانوا یؤمنون إجمالاً ویُفوّضون التفاصیل إلی اللّٰہ الحکیم.فلأجل ذالک ما بحثوا عن تناقضات ہذہ الأنباء ، وَمَا أرادوا أن یتکلّموا فیہا قبل وقوعہا خوفًا من جُناح الزلّۃ والاعتداء ، وقالوا نؤمن بہا ولا ندخل فیہا وما کانوا علی أمرٍ مُصرّین.ثم خلف من بعدہم خلف وفَیْجٌ أعوَجُ، أضاعوا وصایاہم وسُبُلَہم، وبدأ فیہم التعلّی والتموّج، فتکلموا فی أنباء الغیب بغیر علم مُجترئین.بر حق مے خندند.مگر سلف صالح در اعتقاد وخیال مثل شما نبودند.بلکہ اوشان علم امور پنہانی را بسوئے خدا سپرد میکردند.و پرہیزگار بودند.وبوقت اعتراض جواب ایشان ہمین بود کہ ما این امر پنہان بخدا سپرد کنیم کہ خبیر وعلیم است.وایشان اجمالاً ایمان مے آوردند.وتفاصیل راسوئے خدا تعالیٰ حوالہ میکردند پس از ہمین سبب است کہ از تناقضات این خبرہا بحثے نکردہ اند.ونخواستند کہ قبل وقوع این پیشگوئیہادرین کلام کنند ازین اندیشہ کہ مبادا بلغزش وتجاوز از حد مبتلائے گناہ شوند.وگفتند کہ ما ایمان بدین خبرہائے غیب می آریم ودرین ہا دخل نمی دہیم.غرض برچیزے اصرار نمی کردند.باز نااہلان بعد ایشان آمدند کہ گروہ کج طبع بودند وصیت بزرگان و طریقہائے اوشانرا ضائع کردند و در او شان این عادت پیدا شد کہ بلندی می نمودند و موج می زدند.پس
148 وَبَحثوا عن أمور ما کان لہم أن یبحثوا عنہا، فَضلّوا وأضلّوا وکانوا قومًا عمین.أما تری کیف نحتوا مِن عند أنفسہم نزول المسیح من السّماء ؟ ولن تجد لفظ السّماء فی ملفوظات خیر الأنبیاء ولا فی کَلِمِ الأوّلین.وَأمّا نفس النزول فہو حق ولا نجادلہم فیہ، ولا نردّہ علیہم بَلْ إنّا نؤمن بہ کما یؤمنون وما نحن بمنکرین.وَلَیْسَ عنْدنا إلّا تسلیمٌ فی ہٰذا الباب، ومَن أنکر فقد کفر بما جاء فی الآثار وَالکتاب، وإنہ من الملحدین.بید أنّنا نحمِل ہذا النزول علی أمرٍ فیہ أمنٌ مِنَ التّناقضات، وَنجاۃ مِن الاعتراضات، وَہُو النزول البروزی الذی قد جرت سُنّۃ اللّٰہ علیہ من زمن الأوّلین.فلیس إنکارنا إلَّا من نزول المسیح بنفسہ مِن السّماوات، فإنہ یخالف سُنن اللّٰہ والبیّنات من الآیات، فإن القرآن فرض عَلَیْنا أن نؤمن بوفاۃ المسیح* ونحسبہ من الأموات، فالقول بحیاۃ المسیح در خبر ہائے غیب گفتگوہا شروع کردند نہ از بصیرت بلکہ محض از دلیری وازان امور بحث ہا نمودند کہ ہرگز مناسب نبود کہ درآنہا افتند.پس گمراہ شدند وگمراہ کردند ومردمان کور بودند.آیا نمی بینی کہ چگونہ از طرف خود تراشید ندکہ مسیح از آسمان نازل خواہد شد حالانکہ در تقریر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم لفظ آسمان ہرگز نیست ونہ در کلام پیشینیان.مگر لفظ نزول پس آن حق است وما درین امر بااوشان مجادلہ نمی کنیم ونہ این را برایشان ردکنیم بلکہ بدان ایمان می آریم.چنانکہ ایشان ایمان می آرند ومنکر نیستم.ودرین مسئلہ نزدما بجز تسلیم ہیچ نیست.وہر کہ انکار کند پس او منکر حدیث و قرآن شد.مگر این است کہ ما این نزول را برا مرے محمول میکنیم کہ دران امن از تناقضات است و از اعتراضات نجات است.و آن نزول بروزی است کہ سنت الٰہی برآن رفتہ.پس انکار ما صرف ازین امر است کہ مسیح بنفسہ از آسمان نازل شود.چراکہ این عقیدہ سنت اللہ وبینات قرآن رامخالف افتادہ است زیرا کہ قرآن برما این فرض کردہ است کہ مابوفات مسیح ایمان آریم و اورا ا زمردگان پند اریم.پس اعتقاد قال صاحب الفتح ھذا حدیث صحیح و رجالہ ثقات.منہ گفتہ اند کہ این حدیث صحیح است و رجال آن ثقات اند.منہ * نوٹ : جاء فی بعض الاحادیث من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم بالتصریح.ان عمرہ نصف عمر المسیح.در بعض احادیث از رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بتصریح آمدہ است کہ عمر آنحضرت از عمر مسیح نصف است.صاحب فتح البیان
149 وَرجوْعہ إلٰی دار الفانیات، یستلزم إنکارَ القرآن والمحکمات البیّنات، فلَا یتکلم بمثل ہٰذا إلّا الذین ہُم غُلْفُ القلوب، وکالمحجوب وَمِن المعرضین.أنترک لظنونٍ واہیۃٍ القرآنَ، وَننبِذ من أیدینا الیقین والعرفان، وَنَرجع إلی أفسَدِ القولِ مِن أصلَحِہ، ونُلحِق أنفسَنا بالجاہلین؟ وَمَن یتدبّر آیات اللّٰہ، وَلَا یُعمٰی عینَ تمیُّزِہ مِن بیّنات اللّٰہ، فَلا بد لَہ أن یؤمن بمَوت المَسِیح، وَیقرّ بأَن النزول عَلٰی سَبیل البُروز الصّریح، ویُعرِض عن الظالمین.أَسمعتم قَبل ذٰلِکَ رجلًا ذَہَبَ مِنَ الدّنیا ثُم نَزَلَ بَعْدَ بُرہۃ من السّماء ؟ أتجدون نظیرہ فی أحدٍ من الأنبیاء ؟ وَقَد سَمِعتم کَیف أُوِّلَ مِن قبل فی نزول إلیاس، یَا أولی الأبْصَار وَالقیاس.ورأیتم قومًا حملوا قصّۃ نزول إیلیا عَلٰی ظَواہرہا، وکفّروا المَسیح بخُبث النَفس وَأباہِرِہا، وَضُرِبَتْ عَلَیہم الذلّۃ وَالمسکنۃ وَجُعلوا مِن الملعونین.حیات مسیح وباز آمدن او در دنیا موجب انکار قرآن ومحکمات آن ست.پس ہم چنین کلام صرف کسانے خواہند کرد کہ دل شان در پردہ است ومثل محجوبان ہستند واز اعراض کنندگان.آیا برائے گما نہائے واہیات قرآن را ترک کنیم.واز دست خود یقین ومعرفت را بیند ازیم.واز قول اصلح سوئے قول افسد رجوع کنیم وبا نادانان خودرابیا میزیم.وہرکہ درآیات خدا تعالیٰ تدبر کند.وچشم خودرا از ملاحظہ بینات کورنسازد پس اورا ضرور است کہ بموت مسیح ایمان آرد واقرار کند کہ نزول بطور بروز است نہ بطور دیگر واز ظالمان اعراض کند.آیا پیش زین شنیدہ اید کہ شخصے سوئے آسمان از دنیا برفت باز بعد از روز گارے از آسمان نازل شد آیا شما نظیرآن در احدے از انبیاء می یابید.وشما شنیدہ آید کہ چگونہ پیش زین در نزول الیاس تاویل کردہ شد.اے صاحبان چشم و قیاس.وشما قومے رادیدہ آید کہ قصہ نزول ایلیا را برظواہرآن حمل کردند.وازوجہ خبث نفس وپرہائی آن مسیح را کافر قرار دادند.وبریشان ذلت ومسکنت انداختہ شد واز ملعونان
150 وَإن کنتم لَا تؤمِنُون بمَوت عیسٰی یا مَعشر الإخوان، وترفعونہ حیًّا إلٰی عرش الرّحمٰن، فما اٰمنتم بکتاب اللّٰہ الفرقان، فانظروا مَنْ أحقُّ بالأمن وَالأَمان، ومَن اتّبع ظنونًا وترَک سُبُل الإیقان.ثم أنتم تُکفّرون المُسلمیْن وتکذّبون الصّادقین، وتطیلون الألسنۃ علی أہل الحق وَالیَقین.أکان ہذا طریق التقویٰ والمتّقین؟ وَقَدْ سَمِعتمْ أنّا قائلون بنزول المَسیح، والمقرّون بہ بالبیان الصّریح، وَ إنہ حقّ واجب ولا ینبغی لنا ولَا لِأَحَدٍ أن یُعرض عَنہ کَالمُفسدین، أَو یمتعض مِنْ قبولہ کَالمتکبرین.فإنہ لا یُعرض عن الحق إلا ظالمٌ معتدٍ خلَّاب، أو فاسق مُزوِّر کذّاب، ویُعْرَفُ بقبولہ قلبٌ توّابٌ.فالآن انظروا ! أنحن نعرض عَنِ القبول أو کنتم معرضین؟ أتظنون أنّ المسیح ابن مریم سیرجع إلی الأرض مِن السّماء ؟ ولا تجدون گردانیدہ شدند.و اگر شما اے برادران بموت عیسیٰ علیہ السلام ایمان نمی آرید و او را زندہ سوئے عرش رحمن می بردارید.پس شما بکتاب الٰہی کہ فرقان ست ایمان نیاوردہ آید.پس بنگرید کہ کدام کس ازما بامن وامان زیادہ ترحق دارد.وکدام کس گمانہارا پیروی کرد وراہ یقین را بگذاشت.بازشما مسلمانان را کافر قرارمی دہید وصادقان را کاذب می انگارید.وبر اہل حق ویقین زبانہا دراز می کنید.آیا این طریق پرہیزگاری و راہ پرہیز گاران است.وشما شنیدہ اید کہ ما بنزول مسیح قائل ہستیم و بابیان صریح اقرار می داریم.واین حق واجب است نہ مارا شاید ونہ شمارا کہ ازان اعراض کنیم یا دربارہ قبول آن مثل متکبران خشمناکی ظاہر کنیم.چرا کہ از حق ہمان کس اعراض می کندکہ ظالمے تجاوز کنندہ از حد باشد وفریب دہندہ وفاسق وسخن آرایندہ وکذاب بود.وبقبول حق شناختہ می شود کہ این دل سوئے حق گروندہ است پس اکنون بنگرید آیا ماازحق کنارہ می کنیم یا شما کنارہ می کنید.آیا گمان مے دارید کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بسوئے
151 لفظ الرجوع فی کَلِمِ سیّدِ الرسل وأفضل الأنبیاء.أَ أُلْہِمْتم بہذا أو تنحِتون لفظ الرجوع مِن عند أنفسِکم کَالخَائنین؟ وَمِنَ الْمَعلُوم أن ہٰذا ہُو اللفظ الخَاص الذی یُستعمل لرَجُل یأتی بَعد الذَّہاب، ویتوجّہ مِنَ السَّفر إلی الإیاب، فہذا أبعدُ مِن أبلَغِ الخَلقِ وإمامِ الأنبیاء، أن یترک ہٰہنا لفظ الرجوع ویَسْتَعْمل لفظ النزول ولا یتکلم کالفصحاء والبلغاء ، فلا تنظروا کَلامی ہٰذا بنظر الاستغناء ، ولَا تنبذوہ وَراء ظہورکم کَأَہل الکبر والمراء، بل فکّروا کلّ الفکر بجمیع قوّۃ الدہاء ، فإنّ ہذا أمرٌ جلیل الخطب عظیم القدر فی حضرۃ الکبریاء ، وقبولہ برکۃ، وَتسلیمہ فطنۃ وسعادۃ، وردُّہ بلاء علی أہلہ المخذولین.وَمِنَ العُلماء مَن یقول إن لفظ التوفّی قد یجیء فی لسان العرب بمعنی الاستیفاء ، وہوُ المراد ہٰہنا فی کلَام حضرۃ الکبریاء ، وَإذا طُلِبَ مِنہم السّند فَلا زمین از آسمان رجوع خواہد کرد.حالانکہ لفظ رجوع درکلمات آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نمی یابید.آیا این شمارا الہام شدہ است یا لفظ رجوع از طرف خود مثل خیانت پیشگان می تراشید.واین معلوم است کہ ہمین یک لفظ است کہ برائے کسانے مستعمل می شود کہ بعد از رفتن بازمی آیند پس این امراز فصیح ترین خلائق وامام الانبیاء بسیار دور است کہ اینجا لفظ رجوع را ترک کندوبجائے آن لفظ نزول استعمال کند وہمچو فصیحان وبلیغان تکلم نفرماید پس این کلام مرا بنظر استغنامبینید وآنرا مثل متکبران پس پشت میندازید بلکہ بتمامتر دانش کامل فکر کنید.چرا کہ این امر در حضرت خدا تعالیٰ عظیم الشان است وقبول کردن آن برکت است وتسلیم آن دانائی وسعادت است.و ردآن براہل مخذول آن بلائے است.وبعض از علماء میگویند کہ لفظ توفی درزبان عرب گاہے بمعنی استیفا می آید وہمین معنی در قرآن شریف اینجا مراد است.وہرگاہ ازین علماء مطالبہ سند کردہ شود
152 یأتون بسند من الشعراء ، وقد کفروا بمعنی بَیَّنَہ خاتَمُ الأنبیاء ، وَمَا أتوا بمعنی أبلغ منہ عند الفُصَحاء ، وَمَا أثبتوا دَعْواہم بل نَطَقُوْا کالعامہین.وَمَا أُعطُوا وُسْعۃً فی ہذا اللسان، وَلَا یعلمون إلا الحقد الذی ہو تُراثہم من قدیم الزمان.فَیَا حَسْرۃ علیہم! ما لہم من معرفۃ فی العربیّۃ، وَلیسَ عند ہم مِن غیر الدعاوی الواہیۃ، ومَعَ ذٰلک لا یتناہَون من القیل والقال، وَلا یترکون نزاعہم بل یتصدّون لہٰذا النضال، ویقومون مع الجہل المحْکم للجدال، وکذٰلک ہَتکوا أستارہم بأیدیہم فی ہذا المقام، بما کانوا غافلین من موارد الکلام.سکتوا ألفًا، ونطقوا خلفًا، وَمَا نبسوا بکلمۃ حکمیۃ کالعاقلین.و أَرْأَوا أنفسہم کمَخاضٍ، وَظہروا کخَلِفَۃٍ، ثم إذا حَان النِتاج فما ولدوا إلَّا فأرۃ، أو أشوَہَ وأصغَرَ مِن فُوَیسقۃ.ہذا علمہم، وَأَفسَدُ منہا عملُ تلک العالمین.یأمرون الناس بالبرّ وینسون أنفسہم، پس ہیچ سندے از شعراء عرب نمی آرند.وایشان انکار آن معنی کردہ اند کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرمود.باز چنان معنی پیش نکردند کہ ازمعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نزد فصحاء ابلغ باشد.بلکہ ہمچو سرگشتگان کلام کردند.و در زبان عربی ایشان را ہیچ وسعتے ندادہ شد.و چیزے نمی دانند بجزآن کینہ کہ آن ورثہ قدیمہ ایشان است.پس حسرت بریشان کہ درعلم زبان عربی ہیچ معرفت نمی دارند.و نزد شان بجز دعویٰ ہائے بیہودہ چیزے نیست.و باوجود این جہالتہا از قیل و قال باز نمی مانند و نزاع خود را نمی گز ارند بلکہ درین کار زار برائے تیر اندازی پیش قدمی ہامی کنند.وباجود جہل محکم خود برائے پیکار می خیزند.و ہمچنین اینجا پردہ ہائے خود بدستہائے خود بدریدند.چرا کہ از موارد کلام غافل بودند ازبیان ہزار امرحق ساکت ماندند.وچون سخنے برزبان براندند بخطائے فاحش براندند.وہیچ کلمہ حکمت چون دانشمندان از زبان شان بیرون نیامد.ونفوس خود را ہمچوآن شتران بنمودند کہ آبستنی باشند وہمچوناقہ آبستنی ظاہر شدند.باز چون ایام وضع حمل قریب رسیدند.پس موشے یازشت تروخورد تراز موشے بچہ دادند.این علم ایشان است وعمل این عالمان از علم
153 وَیَقُولُون ما لا یفعلون.وإذا جُعِلوا حَکَمًا فلا یُقسِطون، ویُحبّون أن یُحمَدوا بما لا یعملوا وإذا صلَّوا فصلَّوا مُرائین.وَیغتابون فی المساجد ویأکلون لَحْم إخوانہم المُسْلمین، إلَّا قلیل من الخاشعین.وَأمَّا لفظ التوفّی الذی یُفتّشونہ فی اللّسان العربیّۃ، فاعلم أنہ لا یُستعمل حقیقۃً إلّا للإماتۃ فی ہٰذہ اللّہجۃ، سَیّما إذا کان فاعلُہ اللّٰہَ والمفعولُ بہ رَجُلًا أو مِنَ النسوۃ، فلا یأتی إلا بمعنی قبض الروح والإماتۃ وَمَا تریٰ خلاف ذالک فی کتب اللغۃ والأدبیّۃ.وَ مَن فتّش لغات العرب، وأنضی إلیہا رِکاب الطلب، لن یجد ہذا اللفظ فی مثل ہٰذہ المقامات إلَّا بمعنی الإماتۃ والإہلاک من اللّٰہ ربّ الکائنات.وَقد ذُکِر ہٰذا اللفظ مرارًا فی القرآن، ووضعہاللّٰہ فی مواضع الإماتۃ وأقامہ مقامہا فی البیان.وَالسِّرُّ فی ذٰلک أن لفظ التوفّی یقتضی وجود شیء بعد الممات، فہذا ردٌّ علی الذین لا یعتقدون ببقاء الأرواح بعد الوفاۃ، فإن لفظ فاسد تراست.مردم را برائے نیکوئی میفرمایند.وخویشتن را فراموش میکنند ومردم رامیگوئیند کہ این کنید وآن کنید وخود نمی کنند.وچون حاکم مقرر کردہ شوند.پس طریق انصاف نگہ نمی دارند.ومیخواہند کہ بدان خوبیہا تعریف کردہ شوند کہ درایشان یافتہ نمی شود.وچون نمازمی خوانند پس بریاکاری نماز میخوانند ودر مساجد غیبت مسلمانان میکنند وگوشت برادران مومن میخورند.اما لفظ توفی کہ تفتیش آن در زبان عربی می کنند.پس بدان کہ این لفظ بطور حقیقت صرف بمعنی میرا نیدن استعمال می یابد.بالخصوص چون فاعل او خدا ومفعول انسان از مردان یا زنان باشد پس درین صورت ہرگز بجز معنی قبض روح ومیرا نیدن بمعنے دیگر نمی آید.و در کتب لغت وادب ہرگز مخالف این نخواہید یافت.وہرکہ تفتیش لغات عرب کند.وشتران جستجو برائے آن لاغر گرداند اوہرگز این لفظ را درمثل این مقامات بجز معنی میرانیدن نخواہد یافت.واین لفظ بارہا در قرآن شریف ذکر کردہ شدہ است و خدا تعالیٰ این لفظ را در مقام میرا نیدن استعمال کردہ است.وقائم مقام لفظ اماتت گردانیدہ.وآنرا ترک کردن واین را اختیار کردن برائے این حکمت است کہ لفظ توفی بعد میرا نیدن وجودے رامیخواہد کہ باقی ماند.ودرین
154 التوفّی یؤخذ من الاستیفاء ، وفیہ إشارۃ إلی أخذ شیء بعد الإماتۃ والإفناء ، وَالأخذُ یدلّ علی البقاء ، فإن المعدوم لا یؤخذ ولا یلیق بالأخذ والاقتناء.َ وہٰذا من العلوم الحِکَمیّۃ القرآنیۃ، فإنہ رجع القومَ إلی لسَانہم المبارکۃ الإلہامیّۃ، لیعلموا أن الأرواح باقیۃ والمعاد حقّ، ولینتہوا مِن عقائد الدہریین والطبعیین.فلما کان الغرض مِن استعمال ہٰذا اللفظ صَرْفَ القلوب إلٰی بقاء الأرواح، فمعنی التوفّی إماتۃ مع إبقاء الروح، فخُذِ الحق*وا تّقِ طرق الجُناح.ولا یجادل فی ہٰذا لما کان الملحوظ فی معنی التوفی مفہوم الاماتۃ مع الابقاء، فلأجل ذٰلک لا یستعمل ھٰذا اللفظ فی غیر الانسان، بل یستعمل فی غیرہ لفظ الاماتۃ والاھلاک والافناء.مثلًا لا یقال توفی اللّٰہ الحمار، أو القنفذ والافعی والفأر، فان ارواحھا لیست بباقیۃ کأرواح الآدمیین.رد کسانے ست کہ دہریہ ہستند وبعد از مردن قائل بقاء ارواح نیستند.چرا کہ لفظ توفی از لفظ ا ستیفا ماخوذ است ودرین اشارہ بسوئے این معنے است کہ بعداز میرا نیدن چیزے در دست باقیماندہ است.وآنچہ بدست آیدآن چیز موجودمے باشد نہ معدوم چرا کہ معدوم این لیاقت ندارد کہ اورا گرفتہ شود یا جمع داشتہ آید.زیرا کہ معدوم چیزے نیست واین امر از علوم حکمیہ قرآنیہ است.چرا کہ قرآن قوم عرب رابسوئے زبان شان کہ مبارک والہامی است توجہ داد.تابدانند کہ ارواح باقی خواہند ماند ومعاد حق است وتاکہ از عقائد دہریہ وطبعیہ باز مانند.پس چونکہ غرض از استعمال این لفظ ہمین بود کہ تادلہارا بسوئے بقاء ارواح توجہ دہانیدہ شود.پس ازین سبب معنی توفی میرانیدن مع باقی داشتن روح ا ست.ہر گاہ کہ ملحوظ در معنیٰ توفی میرانیدن مع باقی داشتن روح بود.پس برائے ہمین سبب این لفظ در غیر انسان مستعمل نمی شود.بلکہ در غیر انسان لفظ اماتت واہلاک وافناء استعمال می یابد.مثلاً این نمی گویند کہ خدا تعالیٰ فلان خررا وفات داد یاسنگ پشت یا مار یا موش را متوفی کرد.چراکہ ارواح این چیز ہا مثل ارواح آدمیان باقی نخواہند ماند.
155 إِلّا الجَاہل الذی لا یعلم العربیّۃ، أو المتجاہل الذی یُغری مِن خبثہ العامّۃَ.وَمَن انتصب لإزراء ہٰذا الکلام، وقام للتکذیب والإفحام، فعلیہ أن یعرض فی ہٰذا الباب شعرًا من أشعار الجاہلیۃ، أو کلامًا من کَلِمِ فصحاء ہٰذہ المِلّۃ.وَإن لم یفعلوا، ولن یفعلوا، وَلَمْ ینتہوا من الشرارۃ، فقد جمعوا لعنتَین لأنفسہم بشامۃ النفس الأمّارۃ.اللعنۃ الأولٰی أنہم ما صدّقوا قولَ خیر البریّۃ، وما اطمأنت قلوبہم بشہادۃ إمام الملّۃ، واللعنۃ الثانی أنہم فتّشوا اللغۃ شاکّین، ثم رجعوا یائسین بالندامۃ التی ہی تشابہ عذاب الہاویۃ، ثم قعدوا مخذولین.واعلم أن أحدًا من رجالٍ ذی غیرۃ، لا یقِف متعمّدًا موقف مندمۃ، إلَّا الذی نزع عن نفسہ ثوبَ حیاءٍ وإنسانیۃ، ورضِی بکل تبعۃٍ ومعتبۃٍ، وألحَقَ نفسہ بالخاسرین الملومین.وما تُجادلوننی فی لفظ التوفّی إلّا من السفاہۃ، فإنّی أعلم ما لا پس حق رابگیر واز راہ ہائے گناہ بپرہیز.وہیچ کس درین بارہ بجز جاہلے کہ عربی نداند خصومت نخواہد کرد.یا کسیکہ دانستہ خودرا جاہل نماید ومردم را ازخباثت خود برانگیزد.وہرکہ برائے عیب گیری این کلام بایستد و برائے تکذیب و لاجواب کردن قائم شود.پس بذمہ این خصومت کنندہ است کہ بتائید دعویٰ خود شعرے از اشعار جاہلیت پیش کند.یا کلامے از کلمات فصحاء این ملت بنماید.واگر این مردم چنین نکنند وہرگز نخواہند کرد ونہ از شرارت باز آمدند پس برائے نفس خود دو لعنت را جمع کردند.لعنت اول اینکہ ایشان قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم را باور نکردند ولعنت دوم اینکہ ایشان درحالت شک تفتیش لغات کردند باز بحالت نومیدی وبدان ندامتے رجوع کردند کہ عذاب جہنم را می ماند.ومیدانم کہ کسے از مرد ان ذی غیرت برجائے کہ ازان ندامت آید نخواہد ایستاد.مگر کسے کہ از نفس خود جامہ حیا و انسانیت برکشید وبہر عقوبت وعتابے راضی شد.ونفس خود را بآنان آمیخت کہ زیان کاران وملامت برداران اند.وبا من در لفظ توفی محض ازراہ سفاہت خصومت میکنند.چرا کہ من چیزہا می دانم
156 تعلمون.وإنی تورّدتُ بحر العربیۃ وتبحّرتُ، وعلَوتُ شوامخَہا وتوغّلتُ، واجتنیتُ ثمارہا وتخبّشتُ، وفحّصتُفی کلام القوم وتصحفت* ، فما وجدتُ لفظ التوفی فی کلامٍ أو شعر الشعراء ، إلا بمعنی الإماتۃ مع الإبقاء ، وما استعملوا فی غیرہ إلا بعد إقامۃ القرینۃ والإیماء ، وما جاء وا بہ فی صورۃ کون اللّٰہ فاعلًا إلّا بہذا المعنٰی، ویعلمہ کل أحدٍ من علماء العرب من الأعلٰی إلی الأدنٰی؛ وإذا کتبتَ مثلًا إلٰی أحدٍ من أہل ہٰذا اللسان، أن اللّٰہ تَوَفّی فلانًا من الأحباب أو الجیران، فلا یفہم منہ ہذا العربیّ إلا وفاۃ ذٰلک الإنسان، ولا یزعم أبدًا أنہ أنامہ أو رفعہ بالجسم من ذٰلک المکان، بل یسترجع علی موتہ کما ہو عادۃ المؤمنین، فویل کل الویل للمنکرین.أفتنحتون للمسیح معنٰی وللعالمین کلہم معانیَ أُخریٰ؟ تلک إذًا قسمۃٌ ضیزیٰ.فما لکم لا یوقظکم نصاحۃٌُ، ولا یُنبّہکم صراحۃ، ولا ترجعون إلٰی الحق کہ شما نمی دانید.ومن دریائے علم عربی را وارد شدم وتاعمق آن رسیدم وبرکوہ ہائے بلندآن برآمدم وتوغل ہا میدارم.وثمرہ ہائے آنرا چیدم واز ہر طرف گرد آوردم.ودر کلام قوم تفحصہا کردم.وصفحہ صفحہ دیدم.پس بجز جسم میرانیدن وروح باقی داشتن معنی توفی در کلامے یا شعر شاعرے نیافتم.ودر غیر این معنی این لفظ را بجزآن صورتے خاص استعمال نکردہ اند کہ قرینہ یا اشارتے قائم کردہ باشند.ودر صورتے کہ فاعل این لفظ خدا باشد بہ ہمین معنی آوردہ اند نہ بدون آن.واین آن امراست کہ این را ہمہ مردم عرب از علماء آن تاعوام آن می دانند.واگر مثلاً سوئے یکے از اہل عرب بنویسی کہ فلان شخص را خدا متوفی کرد.پس آن شخص عربی بجز این نخواہد فہمید کہ آن شخص وفات یافت واین ہرگز نخواہد فہمید کہ خدا اورا بخوا بایند یا زندہ مع جسم برداشت بلکہ برموت متنبہ شدہ اِنا للّٰہ وانا الیہ راجعون خواہد گفت چنانکہ آن عادت مومنین است.پس واویلا برمنکران.آیا برائے مسیح معنے خاص می تراشید وبرائے ہمہ جہان معنی دیگر.این قسمت مبنی برانصاف نیست.چہ شد شمارا کہ ہیچ نصیحتے شمارا بیدار نمی کندو ہیچ تصریحے شمارا خبردار نمی گرداند.وہمچو پرہیز گاران * سہوکتابت ہے.ترجمہ کی روشنی میں صحیح لفظ ’’تصفّحت‘‘ ہے.ناشر
157 کالمتقین.أ کفّرنی المکفِّرون مع ہٰذا العلم واللیاقۃ؟ أجادلونی بہذا البلاغۃ و الطلاقۃ؟ فلیموتوا متندّمین.ولا أظن أن یتندّموا.إنہم قوم لا یُبالون لعن اللاعنین؛ إذا أفظعت الوقاحۃُ، فکلُّ خزیٍ الراحۃ.أکبّوا علٰی جارہم، وذہلوا عن دارہم، فہتک اللّٰہ أستارہم، وجعلہم من المہانین.وَسلّطنی علیہم فاختفَوا کالطیر فی الوُکنات، واقتنّوا کالوعل عند التعاقبات، وعرَضْنا کَلْکَلَنا للمناظرات، فأُہْرِعوا کالأوابد إلی الفلاۃ، وتصدّینا لہم لأنواع الدعوۃ، وما وضعنا عن کاہلنا عِصَام ہذہ القِربۃ، وَما کنّا لاغبین.نعَب علینا کلُّ أعورَ ذی غوایۃ، ونعَق علینا کلُّ ابنِ دایۃ، محرومٍ عن درایۃ، وعوَی کلُّ خلیعٍ خلیعِ الرسن، ونبَح کل کلب ولو کان کالیَفَن، فإذا قمنا فکانوا مَدیدَ الوَسَن، أو کانوا من المیتین.لما رأی النَّوکَی خلاصۃَ أَنْضُری فرُّوا وَوَلَّوا الدُّبُر کالمتشوّرِ سوئے حق رجوع نمی کنید.آیا تکفیر کنندگان بدین علم ولیاقت تکفیر من کردند.آیا بدین بلاغت وطلاقت بامن پیکار نمودند.پس مے باید کہ بحالت ندامت بمیرند.وگمان نمی کنم کہ ایشان متندم شوند.چرا کہ ایشان قومے ہستند کہ پروائے لعنت لا عنان نمی دارند.چون بیحیائی از حد در گزشت.پس ہر رسوائی حکم راحت دارد.بر ہمسایہ خود افتادند وخانہ خودرا فراموش کردند.پس خدا تعالیٰ پردہ ہائے ایشان بدریدوایشانرا از مردم ذلیل وحقیر گردانید ومرا برایشان مسلط کرد.پس ہمچو پرندگان در آشیانہ ہا پوشیدہ شدند وہمچو بزکوہی بروقت تعاقب راہ کوہ ہا گرفتند.وما سینہ خود برائے مناظرات پیش کردیم.پس ہمچو چرندگان وحشی سوئے صحرا شتافتند.وبرائے انواع دعوت از بہر ایشان آمادہ شدیم.واز شانہ خود بند این مشک فروننہادیم.ونہ درماندہ شدیم.ہرکلاغے گمراہ برما آواز کرد.وہر زاغے محروم از عقل برما خروشید.وہرگرگے وہربے قیدے بآواز خود درما افتاد.وہرسگے اگرچہ چون پیر فرتوت بود عو عو کردن برما آغاز کرد.وچون ایستادیم پس گویا ہمہ درخواب بودند.یا مردہ بودند.ہر گہ کہ بیوقوفان خلاصہ زرمرا دیدند گریختند وپشتہا ہمچو سرگردانے و پریشانے نمودند
158 إنْ یشتِموا فلقد نزَعتُ ثیابہمْ وترکتُہم کالمیّت المتنکّرِ ہم یشتِمون ولا أخاف لسَانہم إنی أریٰ أ لطا فَ ربٍّ أکبرِ نز لتْ ملا مۃُ لا ئمی مِن حُبّہِ مِنی بمنزلۃِ المحبّ الموثَرِ یا لائمی دَعْ کلَّ لوم وانتظِرْ سترَی بروقَ الحق بعد تبصُّرِ جَلّت وَصَایانا ہدًی لٰکنّہا کبُرتْ علیک ولیتَہا لم تکبُرِ أیہا الناس! تَدبَّروا لطرفۃ عین، ولا تُہلکوا أنفسکم لِمَینٍ.إن موت المسیح ثابتٌ بالقرآن، ثم بالحدیث، ثم بشہادۃ اللغۃ وأہل اللسان، ثم بالعقل والفراسۃ والوجدان، ثم بنظائر سابق الزمان، فلا یزیل الأمرَ الثابت کیدُ الإنسان.والنزول أیضًا حق نظرًا علی تواتُر الآثار، وقد ثبت مِن طرقٍ فی الأخبار، فتعالوا إلٰی کلمۃ ترفع ہٰذہ التناقض من بین بعض الأحادیث وبین مجموع اگر مراد شنام دہندچہ دور است چراکہ من جامہ ہائے ایشان از تن شان برکشیدم و ہمچو مردہ ناشناختہ ایشان را گزاشتم ایشان دشنام می دہند و من از زبان شان نمی ترسم چراکہ من مہربانیہائے رب کبیر خود می بینم از محبت خدائے خود ملامت ملامت کنندگانبمنزلہ دوست مخصوص خود مرا می نماید اے ملامت کنندہ من ملامت ہا بگذار و صبر کنکہ بعد از چشم بینا حاصل شدن روشنی حق را خواہی دید وصیتہائے من ازروئے ہدایت بزرگ ہستند لیکن برتو گران آمدند وکاش گران نیامدندے اے مردمان برائے یک طرفۃ العین تدبر کنید وبرائے دروغے نفس خود را ہلاک مکنید.یقیناً موت مسیح بقرآن ثابت است.باز ثبوت آن بحدیث بہم رسیدہ.باز از شہادت لغت واہل زبان ثابت گشتہ.باز ازروئے عقل وفراست ووجدان.وباز بنظائر زمانہ گذشتہ تحقیق این معنی گشتہ.پس امر ثابت را فریب انسان دور نتواند کرد و نزول از روئے تواتر آثار ہم راست است.چرا کہ از طرق متعددہ ثابت گشتہ.پس بسوئے آن کلمہ بیائید کہ این تناقض را از درمیان بعض احادیث ومجموعہ احادیث وفرقان بردارد
159 أحادیث أخریٰ والفرقان، فہو البروز الذی ثابت فی سُنن الرحمٰن، ولا شک أنّہ یہب أنواع الاطمئنان.ولا ریب أنّا إذا اعتمدنا علی طریق البروز فی معنی نزول المسیح، کما ذُکر نزول إیلیا بالتصریح، فحینئذ تنطبق العبارات، وترتفع الشبہات، وتطمئن قلوب الطّالبین.ولولا ہذا فلا سبیل إلٰی أن نعتقد مع القرآن بالآثار والأخبار، فالخیر کل الخیر فی عقیدۃ البروز یا أولی الأبصار، ولیس ہذا بدعۃ بل قد مضت فیہا نظائر من ربّ العالمین.فاعلموا أیہا الظانون ظن السّوء والازدراء ، والمُہْرعون إلی الجدال والمِراء ، أنی ما أرید إلا خیرکم من حضرۃ الکبریاء ، وأقصد أن أنقلکم من خَبْتٍ إلی العلیاء ، ومِن ذات حِقاف إلی حدیقۃ النعماء ، ومِن ذات کُسور إلی سبیل السواء ، فہل أنتم تریدون خیرکم أو کنتم من الآبین؟.پس آن طریق بروز است کہ درسنت ہائے خدا تعالیٰ ثابت گشتہ.ودرین ہیچ شک نیست کہ گونا گون تسلی ہا ازان حاصل می آیند.ودرین شبہے نیست کہ ماچون نزول مسیح را برطریق بروز محمول کنیم چنانکہ نزول ایلیا محمول شد.پس درین صورت ہمہ عبارات متناقضہ منطبق میشوند وہمہ شبہات رفع می گردند.واگر این طریق را اختیار نکنیم پس برائے این امر ہیچ صورت نمی بندد کہ بعد از ایمان آوردن برقرآن براخبار وآثار نیز ایمان آریم.پس اے صاحبان بصیرت ہمہ خیر درعقیدہ بروز است.واین عقیدہ چون بدعتے نیست بلکہ پیش زین نظائر این عقیدہ از خدا تعالیٰ درزمانہ گذشتہ یافتہ می شوند پس اے کسانیکہ ظن بدو طریق عیب گیریہا اختیار کردہ آید وسوئے جنگ وخصومت مے شتابید من بجز بہبودی شما ہیچ چیزے نمی اندیشم وقصدمی کنم کہ شمارا از زمین پست ریگناک بسوئے زمین بلند بیارم.واز ریگ کج بسوئے باغ نعمت ہا منتقل کنم واز زمین نشیب وفراز بر راہ راست بیارم.پس آیا شما خیر خود میخواہید یا از سرکشان ہستید.
160 ألیس الزمان کَلَیلٍ أرخَی سدولہ، والدینُ کغریب فقَد عُزْہُولہ؟ أتخافون عند قبولی أن تفقدوا ما حِیزَ مَغنمًا، أو تُضیعوا الفضل الذی صار بالنَشَب تَوأَمًا؟ کلا..إنہ ظن لا یلیق بأہل العلم والمعرفۃ، والعزۃُ کلہا للّٰہ فی ہذہ والآخرۃ.إن الرّجال لایخافون ولو ذُبِحوا بالمُدیٰ، أو نُزع عنہم ثوب المَحْیا.أما تسلّتْ عِمایاتکم إلی ہذا الزمان؟ وما لی أجد کلَّ أحدٍ منکم ألوَی فی الکلام والبیان؟ وتعلمون أننی ما جئت بمفتریات کأہل الفسق والہنات، وَمَا فتحتُ علیکم باب البدعات، بل ہو حسراتٌ علیکم بعد الممات.فأین آذان تسمعون بہا؟ وأین أعین تبصرون بہا؟ وأین قلوب تفقہون بہا؟ وما لکم لا تترکون الخرافات المتدلّسۃ، ولا تقبلون الجواہر النفیسۃ؟ تمنعون المسلمین من المساجد، وتُعظّمون لدنیاکم أہل العَساجد.حصحص الحق فلا تقبلون، وتبیّن الرشد فلا ترجعون، آیا زمانہ بدان شب نمی ماند کہ پردہ ہائے خود فروہشتہ باشد.وآیا دین بدان مسافرے نمی ماند کہ شتر خود را بجز گزاشتہ گم کردہ باشد آیا وقت قبول کردن من شمارا این اندیشہ است کہ آن غنیمتہا کہ جمع کردہ آید مفقود خواہند شدیا آن فضیلت را ضائع خواہید کرد کہ بامال توام گشتہ.ہرگز چنین نیست بلکہ این ظنے است کہ اہل علم و معرفت رانمی شاید.وعزت ہمہ خدا راست چہ درین عالم وچہ در آخرت.مردان نمی ترسند اگرچہ باکاردہا ذبح کردہ شوند یا جامہ حیات ازتن شان کشیدہ شود.آیا تااین وقت کوریہائے شما دور نشدہ.وچہ سبب است کہ ہریکے را از شما درکلام وبیان جنگجو می یابم.ومیدانید کہ من ہمچو فاسقان وبدکاران چیزہائے افتراء کردہ نیاوردہ ام.وبرشما دروازہ بدعات نکشادم.بلکہ این کاروبار من بعد از مردن برشما حسرتہاست.پس کجا آن گوشہا ہستند کہ بدانہا بشنوید.وکجا آن چشم ہا ہستند کہ بدانہا بہ بینیدوکجا آن دلہا ہستند کہ بدانہا بفہمید.وچہ شد شمارا کہ آن خرافات را ترک نمی کنید کہ در تاریکی افتادہ اند جواہر نفیسہ را قبول نمی کنید.مسلمانانرا از مساجد منع می کنید.وبرائے دنیائے خود اہل زر را تعظیم مے کنید.حق ظاہر شد مگر شما قبول نمی کنید.و رشد پیدا شد مگر شما رجوع نمی کنید.
161 وتُکفِّرون أہل القِبلۃ ولا تمتنعون، أتموتونَ فی یَومٍ أو أَنتم من الباقین؟ کیف تجدون لذۃ الإیمان بہٰذہ التعصّبات؟ وَمَا بقی حلاوتہ بتکفیر المؤمنین وَالمؤمنات.حَسبتم أعراضنا کفَیْءٍ، وتُغرُون علینا العوامَّ وتُلقون إلیہم شیءًا بعد شیءٍ ، وأفسدتم الناس بمکائدکم وتزویرَاتِکم، وصرفتم قلوبہم عن الحق بخرافاتکم.فاعلموا أنّ إثم الأُمّیّین علیکم یا معشر الخادعین.أحسبتم تکفیر المؤمنین أمرًا ہیّنًا، وتکذیب الصّادقین شیءًا خفیفًا، وَہُوَ عند اللّٰہ عظیم.وَلَمْ تزالواکنتم مصرّین علی الإنکار، وَمَا شفِقتم وَمَا خشِیتم أَخْذَ القہّار، حَتّٰی بلغ أمرنا إلٰی ما بلغ، وردّ اللّٰہ عَلیکم دعواتکم، إنہ لا یُحبّ قومًا مفسدین.أیہا الناس، إنّی مُحقٌّ صادق فی ادّعائی، فإیاکم ومِرائی، وإن کنتم لا تقبلون قولی، ولا تخافون صولی، ولا تُہصَرون إلی الہدایۃ، ولا تنتہون من الغوایۃ، واہل قبلہ را کافرمی گوئید وبازنمی مانید.آیا در وقتے خواہید مرد یا شما از باقیان ہستید.بدین تعصب ہا لذت ایمان چگونہ می یابید.وباتکفیر مومنین ومومنات حلاوت ایمان چہ باقیماندہ.شما آبروہائے مارا ہمچو مال غنیمت پند اشتہ اید.وعوام را برمامی دوانید ودردل شان چیزے بعد چیزے می اندازید.وشمابمکر وتزویر خود مردم را تباہ کردہ اید.واز خرافات خود دل اوشان از حق گردانیدہ اید.پس بدانید کہ گناہ نخواندگان برگردن شماست اے گروہ فریب دہندگان.آیا شما تکفیر مومنان وتکذیب صادقان امرے سہل پنداشتہ اید.وآن نزد خدا تعالیٰ امرے بزرگ است.وشما ہمیشہ برانکار اصرار کنندگان بودید.وشما از مواخذہ خدا تعالیٰ ہیچ نترسیدید.تاآنکہ کارما رسید بجائے کہ رسید وخدا دعائے شما برشما رد کرد چرا کہ او مفسدان را دوست نمی دارد.اے مردمان من برحق وصادقم.پس ازجنگ من بپرہیزید.واگر چنین ہستید کہ نہ قول من قبول می کنید.ونہ از حملہ من می ترسید.ونہ سوئے ہدایت کشیدہ می شوید.ونہ از گمراہی بازمی مانید.
162 فَتَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَ نَا وَأَبْنَاءَ کُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَ !کُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَۃ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِینَ، ونَستفتِحْ فیما وقع بیننا، لیُقضی الأمر، ویظہر الحق، وینجو عباد اللّٰہ من قوم کاذبین.وإنی أحضر بِرازَ المباہلۃ، مع کتاب فیہ إلہاماتی من حضرۃ العزّۃ، فآخذ الکتاب بید التواضع والانکسار، وأدعو اللّٰہ ربَّ العزّۃ والاقتدار، وأقول: یا ربّ، إن کنتَ تعلم أن کتابی ہذا مملوٌّ من المفتریات، وَلَیس ہٰذا إلہامک وکلامک ومخاطبَاتک مِن العنایات، فتَوَفَّنی إلٰی سنۃٍ، وعذِّبنی بعذابٍ ما عذّبتَ بہ أحدًا من الکائنات، و أہلِکْنی کما تُہلِک المفترین الکاذبین بأنواع العقوبات، لینجو الأُمّۃُ مِن فتنتی وَلیتبیّن ذلّتی علٰی المخلوقات.پس بیائید تا بخوانیم پسران خود را وپسران شمارا و زنان خود را و زنان شمارا و نفسہائے خودرا و نفسہائے شمارا باز مباہلہ کنیم و بر دروغ گویان لعنت فرستیم.و از خدا تعالیٰ در نزاع خود فیصلہ بخواہیم تا امر حق فیصلہ کردہ شود وبندگان خدا از دروغگویان خلاص یابند.ومن درمیدان مباہلہ باکتاب الہامات خود حاضر خواہم شد.پس کتاب رابدست تواضع وانکسار خواہم گرفت.وبدرگاہے خدائے عزیز صاحب اقتدار دعا خواہم کرد.واین خواہم گفت کہ اے خدائے من اگر میدانی کہ این کتاب من از مفتریات پر است.واین نہ الہامات تست نہ کلام تست نہ مخاطبات تست پس مرا تا مدت یکسال بمیران ومرا بغداب معذب کن کہ ہیچکس را از مخلوقات بدان معذب نہ کردہ باشی.ومرا ز انسان ہلاک کن کہ مفتریان و کاذبان را بانواع عقوبت ہلاک میکنی تا این امت از فتنہ من نجات یابد وتاکہ ذلت من برمخلوقات ظاہر گردد.
163 ربِّ، وإن کنتَ تعلم أن ہذہ الکلمات کلماتک وَمِنَ الإلہامات، وَلَسْتُ بکاذبٍ عندک بل أنت بعثتَنی عند ظہور الفتن والبدعات، فعذِّبِ الذین کفّرونی وکذّبونی ثم حضروا الیوم للمباہلۃ، ولا تُغادِرْ منہم نفسًا سالمۃً إلی السنۃ الآتیۃ، وسلِّطْ علی بعضہم الجُذام، وَعَلٰی البعض الآلام، وأنزِلْ عَلٰی أَبْصار بعضہم بلاءًا، وسلّط علی البعض صرعًا وفالِجًا واستسقاءً، أو داءً آخر أو توفہم معذَّبین.وابْتَل بعضہم بموت الأبناء والأحفاد والأَخْتان، و الأزواج والأحباب والإخوان، وعلیکم أن تقولوا آمین.فإنْ یبق أحد منکم سالمًا إلٰی سَنۃٍ فأُقِرّ بأنی کاذب وأجیئکم بعجزٍ وتوبۃ، وأحرق کتبی وأشیع ہٰذا الأمر بخلوص نیّۃ، و اے خدائے من اگر میدانی کہ این کلمات کلمات تو ہستند.و من نزد تو دروغ گو نیستم.بلکہ تو بروقت ظہور فتنہ ہا وبدعت ہا خود مرا معبوث کردی.پس آنان را معذب کن کہ مرا کافر قرار دادند وتکذیب من کردند.باز امروز برائے مباہلہ حاضر شدند.و ازیشان تا سال آیندہ یک نفس سلامت مگذار.و بر بعض شان جذام را مسلط کن و بر بعض دردہا.وبرچشم ہائے ایشان بلائے نازل کن.وبربعض مرض صرع و فالج و استسقا یا مرضے دیگر مسلط کن وبعض را بعذاب موت بمیران.و بعض را بموت پسران و پسرانِ پسران و دامادان و زنان و محبوبان و برادران مبتلا کن و بر شما خواہد بود کہ شما آمین بگوئید.پس اگر یکے ہم از شماتا سالے باقی ماند پس من اقرار خواہم کرد کہ من دروغگو ہستم وبعجز وتوبہ پیش شما بیایم.وکتاب ہائے خود را بسو زانم.واین امر را بخلوص نیت شائع کنم
164 وأحسب أنکم من الصّادقین.وأمّا دعاؤکم فلیَدْعُ کل أحدٍ منکم أحکمَ الحاکمین:ربَّنا، إنْ کان ہٰذا الرجل کاذبًا فأَنزِلْ علیہ نَکالک، وتَوَفَّہ إلی سَنۃ بعذاب مہین.واجعَلِ الرِّجْسَ علیہ ونَجّ عبادک منہ یا أرحم الراحمین.ربّنا، وإنْ کان صادقًا ومن الحضرۃ، فأَنزِلْ علینا رجسًا من السّماء إلی السنۃ، ولا تُغادِرْ منّا أحدًا من المباہلین.وعذِّبْنا ومزِّقْنا وأہلِکْنا وأَعدِمْنا، وسلِّطْ علینا آفاتٍ و أمراضٍ کما تُسلِّط علی المفسدین.وعلینا عند ختم دعائکم أن نقول:آمین.ثم علیکم أن تَقدّموا بین یدیکم قبلَ المباہلۃ بالاستخارۃ المسنونۃ، وتلتمسوا فضل اللّٰہ بتضرعاتٍ بہذہ الأدعیۃ:ربّنا إن کان ہٰذا ہو الحق فلا تجعَلْنا من المحرومین.ربّنا وفِّقْنا لنقوم فی سبیلک ولا نعصی الحق وخواہم پنداشت کہ شما از صادقان ہستید.مگر مضمون دعائے شما.پس باید کہ ہریکے از شما بحضرت احکم الحاکمین این دعا کند کہ اے خدائے ما اگر این شخص کاذب است پس برو عذاب خود نازل کن و اورا تا یکسال بعذاب اہانت کنندہ بمیران.و عذاب ذلیل کنندہ برو مسلط کن.وبندگان خودرا اے ارحم الراحمین از وبرہان.واگر اے خدائے ما اوصادق است واز طرف تست.پس برما تا یکسال عذابے از آسمان نازل کن.و احدے ازما کہ در مباہلین داخل است مگذار.و مارا معذب کن وپارہ پارہ کن ومعدوم کن وبرما آفات و امراض مسلط کن چنانچہ برمفسدان مسلط میکنی.وبرما بروقت ختم دعائے شما لازم خواہد بود کہ بگوئیم: آمین.واین ہم برشما لازم خواہد بود کہ قبل از مباہلہ استخارہ مسنونہ کنید.وفضل الٰہی بتضرعات باین دعا ہا بخواہید.اے خدائے ما اگر ہمین حق است پس مارا از محرومان مگردان.اے خدائے ما مارا توفیق دہ کہ در راہ تو ایستادہ شویم ونافرمان حق نباشیم
165 ولا نکون مِن الخاسرین.ربّنا نخاف أن نُرَدّ إلیک بوجوہ مُسودّۃ، فارحَمْنا ربّنا، واہدنا من لدنک سُبُلَنا، وافتَحْ اعیننا، وأَرِنا طریق الصالحین.فقوموا فی أواخر اللیالی باکین، واسألوا ربکم متضرّعین، ولا تغلُوا فی ظنونکم، ولا تیأسوا مِن أیام اللّٰہ، إن أیام اللّٰہ تأتی کالمفاجئین.وآخر العلاج خروجکم إلی بِرازِ المباہلۃ، وعلیکم أن لا تکون جماعتکم أقلَّ من العشرۃ الکاملۃ، أو یزیدون ولو إلٰی ألفٍ فی تلک السّاہرۃ، لیفتح اللّٰہ بیننا وبینکم ویقطع دابر الفَجَرۃ، ویُتِمّ الحجّۃ علی العالمین.ہٰذا آخِرُ حِیَلٍ أردناہ فی ہٰذا الباب، فتدبَّرْ.وادْعُ اللّٰہَ لِطُرق الصّواب، ولا تقعد کالقانطِیْن.واز زیان کاران نشویم.اے خدائے مامی ترسیم کہ بروہائے سیاہ بسوئے تو واپس کردہ شویم.پس اے خدائے ما برما رحم کن و راہ ہائے ما مارا بنما.وچشمہائے ما بکشا.و راہ صالحان ما را بنما.پس در آخر شب ہا بحالت گریہ بخیزید.واز خدا تعالیٰ بتضرع بخواہید.ودر گمانہائے خود از حد بیرون مروید واز روزہائے خدا نومید نباشید.چرا کہ روز ہائے خدا ہمچو ناگاہ آیندگان می آیند.و آخری علاج این است کہ سوئے میدان مباہلہ بیرون آئید.وبرشماست کہ جماعت شما از دہ مرد کمتر نباشند.یازیادہ ازان باشند اگرچہ تا ہزار درآن میدان جمع شوند.تاکہ خدا تعالیٰ در ما و شما فیصلہ کند وانجام بدکاران بدنماید وحجت خود کامل کند.این حیلہ آخری است کہ درین باب خواستیم.پس تدبر کن واز خدا تعالیٰ راہ ہائے ثواب بخواہ و ہمچو غافلان منشین.
166 أَلا یَا أیّہَا الحُرُّ الکَریْم تَدَبَّرْ یَہْدِکَ المَوْلَی الرَّحیْم وَلا تبخَلْ ولا تقصُدْ فسادا أتُطفء ما حَضَا الربُّ العظیم وَمَا جِئنَا الوریٰ فی غیرِ وقتٍ وَقَد ہَبّتْ لِقارِءِہا النَّسِیْم مَن رَجَع مِن قولہ بَعْدَ ما نطق بالخطأ فلہ أجر عظیم فی حضرۃ الکبریاء ، و یُحشَر مَعَ المتقین، وینال جزیل الثواب، وعظیم الأجر فی دار المآب، الّتی لا موت بعد حیاتہا، ولا انقطاع لنعیمہا ولذاتہا.فمن قام ابتغاءً لمرضاۃ اللّٰہ فلہ ثواب ذالک فی ملکوت السّماء ، ویُکرَم فی حضرۃ العزۃ ویُجزیٰ بأحسن الجزاء.فعلیکم یا معشر الإخوان، أَنْ تسمعوا قولی لِلّٰہ الدَّیّان، وتجتنِبوا سُبل الطغیان، وإیاکم والکبرَ والمبالاۃ ، واتقوا اللّٰہ واذکروا المجازاۃ، واتقوا سیر أرباب الدنیا والمحجوبین.ولا تقرؤوا کتابی ہٰذا واجدین علیّ أو کارہین، وعسٰی أَنْ تحسبوا اے مرد آزاد و کریم تدبر کن خدائے رحیم ترا راہ نماید و بخل مکن و قصد فساد مکن آیا میخواہی کہ آنچہ خدا افروختہ است آنرافرو میرانی و ما بے وقت نزد مردم نیامدیم و نسیم بروقت خود وزیدہ است وہر کہ از قول خود رجوع کند بعد زانکہ بخطا کلام کردہ بود.پس او را در حضرت کبریاء اجرے عظیم است.و باپرہیز گاران حشر او خواہد بود.وثواب بزرگ واجر عظیم درآخرت خواہد یافت.و دانی کہ آخرت چیست آن آخرت کہ پس از زندگی آن موت نیست ونعیم و لذات آنرا انقطاع نیست.پس ہر کہ برائے حصول خوشنودی خدا تعالیٰ بایستد پس برائے او ثواب آن در ملکوت آسمان است و او درحضرت عزت بزرگی خواہد یافت ونیکو ترجزا وپاداش دا دہ خواہدشد.پس اے معشر برادران برشماست کہ برائے خدائے جزا دہندہ سخن مرا بشنوید و از راہ بے اعتد الیہا دور بمانید واز تکبر ولا پروائی خود را دور دارید واز خدا بترسید وروز جزا را یاد کنید وازسیرت ارباب دنیا ومحجوبان پرہیز کنید.واین کتاب را در حالت غصہ و کراہت مخوانید.و نزدیک است کہ شما امرے را بر
167 أمرًا علی صورۃ والحقیقۃُ خلاف تلک الصورۃ، وعسٰی أن تظنوا أمرًا خلاف حقیقۃ وہو عین تلک الحقیقۃ، فإنکم ما تدرون لُبَّ النوامیس الإلہیّۃ، وتتکلمون مستعجلین غیر مفکِّرین.انظروا کیف تہتمّون لأمور دنیاکم، وإنْ نزل بلاء علیہا فلا تصبرون علٰی بلواکم، وتسعون حق السعی لتدفعوا ما آذاکم، وتنفقون لدفعہ أموالکم وأوقاتکم وقواکم، وتتوجہون بکل فکرکم ونُہاکم، ولا تقعدون کالصّابرین.فلما کانت عنایتکم بہٰذا القدر إلی أشیاء فانیۃ ذاہبۃٍ بعد وقتٍ ومُہْلۃ، فکیف تغفلون من الأمور الباقیۃ الأبدیۃ، التی توصل فقدانہا إلی النیران المحرقۃ ؟ أتؤثرون الفانیات علی الباقیات، وتریدون الحیاۃ الدنیا وتنسون خلود الجنات؟ أیہا الناس! زکُّوا نفوسکم، واجتبوا جذباتکم، وطہِّروا خطراتکم و صورتے پندارید و حقیقت برخلاف آن صورت باشد.و نزدیک است کہ شما امرے را خلاف حقیقت انگارید و آن عین آن حقیقت باشد.چرا کہ شما مغز اسرار الٰہی نمی فہمید.و از شتاب کاری بغیر فکر کردن گفتگو می کنید بہ بینید کہ دربارہ امور دنیوی خود چہ اہتمام ہا می کنید.واگر چیزے از بلابران امور نازل شود.پس برآن بلاصبر نتوانید کرد.وتمامتر سعی بجامی آرید تا آن چیزرا دفع کنید کہ اذیت دادہ است وبرائے دفع آن مالہائے خود را ووقتہائے خود راوقوتہائے خود را خرچ میکنید.وبہمہ فکرو دانش سوئے آن متوجہ میشوید وہمچو صابران نمی نشینید.پس ہرگاہ کہ سوئے آن چیزہائے فانیہ این توجہ وعنایت شمااست کہ در وقتے باشند و در وقتے دیگر نباشند.پس چگونہ در امور باقیہ ابدیہ غفلت می ورزید.آن امور کہ گم شدن آنہا تا آتشہائے سوزندہ میرساند.آیا شما چیز ہائے فانیہ را بر چیز ہائے باقیہ اختیارمی کنید.و دوام بہشت ہا یاد نمی دارید.اے مردمان نفسہائے خود را پاک کنید و از جذبات خود دور بمایند وخیالہائے دل ونیات را پاک
168 نیّاتکم، وانظروا إلی الحق متأمّلین.لا تخدعنَّکم أخبار باردۃ، وخرافات واہیۃ، ولا ینبغی أن تلتفتوا إلیہا وتنبذوا کلام اللّٰہ وراء ظہورکم غافلین.وقد سمعتم أنّ موت نبّی اللّٰہ عیسٰی ثابت بکلام ربّ العالمین.والأحادیث ساکتۃ فی رفعہ الجسمانی، وما فی یدیکم إلا الأمانی، وما ثبت فیہ أثرٌ مِن خاتم النبیین.وما نطق فیہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بکلمۃ.ولا تفوّہَ بلفظۃ واحدۃ.وتعلمون أن النزول فرعٌ للصعود* فَلمّا لم یثبت الصّعود فالنزول رجاءٌ باطل، فلا تأخذوا بالقول المردود.وإن تُعرضوا عن نصیحتی، ولم تعملوا علٰی وصیتی، فأخاف عَلَیکم أن تُحسبوا فی الذین کنید.وسوئے حق بنگاہ تامل بنگرید.باید کہ شمار اخبر ہائے سرد و سخن ہائے خرافات واہیات فریب ندہند.ونمی سزد کہ سوئے چنین سُخنہا التفات کنید.و کلام خدا را پس پشت خود بیندازید.وشما شنیدہ اید کہ موت عیسیٰ علیہ السلام بقرآن ثابت است.واحادیث دربارہ رفع جسمانی او ساکت اند.و در دست شما بجز آرزوہا ہیچ نیست.ودربارہ رفع ہیچ اثرے از خاتم النبین صلی اللہ علیہ و سلم ثابت نشدہ.وآنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہیچ لفظے درین بارہ برزبان نیاوردہ ومیدانید کہ نزول برائے صعود فرع است.پس ہرگاہ کہ صعود * الحاشیۃ: الرفع الذی جاء فی ذکر عیسٰی علیہ السلام فی القرآن.فھو آن رفع کہ در ذکر عیسیٰ علیہ السلام در قرآن شریف آمدہ است.آن رفع لیس رفع جسمانی ولذالک قُدِّمَ علیہ لفظ التوفّی فی البیان.لیعلم جسمانی نیست.واز بہر ہمین بر سر آن لفظ توفی بیان کردہ شد.تا کہ مردم بدانند کہ آن الناس انہ رفع روحانی کما جرت علیہ سنۃ اللّٰہ بعد موت اھل الایمان.رفع روحانی است چنانکہ برآن سنت خدا تعالیٰ برائے مومنان بعد از مردن شان رفتہ فانھم یرفعون الی اللہ بعد قبض الروح و یدخلون فی نعیم الجنان.فرحین چراکہ اوشان بعد از مردن سوئے خدا تعالیٰ برداشتہ می شوند ودر بہشت بحالت خوشی داخل کردہ مے شوند
169 لم یثبت الصّعود فالنزول رجاءٌ باطل، فلا تأخذوا بالقول المردود.وإن تُعرضوا عن نصیحتی، ولم تعملوا علٰی وصیتی، فأخاف عَلَیکم أن تُحسبوا فی الذین یغمِّطون نعم اللّٰہ ویقطعون ما أمر اللّٰہ بہ أن یوصل، ویمدّون أعناقہم جَاحدین.وما کنتُ بِدْعًا فی ہذا الأمر وما جئت شیئا إمْرًا، فکیف تؤاخذوننی وَالآیات نزلت لیقضی بین الیھود والمسیحیین.فان الیھود زعموا ان المسیح کان من الکاذبین.و ملعونًا و ما کان من المقربین المرفوعین.و قالوا انّہ صُلب والمصلوب لا یُرفع الی اللّٰہ بحکم التوراۃ بل یُلعن من حضرتہ و یُجعل مِن المردودین.و قال النصاریٰ انہ ابن اللّٰہ فصُلب لانجاء الخلق و مُنع من الرفع فی اول الامر و لُعن و عُذّب واُدخل فی جھنم الی ثلٰثۃ ایام کالفاسقین.ثُم رفع الی العرش وآواہ اللّٰہ الٰی یمینہ الٰی ابد الآبدین.فالیھود ذھبوا الٰی جسمانی ثابت نشد پس نزول امیدے باطل است.پس قول مردود را مگیرید.واگر از نصیحت من کنارہ کنید وبر وصیت من عمل نکنید.پس برشمامی ترسم کہ ازان مردم شمار کردہ شوید کہ نعتمہائے الٰہی را شکر نمی کنند.وہرچہ برائے پیوند کردن آن حکم است آنرا قطع می نمایند.وگرد نہائے خود را از روئے انکار دراز می کشند.و درین امر من اول کسے نیستم ومن امرے نیاوردہ ام کہ کسے نیاوردہ.پس گونہ مراسخت واین آیت برائے فیصلہ کردن در یہود و نصاریٰ نازل شدہ است چراکہ یہود زعم کردند کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام از کاذبان بودند.و نعوذ باللہ ملعون بودند.و از انان نبودند کہ بسوئے خدا تعالیٰ رفع ایشان میشود و گفتند کہ او مصلوب شد.و بحکم تورات مصلوب از رفع محروم می ماند بلکہ او از جناب باری ردّ کردہ میشود و نصاریٰ گفتند کہ عیسیٰ پسر خدا بود و برائے نجات خلق مصلوب شد.و در ابتدا از رفع منع کردہ شد.و ملعون شد و معذّب شد.و تاسہ روز چون بدکاران داخل جہنم گردید.باز رفع اوسوئے عرش خدا تعالیٰ شد.و خدا اورا بجانب راست خود جاداد.پس یہود بسوئے تفریط و شتم و
170 وترہقوننی عَنْ أمری عُسْرا ؟ أعُمِّیتْ علَیْکم أقوال الأولین؟ بل ہو نبأ عظیم کنتم عنہ معرضین.لا تظلموا أنفسکم وأْتونی بصفاء نیّۃ، یدرَأ اللّٰہ عن قلوبکم کل شبہۃ، وینزل علیکم أنوار سکینۃ.وتعلمون أن فتن النصاریٰ وغلوَّہم فی الخزعبیلات، کانت تقتضی حَکمًا تفریط و ھمط واھباطٍ.والنصاریٰ مع التفریط الی افراط.فبیّن اللّہ ما کان احق واقوم فی امر عیسٰی.فقال انہ ما صُلب بل توفی بحتف انفہ والحق بالموتٰی.ثم رُفع کالمقربین من غیر ان یُلعن و یُدخل فی اللظیٰ.فالحَاصِل انَّ ھٰذا قَضَاء مِن اللّہ الاعلٰی.بَیْن الیَھُود وَالنَصَاریٰ لیُبرّء عَبْدہ مِنْ بُھتَان اللَعْن* وَ عَدم الرفعَ و یقضی بمَا ھُوَ احقّ وَ اَوْلیٰ میگیرید و در مشکلہامے اندازید.آیا برشما سخنہائے اولین پوشیدہ شدند.بلکہ آن چیزیست بزرگ کہ ازان کنارہ کش شدہ اید.برخود ظلم مکنید وبصفاء نیت نزدم بیائید.خدا ہر شبہ شما از دل شما دور خواہد کرد.ونور اطمینان برشما نازل خواہد کرد.و میدانید کہ فتنہ ہائے نصاریٰ وجوش ایشان در امور باطلہ یک حکم را از خدا میخواست.فرو افگندن رفتند.و نصاریٰ باتفریط افراط راہ ہا اختیار کردند.پس خدا تعالیٰ آنچہ راست بود بیان فرمود کہ مسیح مصلوب نشدہ است تا از رفع محروم ماند.بلکہ بموت خود بمرد باز بغیر ملعون شدنمرفوع شد و رفع او ہمچو رفع مومنان شد پس حاصل کلام این است کہ این حکم فیصل از خدا تعالیٰ در یہود و نصاریٰ است.تا خدا تعالیٰ بندہ خود را از تہمت لعنت و عدم رفع بری کند.پس خدا تعالیٰ بدین حکم اختلاف را از میان برداشت.پس آن خدائے کہ مسیح را از صلیب یہود نجات دادہ بسوئے مقام بلند برداشت * الحاشیہ : لولا ھذا الغرض لکان ذکر التطھیر لغوا بعد ذکر الرفع فان عدم الرفع الجسمانی لیس بعیب واجب الدفع.منہ اگر این غرض نبودے البتہ ذکر تطہیر بعد ذکر رفع لغو بودے.چرا کہ عدم رفع جسمانی آن عیبے نیست کہ دفع آن واجب باشد.منہ
171 مِن ربّ السّماوات، فاللّٰہ الذی نجّی المسیح مِنْ صَلیْب الیَہُود، ورفعہ إلی المقام الأعلٰی، أراد أن یُنجّیہ من صَلیْب النصَاریٰ مَرّۃ أُخریٰ، فأرسلَنی حَکَمًا عَدْلًا لہٰذہ الخُطّۃ، وسَمّانی باسمہ لأکسر الصّلیْب وأُتِمَّ ما بقی منہ من فرائض النّصیحَۃ، فکلّ ما أفعل کان علیہ فحکم بینھم فیما اختلفوا فیہ.و ھو خیر الحاکمین.و لو لا ھٰذا الغرض فما کان وجہ لذکر ھٰذہ القصۃ.بل لو فُرضت القصۃ علٰی خلاف ھٰذہ الصّورۃ.لکان لغوًا کلھا و محل اعتراض علٰی فعل حضرۃ العزۃ.الم تکن ارض اللہ واسعۃ فیخفی المسیح فی مغارۃ مِن المغارات.کما اخفی افضل الرسل عند التعاقبات.ففکر ایّ حاجۃ اشتدّت لرفعہ الَی السّمٰوٰت.اخشی اللّٰہ رعب الیہود المخذولین.و ظنّ انھم پس آن خدائے کہ مسیح را از صلیب یہود نجات دادہ بسوئے مقام بلند برداشت ارادہ کرد کہ بار دوم او را از صلیب نصاریٰ نجات دہد.پس مرا بطور حکم عدل وبرائے این کار فرستاد ونام من مسیح نہاد تاکہ من صلیب را بشکنم.و کارے کہ از مسیح باقی ماندہ بود باتمام رسانم.پس ہمہ آنچہ من مے کنم او کردے.پس حکم کرد در آنچہ اختلاف مے داشتند پس اگر این غرض نبودے پس برائے ذکر این قصّہ ہیچ و جہے نبود بلکہ اگر این قصّہ را برخلاف این صورت فرض کردہ شود ہمہ قصّہ لغو و محل اعتراض بر حضرت باری مے گردد.آیا زمین خدا فراخ نبود پس می بالیست کہ در غارے از غار ہا پوشیدہ کردے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم را بوقت تعاقب پوشیدہ کرد.پس فکر کن کہ کدام حاجتے پیش آمدہ بود کہ مسیح رابر آسمان برد.چہ خدا از رعب یہود بترسید و گمان کرد کہ ہر جا کہ در زمین پوشیدہ
172 لو کان فی قید الحیات، وکذٰلک قدّر عالم المغیبات.وَجئت بعدہ عَلٰی قدر جَاءَ ہُو مِن بَعْد مُوسٰی، وإنّ فی ذالک لآیۃً لأولی النُّہٰی.وَمِن آیات اللّٰہ أنہ أخفی فی عدد اسمی عددَ زمانی، وإن شئتَ ففکِّر فی غلام أَحْمَد قادِیَانی فذٰلک خاتَمُ ربِّ العالمین، وفیہ إشارۃ إلٰی أنہ جعلنی لہذہ الملّۃ مجدِّد الدّین، ولا یقبَل العقل السّلیم أن یصمت اللّٰہ الغیور عند ہٰذہ الفتن العظیمۃ، حتی لا یبعث مجدِّدًا علی رأس ہذہ الماءۃ.أتطمئن قلوبکم بأن یخرجونہ من الارضین.الا تعلم انّ اللّٰہ حکیم لا یفعل فعلًا الا بقدر ضرورۃٍ ولا یتوجہ الٰی لغوٍ بغیر حکمۃ داعیۃ.فایّ حکمۃ الجاء اللّہ لرفع المسیح الی السماء.اما وجد موضعًا فی الارض للاخفاء.ففکّر کالمبصّرین.منہ اگر درقید حیات بودے.وہمچنین خدائے عالم الغیب مقرر کرد.ومن بعد از مسیح بمقدار آن زمانہ آمدہ ام کہ او بعد از موسیٰ علیہ السلام آمدہ بود.و درین مناسبت برائے عقلمندان نشانے است.واز نشانہائے خدا یکے این است کہ او در عدد نام من عدد زمانہ مرا پوشیدہ داشتہ است.واگر خواہی در عد د فکر کن.غلام احمد قادیانی پس این مہر خداست و درین اشارہ است کہ او خدا تعالیٰ مرا مجدد این صدی گردانیدہ است وہیچ عقل سلیم قبول نمی کند کہ خدائے غیور بر وقت این فتنہ ہا خاموش ماند.تاآنکہ برسر این صدی ہیچ مجددے را نفرستد.آیا دلہائے شما بدین امر کنم ایشان خواہند برآورد.آیا نمی دانی کہ خدا حکیم است.ہر کارے کہ میکند صرف بقدر ضرورت میکند.و بسوئے لغو بغیر حکمت داعیہ توجہ نمی فرماید.پس کدام حکمت خدا را برائے رفع مسیح بیقرار کرد.آیا ہیچ مکان برائے پوشیدن او بر زمین نماندہ بود.پس ہمچو بینایان بیندیش.منہ
173 یری اللّٰہ ہذہ البلایا تتنزل علی الأمۃ الضعیفۃ، ثم لا یتوجہ إلی دفعہا ولا لإزالۃ ہذہ الظلمۃ، ولا یبدء شیء من نصرۃ حضرۃ الکبریاء ، ولا تتنزل رحمتہ عند کمال ہذا البلاء ، وتسبّ ذراری الشیطان أولیاءَ الرحمٰن فرحین مطمئنین ألا تنظرون کیف بلغت غشاوۃ الجہل منتہاہا، وکیف نسیت کل نفسٍ عقباہا، إلا التی حفظہا اللّٰہ وحماہا.ألا تشاہدون کیف زادت الملل الضالۃ فی طغواہا، ووقع الفتور فی سفینۃ الحق ومجراہا ومرساہا؟ ألا یصرخ الوقت لمجدّد الدین؟ ألم یأنِ للذین ظُلموا أن یُنصَروا من ربّ العالمین؟ أتنتظرون وقت استئصال الإسلام، وَقَدْ وَصََل إلٰی شفا حفرۃٍ دینُ سیّد الأنام؟ مالکم لا تغتمّون کالمواسین؟ اطمینان میگیرند کہ خدا بہ بیند کہ این آفات برامت ضعیفہ نازل می شوند وباز برائے دفع آن آفات ودور کردن تاریکی متوجہ نگردد.و چیزے از مدد خدا تعالیٰ ظاہر نشود.وہیچ رحمتے بروقت نزول این بلا نازل نشود.واولاد شیطان اولیاء رحمن را دشنام ہا دہد.در حالیکہ خوش ومطمئن اند.آیا نمی بینید کہ چگونہ پردہ جہل تا انتہائے آن رسید.وچگونہ ہر نفس عاقبت خود را فراموش کرد.مگر آنکہ خدا حفاظت او کرد و نگہ داشت.آیا مشاہدہ نمی کنید کہ چگونہ ملت ہائے گمراہ شدہ در تجاوز از حد زیادتہا کردند.ودرکشتی حق وجاری کردن ولنگر نہادن آن چہ فتورہا افتاد.آیا وقت موجودہ برائے مجدد دین فریاد ہانمی کند.آیا برائے مظلومان وقت نصرت ہنوز نرسیدہ است.آیا وقتے را انتظار مے کنید کہ اسلام از بیخ برکندہ گردد.حالانکہ دین آنحضرتصلی اللہ علیہ و سلم تا سوراخ ہلاکت رسید.چہ شدشمارا کہ ہمچو غمخواران غمگین نمی شوید.
174 أحاط الناسَ مِن طَغوَی ظلامٌ عَلاماتٌ بہَا عُرِفَ الإمامُ فلا تعجَبْ بما جئنا بنورٍ بَدَتْ عینٌ إذا اشتدّ الاُوامُ أیأتی مسیحکم بعد تفطُّر السّماء واختلال النظام؟ ما لکم لا تعرفون الأوقات ولا تفکّرون فی الأیام؟ ألا ترون أنّ الآفات نزلت، والآیات ظہرت، والمعاصی کثرت، والفتن تواترت، والمصیبۃ جَلّتْ.ألیست فیکم نفس مُفکّرۃ.أو تحبّون الدنیا الخاسرۃ، أو یءِستم من رحمۃ الحضرۃ الأحدیۃ، أو رجعتم إلٰی الجاہلیۃ، ورُددتم فی الحافرۃ؟ أتظنون أنّ اللّٰہ مَا بعث مجدّدًا لإصلاح ہٰذہ المَفْسدۃ، علی رأس ہٰذہ الماءۃ؟ أو بَذل سننہ عند ہذہ الفتن المہلکۃ ؟ ألم یکن حاجۃٌ إلٰی روح القدس عند کثرۃ الشیاطین؟ فلا تمیلوا کل المیل وانظروا کَلِمَ اللّٰہ متدبرین.ألا ترون نیران الفتن وزمان المحن؟ تاریکی طاغی گشتن برمردم احاطہ کرد این آن نشانیان ہستند کہ بدانہا امام شناختہ شد پس ازان نور ہیچ تعجب مکن کہ آور دیم حقیقت این است کہ چون مردم را بشدت حرارت تشنگی گرفت چشمہ از غیب ظاہر شد آیا مسیح شما بعد شگافتن آسمانہا واختلال نظام خواہد آمد.چہ شد شمارا کہ وقتہا را شناخت نمی کنید ودر روزہا فکر نمی نمائید.آیا نمی بینید کہ آفات فرود آمدند.ونشانہا ظاہر شدند.وگناہان بسیار گشتند.وفتن ہاپیہم پدید آمدند.ومصیبت بسیار بزرگ شد.آیا درشما ہیچ جانے فکر کنندہ نیست.یا این جہان پرزیان را دوست میداریدیا از رحمت الٰہی نومید شدہ اید.یا سوئے جاہلیت رجوع کردہ اید.وسوئے مکانے باز گشتہ اید کہ از آنجا ترقی کردہ بودید.آیا گمان شما این است کہ خدا ہیچ مجددے را برائے اصلاح این مفسدہ برسر این صدی نفرستادہ است.یا در وقت این فتنہ ہائے ہلاک کنندہ سنت خود را تبدیل کرد.آیا وقت کثرت شیاطین حاجت روح القدس نبود.پس از راہ راست دور نروید و کلام خدا را بتدبر بنگرید.آیا شما آتش فتنہ ہا وزمانہ محنتہا را نمی بینید.
175 وتسمعون ثم لا تسمعون، وتُنادَون ثم تصمِتون، کأنکم متُّمْ أو أُغمِیَ علیکم کالمصروعین.وإذا نطقتم نطقتم کالعادین، وإذا بطشتم بطشتم جَبّارین، وإذا ناظرتم فناظرتم بآراء أنحَف من المغازل، وأضعف مِن الجوازل، وأحاطت بکم أخلاط الزمر من ذو الغمر۱ ، فجعلتموہم کأنفسکم من الضالین.أُعطیتم مفاتیح الہدایۃ، فاستبدلتم الغیَّ بالرشد والدرایۃ، وتمایلتم إلی الجہل کالمُحبّین.ومنکم قوم أغرَوا علیّ العامۃ، وندّدوا بأنہ ترَک الکتاب و السنۃ، ألا لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین المفترین، الذین یستمرّون علٰی غیّہم، ولا یتناہَون عن زہوہم وبغیہم، وَمَا کانوا منتہین.وما ظلمونا ولٰکن ظلموا أنفسہم، وسقط المکر علٰی وجوہ الماکرین.أشاعوا وشنوید وباز نمی شنوید.وشمارا آواز دادہ می شود وباز خاموش میمانید.گویا مردہ ایدیا ہمچو مصروعان برشما غشی افتادہ.وچون سخن میگوئید ہمچو ظالمان سخن میگوئید.وچون حملہ میکنید پس ہمچو جابران حملہ می کنید وچون مناظرہ میکنید پس رائے ظاہر میکنید کہ ضعیف تر از دوک باشد و کمزور تر از بچہ کبوتر.وعوام را از نادان گرد خود جمع کردہ اید.پس ایشان را ہمچو خود گمراہ ساختہ اید.شمارا کلید ہائے ہدایت دادند.پس بجائے ہدایت گمراہی را گرفتہ اید.وہمچو محبت کنندگان برجہل نگونسار شدہ اید.و ازشما قومے ہستند کہ برمن عوام را برانگیختند وچنین ظاہر کردند کہ این شخص کتاب و سنت را ترک کردہ است.خبردار باشید کہ لعنت خدا برکاذبان ومفتریان است.آنانکہ برگمراہی خود مداومت می ورزند.واز کار باطل وبغاوت خود باز نمی آیند و نہ باز آیندگان ہستند.وبرما جفا نکردند مگر برنفس ہائے خود جفا میکنند.ومکر برروئے مکر کنندگان افتاد.کار ہائے جہالت خود را سہوکتابت معلوم ہوتا ہے.درست ’’ذوی الغمر‘‘ ہے ناشر
176 جہلا تہم فی الجرائد، وکادوا کالصّائد، وجاء وا بزُور مبین.ولما رأیت أنہم أخلَوا کِنانتہم، وقضوا من المفتریات لُبانتہم، أشعتُ ما أشعت کما ہو فرض الصادقین، فأعرضوا عن نِضالی، وفرّوا مِن عَسّالی، ووارَوا وجوہہم کالکاذبین.أیہا الناس! ارقعوا علٰی ظَلْعِکم ولا تظلموا، وانتہوا ولا تفرطوا، واحذروا ولا تجترؤوا، واذکروا الموت ولا تغفلوا، واذکروا آباء کم الغابرین.أتظنون أنکم تُتر!کون فی الدنیا ولذّاتہا، ولا تُقادون إلٰی الحاقّۃ ومُجازاتہا، ولا تُساقون إلٰی مالک یوم الدین؟ ما لکم لا تنتہجون مہجۃ الاہتداء ، ولا تعالجون داء الاعتداء ، وتمرّون بالحقّ محقرِّین؟ اعلموا أن فضل اللّٰہ معی، وأن روح اللّٰہ ینطق فی نفسی، در اخبارہا شائع کردند.وہمچو شکاریان مکرہا نمودند.و دروغے صریح آور دند.پس ہرگاہ کہ دیدم کہ اوشان تیردان خودہا خالی نمودند.و از مفتریات حاجت روائی خود کردند.شائع کردم آنچہ شائع کردم چنانچہ فرض صادقین است.پس از مقابلہ من کنارہ جو شدند.واز نیزہ من بگریختند و روہائے خود را ہمچو کاذبان پوشانیدند.اے مردمان برجانہائے خود نمی کنید وظلم مکنید.و باز ایستید و کار را بافراط مرسانید.وبترسید و دلیری مکنید و مرگ خود را یادکنید و غافل مباشید.و پدران خود را کہ گذشتہ اند یاد کنید آیا گمان می کنید کہ شما دردنیا ولذات آن گزاشتہ خواہید شد.وسوئے قیامت وپاداش آن کشیدہ نخواہید شد وسوئے مالک یوم جزاء ہمچو گرفتاران روانہ نخواہید شد.چہ سبب است کہ راہ راست را نمی گیرید.وبیماری تجاوز ازحد را علاج نمی کنید.وبرحق چون میگزرید بہ تحقیرمے گزرید.بدانید کہ فضل خدا بامن است.و روح خدا در من سخن ہا مے کند.
177 فلا یعلم سرّی، ودخیلۃ أمری إلا ربّی، ہُوَ الذی نزل علی وجعلنی من المنوّرین.وکم مِن آیاتٍ کُشفتْ علیکم ثم تمرّون بہا غافلین.ألا ترون أن الخسوف والکسوف ما کانا فی قدرتی ولا قدرتکم؟ بل کان جمعُہما فی رمضان خلافَ مُنْیتکم، فرأیتم الآیتین المذکورتین کارہین.فکأنّ اللّٰہ عذّبکم بما لا تہویٰ أنفسکم، فما فکرتم کالراشدین.ولو کان فی قدرتکم لَحَوَّلْتم الشمس والقمر من مکان خسوفہما ونلتم إلَی السّماء لتغییر صفوفہما لو کنتم قادرین.فسوّد اللّٰہ وجوہکم ورَضَّ فُوْہَکم، وما استطعتم أن تردّوا فعل اللّٰہ فکَنَسْتم نادمین.أتُقسِمون أنکم رضیتم بہذا الفعل مِنَ الرحمٰن، وما جادلتموہ بأنفسکم کالشیطان، وما أخذکم القبض کالغضبان؟ فأَقسِموا إن کنتم صادقین.أتُقسِمون أنکم رضیتم بموت ’’آتہم‘‘ بعد ما أخفی الحق وما أقسَمَ؟ فأَقْسِموا إن کنتم پس ہیچکس راز من وحقیقت اندرونی من بجز خدائے من نمی داند.ہمان است کہ برمن فرود آمد ومرا از روشن شدگان گردانید.وبسیارے از نشانہا است کہ برشما کشادہ شدند باز برآنہا بحالت غفلت میگذرید.آیا نمی بینید کہ خسوف وکسوف نہ درقدرت من بود نہ در قدرت شما.بلکہ جمع شدن آن ہر دو درماہ رمضان خلاف مراد شما بود.پس شما آن ہر دوآیات ذکر کردہ شدہ را درحالت کراہت مشاہدہ کردید.پس گویا خدا تعالیٰ بچیزے شمارا عذاب کرد کہ دل شمانمی خواست.پس ہمچو صاحبان رشد ہیچ فکرے نکردہ اید.واگر در قدت شما بودے البتہ شما آفتاب وماہتاب را ازمقام خسوف وکسوف بمقامے دیگر منتقل کردندے.پس خدا روہائے شمارا سیاہ کرد و دہن شمارا بکوفت ودر طاقت شما نماند کہ فعل خدا را از حالت آن بگردانید.پس ہمچو شرمندگان پوشیدہ شدید.آیا قسم میخورید کہ شمابدین فعل خدا تعالیٰ راضی بودید.و در د لہائے خود ہمچو شیطان با او جنگ نکردہ اید.وشمارا ہمچو خشمناکانقبض نگرفتہ است.پس قسم خورید اگر راست گو ہستید.آیا قسم میخورید کہ شما بموت عبد اللہ آتھم عیسائی راضی شدہ اید بعد زانکہ او حق را پوشیدہ داشت و قسم نخورد.پس قسم خورید
178 صادقین.أتُقسِمون أنکم رضیتم بما أیّدنی ربّی، وأکرمنی وأعزّنی، وزاد کل یوم حزبی؟ فأَقْسِموا إن کنتم صادقین.أتُقْسِمون أنکم رضیتم بما أخزاکم ربی بحذائی، وما استطعتم أن تکتبوا شیءًا فی العربیۃ کإملا!ئی؟ فأَقْسِموا إن کنتم صادقین.أ تُقْسِمون أنکم رضیتم بما قصّرتم عن فہم القرآن، فما استطعتم أن تکتبوا مثل ما کتبتُ من معارف الفرقان، وَمَا قدرتم أَنْ تبارزونی فی ہذا المیدان؟ فأَقْسِموا إن کنتم صادقین.وقد شہد صالح علٰی صدقی من قبلی وقبل دعوتی، وقال إنہ ہو عیسٰی المسیح الآتی، وسمّانی وسمّٰی قریتی، وقال لفتاہ ہذا ما أُنْبِئتُ مِن ربّی، فخُذْ مِنّی ہذہ وصیّتی، وقال: إن العلماء یکفّرونہ ویکذّبونہ، فلا تقعد معہم وتَذکَّرْ نصیحتی.فلما کبر فتاہ وشاخ أدرکَ وقتی، فجاء نی اگر راستگو ہستید.آیا قسم میخورید کہ شمابآن تائیدات خدائے من کہ لازم حال من اند خوشنود ہستید.وشمارا آن ہمہ اکرام و اعزاز الٰہی کہ دوبارہ من مبذول است خوش مے آید.پس قسم خوریدا گرراست گو ہستید.آیا قسم میخورید کہ شما بدین فعل حق راضی بودید کہ او بمقابلہ من شمارا رسوا کرد.و در قدرت شما نماند کہ چیزے بمقابل من در عربی بنویسید.پس قسم خورید اگر راستگو ہستید.آیا قسم میخورید کہ شما بدان قصور راضی شدہ اید کہ دربارہ فہم قرآن در شما ثابت شد پس شمارا این طاقت نماند کہ آنچہ من نوشتم بنو یسید.و شمارا این قدرت نشد کہ درین میدان مقابلہ من کنید.پس قسم خورید اگر بر راستی ہستید.و بہ تحقیق نیک بختے قبل از من وقبل از دعوت من برصدق من گواہی داد.وگفت این ہمان عیسیٰ مسیح است کہ خواہد آمد.و نام من و نام دہ من بر زبان راند.و مرید خود را کہ کریم بخش نام داشت گفت کہ این خبر از خدائے خود یافتم.پس این نصیحت من از من بگیر وگفت علماء آن وقت او را کافر خواہند قرارداد وتکذیب او خواہند کرد بااوشان منشین و نصیحت من یاد دار.پس ہرگاہ کہ آن مردیکہ سن رسید
179 فی وقت غُربتی، وقال: عندی لک شہادۃ فاسمع مِنّی کلمتی، فرویٰ ما سمع من شیخہ بعین باکیۃ، ودموع متحدّرۃ، حتی ہیّج عبرتی، ثم أشاع کما أوصاہ شیخہ الولیّ ہٰذا الخبر، وبلّغ حالفًا ومہلِّلا إلٰی کل أُذن ہذا الأثر، وأشعتُ بإیماۂ رسالۃً مطبوعۃً، وأودعتُہا أخبارًا مسموعۃً، وزاحمَہ علماء تلک الخِطّۃ، وکادوا کل کَیْد لیصرفوہ عَنْ ہذہ الشہادۃ، فقال: لا أکتمہا أبدا ولا أتعامٰی بعد البصیرۃ، فأشاعہا حق الإشاعۃ، وبَلّغہا إلٰی الخواص والعامۃ، ثم توفاہ اللّٰہ ورفعہ إلی مقرّ المؤمنین.فبَیِّنُوا..أتُقسِمون أنکم رضیتم بہذہ الآیۃ من الرّحمٰن، وما کرہتم وما غاضبتم فی قلوبکم بالعدوان؟ فأَقْسِموا إن کنتم صادقین.أہذہ کانت تُقاتکم ودیاناتکم أن شیخًا کبیرًا من المسلمین رویٰ ہذہ و پیرشد وقت مرا یافت.پس درحالت مسافرت من نزدم آمد وگفت برائے تو نزد من گواہی است.پس کلام من بشنو.پس ہرچہ از شیخ خودشنیدہ بود بمن روایت کرد و درحالت روایت چشم او گریان بود واشک ہائے او جاری بودند.بحدیکہ مرا مستعد گریہ کرد.باز ہمچنان کہ شیخ خدا رسیدہ او وصیت کردہ بود این خبر را درمردم شائع کرد وبقسم و کلمہ تشہد این نشان رابہر گوشے رسانید.ومن باشارہ او یک رسالہ کہ دران این روایت بود طبع کردہ شائع کردم ودرآن رسالہ آن اخبار مسموعہ درج کردم.وعلماء آن نواح مزاحم اوشدند.و از ہر قسم مکرے کردند تا اورا ازین شہادۃ باز دارند.پس گفت کہ من ہرگز این گواہی را پوشیدہ نخواہم کرد.وبعد از بصیرت کور نخواہم شد.پس آن گواہی را در خاص وعام چنانچہ باید شائع کرد.باز خدا تعالیٰ اورا وفات داد.وسوئے قرار گاہ مومنان برداشت.پس قسم خورید آیا شما بدین نشان الٰہی راضی شدہ اید.وہیچ کراہت نکردہ اید ونہ در دلہائے خود بظلم صریح خشمناک شدہ اید.پس قسم خورید اگر شما برراستی ہستید.آیا این پرہیز گاری شما بود واین دیانت بود کہ پیرے بزرگ از مسلمانان این روایت را بقسم وکلمہ تشہد بیان کرد.
180 الروایۃ مُقسِمًا باللّٰہ ومہللًا فولّیتم معرضین؟ مع أن أشہادًا عَدْلًا مِن قومہ شہدوا علی أنہ من الصّالحین الصّادقین المصلّین الصائمین الزاہدین.وکذٰلک نبّہکم اللّٰہ کل مرّۃ، فما تنبّہتم کالمسترشدین.أ تُقسِمون أنکم رضیتم بما لم یسمع اللّٰہ دعواتکم، وحفظنی وعصمنی وکرّمنی وأرغمَ أنفکم لسوء نیّاتکم؟ فأَقْسِموا إن کنتم صادقین.فإن کنتم تظنون أنکم علی الحق ونحن علی الباطل، فلمَ یعذّبکم اللّٰہ بما لا ترضون بہ من الدلائل، وتتربصون علینا الذلۃ فتؤخذون فیہا منخوسین.بل اللّٰہ یکسِر جبتکم فی کل آن، ویُعلی عبدہ ببرہان، ویمزّق أجیاد المستکبرین.فما لکم لا تُرفِؤن بالاستغفار، ولا تدرکون وقت الاعتذار، ولا تتوبون خائفین؟ وإنّی بزعمکم أخادع الناس وأُضِلّ الوریٰ، پس شما اعراض کردید.باوجودیکہ بسیارے از گواہان عادلان کہ از قوم او بودند گواہی دادند کہ او نیک بخت وراست گو و پابند صوم و صلٰوۃ و مردے زاہد است.وہمچنین خدا تعالیٰ ہر بار شمارا خبر دار کرد پس ہمچو ہدایت مندان خبردار نشدید.آیا قسم میخورید کہ شما بدین امر راضی شدہ اید کہ خدا تعالیٰ بددعا ہائے شمارا قبول نکرد ومرا نگہداشت وبزرگی داد وشمارا بباعث بدنیتی شما ذلت داد.پس قسم خورید اگر بر راستی ہستید.پس اگر شما گمان می کنید کہ شما برحق ہستید وما بربا طلیم.پس چرا خدا تعالیٰ شمارا بآن دلائل کہ خلاف رضائے شماست عذاب می دہد.وبرما امید ذلت میدارید وہمہ ذلت برشما می افتد.بلکہ خدا تعالیٰ ہر دم بت شما را می شکند.وبندہ خود را بہ حجت بلند می گرداند.وگردن متکبران را می شکند پس چہ شد شمارا کہ جامہ دریدہ خود را باستغفار پیوند نمی کنید.ووقت عذر آوردن رانمی دریا بید وہمچو ترسندگان توبہ نمی کنید.ومن بگمان شما مردم را فریب مے دہم و مخلوق را گمراہ مے کنم.
181 وأفتریٰ علَی اللّٰہ وأترک سبل التقویٰ، وفی نفسی معہا رزائل أُخریٰ، وأنتم قوم مُطہّرون لا عیب فیکم ولا طغویٰ، ثم مع ذٰلک یخزیکم اللّٰہ ویعذبکم بعذاب أَدْفَی، فلا تقدرون علی أن تردّوا عذابہ ولا تأتوننی معارضین.وإن اللّٰہ قد أنزل علیّ غیثَ نعماء مِدْرارًا ظاہرۃً وباطنۃ، وأنعم علیّ فی الأولٰی والآخرۃ، وفتح علیّ أبوابًا من الإلہامات، وحدائق من المکاشفات، فمن یمکث عندی نحو أربعین یومًا فأرجوا أنہ یریٰ شیءًا منہا، فہل لکم أن تعارضوا أو تُعرِضون عنہا؟ وإن اللّٰہ بشّرنی وقال: ’’یا أحمدُ أجیب کلَّ دعائک، إلّا فی شرکائک*، فأجاب دعواتٍ ضاق المقام عن الإتیان بذکر إجمالہا، * الحاشیۃ: لھذہ الفقرۃ قصّۃ لا یقتضی المقام ذکرھا.منہ وبر خدا تعالیٰ افترامی کنم و راہ تقویٰ رامے گذارم.و در نفس من سوائے این رزیلت ہا بسیار اند وشما قومے پاک ہستید نہ درشما عیبے ونہ ہیچ زیادتی.باز بااین ہمہ خدا تعالیٰ شمارا رسوامی کند و بعذاب خستہ کنندہ وکشندہ می میراند.پس ہیچ قدرت ندارید کہ عذاب او را رد بکنید و نہ بامن درمقام معارضہ می آئیند و خدا تعالیٰ برمن باران نعمت ہا کہ متواتر می بارد فرود آورد و در ظاہر و باطن و اول و آخر مرا نعمت ہا داد و برمن دروازہ از الہامات کشود و باغہائے مکاشفات مفتوح کرد.پس ہرکہ نزد من تاچہل روز بماند.پس امید دارم کہ چیزے از آنہا خواہد دید.پس آیا شما معارضہ توانید کرد یا کنارہ میکنید.و خدا مرا بشارت داد.وگفت کہ اے احمد من ہر دعائے تو قبول خواہم کرد.مگر دربارہ شرکاء تو.پس بان کثرت دعاہائے من قبول کرد کہ این مقام این قدر ہم گنجائش ندارد کہ بطور اجمال متعلق این فقرہ قصہ ایست کہ بدین مقام ذکر آن مناسبت ندارد.
182 فضلًا عن إدراج تفاصیلہا وکیفیۃ کمالہا، فہل لکم أن تعارضونی فیہا أو تنقلبون معرضین؟ وإنّ اللّٰہ بشّرنی فی أبنائی بشارۃً بعد بشارۃٍ حتی بلّغ عددَہم إلٰی ثلاثۃ، وأنبأنی بہم قبل وجودہم بالإلہام، فأشعتُ ہذہ الأنباء قبل ظہورہا فی الخواص والعوام، وأنتم تتلون تلک الاشتہارات، ثم تمرّون بہا غافلین من التعصبات، وبشّرنی ربّی برابعٍ رحمۃً، وقال إنّہ یجعل الثلا!ثۃ أربعۃ، فہل لکم أن تقوموا مزاحمۃ، وتمنعوا مِن الإرباع المُرْبِعین؟ فکیدوا کیدا إن کنتم صادقین.وقد کتبنا ذٰلک فی اشتہار من قبل من سنین، فاقرأوہ متأمّلین، إنّ فی ذٰلک لآیات للناظرین.ثم کُرّر علیّ صورۃ ہذہ الواقعۃ، فبینما أنا کنت بین ذکر آنہا را بیان کنم.چہ جائیکہ بہ تفصیل بنویسم وکمال عظمت آنہا بیان کنم.پس آیار غبتے دارید کہ در قبولیت دعاہا بمن مقابلہ کنید یا بحالت اعراض مے گریزید.وخدا تعالیٰ دربارہ پسران من مرا خوشخبری بر خوشخبری داد.تاآنکہ عدد آناں را تاسہ رسانید.ومرا ازان ہرسہ پسر قبل وجود آنان بذریعہ الہام خود خبر داد.پس من این خبرہا را قبل ظہور آنہا درخواص وعوام شائع کردم.وشما آن اشتہارات می خوانید.باز از تعصبات خود غافل می روید وخدائے من مرا از روئے رحمت بہ پسر چہارم مژدہ داد.وگفت کہ آن پسر سہ را چہار خواہد کرد.پس آیا شمارا طاقت است کہ برائے مزاحمت برخیزید.وچہار شوندگان را از چہار شدن مانع آئید.پس مکرے کنید تا این پیشگوئی را باز دارید.و سالہا شد کہ ما این الہام را در اشتہارے نوشتہ ایم.پس آن اشتہار را بتامل بخوانید کہ در ان برائے بینندگان نشانہا است.باز صورت این واقعہ برمن مکرر کردہ شد.پس درآن وقتیکہ من
183 النوم والیقظۃ، فتحرَّکَ فی صُلبی روحُ الرابع بعالم المکاشفۃ، فنادی إخوانَہ وقال: بینی وبینکم میعاد یومٍ من الحضرۃ.فأظن أنہ أشار إلٰی السنۃ الکاملۃ، أو أمدٍ آخر من ربّ العالمین.واعلموا أن اللّٰہ ینصرنی فی کل موطن، ویخزیکم من کل محتضنٍ، ویردّ کیدکم علیکم یا معشر الکائدین.وإن کنتم تزدرینی عینُکم فتعالوا نجعل اللّٰہ حَکَمًا بیننا وبینکم.أتریدون أن یظہر مَینُنا أو مینُکم؟ فتعالوا نَقُمْ تحت مجاری الأقدار مباہلین، وإن کنتم تُعرضون عن المباہلۃ، فأْتونی وامکثوا عندی إلی السنۃ الکاملۃ، لأریکم بعض آیات حضرۃ العزۃ إن کنتم طالبین.وإن کنتم تُعرضون عن رؤیۃ ہذہ الآیات، فلکم أن تعارضونی فی معارف القرآن والنکات، ولن تقدروا علیہا ولو متّم حاسرین.فإنہ علم لا یمسّہ إلا الذی کان من المطہَّرین.فإن لم تفعلوا در حالتے بودم کہ جامع خواب وبیداری بودد رپشت من روح آن چہارم بجنبید.پس برادران خودر اندا درداد.وگفت درمن ودرشما میعاد یک روز است.پس گمان میکنم کہ از یک روز اشارہ سوئے یک سال است یا مدتے دیگر است از خدا تعالیٰ.وبدانید کہ خدا تعالیٰ مرا در ہر میدانے فتح میدہد.واز ہر کنار شمارا رسوامی گرداند.و مکر شما برشمامی افگند.واگر چشم شما مرا حقیر مے شمارد پس بیائید تا خدارا درما وشماحکم مقرر کنیم.آیامی خواہید کہ دروغ مایا دروغ شما ظاہر شود.پس بیائید کہ با مباہلہ زیر مجاری قدرت الٰہی بالیستیم.واگر شما از مباہلہ کنارہ میکنید پس نزدم بیائید وتاسالے کامل نزدم بمانید.تاشمارا بعض نشان حضرت عزت بنمایم اگر شما طالب حق ہستید.واگر شما از دیدن این نشانہا کنارہ میکنید.پس اختیار شما است کہ در معارف قرآن ونکات آن بامن معارضہ کنید.وہرگز بران قادر نخواہید شد اگرچہ بحسرت بمیرید.چرا کہ علم قرآن علمے است کہ بجز پاک شدگان دیگرے را در آن کوچہ راہے نیست
184 ہذا فعارِضونی فی إنشاء لسان العرب، فإن العربیۃ لسان إلہامیۃ، لا یُکمَّل فیہا إلا نبیّ أو ولی من النُخب.وإن لم تبارزوا فیہا، ولن تبارزوا، فاکتبوا کتابًا وأکتبُ کتابا لإصلاح مفاسد ہذہ الأیام، ورَدِّ النصاری وفِرقٍ أخریٰ من عَبَدۃِ الأصنام، وإفحامِہم بالبرہان التام، وعلینا أن لا نقول شیئا من عند أنفسنا ولا أنتم من عند أنفسکم، إلّا من کتاب اللّٰہ العزیز العلّام.وَلَن تفعلوا ذٰلک أبدا ولن تُعطَوا عزّۃَ ہذا المقام، فإن ہذا فعلٌ من أفعال إمام الوقت ومُزیلِ الظلام، الذی أُیِّدَ بروح من اللّٰہ وزِیْدَ بسطۃً فی العلم و أُعطیَ بلاغۃ الکلام.وإن تغلبوا فی أحد منہا فلستُ من اللّٰہ العلام.فإن أعرضتم عن کل ما عرضنا علیکم، فما بقی عذر لدیکم، وشہدتم أنکم من الکاذبین.أتکذبوننی من غیر علم، ثم إذا دعوناکم ففررتم جاحدین غیر مبالین؟ پس اگر این کارنتوانید کرد.پس در انشاء زبان عرب بمن مقابلہ کنید.زیرا کہ آن زبان الہامی است.و درو بجز نبی یا ولی دیگرے مکمل نتواندشد.واگر درآن مقابلہ نتوانید کرد پس کتابے بنویسید ومن نیز بنویسم کہ مشتمل باشد براصلاح مفاسد این زمانہ.ورد نصاریٰ.وردّ دیگر فرقہ ہا ازبت پرستان.وساکت کردن اوشان بحجت کامل اما باید کہ ہرچہ نویسیم از قرآن بنویسیم وہرگز چنین نتوانید کرد.واین مقام عزت ہرگز شمارا دادہ نخواہد شد.چرا کہ این کار ازکار ہائے امام وقت است کہ دور کنندہ تاریکی است.واز روح القدس تائید یافتہ.ودرعلم و بلاغت وسعت حاصل کردہ پس اگر شما ازین ہا دریکے غالب شوید پس من از خدا تعالیٰ نیستم.پس اگر شما ازہمہ آنچہ پیش کردم کنارہ کنید.پس عذر شما باقی نماند.وشما خود گواہ خواہید شد کہ دروغگو ہستید.آیا بدون علمے تکذیب من میکنید.باز چون بخوانیم پس درحالت انکار ولاپروائی می گریزید.
185 وذَکرنا ہذہ الآیات تلذُّذًا بالنعم الرحمانیۃ، وشکرًا للتفضلات الربّانیۃ، ثم إتمامًا للحجۃ علی الطبائع الشیطانیۃ، واستزادۃً لنعم ربّ العالمین، إذ بالشکر تدوم النعم وتزید الآلاء وتثبُت عطایا أرحم الراحمین.فالحاصل أنّنی قد عرضتُ ہذہ الأمور دعوۃً للطلباء ، ورحمًا علی الأتقیاء الضعفاء.فمن کان فی شک من أمری، وکان مُکفِّرَ زُمَری، فعلیہ أن یسعٰی إلیَّ بقدم الرضاء ، ویختار طریقًا من ہذہ الطرق للاہتداء ، لا للمِراء وطلب العَلاء ، ولا یرضی بغشاوۃ الجہل والخطاء ، ویأتینی کالمتواضعین.فأرجو أن یرحمہ اللّٰہ ویجعلہ من المطمئنین.بید أنی ما أُمِرتُ أن أدعو الذین ینحتون الآیات من عند أنفسہم ومن أمانی الجَنان، ثم یقولون أَرِنا ہذہ لو کنتَ من الرحمٰن، وإن لم تأت بہا فلسنا بمؤمنین.أولئک وما این نشانہارا محض از روئے لذت یافتن بہ نعتمہائے الٰہی نوشتیم.ونیز بہ نیت شکر خدا تعالیٰ واتمام حجت برطبائع شیطانیہ وبطمع زیادت نعمت باری تعالیٰ بنگا شتیم.چرا کہ شکر کردن موجب دوام نعمت وزیادت وثبات آن می گردد.پس حاصل کلام این است کہ من این امور را بطور دعوت طالبین پیش کردم.و بطور رحم برپرہیز گاران کمزور بیان نمودم.پس ہرکہ در امر من شک دارد.و مکفر جماعت من باشد.پس برو لازم است کہ بقدم رضاء سوئے من بدود.و راہے را ازین رہ ہا برائے ہدایت یافتن نہ برائے جنگ و بلندی جستن اختیار کند.و باپردہ جہل وخطا راضی نشود.و نزدم ہمچو تواضع کنندگان بیاید.پس امید میدارم کہ خدا تعالیٰ برو رحم فرماید و اورا اطمینان بخشد.مگر این است کہ من برائے این کار مامور نشدہ ام کہ کسانے را بخوانم کہ از طرف خود نشانہا بتراشند.باز مرا گویند کہ این نشانہا مارا بنما.اگر از طرف خدا تعالیٰ ہستی.واگر ننمائی پس ما ازقبول کنندگان نیستیم.این مردم
186 الذین یحبون آراء ہم، ویریدون أن یأمروا اللّٰہ لیتبّع أہواء ہم، فیُترَکون فی الضلالۃ خالدین.وإنّ اللّٰہ لَن یَرفع حجبہم ولن یزکّیہم، إنہم کانوا مستکبرین.إلا الذین تابوا وأصلحوا فأولئک من المرحومین.ما کان اللّٰہ محکومَ أحد فی البلاد، وہو القاہر فوق عبادہ لا کالغلمان والعباد، سبحان ربی! ہل کنتُ إلّا بشرًا من المأمورین.ثم القوم احتجّوا علیّ بأمور نذکرہا برعایۃ الاختصار، لنستأصل کل ما أوردوا علی سبیل الاعتذار، ولنکشف باب الحق علی الطالبین.فمنہا أنہم یقولون إن ’’آتم‘‘ ما مات فی المیعاد، بل مات بعدہ وما ثبت إیمانہ بالأشہاد، ولم یثبت أنہ کان من الخائفین الراجعین.فاعلم أن نبأ موتہ کان مشروطًا بعدم الرجوع إلٰی الحق والصواب، کسانے ہستند کہ بارائے ہائے خود محبت می کنند ومیخواہند کہ برخدا تعالیٰ این حکم کنند کہ تا پیروی آرزو ہائے ایشان کند.پس برائے ہمیشہ درضلالت گزاشتہ می شوند.وخدا تعالیٰ ہرگز حجاب شان دور نخواہد کرد ونہ ایشانرا پاک خواہد نمود چرا کہ ایشان متکبر اند.مگر آنانکہ توبہ کردند واصلاح حال نمودند.پس ایشان از جملہ کسانے ہستند کہ برایشان رحمت خدا تعالیٰ است.خدا در زمین ہا محکوم احدے نیست او بر بندگان خود غالب است.نہ مثل غلامان وبندگان.خدائے من پاک است نمی شاید کہ بدو این بے ادبی ہا کردہ آید.ومن چیزے نیستم مگر یک بندہ مامور.باز قوم من برمن در چند امور حجت ہا گرفتند کہ برعایت اختصار ذکرآن امور مے کنم.تاکہ ماآن ہمہ خیالات را از بیخ برکنیم کہ برسبیل عذر بیان کردہ اند.وتاکہ ما دروازہ حق برطالبان کشائیم.پس ازان اعتراضہا یکے این است کہ عبد اللہ آتھم نصرانی در میعاد پیشگوئی نمردہ است بلکہ بعد از گزشتن میعاد مردہ.وایمان او ازروئے گواہان بپایہ ثبوت نرسیدہ ونہ ثابت گشتہ کہ او بترسید ورجوع بحق آورد.پس بدانکہ خبر موت او مشروط بعدم رجوع الی الحق بود.
187 وما کان کحُکْمٍ قطعی کما فہِم بعض الدوابّ.ثم کان من المشروط فی حیاتہ أن یثبُت علی الحق بعد القبول، وإن لم یثبت فکان حُکْم الموت لذٰلک الجہول، فتمّتْ کلمۃ ربّنا صدقًا وحقًّا ولو أنکرہا بعض الجاہلین.وقد سمعتَ أنّہ مات بعد الإخفاء وعدم الإظہار، وإغضاب الربّ بالإصرار علَی الإنکار، وکذٰلک کان إلہام ربّ العالمین.أفلا ترون موت ہذا الجاہل الکفّار، کیف فاجأہ بعد الإصرار علٰی الإنکار؟ وقد کُتِبَ قبل موتہ ذٰلک کلُّہ فی إلہام اللّٰہ القہّار، وصُرِّحَ أنہ سیؤخذ ویُمات بعد إخفاء الشہادۃ والغلوّ والاستکبار، ثم طُبع وأُرسلَ فی البلاد والدیار.وما مات ’’آتم‘‘ إلا بین سبعۃ أشہر من الاشتہار الأخیر، وکان ذٰلک الاشتہار نبأ موتہ وکالنذیر.أفلا یتدبرون إلہاماتی، ولا یفکرون فی کلماتی، ویمرّون ضاحکین علٰی آیاتی، ومثل حکم قطعی نبود چنانکہ بعض چارپایان فہمیدہ اند.باز دربارہ زندہ ماندن او شرط الہام این ہم بود کہ بعد از رجوع الی الحق برحق قائم بماند.ودرصورت عدم ثبات برحق نیز بران جاہل حکم موت بود.پس گفتہ پروردگار ما حقاً وصدقاً بکمال رسید.اگرچہ بعض جاہلان درانکار باشند.وتوشنیدی کہ عبد اللہ آتھم بعد از اخفاء وعدم اظہار وبعد خشمناک کردن رب خود باصرار برانکار بمرد.وہمچنین الہام خدا تعالیٰ بود.آیا شما موت این نادان کافر را نمی بینید.کہ چگونہ بعد از اصرار بر انکار بطور ناگہانی رسید.وپیش از موت او این ہمہ در الہام الٰہی نوشتہ شد.وتصریح کردہ شد کہ او بعد اخفائے شہادت وتکبر و ازحد درگزشتن بسزائے موت ماخوذ خواہد شد.باز این اشتہار مطبوع شد وجابجا فرستادہ شد.واز اشتہار اخیر ہنوز ہفت ماہ نگذشتہ بود کہ آتھم بمرد.واین اشتہار برائے او پیغام رسانندہ موت وترسانندہ بود آیا این مردم در الہام من تدبر نمی کنند ودرکلمات من فکرے نمی نمایند.وتمسخر کنان برنشانہائے من بگذرند
188 رضوا بہذہ الدنیا ونسوا یوم الدین، فکیف أُداوی خَتْمَ قلوبہم وأقفال ربّ العالمین؟ فالحاصل أن ’’آتم‘‘ خشِی فی المیعاد نبأَ الرحمٰن، ورجع إلی الحق بخوف الجَنان، لأنّہ ظنّ أن رِحْلتہ قربت ودنت، وخیامہ طُوِیَتْ، و أوتادہا قُلِعتْ، فخشِی علٰی نفسہ کالمأخوذین.فکان حقہ أن یُمہَل إلٰی زمان الاجتراء ، وتُرک إلی ساعۃ المراء والإباء ، فمہّلہ اللّٰہ إلی وقت رجَع إلی کفرہ وطغٰی، ثم أماتہ تعذیبًا فی الدنیا والأخریٰ، وکذٰلک مضت سنّتہ فی الأولین.وأمّا خوف’’آتم‘‘ من اللّٰہ القہار، فلا یخفی علیک عند التعمق فی الأخبار.ألا تریٰ أنہ بعد ما سمع منی نبأ العذاب.کیف ألقی نفسہ فی أنواع الاضطراب، وانقطع من الأحزاب والأ تراب، واختار کمجنونین شدائدَ الاغتراب، وأَنْأَتْہ الدہشۃُ عن الأہل والأحباب، حتی طارت حواسّہ من الہیبۃ، وأصابت بدنیا راضی شدند وآخرت را فراموش کردند.پس چگونہ مہر دلہائے ایشان وقفلہائے خدا تعالیٰ را علاج کنم.پس حاصل کلام این است کہ او در میعاد پیشگوئی از خبر خدا تعالیٰ بترسید وسوئے حق بخوف دل رجوع کرد.چرا کہ او ظن کرد کہ وقت کوچ او نزدیک رسید.وخیمہ ہائے او تہ کردہ شدند.و میخہائے آن خیمہ ہاکندہ شد.پس برجان خود ہمچو گرفتاران بترسید.لہذا این حق او بود کہ تا زمانہ بیباکی اورا مہلت دادہ شود وتاساعت جنگ و انکار گزاشتہ شود.پس خدا تعالیٰ او را تا وقتے مہلت داد کہ سوئے کفر خود رجوع کرد وطاغی شد.باز برائے سزا دادن در پنجہ موت گرفتار کرد.وہمچنین سنت خدا تعالیٰ در پیشینیان گزشتہ است.مگر ترسیدن اواز خدا تعالیٰ.پس بدان کہ آن امریست کہ بعد از فکر کردن دراخبار برتو پوشیدہ نخواہد ماند.نمی بینی کہ او بعد از شنیدن خبر موت چگونہ جان خودرا در انواع بیقراری ہا انداخت.و از گروہ خود و یاران خود جدائی ہا اختیار کرد.و ہمچو دیوانگان مصیبت ہائے مسافرت برخود پسندید.و دہشتے کہ در دل نشستہ بود ہمان دہشت او را از اہل و دوستان دور انداخت.تا بحدّیکہ از ہیبت آن
189 عقلَہ صَابۃٌ من کمال الخشیۃ، وطفِق یجشَأ من بلدٍ إلٰی بلدٍ کالمجنون، ویجوب کل طریق کالذی یطوّحہ طوائح المنون.ورآہ أناس کثیر فی زمن السیاحۃ، وہو یبکی أو لہ رنّۃ النیاحۃ، وشہدوا أنہ کان بادیَ الغمّۃ کثیر الکربۃ، کالذی یموت من الغُلّۃ، أو کالمجرمین المأخوذین.فلا شک أنہ خشِی وتنزَّلَ إلی الخوف من طغیانہ، ولا ریب أن زواجرَ نَبَءِنا نجَعتْ فی جَنانہ، وقرَعت کلماتی صِماخَ آذانہ، فخاف بہا قَہْرَ حضرۃ الکبریاء وانتہج علی قدرٍ مہجّۃَ الاہتداء ، علی طریق الإخفاء.ثم قسا قلبہ بعد الأمن من الفَناء ، وإن اللّٰہ لا یعذب خائفین فی ہذہ الدنیا حتی یغیّروا سیر الخائفین.وإنہ أقرّ بخوفہ عند أحبابہ، وأخبرہم عمّا جریٰ علیہ فی أیام اضطرابہ، وکل أمر أخفاہ من جمعہ، أبدأہ سیل دمعہ، وکل ما ستر من المَین، أبدَئتْہ دموع العین.پیشگوئی حواس او پریدند.وعقل اورا از کمال خوف عارضہ دیوانگی لاحق شد.وشروع کرد کہ از شہرے بشہرے ہمچو دیوانہ میگشت.وہر راہے را ہمچو شخصے می برید کہ اورا حوادث روزگار دور می اندازند.ومردم بسیار اورا در زمانہ سیاحت دیدند کہ او میگریست یا آواز گریستن میداشت وگواہی دادن کہ آثار غم برو ظاہر بودند وبسیار بیقراری مے کرد.ہمچو کسے کہ از تشنگی می میرد یا ہمچو مجرمانے کہ گرفتارمی باشند.پس ہیچ شک نیست کہ او بترسید واز طغیان خود سوئے خوف فرود آمد.وپیشگوئی ما در دل او اثر کرد.وصماخ گوش اورا کلمات من بکوفت.پس بباعث آن کلمات از قہر باری تعالیٰ بترسید.وقدرے بطریق پوشیدہ راہ راست اختیار کرد.باز چون از موت بے غم شد دل او سخت گشت.و خدا تعالیٰ ترسندگان را درین دنیا سزا نمی دہد تاوقتیکہ سیرت ترسیدن را تبدیل نکنند.واو نزد دوستان خودرا اقرار خوف خود کرد.و او شان راازان ہمہ ماجرا خبرداد کہ در روزہائے بیقراری بر وگزشتہ بود.و ہر امرے کہ او از جماعت خود پنہان داشت سیلاب اشک او او را ظاہر کرد.
190 ومَن دلَف إلیہ کالمفتّشین، وجَدہ کالمجانین، وخابطًا کالمصابین، ورأی أنہ یمضی الأیام کیوم حامِی الوَدیقۃ، ویصیح کضالّ من الطریقۃ، ویُزجّی الأوقات بہموم وأفکار، کأنّ التلف استشفّہ بآثار.ومَن انتہی من أحبابہ إلٰی فِناۂ، وتصدّیٰ لاستنشاء أنباۂ، وجَدہ کمختلّ الحواسّ، بادی الإیجاس، وما رآہ فی فرح، بل فی غمّ وترح.ثم إذا انسلخت أشہر المیعاد، وظن أنہ نجا، أخفی سِرَّ خوفہ وما أبدیٰ، ولکنہ ما استطاع أن یخفی قرائن إیجاسہ، فنحَت تأویلاتٍ بتعلیم خنّاسہ، وقال لا شک أنی أنفدتُ أیام المیعاد بالخوف والارتعاد، ولکنی ما خفت نبأَ الإلہام، بل خفت أعداءً صالوا علیّ کالضر!غام، فإنہم أغرَوا علیَّ فی مقامی الأول حیّۃً مُعلَّمۃً من أنواع الحیل ورأیتہا کالصائلین.ففررتُ علٰی خوف منہا إلٰی البلدۃ الثانیۃ، لَعَلِّی أُعصَم مِن ہذہ الزبانیۃ، ولکن ما تُرِکتُ فیہ کالمؤمنین، بل صَال علیّ وہرکہ مثل تفتیش کنندگان پیش اورفت اورا مثل دیوانگان یافت.ودست و پازنندہ مثل مجنونان مشاہدہ کرد.و او را دید کہ او روزہائے خود مثل روزیکہ بسیار گرم باشد می گذارد.وہمچو کسیکہ ازراہ دورمی افتد وفریادہا می کند ووقتہائے خودرا در فکر و غم میگذارد.گویا ہلاکت اورابہ نشانہا نوشیدہ است.وہرکہ بصحن خانہ او رسید وبرائے دریافت خبرہائے او قدم خود پیش انداخت او را مثل بدحواس وصریح خوف زدہ دید.وا ورا درشادمانی ندید بلکہ درغم واندوہ یافت.باز چون ماہ ہائے میعاد در گزشتند وگمان کرد کہ نجات یافتہ است.راز ترسیدن خودرا پوشیدہ کرد وظاہر نکرد.مگراین نتوانست کہ قرائن ترسیدن را پوشیدہ کند.پس بہ تعلیم شیطان خود تاویل ہا تراشید وگفت درین شک نیست کہ من درایام پیشگوئی می ترسیدم.لیکن من از پیشگوئی نترسیدہ ام.بلکہ ازان دشمنان ترسیدم کہ برمن چون شیر حملہ کردند.چرا کہ اوشان در مقام اول من برمن مارے تعلیم یافتہ برانگیختند.وآن مار را چون حملہ کنندگان دیدم.پس ازان خوف بسوئے شہرے دیگر گریختم.تاکہ من ازان سرہنگان عذاب نجات یابم.لیکن درآن شہر نیز ہم ہمچو امن یابان گذاشتہ نشدم بلکہ در آنجا
191 بعض رجال مُسلّحین.ثم فررت إلی الخَتَن الثانی، فصال العدا کما صالوا قبل إتیانی.وإنہم کانوا ملا!ئکۃ سفّاکین، فرأیتہم فی کل مقام تبوّأتُہ، وفی کل بلد وطّأتہ، ورأیتہم مخوّفین، وکانوا یتبوّء ون الرماح نحوی کالقاتلین.فلأجل ذلک فررت من بلدۃ إلی بلدۃٍ لمّا خوّفونی بقناۃ وصَعْدۃٍ، ورُمحٍ و مَشْرَفیّۃ وفحیحِ تِنِّینٍ، وأرادوا أن یَسُمُّونی فاجئین.ولما جشَأ جَنانی کالمخنوق، وہاجت الہموم کالسَّہوق، رأیت أن أُلقی بآخر المقام جِرانی، وأتخذ أہلَ خَتَنی جیرانی، وأُلقی عصا التَّسْیار کالقاطنین.ہذہ ظنون أظہرہا بعد انقضاء المیعاد، وما تفوّہَ بلفظۃٍ مِن مثلہا فی المیعاد عند الأشہاد، وما أشاع ظنونہ فی الجرائد، وما اطلعَ علیہ أحدًا من العوام والعمائد، بل ما رافَعَ إلی الحکّام، وما أخبر حاکمًا عن ہذہ بعض مردان مسلح برمن حملہ کردند.باز بسوئے دامادے دیگر بگریختم.پس دشمنان درآنجا نیز ہم چنان حملہ کردند کہ پیش زان کردہ بودند.وایشان را بہر مقامے کہ اقامت کردم وبہر زمینے کہ زیر پا سپردم دیدم کہ مے ترسانند.وہمچو قاتلان بمقابل من نیزہ ہا راست کردند.پس از ہمین سبب از شہرے بشہرے بگریختم.چرا کہ مرا نیزہ ہا وشمشیر و آواز مار بترسانیدند.وارادہ زہر خورانیدن من کردند.وچون دل من ہمچو مخنوقے تنگ شد.ومانند بادسخت غمہا برخاستند مناسب دیدم کہ گردن خودرا در مقام آخر خود بیفگنم.ومردمان داماد خود را ہمسایہ خود گردانم.ودر آنجا چوب سیرافگندہ اقامت اختیار کنم این گمان ہا است کہ بعد از انقضائے میعاد آنہا را ظاہر کرد.وقبل گزشتن میعاد ہیچ لفظے از مثل آن برزبان نیاورد.ونہ در اخبار شائع کنایند.و نہ کسے را از عوام و خواص اطلاع داد.و نہ نزد حکام فریاد خود برو.و ہیچ حاکمے را ازین دردہا آگہی نداد.
192 الآلام، وأمضَی الوقت کالصّائمین.ثم أقرّ معہا برؤیۃ ملا ئکۃ العذاب، والخوف والاضطراب، وأقرّ أنہ أنفد الأیام خافًا، وخشِی موتًا زُعافًا، وظن أنہ من الدارسین.فانظروا إلی حیّۃٍ یذکرہا..أتقبَلہا فراسۃٌ أو تنکرہا؟ فافہموا السرّ إن کنتم متدبرین.ثم تعلمون أنہ ہرب من مکان إلی مکان، ومن جیران إلی جیران، ولفظتْہ بلدۃٌ إلی بلدان، ولکن مع ذٰلک ما أظہر فی المیعاد عذرا نحَت بعدہ کشیطان، وما بکی عند حکّام ولا أعوان، ولا رجال ولا نسوان ولا بنین.أیقبل عقل فی مثل ہذہ الخصومات وزوبعۃ التعصبات والنقمات، أن یصبر الرجل الذی ہُوَ عدوُّ دیننا وحاسدُ عِرضنا عند ہذہ السطوات، ولا یأخذنا ولا یرفع إلَی القُضاۃ؟ بل کان علیہ أن یُفشِی جریمتنا، ویُثبِت صریمتنا، وأذاقنا جزاء السّیئات.وچون خاموشان وقت را گزرانید.باز بااین ہمہ اقرار کرد کہ او فرشتگان عذاب را دیدہ است وسختی خوف کشیدہ واقرار کرد کہ او روزہائے خود را درنہایت خوف گزرانید واز موت ناگہانی ترسید وگمان کرد کہ اوازنا پدید شوندگان است پس بسوئے مارے کہ ذکر میکند.نگہ بکنید.آیا فراستے این را قبول میکنید یا انکار میکند.پس اگر تدبردارید راز را بفہمید.و تو میدانی کہ اواز مکانے سوئے مکانے بگریخت.واز ہمسائیگان سوئے ہمسائیگان رفت وزمینے او را سوئے زمینے انداخت.مگر او در میعاد نزد ہیچکس از حاکمان ومددگاران ومردان و زنان وپسران آن امر را ظاہر نکرد کہ بعد از گزشتن میعاد تراشید.آیا ہیچ عقلے در مثل این خصومتہا وباد گرد تعصب ہا وکینہ ہا قبول مے کند.کہ آن شخصے کہ دشمن دین ما وحاسد آبروئے ماباشد.او بروقت چنین حملہ ہا صبر کند.ومارا گرفتار نکند ونزد حکام نرساند.بلکہ بر وواجب بود کہ جرم مارا شائع کردے.وقصد مارا بپایہ ثبوت رسایندے.وجزائے بدی مارا چشانیدے
193 أما رأیت أن ’’آتم‘‘ وقومہ کیف فرحوا بعد المیعاد باطلًا، ورقص کل أحد خاتلًا، ورمٰی من قوس الخبث عاتلًا، فکیف أعرضوا عن مثل ذٰلک الفتح المبین؟ أہذا أمر یقبلہ عقل الثقات، أَو یطمئن بہ قلب العاقلین والعاقلات؟ أہذا ہُو المرجوّ من ہؤلاء الدجّالین أعداء الدین وأعداءِ خیرِ الکائنات؟ ففکِّروا إن کنتم مؤمنین.ألا ترون أنّ رسائلہم وجرائدہم مملوّۃ من إہانۃ دین الإسلام وخیر الأنام، فکیف غَضّوا أبصَارہم فی مثل ہذا المقام؟ وواللّٰہ إنہم عدو لی وعدو لسیّدی المصطفٰی، وحِراصٌ علیّ لو یقدرون علٰی نوعٍ من الأذی ولو کسَرْنا بیضۃً من بیضہم، لحثّوا الحکام علینا بتحریضہم، فکیف صبروا علٰی ما رأوا مِنّا سطواتٍ للإہلاک، آیا ندیدی کہ آتھم وقوم او بعد از گزشتن میعاد براہ باطل چہ شادی ہا کردند وہریکے ازایشان بطور فریب دادن رقص ہا کرد.وکمان خباثت را بزور تمام کشیدہ تیرانداخت.پس چگونہ از چنین فتحے ظاہر اعراض کردند آیا این امریست کہ عقل مردمان ثقہ آن را قبول کند.یا دل عقلمندان بدان اطمینان یابد آیا ازین دجالان کہ دشمنانِ دین و دشمنان آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہستند ہمین امید باید داشت.پس اگر ایمان دارید فکر کنید.آیا نمی بینید کہ رسائل واخبار این قوم از اہانت دین اسلام وپیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و سلم پرہستند.پس چگونہ درمثل این مقام چشم پوشی اختیار کردند.وبخدا اینان دشمن من ودشمن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہستند وبرمن حریص ہستند اگر برائے ایذائے من موقعہ یابند.واگر مایک بیضہ از بیضہ ہائے ایشان بشکینم.ہرآئینہ باغوائے خود حکام را برما برانگیزانند.پس چگونہ بعد از دیدن حملہ ہائے ما کہ برائے قتل آتھم بودند صبر کردند.
194 وحرکات کالسفّاک؟ أَدَرَءُوا بالحسنۃ، وما أرادوا جزاء السیءۃ بالسیءۃ؟ رأوا صولۃً أولٰی منا فعفوا وصبروا، ثم رأوا صولۃ ثانیۃ فعفوا وصبروا، ثم رأوا ثالثۃ فعفوا وصبروا، وکذٰلک عملوا إلٰی سطوات ثلاث! فأَقْسِموا أہذہ أخلاق تلک الشیاطین؟ أتُفتی فراستکم أن ہؤلاء الأشرار الکفّار، والأعداء الفجّار، الذین سبقوا کل قوم فی عداوۃ الملۃ الإسلامیۃ، والشریعۃ الربانیۃ، وجدونا مجرمین سفاکین، ثم آلَونا خَبالاً عافین؟ بل ہو مکرٌ وحیلۃ لإخفاء الخوف الذی ظہر من آتم بأنواع الارتعاد، فی أیام المیعاد، ولذٰلک ما تألَّی وما رفع الأمر إلٰی حکام ہذہ البلاد، وولّی ومکر وقال نحن قوم نجتنب الألایا، وقد حلَف من قبل فی القضایا.والحلف واجب آیا جواب بدی بہ نیکی دادند.ونخواستند کہ بدی رابدی پاداش دہند.ازما حملہ اول دیدند.پس درگزاشتند وصبر کردند.باز حملہ دوم دیدند پس درگزاشتند وصبر کردند.باز حملہ سوم دیدند پس درگزاشتند وصبر کردند.وہمچنین تاسہ حملہ صابر ماندند.پس قسم خورید آیا ہمین اخلاق این شیاطین است.آیا فراست شما فتویٰ می دہد کہ این شریران وکافران ودشمنان بدکار کہ در عداوت ملت اسلام از ہر قوم سبقت بردہ اند.مارا مجرم اقدام خونریزی یافتند.باز درتباہ کردن ماکوتاہی کردند ودر گزاشتند.بلکہ این ہمہ مکر وحیلہ برائے پوشیدن آن خوف است کہ درایام میعاد از آتھم ظاہرشد.و از ہمین سبب او قسم نخورد ونہ نزد حاکمے استغاثہ برد.و رو گردانید ومکر کرد وگفت کہ ماقومے ہستیم کہ قسم نمی خورند.وحالانکہ پیش ازین در بسیارے از مقدمات عدالت ہا قسم بخورد وبرائے رفع نزاع
195 عندہم لرفع الخصومۃ، ومَن أبی فہو عندہم من الفَجَرۃ، وقد حلَف یسوعُہم والآخرون من الحواریّین وأئمۃ النصرانیۃ.وقال کلارک أن القَسم عندنا کالخنْزیر عند المسلمین! وقد أکل خنْزیرَ الحلفِ کلّ أحد من القسّیسین، وبولص الذی کان رئیس المفترین.فانظروا إلی ’’آتم‘‘ وکذبِہ الصریح، وعملِہ القبیح، کیف أعرض عن الإقسام، خوفا من قہر اللّٰہ العلام؟ وکنت أعطیہ مالا کثیرًا علٰی إیلا ۂ، وقلتُ خُذْ مِنّی قبل حلفک لو کنت تشکّ فی قضاۂ.بل زدتُ وعد الصلۃ مِن ألفٍ إلٰی آلافٍ، ولو استزاد لزدناہ من غیر إخلاف.فکان فرضہ أن یجیئنی جارًّا ذیلَ الطرب، ویحلف ویُشیع صدقہ فی العجم والعرب، ولکنہ فرّ کالمبہوت، وخرّ کالمکبوت، وأَعْقبَہ قسم در مذہب عیسائیان واجب است وہرکہ انکار کند از بدکاران است.ویسوع ایشان و حواریان و دیگر اکابر نصرانیان قسم خوردند.و ڈاکٹر کلارک گفت کہ قسم نزد ما ہمچو خنزیر است نزد مسلمانان.حالانکہ این خنزیر قسم را ہر فردے از پادریان خوردہ است وخود پولس کہ رئیس مفتریان بود خوردہ.پس آتھم وکذب صریح وعمل قبیح اورا بہ بینید.چگونہ از قسم خوردن اعراض کرد.ازین خوف کہ مبادا قہر الٰہی برو نازل گردد.ومن اورا برقسم خوردن اومالے کثیر می دادم وگفتم کہ اگر ترا شکے است پس این مال قبل از قسم خوردن از من بگیر.بلکہ من وعدہ انعام را ازیک ہزار تا چند ہزار زیادہ کردم.واگر ازان ہم زیادہ خواستے البتہ بغیر تخلف وعدہ زیادہ می کردم.پس برو فرض بود کہ بشادی دامن کشان پیش من آمدے وقسم خوردے وراستی خودرا در عرب وعجم شائع کردے.مگر او ہمچو سراسیمہ بگریخت.وہم چو کسیکہ دست زور آورے بروافتد
196 طائفُ الہول کالمجانین.فظہر من ہذا ضَحْضاحُہ، وہتَک وجاحَہ، و حصحَصَ الحقُّ وبدا کذب الخائنین.ثم کان علیہ عند الإعراض عن الحلف أن یأتی بدلائل علٰی بہتانہ، ویُثبِت بأشہادٍ مضمونَ ہذیانہ، ولکنہ ما جاء بدلیل علی تلک الخرافات، وما صرخ علٰی بابِ حاکم عند ہذہ الآفات، کما ہو سیرۃ المظلومین.فأیّ دلیل أکبر من ہذا علٰی مفتریاتہ، وعلٰی کذبہ وخزعبیلا تہ عند الناظرین؟ وإنہ أقرّ غیر مرۃ أنہ خشِی علٰی نفسہ فی تلک الأیام، ووجد ما یجد الموقِن بقرب الحِمام.وبعد ما خرج من سجن الأحزان، ومارِسْتان الذوبان، أہرَعَ الناس لِلُقَاہ، وعجبوا بِمُحَیّاہ، فمن حَدّق إلی أساریرہ، وفکّر فی شخیرہ، علم أنہ بدّل الہیءۃ السابقۃ، وأطفأ النار المُضْطرمۃ، وظہر فرو افتاد وہمچو دیوانگان بار بار اورا جنون افتاد.پس ازین حرکت پایاب او معلوم شد وپردہ او دریدہ گشت وحق ظاہر شد و دروغ خیانت پیشگان پدید آمد.باز برو واجب بود کہ اگر قسم نخوردہ بود بارے بدلائل دعویٰ بہتان خود را بپایہ ثبوت رسایندے.واز روئے گواہان ہذیان خود را ثابت کردے.مگر او برین خرافات ہیچ دلیلے نیا ورد.ونہ بروقت این آفات بر در حاکمے فریاد کرد چنانکہ آن طریق مظلومان است.پس بر مفتریات او ازین بزرگتر کدام دلیل خواہد بود وبرکذب واباطیل او ازین ظاہر ترکدام شہادتے نزد ناظرین ضروری است.و او بارہا اقرار کرد کہ او برجان خود ترسیدہ است.وآن غم دید کہ کسے بیند کہ بر نزدیکی موت خود یقین دارندہ باشد.وچون از زندان غمہا وبیمارستان گداختن بیرون آمد.مردم برائے دیدن او شتا فتند وبر زندگی او تعجب کردند.وہرکہ بتامّل نشانہائے چہرہ او دید.ودر آواز او غور کرد.بدانست کہ اوہیئت سابقہ را مبدل کردہ است.وآتش افروختہ را منطفی گردانیدہ.و
197 کالمساکین.وبکیٰ مرارًا فی کل نادٍ رحیب، بتذلّل عجیبٍ، فسمع من کان فی بُہْرۃ الحلقۃ وحوالیہا، وفہِم أنہ خشِی قنا الموت وعوالیہا، وأمضی الأیام کالمضطرین.وأمّا قومہ فنسوا ما کان فی إلہامی من قید الاشتراط، الذی کان فیہ کالمناط، ومَا فکروا فی خوفہ الذی بلغ إلی الإفراط، وتعامَوا من الغیظ والاحتلاط، وأرَوا کلَّ خبثہم کالشیاطین، وأبدوا نواجذَ طیشٍ وغضب، وغیظ ولہبٍ، وکانوا معتدین.وأَخْنَتْ علیّ السفہاءُ ورفقاؤہ الجہلاء ، وقالوا إنا مِن الغالبین.وفہّمناہم فما أقلعوا عن الجہلات، وانصلتوا کل الانصلات، وأضرموا نار الوغٰی، والتہبوا کجَمْرٍ الغَضی، ومَا أَنْقَروا وما فکّروا، بل اضطرموا وتنکّروا، وأبرزوا عربدۃً واعتداءً ، وافترَوا أشیاءً ، وتمایلوا علٰی سبٍّ واستجراحٍ، ہمچو مسکینان ظاہر شدہ.وبارہا در مجلس ہائے فراخ بتذلّل عجیب بگریست.پس ہر کہ درمیان حلقہ جماعت یا گرد آن بود شنید وفہمید کہ او از نیزہ ہائے موت وسرآن نیزہ ہا ترسید.وہمچو بیقراران روزہا گزرانید.مگر قوم او شرط الہام مرا فراموش کردند آن شرط کہ مدار مفہوم الہام بود.ودر خوف آتھم ہیچ فکرے نکردند آن خوف کہ بافراط رسیدہ بود.واز غضب وخشمناک شدن کور گشتند.وہر خباثت خود را ہمچو شیاطین نمودند.ودندان طیش وغضب ظاہر کردند.وخشم وافروختگی نمودند.واز حد تجاوز کنندگان بودند.ومردم سفیہ و رفیقان جاہل او برمن بہ سخت گوئی زبان کشادند.وگفتند کہ ما غالبیم.وما ایشان رافہمانیدیم پس از جہالتہا باز نہ ایستادند.وبغایت درجہ از حد در گزشتند.وآتش جنگ افروختند.وہمچو اخگر درخت غصا۰ افروختند.وباز نہ ایستادند ونہ فکر کردند بلکہ بیفروختند وخصومت وجنگ وزیادتی را ظاہر کردند.وبہتانہا بستند.وبردشنام دہی وعیب گیری و استہزاء مائل شدند
198 وشتمٍ ومزاحٍ، واعتدَوا ہذیانًا وبہتانًا، وطاروا إلینا زُرافاتٍ ووُحْدانًا کالمجانین.وأخفَوا الحقیقۃ کالحُوَّل المحتال، أو المغطّی الدجّال، وکانوا یستہزؤن سائرین فی الأسواق، کما ہی عادۃ الفسّاق، وکانوا یزیّنون الکذب والافتراء ، وکل أحد قال فینا أشیاء کما شاء ، وقد استتلَوا الصبیانَ والسفہاء مستہزئین.وکانوا یخدعون الناس بنبأٍ ما فہِموہ، أو فہِموہ ثم حرّفوہ، و عثَوا فی الأمصار مفسدین.وسعٰی معہم علماؤنا کساعٍ، بل کسِباعٍ، لابِسِی جلدِ النمر، وہاجمی ہجوم السیل المنہمِر، واتبعوا النصاریٰ وزخارفَ زورہم، ونبذوا لباس التقویٰ وراء ظہورہم، مجترئین.وأرادوا جَوْحَنا بحصائد اللسان.وغوائل الافتنان، وأیّدوا النصاریٰ کالشاہدین.وکان کلٌّ کحسینٍ بطالویّ أو شیخ نجدیّ بعیدًا من الدیانۃ والدّین.و در ہذیان وبہتان ازحد درگزشتند.وسوئے ماگروہ ے گروہ ے ویکے یکے پریدند.واصل حقیقت راہمچو مکاران وحیلہ گران.ودجالان حقیقت پوشان پوشیدہ داشتند وباستہزاء در بازار ہا بگشتند.وچون فاسقان تمسخر را عادت کردند.وکذب وافترا را مزین کردہ بمردم نمودند وہریکے ازیشان ہرچہ خواست درحق ماگفت.ودر وقت استہزا کود کان وسفیہان را در پس خود کردند ومردم را بخبرے فریب می دادند کہ خود نہ فہمیدند.یافہمیدند مگر تحریف می کردند وبطور فساد انگیزی در شہرہا بگشتند.وعلماء ما با اوشان ہمچو نمّامان بودند.نے نے بلکہ ہمچو درندگان پوست پلنگ پوشیدہ رفیق شدند.وہمچو سیلے کہ بزودی وتیزی می آید بناگاہ برما افتادند.وعیسائیان ودر وغہائے آراستہ او شانرا پیرو شدند.ولباس تقویٰ را پس پشت خود انداختند.وخواستند کہ باد اسہائے زبانہا استیصال ماکنند واز غوائل فتنہ اندازی مارا تباہ گردانند.وہمچو گواہان تائید عیسائیان کردند.وہریکے ازیشان مثل محمد حسین بٹالوی یا شیطان نجدی از دیانت ودین دور بود.
199 والعجب أن ’’آتم‘‘ کان مُرِمًّا لا یترَمْرَمُ، وصامتًا لا یتکلّمُ، بل کتب إلیّ أنّی بریّ منہم ومِن فعلہم، وأعلم أنّہم من الجَاہلین المعتدین، ثم بعد مَلِیٍّ قسَا قلبہ وصار من الغاوین.ومع ذٰلک ما أشرکَ نفسہ فی سبّہم و بہتانہم، وسفاہتہم وہذیانہم، وتنحّی عنہم وقعد کالمعتزلین المختفین.ولو کان یحسبنی کذّابًا، ویحسب نفسہ مظلومًا مصابًا، لکان حَقّہ أن یکون أوّل المکذّبین وأوّل اللاعنین، بل کان الواجب علیہ أن یشیع کذبی بالاشتہارات، ثم لا یقنَع بہا ویرفع إلی الحکام للمکافاۃ، لکنّہ ما فعل ذٰلک بل صمت کَالمتخوفین.وأنت تعلم أنہ إن کان مُطّلعًا علٰی کذبی، وکان ظہر علیہ خبث قلبی، مع أنہ تأذّی کلَّ الأذیٰ بسببی، فکان من مقتضی الفطرۃ الإنسانیّۃ، والضرورۃ الدینیّۃ والعقلیّۃ، أن تتحرک غضبہ کالطوفان، وتعجب اینکہ عبد اللہ آتھم بالکل ساکت وخاموش بود کہ یک لفظے ہم برزبان نمی آورد وہیچ کلامے نمی کرد بلکہ سوئے من نوشت کہ من ازین مردم وکار این مردم بیزارم ومیدانم کہ ایشان از نادانان وتجاوز کنندگان ہستند.باز بعد از مدتے قلیل دل او سخت شد و از گمراہان شد و باوجود امر خویشتن را در دشنام و بہتان وہذیان اوشان شریک نکرد.بلکہ از و شان یکسو ماندہ.وہمچو گوشہ نشینان پوشیدہ نشستہ.و اگر او مرا کذاب خیال کردے وخویشتن را از مظلومان شمر دے.پس ہر آئینہ حق او بود کہ از ہمہ تکذیب کنندگان اول تکذیب من کردے واز ہمہ لاعنان اول لاعن او بودے بلکہ برو واجب بود کہ باشتہارات کذب مرا شائع کردے.باز بدین قدر کفایت نکردے بلکہ بذریعہ حکام مرا سزا دہانیدے.مگر او چنین نکرد بلکہ ہمچو ترسندگان خاموش شد.و تو میدانی کہ اگر او برکذب من اطلاع یافتہ بود.وخبث دل من برو منکشف گشتہ بود.باوجود این امر کہ از سبب من تکالیف برداشتہ ومحنت کشیدہ بود.پس درین صورت مقتضائے فطرت انسانی وتقاضائے ضرورت عقلیہ دینیہ این بود کہ غضب او مثل طوفان جنبش کردے.
200 ویشتعل لمجازاۃ العدوان.فما منعہ أنہ صار کالمیّت المَدفُون، واختفیٰ کالمتندم المحزون؟ ألیس ہذا مقام یحار فیہ الفہم، وتہیج الظنون ویفرُط الوہم؟ ثم دعوتُہ للحلف لکشف الحق علی العوام، ووعدتُہ قنطارًا علی الإقسام، لا یسیرا من الحُطام، لیرجع برُدْنٍ ملآن وقلبٍ جَذْلان، فولّی وما تألّی.ثم لعنتُہ لعنًا کبیرًا، فقلت لعنۃُ اللّٰہ علیک إن أعرضت مَزیرًا، وما جئتنی وما ترکت تزویرا، فما جاء وما حلَف، وتذکر رُزْءًا سلَف، وظَنّ أنہ الآن من المأخوذین.وکفاک ما ظہر منہ عند سماع نبأ الموت، وتراء ت لہ آثار الفوت، وأخذہ خافٌ حتی ظہر التغیر فی الصّوت، وطفق یفرّ کصید مذعور یجوب البیداء ، ولا یریٰ شجراءَ ولا مرداء ، وترَک سبل العاقلین.وبرائے پاداش ظلم مشتعل گشتے.پس اورا این چہ پیش آمد کہ ہمچومیت دفن کردہ گردید.وچون شرمندہ غمناک پوشیدہ گشت.آیا این آن مقام نیست کہ درآن عقل انسان متحیر میشود.وگمان ہا در دل می آیند.ووہم زیادت میکند.باز اورا برائے قسم بخواندم تاکہ حق برعوام ظاہر گردد.وبرقسم خوردن وعدہ مالے کثیر دادم.نہ اندکے ازمال.تاکہ آستین خود از مال پر کند وبادل شادان باز گردد.پس رو بگردانید وقسم نخورد.باز برو لعنت فرستادم.وگفتم کہ خدا برتو لعنت کند اگر از روئے سخت دلی کنارہ کنی.ونزدم نیائی ودروغ آرائی را نگذاری.پس نیامد ونہ قسم خورد.ومصیبت اول را یاد کرد.وگمان کرد کہ اکنون اواز گرفتاران خواہد شد.و ترا این امر کافی است کہ وقت شنیدن خبر موت چہ حرکت ہا ازو صادر شد ونشانہائے در گزشتن برائے او ظاہر شدند.واو را خوفے شدید گرفت تا آنکہ در آواز وتغیرے پدید آمد وچنانکہ شکارے ترسندہ بیابان را قطع میکند.ونہ زمینے درختناک می بیند ونہ بے درخت ہمچنین بگریخت.وراہ ہائے عاقلان ترک کرد.
201 ثم إذا رأی أن الخوف لا یخفی، وأن لیس الناظرون کالأعمٰی، فاشتہر أن الصائلین فی کل مکان قفَوہ، وما وجدوا قصرًا إلا علَوہ، حتی بُہِتَ مِن نمط تعاقُبہم، وَمَا رأی راجِلَہم ولا راکِبَہم.فما أمہلَہ ہذا الخوف، بل احترق منہ الجوف، ورآہ الزائرون أنہ یُمضی وقتہ بالبکاء والزفرات، ویجری مِن مُقْلتہ سیلُ العَبرات، ولا کدمعِ المِقْلات، وکان یستیقن أنہ المغلوب، وسیَعْلَق بہ الشَّعوبُ.فکما أنّ القنص عند حسِّ جوارح باطشۃٍ یختفی فی سرحۃٍ کثیفۃ الأغصان وَریقۃِ الأفنان، ویواری عِیانَہ تحت کل عِیصۃ، بإرعاد فریصۃ، کذٰلک تاہَ کالمجانین.ثم نحَت مِن بعد المیعاد، علٰی طریق الإفناد، أن جَمْعَنا حَلّوا بساحتہ، وعجَروا علیہ شاہرِی سیوفِہم لإبادتہ، لیغتالوہ کالمفاجئین.فمِن باز چون دید کہ خوف پوشیدہ نتواند ماند.وبینندگان ہمچو کوران نیستند.پس مشہور کرد کہ حملہ کنندگان در ہر مکانے پس اور فتند.وہیچ کاخے نیا فتند کہ بران نہ برآمدند.تاآنکہ از طریق تعاقب شان مبہوت شد.ونہ پیادہ شان دید ونہ سوار شان.پس این خوف اورا نگذاشت بلکہ ازان بیم اندرون او بسوخت.وملاقات کنندگان اورا دیدند کہ وقت خود بگریہ وآہ ہا می گذارد.واز چشم او سیلاب اشک ہا میرود.و می گرید.ونہ ہمچو گریستن زنے کہ پسران او مردہ باشند.وگویا او یقین می کند کہ او مغلوب است.وعنقریب مرگ بدو خواہد آویخت.پس مثل آن صیدے کہ بوقت دریافتن جانوران شکاری کہ برو حملہ می کنند در درختے پوشیدہ میشود کہ شاخہائے آن بانبوہ باشند ونیز شاخہائے پر برگ باشند.وزیر ہر درختے کلان وجود خود را می پوشاند.واز شدت خوف گوشت شانہ خود را می لرزاند.ہم چنین این شخص از جنون وخوف سرگردان می گشت.باز بر طریق دروغ گفتن بعد ا زگذشتن میعاد این تراشید.کہ گروہ ما بساحت خانہ او در آمدند.وشمشیرہا برکشیدہ برائے اہلاک او حملہ کردند.تا بیک ناگاہ اورا قتل کنند.پس ازین
202 مثل ہذہ الافتراء ات ونحت البہتانات، ظہَر عُجَرُہ وبُجَرُہ، وعُرِفَ نجمُہ وشجرہ، وظہر أنہ ہاب الإسلامَ، ولو أخفی المرام.ألا تعلم أنّہ کیف أقرّ بأنہ خاف حَیّۃً، ومن المعلوم أن الحیّۃ ما کان مأمورۃ منا ولا معلَّمۃً، وتلدغ الحیّۃ بأمر اللّٰہ لا بأمر الإنسان، فثبت أنہ خشِی قہر الدیّان، وأوجس فی نفسہ خِیفۃَ نبأِ الرحمٰن، وہذا ہو شرط الرجوع الذی کان فی إلہام المنّان، فانتفع من الشرط بخوف الجَنان، ثم ستر الأمر کالماکرین.وإن قصۃ الحیّۃ تشہد بکمال الصفاء ، أن الخوف کلہ کان من قدر السّماء ، لا من ہٰؤلاء وہؤلاء.وقد سمعتَ أنّی دعوتہ للإیلاء ، فکان ہو الخوف الذی رجَعہ إلٰی الإباء.وقُلت إنّی مجیزک کالغرماء ، ولو شئت اجمَعْ عَنّی قبلَہ عند أحد من الأمناء ، فخاف عُکّازتی، مع أنہ افتراہا وبہتان ہا حقیقت پوشیدہ او منکشف گشت و نبات او و درخت او شناختہ شد.و ظاہر شد کہ او ضرور از ہیبت اسلام بترسید.اگرچہ این مقصد را پنہان داشت.آیا نمی دانی کہ او چگونہ اقرار کرد کہ اواز مار بترسید.واین ظاہر است کہ مار از ماحکم یافتہ نبود ونہ تعلیم یافتہ.ومار بامر خدا تعالیٰ می گزد نہ بامر انسان.پس ثابت شد کہ اواز قہر خدائے جزاء دہندہ بترسید ودردل خود خوف پیشگوئی پوشیدہ داشت.واین ہمان شرط رجوع است کہ در الہام بود.پس بباعث خوف ازان شرط منتفعشد.باز حقیقت حال را ہمچو مکر کنندگان پوشیدہ کرد.وقصہ مار بکمال صفائی گواہی می دہد کہ ہمہ خوف از تقدیر آسمان بود.نہ ازین گروہ وازان گروہ.وتوشنیدی کہ من اورا برائے قسم خور دن خواندہ بودم پس ہمان خوف او را از قسم خور دن باز داشت.ومن بدو گفتم کہ ہمچو تاوان دہندگان ترا زرکثیر انعام خواہم داد.واگر بخواہی پیش از قسم خوردن نزد امینے زر انعام جمع کنانی.پس از عصائے من بترسید.
203 اطّلع علٰی إجازتی، وإذا ولّی وما تألّی.فقلتُ: یا ہذا قد آلَوا مِن قبل خواص أئمّتک، وأکابر ملّتک، أ أنت أفضل منہم أو تحسبہم من الفاسقین؟ فما رد قولی وما آلٰی کالصادقین.فکِذْبُہ شیء لا یختفی بإخفاء ، ولا یستقیم بافتراء ، بل ہو أجلی البدیہیات، وأسنی المسلَّمات، ولکن المخالفین قوم أعماہم إعصار التعصب والشحناء ، کما یُعشی الہجیر عینَ الحرباء.فلا شک أن الحق أبلَجَ، والباطل لَجْلَجَ، واسودّت وجوہ المبطلین.ولا ریب أن موت ہذا الکذّاب، أمات کلَّ مکذّب فی ہذا الباب.وَإنی أریٰٰ أنّ الألسنۃ قد زُمّت.والحجّۃ قد تمّتْ.وظہر الحق ولو کانوا کارہین.وقد ذکرنا قبل موت ’’آتم‘‘ فی الاشتہارات السابقۃ، أنہ باوجود این امر کہ بر انعام من اطلاع یافت پس ہرگاہ کہ رو گردانید و قسم نخورد.گفتم کہ اے فلان بہ تحقیق قبل از تو خواص پیشوایان تو قسم ہا خوردند.آیا تواز آنان بزرگتر ہستی یا تو آنان را از فاسقان می شماری.پس نہ قول مرا رد کرد ونہ ہمچو صادقان قسم خورد.پس دروغ او چیزیست کہ از پوشیدن پوشیدہ نمی شود وبافتراء صورت درستی نمی پذیرد.بلکہ آن اجلی۱ بدیہیات وروشن ترین مسلمات است.مگر مخالفان قومے ہستند کہ باد گرد تعصب وکینہ چشم شان کور کردہ است.چنانکہ دوپہر چشم حربا را کورمی کند.پس ہیچ شک نیست کہ راستی در خشید وباطل رو بزوال نہاد.و روئے باطل پرستان سیاہ شد.وہیچ شک نیست کہ موت این کذاب ہر مکذب این امر را بمیرانید.ومن مے بینم کہ بر زبان ہا لگام دادہ شد.وحجت باتمام رسید.وحق ظاہر شد اگرچہ ازان کراہت می داشتند.وما قبل از موت آتم در اشتہارات سابقہ ذکر کردیم کہ او بعد از انکار
204 یموت بعد الإنکار من الرجوع والإنابۃ، والإصرار علی الکذب والفِریۃ، فنُوالی شکر اللّٰہ المنّان، أنہ فعَل کما کُتب قبل ہذا الزمان، وأتمّ کما کنت ألہَجُ بشوق الجنان، ومات ’’آتم‘‘ بعد مرور نصفٍ من الأشہر المسیحیۃ، وما نفعہ فرارہ من البلدۃ إلی البلدۃ، وإن شئت فافہَمْ زمان وفاتہ من ہٰذہ الفقرۃ.ہوَی دجّالٌ بَبٌّ فی عذاب الہاویۃ المہلکۃ.وہٰذہ آیۃ من آیات حضرۃ العزۃ، فإنہ ما ترکہ حیًّا إذا ترک سبل الدیانۃ، بل أخفاہ تحت التربۃ، إذا ما أخفٰی سرّ الحقیقۃ.فحصحص الحق وزہق الباطل وبطلت دقاریر الکَفَرۃ، فأَنَّی تُسحَرون یا أہل البخل والعصبیۃ؟ ألم یأنِ لکم أن تتوبوا یا متخلفی القافلۃ، فقوموا وأَمہِلوا بعض ہذا التدلّل والنخوۃ، ولا تبارزوا اللّٰہ مجترئین.رجوع واصرار بر دروغ خواہد مرد.پس ما شکر خدائے منان متواترمی کنیم کہ او چنانکہ پیش زین نوشتہ شدہ بود ہمچنان کرد.و ز انسان بکمال رسانید کہ من بشوق دل آرزو می کردم.وآتم بعد گزشتن نصف ازماہ ہائے عیسائیان یعنی در ماہ جولائی ۱۸۹۶ء بمرد.وگریختن اواز شہرے بشہرے او را فائدہ نہ داد.واگر بخواہی تاریخ وفات اورا ازین فقرہ مندرجہ ذیل معلوم کن.دجال فربہ آتھم بد اطوار در ہاویہ ہلاک کنندہ افتاد.واین نشانہائے خدا تعالیٰ است چرا کہ او آتھم را زندہ نگذاشت وقتیکہ دید کہ اوراہ حق را گزاشتہ است بلکہ اورا زیر خاک پوشیدہ کرد.چون دید کہ او راز حقیقت را پوشیدہ کردہ است.پس حق ظاہر شد وباطل گریخت ودرو غہائے کفر باطل شد.پس اے بخیلان ومتعصبان از حق کجا میروید وکدام جادوئے شمارا مسخر کردہ اے پس ماندگان قافلہ آیا ہنوز وقت شمانرسیدہ است کہ توبہ کنید.پس برخیزید وبعض نازہا وتکبرہا بگذارید.ومقابلہ خدا تعالیٰ از دلیری مکنید.
205 أیہا الأناس! إن ’’آتم‘‘ ماتَ، وبازی الحق علی الباطل خاتَ، فَارْقُوا علٰی ظَلْعِکم واذکروا الأموات، وتوبوا مسترجِعین.وإن التقویٰ لیس فی لِمَّۃٍ مَشیطۃ، ولُحًی طویلۃٍ، وکِعابٍ مکشوفۃٍ، وعمائم ملفوفۃ، وشوارب مقطوعۃ، ورسوم مجموعۃ، إنما التقویٰ فی اختیار الصواب بعد الخطاء، والرجوع إلی الحق بعد الإدراء ، والالتیاع بذکر أیام الإباء، والتناہی عن القوم المفسدین، وترکِ بخل النفس وکبرہا للّٰہ ربّ العالمین.وإن الأتقیاء یُسَرّون بقبول الحق کسرورہم بلقاء الفٍ لقِی بعد الفقدان، أو حصولِ مرام تأتّٰی بعد الحرمان، وإذا ذُکّروا فیتذکرون متواضعین.فأحسِنوا النظر فی الأعمال، أتجدون تقواکم کمثل ہذہ الأمثال؟ ما لکم لا تتناہون عن الفساد، ولا تہولکم تہاویلُ المعاد؟ اے مردمان بہ تحقیق آتھم بمرد.وباز حق بر باطل بحملہ تمامتر افتاد.پس برنفس خود نرمی کنید ومردگان را یادکنید.وبانّا للہ گفتن توبہ کنید.و تقویٰ درین امر نیست کہ موہائے خود را بشانہ مصفا دارید.وریشہارا در از بگذارید.وکعبین برہنہ ودستارہا خوب پیچیدہ وبروت بریدہ.وہمہ رسوم ظاہری اسلام در نفس خود جمع کردہ شوند.بلکہ حقیقت تقوی این است کہ بعد از خطا ثواب را اختیار کنید.وبعد از آگاہا نیدن سوئے حق رجوع فرمائید.وایام سرکشی را یاد کردہ غمگین شوید.واز مفسدان دور نشینید.وپرہیز گاران بقبول حق چنان خوش می شوند کہ بدیدن دوستے خوش میشوند کہ بعد از گم شدن ملاقات کرد.یا مثل شخصے خوش میشوند کہ بعد از نومیدی مقصود خود را یافت.وچون یاد دہانیدہ شوند بتواضع یادمی آرند.پس در اعمال خود نیکو نظر کنید.آیا شما پرہیز گاری خود را مانند این مثال ہا می یابید.چہ شد شمارا کہ از فساد باز نمی آئید.وخو فہائے سخت قیامت شمارا نمی ترساند
206 أصاب بستانکم جائحۃٌ، فکیف ألْہَتْکم غفلۃٌ یا معشر النائمین؟ إن فی موت ’’ آتم‘‘ لآیات لأولی الأبصار.أما قرأتم من قبل اشتہاری فی ہذہ الأخبار؟ فالآن لا ینکرہا إلّا حزب الشیاطین.تَذَکَّرْ مَوْتَ دَجَّالٍ رُذَالٍ وَقُوْدِ النَّارِ اا تَمَ ذِی الْخَبَالِ اَ تَاہُ الْمَوْتُ بَعْدَ کَمَالِ دَجْلٍ وَاِنْکَارٍ وَّ مَکْرٍ فِی الْمَقَالِ اَرَاہُ اللّٰہُ ھَاوِیَۃً وَّ ذُلاًّ وَفِی النِّیْرَانِ اُلْقِیَ کَالدَّمَالِ کَمِثْلِیْ کَانَ فِیْ عُمْرٍ وَّسِنٍّ سَمِیْنَ الْجِسْمِ اَبْعَدُ مِنْ ھُزَالِ وَمَا اَرْدَاہُ اِلَّاحُبُّ کُفْرٍ وَاَحْبَابٍ وَّ اَمْلَاکٍ وَّمَالِ فَرَی اَرْضًا بِخَوفٍ بَعْدَ اَرْضٍ فَمَانَفَعَتْہُ حِیَلُ الْاِنْتِقَالِ وَدُقَّتْ ھَامَۃُ الْکَذَّابِ حَقًّا بِاَطْرَافِ الزِّجَاجِ اَوِ الْعَوَالِیْ باغ شمارا آفتے رسید.پس چگونہ غفلت شمارا باز داشتہ است.بہ تحقیق درموت آتھم برائے بینندگان نشان ہاست.آیا شما پیش زین اشتہار من دربارہ این خبرہا نخواندہ اید.پس اکنون منکر آن بجز گروہ شیطانان ہیچکس نخواہد ماند مردن آن دجال کمینہ را یاد کن کہ ہیزم آتش آتھم مفسد است بعد کمال دجالیت و انکار و مکر در گفتگو موت برو وارد شد خدا تعالیٰ او را جہنم و ذلت بنمود و ہمچو سرگین خشک در آتش انداخت او در عمر و سِنّ مانند من بود فربہ جسم واز لاغری دور بود وہیچ چیزے بجز حب کفر او را ہلاک نہ کرد و دیگر اسباب ہلاکت محبت دوستان کافر و محبت ملک و مال بود واز شدتِ خوف زمینے را بعد زمینے بریدپس حیلہ تبدیل جاہا ہیچ نفع اورا نہ بخشید و در حقیقت سرِاین کذاب باطراف پائین و اطراف سرنیزہ ہا کوفتہ شد
207 وَقَدْ ھَابَ الْمَنَایَا ثُمَّ اَنْسٰی زَمَانَ الْمَوْتِ مِنْ زَھْوِ الضَّلَالِ فَفَکِّرْ کَیْفَ اَدْرَکَہُ الْمَنِیَّہ مُُقَدَّرَۃً لَّہُ بَعْدَ الْخَبَالِ تَوَفَّاہُ الْمُھَیْمِنُ عِنْدَ خُبْثٍ وَاِصْرَارٍ عَلٰی سُبُلِ الْوَبَالِ فَاَیْنَ الْیَوْمَ ٰا تَمُ یَاعَدُوِّیْ اَ لَمْ یَرْحَلْ اِلٰی دَارِ النَّکَالِ اَلَمْ یَثْبُتْ بِفَضْلِ اللّٰہِ صِدْقِیْ اَ لَمْ یَظْھَرْ جَزَآءُ الْاِفْتِعَالِ وَمَا نَجَّاہُ عِیْسٰی وَالصَّلِیْبُ وَلَمْ یَعْصِمْہُ اَحَدٌ مِّنْ عِیَالِ تَجَلَّتْ اایَۃُ الرَّبِّ الْعَظِیْمِ فَاَیْنَ الطَّاعِنُوْنِ مِنَ الدَّلَالِ وَاَیْنَ اللَّاعِنُوْنَ بِصَدْرِ نَادٍ وَاَیْنَ الضَّاحِکُوْنَ مِنَ الْحَوَالِیْ وَاَیْنَ السَّاخِرُوْنَ مِنَ الْاَدَانِیْ وَمِنْ اَھْلِ الْمَطَابِعِ کَالرِّءَاِل فُؤَادِیْ قَدْ تَاَذَّی مِنْ اَذَاھُمْ وَقَلْبِیْ دُ ّ َق مِنْ قِیْلٍ وَّقَالِ واز موت بترسید باززمانہ موت را از تکبر ضلالت فراموش کرد پس فکر کن کہ چگونہ موت اورا دریافت آن مرگ کہ بعد از مفسد گشتن برائے او مقدر بود خدا تعالیٰ او را در وقت خباثت و اصرار بر راہ وبال بمیرانید پس اے دشمن من امروز آتھم کجاست آیا بسوئے دار العقوبت کوچ نکردہ است آیا بفضل خدا تعالیٰ صدق من ظاہر نشدآیا جزائے بہتان و دروغ گفتن بظہور نرسید واورا نہ عیسیٰ علیہ السلام نجات داد و نہ صلیب نجات داد و کسے از عیال او اورا نہ رہانید نشان آن قادر ظاہر شد کہ خدائے بزرگ است پس کجا ہستند آنانکہ از ناز طعنہ می زدندے و کجا کسانے ہستند کہ بحیثیت صدر نشینی مجلس برمن لعنت کردندے و کجا کسانے ہستند کہ از گرد ا گرد مجلس خندہ ہامی زدندے و کجا از کمینہ مردم تمسخر کنندگان ہستندو کجا مہتممان وایڈیٹران مطابع ہستند کہ بہ بچگان شتر مرغ میمانند دل من از ایذائے شان آزارہا یافت و دل من از قیل وقال شان کوفتہ شد
208 اَطَالُوْا السنَ التَّذْمِیْمِ ظُلْمًا فَاُمْرِرْنَا کَاِمْرَارِ الْحِبَالِ وَقَالُوْا کَاذِبٌ یُؤْذِی الْاُنَاسَا وَ یَعْلَمُ مَنْ یَّرَانِیْ سِرَّ حَالِیْ وَ مَلَأُوْا کُلَّ قِرْطَاسٍ بِذَمِّیْ فَاَصْبَحْنَا کَمَجْرُوْحِ الْقِتَالِ وَمَا خَافُوْا عِقَابَ اللّٰہِ رَبِّیْ اِذَا مَا جَاوَزُ وْا سُبُلَ اعْتِدَالِ فَسَلْ ھُمْ اَیْنَ آتَمُ فِی النَّصَارٰی اَرُوْنِیْ فِی الْجُمُوْعِ اَوِالْعِیَالِ اَمَا مَاتَ الَّذِیْ زََعَمُوْہُ حَیًّا اَمَا دُفِنَ المُکَذِّبُ فِی الدِّحَالِ اَمَا شَاھَتْ وُجُوْہُ الْمُنْکِرِیْنَا فَقُوْمُوْا وَاشْھَدُوْا لِلّٰہِ لَا لِیْ وَلَمْ یَقْتُلْہُ مِنْ اَمْرِیْ ثُبُوْنٌ وَلٰکِنْ جَذَّہُ حِبٌّ قَلَا لِیْ بَدَتْ آ!یَاتُ رَبِّیْ مِثْلَ شَمْسٍ فَمَا بَقِیَ الظَّلامُ وَلَا اللَّیَالِیْ سِھَامُ الْمَوْتِ مَاطَاشَتْ بِمَکْرٍ وَاِنَّ اللّٰہَ یُخْزِیْ کُلَّ غَالِیْ ایشان زبان ہا مذمت کردن برما ازراہ ظلم کشادند پس از شدت گرفت شان چنان سخت تافتہ شدیم کہ رسن رامی تابند و گفتند شخصے دروغگو ست کہ مردم را ایذا مے دہد ورازحال من کسے میداند کہ مرا می بیند وہر کاغذے را بہ بدگوئی ما پر کردند پس ہچمو مجروحان جنگ صبح کردیم و مواخذہ خدا راہیچ پروائے نداشتندواز راہ ہائے اعتدال تجاوز کردند پس ازیشان بپرس کہ آتھم کجاست مراشکل اوبنمائید در گروہ ے باشد یاد رعیال آیا آنکس نمردہ است کہ اورا زندہ پنداشتندآیا تکذیب کنندہ درمغاکہا دفن کردہ نشد آیا روئے منکران سیاہ نشدہ است پس برخیزیدو برائے خدا نہ برائے من گواہی دہید و او را جماعت می نکشتہ است بلکہ آن دوست او ر اکشت کہ برائے من اورا دشمن گرفت نشانہائے خدائے من مثل آفتاب ظاہر شدندپس نہ تاریکی ماند و نہ شب ہا و تیرہائے مرگ از مکر آتھم خطا نرفتندو خدا ہر غلوّ کنندہ را رسوا مے کند
209 تَوَفّٰی کَاذِبًا رَبٌّ غَیُوْرٌ وَمَا آوَاہُ اَحَدٌ مِّنْ مَّوَالِیْ تُوُفِّیَ وَالسُّیُوْفُ مُسَلَّلَاتٌ عَلٰی اَمْثَالِہِ مِنْ ذِی الْجَلَالِ تَجَلّٰی صِدْقُنَا وَالصِّدْقُ یَجْلُوْ فَاَشْرَقْنَا کَاِشْرَاقِ اللَّاٰلِیْ فَلَا تَعْجَلْ عَلَیْنَا یَا ابْنَ ضِغْنٍ وَخَفْ سُوْءَ الْعَوَاقِبِ وَالْمَآلِ نَزَلْنَا مَنْزِلَ الْاَضْیَافِ مِنْکُمْ فَنَرْجُوْ اَنْ تَقُوْلُوْا لِیْ نَزَالِ وَلِیْ فِیْ حَضْرَ ۃِ الْمَوْلٰی مَقَامٌ وَشَأْنٌ قَدْ تَبَاعَدَ مِنْ خَیَالِ وَصَافَانِیْ وَ وَافَانِیْ حَبِیْبِیْ وَاَرْوَانِیْ بِکَأْسَاتِ الْوِصَالِ اَرَانِی الْحُبُّ مَوْتِیْ بَعْدَ مَوْتِیْ وَاَنْأَی تُرْبَتِیْ فَبَدَا زُلَالِیْ وَجَدْنَا مَاوَجَدْنَا بَعْدَ وَجْدٍ وَاِقْبَالِیْ اَ تٰی بَعْدَ الزَّوَالِ اِذَا اَنْکَرْتُ مِنْ نَفْسِیْ بِصِدْقٍ فَوَافَانِیْ حَبِیْبِیْ رَوْحُ بَالِیْ خدائے غیور دروغ گو را بمیرانیدو ہیچکس از دوستان اورا در پناہ خود نیا ورد او بمرد و شمشیر ہا بر امثال او از خدا تعالیٰ کشیدہ ہستند صدق ما ظاہر شد و صدق چیزیست کہ بالضرور روشن میشود پس ہمچو درہائے تابان درخشیدیم پس اے انسان کینہ ور برما جلدی مکن واز سوء انجام و سوء خاتمہ بترس ما ہمچو مہمانان نزد شما فرود آمدیم پس امیدداریم کہ بگوئید کہ نزد ما فرود آمد ومرادر حضرت مولیٰ کریم مقامے است و شانے است کہ از خیالہا برتر است و دوست من با من محبت صافی کرد و نزدم آمدو مرا باجامہائے و صال سیراب کرد محبت الٰہی مرا مرگ من بعد مرگ من بنمود و خاک مرا ازمن دور کرد پس آب زلال پیدا شد ہر چہ یافتیم از غم و اندوہ یافتیم و اقبال من بعد زوال من آمد در وقتے کہ من از نفس خود انکار کردم پس دوست من و آرامِ جان من نزدم آمد
210 اَطَعْتُ النُّوْرَ حَتّٰی صِرْتُ نُوْرًا وَلَایَدْرِیْ خَصِیْمٌ سِرَّحَالِيْ طَلَعْتُ الْیَوْمَ مِنْ رَبٍّ رَحِیْمٍ وَجَلَّتْ شَمْسُ بَعْثِیْ فِي الْکَمَالِ فَلَا تَقْنُطْ مِنَ اللّٰہِ الرَّءُ وْفِ وَقُمْ وَبِتَوْبَۃٍ نَحْوِیْ تَعَالِ قَرَیْنَا مِنْ کَمَالِ النُّصْحِ فَاقْبَلْ قِرَانَا بِالتَّھَلُّلِ کَالرِّجَالِ وَخَیْرُ الزَّادِ تَقْوَی الْقَلْبِ لِلّٰہِ فَخُذْ اِیَّاہُ قَبْلَ الْاِرْتِحَالِ وَفَکِّرْ فِیْ کَلَامِیْ ثُمَّ فَکِّرْ وَلَا تَسْلُکْ کَمَرْءٍ لَا یُبَالِیْ ثم العلماء أوسعونی سبًّا، وأوجعونی عتبًا فی خَتَنِ ’’أحمد‘‘، وقالوا إنہ ما مات فی المیعاد کما وُعِد فی الإلہام وأُکِّدَ، بل نجدہ ببَخْتٍ أسعَدَ، و عیشٍ أرغَدَ، وما نریٰ أثرًا فیہ من ضعف المریرۃ، ولا عُسْرًا فی امتراء المِیرۃ، وإنہ حیٌّ سالِمٌ إلی ہذا الحین.أَمّا الجَواب فاعلم أنّ ہذا الإلہام من نوررا اطاعت کردم بحدیکہ خود نور شدم پس ہیچ خصومت کنندہ را ز حال من نمی داند امروز از طرف ربّ رحیم خود طلوع کردم وآفتاب بعث من درکمال بزرگیہا حاصل کرد پس از خدائے مہربان نومید مباش و بر خیز و توبہ کن و نزد من بیا بکمال اخلاص دعوت شما کردیم پس این دعوت راہمچو مردان بخندہ پیشانی قبول کن و نیکو ترین زاد از خدا ترسیدن است پس بگیر آنرا قبل از کوچ کردن و فکر کن در کلام من باز فکر کن و ہمچو لاپروائے مرو باز علماء مرا دربارہ داماد میرزا احمد بیگ ہوشیار پوری بسیار بدگوئی کردند.وبسرزنش ہا دل مرا ایذا دادند.وگفتند کہ داماد احمد بیگ درمیعاد پیشگوئی نمردہ است.واین برخلاف آن وعدہ تاکیدی است کہ در الہام بود.بلکہ اورا بہ بخت نیکتر و عیش فراخ ترمی یا بیم وہیچ اثرے از ضعف طبیعت وتنگی تحصیل رزق نمی بینیم و او تا این وقت زندہ سلامت موجود است.اما الجواب.پس بدان کہ این الہام
211 کان مشتملًا علی الشُّعبتین، شُعبۃ فی موت ’’أحمد‘‘ وشعبۃ فی خَتَنِہ الذی جعلہ کقُرّۃِ العین.فأتمَّ اللّٰہ شعبۃً أولٰی فی المیعاد، ومات ’’أحمد‘‘ کما أُخْبِرَ فی إلہام رب العباد، وتلظَّی أقاربہ مِن ہمِّ موتہ، وقد لاحت لک تفاصیل فوتہ، فلا بدّ لک أن تقرّ بصدق ہذہ الشعبۃ بالیقین.وأمّا الشعبۃ الثانیۃ التی تتعلق بخَتَنِہ وفوتہ، فلا یختلج فی صدرک تأخیر موتہ، فإنہ أمرٌ لا تفہمہ إلّا بعد الإحاطۃ علٰی الواقعات، فإذا فہِمتَ فیظہر علیک خطَائک کالبدیہیات، وتقرّ بأنّ الشیطان أنساک طریق الحق والحقیقۃ، وبَعَّدَک عن الصراط والطریقۃ، وأراد أن تلحقک بالغاوین.فالآن نقصّ علیک القصۃ، لتطّلع علی الحقیقۃ وتجد منہا الحصّۃ، ولتکون من المستبصرین.فاعلم أنّ زوجۃ ’’أحمد‘‘ وأقاربہا کانوا من بر دو شاخ مشتمل بود شاخ اول آن دربارہ موت میرزا احمد بیگ ہوشیار پوری بود.وشاخ دوم دربارہ مرگ داماد او کہ ہمچو قرہ العین او را بود.پس خدا تعالیٰ شاخ اول را کہ موت احمد بیگ است درمیعاد پیشگوئی باتمام رسانید و صدق آن ظاہر کرد واحمد بیگ مطابق الہام خدا تعالیٰ وفات یافت.و دل اقارب او از موت او بسوخت.وتفصیل وفات یافتن او بر تو ظاہر است.پس ترا این امر ضروری افتاد است کہ بصدق شاخ اول اقرار کنی.واما شاخ دوم کہ متعلق بداماد احمد بیگ ومردن او ست پس سینہ ترا این نگیرد کہ چرادر موت او تاخیر شد.زیر آنکہ این امرے است کہ این را بجز احاطہ بر واقعات نتوانی فہمید.وچون فہمیدی پس برتو خطائے تو ظاہر خواہد شد.واقرار خواہی کرد کہ شیطان ترا راہ حق وحقیقت فراموش کنانیدہ است وازراہ حق دور انداختہ است.وارادہ کردہ است کہ ترابگمراہان آمیزد.پس اکنون این قصہ بر تو می خوانیم.تابرحقیقت مطلع شوی وازان حصہ یابی.وتا از جملہ صاحبان بصیرت شوی.پس بدان کہ زنِ احمد بیگ و دیگر اقارب اواز قبیلہ من بودند
212 عشیرتی، وکانوا لا یتخذون فی سبل الدین وَتِیرتی، بل کانوا یجترؤن علی السیئات وأنواع البدْعات، وکانوا فیہا مُفرطین.فأُلْہِمتُ من الرحمٰن أنہ معذِّبُہم لو لم یکونوا تائبین.وَقَال لیْ رَبِِّی إنہم إن لم یتوبوا ولم یرجعوا فنُنزِل علیہم رِجْسًا من السماوات، ونجعل دارہم مملوّۃ مِنَ الأرامل والثیّبات، و نتوفّٰہم أباتِرَ مخذولین.وإن تابوا وأصلحوا فنتوب علیہم بالرحمۃ، ونغیّر ما أردنا من العقوبۃ، فیظفرون بما یبتغون فرحین.فنصحتُ لہم إتمامًا للحجّۃ، وقلتُ استغفِروا ربّکم ذی المغفرۃ فما سمعوا کلماتی، وزادوا فی معاداتی فبدا لی أن أشیع الاشتہار فی ہذا الباب، لعلہم یتقون ویرجعون إلٰی طرق الصواب، ولعلہم یکونون من المستغفرین.فأشعتُ الاشتہارَ، وَأنا فی ’’ہُشْیَار‘‘، فنبذوہ وراء ظہورہم وعادت شان بود کہ اوشان در راہ ہائے دین طریقہ من اختیار نمی کردند بلکہ بربدی ہا و گونا گون بدعت ہا دلیری می کردند.واز حد در گزشتہ بودند.پس از خدا تعالیٰ الہام یافتم کہ اگر اوشان تائب نشدند او آنا نرا در عذاب گرفتار خواہد کرد.ومرا پروردگار من گفت کہ اگر این مردم توبہ نکردند نہ از بد روشی ہا باز آمدند.پس ما بر ایشان از آسمان عذاب نازل خواہیم کرد.وخانہ اوشان را از بیوگان پر خواہیم کرد واگر توبہ کردند واصلاح خود نمودند پس مابرحمت سوئے شان رجوع خواہیم نمود.و خانہ اوشان را از بیوگان پرخواہیم کرد.وارادہ عقوبت را تبدیل خواہیم کرد.پس آنچہ میخواہند بخوشی خاطر خواہند دید.وایشان را برائے اتمام حجت نصیحت کردم وگفتم کہ از خدائے بخشندہ مغفرت بخواہید.پس سخن من نشنیدند و در دشمنی افزودند.پس در دلم آمد کہ درین بارہ اشتہارے شائع کنم.شاید این مردم بترسند و بسوئے راہ صواب رجوع کنند.وشاید از خدا تعالیٰ آمرزش بخوا ہند.پس اشتہار را شائع کردم.ومن دران وقت در شہر ہوشیار پور بودم.مگر اوشان آن اشتہار
213 غیر مبَالین.وکان ذٰلک أول الاشتہارات فی ہذہ المقدّمۃ، والبواقی التی أُشیعتْ بعدہا فہی لہا کالأنباء المفصّلۃ المصرّحۃ، وکالتفصیل للعبارات المُجْملۃ السابقۃ.وأنت تعلم أنّ وعید ذٰلک الاشتہار کان مشروطًا بشرط التوبۃ، لا کالعقوبۃ القطعیّۃ الواجبۃ النازلۃ من غیر المُہْلۃ.وإن شئت فاقرأْ اشتہارًا مِنّی طُبع فی ’’غوضفٍ‘‘ من السنوات المسیحیۃ، لِغَضْفِ کبرِ ہذہ الفءۃ الباغیۃ.فلما لم ینتہوا بہذا الاشتہار، ولمَ یترکوا طریق التبار، فکشف اللّٰہ علیّ أمورًا لتلک الفءۃ، وأنا بین النوم والیقظۃ، وکان ہذا الکشف تفصیل ذٰلک الإلہام فی المرّۃ الثانیۃ.وبیانہ أنی کنت أرید أن أرقُد، فإذا تمثّلتْ لی أمُّ زوجۃ ’’أحمد‘‘، ورأیتہا فی شأنٍ أحزَنَنی وأرجَدَ، وہو أنی وجدتُہا فی فزع شدید عند را بہ لاپروائی پس پشت خود اند اختند.وآن اول اشتہار بود کہ درین مقدمہ شائع کردم.وباقی ہمہ اشتہارات کہ بعدازان شائع کردم تفصیل آن اجمال بود.و تو میدانی کہ وعدہ عذاب آن اشتہار مشروط بشرط توبہ بود.نہ مثل آن سزائے کہ قطعی باشد وبغیر توقفے و مہلتے فرود آید.و اگر بخواہی آن اشتہار من بخوان کہ در ۱۸۸۶ء یک ہزار وہشتصد وہشتادوشش مسیحی برائے شکستن کبر آن گروہ باغی جاری کردہ بودم.پس ہرگاہ اوشان بدین اشتہار از بدی ہائے خود باز نیامدند وطریق ہلاکت را نگذاشتند.پس خدا تعالیٰ برائے این گروہ چند امور دیگر بر من ظاہر کرد ومن دران وقت در حالتے بودم کہ بین بین خواب وبیداری می باشد.واین کشف تفصیل آن الہام بمرتبہ دوم بود وبیان آن این است کہ من ارادہ خفتن می داشتم کہ ناگاہ مادر زنِ احمد بیگ در حالت کشفی برمن متمثل شد.و اورا در حالے دیدم کہ مرا غمگین کرد و بدن من بلرزانید.وآن این است کہ وقت ملاقات اورا در خوف
214 التلاقی، وعبراتہا یتحدّرن من المآقی، فقلت: أیتہا المرأۃ توبی توبی فإنّ البلاء علٰی عَقِبِکِ.أی علٰی بنتِک وبنتِ بنتک.ثم تنَزّلتُ مِن ہذا المقام، وفُہِّمتُ مِن رَبّی أنہ تفصیل الإلہام السابق مِن اللّٰہ العلام، وأُلقِیَ فی قلبی فی معنی العَقِب من الدیّان أن المراد ہٰہنا بنتہا وبنت بنتہا لا أحدٌ من الصبیان، ونُفِث فی رُوعی أن البلاء بلاء انِ، بلاء علٰی بنتہا وبلاء علٰی بنت البنت مِنَ الرَّحْمٰن، وأنہما متشابہان من اللّٰہ أحکم الحاکمین.* وإذا رجعتُ لتفتیش لفظ العَقِب إلی اللغات العربیۃ، فإذا فراستی صحیحۃ مطابقۃ شدید یافتم.ودیدم کہ اشکہائے اواز چشمان او روان ہستند.پس گفتم کہ اے زن توبہ کن توبہ کن کہ بلا برعقب تو نازل شدنی است.یعنی بلا بردختر تو و دختر دختر توفر ود آمدنی است.باز ازین مقام کشفی فرود آمدم.واز خدائے خود فہمانیدہ شدم کہ این تفصیل الہام سابق است.و دربارہ معنی عقب در دل من انداختند کہ مراد ازان اینجا دختر آن زن کہ زو جہ احمد بیگ است و دخترآن دختر است نہ احدے از پسران.ودر ضمیر من دمیدند کہ بلائے کہ در عبارت کشف مذکور است آن دو بلا ہستند بلائے بر دختر مذکور یعنی زوجہ احمد بیگ است وبلائے دیگر بر دختر دختر است.وآن ہر دو بلا باہم مشابہت میدارند.وچون برائے تفتیش لفظ عقب سوئے لغت عرب رجوع کردم.پس آن الہام خود مطابق بیان کتب الحاشیہ.قد سمع منی ھذا الکشف بمقام ھوشیار پور قبل موت احمدبل قبل اشاعۃ ایں کشف را بمقام ہوشیار پور پیش از مردن میرزا احمد بیگ بلکہ پیش از اشاعت این ہمہ واقعات واقعات کلھا رجل من ولد شیخ صالح غزنوی.وکما تعلم کان ھذا الرجل ابن تقی.ونسیت شخصے از من شنیدہ بود کہ از پسران مولوی عبد اللہ غزنوی مرحوم است وچنانکہ میدانی این شخص پسر پرہیزگارے الیوم اسمہ واعرف وجھہ.لعل اسمہ عبدالرحیم او عبد الواحد علی اختلاف انتقال الخیال بود.وامروز نام او فراموش کردم و روئے او می شناسم.شاید نام او عبد الرحیم یا عبد الواحد بود کہ ذہن بسوئے این واظنّ انہ لا ینکرہ عندالسوال.واللہ یعلم ما فی البال.وھو اعلم مافی صدور العٰلمین ہر دو انتقال می کند.وگمان میدارم کہ او وقت پر سیدن انکار نخواہد کرد.آئندہ خدا تعالیٰ حال دل بہتر می داند.
215 بالمعانی المرویّۃ، فشکرتُ اللّٰہ مؤیّد الملہَمین.فالحاصل أن اللّٰہ صرّح فی ہذا الکشف ما أراد من نوع التخویف والإنذار، وأشار إلی أنّ الآفۃ علٰی زوج ’’أحمد‘‘ وبنتہا من اللّٰہِ القہار.ومع ذٰلک حث علَی التوبۃ والاستغفار، وأومأَ بہ أن العذاب یؤخَّر بالتضرع والرجوع إلٰی الغفار، ولا یحل الغضب إلّا عند الإباء ، والاجتراء والاعتداء ، ومن تاب واستغفر فلہ حظ من رحمۃ حضرۃ الکبریاء ، ولا یأخذہ عذاب مہین، إلا بعد العود إلٰی سیر الفاسقین.لغت عرب یا فتم.پس خدائے ملہم را شکر کردم.پس حاصل کلام این است کہ خدا تعالیٰ درین کشف تصریح آن انذار وتخویف کرد کہ در ارادہ او بود واشارت فرمود کہ آفت برزن احمد بیگ ودختر احمد بیگ است.وباجود این انذار سوئے توبہ واستغفار رغبت داد واشارت کرد کہ در صورت توبہ و استغفار در عذاب تاخیر خواہد شد.وغضب الٰہی صرف در وقت بیباکی و نافرمانی نازل خواہد شد.وہرکہ توبہ کند حصہ از رحمت خواہد یافت.ودر عذاب مبتلا نخواہد شد.مگر دران صورتے کہ باز سوئے سیرتہائے فاسقان عود کنند ومعہ اشھاد اٰخرون کانوا ھناک حاضرین.واظنّ انّ احدا منھم کان بابو الٰہی بخش وبا او گواہانے دیگر نیز ہستند کہ در آنجا حاضر بودند.وگمانم چنیں است کہ یکے از یشان بابو الٰہی بخش اکونتنت الملتانی.ومحمد یعقوب اخ الحافظ محمد یوسف ومعہ محمد یوسف کونٹنٹ ملتانی است.ودوم محمد یعقوب برادر حافظ محمد یوسف وخود محمد یوسف نیز ہست ودیگر اکثرے از وکثیر من المسلمین.وعفا اللہ عنی ان کنت اخطأ ت فی ذکر احد منھم.فانی مسلمانان نیز ہستند.واگر من در ذکر نام احدے خطا کردم پس خدا تعالیٰ مرا معاف دارد.چرا کہ من لست احصیھم بالیقین وقد مضٰی علٰی ھذا احدی عشرۃ من سنین.منہ بالیقین این نامہا نہ شمردم وبرین واقعہ یازدہ سال گذشتہ اند.
216 فأشعتُ ہذا الکشف بالاشتہار، کما أشعت إلہامی قبلہ لہدایۃ الأحرار.ثم إذا مضٰی علیہ ملِیٌّ من الزمان، أُلْہِمتُ فیہمْ مرّۃ ثالثۃ مِن اللّٰہ الدیّان، وتجلّٰی ہذا الإلہام کالنور فی الظہور، ورفع الحجب کلہا من السرّ المستور، وکانہذا شرحًا مبسوطا للإلہامات السابقۃ، وتفصیلا للکَلِم المجمَلۃ الکشفیۃ، وبیانًا واضحًا للسامعین.وبیانہ أن اللّٰہ خاطبنی فی عشیرتی المعتدین، وقال: ’’کذّبوا بآیاتی وکانوا بہا مستہزئین، فسیکفیکَہم اللّٰہُ ویردّہا إلیک، لا تبدیلَ لکلمات اللّٰہ، إن ربّک فعّالٌ لما یرید.فأشار فی لفظ ’’فسیکفیکَہم اللّٰہُ‘‘ إلٰی أنہ یرُدّ بنتَ ’’أحمد‘‘ إلیّ بعد إہلاک المانعین.وکان أصل المقصود الإہلاک، وتعلم أنہ ہو المَلاک، وأما تزویجہا إیّای بعد إہلاک الہالکین والہالکات، پس این کشف را باشتہار شائع کردم.ہمچنان کہ الہام پیشین را برائے ہدایت آزاد منشان شائع کردہ بودم پس چون برشائع کردن این اشتہار مدتے از زمانہ گزشت دربارہ آن مردم بمرتبہ سوم مرا الہام شد.و این الہام در ظہور مانند نور تجلی کرد.وہمہ حجاب ہا کہ برراز پوشیدہ بود از میان برداشت.و این الہام برائے الہامات سابقہ بطور شرحے بود مبسوط.وبرائے کشوف مجملہ تفصیلے بود واضح.وبیان آن این است کہ خدا تعالیٰ مرا دربارہ قبیلہ من مخاطب کرد و گفت کہ این مردم مکذب آیات من ہستند وبدانہا استہزا می کنند.پس من ایشانر انشانے خواہم نمود.وبرائے تو این ہمہ را کفایت خواہم شد.وآن زن را کہ زن احمد بیگ را دختر است باز بسوئے تو واپس خواہم آورد.یعنی چونکہ اواز قبیلہ بباعث نکاح اجنبی بیرون شدہ باز بتقریب نکاح تو بسوئے قبیلہ رد کردہ خواہد شد.در کلمات خدا ووعدہ ہائے او ہیچکس تبدیل نتواند کرد.وخدائے توہرچہ خواہد آن امر بہرحالت شدنی است ممکن نیست کہ در معرض التوا بماند.پس خدا تعالیٰ بلفظ فسیکفیکہم اللّٰہ سوئے این امر اشارہ کرد کہ او
فہو لإعظام الآیۃ فی عین المخلوقات بإدراج المشکلاتالمعضلات، أو لِحِکَمٍ أخریٰ من عالم المغیبات، أو لرحمٍ علی المصابین والمصابات، فإنہ یضع المرہم بعد الجرح، ویعطی الفرح بعد الترح، ولا یرید أن یجیح عبادہ المستضعفین.ومَن أزیدُ منہ جُودا و رحمًا؟ وہو أَرْحم الراحمین.وإنی أجد إشارۃً فی الاشتہار الأول فی ہذا الباب، من اللّٰہ الراحم الوہّاب، فإنہ قفّی بذکر رحمتہ بعد ذکر عقوبات نازلۃ علی ہذہ الفءۃ، وبعد ذکر أراملہم ومصائبہم المتفرقۃ، فخاطبنی بنہجٍ کأنّہ یشیر إلٰی الرحم علیہم فی الأیام الآتیۃ، فقال :’’یبارکک اللّٰہ ببرکات مستکثرۃ، ویُعمَر بک بیتٌ مخرَّبٌ، ویُملأُ بک مِن برکات دارٌ مخوّفۃٌ.فہذہ إشارۃ إلی زمان یأتی علیہم بعد زمان الآفات.عند وُصْلۃ مقدّرۃ موعودۃ فی الاشتہارات، وتتم یومئذ کلمۃ ربّنا، وتسودّ وجوہ عِدانا، ویظہر أمر اللّٰہ ولو کانوا کارہین.دختر احمد بیگ را بعد میرا نیدن مانعان بسوئے من واپس خواہد کرد.واصل مقصود میرا نیدن بود.و تومیدانی کہ ملاک این امر میرا نیدن است وبس.واما تزویج آن زن با من بعد ہلاک کردن ہلاک شوندگان پس آن مشکل الوقوع مشکلات اند کہ برائے بزرگ کردن نشان درچشم مردم داخل نشان کردہ شدہ.یا برائے حکمت ہائے دیگر کہ خدا میداند یا بطور رحم برمصیبت زدگان چرا کہ او بعداز زخم رسانیدن مرہم می نہد وبعد از غمگین کردن فرحت می بخشدونمی خواہد کہ بکلی استیصال بندگان کمزور کند وازورحیم تر وکریم ترکیست.ومن در اشتہار اول دربارہ رحم الٰہی کہ خدائے کہ رحم کنندہ وتوبہ پذیر ندہ است اشارتے مے یابم.چرا کہ او بعد ترسانیدن این مردم وذکر بیوگان ایشان ومصیبت ہائے ایشان ذکر رحمت خود آور دہ است پس مرا بطرزے مخاطب کرد کہ گویا او بسوئے این امر اشارہ میفر ماید کہ درآخر ایام بران مردم رحم خواہد کرد.پس گفت کہ خدا تعالیٰ تراببر کت ہائے بسیار برکت یافتہ خواہد کرد وبتویک خانہ ویران آباد کردہ خواہد شد وبتویک خانہ ویران از برکت ہا پرکردہ خواہد شد کہ خانہ ترسانندہ وخوفناک است یعنی از غایت وحشت وویرانی کہ در دست از دیدن آن مردمان را خوف می آید.پس اشارت بسوئے آن زمانہ است کہ برایشان بعد زمانہ آفات خواہد آمد.نزد آن پیوندے کہ مقدر و در اشتہارات وعدہ دادہ شدہ است.وآن روز
وإن اللّٰہ غالب علٰی أمرہ وإن اللّٰہ یخزی قومًا فاسقین.فأہلکَ کما وعد فی ’’فسیکفیکَہم‘‘ أربعۃً منہم بعد تزویجہا، وعاث فیہم ذئبُ الآفات عَقِبَ تزلیجہا، کما لا یخفٰی علی المطلعین.فإنہ أہلکَ أباہا وعمّتَیْہا وجدّتَہا، وکان کل أحد من الغالین المعتدین.والآن ما بقی إلا واحد من الہالکین.فانظروا إلی حکم اللّٰہ کیف أتی الأرض من أطرافہا، وانتظِروا ساعۃ یوفی فیہا شَظافَہا.إنہ لا یبطل قولہ، وإنہ لا یخزی قومًا ملہَمین.واعلم أن حرف الفاء علٰی لفظ ’’فسیکفیکَہم اللّٰہ‘‘ من الرحمن بعد ذکر تکذیب أہل الطغیان، کان إشارۃً إلٰی أنّ العذاب لا ینْزل إلّا عند التکذیب والعدوان.فلما کذّبوا بعد التزویج وقاموا بالاستہزاء وآذونی بأنواع الإیذاء ، فأمات اللّٰہ أباہا ’’أحمد‘‘ وبدّل ضحکہم بالبکاء ، وغشِیہم من الغم ما غشِی قومَ یونس عند إیناس آثار العذاب، وألقاہم کلمہ پروردگار ما باتمام خواہد رسید وروئے دشمنان سیاہ خواہد شد وامر خدا ظاہر خواہد شد اگرچہ اوشان کراہت کنندگان باشند وخدا برامر خود غالب است.وخدا قوم فاسقان را رسوامی کند.پس خدا تعالیٰ چنانکہ درآیت فسیکفیکہم اللہ وعدہ کردہ بود چارکس ازیشان بمیرانید.وبراوشان بعد این پیوند اجنبی گرگ آفات بتاخت چنانچہ برواقفان پوشیدہ نیست چرا کہ خدا تعالیٰ پدرآن زن موعود فیہ را وہر دو عمّہ اورا ومادر مادر اورا کہ بیخ فساد بودند بمیرانید واز آنان صرف شخصے واحد ماند کہ بروحکم ہلاکت است.پس بسوئے حکمتہائے خدا تعالیٰ نظر کنید کہ چگونہ درین پیشگوئی از اطراف شروع کرد.پس انتظار آن روز کنید کہ درآن سختی آن بکمال خواہد رسید.چرا کہ او قول خود را باطل نمی کند وملہمان خودرا رسوا نمی گرداند.وبدانکہ حرف فاء کہ برلفظ فسیکفیکہم واقع است.این سوئے این امر اشارہ بود کہ عذاب در صورت تکذیب وغلو در تکذیب واقع خواہد شد.پس چون آن مردم بعد نکاح کردن دختر خود برتکذیب کمر بستند وبگونہ گون گفتارہا مرا ایذا دادند.پس خدا تعالیٰ پدر آن زن موعود فیہ را یعنی احمد بیگ را حسب وعدہ درمیعاد پیشگوئی بمیرانید.و وقت مردن احمد بیگ آن غم واندوہ قوم اورا رسید کہ قوم یونس را بعد دیدن نشانہائے عذاب
موتُ المائت وخوفُ نفس الخَتَن فی أنواع الاضطراب.ولما بلغ نساءَ ہم نعیُ موت ’’أحمد‘‘، وکنَّ مِن قبل کرجل أکفَرَ وأکنَدَ، عطَطْنَ جیوبہن، وأسلْنَ غروبہن، وصککن خدودہن، وتذکرن عنودہن، و ہاجت البلابل، وانقضّ علیہن من المصائب الوابل، واہتزّت الأرض تحت أقدامہن، ثم تمثَّلَ موتُ الخَتَن فی أوہامہن، وطفِقن یقُلْن و الدموع تجری من العیون: ہذا ما وعد الرحمٰن وصدَق المرسلون.فالحاصل أن ہؤلاء أوجسوا فی أنفسہم خیفۃ، وظنوا أنّ خَتَنہم سیموت کما مات صہرہ عقوبۃً، فإنہما کانا غَرَضَین مقصودین فی إلہام واحد، وکان موت أحدہما للآخر کشاہد، ومن المقتضٰی الفطرۃ الإنسانیۃ أنہا تقیس بالأحوال الموجودۃ للأشیاء علی أحوال أشیاء أخریٰ تضاہیہا بنحو من الأنحاء ، فتفہَم أن واقعات آتیۃ لیست إلا کمثل رسیدہ بود.واوشان را موت احمد بیگ وبعد زان اندیشہ موت داماد خود در گونا گون بیقراری ہا انداخت.وچون زنان اقارب احمد بیگ را خبر موت احمد بیگ رسید.وقبل ازان مثل شخصے بودند کہ سخت منکر وناشکر گزار باشد.گریبان خودرا دریدند.و اشکہائے خود ریختند.ورخسارہائے خود را مجروح کردند.وگمراہی خودرا یاد کردند.واندوہ ہا در دلہا جوشیدند.واز مصیبت باران عظیم برایشان فرو افتاد.و زمین زیر قدمہائے ایشان بلرزید.باز موت داماد دروہم ہائے ایشان متمثل شد.وشروع کردند کہ میگفتند بحالتیکہ اشک از چشمہا روان بود.کہ این ہمان وعدہ است کہ خدا تعالیٰ کردہ بود وفرستادہ خدا راستگو برآمد.پس حاصل کلام این است کہ این مردم در دل خود خوف را بطور پنہان نشانیدند وگمان کردند کہ داماد اوشان نیز خواہد مرد چنانکہ خسر او بمرد.چرا کہ آن ہر دو نشانہ الہام واحد بودند.و موت یکے از ایشان برائے موت دیگرے بطور گواہ بود.واین تقاضائے فطرت انسانی است کہ آن براحوال اشیاء موجودہ احوال آن اشیاء را قیاس می کند کہ بدان اشیاء مشابہت می دارند.پس می فہمد کہ واقعات آئندہ بالضرور مثل آن واقعات ظاہر خواہند شد
نظائرہا المشہودۃ، وتستنبط الأحکام المنتظرۃ من الأحکام الواردۃ، و کذٰلک جرت عادۃ المتوسمین.فلما انکشف علٰی عشیرتی بموت ’’أحمد‘‘ النظیر وبدأ المَثَل الکبیر، فخافوا خوفًا کثیرًا مع إکثار البکاء ، ونسوا طریق التمسخر والاستہزاء ، وزُمّتْ ألسنہم وصاروا کالمبہوتین.وتنصّلوا من ہفوتہم، وتندموا علٰی فوہتہم، وخضعت أعناقہم کالمصابین.و قد علمتَ أ نّ ہذ ا الإ لہا م کا ن لإنذار ہٰذہ العشیرۃ، وکان الوعید وشرطہ لتلک الفءۃ، وما کان لِخَتَنہم دخلٌ فی ہذہ القصۃ.ثم لیس من المعقول أن یُظَنّ أن قلب ختنہم بقی علی الجرء ۃ السابقۃ، مع معاینۃ موت صہرہ الذی کان شریکہ فی نبأ الہلاکۃ، بل شہد الشاہدون أنہ خاف خوفًا شدیدًا بعد ہذہ الواقعۃ، وکاد أن تزہق نفسہ بعد سماع ہذہ المصیبۃ، وخشی علی نفسہ، و کہ بظہور پیوستند.چرا کہ دران ہر دو مشابہت درمیان است.واحکام منتظرہ را از احکام واردہ استنباط می کند وعادت صاحبان فراست برہمین رفتہ.پس ہرگاہ برقبیلہ من از موت میرزا احمد بیگ نظیرے ظاہر شد.و مثالے بزرگ پیدا گشت.پس بسیار ترسیدند و گریہ ہا کردند.وطریقہ تمسخر وخندیدن را فراموش نمودند.وبر زبان شان لگام دادہ شد ومثل مبہوتان شدند.واز لغزش گناہ خود بیزاری جستند.واز گفتہ خود پشیمان شدند.وگردن شان ہمچو مصیبت زدگان بخمید.و تو دانستۂ کہ این الہام برائے ترسانیدن ہمین قبیلہ بود.واین وعید وشرط این وعید برائے ہمین گروہ بود.ودرین مقدمہ داماد او شانرا ہیچ دخلے نبود.باز این امرہم معقول نیست کہ دل داماد اوشان بعد مشاہدہ موت خسر خود بر دلیری سابقہ قائم ماندہ باشد حالانکہ آن ہر دو شریک یک پیشگوئی بودند.بلکہ گواہان گواہی دادہ اند کہ او بعد از واقعہ موت خسر خود بغایت درجہ ترسید.و نزدیک بود کہ جان او بعد از شنیدن این حادثہ برآید وبرجان خود بترسید
حسِب النکاح آفۃ من الآفات السماویۃ، وإن کنت فی شک فاسأل العارفین الناظرین.فالحاصل أنہم لمّا تخوّفوا بعد موت ’’أحمد‘‘، وخوّف ہلاکُہ کلَّ أحد وأرجَدَ، فکان حَقّہم أن ینتفعوا بشرط الإلہام، فإن العذاب کان مشروطًا لا حُکمًا قطعیًا کما ہو وہم العوام.فاسألْ أہل ’’أحمد‘‘ ما جری علٰی زوجہ الأرملۃ بعد موتہ فی المیعاد، وکیف صُبّتْ علیہا مصائب وہجَم الہموم علی الفؤاد، وما بقِی لہا ثِمالٌ ولا نَوِیٌّ ولا متکفّلُ الأولاد، وقعدتْ کالمساکین بعد کونہا کالفَیّاد، وکیف سمعتْ نعیَہ بعینٍ عَبْرَی، وقلب علی جمر الغضا، وکیف جریٰ علیہا ما جریٰ.ثم أکلہا خوفُ موت الختن بعد ہذا النَآد، وأنفدتْ أیامَ المیعاد بالارتعاد.وکذٰلک فزعتْ أمُّہا وأخواتہا وذُبْنَ فی فکرِ ونکاح را آفتے از آفات آسمانی انگاشت و اگر تو درین شک داری پس از آنان بپرس کہ شناسندگان حقیقت وبینندگان حال اند.پس حاصل کلام این است کہ چون او شان از موت میرزا احمد بیگ بترسیدند.و موت او ہریکے را ازیشان بترسانید وبلرزانید.پس این حق اوشان بود کہ از شرط الہام منتفع شوند.چرا کہ عذاب مشروط بود نہ حکمی قطعی چنانکہ وہم عوام است.پس خویشان احمد بیگ متوفی را بپرس کہ بعد از مردن او درمیعاد برزوجہ بیوہ اوچہ ماجرا گذشت.وچگونہ مصیبت ہا بروریختند وغمہا بردل ہجوم کردند.وہیچ پناہ و رفیق ومہتمم کار ومتکفل اولاد اورا نماند وہمچو عاجزان ومسکینان بعد زانکہ بخوشی خرامان می رفت فرو نشست.وچگونہ خبر موت اورا بچشم گریان ودل بریان شنید.وچگونہ برو گذشت آنچہ گزشت.باز او را خوف مردن داماد بعد ازین سختی بخورد.وایام میعاد مردن داماد را بلرزہ بدن گزرانید.و ہم چنین مادر او و ہمشیرگان او در فکر موت داماد بگداختند
موت الختن، وشربن کأسات الحزن، وجعلن عمرن أوقاتہن بالصلاۃ والدعوات، والصیام والصدقات.وما رَقَأَ لَہن من الہمّ دَمْعۃٌ، وتمثّلَ لہن لِختنہن فی کل وقت مَنِیّۃٌ، فاسأل أہل ہذہ القریۃ إن کنت من المرتابین.فالحاصل أنہم لمّا تابوا تاب اللّٰہ علیہم بالرحمۃ والمغفرۃ، کما ہی سنۃ قدیمۃ من السنن الإلٰہیّۃ، فإنہ لا یلغی شرط وعیدہ ولا یترک طریق المعدلۃ، ولا یظلم کالمعتدین.وعلیک أن تقرأ اشتہاراتی السابقۃ، وتجمع فی نظرک المقامات المتفرقۃ، فإذا فعلتَ ذٰلک فتصل إلٰی نتیجۃ صحیحۃ، وتطلع علٰی شروط صریحۃ وتنجو من طریق الخطأ والخاطئین.وقد علمت أنی أشعت فی ہذا الأمر اشتہاراتٍ ثلاثٍ فی الأوقات المتفرقۃ، وما کان إلہام فی ہذہ و جامہائے اند وہ بنوشیدند.و شروع کردند کہ اوقات خود را بنماز ودعاہا و روزہ ہا و صدقہ ہا معمور ساختند.واشک شان از غم باز نہ ایستاد.و برائے داماد شان ہر دم موت نصیب العین شان بود.پس مردمان این دہ را از حال شان بپرس اگر ترا دربیان ما شکے است.پس حاصل کلام این است کہ چون آن مردم سوئے خدا تعالیٰ رجوع کردند خدا تعالیٰ بہ رحمت ومغفرت رجوع کرد.چنانکہ آن سنت قدیمہ خدا تعالیٰ است.چرا کہ او شرط وعید خود را باطل نمی کند وطریق عدالت را فرو نمی گذارد.وہمچو ظالمان ازحد تجاوز نمی کند.وبر تو لازم است کہ تو آن اشتہارت من بخوانی کہ سابق شائع کردہ شدہ اند.ولازم است کہ ہمہ مقامات متفرقہ را در نظر خود جمع کنی پس ہرگاہ کہ چنین کنی پس بالضرور تا نتیجہ صحیحہ خواہی رسید.وبر شروط صحیحہ اطلاع خواہی یافت واز طریق خطا و خطا کاران نجات خواہی یافت.وترا معلوم است کہ دراین امرسہ متفرق اشتہارات شائع کردہ ام ودرین مقدمہ ہیچ الہامے نبود کہ باآن
المقدمۃ إلَّا کان معہ شرط کما قرأتُ علیک فی التذکرۃ السابقۃ.ألم تُنَبَّأُوا بما أشعتُ فی السنوات الماضیۃ، فأین تذہبون کالثاغیۃ أو الراغیۃ، ولا تفکرون کالعاقلین؟ ثم ما قلتُ لکم إن القضیۃ علی ہذا القدر تمّتْ، والنتیجۃ الآخرۃ ہی التی ظہرت، وحقیقۃ النبأ علیہا ختمت، بل الأَمْر قائم علٰی حَالہ، ولا یردّہ أحد باحتیالہ، والقدر قدر مُبْرَم مِن عند الربّ العظیم، وسیأتی وقتہ بفضل اللّٰہ الکریم.فوالذی بعَث لنا محمدن المصطفی، وجعلہ خیر الرسل وخیر الوریٰ، إن ہٰذا حق فسوف تریٰ.وإنی أجعلہذا النبأ معیارا لصدقی أو کذبی، وَمَا قُلتُ إلَّا بعد ما أُنْبِئتُ من رَبّی.وإن عشیرتی سَیَرجعُون مرۃ أخریٰ شرطے نبود.چنانکہ در تذکرہ سابقہ نزد تو بیان نمودم.آیا آنچہ در اشتہارات سابقہ شائع کردم ازان شمارا اطلاعے نشد.پس ہمچو گو سپندان یا شتران کجا می روید.وہمچو عاقلان فکر نمی کنید.باز شمارا این نگفتہ ام کہ این مقدمہ برہمین قدر باتمام رسید.ونتیجہ آخری ہمان است کہ بظہور آمد.وحقیقت پیشگوئی برہمان ختم شد.بلکہ اصل امر برحال خود قائم است.وہیچ کس باحیلہ خود اورا رد نتواند کرد.واین تقدیر از خدائے بزرگ تقدیر مبرم است.و عنقریب وقت آن خواہد آمد.پس قسم آن خدائے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم را برائے ما مبعوث فرمود.و او را بہترین مخلوقات گردانید کہ این حق است وعنقریب خواہی دید.و من این را برائے صدق خود یا کذب خود معیار می گردانم.ومن نگفتم الا بعد زانکہ از ربّ خود خبردادہ شدم.وبہ تحقیق قبیلہ من عنقریب بار دوم سوئے فساد
إلَی الفساد، ویتزایدون فی الخبث والعناد، فینزل یومئذ الأمر المقدر من رب العباد.لا رادَّ لما قضیٰ، ولا مانِعَ لما أعطی.وإنی أراہم أنہم قد مالوا إلٰی سِیَرِہم الأولٰی، وَقست قلوبہم کما ہی عادۃ النَّوکَی، ونسوا أیام الفزع وعادوا إلٰی التکذیب والطغویٰ، فسَینزل أَمْر اللّٰہ إذا رأیٰ أنہم یَتزایدون، وما کان اللّٰہ أن یعذّب قومًا وہم یخافون.فاعْلموا أیّہا المکذّبون الغَالون، أن صدقنا سیُشرِق کذُکاءٍ فی الضیاء ، وزُورکم یفشو إلی ضواحی الزوراء ، أتمنعون ما أراد اللّٰہ ذو العزۃ والعلاء ؟ أیبلغ مکرکم إلٰی ذُرَی السّماء ؟ فکیدوا کل کید کان عندکم ولا تُمہِلونِ فی الإیذاء ، ثم انظروا إلی نصرۃ ربّ العالمین.یا حَسْرۃً علٰی علماء ہذا الزمان! ما بقی فیہم نور فراسۃٍ وغاضَ دَرُّ الإمعان، رجوع خواہند کرد.ودرخبث وعناد ترقی خواہند نمود.پس آن روز امر مقدر از خدا تعالیٰ نازل خواہد شد ہیچکس قضاء او را رد نتواند کرد.وعطائے او را منع نتواند نمود.ومن می بینم کہ اوشان سوئے عادتہائے پیش میل کردہ اند.ودلہائے شان سخت شد چنانکہ عادت جاہلان است.وایام خوف را فراموش کردند.وسوئے زیادتی وتکذیب عود نمودند پس عنقریب امر خدا برایشان نازل خواہد شد چون خواہد دید کہ ایشان در غلو خود زیادت کردند.وخدا قومے را عذاب نمی کند چون می بیند کہ ایشان می ترسند.پس بدانید اے مکذبان وغلو کنندگان کہ صدق من ہمچو آفتاب روشن خواہد شد.ودروغ شما تاکنار ہائے بغداد منتشر خواہد شد.آیا شما آنچہ خدا خواستہ است آن را منع می کنید.آیا مکر شما تا بلندی آسمان خواہد رسید.پس ہر مکرے کہ میدارید بمن کنید.ومرا مہلت ندہید.باز نصرت خدا تعالیٰ را بہ بینید.اے حسرت برعلماء این زمانہ ہیچ نور فراست درایشان نماند وشیر فکر کردن ایشان فرو رفت
سمَّعْناہم فلا یسمعون، وقرَیناہم فلا یقبَلون، ولا یقرأون کتبی إلا کارہین، ویفرّون منا مستنفرین.ثم أنتم تعلمون یا أولی الألباب، أن قوم یونس عُصموا من العذاب، مع أنہ لم یکن شرط التوبۃ فی نبأ اللّٰہ ربّ الأرباب، ولأجل ذٰلک ذہب یونس مغاضبًا من حضرۃ الکبریاء ، وتاہَ فی فلوات الابتلاء، ولذٰلک سمّاہ اللّٰہ یُونس لأنہ أُوْنِسَ بعد الإبلاس، وفاز بعد الیأس، وما أضاعہ أرحم الراحمین.فلا شک أن البلاء کلہ ورَد علیہ عدم الشرط فی نبأ الرّحمٰن، ولو کان شرط یعلمہ لما فرّ کالغضبان، ولما تاہ کالمبہوتین.ولمّا ترک یونس بسوء فہمہ الاستقامۃَ والاستقلال، وتحرّی الجلاء والانتقال، أدخلہ اللّٰہ فی بطن الحوت، ثم نبذہ الحوت فی عَراء السُّبْرُوت، ماایشان راشنوانیدیم پس نشنیدند.ودعوت کردیم پس قبول نکردند.وکتابہائے مرا نمی خوانند.مگر از روئے کراہت.واز ما بنفرت می رمند.باز اے دانشمندان شما می دانید کہ قوم یونس از عذاب محفوظ داشتہ شدہ اند.حالانکہ در پیشگوئی خدا تعالیٰ ہیچ شرط توبہ نبود.و از ہمین سبب یونس بحالت غضب از خدا تعالیٰ برفت.ودر بیابانہائے ابتلاء آوارہ شد واز ہمیں سبب خدا تعالیٰ نام او یونس نہاد.چرا کہ بعد از نومید شدن انس داد ہ شد.وبعداز نومیدی مراد یافت.و خدا تعالیٰ او را ضائع نکرد.پس ہیچ شک نیست کہ تمام بلا از ہمین وجہ بریونس افتاد کہ درپیشگوئی ہیچ شرط نبود.واگر شرطے بودے کہ یونس او را دانستے پس چرا ہمچو غضبناک بگریختے وہمچو مبہوتان آوارہ شدے.پس چون یونس استقلال را از بد فہمی خود ترک کرد وجلا وطنی وانتقال را اختیار نمود.خدا تعالیٰ او را در بطن ماہی داخل کرد.باز در میدان زمین خشک و بے نبات افگند.
ورأی کلَّ ذٰلک بما أعلنَ ضجرَ قلبہ بالحرکۃ من المقام، وفارقَ مقرَّہ من غیر إذن اللّٰہ العلاَّم، وفعَل فِعل المستعجلین.وإدخالہ فی بطن الحوت کان إشارۃ إلی مُحاوتۃٍ صَدَرَ منہ کالمبہوت، وکذٰلک سمّاہ اللّٰہ ذا النون، بما ظہر منہ حِدّۃٌ ونُونٌ، بالغضب المکنون، ولا یلیق لأحد أن یغضب علٰی ربّ العالمین.فالحاصل أنّ قصۃ یونس فی کلام اللّٰہ القدیر، دلیل علٰی أنہ قد یؤخَّر عذاب اللّٰہ من غیر شرط یوجب حکم التأخیر، کما أُخِّرَ فی نبأ یونس بعد التشہیر، فکیف فی نبأ یوجد فیہ شرط الرجوع؟ ففکِّر بالخضوع والخشوع، ولا تنسَ حظّک مِنَ التقویٰ والدین.وإن قصۃ یونس موجودۃ فی القرآن والکتب السابقۃ والأحادیث النبویۃ، ولیس ہناک ذکرُ شرط واین ہمہ بلاہا برائے ہمین دید کہ از حرکت مقامے تنگی دل خود را ظاہر کرد ومقام خود را بغیر اذن الٰہی ترک نمود وہمچو شتاب کاران ازو فعلے صادر شد.ودر شکم حوت او را داخل کردن اشارۃ سوئے محاوتت یعنی خشمناکی بود کہ از یونس مثل مبہوتان ظاہر شد.وہم چنین خدا تعالیٰ نام یونس ذاالنون نہاد.چرا کہ ازو نون یعنی تیزی ظاہر شد.زیرا کہ او غضبناک شد.وہیچ کس را نمی سزد کہ برخدا تعالیٰ خشمناک شود.پس حاصل کلام این است کہ قصّہ یونس برین امر دلیل است کہ گاہے عذاب الٰہی بغیر شرطے کہ درپیشگوئی مذکور باشد تاخیر می پذیرد.چنانچہ درپیشگوئی یونس کہ ہیچ شرطے نمی داشت تاخیر عذاب شد.پس چگونہ تاخیر عذاب در چنین پیشگوئی کہ درو شرط رجوع مندرج است قابل اعتراض متصور تواند شد.پس از روئے خضوع وخشوع فکر کن وحصہ خود را کہ در تقویٰ ودین می باید فراموش مکن.وقصہ یونس در قرآن شریف وکتب سابقہ واحادیث نبویہ موجود است.ودر آنجابا ذکر عقوبت ذکر ہیچ
مع ذکر العقوبۃ، وإن لم تقبَل فعلیک أن تُرینا شرطًا فی تلک القصۃ، فلا تکنْ کالأعمٰی مع وجود البصارۃ.واعلم أن الشرط لم یکن أصلا فی القصۃ المذکورۃ، ولأجل ذلک ابتُلِیَ یونس وصار من الملومین، ونزلت علیہ الہموم، وأخذہ الضجرُ المذموم، حتی استشرفَ بہ التلَفُ، ونسِی کلَّ بلاء سلَف، وظنّ أنہ من المُفتَنین.فما کان سبب افتنانہ إلّا أنّہ استیقن أنّ العذاب قطعیٌّ لا یُرَدّ، وأنہ سیقع فی المیعاد کما یودّ، فانقضٰی المیعاد وما استَنْشیٰ من العذاب ریحًا، وما استغشیٰ لباسًا مریحًا، فأضجرَہ ہذا الادّکار، واستہوتْہ الأفکار، وکان رأَی القومَ غالین فی المِراء ، ومُنْبرین بالإباء ، فحسِب أنہ من المغلوبین.فقال لن أرجع إلیہم کذّابًا ولن أسمع لعن الأشرار، وما رأیٰ طریقًا یختارہ، فألقٰی نفسہ فی البحر الزَخّار، فتدارکَہ رحمُ ربّہ شرطے موجود نیست.واگر قبول نکنی پس بر تو واجب است کہ دران قصہ مارا شرطے بنمائی.پس باوجود بصارت ہمچو نابینا مشو وبدانکہ در قصہ مذکور ہرگز شرطے نبود.وبرائے ہمین یونس علیہ السلام را ابتلا پیش آمد ومورد ملامت گردید.وبر وغمہا وارد شدند وتنگی دل او را گرفت حتیّٰ کہ حالت او تا بموت رسید وہر بلا گذشتہ را فراموش کرد.وگمان کرد کہ درفتنہ عظیم افتادہ است وسبب بلائے او بجز این ہیچ نبود کہ او یقین کرد کہ عذاب قطعی است کہ رد نخواہد شد.وبالضرور چنانکہ خواہش او ست در میعاد واقع خواہد شد.پس میعاد گزشت.واز عذاب ہیچ بوئے نشمید.ونہ لباس راحت رسانندہ را پوشید.پس یاد این واقعہ دل اورا تنگ کرد.وفکرہا او را فرو افگند.و قوم را دیدہ بود کہ درخصومت غلوّ می کنند.ودر انکار پیشقدمی ہامی نمایند.پس دانست کہ من مغلوب شدم.پس گفت کہ من ہرگز درحالت کذاب قرار دادہ شدن سوئے اوشان نخواہم رفت.ولعن وطعن شریران نخواہم شنید.وہیچ راہے ندید کہ آنرا اختیار کند.ناچار خویشتن را بدریا
والتقمَہ الحوت بحکم اللّٰہ الجبّار، ورأی ما رأی بقلب حزین.فمن المعلوم أنہ لو کان شرط فی نزول العذاب، لما اضطر یونس إلٰی ہذا الاضطراب، وما فرّ کالمتندمین.أما تقرأ کتب الأولین وقول خاتم النبیّین؟ أتجد فیہا أثرًا من الشرط؟ فأَخْرِجْ لنا إن کنت مِنَ الصادقین.فالآن ما رأیک فی أنباء قُیِّدتْ بشرط الرجوع والتوبۃ ؟ ألیس بواجب أن یرعی اللّٰہ شروطہ بالفضل والرحمۃ؟ وقد قرأنا علیک تفاصیل ہذہ القصۃ، وفتحنا علیکم أبواب المعرفۃ والیقین.فما لکم لا ترون الحق بنور الفراسۃ؟ وتسقُطون کالأَذِبّۃ علی النجاسۃ، وتُعرِضون عن الشہد والقَنْد، وتسعون إلٰی عَذِرَۃ الفِریّۃ والفَند، ولا تبتغون لذاذۃ الطیّبات، وتموتون للخبیثات، وطِبْتم نفسًا بإلغاء در انداخت.پس رحمت الٰہی تدارک او فرمود و بحکم او تعالیٰ ماہی او را در اندر ون خود فروبرد.وبدل غمناک دید آنچہ دید پس این معلوم است کہ اگر در نزول عذاب شرطے بودے.پس یونس تابدین بیقراری حالت خود را نہ رسانیدی.وہمچو شرمندگان نگریختے.آیا کتب پیشینیان نمی خوانی وقول خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم را نشنیدہ.آیا دران کتابہا نشانے از شرط می بینی.پس اگر صادق ہستی برائے ماآن شرط را برون آرو مارا بنما.پس اکنون رائے تو در آن پیشگوئی ہا چیست کہ بشرط رجوع وتوبہ مقیّد اند.آیا واجب نیست کہ خدا تعالیٰ از فضل ورحمت رعایت شرط ہائے خود کند.وما بر تو تفصیل ہائے این قصہ پیش زین خواندہ ایم.وبر تو درہائے یقین ومعرفت کشادہ ایم.پس چہ شد شمارا کہ بنور فراست حق را نمی بینید.وہمچو مگسان برنجاست خود را می افگنید.و از شہد و قند کنارہ می کنید.وسوئے پلیدی دروغ وفریب می شتابید.ولذت چیزہائے پاک را نمی خواہید.وبرائے چیزہائے پلید می میرید.وبرین امر خوش شدہ اید کہ حق
الحقّ والدین، ونبذتم حُکم دیّان غمَرتْ مواہبُہ العالمین.بِوَحْشِ الْبَرِّ یُرْجَی الْاِ ءْتِلَافُ وَکَیْفَ الْاِ ءْتِلَافُ بِمَنْ یَّعَافُ قرینا المُعرضین بطیّباتٍ فردّوا ما قرینا ھم وَعافوا بِحُمْقٍ یَّحْسَبُوْنَ الدَّرَّ ضَرًّا وَاَجْیَافُ الْفَسَادِ لَہُمْ جُوَافُ فَمَااَرْدَی الْعِدَا اِلاَّ اِبَاءٌ وَظَنُّ السَّوءِ فِیْنَا وَاعْتِسَافُ کِلَابُ الْحَیِّ قَدْ نَبَحُوْا عَلَیْنَا وَلَا یَدْرُوْنَ حِقْدًا مَّاالْعَفَافُ وَقَدْ صِرْنَا حُدَیَّا النَّاسِ طُرًّا وَبُرْھَانِیْ لِمُرَّانِیْ ثِقَافُ اَرَی ذُلًّا بِسُبْلِ الْحَقِّ عِزًّا وَوَھْدِیْ فِیْ رِضَا الْمَوْلٰی شِعَافُ وَاِنَّ اللّٰہَ لَایُخْزِیْنِ اَبَدًا اَ نَا الْبَازِی الْمُوَقَّرُ لَا الْغُدَافُ فَمَا لِلْعَالِمِیْنَ نَسُوْا مَقَامِیْ قُلُوْبٌ فِیْ صُدُوْرٍ اَوْ وِحَافُ ودین را باطل کنید.وحکم آن جزا دہندہ را افگندہ اید کہ بخششہائے او جہانیان را فرو گرفتہ است.باچرندگان جنگلی سازواری ممکن است و چگونہ سازواری بدان کس ممکن است کہ کراہت میدارد ما کنارہ کنندگان را بطعامہائے طیب دعوت کردیم پس دعوت مارا ردّ کردند و کراہت کردند از روئے حماقت شیر را ضرردہندہ خیال می کنند و مردارہائے فساد نزد ایشان ماہی است پس دشمنان را ہیچ چیزے بجز سرکشی و ظن بددرما و ازحد بیرون شدن ہلاک نکردہ است سگانِ قبیلہ بر ما عو عو کردند و از کینہ نمی دانند کہ پرہیزگاری چہ چیز است و ما برائے تمام مردم بطریق مقابلہ و معارضہ بر خاستیم و دلیل من برائے نیزہ من ہمچوچیزیست کہ بدان نیزہ را راست میکنند من ذلّت را در راہ خدا تعالیٰ عزت مے بینم و زمین پست من در رضائے مولیٰ حکم سرکوہ ہا می دارد و خدا ہرگز مرا رسوا نخواہد کرد کہ من باز بزرگ قدرم کہ کلاغ سیاہ پس علما را چہ شد کہ مقام مرا فراموش کردند دلہا در سینہ ہا ہستند یا سنگ ہائے سیاہ در آغوشہا می دارند
وَقَامُوْا کَالسِّبَاعِ لِھَتْکِ عِرْضِیْ وَمَابَقِیَ الْوِفَاقُ وَلَا الْوِلَافُ وَلَا یَدْرُوْنَ مَاحَالِیْ وَقَالِیْ فَاِنَّ مَقَامَنَا قَصْرٌنِیَافُ تَرَاھُمْ مُّفْسِدِیْنَ مُکَذِّبِیْنَا وَسِیْرَتُہُمْ عُنُوْدٌ وَّانْتِسَافُ فَمِنْ کُفْرَانِھِمْ ظَھَرَ الْبَلَایَا وَقَحْطٌ ثُمَّ ذَافٌ وَّانْجِعَافُ وَاِنَّ الْمُلْکَ اَجْدَبَ مَعَ وَبَاءٍ وَیُرْجٰی بَعْدَہُ سَبْعٌ عِجَافُ اِذَا مَاجَاءَ اَمْرُ اللّٰہِ مَقْتًا فَلَا اَعْنَابَ فِیْہِ وَلَا السُّلَافُ وَھٰذَا کُلُّہٗ مِنْ سُوْءِ عَمَلٍ وَبِرٍّضَیَّعُوْہُ وَمَا تَلَافُوْا فَتُوْبُوْا اَ یُّھَا الْغَالُوْنَ تُوْبُوْا وَاَرْضُوْا رَبَّکُمْ تَوْبًا وَّ صَافُوْا وَخَافَ اللّٰہَ اَھْلُ الْعِلْمِ لٰکِنْ غَوِیٌّ فِی الْبَطَالَۃِ لَا یَخَافُ لَہُ شِیَمٌ کَاَنَّ الْبِیْشَ فِیْھَا وَمَعَھَا عُجْبُہُ سَمٌّ زُعَافُ و ہمچودرندگان برائے دریدن عزّت من برخاستند ونہ در ایشان موافقت باقی ماند و نہ الفت و نمی دانند کہ حال و قال ما چیست چراکہ مقام ما محلّے بلند است می بینی ایشان را مفسد و مکذّب و سیرتِ ایشان ازراہ برگشتن و سخن نا تمام گفتن است پس از شامتِ کفران ایشان بلاہا ظاہر شد و قحط و وبا و سرعت موت و نیستی پدید آمد و در ملک قحط افتاد و وبا نیز ہست و اندیشہ است کہ این قحط تا ہفت سال نکشد و چون امر خدا از غضب او خواہد رسید پس در ملک نہ انگور خواہد ماند نہ شیرہ انگورونہ شراب و این ہمہ از بد عملی ہا ست وازوجہ آن نیکی کہ ضائع کردند و باز تلافی آن نہ نمودند پس اے غلو کنندگان توبہ کنید توبہ کنید و خدائے خود را بتوبہ و اخلاص راضی کنید واہل علم از خدا بترسیدند لیکن در شہر بٹالہ گمراہے است بطّال کہ نمی ترسد اور اچنان خصلتہا ہستند کہ گویا زہر بیش درآن خصلتہا است و باوجود آن عجب او برائے او زہر قاتل است
لَہُ عِنْدَ اللُّبَانَۃِ کُلُّمَیْلٍ وَ تَلْبِیَۃٌ بِطَوْعٍ وَّالطَّوَافُ وَلَمَّا حَازَ مَطْلَبَہُ وَاَقْنٰی فَبَارَی کَالْعِدَا وَ بَدَا الْخِلَافُ عَلَی الْاِسْلَامِ ھٰذَا الرَّجُلُ رُزْءٌ وَمَقْصَدُہُ فَسَادٌ وَّازْدِھَافُ ثم من اعتراضات العلماء وشبہاتہم التی أشاعوہا فی الجہلاء ، أنہم قالوا إن ہذا الرجل لا یعلم شیئا من العربیۃ، بل لا حظَّ لہ من الفارسیۃ، فضلًا مِن دَخْلِہ فی أسالیب ہذہ اللّہجۃ، ومع ذٰلک مدحوا أنفسہم وقالوا إنا نحن من العلماء المتبحرین.وقالوا إنہ کُلّ ما کتب فی اللسان العربیۃ، من العبارات المحبَّرۃ، والقصائد المبتکرۃ، فلیس خاطِرُہ أبا عُذْرہا، ولا قریحتہ صدفَ لآلیہا ودُررِہا، بل ألّفہا رجل من الشامیین، وأخذ علیہ کثیرا من المال کالمستأجرین، فلیکتُبْ الآن بعد ذہابہ إن کان من الصادقین.او را وقت حاجت تمامتر میل است و جواب دادن باطاعت و گرد گشتن پس ہر گاہ کہ مطلب خود را گرد آورد و ذخیرہ کرد پس ہمچو دشمنان بمقابلہ بر آمد و بمخالفت ظاہر شد این شخص بر اسلام مصیبتے است و مقصد او فساد و دروغ است باز از اعتراضات علماء وشبہات ایشان کہ درجہلا شائع کردہ اند.یکے این است کہ ایشان گفتند کہ این شخص از علم لسان عربی ہیچ چیزے نمی داند.بلکہ او را از فارسی ہم بہرہ نیست قطع ازین امر کہ در اسلوبہائے این زبان دخلے داشتہ باشد.وبااین ہمہ خویشتن را تعریف کردند کہ ما از علماء متبحرین ہستیم.وگفتند کہ او ہمہ آنچہ در زبان عربی نوشتہ است وعبارات آراستہ وقصیدہ ہائے نوخاستہ گفتہ آن ہمہ طبعزاد او نیستند ونہ در ہائے صدف طبیعت او بلکہ شخصے از شامییّن آنرا تالیف کردہ.وبرآن تالیف مالِ کثیر ہمچو اجرت یا بان گرفتہ.پس باید کہ اکنون این شخص بعد رفتن آن شامی بنویسد اگر از صادقان است.
فیا حسرۃً علیہم ! إنہم لا یستیقظون من نعاس الارتیاب، ولا یسرحون النواظر فی نواضر الصدق والصواب، ولا ینتہجون مہجّۃ المنصفین.وترکوا اللّٰہ لأَشاوِی حقیرۃٍ، وأہواء صغیرۃ، فإلامَ یعیشون کالمتنعمین؟ یُصَأْصِؤن کما یصأصأ الجَرْوُ ولا یستبصرون، ویضاہی بعضہم بعضًا فی الجہل فہم متشابہون.وإذا قیل لہم تعالوا إلٰی حقٍّ ظہَر، وقمرٍ بہَر، فتشمئزّ قلوبہم ویہربون مستنفرین.أولئک الذین ہتک اللّٰہ أسرارہم، وکدّر أنظارہم، فتراہم کالعَمِین.یریدون أن یفسدوا فی الأرض عند إصلاحہا وجزَّءُ وا الأمانۃ والدین.أ تنفعہم أقوالہم إذا سُئل ما أفعالہم، أو یفیدہم إفنادہم إذا ظہر فسادہم، أو یُبرَّؤون مع کونہم من الفاسقین؟ لا یتّقون عالِمَ سریرتِہم، پس برین مردم حسرتہاست کہ از خواب شبہات ہشیار نمی شوند ودیدہ ہائے خود را در چراگاہ صدق وصواب نمی چرانند وراہ منصفان نمی گیرند.وخدا تعالیٰ را برائے چیز ہائے اندک وخواہش ہائے کوچک گذاشتہ اند.پس تاکجا در عیش ہا خواہند ماند ہمچو بچہ سگ بغیر چشم کشادن امید دیدن می دارند.وہیچ نمی بینند.وبعضے ازیشان بعض دیگر را درجہل میماند وباہم مشابہت دارند.وچون ایشان را گفتہ شود کہ سوئے آن حق بیائید کہ ظاہر شد.وسوئے آن ماہ بیائید کہ بتافت پس دلہائے شان منقبض میشوند ودرحالت نفرت میگریزند.این مردم کسانے ہستند کہ خدا تعالیٰ راز ہائے ایشانرا دریدہ است وچشمہائے ایشانرا مکدر گردانیدہ.پس ہمچو نابینا یان ایشانرا می بینی.وقت اصلاح زمین زمین را تباہ می کنند وامانت ودین را پارہ پارہ کردہ اند.آیا وقتیکہ از افعال شان سوال خواہد شد اقوالِ شان ایشانرا فائدہ خواہند بخشید.یا چون فساد ایشان ظاہر خواہد شد.دروغ گفتن ایشان ایشانرا سودمند خواہد افتاد.یا باوجود فاسق بودن ایشان
ولا ینتہُون عن صَغیرتہم ولا کبیرتہم، ویعثُون فی الأرض مُعتدین.یترکون أوامر اللّٰہ ولا یکترثون، ویتبعُون زہوہم ولا یُبَالون، ویسعون إلی السیئات ولا ینتہون.أیظنّون أنّہم یُترکون فی الدنیا ولذّاتہا، ولا یُقادون إلٰی الحاقّۃ ومجازاتہا، ولا یُؤخذون کالمفسدین؟ أیحسبون أنہم لیسوا بمَرْأَی رقیبِہم، ولا بمشہد حسیبہم؟ ألایعلم اللّٰہ ما یجترحون کالخائنین؟ یلِجون غابۃ الشیطان، ویذَرون حدیقۃ الرحمٰن، ویمرّون بالحق مُستہزئین.وإذا قیل لہم اقبَلوا الحق کما قبِل العلماء وأْتُونی کما أتی الأتقیاء ، صعّروا خدودہم کالمستکبرین.وقالوا لولا ألَّف بعدَ الشامیِّ کتابًا، إنْ کان صادقًا لا کذّابًا، فلیأتِنا الآن بکتاب بعدہ إن کان من المؤلّفین.فجئنا الآن لنؤتیہم نظیرہا، بل کبیرہا، واللّٰہ موہن کَیْد بری کردہ خواہند شد.از دانائے اندرون خود نمی ترسند.ونہ از صغیرہ باز میمانند ونہ از کبیرہ.و در زمین مفسدانہ تجاوز ہامی کنند.اوامر الٰہی را می گذارند وہیچ پروائے ندارند.وناز وتکبر خود را پیروی می کنند وباآن ہمہ لا ابالی مزاج اندو سوئے بدی ہا می شتابند وبازنمی ایستند.آیا گمان ایشان این است کہ درلذات دنیا گزاشتہ خواہند شد وسوئے قیامت وجزائے آن کشیدہ نخواہند شد.وہمچو مفسدان گرفتار نخواہند شد.آیا گمان شان این است کہ اوشان زیر نظر وزیر نگاہ رقیب و حسیب خود نیستند.آیا خدا تعالیٰ آن کارشان نمی بیند کہ ہمچو خیانت پیشگان می کنند.در مغاک شیطان داخل می شوند.وحدیقہ رحمان را می گذارند.وبرحق درحالت استہزاء کردن می گذرند.وچون ایشان را گفتہ شود کہ حق را قبول کنید چنانکہ علماء قبول کردہ اند.ونزدم بیائید چنانکہ پرہیز گاران آمدہ اند.رخسار ہائے خود را ہمچو متکبران کج می کنند.وگفتند کہ اگر این شخص صادق است وکذاب نیست پس چرا بعد رفتن عرب شامی کتابے دیگر تالیف نکرد.پس اگر درحقیقت مؤلّف است باید کہ اکنون کتابے دیگر ما را بنماید.پس اکنون ما آمدیم تاکہ نظیرآن کتابہا بلکہ بزرگتر آنہا ایشان را دہیم.وخدا مکر دروغگویان را
الکاذبین.وقد ألّفنا ہذہ الرسالۃ، ورتّبناہا کما رتّبنا الرسائل السابقۃ، لنُدحض حجّتہم، ونقطع أُرُومتَہم، ونمزّق مَعاذیر المبطلین.وإن ہذا منّی فی العربیّۃ کآخر الکتب، وأودعتہا مِن مُلح الأدب، والأشعار النُخب، لیکون صاتًّا لدفعِ صخب الصاخبین، ولنہدم دار المفترین من بنیانہا، وندوس جیفۃ وجودہم فی مکانہا، ولنلطم علٰی وجوہ المجترئین.وإنّ کمالی فی اللسان العربی، مع قلۃ جہدی وقصور طلبی، آیۃٌ واضحۃ من ربی، لیُظہِر علی الناس علمی وأدبی، فہل مِن مُعارِض فی جموع المخالفین؟ وإنی مع ذٰلک عُلِّمتُ أربعین ألفًا من اللغات العربیّۃ، وأُعطیتُ بسطۃً کاملۃ فی العلوم الأدبیۃ، مع اعتلالی فی أکثر الأوقات وقلّۃ الفترات، وہذا فضل ربی أنہ جعلنی أبرَعَ مِن بنی الفُرات، وجعلنی أعذبَ سست کنندہ است.وما این رسالہ را تالیف کردیم وہمچو رسائل سابقہ ترتیب آن نمودیم.تاحجت مخالفان بشکنیم وبیخ اوشان برکنیم.وعذر بطالان پارہ پارہ کنیم.واین رسالہ از من درزبان عربی مثل آخری کتاب است.ودرآن گونا گون سخنان نمکین ادب وبرگزیدہ اشعار ودیعت نہادم تاکہ این کتاب برائے دفع شور شورکنندگان شدید الصوت باشد.وتاکہ ماخانہ مفتریان را از بنیاد آن ویران کنیم.و مردار وجود ایشان را درجائے آن پامال کنیم.وبر روئے بے باکان طمانچہ زنیم.وکمال من در زبان عربی باوجود قلت کوشش وجستجوئے من نشانے است از خدا تعالیٰ.تاعلم وادب مرا برمردم ظاہر کند.پس آیا در مخالفان معارض کنندہ موجود است ومن با این ہمہ چہل ہزار لفظ درلغت عرب تعلیم دادہ شدہ ام ومعلومات کاملہ وسیعہ در علوم ادبیہ مرا عطا کردہ اند.باوجود آنکہ در اکثر اوقات بیمارمی باشم وایام صحت درمیان کم می باشند.واین فضل خدائے من است.او مرادر فصاحت ازان چہار کس ونداء عباسیہ
بیانًا من الماء الفُرات.وکما جعلنی من الہادین المہدیین، جعلنی أفصح المتکلمین.فکمْ مِن مُلح أُعطیتُہا، وکم من عذراءَ عُلِّمتُہا! فمن کان مِن لُسْنِ العلماء ، وحوَی حُسْنَ البیان کالأدباء، فإنی أستعرضہ لو کان من المعارضین المنکرین.وقد فُقْتُ فی النظم والنثر، وأُعطیتُ فیہا نورًا کضوء الفجر، وما ہٰذا فِعْلَ العبد، إنْ ہٰذا إلّا آیۃ ربّ العالمین.فمن أبٰی بعد ذٰلک وانزویٰ، وما بارزَنی وما انبریٰ، فقد شہِد علٰی صدقی ولو کتم الشہادۃ وأخفٰی.یا حسرۃ علی الذین یذکروننی بإنکار! لِمَ لا یأ توننی فی مِضمار؟ یشہَقون فی مکانہم کحمار، ولا یخرجون کمُمار، إنْ ہم إلا کعُودٍ ما لہ ثمر، أو کنخل لیس علیہ تمر، ثم مع ذٰلک یخدعون الجاہلین.إنْ ہم إلّا کدارٍ خَرِبۃٍ، أو جُدْرانٍ منقضّۃ.یُعلّمون الناس ما لا یعمَلون، ویقولون ما لا یفعلون.خبَتْ نارہم، وتَواری أُوارہم، وختم اللّٰہ علٰی قلوبہم، افزون ترکرد کہ ابوالحسن علی ابوعبداللہ جعفر وابو عیسیٰ ابراہیم وپدر ایشان محمدبن موسیٰ بن حسن بن فرات بود.ومرا دربیان شیرین تر از آب شیرین کرد.وچنانکہ مرا از ہادیان مہدیان ساخت ہمچنان مرا افصح المتکلمینکرد.پس بسیارے از نمکین سخنان ہستند کہ مرا عطا کردند وبسیارے از نوپیدا نکات ہستند کہ مرا تعلیم آن دادند.پس آنکہ از زبان آوران علماء باشد وہمچو ادبیان حسن بیان را جمع کردہ باشد.من اورا برائے معارضہ می خوانم اگر از معارضین و منکرین باشد.ومن در نظم و نثر فائق شدم ودران ہر دو مرا ہمچو روشنی صبح نورے عطا فرمودہ اند واین فعل بندہ نیست.این نشان ربّ العالمین است.پس ہرکہ بعدزین ازمعارضہ انکار کرد ویکسونشست وبمقابلہ درمیدان نیامد ونہ پیشقدمی کرد.پس اوبرصدق من گواہی داد اگرچہ شہادت را پوشیدہ داشتہ با شد.اے حسرت برآنانکہ مرا بانکار یاد می کنند.باز درمیدانے بمقابلہ من نمی آیند.ہمچو خربرمکان خود آوازہا بردارند.وچون جنگ کنندہ بیرون نمی آیند.ایشان ہمچو شاخے ہستند کہ اورا ہیچ ثمرے نیست.یا ہمچو درخت خرما ہستند کہ برو ہیچ خرما نیست.باز بدین حالت جاہلان را فریب می دہند.ایشان چیزے نیستند مگر چون یک خانہ ویران.یا مانند دیوار ہائے کہ فرو افتادہ باشند.مردم را چیز ہامی آموزند کہ خود
وأبادہم بعد شحوبہم، فتراہم کأموات غیرِ أحیاء ساقطین.وکان فی ہذہ الدیار تسعۃُ رَہْطٍ من الأشرار، وکانوا مفسدین فی الأرض ولا ینتہجون مہجّۃ الخِیار، وما کانوا صالحین.ووجدتُہم فی الکبر والإباء ، کالجُملۃ المتناسبۃ الأجزاء ، أو کأمراض متشابہۃ فی الخبث والإیذاء ، ورأیتُ کلّہم من المعادین المعتدین.فمنہم رجلٌ أَمْرَتْسَری یقال لہ ’’الرسل البابا‘‘.إنہ امرؤ لا یعرف صدقًا ولا صوابا، وکذّب بآیاتنا کِذّابا.وخالَطہ زُمَرٌ من السفہاء ، فقعدوا بحذاء شمس کالحِرباء ، وقالوا إنا نرید أن نعارضک کالأدباء ، ولکنا لا نجیئک کما ترید بل أْتِنا کالغرباء ، وإذا جئت فنبارز کالمعارضین.فعُفْتُ المسعی فی أوّل نظری إلی الجہلاء، وأخذتْنی أَنَفۃٌ أن برانہا عمل نمی کنند.وآنچہ میگویند خود بجا نمی آرند.آتش شان مردہ است وگرمی شان پوشیدہ شدہ.وخدا تعالیٰ بردلہائے شان مہر کردہ است.وبعد لاغرشدن اوشان اوشان را ہلاک کردہ.پس می بینی کہ ایشان مثل آن مردگانے افتادہ ہستند کہ درآنہا روح زندگی نیست.ودرین دیار نہ۹ کس از شریران بودند کہ در زمین فساد میکر دند وطریق نیکان اختیار نمی نمودند ونہ خود نیکوکار بودند.ومن اوشان را در تکبر وسرکشی مانند آن جملہ ہا یافتم کہ اجزائے آنہا باہم متناسب میباشد یا مثل آن بیماری ہا یافتم کہ درخبث وایذا دادن باہم مشابہ می باشند.وآن ہمہ را از دشمنان تجاوز کنندگان یافتم پس از آنہا شخصے است باشندہ امرتسر کہ او را رسل بابا می گویند.او مردے است کہ راہ صدق و صواب رانمی شناسد.وتکذیب نشانہائے مابغایت درجہ کردہ است.وگروہ ے از سفیہان بااو مخالطت کردہ.وبمقابلہ من ہمچو آفتاب پرست نشستند وگفتند کہ مامیخواہیم کہ ہمچو ادیبان باتو معارضہ کنیم.مگر نزد تو نخواہیم آمد.چنانکہ تو می خواہی بلکہ تونزدما بیا.وچون آمدی پس معارضہ خواہیم کرد.پس در اول خیال ازین امر کراہت کردم کہ نزد جاہلان روم.ومرا ازین تنگ آمد کہ در مجلس
أحضُر مجلس الحمقاء ، ثم رأیتُ أن لا تعنیفَ علی من یأتی الکنیف.فقبِلتُ کُلّ ما قالوا، ومِلتُ إلی مَا مَالوا، وکتبت إلیہم أنی أقبل أن أکتب مناضِلا فی ندوتکم، فعلیکم أن تکتبوا مثل ما أکتب أمام مُقْلَتکم، أو أَسْمِعونی ما أکتب کما زعمتم کمال درایتکم، فصمتوا وسکتوا کأنہم من المیتین.وقد أُشیعَ بعدہ الاشتہارُ وأُفْشِیَ الأخبار، وأمضَضْناہم وأحفَظْناہم فصمتوا کرجلٍ ألثَغَ، وسکتوا کالذی علٰی تُرْبِ الہوان مُرِّغَ، فانقلبنا عنہم کالمنصورین.فیا حسرۃ علی ’’الرسل البابا‘‘ إنہ ما خاف ربًّا توّابًا، ورأی ذُلاًّ وتبابًا، وإنہ شبَّ نارًا ثم أخمدہا خوفًا واضطرارًا، وجال فی شجون، ثم خاف مخلبَ مَنون، ونسی کل مجون، ومع ذٰلک ما ترک سِیَرَ المتکبرین.اَ لَا اَ یُّھَا الْاَبَّارُ مِثْلَ الْعَقَارِبِ اِلَامَ تُرِیْ کِبْرًا وَّ لَیَّ الشَّوَارِبِ وَمَا اَنْتَ اِلاَّ قَطْرَۃٌ تَحْتَ وَھْدَۃٍ فَلَا تَتَصَاوَمْ* بِالْبُحُوْرِ الزَّغَارِبِ احمقان حاضر شوم.باز خیال کردم کہ ہرکہ دربیت الخلاء می رود برو ہیچ اعتراضے نمی کنند.پس ہرچہ گفتند قبول کردم وبہر سوئے کہ میل کردند میل کردم.وسوئے ایشان نوشتم کہ من قبول می کنم کہ در مجلس شما بطور مقابلہ بنویسم.پس برشما لازم خواہد بود کہ مانند من شماہم در آنجا بنویسید.یا اگر این نتوانید کرد.پس بنویسم مرا بشنوانید.پس خاموش ماندند.ومثل مردگان ساکت شدند.وبعدزان اشتہار شائع کردہ شد.وخبر را فاش کردہ شد.واوشان رابسو ختیم وبغضب آوردیم پس ہمچو مرد زبان شکستہ خاموش ماندند.ومانند کسے کہ برخاک مذلت غلطانیدہ شود ساکت شدند.پس ما ازیشان ہمچو فتحیابان باز گردیدیم پس بررسل بابا حسرتہاست کہ اواز خدائے توّاب نترسید.وخواری وہلاکت رادید.وآتشے را افروخت.باز از روئے اضطرار و خوف فرو میرانید.ودرراہِ بیابانہا جولان کرد.باز از پنجہ مرگ بترسید.وہمہ بیباکی فراموش کرد.وبا این ہمہ سیرت تکبر را نگذاشت اے نیش زنندہ مانند عقرب تابکے کبر خودخواہی نمودو تابکے بروت خودرا پیچ خواہی داد و توازین زیادہ نیستی کہ یک قطرہ زیرمغاکے ہستی پس بادریا ہائے بزرگ خویشتن را مکوب
ومن التسعۃ الذین أشرتُ إلیہم رُجَیلٌ یقال لہ ’’أَصْغَر‘‘، وإنہ یزعم فی نفسہ کأنہ أکبر، ویزدرینی مفتریًا مِن غیر استحیاء ، ویسبّنی فی محافل وأملاء ، فسیعلم کیف یُجعَل من الأصغرین.إنہ یتبع الہویٰ، ولا یَجْری طَلْقًا مع التقویٰ.یرید أن یفضّ ختوم الشہوات ولو بالجنایات، ویجتنی قطوف اللذات ولو بالمحرّمات.وکذٰلک تأہّبت لہ الرفاق، وازداد من المنافقین النفاق، واستحکمَ فی الطباع الذمیمۃ، حتی سبق إخوانَہ فی النمیمۃ.ومَا أریٰ مَدْحَرۃً لشیطانہ، إلّا أن أدعوہ لامتحانہ، فأُقبِل علیہ إقبالَ طالبٍ المناضلَ، لیتبیّن أمر الجاہل والفاضل.وإنہ کان یطلبنی لِوَغاہ، فالیوم نُرضیہ بما یہواہ.وقد خاطبتُہ من قبل ذاتَ العُوَیم، لأزیل ما علا قلبَہ کالغَیم، فقلتُ آتِنی کالرائد وتمتَّعْ من الموائد، فإن کنتَ رأیناک کسحابِ مُطَیرٍ، أو ثبت معک مِن البلاغۃ کمَیْرٍ، فنؤمن بک وازان نُہ کس کہ سوئے اوشان اشارت کردہ ام مرد کے است کہ نام او اصغر علی است.واو نفس خود را گمان می کند کہ گویا او اکبر است.ومحض از روئے افترا وترک حیا عیب گیری من می کند.ودرمجالس وگروہ مردم بدگوئی من میکند.پس عنقریب خواہد دانست کہ چگونہ از کمتران کردہ خواہد شد او پیروی خواہش خود میکند ویک تگ نیزہم با تقویٰ نمی رود.میخواہد کہ مہرہائے آرزوہا را بشکند واگرچہ باگناہان شکستہ باشد.ومیوہ ہائے لذات را بچنیدواگرچہ بامحرمات چیدہ باشد وہمچنین رفیقان بد وجمع شدند.واز صحبت منافقان نفاق زیادہ گشت.ودر سرشت نکوہیدہ مستحکم شد.تاآنکہ درغمازی از برادران خود درگزشت.ومن آن حربہ کہ شیطانش را از و دور کند بجز این امر نمی بینم کہ امتحانش کنم.پس سوئے او ہمچو جویندہ محاربہ متوجہ می شوم تاکہ در جاہل وفاضل فرق پیدا شود.و او مرا برائے پیکار خود می طلبد.پس امروز آرزوئے اورا باودادہ اورا خوش کنیم.ومن پیش ازین درسالے از سالہا اورا مخاطب کردہ بودم تاکہ آن ابررا ازدل او بردارم کہ بردلش برآمدہ است.پس گفتم کہ ہمچو جویائے آب وعلف نزدم بیا واز خوانہائے ماتمتع بردار.پس اگر ماترا ہمچو ابراندک بارندہ ہم یافتیم یا با تو ہمچو قوت لا یموت بلاغتے ثابت شد.پس مابتو
وبحسن بیانک، ونشیعُ صفاتِ علوِّ شأنِک، فیسُوغ لک بعدہ أن تغلّطنا فی إملا ئنا، وتأخذ أغلاط إنشائنا، کما أنت تظن کالجاہلین الغافلین.ومع ذٰلک نحسبک أنک ذو مِقْوَلٍ جَرِیٍّ، ونابغۃُ کلام عربیّ، ویجوز لک ما لا یجوز لغیرک من ازدراء والطعنِ علی إملاء ، وتُحمَد عند الناس کالفاضلین المؤدّبین.وأما طَرْزُ ازدرائک، قبل إثبات علمک وعلائک، فما ہٰذا إلا لُبوسُ سفیہٍ یترک الحیاء ، وعادۃ ضریرٍ لا یریٰ الأضواء ، فیحسَب النہار المنیر ظلامًا، والوابلَ جَہامًا.وإن کنتَ من رجال ہذا المضمار، وولیجۃ أہل ہذہ الدار، فأَرِنا کمال إنشائک قبل ازدرائک، وأْتِ بکتاب من مثل ہذا الکتاب، ثم اجعلْ بینی وبینک حَکَمًا أحدًا من أولی الألباب؛ فإن شہِد الحَکَم علی کمالک وحسن مقالک، وظنّ أنک جئت بأحسن من کلامی، وأریتَ نظامًا وحسن بیان تو ایمان خواہیم آورد وصفات علو شان ترا شائع خواہیم داد.پس بعد ازان ترا جائز خواہد بود کہ غلطی ہائے املاء ما بیان کنی وخطاہائے مارا بگیری.چنانکہ ہمچو جاہلان وغافلان گمان میداری.وباوجود این خواہیم پنداشت کہ صاحب زبان فصیح ہستی.ونابغہ کلام عربی.وبرائے تو آن نکتہ چینی جائز خواہد شد کہ برائے دیگران جائز نیست.وتواہل این خواہی گردید کہ عیب من بگیری وبر املاء من طعنہ زنی.ونزد مردم ہمچو فاضلان ادب دہندگان تعریف کردہ خواہی شد.مگر طرز عیب گیری تو قبل از ثابت کردن علمیت وبلندی تو.پس این لباس مردکِ کمینہ است کہ حیارا می گزارد.وعادت نابینائے ست کہ روشنی ہا رانمی بیند.پس روز روشن را تاریکی می پندارد.وباران بزرگ را ابربے آب می انگارد.واگر تو از مردان این میدان ہستی.واز خاصان اہل این خانہ ہستی.پس مارا کمال انشاء خود بنما.قبل زینکہ نکتہ چینی کنی.وکتابے مثل این بیار.باز در من وخود منصفے از دانایان مقررکن.پس اگر آن منصف برکمال تو وحسن مقال تو گواہی دہد وگمان کند کہ تو کلامے احسن از کلام من آوردی.ونظامے نمودی کہ از
أجمل من نظامی، فلک مِن بعد أن تتخذ جِدِّی عبثًا، وتجعَل تِبری خَبَثًا، و أن تحسب دُرِّی الغُرَّ کلیلٍ دامسٍ، وبیانی الواضحَ کطریقٍ طامس، وتُشیع عِثاری فی العالمین.وإن لم تفعل، ولن تفعل، فاتّقِ لعن اللاَّعنین.اَ لَا لَا تَعِبْنِیْ کَالسَّفِیْہِ الْمُشَارِزِ وَاِنْ کُنْتَ قَدْ اَزْمَعْتَ حَرْبِیْ فَبَارِزِ وَاِنَّکَ تَذْکُرُنِیْ کَرَجُلٍ مُّحَقِّرٍ وَتَلْمِزُنِیْ فِیْ کُلِّ ٰانٍ کَمَارِزِ وَاِنَّا سَمِعْنَا کُلَّ مَا قُلْتَ نَخْوَۃً اَتَحْسَبُ خَضْرَاءِیْ بِحُمْقٍ کَتَارِزِ وَمَا کُنْتُ صَوَّالًا وَّلٰکِنْ دَعَوْتَنِیْ وَقَدْبَانَ اَنَّکَ تَزْدَرِیْنِیْ کَغَارِزِ وَ لَاخَیْرَ فِیْ طَغْوَاکَ یَا ابْنَ تَکَبُّرٍ وَیَفْقَأُ رَبِّیْ عَیْنَ دُوْنٍ مُّعَارِزِ فَحَرِّجْ عَلٰی نَفْسٍ تُبِیْدُکَ وَاجْتَنِبْ مَنَاھِجَ فَقْاأ فَاجَءَتْکَ کَفَارِزِ وَ لَا تَنْتَھِجْ سُبُلَ الْغَوَایَۃِ وَاکْتَءِبْ عَلٰی مَاعَرَاکَ وَتُبْ بِقَلْبٍ اٰرِزِ نظام من اجمل است.پس بعد زان ترا اختیار خواہد بود کہ سخن تحقیق مرا عبث شماری وزر مرا چیزے فاسد خیال کنی و اختیار تو خواہد بود کہ در روشن مرا مثل شب تاریک پنداری.وبیان واضح را ہمچو راہ ناپدید خیال کنی.ولغزش مرا در جہانیان شائع کنی.واگر چنین نکنی وہرگز نخواہی کرد.پس از لعنت لعنت کنندگان بترس خبردار باش ہمچو سفیہ جنگ کنندہ عیب من مکن واگر برین آمادہ شدی کہ بامن جنگ کنی پس بہ میدان جنگ برون آ و تو مرا مثل تحقیر کنندہ یاد می کنی وہمچو گزندہ درہر وقت عیب من مے گیری وماہمہ آنچہ از تکبر گفتی شنیدہ ایم آیا سبزہ مرا ہمچو چیزے خشک می انگاری ومن نمی خواستم کہ بر تو حملہ کنم لیکن تو خود مرا خواندے وظاہر شد کہ ہمچو سپو زندہ سوزن عیب من می گیری ودرین کہ از حد درگزشتی اے پسر تکبر ہیچ نیکی نیست وخدائے من کمینہ جنگ کنندہ را کورمے کند پس نفس ہلاک کنندہ را سخت بگیر وازراہ ہائے آن کوری بپرہیزکہ ہمچو جداکنندہ چیزے ازچیزے ناگاہ تراگرفت پس طریق گمراہی را اختیار مکن وبلائے کہ برتوآمدہ است ازان غمگین باش وبادل ثابت توبہ کن
ومن المعترضین المذکورین شیخٌ ضالّ بطالویٌّ وجارٌ غویٌّ، یقال لہ محمّد حُسَیْن، وقد سبق الکلَّ فی الکذب والمَین.وإنہ أبی واستکبر، وأشاع الکبر وأظہر، حتی قیل إنہ إمام المستکبرین ورئیس المعتدین، ورأس الغاوین.ہو الذی کفّرنی قبل أن یکفّر الآخرون، واعترض علی کتبی وأظہر جہلہ المکنون.فقال إن تلک الکتب مشحونۃ من الأغلاط، وساقطۃ فی وحل الانحطاط، ولیست کماءٍ مَعین.وإن ہذا الرجل من الجاہلین، وکل ما یوجد فی کتبہ مِن مُلحہا وقیافیہا، فلیس قریحتُہ حجرَ أثافیہا، بل تلک کَلِمٌ خرجت من أقلام الآخرین.فقلتُ: یا شیخَ النَّوکَی، وعدوَّ العقل والنُّہٰی، إن کتبی مبرَّأۃ مما زعمتَ، ومنزّءۃ عما ظننت، إلَّا سہو الکاتبین، أو زیغ القلم بتغافُل مِنّی لا ویکے از اعتراض کنندگان شیخ گمراہ ساکن بٹالہ است کہ ہمسایہ گمراہ ماست.او را محمد حسین مے گویند.واز ہمہ در دروغ و ناراستی سبقت بردہ است.و او انکار کرد وتکبر نمود وتکبر را شائع کردہ وظاہر ساخت تاآنکہ گفتہ شد کہ اوامام متکبر ان است.و رئیس تجاوز کنندگان.وسر گمراہان است.اوہمان شخص است کہ پیش از ہمہ مرا کافر گفت.وبرکتابہائے من اعتراض کرد.وجہل خود ظاہر نمود.پس گفت کہ این کتابہا از غلطی ہا پر ہستند ودرگل انحطاط فرو افتادہ اند.وہمچو آب صافی نیست.واین شخص از جاہلان است وہرچہ از کلمات نمکین وقافیہ ہا در کلام او یافتہ مے شود.پس آن طبعزاد او و سنگ طبیعت اونیست بلکہ این کلمات از قلمہائے دیگران برآمدہ اند.پس گفتم کہ اے شیخ احمقان ودشمن عقل و دانش.بہ تحقیق کتاب ہائے من ازآنچہ گمان کردی بری ہستند.واز آنچہ زعم تست منزہ ہستند.مگر سہو کاتب یا کجی قلم از تغافل من نہ مثل جہل جاہلان
کجہل الجَاہِلین.فإن قدرتَ أن تُثبِت فیہا عِثارًا، فخُذْ منّی بحذاء کل لفظٍ غلطٍ دینارًا، واجمَعْ صَریفًا ونِضارًا، وکُنْ من المتمولین.وہذا صلۃٌ تلائم ہواک، و تَقَرُّ بہ عیناک، وتستریح بہ رجلاک، فتنجو من السفر الدائم، ولا تتیہ کالشحّاذ الہائم، وتقعد کالمتنعمین، وتغنی بہ عن جعائل أخریٰ ومکائد شتی، وإشاعۃ ’’عدوِّ السُنّۃ‘‘، ووعظ الدجل والفِریۃ، وتعیش کالمستریحین.بید أنی أرید أن أری قبلہ رَیَّا فصاحتک، وأشاہد أَریجَ بلاغتک، لأفہم أنک من علماء ہذہ الضاعۃ ومن أہل تلک الصّولۃ، ولستَ من الجاہلین المحجوبین العمین.فا!تفقَ لوَشْلِ حَظِّہ المبخوس ونَکْدِ طالِعِہ المنحوس، أنہ ما قبِل ہذہ الصلۃ، وما سنّٰی نفسہ لیقبل ہذہ الشریطۃ، وخشِی الذلۃ پس اگر تو می دانی کہ درآن کتابہا لغزشے ثابت کنی پس از من بمقابلہ ہر لفظ غلط دینارے بگیر و سیم وزر را جمع کن.واز مالداران بشو.واین آن انعام است کہ مناسب حال خواہش تست.وبد وچشم تو خنک خواہد شد.دہرد وپائے توازان آرام خواہند گرفت.پس از سفر دائمی نجات خواہی یافت وہمچو سرگردان آوارہ نخواہی گردید.ومثل متنعمان خواہی نشست.وبدین مال از مزدوری ہائے دیگر وفریب ہائے گوناگون واشاعۃ السنہ کہ دراصل عدو السنہ است واز دجل وفریب بے نیاز خواہی شد.وہمچو آرام یا بان زندگی خواہی گذرانید.مگر این است کہ می خواہم کہ قبل ازین امر خوشبوئے فصاحت ترابینم وبوئے بلاغت تو مشاہدہ کنم.تابہ بینم کہ تو از علمائے این ضاعت ہستی.واز آنا ن ہستی کہ اہل این حملہ ہستند.و از جاہلان ومحجوبان ونابینایان نیستی.پس بباعث کم نصیبی وبدبختی طالع منحوس او این اتفاق افتاد کہ او این انعام را قبول نکرد وخویشتن را بر بلندی آمادگی نیا ورد تاشرط مارا قبول کند.واز ذلت ورسوائی
والفضیحۃ، وتواری کالمتخوفین، وقال لو نشاء لقلنا مثل ہذا ولکنا لسنا بفارغین.وما خرج من بیتہ، وما رأی نموذجَ زیتہ، وما تفوّہَ إلا کالمتصلفین.وتحرّیتُ فی صِلتی مرضاتَہ، لأنقُد بحیلۃٍ حَصاتَہ، وأَمخض لبنہ وأُرِی جہلاتہ.فکأن النعاس راودَ آماقَہ، أو الخنّاس حبَّب إلیہ إباقَہ، فرأیتُ أن حَرَّہ قد باخَ، وعَزْمَہ ہرِم وشاخَ، وتراء ی کالمُضْمَحِلّین.وواللّٰہ إنی أستیقن أنہ لا یقدر علی إملاء سطر أو سطرین، وکل ما یقول یقول من المَین، بل لا أظن أن یقدر علٰی فہم مقالی، ویبیّن فی المجلس فَحْواءَ أقوالی، وإنہ من الکاذبین.وإنی أعرفہ من قدیم الزمان، ولکنّی کنتُ أستر حالہ وأسعٰی للکتمان، بل إذا نطق أحد لإفشاء سِرّہ، فطویتُہ علٰی غَرِّہ، وصُنْتُ عِرضہ من الناہشین.ثم رأیت أنہ لا یسدَر عند غلواۂ، ولا ینْزع عن نفسہ خود بترسید.وہمچو ترسندگان پوشیدہ گشت.وگفت اگر بخواہیم مثل این بگوئیم.ولیکن مارا فراغتے نیست.و از خانہ خود بیرون نیامد.و نمونہ زیت خود نہ نمود.وبجز لاف زنی ہیچ سخنے نکرد.ومن در انعام خود رضائے اورا خیال کردم.تا بکدام حیلہ عقل اورا بیاز مایم.واز شیرا و مسکہ برون آرم وجہل او بنمایم.پس گویا خواب اورا نزد خود خواند.یا شیطان اورا رغبت گریختن داد.پس دیدم کہ تمام گرمی او سرد شد.وقصد او پیر فرتوت گشت.وہمچو مضمحلان شکل نمود.وبخدا مرا یقین است کہ او برنو شتن یک سطر یا دو سطر ہم قادر نیست.وہرچہ می گوید از دروغ میگوید.بلکہ مرا این گمان ہم نیست کہ او سخن من بفہمد.ودر مجلس مضمون قول من بیان تواند کرد.واواز دروغ گویان است.ومن اورا از زمانہ قدیم می شناسم.لیکن من حال اورا پوشیدہ می داشتم.بلکہ چون کسے برائے دریدن پردہ او گفتگو کردے.پس من آن گفتگو را بر شکن آن می پیچیدم.وآبروئے او را از گزند رسانندگان محفوظ داشتم.باز دیدم کہ او در وقت تجاوز ازحد ہیچ پروائے ندارد.واز نفس خود جامہ
ثوبَ خیلا ۂ، ولا یترک سیر جہلا تہ، ولا یتوب من خزعبیلا تہ، بل یظن أنہ ینفعہ کیدُہ، ویُسخَّر بہ صیدہ.فلما رأیت أن أعمالہ ستُوبِقہ، وأن دلالہ سیُقلِقہ، أشعتُ من سیئاتہ بعض الہنات، وإنّمَا الأعْمَالُ بِالنیّات، وعلیہا مدار المجازاۃ.ثم نعود إلٰی قصتنا الأولٰی، فاعلم أنہ دعانا ثم أبٰی، وما حملہ علٰی ذٰلک إلا خوف أحرقَہ بنار اللظٰی، فإنہ قرأ کتبنا فوجدہا کدُرٍّ أجلٰی، فأوجس فی نفسہ خیفۃً وما أبدیٰ، وأنقضَ ظہرہ ما رأیٰ.فما تمالک أن یشجّع قلبَہ المزء ودَ، و یحضر الموطن الموعود، ویُری جَناہ والعُودَ.بل أشار إلٰی رُجَیلٍ وَغْبٍ، وفرخٍ لیس علیہ إلا زَغْبٌ، واحتال وقال إنی لن أخرج من جُحْری، وہذا تلمیذی قد رُبِّیَ فی حِجری، فبارِزْہ إن کنت من المبارزین، وإنی أنساب کالتِّنِّین من خوف القاتلین.فقلت یا ہٰذا، لا تحسب أن تنجو من مخلبی بکید، ولو صرتَ جدَّ أبَازَید، پندار را برنمی کشد.وسیرتہائے جہالت را نمی گذارد.واز کار ہائے باطل خود توبہ نمی کند.بلکہ گمان مے کند کہ مکر او اورا نفع خواہد داد.واز مکر او شکار او در قابوئے او خواہد آمد.پس چون دیدم کہ اعمال او عنقریب اورا ہلاک خواہند کرد.وناز او عنقریب اورا بے آرام خواہد نمود.بعض بدیہائے اورا شائع کردم.واعمال بہ نیت ہاوابستہ اند.ومدار مجازات برنیت ہا ست.باز ما سوئے قصہ اول عودمی کنیم.پس بدان کہ اول او مارا بخواند باز سر بتافت واین کنارہ کشی ازین سبب از وصادر شد کہ اورا آن خوف گرفت کہ بنار دوزخ اورا بسوز انند.چرا کہ او کتابہائے مارا مثل گوہر تابان یافت.پس در دل خود خوف نشانید وظاہر نہ کرد.وآنچہ دیدہ بود کمر او را بشکست.پس مالک این امر نماند کہ دل ترسندہ خود را دلیر تو اند کرد.و درمیدان بحث حاضر تواند شد و ثمرہ خود را وشاخ خود را بنماید.بلکہ سوئے مرد کے احمق اشارہ کرد.آن مرد کے کہ چوزہ است خورد واندک موہائے باریک برخود دارد.وحیلہ کرد وگفت کہ من از سوراخ خود ہرگز بیرون نخواہم آمد.واین شاگرد من است ودرکنار من پرورش یافتہ.پس اگر خواہی با او مقابلہ کن.ومن در سوراخ خود واپس می روم ہمچنان کہ مارا ز اندیشہ کشندگان بسوراخ خود می خزد.پس گفتم اے فلان این گمان مکن کہ ازپنجہ من بمکرے نجات خواہی یافت.اگرچہ ابو زید اہل مقامات
وإنی أعلم حیل الماکرین.ألا تعلم أنہ مِن أدنٰی تلامیذک، وما شرِب إلا جرعۃ من نبیذک، فإنہ لیس کمثلک فی الطاقۃ العلمیۃ، ولا علی غَلْوَۃ من مراحلک المعلومۃ، فضلا مِن أن یکون أکبر منک فی العلوم، فلا تفوّض أمرک إلٰی الغبیّ الزَّغوم، ولا تکن من الخادعین.وأنت تعلم أنہ کابن بُوْحِک، أو شقیق روحک، وما شرب إلا من صَبوحک، وقد غُذِّیَ بلُبانتک، فقِصّتُہ تُطوَی بقصّتک، وبعد ہزیمتک ہزیمتہ بیّن، وإذا مزَّقْنا الصَلْبَ فقد کُسِرَ لیِّنٌ.فإذا سمع قولی، ورأی صَولی، ففرَّ کفَرِّ الوَعْلِ، وانساب إلی جُحرہ بالمَعْلِ، ونسِی کلَّ أریز کالمتندمین.وأحفظتُہ بکَلِمٍ مؤلمۃ، وألفاظ موجعۃ، لعلّہ یقوم لمناضلۃ، ویأتینی لمصارعۃ، فما أتی المضمار، وحسِب أنہ یلِج النار، واختفی کالمذروعین.ثم ما غبر علی ذٰلک الزمان إلا شہر أو شہران، حتی أشاع فی تحقیری رسالۃ، را پدر پدر شوی.ومن حیلہ ہائے مکر کنندگان رامی شناسم.آیا نمی دانی کہ اواز ادنیٰ شاگردان تست.واز نبیذ تو بجزیک جرعہ ہیچ نخوردہ.زیرانکہ او درطاقت علمیہ مانند تونیست.ونہ از مراحل معلومہ تو برفاصلہ یک تیر پرتاب است.قطع نظر ازینکہ درعلوم از تو بزرگتر باشد.پس امر خود را سوئے کند ذہنے مسپار.کہ فروماندہ درسخن است واز مکاران مشو.وتومیدانی کہ او مثل پسر نفس تو یا برادر خورد روح تست.واز شراب تو خوردہ است.واز شیر تو پرورش یافتہ.پس قصہ او بقصہ توطے خواہد شد.وبعد شکست تو شکست او ظاہر است.وچون سخت را پارہ پارہ کردیم پس شکستن نرم ظاہر است.پس چون قول مرا شنید وحملہ مرادید ہمچو بزکوہی بگریخت.وسوئے سوراخ خود بشتابی رجوع کرد.وہمہ جوش را ہمچو شرمندگان فراموش نمود.ومن او را بکلمات درد رسانندہ درغضب آوردم والفاظ دلآزار گفتم.تاباشد کہ او برائے جنگ من برخیزد.وبرائے باہمی کشتی نزد من بیاید.پس بمیدان نیامد وگمان کرد کہ داخل آتش خواہد شد.وہمچو ترسندگان پوشیدہ شد.باز برین امر بجز ماہے یا دو ماہ نگذشت کہ یک رسالہ در تحقیر من شائع کرد.
وعزا إلیّ زندقۃ وضلالۃ، لیستر بہ جہلا یُخزیہ، ویزیّن شأنہ فی أعین تابعیہ، ویکثّر سوادَ طالبیہ، ویؤذی قلوب المسترشدین.فلما رأیت أنہ أفاق من إغماۂ، وضحک بعد بکاۂ، ورجع إلٰی أدراجہ، واستراح بعد انزعاجہ، ورقأتْ دَمْعتُہ، وانفثأتْ لَوعتُہ، رأیت أن أُتمّ علیہ الحجۃ مرّۃ ثانیۃ، وأسلّط علیہ من الحق زبانیۃ، فالیوم قمتُ لہذا المرام، لعل اللّٰہ یہدیہ إلٰی دار السلام.إنہ یحول بین المرء وقلبہ وإنہ یشفی المؤوفین.فیا أیہا الشیخ الضالّ، والمفتری البطّال، ألم یأن لک أن تتوب وتلیِّن البال؟ أ تفرح بحیاۃ فیہ البلایا، وفی آخرہا المنایا؟ طالما أیقظتُک بالوصایا، ووضعتُ أمام عینیک المرایا، ثم أقسمتُ لعلّک تطمئنّ بالألایا، فقلتُ واللّٰہ إنی لست بمفتری وأعوذ بربّ البرایا، أن أسعی إلی الخطایا، وسوئے من زندقہ وگمراہی را منسوب کرد.تاکہ بدین حیلہ آن جہل را بپوشدکہ اورار سوامی کند.وشان خود را درچشم تابعین خود زینت دہد.وگروہ طالبان را بیفزائد.ودل مردم رشید را بیازا رد.پس چون دیدم کہ اواز غشی خود بہوش آمد وبعد گریستن بخندید.و سوئے راہ ہائے خود واپس رفت.وبعد رنج آرام یافت.و اشک او بایستاد.و سوزش او کم شد.مناسب دیدم کہ حجت را برو تمام کنم.واز حق سیاست کنندگان را برو مسلط کنم.پس امروز برائے ہمین مطلب استادہ ام.شاید اللہ تعالیٰ سوئے دار السلام او را ہدایت نماید.بہ تحقیق خدا تعالیٰ در انسان ودل او حائل میشود.وآفت زدگان را شفامی بخشد.پس اے شیخ گمراہ ومفتری بطال آیا تا ہنوز برائے تو وقت نرسیدہ است کہ توبہ کنی و دل تو نرم گردد.آیا بدین زندگی خوش میشوی کہ درآن آفات اند ودر آخر او مرگہاست.مدتے شد کہ من بوصیت ہا ترا بیدار می کنم.وپیش چشم تو آئینہ ہا نہادم.باز قسم خوردم شاید تو بقسم مطمئن شوی پس گفتم کہ بخدا من مفتری نیستم وپناہ خدا می گیرم کہ سوئے خطاہابپویم.
فما ظننتَ إلَّا ظن السوء وما تکلمتَ إلَّا کالمجترئین.أیہا الشیخ إن الدنیا فانیۃ، والذی یبقی فہی حضرۃٌ ربانیۃ.تریٰ رجلا متنعما فی المساء ، ثم تریٰ ذاتَ بکرۃ أنہ لیس من الأحیاء.والموتُ یُہلک أفعًی أعجزَ الراقِی، وکلّ شیءٍ فانٍ ویبقی وجہ اللّٰہ الباقی.وأَیْمُ اللّٰہِ، إنّ دِیمتی قد انہلّت من الرحمن، لا من مساعی الإنسان، ولذٰلک دعوتک أن تأتینی کصدیق حمیم، فأظہرتَ نفسک کصدید حمیم.وإنی أُیّدتُ من اللّٰہ القدیر، وأُعطیت عجائب من فضلہ الکثیر.ومن آیاتہ أنہ علّمنی لسانا عربیّۃ، وأعطانی نکاتا أدبیۃ، وفضّلنی علٰی العالمین المعاصرین.فإنْ کنتَ فی شکّ من آیتی، وتحسب نفسک حُدَیَّا بلاغتی، فتحامَ القالَ والقیل، واکتُبْ بحذائی الکثیر أو القلیل، وجَدِّدِ التحقیق ودَعْ ما فات، وبارِزْ فی موطن وعَیِّنْ لہ المیقات.وعلیّ وعلیک أن نحضر پس تو بجز ظن بدہیچ نکردی وبجز بیباکی ہیچ گونہ کلام نکردی.اے شیخ دنیا فانی است.وآنچہ باقی خواہد ماند آن ذات الٰہی است.وشخصے را بوقت شام در خوشحالی می بینی باز در صُبحی می بینی کہ اواز زندگان نیست.وموت آن مار را ہم میکشد کہ ازوا فسون کنندگان عاجزمی آیند.وہر چیز در معرض فناست و خدائے کہ نام او باقی است باقی خواہد ماند.وبخدا کہ باران پیوستہ من از خدا تعالیٰ ریختہ است نہ از کوشش ہائے انسان واز ہمین سبب ترا خواندہ بودم کہ ہمچو دوست صادق نزدم بیائی.پس خویشتن را ہمچو زرد اب ظاہر کردی.ومن از خدائے قدیر تائید یافتہ ام.واز فضل او کہ بسیار است عجائب اموردادہ شدہ ام.واز نشانہائے او یکے این است کہ او مرا علم زبان عربی بیا موخت.ومرا نکات آن زبان بخشید.ومرا بر عالمان این زمانہ فضیلت داد.پس اگر تو از نشان من درشک ہستی.ونفس خود را معارض بلاغت من می پنداری.پس ہمہ قال وقیل بگزار وبمقابل من کثیر نویسم یا قلیل بنویس.واز سر نو تحقیق کن وگزشتہ را ترک کن.ودر میدانے بمقابلہ من بیاو تاریخ حاضری مقرر کن.وبرمن وبرتو واجب خواہد بود کہ
یوم المیقات بالرأس والعین، ونناضل فی الإملاء کالخصمَین.فإن زدتَ فی البلاغۃ وحسن الأداء ، وجئت بکلام یسرّ قلوب الأدباء ، فأتوب علی یدک من کل ما ادّعیتُ، وأحرق کل کتاب أشعتُہ أو أخضیتُ۱ ، وواللّٰہ إنی أفعل کذلک، فانظُرْ أنی أقسمتُ وآلَیتُ.فارحَمِ الأمّۃ المرحومۃ، وعالِجِ الفتن المعلومۃ، فإن الفتن کثرت، والآفات ظہرت، وکُفِّرَ فوج من المسلمین من غیر حق والألسنُ فیہم طالت، فقُمْ رحمک اللّٰہ ولا تقعد کالمنافقین.ألا تستیقن أنک من العلماء الراسخین، والأدباء القادرین، ثم مع ہذا تعلم أن اللّٰہ مؤیّد الصادقین، ومُخزی الکاذبین، واللّٰہ مولٰی أہل الحق ولا مولٰی للمفترین.وإن لم تقدر علٰی المقابلۃ، ولم تقم للمناضلۃ، فرضیتُ بأن تُسْمِعَنی ما أکتُب من العبارات الأنیقۃ، والجمل الرشیقۃ، در روز مقرر بچشم وسر حاضر شویم.ودر املاء ہمچو دوخصم محاربہ کنیم.پس اگر تو در بلاغت وحسن ادا غالب آمدی.وکلامے آوردی کہ دل ادباء را مسرت رساند.پس من بردست تو از ہمہ آنچہ دعویٰ کردم توبہ خواہم کرد.وہر کتابے کہ شائع کردم یا ہنوز شائع نکردم خواہم سوخت.وبخدا من ہم چنین خواہم کرد.پس بہ بین کہ من قسم خوردہ ام.پس برامت مرحوم رحم کن.وفتن ہائے معلومہ را تدبیر فرما.چرا کہ فتنہ ہا بسیار شدہ اند.وآفت ہا بظہور آمدہ اند.و گروہ ے کثیر مسلمانان ناحق کافر قرار دادہ شدہ اند و زبان ہا در ایشان در از شدند.پس برخیز خدا بر تو رحم کند وہمچو منافقان منشین.آیا یقین نمی داری کہ تو از علماء راسخین و ادباء قادرین ہستی باز با این ہمہ میدانی کہ خدا مویّد صادق خواہد بود.وکاذبان را رسوا خواہد کرد.و خدا اہل حق را مولیٰ است ومفتریان را ہیچ مولیٰ نیست.واگر بر مقابلہ من قادر نتوانی شد.وبرائے معارضہ نتوانی برخاست.پس من بدین قدر ہم راضی ہستم کہ آن عبارات خوب وجملہ ہائے مرغوب کہ من نویسم مرا بشنوائی.
وکفانی لو فُزتَ بہٰذاالطریقۃ، وأظہرتَ ما قلتُ علی الحاضرین.ولکنی جَرّبتُکَ مُذْ أعوام، أنک لا تقوم فی مقام، ولا ترید قطع خصام، وتنحِت فی آخر الأمر حیلًا واہیۃ، ومعاذیر منسوجۃ کاذبۃ، وتفرّ کالمحتالین.فعلیک أن لا تحتال کأیام سابقۃ، وتحضر علی المیقات فی رِیاغۃٍ مقرَّرۃ، فإن کنتَ غالبًا وفاءَ أمرُک إلی غلبۃ ورشاد، فأَخفِض لک جناحَ انقیاد، وأتوب علٰی یدیک باعتقاد، کالذی قفَل من ضلال إلی سَداد.فأَلْفِتُ الیوم وجہی إلیک یا أبا المِراء، وإلٰی إخوانک من العلماء ، وأدعوکم إلٰی مأدُبتی الجَفَلَی، وأبلّغ دعوتی إلی أہل الحضارۃ والفلا، فعلیکم أن لا تعرضوا عن ہذہ الدعوۃ کما أبیتم ذات مرۃ فی الأیام السابقۃ، فإن ہذا یقضی بین الصادقین والکاذبین، وتتجلّٰی منہ آیۃ رب العالمین، وتستبین سبیل المجرمین.واگر بدین طریق کامیاب شدی.واز گفتار من حاضرین را مطلع گردانیدی مرا ہمین قدر کافی است.مگر من از سالہا ترا آز مودم کہ تو در ہیچ مقامے نتوانی ایستاد.ونمی خواہی کہ ہیچ خصومتے را قطع کنی.و در آخر کار حیلہ ہائے سست مے تراشی.وعذر ہائے از دروغ بافتہ درمیان می آری.ومثل حیلہ گران می گریزی.پس برتو لازم خواہد بود کہ ہمچو روز ہائے گذشتہ حیلہ ہا درمیان نیاری.وبروقت میعاد درکشتی گاہ مقررہ حاضر شوی.پس اگر تو غالب شدی وامر تو سوئے غلبہ وسامان رجوع کرد.پس برائے تو بازوئے اطاعت خمیدہ خواہم کرد.وبردست تو باعتقاد توبہ خواہم نمود.مثل آن کسے کہ از گمراہی سوئے صلاحیت رجوع کرد.پس امروز روئے خود سوئے تو وسوئے برادران تو از علماء متوجہ کردم.وشمارا سوء مہمانی عام خود می خوانم.وہمہ باشندگان شہر و جنگل را دعوت من است.پس برشما لازم است کہ ازین دعوت اعراض مکنید.چنانچہ پیش زین یکدفعہ انکار کردہ اید.چرا کہ این تجویز در صادقان وکاذبان فیصلہ خواہد کرد.وازو نشان خدا تعالیٰ ظاہر خواہد شد.وراہ مجرمان مکشوف خواہد گردید.
بید أنی لا أظن أن تحضُروا لفصل ہذہ القضیۃ، والرجاء منقطع منک ومن أمثالک فی ہذہ الخطّۃ، فکأنی أستنزل العُصْمَ من المَعاقل، أو أطلب الولد من الثاقل۱ ، أو أستقری الدُہْن من الحدید، أو أبغی الطِیب من الصدید، وأری أنی أرجع إلیکم کالخاطئین، وأضیع وقتی فی سؤالی من المحرومین.وإنی لم أفعل ذالک لو لم یکن مقصدی إتمام الحجۃ، وإظہار الحق علی الخاصۃ والعامۃ.وإنی أدعوکم أوّلاً إلی المباہلۃ، فإن لم تقبلوا فأدعوکم إلٰی أن یجیئنی أحد منکم لرؤیۃ آیتی ویلبث عندی إلی السنۃ الکاملۃ، وإنلم تقبلوا فأدعوکم إلی المناضلۃ فی العربیۃ، بالشریطۃ المذکورۃ والآتیۃ، وإن لم تستطیعوا فُرادیٰ فُرادیٰ، فما أضیّق الأمر علی من عادی، بل آذن لکم أن یجلس بعضکم بالبعض کالناصرین.مگر من یقین نمی کنم کہ برائے فیصلہ این مقدمہ شما حاضر خواہید شد.واز تو واز امثال تو درین کار بزرگ امید منقطع است.پس گویا کہ من بزہائے کوہی را از بلندی کوہ ہا میخوانم یا اززن فرزند مردہ فرزندمی خواہم.یا ازآہن دہن را تلاش می کنم.یا از زرداب خوشبو می جویم.ومی بینم کہ این خطا من است کہ سوئے شما متوجہ می شوم.وبسوال از محرومان وقت خودرا ضائع می کنم.ومن این چنین نکردمے اگر مقصد من اتمام حجت واظہار حق نبودے.ومن شمارا اول سوء مباہلہمی خوانم.پس اگر قبول نہ کنید پس این دعوت می کنم کہ تاسالے کسے از شما نزد من بماند.تانشانم بیند.واگر این ہم قبول نہ کنید.پس برائے معارضہ زبان عربی میخوانم.بشرطیکہ مذکور است ونیز آئندہ ذکر آن خواہد آمد.واگر یک یک طاقت ندارید.پس بر دشمنان خود امر را تنگ نمی کنم.بلکہ شمارا اجازت می دہم کہ بعض بعض را مددگار شوند.
ثم اعلم أیہا الشیخ الضال، والدّجال البطّال، أنّ الثمانیۃ الذین ہم ثمار عُودک، ووَقودُ وُقودِک، الذین أُدخِلوا فی التسعۃ المخاطبین، فمنہم شیخک الضال الکاذب نذیرُ المبشِّرین، ثم الدہلوی عبد *الحق رئیس المتصلفین، ثم عبد اللّٰہ التونکی، ثم أحمد علی السہارنفوری من المقلّدین، ثم سلطان المتکبّرین الذی أضاع دینہ بالکبر والتوہین، ثم الحسن الأمروہی الذی أقبلَ علیّ إقبالَ مَن لبِس الصفاقۃ وخلَع الصداقۃ، * الحاشیۃ:ھذا الرجل لا یحسب العربیۃ المبارکۃ ام الالسنۃ.بل ھی عندہ مستخرجۃ من العبریۃ.التی ھی لھا کالفُضلۃ.ویستیقن ان اثبات ھٰذہ الخطۃ عقدۃ مستصعبۃ الافتتاح.او کزندۃ مستعسرۃ الاقتداح.مع انا فزغنا من فتح ھٰذا المیدان.فی کتابنا منن الرّحمٰن.وسوف باز اے شیخ گمراہ ودجال بطال بدانکہ آن ہشت کہ میوہ ہائے شاخ تو.وہیزم آتش افروختہ تو ہستند آنانکہ در نُہ۹ مخاطبان داخل اند.پس یکے از آنہا شیخ گمراہ و دروغگوتست کہ نذیر حسین است کہ بشارت یافتگان رامی ترساند.باز عبد الحق دہلوی کہ رئیس لاف زنان است.باز عبد اللہ ٹونکی.باز مولوی احمد علی سہارنپوری از مقلدان باز مولوی سلطان الدین جیپوری ست کہ از تکبر وتوہین دین خود را ضائع کرد.باز محمد حسن امروہی کہ سوئے من ہمچو بے حیایان متوجہ شد.واز راستی خود را دور افگند.این شخص عربی مبارک را ام الالسنہ نمی پندارد.بلکہ عربی نزدیک او از عبرانی خارج کردہ شد است.حالانکہ عبرانی عربی را مثل فضلہ است.واین شخص یقین می کند کہ عربی را ام الالسنہ قراردادن کارے مشکل است کہ نتواند شد.یا مثل سنگے است کہ ازان آتش بیرون نتواند آمد حال آنکہ ما از فتح این میدان فراغت یافتیم.واین فراغت در کتاب
واعتلقتْ أظفارہ بعِرضی کالذِیاب، ومِخْلبُہ بثوبی کالکلاب، ونطق بکَلِمٍ لا ینطق بمثلہا إلا شیطان لعین.وآخرہم الشیطان الأعمٰی، والغُول الأغوی، یقال لہ رشید الجنجوہی، وہو شقیّ کالأمروہی ومن الملعونین.فہؤلاء تسعۃُ رہطٍ کفّرونا، أو سبّونا وکانوا مفسدین.ونذکر معہم الشیخین المشہورین، یعنی الشیخ إلہ بخش التونسوی، والشیخ غلام نظام الدین یشاع فی الدیار والبلدان.فیومئذ تسودّ وجوہ المنکرین.وانا نُصرنا فی افکارنا وایّدنا فی انظارنا.من اللّٰہ ربّ العالمین.ودسنا فیہ کل دَوْس.الذین یقولون انّ العربیۃ.ما سبق غیرہٗ بطوس.بل ھی کاللباس المستبذل او الوعاء المستعمل و کشیءٍ ھو سقط صلفۃ غیر معین.وانا اثبتنا دعوانا حق الاثبات.وارینا الامر کالبدیھیات.مصیبین غیر مُسقطین.وناخن ہائے ہمچو گرگان بآبروئے من آویخت.وپنجہ ہمچو سگان بجامہ من درآویخت.وسخنانے برزبان خود آو رد کہ بجز شیطان لعین ہیچکس بدان گونہ تکلم نکند.واز ہمہ آخر شیطان کو راست ودیو گمراہ.کہ اورا رشید احمد گنگوہی مے گویند.واو ہمچو محمد حسن امروہی بدبخت است وزیر لعنت خدا تعالیٰ است.پس این نُہ شخص اند کہ تکفیر ما کردند ودشنامہا دادند.واز مفسدان ہستند.ومابا اوشان دو مشہور شیخ را نیز ذکر می کنیم.یعنی شیخ الہ بخش تونسوی وشیخ غلام نظام الدین بریلوی منن الرحمن شدہ است.و عنقریب آن کتاب در شہر ہا شائع کردہ خواہد شد.پس درآن روز روئے منکران سیاہ خواہد گردید.و مادر فکر ہائے خود و نظر ہائے خود از خدا تعالیٰ تائید یافتیم.و ما آنانرا کہ میگویند کہ عربی در حسن خود بر غیر خود سبقت نبردہ است بلکہ آن مثل لباس کار آمدہ یعنی کہنہ و ظرف مستعمل یعنی بیکار است و مثل چیزے ردی بے سود است کہ ہیچ نفع نہ بخشد درآن کتاب بخوبی پامال کردیم.و ما دعویٰ خود را چنانکہ حق ثابت کردن است تا ثابت کردیم.وامر مقصود رامثل بدیہیات نمودیم.و
البریلوی، وإنہما من المعرضین، فندخلہم فی الذین خاطبناہم لیکونا من المصدقین أو المکذبین.وما نقول فیہم شیءًا إلا بعد أن یُرینا اللّٰہ وہو أعلم بما فی صدور العالمین، بید أننا نجعلہما غرضًا لہذہ المخاطبات، وندعوہما للمباہلۃ أو رؤیۃ الآیۃ أو للمناضلۃ فی عربی مبین.فیا حسرۃ علٰی وَہْنِ آراء علمائنا الجہلاء ! إنْ ہم إلاَّ کالعجماء ، ولا یدرون مناہج تحقیق الأشیاء ، وما کانوا متدبرین.کثرت البدعات وعمَّ البلاء ، وکلَّ طرف فتنۃٌ صَمّاء والعلماء السفہاء ، فارحَمْ عبادک یا أرحم الراحمین.وأمّا سبب ہذا الخطأ الأزحل، فاعلم أنہم قوم رغبوا فی فُضالۃ المآکل، وما جاہدوا لتجدید المنہل، وما حبسوا أنفسہم علی معارک التحقیقات، بل رضُوا کطبائع خرقاء بالتقلیدات، وأطلقوا جُرْدَ الإمعان والإثبات، کالمتغافلین واین ہر دو از اعراض کنندگان ہستند.پس ما ایشانرا نیز ہم در آنان داخل میکنیم کہ مخاطب ماہستند تا از زمرہ مصدقان شوند یا از مکذبان.وما درحق ایشان چیزے نمی گوئیم.مگر آنچہ خدا تعالیٰ بر ماظاہر کند.واو ہرچہ درسینہ ہائے مردم است خوب می داند.مگر این است کہ ما ہر دو را ہمچو برادران اوشان نشانۂ این مخاطبات می سازیم.وایشانرا برائے مباہلہ یا برائے دیدن آیات یا برائے مقابلہ انشاء عربی می خوانیم.برراہ صواب رفیتم وہیچ غلطی نکردیم.پس برسستی رائے علماء ماکہ درحقیقت جاہل اند حسرتہاست.ایشان مثل چارپایہ ہستند.وطریقہ تحقیق اشیاء را نمی دانند ومتدبر نیستند.بدعتہا وبلاہا بسیار شدہ اند.ودر ہر طرف فتنہ خطرناک است.وعلماء این سفیہان ہستند.پس خدایا بر بندگان خود رحم کن.وسبب این خطا کہ دور از حقیقت است این است کہ این مردم درفضلہ خوردہ دیگران رغبت کردہ اند وخود برائے تازہ کردن چشمہ کوشش ننمودند.ونفسہائے خود را برمعرکہائے تحقیقات ضبط نکردند.بلکہ ہمچو طبیعتہائے غرق جہالت بہ تقلید راضی شدند.واسپان فکر وثبوت بہم رسانیدن را از دست خود چون لاپروایان
وأما الآخرون الذین سمَّوا أنفسہم مولویین، مع کونہم مِن الغاوین الجاہلین، فننزّہ الکتاب عن ذکرہم ولا ننجّس الصحیفۃ من کثرۃ ذکر الخبیثین من غیر ضرورۃ، وإنہم من الجاہلین المعلَّمین، الذین یقلّدون أکابرہم ولیسوا من المتدبّرین.فأیہا الشیخ إنی أعلم أنک رئیس ہذہ الثمانیۃ، وکمثلِ إمامٍ غیر مبالین.وإنّا إذا فَحّصنا حق الفحص الدقیق، وبلّغنا الأمر إلٰی أقصٰی مراتب التحقیق، فانکشف أن الألسن کلہا مأخوذۃ مِن العربیۃ، ومستخرَجۃ من خزائن ہذہ اللہجۃ، والآن موجودۃ کالوجوہ الممسوخۃ المغیَّرۃ الملوَّحۃ، وکالمجروحین المضروبین.وقد بُدّل نظامہا، وغُیّر موضعہا ومقامہا، وأُخرِجَت من جواہر منتظمۃ، وسلسلۃ ملتئمۃٍ، وتاہتْ کالمتفرّقین.فکأن بعضہا الیوم علی رَباوۃٍ، وبعض آخر فی وَہْدٍ متّکِءًا علی ہَراوۃ، والبعض مگر آن دیگر مردمان کہ باوجود جاہل بودن نام خود مولوی نہادہ اند پس ماکتاب را از ذکر اوشان پاک می داریم واین رسالہ را از کثرت ذکر خبیثان نجس نخواہیم کرد وایشان آن جاہلان ہستند کہ در شرارتہا تعلیم دادہ شدہ اند.ومقلد اکابر خود ہستند واز تدبر کنندگان نیستند.پس اے شیخ من می دانم کہ تورئیس این ہشت۸ کس ہستی.واین گروہ باغی را مثل رہا کردند.وما چون بنظر دقیق تفحص کردیم.وکار راتا نہایت درجہ تحقیق رسانیدیم پس ظاہر شد کہ ہمہ زبانہا از عربی ماخوذ اند.واز خزائن این زبان خارج شدہ اند.واکنون ہمچو روہائے تغیر یافتہ وسوختہ ومجروح ومضروب موجود اند.ونظام آن زبان ہا مبدل کردہ شد.وموضع ومقام آنہارا تغیر دادہ شد.واز جواہر منتظمہ وسلسلہ ہائے باہم پیوند یافتہ خارج کردہ شد.وہمچو تفرقہ یابان آوارہ شدند پس بعض آن گویا برپشتہ استادہ است.و بعض در زمین پست بعصا تکیہ کردہ.و بعض بچادر روئے
لتلک الفءۃ الباغیۃ، وہم لک کالتلامیذ فی الغوایۃ أو کالمسحورین.فَأْتِنی بخیلک ورَجِلک، واجمَعْ کلّ دجلک وانحَتْ أنواع الافتنان، وأْتِنی مع جموعک من أہل العدوان، وصُلْ علیّ کحبشیٍّ صَال علی کعبۃ الرحمٰن، ثم شاہِدْ قدرۃ اللّٰہ الدّیّان.فإن أعرضتم وحسرتم، وواریتم الوجوہ وفررتم، لفّعَ وجہہ برِداء ، ونُکِّرَ شخصہ کغُرماء.ومنہا ألفاظ کأنہا دُفنت وبوعدت من الأتراب، وہِیْلَ علیہا الزوائد کہَیْلِ التراب، وإنّا نعرفہا الیوم کرجال تکلموا فی الأجداث، وبُعِثوا بعد ما سُمِعَ نَعْیُہم بنوازل الانبثاث، أو کإلِْفٍ یُفقَد، ویُسترجَع لہ بعد مناحۃ تُعقَد، فخرجت الآن کنعش المَیت، أو الغلام الفارّ مِن البیت، أو النسیب المہجور من الأقارب، أو الابن الغائب الہارب.فمنہا لفظٌ ما رأَی انثلامَ حَبّۃٍ، وقفَل کما سافر بسلامۃٍ وصحۃ.ومنہا امام قائم شدی.واین مردم ترا مثل شاگردان در گمراہی ہستند یا ہمچو کسانے کہ برایشان جادو کردہ باشند.پس باسواران خود وپیادگان خود نزدم بیا.وہمہ دجل خود را وہمہ قسم فتنہ را بتراش.وباجماعتہائے خود از اہل تجاوز نزدم بیا.ومثل آن حبشی برمن حملہ کن کہ بر کعبہ مکرمہ حملہ کردہ بود.باز قدرت خدائے جزا دہندہ را بہ بین.پس اگر شما اعراض کنید و درماندہ شوید.و روہا را بپوشانید وبگریزید.خود را پوشیدہ.وہمچو قرضداران شکل خود نہفتہ.وبعض چنین لفظ اند کہ گویا آنہا دفن کردہ شدند.و از ہم زادان دور انداختہ شدند وبر آنہا ہمچو خاک زوائد انداختہ شدند.وما امروز آن الفاظ را بد انسان می شناسیم کہ کسانے شناختہ می شوند کہ در قبرہا گفتگو کنند وبعد زانکہ از حوادث پراگندگی خبر موت ایشان رسد باز از قبربیرون آیند.یا مثل دوستے کہ مفقود الخبر باشد وبعد انعقاد مجلس ماتم بر وانّا للہ گفتہ شود.پس اکنون آن لفظ ہامثل لاش میّت بیرون آمدہ اند.یا مثل آن غلام آمدہ اند کہ از خانہ گریختہ بود.یا مثل آن عزیز قریب النسب کہ از اقارب خود جدا شدہ بود.یا مثل آن پسر کہ گمشدہ وگریختہ بود.پس ازان لفظہا آن لفظ است کہ یک حبہ نقصان او
فتقع الحجۃ علیکم إلٰی أبد الآبدین، ویعرف الذین یلقَفون منک القول المجہول والہذیان المفتول، أنک کنت من الکاذبین.فیبکون علیک کما یُبکَی علٰی الخاسرین، ویسترجعون کما یُسترجَع للمصابین، فتصبح کالمخذولین.فناجِ نفسَک فی القبول أو الإعراض، مِن قبل أن تُذبح کالعِرباض، وتلحق بالملومین.ما رأی أثر الاستلام، حتی بلغ إلی الاخترام، وبکتْ علیہ ورثاؤہ کالنوادب،بعد ما کان کأرباب المآدب، وصار کالجنائز بعد ما کان من أہل الجوائزوما ہذا مِن الدعاوی التی لا دلیل علیہا، ولا من الأمور التیلا یوجد الحق لدیہا، بل عندنا ذخیرۃ من ہذہ النظائر، ووجوہ شافیۃللمرتاب الحائر.والذین مارسوا اللغات وفتّشوہا، واطّلعوا علی عجائب العربیۃ وشاہدوہا، فأولئک پس حجت الٰہی برائے ہمیشہ برشما خواہد افتاد.وآنانکہ از تو قول مجہول رامی گیرند.و ہذیان باہم بافتہ قبول مے کنند خواہند دانست کہ تواز دروغگویان ہستی.پس بر تو چنان خواہند گریست کہ برزیان کاران می گریند.وانا ِ للہ خواہند گفت چنانکہ بر مصیبت زدگان می گویند.پس ہمچو مخذولان صبح خواہی کرد.پس دربارہ قبول یاکنارہ کردن بانفس خود مشورہ کن قبل ازانکہ ہمچو شتر کشتہ شوی.وبانان ملحق شوی کہ مورد ملامت می باشند.نہشد.وچنانکہ سفر کردہ بود بسلامت وصحت باز آمد.واز آنہا لفظے است کہ اثر سودن را بدید تاآنکہ تابیخ کندن نوبت اور سید.ووارثان اومثل زنان ماتم کنندگان برو گریستند.بعد زانکہ ہمچو میزبانان بود کہ ضیافت می کنند.ومثل جنازہ ہاشد بعد زانکہ ازاہل بخشش بود.واین ازان دعویٰ ہا نیست کہ برو دلیلے نباشد.ونہ ازان امور است کہ حق نزد آن یافتہ نمی شود.بلکہ نزدما ازین نظیرہا ذخیرہ است وبرائے شک کنندہ حیران شوندہ وجوہ شافیہ موجود ہستند.وآنانکہ ممارست لغات کردند وتفتیش لغات نمودند.وبر عجائبات عربیہ اطلاع یافتند ومشاہدہ کردند.پس این مردم
وقد سمعتَ أن الشریطۃ الأولٰی التی أُحکِمتْ للمناضلۃ، ووجبتْ لکل من قام للمباحثۃ، ہو أن یأتی مناضل بکتاب من مثل ہذا الکتاب، النظم بعدّۃ یعلمون بعلم الیقین، ویستیقنون کعارف الحق المبین، أن العربیۃ متفرّدۃ فی صفاتہا، وکاملۃ فی مفرداتہا، ومعجِبۃ بحُسن مرکَّباتہا، ولا یبلغہا لسانٌ من ألسُن الأرضین.وأمّا الیونانیۃ والعبرانیۃ والہندیۃ وغیرہا، فتجد أکثر ألفاظہا من قبیل البَرْیِ والنحت، وشتّان ما بینہا وبین المفرد البحت.وذاک یدلّ علٰی أن تلک الألسنۃ لیست من حضرۃ العزّۃ، ولا من زمان بدء البریّۃ، بل تشہد الفراسۃ الصحیحۃ، ویُفتی القلب والقریحۃ، أنہا نُحِتت عند ہجوم الضرورات، وصِیغتْ عند فقدان المفردات، وسُرقتْ مفرداتہا من العربیۃ بأنواع الخیانات، ففکِّرْ إن کنت من الطالبین.و تو شنیدۂ کہ آن شرط کہ برائے مباحثہ پختہ کردہ شدہ است.وبرائے ہر مباحث واجب قراردادہ شدہ.آن این است کہ مقابلہ کنندہ کتابے مثل این کتاب بیارد.نظم بشمار نظم بعلم یقین ومعرفت کامل مے دانند.کہ زبان عربی درصفات خود ومفردات خود کامل ومتفرداست وباحسن مرکبات خود درعجیب اندازہ است.وہیچ زبانے از زبانہائے دنیا با او نمی رسد.مگر یونانی وعبرانی وہندی ودیگر زبانہا.پس تو اکثر الفاظ آنہا از قبیل تراش وخراش خواہی یافت.ودر مفرد خالص وہمچو مرکبات بسیار فرق است.واین امر دلالت می کند کہ این زبانہا از طرف خدا تعالیٰ نیستند.ونہ از ابتدائی پیدائش اند.بلکہ فراست صحیحہ و دل سلیم گواہی می دہند کہ این زبانہا بوقت ضرورتہا تراشیدہ شدہ اند وبر وقت فقدان مفردات از مرکبات کارگرفتہ اند.ومفردات را از عربی بطور دزدے گرفتہ اند.پس فکر کن اگر طالب حق ہستی.
النظم، والنثر بعدّۃ النثر، مع تسویۃ التوشیۃ والاختضاب.فإن أتیتم بکتاب من مثل ہذہ الرسالۃ، وفعلتم ذٰلک إلٰی شہرین لإراء ۃ الفضل و وہذا أمر ثبت بدلائل واضحۃ، وبراہین ساطعۃ، وعندنا ذخیرۃ عظیمۃ من مفردات إنکلیزیۃ، وجرمنیۃ، ولاطینیۃ، وروسیۃ، ویونانیۃ، وہندیۃ، وصینیۃ، وفارسیۃ، وألسُنٍ أخری من دیار بعیدۃ وقریبۃ، وقد أثبتنا أنہا حُرّفَت مِن کلِمٍ عربیۃٍ مطہَّرۃٍ، لو رأیتَہا لَمُلئت خَوفًا ورعبًا، ولأقررتَ بصدق کلامنا کالتائبین الراجعین.وقلتَ سبحان الذی جعل العربیۃ أُمَّ الألسنۃ، کما جعَل مکّۃَ أُمَّ القریٰ، وجعل رسولنا أُمِّیًّا لہذہ الإشارۃ، وجعَلہا خاتَمَ ألسُن العالمین، کما جعل رسولنا خاتَمَ النبیین، وجعل و نثر بشمار نثر وہم چنین در رنگینی عبارت برابری را ملحوظ دارد.پس اگر شما ہمچو این کتاب بیا وردید.و این کار را تا دو ماہ بجا آوردید واین آن امرے ست کہ بدلائل واضحہ وبراہین ساطعہ ثابت شدہ است.و نزد ما از مفردات انگریزی و جرمنی و لاطینی و روسی ویونانی و شاستری و چینی و فارسی و دیگر زبانہا ذخیرہ کلان است وثابت کردیم کہ آن ہمہ الفاظ ازکلمات عربیہ مطہرہ تحریف کردہ شدہ اند.اگر تو آن الفاظ رابہ بینی برتو خوف ورعب مستولی شود وبصدق کلام ما اقرار کنی ومثل تائبان ورجوع کنندگان شوی.وبگوئی کہ پاک آن ذات است کہ زبان عربی را مادر زبان ہا گردانید چنانچہ مکہ را مادر تمام آبادی ہا کرد.ورسول مارا بہر ہمین اشارہ اُمی نام نہاد و زبان عربی را برائے زبانہائے جہانیان خاتم الالسنہ گردانید.چنانکہ رسول ما را خاتم الانبیاء گردانید و قرآن را
الجلالۃ، فأجیئکم کالمعتذرین التائبین.وإن لم تقدروا فعلیکم أن تقرّوا بأنہ آیۃ من آیات الرحمٰن، لا مِن فعل الإنسان، وما أشقّ علیکم بعد إقرارکم القرآن أُمَّ الکتب، وجعلہ صُحُفاً مطہَّرۃً فیہا کُتب الأولین والآخرین.ثم سأل المعترض المذکور عن وجہ تسمیۃ بعض أسماء یحسبہا جامدۃ.فاعلم أنہا وکذٰلک أسماء أخری لیست جامدۃ حقیقۃ، بل ہو ظن الذین ما تدبّروا حق التدبر، واتبعوا روایات مسموعۃ، وحَرّموا علی أنفسہم أن یتعمّقوا کالمحققین.ألا یعلمون أن اللّٰہ علّم آدمَ الأسماء لیُکمِّلہ عِلمًا وحکمۃ؟ فما ظنہم..أَعَلّمہ أسماءً مُہمَلۃ؟ أیعزُون إلی اللّٰہ لغوًا خالیًا عن المعنی المکنون، ویجعلونہ واضعَ لغوٍ؟ سبحانہ وتعالی عما یظنون! ألا یعلمون أن الغرض مِنْ تعلیم الأسماء کان إفادۃً، والمہمل لا یزید معرفۃ ولا بصیرۃ، ویعلم کلُّ من لہ پس نزد شما ہمچو عذر آورندگان توبہ کنندگان خواہم آمد.واگر شما برپیش کردن نظیر قادر نشوید پس برشما لازم خواہد بود کہ اقرار کنند کہ این نشانے از نشانہائے خدا تعالیٰ است نہ از فعل انسان.وبعد اقرار کردن ہیچ بارے ام الکتب قرار داد وآنرا صحف مطہرہ کرد.ودر و خلاصہ تمام کتب درج کرد.باز معترض مذکور ازوجہ تسمیہ بعض آن اسماء سوال کردہ است کہ آنہا را جامد می پندارد.پس بدان کہ نہ آن اسماء ونہ دیگر اسماء بوجہ حقیقت جامد ہستند.بلکہ این ظن کسانے است کہ تدبر نکردند.چنانکہ حق تدبر است وروایات مسموعہ را پیروی نمودند.واین امر بر نفسہائے خود حرام گردانیدند کی ہمچو محققان تعمق بجا آرند.آیا نمی دانند کہ خدا تعالیٰ آدم علیہ السلام را اسماء بیا موخت تا اورا علم و حکمت بیا موزد.پس آیا گمان ایشان این است کہ خدا آدم را اسماء مہملہ وبے معنی بیا موخت آیا سوئے خدا لغوے را منسوب می کنند کہ از معنی مقصود خالی است.وخدا تعالیٰ را وضع کنندہ لغو قرارمی دہند.
إلا أن تصافونی مصدِّقین.ذٰلک خیر الطرق وأحسن الانتظام، وفیہ أمن للفریقین من تکالیف السفر ومتاعب ترک المقام، وحرج آخر لا بد منہ حظ من الدہاء أنّ عدم عِلم الأشیَاء لا یَدل علٰی عَدم الأشیاء، وإنّا لا نعلم منافع کثیر من المخلوقات، معہ أنہ لا یُقال إنہا خالیۃ من النفع فی علم ربِّ الکائنات.بل الاعتلاق بمثل ہذہ الأوہام، من سیر الجہلاء السفہاء اللئام، فاتق اللّٰہ ولا تَعْزُ المہملات إلٰی منبع الحق والحکمۃ، فإن اللّٰہ ما علّم آدم إلا معانی الأسماء التی ہی مفاتیح الأسرار المخزونۃ.ومن أجلی البدیہیات أن الشریعۃ الکبری الأبدیۃ والملّۃ المحیطۃ الکاملۃ تقتضی أن تنزل بلسان تکونُ أکمل الألسنۃ، وأوسع الأوعیۃ، ولا سیّما شریعۃ جاء ت برشما نمی نہم مگراینکہ بامن بحالت تصدیق دوستی کنید.این بہترین طریقہ ہا واحسن انتظام است.ودرین ہر دو فریق را از تکالیف سفر و رنج ترک مقام امن است ودیگر حرجہا کہ مسافران را ضرور خدا تعالیٰ از ین بدگمانی ہا پاک وبلند تراست.آیا نمی دانند کہ غرض از تعلیم اسماء افادہ بود.ومہمل نہ معرفت را زیادہ می کند ونہ بصیرت را.وہر شخصے کہ اورا بہرہ از دانش است میداند کہ عدم علم شی برعدم شے دلالت نمی کنددما برمنافع بسیارے از مخلوقات اطلاع نمی داریم باوجود اینکہ این گفتہ نمی شود کہ درحقیقت آن اشیاء درعلم خدا تعالیٰ خالی از نفع ہستند بلکہ بمثل این وہم ہا آویختن سیرت جاہلان است.پس از خدا بترس ومہملات را سوئے آن ذات نسبت مکن کہ منبع حق وحکمت است.زیرا کہ خدا تعالیٰ آدم علیہ السلام را ہمان معانی اسماء تعلیم کرد کہ اسرار مخز ونہ را کلید بودند.ونیز این امر اجلی۱ بدیہیات است کہ شریعت کبریٰ ابدیہ کہ شریعت اسلام است تقاضا می کنید کہ در زبانے نازل شود کہ اکمل الالسنہ باشد و ظرف او از ہمہ ظرفہا وسیع تر باشد.خصوصاً آن شریعت کہ چنین
للمسافرین.ثم إن اتفق بعدہ أنکم ظننتم لی الظنون، وزعمتم أنہ ألّفہ الشامیون، أو أعان علیہ قوم آخرون، فأقبَلُ أن تناضلونی بالمشافہۃ، بعد أن تقرّوا بأنکم بکتاب فیہ إعجاز البلاغۃ والفصاحۃ، وہو یطلب عبارات من مثلہ من جمیع الألسن وکافّۃ البریّۃ.فأنت تعلم أن ہذا الإعجاز تحتاج إلی کمال اللسان، ویقتضی أن یکون ظرفہا وَسِیعًا کمثل قُوی الإنسان.فإن اللسان کوِعاءٍ لمتاع البیان، وکصدف لدُرر العرفان.فلو فرضنا أن لسانًا أخری أکملُ من العربیۃ، فلزِمنا أن نُقرّ أنہا أسبق منہا فی میادین البلاغۃ، وأنسب لحسن أداء المعارف الدینیۃ، فکأن اللّٰہ أخطأ فی ترکہ إیّاہ، وإنزالہ القرآن فی ہذہ اللَّہجۃ الناقصۃ.فتُبْ أیہا المسکین ولا تتبع أہواء النفس الأمّارۃ، واتّقِ غشاوۃَ الجہل والعصبیّۃ، پیش می آیند.باز اگر این امر پیش آمد کہ شمارا برمن بدگمانی ہا پیداشد و گمان کنید کہ این کتاب را شامیان تالیف کردہ اند یا قومے دیگر بران مدد کردہ است.پس قبول خواہم کرد کہ بالمواجہ بامن معارضہ کنید.بعد زین کتابے آرد کہ از روئے بلاغت وفصاحت معجزہ ہست.واز ہمہ زبانہا نظیر بلاغت می جوید.پس تو میدانی کہ این اعجاز بسوئے کمال آن زبان محتاج است کہ در واین کتاب نازل شد.ومی خواہد کہ ظرف آن زبان چنان وسیع باشد کہ ظرف قوتہائے انسان وسیع است چرا کہ زبان برائے متاع بیان مثل آوندی است.یا ہمچو صدف است برائے در ہائے معرفت.پس اگر این فرض کنیم کہ زبانے دیگر از عربی اکمل است.پس مارا لازم خواہد بود کہ اقرار کنیم کہ آن زبان درمیدانہائے بلاغت از عربی سبقت ہا دارد.وبرائے ادائے معارف دینیہ انسب واولیٰ ہمان زبان است.پس گویا خدا تعالیٰ خطا کرد کہ آن افضل زبان را ترک نمود.ودر عربی کہ ازان فرو تراست قرآن شریف را نازل فرمود.پس اے مسکین توبہ کن.وہواء نفس ا مّار را پیرو مباش.و از پردہ جہل وتعصب کنارہ کن
عجزتم من نوع تلک المقابلۃ، ولکم أن تقولوا إنّ ہذا إنشاء الشامییّن ولا قِبَل لنا ولا ترفع رأسک کالمجترئین.وأمّا قولک أن لفظ التحت والتراب والمِیزاب أسماء جامدۃ لا یثبتُ اشتقاقہا من الکتاب، فہذا خطأ منک ومن أمثالک، وفسادٌ نشَأ من درایتکم الناقصۃ، لا من قصور شأن العربیۃ المبارکۃ الکاملۃ.أیہا المسکین! إن لفظ التحت کان فی الأصل طِیَّۃ، ومعناہ ما کان تحت القدم وحاذَی الفوقَ جہۃً، ثم بُدّل الطاء بالتاء والیاء بالحاء بکثرۃ الاستعمال، ونظائرہ کثیرۃ، وشہد علیہ کثیر من الرجال ولو کنت من الغافلین.ثم لیس لفظ التحت جامدًا کما ہو زعمک من الجہالۃ، بل تصریفہ موجود فی کتب القوم وأہل ہذہ الصناعۃ.وفی الحدیث: لا تقوم الساعۃ حتی تظہر التُحوت.أی قوم أراذل لا یَؤبَہُ لَہُم یکون لہم الحکم والجبروت، ویکونون من المکرمین.وأما التُراب فاعلم أن ہٰذا اللفظ مأخوذ من لفظ التِرْب، وتِرْبُ الشیء : الذی خُلق مع ذٰلک اقرار کہ از مثل این مقابلہ عاجز آمدہ اید.وشمارا اجازت است کہ بگوئید کہ این تالیف شامیان است.وماباشامیان وہمچو بیباکان سرخود بلند مکن.مگر این قول تو کہ لفظ تحت وتراب ومیزاب الفاظ جامد ہستند کہ اشتقاق آنہا بکتاب ثابت نمی شود.پس این خطاء تو وامثال تست واین فسادے است کہ از قصور درائت ناقصہ شما پیدا شدہ است.نہ قصور عربی کہ مبارک وکامل است.اے مسکین لفظ تحت دراصل طیتہ بود.ومعنی او ہرچہ زیر قدم باشد.وفوق رامحاذی افتادہ باشد.باز طاء را بہ تاء بدل کردہ شد.ویاء را بہ حاء از کثرت استعمال.ونظیر ہائے این بسیار اند وبران گواہی مردان این لغت است اگرچہ تو از غافلان باشی.باز لفظ تحت جامد نیست چنانچکہ از نادانی زعم تست.بلکہ درکتاب ہائے قوم واہل این صناعت تصریف آن موجود است.ودرحدیث است کہ قیامت برپا نخواہد شد تاوقتیکہ تحوت پیدا نشوند.اے کسانیکہ حقیر بودند.ومردم ایشانرا چیزے نمی دانستند.حکومت ومرتبہ ایشانرا مسلم خواہد شد مگر تراب پس بدان کہ این لفظ از لفظ ترب ماخوذ است.وترب شی نزد عرب چیزے ست کہ ہمراہ آن چیز پیدا
بالشامیین، أو تقولوا إن ہذا مِن علماء آخرین، ولا طاقۃ لنا بہم إنہم مِن الأدباء الشیء عند أہل العرب.وقال ثعلب: تِرْبُ الشیء : مثلُہ وما شابَہَ شیءًا فی الحسن والبہاء.فعلٰی ہٰذین المعنیین سُمِّیَ التراب ترابًا لکونہا فی خَلقہا تِرْبَ السماء ، فإن الأرض خُلِقت مع السماء فی ابتداء الزمان، وتشابہَا فی أنواع صُنع اللّٰہ المنّان.وکذٰلک خلَق اللّٰہ سبع سماوات منوّرۃ من الشمس والقمر والنجوم، وخلق کمثلہن سبعَ أرضین منوّرۃ من الرسل والأنبیاء وورثاۂم من أہل العلوم.ولعل لفظ ’’سبع أرضین‘‘ کان إشارۃ إلٰی عِدّۃ الأقالیم، واللّٰہ أعلم بما أراد مِن ہذا التقسیم، وہو یعلم ما فی العالمین.وقال ’’ابن بُزُرج‘‘: کل ما یصلح فہو متروب بعد الإصلاحات، فالأرض تراب لما أصلحہا اللّٰہ بالعمارات والفلاحات.فخُذْ من ہٰذین المعنیین ما ہو عندک محبوب، واترُکْ سیر المستعجلین.وأمّا لفظ المِیْزاب، فلو فکّرتَ فیہ کأولی الألباب لکنتَ من المتندّمین.أیہا المحروم مقابلہ نتوانیم کرد.یا این بگوئید کہ این تالیف دیگر مولویان است وما طاقت مقابلہ اوشان نداریم زیرا کہ اوشان شود.وثعلب گفتہ کہ ترب چیزے آن چیزے باشد کہ بخوبی خود با و مشابہت دارد.پس برین معنی زمین ترب آسمان است.چرا کہ زمین در ابتداء زمانہ ہمراہ آسمانہا پیدا کردہ شدہ.ودر انواع صنع خدا تعالیٰ باہم مشابہت می دارند.وہم چنین خدا تعالیٰ ہفت۷ آسمان پیدا کرد وآن ہر ہفت را بآفتاب وماہ وستارہ ہا روشن کرد.ومثل آسمانہا ہفت زمین پیدا نمود.ودرو پیغمبران و وارثان پیغمبران بیا فرید.وشاید از لفظ ہفت زمین اشارہ سوئے ہفت اقلیم باشد.وخدا خوب می داند کہ ازین تقسیم مراد چیست.وخدا تعالیٰ ہرچہ درجہانیان است میداند.وابن بزرج فرمودہ است کہ ہر چیز کہ اصلاح کردہ شود آنرا متروب گویند.پس زمین تراب است چرا کہ خدا تعالیٰ برائے آبادیہا وکشا ورزی ہااصلاح آن فرمودہ است.پس ازین ہر دومعنے ہر معنی کہ تراپسند افتد اختیار کن وسیرتہائے شتابکارانرا ترک فرما.مگر لفظ میزاب پس اگر در وہمچو دانشمندان فکر کنی.البتہ شرمندہ شوی.اے آنکہ از خوانہائے
الکاملین، أو تقولوا إنہ من المولوی الحکیم نور الدین، فما لنا أن نناضل بہٰذا الفاضل الأجلّ، إنّا من الجاہلین الأمیین.وإنی بعدہ سأجید قِبَلاً مُشافِہًا، من موائد الأدب! اعلم أن ہذا اللفظ مشتقّ من لفظ الأَزْب، یُقال أزَب الماء : أی جرَی.فارجِعْ یا خادِع النَّوکَی إلی ’’لسان العرب‘‘ أو کتب أخری، ولا تُہلِکْ نفسک فی غیابۃ جُبِّ الجاہلین.وإنی ترکت بعض ألفاظک المعروضۃ خوفا من الإطناب لا من الاستصعاب، بل ہی أظہَرُ اشتقاقًا عند أولی الألباب، ففکِّرْ کطلاب الحق والصواب، وما أظن أن تفکّر کالعاقلین.فسلام علیکم لا نبتغی الجاہلین.ألستَ ہو الرجل الذی قرأ عند ذکر بحث التوفی ’’تُوَفِّی ما ضمنتَ‘‘ استشہادًا، وما علِم فَرْقَ التفعّل والتفعیل غباوۃً وعنادًا؟ فہذا علمکم وفہمکم وفضلکم، ثم بہٰذا العقل کبرکم وزہوکم وبخلکم وتکفیرکم وتحقیرکم.فنعوذ باللّٰہ الحفیظ المُعین، مِن شرّ الخائنین الجاہلین المفترین.منہ ازادیبان کامل ہستند.یا بگوئید کہ این تالیف مولوی حکیم نور الدین صاحب است.پس ما طاقت نداریم کہ باین فاضل بزرگ مقابلہ کنیم چرا کہ ما از جاہلان وامیان ہستیم.ومن بعد این اقرار عنقریب روبروئے شما فی البدیہہ ادب محرومی.بدانکہ این لفظ از لفظ ازب مشتق است.اہل عرب می گویند ازب الماء یعنی جاری شد آب.پس برائے تسکین خود اے فریب دہندہ احمقان لسان العرب یادیگر کتب را بہ بین.ونفس خود را در تگ چاہ جاہلان ہلاک مکن.ومن بعض الفاظ کہ تو پیش کردی از خوف طول کلام ترک کردم نہ ازوجہ مشکلے.بلکہ آن الفاظ نزد خردمدان بیّن الاشتقاق اند.وہمچو طالبان حق وصواب فکر کن.و گمان نمی کنم کہ تو ہمچو عقلمندان فکر کنی.پس سلام برشماما با جاہلان مکالمہ نمی خواہیم.آیا تو ہمان نیستی کہ بروقت ذکر بحث توفیّ شعر توفیّ ماضمنت برشہادت دعویٰ خود خواندہ بود.واین ندانست کہ آن تفعل واین تفعیل است.بہ سبب غباوت وعناد کہ داشت.پس این علم وفہم شماست وفضل شما.باز بدین عقل کبر وناز وبخل وتکفیر وتحقیر است.پس ما پناہ خدائے نگہدارندہ مدد کنندہ از شرخائنان وجاہلان ومفتریان می گیریم.منہ
وأحسب ہذا الأمر تافہًا، فتعرفوننی بعد حین.إن الذین یکونون للّٰہ فیکون اللّٰہ لہم.ألا إن أولیاء اللّٰہ ہم الغالبون فی مآل الأمر علی المخالفین.کتب اللّٰہ لأغلبنّ أنا ورسلی، إن اللّٰہ لایُخزی عبادہ المأمورین.ہذا شرط بینی وبینکم، فسنّوا أنفسکم.ثم أنتم تعلمون أن فضیلۃالعلماء باللسان العربیۃ، وہی المفتاح لفتح أسرار العلوم الدینیۃ، وہی مدار فہم معارف الفرقانیۃ، والذی لیس من نحاریر الأدباء ، ولا کمثل نوابغ الشعراء ،فلا یمکن أن یکون من فحول الفقہاء ، والراسخین فی الشریعۃ الغراء ، أو من العارفین الفقراء ، بل ہو کالأنعام، وأحد من العوام والجاہلین.وأما الرجل الذی یقدر علی کلام غَضٍّ طَرِیٍّ فی ہذہ اللہجۃ، ویسلک عند نطقہ مسالک الفصاحۃ والبلاغۃ، ویعلم فروق المفردات وخواص التألیفات وکوائف الجُمل المرکّبۃ، فہو الذی جعلہ اللّٰہ رحیب الباع، خصیب الرِباع، فی ہذہ الخزائن العلمیۃ.ومن ادعی أنہ من الواصلین والفقراء العرفاء ، ولیس من عارفی ہذہ اللسان کالأدباء ، ففَقْرُہ لیس فقر سید الکونَین، بل ہو سواد الوجہ فی الدارَین.ولا تعجَبْ بہذا البیان، ولا تغضب قبل العرفان، فإن الذی یدّعی محبّۃ الفرقان، کیف یصدَأ ذہنہ فی ہذہ اللسان، وکیف تقاصَرَ مع دعاوی المحبۃ وشوق الجَنان، وکیف یمکن أن لا یتجلی لقلبہ لطف الرحمٰن، ولا یعلّمہ اللّٰہُ لسانَ نبیّہ سخنان بلاغت خواہم گفت.واین امر را چیزے اندک می شمارم.پس تاوقت قلیل مرا خواہید شناخت.آنانکہ برائے خدا می شوند خدا برائے اوشان می شود.خبردار باشید کہ اولیاء خدا را خاصہ است کہ درانجام کار ہمان گروہ غالب می شوند.خدا از قدیم نوشتہ است کہ من وفرستادگان من غالب شوندگان ہستند.خدا تعالیٰ بندگان مامور خود را رسوا نمی کند.این شرط در من و شماست.پس نفسہائے خود را بلند کنید.باز شمامی دایند کہ فضیلت علماء بزبان عربی است.وہمین زبان برائے کشودن راز ہائے علوم دینیہ کلید است.وہمین زبان فہم معارف قرآنیہ را مدار است.وآنکہ از ماہران علم ادب نیست ونہ مانند شاعران نابغہ پس اورا ممکن نیست کہ از فقہاء نرباشد ودرشریعت رسوخ داشتہ باشد یا از جملہ فقراء عارف باشد بلکہ او مثل چارپایان ویکے از عوام است.مگر آن مردے کہ بر کلام تازہ وتر درین زبان قادر است.و در وقت نطق بر راہ ہائے فصاحت وبلاغت می رود.وفرقہائے مفردات وکیفیت جملہ ہائے مرکبہ خوب می داند واز خواص تالیف کلمات بخوبی آگاہ است.اوآن شخصے است کہ خدا تعالیٰ اورا درین خزینہ ہائے علمی فراخ دست وبسیار مالدا ر گردانیدہ وہر کہ دعویٰ کرد کہ او از واصلان وفقراء عارفین است.وحالانکہ از شناسندگان این زبان نیست پس فقر او فقر سید الکونین صلی اللہ علیہ وسلم نیست بلکہ آن سیارہ روئے در ہر دو جہان است وبرین بیان ہیچ تعجب مکن.وقبل از شناختن غضب مکن.چرا کہ شخصے کہ دعویٰ محبت فرقان می کند چگونہ ذہن او درین زبان زنگ خوردہ تواند شد وباوجود دعویٰ محبت و شوق دل چگونہ در تحصیل این زبان کوتاہی تواند کرد.وچگونہ ممکن است کہ لطف رحمن دل او را روشن نہ کند.وزبان پیغمبر خود
266 بالامتنان.ثم إنہا معیَار لحُبّ الرسول والفرقان، فإن الذی أحبَّ العربیۃ فبحُبِّ الرسولؐ والفرقان أحبَّہا، ومن أبغضَہا فببُغض الرسولؐ والفرقان أبغضَہا، فإن المحبین یُعرَفون بالعلامات، وأدنٰی درجۃ الحبّ أن تَحُثَّک للمضاہاۃ، حتی تؤثِر طرق المحبوب وتجعلہا من المحبوبات، ومن لم یعرف ہذا الذوق فإنہ من الکافرین فی مشرب العاشقین.ومَن أحبَّ الفرقان وسیدنا خاتم الأنبیاء ، کما ہو شرط المحبۃ والوفاء ، فما أظن أن یبقی فی العربیۃ کالجہلاء ، بل یقودہ حبُّہ إلی أعلٰی مراتب الکمال، ویسبق کلَّ سابق فی المقال، ویصیر نطقہ کالدرۃ البیضاء ، ویُضمَّخ کلامہ بطِیب عجیب ویُودَع أنواعَ الصفاء ، ففکِّرْ کالمحبّین.ولولا الحب لما أُعطیتُہا، فمن الحب لقِیتُہا، فہذا آیۃُ حُبّی من أرحم الراحمین.والحمد للّٰہ علی ما أعطی وہو خیر المنعمین.از راہ انعام اورا نیا موزد.باز این زبان معیار محبت رسول وفرقان است.چرا کہ آن شخص کہ عربی را دوست داشت پس بوجہ محبت رسول وفرقان دوست داشت.وآنکہ باعربی بغض داشت پس بوجہ بغض او بارسول وفرقان بغض داشت.چرا کہ محبان بعلامتہا شناختہ می شوند.وادنیٰ درجہ محبت این است کہ ترا بر مشابہت آمادہ کند.تا بحدیکہ راہ ہائے محبوب ترا محبوب شوند.وہر کہ این ذوق رانشناسد پس او در مشرب عاشقان از کافران است.وہرکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم را وقرآن شریف را دوست دارد.چنانکہ شرط دوستی ووفاداری است.پس گمان نمی کنم کہ درعربی مثل جاہل بماند بلکہ محبت او اورابسوئے بلند ترین مرتبہ کمال خواہد کشید.ودرسخن ہر سبقت کنندہ را سبقت خواہد کرد.ونطق او مثل در تابان خواہد شد.وکلام اوبخوشبوئے عجیب معطر کردہ خواہد شد وانواع صفائی دادہ خواہد شد.پس ہمچو دوست دارندگان فکرکن واگر محبت نبودے من علم این زبان حاصل نکردے.پس محبت بود کہ مرا دیدار این کنانید.پس از خدا تعالیٰ این نشان محبت من است پس شکر خدائے کہ مرا این زبان عطا کرد و او از ہمہ منعمان بہتر است.عِلمی مِنَ الرحمٰن ذی الآلاءِ علم من از خدا تعالیٰ است کہ خداوند نعمت ہاست کَیفَ الوصُول إلٰی مَدارجِ شکرہِ چگونہ تامدارج شکر او توانیم رسید اللّٰہ مَولانا وکَافلُ أمرنا خدا مولائے ما متکفل امرما ست لولا عنایتہ بزمنِ تطَلُّبی اگر عنایت او در زمانہ پیاپی جستن من نبودے بشری لنا إنا وجدْنا مؤنسًا مارا خوشخبری باد کہ مامونسے یافتیم أُعطیتُ مِن إِلْفٍ معارفَ لُبَّہَا از دوستے من معارف دادہ شدہ ام باللّٰہ حُزْتُ الفضلَ لا بِدَہَاءِ وبذریعہ خدا فضیلت را جمع کردم نہ بذریعہ عقل نثنی عَلَیہ ولَیْس حولُ ثناءِ تعریف او می کنیم و نتوانیم کرد فی ہذہ الدّنیا وبَعْد فناءِ چہ درین دنیا و چہ در آخرت کادت تُعفِّینی سیولُ بکائی نزدیک بود کہ سیل ہائے گریہ مرا نابود کردندے ربًّا رحیمًا کاشِفَ الغَمّاءِ کہ رب رحیم دور کنندہ غمہاس أُنزلتُ مِن حِبٍّ بدار ضیاءِ و از محبوبے درجائے روشنی فرود آمدہ ام
267 نتلو ضیَاءَ الحقّ عند وضوحہِ لَسْنا بمبتاع الدجی بِبَراءِ ما روشنی حق را بعد ظہور او پیروی مے کنیم و تاریکی را بعد طلوع ماہ نتوانیم خرید نفسی نَأَتْ عن کل ما ہو مظلمٌ فأنختُ عند منوِّری وَجْنائی نفس من از ہمہ تاریکی ہا دورشد وناقہ خود را برآستانہ آنکس خوابانیدم کہ روشنی بخشندہ من است غلبَتْ علی نفسی محبّۃُ وجہہِ حتی رَمَیتُ النفسَ بالإلغاءِ برنفس من محبت او غالب شد تاآنکہ نفس را از میان افگندم لمّا رأیتُ النفسَ سدّتْ مُہْجَتی ألقیتُہا کالمَیْتِ فی البَیْداءِ چون دیدم کہ نفس من سد راہ من است پس او را ہمچو مردہ در بیابانے انداختم اللّٰہ کہفُ الأرض والخضراءِ ربٌّ رحیم ملجأُ الأشیاءِ خدا پناہ زمین و آسمان است خدائے رحیم جائے پناہ چیزہا بَرٌّ عَطوفٌ مأمَنُ الغرماءِ ذو رحمۃٍ و تبرُّعٍ وَ عَطاءِ نیکی کنندہ مہربان جائے امن مصیبت زدگان صاحب رحمت واحسان وبخشش أحدٌ قدیم قائم بوجودہِ لَم یتخذْ وَلَدًا ولا الشرکاءِ یکے است وقدیم است وقائم بالذات است نہ پسرے گرفت و نہ شریکے دارد ولہ التفرّد فی المحَامد کلہا ولہ علاء فوق کلّ علاءِ واو را در تمام صفات یگانگی است واورا بلندی برہر بلندی است العَاقلون بعَالَمین یَرونہُ وَالعَارفونَ بہ رأوا أشیاءِ عقلمندان بذریعہ مصنوعات او را می بینند وعارفان بذریعہ او مصنوعات را مشاہدہ می نمایند ہذا ہو المعبود حقًّا لِلْوَرٰی فَردٌ وَحیْد مَبدء الأضواءِ ہمین معبود حق برائے مخلوقات است فردست یگانہ و ابتدائے ہمہ نورہا ازوست ہذا ہو الحِبُّ الذی آثرتُہُ ربُّ الوری عین الہدی مولائی این ہمان محبوب است کہ اورا اختیار کردہ ام رب مخلوقات چشمہ ہدایت مولائے من ہاجتْ غمامۃُ حُبّہ فکأنّہا رکبٌ علٰی عُسْبُورۃِ الحَدْواءِ ابرمحبت او برانگیخت پس گویا آن ابر بر ناقہ باد شمال سواران ہستند ندعوہ فی وقت الکروب تضرّعًا نرضی بہ فی شدّۃ و رخاءِ در وقت بیقراری ہا ما اورا مے خوانیم ودر نرمی و سختی با او خوشنود ہستیم حَوجاءُ أُ لْفتہ أثارت حُرّتی ففدَی جَنانی صولۃَ الحَوجاءُ بادگرد الفت او خاص مرا پرانید پس دل من برحملہ آن بادگرد قربان شد أعطی فما بقیَتْ أمانی بَعْدہُ غمَرتْ أیادی الفیض وجہَ رجائی مرا چندان داد کہ آرزوئے دیگر نماند ودست ہائے فیض او روئے امید مرا بپوشید إنّا غُمِسنا مِن عنایۃ ربّنا فی النور بَعْد تمزُّق الأہواءِ ما از عنایت رب خود در نور غوطہ دادہ شدیم و ہوا و ہوس پارہ پارہ شد
268 إنّ المحبّۃ خُمِّرتْ فی مُہْجتی وأری الودادَ یلُوح فی أہبائی محبت در جان من خمیر کردہ شد ومی بینم کہ دوستی در دل من می درخشد إنی شربت کؤوس موت للْہُدٰی فوجدتُ بعد الموت عینَ بقاءِ من برائے ہدایت کاسہ ہائے موت نوشیدم پس بعد از موت چشمہ بقا یافتم إنی أُذِبتُ مِنَ الوداد و نارہِ فأری الغروبَ یسیل من إہرائی من از آتش محبت گداختہ شدہ ام پس اشکہا را می بینم کہ از گدازش من روان شدہ اند الدمع یجری کالسیول صبابۃً والقلب یُشوَی من خیال لقاءِ اشک مثل سیل ہا از شوق روان است ودل از خیال دیدار بریان مے شود وأری الوداد أنارَ باطنَ باطنی وأری التعشق لاحَ فی سِیمائی ومی بینم کہ دو ستے باطن باطن مرا روشن کردہ است وعشق در سیماء من ظاہر شدہ است الخَلقُ یبغُون اللذاذۃَ فی الہویٰ ووجدتُہا فی حُرقۃٍ وَ صَلاءِ مردم لذات را در ہوا و ہوس می جویند ومن لذت را در سوزش وسوختن یافتم اللّٰہ مقصد مُہْجَتی و أریدہ فی کل رشحِ القلم و الإملاءِ خدا مقصود جان من است ومن اورا بہر قطرہ قلم واملاء می خواہم یا أیّہا الناس اشربوا من قِربتی قد مُلأ من نور المفیض سِقائی اے مردمان ازمشک من بنوشید کہ از نور فیاض حقیقی مشک من ُ پراست قوم أطاعونی بصدق طویّۃٍ والآخرون تکبّروا لغطاءِ قومے است کہ از صدق مرا اطاعت کردند وقومے دیگر است کہ از پردہ نفس تکبر درزیدند حسدوا فسبّوا حاسدین ولم یزلْ حسَدتْ لئامٌ کلَّ ذی نعماءِ حسد کردند پس دشنام دادن وہمیشہ چنین است کہ لئیمان خداوند ان نعمت را حسد می کنند مَن أنکر الحقَّ المبین فإنّہُ کلبٌ وعَقب الکلبِ سِرْبُ ضِراءِ ہر کہ از حق ظاہر انکار کند او سگے است نہ انسان وپس آن سگ سگ بچگان ہستند کہ پیروی او می کنند آذَوا وسبّونی وقالوا کافرٌ فالیوم نقضی دَینَہم برِباءِ مرا ایذا دادند وسقط گفتند وگفتند کہ کافرے است پس امروز ما قرض ایشان بچیزے زیادہ ادامی کنیم واللّٰہِ نحن المسلمون بفضلہِ لکن نَزٰی جہلٌ علٰی العلماءِ وبخدا کہ ما از فضل او مسلمانان ہستیم لیکن برعلماء جہالت حملہ کردہ است نختار آثار النَّبیِّ وأَمْرَہُ نقفو کتابَ اللّٰہ لا الآراءِ ماآثار نبی صلی اللہ علیہ وسلم را اختیار مے کنیم و پیروی کتاب اللہ مے کنیم نہ پیروی رائے دیگر إنّا بَراءٌ فی مناہج دینہِ مِن کلّ زندیق عدوِّ دَہاءِ ما در دین او وراہ دین او از ہر ملحدے بیزاریم کہ دشمن عقل است إنا نطیع محمّدًا خیرَ الوریٰ نورُ المُہَیمن دَافِع الظَّلماءِ ما محمدصلی اللہ علیہ وسلم را پیروی می کنیم کہ نور خدا ودافع ظلمات است
269 أفنحن من قوم النصاری أکفَرُ وَیلٌ لکم ولہذہ الآراءِ آیا چہ ما از نصاریٰ کافر تر ہستیم ویل خدا برشما وبر رائے ہاشما یا شیخَ أرضِ الخبث أرضِ ’’بطالۃٍ‘‘ کفّرتنی بالبغض والشحناءِ اے شیخ زمین پلید زمین بطالت مرا از روئے کینہ وبغض کافر قرار دادی آذیتَنی فَاخْشَ العواقب بعدہُ والنّار قد تبدو من الإیراءِ مرا آزار رسانیدی پس از انجام بدخود بے خوف مباش وسنت الٰہی است کہ آتش از افروختن مے افروزد تبّتْ یداک تبِعتَ کلَّ مفاسدٍ زلّتْ بک القدمانِ فی الأنحاءِ ہر دودست تو ہلاک شود تو فساد ہا را پیروی کردی وبگوناگون قدمہائے تو لغزیدند أودیٰ شَبابُکَ والنوائبُ أخرفتْ فالوقت وقت العجز لا الخیلاءِ جوانی تو ہلاک شد و حوادث ترا قریب بہ پیرشدن کرد پس وقت تو وقت عجز است نہ وقت تکبر وناز تبغیْ تباریْ والدوائرَ مِن ہوٰی فعلیکَ یسقُط حجرُ کلّ بلاءِ تو ہلاکت من وگرد شہا برمن زہواء نفس خود میخواہی پس بر تو سنگ ہر بلا مے افتد إنی من المَولٰی فکیف أُ تَبَّرُ فاخْشَ الغُیُور ولا تَمُتْ بجفاءِ من از جانب خدا ہستم پس چگونہ ہلاک شوم پس از غیرت آن غیور بترس وبظلم خود موت را اخیتار مکن أفتضرِبنَّ علی الصَّفاۃ زجاجۃً لا تنتھرْ واطلبْ طریق بقاءِ آیا برسنگ شیشہ را می زنی خودکشی مکن وطریق باقی ماندن بجو اُتْرُکْ سبیل شرارۃ وخباثۃٍ ہَوِّنْ علیک ولا تمُتْ بعناءِ راہ شرارت وخباثت را بگذار برحال خود نرمی کن واز رنج ممیر تُبْ أیّہا الغالی وتأتی ساعۃٌ تمسی تعُضّ یمینَک الشلّاءِ اے غلو کنندہ توبہ کن وساعتے می آید کہ دست راست خود را کہ خشک شدہ است خواہی گزید یا لیت ما ولدتْ کمثلک حامِلٌ خفّاش ظلماتٍ عدوّ ضیاءِ کاش مادرے پسرے ہمچو تو نہ زادے کہ خفاش تاریکی و دشمن روشنی است تسعٰی لتأخذنی الحکومۃُ مجرمًا ویل لکلّ مزوِّر وَشّاءِ تو کوشش می کنی کہ حکومت مرا ہمچو مجرمے بگیرد بر ہر دروغ آرایندہ تمام واویلاست لو کنتُ أُعطیتُ الولاءَ لعُفْتُہُ ما لی ودنیاکم؟ کفانِ کِسائی اگر حکومت مرا دہندی ہر آئینہ کراہت کردمی مرا بدنیاء شماچہ تعلق است مرا کلیم خود کافی است مُتنا بموت لا یراہ عدوُّنا بعُدتْ جنازتنا من الأحیاءِ مابمرگے بمردیم کہ دشمن ماحقیقت آن نمی داند جنازہ ما از زندگان دور افتادہ است تُغری بقولٍ مفترًی وتخرّص حکّامَنا الظانین کالجہلاءِ بقول درہم بافتہ حکام را می انگیزی وحکام کسانے ہستند کہ ہمچو جاہلان بدگمان ہستند یا أیّہا الأعمٰی أتُنکر قادرًا یحمی أحبّتَہ من الإیواءِ اے کور آیا تو وجود خدا از تسلیم نمی کنی کہ محبان خود را خود نزد خود جا دادہ نگہ می دارد
270 أنَسیتَ کیف حمَی القدیر کلیمَہُ أو ما سمعتَ مآلَ شمسِ حِراءِ آیا فراموش کردی کہ چگونہ خدا موسیٰ علیہ السلام رانگہ داشت یا انجام کارآن مرد کہ آفتاب مطلع حراء ست نشنیدی نحو السّماء و أمرِہا لا تنظُرَنْ فی الأرض دُسَّتْ عینُک العَمْیاءِ چشم تو سوئے آسمان وحکم آسمان نیست بلکہ چشم نابینائے تو در زمین فرو رفتہ غرّتْک أقوالٌ بغیر بصیرۃٍ سُتِرتْ علیک حقیقۃ الأنباءِ چند اقوال بغیر بصیرت ترا مغرور کرد وحقیقت خبرہا بر تو پوشیدہ ماند أدخلتَ حزبک فی قلیبِ ضلالۃٍ أفہذہ من سیرۃ الصلحاءِ گروہ خود را در چاہ ضلالت افگندی آیا ہمین سیرت نیکان است جاوزتَ بالتکفیر من حدّ التقی أشَققتَ قلبی أو رأیتَ خفائی در کافر قراردادن از حد تقویٰ در گزشتی آیا دل مرا بشگافتی یا حال پنہانی مرا دیدی کَمِّلْ بخُبثک کلَّ کَیدٍ تقصدُ واللّٰہُ یکفی العبدَ للإزراءِ ہمہ مکرے کہ میداری بکمال رسان وبندہ را برائے پناہ دادن اللہ کافی است تأتیک آیاتی فتعرفُ وَجْہَہَا فاصبِرْ ولا تترُکْ طریق حیاءِ نشانہائے من ترا خواہند رسیدپس آنہا را خواہی شناخت پس صبر کن وطریق حیا را از دست مدہ إنی کتبتُ الکتبَ مثلَ خوارقٍ اُنظُرْ أعندک ما یصوب کمائی من کتابہا مثل خوارق نوشتہ ام آیا نزد تو چیزے است کہ ہمچو آب من بیارد إن کنت تقدر یا خصیم کقدرتی فاکتُبْ کمثلی قاعدا بحذائی اے خصومت کنندہ اگر ترا قدرت مثل قدرت من است پس بمقابلہ من نشستہ بنویس ما کنتَ ترضی أن تُسمَّی جاہلًا فالآن کیف قعدتَ کاللَّکْناءِ تو آن نبودی کہ بجہل خود راضی گشتے پس اکنون ترا این چہ شدکہ ہمچوزن ژولیدہ زبان نشستہ قد قلتَ للسّفہاء إنّ کتابہُ عَفصٌ یُہِیج القیءَ من إصغاءِ تو سفیہان را گفتی کہ کتاب او بد مزہ است از شنیدن قے می آید ما قلتَ کالأدباء قُلْ لِیْ بعدما ظَہَرتْ علیک رسائلی کقُیاءِ بگو تو مثل ادیبان چہ گفتی بعد زانکہ رسائل من تراقے آرندہ معلوم شدند قد قلتَ إنی باسل متوغلٌ سَمَّیتَنی صیدًا من الخیلاءِ تو می گفتی کہ من دلاور ودرعلم توغل ہا دارم ونام من شکار نہادہ بودی الیَوم منّی قد ہرَبتَ کأرنبٍ خوفًا مِنَ الإخزاء والإعراءِ امروز از من ہمچو خرگوشے بگریختی ازین خوف کہ رسوا خواہی شد وبرہنہ خواہی شد فَکِّرْ أما ہذا التخوّف آیۃٌ رعبًا من الرحمٰن للإدراءِ فکر کن آیا این نشان خدا تعالیٰ نیست کہ بر تو رعب انداخت تاترا آگاہ کند کیف النضال وأنتَ تہرُب خشیۃً اُنظُرْ إلٰی ذلٍّ مِنَ اسْتعلاءِ تو چگونہ بامن معارضہ توانی کرد واز خوف می گریزی این پاداش تکبر وناز کردن است
271 إنّ المہَیمِن لا یحبّ تکبّرًا مِن خَلْقہ الضعفاء دود فناءِ خدا تعالیٰ از آفریدگان خود کہ ضعیف وکرم نیستی ہستند تکبر پسند نمی کند عُفِّرتَ مِن سہمٍ أصَابک فاجءًا أصبحتَ کالأموات فی الجَہْراءِ از تیرے درخاک غلطانیدہ شدی کہ بناگاہ ترارسید ودر بیابان ہمچو مردگان صبح کردی الآن أین فررتَ یا ابنَ تصلّفٍ قد کنتَ تحسبنا مِن الجہلاءِ اکنون اے پسر لاف ہا کجا گریختی وتو مارا از جہلاء پنداشتی یا مَن أہاج الفتن قُمْ لنضالنا کنا نعدّک نَوْجۃَ الحَثْواءِ اے آنکہ فتنہ ہا انگیخت برائے پیکار ما برخیز ماترا گردباد جائے غبار می پنداشتیم نطقی کَمَوْلِیِّ الاءَسِرَّۃِ جَنّۃٍ قولی کقِنْوِ النخل فی الخَلْقاءِ نطق من مثل آن باغے است کہ بروادئ او باران رحم باریدہ باشد وسخن من چون خوشہ نخل است کہ در زمین نرم باشد مُزِّقتَ لکنْ لا بضرب ہَراوۃٍ بل بالسیوف الجاریات کماءِ تو پارہ پارہ کردہ شدی مگر نہ بضرب عصا بلکہ بہ شمشیر ہا کہ ہمچو آب روان بودند إن کنت تحسدنی فإنی باسِلٌ أُصلِی فؤاد الحاسد الخطّاءِ اگر تو بامن حسدمی کنی پس من مردے دلاورم دل حاسدان خطا کاران رامے سوزم کذّبتَنی کفّرتنی حقّرتنی وأردتَ أن تَطَأَنَّنِیْ کعَفاءِ تومرا دروغگو قرار دادی تو مرا کافر گفتی تو تحقیر من کردی وخواستی کہ مرا بخاک بیامیزی ہذا إرادتک القدیمۃ مِن ہوَی واللّٰہُ کہفی مُہلِکُ الأعداءِ این قدیم ارادہ تو در دل تو ماندہ وخدا پناہ من وہلاک کنندہ دشمنان است إنی لشرُّ النّاس إن لم یأتِنی نصرٌ من الرحمٰن للإعلاءِ من بدترین مخلوقاتم اگر مدد خدا مرا نہ رسد از خدائے کہ رحمن وبلند کنندہ است ما کان أمر فی یدیک وإنّہُ ربٌّ قدیر حافظُ الضعفاءِ ہیچ امرے در دست تو نیست وخدائے من رب قدیر است کہ نگہدارندہ کمزوران است الکبر قد ألقاک فی درکِ اللظٰی إنّ التکبّر أردأُ الأشیاءِ این تکبر است کہ ترا درجہنم انداخت بلاشبہ تکبر از ہمہ چیزہا ردی تراست خَفْ قہرَ ربٍّ ذی الجلال إلی متی تقفو ہواک وتَنزُوَنْ کظِباءِ از قہر خدائے بزرگ بترس وتاکجا خواہش خود را پیروی خواہی کرد وہمچوآہوان خواہی جست تبغیْ زوالیْ والمہَیمن حافظی عادیتَ ربًّا قادرًا بمِرائی تو زوال من می خواہی وخدا نگہبان من است از دشمنی من خدا را دشمن گرفتی إنّ المقرَّب لا یضاع بفتنۃٍ والأجر یُکتب عند کُلّ بلاءِ ہر کہ مقرب حق باشد بہ ہیچ فتنہ برباد نمی شود ونزد ہر بلا برائے او اجرمی نویسند ما خاب مَن خاف المہیمنَ ربَّہُ إنّ المہیمن طالبُ الطلباءِ ہرکہ از خدا بترسد ہرگز زیان نمی بردارد بہ یقین بدان کہ خدا جویندہ جویندگان است
272 ہل تطمَع الدنیا مذلّۃَ صادقٍ ہیئات ذاک تخیُّل السفہاءِ آیا دنیا این طمع می دارد کہ صادقے ذلیل گردد این کجا ممکن است بلکہ این خیال سادہ لوحان است إنّ العواقب للذی ہو صالحٌ والکَرّۃ الأولٰی لأہل جفاءِ انجام پیکار ہا برائے نیکو کاران است وغلبہ اول برائے ظالمان است شہدتْ علیہ، خصیمِ، سُنّۃُ ربِّنا فی الأنبیاءِ و زمرۃِ الصلحاءِ برین دعویٰ آن سنت خدا گواہ است کہ در انبیاء ونائبان انبیاء ماندہ مُتْ بالتغیظ واللَّظَی یا حاسدی إنا نموت بعزّۃٍ قَعْساءِ اے حاسد من بغضب ونائرہ آتش بمیر کہ ما باعزت پائدار خواہیم مرد إنّا نریٰ کلَّ العلٰی مِن ربّنا والخَلْقُ یأتینا لبَغْیِ ضیاءِ ماہمہ بلندی ہا او خدائے خود مے بینم ومردم برائے طلب روشنی نزدما خواہند آمد ہم یذکرونک لاعنینَ وذِکرُنا فی الصّالحات یُعَدُّ بعد فناءِ اوشان ترا بہ لعنت یاد خواہند کرد وذکر خیر ما از جملہ نیکی ہا شمار کردہ خواہد شد ہل تَہْدِمَنَّ القصرَ قصرَ إلٰہنا ہل تُحرِقَنْ ما صنَعہُ بنّائی آیا تو محل خدا را مسمار خواہی کرد آیا تو چیزے را خواہی سوخت کہ ساختہ بانی من است یرجون عثرۃَ جَدِّنا حسداؤُنا ونذوق نعماءً ا علٰی نعماءِ حاسدان می خواہند کہ بخت ما بسردر افتد حالانکہ مانعمت ہا بر نعمت ہا می چشیم لا تحسبنْ أمری کأَمْرٍ غُمّۃ جاء ت بک الآیات مثل ذُکاءِ امر مرا امرے مشتبہ مدان وہمچو آفتاب ترا نشانہا رسیدہ اند جاء ت خیارُ الناس شوقًا بعدما شمُّوا ریاحَ المِسک من تلقائی مردمان نیک نزدم آمدند بعد زانکہ خوشبوئے مشک از جانب من شمیدند طاروا إلیّ بألفۃ وإرادۃٍ کالطَّیرِ إذْ یَأْوی إلی الدَّفْواءِ سوئے من بالفت وارادت پرواز کردند مثل آن پرندہ کہ سوئے درخت بزرگ پناہ می گیرد لفَظتْ إلیّ بلادُنا أکبادَہا ما بقی إلا فضلۃ الفضلاءِ دیار ما جگر گوشہ ہائے خود سوئے ما افگند وبجز آن مردم دیگری نماند کہ فاضلان را ہمچو فضلہ اند أو مِن رجال اللّٰہ أُخْفِیَ سرُّہمْ یأْ توننی من بعدُ کالشہداءِ یا آن مردانے کہ ہنوز راز ایشان پوشیدہ داشتہ اند ایشان بعد زین مثل گواہان خواہند آمد ظہرتْ من الرحمٰن آیات الہُدیٰ سجدتْ لہا أمم من العرفاءِ از خدا تعالیٰ نشانہا ظاہر شدند و عارفان بمشاہدہ آن خدا را سجدہ کردند أما اللئام فینکرون شقاوۃً لا یھتدون بھٰذہ الاضواء مگر لئیمان از بدبختی انکار می کنند باین روشنی ہا ہدایت نمے پذیرند ہم یأْکلون الجِیْفَ مثل کلابنا ہم یشرَہون کأَنْسُرِ الصحراءِ اوشان ہمچو سگ ہائے ما مردار می خوردند اوشان حریص مردار ہمچو گرس بیابان اند
273 خَشَّوا ولا تخشی الرجالُ شجاعۃً فی نائبات الدّہر والہیجَاءِ مراترسانیدند ومردان بہادر نمی ترسند اگرچہ حوادث باشند یا جائے پیکار لما رأیتُ کمالَ لطفِ مہیمنی ذہب البلاء فما أحسُّ بلائی ہرگاہ کمال لطف خدائے خود دیدم بلا رفت پس بوجود بلا ہیچ احساس نکردم ما خاب مثلی مؤمن بل خصمُنا قد خاب بالتکفیر والإفتاءِ مثل من شخصے ہرگز خائب وخاسر نمی گردد بلکہ دشمنے کہ برائے تکفیر فتویٰ طیار کرد خائب و خاسر خواہد شد الغَمْرُ یبدو ناجذیہ تغیّظًا اُنظُرْ إلی ذی لوثۃ عَجْماءِ جاہلے دندان خود را از دشمنی آشکارا مے کند سوئے این غبی کہ مثل چار پایہ است نگہ کن قد أسخطَ المولٰی لیُرضی غیرہُ واللّٰہُ کان أحقَّ للإرضاءِ برائے رضاء اغیار خدا را ناراض کرد وخدا برائے راضی کردن احق واولیٰ بود کسّرتُ ظرف علومہم کزجاجۃٍ فتطایروا کتطایر الوَقْعاءِ من ظرف علوم ایشانرا ہمچو شیشہ شکستہ ام پس ہمچو غبارے کہ برخیزد پرواز کردند قد کفّروا مَن قال إنی مُسلمٌ لمقالۃ ابن بطالۃٍ وعُواءِ آن کسے را کافر قرار دادند کہ میگوید کہ من مسلمانم این ہمہ از سخن بٹالوی عوعو کنندہ است خوف المہیمن ما أری فی قلبہمْ فارتْ عُیونُ تمرُّدٍ وإباءِ خوف خدا در دل ایشان نمی بینم چشمہ ہائے سرکشے در جوش اند قد کنتُ آملُ أنّہم یخشونہُ فالیوم قد مالوا إلٰی الأہواءِ من امیدمی داشتم کہ ایشان از و خواہند ترسید پس امروز سوئے ہوا وہوس میل کردند نَضَّوا الثیاب ثیابَ تقوی کلُّہمْ ما بقی إلَّا لِبْسۃ الإغواءِ ہمہ جامہ ہائے پرہیز گاری را از خود برکشیدند وہیچ جامہ بجز جامہ اغوا نزدشان نماند ہل من عفیف زاہدٍ فی حزبہمْ أو صالحٍ یخشی زمان جزاءِ آیا ہیچ پرہیز گاری زاہدے درگروہ ایشان موجود است یا نیکو کاری موجود است کہ از روز پاداش می ترسد واللّٰہ ما أدری تقیًّا خائفًا فی فِرقۃ قاموا لہدم بنائی بخدا کہ من ہیچ پرہیز گارے خائفے درین فرقہ نمی بینم کہ برای ہدم بنیان من برخاستہ اند ما إنْ أری غیرَ العمائم واللُّحٰی أو آنُفًا زاغت من الخیلاءِ من بجز عمامہ ہا وریش ہا ہیچ نمی بینم یا بینی ہا می بینم کہ از تکبر کج شدہ اند لا ضیرَ إنْ ردّوا کلامی نخوۃً فسیَنجَعَنْ فی آخَرین ندائی ہیچ مضائقہ نیست اگر کلام مرا از تکبر خود رد کردند عنقریب این کلام در دلہائے دیگران اثر خواہد کرد لا تنظُرَنْ عجبًا إلٰی إفتاۂمْ غُسّ تلا غُسًّا بنَقْعِ عَمَاءِ سوئے فتوی ہائے ایشان نگہ مکن احمقے احمقے را در گرد و غبار کوری پیروی کرد قد صار شیطان رجیم حِبَّہُمْ یمسی ویُضحی بینہم للقاءِ شیطان راندہ محبوب شان شدہ است برائے ملاقات شان شام می آید وصبح می آید
274 أعمٰی قلوبَ الحاسدین شرورُہمْ أعری بواطنَہم لباسُ رِیاءِ دل حاسدان را شرارت ایشان کور کرد وجامہ ریا باطن ایشان را برہنہ نمود آذَوا وفی سُبل المہَیمن لا نریٰ شیءًا ألذَّ لنا من الإیذاءِ مرا ایذا دادند ودر راہ خدا ہیچ چیزے لذیذ تر از اذیت مرا نیست ما إنْ أریٰ أثقالہم کجدیدۃٍ إنّی طلیح السَّفر والأعباءِ بار ہائے ایشان نزد من باز تو نیست من فرسودہ سفر و فرسودہ بارہا ہستیم نفسی کعُسْبُرۃٍ فأُحْنِقَ صَلْبُہا مِن حمل إیذاء الوریٰ وجفاءِ نفس من مثل ناقہ است پس کمر آن ناقہ از ایذا ہا وجفاہا لاغر شدہ است ہذا ورَبِّ الصادقین لأَجْتَنِی نِعم الجنٰی مِن نخلۃ الآلاءِ من ہمین اصول دارم مگر قسم بخدائے راستبازان کہ ہمیشہ من از درخت نعمت ہا میوہ می چنیم إنّ اللئام یحقِّرون وذمُّہمْ ما زادنی إلا مقام سَناءِ لئیمان تحقیر من بمذ ّ مت خود می کنند مگر خدائے من مرا بلندی ہا داد زَمَعُ الأناس یحملقون کثعلبٍ یؤذوننی بتحوُّب ومُواءِ مردمان سفلہ بر من ہمچو روباہ حملہ می کنند واز آواز روباہ وآواز گربہ مرا ایذا می دہند واللّٰہِ لیس طریقہم نہج الہدیٰ بل مُنْیۃٌ نشأت من الأہواءِ بخدا این راہ شان راہ ہدایت نیست بلکہ آرزوئے نفسانی است کہ از ہوا وہوس پیدا شدہ است أعرضتُ عن ہذیانہم بتصامُمٍ وحسبتُ أن الشرّ تحت مِراءِ من از ہذیان ایشان دانستہ خود را بہرہ کردہ کنارہ کردم ودانستم کہ زیر مجادلہ شراست حسِبوا تفضُّلَہم لأجل تصبُّری فعَلَوا کمِثل الدُّخِّ مِن إغضائی ایشان بباعث صبر کردن من خویشتن را غالب دانستند پس بتکبر برآمدند ومثل دود از چشم خوابیدن من بلند شدند ما بقِی فیہم عِفّۃٌ وزہادۃٌ لا ذرّۃٌ مِن عیشۃٍ خَشْناءِ در ایشان ہیچ عفت وپرہیز گاری نماندہ است ونہ یک ذرہ زندگی مجاہدانہ قعدوا علی رأس الموائد مِن ہَوًی فرّوا من البأساءِ والضرّاءِ بر سر خوانہا از ہوا وہوس نشستند واز سختی ہا وگزندہا گریختند جَمَعُوْا من الأوباش حزب أرازلٍ فکأنہم کالخِثْیِ للإحماءِ چند کمینہ از اوباش جمع شدند پس گویا اوشان سرگین خشک برائے گرم کردن است لما کتبتُ الکتب عند غُلوّہمْ ببلاغۃ وعذوبۃ وصفاءِ ہرگاہ کتاب ہا بروقت غلو ایشان نوشتم وہمہ آن کتاب ہا ببلاغت وعذوبت وصفا پر بودند قالوا قرأنا لیس قوً لا جیّدًا أو قولُ عاربۃٍ من الأدباءِ گفتند خواندیم سخنے خوب نیست یا قول کسے است کہ از گروہ برگزیدہ عرب وادیبان است عربٌ أقام ببیتہ متستّرًا أملَی الکتابَ ببکرۃٍ ومساءِ یک عرب بطور پوشیدہ درخانہ او قیام کردہ است ہمان عرب کتاب را صبح و شام نوشتہ
275 اُنظُرْ إلٰی أقوالہم وتناقُضٍ سَلَب العنادُ إصابۃ الآراءِ سخن ہائے ایشان بہ بیں وتناقض را بہ بیں عنادے کہ میدارند رائے صائب را سلب کرد طَورًا إلی عربٍ عزَوہ وتارۃ قالوا کلام فاسد الإملاءِ وقتے کلام مرا سوئے عرب منسوب کردند وقت دیگر گفتند کہ این کلام خراب املاء دارد ہٰذا مِنَ الرّحمٰن یا حزبَ العِدا لا فِعْل شامیٍّ ولا رفقائی این املاء از خدا تعالیٰ است اے گروہ دشمنان نہ کار شامی است ونہ کار رفیقان من أعلی المہیمنُ شأنَنا وعلومنا نبنی منازلَنا علی الجَوزاءِ خدا تعالیٰ شان مارا وعلوم مارا بلند کرد ما منازل خود را بر جوزا بنامی کنم خَلُّوا مقامَ المولویّۃِ بعدَہُ وتَستّروا فی غَیہَبِ الخَوقاءِ بعد زین مقام مولویت را خالی کنید ودر تاریکی چاہے پوشیدہ شوید قد حُدّدتْ کالمرہفات قریحتی ففہِمتُ ما لا فہمہ أعدائی ہمچو شمشیر ہائے تیز طبعیت من تیز کردہ شد پس آن چیزہا فہمیدم کہ دشمنان نہ فہمیدند ہذا کتابی حازَ کلَّ بلاغۃ بہَر العقولَ بنضرۃ وبہاءِ این کتاب من ہر نوع بلاغت جمع کردہ است دانش ہا را بتازگی وخوبی حیران کرد اللّٰہ أعطانی حدائقَ علمہِ لولا العنایۃ کنتُ کالسّفہاءِ خدا تعالیٰ مرا باغہائے علم خود عطا فرمود اگر عنایت الٰہی نبودے من ہمچو بے خردان بودے إنی دعوت اللّٰہ ربًّا محسنًا فأری عیونَ العلم بعد دعائی من از خدائے خود خواستم کہ رب محسن است پس چشمہ ہائے علم بعد از دعا مرا نمود إنّ المہیمن لا یُعِزّ بنخوۃٍ إنْ رُمْتَ درجاتٍ فکُنْ کعَفاءِ بہ تحقیق خدا متکبر را عزت نمی دہد اگر درجہ ہا می خواہی ہمچو خاک شو واللّٰہِ قد فرّطت فی أمری ہوًی وأبیتَ کالمستعجل الخطّاءِ بخدا کہ درامر من از روئے ہوا وہوس تقصیر کردی ومثل جلد باز خطا کنندہ انکار کردی الحُرّ لا یستعجِلنْ بل إنّہُ یرنو بإمعان وکشفِ غطاءِ آنکہ آزاد از تعصب ہا است او جلدی نمی کند بلکہ بغور دل می بنگرد وازمبان پردہ می بردارد یخشی الکرامُ دعاءَ أہل کرامۃٍ رُحمًا علی الأزواج والأبناءِ نیک مردان ازدعائے اہل کرامت می ترسند وبر زنان وپسران خود ازین خوف رحم می کنند عندی دعاء خاطفٌ کصواعقٍ فحَذارِ ثم حذارِ مِن أرجائی نزد من دعائے است کہ ہمچو صاعقہ می جہد پس از کنارہ ہائے من دور باش دور باش واللّٰہ إنی لا أرید إمامۃً ہذا خیالک مِن طریق خطاءِ بخدا من ہیچ پیشوائی را نمی خواہم این خیال تو از خطاست إنّا نرید اللّٰہ راحۃَ روحِنا لا سُؤددًا وریاسۃ وعلاءِ ماخدا را می خواہیم کہ آرام روح ماست وریاست وبلندی را نمی خواہیم
276 إنا توکّلْنا علی خَلَّا قِنَا معطی الجزیل وواہب النعماءِ مابرخدائے خود توکل کردیم کہ بخشندہ نعمت ہا وعطا کنندہ است من کان للرَّحمٰن کان مکرَّمًا لا زال أہلَ المجد والآلاءِ ہر کہ خدارا باشد بزرگی مے یابد ہمیشہ در بزرگی ونعتمہا می ماند إن العدا یؤذوننی بخباثۃٍ یؤذون بالبہتان قَلْبَ بَراءِ دشمنان از راہ خباثت مرا ایذا می دہند از روئے بہتان دل بری را می آزارند ہم یُذعِرون بصیحۃ ونعُدّہم فی زُمرِ موتَی لا من الأحیاءِ ایشان مے ترسانند وما ایشان را از گروہ مردگان می شماریم نہ از زندگان کیف التخوف بعد قربِ مُشجِّعٍ مِن ہذہ الأصوات والضوضاءِ بعد قرب دلیر کنندہ چگونہ بترسیم چگونہ ازین آواز ہا وشور آواز ہا خوف پیدا شود یسعی الخبیث لِیُطفِئنْ أنوارَنا والشمس لا تخفَی من الإِخفاءِ پلیدے کوشش می کند کہ تانور ما بمیراند وآفتاب از پوشیدہ کردن پوشیدہ نمی شود إن المہیمن قد أتمَّ نوالَہُ فضلًا علیّ فصرتُ مِن نُحلاءِ خدا تعالیٰ برمن بخشش خود بکمال رسانیدہ است ازروئے فضل.پس من از بخشندگان شدم نعطی العلومَ لدفعِ متربۃِ الوری طالتْ أیادینا علی الفقراءِ مابرائے دفع درویشی مردم مال علم می بخشیم دست بخشش مابر فقیران دراز است إن شئتَ لیست أرضُنا ببعیدۃ مِن أرضک المنحوسۃ الصَّیداءِ اگر تو چیزے بخواہی زمین ما از زمین منحوس تو دور نیست صعبٌ علیک زمانُ سُؤْلِ محاسِبٍ إن متَّ یا خصمی علی الشحناءِ بر تو آن ساعت بسیار سخت است کہ پرسیدہ خواہی شد اگر تو بر ہمین کینہ بمردی اے دشمن من ما جئتُ مِن غیر الضرورۃ عابثًا قد جئتُ مثلَ المُزْنِ فی الرَّمْضاءِ من بے ضرورت ہمچو بازی کنندگان نیامدم من مثل باران آمدم کہ برزمین سوختہ بیفتد عینٌ جرتْ لعِطاشِ قومٍ أُضجروا أو ماءُ نَقْعٍ طافِحٍ لظِماءِ برائے تنگ دلان کہ سخت تشنہ بودند چشمہ جاری شد یاآب بسیار صافی برائے تشنگان إنی بأفضال المہیمن صادقٌ قد جئتُ عند ضرورۃ و وباءِ من بفضل خدا تعالیٰ صادقم بروقت ضرورت و وبا آمدہ ام ثم اللئام یکذّبون بخبثہم لا یقبَلون جوائزی وعطائی باز لئیمان از خباثت ایشان تکذیب می کنند وعطاہائے مرا قبول نمی کنند کَلِمُ اللئام أسنّۃٌ مذروبۃٌ وصدورہم کالحَرّۃ الرَّجْلاءِ سخنہائے لئیمان نیزہ ہائے تیز ہستند وسینہ ہائے اوشان مثل زمین بے نبات خشک افتادہ من حارب الصدّیقَ حارب ربَّہُ ونبیَّہ وطوائفَ الصلحاءِ ہر کہ باصدیق جنگ کرد باخدا جنگ کرد وبا پیغمبر خدا جنگ کرد و باتمام صلحاء جنگ کرد
277 واللّٰہِ لا أدری وُجوہَ کُشاحۃٍ مِن غیر أنّ البخل فارَ کماءِ بخدا من وجہ دشمنی ایشان ہیچ نمی یابم بجز اینکہ بخل اوشان مانند آب جوش کردہ است ما کنتُ أحسَب أنہم بعداوتی یذَرون حُکْمَ شریعۃٍ غرّاءِ من گمان نمی کردم کہ اوشان بباعث عداوت من حکم شریعت غرا را خواہند گذاشت عادیتُہم للّٰہِ حین تلاعبوا بالدِّین صوّالین مِن غُلواءِ ایشان را دشمن گرفتیم چون بادین بازی کردند واز تجاوز حملہ کردند رُبِّبْتُ مِن دَرِّ النبیِّ وعینِہ أُعطیتُ نورًا منْ سراجِ حِراءِ من از شیر نبی علیہ السلام پرورش یافتم واز چشمہ او مر اپرو ریدند من ازان آفتاب نور گرفتم کہ از غار حرا طلوع کردہ بود الشمس أُمٌّ والہلال سلیلُہا ینمو و ینشأ مِن ضیاء ذُکاءِ آفتاب مادر است وہلال پسراو آن پسر از روشنی آفتاب نشوونما می یابد إنی طلعتُ کمثل بدرٍ فانظروا لا خیر فی مَن کان کالکَہْمَاءِ من مانند بدر طلوع کردم پس بتامل بہ بینید درآن شخص ہیچ خیر نیست کہ چون زن کور مادر زاد باشد یا ربّ أیِّدْنا بفضلک وانتقِمْ ممَّنْ یدُعُّ الحقَّ کالغُثّاءِ اے خدائے ما تائید ماکن وازان شخص انتقام بگیر کہ حق را چون خس و خاشاک دفع کردن می خواہد یا ربّ قومی غلَّسوا بجہالۃٍ فارحَمْ وأنزِلْہم بدار ضیاءِ اے رب من قوم من از جہالت بتاریکی می روند پس رحم کن و او شان را درخانہ روشنی فرود آر یا لائمی إن العواقب للتُّقی فاربَأْ مآلَ الأمر کالعقلاءِ اے ملامت کنندہ من انجام کار برائے پرہیز گاران است پس ہمچو دانشمندان مال کار را منتظر باش اللّٰہُ أیّدنی وصافا رحمۃً و أمدّنی بالنعم و الآلاءِ خدا مرا تائید کردو از روئے رحمت مرا دوست گرفت ومرا با گونا گون نعمت ہا مدد داد فخرجتُ مِن وَہْدِ الضلالۃ والشقا ودخلتُ دار الرشد والإدراءِ پس من از مغاک گمراہی بیرون آمدم ودرخانہ رشد وآگاہیدن داخل شدم واللّٰہِ إن الناس سَقطٌ کُلّہم إلا الذی أعطاہ نعمَ لقاءِ وبخدا کہ مردم ہمہ ردی وبیکار اند مگر آن شخص کہ خدا تعالیٰ اورا نعمت لقابہ بخشد إنّ الذی أروی المہیمنُ قلبَہُ تأتیہ أفواج کمثل ظِماءِ آن شخص کہ خدا تعالیٰ دل اورا از معارف سیراب کرد نزد او فوج ہا مثل تشنگان می آیند ربّ السماء یُعِزّہ بعنایۃ تعنو لہ أعناقُ أہل دہاءِ خدائے آسمان او را از عنایت خود عزّت می دہد وبرائے او گردنہائے عقلمندان خمیدہ می شوند الأرض تُجعَل مثلَ غلمان لہُ تأتی لہ الأفلاک کالخدماءِ زمین ہمچو غلامان برائے او کردہ مے شود وآسمانہا برائے او ہمچو خادمان مے آیند مَن ذا الذی یُخزی عزیزَ جنابِہِ الأرض لا تُفنی شموسَ سماءِ آن کیست کہ عزیز جناب الٰہی را ذلیل کند زمین آفتاب ہائے آسمان را نابود نتواند کرد
278 الخَلْقُ دودٌ کلہم إلا الذی زکّاہ فضلُ اللّٰہ من أہواءِ ہمہ مردم کرمان ہستند مگر آنکہ خدا تعالیٰ اورا از ہوا و ہوس نجات داد فانہَضْ لہ إن کنتَ تعرف قدرہُ واسبِقْ ببذل النفس والإعداءِ پس برائے او برخیز اگر قدر او می داری واز ہمہ مردم در بذل نفس وشتافتن سبقت کن إن کنت تقصد ذُلَّہ فتُحقَّرُ و ستَخْسَأَنْ کالکلب یوم جزاءِ اگر تو ذلت اومی خواہی پست خود ذلیل خواہی شد وہمچو سگ در روز جزا راندہ خواہی شد غلبتْ علیک شقاوۃٌ فتحقِّرُ مَن کان عند اللّٰہ من کرماءِ برتو بدبختی غالب آمدہ است ازین سبب تو تحقیر شخصے میکنی کہ نزد خدا تعالیٰ از بزرگی یابندگان است صعبٌ علیک سراجنا وضیاؤنا تمشی کمشی اللُّصّ فی اللَّیلاءِ بر تو چراغ ما وروشنی مابسیار گران آمد ہمچو دزدان درشب تاریک می گردی تہذی وأَیْمُ اللّٰہِ ما لک حیلۃ یومَ النشور وعند وقت قضاءِ بیہودہ گوئی ہا میکنی وبخدا ترا ہیچ حیلہ نیست وہیچ عذرے در روز فیصلہ نیست برقٌ من المولی نریک ومیضَہ فاصبر کصبر العاقل الرَّنّاءِ این از خدا تعالیٰ روشنی است درخش آن تا خواہیم نمود پس ہمچو عاقلان دور اندیش صبر کن وأری تغیُّظَکم یفور کلُجّۃٍ موج کموج البحر أو ہَوجاءِ ومی بینم کہ غضب شما ہمچو دریا در جو ش است وموج آن مثل موج دریا یا موج باد سخت است واللّٰہِ یکفی مِن کُماۃِ نضالِنا جَلدٌ من الفتیان للأعداءِ بخدا از بہادران ما دشمنان را یک جوان کافی ست إنا علٰی وقت النوائب نصبرُ نُزجی الزمانَ بشدّۃ و رخاءِ مادر وقت حوادث صبر می کنیم و زمانہ را بہ تنگی و فراخی می گذرانیم فِتن الزمانِ ولدنَ عند ظہورکمْ والسَّیل لا یخلو من الغُثّاءِ از ظاہر شدن شما فتنہ ہا ظاہر شدہ اند وہیچ سیلابے از خس و خاشاک خالی نمی باشد عُفْنا لُقِیّاکم ولا أستکرہُ لو حلَّ بیتی عاسِلُ البَیداءِ ما از ملاقات شما کراہت مے داریم وما ہیچ کراہت نداریم اگر گرگ دشتی بخانہ ما درآید الیوم أنصحکم وکیف نصاحتی قومًا أضاعوا الدین للشحناءِ امروز شما را نصیحت می کنم ونصیحت من آن قوم راچہ فائدہ بخشد کہ از کینہ دین را ضائع کردہ اند قُلنا تعالوا للنضال وناضِلوا فتَکنّسوا کالظبی فی الأفلاءِ ماگفتیم کہ برائے مقابلہ بیائید ودر عربی مباحثہ کنید پس ہمچو آہو ان در بیابان ہا پوشیدہ شدند لا یبصرون ولا یرون حقیقۃً و تَہالکوا فی بخلہم و ریاءِ نہ مے بینند ونہ حقیقت را دریافت می کنند ودر بخل و ریا بمردند ہل فی جماعتہم بصیرٌ ینظرُ نحوی کمثل مبصّر رنّاءِ آیا درجماعت اوشان بینندہ است کہ سوئے من مثل مبصر غور کنندہ بہ بیند
279 ما ناضلونی ثم قالوا جاہلٌ اُنظُرْ إلٰی إیذاءِہم وجفاءِ بامن مقابلہ نکردند باز گفتند کہ جاہل است ایذاء ایشان بہ بین وجفاء ایشان بہ بین دعوی الکُماۃِ یلوح عند تقابُلٍ حدُّ الظُباتِ ینیر فی الہیجاءِ دعوی بہادران وقت مقابلہ ظاہر می گردد تیزی شمشیرہا درجنگ روشن مے شود رجلٌ ببطنِ ’’بَطَالۃ‘‘ بَطّالۃٌ تعلی۱ عداوتہ کرعدِ طَخاءِ در شہر بٹالہ کہ از بطالت پر است مردے است کہ دشمنی او ہمچو رعد ابر در جوش است لا یحضر المضمارَ مِن خوفٍ عرَا یہذی کنسوان بحجب خفاءِ از خوف کہ می دارد بمیدان نہ مے آید وہمچو زنان در پردہ ثاژ می خواید قد آثر الدنیا وجِیفۃَ دَشْتِہا و الموت خیر من حیاۃ غطاءِ دنیا ومردار آ ں را اختیار کردہ است ومردن از زندگی پردہ بسیار نیکو است یا صیدَ أسیافی إلٰی ما تأبِزُ لا تُنجِینّک سیرۃُ الأطلاءِ اے شکار شمشیر ہائے من تابکے جست خواہی کرد تا سیرت بچگان آہو نجات نخواہد داد نجسّتَ أرضَ ’’بطالۃ‘‘ منحوسۃ أرض محربِءۃٌ من الحِرباءِ تو زمین بتالہ را پلید کردی از وجود یک حربا تمام زمین از حربا براست إنی أریدک فی النضال کصائدٍ لا یرکَنَنْ أحد إلی إرزاءِ من ترا در روز مناضلہ مثل شکار جویندہ می خواہم پس باید کہ ہیچکس ترا پناہ ندہد صدرُ القناۃ ینوش صدرَک ضربُہُ ویریک مُرَّانی بحارَ دماءِ سر نیزہ ترا پارہ پارہ خواہد کرد ونیزہ در گذرندہ من ترا دریائے خون خواہد نمود جاشت إلیک النفس من کلماتنا خوفًا فکیف الحال عند مِرائی جان تو از گفتار من بلب رسید پس در وقت پیکار حال توچہ خواہد شد أُعطیتُ لُسْنًا کاللقوع مُروِّیًا وفصیلُہا تأثیرہا ببہاءِ من مثل ناقہ بسیار شمشیر زبان دادہ شدہ ام وبچہ آن ناقہ تاثیر سخن من است إن شئتَ کِدْ کلَّ المکائد حاسدًا البدر لا یغسو بلَغْیِ ضِراءِ اگر بخواہی ہر مکرے کہ داری ازروئے حسد بکن وخوب یاد دار کہ از شور سگ بچگان نقصان ماہتاب نیست کذّبتَ صدّیقًا وجُرْتَ تعمّدًا ولئن سطا فیُریک قعرَ عَفاءِ تو صدیقے را بہ دروغے منسوب کردی واگر آن صدیق بر تو حملہ کند ترامغاک خاک خواہد نمود ما شمَّ أنفی مرغمًا فی مشہدٍ وأثَرتُ نقعَ الموت فی الأعداءِ بینی من درہیچ جنگے ذلت ندیدہ است ودر دشمنان از موت غبار انگیختہ ام واللّٰہِ أخطأتم لنکبۃِ بَخْتِکمْ باریتُمُ ابنَ کریہۃٍ فَجّاءِ بخدا شما از بدبختی طالع خود سخت خطا کردہ اید کہ باآن شخص جنگ شروع کردہ ایدکہ تجربہ کارجنگ وبناگاہ کشندہ است إنی بحقدک کلَّ یوم أُرفَعُ أنمی علَی الشحناء والبغضاءِ من بکینہ تو ہر روز مراتب بلند مے یابم واز کینہ وبغض شما بخت من در نشوونما ست ایڈیشن اول میں سہو کتابت سے تعلی چھپا ہے درست تغلی ہے.ناشر
280 نلنا ثریّاء السّماء وسَمْکہ لنردّ إیمانًا إلٰی الغبراءِ ماتا ثریا آسمان رسیدہ ایم تاایمان را سوئے زمین فرود آریم اُنظُرْ إلی الفتن التی نیرانہا تجری دموعًا بل عیون دماءِ آن فتنہ ہا را بہ بین کہ آتشہائے آن فتنہ اشک ہا جاری می کند بلکہ چشمہ ہائے خون می برآرد فأقامنی الرحمٰن عند دخانہا لفلاح مُدّلجین فی اللیلاءِ پس خدا تعالیٰ مرا بروقت دخان آن فتنہ ہا قائم کرد تا آن را کہ درشب می روند نجات بخشد وقد اقتضتْ زفراتُ مرضَی مقدمی فحضرتُ حمّالًا کؤسَ شفاءِ ونعرہ ہائے مریضان آمدن مرا تقاضا کرد پس من باجا مہائے شفا نزد اوشان حاضر شدم لما أتیتُ القوم سبُّوا کالعدا وتخیّروا سُبل الشقا بإباءِ ہرگاہ آمدم قوم مرا دشنامہا دادند واز راہ انکار طریق شقاوت را اختیار کردند قالوا کذوب کَیْذُبانٌ کذبۃٌ بل کافر و مزوِّر و مُراءِی گفتند کہ این شخص کاذب وکذاب است بلکہ کافر و دروغ آرایندہ وریاء کار است مَن مُخبِرٌ عن ذلّتی ومصیبتی مولای خَتْمَ الرسل بحرَ عطاءِ آن کیست کہ این ذلت من ومصیبت من مولائے مرا رساند کہ خاتم الانبیاء ودریائے بخشش ہاست یا طیّبَ الأخلاق والأسماءِ أفأنت تُبعدنا من الآلاءِ اے پاک اخلاق وپاک نام ہا آیا تو مارا از نعمت ہائے خود رد مے کنی أنت الذی شغَف الجَنانَ محبّۃً أنت الذی کالرُّوح فی حَوبائی تو آن ہستی کہ محبت او درقعردل من فرو رفتہ است تو آن ہستی کہ درتن من مانند جان است أنت الذی قد جذب قلبی نحوہ أنت الذی قد قام للإصباءِ تو آن ہستی کہ سوئے او دل من کشیدہ شدہ است تو آن ہستی کہ برائے دلبرے من ایستاد أنت الذی بودادہ و بحبّہِ أُیِّدتُ بالإلہام و الإلقاءِ تو آن ہستی کہ ببرکت محبت او و دوستی او از الہام والقاء الٰہی تائید یافتم أنت الذی أعطی الشریعۃ والہدی نجّی رقاب النّاس من أعباءِ تو آن ہستی کہ شریعت وہدایت را بما رسایند وگرد نہائے مردم را از بار گران نجات داد ہیئات کیف نفرّ منک کمفسدٍ روحی فدَتْک بلوعۃٍ ووفاءِ این کجا ممکن است کہ ماہمچو مفسدے از تو بگریزیم جان من بسوزش عشق ووفا بر تو قربان است آمنتُ بالقرآن صُحفِ إِلہنا وبکل ما أخبرتَ من أنباءِ من بقرآن شریف ایمان آور دم کہ کتاب خدائے است وبا آن ہمہ خبرہا ایمان آوردم کہ تو خبر دادی یا سیدی یا موئلَ الضعفاءِ جئناک مظلومین من جہلاءِ اے سردار من اے جائے بازگشت ضعیفان ما بجناب تو از جور جاہلان رسیدیم إنّ المحبّۃ لا تضاع وتشتری إنّا نحبّک یا ذُکاءَ سخاءِ محبت ضائع کردہ نمی شود وکریمان آن را می خرند ما با تو اے آفتاب سخاوت محبت می داریم
281 یا شمسَنا انظُرْ رحمۃً وتحنّنًا یَسْعَی إلیک الخلق للإرکاءِ اے آفتاب ماسوئے من برحمت بنگر مردم سوئے تو برائے (پناہ )گرفتن مے دوند أنت الذی ہو عینُ کلّ سعادۃٍ تَہوی إلیک قلوب أہل صفاءِ تو آن استی کہ چشمہ ہر سعادت است سوئے تو دلہائے اہل صفا مائل ہستند أنت الذی ہو مبدء الأنوارِ نوَّرتَ وجہ المدن والبیداءِ تو آن ہستی کہ مبدء نورہا ست تو روئے شہر ہا وبیابان ہا روشن کردی إنی أریٰ فی وجہک المتہللِ شأنًا یفوق شؤونَ وجہِ ذُکاءِ من در روئے روشن تو شانے مے بینم کہ برشان آفتاب فوقیت ہا دارد شَمْسُ الہُدی طلعتْ لنا من مکّۃٍ عین الندا نبَعتْ لنا بحِراءِ آفتاب ہدایت از مکہ برما طلوع کرد چشمہ بخشش از غار حرا برائے ما بجوشید ضَاہَتْ أَیاۃُ الشمس بعضَ ضیاۂِ فإذا رأیتُ فہاجَ منہ بکائی روشنی آفتاب ببعض روشنیہائے او مے ماند پس چون دیدم بے اختیار مرا گریہ آمد نَسْعی کَفِتْیانٍ بدینِ مُحَمَّدٍ لَسْنَا کرجُلٍ فاقِدِ الأعضاءِ ہمچو مردان در دین محمدصلی اللہ علیہ وسلم کوشش می کنیم ما مثل آن شخصے نیستم کہ بے دست و پاباشد أَعْلَی المہیمِنُ ہِممنا فی دِینہِ نَبنی مَنَازِلنا علی الجوزاءِ خدا تعالیٰ در دین او ہمتہائے مارا بلند کردہ است منزلہائے خود را برجوزا بنامے نہیم إنا جُعِلْنا کالسیوف فندمَغُ رأس اللئام وہامۃ الأعداءِ ماہمچو شمشیرہا گردانیدہ شدہ ایم پس سرلئیمان را و دشمنان را مے کوبیم ومِنَ اللئام أری رُجَیلًا فاسقًا غُولًا لعینًا نُطفۃ السُّفہاءِ واز لئیمان مرد کے بدکار را مے بینم کہ شیطان ملعون از نطفہ سفیہان است شَکسٌ خَبیثٌ مُفْسِدٌ ومزوّرٌ نَحْسٌ یُسمَّی’’السَّعْد‘‘ فی الجہلاءِ بدگو خبیث مفسد دروغ آرایندہ است ومنحوس است ونام او جاہلان سعد اللہ نہادہ اند ما فارقَ الکفرَ الذی ہو إرثہُ ضاہَی أبَاہ وأُمَّہ بعماءِ کفرے کہ وراثت او بود ازان علیحدہ نشدہ است و در کوری مادر و پدر خود را مشابہ است قد کان مِن دُود الہنُودِ وزَرعہم مِن عَبدۃ الأَصْنَام کالآباءِ این شخص از ِ کرمان ہنود وتخم ایشان بود ومثل پدر وجد خود از بت پرستان بود فالآن قد غلَبتْ علیہ شقاوۃٌ کانت مُبِیدۃَ أُمِّہ العمیاءِ پس اکنون ہمان شقاوت بروئے غلبہ کرد کہ مادر کور اورا ہلاک کردہ بود إنی أراہ مُکذِّبًا ومکفِّرًا ومحقِّرًا بالسبّ والإزراءِ من اورا می بینم کہ او تکذیب من میکند ومرا کافر میگوید وبا تحقیر کردن ودشنام دادن بہتانہا مے بندد یُؤذِی فما نَشکو وما نَتَأَسّفُ کَلْبٌ فیَغْلِی قلبہ لِعُواءِ آزارمی دہد مگر ما نہ شکایت میکنیم ونہ افسوس میکنیم زیرانکہ او سگے است پس دل او برائے عوعو کردن مے جوشد
282 کَحَل العنادُ جفونَہ بعَجاجۃٍ فالآن مَن یحمیہ من إقذاءِ دشمنی پلک ہائے اورا بغبارکینہ سرمہ ساکردہ است پس اکنون کیست کہ چشمہائے اورا از غبار پر ہاند یا لاعِنی إنّ المہَیمِن یَنْظرُ خَفْ قہرَ ربّ قادر مولائی اے ملامت کنندہ من خدا تعالیٰ مے بیند از قہر مولائے من کہ قادر است خوف کن الحق لا یُصلَی بنار خدیعۃٍ أَنَّی مِن الخفّاش خسرُ ذُکاءِ راستی بآتش مکر سوختہ نمی شود از نفرت شبپرہ ہیچ نقصان آفتاب نیست إنی أراک تمیس بالخُیَلاءِ أنَسیتَ یوم الطعنۃ النَّجْلاءِ من می بینم کہ بہ ناز و تکبر خرامان مے روی آیا آن روز را فراموش کردی کہ زخم فراخ خواہد کرد لا تتّبِعْ أَہْواءَ نفسِک شقوۃً یلقیک حُبُّ النفس فی الخَوقاءِ ہوائے نفس خود را از شقاوت پیروی مکن ترا محبت نفس در چاہ خواہد انداخت فرسٌ خَبیثٌ خَفْ ذُرَی صہواتِہِ خَفْ أن تزلّک عدوُ ذی عدواءِ نفس تو اسپ پلید است از بلندی پشت او بترس ازین بترس کہ دویدن ناہموارا وترا برزمین افگند إنّ السُّمُوم لَشَرُّ ما فی العَالمِ ومِنَ السُّموم عَداوۃُ الصلحاءِ در دنیا زہرہا بدترین چیزے است واز زہرہا بدتر عداوت صالحان است آذَیتَنی خبثًا فلَسْتُ بصادقٍ إنْ لم تَمُتْ بالخزی یا ابنَ بغاءِ مرا بخباثت خود ایذا دادی پس من صادق نیم اگر تو اے نسل بدکاران بذلت نمیری اللّٰہ یُخزی حزبَکم ویُعزّنی حتی یجیء الناس تحت لوائی خدا تعالیٰ گروہ شمارا رسوا خواہد کرد ومرا عزت خواہد داد تا بحدیکہ مردم زیر لوائے من خواہند آمد یا ربَّنا افْتَحْ بیننَا بکرامۃٍ یا مَن یری قلبی ولُبَّ لِحائی اے خدائے ما درما بکرامت خود فیصلہ کن اے آنکہ دل مرا ومغز پوست مرا می بینی یا مَن أری أبوابہ مفتوحۃ لِلسَّائلین فلا ترُدّ دعائی اے آنکہ در ہائے او را برائے سائلان کشادہ می بینم دعائے مرارد مکن آمین الیوم قضینا ما کان علینا من التبلیغات، وعصمنا نفسنا من مأثم ترک الواجبات، وحان أن نصرف الوجہ عن ہذہ المباحثات، إلا ما ینفی لَبْس السائلین امروز ہرچہ برما از تبلیغ فرض بود ادا کردیم ونفس خود را از گناہ ترک واجب محفوظ داشتیم.ووقت آمد کہ ما ازیں مباحثات روبگردانیم.مگر آنچہ شبہ سائلان رد کند وقصد کردیم کہ بعد این والسائلات، وأزمعنا أن لا نخاطب* العلماء بعد ہذہ التوضیحات، ولو سبّونا کما أروا من قبل من العادات، وما غلّظنا علیہم إلا للتنبیہات، تو ضیحات علماء را مخاطب نکنیم.اگرچہ دشنام ہا دہند چنانچہ پیش زین ہمین عادات خود نمودہ اند.وما برایشان درشتی کہ کردیم محض برائے آگاہا نیدن کردیم.واعمال نزد خدا تعالیٰ وإنما الأعمال بالنیات.فالآن نودّعہم بدموع جاریۃ من الحسرات، وعیون غریقۃ فی سیل العبرات، وہذہ منا خا تمۃ المخاطبات.تمّت وابستہ بہ نیت ہا ہستند.پس اکنون ایشان را باشکہائے جاری از حسرتہا وداع می کنیم وبا چشمہائےُ پرآب رخصت می نمائیم.پس امروز این رسالہ از ما خاتمہ مخاطبات است.فقط *جو علماء مقابلہ اور مباہلہ کے لئے بلائے گئے ہیں بعض کے نام لکھنے سے رہ گئے ہیں جو ذیل میں لکھے جاتے ہیں.قاضی عبید اللہ قاضی مدراس، مولوی محمود مدراس،مولوی غلام رسول، مولوی شیخ عبد اللہ چک عمر کھاریاں گجرات،صاحبزادہ محمد امین چکوڑی، مولوی کلیم اللہ مچہیانہ، نجم الدین شادیوال، فضل احمد قلعدار، غلام علی شاہ منگووال، حافظ سلیمان ڈنگہ کھاریاں، مولوی عبد الصمد حکیم صدر پشاور، مولوی رحمۃ اللہ بڑبہنی میر پور جموں، مولوی حشمت پخروٹ میر پور، مولوی نیاز احمد قصبہ کھاریاں، خلیفہ محی الدین باولی گجرات، مولوی فیض احمد ڈوگا ؍؍ ، مولوی صدر الدین ملکی ؍؍، مولوی آغا خان سوداگرصدر پیشاور، مولوی عبد اللہ صاحب ؍؍، شیخ شیر محمد افسر نہر، میاں محمد فاضل راجوال کھاریاں گجرات، مولوی احمد دین سادھوکے؍؍، مولوی کرم دین پوڑانوالا؍؍، اللہ دتہ بلانی؍؍، غلام محمد؍؍، نور دین؍؍.
283 قابل توجہ گورنمنٹ ہند انا قرأنا فی جریدۃ سِوِل ملتری انہ یشکومنّا فی حضرۃ الدّولۃ البرطانیۃ.ویظن کانّا اعداء ھذہ الدولۃ المبارکۃ.وینبّہ الدولۃ علی سوء نیاتنا وشرعوا قبنا یحثّھا علی ان تضیق علینا الحرّیۃ التی شملت طوائف الاقوام علی اختلاف مذاھبھم.وتبائن مشاربھم.وھذہ ھی الشئ الذی یثنی بہ علی الدولۃ بخصوصیّتھا ومزیّتھا علی دُول اخریٰ اعنی انّھا اعطت نسبۃ المساوات کل مذھب فی نظر القانون.وما خصّ احدًا لیکون محل الظنون.وھذا امر لا نری نظیرہ فی زمن الاولین.وقد کتبنا غیر مرۃ انا نحن من خدام مصالح الدولۃ.وخادمیہ من کمال الصدق والامانۃ وامتلأ ت قلوبنا شکرًا.وصدورنا اخلاصًا.بمارئینا منھا من انواع الاحسان.والمنۃ والامتنان.وانا لسنا من قوم یعصون ولی النعمۃ.ویخفون فی قلوبھم امور الغش والخیانۃ.ویثیرون الفتن من خبث القریحۃ.بل نحن بفضل اللّٰہ نشکر الدولۃ علی مننھا.وندعوا اللّٰہ ان ننجینا بھا من شر الدنیا وفتنتھا.وقد نجونا بھا من البلایا والمحن.وانواع الخسران والفتن.ونعیش بالامن والعافیۃ تحت ظلھا الظلیل.وحُفظنا من آفات الاشرار بعد لہ الدمیل.انھا انارت سبلنا وسدت خللنا.وانا نری فی لیالیھا آمنًا مارئینا فی نھارٍ قبل ھذا الدولۃ.فما جزاء ھذا الاحسان الا الشکر بخلوص النیۃ.و شکرھم شئ قد ملأبہ روحنا.وجناننا وضمیر نا ولساننا.ولسنا کافری نعم المنعمین.ولنا علی ھٰذا الدعوی براھین ساطعۃ.ودلائل قاطعۃ.وھی انا لانثنی علی الدولۃ من ھذا الیوم فقط بل فی ھٰذا نفدت اعمارنا.وذابت عظامنا.وعلیہ توفت کبارنا.وکانوا عند الدولۃ من المکرمین وطالما قمنا للحمایۃ بخلوص القلب والمُھجۃ واشعنا الکتب فی حمایۃ اغراض الدولۃ الی بلاد الشام والروم وغیرھا من الدیار البعیدۃ.وھذا امر لن تجد الدولۃ نظیرھا فی غیرنا من المخلصین.فلا نعباء بمفتریات جریدۃ.ولا نخشی تحریر انامل مفسدۃ.ویا اسفا علٰی الذی یخوّف الدولۃ من غوائل عواقبنا.ویرغّبھا فی تعاقبنا.الم یفکر انّنا ذریۃ آباء انفدوا اعمارھم فی خدمات ھذہ الدولۃ افنسیت الدولۃ مساعیھم بھذہ السرعۃ.لِمَ لا تمنع الدولۃ اولئک الطغاۃ المفسدین عن نشر مثل تلک الاکاذیب.واشاعۃ ھذا البھتان العجیب.فانھا سم زعاف للذین لا یعرفون الحقیقۃ.ولا یفتشون الاصلیۃ.فکاد ان یصدقوھا کالمخدوعین.انہ یبکی علٰی حرّیّتنا ولا یٰری حرّیتہ التی تصول
284 علی الصّادقین.ویجعل المخلصین من المفسدین.الیس بواجب علٰی اھل الجرائد ان لا یتبعوا کلما بلغتھم من الحاسدین من اھل الغرض والنقمۃ.الیس علیھم ان یکتبوا بالصداقۃ وسلامۃ الطویۃ اھم خارجون من حدود القانون اوھم من المعفّوین.یااھل الجرائد والمکائد اتامرون الناس بالبرو تنسون انفسکم.اھذا خیرلکم بل شرلکم لوکنتم تعلمون اتجعل الدولۃ المخلصین کالمفسدین.او یخفی علیہ ما تکتمون فی انفسکم کالمنافقین.قدجرّبت الدولۃ عواقب آبائنا.ورأت مرارًا ما ھو فی وعاء نا.وقد بلغنا تحت تجاربھا الی ستین.فان حدنا قبل ذالک الٰی نحو خمسین سنۃ عن طریق الخلوص.وآثرنا طرقًا فاسدۃ کاللصوص.فللدولۃ ان تظن کلما تظن کالمجربین العارفین.فان القلیل یُقاس علی الکثیر والصغیر علی الکبیر.وکذالک جرت عادۃ المتفرسین.والا فاتقوا اللہ واستحیوا ولا تجترؤوا ان کنتم صالحین.وواللّٰہ انا نحن براء من تلک التھمۃ.وما لنا ولھذہ المعصیۃ.وتُنزّہ النظائر السابقۃ ذیلنا عن مثل ھذہ البھتانات.والتھم والخرافات.وکیف وانا لاننسی الی ان نموت نعم ھذہ الدولۃ.ولا منن ھذہ الحکومۃ.وقد اوصینا من کتاب اللہ بشکر المحسنین.وھی آیات واحادیث لا یسع المقام سردھا الآن وقد کتبنا من قبل وابسطنا فیہ البیان.فلینظر من کان من الشائقین.وانا رئینا من ھذہ الدولۃ انواع الراحۃ.وحفظت بھا دماء نا واعراضنا واموالنا من انواع المصیبۃ.وتواردبھا علینا من نعم لا نستطیع ان ندخلھا تحت الحصر والاحصاء.فندعو لھذہ الدولۃ طول العمر والبقاء.وای عاقل یسب المحسن وینسی نعمہ ولا یذکر المنن.نعوذ باللّٰہ من سوء الفھم ووضع الرأی فی غیر محلہ وقولنا ھذا رد علی جریدۃ سِوِل واما الذی یزعم انّ حمایۃ الکفار کیف یجوز فقد رددنا وساوسہ غیر مرۃ.واثبتنا الامر بکثیر من ادلۃ واثبتنا ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم وضع ھذا الاساس.وقال ما شکر اللہ من لا یشکر الناس.فھذا اصول محکم لا یردہ الا فاسق ولا یقبلہ الا صالح ولو بعد اللّتیا واللتی واما نحن فھذا مذھبنا ونشکر المحسن ولا نری اختلاف المذاھب ویصعب علینا خلاف ذالک ونختار علیہ الموت.ومن اجل ذالک قد اشعنا رأینا ھذا فی بلاد الاسلام الی ما وسع لنا وامکن وان فی ھذا دلیل قاطع علی اخلاصنا ولکن للذین لا یبخلون.فحاصل الکلام انا منزھون عن تلک التھم.ولنا شواھد لا تُرد شھادتھا ولا تشک فی صحتھا.ونتوکل علی اللّہ.لا حول ولا قوۃ الا باللّہ.وھو احکم الحاکمین.
285 ضمیمہ رسالہ 3 3 رسالہ عربی کے ختم ہونے کے بعد ایک صاحب نے مجھ سے یہ سوال کیا ہے کہ آپ کے دعو ٰی کی تائید میں خدا تعالیٰ کی طرف سے کون سے ایسے نشان ظاہر ہوئے ہیں جو ایک طالب حق ان پر غور کرنے سے یہ سمجھ سکے کہ یہ کاروبار انسان کا منصوبہ نہیں بلکہ اس خدا کی طرف سے ہے جو عین وقت پر اسلام کی تائید کے لئے اپنے بندوں کو بھیجتا اور ان کا سچا ہونا اپنے خاص نشانوں کے ذریعہ ثابت کردیتا ہے.سو واضح ہو کہ اگرچہ میں نے اس سوال کا جواب کئی مرتبہ اس سے پہلے بھی اپنی کتابوں میں لکھا ہے لیکن اب پھر ان متفرق باتوں کو حق کے طالبوں کے فائدہ کے لئے ایک ہی جگہ جمع کرکے لکھ دیتا ہوں.شاید وہ وقت پہنچ گیا ہو کہ لوگ میری باتوں میں غور کریں.پس غور سے سنو کہ عقلمندوں اور سوچنے والوں کے لئے میرے دعو ٰی کے ساتھ اس قدر نشان موجود ہیں کہ اگر وہ انصاف سے کام لیں تو ان کے تسلی پانے کے لئے نہایت کافی و شافی ذخیرہ خوارق موجود ہے ہاں اگر کوئی اس شخص کی طرح جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مینہ کے بارے میں معجزہ استجابت دعا دیکھ کر یعنی کئی برسوں کے امساک باراں کے بعد مینہ برستا ہوا مشاہدہ کرکے پھر کہہ دیا تھا کہ یہ کوئی معجزہ نہیں.اتفاقاً بادل آیا اور مینہ برس گیا.انکار سے باز نہ آوے تو ایسے شخص کا علاج ہمارے پاس نہیں.ایسے لوگ ہمارے سید و مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیشہ آسمانی نشان دیکھتے رہے پھر یہ کہتے رہے.3 ۱.جو شخص سچے دل سے خدا کا نشان دیکھنا چاہتا ہے اس کو چاہئے کہ سب سے پہلے اس نشان پر نظر کرے کہ اس عاجز کا ظاہر ہونا عین اس وقت میں ہے جس وقت کا ذکر ہمارے سید خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے آپ فرمایا ہے یعنی صدی کا سر.پھر آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ صلیب کے غلبہ کے وقت ایک شخص پیدا ہوگا جو صلیب کو توڑے گا.ایسے شخص کا نام آنحضرت نے مسیح ابن مریم رکھا ہے.اب سوچو کہ صلیب کا غلبہ تو انتہاء تک پہنچ گیا اور نصاریٰ ٹڈیوں کی طرح دنیا پر محیط ہوگئے اور پادریوں کو اپنے شیطانی اغوا میں وہ کامیابی ہوئی جس کی کوئی نظیر نہیں اور صدی میں سے بھی تیرہ برس گذر گئے تو کیا اب تک صلیب کا توڑنے والا ظاہر نہ ہوا یا نعوذ باللہ پیشگوئی خطا گئی یا علماء مخالفین کی یہ خواہش ہے کہ اور سو۱۰۰ برس تک پادری لوگ اسلام کو پیروں کے نیچے کچلتے رہیں.جب تک کہ نئی صدی آوے اور
286 آسمان سے ان کا فرضی مسیح نازل ہو.پھر اس صدی پر بھی کیا امید ہے شاید وہ بھی خطا جائے.غرض اب یہ نازک وقت اور صدی کا سر چاہتا تھا کہ صلیب کا توڑنے والا پیدا ہو اور خنزیروں کو جن میں خنز یعنی فساد کا جوش ہے دلائل بینہ کے ساتھ قتل کرے.سو وہ ظاہر ہوگیا جس کو قبول کرنا ہو کرے.پھر دوسرا نشان یہ ہے کہ اس گذشتہ زمانہ میں جس کو سترہ ۱۷برس گذر گئے.یعنی اس زمانہ میں جبکہ یہ عاجز گوشہ گمنامی میں پڑا ہوا تھا اور کوئی نہ جانتا تھا کہ کون ہے اور نہ کوئی آتا تھا اس وقت اس موجودہ زمانہ کی خبر دی گئی ہے جس میں ہر ایک طرف سے رجوع خلائق ہوا اور ایک دنیا میں شہرت ہوئی چنانچہ براہین احمدیہ میں سترہ برس کا الہام اس بارہ میں چھپا ہوا یہ ہے.انت منّی بمنزلۃ توحیدی وتفریدی فحان اَنْ تُعان وتعرف بین الناس.یاتون من کل فج عمیق.یعنی تو مجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید.پس وہ وقت آتا ہے کہ تو مشہور کیا جائے گا.اور لوگ دور دور سے تیرے پاس آئیں گے.اب دیکھو کیا یہ نشان نہیں کہ اس پیشگوئی کے مطابق اب خدا تعالیٰ نے لاکھوں انسانوں میں اور ہندوستان کے کناروں تک اس عاجز کو مشہور کردیا ہے اور ایسا ہی وہ لوگ جو ملنے کے لئے اس وقت تک آئے ان کی تعداد ساٹھ ہزار۶۰۰۰۰ سے بھی کچھ زیادہ ہوگی.کیا ایک عقلمند کو یہ پیشگوئی تعجب میں نہیں ڈالتی جو ایسے زمانہ میں ظاہر فرمائی گئی تھی جبکہ اس کا مفہوم بالکل قیاس سے بعید معلوم ہوتا تھا.پھر ایک اور پیشگوئی سوچنے والوں کے لئے نشان ہے جس کا ذکر براہین حصہ سوم کے صفحہ ۲۴۱ میں ہے جس کو پندرہ برس کا عرصہ گذر گیا ہے.اس میں خدا تعالیٰ اس عاجز کو مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ عیسائیوں کا ایک فتنہ ہوگا اور تجھ کو ایک واقعہ میں وہ کاذب ٹھہرائیں گے اور بالآخر خدا تیری سچائی ظاہر کرے گا.اس پیشگوئی کی عبارت یہ ہے.ولن ترضی عنک الیھود ولا النصاریٰ.وخرقوا لہ بنین وبناتٍ بغیر علم.قُل ھُوَ اللّٰہُ اَحَد اَللّٰہُ الصَّمَد لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ کُفُوًا اَحَد.وَیَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ.اَلْفِتْنَۃُ ھٰھُنَا فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُو الْعَزْمِ.قُلْ رَبّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ.یعنی یہود اور نصاریٰ تیرے پر خوش نہیں ہوں گے جب تک تو ان کے مذہب کا پیرو نہ ہو.یعنی ان کا خوش ہونا محال ہے.ان لوگوں نے یعنی نصاریٰ نے خدا کے لئے بیٹے بیٹیاں بنا رکھی ہیں حالانکہ خدا وہ ہے جس کے کوئی بیٹا نہیں اور نہ وہ کسی کا بیٹا.نہ اس کا
287 کوئی ہمسر.اور عیسائی تیرے ساتھ ایک مکر کریں گے اور خدا بھی ان کے ساتھ مکر کرے گا خدا کے مکر سراسر نیک اور بہتر اور دوسروں کے مکروں پر غالب ہے.اس وقت عیسائیوں کی طرف سے ایک فتنہ برپا ہوگا.پس چاہئے کہ تو رسولوں اور نبیوں کی طرح صبر کرے اس وقت تو یہ دعا کر کہ اے میرے رب میرا صدق ظاہر کردے.اب ذرہ آنکھ کھول کر دیکھو کہ یہ پیشگوئی کیسی صریح اور صاف طور پر آتھم کے قصہ کی خبردے رہی ہے جس میں عیسائیوں نے یہ مکر کیا کہ حقیقت کو چھپایا.پیشگوئی میں رجوع الی الحق کی شرط تھی جس سے آتھم نے فائدہ اٹھایا.کیونکہ وہ اخیر دن تک پیشگوئی سے ڈرتا رہا.یہاں تک کہ مارے ڈر کے دیوانہ کی طرح ہوگیا.اس لئے خدا تعالیٰ نے پیشگوئی کے وعدہ کے موافق اس کی موت میں تاخیر ڈال دی.عیسائی خوب جانتے تھے کہ وہ پیشگوئی کے خوف سے نیم جان ہوگیا.اس نے قسم نہ کھائی نہ اس نے حملہ کے الزاموں کو ثابت کیا مگر تب بھی پادریوں نے شرارت پر کمر باندھی.اور امرتسر اور بہت سے دوسرے شہروں میں نہایت شوخی سے ناچتے پھرے کہ ہماری فتح ہوئی اور ان کے نہایت پلید اور بدذات لوگوں نے گالیاں نکالیں اور سخت بدزبانی کی.غرض جیسا کہ پندرہ برس پہلے خدا تعالیٰ فرما چکا تھا کہ عیسائی فتنہ برپا کریں گے.ایسا ہی ہوا اور یہودی صفت مولوی اور ان کے چیلے ان کے ساتھ ہوگئے.آخر جیسا کہ خدا تعالیٰ نے اس پیشگوئی میں اشارہ فرمایا تھا کہ قُل رَبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ.ایسا ہی اس عاجز کا صدق ظاہر ہوگیا اور آتھم جیسا کہ الہام میں بار بار ظاہر کیا گیا تھا اپنی بیباکی کے بعد اخیری اشتہار سے سات مہینے تک فوت ہوگیا.اب دیکھنا چاہئے کہ یہ کیسا عظیم الشان نشان ہے.اور یہ ایک نشان نہیں بلکہ دو۲ نشان ہیں.}۱{ایک یہ کہ عیسائیوں کے فتنہ کی پندرہ برس پہلے خبر دی گئی.}۲{ دوسرے یہ کہ آخر وہ فتنہ برپا ہوکر اس پیشگوئی کے مطابق اور نیز دوسری پیشگوئی کے مطابق آتھم مرگیا اور صدق ظاہر ہوا.اگر ان دونوں پیشگوئیوں کو یکجائی نظر سے دیکھا جائے تو خدا تعالیٰ کی ایک عظیم الشان قدرت نظر کے سامنے آجائے گی* اور اس میں ایک اور عظمت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی بھی اس کے پوری * حاشیہ.ایک مردہ پرست فتح مسیح نام نے فتح گڈہ تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپورہ سے پھر اپنی پہلی بے حیائی کو دکھلا کر ایک گندہ اور بدزبانی سے بھرا ہوا خط لکھا ہے.جس میں وہ پھر اپنی بے شرمی سے کام لے کر یہ ذکر بھی درمیان میں لاتا ہے کہ آتھم کی نسبت پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.سو ہم اس پیشگوئی کے پورا
288 ہونے سے پوری ہوگئی کیونکہ آپ نے فرمایا تھا کہ عیسائیوں اور اہل اسلام میں آخری زمانہ میں ایک جھگڑا ہوگا.عیسائی کہیں گے کہ ہم حق پر ہیں اور مسلمان کہیں گے کہ حق ہم میں ظاہر ہوا.اس وقت عیسائیوں کے لئے شیطان آواز دے گا کہ حق آل عیسیٰ کے ساتھ ہے اور مسلمانوں کے لئے آسمان سے آواز آئے گی کہ حق آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے.سو یاد رہے کہ یہ پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آتھم کے قصہ کے متعلق ہے کیونکہ زمین کے شیطانوں نے آتھم کے مقدمہ میں عیسائیوں کا ساتھ کیا اور یہ کہا کہ عیسائی فتح پا گئے چنانچہ پلید دل مولوی اور بعض اخباروں والے انہیں شیطانوں میں سے تھے جنہوں نے حق اور سچائی اور دین کا پاس نہ کیا اور آسمان کی آواز جو خدا تعالیٰ کا پاک الہام تھا جو اس عاجز پر نازل ہوا اس الہام نے بار بار گواہی دی کہ اسلام کی فتح ہے.آخر زمین کے شیطانوں نے شکست کھائی اور آسمان کی آواز کی سچائی ثابت ہوئی.یہ ایسی کھلی سچائی ہے جو کوئی اس سے انکار نہیں کرسکتا یہ کیسی نابینائی تھی کہ پلید دل لوگوں نے شرطی پیشگوئی کو ایسا سمجھ لیا کہ گویا اس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہیں ہونے کے بارے میں بہت کچھ ثبوت رسالہ انوار الاسلام اور رسالہ ضیاء الحق اور رسالہ میں دے چکے ہیں اور اب بھی ہم بیان کرچکے ہیں کہ اس پیشگوئی کی بنیاد نہ آج سے بلکہ پندرہ برس پہلے سے ڈالی گئی تھی.جس کا مفصل ذکر براہین احمدیہ کے صفحہ ۲۴۱ میں موجود ہے.سو ایسے انتظام کے ساتھ پیشگوئی کو پورا کرنا انسان کا کام نہیں ہے.یسوع کی تمام پیشگوئیوں میں سے جو عیسائیوں کا مردہ خدا ہے اگر ایک پیشگوئی بھی اس پیشگوئی کے ہم پلّہ اور ہم وزن ثابت ہو جائے تو ہم ہر ایک تاوان دینے کو طیّار ہیں.اس درماندہ انسان کی پیشگوئیاں کیا تھیں صرف یہی کہ زلزلے آئیں گے قحط پڑیں گے لڑائیاں ہوں گی پس ان دلوں پر خدا کی لعنت جنہوں نے ایسی ایسی پیشگوئیاں اس کی خدائی پر دلیل ٹھہرائیں اور ایک مردہ کو اپنا خدا بنا لیا.کیا ہمیشہ زلزلے نہیں آتے کیا ہمیشہ قحط نہیں پڑتے.کیا کہیں نہ کہیں لڑائی کا سلسلہ شروع نہیں رہتا.پس اس نادان اسرائیلی نے ان معمولی باتوں کا پیشگوئی کیوں نام رکھا.محض یہودیوں کے تنگ کرنے سے اور جب معجزہ مانگا گیا تو یسوع صاحب فرماتے ہیں کہ حرامکار اور بدکار لوگ مجھ سے معجزہ مانگتے ہیں.ان کو کوئی معجزہ دکھایا نہیں
289 یہ کیسی خباثت تھی کہ آتھم کی موت کو جو عین الہام کے موافق بیباکی کے بعد بلاتوقف ظہور میں آئی کسی نے اس کو نشان الٰہی قرار نہ دیا.وہ گندے اخبار نویس جو آتھم کے مؤیّد تھے.پیشگوئی کی حقیقت کھلنے کے بعد ایسے تجاہل سے چپ ہوئے کہ گویا مرگئے.اب آنکھیں کھولو اور اٹھو اور جاگو اور تلاش کرو کہ آتھم کہاں ہے.کیا خدا کے حکم نے اس کو قبر میں نہ پہنچا دیا.ہر ایک منصف اس پیشگوئی کو تسلیم کرے گا جائے گا.دیکھو یسوع کو کیسی سوجھی اور کیسی پیش بندی کی.اب کوئی حرام کار اور بدکار بنے تو اس سے معجزہ مانگے.یہ تو وہی بات ہوئی کہ جیساکہ ایک شریر مکار نے جس میں سراسر یسوع کی روح تھی لوگوں میں یہ مشہور کیا کہ میں ایک ایسا ورد بتلا سکتا ہوں جس کے پڑھنے سے پہلی ہی رات میں خدا نظر آجائے گا.بشرطیکہ پڑھنے والا حرام کی اولاد نہ ہو.اب بھلا کون حرام کی اولاد بنے اور کہے کہ مجھے وظیفہ پڑھنے سے خدا نظر نہیں آیا.آخر ہر ایک وظیفچی کو یہی کہنا پڑتا تھا کہ ہاں صاحب نظر آگیا.سو یسوع کی بندشوں اور تدبیروں پر قربان ہی جائیں اپنا پیچھا چھڑانے کے لئے کیسا داؤ کھیلا.یہی آپ کا طریق تھا.ایک مرتبہ کسی یہودی نے آپ کی قوت شجاعت آزمانے کے لئے سوال کیا کہ اے استاد قیصر کو خراج دینا روا ہے یا نہیں.آپ کو یہ سوال سنتے ہی اپنی جان کی فکر پڑ گئی کہ کہیں باغی کہلا کر پکڑا نہ جاؤں.سو جیسا کہ معجزہ مانگنے والوں کو ایک لطیفہ سنا کر معجزہ مانگنے سے روک دیا تھا.اس جگہ بھی وہی کارروائی کی اور کہا کہ قیصر کا قیصر کو دو اور خدا کا خدا کو.حالانکہ حضرت کا اپنا عقیدہ یہ تھا کہ یہودیوں کے لئے یہودی بادشاہ چاہئے نہ کہ مجوسی.اسی بنا پر ہتھیار بھی خریدے.شہزادہ بھی کہلایا مگر تقدیر نے یاوری نہ کی.متی کی انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی عقل بہت موٹی تھی.آپ جاہل عورتوں اور عوام الناس کی طرح مرگی کو بیماری نہیں سمجھتے تھے بلکہ جنّ کا آسیب خیال کرتے تھے.ہاں آپ کو گالیاں دینے اور بدزبانی کی اکثر عادت تھی.ادنیٰ ادنیٰ بات میں غصہ آجاتا تھا.اپنے نفس کو جذبات سے روک نہیں سکتے تھے.مگر میرے نزدیک آپ کی یہ حرکات جائے افسوس نہیں کیونکہ آپ تو گالیاں دیتے تھے اور یہودی ہاتھ سے کسر نکال لیا کرتے تھے.یہ بھی یاد رہے کہ آپ کو کسی قدر جھوٹ بولنے کی بھی عادت تھی.جن جن پیشگوئیوں کا اپنی ذات کی نسبت توریت میں پایا جانا آپ نے بیان فرمایا ہے.ان کتابوں میں ان کا نام و نشان نہیں پایا جاتا
290 مگر شاید بعض بدذات مولوی منہ سے اقرار نہ کریں مگر دل اقرار کرگئے ہیں.پھر ایک اور پیشگوئی نشان الٰہی ہے جس کا ذکر براہین احمدیہ کے صفحہ ۲۴۱ میں ہے اور وہ یہ ہے یااحمد فاضت الرحمۃ علٰی شفتیک.اے احمد فصاحت بلاغت کے چشمے تیرے لبوں پر جاری کئے گئے.سو اس کی تصدیق کئی سال سے ہورہی ہے.کئی کتابیں عربی بلیغ فصیح میں تالیف کرکے بلکہ وہ اوروں کے حق میں تھیں جو آپ کے تو ّ لد سے پہلے پوری ہوگئیں اور نہایت شرم کی بات یہ ہے کہ آپ نے پہاڑی تعلیم کو جو انجیل کا مغز کہلاتی ہے.یہودیوں کی کتاب طالمود سے چرا کر لکھا ہے.اور پھر ایسا ظاہر کیا ہے کہ گویا یہ میری تعلیم ہے.لیکن جب سے یہ چوری پکڑی گئی عیسائی بہت شرمندہ ہیں.آپ نے یہ حرکت شاید اس لئے کی ہوگی کہ کسی عمدہ تعلیم کا نمونہ دکھلا کر رسوخ حاصل کریں.لیکن آپ کی اس بیجا حرکت سے عیسائیوں کی سخت رو سیاہی ہوئی اور پھر افسوس یہ ہے کہ وہ تعلیم بھی کچھ عمدہ نہیں عقل اور کانشنس دونوں اس تعلیم کے منہ پر طمانچے مار رہے ہیں.آپ کا ایک یہودی استاد تھا جس سے آپ نے توریت کو سبقاً سبقاً پڑھا تھا.معلوم ہوتا ہے کہ یا تو قدرت نے آپ کو زیر کی سے کچھ بہت حصہ نہیں دیا تھا اور یا اس استاد کی یہ شرارت ہے کہ اس نے آپ کو محض سادہ لوح رکھا.بہرحال آپ علمی اور عملی قویٰ میں بہت کچے تھے.اسی وجہ سے آپ ایک مرتبہ شیطان کے پیچھے پیچھے چلے گئے.ایک فاضل پادری صاحب فرماتے ہیں کہ آپ کو اپنی تمام زندگی میں تین مرتبہ شیطانی الہام بھی ہوا تھا چنانچہ ایک مرتبہ آپ اسی الہام سے خدا سے منکر ہونے کے لئے بھی طیّار ہوگئے تھے.آپ کی انہیں حرکات سے آپ کے حقیقی بھائی آپ سے سخت ناراض رہتے تھے اور ان کو یقین تھا کہ آپ کے دماغ میں ضرور کچھ خلل ہے اور وہ ہمیشہ چاہتے رہے کہ کسی شفاخانہ میں آپ کا باقاعدہ علاج ہو شاید خدا تعالیٰ شفا بخشے.عیسائیوں نے بہت سے آپ کے معجزات لکھے ہیں.مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا.اور اس دن سے کہ آپ نے معجزہ مانگنے والوں کو گندی گالیاں دیں اور ان کو حرام کار اور حرام کی اولاد ٹھہرایا.اسی روز سے شریفوں نے آپ سے کنارہ کیا اور نہ چاہا کہ معجزہ مانگ کر حرامکار اور حرام
291 ہزارہا روپیہ کے انعام کے ساتھ علماء اسلام اور عیسائیوں کے سامنے پیش کی گئیں مگر کسی نے سر نہ اٹھایا اور کوئی مقابل پر نہ آیا.کیا یہ خدا کا نشان ہے یا انسان کا ہذیان ہے.پھر ایک اور پیشگوئی نشان الٰہی ہے جو براہین کے صفحہ ۲۳۸ میں درج ہے.اور وہ یہ ہے الرّحمٰن عَلّم القُرآن.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے علم قرآن کا وعدہ دیا تھا.سو اس وعدہ کو ایسے طور سے کی اولاد بنیں.آپ کا یہ کہنا کہ میرے پیرو زہر کھائیں گے اور ان کو کچھ اثر نہیں ہوگا.یہ بالکل جھوٹ نکلا.کیونکہ آج کل زہر کے ذریعہ سے یورپ میں بہت خودکشی ہورہی ہے.ہزارہا مرتے ہیں.ایک پادری گو کیسا ہی موٹا ہو تین رتی اسٹرکنیا کھانے سے دو گھنٹے تک بآسانی مرسکتا ہے.پھر یہ معجزہ کہاں گیا.ایسا ہی آپ فرماتے ہیں کہ میرے پیرو پہاڑ کو کہیں گے کہ یہاں سے اٹھ اور وہ اٹھ جائے گا یہ کس قدر جھوٹ ہے بھلا ایک پادری صرف بات سے ایک الٹی جوتی کو سیدھا کرکے تو دکھلائے.ممکن ہے کہ آپ نے معمولی تدبیر کے ساتھ کسی شب کور وغیرہ کو اچھا کیا ہو.یا کسی اور ایسی بیماری کا علاج کیا ہو.مگر آپ کی بدقسمتی سے اسی زمانہ میں ایک تالاب بھی موجود تھا جس سے بڑے بڑے نشان ظاہر ہوتے تھے.خیال ہوسکتا ہے کہ اُس تالاب کی مٹی آپ بھی استعمال کرتے ہوں گے اسی تالاب سے آپ کے معجزات کی پوری پوری حقیقت کھلتی ہے اور اسی تالاب نے فیصلہ کردیا ہے کہ اگر آپ سے کوئی معجزہ بھی ظاہر ہوا ہو تو وہ معجزہ آپ کا نہیں بلکہ اس تالاب کا معجزہ ہے.اور آپ کے ہاتھ میں سوا مکر اور فریب کے اور کچھ نہیں تھا.پھر افسوس کہ نالائق عیسائی ایسے شخص کو خدا بنا رہے ہیں.آپ کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے.تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زنا کار اور کسبی عورتیں تھیں.جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا.مگر شاید یہ بھی خدائی کے لئے ایک شرط ہوگی.آپ کا کنجریوں سے میلان اور صحبت بھی شاید اسی وجہ سے ہو کہ جدّی مناسبت درمیان ہے ورنہ کوئی پرہیزگار انسان ایک جوان کنجری کو یہ موقعہ نہیں دے سکتاکہ ہ وہ اس کے سر پر اپنے ناپاک ہاتھ لگاوے اور زناکاری کی کمائی کا پلید عطر اس کے سر پر ملے اور اپنے بالوں کو اس کے پیروں پر ملے.سمجھنے والے سمجھ لیں کہ ایسا انسان کس چلن کا آدمی ہوسکتا ہے.
292 پورا کیا کہ اب کسی کو معارف قرآنی میں مقابلہ کی طاقت نہیں.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر کوئی مولوی اس ملک کے تمام مولویوں میں سے معارف قرآنی میں مجھ سے مقابلہ کرنا چاہے اور کسی سورۃ کی ایک تفسیر آپ وہی حضرت ہیں جنہوں نے یہ پیشگوئی بھی کی تھی کہ ابھی یہ تمام لوگ زندہ ہوں گے کہ میں پھر واپس آجاؤں گا.حالانکہ نہ صرف وہ لوگ بلکہ انیس۱۹ نسلیں ان کے بعد بھی انیس۱۹ صدیوں میں مرچکیں.مگر آپ اب تک تشریف نہ لائے.خود تو وفات پاچکے مگر اس جھوٹی پیشگوئی کا کلنک اب تک پادریوں کی پیشانی پر باقی ہے.سو عیسائیوں کی یہ حماقت ہے کہ ایسی پیشگوئیوں پر تو ایمان لاویں.مگر آتھم کی پیشگوئی کی نسبت جو صاف اور صریح طور پر پوری ہوگئی اب تک انہیں شک ہو.سوچنا چاہئے کہ یہ وہ عظیم الشان پیشگوئی ہے جس کی پندرہ سال پہلے خبر دی گئی ہے.اور جو اپنی شرط کے موافق اور اپنے آخری الہاموں کے موافق پوری ہوگئی.اس سے انکار کرنا کیا صریح خباثت ہے یا نہیں.کیا یہ انسان کا کام ہے کہ ایک مخفی امر کی پندرہ۱۵ سال پہلے خبر دے اور پھر شرط کے موافق نہ خلاف شرط پیشگوئی کو انجام تک پہنچاوے.یہ مردہ پرست لوگ کیسے جاہل اور خبیث طینت ہیں کہ سیدھی بات کو بھی نہیں سمجھتے.فتح مسیح کو یاد رکھنا چاہئے کہ آتھم تمام پادریوں کا منہ کالا کرکے قبر میں داخل ہوچکا ہے.اب یہ کالک کا ٹیکہ عیسائیوں کی پیشانی سے کسی طرح اتر نہیں سکتا.اگر وہ قسم کھا لیتا اور پھر ایک برس تک نہ مرتا تو عیسائیوں کو اس کی زندگی مفید ہوتی.مگر اس نے نہ قسم کھائی نہ نالش کی نہ اپنے جھوٹے تین الزاموں کا ثبوت دیا.پس اس نے اپنی عملی کارروائیوں سے ثابت کردیا کہ وہ ضرور ڈرتا رہا.پھر جب بیباکی کی طرف رخ کیا تو حسب منشاء الہام الٰہی آخری اشتہار سے سات مہینے تک واصل جہنم ہوگیا.اور جیسا کہ خدا کے پاک الہام نے خبر دی تھی ویسا ہی ہوا.پس کیا ایسی پیشگوئی جو ایسی صراحت کے ساتھ ظہور پذیر ہوئی جس کا تمام نقشہ خدائے عالم الغیب نے پندرہ برس پہلے اپنے پاک الہام کے ذریعہ سے ظاہر کردیا تھا وہ جھوٹ ٹھہر سکتی ہے.بلکہ وہی لعنتی فرقہ جھوٹا ہے جو ایسے کھلے کھلے نشان کی تکذیب کرتا ہے.بالآخر ہم لکھتے ہیں کہ ہمیں پادریوں کے یسوع اور اس کے چال چلن سے کچھ غرض نہ تھی.انہوں نے ناحق ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے کر ہمیں آمادہ* کیا کہ ان کے یسوع کا کچھ تھوڑا سا حال ان پر ظاہرکریں.چنانچہ اسی پلید نالائق فتح مسیح نے اپنے خط میں جو میرے نام بھیجا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم * اگر پادری اب بھی اپنی پالسی بدل دیں اور عہد کرلیں کہ آئندہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نہیں نکالیں گے تو ہم بھی عہد کریں گے کہ آئندہ نرم الفاظ کے ساتھ ان سے گفتگو ہوگی ور نہ جو کچھ کہیں گے اس کا جواب سنیں گے.
293 میں لکھوں اور ایک کوئی اور مخالف لکھے تو وہ نہایت ذلیل ہوگا اور مقابلہ نہیں کرسکے گا.اور یہی وجہ ہے کہ باوجود اصرار کے مولویوں نے اس طرف رخ نہیں کیا.پس یہ ایک عظیم الشان نشان ہے مگر ان کے لئے جو انصاف اور ایمان رکھتے ہیں.اور ایک نشان خدا کے نشانوں میں سے یہ ہے کہ میرے دعویٰ سے تیس۳۰ برس پہلے ایک بندہ صالح نے میری نسبت پیشگوئی کی اور اس پیشگوئی میں میرا نام اور میرے گاؤں کا نام لے کر کہا کہ وہ شخص مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرے گا اور وہ اپنے دعویٰ میں سچا ہوگا اور مولوی لوگ جہالت اور حماقت سے اس کا انکار کریں گے چنانچہ اس نے اس تمام پیشگوئی سے کریم بخش نامی ایک نیک بخت مسلمان کو جو لودیانہ کے قریب ایک گاؤں میں رہنے والا تھا اطلاع دی اور کہا کہ وہ مسیح موعود لدھیانہ میں آئے گا اور نصیحت کی کہ مولویوں کے شور کی کچھ پروا نہ کرنا کہ مولوی اس مخالفت میں جھوٹے ہوں گے.چنانچہ جب میں اس دعویٰ کے بعد لدھیانہ میں گیا تو کریم بخش میرے پاس آیا اور صدہا لوگوں کے رو برو بار بار یہ گواہی دی.چنانچہ اُس کی طرف سے ایک رسالہ بھی شائع ہوچکا.سو یہ بھی ایک نشان الٰہی ہے.اور منجملہ نشانوں کے ایک نشان خسوف و کسوف رمضان میں ہے.کیونکہ دار قطنی میں صاف لکھا ہے کہ مہدی موعود کی تصدیق کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ ایک نشان ہوگا کہ رمضان میں چاند کوزانی لکھا ہے اور اس کے علاوہ اور بہت گالیاں دی ہیں.پس اسی طرح اس مردار اور خبیث فرقہ نے جو مردہ پرست ہے ہمیں اس بات کے لئے مجبور کردیا ہے کہ ہم بھی ان کے یسوع کے کسی قدر حالات لکھیں.اور مسلمانوں کو واضح رہے کہ خدا تعالیٰ نے یسوع کی قرآن شریف میں کچھ خبر نہیں دی کہ وہ کون تھا.اور پادری اس بات کے قائل ہیں کہ یسوع وہ شخص تھا جس نے خدائی کا دعویٰ کیا اور حضرت موسیٰ کا نام ڈاکو اور بٹمار رکھا.اور آنے والے مقدس نبی کے وجود سے انکار کیا.اور کہا کہ میرے بعد سب جھوٹے نبی آئیں گے.پس ہم ایسے ناپاک خیال اور متکبر اور راستبازوں کے دشمن کو ایک بھلا مانس آدمی بھی قرار نہیں دے سکتے.چہ جائیکہ اس کو نبی قرار دیں.نادان پادریوں کو چاہئے کہ بدزبانی اور گالیوں کا طریق چھوڑ دیں.ورنہ نہ معلوم خدا کی غیرت کیا کیا ان کو دکھلائے گی.اور ہم اس جگہ فتح مسیح کی سفارش کرتے ہیں کہ بزرگ پادری
294 اور سورج کو گرہن لگے گا.چنانچہ وہ گرہن لگ گیا.اور کوئی ثابت نہیں کرسکتا کہ مجھ سے پہلے کوئی اور بھی ایسا مدعی گذرا ہے جس کے دعویٰ کے وقت میں رمضان میں چاند اور سورج کا گرہن ہوا ہو.سو یہ ایک بڑا بھاری نشان ہے جو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے ظاہر کیا.دار قطنی کی حدیث میں کوئی اغلاق نہیں.جس طرح پر خسوف کسوف ظہور میں آیا وہ سراسر حدیث کے الفاظ کے موافق ہے چنانچہ میں نے اسی خسوف کسوف رمضان کی نسبت عربی میں ایک رسالہ لکھا ہے اس میں اس حدیث کی مفصل شرح کر دی گئی ہے اور یہ کہنا کہ اس حدیث میں بعض راویوں پر محدثین نے جرح کیا ہے.یہ قول سراسر حماقت ہے.کیونکہ یہ حدیث ایک پیشگوئی پر مشتمل تھی جو اپنے وقت پر پوری ہوگئی.پس جبکہ حدیث نے اپنی سچائی کو آپ ظاہر کردیا تو اس کی صحت میں کیا کلام ہے.ایسے لوگ چار پائے ہیں نہ آدمی جن کے دل میں بعد قیام دلائل صحت پھر بھی شبہ رہ جاتا ہے فرض کیا کہ محدثین کی طرز تحقیق میں اس حدیث کی صحت میں کچھ شبہ رہ گیا تھا.مگر دوسرے پہلو سے وہ شبہ رفع ہوگیا.محدثین نے اس بات کا ٹھیکہ نہیں لیا کہ جو حدیث ان کی نظر میں قاعدہ تنقید رواۃ کی رو سے کچھ ضعف رکھتی ہو وہ ضعف کسی دوسرے طریق سے دور نہ ہوسکے.اس حدیث کو تو کسی شخص نے وضعی قرار نہیں دیا اور اہل سنت اور شیعہ دونوں میں پائی جاتی ہے اور اہل حدیث خوب جانتے ہیں کہ صرف محدثین کا فتویٰ قطعی طور پر کسی حدیث کے صدق یا کذب کا مدار نہیں ٹھہر سکتا.بلکہ یہاں تک ممکن ہے کہ ایک حدیث کو محدثین نے وضعی قرار دیا ہو اور اس حدیث کی پیشگوئی اپنے وقت پر پوری ہوجائے اور اس طرح پر اس حدیث کی صحت کھل جائے.ہمیں اصل غرض تحقیق صحت سے ہے نہ محدثین کے قواعد سے.پس یہ نہایت بے ایمانی اور بددیانتی ہے کہ جب خدا تعالیٰ کسی اور پہلو سے کسی حدیث کو ظاہر کردے اور اطمینان بخش ثبوت دیدے تب بھی ان ظنون فاسدہ کو نہ چھوڑ یں کہ فلاں شخص نے فلاں راوی کی نسبت یہ شکوک پیش کئے تھے.یہ ایسی ہی بات ہے جیسا کہ معتبر راویوں کے بیان سے ضرور اس کو اس خطرناک خدمات پادریانہ منصب سے علیحدہ کردیں.اور اس کو اس نوکری سے موقوف کردینا سراسر اس پر احسان ہے.ورنہ معلوم نہیں کہ اس گندی پلید زبان کا انجام کیا ہوگا.منہ
295 کسی کی موت ثابت ہو اور پھر وہ شخص جو مردہ قرار دیا گیا ہے حاضر ہوجائے اور اس کے حاضر ہونے پر بھی اس کی زندگی پر اعتبار نہ کریں اور یہ کہیں کہ راوی بہت معتبر ہیں ہم اس کو زندہ نہیں مان سکتے.ایسا ہی ان بدبخت مولویوں نے علم تو پڑھا مگر عقل اب تک نزدیک نہیں آئی.اس جگہ اس حکمت کا بیان کرنا بھی فائدہ سے خالی نہیں کہ خدا تعالیٰ نے مہدی موعود کا نشان چاند اور سورج کے خسوف کسوف کو جو رمضان میں ہوا کیوں ٹھہرایا.اس میں کیا بھید ہے.سو جاننا چاہیئے کہ خدا تعالیٰ کے علم میں تھا کہ علماء اسلام مہدی کی تکفیر کریں گے.اور کفر کے فتوے لکھیں گے چنانچہ یہ پیشگوئی آثار اور احادیث میں موجود ہے کہ ضرور ہے کہ مہدی موعود اپنی قبولیت کے وقت سے پہلے علماء زمانہ کی طرف سے اپنی نسبت کفر کے فتوے سنے اور اس کو کافر اور بے ایمان کہیں اور اگر ممکن ہو تو اس کے قتل کرنے کی تدبیر کریں.سو چونکہ علماء امت اور فقراء ملت زمین کے آفتاب اور ماہتاب کی طرح ہوتے ہیں اور انہیں کے ذریعہ سے دنیا کی تاریکی دور ہوتی ہے.اس لئے خدا تعالیٰ نے آسمان کے اجرام چاند اور سورج کی تاریکی کو علماء اور فقراء کے دلوں کی تاریکی پر دلیل ٹھہرائی.گویا پہلے کسوف خسوف زمین کے چاند اور سورج پر ہوا کہ علماء اور فقراء کے دل تاریک ہوگئے اور پھر اسی تنبیہ کے لئے آسمان پر خسوف کسوف ہوا.تامعلوم ہو کہ وہ بلا جس نے علماء اور فقراء کے دلوں پر نازل ہوکر خسوف کسوف کی حالت میں ان کو کردیا آسمان نے اس کی گواہی دی.کیونکہ آسمان زمین کے اعمال پر گواہی دیتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی شق قمر کی یہی حکمت تھی کہ جن کو پہلی کتابوں کے علم کا نور ملا تھا وہ لوگ اس نور پر قائم نہ رہے اور ان کی دیانت اور امانت ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی.سو اس وقت بھی آسمان کے شق القمر نے ظاہر کردیا کہ زمین میں جو لوگ نور کے وارث تھے انہوں نے تاریکی سے پیار کیا ہے اور اس جگہ یہ بات قابل افسوس ہے کہ مدت ہوئی کہ آسمان کا خسوف کسوف جو رمضان میں ہوا وہ جاتا رہا اور چاند اور سورج دونوں صاف اور روشن ہوگئے مگر ہمارے وہ علماء اور فقرا ء جو شمس العلماء اور بدر العرفاء کہلاتے ہیں وہ آج تک اپنے کسوف خسوف میں گرفتار ہیں اور رمضان میں کسوف خسوف ہونا یہ اس بات کی طرف
296 اشارہ تھا کہ رمضان نزول قرآن اور برکات کا مہینہ ہے اور مہدی موعود بھی رمضان کے حکم میں ہے کیونکہ اس کا زمانہ بھی رمضان کی طرح نزول معارف قرآن اور ظہور برکات کا زمانہ ہے سو اس کے زمانہ میں علماء کا اس سے منہ پھیرنا اس کو کافر قرار دینا گویا رمضان میں خسوف کسوف ہونا ہے اگر کسی کو ایسی خواب آوے کہ رمضان میں خسوف کسوف ہوا تو اُس کی یہی تعبیر ہے کہ کسی بابرکت انسان کے زمانہ میں علماء وقت اس کی مخالفت کریں گے اور سبّ اور توہین اور تکفیر سے پیش آویں گے.اور وہ شخص موعود مہدی کے نام سے بھی اس لئے نامزد کیا گیا ہے تا اس بات کی طرف اشارہ کیا جائے کہ لوگ اس کو مہدی یعنی ہدایت یافتہ نہیں سمجھیں گے بلکہ کافر ۱وربے دین کہیں گے.سو یہ نام پہلے سے بطور ذبّ اور دفع کے مقرر کیا گیا جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مذمت کرنے والوں کے رد کے لئے محمدؐ رکھا گیا.تا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ اس قابل تعریف نبی کی شریر اور خبیث لوگ مذمت کریں گے مگر وہ محمدؐ ہے یعنی نہایت تعریف کیا گیا نہ کہ مذ ّ مم.اب یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حدیث میں دو خسوف کسوف کا وعدہ تھا.ایک علماء اور فقراء کے دلوں کا خسوف کسوف اور دوسرے چاند اور سورج کا کسوف خسوف.سو زمین کا خسوف کسوف تو علماء اور فقراء نے اپنے ہاتھ سے پورا کیا.کیونکہ انہوں نے علم اور معرفت کی روشنی پاکر پھر اس شخص سے عمداً منہ پھیرا جس کو قبول کرنا چاہئے تھا اور ضرور تھا کہ ایسا کرتے کیونکہ لکھا گیا تھا کہ ابتدا میں مہدی موعود کو کافر قرار دیا جائے گا.سو انہوں نے مجھے کافر قرار دے کر اس نوشتہ کو پورا کردیا.اور دوسرا حصہ آسمان میں پورا ہوا.اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ مہدی کو اسی طرح حدیث میں آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہرایا گیا جس طرح حدیث میں عیسائیوں کو آل عیسیٰ ٹھہرایا گیا.اب نشان مانگنے والے سوچیں کہ کیا یہ خسوف کسوف نشان نہیں ہے.کیا خسوف و کسوف ظاہر نہیں کرتا کہ مہدی موعود پیدا ہوگیا.اور وہ وہی ہے جس کی تکذیب کی گئی جس کو کافر ٹھہرایا گیا.کیونکہ نشان اسی کی تصدیق کے لئے ہوتا ہے جس کو قبول نہ کیا جائے.افسوس ہمارے نادان علماء اور مغرور فقراء نہیں سوچتے کہ آثار اور احادیث میں مہدی موعود کی یہی نشانی تھی کہ پہلے
297 اس کو بڑے زور شور سے کافر ٹھہرایا جائے گا.اور پھر اُس کی تصدیق کے لئے آسمان پر رمضان میں خسوف کسوف ہوگا.سو نہایت صفائی سے یہ نشانی پوری ہوگئی.کیا وہ لوگ اب تک متقی اور پرہیزگار کہلاتے ہیں جو اس قدر کھلا کھلا نشان ظاہر ہونے پر بھی حق کی طرف متوجہ نہیں ہوتے.ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کا خوف پیدا نہیں ہوتا.یہ کیسے ان کے دلوں پر قفل ہیں جنہوں نے ایک ذرہ تصدیق سے کام نہ لیا.اور منجملہ آسمانی نشانوں کے ایک نشان میرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کی موت ہے.آپ لوگ جانتے ہیں کہ پیشگوئی میں صاف لفظوں میں لکھا گیا تھا کہ وہ اپنی دختر کے روز نکاح سے تین برس تک فوت ہوجائے گا.چنانچہ روز نکاح سے ابھی چھ مہینے نہیں گزرے تھے کہ وہ بمقام ہوشیار پور فوت ہوگیا.اب سوچو کیا یہ نشان نہیں ہے کیا یہ علم غیب بجز خدا کے اور کسی کو بھی حاصل ہے مگر اس پیشگوئی کا دوسرا حصہ جو اس کے داماد کی موت ہے وہ الہامی شرط کی وجہ سے دوسرے وقت پرجا پڑا اور داماد اس کا الہامی شرط سے اسی طرح متمتع ہوا جیسا کہ آتھم ہوا.کیونکہ احمد بیگ کی موت کے بعد اس کے وارثوں میں سخت مصیبت برپا ہوئی.سو ضرور تھا کہ وہ الہامی شرط سے فائدہ اٹھاتے.اور اگر کوئی بھی شرط نہ ہوتی تاہم وعیدمیں سنت اللہ یہی تھی جیسا کہ یونس کے دنوں میں ہوا.پس اس کا داماد تمام کنبہ کے خوف کی وجہ سے اور ان کے توبہ اور رجوع کے باعث سے اس وقت فوت نہ ہوا.مگر یاد رکھو کہ خدا کے فرمودہ میں تخلّف نہیں اور انجام وہی ہے جو ہم کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں.خدا کا وعدہ ہرگز ٹل نہیں سکتا.غرض احمد بیگ کی موت بھی خدا کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے.اسی طرح بہت امور غیبیہ ہیں جو ظہور میں آئے.چنانچہ پنڈت دیانند کی موت کی خبر قبل از وقت دینا.دلیپ سنگھ کے اپنے ارادہ سیر ہندوستان میں ناکام رہنے کی خبر قبل از وقت دینا.مہرعلی ہوشیار پوری کی مصیبت کی خبر قبل ازوقت دینا.یہ ایسے امور ہیں جو صدہا آدمی اس پر گواہ ہیں.اور تین ہزار۳۰۰۰ کے قریب وہ اخبار غیب ہیں جن پر وقتاً فوقتاً صحبت میں رہنے والے اطلاع پاتے گئے جن میں سے بہت اب تک موجود ہیں.اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہر ایک شخص جو کسی مدت معقول تک میری صحبت میں رہا ہے ضرور اس نے کوئی نشان بھی دیکھا ہے.ایسا کوئی نہیں
298 جو ایک مدت تک میرے پاس رہا ہو اور پھر اس نے کوئی نشان نہ دیکھا ہو اور نہ کوئی خبر غیب سنی ہو.میاں عبد الرحیم یا عبد الوحد پسران مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی جو اس وقت مجھ کو کافر ٹھہراتے ہیں اور سخت مخالف ہیں ذرہ ان کو قسم دے کر پوچھئے کہ کیا مقام ہوشیار پور میں جس کو گیارہ برس گزر گئے میں نے یہ الہام نہیں سنایا تھاکہ ایتھا المرأۃ توبی توبی فان البلاء علی عقبک یعنی اے عورت(عورت سے مراد احمد بیگ ہوشیار پوری کی بیوی کی والدہ ہے)توبہ توبہ کر کہ تیری دختر اور دخترِ دختر پر بلا نازل ہونے والی ہے.سو ایک بلا تو نازل ہوگئی کہ احمد بیگ فوت ہوگیا.اور بنت البنت کی بلا باقی ہے جس کو خدا تعالیٰ نہیں چھوڑے گا جب تک پورا نہ کرے.مگر چونکہ اس الہام میں توبی کا لفظ توبہ کی شرط کو ظاہر کررہا تھا اور اس شرط کو احمد بیگ کی موت کے بعد اس کے وارثوں نے پورا کردیا اور وہ بہت ڈرے اور اپنے داماد کے لئے دعا اور رجوع میں لگ گئے اس لئے احمد بیگ کے داماد کی موت میں سنت اللہ کے موافق تاخیر ہوگئی کیونکہ وہ خوف جو احمد بیگ کی موت نے ان کے دلوں میں بٹھا دیا وہی توبہ کا باعث ہوا.یہ تو ظاہر ہے کہ تجربہ انسان کے دل پر بڑا قوی اثر ڈالتا ہے اور اس کے دل کو خوف سے بھر دیتا ہے سو احمد بیگ کی موت کے بعد ان کا حال ایسا ہی ہوا.اسی طرح شیخ محمد حسین بٹالوی کو حلفاًپوچھنا چاہئے کہ کیا یہ قصہ صحیح نہیں کہ یہ عاجز اس شادی سے پہلے جو دہلی میں ہوئی اتفاقاً اس کے مکان پر موجود تھا اس نے سوال کیا کہ کوئی الہام مجھ کو سناؤ.میں نے ایک تازہ الہام جو انہیں دنوں میں ہوا تھا اور اس شادی اور اس کی دوسری جز پر دلالت کرتا تھا اس کو سنایا.اور وہ یہ تھا کہ بکرٌ وثیّب.یعنی مقدر یوں ہے کہ ایک بکر سے شادی ہوگی اور پھر بعدہ ایک بیوہ سے.میں اس الہام کو یاد رکھتا ہوں مجھے امید نہیں کہ محمد حسین نے بھلا دیا ہو.مجھے اس کا وہ مکان یاد ہے جہاں کرسی پر بیٹھ کر میں نے اس کو الہام سنایا تھا اور احمد بیگ کے قصہ کا ابھی نام و نشان نہ تھا اور نہ ابھی اس دوسری شادی کا کچھ ذکر تھا.پس اگر وہ سمجھے تو سمجھ سکتا ہے کہ یہ خدا کا نشان تھا جس کا ایک حصہ اس نے دیکھ لیا اور دوسرا حصہ جو ثیّب یعنی بیوہ کے متعلق ہے دوسرے وقت میں دیکھ لے گا.پھر ایک اور الہام ہے جو فروری ۱۸۹۶ء میں شائع ہوا تھا.اور وہ یہ ہے کہ
299 خدا تین کو چار کرے گا.اس وقت ان تین لڑکوں کا جواب موجود ہیں نام و نشان نہ تھا اور اس الہام کے معنی یہ تھے کہ تین لڑکے ہوں گے اور پھر ایک اور ہوگا جو تین کو چار کردے گا.سو ایک بڑا حصہ اس کا پورا ہوگیا یعنی خدا نے تین لڑکے مجھ کو اس نکاح سے عطا کئے جو تینوں موجود ہیں صرف ایک کی انتظار ہے جو تین کو چار کرنے والا ہوگا.اب دیکھو یہ کیسا بزرگ نشان ہے.کیا انسان کے اختیار میں ہے کہ اول افترا کے طور پر تین یا چار لڑکوں کی خبر دے اور پھر وہ پیدا بھی ہو جائیں.پھر ایک اور نشان یہ ہے جو یہ تین لڑکے جو موجود ہیں.ہر ایک کے پیدا ہونے سے پہلے اس کے آنے کی خبر دی گئی ہے چنانچہ محمود جو بڑا لڑکا ہے اس کی پیدائش کی نسبت اس سبز اشتہار میں صریح پیشگوئی معہ محمود کے نام کے موجود ہے جو پہلے لڑکے کی وفات کے بارے میں شائع کیا گیا تھا جو رسالہ کی طرح کئی ورق کا اشتہار سبز رنگ کے ورقوں پر ہے.اور بشیر جو درمیانی لڑکا ہے اس کی خبر ایک سفید اشتہار میں موجود ہے جو سبز اشتہار کے تین سال بعد شائع کیا گیا تھا اور شریف جو سب سے چھوٹا لڑکا ہے اس کے تولد کی نسبت پیشگوئی ضیاء الحق اور انوار الاسلام میں موجود ہے اب دیکھو کہ کیا یہ خدائے عالم الغیب کا نشان نہیں ہے کہ ہر ایک بشارت کے وقت میں قبل از وقت وہ بشارت دیتا رہا.پھر ایک اور پیشگوئی ہے جو ابھی ظہور میں آئی ہے یعنی وہ جلسہ مذاہب جو لاہو رمیں ہوا تھا اس کی نسبت مجھے پہلے سے خبر دی گئی کہ وہ مضمون جو میری طرف سے پڑھا جائے گا وہ سب مضمونوں پر غالب رہے گا.چنانچہ میں نے قبل از وقت اس بارے میں اشتہار دے دیا جو حاشیہ میں* لکھا جاتا ہے نقل اشتہار مطابق اصل سچائی کے طالبوں کے لئے ایک عظیم الشان خوشخبری جلسہ اعظم مذاہب جو لاہور ٹاؤن ہال میں ۲۶.۲۷.۲۸ دسمبر ۱۸۹۶ء کو ہوگا.اس میں اس عاجز کا ایک مضمون قرآن شریف کے کمالات اور معجزات کے بارہ میں پڑھا جائے گا.یہ وہ مضمون ہے جو انسانی طاقتوں سے برتر اور خدا کے نشانوں میں سے ایک نشان اور خاص
300 اور اس الہام کے موافق میرے اس مضمون کی جلسہ مذاہب میں ایسی قبولیت ظاہر ہوئی کہ مخالفوں نے اس کی تائید سے لکھا گیا ہے.اس میں قرآن شریف کے وہ حقائق اور معارف درج ہیں.جن سے آفتاب کی طرح روشن ہو جائے گا کہ درحقیقت یہ خدا کا کلام اور رب العالمین کی کتاب ہے.اور جو شخص اس مضمون کو اول سے آخر تک پانچوں سوالوں کے جواب میں سنے گا.میں یقین کرتا ہوں کہ ایک نیا ایمان اس میں پیدا ہوگا.اور ایک نیا نور اس میں چمک اٹھے گا.اور خدا تعالیٰ کے پاک کلام کی ایک جامع تفسیر اس کے ہاتھ آجائے گی.یہ میری تقریر انسانی فضولیوں سے پاک اور لاف و گزاف کے داغ سے منزہ ہے مجھے اس وقت محض بنی آدمی کی ہمدردی نے اس اشتہار* کے لکھنے کے لئے مجبور کیا ہے کہ تا وہ قرآن شریف کے حسن و جمال کا مشاہدہ کریں اور دیکھیں کہ ہمارے مخالفوں کا کس قدر ظلم ہے کہ وہ تاریکی سے محبت کرتے اور اس نور سے نفرت رکھتے ہیں.مجھے خدائے علیم نے الہام سے مطلع فرمایا ہے کہ یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا.اور اس میں سچائی اور حکمت اور معرفت کا وہ نور ہے جو دوسری قومیں بشرطیکہ حاضر ہوں اور اس کو اول سے آخر تک سنیں شرمندہ ہو جائیں گی.اور ہرگز قادر نہیں ہوں گے کہ اپنی کتابوں کے یہ کمال دکھلا سکیں.خواہ وہ عیسائی ہوں خواہ آریہ خواہ سناتن دھرم والے یا کوئی اور.کیونکہ خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ اس روز اس کی پاک کتاب کا جلوہ ظاہر ہو.میں نے عالم کشف میں اس کے متعلق دیکھا کہ میرے محل پر غیب سے ایک ہاتھ مارا گیا اور اس ہاتھ کے چھونے سے اس محل میں سے ایک نور سا طعہ نکلا جو ارد گرد پھیل گیا اور میرے ہاتھوں پر بھی اس کی روشنی پڑی.تب ایک شخص جو میرے پاس کھڑا تھا وہ بلند آواز سے بولا کہ اللّٰہ اکبر خربت خیبر.اس کی تعبیر یہ ہے کہ اس محل سے میرا دل مراد ہے جو جائے نزول و حلول انوار ہے اور وہ نور قرآنی معارف ہیں اور خیبر سے مراد تمام خراب مذہب ہیں.جن میں شرک اور باطل کی ملونی ہے.اور انسان کو خدا * سوامی شوگن چندر صاحب نے اپنے اشتہار میں مسلمانوں اور عیسائی صاحبان اور آریہ صاحبوں کو قسم دی تھی کہ ان کے نامی علماء اس جلسہ میں اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں ضرور بیان فرما ویں.سو ہم سوامی صاحب کو اطلاع دیتے ہیں کہ ہم اس بزرگ قسم کی عزت کے لئے آپ کی منشاء کو پورا کرنے کے لئے تیار ہوگئے ہیں.اور انشاء اللہ ہمارا مضمون آپ کے جلسہ میں پڑھا جائے گا.اسلام وہ مذہب ہے جو خدا کا نام درمیان آنے سے سچے
301 بھی اقرر کیا ہے کہ وہ مضمون سب سے اول رہا ہے.اور یہ اشتہار الہامی محمد حسین بطالوی اور احمدا للہ اور ثناء اللہ مولویان امرتسری اور عیسائیوں کو بھی قبل ازوقت بھیجا گیا تھا.اب بتلا ویں کیا یہ خدا کا نشان نہیں ہے کہ خدا نے مجھے پہلے سے خبر دی کہ سب پر تیرا ہی مضمون غالب رہے گا.پس وہ مضمون جس عظمت کی نگاہ سے سنا گیا.اور جس تعظیم سے شہر لاہور میں اس کی دھوم مچ گئی.کیا محمد حسین اس سے بے خبر ہے یا ثناء اللہ اس واقعہ سے ناواقف ہے.پس یہ بے ایمانی کیسی ہے جو صریح نشانوں کی جگہ دی گئی.یا خدا کی صفات کو اپنے کامل محل سے نیچے گرا دیا ہے.سو مجھے جتلایا گیا کہ اس مضمون کے خوب پھیلنے کے بعد جھوٹے مذہبوں کا جھوٹ کھل جائے گا.اور قرآنی سچائی دن بدن زمین پر پھیلتی جائے گی.جب تک کہ اپنا دائرہ پورا کرے پھر میں اس کشفی حالت سے الہام کی طرف منتقل کیا گیا.اور مجھے یہ الہام ہوا.ان اللّٰہ معک ان اللّٰہ یقوم اینما قمت یعنی خدا تیرے ساتھ ہے خدا وہیں کھڑا ہوتا ہے جہاں تو کھڑا ہو.یہ حمایت الٰہی کے لئے ایک استعارہ ہے.اب میں زیادہ لکھنا نہیں چاہتا.ہر ایک کو یہی اطلاع دیتا ہوں کہ اپنا اپنا حرج بھی کرکے ان معارف کے سننے کے لئے ضرور بمقام لاہور تاریخ جلسہ پر آویں کہ ان کی عقل اور ایمان کو اس سے وہ فائدے حاصل ہوں گے کہ وہ گمان نہیں کرسکتے ہوں گے.والسّلام علٰی من اتّبع الہدٰی خاکسار غلام احمد از قادیان ۲۱؍ دسمبر ۱۸۹۶ء مسلمان کو کامل اطاعت کی ہدایت فرماتا ہے.لیکن اب ہم دیکھیں گے کہ آپ کے بھائی آریوں اور پادری صاحبوں کو ان کے پرمیشر یا یسوع کی عزت کا کس قدر پاس ہے.اور وہ ایسے عظیم الشان قدوس کے نام پر حاضر ہونے کے لئے مستعد ہیں یا نہیں.منہ
302 سے انکار کرتے ہیں.کیا اس قدر اخبار غیب*کوئی خود بخود تراش سکتا ہے.اور کیا یہ ایک کذاب کی نشانی ہے کہ اس طور سے خدا اس کی تائید کرے اور ایسے عام جلسوں میں جھوٹے دجال کو عزت دنیا میں بہت نادان اس دھوکہ میں پڑے ہوئے ہیں کہ وہ اس اعلام غیب کو جو خدا تعالیٰ کے خاص بندوں کو اس کی طرف سے ہوتا ہے بنظر توہین اور تحقیر دیکھتے ہیں.بعض جاہل سجادہ نشین اور فقیری اور مولویت کے شتر مرغ الہام کے معارف کو سنتے ہی جلد بول اٹھتے ہیں کہ یہ کچھ حقیقت نہیں.یہ تو ہمارے ادنیٰ مریدوں کو بھی ہوا کرتا ہے.بعض کہہ دیتے ہیں کہ یہ ابتدائی حالات کا ایک ناقص مرتبہ ہے جس سے آگے گزر جانا چاہئے.اور ہم نے اپنی دستگیری سے مریدوں کو اوپر کی طرف کھینچنا ہے.یہ کچھ نہیں ہیچ ہے.لیکن جاننا چاہئے کہ یہ سب شیاطین الانس ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی طرح خدا کے نور کو بجھا دیں.یہ تو سچ ہے کہ کبھی سچی خواب ادنیٰ مومن یا کافر کو بھی آجاتی ہے اور کوئی ٹوٹا پھوٹا فقرہ الہام کے رنگ میں ہر ایک مومن کے دل میں القا ہوسکتا ہے بلکہ کبھی ایک فاسق بھی تنبیہ یا ترغیب کے طور پر پاسکتا ہے.مگر وہ امر جس کو یہ عاجز پیش کرتا ہے یعنی مکالمات الٰہیہ وہ بغیر خاص اور برگزیدہ بندوں کے کسی کو عطا نہیں کیا جاتا.یہ تو ظاہر ہے کہ ادنیٰ مشارکت سے کوئی شخص اس لقب کا مستحق نہیں ہوسکتا جو حضرت احدیت کے فضل سے اکمل اور اتم فرد کے لئے مخصوص ہے.دنیا کے کمالات کی طرف نظر کرکے دیکھو.کیاکسی دیوار پر ایک اینٹ لگانے سے کوئی شخص کامل معماروں میں شمار ہوسکتا ہے یا ایک دوا بتلانے سے ڈاکٹر کہلا سکتا ہے.یا عربی یا انگریزی کا ایک لفظ سیکھنے سے اس زبان کا امام تسلیم کیا جاسکتا ہے.یوں تو چوہڑوں چماروں اور فاسقوں کو بھی خدا کے پاک نبیوں سے خواب دیکھنے میں مشارکت ہے.مگر کیا اس ایک ذرہ سی مشارکت سے تمام فاسق انبیاء کے ہم پایہ اور ہم مرتبہ شمار کئے جائیں گے.یہ جہلاء کی غلطیاں ہیں کہ جو قلت تدبر سے ان کے نفوس امارہ پر محیط ہورہی ہیں.ہاں یہ سچ ہے کہ ناتمام صوفیوں بلکہ فاسقوں اور فاجروں اور کافروں سے بھی خدا تعالیٰ کی یہ سنت جاری ہے کہ کبھی وہ سچی خوابیں دیکھتے ہیں.بعض وقت کوئی ٹوٹا پھوٹا فقرہ بطور الہام بھی سن لیتے ہیں.بعض وقت کشفی طور پر کسی مردہ کو دیکھ لیتے یا کشف قبور کے رنگ میں کسی روح سے ملاقات کرلیتے ہیں.مگر وہ ایسے ناتمام نظاروں سے کسی کمال کے وارث نہیں کہلا سکتے.اور خدا تعالیٰ ان بدکاروں یا ناتمام فقیروں کو اس لئے رؤیا یا کشف یا
303 دے اور محمد حسین جیسے راستباز کو اگر وہ راستباز ہے ذلیل اور رو سیاہ کرے.کیا یہ خدا کا فعل تھا یا الہام کا مزہ چکھاتا ہے کہ تا وہ یقین کرلیں کہ یہ قوت تخمی طور پر ہر ایک میں موجود ہے.اور ہر ایک کے لئے ترقی کی راہ کھلی ہے خدا نے کسی کو روکنا نہیں چاہا.سو یہ نمائش جو ناتمام فقراء یا فاسقون اور فاجروں کو ہوتی ہے.یہ صرف اسی غرض کے لئے ہے کہ تا ان کی ہمتیں مضبوط ہوں.اور ان کا شوق بڑھے اور آگے قدم رکھنے کے لئے تیار ہوں.اور اس نمائش میں بہت سی اضغاث احلام بھی داخل ہوجاتی ہیں.غرض کمال کی یہ علامت نہیں.ہاں صحت استعداد کی کسی قدر علامت ہے.اور میں اعلان سے کہتا ہوں کہ جس قدر فقراء میں سے اس عاجز کے مکفر یا مکذب ہیں وہ تمام اس کامل نعمت مکالمہ الٰہیہ سے بے نصیب ہیں اور محض یا وہ گو اور ژاژ خاہیں.اور مکالمہ الٰہیہ کی حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے نبیوں کی طرح اس شخص کو جو فنا فی النبی ہے اپنے کامل مکالمہ کا شرف بخشے.اس مکالمہ میں وہ بندہ جو کلیم اللہ ہو خدا سے گویا آمنے سامنے باتیں کرتا ہے.وہ سوال کرتا ہے خدا اس کا جواب دیتا ہے.گو ایسا سوال جواب پچاس۵۰ دفعہ واقعہ ہو یا اس سے بھی زیادہ.خدا تعالیٰ اپنے مکالمہ کے ذریعہ سے تین۳ نعمتیں اپنے کامل بندہ کو عطا فرماتا ہے.اول.ان کی اکثر دعائیں قبول ہوتی ہیں.اور قبولیت سے اطلاع دی جاتی ہے.دوم اس کو خدا تعالیٰ بہت سے امور غیبیہ پر اطلاع دیتا ہے.سوم.اس پر قرآن شریف کے بہت سے علوم حکمیہ بذریعہ الہام کھولے جاتے ہیں.پس جو شخص اس عاجز کا مکذب ہوکر پھر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ ہنر مجھ میں پایا جاتا ہے میں اس کو خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ ان تینوں باتوں میں میرے ساتھ مقابلہ کرے اور فریقین میں قرآن شریف کے کسی مقام کی سات آیتیں تفسیر کے لئے بالاتفاق منظور ہوکر ان کی تفسیر دونوں فریق لکھیں یعنی فریق مخالف اپنے الہام سے اس کے معارف لکھے اور میں اپنے الہام سے لکھوں اور چند ایسے الہام قبل ازوقت وہ پیش کرے جن میں قبولیت دعا کی بشارت ہو.اور وہ دعا فوق الطاقت ہو ایسا ہی میں بھی پیش کروں اور چند امور غیبیہ جو آنے والے زمانہ سے متعلق ہیں وہ قبل از وقت ظاہر کرے اور ایسا ہی میں بھی ظاہر کروں اور دونوں فریق کے یہ بیان اشتہارات کے ذریعہ سے شائع ہو جائیں تب ہر ایک کا صدق کذب کھل جائے گا.مگر یاد رکھنا چاہئے کہ ہرگز ایسا نہیں کرسکیں گے مکذبین کے دلوں پر خدا کی لعنت ہے خد ان کو نہ قرآن کا نور دکھلائے گا نہ بالمقابل دعا کی استجابت جو اعلام قبل ازوقت کے ساتھ ہو اور نہ امور غیبیہ پر اطلاع دے گا 3 33.۱ پس اب میں نے یہ اشتہار دے دیا ہے جو شخص اس کے بعد سیدھے طریق سے میرے ساتھ مقابلہ نہ کرے اور نہ تکذیب سے باز آوے وہ خدا کی لعنت فرشتوں کی لعنت اور تمام صلحاء کی لعنت کے نیچے ہے.وما علی الرسول الَّا البلاغ.منہ
304 انسان کا منصوبہ.ماسوا اس کے میں دوبارہ حق کے طالبوں کے لئے عام اعلان دیتا ہوں کہ اگر وہ اب بھی نہیں سمجھے تو نئے سرے اپنی تسلی کرلیں.اور یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ سے چھ۶ طور کے نشان میرے ساتھ ہیں.اول.اگر کوئی مولوی عربی کی بلاغت فصاحت میں میری کتاب کا مقابلہ کرنا چاہے گا تو وہ ذلیل ہوگا.میں ہر ایک متکبر کو اختیار دیتا ہوں کہ اسی عربی مکتوب کے مقابل پر طبع آزمائی کرے.اگر وہ اس عربی کے مکتوب کے مقابل پر کوئی رسالہ بالتزام مقدار نظم و نثر بناسکے اور ایک مادری زبان والا جو عربی ہو قسم کھا کر اس کی تصدیق کرسکے تو میں کاذب ہوں.دوم.اور اگر یہ نشان منظور نہ ہو تو میرے مخالف کسی سورۃ قرآنی کی بالمقابل تفسیر بناویں یعنی روبرو ایک جگہ بیٹھ کر بطور فال قرآن شریف کھولا جاوے.اور پہلی سات آیتیں جو نکلیں ان کی تفسیر َ میں بھی عربی میں لکھوں اور میرا مخالف بھی لکھے.پھر اگر میں حقائق معارف کے بیان کرنے میں صریح غالب نہ رہوں تو پھر بھی میں جھوٹا ہوں.سوم.اور اگر یہ نشان بھی منظور نہ ہو تو ایک سال تک کوئی مولوی نامی مخالفوں میں سے میرے پاس رہے.مگر اس عرصہ میں انسان کی طاقت سے برتر کوئی نشان مجھ سے ظاہر نہ ہو تو پھر بھی میں جھوٹا ہوں گا.چہارم.اور اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو ایک تجویز یہ ہے کہ بعض نامی مخالف اشتہار دے دیں کہ اس تاریخ کے بعد ایک سال تک اگر کوئی نشان ظاہر ہو تو ہم توبہ کریں گے اور مصدق ہوجائیں گے.پس اس اشتہار کے بعد اگر ایک سال تک مجھ سے کوئی نشان ظاہر نہ ہوا جو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہو خواہ پیشگوئی ہو یا اور تو میں اقرار کروں گا کہ میں جھوٹا ہوں.پنجم.اور اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو شیخ محمد حسین بطالوی اور دوسرے نامی مخالف مجھ سے مباہلہ * کرلیں.پس اگر *حاشیہ.مولوی ثناء اللہ امرتسری نے مباہلہ کی دعوت پر اطلاع پاکر اپنے خط میں مولوی عبد الحق غزنوی کے مباہلہ کا ذکر کیا ہے شاید اس ذکر سے اس کا یہ مطلب ہے کہ اس مباہلہ سے عبد الحق پر کوئی بلا نازل نہ ہوئی اور نہ اس طرف کوئی نیک اثر ہوا.سو میں اس کو اور اس کے رفیقوں کو اطلاع دیتا ہوں کہ اول تو یہ بات صحیح نہیں ہے کہ اس مباہلہ کے بعد عبد الحق کو کوئی
305 مباہلہ کے بعد میری بددعا کے اثر سے ایک بھی خالی رہا تو میں اقرار کروں گا کہ میں جھوٹا ہوں واقعی ذلت نہ پہنچی یا ہمیں کوئی واقعی عزت حاصل نہ ہوئی جیسا کہ میں آگے چل کر بیان کروں گا.ماسوا اس کے وہ مباہلہ درحقیقت میری درخواست سے نہیں تھا اور نہ میرا اس میں یہ مدعا تھا کہ عبدالحق پر بددعا کروں اور نہ میں نے بعد مباہلہ کبھی اس بات کی طرف توجہ کی.اس بات کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں نے کبھی عبدالحق پر بددعا نہیں کی.اور اپنے دل کے جوش کو ہرگز اس طرف توجہ نہیں دیا.لیکن اب نااہل مولویوں کا ظلم انتہا سے گزر گیا.اس لئے اب میں آسمانی فیصلہ کے لئے خود ہرایک مکفر سے مباہلہ کی درخواست کرتا ہوں.اور اس لئے کہ بعد میں شبہات پید انہ ہوں.میں نے یہ لازمی شرط ٹھہرا دی ہے کہ جو لوگ مباہلہ کے لئے بلائے گئے ہیں کم سے کم دس۱۰ آدمی ان میں سے مباہلہ کی درخواست کریں تا خدا کی مدد صفائی سے ثابت ہو اور کسی تاویل کی گنجائش نہ رہے اور تا کوئی بعد میں یہ نہ کہے کہ مقابل پر صرف ایک آدمی تھا سو اتفاقاً اس پر کوئی مصیبت آگئی.بعض خبیث طبع مولوی جو یہودیت کا خمیر اپنے اندر رکھتے ہیں سچائی پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ گزشتہ مباہلہ میں عبدالحق کو فتح ہوئی.کیونکہ آتھم کے متعلق جو پیشگوئی کی تھی اس میں آتھم نہیں مرا.مگر یہ دل کے مجذوم اور اسلام کے دشمن یہ نہیں سمجھتے کہ کب اور کس وقت یہ الہام ظاہر کیا گیا تھا کہ آتھم ضرور میعاد کے اندر مرے گا اور کس اشتہار یا کتاب میں ہم نے لکھا تھا کہ اس عرصہ میں بغیر کسی شرط کے آتھم کی نسبت موت کا حکم ہے دنیا میں سب جانداروں سے زیادہ پلید اور کراہت کے لائق خنزیر ہے مگر خنزیر سے زیاہ پلید وہ لوگ ہیں جو اپنے نفسانی جوش کے لئے حق اور دیانت کی گواہی کو چھپاتے ہیں.اے مردار خوار مولویو.اور گندی روحو.تم پر افسوس کہ تم نے میری عداوت کے لئے اسلام کی سچی گواہی کو چھپایا.اے اندھیرے کے کیڑو.تم سچائی کی تیز شعاعوں کو کیونکر چھپا سکتے ہو کیا ضرور نہ تھا کہ خدا اس پیشگوئی میں اپنی شرط کا لحاظ رکھتا.اے ایمان اور انصاف سے دور بھاگنے والو سچ کہو کہ کیا اس پیشگوئی میں کوئی ایسی شرط نہ تھی جس پر قدم مارنا آتھم کا اس کی موت میں تاخیر ڈال سکتا تھا.سو تم جھوٹ مت بولو اور وہ نجاست نہ کھاؤ جو عیسائیوں نے کھائی.آنکھ کھول کر دیکھو کہ یہ پیشگوئی اپنی تمام چمکوں کے ساتھ پوری ہوگئی.اب اس پیشگوئی کو ایک پیشگوئی نہ سمجھو بلکہ یہ دو پیشگوئیاں ہیں جو اپنے وقت پر ظہور میں آئیں.(۱) اول وہ پیشگوئی جو براہین احمدیہ کے صفحہ ۲۴۱ میں درج ہے.جس نے آج سے پندرہ برس
306 یہ طریق فیصلہ ہیں جو میں نے پیش کئے ہیں.اور میں ہر ایک کو خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ اب سچے پہلے صاف لفظوں میں یہ ظاہر کیا تھا کہ عیسائیوں کا ایک فتنہ برپا ہوگا.اور یہودی صفت لوگ ان کے ساتھ ملیں گے اور وہ حق کو چھپانے کے لئے بڑا مکر کریں گے.اور بہت ایذا دیں گے آخر صدق ظاہر ہوجائے گا.سو وہی صدق تھا جس کی تائید میں پندرہ برس پہلے یہ پیشگوئی کی گئی.پھر میں کہتا ہوں کہ وہی صدق تھا جس نے آتھم کو پیشگوئی سننے کے بعد ایک مجرم کی طرح لرزاں ہراساں بنا دیا تھا.پھر میں کہتا ہوں کہ وہی صدق تھا جس نے آتھم کو تین۳ جھوٹے بہتانوں کے بنانے کے لئے مجبور کیا.پھر میں کہتا ہوں کہ وہی صدق تھا جس نے آتھم کو قسم کھانے سے روکا.پھر میں کہتا ہوں کہ وہی صدق تھا جس نے آتھم کو اس ایذا اٹھانے کے بعد نالش کرنے کی جرأت سے ڈرا دیا.پھر میں کہتا ہوں کہ وہی صدق تھا جس سے آتھم آخری الہاموں کے موافق آخری اشتہار سے سات مہینے کے اندر تمام پادریوں کا منہ کالا کرکے قبر کے گڑھے میں جاپڑا.آتھم کی پیشگوئی کو اگر اس پیشگوئی کے ساتھ جو پندرہ برس پہلے براہین احمدیہ کے صفحہ ۲۴۱ میں لکھی گئی تھی اکٹھا کرکے پڑھا جائے تو یہ ایک ایسا اعجاز نمایاں ہے جس سے بڑے بڑے کافروں کے دل نرم ہوسکتے ہیں.اور یہ پیشگوئی آفتاب کی طرح چمکتی ہوئی نظر آتی ہے.مگر ان مولویوں کو کن سے تشبیہ دوں وہ اُس بیوقوف اندھے سے مشابہت رکھتے ہیں کہ جو آفتاب کے وجود سے منکر ہوگیا تھا اور بڑے زور سے وعظ کرتا تھا کہ آفتاب کے وجود پر کوئی بھی دلیل نہیں.تب آفتاب نے اس کو کہا کہ اے مادر زاد اندھے میں کونسی دلیل تجھ کو بتلاؤں کہ تا تو میرے وجود کا قائل ہوجائے.سو بہتر ہے کہ تو خدا سے دعا کیا کرتا وہ تجھے آنکھیں بخشے پھر جب تو سوجاکھا ہوجائے گا تو بآسانی مجھے دیکھ لے گا.یہ غضب کی بات ہے کہ جس واقعہ کی خبر خدا نے پندرہ برس پہلے دے دی اور اسی طور پر وہ واقعہ ظہور میں آیا اور اپنی شرط کے موافق پورا ہوا اور پھر دوسرے الہام کے موافق جو اسی زمانہ میں شائع ہوچکا.آتھم آخری اشتہار سے سات مہینے کے اندر قبر میں جاپہنچا اور سب مراتب پیشگوئی کے پورے ہوگئے.اور اس جھگڑے کے متعلق جو ہم میں اور عیسائیوں میں نہایت زور سے برپا ہوا.آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خبر دی.یہ سب کچھ ہوا مگر اب تک بعض بے ایمان اور اندھے مولوی اور خبیث طبع عیسائی اس
307 دل سے ان طریقوں میں سے کسی طریق کو قبول کریں.یا تو میعاد دو ماہ میں جو مارچ ۱۸۹۷ء آفتاب ظہور حق سے منکر ہیں.مولوی ثناء اللہ صاحب نے جو عبد الحق کے مباہلہ کا ذکر کرکے پھر مجملاً یہ اشارہ کیا ہے کہ آثار نصرت الٰہی بعد مباہلہ عبدالحق کی طرف تھے.یہ ایک عظیم الشان سچائی کا خون کیا ہے اور اس قدر ایک گندہ جھوٹ بولا ہے جس سے ایک مومن کا بدن کانپ جاتا ہے.افسوس یہ لوگ مولوی کہلانے کا تو بہت شوق رکھتے ہیں.مگر تقویٰ اور دیانت سے ایسے دور ہیں کہ جیسے مشرق سے مغرب.اگر ان کلمات سے مولوی ثناء اللہ صاحب کا یہ مطلب ہے کہ عیسائیوں نے پیشگوئی کی میعاد کے بعد امرتسر میں بہت شور مچایا تھا.اور ناپاک فرقہ نصرانیوں کا طوائف کی طرح کوچوں اور بازاروں میں ناچتے پھرتے تھے.اور اس عاجز کو سب پادری اور ان کے ہم سرشت مولوی اور پلید طبع بعض اخباروں والے گالیاں دیتے تھے اور طرح طرح کی بدزبانی کرتے تھے یہ گویا عبد الحق کے مباہلہ کا اثر تھا.تو میں مولوی ثناء اللہ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہر ایک جوش اور بدزبانی جس کی واقعات صحیحہ پر بنا نہ ہو اور محض اپنی غلط فہمی اور کو تہ اندیشی ہو اہل حق کی عزت کو اس سے کچھ نقصان نہیں پہنچ سکتا.اور نہ کسی مخالف کی اس سے فتح سمجھی جاسکتی ہے بلکہ ایسے لوگوں کی یہ جھوٹی خوشی اخیر پر ان کے لئے ایک لعنت سے بھرا ہوا عذاب ہوجاتا ہے.جیسا کہ جن لوگوں نے ہمارے سید و مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وطن سے نکالا اور بہت سی بے ادبیوں اور شوخیوں کے ساتھ پیش آئے یا فرعون نے جو کئی مرتبہ حضرت موسیٰ کو اپنے دربار سے دھکے دے کر باہر کردیا اور ان کا نام کافر رکھا اور اپنی دانست میں بہت بے عزتی کی ایسا ہی جب حضرت مسیح نے یہودیوں کو ایلیا کے نزول کے بارے میں ان کے خیال کے موافق تسلی بخش جواب نہ دیا تو یہودیوں نے مسیح پر بہت ٹھٹھا مارا اور ان کا نام ملحد رکھا گیا اور اکثر لوگوں نے ان کو مارا اور ان کے منہ پر تھوکا اور کوڑے بھی لگے اور اپنے خیال میں بڑی بے عزتی کی.لیکن درحقیقت یہ سب جھوٹی خوشیاں تھیں اور واقعات صحیحہ پر ان کی بنیاد نہ تھی.اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ ان بے ادبیوں سے ان پاک نبیوں کی کوئی واقعی بے عزتی ہوگئی.یا کوئی واقعی فتح ان کے مخالفوں کو میسر آئی.مثلاً دیکھو کہ اس زمانہ میں نجاست خوار پادری ہمارے سیدومولیٰ فخر المرسلین خاتم النبین سیّد الاولین والآخرین کی کیسی بے ادبیاں کررہے ہیں.ہزاروں گالیاں نکالتے ہیں.جھوٹے بہتان لگاتے ہیں.نعوذ باللّٰہ.ڈاکو، راہزن، زانی اپنی شیطانی سیرت سے نام رکھتے
308 کی دس۱۰ تاریخ تک مقرر کرتا ہوں.اس عربی رسالہ کا ایسا ہی فصیح بلیغ جواب چھاپ کر شائع کریں یا ہیں.جیسا کہ ابھی ایک پلید ذریت شیطان فتح مسیح نام متعین فتح گڈھ نے اسی قسم کی آنجناب کی نسبت بے ادبیان کیں.مگر کیا ان بدکاروں نجاست خواروں کی بے ادبیوں سے جو زندہ خدا کو چھوڑ کر ایک ناچیز مردہ کی پوجا میں لگ گئے ہیں.اس آفتاب ہدایت کی شان میں کچھ فرق آگیا؟ نہیں.بلکہ یہ تمام زیادتیاں انہیں پر حسرتیں ہیں.پس اسی طرح اگر اندھے پادریوں نے یا یک چشم مولویوں نے آتھم کے مقدمہ کی حقیقت کو اچھی طرح نہ سمجھا اور بدزبانی کی تو اس غلط فہمی کی واقعی ذلت انہیں کو پہنچی اور اس خطا کی سیاہی انہیں کے منہ پر لگی اور سچائی کے چھوڑنے کی لعنت انہیں پر برسی.چنانچہ صدہا آدمیوں نے بعد اس کے رو رو کے توبہ کی کہ ہم غلطی پر تھے.غرض کسی جھوٹی خوشی سے کسی پر سچا الزام نہیں آسکتا اور نہ جھوٹے الزام سے کوئی واقعی دھبّہ کسی کی عزت کو لگ سکتا ہے اور نہ اس سے کسی کی واقعی فتح سمجھی جاسکتی ہے.بلکہ وہ انجام کے لحاظ سے ان لوگوں پر لعنت کا داغ ہے جنہوں نے ایسی جھوٹی خوشی کی.پس آتھم کی نسبت جس قدر پلیدوں اور نابکاروں نے خوشیاں کیں.اب وہی خوشیاں ندامت اور حسرت کا رنگ پکڑ گئیں.اب ڈھونڈو آتھم کہاں ہے.کیا پیشگوئی کے الفاظ کے مطابق وہ قبر میں داخل نہیں ہوا.کیا وہ ہاویہ میں نہیں گرایا گیا.اے اندھو!میں کب تک تمہیں بار بار بتلاؤں گا.کیا ضرور نہ تھا کہ خدا اپنی شرط کے موافق اپنے پاک الہام کو پورا کرتا.آتھم تو اسی وقت مر گیا تھا جبکہ میری طرف سے چار ہزار کے انعام کے ساتھ متواتر اس پر حجت پوری ہوئی اور وہ سر نہ اٹھا سکا.پھر خدا نے اس کو نہ چھوڑا جب تک قابض ارواح کے اس کو سپرد نہ کردیا.پیشگوئی ہر ایک پہلو سے کھل گئی.اب بھی اگر جہنم کو اختیار کرنا ہے تو میں عمداً گرنے والے کو پکڑ نہیں سکتا.یہ تمام واقعات ایسے ہیں کہ ان سب پر پوری اطلاع پاکر ایک متقی کا بدن کانپ جاتا ہے.اور پھر وہ خدا سے شرم کرتا ہے کہ ایسی کھلی کھلی پیشگوئی سے انکار کرے.میں یقیناً جانتا ہوں کہ اگر کوئی میرے سامنے خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر اس پیشگوئی کے صدق سے انکار کرے تو خدا تعالیٰ اس کو بغیر سزا نہیں چھوڑے گا.اول چاہئے کہ وہ
309 بالمقابل ایک جگہ بیٹھ کر زبان عربی میں میرے مقابل میں سات آیت قرآنی کی تفسیر لکھیں اور یا ایک سال تک ان تمام واقعات سے اطلاع پاوے تا اس کی بے خبری اس کی شفیع نہ ہو.پھر بعد اس کے قسم کھاوے کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور جھوٹی ہے.پھر اگر وہ ایک سال تک اس قسم کے وبال سے تباہ نہ ہو جائے اور کوئی فوق العادت مصیبت اس پر نہ پڑے تو دیکھو کہ میں سب کو گواہ کرکے کہتا ہوں کہ اس صورت میں میں اقرار کروں گا کہ ہاں میں جھوٹا ہوں.اگر عبدالحق اس بات پر اصرار کرتا ہے تو وہی قسم کھاوے اور اگر محمد حسین بطالوی اس خیال پر زور دے رہا ہے تو وہی میدان میں آوے.اور اگر مولوی احمد اللہ امرتسری یا ثناء اللہ امرتسری ایسا ہی سمجھ رہا ہے تو انہیں پر فرض ہے کہ قسم کھانے سے اپنا تقویٰ دکھلاویں اور یقیناً یاد رکھو کہ اگر ان میں سے کسی نے قسم کھائی کہ آتھم کی نسبت پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور عیسائیوں کی فتح ہوئی تو خدا اس کو ذلیل کرے گا.روسیاہ کرے گا.اور لعنت کی موت سے اس کو ہلاک کرے گا کیونکہ اس نے سچائی کو چھپانا چاہا جو دین اسلام کے لئے خدا کے حکم اور ارادہ سے زمین پر ظاہر ہوئی.مگر کیا یہ لوگ قسم کھالیں گے؟ ہرگز نہیں.کیونکہ یہ جھوٹے ہیں.اور کتوں کی طرح جھوٹ کا مردار کھا رہے ہیں.اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ اگرچہ عبد الحق کے مباہلہ میں اس طرف سے کسی بددعا کا ارادہ نہ کیا گیا ہو.مگر جو صادق کے سامنے مباہلہ کے لئے آیا ہو.کسی قدر تو بعد مباہلہ ایسے امور کا پایا جانا چاہئے جن پر غور کرنے سے اس کی ذلت اور نامرادی پائی جائے اور اپنی عزت دکھلائی دے.سو جاننا چاہئے کہ وہ امور بہ تفصیل ذیل ہیں جو بحکم 3 ۱ ہماری عزت کے موجب ہوئے.اوّل.آتھم کی نسبت جو پیشگوئی کی گئی تھی وہ اپنے واقعی معنوں کے رو سے پوری ہوگئی.اور اس دن سے وہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی جو پندرہ برس پہلے براہین احمدیہ کے صفحہ ۲۴۱ میں لکھی گئی تھی.آتھم اصل منشاء الہام کے مطابق مرگیا اور تمام مخالفوں کا منہ کالا ہوا.اور ان کی تمام جھوٹی خوشیاں خاک میں مل گئیں.اس پیشگوئی کے واقعات پر اطلاع پاکر صدہا دلوں کا کفر ٹوٹا اور ہزاروں خط اس کی تصدیق کے لئے پہنچے.اور مخالفوں اور مکذبوں پر وہ لعنت پڑی جو اب دم نہیں مارسکتے.دوسرا وہ امر جو مباہلہ کے بعد میری عزت کا موجب ہوا وہ ان عربی رسالوں کا مجموعہ ہے جو مخالف مولویوں اور پادریوں کے ذلیل کرنے کے لئے لکھا
310 میرے پاس نشان دیکھنے کے لئے رہیں اور یا اشتہار شائع کرکے اپنے ہی گھر میں میرے نشان کی گیا تھا اور انہیں میں سے یہ عربی مکتوب ہے جواب نکلا.کیا عبدالحق اور کیا اس کے دوسرے بھائی ان رسائل کے مقابل پر مرگئے اور کچھ بھی لکھ نہ سکے اور دنیا نے یہ فیصلہ کردیا کہ عربی دانی کی عزت اسی شخص یعنی اس راقم کے لئے مسلّم ہے جس کو کافر ٹھہرا یاگیا ہے اور یہ سب مولوی جاہل ہیں.اب سوچو کہ یہ عزت کی تعریفیں مجھ کو کس وقت ملیں.کیا مباہلہ کے بعد یا اس کے پہلے.سو یہ ایک مباہلہ کا اثر تھا کہ خدا نے ظاہر کیا.اسی وقت میں خدا نے شیخ محمد حسین بطالوی کا وہ الزام کہ اس شخص کو عربی میں ایک صیغہ نہیں آتا میرے سر پر سے اتارا.اور محمد حسین اور دوسرے مخالفین کی جہالت کو ظاہر کیا.فالحمد للّٰہ علٰی ذالک.تیسرا وہ امر جو مباہلہ کے بعد میری عزت کا موجب ہوا وہ قبولیت ہے جو مباہلہ کے بعد دنیا میں کھل گئی.مباہلہ سے پہلے میرے ساتھ شاید تین چار سو آدمی ہوں گے اور اب آٹھ ہزار سے کچھ زیادہ وہ لوگ ہیں جو اس راہ میں جاں فشاں ہیں.اور جس طرح اچھی زمین کی کھیتی جلد جلد نشوونما پکڑتی اور بڑھتی جاتی ہے ایسا ہی فوق العادت طور پر اس جماعت کی ایک ترقی ہورہی ہے.نیک روحیں اس طرف دوڑتی چلی آتی ہیں.اور خدا زمین کو ہماری طرف کھینچتا چلا آتا ہے.مباہلہ کے بعد ہی ایک ایسی عجیب قبولیت پھیلی ہے کہ اس کو دیکھ کر ایک رقت پیدا ہوتی ہے.ایک دو اینٹ سے اب ایک محل طیار ہوگیا ہے.اور ایک دو قطرہ سے اب ایک نہر معلوم ہوتی ہے.ذرہ آنکھیں کھولو اور پنجاب اور ہندوستان میں پھرو.اب اکثر جگہ ہماری جماعتیں پاؤ گے.فرشتے کام کررہے ہیں اور دلوں میں نور ڈال رہے ہیں.سو دیکھو مباہلہ کے بعد کیسی عزت ہم کو ملی.سچ کہو کیا یہ خدا کا فعل ہے یا انسان کا.چوتھا وہ امر جو مباہلہ کے بعد میری عزت کا موجب ہوا.رمضان میں خسوف کسوف ہے.کتب حدیث میں صدہا برسوں سے یہ لکھا ہوا چلا آتا تھا کہ مہدی کی تصدیق کے لئے رمضان میں خسوف کسوف ہوگا.اور آج تک کسی نے نہیں لکھا کہ پہلے اس سے کوئی ایسا مہدویت کا مدعی ظاہر ہوا تھا جس کو خدا نے یہ عزت دی ہو کہ اس کے لئے رمضان میں خسوف کسوف ہوگیا ہو.سو خدا نے مباہلہ کے بعد یہ عزت بھی میرے نصیب کی.اے اندھو! اب سوچو کہ مباہلہ کے بعد یہ عزت کس کو ملی.عبد الحق تو میری ذلت کے لئے دعائیں کرتا تھا.یہ کیا واقعہ پیش آیا کہ آسمان بھی مجھے عزت دینے کے لئے جھکا
311 ایک برس تک انتظار کریں.اور یا مباہلہ کرلیں.ششم اور اگران باتوں میں سے کوئی بھی نہ کریں تو مجھ سے کیا تم میں ایک بھی سوچنے والا نہیں جو اس بات کو سوچے.کیا تم میں ایک بھی دل نہیں جو اس بات کو سمجھے.زمین نے عزت دی.آسمان نے عزت دی اور قبولیت پھیل گئی.پانچواں وہ امر جو مباہلہ کے بعد میرے لئے عزت کا موجب ہوا.علم قرآن میں اتمام حجت ہے.میں نے یہ علم پاکر تمام مخالفوں کو کیا عبد الحق کا گروہ اور کیا بطالوی کا گروہ.غرض سب کو بلند آواز سے اس بات کے لئے مدعو کیا کہ مجھے علم حقائق اور معارف قرآن دیا گیا ہے.تم لوگوں میں سے کسی کی مجال نہیں کہ میرے مقابل پر قرآن شریف کے حقائق و معارف بیان کرسکے.سو اس اعلان کے بعد میرے مقابل ان میں سے کوئی بھی نہ آیا.اور اپنی جہالت پر جو تمام ذلتوں کی جڑ ہے انہوں نے مہر لگا دی.سو یہ سب کچھ مباہلہ کے بعد ہوا.اور اسی زمانہ میں کتاب کرامات الصادقین لکھی گئی.اس کرامت کے مقابل پر کوئی شخص ایک حرف بھی نہ لکھ سکا.تو کیا اب تک عبد الحق اور اس کی جماعت ذلیل نہ ہوئی.اور کیا اب تک یہ ثابت نہ ہوا کہ مباہلہ کے بعد یہ عزت خدا نے مجھے دی.چھٹا امر جو مباہلہ کے بعد میری عزت اور عبد الحق کی ذلت کا موجب ہوا یہ ہے کہ عبد الحق نے مباہلہ کے بعد اشتہار دیا تھا کہ ایک فرزند اس کے گھر میں پیدا ہوگا.اور میں نے بھی خدا تعالیٰ سے الہام پاکر یہ اشتہار انوار الاسلام میں شائع کیا تھا کہ خدا تعالیٰ مجھے لڑکا عطا کرے گا.سو خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم سے میرے گھر میں تو لڑکا پیدا ہوگیا.جس کا نام شریف احمد ہے اور قریباً پونے دو برس کی عمر رکھتا ہے.اب عبد الحق کو ضرور پوچھنا چاہئے کہ اس کا وہ مباہلہ کی برکت کا لڑکا کہاں گیا.کیا اندر ہی اندر پیٹ میں تحلیل پاگیا یا پھر رجعت قہقری کرکے نطفہ بن گیا.کیا اس کے سوا کسی اور چیز کا نام ذلت ہے کہ جو کچھ اس نے کہا وہ پورا نہ ہوا.اور جو کچھ میں نے خدا کے الہام سے کہا خدا نے اس کو پورا کردیا.چنانچہ ضیاء الحق میں بھی اسی لڑکے کا ذکر لکھا گیا ہے.ساتواں امر جو مباہلہ کے بعد میری عزت اور قبولیت کا باعث ہوا خدا کے راستباز بندوں کا وہ مخلصانہ جوش ہے جو انہوں نے میری خدمت کے لئے دکھلایا.مجھے کبھی یہ طاقت نہ ہوگی کہ میں خدا کے ان احسانات کا شکر ادا کرسکوں جو روحانی اور جسمانی طور پر مباہلہ کے بعد میرے وارد حال ہوگئے.روحانی انعامات کا نمونہ میں لکھ چکا
312 اور میری جماعت سے سا۷ت سال تک اس طور سے صلح کرلیں کہ تکفیر اور تکذیب اور بدزبانی سے ُ منہ ہوں یعنی یہ کہ خدا تعالیٰ نے مجھے وہ علم قرآن اور علم زبان محض اعجاز کے طور پر بخشا کہ اس کے مقابل پر صرف عبد الحق کیا بلکہ کل مخالفوں کی ذلت ہوئی.ہر ایک خاص و عام کو یقین ہوگیا کہ یہ لوگ صرف نام کے مولوی ہیں گویا یہ لوگ مرگئے.عبد الحق کے مباہلہ کی نحوست نے اس کے اور رفیقوں کو بھی ڈبویا.اور جسمانی نعمتیں جو مباہلہ کے بعد میرے پر وارد ہوئیں وہ مالی فتوحات ہیں.جو اس درویش خانہ کے لئے خدا تعالیٰ نے کھول دیں.مباہلہ کے روز سے آج تک پندرہ ہزار کے قریب فتوح غیب کا روپیہ آیا جو اس نے سلسلہ کے ربانی مصارف میں خرچ ہوا.جس کو شک ہو وہ ڈاک خانہ کی کتابوں کو دیکھ لے اور دوسرے ثبوت ہم سے لے لے.اور رجوع خلائق کا اس قدر مجمع بڑھ گیا کہ بجائے اس کے کہ ہمارے لنگر میں ساٹھ یا ستر۷۰ روپیہ ماہواری کا خرچ ہوتا تھا.اب اوسط خرچ کبھی پانچ سو کبھی چھ سو ماہواری تک ہوگیا اور خدا نے ایسے مخلص اور جان فشان ارادتمند ہماری خدمت میں لگا دیئے کہ جو اپنے مال کو اس راہ میں خرچ کرنا اپنی سعادت دیکھتے ہیں.چنانچہ منجملہ ان کے حِبّی فِی اللّٰہ حاجی سیٹھ عبدالرحمن اللہ رکھا صاحب تاجر مدراس ہیں.جو اس رسالہ کے لکھنے کے وقت بھی اس جگہ موجود ہیں.اور مدراس سے دور دراز سفر کرکے میرے پاس تشریف لائے ہوئے ہیں.سیٹھ صاحب موصوف مباہلہ کے اثر کا ایک اول نمونہ ہیں.جنہوں نے کئی ہزار روپیہ ہمارے سلسلہ کی راہ میں محض للہ لگا دیا ہے.اور برابر ایسی سرگرمی سے خدمت کررہے ہیں کہ جب تک انسان یقین سے نہ بھر جائے اس قدر خدمت نہیں کرسکتا.وہ ہمارے درویش خانہ کے مصارف کے اول درجہ کے خادم ہیں اور آج تک یکمشت رقوم کثیرہ اس راہ میں دیتے رہے ہیں.علاوہ اس کے میں دیکھتا ہوں کہ انہوں نے ایک سو روپیہ ماہواری اعانت کے طور پر اپنے ذمہ واجب کررکھا ہے.مباہلہ کے بعد ان کے مال سے جس قدر مجھے مدد پہنچی ہے اور پہنچ رہی ہے میں اس کی نظیر نہیں دیکھتا.یہ خدا تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے اس درجہ کی محبت دلوں میں ڈال دی.یہ حاجی سیٹھ عبد الرحمن صاحب وہی ہیں جو آتھم کو قسم دینے کے وقت اس بات کے لئے تیار تھے کہ اگر آتھم قسم پر روپیہ طلب کرے تو اپنے پاس سے دس ہزار روپیہ تک اس کے پاس جمع کرا دیں.ایسا ہی مباہلہ کے بعد حِبّی فِی اللّٰہ شیخ رحمت اللہ صاحب نے مالی اعانت سے بہت سا بوجھ ہمارے درویش خانہ کا اٹھایا ہے.میں خیال کرتا ہوں کہ سیٹھ صاحب موصوف
313 بند رکھیں.اور ہر ایک کو محبت اور اخلاق سے ملیں اور قہرالٰہی سے ڈر کر ملاقاتوں میں مسلمانوں سے بعد نمبر دوم پر شیخ صاحب ہیں.جو محبت اور اخلاص سے بھرے ہوئے ہیں.شیخ صاحب موصوف اس راہ میں دو ہزار سے زیادہ روپیہ دے چکے ہوں گے.اور ہر ایک طور سے وہ خدمت میں حاضر ہیں.اور اپنی طاقت اور وسعت سے زیادہ خدمت میں سرگرم ہیں.ایسا ہی بعض میرے مخلص دوستوں نے مباہلہ کے بعد اس درویش خانہ کے کثرت مصارف کو دیکھ کر اپنی تھوڑی تھوڑی تنخواہوں میں اس کے لئے حصہ مقرر کر دیا ہے.چنانچہ میرے مخلص دوست منشی رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر گورداسپورہ تنخواہ میں سے تیسرا حصہ یعنی بیس۲۰ روپیہ ماہوار دیتے ہیں.ہماری عزیز جماعت حیدر آباد کی یعنی مولوی سید مردا ن علی صاحب اور مولوی سید ظہور علی صاحب اور مولوی عبد الحمید صاحب دس دس روپیہ اپنی تنخواہ میں سے دیتے ہیں.اور اسی طرح مفتی محمد صادق صاحب بھیروی اور منشی روڑا صاحب کپور تھلہ اور ان کے رفیق اور ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب چکراتہ اور ڈاکٹر بوڑیخاں صاحب قصور.اور سید ناصر شاہ صاحب سب اوور سیر.اور حکیم فضل الدین صاحب بھیروی ۱ اور خلیفہ نور دین صاحب جموں۲ سب بدل و جان اس راہ میں مصروف ہیں.ایسا ہی ہماری مخلص اور محب جماعت سیالکوٹ یہ تمام محبیّن اپنی طاقت سے زیادہ خدمت میں مصروف ہیں.اسی طرح محبی انوار حسین صاحب رئیس شاہ آباد بدل و جان خدمت میں لگے ہوئے ہیں.ایسا ہی ہمارے دلی محب مولوی محمد احسن صاحب امروہی جو اس سلسلہ کی تائید کے لئے عمدہ عمدہ تالیفات میں سرگرم ہیں.اور صاحبزادہ پیر جی سراج الحق صاحب نے تو ہزاروں مریدوں سے قطع تعلق کرکے اس جگہ کی درویشانہ زندگی قبول کی.اور میاں عبد اللہ صاحب سنوری اور مولوی برہان الدین صاحب جہلمی.اور مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی.اور قاضی ضیاء الدین صاحب قاضی کوٹی.اور منشی چودہری نبی بخش صاحب بٹالہ ضلع گورداسپورہ.اور منشی جلال الدین صاحب بلانی وغیرہ احباب اپنی اپنی طاقت کے موافق خدمت میں لگے ہوئے ہیں.میں اپنی جماعت کے محبت اور اخلاص پر تعجب کرتا ہوں کہ ان میں سے نہایت ہی کم معاش والے جیسے میاں جمال الدین اور خیر الدین اور امام الدین کشمیری میرے گاؤں سے قریب رہنے والے ہیں وہ تینوں غریب بھائی بھی جو شاید تین آنہ یا چار آنہ روز مزدوری کرتے ہیں.سرگرمی سے ماہوار چندہ میں شریک ہیں.اُن کے دوست میاں عبدالعزیز پٹواری کے اخلاص سے بھی مجھے تعجب ہے کہ باوجود قلت معاش کے ایک دن حکیم صاحب مال اور جان سے اس راہ میں ایسے مصروف ہیں کہ گویا محو ہیں.۲ اور خلیفہ نور دین صاحب علاوہ دائمی اعانت کے ابھی پانچ سو3 روپیہ نقد بطور امداد دے چکے ہیں.منہ
314 کی عادت کے طور پر پیش آویں.ہر ایک قسم کی شرارت اور خباثت کو چھوڑ دیں.پس اگر ان سات سال سو روپیہ دے گیا کہ میں چاہتا ہوں کہ خدا کی راہ میں خرچ ہوجائے.وہ سو روپیہ شاید اس غریب نے کئی برسوں میں جمع کیا ہوگا.مگر للّہی جوش نے خدا کی رضا کا جوش دلایا.* پس یہ خدا کی رحمت اور خدا کا فضل ہے جو اس نے ہمیں ان تکالیف سے بچایا.جن میں ہمارے مخالف گرفتار ہیں.میں اس واحد لاشریک کی قسم کھاکر کہہ سکتا ہوں کہ اگرچہ مباہلہ سے پہلے بھی وہ ہمیشہ میرا متکفل رہا مگر مباہلہ کے بعد کچھ ایسے برکات روحانی اور جسمانی نازل ہوئے کہ پہلی زندگی میں َ میں ان کی نظیر نہیں دیکھتا.آٹھواں امر جو مباہلہ کے بعد میری عزت زیادہ کرنے کے لئے ظہور میں آیا.کتاب ست بچن کی تالیف ہے.اس کتاب کی تالیف کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے وہ سامان عطا کئے جو تین سو برس سے کسی کے خیال میں بھی نہیں آئے تھے میری یہ کتاب سولہ لاکھ سکھ صاحبان کے لئے ایسی ایک لطیف دعوت ہے جس سے میں امید کرتا ہوں کہ ان کے دلوں پر بہت اثر پڑے گا.میں اس کتاب میں باوا نانک صاحب کی نسبت ثابت کرچکا ہوں کہ باوا صاحب درحقیقت مسلمان تھے اور لا الہ الا اللّہ محمد رسول اللّہ آپ کا ورد تھا.آپ بڑے صالح آدمی تھے.آپ نے دو مرتبہ حج بھی کیا.اور اولیاء اسلام کی قبور پر اعتکاف بھی کرتے رہے.جنم ساکھیوں میں آپ کے وصایا میں اسلام اور توحید اور نماز روزہ کی تاکید پائی جاتی ہے.آپ نماز کے بہت پابند تھے اور بنفس نفیس خود بانگ بھی دیا کرتے تھے آخری شادی آپ کی ایک نیک بخت مسلمان کی لڑکی سے ہوئی تھی.جس سے سمجھا جاتا ہے کہ آپ نے بدل مسلمانوں کے ساتھ تعلق رشتہ بھی پیدا کر لیاتھا.اور اسی کتاب میں لکھا ہے کہ آپ کی بھاری یادگار وہ چولہ ہے جس پر کلمہ شریف اور قرآن شریف کی بہت سی آیتیں لکھی ہوئی ہیں.آپ نے یادگار کے طور پر گرنتھ کو نہیں چھوڑا.اور نہ اس کے جمع کرنے کے لئے کوئی وصیت کی صرف اس چولہ کو چھوڑا جس پر قرآن شریف لکھا ہوا تھا.اور جس پر جلی قلم سے یہ لکھا ہوا تھا.انّ الدّین عند اللّٰہ الاسلام.یعنی سب دین جھوٹے ہیں مگر اسلام.پس یہ کتاب جو بعد مباہلہ تیار ہوئی.یہ وہ عطیّہ ر ّ بانی ہے جو مجھ کو ہی عطا کیا گیا.اور خدا نے اس تبلیغ کا ثواب مجھ کو ہی عطا فرمایا.نواں امر جو مباہلہ کے بعد میری عزت کے زیادہ ہونے کا موجب ہوا یہ ہے کہ اس * ہمارے دلی محب صاحبزادہ افتخار احمد خلف رشید حاجی منشی احمد جان صاحب جو لدھیانہ کے مشاہیر مشایخ میں سے تھے اور صدہا مرید رکھتے تھے جن کو مجھ سے بہت تعلق محبت تھا وہ یعنی صاحبزادہ صاحب موصوف اپنے وطن سے گویا ہجرت کرکے معہ اپنے تمام عیال اور اپنے بھائی میاں منظور محمد کے میرے پاس ہیں اور ہریک خدمت میں حاضر ہیں گویا اپنی زندگی اس راہ میں وقف کررہے ہیں.منہ
315 میں میری طرف سے خدا تعالیٰ کی تائید سے اسلام کی خدمت میں نمایاں اثر ظاہر نہ ہوں اور جیسا کہ مسیح کے عرصہ میں آٹھ ہزار کے قریب لوگوں نے میرے ہاتھ میں بیعت کی اور بعض نے قادیان پہنچ کر اور بعض نے بذریعہ خط توبہ کا اقرار کیا.پس میں یقیناً جانتا ہوں کہ اس قدر بنی آدم کی توبہ کا ذریعہ جو مجھ کو ٹھہرایا گیا یہ اس قبولیت کا نشان ہے جو خدا کی رضا مندی کے بعد حاصل ہوتی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ میری بیعت کرنے والوں میں دن بدن صلاحیت اور تقویٰ ترقی پذیر ہے.اور ایام مباہلہ کے بعد گویا ہماری جماعت میں ایک اور عالم پیدا ہوگیا ہے.میں اکثر کو دیکھتا ہوں کہ سجدہ میں روتے اور تہجد میں تضرع کرتے ہیں.ناپاک دل کے لوگ ان کو کافر کہتے ہیں.اور وہ اسلام کا جگر اور دل ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے نو عمر دوست جیسا کہ خواجہ کمال الدین بی.اے بڑی سرگرمی سے دین کی اشاعت میں کوشش کر رہے ہیں.ان کے چہرہ پر نیک بختی کے نشان پاتا ہوں.وہ دین کے لئے سچا جوش اپنے دل میں رکھتے ہیں.نمازوں میں خشوع ظاہر کرتے ہیں.ایسا ہی ہمارے نو عمر دوست میرزا یعقوب بیگ و میرزا ایوب بیگ جوان صالح ہیں.بارہا میں نے ان کو نماز میں روتے دیکھا ہے.غرض یہ سب اس راہ میں فدا ہو رہے ہیں.ایسا ہی ہمارے محب مخلص میرزا خدا بخش صاحب اس راہ میں وہ صدق رکھتے ہیں کہ جس کے بیان کرنے کے لئے الفاظ نہیں.اور ہمارے مخلص دوست منشی زین الدین محمد ابراہیم صاحب انجینئر بمبئی وہ ایمانی جوش رکھتے ہیں کہ میں گمان نہیں کرسکتا کہ تمام بمبئی میں ان کا کوئی نظیر بھی ہے.ہمارے مخلص اور محبت و اخلاص میں محو مولوی حکیم نوردین صاحب کا ذکر کرنا اس جگہ ضروری نہیں کیونکہ وہ تمام دنیا کو پامال کرکے میرے پاس ان فقراء کے رنگ میں آبیٹھے ہیں جیسا کہ اخص صحابہ رضی اللہ عنہم نے طریق ختیار کرلیا تھا.اب ہمارے مخالفین کو سوچنا چاہیئے کہ اس باغ کی ترقی اور سرسبزی عبد الحق کے مباہلہ کے بعد کس قدر ہوئی ہے.یہ خدا کی قدرت نے کیا ہے جس کی آنکھیں ہوں وہ دیکھے.ہماری امرتسر کی مخلص جماعت.ہماری لاہور کی مخلص جماعت.ہماری سیالکوٹ کی مخلص جماعت.ہماری کپورتھلہ کی مخلص جماعت.ہماری ہندوستان کے شہروں کی مخلص جماعتیں وہ نور اخلاص اور محبت اپنے اندر رکھتی ہیں کہ اگر ایک بافراست آدمی ایک مجمع میں ان کے منہ دیکھے تو یقیناً سمجھ لے گا کہ یہ خدا کا ایک معجزہ ہے جو ایسے اخلاص ان کے دل میں بھر دیئے.ان کے چہروں پر ان کی محبت کے نور چمک رہے ہیں وہ ایک پہلی جماعت ہے جس کو خدا صدق کا نمونہ دکھلانے کے لئے تیار کر رہا ہے.دسواں امر جو عبد الحق کے مباہلہ کے بعد میری عزت کا موجب ہوا جلسہ مذاہب لاہور
316 ہاتھ سے ادیان باطلہ کا مرجانا ضروری ہے یہ موت جھوٹے دینوں پر میرے ذریعہ سے ظہور میں نہ آوے ہے اس جلسہ کے بارے میں مجھے زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں.جس رنگ اور نورانیت کی قبولیت میرے مضمون کے پڑھنے میں پیدا ہوئی اور جس طرح دلی جوش سے لوگوں نے مجھے اور میرے مضمون کو عظمت کی نگہ سے دیکھا.کچھ ضرورت نہیں کہ میں اس کی تفصیل کروں.بہت سی گواہیاں اس بات پر سن چکے ہو کہ اس مضمون کا جلسہ مذاہب پر ایسا فوق العادت اثر ہوا تھا کہ گویا ملائک آسمان سے نور کے طبق لے کر حاضر ہوگئے تھے.*ہر ایک دل اس کی طرف ایسا کھینچا گیا تھا کہ گویا ایک دست غیب اس کو کشاں کشاں عالم وجد کی طرف لے جارہا ہے.سب لوگ بے اختیار بول اٹھے تھے کہ اگر یہ مضمون نہ ہوتا تو آج بباعث محمد حسین وغیرہ کے اسلام کو سُبکی اٹھانی پڑتی.ہر ایک پکارتا تھا کہ آج اسلام کی فتح ہوئی.مگر سوچو کہ کیا یہ فتح ایک دجال کے مضمون سے ہوئی.پھر میں کہتا ہوں کہ کیا ایک کافر کے بیان میں یہ حلاوت اور یہ برکت اور یہ تاثیر ڈال دی گئی.وہ جو مومن کہلاتے تھے اور آٹھ ہزار مسلمان کو کافر کہتے تھے جیسے محمد حسین بٹالوی خدا نے اس جلسہ میں کیوں ان کو ذلیل کیا.کیا یہ وہی الہام نہیں ’’کہ میں تیری اہانت کرنے والوں کی اہانت کروں گا‘‘ اس جلسہ اعظم میں ایسے شخص کو کیوں عزت دی گئی جو مولویوں کی نظر میں ایک کافر مرتد ہے.کیا کوئی مولوی اس کا جواب دے سکتا ہے.پھر علاوہ اس عزت کے جو مضمون کی خوبی کی وجہ سے عطا ہوئی اسی روز وہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی جو اس مضمون کے بارے میں پہلے سے شائع کی گئی تھی.یعنی یہ کہ یہی مضمون سب مضمونوں پر غالب آئے گا اور وہ اشتہارات تمام مخالفوں کی طرف جلسہ سے پہلے روانہ کئے گئے تھے.شیخ محمد حسین بطالوی اور مولوی احمد اللہ اور ثناء اللہ وغیرہ کی طرف روانہ ہوچکے تھے.سو اس روز وہ الہام بھی پورا ہوا اور شہر لاہور میں دھوم مچ گئی کہ نہ صرف مضمون اس شان کا نکلا جس سے اسلام کی فتح ہوئی بلکہ ایک الہامی پیشگوئی بھی پوری ہوگئی.اس روز ہماری جماعت کے بہادر سپاہی اور اسلام کے معزز رکن حبّی فِی اللّٰہ مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے مضمون کے پڑھنے میں وہ بلاغت فصاحت دکھلائی کہ گویا ہر لفظ میں ان کو روح القدس مدد دے رہا تھا.سو یہ عزتیں اور قبولیتیں ہم کو مباہلہ کے بعد ملیں.اب کوئی مولوی ہمیں سمجھاوے * اس جلسہ میں اکثر لوگ زار زار روتے تھے.یہ جلسہ اس مضمون کے پڑھنے سے گویا ایک صوفیاء کرام کی مجلس تھی.تمام زبانیں سکتہ کے عالم میں تھیں اور آنسو جاری تھے اور لذت اور وجد سے دل رقص کر رہے تھے اتمام تقریر کے بعد سب لوگوں نے مسلمانوں کو مبارک باددی.شیخ محمد حسین بٹالوی بھی اس روز طوعاً و کرہاً قائل ہوگئے کہ یہ تمام تاثیر خدا تعالیٰ کی طرف سے تھی اور یہ مضمون اسلام کی فتح کا موجب ہوا سول ملٹری گزٹ لاہور نے ہمارے مضمون کی نسبت کلمات ذیل لکھے ہیں اور سوائے ہمارے مضمون کے کسی کا ذکر نہیں کیا.اس کے الفاظ کا ترجمہ یہ ہے’’ اس جلسہ میں سامعین کی دلی اور خاص دلچسپی میرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے لیکچر کے ساتھ تھی جو اسلام کی حمایت اور حفاظت کے کامل ماسٹر ہیں اس لیکچر کے سننے کے واسطے دور و نزدیک سے لوگوں کا ایک جم غفیر ہورہا تھا اور چونکہ میرزا صاحب خود تو تشریف نہیں لا سکتے تھے اس لئے یہ لیکچر ان کے ایک لائق شاگرد منشی عبد الکریم فصیح سیالکوٹی نے پڑھ کر سنایا.۲۷ ؍ تاریخ کو یہ لیکچر ساڑھے تین گھنٹہ تک ہوتا رہا اور عوام الناس نے نہایت ہی خوشی اور توجہ سے اس کو سنا.لیکن ابھی صرف ایک سوال ختم ہوا.مولوی عبد الکریم نے وعدہ کیا کہ اگر وقت ملا تو باقی کا بھی سنا دوں گا اس لئے اگز کٹو کمیٹی اور پریسڈنٹ نے تجویز کر لی ہے کہ ۲۹ ؍تاریخ کا دن بڑھا دیا جائے‘‘ انتہیٰ چنانچہ ہمارے مضمون کے لئے بخوشی ایک دن اور بڑھایا گیا اور باقی مضمون بھی سامعین نے اسی ذوق و شوق سے سنا اخبار آبزرور کے الفاظ ہمارے مضمون کی نسبت سول کے الفاظ جیسے ہی ہیں.منہ
317 یعنی خدا تعالیٰ میرے ہاتھ سے وہ نشان ظاہر نہ کرے جن سے اسلام کا بول بالا ہو اور جس سے کہ عبد الحق نے مباہلہ کے بعد کونسی عزت دنیا میں پائی.کونسی قبولیت اس کی لوگوں میں پھیلی.کونسے مالی فتوحات کے دروازے اس پر کھلے.کون سی علمی فضیلت کی پگڑی اس کو پہنائی گئی.صرف فضول گوئی کے طور سے ایک بیٹا ہونے کا دعویٰ کیا تھا کہ تا یہی مباہلہ کا اثر سمجھا جائے.مگر اس کی بدبختی سے وہ دعویٰ بھی باطل نکلا.اور اب تک اس کی عورت کے پیٹ میں سے ایک چوہا بھی پیدا نہ ہوا.مگر اس کے مقابل پر خدا تعالیٰ نے میرے الہام کو پورا کرکے مجھے لڑکا عطا کیا.* یہ دس۱۰ برکتیں مباہلہ کی ہیں جو میں نے لکھی ہیں.پھر کیسے خبیث وہ لوگ ہیں جو اس مباہلہ کو بے اثر سمجھتے ہیں.فعلیھم ان یتدبّروا ویفکّروا فی ھٰذہ العشرۃ الکاملۃ.بالآخر ہم دوبارہ ہر ایک مخالف مکفر مکذب پر ظاہر کرتے ہیں کہ وہ مباہلہ کے میدان میں آویں اور یقیناً سمجھیں کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے عبد الحق کے مباہلہ کے بعد یہ دس قسم کا ہم پر انعام و اکرام کیا.اور اس کو ذلیل کیا.اور اس کا بیٹے کا دعویٰ بھی جھوٹا نکلا.اور کوئی عزت اس کو حاصل نہ ہوئی.اور خدا تعالیٰ نے اس کے تمام دعاوی کو رد کیا.اس سے بڑھ کر اس مباہلہ میں ہوگا.میں نے اس روز بددعا نہیں کی.کیونکہ وہ ناسمجھ اور غبی تھا.اور اس کی جہالت اس کو قابل رحم ٹھہراتی تھی مگر اب میں بددعا کروں گا.سو چاہیئے کہ ہریک مباہلہ کی درخواست کرنے والا اپنی طرف سے چھپا ہوا اشتہار شائع کرے.اور یہ ضروری ہوگا کہ مباہلہ کرنے والا صرف ایک نہ ہو.بلکہ کم سے کم دس۱۰ ہوں.اور چونکہ مباہلہ کے لئے ہریک شخص بلایا گیا ہے خواہ پنجاب کا ہو یا ہندوستان کا.یا بلاد عرب کا یا بلاد فارس کا.اس لئے یہ مشقت مخالفوں پر جائز نہیں رکھی گئی کہ وہ دور دراز سفر کرکے پہنچیں بلکہ حسب منطوق 3 ۱.3 3۲.یہ تجویز قرار پائی ہے کہ ہر ایک شخص اشتہارات کے ذریعہ سے مباہلہ کرے.مگر یہ شرط ضروری ہے کہ جو الہامات میں نے رسالہ میں صفحہ ۵۱ سے صفحہ ۶۲ تک لکھے ہیں.وہ کل الہامات اپنے اشتہار مباہلہ میں لکھے.اور محض حوالہ نہ دے بلکہ کل الہام صفحات مذکورہ کے اشتہار میں درج کرے.اور پھر بعد اس کے عبارت ذیل کی دعا اس اشتہار میں لکھے.اور وہ یہ ہے دعا اے خدائے علیم و خبیر میں جو فلاں ابن فلاں ساکن قصبہ فلاں ہوں اس شخص کو * عبد الحق غزنوی نے ۳ شعبان ۱۳۱۴ھ کو اس لعنت کی سیاہی کو دھونے کیلئے جو اس کے منہ پر جم گئی ہے ایک اشتہار دیا ہے اس اشتہار کا جواب اس ضمیمہ میں بار بار لکھ چکا ہوں کہ میں نے اپنے مسیح موعود ہونے کا یہ ایک نشان ٹھہرایا ہے.پس میں مغلوب سے صرف یہی اقرار چاہتا ہوں نہ یہ کہ وہ میری عربی دانی کا اقرار کرے.سو اس کو چاہئے کہ دس۱۰ مولویوں کی گواہی سے حلفاًیہ اشتہار شائع کرے کہ اگر میں عربی فصیح بلیغ میں اس پر غالب آگیا تو وہ بلا توقف اسی مجلس میں میرے مسیح موعود ہونے کا اقرار کرکے مجھ سے بیعت کرلے گا.اب اگر اس مضمون کا اشتہار نہ دے تو لعنۃ اللّٰہ علیہ فی الدنیا والآخرۃ.اور مباہلہ کے لئے گو د۱۰س آدمی کی شرط ہے لیکن اگر صرف عبد الجبار اور عبد الواحد کو ساتھ ملا لے تب بھی مجھے منظور ہے.منہ
318 ہر ایک طرف سے اسلام میں داخل ہونا شروع ہوجائے.اور عیسائیت کا باطل معبود فنا ہوجائے اور دنیا جس کا نام غلام احمد ہے دعویٰ مسیح موعود ہونے میں کاذب اور مفتری اور کافر جانتا ہوں اور یہ تمام الہام اس کے جو میں نے کے صفحہ ۵۱ سے صفحہ ۶۲ تک اس اشتہار میں لکھے ہیں یہ سب میرے نزدیک افترا یا شیطانی وساوس ہیں.تیری طرف سے نہیں ہیں.پس اے خدائے قادر اگر تو جانتا ہے کہ میں اپنے اس اصرار میں سچا ہوں اور اس کا یہ دعویٰ تیری طرف سے نہیں اور نہ یہ الہام تیری طرف سے ہیں بلکہ وہ درحقیقت کافر ہے تو اس امت مرحومہ پر یہ احسان کر کہ اس مفتری کو ایک سال کے اندر ہلاک کردے تالوگ اس کے فتنہ سے امن میں آجائیں اور اگر یہ مفتری نہیں اور تیری طرف سے ہے اور یہ تمام الہام تیرے ہی منہ کی پاک باتیں ہیں تو مجھ پر جو میں اس کو کافر اور کذاب سمجھتا ہوں دکھ اور ذلت سے بھرا ہوا عذاب آج کے دن سے ایک برس کے اندر نازل کر.آمین.یہ اشتہار جب کسی مباہلہ کرنے والے کی طرف سے بغیر کسی تغیر تبدل کے آئے گا تو ایک شخص کو کہا جائے گا کہ اس اشتہار کو ہماری جماعت میں پڑھے تب اس کے ختم ہونے پر تمام جماعت آمین کہے گی اور ایسا ہی سمجھا جائے گا کہ گویا بالمواجہ مباہلہ ہوا.ایسا ہی میری طرف سے اشتہار آنے کے بعد اس مضمون کی تحریر مباہلہ چھپے گی کہ میں وہ تمام الہامات جو کے صفحہ ۵۱ سے صفحہ ۶۲ تک لکھے گئے ہیں اس اپنی تحریر میں درج کروں گا.اور یہ دعا بعد اس کے لکھوں گا.کہ اے خدائے قادر علیم اگر تو جانتا ہے کہ میں نے دعویٰ مسیح موعود ہونے کا اپنی طرف سے بنا لیا ہے اور یہ تیرے الہامات نہیں جو اس اشتہار میں لکھے گئے ہیں بلکہ میرا افترا ہیں یا شیطانی وساوس ہیں تو آج کی تاریخ سے ایک برس گزرنے سے پہلے مجھے وفات دے یا کسی ایسے عذاب میں مبتلا کر جو موت سے بدتر ہو.لیکن اگر تو جانتا ہے کہ میرا دعویٰ تیرے الہام سے ہے اور یہ سب الہامات تیرے الہامات ہیں جو اس اشتہار میں لکھے گئے ہیں تو اس مخالف کو جو اپنے اشتہار مباہلہ کے ذریعہ سے میری تکذیب کرتا اور مجھ کو کاذب جانتا ہے ایک سال کے عرصہ میں نہایت دکھ کی مار میں مبتلا کر.آمین.اور جب یہ اشتہار اس مخالف مباہلہ کنندہ کے پاس پہنچے تو چاہئے کہ وہ ایک جماعت میں پڑھا جائے اور بعد ختم ہونے مضمون کے ساری جماعت آمین کہے.یہ تجویز مباہلہ ان لوگوں کیلئے ہے جو پچاس۵۰ کوس سے زیادہ فاصلہ پر رہتے ہیں.لیکن اگر پچاس کوس کے اندر ہوں جیسے شیخ محمد حسین بٹالوی اور ثناء اللہ امرتسری اور احمد اللہ
319 اوررنگ نہ پکڑ جائے تو میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اپنے تئیں کاذب خیال کرلوں گا اور خدا جانتا ہے کہ میں ہرگز کاذب نہیں.یہ سات برس کچھ زیادہ سال نہیں ہیں.اور اس قدر انقلاب اس تھوڑی مدت میں ہوجانا انسان کے اختیار میں ہرگز نہیں.پس جبکہ میں سچے دل سے اور خدا تعالیٰ کی قسم کے ساتھ یہ اقرار کرتا ہوں اور تم سب کو اللہ کے نام پر صلح کی طرف بلاتا ہوں تو اب تم خدا سے ڈرو.اگر میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوں تو میں تباہ ہو جاؤں گا.ورنہ خدا کے مامور کو کوئی تباہ نہیں کرسکتا.یہ یاد رہے کہ معمولی بحثیں آپ لوگوں سے بہت ہوچکی ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام کی وفات قرآن اور حدیث سے بپایہ ثبوت پہنچ گئی.اس طرف سے کتابیں تالیف ہوکر لاکھوں انسانوں میں پھیل گئیں.طرف ثانی نے بھی ہریک تلبیس اور تزویر سے کام لیا.پاک کتابوں کے نیک روحوں پر بڑے بڑے اثر پڑے.اور ہزارہا سعید لوگ اس جماعت میں داخل ہوگئے.اور تقریری اور تحریری بحثوں کے نتیجے اچھی طرح کھل گئے.اب پھر اسی بحث کو چھیڑنا یا فیصلہ شدہ باتوں سے انکار کرنا محض شرارت اور بے ایمانی ہے.کتابیں موجود ہیں ہاں عین مباہلہ کے وقت پھر ایک گھنٹہ تک تبلیغ کرسکتا ہوں.پس فیصلہ کی یہی راہیں ہیں جو میں نے پیش کی ہیں.اب اس کے بعد جو شخص طے شدہ بحثوں کی ناحق درخواست کرے گا میں سمجھوں گا اس کو حق کی طلب نہیں بلکہ سچائی کو ٹالنا چاہتا ہے.یہ بھی یاد رہے کہ اصل مسنون طریق مباہلہ میں یہی ہے کہ جو لوگ ایسے مدعی کے ساتھ مباہلہ کریں جو مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ رکھتا ہو اور اس کو کاذب یا کافر ٹھہراویں.وہ امرتسری اور عبد الحق غزنوی اور میاں عبد الجبار غزنوی تو ان کے لئے یہ طریق احسن ہے کہ وہ بالمواجہ مباہلہ کرلیں.آدھی مسافت میں طے کروں اور آدھی وہ طے کریں.اور ایک درمیانی جگہ میں مباہلہ ہو جائے.یہ ہماری آخری اتمام حجت ہے.اب بھی اگر کوئی شخص ظلم کو نہیں چھوڑے گا تو اس پر خدا تعالیٰ کی حجت پوری ہوگئی.والسّلام علٰی من اتّبع الہدیٰ.منہ
320 ایک جماعت مباہلین کی ہو.صرف ایک یا دو آدمی نہ ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ3۱ میں تَعَالَوْاکو بصیغہ جمع بیان فرمایا ہے.سو اس نے اس جمع کے صیغہ سے اپنے نبی کے مقابل پر ایک جماعت مکذبین کو مباہلہ کے لئے بلایا ہے نہ شخص واحد کو بلکہ من حاجّک کے لفظ سے جھگڑنے والے کو ایک شخض واحد قرار دے کر پھر مطالبہ جماعت کا کیا ہے.اور یہ فرمایا ہے کہ اگر کوئی جھگڑنے سے باز نہ آوے اور دلائل پیش کردہ سے تسلی نہ پکڑے تو اس کو کہہ دو کہ ایک جماعت بن کر مباہلہ کے لئے آویں.سو اسی بنا پر ہم نے جماعت کی قید لگا دی ہے جس میں یہ صریح فائدہ ہے کہ جو امر خارق عادت بطور عذاب مکذبین پر نازل ہو وہ مشتبہ نہیں رہے گا.مگر صرف ایک شخص میں مشتبہ رہنے کا احتمال ہے.اس جگہ اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ تمام مخالفین کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اگر اس کتاب کی اشاعت کے بعد کوئی مخالف مباہلہ کے لئے تیار ہوجائے اور اس کے اشتہار ات بھی چھپ جاویں تو ہر ایک مباہلہ کے خواہشمند پر واجب ہوگا کہ اسی کے ساتھ شامل ہوکر مباہلہ کرلے.اور اگر کوئی ایسا نہ کرے اور پھر کسی دوسرے وقت میں مباہلہ کی درخواست بھیجے تو ایسی درخواست منظور نہیں کی جاوے گی.اور ایسا شخص کسی طور سے قابل التفات نہیں سمجھا جاوے گا چاہئے کہ ہر ایک شخص ہمارے اس اشتہار کو یاد رکھے اور اس کے موافق کاربند ہو.بالآخر ہم اس جگہ نقل خط میاں غلام فرید صاحب پیر نواب بہاولپور جو ایک صالح اور متقی مرد مشائخ پنجاب میں سے ہیں.اس غرض سے درج کرتے ہیں کہ تا دوسرے مشائخ مدعوّین بھی کم سے کم ان کے نمونہ پر چلیں.اور اگر زیادہ توفیق یاری نہ کرے تو البتہ ان کے خیال سے کم نہ رہیں.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص اس قدر بھی اس عاجز کی تصدیق کرے گا جیسا کہ میاں غلام فرید صاحب نے اپنے خط کے ذریعہ سے کی اس کا بھی خدا ان لوگوں میں حشر کرے گا جنہوں نے سچائی کو رد کرنا نہیں چاہا.دل کا ایک ذرّہ تقویٰ بھی انسان کو خدا تعالیٰ کے غضب سے بچا لیتا ہے.میں نہیں چاہتا کہ ایک بُت کی طرح میری پوجا کی جائے میں صرف اس خدا کا جلال چاہتا ہوں جس کی طرف سے میں مامور ہوں.جو شخض مجھے بے عزتی سے دیکھتا ہے.وہ اس خدا کو بے عزتی سے دیکھتا ہے جس نے مجھے مامور کیا ہے اور جو مجھے قبول کرتا ہے وہ اس خدا کو
321 قبول کرتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے.انسان میں اس سے زیادہ کوئی خوبی نہیں کہ تقویٰ کی راہ کو اختیار کرکے مامور من اللہ کی لڑائی سے پرہیز کرے اور اس شخص کی جلدی سے تکذیب نہ کرے جو کہتا ہے کہ میں مامور من اللہ ہوں اور محض تجدید دین کے لئے صدی کے سر پر بھیجا گیا ہوں.ایک متقی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ اس چودھویں صدی کے سر پر جس میں ہزاروں حملے اسلام پر ہوئے ایک ایسے مجدد کی ضرورت تھی کہ اسلام کی حقیّتثابت کرے.ہاں اس مجدد کا نام اس لئے مسیح ابن مریم رکھا گیا کہ وہ کسر صلیب کے لئے آیا ہے اور خدا اس وقت چاہتا ہے کہ جیسا کہ مسیح کو پہلے زمانہ میں یہودیوں کی صلیب سے نجات دی تھی اب عیسائیوں کی صلیب سے بھی اس کو نجات دے.چونکہ عیسائیوں نے انسان کو خدا بنانے کے لئے بہت کچھ افترا کیا ہے.اس لئے خدا کی غیرت نے چاہا کہ مسیح کے نام پر ہی ایک شخص کو مامور کرکے اس افترا کو نیست و نابود کرے.یہ خدا کا کام ہے اور ان لوگوں کی نظر میں عجیب.قرآن شریف صاف کہتا ہے کہ مسیح وفات پاکر آسمان پر اٹھایا گیا ہے.لہٰذا اس کا نزول برُوزی ہے نہ کہ حقیقی اور آیت 3 ۱ میں صریح ظاہر کیا گیا ہے کہ واقعہ وفات حضرت عیسیٰ علیہ السلام وقوع میں آگیا.کیونکہ اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد بگڑیں گے نہ کہ ان کی زندگی میں.پس اگر فرض کرلیں کہ اب تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت نہیں ہوئے تو ماننا پڑے گا کہ عیسائی بھی اب تک نہیں بگڑے.اور یہ صریح باطل ہے بلکہ آیت تو بتلاتی ہے کہ عیسائی صرف مسیح کی زندگی تک حق پر قائم رہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حواریوں کے عہد میں ہی خرابی شروع ہوگئی تھی.اگر حواریوں کا زمانہ بھی ایسا ہوتا کہ اس زمانہ میں بھی عیسائی حق پر قائم ہوتے تو خدا تعالیٰ اس آیت میں صرف مسیح کی زندگی کی قید نہ لگاتا بلکہ حواریوں کی زندگی کی بھی قید لگا دیتا.پس اس جگہ سے ایک نہایت عمدہ نکتہ عیسائیت کے زمانہ فساد کا معلوم ہوتا ہے.اور وہ یہ کہ درحقیقت حواریوں کے زمانہ میں ہی عیسائی مذہب میں شرک کی تخم ریزی ہوگئی تھی.ایک شریر یہودی پولوس نام جو یونانی زبان سے بھی کچھ حصہ رکھتا تھا جس کا ذکر مثنوی رومی میں بھی ہے حواریوں میں آملا اور ظاہر کیا کہ میں نے عالم کشف میں عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھا ہے.اس شخص نے عیسائی مذہب میں بہت فساد ڈالا آخر
322 نتیجہ یہ ہو اکہ ایک فرقہ عیسائیوں کا تو توحید پر قائم رہا اور ایک خبیث فرقہ اس کے اغوا سے مردہ پرست ہوگیا.جس کی ذرّیات ہمارے ملک میں بھی پیدا ہوگئی ہیں.تیسری صدی عیسوی میں مشرک فرقہ اور موحد فرقہ کے درمیان بڑا مباحثہ ہوا.اس مباحثہ کا بانی مبانی قیصر روم تھا.بہت سی تحقیق اور تہذیب کے ساتھ بادشاہ کے روبرو یہ مباحثہ طے ہوا اور انجام یہ ہوا کہ فرقہ موَ ّ حد غالب آیا.اسی روز سے قیصر روم نے جو عیسائی تھا توحید کے مذہب کو اختیار کر لیا.اور برابر چھٹی صدی تک ہریک قیصر موَحّد عیسائی ہوتا رہا.غرض جیسا کہ آیت کا مفہوم ہے عیسائیوں میں فساد اور بگاڑ حضرت عیسیٰ کی وفات کے بعد ہی شروع ہوگیا تھا.اور صحیح بخاری میں صاف لفظوں میں لکھا گیا ہے کہ آنے والا مسیح موعود اسی امت میں سے ہوگا.سو یہ امر سراسر تقویٰ کے خلاف ہے کہ اللہ اور رسول کے بیان سے سرکش رہیں.دیکھو یہی علماء کیسے شوق سے چودھویں صدی کے منتظر تھے اور تمام دل بول اٹھے تھے کہ اسی صدی کے سر پر مہدی اور مسیح پیدا ہوگا.بہت سے صلحا اور اولیاء کے کشف اس بات پر قطع کرچکے تھے کہ مہدی اور مسیح موعود کا زمانہ چودھویں صدی ہے.اب ان کے دلوں کو کیا ہوگیا.33 33.۱ مگر ضرور تھا کہ وہ مجھے کافر کہتے اور میرا نام دجّال رکھتے.کیونکہ احادیث صحیحہ میں پہلے سے یہی فرمایا گیا تھا کہ اس مہدی کو کافر ٹھہرایا جائے گا.اور اس وقت کے شریر مولوی اس کو کافر کہیں گے اور ایسا جوش دکھلائیں گے کہ اگر ممکن ہوتا تو اس کو قتل کر ڈالتے.مگر خدا کی شان ہے کہ ان ہزاروں میں سے یہ میاں غلام فرید صاحب چاچڑاں والوں نے پرہیزگاری کا نور دکھلایا.وَذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ.خدا ان کو اجر بخشے اور عاقبت بالخیر کرے.آمین.اب جب تک یہ تحریریں دنیا میں رہیں گی.میاں صاحب موصوف کا ذکر باخیر بھی اس کے ساتھ دنیا میں کیا جائے گا.یہ زمانہ گذر جائے گا اور دوسرا زمانہ آئے گا اور خدا اس زمانے کے لوگوں کو آنکھیں دے گا اور وہ ان لوگوں کے حق میں دعاءِ خیر کریں گے جنہوں نے مجھے پاکر میرا ساتھ دیا ہے.سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ وقت گزر جائے گا اور ہر ایک غافل اور منکر اور مکذب وہ حسرتیں ساتھ لے جائے گا جن کا تدارک
323 پھر اس کے ہاتھ میں نہیں ہوگا.اب میاں غلام فرید صاحب کا خط ذیل میں حسب وعدہ مذکورہ لکھا جاتا ہے اور وہ یہ ہے مِن فقیر باب اللہ غلام فرید سجّادہ نشین الیٰ جناب میرزا غلام احمد صاحب قادیانی بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ الحَمْدللّٰہ ربّ الارباب.وَالصّلوۃ علٰی رَسُولہ الشفیع بیوم الحساب.وعلٰی آلہ والاصحاب والسّلام علیکم وعلٰی مَنْ اجتہد واصاب.امّا بعد قد ارسلت الیّ الکتاب.وبہ دعوت الٰی المباہلۃ وطالبت بالجواب.وانی وان کنت عدیم الفرصۃ ولکن رایت جزۂ من حسن الخطاب.وسوق العتاب.اعلم یا اعزّالاحباب.انّی مِن بدوحالک واقف علٰی مقام تعظیمک لنیل الثواب.وما جرت علی لسانی کلمۃ فی حقّک الا بالتبجیل ورعایۃ الآداب.والآن اطّلع لک بانّی مُعترف بصلاح حالک بلا ارتیاب.وموقن بانّک مِنْ عباد اللّہ الصالحین وفی سعیک المشکور مثاب.وقد اوتیت الفضل من الملک الوہاب.ولک ان تسئل من اللّٰہ تعالٰی خیر عاقبتی وادعولکم حسن مآب.ولو لا خوف الاطناب.لازددت فی الخطاب.وَالسّلام علٰی من سلک سبیل الصواب.فقط ۲۷؍ رجب ۱۳۱۴ھ من مقام چاچڑاں مہر
324 ترجمہ اس کا یہ ہے.تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو رب الارباب ہے.اور درود اس رسول مقبول پر جو یوم الحساب کا شفیع ہے اور نیز اس کی آل اور اصحاب پر.اور تم پر سلام اور ہریک پر جوراہ صواب میں کوشش کرنے والا ہو.اس کے بعد واضح ہو کہ مجھے آپ کی وہ کتاب پہنچی جس میں مباہلہ کے لئے جواب طلب کیا گیا ہے.اور اگرچہ میں عدیم الفرصت تھا تاہم میں نے اس کتاب کی ایک جز کو جو حسن خطاب اور طریق عتاب پر مشتمل تھی پڑھی ہے سو اے ہریک حبیب سے عزیز تر تجھے معلوم ہو کہ میں ابتدا سے تیرے لئے تعظیم کرنے کے مقام پر کھڑا ہوں.تا مجھے ثواب حاصل ہو اور کبھی میری زبان پر بجز تعظیم اور تکریم اور رعایت آداب کے تیرے حق میں کوئی کلمہ جاری نہیں ہوا.اور اب میں مطلع کرتا ہوں کہ میں بلاشبہ تیرے نیک حال کا معترف ہوں.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ تو خدا کے صالح بندوں میں سے ہے اور تیری سعی عند اللہ قابل شکر ہے جس کا اجر ملے گا اور خدائے بخشندہ بادشاہ کا تیرے پر فضل ہے.میرے لئے عاقبت بالخیر کی دعا کر اور میں آپ کے لئے انجام خیر و خوبی کی دعا کرتا ہوں.اگر مجھے طول کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں زیادہ لکھتا.والسّلام علٰی من سلک سبیل الصواب.من مقام چاچڑاں ایک اور پیشگوئی کا پورا ہونا چونکہ حدیث صحیح میں آچکا ہے کہ مہدی موعود کے پاس ایک چھپی ہوئی کتاب ہوگی جس میں اس کے تین سو ۳۱۳تیرہ اصحاب کا نام درج ہوگا.اس لئے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ وہ پیشگوئی آج پوری ہوگئی.یہ تو ظاہر ہے کہ پہلے اس سے امت مرحومہ میں کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوا کہ جو مہدویت کا مدعی ہوتا اور اس کے وقت میں چھاپہ خانہ بھی ہوتا.اور اس کے پاس ایک کتاب بھی ہوتی جس میں تین سو ۳۱۳تیرہ نام لکھے ہوئے ہوتے.اور ظاہر ہے کہ اگر یہ کام انسان کے اختیار میں ہوتا تو اس سے پہلے کئی جھوٹے اپنے تئیں اس کا مصداق بنا سکتے.مگر اصل بات یہ ہے کہ خدا کی پیشگوئیوں میں ایسی فوق العادت شرطیں ہوتی ہیں کہ کوئی جھوٹا ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا.اور اس کو وہ سامان اور اسباب عطا نہیں کئے جاتے جو سچے کو عطا کئے جاتے ہیں.شیخ علی حمزہ بن علی ملک الطوسی اپنی کتاب جواہر الاسرار میں جو ۸۴۰ ھ میں تالیف ہوئی تھی مہدی موعود کے بارے میں مندرجہ ذیل عبارت لکھتے ہیں.’’دراربعین آمدہ است کہ خروج مہدی
325 ازقریہ کدعہ باشد.قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یخرج المھدی من قریۃ یقال لھا کدعہ ویصدقہ اللّٰہ تعالٰی ویجمع اصحابہ من اقصَی البلاد علی عدّۃ اھل بدر بثلاث ماءۃ وثلا ثۃ عشر رجلا ومعہ صحیفۃ مختومۃ )ای مطبوعۃ( فیھا عدد اصحابہ باسماءھم وبلادھم وخلالھم یعنی مہدی اس گاؤں سے نکلے گا جس کا نام کدعہ ہے )یہ نام دراصل قادیان کے نام کو معرب کیا ہوا ہے( اور پھر فرمایا کہ خدا اس مہدی کی تصدیق کرے گا.اور دور دور سے اس کے دوست جمع کرے گا جن کا شمار اہل بدر کے شمار سے برابر ہوگا.یعنی تین سو ۳۱۳تیرہ ہوں گے.اور ان کے نام بقید مسکن وخصلت چھپی ہوئی کتاب میں درج ہوں گے.اب ظاہر ہے کہ کسی شخص کو پہلے اس سے یہ اتفاق نہیں ہوا کہ وہ مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کرے اور اس کے پاس چھپی ہوئی کتاب ہو جس میں اس کے دوستوں کے نام ہوں.لیکن میں پہلے اس سے بھی آئینہ کمالات اسلام میں تین سو۳۱۳تیرہ نام درج کرچکا ہوں اور اب دو بارہ اتمام حجت کے لئے تین سو۳۱۳تیرہ نام ذیل میں درج کرتا ہوں تا ہریک منصف سمجھ لے کہ یہ پیشگوئی بھی میرے ہی حق میں پوری ہوئی.اور بموجب منشاء حدیث کے یہ بیان کر دینا پہلے سے ضروری ہے کہ یہ تمام اصحاب خصلت صدق و صفا رکھتے ہیں اور حسب مراتب جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے بعض بعض سے محبت اور انقطاع الی اللہ اور سرگرمی دین میں سبقت لے گئے ہیں.اللہ تعالیٰ سب کو اپنی رضا کی راہوں میں ثابت قدم کرے.اور وہ یہ ہیں.منشی جلال الدین صاحب پنشنر سابق میر منشی رجمٹ نمبر ۱۲.موضع بلانی کھاریاں.ضلع گجرات ۲.مولوی حافظ فضل دین صاحب ؍؍ ۳.میاں محمد دین پٹواری بلانی ؍؍ ۴.قاضی یوسف علی نعمانی معہ اہل بیت تشام حصار ۵.میرزا امین بیگ صاحب معہ اہل بیت بہالوجی جیپور ۶.مولوی قطب الدین صاحب.بدوملی.سیالکوٹ ۷.منشی روڑا صاحب.کپور تھلہ ۸.میاں محمد خاں صاحب ؍؍ ۹.منشی ظفر احمد صاحب ؍؍ ۱۰.منشی عبد الرحمن صاحب ؍؍ ۱۱.منشی فیاض علی صاحب ؍؍ ۱۲.مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹ ۱۳.سید حامد شاہ صاحب ؍؍ ۱۴.مولوی وزیر الدین صاحب کانگڑہ ۱۵.منشی گوہر علی صاحب جالندھر ۱۶.مولوی غلام علی صاحب ڈپٹی رہتاس.جہلم ۱۷.میاں نبی بخش صاحب رفوگر.امرتسر ۱۸.میاں قطب الدین خان صاحب مس گر ؍؍ ۱۹.میاں عبد الخالق صاحب ؍؍ ۲۰.مولوی ابو الحمید صاحب حیدرآباد دکن ۲۱.مولوی حاجی حافظ حکیم نور دین صاحب معہ ہر دو زوجہ.بھیرہ.ضلع شاہ پور ۲۲.مولوی سید محمد احسن صاحب امروہہ.ضلع مراد آباد ۲۳.مولوی حاجی حافظ حکیم فضل دین صاحب معہ ہردوز زوجہ بھیرہ ۲۴.صاحبزادہ محمد سراج الحق صاحب جمالی نعمانی قادیانی سابق سرساوی معہ اہلبیت ۲۵.سید ناصر نواب صاحب دہلوی.حال قادیانی ۲۶.صاحبزادہ افتخار احمد صاحب لدھیانوی بمعہ اہلبیت ؍؍ ۲۷.صاحبزادہ منظور محمد صاحب معہ اہلبیت ؍؍ ۲۸.حافظ حاجی مولوی احمد اللہ خان معہ اہلبیت ؍؍ ۲۹.سیٹھ عبد الرحمن صاحب حاجی اللہ رکھا معہ اہلبیت مدراس ۳۰.میاں جمال الدین سیکھواں گورداسپور معہ اہلبیت ۳۱.میاں خیر الدین ؍؍ ؍؍ ؍؍ ۳۲.میاں امام الدین ؍؍ ؍؍ ؍؍ ۳۳.میاں عبد العزیز پٹواری ؍؍ ؍؍ ۳۴.منشی گلاب دین.رہتاس.جہلم ۳۵.قاضی ضیاء الدین صاحب.قاضی کوٹی ۳۶.میاں عبد اللہ صاحب پٹواری.سنوری ۳۷.شیخ عبدالرحیم صاحب نومسلم سابق لیس دفعدار رسالہ نمبر ۱۲ چھاؤنی سیالکوٹ ۳۸.مولوی مبارک علی صاحب امام ؍؍ ۳۹.میرزا نیاز بیگ صاحب کلا نوری ۴۰.میرزا یعقوب بیگ صاحب......؍؍ ۴۱.میرزا ایوب بیگ صاحب معہ اہلبیت..؍؍ ۴۲.میرزا خدا بخش صاحب.جھنگ ۴۳.سردار نواب محمد علیخاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ ۴۴.سید محمد عسکری خان صاحب سابق اکٹرا اسسٹنٹ الہ آباد
326 ۴۵.میرزا محمد یوسف بیگ صاحب.سامانہ ریاست پٹیالہ ۴۶.شیخ شہاب الدین صاحب.لودیانہ ۴۷.شہزادہ عبد المجید صاحب.؍؍ ۴۸.منشی حمید الدین صاحب.؍؍ ۴۹.میاں کرم الٰہی صاحب ؍؍ ۵۰.قاضی زین العابدین صاحب خانپور.سرہند ۵۱.مولوی غلام حسن صاحب رجسٹرار...پشاور ۵۲.محمد انوار حسین خان صاحب.شاہ آباد.ہردوئی ۵۳.شیخ فضل الٰہی صاحب.فیض اللہ چک ۵۴.میاں عبد العزیز صاحب.......دہلی ۵۵.مولوی محمد سعید صاحب.شامی...طرابلسی ۵۶.مولوی حبیب شاہ صاحب....خوشاب ۵۷.حاجی احمد صاحب..........بخارا ۵۸.حافظ نور محمد صاحب....فیض اللہ چک ۵۹.شیخ نور احمد صاحب..........امرتسر ۶۰.مولوی جمال الدین صاحب....سید والہ ۶۱.میاں عبد اللہ صاحب.......ٹھٹھہ شیرکا ۶۲.میاں اسمعیل صاحب.......سرساوہ ۶۳.میاں عبد العزیز صاحب نومسلم.قادیان ۶۴.خواجہ کمال الدین صاحب بی اے معہ اہل بیت لاہور ۶۵.مفتی محمد صادق صاحب بھیرہ.ضلع شاہ پور ۶۶.شیر محمد خاں صاحب...بکہر ؍؍ ۶۷.منشی محمد افضل صاحب لاہور حال...ممباسہ ۶۸.ڈاکٹر محمد اسمٰعیل خان صاحب گوڑیانی ملازم ؍؍ ۶۹.میاں کریم الدین صاحب مدرس قلعہ سوبھا سنگھ ۷۰.سید محمد اسمٰعیل دہلوی طالب علم حال قادیان ۷۱.بابو تاج الدین صاحب اکونٹنٹ.لاہور ۷۲.شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر.......؍؍ ۷۳.شیخ نبی بخش صاحب.......؍؍ ۷۴.منشی معراج الدین صاحب.......؍؍ ۷۵.شیخ مسیح اللہ صاحب...شاہجہان پوری ۷۶.منشی چوہدری نبی بخش صاحب معہ اہل بیت.بٹالہ ۷۷.میاں محمد اکبر صاحب..........بٹالہ ۷۸.شیخ مولا بخش صاحب....ڈنگہ گجرات ۷۹.سید امیر علی شاہ صاحب سارجنٹ سیالکوٹ ۸۰.میاں محمد جان صاحب.......وزیر آباد ۸۱.میاں شادی خاں صاحب....سیالکوٹ ۸۲.میاں محمد نواب خان صاحب تحصیلدار.جہلم ۸۳.میاں عبد اللہ خان صاحب برادر نواب خان صاحب؍؍ ۸۴.مولوی برہان الدین صاحب......؍؍ ۸۵.شیخ غلام نبی صاحب.......راولپنڈی ۸۶.بابو محمد بخش صاحب ہیڈ کلرک.چھاؤنی انبالہ ۸۷.منشتی رحیم بخش صاحب میونسپل کمشنر.لدھیانہ ۸۸.منشی عبد الحق صاحب کرانچی والہ...؍؍ ۸۹.حافظ فضل احمد صاحب.......لاہور ۹۰.قاضی امیر حسین صاحب.......بھیرہ ۹۱.مولوی حسن علی صاحب مرحوم....بھاگلپور ۹۲.مولوی فیض احمد صاحب لنگیاں والی.گوجرانوالہ ۹۳.سید محمود شاہ صاحب مرحوم....سیالکوٹ ۹۴.مولوی غلام امام صاحب عزیز الواعظین منی پور آسام ۹۵.رحمن شاہ صاحب ناگپور ضلع چاندہ.وڑوڑہ ۹۶.میاں جان محمد صاحب مرحوم....قادیان ۹۷.منشی فتح محمد معہ اہلبیت بز دارلیہ ڈیرہ اسمٰعیل خاں ۹۸.شیخ محمد صاحب.............مکی ۹۹.حاجی منشی احمد جان صاحب مرحوم.لودیانہ ۱۰۰.منشی پیر بخش صاحب مرحوم...جالندھر ۱۰۱.شیخ عبد الرحمن صاحب نومسلم...قادیان ۱۰۲.حاجی عصمت اللہ صاحب....لودیانہ ۱۰۳.میاں پیر بخش صاحب....؍؍ ۱۰۴.منشی ابراہیم صاحب..........؍؍ ۱۰۵.منشی قمر الدین صاحب.......؍؍ ۱۰۶.حاجی محمد امیر خاں صاحب....سہارنپور ۱۰۷.حاجی عبد الرحمن صاحب مرحوم....لودیانہ ۱۰۸.قاضی خواجہ علی صاحب....؍؍ ۱۰۹.منشی تاج محمد خاں صاحب....لودیانہ ۱۱۰.سید محمد ضیاء الحق صاحب.......روپڑ ۱۱۱.شیخ محمد عبد الرحمن صاحب عرف شعبان.کابلی ۱۱۲.خلیفہ رجب دین صاحب تاجر....لاہور ۱۱۳.پیر جی خدا بخش صاحب مرحوم.ڈیرہ دون ۱۱۴.حافظ مولوی محمد یعقوب خان صاحب ؍؍ ۱۱۵.شیخ چرا غ علی نمبردار.......تھہ غلام نبی ۱۱۶.محمد اسمٰعیل غلام کبریا صاحب فرزند رشید مولوی محمد احسن صاحب امروہی.۱۱۷.احمد حسن صاحب فرزند رشید مولوی محمد احسن صاحب امروہی.۱۱۸.سیٹھ احمد صاحب عبد الرحمن حاجی اللہ رکھا تاجرمدراس.۱۱۹.سیٹھ صالح محمد حاجی اللہ رکھا تاجر مدراس ۱۲۰.سیٹھ ابراہیم صاحب صالح محمد حاجی اللہ رکھا؍؍ ۱۲۱.سیٹھ عبد الحمید صاحب حاجی ایوب حاجی اللہ رکھا؍؍ ۱۲۲.حاجی مہدی صاحب عربی بغدادی نزیل ؍؍ ۱۲۳.سیٹھ محمد یوسف صاحب حاجی اللہ رکھا ؍؍ ۱۲۴.مولوی سلطان محمود صاحب میلا پور ؍؍ ۱۲۵.حکیم محمد سعید صاحب ؍؍ ۱۲۶.منشی قادر علی صاحب ؍؍ ۱۲۷.منشی غلام دستگیر صاحب ؍؍ ۱۲۸.منشی سراج الدین صاحب ترمل کہیڑی ؍؍ ۱۲۹.قاضی غلام مرتضیٰ صاحب اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر مظفر گڑھ حال پنشنر ۱۳۰.مولوی عبد القادر خان صاحب جمالپور.لودیانہ ۱۳۱.مولوی عبد القادر صاحب.خاص لودیانہ ۱۳۲.مولوی رحیم اللہ صاحب مرحوم...لاہور ۱۳۳.مولوی غلام حسین صاحب...؍؍ ۱۳۴.مولوی غلام نبی صاحب مرحوم خوشاب شاہ پور ۱۳۵.مولوی محمد حسین صاحب علاقہ ریاست کپور تھلہ ۱۳۶.مولوی شہاب الدین صاحب غزنوی.کابلی
327 ۱۳۷.مولوی سید محمد تفضل حسین صاحب اکسٹرا اسٹنٹ.علی گڑھ ضلع فرخ آباد ۱۳۸.منشی صادق حسین صاحب مختار....اٹاوہ ۱۳۹.شیخ مولوی فضل حسین صاحب احمد آبادی.جہلم ۱۴۰.میاں عبد العلی موضع عبد الرحمن ضلع شاہ پور ۱۴۱.منشی نصیر الدین صاحب لونی.حال حیدر آباد ۱۴۲.قاضی محمد یوسف صاحب قاضی کوٹ.گوجرانوالہ ۱۴۳.قاضی فضل الدین صاحب ؍؍ ؍؍ ۱۴۴.قاضی سراج الدین صاحب ؍؍ ؍؍ ۱۴۵.قاضی عبد الرحیم صاحب فرزند رشید قاضی ضیاء الدین صاحب کوٹ قاضی.گوجرانوالہ ۱۴۶.شیخ کرم الٰہی صاحب کلرک ریلوے.پٹیالہ ۱۴۷.میرزا عظیم بیگ صاحب مرحوم.سامانہ.پٹیالہ ۱۴۸.میرزا ابراہیم بیگ صاحب مرحوم ؍؍ ؍؍ ۱۴۹.میاں غلام محمد طالب علم مچہرالہ....لاہور ۱۵۰.مولوی محمد فضل صاحب چنگا....گوجر خاں ۱۵۱.ماسٹر قادر بخش صاحب لدھیانہ ۱۵۲.منشی الہ بخش صاحب.؍؍ ؍؍ ۱۵۳.حاجی ملا نظام الدین صاحب ؍؍ ۱۵۴.عطاء الٰہی غوث گڈہ.......پٹیالہ ۱۵۵.مولوی نور محمد صاحب مانگٹ ؍؍ ۱۵۶.مولوی کریم اللہ صاحب.......امرتسر ۱۵۷.سید عبد الہادی صاحب سولن....شملہ ۱۵۸.مولوی محمد عبد اللہ خان صاحب.پٹیالہ ۱۵۹.ڈاکٹر عبد الحکیم خاں صاحب....؍؍ ۱۶۰.ڈاکٹر بوڑے خان صاحب.قصور.ضلع لاہور ۱۶۱.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب لاہور.حال چکراتہ ۱۶۲.غلام محی الدین خان صاحب فرزند ڈاکٹر بوڑے خان صاحب ۱۶۳.مولوی صفدر حسین صاحب.حیدر آباد دکن ۱۶۴.خلیفہ نور دین صاحب....جموں ۱۶۵.میاں اللہ دتا صاحب.......؍؍ ۱۶۶.منشی عزیز الدین..........کانگڑہ ۱۶۷.سید مہدی حسین صاحب علاقہ پٹیالہ ۱۶۸.مولوی حکیم نور محمد صاحب.......موکل ۱۶۹.حافظ محمد بخش مرحوم.......کوٹ قاضی ۱۷۰.چوہدری شرف الدین صاحب.کوٹلہ فقیر.جہلم ۱۷۱.میاں رحیم بخش صاحب.......امرتسر ۱۷۲.مولوی محمد افضل صاحب کملہ.گجرات ۱۷۳.میاں اسمٰعیل صاحب....امرتسری ۱۷۴.مولوی غلام جیلانی صاحب گھڑونواں.جالندھر ۱۷۵.منشی امانت خان صاحب.نادون.کانگڑہ ۱۷۶.قاری محمد صاحب..........جہلم ۱۷۷.میاں کرم داد معہ اہل بیت.قادیان ۱۷۸.حافظ نور احمد..........لودیانہ ۱۷۹.میاں کرم الٰہی صاحب.......لاہور ۱۸۰.میاں عبد الصمد صاحب.......نارووال ۱۸۱.میاں غلام حسین معہ اہلیہ.......رہتاس ۱۸۲.میاں نظام الدین صاحب......جہلم ۱۸۳.میاں محمد صاحب.........جہلم ۱۸۴.میاں علی محمد صاحب.........؍؍ ۱۸۵.میاں عباس خاں.کہوہار....گجرات ۱۸۶.میاں قطب الدین صاحب.کوٹلہ فقیر.جہلم ۱۸۷.میاں اللہ دتا خان صاحب اڑیالہ....؍؍ ۱۸۸.محمد حیات صاحب.چک جانی...؍؍ ۱۸۹.مخدوم مولوی محمد صدیق صاحب.بھیرہ ۱۹۰.عبد المغنی صاحب فرزند رشید مولوی برہان الدین صاحب جہلمی ۱۹۱.قاضی چراغ الدین.کوٹ قاضی.گوجرانوالہ ۱۹۲.میاں فضل الدین صاحب قاضی کوٹ ۱۹۳.میاں علم الدین صاحب کوٹلہ فقیر.جہلم ۱۹۴.قاضی میر محمد صاحب.......کوٹ کھلیان ۱۹۵.میاں اللہ دتا صاحب...نت.گوجرانوالہ ۱۹۶.میاں سلطان محمد صاحب...؍؍ ۱۹۷.مولوی خان ملک صاحب کھیوال ۱۹۸.میاں الہ بخش صاحب علاقہ بند.امرتسر ۱۹۹.مولوی عنایت اللہ مدرس...مانانوالہ ۲۰۰.منشی میرا بخش صاحب...گوجرانوالہ ۲۰۱.مولوی احمد جان صاحب مدرس ؍؍ ۲۰۲.مولوی حافظ احمد دین چک سکندر گجرات ۲۰۳.مولوی عبد الرحمن صاحب کہیوال.جہلم ۲۰۴.میاں مہر دین صاحب....لالہ موسیٰ ۲۰۵.میاں ابراہیم صاحب پنڈوری.جہلم ۲۰۶.سید محمود شاہ صاحب فتح پور.گجرات ۲۰۷.محمد جو صاحب....امرتسر ۲۰۸.منشی شاہ دین صاحب.دینا.جہلم ۲۰۹.منشی روشن دین صاحب.ڈنڈوت.؍؍ ۲۱۰.حکیم فضل الٰہی صاحب....لاہور ۲۱۱.شیخ عبد اللہ دیوانچند صاحب کمپونڈر ؍؍ ۲۱۲.منشی محمد علی صاحب ؍؍ ۲۱۳.منشی امام الدین صاحب کلرک ؍؍ ۲۱۴.منشی عبد الرحمن صاحب ؍؍...؍؍ ۲۱۵.خواجہ جمال الدین صاحب بی اے لاہور حال جموں ۲۱۶.منشی مولا بخش صاحب کلرک...لاہور ۲۱۷.شیخ محمد حسین صاحب مراد آبادی...پٹیالہ ۲۱۸.عالم شاہ صاحب کھاریاں......گجرات ۲۱۹.مولوی شیر محمد صاحب ہوہن...شاہپور ۲۲۰.میاں محمد اسحٰق صاحب اوورسیر بھیرہ.حال ممباسہ ۲۲۱.میرزا اکبر بیگ صاحب....کلانور ۲۲۲.مولوی محمد یوسف صاحب....سنور ۲۲۳.میاں عبد الصمد صاحب....؍؍ ۲۲۴.منشی عطا محمد صاحب......سیالکوٹ ۲۲۵.شیخ مولا بخش صاحب.........؍؍ ۲۲۶.سید خصیلت علی شاہ صاحب ڈپٹی انسپکٹر ڈنگہ ۲۲۷.منشی رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر گورداسپورہ ۲۲۸.سید احمد علی شاہ صاحب......سیالکوٹ
328 ۲۲۹.ماسٹر غلام محمد صاحب سیالکوٹ ۲۳۰.حکیم محمد دین صاحب.....؍؍ ۲۳۱.میاں غلام محی الدین صاحب ؍؍ ۲۳۲.میاں عبد العزیز صاحب ؍؍ ۲۳۳.منشی محمد دین صاحب ؍؍ ۲۳۴.منشی عبد المجید صاحب اوجلہ.گورداسپور ۲۳۵.میاں خدا بخش صاحب.بٹالہ ؍؍ ۲۳۶.منشی حبیب الرحمن صاحب حاجی پور.کپور تھلہ ۲۳۷.محمد حسین صاحب لنگیاں والی.گوجرانوالہ ۲۳۸.منشی زین الدین محمد ابراہیم.انجینئر.بمبئی ۲۳۹.سید فضل شاہ صاحب..........لاہور ۲۴۰.سید ناصر شاہ صاحب سب اوورسیر.اوڑی کشمیر ۲۴۱.منشی عطا محمد صاحب چنیوٹ جھنگ ۲۴۲.شیخ نور احمد صاحب جالندھر.حال ممباسہ ۲۴۳.منشی سرفراز خان صاحب.جھنگ ۲۴۴.مولوی سید محمد رضوی صاحب.حیدر آباد ۲۴۵.مفتی فضل الرحمن صاحب معہ اہلیہ.بھیرہ ۲۴۶.حافظ محمد سعید صاحب بھیرہ.حال لندن ۲۴۷.مستری قطب الدین صاحب بھیرہ ۲۴۸.مستری عبد الکریم صاحب ؍؍ ۲۴۹.مستری غلام الٰہی صاحب ؍؍ ۲۵۰.میاں عالم دین صاحب ؍؍ ۲۵۱.میاں محمد شفیع صاحب ؍؍ ۲۵۲.میاں نجم الدین صاحب ؍؍ ۲۵۳.میاں خادم حسین صاحب ؍؍ ۲۵۴.بابو غلام رسول صاحب ؍؍ ۲۵۵.شیخ عبدا لرحمن صاحب نومسلم ؍؍ ۲۵۶.مولوی سردار محمد صاحب لون میانی ۲۵۷.مولوی دوست محمد صاحب ؍؍ ۲۵۸.مولوی حافظ محمد صاحب بھیرہ.حال کشمیر ۲۵۹.مولوی شیخ قادر بخش صاحب.احمد آباد ۲۶۰.منشی اللہ داد صاحب کلرک چھاؤنی شاہپور ۲۶۱.میاں حاجی وریام خوشاب ۲۶۲.حافظ مولوی فضل دین صاحب ؍؍ ۲۶۳.سید دلدار علی صاحب.بلہور...کانپور ۲۶۴.سید رمضان علی صاحب.؍؍ ؍؍ ۲۶۵.سید جیون علی صاحب پلول.حال الہ آباد ۲۶۶.سید فرزند حسین صاحب چاند پور.؍؍ ۲۶۷.سید اہتمام علی صاحب.موہر ونڈا.؍؍ ۲۶۸.حاجی نجف علی صاحب.کٹٹرہ محلہ.الہ آباد ۲۶۹.شیخ گلاب صاحب ؍؍ ؍؍ ۲۷۰.شیخ خدا بخش صاحب ؍؍ ؍؍ ۲۷۱.حکیم محمد حسین صاحب لاہور ۲۷۲.میاں عطا محمد صاحب سیالکوٹ ۲۷۳.میاں محمد دین صاحب جموں ۲۷۴.میاں محمد حسن صاحب عطار لدہیانہ ۲۷۵.سید نیاز علی صاحب.مدایوان حال رامپور ۲۷۶.ڈاکٹر عبد الشکور صاحب....سرسہ ۲۷۷.شیخ حافظ الہ دین صاحب بی اے جہاوریاں ۲۷۸.میاں عبد السبحان.........لاہور ۲۷۹.میاں شہامت خاں......نادون ۲۸۰.مولوی عبد الحکیم صاحب دھار وار علاقہ بمبئی ۲۸۱.قاضی عبد اللہ صاحب کوٹ قاضی ۲۸۲.عبد الرحمن صاحب پٹواری سنوری ۲۸۳.برکت علی صاحب مرحوم.تھہ غلام نبی ۲۸۴.شہاب الدین صاحب ؍؍ ۲۸۵.صاحب دین صاحب طہال.گجرات ۲۸۶.مولوی غلام حسن مرحوم......دینہ نگر ۲۸۷.نواب دین صاحب مدرس...دینا نگر ۲۸۸.احمد دین صاحب.........منارہ ۲۸۹.عبد اللہ صاحب قرآنی.........لاہور ۲۹۰.کرم الٰہی صاحب کمپازیٹر.........؍؍ ۲۹۱.سید محمد آفندی ترکی ۲۹۲.عثمان عرب صاحب طائف شریف ۲۹۳.عبد الکریم صاحب مرحوم....چمارو ۲۹۴.عبد الوہاب صاحب بغدادی ۲۹۵.میاں کریم بخش صاحب مرحوم مغفور جمال پور ضلع لدھیانہ.۲۹۶.عبد العزیز صاحب عرف عزیز الدین ناسنگ ۲۹۷.حافظ غلام محی الدین صاحب بھیرہ حال قادیان ۲۹۸.محمد اسمٰعیل صاحب نقشہ نویس کالکا ریلوے ۲۹۹.احمد دین صاحب.چک.کھاریاں ۳۰۰.محمد امین کتاب فروش جہلم ۳۰۱.مولوی محمود حسن خان صاحب مدرس ملازم پٹیالہ ۳۰۲.محمد رحیم الدین حبیب والہ ۳۰۳.شیخ حرمت علی صاحب کراری الہ آباد ۳۰۴.میاں نور محمد صاحب غوث گڑھ...پٹیالہ ۳۰۵.مستری اسلام احمد صاحب...بھیرہ ۳۰۶.حسینی خاں صاحب......الہ آباد ۳۰۷.قاضی رضی الدین صاحب...اکبر آباد ۳۰۸.سعد اللہ خان صاحب......الہ آباد ۳۰۹.مولوی عبد الحق صاحب ولد مولوی فضل حق صاحب مدرس سامانہ پٹیالہ ۳۱۰.مولوی حبیب اللہ صاحب مرحوم محافظ دفتر پولیس.جہلم ۳۱۱.رجب علی صاحب پنشنر ساکن جہونسی کہنہ ضلع الہ آباد ۳۱۲.ڈاکٹر سید منصب علی صاحب پنشنر.الہ آباد ۳۱۳.میاں کریم اللہ صاحب سارجنٹ پولس جہلم **
329 اب دیکھو یہ تین سو تیرہ مخلص جو اس کتاب میں درج ہیں یہ اسی پیشگوئی کا مصداق ہے جو احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی ہے.پیشگوئی میں کدعہ کا لفظ بھی ہے جو صریح قادیان کے نام کو بتلا رہا ہے پس تمام مضمون اس حدیث کا یہ ہے کہ وہ مہدی موعود قادیان میں پیدا ہوگا.اور اس کے پاس ایک کتاب چھپی ہوئی ہوگی.جس میں تین سو ۳۱۳تیرہ اس کے دوستوں کے نام درج ہوں گے.سو ہریک شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ بات میرے اختیار میں تو نہیں تھی کہ میں ان کتابوں میں جو اس زمانہ سے ہزار برس پہلے دنیا میں شائع ہوچکی ہیں اپنے گاؤں قادیان کا نام لکھ دیتا.اور نہ میں نے چھاپہ کی کل نکالی ہے تا یہ خیال کیا جائے کہ میں نے اس غرض سے مطبع کو اس زمانہ میں ایجاد کیا ہے.اور نہ تین سو تیرہ مخلص اصحاب کا پیدا کرنا میرے اختیار میں تھا بلکہ یہ تمام اسباب خود خدا تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں تاوہ اپنے رسول کریم کی پیشگوئی کو پورا کرے.مگر اس زمانہ کے مولویوں کی حالت پر سخت افسوس ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ کوئی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری ہو.آتھم کی نسبت کیسی صفائی سے پیشگوئی پوری ہوئی.خدا تعالیٰ کی الہامی شرط کے موافق اول آتھم سودائیوں کی طرح ڈرتا پھرا.اور بباعث شدت خوف شرط سے فائدہ اٹھایا.آخر بیباکی کی حالت میں خدا تعالیٰ کے قطعی الہام کے موافق واصل جہنم ہوا.اور یہی پیشگوئی تھی جس کی براہین احمدیہ کے صفحہ ۲۴۱ میں بھی اب سے ستر۱۷ہ پہلے خبر دی گئی تھی.سو جیسا کہ اس پیشگوئی کی تکذیب میں پادریوں نے جھوٹ کی نجاست کھائی.عبد الحق اور عبد الجبار غزنویان وغیرہ مخالف مولویوں نے بھی وہ نجاست کھائی اور جیسا کہ عیسائیوں نے اسلام پر حملہ کیا انہوں نے بھی اسلام پر حملہ کیا.کیونکہ یہ نشان اسلام کی تائید میں تھا.سو ان لوگوں نے اسلام کی کچھ پرواہ نہ کی اور کچھ بھی حیا اور شرم اور تقویٰ سے کام نہ لیا.اسی لئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کا نام یہودی رکھا.اگر یہ لوگ آتھم کے بارے میں کوئی سچی نکتہ چینی کرتے تو ہمیں کچھ افسوس نہ تھا مگر ان لوگوں نے تو اس سچائی پر تھوکا جو آفتاب کی طرح چمک رہی تھی.عبد الحق غزنوی بار بار لکھتا ہے کہ پادریوں کی فتح ہوئی.ہم اس کے جواب میں بجز اس کے کیا کہیں اور کیا لکھیں کہ اے بدذات یہودی صفت پادریوں کا اس میں منہ کالا ہوا اور ساتھ ہی تیرا بھی.اور پادریوں پر ایک آسمانی لعنت پڑی اور ساتھ ہی وہ لعنت تجھ کو بھی کھا گئی.اگر تو سچا ہے تو اب ہمیں دکھلا کہ آتھم کہاں ہے.اے خبیث کب تک تو جئے گا.کیا تیرے لئے ایک دن موت کا مقرر نہیں.
330 ایسا ہی ذرہ انصاف کرنا چاہیئے کہ کس قوت اور چمک سے کسوف اور خسوف کی پیشگوئی پوری ہوئی.اور ہمارے دعویٰ پر آسمان نے گواہی دی.مگر اس زمانہ کے ظالم مولوی اس سے بھی منکر ہیں.خاص کر رئیس الدجالین عبد الحق غزنوی اور اس کا تمام گروہ.علیھم نعال لعن اللّٰہ الف الف مرّۃ.اپنے ناپاک اشتہار میں نہایت اصرار سے کہتا ہے کہ یہ پیشگوئی بھی پوری نہیں ہوئی اے پلید دجال! پیشگوئی تو پوری ہوگئی.لیکن تعصب کے غبار نے تجھ کو اندھا کردیا.پیشگوئی کے اصل لفظ جو امام محمد باقر سے دار قطنی میں مروی ہیں یہ ہیں.’’انّ لمھدینا آیتین لم تکونا منذ خلق السّماوات والارض ینکسف القمر لاوّل لیلۃ من رمضان وتنکسف الشمس فی النصف منہ الخ.‘‘ یعنی ہمارے مہدی کی تائید اور تصدیق کے لئے دو نشان مقرر ہیں.اور جب سے کہ زمین و آسمان پیدا کئے گئے وہ دو نشان کسی مدعی کے وقت ظہور میں نہیں آئے.اور وہ یہ ہیں کہ مہدی کے ادعا کے وقت میں چاند اس پہلی رات میں گرہن ہوگا.جو اس کے خسوف کی تین راتوں میں سے پہلی رات ہے یعنی تیرھویں رات.اور سورج اس کے گرہن کے دنوں میں سے اس دن گرہن ہوگا جو درمیان کا دن ہے یعنی اٹھائیس۲۸ تاریخ کو اور جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کسی مدعی کے لئے یہ اتفاق نہیں ہوا کہ اس کے دعویٰ کے وقت میں خسوف کسوف رمضان میں ان تاریخوں میں ہوا ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا اس غرض سے نہیں تھا کہ وہ خسوف کسوف قانون قدرت کے برخلاف ظہور میں آئے گااور نہ حدیث میں کوئی ایسا لفظ ہے بلکہ صرف یہ مطلب تھا کہ اس مہدی سے پہلے کسی مدعی صادق یا کاذب کو یہ اتفاق نہیں ہوا ہوگا کہ اس نے مہدویت یا رسالت کا دعویٰ کیا ہو اور اس کے وقت میں ان تاریخوں میں رمضان میں خسوف کسوف ہوا ہو.پس ان مولویوں کو چاہیئے تھا کہ اگر اس پیشگوئی کی صحت میں شک تھا تو ایسی کوئی نظیر سابق زمانہ میں سے بحوالہ کسی کتاب کے پیش کرتے جس میں لکھا ہوتا کہ پہلے ایسا دعویٰ ہوچکا ہے اور اس کے وقت میں ایسا خسوف کسوف بھی ہوچکا ہے مگر اس طرف تو انہوں نے رخ بھی نہیں کیا.اور یہ احمقانہ عذر پیش کردیا ہے کہ اس پیشگوئی کے یہ معنی ہیں کہ چاند کو رمضان کی پہلی رات میں گرہن لگے گا.اور پندرہ تاریخ کو سورج گرہن ہوگا.لاحول ولا قوہ ان احمقوں نے یہ معنی کس لفظ سے سمجھ لئے اے نادانوں! آنکھوں کے اندھو! مولویت کو بدنام کرنے والو! ذرہ سوچو!
331 کہ حدیث میں چاند گرہن میں قمر کا لفظ آیا ہے.پس اگر یہ مقصود ہوتا کہ پہلی رات میں چاند گرہن ہوگا توحدیث میں قمر کا لفظ نہ آتا بلکہ ہلال کا لفظ آتا کیونکہ کوئی شخص اہل لغت اور اہل زبان میں سے پہلی رات کے چاند پر قمر کا لفظ اطلاق نہیں کرتا بلکہ وہ تین رات تک ہلال کے نام سے موسوم ہوتا ہے.پس ایک ایماندار کے لئے یہ ایک بدیہی قرینہ ہے کہ اس جگہ پہلی رات سے مہینہ کی پہلی رات مراد نہیں.بلکہ چاند گرہن کی پہلی رات مراد ہے.اگر مہینہ کی پہلی رات مراد ہوتی تو اس جگہ ہلال کا لفظ چاہیئے تھا نہ قمر کا.گویا یوں عبارت چاہیئے تھی کہ ینکسف الھلال لِاَوّل لیلۃ.سوا ب سوچنا چاہیئے کہ یہ لوگ ا س علمیت کے ساتھ مولوی کہلاتے ہیں اب تک یہ بھی خبر نہیں کہ پہلی رات کے چاند کو عربی زبان میں کیا کہتے ہیں.اور یہ خیال کہ اس حدیث میں جو یہ فقرہ ہے کہ لم تکونا منذ خلق السّمٰوات والارض اس سے سمجھا جاتا ہے کہ یہ خسوف و کسوف بطور خارق ہوگا نہ ایسا خسوف کسوف جو منجمین کے نزدیک معلوم و معروف ہے.یہ وہم بھی اس بات پر قطعی دلیل ہے کہ یہ لوگ علم عربی اور عالمانہ تدبر سے بالکل بے نصیب اور بے بہرہ ہیں.یہودیوں کے لئے خدا نے اس گدھے کی مثال لکھی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں مگر یہ خالی گدھے ہیں اور اس شرف سے بھی محروم ہیں جو ان پر کوئی کتاب ہو.ہریک عقلمند جس کو ذرہ انسانی عقل میں سے حصہ ہو سمجھ سکتا ہے کہ اس جگہ لم تکونا کا لفظ آیتین سے متعلق ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ یہ دونوں نشان بجز مہدی کے پہلے اس سے اور کسی کو عطا نہیں کئے گئے.پس اس جگہ یہ کہاں سے سمجھا گیا کہ یہ کسوف خسوف خارق عادت ہوگا.بھلا اس میں وہ کونسا لفظ ہے.جس سے خارق عادت سمجھا جائے.اور جبکہ مطلوب صرف یہ بات تھی کہ ان تاریخوں میں کسوف خسوف رمضان میں ہونا کسی کے لئے اتفاق نہیں ہوا.صرف مہدی موعود کے لئے اتفاق ہوگا تو پھر کیا حاجت تھی کہ خدا تعالیٰ اپنے قدیم نظام کے برخلاف چاند گرہن پہلی رات میں جبکہ خود چاند کالعدم ہوتا ہے کرتا.خدا نے قدیم سے چاند گرہن کے لئے ۱۳.۱۴.۱۵ اور سورج گرہن کے لئے ۲۷.۲۸.۲۹ (تاریخیں) مقرر کررکھی ہیں.سو پیشگوئی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ نظام اس روز ٹوٹ جائے گا.جو شخص ایسا سمجھتا ہے وہ گدھا ہے نہ انسان پیشگوئی کے لفظ صاف ہیں جن سے صریح ثابت ہوتا ہے کہ لم تکوناکے لفظ سے صرف یہ مطلب ہے کہ مہدی موعود کو ایک عزت دی جائے اور اس
332 نشان کو اس کے لئے خاص کردیا جائے.سو پیشگوئی کا بھی مفہوم یہی ہے کہ یہ نشان کسی دوسرے مدعی کو نہیں دیا گیا خواہ صادق ہو یا کاذب.صرف مہدی موعود کو دیا گیا ہے.اگر یہ ظالم مولوی اس قسم کا خسوف کسوف کسی اور مدعی کے زمانہ میں پیش کرسکتے ہیں تو پیش کریں.اس سے بیشک میں جھوٹا ہوجاؤں گا.ورنہ میری عداوت کے لئے اس قدر عظیم الشان معجزہ سے انکار نہ کریں.اے اسلام کے عار مولویو! ذرہ آنکھیں کھولو.اور دیکھو کہ کس قدر تم نے غلطی کی ہے.جہالت کی زندگی سے تو موت بہتر ہے.صاف ظاہر ہے کہ اس حدیث میں کسوف خسوف کو بے نظیر نہیں ٹھہرایا گیا بلکہ اس نسبت کو بے نظیر ٹھہرایا گیا ہے جو مہدی کے ساتھ اس کو واقع ہے.یعنی مطلب یہ ہے کہ اس طور کا خسوف کسوف جو اپنی تاریخوں اور مہینہ کے لحاظ سے مہدی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.یہ تعلق اس کا پہلے اس سے بھی کسی دوسرے کے ساتھ نہیں ہوا.اور تفسیر اس قول کی اس طرح پر ہے کہ ان لمھدینا آیتین لم تکونا لاحد منذ خلق السّمٰوات والارض.پس اس جگہ غرض تو یہ ہے کہ یہ دو نشان اس خصوصیت کے ساتھ مہدی کو دیئے گئے ہیں پہلے اس سے کسی کو نہیں دئے گئے اور لم تکونا کا لفظ آیتین کی تشریح کرتا ہے کہ وہ مہدی کے ساتھ خاص کئے گئے ہیں.خسوف کسوف کی کوئی نرالی حالت بیان کرنا منظور نہیں بلکہ اس عبارت میں دونوں نشانوں کی مہدی کے ساتھ تخصیص منظور ہے.نہ یہ کہ خسوف کسوف کی کوئی نرالی حالت بیان کی جائے.اور اگر نرالی حالت بیان کرنا منظور ہوتا تو عبارت یوں چاہیئے تھی کہ ینکسف القمر والشمس علی نہج ما انکسفا منذ خلق السّمٰوات والارض یعنی ایسے طور سے چاند اور سورج کا گرہن ہوگا کہ پہلے اس سے جب سے آسمان و زمین پیدا کیا گیا ہے ایسا خسوف کسوف کبھی نہیں ہوا.اب میں نے خوب تشریح کرکے اصل معنوں کو ننگا کرکے دکھلا دیا ہے.اب بھی اگر کوئی نہ سمجھے گا تو وہ پاگل کہلائے گا.اور اگرچہ پیشگوئی کے لفظوں سے یہ بات ہرگز نہیں نکلتی کہ خسوف کسوف کوئی نرالے طور پر ہوگا مگر خدا تعالیٰ نے ان مولویوں کا منہ کالا کرنے کے لئے اس خسوف کسوف میں بھی ایک امر خارق عادت رکھا ہے.چنانچہ مارچ ۱۸۹۴ء پایونیر اور سول ملٹری گزٹ
333 نے اقرار کیا ہے کہ یہ خسوف و کسوف جو ۶؍ اپریل ۱۸۹۴ء کو ہوگا.یہ ایک ایسا عجیب ہے کہ پہلے اس سے اس شکل اور صورت پر کبھی نہیں ہوا.‘‘ دیکھو کفار گواہی دیتے ہیں کہ یہ کسوف خسوف خارق عادت ہے اور مولوی اعتراض کررہے ہیں.!!! چو کافر شناساتر از مولویست بریں مولویت بباید گریست پھر ایک اور اعتراض سادہ لوح عبد الحق کا یہ ہے کہ ’’محدثین نے دار قطنی کی اس حدیث کے بعض راویوں پر جرح کیا ہے اس لئے یہ حدیث صحیح نہیں ہے.‘‘ لیکن اس احمق کو سمجھنا چاہیئے کہ حدیث نے اپنی سچائی کو آپ ظاہر کردیا ہے کیونکہ اس کی پیشگوئی پوری ہوگئی.پس اس صورت میں جرح سے حدیث کا کچھ نقصان نہیں ہوا.بلکہ جنہوں نے جرح کیا ہے ان کی حماقت ظاہر ہوئی.راویوں کی تنقید اور ان کا جرح ایک ظنی امر ہے.اور ایک پیشگوئی کا پورا ہو جانا اور اس کا صدق مشاہدہ میں آجانا یقینی امر ہے اور ظن یقین کو اٹھا نہیں سکتا.رؤیت روایت پر مقدم ہے.مثلاً ایک بڑے معتبر راوی نے ایک جگہ بیان کیا کہ عبد الحق غزنوی فوت ہوگیا ہے پھر اتنے میں تم خود اس مجلس میں حاضر ہوگئے.تو اب میں پوچھتا ہوں کہ ان مجلس والوں کو جن کے پاس ایک معتبر روایت تمہاری موت کی پہنچ چکی تھی.کیا کرنا چاہیئے؟ کیا تمہارا جنازہ پڑھا جائے یا زندہ دیکھ کر روایتوں کو رد کیا جائے.اے کسی جنگل کے وحشی! خبر معاینہ کے برابر نہیں ہوسکتی.کیا تو نے لیس الخبر کالمعاینۃ کبھی نہیں سنا.آثار اور احادیث جو آحاد ہیں وہ مفید ظن ہے اور معاینہ مفید یقین ہے.پس کیا ظن یقین کو کچھ نقصان پہنچا سکتا ہے.فرض کیا کہ اس حدیث میں کوئی راوی کذّاب ہے مفتری ہے شیعہ ہے.مگر جبکہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی تو اس طریق سے حدیث کی صحت پر شہادت پیدا ہوگئی.کسی کا کاذب ہونا قطعی طور پر اس کی روایت کو ردّ نہیں کر سکتا.کبھی کاذب بھی سچ بول سکتا ہے.دنیا میں ایسے لوگ بہت کم ہیں جنہوں نے ساری عمر جھوٹ نہ بولا ہو.تو کیا یقینی طور پر ان کی گواہی کو ردّ کر سکتے ہیں.پس ذرہ شرم کرو اور اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھو کہ تم نے اس حدیث کے دو راویوں عمرو اور جابر جعفی کو جھوٹا ٹھہرایا مگر ان کا جھوٹ ثابت نہیں.کسی نے ان کے جھوٹ کا شرعی ثبوت پیش نہیں کیا.بلکہ ان کی یہ روایت کسوف خسوف سچی نکلی.مگر تمہارا گندہ جھوٹ ایسی صفائی سے ثابت ہوگیا کہ تم عند الشرع سخت سزا کے لائق ٹھہر گئے اور وہ جھوٹ یہ ہے کہ تم نے حقیقت کو چھپانے کے لئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزہ کو باطل ٹھہرانے کی نیت سے گرہن کی تاریخوں کو بدل ڈالا.سورج چاند کا گرہن جس کی نسبت پیشگوئی ہے تمام
334 ہندو مسلمان عیسائی جانتے ہیں اور اخباروں اور جنتریوں میں مندرج ہے کہ وہ اس طرح پر واقعہ ہوا کہ چاند گرہن تیرہ ۱۳رمضان کو ہوا اور سورج گرہن اٹھائیس رمضان کو.جیسا کہ ہم نے اپنے رسالہ نورالحق میں اسی وقت چھاپ دیا تھا.مگر تم نے حق کو چھپانے کیلئے یہ جھوٹ کا گوہ کھایا کہ اپنے اس اشتہار میں جس کا عنوان صیانۃ الاناس عن شر الوسواس الخناس ہے چاند گرہن کی تاریخ بجائے تیرہ ۱۳رمضان کے چود۱۴ہ رمضان لکھ دی اور سورج گرہن کی تاریخ بجائے اٹھائیس۲۸ رمضان کے انتیس۲۹ رمضان لکھ دی.پس اے بدذات خبیث دشمن اللہ رسول کے تو نے یہ یہودیانہ تحریف اسی لئے کی کہ تا یہ عظیم الشان معجزہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا دنیا پر مخفی رہے.جابر اور عمرو بن ثمر کا جھوٹ تو ہرگز ثابت نہیں ہوا.بلکہ سچ ثابت ہوا.مگر تیرا جھوٹ اے نابکار پکڑا گیا.جابر اور عمرو کا سچا ہونا کسوف خسوف سے ثابت ہوگیا.اور رؤیت نے روایت کے ضعف کو دور کردیا.اب جو شخص ان بزرگوں کو جھوٹا کہے جن کے طفیل سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ دنیا پر کھلا وہ بدذات خود جھوٹا اور بے ایمان ہے.اور پھر یہ ایک وسوسہ عبد الحق غزنوی نے پیش کیا ہے کہ خسوف کسوف کے بارے میں جو اقوال ہیں وہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ان کے بعد مہدی کا ظہور ہو مگر میرزا قادیانی کے دعویٰ اور خروج کا یہ چوتھا سال ہے.‘‘ لیکن یاد رہے کہ یہ بھی اس نابکار کی تزویر اور تلبیس ہے.پیشگوئی کے صاف لفظ یہ ہیں کہ انّ لمھدینا آیتین یعنی ہمارے مہدی کے مصدق موید دو نشان ہیں.پس یہ لام جو انتفاع کے لئے آیا ہے صاف دلالت کرتا ہے کہ خسوف کسوف سے پہلے مہدی کا ظہور ضروری ہے اور نشان کسوف خسوف اس کے خروج کے بعد ہوا ہے اور اس کی تصدیق کے لئے ظاہر کیا گیا ہے اور نشانوں کے ظاہر کرنے کے لئے سنت اللہ بھی یہی ہے کہ وہ سچے مدعی کے دعویٰ کی تصدیق کے لئے ہوتے ہیں.بلکہ ایسے وقت میں ہوتے ہیں جبکہ اس مدعی کی تکذیب سرگرمی سے کی جائے.اور جو قبل ازوقت بعض علامات ظاہر ہوتی ہیں ان کا نام نشان نہیں بلکہ ان کا نام ارہاص ہے.آیت جس کا ترجمہ نشان ہے اصل میں ایواء سے مشتق ہے جس کے معنے ہیں پناہ دینا.سو آیت کے لفظ کا عین محل وہ ہے جب ایک مامور من اللہ کی تکذیب کی جائے اس کو جھوٹا ٹھہرایا جائے.تب اس وقت اس بیکس کو خدا تعالیٰ اپنی پناہ میں لانے کیلئے جو کچھ خارق عادت امر ظاہر کرتا ہے اس امر کا نام آیت یعنی نشان ہے.اس تحقیقات سے ثابت ہے کہ نشان کے لئے ضروری ہے کہ تکذیب کے بعد ظاہر ہو گویا اس کے سچے ہونے پر ایک نشانی لگا دی گئی.لیکن یہ نشانی اس وقت نفع دے گی کہ جب تکذیب کے وقت ظاہر ہو اور قبل وجود مدعی جو کچھ ظاہر ہو وہ امر مشتبہ ہوتا ہے.اور ہریک اس کو اپنی طرف نسبت کرسکتا ہے.اب اس کا کون فیصلہ کرے کہ اُس کا مصداق فلاں شخص ہے دوسرا نہیں.لیکن اگر نشان کے وقت میں دو۲ مدعی ہوں
335 تو نشان کا مصداق وہ ہوگا جس نے کھلے طور پر زور سے اپنے دعویٰ کا اظہار کیا ہے اور جس کی تکذیب بڑی سرگرمی اور زور شور سے ہوئی ہے.صادق کی ایک یہ بھی نشانی ہے کہ اس کی تکذیب بڑے زور شور سے ہوتی ہے.دیکھو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب میں منکرین نے ایک قیامت برپا کردی تھی.اور مسیلمہ کذاب کو چپکے ہی قبول کر لیا تھا.صادق اوائل میں ستایا جاتا اور دکھ دیا جاتا ہے مگر آخر فتح پاتا ہے.کاذب پہلے قبول کیا جاتا ہے.مگر آخر ذلیل ہوتا ہے.اور یہی سنت اللہ ہے کہ جب ایک شخص مدعی پیدا ہو پھر اگر وہ سچا ہے تو اس کی تائید کے لئے نشان پیدا ہوتے ہیں یہ نہیں کہ مدعی کا ابھی نام و نشان نہ ہو اور نشان پہلے ظاہر کیا جائے اور ایسے نشان پر کوئی نفع بھی مترتب نہیں ہوسکتا کیونکہ ممکن ہے کہ نشانوں کو دیکھ کر دعویٰ کرنے والے بہت نکل آویں یہ بھی خیال کرنا چاہیئے کہ اب خسوف کسوف کو تیسرا سال جاتا ہے بھلا بتاؤ کونسا دوسرا مہدی پیدا ہوگیا جو تمہارے نزدیک سچا ہے.ماسوا اس کے خسوف کسوف کا نشان ایک غضب اور انذار کا نشان ہے جو ان لوگوں کے لئے ظاہر ہونا چاہیئے جو تکذیب میں سرگرم ہوں اور ان کی عقلوں پر ضلالت کا گرہن لگ گیا ہو.پھر جبکہ ابھی مہدی کا وجود ہی نہیں تو اس کا مکذب کون ہوگا.جس کے ڈرانے کے لئے یہ انذاری نشان ظاہر ہوا.کیا عقل قبول کرسکتی ہے کہ غضب کا نشان تو ظاہر ہو جائے مگر جس کے لئے غضب کیا گیا ہے ابھی وہ موجود نہ ہو.یہ بھی سمجھو کہ ہر ایک نشان میں ایک سر ہوا کرتا ہے.سو ہم بیان کرچکے ہیں کہ خسوف کسوف میں یہی سرّ تھا کہ تاعلماء کی ظلمانی حالت کا نقشہ جو بوجہ تکذیب ان میں پیدا ہوگئی آسمان پر ظاہر کیا جائے.آسمان کا خسوف کسوف علماء کے خسوف کسوف کے لئے بطور ظل اور اثر کے تھا.اور پہلے خبر دی گئی تھی کہ علماء اس مہدی موعود کی تکذیب اور تکفیر کریں گے.اور وہ لوگ تمام دنیا سے بدتر ہوں گے.سو ضرور تھا کہ ایسا ہی ظہور میں آتا.سو علماء نے اس زور شور سے تکذیب اور تکفیر کی کہ جو احادیث اور آثار میں پہلے سے لکھا گیا تھا وہ سب پورا کیا.اور اس طرح پر ان کی ایمانی روشنی مسلوب ہوئی اور ان کے دلوں پر انکار کی ظلمت کا خسوف کسوف لگ گیا اور پھر اس خسوف کسوف پر گواہی پیش کرنے کے لئے آسمان پر خسوف کسوف ہوا.پس اسی وجہ سے یہ دونوں خسوف کسوف انذار کے نشان ہیں.اور ہر ایک کسوف خسوف سے انذار ہی مطلوب ہوتا ہے.جیسا کہ حدیثوں* میں اسی طرف اشارہ کرنے کے لئے آیا ہے کہ ہر ایک کسوف یا خسوف کے وقت نماز پڑھو، استغفار میں مشغول ہو اور صدقہ دو.*.نوٹ چنانچہ بخاری مطبوعہ مصر صفحہ ۱۲۲ سطر ۲۰ میں ہے.عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان اللہ تعالی یخوف بھما عبادہ.اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.3.۱ منہ
336 اور انذاری نشانوں کے لئے ضروری ہے کہ اول کسی قسم کی معصیت زمین کے باشندوں سے صادر ہو.سو اس خسوف کے پہلے جو معصیت ظہور میں آئی تھی وہ یہی تھی کہ علماء نے اس عاجز کی تکفیر اور تکذیب نہایت اصرار سے کی اور ان کے دل کسوف خسوف کے رنگ میں ہوگئے.پس چونکہ آسمان زمین کے واقعات کے لئے آئینہ عکس نما کا حکم رکھتا ہے اس لئے یہ کسوف خسوف عکس کے طور پر آسمان پر ہوگیا.ہمیشہ کسوف خسوف زمینی لوگوں کی ظلمانی حالت کا شاہد ہوتا ہے.مگر دونوں گرہن کا رمضان میں جمع ہونا علماء کی تکذیب اور تکفیر اور دلی تاریکی کی ایک تصویر دکھلائی گئی.حق یہی ہے اگرچا ہو تو قبول کرو.ان مولویوں نے اس بات پر کمر باندھی ہے کہ جہاں تک ممکن ہے خدا کے نشانوں کی تکذیب کریں.جاہلوں کو جو خود مردے ہوتے ہیں ان لوگوں نے دھوکے دے دے کر خراب کر دیا ہے.جس طرح یہ لوگ اپنی حماقت سے اس پیشگوئی کو بطور تکذیب پیش کرتے ہیں جو آتھم کے متعلق ہے.اسی طرح وہ دوسری پیشگوئی کو بھی پیش کرتے ہیں جو احمد بیگ اور اس کے داماد کے متعلق تھی.مگر افسوس کہ وہ اپنی ناانصافی سے ذرہ اس بات کو نہیں سوچتے کہ اس پیشگوئی کا ایک جز نہایت صفائی سے میعاد کے اندر پورا ہوچکا ہے اور دو ٹانگوں میں سے ایک ٹانگ ٹوٹ چکی ہے.پس ضرور تھا کہ جن لوگوں کو ایسا غم اور ایسی مصیبت پہنچی وہ توبہ اور خوف سے اس لائق ہوجاتے کہ خدا تعالیٰ اس پیشگوئی کے دوسرے حصہ میں تاخیر ڈال دیتا.یسعیاہ نبی کی پیشگوئی جو قطعی طور پر بتلاتی تھی کہ اسرائیل کا بادشاہ پندرہ دن میں مر جائے گا.وہ پیشگوئی اس بادشاہ کے تضرع کے سبب سے پندرہ سال کے ساتھ خدا نے بدل دی.یہ قصہ ہماری حدیثوں میں ہی نہیں بلکہ عیسائیوں اور یہودیوں کی کتابوں میں بھی اب تک موجود ہے.جس سے دنیا میں کسی اہل کتاب کو انکار نہیں.یو نہ نبی کی کتاب* بھی اب تک بائبل کے ساتھ شامل ہے.جس میں یونس کی قطعی پیشگوئی کا قوم کی توبہ استغفار پر ٹل جانا صاف اور صریح لفظوں میں لکھا ہے.سو سمجھنا چاہئے کہ احمد بیگ کی موت ایسا دردناک ماتم تھا جس سے گھر ویران ہوگیا.وہ چھوٹے چھوٹے چار بچے اور ایک بیوہ چھوڑ کر مرگیا.اور اس کی موت کے بعد جس غم اور مصیبت میں وہ سب پڑ گئے اس کا کوئی اندازہ کرسکتا ہے.کیا ایسی مصیبت کی موت اور پھر سراسر پیشگوئی کے مطابق طبعاً یہ تاثیر نہیں باب ۳ آیت ۴ دیکھو
337 رکھتی تھی کہ ان لوگوں کو احمد بیگ کی وفات کے بعد اپنے عزیز داماد کی موت کا فکر کھانے لگتا.اور اس طرح ہراساں ہوکر رجوع الی الحق کرتے.کیا انسان میں یہ خاصیت نہیں کہ چشم دید تجربہ اس پر سخت اثر ڈالتا ہے.سو درحقیقت ایسا ہی ہوا.احمد بیگ کی موت نے اس کے وارثوں کو خاک میں ملا دیا.اور ایسے غم میں ڈالا کہ گویا وہ مرگئے اور سخت خوف میں پڑگئے اور دعا میں اور تضرع میں لگ گئے.سو ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ اس جگہ بھی تاخیر ڈالتا.جیسا کہ آتھم کے متعلق کی پیشگوئی میں تاخیر ڈالی.ہم عربی مکتوب میں لکھ چکے ہیں کہ یہ پیشگوئی بھی مشروط بہ شرط تھی اور ہم یہ بھی بار بار بیان کرچکے ہیں کہ وعید کی پیشگوئی بغیر شرط کے بھی تخلف پذیر ہوسکتی ہے.جیسا کہ یونس کی پیشگوئی میں ہو ا.* سو چاہئے تھا کہ ہمارے نادان مخالف انجام کے منتظر رہتے اور پہلے ہی سے اپنی بدگوہری ظاہر نہ کرتے.بھلا جس وقت یہ سب باتیں پوری ہوجائیں گی تو کیا اس دن یہ احمق مخالف جیتے ہی رہیں گے اور کیا اس دن یہ تمام لڑنے والے سچائی کی تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہوجائیں گے ان بیوقوفوں کو کوئی بھاگنے کی جگہ نہیں رہے گی.اور نہایت صفائی سے ناک کٹ جائے گی.اور ذلت کے سیاہ داغ ان کے منحوس چہروں کو بندروں اور سوء روں کی طرح کردیں گے.سنواور یاد رکھو! کہ میری پیشگوئیوں میں کوئی ایسی بات نہیں کہ جو خدا کے نبیوں اور رسولوں کی پیشگوئیوں میں ان کا نمونہ نہ ہو.بیشک یہ لوگ میری تکذیب کریں.بیشک گالیاں دیں.لیکن اگر میری پیشگوئیاں نبیوں اور رسولوں کی پیشگوئیوں کے نمونہ پر ہیں تو ان کی تکذیب انہیں پر لعنت ہے.چاہیئے کہ اپنی جانوں پر رحم کریں اور روسیاہی کے ساتھ نہ مریں.کیا یونس کا قصہ انہیں یاد نہیں کہ کیونکر وہ عذاب ٹل گیا.جس میں کوئی شرط بھی نہ تھی اور اس جگہ تو شرطیں موجود ہیں.اور احمد بیگ کے اصل وارث جن کی تنبیہ کے لئے یہ نشان تھا اس کے مرنے کے بعد پیشگوئی سے ایسے متاثر ہوئے تھے کہ اس پیشگوئی کا نام لے لے کر روتے تھے اور پیشگوئی کی عظمت دیکھ کر اس گاؤں کے تمام مرد عورت کانپ اٹھے تھے.اور عورتیں چیخیں مار کر کہتی تھیں کہ ہائے وہ باتیں سچ نکلیں.چنانچہ وہ لوگ اس دن تک غم اور خوف میں تھے جب تک ان کے داماد سلطان محمد کی میعاد گذر گئی.پس اس تاخیر کا یہی سبب تھا جو خدا کی قدیم سنت کے موافق ظہور میں آیا.خدا کے الہام میں جو توبی توبی * اس پیشگوئی کی تصدیق کے لئے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پہلے سے ایک پیشگوئی فرمائی ہے کہ یتزوج ویولد لہ.یعنی وہ مسیح موعود بیوی کرے گا اور نیز وہ صاحب اولاد ہوگا.اب ظاہر ہے کہ تزوج اور اولاد کا ذکر کرنا عام طور پر مقصود نہیں کیونکہ عام طور پر ہر ایک شادی کرتا ہے اور اولاد بھی ہوتی ہے.اس میں کچھ خوبی نہیں بلکہ تزوج سے مراد وہ خاص تزوج ہے جو بطور نشان ہوگا اور اولاد سے مرا وہ خاص اولاد ہے جس کی نسبت اس عاجز کی پیشگوئی موجود ہے.گویا اس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سیاہ دل منکروں کو ان کے شبہات کا جواب دے رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ یہ باتیں ضرور پوری ہوں گی.منہ
338 ان البلاء علی عقبک ۱۸۸۶ء میں ہوا تھا.اس میں صریح شرط توبہ کی موجود تھی.اور الہام کذّبوا بآیاتنا اس شرط کی طرف ایما کررہا تھا.پس جبکہ بغیر کسی شرط کے یونس کی قوم کا عذاب ٹل گیا تو شرطی پیشگوئی میں ایسے خوف کے وقت میں کیوں تاخیر ظہور میں نہ آتی.یہ اعتراض کیسی بے ایمانی ہے جو تعصب کی وجہ سے کیا جاتا ہے.میں نے نبیوں کے حوالے بیان کردیئے.حدیثوں اور آسمانی کتابوں کو آگے رکھ دیا.مگر یہ نابکار قوم ابھی تک حیا اور شرم کی طرف رخ نہیں کرتی.یاد رکھو کہ اس پیشگوئی کی دوسری جز پوری نہ ہوئی تو میں ہریک بد سے بدتر ٹھہروں گا.اے احمقو! یہ انسان کا افترا نہیں.یہ کسی خبیث مفتری کا کاروبار نہیں.یقیناً سمجھو کہ یہ خدا کا سچا وعدہ ہے وہی خدا جس کی باتیں نہیں ٹلتیں.وہی ربّ ذوالجلال جس کے ارادوں کو کوئی روک نہیں سکتا.اُس کی سنتوں اور طریقوں کا تم میں علم نہیں رہا.اس لئے تمہیں یہ ابتلا پیش آیا.براہین احمدیہ میں بھی اس وقت سے سترہ۱۷ برس پہلے اس پیشگوئی کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے.جو اس وقت میرے پر کھولا گیا ہے اور وہ یہ الہام ہے جو براہین کے صفحہ ۴۹۶ میں مذکور ہے.یااٰدم اسکن انت وزوجک الجنۃ.یامریم اسکن انت وزوجک الجنۃ.یااحمد اسکن انت وزوجک الجنۃ.اس جگہ تین جگہ زوج کا لفظ آیا.اور تین نام اس عاجز کے رکھے گئے.پہلا نام آدم.یہ وہ ابتدائی نام ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے اس عاجز کو روحانی وجود بخشا.اس وقت پہلی زوجہ کا ذکر فرمایا.پھر دوسری زوجہ کے وقت میں مریم نام رکھا کیونکہ اس وقت مبارک اولاد دی گئی جس کو مسیح سے مشابہت ملی.اور نیز اس وقت مریم کی طرح کئی ابتلا پیش آئے.جیسا کہ مریم کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے وقت یہودیوں کی بدظنیوں کا ابتلا پیش آیا اور تیسری زوجہ جس کی انتظار ہے.اس کے ساتھ احمد کا لفظ شامل کیا گیا.اور یہ لفظ احمد اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس وقت حمد اور تعریف ہوگی.یہ ایک چھپی ہوئی پیشگوئی ہے.جس کا سر اس وقت خدا تعالیٰ نے مجھ پر کھول دیا.غرض یہ تین مرتبہ زوج کا لفظ تین مختلف نام کے ساتھ جو بیان کیا گیا ہے وہ اسی پیشگوئی کی طرف اشارہ تھا.
339 براہین میں ایسے اسرار بہت ہیں جوابُ کھلتے جاتے ہیں.مثلاً براہین احمدیہ کے صفحہ ۴۹۷ میں یہ پیشگوئی ہے.کِتَابُ الولیّ ذُوالفقار علیّ.اس پیشگوئی کی تشریح وہ الہام خوب کرتا ہے جو جلسہ مذاہب کے اشتہار میں درج کیا گیا ہے.یعنی اللّٰہ اکبر خربت خیبر خیبر کے فتح کرنے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے.اور ان کاہتھیار ذوالفقار تھی.سو یہ الہام بتلاتا ہے کہ اس عاجز کو ذوالفقار کی جگہ وہ معارف دئے گئے ہیں جو کتابوں میں لکھے جاتے ہیں.اور خیبر سے مراد مسلمان صورت مولویوں کی قلعہ بندی ہے جو دراصل یہودی السیرت ہیں.اب ان کا قلعہ خراب ہو جائے گا.چنانچہ جلسہ مذاہب میں ان لوگوں کی خوب بے عزتی ہوئی* چنانچہ انگریزی اخباروں نے بھی آزادی کے ساتھ اس کی شہادت دی.ایسا ہی براہین احمدیہ میں احمد بیگ اور اس کے داماد کے متعلق کی پیشگوئی کی نسبت صفحہ ۵۱۰ اور صفحہ ۵۱۱ میں اور صفحہ ۵۱۵ میں پہلے سے خبر موجود ہے اور وہ یہ ہے.وان لم یعصمک الناس فیعصمک اللّٰہ * حاشیہ.سول ملٹری گزٹ اور آبزورنے اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ یہی مضمون تمام مضامین پر غالب رہا.اور ان اخباروں نے اس کی اعجازی قوت کو اس حد تک مان لیا ہے کہ گویا اس تقریر نے تمام حاضرین پر ایک مسمریزم کا عمل کردیا.اور تمام طبیعتیں اس کی طرف کھینچی گئی ہیں.اور آبزرور میں یہ بھی لکھا ہے کہ مسلمانوں کو لازم ہے کہ اس مضمون کا انگریزی میں ترجمہ کرکے یورپ اور امریکہ میں پھیلائیں تاانہیں حقیقی اسلام کی خبر ہو.اور بیدار مغز لوگوں نے اس مضمون کو صرف عالی درجہ کا مضمون نہیں سمجھا بلکہ اس کے اعجاز کے قائل ہوگئے چنانچہ آج چودہ جنوری ۱۸۹۷ء کو سیالکوٹ محلہ اٹاری سے ایک کارڈ مرسلہ اللہ دتا صاحب میرے پاس پہنچا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ چونکہ وہ مضمون جو آپ کی طرف سے لاہور میں پڑھا گیا تھا وہ ایک معجزہ کے رنگ میں تھا اس لئے میں اس خوشی کے شکریہ میں سو ما؍روپیہ نقد آپ کی خدمت میں بھیجتا ہوں اور مبارک باد دیتا ہوں کہ اس سے اسلام کی فتح ہوئی.خدا تعالیٰ میاں اللہ دتا صاحب کو اس خوشی کے عوض میں بہت سی ذاتی خوشیاں بھی دکھلاوے جو اسلام کی فتح سے خوش ہے خدا اس سے خوش ہے.اب کیا اس اعجاز صریح کو جس سے سچے مسلمانوں نے یہ خوشیاں ظاہر کیں کوئی چھپا سکتا ہے.پس عبد الحق کو سوچنا چاہیئے کہ مباہلہ کے یہ اثر ہوتے ہیں.نہ یہ کہ متوفی بھائی کی ایک بیوہ اور بوڑھی عورت پر قبضہ کرکے اس کو مباہلہ کی فتح یابی کی دلیل ٹھہراوے.اور بزرگ بھائی کی موت یاد نہ آئے.لعنت ہے ایسی خوشی پر.شیخ محمد حسین بطالوی بھی سوچیں! کہ کیا کبھی ان کا مضمون بھی اعجاز تصور ہوکر ہزاروں آدمیوں نے اس پر گواہی دی ہے کیا کبھی اعجازی مبارک بادی میں دو۲ پیسہ بھی ان کو انعام ملے ہیں.منہ
340 من عندہ یعصمک اللّہ من عندہ وان لم یعصمک الناس.واذ یمکربک الذی کفر.اوقد لی یا ھامان.لعلی اطلع علٰی الٰہ موسٰی وانی لاظنہ من الکاذبین.تبت یدا ابی لھب وتب ماکان لہ ان یدخل فیھا الّا خائفا.وما اصابک فمن اللّہ.الفتنۃ ھٰھنا فاصبر کما صبر اولوالعزم.الا انھا فتنۃ من اللّٰہ لیُحبَّ حُبًّا جمًّا.حُبًّا من اللّٰہ العزیز الاکرم.عطاءً ا غیر مجذوذ.شاتان تذبحان.وکل مَنْ علیھا فان.ولا تھنوا ولا تحزنوا.الم تعلم انّ اللّٰہ علٰی کل شیءٍ قدیر.انّا فتحنالک فتحًا مُبینًا لیغفرلک اللّہ ما تقدم من ذنبک وما تأخر.اَلَیْس اللّہ بکاف عَبْدہ.فبرّأہ اللّہ ممّا قالوا وکان عند اللّہ وجیھا.ترجمہ.یعنی خدا تجھے بچائے گا اگرچہ لوگ نہ بچائیں.میں پھر کہتا ہوں کہ خدا تجھے بچائے گا اگرچہ لوگ نہ بچائیں.وہ زمانہ یاد کر کہ جب ایک شخص تجھ سے مکر کرے گا.اور اپنے رفیق ہامان کو کہے گا کہ فتنہ انگیزی کی آگ بھڑکا.اس جگہ فرعون سے مراد شیخ حسین بطالوی ہے اور ہامان سے مراد نو مسلم سعد اللہ ہے اور پھر فرمایا کہ وہ کہے گا کہ میں اس کے خدا کی حقیقت معلوم کرنا چاہتا ہوں اور میں اس کو جھوٹا سمجھتا ہوں یعنی باخدا ہونے کا دعویٰ سراسر کذب ہے کوئی تعلق خدا تعالیٰ سے نہیں.اور پھر فرمایا کہ یہ فرعون ہلاک ہوگیا اور دونوں ہاتھ اس کے ہلاک ہوگئے یعنی یہ شخص ذلیل کیا جائے گا * اور ہاتھ جو کسب معاش کا ذریعہ ہیں نکمے ہوجائیں گے.* حاشیہ.محمد حسین بطالوی کی ذلت کا یہ بھی موجب ہے کہ اس نے ایک شیطانی پیشگوئی کی تھی کہ میں اس شخص کو یعنی اس عاجز کو ذلیل کردوں گا.اور لوگوں کو رجوع سے بند کردوں گا.مگر اس کے برعکس ظہور میں آیا.اس کی پیشگوئی کے وقت شاید سو کے قریب بھی ہماری جماعت نہیں تھی.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے آٹھ ہزار کے قریب ہیں.ابھی قریب عرصہ میں الہ آباد میں ایک بھاری جماعت پیدا ہوگئی ہے.جن کو ہمارے دلی دوست میرزا خدا بخش صاحب کے قیام الہ آباد سے بہت مدد ملی ہے.میرزا صاحب موصوف نے اس قدر اس سلسلہ کو اس طرف پھیلایا ہے کہ گویا تمام مخالفین کی ناک کاٹ کر آئے ہیں.اس خوشی کے وقت میں ان کی وہ سوما؍ روپیہ کی مدد بھی قابل قدر ہے جو انہوں نے333 33ایک دفعہ اور3 روپیہ اب قادیان میں آکر اس سلسلہ کی تائید کے لئے دیئے ہیں.جزاہم اللّٰہ خیر الجزاء.منہ
341 یعنی اس پر فقر فاقہ کی مصیبت نازل ہوگی.اور اپنے مقاصد میں ناکام رہے گا اور رسوا ہو جائے گا.اور پھر فرمایا کہ اس شخص کے دعویٰ اسلام اور مولویت کے لائق نہیں تھا کہ تکفیر اور تکذیب پر جرأت کرتا اور اس نازک مقدمہ میں چالاکی کے ساتھ دخل دیتا.ہاں یہ چاہیئے تھا کہ صحت نیت اور خوف دل کے ساتھ اپنے شکوک رفع کراتا.اور پھر فرمایا کہ اس شخص کے منصوبوں سے جو کچھ تجھے ضرر پہنچے گاوہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اورجب یہ تکفیر اور تکذیب کرے گا تو اس وقت ملک میں ایک بڑا فتنہ برپا ہوگا.وہ فتنہ انسان کی طرف سے نہیں بلکہ تیرے خدا نے یہی چاہا تاوہ تجھ سے نہایت درجہ کی محبت کرے کیونکہ ہر ایک اصطفاء ابتلا کے بعد ہوتا ہے.خدا کی محبت بڑے قدر کے لائق ہے کیونکہ وہ سب پر غالب اور سب سے زیادہ کریم ہے.پس جس سے وہ محبت کرے گا اس کی تمام امیدیں کامیابی کا انجام رکھتی ہیں اور اس کی یہ عطا غیر منقطع ہے.ا س کے بعد یوں ہوگا کہ دو بکریاں ذبح کی جائیں گی پہلی بکری سے مراد میرزا احمد بیگ ہوشیارپوری ہے اور دوسری بکری سے مراد اس کا داماد ہے اور پھر فرمایا کہ تم سست مت ہو اور غم مت کرو کیونکہ ایسا ہی ظہور میں آئے گا.کیا تو نہیں جانتا کہ خدا ہریک چیز پر قادر ہے اور پھر فرمایا کہ ہم نے تجھے کھلی کھلی فتح دی ہے یعنی کھلی کھلی فتح دیں گے تاکہ تیرا خدا تیرے اگلے پچھلے گناہ بخش دے یعنی کامل عزت اور قبولیت عطا کرے کیونکہ خدا تعالیٰ کا تمام گناہ بخش دینا اس محاورہ پر استعمال پاتا ہے کہ وہ اعلیٰ درجہ پر راضی ہوجائے اور پھر فرمایا کہ خدا اپنے بندہ کے لئے کافی ہے.وہ اس کو ان تمام الزاموں سے بری کرے گا جو اس پر لگائے جاتے ہیں.اور وہ بندہ خدا کے نزدیک وجیہ ہے.ان پیشگوئیوں میں علاوہ اور پیشگوئیوں کے جو ان کے ضمن میں بیان کی گئیں دو بکریوں کے ذبح ہونے کی پیشگوئی احمد بیگ اور اس کے داماد کی طرف اشارہ ہے جو آج سے سترہ۱۷ برس پہلے براہین احمدیہ میں شائع ہوچکی ہے ایسا ہی محمد حسین کی تکفیر کا فتنہ جو صرف پانچ چار سال سے شائع ہوا ہے آج سے سترہ۱۷ برس پہلے اس فتنہ کی براہین میں خبر دی گئی ہے چنانچہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں.اب سوچنا چاہیئے کہ کیا یہ انسان کا کام ہے.کیا انسان کو یہ قدرت حاصل ہے کہ آئندہ واقعات کی خبر سالہا سال پہلے ایسی صفائی سے بیان کرسکے.بڑے عظیم الشان فتنے میری نسبت دو وقوع میں آئے ہیں.ایک پادریوں کا.ایک محمد حسین وغیرہ کی تکفیر کا.سو ان دونوں فتنوں کی تصریح کے ساتھ براہین احمدیہ میں سترہ۱۷ برس پہلے آج کے دن سے خبریں موجود ہیں کیا دنیا میں کوئی اور شخص موجود ہے جس کی تحریروں میں یہ عظیم الشان سلسلہ پیشگوئیوں کا پایا جائے یقیناً کوئی سخت بے حیا ہوگا جو اس فوق العادت سلسلہ سے انکار کرے.اس جگہ الہام الٰہی بارش کی طرح برس رہا ہے آسمانوں کے دروازے کھلے ہیں.اب دیکھو کہ یہ شریر مولوی کب تک اور کہاں تک انکار کریں گے.میں خدا سے یقینی علم پاکر کہتا ہوں کہ اگر یہ تمام مولوی اور اُن کے سجادہ نشین اور ان کے ملہم
342 اکٹھے ہوکر الہامی امور میں مجھ سے مقابلہ کرنا چاہیں تو خدا ان سب کے مقابل پر میری فتح کرے گا کیونکہ میں خدا کی طرف سے ہوں پس ضرور ہے کہ بموجب آیہ کریمہ 3 ۱ میری فتح ہو.فَمُت یاعَبْد الشیطان الموسُوم بعبد الحق.فان اللّٰہ معزنی ومذلک ومکرمنی ومھینک وان اللّہ لا یحبّ الظالمین.کمال افسوس ہے جو میں نے سنا ہے کہ اسلام کے بدنام کرنے والے غزنوی گروہ جو امرتسر میں رہتے ہیں.لوگوں کو کہتے ہیں کہ ایک بدبخت محمد سعید دہلوی جو مرتد ہوگیا ہے اور اسکا بھائی کبیر جواب دسمبر ۱۸۹۶ء میں بمقام کوٹلہ مالیر فوت ہوگیا ہے یہ دونوں واقعہ عبدالحق کے مباہلہ کا اثر ہیں.اب مسلمانو! سوچو کہ یہ سیاہ دل فرقہ غزنویوں کا کس قدر شیطانی افتراؤں سے کام لے رہا ہے.اے بدبخت مفتریو! خبیث محمد سعید یا اسکے بھائی سے میری کوئی قرابت نہیں.ان لوگوں کے ساتھ نہ ہمارا کوئی رشتہ ہے نہ ان سے کچھ غرض تعلق ہے کیا عبدالحق کے مباہلہ کا اثر ایک تیسرے گھر پر گرا جس کا ہم سے کچھ بھی تعلق نہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ عبدالحق کے مباہلہ کے بعد بہت ذلیل ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے ان کو ایسے ایسے جھوٹے منصوبے تراشنے پڑے اگر عبدالحق کی رو سیاہی کے دھونے کیلئے ایسے ہی جھوٹے منصوبے بنانے تھے تو دہلی کے غیر معروف دو لونڈوں کا ذکر بے فائدہ تھا.ہماری دانست میں بہتر یہ تھا کہ آج کل جو بمبئی میں ہزارہا لوگ طاعون سے مر رہے ہیں اُس کو عبدالحق کے مباہلہ کا اثر ٹہرا کر اس مضمون کا اشتہار شائع کردیتے کہ ’’چونکہ منشی زین الدین محمد ابراہیم )جو نہایت درجہ مخلص ایں جانب اور سلسلہ بیعت میں داخل ہیں( بمبئی میں رہتے ہیں لہٰذا مناسب تھاکہ مباہلہ کا اثر اسی شہر پر نہ کسی اور جگہ پڑتا.‘‘ نہ معلوم کہ یہ جاہل اور وحشی فرقہ اب تک کیوں شرم اور حیا سے کام نہیں لیتا.عبدالحق کے مباہلہ کے بعد جس قدر خدا تعالیٰ نے ہمیں ترقی دی.ہماری قبولیت زمین پر پھیلا دی.ہماری جماعت کو ہزارہا تک پہنچایا.ہماری علمیت کا لاکھوں کو قائل کردیا.الہام کے موافق مباہلہ کے بعد ہمیں ایک لڑکا عطا کیا جس کے پیدا ہونے سے تین لڑکے ہمارے ہوگئے یعنی دوسری بیوی سے.اور نہ صرف یہی بلکہ ایک چوتھے لڑکے کیلئے متواتر الہام کیا اور ہم عبدالحق کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ نہیں مرے گا جب تک اس الہام کا پورا ہونا بھی نہ سن لے.اب اس کو چاہیئے کہ اگر وہ کچھ چیز ہے تو دعا سے اس پیشگوئی کو ٹال دے.اور پھر خدا نے پیشگوئی کے موافق آتھم کو فی النار کرکے پادریوں اور مخالف مولویوں کا منہ کالا کیا.ہزارہا روپیہ تک مالی فتوحات مجھ پر کیں.اور جلسہ مذاہب میں جو ۲۷ ؍دسمبر ۱۸۹۶ء کو ہوا تھا ہماری تقریر کی وہ قبولیت ظاہر کی کہ انگریزی اخبار بول اٹھے کہ ہاں یہی تقریر غالب رہی اس کو معجزہ سمجھ کر بعض جوانمرد مسلمانوں نے روپیہ بھیجا جیسا کہ میاں اللہ دتا صاحب سیالکوٹی نے کل ۱۵ جنوری ۱۸۹۷ء کو اسی خوشی سے 3سو روپیہ بھیج دیا.اور اس روز ہماری وہ الہامی پیشگوئی بھی پوری ہوئی جو اس مضمون کی نسبت بذریعہ اشتہار شائع کی گئی تھی کہ یہ مضمون سب پر غالب آئے گا.کیا اس عزت اور ان تمام الہاموں کے پورا ہونے سے اب تک عبدالحق کا منہ کالا نہیں ہوا.کیا اب تک غزنویوں کی
343 جماعت پر لعنت نہیں پڑی.بیشک خدا نے ان لوگوں کو ذلت کی رو سیاہی کے اندر غرق کردیا.مباہلہ کا کھلا کھلا اثر اِس کو کہتے ہیں.اور خدا کی تائید اِس کا نام ہے اور تکلف سے جھوٹ بولنا گوہ کھانا ہے.ہم اس مضمون کے خاتمہ میں یہ بیان کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ جن ناپاک طبع لوگوں نے تکفیر پر کمر باندھی ہے ان کے مقابل پر ایسے لوگ بھی بہت ہیں جن کو عالم رؤیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی اور انہوں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عاجز کی نسبت دریافت کیا اور آپ نے فرمایا کہ وہ شخص درحقیقت منجانب اللہ ہے اور اپنے دعویٰ میں صادق ہے چنانچہ ایسے لوگوں کی بہت سی شہادتیں ہمارے پاس موجود ہیں.جس شخص کو اس تحقیق کا شوق ہے وہ ہم سے اس کا ثبوت لے سکتا ہے.اور غزنوی افغانوں کی جماعت جو ناپاک خیالات اور تکذیب کی بلا میں گرفتار ہیں.ان کیلئے اگر وہ انصاف اور خدا ترسی سے کچھ حصہ رکھتے ہیں ان کے والد بزرگوار مولوی عبد اللہ صاحب کی شہادت کافی ہے.ہمارے پاس وہ گواہ موجود ہیں جو حلف سے بیان کرسکتے ہیں کہ مولوی عبد اللہ صاحب نے اپنے کشف کی رو سے بتلایا تھا کہ ایک نور آسمان سے نازل ہوا اور قادیان کی سمت میں اترا ہے اور ان کی اولاد اس نور سے محروم رہ گئی.اس گواہی میں حافظ محمد یوسف صاحب ضلعدار بھی شریک ہیں.جو مولوی عبداللہ کے دوست اور محسن بھی ہیں بلکہ ان کے بھائی محمد یعقوب نے ایک جلسہ میں قسم کھا کر کہا تھا کہ مولوی عبد اللہ نے اس نور کے ذکرکے وقت اس عاجز کا نام بھی لیا تھا کہ یہ نور ان کے حصہ میں آگیا اور میری اولاد بے نصیب اور بے بہرہ رہی لہٰذا مناسب ہے کہ عبد الحق غزنوی اور عبد الجبار جو اپنی شرارت اور خباثت سے تکفیر اور گالیوں پر زور دے رہے ہیں.اپنے فوت شدہ بزرگ کے کلمات کی تحقیق ضرور کرلیں.ایسا نہ ہو کہ ان کی وصیت کی نافرمانی کرکے ان کے عاق بھی ٹھہر جائیں.اس بزرگ مولوی عبد اللہ نے اپنی زندگی کے زمانہ میں میرے نام بھی دو خط بھیجے تھے اور ان خطوں میں قرآنی آیتوں کے الہام کے ساتھ مجھے خوشخبری دی تھی کہ تم کفار پر غالب رہو گے اور پھر وفات کے بعد میرے پر ظاہر کیا تھا کہ میں آپ کے دعویٰ کا مصدق ہوں.چنانچہ میں اللہ جلّ شانہٗ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ انہوں نے میرے دعویٰ کو سن کر تصدیق کی اور صاف لفظوں میں مجھے کہا کہ ’’جب میں دنیا میں تھا.تو میں امید رکھتا تھا کہ ایسا شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہوگا.‘‘ یہ ان کے الفاظ ہیں.ولعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین.اور اس وقت کے سجادہ نشینوں میں سے دو بزرگ اور ہیں جنہوں نے اس عاجز کے مقام اور مرتبہ سے انکار نہیں کیا اور قبول کیا ہے.ایک تو میاں غلام فرید صاحب چاچڑاں والے پیر نواب صاحب بہاولپور ہیں.
344 جن کا خط عربی َ میں نے چھاپ دیا ہے جس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ علم عربی میں ایک فاضل ہیں.اور دوسرے پیر صاحبُ العَلَم ہیں جو بلاد سندھ کے مشاہیر مشائخ میں سے ہیں.جن کے مرید ایک لاکھ سے کچھ زیادہ ہوں گے.اور باوجود اس کے وہ علوم عربیہ میں مہارت تامہ رکھتے ہیں.اور علماء راسخین میں سے ہیں.چنانچہ انہوں نے جو میری نسبت گواہی دی ہے وہ یہ ہے.’’انّی رأیت رسول اللّہ صلی اللہ علیہ وسلم واستفسرتہ فی امرک وقلت بیّن لی یارسول اللہ اھو کاذب مُفتری او صادق.فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’انہ صادق ومن عند اللہ.‘‘ فعرفت انک علی حق مُبین.وبعد ذٰلک لانشک فی اَمْرک ولا نرتاب فی شانک و نعمل کما تأمر.فان امرتنا ان اذھبوا الی بلاد امریکہ فانا نذھب الیھا وَمَا تکون لنا خِیرۃ فی امرنا وستجدنا ان شاء اللّہ من المطاوعین.‘‘ یعنی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم کشف میں دیکھا پس میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ شخص جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے کیا یہ جھوٹا اور مفتری ہے یا صادق ہے.پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ صادق ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.پس میں نے سمجھ لیا کہ آپ حق پر ہیں.اب بعد اس کے ہم آپ کے امور میں شک نہیں کریں گے اور آپ کی شان میں ہمیں کچھ شبہ نہیں ہوگا اور جو کچھ آپ فرمائیں گے ہم وہی کریں گے.پس اگر آپ یہ کہو کہ ہم امریکہ میں چلے جائیں تو ہم وہیں جائیں گے.اور ہم نے اپنے تئیں آپ کے حوالہ کردیا ہے اور انشاء اللہ ہمیں فرمانبردار پاؤ گے.یہ وہ باتیں ہیں جو ان کے خلیفہ عبد اللطیف مرحوم اور شیخ عبد اللہ عرب نے زبانی بھی مجھے سنائیں اور اب بھی میرے دلی دوست سیٹھ صالح محمد حاجی اللہ رکھا صاحب جب مدراس سے ان کے پاس گئے تو انہیں بدستور مصدق پایا.بلکہ انہوں نے عام مجلس میں کھڑے ہوکر اور ہاتھ میں عصا لے کر تمام حاضرین کو بلند آواز سے سنا دیا کہ میں ان کو اپنے دعویٰ میں حق پر جانتا ہوں اور ایسا ہی مجھے کشف کی رو سے معلوم ہوا ہے اور ان کے صاحبزادہ صاحب نے کہا کہ جب میرے والد صاحب تصدیق کرتے ہیں تو مجھے بھی انکار نہیں.اب عبد الحق غزنوی کو کچھ کھا کر مرجانا چاہیئے کہ خدا تعالیٰ اس عاجز کی لاکھوں انسانوں میں عزت ظاہر کررہا ہے جس میں اس کی ذلت ہے.اس پلید کو سوچنا چاہیئے کہ مباہلہ کا یہ اثر ہوتا ہے یا یہ کہ بھائی مرا اور اس کی بوڑھی عورت پر قبضہ کیا اور پھر اس کو مباہلہ کا اثر ٹھہرایا.اور یاد رہے کہ صرف یہی نہیں کہ میاں غلام فرید صاحب چاچڑاں واے اور پیر صاحبُ العَلَم سندھ والے مصدق ہیں.بلکہ صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب جن کے بزرگوں کے ہندوستان میں ہزارہا مرید ہیں اس عاجز کی
345 بیعت میں معہ اپنے اہل بیت کے داخل ہوچکے ہیں.ایسا ہی حاجی منشی احمد جان صاحب لدھیانوی مرحوم اس عاجز کے اول درجہ کے معتقدین میں سے تھے اور اُن کے تمام صاحبزادے اور صاحبزادیاں اور گھر کے لوگ غرض تمام کنبہ ان کا اس عاجز کی بیعت میں داخل ہوچکا ہے.بالآخر میں پھر ہریک طالب حق کو یاد دلاتا ہوں کہ وہ دین حق کے نشان اور اسلام کی سچائی کے آسمانی گواہ جس سے ہمارے نابینا علماء بے خبر ہیں وہ مجھ کو عطا کئے گئے ہیں.مجھے بھیجا گیا ہے تا میں ثابت کروں کہ ایک اسلام ہی ہے جو زندہ مذہب ہے.اور وہ کرامات مجھے عطا کئے گئے ہیں جن کے مقابلہ سے تمام غیر مذہب والے اور ہمارے اندرونی اندھے مخالف بھی عاجز ہیں.میں ہریک مخالف کو دکھلا سکتا ہوں کہ قرآن شریف اپنی تعلیموں اور اپنے علوم حکمیہ اور اپنے معارف دقیقہ اور بلاغت کاملہ کی رو سے معجزہ ہے.موسیٰ کے معجزہ سے بڑھ کر اور عیسیٰ کے معجزات سے صدہا درجہ زیادہ.میں بار بار کہتا ہوں.اور بلند آواز سے کہتا ہوں کہ قرآن اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت رکھنا اور سچی تابعداری اختیار کرنا انسان کو صاحب کرامات* بنا دیتا ہے.اور اسی کامل انسان پر علوم غیبیہ کے دروازے کھولے جاتے ہیں.اور دنیا میں کسی مذہب والا روحانی برکات میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا.چنانچہ میں اس میں صاحب تجربہ ہوں.میں دیکھ رہا ہوں * جو شخص یہ کہتا ہے کہ اس زمانہ میں اسلام میں کوئی اہل کرامت موجود نہیں وہ اندھا اور دل سیاہ ہے.اسلام وہ مذہب ہے کہ کسی زمانہ میں اہل کرامت سے خالی نہیں رہا.اور اب تو اتمام حجت کے لئے کرامات کی نہایت ضرورت ہے اور وہ ضرورت خدا تعالیٰ کے فضل سے حسب المراد پوری ہوگئی ہے کوئی شخص نہیں کہ کرامت نمائی میں اسلام کے مقابل پر ٹھہر سکے.منہ
346 کہ بجز اسلام تمام مذہب مُردے ان کے خدا مُردے اور خود وہ تمام پیرو مُردے ہیں.اور خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق ہوجانا بجز اسلام قبول کرنے کے ہرگز ممکن نہیں ہرگز ممکن نہیں.اے نادانوں! تمہیں مردہ پرستی میں کیا مزہ ہے؟ اورمُردار کھانے میں کیا لذّت؟!!! آؤ میں تمہیں بتلاؤں کہ زندہ خدا کہاں ہے.اور کس قوم کے ساتھ ہے.وہ اسلام کے ساتھ ہے.اسلام اِس وقت موسیٰ کا طور ہے جہاں خدا بول رہاہے.وہ خدا جو نبیوں کے ساتھ کلام کرتا تھا اور پھر چپ ہوگیا.آج وہ ایک مسلمان کے دل میں کلام کررہا ہے.کیا تم میں سے کسی کو شوق نہیں؟ کہ اس بات کو پرکھے.پھر اگر حق کو پاوے تو قبول کر لیوے.تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟ کیا ایک مُردہکفن میں لپیٹا ہوا.پھر کیا ہے؟ کیا ایک مشت خاک.کیا یہ مردہ خدا ہوسکتا ہے؟ کیا یہ تمہیں کچھ جواب دے سکتا ہے؟ ذرہ آؤ! ہاں! لعنت ہے تم پر اگر نہ آؤ.اور اس سڑے گلے مردہ کا میرے زندہ خدا کے ساتھ مقابلہ نہ کرو.دیکھو میں تمہیں کہتا ہوں کہ چالیس دن نہیں گذریں گے کہ وہ بعض آسمانی نشانوں سے تمہیں شرمندہ کرے گا.ناپاک ہیں وہ دل جو سچے ارادہ سے نہیں آزماتے.اور پھر انکار کرتے ہیں.اور پلید ہیں وہ طبیعتیں
347 جو شرارت کی طرف جاتی ہیں نہ طلب حق کی طرف.او میرے مخالف مولویو! اگر تم میں شک ہو تو آؤ چند روز میری صحبت میں رہو.اگر خدا کے نشان نہ دیکھو تو مجھے پکڑو.اور جس طرح چاہو تکذیب سے پیش آؤ.میں اتمام حجت کر چکا.اب جب تک تم اس حجت کو نہ توڑ لو.تمہارے پاس کوئی جواب نہیں.خدا کے نشان بارش کی طرح برس رہے ہیں.کیا تم میں سے کوئی نہیں جو سچا دل لے کر میرے پاس آوے.کیا ایک بھی نہیں.’’دنیا میں ایک نذیر آیا.پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا.لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کردے گا.‘‘ وَالسّلام علٰی مَن اتّبع الہدٰی ۲۲ ؍جنوری ۱۸۹۷ء *** ** *
مضامین آ.ا آزمائش بندہ کی آزمائش کبھی مشکلات سے بھی ہوتی ہے ۹۵ خدا آزمائش کی انتہاپر رحم کرتا ہے ۱۲۰ح ہر ایک اصطفاء ابتلا کے بعد ہوتا ہے ۳۴۱ آسمان آسمان زمین کے اعمال پر گواہی دیتا ہے ۲۹۵ آسمان زمین کے واقعات کیلئے آئینہ عکس نما کا حکم رکھتا ہے ۳۳۶ آیت آیت اور ارہاص میں فرق ۳۳۴ آیت یعنی نشان ظاہر کرنے کا مقصد ۳۳۵ح ابناء اللہ اہل اللہ کو پہلی کتب میں بطور استعارہ ابناء اللہ کہا گیا ہے نیز انبیاء پر اس لفظ کا استعمال ۵۷ح اجماع حیات مسیح پر اجماع نہیں ہوا ۱۳۲ قرآن مجید کے خلاف کوئی اجماع قابل قبول نہیں ۱۳۳ عقیدہ اجماعیہ کا منکر ملعون ہے ۱۴۴ اخبار نویس اخبار والوں کو تنبیہ اور نصائح ۲۸۴ آتھم کے مؤید اخبار نویس پیشگوئی کی حقیقت کھلنے پر چپ ہو گئے ۲۸۹ ارہا ص قبل از وقت ظاہر ہونے والی علامات کانام ارہاص ہے ۳۳۴ استجابت دعا (دیکھئے زیر عنوان دعا) استخارہ مخالفین کو مباہلہ سے قبل مسنون استخارہ کرنے کی تجویز ۱۶۴ استعارہ اللہ کی خبروں میں استعارات پنہاں ہوتے ہیں ۸۷ الہامات میں بعض الفاظ کا استعارہ اور مجاز کے طور پر استعمال ہو نا ۲۸ح پیشگوئیوں میں استعارات ۳۱ح،۱۸۳ اہل اللہ کو بطور استعارہ ابناء اللہ کہا جانا ۵۷ح اسلام ۱۹،۲۴،۲۶،۳۳،۳۷،۳۸،۴۱،۴۵،۴۸،۷۹، ۱۱۶،۱۲۰،۱۲۳،۱۴۳،۱۷۳،۲۸۵،۲۸۸،۳۱۴ح، ۳۱۵،۳۱۶ح،۳۱۷،۳۱۸ ،۳۲۴ ،۳۳۹ اسلام ہی زندہ مذہب ہے ۳۴۵ خدا سے زندہ تعلق بجز اسلام کے ہرگز ممکن نہیں ۳۴۶ اسلام نے ان پر تلوار اٹھانے کا حکم فرمایا ہے جو مسلمانوں پر تلوار اٹھائیں ۳۷ قتال کے متعلق اسلام اور توریت کے حکم میں فرق ۳۷ چودھویں صدی کے سر پراسلام پر ہزاروں حملے ہوئے ۳۲۱ اسلام کسی زمانہ میں بھی اہل کرامت سے خالی نہیں رہا ۳۴۵ اسلام موسیٰ کا طور ہے جہاں خدا بول رہا ہے ۳۴۶ عقل اسلامی توحید تک ہی گواہی دیتی ہے ۴ اسلامی جزا و سزا کا طریق احسن اور معقول ہے ۱۲۴ح بٹالوی کا قائل ہونا کہ یہ تمام تاثیریں خدا کی طرف سے تھیں اور مضمون اسلام کی فتح کا موجب ہوا ۳۱۶ح شریعت پر ذرہ برابر اضافہ یا کمی کرنے والے پر اللہ ، فرشتوں اور لوگوں کی لعنت ۱۴۴ آنحضرت ؐ کے وقت میں شق قمر ہونے میںیہ حکمت تھی کہ علماء کی دیانت ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی ۲۹۵ عقیدہ اجماعیہ کا منکر ملعون ہے ۱۴۴
اجماعی عقیدہ سے منہ پھیرنا بدذاتی اوربے ایمانی ہے ۳۲ح اشتہار؍اشتہارات اشتہار۳۰ دسمبر ۱۸۹۵ء ۱،۳،۱۷،۱۸،۲۴،۲۷ اشتہار چہارم انعامی چار ہزار روپیہ ۲،۳۰ح،۳۱ح اشتہار ہزار روپیہ ، دو ہزار روپیہ ،تین ہزار روپیہ چار ہزار روپیہ ۱۸ اشتہارمباہلہ ۴۵ اشتہار قابل توجہ گورنمنٹ ہند ۲۸۳ سبز اشتہار ۲۹۹ سفید اشتہار ۲۹۹ سچائی کے طالبوں کے لئے عظیم الشان خوشخبری ۲۹۹ح اشتہار’’صیانۃ الاناس عن شر الوسواس الخناس‘‘ ۳۳۴ اعتراضات اور ان کے جوابات محمد حسین بٹالوی کے ایک اعتراض کا جواب ۲۰ح بٹالوی کا اعتراض کہ الہام کا فقرہ خلاف محاورہ ہے ۶۰ح آتھم سے متعلق لوگوں کے بعض اعتراضات کا جواب ۱۸۶ اس اعتراض کا جواب کہ داماد احمد بیگ معیاد مقررہ میں نہیں مرا ۲۱۰تا۲۲۵ علماء کا اعتراض کہ مسیح موعود عربی اور فارسی کا علم نہیں رکھتے ۲۳۱ اعتراض کہمحدثین نے دار قطنی کی حدیث کے راویوں پر جرح کی ہے اس لئے یہ حدیث صحیح نہیں ۳۳۳ آتھم کاحضورؑ پرحملوں کا الزام اور اس کا جواب ۱۴،۱۵ ایک اخبار کی طرف سے حضور ؑ پر لگایا گیا جھوٹا الزام اور اس کا جواب ۲۸۳،۲۸۴ آتھم کی پیشگوئی کی وجہ سے پیروؤں کے منحرف ہونے کا الزام اور اس کا جواب ۱۱تا۱۳ افترا افتراء سے مراد ۶۳ح خدا پر افتراء سخت گناہ ہے ۴۹ آتھم کے چار افتراجن کی اسے اسی دنیا میں سزا دی گئی ۴۳ اقنوم عیسائی عقیدہ کہ خدا تین اقنوم ہیں باپ ،بیٹا اور روح القدس ۳۳،۳۴ عیسائیوں کا شائع کردہ تین اقنوم کا نقشہ ۳۵ اللہ تعالیٰ جل جلالہ اللہ تعالیٰ کاغضب انکار ، جسارت اور زیادتی کی وجہ سے نازل ہوتا ہے ۲۱۵ زندہ خدا اسلام کے ساتھ ہے ۳۴۶ انسان کے دل میں فطرتی نقش ہے کہ اس کا خالق و مالک اکیلا خدا ہے ۳۴ خدا کا علم ماضی حال او رمستقبل پر محیط ہے ۴۷ اللہ کبھی اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا ۷۹ اللہ اسے غیب پر اطلاع دیتا ہے جسے اپنے ہاتھ سے پاک کرتا ہے ۸۵ اللہ کے اقوال و افعال میں مطابقت پائی جاتی ہے ۸۷ اللہ تعالیٰ کے اسرار میں کئی دقائق پوشدہ ہیں ۸۷ خدا نے مخلوق کو تفاوت مراتب کے اعتبار سے پیدا کیا ہے ۸۸ مخلوق کے قول کو اللہ کے قول پر ترجیح نہ دیں ۱۳۱ اللہ کی ذات علت العلل اور ہر حرکت وسکون کا مبداء ہے ۱۱۹ وہ جہانوں کا پیدا کنندہ اور رحیم وجواد و کریم ہے ۱۲۰ اللہ زمین و آسمان کی پناہ ہے ۲۶۷ اللہ کے احسانات کا ذکر ۷۳ اللہ کا قرب کسی کی مقبوضہ میراث نہیں ۱۱۲ کسی کو سزا دینا خدا کے ذاتی ارادہ میں داخل نہیں ۸ صفاتِ باری تعالیٰ سورۃ فاتحہ کی چار ام الصفات کی لطیف تشریح ۸تا۹ح سزا دینا خدا کی ام الصفات میں داخل نہیں ۱۰ح خدا کی رحمت غضب پر اور نرمی سختی پر غالب ہے ۱۲۰
الہام مسیح موعود ؑ کا دعویٰ وحی و الہام اور اس پر گزرنے والا عرصہ ۵۰ الہام کے فقرہ یرد ھا الیکپر اعتراض اور اس کا جواب ۶۰ح الہام میں لفظ عقب کے معنی اور مراد ۲۱۴ الہام میں لفظ بلاء سے مراد دو مصیبتیں ۲۱۴ الہام میں پانی اور فشل سے مراد ۵۶ح الہام فسیکفیکھم اللّٰہ میں اشارہ اوراس سے مراد ۲۱۶تا۲۱۹ ٹوٹا پھوٹا فقرہ الہام کے رنگ میں مومن کو القا ہو سکتا ہے بلکہ کبھی فاسق بھی تنبیہ یا ترغیب کے طور پر پا سکتا ہے ۳۰۲ح صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلّم اور ایک معمولی محاورہ مکالمات الٰہیہ کا ہے ۲۸ح صالح علماء جو حضرت مسیح موعود ؑ پر ایمان لائے ، ان کے اوصاف کریمہ اور ان کے حق میں الہام ۱۴۰،۱۴۱ اللہ غیب سے اسی کو آگاہ کرتا ہے جسے اس نے خود پاک فرمایا ہو ۸۵ بذریعہ مکالمہ الٰہیہ کامل بندہ کو عطا ہونے والی تین نعمتیں (۱) دعائیں قبول ہونا (۲)امور غیبیہ پر اطلاع (۳) قرآن کے علوم کھولے جانا ۳۰۳ح مکالمات الٰہیہ بغیر خاص اور برگزیدہ بندوں کے کسی کو عطا نہیں کیا جاتا ۳۰۲ح مکالمہ میں بندہ خدا سے آمنے سامنے باتیں کرتا ہے وہ سوال کرتا ہے خدا جواب دیتا ہے ۳۰۳ح ام الالسنہ اللہ تعالیٰ نے عربی زبان کو ام الالسنہ بنایا ہے اور یہ خاتم السن العالمین ہے ۲۵۸ح عربی الہامی زبان ہے جس سے نبی یا چنیدہ ولی ہی کامل کیا جاتا ہے ۱۸۴ حضورؑ کو عربی زبان کے چالیس ہزار مادہ کا علم دیا جانا ۲۳۴ اللہ نے عربی کو ام الالسنہ بنایا ہے اور تمام زبانیں اس سے مستخرج ہیں ۲۵۱ح تا ۲۵۸ح یہ دینی علوم کے اسرار کھولنے کے لئے بمنزلہ چابی کے ہے ۲۶۵ عربی حب رسول اور حب قرآن کے لئے معیار ہے ۲۶۶ انگریزی ‘ جرمن ‘ یونانی ‘ عبرانی ‘ ہندی‘ لاطینی ‘ چینی اور فارسی زبانوں کا ذکر، ان کے مادے عربی سے بدلے ہوئے ہیں ۲۵۸ح امّ القرٰی اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو امّ القریٰ بنایا ہے ۲۵۸ح امّ الکتب خدا نے قرآن کریم کو ام الکتب بنایا اور اس میں اولین اور آخرینکی کتب کا خلاصہ ہے ۲۵۹ح انسان توحید وہ چیز ہے جس کے نقوش انسان کی فطرت میں مرکوز ہیں ۵ خدا نے انسان کی پیدائش سے قبل اس کے لئے بے بہا نعمتیں پیدا فرمائیں ۱۰۷ انسان تمام جہات سے مختار و آزاد نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر کے تحت ہے ۱۱۹ چشم دید تجربہ انسان پر سخت اثر ڈالتا ہے ۳۳۷ بذریعہ مکالمہ الٰہیہ کامل بندہ کو ملنے والی تین نعمتیں ۳۰۳ح کامل انسان پر علوم غیبیہ کے دروازے کھولے جاتے ہیں ۳۴۵ انسان حریف کی تکذیب کے لئے اصل واقعات کو چھپاتا ہے ۲۰ بچوں کے سعید اور خبیث پیدا ہونے کی وجہ ۵۶ح،۵۸ح جہنم میں ہر بدبخت ایک لمبے عرصہ کے بعد خوش بخت ہو جائے گا ۱۱۸ح
تمام امور کے حقائق ہر شخص پر نہیں کھلتے بہت سے مخفی رکھے جاتے ہیں جو دوسروں پر کھلتے ہیں ۸۴ جب قوت استقامت باقی نہیں رہتی تو انسان گناہ کی طرف جھک جاتا ہے ۵۶ انگریزی گورنمنٹ گورنمنٹ کاہر مذہب و قوم سے مساویانہ سلوک ۳۸،۲۸۳ گورنمنٹ کو مذہبی مباحثات کی آزادی شرائط کی پابندی سے محدود کرنے کی تجویز ۳۹ گورنمنٹ کی خیر خواہی کی غرض ۶۸ گورنمنٹ برطانیہ کی تعریف ، شکر گزاری اور خاندانی خدمات کا ذکر ۲۸۳ گورنمنٹ کے طول عمر اور بقا کی دعا ۲۸۴ اہل حدیث اہل حدیث باوجوداہل حدیث کہلانے کے حدیثوں کے مغز سے ناواقف ہیں ۳۱ح اہل سنت اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ وعید میں خدا کے ارادہ عذاب کا تخلف جائز ہے مگر بشارت میں نہیں ۷ح،۳۱ح ب بادشاہ اسلام میں کافر بادشاہ کے عدل سے فائدہ اٹھا کر اس پر باغیانہ حملہ کا حکم نہیں ۳۷ روم کے بادشاہ نے عیسائی فرقہ موحدین کا مذہب اختیار کیا اور چھ بادشاہ موحد رہے ۳۹ح یسعیاہ کی پیشگوئی بادشاہ کے تضرع کے سبب پندرہ دن سے پندرہ سال کے ساتھ خدا نے بدل دی ۳۳۶ بروز بروز کا عقیدہ بدعت نہیں اس کی نظیر یں گزر چکی ہے ۱۵۹ حضرت عیسیٰؑ کا دوبارہ آنا بطور بروز مراد ہے ۴۸،۸۰ بروز کے طور پر نزول صحف سابقہ میں مسلم ہے ۱۲۸ بروز کا طریق خدائے رحمن کی سنن سے ثابت ہے ۱۵۹ بغاوت بغاوت کا خیال دل میں لانا نہایت درجہ کی بدذاتی ہے ۶۸ پ پادری نادان پادریوں کی تمام یا وہ گوئی آتھم کی گردن پر ہے ۲ پادریانہ مشرب رکھنے والے جھوٹ کے پتلے ہیں ۱۷ آتھم پادریوں کا منہ کالا کر کے قبر میں داخل ہو چکا ہے ۲۹۲ح آتھم کے معاملہ میں شک کرنے والے پادری کودعوت مباہلہ ۳۲ تمام پادری صاحبوں کے لئے احسن طریق فیصلہ ۳۴ پادری ہمارے سید مولیٰ ؐ کی بے ادبیاں کر رہے ہیں ۳۰۷ پادری اسلام کی توہین اور تحقیر کرتے ہیں ۳۶ پادریوں کے سوا اور کوئی دجال اکبر نہیں ۴۷ پادریوں کو بدزبانی اور گالیوں کا طریق چھوڑ نے کی تجویز ۲۹۳ ایمان ہے تو ایک پادری بات سے الٹی جوتی کو سیدھا کر کے تو دکھلائے ۲۹۱ آتھم کی پیشگوئی کی تکذیب میں پادریوں نے جھوٹ سے کام لیا ۳۲۹ پیشگوئی ؍پیشگوئیاں پیشگوئیوں میں استعارات اور لطیف اشاروں کاپایا جانا اور ایک رویا کی مثال ۴۶،۸۷،۹۲،۹۳ پیشگوئیوں کے وقتوں میں استعارات.جیسے دن سے مراد سال ہوتا ہے ۳۱ح،۱۸۳ پیشگوئیوں میں ایسی فوق العادت شرطیں ہوتی ہیں کہ کوئی جھوٹا فائدہ نہیں اٹھا سکتا ۳۲۴
وعید کی پیشگوئی بغیر شرط کے تخلف پذیر ہو سکتی ہے ۳۲،۳۳۷ خدا کی کھلی کھلی پیشگوئیوں سے منہ پھیرنا بدطینتوں کا کام ہے ۴۳ پیشگوئی میں مسیح کیلئے لفظ رجوع استعمال نہیں ہو ا بلکہ نزول آیا ہے ۱۱۱ آنحضرت ؐ کی پیشگوئیاں آخری زمانہ میں پوری ہونے والی پیشگوئیاں ۱۴۲ حضورؐ کی پیشگوئی کہ عیسائیوں اور اہل اسلام میں آخری زمانہ میں ایک جھگڑا ہو گا پوری ہو گئی ۲۸۸ مہدی کے پاس کتاب میں ۳۱۳ صحابہ کا نام درج ہو گا والی پیشگوئی آج پوری ہو گئی ۳۲۴ پیشگوئی میں لفظ کدعہ قادیان کے نام کو بتا رہا ہے ۳۲۹ آنحضرت ؐ کی مسیح موعودؑ کے شادی کرنے اور صاحب اولاد ہونے کی پیشگوئی ۳۳۷ پیشگوئی کسوف و خسوف کا پورا ہونا ۴۹،۱۴۲،۱۷۷،۲۹۳ مسیح موعود کا کسرصلیب اورقتل خنزیر پر مامور ہونا ۴۶،۴۷ مسیح موعود ؑ کی پیشگوئیاں مسیح موعودؑ کی پیشگوئیاں خدا کے نبیوں کی پیشگوئیوں کے نمونہ پر ہیں ۳۳۷ آتھم کی موت پر دلالت کرنے والی پیشگوئیاں ۱،۲ لیکھرام پشاوری کی موت کی پیشگوئی ۲۸ح آپ کی عیسائیوں کے ایک فتنہ کے متعلق پیشگوئی ۲۸۶ آپ کے لبوں پر فصاحت و بلاغت جاری ہونے والی پیشگوئی ۲۹۰ علم قرآن کے دئیے جانے کی پیشگوئی ۲۹۱ جلسہ مذاہب میں مضمون غالب رہنے کی پیشگوئی ۲۹۹،۳۱۶ح بیٹوں کی قبل از پیدائش خبر دیا جانا ۲۹۹ عبد اللہآتھم کی موت کی پیشگوئی (تفصیل دیکھئے اسماء میں عبد اللہ آتھم) احمد بیگ اور اس کے داماد کی موت کی پیشگوئی (تفصیل دیکھئے اسماء میں احمد بیگ) رجوع خلائق ہونے اور دنیا میں شہرت پانے کی پیشگوئی ۲۸۶ پنڈت دیانند کی موت ،دلیپ سنگھ کے ارادہ سیر ہندوستان میں ناکامی اور مہر علی ہوشیارپوری کی مصیبت کے بارے میں پیشگوئیاں ۲۹۷ خدا کے چھ طور کے نشان آپ کے ساتھ ہونا اور ان کی تفصیل ۳۰۴تا۳۱۱ متفرق پیشگوئیاں آخری زمانہ کی پوری ہونے والی قرآنی پیشگوئیاں ۱۴۲ عمانوایل نام رکھنا یہود کے نزدیک یہ پیشگوئی یسوع سے قبل ایک لڑکے کے حق میں پوری ہو چکی ہے ۶ یونسؑ کی نینواہ کی تباہی کی پیشگوئی ۳۰ح یسعیاہ کی پیشگوئی بادشاہ کے تضرع کے سبب خدا نے بدل دی ۳۳۶ حضور ؑ کے متعلق بٹالوی کی شیطانی پیشگوئی ۳۴۰ح ت تاویل عیسیٰؑ نے ایلیا کے نزول کی پیشگوئی کی تاویل کی ۱۲۸ نصوص اور دلائل سے ثابت امر کے مخالف بات کی تاویل کرنی چاہیے ۱۳۱ تثلیث عیسائیوں کا عقیدۂ تثلیث ۳۴ تین مجسم خدا ؤں کی جسمانی تثلیث کا نقشہ ۳۵ اگر انسان کے کانشنس میں تثلیث کی ضرور ت ہوتی تو لوگوں سے اس کا مواخذہ ہوتا ۵ تثلیث کی تعلیم سراسر جھوٹی اور شیطانی طریق ہے ۳۳ جن کو خدا نے تین بنایا تھا ہرگز ایک نہیں ہو سکتے ۳۶ تثلیث کا مسئلہ تیسری صدی کے بعد ایجاد ہوا ہے ۳۹ح تثلیث کا موجد اور اس کا پہلا منکر ۳۹ح یسوع کو پیش آمدہ واقعات کی روسے ردّ تثلیث ۴۱
اگر تثلیث کی تعلیم بنی اسرائیل کو دی جاتی تو وہ اسے نہ بھولتے ۵ الوہیم کے لفظ سے تثلیث کے حق میں دلیل کا رد اور توریت میں اس لفظ کا استعمال ۶ یہود میں تثلیث کا قائل کوئی فرقہ نہیں جبکہ عیسائیوں میں قدیم سے موحد فرقہ موجود ہے ۴۲ تصوف صوفیاء کرام کی کتابوں میں مسلّم اور ایک معمولی محاورہ مکالمات الہیہ کا ہے ۲۸ح جو باخدا اور صوفی کہلاتا اورعاجز کی طرف رجوع کرنے سے کراہت رکھتا ہے مکذبین میں داخل ہے ۶۹ تفسیر تفسیر بالرائے سے بچو ۱۳۰ کَانَتَا رَتْقًا کی تفسیر ۸۶ آیت خالدین فیھا کی تفسیر ۱۲۱ح آیت مباہلہ فقل تعالوا کی تفسیر ۳۲۰ سبع سمٰوٰت و سبع ارضین کی وضاحت ۲۶۳ح فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْکی تفسیر ۱۳۴،۱۳۵،۱۵۴،۱۵۶،۳۲۱ لفظ توفّی کے مختلف معنی ۱۳۰،۱۳۱،۱۳۴،۱۵۴،۱۵۵ لفظ توفّیکے موت کے سوا معنوں کی تائیدمیں صحابہ کا کوئی اثر یا کوئی حدیث نہیں ۱۳۳ توفّی میں جب فاعل اللہ، مفعول مردوں یا عورتوں میں سے کوئی ہو تو قبض روح یا مارنے کیلئے ہی آتا ہے ۱۵۳ لفظ تو فّی کو کسی کلام اور شعراء کے شعر میں سوائے بقا کے ساتھ موت کے نہیں پایا ۱۵۶ سورۂ فاتحہ کی چار ام الصفات کی لطیف تشریح ۸تا۹ح فاتحہ میں معارف الہیٰہ میں سے ایک قابل قدر نکتہ کا ذکر ۱۰ح تقویٰ تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت ۱۱۲،۱۱۳،۲۸۴ تقویٰ شعار لوگوں کا طریق ۲۰۵ تقویٰ یہی ہے کہ انسان غلطی کے بعد جو درست ہواس کا اقرار کرے ۲۰۵ مسیح موعودؑ کی بیعت کرنے والوں میں صلاحیت اور تقویٰ ترقی پذیر ہے ۳۱۵ح دل کا ایک ذرہ تقویٰ بھی انسان کو خدا کے غضب سے بچا سکتا ہے ۳۲۰ انسان تقویٰ کی راہ کو اختیار کر کے مامور من اللہ کی لڑائی سے پرہیز کرے ۳۲۱ تکبر تکبر اور لاپرواہی سے بچو ۱۶۶ اللہ تعالیٰ متکبروں سے محبت نہیں کرتا ۷۷ تناسخ یہ عقیدہ الٰہی نظام رحمانیت کے خلاف ہے ۱۰۶ح یہ خدائے قادرو خالق کو ضعیف و بیکار بنا ڈالتا ہے ۱۰۷ح قائلین تناسخ کو خدا کی طرح روح اور مادہ کو قدیم ماننا پڑتا ہے اس صورت میں وہ رب العالمین نہیں ہو سکتا ۱۰۸ح یہ امر خدا کی طرف سے ہوتا تو لوگوں کی قلت و کثرت حیوانات کی تعداد کے تغیر کے برابر ہوتی ۱۱۲ح ارواح کا آسمان سے نازل ہوناباطل اور بے دلیل ہے ۱۱۳ح اگر اجرام فلکی میں لوگ آباد ہیں تو ارواح کو زمین پر بھیجنے کے کوئی معنے نہیں ۱۱۴ح تناسخ ماننے سے نکاح سے بھی اجتناب کرنا چاہئے ۱۲۲ح کوئی ثبو ت نہیں کہ دنیا میں آنے والی روح دوبارہ آئی ہے ۱۵۵ براہمن تفاوت مراتب مخلوقات کے تناظر میں تناسخ پر ایمان رکھتے ہیں ۱۰۵ح توحید عقل اسلامی توحید تک ہی گواہی دیتی ہے ۴ توحید وہ چیز ہے جس کے نقوش انسان کی فطرت میں مرکوز ہیں ۵
بجز توحید کے نجات نہیں ۳۴ توحید کے بارہ میں مسیح موعودؑ کا عربی شعر ۲۶۷ عیسائی موحد فرقہ اورقیصرروم کا اس فرقہ کے مذہب کو اختیار کرنا ۳۹ح،۳۲۲ توفّی(دیکھئے زیر عنوان تفسیر اور وفات مسیح) ج جزا سزا اسلامی جزا و سزا کا طریق احسن اور معقول ہے ۱۲۴ح جزا سزا کا طریق ہندوؤں نے تناسخ اور عیسائیوں نے کفارہ بیان کیا ہے جو غیر معقول ہے اور ان کاردّ ۱۰۶ح تا۱۲۳ح جلسہ اعظم مذاہب عالم جلسہ مذاہب سے متعلقہ اشتہار ۲۹۹ح جلسہ مذاہب مباہلہ کے بعد عزت کا موجب ہوا ۳۱۵ح حضورؑ کے مضمون کے غالب رہنے کی پیشگوئی اور اس کا پورا ہونا ۳۰۰ح،۳۳۹،۳۴۲ حضورؑ کے مضمون کا سامعین پر فوق العادت اثر ۳۱۶ح مخالفین کا اقرارکہ مضمون اول رہا ۳۰۰ اخبارا ت کا تسلیم کرناکہ حضورؑ کا مضمون تمام مضامین پر غالب رہا ۳۳۹ جلسہ مذاہب میں مولویوں کی خوب بے عزتی ہوئی ۳۳۹ جماعت احمدیہ یہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے خدا اسے ہرگز ضائع نہیں کرے گا ۶۴ ہندوستان کے مختلف شہروں کی مخلص جماعتوں کا تذکرہ ۳۱۵ح فوق العادت طور پرجماعت کی ترقی ہو رہی ہے ۳۱۰ح ہزارہا سعید لوگوں کا جماعت میں داخل ہو نا ۳۱۹ حضرت مسیح موعودؑ کوئی بدعت لے کر نہیں آئے ۱۱۵،۱۴۴،۱۶۰ مسیح موعودؑ کا فتن اور بدعات کے ظہور کے وقت بھیجا جانا ۱۶۳ حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کرنے والوں میں صلاحیت اورتقویٰ کا ترقی پذیر ہونا ۳۱۵ح بعض صحابہ کی مالی قربانیوں کا ذکر ۳۱۲ح مہدی کے پاس مطبوعہ کتاب میں اس کے ۳۱۳ صحابہ کے نام ہونے والی حدیث ۳۲۵ اکثر سجدہ میں روتے اور تہجد میں تضر ع کرتے ہیں وہ اسلام کا جگر اور دل ہیں ۳۱۵ح تمام اصحاب خصلت صدق و صفا رکھتے ہیں ۳۲۵ حضورؑ کے ۳۱۳صحابہ کی فہرست اسماء ۳۲۵تا۳۲۸ پہلے آئینہ کمالات اسلام میں۳۱۳ صحابہ کے نام درج ہیں ۳۲۵ صالح علماء جو حضرت مسیح موعود ؑ پر ایمان لائے ، ان کے اوصاف کریمہ اور ان کے حق میں الہام ۱۴۰،۱۴۱ مہدی اور مسیح کا زمانہ چودھویں صدی ہے ۳۲۲ خدا نے حضورؑ کو صدی چہاردہم کا مجدد قرار دیا ہے ۴۵ مسیح موعود کا صدی کے سر پر آنا ۱۲۲ چودھویں صدی کے سر پر ایسے مجدد کی ضرورت تھی جو اسلام کی سچائیثابت کرے ۳۲۱ ہمارے عقیدہ اور مذہب کا مؤید قرآن ، حدیث ، ائمہ عقل اور الہام متواتر ہے ۱۱۵ ہمارا دین اسلام کتاب قرآن اور نبی خاتم النبیینؐ ہیں ۱۴۴ احمدیوں کے خلاف مولویوں کے فتووں کا ذکر ۸۰،۸۱ جہاد آنحضرت ؐ کے قتال پر عیسائیوں کے اعتراض کا جواب اور موسیٰ،یشوع اور داؤدؑ کے قتال کا ذکر ۳۶ قتال کے متعلق اسلام اور توریت کے حکم میں فرق ۳۷ بغیر اتمام حجت جنگ کرنا بری بات ہے آنحضرت ؐنے مصائب پر تیرہ سال صبر کیا ۱۳۸،۱۳۹ جہنم جہنم ناقص لوگوں کو کامل اور غافلوں کو ہوشیار کرنے کی جگہ ہے ۱۱۷ح
اللہ تعالیٰ نے اس کا نام ’’ امّ الداخلین‘‘ رکھا ہے یہ داخل ہونے والوں کی ایسے تربیت کرے گی جیسے ماں بیٹوں کی ۱۱۸ح جہنم میں ہر بدبخت ایک لمبے عرصہ کے بعد خوش بخت ہو جائے گا ۱۱۸ح آیت خالد ین فیھا میں اہل نار کے لئے امید اور بشارت ۱۲۱ح چ،ح چولہ باوا نانک باوانانک کی بھاری یادگار چولہ جس پر کلمہ اور قرآن شریف کی آیتیں لکھی ہیں ۳۱۴ح مسیح موعودؑ کی کتاب ست بچن میں چولے کا تفصیلی ذکر ۳۵ حدیث ؍احادیث یونس کی قوم کو عذاب کے وعدہ کی احادیث صحیحہ سے تصدیق موجود ہے ۳۰ اہل حدیث حدیثوں کے مغز سے ناواقف ہیں ۳۱ح حدیث میں بتائی گئی مسیح موعود کی حقیقی علامت ۴۷ ہر وہ قول جو صحیح حدیث اور خبر کا مخالف ہو مردود و باطل ہے ۱۳۸ احادیث مسیح کے رفع آسمانی پر خاموش ہیں ۱۶۸ دار قطنی کی حدیث میں کوئی اغلاق نہیں اور خسوف و کسوف کا ظہور سراسر الفاظِ حدیث کے مطابق ہے ۲۹۴ پیشگوئی پوری ہونا حدیث کی صحت پر شہادت ہے ۳۳۳ محدثین کا فتویٰ قطعی طور پر کسی حدیث کے صدق یا کذب کا مدار نہیں ٹھہر سکتا ۲۹۴ مہدی کو اسی طرح حدیث میں آل محمد ؐ ٹھہرایاجس طرح عیسائیوں کو آل عیسیٰ ۲۹۶ احادیث صحیحہ میں پہلے فرمایا گیا کہ مہدی کو کافر ٹھہرایا جائے گا ۳۲۲ حدیث میں لفظ کدعہ سے مراد قادیان ہے ۳۲۹ آثار اور احادیث جو آحاد ہیں وہ مفید ظن ہیں ۳۳۳ محدثین کا حدیث کسوف و خسوف کے دوراویوں عمر و اور جابر جعفی پر جرح کرنا اور جھوٹا ٹھہرانا اور اس کا جواب ۳۳۴ کسی کا کاذب ہونااس کی روایت کورد نہیں کر سکتا ۳۳۳ رؤیت روایت کے ضعف کو دورکرتی ہے ۳۳۴ حروف ابجد مسیح موعودؑ کے نام غلام احمد قادیانی کے عدد (۱۳۰۰) میں زمانہ کا عدد مخفی ہونا ۱۷۲ ھویٰ دجال ببٌّ فی عذاب الھاویۃ المھلکۃ سے موت آتھم کی تاریخ بحروف ابجد ۱۸۹۶ء ہے ۲۰۴ خ خاتم النبیین(دیکھئے زیر عنوان نبوت) خط فتح مسیح کا مسیح موعود ؑ کو بدزبانی سے بھراخط لکھنا ۲۸۷ح مولوی عبداللہ غزنوی نے مسیح موعودؑ کودو خط لکھے جن میں آپ کو کفار پر غالب رہنے کی خوشخبری دی ۳۴۳ خنزیر سب جانداروں سے زیادہ پلید اور کراہت کے لائق خنزیر ہے ۳۰۵ح خواب کبھی سچی خواب ادنیٰ مومن یا کافر اور فاجرکوبھی آ جاتی ہے ۳۰۲ح خواب میں فوت شدہ بیٹے کے واپس آنے سے مراد ۲۹۳ خواب میں رمضان میں خسوف وکسوف دیکھنے کی تعبیر ۲۹۶ حضورؑ کا کشف اور اس کی تعبیر ۳۰۰ح عالم رویا میں آنحضرت ؐ کی زیارت ۳۴۳ پیر صاحب العلم کا کشف میں آنحضرتؐ کو دیکھنا ۳۴۴ د.ر دجال لغت کی رو سے دجال ایک گروہ کا نام ہے جو دجل سے زمین کو پلید کرتا ہے ۴۷
صلیب پر مدار نجات رکھنے والے پادریوں کا گروہ دجالِ اکبر ہے ۴۶ دجال معہود کا بجز حرمین کے تمام زمین پر تسلط ہوجانا ۴۸ درود و سلام حضرت محمدؐ، آپ کی آل و اصحاب اور اللہ کے صالح بندوں پر درود و سلام ۷۳ دعا آنحضرت ؐ کا بارش برسانے کامعجزہ استجابت دعا ۲۸۵ یسوع کا رات بھر دعا کرنے کے باوجود استجابت دعا سے محروم رہنا ۴۲ مسیح موعودؑ اور استجابت دعا(دیکھئے اسماء میں مرزا غلام احمد قادیانی) حکومت برطانیہ کے طول عمر اور بقاء کی دعا ۲۸۴ دعائے مباہلہ ۳۱۷ح،۳۱۸ح دنیا یہ عالم ابد الآباد تک قائم نہیں رہے گا بلکہ اس کیلئے ایک انتہاء مقرر ہے ۱۲۴ح یہ دنیا لمحہ بھر کی ہے جس کی تلخی اور شیرینی جاتی رہے گی ۱۲۶ح اس عالم کے بعد ایک اور عالم ہے جسے یوم الدین کا نام دیا گیا ہے ۱۲۴ح دوزخ (دیکھئے زیر عنوان جہنم) رفع مسیحؑ (دیکھئے اسماء میں عیسیٰ ؑ ) رمضان المبارک رمضان نزول قرآن اور برکات کا مہینہ ہے ۲۹۶ خواب میں رمضان میں کسوف و خسوف ہونے کی تعبیر ۲۹۶ روح ارواح آسمان سے نازل نہیں ہوتیں ۱۱۳ح ارواح باقی رہنے والی ہیں اور معاد برحق ہے ۱۵۴ روح القدس روح القدس کا کبوتر کی شکل پر متشکل ہونا ۳۵ س.ش.ص.ط سجادہ نشین سجادہ نشینوں کا حضورؑ کوکافر و کاذب ٹھہرا نا ۴۵ ان سجادہ نشینوں کے نام جنہیں دعوت مباہلہ دی گئی ۷۱،۷۲ سکھ مذہب باوا نانک صالح مسلمان تھے، دو مرتبہ حج کیا ، مسلمان لڑکی سے شادی کی ،آپ کی بھاری یادگار چولہ جس پر کلمہ اورقرآن شریف کی آیتیں لکھی ہیں ۳۱۴ح مسیح موعودؑ کی کتاب ست بچن میں چولے کا تفصیلی ذکر ۳۵ شرک انسان کو خدا ٹھہرانا نہایت گندہ شرک ہے ۳۴ حواریوں کے زمانہ میں عیسائیت میں شرک کی تخم ریزی ہو ئی ۳۲۱ عیسیٰ پرستی بت پرستی اور رام پرستی سے کم نہیں ۴۱ شریعت شریعت پر ذرہ برابر اضافہ یا کمیکرنے والے پر اللہ ، فرشتوں اور لوگوں کی لعنت ۱۴۴ شق قمر آنحضرت ؐ کے وقت میں شق قمر ہونے میںیہ حکمت تھی کہ علماء کی دیانت ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی ۲۹۵ شکر شکر کرنے سے نعماء بڑھتی ہیں ۱۸۵ قرآن و حدیث میں محسنوں کا شکر بجالانے کی تعلیم ۲۸۴ شیطان شیطان کے مس سے مسیح اور اس کی ماں پاک تھے ۵۷ح یسوع کا شیطان کے پیچھے جانا اور اسے تین مرتبہ شیطانی الہام کا ہونا ۲۹۰ح
صادق خداصادق کی حمایت کرتا ہے ۴۲ صادق کی یہ نشانی ہے کہ اس کی تکذیب زور وشور سے ہوتی ہے مگر آخر فتح پاتا ہے ۳۳۵ صدی مہدی اور مسیح کا زمانہ چودھویں صدی ہے ۳۲۲ خدا نے حضورؑ کو صدی چہاردہم کا مجدد قرار دیا ہے ۴۵ مسیح موعود کا صدی کے سر پر آنا ۱۲۲ چودھویں صدی کے سر پر ایسے مجدد کی ضرورت تھی جو اسلام کی سچائی ثابت کرے ۳۲۱ تیسری صدی عیسوی میں عیسائی مشرک اور موحد فرقہ کے درمیان مباحثہ ہوا ۳۲۲ عیسائیوں میں تثلیث کا مسئلہ تیسری صدی کے بعد ایجاد ہوا ہے ۳۹ح،۴۲ صلیب کفارہ اور تثلیث کے تمام اغراض صلیب کے ساتھ وابستہ ہیں ۴۶ خدا نے یہود کی صلیب سے مسیح کو نجات دی اور اب چاہا کہ اسے نصاریٰ کی صلیب سے بچائے ۱۷۱،۱۳۲ مسیح موعود ؑ کا صلیب کے غلبہ کے وقت آنا اور اسے توڑنا ۱۱۶ مسیح موعود کا بڑانشان کسر صلیب ہے ۴۶ طاعون خدا طاعون سے اپنا عذاب نازل کرتا ہے ۳۷ طاعون سے لوگوں کا مرنا ۳۴۲ طبیب خدا وبا کے انسداد کیلئے طبیبوں کو بوٹیوں اور تدبیروں کا علم دیتا ہے ۳۷ ع.غ عذاب اللہ تعالیٰ کاغضب انکار ، جسارت اور زیادتی کی وجہ سے نازل ہوتا ہے ۲۱۵ خدا طاعون اور ہیضہ سے عذاب نازل کرتا ہے ۳۷ ہر عذاب کیلئے ایک انتہاء مقدر ہے ۱۱۸ اللہ کی طرف عذاب کو دائمی بنانے کی نسبت دینا درست نہ ہو گا ۱۱۹ عذاب تضرع اور رجوع سے مؤخر ہو جاتا ہے ۷،۲۱۵ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ وعید میں خدا کے ارادہ عذاب کا تخلف جائز ہے مگر بشارت میں نہیں ۷ح،۳۱ح جھوٹی خوشی اخیر پر لعنت سے بھرا عذاب ہو جاتا ہے ۳۰۷ بغیر کسی شرط کے قوم یونس ؑ کاعذاب ٹل گیا ۳۳۸ عربی زبان عربی الہامی زبان ہے جس سے نبی یا چنیدہ ولی ہی کامل کیا جاتا ہے ۱۸۴ حضورؑ کو عربی زبان کے چالیس ہزار مادہ کا علم دیا جانا ۲۳۴ اللہ نے عربی کو ام الالسنہ بنایا ہے اور تمام زبانیں اس سے مستخرج ہیں ۲۵۱ح تا ۲۵۸ح عربی خاتم السن العالمین ہے جیسے رسول ؐ خاتم النبیین۲۵۸ح یہ دینی علوم کے اسرار کھولنے کے لئے بمنزلہ چابی کے ہے ۲۶۵ عربی حب رسول اور حب قرآن کے لئے معیار ہے ۲۶۶ انگریزی ‘ جرمن ‘ یونانی ‘ عبرانی ‘ ہندی‘ لاطینی ‘ چینی اور فارسی زبانوں کا ذکر، ان کے مادے عربی سے بدلے ہوئے ہیں ۲۵۸ح مسیح موعودؑ کے عربی شعر و قصائد اَطِعْ رَبَّکَ الجَبَّار اَھْل الاَوامِرٖ ۱۳۶،۱۳۷ لمارأی النوکی خلاصۃ انصری ۱۵۷،۱۵۸
الا یا ایّھَا الحُرّالکریم ۱۶۶ احاط الناس من طغوی ظلام ۱۷۴ تذکر موت دجال رذال ۲۰۶تا۲۱۰ بوَحْشِ البر یُرجٰی الائتلاف ۲۲۹ تا ۲۳۱ الا ایھا الا بّار مثل العقارب ۲۳۷ الا لا تعبنی کالسّفیہ المشارز ۲۴۰ علمی من الرحمن ذی الٰا لاء ۶ ۲۶تا ۲۸۲ عقیدہ عقیدہ اجماعیہ کا منکر ملعون ہے ۱۴۴ اجماعی عقیدہ سے منہ پھیرنا بدذاتی اوربے ایمانی ہے ۳۲ح عیسائیوں کے تثلیث اور کفارہ کے متعلق عقائد ۳۴ ہمارے عقیدہ اور مذہب کا مؤید قرآن ، حدیث ، ائمہ عقل اور الہام متواتر ہے ۱۱۵ ہمارا دین اسلام کتاب قرآن اور نبی خاتم النبیینؐ ہیں ۱۴۴ علماء علماء کی فضلیت ان کے عربی جاننے کی وجہ سے ہوتی ہے ۲۶۵ علماء زمین کے آفتاب اور ماہتاب کی طرح ہوتے ہیں ۲۹۵ علماء اور فقراء کی دو قسمیں ۸۱تا۸۳ مسلمان علماء کی حالت کہ وہ نصوص قرآنیہ و حدیثیہ سے منہ پھیرتے ہیں ۴۸ علماء اعداء ملت کی اپنے عقائد سے مددکرتے ہیں ۱۴۶ سلف صالحین علماء متقی تھے ۱۴۷ علماء مساجد سے روکتے اور لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں ۱۶۰ علماء کو دعوت مباہلہ(دیکھئے زیر عنوان مباہلہ) علماء کے فتاویٰ(دیکھئے زیر عنوان فتاویٰ) علماء سے خطاب اور ان کے اوصاف کا تذکرہ ۱۸۴تا۱۸۶ علماء میں نور اور فراست باقی نہیں رہا ۲۲۴ علماء کی دنیا دارانہ‘ منافقانہ اور فاسقانہ حالت ۲۳۲تا ۲۳۴ فصیح اللسان علما کو مقابلہ کا چیلنج ۲۳۵ گرہن میں سرّ تھا کہ علماء کی ظلماتی حالت آسمان پر ظاہر کی جائے ۳۳۵ نو۹ شریر متکبر مولویوں کا ذکر ۲۳۶تا۲۵۴ علماء مسیح کے آسمان سے نزول کے منتظر ہیں ۱۲۸ صالح علماء جو حضرت مسیح موعود ؑ پر ایمان لائے ، ان کے اوصاف کریمہ اور ان کے حق میں الہام ۱۴۰،۱۴۱ عیسائیت عیسائی صرف مسیح کی زندگی تک حق پر قائم رہے ۳۲۱ ان کے خیال کے مطابق خدا نے اپنے بیٹے کو صلیب دی ۱۲۱ح عیسائی کبوتر شوق سے کھاتے ہیں حالانکہ ان کا دیوتا ہے ۴۱ح راستباز مسیحی کی علامت ۱۶ عیسائی درحقیقت انسان پر ست ہیں ۴۱ عیسائی جھوٹ بولنے میں سخت بیباک اور بے شرم ہیں ۱۸ عیسائیوں کا فرقہ موحدین ۳۹ح،۴۲،۳۲۲ اگر کسی عیسائی کو آتھم کے افتراء پر شک ہو تو آسمانی شہادت سے رفع شک کر الیوے ۱۵ براہین احمدیہ میں عیسائیوں کے فتنہ کی پیشگوئی ۲۸۶ نبی کریم ؐ کی عیسائیوں اور اہل اسلام میں جھگڑا ہونے کی پیشگوئی ۲۸۸ عیسائی عقیدہ کہ خدا تین اقنوم ہیں باپ ،بیٹا اور روح القدس ۳۳،۳۴ عیسائیوں کو مباہلہ کا چیلنج ۳۱،۳۳،۴۰ عیسائیت کا زمانہ فساد معلوم کرنے کا عمدہ نقطہ ۳۲۱ عیسائیت کی تعلیم کی رو سے خدا رحیم ثابت نہیں ہوتا ۱۲۱ح جزا سزا کا طریق ہندوؤں نے تناسخ اور عیسائیوں نے کفارہ بیان کیا ہے جو غیر معقول ہے اور ان کا ردّ ۱۰۶ تا۱۲۳ح حواریوں کے زمانہ میں عیسائی مذہب میں شرک کی تخم ریزی ہوئی ۳۲۱ یسوع کا شیطان کے پیچھے جانا اور اسے تین مرتبہ شیطانی الہام کا ہونا ۲۹۰ح
تیسری صدی عیسوی میں عیسائی مشرک اور موحد فرقہ کے درمیان مباحثہ ہوا ۳۲۲ کفارہ اور تثلیث کے تمام اغراض صلیب کے ساتھ وابستہ ہیں ۴۶ خدا نے یہود کی صلیب سے مسیح کو نجات دی اور اب چاہا کہ اسے نصاریٰ کی صلیب سے بچائے ۱۷۱،۱۳۲ مسیح موعود ؑ کا صلیب کے غلبہ کے وقت آنا اور اسے توڑنا ۱۱۶ یہ زمانہ صلیبی فتنہ کے تموج اور طوفان کا زمانہ ہے ۴۶ تثلیث اور کفارہ کی نسبت عیسائی اعتقاد ۳۴ موحد عیسائیوں کا فرقہ یونی ٹیرین ۳۹ تثلیث عیسائیوں کا عقیدۂ تثلیث ۳۴ عقیدہ تثلیث کا موجد بشپ اتھاناسی الیگزینڈرائن تھا ۳۹ح تین مجسم خدا ؤں کی جسمانی تثلیث کا نقشہ ۳۵ اگر انسان کے کانشنس میں تثلیث کی ضرور ت ہوتی تو لوگوں سے اس کا مواخذہ ہوتا ۵ تثلیث کی تعلیم سراسر جھوٹی اور شیطانی طریق ہے ۳۳ جن کو خدا نے تین بنایا تھا ہرگز ایک نہیں ہو سکتے ۳۶ تثلیث کا مسئلہ تیسری صدی کے بعد ایجاد ہوا ہے ۳۹ح،۴۲ یسوع کو پیش آمدہ واقعات کی روسے ردّ تثلیث ۴۱ اگر تثلیث کی تعلیم بنی اسرائیل کو دی جاتی تو وہ اسے نہ بھولتے ۵ الوہیم کے لفظ سے تثلیث کے حق میں دلیل کا ردّ اور توریت میں اس لفظ کا استعمال ۶ یہود میں تثلیث کا قائل کوئی فرقہ نہیں جبکہ عیسائیوں میں قدیم سے موحد فرقہ موجود ہے ۴۲ کفارہ تثلیث اور کفارہ کی نسبت عیسائی اعتقاد ۳۴ کفارہ اور تثلیث کے اغراض صلیب کے ساتھ وابستہ ہیں ۴۶ نیکیوں کی اقسام اور نیکوں کے مصائب کاان کے گناہوں کا کفارہ ہونا ۱۲۴حتا۱۲۶ح پادری نادان پادریوں کی تمام یا وہ گوئی آتھم کی گردن پر ہے ۲ پادریانہ مشرب رکھنے والے جھوٹ کے پتلے ہیں ۱۷ آتھم پادریوں کا منہ کالا کر کے قبر میں داخل ہو چکا ہے ۲۹۲ح آتھم کے معاملہ میں شک کرنے والے پادری کودعوت مباہلہ ۳۲ تمام پادری صاحبوں کے لئے احسن طریق فیصلہ ۳۴ پادری ہمارے سید مولیٰ ؐ کی بے ادبیاں کر رہے ہیں ۳۰۷ پادری اسلام کی توہین اور تحقیر کرتے ہیں ۳۶ پادریوں کے سوا اور کوئی دجال اکبر نہیں ۴۷ پادریوں کو بدزبانی اور گالیوں کا طریق چھوڑ نے کی تجویز ۲۹۳ ایمان ہے تو ایک پادری بات سے الٹی جوتی کو سیدھا کر کے تو دکھلائے ۲۹۱ آتھم کی پیشگوئی کی تکذیب میں پادریوں نے جھوٹ سے کام لیا ۳۲۹ غضب اللہ تعالیٰ کاغضب انکار ، جسارت اور زیادتی کی وجہ سے نازل ہوتا ہے ۲۱۵ غیب اللہ غیب سے اسی کو آگاہ کرتا ہے جسے اس نے خود پاک فرمایا ہو ۸۵ مسیح موعودؑ کو خدا کے علم ازلی میں پوشیدہ امور کی خبر دیا جانا ۷۶ مسیح موعود ؑ کے ظہور میں آنے والے امور غیبیہ ۲۹۷ ف.ق.ک.گ فتنہ فتنہ کو فرو کرنا راستبازوں کا فرض ہے ۴۱ فتنہ تکفیر حد سے زیادہ گزر گیا ہے ۴۵ یہ زمانہ صلیبی فتنہ کے تموج اور طوفان کا زمانہ ہے ۴۶
حضورؑ کی نسبت وقوع میں آنے والے دو عظیم فتنے ۳۴۱ فتاویٰ احمدیوں کے خلاف مولویوں کے فتووں کا ذکر ۸۰،۸۱ مسیح موعودؑ کے خلاف مولوی نذیر حسین کا دجالانہ فتویٰ سراسر افتراء ہے ۳۹ فرشتے مسیح موعودؑ کو ملائک سے انکاری کہنا افتراء ہے ۴۵ آتھم کو فرشتے نظر آنا اور اس کا کہنا کہ’’ میں خونی فرشتوں سے ڈرتا ہوں‘‘ ۱۸،۱۹ فری میسن فری میسن کے لوگ اپنا راز ظاہر کرنا مناسب نہیں سمجھتے ۲۱ قرآن کریم (نیز دیکھئے زیر عنوان تفسیر) ۸ح،۱۳،۲۶ح،۲۷ح،۲۸،۲۹ح،۳۲ح،۳۴،۴۲،۵۰، ۵۲،۶۳ح،۸۲،۸۳،۸۴،۱۲۸،۱۳۲،۱۳۳،۱۴۸،۱۴۹،۱۵۳، ۱۵۴،۱۵۸،۱۵۹ ۲۲۶،۲۶۵،۲۹۹ح،۳۱۴ح قرآن خدا کا پاک کلام اور ہر غلطی اور ضلالت سے پاک ہے ۳۳
کسی مدعی کے دعویٰ کے وقت کبھی کسوف و خسوف رمضان میں ان تاریخوں میں نہیں ہوا ۳۳۰،۲۹۴ مہینے کی پہلی رات چاند گرہن مقصود ہوتا تو حدیث میں قمر کی بجا ئے ہلال کا لفظ آتا اس لئے پہلی رات سے مراد چاند گرہن کی پہلی رات ہے ۳۳۱ چاند گرہن اور سور ج گرہن کیلئے مقررہ تاریخیں ۳۳۱ چاند گرہن تیرہ اور سورج گرہن اٹھائیس رمضان کو ہوا ۳۳۴ حدیث میں خسوف و کسوف کی کوئی نرالی حالت بیان کرنا مقصودنہیں بلکہ مہدی کے ساتھ تخصیص مقصود ہے ۳۳۲ اخبارات کا اقرار کہ یہگرہن ایسا عجیب ہے کہ پہلے اس شکل وصورت پر کبھی نہیں ہوا ۳۳۳ خسوف و کسوف کے بارہ میں عبد الحق غزنوی کا وسوسہ اور اس کا جواب ۳۳۴ کشف حضورؑ کا کشف میں احمد بیگ کی ساس کو متمثل دیکھنا ۲۱۳،۲۹۸ عالم مکاشفہ میں مسیح موعودؑ کے چوتھے بیٹے کی روح کا آپ کی پشت میں حرکت کرنا ۱۸۳ حضورؑ کا جلسہ مذاہب میں مضمون بالا رہنے کی نسبت کشف ۳۰۰ح مولوی عبداللہ کاقادیان میں نور اترنے والا کشف ۳۴۳ عالم کشف میں پیر صاحب العلم کاآنحضرتؐکو دیکھنا ۳۴۴ خدا بدکاروں کو بھی رؤیا ،کشف یا الہام کا مزہ چکھاتا ہے ۳۰۲ح کفارہ تثلیث اور کفارہ کی نسبت عیسائی اعتقاد ۳۴ کفارہ اور تثلیث کے اغراض صلیب کے ساتھ وابستہ ہیں ۴۶ نیکیوں کی اقسام اور نیکوں کے مصائب کاان کے گناہوں کا کفارہ ہونا ۱۲۴حتا۱۲۶ح گالی یسوع نے معجزہ مانگنے والوں کو گندی گالیاں دیں ۲۹۰ح پادریوں کانبی کریم ؐ کو گالیاں دینا ۳۸ پادریوں کو چاہئے کہ گالیوں کا طریق چھوڑ دیں ۲۹۳ح سعد اللہ کا حضورؑ کو گالیوں سے بھری نظم بھیجنا ۵۸ح گرہن (دیکھئے زیر عنوان کسوف و خسوف) گناہ جب قوت استقامت باقی نہیں رہتی تو انسان گناہ کی طرف جھک جاتا ہے ۵۶ ل.م لعنت واویلا اور لعنت ایک ہی چیز ہے ۳۲ ہر لعنت کے بعد ایک شفقت اور رحمد لی مقدّر ہے ۱۱۹ح جو نہ مقابلہ کرے نہ تکذیب سے باز آئے اس پر خدا ، فرشتوں اور صلحاء کی لعنت ہے ۳۰۳ح مباحثہ مباحثات کے بڑھنے سے کینے ترقی کرتے جاتے ہیں ۳۹ مسیح موعودؑ کا مباحثات سے اعراض کے ارادہ کااظہار ۲۸۲ مشرک اور موحد عیسائی فرقوں میں مباحثہ ۳۹ح،۳۲۲ مباہلہ آیت مباہلہ کی تفسیر ۳۲۰ مسیح موعود ؑ کامولویوں کو دعوت مباہلہ دینے کا الٰہی حکم ۶۴ غزنوی گروہ کے عبدالحق کے مباہلہ کاجھوٹااثر اور اس کا جواب ۳۴۲ مباہلہ کا چیلنج مباہلہ کے مخاطب مولویوں اور سجادہ نشینوں کے اسماء ۶۹تا۷۲ کافر قرار دینے والے مولویوں کو مباہلہ کی دعوت کا اشتہار ۴۵،۳۰۴،۳۰۵ح،۳۱۷ح مقابلہ و مباہلہ کے لئے بلائے گئے بعض علماء کے اسماء ۲۸۲ح عیسائیوں کواسلام اور عیسائیت کا مباہلہکرنے کی دعوت ۳۳
عیسائیوں کو خدا سے فیصلہ کرانے کی دعوت ۴۰،۴۴ آتھم کی موت کے بارے میں شک کرنے والے عیسائیوں کو مباہلہ کا چیلنج ۳۱،۳۲ مباہلہ کا طریق مسنون طریق مباہلہ یہی ہے کہ لوگ مدعی مامور من اللہ سے مباہلہ کریں ۳۱۹ تعالواجمع کے صیغہ سے نبی کے مقابل ایک جماعت کو مباہلہ کیلئے بلایا گیا ہے ۳۲۰ مباہلہ کرنے والے کم سے کم دس ہوں ۶۷،۳۰۵ح،۳۱۷ح مسیح موعود ؑ کا الہامات کو ہاتھ میں لے کرمباہلہ کرنا ۵۱،۱۶۲ مباہلہ سے قبل مسنون استخارہ کرنے کی تجویز ۱۶۴ ہر مباہلہ کرنے والا اشتہار شائع کرے ۳۱۷ح پچاس کوس سے زیادہ فاصلہ پر رہنے والو ں کیلئے طریق مباہلہ ۳۱۸ح پچاس کوس کے اندررہنے والوں کیلئے طریق مباہلہ ۳۱۹ح مباہلہ کی دعا اور شرائط دعائے مباہلہ کا طریق اور شرائط ۳۳،۴۴،۶۵،۶۶ مباہلہ کیلئے فریقین کی دعائیں اور شرائط ۱۶۳،۱۶۴ مسیح موعودؑ کی تحریر فرمودہ دعائے مباہلہ کی عبارت ۳۱۷ح مباہلہ کے بعد کی برکات و ترقیات مولوی عبد الحق سے مباہلہ کے بعد عزت اور ترقی کا باعث بننے والے امور ۳۰۹ح تا۳۱۴ح،۳۱۷ح،۳۴۲ مباہلہ کے بعد وارد ہونے والی جسمانی نعمتیں ۳۱۲ح مثال مخلوق میں تفاوت اور اس کی تفصیل ایک مثال سے ۸۸تا۹۲ ایک بندہ جو بظاہر فاسق معلوم نہیں ہوتا عالم ہو کر بھی جاہل ثابت ہوتا ہے کی مثال ۹۵ ایک شخص کے نازو نعمت اور سعید وحمید زندگی بسرکرنے والے اورتنعم کی زندگی بسر کرنے والے فاسق شخص کی مثالیں ۹۵تا۱۱۰ مجدد خدا ہر صدی کے سر پر مجدد مبعوث فرماتا ہے ۷۸ مجدد کی ضرورت کے لئے وقت کی فریاد ۱۷۳،۳۲۱ مجدد اور اس کے قول کی سچائی کے بارہ میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے ۹۲ حضرت مسیح موعود ؑ چودھویں کے مجدد ہیں ۴۵،۱۷۲ ہر مجدد کا بلحاظ حالت موجودہ زمانہ خاص کام ہوتا ہے ۴۶ مجدد کا نام مسیح ابن مریم رکھا جانے کی وجہ ۳۲۱ مخالفت(مسیح موعود علیہ السلام کی) نو اشخاص جنہوں نے کافر کہا اور گالیاں دیں ۲۵۱،۲۵۲ دو شیخوں کو مباہلہ کا نشان دیکھنے اور عربی میں مقابلہ کی دعوت ۲۵۳ مخالفوں نے اقرار کیا کہ مضمون بالا رہا ۳۰۰ تین امور میں مخالفین کو دعوت مقابلہ ۳۰۳ح مخالفین کی ذلت اور بد انجام ۳۳۷ خدا کی رحمت اور فضل نے ان تکالیف سے بچایا جن میں مخالف گرفتار ہیں ۳۱۴ح مسیح موعود ؑ کی مخالف مولویوں کو صحبت میں رہنے کی دعوت ۳۴۷ مذہب بجز اسلام تمام مذاہب مردے ہیں ۳۴۶ جھوٹے پر بغیر تعیّن لعنت کرنا کسی مذہب میں ناجائز نہیں ۳۱ ’’دنیا کے جھوٹے مذاہب کی ابتداء کسی افتراء سے ہوئی ہو گی‘‘ کی وضاحت ۶۳ح خراب مذہب جس میں شرک اور باطل کی ملونی ہو ۳۰۰ح معجزات نبی کریم ؐ کاامساک باراں کے بعد بارش برسانے کا معجزہ ۲۸۵ یسوع کا معجزہ مانگنے والوں کو گندی گالیاں دینا ۲۹۰ح یسوع کے معجزات کی حقیقت کھولنے والاتالاب ۲۹۱ح مسیح موعودؑ کو معجزات انبیاء سے انکار نہیں ۴۵
مفتری قرآن،توریت اور انجیل گواہ ہیں کہ افترا کرنے والا جلد تباہ ہو جاتا ہے ۶۳، ۶۴ خدا مفتری کو جلد پکڑتاہے اور اس کی غیرت اسے ہلاک کر دیتی ہے ۴۹‘۱۲۷ ملائک (دیکھئے زیر عنوان فرشتے) مولوی اے بدذات فرقہ مولویاں تم کب تک حق کو چھپاؤ گے ۲۱ح مولویوں نے امر تکفیر میں اپنی عقل سے کام نہیں لیا ۴۵ انہوں نے اہل اسلام میں فتنہ اور تفرقہ ڈال رکھا ہے ۴۸ مولویوں کو صداقت مسیح موعودؑ سمجھنے کے لئے دیے جانے والے پانچ قرائن ۴۹ یہ ان یہودیوں سے مشابہ ہیں جنہوں نے عیسیٰؑ کی مخبری کی ۶۸ مولوی منہ سے اقرا رنہ کریں مگر دل اقرار کر گئے ہیں ۲۹۰ اگر کوئی مولوی معارف قرآنی میں مقابلہ کرنا چاہے تو نہایت ذلیل ہو گا ۲۹۳ ان مولویوں نے علم تو پڑھا مگر عقل اب تک نزدیک نہیں آئی ۲۹۵ آنحضرت ؐ نے ان لوگوں کا نام یہودی رکھا ۳۲۹ خبیث طبع مولوی یہودیت کا خمیر اپنے اندر رکھتے ہیں ۳۰۵ یہودیوں کیلئے کتابوں سے لدئے ہوئے گدھے کی مثال ہے مگر یہ خالی گدھے ہیں ۳۳۱ مسلمان صورت مولوی جو دراصل یہودی سیرت ہیں ۳۳۹ آتھم کی پیشگوئی سے یہودی سیرت مولوی سخت ذلیل ہو گئے۴ ۲ح مولوی اس اندھے سے مشابہت رکھتے ہیں جو آفتاب کے وجود سے منکر ہو گیا ۳۰۶ ایک شریر کا مشہور کرناکہ ایسا وردبتا سکتا ہوں کہ پہلی رات خدا نظر آ جائے گا بشرطیکہ پڑھنے والا حرام کی اولاد نہ ہو ۲۸۹ح افسوس یہ مولوی کہلانے کا شوق رکھتے ہیں مگر تقویٰ و دیانت سے دور ہیں ۳۰۷ مولوی نہیں چاہتے کہ کوئی پیشگوئی آنحضورؐکی پوری ہو ۳۲۹ حضورؑ کے دعویٰ پر آسمان نے گواہی دی مگر ظالم مولوی منکر ہیں ۳۳۰ اے اسلام کے عار مولویو! ذرا آنکھیں کھولو ۳۳۲ مولویوں نے نشانوں کی تکذیب پر کمر باندھی ہے ۳۳۶ مہدی موعود مہدی موعود کا نشان خسوف کسوف ٹھہرائے جانے میں حکمت ۲۹۵ موعود مہدی کے نام میں اشارہ ہے کہ لوگ اس کو مہدی یعنی ہدایت یافتہ نہیں سمجھیں گے ۲۹۶ مہدی کو حدیث میںآل محمد ؐٹھہرا یا جس طرح عیسائیوں کو آل عیسیٰ ٹھہرایا گیا ۲۹۶ مہدی اور مسیح موعود کا زمانہ چودھویں صدی ہے ۳۲۲ مہدی کے اصحاب کا شمار اہل بدر کے شمار کے برابر ہوگا ۳۲۵ مہدی کے پاس ایک کتاب ہو گی جس میں اس کے ۳۱۳ صحابہ کا نام درج ہوگا ۳۲۴،۳۲۹ مہدی اس گاؤں سے نکلے گا جس کا نام کدعہ ہے ۳۲۵،۳۲۹ ن نبوت آنحضرت خاتم النبیین ؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا نہ کوئی پرانا نہ کوئی نیا.آپؐ کے دامن فیض سے جدا ہو کر براہ راست نبی کہلانے والا ملحد و بے دین ہے ۲۷ح یہ افتراء ہے کہ مسیح موعودؑ خود دعویٰ نبوت کرتے ہیں یا سید المرسلین ؐ کو خاتم الانبیاء نہیں سمجھتے ۴۵ ایسا شخص جو قرآن شریف پر ایمان رکھتا ہے کہہ سکتا ہے کہ میں آنحضرت ؐ کے بعد رسول اور نبی ہوں ۲۷ مسیح موعود کوآنحضرت ؐ کا نبی اللہ فرمانا مجازی معنوں کی رو سے ہے جس سے مراد مکالمات الٰہیہ ہے ۲۸ح
مریم کا بیٹا خدا نہیں انسان اور نبی تھا ۳۳ آنحضرتؐ کے اصحاب نے چشم ۂ نبوت سے علم حاصل کیا ۱۳۰ عربی خا تم السن العالمین ہے جیسے رسولؐ خاتم النبیین ۲۵۸ح انبیاء کو توحید کے خیموں کیلئے بطور طنابوں کے بنایا ۷۳ آنحضرتؐ، موسیٰ اور عیسیٰ ؑ کے مخالفین کی بے ادبیوں اور شوخیوں کا ذکر ۳۰۷ح یسوع کاآنے والے نبی سے انکار کرنا اور کہنا کہ سب جھوٹے آئیں گے ۲۹۳ح نجات بجز توحید کے نجات نہیں ۳۴ دنیا کی نجات کی نسبت عیسائی تعلیم ۳۳ سب لوگ مدارج نجات میں برابر نہیں ۱۱۹ح عیسائیوں کا طریق نجات عدل و احسان اور رفق پر مبنی نہیں ۱۲۱ح نزول مسیح آنحضرت ؐ کی پیشگوئی میں مسیح کے لئے لفظ رجوع نہیں بلکہ نزول آیا ہے ۱۱۱،۱۵۱ اہل معرفت کے نزدیک رجوع اور نزول میں بہت فرق ہے ۱۱۲ حدیث میں آسمان سے نزول کا لفظ نہیں آیا ۱۲۹ مسیح کا منارۂ دمشق کے پاس ظاہرًانزول بوجہ وفات پا جانے غیر ممکن ہے ۱۳۱ آثار کے تواتر کی رو سے نزول بھی حق ہے ۱۵۰،۱۵۸ بروزی نزول صحف سابقہ سے ثابت ہے شخصی ثابت نہیں ۱۲۸،۱۴۸ حضرت عیسیٰ ؑ نے ایلیا کے نزول کی تاویل کی ۱۲۸،۱۴۹ عیسیٰ کا اس وقت نزول ایلیا کے گزشتہ زمانہ میں نزول کی طرح ہے ۱۲۹ نزول صعود کی فرع ہے جب مسیح کا صعود الی السماء ثابت نہیں تو نزول کیسے ہو سکتا ہے ۱۶۸،۱۶۹ مسیح وفات پا کر آسمان پر اٹھایا گیا لہٰذا اس کا نزول بروزی ہے نہ کہ حقیقی ۳۲۱ نشا ن ؍نشانات نشانات کا تذکرہ کرنے کی غرض ۱۸۵ خدا مامور کو پناہ میں لانے کیلئے خارق عادت امر ظاہر کرتا ہے جو آیت یعنی نشان ہے ۳۳۴ ایک صاحب کے سوال کہمسیح موعودؑ کے دعویٰ کی تائید میں خدا کی طرف سے کونسے نشان ظاہر ہوئے کا تفصیلی جواب اور نشانات کا ذکر ۲۸۵ مسیح موعود کے ساتھ خدا کے چھ طور کے نشان ہونا اور ان کی تفصیل ۳۰۴تا۳۱۱ آتھم کی موت میں بہت سے نشانات ہیں ۲۰۶ نشان سچے مدعی کے دعویٰ کی تصدیق کیلئے ہوتے ہیں ۳۳۴ ہر ایک نشان میں ایک سِرّ ہوا کرتا ہے ۳۳۵ خدا کے نشان بارش کی طرح برس رہے ہیں ۳۴۷ نیکی نیکیوں کی اقسام اور نیکوں کے مصائب کاان کے گناہوں کا کفارہ ہونا ۱۲۴حتا۱۲۶ح و.ہ.ی وعید وعید کی پیشگوئی کی معیاد کا تخلف جائز ہے ۲۹ وعید بظاہر شروط سے خالی ہو مگر ارادہ الٰہی میں شروط ہوتی ہیں ۱۰ وعید سے متعلق سنت اللہ یہی ہے کہ شرط نہ بھی ہو پھر بھی توبہ ورجوع سے ٹل جاتی ہے ۲۹۷ وعید کی معیاد تو بہ اور خوف سے ٹل سکتی ہے ۲۹ اللہ وعید کی شرط کو باطل نہیں کرتا ۲۲۲ وفات مسیح فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْکی تفسیر ۱۳۴،۱۳۵،۱۵۴،۱۵۶،۳۲۱
لفظ توفّی کے مختلف معنی ۱۳۰،۱۳۱،۱۳۴،۱۵۴،۱۵۵ لفظ توفّیکے موت کے سوا معنوں کی تائیدمیں صحابہ کا کوئی اثر یا کوئی حدیث نہیں ۱۳۳ توفّی میں جب فاعل اللہ، مفعول مردوں یا عورتوں میں سے کوئی ہو تو قبض روح یا مارنے کیلئے ہی آتا ہے ۱۵۳ لفظ تو فّی کو کسی کلام اور شعراء کے شعر میں سوائے بقا کے ساتھ موت کے نہیں پایا ۱۵۶ وفات مسیح پر کتب حضرت مسیح موعودؑ کے اسماء ۴۸ح مسیح موعودؑ کواللہ نے عیسیٰؑ کی وفات کی خبر دی ۸۰ خدا اور رسول کی وفات مسیح کے متعلق شہادت ۱۱۱،۱۳۰ امام مالک ، امام ابن حزم اور امام بخاری وفات مسیح کے قائل تھے ۴۸،۶۸،۱۳۲ وفات مسیح پر اجماع ۱۳۲ وفات مسیح قرآن وحدیث ، اہل زمانہ کی شہادت اور عقل سے بپایۂ ثبوت پہنچ گئی ۱۲۸،۱۳۵،۱۴۸،۱۵۸،۳۱۹،۳۲۱ آنحضرت ؐ نے معراج کی رات عیسیٰ ؑ کو فوت شدہ انبیاء میں دیکھا ۱۳۳ حدیث میں آنحضرتؐ کی عمر مسیح کی عمر سے نصف بتایا جانا ۱۴۸ ولایت خدا نے اولیاء کو توحید کے خیموں کیلئے بطور میخوں کے بنایا ۷۳ اولیاء ہر قسم کی کجی سے بچائے جاتے ہیں ۸۶ انجام کار اولیاء اللہ مخالفوں پر غالب آتے ہیں ۲۶۵ ویل ویل کا لفظ بددعا کیلئے آتا ہے ۴۱ ویل کے لفظ کو استعمال کرنا عیسائیوں پر واجب ہے اور اس کے معنی سختی ، لعنت اور ہلاکت کے ہیں ۴۴ ہندو مذہب ۴۵ ہندواپنے دیوتا بیل کو نہیں کھاتے ۴۱ح وہ پسند کرتے ہیں کہ فحاشی ہمیشہ کیلئے قائم رہے ۱۲۳ح براہمنوں کا کہناکہ طبقات میں تفاوت پچھلے جنم کے اعمال کے باعث ہے ۱۰۵ وہ کہتے ہیں کہ مخلوقات کی اصل کا کوئی خالق نہیں ۱۰۸ انہوں نے اپنے خیالات میں تنا قضات کو جمع کر لیاہے ۱۲۲ جزا سزا کا طریق ہندوؤں نے تناسخ اور عیسائیوں نے کفارہ بیان کیا ہے جو غیر معقول ہے اور ان کا ردّ ۱۰۶تا۱۲۳ح ہندوؤں کا عقیدہ تناسخ یہ عقیدہ الٰہی نظام رحمانیت کے خلاف ہے ۱۰۶ح یہ خدائے قادرو خالق کو ضعیف و بیکار بنا ڈالتا ہے ۱۰۷ح قائلین تناسخ کو خدا کی طرح روح اور مادہ کو قدیم ماننا پڑتا ہے اس صورت میں وہ رب العالمین نہیں ہو سکتا ۱۰۸ح یہ امر خدا کی طرف سے ہوتا تو لوگوں کی قلت و کثرت حیوانات کی تعداد کے تغیر کے برابر ہوتی ۱۱۲ح ارواح کا آسمان سے نازل ہوناباطل اور بے دلیل ہے ۱۱۳ح اگر اجرام فلکی میں لوگ آباد ہیں تو ارواح کو زمین پر بھیجنے کے کوئی معنے نہیں ۱۱۴ح تناسخ ماننے سے نکاح سے بھی اجتناب کرنا چاہئے ۱۲۲ح کوئی ثبو ت نہیں کہ دنیا میں آنے والی روح دوبارہ آئی ہے ۱۵۵ براہمن تفاوت مراتب مخلوقات کے تناظر میں تناسخ پر ایمان رکھتے ہیں ۱۰۵ح یا جوج ماجوج مسیح یاجو ج ماجوج سے جنگ نہیں کرے گا ۱۳۸ یاجوج و ماجوج اور ان کی افواج ظاہر کر دی گئیں ۱۴۲ یوم الدین اس عالم کے بعد ایک اور عالم ہے جسے یوم الدین کا نام دیا گیا ہے ۱۲۴ح یونی ٹیرین عیسائی موحدین کا فرقہ جو یسوع کو انسان اور رسول جانتا ہے ۳۹ح
اس فرقے کے لاکھوں انسان یورپ اور امریکہ میں موجود ہیں ۴۲ مشرک و موحد فرقہ کے درمیان مباحثہ ۳۹،۳۲۲ یہودیت ۴۰،۴۱،۴۵ یہود گواہی دیتے ہیں کہ تثلیث کی تعلیم ہمیں نہیں ملی ۵ اگر یہود کو خبر دی جاتی کہ خدا عورت کے پیٹ سے پیدا ہونے والا ہے تو انکار نہ کرتے ۶ ان میں ایسا فرقہ نہیں جو تثلیث کا قائل ہو ۴۲ یہود نے ایلیا کی پیشگوئی کی تاویل پر مسیح کی تکفیر کی ۱۲۸ یہودیوں پر واویلا یسوع کے کلام میں آیا ہے ۳۲ یسوع نے یہودی استادسے توریت پڑھی ۲۹۰ح یسوع کایہود کے علماء کوسانپ اور سانپ کے بچے کہنا ۴۱
آ.ا آدم علیہ السلام ۳۴،۵۷ح آتھم.دیکھئے عبداللہ آتھم آغاخان مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۲۸۲ح ابراہیم بیگ میرزا ۳۲۷ ابراہیم علیہ السلام حضرت ۱۳۲ ابراہیم صالح محمد حاجی اللہ رکھا سیٹھ ۳۲۶ ابراہیم منشی.لدھیانہ ۳۲۶ ابراہیم میاں.پنڈوری ۳۲۷ ابرہہ اس نے خانہ کعبہ پر حملہ کیا تھا ۲۵۵ ابن حزم امام ۴۸،۸۶،۱۳۲ ابن عباس رضی اللہ عنہ ۳۰ح ابو الحمید مولوی ۳۲۵ ابوالمویدامروہی مولوی مالک رسالہ مظہر الاسلام اجمیر مباہلہ کا مخاطب ۷۰ ابو بکر صدیق حضرت رضی اللہ عنہ ۱۱۱ ابو زید ۲۴۴ ابو سعید شاہ.مباہلہ کا مخاطب ۷۲ اتھاناسی اس الگزنڈرائن بشپ.تثلیث کا موجد ۳۹ح احتشام الدین مولوی.مرادآباد.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ احمد حاجی.بخارا ۳۲۶ احمد اللہ امرتسری مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۷۰،۳۰۱،۳۰۹ح،۳۱۸ح احمد اللہ خان حافظ حاجی مولوی ۳۲۲ احمد بیگ مرزا ہوشیار پوری ۲۸ح،۳۱ح،۳۲ح،۲۱۰، ۲۱۳،۲۱۴ح،۲۱۵،۲۱۸،۲۱۹،۲۲۱،۲۹۷،۲۹۸،۳۳۷،۳۳۹ احمد بیگ اور اس کے اہل خانہ کے حالات ۲۱۲ احمد بیگ کی موت کے بعد رشتہ داروں کی حالت ۲۲۰ مسیح موعودؑ کی پیشگوئی متعلقہ احمد بیگ براہین احمدیہ میں احمد بیگ اور اس کے داماد کے متعلق پیشگوئی ۳۳۸،۳۳۹ احمد بیگ کے دامادکا خسر کی موت سے ڈر کر توبہ ورجوع کا اقرار بطور ثبوت ان کے خطوط کا ذکر ۲۹ح،۳۰ح نفس پیشگوئی داماد احمدبیگ تقدیرمبرم ہے اس کی تفصیل اور پیشگوئی کے عربی الفاظ ۳۱ح،۳۲ح پیشگوئی کا اپنے دو پہلوؤں میں سے ایک پر پورا ہونا ۱۷ احمد بیگ کی پیشگوئی مشروط بہ شرط تھی اور اس کی وفات سے ڈر کر اہل خانہ کا تضرع اور دعا ۳۳۷ داماد احمدبیگ میعاد مقررہ میں نہ مرنے پر اعتراض کا تفصیلی جواب ۲۱۰تا۲۲۵ دو بکریوں کے ذبح ہونے کی پیشگوئی احمد بیگ اور اس کے داماد کی طرف اشارہ ہے ۳۴۱ احمد جان لدھیانوی حاجی منشی ۳۱۴ح،۳۲۶ آپ حضرت مسیح موعودؑ کے اول درجہ کے معتقدین میں سے تھے ۳۴۵
احمد جان مدرس مولوی ۳۲۷ احمد حسن ابن محمد احسن امروہی ۳۲۶ احمد حسن ۳۱ح احمد حسن شوکت مولوی مالک اخبار شحنہ ہند.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ احمد حسن کنج پوری مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ احمد دین سادھوکے.مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۲۸۲ح احمد دین آف کھاریاں ۳۲۸ احمددین آف منارہ ۳۲۸ احمد دین مولوی حافظ ۳۲۷ احمد مولوی رامپور.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ احمد شاہ سید.مباہلہ کا مخاطب ۷۲ احمد عبدالرحمن حاجی اللہ رکھا سیٹھ ۳۲۶ آپ کی غیر معمولی مالی قربانیوں کا ذکر ۳۱۲ح احمد علی سہارنپوری مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۷۰،۲۵۱ احمد علی شاہ سید ۳۲۷ اسلام احمد مستری ۳۲۸ اسماعیل امرتسری میاں ۳۲۷ اسمٰعیل قاضی.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ اسماعیل میاںآف سرساوہ ۳۲۶ اشرف شاہ.مباہلہ کا مخاطب ۷۲ اصغر علی شاہ سید.مباہلہ کا مخاطب ۷۲ اصغر علی مولوی آف لاہور.مباہلہ کا مخاطب ۷۰،۲۳۸ افتخار احمد لدھیانوی صاحبزادہ ۳۲۵،۳۱۴ح اکبر بیگ میرزا ۳۲۷ التفات احمد شاہ.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ اللہ داد کلرک منشی ۳۲۸ اللہ دتا بلائی.مباہلہ کا مخاطب ۲۸۲ح اللہ دتاخان میاں ۳۲۷ اللہ دتا میاں آف جموں ۳۲۷ اللہ دتا میاں سیالکوٹی ۳۳۹ح،۳۴۲ اللہ دتا میاں آف گوجرانوالہ ۳۲۷ اللہ رکھا حاجی ۳۲۵ الہ بخش تونسوی شیخ ۲۵۲ الہ بخش منشی ۳۲۷ الہ بخش میاں.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ الہ بخش میاں آف امرتسر ۳۲۷ الہ دین شیخ حافظ ۳۲۸ الٰہی بخش ملتانی بابو ۲۱۵ح الیاس علیہ السلام ۱۴۹ امام الدین منشی ۳۲۷ امام الدین میاں.سیکھواں ۳۱۳ح، ۳۲۵ امانت خان منشی ۳۲۷ امداد علی شاہ میر.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ امیرحسین خلف پیر عبداللہ.مباہلہ کا مخاطب ۷۲ امیر حسین قاضی.بھیرہ ۳۲۶ امیر علی شاہ سارجنٹ.سید ۳۲۶
امیر علی شاہ مولوی آف اجمیر.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ امیر علی آف سہارنپور.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ امین بیگ میرزا ۳۲۵ اہتمام علی سید ۳۲۸ ایری اس بشپ تثلیث کا منکر ۳۹ح ایلیا ۱۲،۱۴۹،۱۵۹،۳۰۷ح عیسیٰ ؑ نے آپ کے نزول کی پیشگوئی کی تاویل کی ۱۲۸ ایوب بیگ میرزا ۳۲۵ ب.پ.ت.ٹ.ث بادل شاہ بدایونی مرزا.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ بخاری امام (دیکھئے محمد بن اسماعیل بخاری) بدرالدین شاہ.مباہلہ کا مخاطب ۷۲ برکت علی مرحوم ۳۲۸ برہان الدین جہلمی مولوی ۳۱۳ح،۳۲۶،۳۲۷ بشیر احمد مرزا(فرزند حضرت مسیح موعود ؑ ) ۲۹۹ بلعم بعور ۲۴ بوڑے خان ڈاکٹر ۳۱۳ح،۳۲۷ بھولے خاں عیسائی آتھم کی موت کے غم سے مر گیا ۳ح پولوس (سینٹ پال ) اس شخص نے عیسائی مذہب میں بہت فساد ڈالا ۳۲۱ پیر بخش منشی.جالندھر ۳۲۶ پیر بخش میاں.لدھیانہ ۳۲۶ پیر صاحب العَلَم سندھ والے آپ کو کشفاً بتایا گیا کہ یہ مسیح موعود صادق ہے ۳۴۴ تاج الدین بابو ۳۲۶ تاج محمد خاں منشی ۳۲۶ توکل شاہ.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ ٹھاکر داس پادری ۳۶،۴۰،۴۴ ثناء اللہ امرتسری مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۷۰،۳۰۱،۳۰۴ح،۳۰۷ح،۳۰۹ح،۳۱۶ح،۳۱۸ح ج.چ.ح.خ جابر جعفی (یکے از راویان حدیث گرہن) ۳۳۳،۳۳۴ جان محمد میاں ۳۲۶ جلال الدین بخاری شاہ.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ جلال الدین منشی ۳۱۳ح،۳۲۵ جمال الدین خواجہبی اے.لاہور ۳۲۷ جمال الدین مولوی.سیدوالہ ۳۲۶ جمال الدین میاں.سیکھواں ۳۱۳ح،۳۲۵ جیون علی سید ۳۲۸ چراغ الدین قاضی ۳۲۷ چراغ علی نمبردار شیخ ۳۲۶ حامد شاہ سید ۳۲۵ حبیب الرحمن منشی ۳۲۸ حبیب اللہ مرحوم مولوی ۳۲۸
حبیب شاہ مولوی ۳۲۶ حرمت علی کراروی شیخ ۳۲۸ حسام الدین میاں عیسائی ایڈیٹر رسالہ کشف الحقائق ۴،۱۱،۱۶،۱۷،۲۲،۳۳،۴۰،۴۳،۴۴ حسن علی مولوی ۳۲۶ حسین شاہ مودودی سید.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ حسین عرب یمانی شیخ.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ حسینی خاں ۳۲۸ حشمت مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۲۸۲ح حفیظ الدین مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ حمیدالدین منشی ۳۲۶ حیدر شاہ.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ خادم حسین میاں ۳۲۸ خان ملک مولوی ۳۲۷ خدا بخش پیر جی.ڈیرہ دون ۳۲۶ خدا بخش شیخ.الہ آباد ۳۲۸ خدا بخش مرزا ۳۱۵ح،۳۲۵ جماعت الہٰ آباد کو آپ کے قیام سے بہت مدد ملی ۳۴۰ح خدا بخش میاں.بٹالہ ۳۲۸ خصیلت علی شاہ سید ۳۲۷ خواجہ علی قاضی ۳۲۶ خیرالدین میاں ۳۱۳ح،۳۲۵ د.ڈ.ر.ز داؤدعلیہ السلام ۱۲،۳۷ دلدار علی سید.بلہور کانپور ۳۲۸ دلدار علی مولوی.الور.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ دلیپ سنگھ (فرزند رنجیت سنگھ) ۲۹۷ دوست محمد مولوی ۳۲۸ دیانند پنڈت بانی آریہ سماج ۲۹۷ ڈریپر اس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث کا بانی اتھاناسی اسالیگزنڈرآئن تھا ۳۹ح رجب دین تاجر خلیفہ ۳۲۶ رجب علی پنشنر ۳۲۸ رحمن شاہ ۳۲۶ رحمت اللہ تاجر شیخ ۳۲۶ آپ کی غیر معمولی مالی اعانت کا ذکر ۳۱۲ح،۳۱۳ح رحمت اللہ مولوی.میر پور جموں.مباہلہ کا مخاطب ۲۸۲ح رحیم اللہ مولوی ۳۲۶ رحیم بخش منشی میونسپل کمشنر لدھیانہ ۳۲۶ رحیم بخش میاں.امرتسر ۳۲۷ رستم علی منشی کورٹ انسپکٹر ۳۲۷،۳۱۳ح رسل بابا (دیکھئے غلام رسول رسل بابا) رشید احمد گنگوہی مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۶۹،۲۵۲ رشیدالدین ڈاکٹر خلیفہ ۳۱۳ح،۳۲۷ رضی الدین قاضی ۳۲۸ رمضان علی سید ۳۲۸
روڑا صاحب منشی ۳۱۳ح،۳۲۵ روشن دین منشی ۳۲۷ زین الدین محمد ابراہیم منشی ۳۱۵ح،۳۲۸،۳۴۲ زین العابدین قاضی ۳۲۶ س.ش سراج الحق صاحبزادہ پیر ۳۱۳ح،۳۴۴ سراج الدین قاضی.قاضی کوٹ ۳۲۷ سراج الدین منشی.ترمل کہیڑی ۳۲۶ سردار محمد مولوی ۳۲۸ سرفراز خان منشی ۳۲۸ سعداللہ خان ۳۲۸ سعداللہ نو مسلم (لدھیانوی).مباہلہ کا مخاطب ۵۹ح،۷۰ اس نے حضورؑ کو گالیوں سے بھری ہوئی ایک نظم بھیجی ۵۸ح الہام میں ہامان سے مراد سعداللہ ہے ۳۴۰ سعیدالدین رامپوری مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ سلام الدین شاہ مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۷۲ سلطان الدین جے پوری مولوی ۲۵۱ سطان محمد مرزا(داما د مرزا احمد بیگ) ۳۲ح،۳۳۷ اس کے معیاد مقررہ میں نہ مرنے پر اعتراض کا تفصیلی جواب ۲۱۰،۲۲۵ سلطان محمد میاں.گوجرانوالہ ۳۲۷ سطان محمود مولوی.میلا پور مدراس ۳۲۶ سلطان محمود مولوی قاضی.اعوان والہ.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ سلیمان تونسوی.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ سلیمان حافظ.مباہلہ کا مخاطب ۲۸۲ح سوامی شوگن چندر(جلسہ اعظم مذاہب کے مجوز) ۳۰۰ ح ح سیوطی امام(مصنف تفسیر در منثور) ۳۰ح شادی خاں میاں ۳۲۶ شاہ دین منشی ۳۲۷ شدّاد ۸۹ شرف الدین چوہدری ۳۲۷ شریف احمد مرزا(فرزند حضرت مسیح موعود ؑ ) ۲۹۹،۳۱۱ح شہاب الدین.تھہ غلام نبی ۳۲۸ شہاب الدین شیخ.لدھیانہ ۳۲۶ شہاب الدین غزنوی مولوی ۳۲۶ شہامت خاں میاں.نادون، کانگڑہ ۳۲۸ شیر محمد خاں ۳۲۶ شیر محمد شیخ افسر نہر.مباہلہ کا مخاطب ۲۸۲ح شیر محمدمولوی.ہوہن، شاہ پور ۳۲۷ ص،ض،ط،ظ صابر علی حافظ.مباہلہ کا مخاطب ۷۲ صاحب دین ۳۲۸ صادق حسین مختار منشی ۳۲۷ صادق علی شاہ.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ صالح محمد حاجی اللہ رکھا سیٹھ ۳۲۶،۳۴۴
صدرالدین مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۲۸۲ح صفدر حسین مولوی ۳۲۷ صفدر علی بھنڈارہ منشی ۳۳،۴۰ح،۴۴ صوفی جان مراد آبادی سید.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ ضیاء الدین قاضی ۳۲۵،۳۲۷ طامس ہاول ۴۰ح،۴۴ ظفر احمد منشی.کپورتھلہ ۳۲۵ ظہور الحسین.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ ظہور علی سید مولوی ۳۱۳ح ع.غ عابد حسین مولوی حاجی.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ عالم دین میاں ۳۲۸ عالم شاہ ۳۲۷ عباس خاں میاں ۳۲۷ عبدالاحد قاضی.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ عبدالجبار غزنوی مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۶۹،۳۱۹ح،۳۲۹،۳۴۳ عبدالحق دہلوی مولوی مؤلف تفسیر حقانی.مباہلہ کا مخاطب ۶۹،۲۵۱ عبدالحق غزنوی مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۶۴،۷۰،۳۰۵ح، ۳۰۹ح،۳۱۰ح،۳۱۱ح،۳۱۵ح،۳۱۹ح،۳۲۹،۳۳۳،۳۳۹،۳۴۳،۳۴۴ اس کے ہاں بیٹا ہونے کا دعویٰ باطل نکلا ۳۱۷ح رئیس الدّجّالین.کسوف وخسوف کی پیشگوئی کے پورا ہونے کا منکر ۳۳۰ اس کا وسوسہ پیش کرنا کہ گرہن کے بعد مہدی کا ظہورہو ۳۳۴ اس کا اپنے مباہلہ کا مزعومہ اثر ۳۴۲ عبدالحق منشی.کراچی ۳۲۶ عبدالحق مولوی ۳۲۸ عبدالحکیم خاں ڈاکٹر ۳۲۷ عبدالحکیم مولوی ۳۲۸ عبدالحمید حاجی ایوب سیٹھ ۳۲۶ عبدالحمید دہلوی مولوی مہتمم مطبع انصاری مباہلہ کا مخاطب ۶۹ عبدالحمید مولوی ۳۱۳ح عبدالمجید شہزادہ.لدھیانہ ۳۲۶ عبدالخالق میاں ۳۲۵ عبدالرحمن امیر کابل ۹۶،۹۷ عبدالرحمن پٹواری ۳۲۸ عبدالرحمن حاجی ۳۲۶ عبدالرحمن سیٹھ.مدراس ۳۲۵ عبدالرحمن کلرک منشی.لاہور ۳۲۷ عبدالرحمن منشی.کپورتھلہ ۳۲۵ عبدالرحمن مولوی.کھیوال،جہلم ۳۲۷ عبدالرحمن نو مسلم شیخ بھیرہ ۳۲۸ عبدالرحمن نو مسلم شیخ قادیان ۳۲۶ عبدالرحیم قاضی ۳۲۷ عبدالرحیم میاں ۲۱۴ح،۲۹۸
عبدالرحیم نو مسلم شیخ ۳۲۵ عبدالرزاق.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ عبدالشکور ڈاکٹر ۳۲۸ عبدالسبحان میاں ۳۲۸ عبدالصمد حکیم مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۲۸۲ح عبدالصمد میاںآف سنور ۳۲۷ عبدالصمد میاں نارووال ۳۲۷ عبدالعزیز پٹواری میاں ۳۲۵ باوجودقلت معاش کے ایک سو روپیہ مالی خدمت کرنا ۳۱۳ح عبدالعزیز عرف عزیزالدین ۳۲۸ عبدالعزیز لدھیانوی مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۶۹ عبدالعزیز مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ عبدالعزیز میاں آف دہلی ۳۲۶ عبدالعزیز میاں آف سیالکوٹ ۳۲۸ عبدالعزیز میاں.نو مسلم ۳۲۶ عبدالعلی میاں ۳۲۷ عبدالغفار مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ عبدالغنی مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ عبدالقادر پیارم پیٹی مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ عبدالقادر خان مولوی ۳۲۶ عبدالقادر مولوی.لدھیانہ ۳۲۶ عبدالقدوس گنگوہی شیخ.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ عبدالکریم سیالکوٹی مولوی ۳۲۵ حضور ؑ کامضمون پڑھنے میں وہ بلاغت دکھلائی کہ گویا روح القدس مدد کر رہا تھا ۳۱۶ح عبدالکریم مرحوم.چمارو ۳۲۸ عبدالکریم مستری ۳۲۸ عبداللطیف شاہ خلف حاجی نجم الدین شاہ.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ عبداللطیف مرحوم خلیفہ ۳۴۴ عبداللہ آتھم مسٹر ۱۸،۴۳،۶۱،۶۲،۱۸۹،۱۹۳،۱۹۴،۱۹۵،۱۹۶،۲۰۳،۲۰۵، ۲۹۷،۳۰۵ح،۳۰۶ح،۳۰۸ح،۳۱۲ح،۳۴۲ آتھم خدااور خلقت کے نزدیک ملزم ہے ۱۷ آتھم کے کلام میں اختلاف وتناقض ۲۰ دوستوں کوآتھم کی موت کا غم ہوا.بھولے خاں کا غم سے مرنا ۳ح اشتہارات میں آتھم سے متعلقہ امور کا ذکر ۲۰۴ آتھم ثابت نہ کر سکا کہ انجیلی تعلیم توریت میں موجود ہے ۵ آتھم کو فرشتے نظر آنا اور اس کا کہنا کہ’’ میں خونی فرشتوں سے ڈرتا ہوں‘‘ ۱۸،۱۹ اس کے داماد حکومت کے بڑے عہدوں پرفائز تھے ۲۹ آتھم کی فرعون اور بلعم سے مثال ۲۴ ھویٰ دجال ببٌّ فی عذاب الھاویۃ المھلکۃ سے موت آتھم کی تاریخ بحروف ابجد ۱۸۹۶ء ہے ۲۰۴ مسیح موعودؑ کی پیشگوئی دربارہ آتھم آتھم کے قصہ کے متعلق آنحضرتؐ کی پیشگوئی ۲۸۷،۲۸۸ اس عظیم الشان پیشگوئی کی پندرہ سال پہلے خبر دی گئی ۲۹۲ح آتھم کی موت پر دلالت کرنے والی پیشگوئیاں ۱،۲ اس مبارک پیشگوئی میں خدا نے اپنی صفات جمالی اور جلالی دونوں دکھلا دیں ۲۴ح آتھم کی پیشگوئی پرایک نامہ نگار کی نکتہ چینی ۲۵ح پیشگوئی اپنے دونوں پہلوؤں کی رو سے پوری ہو گئی ۲۹ پیشگوئی کے بارہ میں متشکک عیسائی کودعوت مباہلہ ۳۳ آتھم کا قائم مقام قسم کھانے والاعیسائی ایک سال تک بچ گیا تو حضورؑ کی پیشگوئی غلط نکلی ۱۵
آتھم کی پیشگوئی دو پیشگوئیاں ہیں جو وقت پر ظہور میں آئیں ۳۰۵ح آتھم نے پیشگوئی کی سچائی کو چھپانے کے لئے مکروہ افتراؤں سے کام لیا ۱۴ آتھم کا اقوال و افعال اور مفتریانہ دعاوی سے ثابت کرنا کہ پیشگوئی کی عظمت نے اس کے دل پر اثر کیا ۷ آتھم نے الہامی پیشگوئی کی وجہ سے بہت ہم وغم کیا ۲۳ح آتھم کا پیشگوئی کی عظمت سے شدید خوف کا اظہارکرنا ۱۰،۱۴،۱۹ ۱۸۸،۲۸۷ آتھم کا اقرار کہ میں اثناء ایام پیشگوئی میں خونی فرشتوں سے ڈرتا تھا ۱۷ح،۱۹ آتھم کا پیشگوئی کے خوف سے رونا ۱۰،۱۷ح پیشگوئی سے ڈرنے کا بار ثبوت آتھم پر ہونے کی وجہ ۲۵ آتھم کے رجوع اور آخر میں اس کی ذلت اور ہلاکت کے متعلق الہامات ۲۲ح،۲۳ح آتھم کے رجوع کا ثبوت ۷،۱۱،۲۴،۲۵،۱۸۸ اس کی موت کی پیش خبری عدم رجوع سے مشروط تھی ۱۸۷ پیشگوئی میں رجوع الی الحق کی شرط تھی جس سے آتھم نے فائدہ اٹھایا ۲۸۷ پیشگوئی میں شرط تھی کہ ا گر ان کے رجوع الی الحق ثابت نہ ہو گا تو میعاد کے اندر فوت ہو ں گے ۱۳ بوجہ ادائے شرط موت کا ٹلنا ۱۴ آتھم نے حق چھپایا اور قسم نہیں کھائی ۱۷۷،۱۹۴،۲۸۷ اس نے نالش اورقسم سے پہلو تہی کرکے جتلایا کہ رجوع بحق کیا مگر اعلانیہ طور پر ظاہر نہ کیا ۲ آتھم نے رجوع الی الحق سے سات دفعہ انکار کیا ۳ پیشگوئی کی مدت گزرنے پر جن خیالات کا اظہار کیا ۱۸۹تا۱۹۲ آتھم بمطابق پیشگوئی ۲۷ جولائی ۱۸۹۶ء کو بروز دوشنبہ فوت ہوگیا ۱۴،۱۵،۲۸ح،۲۸۹،۲۹۲،۳۰۹ح،۳۲۹ چار دن تک عذاب اٹھا کر دائمی عذاب میں جا پڑا ۳۲،۴۳ آخری اشتہار کے آنے کے سات ماہ کے اندر مرا ۱۸۷ اس اعتراض کا جواب کہ آتھم میعاد پیشگوئی میں نہیں مرا اور اس کے خوف اور رجوع کا کوئی ثبوت نہیں ۱۸۶ آتھم کے مسیح موعودؑ پر چارحملوں کے الزامات اور ان کا جواب ۸،۹،۱۴،۱۶،۱۷،۱۹،۳۰ عبداللہ پٹواری سنوری میاں ۳۱۳ح،۳۲۵ عبداللہ ٹونکی مولوی ۷۹،۲۵۱ عبداللہ خان میاں ۳۲۶ عبداللہ دیوا ن چندشیخ ۳۲۷ عبداللہ عرب شیخ ۳۴۴ عبداللہ غزنوی مولوی ۲۱۴ح،۲۹۸ آپ کاکشف کہ ایک نور آسمان سے نازل ہوا اورقادیان میں اترا مگر آپ کی اولاد اس سے محروم رہے گی ۳۴۳ زندگی میں مسیح موعودؑ کودو خط لکھنااور وفات کے بعد آپؑ پراپنا مصدق ہونا ظاہر کرنا ۳۴۳ عبداللہ قاضی.کوٹ قاضی ۳۲۸ عبداللہ قرآنی.لاہور ۳۲۸ عبداللہ مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۲۸۲ح عبداللہ مولوی تلونڈی والا.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ عبداللہ مولوی شیخ.مباہلہ کا مخاطب ۲۸۲ح عبداللہ میاں.ٹھٹھہ شیر کا ۳۲۶ عبدالمجید منشی ۳۲۸ عبدالمغنی ۳۲۷ عبدالمنان حافظ.وزیر آباد.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ عبدالواحد غزنوی مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۷۰،۲۱۴ح،۲۹۸ عبدالوہاب بغدادی ۳۲۸
عبدالوہاب مولوی کانپور.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ عبدالوہاب مولوی لکھنؤفرنگی محل.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ عبدالہادی سید ۳۲۷ عبیداللہ قاضی.مباہلہ کا مخاطب ۲۸۲ح عثمان عرب.طائف ۳۲۸ عزیزالدین منشی ۳۲۷ عصمت اللہ حاجی ۳۲۶ عطاء الٰہی ۳۲۷ عطاء محمد منشی چنیوٹ ۳۲۸ عطاء محمد منشی سیالکوٹ ۳۲۷ عطاء محمد میاں ۳۲۸ عظیم بیگ میرزا ۳۲۷ علم الدین میاں ۳۲۷ علیحضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ فاتح خیبرتھے ۳۳۹ علی حسین.کچھوچھا فقیر آباد سجادہ نشین.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ علی حمزہ بن علی ملک الطوسی شیخ ۳۲۴ علی محمد میاں ۳۲۷ عمادالدین پادری ۳۳،۳۸،۳۶،۴۰ح،۴۴ عمرو بن ثمر (یکے از راویان حدیث گرہن) ۳۳۳،۳۳۴ عنایت اللہ مدرس مولوی ۳۲۷ عیسٰی علیہ السلام (مسیح ابن مریم، یسوع) ۴،۵،۶،۱۲،۳۴، ۳۵،۳۷،۴۱،۴۴،۵۰،۶۸،۸۰،۸۳،۸۶، ۹۳،۱۳۴،۱۵۰،۱۵۶، ۱۵۹، ۱۷۴، ۲۸۵، ۲۸۸،۳۲۱،۳۲۲، ۳۳۸،۳۴۵ آپ کی پیدائش ناجائز نہیں ۵۷ح آپ اور آپ کی ماں شیطان کے مس سے پاک تھے ۵۷ یہودیوں کا آپ سے استہزاء کرنا اور ملحد نام رکھنا ۳۰۷ح آپ کا دوبارہ آنابطور بروزہے نہ بطور حقیقت ۴۸ح،۳۲۱ عیسیٰؑ نے ایلیا کے نزول کی پیشگوئی کی تاویل کی ۱۲۸ آنحضرت ؐ کا آپؑ کومعراج کی رات فوت شدہ انبیاء میں دیکھنا ۱۳۳ الوہیت مسیح آپ خدا نہیں بلکہ ایک انسان اور نبی تھے ۳۳ عقلی دلائل سے الوہیت مسیح کی تردید ۴۱ رجوع مسیح آنحضور ؐ کی پیشگوئی میں مسیح کے لئے لفظ رجوع استعمال نہیں ہوا ۱۱۱،۱۵۱ اہل معرفت کے نزدیک رجوع اور نزول میں بہت فرق ہے ۱۱۲ رفع مسیح احادیث مسیح کے رفع آسمانی پر خاموش ہیں ۱۶۸ح خدا نے مسیح کا اعلیٰ مقام کی طرف رفع فرمایا ۱۷۱ح نزول مسیح(دیکھئے مضامین میں نزول مسیح) وفات مسیح(دیکھئے مضامین میں وفات مسیح) یسوع مسیح حضرت مسیح موعودؑ کی رائے اس انجیلی یسوع کی نسبت ہے جس نے خدائی کا دعویٰ کیا.نبیوں کو چور اور جھوٹے کہا اور جس کا قرآن میں کہیں ذکر نہیں ۱۲،۱۳،۲۰۳،۲۹۳ح انجیلی یسوع کی پیشگوئیوں اور دوسرے امور کا ذکر اور اس ذکر کی وجہ ۱۲،۳۲،۲۸۸ح تا ۲۹۳ح یسوع کا شیطان کے پیچھے جانا اور اسے تین مرتبہ شیطانی الہام کا ہونا ۲۹۰ح
یسوع کے زمانے میں ایک تالاب تھا جس سے نشان ظاہر ہوتے تھے ۲۹۱ح یسوع کی نسبت عیسائی تعلیم ۳۳ اس کا اقرارکہ ’’میں نیک نہیں‘‘ ۳۸ جھوٹوں پر یسوع کی بدعائیں ۴۱،۴۴ عین القضاۃ صاحب مولوی.لکھنؤ فرنگی محل مباہلہ کا مخاطب ۷۰ غلام احمد قادیانی علیہ السلام حضرت مرزا ۳۳،۴۴،۶۶،۷۲، ۱۷۲،۳۰۱ح،۳۱۶ح، ۳۱۸ح،۳۲۳،۳۳۴ آپ کے تین نام(آدم، مریم، احمد) اور ان سے مراد ۳۳۸ آئندہ کے لئے مباحثاث سے اعراض کا اعلان ۲۸۲ آپ کو بے عزتی سے دیکھنا خدا کو بے عزتی سے دیکھنا اور آپ کو قبول کرنا خدا کو قبول کرنا ہے ۳۲۰ آج کے دن میری کشتی کے سوا کوئی کشتی نہیں ۱۱۴ آپ کسی خونی مسیح اور خونی مہدی کے آنے کے قائل نہیں ۶۸ آپ پر صوم و صلوٰۃ وغیرہ ارکان اسلام نظر استخفاف سے دیکھنے کا افترا ۴۵ آپ کی سچائی کے سمجھنے کے لئے پانچ قرائن ۴۹ جو میرے ہاں چالیس دن رہے گا وہ کچھ ضرور مشاہدہ کرے گا ۱۸۱ میرے ہاں ایک سال گزار و تا میں تمہیں خدا کے نشان دکھاؤں ۱۸۳ میرے نفس پر اس کی ذات کی محبت غالب ہوئی ۲۶۷ مسیح موعود ؑ کا دعویٰ وحی و الہام اور اس پر گزرنے والا عرصہ ۵۰ حضرت مسیح موعودؑ کوئی بدعت لے کر نہیں آئے ۱۱۵،۱۴۴،۱۶۰ مسیح موعودؑ کا فتن اور بدعات کے ظہور کے وقت بھیجا جانا ۱۶۳ مسیح موعودؑ کے نام غلام احمد قادیانی کے عدد (۱۳۰۰) میں زمانہ کا عدد مخفی ہونا ۱۷۲ مسیح موعود کا بڑانشان کسر صلیب ہے ۴۶ مسیح موعودؑ کو خدا کے علم ازلی میں پوشیدہ امور کی خبر دیا جانا ۷۶ مسیح موعود ؑ کے ظہور میں آنے والے امور غیبیہ ۲۹۷ مسیح موعودؑ کے خلاف مولوی نذیر حسین کا دجالانہ فتویٰ سراسر افتراء ہے ۳۹ مسیح موعودؑ کو ملائک سے انکاری کہنا افتراء ہے ۴۵ مسیح موعود کا وقت ظہور آپ کا صدی چہار دہم کے سر پر ظہور ۵۱،۷۵،۲۸۵،۳۲۲ آپ کے نام کے عدد میں آپ کے وقت ظہور کا عدد ۱۷۲ آپ کا آنا بروقت ہے ۸۶،۲۵۵،۲۸۵ فتنوں ، بدعات،سیّئات کے ظہور اور مسلمانوں کی کمزوری کے وقت آپ کا ظاہر ہونا ۷۸،۱۲۳ مسیح موعود کا عیسائیت کے موجزن فتنہ کے زمانہ میں پیدا ہونا ۴۶،۱۱۶،۱۱۷،۱۲۱ حضورؑ کی نسبت وقوع میں آنے والے دو عظیم فتنے ۳۴۱ آپ کے زمانہ کی علامات ۱۴۲ اغراض بعثت تجدید دین اور اصلاح امت ۷۵،۱۴۴،۳۲۱ اسلام کو زندہ مذہب ثابت کرنا ۳۴۵ صلیبی فتنہ کو روشن دلائل سے فرو کرنے پر مامور ہونا ۴۶،۵۱ صلح کاری سے حق کو پھیلانا ۶۸ لوگوں کو برے اخلاق اور منافقت سے روکنا اور مخلص توحید پرستوں کی راہ دکھانا ۱۴۳ آپ کے دعاوی آپ کے دعویٰ کی بنیاد دو باتوں پر ۱.نصوص قرآنیہ و حدیثیہ۲.الہامات الہیہ ۴۸،۶۵ مجددیت و امامت اور مکاملہ و مخاطبہ الٰہیہ سے مشرف ہونے کا دعویٰ ۴۶،۴۹،۷۵،۱۱۳،۱۲۲،۱۴۲،۱۷۲ بطور روحانی بروز عیسیٰ نام دیے جانے کا دعویٰ ۷۵،۱۴۲،۱۴۴
مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ ۳۲۱ آپ کا دعویٰ نبوت(نیز دیکھئے مضامین میں نبوت) آپؑ کا دعویٰ حقیقی نبوت کا نہیں ۲۷ح آپؑ کا نام نبی اللہ مجازی معنوں کے رو سے ہے ۲۸ح آپ کے بارہ میں پیشگوئیاں آنحضرتؐ کی آپ کی شادی اور اولاد ہونے کی پیشگوئی ۳۳۷ح عبداللہ غزنوی کی آپ کے متعلق پیشگوئی ۲۹۳،۳۴۳ آپ کے متعلق بٹالوی کی پیشگوئی جھوٹی نکلی ۳۴۰ح آپ کی پیشگوئیاں مسیح موعودؑ کی پیشگوئیاں خدا کے نبیوں کی پیشگوئیوں کے نمونہ پر ہیں ۳۳۷ آتھم کی موت پر دلالت کرنے والی پیشگوئیاں ۱،۲ لیکھرام پشاوری کی موت کی پیشگوئی ۲۸ح آپ کی عیسائیوں کے ایک فتنہ کے متعلق پیشگوئی ۲۸۶ آپ کے لبوں پر فصاحت و بلاغت جاری ہونے والی پیشگوئی ۲۹۰ علم قرآن کے دئیے جانے کی پیشگوئی ۲۹۱ جلسہ مذاہب میں مضمون غالب رہنے کی پیشگوئی ۲۹۹،۳۱۶ح بیٹوں کی قبل از پیدائش خبر دیا جانا ۲۹۹ عبد اللہ آتھم کی موت کی پیشگوئی (تفصیل دیکھئے اسماء میں عبد اللہ آتھم) احمد بیگ اور اس کے داماد کی موت کی پیشگوئی (تفصیل دیکھئے اسماء میں احمد بیگ) رجوع خلائق ہونے اور دنیا میں شہرت پانے کی پیشگوئی ۲۸۶ پنڈت دیانند کی موت ،دلیپ سنگھ کے ارادہ سیر ہندوستان میں ناکامی اور مہر علی ہوشیارپوری کی مصیبت کے بارے میں پیشگوئیاں ۲۹۷ ایک صاحب کے سوال کہ آپ کے دعویٰ کی تائید میں خدا کی طرف سے کونسے نشان ظاہر ہوئے کا تفصیلی جواب اور نشانات کا ذکر ۲۸۵ خدا کے چھ طور کے نشان آپ کے ساتھ ہونا اور ان کی تفصیل ۳۰۴تا۳۱۱ آپ کی تعلیم آپ کی تعلیم دربارہ قرآن کریم ۳۴۵ آپ کی تعلیم دربارہ اسلام ۳۴۶ آپ کی کتب (نیزدیکھئے کتابیات) آپ کا مدلل کتابیں اور نفع رساں رسالے تالیف کرنا ۸۱،۲۹۰ حضرت عیسیٰ ؑ کے فوت ہونے اوردوبارہ بطور بروز کے آنے کے متعلق آپ کی چند مطبوعہ کتب ۴۸ح آپ کی کتب کے نیک روحوں پر اثرات ۳۱۹ گورنمنٹ کی خیرخواہی کے لئے کتب کی اشاعت ۶۸ غصہ اور کراہت کی حالت میں کتاب پڑھنے سے منع فرمانا ۱۶۶ آپ کے اشتہارات (دیکھئے مضامین میں اشتہارات) مسیح موعود اور جہاد(نیز دیکھئے مضامین میں جہاد) مسیح موعود جنگ نہیں کرے گا بلکہ کلمات حکمیہ، دعاؤں اور آسمانی حربہ سے دشمنوں کو زیر کرے گا ۱۳۷،۱۳۸ مسیح موعود اور مخالفین مخالفین کو نصائح ۱۶۶،۱۶۸ مخالفین کے لئے خیرخواہی کا خواہاں ہونا ۱۵۹ بعض مخالف مولویوں کا آپ کے خلاف گورنمنٹ کو آپ کے بدخواہ اور باغی ہونے کی شکایت کرنا اور آپ کا جواب ۶۸ لفظ توفی کے معنوں کے ضمن میں مخالفین کے لئے دو لعنتیں ۱۵۵ آپ کی استجابت دعا قبولیت دعا کا الہام اور اس کے مطابق کثرت سے دعاؤں کا قبول ہونا ۱۸۱ مکذبین کو قبولیت دعا کے مقابلہ کا چیلنج ۳۰۳ح آپ پر نعماء الٰہیہ آپ کا منعم علیہم میں سے ہونا اور جسمانی و روحانی نعماء و احسانات الٰہیہ کا ذکر ۵۰،۷۵،۷۶،۱۸۱
آپ کی مبشر شادی اور اولاد مسیح موعودکی شادی اور مبشر اولاد ہونے کی آنحضرتؐ کی پیشگوئی ۳۳۷ح الہام کے مطابق آپ کے بیٹے شریف احمد کا پیدا ہونا ۳۱۱ح آپ کو بیٹوں کے بارہ میں اللہ کی طرف سے خوشخبری کے بعد خوشخبری دیا جانا ۱۸۲،۱۸۳،۲۹۹،۳۴۲ علمی اور روحانی مقابلہ کا چیلنج علماء کو معارف قرآنیہ بیان کرنے میں مقابلہ کا چیلنج ۱۸۳ علماء کوعربی زبان کی انشا پردازی میں مقابلہ کا چیلنج ۱۸۴،۱۷۸ زمانے کی اصلاح، عیسائی اور دوسرے بت پرستوں کے رد میں دلائل پر مشتمل کتاب لکھنے کا چیلنج ۱۸۴ مکذبین کو قبولیت دعا ، امورغیبیہ پر اطلاع پانے اور قرآن کے علوم حکمیہ کھولے جانے میں مقابلہ کا چیلنج ۳۰۳ح مخالفین کو دعوت مباہلہ(دیکھئے مضامین زیرعنوان مباہلہ) معارف قرآنیہ اور علم لدنی علم قرآن دیا جانے کی پیشگوئی اور علوم و معارف قرآنیہ اور حقائق کا دیا جانا ۴۹،۷۵،۷۷،۲۶۶،۳۱۱ح خدا نے علم قرآن اور علم زبان اعجاز کے طور پر بخشا ۳۱۲ علم کلام کے ماہر ین میں فصیح بنایا جانے اور نظم و نثر میں فوقیت رکھنے کا دعویٰ ۲۳۵ میرا علم خدائے رحمان کی طرف سے ہے ۲۶۶ مسیح موعود اور عربی زبان عربی زبان کا علم دیئے جانے کا دعویٰ ۱۵۶ عربی زبان میں کمال خدا کا واضح نشان ہے اور عربی کے چالیس ہزار مادہ سکھایا جانا ۲۳۴ آپ نے عربی میں کمال کا مقام حبّ رسول اور حبّ قرآن سے پایا ۲۶۶ عربی دانی کی عزت اس راقم کیلئے مسلم ہے ۳۱۰ علماء کوعربی زبان کی انشا پردازی میں مقابلہ کا چیلنج ۱۸۴،۱۷۸ مسیح موعودؑ کے عربی شعر و قصائد اَطِعْ رَبَّکَ الجَبَّار اَھْل الاَوامِرٖ ۱۳۶،۱۳۷ لمارأی النوکی خلاصۃ انصری ۱۵۷،۱۵۸ الا یا ایّھَا الحُرّالکریم ۱۶۶ احاط الناس من طغوی ظلام ۱۷۴ تذکر موت دجال رذال ۲۰۶تا۲۱۰ بوَحْشِ البر یُرجٰی الائتلاف ۲۲۹ تا ۲۳۱ الا ایھا الا بّار مثل العقارب ۲۳۷ الا لا تعبنی کالسّفیہ المشارز ۲۴۰ علمی من الرحمن ذی الٰالاء ۶ ۲۶تا ۲۸۲ آپ کا عربی مکتوب عربی مکتوب،اس کے مخاطب اور اس کے لکھنے کی غرض ۷۳ اسے عربی میں لکھنا اور فارسی میں ترجمہ کرنا القاء فی الروع کے نتیجے میں ہے ۷۴ آپ کا عشق رسول آنحضرت ؐ سے محبت و اخلاص کا ذکر اور اس محبت کے نتیجہ میں الہام و القاء سے تائید ہونا ۲۸۰،۲۸۱ آپ کے صحابہ بعض صحابہ کی مالی قربانیوں کا ذکر ۳۱۲ح مہدی کے پاس مطبوعہ کتاب میں اس کے ۳۱۳ صحابہ کے نام ہونے والی حدیث ۳۲۵ اکثر سجدہ میں روتے اور تہجد میں تضر ع کرتے ہیں وہ اسلام کا جگر اور دل ہیں ۳۱۵ح تمام اصحاب خصلت صدق و صفا رکھتے ہیں ۳۲۵ حضورؑ کے ۳۱۳صحابہ کی فہرست اسماء ۳۲۵تا۳۲۸ پہلے آئینہ کمالات اسلام میں۳۱۳ صحابہ کے نام درج ہیں ۳۲۵
صالح علماء جو حضرت مسیح موعود ؑ پر ایمان لائے ، ان کے اوصاف کریمہ اور ان کے حق میں الہام ۱۴۰،۱۴۱ آپ کے پیرو آپ کا حقیقی پیرو وہی ہے جو ہوا و ہوس اور تمام آرزوؤں کو چھوڑ دیتا ہے ۱۴۳ آتھم کی پیشگوئی کی وجہ سے پیروؤں کے منحرف ہونے کا الزام اور اس کا جواب ۱۱،۱۳ حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کرنے والوں میں صلاحیت اورتقویٰ کا ترقی پذیر ہونا ۳۱۵ح آپ کے مصدقین عبد اللہ غزنوی کا کشف اور بعد وفات ان کا حضرت مسیح موعودؑ کی تصدیق کرنا ۳۴۳ میاں غلام فرید صاحب اور پیر صاحب العلم کو رویا میں آنحضرتؐ کا بتانا کہ آپؑ صادق ہیں ۳۴۳،۳۴۴ صاحبزادہ پیر سراج الحق اور حاجی منشی احمد جان لدھیانوی کا مع اہل بیت بیعت میں داخل ہونا ۳۴۴،۳۴۵ آپ کے مکذبین ہر وہ شخص جو بخدا اور صوفی کہلاتا ہے مگر آپ کی طرف رجوع کرنے سے کراہت کرتا ہے مکذبین میں داخل ہے ۶۹ آپ اور فرض تبلیغ آپؑ کا زمین و آسمان کو گواہ ٹھہرا کر کہنا کہ میں نے حکم خدا پہنچا دیا ۱۴۵،۲۸۲ح،۳۴۷ تبلیغ کو کمال تک پہنچانے کے لئے اسلامی زبانوں میں اسے وسعت دینے کا القاء ۷۵ مسیح موعود ؑ اورسجادہ نشین سجادہ نشینوں کا حضورؑ کوکافر و کاذب ٹھہرا نا ۴۵ ان سجادہ نشینوں کے نام جنہیں دعوت مباہلہ دی گئی ۷۱،۷۲ آپ اور گورنمنٹ انگریزی حکومت برطانیہ کی تعریف ‘ شکر گزاری، دعاء اور آباء اجداد کی خدمات کا ذکر ۲۸۳،۲۸۴ مسلمانوں کو گورنمنٹ کی سچی خیرخواہی کی تجویز ۶۸.....................غلام امام مولوی ۳۲۶ غلام الٰہی مستری ۳۲۸ غلام جیلانی مولوی ۳۲۷ غلام حسن رجسٹرار مولوی ۳۲۶ غلام حسن مرحو م مولوی آف دینا نگر ۳۲۸ غلام حسین خاں شاہ.مباہلہ کا مخاطب ۷۲ غلا م حسین مولوی.لاہور ۳۲۶ غلام حسین میاں.رہتاس ۳۲۷ غلام دستگیر منشی ۳۲۶ غلام دستگیرمولوی.قصور.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ غلام رسول بابو ۳۲۸ غلام رسول رسل باباامرتسری مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۷۰،۲۳۶،۲۳۷،۲۵۲ غلام رسول مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۲۸۲ح غلام علی ڈپٹی مولوی ۳۲۵ غلام علی شاہ.مباہلہ کا مخاطب ۲۸۲ح غلام فریدچشتی میاں چاچڑاں والے.مباہلہ کا مخاطب ۷۱،۳۲۰،۳۲۲،۳۴۴ حضرت مسیح موعودؑ کو تحریر کردہ آپ کے خط کی نقل ۳۲۳ آپ نے مسیح موعودؑ کے مقام اورمرتبہ سے انکار نہیں کیا ۳۴۳ غلام محمد.مباہلہ کا مخاطب ۲۸۲ح غلام محمد ماسٹر ۳۲۸
غلام محمد میاں.طالب علم مچھرالہ ۳۲۷ غلام محی الدین حافظ ۳۲۸ غلام محی الدین خان( فرزند ڈاکٹر بوڑے خان ) ۳۲۷ غلام محی الدین صوفی وکیل انجمن حمایت اسلام.مباہلہ کا مخاطب ۷۲ غلام محی الدین میاں.سیالکوٹ ۳۲۸ غلام مرتضیٰ قاضی ۳۲۶ غلام نبی شیخ.راولپنڈی ۳۲۶ غلام نبی مولوی.خوشاب ۳۲۶ غلام نظام الدین بریلوی سجاد ہ نشین مباہلہ کا مخاطب ۷۱،۲۵۲ ف.ق فتح محمد منشی ۳۲۶ فتح مسیح پادری ۳۳،۴۰ح،۴۴،۳۰۸ح اس کا حضورؑ کو گندہ اوربدزبانی سے بھراخط لکھنا ۲۸۷ خط میں آنحضرتؐ کو گالیاں دینا ۲۹۲ اسے خطرناک پادریانہ منصب سے علیحدہ کر دیں ۲۹۳ اسے نوکری سے موقوف کر دینا سراسر احسان ہے ۲۹۴ فرزند حسین سید ۳۲۸ فرعون ۲۴،۴۰،۸۹،۹۴،۳۰۷ح،۳۴۰ ایمان کے وعدہ پر خد ااس سے عذاب کو ٹالتا رہا ۸ فضل احمد حافظ ۳۲۶ فضل الدین قاضی.قاضی کوٹ ۳۲۷ فضل الدین میاں.قاضی کوٹ ۳۲۷ فضل الرحمن مفتی ۳۲۸ فضل الٰہی حکیم.لاہور ۳۲۷ فضل الٰہی شیخ.فیض اللہ چک ۳۲۶ فضل حق مدرس مولوی ۳۲۸ فضل حسین شیخ مولوی ۳۲۷ فضل دین حافظ مولوی آف خوشاب ۳۲۸ فضل دین مولوی حافظ آف کھاریاں ۳۲۵ فضل دین بھیروی مولوی حاجی حافظ حکیم ۳۱۳ح،۳۲۵ فضل شاہ سید ۳۲۸ فضل کریم نیازی مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ فقیر اللہ مولوی مدرس مدرسہ نصرت الاسلام.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ فنڈل پادری.مصنف میزان الحق ۵ فیاض علی منشی ۳۲۵ فیض احمد مولوی آف ڈوگہ.مباہلہ کا مخاطب ۲۸۲ح فیض احمد مولوی آف لنگیاں والی ۳۲۶ قادر بخش ماسٹر ۳۲۷ قادر بخش مولوی شیخ ۳۲۸ قادر علی منشی ۳۲۶ قطب الدین خان مس گر ۳۲۵ قطب الدین مستری ۳۲۸ قطب الدین مولوی.بدوملہی ۳۲۵ قطب الدین میاں.کوٹلہ فقیر، جہلم ۳۲۷ قطب علی شاہ.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ قمرالدین منشی ۳۲۶
قیصر روم (نیزدیکھئے ہرقل اور کانسٹنٹائن فرسٹ) اس کا مشرک اور موحد عیسائی فرقوں کے درمیان مباحثہ کرانا.موحد فرقہ کو ڈگری دینا اور ان کا مذہب قبول کرنا ۳۹ح،۳۲۲ ک.گ کانسٹنٹائن فرسٹ اس نے موحد اور تین اقنوم کے قائل عیسائیوں کا باہم مباحثہ کرایا اور فرقہ موحدین کو ڈگری دی ۳۹ کرم داد میاں ۳۲۷ کرم دین مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۲۸۲ح کرم الٰہی شیخ ۳۲۷ کرم الٰہی کمپازیٹر ۳۲۸ کرم الٰہی میاں آف لاہور ۳۲۷ کرم الٰہی میاں آف لدھیانہ ۳۲۶ کریم الدین میاں ۳۲۶ کریم الدین میاں سارجنٹ پولیس ۳۲۸ کریم اللہ مولوی ۳۲۷ کریم بخش ۲۹۳ کریم بخش مرحوم میاں ۳۲۸ کشلّیا ۴۱ کلیم اللہ مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۲۸۲ح کمال الدین خواجہ ۳۱۵ح،۳۲۶ گلاب دین منشی ۳۲۵ گلاب شیخ.الہ آباد ۳۲۸ گل حسن شاہ مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ گوہر علی منشی ۳۲۵ ل.م لفافت حسین شاہ.سجادہ نشین لوادا.مباہلہ کا مخاطب ۷۲ لیکھرام پشاوری پنڈت ۲۸ح،۶۲ مارٹن کلارک ڈاکٹر ۲۹،۳۳،۳۶،۴۰ح،۴۴ مالک امام آپ وفات مسیح کے قائل تھے ۴۸،۸۶،۱۳۲ مبارک علی امام مولوی ۳۱۳ح،۳۲۵ حضرت محمد مصطفی خاتم النبیین ﷺ ۲۷ح،۲۸ح،۳۲ح،۳۸،۳۹ح،۴۴،۴۵،۴۶،۴۸،۴۹، ۵۹ح،۶۹،۱۱۱،۱۳۱،۱۳۲،۱۳۳،۱۳۴،۱۴۳،۱۵۰،۱۵۹،۱۶۸، ۲۲۸،۲۵۸ح، ۲۶۵،۲۶۶،۲۸۴،۲۹۲ح،۳۲۹،۳۳۴ آپ کا نام محمد رکھا جانے میں اشارہ ۲۹۶ لوگوں کا آپ کو وطن سے نکالنا ۳۰۷ عالم رؤیا میں آپؐ کی زیارت ۳۴۳،۳۴۴ آپ ؐکے اصحاب نے چشم ۂ نبوت سے علم حاصل کیا ۱۳۰ حضرت محمدؐ، آپ کی آل و اصحاب اور اللہ کے صالح بندوں پر درود و سلام ۷۳ آپ کا مقام آپؐ خیر الرسل اور خیرالوریٰ ہیں ۲۲۳ آپ خدا کے سچے پیغمبر ،رسول اور خاتم الانبیاء ہیں ۲۷ح،۳۳ آپ سے سچی محبت و تابعداری رکھنا انسان کو صاحبِ کرامات بنا دیتا ہے ۳۴۵ آپ کا بے مثال صبر آپ نے کفار کے ظلم پر لمبا عرصہ صبر کیا اور وہ صبر دکھایا جس کی نظیر کسی رسول سے نہیں ملتی ۱۳۹
آپ کے معجزات آپؐ کا بارش برسانے کا معجزہ ۲۸۵ آپؐ کے وقت میں معجزہ شق القمر کی حکمت ۲۹۵ آپ اور جہاد آنحضرت ؐ کے قتال پر عیسائیوں کے اعتراض کا جواب اور موسیٰ،یشوع اور داؤدؑ کے قتال کا ذکر ۳۶ بغیر اتمام حجت جنگ کرنا بری بات ہے آنحضرت ؐنے مصائب پر تیرہ سال صبر کیا ۱۳۸،۱۳۹ آپ کی پیشگوئیاں آخری زمانہ میں پوری ہونے والی پیشگوئیاں ۱۴۲ حضورؐ کی پیشگوئی کہ عیسائیوں اور اہل اسلام میں آخری زمانہ میں ایک جھگڑا ہو گا پوری ہو گئی ۲۸۸ مہدی کے پاس کتاب میں ۳۱۳ صحابہ کا نام درج ہو گا والی پیشگوئی آج پوری ہو گئی ۳۲۴ پیشگوئی میں لفظ کدعہ قادیان کے نام کو بتا رہا ہے ۳۲۹ آنحضرت ؐ کی مسیح موعودؑ کے شادی کرنے اور صاحب اولاد ہونے کی پیشگوئی ۳۳۷ پیشگوئی کسوف و خسوف کا پورا ہونا ۴۹،۱۴۲،۱۷۷،۲۹۳ مسیح موعود کاکسر صلیب اور قتل خنزیر پر مامور ہونا ۴۶،۴۷........................محمد آفندی سید ۳۲۸ محمد ابراہیم آرہ مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ محمد ابراہیم ویلوری مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ محمد احسن امروہوی مولوی ۳۱۳ح، ۳۲۶ محمد احسن مولوی سید ۳۲۵ محمد اسحاق اجر اوری مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ محمد اسحق میاں ۳۲۷ محمد اسمٰعیل دہلوی سید ۳۲۶ محمد اسمعٰیل غلام کبریا ۳۲۶ محمد اسماعیل خان گوڑیانی ڈاکٹر ۳۲۶ محمد اسمٰعیل نقشہ نویس ۳۲۸ محمد افضل کملہ مولوی ۳۲۷ محمدافضل منشی.لاہور حال ممباسہ ۳۲۶ محمد افضل میاں.راجوال کھاریاں.مباہلہ کا مخاطب ۲۸۲ح محمد اکبرمیاں ۳۲۶ محمد امیر خاں حاجی ۳۲۶ محمد امین چکوتری.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ محمد امین چکوڑی.مباہلہ کا مخاطب ۲۸۲ح محمد امین کتاب فروش ۳۲۸ محمدامین مولوی.بنگلور.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ محمد انوار حسین خان رئیس شاہ آباد ۳۱۳ح،۳۲۶ محمد باقر امام رحمۃ اللہ علیہ ۳۳۰ محمد بخش بابو ہیڈ کلرک.انبالہ ۳۲۶ محمد بخش حافظ.کوٹ قاضی ۳۲۷ محمدبشیر بھوپالی مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ محمد بن اسماعیل بخاری امام ۴۸،۱۳۲ محمدتفضل حسین مولوی سید ۳۲۷ محمد جان میاں ۳۲۶ محمد جو.امرتسر ۳۲۷ محمد حسن امروہی ۲۵۱،۲۵۲
محمدحسین رئیس لدھیانہ مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۶۹ محمد حسن مولوی مؤلف تفسیر امروہہ.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ محمد حسین بٹالوی شیخ ایڈیٹر رسالہ اشاعۃ السنہ.مباہلہ کا مخاطب ۴۵،۵۹،۶۸،۶۹،۱۹۸،۲۴۱،۲۹۸،۳۰۱،۳۰۳، ۳۰۹ح،۳۱۰ح،۳۱۸ح اس کی کج رو اور دروغ گو حالت کا ذکر ۲۴۱ تا۲۴۳ اسے عربی تحریر نویسی ، مباہلہ کا چیلنج او رنصائح ۶۹،۲۴۳تا ۲۵۰، ۳۱۸۳۰۴ح جلسہ مذاہب کے روز اس کا اقرار کہ مضمون اسلام کی فتح کا موجب ہوا ۳۱۳ح الہام میں فرعون سے مراد محمد حسین بٹالوی ہے ۳۴۰ اس کی مسیح موعود ؑ کو ذلیل کرنے کی شیطانی پیشگوئی ۴۳۰ح اس کا فتنہ تکفیر اور حضورؑ کو سترہ برس قبل اس کی خبر ملنا ۴۵،۳۴۱ باطل پرست اور اعدی الاعدا ہے ۵۹ح مسیح موعود کے خلاف گورنمنٹ انگریزی میں مخبری کرنا اور آپ کو گورنمنٹ کا بدخواہ قرار دینا ۶۸ بٹالوی کے اس اعتراض کا جواب کہ آتھم کے مسیح موعودؑ پر قتل کے حملوں کے جھوٹے الزام پر آپ نے اس پر مقدمہ کیوں نہ کیا ۲۰ح اس کے اعتراض کا جواب کہ الہام یردھا الیک خلاف محاورہ ہے ۶۰ح اس اعتراض کا جواب کہمسیح موعودؑ کی کتب اغلاط سے پُر ہیں ۲۴۱ بٹالوی کے پوچھنے پر مسیح موعودؑ کا اسے بکر و ثیب کاالہام سنانا ۲۹۸ محمد حسین حکیم ۳۲۸ محمد حسین آف گوجرانوالہ ۳۲۸ محمد حسین عطار میاں ۳۲۸ محمد حسین کوٹلہ والا مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ محمد حسین گدی نشین.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ محمدحسین مراد آبادی شیخ ۳۲۷ محمدحسین مولوی.کپورتھلہ ۳۲۶ محمد حیات ۳۲۷ محمد خان میاں ۳۲۵ محمد دین پٹواری میاں ۳۲۵ محمد دین حکیم.سیالکوٹ ۳۲۸ محمد دین منشی.سیالکوٹ ۳۲۸ محمد دین میاں.جموں ۳۲۸ محمد رحیم اللہ مولوی مدرس مدرسہ اکبر آباد.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ محمدرحیم الدین ۳۲۸ محمد رستم علی خاں نواب چشتی مولوی ابو الانوار.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ محمد رضوی مولوی سید ۳۲۸ محمد رمضان پشاوری مولوی حافظ.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ محمد سراج الحق جمالی نعمانی صاحبزادہ ۳۲۵ محمد سعید حافظ ۳۲۸ محمد سعید حکیم ۳۲۶ محمد سعید دہلوی ۳۴۲ محمد سعید شامی ۳۲۶ محمد شفیع مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ محمد شفیع میاں ۳۲۸ محمد صادق مفتی ۳۱۳ح،۳۲۶ محمد صدیق مخدوم مولوی ۳۲۷
محمد ضیاء الحق سید ۳۲۶ محمد عباس مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ محمد عبدالرحمن عرف شعبان شیخ ۳۲۶ محمد عبداللہ خان مولوی ۳۲۷ محمد عسکری خان سید ۳۲۵ محمد علی بوپڑی واعظ.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ محمد علی خاں سردار نواب ۳۲۵ محمدعلی منشی ۳۲۷ محمد عمر مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ محمد فاروق مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ محمد فضل چنگا مولوی.گوجر خان ۳۲۷ محمد قاری ۳۲۷ محمد قاسم.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ محمد کامل شاہ مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۷۲ محمد لدھیانوی مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۶۹ محمد معصوم شاہ.مباہلہ کا مخاطب ۷۲ محمد مکی شیخ ۳۲۶ محمد نواز خان تحصیلدار میاں ۳۲۶ محمد مولوی حافظ ۳۲۸ محمد میاں ۳۲۷ محمد یعقوب ۲۱۵ح،۳۴۳ محمد یوسف حافظ ضلعدار ۲۱۵ح،۳۴۳ محمد یعقوب خان حافظ مولوی ۳۲۶ محمدیوسف بیگ میرزا ۳۲۶ محمد یوسف حاجی اللہ رکھا سیٹھ ۳۲۶ محمد یوسف قاضی.قاضی کوٹ ۳۲۷ محمد یوسف مولوی.سنور ۳۲۷ محمود احمدبشیر الدین مرزا (خلیفۃ المسیح الثانیؓ) ۲۹۹ محمود حسن خان مولوی ۳۲۸ محمود شاہ سید سیالکوٹ ۳۲۶ محمود شاہ سید فتح پور گجرات ۳۲۷ محمود شاہ سجادہ نشین بہار.مباہلہ کا مخاطب ۷۲ محی الدین خلیفہ.مباہلہ کا مخاطب ۲۸۲ح مردان علی سید مولوی ۳۱۳ح مریم علیہا السلام ۳۳،۳۴،۴۱ مریمؑ بدکار عورت نہیں تھی ۵۷ح آپؑ کو یہودیوں کی بدظنیوں کا ابتلا پیش آیا ۳۳۸ مستان شاہ کابلی.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ مستعان شاہ مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ مسیح اللہ شاہجہان پوری شیخ ۳۲۶ مسیلمہ کذّاب ۲۸ح،۳۳۵ مظہر علی شاہ.مباہلہ کا مخاطب ۷۲ معراج الدین منشی ۳۲۶ معین الدین شاہ.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ مقصود علی شاہ.مباہلہ کا مخاطب ۷۲
منصب علی سید ڈاکٹر ۳۲۸ منظور محمد صاحبزادہ ۳۱۴ح، ۳۲۵ منور شاہ.مباہلہ کا مخاطب ۷۲ موسیٰ علیہ السلام ۵،۴۲،۹۴،۱۳۲،۱۷۲،۲۴۶، ۳۰۷ح،۳۴۵ آپ کا بے گناہ شیر خوار بچوں اور قوموں کو قتل کروانا اور کسی کی توبہ قبول نہ کرنا ۳۶،۳۷ یسوع نے آپ کا نام ڈاکو اور بٹمار رکھا ۲۹۳ح مولا بخش شیخ ڈنگہ گجرات ۳۲۶ مولا بخش شیخ سیالکوٹ ۳۲۷ مولا بخش کلرک منشی ۳۲۷ مہدی حسین سید ۳۲۷ مہدی عربی بغدادی حاجی ۳۲۶ مہر دین میاں ۳۲۷ مہر شاہ.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ مہر علی ہوشیارپوری ۲۹۷ میراں بخش منشی ۳۲۷ میر محمد قاضی ۳۲۷ ن ناصر شاہ اورسیئر سید ۳۱۳ح،۳۲۸ ناصر نواب دہلوی سید حضرت ۳۲۵ نانک باوا درحقیقت آپ مسلمان تھے ،کلمہ طیبہ آپ کا ورد تھا، دو مرتبہ حج کیا نیز اسلام ، توحید اور نماز روزہ کی تاکید کی ۳۱۴ح نبی بخش رفوگر.میاں ۳۲۵ نبی بخش شیخ ۳۲۶ نبی بخش منشی چوہدری ۳۱۳، ۳۲۶ نثار علی شاہ.مباہلہ کا مخاطب ۷۲ نجاشی شاہ حبشہ ۴۰ح نجدی شیخ ۱۹۸ نجف علی حاجی ۳۲۸ نجم الدین.شادیوال.مباہلہ کا مخاطب ۲۸۲ح نجم الدین شاہ حاجی.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ نجم الدین میاں.بھیرہ ۳۲۸ نذیر حسین دہلوی مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۶۹،۲۵۱ مسیح موعودؑ کے خلاف فتنہ تکفیر کا اصل ذمہ وار ۴۵ نذیر حسین مولوی ولد امیر علی.ابنیٹھ، سہارنپور.مباہلہ کا مخاطب ۷۰ نصیرالدین لونی منشی ۳۲۷ نظام الدین چشتی صابری مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۷۲ نظام الدین حاجی ملا ۳۲۷ نظام الدین میاں ۳۲۷ نمرود ۴۰ نواب خان ۳۲۶ نواب دین مدرس ۳۲۸ نوح علیہ السلام ۴۰ نور احمد حافظ.لدھیانہ ۳۲۷
نور احمد شیخ سجادہ نشین.مہارانوالہ.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ نور احمد شیخ.امرتسر ۳۲۶ نور احمد شیخ.جالندھر حال ممباسہ ۳۲۸ نورالدین مولوی حاجی حافظ حکیم ۲۶۴،۳۲۵ آپ کی غیر معمولی مالی اعانت کا ذکر ۳۱۳ح نوردین.مباہلہ کا مخاطب ۲۸۲ح نوردین خلیفہ جمونی ۳۲۷ نور محمد حافظ.فیض اللہ چک ۳۲۶ نور محمد مانگٹ مولوی ۳۲۷ نور محمدمولوی حکیم ۳۲۷ نور محمد میاں.غوث گڈھ ۳۲۸ نیازاحمد.بریلی.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ نیاز احمد مولوی.کھاریاں.مباہلہ کا مخاطب ۲۸۲ح نیاز بیگ میرزا ۳۲۵ نیاز علی سید ۳۲۸ و.ہ.ی واجد علی شاہ.مباہلہ کا مخاطب ۷۲ وارث علی شاہ حاجی.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ وایٹ بریخت پادری ۳۱،۳۲ وریام میاں حاجی ۳۲۸ وزیرالدین شاہ.مباہلہ کا مخاطب ۷۲ وزیرالدین مولوی.کانگڑہ ۳۲۵ ولی النبی شاہ مولوی.مباہلہ کا مخاطب ۷۱ ہامان ۳۴۰ ہرقل قیصرروم یہ موحد تھااور اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خط لکھا تھا۳۹ح یسعیاہ علیہ السلام آپ کی بادشاہ کے پندرہ دن میں مرنے کی پیشگوئی خدا نے بادشاہ کے تضرع سے پندرہ سال کے ساتھ بدل دی ۳۳۶ یسوع(دیکھئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام) یعقوب بیگ مرزا ۲۳۵،۳۱۵ح یعقوب علیہ السلام ۵۷ح یوسف علی نعمانی قاضی ۳۲۵ یوشع بن نون علیہ السلام ۳۶،۳۷ یونس علیہ السلام ۷ح،۱۸،۳۱ح،۲۱۸،۲۱۹،۲۲۷،۲۲۸، ۲۹۷،۳۳۷،۳۳۸ آپ کی نینوا کی تباہی کی پیشگوئی اور اس کا ٹل جانا ۳۰ح،۳۳۶ آپ پر وحی میں شرط نہ ہونے کے باعث ابتلاء آیا ۲۲۵ آپ کو حوت میں داخل کرنے میں اشارہ ۲۲۶ یہودا اسکریوطی اس کا یسوع سے منحرف ہونا ۱۲
آ،ا،ب آسام ۳۲۶ ابنیٹھہ.سہارنپور ۷۰ اٹاری ضلع امرتسر ۳۳۹ح اٹاوہ ۳۲۷ اجمیر ۷۰ احمدآباد ۳۲۸ اڑیالہ(جہلم) ۳۲۷ اعظم گڑھ ۷۲ اعوان والہ.پنجاب ۷۱ افغانستان ۶۸ اکبر آباد ۷۰،۷۲،۳۲۸ الور ۷۰،۷۲ الہ آباد ۳۲۵،۳۲۸،۳۴۰ح امرتسر ۸،۲۳ح،۲۳۶،۲۸۷،۳۰۷ح،۳۱۵ح،۳۲۵، ۳۲۶،۳۲۷،۳۴۲ امروہہ.ضلع مراد آباد ۳۲۵ امریکہ ۴۲،۳۳۹ح،۳۴۴ انبالہ ۷۱،۳۲۶ انڈیا (برٹش) ۶۸ اوجلہ.گورداسپور ۳۲۸ اوچہ ۷۱ اودے پور میواڑ ۷۱ اوڑی.کشمیر ۳۲۸ بٹالہ ۷۱،۲۸۷ح،۳۲۶،۳۲۸ بخارا ۳۲۶ بدایون ۳۲۸ بدو ملہی ضلع سیالکوٹ ۳۲۵ بریلی ۷۱ برطانیہ ۲۸۳ بزدار.لیّہ ،ڈیرہ اسماعیل خان ۳۲۶ بغداد ۲۲۴ بکھر ضلع شاہ پور ۳۲۶ بلانی.گجرات ۳۲۵ بلہور.کانپور ۳۲۸ بمبئی ۴۰ح،۳۱۵ح،۳۲۸،۳۴۲ بنگلور ۷۰،۷۱ بہار ۷۲ بھاگلپور ۳۲۶ بہالوجی.جے پور ۳۲۵ بہاولپور ۷۱،۳۲۰،۳۴۳
بھیرہ ۳۲۵،۳۲۶،۳۲۷،۳۲۸ پ، ت، ٹ پٹیالہ ۳۲۶،۳۲۷،۳۲۸ پٹنہ ۷۲ پشاور ۲۸۲ح،۳۲۶ پلول ۳۲۸ پنجاب ۳۴،۴۴،۴۵،۷۱،۳۱۰ح،۳۱۷،۳۲۰ پنڈوری.جہلم ۳۲۷ پوڑانوالہ ۲۸۲ح پہلوار.ضلع پٹنہ ۷۲ پیارم پیت.بنگلور ۷۰ ترکی ۳۲۸ تلونڈی ۷۱ تھہ غلام نبی ۳۲۶،۳۲۸ ٹھانہ.ضلع حصار ۷۲ ٹھٹھہ شیر کا ۳۲۶ ج، چ ،ح ،خ جالندھر ۳۲۵،۳۲۷ جلال پور ۷۱ جمال پور ۳۲۶،۳۲۸ جموں ۲۸۲ح،۳۱۳ح،۳۲۷،۳۲۸ جودھپور ۷۱ جھاوریاں ۳۲۸ جھجر ۷۲ جہلم ۳۲۵،۳۲۶،۳۲۷،۳۲۸ جھنگ ۳۲۵،۳۲۸ جھونسی کہنہ.ضلع الہ آباد ۳۲۸ جے پور ۷۱،۳۲۵ چاچڑاں ۷۱،۳۲۲،۳۲۳،۳۲۴،۳۴۳،۳۴۴ چاندپور ۳۲۸ چاندہ ۳۲۶ چک جانی.جہلم ۳۲۷ چکراتہ ۳۱۳ح،۳۲۷ چک سکندر.گجرات ۳۱۳ح،۳۲۷ چک عمر.کھاریاں گجرات ۲۸۲ح چکوتری ۷۱ چمارو ۳۲۸ چنیوٹ ۳۲۸ حاجی پور.کپورتھلہ ۳۲۸ حبیب والہ ۳۲۸ حصار ۷۲،۳۲۵ حیدر آباد دکن ۷۱،۳۱۳ح،۳۲۵،۳۲۷،۳۲۸ خان پور.ضلع راولپنڈی ۷۰،۳۲۶ خوشاب ۳۲۶،۳۲۸ خیبر خیبر کو فتح کرنے والے حضرت علیؓ تھے ۳۳۹ح خیبر سے مراد مسلمان صورت مولویوں کی قلعہ بندی ہے ۳۳۹ح
خیبر سے مراد خراب مذہب جن میں شرک اور باطل کی ملونی ہے ۳۰۰ح د،ڈ،ر دانمباری.بنگلور ۷۰ دمشق ۱۲۹،۱۳۱ دوجانہ.ضلع رہتک ۷۱ دھار وار.علاقہ بمبئی ۳۲۸ دہلی ۷۰،۷۱،۷۲،۳۲۶،۳۴۲ دینا.جہلم ۳۲۷ دینانگر ۷۰،۳۲۸ دیوا.ضلع لکھنؤ ۷۱ دیوبند ۷۱ دیوگڈھ ۷۱ ڈنڈوت.جہلم ۳۲۷ ڈنگہ.گجرات ۲۸۲ح،۳۲۶،۳۲۷ ڈیرہ اسماعیل خاں ۳۲۶ ڈیرہ دون ۳۲۶ راجوال.کھاریاں، گجرات ۲۸۲ح رامپور.ضلع سہارنپور ۷۰،۷۱،۷۲،۳۲۸ راولپنڈی ۷۰،۷۱،۳۲۶ رترچھتڑ ۷۱ ردولے ۷۱ روپڑ ۳۲۶ روم ۳۹ح،۶۸،۲۸۳ رہتاس.جہلم ۳۲۵،۳۲۷ رہتک ۷۱،۷۲ ریواڑی ۳۸ س،ش،ط سادھوکے ۲۸۲ح سامانہ.ریاست پٹیالہ ۳۲۶،۳۲۷،۳۲۸ سانبھر ۷۱ سرساوہ ۳۲۶ سرسہ ۳۲۸ سرہند ۳۲۶ سندھ ۳۴۴ سنگھڑ ۷۱ سنور ۳۲۷ سہارنپور ۷۰،۷۲،۳۲۶ سیالکوٹ ۳۱۳ح،۳۱۵ح،۳۲۵،۳۲۶،۳۲۷، ۳۲۸،۳۳۹ح سیدوالہ ۳۲۶ سیکھواں (نزد قادیان) ۳۲۵ شادیوال ۲۸۲ح شام ۶۸،۲۸۳ شاہ آباد ۳۱۳ح، ۳۲۶ شاہ پور ۳۲۵،۳۲۶،۳۲۷،۳۲۸ شاہجہان پور ۷۲
شملہ ۳۱،۳۲۷ طائف شریف ۳۲۸ ع،غ،ف،ق عبدالرحمن موضع ضلع شاہ پور(ادرحمہ) ۳۲۷ عرب ۵۹ح،۶۰ح،۶۸،۱۹۵،۳۱۷ح علیگڑھ ۳۲۷ غازی پور زمینا ۷۱ غوث گڈھ ۳۲۷،۳۲۸ فارس بلاد ۳۱۷ح فاضل پور ۷۲ فتح پور.گجرات ۳۲۷ فتح گڑھ (فتح گڈھ) ۲۸۷ح،۳۰۸ح فرخ آباد ۳۲۷ فقیر آباد ۷۱ فیروز پور.ضلع اکبر آباد ۸،۱۴،۲۱ح،۴۳،۷۲ فیض اللہ چک ۳۲۶ قادیان ۳۱،۳۳، ۴۴،۷۲،۳۰۱ح،۳۱۵ح،۳۲۵،۳۲۶، ۳۲۸۳۲۷،۳۲۹،۳۴۰ح قادیان میں نور اترنے والا مولوی عبد اللہ کا کشف ۳۴۳ کدعہ سے مراد قادیان ۳۲۹ حدیث میں امام مہدی کے کدعہ نامی گاؤں سے ظاہر ہونا ۳۲۵ قاضی کوٹ ۳۱۳،۳۲۵،۳۲۷ قسطنطنیہ ۳۹ قصور ۷۰،۳۱۳ح،۳۲۷ قلعہ سوبھا سنگہ ۳۲۶ ک،گ،ل،م کابل ۹۶،۹۷ کانپور ۷۰،۳۲۸ کانگڑہ ۳۲۵،۳۲۷ کپورتھلہ ۳۱۳ح،۳۱۵ح،۳۲۵،۳۲۶،۳۲۸ کچھوچھا.ضلع فقیر آباد ۷۱ کدعہ(دیکھئے زیر عنوان قادیان) کراچی ۳۲۶ کشمیر ۳۲۸ کلانور ۳۲۷ کنکیاں والہ ۷۱ کوٹ کھلیان ۳۲۷ کوٹ قاضی ۳۲۷،۳۲۸ کوٹلہ فقیر.جہلم ۳۲۷ کھاریاں ۲۸۲ح،۳۲۵،۳۲۷،۳۲۸ کہوہار.گجرات ۳۲۷ کھیوال.جہلم ۳۲۷ گجرات ۷۱،۳۲۵،۳۲۶،۳۲۷،۳۲۸ گوجرانوالہ ۳۲۶،۳۲۷،۳۲۸ گوجر خاں ۳۲۷ گورداسپور ۷۰،۷۱،۲۸۷ح،۳۱۳ح،۳۲۵،۳۲۸ گوڑگانواں ۷۲ گولڑہ.راولپنڈی ۷۱ گھڑونواں.جالندھر ۳۲۷
لالہ موسیٰ ۳۲۷ لاہور ۷۰،۷۲،۲۹۹،۳۰۱،۳۱۵ح،۳۱۶،۳۲۶، ۳۲۷،۳۲۸،۳۳۹ح لدھیانہ ۸،۱۴،۲۱ح،۳۸،۴۳،۶۹، ۷۰،۲۹۳،۳۲۶،۳۲۷،۳۲۸ لکھنو ۷۰،۷۱،۷۲ لندن ۳۲۸ لنگووال ۲۸۲ح لنگیاں والی.گوجرانوالہ ۳۲۶،۳۲۸ لوادا.ضلع پٹنہ ۷۲ لون میانی ۳۲۸ لیہ ۳۲۶ مالیر کوٹلہ ۲۵،۳۴۲ مانانوالہ ۳۲۷ مچھرالہ ۳۲۷ مچہیانہ ۲۸۲ح مدراس ۲۸۲ح،۳۱۲ح،۳۲۵،۳۲۶،۳۴۴ مراد آباد ۷۰،۳۲۵ مصر ۶۸ مظفر گڑھ ۳۲۶ مکہ مکرمہ اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو ام القری بنایا ہے ۲۵۸ح ممباسہ ۳۲۶،۳۲۷،۳۲۸ منارہ ۳۲۸ منی پور.آسام ۳۲۶ موکل ۳۲۷ موہرونڈا ۳۲۸ مہارنوالہ ۷۱ میر پور ۲۸۲ح میرٹھ ۲۵ح،۷۰ میلاپور.مدراس ۳۲۶ ن،و ،ہ،ی نادون.کانگڑہ ۳۲۷،۳۲۸ نارووال ۳۲۷ ناسنگ ۳۲۸ ناگپور ۳۲۶ نقشبند ۷۱ نینوہ یونس علیہ السلام کی نینوہ کی بربادی کی پیشگوئی ۳۰ح وزیر آباد ۷۰،۳۲۶ ہردوئی.ضلع لکھنؤ ۷۲،۳۲۶ ہندوستان ۳۴،۴۴،۴۵،۷۳،۲۸۶،۲۹۷،۳۱۰ح،۳۱۵ح ۳۱۷ح،۳۴۴ ہوشیارپور ۲۱۲،۲۱۴ح،۲۹۷،۲۹۸ ہوہن.شاہ پور ۳۲۷ یورپ ۴۲،۳۳۹ح یورپ میں زہر کے ذریعہ خودکشی ۲۹۱ح
آ،ا،ب،ت آبزرور (اخبار ) ۳۱۶ح،۳۳۹ح آئینہ کمالات اسلام (تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ) ۴۸ح،۳۲۵ اتمام الحجۃ (تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۴۸ح ازالہ اوہام (تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۴۸ح اشاعۃ السنہ (رسالہ محمد حسین بٹالوی) ۲۰ح،۶۹ (تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۲۸۵،۲۸۸ح،۳۱۷ح،۳۱۸ح آتھم کی پیشگوئی اور اس سے متعلقہ تحریریں ۱تا۳۳ رسالہ خدائی فیصلہ.عیسائیوں کے عقیدہ تثلیث پر جرح اور ان کو دعوت مباہلہ ۳۴ رسالہ دعوت قوم.علماء و صوفیاء کو دعوت مباہلہ ۴۵ مکتوب عربی بنام علماء و مشائخ ممالک اسلامیہ ۷۳ ضمیمہ.ایک شخص کے سوال کا جواب ۲۸۵ انجیل ۴،۱۶،۵۷ح،۶۳ح،۶۴ پہاڑی تعلیم انجیل کا مغز کہلاتی ہے ۲۹۰ح انجیل متی ۳۵،۴۴،۲۸۹ح انجیل یوحنا ۳۵ انوار الاسلام (تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۱،۲،۷ح،۱۴،۱۸،۲۲ح،۲۳ح،۲۸۸ح،۲۹۹،۳۱۱ح بائیبل ۳۰ح،۳۱ح،۵۷ح،۳۳۶ بخاری صحیح.جامع ۳۹ح،۴۷،۳۲۲ کتاب اللہ کے بعد تمام کتب میں صحیح کتاب ۱۳۷ براہین احمد یہ (تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۲۸۶،۲۸۸ح،۲۹۰،۲۹۱،۳۰۵ح،۳۰۹ح،۳۲۹، ۳۳۸،۳۳۹،۳۴۱ پایونیر (اخبار )الہ آباد ۳۳۲ پیدائش(بائیبل) ۳۵ تحفہ بغداد(تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۴۸ح تفسیر حقانی (از مولوی عبد الحق دہلوی) ۶۹ تفسیر کبیر (از امام رازی) ۳۰ح توریت ۵،۶،۸،۲۹ح،۳۵،۳۷،۶۳ح،۲۸۹ح،۲۹۰ح توضیح مرام (تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۴۸ح ج،ح،د،ر جنگ مقدس(مباحثہ مابین مسیح موعود ؑ و عبد اللہ آتھم) ۴ مباحثہ سے متعلق رسالہ کشف الحقائق کے اعتراضات اور ان کے جوابات ۴تا۱۷ جواہر الاسرار (از شیخ علی حمزہ الطوسی) ۳۲۴ حمامۃ البشریٰ(تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۴۸ح دارقطنی ۲۹۳،۳۳۰،۳۳۳ درّ منثور تفسیر (از امام سیوطی) ۳۰ح،۳۱ح رگوید ۱۲۳ح
س،ش،ض،ط سبز اشتہار(تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۲۹۹ ست بچن (تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۳۵ یہ کتاب سکھ صاحبان کیلئے ایک لطیف دعوت ہے اور اس میں باوانانک کا مسلمان ہونا ثابت کیا گیا ہے ۳۱۴ح سر الخلافہ (تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۴۸ح سول اینڈ ملٹری گزٹ (اخبار) ۱۷،۳۳۲،۳۳۹ح مسیح موعودؑ کا مضمون کی نسبت اخبارکے بیان کا ترجمہ ۳۱۶ح اس کے حضورؑ پر الزام اور اس کا جواب ۲۸۳‘۲۸۴ شحنہ ہند (اخبار) ۲۵ح،۷۰ شہادۃ القرآن(تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۲۸ح ضیاء الحق(تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۲،۱۴،۱۸،۲۸۸ح،۲۹۹،۳۱۱ح طالمود ۲۹۰ح ف،ک،گ،م فتح اسلام(تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ) ۴۸ح،۳۱۱ح فتح البیان ۱۴۸ح کرامات الصادقین (تصنیف حضرت مسیح موعودؑ ) ۴۸ح کشف الحقائق (رسالہ حسام الدین عیسائی) ۴،۱۶ گرنتھ ۳۱۴ح مثنوی رومی از مولانا جلال الدین رومی ۳۲۱ مسلم صحیح ۲۸ح مظہر الاسلام(رسالہ ابو الموید امروہی) ۷۰ منن الرحمن(تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۲۵۱ح میزان الحق (از پادری فنڈل ) ۵ ن،و،ی نور الحق(تصنیف حضرت مسیح موعود ؑ ) ۴۸ح،۳۳۴ نور افشاں ۱۷ح،۲۰،۳۸ وید وید چاہتی ہے کہ گناہ گاروں کے گناہ کا سلسلہ منقطع نہ ہو ۱۲۳ح یرمیاہ(بائیبل) ۱ یونہ (یوناہ)(یونس نبی کی کتاب ) ۳۰ح