Language: UR
<p>آئینہ کمالات اسلام کا دوسرا نام 'دافع الوساوس' ہے۔ یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصہ اردو میں ہے اور دوسرا عربی میں۔ اردو حصہ کی تاریخ ۱۸۹۲ء ہے اور اس کا عربی حصہ ۱۸۹۳ء کے آغاز میں لکھا گیا۔ اس کتاب کی وجہ تالیف جیسا کہ خود کتاب سے ظاہر ہے یہ ہوئی کہ ایک طرف اسلام کے خلاف پادریوں کی طرف سے جن کے فتنہ کو احادیث نبویہ میں دجّال کے فتنہ سے تعبیر کیا گیا ہے، مہم جاری تھی۔ اور وہ بے تحاشا اسلام، بانی اسلام اور قرآن مجید پر اعتراضات کر رہے تھے۔ اور وہ اس یقین کے ساتھ میدان میں نکلے تھے کہ دنیا کا آئندہ مذہب عیسائیت ہوگا۔ اور اسلام کو عیسائیت کے سامنے اپنے ہتھیار ڈالنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ اور دوسری طرف خود علمائے اسلام ایسے عقائد رکھتے تھے، جن سے پادریوں کے پیش کردہ عقائد کی تائید اور حضرت عیسی علیہ السلام کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فضیلت اور فوقیت و برتری ثابت ہوتی تھی جو کہ تبلیغ عیسائیت کی بنیاد تھی۔ جو مسلمان لیڈر اسلام کی تائید اور مخالفین اسلام کے حملوں کا جواب دینے کے لیے اٹھے وہ فلسفہ یورپ سے متاثر اور یورپین فلاسفروں کے اعتراضات سے مرعوب ہو کر اسلامی عقائد کی ایسی ایسی تشریحیں کرنے لگے جو صریح طور پر نصوص قرآنیہ اور احادیث نبویہ کے خلاف تھیں۔ گویا وہ خود اپنے قلم سے دشمنان اسلام سے اعتراضات کی تصدیق کر رہے تھے۔ اور یہ اعلان کر رہے تھے کہ مسلمان کے وہ عقائد بھی جن پر تیرہ سو سال سے ان کا اتفاق رہا غلط تھے۔ الغرض یہ مسلمان مصلحین بھی درحقیقت دشمنان اسلام کی تقویت کا باعث بن رہے تھے اور ان بیرونی دشمنوں کے حملوں اور اندرونی مسلم نما مصلحین کی دور ازکار تاویلات و تشریحات سے اسلام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا تھا۔ اور اسلام کا محبوبانہ اور دلربا چہرہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو رہا تھا۔ اس لیے اللہ تعالی کے مامور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کا دلکش اور دل آویز خوبصورت چہرہ ظاہر کرنے اور اس کے محاسن و کمالات کو منظر عام پر لانے کے لیے یہ کتاب آئینہ کمالات اسلام تحریر فرمائی تا دنیا کے لوگوں کو قرآن کریم کے کمالات معلوم ہوں اور اسلام کی اعلیٰ تعلیم سے انہیں واقفیّت حاصل ہو۔ اس کتاب میں آپ نے حقیقت اسلام اور وحی اور نبوت اور ملائکہ کے وجود اور ان کے کاموں پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے ان شبہات اور وساوس کا بھی جواب دیا جو موجودہ فلسفہ کی رو سے ان مسائل پر کیے جاتے تھے۔ اور مسلمان علماء کے ان عقائد کی بھی معقولی اور منقولی رنگ میں تردید فرمائی جن سے مسیح ناصری علیہ السلام کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فضیلت ظاہر ہوتی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سیّد الاوّلین والآخرین اور افضل الانبیاء ہونا ثابت کیا۔</p><p>عربی حصّہ</p><p>حضرت اقدسؑ نے اس کتاب کا عربی حصہ جو 'التبلیغ' کے زیر عنوان تحیر فرمایا، وہ حضورؑ کی عربی میں پہلی تصنیف ہے اس سے قبل نہ آپ نے عربی زبان میں کوئی تصنیف فرمائی تھی اور نہ عربی زبان میں کوئی مضمون تحریر فرمایا تھا۔ اس کی تحریک جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے یوں ہوئی کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے ۱۱ جنوری ۱۸۹۳ء کو حضرت اقدسؑ سے عرض کیا کہ کتاب دافع الوساوس میں ان فقراء اور پیرزادوں کی طرف بھی بطور دعوت و اتمام حجت ایک خط شامل ہونا چاہیے تھا جو بدعات میں دن رات غرق اور اس سلسلہ سے جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے بے خبر ہیں۔ حضورؑ کو یہ صلاح مولوی صاحب موصوف کی پسند آئی۔</p>
(ٹائیٹل طبع اوّل) الحمد للہ والمنت کہ بتائید و توفیق آن نعم المولیٰ و نعم النصیر و عنایات آن ذاتِ جلیل و عظیم و کبیرحصّہ اولیٰ کتاب لاجواب موسوم بہ آئینہ کمالات اسلام جس کا دوسرانام دافع الوسَاوس بھی ہے بماہ فروری ۱۸۹۳ ء مطبع ریاض ھند قادیان مین باہتمام شیخ نور احمد مہتمم و مالک مطبع طبع ہو کر شائع ہوا
اپنی جماعت کے لئے چند اشعار بطور نصیحت اور دعوت اسلام بکوشید اے جوانان تابہ دین قوت شود پیدا بہار و رونق اندر روضۂ ملّت شود پیدا اگر یاران کنون بر غُربتِ اسلام رحم آرید باصحاب نبی نزد خدا نسبت شود پیدا نفاق و اختلافِ ناشناسان از میان خیزد کمال اتفاق و خُلّت و اُلفت شود پیدا بجنبید از پئے کوشش کہ ازدرگاہِ ربّانی زبہر ناصرانِ دینِ حق نصرت شود پیدا اگر امروز فکرِ عزّتِ دین در شما جوشد شما را نیز و اللہ رتبت و عزت شود پیدا اگر دستِ عطا در نصرتِ اسلام بکشائید ہم از بہر شما ناگہ یدِ قدرت شود پیدا زبذلِ مال در راہش کسے مفلس نمی گردد خدا خود میشود ناصر اگر ہمت شود پیدا دو روز عمر خود در کار دین کوشید اے یاران کہ آخر ساعت رحلت بصد حسرت شود پیدا امید دین روا گردان امید تو روا گردد زصد نومیدی و یاس والم رحمت شود پیدا در انصارِ نبیؐ بنگر کہ چون شد کارتادانی کہ از تائید دین سرچشمہء دولت شود پیدا بجواز جان و دل تا خدمتے از دست تو آید بقائے جاودان یابی گراین شربت شود پیدا بمفت این اجر نصرت را دہندت اے اخی ورنہ قضائے آسمان ست این بہر حالت شود پیدا ہمی بینم کہ دادار قدیر و پاک می خواہد کہ باز آن قوتِ اسلام و آن شوکت شودپیدا کریما صد کرم کن بر کسے کو ناصرِ دین است بلائے او بگردان گر گہے آفت شود پیدا چنان خوش دار او را اے خدائے قادر مطلق کہ در ہر کاروبار و حال او جنت شود پیدا دریغ و درد قومِ من ندائے من نمے شنود زہر درمے دہم پندش مگر عبرت شود پیدا مرا باور نمی آید کہ چشم خویش بکشائند مگر وقتیکہ خوف و عفت و خشیت شود پیدا مرا دجّال و کذّاب و بتر از کافران فہمند نمی دانم چرا از نور حق نفرت شود پیدا عجب دارید اے ناآشنا یان غافلان از دین کہ از حق چشمۂ حیوان درین ظلمت شودپیدا چرا انسان تعجب ہا کند در فکر این معنی کہ خواب آلودگان رارافع غفلت شود پیدا فراموشت شد اے قومم احادیث نبی اللہ کہ نزد ہر صدی یک مصلحِ اُمت شود پیدا
ربّ یَسّر و لا تعسّر وتمّم بالخیر س ربّ یَسّر و لا تعسّر وتمّم بالخیر نحمدہٗ وَ نُصَلّی علٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ نحمدہٗ وَ نُصَلّی علٰی رَسُوْلِہِ الکَرِیْمِ محبت تو دوائے ہزار بیماری است بروئے تو کہ رہائی درین گرفتاری است پناہِ رُوئے تو جستن نہ طورِ مستان است کہ آمدن بہ پناہت کمالِ ہُشیاری است متاعِ مہرِ رُخِ تُو نہان نخواہم داشت کہ خفیہ داشتنِ عشق تو زِ غدّاری است بر آن سرم کہ سر و جان فدائے تو بکنم کہ جان بیار سپُردن حقیقتِ یاری است اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ نَوَّرَ عُیُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِمَصَابِیْح الایمان.و ایّد قلوب العارفین بفھم دقائقِ العرفانِ.و اَلْھَمَھُمْ نکاتٍ و اسرارًا وَّ علومًا ما یلقّاھا الَّا مَن اُوحی مِن الرحمان.وجعلھم شموس الارض و حجج الدّین و حرز الامان.وَ اَضْرَمَ فی الخافقین نارھم و بلغ اذکار ھم فی الافاق والاَحْضَان.و جعلہم منھلًا لا یغور و متاعًا لا یبور و جعل اعداء ھم کعصفٍ ماکولٍ
او کقرفٍ سقط من الاھان وجعلھم اَسْعَدَ ناسٍ لا یرھقھم ذلۃٌ و لا یغشاھم دخانٌ و لا یضرھم طعن المِطْعان.قد ھاجروا الاوطان و تبتلوا الی اللّٰہ الرّحمٰن بھر قمرھم و ثرّ ثمرھم و کان معاداتھم عنوان النحوس و ایذاءُ ھم لباس ذی البوس و شعار الشقی المُرقعان.فنحمد اللّٰہ علی اٰلآۂٖ الذی ارسل عرفآء ہ و خلفآء ہ و اولیآء ہ لتخلیص الناس من نعاس الغفلۃ و ایدی الشیطان الذی طھّر الانفاس من رجس الاوثان و وضع الفاس علی اشجارالخبث والعصیان الملک الحکیم الودود الذی خلق الشمس والقمر لتنویر ظاھر العالم و خلق الانبیاء والرسل والمُحَدّثین لتنویر بواطن نوع الانسان.و اقام الشریعۃ و ادخل فی اخراتھا فحول الوقت و مصالیت الدّوران.سبحانہ ما اعظم شانہ ھو مرسل الرسل و مسہّل السّبل و موسّس الادیان و متم الحُجّۃ فی کلّ اوان و کلّ یوم ھو فی شأن خبع الاسرار و اترعھا فی کلّ عینٍ من الاعیان فبایّ اسرارہ یحیط الانسان لا تقعدوا فی خیمۃ العقل وحدہ و قد سقط البوان واسعوا الی اللّٰہ بامحاض الطاعۃ واخراج غیرہ عن الجنان.ویلٌ لِّکُلِّ جامدٍ سامدٍ عَقَر النّفس و ابار و طوبٰی لمن سنّ و سارَ و جاھد فی سُبُلِ الرَّحْمَانِ و الصَّلٰوۃ والسلام علٰی سیّد رسلہ و خاتم انبیاء ہ وامام اولیاۂ وسلالۃ انوارہ و لباب ضیاءِ ہ الرسول النّبیّ الاُمِّیّ المبارک الذی سدّد للرعاع و شفَی الاَ نْعام من الدُّکاع و بیَّن لِلاتباع احکام الفرقان باحسن البیان و فجّر ینبوع نفثاتہ کالرثان و اتی بالکتاب الَّذی فیہ لکُلِّ اکولۃٍ مرعی و زُلال لکُلّ عطشان و اخرج الاجنۃ من ظلماتٍ ثلٰثٍ.شرکٍ۱ مطوّحٍ من الجنان.
و۲ اعما ل محرقۃٍ فی النیران.و۳ اخلاق مقلّبۃ من الفطرۃ الانسیۃ الی طبایع السباع و الثعبان.الناصح الموقظ الذی اشفق علی الناسِ کل الاشفاق و اذھب الوَسن من الآماق و اعطی الا فرخ الضَّعیفۃ قُوت الزّفیف والطیران.وھدی الناس الٰی اھدی سبیل واطرد النفوس بین وخدٍ و ذمیل وجعل الامۃ امۃً وسطًا سابق الامم فی اللّمعان کانھا الازھران وجذبھم بقوتہ القدسیّۃ حتی اصحبوا لہ اطوع من حذاۂ فی کل موطنٍ و میدان.وکمّل النُّفوس و ربّا الاشجار حتی استأثر الثّمر و تسمّن و مالت الاغصان فدخلوا فی دین اللّٰہ مجدّین شارین انفسہم ابتغاء مرضات اللّٰہ الرّحمٰن و زلزلوا زلزالًا شدیدًا حتی ضاق الامر علیہم والتقت حلقتا البطان.فارتحلوا مدلجین راضین بقضاء اللّٰہ علی ضعفٍ من المریرۃ حتی اشرقت علیھم شمس نصر اللّٰہ و نزلوا فرحین بروح و ریحان.و دخلوا فی حضرت اللّٰہ بجمیع قوتھم و کسروا قیودًا عائقۃ و اوثانا مانعۃ من ذلک الایوان وجعلوا نفوسہم عُرضۃ لمصائب الاسلام و نسوا کل رُزْء سلف قبل ھٰذہٖ الاحزان.و باتوا لربّھم سُجَّدًا و قیاما و ما طعموا النوم الا مثاثًا من الاوان وفنوا فِی اتباع رسول اللّٰہ و ما ابدعوا و ما خرجوا فی استقراء المسالک من کلام اللّٰہ الحنّان.واقتحموا کل مخوّفۃ لدین اللّٰہ الرّیّان.و قطعوا للّٰہ و رسولہ من کل ولی و حمیم حتی برزو السیوف من الجفان.و آثروا اسما لاعلی البسۃ تنعم و دلالٍ و نضوا عنہم لذۃ البطن وروح البال و قنعوا بالحمیم من الزلال وترائت الدنیا فی اعینھم کالاران.واتقوا اللّٰہ حق
التقا ت فی الافعال والکلمات و فزعوا من فتن اللسن و حصائد الالسنۃ حتی صاروا کبکر خفرۃ فی ایثار الصُّمت و کف اللسان.و حذوا مثال رسول اللّٰہ صلعم فی اقوالھم و افعالھم و حرکاتھم و سکناتھم و اخلاقھم و سیرھم و عمارت الباطن والاقتیان.فاعطاھم اللّٰہ قلبًا متقلّبًا مع الحق.ولسانًا متحلیًا بالصدق.و جنانًا خالیًا من الحقد والغلّ والشنآن رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم و احلّھم جنات الرّضوان.نُدب الینا ذکرھم بالخیر انھم برھان رسالۃ سیدنا و حُجۃ صدق مولانا و نجوم الھدٰی و وسائل الایقان کل واحد منھم اوذی فی سبیل اللّٰہ و عُنِّیَ فی ما وُلّی و خُوِّف بالسیف والسنان.فما وھنوا و ما استکانو حتی قضوا نَحَبَھم و آثروا المولی علی وجودٍ فان.تلک اُمّۃ روحانیۃ و قومٌ موجعٌ لخدین احبّ الاخدان.فایھاالناس صلّوا و سلّموا علٰی رسول حُشر النّاس علی قدمہ و جذبوا الی الربّ الرحیم المنّان.الذی اخرج خلقا کثیرا من المفاوز المھلکۃ المبرّحۃ الی روضات الامن والامان.وشجّع قلوبًا مزء ودۃً.و قوّی ھممًا مجھودۃً و ابدع انوارًا مفقودۃ.وجاء بابھی الدرر والیواقیت والمرجان.و اصلّ الاصول و ادّب العقول.ونجاکثیرا من الناس من سلاسل الکفر والضلالۃ والطُّغیان.وسقی المؤمنین المسلمین الراغبین فی خیرہ کاس الیقین والسکینۃ والاطمینان.و عصمھم من طرق الشر والفساد والخسران و ھداھم الی جمیع سبل الخیر والسعادۃ والاحسان.و من جملۃ مِنَنِہ انہ اخبرنا من فتن اٰخر الزمان.ثم بشرنا بتائیدٍ و تدارکٍ من الربّ المنّان.
اللّٰھم فَصَلِّ و سلّم علٰی ذلک الشفیع المشفّع المُنجی لنوع الانسان.و ایّدنا ان ننتجع و نستفیض من حضرت ھذا السُّلطان.ونجّنا بہ من شرّ کلّ یدٍ قاسطۃٍ بالجور باسطۃ.و من عُلماء یسعون لتطلب مثالب الاخوان.وینسون معائبھم کُلَّ النسیان.لا یحصر لسَانھم عند السّبّ واللّعن والطّعن والبُھتان.و لکن یحصر عند شہادۃ الحقّ و بیان الحقیقۃ و اقامۃ البرھان.یعظون و لا یتعظون.و یَدَعون و لا یَدْعون.و یقولون و لا یفعلون.و یفسدون و لا یصلحون.ویشقون و لا یحوصُون.و یُکفرون بغیر علم و لا یخافون.و یحثّون الناس علی الخیر و ھم علٰی شرّھم راصعون.و یقولون للمؤمن لست مؤمنا و لا یبالون من اخذ اللّٰہ تعالی و لا یتفکرون.اللّٰھمّ فاحفظنا من فتنتھم و برّئنا من تھمتھم واخصُصنا بحفظک واصطفائک و خیرک.و لا تَکِلْنا الی کلاءۃ غیرک.و اوزعنا ان نعمل صالحًا ترضاہ نسئلک رحمتک و فضلک و رضاءَک و اَنْت خیرُ الرّاحمین.ربّ کن بفضلک قوّتی و نوّر بصری و ما فی قلبی و قبلۃ حیاتی و مماتی.واشغفنی محبّۃ وآتِنی حبًّا لا یزید علیہ احد مّن بعدی ربّ فتقبّل دعوتی واعطِنی منیتی و صافنی و عافنی واجذبنی و قدنی و ایّدنی و وفّقنی وزکّنی و نوّرنی واجعلنی جمیعًا لک وکُن لی جمیعًا.ربّ تعالِ الیَّ مِن کُلِّ بابٍ و خلّصنی من کلّ حجابٍ.واسْقنی من کلّ شرابٍ.و اعنّی فی ھیجاء النّفس وجذبا تھا.واحفظنی من مھالک البین و ظلما تھا.ولا تکلنی الٰی نفسی طرفۃ عینٍ واعصمنی من سیّا تھا واجعل الیک رفعی و صعودی.و ادخل فی کل ذرۃٍ مّن ذرّاتِ وجودی.واجعلنی من الّذین لہم مَسْبَح فی بحارک
و مَسْرَحٌ فی ریاض انوارک ورضاء تحت مجاری اقدارک وباعد بینی و بین اغیارک.رَبِّ بفضلک و بنور وجھک ارنی جمالک واسقنی زُلالک واخرجنی من کل انواع الحجاب والغبار ولا تجعلنی من الذین نکسوا فی الظلمۃ والاستتار و تناھوا عن البرکات والاشراقات والا نوار وانقلبوا بعقل۱ الناقص وجدھم الناکص من دارالنعیم الی دارالبوار وارزقنی امحاض الطاعۃ لوجھک وسجود الدوام فی حضرتک واعطنی ھمّۃً تحلُّ فیھا عین عنایتک و اعطنی شیءًا لا تعطیہ اِلّا لوحیدٍ من المقبولین.و انزل علیّ رحمۃً لا تنزلھا الّا علٰی فرید من المحبوبین.ربّ احی الاسلام بجھدی وھمتی و دعائی و کلامی واعدبی سحنتہ و حبرہ وسبرہ و مزّق کل معاند و کبرہ رب ارنی کیف تحی الموتی ارنی وجوھا ذَوِی الشّمائل الایمانیۃ و نفوسًا ذوی الحکمۃ الیمانیۃ وعیونًا باکیۃً من خوفک و قلوبا مقشعرۃ عند ذکرک واصلًا نقیا یرجع الی الحقّ والصّواب و یتفیّأُ ظلال المجاذیب والاقطاب و ارنی عرایک ساعیۃ الی المتاب والاعداد للمآب.ربّ ظھر الفساد فی البر والبحر والعمارات والصحراء وارٰی عبادک فی البلاء و حیطانک بالبیداء و دینک فی الباساء والضّرّاء و اری الاسلام کمحتاجٍ ترب بعد الاتراب اوکشیخ مرتعش تباعد من زمان الشباب اوکَشُذَّاذِ الْآفَاقِ اوکغریب تناھی عن الرفاق اوکحُرٍ ابتلی فی الارقاق او کیتیم سُقط من الاماق.یمیس الباطل فی برد الاستکبار ویلطم الحق بایدی الاشرار.یسعون لاطفاء نورہ سعی العفاریت.واللّٰہ خیر
حا فظا و من لنا غیر ذالک الخرّیت انتھٰی امر الدّین الی الکساد و ثارت بالاحداث حصبۃ الفساد و جُذام الارتداد خرجوا من قیود الشریعۃ الغراء.و نبذوا انفسہم بالعراء ترکوا اسوۃً حسنۃً واتخذوا الفلاسفۃ الضّالۃ ائمۃً و استَحْلَوا کلامھم واستجادوا اوھامھم و اُشْرِبُوْا فی قلوبھم عجل خیالات الیورفین و ما ھم اِلّا کجسدٍ لہ خوار و ما شمّوا عرف العارفین و اَیم اللّٰہ قد کنت اُقِمْتُ من اللّٰہ لاُجدّد الدّین باذنہ و اجدع انف الباطل من مارنہ و اُمرت لذاک من اللّٰہ القدیر البدیع فلبّیتُ دعوتہ تلبیۃ المطیع وبلّغْتُ اوامرہ و بذلت فیہا جھد المستطیع فارتاب القوم بعزوتی وابوا تصدیق دعوتی وسبر فیہ غور عقلھم و دعوی نقلھم فاشتعل المبطلون و ظنوا بی الظنون و نھضوا الیّ بالتکفیر و ما لھم بذالک من علم مثقال القطمیر.دخلوا فیما لم یعلموا و اخذوا اللعن شرعۃ و لم یفتشوا حقیقۃ وکل ذٰلک کان مِنْ لَھَبِ الغلّ اخذھم کداء السل واما انا فما کنت اَن آبٰی من امر ربّی.او افتری علیہ من تلقاءِ نفسی ھو محسنی و منعمی اسبغ علیّ من العطاء و اتمّ علیّ من کل الْٰا لاء واعطانی توفیقًا قائدًا الی الرشد و فھمًا مدرکًا للحقّ و آتانی ما لم یؤت احد من الاقران و ان ھی الّا تحدیث بِأَلآء الرحمان.ھو کفلنی و تولّی و اعطی ما اعطی و بشرّنی بخیر العاقبۃ والاولٰی و دنٰی منی و ادنی وحمدنی من عرشہ و مشی الیّ و رفعنی الی السمٰوات العُلٰی و تلک کلھا من برکات المصطفٰی.الظل باصلہٖ اقتدٰی فرأی مارای فالان لا اخاف ازدراء قادح و لا ھتک فاضح و اُفَوِّضُ اَمری الی اللّٰہ اِنْ اَکُ کاذبًا فعلیّ کذبی و اِنْ اَ کُ صادقًا فانّ اللّٰہ لا یضیع امر الصّادقین.وَالرُّزْءُ کُلَّ الرُّزْءِ ان اعداء الدین اختلسونا
الرا حۃ بتوھین سیّدنا رسول آخر الزمان.و ضَلَّ سعی علمائنا فی تکفیر المسلمین و اخراج الاخوان من الدّین والایمان.فھٰذہ عضلۃٌ سقطت علی الاسلام.و داھیۃٌ نزلت علی دین خیر الانام.وجبت شموس العلوم وقلت اشجارٌ طیبۃ.وکثرت شجرۃ الزقوم و لم یبق الا اطلال العلماء و فضلۃ الفضلاء الّا ما شاء اللّٰہ.فلمّا اضاعوا حقیقۃً ضاھوا سقطًا.یا حسرۃً علی العلماء انھم بمقابلۃ الاعداء کالظالع الاعمٰی فی زلج البیدَاءَ و لکن للاسلام والمسلمین کالسباع اوالبلاء النّازل من السّماء.لم یبق فیھم علم و حلم و تفقہ و تدبر.ان ھم الا اسماء خالیۃ من الذکاء.مملوّۃ من الکبر والخیلاء.الا الذین تدارکھم لطف الکبریاءِ وسبقتھم رحمۃ ارحم الرحماء.فھم مبرّء ون من ھذا الداء.بل ھم کالتریاق لھذا الوباء و حُجّۃُ اللّٰہ علی الاشقیاءِ.و ھم اول السعداء والنجباء والشرفاء.فِیْ قلوبھم حرارۃٌ اسلامیۃ لا یمسّھم برد ھٰذا الشتاء.ھم عمید الاسلام.و عماد دین خیر الانام.وھم ملوک الدین تجلب الخیرات من حرمہم.و یُرجی کلّ مطلوب من کرمھم.وھم خزنۃ اسرار الشرع.ومھرۃ الاصول والفرع سلّمہم اللّٰہ تعالٰی و ابقاھم و عادٰی من عاداھم.و والی من والٰھم.ایھا العلماء الطاعنون فی دینی ببُھْتان الالحاد.واللاعنون علیّ بتُھْمۃ الارتداد.ا تعلمون لِمَ آویتُ ذکرکم بین ذکر نَعْت الرسول الکریم و ما اظنّ ان تعلموا بغیر التعلیم.فاعلموا انّ مقصدی من ھٰذَا اَمْران توء مان شمّرتُ کشحی لھما.و مُنیتان متشابھتان سألتھما من ربّ الارض والسماء.
اَ لْامر الاوّلاستمالتکم بذکر الرسول المقبولِ والشفیع المامول.الذی تعالی شانہ عن العقول وتدارک قربہ شقاوۃ المخذول.فضممت ذکرکم بذکر المصطفٰی.لعلی اجد شفاء صدورکم من ھذا الماوی ولعلکم تذکرون خاتم الانبیاءِ و شانہ الاعلٰی و شرزہ الذی ھو شرز اللّٰہ الاغنٰی.فیملککم الادب والھیبۃ والخشیۃ والتقوٰی.و یحصلُ لکم حدسٌ صائبٌ و جنانٌ تائبٌ و قلبٌ اخشٰی.و یبعد منکم عند ذکرہ سَیْلٌ قد اقترب منکم و دنٰی.و تلین جُلودکم و تقشعِرُّ قلوبکم و تسمعون ما اقول لکم و لا تتبعوا کل قریحۃ تأبٰی.فاتّقُوااللّٰہ یا اخوانی وعند ذکر رسول اللہ صلعم تادّبوا.واخفضوا جناحکم فی حضرتہ ولا تشمخوا وادخلوا فی السّلم و لا تفرّقوا.و اطیعوا و لا تمزّقُوا و تواخوا و لا تعادوا.و صِلُوْا و لا تقطعوا.وابتغوا سُبُلَ رضاء اللّٰہ و لا تَیءَسُوا.وکفّوا السنتکم عباد اللّٰہ و لا تعتدوا.أ تخرجون ۱ اھل قبلتکم من دینکم ولا تخافون.و تَدَعُوْنَ اخوانکم و لا تَدْعون.و تَجِدون علٰی اَنْفُسکم و لہم لا تَجِدُوْنَ.و تُکْفِرُوْنَ المُسلمین المُصَلِّین الصائمین الموحدین القائمین علی حدوداللّٰہ.و لا تبالُوْن.اشرکائکم فی کلمتکم کفارٌ ما لکم کیف تحکمون.ا رفقاء کم فی قبلتکم اغیارٌ اُنظروا ما تقولون.أ نحن نفرّ من رسول اللّٰہ صلعم اتقوا اللّٰہ ایھا المعتدون.اکفرنا باللّٰہ و رسولہ.اتقوا اللّٰہ ایھا المفترون تجرء ون علی سبّ الاخوان واللّٰہ منعکم من سبّ الاوثان.و تؤذون۲ المؤمنات القانتاتِ.واللّٰہ منعکم من قتل الکافرات المشرکات.اَ اِکفار ۱ آیاخارج میکنیداز دین خود اہل قبلہ شمارا و نمی ترسید و می گزارید رعایت برادران خود و بہ شفقت نمی خوایند و خشمگینمیشوید برعزیزان خویش و برائے شان اندوہگین نمی شوید ۱۲ ۲ اس اشتہار کی طرف اشارہ ہے کہ جوشخص چاہے ان کی عورتوں کو نکال کر لے جائے کچھ گناہ نہیں
المؤمنین حسنۃ.والقول بوفات المسیحؑ معصیۃ.ما لکم این تَقْواکم وای شیء اغشاکم.این ضَبَأَت فراستکم و امعانکم.و این ظعن علمکم و عرفانکم.أَ دَرَّسْتُم فی فُھر الیھود.و لُقّنتم من فن الفَنَد المنضود.رضیتم بالقذر و قد نصحتم للحذر.نسیتم یوم الدّین.و صِرْتم لعسل الاسلام کالمحارین.یا اخوان الترھات احذروا من یَوْم المواخذات.ما تعرفون الّا ظواھر القرآن.ثم تکذّبون ارباب العرفان قنعتم علی قشر الکتاب.وما مسّ عقلکم باللُّباب.اخذتم ظھر القرآن وحذ افیرہ و تحسبون اِنَّکم نزحتم بیرہ.و منکم من صبّغ البھتان.و واضَخ الھذیان.و جھر السبعیۃ کعسارۃٍ.و کوّس عقول الناس باغلاطٍ و ادارۃٍ و ثوّر علیّ کلّ غُثٍّ ذی شرارۃٍ.و حَرَّف کلماتی و قرضھا کفأْرۃٍ.وافد الیّ التحقیر والتوھین.وخَرَدَ عِرضی کالمجانین.و سعٰی الی تُنّاء الثغور و قُطَّانِھا لیھلکہم من شجرۃ الشجرِ و اغصانھا.فنأنَأُوا الرأی باغلاطہ و زلّت اقدامھم.واطالوا السنھم و امخطوا بامخاطہ.و اَنفوا من قبول الحقّ و اکلوا مِنْ مخاطہ.فکلّ سلیطۃٍ لَعَنَتْ علیّ و سبّت.کل ذیخۃٍ نبحت وکل ناقۃٍ عشواء لَبَزَتْ و کل مناضلِ رمٰی سھمہ و ما تراخٰی.فَمُطِرنا حتی صارت الارضُ سُواخٰی.و نھض علینا کل جَفْرٍ و جنین.و لم یغادروا من لعن و طعن و تکفیر و توھین.و قَرَضُوا عرضی کقرض الفُویسقۃ اوراق القرآن و صالوا علیّ کصولۃ حبشی علی بیت الرحمان فلما رایت تغر قِدرھم لِلفساد و قدرتھم علی الافناد والایقاد والاطراد.جھشت الی اللّٰہ الرحمان من حفشھم علیّ کا مواج من الطوفان.فسمع اللّٰہ دعائی و تضرعی و التجائی
و بشرنی بفتوحات من عندہ.و تائیداتٍ من جُندہٖ.و قال لا تخف انّنی معک.وماشٍ مع مشیک.انت منی بمنزلۃ لا یعلم الخلق وجدتک ما وجدتک.انی مھین من اراد اھانتک.و انی معین من اراد اعانتک.انت منی و سرّک سرّی و انت مرادی و معی انت وجیہ فی حضرتی.اخترتک لنفسی.ھذا مابشرنی ربی وملجأی عند اَرَبی و واللّٰہ لو اطاعنی ملوک الارض کلھم و فتحت علی خزائن العالم کلھا ما اسرّنی کسروری من ذالک.رب انّی مُلِءْتُ من آلائک و اُشرِبت من بحار نعمائک.ربّ بلّغ شکرِی الٰی اَرْجاءِ سماءِک.و تعالِ وادخُل فی قلبی بجمیع ضیائک.انی اٰثرتک و رسولک علی سواک وانسلخت من نفسی و جئت راغبًا فی رضاءِک.ولک ھذہ اشعاری و انت محبوبی و شعاری و دثاری.ننگ و نام و عزّتِ دُنیا ز دامان ریختیم یار آمیزد مگر با ما بخاک آمیختیم دل بدادیم ازکف وجان در رہے انداختیم و از پئے وصلِ نگارے حیلہ ہا انگیختیم ثم استانف قِصتی الاولٰی وغصتی العظمٰی ان العلماء ما وجدوا من سھمٍ الا رموا الیّ.و ما من بلاءٍ الّا انزلوا علیّ.و امطروا علیّ بھتانات لا اصل لھا و لا اثر.و لم یغادروا فی ذمی نظم و لا نثر۱.فلما رئیت تباعدھم عن الصواب و تصاعدھم فی الارتیاب.لم اجِدْ بُدًّا من تالیف ھٰذا الکتاب فکتبتھا بدموع سائلۃ.و حسراتٍ شائلۃٍ.و بذلت جھد نفسی لازالۃ ۱ اشارہ است بنظم منشی سعد اللہ صاحب دربدگوئی ودشنام دہی وغیرہ صاحبان و نثر بٹالوی صاحب وغیرہ مولویان
شبھا تھم.واظھار ھفواتھم.و اسأل اللّٰہ تعالٰی ان یجعل برکۃً کثیرۃ فیہ.و یزخ فی النفوس الضیّقۃ معانیہ.و ھا اَنا برئ ممّا یقولون.و یعلم اللّٰہ و لا یعلمون.لست من الکافرین والمُلحدین والمُرتدّین.و ان انا الّا یوسف فی المسجونین.قد اُرْسلت لاضع عنھم سلاسلھم واغلالھم.فکیف اخاف اکفارھم و اعلم حالھم.و من یقم علی مصادٍ ما یخف من وھادٍ و من یشرب من کاس وصالٍ.ما یبال من مکفّرٍ ضالٍ و انّی اعلم من ربّی ما جئتُ بہ من کوکبٍ.فلا یُزعجنی ضباحُ ثعلبٍ.فاتّقوا اللّٰہ و لا تبختروا بدُجاجکُم ۱ و لا تنادوا الخلق علی نیاحکم- ما لکم لا تکبحون افواھکم و لا تکمحون و لا تترکون التبلّخ والتبذّخ و بعیثکم تفرحون.و تکفُرون الناس بغیر علم انتم فیھا مُفرِطون.ان کان فینا و فیکم اختلاف فقد اختلف من قبل وکم من اختلافٍ رحمۃٌ لو کنتم تعلمون- واللّٰہ یحکم بیننا و بینکم فی الدنیا و یوم القیامۃ و ینبھکم علٰی ما کنتم فیہ تختلفون.یا قومِ مھلًا بعض تلک الظنون فان بعض الظن اثم ما لکم لا تفھمون.و ما جئتُ بکذبٍ و لا فریۃٍ و لا شیءٍ یخالف سُنن الھُدٰی ولکن عمیت علیکم فکیف اَزَخُّ فیکم ما لا تمسّون.و ستذکرون ما اقول لکم و افوّض امری الی اللّٰہ.ھو ربّی ینظر الٰی قلبی و یجد فیہ ما لا تجدون.یا قوم لم افرطتم فی امورکم و نبذتم القرآن وراء ظھورکم ءَ تقتدون غیرالفرقان.و انتم تعلمون.ان الذین یتبتلون الٰی ربّھم لا یخافون شقاق احدٍ و بوعدہ ساکنون اطمئنوا باللّٰہ مولاھم و علیہ یتوکّلون.یسمعون بہٖ و ینطقون بہ و بنورہ ینظرون.یُطّلعون علی غرائب علومہ و علی اسرارہ یُشرَفون و ان کنتم ھکذا نقّل فی الاصل.الناشر
فی شکٍ من امری فاقرء وا کتابی.و تدبّروا فی جوابی واسئلوا اللّٰہ ما فی قبابی ان کنتم للحق طالبین کما یطلب الصادقون فاسئلوا و لا تملوا و طھروا النیات و لا تلطخوا وادعوا فی آناء لیالیکم و لا تسئموا وانتظروا وقت الرحم و ترقبوا- و جاھدوا حقّ جھادکم تکشف علیکم و تھتدوا.طُوبٰی لمن جاء بقلب منیب وسلیم.طُوبٰی لمن جاء بفھم مستقیم طُوبٰی لِرَوْع ینتجع عند الشبھات.و یسئل اللّٰہ تفھیم العویصات.طُوبٰی لقدمٍ تطاوع الرجل علی الفرار.من مواقع الافتنان بغیبۃ الاخوان والا کفار.و طُوبٰی لعین ھداھا الحق الی صواب.و عصمھا من طرق فساد و تباب.و طُوبٰی لخطواتٍ تنقل الی حسنات.و تصرف من خطط الخطیات.و طوبٰی لنفسٍ زکیت من فورتھا.و طُوبٰی لارواح اعطوا من غلۃ الحق و سورتھا.و طوبٰی لِفکرٍ لا یعلم اللغوب.و لا ینثنی حتی یری المطلوب.وطوبٰی لکل غریبٍ و حلیم و طوبٰی لمن حبب الیہ الرب الکریم.یا قوم قد اناخ الاعادی بساحتنا من عبید العباد و قِسِّیسین وامطروا علینا حجارۃً من طین الشیاطین.حسبوا التبر تُرَابًا.والحیات تبابًا.والنور نارًا والنافع ضارًا.داخت فتنتھم و ضَنَءَتْ دعوتھم.شغبوا علی الاسلام وجاءُ وا بالفتن العظام.سریٰ سحرھم فی کل حجرٍ و شجرۃٍ.و مَذرَتْ من نفسھم کل مذرۃٍ.یُراء ون ماٰضرھم کاللبن السایغ.و یصولون علی الصدیقین بالقلب الزائغ فقدم بقدومھم فوج ھمّنا واجتمعت کتِیْبََۃ غَمِّنا و سَءِمنا تکالیفھم متجرعین بالغصص.حتی طبعت فی المطابع مصائبنا کالقصص ودّع طیب عیشنا خوف ھذا المقام.و وجدنا اذا وجدنا لھب ھذہ الا یام.دمس
اللیل علینا من الغموم والافکار.و وقعنا فی حیصٍ بیصٍ و تنمّرالاطوار.یا قوم ھذا قوم کذبوا دیننا.و اضلّوا اَحْداثنا.وقرفوا رسولنا بالافتراء.و ولجنا المضاءِق بولوجھم و اصابنا عِرج بعروجھم.و اُرْغمَتْ معاطِسُنا بالتوھین والاستھزاء.فاتٰی وقتٌ اَنْ نتضرَّع بحضرۃ الرحمان- و نَتَاَوَّہ اٰھۃ الثکلان.ونقرع بابہ قَرْع مُصابٍ و نسئلہ کشف الضّر والنجاۃ من عذابٍ لتتحرک من اللّٰہ رحمتہ الغرّاء.و تسکن الضوضاء ویجئی بعد مکابدۃالعناء یوم روحٍ وریحانٍ من قِبَل ارحم الرحماء.و تنزل سکینۃ القلب و قرۃ العین بعد معانات الاینِ و مدانات الحینِ- یا قوم ادرکوا ریحکم قبل اَنْ یذھب.و ارضوا ربکم قبل ان یسخط و یغضب.و لا تکونوا اوّل جارحٍ لدینہ.و لابِزٍ علی اٰیاتہ وبراھینہ.لم بادرتم الی الاساء ات فی وقت المواسات و الی الفصل فی وقت الوصل.الا ترون فسادا بناء النفّاثاتِ.اخوان الترھات فَثَاء نا بالکلمات الموذیات.و اٰذونا بتوھین سیّد السادات.و تکذیب کتاب اللّٰہ جامع البرکات.وتوطّأونا بلسنھم و ارجلھم و خلبوا احداثنا بایدی الاطماع ولطائف حیلھم و صاروا للاسلام کالموصب.و للمسلمین کالذیب.فسقِطنا فی شِصبٍ شدیدٍ تداکئت اٰفاتہ.و فی ید اللّٰہ اجحاتہ واسحاتہ.یردسون علی دیننا و یصولون علی عرض نبینا و خدیننا.فیا ھکرًا علی اسلامکم لا تتیقظون من منامکم.اَ لَا ترون قدجاء وقت الانتھاء وھطل رکام الاعداء وضاقت الارض علینا بالباسآء والضرّاء.اعلموا انّ ھذا الیوم للاسلام یوم مَحْتٌ وجنّۃ مَرْتٌ.و ان لم یتدارک روح اللّٰہ فقلتٌ.ان الکفار زینوا الدقاقیر
وذموالمِسک والعبیر.و نقص القراٰن فی العیون و قوِّم بالدّون قدّت تلابیبہ.وردت اعاجیبہ.و غُلث البولُ بالماء و رجحت الظلمۃ علی الضیاء و اطاروا عیسٰیؑ بافراط الاطراء.وجعلوا اللّٰہ الوحید ذا البنات والابناء و عدلوا باللّٰہ عبدہ و اوقعوا الناس فی اللیلۃ اللیلاء و نحتوا للرسول الکریم بھتاناتٍ و أضلوا خلقًا کثیرًا بتلک الا فتراءِ.و ما اٰذٰی قلبی شیءٌ کاستھزاءھم فی شان المصطفٰی.وجرحھم فی عِرضِ خیر الوریٰ.و واللّٰہ لو قُتِلَتْ جمیع صبیانی و اولادی واحفادی باعیننی و قطّعت ایدی و ارجلی و اخرجت الحدقۃ من عینی و اُبْعِدْتُّ من کل مرادی و اَوْنی وارنی.ما کان علیّ اشقّ من ذالک.ربّ انظر الینا و الٰی ما اُبْتُلِیْنَا واغفرلنا ذنوبنا واعف عن معاصینا- لا یتغیر امرٌ بدون تغییرک و لا یاتی و لا یردُّ بلاء الا بتقدیرک.و انتم یا معشر العلماء بسأ تم بالدنیا و نُعاسھا و لذّاتِ دُکاسھا.و منکم من ثَاخَتْ قدمہ فی وحل العیسائیۃ.و مال من قوم اشعث اغبر الی ارباب الزینۃ الزّربیۃ لیستوفی حظہ من رخاخ الدُّنیا و جیفتھا.و لیجنی جنٰی شہواتہ و یتلبّس بقطیفتھا.و منکم قومٌ وقعوا فی المکالبۃ بینھم لتفشوا علی الاعداء شُنْعتَھم و شینھم فآذَی بعضھم بعضا و رَضَخَ و بَدَحَ و بَذَخَ و طرح ثوب السلم و فسخ و عاث کل حزبٍ فی اخوانھم کعیث الذیب فی الغنم و اراد ان یُّزْعِجَ اصل حریفہ بالرمی والرجم.فاکلوا انفسھم کالدیدان.و فسّحوا الامر لاعداء الدّین و اھل الطغیان.و ترکوا التّقوٰی و حاسدوا علی الاَدْران.و اسروا نفوسھم و اغضبوا اللّٰہ الرحمان.فلطم الاسلام من فسادٍ انفسی
و افاقی.و اعرض من مواساۃ کل قلب نفاقی.وکنت ارٰی کل ذالک و اُساقی و عبراتی یتحدّرن عن مآقی.و زفراتی یتصعدن من التراقی.فتوکّلت علی اللّٰہ الباقی.فاذا ھبت نسیم الالھام علی جنانی.و جاء ت بریّا التبشیر و رَفع مکانی فامِرْت و اُرْسِلت لاصلاح ھذا الفساد.و ازالۃ ذالک الناد.ان مع الجدب حِصبا ان مع الجدب حِصبا فاتقوا اللّٰہ ومھلا تعجبا.و ما کان طروقی فی غیر حینہ.بل عند حدل الناس الی الظلمۃ وترک نبراس اللّٰہ و انوارِ دینہ و جئت فی وقتٍ کانت الملۃ فی مماراتٍ مشتدّۃ اللھوب و کانت الامۃ فی امواج مُرجدۃٍ للقلوب.و کان الناس اخذوا طرق الالحاد والاباحۃ والفساد و ترکوا سبیل الرشد والصلاح والسداد.و کان العلماء لا یرون ملد القرآن و غَیْدہ.و رشاقتہ و فی حلل النور میدہ.وکانوا عفروا اللؤلوء بالاستحقار و حسبوا کتاب اللّٰہ خالیًا من المعارف والاسرار.فاتخذوا عارفھا سُخْرَۃً و مھجورًا بالاقمطرار وقطعوا الاخوۃ بالاکفھرار.و مع ذالک کانت مبارات المذاھب بطریق الاستدلال و دخل العقول.لا بفوارس علی صھوات الخیول و کانت عَادۃ ابناء الزمان قد جرت واستحکمت لامتحان الحسن والجمال والنظر الی الشمائلِ و انواع الکمال و کان الاسلام قد لُوّحت خدودہ و جبھتُہ و بدلت ھَیْءَتُہ و صورتہ.و اخفیت طاقتہ و لیاقتہ.و کتمت ملاحتہ و رشاقتہ و کان ھذا ھو السبب الذی جَرّء المخالفین علی الانکار.فزاغوا فی الظنون والاستحقار.فبعث اللّٰہ رجلا لاعلاء شان کلامہ.و اظھار اسرارہ و اعلان معارفہ وَ اراءَ ۃ تضوّع مسکہ و فضّ خِتامہ.
فالقو م ردوہ و لم یقبلوہ.و طردوہ و لم یاووہ.و سبّوہ و لم یشکروہ و اھانوہ و لم یوقّروہ و لم ینظروا الیہ کما ینظر مرموق الاھتداء.موموق الاخاءِ.و شطوا فی خوضھم حدود الاتقاء.و قالو ا لقد جئت ادّا.و جُزْت عن الملّۃ جدّا فلم یلبثوا حتی نَھِد منھم الیّ بطّالٌ لاکفاری و کیف ینطفی نور اللّٰہ من فوہ بطالوی عاری.و لکنہ سعی کل سعیہ لمحو اشعۃ الحق و اطفاء انوارہ.و تبدید اعوانہ و انصارہ.فلم یغادر جذعا ولا قارحا من المستعجلین المتفقّھین.الا جعلہ من اللاعنین المکفرین الا ما شاء اللّٰہ رب العالمین.فکل بغاثٍ استنسر.و کل محجوب اکفر و کفر.واستھدفنی للنضالِ و اکثر.و اخرج کل نجارہ وما غادر فجعلوا عرضی للسھامِ عُرضۃ.و حسبوہ عملًا یزید قربۃ.و قلبوا لی الامور.و اوقدوا لی التنور.و ارادوا ان یسحتونی و یسحقونی و یسقونی کاس المنایا واآافات.و اراد اللّٰہ ان یمزّق مکائدھم و یریھم من بعض الآیات ھو ربی و رَحْمَتُہٗ تکفینی و لہ حیاتی و مماتی و تجھیزی و تکفینی.ھو حبّی کثیر السماح.یاتینی و یسقینی کاساتِ راح ذکرہ شرابٌ یزیل الاحزان.و حُبّہ شیء اسراھل الصلاح لن نفصل ما وصلنا لہ.و لو قُطِّعْنَا بالسیوف والرماح.وانظروا الٰی اٰثار رحمتہ و اٰیات قبولیّتہِ.ان القوم یسعون لاِعدامی.و ھو یربّی عِرْدامی.والقوم یمکرلقطع اصلی و ھدم بنیانی.و ھو یُنمی اَفْنانی و اَغْصانی.والقوم یرید اطرادی و تحقیری و تَوْھِیْنی.و ھو یُکرِمنی.و یُبشرنی بمراتب و یدنینی و من مِنَنِہ انہ احیی قلوبًا یَھْوُوْن اِلیّ و عبادًا یعتکفون لدی.و احبابًا یصلّون
علیّ.و اَرْسَلَ فی اقطار العالم ریاحًا تحشر الناس الینا کانہ فوج نوریٌّ یقود القلوب الی الدین المتین اَوْعَبْقریٌّ بھیرویٌ نُوْرُالدِّیْن یعنی اخویم مولوی حکیم نور دین بھیروی کہ ہمدردی اسلام برایشان غالب ست ازین وجہ بانتشار نورانیت سماوی مشابہت دارند و ہذا فضل اللہ فھذا رحمۃ ربی و حقٌّ صُراحٌ ما یُبْطلہ بطالویّ و غیرہ وان نجع نفسہ مِن حسراتٍ و یطیر من القالب طیرہ و واللّٰہ ان البطالوی ما قصر فی مکائدہ بل ضمّ بطالیّتہ بفحشِ لسانہ و حصائدہ.و لو لا ھیبۃ سیفٍ سَلہ عدلُ سلطنۃ البرطانیۃ لَحثّ الناسَ علی سفک دمی و جلب رَجِلہ و خیلہ لحسمی و حطمی ولکن منعہ من ھذا رعب ھذہ الدّولۃ و لَمعان تلک الطاقۃ فنشکر اللّٰہ کل الشکر علٰی ما اٰمَنَنَا مِن کلِّ خوفٍ تحت ظلّ ھذہ الدّولۃ البرطانیۃ المبارکۃ للضّعفاءِ و کھف اللّٰہ لِلْفقراءِ
وَالغرباءِ.و سوط اللّٰہ علٰی کلِّ عتیدٍ وحامئ غریبان است و پناہ فقرا و تازیانہ خداست برہر سرکش ذی خیلاء.ثم وجب علینا شکر تکبر کنندہ باز برما شکر احسانات احسانات القیصرۃ العادلۃ.التی یخاف قیصرہ عادلہ واجب است آنکہ ہر ستمگار اخذھا قلب الحادل و الحادلۃ.و کیف ازمواخذہ اومے ترسد خواہ مرد است، خواہ زن، و چرا لا نشکرھا و ان اللّٰہ عصمنا بھذہ شکر نہ کنیم حالانکہ خدا تعالیٰ در زیر سایہ این سلطنت السلطنۃ من حلول الاھوال و طمس بھا از ہر خوف و خطر مارا رہانید و آثار آثار الظلم وانزل علینا من الآلاء ظلم و تعدی را ناپدید کرد و بر ما نعمت ہائے خود ریخت والاموال اللّٰھم فاجز تلک الملکۃ مناخیر اے خدا جل و علا این ملکہ را ازما جزائے خیر جزائک و انصرھا علٰی اعداءھا و اعدائک بہ بخش و بر دشمنان او بر دشمنان تو او را فتح نصیب کن و بر قومے مدد دہ کہ و ادخلھا من کلّ شرّ فی ذراک وارزقھا من دشمنان او و نیز دشمنان تو ہستند و قیصرہ را از ہر شر بہ پناہ خود در آر.
نعمائک.واھد قلبھا وقلب ذراریھا الی دینک واز نعمت ہائے خود اُو را روزی رسان و دلِ اُو ر ا و دل اولادِ اُو را بسوئے دین خود دین الاسلام ونجھم مِن انف الشّرک و اتخاذ کہ اسلام است رغبتے بہ بخش وایشاں را از ہمہ آفت ہا ورنجہا و شرک ہا وازننگِ العبد الھًا و نجھم من جمیع الآلام.ربّ بندہ را خدا قرار دادن توفیق نجات ارزانی دار.اے خدائے من احسن الیھم کما احسنوا الینا واجعل افئدۃ بر ایشان احسان کن ز انسان کہ بما احسان کردند و از ایشان در زمان حیات من منھم یقبلون دینک فی زمان حیاتی.ربِّ اَنْزِلْ کسانے را برآر کہ دین ترا بہ پذیر اند اے خدا بر ایشان عَلیھم مَاءِدۃ من برکاتک واستجب دعواتی مائدہ برکات خود فرود آر و ایں دعاہائے مرا قبول فرما آمین ثم آمین آمین ثم آمین و یا عجبًا کل العجب ھذا قوم یقال لہ الکفار.و ذالک حزب یقال لہ الاخوان وبہ بینیداین تعجب را کہ انگریزان بدین ہمہ احسان ہا قومے ہستند کہ بنام کفار موسوم اند و این مسلمانان بدین جوروستم والانصار.فیا حزبَ اخوانٍ شر من الاعادی.ھلم الی ما تنجی یوم التنادی دعوے برادی و خویشی میکنند و لا تطیلوا سوء ظنکم بالاخوان.واتقوا اللّٰہ مصرف الملوین ا لیس منکم رجل رشید یخاف المآل و یذ راللدَدَ والجدال ا تعلمون ما تواجھون.و الی من تتوجھون.ا تکفرون فِرقَ الاسلام باختلاف الفروع و تابون من المندوب
والمشروع.و ھا انا اشھد بالرّب العظیم.و احلف باللّٰہ الکریم.علی اِنّنی مومن مسلم موحّدٌ متبع لاحکام اللّٰہ و سنن رسولہ.و بریءٌ ممّا تظنون ومن سمّ الکفر و حلولہ و انی لا اری لغیر الشرع عِزّۃً.و لا لعالمہ درجۃً.وآمنتُ بکتاب اللّٰہ و اشھد انّ خلافہ زندقۃ.و من تفوّہ بکلمۃٍ لیس لہ اصل صحیح فی الشرع ملھمًا کان او مجتھدا فبہ الشیاطین متلاعبۃ و آمنت بانّ نبیّنا محمدًا صلی اللّٰہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء و ان کتابنا لقرآن کریم وسیلۃ الاھتداء لا نبی لنا نقتدی بہ الا المصطفی و لا کتاب لنا نتبعہ الا الفرقان المھیمن علی الصحف الاولی.و آمنت بان رسولنا سید ولد آدم و سید المرسلین و بان اللّٰہ ختم بہ النبیّین.و بان القرآن المجید بعد رسول اللّٰہ محفوظ من تحریف المحرفین و خطأ المخطین.و لا ینسخ و لا یزید و لا ینقص بعد رسول اللّٰہ و لا یخالفہ الھام الملھمین الصادقین و کل ما فھمتُ من عویصات القرآن او اُلْھِمْتُ من اللّٰہ الرحمان فقبلتہ علی شریطۃ الصحۃ والصواب والسمت.و قد کُشِفَ علیّ انہ صحیح خالص یوافق الشریعۃ لا ریب فیہ.و لا لبس و لا شکّ و لا شُبْھَۃ.و ان کان الامر خلاف ذالک علی فرض المحال فنبذنا کلہ من ایدینا کالمتاع الردیّ ومادۃِ السعال.و آمنا بمعانی ارادھا اللّٰہ والرسول الکریم و ان لم نعلمھا و لم یکشف علینا حقیقتھا من اللّٰہ العلیم و عندنا نصوص و اٰیات و براھینٌ علی صحّتہا سنذکرھا فی موضعھا و وقتھا.نرد بھا علی الذین اعتادت قلوبھم زورًا وقذفت اقلامھم لغوًا موفورًا.و ھم لا یقرء ون کتابی.و لا یتدبّرون فی جوابی و لا یتفکّرون.فویل لھم مما کتبت ایدیھم و ویلٌ لھم مما یکسبون.
و ما اردنا للمخالفین فی ذالک الکتاب الّا جواب اوھامھم و اسحات الزامہم و اما طریق السّبّ بالسّبّ واللَّعْن باللَّعْن والذبّ.فالکتاب نزّہ عنھا.و فُوّض الامر الی اللّٰہ ربّ السماءِ.یا معشر العلماء لا تدخلوا فی علم اللّٰہ و اسرارہ و لا تجرء وا علٰی قولٍ ما اُعطیتم من علم دثارہ.و لا یَخْتَلِبْکم حیات الدّنیا و خضراءھا.و لا یفتننکم صرخ صارخۃٍ و ضوضاء ھا.و انی اعزم علیکم باللّٰہ الرّحمان.اَن تَذرُوْنی مجادلًا باعدآء المصطفٰی والفرقان.و تمدونی بکف اللسان.اِنْ اَ کُ صادقا فسوف یریکم اللّٰہ صدقی و ثباتی.و ان اَ کُ کاذبًا فکفی اللّٰہ لِاِجْحَاتِیْ و اِسحاتِی.فلا تُشمِتُوا بِی الاَعْداءَ و لا تعتدوا و لا تطیلوا الایذاء و لعلم اللّٰہ اَوْسَع من علمکم ھو یعلم فی نفسی ما لا تعلمون.و ان لم تنتھوا فستُرجعون الی اللّٰہ ثم تُسْءَلون.وَ امّا الاَ مْرالثانی الّذی اَلجأنی الٰی ذِکرکم بذکرِ امام الاقاصِی والادانی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فاعلموا یا شرخ المسلمین و شیوخ المؤمنین.انی اردت من ترتیبی ھذا ان اَسْتنزل رحم اللّٰہ علیکم و توبتہ بالتوسل بخاتم الانبیاء واصفی الاصفیاء.فاشھدوا انی اَمدُّ الی اللّٰہ ید المسئلۃ لکم و اطلب منہ ھدیکم.ربّ یا ربّ اسمَع دعائی فی قَوْمِی و تضرعی فی اخوتی.انی اتوسل الیک بنبیّک خاتم النبیین.و شفیع و مشفع للمذنبین.رب اخرجھم من الظلمات الٰی نورک ومن بیداء البعد الٰی حضورک.رب ارحم علی الذین یلعنون علیَّ.واحفظ من تبّک قوماً یقطعون یدیّ.واَدْخِل ھَداک فی جذر قلوبھم واعفُ عن خطِیءَاتھم
و ذ نوبھم.واغفر لھم و عافھم.و وادعھم و صافھم واعطھم عیونًا یبصرون بھا.و اٰذانًا یسمعون بھا.و قلوبًا یفقھون بھا.و انوارًا یعرفون بھا.وارحم علیھم واعف عما یقولون فانھم قومٌ لا یعلمون.رب بوجہ المصطفٰی و درجتہ العُلیا.والقائمین فی اٰناء اللیل والغازین فی ضوء الضحٰی و رکاب لک تعُدُّوا السُریٰ و رحالٍ تُشَدُّ الٰی اُمّ القریٰ اصلح بیننا و بین اخواننا وافتح ابصارھم و نوّر قلوبھم و فھّمھم ما فَھَّمْتَنِی و علّمھم طُرق التقوٰی واعف عما مضٰی و اٰخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب السَّمٰوٰت الْعُلٰی.دَرنعت ومدح حضرت سیّدنا وسیّدالثقلَیْن محمد مصطفی و اَحمدمجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم چون زمن آید ثنائے سرورِ عالی تبار عاجز از مدحش زمین و آسمان و ہر دو دار آن مقامِ قرب کو دارد بدلدارِ قدیم کس نداند شان آنِ از واصلانِ کردگار آن عنایت ہا کہ محبوبِ ازل دارد بدو کس بخوابے ہم ندیدہ مثل آن اندر دیار سرورِ خاصانِ حق شاہِ گروہِ عاشقان آنکہ روحش کرد َ طے ہر منزلِ وصلِ نگار آن مبارک پے کہ آمد ذات باآیاتِ او رحمتے زان ذاتِ عالم پرور و پروردگار
آنکہ دارد قرب خاص اندر جنابِ پاک حق آنکہ شانِ او نہ فہمد کس ز خاصان و کبار اَحمدِ آخر زمان کو اوّلین را جائے فخر آخرین را مقتدا ؤ ملجا ؤ کہف و حصار ہست درگاہِ بزرگش کشتیِء عالم پناہ کس نگردد روزِ محشر ُ جز پناہش رستگار ازہمہ چیزے فزون تر درہمہ نوع کمال آسمانہا پیش اَوجِ ہمّت او ذرّہ وار مظہر نورے کہ پنہان بود از عہدِ ازل مطلع شمسے کہ بود از ابتدا در استتار صدر بزم آسمان و حجۃ اللہ بر زمین ذاتِ خالق رانشانے بس بزرگ و استوار ہر رگ و تارِ وجودش خانۂ یارِ ازل ہر دم و ہر ذرّہ اش پُر از جمالِ دو ستدار حسن روئے اوبہ از صد آفتاب و ماہتاب خاک کوئے اوبہ از صد نافۂ مشک تتار ہست اُو ازعقل و فکر و فہم مردُم دور تر کَیْ مجالِ فکر تا آن بحرِ ناپیداکنار روح او در گفتنِ قولِ بلیٰ اوّل کسے آدمِ تو حید و پیش ازآدمش پیوندِ یار اشارہ سوئے الست بربکم قالوا بلٰی یعنی پیدا کنندہ توحید بعد از گمشدن آن جان خود دادن پئے خلق خدا در فطرتش جان نثارِ خستہ جانان بیدلان راغمگسار اندر آن وقتے کہ دنیا ُ پر زِ شرک و کفر ُ بود ہیچکس را ُ خون نشددِل ُ جز دل آن شہر یار ہیچکس از خبث شرک و رجس بت آگہ نہ شد این خبر شد جان اَحمد راکہ بود از عشق زار کس چہ مے داند کرازان نالہ ہا باشد خبر کان شفیعے کرداز بہر جہان در کُنجِ غار
من نمیدانم چہ دردے بود و اندوہ و غمے کاندرانِ غارے درآوردش حزین و دِلفگار نےَ زِ تاریکی توّ حش نےَ زِ تنہائی َ ہر اس نے ز مُردن غم نہ خوف کژدمے نےَ بیمِ مار کشتۂ قوم و فدائے خلق و قربان جہان نےَ بجسم خویش میلش نےَ بہ نفس خویش کار نعرہ ہا ُ پر درد میزد از پئے خلقِ خدا شد تضرّع کار اوپیشِ خدا َ لیل و نہار سخت شورے بر فلک افتاد زان عجز و دعا قدسیاں را نیز شد چشم از غمِ آں اشکبار آخر از عجز و مناجات و تضرّع کردنش شد نگاہ لطف حق برعالمِ تاریک و تار در جہان از معصیت ہا بود طوفانِ عظیم بود خلق از شرک و عصیاں کو رو کر در ہر دیار ہمچو وقتِ نوح دنیا بود پُراز ہر فساد ہیچ دل خالی نبود از ظلمت و گرد و غبار مر شیاطین راتسلّط بود بر ہر رُوح و نفس پس تجلّی کرد بر رُوحِ محمّد کردگار منّتِ او برہمہ سرخ و سیا ہی ثابت است آنکہ بہر نوع انسان کرد جانِ خود نثار یانبی اللہ توئی خورشیدِ رہ ہائے ھُدٰی بے تو نآرد رُو براہے عارفِ پرہیزگار یانبی اللہ لب تو چشمہۂ جان پرور است یا نبی اللہ توئی در راہِ حق آموزگار آن یکی جو ئد حدیث پاک تو از زید و عمر و و آن دگر خود از دہانت بشنود بے انتظار زندہ آن شخصے کہ نوشد جُرعۂ از چشمہ ات زیرک آن مردیکہ کرداست اتباعت اختیار
عار فان را منتہائے معرفت علمِ رخت صادقان رامنتہائے صدق برعشقت قرار بے تو ہرگز دولتِ عرفان نمی یا بد کسے گرچہ میرد درریاضت ہائے و جہد بے شمار تکیہ براعمال خود بے عشق رویت ابلہی است غافل از رویت نہ بیند روئے نیکی زینہار دردمے حاصل شود نورے زِعشق روئے تو کان نباشد سالکان را حاصل اندر روزگار از عجائب ہائے عالم ہرچہ محبوب و خوش است شانِ آن ہر چیز بینم در وجودت آشکار خوشتر از دورانِ عشق تو نباشد ہیچ دور خوبتر از وصف و مدح تو نباشد ہیچ کار منکہ رہ بردم بخوبی ہائے بے پایانِ تو جان گزارم بہر تو گر دیگرے خدمت گزار ہرکسے اندر نمازِ خود دعائے می کند من دعا ہائے برو بارِ تو اے باغ بہار یانبی اللہ فدائے ہر سرِ موئے توام وقفِ راہِ تو کنم گرجاں دہندم صد ہزار اتباع و عشقِ رؤیت ازرہِ تحقیق چیست کیمیائے ہر دلے اکسیر ہر جانِ فگار دل اگر خوں نیست ازبہرت چہ چیزاست آن دلے ور نثارِ تو نگردد جان کجا آید بکار دل نمے ترسد بمہر تو مرا از موت ہم پائداری ہا ببین خوش میروم تاپائے دار راغب اندر رحمتت یا رحمۃ اللہ آمدیم ایکہ چون ما بردر تو صد ہزار امید وار یانبی اللہ نثار روئے محبوب توام وقفِ راہت کردہ ام این سرکہ بردوش ست بار
تا بمن نور رسولِ پاک را بنمودہ اند عشق او در دل ہمی جو شد جو آب از آبشار آتشِ عشق از دمِ من ہمچو برقے می جہد یکطرف اے ہمدمان خام از گرد وجوار برسرِ وجداست دل تا دید روئے او بخواب اے بران روئے و سرش جان و سرور روئم نثار صد ہزاران یوسفے بینم درین چاہِ ذقن و آن مسیح ناصری ُ شد از دمِ او بے شمار تاجدار ہفت کشور آفتا ِ ب شرق و غرب بادشاہِ ملک و ملّت ملجاءِ ہر خاکسار کامران آن دِل کہ زد در راہ او از صدق گام نیک بخت آن سرکہ میدار د سرآن شہ سوار یانبی اللہ جہاں تاریک شداز شرک و کُفر وقت آن آمد کہ بنمائی رخ خورشید وار بینم انوارِ خدا در روئے تو اے دلبرم مست عشق روئے تو بینم دل ہر ہوشیار اہل دل فہمند قدرت عارفان دانند حال از دو چشمِ شپران پنہان خورِ نصف النہار ہر کسے دارد سرے بادلبرے اندر جہان من فدائے روئے تو اے دلستان ُ گلعذار ازہمہ عالم دل اندر روئے خوبت بسۃ ام بروجود خویشتن کردم وجودت اختیار زندگانی چیست جان کردن براہِ توفدا رستگاری چیست در بندِ تو بودن َ صیدوار تاوجودم ہست خواہد بود عشقت در دلم تادلم دورانِ خون دارد بتو دار و مدار یارسول اللہ برویت عہددارم استوار عشق تو دارم ازان روزیکہ بودم شیرخوار یعنی عشق تو در وجود من فطرتی است ۱۲
ہر قد م کاندر جناب حضرت بے چون زدم دیدمت پنہان معین و حامی و نصرت شعار در دو عالم نسبتے دارم بتواز بس بزرگ پرورش دادی مرا خود ہمچو طفلے درکنار یاد کن وقتیکہ درکشفم نمودی شکل خویش یاد کن ہم وقت دیگر کآمدی مشتاق وار یاد کن آن ُ لطف و رحمتہا کہ بامن داشتی و آن بشارت ہا کہ میدادی مرا از کردگار یادکن وقتے چو بنمودی بہ بیداری مرا آن جمالے آن رخے آن صورتے رشک بہار آنچہ مارا از دو شیخ شوخ آزارے رسید یارسول اللہ بپُرس از عالمِ ذو الاقتدار حال ما و شوخیء این ہر دو شیخ بد زبان جملہ میداند خدائے حال دان و ُ بردبار نام من دجّال وضال و کافرے بنہادہ اند نیست اندر زُعم شان چون من پلیدو زشت وخوار ہیچکس رابرمن مظلوم و غمگین دل نہ سوخت
پیر گشتی ُ خلق پیران را نمے دانی ہنوز ایزدت بخشد چو پیران صدق و سوز و اصطبار گرکنی تکفیر قوم خودچہ کارے کردۂ رَو اگر مردی جہودے راباسلام اندر آر چون نسیمِ صبح محشر پردہ بردارد زِ کار کیست کافر کیست مومن خود بگردد آشکار گر خرد مندی بروُکن فکرِ نفسِ خود نخست لاف ایمان خود چہ چیزے نورِ ایمان رابیار چند برتکفیر نازی چند استہزاُ کنی رو بایمانِ خود و ما را بکفرِما گذار نےَ زِ فرد وسم حکایت کن نہ از آلامِ نار کز غمِ دینِ محمدؐ میزیم شوریدہ وار اندر آن وقتیکہ یاد آید مہمِّ دین مرا بس فراموشم شود ہر عیش و رنج ہر دو دار امّا بعد یہ کتاب کہ جس کا ایک نام آئینۂ کمالاتِ اسلام اور دوسرا نام دافع الوساوس بھی ہے ایک مقدمہ اور تین باب اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے خدا تعالیٰ اس میں برکت ڈالے اور ایک عالم کیلئے ہدایت کا موجب کرے آمین ثم آمین
المُقَدّ مَہ تھوڑا عرصہ گذرا ہے کہ اس عاجز نے خدا تعالیٰ سے توفیق پا کر تین رسالے تائید اسلام میں تالیف کئے تھے جن میں سے پہلے کا نام فتح اسلام اور دوسرے کا نام توضیح مرام اور تیسرے کا نام ازالہ اوہام ہے ان رسالوں میں حسب ایماء اور الہام اور القاء ربّانی اس مرتبہ مثیلِ مسیح ہونے کا ذکر بھی تھا جو اس عاجز کو عطا کیا گیا.ایسا ہی اُن دقائق و حقائق و معارف عالیہ کا بیان تھا جو اسلام اور قرآن کریم کی اعلیٰ حقیقتیں اور مسلمانوں کیلئے بمقابلہ مخالفین جائے فخر تھیں اور نیز اسلامی توحید کے انتہائی مرتبہ کی خوبصورتی اور صفائی ان حقائق سے ظاہر ہوتی تھی اور نیز وہ سب معارف ان بیرونی حملوں کے کافی و شافی جوابات تھے جو موجودہ زمانہ کے لوگ سراسر اپنے تعصب اور کوتاہ نظری سے تعلیم اسلام پر کرتے ہیں اور یہ سب کچھ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے لیا گیا تھا اور گزشتہ اکابر کی ان سچائیوں پر شہادتیں بھی موجود تھیں اور امید تھی کہ عقل مند لوگ ان کتابوں کو شکر گذاری کی نظر سے دیکھیں گے اور خدا تعالیٰ کی جناب میں سجدات شکر بجا لاویں گے کہ عین ضرورت کے وقت میں اس نے یہ روحانی نعمتیں عطا فرمائیں لیکن افسوس کہ بعض علماء کی فتنہ اندازی کی وجہ سے معاملہ برعکس ہوا اور بجائے اس کے کہ لوگ خدا تعالیٰ کا شکر کرتے ایک شور اور غوغا سخت ناشکری کا ایسا برپا کردیا گیا کہ وہ تمام حقائق اور لطائف اور نکات اور معارف الہٰیہ کلمات کفر قرار دیئے گئے.اور اسی بنا پر اس عاجز کا نام بھی کافر اور ملحد اور زندیق اور دجّال رکھا گیا.بلکہ دنیا کے تمام کافروں اور دجّالوں سے بدتر قرار دیا گیا.اس فتنہ اندازی کے اصل بانی مبانی
ایک شیخ صاحب محمد حسین نام ہیں جو بٹالہ ضلع گوداسپور میں رہتے ہیں اور جیسے اس زمانہ کے اکثر ملا تکفیر میں مستعجل ہیں اور قبل اس کے جو کسی قول کی تہہ تک پہنچیں اس کے قائل کو کافر ٹھہرا دیتے ہیں یہ عادت شیخ صاحب موصوف میں اوروں کی نسبت بہت کچھ بڑھی ہوئی معلوم ہوتی ہے.اور اب تک جو ہم پر ثابت ہوا ہے وہ یہی ہے کہ شیخ صاحب کی فطرت کو تدبّر اور غور اور حسن ظن کا حصّہ قسّام ازل سے بہت ہی کم ملا ہے.اسی وجہ سے پہلے سب استفتاء کا کاغذ ہاتھ میں لے کر ہریک طرف یہی صاحب دوڑے.چنانچہ سب سے پہلے کافر اور مرتد ٹھہرانے میں میاں نذیر حسین صاحب دہلوی نے قلم اٹھائی اور بٹالوی صاحب کے استفتاء کو اپنی کفر کی شہادت سے مُزیّن کیا اور میاں نذیر حسین نے جو اس عاجز کو بلاتوقّف و تأمّل کافر ٹھہرا دیا.باوجود اس کے جو میں پہلے اس سے اُن کی طرف صاف تحریر کرچکا تھا کہ میں کسی عقیدہ متفق علیہا اسلام سے منحرف نہیں ہوں.اس کی بہت سی وجوہ میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میاں صاحب موصوف اب ارذلِ عمر میں ہیں.اور بجز زیادت غضب اور طیش اور غصّہ کے اور کوئی عمدہ قوت غور اور خوض کی ان میں باقی نہیں رہی.بلکہ اگر میں غلطی نہیں کرتا تو میری رائے میں اب بباعث پیر فرتوت ہوجانے کے ان کے حواس بھی کسی قدر قریب الاختلال ہیں ماسواء اس کے مجھے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ابتدا سے ہی ایک سطحی خیالات کے آدمی ہیں اور ان کی فطرت ہی کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ حقائق عالیہ اور معارف دقیقہ سے ان کی طبعیت کو کچھ مناسبت نہیں غرض بانی استفتاء بطالوی صاحب اور اوّل المکفّرین میاں نذیر حسین صاحب ہیں اور باقی سب ان کے َ پیرو ہیں.جو اکثر بٹالوی صاحب کی دل جوئی اور دہلوی صاحب کے حق استادی کی رعایت سے ان کے قدم پر قدم رکھتے گئے.یوں تو ان علماء کا کسی کو کافر ٹھہرانا کوئی نئی بات نہیں یہ عادت تو اس گروہ میں خاص کر اس زمانہ میں بہت ترقی کر گئی ہے اور ایک فرقہ دوسرے
فرقہ کو دین سے خارج کر رہا ہے لیکن اگر افسوس ہے تو صرف اس قدر کہ ایسے فتوے صرف اجتہادی غلطی کی ہی وجہ سے قابل الزام نہیں بلکہ بات بات میں خلاف امانت اور تقویٰ عمل میں آتا ہے اور نفسانی حسدوں کو درپردہ مدِّنظر رکھ کر دینی مسائل کے پیرایہ میں اس کا اظہار ہوتا ہے.کیا تعجب کا مقام نہیں کہ ایسے نازک مسئلہ میں کافر قرار دینے میں اس قدر ُ منہ زوری دکھلائی جائے کہ ایک شخص بار بار خود اپنے اسلام کا اقرار کرتا ہے اور ان تہمتوں سے اپنی بریت ظاہر کررہا ہے جو موجب کفر ٹھہرائی گئی ہیں مگر پھر بھی اس کو کافر ٹھہرایا جاتا ہے اور لوگوں کو تلقین کی جاتی ہے کہ باوجود اقرار کلمہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ اور باوجود توحید اور ماننے عقائد ضروریہ اسلام اور پابندی صوم و صلوٰۃ اور اہل قبلہ ہونے کے پھر بھی کافر ہے.اور دیگر مشرکین اور کفار کی طرح ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور کبھی اس سے باہر نہیں ہوگا.ایکہ دجّالم بچشمت نیز ضال چوں نترسی از خدائے ذوالجلال مومنے را نام کافر مے نہی کافرم گر مومنی باایں خیال اور عموماً تمام علمائے مکفّرین پر یہ افسوس ہے کہ انہوں نے بلاتفتیش و تحقیق بٹالوی صاحب کے کفرنامہ پر مہریں لگادیں اور اول سے آخر تک میری کتابیں نہ دیکھیں اور بذریعہ خط و کتابت مجھ سے کچھ دریافت نہ کیا.اگر وہ نیک نیتی سے مہریں لگاتے تو ان کا نور قلب ضرور ان کو اس بات کی طرف مضطر کرتا کہ پہلے مجھ سے دریافت کرتے اور میرے الفاظ کے حلّ معانی بھی مجھ سے ہی چاہتے.پھر اگر بعد تحقیق وہ کلمات درحقیقت کفر کے کلمات ہی ثابت ہوتے تو ایک بھائی کی نسبت افسوس ناک دل کے ساتھ کفر کی شہادت لکھ دیتے اگر وہ ایسا کرتے اور عجلت سے
کام نہ لیتے تو ان الزاموں سے بری ٹھہرتے جو عند اللہ ایک تکفیر کے شتاب باز پر عائد ہوسکتے ہیں.مگر افسوس کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ جیسے ایک بھیڑ دوسری بھیڑ کے پیچھے چلی جاتی ہے اور جو کچھ وہ کھانے لگتی ہے اسی پر یہ بھی دانت مارتی ہے.یہی طریق اس تکفیر میں ہمارے بعض علماء نے بھی اختیار کر لیا.فَمَا اَشْکُوْا اِلَّا اِلَی اللّٰہِ اس بات کو کون نہیں جانتا کہ ایک مسلمان مؤحد اہل قبلہ کو کافر کہہ دینا نہایت نازک امر ہے بالخصوص جب کہ وہ مسلمان بارہا اپنی تحریرات و تقریرات میں ظاہر کرے کہ میں مسلمان ہوں اور اللہ اور رسول اور اللہ جلّ شانہٗ کے ملائک اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور بعث بعد الموت پر اسی طرح ایمان لاتا ہوں جیسا کہ اللہجلّ شانہٗ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیم میں ظاہر فرمایا ہے.اور نہ صرف یہی بلکہ ان تمام احکام صوم و صلوٰۃ کا پابند بھی ہوں جو اللہ اور رسول صلعم نے بیان فرمائے ہیں تو ایسے مسلمان کو کافر قرار دینا اور اس کا نام اکفر اور دجّال رکھنا کیا یہ ان لوگوں کا کام ہے جن کا شعار تقویٰ اور خدا ترسی سیرت اور نیک ظنی عادت ہو.اگرچہ جیسا کہ میں ابھی بیان کرچکا ہوں یہ بات تو سچ ہے کہ قدیم سے علماء کا یہی حال رہا ہے کہ مشائخ اور اکابر اوراَئمہ وقت کی کتابوں کے جب بعض بعض حقائق اور معارف اور دقائق اور نکات عالیہ ان کو سمجھ نہیں آئے اور ان کے زعم میں وہ خلاف کتاب اللہ اور آثار نبویہ پائے گئے تو بعض نے علماء میں سے ان اکابر اوراَئمہ کو دائرہ اسلام سے خارج کیا اور بعض نے نرمی کر کے کافر تو نہ کہا لیکن اہلسنت و الجماعت سے باہر کردیا.پھر جب وہ زمانہ گذر گیا اور دوسرے قرن کے علماء پیدا ہوئے تو خدا تعالیٰ نے ان پچھلے علماء کے سینوں اور دلوں کو کھول دیا اور ان کو وہ باریک باتیں سمجھا دیں جو پہلوں نے نہیں سمجھی تھیں.تب انہوں نے ان
گذ شتہ اکابر اور اماموں کو ان تکفیر کے فتووں سے َ بری کردیا اور نہ صرف بری بلکہ ان کی قطبیّت اور غوثیت اور اعلیٰ مراتب ولایت کے قائل بھی ہوگئے اور اسی طرح علماء کی عادت رہی اور ایسے سعید ان میں سے بہت ہی کم نکلے جنہوں نے مقبولان درگاہ الٰہی کو وقت پر قبول کر لیا امام کامل حسین رضی اللہ عنہ سے لیکر ہمارے اس زمانہ تک یہی سیرت اور خصلت ان ظاہر پرست مدعیان علم کی چلی آئی کہ انہوں نے وقت پر کسی مرد خدا کو قبول نہیں کیا خدائے تعالیٰ نے یہودیوں کی نسبت قرآن کریم میں بیان فرمایا تھا کہ33۱.الخ یعنی اے بنی اسرائیل کیا تمہاری یہ عادت ہوگئی کہ ہر ایک رسول جو تمہارے پاس آیا تو تم نے بعض کی ان میں سے تکذیب کی اور بعض کو قتل کر ڈالا.سو یہی خصلت اسلام کے علماء نے اختیار کرلی تا یہودیوں سے پوری پوری مشابہت پیدا کریں سو انہوں نے نقل اتارنے میں کچھ فرق نہیں رکھا اور ضرور تھا کہ ایسا ہوتا کہ تا وہ سب باتیں پوری ہوجائیں جو ابتدا سے رسول کریم نے اس مشابہت کے بارہ میں فرمائی تھیں.ہاں علماء نے مقبولوں کو قبول بھی کیا اور بڑی ارادت بھی ظاہر کی یہاں تک کہ ان کی جماعت میں بھی داخل ہوگئے مگر اس وقت کہ جب وہ اس دنیا ناپائیدار سے گذر گئے اور جب کہ کروڑہا بندگان خدا پر ان کی قبولیت ظاہر ہوگئی.وللہ درالقائل.جب مر گئے تو آئے ہمارے مزار پر پتھر پڑیں صنم تیرے ایسے پیار پر اور میری حالت جو ہے وہ خدا وند کریم خوب جانتا ہے اس نے مجھ پر کامل طور پر اپنی برکتیں ۱ البقرۃ:
ناز ل کی ہیں.اور اتباع نبوی میں ایک گرم جوش فطرت بخش کر مجھے بھیجا ہے کہ تا حقیقی متابعت کی راہیں لوگوں کو سکھلاؤں اور ان کو اس علمی و عملی ظلمت سے باہر نکالوں جو بوجہ کم توجّہی ان پر محیط ہورہی ہے.میں اس بات کا دعویٰ نہیں کرتا کہ میری روح میں کچھ زیادہ سرمایہ علوم کسبیہ ہے بلکہ میں اپنی ہیچمدانی اور کم لیاقتی کا سب سے زیادہ اور سب سے پہلے اقرار کرتا ہوں لیکن ساتھ اس کے میں اس اقرار کو بھی مخفی نہیں رکھ سکتا کہ میرے جیسے ہیچ اور ذلیل اور اُمی کو خود خدا وند کریم نے اپنے کنار تربیت میں لے لیا اور ان سچی حقیقتوں اور کامل معارف سے مجھے آگاہ کردیا کہ اگر میں تمام غور و فکر کرنے والوں سے ہمیشہ زیادہ غور و فکر کرتا رہتا اور بااینہمہ ایک لمبی عمر بھی پاتا تب بھی ان حقائق اور معارف تک ہرگز پہنچ نہ سکتا.میں اس مولیٰ کریم کا اس وجہ سے بھی شکر کرتا ہوں کہ اس نے ایمانی جوش اسلام کی اشاعت میں مجھ کو اس قدر بخشا ہے کہ اگر اس راہ میں مجھے اپنی جان بھی فدا کرنی پڑے تو میرے پر یہ کام بفضلہ تعالیٰ کچھ بھاری نہیں.اگرچہ میں اس دنیا کے لوگوں سے تمام امیدیں قطع کرچکا ہوں مگر خدا تعالیٰ پر میری امیدیں نہایت قوی ہیں سو میں جانتا ہوں کہ اگرچہ میں اکیلا ہوں مگر پھر بھی میں اکیلا نہیں وہ مولیٰ کریم میرے ساتھ ہے اور کوئی اس سے بڑھ کر مجھ سے قریب تر نہیں اسی کے فضل سے مجھ کو یہ عاشقانہ روح ملی ہے کہ دکھ اٹھا کر بھی اس کے دین کیلئے خدمت بجا لاؤں اور اسلامی مہمّات کو بشوق و صدق تمام تر انجام دوں.اس کام پر اس نے آپ مجھے مامور کیا ہے اب کسی کے کہنے سے میں رک نہیں سکتا اور نہ نعوذ باللہ اس کے الہامی احکام کو بنظر استخفاف دیکھ سکتا ہوں بلکہ ان مقدس حکموں کی نہایت تکریم کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ میری ساری زندگی اسی خدمت میں صرف ہو اور درحقیقت خوش اور مبارک زندگی وہی زندگی ہے جو الٰہی دین کی
خد مت اور اشاعت میں بسر ہو.ورنہ اگر انسان ساری دنیا کا بھی مالک ہوجائے اور اس قدر وسعت معاش حاصل ہو کہ تمام سامان عیش کے جو دنیا میں ایک شہنشاہ کیلئے ممکن ہیں وہ سب عیش اسے حاصل ہوں پھر بھی وہ عیش نہیں بلکہ ایک قسم عذاب کی ہے جس کی تلخیاں کبھی ساتھ ساتھ اور کبھی بعد میں کھلتی ہیں.میں افسوس کرتا ہوں کہ ہمارے اکثر علماء کی توجہ اکثر ظاہری اور پست اور موٹے خیالوں کی طرف کھنچی ہوئی ہے اور وہ ان باریک حقیقتوں کو سمجھتے نہیں کہ جو خدا وند کریم نے کتاب عزیز میں رکھی ہیں اور جو ہمارے سیّد و ہادی علیہ السلام نے بیان فرمائی ہیں.اور نہ صرف اسی قدر بلکہ وہ ایسے عارف کو جو خدائے تعالیٰ سے معارف حکمیہ کا انعام پاوے اور ان دقائق کو کھولے جو ضرورت وقت نے ان کا کھولنا فرض کردیا ہے.زندیق اور ُ ملحد اور ُ محرّف اور دین سے برگشتہ قرار دیتے ہیں.میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ حقیقتوں سے اکثر ناواقف اور صرف ظاہر اور مجاز پر قناعت کرنے والے ہیں اور اس سرور حقیقی کی طرف ان کی طبیعتوں کو میل ہی نہیں اور نہ کچھ مناسبت ہے جو اسرار غامضہ پر اطلاع پانے سے حقّانی عارفوں کو حاصل ہوتا ہے مشرقی بت پرستی کا اثر اگرچہ کَمَا ھُوَ ہو تو ان پر پڑا نہیں مگر پھر بھی ان کے دلوں میں وہم پرستی کے ایسے بت مخفی ہیں کہ وہ قبلہ حقیقت تک پہنچنے سے سدِّراہ ہورہے ہیں.میں کامل یقین رکھتا ہوں کہ ان بتوں کے توڑنے کے لئے خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے اور میں کسی دلیل سے شبہ نہیں کرسکتا کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ ان بتوں کو بکلی توڑ دیا جاوے اور خدا پرست لوگ گم گشتہ حقیقتوں کو پھر پالیویں خدا تعالیٰ جو تمام بھیدوں سے واقف ہے خوب جانتا ہے کہ یہ لوگ حقیقت اسلامیہ سے دور جا پڑے ہیں اور حقانیت کی مبارک روشنی کو انہوں نے
چھوڑ دیا ہے.ادھر تو اندرونی طور پر یہ آفت ہے جس کا میں نے مجمل طور پر ذکر کیا ہے اور مخالف قوموں کا کیا حال بیان کیا جاوے کہ وہ اعتراضات اور شبہات سے ایسے لدے ہوئے ہیں کہ جیسے ایک درخت کسی پھل سے لدا ہوا ہوتا ہے.ان کے کینے ہمارے زمانہ میں اسلام کی نسبت بہت بڑھ گئے ہیں اور ہر ایک نے اپنی طاقت اور استعداد کے موافق اسلام پر اعتراض کرنے شروع کئے ہیں اگر ہمارے مخالفوں میں سے کوئی شخص علم طبعی میں دخل رکھتا ہے تو وہ اسی طبعیانہ طرز سے اعتراض کرتا ہے اور یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اسلام علم طبعی کی ثابت شدہ صداقتوں کے مخالف بیان کرتا ہے.اور اگر کوئی مخالف طبابت اور ڈاکٹری میں کچھ حصہ رکھتا ہے تو وہ انہیں تحقیقاتوں کو سراسر دھوکہ دہی کی راہ سے اسلام پر اعتراض کرنے کیلئے پیش کرتا ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ گویا اسلام ان تجارب مشہودہ محسوسہ کے مخالف بیان کررہا ہے جو نئی تحقیقاتوں کے ذریعہ سے کامل طور پر ثابت ہوچکے ہیں.اسی طرح حال کے علم ہیئت پر جس کو کچھ نظر ہے وہ اسی راہ سے تعلیم اسلام پر اپنے اعتراضات وارد کر رہا ہے.غرض جہاں تک میں نے دریافت کیا ہے تین ہزار کے قریب اعتراض اسلام اور قرآن کریم کی تعلیم اور ہمارے سیّد و مولیٰ کی نسبت کوتہ بینوں نے کئے ہیں اور اگرچہ بظاہر ان اعتراضات کا ایک طوفان برپا ہونے سے ایک سرسری خیال سے قلق اور غم پیدا ہوتا ہے مگر جب غور سے دیکھا جائے تو یہ اعتراضات اسلام کیلئے مضر نہیں ہیں بلکہ اگر ہم آپ ہی غفلت نہ کریں تو اسلام کے مخفی دقائق و حقائق کے کھلنے کیلئے حکمت خدا وندی نے یہ ایک ذریعہ پیدا کردیا ہے تا ان معارف جدیدہ کی روشنی سے جو اس تقریب سے غور کرنے والوں پر کھلیں گے اور کھل رہے ہیں حق کے طالب ان ہولناک تاریکیوں سے بچ جائیں جو اس زمانہ میں رنگارنگ کے پیرائیوں میں
ظہو ر پذیر ہورہی ہیں.ہاں یہ اعتراضات غفلت کی حالت میں سخت خوف کی جگہ ہیں اور ایک ضلالت کا طوفان برپا کرنے والے معلوم ہوتے ہیں.اور مجرّد اسلامی عقائد کا یاد رکھنا یا پرانی کتابوں کو دیکھنا ان سے محفوظ رہنے کے لئے کافی نہیں اور حقیقت شناس لوگ سمجھتے ہیں کہ اس زمانہ کے ان اعتراضات سے ایک بھاری ابتلا مسلمانوں کیلئے پیش آگیا ہے اور اگر مسلمان لوگ اس بلا کو تغافل کی نظر سے دیکھیں گے تو رفتہ رفتہ ان میں اور ان کی ذرّیت میں یہ زہرناک مادہ اثر کرے گا یہاں تک کہ ہلاکت تک پہنچائے گا.وہ ایمان جو برے ارادوں اور لغزشوں پر غالب آتا ہے بجز عرفان کی آمیزش کے کبھی ظہور پذیر نہیں ہوسکتا پس ایسے لوگ کیونکر خطرات لغزش سے محفوظ رہ سکتے ہیں جو قرآن کریم کی خوبیوں سے ناواقف اور بیرونی اعتراضات کے دفع کرنے سے عاجز اور کلام الٰہی کے حقائق اور معارف عالیہ سے منکر ہیں بلکہ اس زمانہ میں ان کا وہ خشک ایمان سخت معرض خطر میں ہے اور کسی ادنیٰ ابتلا کے تحمل کے قابل نہیں ہے.خدائے تعالیٰ پر اسی شخص کاایمان مستحکم ہوسکتا ہے جس کا اس کی کتاب پر ایمان مستحکم ہو اور اس کی کتاب پر تبھی ایمان مستحکم ہوسکتا ہے کہ جب بغیر حاجت منقولی معجزات کے کہ جواب آنکھوں کے سامنے بھی موجود نہیں ہیں خود خدا تعالیٰ کا پاک کلام اعلیٰ درجہ کا معجزہ اور معارف و حقائق کا ایک نا پیدا کنار دریا نظر آوے.پس جو لوگ ایک مکھی کی نسبت تو یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس میں بے شمار عجائبات قدرتِ قادر ایسے موجود ہیں کہ کوئی انسان خواہ وہ کیسا ہی فلاسفر اور حکیم ہو ان کی نظیر نہیں بنا سکتا اور ایک جو کی نسبت ان کو یہ اعتقاد ہے کہ اگر تمام دنیا کے حکیم قیامت کے دن تک اس کے عجائبات اور خواص مخفیہ کو سوچیں تب بھی یقیناً نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے وہ تمام خواص دریافت کر لئے ہیں لیکن یہی لوگ مسلمان کہلا کر اور مسلمانوں کی ذریّت کہلا کر قرآن کریم کی نسبت یہ یقین رکھتے
ہیں کہ وہ بجز موٹے الفاظ اور سرسری معنوں کے اور کوئی باریک حقیقت اپنے اندر نہیں رکھتا اور کلام الٰہی کے نکات اور اسرار اور معانی کو اس حد تک ختم کر بیٹھے ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بقدر ضرورت وقت و بلحاظ موجودہ استعدادات کے فرمائے تھے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ تمام فرمودہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم باستیفا ضبط میں بھی نہیں آیا اور نہ جیسا کہ چاہئے محفوظ رہا.مگر باوجود ان سب باتوں کے اسرار جدیدہ قرآنیہ کے دریافت کرنے سے بکلی فارغ اور لاپروا ہیں.یاد رہے کہ اسرارِ جدیدہ سے ہمارا یہ مطلب نہیں کہ ایسی باتیں قرآن کریم سے روز بروز نکل سکتی ہیں جو اس کی مقررہ مصرحہ شریعت کے مخالف ہوں بلکہ اسرار اور نکات اور دقائق سے وہ امور مراد ہیں جو شریعت کی تمام باتوں کو مسلّم رکھ کر ان کی پوری پوری شکل کو ظاہر کرتے ہیں اور ان کی حقیقت کاملہ کو بمنصۂ ظہور لاتے ہیں.یہاں تک کہ منقول کو معقول کر کے دکھلا دیتے ہیں.سو انہیں اسرار کی اس معقولیت کے زمانہ میں ضرورت تھی.جہاں تک نظر اٹھا کر دیکھو یہی سنت اللہ پاؤ گے کہ ہمیشہ خدا تعالیٰ زمانہ کی ضرورتوں کے موافق اپنے دین کی مدد کرتا رہا ہے.اور جس قسم کی روشنی کے دیکھنے کے لئے زمانہ کی حالت نے بالطبع خواہش کی وہی روشنی اپنے کلام اور کام میں اپنے کسی برگزیدہ کی معرفت دکھلاتا رہا ہے تا اس بات کا ثبوت دے کہ اس کا کلام اور کام ناقص نہیں اور نہ کمزور اور ضعیف ہے.حضرت موسیٰ کے زمانہ میں سانپوں کے مقابلہ پر سانپ کی ضرورت پڑی اور حضرت مسیح کے مقابل پر طبیبوں اور افسوں خوانوں کے مقابل پر روحانی طبابت کے دکھلانے کی حاجتیں پیش آئیں.سو خدائے تعالیٰ نے زمانہ کے تقاضا کے موافق اپنے نبیوں کو مدد دی اور ہمارے سیّد و مقتداء ختم المرسلین کے زمانہ کی ضرورتیں درحقیقت کسی ایک نوع
میں محدود نہ تھیں اور یہ زمانہ بھی کوئی محدود زمانہ نہ تھا بلکہ ایسا وسیع تھا جس کا دامن قیامت تک پھیل رہا ہے اس لئے خدا وند قدیر و حکیم نے قرآن کریم کو بے نہایت کمالات پر مشتمل کیا.اور قرآن کریم بوجہ اپنے ان کمالات کے جن میں سے کوئی دقیقہ خیر کا باقی نہیں رہا تھا ہریک زمانہ کے فساد کا کامل طور پر تدارک کرتا رہا چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بڑا کام قرآن کریم کاخلق اللہ کے اصولوں کی اصلاح تھی سو اس نے تمام دنیا کو صاف اور سیدھے اصول خدا شناسی اور حقوق عباد کے عطا کئے اور گم گشتہ توحید کو قائم کیا اور دنیا کے پُرظلمت خیالات کے مقابل پر وہ پرحکمت اور پر نور اور بایں ہمہ اعلیٰ درجہ کا بلیغ و فصیح کلام پیش کیا جس نے تمام اس وقت کے موجودہ خیالات کو پاش پاش کردیا اور حکمت اور معرفت اور بلاغت اور فصاحت اور تاثیرات قویّہ میں ایک عظیم الشان معجزہ دکھلایا.پھر ایسا ہی ہر ایک وقت میں جب کسی قسم کی ظلمت جوش میں آتی گئی تو اسی پاک کلام کا نور اس ظلمت کا مقابلہ کرتا رہا.کیونکہ وہ پاک کلام ایک ابدی معجزہ اور مختلف زمانوں کی مختلف تاریکی کے اٹھانے کیلئے ایک کامل روشنی اپنے اندر لایا تھا لہٰذا وہ ہر ایک قسم کی تاریکی کو اپنے نور کی قوت سے رفع ودفع کرتا رہا یہاں تک کہ وہ زمانہ آگیا کہ جس میں ہم ہیں اور جیسا کہ قرآن کریم نے پیشگوئی کی تھی زمین نے ہمارے زمانہ میں وہ تمام تاریکیاں جو زمین کے اندر مخفی تھیں باہر رکھ دیں اور ایک سخت جوش ضلالت اور بے ایمانی اور بداستعمالی عقل کا برپا ہوگیا.یہ وہی طبائع زایغہ کا جوش ہے جس کو دوسرے لفظوں میں دجّال کے نام سے موسوم کیا گیا تھا اور خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں خبر دی تھی کہ وہ عالی شان اور کامل کلام اس طوفان پر بھی غالب آئے گا.سو ضرور تھا کہ کلام الٰہی میں وہ سچا فلسفہ بھرا ہوا ہو تا جو حال کے دھوکہ دینے والے فلسفہ پر غالب آجاتا کیونکہ وہ ابدی اصلاحوں کیلئے آیا ہے وہ نہ تھکے گا.اور نہ درماندہ
ہوگا جب تک کہ ہر ایک سلیم طبیعت میں اپنی سلطنت قائم نہ کرے اور فلسفہ کی زہر کھانے والے اس تریاق کے منتظر تھے.سو خدائے تعالیٰ نے اس کو ظاہر کردیا اور ناپاک معقولیت کا غلبہ توڑنے کیلئے اس نے یہی چاہا کہ قرآنی معقولیت کا غلبہ ظاہر کرے اور مخالفوں کی باطل معقولیت کو پِیس ڈالے.مگر افسوس ان لوگوں پر جو وقت کو شناخت نہیں کرتے.انہیں اس بات کا بھی خیال نہیں کہ مسلمانوں کی ذریت کو بیرونی حملوں اور فتنوں کی وجہ سے کیسی ہر روز ناقابل برداشت تکلیفیں پیش آرہی ہیں اور کس قدر اسلام کو فلسفیانہ وساوس سے صدمہ پہنچ گیا ہے یہاں تک کہ ایک بڑا حصہ نو تعلیم یافتہ مسلمانوں کا ایسا اسلام سے دور جا پڑا ہے کہ گویا اس نے اسلام کو چھوڑ دیا ہے.ایسا ہی بہت سے نادان اور کم عقل اسلام کی روشنی کو ترک کر کے عیسائی عقائد کی ظلمت میں داخل ہوگئے اور ایک قابل شرم عقیدہ جو جائے ننگ و عار ہے اختیار کر لیا ہے.اس کا یہی سبب ہوا کہ زمانہ حال کے بیہودہ اعتراضات جو دھوکہ اور سفسطہ سے بھرے ہوئے تھے ان کی نظر ناقص میں باوُقعت معلوم ہوئے.ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ بعض باتوں میں اس زمانہ کے علماء خود ہی عیسائیوں وغیرہ کو ان کی مشرکانہ تعلیم پر مدد دیتے ہیں.مثلاً حال کے عیسائیوں کے عقائد باطلہ کے رو سے حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو حضرت عیسٰی ؑ کو خدا بنانے کیلئے گویا عیسائی مذہب کا یہی ایک ستون ہے لیکن زمانہء حال کے مسلمان ایک طرف تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور زمین میں مدفون ہونے کا اقرار کر کے پھر اس بات کے بھی اقراری ہو کر کہ مسیح اب تک زندہ ہے عیسائیوں کے ہاتھ میں ایک تحریری اقرار اپنا دے دیتے ہیں کہ
مسیح ؑ اپنے خواص میں عام انسانوں کے خواص بلکہ تمام انبیاء کے خواص سے مستثنیٰ اور نرالا ہے.کیونکہ جبکہ ایک افضل البشر جو مسیح سے چھ سو برس پیچھے آیا تھوڑی سی عمر پاکر فوت ہوگیا اور تیرہ سو برس اس نبی کریمؐ کے فوت ہونے پر گذر بھی گئے مگر مسیح اب تک فوت ہونے میں نہیں آیا تو کیا اس سے یہی ثابت ہوا یا کچھ اور کہ مسیح کی حالت لوازم بشریّت سے بڑھی ہوئی ہے.پس حال کے علماء اگرچہ بظاہر صورتِ شرک سے بیزاری ظاہر کرتے ہیں مگر مشرکوں کو مدد دینے میں کوئی دقیقہ اُنہوں نے اٹھا نہیں رکھا.غضب کی بات ہے کہ اللہ جلّ شانہٗ تو اپنی پاک کلام میں حضرت مسیحؑ کی وفات ظاہر کرے اور یہ لوگ اب تک اس کو زندہ سمجھ کر ہزارہا اور بیشمار فتنے اسلام کیلئے برپا کردیں اور مسیح کو آسمان کا حیّوقیّوم اور سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو زمین کا مردہ ٹھہراویں حالانکہ مسیح کی گواہی قرآن کریم میں اس طرح پر لکھی ہے کہ33.۱ یعنی میں ایک رسول کی بشارت دیتا ہوں جو میرے بعد یعنی میرے مرنے کے بعد آئیگا اور نام اس کا احمدؐ ہوگا.پس اگر مسیح اب تک اس عالم جسمانی سے گذر نہیں گیا تو اس سے لازم آتا ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اب تک اس عالم میں تشریف فرما نہیں ہوئے کیونکہ نص اپنے کھلے کھلے الفاظ سے بتلا رہی ہے کہ جب مسیح اس عالم جسمانی سے رخصت ہوجائے گا تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس عالم جسمانی میں تشریف لائیں گے.و جہ یہ کہ آیت میں آنے کے مقابل پر جانا بیان کیا گیا ہے اور ضرور ہے کہ آنا اور جانا دونوں ایک ہی رنگ کے ہوں.یعنی ایک اُس عالم کی طرف چلا گیا اور ایک اُس عالم کی طرف سے آیا.پھر دوسری گواہی حضرت مسیح کی انکی وفات کے بارے میں آیت فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ میں صریح صریح درج ہے جس کی آنکھیں الصف:
ہوں دیکھے.اور یاد رہے کہ آیت فلمّا توفّیتنی میں اسی وعدہ کے پورا ہونے کی طرف اشارہ ہے جو آیت 3 3 ۱ میں کیا گیا تھا اور تَوَفّی کے ان معنوں کے سمجھنے کیلئے جو مراد اور منشاء اللہجلّ شانہٗ کا ہے ضرور ہے کہ ان دونوں آیتوں وعدہ اور تحقق وعدہ کو یکجائی نظر سے دیکھا جائے مگر افسوس کہ ہمارے علماء کو ان تحقیقوں سے کچھ سروکار نہیں.یہی تَوَفّی کا لفظ جو قرآن کریم کے دو مقام میں حضرت مسیح کے بارے میں درج ہے ایسا ہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی یہی لفظ قرآن کریم میں موجود ہے جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے 33۲ اگر ہمارے علماء اس جگہ بھی تَوَفِّیْ کے معنے یہی لیتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی زندہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں تو ہمیں ان پر کچھ بھی افسوس نہ ہوتا مگر ان کی بے باکی اور گستاخی تو دیکھو کہ توفّی کا لفظ جہاں کہیں قرآن کریم میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آتا ہے تو اس کے معنی وفات کے لیتے ہیں اور پھر جب وہی لفظ حضرت مسیح کے حق میں آتا ہے تو اس کے معنی زندہ اٹھائے جانے کے بیان کرتے ہیں اور کوئی ان میں سے نہیں دیکھتا کہ لفظ تو ایک ہی ہے اندھے کی طرح ایک دوسرے کی بات کو مانتے جاتے ہیں.جس لفظ کو خدا تعالیٰ نے پچیس۲۵ مرتبہ اپنی کتاب قرآن کریم میں بیان کر کے صاف طور پر کھول دیا کہ اس کے معنی روح کا قبض کرنا ہے نہ اور کچھ.اب تک یہ لوگ اس لفظ کے معنی مسیحؑ کے حق میں کچھ اور کے اور کر جاتے ہیں گویا تمام جہان کیلئے توفّی کے معنی تو قبض روح ہی ہیں.مگر حضرت ابن مریم کے لئے زندہ اٹھا لینا اس کے معنی ہیں اگر یہ طریقہ شرک کی تائید نہیں تو اور کیا ہے ایک طرف تو نالائق متعصب عیسائی ہمارے سیّد و مولیٰ اٰل عمران:۵۶ الرعد:۴۱
کو صاف اور کھلے طور پر گالیاں دیتے ہیں اور مسیح کو آسمان کا اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زمین کا قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف یہ علماء اس نازک زمانہ میں ان کو مدد دے رہے ہیں اور عیسائیوں کے مشرکانہ خیالات کو تسلیم کر کے اور بھی ان کے دعوے کو فروغ دے رہے ہیں.کاش یہ لوگ ایک منٹ کیلئے اپنے تعصبوں سے خالی ہو کر ذرہ سوچتے کہ شرک کیا چیز ہے اور اس کی کیا حقیقت ہے اور اس کی مبادی اور مقدّمات کیا ہیں.تا ان پر جلد کھل جاتا کہ خدا تعالیٰ کی ذات یا صفات یا اقوال و افعال یا اس کے استحقاق معبودیت میں کسی دوسرے کو شریکانہ دخل دینا گو مساوی طور پر یا کچھ کم درجہ پر ہو یہی شرک ہے جو کبھی بخشا نہیں جائے گا.اور اس کے مقدمات جن سے یہ پیدا ہوتا ہے یہ ہیں کہ کسی بشر میں کوئی ایسی خصوصیت اس کی ذات یا صفات یا افعال کے متعلق قائم کردی جاوے جو اس کے بنی نوع میں ہرگز نہ پائی جائے نہ بطور ظلّ اور نہ بطور اصل.اب اگر ہم ایک خاص فرد انسان کیلئے یہ تجویز کر لیں کہ گویا وہ اپنی فطرت یا لوازم حیات میں تمام بنی نوع سے متفرد اور مستثنیٰ اور بشریت کے عام خواص سے کوئی ایسی زائد خصوصیت اپنے اندر رکھتا ہے جس میں کسی دوسرے کو کچھ حصہ نہیں تو ہم اس بے جا اعتقاد سے ایک تودہ شرک کا اسلام کی راہ میں رکھ دیں گے قرآن کریم کی صاف تعلیم یہ ہے کہ وہ خدا وند وحید و حمید جو بالذات توحید کو چاہتا ہے.اس نے اپنی مخلوق کو متشارک الصفات رکھا ہے اور بعض کو بعض کا مثیل اور شبیہہ قرار دیا ہے تا کسی فرد خاص کی کوئی خصوصیت جو ذات و افعال و اقول اور صفات کے متعلق ہے اس دھوکہ میں نہ ڈالے کہ وہ فرد خاص اپنے بنی نوع سے بڑھ کر ایک ایسی
خا صیت اپنے اندر رکھتا ہے کہ کوئی دوسرا شخص نہ اَصْلًا و نہ ظِلاًّ اس کا شریک نہیں اور خدا تعالیٰ کی طرح کسی اپنی صفت میں واحد لاشریک ہے.چنانچہ قرآن کریم میں سورۃ اخلاص اسی بھید کو بیان کررہی ہے کہ احدیّت ذات و صفات خدا تعالیٰ کا خاصہ ہے دیکھو اللہجلّ شانہٗ فرماتا ہے.3.۱ اور جب کہ واقعی یہی بات ہے کہ مخلوق کی شناخت کی بڑی علامت یہی ہے کہ بعض بعض سے مشارکت و مشابہت رکھتے ہیں اور کوئی فرد کوئی ایسی ذاتی خاصیت اور خصوصیت نہیں رکھتا جو دوسرے کسی فرد کو اس سے حصہ نہ ہو خواہ اَصْلًا یا ظِلاًّ تو پھر اگر اس صورت میں ہم کوئی ایسا فرد افراد بشر یہ سے تسلیم کر لیں جو اپنی بعض صفات یا افعال میں دوسروں سے بکلی ممتاز اور لوازم بشریت سے بڑھ کر ہے اور خدا تعالیٰ کی طرح اپنے اس فعل یا صفت میں یگانگت رکھتا ہے تو گویا ہم نے خدا تعالیٰ کی صفت وحدانیت میں ایک شریک قرار دیا.یہ ایک دقیق راز ہے اس کو خوب سوچو.خدا تعالیٰ نے جو اپنی کلام میں کئی دفعہ حضرت مسیح کی وفات کا ذکر کیا ہے یہاں تک کہ ان کی والدہ مریم صدیقہ کے ساتھ جو باتفاق فوت شدہ ہے ان کے ذکر کو ملا کر بیان کیا کہ 3۲ کہ وہ دونوں جب زندہ تھے طعام کھایا کرتے تھے اس تاکید کی یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے علم قدیم سے خوب جانتا تھا کہ آخری زمانہ میں لوگ بباعث خیال حیات مسیح سخت فتنہ میں پڑیں گے اور وہ فتنہ اسلام کیلئے سخت مضر ہوگا اس لئے اس نے پہلے ہی سے فیصلہ کردیا اور بخوبی ظاہر کردیا کہ مسیح فوت ہوگیا.بعض نادان خیال کرتے ہیں کہ آیت 3۳ میں صرف حضرت مسیح کی وفات کا وعدہ ہے جس سے صرف اس قدر نکلتا ہے کہ کسی وقت خدا تعالیٰ مسیح کو وفات دے دے گا یہ تو نہیں نکلتا کہ وفات دے بھی دی ۱ الاخلاص:۲ ۲ المائدۃ:۷۶ ۳ اٰل عمران:
مگر یہ لوگ نہیں سوچتے کہ خدا تعالیٰ نے اس وعدہ کے پورا ہونے کی بھی تو خبر دیدی جب کہ خود حضرت مسیح کی زبان سے 33 ۱ کا ذکر بیان فرما دیا.ماسوا اس کے یہ بھی سوچنے کے لائق ہے کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ کہ میں ایسا کرنے کو ہوں خود یہ الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ وہ وعدہ جلد پورا ہونے والا ہے اور اس میں کچھ توقف نہیں نہ یہ کہ رفع کا وعدہ تو اسی وقت پورا ہوجائے لیکن وفات دینے کاوعدہ ابھی تک جو دو ہزار برس کے قریب گذر گئے پورا ہونے میں نہ آوے.اے ناظرین! اس وقت بیانات مذکورہ بالا سے میرا یہ مطلب نہیں کہ میں زمانہ حال کے علماء کی غلطیاں لوگوں پر ظاہر کروں.کیونکہ جو کچھ ان کی بدفہمی اور بد اندرونی اور بدگمانی اور بد زبانی کی حالت مجھ پر کھلی ہے وہ عنقریب انہیں کے سوالات کے جواب میں بیان کروں گا.اور اس مقدمہ میں مجھے صرف یہ ظاہر کرنا منظور ہے کہ ہمارے علماء نے اس نازک وقت کو جو اسلام پر وارد ہے شناخت نہیں کیا انہوں نے بجائے اس کے کہ اسلام کی مدد کرتے عیسائیوں کو ایسی مدد دی کہ خود اپنے ہی اقرار سے ایک حصہ ثبوت کا انہیں دے دیا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ ایک دلیل بلکہ بارہ مستحکم دلیلوں اور قرائن قطعیّہ سے ہم کو سمجھا دیا تھا کہ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام فوت ہوچکا اور آنے والا مسیح موعود اِسی امت میں سے ہے.لیکن زمانہ حال کے علماء نے ایک ذرہ اس طرف توجہ نہ کی اور بہت سی خرابیوں کو اسلام کیلئے قبول کر لیا اور بیرونی آفات کو اندرونی افتراآت سے قوت دے دی.انہیں زہر ناک ہواؤں کے چلنے کی وجہ سے دین اسلام ایک مسلسل اور غیر منقطع خطروں میں پڑا ہوا ہے اور اب کسی دانشمند کی عقل قبول نہیں کرسکتی کہ ان تمام خرابیوں کا دور کرنا انسانی المائدۃ
قویٰ کا کام ہے ؟ بلکہ وہ خدا جو اپنے قدرتی تصرفات سے دریاؤں کو خشکی اور خشکی کو دریا کے نیچے لاسکتا ہے اسی کا یہ کام ہے کہ اس برّو بحر کے فساد کی اصلاح کرے.بھائیو یقیناً سمجھو کہ اب مسلمانوں کی اس سے زیادہ نازک حالت ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت میں یہودیوں کی حالت تھی.اور اسلام کے گرد ایسی مشکلات کا سلسلہ محیط ہورہا ہے کہ جیسے کسی ولایت کے گرد بڑے بڑے پہاڑ محیط ہوں.یہ بات کہ کامیابی کی راہیں کس قدر دشوار گذار ہوگئی ہیں اور کیا کچھ پیچ در پیچ دقتیں ایک دائرہ کی طرح اسلام پر احاطہ کررہی ہیں اس کا سمجھنا کسی ایسے دانشمند پر مشکل نہیں جس کی نظر زمانہ کی موجودہ خرابیوں پر پھر گئی ہو.مگر افسوس کہ ہمارے اکثر علماء جن کی نادانی اور جہل رحم کے قابل ہے وہ بالکل اس طوفان بے تمیزی سے بے خبر ہیں.اور زیادہ تر افسوس مجھے اس وقت ہوتا ہے کہ جب میں دیکھتا ہوں کہ باوجود اس لاپرواہی اور بے خبری اور سرد مہری کے جو اسلام کی نسبت یہ فرقہ رکھتا ہے ان کے سچے تقویٰ اور راست بازی میں بھی بہت ہی فرق آگیا ہے اور نیک ظنی اور متانت اور استقامت اور بلند ہمتی اور وسعت اخلاقی اور ہمدردی اسلام و مسلمین و بنی نوع گویا ان کے دلوں سے بکلی اٹھ گئی ہے اور فضائل حمیدہ عفو و احسان و اخلاص و مصالحت گویا ان کے صحن سینہ سے محو ہوگئے ہیں.اکثر تو ایسے ہیں کہ جن کی طبیعتوں پر شرانگیزی کے ہزاروں دروازے کھلے ہیں مگر شر سے باہر نکلنے اور صلح جوئی کا ایک بھی نہیں.میں دیکھتا ہوں کہ کمال تکبر اور کثرت غفلت کی وجہ سے ان کی روحانیت نہایت کمزور ہوگئی ہے.دنیا کی طرف اور اس کی جاہ و نمود کی طرف انہیں ایک کشش ہورہی ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے قبض ہے.اس کا یہی سبب ہے کہ وہ اس وحی کے منشاء سے دور جا پڑے ہیں کہ جو دلوں کو صاف کرنے والی اور اندرونی غلاظتوں کو دھونے والی ہے.وہ کہتے
ہیں پر کرتے نہیں اور دکھلاتے ہیں پر خود چلتے نہیں اس لئے خدا تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہریں لگادیں اور ان کے فہم اور سمجھ کو موٹا کردیا.کیونکہ یہ سنت اللہ ہے کہ جب تک کوئی باریک احتیاط کے ساتھ اعمال صالحہ بجا نہ لاوے تب تک باریک بھید اس کے دل کو عطا نہیں کئے جاتے.یہ تو حال علماء کا ہے مگر افسوس کہ ہمارے فقراء کا حال اس سے بدتر معلوم ہوتا ہے اِلاَّ مَاشَآءَ اللّٰہ ہماری قوم میں اکثر ایسے ہی فقیر نظر آتے ہیں جنہوں نے اسلام پر یہ داغ لگایا کہ ہزارہا ایسی بدعتیں ایجاد کردیں کہ جن کا شرع شریف میں کوئی اصل صحیح نہیں پایا جاتا وہ ایسی بے ہودہ رسوم اور خیالات میں گرفتار ہیں کہ جن کے لکھنے سے بھی شرم آتی ہے بعض تو ہندوؤں کے جوگیوں کی طرح اور قریب قریب ان کی ایک خاص طور کی وضع اور پوشاک میں عمر بسر کرتے ہیں.اور نہایت بے جا اور وحشیانہ ریاضتوں میں جو مسنون طریقوں سے کوسوں دور ہیں اپنی عمر کو ضائع کررہے ہیں.ان کے چہروں کو دیکھنے سے ایسے آثار قہر الٰہی معلوم ہوتے ہیں اور ایسی مقہور شکل دکھائی دیتی ہے کہ شاید عالم سفلی میں اس سے زیادہ بدبختی پر دلالت کرنے والی اور کوئی شکل نہ ہو.اکثر فقراء میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جن کو وہ اپنے دلوں میں ایک کمال خیال کرتے ہیں اور اس بات کی دلیل ٹھہراتے ہیں کہ گویا انہوں نے ایک بہت سا حصہ سلوک کا طے کر لیا ہے مگر دراصل وہ باتیں صرف جاہلانہ خیالات اور وحشیانہ حرکات ہیں اور سچے معارف سے ایسی دور ہیں کہ جیسے ایک تیز دھوپ کے وقت بادل دنیا سے دور ہوتا ہے.یہ لوگ دینی خدمت کچھ بھی بجا نہیں لا سکتے اور سستی اور تضیع اوقات اور بے قیدی اور آرام طلبی اور مردہ طبعی اور لاف زنی کی زندگی کا ایک قوی اثر ان پر معلوم
ہوتا ہے جس میں وہ اپنی ساری عمر کو کھودیتے ہیں اور اس بات میں وہ بڑے لاچار اور عاجز پائے گئے ہیں کہ اپنی کسی عادت کو جو خلاف شرع شریف بلکہ مخالف انسانیت ہے بدل سکیں.کئی لوگ فقیری کے بھیس میں ایسے پھرتے ہیں کہ جنہوں نے اپنے خراب ارادوں کی تحریک سے عمداً اسلام کی پاکیزہ راہوں کو چھوڑ دیا ہے اور اس قدر نہایت ذلیل اور قابل شرم کاموں میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ مجھے شک ہے کہ شیطان باوجود بہت سی اپنی بدنامیوں کے ان کے برابر ہے یا نہیں.لیکن درحقیقت یہ تمام گناہ علماء کی گردن پر ہے جو بے ہودہ جھگڑوں میں اپنے وقتوں کو کھوتے ہیں اور خلق اللہ کی سچی ہمدردی کی طرف متوجہ نہیں ہوتے.کیا وہ یہودیوں سے اپنی ظاہر پرستی اپنی دنیا داری اپنی ریاکاری اپنی ہوس بازی اپنی فتنہ پردازی اپنی سخن سازی میں کچھ کم ہیں؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ سب صفات ان میں کچھ بڑھ کر ہیں جن کو وہ نہایت ہوشیاری کے ساتھ غیروں سے چھپاتے ہیں.وہ راستی سے نفرت اور ناراستی سے محبت رکھتے ہیں اور نہ صرف یہی بلکہ چاہتے ہیں کہ اوروں کو بھی اسی گڑھے میں دھکیل دیں جس میں وہ آپ گرے ہوئے ہیں.وہ فطرتی بدبختی کی وجہ سے مذہب کی بیرونی صورت اور شریعت کی ادنیٰ جزئیات میں الجھے ہوئے ہیں اور اسلام کے حقائق عالیہ اور معارف دقیقہ کو چھونا نہیں چاہتے اور نہ ان اسرار اور نکات سے کچھ مناسبت رکھتے ہیں.جیسے ہوا ایک چشمہ کے مجرا میں بھری ہوئی ہوتی ہے اور اس کے لمحہ بہ لمحہ اوپر کو چڑھنے سے وہ چشمہ اچھلتا ہے ایسا ہی ان کے چشمہ فطرت کا حال ہے کہ تعصب کی ہواؤں اور بخارات سے ان کا وہ گندہ چشمہ آج کل بڑے جوش کے ساتھ ظاہر ہورہا ہے جس کو وہ مدت سے مخفی طور پر رکھتے تھے.ربّ ارحم ربّ ارحم.
غر ض اے بھائیو! اس زمانہ میں وہ زہرناک ہوا اندرونی اور بیرونی طور پر پھیلی ہوئی ہے کہ جس کا استیصال انسان کے اختیار میں نہیں بلکہ اس خدائے حیّ و قیّوم قادر مطلق کے اختیار میں ہے جو موسموں کو بدلتا اور و قتوں کو پھیرتا اور خشک سالی کے بعد باران رحمت نازل کرتا ہے.اور جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ گرمی کی شدّ ت آخر بارش کو کھینچ لاتی ہے اس طرح پر کہ جب گرمی کمال کو پہنچتی ہے اور اس درجہ کے قریب اپنا قدم رکھنے لگتی ہے کہ جس سے قریب ہے کہ بنی آدم ہلاک ہوجائیں تب اس صانع قدیم کی حکمت کاملہ سے اس گرمی کا ایک تیز اثر سمندروں میں پڑتا ہے اور بوجہ شدّ ت اُس گرمی کے سمندروں میں سے بخارات اٹھتے ہیں تب سمندروں کی ہوا جو کہ سرد اور بھاری اور امساک کی قوت اپنے اندر رکھتی ہے ان بخارات کو اپنے میں جذب کر کے ایک حاملہ عورت کی طرح ان سے بھر جاتی ہے اور قرب و جوار کی ہوائیں قدرتی طور پر متحرک ہوکر اس کو دھکیلتی اور حرکت میں لاتی ہیں اور خود واسطہ بن کر اس بات کیلئے موجب ٹھہرتی ہیں کہ تا وہ ہوا بادلوں کی صورت میں ہو کر اپنے تئیں طبعاً اسی زمین کی طرف لاوے جہاں کی ہوا اس کی نسبت زیادہ گرم اور لطیف اور کم وزن اور کم مزاحم ہو.تب اُسی قدر کے موافق بارش ہوتی ہے کہ جس قدر گرمی ہوتی ہے.یہی صورت اُس روحانی بارش کی بھی ہے جو ظاہری بارش کی طرح قدیم سے اپنے موسموں پر برستی چلی آئی ہے یعنی اس طرح پر کہ خشک سالی کے ایام میں جب کہ خشک سالی اپنے کمال اور انتہا کو پہنچ جاتی ہے یکدفعہ مستعددلوں کی گرمی اور طلب اور خواہش کی حرارت نہایت جوش میں آجاتی ہے تب وہ گرمی رحمت کے دریا تک جو ایک سمندر ناپیدا کنار ہے اپنے التہاب اور سوز کو پہنچا دیتی ہے.تب دریائے رحمت اس کے تدارک کیلئے توجہ فرماتا ہے اور فیض بے علّت کے نورانی بخارات نکلنے شروع ہوجاتے ہیں تب وہ مقرب فرشتے جو اپنے نفس کی جنبش اور جوش سے سرد پڑے ہوئے اور نہایت لطیف اور یَفْعَلُوْن
مَا یُؤْمَرُوْنَ کا مصداق ہیں ان فیوض کو قبول کر لیتے ہیں پھر ان فرشتوں سے تعلق رکھنے والی طبیعتیں جو انبیاء اور رسل اور محدثین ہیں اپنے حقانی جوشوں سے ان کو حرکت میں لاتے ہیں اور خود واسطہ بن کر ایسے محل مناسب پر برسا دیتے ہیں جو استعداد اور طلب کی گرمی اپنے اندر رکھتا ہے یہ صورت ہمیشہ اس عالم میں بوقت ضرورت ہوتی ہی رہتی ہے ہاں اس بھاری برسات کے بعد جو عہد مقدس نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہوچکی ہے بڑی بڑی بارشوں کی ضرورت نہیں رہی.اور وہ مُصفّا پانی اب تک ضائع بھی نہیں ہوا مگر چھوٹی چھوٹی بارشوں کی ضرورت ہے تا زمین کی عام سرسبزی میں فرق نہ آجائے سو جس وقت خدا وند حکیم و قدیر دیکھتا ہے کہ زمین پر خشکی غالب آگئی ہے اور اس کے باغ کے پودے مرجھائے جاتے ہیں تب ضرور بارش کا سامان پیدا کردیتا ہے یہ قدیم قانون قدرت ہے جس میں تم فرق نہیں پاؤ گے.اسی کے موافق ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ ان دنوں میں بھی اپنے عاجز بندوں پر رحم فرماتا.زمانہ کی حالت کو دیکھو اور آپ ہی ایمانًا گواہی دو.کیا یہ وقت وہی وقت نہیں ہے جس میں الٰہی مددوں کی دین اسلام کو ضرورت ہے.اس زمانہ میں جو کچھ دین اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی گئی اور جس قدر شریعت ربّانی پر حملے ہوئے اور جس طور سے ارتداد اور الحاد کا دروازہ کھلا کیا اس کی نظیر کسی دوسرے زمانہ میں بھی مل سکتی ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ تھوڑے ہی عرصہ میں اس ملک ہند میں ایک لاکھ کے قریب لوگوں نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا.اور چھ۶ کروڑ اور کسی قدر زیادہ اسلام کے مخالف کتابیں تالیف ہوئیں اور بڑے بڑے شریف خاندانوں کے لوگ اپنے پاک مذہب کو کھو بیٹھے یہاں تک کہ وہ جو آل رسول کہلاتے تھے وہ عیسائیت کا جامہ پہن کر دشمن رسول بن گئے اور اس قدر بدگوئی اور اہانت اور
دُشنا م دہی کی کتابیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں چھاپی گئیں اور شائع کی گئیں کہ جن کے سننے سے بدن پر لرزہ پڑتا اور دل رو رو کر یہ گواہی دیتا ہے کہ اگر یہ لوگ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کرتے اور ہمارے جانی اور دلی عزیزوں کو جو دنیا کے عزیز ہیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے اور ہمیں بڑی ذلت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام اموال پر قبضہ کر لیتے تو واللہ ثم واللہ ہمیں رنج نہ ہوتا اور اس قدر کبھی دل نہ دکھتا جو ان گالیوں اور اس توہین سے جو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کی گئی دُکھا.پس کیا ابھی اس آخری مصیبت کا وہ وقت نہیں آیا جو اسلام کیلئے دنیا کے آخری دنوں میں مقدر تھا.کیا کوئی ثابت کرسکتا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی اور زمانہ بھی آنے والا ہے جو قرآن کریم اور حدیث کی رو سے ان موجودہ فتنوں سے کچھ زیادہ فتنے رکھتا ہوگا.سو بھائیو تم اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو اور خوب سوچ لو کہ وقت آگیا اور بیرونی اور اندرونی فتنے انتہا کو پہنچ گئے.اگر تم ان تمام فتنوں کو ایک پلہ میزان میں رکھو اور دوسرے پلہ کیلئے تمام حدیثوں اور سارے قرآن کریم میں تلاش کرو تو ان کے برابر کیا ان کا ہزارم حصہ بھی وہ فتنے قرآن اور حدیث کی رو سے ثابت نہیں ہوں گے پس وہ کونسا فساد کا زمانہ اور کس بڑے دجّال کا وقت ہے جو اس زمانہ کے بعد آئے گا اور فتنہ اندازی کی رُو سے اس سے بدتر ہوگا.کیا تم ثابت کرسکتے ہو کہ ان فتنوں سے بڑھ کر قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں ایسے اور فتنوں کا پتہ ملتا ہے جن کا اب نام و نشان نہیں یقیناً یاد رکھو کہ اگر تم ان فتنوں کی نظیر تلاش کرنے کیلئے کوشش کرو یہاں تک کہ اسی کوشش میں مر بھی جاؤ تب بھی قرآن کریم اور احادیث نبویہ سے ہرگز ثابت نہیں ہوگا کہ کبھی کسی زمانہ میں ان موجودہ فتنوں سے بڑھ کر کوئی اور فتنے بھی آنے والے ہیں.
صا حبو! یہاں وہ دَجّالیّتیں پھیل رہی ہیں جو تمہارے فرضی دجال کے باپ کو بھی یاد نہیں ہونگی.یہ کارروائیاں خلق اللہ کے اغوا کے لئے ہزار ہا پہلو سے جاری کی گئی ہیں جن کے لکھنے کیلئے بھی ایک دفتر چاہئے اور ان میں مخالفین کو کامیابی بھی ایسی اعلیٰ درجہ کی ہوئی ہے کہ دلوں کو ہلا دیا ہے اور ان کے مکروں نے عام طور پر دلوں پر سخت اثر ڈالا ہے اور ان کی طبیعی اور فلسفہ نے ایسی شوخی اور بے باکی کا تخم پھیلادیا ہے کہ گویا ہر ایک شخص اس کے فلسفہ دانوں میں سے اَنَا الرَّبّہونے کا دعویٰ کرتا ہے.پس جاگو اور اٹھو اور دیکھو کہ یہ کیسا وقت آگیا اور سوچو کہ یہ موجودہ خیالات توحید محض کے کس قدر مخالف ہیں یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی قدرت کا خیال بھی ایک بڑی نادانی کا طریق سمجھا جاتا ہے اور تقدیر کے لفظ کو منہ پر لانے والا بڑا بے وقوف کہلاتا ہے اور فلسفی دماغ کے آدمی دہریت کو پھیلاتے جاتے ہیں اور اس فکر میں لگے ہوئے ہیں کہ تمام کَل اُلوہیّت کی کسی طرح ہمارے ہاتھ میں ہی آجاوے ہم ہی جب چاہیں وباؤں کو دور کردیں موتوں کو ٹال دیں اور جب چاہیں بارش برسادیں کھیتی اُگالیں اور کوئی چیز ہمارے قبضہ قدرت سے باہر نہ ہو.سوچو کہ اس زمانہ میں ان بے راہیوں کا کچھ انتہا بھی ہے ان آفتوں نے اسلام کے دونوں بازؤں پر تبر رکھ دیا ہے اے سونے والو بیدار ہوجاؤ اے غافلو اٹھ بیٹھو کہ ایک انقلاب عظیم کا وقت آگیا.یہ رونے کا وقت ہے نہ سونے کا اور تضرّ ع کا وقت ہے نہ ٹھٹے اور ہنسی اور تکفیر بازی کا دعا کرو کہ خدا وند کریم تمہیں آنکھیں بخشے تاتم موجودہ ظلمت کو بھی بتمام و کمال دیکھ لو اور نیز اُس
نور کو بھی جو رحمت الہٰیہ نے اُس ظلمت کے مٹانے کیلئے تیار کیا ہے پچھلی راتوں کو اٹھو اور خدا تعالیٰ سے رو رو کر ہدایت چاہو اور ناحق حقّانی سلسلہ کے مٹانے کیلئے بددعائیں مت کرو اور نہ منصوبے سوچو.خدا تعالیٰ تمہاری غفلت اور بھول کے ارادوں کی پیروی نہیں کرتا.وہ تمہارے دماغوں اور دلوں کی بے وقوفیاں تم پر ظاہر کرے گا اور اپنے بندہ کا مددگار ہوگا اور اس درخت کو کبھی نہیں کاٹے گا جس کو اس نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے کیا کوئی تم میں سے اپنے اس پودہ کو کاٹ سکتا ہے جس کے پھل لانے کی اس کو توقع ہے پھر وہ جو دانا و بینا اور ارحم الراحمین ہے وہ کیوں اپنے اس پودہ کو کاٹے جس کے پھلوں کے مبارک دنوں کی وہ انتظار کررہا ہے.جب کہ تم انسان ہو کر ایسا کام کرنا نہیں چاہتے پھر وہ جو عالم الغیب ہے جو ہر ایک دل کی تہہ تک پہنچا ہوا ہے کیوں ایسا کام کرے گا.پس تم خوب یاد رکھو کہ تم اس لڑائی میں اپنے ہی اعضاء پر تلواریں ماررہے ہو سو تم ناحق آگ میں ہاتھ مت ڈالو ایسا نہ ہو کہ وہ آگ بھڑکے اور تمہارے ہاتھ کو بھسم کر ڈالے یقیناً سمجھو کہ اگر یہ کام انسان کا ہوتا تو بہتیرے اس کے نابود کرنے والے پیدا ہوجاتے اور نیز یہ اس اپنی عمر تک بھی ہرگز نہ پہنچتا جو بارہ برس کی مدت اور بلوغ کی عمر ہے.کیا تمہاری نظر میں کبھی کوئی ایسا مفتری گذرا ہے کہ جس نے خدا تعالیٰ پر ایسا افترا کر کے کہ وہ مجھ سے ہم کلام ہے پھر اس مدت مدید کے سلامتی کو پالیا ہو.افسوس کہ تم کچھ بھی نہیں سوچتے اور قرآن کریم کی ان آیتوں کو یاد نہیں کرتے جو خود نبی کریم کی نسبت اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر تو ایک ذرہ مجھ پر افترا کرتا تو میں تیری رگِ جان کاٹ دیتا.پس نبی کریم سے زیادہ تر کون عزیز ہے کہ جو اتنا بڑا افترا کر کے اب تک بچا رہے بلکہ خدائے تعالیٰ کی نعمتوں سے مالا مال بھی ہو.سو بھائیو نفسانیت سے باز آؤ اور جو باتیں خدائے تعالیٰ کے علم سے
خا ص ہیں ان میں حدسے بڑھ کر ضدّ مت کرو اور عادت کے سلسلہ کو توڑ کر اور ایک نئے انسان بن کر تقویٰ کی راہوں میں قدم رکھو تاتم پر رحم ہو اور خدا تعالیٰ تمہارے گناہوں کو بخش دیوے.سو ڈرو اور باز آجاؤ.کیا تم میں ایک بھی رشید نہیں.و ان لم تنتھوا فسوف یأتی اللّٰہ بنصرۃ من عندہ و ینصر عبدہ و یمزّق اعداء ہ و لا تضرّونہ شیءًا.بدہ از چشم خود آبے درختانِ محبت را مگر روزے دہندت میو ہائے ُ پر حلاوت را مہِ اسلام درباطن حقیقت ہا ہمے دارد کجا باشد خبرزان مہ گرفتارانِ صورت را من از یار آمدم تاخلق رااین ماہ بنمائم گرامروزم نمی بینی بہ بینی روز حسرت را گراز چشم تو پنہا نست شانم دم مزن بارے کہ بد پرہیز بیمارے نہ بیندروئے صحت را چوچشم حق شناس و نورِ عرفانت نہ بخشیدند نہادی نام کافر لاجرم عُشّاقِ مِلّت را کجا از آستان مصطفٰے اے ابلہ بگریزیم نمی یا بیم درجائے دگرایں جاہ و دولت را بحمداللہ کہ خود قطعِ تعلق کردایں قومے خدا از رحمت و احساں میسّر کرد خلوت را چہ دوزخہاکہ میدیدیم بدیدار چنیں رُو ہا بنازم دلبرِ خود را کہ بازمِ داد جنت را چہ مہ سوزی ازاں قربے کہ بادلدارِ میدارم اگر زوریست دردستت بگردان رزقِ قسمت را بہ نخوت ہانمی آید بدست آں دامن پاکش کسے عزت ازویا بدکہ سوزد رخت عزت را اگر خواہی رہِ مولیٰ ز لافِ علم خالی شو کہ رہ ندہند در کویش اسیر کبر و نخوت را منہ دل در تنعم ہائے دنیا گر خدا خواہی کہ میخواہد نگار من تہیدستانِ عشرت را مصفّا قطرۂ باید کہ تا گوہر شود پیدا کجا بیند دلِ ناپاک روئے پاک حضرت را نمے باید مرا یک ذرّہ عزّت ہائے ایں دنیا منہ از بہر ما کرسیِ کہ ماموریم خدمت را
ہمہ خلق وجہان خواہد برائے نفسِ خودعزّت خلاف من کہ میخواہم براہِ یار ذلت را ہمہ در دورِ این عالم امان و عافیت خواہند چہ افتاد این سرِمارا کہ میخواہد مصیبت را مراہر جاکہ می بینم رُخ جانان نظر آید درخشد درخور و درماہ بنمائد ملاحت را حریص غربت و عجزم ازاں روزیکہ دانستم کہ جادر خاطرش باشددل مجروح غربت را من آن شاخِ خودی وخود ر وی ازبیخ برکندم کہ می آرد زِناپاکی برِنفرین و لعنت را اگر از روضۂ جان و دلِ من پردہ بردارند بہ بینی اندران آل دلبرِ پاکیزہ طلعت را فروغِ نورِ عشقِ او زبام و قصر ماروشن مگر بیند کسے آن را کہ میدارد بصیرت را نگاہ رحمتِ جانان عنایتہا بمن کردست وگرنہ چوں منی کے یا بدآن رُشد و سعادت را نظر بازانِ علمِ ظاہر اندر علم خود نازند ز دستِ خود فگندہ معنئ و مغز و حقیقت را ہمہ فہم و نظر در پردہ ہائے کبر پوشیدند چنان خواہند ایں خمرے کہ پاکاں جام قربت را خدا خود قصۂ شیطان بیاں کر دست تادا نند کہ این نخوت کند ابلیس ہر اہل عبادت را بلفاظی بسر کردند عمرِ خود بلا حاصل دمے از بہر معنی ہانمی یا بند فرصت را گزاف ولاف شان درظاہر شرعست ہم باطل کہ غافل از حقائق کے نکود اند شریعت را مسیحؑ ناصری را تا قیامت زندہ می فہمند مگر مدفون یثرب رانداد ندایں فضیلت را زبوئے نافۂ عرفاں چو محروم ازل بودند پسندیدند در شان شہ خلق ایں مذلّت را ہمہ دُرہائے قرآن راچو خاشا کے بیفگندند زِ علمِ ناتمام شان چہاگم گشت ملّت را ہمہ عیسائیان را از مقال خود مدد دادند دلیری ہا پدید آمد پرستاران میّت را درین ہنگامِ پُرآتش بخواب خُوش چساں خَسپَم زماں فریاد میدارد کہ بشتابیدُ نصرت را شبِ تاریک و بیم دزد و قوم ماچنیں غافل کجازِیں غم روم یارب نماخوددست قدرت را
بخا ک انگیزئ شان برضیائے خودنمی ترسم نہان کے ماندآن نورے کہ حق بخشید فطرت را کجا غوغائے شان بر خاطرِ من وحشتی آرد کہ صادق بزدلے نبود وگر بیند قیامت را اب قبل اس کے جو ہم دوسری بحثوں کی طرف توجہ کریں اس بحث کا لکھنا نہایت ضروری ہے جو دین اسلام کی حقیقت کیا ہے اور اس حقیقت تک پہنچنے کے وسائل کیا ہیں اور اس حقیقت پر پابند ہونے کے ثمرات کیا ہیں کیونکہ بہت سے اسرار دقیقہ کا سمجھنا اسی بات پر موقوف ہے کہ پہلے حقیقت اسلام اور پھر اس حقیقت کے وسائل اور پھر اس کے ثمرات بخوبی ذہن نشین ہوجائیں اور ہمارے اندرونی مخالفوں کیلئے یہ بات نہایت فائدہ مند ہوگی کہ وہ حقیقت اسلام اور اس کی ابحاث متعلقہ کو توجہ سے پڑھیں کیونکہ جن شکوک و شبہات میں وہ مبتلا ہیں اکثر وہ ایسے ہیں کہ فقط اسی وجہ سے دلوں میں پیدا ہوئے ہیں کہ اسلام کی اتم اور اکمل حقیقت اور اس کے وسائل اور ثمرات پر غور نہیں کی گئی.اور اس بات میں کچھ شبہ نہیں کہ ان تمام حقیقتوں پر غور کرنے کے بعد اگر اس عاجز کے اندرونی مخالف اپنے اعتراضات کے مقابل پر میرے جوابات کو پڑھیں گے تو بہت سے اوہام اور وساوس سےَ مخلصی پا جائیں گے بشرطیکہ وہ غور سے پڑھیں.اور پھر ان مقامات کو نظر کے سامنے رکھ کر میرے اُن جوابات کو سوچیں جو میں نے ان کے شبہات کے قلع و قمع کیلئے لکھے ہیں.ایسا ہی مخالفین مذہب کو بھی ان حقائق کے بیان کرنے سے بہت فائدہ ہوگا اور وہ اِس مقام سے سمجھ سکتے ہیں کہ مذہب کیا چیز ہے اور اس کی سچائی کے نشان کیا ہیں.اَب واضح ہو کہ ُ لغت عرب میں اسلام اس کو کہتے ہیں کہ بطور پیشگی ایک چیز کا مول دیا جائے اور یا یہ کہ کسی کو اپنا کام سونپیں اور یا یہ کہ صلح کے
طا لب ہوں اور یا یہ کہ کسی امر یا خصومت کو چھوڑ دیں.اور اصطلاحی معنے اسلام کے وہ ہیں جو اِس آیت کریمہ میں اس کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ کہ 3333.۱ یعنی مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے یعنی اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کیلئے اور اس کے ارادوں کی پیروی کیلئے اور اس کی خوشنودی کے حاصل کرنے کیلئے وقف کر دیوے اور پھر نیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لئے قائم ہو جائے اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اُس کی راہ میں لگا دیوے مطلب یہ ہے کہ اعتقادی اور عملی طور پر محض خدا تعالیٰ کا ہوجاوے.’’اعتقادی ‘‘طور پر اس طرح سے کہ اپنے تمام وجود کو درحقیقت ایک ایسی چیز سمجھ لے جو خدا تعالیٰ کی شناخت اور اس کی اطاعت اور اس کے عشق اور محبت اور اس کی رضا مندی حاصل کرنے کیلئے بنائی گئی ہے.اور ’’عملی ‘‘طور پر اس طرح سے کہ خالصاً ِ للہ حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت سے متعلق اور ہریک خداداد توفیق سے وابستہ ہیں بجا لاوے مگر ایسے ذوق و شوق و حضور سے کہ گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے معبود حقیقی کے چہرہ کو دیکھ رہا ہے.پھر بقیہ ترجمہ آیت کا یہ ہے کہ جس کی اعتقادی و عملی صفائی ایسی محبت ذاتی پر مبنی ہو اور ایسے طبعی جوش سے اعمال حسنہ اُس سے صادر ہوں وہی ہے جو عند اللہ مستحق اجر ہے اور ایسے لوگوں پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ وہ کچھ غم رکھتے ہیں یعنی ایسے لوگوں کیلئے نجات نقد موجود ہے کیونکہ جب انسان کو اللہ تعالیٰ کی ذات اور البقرۃ
صفا ت پر ایمان لا کر اس سے موافقت تامہ ہوگئی اور ارادہ اس کا خدا تعالیٰ کے ارادہ سے ہمرنگ ہوگیا اور تمام لذّت اس کی فرمانبرداری میں ٹھہرگئی اور جمیع اعمال صالحہ نہ مشقت کی راہ سے بلکہ تلذّذ اور احتظاظ کی کشش سے صادر ہونے لگے تو یہی وہ کیفیت ہے جس کو فلاح اور نجات اور رستگاری سے موسوم کرنا چاہئے اور عالم آخرت میں جو کچھ نجات کے متعلق مشہود و محسوس ہوگا وہ درحقیقت اسی کیفیت راسخہ کے اظلال و آثار ہیں جو اس جہان میں جسمانی طور پر ظاہر ہوجائیں گے.مطلب یہ ہے کہ بہشتی زندگی اسی جہان سے شروع ہوجاتی ہے اور جہنمی عذاب کی جڑھ بھی اسی جہان کی گندی اور کورانہ زیست ہے.اب آیات ممدوحہ بالا پر ایک نظر غور ڈالنے سے ہر یک سلیم العقل سمجھ سکتا ہے کہ اسلام کی حقیقت تب کسی میں متحقّق ہوسکتی ہے کہ جب اس کا وجود معہ اپنے تمام باطنی و ظاہری قویٰ کے محض خدا تعالیٰ کیلئے اور اس کی راہ میں وقف ہوجاوے اور جو امانتیں اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی ہیں پھر اسی مُعطی حقیقی کو واپس دی جائیں اور نہ صرف اعتقادی طور پر بلکہ عمل کے آئینہ میں بھی اپنے اسلام اور اس کی حقیقت کاملہ کی ساری شکل دکھلائی جاوے یعنی شخص مدعی اسلام یہ بات ثابت کر دیوے کہ اس کے ہاتھ اور پیر اور دل اور دماغ اور اس کی عقل اور اس کا فہم اور اس کا غضب اور اس کا رحم اور اس کا حلم اور اس کا علم اور اس کی تمام روحانی اور جسمانی قوتیں اور اس کی عزت اور اس کا مال اور اس کا آرام اور سرور اور جو کچھ اس کا سر کے بالوں سے پیروں کے ناخنوں تک باعتبار ظاہر و باطن کے ہے یہاں تک کہ اس کی نیّات اور اس کے دل کے خطرات اور اس کے نفس کے جذبات سب خدا تعالیٰ کے ایسے تابع ہوگئے ہیں کہ جیسے ایک شخص کے
اعضا ء اس شخص کے تابع ہوتے ہیں.غرض یہ ثابت ہوجائے کہ صدق قدم اِس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ جو کچھ اُس کا ہے وہ اُس کا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا ہوگیا ہے اور تمام اعضاء اور قویٰ الٰہی خدمت میں ایسے لگ گئے ہیں کہ گویا وہ جوارح الحق ہیں.اور ان آیات پر غور کرنے سے یہ بات بھی صاف اور بدیہی طور پر ظاہر ہورہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں زندگی کا وقف کرنا جو حقیقت اسلام ہے دو قسم پر ہے ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کو ہی اپنا معبود اور مقصود اور محبوب ٹھہرایا جاوے اور اس کی عبادت اور محبت اور خوف اور رجا میں کوئی دوسرا شریک باقی نہ رہے اور اس کی تقدیس اور تسبیح اور عبادت اور تمام عبودیّت کے آداب اور احکام اور اوامر اور حدود اور آسمانی قضا و قدر کے امور بدل و جان قبول کئے جائیں اور نہایت نیستی اور تذلّل سے ان سب حکموں اور حدّوں اور قانونوں اور تقدیروں کو بارادت تام سر پر اٹھا لیا جاوے اور نیز وہ تمام پاک صداقتیں اور پاک معارف جو اس کی وسیع قدرتوں کی معرفت کا ذریعہ اور اس کی ملکوت اور سلطنت کے علو مرتبہ کو معلوم کرنے کیلئے ایک واسطہ اور اس کے آلاء اور نعماء کے پہچاننے کیلئے ایک قوی رہبر ہیں بخوبی معلوم کر لی جائیں.دوسری قسم اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کرنے کی یہ ہے کہ اس کے بندوں کی خدمت اور ہمدردی اور چارہ جوئی اور بار برداری اور سچی غم خواری میں اپنی زندگی وقف کردی جاوے دوسروں کو آرام پہنچانے کیلئے دکھ اٹھاویں اور دوسروں کی راحت کیلئے اپنے پر رنج گوارا کر لیں.اس تقریر سے معلوم ہوا کہ اسلام کی حقیقت نہایت ہی اعلیٰ ہے
اور کوئی انسان کبھی اس شریف لقب اہل اسلام سے حقیقی طور پر ملقب نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنا سارا وجود معہ اس کی تمام قوتوں اور خواہشوں اور ارادوں کے حوالہ بخدانہ کر دیوے اور اپنی انانیت سے معہ اس کے جمیع لوازم کے ہاتھ اٹھا کر اسی کی راہ میں نہ لگ جاوے.پس حقیقی طور پر اسی وقت کسی کو مسلمان کہا جائے گا کہ جب اس کی غافلانہ زندگی پر ایک سخت انقلاب وارد ہو کر اس کے نفس ا ّ مارہ کا نقش ہستی معہ اس کے تمام جذبات کے یکدفعہ مٹ جائے اور پھر اس موت کے بعد محسن ِ للہ ہونے کے نئی زندگی اس میں پیدا ہو جائے اور وہ ایسی پاک زندگی ہو جو اس میں بجز طاعت خالق اور ہمدردی مخلوق کے اور کچھ بھی نہ ہو.خالق کی طاعت اس طرح سے کہ اس کی عزت و جلال اور یگانگت ظاہر کرنے کے لئے بے عزتی اور ذلّت قبول کرنے کیلئے مستعد ہو اور اس کی وحدانیت کا نام زندہ کرنے کیلئے ہزاروں موتوں کے قبول کرنے کیلئے طیار ہو اور اس کی فرمانبرداری میں ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کو بخوشی خاطر کاٹ سکے اور اس کے احکام کی عظمت کا پیار اور اس کی رضا جوئی کی پیاس گناہ سے ایسی نفرت دلاوے کہ گویا وہ کھا جانے والی ایک آگ ہے یا ہلاک کرنے والی ایک زہر ہے یا بھسم کردینے والی ایک بجلی ہے جس سے اپنی تمام قوتوں کے ساتھ بھاگنا چاہے.غرض اس کی مرضی ماننے کیلئے اپنے نفس کی سب مرضیات چھوڑ دے اور اس کے پیوند کیلئے جانکاہ زخموں سے مجروح ہونا قبول کر لے اور اس کے تعلق کا ثبوت دینے کیلئے سب نفسانی تعلقات توڑ دے.اور خلق اللہ کی خدمت اس طرح سے کہ جس قدر خلقت کی حاجات ہیں اور جس قدر مختلف وجوہ اور طرق کی راہ سے قسّام ازل نے بعض کو بعض کا محتاج کر رکھا ہے ان تمام امور میں محض ِ للہ اپنی حقیقی اور بے غرضانہ اور سچی ہمدردی سے جو اپنے وجود سے صادر
ہو سکتی ہے ان کو نفع پہنچاوے اور ہر یک مدد کے محتاج کو اپنی خداداد قوت سے مدد دے اور ان کی دنیا و آخرت دونوں کی اصلاح کیلئے زور لگاوے.مگر یہِ للّہی وقف محض اس صورت میں اسم بامسمّٰی ہوگی کہ جب تمام اعضا للّہی طاعت کے رنگ سے ایسے رنگ پذیر ہوجائیں کہ گویا وہ ایک الٰہی آلہ ہیں جن کے ذریعہ سے وقتاً فوقتاً افعال الٰہیہ ظہور پذیر ہوتے ہیں یا ایک مصفّاآئینہ ہیں جس میں تمام مرضیات الہٰیّہ بصفاء تام عکسی طور پر ظہور پکڑتی رہتی ہیں اور جب اس درجہ کاملہ پر للّہی طاعات و خدمات پہنچ جائیں تو اس صبغۃ اللہ کی برکت سے اس وصف کے انسان کے قویٰ اور جوارح کی نسبت وحدت شہودی کے طور پر یہ کہنا صحیح ہوتا ہے کہ مثلاً یہ آنکھیں خدا تعالیٰ کی آنکھیں اور یہ زبان خدا تعالیٰ کی زبان اور یہ ہاتھ خدا تعالیٰ کے ہاتھ اور یہ کان خدا تعالیٰ کے کان اور یہ پاؤں خدا تعالیٰ کے پاؤں ہیں.کیونکہ وہ تمام اعضاء اور قوتیں للّہی راہوں میں خدا تعالیٰ کے ارادوں سے پُر ہو کر اور اس کی خواہشوں کی تصویر بن کر اس لائق ہوجاتی ہیں کہ ان کو اسی کا روپ کہا جاوے وجہ یہ کہ جیسے ایک شخص کے اعضاء پورے طور پر اس کی مرضی اور ارادہ کے تابع ہوتے ہیں ایسا ہی کامل انسان اس درجہ پر پہنچ کر خدا تعالیٰ کی مرضیات و ارادت سے موافقت تامہ پیدا کر لیتا ہے اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور وحدانیّت اور مالکیّت اور معبودیّت اور اس کی ہریک مرضی اور خواہش کی بات ایسی ہی اس کو پیاری معلوم ہوتی ہے کہ جیسی خود خدا تعالیٰ کو.سو یہ عظیم الشان للّہی طاعت و خدمت جو پیار اور محبت سے ملی ہوئی اور خلوص اور حنفیّت تامہ سے بھری ہوئی ہے یہی اسلام اور اسلام کی حقیقت اور اسلام کالُب لباب ہے جو نفس اور خلق اور ہوا اور ارادہ سے موت حاصل کرنے کے بعد ملتا ہے.
اِس جگہ یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ آیت موصوفہ بالا یعنی 3 333.۱ سعادت تامہ کے تینوں ضروری درجوں یعنی فنا اور بقا اور لقا کی طرف اشارت کرتی ہے.کیونکہ جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں 3 کا فقرہ یہ تعلیم کررہا ہے کہ تمام قویٰ اور اعضا اور جو کچھ اپنا ہے خدا تعالیٰ کو سونپ دینا چاہئے اور اس کی راہ میں وقف کر دینا چاہئے اور یہ وہی کیفیت ہے جس کا نام دوسرے لفظوں میں فنا ہے.و جہ یہ کہ جب انسان نے حسب مفہوم اس آیت ممدوحہ کے اپنا تمام وجود معہ اس کی تمام قوتوں کے خدا تعالیٰ کو سونپ دیا اور اس کی راہ میں وقف کردیا اور اپنی نفسانی جنبشوں اور سکونوں سے بکلی باز آگیا تو بلاشبہ ایک قسم کی موت اس پر طاری ہو گئی اور اسی موت کو اہل تصوّ ف فنا کے نام سے موسوم کرتے ہیں.پھر بعد اس کے 3 کا فقرہ مرتبہ بقا کی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ جب انسان بعد فنا اکمل واتم و سلب جذبات نفسانی.الٰہی جذبہ اور تحریک سے پھر جنبش میں آیا اور بعد منقطع ہوجانے تمام نفسانی حرکات کے پھر ربانی تحریکوں سے ُ پر ہو کر حرکت کرنے لگا تو یہ وہ حیاتِ ثانی ہے جس کا نام بقا رکھنا چاہئے.پھر بعد اس کے یہ فقرات 33333 جو اثبات و ایجاب اجر و نفی و سلب خوف و حزن پر دلالت کرتے ہیں یہ حالتِ لقا کی طرف اشارہ ہے کیونکہ جس وقت انسان کے عرفان اور یقین اور توکل اور محبت میں ایسا مرتبہ عالیہ پیدا ہوجائے کہ اس کے خلوص اور ایمان اور وفا سعادت تامہ اسلام کے مدارج ۱ البقرۃ:
کا ا جر اس کی نظر میں وہمی اور خیالی اور ظنی نہ رہے بلکہ ایسا یقینی اور قطعی اور مشہود اور مرئی اور محسوس ہو کہ گویا وہ اس کو مل چکا ہے اور خدا تعالیٰ کے وجود پر ایسا یقین ہوجائے کہ گویا وہ اس کو دیکھ رہا ہے اور ہریک آئندہ کا خوف اس کی نظر سے اٹھ جاوے اور ہریک گزشتہ اور موجودہ غم کا نام و نشان نہ رہے اور ہریک روحانی تنعم موجود الوقت نظر آوے تو یہی حالت جو ہریک قبض اور کدورت سے پاک اور ہریک دغدغہ اور شک سے محفوظ اور ہریک درد انتظار سے منزّہ ہے لقا کے نام سے موسوم ہے اور اس مرتبہ لقا پر محسن کا لفظ جو آیت میں موجود ہے نہایت صراحت سے دلالت کر رہا ہے کیونکہ احسان حسب تشریح نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی حالت کاملہ کا نام ہے کہ جب انسان اپنی پرستش کی حالت میں خدا تعالیٰ سے ایسا تعلق پیدا کرے کہ گویا اس کو دیکھ رہا ہے.اور یہ لقا کا مرتبہ تب سالک کیلئے کامل طور پر متحقّق ہوتا ہے کہ جب ربّانی رنگ بشریت کے رنگ و بو کو بتمام و کمال اپنے رنگ کے نیچے متوازی اور پوشیدہ کر دیوے جس طرح آگ لوہے کے رنگ کو اپنے نیچے ایسا چھپا لیتی ہے کہ نظر ظاہر میں بجز آگ کے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا.یہ وہی مقام ہے جس پر پہنچ کر بعض سالکین نے لغزشیں کھائی ہیں اور شہودی پیوند کو وجودی پیوند کے رنگ میں سمجھ لیا ہے.اس مقام میں جو اولیاء اللہ پہنچے ہیں یا جن کو اس میں سے کوئی گھونٹ میسر آگیا ہے.بعض اہل تصوف نے ان کا نام اطفال اللہ رکھ دیا ہے اس مناسبت سے کہ وہ لوگ صفات الٰہی کے کنار عاطفت میں بکلی جا پڑے ہیں اور جیسے ایک شخص کا لڑکا اپنے حلیہ اور خط و خال میں کچھ اپنے باپ سے مناسبت رکھتا ہے ویسا ہی ان کو بھی ظلی طور پر بوجہ تخلق باخلاق اللہ خدا تعالیٰ کی صفات جمیلہ سے کچھ مناسبت پیدا ہوگئی ہے.ایسے نام سعادتِ تامہ اسلام کے مدارج اطفال اللہ
اگر چہ کھلے کھلے طور پر بزبان شرع مستعمل نہیں ہیں.مگر درحقیقت عارفوں نے قرآن کریم سے ہی اس کو استنباط کیا ہے کیونکہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے 33.۱ یعنی اللہ تعالیٰ کو ایسا یاد کرو کہ جیسے تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو.اور ظاہر ہے کہ اگر مجازی طور پر ان الفاظ کا بولنا منہیات شرع سے ہوتا تو خدا تعالیٰ ایسی طرز سے اپنی کلام کو منزہ رکھتا جس سے اس اطلاق کا جواز مستنبط ہوسکتا ہے.اور اس درجہ لقا میں بعض اوقات انسان سے ایسے امور صادر ہوتے ہیں کہ جو بشریت کی طاقتوں سے بڑھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور الٰہی طاقت کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں جیسے ہمارے سیّد و مولیٰ سیّد الرسل حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں ایک سنگریزوں کی مٹھی کفار پر چلائی اور وہ مٹھی کسی دعا کے ذریعہ سے نہیں بلکہ خود اپنی روحانی طاقت سے چلائی مگر اس مٹھی نے خدائی طاقت دکھلائی اور مخالف کی فوج پر ایسا خارق عادت اُس کا اثر پڑا کہ کوئی ان میں سے ایسا نہ رہا کہ جس کی آنکھ پر اس کا اثر نہ پہنچا ہو اور وہ سب اندھوں کی طرح ہوگئے اور ایسی سراسیمگی اور پریشانی ان میں پیدا ہوگئی کہ مدہوشوں کی طرح بھاگنا شروع کیا.اِسی معجزہ کی طرف اللہ جلّ شانہٗ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے.33.۲ یعنی جب تونے اس مٹھی کو پھینکا وہ تونے نہیں پھینکا بلکہ خدا تعالیٰ نے پھینکا.یعنی درپردہ الٰہی طاقت کام کر گئی.انسانی طاقت کا یہ کام نہ تھا.اور ایسا ہی دوسرا معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو اطفال اللہ اقتداری معجزات رسول اللّٰہ صلعم ۱ البقرۃ:۲۰۱ ۲ الانفال:
شقّ القمر ہے اسی الٰہی طاقت سے ظہور میں آیا تھا کہ کوئی دعا اس کے ساتھ شامل نہ تھی کیونکہ وہ صرف انگلی کے اشارہ سے جو الٰہی طاقت سے بھری ہوئی تھی وقوع میں آگیا تھا.اور اس قسم کے اور بھی بہت سے معجزات ہیں جو صرف ذاتی اقتدار کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھلائے جن کے ساتھ کوئی دعانہ تھی.کئی دفعہ تھوڑے سے پانی کو جو صرف ایک پیالہ میں تھا اپنی انگلیوں کو اس پانی کے اندر داخل کرنے سے اس قدر زیادہ کردیا کہ تمام لشکر اور اونٹوں اور گھوڑوں نے وہ پانی پیا اور پھر بھی وہ پانی ویسا ہی اپنی مقدار پر موجود تھا اور کئی دفعہ دو۲ چار روٹیوں پر ہاتھ رکھنے سے ہزار ہا بھوکوں پیاسوں کا ان سے شکم سیر کردیا اور بعض اوقات تھوڑے دودھ کو اپنے لبوں سے برکت دے کر ایک جماعت کا پیٹ اس سے بھر دیا اور بعض اوقات شور آب کنوئیں میں اپنے منہ کا لعاب ڈال کر اس کو نہایت شیریں کردیا.اور بعض اوقات سخت مجروحوں پر اپنا ہاتھ رکھ کر ان کو اچھا کر دیا.اور بعض اوقات آنکھوں کو جن کے ڈیلے لڑائی کے کسی صدمہ سے باہر جا پڑے تھے اپنے ہاتھ کی برکت سے پھر درست کردیا.ایسا ہی اور بھی بہت سے کام اپنے ذاتی اقتدار سے کئے جن کے ساتھ ایک چھپی ہوئی طاقت الٰہی مخلوط تھی.حال کے برہمو اور فلسفی اور نیچری اگر ان معجزات سے انکار کریں تو وہ معذور ہیں کیونکہ وہ اس مرتبہ کو شناخت نہیں کر سکتے جس میں ظلّی طور پر الٰہی طاقت انسان کو ملتی ہے پس اگر وہ ایسی باتوں پر ہنسیں تو وہ اپنے ہنسنے میں بھی معذور ہیں کیونکہ انہوں نے بجز طفلانہ حالت کے اور کسی درجہ روحانی بلوغ کو طے نہیں کیا.اور نہ صرف اپنی حالت ناقص رکھتے ہیں بلکہ اس بات پر خوش ہیں کہ اسی حالت ناقصہ میں مریں بھی.اقتداری معجزات رسول اللہ صلعم
مگر زیادہ تر افسوس اُن عیسائیوں پر ہے جو بعض خوارق اِسی کے مشابہ مگر اِن سے ادنیٰ حضرت مسیح میں سن سنا کر ان کی الوہیت کی دلیل ٹھہرا بیٹھے ہیں- اور کہتے ہیں کہ حضرت مسیح کا مُردوں کا زندہ کرنا اور مفلوجوں اور مجذوموں کا اچھا کرنا اپنے اقتدار سے تھا کسی دعا سے نہیں تھا.اور یہ دلیل اس بات پر ہے کہ وہ حقیقی طور پر ابن اللہ بلکہ خدا تھا.لیکن افسوس کہ ان بیچاروں کو خبر نہیں کہ اگر انہیں باتوں سے انسان خدا بن جاتا ہے تو اس خدائی کا زیادہ تر استحقاق ہمارے سید و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے کیونکہ اس قسم کے اقتداری خوارق جس قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھلائے ہیں حضرت مسیح علیہ السلام ہرگز دکھلا نہیں سکے اور ہمارے ہادی و مقتدا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اقتداری خوارق نہ صرف آپ ہی دکھلائے بلکہ ان خوارق کا ایک لمبا سلسلہ روز قیامت تک اپنی امت میں چھوڑ دیا جو ہمیشہ اور ہر زمانہ میں حسب ضرورت زمانہ ظہور میں آتا رہا ہے اور اس دنیا کے آخری دنوں تک اسی طرح ظاہر ہوتا رہے گا اور الٰہی طاقت کا پر توہ جس قدر اس امت کی مقدّس رُوحوں پر پڑا ہے اس کی نظیر دوسری امتوں میں ملنی مشکل ہے پھر کس قدر بے وقوفی ہے کہ ان خارق عادت امور کی وجہ سے کسی کو خدایا خدا کا بیٹا قرار دیا جائے اگر ایسے ہی خوارق سے انسان خدا بن سکتا ہے تو پھر خداؤں کا کچھ انتہا بھی ہے؟ لیکن یہ بات اس جگہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اس قسم کے اقتداری خوارق گو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ہوتے ہیں مگر پھر بھی خدا تعالیٰ کے ان خاص افعال سے جو بلا توسط ارادہ غیرے ظہور میں آتے ہیں کسی طور سے برابری نہیں کر سکتے اور نہ برابر ہونا ان کا مناسب ہے اسی وجہ سے جب کوئی نبی یا ولی اقتداری طور پر بغیر توسط کسی دعا کے کوئی ایسا امر خارق عادت دکھلاوے جو انسان کو کسی حیلہ اور تدبیر اور علاج سے اس کی قوت نہیں دی گئی تو نبی کا وہ فعل خدا تعالیٰ کے عیسائیوں کی قابل افسوس حالت اقتداری معجزات ہمارے نبی صلعم کو سب سے زیادہ دئے گئے اقتداری معجزہ خدا تعالیٰ کی بلا توسط قدرتوں سے کم درجہ پر رہتا ہے
ان افعال سے کم رتبہ پر رہے گا جو خود خدا تعالیٰ علانیہ اور بالجہر اپنی قوّت کاملہ سے ظہور میں لاتا ہے یعنی ایسا اقتداری معجزہ بہ نسبت دوسرے الٰہی کاموں کے جو بلاواسطہ اللہ جلّ شانہٗ سے ظہور میں آتے ہیں ضرور کچھ نقص اور کمزوری اپنے اندر موجود رکھتا ہوگا تا سرسری نگاہ والوں کی نظر میں تشابہ فی الخلق واقع نہ ہو.اسی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا باوجود اس کے کئی دفعہ سانپ بنا لیکن آخر عصا کا عصا ہی رہا.اور حضرت مسیح کی چڑیاں باوجودیکہ معجزہ کے طور پر ان کا پرواز قرآن کریم سے ثابت ہے مگر پھر بھی مٹی کے مٹی ہی تھے اور کہیں خدا تعالیٰ نے یہ نہ فرمایا کہ وہ زندہ بھی ہو گئیں اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقتداری خوارق میں چونکہ طاقت الٰہی سب سے زیادہ بھری ہوئی تھی کیونکہ وجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تجلّیاتِ الٰہیہ کیلئے اتمّ واعلیٰ وارفع و اکمل نمونہ تھا اس لئے ہماری نظریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقتداری خوارق کو کسی درجہ بشریت پر مقرر کرنے سے قاصر ہیں مگر تاہم ہمارا اس پر ایمان ہے کہ اس جگہ بھی اللہ جلّ شانہٗ اور اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل میں مخفی طور پر کچھ فرق ضرور ہوگا.اب ان تحریرات سے ہماری غرض اس قدر ہے کہ لقا کا مرتبہ جب کسی انسان کو میسر آتا ہے تو اس مرتبہ کے تموّج کے اوقات میں الٰہی کام ضرور اس سے صادر ہوتے ہیں اور ایسے شخص کی گہری صحبت میں جو شخص ایک حصہ عمر کا بسر کرے تو ضرور کچھ نہ کچھ یہ اقتداری خوارق مشاہدہ کرے گا کیونکہ اس تموّج کی حالت میں کچھ الٰہی صفات کا رنگ ظلی طور پر انسان میں آجاتا ہے یہاں تک کہ اس کا رحم خدا تعالیٰ کا رحم اور اس کا غضب خدا تعالیٰ کا غضب ہوجاتا ہے اور بسا اوقات وہ بغیر کسی دعا کے کہتا ہے کہ فلاں چیز پیدا ہوجائے تو وہ پیدا ہوجاتی ہے اور کسی پر غضب کی نظر سے دیکھتا ہے تو اس پر کوئی القا کے مرتبہ پر اقتداری نشان اہل اللہ سے صادر ہوتے ہیں اقتداری معجزہ خدا تعالیٰ کے بلا توسط کاموں سے کم درجہ پر رہتا ہے
وبال ناز ل ہو جاتا ہے اور کسی کو رحمت کی نظر سے دیکھتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک مورد رحم ہوجاتا ہے اور جیسا کہ خدا تعالیٰ کا کُن دائمی طور پر نتیجہ مقصودہ کو بلا تخلف پیدا کرتا ہے ایسا ہی اُس کا کُن بھی اس تموّج اور مدّ کی حالت میں خطا نہیں جاتا.اور جیسا کہ میں بیان کرچکا ہوں ان اقتداری خوارق کی اصل وجہ یہی ہوتی ہے کہ یہ شخص شدت اتصال کی وجہ سے خدائے عزّوجلّ کے رنگ سے ظلّی طور پر رنگین ہوجاتا ہے اور تجلّیاتِ الٰہیہ اس پر دائمی قبضہ کر لیتے ہیں اور محبوب حقیقی حجب حائلہ کو درمیان سے اٹھا کر نہایت شدید قرب کی وجہ سے ہم آغوش ہوجاتا ہے اور جیسا کہ وہ خود مبارک ہے ایسا ہی اس کے اقوال و افعال و حرکات اور سکنات اور خوراک اور پوشاک اور مکان اور زمان اور اس کے جمیع لوازم میں برکت رکھ دیتا ہے تب ہر یک چیز جو اس سے مس کرتی ہے بغیر اس کے جو یہ دعا کرے برکت پاتی ہے.اس کے مکان میں برکت ہوتی ہے اس کے دروازوں کے آستانے برکت سے بھرے ہوتے ہیں اس کے گھر کے دروازوں پر برکت برستی ہے جو ہر دم اس کو مشاہدہ ہوتی ہے اور اس کی خوشبو اس کو آتی ہے جب یہ سفر کرے تو خدا تعالیٰ معہ اپنی تمام برکتوں کے اس کے ساتھ ہوتا ہے اور جب یہ گھر میں آوے تو ایک دریا نور کا ساتھ لاتا ہے غرض یہ عجیب انسان ہوتا ہے جس کی کنہ بجز خدا تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا.اس جگہ یہ بھی واضح رہے کہ فنا فی اللہ کے درجہ کی تحقّق کے بعد یعنی اس درجہ کے بعد جو 3 کے مفہوم کو لازم ہے جس کو صوفی فنا کے نام سے اور قرآن کریم استقامت کے اسم سے موسوم کرتا ہے درجہ بقا اور لقا کا بلاتوقف پیچھے آنے والا ہے یعنی جب کہ انسان خلق اور ہوا اور ارادہ سے بکلی خالی ہو کر فنا کی حالت کو پہنچ گیا تو اس حالت کے راسخ ہونے کے ساتھ ہی بقا کا درجہ شروع ہوجاتا ہے مگر اہل اللہ کی ہر یک چیز میں برکت ہوتی ہے بقا اور لقا کے مرتبہ کی کیفیت
جب تک یہ حالت راسخ نہ ہو اور خدا تعالیٰ کی طرف بکلی جھک جانا ایک طبیعی امر نہ ٹھہر جائے تب تک مرتبہ بقا کا پیدا نہیں ہو سکتا بلکہ وہ مرتبہ صرف اسی وقت پیدا ہوگا کہ جب ہریک اطاعت کا تصنع درمیان سے اٹھ جائے اور ایک طبعی روئیدگی کی طرح فرمانبرداری کی سرسبز اور لہراتی ہوئی شاخیں دل سے جوش مار کر نکلیں اور واقعی طور پر سب کچھ جو اپنا سمجھا جاتا ہے خدا تعالیٰ کا ہو جائے اور جیسے دوسرے لوگ ہوا پرستی میں لذت اٹھاتے ہیں اس شخص کی تمام کامل لذتیں پرستش اور یاد الٰہی میں ہوں.اور بجائے نفسانی ارادوں کے خدا تعالیٰ کی مرضیات جگہ پکڑ لیں.پھر جب یہ بقا کی حالت بخوبی استحکام پکڑ جائے اور سالک کے رگ و ریشہ میں داخل ہو جائے اور اُس کا جزو وجود بن جائے اور ایک نور آسمان سے اترتا ہوا دکھائی دے جس کے نازل ہونے کے ساتھ ہی تمام پردے دور ہو جائیں اور نہایت لطیف اور شیریں اور حلاوت سے ملی ہوئی ایک محبت دل میں پیدا ہو جو پہلے نہیں تھی اور ایک ایسی خنکی اور اطمینان اور سکینت اور سرور دل کو محسوس ہو کہ جیسے ایک نہایت پیارے دوست مدت کے بچھڑے ہوئے کی یکدفعہ ملنے اور بغل گیر ہونے سے محسوس ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کے روشن اور لذیذ اور مبارک اور سرور بخش اور فصیح اور معطّر اور مبشرانہ کلمات اُٹھتے اور بیٹھتے اور سوتے اور جاگتے اس طرح پر نازل ہونے شروع ہو جائیں کہ جیسے ایک ٹھنڈی اور دلکش اور پُرخوشبو ہوا ایک گلزار پر گذر کر آتی اور صبح کے وقت چلنی شروع ہوتی اور اپنے ساتھ ایک سُکر اور سرور لاتی ہے.اور انسان خدا تعالیٰ کی طرف ایسا کھینچا جائے کہ بغیر اُس کی محبت ا ور عاشقانہ تصور کے جی نہ سکے اور نہ یہ کہ مال اور جان اور عزت اور اولاد اور جو کچھ اس کا ہے قربان کرنے کیلئے طیار ہو بلکہ اپنے دل میں قربان کر ہی بقا اور لقا کے مرتبہ کی کیفیت
چکا ہو اور ایسی ایک زبردست کشش سے کھینچا گیا ہو جو نہیں جانتا کہ اسے کیا ہوگیا اور نورانیت کا بشدت اپنے اندر انتشار پاوے جیسا کہ دن چڑھا ہوا ہوتا ہے اور صدق اور محبت اور وفا کی نہریں بڑے زور سے چلتی ہوئی اپنے اندر مشاہدہ کرے اور لمحہ بہ لمحہ ایسا احساس کرتا ہو کہ گویا خدا تعالیٰ اُس کے قلب پر اُترا ہوا ہے.جب یہ حالت اپنی تمام علامتوں کے ساتھ محسوس ہو تب خوشی کرو اور محبوب حقیقی کا شکر بجا لاؤ کہ یہی وہ انتہائی مقام ہے جس کا نام لقا رکھا گیا ہے.اِس آخری مقام میں انسان ایسا احساس کرتا ہے کہ گویا بہت سے پاک پانیوں سے اُس کو دھو کر اور نفسانیت کا بکلّی رگ و ریشہ اس سے الگ کر کے نئے سرے اُس کو پیدا کیا گیا اور پھر ربّ العالمین کا تخت اس کے اندر بچھایا گیا اور خدائے پاک و قدوس کا چمکتا ہوا چہرہ اپنے تمام دلکش حسن و جمال کے ساتھ ہمیشہ کیلئے اُس کے سامنے موجود ہو گیا ہے مگر ساتھ اس کے یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ دونوں آخری درجہ بقا اور لقا کے کسبی نہیں ہیں بلکہ وہبی ہیں اور کسب اور جدوجہد کی حد صرف فنا کے درجہ تک ہے اور اسی حد تک تمام راست باز سالکوں کا سیر و سلوک ختم ہوتا ہے اور دائرہ کمالات انسانیہ کا اپنے استدارت تامہ کو پہنچتا ہے اور جب اس درجہ فنا کو پاک باطن لوگ جیسا کہ چاہئے طے کرچکتے ہیں تو عادت الہٰیہ اسی طرح پر جاری ہے کہ بیک دفعہ عنایت الٰہی کی نسیم چل کر بقا اور لقا کے درجہ تک اُنہیں پہنچا دیتی ہے.اب اِس تحقیق سے ظاہر ہے کہ اس سفر کی تمام صعوبتیں اور مشقتیں فنا کی حد تک ہی ہیں اور پھر اس سے آگے گذر کر انسان کی سعی اور کوشش اور مشقت اور محنت مرد سالک کا سلوک صرف فنا کی حد تک ہے
کو دخل نہیں بلکہ وہ محبت صافیہ جو فنا کی حالت میں خدا وند کریم و جلیل سے پیدا ہوتی ہے الٰہی محبت کا خود بخود اُس پر ایک نمایاں شعلہ پڑتا ہے جس کو مرتبہ بقا اور لقا سے تعبیر کرتے ہیں اور جب محبتِ الٰہی بندہ کی محبت پر نازل ہوتی ہے تب دونوں محبتوں کے ملنے سے روح القدس کا ایک روشن اور کامل سایہ انسان کے دل میں پیدا ہوجاتا ہے اور لقا کے مرتبہ پر اس روح القدس کی روشنی نہایت ہی نمایاں ہوتی ہے اور اقتداری خوارق جن کا ابھی ہم ذکر کر آئے ہیں اسی وجہ سے ایسے لوگوں سے صادر ہوتے ہیں کہ یہ روح القدس کی روشنی ہر وقت اور ہر حال میں ان کے شامل حال ہوتی ہے اور اُن کے اندر سکونت رکھتی ہے اور وہ اُس روشنی سے کبھی اور کسی حال میں جدا نہیں ہوتے اور نہ وہ روشنی ان سے جدا ہوتی ہے.وہ روشنی ہر دم اُن کے تنفّس کے ساتھ نکلتی ہے اور اُن کی نظر کے ساتھ ہریک چیز پر پڑتی ہے.اور اُن کی کلام کے ساتھ اپنی نورانیت لوگوں کو دکھلاتی ہے اسی روشنی کا نام رُوح القدس ہے مگر یہ حقیقی رُوح القدس نہیں حقیقی روح القدس وہ ہے جو آسمان پر ہے یہ روح القدس اُس کا ظلّ ہے جو پاک سینوں اور دلوں اور دماغوں میں ہمیشہ کیلئے آباد ہوجاتا ہے اور ایک طرفۃ العین کیلئے بھی اُن سے جدا نہیں ہوتا اور جو شخص تجویز کرتا ہے کہ یہ روح القدس کسی وقت اپنی تمام تاثیرات کے ساتھ ان سے جدا ہو جاتا ہے وہ شخص سراسر باطل پر ہے اور اپنے ُ پر ظلمت خیال سے خدا تعالیٰ کے مقدس برگزیدوں کی توہین کرتا ہے.ہاں یہ سچ ہے کہ حقیقی روح القدس تو اپنے مقام پر ہی رہتا ہے لیکن روح القدس کا سایہ جس کا نام مجازً ا روح القدس ہی رکھا جاتا ہے اُن سینوں اور دلوں اور دماغوں اور تمام اعضا میں داخل ہوتا ہے جو مرتبہ بقا اور لقا کا پاکر اس لائق ٹھہر جاتے ہیں کہ اُن کی نہایت اصفٰی اور اجلٰی محبت پر روح القدس کا روشن اور کامل سایہ دو محبتوں کے ملنے سے لقا کی حالت میں پیدا ہوتا ہے اس بات کا سبب کہ اقتداری معجزات اور نشان کیوں صادر ہوتے ہیں وہ لوگ باطل پر ہیں کہ جو روح القدس کا ولیوں اور نبیوں سے کسی وقت الگ ہو جانا عقیدہ رکھتے ہیں
خدا تعالیٰ کی کامل محبت اپنی برکات کے ساتھ نازل ہو.اور جب وہ روح القدس نازل ہوتا ہے تو اس انسان کے وجود سے ایسا تعلق پکڑ جاتا ہے کہ جیسے جان کا تعلق جسم سے ہوتا ہے وہ قوت بینائی بن کر آنکھوں میں کام دیتا ہے اور قوت شنوائی کا جامہ پہن کر کانوں کو روحانی حس بخشتا ہے وہ زبان کی گویائی اور دل کے تقویٰ اور دماغ کی ہشیاری بن جاتا ہے اور ہاتھوں میں بھی سرایت کرتا ہے اور پیروں میں بھی اپنا اثر پہنچاتا ہے.غرض تمام ظلمت کو وجود میں سے اُٹھا دیتا ہے اور سر کے بالوں سے لے کر پیروں کے ناخنوں تک منور کردیتا ہے اور اگر ایک طرفۃ العین کیلئے بھی علیحدہ ہو جائے تو فی الفور اس کی جگہ ظلمت آجاتی ہے مگر وہ کاملوں کو ایسا نعم القرین عطا کیا گیا ہے کہ ایک دم کیلئے بھی ان سے علیحدہ نہیں ہوتا اور یہ گمان کرنا کہ اُن سے علیحدہ بھی ہو جاتا ہے یہ دوسرے لفظوں میں اس بات کا اقرار ہے کہ وہ بعد اس کے جو روشنی میں آگئے پھر تاریکی میں پڑ جاتے ہیں اور بعد اس کے جو معصوم یا محفوظ کئے گئے پھر نفس امّارہ اُن کی طرف عود کرتا ہے اور بعد اس کے جو روحانی حواس اُن پر کھولے گئے پھر وہ تمام حواس بے کار اور معطل کئے جاتے ہیں.سو اَے وے لوگو جو اس صداقت سے منکر اور اس نکتہ معرفت سے انکاری ہو مجھ سے جلدی مت کرو اور اپنے ہی نورِ قلب سے گواہی طلب کرو کہ کیا یہ امر واقعی ہے کہ برگزیدوں کی روشنی کسی وقت بتمام و کمال ان سے دور بھی ہو جاتی ہے.کیا یہ درست ہے؟ کہ وہ تمام نورانی نشان کامل مومنوں سے کمال ایمان کی حالت میں کبھی گم بھی ہوجاتے ہیں.اگر یہ کہو کہ ہم نے کب اور کس وقت کہا ہے کہ برگزیدوں کی روحانی روشنی کبھی سب کی سب دور بھی ہوجاتی ہے اور سراسر ظلمت ان پر احاطہ کر لیتی ہے تو اس کا روح القدس کا نور کاملوں میں ہمیشہ رہتا ہے اور اُن کی تمام قوتوں میں سرایت کرتا ہے
یہ جو اب ہے کہ آپ لوگوں کے عقیدہ سے ایسا ہی نکلتا ہے کیونکہ آپ لوگ بالتزام و اتّباع آیات کلام الٰہی اس بات کو بھی مانتے ہیں کہ ہریک نور اور سکینت اور اطمینان اور برکت اور استقامت اور ہریک روحانی نعمت برگزیدوں کو روح القدس سے ہی ملتی ہے اور جیسے اشرار اور کفار کیلئے دائمی طور پر شیطان کو بئس القرین قرار دیا گیا ہے تا ہر وقت وہ ان پر ظلمت پھیلاتا رہے اور اُن کے قیام اور قعود اور حرکت اور سکون اور نیند اور بیداری میں اُن کا پیچھا نہ چھوڑے ایسا ہی مقربین کیلئے دائمی طور پر روح القدس کو نعم القرین عطا کیا گیا ہے تا ہر وقت وہ اُن پر نور برساتا رہے اور ہر دم اُن کی تائید میں لگا رہے اور کسی دم اُن سے جدا نہ ہو.اب ظاہر ہے کہ جب کہ بمقابل بئس القرین کے جو ہمیشہ اشدّ شریروں کا ملازم اور رفیق ہے مقربوں کیلئے نعم القرین کا ہر وقت رفیق اور انیس ہونا نہایت ضروری ہے اور قرآن کریم اس کی خبر دیتا ہے تو پھر اگر اُس نعم القرین کی علیحدگی مقربوں سے تجویز کی جائے جیسا کہ ہمارے اندرونی مخالف قومی بھائی گمان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ روح القدس جبرائیل کا نام ہے کبھی تو وہ آسمان سے نازل ہوتا ہے اور مقربوں سے نہایت درجہ اتصال کر لیتا ہے یہاں تک کہ اُن کے دل میں دھنس جاتا ہے اور کبھی ان کو اکیلا چھوڑ کر اُن سے جدائی اختیار کر لیتا ہے اور کروڑہا بلکہ بے شمار کوسوں کی دوری اختیار کر کے آسمان پر چڑھ جاتا ہے اور اُن مقرّبوں سے بالکل قطع تعلقات کر کے اپنی قرار گاہ میں جا چھپتا ہے تب وہ اُس روشنی اور اُس برکت سے بکُلّی محروم رہ جاتے ہیں جو اُس کے نزول کے وقت اُن کے دل اور دماغ اور بال بال میں پیدا ہوتی ہے تو کیا اِس عقیدہ سے لازم نہیں آتا کہ اس عقیدہ کا بطلان کہ روح القدس مقربوں کے ساتھ ہمیشہ نہیں رہتا بلکہ بسا اوقات ان سے اپنا مبارک تعلق قطع کر کے آسمان پر چلا جاتا ہے اورو ہ خالی کے خالی رہ جاتے ہیں.
رُوح القدس کے جدا ہونے سے پھر اُن برگزیدوں کو ظلمت گھیر لیتی ہے اور نعوذ باللہ نعم القرین کی جدائی کی وجہ سے بئس القرین کا اثر اُن میں شروع ہوجاتا ہے اب ذرہ خوف الٰہی کو اپنے دل میں جگہ دے کر سوچنا چاہئے کہ کیا یہی ادب اور یہی ایمان اور عرفان ہے اور یہی محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اِس نقص اور تنزل کی حالت کو روا رکھا جائے کہ گویا روح القدس آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم سے مدّتوں تک علیحدہ ہوجاتا تھا اور نعوذ باللہ ان مدتوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انوار قدسیہ سے جو روح القدس کا پر توہ ہے محروم ہوتے تھے غضب کی بات ہے کہ عیسائی لوگ تو حضرت مسیح علیہ السلام کی نسبت یقینی اور قطعی طور پر یہ اعتقاد رکھیں* کہ روح القدس جب سے حضرت مسیح پر نازل ہوا کبھی ان سے جدا نہیں ہوا اور وہ ہمیشہ اور ہر دم روح القدس سے تائید یافتہ تھے یہاں تک کہ خواب میں بھی ان سے روح القدس جدا نہیں ہوتا تھا اور ان کا روح القدس کبھی آسمان پر ان کو اکیلا اور مہجور چھوڑ کر نہیں گیا اور نہ روح القدس کی روشنی ایک دم کیلئے بھی کبھی ان سے جدا ہوئی لیکن مسلمانوں کا یہ اعتقاد ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا روح القدس آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا بھی ہوجاتا تھا اور اپنے دشمنوں کے سامنے بصراحت تمام یہ اقرار کریں کہ رُوح القدس کی دائمی رفاقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عیسیٰ کی طرح نصیب نہیں ہوئی.اب سوچو کہ اس سے زیادہ تر اور کیا بے ادبی اور گستاخی ہوگی کہ آنحضرت صلعم کی صریح توہین کی جاتی ہے اور عیسائیوں کو اعتراض کرنے کیلئے موقع دیا جاتا ہے اِس بات کو * نوٹ.حضرت مسیح کی نسبت مسلمانوں کا بھی یہی اعتقاد ہے دیکھو تفسیر ابن جریر و ابن کثیر و معالم و فتح البیان و کشاف و تفسیر کبیر و حسینی وغیرہ بموقعہ تفسیر آیت 3 ۱ افسوس افسوس افسوس.منہ آنحضرت صلعم کی نسبت یہ اعتقاد رکھنا کہ آپ سے اکثر اوقات روح القدس جدا ہو جاتا تھا نہایت درجہ کی توہین ہے البقرۃ:
کون نہیں جانتا کہ روح القدس کا نزول نورانیت کا باعث اور اس کا جدا ہو جانا ظلمت اور تاریکی اور بدخیالی اور تفرقہ ایمان کا موجب ہوتا ہے خدا تعالیٰ اسلام کو ایسے مسلمانوں کے شر سے بچاوے جو کلمہ گو کہلا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی حملہ کررہے ہیں.عیسائی لوگ تو حواریوں کی نسبت بھی یہ اعتقاد نہیں رکھتے کہ کبھی ان سے روح القدس جدا ہوتا تھا بلکہ ان کا تو یہ عقیدہ ہے کہ وہ لوگ روح القدس کا فیض دوسروں کو بھی دیتے تھے.لیکن یہ لوگ مسلمان کہلا کر اور مولوی اور محدّث اور شیخ الکل نام رکھا کر پھر جناب ختم المرسلین خیر الاوّلین والآخرین کی شان میں ایسی ایسی بدگمانی کرتے ہیں اور اس قدر سخت بد زبانی کر کے پھر خاصے مسلمان کے مسلمان اور دوسرے لوگ ان کی نظر میں کافر ہیں.اور اگر یہ سوال ہو کہ قرآن کریم میں اس بات کی کہاں تشریح یا اشارہ ہے کہ روح القدس مقرّبوں میں ہمیشہ رہتا ہے اور ان سے جدا نہیں ہوتا تو اس کا یہ جواب ہے کہ سارا قرآن کریم ان تصریحات اور اشارات سے بھرا پڑا ہے بلکہ وہ ہریک مومن کو روح القدس ملنے کا وعدہ دیتا ہے چنانچہ منجملہ ان آیات کے جو اس بارہ میں کھلے کھلے بیان سے ناطق ہیں.سورۃ الطارق کی پہلی دو آیتیں ہیں اور وہ یہ ہیں33* ۱ ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ قسم ہے آسمان کی اور اس کی جو رات کو آنے والا ہے اور تجھے کیا خبر ہے کہ رات کو آنے والی کیا چیز ہے؟ وہ ایک چمکتا ہوا ستارہ ہے.اور قسم اس بات کیلئے ہے کہ ایک بھی ایسا جی نہیں کہ جو اس پر نگہبان نہ ہو یعنی ہر یک نفس پر نفوس مخلوقات میں سے ایک فرشتہ موکل ہے جو اس کی نگہبانی کرتا ہے اور ہمیشہ اس کے ساتھ رہتا ہے.اس بات کا آیات اور احادیث سے ثبوت کہ روح القدس مقربوں میں ہمیشہ رہتا ہے ۱ الطارق:۲.
.۱ یہ آخری آیت یعنی اِنْ کُلُّ نَفْسٍ لَمَّا عَلَیْھَا حَافِظٌ جس کے یہ معنی ہیں کہ ہر ایک نفس پر ایک فرشتہ نگہبان ہے یہ صاف دلالت کر رہی ہے کہ جیسا کہ انسان کے ظاہر وجود کیلئے فرشتہ مقرر ہے جو اُس سے جدا نہیں ہوتا ویسا ہی اس کے باطن کی حفاظت کیلئے بھی مقرر ہے جو باطن کو شیطان سے روکتا ہے اور گمراہی کی ظلمت سے بچاتا ہے اور وہ رُوح القدس ہے جو خدا تعالیٰ کے خاص بندوں پر شیطان کا تسلّط ہونے نہیں دیتا اور اسی کی طرف یہ آیت بھی اشارہ کرتی ہے کہ 3.۲ اب دیکھو کہ یہ آیت کیسے صریح طور پر بتلا رہی ہے کہ خدا تعالیٰ کا فرشتہ انسان کی حفاظت کیلئے ہمیشہ اور ہر دم اس کے ساتھ رہتا ہے اور ایک دم بھی اس سے جدا نہیں ہوتا.کیا اس جگہ یہ خیال آسکتا ہے کہ انسان کے ظاہر کی نگہبانی کیلئے تو دائمی طور پر فرشتہ مقرر ہے لیکن اس کی باطن کی نگہبانی کیلئے کوئی فرشتہ دائمی طور پر خدا تعالیٰ نے جو اس آیت کو کلی طور پر یعنی کُلْ کے لفظ سے مقید کر کے بیان فرمایا ہے اس سے یہ بات بخوبی ثابت ہوگئی کہ ہریک چیز جس پر نفس کا نام اطلاق پاسکتا ہے اس کی فرشتے حفاظت کرتے ہیں پس بموجب اس آیت کے نفوس کواکب کی نسبت بھی یہ عقیدہ رکھنا پڑا کہ کل ستارے کیا سورج کیا چاند کیا زحل کیا مشتری ملائک کی زیر حفاظت ہیں یعنی ہریک کیلئے سورج اور چاند وغیرہ میں سے ایک ایک فرشتہ مقرر ہے جو اس کی حفاظت کرتا ہے اور اس کے کاموں کو احسن طور پر چلاتا ہے.* اس جگہ کئی اعتراض پیدا ہوتے ہیں جن کا دفع کرنا ہمارے ذمہ ہے.از انجملہ ایک یہ کہ جس حالت میں روح القدس صرف ان مقربوں کو ملتا ہے کہ جو بقا اور لقا کے *نوٹ.اس مضمون کی تائید یہ آیت بھی کرتی ہے 33 ۳ چونکہ رجم کی خدمت فرشتے کرتے ہیں نہ کہ ستارے لہٰذا اسی سے قطعی طور پر ثابت ہوا کہ ہریک ستارے پر ایک فرشتہ مؤکل ہے اور چونکہ فرشتے ستاروں کے لئے بوجہ شدت تعلق جان کی طرح ہیں اس لئے آیت میں فرشتوں کا فعل ستاروں کی طرف منسوب کیا گیا.فتدبّر.منہ ہر یک ستارہ پر اُس کی بقا اور اُس کے افعال صادر ہونے کے لئے ایک فرشتہ مقرر ہے ۱ الطارق:۴.۵ ۲ الحجر:۴۳ ۳ الملک:
مقر ر نہیں بلکہ متعصّب سے متعصّب انسان سمجھ سکتا ہے کہ باطن کی حفاظت اور روح کی نگہبانی جسم کی حفاظت سے بھی زیادہ ضروری ہے کیونکہ جسم کی آفت تو اسی جہان کا ایک دکھ ہے لیکن روح اور نفس کی آفت جہنم ابدی میں ڈالنے والی چیز ہے سو جس خدائے رحیم و کریم کو انسان کے اس جسم پر بھی رحم ہے جو آج ہے اور کل خاک ہوجائے گا اس کی نسبت کیونکر گمان کرسکتے ہیں کہ اس کو انسان کی رُوح پر رحم نہیں.پس اس نص قطعی اور یقینی سے ثابت ہے کہ رُوح القدس یا یوں کہو کہ اندرونی نگہبانی کا فرشتہ ہمیشہ نیک انسان کے ساتھ ایسا ہی رہتا ہے جیسا کہ اس کی بیرونی حفاظت کیلئے رہتا ہے.اس آیت کے ہم مضمون قرآن کریم میں اور بہت سی آیتیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی تربیت اور حفاظت ظاہری و باطنی کیلئے اور نیز اس کے اعمال کے لکھنے کیلئے ایسے فرشتے مقرر ہیں کہ جو دائمی طور پر انسانوں کے پاس رہتے ہیں چنانچہ منجملہ ان کے یہ آیات ہیں.مرتبہ تک پہنچتے ہیں تو پھر ہر ایک کا نگہبان کیونکر ہو سکتا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ روح القدس کا کامل طور پر نزول مقربوں پر ہی ہوتا ہے مگر اس کی فی الجملہ تائید حسب مراتب محبت و اخلاص دوسروں کو بھی ہوتی ہے.ہماری تقریر مندرجہ بالا کا صرف یہ مطلب ہے کہ روح القدس کی اعلیٰ تجلّی کی یہ کیفیت ہے کہ جب بقا اور لقا کے مرتبہ پر محبت الٰہی انسان کی محبت پر نازل ہوتی ہے تو یہ اعلیٰ تجلّی روح القدس کی ان دونوں محبتوں کے ملنے سے پیدا ہوتی ہے جس کے مقابل پر دوسری تجلیات کالعدم ہیں مگر یہ تو نہیں کہ دوسری تجلیات کا وجود ہی نہیں خدا تعالیٰ ایک ذرہ محبت خالصہ کو بھی ضائع نہیں کرتا.انسان کی محبت پر اس کی محبت نازل ہوتی ہے اور اسی مقدار پر روح القدس اس بات کا جواب کہ جبکہ روح القدس مقربوں سے خاص ہے تو عام لوگوں کو کیوں عطا ہوتا ہے
3.۱ 33.۲ 3 33.۳ ترجمہ ان آیات کا یہ ہے کہ تم پر حفاظت کرنے والے مقرر ہیں خدا تعالیٰ ان کو بھیجتا ہے.اور خدا تعالیٰ کی طرف سے چوکیدار مقرر ہیں جو اس کے بندوں کی ہر طرف سے یعنی کیا ظاہری طور پر اور کیا باطنی طور پر حفاظت کرتے ہیں.اس مقام میں صاحبِ معالم نے یہ حدیث لکھی ہے کہ ہریک بندہ کیلئے ایک فرشتہ موکل ہے جو اس کے ساتھ ہی رہتا ہے.اور اس کی نیند اور بیداری میں شیاطین اور دوسری بلاؤں سے اس کی حفاظت کرتا رہتا ہے اور اسی مضمون کی ایک اور حدیث کعب الاحبار سے بیان کی ہے اور ابن جریر اس آیت کی تائید میں یہ حدیث لکھتا ہے انَّ معکم من لا یفارقکم الّا عند الخلاء وعند الجماع فاستحیوھم و اکرموھم.یعنی تمہارے ساتھ وہ فرشتے ہیں کہ بجز جماع اور پاخانہ کی حاجت کے تم سے جدا نہیں ہوتے.سو تم ان سے شرم کرو اور ان کی تعظیم کی چمک پیدا ہوتی ہے.یہ خدا تعالیٰ کا ایک بندھا ہوا قانون ہے کہ ہر یک محبت کے اندازہ پر الٰہی محبت نزول کرتی رہتی ہے اور جب انسانی محبت کا ایک دریا بہ نکلتا ہے تو اس طرف سے بھی ایک دریا نازل ہوتا ہے اور جب وہ دونوں دریا ملتے ہیں تو ایک عظیم الشان نور ان میں سے پیدا ہوتا ہے جو ہماری اصطلاح میں روح القدس سے موسوم ہے لیکن جیسے تم دیکھتے ہو کہ اگر بیس سیر پانی میں ایک ماشہ مصری ڈال دی جائے تو کچھ بھی مصری کا ذائقہ معلوم نہیں ہو گا اور پانی پھیکے کا پھیکا ہی ہوگا.مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ مصری اس میں نہیں ڈالی گئی اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ پانی میٹھا ہے.یہی حال اس روح القدس کا ہے جو ناقص طور پر ناقص لوگوں پر اترتا ہے اس کے اترنے میں تو شک نہیں ہوسکتا روح القدس کے ناقص نزول کا حال ۱ الانفطار:۱۱ ۲ الانعام:۶۲ ۳ الرعد:
کر و اور اس جگہ عکرمہ سے یہ حدیث لکھی ہے کہ ملائکہ ہریک شر سے بچانے کیلئے انسان کے ساتھ رہتے ہیں اور جب تقدیر مبرم نازل ہو تو الگ ہو جاتے ہیں.اور پھر مجاہد سے نقل کیا ہے کہ کوئی ایسا انسان نہیں جس کی حفاظت کیلئے دائمی طور پر ایک فرشتہ مقرر نہ ہو.پھر ایک اور حدیث عثمان بن عفّان سے لکھی ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ بیس۲۰ فرشتے مختلف خدمات کے بجا لانے کیلئے انسان کے ساتھ رہتے ہیں اور دن کو ابلیس اور رات کو ابلیس کے بچے ضرر رسانی کی غرض سے ہر دم گھات میں لگے رہتے ہیں اور پھر امام احمدرحمۃ اللہ علیہ سے یہ حدیث مندرجہ ذیل لکھی ہے.حدثنا اسود بن عامر حدثنا سفیان حدثنی منصور عن سالم بن ابی الجعد عن ابیہ عن عبداللّٰہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسلم ما منکم من احد ا لا و قد وُکِّلَ بہٖ قرینہ من الجن و قرینہ من الملائکۃ قالوا و ایاک یا رسول اللّٰہ قال و ایای ولکن اللّٰہ اعاننی علیہ فلا یأمرنی الا بخیر انفرد باخراجہ مسلم صفحہ ۲۴۴ کیونکہ ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی کو بھی نیکی کا خیال روح القدس سے پیدا ہوتا ہے.کبھی فاسق اور فاجر اور بدکار بھی سچی خواب دیکھ لیتا ہے اور یہ سب روح القدس کا اثر ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ نبویہ سے ثابت ہے مگر وہ تعلق عظیم جو مقدسوں اور مقربوں کے ساتھ ہے اس کے مقابل پر یہ کچھ چیز نہیں گویا کالعدم ہے.از انجملہ ایک یہ سوال ہے کہ جس حالت میں روح القدس انسان کو بدیوں سے روکنے کیلئے مقرر ہے تو پھر اس سے گناہ کیوں سرزد ہوتا ہے اور انسان کفر اور فسق اور فجور میں کیوں مبتلا ہوجاتا ہے.اس کا یہ جواب ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کیلئے ابتلا کے طور پر دو۲ روحانی داعی مقرر کر رکھے ہیں.ایک داعی خیر جس کا نام روح القدس ہے اور ایک داعی شر جس کا نام ابلیس اور احادیث نبویہ سے اس بات کا ثبوت کہ ملائک آمر خیر اور شیاطین آمر شر ضرور انسانوں کے ساتھ رہتے ہیں اس بات کا جواب کہ اگر روح القدس ہر یک انسان کے ساتھ رہتا ہے تو پھر بنی آدم سے بُرے کام کیوں ہوتے ہیں.
یعنی بتوسط اسود وغیرہ عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی تم میں سے ایسا نہیں کہ جس کے ساتھ ایک قرین جنّ کی نوع میں سے اور ایک قرین فرشتوں میں سے موکّل نہ ہو.صحابی نے عرض کی کہ کیا آپ بھی یارسول اللہ صلعم فرمایا کہ ہاں میں بھی.پر خدا نے میرے جنّ کو میرے تابع کر دیا.سو وہ بجز خیر اور نیکی کے اور کچھ بھی مجھے نہیں کہتا.اس کے اخراج میں مسلم منفرد ہے اس حدیث سے صاف اور کھلے طور پر ثابت ہوتا ہے کہ جیسے ایک داعی شر انسان کیلئے مقرر ہے جو ہمیشہ اس کے ساتھ رہتا ہے ایسا ہی ایک داعی خیر بھی ہریک بشر کے لئے موکّل ہے جو کبھی اس سے جدا نہیں ہوتا اور ہمیشہ اس کا قرین اور رفیق ہے اگر خدا تعالیٰ فقط ایک داعی الی الشّر ہی انسان کے لئے مقرر کرتا اور داعی الی الخیر مقرر نہ کرتا تو خدا تعالیٰ کے عدل اور رحم پر دھبہ لگتا کہ اس نے شر انگیزی اور وسوسہ اندازی کی غرض سے ایسے ضعیف اور کمزور انسان کو فتنہ میں ڈالنے کیلئے کہ جو پہلے ہی نفس امّارہ ساتھ رکھتا ہے شیطان ہے.یہ دونوں داعی صرف خیر یا شر کی طرف بلاتے رہتے ہیں مگر کسی بات پر جبر نہیں کرتے جیسا کہ اِس آیت کریمہ میں اسی امر کی طرف اشارہ ہے 3.۱ یعنی خدا بدی کا بھی الہام کرتا ہے اور نیکی کا بھی.بدی کے الہام کا ذریعہ شیطان ہے جو شرارتوں کے خیالات دلوں میں ڈالتا ہے اور نیکی کے الہام کا ذریعہ روح القدس ہے جوپاک خیالات دل میں ڈالتا ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ علّت العلل ہے اس لئے یہ دونوں الہام خدا تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کر لئے کیونکہ اسی کی طرف سے یہ سارا انتظام ہے ورنہ شیطان کیا حقیقت رکھتا ہے جو کسی کے دل میں وسوسہ ڈالے اور روح القدس کیا چیز جو کسی کو تقویٰ کی راہوں کی ہدایت کرے.صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ انسان کو دو قرین عطا کئے گئے ایک داعی خیر اور ایک داعی شر ۱ الشمس:
شیطا ن کو ہمیشہ کا قرین اور رفیق اس کا ٹھہرا دیا جو اس کے خون میں بھی سرایت کر جاتا ہے اور دل میں داخل ہو کر ظلمت کی نجاست اس میں چھوڑ دیتا ہے مگر نیکی کی طرف بلانے والا کوئی ایسا رفیق مقرر نہ کیا تا وہ بھی دل میں داخل ہوتا اور خون میں سرایت کرتا اور تا میزان کے دونوں پلّے برابر رہتے.مگر اب جب کہ قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہوگیا کہ جیسے بدی کی دعوت کیلئے خدا تعالیٰ نے ہمیشہ کاقرین شیطان کو مقرر کر رکھا ہے.ایسا ہی دوسری طرف نیکی کی دعوت کرنے کیلئے رُوح القدس کو اس رحیم و کریم نے دائمی قرین انسان کا مقرر کردیا ہے اور نہ صرف اس قدر بلکہ بقا اور لقا کی حالت میں اثر شیطان کا کالعدم ہوجاتا ہے گویا وہ اسلام قبول کر لیتا ہے اور وہ روح القدس کا نور انتہائی درجہ پر چمک اٹھتا ہے تو اُس وقت اس پاک اور اعلیٰ درجہ کی تعلیم پر کون اعتراض ہمارے مخالف آریہ اور برہمو اور عیسائی اپنی کوتاہ بینی کی وجہ سے قرآن کریم کی تعلیم پر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اس تعلیم کی رو سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے دانستہ انسان کے پیچھے شیطان کو لگا رکھا ہے گویا اس کو آپ ہی خلق اللہ کا گمراہ کرنا منظور ہے مگر یہ ہمارے شتاب باز مخالفوں کی غلطی ہے ان کو معلوم کرنا چاہئے کہ قرآن کریم کی یہ تعلیم نہیں ہے کہ شیطان گمراہ کرنے کیلئے جبر کرسکتا ہے اور نہ یہ تعلیم ہے کہ صرف بدی کی طرف بلانے کیلئے شیطان کو مقرر کر رکھا ہے بلکہ یہ تعلیم ہے کہ آزمائش اور امتحان کی غرض* سے نوٹ* اس جگہ آزمائش کے لفظ سے کوئی دھوکا نہ کھاوے کہ خدائے عالم الغیب کو امتحان اور آزمائش کی کیا ضرورت ہے کیونکہ بلاشبہ اس کو کوئی ضرورت نہیں لیکن چونکہ اصل مقصد امتحان سے اظہار حقائق مخفیہ ہوتا ہے اس لئے یہ لفظ خدا تعالیٰ کی کتابوں میں پایاجاتا ہے وہ امتحان میں اس لئے نہیں ڈالتا کہ اس کو معلوم نہیں بلکہ اس لئے تا شخص زیر امتحان پر اس کی حقیقت ظاہر کرے کہ اس میں یہ فساد یا صلاحیت ہے اور نیز دوسروں پر بھی اس کا جوہر کھول دیوے.منہ قرآن کریم کی یہ تعلیم نہیں ہے کہ شیطان کسی پر جبر کر سکتا ہے اور نہ یہ تعلیم کہ صرف شیطان ہی انسان کا رفیق مقرر کیا گیا ہے جو بدی کے خیالات دل میں ڈالتا ہے بلکہ انسان کو ملہم خیر اور ملہم شر دونوں دئے گئے ہیں.
کر سکتا ہے بجز اس نادان اور اندھے کے کہ جو صرف حیوانات کی طرح زندگی بسر کرتا ہے اور پاک تعلیم کے نور سے کچھ بھی حصہ نہیں رکھتا بلکہ سچ اور واقعی امر تو یہ ہے کہ قرآن کریم کی یہ تعلیم بھی منجملہ معجزات کے ایک معجزہ ہے کیونکہ جس خوبی اور اعتدال اور حکیمانہ شان سے اس تعلیم نے اس عقدہ کو حل کردیا کہ کیوں انسان میں نہایت قوی جذبات خیر یا شر کے پائے جاتے ہیں یہاں تک کہ عالم رویا میں بھی ان کے انوار یا ظلمتیں صاف اور صریح طور پر محسوس ہوتی ہیں.اس طرز محکم اور حقّانی سے کسی اور کتاب نے بیان نہیں کیا اور زیادہ تر اعجاز کی صورت اس سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ بجز اس طریق کے ماننے کے اور کوئی بھی طریق بن نہیں پڑتا.اور اس قدر اعتراض وارد ہوتے ہیں کہ ہرگز ممکن نہیں کہ ان سےَ مخلصی حاصل ہو کیونکہ خدا تعالیٰ کا عام قانون قدرت ہم پر ثابت کررہا ہے کہ جس قدر ہمارے نفوس لمّہ ملک اور لمہ ابلیس برابر طور پر انسان کو دیئے گئے ہیں یعنی ایک داعی خیر اور ایک داعی شر تا انسان اس ابتلا میں پڑ کر مستحق ثواب یا عقاب کا ٹھہر سکے کیونکہ اگر اس کیلئے ایک ہی طور کے اسباب پیدا کئے جاتے مثلاً اگر اس کے بیرونی اور اندرونی اسباب جذبات فقط نیکی کی طرف ہی اس کو کھینچتے یا اس کی فطرت ہی ایسی واقعہ ہوتی کہ وہ بجز نیکی کے کاموں کے اور کچھ کرہی نہ سکتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ نیک کاموں کے کرنے سے اس کو کوئی مرتبہ قرب کا مل سکے کیونکہ اس کیلئے تو تمام اسباب و جذبات نیک کام کرنے کے ہی موجود ہیں یا یہ کہ بدی کی خواہش تو ابتدا سے ہی اس کی فطرت سے مسلوب ہے تو پھر بدی سے بچنے کا اس کو ثواب کس استحقاق سے ملے مثلاً ایک شخص ابتدا سے ہی نامرد ہے جو عورت کی کچھ خواہش نہیں رکھتا اب اگر وہ ایک مجلس میں یہ بیان کرے کہ میں فلاں وقت جو ان عورتوں کے ایک گروہ میں رہا جو خوبصورت بھی تھیں مگر میں ایسا پرہیزگار ہوں کہ میں نے ان کو شہوت کی نظر سے ایک دفعہ بھی نہیں دیکھا اور خدا تعالیٰ سے ڈرتا رہا تو کچھ شک نہیں کہ سب لوگ اس کے اس بیان پر قرآن کریم کی یہ تعلیم کہ انسان کے لئے داعی الی الخیر اور داعی الی الشر دونوں مقرر کئے گئے ہیں حقیقت میں ایک تعلیمی معجزہ ہے کیونکہ نہایت باریک اور اعلیٰ نظام مشتمل حکمت پر ہے
و قویٰ واجسام کو اس ذات مبدء فیض سے فائدہ پہنچتا ہے وہ بعض اور چیزوں کے توسّط سے پہنچتا ہے مثلاً اگرچہ ہماری آنکھوں کو وہی روشنی بخشتا ہے مگر وہ روشنی آفتاب کے توسط سے ہم کو ملتی ہے اور ایسا ہی رات کی ظلمت جو ہمارے نفوس کو آرام پہنچاتی ہے اور ہم نفس کے حقوق اس میں ادا کر لیتے ہیں وہ بھی درحقیقت اسی کی طرف سے ہوتی ہے کیونکہ درحقیقت ہریک پیدا شوندہ کی علّت العلل وہی ہے.پھر جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ ایک بندھا ہوا قانون قدیم سے ہمارے افاضہ کے لئے چلا آتا ہے کہ ہم کسی دوسرے کے توسّط سے ہریک فیض خدا تعالیٰ کا پاتے ہیں ہاں اس فیض کے قبول کرنے کیلئے اپنے اندر قویٰ بھی رکھتے ہیں جیسے ہماری آنکھ روشنی کے قبول کرنے کیلئے ایک قسم کی روشنی اپنے اندر رکھتی ہے اور ہمارے کان بھی ان اصوات کے قبول کرنے کیلئے جو ہوا پہنچاتی ہے ایک قسم کی حِس اپنے اعصاب ہنسیں گے اور طنز سے کہیں گے کہ اے نادان کب اور کس وقت تجھ میں یہ قوت موجود تھی تا اس کے روکنے پر تو فخر کرسکتا یا کسی ثو اب کی امید رکھتا.پس جاننا چاہئے کہ سالک کو اپنے ابتدائی اور درمیانی حالات میں تمام امیدیں ثواب کی مخالفانہ جذبات سے پیدا ہوتی ہیں اور ان منازل سلوک میں جن امور میں فطرت ہی سالک کی ایسی واقع ہو کہ اس قسم کی بدی وہ کر ہی نہیں سکتا تو اس قسم کے ثواب کا بھی وہ مستحق نہیں ہوسکتا.مثلاً ہم بچھو اور سانپ کی طرح اپنے وجود میں ایک ایسی زہر نہیں رکھتے جس کے ذریعہ سے ہم کسی کو اس قسم کی ایذا پہنچا سکیں جو کہ سانپ اور بچھو پہنچاتے ہیں.سو ہم اس قسم کی ترک بدی میں عند اللہ کسی ثواب کے مستحق بھی نہیں.اب اس تحقیق سے ظاہر ہوا کہ مخالفانہ جذبات جو انسان میں پیدا ہو کر انسان کو بدی کی طرف کھینچتے ہیں درحقیقت وہی انسان کے ثواب کا بھی موجب ہیں کیونکہ جب وہ خدا تعالیٰ سے ڈر کر ان مخالفانہ جذبات کو چھوڑ دیتا ہے تو عنداللہ بلاشبہ ثواب کی تمام امیدیں مخالفانہ جذبات سے پیدا ہوتی ہیں
میں موجود رکھتے ہیں لیکن یہ تو نہیں کہ ہمارے قویٰ ایسے مستقل اور کامل طور پر اپنی بناوٹ رکھتے ہیں کہ ان کو خارجی معینات اور معاونات کی کچھ بھی ضرورت اور حاجت نہیں ہم کبھی نہیں دیکھتے کہ کوئی ہماری جسمانی قوت صرف اپنے ملکہ موجودہ سے کام چلا سکے اور خارجی ممدومعاون کی محتاج نہ ہو.مثلاً اگرچہ ہماری آنکھیں کیسی ہی تیز بین ہوں مگر پھر بھی ہم آفتاب کی روشنی کے محتاج ہیں اور ہمارے کان کیسے ہی شنوا ہوں مگر پھر بھی ہم اس ہوا کے حاجت مند ہیں جو آواز کو اپنے اندر لپیٹ کر ہمارے کانوں تک پہنچا دیتی ہے اس سے ثابت ہے کہ صرف ہمارے قویٰ ہماری انسانیت کی کَل چلانے کیلئے کافی نہیں ہیں.ضرور ہمیں خارجی مُمِدّوں اور معاونوں کی حاجت ہے مگر قانون قدرت ہمیں بتلا رہا ہے کہ وہ خارجی ممدو معاون اگرچہ بلحاظ علّت العلل ہونے کے خدائے تعالیٰ ہی ہے تعریف کے لائق ٹھہر جاتا ہے اور اپنے رب کو راضی کر لیتا ہے.لیکن جو شخص انتہائی مقام کو پہنچ گیا ہے اُس میں مخالفانہ جذبات نہیں رہتے گویا اُس کا جنّ مسلمان ہو جاتا ہے مگر ثواب باقی رہ جاتا ہے کیونکہ وہ ابتلا کے منازل کو بڑی مردانگی کے ساتھ طے کر چکا ہے جیسے ایک صالح آدمی جس نے بڑے بڑے نیک کام اپنی جوانی میں کئے ہیں اپنی پیرانہ سالی میں بھی اُن کا ثواب پاتا ہے.از انجملہ ایک یہ اعتراض ہے کہ خدا تعالیٰ کو فرشتوں سے کام لینے کی کیا حاجت ہے کیا اس کی بادشاہی بھی انسانی سلطنتوں کی طرح عملہ کی محتاج ہے اور اس کو بھی فوجوں کی حاجت تھی جیسے انسان کو حاجت ہے.اماالجواب پس واضح ہو کہ خدا تعالیٰ کو کسی چیز کی حاجت نہیں نہ فرشتوں کی نہ آفتاب کی نہ ماہتاب کی نہ ستاروں کی لیکن اسی طرح اس نے چاہا کہ تا اس کی قدرتیں اسباب کے توسط سے ظاہر ہوں اور تا اس طرز سے انسانوں میں حکمت اور علم پھیلے.اگر اسباب کا توسط درمیان نہ ہوتا تو نہ دنیا میں علم ہیئت ہوتا نہ نجوم اس بات کا جواب کہ خدا تعالیٰ کو انسانوں کی طرح اسباب یعنی ملائک وغیرہ کی کیا ضرورت ہے
مگر اُس کا یہ انتظام ہرگز نہیں ہے کہ وہ بلا توسّط ہمارے قویٰ اور اجسام پر اثر ڈالتا ہے بلکہ جہاں تک ہم نظر اٹھا کر دیکھتے ہیں اور جس قدر ہم اپنے فکر اور ذہن اور سوچ سے کام لیتے ہیں صریح اور صاف اور بد یہی طور پر ہمیں نظر آتا ہے کہ ہریک فیضان کیلئے ہم میں اور ہمارے خدا وند کریم میں علل متوسّطہ ہیں جن کے توسّط سے ہریک قوت اپنی حاجت کے موافق فیضان پاتی ہے پس اسی دلیل سے ملائک اور جِنّات کا وجود بھی ثابت ہوتا ہے.کیونکہ ہم نے صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ خیر اور شر کے اکتساب میں صرف ہمارے ہی قویٰ کافی نہیں بلکہ خارجی مُمِدّات اور معاونات کی ضرورت ہے جو خارق عادت اثر رکھتے ہوں مگر وہ مُمِدّ اور معاون خدا تعالیٰ براہ راست اور بلا توسط نہیں بلکہ بتوسط بعض اسباب ہے سو قانونِ قدرت کے ملاحظہ نے قطعی اور نہ طبعی نہ طبابت نہ علم نباتات یہ اسباب ہی ہیں جن سے علم پیدا ہوئے.تم سو چ کر دیکھو کہ اگر فرشتوں سے خدمت لینے سے کچھ اعتراض ہے تو وہی اعتراض.سورج اور چاند اور کواکب اور نباتات اور جمادات اور عناصر سے خدمت لینے میں پیدا ہوتا ہے.جو شخص معرفت کا کچھ حصہ رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ ہریک ذرہ خدا تعالیٰ کے ارادہ کے موافق کام کررہا ہے اور ایک قطرہ پانی کا جو ہمارے اندر جاتا ہے وہ بھی بغیر اذنِ الٰہی کے کوئی تاثیر موافق یا مخالف ہمارے بدن پر ڈال نہیں سکتا پس تمام ذرات اور سیارات وغیرہ درحقیقت ایک قسم کے فرشتے ہیں جو دن رات خدمت میں مشغول ہیں کوئی انسان کے جسم کی خدمت میں مشغول ہے اور کوئی روح کی خدمت میں اور جس حکیم مطلق نے انسان کی جسمانی تربیت کیلئے بہت سے اسباب کا توسط پسند کیا اور اپنی طرف سے بہت سے جسمانی مؤثرات پیدا کئے تا انسان کے جسم پر انواع اقسام کے طریقوں سے تاثیر ڈالیں.اسی وحدہ‘ لاشریک نے جس کے کاموں میں وحدت ملایک اور جنّات کے وجود کا ثبوت
یقینی طورپر ہم پر کھول دیا کہ وہ مُمِدّات اور معاونات خارج میں موجود ہیں گو انکی کنہ اور کیفیت ہم کو معلوم ہویا نہ مگر یہ یقینی طور پر معلوم ہے کہ وہ نہ براہِ راست خدا تعالیٰ ہے اور نہ ہماری ہی قوتیں اور ہمارے ہی ملکے ہیں بلکہ وہ ان دونوں قسموں سے الگ ایسی مخلوق چیزیں ہیں جو ایک مستقل وجود اپنا رکھتی ہیں اور جب ہم ان میں سے کسی کانام داعی الی الخیر رکھیں گے تو اسی کو ہم روح القدس یا جبرائیل کہیں گے اور جب ہم ان میں سے کسی کا نام داعی الی الشر رکھیں گے تو اسی کو ہم شیطان اور ابلیس کے نام سے بھی موسوم کریں گے.یہ تو ضرور نہیں کہ ہم روح القدس یا شیطان ہریک تاریک اور تناسب ہے یہ بھی پسند کیا کہ انسان کی روحانی تربیت بھی اسی نظام اور طریق سے ہو کہ جو جسم کی تربیت میں اختیار کیا گیا تا وہ دونوں نظام ظاہری و باطنی اور روحانی اور جسمانی اپنے تناسب اور یک رنگی کی وجہ سے صانع واحد مدبّر بالارادہ پر دلالت کریں.پس یہی وجہ ہے کہ انسان کی روحانی تربیت بلکہ جسمانی تربیت کیلئے بھی فرشتے وسائط مقرر کئے گئے مگر یہ تمام وسائط خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں مجبور اور ایک کَل کی طرح ہیں جس کو اس کا پاک ہاتھ چلا رہا ہے اپنی طرف سے نہ کوئی ارادہ رکھتے ہیں نہ کوئی تصرف.جس طرح ہوا خدا تعالیٰ کے حکم سے ہمارے اندر چلی جاتی ہے اور اسی کے حکم سے باہر آتی ہے اور اسی کے حکم سے تاثیر کرتی ہے یہی صورت اور بتمامہ یہی حال فرشتوں کا ہے33.پنڈت دیانند نے جو فرشتوں کے اس نظام پر اعتراض کیا ہے کاش پنڈت صاحب کو خدا تعالیٰ کے نظام پنڈت دیانند اور آریوں کی یہ غلطہ فہمی ہے کہ قرآنی تعلیم میں یہ نقص ہے کہ بلا ثبوت ایک شیطان فرض کر کے اُسی کو انسان کا بہکانے والا قرار دیا ہے
دل کو دکھلاویں اگرچہ عارف ان کو دیکھ بھی لیتے ہیں اور کشفی مشاہدات سے وہ دونوں نظر بھی آ جاتی ہیں مگر محجوب کیلئے جو ابھی نہ شیطان کو دیکھ سکتا ہے نہ روح القدس کو یہ ثبوت کافی ہے کیونکہ متاثر کے وجود سے موثر کا وجود ثابت ہوتا ہے اور اگر یہ قاعدہ صحیح نہیں ہے تو پھر خدا تعالیٰ کے وجود کا بھی کیونکر پتہ لگ سکتا ہے کیا کوئی دکھلا سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کہاں ہے صرف متأثرات کی طرف دیکھ کر جو اس کی قدرت کے نمونے ہیں اس موثر حقیقی کی ضرورت تسلیم کی گئی ہے.ہاں عارف اپنے انتہائی مقام پر روحانی آنکھوں سے اس کو دیکھتے ہیں اور اس کی باتوں کو بھی سنتے ہیں مگر محجوب کیلئے بجز اس کے اور استدلال کا طریق کیا ہے کہ متاثرات کو دیکھ کر اس موثر حقیقی کے وجود پر ایمان لاوے سو اسی طریق سے روح القدس اور شیاطین کا وجود ثابت ہوتا ہے اور نہ صرف ثابت ہوتا ہے جسمانی اور روحانی کا علم ہوتا.تا بجائے اعتراض کرنے کے کمالات تعلیم قرآنی کے قائل ہوجاتے کہ کیسی قانون قدرت کی صحیح اور سچی تصویر اس میں موجود ہے.از انجملہ ایک یہ اعتراض ہے کہ قرآن کریم کے بعض اشارات اور ایسا ہی بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض ایام میں جبرائیل کے اترنے میں کسی قدر توقف بھی وقوع میں آئی ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایام بعثت میں یہ بھی اتفاق ہوا ہے کہ بعض اوقات کئی دن تک جبرائیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل نہیں ہوا.اگر حضرت جبرائیل ہمیشہ اور ہر وقت قرین دائمی آنحضرت صلعم تھے اور روح القدس کا اثر ہمیشہ کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود پر جاری و ساری تھا تو پھر توقف نزول کے کیا معنی ہیں اما الجواب پس واضح ہو کہ ایسا خیال کرنا کہ روح القدس کبھی انبیاء کو خالی چھوڑ کر آسمان پر چڑھ جاتا ہے صرف ایک دھوکہ ہے کہ جو بوجہ غلط فہمی نزول اور صعود کے معنوں کے دلوں میں متمکن ہوگیا ہے.پوشیدہ نہ رہے کہ نزول اگر روح القدس ہمیشہ انبیا کے ساتھ رہتا ہے تو پھر ان آیات اور احادیث کے کیا معنے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات کئی دنوں تک جبرائیل ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل نہیں ہوا.
بلکہ نہایت صفائی سے نظر آجاتا ہے افسوس ان لوگوں کی حالت پر جو فلسفہ باطلہ کی ظلمت سے متاثر ہو کر ملایک اور شیاطین کے وجود سے انکار کر بیٹھے ہیں اور بینات اور نصوص صریحہ قرآن کریم سے انکار کردیا اور نادانی سے بھرے ہوئے الحاد کے گڑھے میں گر پڑے.اور اس جگہ واضح رہے کہ یہ مسئلہ ان مسائل میں سے ہے جن کے اثبات کے لئے خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے استنباط حقائق میں اس عاجز کو متفرد کیا ہے.فالحمد للہ علی ذالک.اور اگر کوئی آریہ یا عیسائی اس جگہ یہ اعتراض کرے کے یہ معنے ہرگز نہیں ہیں کہ کوئی فرشتہ آسمان سے اپنا مقام اور مقرّ چھوڑ کر زمین پر نازل ہوجاتا ہے ایسے معنے تو صریح نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کے مخالف ہیں چنانچہ فتح البیان میں ابن جریر سے بروایت عائشہ رضی اللہ عنہا یہ حدیث مروی ہے.قالت قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم ما فی السماء موضع قدم الا علیہ ملک ساجدٌ او قائم و ذالک قول الملائکۃ و ما منا الا لہ مقام معلوم.یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا کہ آسمان پر ایک قدم کی بھی ایسی جگہ خالی نہیں جس میں کوئی فرشتہ ساجد یا قائم نہ ہو اور یہی معنے اس آیت کے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک شخص ایک مقام معلوم یعنے ثابت شدہ رکھتا ہے جس سے ایک قدم اوپر یا نیچے نہیں آسکتا.اب دیکھو اس حدیث سے صاف طور پر ثابت ہوگیا کہ فرشتے اپنے مقامات کو نہیں چھوڑتے اور کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوتا ملایک اور شیاطین کے وجود کا ثبوت ان نادر تحقیقاتوں میں سے ہے جن کے ساتھ بذریعہ افاضات قرآنیہ یہ عاجزمتفرد اور خاص کیا گیا ہے احادیث صحیحہ نبویہ سے ثابت ہے کہ فرشتے آسمان سے علیحدہ نہیں ہوتے کیونکہ علیحدہ ہونا اِس بات کو مستلزم ہے کہ آسمان کی وہ جگہ جو اُن کے وجود سے بھری ہوئی تھی خالی ہو جائے اور یہ امر ناشدنی ہے.
کہ حال کے اکثر مُلّا جیسے شیخ بطالوی محمد حسین اور شیخ دہلوی نذیر حسین اِس اعتقاد کے مخالف ہیں اوراِس بات کے وہ ہرگز قائل نہیں ہیں کہ ہر یک انسان کو دو قرین دیے گئے ہیں ایک داعی الی الخیر جو روح القدس ہے اور ایک داعی الی الشرّ جو شیطان ہے بلکہ اُن کا تو یہ قول ہے کہ صرف ایک ہی قرین دیا گیا ہے جو داعی الی الشر ہے اور انسان کی ایمانی بیخ کنیکے لئے ہر وقت اُس کے ساتھ رہتا ہے اور خدا تعالیٰ کو یہ بات بہت پیاری معلوم ہوئی کہ انسان کا شیطان کو دن رات کا مصاحب بنا کر اور انسان کے خون اور رگ و ریشہ میں شیطان کو دخل بخش کر بہت جلد انسان کو تباہی میں ڈال دیوے اور جبرائیل جس کا دوسرا نام رُوح القدس بھی ہے ہرگز عام انسانوں کے لئے بلکہ اولیاء کے لئے بھی داعی الی الخیر مقرر نہیں کیا.وہ سب لوگ صرف شیطان کے پنجہ میں چھوڑے گئے ہاں انبیاء پرروح القدس نازل ہوتا ہے مگر وہ بھی صرف ایک دم کہ ایک قدم کی جگہ بھی آسمان پر خالی نظر آوے مگر افسوس کہ بطالوی صاحب اور دہلوی شیخ صاحب بھی اب تک اس زمانہ میں بھی کہ علوم حسیہ طبعیہ کا فروغ ہے یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ آسمان کا صرف باندازہ ایک قدم خالی رہنا کیا مشکل بات ہے بعض اوقات تو بڑے بڑے فرشتوں کے نزول سے ہزارہا کوس تک آسمان خالی ویران سنسان پڑا رہ جاتا ہے جس میں ایک فرشتہ بھی نہیں ہوتا کیونکہ جب چھ سو ۶۰۰ موتیوں کے پروں والا فرشتہ جس کا طول مشرق سے مغرب تک ہے یعنی جبرائیل زمین پر اپنا سارا وجود لے کر اُتر آیا تو پھر سوچنا چاہیئے کہ ایسے جسیم فرشتہ کے اُترنے سے ہزارہا کوس تک آسمان خالی رہ جائے گا یا اس سے کم ہو گا شیخ الکل کہلانا اور احادیث نبویہ کو نہ سمجھنا جائے افسوس اور جائے شرم.الغرض جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں یہ بات نہایت احتیاط سے شیخ بطالوی اور دہلوی کا یہی مذہب ہے کہ انسان کے لئے دائمی قرین صرف شیطان کو مقرر کیا گیا ہے اور روح القدس کی دائمی صحبت سے اور لوگ تو کیا چیز نعوذ باللہ انبیاء بھی بے بہرہ ہیں بجز حضرت عیسیٰ کے.بطالوی اور دہلوی کا یہی مذہب ہے کہ کبھی آسمان فرشتوں سے خالی بھی رہ جاتے ہیں بالخصوص لیلۃ القدر کی رات میں تو آسمان ایسا ہوتا ہے کہ جیسے اُجڑا ہوا گھر کیونکہ تمام فرشتے اور روح القدس زمین پر اتر آتے ہیں اور صبح تک زمین پر ہی رہتے ہی
یا بہت ہی تھوڑے عرصہ کے لئے اور پھر آسمان پر جبرائیل چڑھ جاتا ہے اور ان کو خالی چھوڑ دیتا ہے بلکہ بسا اوقات چالیس چالیس روز بلکہ اِس سے بھی زیادہ روح القدس یا یوں کہو کہ جبرائیل کی ملاقات سے انبیاء محروم رہتے ہیں مگر دوسرا قرین جو شیطان ہے وہ تو نعوذ باللہ اُن کا ساتھ ایک دم بھی نہیں چھوڑتا گو آخر کو مسلمان ہی ہو جائے.تو اِس کا جواب یہ ہے کہ یہ لوگ محجوب اورحقائق قرآن کریم سے غافل اور بے نصیب ہیں اورکُھلے طور پر اِن کا یہ عقیدہ بھی نہیں بلکہ نادانی اور قلّت تدبّر اور پھر اِس عاجز کے ساتھ بخل اور کینہ ورزی کی وجہ سے اِس بلا میں پڑ گئے ہیں کیونکہ اِس عاجز کے مقابل پر جن راہوں پر یہ لوگ چلے اُن راہوں میں یہ آفات موجود تھیں اِس لئے نادانستہ اُن میں پھنس گئے جیسا کہ ایک پرندہ نادانستہ کسی دانہ کی طمع سے ایک جال میں پھنس جاتا ہے.بات یہ ہے کہ جب اِن لوگوں نے اپنے حافظہ میں رکھ لینی چاہیئے کہ مقربوں کا روح القدس کی تاثیر سے علیحدہ ہونا ایک دم کے لئے بھی ممکن نہیں کیونکہ اُن کی نئی زندگی کی روح یہی روح القدس ہے پھر وہ اپنی روح سے کیونکر علیحدہ ہو سکتے ہیں.اور جس علیحدگی کا ذکر احادیث اور بعض اشارات قرآن کریم میں پایا جاتا ہے اُس سے مراد صرف ایک قسم کی تجلّی ہے کہ بعض اوقات بوجہ مصالح الٰہی اُس قسم کی تجلّی میں کبھی دیر ہو گئی ہے اور اصطلاح قرآنِ کریم میں اکثر نزول سے مراد وہی تجلّی ہے ورنہ ذرہ سوچنا چاہیئے کہ جس آفتابِ صداقت کے حق میں یہ آیت ہے 33 ۱یعنی اُس کا کوئی نطق اور کوئی کلمہ اپنے نفس اور ہَوا کی طرف سے نہیں وہ تو سراسر وحی ہے جو اُس کے دل پر نازل النجم: ۴، بطالوی اور دہلوی کا یہ عقیدہ ہے کہ انبیاء بھی اکثر صحبت روح القدس سے محروم رہتے ہیں مگر دوسرا قرین اور لوگوں کی طرح ہر وقت ان کے ساتھ بھی رہتا ہے گو اُن پر قابو نہیں پاتا مگر کہتے ہیں کہ عیسیٰ کے ساتھ کوئی شیطان نہیں تھا اور روح القدس تو اس کے ساتھ ہی آیا اور ساتھ ہی آسمان پر گیا.نزول ملایک سے مرادایک قسم کی تجلی ہے جس کا صریح اثر ملہموں کے دلوں پر پڑتا ہے اور بسا اوقات ملایک اس تجلی کے وقت متمثل ہو کر نظر بھی آ جاتے ہیں اور اگر اس تجلی میں دیر ہو جائے تو کہا جاتا ہے کہ نزول میں دیر ہو گئی ہے روح القد س کے دائمی قرب کی مثال ایسی ہے کہ جیسے آگ پتھر میں ہمیشہ ہوتی ہے اور اسکی تجلی یہ ہے کہ کسی ضرب سے اس میں چنگیاری پیدا ہو جائے.
اِس بات پر اصرار کیا کہ ضرور جبرائیل اور ملک الموت اور دوسرے فرشتے اپنے اصلی وجود کے ساتھ ہی زمین پر نازل ہوتے ہیں اور پھر تھوڑی دیر رہ کر آسمان پر چلے جاتے ہیں.جب آسمان سے اُترتے ہیں تو آسمان اُن کے وجود سے خالی رہ جاتا ہے اور پھر جب زمین سے آسمان کی طرف پرواز کرتے ہیں تو زمین اُن کے وجود سے خالی رہ جاتی ہے تو صدہا اعتراض قرآن اور حدیث اور عقل کے اُن پر وارد ہوئے چنانچہ منجملہ اُن بلاؤں کے جو اِن کے اس عقیدہ کے لازم حال ہو گئیں ایک یہ بھی بلا ہے جو خدا تعالیٰ کے روحانی انتظام کا عدل اور رحم جاتا رہا اور کفّار اور تمام مخالفین کو اِسلام پر یہ اعتراض کرنے کے لئے موقعہ ملا کہ یہ کیسی سخت دلی اور خلاف رحم بات ہے کہ خدا تعالیٰ شیطان اور اُس کی ذُرّیت کو انسان کی اغوا ہو رہی ہے اس کی نسبت کیا ہم خیال کر سکتے ہیں کہ وہ مدتوں نور وحی سے بکلّی خالی ہی رہ جاتا تھا.مثلًا یہ جو منقول ہے کہ بعض دفعہ چالیس دن اور بعض دفعہ بیس دن اور بعض دفعہ اس سے زیادہ ساٹھ دن تک بھی وحی نازل نہیں ہوئی.اگر اس عدم نزول سے یہ مُراد ہے کہ فرشتہ جبرائیل بکلّی آنحضرت صلعم کو اِس عرصہ تک چھوڑ کر چلا گیا تو یہ سخت اعتراض پیش آئے گا کہ اس مدت تک جس قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باتیں کیں کیا وہ احادیث نبویہ میں داخل نہیں تھیں اور کیا وحی غیر متلوّ اُن کا نام نہیں تھااور کیا اِس عرصہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی خواب بھی نہیں آتی تھی جو بلا شبہ وحی میں داخل ہے اور اگر حضرت بٹالوی صاحب اور میاں نذیر حسین دہلوی سچے ہیں اور یہ بات صحیح ہے کہ ضرور مدتوں جبرائیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر بھی چلا جاتا تھا اور آنحضرت بکلّی وحی سے خالی رہ جاتے تھے تو بلاشبہ اُن دنوں کی احادیث بطالوی اور نذیر حسین نے عیسائیوں وغیرہ کو اسلام پر اعتراض کرنے کا موقعہ دے دیا اور اپنی سمجھ کے نقص کو اسلام پر تھاپا.اگر ہمارے نبی صلعم چالیس دن یا زیادہ دنوں تک روح القدس سے بکلی مہجور ہوتے تھے تو ان مدتوں کے کلمات احادیث میں داخل نہیں ہونے چاہیئے نہ ان کو الہامی کہنا چاہیئے.
کے لئے ہمیشہ اور ہر دم کے لئے اُس کا قرین اور مصاحب مقرر کرے تا وہ اُس کے ایمان کی بیخ کنی کے فکر میں رہیں اور ہر وقت اُس کے خون اور اُس کے دل اور دماغ اور رگ و ریشہ میں اور آنکھوں اور کانوں میں گھس کر طرح طرح کے وساوس ڈالتے رہیں.اور ہدایت کرنے کا ایسا قرین جو ہر دم انسان کے ساتھ رہ سکے ایک بھی انسان کو نہ دیا جائے.یہ اعتراض درحقیقت اُن کے عقیدہ مذکورہ بالا سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ ایک طرف تو یہ لوگ بموجب آیت 3 ۱ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت جبرائیل اور عزرائیل یعنی ملک الموت کا مقام آسمان پر مقرر ہے جس مقام سے وہ نہ ایک بالشت نیچے اُتر سکتے ہیں نہ ایک بالشت اُوپر چڑھ سکتے ہیں اور پھر باوجود اس کے اُن کا زمین پر ن دونوں حضرتوں کے نزدیک قابلِ اعتبار نہیں ہوں گی کیونکہ وحی کی روشنی سے خالی ہیں اور اُن کے نزدیک اُن دنوں میں خوابوں کا سلسلہ بھی بکلّی بند تھا.اب منصفو دیکھو کہ کیا اِن دونوں شیخوں کی بے ادبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت انتہا کو پہنچ گئی یا نہیں وہ آفتابِ صداقت جس کا کوئی دل کا خطرہ بھی بغیر وحی کی تحریک کے نہیں اُس کے بارے میں اِن لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ گویا وہ نعوذ باللہ مدتوں ظلمت میں بھی پڑا رہتا تھا اور اُس کے ساتھ کوئی روشنی نہ تھی.اِس عاجز کو اپنے ذاتی تجربہ سے یہ معلوم ہے کہ رُوح القدس کی قدسیّت ہر وقت اور ہر دم اور ہر لحظہ بلا فصل ملہم کے تمام قُویٰ میں کام کرتی رہتی ہے اور وہ بغیر روح القدس اور اس کی تاثیر قدسیّت کے ایک دم بھی اپنے تئیں ناپاکی سے بچا نہیں سکتا اور انوار دائمی اور استقامت دائمی اور محبت دائمی اور عصمت دائمی اور برکات دائمی کا بھی سبب ہوتا ہے کہ روح القدس بطالوی اور شیخ دہلوی نے آنحضرت صلعم کی جناب میں سخت بے ادبی کی ہے کہ آنحضرت صلعم کا روح القدس سے بعض اوقات میں بکلی علیحدہ ہونا تجویز کیا ہے مگر حضرت عیسیٰ کی نسبت یہ تجویز نہیں کیاا ن کے علم اور معرفت کا ایک نمونہ ہے.۱ الصافات :
اپنے اصلی وجود کے ساتھ آنا بھی ضروری خیال کرتے ہیں اور ایسا ہی پھر آسمان پر اُن کا اپنے اصلی وجود کے ساتھ چڑھ جانا بھی اپنے زعم میں یقینی اعتقاد رکھتے ہیں اور اگر کوئی اصلی وجود کے ساتھ اترنے یا چڑھنے سے انکار کرے تو وہ اُن کے نزدیک کافر ہے ان عجیب مسلمانوں کے عقیدہ کو یہ بلا لازم پڑی ہوئی ہے کہ وہ اعتدالی نظام جس کا ہم ابھی ذکر کر چکے ہیں یعنی بد قرین کے مقابل پر نیک قرین کا دائمی طور پر انسان کے ساتھ رہنا ایسے اعتقاد سے بالکل درہم برہم ہو جاتا ہے اور صرف شیطان ہی دائمی مصاحب انسان کا رہ جاتا ہے کیونکہ اگر فرشتہ روح القدس کسی پر مسافر کی طرح نازل بھی ہوا تو بموجب ان کے عقیدہ کے ایک دم یا کسی اور بہت تھوڑے عرصہ کے لئے آیا اور پھر اپنے اصلی وطن آسمان کی طرف پرواز کر گیا اور انسان کو گو وہ کیسا ہی نیک ہو شیطان کی صحبت میں چھوڑ گیا.کیا یہ ایسا اعتقاد نہیں جس سے اِسلام کو سخت دھبہ لگے کیا خداوند کریم ہمیشہ اور ہر وقت اُن کے ساتھ ہوتا ہے پھر امام المعصومین اور امام المتبرکین اور سیّد المقربین کی نسبت کیونکر خیال کیا جائے کہ نعوذ باللہ کسی وقت ان تمام برکتوں اور پاکیزگیوں اور روشنیوں سے خالی رہ جاتے تھے افسوس کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ کی نسبت یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ تینتیس برس روح القدس ایک دم کے لئے بھی اُن سے جدا نہیں ہوا مگر اس جگہ اس قُرب سے منکر ہیں.ازانجملہ ایک یہ اعتراض ہے کہ سورۃ والطارق میں خدا تعالیٰ نے غیراللہ کی قسم کیوں کھائی حالانکہ آپ ہی فرماتا ہے کہ بجُز اس کے کسی دوسرے کی قسم نہ کھائی جائے نہ انسان نہ آسمان کی نہ زمین نہ کسی ستارہ کی نہ کسی اور کی اور پھر غیر کی قسم کھانے میں خاص ستاروں اور آسمان کی قسم کی خدا تعالیٰ کو اس جگہ کیا ضرورت آپڑی بطالوی اور دہلوی کا یہ عقیدہ کہ دائمی قرین انسان کے لئے صرف شیطان ہے و بس.خدا تعالیٰ کے اعتدالی نظام کو جو انسان کی تربیت کے متعلق ہے برباد اور درہم برہم کرتا ہے.اس اعتراض کا جواب کہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں غیراللہ کی قسمیں کیوں کھائیں.
و رحیم کی نسبت یہ تجویز کرنا جائز ہے کہ وہ انسان کی تباہی کو بہ نسبت اُس کے ہدایت پانے کے زیادہ چاہتا ہے نعوذ باللہ ہرگز نہیں نابینا آدمی قرآن کریم کی تعلیم کو سمجھتا نہیں اس لئے اپنی نادانی کا الزام اس پر لگا دیتا ہے.یہ تمام بلائیں جن سے نکلنا کسی طور سے ان علماء کے لئے ممکن نہیں اسی وجہ سے ان کو پیش آ گئیں کہ انہوں نے یہ خیال کیا کہ ملایک اپنے اصلی وجود کے ساتھ زمین پر نازل ہوتے ہیں اور پھر یہ بھی ضروری عقیدہ تھا کہ وہ بلا توقف آسمان پر چڑھ بھی جاتے ہیں.اِن دونوں غلط عقیدوں کے لحاظ سے یہ لوگ اِس شکنجہ میں آ گئے کہ اپنے لئے یہ تیسرا عقیدہ بھی تراش لیا کہ بئس القرین کے مقابل پر کوئی ایسا نعم القرین انسان کو نہیں دیا گیا جو ہر وقت اس کے ساتھ ہی رہے.پس اِس عقیدہ کے تراشنے سے قرآنی تعلیم پر اُنہوں نے سخت تہمت لگائی اور بد اندیش مخالفوں کو سو درحقیقت یہ دو۲ اعتراض ہیں جو ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں اور بوجہ ان کے باہمی تعلقات کے ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ اِن کے جوابات ایک ہی جگہ بیان کئے جائیں.سو اوّل قسم کے بارے میں خوب یاد رکھنا چاہیئے کہ اللّٰہ جلّ شانہٗ کی قَسموں کا انسانوں کی قسموں پر قیاس کر لینا قیاس مع الفارق ہے خدا تعالیٰ نے جو انسان کو غیر اللہ کی قسم کھانے سے منع کیا ہے تو اِس کا سبب یہ ہے کہ انسان جب قسم کھاتا ہے تو اِس کا مدعا یہ ہوتا ہے کہ جس چیز کی قسم کھائی ہے اس کو ایک ایسے گواہ رویت کا قائم مقام ٹھہراوے کہ جواپنے ذاتی علم سے اس کے بیان کی تصدیق یا تکذیب کر سکتا ہے کیونکہ اگر سوچ کر دیکھو تو قسم کااصل مفہوم شہادت ہی ہے.جب انسان معمولی شاہدوں کے پیش کرنے سے عاجز آ جاتا ہے تو پھر قسم کا محتاج ہوتا ہے تا اُس سے وہ فائدہ اٹھاوے جو ایک شاہد رویت کی شہادت سے اُٹھانا چاہیئے لیکن یہ تجویز کرنا یا اعتقاد رکھنا کہ بجُز خدا تعالیٰ کے اور بھی حاضر ناظر ہے اور تصدیق یا تکذیب یا سزادہی یا کسی اور امر پر قادر ہے صریح کلمہ کُفر ہے اِس لئے خدا تعالیٰ کی بطالوی اور دہلوی نے اول یہ غلطی کی کہ ملایک کے لئے ان کے اصلی وجود کے ساتھ نزول و صعود ضروری ٹھہرا لیا پھر اس غلطی کی شامت سے یہ بھی انہیں ماننا پڑا کہ روح القدس ہمیشہ ملہموں کے ساتھ نہیں رہتا.
حملہ کرے کا موقعہ دے دیا.اگر یہ لوگ اِس بات کو قبول کر لیتے کہ کوئی فرشتہ بذاتِ خود ہرگزنازل نہیں ہوتا بلکہ اپنے ظلّی وجود سے نازل ہوتا ہے جس کے تمثّل کی اس کو طاقت دی گئی ہے جیسا کہ دحیہ کلبی کی شکل پر حضرت جبرائیل متمثل ہو کر ظاہر ہوتے تھے اور جیسا کہ حضرت مریم کے لئے فرشتہ متمثل ہوا تو کوئی اعتراض پیدا نہ ہوتا اور دوام نعم القرین پر کوئی شخص جرح نہ کر سکتا اور تعجب تو یہ ہے کہ ایسا خیال کرنے میں قرآنِ کریم اور احادیث صحیحہ سے بالکل یہ لوگ مخالف ہیں قرآن کریم ایک طرف تو ملایک کے قرار اور اثبات کی جگہ آسمان کو قرار دے رہا ہے اور ایک طرف یہ بھی بڑے زور سے بیان فرما رہا ہے کہ روح القدس کامل مومنوں کو تائید کے لئے دائمی طور پر عطا کیا جاتا ہے اوراُن سے الگ نہیں ہوتا گو ہر یک شخص اپنے فطرتی نور کی وجہ سے کچھ نہ کچھ روح القدس کی چمک اپنے اندر رکھتا ہے مگر وہ چمک عام لوگوں میں شیطانی ظلمت کے نیچے آ جاتی اور تمام کتابوں میں انسان کیلئے یہی تعلیم ہے کہ غیراللہ کی ہرگز قسم نہ کھاوے.اب ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی قسموں کا انسان کی قسموں کے ساتھ قیاس درست نہیں ہو سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ کو انسان کی طرح کوئی ایسی مشکل پیش نہیں آتی کہ جو انسان کو قسم کے وقت پیش آتی ہے بلکہ اُس کا قسم کھانا ایک اور رنگ کا ہے جو اُس کی شان کے لائق اور اُس کے قانونِ قدرت کے مطابق ہے اور غرض اُس سے یہ ہے کہ تا صحیفہ قدرت کے بدیہات کو شریعت کے اسرار دقیقہ کے حل کرنے کے لئے بطور شاہد کے پیش کرے اور چونکہ اِس مدعا کو قسم سے ایک مناسبت تھی اور وہ یہ کہ جیسا ایک قسم کھانے والا جب مثلًاخدا تعالیٰ کی قسم کھاتا ہے تو اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ میرے اِس واقعہ پرگواہ ہے اِسی طرح خدا تعالیٰ کے بعض کُھلے کُھلے افعال بعض چُھپے ہوئے افعال پر گواہ ہیں اِس لئے اس نے قسم کے رنگ میں اپنے افعال بدیہیہ کو اپنے افعال نظریہ کے ثبوت میں جا بجا خدا تعالیٰ کی قسموں کی حقیقت اور وہ معرفت کا دقیقہ جو ان قسموں میں چھپا ہوا ہے
ایسی دب جاتی ہے کہ گویا اُس کا کچھ بھی وجود نہیں.یاد رکھنا چاہیے کہ گروہ تین ہیں جیسا کہ اللہ جلّ شانہ‘ فرماتا ہے 33.۱ یعنی ایک وہ گروہ ہے جن پر شیطانی ظلمت غالب ہے اور روح القدس کی چمک کم ہے.اور دوسرے وہ گروہ ہے جو روح القدس کی چمک اور شیطانی ظلمت اُن میں مساوی ہیں اور تیسری وہ گروہ ہے جن پر روح القدس کی چمک غالب آ گئی ہے اور خیر محض ہو گئی ہیں.روح القدس کے بارہ میں جو قرآن کریم میں آیات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ کے لئے کامل مومنوں کو روح القدس دیا جاتا ہے منجملہ ان کے ایک یہ آیت ہے 333 ۲ 3۳ یعنی اَے وَے لوگو جو ایمان لائے ہو اگر تم تقویٰ اختیار کرو اور اللہ جلّ شانہٗ سے ڈرتے رہو قرآن کریم میں پیش کیا اور اس کی نسبت یہ نہیں کہہ سکتے کہ اُس نے غیراللہ کی قسم کھائی.کیونکہ وہ درحقیقت اپنے افعال کی قسم کھاتا ہے نہ کسی غیر کی اور اُس کے افعال اُس کے غیر نہیں ہیں مثلًا اُس کا آسمان یا ستارہ کی قسم کھانا اس قصد سے نہیں ہے کہ وہ کسی غیر کی قسم ہے بلکہ اِس نیت سے ہے کہ جو کچھ اُس کے ہاتھوں کی صنعت اور حکمت آسمان اور ستاروں میں موجود ہے اس کی شہادت بعض اپنے افعال مخفیہ کے سمجھانے کے لئے پیش کرے.سو درحقیقت خدا تعالیٰ کی اِس قسم کی قسمیں جو قرآن کریم میں موجود ہیں بہت سے اسرار معرفت سے بھری ہوئی ہیں اور جیسا کہ مَیں ابھی بیان کر چکا ہوں.قسم کی طرز پر ان اسرار کا بیان کرنا محض اِس غرض سے ہے کہ قَسم درحقیقت ایک قِسم کی شہادت ہے جو شاہد رویت کے قائم مقام ہو جاتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کے بعض افعال بھی بعض دوسرے افعال کے لئے بطور شاہد کے واقعہ ہوئے ہیں سو اللہ تعالیٰ قسم کے لباس میں اپنے قانونِ قرآن کریم میں بہت سی ایسی آیات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ کامل مومنوں کو ہمیشہ کے لئے روح القد س دیا جاتا ہے.خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں جس قدر قسمیں کھائی ہیں اُن سے یہ مطلب ہے کہ تا اپنے اقوال پر اپنے قانون قدرت کی شہادت پیش کرے یا بدیہی اور مسلم کے ذریعہ سے نظری اور غیر مسلم کی حقانیت کھول دے.۱ فاطر:۳۳ ۲ الانفال:۳۰ ۳ الحدید:
تو خد اتعالیٰ تمہیں وہ چیز عطا کرے گا (یعنی روح القدس) جس کے ساتھ تم غیروں سے امتیاز کُلّی پیدا کر لو گے.اور تمہارے لئے ایک نور مقرر کر دے گا ( یعنی روح القدس) جو تمہارے ساتھ ساتھ چلے گا.قرآن کریم میں روح القدس کا نام ُ نور ہے.پھر ایک دوسرے مقام میں فرماتا ہے.33 3333333.۱ یعنی جو لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ جلّ شانہٗ ہے پھر اپنی ثابت قدمی دکھلاتے ہیں کہ کسی مصیبت اور آفت اور زلزلہ اور امتحان سے اُن کے صدق میں ذرّہ فرق نہیں آتا اُن پر فرشتے اترتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ تم ذرا خوف نہ کرو اور نہ غمگین ہو.اور اُس بہشت کے تصور سے شادان اور فرحان رہو جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے ہم تمہارے متولّی اور تمہارے پاس ہر وقت حاضر اور قریب ہیں کیا دنیا میں قدرت کے بدیہات کی شہادت اپنی شریعت کے بعض دقائق حل کرنے کے لئے پیش کرتا ہے.تا قانونِ قدرت جو خدا تعالیٰ کی ایک فعلی کتاب ہے اس کی قولی کتاب پر شاہد ہو جائے اور تا اس کے قول اور فعل کی باہم مطابقت ہو کر طالب صادق کے لئے مزید معرفت اور سکینت اور یقین کا موجب ہو اور یہ ایک عام طریق اللہ جلّ شانہٗ کا قرآن کریم میں ہے کہ اپنے افعال قدرتیہ کوجو اُس کی مخلوقات میں باقاعدہ منضبط اور مترتب پائے جاتے ہیں اقوال شرعیہ کے حل کرنے کے لئے جا بجا پیش کرتا ہے تا اِس بات کی طرف لوگوں کو توجہ دلاوے کہ یہ شریعت اور یہ تعلیم اُسی ذات واحدلاشریک کی طرف سے ہے جس کے ایسے افعال موجود ہیں جو اُس کے اِن اقوال سے مطابقت کلّی رکھتے ہیں کیونکہ اقوال کا افعال سے مطابق آ جانا بلاشبہ اِس بات کا ایک ثبوت ہے کہ جس کے یہ افعال ہیں اُسی کے یہ اقوال ہیں.اب ہم نمونہ کے طور پر اُن چند قسموں کی تفسیر لکھتے ہیں جو قرآن کریم میں اس بات کا بیان کہ جب انسان کامل ایمان اور کامل استقامت کو پہنچ جاتا ہے تو فرشتے اس پر اترتے ہیں اور دائمی مصاحبت اختیار کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے تمام کاروبار میں اُس کے خادم ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ نے جو قرآن کریم میں اپنی بعض مخلوقات کی قسمیں کھائی ہیں ان میں ایک بڑا بھاری بھید یہ بھی ہے کہ تا انسان کو اس طرف توجہ پیدا ہو کہ یہ تمام اقوال اور افعال ایک ہی چشمہ میں سے ہیں
اور کیا آخرت میں.پھر ایک دوسرے مقام میں فرماتا ہے3333.۱ 3.۲ یعنی کیا وہ شخص جو مُردہ تھا اور ہم نے اس کو زندہ کیا اور ہم نے اس کو ایک نور عطا کیا جس کے ساتھ وہ لوگوں میں چلتا ہے یعنی اُس نور کی برکات لوگوں کو معلوم ہوتی ہیں کیا ایسا آدمی اُس آدمی کی مانند ہو سکتا ہے جو سراسر تاریکی میں اسیر ہے اور اُس سے نکل نہیں سکتا.نور اور حیات سے مراد رُوح القدس ہے کیونکہ اُس سے ظلمت دور ہوتی ہے اور وہ دلوں کو زندہ کرتا ہے اِسی لئے اُس کا نام روح القدس ہے یعنی پاکی کی روح جس کے داخل ہونے سے ایک پاک زندگی حاصل ہوتی ہے.اور منجملہ اُن آیاتِ قرآنی کے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ رُوح القدس وارد ہیں.چنانچہ منجملہ ان کے ایک یہی قسم ہے کہ 3.3.3.3 3.۳ اِن آیات میں اصل مدعا اور مقصد یہ ہے کہ ہر یک نفس کی روحانی حفاظت کے لئے ملائک مقرر ہیں*جو ہر دم اور ہر وقت ساتھ رہتے ہیں اورجو حفاظت کا طالب ہو اُس کی حفاظت کرتے ہیں.لیکن یہ بیان ایک باریک اور نظری ہے.فرشتوں کا وجود ہی غیر مرئی ہے.اگرچہ ملائک جسمانی آفات سے بھی بچاتے ہیں لیکن اُن کا بچانا روحانی طور پر ہی ہے مثلًاایک شخص ایک گرنے والی دیوار کے نیچے کھڑا ہے تو یہ تو نہیں کہ فرشتہ اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر اُس کو دور لے جائے گا بلکہ اگر اُس شخص کا اُس دیوار سے بچنا مقدر ہے تو فرشتہ اس کے دل میں الہام کر دے گا کہ یہاں سے جلد کھسکنا چاہیئے.لیکن ستاروں اور عناصر وغیرہ کی حفاظت جسمانی ہے.منہ روح القدس کا کام روحانی زندگی اور روحانی روشنی دلوں میں ڈالنا ہے اس لئے نور اور روح رُوح القدس کا نام ہے.ملائک خواہ جسمانی آفات سے بچاویں اور خواہ روحانی آفات سے دونوں حالتوں میں ان کا بچانا روحانی طور پر ہے ۱ الانعام:۱۲۳ ۲ فاطر:۲۳ ۳ الطارق:۲ تا
ہمیشہ کے لئے خدا تعالیٰ کے ملہم بندوں کے ساتھ رہتا ہے اور انہیں علم اور حکمت اور پاکیزگی کی تعلیم کرتا ہے یہ آیت کریمہ ہے 33 33 ۱ سورۃ المجادلہ یعنی اُن مومنوں کے دلوں میں خدا تعالیٰ نے ایمان کو لکھ دیا اور روح القدس سے ان کو مدد دی.دل میں ایمان کے لکھنے سے یہ مطلب ہے کہ ایمان فطرتی اور طبعی ارادوں میں داخل ہو گیا اور جُزوِ طبیعت بن گیا اور کوئی تکلّف اور تصنّع درمیان نہ رہا.اور یہ مرتبہ کہ ایمان دل کے رگ و ریشہ میں داخل ہو جائے اُس وقت انسان کو ملتا ہے کہ جب انسان روح القدس سے مؤیّد ہو کر ایک نئی زندگی پاوے اور جس طرح جان ہر وقت جسم کی محافظت کے لئے جسم کے اندر رہتی ہے اور اپنی پھر اُن کی حفاظت پر کیونکر یقین آوے اس لئے خداوند کریم و حکیم نے اپنے قانون قدرت کو جو اجرامِ سماوی میں پایا جاتا ہے.اِس جگہ قَسم کے پَیرایہ میں بطور شاہد کے پیش کیا اور وہ یہ ہے کہ قانونِ قدرت خدا تعالیٰ کا صاف اور صریح طور پر نظر آتا ہے کہ آسمان اور جو کچھ کواکب اور شمس اور قمر اور جو کچھ اُس کے پول میں ہوا وغیرہ موجود ہے یہ سب انسان کے لئے جسمانی خدمات میں لگے ہوئے ہیں اورطرح طرح کے جسمانی نقصانوں اور حرجوں اور تکلیفوں اور تنگیوں سے بچاتے ہیں اور اُس کے جسم اور جسمانی قویٰ کے کلّ ما یحتاج کو طیار کرتے ہیں خاص کر رات کے وقت جو ستارے پیدا ہوتے ہیں جنگلوں اور بیابانوں میں چلنے والے اور سمندروں کی سَیر کرنے والے اُن چمکدار ستاروں سے بڑا ہی فائدہ اٹھاتے ہیں اوراندھیری رات کے وقت میں ہر یک نجم ثاقب رہنمائی کر کے جان کی حفاظت کرتا ہے اور اگر یہ محافظ نہ ہوں جو اپنے اپنے وقت میں شرط حفاظت بجا لا رہے ہیں تو انسان ایک طرفۃ العین کے لئے بھی زندہ نہ رہ سکے سوچ کر جواب دینا چاہیئے کہ کیا ہم بغیر اُن تمام محافظوں آیت 3 کی تفسیر خدا تعالیٰ کا جسمانی انتظام تقاضا کرتا ہے کہ روحانی انتظام بھی ایسا ہی ہو کیونکہ ان دونوں انتظاموں کا مبدا ایک ہی ہے.المجادلۃ:
روشنی اُس پر ڈالتی رہتی ہے اِسی طرح اِس نئی زندگی کی روح القدس بھی اندر آباد ہو جائے اور دل پر ہر وقت اور ہر لحظہ اپنی روشنی ڈالتی رہے اور جیسے جسم جان کے ساتھ ہر وقت زندہ ہے دل اور تمام روحانی قویٰ روح القدس کے ساتھ زندہ ہوں اِسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے بعد بیان کرنے اِس بات کے کہ ہم نے اُن کے دلوں میں ایمان کو لکھ دیا یہ بھی بیان فرمایا کہ روح القدس سے ہم نے اِن کو تائید دی کیونکہ جبکہ ایمان دلوں میں لکھا گیا اور فطرتی حروف میں داخل ہو گیا تو ایک نئی پیدائش انسان کو حاصل ہو گئی اور یہ نئی پیدائش بجُز تائید روح القدس کے ہرگز نہیں مل سکتی.رُوح القدس کا نام اِسی لئے روح القدس ہے کہ اُس کے داخل ہونے سے ایک پاک روح انسان کو مل جاتی ہے.کے کہ کوئی ہمارے لئے حرارت مطلوبہ طیار رکھتا ہے اور کوئی اناج اور پھل پکاتا ہے اور کوئی ہمارے پینے کے لئے پانیوں کو برساتا ہے اور کوئی ہمیں روشنی بخشتا ہے اور کوئی ہمارے تنفس کے سلسلہ کو قائم رکھتا ہے اور کوئی ہماری قوت شنوائی کو مدد دیتا ہے اور کوئی ہماری حرارت غریزی پر صحت کا اثر ڈالتا ہے زندہ رہ سکتے ہیں.اب اِسی سے انسان سمجھ سکتا ہے کہ جس خداوند کریم و حکیم نے یہ ہزارہا اجرام سماوی و عناصر وغیرہ ہمارے اجسام کی درستی اورقائمی کے لئے پیدا کئے اور دن رات بلکہ ہر دم اُن کو خدمت میں لگا دیا ہے کیا وہ ہماری روحانی حفاظت کے انتظام سے غافل رہ سکتا تھا.اور کیونکر ہم اُس کریم و رحیم کی نسبت ظن کر سکتے ہیں کہ ہمارے جسم کی حفاظت کے لئے تو اُس نے اِس قدر سامان پیدا کردیا کہ ایک جہان ہمارے لئے خادم بنا دیا لیکن ہماری روحانی حفاظت کے لئے کچھ بندوبست نہ فرمایا.اب اگر ہم انصاف سے سوچنے والے ہوں تو اِسی سے ایک محکم دلیل مل سکتی ہے روح القدس کے کاموں کا بیان خدا تعالیٰ کے جسمانی اور روحانی انتظام کا بیان
قرآ ن کریم روحانی حیات کے ذکر سے بھرا پڑا ہے اور جا بجا کامل مومنوں کا نام احیاء یعنی زندے اور کُفار کا نام اموات یعنی مُردے رکھتا ہے.یہ اِسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ کامل مومنوں کو روح القدس کے دخول سے ایک جان مل جاتی ہے اور کُفار گو جسمانی طور پر حیات رکھتے ہیں مگر اُس حیات سے بے نصیب ہیں جو دل اور دماغ کو ایمانی زندگی بخشتی ہے.اِس جگہ یاد رکھنا چاہیئے کہ اِس آیت کریمہ کی تائید میں احادیث نبویہ میں جا بجا بہت کچھ ذکر ہے اور بخاری میں ایک حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے ہے اور وہ یہ ہے.ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وضع لحسان ابن ثابت منبرا فی المسجد فکان ینافح عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ کہ بیشک روحانی حفاظت کے لئے بھی حکیم مطلق نے کوئی ایسا انتظام مقرر کیا ہو گا کہ جو جسمانی انتظام سے مشابہ ہو گا سو وہ ملایک کا حفاظت کے لئے مقرر کرنا ہے.سو اِسی غرض سے خدا تعالیٰ نے یہ قسم آسمان اور ستاروں کی کھائی تا ملایک کی حفاظت کے مسئلہ کو جو ایک مخفی اور نظری مسئلہ ہے نجوم وغیرہ کی حفاظت کے انتظام سے جو ایک بدیہی امر ہے بخوبی کھول دیوے اور ملایک کے وجود کے ماننے کے لئے غور کرنے والوں کے آگے اپنے ظاہر انتظام کو رکھ دیوے جو جسمانی انتظام ہے تا عقلِ سلیم جسمانی انتظام کو دیکھ کر اُسی نمونہ پر روحانی انتظام کو بھی سمجھ لیوے.دوسری قَسم جو بطور نمونہ کے ذیل میں لکھی جاتی ہے یہ ہے.3.3.3.3.رُوح القدس جو ہمیشہ کے لئے مومنوں کو ملتا ہے اس پر شہادت دینے والی بخاری کی حدیث
و سلم فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اللّٰھم ایّد حسان بروح القدس کما نافح عن نبیّک.یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسّان بن ثابت کے لئے مسجد میں منبر رکھا اور حسّان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کفار سے جھگڑتا تھا اور اُن کی ہجو کا مدح کے ساتھ جواب دیتا تھا پس رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسّان کے حق میں دعا کی اور فرمایا کہ یا الٰہی حسّان کو روح القدس کے ساتھ یعنی جبرائیل کے ساتھ مدد کر اور ابو داؤد نے بھی ابن سیرین سے اور ایسا ہی ترمذی نے بھی یہ حدیث لکھی ہے اور اُس کو حسن صحیح کہا ہے.اور بخاری اور مسلم میں بطول الفاظ یہ حدیث بھی موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسّان کو کہا اجب عنِّی اللّٰھم ایّدہ بروح القدس.یعنی میری طرف سے ( اے حسّان) کفار کو جواب دے یا الٰہی اس کی روح القدس سے مدد فرما.ایسا ہی حسّان کے حق میں ایک یہ بھی حدیث ہے 3.3.3.۱ الجزو نمبر ۲۷ سُورۃ النجم.یعنی قسم ہے تارے کی جب طلوع کرے یا گرے کہ تمہارا صاحب بے راہ نہیں ہوا اور نہ بہک گیا اور وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتا بلکہ اُس کی ہر یک کلام تو وحی ہے جو نازل ہو رہی ہے جس کو سخت قوت والے یعنی جبرائیل نے سکھلایا ہے وہ صاحبِ قوت اس کوپورے طور پرنظر آیا اور وہ کنارہ بلند پر تھا.اِس قَسم کے کھانے سے مُدعا یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا امر کہ کفّار کی نظر میں ایک نظری امر ہے ان کے ان مسلّمات کی رُو سے ثابت کر کے دکھلایا جاوے جو اُن کی نظر میں بدیہی کا حکم رکھتے تھے.اب جاننا چاہیئے کہ عرب کے لوگ بوجہ ان خیالات کے جو کاہنوں کے ذریعہ سے حسان بن ثابت کے لئے تائید روح القدس کے بارے میں بعینہٖ وہ الفاظ استعمال کئے گئے جو قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ کی نسبت ااستعمال کئے گئے ہیں اور یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ اس مقام میں ان الفاظ کے یہی معنے ہوں کہ روح القدس دائمی طور پر حضرت عیسیٰ کو دیا گیا تھا اور ایک طرفۃ العین ان سے جدا نہیں ہوتا تھا لہٰذا بوجہ اتحاد الفاظ اس جگہ بھی وہی معنے ہونے چاہیئے.۱ النجم:۲ تا۸
ھا جھم وجبرائیل معک یعنی اے حسّان کفار کی بدگوئی کا بدگوئی کے ساتھ جواب دے اور جبرائیل تیرے ساتھ ہے.اب ان احادیث سے ثابت ہوا کہ حضرت جبرائیل حسّان کے ساتھ رہتے تھے اور ہر دم اُن کے رفیق تھے اور ایسا ہی یہ آیت کریمہ بھی کہ33 ۱ صاف اور کُھلے کُھلے طور پر بتلا رہی ہے کہ روح القدس مومنوں کے ساتھ رہتا تھا.کیونکہ اِسی قسم کی آیت جو حضرت عیسیٰ کے حق میں آئی ہے یعنی 3 33 ۲ اس کی تفسیر میں تمام مفسرین اِس بات پر متفق ہیں کہ روح القدس ہر وقت قرین اور رفیق حضرت عیسیٰ کا تھا اور ایک دم بھی اُن سے جدا نہیں ہوتا تھا دیکھو تفسیر حسینی تفسیر مظہری تفسیر عزیزی معالم ابن کثیر وغیرہ اور مولوی صدیق حسن فتح البیان میں اِس آیت کی تفسیر میں یہ عبارت لکھتے ہیں و کان جبرائیل یسیر مع عیسٰی حیث سار فلم یفارقہ اُن میں پھیل گئے تھے نہایت شدید اعتقاد سے ان باتوں کو مانتے تھے کہ جس وقت کثرت سے ستارے یعنی شہب گرتے ہیں تو کوئی بڑا عظیم الشان انسان پیدا ہوتا ہے خاص کر اُن کے کاہن جو ارواح خبیثہ سے کچھ تعلّق پیدا کر لیتے تھے اور اخبار غیبیہ بتلایا کرتے تھے اُن کا تو گویا پختہ اور یقینی عقیدہ تھا کہ کثرت شہب یعنی تاروں کا معمولی اندازہ سے بہت زیادہ ٹوٹنا اِس بات پر دلالت کرتا ہے کہ کوئی نبی دنیا میں پیدا ہونے والا ہے اور ایسا اتفاق ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت حد سے زیادہ سقوط شہب ہوا جیسا کہ سورۃ الجن میں خدا تعالیٰ نے اس واقعہ کی شہادت دی ہے اور حکایتًا عن الجنّات فرماتا ہے.33 علماء اسلام کا یہ عقیدہ کہ حضرت عیسیٰ کے ساتھ روح القدس ہر دم اور ہر وقت رہتا تھا ۱ المجادلۃ:۲۳ ۲ البقرۃ:
حتی صعد بہ الی السَّماءِ.یعنی جبرائیل ہمیشہ حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ ہی رہتا تھا ایک طرفۃ العین بھی اُن سے جدا نہیں ہوتا تھا یہاں تک کہ ان کے ساتھ ہی آسمان پر گیا.اِس جگہ دو باتیں نہایت قابلِ افسوس ناظرین کی توجہ کے لائق ہیں.(۱) اوّل یہ کہ اِن مولویوں کا تو یہ اعتقاد تھا کہ جبرائیل وحی لے کر آسمان سے نبیوں پر وقتًا فوقتًا نازل ہوتا تھا اور تبلیغ وحی کر کے پھر بلا توقف آسمان پر چلا جاتا تھا.اب مخالف اِ س عقیدہ کے حضرت عیسیٰ کی نسبت ایک نیا عقیدہ تراشا گیا اور وہ یہ کہ حضرت عیسیٰ کی وحی کے لئے جبرائیل آسمان پر نہیں جاتا تھا بلکہ وحی خود بخود آسمان سے گِر پڑتی تھی اور جبرائیل ایک طرفۃ العین کے لئے بھی حضرت عیسیٰ سے جدا نہیں ہوتا تھا اُسی دن آسمان کا منہ جبرائیل نے بھی دیکھا جب حضرت عیسیٰ آسمان پر تشریف لے گئے 3.۱ سورۃ الجن الجزو نمبر ۲۹.یعنی ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو اُس کو چوکیداروں سے یعنی فرشتوں سے اور شعلوں سے بھرا ہوا پایا اور ہم پہلے اِس سے امور غیبیہ کے سننے کے لئے آسمان میں گھات میں بیٹھا کرتے تھے اور اب جب ہم سننا چاہتے ہیں تو گھات میں ایک شعلے کو پاتے ہیں جو ہم پر گرتا ہے.ان آیات کی تائید میں کثرت سے احادیث پائی جاتی ہیں.بخاری مسلم ابوداؤد ترمذی ابن ماجہ وغیرہ سب اِس قسم کی حدیثیں اپنی تالیفات میں لائے ہیں کہ شہب کا گرنا شیاطین کے رد کرنے کے لئے ہوتا ہے اور امام احمد ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ شہب جاہلیت کے زمانہ میں بھی گرتے تھے لیکن ان کی کثرت اور غلظت بعثت کے وقت میں ہوئی چنانچہ تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت جب کثرت سے شہب گرے تو اہلِ طائف بہت ہی ڈر گئے اور کہنے لگے کہ شاید آسمان کے لوگوں میں تہلکہ پڑ گیا حال کے مولویوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کے ساتھ تیتیس برس تک برابر دن رات جبرائیل رہا کبھی اس عرصہ میں اُن سے جدا نہیں ہوا اور کہتے ہیں کہ یہ اعلیٰ درجہ کی فضیلت حضرت عیسیٰ کو دی گئی ہے اور کوئی نبی اس میں شریک نہیں یہاں تک کہ ہمارے نبی صلعم بھی اس فضیلت سے نعوذ باللہ محروم ہیں.آنحضرت صلعم کی بعثت کے سال میں شہب کثرت سے گرے تھے.۱ الجن:۹‘
ورنہ پہلے اِس سے تینتیس برس تک برابر دن رات زمین پر رہے اور ایک دم کے لئے بھی حضرت عیسیٰ سے جدا نہیں ہوئے اور برابر تینتیس برس تک اپنا وہ آسمانی مکان جو ہزار کوس کے طول و عرض سے کچھ کم نہیں ویران سُنسان چھوڑ دیا حالانکہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ ایک دم کے لئے بھی آسمان بقدر بالشت بھی فرشتوں سے خالی نہیں رہتا.اور تینتیس برس تک جو حضرت عیسیٰ کو وحی پہنچاتے رہے اس کی طرز بھی سب انبیاء سے نرالی نکلی کیونکہ بخاری نے اپنی صحیح میں اور ایسا ہی ابو داؤد اور ترمذی اور ابن ماجہ نے اور ایسا ہی مسلم نے بھی اِس پر اتفاق کیا ہے کہ نزول جبرائیل کا وحی کے ساتھ انبیاء پر وقتًا فوقتًا آسمان سے ہوتا ہے (یعنی وہ تجلی جس کی ہم تصریح کر آئے ہیں ) اور اس کی تائید میں ابن جریر اور ابن کثیر نے یہ حدیث بھی لکھی ہے.عن النواس بن سمعان رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال قال رسول اللّٰہ تب ایک نے اُن میں سے کہا کہ ستاروں کی قرار گاہوں کو دیکھو اگر وہ اپنے محل اور موقعہ سے ٹل گئے ہیں تو آسمان کے لوگوں پر کوئی تباہی آئی ورنہ یہ نشان جو آسمان پر ظاہر ہوا ہے ابن ابی کبشہ کی وجہ سے ہے (وہ لوگ شرارت کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ابن ابی کبشہ کہتے تھے) غرض عرب کے لوگوں کے دلوں میں یہ بات جمی ہوئی تھی کہ جب کوئی نبی دنیا میں آتا ہے یا کوئی اور عظیم الشان آدمی پیدا ہوتا ہے تو کثرت سے تارے ٹوٹتے ہیں.اِسی وجہ سے بمناسبت خیالات عرب کے شہب کے گرنے کی خدائے تعالیٰ نے قسم کھائی جس کا مدعا یہ ہے کہ تم لوگ خودتسلیم کرتے ہو اور تمہارے کاہن اِس بات کو مانتے ہیں کہ جب کثرت سے شہب گرتے ہیں تو کوئی نبی یا مُلہم من اللہ پیدا ہوتا ہے تو پھر انکار کی کیا وجہ ہے.چونکہ شہب کا کثرت سے گرناعرب کے کاہنوں کی نظر میں اِس بات کے ثبوت کے لئے ایک بدیہی امر تھا حال کے علماء کا یہ عقیدہ ہے کہ مسیح کی وحی کی طرز تمام انبیاء کی وحی سے نرالی ہے عرب کے کاہنوں کے دلوں میں بھی بسا ہوا تھا کہ شہب جب کثرت سے ٹوٹتے ہیں تو کوئی نبی پیدا ہوتا ہے اور اُن کا یہ ذاتی تجربہ تھا کہ شہب کی کثرت تساقط کے بعد اُن کو شیطانی خبریں کم ملتی ہیں.
صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا اراد اللّٰہ تبارک و تعالٰی اَن یوحی بامرہ تکلّم بالوحی فاذا تکلم اخذت السمٰوات منہ رجفۃ او قال رعدۃ شدیدۃ من خوف اللّٰہ تعالٰی فاذا سمع بذٰلک اھل السمٰوات صعقوا و خروا للّٰہ سجّدا فیکون اوّل من یرفع راسہ جبرائیل علیہ الصلٰوۃ والسّلام فکلمہ اللّٰہ من وحیہ بما اراد فیمضی بہ جبرائیل علیہ الصّلٰوۃ والسّلام علی الملائکۃ کلھا من سماءٍ الٰی سماءٍ یسئلہ ملا ئکتہا ماذا قال ربنا یا جبرئیل فیقول علیہ السلام قال الحق و ھو العلی الکبیر فیقولون کلہم مثل ما قال جبرائیل فینتہی جبرائیل بالوحي الٰی حیث امرہ اللّٰہ تعالٰی من السّماء والارض.یعنی نواس بن سمعان سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جس وقت خدا تعالیٰ ارادہ فرماتا ہے کہ وہ کوئی امر وحی اپنی طرف سے نازل کرے تو بطور وحی متکلّم ہوتا ہے یعنی ایسا کلام کرتا ہے جو ابھی اجمال پر مشتمل ہوتا ہے اور ایک چادر پوشیدگی کہ کوئی نبی اور ملہم من اللہ پیدا ہوتا ہے اور عرب کے لوگ کاہنوں کے ایسے تابع تھے جیسا کہ ایک مرید مرشد کا تابع ہوتا ہے اِس لئے خدا تعالیٰ نے وہی بدیہی امر اُن کے سامنے قسم کے پیرایہ میں پیش کیا تا اُن کو اِس سچائی کی طرف توجہ پیدا ہو کہ یہ کاروبار خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے انسان کا ساختہ پرداختہ نہیں.اگر یہ سوال پیش ہو کہ شہب کا گرنا اگر کسی نبی یا ملہم یا محدّث کے مبعوث ہونے پر دلیل ہے تو پھر کیا وجہ کہ اکثر ہمیشہ شہب گرتے ہیں مگر اُن کے گرنے سے کوئی نبی یا محدّث دنیا میں نزول فرما نہیں ہوتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ حکم کثرت پر ہے اور کچھ شک نہیں کہ جس زمانہ میں یہ واقعات کثرت سے ہوں اور خارق عادت طور پر اُن کی کثرت پائی جائے تو کوئی مرد خدا دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف سے اصلاح خلق اللہ کے لئے آتا ہے کبھی یہ واقعات ارہاص کے طور پر اُس کے وجود سے وحی انبیاء پر کس طور سے نازل ہوتی ہے اس سوال کا جواب کہ شہب تو ہمیشہ گرتے اس سوال کا جواب کہ شہب تو ہمیشہ گرتے ہیں مگر اُن کے گرنے سے ہمیشہ نبی ظاہر نہیں ہوتے.کاہنوں کے لئے اس بات کا سمجھنا کچھ مشکل نہ تھا کہ کثرت سقوط شہب کی کسی نبی اللہ کے ظہور پر دلالت ہے کیونکہ اُن کے شیاطین کثرت شہب کے ایام میں سماوی اخبار سے بکلی محروم رہتے تھے.
کی اُس پر ہوتی ہے تب اُس محجوب المفہوم کلام سے ایک لرزہ آسمانوں پر پڑ جاتا ہے.جس سے وہ ہولناک کلام تمام آسمانوں میں پھر جاتا ہے اور کوئی نہیں سمجھتا کہ اِس کے کیا معنی ہیں اور خوفِ الٰہی سے ہر یک فرشتہ کانپنے لگتا ہے کہ خدا جانے کیا ہونے والا ہے اور اُس ہولناک آواز کو سن کر ہر یک فرشتہ پر غشی طاری ہو جاتی ہے اور وہ سجدہ میں گر جاتے ہیں.پھر سب سے پہلے جبرائیل علیہ الصّلوٰۃ والسّلام سجدہ سے سر اٹھاتا ہے اور خدا تعالیٰ اِس وحی کی تمام تفصیلات اُس کو سمجھا دیتا ہے اور اپنی مراد اور منشاء سے مطلع کر دیتا ہے تب جبرائیل اُس وحی کو لے کر تمام فرشتوں کے پاس جاتا ہے جو مختلف آسمانوں میں ہیں اور ہر یک فرشتہ اُس سے پوچھتا ہے کہ یہ آواز ہولناک کیسی تھی اور اِس سے کیا مراد تھی تب جبرائیل اُن کو یہ جواب دیتا ہے کہ یہ ایک امر حق ہے اور خدا تعالیٰ بلنداور نہایت بزرگ ہے یعنی یہ وحی اُن حقائق میں سے ہے جن کا ظاہر کرنا اُس اَلْعَلِیُّ الْکَبِیْر نے چند سال پہلے ظہور میں آ جاتے ہیں اور کبھی عین ظہور کے وقت جلوہ نما ہوتے ہیں اور کبھی اُس کی کسی اعلیٰ فتحیابی کے وقت یہ خوشی کی روشنی آسمان پر ہوتی ہے.ابنِ کثیر نے اپنی تفسیر میں سدی سے روایت کی ہے کہ شہب کا کثرت سے گرنا کسی نبی کے آنے پر دلالت کرتا ہے یا دین کے غلبہ کی بشارت دیتا ہے مگر جوکچھ اشارات نص قرآن کریم سے سمجھا جاتا ہے وہ ایک مفہوم عام ہے جس سے صاف اور صریح طور پر مستنبط ہوتا ہے کہ جب کوئی نبی یا وارث نبی زمین پر مامور ہو کر آوے یا آنے پر ہو یا اُس کے ارہاصات ظاہر ہونے والے ہوں یا کوئی بڑی فتحیابی قریب الوقوع ہو تو ان تمام صورتوں میں ایسے ایسے آثار آسمان پر ظاہر ہوتے ہیں اور اِس سے انکار کرنا نادانی ہے کیونکہ عدم علم سے عدم شے لازم نہیں آتا.بعض مصلح اور مجدّد دین دنیا میں ایسے آتے ہیں کہ عام طور پر دُنیا کو اُن کی بھی خبر نہیں ہوتی.وحی کس طور سے پیدا ہوتی ہے اور پھر کیونکر انبیاء پر نازل ہوتی ہے قرآن کریم سے شہب کی نسبت کیا مستنبط ہوتا ہے
قرین مصلحت سمجھا ہے تب وہ سب اُس کے ہم کلام ہو جاتے ہیں.پھر جبرائیل اس وحی کو اس جگہ پہنچا دیتا ہے جس جگہ پہنچانے کے لئے اُس کو حکم تھا خواہ آسمان یا زمین.اب اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نزول وحی کے وقت جبرائیل آسمان پر ہی ہوتا ہے اور پھر جیسا کہ خدا تعالیٰ نے اُس کی آواز میں قوت اور قدرت بخشی ہے اپنے محل میں اُس وحی کو پہنچا دیتا ہے.اِس صورت میں یہ عقیدہ رکھنا کہ گویا جبرائیل اپنے اصلی وجود کے ساتھ آسمانوں سے ہجرت کر کے حضرت عیسیٰ کے پاس آ گیا تھا اور تینتیس برس برابر اُن کے پاس رہا اور وہ تمام خدمات جو آسمانوں پر اُس کے سپرد تھیں جن کا ہم ابھی ذکرکر چکے ہیں وہ تینتیس برس تک معرض التوا میں رہیں کیسا باطل عقیدہ ہے جس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ وحی بغیر توسط جبرائیل کے خود بخود زمین پر نازل ہوتی تھی اور زمین پر ہی وہ وحی جبرائیل کو مِل جاتی تھی.حکایت مجھ کو یاد ہے کہ ابتدائے وقت میں جب مَیں مامور کیا گیا تو مجھے یہ الہام ہوا کہ جو براہین کے صفحہ ۲۳۸ میں مندرج ہے یا احمد بارک اللہ فیک ما رمیت اذ رمیت ولٰکن اللّٰہ رمٰی.الرحمٰن علّم القرآن.لتنذر قومًا ما انذر آباء ھم و لتستبین سبیل المجرمین.قُل انی امرت و انا اوّل المؤمنین.یعنی اے احمد خدا نے تجھ میں برکت رکھ دی اور جو تو نے چلایا یہ تُو نے نہیں چلایا بلکہ خدا نے چلایا اُس نے تجھے علم قرآن کا دیا تا تُو ان کو ڈراوے جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے.اور تا مجرموں کی راہ کُھل جائے یعنی سعید لوگ الگ ہو جائیں اور شرارت پیشہ اور سرکش آدمی الگ ہو جائیں اور لوگوں کو کہہ دے کہ مَیں مامور ہو کر آیا ہوں اور مَیں اس عقیدہ کے بطلان کا بیان کہ جبرائیل نے اپنے اصلی وجود کے ساتھ آسمانوں کو چھوڑ کر حضرت مسیح کے پاس ہر وقت رہائش اختیار کر لی تھی.اپنی سرگذشت کی نسبت ایک حکایت
دُوسر ی بات ناظرین کی توجہ کے لائق یہ ہے کہ اِن مولویوں نے بات بات میں حضرت عیسیٰ کو بڑھایا اور ہمارے سیّد و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی.غضب کی بات ہے کہ اِن کا عقیدہ حضرت مسیح کی نسبت تو یہ ہو کہ کبھی روح القدس اُن سے جدا نہیں ہوتا تھا اور مسِ شیطان سے وہ بری تھے اور یہ دونوں باتیں انہیں کی خصوصیت تھی لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اِن کا یہ اعتقاد ہو کہ نہ روح القدس ہمیشہ اور ہر وقت اُن کے پاس رہا اور نہ وہ نعوذ باللہ نقلِ کفر کفر نباشد مسِ شیطان سے بری تھے.باوجود اِن باتوں کے یہ لوگ مسلمان کہلاویں اِن کی نظر میں ہمارے سیّد ومولیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ُ مردہ مگر حضرت عیسیٰ اب تک زندہ.اور عیسیٰ ؑ کے لئے رُوح القدس دائمی رفیق مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ اس نعمت سے بے بہرہ اور حضرت عیسیٰ مسِ شیطان سے محفوظ مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم محفوظ نہیں اوّل المومنین ہوں.ان الہامات کے بعد کئی طور کے نشان ظاہر ہونے شروع ہوئے چنانچہ منجملہ ان کے ایک یہ کہ ۲۸؍نومبر ۱۸۸۵ ء کی رات کو یعنی اس رات کو جو ۲۸؍نومبر ۱۸۸۵ ء کے دن سے پہلے آئی ہے اِس قدرت شہب کا تماشا آسمان پر تھا جو مَیں نے اپنی تمام عمر میں اس کی نظیر کبھی نہیں دیکھی اور آسمان کی فضا میں اس قدر ہزارہا شعلے ہرطرف چل رہے تھے جو اس رنگ کا دنیا میں کوئی بھی نمونہ نہیں تا مَیں اس کو بیان کر سکوں مجھ کو یاد ہے کہ اُس وقت یہ الہام بکثرت ہوا تھا کہ ما رمیت اذ رمیت ولٰکن اللّٰہ رمٰی.سو اُس رمی کو رمی شہب سے بہت مناسبت تھی.یہ شہب ثاقبہ کا تماشہ جو ۲۸؍نومبر ۱۸۸۵ ء کی رات کو ایسا وسیع طور پر ہوا جو یورپ اور امریکہ اور ایشیا کے عام اخباروں میں بڑی حیرت کے ساتھ چھپ گیا لوگ خیال کرتے ہوں گے کہ یہ بے فائدہ تھا.لیکن خداوند کریم حال کے مولوی جس طور سے آنحضرت صلعم کی توہین کر رہے ہیں اس طور اور طریق کا بیان.۲۸؍ نومبر ۱۸۸۵ء کی کثرت شہب کا حال
جن لوگوں کے یہ عقائد ہوں اُن کے ہاتھ سے جس قدر دین اسلام کو اس زمانہ میں نقصان پہنچ رہا ہے کون اِس کا اندازہ کر سکتا ہے یہ لوگ چھپے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہیں چاہیئے کہ ہر یک مسلمان اور سچا عاشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے پرہیز کرے سلف صالح کو سراسر شرارت کی راہ سے اپنے اقوال مردودہ کے ساتھ شامل کرنا چاہتے ہیں حالانکہ اپنی نابینائی کی وجہ سے سلف صالح کے اقوال کو سمجھ نہیں سکتے اور نہ احادیث نبویہ کی اصل حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں صرف دھوکہ دینے کی راہ سے کہتے ہیں کہ اگر ہمارا یہ حال ہے تو یہی عقیدہ سلف صالح کا ہے.اے نادانو! یہ سلف صالح کا ہرگز طریقہ نہیں.اگر صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ اعتقاد رکھتے کہ کبھی یا مُدتوں تک آپ سے روح القدس جدا بھی ہو جاتا تھا تو وہ ہرگز ہر یک وقت اور ہر یک زمانہ کی احادیث کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جانتا ہے کہ سب سے زیادہ غور سے اس تماشا کے دیکھنے والا اور پھر اُس سے حظّ اور لذت اٹھانے والا مَیں ہی تھا.میری آنکھیں بہت دیر تک اِس تماشا کے دیکھنے کی طرف لگی رہیں اور وہ سلسلہ رمی شہب کا شام سے ہی شروع ہو گیا تھا.جس کو مَیں صرف الہامی بشارتوں کی وجہ سے بڑے سرور کے ساتھ دیکھتا رہا کیونکہ میرے دل میں الہامًا ڈالا گیا تھا کہ یہ تیرے لئے نشان ظاہر ہوا ہے.اور پھر اس کے بعد یورپ کے لوگوں کو وہ ستارہ دکھائی دیا جو حضرت مسیح کے ظہور کے وقت میں نکلا تھا میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ ستارہ بھی تیری صداقت کے لئے ایک دوسرا نشان ہے.اِس جگہ اگر یہ اعتراض پیش کیا جاوے کہ علم حکمت کے محققوں کی تحقیقات قدیمہ و جدیدہ کی رو سے شہب وغیرہ کا پیدا ہونا اور اسباب سے بیان کیا گیا ہے.سلف صالح کا ہرگز یہ اعتقاد نہ تھا کہ جو حال کے مولوی میاں نذیر اور بطالوی وغیرہ آنحضرت صلعم کی نسبت رکھتے ہیں جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت توہین لازم آتی ہے.اس اعتراض کا جواب کہ علم حکمت کے محققوں نے شہب ثاقبہ وغیرہ کے پیدا ہونے کی اور وجوہ لکھی ہیں
اخذ نہ کرتے ان کی نظر تو اِس آیت پر تھی 33.۱ اگر صحابہ تمہاری طرح مسِ شیطان کا اعتقاد رکھتے تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سیّد المعصومین کیوں قرار دیتے خدا تعالیٰ سے ڈرو کیوں افترا پر کمر باندھی ہے.مصطفےٰ را چوں فروتر شد مقام از مسیحِ ناصری اے طفلِ خام آنکہ دستِ پاک او دستِ خداست چوں تواں گفتن کہ از روحش جداست آنکہ ہر کردار و قولش دینِ ماست یکدم از جبریل بُعدش چوں رواست بر امامِ انبیاء ایں افترا چوں نمے ترسید از قہرِ خدا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت صحابہ کا بلاشبہ یہ اعتقاد تھاکہ آنجناب کا کوئی فعل اور کوئی قول وحی کی آمیزش سے خالی نہیں گو وہ وحی مجمل ہو یا مفصل.خفی ہو یا جلی.بیّن ہو جو اِن امور سے بیان کئے گئے ہیں کچھ بھی تعلق نہیں رکھتے.چنانچہ شرح اشارات میں جہاں کائنات الجوّ کے اسباب اور علل لکھے ہیں صرف اسی قدر حدوث شہب کا سبب لکھا ہے کہ جب دخان حیّز نار میں پہنچتا ہے اور اس میں کچھ دہنیت اور لطافت ہوتی ہے تو بباعث آگ کی تاثیر کے یک دفعہ بھڑک اٹھتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھڑکنے کے ساتھ ہی بُجھ گیا مگر اصل میں وہ بُجھتا نہیں.بات یہ ہے کہ دُخان کی دونوں طرفوں میں سے پہلے ایک طرف بھڑک اٹھتی ہے جو اوپر کی طرف ہے پھر وہ اشتعال دوسری طرف میں جاتا ہے اور اُس حرکت کے وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا اُس اشتعال کا ایک خط مُمتد ہے اوراِسی کا نام شھاب ہے جو دخان کے خط مُمتد میں طرف اسفل کے قریب پیدا ہوتا ہے اور پھر جب اجزاء ارضیہ اُس دخان کی آتش خالص کی طرف مستحیل ہو جاتی ہیں تو بوجہ پیدا ہو جانے بساطت کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کبھی صحابہ کا یہ اعتقاد نہیں ہوا کہ روح القدس آپ سے جدا بھی ہو جاتا تھا اگر صحابہ یہ اعتقاد رکھتے تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر یک قول و فعل کو حجت دین نہ ٹھہراتے.یونانیوں کی تحقیق کی رُو سے شہب ثاقب کی کیفیت
یا مُشتبہ یہاں تک کہ جو کچھ آنحضرت صلعم کے خاص معاملات و مکالمات خلوت اور سرّ میں بیویوں سے تھے یا جس قدر اکل اور شرب اور لباس کے متعلق اور معاشرت کی ضروریات میں روز مرہ کے خانگی امور تھے سب اسی خیال سے احادیث میں داخل کئے گئے کہ وہ تمام کام اور کلام روح القدس کی روشنی سے ہیں چنانچہ ابو داؤد وغیرہ میں یہ حدیث موجود ہے اور امام احمد بچند وسائط عبداللہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ نے کہا کہ مَیں جوکچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتا تھا لکھ لیتا تھا تا مَیں اُس کو حفظ کر لوں.پس بعض نے مجھ کو منع کیا کہ ایسا مت کر کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں کبھی غضب سے بھی کلام کرتے ہیں تو مَیں یہ بات سن کر لکھنے سے دستکش ہو گیا.اور اس بات کا رسول اللہ صلعم کے پاس ذکر کیا.تو آپ نے فرمایا کہ اُس ذات کی مجھ کو قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ جو مجھ سے صادر ہوتا ہے خواہ قول ہو یا فعل وہ سب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اگر یہ کہا وہ عنصر نار نظر نہیں آتا اور دیکھنے والے کو یہ گمان گذرتا ہے کہ گویا وہ بُجھ گیا ہے حالانکہ دراصل وہ بُجھا نہیں ہے اور یہ صورت اُس وقت پیدا ہوتی ہے کہ جب دُخان لطیف ہو لیکن اگر غلیظ ہو تو اشتعال اُس آگ کا کئی دنوں اور برسوں تک رہتا ہے اور طرح طرح کی شکلوں میں وہ روشنی جو ستارہ کے رنگ پر ہے آسمان کے جو میں نظر آتی ہے کبھی ایسا دکھائی دیتا ہے کہ گویا دُمدار ستارہ ہے اور کبھی وہ دُم زلف کی شکل پر نظر آتی ہے کبھی وہ ناری ہیکل نیزہ کی صورت میں نمودار ہوتی ہے اور کبھی ایک حیوان کی طرح جو کئی سِینگ رکھتا ہے اور کبھی یہ ناری ہیکل بصور مختلفہ ایک برس تک یا کئی برسوں تک دکھائی دیتی ہے اور کبھی یہ ناری ہیکل ٹکڑے ٹکڑے ہو کر شہب ثاقبہ کی صورت میں آ جاتی ہے اور کبھی شہب ثاقبہ اس ناری ہیکل کی شکل قبول کر لیتے ہیں جب یہ ناری ہیکل قطب شمالی کے عین کنارہ پر نظر آتی ہے تو بسا اوقات بہ نسبت اور اطراف کے بہت دیر تک رہتی ہے اور اگر مدت دراز تک جناب رسالت مآب رسول اللہ صلعم کے تمام کام اور کلام یہاں تک کہ کیا کھاتے اور کیونکر کھاتے اور کیا پہنتے اور کیونکر پہنتے اور بیویوں کے فرائض اور حقوق کیونکر ادا کرتے ایسا ہی معاشرت کی تمام باتیں صحابہؓ اس نیت سے یاد رکھتے تھے اور حفظ کر لیتے تھے کہ یہ سب وحی ہے اور آنحضرت صلعم نے بھی یہی ارشاد فرمایا تھا
جائے کہ اُنہیں احادیث کی کتابوں میں بعض امور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجتہادی غلطی کا بھی ذکر ہے اگر کل قول و فعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وحی سے تھا تو پھر وہ غلطی کیوں ہوئی گو آنحضرت اس پر قائم نہیں رکھے گئے.تو اِس کا یہ جواب ہے کہ وہ اجتہادی غلطی بھی وحی کی روشنی سے دور نہیں تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے قبضہ سے ایک دم جدا نہیں ہوتے تھے پس اُس اجتہادی غلطی کی ایسی ہی مثل ہے جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں چند دفعہ سہو واقع ہوا تا اُس سے دین کے مسائل پیدا ہوں سو اسی طرح بعض اوقات اجتہادی غلطی ہوئی تا اُس سے بھی تکمیل دین ہو.اور بعض باریک مسائل اُس کے ذریعہ سے پیدا ہوں اور وہ سہو بشریت بھی تمام لوگوں کی طرح سہو نہ تھا بلکہ دراصل ہمرنگ وحی تھا کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص تصرّف تھا جو نبی کے وجود پر حاوی ہو کر اُس کو کبھی ایسی طرف موجود رہے تو اُس کی حرارت سے کئی ہولناک نتائج پیدا ہو جاتے ہیں.تاریخ کی رُو سے یہ بھی منقول ہے کہ حضرت مسیح کی گرفتاری کے بعد اوّل شہب ثاقبہ اور پھر ایک زمانہ آتش پورے ایک برس تک جو آسمانی میں دکھائی دیا اور آسمان پر سے ایک چیز خاکستر کی طرح برستی تھی اور دن کے نو بجے سے رات تک ایک سخت اندھیرا ہو جاتا تھا.غرض شہب اور دُمدار ستاروں کی اصلیت میں یونانیوں کے خیالات ہیں جو اسلام کے حکماء نے لے لئے اور اپنے تجارب کو بھی ان میں ملایا لیکن حال کی نئی روشنی کی تحقیقاتوں کا اُن سے بہت کچھ اختلاف ثابت ہوتا ہے ان ظنّی علوم میں یہ بات نہایت درجہ دل توڑنے والی ہے کہ آئے دن نئے نئے خیالات پیدا ہوتے ہیں.ایک زمانہ وہ تھا کہ یونان کی طبیعی اور ہیئت حکمت کے کمال تک پہنچنے کے لئے ایک صراطِ مستقیم سمجھی جاتی تھی اور اب یہ زمانہ ہے کہ اُن کی اکثر تحقیقاتوں پر ہنسا جاتا ہے آنحضرتؐ کی اجتہادی غلطی بھی وحی الٰہی کے ایک رنگ سے رنگین تھی اور اس اجتہادی غلطی میں بھی آنحضرت صلعم خدا تعالیٰ کے خاص تصرف اور خاص طور کے جذب میں مستغرق ہوتے تھے.فلسفی خیالات سخت بے ثبات اور بے تمکین ہیں
مائل کر دیتا تھا جس میں خدا تعالیٰ کے بہت مصالح تھے.سو ہم اُس اجہتادی غلطی کو بھی وحی سے علیحدہ نہیں سمجھتے کیونکہ وہ ایک معمولی بات نہ تھی بلکہ خدا تعالیٰ اس وقت اپنے نبی کو اپنے قبضہ میں لے کر مصالح عام کے لئے ایک نور کو سہو کی صورت میں یا غلط اجتہاد کے پیرایہ میں ظاہر کردیتا تھا اور پھر ساتھ ہی وحی اپنے جوش میں آ جاتی تھی جیسے ایک چلنے والی نہر کا ایک مصلحت کے لئے پانی روک دیں اور پھر چھوڑ دیں پس اس جگہ کوئی عقلمند نہیں کہہ سکتا کہ نہر سے پانی خشک ہو گیا یا اُس میں سے اٹھا لیا گیا.یہی حال انبیاء کی اجتہادی غلطی کا ہے کہ روح القدس تو کبھی اُن سے علیحدہ نہیں ہوتا.مگر بعض اوقات خدا تعالیٰ بعض مصالح کے لئے انبیاء کے فہم اور ادراک کو اپنے قبضہ میں لے لیتا ہے تب کوئی قول یا فعل سہو یا غلطی کی شکل پر اُن سے صادر ہوتا ہے اور وہ حکمت جو ارادہ کی گئی ہے ظاہر ہو جاتی ہے تب اور نہایت تحقیر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ہم یہ خیال نہ کریں کہ کچھ عرصہ کے بعد اس طبیعی اور ہیئت پر بھی ہنسی کرنے والے پیدا ہو جائیں گے کیونکہ گو دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس زمانہ کے طبعی اور ہیئت تجارب حسیہ مشہودہ مرئیہ کے ذریعہ سے ثابت کی گئی ہے مگر درحقیقت یہ دعویٰ نہایت درجہ کا مبالغہ ہے جس سے بعض خاص صورتوں کے مسائل یقینیہ میں اُن ہزارہا مشتبہ اور ظنّی اور غیر محقق خیالات کو خواہ نخواہ گھسیڑ دیا گیا ہے جس کا ابھی تک ہرگز ہرگز پورا پورا اور کامل طور پر کسی حکیم نے تصفیہ نہیں کیا.نئی روشنی کے محقق شہب ثاقبہ کی نسبت یہ رائے دیتے ہیں کہ وہ درحقیقت لوہے اور کوئلہ سے بنے ہوئے ہوتے ہیں جن کا وزن زیادہ سے زیادہ چند پونڈ ہوتا ہے اور دُمدار ستاروں کی مانند غول کے غول لمبے بیضوی دائرے بناتے ہوئے سورج کے اردگرد جو میں پھرتے ہیں.ان کی روشنی کی وجہ درحقیقت وہ حرارت ہے جو اُن کی تیزیء رفتار سے پیدا ہوتی ہے.اور دُمدار ستاروں کی نسبت اُن کا بیان ہے کہ بعض اُن میں سے کئی ہزار یہ دعویٰ بالکل بیہودہ اور بے اصل ہے کہ حال کے طبعی اور ہیئت کے تمام مباحث اور جمیع جُزئیات یقینی اور قطعی طور پر تجارب کے ذریعہ سے ثابت کئے گئے ہیں ہاں یہ سچ ہے کہ بعض مسائل تجارب کے ذریعہ سے کسی قدر صاف ہو گئے ہیں مگر ان کو باقی ماندہ مسائل کی طرف وہ نسبت ہے جو شاذونادر کو کثیر الوجود کی طرف ہوتی ہے.
پھر وحی کا دریازور سے چلنے لگتا ہے اور غلطی کو درمیان سے اٹھا دیا جاتا ہے گویا اُس کا کبھی وجود نہیں تھا.حضرت مسیح ایک انجیر کی طرف دوڑے گئے تا اُس کا پھل کھائیں اور روح القدس ساتھ ہی تھا مگر روح القدس نے یہ اطلاع نہ دی کہ اس وقت انجیر پر کوئی پھل نہیں.باایں ہمہ یہ سب لوگ جانتے ہیں کہ شاذونادر معدوم کے حکم میں ہوتا ہے.پس جس حالت میں ہمارے سیّد ومولیٰ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے دس۱۰ لاکھ کے قریب قول و فعل میں سراسر خدائی کا ہی جلوہ نظر آتا ہے اور ہر بات میں حرکات میں سکنات میں اقوال میں افعال میں روح القدس کے چمکتے ہوئے انوار نظر آتے ہیں تو پھر اگر ایک آدھ بات میں بشریت کی بھی بُو آوے تو اس سے کیا نقصان.بلکہ ضرور تھا کہ بشریت کے تحقق کے لئے کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تا لوگ شرک کی بلا میں مبتلا نہ ہو جائیں.سال رہتے ہیں اور آخر ٹوٹ کر شہاب بن جاتے ہیں.وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب آفتاب بُرج اسد میں یا میزان میں ہو تو اِن دونوں وقتوں میں کثرتِ شہب ثاقبہ کی توقع کی جاتی ہے اور اکثر ۳۳ سال کے بعد یہ دورہ ہوتا ہے لیکن یہ قاعدہ کلّی نہیں بسا اوقات اِن وقتوں سے پس و پیش بھی یہ حوادثات ظہور میں آ جاتے ہیں چنانچہ ۱۸۷۲ء میں ستاروں کا گرنا باقرار اِن ہیئت دانوں کے بالکل غیر مترقب امرتھا.اگرچہ ۱۴؍نومبر ۱۸۳۳ ء اور ۲۷؍نومبر ۱۸۸۵ ء کو کثرت سے یہ واقعہ ظہور میں آنا اُن کے قواعد مقررہ سے ملتا ہے لیکن تاریخ کے ٹٹولنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ نہایت فرق کے ساتھ اور ان تاریخوں سے بہت دور بھی وقوع میں آیا ہے چنانچہ دہم مارچ ۱۵۲۱ء اور ۱۹؍ جنوری ۱۱۳۵ء اور ماہ مئی ۶۱۰ء میں جو کثرت شہب ثاقبہ وقوع میں آئے اُس میں اِن تمام ہیئت دانوں کو بجُز سکتہ حیرت اور کوئی دم مارنے کی جگہ نہیں.اور وہ شہب ثاقبہ جو حضرت مسیح کی گرفتاری کے بعد ظہور میں آئے اور پھر ایک دُمدار ستارہ کی صورت میں ہو گئے.اگرچہ اب ہم پوری صحت کے ساتھ اُس کی مسیح جس کی نسبت حال کے کم فہم مولوی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہر وقت جبرائیل اس کے ساتھ رہتا تھا ان کی اجتہادی غلطیاں انجیل کی رُو سے ثابت ہیں مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ایک قول و فعل اور حرکت اور سکون میں خدائی کا ہی جلوہ نظر آتا ہے حال کے نادان مولوی مسیح کی نسبت دوام قرب روح القدس کا صرف ایک آیت کے لحاظ سے یقین رکھتے ہیں مگر اس آیت سے وضاحت اور تفصیل اور دلالت میں بڑھ کر ہمارے نبی صلعم کے حق میں یہ آیت ہے.3۱ افسوس کہ یہ آنکھوں کہ اندھے اس صاف اور صریح آیت پر نظر نہیں ڈالتے.
بالآ خر ہم چند اقوال پر اِس مضمون کو ختم کرتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سلف صالح کا ہرگز یہ عقیدہ نہ تھا کہ روح القدس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر خاص خاص وقتوں پر نازل ہوتا تھا اور دوسرے اوقات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُس سے نعوذ باللہ بکلی محروم ہوتے تھے از انجملہ وہ قول ہے جو شیخ عبدالحق محدّث دہلوی نے اپنی کتاب مدارج النبوّۃ کے صفحہ ۴۲ میں لکھا ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ ملائک وحی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دائمی رفیق اور قرین ہیں چنانچہ وہ جامع الاصول اور کتاب الوفا سے نقل کرتے ہیں کہ ابتدائے نبوت سے تین برس برابر حضرت اسرافیل ملازم صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رہے اور پھر حضرت جبرائیل دائمی رفاقت کے لئے آئے اور بعد اس کے صاحب سفر السعادت سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سات سال کے تھے جب حضرت اسرافیل کو اللہ جلّ شانہٗ کی طرف سے کوئی تاریخ مقرر نہیں کر سکتے مگر قیاسًا معلوم ہوتا ہے کہ اس حادثہ کی ابتدا جُون کے مہینہ سے ہو گی کیونکہ گو ہم اِس پرانے واقعہ کی تشخیص میں عیسائیوں کے مختلف فیہ بیانات سے کوئی عمدہ فائدہ نہیں اٹھا سکتے مگر استنباط کے طور پر یہ پتہ ملتا ہے کہ حضرت مسیح جب یہودیوں کے ہاتھ میں گرفتار ہوئے تب شدّت گرمی کا مہینہ تھا کیونکہ گرفتاری کی حالت میں اُن کا سخت پیاسا ہونا صاف ظاہر کر رہا ہے کہ موسم کا یہی تقاضا تھا کہ گرمی اور پیاس محسوس ہو.سو وہ مہینہ جون ہے کیونکہ اُس وقت ایک سخت آندھی بھی آئی تھی جس کے ساتھ اندھیرا ہو گیا تھا اور جون کے مہینہ میں اکثر آندھیاں بھی آتی ہیں.اب اِس تمام تحقیقات سے معلوم ہوا کہ درحقیقت کائنات الجوّ بالخصوص شہب ثاقبہ اور دُمدار ستاروں کے بارے میں کوئی قطعی اور یقینی طریقِ بصیرت ہیئت دانوں اور طبعی والوں کو اب تک ہاتھ میں نہیں آیا جب کبھی اُن کے قواعد شیخ عبدالحق صاحب محدث دہلوی نے بحوالہ کتاب الوفا و شہادۃ صاحب سفر السعادۃ وغیرہ لکھا ہے کہ آنحضرت صلعم سے ملائک وحی جدا نہیں ہوتے تھے اور آنحضرت کے لئے جبرائیل علیہ السلام دائمی قرین تھا.شہب ثاقبہ وغیرہ امور کی نسبت یورپ کی نئی تحقیقاتیں پوری تحقیق کے مینار تک ہرگز نہیں پہنچیں اور شبہات سے پُر ہیں
حکم ہوا کہ آنحضرت صلعم کے ملازم خدمت رہیں پس اسرافیل ہمیشہ اور ہروقت آنحضرت صلعم کے پاس رہتا تھا اور آنحضرت صلعم کی عمر کا گیارھواں سال پوا ہونے تک یہی حال تھا مگر اسرافیل بجُز کلمہ دو کلمہ کے اور کوئی بات وحی کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں نہیں ڈالتا تھا ایسا ہی میکائیل بھی آنحضرت کا قرین رہا.پھر بعد اس کے حضرت جبرائیل کو حکم ہوا اور وہ پورے اُنتیس سال قبل از وحی ہر وقت قرین اور مصاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے.پھر بعد اس کے وحی نبوت شروع ہوئی.اِس بیان سے ہر یک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ جن بزرگوں نے مثلًا حضرت جبرائیل کی نسبت لکھا ہے کہ وہ نبوت سے پہلے بھی انتیس سال تک ہمیشہ اور ہر وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی رفیق تھا اُن کا ہرگز یہ عقیدہ نہیں ہو سکتا تھا کہ جبرائیل کسی وقت آسمان پر بھی چلا جاتا تھا تراشیدہ کے برخلاف کوئی امر ظہور میں آتا ہے تو ایک سخت پریشانی اور حیرت اُن کو لاحق ہو جاتی ہے اور گھبراہٹ کا ایک غل غپاڑہ اُن میں اٹھتا ہے.یورپ کے ہیئت دان اور سائنس اور نجوم میں بڑی بڑی لافیں مارنے والے ہمیشہ کائنات الجوّ اور اُن کے نتائج کے بارہ میں پیشگوئیاں ایک بڑے دعوے کے ساتھ شائع کیا کرتے ہیں اور کبھی لوگوں کو قحط سالیوں سے ڈراتے اور طوفانوں اور آندھیوں کی پیش خبری سے دھڑکے میں ڈالتے اور کبھی بروقت کی بارشوں اور ارزانی کی امیدیں دیتے ہیں مگر قدرتِ حق ہے کہ اکثر وہ اُن خبروں میں جھوٹے نکلتے ہیں مگر بایں ہمہ پھر بھی لوگوں کے دماغوں کو ناحق پریشان کرتے رہتے ہیں یوں تو وہ اپنے فکروں کو دور تک پہنچا کر خدائے عزّ و جلّ کی خدائی میں ہاتھ ڈالنا چاہتے ہیں مگر حکمتِ ازلی ہمیشہ اُن کو شرمندہ کرتی ہے.اب ظاہر ہے کہ جن لوگوں کی فاش خطا ہمیشہ ثابت ہوتی رہتی ہے اُن کی نسبت کیونکر گمان کرسکتے ہیں کہ جو کچھ انہوں نے نظام اور سائنس کے یہ بات ثابت ہو چکی ہے اور اکابر اُمت میں سے کوئی اس سے منکر نہیں کہ وحی کا زمانہ تو وحی کا زمانہ ہے اس زمانہ سے پہلے بھی ملایک وحی ہر دم اور ہر وقت آنحضرت صلعم کے ساتھ ساتھ رہے ہیں چنانچہ حضرت جبرائیل انتیس سال تک برابر قبل از وحی قرآن ہر دم قرین اور مصاحب تھے اور یہ بات بالکل خلاف قیاس ہے کہ جب وحی قرآن کا نزول نہیں تھا اس وقت تو فرشتہ جبرائیل ہر وقت اور ہر لحظہ حاضر اور قرین رہے اور جب وحی قرآن کا وقت آیا اور دوام قرب کی ضرورتیں بھی پیش آئیں تب جبرائیل اپنی پہلی عادت کو ترک کر دیوے ا ور تنہا چھوڑ کر آسمان پر چلا جانا اور پھر بسا اوقات کئی مہینے منہہ نہ دکھلانا اختیار کر لیوے
کیو نکہ کسی وقت چھوڑ کر چلا جانا دوام قرب اور معیت غیر منقطع کے منافی ہے لیکن جب ان بزرگوں کا دوسرا عقیدہ بھی دیکھا جائے کہ جبرائیل علیہ السلام کا قرار گاہ آسمان ہی ہے اور وہ ہر ایک وحی آسمان سے ہی لاتا ہے تو اِن دونوں عقیدوں کے ملانے سے جو تناقض پیدا ہوتا ہے اِس سے رہائی پانے کے لئے بجُز اِس کے اور کوئی راہ نہیں مل سکتی کہ یہ اعتقاد رکھا جائے کہ جبرائیل علیہ السلام کا آسمان سے اترنا حقیقی طور پر نہیں بلکہ تمثلیہے اور جب تمثلی طور پر اترنا ہوا تو اِس میں کچھ حرج نہیں کہ جبرائیل علیہ السلام اپنے تمثلی وجود سے ہمیشہ اور ہر وقت اور ہر دم اور ہر طرفۃ العین انبیاء علیہم السلام کے ساتھ رہے کیونکہ وہ اپنے اصلی وجود کے ساتھ تو آسمان پر ہی ہے اور اِسی مذہب کی تصدیق اور تصویب شیخ عبدالحق محدّث دہلی نے اپنی کتاب مدارج النبوۃ کے صفحہ ۴۵ میں کی ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ نزول جبرائیل بارے میں اب تک دریافت کیا ہے وہ سب یقینی ہے ہمیں تو اُن کے اکثر معلومات کا ظنّی مرتبہ ماننے میں بھی شرم آتی ہے کیونکہ اب تک اُن کے خیالات میں بے اصل اور بے ثبوت باتوں کا ذخیرہ بڑھا ہوا ہے.اس وقت امام رازی رحمۃ اللہ کا یہ قول نہایت پیارا معلوم ہوتا ہے کہ من اراد ان یکتال مملکۃ الباری بمکیال العقل فقد ضلّ ضلالاًبعیدًا.یعنی جو شخص خدا تعالیٰ کے ملک کو اپنی عقل کے پیمانہ سے ناپنا چاہے تو وہ راستی اور صداقت اور سلامت روی سے دور جا پڑا.اب اِس عاجز پر خداوند کریم نے جو کچھ کھولا اور ظاہر کیا وہ یہ ہے کہ اگر ہیئت دانوں اور طبعی والوں کے قواعد کسی قدر شہب ثاقبہ اور دُمدار ستاروں کی نسبت قبول بھی کئے جائیں تب بھی جو کچھ قرآن کریم میں اللہ جلّ شانہٗ و عزّ اسمہ‘نے اِن کائنات الجوّ کی روحانی اغراض کی نسبت بیان فرمایا ہے اُس میں اور ان ناقص العقل حکماء کے بیان میں کوئی مزاحمت اور جھگڑا نہیں کیونکہ ان لوگوں نے تو اپنا منصب صرف اس قدر شیخ عبدا الحق محدث دہلوی نے اپنی کتاب مدارج النبوۃ میں اسی مذہب کی تصدیق اور تصویب کی ہے کہ جبرائیل ؑ وحی لے کر آسمان سے اپنے وجود اصلی کے ساتھ اترتا نہیں بلکہ وہ ہمیشہ آسمان پر اپنی قرارگاہ میں ثابت اور قائم رہتا ہے ہاں اُس کی تمثلی صورت بقدرت حق تعالیٰ نمودار ہو جاتی ہے اور اس کی تبلیغ وحی کرتی ہے.
جو بعض اوقات دحیہ کلبی کی صورت میں یا کسی اور انسان کی صورت میں ہوتا تھا اس میں اہل نظر کو اشکال ہے اور یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ اگر درحقیقت جبرائیل علیہ السلام ایک نیا جسم اپنے لئے مشابہ جسم دحیہ کلبی حاصل کر کے اس میں اپنا روح داخل کر دیتے تھے تو پھر وہ اصلی جسم انکا جس کے تین۳۰۰ سو جناح ہیں کس حالت میں ہوتا تھا کیا وہ جسد بے روح پڑا رہتا تھا اور حضرت جبرائیل فوت ہو کر پھر بطریق تناسخ دوسرے جسم میں آ جاتے تھے.اس کے جواب میں وہ لکھتے ہیں کہ اہل تحقیق کے نزدیک یہ تمثلی نزول ہے نہ حقیقی تا حقیقتاً ایک جسم کو چھوڑنا اور دوسرے جسم میں داخل ہونا لازم آوے.پھر لکھتے ہیں بات یہ ہے کہ جبرائیل علیہ السلام کے ذہن میں جو دحیہ کلبی کی صورت علمیہ تھی تو حضرت جبرائیل علیہ السلام بوجہ قدرت کاملہ و اردات شاملہ اپنی کے اس صورت پر اپنے وجود قرار دیا ہے کہ عللِ مادیہ اور اسبابِ عادیہ اِن چیزوں کے دریافت کر کے نظامِ ظاہری کا ایک باقاعدہ سلسلہ مقرر کردیا جائے.لیکن قرآن کریم میں روحانی نظام کا ذکر ہے اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کا ایک فعل اُس کے دوسرے فعل کا مزاحم نہیں ہوسکتا پس کیا یہ تعجب کی جگہ ہوسکتی ہے کہ جسمانی اور روحانی نظام خدا تعالیٰ کی قدرت سے ہمیشہ ساتھ ساتھ رہیں بالخصوص جس حالت میں ہمیشہ ربّانی مصلح دنیا میں آتے رہتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے بڑے بڑے ارادوں کی حرکت شروع رہتی ہے اور کوئی صدی ایسی نہیں آتی کہ جو دنیا کے کسی نہ کسی حصہ میں اِن اُمور میں سے کسی امر کا ظہور نہ ہو تو اس بات کے ماننے کیلئے ذرہ بھی استبعاد باقی نہیں رہتا کہ کثرت شہب وغیرہ روحانی طور پر ضرور خدا تعالیٰ کے اِس روحانی انتظام کے تجدد اور حدوث پر دلالت کرتے ہیں جو الٰہی دین کی تقویت کیلئے ابتداء سے چلا آتا ہے خاص کر جب اس بات کو ذہن میں خوب یاد رکھا جائے کہ کثرت سقوطِ شہب وغیرہ صرف اسی امر سے براہ راست شیخ عبدالحق صاحب محدث دہلوی کی اپنی یہ ذاتی رائے ہے کہ حق بات یہی ہے کہ حضرت جبرائیل اپنے اصلی وجود کے ساتھ وحی لے کر ہرگز نازل نہیں ہوتے اور نہ زمین ان کے اصلی وجود کی گنجایش رکھتی ہے بلکہ تمام محقق اسی طرف گئے ہیں کہ جبرائیلؑ آسمان پر ہی رہتے ہیں اور زمین پر وہ اپنی تمثلی صورت کو ظاہر کر دیتے ہیں جیسے مکمل اولیاء کی یہ کرامت ثابت ہوئی کہ انہوں نے ایک جگہ رہ کر دوسری جگہ تمثلی طور پر اپنے وجود کو دکھلا دیا ہے اور لکھتے ہیں کہ جبرائیل پر کچھ موقوف نہیں تمام ملائکہ کا نزول درحقیقت تمثلی طور پر ہی ہوتا ہے او ر وہ اپنے اصلی مقامات کو نہیں چھوڑتے اور تمثلی طور پر زمین پر بھی نظر آ جاتے ہیں جیسے حضرت جبرائیل مریم صدیقہ کو تمثلی طور پر نظر آ گئے اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے 3.۱ مریم :۱۸ بقیہ حاشیہ
کا ا فاضہ مع جمیع صفات کاملہ اپنی کے کر کے تمثل کے طور پر اس میں اپنے تئیں ظاہر کردیتے تھے یعنی دحیہ کلبی کی صورت میں بطور تمثل اپنے تئیں دکھلا دیتے تھے اور اس صورت علمیہ کو اپنی صفات سے متلبّس کر کے نبی علیہ السلام پر تمثلاً ظاہر کردیتے تھے یہ نہیں کہ جبرائیل ؑ آپ اپنے اصلی وجود کے ساتھ آسمان سے اترتا تھا بلکہ جبرائیل علیہ السلام اپنے مقام پر آسمان میں ثابت و قائم رہتا تھا اور یہ جبرائیل اس حقیقی جبرائیل کی ایک مثال تھی یعنی اس کا ایک ظلّ تھا اس کا عین نہیں تھا کیونکہ عین جبرائیل تو وہ ہے جو اپنی صفات خاصہ کے ساتھ آسمان پر موجود ہے اور اس کی حقیقت اور شان الگ ہے.پھر اس قدر تحریر کے بعد شیخ صاحب موصوف لکھتے ہیں کہ جس طرح جبرائیل علیہ السلام تمثلیصورت میں نہ حقیقی صورت میں نازل ہوتا رہا ہے.یہی مثال روحانیات کی ہے جو بصورت جسمانیات متمثل ہوتی ہیں اور یہی مثال خدا تعالیٰ کے مخصوص نہیں کہ کوئی نبی یا وارث نبی اصلاح دین کیلئے پیدا ہو بلکہ اس کے ضمن میں یہ بات بھی داخل ہے کہ اس نبی یا وارث اور قائم مقام نبی کے ارہاصات پر بھی کثرت شہب ہوتی ہے بلکہ اس کی نمایاں فتوحات پر بھی کثرت سقوط شہب ہوتی ہے کیونکہ اس وقت رحمان کا لشکر شیطان کے لشکر پر کامل فتح پالیتا ہے.پس جب ایسے بڑے بڑے امور پیدا ہونے لگتے ہیں کہ اس نبی یا وارث نبی کیلئے بطور ارہاص ہیں یا اس کی کارروائیوں کے اول درجہ پر ممد اور معاون ہیں یا اس کی فتح یابی کے آثار ہیں تو ان کے قرب زمانہ میں بھی کثرت سقوط شہب وغیرہ حوادث وقوع میں آجاتے ہیں تو اس صورت میں ہر یک غبی کو بھی یہ بات صفائی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ درحقیقت یہ کثرت سقوط شہب روحانی سلسلہ کی متفرق خدمات کیلئے اور ان کے اول یا آخر یا درمیان میں آتی ہے اور وہ سلسلہ ہمیشہ جاری ہے اور جاری رہے گا.مثلاً حال کے یورپ کے ہئیت دان جو ۲۷ ؍نومبر ۱۸۸۵ ء کے شہب یا انیسویں صدی کے دوسرے واقعات شہب کا ذکر کرتے ہیں اور ان پر ایسا زور دیتے ہیں کہ
تمثل کی بھی ہے جو اہل کشف کو صورت بشر پر نظر آتا ہے اور یہی مثال مکمل اولیا کی ہے جو مواضع متفرقہ میں بصور متعددہ نظر آجاتے ہیں.خدا تعالیٰ شیخ بزرگ عبدالحق محدث کو جزاء خیر دیوے کیونکہ انہوں نے بصدق دل قبول کر لیا کہ جبرائیل علیہ السلام بذات خود نازل نہیں ہوتا بلکہ ایک تمثلیوجود انبیاء علیہم السلام کو دکھائی دیتا ہے اور جبرائیل اپنے مقام آسمان میں ثابت و برقرار ہوتا ہے.یہ وہی عقیدہ اس عاجز کا ہے جس پر حال کے کور باطن نام کے علماء کفر کا فتویٰ دے رہے ہیں افسوس کہ یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ اس بات پر تمام مفسرین نے اور نیز صحابہ نے بھی اتفاق کیا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام اپنے حقیقی وجود کے ساتھ صرف دو مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھائی دیا ہے اور ایک بچہ بھی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ اگر وہ اپنے اصلی اور حقیقی گویا ان کے پاس سب سے بڑھ کر یہی نظیریں ہیں وہ ذرہ غور سے سمجھ سکتے ہیں کہ اس صدی کے اواخر میں جو روحانی سلسلہ کے بڑے بڑے کام ظہور میں آنے والے تھے اور خدا تعالیٰ اپنے ایک بندہ کے توسط سے دین توحید کے تازہ کرنے کیلئے ارادہ فرما رہا تھا اس لئے اس نے اس انیسویں صدی عیسوی میں کئی دفعہ کثرت سقوط شہب کا تماشہ دکھلایا تا وہ امر موکد ہوجاوے جس کا قطعی طور پر اس نے ارادہ فرما دیا ہے.اور اگر یہ سوال کیا جائے کہ اس تساقط شہب کو جس کے اسباب بتمامہا بظاہر مادی معلوم ہوتے ہیں رجم شیاطین سے کیا تعلق ہے اور کیونکر معلوم ہو کہ درحقیقت اس حادثہ سے شیاطین آسمان سے دفع اور دور کئے جاتے ہیں.اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایسے اعتراض درحقیقت اس وقت پیدا ہوتے ہیں کہ جب روحانی سلسلہ کی یاد داشت سے خیال ذہول کر جاتا ہے یا اس سلسلہ کے وجود پر یقین نہیں ہوتا ورنہ جس شخص کی دونوں سلسلوں پر نظر ہے وہ بآسانی سمجھ سکتا ہے اس بات پرصحابہ کا اتفاق ہے کہ جبرائیل صرف دو مرتبہ اپنی اصلی صورت میں آسمان پر آنحضرت ؐ کو دکھائی دیا ہے اور زمین پر ہمیشہ تمثلی حالت میں دکھائی دیتا رہا ہے اس سوال کا جواب کہ تساقط شہب کو رجم شیاطین سے کیا تعلق ہے
وجو د کے ساتھ آنحضرت صلعم کے پاس آتے تو خود یہ غیر ممکن تھا کیونکہ ان کا حقیقی وجود تو مشرق مغرب میں پھیلا ہوا ہے اور ان کے بازو آسمانوں کے کناروں تک پہنچے ہوئے ہیں پھر وہ مکہ یا مدینہ میں کیونکر سما سکتے تھے.جب تم حقیقت اور اصل کی شرط سے جبرائیل کے نزول کا عقیدہ رکھو گے تو ضرور تم پر یہ اعتراض وارد ہوگا کہ وہ اصلی وجود کیونکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ میں سما گیا اور اگر کہو کہ وہ اصلی وجود نہیں تھا تو پھر ترک اصل کے بعد تمثل ہی ہوا یا کچھ اور ہوا اصل کا نزول تو اس حالت میں ہو کہ جب آسمان میں اس وجود کا نام و نشان نہ رہے اور جب آسمان سے وہ وجود نیچے اتر آیا تو پھر ثابت کرنا چاہیئے کہ کہاں اس کے ٹھہرنے کی گنجائش ہوئی.غرض یہ خیال کہ جبرائیل اپنے اصلی وجود کے ساتھ زمیں پر اتر آتا تھا بدیہی البطلان ہے.خاص کر جب دوسری شق کی طرف نظر کریں اور اِس کہ اجرام علوی اور اجسام سفلی اور تمام کائنات الجو میں جو کچھ تغیر اور تحول اور کوئی امر مستحدث ظہور میں آتا ہے اس کے حدوث کی درحقیقت دو علتیں یعنی موجب ہیں.اول.پہلے تو یہی سلسلہ علل نظام جسمانی جس سے ظاہری فلسفی اور طبعی بحث اور سروکار رکھتا ہے اور جس کی نسبت ظاہر بین حکماء کی نظریہ خیال رکھتی ہے کہ وہ جسمانی علل اور معلولات اور موثرات اور متاثرات سے منضبط اور ترتیب یافتہ ہے.دوم.دوسرے وہ سلسلہ جو ان ظاہر بین حکماء کی نظر قاصر سے مخفی ہے اور وہ خدا تعالیٰ کے ملائک کا سلسلہ ہے جو اندر ہی اندر اس ظاہری سلسلہ کو مدد دیتا ہے اور اس ظاہری کاروبار کو انجام تک پہنچا دیتا ہے اور بالغ نظر لوگ بخوبی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ بغیر تائید اس سلسلہ کے جو روحانی ہے ظاہری سلسلہ کا کام ہرگز چل ہی نہیں سکتا.اگرچہ ایک ظاہر بین فلاسفر اسباب کو موجود پا کر خیال کرتا ہے کہ فلاں نتیجہ ان اسباب کیلئے ضروری ہے مگر ایسے لوگوں کو ہمیشہ شرمندہ ہونا پڑتا ہے.تمام تغیرات اجرام علوی اور اجسام سفلی کے لئے دو موجب ہیں
فساد کو دیکھیں کہ ایسا عقیدہ رکھنے سے یہ لازم آتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام اکثر اوقات فیض وحی سے محروم اور معطل رہیں تو پھر نہایت بے شرمی ہوگی کہ اس عقیدہ کا خیال بھی دل میں لاویں.شیخ عبدالحق محدّث دہلوی مدارج النّبوت کے صفحہ ۸۳ میں لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام کلمات و حدیث وحی خفی ہیں باستثناء چند مواضع یعنی قصہ اسارائے بدرو قصہ ماریہ و عسل و تابیر نخل جو نادر اور حقیر ہیں.اور پھر اسی صفحہ میں لکھتے ہیں کہ اوزاعی حسان بن عطیہ سے روایت کرتا ہے کہ نزول جبرائیل قرآن سے مخصوص نہیں بلکہ ہریک سنت نزول جبرائیل سے ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد بھی وحی میں سے ہے.اور پھر صفحہ ۸۷ میں لکھتے ہیں کہ صحابہ آنحضرت صلعم کے ہریک قول و فعل قلیل و کثیر و صغیر و کبیر کو وحی سمجھتے تھے.اور اُس پر عمل کرنے میں جبکہ باوجود اجتماع اسباب کے نتیجہ برعکس نکلتا ہے یا وہ اسباب اپنے اختیار اور تدبیر سے باہر ہوجاتے ہیں مثلاً ایک طبیب نہایت احتیاط سے ایک بیمار بادشاہ کا علاج کرتا ہے یا مثلاً ایک گروہ طبیبوں کا ایسے مریض کیلئے دن رات تشخیص مرض اور تجویز دوا اور تدبیر غذا میں ایسا مصروف ہوتا ہے کہ اپنے دماغ کی تمام عقل اس پر خرچ کردیتا ہے مگر جب کہ اس بادشاہ کی موت مقدر ہوتی ہے تو وہ تمام تجویزیں خطا جاتی ہیں اور چند روز طبیبوں اور موت کی لڑائی ہو کر آخر موت فتح پاتی ہے اس طور کے ہمیشہ نمونے ظاہر ہوتے رہتے ہیں مگر افسوس کہ لوگ ان کو غور کی نظر سے نہیں دیکھتے بہرحال یہ ثابت ہے کہ قادر مطلق نے دنیا کے حوادث کو صرف اسی ظاہری سلسلہ تک محصور اور محدود نہیں کیا بلکہ ایک باطنی سلسلہ ساتھ ساتھ جاری ہے.اگر آفتاب ہے یا ماہتاب یا زمین یا وہ بخارات جن سے پانی برستا ہے یا وہ آندھیاں جو زور سے آتی ہیں یا وہ اولے جو زمین پر گرتے ہیں یا وہ شہب ثاقبہ جو ٹوٹتے ہیں اگرچہ یہ تمام چیزیں اپنے کاموں اور تمام تغیرات اور تحولات اور حدوثات سلف صالح کا یہ مذہب تھا کہ آنحضرت صلعم کی تمام عمر کے اقوال و افعال وحی سے ہیں
کچھ تو ّ قف اور بحث نہیں کرتے تھے اور حرص رکھتے تھے کہ جو کچھ آنحضرت صلعم سرّ اور خلوت میں کرتے ہیں وہ بھی معلوم کر لیں.پس کچھ شک نہیں کہ جو شخص احوال صحابہ میں تامل کرے کہ وہ کیونکر ہریک امر اور قول اور فعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حجت دین سمجھتے تھے اور کیونکر وہ آنحضرت ؐ کے ہریک زمانہ اور ہریک وقت اور ہریک دم کو وحی میں مستغرق جانتے تھے.تو اس اعتقاد کے رکھنے سے کہ کبھی جبرائیل حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر آسمان پر چلا جاتا تھا خدا تعالیٰ سے شرم کرے گا اور ڈرے گا کہ ایسا وہم بھی اس کے دل میں گذرے مگر افسوس کہ ہمارے یہ علماء جو محدث بھی کہلاتے ہیں کچھ بھی ڈرتے نہیں اگر ان کے ایسے عقیدوں کو ترک کرنا کفر ہے تو ایسا کفر اگر ملے تو زہے سعادت.ہم ان کے ایسے ایمان سے سخت بیزار ہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف ان کے ایسے اقوال سے میں ظاہری اسباب بھی رکھتی ہیں جن کے بیان میں ہیئت اور طبعی کے دفتر بھرے پڑے ہیں لیکن با ایں ہمہ عارف لوگ جانتے ہیں کہ ان اسباب کے نیچے اور اسباب بھی ہیں جو مدبر بالارادہ ہیں جن کا دوسرے لفظوں میں نام ملائک ہے وہ جس چیز سے تعلق رکھتے ہیں اس کے تمام کاروبار کو انجام تک پہنچاتے ہیں اور اپنے کاموں میں اکثر ان روحانی اغراض کو مدنظر رکھتے ہیں جو مولیٰ کریم نے ان کو سپرد کی ہیں اور ان کے کام بے ہودہ نہیں بلکہ ہر ایک کام میں بڑے بڑے مقاصد ان کو مدنظر رہتے ہیں.اب جبکہ یہ بات ایک ثابت شدہ صداقت ہے جس کو ہم اس سے پہلے بھی کسی قدر تفصیل سے لکھ چکے ہیں اور ہمارے رسالہ توضیح مرام میں بھی یہ تمام بحث نہایت لطافت بیان سے مندرج ہے کہ حکیم مطلق نے اس عالم کے احسن طور پر کاروبار چلانے کیلئے دو نظام رکھے ہوئے ہیں اور باطنی نظام فرشتوں کے متعلق ہے اور کوئی جز ظاہری نظام کی ایسی نہیں جس کے ساتھ درپردہ باطنی نظام نہ ہو تواس صورت میں
داد خواہ ہیں جن کی وجہ سے سخت اہانت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفوں میں ہو رہی ہے ان لوگوں کے حق میں کیا کہیں اور کیا لکھیں جنہوں نے کفار کو ہنسی اور ٹھٹھہ کا موقع دیا اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ کو حضرت عیسیٰ کی نسبت ایسا اور اس قدر گھٹا دیا کہ جس کے تصور سے بدن پر لرزہ پڑتا ہے.اب پھر ہم مبحث حقیقتِ اسلام کی طرف رجوع کر کے لکھتے ہیں کہ دراصل یہ حقیقت اسلامیہ جس کی تعلیم قرآن کریم فرماتا ہے کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام اسی حقیقت کے ظاہر کرنے کے لئے بھیجے گئے تھے اور تمام الٰہی کتابوں کا یہی مدعا رہا ہے کہ تا بنی آدم کو اس صراط مستقیم پر قائم کریں لیکن قرآن کریم کی تعلیم کو جو دوسری تعلیموں پر کمال درجہ کی فوقیت ہے تو اس کی دو وجہ ہیں.ایک مسترشد بڑی آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ شہب ثاقبہ کے تساقط کا ظاہری نظام جن علل اور اسباب پر مبنی ہے وہ علل اور اسباب روحانی نظام کے کچھ مزاحم اورسدِر اہ نہیں اور روحانی نظام یہ ہے کہ ہریک شہاب جو ٹوٹتا ہے دراصل اس پر ایک فرشتہ موکل ہوتا ہے جو اس کو جس طرف چاہتا ہے حرکت دیتا ہے چنانچہ شہب کی طرز حرکات ہی اس پر شاہد ہے اور یہ بات صاف ظاہر ہے کہ فرشتہ کا کام عبث نہیں ہوسکتا اس کی تحت میں ضرور کوئی نہ کوئی غرض ہوگی جو مصالح دین اور دنیا کیلئے مفید ہو لیکن ملائک کے کاموں کے اغراض کو سمجھنا بجز توسط ملائک ممکن نہیں سو بتوسط ملائک یعنی جبرائیل علیہ السلام آخر الرسل صلی اللہ علیہ وسلم پر یہی ظاہر ہوا کہ ملائک کے اس فعل رمی شہب سے علت غائی رجمِ شیاطین ہے.اور یہ بھید کہ شہب کے ٹوٹنے سے کیونکر شیاطین بھاگ جاتے ہیں اس کا سر روحانی سلسلہ پر نظر کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شیاطین اور ملائک کی عداوت ذاتی ہے.مبحث حقیقت اسلام کا بقیہ حصہ
اوّل یہ کہ پہلے نبی اپنے زمانہ کے جمیع بنی آدم کیلئے مبعوث نہیں ہوتے تھے بلکہ وہ صرف اپنی ایک خاص قوم کیلئے بھیجے جاتے تھے جو خاص استعداد میں محدود اور خاص طور کے عادات اور عقائد اور اخلاق اور روش میں قابل اصلاح ہوتے تھے پس اس وجہ سے وہ کتابیں قانون مختص القوم کی طرح ہو کر صرف اسی حد تک اپنے ساتھ ہدایت لاتی تھیں جو اس خاص قوم کے مناسب حال اور ان کے پیمانہ استعداد کے موافق ہوتی تھی.دوسری وجہ یہ کہ ان انبیاء علیہم السلام کو ایسی شریعت ملتی تھی جو ایک خاص زمانہ تک محدود ہوتی تھی اور خدا تعالیٰ نے ان کتابوں میں یہ ارادہ نہیں کیا تھا کہ دنیا کے اخیر تک وہ ہدایتیں جاری رہیں اس لئے وہ کتابیں قانون مختص الزمان کی طرح ہو کر صرف اسی زمانہ کی حد تک ہدایت لاتی تھیں جو ان کتابوں کی پابندی کا زمانہ حکمت الٰہی نے پس ملائک ان شہب کے چھوڑنے کے وقت جن پر وہ ستاروں کی حرارت کا بھی اثر ڈالتے ہیں اپنی ایک نورانی طاقت جوّ میں پھیلاتے ہیں اور ہریک شہاب جو حرکت کرتا ہے وہ اپنے ساتھ ایک ملکی نور رکھتا ہے کیونکہ فرشتوں کے ہاتھ سے برکت پا کر آتا ہے اور شیطان سوزی کا اس میں ایک مادہ ہوتا ہے.پس یہ اعتراض نہیں ہوسکتا کہ جنات تو آگ سے مخلوق ہیں وہ آگ سے کیا ضرر اٹھائیں گے.کیونکہ درحقیقت جس قدر رمی شہب سے جنات کو ضرر پہنچتا ہے اس کا یہ ظاہری موجب آگ نہیں.بلکہ وہ روشنی موجب ہے جو فرشتہ کے نور سے شہب کے ساتھ شامل ہوتی ہے جو بالخاصیّت مُحرق شیاطین ہے.اس ہماری تقریر پر کوئی یہ اعتراض نہ کرے کہ یہ تمام تقریر صرف بے ثبوت خیالات اور غایت کار خطابیات میں سے ہے جس کا معقولی طور پر کوئی بھی ثبوت نہیں کیونکہ ہم اس بات کو بخوبی ثابت کرچکے ہیں کہ اس عالم کی حرکات اور حوادث خودبخود نہیں اور نہ بغیر مرضی مالک اور نہ عبث اور بے ہودہ ہیں بلکہ درپردہ تمام
اند ازہ کررکھا تھا.یہ دونوں قسم کے نقص جو ہم نے بیان کئے ہیں قرآن کریم بکلّی ان سے مبرّا ہے کیونکہ قرآن کریم کے اتارنے سے اللہ جلّ شانہٗ کا یہ مقصد تھا کہ وہ تمام بنی آدم اور تمام زمانوں اور تمام استعدادوں کی اصلاح اور تکمیل اور تربیت کرسکے اور اسلام کی پوری شکل اور پوری عظمت بنی آدم پر ظاہر ہو اور اس کے ظہور کا وقت بھی آپہنچا تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے قرآن مجید کو تمام قوموں اور تمام زمانوں کیلئے جو قیامت تک آنے والے تھے ایک کامل اور جامع قانون کی طرح نازل فرمایا اور ہریک درجہ کی استعداد کیلئے افادہ اور افاضہ کا دروازہ کھول دیا جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے 33 333.۱ اجرام علوی اور اجسام سفلی کیلئے منجانب اللہ مدبر مقرر ہیں جن کو دوسرے لفظوں میں ملائک کہتے ہیں اور جب تک کوئی انسان پابند اعتقاد وجود ہستی باری ہے اور دہریہ نہیں اس کو ضرور یہ بات ماننی پڑے گی کہ یہ تمام کاروبار عبث نہیں بلکہ ہریک حدوث اور ظہور پر خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت بالارادہ کا ہاتھ ہے اور وہ ارادہ تمام انتظام کے موافق بتوسط اسباب ظہور پذیر ہوتا ہے چونکہ خدا تعالیٰ نے اجرام اور اجسام کو علم اور شعور نہیں دیا اس لئے ان باتوں کے پورا کرنے کیلئے جن میں علم اور شعور درکار ہے ایسے اسباب یعنی ایسی چیزوں کے توسط کی حاجت ہوئی جن کو علم اور شعور دیا گیا ہے اور وہ ملائک ہیں.اب ظاہر ہے کہ جب ملائک کی یہی شان ہے کہ وہ عبث اور بے ہودہ طور پر کوئی کام نہیں کرتے بلکہ اپنی تمام خدمات میں اغراض اور مقاصد رکھتے ہیں اس لئے ان کی نسبت یہ بات ضروری طور پر ماننی پڑے گی کہ رجم کی خدمت میں بھی ان کا کوئی اصل مقصد ہے اور چونکہ عقل اس بات کے درک سے قاصر ہے کہ وہ کون سا مقصد ہے اس لئے ۱ فاطر:۳۳
یعنی پھر ہم نے اپنی کتاب کا ان لوگوں کو وارث کیا جو ہمارے بندوں میں سے برگزیدہ ہیں اور وہ تین گروہ ہیں ( ۱) ایک اُن میں سے ظالموں کا گروہ جو اپنے نفس پر ظلم کرتے ہیں یعنی اکراہ اور جبر سے نفس امّارہ کو خدا تعالیٰ کی راہ پر چلاتے ہیں اور نفس سرکش کی مخالفت اختیار کر کے مجاہدات شاقہ میں مشغول ہیں ( ۲) دوسری میانہ حالت آدمیوں کا گروہ جو بعض خدمتیں خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے نفس سرکش سے باکراہ اور جبر لیتے ہیں اور بعض للّہی کاموں کی بجا آوری میں نفس ان کا بخوشی خاطر اس عقدہ کے حل کیلئے عقل سے سوال کرنا بے محل سوال ہے اگر عقل کا اس میں کچھ دخل ہے تو صرف اس قدر کہ عقل سلیم ایسے نفوس کے افعال کی نسبت کہ جو ارادہ اور فہم اور شعور رکھتے ہوں ہرگز یہ تجویز نہیں کرسکتی کہ ان کے وہ افعال عبث اور بے ہودہ اور اغراض صحیحہ ضروریہ سے خالی ہیں.پس اگر عقل سلیم اول اس بات کو بخوبی سمجھ لے کہ جو کچھ اجرام اور اجسام سماوی و ارضی اور کائنات الجو میں انواع اقسام کے تغیرات اور تحولات اور ظہورات ہورہے ہیں وہ صرف علل ظاہر یہ تک محدود نہیں ہیں بلکہ ان تمام حوادث کیلئے اور علل بھی ہیں جو شعور اور ارادہ اور فہم اور تدبیر اور حکمت رکھتے ہیں تو اس سمجھ کے بعد ضرور عقل اس بات کا اقرار کرے گی کہ یہ تمام تغیرات اور حدوثات جو عالم سفلی اور علوی میں ہمیں نظر آتے ہیں عبث اور بے ہودہ اور لغو نہیں بلکہ ان میں مقاصد اور اغراض پوشیدہ ہیں گو ہم ان کو سمجھ سکیں یا ہماری سمجھ اور فہم سے بالاتر ہوں.اور اس اقرار کے ضمن میں تساقط شہب کی نسبت بھی یہی اقرار عقل سلیم کو کرنا پڑے گا کہ یہ کام بھی عبث نہیں کیونکہ یہ بات بداہتاً ممتنع ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ جو نفوس ارادہ اور فہم اور تدبیر اور حکمت کے پابند ہیں وہ ایک لغو کام پر ابتدا سے اصرار کرتے چلے آئے ہیں.سو اگرچہ عقل پورے طور پر اس سر کو دریافت نہ کرسکے مگر وجود ملائک اور ان کی منصبی خدمات کے ماننے کے بعد اس قدر
تابع ہوجاتا ہے اور ذوق اور محبت اور ارادت سے ان کاموں کو بجا لاتا ہے غرض وہ لوگ کچھ تو تکلف اور مجاہدہ سے خدا تعالیٰ کے حکموں پر چلتے ہیں اور کچھ طبعی جوش اور دلی شوق سے بغیر کسی تکلف کے اپنے رب جلیل کی فرمانبرداری ان سے صادر ہوتی ہے یعنی ابھی پوری موافقت اللہ جلّ شانہٗ کے ارادوں اور خواہشوں سے ان کو حاصل نہیں اور نہ نفس کی جنگ اور مخالفت سے بکلّی فراغت بلکہ بعض سلوک کی راہوں میں نفس موافق اور بعض راہوں میں مخالف ہے (۳) تیسری سابق بالخیرات اور اعلیٰ درجہ تو ضرور دریافت کر لے گی کہ ان کاکوئی فعل عبث اور بے ہودہ طور پر نہیں.اس اقرار کے بعد اگرچہ عقل مفصلاً تساقط شہب کی ان اغراض کو دریافت نہ کرسکے جو ملائک کے ارادہ اور ضمیرمیں ہیں لیکن اس قدر اجمالی طور پر تو ضرور سمجھ جائے گی کہ بے شک اس فعل کیلئے بھی مثل اور افعال ملائکہ کے درپردہ اغراض و مقاصد ہیں پس وہ بوجہ اس کے کہ ادراک تفصیلی سے عاجز ہے اس تفصیل کیلئے کسی اور ذریعہ کے محتاج ہوگی جو حدود عقل سے بڑھ کر ہے اور وہ ذریعہ وحی اور الہام ہے جو اسی غرض سے انسان کو دیا گیا ہے تا انسان کو ان معارف اور حقائق تک پہنچا دے کہ جن تک مجرد عقل پہنچا نہیں سکتی اور وہ اسرار دقیقہ اس پر کھولے جو عقل کے ذریعہ سے کھل نہیں سکتے.اور وحی سے مراد ہماری وحی قرآن ہے جس نے ہم پر یہ عقدہ کھول دیا کہ اسقاط شہب سے ملائکہ کی غرض رجم شیاطین ہے.یعنی یہ ایک قسم کا انتشار نورانیت ملائک کے ہاتھ سے اور ان کے نور کی آمیزش سے ہے جس کا جنات کی ظلمت پر اثر پڑتا ہے اور جنات کے افعال مخصوصہ اس سے روبکمی ہوجاتے ہیں اور اگر اس انتشار نورانیت کی کثرت ہو تو بوجہ نور کے مقناطیسی جذب کے مظاہر کاملہ نورانیت کے انسانوں میں سے پیدا ہوتے ہیں ورنہ یہ انتشار نورانیت بوجہ اپنی ملکی خاصیت
کے آدمیوں کا گروہ ہے یعنی وہ گروہ جو نفس امّارہ پر بکلّی فتحیاب ہو کر نیکیوں میں آگے نکل جانے والے ہیں جن کے نفوس کی سرکشی اور امارگی بکلّی دور ہوگئی ہے اور خدا تعالیٰ کے احکام سے اور اس کی شریعت کی تمام راہوں سے اور اس کی تمام قضا و قدر سے اور اس کی تمام مرضی اور مشیت کی باتوں سے وہ طبعاً پیار کرتے ہیں نہ کسی تکلف اور بناوٹ سے اور کوئی دقیقہ اطاعت اور فرمانبرداری کا اٹھا نہیں رکھتے اور اللہ جلّ شانہٗ کی فرمانبرداری ان کی طبیعت کی جزو اور ان کی جان کی راحت ہوجاتی ہے کے کسی قدر دلوں کو ُ نور اور حقانیت کی طرف کھینچتا ہے اور یہ ایک خاصیت ہے جو ہمیشہ دنیا میں اِنّی طور پر اس کا ثبوت ملتا رہا ہے.دنیا میں ہزارہا چیزوں میں ایسے خواص پائے جاتے ہیں جو انسان کی عقل سے برتر ہوتے ہیں اور انسان کوئی عقلی دلیل ان پر قائم نہیں کرسکتا اور ان کے وجود سے بھی انکار نہیں کر سکتا.پھر اس خاصیت ثابت شدہ کا صرف اس بنیاد پر انکار کرنا کہ عقل اس کے سمجھنے سے قاصر ہے اگر نادانی نہیں تو اور کیا ہے.کیا انسانی عقل نے تمام ان خواص دقیقہ پرجو اجسام اور اجرام میں پائے جاتے ہیں دلائل عقلی کی رو سے احاطہ کر لیا ہے؟ تا اس اعتراض کا حق پیدا ہو کہ تساقط شہب کی نسبت جو انتشار نورانیت کا بھید بیان کیا جاتا ہے یہ کیوں عقل کی دریافت سے باہر رہ گیا ہے.اور جیسا کہ ہم ابھی لکھ چکے ہیں یہ بات بھی نہیں کہ اس بھید کے تسلیم کرانے کیلئے عقل پر سراسر جبر ہے بلکہ جس حد تک عقل انسانی اپنے وجود میں طاقت فہم رکھتی ہے وہ اپنی اس حد کے مناسب حال اس بھید کو تسلیم کرتی ہے انکار نہیں کرتی کیونکہ عقل سلیم کو وجود ملائکہ اور ان کی خدمات مفوضہ کے تسلیم کرنے کے بعد ماننا پڑتا ہے کہ یہ تساقط شہب بھی ملائکہ کے ذریعہ سے ظہور میںآتا ہے اور ملائکہ کسی غرض اور مقصد کیلئے اس
کہ بغیر اس کے وہ جی ہی نہیں سکتے اور ان کا نفس کمال ذوق اور شوق اور لذت اور شدّتِ میلان اور خوشی سے بھرے ہوئے انشراح کے ساتھ خدا تعالیٰ کی اطاعت بجا لاتا ہے اور اس بات کی طرف وہ کسی وقت اور کسی محل اور حکم الٰہی یا مشیت الٰہی کی نسبت محتاج نہیں ہوتے کہ اپنے نفس سے باکراہ اور جبر کام لیں بلکہ اُن کا نفس نفسِ مطمئنہ ہو جاتا ہے اور جو خدا تعالیٰ کا ارادہ وہ ان کا ارادہ اور جو اس کی مرضی وہ ان کی مرضی ہوجاتی ہے اور خدا تعالیٰ کے حکموں فعل کو بحکم مولیٰ کریم بجالاتے ہیں.پس عقل سلیم کا اسی قدر ماننا اس کی ترقی کیلئے ایک زینہ کی طرح ہے اور بلاشبہ اس قدر تسلیم کے بعد عقل سلیم تساقط شہب کو دہریوں اور طبیعیوں کی عقول ناقصہ کی طرح ایک امر عبث خیال نہیں کرے گی بلکہ تعین کامل کے ساتھ اس رائے کی طرف جھکے گی کہ درحقیقت یہ حکیمانہ کام ہے جس کے تحت میں مقاصد عالیہ ہیں اور اس قدر علم کے ساتھ عقل سلیم کو اس بات کی حرص پیدا ہوگی کہ ان مقاصد عالیہ کو مفصل طور پر معلوم کرے پس یہ حرص اور شوق صادق اس کو کشاں کشاں اس مرشد کامل کی طرف لے آئے گا جو وحی قرآن کریم ہے.ہاں اگر عقل سلیم کچھ بحث اور چوں چرا کر سکتی ہے تو اس موقعہ پر تو نہیں لیکن ان مسائل کے ماننے کیلئے بلاشبہ اول اس کا یہ حق ہے کہ خدا تعالیٰ کے وجود میں جس کی سلطنت تبھی قائم رہ سکتی ہے کہ جب ہریک ذرّہ عالم کا اس کا تابع ہو بحث کرے.پھر ملائک کے وجود پر اور ان کی خدمات پر دلائل شافیہ طلب کرے یعنی اس بات کی پوری پوری تسلی کر لیوے کہ درحقیقت خدا تعالیٰ کا انتظام یہی ہے کہ جو کچھ اجرام اور اجسام اور کائنات الجو میں ہورہا ہے یا کبھی کبھی ظہور میں آتا ہے.وہ صرف اجرام اور اجسام کے افعال شتر بے مہار کی طرح نہیں ہیں بلکہ ان کے تمام واقعات کی زمام اختیار حکیم قدیر نے ملائک کے ہاتھ میں دے رکھی ہے جو ہر دم
اور مشیتوں سے ایسا پیار کرتے ہیں کہ جیسا خدا تعالیٰ ان امور سے پیار کرتا ہے اسی وجہ سے وہ خدا تعالیٰ کے امتحانوں کے وقت پیچھے نہیں ہٹتے بلکہ چند قدم آگے رکھ دیتے ہیں.پھر بعد اس کے اللہ جلّ شانہ‘ فرماتا ہے کہ ان تینوں گروہوں پر میرا بڑا فضل ہے یعنی ظالم بھی مورد فضل اور برگزیدہ اور خدا تعالیٰ کے پیارے بندے ہیں اور ایسا ہی مقتصد بھی اور سابق بالخیرات تو خود ظاہر ہیں.اب ظاہر ہے کہ اس آیت میں اللہجلّ شانہ‘نے ظالموں کو بھی اپنے برگزیدہ اور ہر طرفۃ العین میں اس قادر مطلق سے اذن پا کر انواع اقسام کے تصرفات میں مشغول ہیں اور نہ عبث طور پر بلکہ سرا سر حکیمانہ طرز سے بڑے بڑے مقاصد کیلئے اس کرہ ارض و سما کو طرح طرح کی جنبشیں دے رہے ہیں اور کوئی فعل بھی ان کا بے کار اور بے معنی نہیں.اور ہم فرشتوں کے وجود اور ان کی ان خدمات پر کسی قدر اسی رسالہ میں بحث کر آئے ہیں جس کی تفصیل یہ ہے کہ فرشتوں کا وجود ماننے کیلئے نہایت سہل اور قریب راہ یہ ہے کہ ہم اپنی عقل کی توجہ اس طرف مبذول کریں کہ یہ بات طے شدہ اور فیصل شدہ ہے کہ ہمارے اجسام کی ظاہری تربیت اور تکمیل کے لئے اور نیز اس کام کیلئے کہ تا ہمارے ظاہری حواس کے افعال مطلوبہ کما ینبغی صادر ہو سکیں خدا تعالیٰ نے یہ قانون قدرت رکھا ہے کہ عناصر اور شمس و قمر اور تمام ستاروں کو اس خدمت میں لگا دیا ہے کہ وہ ہمارے اجسام اور قویٰ کو مدد پہنچا کر ان سے بو جہ احسن ان کے تمام کام صادر کرا دیں اور ہم ان صداقتوں کے ماننے سے کسی طرف بھاگ نہیں سکتے کہ مثلاً ہماری آنکھ اپنی ذاتی روشنی سے کسی کام کو بھی انجام نہیں دے سکتی جب تک آفتاب کی روشنی اس کے ساتھ شامل نہ ہو اور ہمارے کان محض اپنی قوت شنوائی سے کچھ بھی سن نہیں سکتے جب تک کہ ہوا متکیّف بصوت ان کی ممدو معاون
بند ے اور مورد فضل قرار دے دیا ہے اور ان کو اپنے ان پیارے اور چنے ہوئے اور قابلِ تحسین لوگوں میں شمار کر لیا ہے جن سے وہ بہت ہی خوش ہے حالانکہ قرآن کریم اس مضمون سے بھرا پڑا ہے کہ اللہ جلّ شانہ‘ ظالموں سے پیار نہیں کرتا اور عدل کو چھوڑنے والے کبھی مورد فضل نہیں ہوسکتے.پس اس دلیل سے بہ بداہت معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں ظالموں کے گروہ سے مراد وہ گروہ نہیں ہے جو خدا تعالیٰ کا سرکش اور نافرمان اور مشرک اورکافر اور نہ ہو.پس کیا اس سے یہ ثابت نہیں کہ خدا تعالیٰ کے قانون نے ہمارے قویٰ کی تکمیل اسباب خارجیہ میں رکھی ہے اور ہماری فطرت ایسی نہیں ہے کہ اسباب خارجیہ کی مدد سے مستغنی ہو اگر غور سے دیکھو تو نہ صرف ایک دو بات میں بلکہ ہم اپنے تمام حواس تمام قویٰ تمام طاقتوں کی تکمیل کے لئے خارجی امدادات کے محتاج ہیں پھر جب کہ یہ قانون اور انتظام خدائے واحد لاشریک کا جس کے کاموں میں وحدت اور تناسب ہے ہمارے خارجی قویٰ اور حواس اور اغراض جسمانی کی نسبت نہایت شدت اور استحکام اور کمال التزام سے پایا جاتا ہے تو پھر کیا یہ بات ضروری اور لازمی نہیں کہ ہماری روحانی تکمیل اور روحانی اغراض کیلئے بھی یہی انتظام ہوتا دونوں انتظام ایک ہی طرز پر واقع ہو کر صانع واحد پر دلالت کریں اور خود ظاہر ہے کہ جس حکیم مطلق نے ظاہری انتظام کی یہ بنا ڈالی ہے اور اسی کو پسند کیا ہے کہ اجرام سماوی اور عناصر وغیرہ اسباب خارجیہ کے اثر سے ہمارے ظاہر اجسام اور قویٰ اور حواس کی تکمیل ہو اس حکیم قادر نے ہمارے روحانیت کیلئے بھی یہی انتظام پسند کیا ہوگا کیونکہ وہ واحد لا شریک ہے اور اس کی حکمتوں اور کاموں میں وحدت اور تناسب ہے اور دلائل اِنّیہ بھی اسی پر دلالت کرتی ہیں.سو وہ اشیاء خارجیہ جو ہماری روحانیت پر اثر ڈال کر شمس اور قمر اور عناصر کی طرح جو اغراض جسمانی کیلئے ممد ہیں ہماری اغراض روحانی کو پورا کرتی ہیں انہیں کا نام ہم ملائک
طر یق عدل اور راستی کو چھوڑنے والا اور خدا تعالیٰ کی مخالفت کو اختیار کرنے والا ہے کیونکہ ایسے لوگوں کو تو قرآن کریم مردود اور مورد غضب ٹھہراتا ہے اور صاف کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ ظالموں اور معتدین کو جو طریق عدل اور انصاف چھوڑ دیتے ہیں دوست نہیں رکھتا پھر وہ لوگ مورد فضل کیونکر ٹھہر سکتے ہیں اور کیونکر ان کا نام مصطفی اور برگزیدہ اور چنا ہوا رکھا جاسکتا ہے.سو ان یقینی اور قطعی دلائل سے ہمیں ماننا پڑا کہ اس جگہ ظالم کا لفظ کسی رکھتے ہیں.پس اس تقریر سے وجود ملائک کا بوجہ احسن ثابت ہوتا ہے اور گو ہم پر ان کی کُنہ کھل نہ سکے اور کھلنا کچھ ضرور بھی نہیں.لیکن اجمالی طور پر قانون قدرت کے توافق اور اتحاد پر نظر کر کے ان کا وجود ہمیں ماننا پڑتا ہے کیونکہ جس حالت میں ہم نے بطیبِ خاطر ظاہری قانون کو مان لیا ہے تو پھر کیا وجہ کہ ہم اسی طرز اور طریق پر باطنی قانون کو تسلیم نہ کریں.بے شک ہمیں باطنی قانون بھی اسی طرح قبول کرنا پڑے گا کہ جس طرح ہم نے ظاہری قانون کو مان لیا.یہی سر ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں بعض جگہ ان دونوں قانونوں کو مشترک الفاظ میں بیان کر دیا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے.3.3.3.3.۱ یعنی ان ہواؤں کی قسم ہے جو سمندروں اور دوسرے پانیوں سے بخارات کو ایسا جدا کرتی ہیں جو حق جدا کرنے کا ہے.پھر ان ہواؤں کی قسم ہے جو اُن گراں بار بخارات کو حمل دار عورتوں کی طرح اپنے اندر لے لیتی ہیں پھر ان ہواؤں کی قسم ہے جو بادلوں کو منزل مقصود تک پہنچانے کیلئے چلتی ہیں.پھر ان فرشتوں کی قسم ہے جو در پردہ ان تمام امور کے منصرم اور انجام دہ ہیں یعنی ہوائیں کیا چیز ہیں اور کیا حقیقت رکھتی ہیں جو خود بخود بخارات کو سمندروں میں سے اٹھاویں اور بادلوں کی صورت بنا دیں اور عین محل ضرورت پر جا کر برساویں اور مقسم امور ۱ الذّٰریٰت:۲تا۵
مذمو م معنی کیلئے استعمال نہیں ہوا بلکہ ایک ایسے محمود اور قابل تعریف معنوں کیلئے استعمال ہوا ہے جو درجہ سابق بالخیرات سے حصہ لینے کے مستحق اور اس درجہ فاضلہ کے چھوٹے بھائی ہیں اور وہ معنے بجز اس کے اور کوئی نہیں ہو سکتے کہ ظالم سے مراد اس قسم کے لوگ رکھے جائیں کہ جو خدا تعالیٰ کیلئے اپنے نفس مخالف پر جبر اور اکراہ کرتے ہیں اور نفس کے جذبات کم کرنے کیلئے دن رات مجاہدات شاقہ میں مشغول ہیں کیونکہ یہ تو لغت کی رو سے بھی ثابت ہے کہ ظالم کا لفظ بغیر کسی بنیں یہ تو در پردہ ملائک کا کام ہے سو خدا تعالیٰ نے ان آیات میں اول حکمائے ظاہر کے طور پر بادلوں کے برسنے کا سبب بتلایا اور بیان فرمایا کہ کیونکر پانی بخار ہو کر بادل اور ابر ہو جاتا ہے اور پھر آخری فقرہ میں یعنی3میں حقیقت کو کھول دیا اور ظاہر کر دیا کہ کوئی ظاہر بین یہ خیال نہ کرے کہ صرف جسمانی علل اور معلولات کا سلسلہ نظام ر بانی کیلئے کافی ہے بلکہ ایک اور سلسلہ علل روحانیہ کا اس جسمانی سلسلہ کے نیچے ہے جس کے سہارے سے یہ ظاہری سلسلہ جاری ہے اور پھر ایک دوسری جگہ فرماتا ہے.3.3.3.3.3.۱ یعنی قسم ہے ان ہواؤں کی اور ان فرشتوں کی جو نرمی سے چھوڑے گئے ہیں اور قسم ہے ان ہواؤں کی اور ان فرشتوں کی جو زور اور شدت کے ساتھ چلتے ہیں اور قسم ہے ان ہواؤں کی جو بادلوں کو اٹھاتی ہیں اور ان فرشتوں کی جو ان بادلوں پر موکل ہیں اور قسم ہے ان ہواؤں کی جو ہریک چیز کو جو معرض ذکر میں آ جائے کانوں تک پہنچاتی ہیں اور قسم ہے ان فرشتوں کی ۱ المرسلات:۲تا
اور لحاظ کے فقط کم کرنے کیلئے بھی آیا ہے جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام میں فرماتا ہے 33ای و لم تنقص اور خدا تعالیٰ کی راہ میں نفس کے جذبات کو کم کرنا بلاشبہ ان معنوں کی رو سے ایک ظلم ہے ماسوا اس کے ہم ان کتب لغت کو جو صدہا برس قرآن کریم کے بعد اپنے زمانہ کے محاورات کے موافق طیار ہوئی ہیں قران مجید کا حکم نہیں ٹھہرا سکتے.قرآن کریم اپنی لغات کیلئے جو الٰہی کلام کو دلوں تک پہنچاتے ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ نے آیت3 ۱ میں فرشتوں اور ستاروں کو ایک ہی جگہ جمع کر دیا ہے یعنی اس آیت میں کواکب سبع کو ظاہری طور پر مدبر ما فی الارض ٹھہرایا ہے اور ملائک کو باطنی طور پر ان چیزوں کا مدبّر قرار دیا ہے.چنانچہ تفسیر فتح البیان میں معاذ بن جبل اور قشیری سے یہ دونوں روایتیں موجود ہیں اور ابن کثیر نے حسن سے یہ روایت ملائک کی نسبت کی ہے کہ تدبر الامرمن السّماء الی الارض یعنی آسمان سے زمین تک جس قدر امور کی تدبیر ہوتی ہے وہ سب ملائک کے ذریعہ سے ہوتی ہے اور ابن کثیر لکھتا ہے کہ یہ متفق علیہ قول ہے کہ مد ّ براتِ امر ملائک ہیں.اور ابن جریر نے بھی آیات 3 کے نیچے یہ شرح کی ہے کہ اس سے مراد ملائک ہیں جو مدبر عالم ہیں یعنی گو بظاہر نجوم اور شمس و قمر و عناصر وغیرہ اپنے اپنے کام میں مشغول ہیں مگر درحقیقت مدبر ملائک ہی ہیں.اب جبکہ خدا تعالیٰ کے قانون قدرت کے رو سے یہ بات نہایت صفائی سے ثابت ہو گئی کہ نظام روحانی کیلئے بھی نظام ظاہری کی طرح موثرات خارجیہ ہیں جن کا نام کلام الٰہی میں ملائکہ رکھا ہے تو اس بات کا ثابت کرنا باقی رہا کہ نظام ظاہری میں بھی جو کچھ ہورہا ہے ان تمام افعال اور تغیرات کا بھی انجام اور انصرام بغیر فرشتوں کی شمولیت کے نہیں ہوتا سو منقولی طور پر تو اس کا ثبوت ظاہر ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرشتوں کا نام مُدبّرات اور مقسّمات امر رکھا ہے اور ہریک ۱ النازعات:
آپ متکفل ہے اور اس کی بعض آیات بعض دوسری آیات کی شرح کرتی ہیں یہ بات ظاہر ہے کہ اصطفاء کا عزت بخش لفظ کبھی دوسرے ظالموں کے حق میں خدا تعالیٰ نے استعمال نہیں کیا بلکہ ان کو مردود اور مخذول اور مورد غضب ٹھہرایا ہے مگر اس جگہ ظالم کو اپنا برگزیدہ قرار دیا اور مورد فضل ٹھہرایا ہے اور اس آیت سے صاف ثابت ہورہا ہے کہ جیسے مقتصداس لئے برگزیدہ ہے کہ مقتصدہے اور سابق بالخیرات اس لئے برگزیدہ ہے کہ وہ سابق بالخیرات ہے.اسی طرح ظالم بھی اس لئے برگزیدہ ہے کہ وہ ظالم ہے.پس کیا اب اس ثبوت میں کچھ کسر رہ گئی کہ اس جگہ ظلم سے مراد وہ ظلم ہے جو خدا تعالیٰ کو پیارا معلوم ہوتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کیلئے اپنے نفس پر اکراہ اور جبر کرنا اور نفس کے جذبات کو اللہ جلّ شانہٗکے راضی عرض اور جوہر کے حدوث اور قیام کا وہی موجب ہیں یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کے عرش کو بھی وہی اٹھائے ہوئے ہیں جیسا کہ آیت 3۱سے کلی طور پر فرشتوں کا تقرر ہریک چیز پر ثابت ہوتا ہے اور نیز قرآن کریم کی آیت مندرجہ ذیل بھی اسی پر دلالت کرتی ہے اور وہ یہ ہے 3.333 ۲ یعنی جب قیامت واقع ہوگی تو آسمان پھٹ جائے گا اور ڈھیلا اور سست ہو جائے گا اور اس کی قوتیں جاری رہیں گی * کیونکہ فرشتے جو آسمان اور *آج کل کے علم ہیئت کے محققین جو یورپ کے فلاسفر ہیں جس طرز سے آسمانوں کے وجود کی نسبت خیال رکھتے ہیں درحقیقت وہ خیال قرآن کریم کے مخالف نہیں کیونکہ قرآن کریم نے اگرچہ آسمانوں کو نراپول تو نہیں ٹھہرایا لیکن اس سماوی مادہ کا جو پول کے اندر بھرا ہوا ہے صلب اور کثیف اور متعسر الخرق مادہ بھی قرار نہیں دیا بلکہ ہوا یا پانی کی طرح نرم اور کثیف مادہ قرار دیا جس میں ستارے تیرتے ہیں اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے 33۳ ہاں یونانیوں نے آسمانوں کو اجسام کثیفہ تسلیم کیا ہوا ہے اور پیاز کے چھلکوں کی طرح تہ بتہ ان کو مانا ہے اور آخری تہ کا آسمان جو تمام تہوں پر محیط ہورہا ہے جمیع مخلوقات کا انتہا قرار دیا ہے ۱ الطارق:۵ ۲ الحاقۃ:۱۷.۱۸ ۳ یٰس:۴۱ آسمانوں کی کیفیت
کر نے کی غرض سے کم کردینا اور گھٹا دینا اور اس قسم کے ظالموں کا قرآن کریم کے دوسرے مقامات میں توابین بھی نام ہے جن سے اللہ جلّ شانہ‘ پیار کرتا ہے.غرض ایسا خیال کرنا نعوذ باللہ سخت دھوکا ہے کہ ان ظالموں سے جو اس آیت میں درج ہیں وہ ظالم مراد لئے جائیں جو خدا تعالیٰ کے سخت نافرمان ہیں اور شرک اور کفر اور فسق کو اختیار کرنے والے اور اس پر راضی ہوجانے والے اور ہدایت کی راہوں سے بغض رکھنے والے ہیں بلکہ وہ ظالم مراد ہیں جو باوجود نفس کے سخت جذبات کے پھر افتاں خیزاں خدا تعالیٰ کی طرف دوڑتے ہیں.اس پر ایک اور قرینہ یہ ہے کہ اللہ جلّ شانہٗنے قرآن کریم کے نزول کی علت غائی 33 قرار دی ہے اور قرآن کریم سے رشد اور ہدایت اور فیض حاصل کرنے والے بالتخصیص متقیوں کو ہی ٹھہرایا ہے آسمانی اجرام کیلئے جان کی طرح تھے وہ سب تعلقات کو چھوڑ کر کناروں پر چلے جائیں گے اور اس دن خدا تعالیٰ کے عرش کو آٹھ فرشتے اپنے سر پر اور کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ہوں گے.اس آیت کی تفسیر میں شاہ عبدالعزیز صاحب لکھتے ہیں کہ درحقیقت آسمان کی بقا بباعث ارواح کے ہے یعنی ملائک کے جو آسمان اور آسمانی اجرام کیلئے بطور روحوں کے ہیں اور جیسے روح بدن کی محافظ ہوتی ہے اور بدن پر تصرف رکھتی ہے اسی طرح بعض ملائک آسمان اور آسمانی اجرام پر تصرف رکھتے ہیں اور تمام اجرام سماوی ان کے ساتھ ہی زندہ ہیں اور انہیں کے ذریعہ سے صدور افعال کواکب ہے جس کو وہ فلک الا فلاک اور محدّد بھی کہتے ہیں جو ان کے زعم میں معہ تین اور آسمانوں کے جن کا نام مدیر اور جو زہر اور مائل ہے مشرق سے مغرب کی طرف گردش کرتا ہے اور باقی آسمان مغرب سے مشرق کی طرف گھومتے ہیں اور ان کے گمان میں فلک محدّد معمورہ عالم کا منتہا ہے جس کے پیچھے خلا ملا نہیں.گویا خدا تعالیٰ نے اپنے ممالک مقبوضہ کی ایک دیوار کھینچی ہوئی ہے جس کا ماورا کچھ بھی نہیں نہ خلا نہ ملا.ہمارے ایک دوست کو اس بات کی تحقیق کی خواہش ہے کہ آیت انہ کان ظلومًا جھولًا میں ظلومًا جھولًا کے دو لفظ جو مقام مدح میں واقع ہیں ان کے کیا معنی ہیں پس چاہیئے کہ دوست موصوف اِس مضمون کو غور سے پڑھیں.یونانیوں نے جو آسمانوں کے بارے میں تشریح کی ہے وہ تشریح قرآن کریم کی تشریح کے ساتھ مطابق نہیں ہے اور قرآن کریم کی تشریح آسمانوں کے وجود کی نسبت بالکل صحیح اور ایسی بدیہی صداقت ہے کہ کوئی عقلِ سلیم اس سے انکار نہیں کر سکتی.
جیسا کہ وہ فرماتا ہے.33333.۱ پس اس علّت غائی پر نظر ڈال کر یقینی اور قطعی طور پر یہ بات فیصلہ پا جاتی ہے کہ ظالم کا لفظ اس آیت میں ایسے شخص کی نسبت ہرگز اطلاق نہیں پایا کہ جو عمدًا نافرمان اور سرکش اور طریق عدل کو چھوڑنے والا اور شرک اور بے ایمانی کو اختیار کرنے والا ہو.کیونکہ ایسا آدمی تو بلاشبہ دائرہ اتقا سے خارج ہے اور اس لائق ہرگز نہیں ہے کہ ادنیٰ سے ادنیٰ قسم متقیوں میں اس کو داخل کیا جائے مگر آیت ممدوحہ میں ظالم کو متقیوں اور مومنوں کے گروہ میں نہ صرف داخل ہی کیا ہے بلکہ متقیوں کا سردار اور ان میں سے برگزیدہ ٹھہرا دیا ہے.پس اس سے جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں ثابت ہوا کہ یہ ظالم ان ظالموں میں سے پھر جب وہ ملائک جان کی طرح اس قالب سے نکل جائیں گے تو آسمان کا نظام ان کے نکلنے سے درہم برہم ہوجائے گا جیسے جان کے نکل جانے سے قالب کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے پھر ایک اور آیت قرآن کریم کی بھی اسی مضمون پر دلالت کرتی ہے اور وہ یہ ہے 3 3 3۲سورۃ الملک الجزو نمبر ۲۹ یعنی ہم نے سماء الدنیا کو ستاروں کے ساتھ زینت دی ہے اور ستاروں کو ہم نے رجم شیاطین کیلئے ذریعہ ٹھہرایا ہے اور پہلے اس سے نص قرآنی سے ثابت ہو چکا ہے کہ آسمان سے زمین تک ہریک امر کے یونانیوں کی اس رائے پر جس قدر اعتراض وارد ہوتے ہیں وہ پوشیدہ نہیں نہ صرف قیاسی طور پر بلکہ تجربہ بھی ان کا مکذب ہے جس حالت میں آج کل کے آلات دوربین نہایت دور کے ستاروں کا بھی پتہ لگاتے جاتے ہیں اور چاند اور سورج کو ایسا دکھا دیتے ہیں کہ گویا وہ پانچ چار کوس پر ہیں تو پھر تعجب کا مقام ہے کہ باوجود یکہ آسمان یونانیوں کے زعم میں ایک کثیف جوہر ہے اور ایسا کثیف جو البقرۃ: ۲،۳ ۲ الملک:
نہیں ہیں جو دائرہ اتقا سے بکلی خارج ہیں بلکہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں کہ جو ظلمت معصیت میں مبتلا تو ہیں مگر با ایں ہمہ خدا تعالیٰ سے سرکش نہیں ہیں بلکہ اپنے سرکش نفس سے کشتی کرتے رہتے ہیں اور تکلف اور تصنع سے اور جس طرح بن پڑے حتی الوسع نفس کے جذبات سے رکنا چاہتے ہیں مگر کبھی نفس غالب ہوجاتا ہے اور معصیت میں ڈال دیتا ہے اور کبھی وہ غالب آ جاتے ہیں اور رورو کر اس سیہ دھبے کو دھو ڈالتے ہیں اور یہ صفت جو ان میں موجود ہوتی ہے دراصل مذموم نہیں ہے بلکہ محمود اور ترقیات غیر متناہیہ کا مرکب اور مجاہدات شاقہ کا ذریعہ ہے اور درحقیقت یہی صفت مخالفت نفس کی جو دوسرے لفظوں میں ظلومیّت کے اسم سے بھی موسوم ہے ایک نہایت قابلِ تعریف مقسّم اور مدبّر فرشتے ہیں اور اب یہ قول اللہ جلّ شانہٗ کا کہ شہب ثاقبہ کو چلانے والے وہ ستارے ہیں جو سماء الدنیا میں ہیں بظاہر منافی اور مبائن ان آیات سے دکھائی دیتا ہے جو فرشتوں کے بارے میں آئی ہیں لیکن اگر بنظر غور دیکھا جائے تو کچھ منافی نہیں کیونکہ ابھی ہم ذکر کر چکے ہیں کہ قرآن کریم کی تعلیم سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ فرشتے آسمان اور آسمانی اجرام کیلئے بطور جان کے ہیں اور ظاہر ہے کہ کسی شے کی جان اس شے سے جدا نہیں ہوتی قابل خرق والتیام نہیں اور اس قدر بڑا کہ گویا چاند اور سورج کو اس کی ضخامت کے ساتھ کچھ بھی نسبت نہیں.پھر بھی وہ ان دور بین آلات سے نظر نہیں آسکا.اگر دور کے آسمان نظر نہیں آتے تھے تو سماء الدنیا جو سب سے قریب ہے ضرور نظر آجانا چاہئے تھا پس کچھ شک نہیں کہ جو یونانیوں نے عالم بالا کی تصویر دکھائی ہے وہ صحیح نہیں اور اس قدر اس پر اعتراض پیدا ہوتے ہیں کہ جن سےَ مخلصی حاصل کرنا ممکن
جوہر انسان میں ہے جو فرشتوں کو بھی نہیں دیا گیا اور اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے 333.۱ یعنی انسان میں ظلومیت اور جہولیت کی صفت تھی اس لئے اس نے اس امانت کو اٹھا لیا.جس کو وہی شخص اٹھا سکتا ہے جس میں اپنے نفس کی مخالفت اور اپنے نفس پر سختی کرنے کی صفت ہو.غرض یہ صفت ظلومیت انسان کے مراتب سلوک کا ایک مرکب اور اس کے مقامات قرب کیلئے ایک عظیم الشان ذریعہ اس کو عطا کیا گیا ہے جو بوجہ مجاہدات شاقہ کے اوائل حال میں نار جہنم کی شکل پر تجلی کرتا ہے لیکن آخر نعماء جنت تک پہنچا دیتا ہے اور درحقیقت قرآن کریم کے دوسرے مقام میں جو یہ آیت ہے.33 اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے بعض مقامات میں رمی شہب کا فاعل فرشتوں کو ٹھہرایا اور بعض دوسرے مقامات میں اسی رمی کا فاعل ستاروں کو ٹھہرا دیا کیونکہ فرشتے ستاروں میں اپنا اثر ڈالتے ہیں جیسا کہ جان بدن میں اپنا اثر ڈالتی ہے تب وہ اثر ستاروں سے نکل کر ان ارضی بخارات پر پڑتا ہے جو شہاب بننے کے لائق ہوتے ہیں تو وہ فی الفور قدرت خدا تعالیٰ سے مشتعل ہو جاتے ہیں اور فرشتے ایک دوسرے رنگ میں شہب ثاقبہ سے تعلق پکڑ کر اپنے نور کے ساتھ یمین اور یسار کی طرف ان کو چلاتے ہیں اور اس بات میں تو کسی فلسفی کو کلام نہیں کہ جو کچھ کائنات الجوّ ہی نہیں لیکن قرآن کریم نے جو سمٰوات کی حقیقت بیان کی ہے وہ نہایت صحیح اور درست ہے جس کے ماننے کے بغیر انسان کو کچھ بن نہیں پڑتا اور اس کی مخالفت میں جو کچھ بیان کیا جائے وہ سراسر ناواقفی یا تعصب پر مبنی ہوگا.قرآن کریم نہ آسمانوں کو یونانی حکماء کی طرح طبقات کثیفہ ٹھہراتا ہے اور نہ بعض نادانوں کے خیال کے موافق نراپول جس میں کچھ بھی نہیں.چنانچہ شق اول کی معقولی طور پر غلطی ظاہر ہے جس کی نسبت ہم ابھی بیان کر چکے ہیں.اور شق دوم یعنی یہ کہ آسمان کچھ بھی وجود مادی نہیں رکھتا ۱ الاحزاب:۷۳
3333.۱ یہ بھی درحقیقت صفت محمودۂ ظلومیت کی طرف ہی اشارہ کرتی ہے اور ترجمہ آیت یہ ہے کہ تم میں سے کوئی بھی ایسا نفس نہیں جو آگ میں وارد نہ ہو یہ وہ وعدہ ہے جو تیرے رب نے اپنے پر امر لازم اور واجب الادا ٹھہرا رکھا ہے پھر ہم اس آگ میں وارد ہونے کے بعد متقیوں کو نجات دے دیتے ہیں اور ظالموں کو یعنی ان کو جو مشرک اور سرکش ہیں جہنم میں زانو پر گرے ہوئے چھوڑ دیتے ہیں.اس جگہ الظالمین پر جو الف لام آیا ہے.وہ فائدہ تخصیص کا دیتا ہے اور اس سے غرض یہ ہے کہ ظالم دو قسم کے ہیں:.)۱( ایک متقی ظالم جن کی نجات کا وعدہ ہے اور جو خدا تعالیٰ کے پیارے ہیں.یا زمین میں ہوتا ہے علل ابتدائیہ ان کے نجوم اور تاثیرات سماویہ ہی ہوتی ہیں.ہاں اس دوسرے دقیق بھید کو ہریک شخص نہیں سمجھ سکتا کہ نجوم کے قویٰ فرشتوں سے فیض یاب ہیں اس بھید کو اول قرآن کریم نے ظاہر فرمایا اور پھر عارفوں کو اس طرف توجہ پیدا ہوئی.غرض اس آیت سے بھی منقولی طور پر یہی ثابت ہوا کہ فرشتے نجوم اور آسمانی قویٰ کیلئے جان کی طرح ہیں اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے قران کریم میں کبھی نجوم کا فعل فرشتوں کی طرف منسوب کیا ہے اور کبھی فرشتوں کا فعل نجوم کی طرف منسوب کر دیا ہے بات یہ ہے کہ جب کہ قرآن کریم کی تعلیم کی رو سے فرشتے نجوم اور شمس اور قمر اور آسمان نراپول ہے استقرا کی رو سے سراسر غلط ثابت ہوتا ہے کیونکہ اگر ہم اس فضا کی نسبت جو چمکتے ہوئے ستاروں تک ہمیں نظر آتا ہے بذریعہ اپنے تجارب استقرائیہ کے تحقیقات کرنا چاہیں تو صاف ثابت ہوتا ہے کہ سنت اللہ یا قانون قدرت یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے کسی فضا کو محض خالی نہیں رکھا چنانچہ جو شخص غبارہ میں بیٹھ کر ہوا کے طبقات کو چیرتا چلا جاتا ہے وہ شہادت دے سکتا ہے کہ جس قدر وہ اوپر کو چڑھا اس نے کسی حصہ فضا کو خالی نہیں پایا ۱ مریم:۷۲.
اور جو آیت3 میں ناجیوں میں شمار کئے گئے ہیں.)۲( دوسرے مشرک اور کافر اور سرکش ظالم جو جہنم میں گرائے جائیں گے اور اس آیت میں بیان فرمایا کہ متقی بھی اس نار کی مس سے خالی نہیں ہیں.اس بیان سے مراد یہ ہے کہ متقی اسی دنیا میں جو دار الابتلا ہے انواع اقسام کے پیرایہ میں بڑی مردانگی سے اس نار میں اپنے تئیں ڈالتے ہیں اور خدا تعالیٰ کیلئے اپنی جانوں کو ایک بھڑکتی ہوئی آگ میں گراتے ہیں اور طرح طرح کے آسمانی قضاء و قدر بھی نار کی شکل میں ان پر وارد ہوتے ہیں وہ ستائے جاتے اور دکھ دیئے جاتے ہیں اور اس قدر بڑے بڑے زلزلے ان پر آتے ہیں کہ ان کے ماسوا کوئی ان زلازل کی برداشت نہیں کر سکتا اور حدیث صحیح میں کیلئے جان کی طرح ہیں اور قیام اور بقا ان تمام چیزوں کا فرشتوں کے تعلق پر موقوف ہے.اور ان کے اَرْجَاء کی طرف کھسک جانے سے تمام اجرام ستاروں اور شمس و قمر اور آسمان کو موت کی صورت پیش آتی ہے تو پھر اس صورت میں وہ جان کی طرح ہوئے یا کچھ اور ہوئے.میں ان مولویوں کی حالت پر سخت افسوس کرتا ہوں کہ جو ان تمام کھلے کھلے مقامات قرآنی کو دیکھ کر پھر بھی اس بات کے قبول کرنے سے متامل ہیں کہ ملائکہ کو اجرام سماوی بلکہ بعض فرشتوں کو جو عنصر ّ یون ہیں عناصر اور اجرام سماوی سے ایسا شدید تعلق ہے کہ جیسا کہ ارواح کو قوالب کے ساتھ ہوتا ہے یہ تو سچ ہے پس یہ استقرا ہمیں اس بات کے سمجھنے کیلئے بہت مدد دے سکتا ہے کہ اگرچہ یونانیوں کی طرح آسمان کی حد بست ناجائز ہے مگر یہ بھی تو درست نہیں ہے کہ آسمانوں سے مراد صرف ایک خالی فضا اور پول ہے جس میں کوئی مخلوق مادہ نہیں ہم جہاں تک ہمارے تجارب رویت رسائی رکھتے ہیں کوئی مجرد پول مشاہدہ نہیں کرتے پھر کیونکر خلاف اپنی مستمر استقرا کے حکم کر سکتے ہیں کہ ان مملو فضاؤں سے آگے چل کر ایسے فضا بھی ہیں جو بالکل خالی ہیں.کیا برخلاف ثابت شدہ استقراء کے اس
ہے کہ تپ بھی جو مومن کو آتا ہے وہ نار جہنم میں سے ہے اور مومن بوجہ تپ اور دوسری تکالیف کے نار کا حصہ اسی عالم میں لے لیتا ہے اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ مومن کیلئے اس دنیا میں بہشت دوزخ کی صورت میں متمثل ہوتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کی راہ میں تکالیف شاقہ جہنم کی صورت میں اس کو نظر آتی ہیں پس وہ بطیبِ خاطر اس جہنم میں وارد ہو جاتا ہے تو معًا اپنے تئیں بہشت میں پاتا ہے.اسی طرح اور بھی احادیث نبویہ بکثرت موجود ہیں جن کا ماحصل یہ ہے کہ مومن اسی دنیا میں نار جہنم کا حصہ لے لیتا ہے اور کافر جہنم میں بجبر و اکراہ گرایا جاتا ہے لیکن مومن خدا تعالیٰ کیلئے آپ آگ میں گرتا ہے.ایک اور حدیث اسی مضمون کی ہے جس میں لکھا ہے کہ ایک حصہ نار کا ہریک بشر کیلئے مقدر ہے چاہے تو وہ اس دنیا میں اس آگ کو اپنے لئے خدا تعالیٰ کی راہ میں قبول کر لیوے کہ قرآن کریم سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ ملائک آسمان پر ایک مستقل وجود رکھتے ہیں مگر کیا یہ دوسری بات بھی اسی کتاب عزیز کی رو سے سچی ثابت نہیں ہوتی کہ ملائکہ کا تعلق ہر ایک جرم سماوی سے ایک حافظانہ تعلق ہے اور ہر ایک ستارہ اپنے بقا اور قیام اور صد ور افعال میں ملائکہ کی تائید کا محتاج ہے افسوس کہ یہ لوگ جو اپنے تئیں مولوی کہلاتے ہیں یوں تو مسلمانوں کو کافر بنانے کے لئے بڑے سرگرم ہیں مگر قرآن کریم کی تعالیم مبارکہ حکمیہ کو تدبر اور تعمق کی نظر سے نہیں دیکھتے پھر حق کے سمجھنے میں کیونکر کامیاب ہوں وہ قرآن کریم کا ذرا قدر نہیں کرتے اور اس کو نعوذ باللہ ایک موٹے خیالات کا مجموعہ سمجھتے ہیں اور قرآن کریم کی اعلیٰ طاقتوں اور وہم کا کچھ بھی ثبوت ہے ایک ذرا بھی نہیں.پھر کیونکر ایک بے بنیاد وہم کو قبول کیا جائے اور مان لیا جائے.ہم کیونکر ایک قطعی ثبوت کو بغیر کسی مخالفانہ اور غالب ثبوت کے چھوڑ سکتے ہیں اور علاوہ اس کے اللہ جلّ شانہٗ کی اس میں کسر شان بھی ہے گویا وہ عام اور کامل خالقیت سے عاجز تھا تبھی تو تھوڑا سا بنا کر باقی بے انتہا فضا چھوڑ دی اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس استقرائی ثبوت کے انکار میں کہ کوئی فضا کسی جوہر لطیف سے خالی نہیں کونسی یقینی اور قطعی دلیل ایسے شخصوں
اور چاہے تو تنعم اور غفلت میں عمر گزارے اور آخرت میں اپنے تنعم کا حساب دیوے اور آیت333.۱ کے ایک دوسرے معنے بھی ہیں اور وہ یہ ہے کہ عالم آخرت میں ہریک سعید اور شقی کو متمثل کر کے دکھلا دیا جائے گا کہ وہ دنیا میں سلامتی کی راہوں میں چلایا اس نے ہلاکت اور موت اور جہنم کی راہیں اختیار کیں سو اس دن وہ سلامتی کی راہ جو صراط مستقیم اور نہایت باریک راہ ہے جس پر چلنے والے بہت تھوڑے ہیں اور جس سے تجاوز کرنا اور اِدھر اُدھر ہونا درحقیقت جہنم میں گرنا ہے تمثل کے طور پر نظر آ جائے گی اور جو لوگ دنیا میں صراط مستقیم پر چل نہیں سکے وہ اس روز اس صراط پر بھی چل نہیں سکیں گے کیونکہ وہ صراط درحقیقت دنیا کی روحانی صراط کا ہی ایک نمونہ ہے اور جیسا کہ ابھی روحانی آنکھوں سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہماری صراط کے دائیں بائیں درحقیقت جہنم ہے اگر حکمتوں اور اس کے دقیق بھیدوں سے بے خبر ہیں.یہ تو ہم نے منقولی طور پر ثبوت دیا لیکن معقولی طور پر اس بات کا ثبوت کہ نظام ظاہری میں جو کچھ امر خیر ہورہا ہے ان تمام امور کا ظہور و صدور دراصل ملائکہ کے افعال خفیہ سے ہے ان امور پر غور کرنے سے پیدا ہوتا ہے کہ ہریک چیز سے اللہ جلّ شانہٗ وہ کام لیتا ہے جس کام کے کرنے کی اس چیز کو قوتیں عطا کی گئی ہیں.پس اب یہ خیال کرنا کہ ہریک تغیر اجرام سماوی اور کائنات الجو کا صرف اسباب طبیعیہ خارجیہ سے ظہور میں آتا ہے اور کسی روحانی سبب کی ضرورت نہیں بالکل غیر معقول ہے کیونکہ اگر ایسا ہی ہوتا کہ یہ کے ہاتھ میں ہے جو مجرّد پول کے قائل ہیں یا قائل ہوں.اگر کوئی شخص ایسا ہی اعتقاد اور رائے رکھتا ہے کہ چند مادی کرّ وں کے بعد تمام پول ہی پڑا ہے جو بے انتہا ہے تو وہ ہماری اس حجت استقرائی سے صاف اور صریح طور پر ملزم ٹھہر جاتا ہے ظاہر ہے کہ استقراء وہ استدلال اور حجت کی قسم ہے جو اکثر دنیا کے ثبوتوں کو اسی سے مدد ملی ہے مثلاً ہمارا یہ قول کہ انسان کی دو۲ آنکھیں ہوتی ہیں اور ایک زبان اور دو کان اور وہ عورتوں کی پیشاب گاہ کی راہ سے پیدا ہوتا ہے س بات کا عقلی ثبوت کہ اس عالم کے تمام امور کا ظہور ملایکہ کے ذریعہ سے ہے نہ خود بخود ۱ مریم : ۷۲
ہم صراط کو چھوڑ کر دائیں طرف ہوئے تب بھی جہنم میں گرے اور اگر بائیں طرف ہوئے تب بھی گرے اور اگر سیدھے صراط مستقیم پر چلے تب جہنم سے بچ گئے.یہی صورت جسمانی طور پر عالم آخرت میں ہمیں نظر آجائے گی اور ہم آنکھوں سے دیکھیں گے کہ درحقیقت ایک صراط ہے جو پُل کی شکل پر دوزخ پر بچھایا گیا ہے جس کے دائیں بائیں دوزخ ہے تب ہم مامور کئے جائیں گے کہ اس پر چلیں.سو اگر ہم دنیا میں صراط مستقیم پر چلتے رہے ہیں اور دائیں بائیں نہیں چلے تو ہم کو اس صراط سے بھی خوف نہیں ہوگا اور نہ جہنم کی بھاپ ہم تک پہنچے گی اور نہ کوئی فزع اور خوف ہمارے دل پر طاری ہوگا بلکہ نور ایمان کی قوت سے چمکتی ہوئی برق کی طرح ہم اس سے گذر جائیں گے کیونکہ ہم پہلے اس سے گذر چکے ہیں اسی کی طرف اللہ جلّ شانہٗ اشارہ فرماتا ہے 333 ۱ الجزو نمبر ۲۰ سورۃ النّمل.یعنی نیکی کرنے والوں کو قیامت کے دن اس نیکی سے زیادہ بدلا ملے گا تغیرات اجرام سماوی اور حوادث کائنات الجو جو بڑے بڑے مصالح پر مشتمل اور بنی آدم کی بقا اور صحت اور ضرورات معاشرت کی اس شرط سے ممدّ و معاون ہیں کہ ان میں افراط اور تفریط نہ پایا جائے اگر یہ خود بخود ہوتے اور ایسی ذی شعور چیزوں کا درمیان قدم نہ ہوتا جو ارادہ اور فہم اور مصلحت اور اعتدال کی رعایت کرسکتے ہیں اور ہمارا تمام کاروبار زندگی اور بقا اور ضرورات معاشرت کا صاف ایسی چیزوں پر چھوڑا جاتا جو نہ شعور رکھتے ہیں نہ ادراک اور نہ مصلحت وقت کو پہچان سکتے ہیں اور نہ اپنے کاموں کو افراط اور تفریط سے محفوظ رکھ سکتے ہیں اور نہ نیک انسان اور پہلے بچہ پھر جوان اور پھر بڈھا ہوتا ہے اور آخر کسی قدر عمر پا کر مر جاتا ہے اور ایسا ہی ہمارا یہ قول کہ انسان سوتا بھی ہے اور کھاتا بھی اور آنکھوں سے دیکھتا اور ناک سے سونگھتا اور کانوں کے ذریعہ سے سنتا اور پیروں سے چلتا اور ہاتھوں سے کام کرتا اور دوکانوں میں اس کا سر ہے اور ایسا ہی اور صدہا باتیں اور ہرایک نوع نباتات اور جمادات اور حیوانات کی نسبت جو ہم نے طرح طرح کے خواص دریافت کئے ہیں ان سب کا ذریعہ بجز استقراء کے اور کیا ہے ۱ النّمل:
اور وہ ہر ایک ڈر سے اس دن امن میں رہیں گے ایسا ہی فرمایا ہے 3 33.۱ الجزو نمبر۲۵سورۃ الزخرف یعنی اے میرے بندو آج کے دن کچھ تم کو خوف نہیں اور نہ کوئی غم تمہیں ہو سکتا ہے.لیکن جو شخص دنیا میں صراط مستقیم پر نہیں چلا وہ اس وقت بھی چل نہیں سکے گا اور دوزخ میں گرے گا اور جہنم کی آگ کا ہیمہ بن جائے گا.جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے.3 33.۲ الجزو نمبر ۲۰ یعنی بدی کرنے والے اس دن جہنم میں گرائے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ یہ جزا درحقیقت وہی تمہارے اعمال ہیں جو تم دنیا میں کرتے تھے یعنی خدا تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرے گا بلکہ نیکی کے اعمال جنت کی صورت میں اور بدی کے اعمال دوزخ کی صورت میں ظاہر ہو جائیں گے.جاننا چاہیئے کہ عالم آخرت در حقیقت دنیوی عالم کا ایک عکس ہے اور جو کچھ دنیا اور بد انسان میں فرق کر کے ہریک کے ساتھ اس کے مناسب حال معاملہ کر سکتے ہیں تو دنیا میں اندھیر پڑ جاتا اور صانع حکیم و قدیر وعادل و رحیم و کریم کا کچھ پتہ نہ لگتا بلکہ یہ سلسلہ ذی روحوں کی حیات کا جو زمین پر بستی ہیں ایک دم بھی چل نہ سکتا اور دنیا مع اپنے تمام لوازم کے اپنے خاتمہ کے صدمہ کو دیکھ لیتی.پس اس سے صاف تر اور صریح تر اور روشن تر اور کیا دلیل ہوگی کہ اس آسمانی اور کائنات الجو کے سلسلہ میں وہ گڑ بڑ اور اندھیر نظر نہیں آتا جو اس صورت میں ہوتا جب کہ پھر اگر استقراء میں کسی کو کلام ہو تو یہ تمام علوم درہم برہم ہو جائیں گے اور اگر یہ خلجان ان کے دلوں میں پیدا ہو کہ آسمانوں کا اگر کچھ وجود ہے تو کیوں نظر نہیں آتا.تو اس کا یہ جواب ہے کہ ہر ایک وجود کا مرئی ہونا شرط نہیں جو وجود نہایت لطافت اور بساطت میں پڑا ہے وہ کیونکر نظر آ جائے اور کیونکر کوئی دوربین اس کو دریافت کرسکے.غرض سماوی وجود کو خدا تعالیٰ نے نہایت لطیف قرار دیا ہے چنانچہ اسی کی تصریح میں یہ آیت اشارہ کررہی ہے کہ 33 ۳ یعنی ہریک ستارہ اپنے اپنے آسمان میں جو اس کا مبلغ دور ہے تیر رہا ہے.اور درحقیقت خدا تعالیٰ نے یونانیوں ۱ الزخرف:۶۹ ۲ النمل:۹۱ ۳ یٰس ٓ:
میں روحانی طور پر ایمان اور ایمان کے نتائج اور کفر اور کفر کے نتائج ظاہر ہوتے ہیں وہ عالم آخرت میں جسمانی طور پر ظاہر ہوجائیں گے اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے3 33.۱ یعنی جو اس جہان میں اندھا ہے وہ اس جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا.ہمیں اس تمثلی وجود سے کچھ تعجب نہیں کرنا چاہیئے اور ذرا سوچنا چاہیئے کہ کیونکر روحانی امور عالم رؤیا میں متمثل ہو کر نظر آ جاتے ہیں اور عالم کشف تو اس سے بھی عجیب تر ہے کہ باوجود عدم غیبت حِس اور بیداری کے روحانی امور طرح طرح کے جسمانی اشکال میں انہیں آنکھوں سے دکھائی دیتے ہیں جیسا کہ بسا اوقات عین بیداری میں ان روحوں سے ملاقات ہوتی ہے جو اس دنیا سے گذر چکی ہیں اور وہ اسی دنیوی زندگی کے طور پر اپنے اصلی جسم میں اسی دنیا کے کپڑوں میں سے ایک پوشاک پہنے ہوئے نظر آتے ہیں اور باتیں کرتے ہیں اور بسا اوقات ان میں سے مقدس لوگ باذنہٖ تعالیٰ تمام مدار اس نظام کا بے جان اور بے شعور چیزوں پر ہوتا سو ہمیں اس دلیل کی روشنی ملائک کے وجود اور ان کی ضرورت کے ماننے کیلئے ایسی بصیرت بخشتی ہے کہ گویا ہم بچشم خود ملائک کے وجود کو دیکھ رہے ہیں.اور اگر کوئی اس جگہ یہ شبہ پیش کرے کہ کیوں یہ بات روا نہیں کہ ملائک درمیان نہ ہوں اور ہریک چیز خدا تعالیٰ کے حکم اور اذن اور تدبیر محکم سے وہی خدمت بجا لاوے جو اللہ جلّ شانہٗ کا منشا ہے کے محدّد کی طرح اپنے عرش کو قرار نہیں دیا اور نہ اس کو محدود قرار دیا.ہاں اس کو اعلیٰ سے اعلیٰ ایک طبقہ قرار دیا ہے جس سے باعتبار اس کی کیفیت اور کمیت کے اور کوئی اعلیٰ طبقہ نہیں ہے اور یہ امر ایک مخلوق اور موجود کیلئے ممتنع اور محال نہیں ہوسکتا.بلکہ نہایت قرین قیاس ہے کہ جو طبقہ عرش اللہ کہلاتا ہے وہ اپنی وسعتوں میں خدائے غیر محدود کے مناسب حال اور غیر محدود ہو.اور اگر یہ اعتراض پیش ہو کہ قرآن کریم میں یہ بھی لکھا ہے کہ کسی وقت آسمان پھٹ جائیں گے اور ان میں شگاف ہو جائیں گے اگر وہ لطیف مادہ ہے تو اس کے پھٹنے کے کیا معنے ہیں اس بات کا جواب کہ کیوں یہ بات جائز نہیں ہے کہ جو کام عالم جسمانی میں ملایک نے کرنا ہے وہ کام خود بخود ہر یک چیز اپنی فطرتی قوتوں سے کر لیوے ۱ بنی اسرآئیل:
آئند ہ کی خبریں دیتے ہیں اور وہ خبریں مطابق واقعہ نکلتی ہیں بسا اوقات عین بیداری میں ایک شربت یا کسی قسم کا میوہ عالم کشف سے ہاتھ میں آتا ہے اور وہ کھانے میں نہایت لذیذ ہوتا ہے اور ان سب امور میں یہ عاجز خود صاحب تجربہ ہے کشف کی اعلیٰ قسموں میں سے یہ ایک قسم ہے کہ بالکل بیداری میں واقع ہوتی ہے اور یہاں تک اپنے ذاتی تجربہ سے دیکھا گیا ہے کہ ایک شیریں طعام یا کسی قسم کا میوہ یا شربت غیب سے نظر کے سامنے آگیا ہے اور وہ ایک غیبی ہاتھ سے منہ میں پڑتا جاتا ہے اور زبان کی قوت ذائقہ اس کے لذیذ طعم سے لذت اٹھاتی جاتی ہے اور دوسرے لوگوں سے باتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور حواس ظاہری بخوبی اپنا اپنا کام دے رہے ہیں اور یہ شربت یا میوہ بھی کھایا جارہا ہے اور اس کی لذت اور حلاوت بھی ایسی ہی کھلی کھلی طور پر معلوم ہوتی ہے بلکہ وہ لذت اس لذت سے نہایت الطف ہوتی ہے اور یہ ہرگز نہیں کہ وہ وہم ہوتا ہے یا صرف تو ایسا شبہ درحقیقت غلط فہمی کی وجہ سے پیدا ہو گا کیونکہ ہم ابھی پہلے اس سے لکھ چکے ہیں کہ یہ بات ایک ثابت شدہ صداقت ہے کہ اجرام علوی اور عناصر اور کائنات الجو جو ہماری بقا اور حیات اور معاشرت کے خادم ٹھہرائے گئے ہیں علم اور شعور اور ارادہ نہیں رکھتے پس صرف انہیں کے تغیرات اور حوادث سے وہ کام اور وہ اغراض اور وہ مقاصد ہمارے لئے حاصل ہو جانا جو صرف عاقلانہ وزن اور تعدیل اور تدبیر اور مصلحت اندیشی سے صادر ہو سکتے ہیں ببداہت ممتنع تو اس کا یہ جواب ہے کہ اکثر قرآن کریم میں سماء سے مراد کلّ ما فی السّماء کو لیا ہے جس میں آفتاب اور ماہتاب اور تمام ستارے داخل ہیں.ماسوا اس کے ہر یک جرم لطیف ہو یا کثیف قابل خرق ہے بلکہ لطیف توبہت زیادہ خرق کو قبول کرتا ہے پھر کیا تعجب ہے کہ آسمانوں کے مادہ میں بحکم رب قدیر و حکیم ایک قسم کا خرق پیدا ہوجائے.و ذٰلک علی اللّٰہ یسیر.بالآخر یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ قرآن کریم کے ہریک لفظ کو حقیقت پر حمل کرنا بھی بڑی غلطی ہے اللہ جلّ شانہ‘ کا یہ پاک کلام بوجہ اعلیٰ درجہ کی بلاغت کے استعارات لطیفہ سے بھرا ہوا ہے.سو ہمیں اس فکر میں پڑنا کہ انشقاق اور انفجار آسمانوں کا کیونکر ہو گا درحقیقت
بے بنیاد تخیلات ہوتے ہیں بلکہ واقعی طور پر وہ خدا جس کی شان بکل خلق علیم ہے ایک قسم کے خلق کا تماشا دکھا دیتا ہے پس جب کہ اس قسم کے خلق اور پیدائش کا دنیا میں ہی نمونہ دکھائی دیتا ہے اور ہر یک زمانہ کے عارف اس کے بارے میں گواہی دیتے چلے آئے ہیں تو پھر وہ تمثلی خلق اور پیدائش جو آخرت میں ہو گی اور میزان اعمال نظر آئے گی اور پل صراط نظر آئے گا اور ایسا ہی بہت سے اور امور روحانی جسمانی تشکل کے ساتھ نظر آئیں گے اس سے کیوں عقل مند تعجب کرے.کیا جس نے یہ سلسلہ تمثلی خلق اور پیدائش کا دنیا میں ہی عارفوں کو دکھادیا ہے اس کی قدرت سے یہ بعید ہے کہ وہ آخرت میں بھی دکھا وے بلکہ ان تمثلات کو عالم آخرت سے نہایت مناسبت ہے، کیونکہ جس حالت میں اس عالم میں جو کمال انقطاع کا تجلی گاہ نہیں ہے یہ تمثلی پیدائش تزکیہ یافتہ لوگوں پر ظاہر ہو جاتی ہے تو پھر عالم آخرت میں جو اکمل اور اتم انقطاع کا مقام ہے کیوں نظر نہ آوے.ہے خدا تعالیٰ جس چیز سے کوئی کام لینا چاہتا ہے اول اس کام کے متعلق جس قدر مصالح ہیں ان تمام مصالح کے مناسب حال اس چیز میں قویٰ رکھ دیتا ہے.مثلاً ایک فعل خدا تعالیٰ کا بارش ہے جس کے انواع اقسام کے اغراض کے لئے ہمیں ضرورت ہے اور خدا تعالیٰ اپنے بندوں کے اعمال کے موافق کبھی اس بارش کو عین وقتوں پر نازل کرتا ہے اور افراط تفریط کے نقصانوں سے ہمارے کھیتوں اور ہماری صحتوں کو بچا لیتا ہے اور کبھی دنیا پر ان الفاظ کے وسیع مفہوم میں ایک دخل بے جا ہے صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تمام الفاظ اور اس قسم کے اور بھی عالم مادی کے فنا کی طرف اشارہ ہے الٰہی کلام کا مدعا یہ ہے کہ اس عالم کون کے بعد فساد بھی لازم پڑا ہوا ہے ہریک جو بنایا گیا توڑا جائے گا اور ہریک ترکیب پاش پاش ہو جائے گی اور ہریک جسم متفرق اور ذرّہ ذرّہ ہو جائے گا اور ہریک جسم اور جسمانی پر عام فنا طاری ہوگی.اور قرآن کریم کے بہت سے مقامات سے ثابت ہوتا ہے کہ انشقاق اور انفجار کے الفاظ جو آسمانوں کی نسبت وارد ہیں ان سے ایسے معنے مراد نہیں ہیں جو کسی جسم صلب اور کثیف کے حق میں مراد لئے جاتے ہیں جیسا کہ ایک دوسرے مقام میں اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے
یہ بات بخوبی یاد رکھنی چاہیئے کہ انسان عارف پر اسی دنیا میں وہ تمام عجائبات کشفی رنگوں میں کھل جاتے ہیں کہ جو ایک محجوب آدمی قصہ کے طور پر قرآن کریم کی ان آیات میں پڑھتا ہے جو معاد کے بارے میں خبر دیتی ہیں سو جس کی نظر حقیقت تک نہیں پہنچتی وہ ان بیانات سے تعجب میں پڑ جاتا ہے بلکہ بسا اوقات اس کے دل میں اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا عدالت کے دن تخت پر بیٹھنا اور ملائک کا صف باندھے کھڑے ہونا اور ترازو میں عملوں کا تلنا اور لوگوں کا ُ پل صراط پر سے چلنا اور سزا جزا کے بعد موت کو بکرے کی طرح ذبح کر دینا اور ایسا ہی اعمال کا خوش شکل یا بدشکل انسانوں کی طرح لوگوں پر ظاہر ہونا اور بہشت میں دودھ اور شہد کی نہریں چلنا وغیرہ وغیرہ یہ سب باتیں صداقت اور معقولیت سے دور معلوم ہوتی ہیں لیکن یہ تمام شکوک اس ایک ہی نکتہ کے حل ہونے سے رفع ہو جاتے ہیں کہ عالم آخرت کوئی تنبیہ نازل کرنا منظور ہوتا ہے تو بارش کو جس ملک سے چاہے روک لیتا ہے یا اس میں افراط تفریط رکھ دیتا ہے کبھی ایک ملک یا ایک شہر یا ایک گاؤں یا ایک قطعہ زمین کو بعض آدمیوں کو سزا دینے کے لئے اس بارش کے نفع سے بکلی محروم کر دیتا ہے اور جس قدر چاہتا ہے فقط اسی قدر بادل کو آسمان کی فضا میں پھیلاتا ہے یہاں تک کہ ایک کھیت میں بارش برستی ہے اور ایک دوسرا کھیت جو اسی کے ساتھ ملحق ہے اس بارش کے ایک قطرہ سے بھی بہرہ یاب نہیں ہوتا 33 ۱ یعنی دنیا کے فنا کرنے کے وقت خدا تعالیٰ آسمانوں کو اپنے داہنے ہاتھ سے لپیٹ لے گا اب دیکھو کہ اگر شقّ السماوات سے درحقیقت پھاڑنا مراد لیا جائے تو مطویّات کا لفظ اس سے مغائر اور منافی پڑے گا کیونکہ اس میں پھاڑنے کا کہیں ذکر نہیں.صرف لپیٹنے کا ذکر ہے.پھر ایک دوسری آیت ہے جو سورۃ الانبیاء جزو ۱۷ میں ہے اور وہ یہ ہے 333 33 ۲ یعنی ہم اس دن آسمانوں کو ایسا لپیٹ لیں گے جیسے ایک خط متفرق ۱ الزمر:۶۸ ۲ الانبیآء:
ایک تمثلی خلق کا عالم ہے یہ خدا تعالیٰ کے بھیدوں میں سے ایک بھید ہے کہ وہ بعض اشیاء کو تمثلی طور پر ایسا ہی پیدا کر دیتا ہے جیسا دوسرے طور پر ہوا کرتا ہے جیسے تم دیکھتے ہو کہ آئینہ میں تمہاری ساری شکل منعکس ہو جاتی ہے اور تم خیال کر سکتے ہو کہ کس طرح عکسی طور پر تمہاری تصویر کھینچی جاتی ہے کیسے تمہارے تمام خال و خط ان میں آجاتے ہیں.پھر اگر خدا تعالیٰ روحانی امور کی سچ مچ تصویر کھینچ کر اور ان میں صداقت کی جان ڈال کر تمہاری آنکھوں کے سامنے رکھ دیوے تو کیوں اس سے تعجب کیا جاوے اللہ جلّ شانہ‘ ڈھونڈنے والوں پر اسی دنیا میں یہ تمام صداقتیں ظاہر کر دیتا ہے اور آخرت میں کوئی بھی ایسا امر نہیں جس کی کیفیت اس عالم میں کھل نہ سکے.اور اگر یہ اعتراض کسی کے دل میں خلجان کرے کہ آیت3.کے بعد میں یہ آیت ہے کہ33.۱ یعنی پھر ہم وُ رود اور خشک اور دھوپ میں سڑا ہوا رہ جاتا ہے.ایسا ہی کبھی ایک ہوا کا بگڑنا ایک شہر یا ایک اقلیم یا ایک محلہ کو سخت وبا میں ڈالتا ہے اور دوسری طرف کو بکلی بچا لیتا ہے اسی طرح ہم ہزار ہادقیق در دقیق ربانی مصالح دیکھتے ہیں.جن کو ہم بے شعور عناصر اور اجرام کی طرف ہرگز منسوب نہیں کر سکتے اور یقیناً ہم جانتے ہیں کہ ایسے مصالح سے مضامین کو اپنے اندر لپیٹ لیتا ہے.اور جس طرز سے ہم نے اس عالم کو وجود کی طرف حرکت دی تھی انہیں قدموں پر پھر یہ عالم عدم کی طرف لوٹایا جائے گا یہ وعدہ ہمارے ذمہ ہے جس کو ہم کرنے والے ہیں.بخاری نے بھی اس جگہ ایک حدیث لکھی ہے جس میں جائے غور یہ لفظ ہیں.و تکون السّمٰوات بیمینہٖ یعنی لپیٹنے کے یہ معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ آسمانوں کو اپنے داہنے ہاتھ میں چھپا لے گا اور جیسا کہ اب اسباب ظاہر اور مسبب پوشیدہ ہے اس وقت مسبب ظاہر اور اسباب زاویہ عدم میں چھپ جائیں گے اور ہریک چیز اس کی طرف رجوع کر کے تجلیات قہر یہ میں مخفی ہوجائے گی.اور ہریک چیز اپنے مکان اور مرکز کو چھوڑ دے گی اور تجلیات الہٰیہ ۱ مریم:۷۳
دوز خ کے بعد متقیوں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو دوزخ میں گرے ہوئے چھوڑ دیں گے.اور نجات دینے کے مفہوم میں یہ بات داخل ہے کہ اول انسان کسی عذاب یا بلا میں مبتلا ہو پھر اس سے اس کو رہائی بخشی جاوے لیکن ان معنوں کی رو سے نعوذ باللہ لازم آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے مقرب بندے کسی حد تک عذاب دوزخ میں مبتلا ہو جائیں گے اور پھر اس سے ان کو نجات دی جائے گی تو اس وہم کا یہ جواب ہے کہ نجات کا لفظ اس جگہ اپنے حقیقی معنوں پر مستعمل نہیں بلکہ اس سے صرف اس قدر مراد ہے کہ مومنوں کا نجات یافتہ ہونا اس وقت ہم ظاہر کر دیں گے اور لوگوں کو دکھائیں گے کہ وہ اس سخت قلق اور کرب کی جگہ سے نجات پا کر اپنی مرادات کو پہنچ گئے اور قرآن کریم میں یہ سنت اللہ ہے کہ بعض الفاظ اپنی اصلی حقیقت سے پھر کر مستعمل ہوتے ہیں جیسا کہ فرماتا ہے 33.۱ یعنی قرض دو اللہ کو قرض اچھا.اب ظاہر ہے کہ قرض کی اصل تعریف کے مفہوم میں یہ داخل ہے بھرے ہوئے کام صرف بے جان اور بے شعور اور بے تدبیر اجرام اور عناصر اور دوسری کائنات الجو سے ہرگز نہیں ہوسکتے.بے شک خدا تعالیٰ اس بات پر تو قادر تھا کہ ان چیزوں سے یہ سب کام لے لیتا لیکن اگر وہ ایسا کرتا تو اول ان چیزوں کو فہم اور ادراک اور شعور اور وضع الشیء فی محلہ کی عقل بخشتا اور جب کہ یہ ثابت نہیں تو پھر ضرورتاً یہ ثابت ہے کہ ان کے اس کی جگہ لیں گی.اور علل ناقصہ کے فنا اور انعدام کے بعد علت تامہ کاملہ کا چہرہ نمودار ہوجائے گا اسی کی طرف اشارہ ہے.33 3.۲ 33 ۳ یعنی خدا تعالیٰ اپنی قہری تجلی سے ہریک چیز کو معدوم کر کے اپنی وحدانیت اور یگانت دکھلائے گا اور خدا تعالیٰ کے وعدوں سے مراد یہ بات نہیں کہ اتفاقاً کوئی بات منہ سے نکل گئی اور پھر ہر حال گلے پڑا ڈھول بجانا پڑا کیونکہ اس قسم کے وعدے سے خدائے حکیم و علیم کی شان کے لائق نہیں یہ صرف انسان ضعیف البنیان کا خاصہ ہے جس کا کوئی و عدہ تکلف اور ضعف یا مجبوری اور لاچاری ۱ الحدید:۱۹ ۲ الرحمٰن:۲۷.۲۸ ۳ المومن:۱۷
کہ انسان حاجت اور لاچاری کے وقت دوسرے سے بوقت دیگر ادا کرنے کے عہد پر کچھ مانگتا ہے لیکن اللہ جلّ شانہٗ حاجت سے پاک ہے پس اس جگہ قرض کے مفہوم میں سے صرف ایک چیز مراد لی گئی یعنی اس طور سے لینا کہ پھر دوسرے وقت اس کو واپس دیدینا اپنے ذمہ واجب ٹھہرا لیا ہو.ایسا ہی یہ آیت 33.۱ اصل مفہوم سے پھیری گئی کیونکہ عرف عام میں آزمائش کرنے والا اس نتیجہ سے غافل اور بے خبر ہوتا ہے جو امتحان کے بعد پیدا ہوتا ہے مگر اس سے اس جگہ یہ مطلب نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے امتحان میں ڈالنے سے یہ مطلب ہے کہ تا شخص زیر امتحان پر اس کے اندرونی عیب یا اندرونی خوبیاں کھول دے.غرض اسی طرح یہ لفظ نجات بھی اپنے حقیقی معنوں سے پھیرا گیا ہے جیسا کہ ایک دوسری آیت میں اس کی تصریح ثابت ہے اور وہ یہ ہے 3 3333.۲ ساتھ درپردہ اور چیزیں ہیں جن کو وَضع الشّیء فی محلّہٖ کی عقل دی گئی ہے اور وہی ملائک ہیں.میں جانتا ہوں کہ کوئی ایسا شخص جو خدا تعالیٰ کے وجود پر ایمان لاتا ہے اور اس کو رحیم اور کریم اور مدبر اور عادل سمجھتا ہے وہ ہرگز ایسا خیال نہیں کرے گا کہ اس حکیم و کریم نے اپنی ربوبیت کے نظام کا تمام کارخانہ ایسی چیزوں کے ہاتھ میں دے دیا ہے جن کو نیک و بد کے موانع سے ہمیشہ محفوظ نہیں رہ سکتا.اور باایں ہمہ تقریبات اتفاقیہ پر مبنی ہوتا ہے نہ علم اور یقین اور حکمت قدیمہ پر.مگر خدا تعالیٰ کے وعدے اس کی صفات قدیمہ کے تقاضا کے موافق صادر ہوتے ہیں اور اس کے مواعید اس کی غیر متناہی حکمت کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے.اور اگر اس جگہ کوئی یہ اعتراض پیش کرے کہ خدا تعالیٰ نے آسمانوں کو سات میں کیوں محدود کیا اس کی کیا وجہ ہے تو اس کا یہ جواب ہے کہ درحقیقت یہ تاثیرات مختلفہ کی طرف اشارہ ہے جو مختلف طبقات سماوی سے مختلف ستارے اپنے اندر جذب کرتے ہیں ۱ البقرۃ:۱۵۶ ۲ الزمر:۶۱
33.۱ الجزو نمبر ۲۴ سورۃ الزمر یعنی قیامت کے دن تو دیکھے گا کہ جنہوں نے خدا تعالیٰ پر جھوٹ بولا ان کے منہ کالے ہیں.(اور کیوں کالے نہ ہوں) کیا یہ لائق نہیں کہ متکبر لوگ جہنم میں ہی گرائے جائیں اور اللہ تعالیٰ متقیوں کو نجات دے گا اس طور سے کہ ان کو ان کی مرادات تک پہنچائے گا ان کو برائی نہیں لگے گی اور نہ وہ غمگین ہوں گے.اب یہ آیت اُس پہلی آیت کی گویا تفسیر کرتی ہیں کیونکہ اس میں نجات دینے کی حقیقت یہ کھولی ہے کہ وہ اپنی مرادات کو پہنچ جائیں گے اور یہ بھی ظاہر کر دیا کہ وہ اس دن برائی کی مس سے بالکل محفوظ ہوں گے ایک ذرا تکلیف ان کو چھوئے گی بھی نہیں اور غم ان کے نزدیک نہیں آئے گا.اور اس آیت 3۲ کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ دراصل کی شناخت عطا نہیں ہوئی اور تدابیر اور تعدیل اور مصلحت شناسی کی قوتیں بخشی نہیں گئیں ہاں ایک طبعی اور دَہری جو خدا تعالیٰ کے وجود سے ہی منکر ہے ضرور ایسا خیال کرے گا مگر وہ ساتھ ہی غفلت کی وجہ سے یہ بھی کہے گا کہ جو کچھ اجرام سماوی یا عناصر اور کائنات الجو سے ظہور میں آرہا ہے وہ بروفق حکمت اور مصلحت نہیں ہے اور نہ خدا موجود ہے تا اس کو حکمت اور مصلحت سے کام کرنے والا مان لیا جائے بلکہ اتفاقاً اجرام علوی اور اور پھر زمین پر ان تاثیرات کو ڈالتے ہیں.چنانچہ اسی کی تصریح اس آیت میں موجود ہے.33 33.۳ الجزو نمبر۲۸ یعنی خدا ئے تعالیٰ نے آسمانوں کو سات پیدا کیا اور ایسا ہی زمینیں بھی سات ہی پیدا کیں اور ان سات آسمانوں کا اثر جو بامر الٰہی ان میں پیدا ہے سات زمینوں میں ڈالا تاکہ تم لوگ معلوم کر لو کہ خدا تعالیٰ ہر ایک چیز کے بنانے پر اور ہر ایک انتظام کے کرنے پر اور رنگا رنگ ۱ الزمر:۶۲ ۲ مریم:۷۲ ۳ الطلاق:
مخا طب وہی لوگ ہوں کہ جو عذاب دوزخ میں گرفتار ہوں.پھر بعض ان میں سے کچھ حصہ تقویٰ کا رکھتے ہیں اس عذاب سے نجات پاویں اور دوسرے دوزخ میں ہی گرے رہیں اور یہ معنے اس حالت میں ہوں گے کہ جب اس خطاب سے ابرار اور اخیار اور تمام مقدس اور مقرب لوگ باہر رکھے جائیں لیکن حق بات یہ ہے کہ اللہ جلّ شانہٗ کی کلام کا منشاء وہی معنی معلوم ہوتے ہیں جو ابھی ہم لکھ چکے ہیں واللّٰہ اعلم بالصواب و الیہ المرجع والمآب.اب پھر ہم بحث ظلومیت کی طرف رجوع کر کے لکھتے ہیں کہ ظلومیت کی صفت جو مومن میں ہے یہی اس کو خدا تعالیٰ کا پیارا بنا دیتی ہے اور اسی کی برکت سے مومن بڑے بڑے مراحل سلوک کے طے کرتا اور ناقابل برداشت تلخیاں اور طرح طرح کی دوزخوں کی جلن اور حرقت اپنے لئے بخوشی خاطر قبول کر لیتا ہے یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جس جگہ انسان کی اعلیٰ درجہ کی مدح بیان کی ہے اور اس کو سفلی کے حوادث اور تغیرات سے کبھی خیر اور کبھی شر انسانوں کے لئے پیش آجاتی ہے سو اس کے قائل کرنے کے لئے الگ طریق ہے جو بہت صاف اور جلد اس کا منہ بند کرنے والا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے زبردست کام اور پیشگوئیاں جو ربانی طاقت اپنے اندر رکھتی ہیں جو ملہموں اور واصلان الہٰی کو دی جاتی ہیں اللہ جلّ شانہٗ کے وجود اور اس کی صفات کاملہ جمیلہ جلیلہ پر دلالت قویہ قطعیہ یقینیہ رکھتی ہیں لیکن افسوس کہ دنیا میں کے پیرائیوں میں اپنے کام دکھلانے پر قدرت تامہ رکھتا ہے اور تا تمہارے علوم وسیع ہو جائیں اور علوم و فنون میں تم ترقی کرو اور ہیئت اور طبعی اور طبابت اور جغرافیہ وغیرہ علوم تم میں پیدا ہو کر خدا تعالیٰ کی عظمتوں کی طرف تم کو متوجہ کریں اور تم سمجھ لو کہ کیسے خدا تعالیٰ کا علم اور اس کی حکمت کاملہ ہریک شے پر محیط ہو رہی ہے اور کیسی ترکیب ابلغ اور ترتیب محکم کے ساتھ آسمان اور جو کچھ اس میں ہے اپنا رشتہ زمین سے رکھتا ہے اور کیسے خدا تعالیٰ نے زمین کو قوت قابلہ عطا کر رکھی ہے اور آسمانوں اور ان کے اجرام کو قوت مؤثرہ مرحمت فرمائی ہے
فرشتو ں پر بھی ترجیح دی ہے اس مقام میں اس کی یہی فضیلت پیش کی ہے کہ وہ ظلوم اور جہول ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے 333.۱ یعنی اُس امانت کو جو ربوبیت کا کامل ابتلا ہے جس کو فقط عبود ّ یت کاملہ اٹھا سکتی ہے انسان نے اٹھا لیا کیونکہ وہ ظلوم اور جہول تھا یعنی خدا تعالیٰ کے لئے اپنے نفس پر سختی کر سکتا تھا اور غیر اللہ سے اس قدر دور ہوسکتا تھا کہ اس کی صورت علمی سے بھی اس کا ذہن خالی ہوجاتا تھا.واضح ہو کہ ہم سخت غلطی کریں گے اگر اس جگہ ظلوم کے لفظ سے کافر اور سرکش اور مشرک اور عدل کو چھوڑنے والا مراد لیں گے کیونکہ یہ ظلوم جہول کا لفظ اس جگہ اللہ جلّ شانہٗ نے انسان کے لئے مقام مدح میں استعمال کیا ہے نہ مقام ذم میں اور اگر نعوذ باللہ یہ مقام ذم میں ہو تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ سب سے بدتر انسان ہی تھا جس نے خدا تعالیٰ کی پاک امانت کو اپنے سر پر اٹھا لیا اور اس کے حکم کو مان لیا.بلکہ نعوذ باللہ یوں کہنا پڑے گا کہ سب سے زیادہ صدق دل سے خدا تعالیٰ کو طلب کرنے والے اور اس کی معرفت کی راہوں کے بھوکے اور پیاسے بہت کم ہیں اور اکثر ایسے لوگوں سے دنیا بھری پڑی ہے جو پکارنے والے کی آواز نہیں سنتے اور بلانے والے کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور جگانے والے کے شور سے آنکھ نہیں کھولتے.ہم نے اس امر کی تصدیق کرانے کے لئے خدا تعالیٰ سے فضل اور توفیق اور اذن پا کر ہر ایک مخالف کو بلایا مگر کوئی شخص دل کے صدق اور سچی طلب سے ہماری طرف متوجہ نہیں ہوا اور یاد رہے کہ جس طرح تنزّل امر جسمانی اور روحانی دونوں طور پر آسمانوں سے ہوتا ہے اور ملائک کی توجہات اجرام سماوی کی تاثیرات کے ساتھ مخلوط ہو کر زمین پر گرتی ہیں ایسا ہی زمین اور زمین والوں میں بھی جسمانی اور روحانی دونوں قوتیں قابلیت کی عطا کی گئی ہیں تا قوابل اور مؤثرات میں بکلی مساوات ہو.اور سات زمینوں سے مراد زمین کی آبادی کے سات طبقے ہیں جو نسبتی طور پر بعض بعض کے تحت واقع ہیں اور کچھ بے جا نہ ہوگا کہ اگر ہم دوسرے لفظوں میں ان طبقات سبعہ
ظالم اور جاہل انبیاء اور رسول تھے جنہوں نے سب سے پہلے اس امانت کو اٹھا لیا حالانکہ اللہ جلّ شانہٗ آپ فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا ہے پھر وہ سب سے بدتر کیونکر ہوا اور انبیاء کو سید العادلین قرار دیا ہے پھر وہ ظلوم و جہول دوسرے معنوں کی رو سے کیونکر کہلاویں.ماسوا اس کے ایسا خیال کرنے میں خدا تعالیٰ پر بھی اعتراض لازم آتا ہے کہ اس کی امانت جو وہ دینی چاہتا تھا وہ کوئی خیر اور صلاحیت اور برکت کی چیز نہیں تھی بلکہ شر اور فساد کی چیز تھی کہ شریر اور ظالم نے اس کو قبول کیا اور نیکوں نے اس کو قبول نہ کیا مگر کیا خدا تعالیٰ کی نسبت یہ بدظنی کرنا جائز ہے کہ جو چیز اس کے چشمہ سے نکلے اور جس کا نام وہ اپنی امانت رکھے جو پھر اس کی طرف ردّ ہونے کے لائق ہے وہ درحقیقت نعوذ باللہ خراب اور پلید چیز ہو جس کو بجز ایسے ظلوم کے جو درحقیقت سرکش اور نافرمان اور نعمت عدل سے بکلّی بے نصیب ہے کوئی دوسرا قبول نہ کرسکے.افسوس کہ ایسے مکروہ خیالوں والے کچھ بھی خدا تعالیٰ اور اگر کوئی متوجہ ہوتا یا اب بھی ہو تو وہ زندہ خدا جس کی قدرتیں ہمیشہ عقلمندوں کو حیران کرتی رہی ہیں وہ قادر قیّوم جو قدیم سے اس جہان کے حکیموں کو شرمندہ اور ذلیل کرتا رہا ہے بلاشبہ آسمانی چمک سے اس پر حجت قائم کرے گا دنیا میں بڑی خرابی جو افعال شنیعہ کا موجب ہو رہی ہے اور آخرت کی طرف سر اٹھانے نہیں دیتی دراصل یہی ہے کہ اکثر لوگوں کو جیسا کہ چاہئے خدا تعالیٰ پر ایمان نہیں.بعض تو اس زمانہ میں کھلی کھلی ہستی باری تعالیٰ کو ہفت اقلیم کے نام سے موسوم کر دیں لیکن ناظرین اس دھوکہ میں نہ پڑیں کہ جو کچھ ہفت اقلیم کی تقسیم ان یونانی علوم کی رو سے ہو چکی ہے جس کو اسلام کے ابتدائی زمانہ میں حکماء اسلام نے یونانی کتب سے لیا تھا وہ بکلّی صحیح اور کامل ہے کیونکہ اس جگہ تقسیم سے مراد ہماری ایک صحیح تقسیم مراد ہے جس سے کوئی معمورہ باہر نہ رہے اور زمین کی ہر ایک جزو کسی حصہ میں داخل ہوجائے ہمیں اس سے کچھ غرض نہیں کہ اب تک یہ صحیح اور کامل تقسیم معرض ظہور میں بھی آئی یا نہیں بلکہ صرف یہ غرض ہے کہ جو خیال اکثر انسانوں کا اس طرف رجوع کر گیا ہے کہ زمین کو سات حصہ
کی عظمت نگہ نہیں رکھتے وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ امانت اگر سراسر خیر ہے تو اس کا قبول کر لینا ظلم میں کیوں داخل ہے اور اگر امانت خود شر اور فساد کی چیز ہے تو پھر وہ خدا تعالیٰ کی طرف کیوں منسوب کی جاتی ہے.کیا خدا تعالیٰ نعوذ باللہ فساد کا مبدا ہے اور کیا جو چیز اس کے پاک چشمہ سے نکلتی ہے اس کا نام فساد اور شر رکھنا چاہیئے؟ ظلمت ظلمت کی طرف جاتی ہے اور نور نور کی طرف سو امانت نور تھی اور انسان ظلوم جہول بھی ان معنوں کر کے جو ہم بیان کر چکے ہیں ایک نور ہے اس لئے نور نے نور کو قبول کر لیا.وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو وہ ملایک میں نہیں تھا نجوم میں نہیں تھا قمر میں نہیں تھا آفتاب میں بھی نہیں تھا وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا.وہ لعل اور یاقوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں کے ہی منکر ہیں اور بعض اگرچہ زبان سے قائل ہیں مگر ان کے اعمال اور خیال اور ہاتھ اور پیر گواہی دے رہے ہیں کہ وہ اللہ جلّ شانہٗ پر ایمان نہیں رکھتے اور دن رات دنیا کی فکروں میں ایسے لگے ہوئے ہیں کہ مرنا بھی یاد نہیں اس کا بھی یہی سبب ہے کہ اکثر دلوں پر ظلمت چھا گئی ہے اور نور معرفت کا ایک ذرا دلوں میں باقی نہیں رہا.اب واضح ہو کہ ہم ملائک کی ضرورت وجود کا ثبوت بکلّی دے چکے جس کا ماحصل یہ ہے پر تقسیم کیا جائے.یہ خیال بھی گویا ایک الہامی تحریک تھی جو الٰہی تقسیم کے لئے بطور شاہد ہے.اگر یہ اعتراض پیش ہو کہ قرآن کریم میں جو خدا تعالیٰ نے کئی بار فرمایا ہے کہ ہم نے چھ دن میں زمین و آسمان کو پیدا کیا تو یہ امر ضعف پر دلالت کرتا ہے کیونکہ معاً اس کے ارادہ کے ساتھ ہی سب کچھ ہوجانا لازم ہے جیسا کہ وہ آپ ہی فرماتا ہے3 33 ۱ یعنی جب خدا تعالیٰ ایک چیز کے ہونے کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کا امر ایسی قوت اور طاقت اور قدرت اپنے اندر رکھتا ہے کہ وہ اس چیز ۱ یٰس ٓ:۸۳
جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ ا ور ارفع فرد ہمارے سیّد و مولیٰ سیّد الانبیاء سیّد الاحیاء محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.سو وہ ُ نور اس انسان کو دیا گیا اور حسب مراتب اس کے تمام ہم رنگوں کو بھی یعنی ان لوگوں کو بھی جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں اور امانت سے مراد انسان کامل کے وہ تمام قویٰ اور عقل اور علم اور دل اور جان اور حواس اور خوف اور محبت اور عزت اور وجاہت اور جمیع نعماء روحانی و جسمانی ہیں جو خدا تعالیٰ انسان کامل کو عطا کرتا ہے اور پھر انسان کامل برطبق آیت33.۱ اس ساری امانت کو جناب الٰہی کو واپس دے دیتا ہے یعنی اس میں فانی ہو کر اس کی راہ میں وقف کر دیتا ہے.جیسا کہ ہم مضمون حقیقتِ اسلام میں بیان کر چکے ہیں اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سید ہمارے مولیٰ ہمارے ہادی نبی امی صادق مصدوق محمدؐ مصطفےٰ کہ خدا تعالیٰ جو اپنے تنزّہ اور تقدس میں ہریک برتر سے برتر ہے اپنی تدلیات اور تجلیات میں مظاہر مناسبہ سے کام لیتا ہے اور چونکہ جسم اور جسمانی چیزیں اپنے ذاتی خواص اور اپنی ہستی کی کامل تقیدات سے مقید ہو کر اور بمقابل ہستی اور وجود باری اپنا نام ہست اور موجود رکھا کر اور اپنے ارادوں یا اپنے طبعی افعال سے اختصاص پا کر اور ایک مستقل وجود جامع ہویت نفس اور مانع ہویت غیر بن کر ذات علت العلل اور فیاض مطلق سے دور جا پڑے ہیں اور ان کے وجود کے گردا گرد اپنی ہستی اور انانیت کا اور مخلوقیت کا ایک بہت ہی موٹا حجاب ہے اس لئے وہ اس لائق نہیں رہیں کہ ذات احدیت کے وہ فیضان براہ راست ان پر نازل ہو سکیں جو صرف اس صورت میں نازل ہو سکتے ہیں کہ جب حجب مذکورہ بالا درمیان نہ ہوں جو اس کے علم میں ایک علمی وجود رکھتا ہے فقط یہ کہتا ہے کہ ہو تو وہ ہو جاتی ہے.اس وہم کا جواب یہ ہے کہ قدرت اور طاقت کا مفہوم اس بات کو مستلزم نہیں کہ وہ ۱ النسآء:
صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی جیسا کہ خود خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.333 33.۱ 3 333.۲ 333۳ 3.۴ 33.۵ یعنی ان کو کہدے کہ میری نماز اور میری پرستش میں جدوجہد اور میری قربانیاں اور میرا زندہ رہنا اور میرا مرنا سب خدا کے لئے اور اس کی راہ میں ہے.وہی خدا جو تمام عالموں کا رب ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں اوّل المسلمین ہوں یعنی دنیا کی ابتداء سے اس کے اخیر تک میرے جیسا اور کوئی کامل انسان نہیں جو ایسا اعلیٰ درجہ کا فنا فی اللہ ہو اور ایک ایسی ہستی ہو جو بکلی نیستی کے مشابہ ہو کیونکہ ان تمام چیزوں کی ہستی نیستی کے مشابہ نہیں ہر ایک چیز اس قسم کی مخلوقات میں سے بزبان حال اپنی ہستی کا بڑے زورو شور سے اقرار کررہی ہے آفتاب کہہ رہا ہے کہ میں وہ ہوں جس پر تمام گرمی و سردی و روشنی کا مدار ہے جو ۳۶۵ صورتوں میں تین سو پینسٹھ قسم کی تاثیریں دنیا میں ڈالتا ہے اور اپنی شعاعوں کے مقابلہ سے گرمی اور اپنی انحراف شعاعوں سے سردی پیدا کرتا ہے اور اجسام اور اجسام کے مواد اور اجسام کی شکلوں اور حواس پر اپنی حکومت رکھتا ہے.زمین کہہ رہی ہے کہ میں وہ ہوں کہ جس پر ہزارہا ملک آباد ہیں اور جو طرح طرح کی نباتات پیدا کرتی اور طرح طرح کے جواہر اپنے اندر طیار کرتی اور آسمانی تاثیرات کو عورت کی طرح قبول کرتی ہے.آگ بزبان حال کہہ رہی ہے کہ میں ایک جلانے والی چیز خوانخواہ بلا توقف ہو جائے اور نہ ارادہ کے مفہوم میں ضروری طور پریہ بات داخل ہے کہ جس چیز کا ارادہ کیا گیا ہے وہ اسی وقت ہوجائے بلکہ اسی حالت میں ایک قدرت اور ایک ارادہ کو کامل قدرت ۱ الانعام:۱۶۳.۱۶۴ ۲ الانعام:۱۵۴ ۳ اٰل عمران:۳۲ ۴ اٰل عمران:۲۱ ۵ المومن:
جو خدا تعالیٰ کی ساری امانتیں اس کو واپس دینے والا ہو.اس آیت میں ان نادان موحدوں کا ردّ ہے جو یہ اعتقاد رکھتے ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسرے انبیاء پر فضیلت کلی ثابت نہیں اور ضعیف حدیثوں کو پیش کر کے کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ مجھ کو یونس بن متیّٰ سے بھی زیادہ فضیلت دی جائے.یہ نادان نہیں سمجھتے کہ اگر وہ حدیث صحیح بھی ہو تب بھی وہ بطور انکسار اور تذلل ہے جو ہمیشہ ہمارے سیّد صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی ہر ایک بات کا ایک موقع اور محل ہوتا ہے اگر کوئی صالح اپنے خط میں احقر عباد اللہ لکھے تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ یہ شخص درحقیقت تمام دنیا یہاں تک کہ بت پرستوں اور تمام فاسقوں سے بدتر ہے اور خود اقرار کرتا ہے کہ وہ احقر عباد اللہ ہے کس قدر نادانی اور شرارت نفس ہے.غور سے دیکھنا چاہیئے کہ جس حالت میں اللہ جلّ شانہٗ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چیز ہوں اور بالخاصیت قوت اور احراق میرے اندر ہے اور اندھیرے میں قائم مقام آفتاب ہوں اسی طرح زمین کی ہر ایک چیز بزبان حال اپنی ثنا کررہی ہے مثلاً سنا کہتی ہے کہ میں دوسرے درجہ کے آخری حصہ میں گرم اور اول درجہ میں خشک اور بلغم اور سودا اور صفرا اور اخلاط سوختہ کا مسہل ہوں اور دماغ کی منقّی ہوں.اور صرع اور شقیقہ اور جنون اور صداع ُ کہنہ و درد پہلو و ضیق النفس و قولنج و عرق النساء و نقرس و تشنج عضل و داء الثعلب و داء الحیہ اورحکہ اور جرب اور بثورُ کہنہ اور اوجاع مفاصل بلغمی و صفراوی مخلوط باہم اور تمام امراض سوداوی کو نافع ہوں اور ریوند بول رہی ہے کہ میں مرکب القویٰ ہوں اور دوسرے درجہ کی پہلے مرتبہ میں گرم اور خشک ہوں اور بالعرض مبرّد بھی بوجہ شدت تحلیل ہوں اور رطوبات فضلیہ اور کامل ارادہ کہا جائے گا جب کہ وہ ایک فاعل کے اصل منشاء کے موافق جلد یا دیر کے ساتھ جیسا کہ منشاء ہو ظہور میں آوے مثلاً چلنے میں کامل قدرت اس شخص کی نہیں کہہ سکتے کہ جلد جلد وہ ہمارے نبی صلعم کو تمام انبیاء پر فضیلت کلّی ہے.
کا نا م اول المسلمین رکھتا ہے اور تمام مطیعوں اور فرمانبرداروں کا سردار ٹھہراتا ہے اور سب سے پہلے امانت کو واپس دینے والا آنحضرت صلعم کو قرار دیتا ہے تو پھر کیا بعد اس کے کسی قرآن کریم کے ماننے والے کو گنجائش ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اعلیٰ میں کسی طرح کا جرح کرسکے.خدا تعالیٰ نے آیت موصوفہ بالا میں اسلام کے لئے کئی مراتب رکھ کر سب مدارج سے اعلیٰ درجہ وہی ٹھہرایا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت کو عنایت فرمایا.سبحان اللّٰہ ما اعظم شانک یا رسول اللّٰہ موسیٰ و عیسیٰ ہمہ خیلِ تواند جملہ درین راہ طفیلِ تواند پھر بقیہ ترجمہ یہ ہے کہ اللہ جلّ شانہٗ اپنے ر سول کو فرماتا ہے کہ ان کو کہہ دے کہ میری راہ جو ہے وہی راہ سیدھی ہے سو تم اس کی پیروی کرو اور اَور راہوں پر مت چلو کہ وہ تمہیں خدا تعالیٰ سے دور ڈال اپنے اندر رکھتی ہوں مجفّف ہوں قابض ہوں جالی ہوں اور منضج اور مقطع مواد لزجہ ہوں اور سموم باردہ کا تریاق ہوں خاص کر عقرب کیلئے اور اخلاط غلیظہ اور رقیقہ کا مسہل ہوں اور حیض اور بول کی مدر ہوں اور جگر کو قوت دیتی ہوں اور اس کے اور نیز طحال اور امعاء کےُ سدّ ے کھولتی ہوں اور ریحوں کو تحلیل کرتی ہوں اور پرانی کھانسی کو مفید ہوں اور ضیق النفس اور سل اور قرحہ ریہ وامعاء اور استسقاء کی تمام قسموں اور یرقان سدی اور اسہال سدی اور ماساریقا اور ذو سنطار یا اور تحلیل نفخ اور ریاح اور اور ام باردہ احشا و تخمہ و مغص و بواسیر و نواسیر و تپ ربع کو مفید ہوں.اور جدوار کہتی ہے کہ میں تیسرے درجہ کے اول مرتبہ میں گرم اور خشک ہوں اور حرارت غریزی سے بہت ہی مناسبت رکھتی ہوں اور چل سکتا ہے اور آہستہ آہستہ چلنے سے وہ عاجز ہے بلکہ اس شخص کو کامل القدرت کہیں گے کہ جو دونوں طور جلد اور دیر میں قدرت رکھتا ہویا مثلاً ایک شخص ہمیشہ اپنے ہاتھ کو لمبا رکھتا ہے اور اکٹھا کرنے کی
دیں گی.ان کو کہہ دے کہ اگر تم خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو آؤ.میرے پیچھے پیچھے چلنا اختیار کرو یعنی میرے طریق پر جو اسلام کی اعلیٰ حقیقت ہے قدم مارو تب خدا تعالیٰ تم سے بھی پیار کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا.ان کو کہہ دے کہ میری راہ یہ ہے کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ اپنا تمام وجود خدا تعالیٰ کو سونپ دوں اور اپنے تئیں ربّ العالمین کے لئے خالص کر لوں یعنی اس میں فنا ہو کر جیسا کہ وہ ربّ العالمین ہے میں خادم العالمین بنوں اور ہمہ تن اسی کا اور اسی کی راہ کا ہو جاؤں.سو میں نے اپنا تمام وجود اور جو کچھ میرا تھا خدا تعالیٰ کا کردیا ہے اب کچھ بھی میرا نہیں جو کچھ میرا ہے وہ سب اس کا ہے.اور یہ وسوسہ کہ ایسے معنے آیت ظلوم و جہول کے کس نے متقدمین سے کئے ہیں اور کون اہل زبان میں سے ظلم کے ایسے معنی بھی کرتا ہے اس وہم کا جواب یہ ہے کہ ہمیں بعد مفرح اور مقوی قویٰ اور اعضاء رئیسہ دل اور دماغ اور کبد ہوں اور احشاء کی تقویت کرتی ہوں اور تمام گرم اور سرد زہروں کا تریاق ہوں.اور اسی وجہ سے زرنباد اور مشک اور زنجبیل کا قلیل حصہ اپنے ساتھ ملا کر تیزاب گوگرد اور آب قاقلہ سفید اور آب پودینہ اور آب بادیان کے ساتھ ہیضہ وبائی کو باذن اللہ بہت مفید ہوں اور مسکن اوجاع اور مقوی باصرہ ہوں اور تفتیت حصاۃ اور قلع قولنج و عسر البول و رفع تپ ربع میں نفع رکھتی ہوں اور بقدر نیم مثقال گزیدہ مار اور عقرب کے لئے بہت ہی فائدہ مند ہوں یہاں تک کہ عقرب جرارہ کی بھی زہر دور کرتی ہوں اور بید مشک اور عرق نیلوفر کے ساتھ دل کے ضعف کو بہت جلد نفع پہنچاتی ہوں اور کم ہوتی ہوئی نبض کو تھام لیتی ہوں اور گلاب کے طاقت نہیں یا کھڑا رہتا ہے اور بیٹھنے کی طاقت نہیں تو ان سب صورتوں میں ہم اس کو قوی قرار نہیں دیں گے بلکہ بیمار اور معلول کہیں گے غرض قدرت اسی وقت کامل طور پر متحقق ہو سکتی ہے اس وسوسہ کا جواب کہ آیا کسی نے متقدمین سے اس آیت کے یہ معنے کئے ہیں
کلام اللہ کے کسی اور سند کی ضرورت نہیں.کلام الٰہی کے بعض مقامات بعض کی شرح ہیں.پس جس حالت میں خدا تعالیٰ نے بعض متقیوں کا نام بھی ظالم رکھا ہے اور مراتب ثلاثہ تقویٰ سے پہلا مرتبہ تقویٰ کا ظلم کو ہی ٹھہرایا ہے تو اس سے ہم نے قطعی اور یقینی طور پر سمجھ لیا کہ اس ظلم کے لفظ سے وہ ظلم مراد نہیں ہے جو تقویٰ سے دور اور کفار اور مشرکین اور نافرمانوں کا شعار ہے بلکہ وہ ظلم مراد ہے جو سلوک کے ابتدائی حالات میں متقیوں کے لئے شرط متحتم ہے یعنی جذبات نفسانی پر حملہ کرنا اور بشریت کی ظلمت کو اپنے نفس سے کم کرنے کے لئے کوشش کرنا جیسا کہ اس دوسری آیت میں بھی کم کرنے کے معنی ہیں اور وہ یہ ہے 33.۱ ای و لم تنقص دیکھو قاموس اور صحاح اور صراح جو ظلم کے معنے کم کرنے کے بھی لکھے ہیں اور اس آیت کے یہی معنے کئے ہیں یعنی و لم تنقص.کے ساتھ وجع مفاصل کو مفید ہوں اور سنگ گردہ اور مثانہ کو نافع ہوں اگر بول بند ہوجائے تو شیرہ تخم خیارین کے ساتھ جلد اس کو کھول دیتی ہوں اور قولنج ریحی کو مفید ہوں اور اگر بچہ پیدا ہونے میں مشکل پیش آ جائے تو آب عنب الثعلب یا حلبہ یا شیرہ خارخسک کے ساتھ صرف دو دانگ پلانے سے وضع حمل کرا دیتی ہوں اور ام الصبیان اور اکثر امراض دماغی اور اعصابی کو مفید ہوں اور اورام مغابن یعنی پس گوش اور زیر بغل اور بن ران اور خناق اور خنازیر اور تمام اورام گلو کو نفع پہنچاتی ہوں اور طاعون کے لئے مفید ہوں اور سرکہ کے ساتھ پلکوں کے ورم کو نفع دیتی ہوں اور دانتوں پر ملنے سے ان کے اس درد کو دور کر دیتی ہوں جو بوجہ مادہ باردہ ہو اور بواسیر پر ملنے سے اس کی درد کو ساکن کردیتی کہ جب کہ دونوں شق سرعت اور بطُو پر قدرت ہو اگر ایک شق پر قدرت ہو تو وہ قدرت نہیں بلکہ عجز اور ناتوانی ہے تعجب کہ ہمارے مخالف خدا تعالیٰ کے قانون قدرت کو بھی نہیں دیکھتے کہ ۱ الکہف:
ماسو ا اس کے اس معنے کے کرنے میں یہ عاجز متفرد نہیں بڑے بڑے محقق اور فضلاء نے جو اہل زبان تھے یہی معنے کئے ہیں چنانچہ منجملہ ان کے صاحب فتوحات مکیہ ہیں جو اہل زبان بھی ہیں وہ اپنی ایک تفسیر میں جو مصر کے چھاپہ میں چھپ کر شائع ہوئی ہے یہی معنے کرتے ہیں چنانچہ انہوں نے زیر تفسیر آیت 333.۱ یہی معنے لکھے ہیں کہ یہ ظلوم و جہول مقام مدح میں ہے اور اس سے مطلب یہی ہے کہ انسان مومن احکام الٰہی کی بجا آوری میں اپنے نفس پر اس طور سے ظلم کرتا ہے جو نفس کے جذبات اور خواہشوں کا مخالف ہوجاتا ہے اور اس سے اس کے جوشوں کو گھٹاتا ہے اور کم کرتا ہے.اور صاحب تفسیر حسینی خواجہ محمد پارسا کی تفسیر سے نقل کرتے ہیں کہ آیت کے یہ معنی ہیں کہ انسان نے اس امانت کو اس لئے اٹھا لیا کہ وہ ظلوم تھا یعنی اس بات پر قادر تھا کہ اپنے نفس اور اس کی خواہشوں سے ہوں اور آنکھ میں چکانے سے رمد بارد کو دور کر دیتی ہوں اور احلیل میں چکانے سے نافع حبس البول ہوں اور مشک وغیرہ ادویہ مناسبہ کے ساتھ باہ کیلئے سخت موثر ہوں اور صرع اور سکتہ اور فالج اور لقوہ اور استرخاء اور رعشہ اور خدر اور اس قسم کی تمام امراض کو نافع ہوں اور اعصاب اور دماغ کے لئے ایک اکسیر ہوں اور اگر میں نہ ملوں تو اکثر باتوں میں زرنباد میرا قائم مقام ہے.غرض یہ تمام چیزیں بزبان حال اپنی اپنی تعریف کر رہی ہیں اور محجوب بانفسہا ہیں یعنی اپنے خواص کے پردہ میں محجوب ہیں اس لئے مبدء فیض سے دور پڑ گئی ہیں اور بغیر ایسی چیزوں کے توسط کے جو اِن حجابوں سے منزہ ہوں مبدء فیض کا کوئی ارادہ ان سے دنیا میں اپنے قضا و قدر کو جلد بھی نازل کرتا ہے اور دیر سے بھی.ہاں یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صفات قہریہ اکثر جلدی کے رنگ میں ظہور پذیر ہوتے ہیں اور صفات لطیفہ دیر اور توقف کے پیرایہ میں مثلاً ان معنوں کے کرنے میں یہ عاجز متفرد نہیں ہے ۱ الاحزاب:
باہر آجائے یعنی جذبات نفسانی کو کم بلکہ معدوم کر دیوے اور ہویت مطلقہ میں گم ہو جائے اور انسان جہول تھا اس لئے کہ اس میں یہ قوت ہے کہ غیر حق سے بکلی غافل اور نادان ہو جائے اور بقول لا الٰہ الا اللّٰہ نفی ماسوا کی کر دیوے اور ابن جریر بھی جو رئیس المفسرین ہے اس آیت کی شرح میں لکھتا ہے کہ ظلوم اور جہول کا لفظ محل مدح میں ہے نہ ذم میں غرض اکابر اور محققین جن کی آنکھوں کو خدا تعالیٰ نے نور معرفت سے منور کیا تھا وہ اکثر اسی طرف گئے ہیں کہ اس آیت کے بجز اس کے اور کوئی معنے نہیں ہو سکتے کہ انسان نے خدا تعالیٰ کی امانت کو اٹھا کر ظلوم اور جہول کا خطاب مدح کے طور پر حاصل کیا نہ ذم کے طور پر چنانچہ ابن کثیر نے بھی بعض روایات اسی کی تائید میں لکھی ہیں اور اگر ہم اس تمام آیت پر کہ 3 3 33 3 تعلق نہیں پکڑ سکتا کیونکہ حجاب اس فیض سے مانع ہے اس لئے خدا تعالیٰ کی حکمت نے تقاضا کیا کہ اس کی ارادات کا مظہر اول بننے کے لئے ایک ایسی مخلوق ہو جو محجوب بنفسہ نہ ہو بلکہ اس کی ایک ایسی نرالی خلقت ہو جو برخلاف اور چیزوں کے اپنی فطرت سے ہی ایسی واقع ہو کہ نفس حاجب سے خالی اور خدا تعالیٰ کے لئے اس کے جوارح کی طرح ہو.اور خدا تعالیٰ کے جمیع ارادات کے موافق جو مخلوق اور مخلوق کے کل عوارض سے تعلق رکھتے ہیں اس کی تعداد ہو اور وہ نرالی پیدائش کی چیزیں مرایا صافیہ کی طرح اپنی فطرت رکھ کر ہر وقت خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوں اور اپنے وجود میں ذوجہتین ہوں.ایک جہت تجرد اور تنزّہ کی جو اپنے وجود میں وہ نہایت الطف اور منزہ عن الحجب ہوں جس کی وجہ سے وہ دوسری مخلوق سے نرالی انسان نو مہینے پیٹ میں رہ کر اپنے کمال وجود کو پہنچتا ہے اور مرنے کے لئے کچھ بھی دیر کی ضرورت نہیں مثلاً انسان اپنے مرنے کے وقت صرف ایک ہی ہیضہ کا دست یا تھوڑا سا پانی قے کے طور پر نکال کر راہی ملک بقاہوجاتا ہے اور وہ
3.۱ ایک نظر غور کی کریں تو یقینی طور پر معلوم ہو گا کہ وہ امانت جو فرشتوں اور زمین اور پہاڑوں اور تمام کواکب پر عرض کی گئی تھی اور انہوں نے اٹھانے سے انکار کیا تھاوہ جس وقت انسان پر عرض کی گئی تھی تو بلاشبہ سب سے اول انبیاء اور رسولوں کی روحوں پر عرض کی گئی ہو گی کیونکہ وہ انسانوں کے سردار اور انسانیت کے حقیقی مفہوم کے اول المستحقین ہیں پس اگر ظلوم اور جہول کے معنے یہی مراد لئے جائیں جو کافر اور مشرک اور پکے نافرمان کو کہتے ہیں تو پھر نعوذ باللہ سب سے پہلے انبیاء کی نسبت اس نام کا اطلاق ہوگا.لہٰذا یہ بات نہایت روشن اور بدیہی ہے کہ ظلوم اور جہول کا لفظ اس جگہ محل مدح میں ہے اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کے حکم کو مان لیا جاوے اور اس سے منہ پھیرنا موجب معصیت نہیں ہوسکتایہ تو عین سعادت ہے تو پھر ظلوم اور جہول کے حقیقی معنے جواباً اور سرکشی کو مستلزم ہیں کیونکر اور خدا تعالیٰ کے وجود سے ظلّی طور پر مشابہت تامہ رکھتے ہوں اور محجوب بانفسہا نہ ہوں.دوسری جہت مخلوقیت کی جس کی وجہ سے وہ دوسری مخلوقات سے مناسبت رکھیں اور اپنی تاثیرات کے ساتھ ان سے نزدیک ہو سکیں سو خدا تعالیٰ کے اس ارادہ سے اس عجیب مخلوق کا وجود ہو گیا جس کو ملائک کہتے ہیں.یہ ملائک ایسے فنا فی طاعت اللہ ہیں کہ اپنا ارادہ اور فیشن اور توجہ اور اپنے ذاتی قویٰ یعنی یہ کہ اپنے نفس سے کسی پر مہربان ہونا یا اس سے ناراض ہوجانا اور اپنے نفس سے ایک بات کو چاہنا یا اس سے کراہت کرنا کچھ بھی نہیں رکھتے بلکہ بکلی جوارح الحق کی طرح ہیں خدا تعالیٰ کے بدن جس کی سالہائے دراز میں ظاہری اور باطنی تکمیل ہوئی تھی ایک ہی دم میں اس کو چھوڑ کر رخصت ہو جاتا ہے اب جس قدر میں نے اس اعتراض کے جواب میں لکھا ہے میری دانست میں کافی ہے اس لئے میں اسی پر بس کرتا ہوں لیکن یہ بات کھول کر یاد دلانا ضروری ہے کہ ۱ الاحزاب:
اس مقام کے مناسب حال ہوسکتے ہیں جو شخص قرآن کریم کی اسالیب کلام کو بخوبی جانتا ہے اُس پر یہ پوشیدہ نہیں کہ بعض اوقات وہ کریم و رحیم جلّ شانہٗ اپنے خواص عباد کے لئے ایسا لفظ استعمال کر دیتا ہے کہ بظاہر بدنما ہوتا ہے مگر معنًا نہایت محمود اور تعریف کا کلمہ ہوتا ہے جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ نے اپنے نبی کریم کے حق میں فرمایا3۱ ا ب ظاہر ہے کہ ضال کے معنے مشہور اور متعارف جو اہل لغت کے منہ پر چڑھے ہوئے ہیں گمراہ کے ہیں جس کے اعتبار سے آیت کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے (اے رسول اللہ)تجھ کو گمراہ پایا اور ہدایت دی.حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی گمراہ نہیں ہوئے اور جو شخص مسلمان ہو کر یہ اعتقاد رکھے کہ کبھی آنحضرت صلعم نے اپنی عمر میں ضلالت کا عمل کیا تھا تو وہ کافر بے دین اور حد شرعی کے لائق ہے بلکہ آیت کے اِس جگہ وہ معنی لینے چاہئے جو آیت کے سیاق تمام ارادے اول انہیں کے مرایاصافیہ میں منعکس ہوتے ہیں اور پھر ان کے توسط سے کل مخلوقات میں پھیلتے ہیں چونکہ خدا تعالیٰ بوجہ اپنے تقدس تام کے نہایت تجرد اور تنزّ ہ میں ہے اس لئے وہ چیزیں جو انانیت اور ہستی محجوبہ کی کثافت سے خالی نہیں اور محجوب بانفسہا ہیں اس مبدء فیض سے کچھ مناسبت نہیں رکھتیں اور اسی وجہ سے ایسی چیزوں کی ضرورت پڑی جو من وجہ خدا تعالیٰ سے مناسبت رکھتی ہوں اور من وجہ اس کی مخلوق سے تا اس طرف فیضان حاصل کریں اور اس طرف پہنچادیں.یہ تو ظاہر ہے کہ دنیا کی چیزوں میں سے کوئی چیز بھی اپنے وجود اور قیام اور حرکت اور ارادہ کاملہ بھی قدرت کاملہ کی طرح دونوں شقوں ُ سرعت اور بطو کو چاہتا ہے مثلاً ہم جیسا یہ ارادہ کرسکتے ہیں کہ ابھی یہ بات ہوجائے ایسا ہی یہ بھی ارادہ کر سکتے ہیں کہ دس برس کے بعد ہومثلاً ریل اور تار اور صدہاَکلیں جواب نکل رہی ہیں بے شک ابتداء سے خدا تعالیٰ کے ارادہ اور علم میں تھیں ۱ الضّحٰی:۸
اور سباق سے ملتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اللہجلّ شانہٗ نے پہلے آنحضرت صلعم کی نسبت فرمایا 333.۱ یعنی خدا تعالیٰ نے تجھے یتیم اور بیکس پایا اور اپنے پاس جگہ دی اور تجھ کو ضال (یعنی عاشق وجہ اللہ) پایا پس اپنی طرف کھینچ لایا اور تجھے درویش پایا پس غنی کر دیا.ان معنوں کی صحت پر یہ ذیل کی آیتیں قرینہ ہیں جو ان کے بعد آتی ہیں یعنی یہ کہ333.۲ کیونکہ یہ تمام آیتیں لف نشر مرتب کے طور پر ہیں اور پہلی آیتوں میں جو ُ مدعامخفی ہے دوسری آیتیں اس کی تفصیل اور تصریح کرتی ہیں مثلاً پہلے فرمایا333 3اس کے مقابل پر یہ فرمایا3یعنی یاد کر کہ تو بھی یتیم تھا اور ہم نے تجھ کو پناہ دی ایسا ہی تو بھی یتیموں کو پناہ دے.پھر بعد اس آیت کے فرمایا 3 سکون اور اپنے تغیرات ظاہری اور باطنی اور اپنے ہریک خاصہ کے اظہار اور اپنے ہریک عرض کے اخذ یا ترک میں مستقل بالذات نہیں بلکہ اس ایک ہی حیّ و قیّوم کے سہارے سے یہ تمام کام مخلوق کے چلتے ہیں اور بظاہر اگرچہ یہی نظر آتا ہے کہ ہم اپنے کاموں میں کسی غیبی مدد کے محتاج نہیں جب چاہیں حرکت کر سکتے ہیں اور جب چاہیں ٹھہر سکتے ہیں اور جب چاہیں بول سکتے ہیں اور جب چاہیں چپ کر سکتے ہیں.لیکن ایک عارفانہ نظر کے ساتھ ضرور کھل جائے گا کہ ہم اپنی ان تمام حرکات و سکنات اور سب کاموں میں غیبی مدد کے ضرور محتاج ہیں اور خدا تعالیٰ کی قیومیت ہمارے نطفہ میں ہمارے علقہ میں ہمارے لیکن ہزارہا برس تک انکا ظہور نہ ہوا اور وہ ارادہ تو ابتدا ہی سے تھا مگر مخفی چلا آیا اور اپنے وقت پر ظاہر ہوا اور جب وقت آیا تو خدا تعالیٰ نے ایک قوم کو ان فکروں اور سوچوں میں لگادیا اور ان کی مدد کی یہاں تک کہ وہ اپنی تدبیروں میں کامیاب ہوگئے.۱ الضّحٰی:۷تا۹ ۲ الضّحٰی:۱۰ تا ۱۲
3 اِس کے مقابل پر یہ فرمایا 3یعنی یاد کر کہ تو بھی ہمارے وصال اور جمال کا سائل اور ہمارے حقائق اور معارف کا طالب تھا سو جیسا کہ ہم نے باپ کی جگہ ہو کر تیری جسمانی پرورش کی ایسا ہی ہم نے استاد کی جگہ ہو کر تمام دروازے علوم کے تجھ پر کھول دیئے اور اپنے لقا کا شربت سب سے زیادہ عطا فرمایا اور جو تونے مانگا سب ہم نے تجھ کو دیا سو تو بھی مانگنے والوں کو رد مت کر اور ان کو مت جھڑک اور یاد کر کہ تو عائل تھا اور تیری معیشت کے ظاہری اسباب بکلّی منقطع تھے سو خدا خود تیرا متولّی ہوا اور غیروں کی طرف حاجت لے جانے سے تجھے غنی کردیا.نہ تو والد کا محتاج ہوا نہ والدہ کا نہ استاد کا اور نہ کسی غیر کی طرف حاجت لے جانے کا بلکہ یہ سارے کام تیرے خدا تعالیٰ نے آپ ہی کر دیئے اور پیدا ہوتے ہی اس نے تجھ کو آپ سنبھال لیا.سو اس کا شکر بجالا اور حاجت مندوں سے تو بھی ایسا ہی معاملہ کر.اب ان تمام مضغہ میں ہمارے جنین میں اور ہماری ہریک حرکت میں اور سکون میں اور قول میں اور فعل میں غرض ہماری تمام مخلوقیت کے لوازم میں کام کرتی ہے مگر وہ قیومیت بو جہ ہمارے محجوب بانفسنا ہونے کے براہ راست ہم پر نازل نہیں ہوتی کیونکہ ہم میں اور اس ذات الطف اللطائف اور اعلیٰ اور اغنٰی اور ُ نور الانور میں کوئی مناسبت درمیان نہیں کیونکہ ہر ایک چیز ہم میں سے خواہ وہ جاندار ہے یا بے جان محجوب بنفسہ اور ساحت قدسیہ تنزّ ہ سے بہت دور ہے اس لئے خدا تعالیٰ میں اور ہم میں ملائک کا وجود اسی طرح ضروری ہوا جیسا کہ نفس ناطقہ اور بدن انسان میں قوائے روحانیہ اور حسیّہ کا توسط ضروری ٹھہرا اور اس جگہ کے متعلق ایک اور اعتراض ہے جو بعض ناواقف آریہ پیش کیا کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے3 33 ۱ یعنی خدا نے جو تمہارا رب ہے خدا تعالیٰ نے زمین اور آسمانوں کو چھ۶ دن میں کیوں پیدا کیا ۱ یونس:
آیا ت کا مقابلہ کر کے صاف طور پر کھلتا ہے کہ اس جگہ ضَالّ کے معنے گمراہ نہیں ہے بلکہ انتہائی درجہ کے تعشق کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ حضرت یعقوب کی نسبت اسی کے مناسب یہ آیت ہے 3 ۱.سو یہ دونوں لفظ ظلم اور ضلالت اگرچہ ان معنوں پر بھی آتے ہیں کہ کوئی شخص جادہ اعتدال اور انصاف کو چھوڑ کر اپنے شہوات غضبیہ یا بہیمیہ کا تابع ہوجاوے.لیکن قرآن کریم میں عشاق کے حق میں بھی آئے ہیں جو خدا تعالیٰ کے راہ میں عشق کی مستی میں اپنے نفس اور اس کے جذبات کو پیروں کے نیچے کچل دیتے ہیں.اسی کے مطابق حافظ شیرازی کا یہ شعر ہے.آسماں بارِ امانت نتوانست کشید قرعہ فال بنام من دیوانہ زدند اس دیوانگی سے حافظ صاحب حالت تعشق اور شدت حرص اطاعت مراد لیتے ہیں.کیونکہ نفس ناطقہ نہایت تجرد اور لطافت میں تھا اور بدن انسان محجوب بنفسہ اور کثافت اور ظلمت میں پڑا تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے ان دونوں کے درمیان میں قوی روحانیہ اور حسیّہ کو ذوجہتین پیدا کیا تا وہ قویٰ نفس ناطقہ سے فیضان قبول کر کے تمام جسم کو اس سے متادب اور مہذّب کریں.جاننا چاہئے کہ انسان بھی ایک عالم صغیر ہے اور عالم کبیر کے تمام شُیُون اور صفات اور خواص اور کیفیات اس میں بھری ہوئی ہیں جیسا کہ اس کی طاقتوں اور قوتوں سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ ہر ایک چیز کی طاقت کا یہ نمونہ ظاہر کر سکتا ہے زمین اور آسمانوں کو چھ دن میں بنایا اور پھر عرش پر ٹھہرا یہ چھ دن کی کیوں تخصیص ہے یہ تو تسلیم کیا کہ خدا تعالیٰ کے کام اکثر تدریجی ہیں جیسا کہ اب بھی اس کی خالقیت جو جمادات اور نباتات اور حیوانات میں اپنا کام کررہی ہے تدریجی طور پر ہی ہر ایک چیز کو اس کی خلقت کاملہ تک پہنچاتی ہے ۱ یوسف:
غرض ان آیتوں کی حقیقت واقعی یہی ہے جو خدا تعالیٰ نے میرے پر کھولی اور میں ہرگز ایسے معنی نہیں کروں گا جن سے ایک طرف تو یہ لازم آوے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ پاک امانت نہیں تھی بلکہ کوئی فساد کی بات تھی جو ایک مفسد ظالم نے قبول کر لی اور نیکوں نے اس کو قبول نہ کیا اور دوسری طرف تمام مقدس رسولوں اور نبیوں کو جو اول درجہ پر امانت کے محمل ہیں ظالم ٹھہرایا جاوے.اور میں بیان کرچکا ہوں کہ دراصل امانت اور اسلام کی حقیقت ایک ہی ہے اور امانت اور اسلام دراصل محمود چیز ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ کا دیا ہوا اسی کو واپس دیا جاوے جیسے امانت واپس دی جاتی ہے پس جس نے ایک محمود اور پسندیدہ چیز کو قبول کر لیا اور خدا تعالیٰ کے حکم سے منہ نہ پھیرا اور اس کی مرضی کو اپنی مرضی پر مقدم رکھا وہ لائق مذمت کیوں ٹھہرے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ اس آیت کے آگے خدا تعالیٰ فرماتا ہے آفتاب کی طرح یہ ایک روشنی بھی رکھتا ہے اور ماہتاب کی طرح ایک نور بھی اور رات کی طرح ایک ظلمت بھی اور زمین کی طرح ہزارہا نیک اور بدارادوں کا منبت ہوسکتا ہے اور درختوں کی طرح نشوونما رکھتا ہے اور اپنی قوت جاذبہ کے ساتھ ہر ایک چیز کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے اور ایسا ہی اس کا عالم صغیر ہونا اس طرح بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ اپنے کشوف صادقہ اور رویا صالحہ کے وقت عالم کبیر کی ہر ایک چیز کو اپنے اندر پاتا ہے کبھی اپنے کشفوں اور خوابوں میں چاند دیکھتا ہے کبھی سورج کبھی ستارے کبھی طرح طرح کی نہریں اور باغ اور کبھی آگ اور ہوا وغیرہ اور زیادہ تر عجیب یہ کہ کبھی اپنے رویا صالحہ اور کشوف صادقہ میں ایسا پاتا ہے کہ آپ ہی سورج بن گیا لیکن چھ دن کی تخصیص کچھ سمجھ میں نہیں آتی.اماالجواب پس واضح ہو کہ یہ چھ دن کا ذکر درحقیقت مراتب تکوینی کی طرف اشارہ ہے یعنی ہریک چیز جو بطور خلق صادر ہوئی ہے اور جسم اور جسمانی ہے خواہ وہ مجموعہ عالم ہے
33333.۱ یعنی انسان نے جو امانت اللہ کو قبول کر لیا تو اس سے یہ لازم آیا جو منافقین اور منافقات اور مشرکین اور مشرکات جنہوں نے صرف زبان سے قبول کیا اور عملاً اس کے پابند نہیں ہوئے وہ معذ ب ہوں اور مومنین اور مومنات جنہوں نے امانت کو قبول کر کے عملاً پابندی بھی اختیار کی وہ مورد رحمت الٰہی ہوں.یہ آیت بھی صاف اور صریح طور پر بول رہی ہے کہ آیت موصوفہ میں ظلوم و جہول سے مراد مومن ہیں جن کی طبیعتوں اور استعدادوں نے امانت کو قبول کر لیا اور پھر اس پر کاربند ہوگئے کیونکہ صاف ظاہر ہے کہ مشرکوں اور منافقوں نے کامل طور پر قبول نہیں کیا اور حملھا الانسان میں جو انسان کے لفظ پر الف لام ہے وہ بھی درحقیقت تخصیص کے لئے ہے یا آپ ہی چاند ہوگیا ہے یا آپ ہی زمین ہے جس پر ہزارہا ملک آباد ہیں پس ان دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان بلاشبہ ایک عالم صغیر ہے جو اپنے نفس میں عالم کبیر کا ہریک نمونہ رکھتا ہے اور یہ نہایت عمدہ طریق ہے کہ جب عالم کبیر کے عجائبات دقیقہ میں سے کوئی سر مخفی سمجھ نہ آوے تو عالم صغیر کی طرف رجوع کیا جاوے اور دیکھا جاوے کہ وہ اس میں کیا گواہی دیتا ہے کیونکہ یہ دونوں عالم مرا یا متقابلہ کی طرح ہیں اور جس عالم کو ہم نے بجزئیاتہ دیکھ لیا ہے اس کو ہم دوسرے عالم کی تشخیص کے لئے ایک پیمانہ ٹھہرا سکتے ہیں اور بلاشبہ اس کی شہادت ہمارے لئے موجب اطمینان ہوسکتی ہے اب جب کہ یہ تمہید ممہد ہوچکی تو نہایت درست ہوگا اگر ہم اور خواہ ایک فرد از افراد عالم اور خواہ وہ عالم کبیر ہے جو زمین و آسمان ومافیہا سے مراد ہے اور خواہ وہ عالم صغیر جو انسان سے مراد ہے وہ بحکمت و قدرت باری تعالیٰ پیدائش کے چھ مرتبے طے کر کے اپنے کمال خلقت کو پہنچتی ہے اور یہ عام قانون قدرت ہے کچھ ابتدائی ۱ الاحزاب:
جس سے خدا تعالیٰ کا یہ منشاء ثابت ہوتا ہے کہ تمام انسانوں نے اس امانت کو کامل طور پر قبول نہیں کیا صرف مومنوں نے قبول کیا ہے اور منافقوں اور مشرکوں کی فطرتوں میں گو ایک ذرّہ استعداد کا موجود تھا مگر بوجہ نقصان استعداد وہ کامل طور پر اس پیارے لفظ ظلوم اور جہول سے حصہ نہ لے سکے اور جن کو بڑی قوت ملی تھی وہ کامل طور پر اس نعمت کو لے گئے.انہوں نے اس امانت کے قبول کرنے کا صرف اپنی زبان سے اقرار نہیں کیا بلکہ اپنے اعمال اور افعال میں ثابت کر کے دکھلا دیا اور جو امانت لی تھی کمال دیانت کے ساتھ اس کو واپس دے دیا.بالآخر یہ بھی واضح رہے کہ جہول کا لفظ بھی ظلوم کے لفظ کی طرح ان معنوں میں استعمال کیا گیا ہے جو ا ّ تقا اور اصطفا کے مناسب حال ہیں کیونکہ اگر جاہلیت کا حقیقی مفہوم مراد یہ کہیں کہ ملائک کی نسبت جو اجرام علوی اور اجسام سفلی کی طرف ہے وہ درحقیقت ایسی ہی ہے جیسے قویٰ روحانیہ اور حسیّہ کی نسبت بدن انسان کی طرف ہے کیونکہ جیسا کہ نفس ناطقہ انسان کا بدن انسان کی تدبیر بتوسط قویٰ روحانیہ اور حسیّہ کے کرتا ہے ایسا ہی قیّوم العالم جو تمام عالم کے بقا اور قیام کے لئے نفس مدبّرہ کی طرح اور بحکم آیت 3۱ ان کی حیات کا نور ہے تدبیر عالم کبیر کی بواسطہ ملائک کے فرماتا ہے اور ہمیں اس بات کے ماننے سے چارہ نہیں کہ جو کچھ عالم صغیر میں ذات واحد لاشریک کا نظام ثابت ہوا ہے اسی کے مشابہ عالم کبیر کا بھی نظام ہے.کیونکہ یہ دونوں زمانہ سے خاص نہیں چنانچہ اللہ جلّ شانہٗ ہر ایک انسان کی پیدائش کی نسبت بھی انہیں مراتب ستہ کا ذکر فرماتا ہے جیسا کہ قران کریم کے اٹھارویں سیپارے سورۃ المؤمنون میں یہ آیت ہے 33 3 ۱ النور:۳۶
ہو جو علوم اور عقائد صحیحہ سے بے خبری اور ناراست اور بے ہودہ باتوں میں مبتلا ہونا ہے تو یہ تو صریح متقیوں کی صفت کے برخلاف ہے کیونکہ حقیقی تقویٰ کے ساتھ جاہلیت جمع نہیں ہوسکتی.حقیقی تقویٰ اپنے ساتھ ایک نور رکھتی ہے جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے 33 ۱.3۲.یعنی اے ایمان لانے والو اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کے لئے اتقاء کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خدا تعالیٰ تم میں اور تمہارے غیروں میں فرق رکھ دے گاوہ فرق یہ ہے کہ تم کو ایک نور دیا جائے گاجس نور کے ساتھ تم اپنی تمام راہوں میں چلو گے یعنی وہ نور تمہارے تمام افعال اور اقوال اور قویٰ اور حواس میں آجائے گاتمہاری عقل میں بھی نور ہوگا اور تمہاری ایک اٹکل کی بات میں بھی نور ہوگا اور تمہاری عالم ایک ہی ذات سے صادر ہیں اور اس ذات واحد لاشریک کا یہی تقاضا ہونا چاہئے کہ دونوں نظام ایک ہی شکل اور طرز پر واقع ہوں تا دونوں مل کر ایک ہی خالق اور صانع پر دلالت کریں کیونکہ توحید فی النظام توحید باری عزّاسمہ‘ کے مسئلہ کو مؤیّد ہے وجہ یہ کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر کئی خالق ہوتے تو اس نظام میں اختلاف کثیر پایا جاتا.غرض یہ بات نہایت سیدھی اور صاف ہے کہ ملائک اللہ عالم کبیر کے لئے ایسے ہی ضروری ہیں جیسے قویٰ روحانیہ وحسیّہ نشاء انسانیہ کے لئے جو عالم صغیر ہے.اگر یہ اعتراض پیش کیا جائے کہ اگر ملائک فی الحقیقت موجود ہیں تو کیوں نظر نہیں 33 33 3۳ یعنی پہلے تو ہم نے انسان کو اس مٹی سے پیدا کیا جو زمین کے تمام س بات کا ثبوت کہ چھ۶ دن میں زمین و آسمان کو کیوں پیدا کیا ۱ الانفال:۳۰ ۲ الحدید:۲۹ ۳ المومنون:۱۳ تا
آنکھو ں میں بھی نور ہوگا اور تمہارے کانوں اور تمہاری زبانوں اور تمہارے بیانوں اور تمہاری ہر ایک حرکت اور سکون میں نور ہوگا اور جن راہوں میں تم چلو گے وہ راہ نورانی ہوجائیں گی.غرض جتنی تمہاری راہیں تمہارے قویٰ کی راہیں تمہارے حواس کی راہیں ہیں وہ سب نور سے بھر جائیں گی اور تم سراپا نور میں ہی چلو گے.اب اس آیت سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ تقویٰ سے جاہلیت ہرگز جمع نہیں ہوسکتی ہاں فہم اور ادراک حسب مراتب تقویٰ کم و بیش ہوسکتا ہے اسی مقام سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بڑی اور اعلیٰ درجہ کی کرامت جواولیاء اللہ کو دی جاتی ہے جن کو تقویٰ میں کمال ہوتا ہے وہ یہی دی جاتی ہے کہ ان کے تمام حواس اور عقل اور فہم اور قیاس میں نور رکھا جاتا ہے اور ان کی قوت کشفی نور کے پانیوں سے ایسی صفائی حاصل کر لیتی ہے کہ جو دوسروں آتے اور کیوں ان کی کسی مدد کا ہمیں احساس نہیں ہوتا اور ہم صریح دیکھتے ہیں کہ ہریک چیز اپنی فطرتی طاقت سے کام دے رہی ہے مثلاً رحم میں جو بچہ پیدا ہوتا ہے یا درختوں کو جو پھل لگتے ہیں یا کانوں میں جو طرح طرح کے جواہر پیدا ہوتے ہیں تو صرف اس ایک طبعی طریق سے جو چلا آتا ہے طبیعت مدبّرہ حیوانی اور نباتی اور جمادی اپنے فعل کو کمال تک پہنچاتی ہے جیسا کہ حکماء کا قدیم سے یہی قول ہے اور تجربہ بھی اسی قول کا مؤید نظر آتا ہے کیونکہ کبھی ہم حیوانی اور نباتی اور جمادی افعال کو اپنے ارادوں کے بھی تابع کر لیتے ہیں یعنی اپنی تدبیروں کے موافق اپنے کام صادر کراسکتے ہیں مثلاً رحم میں جو کبھی بچہ قبل از تکمیل خلقت ساقط ہوجاتا ہے اور انواع اور اقسام کا ُ لب لباب تھااور اس کی تمام قوتیں اپنے اندر رکھتا تھا تا وہ باعتبار جسم بھی عالم صغیر ٹھہرے اور زمین کی تمام چیزوں کی اس میں قوت اور خاصیت ہو جیسا کہ وہ برطبق آیت 3 ۱ باعتبار روح عالم صغیر ہے ۱ الحجر:
کو نصیب نہیں ہوتی ان کے حواس نہایت باریک بین ہوجاتے ہیں اور معارف اور دقائق کے پاک چشمے ان پر کھولے جاتے ہیں اور فیض سائغ رّ بانی ان کے رگ و ریشہ میں خون کی طرح جاری ہوجاتا ہے.اب پھر ہم اصل بحث کی طرف جو بیان کیفیت اسلام ہے عنان قلم پھیرتے ہیں سو واضح ہو کہ یہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ اسلام کیا چیز ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے سو اس بیان کے بعد یہ تذکرہ بھی نہایت ضروری ہے کہ وہ حقیقت جس کا نام اسلام ہے کیونکر حاصل ہوسکتی ہے اور قرآن کریم میں اس کے حصول کے لئے کیا کیا وسائل بیان فرمائے گئے ہیں.اول جاننا چاہئے کہ کسی شے کا وسیلہ اس چیز کو کہاجاتا ہے جس کے ٹھیک ٹھیک عورتوں کو سقوط حمل کی ایک مرض ٹھہر جاتی ہے تو طبیب حاذق سمجھ لیتا ہے کہ رحم کی قوتیں کمزور ہوگئی ہیں تب وہ مثلاً اوائل حمل میں ایک ملیّن خفیف سا دیتا ہے اور مواد موذیہ کو دور کر کے مقوّ یات رحم مثلاً جوارش لؤلؤ اور دواء المسک وغیرہ استعمال کراتا ہے اور عورت کو اس کے مرد سے پرہیز فرماتا ہے تب اس تجویز سے صریح فائدہ محسوس ہوتا ہے اور بچہ ساقط ہونے سے بچ جاتا ہے ایسا ہی جب دانا باغبان کسی پھل دار درخت کو ایسا پاتا ہے کہ اب وہ پھل کم دیتا ہے تو وہ غور کرتا ہے کہ اس کا کیا سبب ہے تب بلحاظ اسباب متفرقہ کبھی وہ شاخ تراشی کرتا ہے اور کبھی دور کھود کر بقدر ضرورت آبپاشی کراتا ہے اور کبھی معمولی کھاد اور بلحاظ شیون و صفات کاملہ و ظلیّت تام روح الٰہی کا مظہر تام ہے.پھر بعد اس کے انسان کو ہم نے دوسرے طور پر پیدا کرنے کے لئے یہ طریق جاری کیا جو انسان کے اندر نطفہ پیدا کیااور اس نطفہ کو ہم نے ایک مضبوط تھیلی میں جو ساتھ ہی رحم میں بنتے
استعما ل یا مدد سے اس شے کا میسر آجانا ضروری ہواور اس کے عوض اس کی نقیض کا استعمال کرنا موجب ُ بعد و ناکامی ہو.بعد اس کے واضح ہو کہ اگرچہ قرآن کریم نے حقیقت اسلامیہ کی تحصیل کے لئے بہت سے وسائل بیان فرمائے ہیں مگر درحقیقت ان سب کا مآل دو قسم پر ہی جا ٹھہرتا ہے.اول یہ کہ خدا تعالیٰ کی ہستی اور اس کی مالکیت تامہ اور اس کی قدرت تامہ اور اس کی حکومت تامہ اور اس کے علم تام اور اس کے حساب تام اور نیز اس کے واحد لا شریک اور حیّ قیّوم اور حاضر ناظر ذوالاقتدار اور ازلی ابدی ہونے میں اور اس کی تمام قوتوں اور طاقتوں اور جمیع جلال و کمال کے ساتھ یگانہ ہونے میں پورا پورا یقین آجائے یاں تک کہ ہر ایک ذرہ اپنے وجود اور اس تمام عالم کے وجود کا اس کے تصرف اور حکم میں دکھائی دے اور یا ہڈیاں پیس کر اس کی جڑہوں میں رکھتا ہے.ایسا ہی کانوں کی تحقیق میں دخل رکھنے والے اسی طور پر تجویزیں کیا کرتے ہیں اور اکثر یہ سب لوگ کامیاب ہوجاتے ہیں پس اگر یہ سلسلہ ملائک کے ارادہ کے تابع ہے تو ہماری تدبیرات کے مقابل پر کیوں ملائک ٹھہر نہیں سکتے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جن دنوں میں لوگ طبعی کی کامل تحقیقاتوں سے بے بہرہ تھے انہیں دنوں میں ملائک کا وجود تراشا گیا ہے انسان کی عادت ہے کہ معلولات کے لئے کوئی نہ کوئی علّت تلاش کرتا ہے پس جب کہ علّت صحیحہ دریافت نہ ہوسکے تو بے علمی کے زمانہ میں ملائک کا وجود قوت متخیلہ کی تسکین دینے کے لئے تراشا گیا یہ حال جاتے ہی جگہ دی.( قرار مکین کا لفظ اس لئے اختیار کیا گیا کہ تا رحم اور تھیلی دونوں پر اطلاق پاسکے) اور پھر ہم نے نطفہ سے علقہ بنایا اور علقہ سے مضغہ اور مضغہ کے بعض حصوں میں سے ہڈیاں اور ہڈیوں پر پوست پیدا کیا پھر اس کو ایک اور پیدائش دی یعنی روح اس
3 ۱ کی تصویر سامنے نظر آجاوے اور نقش راسخ بیدہ ملکوت السمٰوات والارض کا جلی قلم کے ساتھ دل میں لکھا جائے یاں تک کہ اس کی عظمت اور ہیبت اور کبریائی تمام نفسانی جذبات کو اپنی قہری شعاعوں سے مضمحل اور خیرہ کر کے ان کی جگہ لے لے اور ایک دائمی رُعب اپنا دل پر جما دیوے اور اپنے قہری حملہ سے نفسانی سلطنت کے تخت کو خاک مذلّت میں پھینک دیوے اور ٹکڑے ٹکڑے کردیوے اور اپنے خوفناک کرشموں سے غفلت کی دیواروں کو گرا دے اور تکبر کے میناروں کو توڑ دے اور ظلمت بشری کی حکومتیں وجود انسانی کی دارالسلطنت سے بکلّی اٹھا دیوے اور جو جذبات نفس امارہ کی طبیعت انسانی پر حکومت کرتے تھے اور باعزت سمجھے گئے تھے ان کو ذلیل اور خوار اور ہیچ اور بے مقدار کر کے دکھلا دیوے.کی نئی روشنی (کہ خاک بر فرق ایں روشنی) نو تعلیم یافتہ لوگوں کو اوہام باطلہ سکھا رہی ہے اور ہم نے تو ڈرتے ڈرتے اس قدر بیان کیا ہے اکثر ان کی نظر تو فقط اسی پر نہیں ٹھہرتی بلکہ حضرت خدا وند تعالیٰ کی نسبت بھی ایسا ہی جرح پیش کر کے صانع حقیقی کے وجود سے فارغ ہو بیٹھے ہیں.امالجواب پس واضح ہو کہ یہ خیال کہ فرشتے کیوں نظر نہیں آتے بالکل عبث ہے فرشتے خدا تعالیٰ کے وجود کی طرح نہایت لطیف وجود رکھتے ہیں پس کس طرح ان آنکھوں سے نظر آویں کیا خدا تعالیٰ جس کا وجود ان فلسفیوں کے نزدیک بھی میں ڈال دی.پس کیا ہی مبارک ہے وہ خدا جو اپنی صنعت کاری میں تمام صناعوں سے بلحاظ حسن صنعت و کمال عجائبات خلقت بڑھا ہوا ہے.اب دیکھو کہ خدا تعالیٰ نے اس جگہ بھی اپنا قانون قدرت یہی بیان فرمایا کہ انسان
دوم یہ کہ اللہ جلّ شانہ‘ کے حسن و احسان پر اطلاع وافر پیدا کرے کیونکہ کامل درجہ کی محبت یا تو حسن کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے اور یا احسان کے ذریعہ سے اور اللہ جلّ شانہ‘ کا حسن اس کی ذات اور صفات کی خوبیاں ہیں اور خوبیاں یہ ہیں کہ وہ خیر محض ہے اور مبدا ہے جمیع فیضوں کا اور مصدر ہے تمام خیرات کا اور جامع ہے تمام کمالات کا اور مرجع ہے ہریک امر کا اور موجد ہے تمام وجودوں کا اور علّت العلل ہے ہریک مؤثر کا جس کی تاثیر یا عدم تاثیر ہریک وقت اس کے قبضہ میں ہے اور واحد لاشریک ہے اپنی ذات میں اور صفات میں اور اقوال میں اور افعال میں اور اپنے تمام کمالوں میں اور ازلی اور ابدی ہے اپنی جمیع صفات کاملہ کے ساتھ.بڑا ہی نیک اور بڑا ہی رحیم باوجود قدرت کاملہ سزا دہی کے ہزاروں برسوں کی خطائیں ایکدم کے رجوع میں بخشنے والا بڑا ہی حلیم اور بردبار اور پردہ پوش کروڑہا نفرت کے کاموں اور مکروہ گناہوں کو مسلّم ہے ان فانی آنکھوں سے نظر آتا ہے.ماسوا اس کے یہ بات بھی درست نہیں کہ کسی طرح نظر ہی نہیں آسکتے کیونکہ عارف لوگ اپنے مکاشفات کے ذریعہ سے جو اکثر بیداری میں ہوتے ہیں فرشتوں کو روحانی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں اور ان سے باتیں کرتے ہیں اور کئی علوم ان سے اخذ کرتے ہیں اور مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جو مفتری کذاب کو بغیر ذلیل اور معذّب کرنے کے نہیں چھوڑتا کہ میں اس بیان میں صادق ہوں کہ بارہا عالم کشف میںَ میں نے ملائک کو دیکھا ہے اور ان سے بعض علوم اخذ کئے ہیں اور ان سے گذشتہ یا آنے والی چھ طور کے خلقت کے مدارج طے کرکے اپنے کمال انسانیت کو پہنچتا ہے اور یہ تو ظاہر ہے کہ عالم صغیر اور عالم کبیر میں نہایت شدید تشابہ ہے اور قرآن سے انسان کا عالم صغیر ہونا ثابت ہے اور آیت 33۱ اسی کی ۱ التّین:
دیکھنے والا اور پھر جلد نہ پکڑنے والا اگر اس کا روحانی جمال تمثل کے طور پر ظاہر ہو تو ہریک دل پروانہ کی طرح اس پر گرے پر اس نے اپنا جمال غیروں سے چھپایا.اور انہیں پر ظاہر کیا جو صدق سے اس کو ڈھونڈھتے ہیں اس نے ہریک خوبصورت چیز پر اپنے حسن کا پرتوہ ڈالااگر آفتاب ہے یا ماہتاب یا وہ سیارے جو چمکتے ہوئے نہایت پیارے معلوم ہوتے ہیں یا خوبصورت انسانوں کے منہ جو دلکش اور ملیح دکھائی دیتے ہیں یا وہ تازہ اور تربتر اور خوشنما پھول جو اپنے رنگ اور بو اور آب و تاب سے دلوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیںیہ سب درحقیقت ظلّی طور پر اس حسن لازوال سے ایک ذرہ کے موافق حصہ لیتے ہیں وہ حسن ظن اور وہم اور خیال نہیں بلکہ یقینی اور قطعی اور نہایت روشن ہے جس کے تصور سے تمام نظریں خیرہ ہوتی ہیں اور پاک دل اس کی طرف کھینچے جاتے خبریں معلوم کی ہیں جو مطابق واقعہ تھیں پھر میں کیونکر کہوں کہ فرشتے کسی کو نظر نہیں آسکتے بلاشبہ نظر آسکتے ہیں مگر اور آنکھوں سے.اور جیسے یہ لوگ ان باتوں پر ہنستے ہیں عارف ان کی حالتوں پر روتے ہیں.اگر صحبت میں رہیں تو کشفی طریقوں سے مطمئن ہوسکتے ہیں لیکن مشکل تو یہی ہے کہ ایسے لوگوں کی کھوپڑی میں ایک قسم کا تکبر ہوتا ہے.وہ تکبر انہیں اس قدر بھی اجازت نہیں دیتا کہ انکسار اور تذلّل اختیار کر کے طالب حق بن کر حاضر ہوجائیں.اور یہ خیالات کہ ہمیں فرشتوں کے کاموں کا کیوں کچھ احساس نہیں ہوتا.طرف اشارہ کررہی ہے کہ تقویم عالم کی متفرق خوبیوں اور حسنوں کا ایک ایک حصہ انسان کو دے کر بوجہ جامعیت جمیع شمائل و شیون عالم اس کو احسن ٹھہرایا گیا ہے پس اب بوجہ تشابہ عالمین اور نیز بوجہ ضرورت تناسب افعال صانع واحد ماننا پڑتا ہے کہ جو
ہیں اور اس محبوب حقیقی کے احسانات جو انسان پر ہیں وہ دفتروں میں سما نہیں سکتے کیونکہ اس کی نعمتیں بے شمار ہیں گناہ پر گناہ دیکھتا ہے اور احسان پر احسان کرتا ہے اور خطا پر خطا پاتا ہے اور نعمت پر نعمت دیتا ہے.درحقیقت نہ زید ہم سے کچھ بھلائی کرسکتا ہے اور نہ بکر نہ آفتاب اپنی روشنی سے ہم کو کچھ فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ ماہتاب اپنے نور سے ہم کو کوئی نفع دے سکتا ہے نہ ستارے ہمارے کام آسکتے ہیں نہ ان کی تاثیر کچھ چیز ہے ایسا ہی نہ دوست کام آسکتا ہے نہ فرزند غرض کوئی چیز بھی ہمیں آرام نہیں پہنچا سکتی جب تک وہ ارادہ نہ فرماوے.پس اس سے ظاہر ہے کہ ہزارہا اور بے شمار طریقوں سے جو ہماری حاجات پوری ہوتی ہیں درحقیقت یہ فضل اسی منعم حقیقی کی طرف سے ہے پس اس کے انعامات کو کون گن سکتا ہے.اگر ہم انصاف سے بولیں تو ہمیں یہ شہادت دینی پڑے گی کہ کسی نے ہم سے ایسا پیار نہیں کیا جیسا کہ اس نے دراصل پہلے اعتراض کی ایک فرع ہیں محجوب ہونے کی حالت میں جیسے فرشتے نظر نہیں آتے اور جیسے خدا تعالیٰ کا بھی کچھ پتہ نہیں لگتا صرف اپنے خیالات پر سارا مدار ہوتا ہے.ایسا ہی فرشتوں کے کاموں کابھی جو روحانی ہیں کچھ احساس نہیں ہوتا.اس جگہ یہ مثل ٹھیک آتی ہے کہ ایک اندھے نے آفتاب کے وجود کا انکار کردیا تھا کہ ٹٹولنے سے اس کا کچھ پتہ نہیں ملتا تب آفتاب نے اس کو مخاطب کر کے کہا کہ اے اندھے میں ٹٹولنے سے معلوم نہیں ہوسکتا کیونکہ تیرے ہاتھوں سے بہت دور ہوں تو یہ دعا کر کہ خدا تعالیٰ تجھ کو آنکھیں بخشے تب تو آنکھوں کے ذریعہ سے مجھے دیکھ لے گا.عالم صغیر میں مراتب تکوین موجود ہیں وہی مراتب تکوین عالم کبیر میں بھی ملحوظ ہوں اور ہم صریح اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ یہ عالم صغیر جو انسان کے اسم سے موسوم ہے اپنی پیدائش میں چھ طریق رکھتا ہے اور کچھ شک نہیں کہ یہ عالم عالم کبیر کے کوائف
یہ د ونوں قسم کے وسائل جن پر حقیقت اسلامیہ کا حاصل ہونا موقوف ہے قرآن کریم میں ان دونوں وسیلوں کی طرف اس آیت میں اشارہ فرمایا گیا ہے.33 ۱.الجزو نمبر ۲۲ سورۃ الفاطر.یعنی اللہ جلّ شانہٗ سے وہ لوگ ڈرتے ہیں جو اس کی عظمت اور قدرت اور احسان اور حسن اور جمال پر علم کامل رکھتے ہیں خشیت اور اسلام درحقیقت اپنے مفہوم کے رو سے ایک ہی چیز ہے کیونکہ کمال خشیت کا مفہوم اسلام کے مفہوم کو مستلزم ہے.پس اس آیت کریمہ کے معنوں کا مآل اور ماحصل یہی ہوا کہ اسلام کے حصول کا وسیلہ کاملہ یہی علم عظمت ذات و صفات باری ہے جس کی ہم تفصیل لکھ چکے ہیں اور اسی کی طرف درحقیقت اشارہ اس آیت میں بھی ہے.333 اور یہ خیال کہ اگر مدبّرات اور مقسّمات امر فرشتے ہیں تو پھر ہماری تدبیریں کیوں پیش جاتی ہیں اور کیوں اکثر امور ہمارے معالجات اور تدبیرات سے ہماری مرضی کے موافق ہوجاتے ہیں تو اس کا یہ جواب ہے کہ وہ ہمارے معالجات اور تدبیرات بھی فرشتوں کے دخل اور القاء اور الہام سے خالی نہیں ہیں جس کام کو فرشتے باذنہٖ تعالیٰ کرتے ہیں وہ کام اس شخص یا اس چیز سے لیتے ہیں جس میں فرشتوں کی تحریکات کے اثر کو قبول کرنے کا فطرتی مادہ ہے مثلاً فرشتے جو ایک کھیت یا ایک گاؤں یا ایک ملک میں باذنہٖ تعالیٰ پانی برسانا چاہتے ہیں تو وہ آپ تو پانی نہیں بن سکتے اور نہ آگ سے مخفیہ کی شناخت کے لئے ایک آئینہ کا حکم رکھتا ہے پس جب کہ اس کی پیدائش کے چھ مرتبے ثابت ہوئے تو قطعی طور پر یہ حکم دے سکتے ہیں کہ عالم کبیر کے بھی مراتب تکوین چھ ہی ہیں جو بلحاظ موثرات ستّہ یعنی تجلیات ستّہ جن کے آثار باقیہ نجوم ستہ میں محفوظ رہ ۱ فاطر:
3.۱ یعنی جس کو خدا تعالیٰ چاہتا ہے حکمت عطا فرماتا ہے اور جس کو حکمت دی گئی اس کو خیر کثیر دی گئی.حکمت سے مراد علم عظمت ذات و صفات باری ہے.اور خیر کثیر سے مراد اسلام ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰجلّ شانہ‘ قرآن کریم میں فرماتا ہے.3.۲ پھر ایک دوسری آیت میں فرماتا ہے.3.۳ یعنی اے میرے رب تو مجھے اپنی عظمت اور معرفت شیون اور صفات کا علم کامل بخش اور پھر دوسری جگہ فرمایا 33.۴ ان دونوں آیتوں کے ملانے سے معلوم ہوا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو اول المسلمین ٹھہرے تو اس کا یہی باعث ہوا کہ اوروں کی نسبت علوم معرفت الٰہی میں اعلم ہیں یعنی علم ان کا معارف الٰہیہ کے بارے میں سب سے بڑھ کر ہے.پانی کا کام لے سکتے ہیں بلکہ بادل کو اپنی تحریکات جاذبہ سے محل مقصود پر پہنچا دیتے ہیں اور مدبّرات امر َ بن کر جس کمّ اورَ کیف اور حدّ اور اندازہ تک ارادہ کیا گیا ہے برسادیتے ہیں بادل میں وہ تمام قوتیں موجود ہوتی ہیں جو ایک بے جان اور بے ارادہ اور بے شعور چیز میں باعتبار اس کے جمادی حالت اور عنصری خاصیت کے ہوسکتے ہیں اور فرشتوں کی منصبی خدمت دراصل تقسیم اور تدبیر ہوتی ہے اسی لئے وہ مقسّمات اور مد ّ برات کہلاتے ہیں اور القاء اور الہام بھی جو فرشتے کرتے ہیں وہ بھی برعایت فطرت ہی ہوتا ہے مثلاً وہ الہام جو خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں پر وہ نازل کرتے ہیں دوسروں پر نہیں کرسکتے گئے ہیں معقولی طور پر متحقق ہوتے ہیں.اورنجوم ستہ کا اب بھی علوم حکمیہ میں جنین کی تکمیل کے لئے تعلق مانا جاتا ہے چنانچہ سدیدی میں اس کے متعلق ایک مبسوط بحث لکھی ہے.بعض نادان اس جگہ اس آیت کی نسبت یہ اعتراض پیش کرتے ہیں کہ حال کی طبی تحقیقاتوں ۱ البقرۃ:۲۷۰ ۲ یونس:۵۹ ۳ طٰہٰ:۱۱۵ ۴ الانعام:
اس لئے ان کا اسلام بھی سب سے اعلیٰ ہے اور وہ اول المسلمین ہیں.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس زیادت علم کی طرف اس دوسری آیت میں بھی اشارہ ہے جیسا کہ اللہجلّ شانہٗ فرماتا ہے.33 3.۱ الجز نمبر ۵ یعنی خدا تعالیٰ نے تجھ کو وہ علوم عطا کئے جو تو خودبخود نہیں جان سکتا تھا اور فضل الٰہی سے فیضان الٰہی سب سے زیادہ تیرے پر ہوا یعنی تو معارف الٰہیہ اور اسرار اور علوم ر ّ بانی میں سب سے بڑھ گیا اور خدا تعالیٰ نے اپنی معرفت کے عطر کے ساتھ سب سے زیادہ تجھے معطر کیا غرض علم اور معرفت کو خدا تعالیٰ نے حقیقت اسلامیہ کے حصول کا ذریعہ ٹھہرایا ہے اور اگرچہ حصول حقیقت اسلام کے وسائل اور بھی ہیں جیسے صوم و صلوٰۃ اور دعا اور تمام احکام الٰہی جو چھ سو سے بھی کچھ زیادہ بلکہ اس طرف توجہ ہی نہیں کرتے اور اسی قاعدہ کے موافق ہر یک شخص اپنے اندازہ استعداد پر فرشتوں کے القا سے فیض یاب ہوتا ہے اور جس فن یا علم کی طرف کسی کا روئے خیال ہے اسی میں فرشتہ سے مدد پاتا ہے مثلاً جب اللہ جلّ شانہٗ کا ارادہ ہوتا ہے کہ کسی دوا سے کسی کو دست آویں تو طبیب کے دل میں فرشتہ ڈال دیتا ہے کہ فلاں مسہل کی دوا اسکو کھلا دو تب وہ تربد یا خیار شیر۲ یا شیرخشت یا سقمونیا یاسنا یا کسٹرائل یا کوئی اور چیز جیسے دل میں ڈال گیا ہو اس بیمار کو بتلا دیتا ہے اور پھر فرشتوں کی تائید سے اس دوا کو طبیعت قبول کرلیتی ہے قے نہیں آتی تب فرشتے اس دوا پر اپنا اثر ڈال کر بدن میں کی رو سے یہ طرز بچہ کے بننے کی جو رحم عورت میں بنتا ہے ثابت نہیں ہوتی بلکہ برخلاف اس کے ثابت ہوتا ہے لیکن یہ اعتراض سخت درجہ کی کم فہمی یا صریح تعصب پر مبنی ہے اس بات کے تجربہ کے لئے کسی ڈاکٹر یا طبیب کی حاجت نہیں خود ہریک انسان اس آزمائش کے لئے ۱ النسآء:۱۱۴ ۲ سہو کاتب ہے.صحیح ’’ شنبر ‘‘ ہے.شمس
ہیں لیکن علم عظمت و وحدانیت ذات اور معرفت شیون و صفات جلالی و جمالی حضرت باری عزّ اسمہ وسیلۃ الوسائل اور سب کا موقوف علیہ ہے کیونکہ جو شخص غافل دل اور معرفت الٰہی سے بکلّی بے نصیب ہے وہ کب توفیق پاسکتا ہے کہ صوم اور صلٰوۃ بجالاوے یا دعا کرے یا اور خیرات کی طرف مشغول ہو.ان سب اعمال صالح کا محرک تو معرفت ہی ہے اور یہ تمام دوسرے وسائل دراصل اسی کے پیدا کردہ اور اس کے بنین و بنات ہیں اور ابتدا اس معرفت کی پرتوہ اسم رحمانیت سے ہے نہ کسی عمل سے نہ کسی دعا سے بلکہ بلاعلت فیضان سے صرف ایک موہبت ہے یھدی من یشاء ویضل من یشاء مگر پھر یہ معرفت اعمال صالحہ اور حسن ایمان کے شمول سے زیادہ ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ آخر الہام اور کلام الٰہی کے رنگ میں نزول اس کی تاثیرات پہنچاتے ہیں اور مادہ موذیہ کا اخراج باذنہ ٖ تعالیٰ شروع ہوجاتا ہے.خدا تعالیٰ نے نہایت حکمت اور قدرت کاملہ سے سلسلہ ظاہری علوم و فنون کو بھی ضائع ہونے نہیں دیا اور اپنی خدائی کے تصرفات اور دائمی قبضہ کو بھی معطل نہیں رکھا اور اگر خدا تعالیٰ کا اس قدر دقیق در دقیق تصرف اپنی مخلوق کے عوارض اور اس کی بقا اور فنا پر نہ ہوتا تو وہ ہرگز خدا نہ ٹھہر سکتا اور نہ توحید درست ہوسکتی ہاں یہ بات درست ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس عالم میں نہیں چاہا کہ یہ تمام اسرار عالم نظروں میں بدیہی ٹھہر جاویں کیونکہ اگر یہ بدیہی ہوتے تو پھر ان پر ایمان لانے کا کچھ بھی ثواب نہ ہوتا مثلاً وقت خرچ کر کے اور ان بچوں کو دیکھ کر جو تام خلقت یا ناتمام خلقت کی حالت میں پیدا ہوتے ہیں یا سقوط حمل کے طور پر گرتے ہیں.حقیقت واقعیہ تک پہنچ سکتا ہے اور جیسا کہ ہم اپنے ذاتی مشاہدہ سے جانتے ہیں بلاشبہ یہ بات صحیح ہے کہ جب خدا تعالیٰ انسانی
پکڑ کر تمام صحن سینہ کو اس نور سے منور کردیتی ہے جس کا نام اسلام ہے اور اس معرفت تامہ کے درجہ پر پہنچ کر اسلام صرف لفظی اسلام نہیں رہتا بلکہ وہ تمام حقیقت اس کی جو ہم بیان کرچکے ہیں حاصل ہوجاتی ہے اور انسانی روح نہایت انکسار سے حضرت احدیت میں اپنا سر رکھ دیتی ہے تب دونوں طرف سے یہ آواز آتی ہے کہ جو میرا سو تیرا ہے.یعنی بندہ کی روح بھی بولتی ہے اور اقرار کرتی ہے کہ یا الٰہی جو میرا ہے سو تیرا ہے.اور خدا تعالیٰ بھی بولتا ہے اور بشارت دیتا ہے کہ اے میرے بندے جو کچھ زمین و آسمان وغیرہ میرے ساتھ ہے وہ سب تیرے ساتھ ہے.اسی مرتبہ کی طرف اشارہ اس آیت میں ہے.3 333.۱ اگر لوگ خدا تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے اور اس کے فرشتوں کا مشاہدہ کر لیتے تو پھر یہ معلومات بھی ان تمام معلومات کی مدّ میں داخل ہوجاتے جو انسان بذریعہ حواس یا تجارب حاصل کرتا ہے اس صورت میں ان امور کا ماننا موجب نجات نہ ٹھہر سکتا جیسا کہ اور دوسرے صدہا امور معلومہ کا ماننا موجب نجات نہیں ہے مثلاً ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ درحقیقت سورج اور چاند موجود ہیں اور زمین پر صدہا قسم کے جانور صدہا قسم کی بوٹیاں صدہا قسم کی کانیں اور دریا اور پہاڑ موجود ہیں مگر کیا اس ماننے سے ہمیں کوئی ثواب حاصل ہوگا یا ہم ان چیزوں کا وجود قبول کرنے سے خدا تعالیٰ نطفہ سے کسی بچہ کو رحم میں بنانے کے لئے ارادہ فرماتا ہے تو پہلے مرد اور عورت کا نطفہ رحم میں ٹھہرتا ہے اور صرف چند روز تک ان دونوں منیوں کے امتزاج سے کچھ تغیر طاری ہوکر جمے ہوئے خون کی طرح ایک چیز ہوجاتی ہے جس پر ایک نرم سی جھلّی ہوتی ہے یہ جھلّی جیسے جیسے
ا لجز و ۲۴ سورۃ الزمر یعنی کہہ اے میرے غلامو جنہوں نے اپنے نفسوں پر زیادتی کی ہے کہ تم رحمت الٰہی سے ناامید مت ہو خدا تعالیٰ سارے گناہ بخش دے گا.اب اس آیت میں بجائے قل یا عباد اللّٰہ کے جس کے یہ معنے ہیں کہ کہہ اے خدا تعالیٰ کے بندو یہ فرمایا کہ قل یا عبادی یعنی کہہ اے میرے غلامو.اس طرز کے اختیار کرنے میں بھید یہی ہے کہ یہ آیت اس لئے نازل ہوئی ہے کہ تا خدا تعالیٰ بے انتہا رحمتوں کی بشارت دیوے اور جو لوگ کثرت گناہوں سے دل شکستہ ہیں ان کو تسکین بخشے سو اللہ جلّ شانہٗ نے اس آیت میں چاہا کہ اپنی رحمتوں کا ایک نمونہ پیش کرے اور بندہ کو دکھلاوے کہ میں کہاں تک اپنے وفادار بندوں کو انعامات خاصہ سے مشرف کرتا ہوں سو اس نے قل یا عبادی کے کے مقرب ہوجائیں گے ہرگز نہیں پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے فرشتوں کو مانتا ہے بہشت اور دوزخ کے وجود پر ایمان لاتا ہے اور قیامت میں میزان عمل کو قبول کرتا ہے قیامت کی ُ پل صراط پر صدق دل سے یقین رکھتا ہے اور اس حقیقت کو مانتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی کتابیں ہیں جو دنیا میں نازل ہوئی ہیں اور اس کے رسول بھی ہیں جو دنیا میں آئے ہیں اور اس کی طرف سے حشر اجسام بھی ہے جو ایک دن ہوگا اور خدا بھی موجود ہے جو درحقیقت واحد لاشریک ہے تو وہ شخص عند اللہ قابل نجات ٹھہر جاتا ہے.پیارو!! یقیناً سمجھو کہ اس کی یہی وجہ ہے کہ یہ شخص خدا تعالیٰ پر جو ہنوز در پردہ غیب ہے ایمان لاتا ہے اور اس کی بچہ بڑھتا ہے بڑھتی جاتی ہے یاں تک کہ خاکی رنگ کی ایک تھیلی سی ہوجاتی ہے جو گٹھڑی کی طرح نظر آتی ہے اور اپنی تکمیل خلقت کے دنوں تک بچہ اسی میں ہوتا ہے قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے اور حال کی تحقیقاتیں بھی اس کی مصدّق ہیں کہ عالم کبیر
لفظ سے یہ ظاہر کیا کہ دیکھو یہ میرا پیارا رسول دیکھو یہ برگزیدہ بندہ کہ کمال طاعت سے کس درجہ تک پہنچا کہ اب جو کچھ میرا ہے وہ اس کا ہے.جو شخص نجات چاہتا ہے وہ اس کا غلام ہوجائے یعنی ایسا اس کی اطاعت میں محو ہوجاوے کہ گویا اس کا غلام ہے تب وہ گو کیسا ہی پہلے گناہ گار تھا بخشا جائے گا جاننا چاہیئے کہ عبد کا لفظ لغت عرب میں غلام کے معنوں پر بھی بولا جاتا ہے جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے3 3.۱ اور اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو شخص اپنی نجات چاہتا ہے وہ اس نبی سے غلامی کی نسبت پیدا کرے یعنی اس کے حکم سے باہر نہ جائے اور اس کے دامن طاعت سے اپنے تئیں وابستہ جانے جیسا کہ غلام جانتا ہے تب وہ نجات پائے گا اس مقام میں ان کو ر باطن نام کے موحّدوں پر افسوس آتا ہے کہ جو ہمارے کتاب کے اخبار غیبیہ کو صحیح سمجھتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ایک راست باز اور نیک خیال اور نیک ظن اور فرمانبردار ٹھہرتا ہے تب اس صدق کی برکت سے بخشا جاتا ہے ورنہ مجرد معلومات کو نجات سے تعلق ہی کیا ہے کیا اگر کوئی روز قیامت میں کل حجابوں کے رفع کے بعد یہ کہے کہ یہ بہشت اور دوزخ جو سامنے نظر آرہا ہے اور یہ ملایک جو صف باندھے کھڑے ہیں اور یہ میزان جس سے عملُ تل رہے ہیں اور یہ رب العالمین جو عدالت کررہا ہے.ان سب باتوں پر اب میں ایمان لایا تو کیا ایسے ایمان سے وہ رہا ہوجائے گا ہرگز نہیں پس اگر رہا نہیں ہوگا تو اس کا سبب کیا ہے کیا اس کا یہ سبب نہیں کہ اس وقت بھی اپنے کمال خلقت کے وقت تک ایک گٹھڑی کی طرح تھا جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے.333 3۲ الجزو نمبر ۷ یعنی فرماتا ہے کہ کیا کافروں نے آسمان اور البقرۃ:۲۲۲ ۲ الانبیآء:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یاں تک بغض رکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ نام کہ غلام نبی.غلام رسول.غلام مصطفی.غلام احمد.غلام محمد شرک میں داخل ہیں اور اس آیت سے معلوم ہوا کہ مدار نجات یہی نام ہیں.اور چونکہ عبد کے مفہوم میں یہ داخل ہے کہ ہر ایک آزادگی اور خودروی سے باہر آجائے اور پورا متبع اپنے مولیٰ کا ہو.اس لئے حق کے طالبوں کو یہ رغبت دی گئی کہ اگر نجات چاہتے ہیں تو یہ مفہوم اپنے اندر پیدا کریں اور درحقیقت یہ آیت اور یہ دوسری آیت 33.۱ از رو مفہوم کے ایک ہی ہیں.کیونکہ کمال اتباع اس محویت اور اطاعت تامہ کو مستلزم ہے جو عبد کے مفہوم میں پائی جاتی ہے.یہی سر ہے کہ جیسے پہلی آیت میں مغفرت کا وعدہ بلکہ محبوب الٰہی بننے کی اس نے ان تمام چیزوں کو دیکھ لیا ہے جو پہلے اس سے پردہ غیب میں تھیں اس لئے وہ موقعہ ثواب کا ہاتھ سے جاتا رہا جو صرف اسی شخص کو مل سکتا ہے جو ان بدیہی ثبوتوں سے بے خبر ہو اور محض قرائن دقیقہ سے استنباط کر کے بات کی اصلیت تک پہنچ گیا ہو سو افسوس کہ وہ لوگ جو فلسفہ پر مرے جاتے ہیں ان کی عقلوں پر یہی پردہ پڑا ہوا ہے کہ وہ اس بات کو نہیں سوچتے کہ اگر علم ذات باری اور علم وجود ملائک اور علم حشر اجسام اورعلم جنت وجہنم اور علم نبوت اور رسالت ایسے مانجے جاتے اور صاف کئے جاتے اور بدیہی طور پر دکھلائے جاتے کہ جیسے علوم ہندسہ و حساب اور زمین کو نہیں دیکھا کہ گٹھڑی کی طرح آپس میں بندھے ہوئے تھے اور ہم نے ان کو کھول دیا.سو کافروں نے تو آسمان اور زمین بنتا نہیں دیکھا اور نہ ان کی گٹھڑی دیکھی لیکن اس جگہ روحانی آسمان اور روحانی زمین کی طرف اشارہ ہے جس کی گٹھڑی کفار عرب کے روبرو ۱ اٰل عمران:
خوشخبر ی ہے گویا یہ آیت کہ قل یا عبادی دوسرے لفظوں میں اس طرح پر ہے کہ قل یا متّبعییعنی اے میری پیروی کرنے والو جو بکثرت گناہوں میں مبتلا ہورہے ہو رحمت الٰہی سے نومید مت ہو کہ اللہ جلّ شانہٗ بہ برکت میری پیروی کے تمام گناہ بخش دے گا.اور اگر عباد سے صرف اللہ تعالیٰ کے بندے ہی مراد لئے جائیں تو معنے خراب ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ ہرگز درست نہیں کہ خدا تعالیٰ بغیر تحقّق شرط ایمان اور بغیر تحقّق شرط پیروی تمام مشرکوں اور کافروں کو یونہی بخش دیوے ایسے معنے تو نصوص بیّنہ قرآن سے صریح مخالف ہیں.اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ ماحصل اس آیت کا یہ ہے کہ جو لوگ دل و جان سے تیرے یارسول اللہ غلام بن جائیں گے ان کو وہ نور ایمان اور محبت اور عشق بخشا جائے گا بعض حصے علوم طبعی اور طبابت اور ہیئت صاف کئے گئے ہیں تو پھر ایسے علوم بدیہہ ضروریہ کو نجات انسانی سے تعلق ہی کیا تھا جب کہ نجات کی یہ حقیقت ہے کہ وہ اللہ جلّ شانہٗ کا محبت اور پیار سے بھرا ہوا ایک فضل ہے جو راست بازوں اور صادقوں اور سچے ایمانداروں اور کامل کھل گئی اور فیضان سماوی زمین پر جاری ہوگئے اب پھر ہم اپنے پہلے کلام کی طرف عود کر کے کہتے ہیں کہ نطفتینمرد اور عورت کے جو آپس میں مل جاتے ہیں وہ اول مرتبہ تکوین کا ہے.اور پھر ان میں ایک جوش آکر وہ مجموعہ نطفتین جو قوت عاقدہ اور منعقدہ اپنے اندر رکھتا ہے سرخی کی طرف مائل ہوجاتا ہے گویا وہ منی جو پہلے خون سے بنی تھی پھر اپنے اصلی رنگ کی طرف جو خونی ہے عود کر آتی ہے یہ دوسرا درجہ ہے پھر وہ خون جما ہوا جس کا نام علقہ ہے ایک گوشت کا مضغہ ہوجاتا ہے جو انسانی شکل کا کچھ خاکہ نہایت دقیق طور پر اپنے اندر رکھتا ہے یہ تیسرا درجہ ہے اور اس درجہ پر اگر بچہ ساقط ہوجائے تو اس کے دیکھنے سے غور کی
کہ جو اُن کو غیر اللہ سے رہائی دے دے گا اور وہ گناہوں سے نجات پا جائیں گے اور اسی دنیا میں ایک پاک زندگی ان کو عطا کی جائے گی اور نفسانی جذبات کی تنگ و تاریک قبروں سے وہ نکالے جائیں گے.اسی کی طرف یہ حدیث اشارہ کرتی ہے.انا الحا شر الذی یُحْشر النّاس علی قدمی۱ یعنی میں وہ ُ مردوں کو اٹھانے والا ہوں جس کے قدموں پر لوگ اٹھائے جاتے ہیں.واضح ہو کہ قرآن کریم اس محاورہ سے بھرا پڑا ہے کہ دنیا مرچکی تھی اور خدا تعالیٰ نے اپنے اس نبی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج کر نئے سرے دنیا کو زندہ کیا جیسا کہ وہ فرماتا ہے 33.۲ یعنی اس بات کو سن رکھو کہ زمین کو اس کے مرنے کے بعد خدا تعالیٰ زندہ کرتا ہے پھر اسی کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے حق میں فرماتا ہے.وفاداروں اور اخبار ظنّیہ کے ماننے والوں کی طرف رجوع کرتا ہے تو پھر علوم بدیہہ ضروریہ کا ماننا کس راست بازی اور صدق اور صفا کو ثابت کرسکتا ہے ہم صریح دیکھتے ہیں کہ جیسے ہم اس بات کے قائل ہیں کہ چار کا نصف دو ہیں ایسا ہی ایک اول درجہ کا بدمعاش بھی اسی بات کا قائل ہوتا ہے ہم دنیا نظر سے کچھ خطوط انسان بننے کے اس میں دکھائی دیتے ہیں چنانچہ اکثر بچے اس حالت میں بھی ساقط ہوجاتے ہیں جن عورتوں کو کبھی یہ اتفاق پیش آیا ہے یا وہ دایہ کا کام کرتی ہیں وہ اس حال سے خوب واقف ہیں پھر چوتھا درجہ وہ ہے جب مضغہ سے ہڈیاں بنائی جاتی ہیں جیسا کہ آیت 3۳ بیان فرمارہی ہے.مگر المضغہ پر جو الف لام ہے وہ تخصیص کے لئے ہے جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ تمام مضغہ ہڈی نہیں بن جاتا بلکہ جہاں جہاں ہڈیاں درکار ہیں باذنہٖ تعالیٰ وہی نرم گوشت کسی قدر صلب ہو کر ہڈی کی صورت بن جاتا ہے اور کسی قدر بدستور نرم گوشت ۱ بخاری کتاب المناقب.۲ الحدید:۱۸ ۳ المومنون
33.۱ یعنی ان کو روح القدس کے ساتھ مدد دی اور روح القدس کی مدد یہ ہے کہ دلوں کو زندہ کرتا ہے اور روحانی موت سے نجات بخشتا ہے اور پاکیزہ قوتیں اور پاکیزہ حواس اور پاک علم عطا فرماتا ہے اور علوم یقینیہ اور براہین قطعیہّ سے خدا تعالیٰ کے مقام قرب تک پہنچا دیتا ہے.کیونکہ اس کے مقرب وہی ہیں جو یقینی طور پر جانتے ہیں کہ وہ ہے اور یقینی طور پر جانتے ہیں کہ اس کی قدرتیں اور اس کی رحمتیں اور اس کی عقوبتیں اور اس کی عدالتیں سب سچ ہیں اور وہ جمیع فیوض کا مبدء اور تمام نظام عالم کا سرچشمہ اور تمام سلسلہ مو ّ ثرات اور متأ ثّرات کا علّت العلل ہے مگر متصرف بالارادہ جس کے ہاتھ میں کل 33ہے اور یہ علوم جو مدار نجات ہیں یقینی اور قطعی طور پر بجز اس حیات کے حاصل نہیں ہوسکتے جو بتوسط روح القدس انسان کو میں ہزارہا بلکہ کروڑہا چیزوں کو یقینی اور قطعی طور پر مانتے ہیں اور ان کے وجود میں ذرہ شک نہیں کرتے تو کیا ان کے ماننے سے کوئی ثواب ہمیں مل سکتا ہے.ہرگز نہیں.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے نشانوں کو بھی ایسے بدیہی طور سے اپنے نبیوں کے ذریعہ سے رہتا ہے.اور اس درجہ پر انسانی شکل کا کھلا کھلا خاکہ طیار ہوجاتا ہے جس کے دیکھنے کے لئے کسی خورد بین کی ضرورت نہیں اس خاکہ میں انسان کا اصل وجود جو کچھ بننا چاہئے تھا بن چکتا ہے لیکن وہ ابھی اس لحم سے خالی ہوتا ہے جو انسان کے لئے بطور ایک موٹے اور شاندار اور چمکیلے لباس کے لئے۲ ہے.جس سے انسان کے تمام خط و خال ظاہر ہوتے ہیں اور بدن پر تازگی آتی ہے اور خوبصورتی نمایاں ہوجاتی ہے اور تناسب اعضا پیدا ہوتا ہے پھر بعد اس کے پانچواں درجہ وہ ہے کہ جب اس خاکہ پر لحم یعنی موٹا گوشت برعایت مواضع مناسبہ چڑھایا جاتا ہے یہ وہی گوشت ہے کہ جب انسان تپ ۱ المجادلۃ:۲۳ ۲ ’’ لئے ‘‘سہو کاتب ہے.شمس
ملتی ہے اور قرآن کریم کا بڑے زور شور سے یہ دعویٰ ہے کہ وہ حیات روحانی صرف متابعت اس رسول کریم سے ملتی ہے اور تمام وہ لوگ جو اس نبی کریم کی متابعت سے سرکش ہیں وہ مردے ہیں جن میں اس حیات کی روح نہیں ہے اور حیات روحانی سے مراد انسان کے وہ علمی اور عملی قویٰ ہیں جو روح القدس کی تائید سے زندہ ہوجاتے ہیں اور قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ جن احکام پر اللہ جلّ شانہ‘ انسان کو قائم کرنا چاہتا ہے وہ چھ سو ہیں ایسا ہی اس کے مقابل پر جبرائیل علیہ السلام کے پر بھی چھ سو ہیں اور بیضہ بشریت جب تک چھ سو حکم کو سر پر رکھ کر جبرائیل کے پروں کے نیچے نہ آوے اس میں فنا فی اللہ ہونے کا بچہ پیدا نہیں ہوتا اور انسانی حقیقت اپنے اندر چھ سو بیضہ کی استعداد رکھتی ہے.پس جس شخص کا چھ سو بیضہ استعداد جبرائیل کے چھ سو پر کے نیچے آگیا وہ انسان کامل اور یہ تولد اس کا ظاہر نہیں کیا جیسے ہمیشہ سے دنیا کے جاہل لوگ تقاضا کررہے ہیں بلکہ جن کی استعدادوں پر پردہ تھا ان پر ابتلا کا پردہ بھی ڈال دیا جیسا کہ یہ ذکر قرآن کریم میں موجود ہے کہ مکہ کے جاہل یہ درخواست کرتے تھے کہ ہم اس شرط پر ایمان لا سکتے ہیں کہ عرب کے تمام مردے زندہ کئے جائیں یا یہ کہ ہمارے روبرو وغیرہ سے بیمار رہتا ہے تو فاقہ اور بیماری کی تکالیف شاقہ سے وہ گوشت تحلیل ہوجاتا ہے اور بسا اوقات انسان ایسی لاغری کی حالت پر پہنچ جاتا ہے جو وہی پانچویں درجہ کا خاکہ یعنی مشت استخوان رہ جاتا ہے جیسے مدقوقوں اورمسلولوں اور اصحاب ذیابیطس میں مرض کے انتہائی درجہ میں یہ صورت ظاہر ہوجاتی ہے.اور اگر کسی کی حیات مقدر ہوتی ہے تو پھر خدا تعالیٰ اس کے بدن پر گوشت چڑھاتا ہے غرض یہ وہی گوشت ہے جس سے خوبصورتی اور تناسب اعضا اور رونق بدن پیدا ہوتی ہے اور کچھ شک نہیں کہ یہ گوشت خاکہ طیار ہونے کے بعد آہستہ آہستہ جنین پر چڑھتا رہتا ہے.اور جب جنین
تولد کامل اور یہ حیات حیات کامل ہے اور غور کی نظر سے معلوم ہوتا ہے کہ بیضہ بشریت کے روحانی بچے جو روح القدس کی معرفت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت کی برکت سے پیدا ہوئے وہ اپنی کمیّت اور کیفیّت اور صورت اور نوع اور حالت میں تمام انبیاء کے بچوں سے اتم اور اکمل ہیں اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے 3.۱ یعنی تم سب امتوں سے بہتر ہو جو لوگوں کی اصلاح کے لئے پیدا کئے گئے ہو اور درحقیقت جس قدر قرآنی تعلیم کے کمالات خاصہ ہیں وہ اس امت مرحومہ کے استعدادی کمالات پر شاہد ہیں کیونکہ اللہ جلّ شانہٗ کی کتابیں ہمیشہ اسی قدر نازل ہوتی ہیں جس قدر اس امت میں جو تعمیل کتاب کی مکلف ہے استعداد ہوتی ہے مثلاً انجیل کی نسبت تمام محققین کی یہ رائے ہے کہ ایک زینہ لگا کر آسمان پر چڑھ جاؤ اور ہمارے روبرو وہی آسمان سے اترو اور کتاب الٰہی ساتھ لاؤ جس کو ہم ہاتھ میں لے کر پڑھ لیں.اور وہ نادان نہیں سمجھتے تھے کہ اگر انکشاف حقیقت اس قدر ہوجائے تو پھر اس عالم اور قیامت میں فرق کیا رہا اور ایسے بدیہی ایک کافی حصہ اس کا لے لیتا ہے.تب باذنہٖ تعالیٰ اس میں جان پڑ جاتی ہے تب وہ نباتی حالت سے جو صرف نشونما ہے منتقل ہو کر حیوانی حالت کی خاصیت پیدا کر لیتا ہے اور پیٹ میں حرکت کرنے لگتا ہے غرض یہ ثابت شدہ بات ہے کہ بچہ اپنی نباتی صورت سے حیوانی صورت کو کامل طور پر اس وقت قبول کرتا ہے کہ جب کہ عام طور پر موٹا گوشت اس کے بدن پر مناسب کمی بیشی کے ساتھ چڑھ جاتا ہے یہی بات ہے جس کو آج تک انسان کے مسلسل تجارب اور مشاہدات نے ثابت کیا ہے یہ وہی تمام صورت ہے جو قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے اور مشاہدات کے ذریعہ سے بتواتر ثابت ہے پھر اس پر اعتراض ۱ اٰل عمران:
اِس کی تعلیم کامل نہیں ہے اور وہ ایک ہی پہلو پر چلی جاتی ہے اور دوسرے پہلو کو بکلی چھوڑ رہی ہے لیکن دراصل یہ قصور ان استعدادوں کا ہے جن کے لئے انجیل نازل ہوئی تھی چونکہ خدا تعالیٰ نے انسانی استعدادوں کو تدریجاً ترقی دی ہے اس لئے اوائل زمانوں میں اکثر ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے کہ جو غبی اور بلید اور کم عقل اور کم فہم اور کم دل اور کم ہمت اور کم یقین اور پست خیال اور دنیا کے لالچوں میں پھنسے ہوئے تھے اور دماغی اور دلی قوتیں ان کی نہایت ہی کمزور تھیں مگر ان زمانوں کے بعد ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ زمانہ آیا جس میں رفتہ رفتہ استعدادیں ترقی کر گئیں گویا دنیا نے اپنی فطرتی قویٰ میں ایک اور ہی صورت بدل لی پس ان کی کامل استعدادوں کے موافق کامل تعلیم نے نزول فرمایا.نشانوں کے بعد اس قبول پر ایمان کا لفظ کیونکر اطلاق کریں گے کون شخص ہے جو حقائق بدیہہ بیّنہ کو قبول نہیں کرتا غرض فلسفہ والوں کے خیالات کی بنیاد ہی غلط ہے وہ چاہتے ہیں کہ کل ایمانیات کو علوم مشہودہ محسوسہ میں داخل کردیں اور ملائک اور کرنا اگر نادانوں کا کام نہیں تو اور کس کا ہے؟ اب پھر ہم اپنے کلام کی طرف رجوع کر کے لکھتے ہیں کہ چونکہ عالم صغیر میں جو انسان ہے سنت اللہ یہی ثابت ہوئی ہے کہ اس کے وجود کی تکمیل چھ مرتبوں کے طے کرنے کے بعد ہوتی ہے تو اسی قانون قدرت کی رہبری سے ہمیں معقولی طور پر یہ راہ ملتی ہے کہ دنیا کی ابتدا میں جو اللہ جلّ شانہٗ نے عالم کبیر کو پیدا کیا تو اس کی طرز پیدائش میں بھی یہی مراتب ستہّ ملحوظ رکھے ہوں گے اور ہریک مرتبہ کو تفریق اور تقسیم کی غرض سے ایک دن یا ایک وقت سے مخصوص کیا ہوگا جیسا کہ انسان کی پیدائش کے مراتب ستہّ چھ وقتوں سے
تنبیہ بمراد ازالہ وہم نور افشان ۱۳؍ اکتوبر ۱۸۹۲ء انجیل یوحنّا ۱۱ باب ۲.آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قول یہ لکھا ہے کہ قیامت اور زندگی َ میں ہی ہوں جو مجھ پر ایمان لاوے اگرچہ وہ مر گیا ہو تو بھی جئے گا یعنی گناہ اور نافرمانی اور غفلت اور کفر کی موت سے نجات پا کر اطاعت الٰہی کی روحانی زندگی حاصل کر لے گا.انجیل کے اس فقرہ پر ایڈیٹر نور افشاں نے اپنے پرچہ ۱۳؍ اکتوبر ۱۸۹۲ء میں کم فہمی کی راہ سے لکھا ہے کہ آدم سے تا ایندم کوئی شخص دنیا کی تواریخ میں ایسا نہیں ہوا جس نے ایسا بھاری دعویٰ کیا ہو اور اپنے حق میں ایسے لفظ استعمال کئے ہوں کہ قیامت اور زندگی َ میں ہوں اور اگر کوئی ایسا کہتا تو اس کے مطابق ثابت کردینا غیر ممکن جنت اور جہنم اور خدا تعالیٰ کا وجود ایسا ثابت ہوجائے جیسا کہ آج کل کی تحقیقاتوں سے اکثر معمورہ ارض اور بہت سی نباتات اور کانوں کا پتہ لگ گیا ہے مگر جس چیز کو خدا تعالیٰ نے اول روز سے انسان کی نجات کا ایک طریق نکالنے کے لئے ایمانیات میں خاص ہیں اور دنیا کی تمام قوموں کا سات دنوں پر اتفاق ہونا اور ایک دن تعطیل کا نکال کر چھ دنوں کو کاموں کے لئے خاص کرنا اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ چھ دن ان چھ دنوں کی یادگار چلے آتے ہیں کہ جن میں زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے بنایا گیا تھا.اور اگر کوئی اب بھی تسلیم نہ کرے اور انکار سے باز نہ آوے تو ہم کہتے ہیں کہ ہم نے تو عالم کبیر کے لئے عالم صغیر کی پیدائش کے مراتب ستہّ کا ثبوت دے دیا اور جو کام کرنے کے دن بالاتفاق ہریک قوم میں مسلّم ہیں ان کا چھ ہونا بھی ظاہر کردیا اور یہ بھی ثابت کردیا کہ
ہوتا.لیکن خدا وند مسیح نے جیسا دعویٰ اپنے حق میں کیا ویسا ہی اس کو ثابت بھی کر دکھلایا فقط.ایڈیٹر صاحب کا یہ مقولہ جس قدر راستی اور صداقت سے دور ہے کسی حقیقت شناس پر مخفی نہیں رہ سکتا واقعی امر یہ ہے کہ اگر حضرت مسیح علیہ السلام ایسا دعویٰ کرتے کہ زندگی اور قیامت میں ہوں تو چونکہ وہ سچے نبی تھے اس لئے ضرور تھا کہ اس دعویٰ کی سچائی ظاہر ہوجاتی اور حضرت مسیح کی زندگی میں اور بعد ان کے روحانی حیات دنیا میں بذریعہ ان کے پھیل جاتی لیکن جس قدر حضرت مسیح الٰہی صداقت اور ربّانی توحید کے پھیلانے سے ناکام رہے شاید اس کی نظیر کسی دوسرے نبی کے واقعات میں بہت ہی کم ملے گی ہمارے اس زمانہ میں یہ شہادت بڑے بڑے پادری صاحبان بھی دے چکے داخل کردیا ہے وہ کیونکر برخلاف ارادہ الٰہی اس درجہ کی ہدایت تک پہنچ جائے ہاں جب انسان ایمان کے درجہ سے عرفان کے مرتبہ پر ترقی کرتا ہے تو بلاشبہ یہ تمام امور ہدایت کے رنگ میں نظر آتے ہیں بلکہ ہندسی ثبوتوں سے بڑھ کر ان کا ثبوت ہوتا ہے خدا تعالیٰ کے تمام پیدائشی کام اس دنیا میں تدریجی ہیں تو پھر اگر منکر کی نظر میں یہ دلیل کافی نہیں تو اس پر واجب ہوگا کہ وہ بھی تو اپنے اس دعو ٰے پر کوئی دلیل پیش کرے کہ خدا تعالیٰ نے یہ عالم جسمانی صرف ایک دم میں پیدا کردیا تھا تدریجی طور پر پیدا نہیں کیا تھا.ہریک شخص جانتا ہے کہ وہی خدا اب بھی ہے جو پہلے تھا اور وہی خالقیت کا سلسلہ اب بھی جاری ہے جو پہلے جاری تھا.اور صاف بدیہی طور پر نظر آرہا ہے کہ خدا تعالیٰ ہر یک مخلوق کو تدریجی طور پر اپنے کمال وجود تک پہنچاتا ہے یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ پہلے وہ قوی تھا اور جلد کام کر لیتا تھا اور اب ضعیف ہے اور دیر سے کرتا ہے بلکہ یہی کہیں گے
ہیں کہ مسیح کی تعلیم خود ان کے شاگردوں کی پست خیالی اور کم فہمی اور دنیا طلبی کو دور نہیں کرسکی اور مسیح کی گرفتاری کے وقت جو کچھ انہوں نے اپنی بزدلی اور بداعتقادی اور بے وفائی دکھلائی بلکہ بعض کی زبان پر بھی جو کچھ اس آخری وقت میں لعن طعن کے الفاظ حضرت مسیح کی نسبت جاری ہوئے یہ ایک ایسی بات ہے کہ بڑے بڑے اور اعلیٰ درجہ کے فاضل مسیحیوں نے حواریوں کی ان بے جا حرکات کو مسیحیوں کے لئے سخت قابل شرم قرار دیا ہے پھر یہ خیال کرنا کہ حضرت مسیح روحانی قیامت تھے اور ان میں داخل ہو کر روحانی مردے زندہ ہوگئے کس قدر دور از صداقت ہے جو کچھ حضرت مسیح کے پیروؤں نے آپ کی زندگی کے وقت اپنی استقامت اور ایمانداری کا نمونہ دکھلایا وہ تو ایک ایسا بد نمونہ ہے کہ ضرور ان مسیحیوں پر جو بعد میں اب تک دنیا میں کیونکہ ہندسی ثبوت اکثر دوائر موہومہ پر مبنی ہیں مگر دینی امور عرفانی مرتبہ میں وہم اور شک سے منزّہ ہوتے ہیں اور دنیا میں جس قدر ایک چیز زیادہ سے زیادہ بدیہی کہ اس کا قانون قدرت ہی ابتدا سے یہی ہے کہ وہ ہر یک مخلوق کو بتدریج پیدا کرتا ہے سو حال کے افعال الٰہی ہمیں بتلارہے ہیں کہ گزشتہ اور ابتدائی زمانہ میں بھی یہی تدریج ملحوظ تھی جو اب ہے ہم سخت نادان ہوں گے اگر ہم حال کے آئینہ میں گزشتہ کی صورت نہ دیکھ لیں اور حال کی طرز خالقیت پر نظر ڈال کر صرف اتنا ہی ثابت نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ اپنی پیدائش کے سلسلہ کو تدریج سے کمال وجود تک پہنچاتا ہے بلکہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہریک مخلوق کی پیدائش میں چھ ہی مرتبے رکھے ہیں اور حکمت الٰہی نے ہریک مخلوق کی پیدائش میں یہی تقاضا کیا کہ اس کے پیدا ہونے کے چھ مرتبے ہوں جو چھ وقتوں میں انجام پذیر ہوں کسی مخلوق پر نظر ڈال کر
آتے گئے اس کا بداثر پڑا ہوگا کیونکہ ہریک شخص سمجھ سکتا ہے کہ اگر حضرت مسیح سے درحقیقت معجزات ظہور میں آتے اور اعلیٰ درجہ کے عجائب کام ان سے ظاہر ہوتے تو ان کے حواریوں کا جو ایمان لاچکے تھے ایسا بدانجام ہرگز نہ ہو تاکہ بعض چند درم رشوت لے کر ان کو گرفتار کراتے اور بعض ان کو گرفتار ہوتے دیکھ کر بھاگ جاتے اور بعض ان کے روبرو ان پر لعنت بھیجتے جن کے دلوں میں ایمان رچ جاتا ہے اور جن کو نئی زندگی حاصل ہوتی ہے کیا ان کے یہی آثار ہوا کرتے ہیں اور کیا وہ اپنے مخدوم اپنے آقا اپنے رہبر سے ایسی ہی وفاداریاں کیا کرتے ہیں اور حضرت مسیح کے الفاظ بھی جو انجیلوں میں درج ہیں دلالت کر رہے ہیں کہ آپ کے حواری اور آپ کے دن رات کے دوست اور رفیق اور ہم پیالہ اور ہم نوالہ بکلّی روحانیت سے خالی تھے اسی وجہ سے حضرت مسیح علیہ السلام نے طور پر ثابت ہوسکتی ہے اسی طور پر ان تمام عقائد کا ثبوت مل جاتا ہے بلکہ ایسا اعلیٰ ثبوت کہ کوئی نمونہ اس کا دنیا میں پایا نہیں جاتا مگر کمبخت انسان ان راہوں کی طرف دیکھ لو یہی چھ مراتب اس میں متحقق ہوں گے یعنی بنظر تحقیق یہ ثابت ہوگا کہ ہریک جسمانی مخلوق کے وجود کی تکمیل چھ مرتبوں کے طے کرنے کے بعد ہوتی ہے اور انسان پر کچھ موقوف نہیں زمین پر جو ہزارہا حیوانات ہیں ان کے وجود کی تکمیل بھی انہیں مراتب ستہّ پر موقوف پاؤگے.پھر ایک اور عجیب بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ مراتب ستّہ تکوین کا صرف جسمانی مخلوق میں ہی محدود نہیں بلکہ روحانی امور میں بھی اس کا وجود پایا جاتا ہے مثلاً تھوڑے سے غور سے معلوم ہوگا کہ انسان کی روحانی پیدائش کے مراتب بھی چھ۶ ہی ہیں پہلے وہ نطفہ کی صورت پر صرف حق کے قبول کرنے کی ایک استعداد بعیدہ اپنے اندر رکھتا ہے اور پھر جب
بعض کو ان میں سے سست اعتقاد کے لفظ سے پکارا ہے اور بعض کو شیطان کے لفظ سے یاد کیا ہے اور اگر ہم حواریوں کو الگ رکھ کر ان عیسائیوں کے حالات پر نظر ڈالیں جو بعد ان کے وقتًافوقتًا آج تک پیدا ہوتے رہے تو ہمیں ایک بھی ان میں سے نظر نہیں آتا جو دنیااور نفس کی قبر سے نکل کر نئی زندگی کی قیامت میں برانگیختہ ہوگیا ہو بلکہ وہ تمام نفسانیت کی تنگ و تاریک قبروں میں مرے ہوئے اور سڑے ہوئے نظر آرہے ہیں اور روحانی حیات کی ہو ا اُن کو چھو بھی نہیں گئی وہ جانتے بھی نہیں کہ خدا کون ہے اور اس کی عظمت اور قدرت کیا شے ہے اور کیونکر وہ پاک دلوں کو پاک زندگی بخشتا اور ان سے قریب ہوجاتا ہے وہ تو ایک عاجز انسان کو خدا قرار دے کر اور بے وجہ اس پر دوسروں کے گناہوں کا بوجھ لاد کر خوش ہورہے ہیں جاننا چاہیئے کہ موت چار قسم کی ہوتی ذرہ رغبت نہیں کرتا اور ان راہوں سے حق الیقین تک پہنچنا چاہتا ہے جو خدا تعالیٰ کے قدیم قانون قدرت نے وہ راہیں ان امور کے دریافت کے لئے مقرر نہیں کیں اس کی اس استعداد کے ساتھ ایک قطرہ رحمت الٰہی مل جاتا ہے اسی طرز کے موافق کہ جب عورت کے نطفہ میں مرد کا نطفہ پڑتا ہے تو تب انسان کی باطنی حالت نطفہ کی صورت سے علقہ کی صورت میں آجاتی ہے اور کچھ رشتہ باری تعالیٰ سے پیدا ہونے لگتا ہے جیسا کہ علقہ کے لفظ سے تعلق کا لفظ مفہوم ہوتا ہے اور پھر وہ علقہ اعمال صالحہ کے خون کی مدد سے مضغہ بنتا ہے اسی طرز سے کہ جیسے خون حیض کی مدد سے علقہ مضغہ بن جاتا ہے اور مضغہ کی طرح ابھی اس کے اعضا ناتمام ہوتے ہیں جیسا کہ مضغہ میں ہڈی والے عضو ابھی ناپدید ہوتے ہیں ایسا ہی اس میں بھی شدت لِلّٰہ اور ثبات لِلّٰہ اور استقامت لِلّٰہ کے عضو ابھی کما حقہ پیدا نہیں ہوتے گو تواضع اور نرمی موجود ہوجاتی ہے.اور اگرچہ پوری شدت
ہے غفلت کی موت گناہ کی موت شرک کی موتُ کفر کی موت سو یہ چاروں قسموں کی موت عیسائی مذہب میں موجود ہے.غفلت کی موت اس لئے کہ ان کی تمام قوتیں دنیا کی آرائشوں اور جمعیتوں کے لئے خرچ ہورہے ہیں اور خدا تعالیٰ میں اور اُن میں جو حجاب ہیں ان کے دور کرنے کے لئے ایک ذرہ بھی انہیں فکر نہیں اور گناہ کی موت اگر دیکھنی ہو تو یورپ کی سیر کرو اور دیکھو کہ ان لوگوں میں عفت اور پرہیزگاری اور پاکدامنی کس قدر باقی رہ گئی ہے اور شرک کی موت خود دیکھتے ہو کہ انسان کو خدا بنادیا اور خدا تعالیٰ کو بھلا دیا اور کفر کی موت یہ کہ سچے رسول سے منکر ہوگئے اب اس تمام تقریر سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح کی نسبت یہ گمان کرنا کہ انہوں نے روحانی مردوں کے زندہ کرنے میں قیامت کا نمونہ دکھلایا سراسر خیال محال اور دعویٰ بے دلیل ہے بلکہ یہ قیامت کا نمونہ ایسی ہی مثال ہے کہ جیسے کوئی کسی شیرینی کو آنکھ پر رکھ کر اس کا میٹھا یا کڑوا ہونا امتحان کرے یا آنکھوں کو بند کر کے کانوں سے دیکھنے کا کام لینا چاہے مگر یاد رہے اور صلابت اس مرتبہ میں پیدا نہیں ہوتی مگر مضغہ کی طرح کسی قدر قضا و قدر کی مضغ کے لائق ہوجاتا ہے یعنی کسی قدر اس لائق ہوجاتا ہے کہ قضا و قدر کا دانت اس پر چلے اور وہ اس کے نیچے ٹھہر سکے کیونکہ علقہ جو ایک سیال رطوبت کے قریب قریب ہے وہ تو اس لائق ہی نہیں کہ دانتوں کے نیچے پیسا جاوے اور ٹھہرا رہے لیکن مضغہ مضغ کے لائق ہے اسی لئے اس کا نام مضغہ ہے سو مضغہ ہونے کی وہ حالت ہے کہ جب کچھ چاشنی محبت الٰہی کی دل میں پڑ جاتی ہے اور تجلّی جلالی توجہ فرماتی ہے کہ بلاؤں کے ساتھ اس کی آزمائش کرے تب وہ مضغہ کی طرح قضا و قدر کے دانتوں میں پیسا جاتا ہے اور خوب قیمہ کیا جاتا ہے غرض تیسرا درجہ سالک کے وجود کا مضغہ ہونے کی حالت ہے اور پھر چوتھا درجہ
روحا نی حیات کے بخشنے میں اس ذات کامل الصفات نے دکھلایا جس کا نام نامی محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم سارا قرآن اول سے آخر تک یہ شہادت دے رہا ہے کہ یہ رسول اس وقت بھیجا گیا تھا کہ جب تمام قومیں دنیا کی روح میں مرچکی تھیں اور فساد روحانی نے برّوبحر کو ہلاک کردیا تھا تب اس رسول نے آکر نئے سرے سے دنیا کو زندہ کیا اور زمین پر توحید کا دریا جاری کردیا اگر کوئی منصف فکر کرے کہ جزیرہ عرب کے لوگ اول کیا تھے اور پھر اس رسول کی پیروی کے بعد کیا ہوگئے اور کیسی ان کی وحشیانہ حالت اعلیٰ درجہ کی انسانیت تک پہنچ گئی اور کس صدق و صفا سے انہوں نے اپنے ایمان کو اپنے خونوں کے بہانے سے اور اپنی جانوں کے فدا کرنے اور اپنے عزیزوں کو چھوڑنے اور اپنے مالوں اور عزتوں اور آراموں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں کہ یہ بات بھی نہیں کہ ایمانی مرتبہ میں خدا تعالیٰ نے ان تمام امور کے تسلیم کرانے میں اپنے بندوں کو صرف تکلیف مالا یطاق دینا چاہاہے بلکہ ان کی تسلیم کے لئے براہین وہ ہے کہ جب انسان استقامت اور بلاؤں کی برداشت کی برکت سے آزمائے جانے کے بعد نقوش انسانی کا پورے طور پر انعام پاتا ہے یعنی روحانی طور پر اس کے لئے ایک صورت انسانی عطا ہوتی ہے اور انسان کی طرح اس کو دو آنکھیں دو کان اور دل اور دماغ اور تمام ضروری قویٰ اور اعضا عطا کئے جاتے ہیں اور بمقتضائے آیت 3۱ سختی اور نرمی مواضع مناسبہ میں ظاہر ہوجاتی ہے یعنی ہر یک خلق اس کا اپنے اپنے محل پر صادر ہوتا ہے اور آداب طریقت تمام محفوظ ہوتے ہیں اور ہریک کام اور کلام حفظ حدود کے لحاظ سے بجالاتا ہے یعنی نرمی کی جگہ پر نرمی اور سختی کی جگہ پر سختی اور تواضع کی جگہ پر تواضع اور ترفع کی جگہ پر ترفع ایسا ہی تمام قویٰ
لگانے سے ثابت کر دکھلایا تو بلاشبہ ان کی ثابت قدمی اور ان کا صدق اپنے پیارے رسول کی راہ میں ان کی جانفشانی ایک اعلیٰ درجہ کی کرامت کے رنگ میں اس کو نظر آئے گی وہ پاک نظر ان کے وجودوں پر کچھ ایسا کام کرگئی کہ وہ اپنے آپ سے کھوئے گئے اور انہوں نے فنا فی اللہ ہو کر صدق اور راست بازی کے وہ کام دکھلائے جس کی نظیر کسی قوم میں ملنا مشکل ہے اور جو کچھ انہوں نے عقائد کے طور پر حاصل کیا تھا وہ یہ تعلیم نہ تھی کہ کسی عاجز انسان کو خدا مانا جائے یا خدا تعالیٰ کو بچوں کا محتاج ٹھہرایا جائے بلکہ انہوں نے حقیقی خدائے ذوالجلال جو ہمیشہ سے غیر متبدّ ل اور حیّ قیّوم اور ابن اور اب ہونے کی حاجات سے منزہ اور موت اور پیدائش سے پاک ہے بذریعہ اپنے رسول کریم کے شناخت کر لیا تھا اور وہ لوگ سچ مچ موت کے گڑھے سے نکل کر پاک حیات کے بلند مینار پر کھڑے ہوگئے تھے اور ہریک لطیفہ دیئے ہیں جن پر ایک سلیم العقل نظر غور ڈال کر ایک حصہ و افریقین کا حاصل کرسکتا ہے مثلاً گو ایمانی مرتبہ میں خدا تعالیٰ پر ایمان لانا ایک ایمان سے اپنے اپنے محل پر کام لیتا ہے یہ درجہ جنین کے اس درجہ سے مشابہت رکھتا ہے کہ جب وہ مضغہ کی حالت سے ترقی کر کے انسان کی صورت کا ایک پورا خاکہ حاصل کر لیتا ہے اور ہڈی کی جگہ پر ہڈی نمودار ہوجاتی ہے اور گوشت کی جگہ پر گوشت باقی رہتا ہے ہڈی نہیں بنتی اور تمام اعضا میں باہم تمیز کلّی پیدا ہوجاتی ہے لیکن ابھی خوبصورتی اور تازگی اور تناسب اعضا نہیں ہوتا صرف خاکہ ہوتا ہے جو نظر دقیق سے دکھائی دیتا ہے پھر بعد اس کے عنایت الٰہی توفیقات متواترہ سے موفق کر کے اور تزکیہ نفس کے کمال تک پہنچا کر اور فنا فی اللہ کے انتہائی نقطہ تک کھینچ کر اس کے خاکہ کے بدن پر انواع اقسام کی برکات کا گوشت بھر دیتی ہے اور اس گوشت سے
نے ایک تازہ زندگی پالی تھی اور اپنے ایمانوں میں ستاروں کی طرح چمک اٹھے تھے سو درحقیقت ایک ہی کامل انسان دنیا میں آیا جس نے ایسے اتم اور اکمل طور پر یہ روحانی قیامت دکھلائی اور ایک زمانہ دراز کے مردوں اور ہزاروں برسوں کے عظیم رمیم کو زندہ کر دکھلایا اس کے آنے سے قبریں کھل گئیں اور بوسیدہ ہڈیوں میں جان پڑ گئی اور اس نے ثابت کر دکھلایا کہ وہی حاشر اور وہی روحانی قیامت ہے جس کے قدموں پر ایک عالم قبروں میں سے نکل آیا اور بشارت 33 ۱ تمام جزیرہ عرب پر اثر انداز ہوگئی اور پھر اس قیامت کا نمونہ صحابہ تک ہی محدود نہ رہا بلکہ اس خداو ندقادر قدیر نے جس نے ہر قوم اور ہر زمانہ اور ہر ملک کے لئے اس بشیر و نذیر کو مبعوث کیا تھا ہمیشہ کے لئے جاودانی برکتیں بالغیب ہے مگر قرآنِ کریم کو دیکھو کہ اُس صانع کا وجود ثابت کرنے لئے کس قدر استدلالات اور براہین شافیہ سے بھرا ہوا ہے.ایسا ہی اگرچہ یہ تو نہیں کہ اس کی شکل کو چمکیلی اور اس کی تمام ہیکل کو آبدار کردیتی ہے تب اس کے چہرہ پر کاملیّت کا نور برستا ہے اور اس کے بدن پر کمال تام کی آب و تاب نظر آتی ہے اور یہ درجہ پیدائش کا جسمانی پیدائش کے اس درجہ سے مشابہ ہوتا ہے کہ جب جنین کے خاکہ کی ہڈیوں پر گوشت چڑھایا جاتا ہے اور خوبصورتی اور تناسب اعضا ظاہر کیا جاتا ہے.پھر بعد اس کے روحانی پیدائش کا چھٹا درجہ ہے جو مصداق 33۲ کا ہے.وہ مرتبہ بقا ہے جو فنا کے بعد ملتا ہے جس میں روح القدس کامل طور پر عطا کیا جاتا ہے اور ایک روحانی زندگی کی روح انسان کے اندر پھونک دی جاتی ہے.ایسا ہی یہ چھ مراتب خدا تعالیٰ کی پاک کلام میں بھی ۱ النصر:۳ ۲ المومنون:
اُس کے سچے تابعداروں میں رکھ دیں اور وعدہ کیا کہ وہ ُ نور اور وہ روح القدس جو اس کامل انسانؐ کے صحابہ کو دیا گیا تھا آنے والے متبعین اور صادق الاخلاص لوگوں کو بھی ملے گا جیسا کہ اس نے فرمایا33333 33 ۱.یعنی وہ رحیم خدا وہ خدا ہے جس نے اُمیوں میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھلاتا ہے اگرچہ وہ پہلے اس سے صریح گمراہ تھے اور ایسا ہی وہ رسول جو ان کی تربیت کررہا ہے ایک دوسرے گروہ کی بھی تربیت کرے گا جو انہیں میں سے ہوجائیں گے اور انہیں کے کمالات پیدا کر لیں گے مگر ابھی وہ ان سے ملے نہیں اور خدا غالب ہے اور حکمت والا.اس جگہ ہم ملایک کو کسی منکر کے ہاتھ میں پکڑا دیں یا کام کرتے دکھلا دیں لیکن طالب حق کے لئے اس قدر کافی ہے کہ دقیق در دقیق تدبیرات نظام کو دیکھ کر ضرورت جمع ہیں.اول حروف کا مرتبہ جو حامل کلام الٰہی اور کلمات کتاب اللہ کے لئے بطور تخم کے ہیں جن کو معانی مقصودہ سے کچھ بھی حصہ نہیں ہاں ان کے حصول کے لئے ایک استعداد بعیدہ رکھتے ہیں دوم کلمات کا مرتبہ جو اس تخم کے ذریعہ سے ظہور خارجی کے رنگ میں آئے جن کو معانی مقصودہ سے کچھ حصہ نہیں مگر ان کے حصول کے لئے ایک ذریعہ قریبہ ہیں سوم ان فقرات ناتمام کا مرتبہ جو ابھی کلام مقصودہ کے پورے درجہ تک نہیں پہنچے تھے کیونکہ ہنوز تنزیل کا سلسلہ ناتمام تھا اور خدا تعالیٰ کے کلام نے ابھی اپنا کامل چہرہ نہیں دکھلایا تھا مگر ان فقرات کو معانی مقصودہ سے ایک وافر حصہ تھا اس لئے وہ کلام تام الٰہی کے لئے بطور بعض اعضا کے ٹھہرے جن کا نام بلحاظ قلّت و کثرت آیتیں اور سورتیں رکھا گیا ۱ الجمعۃ:۳.
یہ نکتہ یاد رہے کہ آیت و آخرین منہم میں آخرین کا لفظ مفعول کے محل پر واقع ہے گویا تمام آیت معہ اپنے الفاظ مقدرہ کے یوں ہے ھو الذی بعث فی الامیین رسولا منھم یتلوا علیھم ایتہ و یزکیھم و یعلمھم الکتاب والحکمۃ و یعلّم الآخرین منہم لما یلحقوا بھم یعنی ہمارے خالص اور کامل بندے بجز صحابہ رضی اللہ عنہم کے اور بھی ہیں جن کا گروہ کثیر آخری زمانہ میں پیدا ہوگا اور جیسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی تربیت فرمائی ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس گروہ کی بھی باطنی طور پر تربیت فرمائیں گے یعنی وہ لوگ ایسے زمانہ میں آئیں گے کہ جس زمانہ میں ظاہری افادہ اور استفادہ کا سلسلہ منقطع ہوجائے گا اور مذہب اسلام بہت سی غلطیوں اور بدعتوں سے پر ہوجائے گا اور فقرا کے دلوں سے بھی باطنی روشنی جاتی ملائکہ اس کی نظر میں ضرور ثابت ہوجائیں گے اور اگر ایسا طالب دہر یہ ہے تو پہلے ہم وجود باری کا اس کو ثبوت دیں گیاور پھر اس بات کا ثبوت کہ خدا بجز اس کے ہو ہی نہیں سکتا چہارم اس کا کلام جامع تام مفصل ممیز کا مرتبہ جو سب نازل ہوچکا اور جمیع مضامین مقصودہ اور علوم حکمیہ و قصص و اخبار واحکام و قوانین و ضوابط و حدود و مواعید و انذارات و تبشیرات اور درشتی اور نرمی اور شدّت اور رحم اور حقائق و نکات پر بالاستیفا مشتمل ہے پنجم بلاغت و فصاحت کا مرتبہ جو زینت اور آرائش کے لئے اس کلام پر ازل سے چڑھائی گئی ششم برکت اور تاثیر اور کشش کی روح کا مرتبہ جو اس پاک کلام میں موجود ہے جس نے تمام کلام پر اپنی روشنی ڈالی اور اس کو زندہ اور منور کلام ثابت کیا.اسی طرح ہریک عاقل اور فصیح منشی کے کلام میں یہی چھ مراتب جمع ہوسکتے ہیں گو وہ کلام اعجازی حد تک نہیں پہنچتا کیونکہ جن حروف میں کوئی کلام لکھا جائے گا
رہے گی تب خدا تعالیٰ کسی نفس سعید کو بغیر وسیلہ ظاہری سلسلوں اور طریقوں کے صرف نبی کریم کی روحانیت کی تربیت سے کمال روحانی تک پہنچا دے گا اور اس کو ایک گروہ بنائے گا اور وہ گروہ صحابہ کے گروہ سے نہایت شدید مشابہت پیدا کرے گا کیونکہ وہ تمام و کمال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی زراعت ہوگی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیضان ان میں جاری و ساری ہوگا اور صحابہ سے وہ ملیں گے یعنی اپنے کمالات کے رو سے اُن کے مشابہ ہوجائیں گے اور ان کو خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے وہی موقعے ثواب حاصل کرنے کے حاصل ہوجائیں گے جو صحابہ کو حاصل ہوئے تھے اور بباعث تنہائی اور بے کسی اور پھر ثابت قدمی کے اسی طرح خدا تعالیٰ کے نزدیک صادق سمجھے جائیں گے کہ جس طرح صحابہ سمجھے گئے تھے کیونکہ یہ زمانہ بہت سی آفتوں اور فتنوں اور بے ایمانی کے کہ اس کے حکم اور ارادہ کے بغیر ایک پتہ بھی ہل نہ سکے اور پھر یہ ثبوت دیں گے کہ جن مصالح دقیقہ کے ساتھ خدا تعالیٰ اپنے بندوں پراپنا فیضان بذریعہ شمس و قمر و نجوم خواہ وہ عربی ہوں یا انگریزی یا ہندی پہلے ان کا وجود ضروری ہے سو یہ تو پہلا مرتبہ ہوا جو مضامین مقصودہ کے اظہار کے لئے ایک ذریعہ بعیدہ ہے مگر ان سے کچھ حصہ نہیں رکھتا پھر بعد اس کے دوسرا مرتبہ کلمات کا ہے جو حروف قرار دادہ سے پیدا ہوں گے جن کو معانی و مضامین مقصودہ سے ابھی کچھ حصہ نہیں مگر ان کے حصول کے لئے ایک ذریعہ قریبہ ہیں.پھر اس کے بعد تیسرا مرتبہ فقرات کا ہے جو ابھی معانی مقصودہ کے پورے جامع تو نہیں مگر ان میں سے کچھ حصہ رکھتے ہیں اور اس مضمون کے لئے جو منشی کے ذہن میں ہے بطور بعض اعضا کے ہیں.پھر چوتھا مرتبہ کلام جامع تام کا ہے جو منشی کے دل میں سے نکل کر بہ تمام و کمال کاغذ پر اندراج پاگیا ہے اور تمام معانی اور
پھیلنے کا زمانہ ہوگا اور راستبازوں کو وہی مشکلات پیش آجائیں گی جو صحابہ رضی اللہ عنہم کو پیش آئی تھیں اس لئے وہ ثابت قدمی دکھلانے کے بعد صحابہ کے مرتبہ پر شمار ہوں گے لیکن درمیانی زمانہ فیج اعوج ہے جس میں بباعث رعب اور شوکت سلاطین اسلام اور کثرت اسباب تنعم صحابہ کے قدم پر قدم رکھنے والے اور ان کے مراتب کو ظلی طور پر حاصل کرنے والے بہت ہی کم تھے مگر آخری زمانہ اول زمانہ کے مشابہ ہوگا کیونکہ اس زمانہ کے لوگوں پر غربت طاری ہوجائے گی اور بجز ایمانی قوت کے اور کوئی سہارا بلاؤں کے مقابلہ پر ان کے لئے نہ ہوگا سو ان کا ایمان خدا تعالیٰ کے نزدیک ایسا مضبوط اور ثابت ہوگا کہ اگر ایمان آسمان پر چلا جاتا تب بھی وہ اس کو زمین پر لے آتے یعنی ان پر زلزلے آئیں گے اور وہ آزمائے جائیں گے اور سخت فتنے ان کو گھیریں گے لیکن وہ ایسے وابرو باد وغیرہ کررہا ہے ان مصالح کے شناخت اور وضع شیء فی محلّہ کے قویٰ ہرگز ان چیزوں کو نہیں دیئے گئے جیسا کہ ابھی ہم ثابت کرچکے اور یہ بھی ثابت کرچکے کہ مضامین مقصودہ کو اپنے اندر جمع رکھتا ہے پھر پانچواں مرتبہ یہ ہے کہ ان سادہ فقرات اور عبارتوں پر بلاغت اور فصاحت کا رنگ چڑھایا جائے اور خوش بیانی کے نمک سے ملیح کیا جائے پھر چھٹا مرتبہ جو بلاتوقف اس مرتبہ کے تابع ہے یہ ہے کہ کلام میں اثر اندازی کی ایک جان پیدا ہوجائے جو دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیوے اور طبیعتوں میں گھر کر لیوے.اب غور کر کے دیکھ لو کہ یہ مراتب ستہ بکلی ان مراتب ستہ کی مانند اور ان کی مثیل ہیں جن کا قرآن کریم میں نطفہ علقہ مضغہ اور کچھ مضغہ اور کچھ عظام یعنی انسان کی شکل کا خاکہ اور انسان کی پوری شکل اور جاندار انسان نام رکھا ہے.
ثابت قدم نکلیں گے کہ اگر ایمان افلاک پر بھی ہوتا تب بھی اس کو نہ چھوڑتے سو یہ تعریف کہ وہ ایمان کو آسمان پر سے بھی لے آتے اس بات کی طرف اشارہ کررہی ہے کہ وہ ایسے زمانہ میں آئیں گے کہ جب چاروں طرف بے ایمانی پھیلی ہوئی ہوگی اور خدا تعالیٰ کی سچی محبت دلوں سے نکل جائے گی مگر ان کا ایمان ان دلوں میں بڑے زور میں ہوگا اور خدا تعالیٰ کے لئے بلاکشی کی ان میں بہت قوت ہوگی اور صدق اور ثبات بے انتہا ہوگا.نہ کوئی خوف ان کے لئے مانع ہوگا اور نہ کوئی دنیوی امید ان کو سست کرے گی اور ایمانی قوت انہیں باتوں سے آزمائی جاتی ہے کہ ایسی آزمایشوں کے وقت اور بے ایمانی کے زمانہ میں ثابت نکلے.سو اس حدیث میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ اس گروہ کا اسی وقت میں آنا ضروی ہے جب کہ اس کی آزمائش کے لئے ایسے ایسے اسباب موجود ہوں خدا تعالیٰ بغیر وسائط کے کوئی کام نہیں کرتا اور جن کو وسائط ٹھہراتا ہے پہلے ان کو ان کاموں کی مناسب حال قوتیں اور طاقتیں عطا کرتا ہے مثلاً شعور کے کام صاحب اور ہم نے ارادہ کیا تھا کہ اُن۱ اعتراض کا جواب بھی تحریر کریں کہ زمین کیوں چار دن میں بنائی گئی اور آسمان دو دن میں.اور کیوں یہ لکھا کہ خدا تعالیٰ کے عرش کو چار فرشتے اٹھارہے ہیں اور قیامت کے دن آٹھ اٹھائیں گے اور اس کے کیا معنے ہیں کہ ابتدا میں خدا تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا لیکن چونکہ اب وقت بہت کم ہے اور طول بہت ہوگیا ہے اور ان اعتراضات کے جوابات نہایت درجہ کے معارف و حقائق سے بھرے ہوئے ہیں جو بہت طول چاہتے ہیں اس لئے بالفعل ہم اس حاشیہ کو ختم کرتے ہیں اور انشاء اللہ القدیر براھین احمدیہ کے حصہ پنجم میں یہ تمام معارف عالیہ تحریر کر کے دکھلائیں گے اور خلق اللہ پر ظاہر کریں گے کہ ہمارے ۱ ’’ اِس ‘‘ پڑھا جائے.سہو کاتب ہے.شمس
اور دنیا حقیقی ایمان سے ایسی دور ہو کہ گویا خالی ہو.خلاصہ کلام یہ کہ اللہ جلّ شانہ‘ ان کے حق میں فرماتا ہے کہ وہ آخری زمانہ میں آنے والے خالص اور کامل بندے ہوں گے جو اپنے کمال ایمان اور کمال اخلاص اور کمال صدق اور کمال استقامت اور کمال ثابت قدمی اور کمال معرفت اور کمال خدا دانی کی رو سے صحابہ کے ہمرنگ ہوں گے اور اس بات کو بخوبی یاد رکھنا چاہیئے کہ درحقیقت اس آیت میں آخری زمانہ کے کاملین کی طرف اشارہ ہے نہ کسی اور زمانہ کی طرف کیونکہ یہ تو آیت کے ظاہر الفاظ سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ کامل لوگ آخری زمانہ میں پیدا ہوں گے جیسا کہ آیت 3 ۱ صاف بتلا رہی ہے اور زمانے تین ہیں ایک اول جو صحابہ کا زمانہ ہے اور ایک اوسط جو مسیح موعود اور صحابہ کے درمیان ہے اور ایک آخری زمانہ شعور سے لیتا ہے اور ارادہ کا کام صاحب ارادہ سے انسان کا کام انسان سے اور حیوان کا کام حیوان سے اور نظر دقیق کا کام نظر دقیق سے پس ان شتاب کار اور بلید طبع مخالفین نے ایسے اعتراضات کے کرنے میں کس قدر معرفت اور حکمت سے اپنے بے بہرگی ظاہر کی ہے اور کیسے وہ اور ان کے مذاہب دقائق حقانیت سے دور پڑے ہوئے ہیں اور قرآن کریم کیسے اعلیٰ درجہ کے حقائق و معارف و لطائف و نکات اپنی پاک تعلیم میں جمع رکھتا ہے اور کیونکر تمام روحانی محاسن اور خوبیوں پر محیط ہورہا ہے بالآخر ہم دعا کرتے ہیں کہ اے قادر خدا اے اپنے بندوں کے رہنما.جیسا تو نے اس زمانہ کو صنائع جدیدہ کے ظہور و بروز کا زمانہ ٹھہرایا ہے ایسا ہی قرآن کریم کے حقائق معارف ان غافل قوموں پر ظاہر کر اور اب اس زمانہ کو اپنی طرف اور اپنی کتاب کی طرف اور اپنی توحید کی
جو مسیح موعود کا زمانہ اور مصداق آیت و آخرین منہم کا ہے وہ وہی زمانہ ہے جس میں ہم ہیں.جیسا کہ مولوی صدیق حسن مرحوم قنوجی ثم بھوپالوی جو شیخ بطالوی کے نزدیک مجدّد وقت ہیں اپنی کتاب حجج الکرامہ کے صفحہ ۱۵۵ میں لکھتے ہیں کہ آخریت ایں امت از بدایت الف ثانی شروع کردیدہ آثار تقویٰ از اوّل گم شدہ بودند و اکنوں سطوت ظاہری اسلام ہم مفقودہ شدہ.تمّ کلامہٗ اور یہ تو ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ہی زمانے نیک قرار دیئے ہیں ایک صحابہ کا زمانہ جس کا امتداد اس حد تک متصور ہے جس میں سب سے آخر کوئی صحابی فوت ہوا ہو اور امتداد اس زمانہ کا امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے وقت تک ثابت ہوتا ہے اور دوسرا زمانہ وسط ہے جس کو بلحاظ بدعات کثیرہ اُمّ الخبائث کہنا چاہیئے ثبوتوں کے بعد بلاشبہ ملائک کے وجود کی ضرورت ثابت ہوتی ہے اور ایمانی امور کے لئے صرف اس قدر ثبوت کی حاجت ہے تا تکلیف مالا یطاق نہ ہو اور نیز ایمان لانے کا ثواب بھی ضائع نہ ہو کیونکہ اگر ملائک کے وجود کا ایسا ثبوت دیا جاتا کہ گویا ان کو پکڑ کر دکھلا دیا جاتا تو پھر ایمان ایمان نہ رہتا.اور نجات کی حکمت عملی فوت ہو جاتی.فافھم و تدبّر و لا تکن من المستعجلین.منہ طرف کھینچ لے کفر اور شرک بہت بڑھ گیا اور اسلام کم ہوگیا.اب اے کریم! مشرق اور مغرب میں توحید کی ایک ہوا چلا اور آسمان پر جذب کا ایک نشان ظاہر کر اے رحیم! تیرے رحم کے ہم سخت محتاج ہیں.اے ہادی! تیری ہدایتوں کی ہمیں شدید حاجت ہے مبارک وہ دن جس میں تیرے انوار ظاہر ہوں کیا نیک ہے وہ گھڑی جس میں تیری فتح کا نقارہ بجے.توکّلنا علیک و لا حول و لا قوّۃ الّا بک و انت العلیّ العظیم.منہ
اور جس کا نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فیج اعوج رکھا ہے اور اس زمانہ کا آخری حصہ جو مسیح موعود کے زمانہ اقبال سے ملحق ہے اس کا حال احادیث نبویہ کے رو سے نہایت ہی بدتر معلوم ہوتا ہے* بیہقی نے اس کے بارے میں ایک حدیث لکھی ہے یعنی یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس زمانہ کے مولوی اور فتوےٰ دینے والے ان تمام لوگوں سے بدتر ہوں گے جو اس وقت روئے زمین پر موجود ہوں گے اور حجج الکرامہ میں لکھا ہے کہ درحقیقت مہدی اللہ (مسیح موعود) پر کفر کا فتویٰ دینے والے یہی لوگ ہوں گے اس بات سے اکثر مسلمان بے خبر ہیں کہ احادیث سے ثابت ہے کہ مسیح موعود پر بھی کفر کا فتویٰ ہوگا چنانچہ وہ پیشگوئی پوری ہوئی غرض وہ زمانہ جو اول زمانہ اور مسیح موعود کے زمانہ کے بیچ میں ہے نہایت جب یہ عاجز نور افشاں کے جواب میں اس بات کو دلائل شافیہ کے ساتھ لکھ چکا کہ درحقیقت روحانی قیامت کے مصداق ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور کسی قدر نعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو درحقیقت احاطہ بیان سے خارج ہے ان عبارات میں درج کرچکا اور نیز بطور نمونہ کچھ مناقب و محامد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اسی ثبوت کے ذیل میں تحریر کرچکا تو وہ ۱۷؍ اکتوبر ۱۸۹۲ ء کا دن تھا.پھر جب میں رات کو بعد تحریر نعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مناقب و محامد صحابہ رضی اللہ عنہم سو یا تو مجھے ایک نہایت مبارک اور پاک رویا دکھایا گیا.کیا دیکھتا ہوں کہ میں ایک وسیع مکان میں ہوں جس کے نہایت کشادہ اور وسیع دالان ہیں اور نہایت مکلف فرش ہورہے ہیں اور اوپر کی منزل ہے اور میں ایک جماعت کثیر کو ربانی حقائق و معارف سنا رہا ہوں اور ایک اجنبی اور غیر معتقد مولوی اس جماعت میں بیٹھا ہے جو ہماری جماعت میں سے نہیں ہے.مگر میں اس کا ُ حلیہ پہچانتا ہوں وہ لاغر اندام اور سفید ریش ہے *حاشیہ ایک رؤیا کے بیان میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا بیان
فاسد زمانہ ہے چنانچہ اس زمانہ کے لوگوں کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں خیر ھذہ الامۃ اوّلھا و اٰخرھا.اوّلھا فیھم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و اٰخرھا فیھم عیسی بن مریم و بین ذالک فیج اعوج لیسوا منی و لست منھم یعنی امتیں دو۲ ہی بہتر ہیں ایک اول اور ایک آخر اور درمیانی گروہ ایک لشکر کج ہے جو دیکھنے میں ایک فوج اور روحانیت کے رو سے مردہ ہے نہ وہ مجھ سے اور نہ میں ان میں سے ہوں.حدیث صحیح میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ 3 تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان فارسی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا لوکان الایمان عند الثریّا اس نے میرے اس بیان میں دخل بے جا دے کر کہا کہ یہ باتیں کُنہ باری میں دخل ہے اور کُنہ باری میں گفتگو کرنے کی ممانعت ہے تو میں نے کہا کہ اے نادان ان بیانوں کو کنہ باری سے کچھ تعلق نہیں یہ معارف ہیں اور میں نے اس کے بے جا دخل سے دل میں بہت رنج کیا اور کوشش کی کہ وہ چپ رہے مگر وہ اپنی شرارتوں سے باز نہ آیا تب میرا غصہ بھڑکا اور میں نے کہا کہ اس زمانہ کے بد ذات مولوی شرارتوں سے باز نہیںآتے خدا ان کی پردہ دری کرے گا اور ایسے ہی چند الفاظ اور بھی کہے جواب مجھے یاد نہیں رہے.تب میں نے اس کے بعد کہا کہ کوئی ہے کہ اس مولوی کو اس مجلس سے باہر نکالے تو میرے ملازم حامد علی نام کی صورت پر ایک شخص نظر آیا اس نے اٹھتے ہی اس مولوی کو پکڑ لیا اور دھکے دے کر اس کو اس مجلس سے باہر نکالا اور زینہ کے نیچے اتار دیا تب میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری جماعت کے قریب ایک وسیع چبوترہ پر کھڑے ہیں اور یہ بھی گمان گذرتا ہے کہ چہل قدمی کررہے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ جب مولوی کو نکالا گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی جگہ کے۱ ۱ کے کے بعد کاتب سے یہاں لفظ ’’قریب‘‘ چھوٹ گیا ہے.شمس
لنا لہ رجل من فارس او رجال من فارسپس اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آخری زمانہ میں فارسی الاصل لوگوں میں سے ایک آدمی پیدا ہوگا کہ وہ ایمان میں ایسا مضبوط ہوگا کہ اگر ایمان ثریا میں ہوتا تو وہیں سے اس کو لے آتا اور ایک دوسری حدیث میں اسی شخص کو مہدی کے لفظ سے موسوم کیا گیا ہے اور اُس کا ہی کھڑے تھے مگر اس وقت نظر اٹھا کر دیکھا نہیں اب جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کتاب آئینہ کمالات اسلام ہے یعنی یہی کتاب اور یہ مقام جو اس وقت چھپا ہوا معلوم ہوتا ہے اور آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشت مبارک اس مقام پر رکھی ہوئی ہے کہ جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محامد مبارکہ کا ذکر اور آپ کی پاک اور پُر اثر اور اعلیٰ تعلیم کا بیان ہے اور ایک انگشت اس مقام پر بھی رکھی ہوئی ہے کہ جہاں صحابہ رضی اللہ عنہم کے کمالات اور صدق و وفا کا بیان ہے اور آپ تبسم فرماتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہٰذا لی و ہٰذا لاصحابی یعنی یہ تعریف میرے لئے ہے اور یہ میرے اصحاب کے لئے.اور پھر بعد اس کے خواب سے الہام کی طرف میری طبیعت متنزل ہوئی اور کشفی حالت پیدا ہوگئی تو کشفًا میرے پر ظاہر کیا گیا کہ اس مقام میں جو خدا تعالیٰ کی تعریف ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا ظاہر کی اور پھر اس کی نسبت یہ الہام ہوا کہ ہٰذا الثناء لی اور رات منگل کی تھی اور تین بجے پر پندرہ منٹ گذرے تھے.
ظہو ر آخری زمانہ میں بلاد مشرقیہ سے قرار دیا گیا ہے اور د ّ جال کا ظہور بھی آخری زمانہ میں بلاد مشرقیہ سے قرار دیا گیا ہے.ان دونوں حدیثوں کے ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص دجال کے مقابل پر آنے والا ہے وہ یہی شخص ہے اور سنت اللہ بھی اسی بات کو چاہتی ہے کہ جس ملک میں دجال جیسا خبیث پیدا ہوا اسی ملک میں وہ طیّب بھی پیدا ہو.کیونکہ طبیب جب آتا ہے تو بیمار کی طرف ہی رخ کرتا ہے اور یہ نہایت تعجب کا مقام ہے کہ بموجب احادیث صحیحہ کے دجال تو ہندوستان میں پیدا ہو اور مسیح دمشق کے میناروں پر جا اترے اس میں شک نہیں کہ مدینہ منورہ سے ہندوستان سمت مشرق میں واقع ہے بلاشبہ حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ مشرق کی طرف سے ہی دجّال کا ظہور ہوگا اور مشرق کی طرف سے ہی رایات سود مہدی اللہ کے ظاہرہوں گے گویا روز ازل سے یہی مقرر ہے کہ محل فتن بھی مشرق ہی ہے اور محل مکرر یہ کہ ۱۸؍ اکتوبر ۱۸۹۲ ء کے بعد ۷ ؍دسمبر ۱۸۹۲ ء کو ایک اور رؤیا دیکھا کیا دیکھتا ہوں کہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ بن گیا ہوں یعنی خواب میں ایسا معلوم کرتا ہوں کہ وہی ہوں اور خواب کے عجائبات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض اوقات ایک شخص اپنے تئیں دوسرا شخص خیال کرلیتا ہے سو اس وقت میں سمجھتا ہوں کہ میں علی مرتضیٰ ہوں.اور ایسی صورت واقعہ ہے کہ ایک گروہ خوارج کا میری خلافت کا مزاحم ہورہا ہے یعنی وہ گروہ میری خلافت کے امر کو روکنا چاہتا ہے اور اس میں فتنہ انداز ہے تب میں نے دیکھا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ہیں اور شفقت اور تو دّد سے مجھے فرماتے ہیں.یا علی دعھم و انصارھم
اصلا ح فتن بھی مشرق ہی ہے.اور اس جگہ ایک نکتہ ہے اور وہ یہ ہے کہ جیسا اللہ جلّ شانُہٗنے ظاہر الفاظ آیت میں 33کا لفظ استعمال کر کے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ لوگ جو کمالات میں صحابہ کے رنگ میں ظاہرہوں گے وہ آخری زمانہ میں آئیں گے ایسا ہی اس آیت میں 3 کے تمام حروف کے اعداد سے جو ۱۲۷۵ ہیں اس بات کی طرف اشارہ کردیا جو 3 کا مصداق جو فارسی الاصل ہے اپنے نشاء ظاہر کا بلوغ اس ِ سن میں پورا کر کے صحابہ سے و زراعتھم یعنی اے علی ان سے اور ان کے مددگاروں اور ان کی کھیتی سے کنارہ کر اور ان کو چھوڑ دے اور ان سے منہ پھیر لے اور میں نے پایا کہ اس فتنہ کے وقت صبر کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو فرماتے ہیں اور اعراض کے لئے تاکید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو ہی حق پر ہے مگر ان لوگوں سے ترک خطاب بہتر ہے.اور کھیتی سے مراد مولویوں کے پیروؤں کی وہ جماعت ہے جو ان کی تعلیموں سے اثر پذیر ہے جس کی وہ ایک مدت سے آبپاشی کرتے چلے آئے ہیں.پھر بعد اس کے میری طبیعت الہام کی طرف منحدر ہوئی اور الہام کے رو سے خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ ایک شخص مخالف میری نسبت کہتا ہے.ذرونی اقتل موسٰی یعنی مجھ کو چھوڑو تا میں موسیٰ کو یعنی اِس عاجز کو قتل کردوں.اور یہ خواب رات کے تین بجے قریباً بیس منٹ کم میں دیکھی تھی اور صبح بدھ کا دن تھا.فالحمد للّٰہ علٰی ذالک.
منا سبت پیدا کرلے گا سو یہی سن ۱۲۷۵ ہجری جو آیت 3 3 ۱ کے حروف کے اعداد سے ظاہر ہوتا ہے اس عاجز کی بلوغ اور پیدائش ثانی اور تو ّ لد روحانی کی تاریخ ہے جو آج کے دن تک چونتیس برس ہوتے ہیں.اور اگر یہ کہا جائے کہ 3 کا لفظ جمع ہے پھر ایک پر کیونکر اطلاق پاسکتا ہے تو اس کا یہ جواب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کا ایک پر اطلاق کردیا ہے کیونکہ آپ نے اس آیت کی شرح کے وقت سلمان فارسی کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ فارس کے اصل سے ایک ایسا رجل پیدا ہوگا کہ قریب ہے جو ایمان کو ثریا سے زمین پر لے آوے یعنے وہ ایسے وقت میں پیدا ہوگا کہ جب لوگ بباعث شائع ہوجانے فلسفی خیالات اور پھیل جانے دہریت اور ٹھنڈے ہوجانے الٰہی محبت کے ایمانی حالت میں نہایت ضعیف اور نکمّے ہو جائیں گے تب خدا تعالیٰ اس کے ہاتھ سے اور اس کے وجود کی برکت سے دوبارہ حقیقی ایمان لوگوں کے دلوں میں پیدا کرے گا گویا گم شدہ ایمان آسمان سے پھر نازل ہوگا.اور قرآن کریم میں جمع کا لفظ واحد کے لئے آیا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اُ ّ مت کہا گیا ہے حالانکہ وہ ایک فرد تھے ماسوا اس کے اس آیت میں اس تفہیم کی غرض سے بھی یہ لفظ اختیار کیا گیا ہے کہ تا ظاہر کیا جائے کہ وہ آنے والا ایک نہیں رہے گا بلکہ وہ ایک جماعت ہوجائے گی جن کو خدا تعالیٰ پر سچا ایمان ہوگا اور وہ اس ایمان کی رنگ و بو پائے گی جو صحابہ کا ایمان تھا.اب پھر ہم پرچہ نور افشاں کے بے بنیاد دعویٰ کے ابطال کی غرض سے لکھتے ہیں کہ اگر اس محرّف مبدل انجیل کی نسبت جو عیسائیوں کے ہاتھ میں ہے خاموش ۱ الجمعۃ :
رہ کر اس فقرہ کو صحیح بھی سمجھا جائے کہ حضرت مسیح نے ضرور یہ دعویٰ کیا ہے کہ قیامت اور زندگی َ میں ہوں تو اس سے کچھ حاصل نہیں کیونکہ ایسا دعویٰ جو اپنے ساتھ اپنا ثبوت نہیں رکھتا کسی کے لئے موجب فضلیت نہیں ہوسکتا اگر ایک انسان ایک امر کی نسبت دعویٰ تو نہ کرے مگر وہ امر کر دکھائے تو اس دوسرے انسان سے بدرجہا بہتر ہے کہ دعویٰ تو کرے مگر اثبات دعویٰ سے عاجز رہے انجیل خود شہادت دے رہی ہے کہ حضرت مسیح کا دعویٰ اوروں کی نسبت تو کیا خود حواریوں کی حالت پر نظر ڈالنے سے ایک معترض کی نظر میں سخت قابل اعتراض ٹھہرتا ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح اپنے حواریوں کو بھی نفسانی قبروں میں ہی چھوڑ گئے.اور جب ہم حضرت مسیح کے اس دعویٰ کو حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ سے مقابلہ کرتے ہیں تو اس دعویٰ اور اس دعویٰ میں ظلمت اور نور کا فرق دکھائی دیتا ہے.حضرت مسیح کا دعویٰ عدم ثبوت کے ایک تنگ و تاریک گڑھے میں گرا ہوا ہے اور کوئی نور اپنے ساتھ نہیں رکھتا لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ آفتاب کی طرح چمک رہا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جاودانی زندگی پر یہ بھی بڑی ایک بھاری دلیل ہے کہ حضرت ممدوح کا فیض جاودانی جاری ہے اور جو شخص اس زمانہ میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتا ہے وہ بلاشبہ قبر میں سے اٹھایا جاتا ہے اور ایک روحانی زندگی اس کو بخشی جاتی ہے نہ صرف خیالی طور پر بلکہ آثار صحیحہ صادقہ اس کے ظاہر ہوتے ہیں اور آسمانی مددیں اور سماوی برکتیں اور روح القدس کی خارق عادت تائیدیں اس کے شامل حال ہوجاتی ہیں اور وہ تمام دنیا کے انسانوں میں سے ایک متفرد انسان ہوجاتا ہے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ اس سے ہم کلام ہوتا
ہے.اور اپنے اسرار خاصہ اس پر ظاہر کرتا ہے اور اپنے حقائق و معارف کھولتا ہے اور اپنی محبت اور عنایت کے چمکتے ہوئے علامات اس میں نمودار کردیتا ہے اور اپنی نصر تیں اس پر اتارتا ہے اور اپنی برکات اس میں رکھ دیتا ہے اور اپنی ربوبیت کا آئینہ اس کو بنا دیتا ہے اس کی زبان پر حکمت جاری ہوتی ہے اور اس کے دل سے نکات لطیفہ کے چشمے نکلتے ہیں اور پوشیدہ بھید اس پر آشکار کئے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ ایک عظیم الشان تجلی اس پر فرماتا ہے اور اس سے نہایت قریب ہوجاتا ہے اور وہ اپنی استجابت دعاؤں میں اور اپنی قبولیتوں میں اور فتح ابواب معرفت میں اور انکشاف اسرار غیبیہ میں اور نزول برکات میں سب سے اوپر اور سب پر غالب رہتا ہے چنانچہ اس عاجز نے خدا تعالیٰ سے مامور ہو کر انہیں امور کی نسبت اور اسی اتمام حجت کی غرض سے کئی ہزار رجسٹری شدہ خط ایشیا اور یورپ اور امریکہ کے نامی مخالفوں کی طرف روانہ کئے تھے تا اگر کسی کا یہ دعویٰ ہو کہ یہ روحانی حیات بجز اتباع خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی اور ذریعہ سے بھی مل سکتی ہے تو وہ اس عاجز کا مقابلہ کرے اور اگر یہ نہیں تو طالب حق بن کر یکطرفہ برکات اور آیات اور نشانوں کے مشاہدہ کے لئے حاضر آوے لیکن کسی نے صدق اور نیک نیتی سے اس طرف رخ نہ کیا اور اپنی کنارہ کشی سے ثابت کردیا کہ وہ سب تاریکی میں گرے ہوئے ہیں.اور حال میں جو ہمارے بعض ہم مذہب بھائی مسلمان کہلا کر اس روشنی سے منکر ہیں نہ قبول کرتے اور نہ صدق دل سے آتے اور آزماتے ہیں اور کافر کہنے پر کمر باندھ رہے ہیں ان سب امور کا اصل باعث نابینائی اور بخل اور شدت تعصب ہے اور ایسے لوگوں کا اسلام میں ہونا اسلام کی ہتک کا موجب نہیں اور یہ اعتراض نہیں ہوسکتا کہ ان لوگوں کے امراض روحانی کیوں دور نہیں ہوئے اور یہ لوگ کیوں قبروں
میں سے نہ نکلے کیونکہ اگر کوئی آفتاب کی طرف سے اپنے گھر کے کواڑ بند کر کے ایک تاریک گوشہ میں بیٹھ جائے تو اگر اس تک آفتاب کی روشنی نہ پہنچے تو یہ آفتاب کا قصور نہیں بلکہ خود اس شخص کا قصور ہے جس نے ایسا کیا ماسوا اس کے اگرچہ یہ لوگ کیسے ہی محجوب اور دوراز حقیقت ہیں مگر پھر بھی علانیہ توحید کے قائل ہیں کسی انسان کو خدا نہیں بناتے اور بہ برکت توحید اپنے اندر ایک نور بھی رکھتے ہیں اور کسی قدر زندگی کی حرارت ان میں موجود ہے اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ بالکل مر گئے اگرچہ خطرناک حالت میں ہیں اگر کوئی عیسائی یا ہندو ہماری طرف سے منہ پھیر کر ایسی نکتہ چینی کرے تو وہ سخت متعصب یا سخت نادان ہے باغ میں کانٹوں کا ہونا بھی ضروری ہے.جہاں پھول ہیں کانٹے بھی ہوں گے.مگر فرقہ مخالفہ میں تو سراسر کانٹوں کا ہی انبار نظر آتا ہے.عیسائیوں کی یہ سراسر بے ہودہ باتیں ہیں کہ مسیحؑ روحانی قیامت تھا اور مسیح میں ہو کر ہم جی اٹھے حضرات عیسائی خوب یاد رکھیں کہ مسیح علیہ السلام کا نمونہ قیامت ہونا سرمو ثابت نہیں اور نہ عیسائی جی اٹھے بلکہ مردہ اور سب مردوں سے اول درجہ پر اور تنگ و تاریک قبروں میں پڑے ہوئے اور شرک کے گڑھے میں گرے ہوئے ہیں نہ ایمانی روح ان میں ہے نہ ایمانی روح کی برکت بلکہ ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ توحید کا جو مخلوق پرستی سے پرہیز کرنا ہے وہ بھی ان کو نصیب نہیں ہوا اور ایک اپنے جیسے عاجز اور ناتوان کو خالق سمجھ کر اس کی پرستش کررہے ہیں.یاد رہے کہ توحید کے تین درجے ہیں سب سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ اپنے جیسی مخلوق کی پرستش نہ کریں نہ پتھر کی نہ آگ کی نہ آدمی کی نہ کسی ستارہ کی دوسرا درجہ یہ ہے کہ اسباب پر بھی ایسے نہ گریں کہ گویا ایک قسم کا ان کو ربوبیت کے
کار خانہ میں مستقل دخیل قرار دیں بلکہ ہمیشہ مسبب پرنظر رہے نہ اسباب پر.تیسر۳ا درجہ توحید کا یہ ہے کہ تجلّیات الہٰیہ کا کامل مشاہدہ کر کے ہریک غیر کے وجود کو کالعدم قرار دیں اور ایسا ہی اپنے وجود کو بھی غرض ہریک چیز نظر میں فانی دکھائی دے بجز اللہ تعالیٰ کی ذات کامل الصفات کے.یہی روحانی زندگی ہے کہ یہ مراتب ثلاثہ توحید کے حاصل ہوجائیں.اب غور کر کے دیکھ لو کہ روحانی زندگی کے تمام جاودانی چشمے محض حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طفیل دنیا میں آئے ہیں یہی اُ ّ مت ہے کہ اگرچہ نبی تو نہیں مگر نبیوں کی مانند خدا تعالیٰ سے ہمکلام ہوجاتی ہے اور اگرچہ رسول نہیں مگر رسولوں کی مانند خدا تعالیٰ کے روشن نشان اس کے ہاتھ پر ظاہر ہوتے ہیں اور روحانی زندگی کے دریا اس میں بہتے ہیں اور کوئی نہیں کہ اس کا مقابلہ کرسکے.کوئی ہے کہ جو برکات اور نشانوں کے دکھلانے کے لئے مقابل میں کھڑا ہو کر ہمارے اس دعویٰ کا جواب دے !!!.ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے کوئی دیں.دینِ محمدؐ سا نہ پایا ہم نے کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلاوے یہ ثمر باغ محمدؐ سے ہی کھایا ہم نے ہم نے اسلام کو خود تجربہ کر کے دیکھا نور ہے نور اٹھو دیکھو سنایا ہم نے اور دینوں کو جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا کوئی دکھلائے اگر حق کو چھپایا ہم نے تھک گئے ہم تو انہیں باتوں کو کہتے کہتے ہر طرف دعوتوں کا تیر چلایا ہم نے آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند ہر مخالف کو مقابل پہُ بلایا ہم نے یونہی غفلت کے لحافوں میں پڑے سوتے ہیں وہ نہیں جاگتے سو بار جگایا ہم نے جل رہے ہیں یہ سبھی بغضوں میں اورکینوں میں باز آتے نہیں ہر چند ہٹایا ہم نے
آؤ لوگو کہ یہیں نور خدا پاؤ گے لو تمہیں طور تسلّی کا بتایا ہم نے آج ان نوروں کا اِک زور ہے اِس عاجز میں دل کو ان نوروں کا ہر رنگ دلایا ہم نے جب سے یہ نور ملا نور پیمبر سے ہمیں ذات سے حق کے وجود اپنا ملایا ہم نے مصطفی پر ترا بے حد ہو سلام اور رحمت اس سے یہ نور لیا بار خدایا ہم نے ربط ہے جانِ محمدؐ سے مری جاں کو مدام دل کو وہ جام لبالب ہے پلایا ہم نے اُس سے بہتر نظر آیا نہ کوئی عالم میں لاجرم غیروں سے دل اپنا چھڑایا ہم نے مورد قہر ہوئے آنکھ میں اغیار کے ہم جب سے عشق اس کاتہِ دل میں بٹھایا ہم نے زعم میں ان کے مسیحائی کا دعویٰ میرا افترا ہے جسے از خود ہی بنایا ہم نے کافر و ملحد و دجّال ہمیں کہتے ہیں نام کیا کیا غمِ ملّت میں رکھایا ہم نے گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو رحم ہے جوش میں اور غیض گھٹایا ہم نے تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمدؐ تیری خاطر سے یہ سب بار اٹھایا ہم نے تیری اُلفت سے ہے معمور مرا ہر ذرّہ اپنے سینہ میں یہ اک شہر بسایا ہم نے صفِ دشمن کو کیا ہم نے بہ حجت پامال سیف کا کام قلم سے ہی دکھایا ہم نے نور دکھلا کے تیرا سب کو کیاملزم و خوار سب کا دل آتش سوزاں میں جلایا ہم نے نقش ہستی تری الفت سے مٹایا ہم نے اپنا ہر ذرّہ تری راہ میں اڑایا ہم نے تیرا میخانہ جو اِک مرجع عالم دیکھا
بخد ا دل سے مرے مٹ گئے سب غیروں کے نقش جب سے دل میں یہ تیرا نقش جمایا ہم نے دیکھ کر تجھ کو عجب نور کا جلوہ دیکھا نور سے تیرے شیاطیں کو جلایا ہم نے ہم ہوئے خیر امم تجھ سے ہی اے خیر رسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے آدمی زاد تو کیا چیز فرشتے بھی تمام مدح میں تیری وہ گاتے ہیں جو گایا ہم نے قوم کے ظلم سے تنگ آکے مرے پیارے آج شور محشر ترے کوچہ میں مچایا ہم نے اب ہم کسی قدر اس بات کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام *کے ثمرات کیا ہیں سو سیّد احمد خان صاحب سی ایس آئی پر ایک ضروری اتمام حجت اسلام کے ایک جدید فرقہ کے سرگروہ سید احمد خان صاحب سی ایس آئی کی بعض تحریرات خصوصًا ان کی تفسیر کے دیکھنے سے کچھ ایسے خیالات ان کے معلوم ہوتے ہیں کہ گویا ان کو اس بات سے انکار ہے کہ سچ مچ کسی کو مخاطبہ اور مکالمہ الہٰیہ نصیب ہوسکے.اور میں اب تک یہی سمجھتا ہوں کہ وہ اس وحی سے منکر ہیں جو بذریعہ جبرائیل علیہ السلام انبیاء کو ملتی ہے اور الٰہی طاقتوں غیب گوئی اور دیگر خوارق کو اپنے اندر رکھتی ہے اور خالصًا آسمان سے نازل ہوتی ہے نہ کہ کوئی فطرتی قوت اگرچہ وہ بظاہر جبرائیل کو بھی مانتے ہیں مگر ان کا جبرائیل وہ نہیں ہے جس کو بالاتفاق بیس کروڑ مسلمان دنیا میں مان رہے ہیں وہ کلام الٰہی کے بھی قائل ہیں مگر اس کلام کے نہیں جو خدا کا نور اور خدائی طاقتیں اپنے وجود میں رکھتا ہے بلکہ صرف ایک ملکہ فطرت جو انسانی ظرف کے اندازہ پر فیض الٰہی قبول کرتا ہے نہ وہ وحی جو خدائی کے چشمہ سے نکلی ہے اور تعجب یہ کہ سیّد صاحب قرآن کریم کو بھی منجانب اللہ مانتے ہیں اور ان کے کاموں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسلام سے محبت بھی رکھتے ہیں اور مسلمانوں کے ہمدرد بھی ہیں اور اہل اسلام کی ذر ّ یت کی دنیوی حالت کے خیر خواہ بھی.مگر باوصف اس کے تعجب پر تعجب یہ کہ وہ کیوں بینات قرآن کریم کے برخلاف نہایت مجہول اور منکر رائیں ظاہر کررہے ہیں اس کا باعث ایک ناگہانی ابتلا معلوم ہوتا ہے سیّد احمد خانصاحب سی.ایس.آئی.پرایک ضروری اتمام حجت
وا ضح ہو کہ جب کوئی اپنے مولیٰ کا سچا طالب کامل طور پر اسلام پر قائم ہوجائے اور نہ کسی تکلف اور بناوٹ سے بلکہ طبعی طور پر خدا تعالیٰ کی راہوں میں ہر ایک جس میں وہ پھنس گئے اور وہ یہ کہ قبل اس کے کہ وہ قرآن کریم کی تعلیمات میں تدبر کرتے اور اس کے تسلّی بخش دلائل سے اطلاع پاتے کسی منحوس وقت میں ان کتابوں کی طرف متوجہ ہوگئے جو اس زمانہ کے یورپ کے فلاسفروں نے جو دہریہ کے قریب قریب ہیں تالیف کی ہیں اور نہ صرف یہی بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسے ملحد طبع نو تعلیم یافتہ لوگوں کی باتیں بھی سنتے رہے جن کی طبیعتوں میں یورپ کے طبعی اور فلسفہ پھنس گیا تھا سو جیسا کہ یکطرفہ خیالات کے سننے کا نتیجہ ہوا کرتا ہے وہی نتیجہ سید صاحب کو بھی بھگتنا پڑا.قرآن کریم کے حقائق معارف سے تو بے خبر ہی تھے اس لئے فلاسفروں کی تقریروں کے ساحرانہ اثر نے سید صاحب کے دل پر وہ کام کیا کہ اگر خدا تعالیٰ کا فضل اور طینت کی پاکیزگی جو اسی کے فضل سے تھی ان کو نہ تھامتی تو معلوم نہیں کہ ان کی یہ سرگردانی اب تک کہاں تک ان کو پہنچاتی سید صاحب کی یہ نیک منشی درحقیقت قابل تعریف ہے کہ انہوں نے بہرحال قرآن شریف کا دامن نہیں چھوڑا گو سہواً اس کے منشاء اور اس کی تعلیم اور اس کی ہدایتوں سے ایسے دور جا پڑے کہ جو تاویلیں قرآن کریم کی نہ خدائے تعالیٰ کے علم میں تھیں نہ اس کے رسول کے علم میں نہ صحابہ کے علم میں نہ اولیا اور قطبوں اور غوثوں اور ابدال کے علم میں اور نہ ان پر دلالت النص نہ اشارۃ النص وہ سید صاحب کو سوجھیں زیادہ تر افسوس کا یہ مقام ہے کہ سید صاحب نے قرآن شریف کی ان تعلیموں پر جو اصل اصول اسلام اور وحی الٰہی کا ُ لب لباب تھیں یا یوں کہو کہ جن کا نام اسلام تھا خیر خواہی کی نیت سے پانی پھیر دیا اور اپنی تفسیر میں آیات بینات قرآن کریم کی ایسی بعید از صدق و انصاف تاویلیں کیں کہ جن کو ہم کسی طرح سے تاویل نہیں کہہ سکتے بلکہ ایک پیرایہ میں قرآن کریم کی پاک تعلیمات کا رد ہے.سید صاحب کے ہریک فقرہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا اس نئے فلسفہ سے جو یورپ نے پیش کیا ہے ان کا دل
قوت اس کے کام میں لگ جائے تو آخری نتیجہ اس کی اس حالت کا یہ ہوتا ہے کہ خدائے تعالیٰ کی ہدایت کی اعلیٰ تجلیات تمام ُ حجب سے مبرا ہو کر اس کی طرف رخ کرتی ہیں اور طرح طرح کی برکات اس پر نازل ہوتی ہیں اور وہ احکام اور وہ عقائد جو محض ایمان اور کانپتا اور لرزتا ہے اور ان کی روح اس کو سجدہ کررہی ہے ہم نے جس کسی ایسے مقام سے ان کی تفسیر کو دیکھا جہاں انہیں قرآن کریم سچ مچ فلسفہ موجود کے مخالف یا بظاہر نظر مخالف معلوم ہوتا تھا وہاں یہی پایا کہ سید صاحب اقراری مدعا علیہ کی طرح فلسفہ کے قدموں پر گر پڑے.اور فلسفی تعلیمات کو بسر و چشم قبول کر کے تاویلات رکیکہ کے ساتھ قرآن کریم کی طرف سے ایسی ذلت کے ساتھ صلح کا پیغام پہنچایا کہ جیسے عاجز اور مغلوب دشمن درماندہ ہو کر اور ہرطرف سے رک کر چند کچے اور بے ہودہ عذرات سے مصالحہ کا طالب ہوتا ہے ہم کو یہ شوق ہی رہا کہ سیّد صاحب کی کوئی ایسی تالیف بھی دیکھیں جس میں سیدّ صاحب نے کوئی تیز تلوار فلسفہ موجودہ پر چلائی ہو اور مخالفت کے موقع پر بغیر کسی تاویل کے قرآن کریم کا بول بالا ثابت کیا ہو مگر افسوس کہ یہ ہمارا شوق پورا نہ ہوا.اگر سیّد صاحب ان احادیث کی تاویلات کرتے جو قرآن کریم کے بیّنات سے بظاہر ان کو معارض معلوم ہوتیں اور نیز فلسفہ موجودہ کے رو سے قابل اعتراض ٹھہرتیں تو ہمیں چنداں افسوس نہ ہوتا کیونکہ ہم خیال کرتے کہ بڑا متّکا اور مدار ایمان جس کا حرف حرف قطعی اور متواتر اور یقینی الصحت ہے یعنی قرآن کریم سید صاحب کے ہاتھ میں ہے مگر ان کی اس لغزش کو کہاں چھپائیں اور کیونکر پوشیدہ کریں کہ انہوں نے تو قرآن کریم پر ہی خط نسخ کھینچنا چاہا.میں کبھی تسلیم نہیں کروں گا کہ کسی موقع پر ان کے قلب نے شہادت دی ہو کہ جو کچھ تاویلات کا دور دراز تک دامن انہوں نے پھیلایا ہے وہ صحیح ہے بلکہ جابجا خود ان کا دل ان کو ملزم کرتا ہوگا کہ اے شخص تیری تمام تاویلات ایسی ہیں کہ اگر قرآن کریم ایک مجسم شخص ہوتا تو بصد زبان ان سے بیزاری ظاہر کرتا اور اس نے بیزاری ظاہر کی ہے کیونکہ وہ ان لوگوں کو سخت مورد غضب ٹھہراتا ہے جو اس کی آیات میں الحاد
سماع کے طور پر قبول کئے گئے تھے اب بذریعہ مکاشفات صحیحہ اور الہامات یقینیہ قطعیہ مشہود اور محسوس طور پر کھولے جاتے ہیں اور مغلقات شرع اور دین کے اور اسرار سربستہ ملت حنیفیہ کے اس پر منکشف ہوجاتے ہیں اور ملکوت الٰہی کا اس کو سیر کرایا جاتا ہے تا وہ یقین اور معرفت میں مرتبہ کامل حاصل کرے اور اس کی زبان اور اس کے بیان اور تمام افعال اور اقوال اور حرکات سکنات میں ایک برکت رکھی جاتی ہے اور ایک فوق العادت شجاعت اور استقامت اور ہمت اس کو عطا کی جاتی ہے اور شرح صدر کا ایک اعلیٰ مقام اس کو عنایت کیا جاتا ہے اور بشریت کے حجابوں کی تنگدلی اور خست اور بخل اور بار بار کی لغزش اور تنگ چشمی اور غلامی شہوات اور ردائت اخلاق اور ہر ایک قسم کی نفسانی تاریکی بکُلّی اس سے دور کر کے اس کی کرتے ہیں.یہودیوں کی کارستانیوں کا نمونہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے کہ انہوں نے کلام الٰہی میں تحریف اور الحاد اختیار کر کے کیا نام رکھایا قرآن کریم کی کسی آیت کے ایسے معنے کرنے چاہئے کہ جو صدہا دوسری آیات سے جو اس کی تصدیق کے لئے کھڑی ہوں مطابق ہوں اور دل مطمئن ہوجائے اور بول اٹھے کہ ہاں یہی منشاء اللہ جلّ شانہٗ کا اس کے پاک کلام میں سے یقینی طور سے ظاہر ہوتا ہے یہ سخت گناہ اور معصیت کا کام ہے کہ ہم قرآن کریم کی ایسی دور از حقیقت تاویلیں کریں کہ گویا ہم اس کے عیب کی پردہ پوشی کررہے ہیں یا اس کو وہ باتیں جتلارہے ہیں جو اس کو معلوم نہیں تھیں سید صاحب سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ حال کی تحقیقاتوں کو ایسا مسلّم الثبوت اور یقینی مان لیا کہ گویا ان میں غلطی ہونا ممکن ہی نہیں حالانکہ اس نئے فلسفہ اور سائنس میں ایسی ہی غلطیاں نکلنا ممکن ہے کہ جیسے پہلے فلسفہ اور طبعی کی اب غلطیاں نکل رہی ہیں سید صاحب اس مثل مشہور کو بھول گئے کہ.پائے استدلالیاں چوبین بود
جگہ رّ بانی اخلاق کا نور بھر دیا جاتا ہے.تب وہ بکلّی مبدل ہو کر ایک نئی پیدائش کا پیرایہ پہن لیتا ہے اور خدائے تعالیٰ سے سنتا اور خدائے تعالیٰ سے دیکھتا اور خدائے تعالیٰ کے ساتھ حرکت کرتا اور خدائے تعالیٰ کے ساتھ ٹھہرتا ہے اور اس کا غضب خدائے تعالیٰ کا غضب اور اس کا رحم خدائے تعالیٰ کا رحم ہوجاتا ہے اور اس درجہ میں اس کی دعائیں بطور اصطفاء کے منظور ہوتی ہیں نہ بطور ابتلا کے اور وہ زمین پر حجت اللہ اور امان اللہ ہوتا ہے اور آسمان پر اس کے وجود سے خوشی کی جاتی ہے اور اعلیٰ سے اعلیٰ عطیہ جو اس کو عطا ہوتا ہے مکالمات الہٰیہ اور مخاطبات حضرت یزدانی ہیں جو بغیر شک اور شبہ اور کسی غبار کے چاند کے نور کی طرح اس کے دل پر نازل ہوتے رہتے ہیں اور ایک شدید الاثر لذت اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور اور نئے فلسفہ کو وہ عزت دی جو خدائے تعالیٰ کی پاک اور لاریب کلام کا حق تھا چند ماہ کا عرصہ ہوا ہے کہ سیّد صاحب نے اپنے ایک دوست کے نام جو سیالکوٹ میں رہتے ہیں اس عاجز کی تالیفات کی نسبت لکھا تھا کہ وہ ایک ذرہ کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتیں یعنی بکلّی صداقت سے خالی ہیں اور نہ صرف اسی قدر بلکہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک دفعہ سید صاحب نے ایک اخبار میں چھپوا بھی دیا تھا کہ کسی سے الہامی پیشگوئیوں کا ظہور میں آنا یا مکاشفات و مخاطبات الہٰیہ سے مشرف ہونا ایک غیر ممکن امر ہے اور اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے تو وہ مجانین میں سے ہے اور ایسے خیالات جنون کے مقدمات میں سے ہیں اور اگر یہ خیالات دل میں راسخ ہوجائیں تو پھر وہ پورا پورا جنون ہے اگرچہ اس وقت مجھ کو ٹھیک ٹھیک یاد نہیں کہ سیّد صاحب کے اپنے الفاظ کیا تھے مگر قریباً ان کا خلاصہ یہی تھا.القصہ مجھے ایسے کلمات کے سننے اور پڑھنے سے بہت ہی رنج ہوا کہ سیّد صاحب جیسا ایک آدمی جسے
طما نیت اور تسلی اور سکینت بخشتے ہیں اور اس کلام اور الہام میں فرق یہ ہے کہ الہام کا چشمہ تو گویا ہر وقت مقرب لوگوں میں بہتا ہے اور وہ روح القدس کے بلائے بولتے اور روح القدس کے دکھائے دیکھتے اور روح القدس کے سنائے سنتے اور ان کے تمام ارادے روح القدس کے نفخ سے ہی پیدا ہوتے ہیں اور یہ بات سچ اور بالکل سچ ہے کہ وہ ظلّی طور پر اس آیت کا مصداق ہوتے ہیں 33 ۱.لیکن مکالمہ الہٰیہ ایک الگ امر ہے اور وہ یہ ہے کہ وحی متلو کی طرح خدائے تعالیٰ کا کلام ان پر نازل ہوتا ہے اور وہ اپنے سوالات کا خدائے تعالیٰ سے ایسا جواب پاتے ہیں کہ جیسا ایک دوست دوست کو جواب دیتا ہے اور اس کلام کی اگر ہم تعریف کریں تو صرف اس قدر کرسکتے ہیں حبّ اسلام کا دعویٰ اور قرآن کریم کی تفسیر کرنے کا ولولہ اور نیز متانت اور استقلال اور نیک منشی کا دم بھی مارتا ہو وہ ایسی جلدی ایسی باتیں منہ پر لاوے کہ جو فرقان حمید کی تعلیمات سے بالکل مخالف ہیں مجھے نہایت خوشی ہوتی اگر سید صاحب صرف اسی قدر پر کفایت نہ کرتے کہ مخالفانہ اور غیر معتقدانہ باتیں کہہ کر اور مکالمہ الہٰیہ کے مدعی کو مجنون اور پاگل قرار دے کر چپ ہوجائیں بلکہ جیسا کہ داب اور طریق حق پسندوں اور منصف مزاجوں کا ہے میرے دعاوی کی مجھ سے دلیل طلب کرتے تا اگر میں غلطی پر تھا تو اس غلطی کا صاف طور پر فیصلہ ہوجاتا اور اگر حضرت آپ ہی غلطی پر تھے تو ان کو اپنے اقوال سے رجوع کرنے کا مبارک موقع ملتا بہرحال اس تقریب سے پبلک کو ایک فائدہ پہنچتا اور آج کل جو انہیں مسائل پر قلموں کی کشت خونی ہورہی ہے یہ روز کے جھگڑے طے ہوجاتے مگر مجھے بار بار افسوس آتا ہے کہ اس طریق مستقیم کی طرف سید صاحب نے رخ بھی نہ کیا.میں نے بہت سوچا کہ اس کا کیا سبب ہے مجھے ۱ النجم:۴،
کہ و ہ اللہ جلّ شانہٗ کی ایک تجلی خاص کا نام ہے جو بذریعہ اس کے مقرب فرشتہ کے ظہور میں آتی ہے اور اس سے غرض یہ ہوتی ہے کہ تا دعا کے قبول ہونے سے اطلاع دی جائے یا کوئی نئی اور مخفی بات بتائی جائے یا آئندہ کی خبروں پر آگاہی دی جائے یا کسی امر میں خدائے تعالیٰ کی مرضی اور عدم مرضی پر مطلع کیا جائے یا کسی اور قسم کے واقعات میں یقین اور معرفت کے مرتبہ تک پہنچایا جائے.بہرحال یہ وحی ایک الٰہی آواز ہے جو معرفت اور اطمینان سے رنگین کرنے کے لئے منجانب اللہ پیرایہ مکالمہ و مخاطبہ میں ظہور پذیر ہوتی ہے اور اس سے بڑھ کر اس کی کیفیت بیان کرنا غیر ممکن ہے کہ وہ صرف الٰہی تحریک اور ربانی نفخ سے بغیر کسی قسم کے فکر اور تد ّ بر اور خوض اور غور اور اپنے نفس کے دخل کے خدائے تعالیٰ کی طرف سے ایک قدرتی ندا ہے جو لذیذ اور پُر برکت اس کا یہ باعث قرار دینا تو صحیح معلوم نہ ہوا کہ سیّد صاحب ہریک شخص سے بحث کی طرح ڈالنا پسند نہیں کرتے کیونکہ میرے دعاوی ایک معمولی دعاوی نہیں بلکہ یہ وہ امور ہیں کہ اگر کروڑہا لوگوں میں ان کا چرچا نہیں تو لاکھوں میں تو ضرور ہوگا ماسوا اس کے سید صاحب کا الہامی پیشگوئیوں اور خوارق سے ایک عام انکار ہے جس سے انبیاء بھی جیسا کہ مجھے آپ کی تالیفات کا منشاء معلوم ہوتا ہے باہر نہیں ہیں پس کیا اچھا ہوتا کہ اس موقع پر جو الہامی پیشگوئیوں پر نہ صرف ایمانًا میرا اعتقاد ہے بلکہ ان کا مجھ کو خود دعویٰ بھی ہے سید صاحب مجھ سے اپنے شکوک دور کرالیتے اور اگر میں اپنے دعویٰ میں سچا نہ نکلتا تو جس سزا کو سیّد صاحب میرے لئے تجویز کرتے ہیں اس کے بھگتنے کے لئے حاضر تھا اور اگر میرا صدق کھل جاتا تو سید صاحب اس وقت میں کہ ستارہ زندگی قریب الغروب ہے نہ صرف میری سچائی کے قائل ہوتے بلکہ ان پاک اعتقادوں کو جو وحی نبوت کی نسبت ضائع کر بیٹھے ہیں پھر حاصل کر لیتے عزیز من ایک منادی
الفا ظ میں محسوس ہوتی ہے اور اپنے اندر ایک ربانی تجلی اور الٰہی صولت رکھتی ہے.اِس جگہ ہریک سچے طالب کے دل میں بالطبع یہ سوال پیدا ہوگا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے کہ تا یہ مرتبہ عالیہ مکالمہ الٰہیہ حاصل کرسکوں پس اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک نئی ہستی ہے جس میں نئی قوتیں نئی طاقتیں نئی زندگی عطا کی جاتی ہے اور نئی ہستی پہلی ہستی کی فنا کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی.اور جب پہلی ہستی ایک سچی اور حقیقی قربانی کے ذریعہ سے جو فدائے نفس اور فدائے عزت و مال و دیگر لوازم نفسانیہ سے مراد ہے بکلّی جاتی رہے تو یہ دوسری ہستی فی الفور اس کی جگہ لے لیتی ہے.اور اگر یہ سوال کیا جائے کہ پہلی ہستی کے دور ہونے کے نشان کیا ہیں تو کی آواز کو جو سچائی کی طرف بلارہا ہے نہ سننا اور تحقیر کی نظر سے اس کو دیکھنا اور بے تحقیق اس کی نسبت مخالفانہ بولنا اور ثابت شدہ صداقت کے برخلاف جمے رہنا ہلاک ہونے کی راہ ہے مجھے آپ کے کلمات سے بو آتی ہے کہ صرف اتنا ہی نہیں کہ آپ اس امت کو مرتبہ مکالمات الہٰیہ سے تہی دست خیال کرتے ہیں بلکہ آپ کسی نبی کے لئے بھی یہ مرتبہ تجویز نہیں کرتے کہ خدا تعالیٰ کا زندہ اور خدا کی قدرتوں سے بھرا ہو کلام اس پر کبھی نازل ہوا ہو پس اگر آپ کا عقیدہ یہی ہے جو میں نے سمجھا اور میرے خیال میں گذرا ہے تو نعوذ باللہ آپ کا ایمان نہایت خطرناک ورطہ میں پڑا ہوا ہے اور میں بہت خوش ہوں گا اگر آپ کسی اخبار کے ذریعہ سے مجھ کو اطلاع دے دیں کہ ہمارا انبیاء کی نسبت یہ عقیدہ نہیں ہے کہ ان پر خدائے تعالیٰ کا زندہ کلام نازل نہیں ہوتا اور وہ کلام اخبار غیبیہ پر مشتمل نہیں ہوتا اور اگر خدانخواستہ آپ کا الٰہی کتابوں کی نسبت جیسا کہ اب تک میں نے سمجھا ہے.یہی خیال ہے کہ وہ واقعی اور حقیقی طور پر خدائے تعالیٰ
اس کا جواب یہ ہے کہ جب پہلے خواص اور جذبات دور ہو کر نئے خواص اور نئے جذبات پیدا ہوں اور اپنی فطرت میں ایک انقلاب عظیم نظر آوے اور تمام حالتیں کیا اخلاقی اور کیا ایمانی اور کیا تعبّدی ایسی ہی بدلی ہوئی نظر آویں کہ گویا اُن پر اب رنگ ہی اور ہے غرض جب اپنے نفس پر نظر ڈالے تو اپنے تئیں ایک نیا آدمی پاوے اور ایسا ہی خدا تعالیٰ بھی نیا ہی دکھائی دے اور شکر اور صبر اور یاد الٰہی میں نئی لذتیں پیدا ہوجائیں جن کی پہلے کچھ بھی خبر نہیں تھی اور بدیہی طور پر محسوس ہو کہ اب اپنا نفس اپنے رب پر بکلّی متوکل اور غیر سے بکلّی لاپروا ہے اور تصور وجود حضرت باری اس قدر اس کے دل پر استیلا پکڑ گیا ہے کہ اب اس کی نظر شہود میں وجود غیر بکلّی معدوم ہے اور تمام اسباب ہیچ اور ذلیل اور بے قدر نظر آتے ہیں اور صدق اور کا کلام نہیں اور وحی سے مراد صرف ایک ملکہ ہے جو انبیاء کی فطرت کو حاصل ہوتا ہے یعنی ان کی فطرت کچھ ایسی ہی واقعہ ہوتی ہے کہ صداقت اور حکمت کی باتیں ان کے منہ سے نکلتی ہیں تو پھر میں آپ پر کھلے کھلے معارضہ کے ساتھ اتمام حجت کرنا چاہتا ہوں تا لوگ آپ کی پیروی سے ہلاک نہ ہوں اگر آپ اپنے قول سے رجوع کا اقرار کر کے مجھ سے اس بات کا ثبوت چاہیں کہ کیونکر وحی فی الواقعہ خدائے تعالیٰ کا کلام ہوتا ہے اور اخبار غیبیہ اور آئندہ اور گذشتہ کی خبروں پر مشتمل ہوتا ہے تو میں بڑی خوشی سے الہامی پیشگوئیوں کے نمونہ سے ثبوت دینے کو طیار ہوں اور اس بات کے سننے سے کہ آپ نیک نیتی سے اس امتحان کے لئے مستعد ہوگئے ہیں مجھے اس قدر خوشی ہوگی کہ شاید ایسی خوشی کسی اور چیز سے نہ ہوسکے اس لئے کہ آپ کا اپنی مہلک غلطیوں سے باز آجانا میرے نزدیک ایک قوم کی اصلاح سے کم نہیں جب میں دیکھتا ہوں کہ قرآن کریم تو آئندہ اور گزشتہ پیشگوئیوں سے بھرا ہوا ہے مثلاً اس کا ہریک قصہ ہی اخبار غیب ہے یہ نہیں
وفا کا مادہ اِس قدر جوش میں آگیا ہے کہ ہریک مصیبت کا تصور کرنے سے وہ مصیبت آسان معلوم ہوتی ہے اور نہ صرف تصور بلکہ مصائب کے وارد ہونے سے بھی ہریک درد برنگ لذّت نظر آتا ہے تو جب یہ تمام علامات پیدا ہوجائیں تو سمجھنا چاہئے کہ اب پہلی ہستی پر بکلّی موت آگئی.اس موت کے پیدا ہوجانے سے عجیب طور کی قوتیں خدا تعالیٰ کی راہ میں پیدا ہوجاتی ہیں وہ باتیں جو دوسرے کہتے ہیں پر کرتے نہیں اور وہ راہیں جو دوسرے دیکھتے ہیں پر چلتے نہیں اور وہ بوجھ جو دوسرے جانچتے ہیں پر اٹھاتے نہیں ان سب امور شاقہ کی اس کو توفیق دی جاتی ہے کیونکہ وہ اپنی قوت سے نہیں بلکہ ایک زبردست الٰہی طاقت اس کی اعانت اور امداد میں ہوتی ہے جو پہاڑوں سے زیادہ کہ کسی سے سن کر لکھا ہے تو مجھے تعجب آتا ہے کہ کیونکر آپ اس بات کے مدعی ہوسکتے ہیں کہ قرآن کریم میں امور غیبیہ اور آئندہ اور گزشتہ کی خبریں نہیں کیا یہ خیال کریں کہ نعوذ باللہ آپ کا یہ اعتقاد ہے کہ قرآن کریم میں جو مثلاً یوسف کا قصہ اور اصحاب کہف کا قصہ اور آدم کا قصہ اور موسیٰ کا قصہ وغیرہ وغیرہ قصص موجود ہیں وہ خدا ئے تعالیٰ کی وحی یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں ہوئے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں اور عیسائیوں سے سن سنا کر قرآن کریم میں درج کر لئے تھے اگر یہی بات ہے تو بہت سا حصہ قرآن کریم کا اس پاک کلام سے خارج کرنا پڑے گا.کیونکہ جو باتیں یہودیوں اور عیسائیوں سے سن کر لکھی گئیں وہ باتیں درحقیقت یہودیوں اور عیسائیوں کا کلام ہوگا نہ کہ خدا تعالیٰ کا کلام اور پھر سخت مشکل یہ پیش آئے گی کہ قرآن کریم توریت کے قصوں سے بہت جگہ مخالف ہے اس صورت میں نعوذ باللہ یہ ماننا پڑے گا کہ جو کچھ شریر یہودیوں نے دھوکہ کی راہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی قصہ بیان کیا توآنجناب نے سادگی اور
اس کو استحکام کی رو سے کردیتی ہے اور ایک وفادار دل اُس کو بخشتی ہے تب خدا تعالیٰ کے جلال کے لئے وہ کام اس سے صادر ہوتے ہیں اور وہ صدق کی باتیں ظہور میں آتی ہیں کہ انسان کیا چیز ہے اور آدم زاد کیا حقیقت ہے کہ خودبخود ان کو انجام دے سکے وہ بکلّی غیر سے منقطع ہوجاتا ہے اور ماسوا اللہ سے دونوں ہاتھ اٹھا لیتا ہے اور سب تفاوتوں اور فرقوں کو درمیان سے دور کردیتا ہے اور وہ آزمایا جاتا اور دکھ دیا جاتا ہے اور طرح طرح کے امتحانات اس کو پیش آتے ہیں اور ایسی مصائب اور تکالیف اس پر پڑتی ہیں کہ اگر وہ پہاڑوں پر پڑتیں تو انہیں نابود کر دیتیں اور اگر وہ آفتاب اور ماہتاب پر وارد ہوتیں تو وہ بھی تاریک ہوجاتے لیکن وہ ثابت قدم رہتا ہے اور وہ تمام سختیوں کو بڑی انشراح صدر سے برداشت بے خبری کی و جہ سے ایسے قصہ کو قرآن کریم میں درج کردیا اب سوچنا چاہئے کہ جس کا یہ اعتقاد ہو کہ قرآن کریم میں یہودیوں اور عیسائیوں سے سنی سنائی باتیں لکھی گئی ہیں وہ کس منہ سے کہہ سکتا ہے کہ میں قرآن کریم کو خدائے تعالیٰ کا کلام جانتا ہوں مگر میرے خیال میں ہے کہ آپ کے دل میں ایسا عقیدہ نہیں ہوگا گو مغربی فلسفہ کا ستارہ کیسا ہی چمکدار آپ کو دکھلائی دیا ہو مگر نعوذ باللہ یہ کب ہوسکتا ہے کہ آپ کی حالت اس حد تک پہنچ جائے کہ وہ گہرا اور مضبوط عقیدہ اسلام کا جو نہ صرف اسلامی حیثیت سے بلکہ سیادت کی طینت سے بھی آپ کے وجود میں ہے یعنی یہ کہ قرآن کریم کا لفظ لفظ وحی متلو ہے آپ کے دل سے یکلخت اکھڑ گیا ہو.اور بجائے اس کے یہ خیال باطل دل میں جم گیا ہو کہ قرآن کریم کے قصص اور اخبارات ماضیہ خالص امور غیبیہ نہیں بلکہ یہودیوں اور عیسائیوں سے لئے گئے ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ اگر آپ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ وہ تمام قصّے جو اللہ جلّ شانہٗ نے قرآن مجید میں حضرت آدم سے لے کر حضرت مسیح علیہ السلام تک بیان فرمائے ہیں خالص غیب کی خبریں ہیں جو انسان کی
کر لیتا ہے اور اگر وہ ہاونِ حوادث میں پیسا بھی جائے اور غبارسا کیا جائے تب بھی بغیر انِّی مع اللّٰہ کے اور کوئی آواز اس کے اندر سے نہیں آتی.جب کسی کی حالت اس نوبت تک پہنچ جائے تو اس کا معاملہ اس عالم سے وراء الوراء ہوجاتا ہے اور ان تمام ہدایتوں اور مقامات عالیہ کو ظلّی طور پر پالیتا ہے جو اس سے پہلے نبیوں اور رسولوں کو ملے تھے اور انبیاء اور رسل کا وارث اور نائب ہوجاتا ہے وہ حقیقت جو انبیاء میں معجزہ کے نام سے موسوم ہوتی ہے وہ اس میں کرامت کے نام سے ظاہر ہوجاتی ہے اور وہی حقیقت جو انبیاء میں عصمت کے نام سے نامزد کی جاتی ہے اس میں محفوظیّت کے نام سے پکاری جاتی ہے اور وہی حقیقت جو انبیاء میں نبوّت کے نام سے بولی جاتی ہے اس میں محدّثیت کے پیرایہ میں طاقت اور انسان کی فطرت سے بالاتر ہیں تو پھر آپ کا یہ اصول ٹوٹتا ہے کہ وحی اور کچھ چیز نہیں صرف ملکہ فطرت ہے کیونکہ انسان کی فطرت خدائی کی طاقتیں اپنے اندر پیدا نہیں کرسکتی ہریک انسان کی فطرت اسی قدر ملکہ رکھتی ہے جو اس کی بشریت کے مناسب حال ہے اور چونکہ آپ کا یہی مذہب ہے کہ وحی کی حقیقت ملکہ فطرت سے زیادہ نہیں تو وہی اعتراض جس کا ابھی میں نے ذکر کیا ہے وارد ہوگا ہر ایک اہل حال جو وحی کی حقیقت کو بطور واردات کے جانتا ہے وہ آپ کی اِس قیاسی بات پر ہنسے گا جو وحی صرف ملکہ فطرت ہے.اگرچہ اس قدر تو سچ ہے کہ وحی الٰہی کے انوار قبول کرنے کے لئے فطرت قابلہ شرط ہے جس میں وہ انوار منعکس ہوسکیں جو خدائے تعالیٰ کسی وقت اپنے خاص ارادہ سے نازل کرے مگر یہ سراسر جھوٹ ہے کہ وہ انوار انسانی فطرت میں ہی جمع ہیں اور مبدء فیض سے اس کے ارادہ کے ساتھ کچھ نازل نہیں ہوتا جو اپنے اندر خدائی طاقتوں کی رنگ و بو رکھتا ہو.عزیز سیّد جن خیالات کی آپ اس مسئلہ میں پیروی کرتے ہیں وہ درحقیقت اسلام کی تعلیم
ظہو ر پکڑتی ہے حقیقت ایک ہی ہے لیکن بباعث شدّت اور ضعف رنگ کے مختلف نام رکھے جاتے ہیں اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ملفوظات مبارکہ اشارت فرمارہے ہیں کہ محدّث نبی بالقوّہ ہوتا ہے اور اگر باب نبوت مسدود نہ ہوتا تو ہریک محدّث اپنے وجود میں قوت اور استعداد نبی ہوجانے کی رکھتا تھا اور اسی قوت اور استعداد کے لحاظ سے محدث کا حمل نبی پر جائز ہے یعنی کہہ سکتے ہیں کہ المحدّث نبی جیسا کہ کہہ سکتے ہیں کہ العنب خَمْر نظرًا علی القوۃ والاستعداد و مثل ھذا الحمل شائع متعارف فی عبارات القوم و قد جرت المحاورات علی ذالک کما لا یخفی علٰی کل ذکیّ عالم مطلع علی کتب الادب والکلام والتصوّف اور اسی حمل کی طرف اشارہ ہے جو اللہ جلّ شانہٗ نے اس قراء ت کو جو نہیں ہے بلکہ ان کور باطن فلسفیوں کی رائیں ہیں جو حضرت باری تعالیٰ عزّاسمہٗ کو مدبر بالا رادہ نہیں سمجھتے بلکہ آفتاب اور ماہتاب کی طرح بعض امور کے صدور کے لئے علّت موجبہ خیال کرتے ہیں جب آپ خدائے تعالیٰ کو مدبر بالارادہ اور اپنی مرضی کے ساتھ منزل وحی یقین کریں گے اور وحی کو ایسی چیز سمجھیں گے جو اسی سے نکلتی ہے اور اسی کے اتارنے سے الٰہی قوت کے ساتھ دلوں پر اترتی ہے تو اس صورت میں آپ اس کو ملکہ فطرت نہیں کہہ سکتے اور نہ اس کا نام فطرتی قوت رکھ سکتے ہیں بلکہ ایک نور اللہ قرار دیں گے جو خدائے تعالیٰ کے ہاتھ سے اور اس کے ارادہ سے اسی وقت اترتا ہے جب وہ چاہتا ہے ہاں وہ نور جو اترتا ہے وہ فطرت قابلہ پر ہی اپنی روشنی ڈالتا ہے اور اپنا آنا اس کو جتلا دیتا ہے.اور یہ کہنا کہ ہم اس طرح پر وحی کو مان نہیں سکتے کیونکہ وہ عقل انسانی کے مافوق ہے سو اس کا یہی جواب ہے کہ عقل انسانی اگر ایک ثابت شدہ صداقت کو اپنے فہم اور ادراک سے
و ما ارسلنا من رسولٍ و لا نبیّ و لا محدّث ہے مختصر کر کے قراء ت ثانی میں صرف یہ الفاظ کافی قرار دیئے کہ و ما ارسلنا من رسولٍ و لا نبیٍّ.اور اس سوال کا جواب کہ جس شخص کو شرف مکالمہ الٰہیہ کا نصیب ہو وہ کب اور کن حالات میں افاضہ کلام الٰہی کا زیادہ تر مستحق ہوتا ہے.یہ ہے کہ اکثر شدائد اور مصائب کے نزول کے وقت اولیاء اللہ پر کلام الٰہی نازل ہوتا ہے تا ان کی تسلی اور تقویّت کا موجب ہو جب وہ نزول آفات اور حوادث فوق الطاقت سے نہایت شکستہ اور دردمند اور کوفتہ ہوجاتے ہیں اور حزن اور قلق انتہا کو پہنچ جاتا ہے تب خدا تعالیٰ کی صفت کلام ان کے دل پر متجلی ہوتی ہے اور کلمات طیبہ الہٰیہ سے ان کو سکینت اور تشفّی بخشی جاتی ہے حقیقت یہ ہے کہ ملہم کی انکساری حالت الہامی آگ کے افروختہ بالاتر سمجھے تو وہ صداقت صرف اس وجہ سے ردّ کرنے کے لائق نہیں ٹھہرے گی کہ عقل اس کی حقیقت تک نہیں پہنچتی دنیا میں بہتیرے ایسے خواص نباتات و جمادات و حیوانات میں پائے جاتے ہیں کہ وہ تجارب صحیحہ کے ذریعہ سے ثابت ہیں مگر عقل انسان کے مافوق ہیں یعنی عقل ان کی حقیقت تک پہنچ نہیں سکتی اور ان کی حقیقت بتلا نہیں سکتی پس ایسا ہی وہ وحی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی اور پاک دلوں تک وہ علوم پہنچاتی ہے جو بشری طاقتوں سے بلند تر ہیں پھر جب کہ یہ حال ہے کہ عقل بجائے خود کوئی چیز نہیں بلکہ ثابت شدہ صداقتوں کے ذریعہ سے قدر و منزلت پیدا کرتی ہے تو ہم کہتے ہیں کہ وحی سماوی ایک ثابت شدہ صداقت ہے جو اپنے اندر اعجازی قوت رکھتی ہے اور علوم غیبیہ پر مشتمل ہوتی ہے اور ہم اس دعویٰ کے ثابت کرنے کے ذمہ وار ہیں پھر آزمائش کے لئے متوجہ نہ ہونا کیا ان لوگوں کا شیوہ ہوسکتا ہے جو حقیقی صداقتوں کے بھوکے اور پیاسے ہیں.
ہو نے کے لئے بہت ہی دخل رکھتی ہے جب ایک شرف یاب مکالمہ الٰہی کمال درد مند اور مضطر ہوتا ہے اور اس کی توجہ درد اور حزن سے ملی ہوئی ایک تار بندھ جانے کی حالت تک پہنچ جاتی ہے اور وفاداری اور تضرع اور صدق کے ساتھ ربوبیت کی شعاعوں کے نیچے جا پڑتی ہے تو یک دفعہ ربوبیت کا ایک شعاع اپنی ربوبیت کی تجلّی کے ساتھ اس پر گرتا ہے اور اس کو روشن کردیتا ہے اور وہ روشنی کبھی کلام کی صورت میں اور کبھی کشف کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور رجوع کرنے والے دل کو اس فتیلہ کی طرح جو آگ کے نزدیک پہنچ جاتا ہے اپنے ربّانی نور سے منور کردیتی ہے کیا یہ بدیہی طور پر محسوس نہیں ہوتا جو ایک فتیلہ جو پاکیزہ تیل اپنے اندر رکھتا ہے جب آگ کے نزدیک کیا جاتا ہے تو وہ فی الفور صورت بدل لیتا ہے اور آگ اگر آپ ایک صادق دل لے کر میری طرف متوجہ ہوں تو میں خدا تعالیٰ سے توفیق پا کر عہد کرتا ہوں کہ آپ کو مطمئن کرنے کے لئے اس قادر مطلق سے مدد چاہوں گا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ میری فریاد سنے گا اور آپ کو ان غلطیوں سے نجات دے گا جن کی وجہ سے نہ صرف آپ کی بلکہ ایک گروہ کثیر گرداب شبہات میں مبتلا نظر آتا ہے.آپ یقین کیجئے کہ میں محض للہ اس کام کے لئے مستعد کھڑا ہوں کہ آپ کی رائے کا غلط ہونا آپ پر ثابت کر دکھاؤں تو اب آپ میرے اس تعجب اور تاسف کا اندازہ کرسکتے ہیں جو آپ کے ان کلمات سے مجھ کو ہورہا ہے جن میں آپ نے بلا غور و فکر یہ دعویٰ کردیا ہے کہ نہ ملائک کچھ چیز ہیں اور نہ وحی ملائک کچھ چیز بلکہ یہ سب انسانی فطرت کی قوتوں کے نام ہیں.عزیز من انسانی فطرت کا ظرف خدائی طاقتوں کا مظہر نہیں ہوسکتا اور جو کچھ انسان کو اس کی فطرت کے توسط سے عطا کیا جاتا ہے وہ مخلوقیت کی حدود سے مافوق نہیں ہوتا.مثلاً انسان کی جس قدر ایجادات ہیں اور جس قدر انسانوں نے اب تک صنعتیں نکالی ہیں
کی صحبت سے واپس آتے وقت ایک چمکتا ہوا شعلہ اپنے ساتھ لاتا ہے پس ایک عارف اور کامل انسان اس وقت مکالمہ الہٰیہ کے لئے نہایت ہی استعداد قریبہ رکھتا ہے جب وہ دردمند ہوکر آستانہ الٰہی پر گرتا ہے اور ہریک طرف سے منقطع ہو کر اس موافقت اور مصادقت کو جو اس کے رگ و ریشہ میں رچی ہوئی ہے ایک تازہ اور نیا جوش دیتا ہے اور درد ناک روح کے ساتھ خدا تعالیٰ کی مدد کے لئے التجا کرتا ہے.تب خدا تعالیٰ اس کی سنتا ہے اور اسے تودد اور محبت کے ساتھ جواب دیتا ہے اور اس پر رحم کرتا ہے اور اس کی دعاؤں کو اکثر قبول فرما لیتا ہے.آج کل کے بعض ملحدانہ خیال والے جو یورپ کے فلسفہ اور نیچر کے تابع ہوگئے ہیں اور اجابت اور قبولیت دعا سے منکر ہیں ان کے یہ خیالات سراسر گو وہ کیسے ہی غریب اور نادر ہوں مگر نہیں کہہ سکتے کہ وہ خدائی کاموں کے ہم پلّہ ہیں لیکن وہ وحی جس کا ہم نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے جس کی بابرکت آوازیں ہم نے اپنے کانوں سے سنی ہیں وہ بلاشبہ انسان کی فطرت سے مافوق اور الوہیت کی زبردست طاقتیں اپنے اندر رکھتی ہے جس کے دیکھنے سے گویا ہم خدا تعالیٰ کا چہرہ دیکھتے ہیں اور وہ خدائے تعالیٰ کا ویسا ہی قول خالص ہے جیسا کہ زمین اور آفتاب اور ماہتاب خدا تعالیٰ کا فعل خالص.اور بلاشبہ وہ انسانی فطرت کی حدود سے ایسا ہی بلند تر ہے جیسا کہ خدا انسان سے اگر آپ تھوڑی سی زحمت اٹھا کر اور بزرگواری کے حجابوں سے الگ ہو کر چند ہفتہ اس عاجز کی صحبت میں رہیں تو میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کے بہت سے امور مافوق العقل بڑی آسانی سے آپ کو معقول اور ممکن دکھائی دیں.گو آپ اپنے خیال میں فلسفہ اور سائنس کا نچوڑ اپنے دماغ میں جمع رکھتے ہیں اور نیچر کے تمام درجے طے کر کے نئی روشنی سے منور ہوچکے ہیں لیکن عزیز من (ناراض نہ ہوں))
باطل ہیں کہ قبولیت دعا کچھ چیز نہیں اور تحصیل مرادات کے لئے دعا کرنا نہ کرنا برابر ہے یاد رکھنا چاہیئے کہ مومن پر خدا تعالیٰ کے فضلوں میں سے یہ ایک بڑا بھاری فضل ہوتا ہے جو اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور اس کی درخواستیں گو کیسے ہی مشکل کاموں کے متعلق ہوں اکثر بہ پایہء اجابت پہنچتی ہیں اور دراصل ولایت کی حقیقت یہی ہے جو ایسا قرب اور وجاہت حاصل ہوجائے جو بہ نسبت اوروں کے بہت دعائیں قبول ہوں کیونکہ ولی خدا تعالیٰ کا دوست ہوتا ہے اور خالص دوستی کی یہی نشانی ہے کہ اکثر درخواستیں اس کی قبول کی جائیں.پس جو شخص کہتا ہے کہ دعا قبول ہونے کے اس سے زیادہ اور کچھ معنی نہیں کہ خدا تعالیٰ تک اس کی آواز پہنچ جاتی ہے اور خدائے تعالیٰ جان لیتا ہے کہ اس نے دعا کی ہے.ایسا شخص مسخرہ ہے اور خدا تعالیٰ کی کتاب آسمانی روشنی شے دیگر ہے اور مغربی علوم کی روشنی دیگر.اگر آپ کو اس روشنی کی تاریکیوں اور مضرتوں کی کچھ خبر ہوتی تو آپ اسلام کی امیّت کو اس نابکار روشنی پر بہ ہزار مرتبہ ترجیح دیتے اور دین العجائز اختیار کر کے اور اس زمانہ کے دجّالی فتنوں سے ڈر کر اور ایمانی امور پر صبر کی خواہش کر کے ہمیشہ تضرع سے یہ دعا کیا کرتے کہ 33.۱ آپ کو معلوم رہے کہ فلسفہ موجودہ ثابت شدہ صداقتوں کے مقابل پر بالکل مردہ اور بے طاقت ہے کوئی علم نیا ہو یا پرانا واقعات صحیحہ پر غالب نہیں آسکتا اگر میں دو اور دو کو چار کہوں تو مجھے اس سے کیا اندیشہ ہے کہ کوئی بڑا فلاسفر میری مخالفت پر کھڑا ہے یا اگر میں دن کو دن ہی سمجھوں تو مجھے کیوں اس بات سے ڈرنا چاہیئے کہ ایک گروہ فلاسفروں کا میرے سامنے اس وقت دن کو رات کہہ رہا ہے کوئی غذا بدن کو ایسی قوت نہیں پہنچا سکتی کہ جیسے برہان یقینی اور انکشاف تام دل کو اور یہ انکشاف اور یہ برہان جو معرفت الٰہی اور معاد میں مطلوب
اور اُس کے دین سے محض بیگانہ ہے اگر صرف دعا کا سن لینا اجابت میں داخل ہے اور اس سے زیادہ کوئی بات نہیں تو پھر ہریک کہہ سکتا ہے کہ میری دعا رد نہیں ہوئی کیونکہ اگر اجابت سے مطلب صرف اطلاع بر دعا ہے تو پھر کون شخص ہے جس کی دعا سے خدا تعالیٰ بے خبر رہتا ہے ظاہر ہے کہ اللہ جلّ شانہٗ بباعث اپنی صفت علیم اور خبیر اور سمیع ہونے کے ہریک بات کو سنتا ہے اور ہریک شخص کی آواز اس تک پہنچ جاتی ہے پھر ایسے سننے میں مومن اور غیر مومن کی دعا میں فرق کیا ہے اور یہ کہنا کہ مومن کو لبیک کہتا ہے اور دوسرے کو نہیں یہ کیونکر ثابت ہو جب کہ اصل محرومی میں مومن اور غیر مومن دونوں مساوی ہیں تو ایک کافر بھی کہہ سکتا ہے کہ میری دعا پر لبیک کہا گیا ہے تو اب اس کا کون فیصلہ کرے کہ نہیں کہا گیا.اور ہے جو درحقیقت سرچشمہ نجات ہے صرف اس سچے عرفان سے حاصل ہوتا ہے جو صابر انسان کو بعد ایمان کے ملتا ہے پرانے یا نئے فلسفہ کے ذریعہ سے ہرگز حاصل نہیں ہوسکتا لیکن ان لوگوں پر یہ امر مشتبہ رہتا ہے کہ جو نہ ایمان کو مرتبہ کمال تک پہنچاتے ہیں تا اس کے انوار معلوم کریں اور نہ فلسفہ میں پوری ترقی کرتے ہیں تا اس کے زہریلے اثر پورے طور پر ان پر ظاہر ہوں.ہریک چیز کی پوری حقیقت اس کے کمال سے کھلتی ہے مثلاً اگر کسی زہر یا تریاق کی اصل حقیقت معلوم کرنی ہو تو اس کی پوری خوراک کھا کر دیکھیں اور اگر کسی فلاسفر یا نبی کی ہدایت کے نتائج کاملہ دریافت کرنے مقصود ہوں تو پورے طور پر اس کے چیلے یا متبعین بنیں.آپ کو معلوم ہوگا کہ فلسفہ کا کمال جس حد تک انسان کو پہنچاتا رہا ہے اور اب بھی پہنچاتا ہے وہ وہی حد ہے جس کو دہریت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے.کیا آپ کا گمان ہے کہ حقیقی خدادانی کے وہ لوگ وارث ہیں جو فلاسفر کہلاتے ہیں.کیا حقیقی انکسار اور حقیقی تقویٰ اور حقیقی خدا ترسی اور کامل طور پر خدائے تعالیٰ کی عظمتوں کو دل میں بٹھانا
ایسی بے معنی لبیک کا فائدہ کیا بلکہ مومن کی دعا ضرور قبول کی جاتی ہے اور اگر قبول کرنا مومن کے حق میں بہتر نہ ہو تو کم سے کم یہ ہوتا ہے کہ مومن کو نرمی اور محبت کی راہ سے بذریعہ محبّانہ مکالمہ کے اس پر اطلاع دی جاتی ہے.خدا تعالیٰ جو تمام رحمتوں کا سرچشمہ ہے سب سے زیادہ رحمت مومن پر ہی کرتا ہے اور ہریک مصیبت کے وقت اسے سنبھالتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے اور اگر تمام دنیا ایک طرف ہو اور مومن ایک طرف تو فتح مومن ہی کو دیتا ہے اور اس کی عمر اور عافیت کے دن بڑھاتا ہے.دشمن کہتا ہے کہ وہ ہلاک ہوجائے اور ناپدید ہوجائے پر وہ دشمن کو ہی ہلاک کرتا ہے اور اس کی بدعائیں اسی کے سر پر مارتا ہے پر مومن کی دعا کو قبول کر لیتا ہے اور اس کی دعاؤں کو قبول کر کے وہ خوارق دکھلاتا ہے جن سے دنیا جو حقیقی خدا دانی کے نتائج ہیں کبھی ان فلاسفروں کو میسر ہوئے ہیں یا اب میسر ہیں.کیا فلسفہ کی کتابوں کی ورق گردانی سے اس سچی معرفت کی امید ہے جو نفسانی جذبات سے آزاد کرتی اور محبت الٰہی دل میں بٹھاتی ہے میری دانست میں تو ہرگز نہیں فلسفہ کے علم کا انتہائی معراج تو یہی ہے کہ ایسا انسان جو صرف فلسفہ کا تابع ہے خدا اور رسول اور بہشت اور دوزخ سے بکلّی دست بردار ہوجائے اور تکبر اور رعونت اور نفس پرستی اختیار کر لیوے ان کے نزدیک اقرار وجود ذات مد ّ بر بالارادہ صرف ایک وہم اور صوم و صلوٰۃ تضیع اوقات اور فکر معاد مجنونانہ خیال ہے.یہی ان کی تو رگ و پے میں وہ باتیں پھیلی ہوئی ہیں جو ایک ُ پر زور انجن کی طرح ہر دم دہریّت کی طرف کھینچتی چلی جاتی ہیں اسلامی حکمت اور معرفت کا مرکز دائرہ وجود باری اور اس کا مدبّر بالارادہ ہونا اور اس کا واحد لا شریک ہونا ہے اور اسی کے مناسب حال ہمارے دین کے تمام مسائل ہیں اور فلسفیوں کی حکمت اور معرفت کا اصل مرکز دائرہ دہریت ہے اور اسی کے مناسب حال ان کی تمام تحقیقاتیں ہیں ہاں ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو صرف برائے نام
حیرا ن ہوجاتی ہے کرامت کیا چیز ہے؟ مومن کی دعا جو قبول ہوکر ایک نہایت مشکل اور بعید از عقل کام کو پورا کردیتی ہے اور تمام خلقت کو ایک حیرت میں ڈالتی ہے پھر کیونکر کہا جائے کہ دعا قبول نہیں ہوتی نادان ہے وہ شخص جو ایسا خیال کرتا ہے، بے وقوف ہے وہ فلسفی جو ایسا سمجھتا ہے، یہ دعویٰ بے دلیل نہیں اس پر میرے پاس کھلے کھلے دلائل اور نہایت روشن براہین ہیں جو اپنی آنکھوں پر پٹی باندھتا ہے تا آفتاب نظر نہ آوے وہ کیونکر روشنی کو دیکھ سکتا ہے.اب یہ بھی یاد رہے کہ وہ اسلام جس کی خوبیاں ہم بیان کرچکے ہیں وہ ایسی چیز نہیں ہے جس کے ثبوت کے لئے ہم صرف گذشتہ کا حوالہ دیں اور محض قبروں کے نشان دکھلائیں اسلام مردہ مذہب نہیں تا یہ کہا جائے کہ اس کی سب برکات پیچھے رہ خدا تعالیٰ کو علّت العلل سمجھتے ہیں لیکن اس کو مدبّر بالارادہ اور اپنی مخلوق میں متصرف اور عالم جمیع جزئیات کائنات یقین نہیں رکھتے اور کوئی اختیار یا تصرف اس کا عالم پر تسلیم نہیں کرتے سو وہ بھی درحقیقت دہریوں کے چھوٹے بھائی ہیں یہ سچ ہے کہ انسان جہاں سچائی دیکھے اس کو لے لے.لیکن ہمیں نہیں چاہیئے کہ مسموم کھانوں میں سے ایک کھانے کو اس خیال سے کھانے لگیں کہ غالباً اس میں زہر نہیں ہوگا یہ یقینی امر ہے کہ ہریک شخص اپنے اصول کے موافق کلام کرتا ہے اور تمام جزئی مباحث اور تحقیقات پر اصول کا اثر پڑا ہوا ہوتا ہے.پھر جب کہ فلاسفروں کا اصل عقیدہ دہریت یا اسی کے قریب قریب ہے تو کیا امید ہوسکتی ہے کہ ان کے دوسرے مباحث میں جو اسی اصول کے زیر سلسلہ چلے جاتے ہیں کوئی صلاحیت اور رشد کی بات ہوگی اور خدائے تعالیٰ کے کلام نے ہمیں کون سی ضرورت اور حاجت ان کی طرف باقی رکھی ہے تاہم دانستہ ایسی خطرناک راہ کو اختیار کریں جو ہمیشہ ہلاکت تک پہنچاتی رہی ہے ہریک مسلمان پانچ
گئی ہیں اور آگے خاتمہ ہے اسلام میں بڑی خوبی یہی ہے کہ اس کی برکات ہمیشہ اس کے ساتھ ہیں اور وہ صرف گذشتہ حصوں۱ کا سبق نہیں دیتا بلکہ موجودہ برکات پیش کرتا ہے دنیا کو برکات اور آسمانی نشانوں کی ہمیشہ ضرورت ہے یہ نہیں کہ پہلے تھیں اور اب نہیں ہیں ضعیف اور عاجز انسان جو اندھے کی طرح پیدا ہوتا ہے ہمیشہ اس بات کا محتاج ہے کہ آسمانی بادشاہت کا اس کو کچھ پتہ لگے اور وہ خدا جس کے وجود پر ایمان ہے اس کی ہستی اور قدرت کے کچھ آثار بھی ظاہر ہوں پہلے زمانہ کے نشان دوسرے زمانہ کے لئے کافی نہیں ہوسکتے کیونکہ خبر معائنہ کی مانند نہیں ہوسکتی اور امتداد زمانہ سے خبریں ایک قصہ کے رنگ میں ہوجاتی ہیں ہریک نئی صدی جو آتی ہے تو گویا ایک نئی دنیا شروع ہوتی ہے اس لئے اسلام کا خدا جو وقت اپنی نماز میں یہ دعا پڑھتا ہے کہ333 3 اور خدا تعالیٰ نے آپ فرما دیا ہے کہ صراط مستقیم نبیوں کی راہ صدیقوں کی راہ شہیدوں کی راہ ہے پھر ہم سخت نادان ہوں گے اگر ہم ان راہوں کے طلب گار نہ ہوں جن کی طلب کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے اور فلسفیوں کے پیچھے بھٹکتے پھریں اور یہ خیال کہ ہم کو اپنے جمیع عقائد ایسے معقولی طور پر ثابت کرلینے چاہیں کہ جیسے ہندسہ اور حساب اور بعض حصے علوم طبعی کے ثابت ہیں کیونکہ انسان مکلف بعقل ہے پس جو باتیں ہماری عقل سمجھ نہ سکے وہ قبول کرنے کے لائق نہیں ہیں یہ سخت مضر اور مہلک دھوکہ ہے کہ جو آپ کو لگا ہوا ہے اور اسی وجہ سے آپ کی یہ حالت ہے کہ آپ علم اور مذہب کو دو چیز رکھنا نہیں چاہتے بلکہ جمیع مسائل اور عقائد مذہب کو ایسا علم بنانا چاہتے ہیں جو ہندسہ اور حساب کی طرح یا اس سے بھی بڑھ کر ہو مگر افسوس کہ آپ یہ نہیں سوچتے کہ اگر علم دین اور دینی عقائد ایسے علوم بدیہہ میں سے ہوتے سہو کتابت ہے یہ لفظ ’’ قصوں‘‘ معلوم ہوتاہے.
سچا خدا ہے ہریک نئی دنیا کے لئے نئے نشان دکھلاتا ہے اور ہریک صدی کے سر پر اور خاص کر ایسی صدی کے سر پر جو ایمان اور دیانت سے دور پڑگئی ہے اور بہت سی تاریکیاں اپنے اندر رکھتی ہے ایک قائم مقام نبی کا پیدا کردیتا ہے جس کے آئینہء فطرت میں نبی کی شکل ظاہر ہوتی ہے اور وہ قائم مقام نبی متبوع کے کمالات کو اپنے وجود کے توسط سے لوگوں کو دکھلاتا ہے اور تمام مخالفوں کو سچائی اور حقیقت نمائی اور پردہ دری کے رو سے ملزم کرتا ہے سچائی کی رو سے اس طرح کہ وہ سچے نبی پر ایمان نہ لائے پس وہ دکھلاتا ہے کہ وہ نبی سچا تھا اور اس کی سچائی پر آسمانی نشان یہ ہیں اور حقیقت نمائی کی رو سے اس طرح کہ اس نبی متبوع کے تمام مغلقات دین کا حل کر کے دکھلا دیتا ہے اور تمام شبہات اور اعتراضات کا استیصال کر دیتا کہ جیسے دو اور دو چار تو پھر کیا وجہ تھی کہ ان کے ماننے اور تسلیم کرنے سے ہمیں نجات کا وعدہ دیا جاتا.میں نہیں سمجھ سکتا کہ کسی بدیہی بات کے ماننے اور قبول کرنے سے نجات کو کیا تعلق ہے اگر میں یہ کہوں کہ میں نے مان لیا کہ اب تک جو ۳۰ ؍نومبر ۱۸۹۲ ء ہے سیّد صاحب صحیح سالم زندہ موجود ہیں یا اگر میں قبول کر لوں کہ فی الواقع اتوار کے بعد پیر آتا ہے اور درحقیقت بیس۲۰ کا نصف دس۱۰ ہوتے ہیں تو کیا مجھے ان باتوں پر ایمان لانے اور مان لینے سے کسی ثواب کی توقع رکھنی چاہیئے پھر اگر مثلاً وجود ملائک کا اشیاء مشہودہ محسوسہ کی طرح ہوتا.مثلاً ایسا یقینی ہوتا کہ خدائے تعالیٰ آپ کو کوئی فرشتہ پکڑ کر دکھا دیتا اور آپ ملائک کو ہاتھوں سے ٹٹول لیتے اور آنکھوں سے دیکھ لیتے اور ایسا ہی بہشت کی نہریں اور ُ حور اور ِ غلمان آپ کو علی گڑھ میں بیٹھے ہوئے نظر آجاتیں اور شرابِ طہور کا کوئی پیالہ بھی پی لیتے.اور دوزخ بھی سامنے نظر آتا تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ ان تمام کھلم کھلے ثبوتوں کے بعد آپ کا آمنّا و صدّقنا کہنا کیا وزن رکھتا.
ہے.اور پردہ دری کے رو سے اس طرح کہ وہ مخالفوں کے تمام پردے پھاڑ دیتا ہے اور دنیا کو دکھلا دیتا ہے کہ وہ کیسے بے وقوف اور معارف دین کو نہ سمجھنے والے اور غفلت اور جہالت اور تاریکی میں گرنے والے اور جناب الٰہی سے دور و مہجور ہیں.اس کمال کا آدمی ہمیشہ مکالمہ الہٰیہ کا خلعت پا کر آتا ہے اور زکی اور مبارک اور مستجاب الدعوات ہوتا ہے اور نہایت صفائی سے ان باتوں کو ثابت کرکے دکھلا دیتا ہے کہ خدا ہے اور وہ قادر اور بصیر اور سمیع اور علیم اور مدبّر بالارادہ ہے اور درحقیقت دعائیں قبول ہوتی ہیں اور اہل اللہ سے خوارق ظاہر ہوتے ہیں پس صرف اتنا ہی نہیں کہ وہ آپ ہی معرفت الہٰیہ سے مالا مال ہے بلکہ اس کے زمانہ میں دنیا کا ایمان عام طور پر دوسرا رنگ پکڑ لیتا ہے اور وہ تمام خوارق جن سے میرے عزیز سیّد وقت گذرتا جاتا ہے جلد اس نازک اور ضروری مسئلہ کو سمجھ لو کہ مدار اجر ایمان پر ہے اور ایمان اسی طرز کے ماننے کا نام ہے کہ جب امور مسلّمہ چند قرائن سے تو ممکن الوجود نظر آویں مگر ہنوز مخفی اور مستور ہوں کیونکہ ایسے امور کے ماننے سے انسان خدا تعالیٰ کے نزدیک صادق ٹھہر جاتا ہے وجہ یہ کہ اس نے اس کے نبی اور رسول کی خبر کو مان لیا اور اس کے پیغمبر کو مخبر صادق سمجھ لیا سو اس صدق اور حسن ظن سے وہ بخشا جاتا ہے.اس دقیق بھید کو تلاش کرنا ہریک عقل مند کا فرض ہے کہ خدائے تعالیٰ نے کیوں ایسا کیا کہ جن امور پر ایمان لانے کی تکلیف دی ان کو ایسا مخفی اور مستور رکھا کہ وہ اس دنیا کی عقل اور اس دنیا کی حکمت اور اس دنیا کے علم سے کھل نہیں سکتے مثلاً ایمانیات میں سے سب سے مقدم امر خدا تعالیٰ کی ہستی اور اس کے علیم اور حکیم اور قادر مطلق اور مدبّر بالارادہ اور واحد لاشریک اور ازلی ابدی اور ذوالعرش اور پھر ہریک جگہ حاضر ناظر ہونے پر ایمان لانا ہے مگر بجز قیاسی باتوں اور خود تراشیدہ خیالات کے اور کونسا پتہ ان امور
دنیا کے لوگ منکر تھے اور ان پر ہنستے تھے اور ان کو خلاف فلسفہ اور نیچر سمجھتے تھے یا اگر بہت نرمی کرتے تھے تو بطور ایک قصہ اور کہانی کے ان کو مانتے تھے اب اس کے آنے سے اور اس کے عجائبات ظاہر ہونے سے نہ صرف قبول ہی کرتے ہیں بلکہ اپنی پہلی حالت پر روتے اور تاسف کرتے ہیں کہ وہ کیسی نادانی تھی جس کو ہم عقلمندی سمجھتے تھے اور وہ کیسی بے وقوفی تھی جس کو ہم علم اور حکمت اور قانون قدرت خیال کرتے تھے غرض وہ خلق اللہ پر ایک شعلہ کی طرح گرتا ہے اور سب کو کم و بیش حسب استعدادات مختلفہ اپنے رنگ میں لے آتا ہے اگرچہ وہ اوائل میں آزمایا جاتا اور تکالیف میں ڈالا جاتا ہے اور لوگ طرح طرح کے دکھ اس کو دیتے اور طرح طرح کی باتیں اس کے حق میں کہتے ہیں اور انواع اقسام کے طریقوں سے کا عقل لگا سکتی ہے اور کیونکر ایسا شخص جو انکشاف حقیقت کا بھوکا پیاسا اور زندہ خدا کی معرفت چاہتا ہے عقل کے یکطرفہ اور ناکافی استدلالات پر مطمئن ہوسکتا ہے عقل انسانی ہزار سوچے اور گو لاکھ دفعہ زمین اور اجرام آسمانی کی پُر حکمت بناوٹ پر نظر غور کرے لیکن وہ یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ اس عالم کا کوئی صانع ہے کیونکہ ایسا دعویٰ تو تب کرے کہ اس کو دیکھا بھی ہو اس کا کوئی پتہ بھی لگا ہو ہاں اگر عقل دھوکا نہ کھاوے اور دوسری طرف رخ نہ کرے تو یہ کہہ سکتی ہے کہ اس ترتیب محکم اور ترکیب ابلغ اور اس کاروبار پُر حکمت کا کوئی صانع ہونا چاہیئے مگر ہے اور ہونا چاہیئے میں جس قدر فرق ہے وہ ظاہر ہے اور یہ بات بھی بطور تنزل ہم نے بیان کی ہے ورنہ جنہوں نے خدا تعالیٰ کے وجود کا پتہ لگانے میں صرف اپنی عقل ہی کو امام بنایا اور فقط اسی کی رہبری سے کسی منزل تک پہنچنا چاہا تھا ان کو عقل نے جس جگہ پہنچایا ہے وہ یہی ہے کہ یا تو وہ لوگ آخرکار دہریہ ہوگئے اور یا خدا تعالیٰ کو ایسے ضعیف طور پر مانا جو نہ ماننے کے برابر تھا اب جب کہ خدا دانی کے مرتبہ پر ہی
اس کو ستاتے اور اس کی ذلّت ثابت کرنا چاہتے ہیں لیکن چونکہ وہ برہان حق اپنے ساتھ رکھتا ہے اس لئے آخر ان سب پر غالب آتا ہے اور اس کی سچائی کی کرنیں بڑے زور سے دنیا میں پھیلتی ہیں اور جب خدائے تعالیٰ دیکھتا ہے کہ زمین اس کی صداقت پر گواہی نہیں دیتی تب آسمان والوں کو حکم کرتا ہے کہ وہ گواہی دیں سو اس کے لئے ایک روشن گواہی خوارق کے رنگ میں دعاؤں کے قبول ہونے کے رنگ میں اور حقائق و معارف کے رنگ میں آسمان سے اترتی ہے اور وہ گواہی بہروں اور گونگوں اور اندھوں تک پہنچتی ہے اور بہتیرے ہیں جو اس وقت حق اور سچائی کی طرف کھینچے جاتے ہیں مگر مبارک وہ جو پہلے سے قبول کر لیتے ہیں کیونکہ ان کو بوجہ نیک ظن اور قوت ایمان کے صدیقوں کی شان کا ایک عقل مندوں کا یہ حال ہوا اور بسم اللہ ہی غلط ہوئی تو پھر دوسرے امور غیبیہ کا عقل انسانی کو کچھ پتہ لگ جانا کیا امید رکھیں سو اس سوال کا جواب کہ یہ ایمانی امور کیوں مخفی رکھے گئے وہی ہے جو ابھی ہم لکھ چکے ہیں یعنی خدا تعالیٰ کی رحمت اور بخشش اور فضل نے ان امور مخفیہ کو انسان کی نجات کے لئے ایک راہ نکالی کیونکہ خدا تعالیٰ نے اپنی ہستی کو جو علّت العلل ہے اور اپنے ملائک کو جو باذنہٖ تعالیٰ مدبّرات امور ہیں اور روز قیامت کو جو تجلّی گاہِ قدرت تامہ ہے اور بہشت اور دوزخ اور حقیقت نبوت اور رسالت اور وحی کو عقلمندوں کی نظر سے پوشیدہ کیا اور اپنے امّی بندوں کو ان امور کی معرفت بخش کر اور تاج نبوت اور خلعت رسالت عطا فرما کر دعوت ایمان کے لئے دنیا میں بھیجا پھر جس نے ان کو مخبر صادق سمجھا اور جو ان کی باتوں پر ایمان لایا وہ مومن کہلایا اور نجات پا گیا اور جس نے دنیا کی عقل اور منطق کو اپنا قبلہ بنا کر چون و چرا کیا وہ مردود اور کافر اور خسر الدنیا والآخرۃ قرار پایا اور جہنم اس کا ٹھکانا ہوا لیکن اس جگہ کوئی یہ دھوکا نہ کھاوے کہ اس دعوت ایمان میں محض
حصہ ملتا ہے اور اس کا فضل ہے جس پر چاہے کرے.اب اتمام حجت کے لئے میں یہ ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ اسی کے موافق جو ابھی میں نے ذکر کیا ہے خدائے تعالیٰ نے اس زمانہ کو تاریک پا کر اور دنیا کو غفلت اور کفر اور شرک میں غرق دیکھ کر ایمان اور صدق اور تقویٰ اور راست بازی کو زائل ہوتے ہوئے مشاہدہ کر کے مجھے بھیجا ہے کہ تا وہ دوبارہ دنیا میں علمی اور عملی اور اخلاقی اور ایمانی سچائی کو قائم کرے اور تا اسلام کو ان لوگوں کے حملہ سے بچائے جو فلسفیت اور نیچریت اور اباحت اور شرک اور دہریّت کے لباس میں اس الٰہی باغ کو کچھ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں سو اے حق کے طالبو سوچ کر دیکھو کہ کیا یہ وقت وہی وقت نہیں ہے جس میں اسلام کے لئے آسمانی مدد کی ضرورت تھی جبر اور تکلیف مالا یطاق ہے کیونکہ جیسا کہ ہم اس تالیف اور تالیفات سابقہ میں لکھ چکے ہیں ان ایمانی امور کے ساتھ ایسے قرائن مرجحہ بھی ہیں جو طالب حق کو تشفی بخشتے ہیں.اور عقل سلیم کے لئے قائم مقام دلائل و براہین ہوجاتے ہیں اور اوہام فسلفیہ کو کالعدم اور نابود کر دیتے ہیں.پھر جب کہ وہ ایسے شخص کے منہ سے نکلے جو بہت سے انوار سماوی اور برکات اور خوارق اپنے ساتھ رکھتا ہے.تو ان انوار کو ملحوظ نظر رکھنے سے بلاشبہ ایک سلیم الفطرت آدمی کا یقین ُ نورٌ علیٰ نور ہوجاتا ہے سو ایمان کی یہی فلاسفی ہے جو میں نے بیان کی.خدا تعالیٰ کا کلام ہمیں یہی سکھلاتا ہے کہ تم ایمان لاؤ تب نجات پاؤ گے یہ ہمیں ہدایت نہیں دیتا کہ تم ان عقائد پر جو نبی علیہ السلام نے پیش کئے دلائل فلسفہ اور براہین یقینیہ کا مطالبہ کرو اور جب تک علوم ہندسہ اور حساب کی طرح وہ صداقتیں کھل نہ جائیں تب تک ان کو مت مانو ظاہر ہے کہ اگر نبی کی باتوں کو علوم حسیہ کے ساتھ وزن کر کے ہی ماننا ہے تو وہ
کیا ابھی تک تم پر یہ ثابت نہیں ہوا کہ گذشتہ صدی میں جو تیرھویں صدی تھی کیا کیا صدمات اسلام پر پہنچ گئے اور ضلالت کے پھیلنے سے کیا کیا ناقابل برداشت زخم ہمیں اٹھانے پڑے.کیا ابھی تک تم نے معلوم نہیں کیا کہ کن کن آفات نے اسلام کو گھیرا ہوا ہے.کیا اس وقت تم کو یہ خبر نہیں ملی کہ کس قدر لوگ اسلام سے نکل گئے کس قدر عیسائیوں میں جا ملے کس قدر دہریہ اور طبعیہ ہوگئے اور کس قدر شرک اور بدعت نے توحید اور سنت کی جگہ لے لی اور کس قدر اسلام کے ردّ کے لئے کتابیں لکھی گئیں اور دنیا میں شائع کی گئیں سو تم اب سوچ کر کہو کہ کیا اب ضرور نہ تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس صدی پر کوئی ایسا شخص بھیجا جاتا جو بیرونی حملوں کا مقابلہ کرتا اگر ضرور تھا تو تم دانستہ الٰہی نعمت کو ردّ مت کرو اور اس شخص سے منحرف مت ہوجاؤ نبی کی متابعت نہیں بلکہ ہریک صداقت جب کامل طور پر کھل جائے خود واجب التسلیم ٹھہرتی ہے خواہ اس کو ایک نبی بیان کرے خواہ غیر نبی بلکہ اگر ایک فاسق بھی بیان کرے تب بھی ماننا ہی پڑتا ہے جس خبر کو نبی کے اعتبار پر اور اس کی صداقت کو مسلّم رکھ کر ہم قبول کریں گے وہ چیز ضرور ایسی ہونی چاہیئے کہ گو عند العقل صدق کا بہت زیادہ احتمال رکھتی ہو مگر کذب کی طرف بھی کسی قدر نادانوں کا وہم جاسکتا ہو تاہم صدق کی شق کو اختیار کر کے اور نبی کو صادق قرار دے کر اپنی نیک ظنی اور اپنی فراست دقیقہ اور اپنے ادب اور اپنے ایمان کا اجر پالیویں یہی لب لباب قرآن کریم کی تعلیم کا ہے جو ہم نے بیان کردیا ہے لیکن حکماء اور فلاسفر اس پہلو پر چلے ہی نہیں اور وہ ہمیشہ ایمان سے لاپروا ر ہے اور ایسے علم کو ڈھونڈتے رہے جس کا فی الفور قطعی اور یقینی ہونا ان پر کھل جائے مگر یاد رہے کہ خدا تعالیٰ نے ایمان بالغیب کا حکم فرما کر مومنوں کو یقینی معرفت سے محروم رکھنا نہیں چاہا بلکہ یقینی معرفت کے حاصل کرنے کے لئے ایمان ایک زینہ ہے
جس کا آنا اس صدی پر اس صدی کے مناسب حال ضروری تھا اور جس کی ابتدا سے نبی کریم نے خبر دی تھی اور اہل اللہ نے اپنے الہامات اور مکاشفات سے اس کی نسبت لکھا تھا ذرہ نظر اٹھا کر دیکھو کہ اسلام کو کس درجہ پر بلاؤں نے مجبور کر لیا ہے اور کیسے چاروں طرف سے اسلام پر مخالفوں کے تیرچھوٹ رہے ہیں اور کیسے کروڑہا نفسوں پر اس زہر نے اثر کردیا ہے یہ علمی طوفان یہ عقلی طوفان یہ فلسفی طوفان یہ مکر اور منصوبوں کا طوفان یہ فسق اور فجور کا طوفان یہ لالچ اور طمع دینے کا طوفان یہ اباحت اور دہریت کا طوفان یہ شرک اور بدعت کا طوفان جو ہے ان سب طوفانوں کو ذرہ آنکھیں کھول کر دیکھو اور اگر طاقت ہے تو ان مجموعہ طوفانات کی کوئی پہلے زمانہ میں نظیر بیان کرو اور ایمانًا کہو کہ حضرت آدم سے لے کر تا ایندم اس کی کوئی نظیر بھی ہے اور اگر نظیر جس زینہ پر چڑھنے کے بغیر سچی معرفت کو طلب کرنا ایک سخت غلطی ہے لیکن اس زینہ پر چڑھنے والے معارف صافیہ اور مشاہدات شافیہ کا ضرور چہرہ دیکھ لیتے ہیں جب ایک ایماندار بحیثیت ایک صادق مومن کے احکام اور اخبار الٰہی کو محض اس جہت سے قبول کر لیتا ہے کہ وہ اخبار اور احکام ایک مخبر صادق کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے اس کو عطا فرمائے ہیں تو عرفان کا انعام پانے کے لئے مستحق ٹھہر جاتا ہے اسی لئے خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے یہی قانون ٹھہرا رکھا ہے کہ پہلے وہ امور غیبیہ پر ایمان لا کر فرمانبرداروں میں داخل ہوں اور پھر عرفان کا مرتبہ عطا کر کے سب عقدے ان کے کھولے جائیں لیکن افسوس کہ جلد باز انسان ان راہوں کو اختیار نہیں کرتا خدا تعالیٰ کا قرآن کریم میں یہ وعدہ ہے کہ جو شخص ایمانی طور پر نبی کریم کی دعوت کو مان لیوے تو وہ اگر مجاہدات کے ذریعہ سے ان کی حقیقت دریافت کرنا چاہے وہ اس پر بذریعہ کشف اور الہام کے کھولے جائیں گے اور اُسی کے ایمان کو عرفان کے درجہ تک پہنچایا جائے گا اور اس وعدہ کا صدق ہمیشہ راست بازوں
نہیں تو خدائے تعالیٰ سے ڈرو اور حدیثوں کے وہ معنے کرو جو ہوسکتے ہیں واقعات موجودہ کو نظر انداز مت کرو تاتم پر کھل جائے کہ یہ تمام ضلالت وہی سخت دجّالیت ہے جس سے ہریک نبی ڈراتا آیا ہے جس کی بنیاد اس دنیا میں عیسائی مذہب اور عیسائی قوم نے ڈالی جس کے لئے ضرور تھا کہ مجدّد وقت مسیح کے نام پر آوے کیونکہ بنیاد فساد مسیح کی ہی امت ہے اور میرے پر کشفاًیہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ زہرناک ہوا جو عیسائی قوم سے دنیا میں پھیل گئی حضرت عیسیٰ کو اس کی خبر دی گئی تب ان کی روح روحانی نزول کے لئے حرکت میں آئی اور اس نے جوش میں آکر اور اپنی امت کو ہلاک۱ کا مفسدہ پر داز پا کر زمین پر اپنا قائم مقام اور شبیہہ چاہا جو اس کا ایسا ہم طبع ہو کہ گویا وہی ہو سو اس کو خدائے تعالیٰ نے وعدہ کے موافق ایک شبیہ عطا کی اور اس میں مسیح کی ہمت اور سیرت پر جو مجاہدات سے خدا تعالیٰ کو ڈھونڈھتے ہیں ظاہر ہوجاتا ہے.غرض جو بات مومنوں کی معمولی سمجھ سے برتر ہے اس کے دریافت کرنے کی یہ راہ نہیں ہے کہ وہ فرقہ ضالہ فلاسفروں کے دست نگر ہوں اور گم گشتہ سے راہ پوچھیں بلکہ ان کے لئے صدق اور صبر سے عرفان کا مرتبہ عطا کیا جاتا ہے جس مرتبہ پر پہنچ کر تمام عقدے ان کے حل ہوجاتے ہیں.اِس زمانہ میں جو مذہب اور علم کی نہایت سرگرمی سے لڑائی ہورہی ہے اس کو دیکھ کر اور علم کے مذہب پر حملے مشاہدہ کر کے بے دل نہیں ہونا چاہیئے کہ اب کیا کریں یقیناً سمجھو کہ اس لڑائی میں اسلام کو مغلوب اور عاجز دشمن کی طرح صلح جوئی کی حاجت نہیں بلکہ اب زمانہ اسلام کی روحانی تلوار کا ہے جیسا کہ وہ پہلے کسی وقت اپنی ظاہری طاقت دکھلا چکا ہے.یہ پیشگوئی یاد رکھو کہ عنقریب اس لڑائی میں بھی دشمن ذلّت کے ساتھ پسپا ہوگا اور اسلام فتح پائے گا.حال کے علوم جدیدہ کیسے ہی زور آور حملے کریں.کیسے ہی نئے نئے ہتھیاروں کے ساتھ چڑھ چڑھ کر آویں مگر انجام کار ان کے لئے ہزیمت ہے.میں شکر نعمت کے مطابق ایڈیشن اول.یہ سہو کتابت ہے درست لفظ ہلاکت ہے.ناشر
اور روحانیت نازل ہوئی اور اس میں اور مسیح میں بشدّت اتصال کیا گیا گویا وہ ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے بنائے گئے اور مسیح کی توجہات نے اُس کے دل کو اپنا قرار گاہ بنایا اور اُس میں ہو کر اپنا تقاضا پورا کرنا چاہا پس ان معنوں سے اس کا وجود مسیح کا وجود ٹھہرا اور مسیح کے پُرجوش ارادات اس میں نازل ہوئے جن کا نزول الہامی استعارات میں مسیح کا نزول قرار دیا گیا یاد رہے کہ یہ ایک عرفانی بھید ہے کہ بعض گذشتہ کاملوں کا ان بعض پر جو زمین پر زندہ موجود ہوں عکس توجہ پڑ کر اور اتحاد خیالات ہو کر ایسا تعلق ہوجاتا ہے کہ وہ ان کے ظہور کو اپنا ظہور سمجھ لیتے ہیں اور ان کے ارادات جیسے آسمان پر ان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں ویسا ہی باذنہ ٖ تعالیٰ اس کے دل میں جو زمین پر ہے پیدا ہوجاتے ہیں اور ایسی روح جس کی حقیقت کو اس آدمی سے جو زمین پر ہے متحد کیا جاتا ہے ایک ایسا ملکہ رکھتی ہے طور پر کہتا ہوں کہ اسلام کی اعلیٰ طاقتوں کا مجھ کو علم دیا گیا ہے جس علم کی رو سے میں کہہ سکتا ہوں کہ اسلام نہ صرف فلسفہ جدیدہ کے حملہ سے اپنے تئیں بچائے گا بلکہ حال کے علوم مخالفہ کو جہالتیں ثابت کردے گا اسلام کی سلطنت کو ان چڑھائیوں سے کچھ بھی اندیشہ نہیں ہے جو فلسفہ اور طبعی کی طرف سے ہورہے ہیں اس کے اقبال کے دن نزدیک ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ آسمان پر اس کی فتح کے نشان نمودار ہیں.یہ اقبال روحانی ہے اور فتح بھی روحانی تا باطل علم کی مخالفانہ طاقتوں کو اس کی الٰہی طاقت ایسا ضعیف کرے کہ کالعدم کر دیوے میں متعجب ہوں کہ آپ نے کس سے اور کہاں سے سن لیا اور کیونکر سمجھ لیا کہ جو باتیں اس زمانہ کے فلسفہ اور سائنس نے پیدا کی ہیں وہ اسلام پر غالب ہیں حضرت خوب یاد رکھو کہ اس فلسفہ کے پاس تو صرف عقلی استدلال کا ایک ادھورا سا ہتھیار ہے اور اسلام کے پاس یہ بھی کامل طور پر اور دوسرے کئی آسمانی ہتھیار ہیں پھر اسلام کو اس کے حملہ سے کیا خوف پھر نہ معلوم کہ آپ اس قدر اس فلسفہ سے
کہ جب چاہے پورے طور پر اپنے ارادات اس میں ڈالتی رہے اور ان ارادات کو خدا تعالیٰ اس دل سے اس دل میں رکھ دیتا ہے غرض یہ سنت اللہ ہے کہ کبھی گذشتہ انبیاء و اولیاء اس طور سے نزول فرماتے ہیں اور ایلیا نبی نے یحیٰی نبی میں ہو کر اسی طور سے نزول کیا تھا سو مسیح کے نزول کی سچی حقیقت یہی ہے جو اس عاجز پر ظاہر کی گئی اور اگر اب بھی کوئی باز نہ آوے تو میں مباہلہ کے لئے طیار ہوں پہلے صرف اس وجہ سے میں نے مباہلہ سے اعراض کیا تھا کہ میں جانتا تھا کہ مسلمانوں سے ملاعنہ جائز نہیں مگر اب مجھ کو بتلایا گیا کہ جو مسلمان کو کافر کہتا ہے اور اس کو اہل قبلہ اور کلمہ گو اور عقائد اسلام کا معتقد پاکر پھر بھی کافر کہنے سے باز نہیں آتا وہ خود دائرہ اسلام سے خارج ہے سو میں مامور ہوں کہ ایسے لوگوں سے جو اَئمۃ التکفیر ہیں اور مفتی اور مولوی اور محدّث کیوں ڈرتے ہیں اور کیوں اس کے قدموں کے نیچے گرے جاتے ہیں اور کیوں قرآنی آیات کوتاویلات کے شکنجہ پر چڑھا رہے ہیں.افسوس کہ جن باتوں میں سے ایک بات کو بھی ماننا اِس امر کو مستلزم ہے کہ اسلام کے سارے عقائد سے انکار کیا جائے ان باتوں کا ایک ذخیرہ کثیرہ آپ نے مان لیا ہے ا ور طرفہ یہ کہ باوجود انکار معجزات ، انکار ملائک، انکار اخبار غیبیہ، انکار وحی، انکار اجابت دعا وغیرہ انکارات کے آپ جا بجا یہ بھی مانتے گئے کہ قرآن برحق ، رسول برحق، اسلام برحق اور مخالف اِس کے سب باطل تو اِن متضاد خیالات کے جمع ہونے کی وجہ سے آپ کی تالیفات اُس عجیب حیوان کی مانند ہو گئیں کہ جو ایسا فرض کیا جائے کہ جس کا منہ آدمی کا ہو اور دُم بندر کی اور کھال بکرے کی اور پنجے بھیڑیئے کے اور دانت ہاتھی کے کھانے کے اور دِکھانے کے اور پھر نہایت افسوس کہ جگہ یہ ہے کہ شیعوں کی طرح آپ کے کلام میں تقیّہ بھی پایا جاتا ہے چنانچہ اپنی بعض رایوں کے بیان کرنے میں آپ ایک ایسی ذوالوجوہ بات بیا ن کر جاتے ہیں جس کا کچھ ماحصل معلوم نہیں ہوتا اور شُتر مُرغ کی طرح
کہلا تے ہیں اور ابناء اور نساء بھی رکھتے ہیں مباہلہ کروں اور پہلے ایک عام مجلس میں ایک مفصل تقریر کے ذریعہ سے اُن کو اپنے دلائل سمجھا دوں اور اُسی مجلس میں اُن کے تمام الزامات اور شبہات کا جو اُن کے دل میں خلجان کرتے ہیں جواب بھی دے دوں اَور پھر اگر کافر کہنے سے باز نہ آویں تو اُن سے مباہلہ کروں مباہلہ اِس بنا پر نہیں ہو گا کہ وہ اپنے اصطلاحی نام اہل سنت والجماعت سے مجھ کو باہر کیوں سمجھتے ہیں کیونکہ اس سے تو مجھ کو کچھ بھی رنج نہیں جب مَیں دیکھتا ہوں کہ ایک غیر مُقلد جو اپنے تئیں اہل حدیث کہلاتا ہے اَئمہ اربعہ کے مُقلدین کا نام بدعتی اور فیج اعوج رکھتا ہے اور صحابہ کرام کے طریق سے اُن کو باہر سمجھتا ہے اور جماعت سلف کا اُن کو مخالف خیال کرتا ہے ایسا ہی ایک مثلًا حنفی تمام موحدین غیر مقلّدین کو آپ کا کلام دونوں صورتوں کی گنجائش رکھتا ہے شتر کی بھی اور مرغ کی بھی.شاید آپ اپنے اسی پہلے عذر کو جو ابھی میں ردّ کرچکا ہوں دوہرا کر کہیں کہ اس قسم کی تالیفات کی زمانہ کو ضرورت تھی اور شاید آپ کا یہ خیال ہو کہ اگر کسی فتنہ میں تمام مال غارت ہوتا دیکھیں تو یہ کچھ بری بات نہیں کہ اگر کچھ تھوڑا سا نقصان اٹھا کر بڑے نقصان سے بچ سکیں تو بچنے کی کوشش کریں کیونکہ تھوڑے کا ہاتھ سے جانا اس سے بہتر ہے کہ سارا جائے لیکن یہ تمام خیالات آپ کے قلّت تدبر سے ہوں گے.آپ کو یاد رہے کہ قرآن کا ایک نقطہ یا شعشہ بھی اوّلین اور آخرین کے فلسفہ کے مجموعی حملہ سے ذرہ سے نقصان کا اندیشہ نہیں رکھتا وہ ایسا پتھر ہے کہ جس پر گرے گا اس کو پاش پاش کرے گا اور جو اس پر گرے گا وہ خود پاش پاش ہوجائے گا پھر آپ کو دب کر صلح کرنے کی کیوں فکر پڑگئی آپ نے اسلام کے لئے بجز اس کے اور کیا کیا ہے کہ فلسفہ موجودہ کے بہت سے باطل خیالات کو مان لیا اور اس کتاب کو جس کے ایک ایک حرف
بدمذ ہب اور سنت جماعت کے احاطہ سے باہر یقین رکھتا ہے تو پھر مجھے کیوں افسوس کرنا چاہیئے کہ میں کیوں سنت جماعت سے باہر کیا جاتا ہوں درحقیقت اہل سنت والجماعت کہلانا آج کل کسی خاص فرقہ کا حق تسلیم نہیں کیا گیا ہریک اپنے زعم میں اہل سنت ہے اور دوسروں کو اس سے خارج کررہا ہے پس یہ کچھ ایسا جھگڑا نہیں جس کا عنداللہ بہت قدر ہو مگر جزئیات کے اختلاف کی وجہ سے کسی کو جھٹ پٹ کافر کہہ دینا اور ہمیشہ کے جہنم کا سزا وار اس کو ٹھہرانا یہ امر درحقیقت عنداللہ کوئی سہل اور معمولی بات نہیں بلکہ بہت ہی بڑا ہے اور جائے تعجب ہے کہ ایک شخص کلمہ گو ہو اور اہل قبلہ اور موحّد اور اللہ اور رسول کو ماننے والا اور ان سے سچی محبت رکھنے والا اور قرآن پر ایمان لانے والا ہو اور پھر کسی جزئی اختلاف کی وجہ سے وہ ایسا سے شان خدا نظر آتی ہے.فلاسفروں کے خیالات کے تابع کرنا چاہا اور ِ گر کر صلح کے لئے مجبوری ظاہر کی سو میرے خیال میں آپ کی یہ کارروائیاں اس زمانہ کے دجّالی فتنوں سے بچا نہیں سکتیں بلکہ اس کی شاخوں میں سے یہ بھی ایک شاخ ہے کیونکہ آپ نے اسلامی قلعہ کے اندر ہو کر دشمنوں کے لئے دروازہ کھول دیا اور مسلمانوں کے ہاتھ پاؤں باندھنے میں کوشش کی تا دشمن بآرام وامن اس شہر میں داخل ہو کر جس طرح چاہیں دست برد کریں اور مسلمان کچھ ہاتھ پیر نہ ہلا سکیں مگر میری یہی رائے ہے کہ آپ نے یہ طریق عمداً اختیار نہیں کیا.بلاشبہ آپ کی نیت بخیر ہوگی.کیونکہ آپ کی تالیفات سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ آپ کے اسلامی خیر خواہ ہونے میں شک نہیں گو آپ کی خیر اندیشی درحقیقت بد اندیشی کا کام دے گئی اور یہ قوم کی بدقسمتی ہے کہ ایک مصلح کے پیرایہ میں وہ ضرر آپ سے مسلمانوں کو پہنچ گیا کہ شاید کوئی مفسد بالجہر بھی ایسا ضرر نہ پہنچا سکتا.شاید آپ یہ ُ عذر پیش کریں کہ اس طریق کے اختیار کرنے میں ایک
کافر ٹھہر جائے کہ یہود نصاریٰ کی طرح بلکہ ان سے بھی بدتر شمار ہو اور میاں نذیر حسین اور شیخ بطالوی اِس بات پر راضی ہوں کہ وہ نہ صرف کافر بلکہ اس کا نام اکفر رکھا جائے یعنی ہمیشہ کی جہنم سے بھی اس کی سزا کچھ زیادہ ہو اہل علم جانتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں بڑے بڑے اختلاف تھے اور ان میں سے کوئی بھی اختلاف سے بچ نہیں سکا نہ صدیق نہ فاروق نہ دوسرا کوئی صحابی بلکہ مروی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ باوجود اپنی اس جلالت و شان کے جو علماء میں مسلّم ہے دینی امور میں تمام جماعت صحابہ سے پچاس مسئلہ میں مخالف تھے اور یہ مخالفت اس کمال تک پہنچ گئی تھی کہ بعض ایسے امور کو وہ حلال جانتے تھے جن کو دوسرے صحابہ حرام قطعی بلکہ صریح فسق سمجھتے تھے اور حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما اور ان کے گروہ کے لوگ معراج اور رویت باری کے بارے میں دوسرے صحابہ سے بکلّی مخالف تھے مگر کوئی کسی کو کافر نہیں کہتا تھا مگر یہ زمانہ ایک حکمت عملی تھی اور وہ یہ کہ آپ نے ایسے وقت میں یہ تالیفات کیں کہ جب مغربی علوم کے بداثر بہت قوت سے دنیا میں پھیلتے جاتے تھے اور طوفان ضلالت بہت طغیانی پر تھا تو آپ نے نجاست خوروں کے لئے ایک نجاست بطور غذا کے پیش کردی تا وہ اسلام سے باہر نہ جائیں نجاست کھائیں بارے اسلام میں تو رہیں پس آپ کی نسبت بعض کا یہ مقولہ شاید کسی قدر ٹھیک ہو کہ اگر ایسے لوگوں کے لئے سید صاحب ایسی غذا پیش نہ کرتے تو خدا معلوم وہ کن حیوانات کی قطار میں مل جاتے اگر آپ کی یہی نیت تھی تو پھر بھی میرے نزدیک غلطی سے خالی نہیں کیونکہ آپ کسی کے بد مادہ کو اس کے تقاضائے ظہور سے روک نہیں سکتے.اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے.3 ۱ یعنی ہریک شخص اپنی فطرت کے موافق عمل کرتا ہے انسان کو چاہیئے کہ مسائل صحیحہ کا معلم ہو چاہے کوئی ان کو قبول کرے یا رد کرے.یہی طریق انبیاء ہے نہ یہ کہ دوسرے کو اندھا دیکھ کر اپنی آنکھ بھی پھوڑے.شاید آپ کے دل میں یہ عذر
ایسا زمانہ آیا کہ مولویوں نے اپنے بھائی مسلمان کو کافر کہہ دینا اور ہمیشہ کے لئے جہنمی قرار دے دینا ایک ایسی سہل بات سمجھ لی کہ جیسے کوئی پانی کا گھونٹ پی لے اسی پرانی عادت کی وجہ سے عاجز کو بھی انہوں نے کافر ٹھہرایا سو اب میں مامور ہوں جو انہیں لوگوں سے جو اَئمۃ التکفیر ہیں یعنی نذیر حسین دہلوی اور شیخ محمد حسین بطالوی اور جو ان کے ہم مرتبہ اور ہم خیال ہیں مباہلہ کی درخواست کروں لہٰذا اس فرض سے سبکدوش ہونے کے لئے ان اَئمۃ التکفیرکے نام پر مباہلہ کا اشتہار ذیل میں شائع کیا جاتا ہے.بھی مخفی ہو کہ اس نئے فلسفہ کے طوفان کے وقت اسلام کی کشتی خطرناک حالت میں تھی اور گو وہ کشتی جواہرات اور نفیس مال و متاع سے بھری ہوئی تھی مگر چونکہ وہ تہلکہ انگیز طوفان کے نیچے آگئی تھی اس لئے اس ناگہانی بلا کے وقت یہی مصلحت تھی اور اس کے بغیر کوئی اور چارہ نہیں تھا کہ کسی قدر وہ جواہرات اور نفیس مال کی گٹھڑیاں دریا میں پھینک دی جائیں اور جہاز کو ذرا ہلکا کر کے جانوں کو بچا لیا جائے لیکن اگر آپ نے اس خیال سے ایسا کیا تو یہ بھی خودروی کی ایک گستاخانہ حرکت ہے جس کے آپ مجاز نہیں تھے اس کشتی کا ناخدا خدا وند تعالیٰ ہے نہ آپ وہ بار بار وعدہ کرچکا ہے کہ ایسے خطرات میں یہ کشتی قیامت تک نہیں پڑے گی اور وہ ہمیشہ اس کو طوفان اور باد مخالف سے آپ بچاتا رہے گا.جیسا کہ فرماتا ہے 3 ۱ یعنی ہم نے ہی اس کلام کو اتارا اور ہم ہی اس کو بچاتے رہیں گے.سو آپ کو چاہیئے تھا کہ آپ اس ناخدا کی غیبی ہدایت کی انتظار کرتے اور دلی یقین سے سمجھتے کہ اگر طوفان آگیا ہے تو اب اس ناخدا کی مدد بھی نزدیک ہے جس کا نام خدا ہے جو مالک جہاز بھی ہے اور ناخدا بھی‘ پس چاہیئے تھا کہ ایسی بے رحمی اور جرأت نہ کرتے اور آپ ہی خود مختار بن کر بے بہا جواہرات کے صندوق اور زر خالص کی تھیلیاں اور نفیس اور قیمتی پارچات
مبا ہلہ کے لئے اشتہار اُن تمام مولویوں اور مفتیوں کی خدمت میں جو اس عاجز کو جزئی اختلافات کی وجہ سے یا اپنی نافہمی کے باعث سے کافر ٹھہراتے ہیں عرض کیا جاتا ہے کہ اب میں خدا تعالیٰ سے مامور ہوگیا ہوں کہ تا میں آپ لوگوں سے مباہلہ کرنے کی درخواست کروں اس طرح پر کہ اول آپ کو مجلس مباہلہ میں اپنے عقائد کے دلائل ازروئے قرآن و حدیث کے سناؤں اگر پھر بھی آپ لوگ تکفیر سے باز نہ آویں تو اسی مجلس میں مباہلہ کروں سو میرے پہلے مخاطب میاں نذیر حسین دہلوی کی گٹھڑیاں دریا میں نہ پھینکتے.خیر ہرچہ گذشت گذشت اب میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں اور بشارت پہنچاتا ہوں کہ اس ناخدا نے جو آسمان اور زمین کا خدا ہے زمین کے طوفان زدوں کی فریاد سن لی.اور جیسا کہ اس نے اپنی پاک کلام میں طوفان کے وقت اپنے جہاز کو بچانے کا وعدہ کیا ہوا تھا وہ وعدہ پورا کیا اور اپنے ایک بندہ کو یعنی اس عاجز کو جو بول رہا ہے اپنی طرف سے مامور کر کے وہ تدبیریں سمجھادیں جو طوفان پر غالب آویں اور مال و متاع کے صندوقوں کو دریا میں پھینکنے کی حاجت نہ پڑے.اب قریب ہے جو آسمان سے یہ آواز آوے کہ 333 ۱ مگر ابھی تو طوفان زور میں ہے اسی طوفان کے وقت خدا تعالیٰ نے اس عاجز کو مامور کیا اور فرمایا.واصنع الفلک باعیننا و وحینا یعنی تو ہمارے حکم سے اور ہماری آنکھوں کے سامنے کشتی طیار کر اس کشتی کو اس طوفان سے کچھ خطرہ نہ ہوگا اور خدائے تعالیٰ
ہیں اور اگر وہ انکار کریں تو پھر شیخ محمد حسین بطالوی اور اگر وہ انکار کریں تو پھر بعد اس کے وہ تمام مولوی صاحبان جو مجھ کو کافر ٹھہراتے اور مسلمانوں میں سرگروہ سمجھے جاتے ہیں اور میں ان تمام بزرگوں کو آج کی تاریخ سے جو دہم دسمبر ۱۸۹۲ء ہے چار ماہ تک مہلت دیتا ہوں اگر چار ماہ تک ان لوگوں نے مجھ سے بشرائط متذکرہ بالا مباہلہ نہ کیا اور نہ کافر کہنے سے باز آئے تو پھر اللہ تعالیٰ کی حجت ان پر پوری ہوگی میں اول یہ چاہتا تھا کہ وہ تمام بے جا الزامات جو میری نسبت ان لوگوں نے قائم کر کے موجب کفر قرار دیئے ہیں اس رسالہ میں ان کا جواب شائع کروں لیکن بباعث بیمار ہوجانے کاتب اور حرج واقع ہونے کے ابھی تک وہ حصہ طبع نہیں ہوسکا سو میں مباہلہ کی کا ہاتھ اس پر ہوگا سو وہ خالص اسلام کی کشتی یہی ہے جس پر سوار ہونے کے لئے میں لوگوں کو بلاتا ہوں اگر آپ جاگتے ہو تو اٹھو اور اس کشتی میں جلد سوار ہوجاؤ کہ طوفان زمین پر سخت جوش کررہا ہے اور ہریک جان خطرہ میں ہے اگر آپ انصاف پسند ہوں تو سب سے پہلے آپ اس طوفان کے وجود کا اقرار کرسکتے ہیں بلکہ آپ نے تو کئی جگہ اقرار کردیا ہے کہ اسلام کی کشتی کو طوفان سے بچانے کا وعدہ جو قرآن کریم میں موجود ہے اس طوفان اور اس وعدہ کا زمانہ یہی ہے ایسے طوفان کا زمانہ اس امت پر کبھی نہیں آیا جو اب آگیا دنیا نے کبھی علم اور مذہب کی وہ لڑائیاں نہ دیکھیں جواب ہورہی ہیں کبھی کسی پرانے طبعی اور فلسفہ نے اسلام کا ایسا نقش مٹانا نہ چاہا جو حال کا سائنس مٹانے کی فکر میں ہے کون اس درجہ کی عقلی اور علمی رہزنیوں کا پہلے زمانوں میں کوئی نشان دے سکتا ہے جن کو اب ہم بچشم خود دیکھ رہے ہیں کس کی یہ طاقت ہے کہ اس معقولی طوفان کا نمونہ کسی پہلے وقت میں دکھاوے جس کو اب ہم دن رات مشاہدہ کررہے ہیں.ان
مجلس میں وہ مضمون بہرحال سنادوں گا اگر اس وقت طبع ہوگیا ہو یا نہ ہوا ہو.لیکن یاد رہے کہ ہماری طرف سے یہ شرط ضروری ہے کہ تکفیر کے فتویٰ لکھنے والوں نے جو کچھ سمجھا ہے اول اس تحریر کی غلطی ظاہر کی جائے اور اپنی طرف سے دلائل شافیہ کے ساتھ اتمام حجت کیا جائے اور پھر اگر باز نہ آویں تو اسی مجلس میں مباہلہ کیا جائے اور مباہلہ کی اجازت کے بارے میں جو کلام الٰہی میرے پر نازل ہوا وہ یہ ہے.نظر اللّٰہ الیک معطّرا.و قالوا ا تجعل فیھا من یفسد فیھا دقیق در دقیق فلسفیانہ اور دہریانہ حملوں کی پہلے وقتوں میں کہاں نظیر مل سکتی ہے اور ان پیچ در پیچ عاقلانہ ہنگاموں کا قرون گزشتہ میں کہاں پتہ لگ سکتا ہے اس قسم کی علمی اور عقلی آفات کسی پہلے زمانہ میں کہاں ہیں جن کا اب اسلام کو سامنا ہوا ہے کب اور کس وقت ایسی مشکلات کسی پہلے زمانہ میں بھی پیش آئی تھیں جو اب پیش آرہی ہیں.کیا آپ کو اس بات کا اقرار نہیں کہ یہ اشدّ درجہ کے علمی مباحث کی مصیبتیں اور صعوبتیں جو اب اسلام پر وارد ہیں اس کے پہلے زمانوں میں ایسی مصیبتیں کبھی وارد نہیں ہوئیں اور نہ آدم سے لے کر ایں دم تک اس کی کوئی نظیر پائی جاتی ہے.کیا آپ اس بات کو نہیں مانتے کہ اس فلسفہ اور سائنس کی بلا اس بلا سے ہزارہا درجہ شدت اور غلظت میں بڑھ کر ہے جو یونانیوں کے علوم سے اسلامی ملکوں میں پھیلی تھی کیا آپ اس امر واقعہ کو تسلیم نہیں کرتے کہ یہ دشمن جواَب پیدا ہوا ہے اپنی قوّت بازو میں ان تمام دشمنوں کے مجموعہ سے بڑھ کر ہے جو متفرق زمانوں میں
قا ل انّی اعلم ما لا تعلمون.قالوا کتاب ممتلئٌ من الکفر والکذب قل تعالوا ندع ابناء نا و ابناء کم و نساء نا و نساء کم و انفسنا و انفسکم ثم نبتھل پیدا ہوتے رہے ہیں پھر آپ اس اقرار سے کہاں بھاگ سکتے ہیں کہ وہ پاک وعدہ جس کو یہ پیارے الفاظ ادا کررہے ہیں کہ3.۱ وہ انہیں دنوں کے لئے وعدہ ہے جو بتلارہا ہے کہ جب اسلام پر سخت بلا کا زمانہ آئے گا اور سخت دشمن اس کے مقابل کھڑا ہوگا اور سخت طوفان پیدا ہوگا تب خدائے تعالیٰ آپ اس کا معالجہ کرے گا اور آپ اس طوفان سے بچنے کے لئے کوئی کشتی عنایت کرے گا وہ کشتی اس عاجز کی دعوت ہے اگر کوئی سن سکتا ہے تو سنے آپ احادیث نبویہ کے تو سرے سے انکاری ہیں پھر ہر ایک صدی پر مجدّد آنے کی حدیث آپ کے سامنے پیش کرنا فضول ہے آپ کیوں اس کو قبول کریں گے اس سے تو فراغت ہے مگر میں آپ کو اسی آیت موصوفہ بالا اور اسی کی مانند اور کئی آیتوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو میں نے اس بحث کے موقعہ پر اسی کتاب میں لکھی ہیں.حضرت یہ وہ زمانہ ہے اور یہ وہ آفات ہیں کہ جن کے لئے ضرور تھا کہ عنایت ازلی آپ ہی توجہ کرتی قرآن کریم اسی زمانہ کی بلاؤں کی طرف
فنجعل لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین.یعنی خدا تعالیٰ نے ایک معطّر نظر سے تجھ کو دیکھا اور بعض لوگوں نے اپنے دلوں میں کہا کہ اے خدا کیا تو زمین پر ایک ایسے شخص کو قائم کردے گا کہ جو دنیا میں فساد پھیلاوے تو خدا تعالیٰ نے ان کو جواب دیا کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے اور ان لوگوں نے کہا کہ اس شخص کی کتاب ایک ایسی کتاب ہے جو کذب اور کفر سے بھری ہوئی ہے سو ان کو کہہ دے کہ آؤ ہم اور تم معہ اپنی عورتوں اور بیٹوں اور عزیزوں کے مباہلہ کریں پھر ان پر لعنت کریں جو کاذب ہیں.اشارہ کر کے فرماتا ہے کہ 3.۱ یعنی ہم نے ہی اس کلام کو اتارا اور ہم ہی اس کی عزت اور اس کی عظمت اور اس کی تعلیم کو دشمنوں کے حملوں سے بچائیں گے پہلے وہ زمانے تھے کہ اسلام کی ظاہری تلوار نے بہت سی فضول بحثوں سے فراغت کررکھی تھی اور ظالم اور شریر طبع لوگوں کے لئے ان کے مناسب حال تدارک موجود تھا اور عہد نبوت بھی قریب تھا اور مسلمانوں میں تقویٰ اور طہارت اور سچی ہمدردی اسلام کی موجود تھی اب یہ سب کچھ ندارد اور اب اسلام جیسا روئے زمین میں کوئی غریب اور یتیم اور مسکین نہیں اکثر اہل مقدرت اپنی عیاشیوں میں مصروف اور ان کو اپنی دنیا کی عمارتوں کے بنانے اور اپنی لذّات کے سامان طیار کرنے یا کسی قدر ننگ و ناموس کے لئے مال خرچ کرنے سے فراغت نہیں اور مولوی لوگ اپنے نفسانی جھگڑوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور دعوت اسلام کی نہ لیاقت رکھتے ہیں نہ اس کا کچھ جوش نہ اس کی کچھ پروا اگر ان سے کچھ ہوسکتا ہے تو صرف اس قدر کہ اپنی ہی قوم اور اپنے ہی بھائیوں اور اپنے جیسے مسلمانوں اور اپنے جیسے
یہ وہ اجازت مباہلہ ہے جو اس عاجز کو دی گئی.لیکن ساتھ اس کے جو بطور تبشیر کے اور الہامات ہوئے ان میں سے بھی کسی قدر لکھتا ہوں اور وہ یہ ہیں.یوم یجیء الحق و یُکْشَف الصدق و یخسر الخاسرون.انت معی و انا معک و لا یعلمھا الا المسترشدون نرد الیک الکرّۃ الثانیۃ و نبدلنّک من بعد خوفک اَمنا.یأتی قمر الانبیاء.و امرک یتأَتّٰی یسر اللّٰہ وجھک و یُنِیْرُ برھانک.سیولد لک الولد و یُدْنٰی منک الفضل انّ نوری قریب و قالو انّٰی لک ھذا قل ھو اللّٰہ عجیب.و لا تیئس من روح اللّٰہ.انظر الی یوسف و اقبالہ.قد جاء وقت الفتح والفتح اقرب.یخرّون علی المساجد ربنا اغفرلنا اِنّا کنا خاطئین.لا تثریب علیکم الیوم کلمہ گو یوں اور اپنے جیسے اہل قبلہ کو کافر قرار دیں دجّال کہیں اور بے ایمان نام رکھیں اور فتویٰ لکھیں کہ ان سے ملنا جائز نہیں اور ان کا جنازہ پڑھنا روا نہیں یہ ایسے ہیں اور ویسے ہیں اور کیا کیا ہیں.اور اس وقت کے پیر زادے اور گوشہ نشین بھی جو فقرا اور اہل اللہ کہلاتے ہیں کانوں میں روئی دے کر بیٹھے ہوئے ہیں اسلام کو ان کی آنکھوں کے سامنے ایک معصوم بچہ کی طرح ماریں پڑرہی ہیں اور دشمن گلا گھونٹنے کو طیار ہے لیکن ان سخت دل نام کے فقیروں کو کچھ بھی پروا نہیں.پھر اسلام کس سے مدد چاہے اور کس کو اپنا ہمدرد سمجھے اول تو اسلام کے لئے ان تمام فرقوں سے کچھ خدمت ہوتی ہی نہیں اور اگر شاذ و نادر کسی سے ہو بھی تو وہ ریا اور ملونی سے خالی نہیں پھر اگر اسلام اس وقت غریب نہیں تو پھر کس وقت ہوگا اور اگر یہ مصیبت کے دن نہیں تو پھر اور کب آئیں گے میں خدا تعالیٰ سے یقینی اور قطعی علم پا کر کہتا ہوں کہ یہ وہی سخت بلاؤں کے دن اور وہی دجّالیّت
غفر اللّٰہ لکم و ھو ارحم الراحمین.اردتُ ان استخلف فخلقتُ آدم.نجیّ الاسرار.انا خلقنا الانسان فی یومٍ موعود.یعنی اس دن حق آئے گا اور صدق کھل جائے گا اور جو لوگ خسارہ میں ہیں وہ خسارہ میں پڑیں گے.تو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں.اور اس حقیقت کو کوئی نہیں جانتا مگر وہی جو رشد رکھتے ہیں ہم پھر تجھ کو غالب کریں گے اور خوف کے بعد امن کی حالت عطا کردیں گے.نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام تجھے حاصل ہوجائے گا.خدا تیرے منہ کو بشاش کرے گا اور تیرے برہان کو روشن کردے گا اور تجھے ایک بیٹا عطا ہوگا اور فضل تجھ سے قریب کیا جائے گا اور میرا نور نزدیک ہے.اور کہتے ہیں کہ یہ مراتب تجھ کو کہاں.ان کو کہہ کہ وہ خدا عجیب خدا ہے اس کے ایسے ہی کام ہیں جس کو چاہتا ہے اپنے مقرّ بوں میں کا زمانہ ہے جس کے آنے کی نبی معصوم علیہ السلام نے خبر دی تھی حال کے نادان مولوی انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ دجّالیت کبریٰ اور فتن عظمیٰ کا زمانہ نہیں مگر بات تو تب ہو کہ آدم سے لے کر تاایں دم ان عظیم الشان فتنوں کے جو اسلام کے جگر پر حربے ماررہے ہیں کوئی نظیر پیش کرسکیں اور چونکہ اس زمانہ سے بکلّی صلاحیت اٹھ گئی اور حقیقی تقویٰ جاتی رہی اور بعضوں کے ہاتھ میں صرف تقویٰ اور اعمال صالحہ کا پوست رہ گیا نہ مغز اور بعضوں کے ہاتھ میں نہ پوست رہا اور نہ مغز بجز خدائے تعالیٰ کے پوشیدہ بندوں کے جو شاذو نادر کے حکم میں ہیں اس لئے یہ زمانہ ایسا نہ رہا کہ خمیر سے خمیر ہو اور ایک چراغ سے دوسرا چراغ روشن ہوسکے اور خدائے تعالیٰ نے دیکھا جو زمین بگڑ گئی اور کوئی نہیں جو آپ اصلاح کرسکتا ہو ایک بھی نہیں اور اس نے دیکھا کہ کاموں اور کلاموں اور نیّات اور عبادات اور ارادات میں فساد راہ پا گیا ہے اور اعمال درست نہیں رہے تب اس نے وعدہ کے موافق آسمان سے اس مقدس شخص کی شبیہہ کو اتارا جس کی پیروی کے دعویٰ کرنے والے
جگہ دیتا ہے.اور میرے فضل سے نومیدمت ہو.یوسف کو دیکھ اور اس کے اقبال کو.فتح کا وقت آرہا ہے اور فتح قریب ہے.مخالف یعنی جن کے لئے توبہ مقدر ہے اپنی سجدہ گاہوں میں گریں گے کہ اے ہمارے خدا ہمیں بخش کہ ہم خطا پر تھے آج تم پر کوئی سرزنش نہیں خدا تمہیں بخش دے گا اور وہ ارحم الراحمین ہے.میں نے ارادہ کیا کہ ایک اپنا خلیفہ زمین پر مقرر کروں تو میں نے آدم کو پیدا کیا جو نجی الاسرار ہے ہم نے ایسے دن اس کو پیدا کیا جو وعدہ کا دن تھا.یعنی جو پہلے سے پاک نبی ؐ کے واسطہ سے ظاہر کردیا گیا تھا کہ وہ فلاں زمانہ میں پیدا ہوگا اور جس وقت پیدا ہوگا فلاں قوم دنیا میں اپنی سلطنت اور طاقت میں غالب ہوگی اور فلاں قسم کی مخلوق پرستی روئے زمین پر پھیلی ہوئی ہوگی اسی زمانہ میں وہ موعود پیدا ہوا اور وہ بنیاد فساد اور زمین میں دجّالیّت کی نجاست پھیلانے والے تھے اور اصلیت سے بگڑ کر دجال اکبر بن گئے تھے اور چونکہ اس اترنے والے کے لئے یہ موقعہ نہ ملا کہ وہ کچھ روشنی زمین والوں سے حاصل کرتا یا کسی کی بیعت یا شادگری سے فیضیاب ہوتا بلکہ اس نے جو کچھ پایا آسمان کے خدا سے پایا اسی وجہ سے اس کے حق میں نبی معصوم کی پیشگوئی میں یہ الفاظ آئے کہ وہ آسمان سے اترے گا یعنی آسمان سے پائے گا زمین سے کچھ نہیں پائے گا اور حضرت عیسیٰ کے نام پر اس عاجز کے آنے کا سرّ یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ نے اس عیسائی فتنہ کے وقت میں یہ فتنہ حضرت مسیح کو دکھایا یعنی ان کو آسمان پر اس فتنہ کی اطلاع دے دی کہ تیری قوم اور تیری امت نے اس طوفان کو برپا کیا ہے تب وہ اپنی قوم کی خرابی کو کمال فساد پر دیکھ کر نزول کے لئے بے قرار ہوا اور اس کی روح سخت جنبش میں آئی اور اس نے زمین پر اپنی ارادات کا ایک مظہر چاہا تب خدا تعالیٰ نے اس وعدہ کے موافق جو کیا گیا تھا مسیح کی روحانیت اور اس کے جوش کو ایک جوہر قابل میں نازل کیا سو ان معنوں کر کے وہ آسمان سے اترا اسی کے موافق جو ایلیا نبی
صلیب کا زمانہ اور عیسیٰ پرستی کا زمانہ ہے جو شخص کہ سمجھ سکتا ہے چاہیئے کہ ہلاک ہونے سے پہلے سمجھ لے.یکسر الصلیب پر غور کرے یقتل الخنزیرکو سوچے.یضع الجزیۃ کو نظر تدبّر سے دیکھے جو یہ سب امور اہل کتاب کے حق میں اور ان کی شان میں صادق آسکتے ہیں نہ کسی اور کے حق میں پھر جب تسلیم کیا گیا کہ اس زمانہ میں اعلیٰ طاقت عیسائی مذہب کی طاقت اور عیسائی گورنمنٹوں کی طاقت ہوگی جیسا کہ قرآن کریم بھی اسی بات کی طرف اشارہ فرماتا ہے تو پھر ان طاقتوں کے ساتھ ایک فرضی اور خیالی اور وہمی دجّال کی گنجائش کہاں یہی لوگ تو ہیں جو تمام زمین پر محیط ہوگئے ہیں پھر اگر ان کے مقابل پر کوئی اور دجّال خارج ہو تو وہ باوجود ان کے کیونکر زمین پر محیط ہو ایک میان میں دو۲ تلواریں تو سما نہیں سکتیں جب ساری زمین پر دجال کی بادشاہت ہوگی تو پھر یوحناکے رنگ میں اترا تھا مسلمان اگر اس قصہ کو جو انجیل میں موجود ہے اور خود حضرت مسیح کے فیصلہ سے تصفیہ یافتہ امر ہے منظور نہ کریں تو حدیث حدّثوا عن بنی اسرائیل پر تو عمل کرنا چاہیئے اور تکذیب کے تو کسی طرح مجاز نہیں کیونکہ تکذیب سے ہر ایک مسلمان منع کیا گیا ہے اور تصدیق کیلئے اور بھی بہت سے دلائل قرآن کریم سے ملتے ہیں جن کا ہم اپنی دوسری تالیفات میں اور کچھ اس رسالہ میں بھی ذکر کرچکے ہیں.اب میں ان باتوں کو طول دینا نہیں چاہتا صرف اپنی اس تقریر کو اس بات پر ختم کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس لئے بھیجا ہے کہ تا میں اس زمانہ کے اوہام دور کروں اور ٹھوکر سے بچاؤں اور مجھے اس نے توفیق عنایت کی ہے کہ اگر آپ حق کے طالب ہوں تو میں آپ کی تسلی کروں سو اب میں خدا ئے تعالیٰ کو اس بات پر شاہد کرتا ہوں کہ میں نے آپ کو آپ کی غلطیوں کے رفع کرنے کے لئے بلایا اگر اب بھی آپ خاموش رہے تو اللہ جلّ شانہٗ کی حجت آپ پر پوری ہوگی اور آپ کے تمام گروہ کا گناہ آپ ہی کی گردن پر ہوگا حضرت
انگر یز کہاں ہوں گے اور روس کہاں اور جرمن اور فرانس وغیرہ یورپ کی بادشاہتیں کہاں جائیں گی حالانکہ مسیح موعود کا عیسائی سلطنتوں کے وقت میں ظاہر ہونا ضروری ہے اور جب مسیح موعود کیلئے یہی ضروری ہے کہ دنیا میں عیسائی طاقتوں کو ہی دنیا پر غالب پاوے اور تمام مفاسد کی کنجیاں انہیں کے ہاتھ میں دیکھے انہیں کی صلیبوں کو توڑے اور انہیں کے خنزیروں کو قتل کرے اور انہیں کو اسلام میں داخل کر کے جزیہ کا قصہ تمام کرے تو پھر سوچو کہ فرضی دجال کی سلطنت باوجود عیسائی سلطنت کے کیونکر ممکن ہے مگر یہ غلط ہے کہ مسیح موعود ظاہری تلوار کے ساتھ آئے گا تعجب کہ یہ علماء یضع الحرب کے کلمہ کو کیوں نہیں سوچتے اور حدیث الائمۃ من قریش کو کیوں نہیں پڑھتے پس جب کہ ظاہری سلطنت اور خلافت اور امامت بجز قریش کے کسی کیلئے روا ہی نہیں تو پھر مسیح موعود جو قریش میں سے نہیں ہے.آپ کو اس ذات کی قسم کہ جس کے قبضہ میں ہریک جان ہے کہ آپ میرے اس نیاز نامہ کو لاپرواہی سے ٹال نہ دیں اور سوچ سمجھ کر جواب شائع کریں.اس حاشیہ کے خاتمہ پر میں محض للہ ان تمام صاحبوں کو جو سیّد صاحب کی تالیفات پر فریفتہ ہو رہے ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس بات پر غور کریں کہ آیا ایمان سے نجات ملتی ہے یا فلسفہ سے.میں بار بار کہتا ہوں اور زور سے کہتا ہوں کہ اگر عقائد دینیہ فلسفہ کے رنگ پر اور ہندسہ اور حساب کی طرح عام طور پر بدیہی الثبوت ہوتے تو وہ ہرگز نجات کا ذریعہ نہ ٹھہر سکتے.بھائیو یقیناً سمجھو کہ نجات ایمان سے وابستہ ہے اور ایمان امور مخفیہ سے وابستہ ہے.اگر حقائق اشیاء مستور نہ ہوتے تو ایمان نہ ہوتا اور اگر ایمان نہ ہوتا تو نجات کا کوئی ذریعہ نہ ہوتا.ایمان ہی ہے جو رضاء الٰہی کا وسیلہ اور مراتب قرب کا زینہ اور گناہوں کا زنگ دھونے کیلئے ایک چشمہ ہے اور ہمیں جو خدا تعالیٰ کی طرف حاجت ہے اس کا ثبوت ایمان ہی کے ذریعہ سے ملتا ہے کیونکہ ہم اپنی نجات کے
کیو نکر ظاہری خلیفہ ہوسکتا ہے اور یہ کہنا کہ وہ مہدی سے بیعت کرے گا اور اس کا تابع ہوگا اور نوکروں کی طرح اس کے کہنے سے تلوار اٹھائے گا عجب بے ہودہ باتیں ہیں نہیں حضرات خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو ہدایت دے مسیح موعود کی روحانی خلافت ہے دنیا کی بادشاہتوں سے اس کو کچھ تعلق نہیں اس کو آسمانی بادشاہت دی گئی ہے اور آج کل یہ زمانہ بھی نہیں کہ تلوار سے لوگ سچا ایمان لاسکیں.آج کل تو پہلی تلوار پر ہی نادان لوگ اعتراض کررہے ہیں چہ جائیکہ نئے سرے ان کو تلواروں سے قتل کیا جائے ہاں روحانی تلوار کی سخت حاجت ہے سو وہ چلے گی اور کوئی اس کو روک نہیں سکتا اب ہم اس مقدمہ کو ختم کرتے ہیں لیکن ذیل میں ایک روحانی تلوار مخالفوں پر چلا دیتے ہیں اور وہ یہ ہے.لئے اور ہر ایک دکھ سے راحت پانے کیلئے خدا تعالیٰ کے محتاج ہیں اور وہ نجات صرف ایمان سے ہی ملتی ہے کیا دنیا کا عذاب اور کیا آخرت کا دونوں کا علاج ایمان ہے.جب ہم ایمان کی قوت سے ایک مشکل کا حل ہوجانا غیر ممکن نہیں دیکھتے تو وہ مشکل ہمارے لئے حل کی جاتی ہے.ہم ایمان ہی کی قوت سے خلاف قیاس اور بعید از عقل مقاصد کو بھی پا لیتے ہیں.ایمان ہی کی قوت سے کرامات ظاہر ہوتی ہیں اور خوارق ظہور میں آتے ہیں.اور انہونی باتیں ہوجاتی ہیں.پس ایمان ہی سے پتہ لگتا ہے کہ خدا ہے خدا فلسفیوں سے پوشیدہ رہا اور حکیموں کو اس کا کچھ پتہ نہ لگا.مگر ایمان ایک عاجز دلق پوش کو خدا تعالیٰ سے ملا دیتا ہے اور اس سے باتیں کرادیتا ہے مومن اور محبوب حقیقی میں قوت ایمانی دلالہ ہے.یہ قوت ایک مسکین ذلیل خوار مردود خلائق کو قصر مقدس تک جو عرش اللہ ہے پہنچا دیتی ہے اور تمام پردوں کو اٹھاتی اٹھاتی دلآرام ازلی کا چہرہ دکھا دیتی ہے سو اٹھو ایمان کو ڈھونڈو
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہ‘ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ (اللّٰہ اکبر ضربت الذلۃ علٰی کل مخالفٍ) اشتھار بنام جملہ پادری صاحبان و ہندو صاحبان و آریہ صاحبان و اور فلسفہ کے خشک اور بے سود ورقوں کو جلاؤ کہ ایمان سے تم کو برکتیں ملیں گی.ایمان کا ایک ذرہ فلسفہ کے ہزار دفتر سے بہتر ہے اور ایمان سے صرف آخری نجات نہیں بلکہ ایمان دنیا کے عذابوں اور لعنتوں سے بھی چھڑا دیتا ہے اور روح کے تحلیل کرنے والے غموں سے ہم ایمان ہی کی برکت سے نجات پاتے ہیں.وہ چیز ایمان ہی ہے جس سے مومن کامل سخت گھبراہٹ اور قلق اور کرب اور غموں کے طوفان کے وقت اور اس وقت کہ جب ناکامی کے چاروں طرف سے آثار ظاہر ہوجاتے ہیں اور اسباب عادیہ کے تمام دروازے مقفل اور مسدود نظر آتے ہیں مطمئن اور خوش ہوتا ہے ایمان کامل سے سارے استبعاد جاتے رہتے ہیں.اور ایمان کو کوئی چیز ایسا نقصان نہیں پہنچاتی جیسا کہ استبعاد.اور کوئی ایسی دولت نہیں جیسا کہ ایمان.دنیا میں ہریک ماتم زدہ ہے مگر ایماندار دنیا میں ہریک سوزش اور حرقت اور جلن
بر ہمو صاحبان و سکھ صاحبان و دہری صاحبان و نیچری صاحبان وغیرہٗ صاحبان الحمد للّٰہ الذی ارسل رسولہ بالھدٰی و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ و لو کرہ المشرکون والصلٰوۃ والسلام علٰی خیر رسلہ و افضل انبیاۂ و سلالۃ اصفیاۂ محمدن المصطفٰی الّذی یصلی علیہ اللّٰہ و ملائکتہ والمؤمنون المقرّبون.امّابعد چونکہ اِس زمانہ میں مذاہب مندرجہ عنوان تعلیم قرآن کے سخت مخالف ہیں اور اکثر ان کے ہمارے میں گرفتار ہے مگر مومن.اے ایمان کیا ہی تیرے ثمرات شیریں ہیں کیا ہی تیرے پھول خوشبودار ہیں سبحان اللہ کیا عجیب تجھ میں برکتیں ہیں.کیا ہی خوش نور تجھ میں چمک رہے ہیں کوئی ثریا تک نہیں پہنچ سکتا مگر وہی جس میں تیری کششیں ہیں خدا تعالیٰ کو یہی پسند آیا کہ اب تو آوے اور فلسفہ جاوے و لا رآد لفضلہٖ.منہ
سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفٰے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو حق پر نہیں سمجھتے اور قرآن شریف کو ربانی کلام تسلیم نہیں کرتے اور ہمارے رسول کریم کو مفتری اور ہمارے صحیفہ پاک کتاب اللہ کو مجموعہ افترا قرار دیتے ہیں اور ایک زمانہ دراز ہم میں اور ان میں مباحثات میں گذر گیا اور کامل طور پر ان کے تمام الزامات کا جواب دے دیا گیا اور جو ان کے مذاہب اور کتب پر الزامات عائد ہوتے ہیں وہ شرطیں باندھ باندھ کر ان کو سنائے گئے اور ظاہر کردیا گیا کہ ان کے مذہبی اصول اور عقائد اور قوانین جو اسلام کے مخالف ہیں کیسے دوراز صداقت اور جائے ننگ و عار ہیں مگر پھر بھی ان صاحبوں نے حق کو قبول نہیں کیا اور نہ اپنی شوخی اور بد زبانی کو چھوڑا آخر ہم نے پورے پورے اتمام حجت کی غرض سے یہ اشتہار آج لکھا ہے جس کا مختصر مضمون ذیل میں درج کیا جاتا ہے.صاحبو تمام اہل مذاہب جو سزا جزا کو مانتے ہیں اور بقاء روح اور روز آخرت پر یقین رکھتے ہیں اگرچہ صدہا باتوں میں مختلف ہیں مگر اس کلمہ پر سب اتفاق رکھتے ہیں جو خدا موجود ہے.اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسی خدا نے ہمیں یہ مذہب دیا ہے اور اسی کی یہ ہدایت ہے جو ہمارے ہاتھ میں ہے اور کہتے ہیں کہ اس کی مرضی پر چلنے والے اور اس کے پیارے بندے صرف ہم لوگ ہیں اور باقی سب مورد غضب اور ضلالت کے گڑھے میں گرے ہوئے ہیں جن سے خدا تعالیٰ سخت ناراض ہے.پس جب کہ ہریک کا دعویٰ ہے کہ میری راہ خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے اور مدار نجات اور قبولیت فقط یہی راہ ہے و بس اور اسی راہ پر قدم مارنے سے خدا تعالیٰ راضی ہوتا ہے اور ایسوں سے ہی وہ پیار کرتا ہے
اور ایسوں کی ہی وہ اکثر اور اغلب طور پر باتیں مانتا ہے اور دعائیں قبول کرتا ہے تو پھر فیصلہ نہایت آسان ہے اور ہم اس کلمہ مذکورہ میں ہریک صاحب کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں ہمارے نزدیک بھی یہ سچ ہے کہ سچے اور جھوٹے میں اسی دنیا میں کوئی ایسا مابہ الامتیاز قائم ہونا چاہیئے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہو یوں تو کوئی اپنی قوم کو دوسری قوموں سے خدا ترسی اور پرہیزگاری اور توحید اور عدل اور انصاف اور دیگر اعمال صالحہ میں کم نہیں سمجھے گا پھر اس طور سے فیصلہ ہونا محال ہے اگرچہ ہم کہتے ہیں کہ اسلام میں وہ قابل تعریف باتیں ایک بے نظیر کمال کے ساتھ پائی جاتی ہیں جن سے اسلام کی خصوصیت ثابت ہوتی ہے مثلاً جیسے اسلام کی توحید اسلام کے تقویٰ اسلام کے قواعد حفظان عفت حفظان حقوق جو عملاً و اعتقاداً کروڑہا افراد میں موجود ہیں اور اس کے مقابل پر جو کچھ ہمارے مخالفوں کی اعتقادی اور عملی حالت ہے وہ ایسی شے ہے جو کسی منصف سے پوشیدہ نہیں لیکن جبکہ تعصب درمیان ہے تو اسلام کی ان خوبیوں کو کون قبول کرسکتا ہے اور کون سن سکتا ہے سو یہ طریق نظری ہے اور نہایت بدیہی طریق جو دیہات کے ہل چلانے والے اورجنگلوں کے خانہ بدوش بھی اس کو سمجھ سکتے ہیں یہ ہے کہ اس جنگ و جدل کے وقت میں جو تمام مذاہب میں ہورہا ہے اور اب کمال کو پہنچ گیا ہے اسی سے مدد طلب کریں جس کی راہ میں یہ جنگ و جدل ہے جبکہ خدا تعالیٰ موجود ہے اور درحقیقت اسی کے بارے میں یہ سب لڑائیاں ہیں تو بہتر ہے کہ اسی سے فیصلہ چاہیں.اب واضح ہو کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے میری یہ حالت ہے کہ میں صرف اسلام کو سچا مذہب سمجھتا ہوں اور
دوسر ے مذاہب کو باطل اور سراسر دروغ کا پتلا خیال کرتا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ اسلام کے ماننے سے نور کے چشمے میرے اندر بہہ رہے ہیں اور محض محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے وہ اعلیٰ مرتبہ مکالمہ الہٰیہ اور اجابت دعاؤں کا مجھے حاصل ہوا ہے کہ جو بجز سچے نبی کے پیرو کے اور کسی کو حاصل نہیں ہوسکے گا اور اگر ہندو اور عیسائی وغیرہ اپنے باطل معبودوں سے دعا کرتے کرتے مر بھی جائیں تب بھی ان کو وہ مرتبہ مل نہیں سکتا اور وہ کلام الٰہی جو دوسرے ظنی طور پر اس کو مانتے ہیں میں اس کو سن رہا ہوں اور مجھے دکھلایا اور بتلایا گیا اور سمجھایا گیا ہے کہ دنیا میں فقط اسلام ہی حق ہے اور میرے پر ظاہر کیا گیا کہ یہ سب کچھ بہ برکت پیروی حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تجھ کو ملا ہے اور جو کچھ ملا ہے اس کی نظیر دوسرے مذاہب میں نہیں کیونکہ وہ باطل پر ہیں.اب اگر کوئی سچ کا طالب ہے خواہ وہ ہندو ہے یا عیسائی یا آریہ یا یہودی یا برہمو یا کوئی اور ہے اس کیلئے یہ خوب موقعہ ہے جو میرے مقابل پر کھڑا ہوجائے اگر وہ امور غیبیہ کے ظاہر ہونے اور دعاؤں کے قبول ہونے میں میرا مقابلہ کرسکا تو میں اللہ جلّ شانہٗکی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اپنی تمام جائیداد غیر منقولہ جو دس ہزار روپیہ کے قریب ہوگی اس کے حوالہ کردوں گا یا جس طور سے اس کی تسلی ہوسکے اسی طور سے تاوان ادا کرنے میں اس کو تسلی دوں گامیرا خدا واحد شاہد ہے کہ میں ہرگز فرق نہیں کروں گا اور اگر سزائے موت بھی ہو تو بدل و جان روا رکھتا ہوں میں دل سے یہ کہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں سچ کہتا ہوں اور اگر کسی کو شک ہو اور میری اس تجویز پر اعتبار نہ ہو تو وہ آپ ہی کوئی احسن تجویز تاوان کی پیش کرے میں اس کو قبول کرلوں گا میں ہرگز عذر نہیں کروں گااگر میں جھوٹا ہوں تو بہتر ہے کہ کسی سخت سزا سے ہلاک ہو جاؤں اور اگر
میں سچا ہوں تو چاہتا ہوں کہ کوئی ہلاک شدہ میرے ہاتھ سے بچ جائے اے حضرات پادری صاحبان جو اپنی قوم میں معزز اور ممتاز ہو آپ لوگوں کو اللہ جلّ شانہُ کی قسم ہے جو اس طرف متوجہ ہوجاؤ اگر آپ لوگوں کے دلوں میں ایک ذرہ اس صادق انسان کی محبت ہے جس کا نام عیسیٰ مسیح ہے تو میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ ضرور میرے مقابلہ کیلئے کھڑے ہوجاؤ آپ کو اس خدا کی قسم ہے جس نے مسیح کو مریم صدیقہ کے پیٹ سے پیدا کیا جس نے انجیل نازل کی جس نے مسیح کو وفات دے کر پھر مردوں میں نہیں رکھا بلکہ اپنی زندہ جماعت ابراہیم اور موسٰی اور یحیٰی اور دوسرے نبیوں کے ساتھ شامل کیا اور زندہ کر کے انہیں کے پاس آسمان پر بلا لیا جو پہلے اس سے زندہ کئے گئے تھے کہ آپ لوگ میری مقابلہ کیلئے ضرور کھڑے ہوجائیں اگر حق تمہارے ہی ساتھ ہے اور سچ مچ مسیح خدا ہی ہے تو پھر تمہاری فتح ہے اور اگر وہ خدا نہیں ہے اور ایک عاجز اور ناتوان انسان ہے اور حق اسلام میں ہے تو خدا تعالیٰ میری سنے گا اور میرے ہاتھ پر وہ امر ظاہر کردے گا جس پر آپ لوگ قادر نہیں ہوسکیں گے اور اگر آپ لوگ یہ کہیں کہ ہم مقابلہ نہیں کرتے اور نہ ایمانداروں کی نشانیاں ہم میں موجود ہیں تو آؤ اسلام لانے کی شرط پر یکطرفہ خدا تعالیٰ کے کام دیکھو اور چاہیئے کہ تم میں سے جو نامی اور پیشرو اور اپنی قوم میں معزز شمار کئے جاتے ہیں وہ سب یا ان میں سے کوئی ایک میرے مقابل پر آوے اور اگر مقابلہ سے عاجز ہو تو صرف اپنی طرف سے یہ وعدہ کر کے کہ میں کوئی ایسا کام دیکھ کر جو انسان سے نہیں ہوسکتا ایمان لے آؤں گا اور اسلام قبول کرلوں گا مجھ سے کسی نشان کے دیکھنے کی درخواست کریں اور چاہیئے کہ اپنے وعدہ کو بہ ثبت شہادت بارہ کس عیسائی و مسلمان و ہندو یعنے چار عیسائی
اور چار مسلمان اور چار ہندو مؤکد بہ قسم کر کے بطور اشتہار کے چھپوا دیں اور ایک اشتہار مجھ کو بھی بھیج دیں اور اگر خدا تعالیٰ کوئی اعجوبہ قدرت ظاہر کرے جو انسانی طاقتوں سے بالاتر ہو تو بلا توقف اسلام کو قبول کر لیویں.اور اگر قبول نہ کریں تو پھر دوسرا نشان یہ ہے کہ میں اپنے خدا تعالیٰ سے چاہوں گا کہ ایک سال تک ایسے شخص پر کوئی سخت و بال نازل کرے جیسے جذام یا نابینائی یا موت اور اگر یہ دعا منظور نہ ہو تو پھر بھی میں ہریک تاوان کا جو تجویز کی جائے سزاوار ہوں گا یہی شرط حضرات آریہ صاحبوں کی خدمت میں بھی ہے اگر وہ اپنے وید کو خدا تعالیٰ کا کلام سمجھتے ہیں اور ہماری پاک کتاب کلام اللہ کو انسان کا افترا خیال کرتے ہیں تو وہ مقابل پر آویں اور یاد رکھیں کہ وہ مقابلہ کے وقت نہایت رسوا ہوں گے ان میں دہریت اور بے قیدی کی چالاکی سب سے زیادہ ہے.مگر خدا تعالیٰ ان پر ثابت کردے گا کہ میں ہوں اور اگر مقابلہ نہ کریں تو یکطرفہ نشان بغیر کسی بے ہودہ شرط کے مجھ سے دیکھیں اور میرے نشان کے منجانب اللہ ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ اگر ایسا آریہ جس نے کوئی نشان دیکھا ہو بلا توقف مسلمان نہ ہوجائے تو میں اس پر بددعا کروں گا پس اگر وہ ایک سال تک جذام یا نابینائی یا موت کی بلا میں مبتلا نہ ہو تو ہریک سزا اٹھانے کیلئے میں طیار ہوں اور باقی صاحبوں کیلئے بھی یہی شرائط ہیں اور اگر اب بھی میری طرف منہ نہ کریں تو ان پر خدا تعالیٰ کی حجت پوری ہوچکی.المشتھر خاکسار غلام احمد قادیان ضلع گورداسپورہ
مبار ک وہ لوگ جو صادق ہیں کیونکہ انجام کار فتح انہیں کی ہے پرچہ نور افشاں دہم مئی ۱۸۸۸ ء کے دیکھنے والوں کو معلوم ہوگا کہ اس پرچہ کے ایڈیٹر نے اس عاجز کا ایک خط جو ایک پیشگوئی پر مشتمل ہے اپنے اس پرچہ میں درج کر کے کس قدر بدزبانی کے ساتھ زبان کھولی تھی اور کیا کیا بے جا اور خلاف تہذیب اور گندے لفظ اس عاجز کے حق میں بولے تھے یوں تو ان پادری صاحبوں پر کچھ بھی افسوس نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ صداقت سے دشمنی کرنا اور انکار اور توہین سے پیش آنا ان کا قدیمی شیوہ ہے لیکن اس وقت ہمیں یہ دکھلانا منظور ہے کہ جس الہامی پیشگوئی کو انہوں نے نفسانی منصوبہ اور انسانی افترا قرار دے کر اپنی عادت کے موافق زبان درازی کی تھی اس کا انجام کیا نکلا کیا انجام کار وہ انسانی افترا ہی ثابت ہوا یا خدا تعالیٰ نے جو سچ کا حامی ہے اس کی صداقت کھول دی.سو واضح ہو کہ اس عاجز کا وہ خط جو دہم مئی ۱۸۸۸ ء کو پرچہ نور افشاں میں چھپا ہے اس کی عبارت جو پیشگوئی کے متعلق ہے اخبار مذکور کے صفحہ ۲،۳ میں مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کی نسبت یہ ہے.خدا تعالیٰ نے اپنے الہام پاک سے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ اگر آپ اپنی دختر کلاں کا رشتہ میرے ساتھ منظور کریں تو وہ تمام نحوستیں آپ کی اس رشتہ سے دور کردے گا اور آپ کو آفات سے محفوظ رکھ کر برکت پر برکت دے گا.
اور اگر یہ رشتہ وقوع میں نہ آیا تو آپ کیلئے دوسری جگہ رشتہ کرنا ہرگز مبارک نہ ہوگا اور اس کا انجام درد اور تکلیف اور موت ہوگی.یہ دونوں طرف برکت اور موت کی ایسی ہیں جن کو آزمانے کے بعد میرا صدق اور کذب معلوم ہوسکتا ہے.(اب جس طرح چاہو آزما لو) میری برادری کے لوگ مجھ سے ناواقف ہیں اور خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ میرے کاموں کو ان پر بھی ظاہر کرے.یہ وہ خط ہے جو نور افشاں ۱۰ ؍مئی ۱۸۸۸ ء میں شائع ہوچکا ہے جس کا ماحصل یہی ہے کہ اگر دوسری جگہ نکاح ہوا تو پھر اس کا نتیجہ تمہارے لئے موت ہوگا نہیں تو بجائے موت کے برکت ہوگی.اب میں ظاہر کرتا ہوں کہ ۷؍ اپریل ۱۸۹۲ ء کو اس لڑکی کا دوسری جگہ نکاح ہوگیا اور۳۰؍ ستمبر ۱۸۹۲ء کو یہ پیشگوئی پوری ہوئی یعنے خدائے تعالیٰ نے مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کو اس جہان فانی سے اٹھا لیا.اب ایڈیٹر نور افشاں کو ذرا صبر کر کے غور کرنی چاہیئے کہ پیشگوئی کا پورا ہوجانا بموجب ہدایت توریت*کے صادق کی نشانی ہے یا کاذب کی.طالب حق کیلئے تو اسی قدر خدا تعالیٰ کا نشان کافی ہے.اور باطل پرست کو کوئی نشان فائدہ نہیں دے سکتا جب تک وہ آخری نشان ظاہر نہ ہو جس کا نام جہنم ہے.ہریک طالب حق کو چاہیئے کہ دہم مئی ۱۸۸۸ ء کے پرچہ نور افشاں کو دیکھ کر اس پیشگوئی کے ساتھ پادریوں کو ملزم کرے.اب ہم یہ مناسب سمجھ کر اشتہار ۱۰ ؍جولائی ۱۸۸۸ ء اس کے ساتھ شامل کردیتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ ہمارے بدظن بھائی بھی اس طرف توجہ کریں کہ یہ امور انسان کی طرف سے ہیں یا ربِّ آسمان کی طرف سے.اس وقت ابھی موقع ہے کہ ضد سے * استثنا ۱۸.
باز آجائیں جو شخص صادق سے لڑتا ہے وہ اس سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سے لڑتا ہے.والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ یا معین برحمتک نستعین ایک پیشگوئی پیش از وقوع کا اشتہار پیشگوئی کا جب انجام ہویدا ہوگا قدرتِ حق کا عجب ایک تماشا ہوگا جھوٹ اور سچ میں جو ہے فرق وہ پیدا ہوگا کوئی پا جائے گا عزت کوئی رسوا ہوگا اخبار نور افشاں ۱۰؍ مئی ۱۸۸۸ ء میں جو اس راقم کا ایک خط متضمن درخواست نکاح چھاپا گیا ہے.اس خط کو صاحب اخبار نے اپنے پرچہ میں درج کر کے عجیب طرح کی زبان درازی کی ہے اور ایک صفحہ اخبار کا سخت گوئی اور دشنام دہی میں ہی سیاہ کیا ہے.یہ کیسی بے انصافی ہے کہ جن لوگوں کے مقدس اور پاک نبیوں نے سینکڑوں بیویاں ایک ہی وقت میں رکھی ہیں وہ دو یا تین بیویاں کا جمع کرنا ایک کبیرہ گناہ سمجھتے ہیں بلکہ اس فعل کو زنا حرا مکاری خیال کرتے ہیں.کسی خاندان کا سلسلہ صرف ایک ایک بیوی سے ہمیشہ کیلئے جاری نہیں رہ سکتا بلکہ کسی نہ کسی فرد سلسلہ میں یہ دقت آ پڑتی ہے کہ ایک جورو عقیمہ اور ناقابل اولاد نکلتی ہے.اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ دراصل بنی آدم کی نسل ازدواج مکرر سے ہی قائم و دائم چلی آتی ہے.اگر ایک سے زیادہ بیوی کرنا منع ہوتا تو اب تک نوع انسان قریب قریب خاتمہ کے پہنچ جاتی.تحقیق سے ظاہر ہوگا کہ اس مبارک اور مفید طریق نے انسان کی کہاں تک حفاظت کی ہے اور کیسے اس نے اجڑے ہوئے گھروں کو بیک دفعہ آباد کردیا ہے اور انسان کے تقویٰ کیلئے یہ فعل کیسا زبردست
ممدو معین ہے.خاوندوں کی حاجت براری کے بارے میں جو عورتوں کی فطرت میں ایک نقصان پایا جاتا ہے جیسے ایام حمل اور حیض نفاس میں یہ طریق بابرکت اس نقصان کا تدارک تام کرتا ہے اور جس حق کا مطالبہ مرد اپنی فطرت کی رو سے کرسکتا ہے وہ اسے بخشتا ہے.ایسا ہی مرد اور کئی وجوہات اور موجبات سے ایک سے زیادہ بیوی کرنے کیلئے مجبور ہوتا ہے مثلاً اگر مرد کی ایک بیوی تغیر عمر یا کسی بیماری کی وجہ سے بدشکل ہوجائے تو مرد کی قوت فاعلی جس پر سارا مدار عورت کی کارروائی کا ہے بے کار اور معطل ہوجاتی ہے.لیکن اگر مرد بدشکل ہو تو عورت کا کچھ بھی حرج نہیں کیونکہ کارروائی کیَ کل مرد کو دے گئی ہے اور عورت کی تسکین کرنا مرد کے ہاتھ میں ہے.ہاں اگر مرد اپنی قوت مردی میں قصور یا عجز رکھتا ہے تو قرآنی حکم کے رو سے عورت اس سے طلاق لے سکتی ہے.اور اگر پوری پوری تسلی کرنے پر قادر ہو تو عورت یہ عذر نہیں کرسکتی کہ دوسری بیوی کیوں کی ہے.کیونکہ مرد کی ہر روزہ حاجتوں کی عورت ذمہ دار اور کار برار نہیں ہوسکتی اور اس سے مرد کا استحقاق دوسری بیوی کرنے کیلئے قائم رہتا ہے.جو لوگ قوی الطاقت اور متقی اور پارسا طبع ہیں ان کیلئے یہ طریق نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے بعض اسلام کے مخالف نفس امارہ کی پیروی سے سب کچھ کرتے ہیں مگر اس پاک طریق سے سخت نفرت رکھتے ہیں کیونکہ بوجہ اندرونی بے قیدی کے جو ان میں پھیل رہی ہے ان کو اس پاک طریق کی کچھ پروا اور حاجت نہیں.اس مقام میں عیسائیوں پر سب سے بڑھ کر افسوس ہے کیونکہ وہ اپنے مسلّم النبوّت انبیاء کے حالات سے آنکھ بند کر کے مسلمانوں پر ناحق دانت پیسے جاتے ہیں.شرم کی بات ہے کہ جن لوگوں کا اقرار ہے کہ حضرت مسیح کے جسم اور وجود کا خمیر اور اصل جڑھ اپنی ماں کی جہت سے وہی کثرت ازدواج ہے جس کی حضرت داؤد (مسیح کے باپ) نے نہ دو نہ تین بلکہ سو بیوی تک نوبت پہنچائی تھی وہ بھی ایک سے زیادہ بیوی کرنا زنا کرنے کی مانند سمجھتے ہیں اس پُر خبث کلمہ کا نتیجہ جو حضرت مریم
صد یقہ کی طرف عائد ہوتا ہے اس سے ذرا پرہیز نہیں کرتے اور باوجود اس تمام بے ادبی کے دعویٰ محبت مسیح رکھتے ہیں.جاننا چاہیئے کہ بَیْبل کے رو سے تعدد نکاح نہ صرف قولاً ثابت ہے بلکہ بنی اسرائیل کے اکثر نبیوں نے جن میں حضرت مسیح کے دادا صاحب بھی شامل ہیں عملاً اس فعل کے جواز بلکہ استحباب پر مہر لگادی ہے.اے ناخدا ترس عیسائیو؟ اگر ملہم کیلئے ایک ہی جورو ہونا ضروری ہے تو پھر کیا تم داؤد جیسے راست باز نبی کو نبی اللہ نہیں مانو گے یا سلیمان جیسے مقبول الٰہی کو ملہم ہونے سے خارج کردو گے.کیا بقول تمہارے یہ دائمی فعل ان انبیاء کا جنکے دلوں پر گویا ہر دم الہام الٰہی کی تار لگی ہوئی تھی اور ہر آن خوشنودی یا ناخوشنودی کی تفصیل کے بارے میں احکام وارد ہورہے تھے ایک دائمی گناہ نہیں ہے جس سے وہ اخیر عمر تک باز نہ آئے اور خدا اور اسکے حکموں کی کچھ پروانہ کی.وہ غیرت مند اور نہایت درجہ کا غیّور خدا جس نے نافرمانی کی وجہ سے ثمود اور عاد کو ہلاک کیا.لوط کی قوم پر پتھر برسائے.فرعون کو معہ تمام شریر جماعت کے ہولناک طوفان میں غرق کردیا.کیا اس کی شان اور غیرت کے لائق ہے کہ اس نے ابراہیم اور یعقوب اور موسیٰ اورداؤد ؑ اور سلیمان ؑ اور دوسرے کئی انبیاء کو بہت سی بیویوں کے کرنے کی وجہ سے تمام عمر نافرمان پاکر اور پکے سرکش دیکھ کر پھر ان پر عذاب نازل نہ کیا بلکہ انہیں سے زیادہ تر دوستی اور محبت کی.کیا آپکے خدا کو الہام اتارنے کیلئے کوئی اور آدمی نہیں ملتا تھا.یا بہت سے جورواں کرنے والے ہی اس کو پسند آگئے؟*یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ نبیوں اور تمام برگزیدوں نے بہت سی جورواں کرکے اور پھر روحانی طاقتوں اور قبولیّتوں میں سب سے سبقت لے جا کر تمام دنیا پر یہ ثابت کردیا ہے کہ دوست الٰہی بننے کیلئے یہ راہ نہیں کہ * انجیل کے بعض اشارات سے پایا جاتا ہے کہ حضرت مسیح بھی جورو کرنے کی فکر میں تھے مگر تھوڑی سی عمر میں اٹھائے گئے ورنہ یقین تھا کہ اپنے باپ داؤد کے نقشِ قدم پر چلتے.منہ
انسا ن دنیا میں مخنثوں اور نامردوں کی طرح رہے بلکہ ایمان میں قوی الطاقت وہ ہے جو بیویوں اور بچوں کا سب سے بڑھ کر بوجھ اٹھا کر پھر باوجود ان سب تعلقات کے بے تعلق ہو.خدا تعالیٰ کا بندہ سے محب اور محبوب ہونے کا جوڑ ہونا ایک تیسری چیز کے وجود کو چاہتا ہے وہ کیا ہے؟ ایمانی روح جو مومن میں پیدا ہوکر نئے حواس اس کو بخشتی ہے اسی روح کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کا کلام مومن سنتا ہے اور اسی کے ذریعہ سے سچی اور دائمی پاکیزگی حاصل کرتا ہے اور اسی کے ذریعہ سے نئی زندگی کی خارق عادت طاقتیں اس میں پیدا ہوتی ہیں.اب ہم پوچھتے ہیں کہ جو لوگ جوگی اور راہب اور سنیاسی کہلاتے ہیں یہ پاک روح ان میں سے کس کو دی گئی ہے.کیا کسی پادری میں یہ پاک روح یا یوں کہو کہ روح القدس پائی جاتی ہے.ہم تمام دنیا کے پادریوں کو بلاتے بلاتے تھک بھی گئے کسی نے آواز تک نہیں دی.نور افشاں میں بعض پادریوں نے چھپوایا تھا کہ ہم ایک جلسہ میں ایک لفافہ بند پیش کریں گے اس کا مضمون الہام کے ذریعہ سے ہمیں بتلایا جائے لیکن جب ہماری طرف سے مسلمان ہونے کی شرط سے یہ درخواست منظور ہوئی تو پھر پادریوں نے اس طرف رخ بھی نہ کیا.پادری لوگ مدت سے الہام پر مہر لگا بیٹھے تھے.اب جب مہر ٹوٹی اور فیض روح القدس مسلمانوں پر ثابت ہوا تو پادریوں کے اعتقاد کی قلعی کھل گئی.لہٰذا ضرور تھا کہ پادریوں کو ہمارے الہام سے دوہرا رنج ہوتا.ایک مہر ٹوٹنے کا دوسرے الہام کی نقل مکانی کا.سو نور افشاں کی سخت زبانی کا اصل موجب وہی رنج ہے جو ذبولی دق کی طرح لاعلاج ہے.اب یہ جاننا چاہیئے کہ جس خط کو ۱۰ ؍مئی ۱۸۸۸ ء کے نور افشاں میں فریق مخالف نے چھپوایا ہے.وہ خط محض ربانی اشارہ سے لکھا گیا تھا.ایک مدت دراز سے بعض سرگروہ اور قریبی رشتہ دار مکتوب الیہ کے جن کے حقیقی ہمشیرہ زادہ کی نسبت درخواست کی گئی تھی.نشان
آسما نی کے طالب تھے اور طریقہ اسلام سے انحراف اور عناد رکھتے تھے اور اب بھی رکھتے ہیں.چنانچہ اگست ۱۸۸۵ ء میں جو چشمہ نور امرتسر میں ان کی طرف سے اشتہار چھپا تھا.یہ درخواست ان کی اس اشتہار میں بھی مندرج ہے ان کو نہ محض مجھ سے بلکہ خدا اور رسول سے بھی دشمنی ہے.اور والد اس دختر کا بباعث شدت تعلق قرابت ان لوگوں کی رضا جوئی میں محو اور ان کے نقش قدم پر دل و جان سے فدا اور اپنے اختیارات سے قاصر و عاجز بلکہ انہیں کا فرمانبردار ہورہا ہے اور اپنی لڑکیاں انہیں کی لڑکیاں خیال کرتا ہے اور وہ بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں اور ہر باب میں اس کے مدار المہام اور بطور نفس ناطقہ کے اس کے لئے ہو رہے ہیں تبھی تو نقارہ بجا کر اس کی لڑکی کے بارہ میں آپ ہی شہرت دے دی یہاں تک کہ عیسائیوں کے اخباروں کو اس قصہ سے بھر دیا.آفرین برین عقل و دانش.ماموں ہونے کا خوب ہی حق ادا کیا.ماموں ہوں تو ایسے ہی ہوں.غرض یہ لوگ جو مجھ کو میرے دعویٰ الہام میں مکار اور دروغ گو خیال کرتے تھے اور اسلام اور قرآن شریف پر طرح طرح کے اعتراض کرتے تھے اور مجھ سے کوئی نشان آسمانی مانگتے تھے تو اس وجہ سے کئی دفعہ ان کیلئے دعا بھی کی گئی تھی.سو وہ دعا قبول ہو کر خدا تعالیٰ نے یہ تقریب قائم کی کہ والد اس دختر کا ایک اپنے ضروری کام کیلئے ہماری طرف ملتجی ہوا.تفصیل اس کی یہ ہے کہ نام بردہ کی ایک ہمشیرہ ہمارے ایک چچا زاد بھائی غلام حسین نام کو بیاہی گئی تھی.غلام حسین عرصہ پچیس سال سے کہیں چلا گیا ہے اور مفقود الخبر ہے.اس کی زمین ملکیت جس کا ہمیں حق پہنچتا ہے نامبردہ کی ہمشیرہ کے نام کاغذات سرکاری میں درج کرادی گئی تھی.اب حال کے بندوبست میں جو ضلع گورداسپورہ میں جاری ہے نامبردہ یعنی ہمارے خط کے مکتوب الیہ نے اپنی ہمشیرہ کی اجازت سے یہ چاہا کہ وہ زمین جو چار ہزار یا پانچ ہزار روپیہ کی قیمت کی ہے اپنے بیٹے محمدؐ بیگ کے نام بطور ھبہ منتقل کرا دیں چنانچہ ان کی ہمشیرہ کی طرف
سے یہ ھبہ نامہ لکھا گیا.چونکہ وہ ہبہ نامہ بجز ہماری رضا مندی کے بیکار تھا اس لئے مکتوب الیہ نے بتمامتر عجزو انکسار ہماری طرف رجوع کیا.تاہم اس ہبہ پر راضی ہو کر اس ہبہ نامہ پر دستخط کردیں اور قریب تھا کہ دستخط کردیتے لیکن یہ خیال آیا کہ جیسا کہ ایک مدت سے بڑے بڑے کاموں میں ہماری عادت ہے جناب الٰہی میں استخارہ کر لینا چاہیئے- سو یہی جواب مکتوب الیہ کو دیا گیا.پھر مکتوب الیہ کے متواتر اصرار سے استخارہ کیا گیا وہ استخارہ کیا تھا گویا آسمانی نشان کی درخواست کا وقت آ پہنچا تھا جس کو خدا تعالیٰ نے اس پیرایہ میں ظاہر کردیا.اس خدائے قادر حکیم مطلق نے مجھے فرمایا کہ اس شخص کی دختر کلاں کے نکاح کیلئے سلسلہ جنبانی کر اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک اور مروت تم سے اسی شرط سے کیا جائے گا اور یہ نکاح تمہارے لئے موجب برکت اور ایک رحمت کا نشان ہوگا اور ان تمام برکتوں اور رحمتوں سے حصہ پاؤ گے جو اشتہار ۲۰؍ فروری ۱۸۸۸ ء میں درج ہیں لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی برا ہوگا اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ روز نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہوجائے گا.*228 اور ان کے گھر پر تفرقہ اور تنگی اور مصیبت پڑے گی اور درمیانی زمانہ میں بھی اس دختر کیلئے کئی کراہت اور غم کے امر پیش آئیں گے.پھر ان دنوں میں جو زیادہ تصریح اور تفصیل کیلئے بار بار توجہ کی گئی تو معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ نے یہ مقرر کررکھا ہے کہ وہ مکتوب الیہ کی دختر کلاں کو جس کی نسبت درخواست کی گئی تھی ہر ایک روک دور کرنے کے بعد انجام کار اسی عاجز کے نکاح میں لاوے گا.اور بے دینوں کو مسلمان بناوے گا اور گمراہوں میں ہدایت پھیلا دے گا.چنانچہ عربی الہام اس بارے میں یہ ہے.کذّبوا باٰیاتنا و کانوا بھا یستھزء ون فسیکفیکہم اللّٰہ و یردّ ھا الیک لا تبدیل لکلمات اللّٰہ * تین سال تک فوت ہونا روزِ نکاح کے حساب سے ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ کوئی واقعہ اورحادثہ اس سے پہلے نہ آوے بلکہ بعض مکاشفات کے رو سے مکتوب الیہ کا زمانہ حوادث جن کا انجام معلوم نہیں نزدیک پایا جاتا ہے.واللہ اعلم.منہ 228 والد اس عورت کا نکاح سے چوتھے مہینے مطابق پیشگوئی فوت ہو گیا یعنے نکاح۷؍ اپریل ۱۸۹۲ ء کو ہوا.اور وہ ۳۰ ؍ستمبر ۱۸۹۲ ء کو بمقام ہوشیار پورر گذرگیا.منہ
انّ ربک فعال لما یرید.انت معی و انا معک.عسٰی ان یبعثک ربک مقامًا محمودًا یعنی انہوں نے ہمارے نشانوں کو جھٹلایا اور وہ پہلے سے ہنسی کررہے تھے.سو خدا تعالیٰ ان سب کے تدارک کیلئے جو اس کام کو روک رہے ہیں تمہارا مددگار ہوگا اور انجام کار اس کی اس لڑکی کو تمہاری طرف واپس لائے گا.کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے.تیرا رب وہ قادر ہے کہ جو کچھ چاہے وہی ہوجاتا ہے.تو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں اور عنقریب وہ مقام تجھے ملے گا جس میں تیری تعریف کی جائے گی یعنی گو اول میں احمق اور نادان لوگ بدباطنی اور بدظنی کی راہ سے بدگوئی کرتے ہیں اور نالائق باتیں منہ پر لاتے ہیں لیکن آخر خدا تعالیٰ کی مدد کو دیکھ کر شرمندہ ہوں گے اور سچائی کے کھلنے سے چاروں طرف سے تعریف ہوگی.اس جگہ ایک اور اعتراض نور افشاں کا رفع دفع کرنے کے لائق ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر یہ الہام خدا تعالیٰ کی طرف سے تھا اور اس پر اعتماد کلی تھا تو پھر پوشیدہ کیوں رکھا اور کیوں اپنے خط میں پوشیدہ رکھنے کیلئے تاکید کی* اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک خانگی معاملہ تھا اور جن کیلئے یہ نشان تھا ان کو تو پہنچا دیا گیا تھا اور یقین تھا کہ والد اس دختر کا ایسی اشاعت سے رنجیدہ ہوگا.اس لئے ہم نے دل شکنی اور رنج دہی سے گریز کی بلکہ یہ بھی نہ چاہا کہ در حالت رد و انکار وہ بھی اس امر کو شائع کریں.اور گو ہم شائع کرنے کیلئے مامور تھے مگر ہم نے مصلحتاً دوسرے وقت کی انتظار کی.یہاں تک کہ اس لڑکی کے ماموں مرزا نظام الدین نے جو مرزا امام الدین کا حقیقی بھائی ہے شدت غیض و غضب میں آکر اس مضمون کو آپ ہی یہ الہام جو شرطی طور پر مکتوب الیہ کی موت فوت پر دلالت کرتا تھا ہم کو بالطبع اس کی اشاعت سے کراہت تھی بلکہ ہمارا دل یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ اس سے مکتوب الیہ کو مطلع کریں مگر اس کے کمال اصرار سے جو اس نے زبانی اور کئی انکساری خطوں کے بھیجنے سے ظاہر کیا.ہم نے سراسر سچی خیر خواہی اور نیک نیتی سے اس پر یہ امر سربستہ ظاہر کر دیا پھراس نے اور اس کے عزیز مرزا نظام الدین نے اس الہام کے مضمون کی آپ شہرت دی.منہ
شا ئع کردیا اور شائع بھی ایسا کیا کہ شاید ایک یا دو ہفتہ تک دس ہزار مرد و عورت تک ہماری درخواست نکاح اور ہمارے مضمون الہام سے بخوبی اطلاع یاب ہوگئے ہوں گے.اور پھر زبانی اشاعت پر اکتفا نہ کر کے اخباروں میں ہمارا خط چھپوایا اور بازاروں میں ان کے دکھلانے سے وہ خط جا بجا پڑھا گیا اور عورتوں اور بچوں تک اس خط کے مضمون کی منادی کی گئی.اب جب مرزا نظام الدین کی کوشش سے وہ خط ہمارا نور افشاں میں بھی چھپ گیا.اور عیسائیوں نے اپنے مادہ کے موافق بے جا افترا کرنا شروع کیا تو ہم پر فرض ہوگیا کہ اپنے قلم سے اصلیت کو ظاہر کریں.بد خیال لوگوں کو واضح ہو کہ ہمارا صدق یا کذب جانچنے کیلئے ہماری پیشگوئی سے بڑھ کر اور کوئی محک امتحان نہیں ہوسکتا اور نیز یہ پیشگوئی ایسی بھی نہیں کہ جو پہلے پہل اسی وقت میں ہم نے ظاہر کی ہے بلکہ مرزا امام الدین و نظام الدین اور اس جگہ کے تمام آریہ اور نیز لیکھرام پشاوری اور صدہا دوسرے لوگ خوب جانتے ہیں کہ کئی سال ہوئے کہ ہم نے اسی کے متعلق مجملاً ایک پیشگوئی کی تھی یعنی یہ کہ ہماری برادری میں سے ایک شخص احمد بیگ نام فوت ہونے والا ہے.اب منصف آدمی سمجھ سکتا ہے کہ وہ اس پیشگوئی کا ایک شعبہ تھی یا یوں کہو کہ یہ تفصیل اور وہ اجمال تھی اور اس میں تاریخ اور مدت ظاہر کی گئی اور اس میں تاریخ اور مدت کا کچھ ذکر نہ تھا اور اس میں شرائط کی تصریح کی گئی اور وہ ابھی اجمالی حالت میں تھی- سمجھ دار آدمی کیلئے یہ کافی ہے کہ پہلی پیشگوئی اس زمانہ کی ہے کہ جب کہ ہنوز وہ لڑکی نابالغ تھی اور جب کہ یہ پیشگوئی بھی اسی شخص کی نسبت ہے جس کی نسبت اب سے پانچ برس پہلے کی گئی تھی یعنی اس زمانہ میں جب کہ اس کی یہ لڑکی آٹھ یا نو برس کی تھی تو اس پر نفسانی افترا کا گمان کرنا اگر حماقت نہیں تو اور کیا ہے ؟ والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ (خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپورہ پنجاب) ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸
خط بخدمت شیخ محمد حسین صاحب بٹالوی بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی بخدمت شیخ محمد حسین صاحب ابو سعید بٹالوی الحمد للّٰہ والسلام علی عبادہ الذین اصطفٰی امّابعد میں افسوس سے لکھتا ہوں کہ میں آپ کے فتویٰ تکفیر کی وجہ سے جس کا یقینی نتیجہ احد الفریقین کا کافر ہونا ہے اس خط میں سلام مسنون یعنی السلام علیکم سے ابتدا نہیں کرسکا لیکن چونکہ آپ کی نسبت ایک منذر الہام مجھ کو ہوا اور چند مسلمان بھائیوں نے بھی مجھ کو آپ کی نسبت ایسی خوابیں سنائیں جن کی و جہ سے میں آپ کے خطرناک انجام سے بہت ڈر گیا تب بوجہ آپ کے ان حقوق کے جو بنی نوع کو اپنے نوع انسان سے ہوتے ہیں.اور نیز بو جہ آپ کی ہم وطنی اور قرب و جوار کے میرا رحم آپ کی اس حالت پر بہت جنبش میں آیا اور میں اللہ جلّ شانہٗ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے آپ کی حالت پر نہایت رحم ہے اور ڈرتا ہوں کہ آپ کو وہ امور پیش نہ آجائیں جو ہمیشہ صادقوں کے مکذبوں کو پیش آتے رہے ہیں اسی وجہ سے میں آج رات کو سوچتا سوچتا ایک گرداب تفکر میں پڑ گیا کہ آپ کی ہمدردی کیلئے کیا کروں.آخر مجھے دل کے فتویٰ نے یہی صلاح دی کہ پھر دعوت الی الحق کیلئے ایک خط آپ کی خدمت میں لکھوں کیا تعجب کہ اسی تقریب سے خدا تعالیٰ آپ پر فضل کردیوے اور اس خطرناک حالت سے نجات بخشے سو عزیز من آپ خدا تعالیٰ کی رحمت سے نومید نہ ہوں وہ بڑا قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے.اگر آپ طالب حق بن کر میری سوانح زندگی پر نظر ڈالیں تو آپ پر
قطعی ثبوتوں سے یہ بات کھل سکتی ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیشہ کذب کی ناپاکی سے مجھ کو محفوظ رکھتا رہا ہے یہاں تک کہ بعض وقت انگریزی عدالتوں میں میری جان اور عزت ایسے خطرہ میں پڑ گئی کہ بجز استعمال کذب اور کوئی صلاح کسی وکیل نے مجھ کو نہ دی لیکن اللہ جلّ شانہٗکی توفیق سے میں سچ کیلئے اپنی جان اور عزت سے دست بردار ہوگیا.اور بسا اوقات مالی مقدمات میں محض سچ کیلئے میں نے بڑے بڑے نقصان اٹھائے اور بسا اوقات محض خدا تعالیٰ کے خوف سے اپنے والد اور اپنے بھائی کے برخلاف گواہی دی اور سچ کو ہاتھ سے نہ چھوڑا.اس گاؤں میں اور نیز بٹالہ میں بھی میری ایک عمر گذر گئی ہے مگر کون ثابت کرسکتا ہے کہ کبھی میرے منہ سے جھوٹ نکلا ہے پھر جب میں نے محض ِ للہ انسانوں پر جھوٹ بولنا ابتدا سے متروک رکھا اور بارہا اپنی جان اور مال کو صدق پر قربان کیا تو پھر میں خدا تعالیٰ پر کیوں جھوٹ بولتا.اور اگر آپ کو یہ خیال گذرے کہ یہ دعویٰ کتاب اللہ اور سنت کے برخلاف ہے تو اس کے جواب میں بادب عرض کرتا ہوں کہ یہ خیال محض کم فہمی کی وجہ سے آپ کے دل میں ہے.اگر آپ مولویانہ جنگ و جدال کو ترک کرکے چند روز طالب حق بن کر میرے پاس رہیں تو میں امید رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کی تمام غلطیاں نکال دے گا اور مطمئن کردے گا.اور اگر آپ کو اس بات کی بھی برداشت نہیں تو آپ جانتے ہیں کہ پھر آخری علاج فیصلہ آسمانی ہے.مجھے اجمالی طور پر آپ کی نسبت کچھ معلوم ہوا ہے اگر آپ چاہیں تو میں چند روز توجہ کر کے اور تفصیل پر بفضلہ تعالیٰ اطلاع پاکر چند اخباروں میں شائع کردوں.اس شائع کرنے کیلئے آپ کی خاص تحریر سے مجھ کو اجازت ہونی چاہیئے.میں اس خط کو محض آپ پر رحم کر کے لکھتا ہوں.اور بہ ثبت شہادت چند کس آپ کی خدمت میں روانہ
کرتا ہوں.اور آخر دعا پر ختم کرتا ہوں.ربّنا افتح بیننا و بین قومنا بالحق و انت خیرالفاتحین.آمین الراقم خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپورہ ۳۱ ؍دسمبر ۱۸۹۲ ء گواہانِ حاشیہ (۱) خدا بخش اتالیق نواب صاحب (۲) عبدالکریم سیالکوٹی (۳) قاضی ضیاء الدین ساکن کوٹ قاضی ضلع گوجرانوالہ (۴) مولوی نور الدین (۵) محمد احسن امروہی (۶) شادیخان ملازم سر راجہ امر سنگھ صاحب بہادر (۷) ظفر احمد کپورتھلی (۸) عبد اللہ سنوری (۹) عبدالعزیز دہلوی (۰) علی گوہر خان جالندھری (۱) فضل الدین حکیم بھیروی (۱۲) حافظ محمد صاحب پشاوری (۱۳) حکیم محمد اشرف علی ہاشمی خطیب بٹالہ (۱۴) عبدالرحمن برادر زادہ مولوی نور الدین صاحب (۱۵) محمد اکبر ساکن بٹالہ (۱۶) قطب الدین ساکن بدوملی.اس عاجز کے خط مندرجہ بالا کے جواب میں جو شیخ بٹالوی صاحب کا خط آیا وہ ذیل میں معہ جواب الجواب درج کیا جاتا ہے لیکن چونکہ وہ جواب الجواب جو اس طرف سے بٹالوی صاحب کی خدمت میں روانہ کیا گیا ہے اس میں ان کی اُن تمام ہذیانات و بہتانات کا جواب نہیں ہے جو ان کے خط میں درج ہیں اور ممکن ہے کہ ان کا خط پڑھنے والے ان افتراؤں سے بے خبر ہوں جو اس خط میں دھوکہ دینے کی غرض سے درج ہیں اس لئے ہم نے مناسب سمجھا کہ اس خط کی تحریر سے پہلے شیخ صاحب کے بعض افتراؤں اور لافوں اور بہتانوں کا جواب دیں سو بطور قولہ‘ و اقول ذیل میں جواب درج کیا جاتا ہے.* قولہ.میں قرآن اور پہلی کتابوں کو اور دین اسلام اور پہلے دینوں کو اور نبی آخر الزمان اور پہلے نبیوں کو سچا جانتا اور مانتا ہوں اور اس کا لازمہ اور شرط ہے * جو خط بٹالوی صاحب کی خدمت میں روانہ کیاگیا تھا اس میں بخوف طول کلام اُن کی بیہودہ باتوں سے اعراض کیا گیا تھا.اب جووہ خود اس خط کو شائع کرنے کیلئے مستعد ہوگئے تو جواب بھی شائع کرنا پڑا.منہ
کہ آپ کو جھوٹا جانوں.اقول شیخ صاحب اگر آپ قرآن کو سچا جانتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی صادق مانتے تو مجھ کو کافر نہ ٹھہراتے.کیا قرآن کریم اور حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سچا ماننے کے یہی معنی ہیں کہ جو شخص اللہ اور رسول پر ایمان لاتا ہے اور قبلہ کی طرف نماز پڑھتا ہے اور کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا قائل ہے اور اسلام میں نجات محدود سمجھتا اور بدل و جان اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں فدا ہے اس کو آپ کافر بلکہ اکفر ٹھہراتے ہیں اور دائمی جہنم اس کیلئے تجویز کرتے ہیں.اس پر لعنت بھیجتے ہیں.اس کو دجّال کہتے ہیں اور اس کو قتل کرنا اور اس کے مال کو بطور سرقہ لینا سب جائز قرار دیتے ہیں.رہے وہ کلمات اس عاجز کے جن کو آپ کلمات کفر ٹھہراتے ہیں ان کا جواب اس رسالہ میں موجود ہے.ہریک منصف خود پڑھ لے گا.اور آپ کی علمیت اور آپ کی دیانت اور آپ کا فہم قرآن اور فہم حدیث اس سے بخوبی ظاہر ہوگیا ہے علیحدہ لکھنے کی حاجت نہیں.قولہ.عقائد باطلہ مخالفہ دین اسلام وادیان سابقہ کے علاوہ جھوٹ بولنا اور دھوکا دینا آپ کا ایسا وصف لازم بن گیا ہے کہ گویا وہ آپ کی سرشت کا ایک جزو ہے.اقول شیخ صاحب جو شخص متقی اور حلال زادہ ہو.اوّل تو وہ جرأت کر کے اپنے بھائی پر بے تحقیق کامل کسی فسق اور کفر کا الزام نہیں لگاتا اور اگر لگاوے تو پھر ایسا کامل ثبوت پیش کرتا ہے کہ گویا دیکھنے والوں کیلئے دن چڑھا دیتا ہے.پس اگر آپ ان دونوں صفتوں مذکورہ بالا سے متصف ہیں تو آپ کو اس خدا وند قادر ذوالجلال کی قسم ہے جس کی قسم دینے پر حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی توجہ کے ساتھ جواب دیتے تھے کہ آپ حسب خیال اپنے یہ دونوں قسم کا خبث اس عاجز میں ثابت کر کے دکھلاویں یعنی اول یہ کہ میں مخالف دین اسلام اور
کافر ہوں اور دوسرے یہ کہ میرا شیوہ جھوٹ بولنا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اپنی رویا میں صادق تر وہی ہوتا ہے جو اپنی باتوں میں صادق تر ہوتا ہے.اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صادق کی یہ نشانی ٹھہرائی ہے کہ اس کی خوابوں پر سچ کا غلبہ ہوتا ہے اور ابھی آپ دعویٰ کرچکے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہوں.پس اگر آپ نے یہ بات نفاق سے نہیں کہی اور آپ درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قول میں سچے ہیں تو آؤ ہم اور تم اس طریق سے ایک دوسرے کو آزما لیں کہ بموجب اس محک کے کون صادق ثابت ہوتا ہے اور کس کی سرشت میں جھوٹ ہے.اور ایسا ہی اللہ جلّ شانہٗ قرآن کریم میں فرماتا ہے 3.۱ یعنی یہ مومنوں کا ایک خاصہ ہے کہ بہ نسبت دوسروں کے ان کی خوابیں سچی نکلتی ہیں.اور آپ ابھی دعویٰ کرچکے ہیں کہ میں قرآن پر بھی ایمان لاتا ہوں.بہت خوب آؤ قرآن کریم کے رو سے بھی آزما لیں کہ مومن ہونے کی نشانی کس میں ہے.یہ دونوں آزمائشیں یوں ہوسکتی ہیں کہ بٹالہ یا لاہور یا امرتسر میں ایک مجلس مقرر کر کے فریقین کے شواہد رویا ان میں حاضر ہوجائیں اور پھر جو شخص ہم دونوں میں سے یقینی اور قطعی ثبوتوں کے ذریعہ سے اپنی خوابوں میں اَصْدَق ثابت ہو اس کے مخالف کا نام کذاب اور دجال اور کافر اور اَکْفَر اور ملعون یا جو نام تجویز ہوں اسی وقت اس کو یہ تمغہ پہنایا جائے اور اگر آپ گزشتہ کے ثبوت سے عاجز ہوں تو میں قبول کرتا ہوں بلکہ چھ ماہ تک آپ کو رخصت دیتا ہوں کہ آپ چند اخباروں میں اپنی ایسی خوابیں درج کرا دیں جو امور غیبیہ پر مشتمل ہوں اور میں نہ صرف اسی پر کفایت کروں گا کہ گذشتہ کا آپ کو ثبوت دوں بلکہ آپ کے مقابل پر بھی انشاء اللہ القدیر اپنی خوابیں درج کراؤں گا.اور
جیسا کہ آپ کا دعویٰ ہے کہ میں قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہوں یہی میرا دعویٰ ہے کہ میں بدل و جان اس پیارے نبی پر صلی اللہ علیہ وسلم اور اس پیاری کتاب قرآن کریم پر ایمان رکھتا ہوں.اب اس نشانی سے آزمایا جائے گا کہ اپنے دعویٰ میں سچا کون ہے اور جھوٹا کون ہے اگر میں اس علامت کے رو سے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم نے قرار دی ہے مغلوب رہا تو پھر آپ سچے رہیں گے اور میں بقول آپ کے کافر، دجال، بے ایمان، شیطان، اور کذاب اور مفتری ٹھہروں گا اور اس صورت میں آپ کے وہ تمام ظنون فاسدہ درست اور برحق ہوں گے کہ گویا میں نے براہین احمدیہ میں فریب کیا اور لوگوں کا روپیہ کھایا اور دعا کی قبولیت کے وعدہ پر لوگوں کا مال خوردو برد کیا اور حرام خوری میں زندگی بسر کی لیکن اگر خدا تعالیٰ کی اس عنایت نے جو مومنوں اور صادقوں اور راست بازوں کے شامل حال ہوتی ہے مجھ کو سچا کردیا تو پھر آپ فرماویں کہ یہ سب نام اس وقت آپ کی مولویانہ شان کے سزا وار ٹھہریں گے یا اس وقت بھی کوئی کنارہ کشی کا راہ آپ کیلئے باقی رہے گا.آپ نے مجھ کو بہت دکھ دیا اور ستایا.میں صبر کرتا گیا مگر آپ نے ذرہ اس ذات قدیر کا خوف نہ کیا جو آپ کی تہ سے واقف ہے.اس نے مجھے بطور پیشگوئی آپ کے حق میں اور پھر آپ کے ہم خیال لوگوں کے حق میں خبر دی کہ اِنّی مھین من اراد اھانتک یعنی میں اس کو خوار کروں گا جو تیرے خوار کرنے کی فکر میں ہے.سو یقیناً سمجھو کہ اب وہ وقت نزدیک ہے جو خدا تعالیٰ ان تمام بہتانات میں آپ کا دروغ گو ہونا ثابت کردے گا اور جو بہتان تراش اور مفتری لوگوں کو ذلتیں اور ندامتیں پیش آتی ہیں ان تمام ذلتوں کی مار آپ پر ڈالے گا.آپ کا دعویٰ ہے کہ میں قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہوں پس اگر آپ اس قول میں سچے ہیں تو آزمائش کیلئے میدان
میں آویں تا خدا تعالیٰ ہمارا اور تمہارا خود فیصلہ کرے اور جو کاذب اور دجّال ہے رو سیاہ ہوجائے اور میرے دل سے اس وقت حق کی تائید کیلئے ایک بات نکلتی ہے اور میں اس کو روک نہیں سکتا.کیونکہ وہ میرے نفس سے نہیں بلکہ القاء ربّی ہے جو بڑے زور سے جوش مار رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کہ آپ نے مجھے کافر ٹھہرایا اور جھوٹ بولنا میری سرشت کا خاصہ قرار دیا تو اب آپ کو اللہ جلّ شانہٗ کی قسم ہے کہ حسب طریق مذکورہ بالا میرے مقابلہ پر فی الفور آجاؤ تا دیکھا جائے کہ قرآن کریم اور فرمودہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رو سے کون کاذب اور دجّال اور کافر ثابت ہوتا ہے.اور اگر اس تبلیغ کے بعد ہم دونوں میں سے کوئی شخص متخلف رہا اور باوجود اشد غلو اور تکفیر اور تکذیب اور تفسیق کے میدان میں نہ آیا اور شغال کی طرح دم دبا کر بھاگ گیا تو وہ مندرجہ ذیل انعام کا مستحق ہوگا:.(۱) لعنت (۲) لعنت (۳) لعنت (۴) لعنت (۵) لعنت (۶) لعنت (۷) لعنت (۸) لعنت (۹) لعنت (۱۰) لعنت تِلک عشرۃٌ کَامِلۃ
یہ و ہ فیصلہ ہے جو خدائے تعالیٰ آپ کردے گا.کیونکہ اس کا وعدہ ہے کہ مومن بہرحال غالب رہے گا چنانچہ وہ خود فرماتا ہے 33.۱ یعنے ایسا ہرگز نہیں ہوگا کہ کافر مومن پر راہ پاوے اور نیز فرماتا ہے کہ 333۲.3۳.یعنے اے مومنو اگر تم متقی بن جاؤ تو تم میں اور تمہارے غیر میں خدا تعالیٰ ایک فرق رکھ دے گا.وہ فرق کیا ہے کہ تمہیں ایک نور عطا کیا جائے گا جو تمہارے غیر میں ہرگز نہیں پایا جائے گا یعنی نور الہام اور نور اجابت دعا اور نور کرامات اصطفاء.اب ظاہر ہے کہ جس نے جھوٹ کو بھی ترک نہیں کیا وہ کیونکر خدا تعالیٰ کے آگے متقی ٹھہر سکتا ہے اور کیونکر اس سے کرامات صادر ہوسکتی ہیں.غرض اس طریق سے ہم دونوں کی حقیقت مخفی کھل جائے گی اور لوگ دیکھ لیں گے کہ کون میدان میں آتا ہے اور کون بموجب آیت کریمہ لھم البشرٰی اور حدیث نبوی اصدقکم حدیثًاکے صادق ثابت ہوتا ہے.مع ہٰذا ایک اور بات بھی ذریعہ آزمائش صادقین ہوجاتی ہے جس کو خدا تعالیٰ آپ ہی پیدا کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کبھی انسان کسی ایسی بلا میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ اس وقت بجز کذب کے اور کوئی حیلہ رہائی اور کامیابی کا اس کو نظر نہیں آتا.تب اس وقت وہ آزمایا جاتا ہے کہ آیا اس کی سرشت میں صدق ہے یا کذب اور آیا اس نازک وقت میں اس کی زبان پر صدق جاری ہوتا ہے یا اپنی جان اور آبرو اور مال کا اندیشہ کر کے جھوٹ بولنے لگتا ہے.اس قسم کے نمونے اس عاجز کو کئی دفعہ پیش آئے ہیں جن کا مفصل بیان کرنا موجب تطویل ہے تاہم تین نمونے اس غرض سے پیش کرتا ہوں کہ اگر ان کے برابر بھی آپ کو کبھی آزمائش صدق کے موقع پیش آئے ہیں تو آپ کو اللہ جلّ شانہ‘ کی قسم ہے کہ آپ ان کو معہ ثبوت ان کے ضرور شائع کریں تا معلوم ہو کہ آپ کا صرف دعویٰ نہیں بلکہ امتحان اور بلا کے شکنجہ میں بھی آکر آپ نے صدق نہیں توڑا.
از ا نجملہ ایک یہ واقعہ ہے کہ میرے والد صاحب کے انتقال کے بعد مرزا اعظم بیگ صاحب لاہوری نے شرکاء ملکیت قادیان سے مجھ پر اور میرے بھائی مرحوم مرزا غلام قادر پر مقدمہ دخل ملکیت کا عدالت ضلع میں دائر کرا دیا اور میں بظاہر جانتا تھا کہ ان شرکاء کو ملکیت سے کچھ غرض نہیں کیونکہ وہ ایک گم گشتہ چیز تھی جو سکھوں کے وقت میں نابود ہوچکی تھی اور میرے والد صاحب نے تن تنہا مقدمات کر کے اس ملکیت اور دوسرے دیہات کے باز یافت کے لئے آٹھ ہزار کے قریب خرچ و خسارہ اٹھایا تھا جس میں وہ شرکاء ایک پیسہ کے بھی شریک نہیں تھے.سو اُن مقدمات کے اثناء میں جب میں نے فتح کے لئے دعا کی تو یہ الہام ہوا کہ اجیب کُل دعائک الّا فی شرکائک یعنی میں تیری ہریک دعا قبول کروں گا مگر شرکاء کے بارے میں نہیں.سو میں نے اس الہام کو پا کر اپنے بھائی اور تمام زن و مرد عزیزوں کو جمع کیا جو ان میں سے بعض اب تک زندہ ہیں اور کھول کر کہہ دیا کہ شرکاء کے ساتھ مقدمہ مت کرو یہ خلاف مرضی حق ہے مگر انہوں نے قبول نہ کیا اور آخر ناکام ہوئے لیکن میری طرف سے ہزارہا روپیہ کا نقصان اٹھانے کے لئے استقامت ظاہر ہوئی اس کے وہ سب جواب دشمن ہیں گواہ ہیں چونکہ تمام کاروبار زمینداری میرے بھائی کے ہاتھ میں تھا اس لئے میں نے بار بار اُن کو سمجھایا مگر انہوں نے نہ مانا اور آخر نقصان اٹھایا- ازانجملہ ایک یہ واقعہ ہے کہ تخمیناً پندرہ یا سولہ سال کا عرصہ گذرا ہوگا یا شاید اس سے کچھ زیادہ ہو کہ اِس عاجز نے اسلام کی تائید میں آریوں کے مقابل پر ایک عیسائی کے مطبع میں جس کا نام رلیارام تھا اور وہ وکیل بھی تھا اور امرتسر میں رہتا تھا اور اس کا ایک اخبار بھی نکلتا تھا ایک مضمون بغرض طبع ہونے کے ایک پیکٹ کی صورت میں جس کی دونوں طرفیں کھلی تھیں بھیجا اور اس پیکٹ میں ایک خط بھی رکھ دیا.چونکہ خط میں ایسے
الفا ظ تھے جن میں اسلام کی تائید اور دوسرے مذاہب کے بطلان کی طرف اشارہ تھا اور مضمون کے چھاپ دینے کیلئے تاکید بھی تھی اس لئے وہ عیسائی مخالفت مذہب کی وجہ سے افروختہ ہوا اور اتفاقاً اس کو دشمنانہ حملہ کے لئے یہ موقع ملا کہ کسی علیحدہ خط کا پیکٹ میں رکھنا قانونًا ایک جرم تھا جس کی اس عاجز کو کچھ بھی اطلاع نہ تھی اور ایسے جرم کی سزا میں قوانین ڈاک کے رو سے پانسو روپیہ جرمانہ یا چھ ماہ تک قید ہے سو اس نے مخبر بن کر افسران ڈاک سے اس عاجز پر مقدمہ دائر کرادیا اور قبل اس کے جو مجھے اس مقدمہ کی کچھ اطلاع ہو رؤیا میں اللہ تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ رلیارام وکیل نے ایک سانپ میرے کاٹنے کیلئے مجھ کو بھیجا ہے اور میں نے اسے مچھلی کی طرح تل کر واپس بھیج دیا ہے.َ میں جانتا ہوں کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آخر وہ مقدمہ جس طرز سے عدالت میں فیصلہ پایا وہ ایک ایسی نظیر ہے جو وکیلوں کے کام میں آ سکتی ہے.غرض میں اس جرم میں صدر ضلع گورداسپورہ میں طلب کیا گیا اور جن جن وکلاء سے مقدمہ کے لئے مشورہ لیا گیا انہوں نے یہی مشورہ دیا کہ بجز دروغ گوئی کے اور کوئی راہ نہیں اور یہ صلاح دی کہ اس طرح اظہار دے دو کہ ہم نے پیکٹ میں خط نہیں ڈالا رلیارام نے خود ڈال دیا ہوگا اور نیز بطور تسلی دہی کے کہا کہ ایسابیان کرنے سے شہادت پر فیصلہ ہوجائے گا اور دو چار جھوٹے گواہ دے کر بریت ہوجائے گی ورنہ صورت مقدمہ سخت مشکل ہے اور کوئی طریق رہائی نہیں مگر میں نے ان سب کو جواب دیا کہ میں کسی حالت میں راستی کو چھوڑنا نہیں چاہتا جو ہوگا سو ہوگا تب اسی دن یا دوسرے دن مجھے ایک انگریز کی عدالت میں پیش کیا گیا اور میرے مقابل پر ڈاک خانہ جات کا افسر بحیثیت سرکاری مدعی ہونے کے حاضر ہوا.اس وقت حاکم عدالت نے اپنے ہاتھ سے میرا اظہار لکھا اور سب سے پہلے مجھ سے یہی سوال کیا کہ کیا یہ خط تم نے اپنے
پیکٹ میں رکھ دیا تھا اور یہ خط اور یہ پیکٹ تمہارا ہے.تب میں نے بلا توقف جواب دیا کہ یہ میرا ہی خط اور میرا ہی پیکٹ ہے اور میں نے اس خط کو پیکٹ کے اندر رکھ کر روانہ کیا تھا مگر میں نے گورنمنٹ کی نقصان رسانی محصول کیلئے بدنیتی سے یہ کام نہیں کیا بلکہ میں نے اس خط کو اس مضمون سے کچھ علیحدہ نہیں سمجھا اور نہ اس میں کوئی نج کی بات تھی.اس بات کو سنتے ہی خدا تعالیٰ نے اس انگریز کے دل کو میری طرف پھیر دیا اور میرے مقابل پر افسر ڈاک خانہ جات نے بہت شور مچایا اور لمبی لمبی تقریریں انگریزی میں کیں جن کو میں نہیں سمجھتا تھا مگر اس قدر میں سمجھتا تھا کہ ہر ایک تقریر کے بعد زبان انگریزی میں وہ حاکم نو نو کر کے اس کی سب باتوں کو رد کردیتا تھا.انجام کار جب وہ افسر مدعی اپنے تمام وجوہ پیش کرچکا اور اپنے تمام بخارات نکال چکا تو حاکم نے فیصلہ لکھنے کی طرف توجہ کی اور شاید سطر یا ڈیڑھ سطر لکھ کر مجھ کو کہا کہ اچھا آپ کیلئے رخصت.یہ سن کر میں عدالت کے کمرہ سے باہر ہوا اور اپنے محسن حقیقی کا شکر بجا لایا جس نے ایک افسر انگریز کے مقابل پر مجھ کو ہی فتح بخشی اور میں خوب جانتا ہوں کہ اس وقت صدق کی برکت سے خدا تعالیٰ نے اس بلا سے مجھ کو نجات دی.میں نے اس سے پہلے یہ خواب بھی دیکھی تھی کہ ایک شخص نے میری ٹوپی اتارنے کیلئے ہاتھ مارا.میں نے کہا کیا کرنے لگا ہے تب اس نے ٹوپی کو میرے سر پر ہی رہنے دیا اور کہا کہ خیر ہے خیر ہے.از انجملہ ایک نمونہ یہ ہے کہ میرے بیٹے سلطان احمد نے ایک ہندو پر بدیں بنیاد نالش کی کہ اس نے ہماری زمین پر مکان بنا لیا ہے اور مسماری مکان کا دعویٰ تھا اور ترتیب مقدمہ میں ایک امر خلاف واقعہ تھا جس کے ثبوت سے وہ مقدمہ ڈسمس ہونے کے لائق ٹھہرتا تھا اور مقدمہ کے ڈسمس ہونے کی حالت میں نہ صرف سلطان احمد کو بلکہ مجھ کو بھی نقصان
تلف ملکیت اٹھانا پڑتا تھا.تب فریق مخالف نے موقعہ پاکر میری گواہی لکھا دی اور میں بٹالہ میں گیا اور بابو فتح الدین سب پوسٹ ماسٹر کے مکان پر جو تحصیل بٹالہ کے پاس ہے جا ٹھہرا.اور مقدمہ ایک ہندو منصف کے پاس تھا جس کا اب نام یاد نہیں رہا مگر ایک پاؤں سے وہ لنگڑا بھی تھا اس وقت سلطان احمد کا وکیل میرے پاس آیا کہ اب وقت پیشی مقدمہ ہے آپ کیا اظہار دیں گے.میں نے کہا کہ وہ اظہار دوں گا جو واقعی امر اور سچ ہے تب اس نے کہا کہ پھر آپ کے کچہری جانے کی کیا ضرورت ہے میں جاتا ہوں تا مقدمہ سے دستبردار ہو جاؤں سو وہ مقدمہ میں نے اپنے ہاتھوں سے محض رعایت صدق کی وجہ سے آپ خراب کیا اور راست گوئی کو ابتغاءً لمرضات اللّٰہ مقدم رکھ کر مالی نقصان کو ہیچ سمجھا.یہ آخری دو نمونے بھی بے ثبوت نہیں.پہلے واقعہ کا گواہ شیخ علی احمد وکیل گورداسپور اور سردار محمد حیات خان صاحب سی ایس آئی ہیں اور نیز مثل مقدمہ دفتر گورداسپورہ میں موجود ہوگی.اور دوسرے واقعہ کا گواہ بابو فتح الدین اور خود وکیل جس کا اس وقت مجھ کو نام یاد نہیں اور نیز وہ منصف جس کا ذکر کر چکا ہوں جو اب شاید لدھیانہ میں بدل گیا ہے.غالباً اس مقدمہ کو سات برس کے قریب گذرا ہوگا ہاں یاد آیا اس مقدمہ کا ایک گواہ نبی بخش پٹواری بٹالہ بھی ہے.اب اے حضرت شیخ صاحب اگر آپ کے پاس بھی اس درجہ ابتلا کی کوئی نظیر ہو جس میں آپ کی جان اور آبرو اور مال راست گوئی کی حالت میں برباد ہوتا آپ کو دکھائی دیا ہو اور آپ نے سچ کو نہ چھوڑا ہو اور مال اور جان کی کچھ پرواہ نہ کی ہو تو ِ للہ وہ واقعہ اپنا معہ اس کے کامل ثبوت کے پیش کیجئے ورنہ میرا تو یہ اعتقاد ہے کہ اس زمانہ کے اکثر ملا اور مولویوں کی باتیں ہی باتیں ہیں.ورنہ ایک پیسہ پر ایمان بیچنے کو طیار ہیں کیونکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانہ کے مولویوں کو بدترین خلائق بیان فرمایا ہے اور
آپ کے مجدّد صاحب نواب صدیق حسن خان مرحوم حجج الکرامہ میں تسلیم کر چکے ہیں کہ وہ آخری زمانہ یہی زمانہ ہے.سو ایسے مولویوں کا زہد و تقویٰ بغیر ثبوت قبول کرنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ کی تکذیب لازم آتی ہے.سو آپ نظیر پیش کریں اور اگر پیش نہ کر سکیں تو ثابت ہوگا کہ آپ کے پاس صرف راست گوئی کا دعویٰ ہے مگر کوئی دعویٰ بے امتحان قبول کے لائق نہیں.اندرونی حال آپ کا خدا تعالیٰ کو معلوم ہوگا کہ آپ کبھی کذب اور افترا کی نجاست سے ملوث ہوئے یا نہیں.یا ان کو معلوم ہوگا جو آپ کے حالات سے واقف ہوں گے.جو شخص ابتلا کے وقت صادق نکلتا ہے اور سچ کو نہیں چھوڑتا.اس کے صدق پر مہر لگ جاتی ہے.اگر یہ مہر آپ کے پاس ہے تو پیش کریں ورنہ خدا تعالیٰ سے ڈریں ایسا نہ ہو کہ وہ آپ کی پردہ دری کرے.آپ کی ان بے ہودہ اور حاسدانہ باتوں سے مجھ کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے کہ آپ لکھتے ہیں کہ تم مختاری اور مقدمہ بازی کا کام کرتے رہے ہو.آپ ان افتراؤں سے باز آجائیں آپ خوب جانتے ہیں کہ یہ عاجز ان پیشوں میں کبھی نہیں پڑا کہ دوسروں کے مقدمات عدالتوں میں کرتا پھرے.ہاں والد صاحب کے زمانہ میں اکثر وکلاء کی معرفت اپنی زمینداری کے مقدمات ہوتے تھے اور کبھی ضرورتاً مجھے آپ بھی جانا پڑتا تھا مگر آپ کا یہ خیال کہ وہ جھوٹے مقدمات ہوں گے ایک شیطنت کی بدبو سے بھرا ہوا ہے.کیا ہر یک نالش کرنے والا ضرور جھوٹا مقدمہ کرتا ہے یا ضرور جھوٹ ہی کہتا ہے.اے کج طبع شیخ خدا جانے تیری کس حالت میں موت ہوگی.کیا جو شخص اپنے حقوق کی حفاظت کیلئے یا اپنے حقوق کے طلب کیلئے عدالت میں مقدمہ کرتا ہے اس کو ضرور جھوٹ بولنا پڑتا ہے ہرگز نہیں.بلکہ جس کو خدا تعالیٰ نے قوت صدق عطا کی ہو اور سچ
سے محبت رکھتا ہو وہ بالطبع دروغ سے نفرت رکھتا ہے اور جب کوئی دنیوی فائدہ جھوٹ بولنے پر ہی موقوف ہو تو اس فائدہ کو چھوڑ دیتا ہے.مگر افسوس کہ نجاست خور انسان ہر یک انسان کو نجاست خور ہی سمجھتا ہے.جھوٹ بولنے والے ہمیشہ کہا کرتے ہیں کہ بغیر جھوٹ بولنے کے عدالتوں میں مقدمہ نہیں کر سکتے.سو یہ قول ان کا اس حالت میں سچا ہے کہ جب ایک مقدمہ باز کسی حالت میں اپنے نقصان کا روادار نہ ہو اور خواہ مخواہ ہر یک مقدمہ میں کامیاب ہونا چاہے.مگر جو شخص صدق کو بہرحال مقدم رکھے وہ کیوں ایسا کرے گا جب کسی نے اپنا نقصان گوارا کرلیا تو پھر وہ کیوں کذب کا محتاج ہوگا.اب یہ بھی واضح رہے کہ یہ سچ ہے کہ والد مرحوم کے وقت میں مجھے بعض اپنے زمینداری معاملات کے حق رسی کیلئے عدالتوں میں جانا پڑتا تھا.مگر والد صاحب کے مقدمات صرف اس قسم کے تھے کہ بعض آسامیاں جو اپنے ذمہ کچھ باقی رکھ لیتی تھیں یا کبھی بلا اجازت کوئی درخت کاٹ لیتی تھی یا جب بعض دیہات کے نمبرداروں سے تعلق داری کے حقوق بذریعہ عدالت وصول کرنے پڑتے تھے اور وہ سب مقدمات بوجہ اس احسن انتظام کے کہ محاسب دیہات یعنے پٹواری کی شہادت اکثر ان میں کافی ہوتی تھی پیچیدہ نہیں ہوتی تھی اور دروغ گوئی کو ان سے کچھ تعلق نہیں تھا کیونکہ تحریرات سرکاری پر فیصلہ ہوتا تھا.اور چونکہ اس زمانہ میں زمین کی بے قدری تھی اس لئے ہمیشہ زمینداری میں خسارہ اٹھانا پڑتا اور بسا اوقات کم مقدمات کاشتکاروں کے مقابل پر خود نقصان اٹھا کر رعایت کرنی پڑتی تھی اور عقلمند لوگ جانتے ہیں کہ ایک دیانتدار زمیندار اپنے کاشتکاروں سے ایسا برتاؤ رکھ سکتا ہے جو بحیثیت پورے متقی اور کامل پرہیزگار کے ہو اور زمینداری اور نکوکاری میں کوئی حقیقی مخالفت اور ضد نہیں.باایں ہمہ کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ والد
صاحب کے انتقال کے بعد کبھی میں نے بجز اس خط کے مقدمہ کے جس کا ذکر کر چکا ہوں کوئی مقدمہ کیا ہو.اگر میں مقدمہ کرنے سے بالطبع متنفر نہ ہوتا.میں والد صاحب کے انتقال کے بعد جو پندرہ سال کا عرصہ گذر گیا آزادی سے مقدمات کیا کرتا اور پھر یہ بھی یاد رہے کہ ان مقدمات کا مہاجنوں کے مقدمات پر قیاس کرنا کور باطن آدمیوں کا کام ہے.میں اس بات کو چھپا نہیں سکتا کہ کئی پشت سے میرے خاندان میں زمینداری چلی آتی ہے اور اب بھی ہے.اور زمیندار کو ضرورتاً کبھی مقدمہ کی حاجت پڑ جاتی ہے مگر یہ امر ایک منصف مزاج کی نظر میں حرج کا محل نہیں ٹھہر سکتا.حدیثوں کو پڑھو کہ وہ آخری زمانہ میں آنے والا اور اس زمانہ میں آنے والا کہ جب قریش سے بادشاہی جاتی رہے گی اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک تفرقہ اور پریشانی میں پڑی ہوئی ہوگی زمیندار ہی ہوگا.اور مجھ کو خدا تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ مَیں ہوں.احادیث نبویہ میں صاف لکھا ہے کہ آخری زمانہ میں ایک مو ّ ید دین و ملّت پیدا ہوگا اور اس کی یہ علامت ہوگی کہ وہ حارث ہوگا یعنے زمیندار ہوگا.اس جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہر یک مسلمان کو چاہیئے کہ اس کو قبول کر لیوے اور اس کی مدد کرے.اب سوچو کہ زمیندار ہونا تو میرے صدق کی ایک علامت ہے نہ جائے جرح.اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قبول کرنے کیلئے حکم ہے نہ رد کیلئے.چشم بد اندیش کہ برکندہ باد عیب نماید ہنرش درنظر ہاں مقدمہ بازی آپ کے والد صاحب کی جائے حرج ہو توکچھ تعجب نہیں کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ انگریزی عملداری میں اکثر سود خواروں کی مختار کاری میں ان کی عمر بسر ہوئی اور جس طرح بن پڑا انہوں نے بعض لوگوں کے مقدمے محنتانہ پر لئے.گو وہ قانونی طور پر نہ مختار
نہ و کیل بلکہ فیل شدہ (بھی) نہیں تھے مگر پیٹ بھرنے کیلئے سب کچھ کیا لیکن یہ عاجز تو بجز اپنی زمینداری کے مقدمات کے جن میں اکثر آپ کے والد صاحب جیسے بلکہ عزت اور لیاقت میں ان سے بڑھ کر مختار بھی کئے ہوئے تھے.دوسروں کے مقدمات سے کبھی کچھ غرض نہیں رکھتا تھا.اور مجھ کو یاد ہے بلکہ آپ کو بھی یاد ہوگا کہ ایک دفعہ آپ کے والد صاحب نے بھی مقام بٹالہ میں حضرت مرزا صاحب مرحوم کی خدمت میں اپنی تمنا ظاہر کی تھی کہ مجھ کو بعض مقدمات کیلئے نوکر رکھا جاوے تا بطور مختار عدالتوں میں جاؤں مگر چونکہ زمینداری مقدمات کی پیروی کی ان میں لیاقت نہیں تھی اس لئے عذر کر دیا گیا تھا.قولہ آپ نے الہامی بیٹا تولد ہونے کی پیشگوئی کی یعنے جھوٹ بولا.اقول آپ اپنے سفلہ پنے سے باز نہیں آتے خدا جانے آپ کس خمیر کے ہیں.اس پیشگوئی میں کونسی دروغ کی بات نکلی.اگر آپ کا یہ مطلب ہے کہ پیشگوئی کے بعد ایک لڑکا پیدا ہوا اور مر گیا تو کیا آپ یہ ثبوت دے سکتے ہیں کہ کسی الہام میں یہ مضمون درج تھا کہ وہ موعود لڑکا وہی ہے اگر دے سکتے ہیں تو وہ الہام پیش کریں.یاد رہے کہ ایسا کوئی الہام نہیں ہاں اگر میں نے اجتہادی طور پر کہا ہو کہ شاید یہ لڑکا وہی موعود لڑکا ہے تو کیا اس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ الہام غلط نکلا.آپ کو معلوم نہیں کہ کبھی ملہم اپنے الہام میں اجتہاد بھی کرتا ہے اور کبھی وہ اجتہاد خطا بھی جاتا ہے مگر اس سے الہام کی وقعت اور عظمت میں کچھ فرق نہیں آتا.صدہا مرتبہ ہر یک کو اتفاق پیش آتا ہے کہ ایک خواب تو سچی ہوتی ہے مگر تعبیر میں غلطی ہو جاتی ہے.یہ ہدایت اور یہ معرفت کا دقیقہ تو خاص قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے.لیکن ان کیلئے جو آنکھیں رکھتے ہیں.میں ڈرتا ہوں کہ آج تو آپ نے مجھ پر اعتراض کیا کبھی ایسا نہ ہو کہَ کل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اعتراض کر دیں اور کہیں کہ آنجناب نے جس وحی کی تصدیق کیلئے یعنے طواف کی غرض سے دو سو کوس کا سفر
اختیا ر کیا تھا وہ طواف اس سال نہ ہو سکا اور اجتہادی غلطی ثابت ہوئی.افسوس کہ فرط تعصب سے فذہب وہلی کی حدیث بھی آپ کو بھول گئی مجھے تو آپ کے انجام کا فکر لگا ہوا ہے.دیکھیں کہ کہاں تک نوبت پہنچتی ہے.اور لڑکے کی پیشگوئی تو حق ہے.ضرور پوری ہوگی اور آپ جیسے منکروں کو خدا تعالیٰ رسوا کرے گا.اے دشمن حق جبکہ تمام پیشگوئیوں کے مجموعی الفاظ یہ ہیں کہ بعض لڑکے فوت بھی ہوں گے اور ایک لڑکا خدا تعالیٰ سے ہدایت میں کمال پائے گا.تو پھر آپ کا اعتراض اس بات پر کھلی کھلی دلیل ہے کہ اب آپ کا باطن مسخ شدہ ہے.یہ تو یہودیوں کے علماء کا آپ نے نقشہ اتار دیا.اب آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے.قولہ اس سے ہریک شخص سمجھ سکتا ہے کہ جو شخص بندوں پر جھوٹ بولنے میں دلیر ہو وہ خدا پر جھوٹ بولنے سے کیونکر رک سکتا ہے.اقولان باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی فطرت ان الزامات سے خالی نہیں جن کو آپ کے والد صاحب جن کے بعض خطوط آپ کی فطرت اور آپ کے اوصاف حمیدہ کے متعلق میرے پاس بھی غالباً کسی بستہ میں پڑے ہوئے ہوں گے بزبان خود مشہور کر گئے ہیں.*اے نیک بخت اول ثابت تو کیا ہوتا کہ فلاں فلاں شخص کے روبرو اس عاجز نے کبھی جھوٹ بولا تھا.اپنے التزام صدق کی جو میں نے نظیریں پیش کی ہیں ان کے مقابل پر بھلا کوئی نظیر تو پیش کرو.تا آپ کا منہ اس لائق ٹھہرے کہ آپ اس شخص کی نکتہ چینی کر سکو جو سخت امتحان کے وقت صادق نکلا اور صدق کو ہاتھ سے نہ چھوڑا.میں حیران ہوں کہ کونسا جنّ آپ کے سر پر سوار ہے جو آپ کی پردہ دری کرا رہا ہے.آخر میں یہ بھی آپ کو یاد رہے کہ یہ آپ کا سراسر افترا ہے کہ الہام کلب یموت علٰی کلب کو آپ کو اس عاجز کے وہ احسانات بھول گئے جبکہ مَیں آپ کے والدصاحب کو آپ کی پردہ دری سے روکتا رہا.آپ خوب جانتے ہیں کہ میں نے اُس سچے الزام کو کبھی پسند نہیں کیا جو آپ کے والد صاحب آپ کی نسبت اخباروں میں شائع کرانا چاہتے تھے اور مَیں آپ کی پردہ پوشی اورصفوتِ فطرت کا ہمیشہ حامی رہا اور اُنہیں روکتا رہا لیکن میرے احسان کا آپ نے یہ بدلہ دیا کہ مَیں نے تو سچے الزاموں سے آپ کو بچایا مگر آپ نے بحسب تقاضائے فطرت مبارکہ دروغگوئی کا الزام میرے پر لگا دیا.اب مجھے یقین ہوا کہ آپ کے والد صاحب بے شک سچے تھے.منہ
اپنے اوپر وارد کر رہے ہیں.میں نے ہرگز کسی کے پاس یہ نہیں کہا کہ اس کا مصداق آپ ہیں اور جو بعض درشت کلمات کی آپ شکایت کرتے ہیں یہ بھی بے جا ہے.آپ کی سخت بد زبانیوں کے جواب میں آپ کے کافر ٹھہرانے کے بعد آپ کے دجال اور شیطان اور کذاب کہنے کے بعد اگر ہم نے آپ کی موجودہ حالت کے مناسب آپ کو کچھ حق حق کہہ دیا تو کیا بُرا کیا آخر 3 ۱.کا بھی تو ایک وقت ہے.آپ کا یہ خیال کہ گویا یہ عاجز براہین احمدیہ کی فروخت میں دس ہزار روپیہ لوگوں سے لیکر خوردبرد کر گیا ہے.یہ اس شیطان نے آپ کو سبق دیا ہے جو ہر وقت آپ کے ساتھ رہتا ہے آپ کو کیونکر معلوم ہوگیا کہ میری نیت میں براہین کا طبع کرنا نہیں.اگر براہین طبع ہو کر شائع ہوگئی تو کیا اس دن شرم کا تقاضا نہیں ہوگا کہ آپ غرق ہو جائیں.ہر یک دیر بدظنی پر مبنی نہیں ہو سکتی اور میں نے تو اشتہار بھی دے دیا تھا کہ ہریک مستعجل اپنا روپیہ واپس لے سکتا ہے اور بہت سا روپیہ واپس بھی کر دیا.قرآن کریم جس کی خلق اللہ کو بہت ضرورت تھی اور جو لوح محفوظ میں قدیم سے جمع تھا تئیس۲۳ سال میں نازل ہوا اور آپ جیسے بدظنیوں کے مارے ہوئے اعتراض کرتے رہے کہ 33.۲ قولہ جب سے آپ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ مشتہر کیا ہے اس دن سے آپ کی کوئی تحریر کوئی تقریر کوئی خط کوئی تصنیف جھوٹ سے خالی نہیں.اقول اے شیخ نامہ سیاہ.اس دروغ بے فروغ کے جواب میں کیا کہوں اور کیا لکھوں، خدائے تعالیٰ تجھ کو آپ ہی جواب دیوے کہ اب تو حد سے بڑھ گیا.اے بدقسمت انسان تو ان بہتانوں کے ساتھ کب تک جئے گا.کب تک تو اس لڑائی میں جو خدا تعالیٰ سے لڑ رہا ہے موت سے بچتا رہے گا.اگر مجھ کو تونے یا کسی نے اپنی نابینائی سے دروغ گو سمجھا تو
یہ کچھ نئی بات نہیں آپ کے ہم خصلت ابوجہل اور ابولھب بھی خدا تعالیٰ کے نبی صادق کو کذاب جانتے تھے.انسان جب فرط تعصب سے اندھا ہو جاتا ہے تو صادق کی ہر ایک بات اس کو کذب ہی معلوم ہوتی ہے.لیکن خدائے تعالیٰ صادق کا انجام بخیر کرتا ہے اور کاذب کے نقش ہستی کو مٹا دیتا ہے.33.۱ قولہ (آپ نے) بحث سے گریز کر کے انواع اتہام اور اکاذیب کا اشتہار دیا.اقول یہ سب آپ کے دروغ بے فروغ ہیں جو بباعث تقاضائے فطرت بے اختیار آپ کے منہ سے نکل رہے ہیں ورنہ جو لوگ میری اور آپ کی تحریروں کو غور سے دیکھتے ہیں وہ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آیا اتہام اور کذب اور گریز اس عاجز کا خاصہ ہے یا خود آپ ہی کا.چالاکی کی باتیں اگر آپ نہ کریں تو اور کون کرے.ایک تو قانون گو شیخ ہوئے دوسرے چار حرف پڑھنے کا دماغ میں کیڑا.مگر خوب یاد رکھو وہ دن آتا ہے کہ خود خداوند تعالیٰ ظاہر کر دے گا کہ ہم دونوں میں سے کون کاذب اور مفتری اور خدا تعالیٰ کی نظر میں ذلیل اور رسوا ہے اور کس کی خداوند کریم آسمانی تائیدات سے عزت ظاہر کرتا ہے ذرا صبر کرو اور انجام کو دیکھو.قولہ آپ میں رحمت اور ہمدردی کا شمہ اثر بھی ہوتا تو جس وقت میں نے آپ کے دعویٰ مسیحائی سے اپنا خلاف ظاہر کیا تھا آپ فوراً مجھے اپنی جگہ بلاتے یا غریب خانہ پر قدم رنجہ فرماتے.اقول اے حضرت آپ کو آنے سے کس نے منع کیا تھا یا میری ڈیوڑھی پر دربان تھے جنہوں نے اندر آنے سے روک دیا.کیا پہلے اس سے آپ پوچھ پوچھ کر آیا کرتے
تھے.آپ کے تو والد صاحب بھی بیماری اور تپ کی حالت میں بھی بٹالہ سے افتاں خیزاں میرے پاس آجاتے تھے پھر آپ کو نئی روک کون سی پیش آگئی تھی اور جبکہ آپ اپنے ذاتی بخل اور ذاتی حسد اور شیخ نجدی کے خصائل اور کبر اور نخوت کو کسی حالت میں چھوڑنے والے نہیں تھے تو میں آپ کو اپنے مکان پر بلا کر کیا ہمدردی اور رحمت کرتا.ہاں میں نے آپ کے مکان پر بھی جانا خلاف مصلحت سمجھا کیونکہ میں نے آپ کے مزاج میں کبر اور نخوت کا مادہ معلوم کرلیا تھا اور میرے نزدیک یہ قرین مصلحت تھا کہ آپ کو ایک مسہل دیا جائے اور جہاں تک ہو سکے وہ مادہ آپ کے اندر سے باستیفا نکال دیا جائے.سو اب تک تو کچھ تخفیف معلوم نہیں ہوتی خدا جانے کس غضب کا مادہ آپ کے پیٹ میں بھرا ہوا ہے اور اللہ جلّ شانہٗ جانتا ہے کہ میں نے آپ کی بد زبانی پر بہت صبر کیا.بہت ستایا گیا اور آپ کو روکے گیا اور اب بھی آپ کی بد گوئی اور تکفیر تفسیق پر بہرحال صبر کر سکتا ہوں لیکن بعض اوقات محض اس نیت سے پیرایہ درشتی آپ کی بدگوئی کے مقابلہ میں اختیار کرتا ہوں کہ تا وہ مادّہ خبیث کہ جو مولویت کے باطل تصور سے آپ کے دل میں جما ہوا ہے اور جن کی طرح آپ کو چمٹا ہوا ہے وہ بکلی نکل جائے.میں سچ سچ کہتا ہوں اور خدائے تعالیٰ جانتا ہے کہ میں علیٰ وجہ البصیرت یقین رکھتا ہوں کہ آپ صرف استخوان فروش ہیں اور علم اور درایت اور تفقہ سے سخت بے بہرہ اور ایک غبی اور بلید آدمی ہیں.جن کو حقائق اور معارف کے کوچہ کی طرف ذرہ بھی گذر نہیں اور ساتھ اس کے یہ بلا لگی ہوئی ہے کہ ناحق کے تکبر اور نخوت نے آپ کو ہلاک ہی کر دیا ہے.جب تک آپ کو اپنی اس جہالت پر اطلاع نہ ہو اور دماغ سے غرور کا کیڑا نہ نکلے تب تک آپ نہ کوئی دنیا کی سعادت حاصل کر سکتے ہیں
نہ د ین کی.آپ کا بڑا دوست وہ ہوگا جو اس کوشش میں لگا رہے جو آپ کی جہالتیں اور نخوتیں آپ پر ثابت کرے میں نہیں جانتا کہ آپ کو کس بات پر ناز ہے.شرمناک فطرت کے ساتھ اور اس موٹی سمجھ اور سطحی خیال پر یہ تکبر اور یہ ناز نعوذ باللّٰہ من ھذہ الجہالۃ والحمق و ترک الحیاء والسخافۃ والضلالۃ.اور آپ کا یہ خیال کہ میں نے اب فساد کیلئے خط بھیجا ہے تا بٹالہ کے مسلمانوں میں پھوٹ پڑے.عزیز من یہ آپ کے فطرتی توہمات ہیں.میں نے پھوٹ کیلئے نہیں بلکہ آپ کی حالت زار پر رحم کر کے خط بھیجا تھا تا آپ تحت الثریٰ میں نہ گر جائیں اور قبل از موت حق کو سمجھ لیں مسلمانوں میں تفرقہ اور فتنہ ڈالنا تو آپ ہی کا شیوہ ہے یہی تو آپ کا مذہب اور طریق ہے جس کی وجہ سے آپ نے ایک مسلمان کو کافر اور بے ایمان اور دجال قرار دیا اور علماء کو دھوکے دیکر تکفیر کے فتوے لکھوائے اور اپنے استاد نذیر حسین پر موت کے دنوں کے قریب یہ احسان کیا کہ اسکے منہ سے کلمہ تکفیر کہلوایا اور اسکی پیرانہ سالی کے تقویٰ پر خاک ڈالی.آفرین باد برین ہمت مردانہ تو.نذیر حسین تو ارذل عمر میں مبتلا اور بچوں کی طرح ہوش وحواس سے فارغ تھا.یہ آپ ہی نے شاگردی کا حق ادا کیا کہ اسکے اخیر وقت اور لب بام ہونے کی حالت میں ایسی مکروہ سیاہی اسکے منہ پر مل دی کہ اب غالباً وہ گور میں ہی اس سیاہی کو لیجائے گا.خدائے تعالیٰ کی درگاہ خالہ جی کا گھر نہیں ہے جو شخص مسلمان کو کافر کہتا ہے اس کو وہی نتائج بھگتنے پڑیں گے جن کا ناحق کے مکفرین کیلئے اس رسول کریمؐنے وعدہ دے رکھا ہے جو ایسا عدل دوست تھا جس نے ایک چور کی سفارش کے وقت سخت ناراض ہوکر فرمایا تھا کہ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر فاطمہ بنت محمدؐ چوری
کر ے.تو اس کا بھی ہاتھ کاٹا جائے گا.قولہ(اس صورت میں قادیان پہنچ سکتا ہوں) کہ مسلمانوں پر آپ کا جھوٹ اور فریب کھولوں لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ آپ میری جان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے.اقول اب آپ کسی حیلہ و بہانہ سے گریز نہیں کر سکتے.اب تو دس لعنتیں آپ کی خدمت میں نذر کر دی ہیں اور اللہ جلّ شانہٗ کی قسم بھی دی ہے کہ آپ آسمانی طریق سے میرے ساتھ صدق اور کذب کا فیصلہ کرلیں.اگر آپ مجھ کو جھوٹا سمجھنے میں سچے ہیں تو میری اس بات کو سنتے ہی مقابلہ کیلئے کھڑے ہو جائیں گے ورنہ ان تمام لعنتوں کو ہضم کر جائیں گے اور کچے اور بیہودہ عذرات سے ٹال دیں گے اور میں آپ کو ہلاک کرنا نہیں چاہتا.ایک ہی ہے جو آپ کو در حالت نہ باز آنے کے ہلاک کرے گا اور اپنے دین کو آپ کے اس فتنہ سے نجات دے گا.اور آپ کے قادیان آنے کی کچھ ضرورت نہیں اگر آپ اللہ اور رسول ؐکے نشان کے موافق آزمائش کیلئے مستعد ہوں تو میں خود بٹالہ اور امرتسر اور لاہور میں آ سکتا ہوں.تاسیہ روئے شود ہر کہ دروغش باشد.اب ہم ذیل میں شیخ بٹالوی صاحب کا جواب درج کرتے ہیں.اور وہ یہ ہے :.بٹالہ ضلع گورداسپورہ )یکم جنوری ۱۸۹۳ ء( نمبر اوّل بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم مرزا غلام احمد صاحب کادیانی خدا آپ کو ہدایت کرے اور راہ راست پر لاوے.سلام علیٰ من اتبع الہدیٰ.آپ کا خط ۳۱ ؍دسمبر ۱۸۹۲ ء میں نے تعجب سے پڑھا.میں آپ کی ان
گید ڑ بھبکیوں سے نہیں ڈرتا.بلکہ اس ڈرنے کو شرک سمجھتا ہوں.اور انکے مقابلہ میں یہ آیت قرآن پیش کرتا ہوں.ا تحاجونی فی اللّٰہ و قد ھدان و لا اخاف ما تشرکون بہ الا ان یشاء ربی شیئاط وسع ربی کل شییء علماط افلا تتذکرون وکیف اخاف ما اشرکتم و لا تخافون انکم اشرکتم باللّٰہ ما لم ینزل بہ علیکم سلطانا فای الفریقین احق بالامن ان کنتم تعلمون الذین آمنوا و لم یلبسوا ایمانہم بظلم اولئک لہم الامن و ہم مہتدون.کادیانی صاحب ! میں قرآن اور پہلی کتابوں کو اور دین اسلام اور پہلے دینوں کو اور نبی آخر الزمان اور پہلے نبیوں کو سچا جانتا اور مانتا ہوں.اور اس کا یہ لازمہ اور شرط ہے کہ آپ کو جھوٹا جانوں اور آپ کا منکر ہوں.کیونکہ آپ کے عقائد آپ کی تعلیمات آپ کے اخلاق و عادات پہلی کتابوں اور پہلے دینوں اور پہلے نبیوں کے مخالف اور متناقض ہیں.لہٰذا ان کتابوں، دینوں اور نبیوں کو ماننا تب ہی صحیح اور سچا ہو سکتا ہے جبکہ آپ کے عقائد اور تعلیمات کو جھوٹا اور آپ کو گمراہ سمجھوں.جس پر آیات ذیل دلائل ہیں.و من یکفر بالطاغوت و یؤمن باللّٰہ فقد استمسک بالعروۃ الوثقٰی.و قد امروا ان یکفروا بہ.قد کانت لکم اسوۃ حسنۃ فی ابراہیم والذین معہج اذ قالوا لقومھم انا براؤ منکم و مما تعبدون من دون اللہ کفرنا بکم.و بدا بیننا و بینکم العداوۃ والبغضاء ابدا حتی تؤمنوا باللہ وحدہ.عقائد باطلہ مخالفہ دین اسلام و ادیان سابقہ کے علاوہ جھوٹ بولنا اور دھوکا دینا آپ کا ایسا وصف لازم بن گیا کہ گویا وہ آپ کی سرشت کا ایک جزو ہے.زمانہ تالیف براہین احمدیہ کے پہلے آپ کی سوانح عمری کا میں تفصیلی علم نہیں رکھتا مگر زمانہ تالیف براہین احمدیہ سے جو جھوٹ بولنا دھوکا دینا آپ نے اختیار کیا ہے.خصوصًا ۸۶ء سے جب سے آپ نے الہامی بیٹا تولد ہونے کی پیشگوئی کی اور
اس قسم کی اور پیشین گوئیاں مشتہر کی ہیں علی الخصوص ۹۰ء سے جب سے آپ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ مشتہر کیا ہے اس سے آپ کی کوئی تحریر کوئی تقریر کوئی خط کوئی تصنیف خالی نہیں ہے.اس سے قیاس ہو سکتا ہے کہ پہلے زمانہ میں خصوصاً امتحان مختار کاری میں فیل ہونے اور پھر عدالت میں سالہا سال اپنے مقدمات کرنے کے وقت آپ کا یہی حال رہا ہوگا.اس سے ہریک سمجھ سکتا ہے کہ جو شخص بندوں پر جھوٹ بولنے اور ان کو دھوکا دینے میں ایسا دلیر ہو وہ خدا پر افتراء کرنے سے کہ میں ملہم ہوں اور مجھے الہام ہوا ہے کہ فلاں شخص مجھے بیٹی نہ دے گا تو ہلاک ہو جاوے گا.*اور فلاں شخص مجھے مسیح نہ مانے گا تو وہ عذاب میں مبتلا ہوگا.کس طرح رک سکتا ہے اور اس دعویٰ الہام میں کیونکر سچا سمجھا جا سکتا ہے.آپ اس قسم کے تین ہزار الہامات کے صادق ہونے کے مدعی ہیں.میں ان تین ہزار میں سے صرف تین الہاموں کے صادق ٹھہرنے پر آپ کو ملہم مان لوں گا اور یہ سمجھوں گا کہ میں نے آپ کے عقائد و تعلیمات کو مخالف حق اور آپ کو بد اخلاق اور گمراہ سمجھنے میں غلطی کی.ان تین ہزار میں سے جن تین الہاموں کو آپ بیّن الصدق سمجھتے ہیں.مثلاً دیانند سرستی کی موت کے متعلق الہام یا شیخ مہر علی کی رہائی کی نسبت الہام یا دلیپ سنگھ کی ناکامی سے واپس ہونے کی نسبت الہام یا آپ کے آئندہ اور فرضی ُ خسر کے فوت ہو جانے کی نسبت الہام و امثال ذالک ان کو آپ کسی ایسی مجلس میں جس میں جانبین کے اشخاص مساوی ہوں اور تین منصف مختلف مذاہب کے یا آزاد مشرب ہوں ثابت کر دیں اور آسانی سے کامیاب ہوں.تین نہ سہی چلو ایک ہی اپنے خیالی الہام اخیر کا جس کو آپ نے اپنے جلسہ میلہ سالانہ میں اپنے معتقدوں اور دام افتادگان میں جو اکثر عوام بے علم تھے اور بعض خود غرض نیچری یہ پیشگوئی سچی تھی کہ اپنی میعاد کے اندر پوری ہو گئی کیونکہ مضمون پیشگوئی کا یہ تھا کہ اگر مرزا احمد بیگ ہوشیارپوری اپنی بیٹی نہیں دے گا تو نکاح کرنے کے بعد تین برس کے عرصہ تک فوت ہو جائیگا چنانچہ مرزا احمد بیگ نے اس الہام کے سننے کے بعد پانچ برس تک اپنی لڑکی کلاں کا کسی جگہ نکاح نہ کیا اور زندہ رہا.پھر پانچ برس کے بعد اُس نے اُس کا ایک جگہ نکاح کردیا.اور نکاح کے چھٹے مہینے پیشگوئی کی میعاد میں مر گیا.اگر یہ انسان کا کام ہے تو بٹالوی کو قسم ہے کہ ایسے ثبوت کی کوئی نظیر پیش کرے جس کی خدا تعالیٰ نے سچائی ظاہر کر دی ہو یا آپ ہی بنا کر دکھلاوے.ورنہ اُس لعنت سے ڈرے جوسچائی کے دشمنوں پر ایسی جلد اترتی ہے جیسا کہ پہاڑ کی چوٹی سے نیچے کی طرف پتھر.منہ
اور بعض تماشائی جن کو تحقیق اصل حال سے کوئی غرض نہ تھی.بڑی شدّومدّ سے بیان کیا تھا واقعی الہام ہونا ثابت کر دیں.اب مرد میدان ہیں تو میدان میں نکلیں ورنہ اِن لن ترانیوں سے شرم کریں.اپنے دریائے رحمت کے جوش و جنبش میں آنے کا جو آپ نے ذکر کیا ہے.اس میں بھی آپ نے اپنی سنت قدیم کذب و دھوکا دہی سے کام لیا ہے.آپ کو رحمت سے کیا نسبت.رحمت اور ہمدردی کا تو آپ میں مادہ ہی نہیں.آپ کے افعال و حرکات و کلمات صاف شہادت دے رہے ہیں کہ آپ پرلے سرے کے بے رحم اور خود غرض جانی اور نفسانی آدمی ہیں.آپ کی زبان اور حجاج بن یوسف کی تلوار دونو توام ہیں.آپ نے اپنے مخالفین اور معترضین کو اس حالت اور اس وقت میں جبکہ آپ ان کو مخدومی اخوی کے خطاب سے یاد کرتے اور ان کی نیک نیتی کے معترف تھے.بے حیا، بے ایمان، درندہ، منہ سے جھاگ نکالنے والا.کتا، کلب یموت علی کلب، سفلہ، کمینہ، وحشی وغیرہ وغیرہ الفاظ سے یاد کیا ہے کیا رحمت اور انسانی نوع کی ہمدردی یہی معنے رکھتی ہے؟ آپ مسلمانوں کا دس ہزار سے زیادہ روپیہ کتاب براہین احمدیہ کی قیمت اور قبولیت دعاؤں کی طمع دے کر خورد برد کر چکے ہیں اور کتاب براہین ہنوز در بطن شاعر کا مصداق ہے.اور قبولیت دعاؤں کے امیدوار آپ کے منہ دیکھ رہے ہیں.کیا ہمدردی و رحم اسی کا نام ہے؟ جب مجھے آپ سے آپ کے امکانی ولی ہونے کی نظر سے حسن ظنی تھی تو میں نے آپ سے بارہا التجا کی کہ مجھے آپ اپنے پاس ٹھہرا کر رحمت و برکت کے آثار دکھائیں.آپ نے کبھی ہاں نہ کی.ایک دفعہ میں نے آپ کو یہ بھی کہا تھا کہ آپ کے مخالف و منکر اچھے رہے کہ آپ ان کو
نشان آسمانی دکھانے کیلئے انعام کے وعدہ پر بلاتے ہیں.ہم موافقین کو بلا وعدہ انعام بھی نہیں بلاتے تو آپ ہنس کر چپ ہوگئے پھر جب آپ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو میں نے اپنا خلاف ظاہر کر کے آپ کے پاس آنا اور دوستانہ پرائیویٹ گفتگو کرنا چاہا تو آپ بلانے کا وعدہ دیتے دیتے لودیانہ میں جا براجے اور وہاں جاکر مخاصمانہ بحث کا اکھاڑہ جما کر ناجائز اور بحث کو ٹلانے کے شروط سے پناہ گزین ہوئے.پھر جب بمقام لودیانہ آپ کے گھر پر پہنچ کر آپ کو گفتگو پر مجبور کیا تو آپ نے اس با امن گفتگو کو ناتمام چھوڑ کر پھر مخاصمانہ اکھاڑہ جمانے کا اہتمام کیا.اور دہلی، پٹیالہ، لاہور، سیالکوٹ وغیرہ میں مخاصمانہ بحث کا علم بلند کیا.اور پھر بحث سے گریز کر کے انواع اتہام و اکاذیب کا اشتہار کیا اور اسی اثناء میں فیصلہ آسمانی لکھ مارا جس میں کوئی دقیقہ بے رحمی و بدگوئی کا فروگذاشت نہ کیا.اس بے رحمی و نفسانی کارروائیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ پڑگیا.بھائی بھائی سے اور دوست دوست سے الگ ہوگیا.کیا رحمت و ہمدردی کا یہی اثر ہے.آپ میں رحمت اور ہمدردی کا شمہ اثر بھی ہوتا تو جس وقت میں نے اپنا خلاف آپ کے دعویٰ مسیحائی سے ظاہر کیا تھا آپ فوراً مجھے اپنی جگہ بلاتے یا غریب خانہ پر قدم رنجہ فرماتے(جیسا کہ پہلے بھی آپ سے وقوع میں آتا رہا.اور کم سے کم تین دفعہ آپ نے غریب خانہ میں قدم رنجہ فرما کر رابطہ اتحاد ظاہر کیا تھا) اور اس صورت سے آپ اپنے دعویٰ جدیدہ کو ثابت کر دکھاتے اب جو آپ نے یہ خط ارسال فرمایا ہے.یہ بھی آپ کی خود غرضی اور نیت فساد سے خالی نہیں.اس میں خود غرضی یہ ہے کہ آپ کے مرید آپ کو نیک نیت اور اپنے دعویٰ میں ثابت قدم اور مقابلہ مخالفین کیلئے مستعد سمجھیں نیت فساد کی یہ ہے
کہ جانب ثانی سے جواب ترکی بہ ترکی ملے تو اس سے بٹالہ کے مسلمانوں میں پھوٹ پڑے.یہ آپ کے دعویٰ الہام و راستبازی اور خیر خواہی و رحمت کا جواب ہے.اب میں آپ کی اس درخواست کا کہ ’’خاکسار آپ کے اور آپ کے تابعین کے الہامات و منامات سے ڈر کر آپ کے پاس پہنچے اور آپ کا مطیع ہو جائے یا آپ کو ان ڈرانے والے الہامات و منامات کی اشاعت کی اجازت دے‘‘.جواب دیتا ہوں.آپ کا خاکسار کو اپنے پاس بلانا اگر اس غرض سے ہے کہ میں آپ کے عقائد باطلہ کی نسبت آپ سے کچھ دریافت کروں تو اس نظر سے آنا فضول ہے.ہم مسلمانوں کو آپ کے عقائد باطلہ کے بطلان میں اب کوئی شک نہیں ہے.لہٰذا اس میں کچھ دریافت کرنے کی کوئی ضرورت و حاجت باقی نہیں.ہاں آپ کو کچھ شک و اشتباہ ہو تو آپ جس وقت چاہیں حسب عادت قدیم غریب خانہ پر تشریف لاویں.دستور قدیم کے موافق آپ کی مدارات ہوگی اور آپ کی تسلی کی جاوے گی.انشاء اللہ تعالیٰ.اور اگر خاکسار کو اپنے پاس بلانا اس غرض سے ہے کہ آپ مجھے کوئی نشان آسمانی دکھائیں گے تو اس نظر سے آنا نہ صرف بے فائدہ ہے بلکہ گناہ اور موجب نقصان ہے.جس شخص کے عقائد اسلام اور سابق ادیان کے مخالف ہوں اس سے نشان آسمانی کا متوقع ہونا مومن کا کام نہیں.اور اگر وہ کچھ چالاکی اور شعبدہ بازی سے بذریعہ مسمریزم وغیرہ دکھا بھی دے تو اس پر اعتماد کرنا مخالف اسلام ہے.اس بات کو آپ بھی اپنے اشتہار میں تسلیم کر چکے ہیں.ہاں اس غرض سے میرا وہاں پہنچنا جائز بلکہ موجب ثواب ہے کہ میں وہاں پہنچ کر
آپ کا عجز اظہار نشان آسمانی سے لوگوں پر ظاہر کروں اور مسلمانوں پر آپ کا جھوٹ اور فریب کھولوں کیونکہ میرے خیال میں آپ کو مسمریزم وغیرہ میں دخل نہیں.اور آپ کے پاس جو ہتھیار اور دام تزویر ہے وہ صرف زبان کی چالاکی اور فقرہ بندی ہے.لیکن مجھے اس صورت میں قادیان پہنچنے میں یہ اندیشہ ہے کہ آپ میری جان کو نقصان پہنچانے میں کوشش کریں گے اور اس سے اپنے الہام کو کہ یہ شخص باون۵۲ برس کا ہوکر فوت ہو جاوے گا.جس کو آپ کے حواری اور دوست میاں چٹو ریشم فروش اور میاں رجب الدین شالی کو ب لاہور وغیرہ آپس میں پھیلا رہے ہیں سچا کر دکھائیں گے.)گو واقع میں کبھی سچا نہیں ہو سکتا کیونکہ میں باون۵۲ برس کی عمر پوری کر چکا ہوں.۱۷ ؍محرم ۱۲۵۶ ھ میری پیدائش ہے اور اب ۱۳۱۰ ھ گذر رہا ہے( اور کم سے کم یہ کہ میری آبرو ریزی کی تدبیر کریں گے.پس اگر آپ میری اس غرض کو پیش نظر رکھ کر مجھے اپنے پاس بلانا چاہتے ہیں تو میرے اس اندیشہ کو ایک باضابطہ تحریر سے جو عدالت میں رجسٹرڈ ہو اُٹھادیں.آپ نے اس تحریر ذمہ داری کو منظور کیا تو اس کا مسودہ آپ کے پاس بھیجا جاوے گا.اس صورت میں یہ خاکسار قادیان میں حاضر ہوگا اور جو کام آپ کی خدمت گذاری کا یہاں کرتا ہے وہاں بیٹھ کر کرے گا.در صورت عدم منظوری شرط مذکور میں قادیان میں نہیں آ سکتا.اس صورت میں جو آپ نے اپنے اور اپنے تابعین کے الہامات و منامات کے جو میری نسبت ہوئے ہیں اجازت چاہی ہے اس سے مجھے تعجب آیا اور یقین ہوا کہ آپ دعویٰ الہام میں کذاب ہیں.خدا کے الہام کی اشاعت و تبلیغ کیلئے اوروں کی اجازت کے کیا معنی*؟ اوّل تو جو الہام کسی نبی یا ولی کو کسی شخص کے ڈرانے کیلئے ہوتا ہے اس کی اشاعت و تبلیغ اس الہام کا عین مدعا ہوتا ہے اور اگر آپ کا ملہم آپ کو ایسے الہام کرتا ہے جس کی بٹالوی صاحب کے اس بیان سے ان کی قرآن دانی اور حدیث خوانی خوب ظاہر ہو رہی ہے ان کو معلوم رہے کہ ہر یک ملہم من اللہ کو تین قسم کے الہام ہوتے ہیں.ایک واجب التبلیغ دوسرے وہ الہام جن کے اظہار اور عدم اظہار میں ملہم لوگ اختیار دیئے جاتے ہیں.اگر مصلحت اظہار کی سمجھیں تو اظہار کر دیں ورنہ پوشیدہ رکھیں.تیسری قسم الہام کی وہ ہے جن کے اظہار سے ملہم لوگ منع کئے جاتے ہیں.یہی تقسیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں موجود ہے سو یہ الہام درمیانی قسم کا الہام تھا جس کا اظہار و عدم اظہار اس عاجز کے اختیار میں دیا گیا تھا اور انبیاء بھی ہر یک بات خدا تعالیٰ سے حل نہیں کرتے بلکہ اِس عالم اسبابمیں اپنے اجتہاد سے بھی کام لیتے ہیں.فتدبر.منہ
اشا عت تا نظرثانی و حکم ثانی جائز نہیں ہوتی تو آپ اپنے ملہم ہی سے کیوں نہیں پوچھ لیتے کہ میں اس الہام کو شائع کروں یا نہ کروں اور اگر کروں گا تو کسی قانون کے شکنجہ میں تو نہ پھنسایا جاؤں گا.آپ کی اس اجازت چاہنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ الہام کی آڑ میں مجھے گالیاں دینا چاہتے ہیں.اور ایسے الفاظ لکھنے اور مشتہر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس سے میری حیثیت عرفی کا ازالہ ہو اور میرے اور میرے عزیزوں اور اقارب کی دل شکنی ہو اور ان کو رنج پہنچے چنانچہ پہلے بھی آپ نے اس قسم کے الہام میری نسبت شائع کئے ہیں و مع ھٰذا آپ قانونی گرفت کا بھی اندیشہ رکھتے ہیں اور حکام وقت کو اپنے ملہم کی نسبت زبردست سمجھتے ہیں.لہٰذا میں ایسے الہام کی اشاعت کی اجازت عام نہیں دے سکتا.ہاں اس قسم کی اجازت سے میں رک بھی نہیں سکتا کہ آپ اپنے اور تابعین کے الہامات کو جہاں تک کہ قانون ان کی اشاعت کی اجازت دیتا ہے شائع کریں.اور اپنے ملہم کمزور و ڈرپوک کو(جو یقیناً خدا تعالیٰ نہیں بلکہ معلم الملکوت ہے) حکام وقت سے مغلوب سمجھ کر اس کے حکم کی تعمیل کو حکام وقت کے قانون کے تابع رکھیں.اس کا آپ نے خلاف کیا تو آپ کو کورٹ میں پھر کسی اور آرام گاہ میں آنا پڑے گا.آپ کے پچھلے الہامات بھی میری نگاہ میں ہیں اور ان کی نسبت تدارک کا ارادہ بھی ہنوز ملتوی نہیں ہوا.میں یہ کہنا بھی نامناسب نہیں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ خدا سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے مجملات کی تفصیل پوچھ سکتے ہیں اور مع ھٰذا بنی نوع سے ہمدردی رکھتے ہیں (جیسا کہ آپ نے اپنے خط میں دعویٰ کیا ہے) تو بجائے مجھے دھمکانے اور ڈرانے کے آپ میری نسبت خدا تعالیٰ سے پہلے یہ دریافت کریں کہ جو منذر الہام آپ کو اِس
شخص کی نسبت ہوا ہے وہ مبرم اور قطعی الوقوع ہے یا اس کا وقوع معلق ہے اور جو ڈر یا عذاب اس میں بیان کیا گیا ہے وہ در صورت اس کے تابع ہو جانے کے اس شخص سے اٹھ سکتا ہے.پس اگر خدا تعالیٰ آپ کو یہ بتا دے کہ وہ مبرم نہیں معلق ہے تو آپ خدا کی جناب میں دعا کریں کہ وہ مجھے آپ کی شناخت کی توفیق دے اور آپ کے تابع کر دے*.اور مجھ سے وہ عذاب اٹھالے اور اس امر میں اپنے دریائے رحمت کو جوش میں لاویں اور اس نبی رحیم کی سنت پر عمل کریں جس کو اس کی قوم نے مار کر خون آلودہ کر دیا تھا اور وہ اپنے چہرہ سے خون پونچھتا اور یہ کہتا تھا.اللّٰھم اغفر لقومی فانّھم لا یعلمون اور نیز آنحضرت کی اس سنت پر عمل کریں کہ جب آپ کے پاس ملک الجبال نے حاضر ہو کر کہا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس لئے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کے منکروں اور مخالفوں کو پہاڑ کے نیچے کچل دوں تو آپ نے فرمایا میں یہ نہیں چاہتا اور میں امید کرتا ہوں کہ ان کی ُ پشتوں سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو خدا کی توحید پکاریں گے.اور اگر خدا تعالیٰ آپ کو یہ خبر دے کہ یہ الہام مبرم و قطعی الوقوع ہے تو پھر آپ میری دعوت سے دستبردار ہوں اور اپنے تابعین کو وہ الہام سنا کر ان پر اپنی نبوت و ولایت ثابت کریں.اس صورت میں مجھے دعوت کرنا فضول ہے کیونکہ قطعی وعدہ عذاب کے بعد کسی نبی نے دعوت نہیں کی.اور اگر آپ اپنی اس دھمکی پر مصر رہیں گے تو طالب حق اور منصف جان لیں گے کہ آپ اس دعوت و انذار میں فریب کرتے ہیں اور جھوٹے ہیں.میں اخیر میں یہ بھی آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ اگر میں آپ کی مخالفت میں نیک نیت اور حق پر ہوں.اور دین اسلام کی حمایت کر رہا ہوں اور نفسانیت کو اِس.خدا تعالیٰ کسی ملہم کی دعا سے اس کو ہدایت کرتا ہے جس کے دل پر زیغ اور کجی کا غلبہ نہیں ہوتا.ورنہ بموجب 3 ۱ ہدایت پانے سے محروم رہتا ہے.منہ
میں دخل نہیں دیتا تو خدا تعالیٰ میری مدد کرے گا اور آپ کو ہدایت کر کے تابع حق اور دین اسلام کرے گا ورنہ سخت عذاب میں مبتلا کر کے ہلاک کرے گا.اور اگر میری نیت میں فساد ہے تو خدا مجھے اس کا بدلہ خود دے گا.آپ کا ڈرانا اور دھمکانا عبث و فضول ہے خصوصاً ایسی حالت میں کہ میں آپ کو کذاب جانتا ہوں اور اس اعتقاد کو دین اسلام کا جزو سمجھتا ہوں.لہٰذا بہتر ہے کہ آپ ان گیدڑ بھبکیوں سے باز آئیں اور حق کے تابع ہو جائیں.آئندہ اختیار ہے.وما علینا الا البلاغ المبین راقم ابو سعید محمد حسین عفی اللہ عنہ یہ خط ایک جلسہ عام اہل اسلام میں پڑھا گیا اور عمائد جلسہ نے اس کے مضمون کو پسند کیا.اور اس کے مسودہ پر دستخط کیا.ازانجملہ مختصر کے نام نامی یہ ہیں.(۱) محمد فیض محی الدین قادری عفی عنہ (۲) احمد علی عفی عنہ (۳)محمد اعظم عفی عنہ (۴) شیخ امیر بخش (۵) حافظ غلام قادر (۶) نور محمد (۷) شیخ امیر بخش (۸) نبی بخش ذیل دار بٹالہ (۹) برکت علی.(۱۰) محمد اسحاق ولد قاضی نور احمد (۱۱) فقیر شیخ محمد واعظ اسلام نقشبندی مخدومی احسنی.(۱۲) محمد ابراہیم امام مسجد جامع (۱۳) حکیم عطا محمد (۱۴) علی محمد (۱۵) مسکین محمد احمد اللہ.(۱۶) فقیر شمس الدین (۱۷) محمد علی تھانہ دار پنشنر (۱۸) حسین بخش اپیل نویس اور بہت سے آدمی ہیں جن کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہے.جواب الجواب شیخ بٹالوی بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی الحمدُ للّٰہ والسلام علٰی عبادہ الذین اصطفٰی.امّا بعد آپ کا رجسٹری شدہ خط مورخہ
۴ ؍ جنوری ۱۸۹۳ ء کو مجھ کو ملا.اگرچہ آپ کا یہ خط جو کذب اور تہمت اور بیجا افتراؤں کا ایک مجموعہ ہے اس لائق نہیں تھا کہ میں اس کا کچھ جواب آپ کو لکھتا فقط اعراض کافی تھا لیکن چونکہ آپ نے اپنے خط کے صفحہ دو۲ اور تین میں اس عاجز کی تین پیشگوئیوں کا ذکر کر کے بالآخر اس تیسری پیشگوئی پر حصر کر دیا ہے جو نور افشان دہم مئی ۱۸۸۸ ء اور نیز میرے اشتہار مشتہرہ ۱۰؍ جولائی ۱۸۸۸ ء میں درج ہے اور آپ نے اقرار کیا ہے کہ اگر اس الہام کا سچا ہونا ثابت ہو جائے تو میں آپ کو ملہم مان لوں گا اور یہ سمجھوں گا کہ میں نے آپ کے عقائد و تعلیمات کو مخالف حق اور آپ کو بد اخلاق اور گمراہ سمجھنے میں غلطی کی.اس لئے اس عاجز نے پھر آپ کی حالت پر رحم کر کے آپ کو اس الہامی پیشگوئی کے ثبوت کی طرف توجہ دلانا مناسب سمجھا.وہ پیشگوئی جیسا کہ آپ خود اپنے خط میں بیان کر چکے ہیں یہی تھی کہ اگر مرزا احمد بیگ ہوشیارپوری اپنی بیٹی اس عاجز کو نہ دیوے اور کسی سے نکاح کر دیوے تو روز نکاح سے تین برس کے اندر فوت ہو جائے گا.اس پیشگوئی کی یہ بنیاد نہیں تھی کہ خواہ نخواہ مرزا احمد بیگ کی بیٹی کی درخواست کی گئی تھی بلکہ یہ بنیاد تھی کہ یہ فریق مخالف جن میں سے مرزا احمد بیگ بھی ایک تھا اس عاجز کے قریبی رشتہ دار مگر دین کے سخت مخالف تھے اور ایک ان میں سے عداوت میں اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ اللہ جلّشانہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علانیہ گالیاں دیتا تھا اور اپنا مذہب دہریہ رکھتا تھا اور نشان کے طلب کیلئے ایک اشتہار بھی جاری کر چکا تھا اور یہ سب مجھ کو مکار خیال کرتے تھے اور نشان مانگتے تھے.اور صوم و صلوٰۃ اور عقائد اسلام پر ٹھٹھا کیا کرتے تھے سو خدائے تعالیٰ نے چاہا کہ ان پر اپنی حجت پوری کرے.سو اس نے نشان دکھلانے میں وہ پہلو اختیار کیا جس کا ان تمام
بے د ین قرابتیوں پر اثر پڑتا تھا خدا ترس آدمی سمجھ سکتا ہے کہ موت اور حیات انسان کے اختیار میں نہیں اور ایسی پیشگوئی جس میں ایک شخص کی موت کو اس کی بیٹی کے نکاح کے ساتھ جو غیر سے ہو وابستہ کر دیا گیا اور موت کی حد مقرر کر دی گئی انسان کا کام نہیں ہے.چونکہ یہ الہامی پیشگوئی صاف بیان کر رہی تھی کہ مرزا احمد بیگ کی موت اور حیات اس کی لڑکی کے نکاح سے وابستہ ہے اس لئے پانچ برس تک یعنی جب تک اس لڑکی کا کسی دوسری جگہ نکاح نہ کیا گیا مرزا احمد بیگ زندہ رہا اور پھر ۷؍ اپریل ۱۸۹۲ ء میں احمد بیگ نے اس لڑکی کا ایک جگہ نکاح کر دیا اور بموجب پیشگوئی کے تین برس کے اندر یعنے نکاح سے چھٹے مہینہ میں جو ۳۰ ؍ستمبر ۱۸۹۲ ء تھی فوت ہوگیا اور اسی اشتہار میں یہ بھی لکھا تھا کہ اگرچہ روز نکاح سے موت کی تاریخ تین برس تک بتلائی گئی ہے مگر دوسرے کشف سے معلوم ہوا کہ کچھ بہت عرصہ نہیں گذرے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ نکاح اور موت میں صرف چھ مہینہ بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہا یعنے جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں کہ ۷؍ اپریل ۱۸۹۲ ء میں نکاح ہوا اور ۳۰؍ ستمبر ۱۸۹۲ ء کو مرزا احمد بیگ اس جہان فانی سے رخصت ہوگیا.اب ذرا خدا تعالیٰ سے ڈر کر کہیں کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی یا نہیں اور اگر آپ کے دل کو یہ دھوکا ہو کہ کیونکر یقین ہو کہ یہ الہامی پیشگوئی ہے کیوں جائز نہیں کہ دوسرے وسائل نجوم و رمل و جفر وغیرہ سے ہو تو اس کا یہ جواب ہے کہ منجموں کی اس طور کی پیشگوئی نہیں ہوا کرتی جس میں اپنے ذاتی فائدہ کے لحاظ سے اس طور کی شرطیں ہوں کہ اگر فلاں شخص ہمیں بیٹی دے تو زندہ رہے گا ورنہ نکاح کے بعد تین برس تک بلکہ بہت جلد مر جائے گا اگر دنیا میں کسی منجم یا رمّال کی اِس قسم کی پیشگوئی ظہور میں آئی ہے تو وہ اس کے ثبوت کے ساتھ پیش کریں علاوہ اس کے اس پیشگوئی کے ساتھ اشتہار میں ایک دعویٰ پیش
کیا گیا ہے یعنے یہ کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں اور مکالمہ الٰہیہ سے مشرف ہوں.اور مامور من اللہ ہوں اور میری صداقت کا نشان یہ پیشگوئی ہے.اب آپ اگر کچھ بھی اللہ جلّ شانہٗ کا خوف رکھتے ہیں تو سمجھ سکتے ہیں کہ ایسی پیشگوئی جو منجانب اللہ ہونے کیلئے بطور ثبوت کے پیش کی گئی ہے اسی حالت میں سچی ہو سکتی تھی کہ جب درحقیقت یہ عاجز منجانب اللہ ہو کیونکہ خدا تعالیٰ ایک مفتری کی پیشگوئی کو جو ایک جھوٹے دعویٰ کیلئے بطور شاہد صدق بیان کی گئی ہرگز سچی نہیں کر سکتا.وجہ یہ کہ اس میں خلق اللہ کو دھوکا لگتا ہے جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ خود مدعی صادق کیلئے یہ علامت قرار دے کر فرماتا ہے33.۱ اور فرماتا ہے 333.۲ رسول کا لفظ عام ہے جس میں رسول اور نبی اور محدث داخل ہیں.پس اس پیشگوئی کے الہامی ہونے کیلئے ایک مسلمان کیلئے یہ دلیل کافی ہے جو منجانب اللہ ہونے کے دعویٰ کے ساتھ یہ پیشگوئی بیان کی گئی اور خدا تعالیٰ نے اس کو سچی کر کے دکھلا دیا اور اگر آپ کے نزدیک یہ ممکن ہے کہ ایک شخص دراصل مفتری ہو اور سراسر دروغ گوئی سے کہے کہ میں خلیفۃ اللہ اور مامور من اللہ اور مجدّد وقت اور مسیح موعود ہوں اور میرے صدق کا نشان یہ ہے کہ اگر فلاں شخص مجھے اپنی بیٹی نہیں دے گا اور کسی دوسرے سے نکاح کر دے گا تو نکاح کے بعد تین برس تک بلکہ اس سے بہت قریب فوت ہو جائے گا اور پھر ایسا ہی واقعہ ہو جائے تو برائے خدا اس کی نظیر پیش کرو.ورنہ یاد رکھو کہ مرنے کے بعد اس انکار اور تکذیب اور تکفیر سے پوچھے جاؤ گے.خدا تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ 33۳ سوچ کر دیکھو کہ اس کے یہی معنی ہیں جو شخص اپنے دعویٰ میں کاذب ہو اس کی
پیشگو ئی ہرگز پوری نہیں ہوتی.شیخ صاحب اب وقت ہے سمجھ جاؤ اور اس دن سے ڈرو جس دن کوئی شیخی پیش نہیں جائے گی اور اگر کوئی نجومی یا رمال یا جفری اس عاجز کی طرح دعویٰ کر کے کوئی پیشگوئی دکھلا سکتا ہے تو اس کی نظیر پیش کرو اور چند اخباروں میں درج کرا دو.اور یاد رکھو کہ ہرگز پیش نہیں کر سکو گے اور ایسا نجومی ہلاک ہوگا.خدا تعالیٰ تو اپنے نبی کو فرماتا ہے کہ اگر وہ ایک قول بھی اپنی طرف سے بناتا تو اس کی رگ جان قطع کی جاتی.پھر یہ کیونکر ہو کہ بجائے رگ جان قطع کی جانے کے اللہ جلّ شانہٗ اس عاجز کو جو آپ کی نظر میں کافر مفتری دجال کذاب ہے دشمنوں کے مقابل پر یہ عزت دی کہ تائید دعویٰ میں پیشگوئی پوری کرے.کبھی دنیا میں یہ ہوا ہے کہ کاذب کی خدا تعالیٰ نے ایسی مدد کی ہو کہ وہ گیارہ برس سے خدا تعالیٰ پر یہ افترا کر رہا ہو کہ اس کی وحی ولایت اور وحی محدثیت میرے پر نازل ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ اس کی رگ جان نہ کاٹے بلکہ اس کی پیشگوئیوں کو پورا کر کے آپ جیسے دشمنوں کو منفعل اور نادم اور لاجواب کرے اور آپ کی کوشش کا نتیجہ یہ ہو کہ آپ کی تکفیر سے پہلے توکل ۷۵ آدمی سالانہ جلسہ میں شریک ہوں اور بعد آپ کی تکفیر اور جانکاہی اور لوگوں کے روکنے کے تین سو۳۲۷ ستائیس احباب اور مخلص جلسہ اشاعت حق پر دوڑے آویں.اب اس سے زیادہ کیا لکھوں میں اس خط کو انشاء اللہ چھاپ کر شائع کر دوں گا اور مجھے اس بات کی ضرورت نہیں کہ اس الہامی پیشگوئی کی آزمائش کیلئے بٹالہ میں کوئی مجلس مقرر کروں مناسب ہے کہ آپ بھی اپنے اشاعۃ السنہ میں میرے اس خط کو شائع کر دیں اور یہ بات بھی ساتھ لکھ دیں کہ اب آپ کو قبول کرنے میں کیا عذر ہے خود منصف لوگ دیکھ لیں گے کہ وہ عذر صحیح یا غلط ہے.
مکرّ ر یہ کہ اللہ جلّ شانہ‘ خوب جانتا ہے کہ میں اپنے دعویٰ میں صادق ہوں نہ مفتری ہوں نہ دجال نہ کذاب.اس زمانہ میں کذاب اور دجال اور مفتری پہلے اس سے کچھ تھوڑے نہیں تھے تا خدا تعالیٰ صدی کے سر پر بھی بجائے ایک مجدد کے جو اس کی طرف سے مبعوث ہو ایک دجال کو قائم کر کے اور بھی فتنہ اور فساد ڈال دیتا مگر جو لوگ سچائی کو نہ سمجھیں اور حقیقت کو دریافت نہ کریں اور تکفیر کی طرف دوڑیں میں ان کا کیا علاج کروں.میں اس بیمار دار کی طرح جو اپنے عزیز بیمار کے غم میں مبتلا ہوتا ہے اس ناشناس قوم کیلئے سخت اندوہگیں ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اے قادر ذوالجلال خدا.اے ہادی و رہنما ان لوگوں کی آنکھیں کھول اور آپ ان کو بصیرت بخش اور آپ ان کے دلوں کو سچائی اور راستی کا الہام بخش اور یقین رکھتا ہوں کہ میری دعائیں خطا نہیں جائیں گی کیونکہ میں اس کی طرف سے ہوں اور اس کی طرف بلاتا ہوں یہ سچ ہے کہ اگر میں اس کی طرف سے نہیں ہوں اور ایک مفتری ہوں تو وہ بڑے عذاب سے مجھ کو ہلاک کرے گا کیونکہ وہ مفتری کو کبھی وہ عزت نہیں دیتا کہ جو صادق کو دی جاتی ہے.میں نے جو ایک پیشگوئی جس پر آپ نے میرے صادق اور کاذب ہونے کا حصر کر دیا آپ کی خدمت میں پیش کی ہے یہی میرے صدق اور کذب کی شناخت کیلئے ایک کافی شہادت ہے کیونکہ ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ کذاب اور مفتری کی مدد کرے.لیکن ساتھ اس کے میں یہ بھی کہتا ہوں کہ اس پیشگوئی کے متعلق دو پیشگوئی اور ہیں جن کو میں اشتہار ۱۰ جولائی ۱۸۸۸ ء میں شائع کر چکا ہوں جن کا مضمون یہی ہے کہ خدا تعالیٰ اس عورت کو بیوہ کر کے میری طرف رد کرے گا.اب انصاف سے دیکھیں کہ نہ کوئی انسان اپنی حیات پر اعتماد کر سکتا ہے اور نہ کسی دوسرے کی نسبت دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ فلاں وقت تک زندہ رہے گا یا فلاں
وقت تک مر جائے گا مگر میری اس پیشگوئی میں نہ ایک بلکہ چھ دعوے ہیں.اوّل نکاح کے وقت تک میرا زندہ رہنا.دوم نکاح کے وقت تک اس لڑکی کے باپ کا یقیناً زندہ رہنا.سوم پھر نکاح کے بعد اس لڑکی کے باپ کا جلدی سے مرنا جو تین برس تک نہیں پہنچے گا.چہارم اس کے خاوند کا اڑھائی برس کے عرصہ تک مر جانا.پنجم اس وقت تک کہ میں اس سے نکاح کروں اس لڑکی کا زندہ رہنا.ششم پھر آخر یہ بیوہ ہونے کی تمام رسموں کو توڑ کر باوجود سخت مخالفت اس کے اقارب کے میرے نکاح میں آجانا.اب آپ ایمانًا کہیں کہ کیا یہ باتیں انسان کے اختیار میں ہیں اور ذرہ اپنے دل کو تھام کر سوچ لیں کہ کیا ایسی پیشگوئی سچے ہو جانے کی حالت میں انسان کا فعل ہو سکتی ہے.پھر اگر اس پیشگوئی پر جو لڑکی کے باپ کے متعلق ہے جو ۳۰ ستمبر ۱۸۹۲ ء کو پوری ہوگئی آپ کا دل نہیں ٹھہرتا تو آپ اشاعۃ السنہ میں ایک اشتہار حسب اپنے اقرار کے دیدیں کہ اگر یہ دوسری پیشگوئیاں بھی پوری ہوگئیں تو اپنے ظنون باطلہ سے توبہ کروں گا اور دعوے میں سچا سمجھ لوں گا اور ساتھ اس کے خدا تعالیٰ سے ڈر کر یہ بھی اقرار کر دیں کہ ایک تو ان میں سے پوری ہوگئی اور اگر اس پیشگوئی کے پورا ہو جانے کا آپ کے دل میں زیادہ اثر نہ ہو تو اس قدر تو ضرور چاہیئے کہ جب تک اخیر ظاہر نہ ہو کف لسان اختیار کریں جب ایک پیشگوئی پوری ہوگئی تو اس کی کچھ تو ہیبت آپ کے دل پر چاہیئے.آپ تو میری ہلاکت کے منتظر اور میری رسوائی کے دنوں کے انتظار میں ہیں اور خدا تعالیٰ میرے دعویٰ کی سچائی پر نشان ظاہر کرتا ہے اگر آپ اب بھی نہ مانیں تو میرا آپ پر زور ہی کیا ہے لیکن یاد رکھیں کہ انسان اپنے اوائل ایام انکار میں بباعث کسی اشتباہ کے معذور ٹھہر سکتا ہے لیکن نشان دیکھنے پر ہرگز معذور نہیں
ٹھہر سکتا کیا یہ پیشگوئی جو پوری ہوگئی کوئی ایسا اتفاقی امر ہے جس کی خدا تعالیٰ کو کچھ بھی خبر نہیں کیا بغیر اس کے علم اور ارادہ کے ایک دجال کی تائید میں خود بخود یہ پیشگوئی وقوع میں آگئی کیا یہ سچ نہیں کہ مدعی کاذب کی پیشگوئی ہرگز پوری نہیں ہوتی یہی قرآن کی تعلیم ہے اور یہی توریت کی.اگر آپ میں انصاف کا کچھ حصہ ہے اور تقویٰ کا کچھ ذرہ ہے تو اب زبان کو بند کر لیں خدا تعالیٰ کا غضب آپ کے غضب سے بہت بڑا ہے.ما یفعل اللّٰہ بعذابکم ان شکرتم و اٰمنتم.والسّلام علٰی من اتبع الھُدٰی و ما استکبر و ما ابٰی.عاجز غلام احمد عفی اللہ عنہ ذیل میں ہم خط محبّی نواب سردار محمد علی خان صاحب کا لکھتے ہیں یہ خط نواب صاحب موصوف نے کسی اور طالب حق کی تحریک سے لکھا ہے.ورنہ خود نواب صاحب اس عاجز سے ایک خاص تعلق اخلاص و محبت رکھتے ہیں اور اس سلسلہ کے حامی بدل و جان ہیں.بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ طبیب روحانی مکرم معظم سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم - بندہ بہ سبب علالت طبع کے جواب سے قاصر رہا.الحمدللہ کہ اب خیریت سے ہوں امید ہے کہ جناب بھی خیریت سے ہوں گے.روپیہ ہم دست مرزا خدا بخش صاحب ارسال کیا گیا ہے امید کہ مرزا صاحب نے آپ سے کل حال بیان کر دیا ہوگا.جب سے کہ دعویٰ مثیل المسیح کی اشاعت ہوئی ہے ہر ایک آدمی ایک عجیب خلجان میں ہو رہا ہے گو بعض خواص کی یہ حالت ہو کہ ان کو کوئی شک پیدا نہ ہوا ہو.بندہ
جبھی سے شش و پنج میں ہے کبھی آپ کا دعویٰ ٹھیک معلوم ہوتا ہے اور کبھی تذبذب کی حالت ہوجاتی ہے.گویا قبض اور بسط کی سی کیفیت ہے.اب قال قیل بہت ہو چکی اپنی تو اس سے اطمینان نہیں ہوتی کیونکہ مخالف اور موافق باتوں نے دل کی عجب کیفیت کر دی ہے بلکہ بعض اوقات اسلام کے سچے ہونے میں شبہ ہو جاتا ہے.وجہ اس کی یہ ہے کہ ایک طرف خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ جس نے ہماری راہ میں کوشش کی ہم اس کو اپنا راستہ دکھاتے ہیں اور دوسری طرف یہ حیرانی ہے کہ وہ وعدہ پورا نہیں ہوتا.گو کسی نے استخارہ نہ کیا ہو لیکن سینکڑوں آدمی دل و جان سے کوشاں ہیں کہ ہم کو سیدھا راستہ معلوم ہو جاوے اور سچائی ظاہر ہو.اب مندرجہ ذیل امورات ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ جس سے اب صداقت ظاہر ہو.اوّل اب کوئی عذر اس قسم کا نہیں رہا کہ اب مباہلہ کیلئے مخالفوں کو نہ بلایا جاوے.کیونکہ جیسا کہ آپ نے مولوی عبدالحق کے جواب میں تحریر فرمایا تھا کہ جب تک مباحثہ ہو کر طلب مباہلہ نہ ہو مباہلہ نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ اختلاف اجتہادی ہے.لیکن اب یہ بات نہیں رہی بلکہ مخالفت بہت ہوگئی ہے اور حجت قائم ہو چکی.اب آپ کو مخالفوں سے مباہلہ کرنا چاہیئے اور توجہ کر کے خداوند تعالیٰ سے اس بات کی اجازت چاہنی چاہیئے کہ مباہلہ کیا جاوے اور اس مباہلہ کا اثر قریب زمانہ میں ہو جو ماہ دو۲ ماہ سے زائد نہ ہو کہ لوگ میعاد بعید سے گھبرا جاتے ہیں.اور اگر یہ کہا جاوے کہ مباہلہ سے جو لوگ نہ ماننے والے ہیں نہیں
مانیں گے.اس میں یہ عرض ہے کہ جو نہ ماننے والے ہیں وہ نہ مانیں لیکن وہ لوگ جو مذبذب ہیں وہ ضرور مان جاویں گے اور ایک یہ بڑا بھاری فائدہ ہے کہ مبایعین کا ایمان قوی ہو جاوے گا.بہرحال اب مباہلہ لازمی ہے.دوم نشان آسمانی میں جو جناب نے استخارہ کی بابت تحریر فرمایا ہے کہ بغض اور محبت سے پاک ہو کیونکہ اس صورت میں شیطان دخل دیتا ہے اور پھر خیال کے بموجب القاء ہوتا ہے پس ان دونوں باتوں سے بری ہو کر عمل کرنا چاہیئے.اب اس امر میں بڑی مشکل پیش آ گئی.اول یا تو آدمی مخالف ہوگا یا موافق.پس بموجب اس تحریر کے موافقوں کو موافق اور مخالفوں کو مخالف القاء ہوگا.پس قوت متخیلہ پر سارا مدار رہا.دوم انسان کا خاصہ ہے کہ جس بات سے روکا جاوے اس کی طرف جبلی طور سے مائل ہوگا.پس اگر آپ یہ بات ظاہر نہ کرتے تو شاید ایسا خیال بھی نہ ہوتا لیکن جب ظاہر کیا گیا تو ضرور کچھ نہ کچھ خیال پیدا ہوگا اور قوت متخیلہرنگ دکھاوے گی.سوم جب کہ یہ استخارہ اصل میں مخالفوں کیلئے ہے اور مخالفوں کو اپنی مخالفت کے سبب سے مخالف القاء ہوا تو پھر حجت کس طرح قائم ہوئی.لہٰذا ہر طرح القاء شیطان کی گنجائش ہے.اب ان تینوں صورتوں کے سبب سے بڑی مشکل پیش آئی استخارہ کس طرح کیا جاوے جبکہ ہر صورت میں القائے شیطانی کا ہونا ممکن ہے.اور بغض و محبت سے پاک ہونا مشکل، تو کام کس طرح چلے.پس اس کے لئے بھی برائے خدا توجہ فرما کر دعا فرمائیں کہ استخارہ القائے شیطانی سے پاک ہو جو کوئی استخارہ کرے خواہ موافق ہو یا مخالف سب پر یکساں طور سے اصلی حقیقت کھل جائے اور اس میں شیطان کا دخل جاتا رہے.چونکہ یہ اہم امر ہے اس لئے شیطان سے
بچنے کیلئے خدا سے مدد مانگنی لازمی ہے اور تعجب ہے کہ کار رحمانی پر شیطان غالب ہو.اگر خداوند تعالیٰ ہماری مدد نہ کرے گا اور ہم کو القائے شیطانی سے نہ بچائے گا تو ہم ہدایت کس طرح پر پائیں گے.پس بلا امداد رحمانی کوئی امر نہیں ہو سکتا.اسلئے التجا ہے کہ آپ دعا فرمائیں کہ اس استخارہ میں شیطان کا دخل نہ رہے.اور اس کا اشتہار دیا جاوے اور براہ مہربانی دس پندرہ روز میں توجہ فرما کر اجازت طلب فرمائیں بندہ بھی استخارہ کیلئے تیار ہے.جس وقت جناب کو ان تینوں امور کی بابت القاء ہو جاوے گا کہ یہ استخارہ القائے شیطانی سے مبرا ہے اور اس کا اثر مخالف اور موافق پر یکساں ہوگا اس وقت بندہ استخارہ کرے گا اور زیادہ سے زیادہ ایک ماہ تک انتظار جواب باصواب رہے گا.جواب سے مراد جواب نیاز نامہ ہذا نہیں بلکہ جو امر استخارہ کی بابت آپ کو بعد توجہ و دعا معلوم ہو.سوم.کوئی امر خارق عادت ہونا چاہیئے تاکہ لوگوں پر حجت قائم ہو.ان تینوں امور کی بابت میں نہایت ادب سے ملتجی ہوں کہ اس کی بابت برائے خدا توجہ فرماویں کیونکہ قال و قیل بہت ہو چکی ہے اور اس سے شبہات دن بدن بڑھتے جاتے ہیں.اب استدلال ہو چکا.اب دوسری طرف متوجہ ہونا چاہیئے.پائے استدلالیان چوبین بود پائے چوبین سخت بے تمکین بود گر باستدلال کارِ دین بُدے فخر رازی راز دارِ دین بُدے اور میں نہایت عجز سے جناب کو اسی ذات واحد کی قسم دے کر کہتا ہوں جس نے کہ آپ کو اور مجھ کو پیدا کیا اور کل عالم کو پیدا کیا کہ ان تینوں امور متذکرہ بالا کیلئے توجہ کر کے دعا فرمائیں.اور دعا میں یہ بھی درخواست ہو کہ میعاد زمانہ قریب ہو نہ بعید
چونکہ طرفین میں رشتہ نازک ہے اور دینی کام ہے.اس تحریر کو گستاخانہ تصور نہ فرمائیں بلکہ مستفیدانہ.چونکہ میں آپ کی بیعت میں ہوں اس لئے اطمینان قلب کیلئے تکلیف دی گئی.ایک اور بات یاد آئی کہ اب تحریر کا اعتبار ساقط ہوگیا.کیونکہ جو جناب کے معتقد ہیں وہ آپ کی تحریر کا اعتبار کریں گے اور جو مخالف ہیں وہ مخالفوں کا اعتبار کریں گے بیچ میں ِ پس گئے وہ لوگ جو دونوں تحریروں کو منصفانہ طور پر دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہتے ہیں اسلئے ان کو کسی کا بھی اعتبار نہ رہا.کیونکہ اِن کو نہ کوئی خاص تعلق و صحبت آپ سے اور نہ مخالفوں سے اِن کو تو ہر وقت ابتلا رہے گا.
اِس خط کو کم سے کم تین مرتبہ غور سے پڑھیں یہ خط اگرچہ بظاہر آپ کے نام ہے لیکن اس کی بہت سی عبارتیں دوسروں کے اوہام دور کرنے کیلئے ہیں گو بظاہر آپ ہی مخاطب ہیں.بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ محبی و عزیزی اخویم نواب محمد علی خان صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السّلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکا تہٗ ایک ہفتہ سے بلکہ عشرہ سے زیادہ گذر گیا کہ آں محب کا محبت نامہ پہنچا تھا چونکہ اس میں امور مستفسرہ بہت تھے اور مجھے بباعث تالیف کتاب آئینہ کمالات اسلام بغایت درجہ کمی فرصت تھی.کیونکہ ہر روز مضمون طیار کر کے دیا جاتا ہے.اس لئے میں جواب لکھنے سے معذور رہا اور آپ کی طرف سے تقاضا بھی نہیں تھا.آج مجھے خیال آیا کہ چونکہ آپ ایک خالص محب ہیں اور آپ کا استفسار سراسر نیک ارادہ اور نیک نیت پر مبنی ہے اس لئے بعض امور سے آپ کو آگاہ کرنا اور آپ کیلئے جو بہتر ہے اس سے اطلاع دینا ایک امر ضروری ہے.لہٰذا چند سطور آپ کی آگاہی کیلئے ذیل میں لکھتا ہوں.یہ سچ ہے کہ جب سے اس عاجز نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ بامر اللہ تعالیٰ کیا ہے تب سے وہ لوگ جو اپنے اندر قوت فیصلہ نہیں رکھتے عجب تذبذب اور کشمکش میں پڑ گئے ہیں اور آپ فرماتے ہیں کہ قیل و قال سے فیصلہ نہیں ہو سکتا مباہلہ کیلئے اب طیار ہونا چاہیئے اور آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ کوئی نشان بھی دکھلانا چاہیئے.(۱) مباہلہ کی نسبت آپ کے خط سے چند روز پہلے مجھے خودبخود اللہ جلّ شانہٗ نے اجازت دیدی ہے اور یہ خدا تعالیٰ کے ارادہ سے آپ کے ارادہ کا توارد ہے کہ آپ کی طبیعت میں یہ جنبش پیدا ہوئی.مجھے معلوم ہوتا ہے کہ اب اجازت دینے میں حکمت یہ ہے کہ اول حال میں صرف اسلئے مباہلہ ناجائز تھا کہ ابھی مخالفین کو بخوبی سمجھایا نہیں گیا تھا اور وہ اصل حقیقت سے سراسر ناواقف تھے اور تکفیر پر
بھی ان کا وہ جوش نہ تھا جو بعد اس کے ہوا لیکن اب تالیف آئینہ کمالات اسلام کے بعد تفہیم اپنے کمال کو پہنچ گئی اور اب اس کتاب کے دیکھنے سے ایک ادنیٰ استعداد کا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ مخالف لوگ اپنی رائے میں سراسر خطا پر ہیں.اس لئے مجھے حکم ہوا ہے کہ میں مباہلہ کی درخواست کو کتاب آئینہ کمالات اسلام کے ساتھ شائع کروں.سو وہ درخواست انشاء اللہ القدیر پہلے حصہ کے ساتھ ہی شائع ہوگی.اول دنوں میں میرا یہ بھی خیال تھا کہ مسلمانوں سے کیونکر مباہلہ کیا جائے کیونکہ مباہلہ کہتے ہیں ایک دوسرے پر لعنت بھیجنا اور مسلمان پر لعنت بھیجنا جائز نہیں مگر اب چونکہ وہ لوگ بڑے اصرار سے مجھ کو کافر ٹھہراتے ہیں اور حکم شرع یہ ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو کافر ٹھہراوے اگر وہ شخص درحقیقت کافر نہ ہو تو وہ کفر الٹ کر اسی پر پڑتا ہے جو کافر ٹھہراتا ہے.اسی بناء پر مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ جو لوگ تجھ کو کافر ٹھہراتے ہیں اور ابناء اور نساء رکھتے ہیں اور فتویٰ کفر کے پیشوا ہیں ان سے مباہلہ کی درخواست کر.(۲) نشان کے بارے میں جو آپ نے لکھا ہے یہ بھی درست ہے درحقیقت انسان دو قسم کے ہوتے ہیں.اوّل وہ جو زیرک اور زکی ہیں اور اپنے اندر قوت فیصلہ رکھتے ہیں اور متخاصمین کی قیل و قال میں سے جو تقریر حق کی عظمت اور برکت اور روشنی اپنے اندر رکھتی ہے اس تقریر کو پہچان لیتے ہیں اور باطل جو تکلف اور بناوٹ کی بدبو رکھتا ہے وہ بھی ان کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہتا.ایسے لوگ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شناخت کیلئے اس بات کے محتاج نہیں ہو سکتے کہ ان کے سامنے سوٹی کا سانپ بنایا جاوے اور نہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شناخت کیلئے حاجت مند ہو سکتے ہیں کہ ان کے ہاتھ سے مفلوجوں اور مجذوموں کو اچھے ہوتے دیکھ لیں اور نہ ہمارے سید و مولیٰ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ایسے اعلیٰ درجہ کے لوگوں نے کبھی معجزہ طلب کیا.کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ صحابہ کبار رضی اللہ عنہم کوئی معجزہ دیکھ کر ایمان لائے تھے بلکہ وہ زکی تھے اور نور قلب رکھتے تھے.انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منہ دیکھ کر ہی پہچان لیا تھا کہ یہ جھوٹوں کا منہ نہیں ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے نزدیک صدیق اور راستباز ٹھہرے انہوں نے حق کو دیکھا اور ان کے دل بول اٹھے کہ یہ منجانب اللہ ہے.دوسری قسم کے وہ انسان ہیں جو معجزہ اور کرامت طلب کرتے ہیں ان کے حالات خدا تعالیٰ نے
قرآ ن کریم میں تعریف کے ساتھ بیان نہیں کئے اور اپنا غضب ظاہر کیا ہے جیسا کہ ایک جگہ فرماتا ہے 333 33 ۱ یعنے یہ لوگ سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر کوئی نشان دیکھیں تو ضرور ایمان لے آئیں گے.ان کو کہدے کہ نشان تو خدا تعالیٰ کے پاس ہیں اور تمہیں خبر نہیں کہ جب نشان بھی دیکھیں گے تو کبھی ایمان نہیں لائیں گے.پھر فرماتا ہے.333 ۲ یعنے جب بعض نشان ظاہر ہوں گے تو اس دن ایمان لانا بے سود ہوگا اور جو شخص صرف نشان کے دیکھنے کے بعد ایمان لایا ہے اس کو وہ ایمان نفع نہیں دے گا.پھر فرماتا ہے 33.333 ۳ الخ یعنے کافر کہتے ہیں کہ وہ نشان کب ظاہر ہوں گے اور یہ وعدہ کب پورا ہوگا سو ان کو کہدے کہ مجھے ان باتوں میں دخل نہیں نہ میں اپنے نفس کیلئے ضرر کا مالک ہوں نہ نفع کا مگر جو خدا چاہے.ہر یک گروہ کیلئے ایک وقت مقرر ہے جو ٹل نہیں سکتا اور پھر اپنے رسول کو فرماتا ہے.3333333.۴ یعنے اگر تیرے پر (اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم)اِن کافروں کا اعراض بہت بھاری ہے سو اگر تجھے طاقت ہے تو زمین میں سرنگ کھود کر یا آسمان پر زینہ لگا کر چلا جا اور ان کیلئے کوئی نشان لے آ.اور اگر خدا چاہتا تو ان سب کو جو نشان مانگتے ہیں ہدایت دے دیتا.پس تو جاہلوں میں سے مت ہو.اب ان تمام آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کافر نشان مانگا کرتے تھے بلکہ قسمیں بھی کھاتے تھے کہ ہم ایمان لائیں گے مگر اللہ جلّ شانہٗ کی نظر میں وہ مورد غضب تھے اور ان کے سوالات بے ہودہ تھے بلکہ اللہ جلّ شانہٗ صاف صاف فرماتا ہے کہ جو شخض نشان دیکھنے کے بعد ایمان لاوے اس کا ایمان مقبول نہیں جیسا کہ ابھی آیت لا ینفع نفسا ایمانھا تحریر ہو چکی ہے اور اسی کے قریب قریب ایک دوسری آیت ہے اور وہ یہ ہے3 3333۵ یعنے
پہلی امتوں میں جب ان کے نبیوں نے نشان دکھلائے تو ان نشانوں کو دیکھ کر بھی لوگ ایمان نہ لائے کیونکہ وہ نشان دیکھنے سے پہلے تکذیب کر چکے تھے.اسی طرح خدا ان لوگوں کے دلوں پر مہریں لگا دیتا ہے جو اس قسم کے کافر ہیں جو نشاں سے پہلے ایمان نہیں لاتے.یہ تمام آیتیں اور ایسا ہی اور بہت سی آیتیں قرآن کریم کی جن کا اس وقت لکھنا موجب طوالت ہے بالاتفاق بیان فرما رہی ہیں کہ نشان کو طلب کرنے والے مورد غضب الٰہی ہوتے ہیں اور جو شخص نشان دیکھنے سے ایمان لاوے اس کا ایمان منظور نہیں اس پر دو۲ اعتراض وارد ہوتے ہیں.اول یہ کہ نشان طلب کرنے والے کیوں مورد غضب الٰہی ہیں جو شخص اپنے اطمینان کیلئے یہ آزمائش کرنا چاہتا ہے کہ یہ شخص منجانب اللہ ہے یا نہیں بظاہر وہ نشان طلب کرنے کا حق رکھتا ہے تا دھوکا نہ کھاوے اور مردود الٰہی کو مقبول الٰہی خیال نہ کر لیوے.اس وہم کا جواب یہ ہے کہ تمام ثواب ایمان پر مترتب ہوتا ہے اور ایمان اسی بات کا نام ہے کہ جو بات پردہ غیب میں ہو اس کو قرائن مرجحہ کے لحاظ سے قبول کیا جائے یعنے اس قدر دیکھ لیا جائے کہ مثلاً صدق کے وجوہ کذب کے وجوہ پر غالب ہیں اور قرائن موجودہ ایک شخص کے صادق ہونے پر بہ نسبت اس کے کاذب ہونے کے بکثرت پائے جاتے ہیں.یہ تو ایمان کی حد ہے لیکن اگر اس حد سے بڑھ کر کوئی شخص نشان طلب کرتا ہے تو وہ عنداللہ فاسق ہے اور اسی کے بارے میں اللہ جلّ شانہٗ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ نشان دیکھنے کے بعد اس کو ایمان نفع نہیں دے گا.یہ بات سوچنے سے جلد سمجھ میں آ سکتی ہے کہ انسان ایمان لانے سے کیوں خدا تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرتا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ جن چیزوں کو ہم ایمانی طور پر قبول کرلیتے ہیں وہ بکل الوجوہ ہم پر مکشوف نہیں ہوتیں مثلاً انسان خدا تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے مگر اس کو دیکھا نہیں.فرشتوں پر بھی ایمان لاتا ہے لیکن وہ بھی نہیں دیکھے.بہشت اور دوزخ پر ایمان لاتا ہے اور وہ بھی نظر سے غائب ہیں محض حسن ظن سے مان لیتا ہے اس لئے خدائے تعالیٰ کے نزدیک صادق ٹھہر جاتا ہے اور یہ صدق اس کیلئے موجب نجات ہو جاتا ہے ورنہ ظاہر ہے کہ بہشت اور دوزخ اور ملائک ایک مخلوق خدائے تعالیٰ کی ہے ان پر ایمان لانا نجات سے کیا تعلق رکھتا ہے.جو چیز واقعی طور پر موجود ہے اور بدیہی طور پر اس کا موجود ہونا ظاہر ہے اگر ہم اس کو موجود مان لیں تو کس اجر کے ہم مستحق ٹھہر سکتے ہیں مثلاً اگر
ہم یہ کہیں کہ آفتاب کے وجود پر ایمان لائے اور زمین پر ایمان لائے کہ موجود ہے اور چاند کے موجود ہونے پر بھی ایمان لائے اور اس بات پر ایمان لائے کہ دنیا میں گدھے بھی ہیں اور گھوڑے بھی اور خچر بھی اور بیل بھی اور طرح طرح کے پرند بھی تو کیا اس ایمان سے کسی ثواب کی توقع ہو سکتی ہے.پھر کیا وجہ ہے کہ جب ہم مثلاً ملائک کے وجود پر ایمان لاتے ہیں تو خدائے تعالیٰ کے نزدیک مومن ٹھہرتے ہیں اور مستحق ثواب بنتے ہیں اور جب ان تمام حیوانات پرایمان لاتے ہیں جو زمین پر ہماری نظر کے سامنے موجود ہیں تو ایک ذرہ بھی ثواب نہیں ملتا حالانکہ ملائک اور دوسری سب چیزیں برابر خدائے تعالیٰ کی مخلوق ہیں پس اس کی یہی وجہ ہے کہ ملائک پردہ غیب میں ہیں اور دوسری چیزیں یقینی طور پر ہمیں معلوم ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن ایمان لانا منظور نہیں ہوگا.یعنے اگر اس وقت کوئی شخص خدا تعالیٰ کی تجلیات دیکھ کر اوراس کے ملائک اور بہشت اور دوزخ کا مشاہدہ کر کے یہ کہے کہ اب میں ایمان لایا تو منظور نہ ہوگا.کیوں منظور نہ ہوگا؟ اسی وجہ سے کہ اس وقت کوئی پردہ غیب درمیان نہ ہوگا تا اس سے ماننے والے کا صدق ثابت ہو.اب پھر ذرا غور کر کے اس بات کو سمجھ لینا چاہیئے کہ ایمان کس بات کو کہتے ہیں اور ایمان لانے پر کیوں ثواب ملتا ہے.امید ہے کہ آپ بفضلہ تعالیٰ تھوڑا سا فکر کر کے اس بات کو جلد سمجھ جائیں گے کہ ایمان لانا اس طرز قبول سے مراد ہے کہ جب بعض گوشے یعنے بعض پہلو کسی حقیقت کے جس پر ایمان لایا جاتا ہے مخفی ہوں اور نظر دقیق سے سوچ کر اور قرائن مرجحہ کو دیکھ کر اس حقیقت کو قبل اس کے کہ وہ بکُلی کھل جائے قبول کرلیا جائے یہ ایمان ہے جس پر ثواب مترتب ہوتا ہے اور اگرچہ رسولوں اور نبیوں اور اولیاء کرام علیہم السلام سے بلاشبہ نشان ظاہر ہوتے ہیں مگر سعید آدمی جو خدائے تعالیٰ کے پیارے ہیں ان نشانوں سے پہلے اپنی فراست صحیحہ کے ساتھ قبول کرلیتے ہیں اور جو لوگ نشانوں کے بعد قبول کرتے ہیں وہ لوگ خدائے تعالیٰ کی نظر میں ذلیل اور بے قدر ہیں بلکہ قرآن کریم بآواز بلند بیان فرماتا ہے کہ جو لوگ نشان دیکھنے کے بغیر حق کو قبول نہیں کر سکتے وہ نشان کے بعد بھی قبول نہیں کرتے.کیونکہ نشان کے ظاہر ہونے سے پہلے وہ بالجہر منکر ہوتے ہیں اور علانیہ کہتے پھرتے ہیں کہ یہ شخص کذّاب اور جھوٹا ہے کیونکہ اس نے کوئی نشان نہیں دکھلایا اور ان کی ضلالت کا زیادہ یہ موجب ہوتا ہے کہ خدائے تعالیٰ بھی بباعث آزمائش اپنے بندوں کے نشان دکھلانے میں عمداً
تاخیر اور توقف ڈالتا ہے اور وہ لوگ تکذیب اور انکار میں بڑھتے جاتے ہیں یہاں تک کہ انکار میں ترقی کرتے کرتے اپنی راؤں کو پختہ کر لیتے ہیں اور دعویٰ سے کہنے لگتے ہیں کہ درحقیقت یہ شخص کذاب ہے مفتری ہے مکار ہے دروغ گو ہے جھوٹا ہے اور منجانب اللہ نہیں ہے پس جب وہ شدت سے اپنی رائے کو قائم کر چکتے ہیں اور تقریروں کے ذریعہ سے اور تحریروں کے ذریعہ سے اور مجلسوں میں بیٹھ کر اور منبروں پر چڑھ کر اپنی مستقل رائے دنیا میں پھیلا دیتے ہیں کہ درحقیقت یہ شخص کذاب ہے تب اس وقت عنایت الٰہی توجہ فرماتی ہے کہ اپنے عاجز بندے کی عزت اور صداقت ظاہر کرنے کیلئے کوئی اپنا نشان ظاہر کرے.سو اس وقت کوئی غیبی نشان ظاہر ہوتا ہے جس سے صرف وہ لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو پہلے مان چکے تھے اور انصار حق میں داخل ہوگئے تھے یا وہ جنہوں نے اپنی زبانوں اور اپنی قلموں اور اپنے خیالات کو مخالفانہ اظہار سے بچا لیا تھا لیکن وہ بدنصیب گروہ جو مخالفانہ ارادوں کو ظاہر کر چکے تھے وہ نشان دیکھنے کے بعد بھی اس کو قبول نہیں کر سکتے کیونکہ وہ تو اپنی رائیں علیٰ رؤس الاشہاد شائع کر چکے.اشتہار دے چکے مہریں لگا چکے کہ یہ شخص درحقیقت کذاب ہے اسلئے اب اپنی مشہور کردہ رائے سے مخالف اقرار کرنا ان کیلئے مرنے سے بھی زیادہ سخت ہو جاتا ہے کیونکہ اس سے ان کی ناک کٹتی ہے اور ہزاروں لوگوں پر ان کی حماقت ثابت ہوتی ہے کہ پہلے تو بڑے زور شور سے دعویٰ کرتے تھے کہ یہ شخص ضرور کاذب ہے ضرور کاذب ہے.اور قسمیں کھاتے اور اپنی عقل اور علمیت جتلاتے تھے اور اب اسی کی تائید کرتے ہیں.اور میں پہلے اس سے بیان کر چکا ہوں کہ ایمان لانے پر ثواب اسی وجہ سے ملتا ہے کہ ایمان لانے والا چند قرائن صدق کے لحاظ سے ایسی باتوں کو قبول کرلیتا ہے کہ وہ ہنوز مخفی ہیں جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ نے مومنوں کی تعریف قرآن کریم میں فرمائی ہے کہ یؤمنون بالغیب یعنے ایسی بات کو مان لیتے ہیں کہ وہ ہنوز در پردہ غیب ہے جیسا کہ صحابہ کرام نے ہمارے سید و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیا اور کسی نے نشان نہ مانگا اور کوئی ثبوت طلب نہ کیا اور گو بعد ا سکے اپنے وقت پر بارش کی طرح نشان برسے اور معجزات ظاہر ہوئے لیکن صحابہ کرام ایمان لانے میں معجزات کے محتاج نہیں ہوئے اور اگر وہ معجزات کے دیکھنے پر ایمان موقوف رکھتے تو ایک
ذرہ بزرگی ان کی ثابت نہ ہوتی اور عوام میں سے شمار کئے جاتے اور خدائے تعالیٰ کے مقبول اور پیارے بندوں میں داخل نہ ہو سکتے کیونکہ جن جن لوگوں نے نشان مانگا خدائے تعالیٰ نے ان پر عتاب ظاہر کیا اور درحقیقت ان کا انجام اچھا نہ ہوا اور اکثر وہ بے ایمانی کی حالت میں ہی مرے غرض خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں سے ثابت ہوتا ہے کہ نشان مانگنا کسی قوم کیلئے مبارک نہیں ہوا اور جس نے نشان مانگا وہی تباہ ہوا.انجیل میں بھی حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ اس وقت کے حرام کار مجھ سے نشان مانگتے ہیں ان کو کوئی نشان دیا نہیں جائے گا.میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ بالطبع ہر یک شخص کے دل میں اس جگہ یہ سوال پیدا ہوگا کہ بغیر کسی نشان کے حق اور باطل میں انسان کیونکر فرق کر سکتا ہے اور اگر بغیر نشان دیکھنے کے کسی کو منجانب اللہ قبول کیا جائے تو ممکن ہے کہ اس قبول کرنے میں دھوکا ہو.اس کا جواب وہی ہے جو میں لکھ چکا ہوں کہ خدائے تعالیٰ نے ایمان کا ثواب اکثر اسی امر سے مشروط کر رکھا ہے کہ نشان دیکھنے سے پہلے ایمان ہو اور حق اور باطل میں فرق کرنے کیلئے یہ کافی ہے کہ چند قرائن جو وجہ تصدیق ہو سکیں اپنے ہاتھ میں ہوں اور تصدیق کا پلہ تکذیب کے پلہ سے بھاری ہو.مثلاً حضرت صدیق اکبر ابوبکر رضی اللہ عنہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تو انہوں نے کوئی معجزہ طلب نہیں کیا اور جب پوچھا گیا کہ کیوں ایمان لائے تو بیان کیا کہ میرے پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا امین ہونا ثابت ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ انہوں نے کبھی کسی انسان کی نسبت بھی جھوٹ کو استعمال نہیں کیا چہ جائیکہ خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھیں.ایسا ہی اپنے اپنے مذاق پر ہریک صحابی ایک ایک اخلاقی یا تعلیمی فضیلت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دیکھ کر اور اپنی نظر دقیق سے اس کو وجہ صداقت ٹھہرا کر ایمان لائے تھے اور ان میں سے کسی نے بھی نشان نہیں مانگا تھا اور کاذب اور صادق میں فرق کرنے کے لئے ان کی نگاہوں میں یہ کافی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تقویٰ کے اعلیٰ مراتب پر ہیں اپنے منصب کے اظہار میں بڑی شجاعت اور استقامت رکھتے ہیں اور جس تعلیم کو لائے ہیں وہ دوسری سب تعلیموں سے صاف تر اور پاک تر اور سراسر نور ہے اور تمام اخلاق حمیدہ میں بے نظیر ہیں اور للّٰہی جوش ان میں اعلیٰ درجہ کے پائے جاتے ہیں اور صداقت ان کے چہرہ پر برس رہی ہے پس انہیں باتوں کو دیکھ کر
انہو ں نے قبول کرلیا کہ وہ درحقیقت خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہیں.اس جگہ یہ نہ سمجھا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزات ظاہر نہیں ہوئے بلکہ تمام انبیاء سے زیادہ ظاہر ہوئے لیکن عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ اوائل میں کھلے کھلے معجزات اور نشان مخفی رہتے ہیں تا صادقوں کا صدق اور کاذبوں کا کذب پرکھا جائے.یہ زمانہ ابتلا کا ہوتا ہے اور اس میں کوئی کھلا کھلا نشان ظاہر نہیں ہوتا.پھر جب ایک گروہ صافی دلوں کا اپنی نظر دقیق سے ایمان لے آتا ہے اور عوام کالانعام باقی رہ جاتے ہیں تو اُن پر حجت پوری کرنے کیلئے یا ان پر عذاب نازل کرنے کیلئے نشان ظاہر ہوتے ہیں مگر ان نشانوں سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو پہلے ایمان لا چکے تھے اور بعد میں ایمان لانے والے بہت کم ہوتے ہیں کیونکہ ہر روزہ تکذیب سے ان کے دل سخت ہو جاتے ہیں اور اپنی مشہور کردہ راؤں کو وہ بدل نہیں سکتے آخر اسی کفر اور انکار میں واصل جہنم ہوتے ہیں.مجھے دلی خواہش ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ آپ کو یہ بات سمجھ آجاوے کہ درحقیقت ایمان کے مفہوم کیلئے یہ بات ضروری ہے کہ پوشیدہ چیزوں کو مان لیا جائے اور جب ایک چیز کی حقیقت ہر طرح سے کھل جائے یا ایک وافر حصہ اس کا کھل جائے تو پھر اس کا مان لینا ایمان میں داخل نہیں.مثلاً اب جو دن کا وقت ہے اگر میں یہ کہوں کہ میں اس بات پر ایمان لاتا ہوں کہ اب دن ہے رات نہیں ہے تو میرے اس ماننے میں کیا خوبی ہوگی اور اس ماننے میں مجھے دوسروں پر کیا زیادت ہے.سعید آدمی کی پہلی نشانی یہی ہے کہ اس بابرکت بات کو سمجھ لے کہ ایمان کس چیز کو کہا جاتا ہے کیونکہ جس قدر ابتدائے دنیا سے لوگ انبیاء کی مخالفت کرتے آئے ہیں ان کی عقلوں پر یہی پردہ پڑا ہوا تھا کہ وہ ایمان کی حقیقت کو نہیں سمجھتے تھے اور چاہتے تھے کہ جب تک دوسرے امور مشہودہ محسوسہ کی طرح انبیاء کی نبوت اور ان کی تعلیم کھل نہ جائے تب تک قبول کرنا مناسب نہیں اور وہ بیوقوف یہ خیال نہیں کرتے تھے کہ کھلی ہوئی چیز کو ماننا ایمان میں کیونکر داخل ہوگا وہ تو ہندسہ اور حساب کی طرح ایک علم ہوا نہ کہ ایمان.پس یہی حجاب تھا کہ جس کی وجہ سے ابوجہل اور ابولہب وغیرہ اوائل میں ایمان لانے سے محروم رہے اور پھر جب اپنی تکذیب میں پختہ ہوگئے اور مخالفانہ راؤں پر اصرار کر چکے اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے کھلے کھلے
نشا ن ظاہر ہوئے تب انہوں نے کہا کہ اب قبول کرنے سے مرنا بہتر ہے غرض نظر دقیق سے صادق کے صدق کو شناخت کرنا سعیدوں کا کام ہے اور نشان طلب کرنا نہایت منحوس طریق اور اشقیا کا شیوہ ہے جس کی وجہ سے کروڑ ہا منکر ہیزم جہنم ہو چکے ہیں خدائے تعالیٰ اپنی سنت کو نہیں بدلتا وہ جیسا کہ اس نے فرما دیا ہے انہی کے ایمان کو ایمان سمجھتا ہے جو زیادہ ضد نہیں کرتے.اور قرائن مرجحہ کو دیکھ کر اور علامات صدق پاکر صادق کو قبول کرلیتے ہیں اور صادق کا کلام صادق کی راستبازی صادق کی استقامت اور خود صادق کا منہ ان کے نزدیک اس کے صدق پر گواہ ہوتا ہے.مبارک وہ جن کو مردم شناسی کی عقل دی جاتی ہے.ماسوا اس کے جو شخص ایک نبی متبوع علیہ السلام کا متبع ہے اور اس کے فرمودہ پر اور کتاب اللہ پر ایمان لاتا ہے اس کی آزمائش انبیاء کی آزمائش کی طرح کرنا ایک قسم کی ناسمجھی ہے کیونکہ انبیاء اس لئے آتے ہیں کہ تا ایک دین سے دوسرے دین میں داخل کریں اور ایک قبلہ سے دوسرا قبلہ مقرر کرا دیں اور بعض احکام کو منسوخ کریں اور بعض نئے احکام لاویں.لیکن اس جگہ تو ایسے انقلاب کا دعویٰ نہیں ہے وہی اسلام ہے جو پہلے تھا.وہی نمازیں ہیں جو پہلے تھیں.وہی رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو پہلے تھا اور وہی کتاب کریم ہے جو پہلے تھی.اصل دین میں سے کوئی ایسی بات چھوڑنی نہیں پڑی جس سے اس قدر حیرانی ہو.مسیح موعود کا دعویٰ اس حالت میں گراں اور قابل احتیاط ہوتا کہ جبکہ اس دعویٰ کے ساتھ نعوذ باللہ کچھ دین کے احکام کی کمی بیشی ہوتی اور ہماری عملی حالت دوسرے مسلمانوں سے کچھ فرق رکھتی.اب جبکہ ان باتوں میں سے کوئی بھی نہیں صرف مابہ النزاع حیات مسیح اور وفات مسیح ہے اور مسیح موعود کا دعویٰ اس مسئلہ کی درحقیقت ایک فرع ہے اور اس دعویٰ سے مراد کوئی عملی انقلاب نہیں اور نہ اسلامی اعتقادات پر اس کا کچھ مخالفانہ اثر ہے تو کیا اس دعویٰ کے تسلیم کرنے کیلئے کسی بڑے معجزہ یا کرامت کی حاجت ہے جس کا مانگنا رسالت کے دعویٰ میں عوام کا قدیم شیوہ ہے ایک مسلمان جسے تائید اسلام کیلئے خدائے تعالیٰ نے بھیجا.جس کے مقاصد یہ ہیں کہ تا دین اسلام کی خوبیاں لوگوں پر ظاہر کرے اور آج کل کے فلسفی وغیرہ الزاموں سے اسلام کا پاک ہونا ثابت کر دیوے اور مسلمانوں کو اللہ اور رسول کی محبت کی طرف رجوع دلاوے کیا اس کا قبول کرنا ایک منصف مزاج اور خدا ترس آدمی پر کوئی مشکل امر ہے؟
مسیح موعود کا دعویٰ اگر اپنے ساتھ ایسے لوازم رکھتا جن سے شریعت کے احکام اور عقائد پر کچھ مخالفانہ اثر پہنچتا تو بے شک ایک ہولناک بات تھی لیکن دیکھنا چاہیئے کہ میں نے اس دعویٰ کے ساتھ کس اسلامی حقیقت کو منقلب کر دیا ہے.کون سے احکام اسلام میں سے ایک ذرہ بھی کم یا زیادہ کر دیا ہے.ہاں ایک پیشگوئی کے وہ معنے کئے گئے ہیں جو خدا تعالیٰ نے اپنے وقت پر مجھ پر کھولے ہیں اور قرآن کریم ان معنوں کی صحت کیلئے گواہ ہے اور احادیث صحیحہ بھی ان کی شہادت دیتی ہیں.پھر نہ معلوم کہ اس قدر کیوں شور و غوغا ہے ! ہاں طالبِ حق سوال بھی اس جگہ کرسکتا ہے اوروہ یہ کہ مسیح موعود کا دعویٰ تسلیم کرنے کیلئے کون سے قرائن موجود ہیں کیونکہ کسی مدعی کی صداقت ماننے کیلئے قرائن تو چاہیئے خصوصاً آج کل کے زمانہ میں جو مکروفریب اور بددیانتی سے بھرا ہواہے اور دعاوی باطلہ کابازارگرم ہے.اس سوال کے جواب میں مجھے یہ کہنا کافی ہے کہ مندرجہ ذیل امور طالب حق کیلئے بطور علامات اور قرائن کے ہیں.(۱) اول وہ پیشگوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو تواتر معنوی تک پہنچ گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ ہر یک صدی کے سر پر وہ ایسے شخص کو مبعوث کرے گا جو دین کو پھر تازہ کر دے گا اور اس کی کمزوریوں کو دور کر کے پھر اپنی اصلی طاقت اور قوت پر اس کو لے آوے گا.اس پیشگوئی کی رو سے ضرور تھا کہ کوئی شخص اس چودھویں صدی پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوتا اور موجودہ خرابیوں کی اصلاح کیلئے پیش قدمی دکھلاتا.سو یہ عاجز عین وقت پر مامور ہوا اس سے پہلے صدہا اولیاء نے اپنے الہام سے گواہی دی تھی کہ چودھویں صدی کا مجدد مسیح موعود ہوگا اور احادیث صحیحہ نبویہ پکار پکار کر کہتی ہیں کہ تیرھویں صدی کے بعد ظہور مسیح ہے.پس کیا اس عاجز کا یہ دعویٰ اس وقت عین اپنے محل اور اپنے وقت پر نہیں ہے.کیا یہ ممکن ہے کہ فرمودہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطا جاوے.میں نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ ا گر فرض کیا جاوے کہ چودھویں صدی کے سر پر مسیح موعود پیدا نہیں ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی پیشگوئیاں خطا جاتی ہیں اور صدہا بزرگوار صاحب الہام جھوٹے ٹھہرتے ہیں.(۲) اس بات کو بھی سوچنا چاہیئے کہ جب علماء سے یہ سوال کیا جائے کہ چودھویں صدی کا مجدد ہونے کیلئے بجز اس احقر کے اور کس نے دعویٰ کیا ہے اور کس نے منجانب اللہ آنے کی خبر دی ہے اور ملہم ہونے اور مامور ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو اس کے جواب میں وہ بالکل خاموش ہیں اور
کسی شخص کو پیش نہیں کر سکتے جس نے ایسا دعویٰ کیا ہو اور یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ مسیح موعود ہونے کا دعویٰ ملہم من اللہ اور مجدد من اللہ کے دعویٰ سے کچھ بڑا نہیں ہے.صاف ظاہر ہے کہ جس کو یہ رتبہ حاصل ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کا ہم کلام ہو اس کا نام منجانب اللہ خواہ مثیل مسیح ہو اور خواہ مثیل موسیٰ ہو.یہ تمام نام اس کے حق میں جائز ہیں.مثیل ہونے میں کوئی اصلی فضیلت نہیں اصلی اور حقیقی فضیلت ملہم من اللہ اور کلیم اللہ ہونے میں ہے.پھر جس شخص کو مکالمہ الٰہیہ کی فضیلت حاصل ہوگئی اور کسی خدمت دین کیلئے مامور من اللہ ہوگیا تو اللہ جلّ شانہٗ وقت کے مناسب حال اس کا کوئی نام رکھ سکتا ہے.یہ نام رکھنا تو کوئی بڑی بات نہیں.اسلام میں موسیٰ، عیسیٰ، داؤد، سلیمان، یعقوب وغیرہ بہت سے نام نبیوں کے نام پر لوگ رکھ لیتے ہیں اس تفاول کی نیت سے کہ ان کے اخلاق انہیں حاصل ہو جائیں پھر اگر خدا تعالیٰ کسی کو اپنے مکالمہ کا شرف دیکر کسی موجودہ مصلحت کے موافق اس کا کوئی نام بھی رکھ دے تو اس میں کیا استبعاد ہے؟ اور اس زمانہ کے مجدد کا نام مسیح موعود رکھنا اس مصلحت پر مبنی معلوم ہوتا ہے کہ اس مجدد کا عظیم الشان کام عیسائیت کا غلبہ توڑنا اور ان کے حملوں کو دفع کرنا اور ان کے فلسفہ کو جو مخالف قرآن ہے دلائل قویہ کے ساتھ توڑنا اور ان پر اسلام کی حجت پوری کرنا ہے کیونکہ سب سے بڑی آفت اس زمانہ میں اسلام کیلئے جو بغیر تائید الٰہی دور نہیں ہو سکتی عیسائیوں کے فلسفیانہ حملے اور مذہبی نکتہ چینیاں ہیں جن کے دور کرنے کیلئے ضرور تھا کہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے کوئی آوے اور جیسا کہ میرے پر کشفاًکھولا گیا ہے.حضرت مسیح کی روح ان افتراؤں کی وجہ سے جو ان پر اس زمانہ میں کئے گئے اپنے مثالی نزول کیلئے شدت جوش میں تھی اور خدا تعالیٰ سے درخواست کرتی تھی کہ اس وقت مثالی طور پر اس کا نزول ہو.سو خدائے تعالیٰ نے اس کے جوش کے موافق اس کی مثال کو دنیا میں بھیجا تا وہ وعدہ پورا ہو جو پہلے سے کیا گیا تھا.یہ ایک ِ سرّ اسرار الٰہیہ میں سے ہے کہ جب کسی رسول یا نبی کی شریعت اس کے فوت ہونے کے بعد بگڑ جاتی ہے اور اس کی اصل تعلیموں اور ہدایتوں کو بدلا کر بے ہودہ اور بیجا باتیں اس کی طرف منسوب کی جاتی ہیں اور ناحق کا جھوٹ افتراء کر کے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ تمام کفر اور بدکاری کی باتیں اس نبی نے ہی سکھلائی تھیں تو اس نبی کے دل میں ان فسادوں اور تہمتوں کے دور کرنے کیلئے ایک اشد توجہ اور اعلیٰ درجہ کا جوش پیدا ہو جاتا ہے.تب اس نبی کی روحانیت تقاضا کرتی ہے کہ کوئی قائم مقام اس کا زمین پر پیدا ہو.
اب غور سے اس معرفت کے دقیقہ کو سنو کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو دو مرتبہ یہ موقعہ پیش آیا کہ ان کی روحانیت نے قائم مقام طلب کیا اول جبکہ ان کے فوت ہونے پر چھ سو برس گذر گیا اور یہودیوں نے اس بات پر حد سے زیادہ اصرار کیا کہ وہ نعوذ باللہ مکار اور کاذب تھا اور اس کا ناجائز طور پر تولد تھا اور اسی لئے وہ مصلوب ہوا اور عیسائیوں نے اس بات پر غلو کیا کہ وہ خدا تھا اور خدا کا بیٹا تھا اور دنیا کو نجات دینے کیلئے اس نے صلیب پر جان دی.پس جب کہ مسیح علیہ السلام کی بابرکت شان میں نابکار یہودیوں نے نہایت خلاف تہذیب جرح کی اور بموجب توریت کی اس آیت کے جو کتاب استثنا میں ہے کہ جو شخص صلیب پر کھینچا جائے وہ لعنتی ہوتا ہے.نعوذ باللہ حضرت مسیح علیہ السلام کو لعنتی قرار دیا اور مفتی۱ اور کاذب اور ناپاک پیدائش والا ٹھہرایا اور عیسائیوں نے ان کی مدح میں اطراء کر کے ان کو خدا ہی بنا دیا اور ان پر یہ تہمت لگائی کہ یہ تعلیم انہیں کی ہے تب بہ اعلام الٰہی مسیح کی روحانیت جوش میں آئی اور اس نے ان تمام الزاموں سے اپنی بریت چاہی اور خدا تعالیٰ سے اپنا قائم مقام چاہا تب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے جن کی بعثت کی اغراض کثیرہ میں سے ایک یہ بھی غرض تھی کہ ان تمام بیجا الزاموں سے مسیح کا دامن پاک ثابت کریں اور اس کے حق میں صداقت کی گواہی دیں یہی وجہ ہے کہ خود مسیح نے یوحنا کی انجیل کے ۱۶ باب میں کہا ہے کہ میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ تمہارے لئے میرا جانا ہی فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو تسلی دینے والا (یعنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) تم پاس نہ آئے گا پھر اگر میں جاؤں تو اسے تم پاس بھیج دوں گا اور وہ آکر دنیا کو گناہ سے اور راستی سے اور عدالت سے تقصیر وار ٹھہرائے گا.گناہ سے اسلئے کہ وہ مجھ پر ایمان نہیں لائے.راستی سے اس لئے کہ میں اپنے باپ پاس جاتا ہوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھو گے.عدالت سے اس لئے کہ اس جہان کے سردار پر حکم کیا گیا ہے.جب وہ روح حق آئے گی تو تمہیں ساری سچائی کی راہ بتا وے گی.وہ روح حق میری بزرگی کرے گی اسلئے کہ وہ میری چیزوں سے پائے گی.۱۴.وہ تسلی دینے والا جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب چیزیں سکھائے گا.لوقا ۱۴.مَیں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ مجھ کو نہ دیکھو گے اس وقت تک کہ تم کہو گے مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام پر (یعنے مسیح علیہ السلام کے نام پر) آتا ہے.ان آیات میں مسیح کا یہ فقرہ کہ میں اسے تم پاس بھیج دوں گا اس بات پر صاف دلالت کرتا ہے کہ مسیح کی روحانیت اس کے آنے کیلئے تقاضا کرے گی اور یہ فقرہ کہ باپ اس کو میرے نام سے بھیجے گا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ آنے والا مسیح کی تمام روحانیت پائے گا اور اپنے کمالات کی ایک شاخ کی رو سے وہ نوٹ: اصل متن میں ایسے ہی لکھا ہے.اغلبًا ’’ مفتری‘‘ یا ’’ متفنّی ‘‘ لگتا ہے.ناشر
مسیح ہوگا جیسا کہ ایک شاخ کی رو سے وہ موسیٰ ہے.بات یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کے نام اپنے اندر جمع رکھتے ہیں کیونکہ وہ وجود پاک جامع کمالات متفرقہ ہے پس وہ موسیٰ بھی ہے اور عیسیٰ بھی اور آدم بھی اور ابراہیم بھی اور یوسف بھی اور یعقوب بھی.اسی کی طرف اللہ جلّ شانہٗ اشارہ فرماتا ہے.33 ۱ یعنے اے رسول اللہ تو اُن تمام ہدایات متفرقہ کو اپنے وجود میں جمع کرلے جو ہریک نبی خاص طور پر اپنے ساتھ رکھتا تھا.پس اس سے ثابت ہے کہ تمام انبیاء کی شانیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں شامل تھیں اور درحقیقت محمدؐ کا نام صلی اللہ علیہ وسلم اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے.کیونکہ محمدؐ کے یہ معنے ہیں کہ بغایت تعریف کیا گیا اور غایت درجہ کی تعریف تبھی متصور ہو سکتی ہے کہ جب انبیاء کے تمام کمالات متفرقہ اور صفات خاصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع ہوں چنانچہ قرآن کریم کی بہت سی آیتیں جن کا اس وقت لکھنا موجب طوالت ہے اسی پر دلالت کرتی بلکہ بصراحت بتلاتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک باعتبار اپنی صفات اور کمالات کے مجموعہ انبیاء تھی اور ہر یک نبی نے اپنے وجود کے ساتھ مناسبت پاکر یہی خیال کیا کہ میرے نام پر وہ آنے والا ہے اور قرآن کریم ایک جگہ فرماتا ہے کہ سب سے زیادہ ابراہیم سے مناسبت رکھنے والا یہ نبی ہے اور بخاری میں ایک حدیث ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری مسیح سے بشدت مناسبت ہے اور اس کے وجود سے میرا وجود ملا ہوا ہے.پس اس حدیث میں حضرت مسیح کے اس فقرہ کی تصدیق ہے کہ وہ نبی میرے نام پر آئے گا.سو ایسا ہی ہوا کہ ہمارا مسیح صلی اللہ علیہ وسلم جب آیا تو اس نے مسیح ناصری کے نا تمام کاموں کو پورا کیا اور اس کی صداقت کیلئے گواہی دی اور ان تہمتوں سے اس کو بری قرار دیا جو یہود اور نصاریٰ نے اس پر لگائی تھیں اور مسیح کی روح کو خوشی پہنچائی.یہ مسیح ناصری کی روحانیت کا پہلا جوش تھا جو ہمارے سید ہمارے مسیح خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے اپنی مراد کو پہنچا.فالحمد للہ.پھر دوسری مرتبہ مسیح کی روحانیت اس وقت جوش میں آئی کہ جب نصاریٰ میں دجالیت کی صفت اتم اور اکمل طور پر آگئی اور جیسا کہ لکھا ہے کہ دجال نبوت کا دعویٰ بھی کرے گا اور خدائی کا بھی.ایسا ہی انہوں نے کیا.نبوت کا دعویٰ اس طرح پر کیا کہ کلام الٰہی میں اپنی طرف سے وہ دخل دئیے وہ قواعد مرتب کئے اور وہ تنسیخ ترمیم کی جو ایک نبی کا کام تھا جس حکم کو چاہا قائم کر دیا اور اپنی طرف سے عقائد نامے
اور عبادت کے طریق گھڑ لئے اور ایسی آزادی سے مداخلت بیجا کی کہ گویا ان باتوں کیلئے وحی الٰہی ان پر نازل ہوگئی سو الٰہی کتابوں میں اس قدر بیجا دخل دوسرے رنگ میں نبوت کا دعویٰ ہے.اور خدائی کا دعویٰ اس طرح پر کہ ان کے فلسفہ دانوں نے یہ ارادہ کیا کہ کسی طرح تمام کام خدائی کے ہمارے قبضہ میں آجائیں جیسا کہ ان کے خیالات اس ارادہ پر شاہد ہیں کہ وہ دن رات ان فکروں میں پڑے ہوئے ہیں کہ کسی طرح ہم ہی مینہ برسائیں اور نطفہ کو کسی آلہ میں ڈال کر اور رحم عورت میں پہنچا کر بچے بھی پیدا کرلیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ خدا کی تقدیر کچھ چیز نہیں بلکہ ناکامی ہماری بوجہ غلطی تدبیر تقدیر ہو جاتی ہے اور جو کچھ دنیا میں خدا کی طرف منسوب کیا جاتا ہے وہ صرف اس وجہ سے ہے کہ پہلے زمانہ کے لوگوں کو ہر یک چیز کے طبعی اسباب معلوم نہیں تھے اور اپنے تھک جانے کی حد انتہا کا نام خدا اور خدا کی تقدیر رکھا تھا.اب علل طبعیہ کا سلسلہ جب بکلّی لوگوں کو معلوم ہو جائے گا تو یہ خام خیالات خودبخود دور ہو جائیں گے.پس دیکھنا چاہیئے کہ یورپ اور امریکہ کے فلاسفروں کے یہ اقوال خدائی کا دعویٰ ہے یا کچھ اور ہے.اسی وجہ سے ان فکروں میں پڑے ہوئے ہیں کہ کسی طرح مردے بھی زندہ ہو جائیں.اور امریکہ میں ایک گروہ عیسائی فلاسفروں کا انہی باتوں کا تجربہ کر رہا ہے اور مینہہ برسانے کا کارخانہ تو شروع ہوگیا اور ان کا منشاء ہے کہ بجائے اس کے کہ لوگ مینہ کیلئے خدا تعالیٰ سے دعا کریں یا استسقاء کی نماز پڑھیں گورنمنٹ میں ایک عرضی دے دیں کہ فلاں کھیت میں مینہ برسایا جائے.اور یورپ میں یہ کوشش ہو رہی ہے کہ نطفہ رحم میں ٹھہرانے کیلئے کوئی کل پیدا ہو.اور نیز یہ بھی کہ جب چاہیں لڑکا پیدا کرلیں اور جب چاہیں لڑکی.اور ایک مرد کا نطفہ لیکر اور کسی پچکاری میں رکھ کر کسی عورت کے رحم میں چڑھا دیں اور اس تدبیر سے اس کو حمل کر دیں.اب دیکھنا چاہیئے کہ یہ خدائی پر قبضہ کرنے کی فکر ہے یا کچھ اور ہے.اور یہ جو حدیثوں میں آیا ہے کہ دجال اول نبوت کا دعویٰ کرے گا پھر خدائی کا.اگر اس کے یہ معنی لئے جائیں کہ چند روز نبوت کا دعویٰ کرکے پھر خدا بننے کا دعویٰ کرے گا تو یہ معنی صریح باطل ہیں کیونکہ جو شخض نبوت کا دعویٰ کرے گا اس دعویٰ میں ضرور ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی ہستی کا اقرار کرے اور نیز یہ بھی کہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے پر وحی نازل ہوتی ہے.اور نیز خلق اللہ کو وہ کلام سناوے جو اس پر خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے اور ایک امت بناوے جو اس کو نبی سمجھتی اور اس کی کتاب کو کتاب اللہ جانتی ہے.اب سمجھنا چاہیئے کہ ایسا دعویٰ کرنے والا اسی امت کے روبرو خدائی کا دعویٰ کیونکر کر سکتا ہے کیونکہ وہ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ
تُو بڑ ا مفتری ہے پہلے تو خدائے تعالیٰ کا اقرار کرتا تھا اور خدا تعالیٰ کا کلام ہم کو سناتا تھا اور اب اس سے انکار ہے اور اب آپ خدا بنتا ہے.پھر جب اول دفعہ تیرے ہی اقرار سے تیرا جھوٹ ثابت ہوگیا تو دوسرا دعویٰ کیونکر سچا سمجھا جائے جس نے پہلے خدائے تعالیٰ کی ہستی کا اقرار کرلیا اور اپنے تئیں بندہ قرار دے دیا اور بہت سا الہام اپنا لوگوں میں شائع کر دیا کہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے وہ کیونکر ان تمام اقرارات سے انحراف کر کے خدا ٹھہر سکتا ہے اور ایسے کذاب کو کون قبول کر سکتا ہے.سو یہ معنے جو ہمارے علماء لیتے ہیں بالکل فاسد ہیں.صحیح معنے یہی ہیں کہ نبوت کے دعویٰ سے مراد دخل در امور نبوت اور خدائی کے دعویٰ سے مراد دخل در امور خدائی ہے جیسا کہ آج کل عیسائیوں سے یہ حرکات ظہور میں آ رہی ہیں.ایک فرقہ ان میں سے انجیل کو ایسا توڑ مروڑ رہا ہے کہ گویا وہ نبی ہے اور اس پر آیتیں نازل ہو رہی ہیں.اور ایک فرقہ خدائی کے کاموں میں اس قدر دخل دے رہا ہے کہ گویا وہ خدائی کو اپنے قبضہ میں کرنا چاہتا ہے.غرض یہ دجالیت عیسائیوں کی اس زمانہ میں کمال درجہ تک پہنچ گئی ہے اور اس کے قائم کرنے کیلئے پانی کی طرح انہوں نے اپنے مالوں کو بہا دیا ہے اور کروڑ ہا مخلوقات پر بداثر ڈالا ہے.تقریر سے تحریر سے مال سے عورتوں سے گانے سے بجانے سے تماشے دکھلانے سے ڈاکٹر کہلانے سے.غرض ہر یک پہلو سے ہریک طریق سے ہریک پیرایہ سے ہریک ملک پر انہوں نے اثر ڈالا ہے.چنانچہ چھ کروڑ تک ایسی کتاب تالیف ہو چکی ہے جس میں یہ غرض ہے کہ دنیا میں ناپاک طریق عیسیٰ پرستی کا پھیل جائے پس اس زمانہ میں دوسری مرتبہ حضرت مسیح کی روحانیت کو جوش آیا اور انہوں نے دوبارہ مثالی طور پر دنیا میں اپنا نزول چاہا اور جب ان میں مثالی نزول کیلئے اشد درجہ کی توجہ اور خواہش پیدا ہوئی تو خدا تعالیٰ نے اس خواہش کے موافق دجال موجودہ کے نابود کرنے کیلئے ایسا شخص بھیج دیا جو ان کی روحانیت کا نمونہ تھا وہ نمونہ مسیح علیہ السلام کا روپ بن کر مسیح موعود کہلایا.کیونکہ حقیقت عیسویہ کا اس میں حلول تھا یعنے حقیقت عیسویہ اس سے متحد ہوگئی تھی اور مسیح کی روحانیت کے تقاضا سے وہ پیدا ہوا تھا.پس حقیقت عیسویہ اس میں ایسی منعکس ہوگئی جیسا کہ آئینہ میں اشکال اور چونکہ وہ نمونہ حضرت مسیح کی روحانیت کے تقاضا سے ظہور پذیر ہوا تھا اسلئے وہ عیسیٰ کے نام سے موسوم کیا گیا کیونکہ حضرت عیسیٰ کی روحانیت نے قادر مطلق عزّ اسمہ‘ سے بوجہ اپنے جوش کے اپنی ایک شبیہ چاہی اور چاہا کہ حقیقت عیسویہ اس شبیہ میں رکھی جائے تا اس شبیہ کا نزول
ہو.پس ایسا ہی ہوگیا.اس تقریر میں اس وہم کا بھی جواب ہے کہ نزول کیلئے مسیح کو کیوں مخصوص کیا گیا یہ کیوں نہ کہا گیا کہ موسیٰ نازل ہوگا، یا ابراہیم نازل ہوگا، یا داؤد نازل ہوگا کیونکہ اس جگہ صاف طور پر کھل گیا کہ موجودہ فتنوں کے لحاظ سے مسیح کا نازل ہونا ہی ضروری تھا کیونکہ مسیح کی ہی قوم بگڑی تھی اور مسیح کی قوم میں ہی دجّا ّ لیت پھیلی تھی.اسلئے مسیح کی روحانیت کو ہی جوش آنا لائق تھا یہ وہ دقیق معرفت ہے کہ جو کشف کے ذریعہ سے اس عاجز پر کھلی ہے اور یہ بھی کھلا کہ یوں مقدر ہے کہ ایک زمانہ کے گذرنے کے بعد کہ خیر اور صلاح اور غلبہ توحید کا زمانہ ہوگا پھر دنیا میں فساد اور شرک اور ظلم عود کرے گا اور بعض بعض کو کیڑوں کی طرح کھائیں گے اور جاہلیت غلبہ کرے گی اور دوبارہ مسیح کی پرستش شروع ہو جائے گی اور مخلوق کو خدا بنانے کی جہالت بڑے زور سے پھیلے گی اور یہ سب فساد عیسائی مذہب سے اس آخری زمانہ کے آخری حصہ میں دنیا میں پھیلیں گے.تب پھر مسیح کی روحانیت سخت جوش میں آ کر جلالی طور پر اپنا نزول چاہے گی.تب ایک قہری شبیہ میں اس کا نزول ہو کر اس زمانہ کا خاتمہ ہو جائے گا تب آخر ہوگا اور دنیا کی صف لپیٹ دی جائے گی.اس سے معلوم ہوا کہ مسیح کی امت کی نالائق کرتوتوں کی وجہ سے مسیح کی روحانیت کیلئے یہی مقدر تھا کہ تین مرتبہ دنیا میں نازل ہو.اس جگہ یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت بھی اسلام کے اندرونی مفاسد کے غلبہ کے وقت ہمیشہ ظہور فرماتی رہتی ہے اور حقیقت محمدیہ کا حلول ہمیشہ کسی کامل متبع میں ہو کر جلوہ گر ہوتا ہے اور جو احادیث میں آیا ہے کہ مہدی پیدا ہو گااور اس کا نام میرا ہی نام ہو گا اور اس کا خُلق میرا ہی خُلق ہو گا.اگر یہ حدیثیں صحیح ہیں تو یہ اسی نزول روحانیت کی طرف اشارہ ہے لیکن وہ نزول کسی خاص فرد میں محدود نہیں.صدہا ایسے لوگ گذرے ہیں کہ جن میں حقیقت محمدیہ متحقق تھی اور عنداللہ ظلّی طور پر ان کا نام محمدیا احمد تھا لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت مرحومہ ان فسادوں سے بفضلہ تعالیٰ محفوظ رہی ہے جو حضرت عیسیٰ کی امت کو پیش آئے اور آج تک ہزار ہا صلحاء اور اتقیاء اس امت میں موجود ہیں کہ جو قحبہ دنیا کی طرف پشت دیکر بیٹھے ہوئے ہیں پنج وقت توحید کی اذان کی مساجد میں ایسی گونج پڑتی ہے کہ آسمان تک محمدی توحید کی شعاعیں پہنچتی ہیں پھر کون موقع تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت کو ایسا جوش آتا جیسا کہ حضرت مسیح کی روح میں عیسائیوں کے دلآزار وعظوں اور نفرتی کاموں اور مشرکانہ تعلیموں اور نبوت میں بیجا دخلوں اور خدائے تعالیٰ کی ہمسری کرنے نے پیدا کر دیا.اس زمانہ میں یہ جوش حضرت موسیٰ کی روح کو بھی اپنی امت کیلئے نہیں آ سکتا تھا کیونکہ وہ تو نابود ہوگئی
اور اب صفحہ دنیا میں ذرّیت ان کی بجز چند لاکھ کے باقی نہیں اور وہ بھی33 ۱ کے مصداق اور اپنی دنیا داری کے خیالات میں غرق اور نظروں سے گرے ہوئے ہیں لیکن عیسائی قوم اس زمانہ میں چالیس کروڑ سے کچھ زیادہ ہے اور بڑے زور سے اپنے دجالی خیالات کو پھیلا رہی ہے اور صدہا پیرایوں میں اپنے شیطانی منصوبوں کو دلوں میں جاگزین کر رہی ہے بعض واعظوں کے رنگ میں پھرتے ہیں بعض گویّے بن کر گیت گاتے ہیں بعض شاعر بن کر تثلیث کے متعلق غزلیں سناتے ہیں بعض جوگی بن کر اپنے خیالات کو شائع کرتے پھرتے ہیں.بعض نے یہی خدمت لی ہے کہ دنیا کی تمام زبانوں میں اپنی محرف انجیل کا ترجمہ کر کے اور ایسا ہی دوسری کتابیں اسلام کے مقابل پر ہر ایک زبان میں لکھ کر تقسیم کرتے پھرتے ہیں بعض تھیئٹر کے پیرایہ میں اسلام کیُ بری تصویر لوگوں کے دلوں میں جماتے ہیں اور ان کاموں میں کروڑ ہا روپیہ ان کا خرچ ہوتا ہے اور بعض ایک فوج بنا کر اور مکتی فوج اس کا نام رکھ کر ملک بہ ملک پھرتے ہیں اور ایسا ہی اور کارروائیوں نے بھی جو ان کے مرد بھی کرتے ہیں اور ان کی عورتیں بھی کروڑ ہا بندگان خدا کو نقصان پہنچایا ہے اور بات انتہا تک پہنچ گئی ہے اس لئے ضرور تھا کہ اس زمانہ میں حضرت مسیح کی روحانیت جوش میں آتی اور اپنی شبیہ کے نزول کیلئے جو اس کی حقیقت سے متحد ہو تقاضا کرتی سو اس عاجز کے صدق کی شناخت کیلئے یہ ایک بڑی علامت ہے، مگر ان کیلئے جو سمجھتے ہیں.اسلام کے صوفی جو قبروں سے فیض طلب کرنے کے عادی ہیں اور اس بات کے بھی قائل ہیں کہ ایک فوت شدہ نبی یا ولی کی روحانیت کبھی ایک زندہ مرد خدا سے متحد ہو جاتی ہے جس کو کہتے ہیں فلاں ولی موسیٰ کے قدم پر ہے اور فلاں ابراہیم کے قدم پر یا محمدی المشرب اور ابراہیمی المشرب نام رکھتے ہیں وہ ضرور اس دقیقہ معرفت کی طرف توجہ کریں.(۳) تیسری علامت اِس عاجز کے صدق کی یہ ہے کہ بعض اہل اللہ نے اس عاجز سے بہت سے سال پہلے اس عاجز کے آنے کی خبر دی ہے یہاں تک کہ نام اور سکونت اور عمر کا حال بتصریح بتلا دیا ہے جیسا کہ نشان آسمانی میں لکھ چکا ہوں.(۴) چوتھی علامت اس عاجز کے صدق کی یہ ہے کہ اس عاجز نے بارہ ہزار کے قریب خط اور اشتہار الہامی برکات کے مقابلہ کیلئے مذاہب غیر کی طرف روانہ کئے بالخصوص پادریوں میں سے شاید ایک بھی نامی پادری یورپ اور امریکہ اور ہندوستان میں باقی نہیں رہا ہو گاجس کی طرف خط رجسٹری کر کے نہ بھیجا ہو مگر سب پر حق کا رعب چھا گیا.اب جو ہماری قوم کے ملّا مولوی لوگ
اس د عوت میں نکتہ چینی کرتے ہیں درحقیقت یہ ان کی دروغ گوئی اور نجاست خواری ہے مجھے یہ قطعی طور پر بشارت دی گئی ہے کہ اگر کوئی مخالف دین میرے سامنے مقابلہ کیلئے آئے گا تو میں اس پر غالب ہوں گا اور وہ ذلیل ہوگا.پھر یہ لوگ جو مسلمان کہلاتے ہیں اور میری نسبت شک رکھتے ہیں کیوں اس زمانہ کے کسی پادری سے میرا مقابلہ نہیں کراتے.کسی پادری یا پنڈت کو کہہ دیں کہ یہ شخص درحقیقت مفتری ہے اس کے ساتھ مقابلہ کرنے میں کچھ نقصان نہیں ہم ذمہ وار ہیں پھر خدا تعالیٰ خود فیصلہ کر دے گا.میں اس بات پر راضی ہوں کہ جس قدر دنیا کی جائیداد یعنی اراضی وغیرہ بطور وراثت میرے قبضہ میں آئی ہے بحالت دروغ گو نکلنے کے وہ سب اس پادری یا پنڈت کو دے دوں گا.اگر وہ دروغ گو نکلا تو بجز اس کے اسلام لانے کے میں اس سے کچھ نہیں مانگتا یہ بات میں نے اپنے جی میں جزماً ٹھہرائی ہے اور تہ دل سے بیان کی ہے اور اللہ جلّ شانہ‘ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اس مقابلہ کیلئے طیار ہوں اور اشتہار دینے کیلئے مستعد بلکہ میں نے تو بارہ ہزار اشتہار شائع کر دیا ہے بلکہ میں بلاتا بلاتا تھک گیا کوئی پنڈت پادری نیک نیتی سے سامنے نہیں آیا میری سچائی کیلئے اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ میں اس مقابلہ کیلئے ہر وقت حاضر ہوں.اور اگر کوئی مقابلہ پر کچھ نشان دکھلانے کا دعویٰ نہ کرے تو ایسا پنڈت یا پادری صرف اخبار کے ذریعہ سے یہ شائع کر دے کہ میں صرف یکطرفہ کوئی امر خارق عادت دیکھنے کو طیار ہوں.اور اگر امر خارق عادت ظاہر ہو جائے اور میں اس کا مقابلہ نہ کر سکوں تو فی الفور اسلام قبول کروں گا تو یہ تجویز بھی مجھے منظور ہے.کوئی مسلمانوں میں سے ہمت کرے اور جس شخص کو کافر بے دین کہتے ہیں اور دجال نام رکھتے ہیں بمقابل کسی پادری کے اس کا امتحان کرلیں اور آپ صرف تماشا دیکھیں.(۵) پانچویں علامت اِس عاجز کے صدق کی یہ ہے کہ مجھے اطلاع دی گئی ہے کہ میں ان مسلمانوں پر بھی اپنے کشفی اور الہامی علوم میں غالب ہوں ان کے ملہموں کو چاہیئے کہ میرے مقابل پر آویں پھر اگر تائید الٰہی میں اور فیض سماوی میں اور آسمانی نشانوں میں مجھ پر غالب ہو جائیں تو جس کا رد سے چاہیں مجھ کو ذبح کر دیں مجھے منظور ہے اور اگر مقابلہ کی طاقت نہ ہو تو کفر کے فتوے دینے والے جو الہاماً میرے مخاطب ہیں یعنے جن کو مخاطب ہونے کیلئے الہام الٰہی مجھ کو ہوگیا ہے پہلے لکھ دیں اور شائع کرا دیں کہ اگر کوئی خارق عادت امر دیکھیں تو بلاچون و چرا دعویٰ کو منظور کرلیں میں اس کام کیلئے بھی حاضر ہوں اور میرا خداوند کریم میرے ساتھ ہے لیکن مجھے یہ حکم ہے کہ میں ایسا مقابلہ صرف اَ ئمۃا لکفر سے کروں انہیں سے مباہلہ کروں اور انہیں سے اگر وہ چاہیں یہ مقابلہ کروں مگر یاد رکھنا چاہیئے کہ وہ ہرگز مقابلہ نہیں کریں گے کیونکہ حقانیت
کے اُن کے دلوں پر رعب ہیں اور وہ اپنے ظلم اور زیادتی کو خوب جانتے ہیں وہ ہرگز مباہلہ بھی نہیں کریں گے مگر میری طرف سے عنقریب کتاب دافع الوساوس میں ان کے نام اشتہار جاری ہو جائیں گے.رہے احاد الناس کہ جو امام اور فضلاء علم کے نہیں ہیں اور نہ ان کا فتویٰ ہے ان کیلئے مجھے یہ حکم ہے کہ اگر وہ خوارق دیکھنا چاہتے ہیں تو صحبت میں رہیں خدائے تعالیٰ غنی بے نیاز ہے جب تک کسی میں تذلل اور انکسار نہیں دیکھتا اس کی طرف توجہ نہیں فرماتا.لیکن وہ اس عاجز کو ضائع نہیں کرے گا اور اپنی حجت دنیا پر پوری کر دے گا اور کچھ زیادہ دیر نہیں ہوگی کہ وہ اپنے نشان دکھاوے گا لیکن مبارک وہ جو نشانوں سے پہلے قبول کر گئے وہ خدائے تعالیٰ کے پیارے بندے ہیں اور وہ صادق ہیں جن میں دغا نہیں.نشانوں کے مانگنے والے حسرت سے اپنے ہاتھوں کو کاٹیں گے کہ ہم کو رضائے الٰہی اور اس کی خوشنودی حاصل نہ ہوئی جو ان بزرگ لوگوں کو ہوئی جنہوں نے قرائن سے قبول کیا اور کوئی نشان نہیں مانگا.سو یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ خدائے تعالیٰ اپنے اس سلسلہ کو بے ثبوت نہیں چھوڑے گا.وہ خود فرماتا ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے ’’ کہ دنیامیں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کرے گا.‘‘ جن لوگوں نے انکار کیا اور جو انکار کیلئے مستعد ہیں ان کیلئے ذلّت اور خواری مقدر ہے.انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ اگر یہ انسان کا افترا ہوتا تو کب کا ضائع ہو جاتا کیونکہ خدا تعالیٰ مفتری کا ایسا دشمن ہے کہ دنیا میں ایسا کسی کا دشمن نہیں وہ بیوقوف یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ کیا یہ استقامت اور جرأت کسی کذاب میں ہو سکتی ہے.وہ نادان یہ بھی نہیں جانتے کہ جو شخص ایک غیبی پناہ سے بول رہا ہے وہی اس بات سے مخصوص ہے کہ اس کے کلام میں شوکت اور ہیبت ہو.اور یہ اسی کا جگر اور دل ہوتا ہے کہ ایک فرد تمام جہان کا مقابلہ کرنے کیلئے طیار ہو جائے.یقیناً منتظر رہو کہ وہ دن آتے ہیں بلکہ نزدیک ہیں کہ دشمن روسیاہ ہوگا اور دوست نہایت ہی بشاش ہوں گے.کون ہے دوست؟ وہی جس نے نشان دیکھنے سے پہلے مجھے قبول کیا اور جس نے اپنی جان اور مال اور عزت کو ایسا فدا کر دیا ہے کہ گویا اس نے ہزارہا نشان دیکھ لئے ہیں.سو یہی میری جماعت ہے اور میرے ہیں جنہوں نے مجھے اکیلا پایا اور میری مدد کی.اور مجھے غمگین دیکھا اور میرے غم خوار ہوئے.اور ناشناسا ہو کر پھر آشناؤں کا سا ادب بجا لائے خدا تعالیٰ کی اُن پر رحمت ہو.اگر نشانوں کے دیکھنے کے بعد کوئی کھلی صداقت کو مان لے گا تو مجھے کیا اور اس کو اجر کیا اور حضرت عزت میں اس کی عزت کیا.مجھے درحقیقت انہوں نے ہی قبول کیا ہے جنہوں نے دقیق نظر سے مجھ کو دیکھا اور فراست سے میری
باتو ں کو وزن کیا اور میرے حالات کو جانچا اور میرے کلام کو سنا اور اس میں غور کی تب اسی قدر قرائن سے خدا تعالیٰ نے ان کے سینوں کو کھول دیا اور میرے ساتھ ہوگئے.میرے ساتھ وہی ہے جو میری مرضی کیلئے اپنی مرضی کو چھوڑتا ہے اور اپنے نفس کے ترک اور اخذ کیلئے مجھے حکم بناتا ہے اور میری راہ پر چلتا ہے اور اطاعت میں فانی ہے اور انانیت کی جلد سے باہر آگیا ہے.مجھے آہ کھینچ کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ کھلے نشانوں کے طالب وہ تحسین کے لائق خطاب اور عزت کے لائق مرتبے میرے خداوند کی جناب میں نہیں پا سکتے جو ان راستبازوں کو ملیں گے جنہوں نے چھپے ہوئے بھید کو پہچان لیا اور جو اللہ جلّ شانہٗ کی چادر کے تحت میں ایک چھپا ہوا بندہ تھا اس کی خوشبو ان کو آگئی.انسان کا اس میں کیا کمال ہے کہ مثلاً ایک شہزادہ کو اپنی فوج اور جاہ و جلال میں دیکھ کر پھر اس کو سلام کرے.باکمال وہ آدمی ہے جو گداؤں کے پیرایہ میں اس کو پاوے اور شناخت کر لیوے.مگر میرے اختیار میں نہیں کہ یہ زیر کی کسی کو دوں.ایک ہی ہے جو دیتا ہے وہ جس کو عزیز رکھتا ہے ایمانی فراست اس کو عطا کرتا ہے انہیں باتوں سے ہدایت پانے والے ہدایت پاتے ہیں اور یہی باتیں ان کیلئے جن کے دلوں میں کجی ہے زیادہ تر کجی کا موجب ہو جاتی ہیں.اب میں جانتا ہوں کہ نشانوں کے بارے میں میں بہت کچھ لکھ چکا ہوں اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ یہ بات صحیح اور راست ہے کہ اب تک تین ہزار کے قریب یا کچھ زیادہ وہ امور میرے لئے خدا تعالیٰ سے صادر ہوئے ہیں جو انسانی طاقتوں سے بالاتر ہیں اور آئندہ ان کا دروازہ بند نہیں.ان نشانوں کیلئے ادنیٰ ادنیٰ میعادوں کا ذکر کرنا یہ ادب سے دور ہے خدا تعالیٰ غنی بے نیاز ہے جب مکہ کے کافر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے تھے کہ نشان کب ظاہر ہوں گے تو خدا تعالیٰ نے کبھی یہ جواب نہ دیا کہ فلاں تاریخ نشان ظاہر ہوں گے کیونکہ یہ سوال ہی بے ادبی سےُ پر تھا اور گستاخی سے بھرا ہوا تھا انسان اس نابکار اور بے بنیاد دنیا کیلئے سالہا سال انتظاروں میں وقت خرچ کر دیتا ہے.ایک امتحان دینے میں کئی برسوں سے طیاری کرتا ہے وہ عمارتیں شروع کرا دیتا ہے جو برسوں میں ختم ہوں وہ پودے باغ میں لگاتا ہے جن کا پھل کھانے کیلئے ایک دور زمانہ تک انتظار کرنا ضروری ہے پھر خدا تعالیٰ کی راہ میں کیوں جلدی کرتا ہے اس کا باعث بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ دین کو ایک کھیل سمجھ رکھا ہے انسان خدا تعالیٰ سے نشان طلب کرتا ہے اور اپنے دل میں مقرر نہیں کرتا کہ نشان دیکھنے کے بعد اس کی راہ میں کونسی جانفشانی کروں گا اور کس قدر دنیا کو چھوڑ دوں گا اور کہاں تک خدا تعالیٰ کے مامور بندہ کے پیچھے ہو چلوں گا بلکہ غافل انسان ایک تماشا کی طرح نشان کو سمجھتا ہے حواریوں نے حضرت مسیح سے نشان مانگا تھا کہ ہمارے لئے
مائدہ اترے تا بعض شبہات ہمارے جو آپ کی نسبت ہیں دور ہو جائیں.پس اللہ جلّ شانہٗ قرآن کریم میں حکایتاً حضرت عیسیٰ کو فرماتا ہے کہ ان کو کہدے کہ میں اس نشان کو ظاہر کروں گا لیکن پھر اگر کوئی شخص مجھ کو ایسا نہیں مانے گا کہ جو حق ماننے کا ہے تو میں اس پر وہ عذاب نازل کروں گا جو آج تک کسی پر نہیں کیا ہوگا تب حواری اس بات کو سن کر نشان مانگنے سے تائب ہوگئے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس قوم پر ہم نے عذاب نازل کیا ہے نشان دکھلانے کے بعد کیا ہے اور قرآن کریم میں کئی جگہ فرماتا ہے کہ نشان نازل ہونا عذاب نازل ہونے کی تمہید ہے وجہ یہ کہ جو شخص نشان مانگتا ہے اس پر فرض ہو جاتا ہے کہ نشان دیکھنے کے بعد یکلخت ُ حبِّ دنیا سے دست بردار ہو جائے اور فقیرانہ دلق پہن لے اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور ہیبت دیکھ کر اس کا حق ادا کرے لیکن چونکہ غافل انسان اس درجہ کی فرمانبرداری کر نہیں سکتا اسلئے شرطی طور پر نشان دیکھنا اس کے حق میں وبال ہو جاتا ہے کیونکہ نشان کے بعد خدائے تعالیٰ کی حجت اس پر پوری ہو جاتی ہے.یہی وجہ ہے کہ اگر پھر بھی کامل اطاعت کے بجا لانے میں کچھ کسر رکھے تو غضب الٰہی اس پر مستولی ہو جاتا ہے اور اس کو نابود کر دیتا ہے.تیسرا سوال آپ کا استخارہ کیلئے ہے جو درحقیقت استخبارہ ہے.پس آپ پر واضح ہو کہ جو مشکلات آپ نے تحریر فرمائی ہیں درحقیقت استخارہ میں ایسی مشکلات نہیں ہیں میری مراد میری تحریر میں صرف اس قدر ہے کہ استخارہ ایسی حالت میں ہو کہ جب جذبات محبت اور جذبات عداوت کسی تحریک کی وجہ سے جوش میں نہ ہوں.مثلاً ایک شخص کسی شخص سے عداوت رکھتا ہے اور غصہ اور عداوت کے اشتعال میں سو گیا ہے.تب وہ شخص جو اس کا دشمن ہے اس کو خواب میں کتیّ یا سؤر کی شکل میں نظر آیا ہے یا کسی اور درندہ کی شکل میں دکھائی دیا ہے تو وہ خیال کرتا ہے کہ شاید درحقیقت یہ شخص عنداللہ کتا یا سؤر ہی ہے لیکن یہ خیال اس کا غلط ہے کیونکہ جوش عداوت میں جب دشمن خواب میں نظر آوے تو اکثر درندوں کی شکل میں یا سانپ کی شکل میں نظر آتا ہے اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ درحقیقت وہ بد آدمی ہے کہ جو ایسی شکل میں ظاہر ہوا ایک غلطی ہے.بلکہ چونکہ دیکھنے والے کی طبیعت اور خیال میں وہ درندوں کی طرح تھا اس لئے خواب میں درندہ ہو کر اس کو دکھائی دیا.سو میر امطلب یہ ہے کہ خواب دیکھنے والا جذبات نفس سے خالی ہو اور ایک آرام یافتہ اور سراسر روبحق دل سے محض اظہار حق کی غرض سے استخارہ کرے.میں یہ عہد نہیں کر سکتا کہ ہر یک شخص کو ہر یک حالت نیک یا بد میں ضرور خواب آجائے گی لیکن آپ کی نسبت میں کہتا ہوں کہ اگر آپ چالیس روز تک روبحق ہو کر بشرائط
مند رجہ نشان آسمانی استخارہ کریں تو میں آپ کے لئے دعا کروں گا.کیا خوب ہو کہ یہ استخارہ میرے روبرو ہو تا میری توجہ زیادہ ہو.آپ پر کچھ ہی مشکل نہیں لوگ معمولی اور نفلی طور پر حج کرنے کو بھی جاتے ہیں مگر اس جگہ نفلی حج سے ثواب زیادہ ہے اور غافل رہنے میں نقصان اور خطر کیونکہ سلسلہ آسمانی ہے اور حکم ربّانی.سچی خواب اپنی سچائی کے آثار آپ ظاہر کر دیتی ہے وہ دل پر ایک نور کا اثر ڈالتی ہے اور میخ آہنی کی طرح اندر کھب جاتی ہے اور دل اس کو قبول کرلیتا ہے اور اس کی نورانیت اور ہیبت بال بال پر طاری ہو جاتی ہے.میں آپ سے عہد کرتا ہوں کہ اگر آپ میرے روبرو اور میری ہدایت اور تعلیم کے موافق اس کام میں مشغول ہوں تو میں آپ کے لئے بہت کوشش کروں گا کیونکہ میرا خیال آپ کی نسبت بہت نیک ہے اور خدا تعالیٰ سے چاہتا ہوں کہ آپ کو ضائع نہ کرے اور رشد اور سعادت میں ترقی دے.اب میں نے آپ کا وقت بہت لے لیا ختم کرتا ہوں والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ.آپ کا مکرّر خط پڑھ کر ایک بات کچھ زیادہ تفصیل کی محتاج معلوم ہوئی اور وہ یہ ہے کہ استخارہ کے لئے ایسی دعا کی جائے کہ ہریک شخص کا استخارہ شیطان کے دخل سے محفوظ ہو.عزیز من یہ بات خدا تعالیٰ کے قانون قدرت کے برخلاف ہے کہ وہ شیاطین کو ان کے مواضع مناسبہ سے معطّل کر دیوے.اللہ جلّ شانہٗ قرآن کریم میں فرماتا ہے 333333.۱ یعنے ہم نے کوئی ایسا رسول اور نبی نہیں بھیجا کہ اس کی یہ حالت نہ ہو کہ جب وہ کوئی تمنا کرے یعنے اپنے نفس کے جوش سے کسی بات کو چاہے تو شیطان اس کی خواہش میں کچھ نہ ملاوے یعنی جب کوئی رسول یا کوئی نبی اپنے نفس کے جوش سے کسی بات کو چاہتا ہے تو شیطان اس میں بھی دخل دیتا ہے تب وحی متلو جو شوکت اور ہیبت اور روشنی تام رکھتی ہے اس دخل کو اٹھا دیتی ہے اور منشاء الٰہی کو مصفا کر کے دکھلا دیتی ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نبی کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں اور جو کچھ خواطر اس کے نفس میں پیدا ہوتی ہیں درحقیقت وہ تمام وحی ہوتی ہیں جیسا کہ قرآن کریم اس پر شاہد ہے.33 ۲ لیکن قرآن کریم کی وحی دوسری وحی سے جو صرف معانی منجانب اللہ ہوتی ہیں تمیز کلی رکھتی ہے اور نبی کے اپنے تمام اقوال وحی غیر متلو میں داخل ہوتے ہیں کیونکہ روح القدس کی برکت اور چمک ہمیشہ نبی کے شامل حال رہتی ہے اور ہر یک بات اس کی برکت سے بھری ہوئی ہوتی ہے اور وہ برکت روح القدس سے اس کلام میں رکھی جاتی ہے لہٰذا ہریک
بات نبی کی جو نبی کی توجہ تام سے اور اس کے خیال کی پوری مصروفیت سے اس کے منہ سے نکلتی ہے وہ بلاشبہ وحی ہوتی ہے تمام احادیث اسی درجہ کی وحی میں داخل ہیں جن کو غیر متلو وحی کہتے ہیں.اب اللہ جلّ شانہٗ آیت موصوفہ ممدوحہ میں فرماتا ہے کہ اس ادنیٰ درجہ کی وحی میں جو حدیث کہلاتی ہے بعض صورتوں میں شیطان کا دخل بھی ہو جاتا ہے اور وہ اس وقت کہ جب نبی کا نفس ایک بات کیلئے تمنا کرتا ہے تو اس کا اجتہاد غلطی کر جاتا ہے اور نبی کی اجتہادی غلطی بھی درحقیقت وحی کی غلطی ہے کیونکہ نبی تو کسی حالت میں وحی سے خالی نہیں ہوتا وہ اپنے نفس سے کھویا جاتا ہے اور خدائے تعالیٰ کے ہاتھ میں ایک آلہ کی طرح ہوتا ہے پس چونکہ ہر یک بات جو اس کے منہ سے نکلتی ہے وحی ہے.اس لئے جب اس کے اجتہاد میں غلطی ہوگئی تو وحی کی غلطی کہلائے گی نہ اجتہاد کی غلطی.اب خدائے تعالیٰ اسی کا جواب قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ کبھی نبی کی اس قسم کی وحی جس کو دوسرے لفظوں میں اجتہاد بھی کہتے ہیں مس شیطانی سے مخلوط ہو جاتی ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب نبی کوئی تمنا کرتا ہے کہ یوں ہو جائے تب ایسا ہی خیال اس کے دل میں گزرتا ہے جس پر نبی مستقل رائے قائم کرنے کیلئے ارادہ کر لیتا ہے تب فی الفور وحی اکبر جو کلام الٰہی اور وحی متلو اور مہیمن ہے نبی کو اس غلطی پر متنبہ کر دیتی ہے اور وحی متلو شیطان کے دخل سے بکلّی منزّہ ہوتی ہے کیونکہ وہ ایک سخت ہیبت اور شوکت اور روشنی اپنے اندر رکھتی ہے اور قول ثقیل اور شدید النزول بھی ہے اور اس کی تیز شعاعیں شیطان کو جلاتی ہیں اس لئے شیطان اس کے نام سے دور بھاگتا ہے اور نزدیک نہیں آ سکتا اور نیز ملائک کی کامل محافظت اس کے اردگرد ہوتی ہے لیکن وحی غیر متلو جس میں نبی کا اجتہاد بھی داخل ہے یہ قوت نہیں رکھتی.اس لئے تمناکے وقت جو کبھی شاذ و نادر اجتہاد کے سلسلہ میں پیدا ہو جاتی ہے.شیطان نبی یا رسول کے اجتہاد میں دخل دیتا ہے پھر وحی متلو اس دخل کو اٹھا دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ انبیاء کے بعض اجتہادات میں غلطی بھی ہوگئی ہے جو بعد میں رفع کی گئی.اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ جس حالت میں خدا تعالیٰ کا یہ قانون قدرت ہے کہ نبی بلکہ رسول کی ایک قسم کی وحی میں بھی وحی غیر متلو ہے شیطان کا دخل بموجب قرآن کریم کی تصریح کے ہو سکتا ہے تو پھر کسی دوسرے شخص کو کب یہ حق پہنچتا ہے کہ اس قانون قدرت کی تبدیل کی درخواست کرے ماسوا اس کے صفائی اور راستی خواب کی اپنی پاک باطنی اور سچائی اور طہارت پر موقوف ہے.یہی قدیم قانون قدرت ہے جو اس کے رسول کریم کی معرفت ہم تک پہنچا ہے کہ سچی خوابوں کے لئے ضرور ہے کہ بیداری کی حالت میں انسان ہمیشہ سچا اور خدا تعالیٰ کیلئے راستباز ہو اور کچھ شک نہیں کہ جو شخص اس قانون پر چلے گا اور اپنے دل کو
راست گوئی اور راست روی اور راست منشی کا پورا پورا پابند کرے گا تو اس کی خوابیں سچی ہوں گی اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے 3.۱ یعنے جو شخص باطل خیالات اور باطل ِ نیّات اور باطل اعمال اور باطل عقائد سے اپنے نفس کو پاک کر لیوے وہ شیطان کے بند سے رہائی پا جائے گا اور آخرت میں عقوبات اخروی سے رستگار ہوگا اور شیطان اس پر غالب نہیں آ سکے گا.ایسا ہی ایک دوسری جگہ فرماتا ہے.3 ۲ یعنے اے شیطان میرے بندے جو ہیں جنہوں نے میری مرضی کی راہوں پر قدم مارا ہے ان پر تیرا تسلط نہیں ہو سکتا.سو جب تک انسان تمام کجیوں اور نالائق خیالات اور بے ہودہ طریقوں کو چھوڑ کر صرف آستانہ الٰہی پر گرا ہوا نہ ہو جائے تب تک وہ شیطان کی کسی عادت سے مناسبت رکھتا ہے اور شیطان مناسبت کی وجہ سے اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس پر دوڑتا ہے.اور جب کہ یہ حالت ہے تو میں الٰہی قانون قدرت کے مخالف کون سی تدبیر کر سکتا ہوں کہ کسی سے شیطان اس کے خواب میں دور رہے.جو شخص ان راہوں پر چلے گا جو رحمانی راہیں ہیں خود شیطان اس سے دور رہے گا.اب اگر یہ سوال ہو کہ جبکہ شیطان کے دخل سے بکلّی امن نہیں تو ہم کیونکر اپنی خوابوں پر بھروسہ کرلیں کہ وہ رحمانی ہیں کیا ممکن نہیں کہ ایک خواب کو ہم رحمانی سمجھیں اور دراصل وہ شیطانی ہو اور یا شیطانی خیال کریں اور دراصل وہ رحمانی ہو تو اس وہم کا جواب یہ ہے کہ رحمانی خواب اپنی شوکت اور برکت اور عظمت اور نورانیت سے خود معلوم ہو جاتی ہے.جو چیز پاک چشمہ سے نکلی ہے وہ پاکیزگی اور خوشبو اپنے اندر رکھتی ہے اور جو چیز ناپاک اور گندے پانی سے نکلی ہے اس کا گند اور اس کی بدبو فی الفور آجاتی ہے.سچی خوابیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں وہ ایک پاک پیغام کی طرح ہوتی ہیں جن کے ساتھ پریشان خیالات کا کوئی مجموعہ نہیں ہوتا اور اپنے اندر ایک اثر ڈالنے والی قوت رکھتے ہیں اور دل ان کی طرف کھینچے جاتے ہیں اور روح گواہی دیتی ہے کہ یہ منجانب اللہ ہے کیونکہ اس کی عظمت اور شوکت ایک فولادی میخ کی طرح دل کے اندر دھنس جاتی ہے اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص سچی خواب دیکھتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کے کسی مجلسی کو بطور گواہ ٹھہرانے کے وہی خواب یا اس کے کوئی ہم شکل دکھلا دیتا ہے تب اس خواب کو دوسرے کی خواب سے قوت مل جاتی ہے.سو بہتر ہے کہ آپ کسی اپنے دوست کو رفیق خواب کرلیں جو صلاحیت
اور تقویٰ رکھتا ہو اور اس کو کہہ دیں کہ جب کوئی خواب دیکھے لکھ کر دکھلاوے اور آپ بھی لکھ کر دکھلاویں.تب امید ہے کہ اگر سچی خواب آئے گی تو اُس کے کئی اجزا آپ کی خواب میں اور اس رفیق کی خواب میں مشترک ہوں گے اور ایسا اشتراک ہوگا کہ آپ تعجب کریں گے افسوس کہ اگر میرے روبرو آپ ایسا ارادہ کر سکتے تو میں غالب امید رکھتا تھا کہ کچھ اعجوبہ قدرت ظاہر ہوتا میری حالت ایک عجیب حالت ہے بعض دن ایسے گذرتے ہیں کہ الہامات الٰہی بارش کی طرح برستے ہیں اور بعض پیشگوئیاں ایسی ہوتی ہیں کہ ایک منٹ کے اندر ہی پوری ہو جاتی ہیں اور بعض مدت دراز کے بعد پوری ہوتی ہیں صحبت میں رہنے والا محروم نہیں رہ سکتا کچھ نہ کچھ تائید الٰہی دیکھ لیتا ہے جو اس کی باریک بین نظر کیلئے کافی ہوتی ہے.اب میں متواتر دیکھتا ہوں کہ کوئی امر ہونے والا ہے.میں قطعاً نہیں کہہ سکتا کہ وہ جلد یا دیر سے ہوگا مگر آسمان پر کچھ طیاری ہو رہی ہے تا خدائے تعالیٰ بدظنوں کو ملزم اور رسوا کرے.کوئی دن یا رات کم گذرتی ہے جو مجھ کو اطمینان نہیں دیا جاتا.یہی خط لکھتے لکھتے یہ الہام ہوا.یجیء الحق و یکشف الصدق و یخسر الخاسرون.یأ تی قمر الانبیاء و امرک یتأ تی.ان ربک فعّال لما یرید.یعنی حق ظاہر ہوگا اور صدق کھل جائے گا اور جنہوں نے بدظنیوں سے زیان اٹھایا وہ ذ ّ لت اور رسوائی کا زیان بھی اٹھائیں گے.نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کلام ظاہر ہو جائے گا.تیرا رب جو چاہتا ہے کرتا ہے مگر میں نہیں جانتا کہ یہ کب ہوگا اور جو شخص جلدی کرتا ہے خدائے تعالیٰ کو اس کی ایک ذرہ بھی پرواہ نہیں وہ غنی ہے دوسرے کا محتاج نہیں.اپنے کاموں کو حکمت اور مصلحت سے کرتا ہے اور ہریک شخص کی آزمائش کر کے پیچھے سے اپنی تائید دکھلاتا ہے اگر پہلے سے نشان ظاہر ہوتے تو صحابہ کبار اور اہل بیت کے ایمان اور دوسرے لوگوں کے ایمانوں میں فرق کیا ہوتا.خدائے تعالیٰ اپنے عزیزوں اور پیاروں کی عزّت ظاہر کرنے کیلئے نشان دکھلانے میں کچھ توقف ڈال دیتا ہے تا لوگوں پر ظاہر ہو کہ خدائے تعالیٰ کے خاص بندے نشانوں کے محتاج نہیں ہوتے اور تا ان کی فراست اور دوربینی سب پر ظاہر ہو جائے اور ان کے مرتبہ عالیہ میں کسی کو کلام نہ ہو.حضرت مسیح علیہ السلام سے بہتر ۷۲ آدمی اوائل میں اس بد خیال سے پھر گئے اور مرتد ہوگئے کہ آپ نے ان کو کوئی نشان نہیں دکھلایا ان میں سے بارہ قائم رہے اور بارہ میں سے پھر ایک مرتد ہوگیا اور جو قائم رہے انہوں نے آخر میں بہت سے نشان دیکھے اور عنداللہ صادق شمار ہوئے.مکرّ ر میں آپ کو کہتا ہوں کہ اگر آپ چالیس روز تک میری صحبت میں آجائیں تو مجھے یقین ہے
کہ میرے قرب و جوار کا اثر آپ پر پڑے اور اگرچہ میں عہد کے طور پر نہیں کہہ سکتا مگر میرا دل شہادت دیتا ہے کہ کچھ ظاہر ہوگا جو آپ کو کھینچ کر یقین کی طرف لے جائے گا اور میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ کچھ ہونے والا ہے مگر ابھی خدا تعالیٰ اپنی سنت قدیمہ سے دو گروہ بنانے چاہتا ہے.ایک وہ گروہ جو نیک ظنی کی برکت سے میری طرف آتے جاتے ہیں دوسرے وہ گروہ جو بدظنی کی شامت سے مجھ سے دور پڑتے جاتے ہیں.اور میں نے آپ کے اس بیان کو افسوس کے ساتھ پڑھا جو آپ فرماتے ہیں کہ مجرد قیل و قال سے فیصلہ نہیں ہو سکتا.میں آپ کو ازراہ تودد و مہربانی و رحم اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اکثر فیصلے دنیا میں قیل و قال سے ہی ہوتے ہیں.یہاں تک کہ صرف باتوں کے ثبوت یا عدم ثبوت کے لحاظ سے ایک شخص کو عدالت نہایت اطمینان کے ساتھ پھانسی دے سکتی ہے اور ایک شخص کو تہمت خون سے بری کر سکتی ہے.واقعات کے ثبوت یا عدم ثبوت پر تمام مقدمات فیصلہ پاتے ہیں کسی فریق سے یہ سوال نہیں ہوتا کہ کوئی آسمانی نشان دکھلاوے تب ڈگری ہوگی یا فقط اس صورت میں مقدمہ ڈسمس ہوگا کہ جب مدعا علیہ سے کوئی کرامت ظہور میں آوے.بلکہ اگر کوئی مدعی بجائے واقعات کے ثابت کرنے کے ایک سوئی کا سانپ بنا کر دکھلا دیوے یا ایک کاغذ کا کبوتر بنا کر عدالت میں اڑا دے تو کوئی حاکم صرف ان وجوہات کے رو سے اس کو ڈگری نہیں دے سکتا جب تک باقاعدہ صحت دعویٰ ثابت نہ ہو اور واقعات پرکھے نہ جائیں.پس جس حالت میں واقعات کا پرکھنا ضروری ہے اور میرا یہ بیان ہے کہ میرے تمام دعاوی قرآن کریم اور احادیث نبویہ اور اولیاء گذشتہ کی پیشگوئیوں سے ثابت ہیں اور جو کچھ میرے مخالف تاویلات سے اصل مسیح کو دوبارہ دنیا میں نازل کرنا چاہتے ہیں نہ صرف عدم ثبوت کا داغ ان پر ہے بلکہ یہ خیال محال بہ بداہت قرآن کریم کی نصوص بینہ سے مخالف پڑا ہوا ہے اور اس کے ہریک پہلو میں اس قدر مفاسد ہیں اور اس قدر خرابیاں ہیں کہ ممکن نہیں کہ کوئی شخض ان سب کو اپنی نظر کے سامنے رکھ کر پھر اس کو بدیہی البطلان نہ کہہ سکے تو پھر ان حقائق اور معارف اور دلائل اور براہین کو کیونکر فضول قیل و قال کہہ سکتے ہیں قرآن کریم بھی تو بظاہر قیل و قال ہی ہے جو عظیم الشان معجزہ اور تمام معجزات سے بڑھ کر ہے معقولی ثبوت تو اول درجہ پر ضروری ہوتے ہیں بغیر اس کے نشان ہیچ ہیں.یاد رہے کہ جن ثبوتوں پر مدعا علیہ کو عدالتوں میں سزائے موت دی جاتی ہے وہ ثبوت ان ثبوتوں سے کچھ بڑھ کر نہیں ہیں جو قرآن اور حدیث اور اقوال اکابر
اور اولیاء کرام سے میرے پاس موجود ہیں مگر غور سے دیکھنا اور مجھ سے سننا شرط ہے.میں نے ان ثبوتوں کو صفائی کے ساتھ کتاب آئینہ کمالات اسلام میں لکھا ہے اور کھول کر دکھلا دیا ہے کہ جو لوگ اس انتظار میں اپنی عمر اور وقت کو کھوتے ہیں کہ حضرت مسیح پھر اپنے خاکی قالب کے ساتھ دنیا میں آئیں گے وہ کس قدر منشاء کلام الٰہی سے دور جا پڑے ہیں اور کیسے چاروں طرف کے فسادوں اور خرابیوں نے ان کو گھیر لیا ہے میں نے اس کتاب میں ثابت کر دیا ہے کہ مسیح موعود کا قرآن کریم میں ذکر ہے اور د ّ جال کا بھی لیکن جس طرز سے قرآن کریم میں یہ بیان فرمایا ہے وہ جبھی صحیح اور درست ہوگا کہ جب مسیح موعود سے مراد کوئی مثیل مسیح لیا جاوے جو اسی امت میں پیدا ہو.اور نیز د ّ جال سے مراد ایک گروہ لیا جائے اور د ّ جال خود گروہ کو کہتے ہیں.بلاشبہ ہمارے مخالفوں نے بڑی ذ ّ لت پہنچانے والی غلطی اپنے لئے اختیار کی ہے گویا قرآن اور حدیث کو یکطرف چھوڑ دیا ہے وہ اپنی نہایت درجہ کی بلاہت سے اپنی غلطی پر متنبہ نہیں ہوتے اور اپنے موٹے اور سطحی خیالات پر مغرور ہیں.مگر ان کو شرمندہ کرنے والا وقت نزدیک آتا جاتا ہے.میں نہیں جانتا کہ میرے اس خط کا آپ کے دل پر کیا اثر پڑے گا مگر میں نے ایک واقعی نقشہ آپ کے سامنے کھینچ کر دکھلا دیا ہے ملاقات نہایت ضروری ہے میں چاہتا ہوں کہ جس طرح ہو سکے ۲۷ دسمبر ۱۸۹۲ ء کے جلسہ میں ضرور تشریف لاویں.انشاء اللہ القدیر آپ کیلئے بہت مفید ہوگا.اور جو ِ للہ سفر کیا جاتا ہے وہ عنداللہ ایک قسم عبادت کے ہوتا ہے.اب دعا پر ختم کرتا ہوں.ایّدکم اللّٰہ من عندہٖٖ و رحمکم فی الدنیا والاٰخرۃ.والسلام خاکسار (دہم۱۰ دسمبر ۱۸۹۲ ء) غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپورہ
چو ن مرا نورے پئے قومے مسیحی دادہ اند مصلحت را ابن مریم نام من بنہادہ اند می درخشم چون قمر تابم چو قُرصِ آفتاب کور چشم آنانکہ در انکار ہا افتادہ اند بشنوید اے طالبان کز غیب بکنند این ندا مصلحے باید کہ در ہر جا مفاسِد زادہ اند صادقم و از طرف مولیٰ با نشانہا آمدم صد درِ علم و ہدیٰ بر روئے من بکشادہ اند آسمان بارد نشان اَلْوقت میگوید زمین این دو شاہد از پئے تصدیق من اِستادہ اند
التبلیغ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہ‘ وَ نُصَلِّیْ پنجاب اور ہندوستان اور ممالک عرب اور فارس اور روم اور مصر اور ایران اور ترکستان اور دیگر بلاد کے پیرزادوں اور سجادہ نشینوں اور بدعتی فقیروں اور زاہدوں اور صوفیوں اور خانقاہوں کے گوشہ گزینوں کی طرف ایک مجلس میں میرے مخلص دوست حبی فی اللہ مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے بتاریخ ۱۱؍ جنوری ۱۸۹۳ ء بیان کیا کہ اس کتاب دافع الوساوس میں اُن فقراء اور پیرزادوں کی طرف بھی بطور دعوت و اتمام حجت ایک خط شامل ہونا چاہیئے تھا جو بدعات میں دن رات غرق اور منشاء کتاب اللہ سے بکلّی مخالف چلتے ہیں اور نیز اس سلسلہ سے جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے بے خبر ہیں.چنانچہ مجھے یہ صلاح مولوی صاحب موصوف کی بہت پسند آئی اور
اگر چہ میں پہلے بھی کچھ ذکر فقراء زمانہء حال بضمن ذکر علماءِ ہندوستان و پنجاب اس کتاب میں لکھ آیا ہوں لیکن میں نے باتفاق رائے دوست ممدوح کے یہی قرین مصلحت سمجھا کہ ایک مستقل خط ایسے فقراء کی طرف لکھا جائے جو شرع اور دین متین سے دور جا پڑے ہیں اور میرا ارادہ تھا کہ یہ خط اردو میں لکھوں لیکن رات کو بعض اشارات الہامی سے ایسا معلوم ہوا کہ یہ خط عربی میں لکھنا چاہئے اور یہ بھی الہام ہوا کہ ان لوگوں پر اثر بہت کم پڑے گا ہاں اتمام حجت ہوگا اور شاید عربی میں خط لکھنے کی یہ مصلحت ہو کہ جو لوگ فقر اور تصوف کا دعویٰ رکھتے ہیں اور بباعث شدّت حجب غفلت اور عدم تعلقات محبت دین کے انہوں نے قرآن خوانی اور عربی دانی کی طرف توجہ ہی نہیں کی وہ اپنے دعویٰ میں کاذب ہیں اور خطاب کے لائق نہیں کیونکہ اگر ان کو اللہ جلّ شانہٗ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہوتی تو وہ ضرور جدوجہد سے وہ زبان حاصل کرتے جس میں خدا تعالیٰ کا پیارا اور ُ پرحکمت کلام نازل ہوا ہے اور اگر خدا تعالیٰ کی اُن پر رحمت سے نظر ہوتی تو ضرور ان کو اپنا پاک کلام سمجھنے کے لئے توفیق عطا کرتا اور اگر ان کو قرآن کریم سے سچا تعشق ہوتا تو وہ سجادہ نشینی کی خانقاہوں کو آگ لگاتے اور بیعت کرنے والوں سے بہ ہزار دل بیزار ہو جاتے اور سب سے اول علم قرآن کریم حاصل کرتے اور وہ زبان سیکھتے جس میں قرآن کریم نازل ہوا ہے سو ان کے ناقص الدین اور منافق ہونے کیلئے یہ کافی دلیل ہے کہ انہوں نے قرآن کریم کی وہ قدر نہیں کی کہ جو کرنی چاہئے تھی اور اس سے وہ محبت نہیں لگائی جو لگانی چاہئے تھی پس ان کا کھوٹ ظاہر ہوگیا دیکھنا چاہئے کہ بہت سے انگریز پادری ایسے ہیں جنہوں نے مخالفت کے جوش سے پچاس پچاس برس کے ہو کر عربی زبان کو سیکھا ہے اور قرآن کریم کے معانی پر اطلاع
پائی ہے.پھر جس شخص کو قرآن کریم کی محبت کا دعویٰ ہے بلکہ اپنے تئیں پیر اور شیخ کہلواتا ہے.اس میں اگر محبوں کے آثار نہ پائے جائیں اور بکلّی قرآن کریم کے معانی اور حقائق سے بے نصیب ہو تو یہی ایک دلیل اس بات پر کافی ہے کہ وہ اپنے دعویٰ فقر میں مکار ہے.ہریک عاشق صادق اپنے معشوق کی زبان کو سیکھ لینے کا شوق رکھتا ہے پھر جس شخص کو محبت الٰہی کا دعویٰ ہے لیکن کلام الٰہی کے جاننے سے لاپروائی ہے وہ ہرگز محب صادق نہیں ہے.یا یوں کہو کہ اس کی حالت دو شق سے خالی نہیں یا تو اس نے عمدًا قرآن کریم کے معانی جاننے اور قرآنی زبان سیکھنے سے اعراض کیا ہے تو اس شق کا حال تو ابھی میں بیان کر چکا ہوں کہ یہ سرد مہری اہل اللہ کے مناسب حال نہیں.اہل اللہ کو قرآن سے بہت عشق ہوتا ہے.اور عاشق کو اپنے معشوق سے ہرگز صبر نہیں ہوتا.اور ببرکت تعشّق کامل قرآنی زبان کا جاننا ان پر آسان ہو جاتا ہے اور جو تحصیل علم کی راہیں دوسروں پر شاق ہوتی ہیں وہ ان پر آسان ہو جاتی ہیں اور چونکہ سرد مہری ایک شعبہ نفاق کا ہے.اس لئے یہ منافقانہ خصلت اور کسل اور سستی ان سے صادر نہیں ہو سکتی کیونکہ قرآن کریم تو ان کی جان ہوتا ہے.پھر کیونکر وہ اپنی جان سے الگ ہوسکتے ہیں اور درحقیقت جو شخص اہل اللہ کے پیرایہ میں ہو کر نہ قرآن کریم کے معنے سمجھتا ہے اور نہ اس کے حقائق و معارف سے خبر رکھتا ہے وہ محب القرآن نہیں بلکہ مسخرہ شیطان ہے.اگر عنایت ازلی اس کی رفیق ہوتی تو اس دولت عظمیٰ سے اس کو محروم نہ رکھتی.پس مخذول اور مردود کے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی علامت نہیں کہ اس کو دنیا میں آکر اور مسلمان کہلا کر اس قدر بھی نصیب نہ ہو کہ قرآن کریم کے معانی اور علوم ضروریہ اور معارف اعجازی سے بکلّی بے خبر ہو اور دوسرا شق یہ ہے کہ ایسا شخص
نہا یت غبی اور بلید اور بہائم اور حیوانات کے قریب قریب ہو جس کو انسانی قویٰ اور حافظہ اور متفکرہ سے نہایت کم حصہ ملا ہو اس لئے وہ قرآنی زبان کے جاننے پر قدرت نہ رکھتا ہو سو ایسا شخص بھی ولایت اور قرب الٰہی کے معزز درجہ سے شرف یاب نہیں ہو سکتا اور ایسے شخص کو ولی جاننے والے بھی وحشیوں اور گدھوں سے کچھ کم نہیں ہوتے کیونکہ وہ بباعث نہایت درجہ کے حمق کے اس درجہ تک نہیں پہنچتے کہ جس شخص کو وہ نعمت عطا نہیں ہوئی جو مدار ایمان ہے پھر دوسری نعمتوں سے وہ کب بہرہ یاب ہو سکتا ہے.اور اگر دوسری کرامت اس سے ظاہر بھی ہو تو وہ استدراج ہے نہ کرامت اور ایسا اندھیر تو کسی طور سے نہیں ہو سکتا کہ ولایت کا مدعی انسانی قویٰ کے معمولی درجہ سے بھی گرا ہوا ہو کیونکہ عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ جن کو اپنے انعامات قرب سے مشرف کرتا ہے وہ لوگ انسانی کمالات میں سے بھی ایک وافر حصہ رکھتے ہیں.سو یہی حکمت معلوم ہوتی ہے کہ اس جگہ خدا تعالیٰ نے عربی خط کی طرف اشارہ فرمایا کیونکہ اس کی نظر میں کل ایسے اشخاص جو تقاعد اور تغافل کی راہ سے یا بلادت اور غباوت کی وجہ سے قرآنی زبان اور معانی قرآن سے محروم ہیں اس لائق ہی نہیں ہیں کہ ان کو باعزّت انسان سمجھ کر ان سے خطاب کیا جائے بلکہ انہوں نے اپنی اس دائمی غفلت اور جہالت پسندی سے مہر لگا دی ہے کہ ان کو قرآن کریم سے کچھ تعلق محبت نہیں اور وہ درحقیقت اسلام کی راہ پر قدم نہیں مارتے بلکہ اور راہوں میں بھٹک رہے ہیں اور اگر بفرض محال کسی قسم کا ان کو ذوق بھی حاصل ہے تو ان کی روح اقرار نہیں کر سکتی کہ وہ قرآن کریم کے ذریعہ سے ہے کیونکہ قرآن کریم سے تو ان کو کچھ تعلق ہی نہیں اور نہ اس کی کچھ مزاولت ہے اور نہ ان کی روح یہ اقرار کر سکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل محبت سے انہوں نے کوئی مرتبہ طے کیا ہے کیونکہ انہوں نے قرآن کریم سے ہی کامل محبت نہیں کی پھر
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کس طرح کامل محبت کر سکتے تھے کیونکہ رسول کریم کی قدر بذریعہ قرآن کریم کے کھلتی ہے جس نے قرآن کریم کو نہیں دیکھا اس نے رسول کریم کا کیا دیکھا.غرض وہ ان وجوہ سے لائق محبت نہیں تھے اور ان کی حالت نفاق بکلی ظاہر تھی اس لئے ان کی طرف تبلیغی خط لکھنا غیر ضروری سمجھا گیا اور تعجب کہ ایسے لوگوں کے معتقدین کبھی یہ خیال نہیں کرتے کہ اول فضیلت اور کمال کسی ولی کا یہ ہے کہ علم قرآن اس کو عطا کیا جائے کیونکہ وہی تو ہم مسلمان لوگوں کا مقتدا و پیشوا و ہادی و رہنما ہے.اگر اسی سے بے خبری ہوئی تو پھر قدم قدم پر ہلاکت اور موت موجود ہے جس پر خدا تعالیٰ نے یہ مہربانی نہ کی جو اپنے پاک کلام کا علم اس کو عطا کرتا اور اس کے حقائق سے اطلاع دیتا اور اس کے معارف پر مطلع فرماتا.ایسے بدنصیب شخص پر دوسری مہربانی اور کیا ہوگی حالانکہ وہ آپ فرماتا ہے کہ میں جس کو حقیقی پاکیزگی بخشتا ہوں اس پر قرآنی علوم کے چشمے کھولتا ہوں.اور نیز فرماتا ہے کہ جس کو چاہتا ہوں علم قرآن دیتا ہوں اور جس کو علم قرآن دیا گیا.اس کو وہ چیز دی گئی جس کے ساتھ کوئی چیز برابر نہیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ ہمارے اس بیان سے ہر یک سچا مسلمان اتفاق کرے گا بجز ایسے شخص کے کہ کوئی پوشیدہ ُ بت آستین میں رکھتا ہے اور قرآن کریم کی سچی محبت اور سچی دلدادگی سے بے نصیب اور محروم ہے.اب صفحہ آئندہ پر ہم عربی خط لکھتے ہیں:.
اور وہ یہ ہے :.بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ الٰی مشایخ الھند و متصوفۃ افغانستان و مصر و غیرھا من الممالک الحمد للّٰہ الذی غلبت رحمتہ علی غضبہ فی کل ما فعل و قضی، و سبقت انوارہ علی کل لیل اکْفَھَرَّ و سجی.ھو اللّٰہ الذی یأتی منہ فوج الیسر مع کلّ عسرٍ عرا.یدعو الٰی رحمتہ کل ورقٍ یوجد علی الأشجار و کل برقٍ یبرق فی الأحجار.و کل اختلاف ترون فی اللیل والنھار‘ و کل ما فی الارض والسماء.و من آیات رحمتہ انہ ارسل الرسل و بعث النذر و اسس عمارات الھدی.و من آیات ترجمہ: الحمد لولیّہ والصلوٰۃ علی نبیہ.امّا بعد عرض میدارد بخدمت برادران بندۂ ناچیز عبدالکریم سیالکوتی کہ بعد از آنکہ حضور مقدس مسیح موعود امام زمان مجدّد عصر این دعوت نامہ را بلسان عربی مبین ترقیم فرمودند رحمت واسعہ کہ خاصہ غیر منفکّۂ حضرت ایشان میباشد قلب اطہر و انور را تحریکے کرد کہ پارسی زبانان را نیز ازان مائدہ سماویّہ بہرہ مند فرمایند.بنا بران این عاجز ہیچمیرز را کہ از خاک نشینان عتبۂ عالیہ میباشد امر فرمودند کہ این در رغرر را بہ سلک زبان پارسی کشد و این ہمہ از وفور کرم و جوش رحمت حضرت ایشان است کہ این سیاہ کار را سہیم و انباز درین کار خیر ساختند فللّٰہ الحمد فی الاولٰی والاٰخرۃ.بندہ امتثالاً لامرہ الشریف اقبال باین امر نمودم وگرنہ خدائے بزرگ مے داند کہ از بے مایگی ندامت و خجلت متصلاً لاحق حال بودہ است اللّٰھم تقبل منّی انک
رحمتہ العظیمۃ البدر الذی طلع من ام القری‘ فی لیلۃ اسودت ذوائبھا العظمی، فرفع الظلمات کلھا و وضع سراجًا منیرا أمام کل عین تری.ما عندنا لفظٌ نشکر بہ علی مننہ الکبرٰی.ایقظ العالمین کلھم ، و نفی عن النائمین الکَری.تلقی کلّ ھمٍّ و غَمٍّ للدین بطیب النفس لما انبری‘ و سنَّ بذل النفس للّٰہ لکل من یطلب المولٰی.فنی فی اللّٰہ و سعی للّٰہ و دعا الی اللّٰہ و طھّر الارض حق طھارتھا.فیاعجبًا للفتی! رب اجْزِمنا ھذا الرسول الکریم خیر ما تجزی احدا من الوری.و تَوفَّنا فی زمرتہٖ واحشرنا فی امتہ واسقنا من عینہ واجعلھا لنا السُّقْیا انت السمیع العلیم و اکثر جا این ترجمہ بطور حاصل بالمعنی کردہ شدہ.ترجمہ تبلیغ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ہر گونہ ستائش برائے خداوندی است کہ رحمتش بر غضبش در ہر ہرچہ کردہ و خواستہ غلبہ جستہ.و نور وے بر ہر شب کہ دامان ظلمت فروہشت سبقت کردہ.و باہر تنگیء کہ رُو نمود از پیش وے فوج فراخی آشکار شدہ.ہر برگ سبزے کہ بر درخت است و ہر شرارۂ کہ در دل سنگ است و ہمچنین ہر گونا گو نئی کہ در روز و شب و در زمین و آسمان است ندائے رحمتش در میدہد.از نشانہائے رحمت اوست کہ رسولان و ترسا نندگان را فرستاد.و عمارات ہدایت را تا سیسے کرد.و از نشانہائے رحمت عظیم او وجود آن بدرِ تام است کہ از دامان مکہ معظمہ طلوع
و ا جعلہ لنا الشفیع المشفع فی الاولٰی والأُخرٰی.رب فتقبل منا ھذا الدعاء و آونا فی ھذا الذرٰی.ربِّ یا ربِّ صَلِّ و سلّم و بارک علٰی ذالک النبی الرء وف الرحیم و علٰی کل من احبہ و اطاع امرہ و اتبع الھدٰی.امّا بعد فاعلموا ایھا الفقراء والزھاد و مشائخ الھند و غیرھا من البلاد الذین وقعوا فی البدعات والفساد، أننی امرت ان ابلغکم احکام الدین و اذکّرکم ما نسیتم من اسرار الشرع المتین.و قد الھمنی ربی فی امرکم وقال انھم ینادون من مکان بعید.و یفعل ربی ما یشاء و ھو القاھر فوق القاھرین.یا قوم اتقوا اللّٰہ و لا تتبعوا اھواء قوم مبتدعین، ترجمہ: فرمود در شبے کہ گیسوئے در ازش خیلے سیاہ و تار شدہ بود و ہرگونہ تاریکہارا از ہم پاشیدہ چراغے روشنے فراراہ ہر چشم بیناگزاشت.ما لفظے نداریم کہ ازآن سپاس احسان ہائے سترگ او را برشماریم.زیرا کہ او ہمۂ آفرینش را آگاہائیندہ خواب غفلتے از چشم ایشان پاک کرد.ہر اندوہے و رنجے کہ در راہ دین پیش آمد بذوق قلبی او را تلقی فرمود.و برائے ہر جوئیندہ مولیٰ جان د ادن در راہ خدارا از رفتار خود طرح انداخت.فناشد در خدا.و سعی کرد برائے خدا و خواند بسوئے خدا.و زمین را چنانچہ باید پاک و صاف کرد.اللہ اللہ ! عجب مردے بودہ ! اے خدا بہترین پاداشے کہ میخواہی کسے را از عالم بدہی از مابر روان آن رسول کریم بفرما.و ما را در گروہِ او قبض بکن.و در امّت او برانگیز.و ہموارہ از جام ہائے وے مارا بنوشان.و او را اینجا و آنجا برائے ما شفیعے
و ا تّبعوا الرسول النّبی الأمی الذی ھو رحمۃ للعالمین.واعلموا یا اخوان انی ارسلت محدثا من اللّٰہ الیکم و الی کل من فی الارض فاتقوہ و لا تحتقروا المرسلین واجتنبوا الرجس من البدعات و ایاکم و المحدثات وکونوا عباد اللّٰہ الصالحین.یا قوم انّی عبداللّٰہ مَنَّ علیّ برحمتہ من عندہ و علّمنی من لدنہ علم الاولین.و ارسلنی علی رأس ھذہ الماءۃ لانذر قوما ما انذر آباء ھم ولتستبین سبیل المجرمین.ھو نادانی و قال قل لعبادی: اننی امرت و انا اوّل المؤمنین.و سمّانی باسم یناسب اسم قوم ارسلت لافحامھم و الزامھم و ھم قوم المتنصّرین.الذین علوا فی الارض واستضعفوا اھل الحق و زینوا الباطل لیدحضوا بہ الحق و کانوا قوما مسرفین.و اھلکوا ترجمہ: بگردان کہ شفاعت وے را دست رد نزنی.اے پروردگارِ ما این دعا را بپذیر و درین پناہ مارا جائے مرحمت بکن.سلام و صلوٰۃ خدا باد بروے و بر ہرکہ محب و شفیع وے باشد و ہدایتِ وے را پیروی کند.سپس بدانید اے فقیران و زاہدان و بزرگان عرب و ہند و ممالک دیگر ہمہ آنہائیکہ در بدعات و خرابیہا در افتادہ اید کہ من مامور شدہ ام باین کہ شمارا احکام دین تبلیغ کنم.و اسرار از دل فروشستہ شرع متین دیگر بیاد شما در آرم بدرستی کہ پروردگار من دربارہ شما مرا الہام کردہ و گفتہ کہ آنہا از مکان بعید ندا کردہ میشوند.پروردگار من ہرچہ خواہد کند و او بر زبردستان بالا دست است اے قوم من از خدا بتر سید و دنبال خواہش ہائے اہل بدعت رفتار نکنید.و پیرو آن
کثیرً ا من الناس بتلبیساتھم و جمحوا فی جھلا تھم و قلبوا للاسلام امورًا و جذبوا الناس الٰی خزعبلا تھم وجاء وا بسحر مبین.فنظر اللّٰہ الٰی قلوبھم فوجدھم غالین دجالین ضالین مضلین.قد أفسدوا طرقھم کلھا و بغوا أمام الرب و ارادو ان یفسدوا اقواما آخرین.یلحسون المذاھب کما یلحس الثور خضرۃ الحقل و یریدون علوًا و فسادا و لیسوا من الخاشعین.فتن الناس فھمہم و درایتھم و کبر سرّ غوایتھم و کانوا فی علوم الدنیا و صنائعھا من المستبصرین.أوقدوا من المفاسد نارًا و أجرَوا من الفتن انھارًا و مکروا مکرًا کُبَّارًا و بلغوا مقدارًا لن تجدوا مثلہ فی مکائد المتقدمین.اجمعوا ھمتہم لاستیصال الاسلام و استدرّوا ترجمہ: رسول امّی بشوید کہ او رحمت برائے عالمیان است خدا مرا بسوئے شما و بسوئے ہمہ ساکنان زمین خلعت محدثیّت پوشانیدہ فرستاد.ازوے بترسید و فرستادگان را بدیدۂ حقارت نہ بینید.از رجس بدعات و محدثات بپرہیزید و بندہ ہائے نیکوکار باشید.من بندۂ خدا ہستم او بر من از خود منت نہاد و از خودش علوم پیشینیان مرا تعلیم داد.و مرا برسر این صد فرستاد بجہت اینکہ آن قوم را بترسانم کہ پدران شان ترسانیدہ نشدند و ہم راہ بدکاران آشکار شود.او مرا ندازد و گفت بگوبہ بندگان من کہ من مامورم و من اوّل مومنانم.و تسمیہ فرمود مرا باسمے کہ مناسبت دارد باسم آن قوم کہ بجہت الزام و اسکات ایشان مرا مبعوث کردہ و آن قوم مسیحیان است.این قوم بلندی جستند.و اہل حق را ضعیف داشتند.
لقحتہم لتألیف قلوب اللئام و ادخلوا ایدیھم فی قلوب المسلمین.وکان العلماء کمفلس فی اعین اعیانھم او کمضغۃ تحت اسنانھم و کان قومنا سُخْرۃ المستھزئین.فاراد اللّٰہ أن یفصل بین النور والظلمۃ و یحکم بین الرجس والقدس و یمن علی المستضعفین.و رأی فتنتھم بلاءً عظیمًا علی الاسلام و رأی ایّامھم کلیالٍ مخوفۃ من الاظلام.و وجدھم فی الفتن قوما عالین.ما کان فتنۃ مثل ھذا من یوم خلق آدم الٰی یومنا ھذا بل الٰی یوم الدین و مع ذالک تملکوا و علوا فی الارض واثمروا واکثروا و املأوا الارض کثرۃ وزادوا ھیبۃ و شوکۃ و بارک اللّٰہ فی اموالھم و اولادھم و علومھم و فنونھم و صنائعھم و اعانھم فی اراداتھم و افکارھم و انظارھم و فتح علیھم ابواب کل شیء ابتلاءً ا من عندہ ترجمہ: و باطل را بیاراستند کہ و مارا ازحق بر آرند.و پائے از حد بیرون نہادند.خیلے خیلے از مرد مان را بہ مکر و فریب ہلاک کردند.اسلام را بروز بد نشاندند.و از شگرف جادوگر یہا کہ برانگیختند مردمان را بہ بیہودگی ہائے خویش کشیدند.خدائے بزرگ چون در دل ایشان نگاہ انداخت دید ایشان را مکّار.دجّال.گمراہ و گمراہ کنندہ کہ در ہمہ راہ ہائے ایشان فسادراہ یافتہ است.و بمواجہت رب خویش بغاوت مے ور زند و در صدد آن میباشندکہ دیگران راہم ازراہ ببرند.مذہب ہا رامی لیسند بر نمونہء کہ گاؤ سبزہ نبات را فرومی خورد.و غلو و فساد را خواستگار میباشندو از فروتنان نیستند.فہم و دانش ایشان مرد مان را مفتون گردانیدہ.وغوایت ایشان بجائے بلندی رسیدہ.زیرا کہ در علومِ
فعمو ا و صموا وکانو من المعجبین.و أزاغ اللّٰہ قلوب علماء نا و فقراء نا و اطفأ نور قلوبھم حتی عادوا الی الجھالۃ التی اخرجوا منھا بما کانوا یفسدون فی الارض.و ما کانوا من المصلحین.ففنوا فی الاھواء واستکانوا فی الآراء و وھنوا و کسلوا و ذرّت ریح الجھل ترابھم و سُلبت قواھم کلّھا فصاروا کالمیّتین.و نظر الربّ الی امراء نا فوجدھم المسرفین الغافلین المعرضین عن التقوی والحق والظالمین العادین.فباعد بینھم و بین شھواتھم و باعدھم عن الأملاک التی ارتبطت قلوبھم بھا و أخرج من أیدیھم اکثر املاکھم و أراضیہم و تبّرکلّ ما کانوا علیھا کالعاکفین.و قشفت الوجوہ من آفات الجوع والبؤس و خمدت نار المتموّلین.و قُصِمَتْ عظامھم و حُطِمَتْ سھامھم لیعلموا لِیامُہم ترجمہ: دنیا و صنائع آن دست دراز دارند.از شر و فساد آتشے بر افروختند.جویہائے فتنہ و مکرروان کردند و بدسگالی ہائے اندیشہ نمودند کہ در بدسگالی ہائے پیشینیان نمانۂ آن یافتہ نمی شود.ہمہ ہمت را مصروف داشتند باین کہ اسلام را از بیخ برکنند.و ہمہ آنچہ در ہمیان و کیسہ داشتند خرج کردند کہ دل فرومایگان بدست آرند.چنانچہ دست در دل مسلمانان فرو بردند.و علماء در چشمِ ایشان بیش از شخصے تہی دست قلاش یا پارۂ گوشت نرم در زیر دندان ایشان نبودند.خلاصہ قوم ما بازیچۂ بازی کنندگان گردیدند.درین حال خدا خواست کہ روشنی را از تاریکی جُدا سازد و درمیانِ پاک و ناپاک حکومت کند.و برضعیف داشتہا برحمت باز آید.و فتنہ آنہارا در حقِّ اسلام بلائے عظیم و خود آنہارا قوم سرکش باپندار دید کہ ہیچ فتنۂ از فتن مثل این از
انھم کانوا من المتمرّدین.و احاطت شصیّۃ المتنصّرین و شرک سراتھم من سمک البحر الی سماک السماء و جرت فُلْکُھم فی بحر الاضلال مواخر و وقعت رَجْفَۃٌ من عظمۃ شأنھم علی کُلّ ما فی الارض فخرّوا لھم ساجدین.و ما بقی من عشّ و لا کنّ و لا وکر الا دخلت فیہ ایدی الصیّادین و نقلوا خطوا تھم الی الاعتداء حتی نظروا فی صحف الرسل ففسرّوھا برأیھم و زادوا فیھا اشیاء و نقصوا منہا کانّھم الانبیاء و من المرسلین.ثم مالوا الی ملکوت اللّٰہ و افعال الالوھیۃ فدخلوا فی امور ما کان لھم ان یدخلوا فیھا و فرحوا بتدابیرھم وحسبوا انفسھم قادرین علی کل شیء کانھم الہ العالمین.واستغنوا وعتوا عتوًّا کبیرًا و قطعوا بکبرھم و کفرھم و أنانیتھم آذان دھریّین.ترجمہ: خلق آدم تا این زمان پیدا نہ شدہ و نہ تا قیامت خواہد شد و با این ہمہ در زمین بزرگ و بلند شدند و بار آورد کثیر شدند و زمین را از فراوانی پُر کردند و شوکت و ہیبت اینہا افزونی گرفت و خداوند تعالیٰ در اموال و اولاد و علوم و فنون و صنعت ہائے ایشان برکت داد.و در ارادت و افکار و انظار ایشان تائید ایشان کرد و باب ہر شے بر ایشان بازکشاد و این ہمہ در رنگ ابتلاء از قبل او بود.تا ایشان کو روکر گردیدند و باد نخوت و عجب در سر ایشان جاگرفت.و خداوند تعالیٰ دلِ علمائے ما را کج و نور ایشان را منطفی ساخت تا آنہا بہمان جہل عود کردند کہ ازان رستگار شدہ بودند بعلت اینکہ اقدام برفساد در زمین و اجتناب از اصلاح میکردند.بالجملہ درخواہشہائے بد فرو رفتند.
فھذ ا ھو المراد من ادّعاء النبوّۃ وادّعاء الالوھیۃ فلیفھم من کان من الفھمین.و فسدت الارض بفسادھم و سارع الناس الی زینتھم و رشادھم و لمعان فرصادھم و ثریدھم و جنتھم وآرادھم إلا ما شاء اللّٰہ یحفظ من یشاء و ھو خیر الحافظین.وھاج طوفان عظیم علی اعمال الناس و عقائدھم و طھارتھم و تقواھم و نیّاتھم و خطراتھم و افعالھم و اقوالھم و ابصارھم و آذانھم و دینھم و ایمانھم و اخلاقھم و سنن حسانھم و مروّتھم ورَثانھم و ابناء ھم و اخوانھم و بناتھم و نسوانھم و زھدھم و عرفانھم و ایدیھم و لسانھم و ھبّت ریح الفساد من کل طرف و احاطت الظلمۃ علی کل جھۃ ‘ و زلزلت الخلق ترجمہ: و در رایہائے مختلفہ باہم دگردر آویختند.و ہمچنین ناتوان و خوار و بد دل می شدند تا اینکہ بادجہل خاک آنہارا منتشر کرد و ہمہ قُوّتہا از ایشان انتزاع شد کہ از مُردہ ہابیش نماندند.و حق تعالیٰ در امرائے قوم مانگاہ کرد.دید کہ آنہا مسرف و غافل و معرض از تقوی و حق ہستند.تا درمیانِ آنہا و مقاصد آنہا مباعدت کرد و متملکات را از دستِ آنہا بدرکرد کہ دل آنہا وابستہ بآن بود.و املاک و اراضی را از تصرف آنہا اخراج فرمود.و ہر چیز را کہ عکوف برآن داشتند ہلاک گردانید.از شدت گرسنگی رویہا استخوان بے گوشت برآمد.و آتش متموّلان فرونشست.استخوان آنہا از ہم فرو ریخت و تیرہا بشکست کہ زیر دستان آنہا بفہمند کہ آنہا سرکش و عاصی بودند.و دام متنصّران و کلانان آنہا از ماہیء زمین
زلز الًا شدیدًا و طارت حواسھم و کانوا کالمبھوتین.و کانوا لا یدرون أَ عذابٌ أرید بمن فی الارض ام ارادبھم ربّھم رحما وکانوا لسِرّ الغیب منتظرین.وانشقت فُلْکُہم فی بحر الزیغان و ھاجت الأمواج من کل طرف و کادوا أن یکونوا من المغرقین.فنادانی ربّی من السماء ان اصنع الفلک باعیننا و وحینا و قم و انذر فانک من المأمورین.لتنذر قومًا ما انذر آباء ھم ولتستبین سبیل المجرمین.انا جعلناک المسیح ابن مریم لأ تِمّ حجّتی علی قوم متنصّرین.قل ھذا فضل ربّی و إنّی اجرد نفسی من ضروب الخطاب.و امرتُ من اللّٰہ و انا اوّل المؤمنین.انہ ترجمہ: تا بماہ آسمان پہن گستردہ شد و کشتی ہائے آنہا در بحر اضلال جریان و سیران پذیرفت.و از شان آنہا زلزلہ عظیمے و رعبے فخیمے ہمۂ اہل زمین رافراگرفت کہ درپائے آنہا بسجدہ در افتادند.و ہیچ آشیانہ ولانہ و خانہ نماند کہ دست صیادان بدان نرسید.و این نصاریٰ نوشتہ ہائے انبیاء را بروفق رائے فاسد خویش تفسیر و چیز ہا نقص و زیادت از آنہا و بر آنہا کردند.و چنان و انمودند کہ گوئی آنہا انبیاء و مرسل می باشند.بعد ازان در ملکوت خدا و افعال وے کہ روئے توجہ آور دند دخل در امورے دادند کہ سزاوار تداخل درآن نبودند.بہ تدابیر خود شیفتہ شدند و خود را برہر چیز قادر پند اشتند کہ تو گوئی الہ عالمین ہستند.بے نیازی و تجبّر وا نموند و در مکر و کفر و خودی گوئے سبقت از دہریان ربودند.
یر ی الاوقات و یعلم مصالحھا و ان من شیء الا عندہ خزائنہ انما امرہ اذا اراد شیئا ان یقول لہ کن فیکون قل ا تعجبون من فعل اللّٰہ.قل ھو اللّٰہ اعجب العجیبین.یرفع من یشاء و یضع من یشاء و یعزّ من یشاء و یذلّ من یشاء و یجتبی الیہ من یشاء لایسئل عمّا یفعل و ھم من المسؤلین.قل الحمد للّٰہ الذی اذھب عنی الحزن و اعطانی ما لم یعط احد من العالمین.و قالوا کتاب ممتلیء من الکفر و الکذب قل تعالوا ندع أبناء نا و أبنائکم و نساء نا و نساء کم و انفسنا و انفسکم ثم نبتھل فنجعل لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین.وادع عبادی الی الحق وبشّرھم بایّام اللّٰہ وادعھم الٰی کتاب مبین.ان الذین ترجمہ: این است مراد آنچہ در خبر آمدہ کہ دجّال ادعائے نبوّت و الوہیت را خواہد اظہار کرد.بفہمد آنکہ فہم دادہ شدہ است.کار بجائے رسید کہ زمین از سیاہ کاری ایشان تباہ گردید.اکثر از ابنائے زمان رامیل خاطر بہ دانش و نگارش آنہا پیدا شد برخے بطمع نان و جمعی بامید وصال نسوان و طلب راحت جان اسیر پنجۂ این جفا کاران شدند.الّاما شاء اللہ سلامت ماند کسے کہ عصمت حضرت حق تعالیٰ متکفّلِ وے شدہ.اللہ اللہ ! طوفان بزرگی و خلل سترگی راہ یافت در اعمال و عقائد.و در تقویٰ و طہارت.در نیات و خطرات.در افعال و اقوال.در دیدہ و درگوش.در دین و در ایمان.در اخلاق و در احسان.در مروت و در فتوت.در پسران و در برادران.در دختران و در زنان.در زہد و در عرفان.در دست و در زبان.خلاصہ باد فساد
یبا یعونک انما یبایعون اللّٰہ یداللّٰہ فوق ایدیھم.واللّٰہ معھم حیث ما کانوا ان کانوا فی بیعتھم من الصادقین.قل ان کنتم تحبون اللّٰہ فاتبعونی یحببکم اللّٰہ و یجعل لکم نورًا و یجعل لکم فرقانًا و یجعلکم من المنصورین.ان اللّٰہ مع الذین اتقوا و ان اللّٰہ مع المحسنین.ھذا ما ألھمنی ربّی فی وقتی ھذا و من قبل ینعم علٰی من یشاء وھو خیر المنعمین.و ان لہ عبادا من الاولیاء یسمّون فی السماء تسمیۃ الانبیاء بما کانوا یشابھونھم فی جوھرھم و طبعھم و بما کانوا یأخذون نورًا من انوارھم و کانوا علی خلقھم مخلوقین.فیجعلھم اللّٰہ وارثھم و یدعوھم بأسماء مورثیھم و کذالک ترجمہ: بنا کرد از ہر جانب و زیدن.تاریکی آغاز نمود بر ہر چیز دامن در از کشیدن.و زلازل سختی پیدا شد چنانچہ مرد مان سرشتۂ ہوش از دست دادند.و درین معنی دست و پاگم کردند کہ آیا عذاب بر زمینیان نازل شدنی است.یا پروردگار ارادہ رحم بر ایشان کردہ.وخیلے کشف این سرّ را منتظر بودند.کشتی آنہا در تلاطم کجروی تختہ ہاش از ہم گسیختہ.و از ہر جانب موج گرسنہ بر ایشان فرو ریخت.و کم ماندہ بودند غرقاب بشوند.ناگہان درین حال ربِّ من از بالائے آسانم۱ ندا زد.کہ درپیش ما و فرمان ما کشتیء ساز بکن.و برخیز دو بترسان کہ تو مامور ہستی.کہ بترسانی قومے را کہ پدران آنہا ترسانیدہ نہ شدند وہم راہ بدکاران آشکار شود.ماترا مسیح ابن مریم گردانیدیم کہ حجت مرا بر قوم نصاریٰ تمام کنی.بگو این فضل پروردگار ۱ سہو کاتب ہے.’’ بالائے آسمان ‘‘ چاہیئے.شمس
یفعل و ھو خیر الفاعلین.و للأرواح مناسبات بالارواح لا یُدْری دقائقھا فالذین تناسبوا یُعَدّون کنفس واحدۃ و یطلق اسماء بعضھم علی بعض و کذلک جرت سنۃ اللّٰہ و ذلک امر لا یخفی علی العارفین.ان اللّٰہ وتر یحب الوتر و لأجل ذلک قد استمرت سنتہ انہ یرسل بعض الاولیاء علی قدم بعض الانبیاء فمن بعث علی قدم نبیّ یسمّی فی الملأ الأعلٰی باسم ذٰلک النبیّ الأمین.و ینزل اللّٰہ علیہ سرَّ روحہ و حقیقۃ جوھرہ و صفاء سیرتہ و شان شمائلہ و یوحّد جوھرہ بجوھرہ و طبیعتہ بطبیعتہ و اسمہ باسمہ و یجعل اراداتہ فی اراداتہ و توجھاتہ فی توجھاتہ و اغراضہ فی اغراضہ و یجعلھما کالمرایا المتقابلۃ فی الانارۃ والاستنارۃ ترجمہ: من است و من خود را از ہرگو نہ خطاب تجرید میکنم.و من مامور از خدا و اول مومنانم.او نگاہ در اوقات میکند و مصالح آنرا میداند.و خزاین ہر شے در نزدِ وے می باشد.بدرستی کہ ہرگاہ ارادہ چیزے میکند میگوید بشو می شود.بگوشما عجیب دارید از فعل خدا؟ بگوخدا عجیب ترین عجیب ہا است ! برفراز برمیدا رد ہر کہ را کہ می خواہد و پائین فرومی برد کسی را کہ میخواہد.عزت می بخشد ہر کہ راکہ می خواہد و ذلت میدہد کسی را کہ می خواہد.و بر می گزیند در نزد خویش ہر کرا کہ می خواہد.کسے نیت کہ از کردارش وے را باز پرسد و آنہا پرسیدہ شوند.بگو حمد مر خدا راست کہ اندوہ را از من دور ساخت و مرا عطا فرمود آنچہ ہیچ کس را از عالمیان دادہ نشدہ.و میگویند ایں کتاب مملو از کفر و کذب است بگوبیائید می آوریم پسران خود را و پسران شمار او زنان خود را و زنان شما را و خود مارا
کأ نّھما شیءٌ واحدٌ و ذلک سرّ التوحید فی الارواح الطیّبین.فھذا ھو السرّ الذی سمّانی اللّٰہ برعایتہ المسیح الموعود فتفکروا فی السر و لا تکونوا من المستعجلین.ما کان اللّٰہ ان یرسل نبیًّا بعد نبیّنا خاتم النّبیّین.و ما کان ان یُحدث سلسلۃ النبوۃ ثانیًا بعد انقطاعھا و ینسخ بعض احکام القرآن و یزید علیھا و یخلف وعدہ و ینسی اکمالہ الفرقان و یُحدث الفتن فی الدین المتین.الا تقرء ون فی احادیث المصطفٰی سلم اللّٰہ علیہ و صلّی.ان المسیحؑ یکون احدًا من امتہ و یتبع جمیع احکام ملّتہ و یصلّی مع المصلین.و قد ملیء القرآن من آیاتٍ تشھد کلھا علی ان المسیح ابن مریم قد توفّی و لحق باخوانہ ابراھیم و موسٰی و اخبر بوفاتہ رسول اللّٰہ ترجمہ: و خود شما را ہا نہ گریہ و زاری بکنیم و لعنت خدا بر سر ظالمان فرو دآریم.و بخوان بندگان مرا بحق و بشارت ایام اللہ بانہا برسان.وبخوان آنہا را بسوئے کتاب مبین.آنانکہ دست در دستِ تو میدہند البتہ در دستِ خدا میدہند.دست خدا بالائے دست آنہاست.و خدا بآنہاست ہر جا کہ باشند اگر در بیعت صادق باشند.بگو اگر خدا را دوست میدارید اتباع من بکنید خدا شمارا دوست دارد و شمارا نور بخشد.و شمارا فرقان مرحمت کند و شمارا منصور سازد.ہر آئینہ خدا بآنہا است کہ تقویٰ می ور زند و صفت احسان میدارند.این است آنچہ پروردگار من مرا الہام فرمودہ است ہم درین وقت و قبل ازین انعام میکند بر ہر کہ میخواہد و او بہترین منعمان است.و ہر آئینہ او را بندہ ہاست از
صلی اللّٰہ علیہ وسلم.و ھو اصدق المخبرین.الا تقرء ون فی القرآن 3.۱ 33.۲ الا تقرء ون 333.۳ الا تقرء ون فی صحیح الامام البخاری: متوفیک ممیتک.فما بقی بعد ھذہ الشھادات محل شک للمشککین و بایّ حدیث تؤمنون بعد آیات ربّ العلمین؟ الا ترون انہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم قال فی علامات المسیح و فی بیان وقت ظھورہ انہ یکسر الصلیب و یقتل الخنزیر فاعلموا انہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم اشار الی انہ یأتی فی وقت یعبد الصلیب فیہ و یؤکل الخنزیر بکثرۃ و یکون لعبدۃ الصلیب غلبۃ فی الارضین.فیاتی و یکسر غلبتھم و یدق ترجمہ: اولیاء کہ اوشان را با نام انبیاء یاد کردہ میشود زیرا کہ اوشان در جوہر و طبع با انبیاء مشابہت دارند و از نور ایشان نور میگیرند و مخلوق برخلق ایشان میباشند و لذا انہارا وارث ایشان میگرد اندو بانام مورثان آنہا را یاد میفرماید و ہمین طورمی کند و او بہترین کارکنندگان ست.و ارواح را با ارواح مناسبتہا می باشدکہ دقائق آنرا کسے نمی فہمد.چنانچہ آنہائیکہ باہم تناسب داشتہ اند در رنگ نفس واحد محسوب می شوند و نام یکے بر دیگرے اطلاق می یا بد و بہمین نسق عادت خدا جریان داشتہ.و این امر بر عارفان پوشیدہ نیست.خدائے تعالیٰ یگانہ است و یگانگی را دوست میدارد و لذا عادت او باین نہج استمرار یافتہ کہ بعضے از اولیاء را بر قدم بعضے انبیاء مے فرستدو ہر کہ رابر قدم نبی مبعوث می کند نام اُو را در عالم بالابنام اٰل عمران:۵۶ ۲ المآئدۃ:۱۱۸ ۳ اٰل عمران:
صلیبھم و یھدم عماراتھم و یخرّب مرتفعاتھم بالحجج والبراہین.ایھاالناس اذکروا شان المصطفٰی علیہ سلام رب السمٰوات العلٰی واقرء وا کتب المتنصّرین وانظروا صولتھم علٰی عرض سیّد الورٰی.فلا تُطرُوا ابن مریم و لا تعینوا النصاری یا وُلْدَ المسلمین.أ لرسولنا الموت والحیاۃ لعیسٰی؟ تلک اذًا قسمۃٌ ضیزٰی.ما لکم لا ترجون وقارًا لسیّد السیّدین.أ تجادلوننی بأحادیث ورد فیھا أن المسیح سینزل و تنسون احادیث اخری.و تأخذون شقا و تترکون شقا آخر، و تذرون طریق المحققین.ولا یغرّنکم اسم ’’ ابن مریم ‘‘ فی اقوال خیر الورٰی.ان ھو الا فتنۃ من اللّٰہ لیعلم المصیبین منکم و لیعلم المخطین و لیجزی اللّٰہ الصابرین الظانین بانفسھم ظن الخیر و یجعل الرجس علی المعتدین ترجمہ : ہمان نبیء امین یاد می فرمایند.و خداوند تعالیٰ سر روح و حقیقت جوہر و صفائی سیرت و شان شمائل آن نبی را بآن ولی می بخشد.و جوہر و طبیعت و اسم یکے را بادیگرے چنان متحدمی سازد کہ ارادۂ یکے ارادۂ دیگرے و اغراض یکے اغراض دیگرے و توجہ یکے توجہ دیگرے میگردد گویا این ہر دو آئینہ ہائے مقابل یک دیگرند کہ از یک دگر بآن دیگر نور میگیرند و میر سانند.و بمثابہ ء ہمرنگ شدہ اند کہ حکم شیئے واحد پیدا کردہ اند.این است سر توحید در ارواح پاکان.و از ہمین جاست کہ خداوند تعالیٰ شانُہٗ مرا باسم مسیح موعود مسمے گردانیدہ.اکنون باید شما درین راز اندیشہ فرمائید و عجلت منمائید.چگو نہ راست می آید کہ خداوند تعالیٰ نبی را ارسال کند بعد از آنکہ نبیء مارا علیہ افضل الصلوٰۃ والتسلیمات خاتم النبین
و قدخلت سننہ کمثل ھذا فلیتفتش من کان من المتفتشین.لقد کان فی ایلیا و قصۃ نزولہ نظیر شافٍ للطالبین فاقرؤوا الانجیل و تدبّروا فی آیاتہ بنظرٍ عمیقٍ أمین.اذ قالت الیھود: یا عیسی کیف تزعم انک انت المسیح و قد وجب ان یاتی ایلیا قبلہ کما ورد فی صحف النبیین.قال: قد جاء کم ایلیا فلم تعرفوہ و اشار الی یحیٰی و قال: ھذا ھو ایلیا ان کنتم موقنین.قالوا: انک انت مفتر أ تنحت معنی منکرًا ما سمعنا بھذا فی آبائنا الاولین.قال یا قوم ما افتریت علی اللّٰہ لکنکم لا تفھمون اسرار کتب المرسلین.تلک قضیۃٌ قضاھا عیسٰی نبی اللّٰہ و فی ذالک عبرۃ للمسلمین.ما کان نزول بشرٍ من السماء من سنن اللّٰہ و ان کان فأتوا بنظیر من قرون خالیۃ ترجمہ : کردہ.و ہرگز ہرگز نشود کہ باز سلسلۂ نبوت را بعد از انقطاع آن احداث فرماید ولذانسخ بعضے از احکام قرآن و زیادت برآن را روا دارد و اخلاف وعدہ کند و اکمال قرآن را فراموش سازدودر دین متین فتنہ ہارا بنیاد گذارد.در احادیث مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم نخواندہ اید کہ مسیح موعود فردے از افراد اُمتِ وے و پیرو تمام احکام ملّت وے باشد و نماز با نمازیان گزارد.و آیات بسیار در قرآن کریم می باشد کہ شہادت ناطق ادا میکند بوفات مسیح علیہ السلام و بآنکہ او علیہ السلام بدیگر برادران خویش ابراہیم و موسیٰ وغیرہما علیہما السلام لاحق شدہ.و خبرداد از وفات او خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم.در قرآن نخواندہ اید؟ یا عیسی انّی متوفّیک و فلمّا توفّیتنی.و نخواندہ اید در قرآن؟ ما محمد الا رسول الآیہ.و نخواندہ اید در
ان کنتم من المھتدین وما کان فینا من واقع الا خلالہ نظیر من قبل و الیہ اشار اللّٰہ و ھو اصدق الصادقین ’’33‘‘.۱ و قد مضت سنۃ الاوّلین.خصمان تخالفا فی رایھما فاحدھما متمسک بنظیر مثلہ والآخر لا نظیر عندہ اصلا فأی الخصیمین اقرب الی الصدق؟ انظروا باعین المنصفین.یا ایھا الناس التُّقی التُّقی.النُّہی النُّہی.و لا تتبعوا اھواء فیج اعوج واذکروا ما قال المصطفٰی.لقد جئتکم حکمًا عدلًا للقضایا وجب فصلہا فاقبلوا شھادتی.اِنّی أُوتیت علمًا ما لم تؤتوہ و ما یؤتی.ان کنتم فی شک من امری فتعالوا لیفتح اللّٰہ بیننا و بینکم و ھو الرب الاقدر الاقوی.انہ مع الصادقین.یسمع ترجمہ: بخاری شریف؟ متوفّیک ممیتک قسم بخدا بعد از این شہادت ہا محل شک و ریب برائے متشککین نمی تو اند بود و بعد از آیات رب عالمین چہ حدیثے است کہ بآن ایمان خواہید آورد؟ خود نگاہ کنید رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم در علامات مسیح و بیان وقت ظہور وے ایمامی فرماید کہ او صلیب را بشکند و خنزیر را بکشد و ازین معنی خود اشارہ میکند صلی اللہ علیہ وسلم کہ ظہور مسیح در وقتے خواہد بود کہ صلیب را بہ پرستند و لحم خنزیر را بکثرت بخورند و پرستاران صلیب را در اقطار عالم قہر و غلبہ باشد.در آن حال مسیح بروز کند و صلیب را بشکند و با حجج و براہین ہر چرا کہ ساختہ و پرداختہ باشند ہدم و اعدام کند.اے مردمان شان بزرگ مصطفی (صلی اللہ علیہ وسلم) را یاد کنید و یک الاحزاب:
و یر ی.و بشّرنی فی وقتی ھذا و قال: یا عیسٰی سأُریک آیاتی الکبری فأیّ نہج الفصل اھدی من ھذا ان کنتم تطلبون الھُدٰی.و قد جئت حین سجی الدجٰی.و غابت الحق من الوجٰی.و کانت تلک الایام ایام الوباء.قد ھلکت فیہ امم کثیرۃ و کان الاسلام نِضْو سُری.ما کان لہ من موئل و مأوٰی.کخابط لیلۃ لیلاء.و کان الطالبون کذی مجاعۃ جَوِی الحشا مشتمل علی الطوٰی.فاوحٰی الیَّ ربّی ما اوحی.فنھضت ملبّیا للندا.فأنبأنی ربّی مما سیأتی و ما مضٰی.و صافانی و نجّانی من کل ھم و بلاء و بشّرنی بغلبتی علی کل من خالف و ابٰی.و اوحٰی اِلَیّ باننی غالبٌ علٰی کل خصیم اعمٰی.و قال اِنّی مھین من اراد اھانتک.و احسن الیّ بآلاء لا تعد و لا تحصٰی.ترجمہ : نگاہے ُ بکتب نصاریٰ بیاند از یدکہ چہ بے اندامیہا و بے آبروئی ہا وچہ شوخیہا و دہن دریدگی ہا در عرض و شان آن سردار عالم و عالمیان روا داشتہ و ارتکاب کردہ اند ! پس چرا در مدح مسیح اطرا و غلو میکنید؟ و اے اولاد مسلمانان چرا از این فعل خود تان اعانت نصاریٰ میفرمائید؟ دربارۂ رسولؐما موت و در حق مسیح حیات تجویز میکنید؟ ہیہات عجب حیف و اعتساف در اقتسام می نمائید !!! چہ بلا نازل شد بر شما کہ سردار سرداران را وقعتے و وقارے مرعی نمی دارید! با من مجادلہ میکنید باَ حادیثے کہ انباء از نزول مسیح میکند؟ و احادیث دیگر را خط کش نسیان می سازید؟ و طرفے را میگیرید و شطرے میگزارید؟ و طریق محققان را پشت ہائے می زنید؟ و زنہار باسم ابن مریم فریفتہ نشوید کہ این یک فتنہ ایست از خدا بجہت
و قال انی معک حیث ما کنتَ و انی ناصرک و انّی بُدّک اللازم و عَضُدُک الأقوی.و امرنی ان ادعو الخلق الی الفرقان و دین خیر الوری، الذی سن التبلیغ و حث علی الجھد و حمل الأذی.لستُ بنبیّ و لکن محدث اللّٰہ و کلیم اللّٰہ لأجدّد دین المصطفٰی.و قد بعثنی علٰی رأس الماءۃ و علّمنی من لدنہ علوم الھدی.و اِن کنتم تشکون فی أمری و تحسبون انکم علی حق فی مخالفتی و تظنون قربتکم أعظم من قربتی.فھا أنا قائم فی موطن المقابلۃ لرؤیۃ آیات صدقکم و اراء ۃ برھانی علی الاصطفاء.و أعزم علیکم باللّٰہ الذی ھو خالق الارض والسماء.ان لا تمھلونی طرفۃ عین و جاھدوا لھزیمتی حق جھادکم واستفتحوا لانفسکم من اللّٰہ الاعلٰی.و حرام علیکم ترجمہ: اینکہ او باز شنا سد از جملہ شماہا خطا کاران و صواب کاران را.وہم بجہت اینکہ پاداش نیکو وبد پائداران را کہ بہ نفس خود ہاگمان خوبی دارند و رجس و آلودگی نصیب حال ازحد برون شدگان کند.و بر این منوال عادت او تعالیٰ شانہ قدیماً جریان داشتہ.جویندہ باید جستجوئے این امرکند.البتہ در قصۂ ایلیا و کیفیتِ نزول وے از برائے جویدگان نظیرے شافی میباشد.باید انجیل را بخوانید و در آیاتش بہ نظر عمیق تدبر کنید.ہر گاہ چنانچہ یہود از حضرت عیسیٰ پر سیدند چگو نہ خود راگمان می بری کہ تو مسیح می باشی؟ و حال اینکہ نوشتہ ہائے سابقہ آمدن ایلیا را قبل از وے واجب قرار دادہ.او گفت بالیقین ایلیا پیش شما آمد ولے شما او را نشناختید!
ان تتقاعسوا و تستاخروا و لا تبرزوا فی مکان سُوٰی.واجتمعوا علی کلکم وارمُوا کل سھام من قوس واحد فستعلمون من ھلک و من حفظہ اللّٰہ تعالٰی و ابقٰی.و اِن تقبلونی فاللّٰہ یبارککم و یجعلکم مثمرین مبارکین آمنین و یردّ الیکم ایّامکم الاولٰی.و تسکنون فی امان اللّٰہ و یتوب الیکم ربکم و یرضٰی.و کل سوءٍ یتحوّل عنکم و یتناھٰی.یا قوم انّی لستُ کافرًا کما یفشی و یفتری علیّ علماء السوء.و ما افتریت شیءًا علٰی ربّی و ما اقول لکم من عند نفسی و قد خاب من افترٰی.و انّی اعتقد من صمیم قلبی انّ للعالم صانعًا قدیمًا واحدًا قادرًا کریمًا مقتدرًا علٰی کل ما ظھر واختفٰی.و اعتقد ان للّٰہ ملا ئکۃً ترجمہ : و اشارت بوجود حضرت یحییٰ فرمود و گفت این است آن ایلیا اگر ایقان دارید! گفتند تو مفتری ہستی و معنیء غیر معروف از قبل نفسِ خود می تراشی کہ از پدران گذشتہ نشنیدہ ایم ! گفت اے قوم من بر خدا افترانہ کردہ ام بلکہ شماہا اسرار ُ کتب مرسلان را فہم نمی کنید.این قضیہ ایست کہ عیسیٰ نبی اللہ فصلش کردہ مسلمانان باید ازان اعتبار گیرند.ہرگز عادت خداوندی چنین نرفتہ کہ کسے از آسمان نزول کردہ واگر درین خلاف است از قرون گزشتہ یک نظیرے پیش آرید اگر شما بر کامیابی خود ناز دارید.زیرا کہ ہیچ واقعے در امت ما حدوث نشدہ و نشود کہ نظیرش پیش ازان در امم گزشتہ واقع نشدہ باشد.و بہمین معنی اشارہ میفرماید آنکہ اصدق صادقین است.و قد مضت سنۃ الاولین.و لن تجد لسنۃ اللّٰہ تحویلا.
مقر بین.لکل واحد منہم مقام معلوم.لا ینزل احد من مقامہ و لا یرقی.و نزولھم الذی قد جاء فی القرآن لیس کنزول الانسان من الاعلی الی الأسفل و لا صعودھم کصعود الناس من الاسفل الی الاعلی لانّ فی نزول الانسان تحولًا من المکان و رائحۃ من شقّ الانفس واللغوب و لا یمسّھم لغب و لا شق و لا یتطرّق الیہم تغیّر فلا تقیسوا نزولھم وصعودھم بأشیاء أُخرٰی.بل نزولھم و صعودھم بصبغ نزول اللّٰہ و صعودہ من العرش الی السماء الدنیا.لان اللّٰہ أدخل وجودھم فی الایمانیات و قال: 33.۱ فآمنوا بنزولھم و صعودھم و لا تدخلوا فی کنھھما.ذٰلک خیرٌ و اقرب للتقوٰی.و قد وصفھم اللّٰہ بالقائمین والساجدین و الصافّین والمسبحین والثابتین.ترجمہ: دو خصم کہ در رائے تخالف دارند.یکے نظیرے بہ ثبوت واقعۂ خود در دست دار د و آن دیگر از نظیرے تہیدست است.ازین دو کدام برصواب و صدق باشد بدیدۂ انصاف نگاہ فرمائید.اے مردمان از خدا بترسید و دنبال گروہ کجروگام نزنید وگفتار حضرت مصطفےٰ( صلی اللہ علیہ وسلم) بخاطر در آرید.من بجہت فصل قضیہ ہائے کہ ہنوز غیر منفصل بود حاکم عادل آمدہ ام.شہادت مرا پزیر فتاری کنید و مرا علمے دادہ اند کہ شمارا دادہ نشدہ و نہ خواہند داد.واگر شمادر امر من شک می آرید بیائید کہ خداوند قوی قادر درمیان ما وشما حکم کند.زیرا کہ او باصادقان است می شنود و می بیند.اوتعالیٰ ہم درین وقت مرا بشارت داد و ُ گفت اے عیسیٰ زودست کہ ترا نشانہائے بزرگ خود بنمایم.اکنون درست و راست تر ازین فصل چہ خواہدبود
فی مقامات معلومۃ و جعل ھذہ الصفات لھم دائمۃ غیر منفکۃ وخصّھم بھا.فکیف یجوز ان یترک الملا ئکۃ سجودھم و قیامھم و یقصموا صفوفھم و یذروا تسبیحھم و تقدیسھم و یتنزلوا من مقاماتھم و یھبطوا الارض و یخلو السماوات العُلٰی.بل ھم یتحرکون حال کونھم مستقرین فی مقاماتھم کالملک الذی علی العرش استوٰی.و تعلمون ان اللّٰہ ینزل الی السماء فی آخر کل لیل و لا یقال اِنّہ یترک العرش ثم یصعد الیہ فی اوقات اخرٰی.فکذٰلک الملا ئکۃ الذین کانوا فی صبغۃ صفات ربھم کمثل انصباغ الظل بصبغۃ اصلہ لا نعرف حقیقتھا و نؤمن بھا.کیف نشبّہ احوالھم باحوال انسان نعرف حقیقۃ صفاتہ وحدود خواصہ و سکناتہ و حرکاتہ و قد منعنا اللّٰہ ترجمہ : اگر شما طالبان ہدایت ہستید.و حقا کہ من در وقتی آمدہ ام کہ تاریکی سایۂ گستردہ و حق از غایت فرسودگی نا پدید گشتہ و آن ایام‘ ایام و بابودہ.کہ خلق کثیر در آن ہلاک شدہ و اسلام از شدت ضعف برمثال شتر لاغر از شب روی گردیدہ.ہیچ ماوا و ملجاء او را نبود مثل شخصے کہ در شب تاریک راہ گم کردہ باشد.و طالبان وے ہمچو شخصے بودند کہ از شدت فاقہ زدگی اندر ونش ہمہ التہاب شدہ باشد.اندرین حال وحی کرد بسوئے من پروردگار من آنچہ کرد.در ساعت ندائے اورا لبیک گویان برخاستم.پس او مر اخبر داد از آنچہ شدہ و خواہد شد.و مصافات و معافات نصیب حال من فرمود.و از ہر بلا و غم مرا نجات بخشید.و مرا بشارت غلبہ داد بر ہرکسے کہ خلاف من کرد و عصیان در زید.و وحی کرد بمن کہ من برہر دشمن نابینا
من ھٰذا و قال: 3۱.فاتقوا اللّٰہ یا ارباب النُھٰی.و نعتقد کما کشف اللّٰہ علینا ان عیسی ابن مریم قد توفی و لحق باخوانہ النبیّین الصالحین و رفع الی مکان کان فیہ یحیٰی.و نعتقد ان رسولنا خیر الرسل و افضل المرسلین و خاتم النبین و افضل من کل من یأتی و خلا.ھو سلکنی بنفسہ المبارکۃ و ربّانی بیدہ الطاھرۃ المطھرۃ و أرانی عظمتہ و ملکوتہ.و عرّفنی باسرارہ العُلیا.و نعتقد ان کل اٰیۃ القرآن بحر مواج مملو من دقائق الھدی.و باطل ما یعارضہ و یخالف بیانہ من قصص و علوم الدنیا و العقبٰی.و نعتقد انّ الجنّۃ حق و النار حق و حشر الاجساد حق و معجزات الانبیاء حق.و نعتقد انّ النجاۃ فی الاسلام و ا تباع نبیّنا ترجمہ : غالب ہستم.و گفت من اہانت کنم کسے را کہ ارادۂ اہانت تو دارد و برمن انعام ہا کردہ کہ باحصاء و شمار نیاید.و فرمود من با تو ہستم ہر جا کہ باشی.و من مددگار تو و چارۂ لازم تو و بازوئے قوی تو ہستم.و مرا امر فرمود کہ خلق را بسوئے فرقان و دین حضرت برگزید ۂعالم (صلی اللہ علیہ وسلم )بخوانم.کہ او علیہ الصلوٰۃ طریق تبلیغ را بنہادہ و تحمل ایذا و آزار خلایق راحت و ترغیب دادہ من نبی نیستم ولے محدّث اللہ و کلیم اللہ ہستم بجہت اینکہ دین مصطفی( صلی اللہ علیہ وسلم) را تجدیدُ کنم.و مرا بر سر این صد فرستادہ و از نزد خود علوم ہدایت مرا تعلیم دادہ.و اگر شما در امر من شک دارید و خودرا در خلاف با من برحق می شمارید و قرب خود را از قربت من زیاد و بزرگ می پندارید.اینک من در میدان مقابلہ و مبارزہ ایستادہ ام کہ نشان صدق شمارا بہ بینم و علامات برگزیدگی خود را
سیّد الورٰی.و کل ما ھو خلاف الاسلام فنحن بریّون منھا.و نؤمن بکل ما جاء بہ رسولنا صلی اللّٰہ علیہ و سلم و ان لم نعلم حقیقتہ العُلیا.و من قال فینا خلاف ذالک فقد کذب علینا وافتری.فاتقوا اللّٰہ و لا تصدّقوا اقوال کل ضنین مھین.سعی الیّ کتِنِّینٍ.و مال الٰی اکفاری بفیلولۃ رایہٖ واتّبع الھوٰی.واعلموا انّ الاسلام دینی و علی التوحید یقینی و ما ضلّ قلبی و ما غوٰی.و من ترک القرآن واتبع قیاسًا فھو کرجل افتُرس افتراسًا و وقع فی الوھاد المھلکۃ و ھلک و فنٰی.واللّٰہ یعلم انی عاشق الاسلام و فداء حضرۃ خیر الانام و غلام احمدن المصطفٰی حُبّب الیّ منذ صبوت الی الشباب و قادنی التوفیق الٰی تالیف الکتاب ان ادعوالمخالفین الٰی ترجمہ: بشما بنایم.و شما را سو گند خدائے زمین و زمان میدہم کہ مرا یک چشم زدن مہلت ندہید و ہر قدر در تاب و تو ان شما باشد بگوشید و برائے خود ہا از خدا کشاد بطلبید.و حرام است برشماکہ سستی ور زید و پس نشینید و اینکہ در میدان بروز نکنید.ہمہ مجتمع بشوید و ہرتیر کہ در جعبہ دارید ازیک کمان بر من بیاند ازید.البتہ آن وقت آشکار شود کہ مُردو کہ ُ برد.و اگر مرا قبول کر دید خدا در شما برکت نہد و شمارا مثمر و با امن و روز افزون گرداند و روز ہائے پیشین را باز بشما ارجاع فرماید.و شمارا در امان خود سکنی بخشد و رضا و توبہ ازوے نصیب حال شما شود.و ہرگونہ بدی و رنج را از شما برگرداند.اے قوم من کافر نیستم چنانچہ علمائے بد افشا از من و افترا بر من کردہ اند و آنچہ میگویم از تلقائے نفس خود نہ تراشیدہ ام و متحقق است کہ مفتری ہموارہ
دین اللّٰہ الاجلٰی.فارسلتُ الٰی کل مخالف کتابًا.و دعوت الی الاسلام شیخًا و شابًا.و وعدت ان أری الآیات طُلّابًا.و وعدتُ لھم نشبًا کثیرًا ان عجزت جوابًا.فشاھت الوجوہ وَ أْباً.و ما جاء احد و ما اتٰی.و لم یجیبوا النداء و لا فاھوا بیضاء و لا سوداء و ما رکض احد منہم و ما دنا.فھٰذہ آیۃ من آیات صدقی و سدادی لقوم یتفکرون.من عرفنی فقد صدقنی و من لم یعرفنی فلم یصدقنی و من جاھد فی امر یکشف اللّٰہ ذالک الامر علیہ فطوبٰی لقلوب ھم یجاھدون.لن یُحرزَ جَنی العود بالعقود، و لا یملک فتیلًا من لا یؤثر سبیلًا.والذین یطلبون فھم یجدون.فیا قوم لا تکفرونی بغیر عرفان، و لا تکذبونی بغیر سلطان، و لا توسعونی سبّا ترجمہ: زیان کار شدہ.من از تہ دل اعتقاد دارم برین کہ عالم را صانعے است قدیم.واحد.قادر.کریم و مقتدر بر ہر آنچہ آشکار اونہان است.و اعتقاد دارم برین کہ خدا تعالیٰ را ملائکہ مقربین اندکہ برائے ہر یکے از ایشان مقامے معلوم است.نہ کسے از آن مقام فرودمی آید و نہ بالامی رود.و نزول آنہا کہ در قرآن آمدہ مثل نزول انسان نباشد از بالا بزیر و صعود او از زیر بہ بالا.زیرا کہ در نزول انسان انتقال است از مکانے بمکانے و درین گردش اور ایک گونہ کوفت و خستگی لاحق میشود.مگر ملائکہ را کوفت نمی رسد و ہیچگو نہ تغیر در ایشان راہ نمی یابد.ولذا نباید نزول و صعود آنہارا قیاس بر اشیائے دیگر کنید.حقیقت این است کہ آن در رنگ نزول و صعود خداوند است جلّو علا از بالائے عرش تا بہ آسمان دنیا.چنانچہ او تعالیٰ جلّ شانہ
و لا توجعونی عتبًا.و لا تدخلوا فی غیب اللّٰہ.و لا تُصرّوا علٰی ما لا تعلمون.عسٰی ان تکفروا رجلا و ھو مؤمن عند اللّٰہ.و عسٰی ان تفسقوا احدا و ھو صالح عندہ، واللّٰہ یرٰی قلوب عبادہ و انتم لا تُبصرون.یا قوم ان کنت علٰی باطل فاللّٰہ کاف لازعاجی.و ان کنت علٰی حق فاخاف ان توخذوا بما تعتدون.یا متصوّفی الھند ان اھل الصلاح منکم قدر قلیلٌ و اکثرکم مبتدعون.و فیکم الذین مالوا الی الرھبانیۃ و ترکوا ما أُمروا بہ ولایخافون اللّٰہ و لا یبالون و اذا قاموا الی الصلٰوۃ قاموا کسالٰی والٰی ریاضات البراھمۃ یسارعون.و یُدمون سنابک سوابقھم ویعقرون مناسم رواسمھم و یَحسبون انھم یُحسنون.یقولون آمنا ترجمہ: ملائکہ را در ایمانیات داخل فرمودہ و گفتہ نمی داند جنود خدارا مگر او.پس ایمان آرید بہ نزول و صعود آنہا و اندیشہ را در کنہ آن جولان ندہید کہ اقرب بہ تقوی و خیر ہمین است و ہم خداوند عزّ اسمہ آنہا را ستودہ کہ آنہا قائم و ساجد و صف بستہ و تسبیح خوان و قرار یافتہ در مقامات خود ہا ہستند کہ مخصوص برائے آنہاست.پس چگو نہ روا باشد کہ سجود و قیام را بگذارند و از تسبیح و تقدیس دست بردارند و حقوق واجبہ را ترک گفتہ بر زمین نزول آرند و آسمان بلند را خالی بدارند.چنین نیست بل آنہا حرکت میکنند و ہم ساکن اند.رفتار میکنند و ہم پا بر جا اند.نزول میکنند و ہم در مقامات معلومہ قرار دارند و این ہمہ بر نمونۂ ملکے جلیل است کہ بر عرش اعظم استقرار دارد.و بر شما پوشیدہ نیست کہ خداوند تعالیٰ شانہ آخر ہر شب نزول بآسمان میفرماید.
بالقر آن ولا یؤمنون بہ و یقولون نتّبع السُنن و لا یتبعونھا و ھم الٰی طرق الغیّ منقلبون.انّ الذین وجدوا الحق فھم قوم یقطعون تعلق الأشیاء مع وجود تعلقھا و یتبتّلون الی اللّٰہ بنہج کأنہ لا عرس لھم و لا غرس و لا عنس لھم ولا فرس و یؤثرون اللّٰہ علٰی کل ولدٍ و أھل و مالٍ فھم الموفّقون اولئک علیھم صلوات من ربھم و رحمۃ و اولئک ھم المھتدون.و منکم من أخلد الی الاباحۃ واتبع النفس فی جذباتھا و فَلٰی مجاھل الھلاک والمنون.و أضاع اساوِدہ وزادہ و مِزْوَدَہ و نسی منازلہ و مناھلہ و اغضب ربہ و قصفت الریح فُلْکَہ و دخل فی الذین ھم مغرقون.الا یری ان استصحاب الزاد من اصول المعاش والمعاد وقد سنح لہ اِرْبُہ الیھا فی الدنیا و لا یمل فیھا من کسب المال و من کل ما یحجّون.فسوف ترجمہ : و نمی توان گُفت کہ او عرش را تہی میگزارد و بوقت دیگر صعود بآن می آرد ہمچنین حال ملائکہ می باشد کہ برنگ صفات پروردگار خود چنان نیکو رنگین شدہ اند کہ سایہ برنگ اصل.ماحقیقت آنرا نمی شناسیم ولے ایمان بآن می آریم.و چگونہ احوال انہا را باحوال انسان نسبت و قیاس کنیم.کہ حقیقت و صفات و خواص و حدود و حرکات و سکناتش خوب می شناسیم بخلاف ملائکہ کہ از دخل در کنہ آنہا خداوند تعالیٰ ما را منع فرمودہ و گفتہ لا یعلم جنود ربّک الآیہ.پس بترسید اے صاحبان خرد و دانش.و اعتقاد داریم چنانچہ خدائے کریم برما کشودہ کہ عیسی ابن مریم فوت کردہ و در جماعت برادران خود کہ انبیاء و صالحین می باشند انسلاک یافتہ در مقام برادر خود حضرت یحٰیؑ قرار گرفتہ.
یعلم لما یشرع فی القُلْعۃ انہ یرحل بأیدی صفر الی دار دائمۃ الرُّجون.و منھم من اخلط عملا صالحاً بغیر صالح و مزج الکفر بالایمان و رکب الیقین بالظنون.فاجمع علٰی الجنوح الی ھوی النفس و وقع من شاطیء المرسی فی بحر الظلم والرکون، و اوقع نفسہ فی مسالک الھلک وبوادی التبار و فعل بنفسہ ما لا یفعلہ المجنون.یا حسرۃ علیھم أحدثوا فی الدین اشیاء و تبع کل منھم ماشاء اُف لھم و لما یبدعون.و کم من بدعۃ الزموا طائرھا فی عنقھم و ھم بمفسادھا فرحون.یحافظوں علٰی بدعات البراھمۃ وشعار الکفرۃ الفجرۃ و اخذوا کل طریق من طرقھم من قبیل القاء التوجہ واجراء القلب والعکوف علی القبور و طوافھا والسجدات لأھلھا و ھم بھا یفخرون.و ما کان عبادتھم الّا تصور صوّر مشایخہم فی الصلٰوۃ ترجمہ: و اعتقاد داریم براینکہ رسول ماخیر رسل وافضل مرسلین وخاتم انبیاء و افضل ہمہ آئیندہ و گزشتہ می باشد.او (صلی اللہ علیہ وسلم) مرا بہ نفس نفیس خود ارتباط بخشیدہ وبدست پاک و پاک کنندہ خودش مرا تربیت فرمودہ.وبرمن عظمت وملکوت خود را آشکار ساختہ واسرار بزرگ خود مرا آموختہ.واعتقاد داریم براینکہ ہر آیتے از قرآن بحر مواجے است کہ از دقائق ہدایت پراست.واعتقاد داریم براینکہ جنت حق است ونار حق است وحشر اجساد حق است ومعجزات انبیاء حق است.و اعتقاد داریم براینکہ نجات در اسلام و اتباع نبی ما سیّد انام است علیہ الصلوٰۃ والسلام و ہرچہ مخالف اسلام است ازان بری ہستیم.و بآنچہ رسول ما (صلی اللہ علیہ وسلم) آوردہ ایمان آریم اگرچہ پے بہ حقیقت بلند آن نبردہ باشیم.و ہرکس کہ ازبابت ماخلاف آن گفتگوئے کردہ
و خا رجھا و باللّٰہ ھم یشرکون.و یفضّلون طرائقھم و طاغوتھم علی النّبیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و یقولون انّا مارأینا النبّی و ما نعلم القرآن ان نبیّنا الا شیخنا و ملفوظاتہ قرآننا و انا لمصیبون.یخادعون اللّٰہ و الذین آمنوا و ما یخدعون الا انفسھم و ما یشعرون فی قلوبہم مرضٌ فزادھم اللّٰہ مرضا و لھم عذابٌ الیم بما کانوا یکذبون.تراھم عاری الجلدۃ من لباس التقوٰی و صدق الاقدام و بادی الجُرْدۃ من شعار الاسلام و فی عیشتھم و وجوھھم علَمٌ علی ما یکتمون جوّھم مزمھِرّودَجْنُھم مکفھرّ و فہمھم کالدّواب و زھدھم کملامح السراب و ھم یحسبون انھم عارفون.تبًّا لِعیشتھم ھم ثعالب فی المعاملات وذیاب عند المخاصمات.یفرحون بعطاء الناس و ھم عند المنع ترجمہ: او بر ما دروغ و افتراء بستہ باشد.پس از خدا بترسید و ہربخیل خوار راکہ مانند ماربگزید نم میدود.و از ضعف رائے رغبت در تکفیر من دارد و پیر و خواہش بد است تصدیق نکنید.و آگاہ باشید کہ اسلام دین من و بر توحید یقین من است و گاہے قلب من از راہ نرفتہ و دنبال گمرہی رانگرفتہ.و ہر کہ قرآن را گزاشت و قیاس را اتباع کرد.مثل او مثل شخصے باشد کہ گرگش از ہم درید و در بیابان جان گزا افتاد و جان رابباد داد.خدا تعالیٰ خوب میداند کہ من عاشق اسلام و فدائے حضرت سیّد انام و غلام احمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وسلم) میباشم.از عنفوان وقتے کہ بالغ بسنّ شباب و موفّق بتالیف کتاب شدہ ام دوستدار آن بودہ ام کہ مخالفین را بسوئے دین روشن خدا دعوت کنم.بنا برآن بسوئے ہر مخالفے
و تر ک الخدمۃ یعبِسون.یأوون الٰی وَفْر و یعرضون من ید صفر ویشتکون.یحسبون انھم صاحب دھاءٍ و ما ھم الا کاناء خالٍ من ماء ویسرّون بھذیان المبطرین المطرین و لا یفھمون.والسبیل الی سبرھم و تقدیر معارفھم وحبرھم و نور قلوبھم سھلٌ ھیّن و ھو أن یعرض القرآن الکریم علیھم و یسئلون.فان الفرقان مملوٌّ من عجائب الاسرار و دقائقھا ولطائفھا و لٰکن لا یمسّہ الا المطھرون.و لا یستنبط سِرّہ و لا یطّلع علی غموض معانیہ الا الذی اصابہ حظ من صبغۃ اللّٰہ.فطوبٰی للذین یُصْبغون.و ھم قوم شغفھم اللّٰہ حبًا و طھّرھم نفسًا و زکّاھم و جلّاھم و رفعھم الیہ فھم فی ذکر حِبّہم دائمون جُذبوا الی الحق بکل قلوبھم و فنوا فی ذکر محبوبھم و بذلوا روحھم و قضوا نحبھم و صاروا بکل وجودھم ترجمہ: مکتوبے فرستادم و جوان و پیر را ندائے قبول اسلام در دادم.و وعدۂ نمودن نشانہا مرجوئیندگان را تقدیم کردم و در حالت عجز از جواب عہدۂ ادائے تاوان گزاف برخودگرفتم.امّا دشمنان از بے بودگی و ناتوانی زرد روئے شدند.و آواز مرا پاسخ نہ گزاردند.و لفظ نیک و بد بر زبان نیا وردند و نشد کہ در نزد من بیایند و از من چیزے مسئلت نمایند.پس این نشانے بزرگ بر صدق و حقیّت من است آنرا کہ تفکر میکند.آنکہ مرا شناخت تصدیق من کرد و آنکہ مرا نشناخت تصدیق من نکرد.و ہر کہ برائے کشف امرے مجاہدہ نماید.خدا آن امر را بروے میکشاید.فرخندہ دلے کہ مجاہدہ را دوست دارد.تا کسے دست نیازید میوہ از بالائے شاخ در دہانش فروندوید.و تا کسے بقصد سفر
للّٰہ و ھم عن انفسھم منقطعون ما بقی تحت رداءھم الا اللّٰہ‘ تحسبھم باقین موجودین و ھم فانون.جرّدوا سیوفًا حدیدۃ علٰی انفسھم سفاکین وانسلخوا منہا کما ینسلخ الحیّۃ من جلدھا و یری اللّٰہ صدقھم و وفاء ھم و ھم عن اعین الناس غائبون.أعجب الملائکۃ سِلْمھم و اسلامھم و ثباتھم و تعلقھم بحبھم و جھال الناس علیھم یضحکون.یوذونھم ببھتانات و یکفرونھم بمفتریات ولا یعلم سر ھم الا اللّٰہ و ھم تحت قبابہ مستورون.والذین آثروا الحیاۃ الدنیا واطمأنوا بھا و فسقوا و أفاحوا دم التقوی و قفوا ما لم یکن لھم بہ علم فسیعلمون ایّ منقلب ینقلبون.یخافون الخلق ولا یخافون اللّٰہ و ھم علی انفسھم شاھدون.منعھم شمم انوفھم و عظمۃ عمائمھم من قبول الحق فأعرضوا ترجمہ: روان نشد.مالک خرما نبان نشد.و مثل است ہر کہ جست یافت.پس اے قوم من در تکفیر من بغیر عرفان و در تکذیب من بغیر حجت و برہان شتاب کاری مکن.از دشنانم زبان میالا و از ملامت و عتاب آزارم مرسان.و در غیب خدا تداخل و بر چیزے کہ علم بآن نداری اصرار مکن.البتہ میشود کہ شخصے را کفر بخوانید و او در نزد خدا مومن باشد.و شخصے را تفسیق کنید و در دیدۂ خداوند مرد صالح باشد.زیرا کہ بصیر بہ اندرون دلہامر خداوند است و شماہا نابینا ہستید.اے قوم من اگر بر باطل قیام دارم خدا تعالیٰ از جابر آوردن مرابسندہ است و اگر برحق و بحق میباشم اندرآن صورت برجان شمامی لرزم کہ بجرم این جفا و ستم ما خوذ خواہید شد.اے متصوفینِ ہند قدرے قلیل از شما اہل اصلاح و اکثر اہل بدعت ہستند.
عن داعی اللّٰہ و ھم یعلمون.کل احد منہم یُسحِت السنّۃ و یبری و یدعوالبدعات و یقری.و یقول: انظروا زھدی و فقری.و لا یدرون شیءًا و یحسبون انہم واصلون.و ینظرون الی الخلق و الی اللّٰہ لا ینظرون.لا یرون غارات الرزایا علی الاسلام و یعکِفون علی أھواۂم کعکوف المشرکین علی الإصنام و لا یبالون.عفت دار الدین و ھم غافلون و غاض در الإسلام و ھم نائمون.و بار سعر الشرع و ھم یستبشرون.لا یدرون نار العشق و حرارۃ الذکر و قبس الفکر غیر التضحی و اصطلاء الجمر و یحبون ان یحمدوا بما لا یفعلون.یراء ون انھم نِضْو مجاھدات.و ھم عاری المطا من لباس تقات.و یذکرون تہجداتھم و ھم للفرائض تارکون.لا نصیب لھم من کلام ترجمہ: بعضے از شما ماء یل برہبانیت شدہ و ترک امرے خداوندے گفتہ راہ بیباکی می سپرند.و چون بادائے نماز رو آرند کسل و بے ذوقی و انمایند ولے از عمل بریاضتہائے تراشیدۂ برہمنان حظے می برند.پائے اسپان را خون آلود و کوہان شتران رامی برند.(یعنی ریاضات شاقۂ جان فرسا بجامی آرند) و گمان دارند کہ سعیء نیکو میگزارند.میگویند بقرآن ایمان آوردہ ایم امّا ایمان بآن ندارند.و میگویند پیروی سنت میکنیم امّا نمی کنند بلکہ راہ ہائے ضلالت را اختیار دارند.چہ آنانکہ حق را دریافتہ اند.از ہمہ چیز ہا بریدہ و رہیدہ و بہ نحوے رو با د آوردہ اند کہ از مال و متاع دنیائے دنی دامن فراچیدہ و وجود پاک ویرا برہمۂ فرزند و زن برگزیدہ اند.توفیق و ہدایت نصیب حال آنہاست و بر ایشان دائما صلوۃ و رحمت خالق ارض و سما ست.
رب غفورٍ و لا من خبرٍ ماثورٍ و باشعار الشعراء یتذاکرون.صبّت علی الاسلام مصائب و نوازل و ھم غافلون.لا یواسون مقدار ذرۃ و فی الشھوات ھم مستغرقون.و انی اراھم کمازح بالشریعۃ الغراء و مستھزئ باحادیث امام الوریٰ.یوثرون ابیات الشعراء علی آیات کلام اللّٰہ و بھا یفرحون و یرقصون.و یسمعون القرآن فلا یبکون و لا یتضرعون.قوم خرجوا من طریق الاھتداء.و آثروا الظلمۃ علی الضیاء.یدبّون فی اللیلۃ اللیلاء.کالناقۃ العشواء.ما لھم حافٌّ و لا رافٌّ و یذھبون این یشاء ون.و واللّٰہ انی ارٰی نفوسھم قد فسدت.و شابھت ارضًا خربۃً و بالحشائش الخبیثۃ ملئت.یزحفون کزحف البھائم و لا یستقیمون.الافراط عادتہم والاعتساف سیرتھم ترجمہ: و بعضے از شما طریق اباحت پیش گرفتہ و ہوائے بد را پیر و شدہ و گام در بیابان ہلاک و مرگ زدہ.زاد و سامان را فراموشیدہ و نشان منزل گم کردہ.و ربّ خویش را رنجانیدہ.و باد تندے بکشتیش و زیدہ.و غرقۂ گرداب فناش گردانیدہ.نمی بینند کہ برگرفتن زاد و سامان سفر از اصول معاش و معاد است.چنانچہ ہرگاہ احتیاج بہ سامان دنیا افتد در جلب و جمعش بجان میکوشند.زود است کہ چون کوس رحلت بزنند آشکار شود کہ بدار بقا تہیدست رفتہ اند.و بعضے از شما عمل نیک را با بد و ایمان را باکفر و یقین را باظن آمیختہ و مائل بہ خواہش ہائے بدشدہ از ساحل لنگرگاہ در بحر بد کرداریہا و نفس پرستی ہا افتادہ.مانند دیوانۂ ہوش د رباختہ در بادیہ ہائے ہلاک و بوار خود را انداختہ اند.چیز ہادر دین احداث کردہ
و آثار البراھمۃ الضالۃ مبلغ عرفانھم.و اشعار الشعراء وقود وجدھم و غذاء جنانھم.ترکوا ربھم والتصقوا بالدنیا و جعل اللّٰہ علی قلوبھم اکنّۃ فھم لا یفقھون.صنعوا لانفسھم مآزر من اصحاب القبور، و اضاعوا برکات ذَری الرب الغفور.و یفسقون و لا ینتھون.ترکوا مِلکًا داخ البلاد.واتبعوا کل حقیر لا یملک الزاد.و ما ظلموا اللّٰہ ولکن أنفسہم یظلمون.افتتنوا باطراء المادحین.و اھلکھم* اغضاء المسامحین ولم یقتبسوا نورًا من القرآن و فی وادی الشعراء یھیمون.یریدون غسل المریدین من ادناس الذنوب، و ھم متلطخون بأنواع العیوب و لا یعلمون.ایھا الغِمر الجاھل قُم أوّلا لغسل قلبک ثم انھض لغسل اخیک ترجمہ: و ابداع نمودہ اندکہ شومئی آن طوق گردن ایشان شدہ و بہ مفسدہ ہایش شادمانی میکنند.این طریق توجہ و اجرائے قلب و نشستن پیش قبر و سجود اہل قبر را کہ ناز برآن دارند ہمہ از برہمنان و کفار و ہنود درس گرفتہ اند.این مشرکان در نماز و بیرون از آن بت پیر خود را پرستاری میکنند و دیوان و طاغوتان خود را تفضیل بر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میدہند و میگویند ما نبی را ندیدہ ایم و قرآن را نمی فہمیم.نبیء ما پیر ما و قرآن ما ملفوظات اوست.مخادعت باخدا و مومنان میکنند ولے بحقیقت مخادعت با جان خود میکنند اما شعور ندارند.در دل ایشان مرضے نہان است کہ خدا روز افزونش میفرماید و باین دروغ بافی رنجے درد رسان بایشان میرسد.از پوشاک تقویٰ و صدق قدم برہنہ تن و از شعار اسلام بے بہرہ ہستند.رفتار آنہا و چہرہ آنہا آئینۂ ضمیر آنہا است.بے جوش و سرد دل و سیاہ باطن ہستند.زیرکی و دانش آنہا بیش از بہائم و زہد و معرفت * ایڈیشن اول میں اھلکم لکھا ہے جو سہو کاتب ہے.ناشر
باید مطھرۃ و لا تقل للناس ما لا تفعل فیضحکون.و کیف تغسل بدن اخوانک و ان بدنک قد اتسخ.و درنہ قد رسخ.و انت لا تنتھج مھجۃ الاھتداء فکیف ھم ینتھجون.و اِن کنتم فی ریب ممّا امرت بہ فتأھبوا للنضال واستعِدّوا لإراء ۃ آیات الکمال و صدق الحالِ من اللّٰہ ذی الجلال.و انا نحن لإراء تھا مستعدون.اعلموا ان الولایۃ کلھا فی اجابات الدعاء و لا معنی للولایۃ الا القبولیۃ فی حضرۃ الکبریاء.فالمضمار المضمار.و ان توثروا الفرار، فأنتم کاذبون.تعالوا یدخلکم اللّٰہ فی ریاض الامن.و لا تفرحوا بخضراء الدمن.و انتم تعلمون.یدعوکم اللّٰہ الی الخیر فما لکم لا تلبّون؟ و یو قظکم واعظٌ منکم فما لکم ترجمہ: آنہا بیش از نمود سراب نیست و می پندارندکہ عارف ہستند.سنگ و آتش بارد برسر آنہا.در معاملہ مانند رو باہ و در مخاصمہ ہمچو گرگ اند.اگر چیزے بایشان دہی شادمانی کنند و اگر ترک خدمت و ترک عرض مال کنی رو درہم کشند.تو نگران را پیش خود جادہند و از تہی دستان روگردانند و درفریاد آیند.خود رامے پندارند کہ صاحب عقول و الباب اند.اما بہ حقیقت آوندے تہی از آب اند.از ستائش ستایندگان و ژاژ خایان و ہر زہ درایان خیلے برخود می بالندو در جامہ نگنجد.آز مودن ایشان سہل است و اندازۂ خدا شناسی خیلے آسان.باین معنی کہ قرآن کریم بر ایشان عرض دہند چہ آن کتاب پاک پر از حقائق و معارف ہاست کہ دست فہم بآن جز شخصے کہ بہرۂ وافی از خدا دانی و ُ قدرت استنباط اسرار ازان و اطلاع
تتنا عسون.و یجذبکم ید الغیب فلم یا قوم تتقاعسون.قد جاء کم أنباء اللّٰہ فلم تتناسون.و قد جاء الحق و زھق الباطل و انتم تمارون و قد تجلت لکم الآیات و انتم تعامون.ألا ترون أن الأرض قد زلزلت، و أن الفتن قد أحاطت، و أن القلوب قد ماتت، و کل داھیۃ علی الاسلام نزلت، و کل آفۃ اندلفت علیہ و غلبت، واستیقظ الاعداء و انتم تنامون.اری البدعات فی کل قولکم و فعلکم و فی کل عمل تعملون، و فی الأجداث التی ترفعون.وفی ثیابکم التی تصبغون، و فی الاشعار التی تنشدون، و فی الوَخْد الذی تمشون.و فی القصص الّتی تقصّون بالفخر و تتکبرون و فی لحیتکم التی تطیلون او تحلقون، و فی طیورکم التی تصطادون ترجمہ: بر پوشید گیہائے معانی آن ندارد نرسد.مژدہ مرایشان را کہ رنگین باین رنگ میباشند !این قومے است کہ خدائے پاک ایشان را بحب خویش مشغوف ساختہ.و دلِ ایشان را از ہمہ ناپاکی ہائے تجلیہ فرمودہ و از ہمہ زنگ ہا پرداختہ.انہارا بخود بر افراشتہ و بیاد خودش سرشار و والہ داشتہ.جذبِ حق دل آنہارا ہمہ بسوئے خود کشیدہ.و ایشان با او از جان و مال و کل غیر اور میدہ و بریدہ.در زیر چادر ایشان جز خدا نیست.نابینا ایشان را زندہ داند و در ایشان نشانے ازین ہستی و بقا نیست.تیغ تیز بر نفس خود ہا آہیختہ اند و چنانکہ ما را ز جلد بر آید رشتۂ ہستی را از ہم گسیختہ.خدائے پاک صدق و وفائے ایشان را می بیند و ایشان از دیدۂ عالم
ما لکم لا تستعبرون علی غفلتکم و لا تتندّمون.ما لکم لا تخافون اللّٰہ و لا ترتاعون و لا تلتاعون.و نسیتم یومکم الذی فیہ الی اللّٰہ ترجعون.و أری الفساد فی أعینکم التی إلی الدنیا تمدّون.و تحملقون حملقۃ البازی المُطِلّ و علی جیفتھا تقعون.و فی لُسْنکم التی تُحِدُّونہا علی الاخوان و تطیلون، و کالصّل تُنَضْنِضُوْنَ و لا تکفّون، و فی آراء کم الّتی تُسقطون فیھا ولا تصیبون.ولا تمیّزون الفائق من المائق وتخلطون.و علی بادرۃ الظن تسبّون و تغتابون.و بولایتکم تفتخرون و عند الدعوۃ للمقابلۃ تولون الدبر و تنھزمون ثم لا تخجلون.بل علی فیوضکم تُساجلون.و إِنی اعلم انکم جمادٌ محضٌ ما دناکم روح اللّٰہ و انّکم میّتون.و ان کنتم علٰی شیء فما منعکم ان تتجاولوا ترجمہ: پوشیدہ ہستند.فرشتگان سلم و اسلام و از تعلّق بہ محبوب ایشان در شگفت اند ونا دانان بر ایشان می خندند.و از بہتان و افترا بایشان آزار میرسانند و سرّ ایشان راجز خدا نداند کہ ایشان در زیر چادرش پنہان می باشند.آنانکہ حیات دنیا را اختیار کردہ و مطمئن بدان شدہ و فسق ورزیدہ و خون تقویٰ ریختہ و درپؤ آنچہ علم بدان نداشتہ اند رفتہ اند نزدیک است کہ بدانند کہ کار ایشان بکجامی کشد و خود را خوب می فہمند کہ باک از خلق دارند و از خدا نمی ترسند.بینی ہائے بلند و عمامہ ہائے بزرگ ایشان را از قبول حق باز داشتہ کہ دانستہ از شنیدن آواز داعی خدا سر بازمی زنند.ہر یکے از ایشان رشتۂ سنت رامی برد و بدعت را درکنار مہربانی می پرورد.و میگوید بہ بینید زہد و فقر مرا.اما چیزے نمی دانند و با این ہمہ خود را
فی المیدان و تتراسلوا و فی المضمار تتبارَوا و فی حلقۃ السوابق تتبارزوا کما أنّکم تدّعون.فان بارزتم فتجدون مَطْلَعی علیکم اسرع من ارتداد طرفکم الیکم و یخزیکم اللّٰہ خزیًا مؤلمًا و تُغْلَبون.انّی جئت لاعلاء کلمۃ الاسلام و انتم تخالفون.و ارید اَن اجدّد دین اللّٰہ و انتم تزاحمون.ألا ترون ان الاسلام عاد غریبًا و ورد علیہ مالم یرہ الرّاء ون.و لا رواہ الرّاوون ما لکم لا تأخذکم الرجفۃ من ھذا و لا تتألّمون و ما لکم لا تغیرون علی ھذا و لا تشتعلون.أ أنتم رجال ام مخنّثون ایھا الجاھلون.الا ترون انّ الفتن قد تعاظمت.و ان ظلماتھا قد عمّت و احاطت.و ان الارض القت ما فیھا و تخلّت.و انّ البدعات قد ثَرَّت و کثرت، و ان تعالیم القُرآن قد رُفعت ترجمہ: از واصلان می گمانند.روبخلق میدارند.امّا دیدہ بخدا برنمی گمارند.دیدہ و از نمی کنند کہ چہ تاختہا برساحت اسلام میرود.و ہنوز بآز و ہوا چنان گرویدہ اند کہ مشرکان در گرد ُ بت حلقہ کشیدہ اند.خانہ اسلام ویران شد و ایشان بگلیم غفلت سر نہفتہ و جوئے شیر اسلام خشک گردید و ایشان بخواب ناز خفتہ و بازار شرع الٰہی کا سر شدا ما گوش آنہا از شورشا ماینہا حرفے از این تباہی نشفتہ.از آتش عشق الٰہی و گرمیء آن سرد و بے سوزند.اگرچہ انبار ہیزم و زگال ہا در گرد خود می افروزند.چیزے از کار خوبی بجانیارند.اما ستایش مردم را خواستگاراند.چنان می نمایند کہ از مجاہدات لاغر و نزارند.اما از خیر وتقویٰ بے برگ و بارند.فرائض را بجا نمی آرند.و ذکر تہجدات بر زبان
و ا لنفوس الی الارض اخلدت، و الی الدنیا مالت، و تغطّت الآراء تحت البدعات و فی الأ ھواء أفرطت، و کل قوم افسدت طریقھا و ضلّت، فما بقی بعد ذالک ما ینتظرہ المنتظرون.و انّی واللّٰہ من عندہ و دعوت الناس من امرہ فلیختبر المختبرون.و انّی أضع امام العلماء والمشائخ لعنۃً و برکۃ فلیأخذوا منھما ما شاء وا ولیمیلوا الی ما یمیلون.امّا اللعنۃ فللّذین یکذّبوننی باتباع الظنّ و یکفروننی رجمًا بالغیب و لا یعلمون الحقیقۃ و لا یتدبّرون.و لا یطلبون منّی ما یشفی صدورھم و لا یحضروننی لیشاھدوا الآیات و لینجوا من الشبھات کما یفعل المتقون.الا انّھم ھم الذین شقوا فی الدنیا والآخرۃ و علیھم لعنۃ اللّٰہ بما یکفرون المسلمین بغیر علم و بما کانوا یظنّون ترجمہ: دارند.از کلام رب غفور و حدیث ماثور غافل و بے بہرہ مانند.امّا اشعار شعراء را بذوق دل خوانند.قسم بخدا اسلام عرضۂ آفتہا شدہ.و واحسرتا کہ ایشان ہیچ غمگساری نتوانند.ولے در بجا آورئ فرمان نفس استغراق دارند.ایشان را می بینم کہ بشریعت روشن و احادیث جناب رسول کریم صلعم استہزا و مزاح می کنند و اشعار شاعران را بر کلام خدا برمی گزینند و بدان رقص و وجد می نمایند.قرآن را مے شنوند و گریہ و بکا بر ایشان طاری نمی شود.مشتے بے خردان بے حیا کہ از راہ ہدایت خروج و ظلمت را برنور ایثار کردہ مانند ناقہ شب کور در شب تاریک سراسیمہ میگردند.یا مانند شتر بے مہار اند ہر جاکہ میخواہند میروند.بخدا مے بینم تقویٰ ایشان را خراب شدہ و شبیہ بر زمینے پیدا کردہ کہ
ظنّ ا لسوء بما کانوا یستعجلون.و أما البرکۃ فللذین یسمعون کلامی و یرون آیاتی و یظنّون بانفسھم خیرًا و یقبلون الحق و لا یستکبرون.فاولئک ھم الذین سعدوا فی الدنیا والآخرۃ و قاموا لطلب الحق فھم یطلبون.لا یمشون مکبین علی وجوھھم و یسئلون عند کل شبھۃ لینجوا منھا ولا یصرون علی الباطل ولا یغفلون.فعلیھم صلوات اللّٰہ و رحمتہ و برکاتہ و ھم مرحومون.یا ایھا الناس اسئلونی ان کنتم تشکون.وادعو اللّٰہ تضرعًا و خفیۃ واستکشفوا منہُ یکشف علیکم و لا تقعدوا مع الذین یخوضون بشرّ من عندِ انفسھم و لا یتبعون سبیل الرشد و لا یطلبون الحق و ھم مستکبرون.یا ایھا الناس ان نزول المسیح کان امرًا غیبیًا فاللّٰہ ترجمہ: غیر از روئیدگیہائے خبیث چیزے ندارد.مثل بہائم برپا و دست رفتار میکنند و استقامت ندارند.افراط عادت ایشان است.وجور و ستم سیرت ایشان.و آثار براہمنان گمراہ مبلغ عرفان ایشان.و اشعار شعراء ہیزم آتش وجد ایشان و غذائے دل ایشان.ربّ خود راگزاشتہ و رو بہ دنیا شدہ لا جرم خدائے تعالیٰ آنہارا از بصیرت و معرفت محجوب و مہجور داشتہ و بجہت خود زیارت گاہ ہا از اہل قبور تراشیدہ و برکات پناہ گاہِ ربّ کریم را از دل فراموشیدہ.اقدام بر فسق می نمایند و بازنمی آیند.پادشاہے را کہ قاہر بر فوق ہمہ بلاد است گزاشتہ.و غاشیہ اطاعت ہر ناچیز ذلیل بے سامان را بدوش برداشتہ.اینہا ستم بر خد انمی کنند.بلکہ بر جان خود ہامی کنند.از غلو
ابد ء ۱ غیبہ کیفما شاء.فلا تجادلوا فی غیب اللّٰہ.و لا تتعدوا حدودکم و انتم تعلمون.و ان کنتم فی شک مِمّا قلت و ادعیت لنفسی فاقصدوا قریتی.والبثوا أَیّامًا فی صحبتی.یکشف اللّٰہ علیکم ما فی قربتی.و یحکم فیما کنتم فیہ تختلفون.و اِن استطعتم فتعالوا لاراء ۃ آیات صدقکم و رؤیۃ صدقی و أجمِعوا علی خیلَکم و رَجِلکم واخوانکم المبتدعین و احیاء کم القبوریّین وادعوا علیّ و لا تمھلون.فان کانت لکم الغلبۃ فاذبحونی بأیّ سکّین تشاء ون.واعلموا ان اللّٰہ مخزیکم، و لا یؤید الا عبدہ و لا یعلی الا دینہ، و یھلککم ایھا المفسدون.ان اللّٰہ لا یرضی لعبادہ الکفر و الشرک والبدعۃ، و اعداء ہ‘ ھم المذبوحون انہ معی و قد اخبرنی من سرّ نزول المسیح و عُمِّیَ علیکم و کان ھذا ترجمہ: ستائش کنندگان گردن بالا کشیدہ اند.و از خردہ نہ گرفتن سہل گیران راہ ہلاکت سپریدہ.اقتباس نور از قرآن نکنند و در وادئ شاعران بے راہ و روئے میگردند.مریدان رامیخواہند از چرک گناہان شست و شور دہند و خود ہا بہ گونان گون بدی و عیب آلودہ میباشند.اے نادان بیہوش برخیز نخست خود راشست و شور بکن آنگاہ بادست پاک و صاف فکر غسل برادر بنما.و چیزے کہ نمی کنی از زبان مگو کہ برتو خندہ زنند.وچگونہ سزاوار تطہیر برادر ہستی کہ خودت چرک برہمہ تن راسخ شدہ.چون خودت بر راہ ہدایت رفتار نداری.آنہا راچہ طور رو براہ توانی بیاری.واگردران چہ من مامور بدان ہستم شک دارید.ہمہ بجہت قتال بامن آمادہ بشوید.و برائے وا نمودن ۱ من سھو الکاتب والصحیح ’’ ابدٰی‘‘ شمس
فتنۃ من اللّٰہ یخفی ما یشاء و یبدی و کذالک سنتہ فی أنباء الغیب فویل للذین یحاجّون فی غیوب اللّٰہ کأنھم کانوا علیھا محیطین، و کانوا علی کل خفایاھا مطلعین و لا یحذرون.أیھا الناس کل شجر یعرف باثمارہ فستعرفوننی باثماری فلِمَ تشاجرون.و کُفُّوا السنتکم من الاکفار وایدیکم من الاضرار.واتقوا سخط اللّٰہ القھّار.وادعوا اللّٰہ کشف ھٰذہ الاسرار، فسوف تخبرون.انّی ادعوکم الی امر فیہ ثمرۃ خیرکم و علاج میرکم، و ھو ان یجاھد کل احد منکم و یسئل اللّٰہ تعالٰی ان یریہ رویا کاشفًا لحقیقۃ الحال، او یلھمہ الھامًا یلیق للاستدلال واللّٰہ قادر علی کل شیء فیعطیکم اذ انتم بکل قلبکم تسئلون.فقوموا فی اواخر اللیالی و توضّأوا، ثم صلوا رکعات وابکوا و تضرّعوا، و صلّوا ترجمہ :نشان کمال از خدائے ذوالجلال استعداد بکنید کہ من بیارئ خدا آمادہ و مستعد می باشم.آگاہ باشید کہ ولایت ہمگی در اجابت دعا است.و معنیء ولایت قبولیت ست در حضرت کبریا.الامیدان.میدان !! و اگر فرار کنید کاذب باشید.بیائید مرا بپذیرید و در ر وضہ ہائے امن در آئید.و بروئیدگی و من بادانش و فہم شادمان نشوید.خدا تعالیٰ شمارا بسوئے خیر میخواند و لبیک نمی گوئید.و واعظے شمارا بیدار میکند و خواب را از دیدہ ہانمی شوئید.و دست غیب شمارا میکشد و ہنوز می غنوید.ونشان ہا آشکار شدہ و ہنوز دیدہ باز نمی کنید.نمی بینید کہ زمین بزلزلہ در آمدہ فتنہ ہا از ہر چہار سو گرد آمدہ.و دلہامردہ شدہ
علی النبی الکریم و سلموا.ثم استغفروا لانفسکم واستخبروا، و داوموا علی ھٰذا اربعین یومًا و لا تسئموا فستجدون من اللّٰہ امرًا یقودکم الی الحق و تنجّون من الشبھات کما ینجی الصالحون.فما لکم لا تقتدون سنن الصلحاء.و لا تنتہجون مہجّۃ الاتقیاء.و تحبّون ان تفسقوا و تکفروا اخوانکم بغیر علم فتوخذون عنداللّٰہ و تحاسبون ا تحسبون الاکفار ھیّنًا و ھو ع ند اللّٰہ عظیم ما لکم لا تتقون اللّٰہ و لا تتفکرون.یا ایھا الناس توبوا توبوا قبل ان تغلق ابواب التوبۃ و انتم تنظرون.یا ایھا الناس اجتنبوا مجالس قومٍ متصوفۃٍ یقولون انّا نحن لجشتیّون، و انا نحن لقادریّون.یأتونکم فی جلود النعاج و ھم ذیاب مفترسون.ترونھم أُذنا للأغارید.والمعرضین ترجمہ: و ہرگو نہ بلا بر سر اسلام رسیدہ.و ہر رنگ آفت بر او نزول و غلبہ آوردہ.دشمنان بیدار و باساز و شماہا مست خواب ناز.من ہمہ بدعت می بینم.ہر کردارے و گفتارے را کہ میکنید و میگوئید.و ہرگورے را کہ بلند میکشید.و این لباسہائے شمارا کہ رنگین می نمائید.و اشعار شمارا کہ میخوانید.و ریش ہائے شمارا کہ بلند میکنید یامی تراشید.و نخچیرہائے شمارا کہ صید میکنید.وائے برشما چرا بر غفلت آگاہ و برکردہ نادم نمی شوید.خدارا فراموش کردید و باک از او ندارید و فکر روز پسین را پس پشت انداختید.دیدہ ہائے شما پر از فساد و آزست کہ از سوے معاد بند و برمعاش باز است.و در دنیا و زینت آن چنان نگاہ مے اندازیدکہ زاغ و زغن برلاشہِ مردار.و ہمہ بدعت مے بینم زبان ہائے شمارا کہ بر برادران در از و مثل مار
عن سنن النبی الوحید، و اکثرھم فاسقون.قرِموا لِقینات غَیدَاء ‘و دَعُّوا الشریعۃ الغرّاء.وخلعوا رسنھم و اتّبعُوا الاھواء فھم علیھا منتکسون.ما لھم من علم من معارف القُرآن، وما مسّت قریحتھم دقائق الفرقان، و یحسبون انّھم الی قصوی المطالب فائزون.و اذا قیل لھم اتبعوا داعی اللّٰہ.قالوا لا نعلم ما الداعی و انّا نحن الراشدون المرشدون.و اذا دعوا الی اللّٰہ و سنن رسولہؐ لوّوا رؤوسھم استکبارًا واتخذوا نُذُرَ اللّٰہ ھُزْءَ ۃً و بھم یستھزء ون.و یقولون انّ المحدثیّۃ و شرف مکالمات اللّٰہ و شرف رسالتہ لیس بشیء.و لو شئنا لجعلنا ادنی مریدینا بالغ ھذا المقام، ولکنّا مثل ھذہ الامور کارھون.ترجمہ: محرک میکنید.و باز نمی مانید.وراۂائے شمارا کہ در آن خطا میکنید.و بر صواب نمی باشید.قدرت باز شناختن سرہ راز نا سرہ ندارید.و بمجرد ظن رو بد شنام و غیبت آرید.بدعو ؤلایت گردن می افرازید.و در وقت مقابلہ باعار فرار درمی سازید.شرمسار و زرد رو نمے شوید و باآن دعویٰ فیوض و برکات دارید.من بہ یقین دانم کہ شما از سنگے بیش نیستید و روح اللہ از شما نزدیک نشدہ.و اگر زہرہ و توان دارید چرا درمیدان بروز نمی آرید.و اگر بروز کنید درچشم زدن آشکار شود کہ نصرت و ظفر ہمرکاب من و رسوائی و ہزیمت نصیب شما می شود.و من آمدہ ام کہ رایت کلمۂ اسلام را بر افرازم و شما درمن می آویزید.
ختم اللّٰہ علٰی قلوبھم فھم لا ینظرون الی الحق و لا یقصدونہ و لا یَیجِلون و یحتقرون الذی ارسلہ اللّٰہ الی عبادہ و یقولون قد أنبأنا اللّٰہ اِنّہ کافر کذّاب، و یصرّون علٰی قولھم و ھم یکذبون.و یقولون ان البرکات کلھا منوطۃ بالبیعۃ، و ما لھذا الرجل شرف بیعۃ شیخ من المشایخ.و ما بیعتھم الا کصفقۃ المغبون، و ان قولھم الَّا کذبٌ نَحَتہ الصوّاغون.یا حسرۃً علیھم الا یعلمون انّ المسیح ینزل من السماء بجمیع علومہ، و لا یاخذ شیءًا من الارض ما لھم لا یشعرون.الا یعلمون انّ الذین یُرْسلون من لدن ربھم لا یحتاجون الی بیعۃ احد، و ھم من ربھم یتعلّمون، و کل علم منہ یاخذون.بہ یبصرون و بہ یسمعون و بہ ینطقون.یسکن ترجمہ: و میخواہم درختان پژمردۂ اسلام را آبیاری کنم و شما بامن ستیزید.نمی بینید کہ اسلام غریب گردیدہ و برسرش رسیدہ آنچہ نہ گوشے شنیدہ و نہ چشم دیدہ.و نہ گوئیندہ گوئیدہ.در شگفت ام کہ ازین حالت ہا زلزلۂ شما را نمی گیرد و المے نمی رسد.و غیرت و اشتعال پنجہ بر دامن شما نزند.مرد خوانم شما را یا مخنّث می باشید.آگاہ می باشید کہ فتنہ ہا عظیم شدہ و تاریکیہا عام گردیدہ.و زمین آنچہ در باطنش مدفون بود برون انداختہ و خود را پرداختہ و بدعات بیضہ ہا گزاشتہ.و تعلیمات قرآن رخت از عالم برداشتہ.جان ہا بہ پستی گرائیدہ و مائل بدنیا شدہ و در زیر چادر گمرہی سر در کشیدہ.و در سوراخ خواہشہائے بد فروخزیدہ.و ہر قوم را حق گزاشتہ و راہ کج را
فیھم روح اللّٰہ، فھم بروحہ یتکلّمون، و بہ ینوّرون کلَّ من سلم نظم فطرتہ و بہ یفیضون.و بہ یُطلعون علٰی کنوز العلم، ویقیمون حجّۃ اللّٰہ علی کل من لجّ بانکار الحق و جحودہ، و من اللّٰہ یُنصرون.یُوْدع اللّٰہ صدورھم معارف القرآن، و یُظھرھم علی نوادر وقائع الزمان.و یعطیھم شیءًا ما لا یعطی غیرھم و ھم من غیرھم یمیّزون.و یھب لھم مُلکًا لا ینبغی لاحدٍ من بعدھم و ھم بعنایاتہ یخصصون.و أنّٰی لکم ھذا الفضل ایھا المتمردون المکذبون.و ان کان فی بیعتکم و بیعۃ مشایخکم اثر فأرُونی فیھا ھذا الاثر ایھا الکاذبون.و انکان فی صحبتکم وصحبتھم فیض فما لی لا اری ذلک الفیض أ أنتم تثبتون.قد ترجمہ: گزیدہ.و اکنون چہ باقی ماندہ کہ منتظران چشم در راہش دارند.و من قسم بخدائے عظیم کہ از نزدیک او آمدہ ام باید از مایندگان مرا بیازمایند.من در پیش علماء و مشائخ لعنت و برکت تقدیم میکنم ازین ہر دو برگیرند ہر چہ را اختیار فرمایند.لعنت برائے آنہاست کہ بہ گمان محض و از رجم بہ غیب تکفیر و تکذیب مرا مبادرت می نمایند.بیخبر از حقیقت ہستند.و در حضور من نمی آیند کہ نشان مرا بہ بینند.و از پئے بیماری سینہ از من شفا و مداوا طلب نمی کنند و برفتار اہل تقویٰ قدم نمی زنند کہ از شبہات رستگاری یا بند.اینہا در دنیا و آخرت شقی و واژون بخت اند و لعنت خدا بر ایشان کہ با جہل و ظن بدو شتابکاری سبقت بر تکفیر مسلمانان
ھلکتم و اھلکتم جبلًا کثیرًا ایھا المفترون.ما لکم ما نفع الناس بیعتکم و ما انتم منہ منتفعون.وما مجلسکم الا حلقۃ ملتحمۃ و نظارۃ مزد حمۃ و مَا یُقرء القرآن فی مجالسکم بل بالاشعار تتلاعبون.والذین یبایعونکم ما اری فیھم حُب اللّٰہ وحُب رسولہ لما لا اراھم متناھین من الفسق والمعصیۃ بل الی المعاصی یسعون و یسارعون.و یرکنون من اللّٰہ الی غیر رکین و یعبدون القبور و یستعصمون بغیر مکین و ینتکسون علی جیفۃ الدنیا فھم مالؤن منھا البطون.یکلفون بھا لبغاوتھم و یکلبون علیھا لشقاوتھم و ھم فیھا یعتدون.لا یعلمون من القرآن دقیقۃ ولا یقرء ونہ ولا یتزودون للآخرۃ شیءًا و لم یزالوا لدنیاھم ترجمہ: کنند.و برکت برائے آنہاست کہ گوش بکلام من دارند.و نشانہائے مرا می بینند.و از گمان نیک کہ بر برادران دارند قبول حق کنند و گردن نمی کشند.اینہا نیک بخت و سعید اند در دنیا و آخرت و از خدا توفیق طلب حق یافتہ در صد و جستجوئے آن می باشند.بہمیہ وار رفتار نمی کنند.بلکہ ہر شبہ کہ رونماید دفع آنرا می کوشند کہ ازان بلیہ برہند و بر باطل اصرار نکنند و پیوستہ ہوشیار باشند.این طائفہ مرحومان است صلوۃ و رحمت خدا بر ایشان باد.اے مردمان اگر شک دارید از من بپرسید.و از تہ دل و گریہ و زاری کشف این امر را از خدا خواہید البتہّ شمار اگشاد کار میسر آید.و ہم نشینی بامرد مانے
یعا نون.یا ایھا الناس توبوا توبوا فان الایام قد کملت و ساعۃ اللّٰہ قد اقتربت.فطوبٰی لعین امعنت و رأت.و طوبٰی لأذن اصغت و سمعت و طوبٰی لقدم الی الحق نھضت و سارعت، و طوبٰی لقوم ھم یقبلون الحق و لا یعرضون.ایھا المسلمون جعلکم اللّٰہ مسلمین اعلموا انّی من اللّٰہ و کفٰی باللّٰہ شھیدًا واعلموا انہ ینصرنی و یؤیدنی و یعلمنی و یلھمنی و اعطانی من معارف لا یعلمھا احد الا بتعلیمہ فما لکم لا تقبلون و لا تمتحنون.ایھا الناس ادنوا منی و لا تتحولوا وافتحوا أعینکم و لا تغضوا وادخلوا فی امان اللّٰہ و لا تبعدوا، و تطھروا عن الحقد والشّنآن ولا تلطخوا، وتجلّدوا الی التوبۃ و لا تستأخروا، و لا تفرطوا فی سوء الظن واتقوا ترجمہ: نکنید کہ در بدسگالیہا فرو رفتہ اند و از پندار و خود بینی سرحق خواہی و حق طلبی ندارند.اے مردمان نزول مسیح امرے بود در پردہ غیب نہفتہ.خدانہان خود راہر طور کہ خواست پیدا کرد.نباید شما در غیب با من مجادلہ کنید و دانستہ بیرون از حد مد و ید.و اگر گفتار مرا باور ندارید و در دعویٰ مرا راست نمی پندارید در قریۂ من بیائید و چندے در صحبت من مکث کنید.البتہ خدا نہان مرا بر شما آشکار و درین اختلاف ہائے شما امرے فاصل اظہار کند.واگر زہرہ و جگردارید بیائید نشان صدق مرا بہ بینید و بنمائید.و بیاوری خود گرد آرید ہمۂ پیادہ و سوار و ہمہ مردہ ہائے بدعت تراش و زندہ ہائے گور پرست را
و ا جتنبوا واستعینوا بالصبر و الصلوۃ و جاھدوا، و لا تعجلوا ألا لا تعجلوا، وادعوا اللّٰہ متضرّعین واطرحوا بین یدی ربکم، واسئلوہ حقیقتی و حقیقۃ أمری بکل قلبکم و بکل توجھکم وبکل عزیمتکم و بصدق ھمتکم یکشف الامر علیکم و تجابوا.ارفقوا ایھا الناس ارفقوا، و لا تغلوا فی سبکم و لا تعتدوا، واتقوا انکار عجائب اللّٰہ الّتی اُخْفِیَت من اعینکم و لا تجأروا.وارحموا علی انفسکم و لا تظلموا أیھا المستعجلون.یا مشائخ الھند ان کنتم تحسبون انفسکم شیءًا فما لکم لا تبارزوننی و لا تقاومون.و انی اراکم فی غلوائکم سادرین و سادلین ثوب الخیلاء و معجبین و اھلککم المادحون المطرء ون.تعالوا ندع الرب الجلیل ترجمہ: و ہرچہ زود تر دعائے بد برمن کنید.اگر غلبہ شمارا باشد بہر کارد کہ خواہید گلوئے مرا بہ برید.آگاہ باشید کہ خدا درپئے آنست کہ پردہ شما بر درد و مددگار بندۂ خود باشد و دین خود را بر فرازد.و شما بدکاران را از بیخ بر اندازد.او شرک و کفر و بدعت را برائے بندگان و دست ندارد.لا جرم دشمنانش پیوستہ ہدف تیر ہلاک بودہ اند.او بامن است.و مرا بر سرّ نزول مسیح کہ برشما پنہان ماندہ مطلع ساختہ.این ابتلائے است از خدا ہرچہ را خواہد بپوشد و آنچہ را خواہد پدید آرد.ہمین طور عادتش در اخبار غیب استمرار میداشتہ.افسوس بر آنہائے کہ دربارۂ نہانیہائے خدا ستیزو آویز میکنند کہ گوئی اطلاع و احاطہ برآن دارند و نمی ترسند.
ونتحا می القال والقیل.و نطلب من اللّٰہ البرھان والدلیل و نسأل اللّٰہ ان یفتح بیننا و بینکم لیتبین الحق و یھلک الھالکون.و انی واللّٰہ أتیقن فیکم انکم الثعالب و تستأسدون.و بُغْثان و تستنسرون و کذالکم فی امری تظنون.فتعالوا نجعل اللّٰہ حکمًا بیننا و بینکم لیکرم اللّٰہ الصادقین و یخسر المبطلون.فان کان لکم نصیب من نعمتی التی انعم اللّٰہ علیّ فبارزوا علی ندائی و واجھو تلقائی وابتدروا و لا تُمھِلون.و واللّٰہ ما اریٰ فیکم نفسًا من الصلحاء.الا کالشعرۃ البیضاء فی اللِّمَّۃ السوداء و اراکم انکم اضللتم عباد اللّٰہ و عقرتم ناقۃ الاسلام و تعقرون.و قد أرسلنی ربی لاعرفکم طرقًا تسلکونھا، و اعمالًا تعملونھا، و اخلاقًا ترجمہ: اے مردمان درخت را از ثمر می شناسند.مرانیز از ثمر من بشناسید.این جنگ چراست.زبان را از اکفار و دست را از اضرار باز دارید و خوف خدارا در پیش چشم داشتہ از وے بخواہید کہ این راز سربستہ برشما منکشف شود.من یک تدبیرے کہ صلاح شما در آن است برشما عرض میدہم باین معنے کہ ہر یکے از شما مجاہدہ کند و از خداوند عزّ اسمہ رویائے و خوابے مسئلت نماید کہ کاشف حال باشد یا الہامے بخواہد کہ قابل استدلال بود.و خدا بر ہر شے قادر است.اگر بہمہ دل از وے سوال کنید شما را زیان کار باز نہ گرداند.و بجہت این معنی آخر شب برخیزید و وضو کنید و رکعاتے چند بگزارید و خیلے تضرع و تخشع اظہار بدارید.وصلوۃ و سلام بر نبیء کریم بفرستید.سپس استغفار تکرار کنید و استخبار نمائید و بر این نہج
تتھذ بون بھا.فاجیبونی: أ تقبلون دعوتی او تردون ما لکم لا تنظرون الی الاسلام و مصائبھا و الی آفات جدیدۃ و غرائبھا.و لا تواسون ایھا الغافلون.ھذا وقت جمع ضلالۃ کل تنوفۃ.و سلالۃ کل مخوفۃ و اتی الزمان بعجائب فتن و علوم اطروفۃ.یعرف فیھا علامات الوقاح کإمرأۃ مطروقۃ یقبلھا الأَحداث و یستملحون.ایھا الناس جئتکم فی وقت کادت الشمس تغرب فیہ و تجب.و ضیاء الاسلام یستتر و یحتجب.فما لکم لا ترون الأوقات و ما تقبلون النور الذی نزل فی وقتہ و فی أنباء الرسول تشکون.ما لکم قد جمدتم و ناقتکم قعدت وأرنفت بأذنیھا و نفسکم لغبت و سقطت علی ساقیھا و ما بقی لکم حِسّ و لا حرکۃ و لا انتم تتنفسون.أ أنتم نائمون أو ترجمہ: چہل روز مداومت کنید و ملول نشوید.نزدیک است کہ از خدا امرے بدست آرید کہ شمارا راہ بحق و از شبہات رستگاری بخشد مثل آنچہ صالحان رستگار می شدہ اند.حیرانم کہ چرا شیوہ نیکوکاران و طریق پرہیزگاران اختیار نمی کنید بلکہ دوست داریدکہ ازجہل تفسیق و تکفیر برادران کنید و نزدیک خدا سزاوار اخذ و حساب شوید.تکفیر را امرے آسان پندارید؟ نزد خدا امرے گران و بزرگ است !!! از خدا نمی ترسید و نمی اندیشید؟ تو بہ کنید.توبہ کنید پیش از آنکہ بر روئے شما در توبہ را بند نمایند! اے مردمان از مجالس این متصوفیان اجتناب بکنید کہ میگویند ما
میتو ن.ما لکم لا تسمعون و لا تجیبون.أ تحبون الحیوۃ الدنیا و لا تذکرون موت آبائکم ولا تخافون.یا حسرۃ علی شفوفکم فی الدّین و تشوِّفکم اَجسامکم بالتسمین، و خلوِّکم من مواساۃ الاسلام والعلم و الیقین و مما تدعون.الا ترون ریحًا مطوحۃ عن طرق الصواب، و فتنًا مبرحۃ لاولی الالباب.الا ترون رأس الماءۃ التی کنتم تنتظرونھا.ألا ترون أظلال الظلام، واقتحام جمیش اللیام، فلم لا تستیقظون.الا ترون ان الاسلام صار کالیتیم المَزْء ود، و ھمم المسلمین کالنِّضو المجھود، وخوف اللّٰہ کالمتاع الفقود، و علم القرآن کالحی الموء ود.ترونہ ثم تتجاھلون.ایھا الناس امتحضوا حَزْمَکم ترجمہ: چشتی ہستیم و ماقادری ہستیم.در صورت ظاہری برنگ میش مسکین و انمائند و در سیرت و سریرت ہمچوُ گرگ درندہ می باشند.ہمہ شیفتگی و میلان آنہا بسرود و نغمہا است و از اتباع سنت آن یگانہ نبیؐ اعراض می ورزند.و بسیارے از انہا فاسق ہستند.ہمگی توجہ و التفات بہ لولیان نازک اندام دارند.و شریعت روشن و پاکیزہ را پس پشت گزارند.از قید شریعت آزاد و ہوا و ہوس را منقاد می باشند.علمے از معارف قرآن و مسّے بہ دقائق فرقان ندارند و خود را فائز بہ غائت مطالب پندارند.و چون آنہا را بگویند کہ داعئ خدا را لبیک بگوئید.میگویند خود مان راشد و مرشد ہستیم.و ہرگاہ آنہا را بسوئے خدا و سنت رسول وے بخوانند.گردن از کبر برمی افرازند و بر نذیران خداوندی
فی الافکار، و دیانتکم فی الأنظار، و لا تحیدوا من اللّٰہ البار‘ و لا تردوا نعمت اللّٰہ التی جاء ت فی وقتھا و لا تولوا و انتم معرضون.و ان تسمعوا قولی و تلتفتوا الی مواعظی و الی الوصایا التی أنا موصیکم الیوم فاللّٰہ یرضی عنکم و یثمرکم و یکثرکم و ینزل برکاتہ علیکم و یجعل برکۃ فی اولادکم و ذریاتکم و زروعکم و تجاراتکم و عماراتکم و اماراتکم و یحییکم حیٰوۃ طیبۃ فتدخلون فی امان اللّٰہ و تحت ظلّہ تعیشون.و ان لم تنتھوا من شرورکم و لم تضعواحُکم اللّٰہ علی نحورکم فتؤخذون بذنوبکم و تاکلکم نار عیوبکم و یجعلکم اللّٰہ قصصًا للآخرین و عبرۃ للناظرین و یذرّیکم و یزعجکم فتبقی طلولکم و انتم تفنون ترجمہ: خندہ می زنند.ومیگویند ’’ محدّثیت وشرف مکالمات الہٰیہ و شرف رسالت چیزے نیست.و اگر بخواہیم کمترین مریدان را باین مقام میتوانیم رسانیم.اما از ہمچو امور کراہت میداریم‘‘.خدا تعالیٰ بر دل ایشان مُہر زدہ کہ نظر بحق و قصد و شناخت آن نکنند.و بدیدہ حقارت بآن کس می نگرند کہ حق تعالیٰ او را بسوئے بندگان خود فرستادہ.و میگویند ’’خدا مارا آگاہی دادہ کہ او کافر و کذّاب است‘‘.و اصرار بر این قول دارند و تکذیب میکنند.’’و میگویند ہمہ برکتہا منوط بہ بیعت است و این کس شرف بیعت شیخے از مشائخ ندارد‘‘.و حقیقت این است کہ بیعت آنہا بیش از صفقۂ زیان کار نمے باشد.بلکہ آن دروغ بے فروغے است کہ دخل سازان تلمیع گر آنرا تراشیدہ.وائے حسرتا بر آنہا ندانند کہ مسیح از آسمان با ہمۂ علوم
ویجرّ د اللّٰہ وراء کم سیفہ و یسلط علیکم من یؤذیکم و یضرب علیکم الذلۃ و من کل مقام تُطردون.ان اللّٰہ یرید ان یؤید دینہ و ینصر عبدہ.أفھذا اسلامکم أنکم علی خلافہ واقفون.أ تستطیعون إِزعاج شجرۃ غرسھا الرب الکریم أ باللّٰہ تحاربون.رب ما أرعبَ إقدامک إذا نزلت لنصرۃ قوم فھم الغالبون.رب ما اقطع حسامک اذا جرّدتہ علی حزبٍ فھم المقطوعون.ان اللّٰہ تجلّٰی بألبسۃ جدیدۃ فقوموا لہ ایھا الغافلون.و ان تغافلتم و اعرضتم فسوف تذکرون و تتندمون.انظروا الٰی اقوام قبلکم عصوا اللّٰہ فضربھم علٰی سیماھم و أخذھم بالبأساء والضراء و أبادھم ترجمہ: فرود آید و از زمین و زمینیان چیزے اخذ نہ کند؟.چہ شد کہ شعور ندارند.ندا نند کہ فرستادگان پروردگار احتیاج بہ بیعت کسے ندارند و ہمہ علوم از ربّ خود تعلّم می کنند.ازو می گیرند و بادمی بینند و باد می شنوند و از او و باو میگویند.روح اللہ در ایشان سکنی دارد و با روح او تکلم می کنند.و بہمان روح ہر صاحب فطرت سلیم را نورانی میفرمایند و بآن افاضہ می نمایند.و بآن اطلاع برگنجہائے علم دارند.و بآن حجت خداوندی اقامت میکنند بر شخصے لجاجت بانکار حق دارد و ازان سر باز زند.و از خدا تعالیٰ بایشان نصرت میرسد.خدا تعالیٰ در سینہء ایشان معارف قرآن ودیعت می سازد.و ایشان را از آگاہانیدن از نوادر وقائع زمان می نوازد.و بایشان
با لآفات و انواع البلاء‘ و ما انتم خیر منھم‘ و ما ضعف اللّٰہ و ما لغب و ما استکان فما لکم لا تتقون جلال اللّٰہ و لا ترتعدون.و ما قلنا فیکم الا شیءًا قلیلًا و سدلنا علی کثیر من مخازیکم و آثرنا التغاضی علی الملام لعلکم تشکرون فی أنفسکم و تتوبون.الٰی مشایخ العرب و صلحاۂم السَّلام علیکم أیھا الأَتْقیاءُ الأَصفیاءُ من العرب العُرَباء.السلام علیکم یا أھلَ أرض النبوّۃ و جیران بیتِ اللّٰہِ العظمٰی.ترجمہ: چیزے می بخشد کہ بدیگرے ندہد.و اوشان از دیگران ممیّز می باشند.و باوشان ملکے کرامت میفرماید کہ بغیر ایشان ندہد و اوشان بعنا یاتش مخصّص می باشند.این فضل اے متمردان مکذب شمارا میسّر است؟ و اگر در بیعت شما و پیران شما اثرے ہست اے کاذبان آن اثر را بمن بنمائید.و اگر در صحبت شما و صحبت آنہا فیضے می باشد از چہ آن فیض آشکار نیست.میتوانید اثبات آنرا کنید؟.اے مفتریان ہلاک شدید و خلقے کثیر را با خود ہلاک کردید.نہ خود از بیعت نفع برداشتید و نہ بدیگران رسانیدید.در مجالس شما انبوہ زیاد وز حام عام می باشد.ولے این چہ مایۂ ناز است.زیرا کہ از درس و تلاوت قرآن نشانے در آن نمی باشد.بلے اشعار و ہزلہاست کہ بآن تلاعب و ازان
أنتم خیر أُمم الاسلام و خیر حزب اللّٰہ الاعلٰی.ما کان لقومٍ اَن یبلغ شانکم قد زِدّتم شرفًا و مجدًا و مَنْزلا.و کافیکم من فخر انّ اللّٰہ افتتح وحیہ من آدم و ختم علی نبیّ کان منکم و من ارضکم وطنًا و ماْوًی و مولدا.وما أدراکم مَنْ ذالک النبی محمد ن المصطفٰی سَیّد الاصفیاء و فخر الانبیاء و خاتم الرُسل و امام الورٰی.قد ثبت احسانہ علٰی کُلّ من دَبَّ علٰی رِجْلین و مشٰی.و قد ادرک وحیُہ کُلّ فائت مِنْ رموزٍ و معانٍ و نِکاتٍ عُلَی.و أحیا دینہ کلّ ما کان مَیّتًا مِنْ معارف الحَقّ و سنن الھُدٰی.اللّٰھم فصلّ و سلّم و بارک علیہ بعدد کل ما فی الأرض من القطرات و الذَّرات والاَحیاء والاموات و بعد دکلّ ما فی السَّمَاواتِ و بعدد ترجمہ: تواجد رو میدہد.و آنہائے کہ بیعت بشما میکنند اثرے از حب خدا و رسول کریم وے در دل ایشان نمی باشد.و ہرگز از معاصی و فسق و فجور دست بازنمی دارند بلکہ بیباکانہ درآن راہ تگاپومی نمایند.خدا را می گذارند و تکیہ بغیر او میکنند.و قبور را می پرستند و از بیکسان و بے دست و پایان عصمت و یاوری میجویند.بر مردار دنیا سر فرود آرند و شکم را ازآن پرمیکنند.از غایت حمق و شقاوت دل بآن بستہ اند و در آن بے راہ رویہا روا میدارند.دقیقۂ از قرآن را فہم نکنند و آنرا نمی خوانند.بجہت آخرت زاد برنمی گیرند و ہمہ جدوجہد بہ تحصیل دنیا بجامی آرند.اے مردمان توبہ کنید.توبہ کنید! کہ روز ہا بآخر رسیدہ.و ساعت
کل ما ظھر واختفٰی.و بلِّغہ منا سلامًا یملأ أرجاء السماء.طوبٰی لقوم یحمل نِیْرَ محمدٍؐ علی رَقبتہ.و طوبٰی لقلب افضٰی الیہ و خالطہ و فی حُبّہ فنٰی.یاسُکّان ارض أو طأتہ قدم المصطفٰی.رحمکم اللّٰہ و رضی عنکم و أرضٰی.ان ظنی فیکم جلیل، و فی روحی للقاء کم غلیل یا عباد اللّٰہ.و انّی أحِنّ الی عِیان بلادِکم و برکات سوادکم لأزور موطیء اقدام خیرالوریٰ.وأجعل کُحل عینی تلک الثرٰی.و لأزور صلاحھا و صلحاءھا.و معالمھا و علماءھا و تقرّعینی برویۃ اولیاء ھا و مشاھدھا الکبرٰی.فاسئل اللّٰہ تعالٰی اَنْ یرزقنی رویۃ ثراکم و یسّرنی بمرآکم بعنایتہ العظمٰی.یا اخوان انّی احبّکم و أُحبّ بلادکم و احبّ رمل طرقکم واحجار سکککم و أوثرکم علٰی کل ما فی الدنیا ترجمہ : خداوندی قریب آمدہ.زہے دیدۂ کہ بامعان نگاہ کند.و خہے گوشے کہ اصغاء و استماع نماید و حبّذا قدمے کہ بسوئے خدا از پاخیزد.و فرّخا گروہ ے کہ قبول حق کنند و سر انکار نہ جنبا نند.بدانید اے مسلمانان ! خدا شما را مسلم گردا ند کہ من از طرف خدا تعالیٰ شانہ آمدہ ام و خدا شاہد من بس است و بدانید کہ او نصرت و تائید مرا میکند و تعلیم و الہام مرا می فرماید.و مرامعارفہا عطا فرمودہ کہ جز بہ تعلیمش کسے آنرا نمی داند.چرا تجربہ و قبول نمی کنید؟ ہان نزدیک بمن بیائید و بر نہ گردید.و دیدہ باز کشائید و در امان خدا در آئید و از من دوری مجوئید.و از لوث کینہ و عداوت پاک بشوید.و زود میل بہ توبہ آرید و درنگ نکنید.از افراط در ظن بد اجتناب
یا أکباد العرب قد خصّکم اللّٰہ ببرکات اثیرۃٍ، و مزایا کثیرۃٍ، و مراحمہ الکبری.فیکم بیت اللّٰہ التی بورک بھا أُمّ القریٰ.و فیکم روضۃ ال بی المبارک الذی اشاع التوحید فی اقطار العالم و أظھر جلال اللّٰہ و جلی.و کا م کم قوم صروا اللّٰہ و رسولہ بکل القلب و بکُلّ الروح و بکلّ ال ھیِ و بذلوا اموالھم و ا فسھم لاشاعۃ دی اللّٰہِ و کتابہ الازکٰی.فا تم المخصوصو بتلک الفضائل و م لم یکرمکم فقد جار واعتدی.یا اخوا اّ ی اکتب الیکم مکتوبی ھذا بکبدٍ مرضوضۃٍ و دموع مفضوضۃٍ، فاسمعوا قولی جزاکم اللّٰہ خیر الجزاء.اّ ی امرءٌ ربّا ی اللّٰہ برحمۃٍ م ع دہٖ و أ عم علی بإ عامٍ تامٍ ترجمہ: بورزید.و بہ صبر و صلوٰۃ استعا ت بجوئید و مجاہدہ بک ید.ز ہار ز ہار شتابکاری روا مدارید.و بہ تضرع از خدا در خواہید و مردہ وار خود را بر آستا ہ اش بیفگ ید.و از وے باخلاص دل و صدق عزم و توجہ تام کشف حقیقت مرا و امر مرا مسئلت ب مائید.او از کرم برشما ای سر بستگیہا را خواہد کشود.اے مردما رفق پیشہ گیرید.و در سبّ و شتم غلو مک ید.و از ستم پس دی و جسارت ا کار عجائب ہائے خدا تعالیٰ کہ از ظر شما پوشیدہ است روا مدارید و رحم بر جا خود ہا بیاورید.ہا اے شتاب کارا ظلم بر خود مپس دید.اے مشائخ ہ د اگر بہ فوس خود گما چیزے میدارید چرا بجہت مقابلہ
وما التنی من شیء و جعلنی من المکلّمین المُلْھمِین و علّمنی من لدنہ عِلْما.و ھدانی مسالک مرضاتِہ و سکک تُقاتہ و کشف علیّ اسرارہ العُلیا.فطورًا اَیّدنی بالمکالمات التی لاغبار علیھا ولا شبھۃ فیھا و لا خفاء.و تارۃً نوّرنی بنور الکشوف الّتی تشبہ الضُحٰی.و من أعظم المنن أنّہ جعلنی لھذا العصر و لھذا الزمانِ امامًا و خلیفۃً و بعثنی علٰی رأس ھذہ الماءۃ مجدّدا، لأخرج الناس الی النور من الدُّجی و انقلھم من طرق الغَیّ و الفساد الٰی صراط التقویٰ.واعطانی مایَشْفی النفوس و ینفی اللَّبْس المحسوس و یکشف عن الخلق الغُمّی.انّہ وجد ھذا العصر أسیرا فی مشکلات ومخنوقًا من معضلاتٍ و ھالکًا تحت بدعاتٍ و سیئات و ظلماتٍ ترجمہ: با من بیرون نمی آئید.می بینم از جوش و غلیان خیر گیہامی کنید.و لباس عجب و نخوت در برمیدارید و مادحان مبالغہ کنندہ شمارا ہلاک گردانیدہ.بیائید بحضور رب جلیل دست دعا بر افرازیم و این ہمہ قیل و قال بگزاریم.و از وے دلیلے و برہانے بخواہیم و از وے بخواہیم کہ او درمیان ما فیصلہ بفرماید.و حق عیان گردد.و ہالکان ہلاک شوند.بخدائے عزوجل من بہ یقین می دانم کہ شماہا روباہ ہستید و خود را شیر وا می نمائید.و کرگس ہستید و برنگ نسر طائر جلوہ میکنید.و ہم چنین در بارۂ من گمان میدارید.اکنون بیائید خداوند عز اسمہ را در معاملۂ خود حکم گردانیم کہ او اکرام صادقان و اہانت کاذبان کند.اگر ازین نعمت ہا کہ خداوند تعالیٰ مرا انعام فرمودہ بہرہ دارید.بیائید بجہت مبارزت
فار اد ان ینجّی اھلہ من تلک الآفات و انواع البلاء.و انّہ رأی فساد قِسّیسین و فلاسفۃ النصاری قد بلغ من العمارات الی الفَلواتِ و من النیّات الی عمل السَیّءَات و من سطح الأرضین الی الجبال الشامخات، ورأی انھم عتو عتوًّا کبیرًا و بَلّغوا امرھم فی غلوّھم الی الانتھاء.ورأی الرب المجید انہ ابتلی کثیرٌ من الخلق بدقائق فتنہم و لطائف ذکاۂم و غرابۃ دھاءھم و سحرِ علومھم و طلسم فنونھم و خدیعتہم العظمٰی.ورأی انھم ینھبون دین الناسِ و ایمانھم و یسحرون قلوب الناس و أبصارھم و آذانھم و یفلون المعالم والمجاھل لاضلال الوریٰ.و یرون بسحرھم الظُلمۃ کالسنا.و خرج بتحریکاتھم قوم من الھنود یسمون انفسھم ’’ آریا ‘‘.و یقولون لا نؤمن بکتاب الا بوَیْدنا، الذی اُنزل ترجمہ: با من در میدان ظاہر بشوید.و ہرگز مرا مہلت مدہید.قسم بخدا من صالحی درمیان شما نمی بینم مگر مانند موئے سپیدے در مویہائے انبوہ سیاہ.و می بینم کہ بندگان خدا را گمراہ کردید و ناقہ اسلام را قطع و عقرنمودید.خدائے تعالیٰ مرا فرستادہ کہ شما را بہ شناسا نم آن راہ ہا کہ رفتار بآن کنید.و کردارہا کہ بگزینید و اخلاقہا کہ بدان متخلق بشوید.بگوئید مرا قبول میفرمائید یا دست رو بمن می زنید.چرا خدارا در اسلام و مصائب آن و آفات جدیدہ اش نگاہ و مواسات بآن نمی کنید؟ این وقتے است کہ ہرگز نہ پر خطر گمرہیہا و زہرہ گداز آفتہا جمع آوردہ.و شگرف فتنہ ہا و عجیب دانشہا درکار کردہ.وقاحت و بے شرمی در این زمان فاشی شدہ مانند زن مطروقۂ کہ مرکب و مقبول نوجوانان
فی ابتداء الدنیا.وما فی ویدھم إلّا تعلیمُ عبادۃ الشمس والقمر والنجوم والنار والماء والھواء.و اِنْ کانت نساء ھم لم یلدن لھم ابناءً فیامرھم وَیْدُھم ان یوذنوا ازواجھم لارتکاب الزنا، ویذرء وا لانفسھم اولادًا من ھذا الطریق و داوموا لنجاتھم علی ھذا العملِ ابدا.و یسمی ھذا العمل بلسانھم بنیوگ ویحسبونہ عملا مقدّسا.فھذہ شریعتھم و احکام کتابھم و مع ذالک یعضلون قومھم ان یُسْلموا و یسبّون خیر البریۃ شرًّا و خُبثا.و یصرّون علی السبّ و الشتم والتوھین و یؤلّفون فی ردّ الاسلام کُتبا، و ما ردّھم الا مجموعۃ الافتراء.و ھذہ المفاسد کلھا قد حدثت من قسّیسین و زُلزلت الارضُ زلزالًا شدیدًا ترجمہ: میباشد.اے مردمان من در زمانے آمدہ ام کہ آفتاب اسلام قریب بغروب و روشنیش محجوب شدہ.چرا نظر بر زمانہ نمی کنید و نورے را کہ در وقت خود ظاہر شدہ قبول نمی دارید.یا در اخبار رسول (علیہ الصلوۃ والسلام) شک می آرید؟ چہ پیش آمد شما را کہ مانند سنگ گردیدید.اشتر شما از پا نشستہ و نفس شما کوفتہ و خستہ شدہ.و حرکتے و تنفسے در بدن شما محسوس نمی شود.در خواب رفتہ اید یا مردہ ہستید؟ چرا نمی شنوید و پاسخ نمی گزارید؟.حیات دنیا را دوست میدارید و موت پدران را بخاطر نمی آرید.اے وائے برشما کہ دین شما خوار و لاغر است و جسم شما آراستہ و فربہ.از غمگساری اسلام غافل و از علم و یقین عاطل ہستید.این فتنہ ہا نمی بینید؟ و این باد صرصر را بنگاہ نمی آرید؟ کہ خلقے از دانشمندان
فا للّٰہ خیرٌ حافظًا و خیر مأْزِرا.و من الآیۃ المبارکۃ العظیمۃِ انہ اذا وجد فساد المتنصّرین ورآھم انّہم یصدّون عن الدین صُدودا، و رأی انھم یؤذون رسول اللّٰہ و یحتقرونہ و یُطرون ابن مریم اطراءً کبیرًا فاشتد غضبہ غیرۃً من عندہ و نادانی و قال انی جاعلک عیسی ابن مریم و کان اللّٰہ علی کل شیءٍ مُقْتدرا.فانا غَیْرۃُ اللّٰہ التی فَارت فی وقتھا.لکی یعلم الذین غَلَوا فی عیسی ان عیسی ما تفرّد کتفرّد اللّٰہ و ان اللّٰہ قادر علی ان یجعل عیسی و احدًا من امۃ نبیّہ و کان ھذا وعدًا مفعولا.یا اخوان ھذا ھو الأمر الذی أخفاہ اللّٰہ من أعین القرون الاولی، و جلی تفاصیلہ فی وقتنا ھذا یخفی ما یشاء و یبدی و قد خلت مثلہ فیما مضٰی.و فی اختیار ھذا الطور الأخفٰی ترجمہ: را از جار بودہ و از راہ صواب برون انداختہ.نگاہ نمی کنید برسر این صد کہ چشم در راہ آن بودہ اید؟ نمی بینید ظلمت سایہ گستردہ و لشکرہائے فرومایگان فراہم آمدہ؟ چرا بیدار نمی شوید؟ اسلام صورت یتیمی بیم زدہ پیدا کردہ و ہمت مسلمانان چون شتر لاغر رو بہ سستی نہادہ.و خوف خدا مانند متاع مفقود گردیدہ.و علم قرآن مثل زندہ در گور شدہ.اینہا ہمہ مے بینید و تجاہل میکنید !.اے مردمان از حزم و دیانت اندیشہ فرمائید و از رحمت خداوندی احتراز مجوئید.و آن فضل را پس پشت میاندازید کہ بوقت خود ظہور آوردہ.زنہار اعراض از آن منمائید.و اگر گفتار مرا شنو او وصیت ہائے مرا کہ امروز میکنم پذیرا شوید اللہ تعالیٰ از شما راضی شود و شما را مثمرو کثیر گرداند.و برکات خود
مصلحتا ن عظیمتان رآھما اللّٰہ لعبادہ أنسب و أَولی.أما الأُولٰی فہی انّ ھذا النبأ کان من أنباء غیبیۃ و کان زمان ظھورہ بعیدًا جدًا، و کان اللّٰہ یعلم انہ لا یظھرہ الا بعد انقضاء أزمنۃ طویلۃ و عصور مدیدۃ و ارتحال کثیر من الأمم من ھذہ الدنیا، و کان یعلم انہ لا فائدۃ للاولین فی تصریح ھذا النبأ المجمل و تفاصیلہ العظمٰی.و کان یعلم انھم یموتون کلھم قبل ظھور ذالک النبأ و ما یجدیھم تفاصیلہ نفعا.فاراد ان یعطیھم ثواب الایمان بعوض مافات منھم و یھب لھم بعد ایمانھم اجرا حسنا.فترک تفاصیل ھذا النبأ فی وحیہ واختار اجمالًا لطیفا مبھما کالمعمَّی.وجعل ھذا الإجمال متحلیا بالاستعارات و مصبوغا ترجمہ: بر شما فرود آرد.و در اولاد و ذریّات و زروع و تجارات و عمارات و امارات شما افزونی بخشد.و زندگی پاکیزہ بشما مرحمت فرماید.چنانچہ در امان خدا داخل شوید.و در تحت ظل وے زندگی بسر کنید.و اگر از شر ہا باز نیامدید و احکام خدا را مطیع نشدید.بپاداش گناہان گرفتار شوید و در آتش عیوب خود سوختہ گردید.و خدا شما را برائے پسینیان داستان و بجہت بینندگان عبرت سازد.و شما را پراگندہ کند و از بیخ برکند چنانچہ آثار شما باقیماند و شما فانی شوید.و او تیغے برسر شما آہیزد و ایذا رسانی را برشما مسلط گرداند.و ذلت و خواری بر سر شما فرود آرد.و از ہر مقام مطرود و مردود شوید.لا بدست از این کہ اکنون خدا دین خود را تائید و بندہ خود را نصرت و تمجید بخشد.
من المجازات والکنایات و أبعد من الأفھام والدرایات والقیاسات لیبلوھم أیھم یتبع أمرا.فآمنوا فرضی اللّٰہ عنھم و جزاھم خیر الجزاء لانھم احسنوا الظن فی اللّٰہ و رسولہ و آمنوا بما لم یعرفوا حقیقتہ ولم یدرکوا ماھیتہ أصلا.و أما الثانیۃ فانہ اراد جل اسمہ لیبتلی الآخرین کما ابتلی الاولین لیغفرلھم ذنوبھم و یھیّئ لھم عند ایمانھم رشدا.وکانوا یعملون السّیءآت من قبل و اضاعوا فیھا قرونا و حقبا.و غلبت علیہم الشھوات حتی لم یملکوا انفسہم و حصدوا زروعھا فی الاھواء و شابھوا صعیدًا جرزا.فأظھر اللّٰہ ذالک النبأ المجمل المستور خلاف زعمھم لیبتلیھم بہ رشدا و علما و فھما، و لیعطی المؤمنین کفلین من رحمتہ و یجعل لھم لرضاۂ سببا.ترجمہ: ہمین است اسلام شما و شما بر خلاف آن وقوف و قیام دارید؟ میتوانید از بیخ برکنید درختے را کہ رب کریم آنرا بدست خود نشاندہ؟ با خدا آمادۂ پیکار و کار زار شدہ اید؟ اے ربّ من آمدنت چہ قدر با ہیبت است چون بجہت نصرت قومے نزول میفرمائی البتہ غالب می شوند.اے ربّ من حساب و باز پرس تو چہ قطعی و سریع است چون برگروہ ے غضب خود می آری البتہ مقطوع میگردند.خداوند عزّ اسمہ بہ لباسہائے جدیدہ جلوہ آرا شدہ.اے غافلان برائے او برخیزید.و اگر تغافل و اعراض ورزیدید زود باشد کہ گفتار مرا بیاد آورید و پیشیمانیہا خورید.نگاہے کنید بحال قومے کہ قبل از شما راہ عصیان رفتند.خدا (تعالیٰ شانہ) برسیمائے آنہا ضربتے رسانید و باباساء وضراء آنہارا سخت گرفت و بانواع عقوبت و بلا آنہا را ہلاک گردانید.
وکا ن ھذا کلہ ابتلاءً من عندہ لیمیز المؤمنین المخلصین من غیرھم و یتوب علیھم فضلا و رحما، ولیُخزی عقول الذین استکبروا فی أنفسھم واتخذوا عبداللّٰہ و تبلیغہ سُخْرۃ و ھُزُوا.و کذالک امرا اللّٰہ اذا شاء ابتلاءَ قوم مذنب فربما یلبس علیھم نباً موعودًا و یقلب عقولھم و افھامھم فلا یفھمون سرّ وعد اللّٰہ ولا موعدًا، لیذیقھم سوء ما عملوا من قبل و یجعلھم من الذین عادوا عبدًا صادقًا و زَادوا حیفًا و شططا.فینکّر تأویل النبأ فی أعینھم فیحسبونہ شیءًا فریًا مختلقًا.و ما یحلقون الی حیث یحلق ذوالنہٰی.ولا یرون الاشارات المطویّۃ فی ذالک النبأ الاخفی ولا یخافون فتنۃ اللّٰہ التی تصیب المجرمین خاصّۃ و یجادلون ترجمہ: شما از آنہا بہتر نمی باشید.و خدا (تعالیٰ شانہ) ضعیف و کوفتہ و خستہ نشدہ.پس چرا از جلال خدا نمی ترسید و برخود نمی لرزید؟ و ہنوز این قدرے قلیل است آنچہ ما در بارۂ شما بیان ساختیم.و بر بسیارے از عیوب و قباحت ہائے شما پردہ انداختیم و اغماض را بر ملامت ایثار فرمودیم تا در دل خودہا تشکر و توبہ پیش گیرید.بنام مشایخ و صلحائے عرب السلام علیکم اے اتقیائے برگزیدہ ہا از عرب عرباء.السلام علیکم اے ساکنان زمین نبوت و ہمسایگانِ خانہ بزرگ خداوند جلّ و علا.شمابہترین اُ ّ مت
کا لأعمٰی.أحسب الناس ان یترکوا ان یقولوا آمنا و ھم لا یفتنون بنوع من الابتلاء.و قد خلت سنن اللّٰہ فی مثل ذالک و فیھا عبرۃ لکل قلب یخاف و یخشٰی.فاعتبروا یا اولی الابصار واسئلوا اھل الذکر ان کان الأمر علیکم مشتبھا.أعجبتم ان أتتکم سنۃ الاولین قبلا.أعجبتم ان ارسل اللّٰہ الیکم حکما کاشفا لسر ھذا النبأ فنضا الحکم عن وجہ النبأ سترا.أھذا فی اعینکم امر منکر و نسیتم ما قیل لکم ان المسیح یأ تی الیکم حکمًا عَدلا فما لکم لا تقبلون قول حکمکم اتنسون ما قال النبیؐ و اوصٰی.و ان تحسبون انکم علی صدق و حق فلو لا تأتون علیہ بنظیر من قبل.و قد قال اللّٰہ ان لسننہ نظائر فی الامم الأولٰی.أتعرفون ترجمہ: ہائے اسلام و گروہ برگزیدۂ خدائے بزرگ ہستید.ہیچ قومے بشان شما نرسد.شما در بزرگی و شرف منزلت از ہمہ افزون میباشید.و این فخر شما را بس است کہ خدا (تعالیٰ شانہ) آغاز وحی از آدمؑ کرد و ختم آن برنبی نمود کہ مولد و منشاء و ماوائے او ارض مقدسۂ شما است.آن نبی کدام است.محمد مصطفی سیّد اصفیاء و فخر انبیاء و خاتم رسل و امام وراء است.منتش برگردن ہمہ سیاہ و سپید و انسان و دواب ثابت است.وحی او آن رموز و معانی و نکات بلند را کہ ناپدید و فوت شدہ بود بازیافت فرمود.و دین او معارف حق و سنن ہدایت را کہ مردہ بود از نو زندہ نمود.اے خدا صلوۃ و سلام ما بر وے برسان بشمار آنچہ در زمین است از قطرات و ذرات و زندہ ہا و مردہ ہا و بشمار ہمہ آنچہ در آسمانہاست و بشمار
بشر ا رفع الی السماء ثم نزل بعد قرون کما تظنون فی عیسٰی.و و اللّٰہ ان ھذا خارج من سنن اللّٰہ و لن تجدوا من مثلہ فی کتب اللّٰہ اثرا.و قد قرأ تم فی الصحاح ان المسیح لحق بمیتین من إخوانہ و اتخذ مقامًا عند أخیہ یحیٰی.و قد وعد اللّٰہ للذین توفوا مسلمین انّھم لا یردّون الی الدنیا.و یمکثون فی دارالسعادۃ ابدا.و قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلّم انی اخبرت انی اعیش نصف ماعاش عیسٰی.و فی ذالک دلیل علی وفاۃ المسیح لمن کان لہ قلب او یمعن النظر و ھو یری.فلیحکم اھل الحدیث بماجاء من النبیؐ فی الصحاح ولا یجادلوا باحادیث نزولہ قبل ان یثبتوا صعودہ بجسمہ الی السمٰوات العلٰی.ولو شاء اللّٰہ لفتح آذانھم و بصّر اعینھم و فھّم قلوبھم و لکن لیبلوھم فیما ترجمہ: ہمۂ آنچہ آشکار او پیداست.و از ما او را سلامے برسان کہ ہمہ اطراف آسمان ازآن مملو گردد.فرخندہ قومے کہ غاشیۂ اطاعت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) بر دوش دارند.و مژدہ دلے را کہ با وشید او آمیزگار و در حبّ او از خود فنا شد.اے ساکنان خاکے کہ فرسودہ پائے ہمایون مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وسلم) می شدہ رضا و رحم خدا بحال شما باشد من نسبت بشما گمان خیلے نیکو دارم.و جان من بجہت دیدار شما نعل در آتش میباشد.من آرزو دارم کہ بلاد شما و برکات آنرا معائنہ کنم و خاکپائے حضرت سید عالم(صلعم) را سرمۂ دیدہ خود سازم.و از مشاہدۂ صلاح و صلحاء و معالم و علماء و اولیاء و مشاہد آن سر زمین قدس سرورے و
آتا ھم و لیخزی اللّٰہ من اراد خزیہ فی الدنیا والعقبٰی.ولو أنّ أھل الحدیث آمنوا واتقوا لکفّر اللّٰہ عنھم سیئاتھم و کتبھم فی الصادقین و لکن بخلوا واستعجلوا واختاروا لانفسھم عوجا.واتبعوا اقدام السفھاء الذین خلوا من قبل و نسوا کلما ذُکّروا بہ و طلبوا لدنیا ھم مرفقا.فلا یضرون اللّٰہ شیءًا من مکائدھم و ان کانوا لیزیلوا من کیدھم جبلا.ولا تَحْسَبُنَّھُمْ بمفازۃ من اخذ اللّٰہ، و لا تحسبوا عداوۃ الحق امرا ھیّنا.واللّٰہ یتم وعدہ و ینصر عبدہ فان جنحوا للسلم فھو خیر لھم و ان عتوا فسیریھم اللّٰہ ذلا و خزیا.و قد أتممت علیھم حجّتی و قرأت علیھم براہین صدقی فما نظروا من الانصاف نظرا.الا یرون ان اللّٰہ اخبر من وفاۃ المسیح فی مقامات شتّی.ترجمہ: قرت عین حاصل نمایم.و از خدا می خواہم کہ او از محض کرم این تمنائے مرا کہ بجہت زیارت خطۂ دل نشین شما دارم بر آرد.برادران من حب شما و حب بلاد شما مایۂ ناز من است.من بجان دوست دارم آن ریگ راہ و سنگریز ہا را کہ در زیر پائے شما در آید.و شما را برہمۂ دنیا وما فیہا برائے خود برمی گزینم.اے ابنائے عرب شما بہ فضیلت زیاد و برکت کثیر مخصوصاً ممتاز ہستید.بیت اللہ درمیان شما است کہ سر زمین ام القری بدان برکت یافت.و ہم بلدۂ شما از روضۂ مقدسہ آن نبی مبارک گل سر سبد ہمہ زمین و زمان است کہ توحید را در عالم اشاعت و جلال خدائے بزرگ را اظہار و تجلیہ فرمود.و از میان شما
و ا لقرآن کلہ مملوّ من ذالک و لا تجد فیہ لإثبات حیاتہ حرفا أو لفظا.و نھاک قول المسیح فی القرآن: 33 33 3 ۱.فانظر کیف یثبت من ھھنا ان المسیح توفی و خلا.و لو کان نزول المسیح و مجیۂ مقدرًا ثانیا لذکر المسیح فی قولہ شھادتین و لقال مع قولہ: کنت علیھم شھیدًا و أکون علیھم شھیدًا مرۃ أخریٰ.و ما حصر فی الشھادۃ الاولی.و قال اللّٰہ تعالی’’3‘‘ ۲ فخصّص حیاۃ الناس بالارض کما خصص موتھم بالثریٰ.اتترکون کلام اللّٰہ و شھادۃ نبیہ و تتبعون اقوالا آخر بئس للظالمین بدلا.ایھا الناس قد اعثرنی اللّٰہ علی ھذا السر و علّمنی ما لم ترجمہ: قومے بودہ کہ بہمۂ دل و جان بجہت نصرت خدا و رسول وے برخاستند.و دین اللہ و کتاب اللہ را بصرف نقد جان و بذل اموال در عالم ترویج دادند.شگرف سنگدل و بیداد گر میباشد آنکہ ازین فضائل مخصوصہ بشمااِبا و اہانت شما روا دارد.برادران! بادلِ بریان و چشم گریان این مکتوب بشما برمی نگارم.گفتار مرا گوش بنہید و از خدا بہترین جزا دریابید.من بندۂ ہستم کہ خدائے بزرگ مرا بدست خود پروردہ و فضل بسیار و انعام بے شمار برمن و از ہر چیز حظے وافر نصیب من کردہ.و مرا مکلّم و ملہم فرمودہ از پیش خود علم آموختہ.و راہ مرضیات و طریق تقوی برمن آشکار نمودہ.وقتے بواسطۂ مکالمات روشن و بے غبار تائید
تعلمو ا و ارسلنی الیکم حکما عدلا.لأ کشف علیکم ما کان علیکم مستترا.فلا تماروا ولا تجادلوا و تدبروا فی قولہ 3 ۱.واقرء وا ھذہ الآیۃ الی قولہ ’’یوم القیامۃ‘‘ ثم امعنوا النظر یا أولی النہی.وانظروا کیف افتتح اللّٰہ من وفاۃ المسیح و ذکر کل واقعۃ بترتیب طبعی تتعلق بعیسٰی.حتی اختتمھا علی یوم القیامۃ و لم یذکر من نزول المسیح فی ھذہ السلسلۃ شیءًا.و ما احدث فی ھذا الأمر ذکرا.وما کان نزولہ عند اللّٰہ إلّا نزول اراداتہ و توجھاتہ علی المظھر الذی قام مقامہ و قرب بہ استعدادًا و دنٰی.فَلَوَّنہ بلونہ و صبَّغہ بصبغہ حتی صار المظھر مستغرقًا مغمورًا فی معنی الا تّحاد و شابہ عین ترجمہ: من میفرماید.و گاہے از کشوف کہ واضح تر از آفتاب نیمروز باشد تنویر من می نماید.و از بزرگ ترین نعمت ہائے وے آنکہ مرا امام این زمان و خلیفۂ این وقت کردہ و بخلعت مجدد یّت این صد سر افرازم فرمودہ کہ خلق را از تاریکی بروشنی و از کجروی و تباہ کاری بہ صلاح و تقویٰ در آرم.و مرا چیزے بدادکہ شفائے بیماری جان و ازالۂ شبہات بر ہمزن ایمان را شاید.و اندوہ ہائے پنہانی و رنج ہائے جان گداز را از خلق در رباید.زیرا کہ او (تعالیٰ شانہ) این زمانہ را چون دید کہ در مشکلات اسیر شدہ و از دشواریہا بشکنجہ در آمدہ و از سیاہ کاری و ہوا پرستی نزدیک بہ ہلاکت رسیدہ است.خواست آنہارا از انواع بلا و آفت وارہاند.و دید فساد قسیسیان و اسقفان و فلاسفہ نصاریٰ را
اصلِہ فی القُویٰ.و تقاربت مدارکہ بمدارکہ و أخلاقہ بأخلاقہ و جوھرہ بجوھرہ و طبیعتہ بطبیعتہ حتی صارا کشیءٍ واحدٍ و کان اسمھما واحدًا فی الملاِ ء الاعلٰی.و إن اشتقت ان تکتنہ حقیقۃ ھذا السرّ و تطلّع علی أسبابہ علی وجہٍ أظھرَ و اَجْلٰی.فأَصْغِ أبیّن لک ما عَلّمنی ربی فی ھذا الامرِ من اسرار الھدیٰ.و ھی انّ اللّٰہ وجد فی ھذا الزمان غلبۃ المتنصّرین و ضلالاتھم إلی الانتھا.و رأی انّھم ضَلّوا و اَضَلُّوا خلقًا کثیرًا و نَجسوا الارضَ بشرکھم و کفرھم واکثروا فیھا الفسادَ و اشاعوا فی الناس کذبھم و فریتھم و تلبیساتھم و فتحوا أبواب المعاصی والھوی.ففارت غیرۃ اللّٰہ ترجمہ: از عمرانات تا بہ بیابانہا و از مجرد نیت تا بہ عمل بہ معاصی و از سطح زمین تا بہ کوہ ہائے بلند رسیدہ.و دید آنہا را کہ از سرکشی و خود رائی کار بانتہا رسانیدہ اند.و آن رب بزرگ دید خلقے کثیر را کہ مبتلا بہ فتنہ ہائے غریبہ و زیرکی و دانش و مسحور بسحر علوم و فنون و شگرف کاریہائے نادرۂ آنہا شدہ اند.وہم نگاہ کرد کہ آنہا بر دین و ایمان مردمان ترکتازی میکنند و بردل و دیدہ و گوش آنہا افسون می دمند.و از پئے گمراہ ساختن مردمان ہر حیلہ و خدیعت کہ توانند بکارمی برند.و تاریکی را بزور سحرکاری روشنی و امی نمایند.از تحریک اینہا گروہ ے از ہنود پیدا شد کہ خود را بنام آریہ تشہیر می دہند.قول آنہا است کہ جز بہ وید (کہ بزعم آنہا در آغاز دنیا نازل شدہ) ایمان نمی آریم.و آن وید آنہا غیر از تعلیم بہ پرستش آفتاب
تعا لٰی عند رؤیۃ ھذہ الفتنۃ العظمی.فأنبأ الرَّبّ الغیور کلمتہ و نبیہ من فتن امتہ و مما أفسدوا فی الارض و مما یصنعون صنعا.و کان ھذا الاخبار من سنن اللّٰہ و لن تجد لسنن اللّٰہ تحولا ولا تبدیلا.و لما سمع المسیح أن أمتہ اھلکت أھل الأرض و أرادت أن یستفزھم جمیعًا و بغت امام ربھا بغیًا کبیرا، فکثر کربہ و قلقہ حسرۃً علی اُمّتہ و أخذہ حزن و وجد کمثل الذی یھمہ إغاثۃ الملھوفین أو یجب علیہ إعانۃ المظلومین، و استدعی من اللّٰہ نائبا.و قضی ان یکون نائبہ متحدًا بحقیقتہ و متشابھًا بجوھرہ و مقیمًا فی مقام جوارحہ لاتمام مراداتہ ومظھرًا لظھور إراداتہ.فصرف لھذہ المُنْیۃ عنان التوجہ ترجمہ: وماہتاب و ستارہ ہا و آتش و آب و باد چیزے درخود ندارد.و اگر زنان این گروہ آریا بار دار نشوند یا پسران نزایند.آن وید شوہران را امر می فرماید کہ زنان را رخصت ارتکاب بر زنا با دیگران بدہند و باین طریق اولاد در دست آرند ! و این عمل را در لُغۂ آنہا نیوگ میگویند و خیلے عمل خیرش حساب میکنند.این است شریعت و این است احکام آنہا ! و باین ہمہ قوم خود را از اسلام آوردن زجر و منع میکنند و در جناب نبوت مآب فخر موجودات(صلی اللہ علیہ وسلم) فوق العادۃ دشنام و لعن و طعن روا میدارند.و از اصرار بر سبّ و شتم و توہین در گزشتہ در ردّ اسلام کتابہا تالیف و تدوین می نمایند.و ردّ و قدح آنہا غیر از تودۂ بہتانات و طومار افترا ہا نمی باشد.این ہمہ مفاسد از دست
الی الثریٰ.فاقتضی تدبیر الحق ان یھب لہ نائبًا تنطبع فیہ صورتُہ المثالیۃُ کما تنطبع فی الحیاض صُور النجوم من السماوات العلٰی.فانا النائب الذی ارسلنی اللّٰہ فی زمان غلبۃ التنصّر غیرۃً من عندہ وإراحۃً لروح المسیح و رافۃً بعامۃ خلقہ و ترحّمًا علٰی حال الوریٰ فجئت من اللّٰہ لا کسر الصلیب الذی أُعلِیَ شانہ و أقتل الخنزیر فلا یُحیٰی بعدہ أبدا.واختارنی ربّی لمیقاتہ انّ ربّی لا یُخلف میعادہ و لا ینقض عھدا.و قد کان وعدہ إرسال المسیح عند تطاول فتنۃ الصلیب و غلبۃ الضلالات العیسائیۃ و ان کنتم فی شکٍّ مما قلنا فتدبّروا فی قول نبیہ اعنی قولہ’’ یکسر الصلیب ‘‘ یا ارباب النُّہٰی.وافتحوا أعینکم وانظروا نظرًا غامضًا الٰی زمانکم و الی ترجمہ: پادریان حادث شدہ و زمین بزلزلہ و برہم خوردگی درآمدہ.در این حال پر از ملال حافظ و ناصر خدا و ہمہ ملجاء و ماواست.و از عظیم نعمت ہائے او (تعالیٰ شانہ) آنکہ چون دید فساد نصاریٰ را کہ مردمان را از دین حق بازمیدارند.و رسول صادق و امین (صلی اللہ علیہ وسلم)را بدیدۂ احتقار می بینند و می نکوہند و ابن مریم را از ستایش بالائے آسمان می پرانند۱.من بندہ را بسوئے آنہا فرستاد و گفت من ترا عیسی ابن مریم گردانیدہ ام.و خدا برہمہ چیز ہا توانا و مقتدر است.پس من غیرت اللہ ہستم کہ در وقت خود بہ حرکت و جوش آمدہ.بجہت اینکہ غالیان در مدح عیسی بدانند کہ خداوند قادر می تواند ہر کہ را خواہد عیسی بگرداند و این وعدہ از وے بر روئے کار آمدنی بودہ.یہاں ایک عربی فقرے کا ترجمہ سہو کاتب سے رہ گیا ہے جو یہ ہے.’’ پس از راہ غیرت غضبش شدید گردید‘‘ ۱۲ عبداللطیف بہاولپوری
قوم جاء وا بفتن عظیمۃ ثم اشھدوا لِلّٰہِ ھل أتی وقت قدوم کاسر الصلیب او ما ا تٰی.واللّٰہ اِنّی قد أُرسلتُ من رَبّی و نُفِث فی روعی من روع المسیح وجُعلتُ وعاءً لاراداتہ و توجھاتہ حتی امتلأت نفسی و نسمتی بھا‘ و انخرطتُ فی سلک وجودہ حتی تراء ی شَبَحُ رُوحِہ فی نفسی و أُشربتُ فی قلبی وجودہ و برق منہ بارق فتلقّتْہ روحی اتم تلق ولصقت بوجودہ اشدّ مما یخیّل کأنّی ھو و غِبت من نفسی و ظھر المسیح فی مرآتی و تجلّٰی.حتی تخیّلتُ اَنّ قلبی و کبدی و عروقی و اوتاری ممتلءۃ من وجودہ و وجودی ھذا قطعۃ من جوھر وجودہ و کان ھذا فعل ربی تبارک و تعالٰی.و کان ھو فی اوّل امری قریبًا منی کالبحر من القاربِ ثم دنٰی فتدلّٰی، ترجمہ: برادران من این امرے است کہ خواست خداوندیش از چشم پیشینیان نہان داشتہ و تفاصیلش را درین وقت ما آشکار ساختہ.ہرچہ را خواہد پنہان کند و پیدا سازدو مثلش در واقعات پاستانیان موجود بودہ.و در اختیار این طریق پوشیدہ دو مصلحت بزرگ بجہت بندگان مرعی داشتہ.یکے آنکہ این خبر از اخبار غیبیہ بود کہ زمان ظہورش ہنوز بعید بود.و خداوند علیم میدانست کہ این خبر را بعد از سپری شدن زمانے دراز و کوچیدن آفرینشے بسیار ازین جہان بظہور خواہد آورد.ولذا تصریح این خبر مجمل و تفاصیل بزرگش مر اولین را فائدہ نخواہد بخشید.زیرا کہ آنہا پیش از بروزش ازین عالم رخت بربستہ باشند و ہیچ سودے ازآن بدیشان نرسد.پس باین طریق خواست کہ در عوض آنچہ
فکا ن منی بمنزلۃ الماء فی القربۃ و تموج فی جسدی روحہ فصرتُ کشیءٍ لا یُریٰ.و وجدتہ کقَنْدٍ اختلط بماءٍ لا یتمیز احدھما من الآخر و ادرکتُ بحاسۃ روحی انّہ اتّحد بوجودی و صرت فی نفسہ ملتفّا.و صرنا کشیء واحدٍ یقع علیہ اسم واحدٍ و غابت طینتی فی طینتہ العُلیا ھذا ما عُلّمنا من رَبِّنا فاقضِ ما انت قاض و اتق اللّٰہ و لا تُخلِد إلی أھواء الدنیا.و اما الکلام الکُلّی فی ھذا المقام فھو ان للانبیاء الذین ارتحلوا الی حظیرۃ القُدس تدلّیات الی الارضِ فی کل بُرھۃٍ من ازمنۃٍ یُھیج اللّٰہ تقاریبھا فیھا.فاذا جاء وقت التدلی صرف اللّٰہ اعینھم الی الدنیا فیجدون فیھا فسادًا و ظلمًا و یرون الأرض ترجمہ: از آنہا فوت شد ثواب ایمان و بر ایمان اجر نیکو بدیشان می فرماید.لا جرم تفاصیل این خبر را در وحی فرو گذاشتہ اجمالے لطیف و مبہم مانند معما اختیار فرمود.و این اجمال را بزیور استعارات و مجازات و کنایات کہ از فہم و درایت و قیاس بقدر بالاتر بود بیاراست تا بیاز ماید کہ کی از آنہا اتباع امر میکند.امّا آنہا ایمان آوردند و خلعت رضائے مولیٰ بپوشیدند.زیرا کہ آنہا حسن ظن بخدا و رسول کردند و بہ چیزے گردیدند کہ شناسائی حقیقت و ماہیت آن نداشتند.دوم آنکہ او (تعالیٰ شانہ) ارادہ فرمود کہ پسینیان را نیز برنگ پیشینیان
قد ملُاِ ئت شرًّا و زورًا و شرکا و کفرًا فاذا ظھر لأحد منھم ان تلک الشرور و المفاسد من بغی أمّتہ فیضطر روحہ اضطرارًا شدیدًا و یدعوا اللّٰہ ان یُنزلہ علی الارض لیھیئ لھم من وعظہ رشدا فیخلق لہ اللّٰہ نائبا یشابھہ فی جوھرہ و ینزل روحہ بتنزیل انعکاسی علی وجود ذالک النائب و یرث النائب اسمہ و علمہ فیعمل علی وفق اراداتہ عملا.فھذا ھو المراد من نزول ایلیا فی کتب الاوّلین و نزول عیسٰی علیہ السلام و ظھور نبیّنا محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی المھدی خُلقًا و سیرۃ.و ما من محدَّثٍ الا لہ نصیبٌ من تدلّیات الانبیاء قلیلًا کان او کثیرًا.و من تجرّد عن وسخ التعصّبات فلا یتردّد فی ھذا و یجد السّنۃ والکتاب مبیّنَین لھا.ترجمہ: بیازماید.بجہت اینکہ گناہان آنہا را مغفرت و بعد از ایمان از برائے آنہا تسبّب رشد فرماید.و پیش ازان آنہا اسیر بہ بدکاری ہا بودند و اضاعت زمانہائے دراز را دران کار ہا کردہ بودند.و بمشابۂ مغلوب خواہشہا بودند کہ عنان تمالک از دست شان رفتہ و بحدے کاشتہائے بد را ورودندکہ بالآخر شکل زمین شور بے گیاہ پیدا کردند.کہ بیک ناگاہ خدائے عزّوجلّ آن خبر مستور و مجمل را بہ ہیئتے مخالف زعم ایشان رنگ پیدائی بخشید.تا بدان رشد و علم و فہم را از ایشان بیاز ماید و از رحمت خویش مومنان را دو بہرہ قسمت کند و خوشنودی خود را از ایشان سببے بر انگیزد.و این ہمہ از جانب او بطریق ابتلاء بودہ کہ مومنان را از غیر مومنان امتیاز وبہرہ مندی از فضل و رحمت بخشد.
ایھا الأعزّۃُ ان حضرۃ اللّٰہ تعالی حضرۃٌ عجیبۃٌ و فی افعال اللّٰہ اسرارٌ غریبۃٌ لا یبلغ فھم الانسانِ الٰی دقائقھا اصلا.فمن تلک الاسرار تمثّل الملائکۃ والجنِّ و منھا حقیقۃ نزول المسیح التی دق فہمھا و عسر اکتناھُہا علی أکثر الناس فلا یفھمون الحقیقۃ‘ و لا أریٰ فی فطرتھم إلا غضبا.والأصل الکاشف فی ذالک کلام اللّٰہ تعالٰی ، فانظروا الی القرآن الکریم کیف یبیّن معنی النزول فی آیاتہ العظمٰی.و تدبروا فی قولہ تعالٰی: 3.۱ و فی قولہ عزّ اسمہ 3۲ و فی قولہ جل شانہ: 3 ۳ و فی قولہ جلت قدرتہ: 33۴ و فی أقوالہ الأُخریٰ.و انتم تعلمون انّ ھذہ الاشیاء لا تنزل من السماء بل تحدث ترجمہ : و ہم دانش آنہا را کہ در خود ہا ُ پر از پندار بودند و از گردن کشی بندۂ خدا و تبلیغ ویرا خوار و سبک داشتند رسوا سازد.و برہمین نہج عادت خداوندی جاری بودہ است کہ ہرگاہ میخواہد قومے بزہ کار را در شکنجۂ ابتلاء کشد خبر موعود را بر آنہا ملتبس و دانش و خرد آنہا را منقلب می سازد کہ راز وعدہ خدا و وقت وعدہ را فہم نمی کنند.و ازین بیخردی کیفر کردار ہائے بد را کہ پیش ازآن کردہ بودند سزاوار می گردند.باین معنی کہ ایشان رامیگزارد کہ بابندۂ صادق در آویزند و در بیداد وجور بروے پا ازحد برون نہند.خلاصہ او (تعالیٰ شانہ) حقیقت واقعۂ آن نبوت را در چشم ایشان منکر و مجہول و ا می نماید کہ آن را چیزے نو و از خود تراشیدہ گمان می برند.و تابجائے میل پرداز نمی آرند کہ خردمندان می پرند.و در اشارات متضمّنہ
و تتو لّد فی الارض و فی طبقات الثریٰ.و ان امعنتم النظر فی کتاب اللّٰہ تعالٰی فیکشف علیکم ان حقیقۃ نزول المسیح من ھذہ الأقسام الذی ذکرناہ ھٰھُنا فتدبروا فی قولنا و أمعنوا نظرا.و ما ینبغی ان یکون اختلافًا فی کلام اللّٰہ تعالٰی و لن تجدوا فی معارفہ تناقضا.والقول الجامعُ المھیمن الذی یھدی الی الحق و یحکم بیننا و بین قومنا آیۃٌ جلیلۃ من سورۃ الطارق تُذکّر سِرًّا غفلوا منہ اھل الھوی.اعنی قولہ تعالٰی: 333333.۱ فاعلموا ایھا الاعزّۃ انّ ھذہ الآیۃ بحر مَوّاجٌ من تلک الاسرار ما احاطتھا فکر من الافکار وما مستھا مدرکۃ الوری.و فَھّمنی ترجمہ : بآن خبر نگاہ نمی کنند.و بے خبر از عقاب خداوندی کہ مخصوصاً عائد بحال مجرمان می باشد نابینا یا نہ راہ ستیزمی روند.بلکہ مردمان می پندارندکہ مر این گفتار اینہا کہ گویند ایمان آوردہ ایم بسندہ باشد؟ و نشود کہ از یک گو نہ ابتلا بر محک شان نزنند؟ چنانچہ رفتار خداوند بزرگ در ہمچو کردار ہائے گزشتہ نمونہ ہا گزاشتہ کہ ہر دلے پرہیزگار و تر سناک ازآن پندمی پذیرد.اے خرد مندان و دیدہ وران چشم بکشائید و اگر امر بر شما مشتبہ باشد از اہل ذکر مسئلت بنمائید.عجب میدارید کہ سنت اولین درپیش چشم شما آشکار شدہ؟ و شگرف میگیرید کہ از خدا حکمے درمیان شما آمدہ و پردہ از روئے کار این خبر برداشتہ؟ این امر در چشم شما دور ازکار است؟ و فراموش کردید آنچہ بشما گفتہ شدہ بود کہ مسیح در شما حکمے عادل پیدا شود؟ اکنون
ربّی اسرار ھذہ الآیۃ واختصّنی بھا.و تفصیلہ انّ اللّٰہ تعالٰی أشار فی ھذہ الآیۃ الی اَنّ السماء مجموعۃ مؤثرات والارض مجموعۃُ متأثرات و ینزل الأمْر من السماء الی الارض فتلقَّتْہ الأرض بالقبول و لا تأبی.و فی ھذا اشارۃٌ ألی ان کل ما فی السماء من الشمس والقمر والنجوم والملائکۃ و ارواح المقدّسین من الرُسل والنبیّین والصدیقین و غیرھم من المؤمنین.یلقی أثرہ علی ما فی الارض بمناسباتٍ قَضَتّ حکمۃ القُدس رعایتھا.فالسماء تتوجّہ الی الارض باقسامٍ غیر متناھیۃ من النزول والرجع والارض تتقبلھا بالانصداع والإیواء بأقسام لا تعد و لا تُحصٰی.فمن اقسام نتائج ھذا الرجع والصدع اشیاء ترجمہ: چرا قول حکم را نمی پذیرید؟ مگر وصیت حضرت نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) را از دل برون کردید؟ و اگر در گمان خود بر صدق و حق می باشید چرا در تائید خود نظیرے از گزشتگان پیش نمی آرید؟ زیرا کہ خدائے بزرگ میفرماید کہ عاداتش نمونہ ہا در امم ماضیہ گزاشتہ.می توانید شخصے را نشان بدہید کہ بر آسمان مرفوع و بعد از زمانے دراز باز بر زمین نازل شدہ.چنانچہ بالنسبہ بعیسیٰ گمان دارید؟ سو گند بخدائے بے مانند کہ این امر از عادتہائے او خارج است و از مثل این در کتب خدا اثرے یافت نشود.و ہم در صحاح میخوانید کہ حضرت مسیح لاحق بدیگر برادران کہ فوت کردہ بودند شدہ و در نزد یحیٰی ؑ مقام گرفتہ.و خدا تعالیٰ را بامتوفیان وعدہ ایست کہ دیگر بدنیا رود از دار سعادت ابد اخراج نشوند.و در خبر است
تحد ث فی طبقات الارض کالفضۃ والذھب والحدید و جواھراتٍ نفیسۃ و أشیاء أخریٰ.و من أقسامہ الزروع و الاشجار والنباتات والثمار والعیون والانھار و کل ما تتصدع عنہ الثریٰ.و من اقسامہ جمال و حمیرٌوأ فراس و کل دابۃٍ تَدِبُّ علی الأرض و کل طیر یطیر فی الھواء.و من اقسامہ الإنسان الذی خلق فی احسن تقویم و فُضّل علی کل من دبّ و مشی.و من اقسامہ الوحی والنبوّۃ والرسالۃ والعقل و الفطانۃ والشرافۃ والنجابۃ والسفاھۃ والجھل والحمق والرذالۃ۱ و ترک الحیاء.و من اقسامہ نزول ارواح الانبیاء والرسل نزولًا انعکاسیًّا علٰی کل من یناسب فطرتھم و یشابہ جوھرھم و خلقتھم فی الخلق والصدق و الصفاء و من ھھنا ظھر أن تأثیرات النجوم ترجمہ: از نبی ما ( علیہ الصلوٰۃ والسلام) کہ فرمود مر اخبر دادہ اند کہ من زندگانی کنم نصف آنچہ عیسیٰ زندگانی کرد.و در این دلیلے روشن است مر آنرا کہ صاحب دل باشد و امعان نظر را کار فرماید.اہل حدیث باید بآنچہ از حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) در صحاح آمدہ حکم کنند و پیش ازآن چہ از بابت احادیث نزول طرح استیز در اندازند باید اثبات کنند کہ او با این جسم خاکی بر آسمان صعود کردہ.و اگر خدا میخواست توانا بود گوش آنہا راشنو او دیدہ را بینا و دل آنہا را رسا میفرمود.ولے او ارادہ کرد کہ در آنچہ بانہا.بخشیدہ آنہا را بیاز ماید.و آنرا کہ در دنیا و عقبی فضیحت و رسوائی درکار کردہ اند درین امتحان مردود و مخذول بر آید.و اگر چنانچہ اہل حدیث ایمان می آوردند و راہ تقوی پیش می گرفتند.خداوند
ثابتۃ متحققۃ منصوصۃٌ و لا یشک فیھا الا الجاھل الغبی البلید الذی لا ینظر فی القرآن و یجادل کالأعمٰی.و ھذا الرَّجع والصدع جار فی السماوات والارض من یومٍ خلقھما اللّٰہ و قال 33 ۱.فمالت السماء الی الارض کالذکر إلی الأُنثٰی، و لاجل ذالک اختار الرب الکریم لفظ الرجع للسماء ولفظ الصدع للارض إشارۃ الی انھما تجتمعان دائما کاجتماع الذکور والإناث و لا تأبی احداھما من الأخری و لا تطغی.فتاثیرات السماء تنزل ثم تنزل والارض تقبلھا ثم تقبل ولا تنقطع ھذہ السلسلۃ الدوریّۃ طرفۃ عین و لو لا ذالک لفسدت الارض و ما فیھا.و قال اللّٰہ تعالٰی فی اوّل ھذہ الآیۃ : 3 ۲ وقال ترجمہ: تعالیٰ نتائج بدکرداریہا را از ایشان زائل و در صادقان شان داخل می نمود.ولے بخل و شتابکاری و راہ کج را دوست داشتند و پا بر نقش قدم پیشینیان (یہود) برداشتند.و تذکیر را از دل محو ساختند و بآرام و آسایش ایں جہانے بپرداختند.و اگرچہ توانند کوہ را از پا بر آرند.خداوند بزرگ را نتوانند از بد اندیشیہا بستودہ در آرند.از عقوبت و اخذ خدا آنہا را رستگار گمان مدار.و دشمنی با خدا را چیزے آسان مپندار.البتہ خدا اتمام وعدہ نصرت بند ۂخود کند.اگر ایشان رو بآشتی آرند برائے ایشان بہتر باشد و اگر گردن کشند زود است کہ نکبت و ذلّت از خدا بہرۂ ایشان شود.من ہر آئینہ اتمام حجت بر ایشان کردم و دلائل صدق خود بر ایشان عرض د ادم.اما نظرے از انصاف
بعد ذالک : 3 ۱ فما ادراک انہ فی جمع ذکر الرجعین الی ما أومٰی.فاعلم أنہ أشار إلی أن عود الانسان بالبعث بعد الموت فی قدرۃ اللّٰہ تعالٰی کما انہ یعید أرواح المقدسین بإعادات انعکاسیۃ من السماء التی ھی ذات الرجع الی الأرض التی ھی ذات الصدع و مولد کل من یحیا.و ھذہ نکتۃ عظیمۃ لطیفۃ عُضَّ علیھا بنواجذک و خذھا بقوۃ ھداک اللّٰہ خیر الھدیٰ.ھذا سِرّ النزول الذی فیہ یختلفون.امر من عندہ لیقضی امرًا قدر و قضی.واعلموا أن لِلّٰہ تعالی عند ذکر انباء الغیب أَلسنۃ شتّٰی.فتارۃ ینبئ فی الفاظ مصرحۃ للحقائق المقصودۃ و یری سقیاھا و مرتعھا و یبدی ما قصد و عنی.و تارۃ ینطق بلسان التجوز والاستعارۃ لیخفی الامر و یبتلی الناس بھا ترجمہ: بر آن نیانداختند.نمی بینند خدائے بزرگ در مقامات مختلفہ از وفات مسیح ایمائے فرمودہ و قرآن ازآن پر است اما در اثبات حیاتش حرفے و لفظے نراندہ.و بس است قول مسیح در قرآن.و من گواہ بودم بر ایشان الخ.نگاہ کن چہ طور ازین وفات مسیح بہ ثبوت میرسد؟ چہ اگر مقدّر بود کہ مسیحؑ بار دگر ظہور در دنیا خواہد کرد چارہ نبود ازین کہ مسیحؑ در قول خود دو شہادت را ذکر میفرمود.و با قول خود گواہ بودم بر ایشان انضمامًا می گفت و گواہ شوم بر ایشان کرت دیگر.و نمی شد کہ حصر بر شہادت اول می کرد.و حق تعالیٰ میفرماید.در زمین زندگانی کنید.درین آیت زیست و مرگ ہر دو را بزمین وابست فرمودہ.کلام خدا و شہادت نبی و یرا ترک و دیگر گفتار ہا را قبول میدارید؟ ستمگران را
و قد جرت عادتہ و سنتہ انہ یختار الاخفاء والکتم فی واقعات قضت حکمتہ اخفاء ھا و یخلق الاھواء فتحشر الآراء الی جھات أخری.و إذا أراد اخفاء صورۃ نفس واقعۃ فربّما یری فی تلک المواضع الواقعۃَ الکبیرۃ صغیرۃً مھونۃ ‘ والواقعۃ الصغیرۃً المسنونۃ کبیرۃ نادرۃ والواقعۃَ المبشرۃ مخوفۃ والواقعۃ المخوفۃ مبشرۃ.فھذہ أربعۃ أقسام من الواقعات من سنن اللّٰہ کما مضی.أما الواقعۃ الکبیرۃ العظیمۃ التی اراد اللّٰہ ان یریھا صغیرۃ حقیرۃ فنظیرھا فی القرآن واقعۃ بدر لمن یتدبر و یری.فان اللّٰہ قلّل اعداء الاسلام ببدر فی منام رسولہ لیذھب الروع عن قلوب المسلمین و یقضی ما أراد من القضاء.و أما الواقعۃ ترجمہ: بدلے نیکو بداست! اے مردمان! حق تعالیٰ مرا بر این سر آگہی بخشیدہ و مرا آنچہ را شما نمی دانید آموختہ بسوئے شما حَکَم عدل مبعوث کردہ.بجہت این کہ آن راز برشما بگشایم.بامن کین و پرخاش مجوئید.و در سرّے کہ بہ لفظ حَکَم سپردہ اند اندیشد ژرف بکار ببرید.و از خدا چنانچہ باید بترسید.چرا تفکّر در قول اللہ و رسول نمی کنید و پا از گلیم بیرون می گزارید؟ خدا را اے مردمان ! تدبر بکنید این آیت را 3 الی قولہٖ 3 ۱ و امعان نظر را کار بفرمائید کہ چگو نہ حق تعالیٰ ابتدااز وفات عیسیٰ فرمودہ و ہر واقعہ را کہ تعلق بدو داشتہ بروفق ترتیب طبعی ذکر کردہ سلسلہ آن را تا بروز قیامت رسانیدہ.ولے از بابت نزول وے
التی اراد اللّٰہ ان یریھا کبیرۃ نادرۃ فنظیرھا فی القرآن بشارۃ مدد الملا!ئکۃ کی تقرّ قلوب المؤمنین و لا تأخذھم خیفۃ فی ذالک المأویٰ.فانہ تعالٰی وعد فی القرآن للمؤمنین و بشرھم بأنہ یُمِدَّھم بخمسۃ آلاف من الملا!ئکۃ و ما جعل ھذا العدد الکثیر إلا لھم بشری.لان فردا من الملا!ئکۃ یقدر باذن ربہ علی ان یجعل عالی الارض سافلھا فما کان حاجۃ الی خمسۃ آلاف بل الی خمسۃ ولکن اللّٰہ شاء ان یریھم نصرۃ عظیمۃ فاختار لفظًا یفھم من ظاھرہ کثرۃ الممدین و اراد ما اراد من المعنی.ثم نبہ المؤمنین بعد فتح بدر ان عدۃ الملا!ئکۃ ما کانت محمولۃ علٰی ظاھر الفاظھا بل کانت مؤوَّلۃ بتأویل یعلمہ اللّٰہ بعلمہ الأرفع والاعلی.و فعل کذالک ترجمہ: درین ترتیب حرفے و لفظے درمیان نیا وردہ.و مراد از نزول عیسیٰ نزول ارادات و توجہات او بر مظہرے است کہ از روئے استعداد و قویٰ قائم مقام او بودہ.او را در رنگ و صبغ او بمثابۂ رنگین و مصبوغ ساختند کہ او (مظہر) در معنیء اتحاد مغمور و مشابہ بہ عین اصل خود گردید.و مدارک و اخلاق و جوہر و طبیعت اصیل و مثیل باہم دگر بنوعے تقارب پیدا کرد کہ در رنگ شیء واحد و در ملاأ اعلٰی نامزد بیک نام بشدند.و اگر شوق آن داری کہ برکنہ این سر بو جہ ظاہر پی بری اینک بشنو.آنچہ خداوند پروردگارم ازاین اسرار برمن کشودہ آن است کہ درین زمان کہ ضلالت نصاریٰ ازحد تجاوز کردہ و خلقے کثیر از مکائد آنہا از دین حق انحراف ورزیدہ و
لتطمئن قلوبھم بھذہ البشریٰ و یزیدھم حسن الظن والرجاء.وأما الواقعۃ المبشرۃ التی أراد اللّٰہ ان یریھا مخوفۃ فنظیرھا فی القرآن واقعۃ رؤیا ابراھیم بارک اللّٰہ علیہ وصلی.انہ تعالٰی لما ارادان یتوب علیہ و یزیدہ فی مدارج قربہ و یجعلہ خلیلہ المجتبٰی.أراہ فی الرؤیا بطریق التمثل کأنہ یذبح ولدہ العزیز قربانًا للّٰہ الاعلی.و ما کان تأویلہ الا ذبح الکبش لا ذبح الولد ولکن خشی ابراھیم علیہ السلام ترک الظاھر فقام مسارعا لطاعۃ الأمر و لذبح الولد سعٰی.و ما کانت ھذہ الواقعۃ مبنیۃ علی الظاھر الذی رأی، و لو کان کذالک للزم ان یقدر ابراھیمؑ علی ذبح ابنہ کما رآہ فی الرؤیا ولکن ما قدر علی ذبحہ فثبت ان ھذہ الواقعۃ کان لہ تاویل آخر ما ترجمہ : از لوث شرک و نجاست کفر آنہا روئے زمین نجس و ناپاک گردیدہ.و کذب و زور و مکر و خدع در عالم انتشار تمام یافتہ.و بے باکی و بے راہ روی آنہا ابواب فسق و فجور بر روئے عالم کشودہ.غیرت خدائے غیور از وقوع این فتنہ ہائے بزرگ در فور ان و غلیان آمد و عیسیٰ ؑ را از فتن و کارسازیہائے اُمتش آگاہی بداد.و این اخبار و اعلام از عادات خداوندی بودہ کہ ہرگز دران تحول و تغیرّ راہ نیافتہ است.و چون حضرت مسیح بشنیدکہ امتش ہمۂ اہل ارض را ہلاک و از راہ حق دور ساختہ و درچشم خدائے قادر بغی و عصیان را ارتکاب کردہ.از این معنے حزن و کرب و قلق در دلش جاگرفت مانند کسے کہ برا و واجب است کہ اغاثۂ ستم زدہ ہا و اعانت مظلومان کند.بنا برآن نائبے را از خدا استدعا فرمود
فھم ابراھیم علیہ السلام و کیف یفھم عبد شیءًا ما اراد اللّٰہ تفھیمہ بل اراد ان یسبل علیہ سترا.و انت تعلم أن کذب الرؤیا ممتنع فی وحی الانبیاء.فاعلم ان ذبح الابن فی حلم ابراھیم ما کان الا بسبیل التجوز والاستعارۃ لیخوّفہ اللّٰہ رحمۃ من عندہ و یری الخَلْقَ اخلاصہ و طاعتہ للمولی.و لیبتلی ابراھیم فی صدقہ و وفاۂ و انقیادہ لربہ فما لبث ابراھیم الا ان تلَّ الولد العزیز للجبین لیذبحہ.ربّ فارحم علینا بنبیک و ابراھیم الذی و فّٰی.الذی رای برکاتک و لقی خیرا و فلجا.و یشابہ ھذہ الواقعۃ واقعۃ الدجّال فانھا جعلت مخوفۃ مھیبۃ و شُدِّد فیھا و مُلِئَ الرعب فیھا و أُعلی امرھا الی الانتھاء.وما ھی الا سلسلۃ ملتئمۃ من ھمم دجّالیۃ ترجمہ: کہ متحد و مشابہ بحقیقت و جوہرش و ازپئے اتمام مراداتش برنگ اعضاء و جوارحش باشد.چنانچہ این آرزو عنان توجہش را منعطف بسوئے زمین کرد.و تدبیر حق تعالیٰ اقتضائے آن فرمود کہ او را نائبے بخشد کہ صورت مثالیہ اش در او منقش گردد چنانچہ صورستارہائے آسمان در حوض آب منعکس می شود.پس من آن نائب می باشم کہ غیرت الہٰیّہ مرا از وفور رافت و ترحم بر خلق و از جہت اراحت مر روح حضرت مسیح رادر زمان غلبہ تنصّر فرستادہ.و من از طرف او (تعالیٰ شانہ) آمدم بجہت اینکہ صلیب را کہ تعظیم و تمجیدش می کنند بشکنم و خنزیر را بکشم کہ دیگر تا ابد روئے حیات نہ بیند.و رب عظیم مرا بوقت موعود گزین فرمود.زیرا کہ ہرگز اخلاف وعدہ ازو نمی آید.و او توکید و تشیید این وعدہ
و ما فیھا من الالوھیۃ رائحۃ و لا من صفات اللّٰہ نصیب ان ھی الا سلسلۃ الفتن والمکاید و دعوات الضلالۃ ابتلاءً من اللّٰہ الاغنی.و کیف یمکن ان یحدث شریک الباری و یتصرف فی ملکوت السماوات والارض و تکون معہ جنۃ و نار و جمیع خزائن الارض و یطیع امرہ سحاب السماء و ماء البحر و شمس الفلک و یحیی و یمیت سبحانہ لا شریک لہ تقدس و تعالٰی.کلّا بل ھی استعارۃ لطیفۃ مخبرۃ من وجود قوم یعلون فی الارض و من کل حدب ینسلون.و ھم قوم النصاری الّذین لھم سابقۃ فی التلبیس و عجائب الصنع و عمروا الارض اکثر مما عمرت من قبل و ترون فی اعمالھم الخوارق کانھم یسحرون.اخذ الخلق حیرۃ من إ یجاداتھم ترجمہ: کردہ بود کہ حضرت مسیحؑ در ایام تطاول فتنۂ صلیب و غلبۂ ضلالتہائے عیسویت خواہد آمد.واگر درین گفتارم شک می دارید قول حضرت رسول صادق را (صلی اللہ علیہ وسلم) کہ یکسر الصلیب فرمودہ تدبر بکنید.و از انصاف و نظر دقیق این زمان و آن قوم را مشاہدہ بنمائید کہ فتنہ ہائے بزرگ فوق العادہ در این زمان از آن بظہور آمدہ.باز برائے خدا شہادتے ادا بکنید کہ وقت شکنندہ صلیب رسیدہ است یا غیر؟ قسم بخدا من از طرف پروردگار عالم آمدہ ام و از دل مسیح در دل من دمیدہ اند و مرا ظرف و آوند توجہات و ارادتش گردانیدہ بمثابۂ کہ نفس و نسمۂ من ازآن مملو گردیدہ.و بہ نہجے منسلک در سلک وجودش شدہ ام کہ کالبدرروحش در نفسم عیان و وجودش در من پنہان شد.و از وے
و نو ادر صناعاتھم و أضلوا خلقا کثیرا مما یصنعون و مما یمکرون.احاطت تلبیساتھم علی الارض و نجسوا وجھھا واخلطو الباطل بالحق و یدعون الناس الی الشرک و الاباحۃ والدھریۃ و کذالک یفعلون.و کیف یمکن ان یحدث الدجّال من قوم الیھود وقد ضربت الذلّۃ و المسکنۃ علیھم الی یوم القیامۃ فھم لا یملکون الامر ابدا و لا یغلبون.الا تقرء ون وعد اللّٰہ اعنی قولہ: 33 ۱.الا تتفکرون.الا تتدبّرون فی القرآن کیف وضع کل غیر اللّٰہ تحت أقدامنا و بشرنا بعلو کلمۃ التوحید الی یوم القیامۃ فکیف یزیغ قلوبکم و تؤمنون بما یعارض القرآن و تلحدون.أ یجعل اللّٰہ ترجمہ: برقے در خشید کہ آنرا روح من بو جہ کامل تلقی فرمود و برنگے لصوق و چسپیدگی ام باو حاصل آمد کہ گوئی من او می باشم و از خود غیبوبت ورزیدم و خود مسیح در ذات من ظہور و تجلی فرمود.چنانچہ دیدم کہ قلب و کبد و عروق و اوتار یعنی ہمۂ من ممتلی از وجودش شدہ و این وجودم پارۂ از جوہر وجودش گردیدہ و این فعل پروردگار من تبارک و تعالیٰ است و او در اول امر نزدیک بمن ہمچو دریا بہ کشتی بود پس اقرب و فرا ترک شد بمثابۂ کہ آب در مشک میباشد.و روح او درجسد من بہ نحوے تموج کرد کہ من چیزے غیر مرئی گردیدم.و آنرا مثل قند دیدم کہ از اختلاط بآب امتیاز آن ازیک دگر دشوار میباشد.و بہ حاسۂ روح خودم دریافتم کہ از اتحادش بوجود من در وے ملتّف گردیدم.و حکم شَیء واحد
لذ اتہ شریکا فی آخر الزمان ولو إلی أیام معدودات.ألا ساء ما تحکمون.و اما الواقعۃ المسنونۃ المعلومۃ التی أراد اللّٰہ ان یریہ غریبۃ نادرۃ فنظیرہ* فی القرآن واقعۃ حلم فرعون اذ قال: 3 333 33 ۱.و کذالک رؤیا یوسف علیہ السلام: 3333 ۲.فھذہ النظائر حاکمۃ بیننا و بین قومنا و بیان شاف فیما کانوا فیہ یختلفون.و یشابھھا واقعۃ نزول المسیح ترجمہ: پیدا کردیم کہ بیک نامش یاد فرمایند.وطینت من در طینت بلندش محو و ناپیدشد.این است آنچہ رب ذوالجلال مرا تعلیم کردہ.اکنون اختیار داری ہر رائے کہ میخواہی بزن ولے از خدا بترس و رو بہ خواہش ہائے دنیا میار.و کلام کلّی درین مقام آنست کہ انبیاء علیہم السلام کہ انتقال بہ حظیرہ قدس فرمودہ اند.در ہر وقتے از اوقات بہ سبب تقریب و تحریک باری تعالیٰ بر زمین تدلّی میفرمایند.ہر گاہ زمان تدلّی در رسد خدائے حکیم دیدہ ایشان را بطرف زمین مصروف می سازد.و می بینند کہ زمین از شرک و کفر و فساد ظلم پرشدہ.و چون بریکے از ایشان آشکار شود کہ مبدء و منتہاء آن ہمہ شر و فساد امت وے بودہ است روحش آن زمان از شدت اضطراب از حق تعالیٰ در میخواہد کہ بجہت وعظ و پند آنہا بر زمینش نزول
أخفا ھا اللّٰہ کما أخفی ھذہ الواقعات بالاستعارات فافھموا إن کنتم تفھمون.ما کان من سنن اللّٰہ ان یَکشِط انباء ہ فی کل وقت و زمان بل ربما یبتلی عبادہ فی بعض الأزمنۃ و یکتم انباء ہ و یومی إلی أسرار و ھم لا یشعرون.و أما الواقعۃ التی ھی غریبۃ نادرۃ و أراد اللّٰہ أن یریھا مفھومۃ معلومۃ فنظیرھا فی القرآن ما اخبر اللّٰہ تعالٰی من آلاء الجنۃ و أَنھارھا و ألبانھا و أشجارھا و ثمارھا و لحوم طیر مما یعرفونہ الخلق و یشتھون یخفی ما یشاء و یبدی.و فی کل فعلہ مصالح و حکم و ابتلا ء ات ولکن اکثر الناس لا یعلمون.یعلمون ظواھر الشریعۃ و قشورھا و ھم عن لبوبھا غافلون.إ اذا کُشف علیھم من سرّ فتزدری ترجمہ: بخشد.چنانچہ حق تعالیٰ بجہت او نائبے پیدا می کند کہ در جوہر مشابہ باو باشد.و روح آن نبی را در رنگ تنزیل انعکاسی بر وجود آن نائب نازل میفرماید و آن نائب اسم و علمش را درارث میگیرد و بروفق ارادتش کاربند می شود.ہمین است مراد از نزول ایلیا در صحیفہ ہائے سابقہ.و ہمین است مراد از نزول حضرت عیسیٰ.و ہمین است مقصود از ظہور نبی ما محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) در وجود مہدی از حیثیت خلق و سیرت.و ہر محدّث را از تدلّی انبیاء (علیہم السلام) کمابیش نصیبے می باشد.آنکہ از چرک تعصب صاف و پاک باشد او را درین معنے ترددے پیدا نشود و کتاب و سنت را مبیّن و مثبت این امر دریابد.اے عزیز ان حضرت باری تعالیٰ حضرت عجیب و در افعالش اسرار غریب است کہ فہم ہرگز بد قائق کنہ آن
اعینھم و یظنون ظن السوء و یکفرون.و قالوا کیف تواردت امۃ علی خطأ و کیف نظن انھم اخطأوا کلھم و انتم المصیبون.یا حسرۃ علیھم لم لا یعلمون ان اللّٰہ غالب علی امرہ فاذا اراد ان یخبأ شیئا فلا یفھمہ الفھمون.و یقرء ون سننہ فی القرآن ثم یغفلون.ألا یعلمون أن اللّٰہ قد یخفی امرًا علی المقربین من الأنبیاء فھم باخفاء ہ یبتلون.و ما کان لأمۃ ان تسبق الانبیاء فی فھمھا وما کان اللّٰہ ان یترک قوما بغیر ابتلاء : 33 ۱.ان اللّٰہ یبتلی کل اُمۃ بانبآۂ الغیبیۃ و قد ابتلی الفاروق و امثالہ أ انتم منہم تزیدون.ما لکم لا تخافون ابتلاء اللّٰہ و لا تخشون لعل نبأ نزول المسیح یکون فتنۃ لکم ما لکم لا تتقون.ترجمہ: نرسد.چنانچہ از جملہ دقائق اسرارش تمثّل ملائکہ و جنّ است و از ہمین قبیل حقیقت نزول مسیح است کہ فہم کنہش بر بسیارے از مردمان متعسر شدہ و غیر از غضب و غیظ در فطرت آنہانمی باشد.و آنچہ پردہ از روئے این راز بر دارد کلام خداوندست جلّ اسمہ‘.در قرآن کریم نگاہ بکنید و درین اقوال خداوندی تدبر بفرمائید کہ میفرماید.آہن را نازل کردیم.اے بنی آدم لباس را بجہت شما نازل کردیم.و اَنعام را نازل کردیم.و بر قدر معلوم تنزیل میکنیم.و ہمچنین در آیات دیگر نگاہ بکنید.و برشما پوشیدہ نیست کہ این اشیائے مذکورہ از آسمان نازل نمی شود بلکہ حدوث و تکون آنہا در زمین صورت می بندد.و ہم چنین از امعان نظر در کتاب اللہ برشما واضح شود کہ حقیقت نزول مسیحؑ ہم از این اقسام نزول است.و نمی شود کہ در کتاب اللہ
أ انتم اسلم فھمًا من الذین خلوا من قبل ام لکم براء ۃ من فتن اللّٰہ ما لکم لا تتفکرون.و قد مضت ابتلاء ات قبل ھذا فطوبی لقوم یفتحون الابصار و یعتبرون.و قالوا کیف نؤمن بھذا المسیح و قد بشر لنا أنہ ینزل عند منارۃ دمشق و انہ یقتل الدجال و یحارب الاعداء فھم یھزمون.و کذالک ینتضون حججا مغشوشۃ و لقد ضل فہمھم فہم مخطؤن.ألا یعلمون أن المسیح الموعود یضع الحرب ألا یقرء ون الصحیح للبخاری أو ینسون.و من این نُبُّوا ان المسیح ینزل بدمشق التی ھی قاعدۃ الشام و بأی دلیل یوقنون.أ سار معھم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الی دمشق و اراھم منارۃ و موضع نزول او اراھم صورتھا فی ترجمہ: اختلاف را دخل و در معارفش تناقض را مجال باشد.و قول جامع کہ ہادی براہ صواب و فاصل و حاکم درمیان ما و قوم ما باشد درین باب آیتے جلیلہ از سورہ الطارق است کہ آن راز را دیگر بیاد میدہد کہ اہل ہوا از آن غافل شدہ اند.و آن اینست33 الآیہ ۱.عزیزان بدانید کہ این آیات بحر مواجے از اسرار است کہ فکرے از افکار احاطہ برآن نہ کردہ و پروردگار من مرا بفہم آن اختصاص بخشیدہ.تفصیل این اجمال آنکہ حق تعالی از آن باین معنی اشارہ میفرماید کہ آسمان مجموعہ مؤثرات است و زمین مجموعہ متاثرات.باین معنی کہ از آسمان امر نازل میشود و زمین آنرا تلقی بقبول می کند.در این اشارت است باین ہمہ آنچہ در آسمان می باشند از شمس و قمر و نجوم و
شِقّۃ من قرطاس فھم یعرفونھا و لا ینکرون.او ھی مصر افضل من الحرمین ولھا فضیلۃ علی قری اخری و یسکن فیھا الطیبون.وما یغُرّنّھم ما جاء فی احادیث نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم لفظُ دمشق فان لہ مفھوما عاما و ھو مشتمل علی معان کما یعرفھا العارفون.فمنھا اسم البلدۃ و منھا اسم سید قوم من نسل کنعان و منھا ناقۃ و جمل و منھا رجل سریع العمل بالیدین و منھا معان أخری فما الحق الخاص للمعنی الذی یصرون علیہ و عن غیرہ یعرضون.و کذالک لفظ المنارۃ التی جاء فی الحدیث فانہ یعنی بہ موضع نور و قد یطلق علی علم یھتدی بہ فھذہ اشارۃ إلی أن المسیح الآتی یعرف بأنوار تسبق دعواہ ترجمہ: ملائکہ و ارواح رسولان مقدس و انبیاء و صدّیقان و دیگر مومنان.برعایت مناسبتہا کہ حکمت قدسیّہ اقتضائے آن فرمودہ اثر خود بر زمین القا می کنند.پس آسمان از نزول و رجع باقسام غیر متناہیہ توجہ بزمین می کند و ہمچنان زمین ازآن باقسام بیحد وعدّ انصداع و ایوامی پذیرد.چنانچہ از اقسام نتائج این رجع و صدع آن چیزہاست کہ در طبقات زمین پیدا می شود مثل زر و سیم و آہن و جواہرات نفیسہ و غیرہا.و از این اقسام است زروع و اشجار و نباتات و اثمار و عیون و انہار وغیرہا.و ازین اقسام است شتر و خر و اسپ و ہر دابہ کہ بر زمین رفتار دارد و ہر پرندہ کہ در ہوا می پرد.و از این اقسام است انسان کہ آفرینش او باحسن تقویم شدہ و تاج فضیلت و شرف برہمہ کائنات چہرہ آرائی حال او آمدہ
فھی تکون لہ کعلم بہ یھتدون.و نظیرہ فی القرآن قولہ تعالی وَ3 ۱.فکما أن السراج یعرف بانارتہ کذالک المسیح یعرف بمنارتہ.وما ثبت وجود منارۃٍ فی شرقی دمشق علی عھد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و ما أومأ الیہ اذا لارتاب المبطلون.بل ھی استعارات مسنونات یعرفھا الذین أوتوا العلم وما یجادل فیھا الا الظالمون.افلا یدّبرون سنن اللّٰہ أم جاء ھم مالم یأت من قبل فھم لہ منکرون.و أی سرکان فی تخصیص بلدۃ دمشق و منارتھا فبیّنوا لنا ان کنتم تتبعون أسرار اللّٰہ و لا تلحدون.أ تعجبون من ھذہ الاستعارۃ و لا تعلمون ان الاستعارات حلل کلام الانبیاء فھم فی حلل ینطقون ترجمہ: و از این اقسام است وحی و نبوت و رسالت و عقل و فطانت و شرافت و نجابت و سفاہت و بلاہت و جہل و حمق و رذالت و ترک حیا.و ازین اقسام است نزول ارواح انبیاء و رسل بطور نزول انعکاسی بر ہر کسے کہ در خلق و صدق و صفا مناسبت و مشابہت با جوہر و فطرت و خلقت ایشان دارد.و ازین جا ہویدا شد کہ تاثیرات نجوم ثابت و متحقق است وغیر از شخصے غبی بلید کہ نظر در قرآن نمی کند و نابینا وار آمادہ بر مجادلہ میشود درین معنے شک نمی آرد.و این رجع و صدع در آسمان و زمین از وقتے کہ خدا آنہارا آفرید و گفت طوعًا بیائید یا کرہًا ہر دو در جواب گفتند طوعًا حاضر می شویم و از دل فرمان ترا کمربستہ ایم.
اذکر وا قول ابراھیم علیہ السلام اعنی قولہ ’’غَیِّر عَتَبَۃَ بابک‘‘ ثم انظروا الی اسماعیل علیہ السلام کیف فھم اشارۃ أبیہ أفھم من العتبۃ عتبۃً أو زوجتہ فتفکروا أیھا المسلمون.وانظروا الی الفاروق رضی اللّٰہ عنہ کیف فھم من کسر الباب موتہٗ لا کسر الباب حقیقۃً و ان شئتم فاقرء وا حدیث حذیفۃ فی الصحیح للبخاری لعلکم تھتدون.و قالوا ان المسیح الموعود لا یجیء الا فی وقت خروج الدجال و خروج یاجوج و ماجوج وما نری احدا منھم خارجا فکیف یجوز ان یستقدم المسیح و ھم یستأخرون.اما الجواب فاعلموا أرشدکم اللّٰہ تعالٰی ان ھذان لاسمان لقوم تفرّق شعبھم فی زماننا ھذا آخر الزمان و ھم فی وصف متشارکون.وھم ترجمہ: جاری و ساری بودہ است.چنانچہ آسمان بسوئے زمین بر مثال نربا مادہ میل و رغبت میداشتہ است.و اختیار رب کریم لفظ رجع را برائے آسمان و صدع را برائے زمین مشعر باین معنی است کہ این ہر دو ہمچو ذکور و اناث پیوستہ باہم مجتمع میشدہ و باہم مصالحت کلی میداشتہ اند.چنانچہ تاثیرات آسمان متصلاً نازل شود و ہمچنان زمین درکنار قبولش جا دہد.و این سلسلہ دوریّہ برائے یک چشم زدن انقطاع نیابد.و اگر چنان نبود البتہ نظام عالم را تار و پود از ہم گسیختہ بود.حق تعالیٰ قبل ازین آیت فرمود 3.۱ و بعد ازان گفت 3.۲ در بہم آوردن ذکر این دو رجع ایماء و اشارت بدان میکند کہ در ہنگام بعث
قوم الروس و قوم البراطنۃ و إخوانھم و الدجال فیھم فیج قسیسین و دعاۃ الانجیل الذین یخلطون الباطل بالحق و یدجلون.و اعتدی لھم الھند متکأ و حقت کلمۃ نبیّنا صلی اللّٰہ علیہ وسلم انھم یخرجون من بلاد المشرق فھم من مشرق الھند خارجون.و لو کان الدجال غیر ما قلنا و کذالک کان قوم یأجوج و مأجوج غیر ھذا القوم للزم الاختلاف و التناقض فی کلام نبی اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و ایم اللّٰہ ان کلام نبینا منزہ عن ذالک ولکنکم انتم عن الحق مبعدون.ألا تقرء ون فی أصح الکتب بعد کتاب اللّٰہ أن المسیح یکسر الصلیب ففی ھذا اشارۃ بینۃ الی أن المسیح یأتی فی وقت قوم یعظّمون ترجمہ: بعد الموت حق تعالیٰ بر اعادۂ انسان قدرت دارد بر نہجے کہ ارواح مقدّسین را برنگ اعادۂ انعکاسیہّ از آسمان کہ ذات الرجع است بسوئے زمین کہ ذات الصدع ست باز میفرستد.و این نکتۂ عظیمہ و لطیفہ است محکمش بگیر کہ ہدایت یابی.بدانید اے عزیزان کہ حقیقت نزول مسیح ہمین بودہ ولے حق تعالیٰ استعارات و ماخذش را دقیق و غامض گردانید بجہت اینکہ امر مقدر را قضاء و ایفا کند.مخفی نماند کہ حق تعالیٰ در وقت اخبار غیب از پیرایہ ہائے مختلف کارمیگیرد.گاہے بالفاظے کہ حقائق مقصودہ را تصریح و توضیح کند بیان آن اخبار میفرماید و ہمہ جوانب و اطرافش آشکار و روشن می نماید.ووقتے بجہت اخفائے آن و ابتلائے
الصلیب الا تفھمون.و قد تبین انھم اعداء الحق و فی اھواءھم یعمھون.و قد تبین انھم ملکوا مشارق الارض و مغاربھا و من کل حدب ینسلون.و قد تبیّنت خیاناتھم فی الدین و فتنھم فی الشریعۃ و فی کل ما یصنعون.اترون لدجالکم المفروض فی اذھانکم سعۃَ موطیِء قدم فی الارض ما دام فیھا ھؤلاء.فالعجب من عقلکم من این تنحتون دجالا غیر علماء ھذا القوم و علی ای ارض اِیّاہ تسلّطون.الا تعلمون ان المسیح لا یجیء إلا فی وقت عبدۃ الصلیب فأنّٰی توفکون.ألا ترون ان اللّٰہ تعالی مکّن ھذہ الاقوام فی أکثر الأرض و أرسل السماء علیھم مدرارًا و آتاھم من کل شیء سببا و اعانھم فی کل ما یکسبون.فکیف ترجمہ: مردمان بزبان تجوز و استعارہ سخن می گوید.و عادتش برہمین منوال جاری است کہ در واقعاتے کہ اخفاء و کتمانش مقصود باشد اخفاء و کتم اختیار میکند و ہوائے می انگیزد کہ آرائے مردم را باطراف دیگر میل و جنبش بدہد.و در بعضے اوقات چون میخواہد صورت نفس واقعہ را پوشیدہ دارد گاہے باین طور رفتار میکند کہ درآن مواضع واقعہ کبیرہ را صغیرہ و مہوّنہ وا می نماید.و واقعۂ صغیرہ مسنونہ را کبیرہ و نادرہ و واقعہ مبشرہ را مخوّفہ و مخوّفہ را مبشرہ.این چہار گو نہ واقعات از عادت خداوندی بودہ است کہ بہمین نسق جاری بودہ و خواہد ماند.اکنون واقعہ کبیرہ عظیمہ کہ خدا تعالیٰ صغیرہ اش خواست و انماید نظیرش در قرآن کریم واقعہء بدرست.باین معنے کہ خدا تعالیٰ دشمنان اسلام را بہنگام بدر در منام
یمکن معھم غیرھم الذی تظنون انہ یملک الأرض کلھا یا عجبا لفھمکم أ أنتم مستیقظون أم نائمون.أنسیتم انکم قد اقررتم ان المسیح یاتی لکسر الصلیب فاذا کان الدجال محیطًا علی الارض کلھا فانی یکون من الصلیب و ملوکہ أثر معہ ألا تعقلون.ألا تعلمون ان ھذان نقیضان فکیف یجتمعان فی وقت واحد ایھا الغافلون.و ان زعمتم ان الدجال یکون قاھرا فوق ارض اللّٰہ کلھا غیر الحرمین فأی مکان یبقی لغلبۃ الصلیب و اھل الصلیب أ أنتم تثبتونہ أو تشھدون.ما لکم لا تفھمون التناقض و أفضی بعض أقوالکم الی بعض یخالفھا و دجلتم فی اقوال رسول اللّٰہ (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) ثم أنتم علی صدقکم تحلفون.و تُضِلّون الذین ضعفوا ترجمہ: رسول خود (علیہ الصلوٰۃ و السلام) قلیل و انمود بجہت اینکہ ترس و بیم از دل مسلمانان دور و قضائے ارادہ خودکند.و امّا واقعہ کہ خدا تعالیٰ خواست کبیرۂ نادرہ اش وانماید نظیرش در قرآن بشارت مدد ملائکہ است در حرب بدر تا مومنین را خنکئ دیدہ میسر آید و خوف دردل ایشان جانگیرد.تفصیلش اینکہ حق تعالیٰ مومنین را وعدہ و بشارت بداد کہ امداد ایشان بواسطۂ پنج ہزار فرشتگان خواہد نمود.و این عدد کثیر بجہت ایشان از غرض بشارت بود.زیرا کہ یک تنے از فرشتگان بر زیر و زبر کردن ہمۂ زمین قدرت دارد.بنابران حاجت بہ پنجاہ بلکہ بہ پنج ہم نبود.لیکن حق تعالیٰ خواست کہ ایشان را نصرت عظیمہ بگماند.لاجرم لفظے را اختیار کرد کہ از ظاہرش کثرت مددگاران مفہوم شود.ولے بحقیقت معنی اش بود آنچہ
قلبًا و لُبًّا و عقلا و تزیّنون باطلکم فی أعینھم و تزیدون علی أقوال اللّٰہ و رسولہ و تنقصون.لن تستطیعوا ان ترفعوا ھذہ الاختلافات او توفّقوا و تطبقوا و لو حرصتم ولو کان بعضکم لبعض ظھیرا فلا تمیلوا کل المیل الی الباطل و أنتم تعلمون.و ان تقبلوا الحق و تتقوا فان اللّٰہ یتوب علیکم و یغفرلکم ما قد سلف فلیتدبر اھل الحدیث فی ھذا و من لم یھتد بعد ما ھدی فأولئک ھم الفاسقون.أیھا الناس قد جاء ت علامات آخر الزمان فلم فی مجیء المسیح تشکّون.تعالوا أتل علیکم بعضھا لعلکم ترشدون.فمنھا أن نار الفتن و الضلالات قد حشرت الناس من المشرق الی المغرب و فی ذالک ذکری لقوم یتقون.و أتی الابلیس من بین ایدی الناس و من خلفھم و عن ترجمہ: بود چنانچہ بعد از فتح بدر مومنان را آگاہ فرمود کہ این بشارت محمول بر ظاہر الفاظ نبود بلکہ مؤوّل بتاویلے بود کہ در علم خدا مکنون بودہ.و این ہمہ بجہت آن بود کہ دل ایشان از این بشارت مطمئن و حسن ظن و امید ایشان بمولائے کریم زیادہ بشود.امّاواقعۂ مبشّرہ کہ حق تعالیٰ خواست آنرا مخوّفہ وانماید نظیرش درقرآن حمید واقعۂ رؤیائے ابراہیم است (علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام) کہ حق تعالیٰ چون خواست کہ اورا ازفضل بنواز و در مدارج قربش زیادت فرماید و او را بشرف خلّت مشرّف سازد او را در خواب بطریق تمثل چنان وا نمود کہ او بجہت تقرب بخداپسر عزیز خود را ذبح می کند.و تاویلش جز ذبح گو سپند نبود.لیکن حضرت
شما ئلھم وأُبسِلوا بما کسبوا وما عصم من فتنۃ اللّٰہ الا من رحم و حال بینھم و بین ایمانھم موج الضلالات فھم مغرقون.وَ کثیر منھم ازدادوا کفرا و عداوۃ بعد ما ارتدوا و اعتدوا فیما یفترون.و جاھدوا حق جھادھم ان یطفؤا نورالاسلام فما اسطاعوا ان یضروہ وما استطاعوا ان یظھروہ.ولمسوا کتاب اللّٰہ فوجدوہ ملئت حججا بینۃ و نورا فرجعوا و ھم خائبون.و انہ لکبیر فی اعین الذین یجادلون ظلمًا و علوًّا ولکن الظالمین لا یخافون اللّٰہ ولا یترکون دنیاھم ولا یتقون.و ذھب اللّٰہ بنور قلوبھم و بصارۃ اعینھم بما فسقوا و ترکھم فی ظلماتٍ فھم لا یبصرون.قلوبھم غلف و اعینھم کالمرایا التی ما بقی صفاء فیھا ولا یعلمون الا الأکل والشرب ترجمہ: خلیل اللہ (علیہ السلام) از خوف ترک ظاہر مسارعت بہ اطاعت امر حق تعالیٰ و ذبح پسر فرمود.و این واقعہ چنان کہ دید مبنی برظاہرش نبود.زیرا کہ اگر چنین بودے البتہ جناب ابراہیم قادر بر ذبح پسر می شد ولے نہ شد.ظاہرشد کہ تاویل این واقعہ بخلاف آن بود کہ حضرت خلیل فہمید.حقیقت آن است کہ بندہ چگو نہ فہمد چیزے را کہ خداوند تعالیٰ اخفائے آن خواہد.و معلوم است کہ کذب رویا در وحی انبیاء ممتنع است.ازین جا ثابت شد کہ ذبح پسر در خواب حضرت ابراہیم بر سبیل استعارہ و تجوز بود بجہت اینکہ از وفور رحمت و کرم بقدر ذائقہ خوفش بچشاند و خلق را اخلاص و طاعت او بمولائے خود بنماید.و ہم بجہت اینکہ او را در صدق و انقیاد و وفا بیازماید.چنانچہ حضرت خلیل ؑ بے درنگ پسر را
و تر کوا اللّٰہ الوحید و ھم علی اندادھم عاکفون.کثرت فتنتھم و زادت علی المسلمین محنھم و کل یوم فی ترعرع شجرتھم و فی تموج ریعھم و زیادتھم و تراء وا من کل صَقْعۃ و فی دنیاھم یزیدون.و تری الاسلام کقُفّۃٍ ما لھا من ثمرۃ و أقفّت دجاجتہ و ما بقی من بیضۃ فلیبک الباکون.ضاعت الأمانۃ و موضعھا و مُحِیَ اثر الدیانۃ و رفع شرجعھا و وء د العلم و خلا العالمون.و بقی العلماء کتنانین لا یعلمون الدیانۃ و لا الدین و الی الاھواء یأفدون.والذین سموا انفسھم مسلمین اکثرھم امام ربھم یفسقون.و یشربون الخمر و یزنون و یظلمون الناس و فی الشھادات یکذبون و ارتدعوا عن الطاعات و لا یرفعون یدا الی الصدقات و الی المنکرات ھم باسطون ترجمہ: بر روئے بخوا بانید تا ذبحش کند.اے رب من برمن بطفیل نبی ء ؐخود و طفیل ابراہیم ؑ با وفا رحم بکن کہ او برکات ترا معائنہ کرد و بخیر و خوبی فائز شد.و در رنگ این واقعہ واقعۂ دجّال است کہ آنرا مخوّف و مہیب و ُ پر از رعب نمودہ و امرش بانتہا رسانیدہ اند و مراد و مقصود از آن غیر از سلسلہ کہ ملتئم از ہمت ہائے دجّالیہ باشد نبودہ.و بوئے از الوہیت و صفات الٰہی در آن نیست.بلکہ درحقیقت آن سلسلہ فتن و مکاید و دعوتہائے ضلالت بطور ابتلاء از پیش خداوند عزا اسمہ میباشد.و حاشا و کلّا کہ یک شریک باری جلّ اسمہ حادث شود و بر ملکوت آسمان و زمین تصرف کند و بہشت و دوزخ و ہمہ خزائن زمین با و باشد و ابر آسمان و آب دریا و آفتاب فلک ہمہ مطیع فرمان او گردند و زندہ کند و میراند.سبحانہ
و ھذ ہ الآفات کلھا نزلت علیھم بعد ما نزلت علوم المغرب فی قلوبھم وحریۃ التنصّر فی بلادھم فھم الیھم یُحْشَرون.و ھذا ھو النبأ الذی قد بیّنہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و أنتم تقرء ونہ فی صحیح البخاری او تسمعون.فانظروا الی فتن العلوم المغربیّۃ کیف تحشر الاحداث الی المغرب وانظروا کیف صدق اللّٰہ نبأ رسولہ ایھا المومنون.واعلموا أن المراد من النار نار الفتن التی جاء ت من المغرب و أحرقت أثواب التقوی فتارۃ توعدت السفھاء من لھبھا و أخری زینت فی اعینھم نورھا و راودتھم عن انفسہم فہم بھا مفتونون.فلا تفھموا من ھذہ الأنباء مدلولھا الظاھر ولا تعرضوا عما تشاھدون.واعلموا ان لکلمات رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ترجمہ: لا شریک لہ تقدس و تعالیٰ! حقیقت این است کہ این ہمہ استعارات لطیفہ است کہ خبر از وجود قومے میدہد کہ در دنیا اقتدار و بلندی یا بند و از ہر کرانۂ زمین بتازند و در تصرف در آرند.و آن قوم نصاریٰ است کہ در تلبیس و عجائب صنعت ہا پیش دستیہا نمودند و زمین را بیش از بیش آبادان کردند.و اعمال و مکرہائے ایشان خوارق عادت و سحرکاری ہا وامی نماید.و خلق از ایجادات و نوادر آنہا در حیرت فروماند و آخر بسیارے از ابلہان اسیر پنجۂ مکر و زور آنہا شدند.تلبیسات آنہا ہمۂ زمین را فروگرفت و نجاست و ناپاکی از آن بر روئے زمین شیوع یافت.و باطل را باحق آمیختہ اند و مردم را بشرک و اباحت و دہریت میخوانند.چگو نہ ممکن باشد کہ دجّال از قوم یہود پیدا شود زیرا کہ طوق مسکنت و ذلت تا قیامت زیب
شأ نا ارفع و أعلی و لا یفھمھا الا الذی رزقہ اللّٰہ رزقًا حسنا من المعارف و أعطاہ قلبًا یفھم و عینًا تبصر و أذنًا تسمع فھو علی بصیرۃ من ربہ و لا یلقاھا الا الذین ما بقی لھم عین و لا أثر وھم یفنون فی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بحیث یصیر وجودھم منخلعا عن احکامہ و باحکام وجود النبی ینصبغون.فاولئک الذین یملأ صدورھم من علم النبی و یؤتون حظًّا من انوارہ و من عینہ یشربون.و یعطٰی لھم نصیب من صرافۃ العصمۃ والحکمۃ و یسقون من کأس مزاجھا من تسنیم و یزکون بجلال اللّٰہ و سلطانہ و بحفظھم* یحفظون.ثم یرثھم السعید الذی یستمع کلامھم بحسن الظن و القبول و یتبعھم و یلزمھم و یؤثر نفسھم لکسر سورۃ ترجمہ: گلوئے آنہا شدہ و آنہا ابدا بادشاہ و غالب نخواہند شد.آن وعدۂ خداوندی را نخواندہ اید.و جاعل الذین اتبعوک الآیۃ در قرآن کریم تدبر بکنید کہ چہ طور ہمۂ غیر اللہ را در زیر پائے مادر آوردہ و تا بقیامت بشارت علوّ کلمۂ توحید دادہ است.حیرانم کہ چرا دل شما معارض و مخالف قرآن را دوست و الحاد را روا میدارد.رواست کہ خدا تعالیٰ در آخر زمان شریکے بجہت خود قایم بسازد؟ اگرچہ برائے روزے چند باشد.رائے بدمے زنید.امّا واقعۂ مسنونہ معلومہ کہ حق تعالیٰ خواست غریبہ و نادرہ اش وا نماید نظیرش در قرآن واقعۂ خواب فرعون است ہر گاہ گفت من ہفت گاؤ فربہی را می بینم الخ و ہم چنین خواب جناب یوسف علیہ السلام ہر گاہ پدر خود را گفت اے بابائے من *سہو کتابت ہے.درست ’’ و بحفظہ‘‘ ہے.ناشر
نفسہ و یغیب فیھم بمحبتہ فیخرج کالدر المکنون.والحمد للّٰہ الذی جعلنی منھم فلیمتحن الممتحنون.لقد جئتھم بالحکمۃ والبصیرۃ من ربی ولأبیّن لھم بعض الذی کانوا فیہ یختلفون.و فرقوا الاسلام وجعلوا أھلہ شیعا و بعضھم علی بعض یصولون و یکفرون.فالآن ننادیھم فی عراء فھل منھم مبارزون.و قد دعونا ھم الی المقاومۃ فھم عنھا معرضون.أم أبرموا امرا فانا مبرمون.ام یحسبون أن اللّٰہ لا یمیز بین الخبیث و الطیّب ما لھم کیف یتکفرون و انّی أفوض أمری الی اللّٰہ وأصفح عنھم فسوف یعلمون.و من علامات آخر الزمان التی اخبر اللّٰہ تعالی منھا فی القرآن واقعات نادرۃ تشاھدونھا فی ھذا الزمان و تجدون.ترجمہ: می بینم یازدہ ستارہ ہا را الخ.این نظیر ہا درمیان ما و قوم ما حاکم و بجہت رفع اختلاف بیان شافی می باشد.و ہم چنین واقعۂ نزول حضرت مسیح علیہ السلام است کہ حق تعالیٰ آن را مانند واقعات مزبورہ در زیر چادر استعارات پنہان داشت.اگر فہم دارید بفہمید.ہرگز از عادات الہٰیّہ نبودہ کہ خبر ہائے خود را در ہر وقت و ہر زمان پردہ از روئے کار بردارد.بلکہ احیانًا می خواہد بندگان را بیاز ماید لاجرم اخفائے انباء و ایما باسرار میکند و آنہا آگاہ نمی شوند.امّا واقعۂ غریبہ نادرہ کہ حق تعالیٰ خواست بہ ہیئت مفہومہ و معلومہ اش وانماید نظیرش در قرآن اخبار از نعمائے جنت است از انہا رو جوئے شیر و درختان
و قد بیّن لنا علاماتہ و قال:3 ۱.3 ۲.3۳.3۴.3 ۵.3الآیۃ ۶ 3۷.3۸.3 ۹.3۱۰.و فی کل ذالک انباء آخر الزمان لقوم یتفکرون.أما تسییر الجبال فقد رأیتم باعینکم ان الجبال کیف سیرت و أز یلت من مواضعھا و خیامھا ھُدِّمَت.وقنونھا لاقت الوھاد و صفوفھا تقوضت.تمشون علٰی مناکبھا و تأفدون.و أما تفجیرا لبحار فقد رأیتم ان اللّٰہ بعث قوما فجّروا البحار و أجروا الأنھار و ھم علٰی تفجیرھا مداومون.و أحاطوا علی دقائق علم تفجیر الانھار و أفاضوھا علی کل و اد غیر ذی ترجمہ : و ثمرہ ہا و گوشت پرندہ ہا از قبیل آنچہ خلق آنہا را می فہمد و می خواہد.اظہار و اخفاکند ہرچہ را خواہد.در فعل وے مصالح و حکم و ابتلاہا پنہان می باشد.ولے اکثرے پے بآن نمی برند.نظر بر ظاہر شریعت و پوست آن می گمارند و از حقائقش خبر ندارند.و ہرگاہ کشف سرے بر ایشان کردہ شود بدیدۂ احتقار و ظن بدمی بینند و تکفیر می کنند.و می گویند چہ طور شد کہ ہمۂ امت بر خطا توارد کرد و چگو نہ گمان بریم کہ آن سواد کثیر بر خطا است و شما بر صواب می باشید.دریغا نمی دانند کہ حق تعالیٰ بر امر خود غالب است ہرگاہ اخفائے چیزے را خواہد ہیچکس آنرا نتواند بفہمد.و عادت وے را در قرآن میخوانند و باز غفلت میورزند.نمی دانند کہ بسامی افتد کہ حق تعالیٰ امرے را بر انبیائے مقربین محجوب می کند و غرض از آن اخفاء ابتلاء می باشد.
زرع لیعمروا الارض و یدفعوا بلایا القحط من اھلہا و کذالک یعملون لینتفعوا من الأرض حق الانتفاع فھم منتفعون.و أما تعطیل العشار فھو إشارۃ الی و ابور البر الذی عطّل العِشار و القِلاص فلا یُسعٰی علیھا والخلق علی الوابور یرکبون.و یحملون علیہ أوزارھم و أثقالھم و کطیِّ الارض من مُلک الی ملک یصلون.ذالک من فضل اللّٰہ علینا و علی الناس ولکن اکثر الناس لا یشکرون.جعل اللّٰہ علی قلوبھم أکنۃ أن یفقھوا اسرارہ و فی آذانھم وقرا فھم لا یسمعون.و اذا وجدوا صنعۃ من صنائع الناس ولو من ایدی الکفرۃ یأخذونھا لینتفعوا بھا و اذا رأوا صنعۃ رحمۃ من اللّٰہ فیردّون.و اما تزویج النفوس فھو علی أنحاء.منھ ترجمہ: نظر برآن چگو نہ راست آید کہ امت سبقت بر انبیاء تواند ببرد و نمی شود کہ حق تعالیٰ کسے را بے افتتان مومن محسوب کند بالیقین حق تعالیٰ امت را از اخبار غیبیہ در کورۂ امتحان می افگند چنانچہ حضرت فاروق (رضی اللہ عنہ) و امثال وے را برین محک زد شما فائق بر آنہا نمی باشید.و بسیارے ازین قسم ابتلاہا بو قوع آمدہ فرخندہ قومے کہ چشم اعتبارمی کشایند.گویند چگو نہ بر این مسیحؑ ایمان آریم و حال اینکہ ما را بشارت دادہ اند کہ او در نزد منارۂ دمشق نزول آوردو دجّال را بکشدو با دشمنان بجنگدو جمعیت آنہا را بشکندو ازین قبیل حجت ہائے بیہودہ می انگیزند.و از کج فہمی و خطا کاری قدم براہ صواب نمی زنند نخواندہ اند کہ مسیح موعود کارزار و پیکار را وضع و رفع کند؟ صحیح بخاری نخواندہ اند یا بر آنچہ خواندہ اند خط نسیان می کشند؟ از
اشار ۃ الی التلغراف الذی یمد الناس فی کل ساعۃ العسرۃ و یأتی بأخبار أعزّۃ کانوا بأقصی الارض فینبئ عن حالاتھم قبل ان یقوم المستفسر من مقامہ و یدیر بین المشرقی و المغربی سؤالا و جوابا کأنھم ملاقون.و یخبر المضطرین باسرع ساعۃ من احوال اشخاص ھم فی امرھم مشفقون.فلا شک انہ یزوج نفسَین من مکانَین بعیدَین فیکلم بعضھم بالبعض کأنہ لا حجاب بینھم وکانھم متقاربون.و منھا إشارۃ الی أمن طرق البحر و البرّ و رفع الحرج فیسیر الناس من بلاد الی بلاد و لا یخافون.و لا شک ان فی ھذا الزمان زادت تعلقات البلاد بالبلاد و تعارف الناس بالناس فھم فی کل یوم یزوجون.و زوج اللّٰہ التجار بالتجار ترجمہ: کجا این خبر باو شان رسید و بکدام دلیل یقین بآن آوردہ اند کہ مسیح بدمشق کہ قاعدۂ شام است نزول فرماید؟ خود حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمراہ آنہا بدمشق رفت و منارہ و موضع نزول را بانہا نشان داد یا صورت آنرا در پارۂ قرطاس بہ نظر آنہا وانمود؟ کہ آنہا خوبش می شناسند و شبہتے دران نمی دارند.یا آن بلدہ بر حرمین و دیگر قریہ ہا فضیلتے دارد و ساکنانش ہمہ پاک و برگزیدہ می باشند.ولفظ دمشق کہ در احادیث وارد شدہ با ید مغرور بآن نشوند زیرا کہ آن مفہوم عام و اشتمال بر معانی ہا دارد کہ از نظر عارفان پوشیدہ نیست چنانچہ از جملہ آن اسم بلدہ است و نام سردار قومے از نسل کنعان و ناقہ و جمل و مرد چابک دست و ہم چنین معانی دیگر.اما آن
و أ ھل الثغور باھل الثغور و أھل الحرفۃ بأھل الحرفۃ فہم فی جلب النفع و دفع الضرر متشارکون.و فی کل نعمۃ و سرور و لباس و طعام و حبور متعاونون.و یجلب کل شیء من خطۃ الی خطۃ فانظر کیف زوّج الناس کأنھم فی قاربٍ واحدٍ جالسون.و من اسباب ھذا التزویج سیر الناس فی وابور البروالبحر فھم فی تلک الأسفار یتعارفون.و من اسبابہ مکتوبات قد احسنت طرق ارسالھا فتری انھا ترسل الی اقاصی الأرض و ارجاءھا و ان امعنت النظر فتعجبک کثرۃ ارسالھا و لن تجد نظیرھا فی اول الزمان و کذالک تعجبک کثرۃ المسافرین و التجارین فتلک وسائل تزویج الناس و تعارفھم ما کان منھا اثر من قبل و انی انشدتکم اللّٰہ أرأیتم ترجمہ: معنے کہ بر آن اصرار و از غیران اعراض می کنند چہ خصوصیت و حق خاصے دارد؟ ہم چنیں لفظ منارہ کہ در حدیث آمدہ مراد از آن موضع نور است.و گاہے اطلاق آن برنشانے می شود کہ بدان راہ یابند.و این اشارہ بدان ست کہ مسیح موعود بانورہا شناختہ شود کہ دعویش را برنگ مقدمہ و علَم باشد کہ خلق ازان باو راہ یابند.و نظیرش در قرآن ست 3 ۱.یعنی چنانچہ سراج بانارت خویش شناختہ شود ہم چنین آن مسیح بمنارت خویش معروف شود.وگرنہ وجود ہیچگونہ منارہ در عہد جناب نبوت مآب (صلی اللہ علیہ وسلم) بہ ثبوت نمی رسد و نہ ایمائے بدان رفتہ کہ مبطلین را مجال ریب و تردد بدست آید.لاریب این استعارات مسنونہ است کہ عارفانش
مثلھا قبل ھذا أو کنتم فی کتب تقرء ون.و أما نشر الصحف فھو اشارۃ الی وسائلھا التی ھی المطابع کما تری ان اللّٰہ بعث قومًا اوجدوا آلات الطبع فکأین من مطبع یوجد فی الھند وغیرہ من البلاد ذالک فعل اللّٰہ لینصرنا فی امرنا و لیشیع دیننا و کتبنا و یبلغ معارفنا الی کل قوم لعلھم یستمعون الیہ ولعلھم یرشدون.و اما زلزلۃ الارض والقاء ھا ما فیھا فہی إشارۃ إلی انقلاب عظیم ترونہ باعینکم وایماء الی ظھور علوم الارض و بدائعھا و صنائعھا و بدعاتھا وسیّءَاتھا و مکایدھا و خدعاتھا و کل مایصنعون.و أما انتثار الکواکب فھو إشارۃ الی فتن العلماء و ذھاب المتقین منھم کما انکم ترجمہ: میدانند و ظالمان درآن مجادلت می کنند.چرا سنت ہائے خداوندی را بہ نگاہ تدّ بر نمی بینند؟ این سانحۂ تازہ نیست کہ بہ نظر آنہا حادث شدہ و پیش ازان نظیرش نہ گزشتہ باشد کہ مبادرت بانکار می کنند.و کدام سرّ در تخصیص بلدۂ دمشق و منارہ اش می باشد بیان بکنید اگر اتباع اسرار الٰہی می کنید و جادۂ الحاد را نمی سپرید.چرا ازین استعارہ در شگفت ماندہ اید؟ نمی دانید کہ انبیاء علیہم السلام استعارات راحلۂ کلام خود قرار دادہ اند و اوشان در پس این پردہ ہا گفتار میکنند.چنانچہ یاد بکنید قول حضرت خلیل ؑ را ’’آستان درت را تغییر بکن‘‘ و نگاہ بیاندا زید کہ حضرت اسماعیل چہ طور اشارت پدر را فہم کرد.یعنے از لفظ آستان آستان بفہمید یا زوجہ مراد گرفت؟ باید اے مسلمانان اندیشہ
ترو ن ان آثار العلم قد امتحت و عفت و الذین کانوا اوتوا العلم فبعضہم ماتوا و بعضہم عموا وصموا ثم تاب اللّٰہ علیھم ثم عموا و صموا و کثیر منھم فاسقون واللّٰہ بصیر بما یعملون.و اما حشر الوحوش فھو اشارۃ الی کثرۃ الجاھلین الفاسقین و ذھاب الدیانۃ والتقوی فترون باعینکم کیف نزح بیر الصلاح و أصبح ماء ہ غورًا و اکثر الخلق یسعون الی الشر و فی امور الدین یدھنون.اذا رأوا شرًّا فیأخذونہ و اذا رأوا خیرًا فھم علی اعقابھم ینقلبون.ینظرون الی صنائع الکفرۃ بنظر الحب و عن صنع اللّٰہ یعرضون.ایھا الناس انظروا الی آلاء اللّٰہ.کیف جدّد زمنکم و أبدع ھیءۃ دھرکم و أ ترع فیہ عجائب ما رأ تھا أعین ترجمہ: بفرمائید.و حضرت فاروق را (رضی اللہ عنہ) بیاد آرید کہ چگونہ ’’از کسر باب‘‘ موت خودش فہمید نہ حقیقۃً شکستن در.و اگر خواہید درین باب حدیث حذیفہؓ از صحیح بخاری مطالعہ بکنید تا پے بہ حقیقت ببرید.وگویند مسیح موعود در وقت خروج دجال و یاجوج و ماجوج باید بیاید و ہیچ یک را از آنہا نمی بینیم کہ خارج شدہ است چگو نہ روا باشد کہ قبل از وجود و خروج انہا مسیحؑ ظہور فرماید.در جواب می گویم کہ این دو نام نام قومے است کہ شعبہ ہائے آنہا درین زمان ما کہ آخر زمان است ہر طرف متفرق و بکثرت ولے در صفات متشارک می باشند.و آن قوم روس و قوم براطنہ و اخوان آنہا ہستند و دجال در آنہا گروہ قسیسان و واعظان انجیل است کہ از دجل و تلبیس باطل را بحق می آمیزند.و جولان گاہ
آبا ء کم و لا أجدادکم و انتم بھا تترفون.و علّم اھل أروبا صنعۃ وابور البرّ إھداءً لکم و لعشیرتکم لعلکم تشکرون.أنظروا الیھا کیف تجری بأمرہ فی البراری و العمران ترکبونھا لیلا و نھارا و تذھبون بغیر تعب الی ما تشاء ون.و کذالک فھّم اھل المغرب صنائع دون ذالک من آلات الحرث و الحرب والعمارات والطحن واللبوس و أنواع أدوات جر الثقیل وما یتعلق بتزیینات المدن والمنازل و تسھیل مھماتھا فانتم ترغبون فیھا و تستعملون.و تجدون فی کل شھر و سنۃ من ایجادات غریبۃ نادرۃ لم تر عینکم مثلھا، فمنھا ما یمدکم فی عیشتکم وتنجیکم من شق الانفس کصنادیق طاقۃ الکبریت التی بھا توقدون ترجمہ: و تختہ مشق مکائد آنہا ہند را قرار دادہ اند.راست آمد آنچہ حضرت نبی ما (علیہ الصلوٰۃ والسلام) فرمودہ بود کہ آنہا از بلاد مشرقیّہ سر برآرند چنانچہ بروفق این حدیث آنہا از مشرق ہند خروج کردہ اند.و اگر دجال و ہم چنین قوم یاجوج و ماجوج غیر آن باشند کہ ماگفتہ ایم در کلام نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تناقض و اختلاف راہ یا بد.و قسم بخدا کہ کلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم ما از آن منزہ است ولے شماہا از حق دور افتادہ اید.آنچہ در بخاریؓ آمدہ کہ مسیح صلیب رابشکند اشارۂ بیّنہ بدان است کہ مسیح در وقت قومے ظہورکند کہ پرستار و بزرگ دارندۂ صلیب باشند.وپر ظاہرست کہ اینہا اعدائے حق و سرشار ازمئے ہو او کبر ہستند و ظاہر است کہ اینہا قبض و تصرف بر مشارق و مغارب یافتہ و ہر چہار سوئے عالم را فراگرفتہ اند
و کز یت الغاز الذی منہ مصابیحکم تنیرون.و منھا صنائع ھی زینۃ بیوتکم فتأخذونھا و انتم مستبشرون.فانظروا و تفکروا ان اللّٰہ ربکم الرب الکریم الذی اعطاکم من کل نوادر الارض و أَملْاَءَ بیوتکم منھا وکیف تعجبون من نزول نوادر السماء و تستبعدون.و تسرون باشیاء دنیاکم التی ھی ایام معدودات و لا تنظرون الی زاد عقباکم و لا تبالون.وکیف تعجبون من نزول المسیح و ایام الفضل الروحانی و انتم ترون عجائب فضل اللّٰہ قد تجلت لاراحۃ اجسامکم بصور جدیدۃ و حلل نادرۃ ما تجدون مثلھا فی ایّام آباء کم افتؤمنون بعجائب الکفار و بفعل اللّٰہ تکفرون.و تیئسون من قدرۃ اللّٰہ و من قدرۃ الخلق ترجمہ: و نیز نیکو آشکار شد آن خیانت ہا کہ در دین و شریعت و در ہرکار بعمل آوردہ اندومی آرند.اند کے نگاہ بکنید بجہت آن دجال کہ موہوم و مفروض شماست کے مجال ظہور و موضع میسّر آید تا اینہا زمین را متملک ہستند.از عقل شما عجب دارم کہ علماء این قوم را گزاشتہ از کجا دجّالے دیگر می تراشید و برکدام خاکش مسلّط می کنید؟ نخواندہ اید کہ مسیح در وقت عابدان صلیب ظاہر شود؟ کجا سراسیمہ وار میگردید؟ نمی بینید کہ حق تعالیٰ این اقوام را بسیارے از زمین در تملیک و قبضہ بداد و چرخ را حسب کام آنہا بگردش در آورد و از ہرشے بجہت آنہا سببے برانگیخت و در ہمہ کار ہا اعانت و امداد آنہا کرد چگونہ امکان دارد کہ باوجود آنہا شخصے دیگر پیدا شود کہ بر حسب زعم شما زمین را مسخر خود سازد
لا تیئسون.ما لکم لا تعرفون افعال اللّٰہ النادرۃ ببعض افعالہ التی تعرفونھا و تشاھدون.اکنتم مطلعین من قبل علی ھذہ النوادر التی ظھرت فی زمانکم من وابور البروالتلغراف و صنائع اخری و کانت ھی کلھا مکتوبۃ فی القرآن و لکنکم کنتم لا تفھمون.و کذالک ما فھمتم سر نزول المسیح من غرارتکم و قد کان مکتوبا فی کتاب اللّٰہ و ما کان لبشر ان یفھم شیءًا قبل تفھیم اللّٰہ ولو کان النبیون.والعجب کل العجب منکم انکم لا تظھرون کراھۃ فی قبول صناعات جدیدۃ مفیدۃ لاجسامکم و لکن اذا دعوتکم الی صنع اللّٰہ الذی اتقن کل شیء و رأیتموہ فی اعینکم غریبا نادرا فأظھرتم کراھۃ و سخطۃ و أبیتم و انتم تعلمون.أیھا الناس ترجمہ: در حیرتم کہ بیدار ہستید یا در خواب ژاژ میخائید ! مگر این اقرار فراموش ساختید کہ مسیح بجہت شکستن صلیب ظہور کند؟ اگر دجال را برہمۂ زمین احاطہ و تصرف حاصل آید باُو صلیب و ملوک صلیب راکجا نشانے و اثرے بود؟ برخے از دانش و خردکار بگیرید.ژرف نگاہ بکنید کہ این دو نقیض چگو نہ در یک پلّۂ اجتماع درست آید.یعنے اگر دجال برتمام روئے زمین غیر از حرمین غالب و قاہر شد.بجہت غلبۂ صلیب کدام جا و مکان باقی ماند؟ می توانید این را اثبات بکنید؟ چرا این تناقض بفہم شما نمی آید.و خود اقوال شما بایک دیگر تخالف دارد.در اقوال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) تلبیس و دجل را روا داشتید و باین ہمہ بر راستی خود سوگند میخورید.و آنہا را کہ دل و دانش و خرد کمتر دارند از راہ می برید.و باطل را
ما جئت بأمر منکر و قد شھد اللّٰہ علی صدقی و رأیتم بعض آیاتی و وجدتم ذکر زمنی فی کتاب اللّٰہ الذی بہ تؤمنون.واللّٰہ نکّر الأمر فی اعینکم لیبتلی علمکم و تقواکم فاغترّت فتنتہ وانتم غافلون.ایھا الاخوان خذوا کتاب اللّٰہ بأیدیکم ثم تدبروا فیہ ھل جاء وقت آخر الزمان او فی مجیۂ حقب وقرون.انکم تعلمون ان المسیح یاتی فی آخر الزمان و قد رأیتم باعینکم علاماتہ و شاھدتم النوادر الأرضیۃ الّتی جعلھا القرآن الکریم من آثار الزمن المتأخر و انتم منھا تنتفعون.فما لکم لا تؤمنون بالنوادر السماویۃ التی تدل علیھا الآیۃ الکریمۃ اعنی بذالک قولہ تعالی ’’3‘‘ ۱ و تخلدون الی الارض ومن آلاء السماء تبعدون.وقد بشر الرب الکریم فی ھذا الامر بشارۃ ترجمہ: در چشم آنہا تزئین و بگفتہائے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) زیادت و نقص می کنید.ہر قدر تاب و توان و یاران و یاوران دارید فراہم بیارید و ہرگز نشود کہ این اختلافات را رفع کنید یا توفیق و تطبیق در آنہا توانید بدہید.زنہار دانستہ میل بباطل نیارید.و اگر مرا قبول و تقوی اللہ را شعار سازید گناہان گزشتہ از شما مغفور گردد و فضل خداوندی شما را دریابد.اہل حدیث باید درین باب تدبر فرمایند.فاسق است آنکہ بعد از نمودن راہ ہدایت راہ نیابد.مردمان علامات آخر الزمان بالیقین آشکارشد اکنون در ظہور مسیح چرا شک می آرید؟ بیائید بعض ازان علامات را بر شما یاد می کنیم کہ رشد و سعادت
اخر ٰی بقولہ: ’’3‘‘ ۱.ولکن تنسون بشارات ربکم و فی آیاتہ تُلحدون.اعلموا ایھا الأعزۃ أن السماء و الارض کانتا رتقا ففتقھما اللّٰہ فکشطت السماء بأمرہ و صدعت و نزلت نوادر و خرجت لیبتلی اللّٰہ عبادہ الی أیّ جھۃٍ یمیلون.و تقدمت نوادر الارض علی نوادر السماء فاغتر الناس بصنائعھا و عجائب علومھا و غرائب فنونھا وکادوا یھلکون.فنظر الرب الکریم الی الارض و رآھا مملوّۃ من المھلکات و مترعۃ من المفسدات و رأی الخلق مفتونا بنوادرھا و رأی المتنصّرین انہم ضلوا و یضلون.ورأی فلاسفتھم اختلبوا الناس بعلومھم و نوادر فنونھم فوقعت تلک العلوم فی قلوب الاحداث بموقع عظیم کانھم سحرو ترجمہ: نصیب شما گردد.از انجملہ آتش فتنہ ہا و گمراہی ہاست کہ مردم را از مشرق بسوئے مغرب بردہ.و درین پندست بجہت آنہا کہ از خدا می ترسند.و ابلیس مردم را ازپس و از راست و چپ فراگرفتہ و بسیارے از شامت اعمال خود اسیر پنجۂ او شدند.و ازین ابتلاجز مرحومے محفوظ نماند.و درمیان انہا و ایمان انہا موج ضلالت حائل شدہ آنہا غرقۂ بحر ہلاک شدند.و اکثرے از آنہا بعد از ارتداد در کفر و عداوت قدم پیشتر نہادند و در افتراء بر اسلام اطفائے نورش سعی ہرچہ تمامتر بجا آوردند ولے بر اضرار و کسرش قادر نشدند.و کتاب اللہ را کہ دست کردند از حجت ہائے بینہ و انوارش مملو یافتند لاجرم زیان زدہ و ناکام بازگشتند.و این ہمہ در چشم آنہا کہ از ظلم و کبرمی ستیزند.امرے دشوارو
فجذ بوا الی الشھوات واستیفاء اللذات والتحقوا بالبھائم والحشرات و عصوا ربھم و أبویھم و اکابرھم و أُشربوا فی قلوبھم الحریۃ و غلبت علیھم الخلاعۃ والمجون.فأراد اللّٰہ ان یحفظ عزۃ کتابہ و دین طلابہ من فتن تلک النوادر کما وعد فی قولہ: 3 ۱ فانجز وعدہ و اید عبدہ فضلا منہ و رحمۃ و اوحی إلیّ أن أقوم بالإنذار و انزل معی نوادر النکات و العلوم و التائیدات من السماء لیکسربھا نوادر المتنصرین و صلیبھم و یحتقرأدبھم وأدیبھم ویدحض حجتھم و یفحم بعیدھم و قریبھم فمظھر نوادر الارض و فتنھا ھو الذی سمی بالدجال المعھود.ومظھر نوادر السماء ترجمہ: بزرگ است و حقیقت ستمگاران خوف از خدا ندارند و دنیا را نگذارند.و رو بہ تقویٰ نیارند.از فسق و فجور دل و دیدۂ آنہا از نور و بصارت محروم شد لاجرم در تاریکیہا سرگردانیہا می کشند.دلہائے آنہا در زیر غلاف ہا ست و دیدہ مانند آئینہ کہ جلا ندارد.غیر از خوردن و نوشیدن ندانند.از خدا رو گردانیدہ رو بہ معبودان باطل آوردہ اند.مسلمانان از کثرت فتنہ ہا و آزار ہائے آنہا بجان آمدہ اند.درختان آنہا ہر روز در بالیدن و ترقیات آنہا در افزونی است.از ہرکرانۂ زمین نمودار شدہ اند و در دنیا افزونی فوق العادہ نصیب آنہا می باشد.و اسلام مثل درختے کہنہ شدہ کہ ثمر ندارد یا مانند ما کیانی کہ بیضہ نمی گذارد.باید گریندگان بگریند و نوحہ کنند.امانت و موضع اش ضائع و دیانت محو و علم
و انو ارھا ھو الذی سمی بالمسیح الموعود.خصمان تقابلا فی زمن واحد فلیستمع المستمعون.فالآیۃ الاولی من آیات صدقی أنی أرسلت فی وقت ھذہ الفتن التی قد اشار کتاب اللّٰہ الیھا فانزلنی ربی من السماء کما اخرج الفتن من الارض و تکلم فی استعارات و أیّدنی کما أُیّد الصادقون.انظروا الی الأیام التی کانت قبلکم من الیوم التی خلق اللّٰہ فیہ الانسان ھل شاعت و غلبت مثل ھذہ الفتن العظیمۃ علی وجہ الارض او ھل سمع نظیرھا و نظیر نوادرھا فی شیع الاولین فما لکم لا تتفکرون.اما ترون کیف تُرَدّ آیات اللّٰہ باقوال الفلاسفۃ و تستھزأ بھا و تکتب فی ردھا ألوف من کتب ھل سمعتم مثلھا من قبل ایھا المؤرخون.ھل سمعتم من قبل ترجمہ: زندہ درگور و عالمان فنا شدند و بر این ہا ہمہ چار تکبیر زدہ شد.و این علماء کہ باقی ماندہ اند مانند اژدہا ہستند کہ از دیانت و دین جاہل و بہ ہوا و ہوس مائل می باشند.و آنہا کہ نام مسلمانان برخود یاد میکنند اکثرے از آنہا مے خوار و زانی و ظالم و کاذب در شہادات ہستند.و غافل از طاعات و روگردان از ادائے صدقات و دلیر بر ارتکاب منکرات می باشند.این ہمہ آفات از شدت دلبستگی بعلوم مغربیّہ و آزادی تنصّر در سینۂ آنہا متولد شدہ.و میل خاطر شان بسوئے آنہا روز افزون می باشد.این ہمان نبوت است کہ حضرت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) از پیش بیان آن فرمودہ.در بخاری از بابت آن خواندہ و شنیدہ باشید.نگاہ غائر در فتنہ ہائے علوم مغربیہ بکنید کہ چگو نہ جوانان راکشان کشان
تو ھینَ الرسول الکریم و سَبَّہ و طعنًا فی دینہ والضحک علیہ کما انکم فی ھذا الزمان تسمعون.او ھل سمع أحد من الأولین ازدراء کتاب اللّٰہ و احتقار رسولہ بألفاظ شنیعۃ مؤلمۃ کما تسمعھا آذانکم فلم تعجبون من رحمۃ اللّٰہ فی ھذا الطوفان ایھا النائمون.ألاترون کیف یسخرون منکم و من دینکم سخر اللّٰہ منھم و اصمھم و اعماھم فھم لا یُبصرون.ایھا الاعزۃ ھل أتی زمان علی احدکما اتی علیکم سمعتم من اھل الکتاب اذًی کثیرا و سبقوا فی الافتراء و السبّ والایذاء و صُبَّت علی الاسلام مصائب ترتع الحمیر فی مرعی الخیل و ترثع الکلاب علی الغِیل بشدۃ المیل فای زمان بعد ذالک تنتظرون ترجمہ: بسوئے مغرب می برد.ہان اے مومنان نگاہے بے اندازید کہ چہ طور حق تعالیٰ نبوت رسول خود را (علیہ الصلوٰۃ والسلام) صدق و راستی بظہور آوردہ.و یقین بدانید کہ مراد از نار ہمین نار فتن بودہ کہ از مغرب پدید ار شدہ و لباس تقویٰ را پاک سوختہ.گاہے بخیردان را از زبانہ ہایش مے ترساند و وقتے نور خود را در دیدۂ آنہا جلوہ می دہد.و آنہا دل ازدست دادہ و شیداش گردیدہ اند.نظر بر این حال نباید ازآن مدلول ظاہرش فہم کنید از مشاہدہ دیدہ بربندید.و بدانید کہ کلمات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم را کہ شان بلند و بزرگ دارد.جز کسے نمی فہمد کہ او را از معارف بہرہ وا فی دادہ اند وہم دل دانا و چشم بینا و گوش شنوا دارد.این چنین شخصے از پروردگار خود صاحب بصیرت می باشد.و بر این رتبۂ
و من آیات صدقی أنہ تعالی وفّقنی باتباع رسولہ واقتداء نبیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فما رأیت أثرا من آثار النبیؐ الا قفوتہ ولا جبلا من جبال المشکلات الا علوتہ والحقنی ربّی بالذین ھم ینعمون.و من آیات صدقی انہ اظھرنی علی کثیر من امور الغیب و ھو لا یظھر علی غیبہ أحدا إلا الذین ھم یرسلون.و من آیات صدقی انہ یجیب دعواتی و یتولی حاجاتی و یبارک فی افعالی و کلماتی و یوالی من والانی و یعادی من عادانی و ینبئنی مما یکتمون.و انہ سمع کثیرا من بکائی و رفعنی اذا خررت امامہ و أجاب أدعیۃً لا استطیع إحصاء ھا و احسن مثوای و منّ علی بآلاءٍ لیست لی الفاظ لبیانھا و اتمّ علیّ رحمتہ فی الدنیا والآخرۃ و جعلنی من الذین ینصرون.و خاطبنی و قال یا احمدی ترجمہ: عالیہ آنہا فائز می شوند کہ از نفس خود ہا بکلی برون آمدہ بہ سیرت رسولؐ خود متلبس و متخلق می شوند و نحوے در رسول فنا میگردند کہ از وجود آنہا نامے و نشانے نمی ماند و وجود آنہا از احکامِ خود بالتمام عاری شدہ رنگین باحکام وجود نبی می شود.این مردم سینہ ہائے آنہا را از علم نبیؐ پر میسازند و از انوارش حظے وافر آنہا را می بخشند.و از چشمہ اش سیراب می شوند.خلعت عصمت و حکمت بآنہامی پوشانند وکاسات از تسنیم باوشان می نوشانند.و جلال اللہ تزکیہ و حفظ آنہارا برعہدۂ خود میگیرد.بعد آن سعادت مند وارث ایشان می شود کہ از حسنِ ظن و قبول گوش بر کلام ایشان دارد و دامن ایشان رانگذارد و بجہت شکستن غلبۂ نفس خود نفسِ پاک ایشان را بر خود بگزیند.و در دریائے ایشان غوطہ زدہ آخر برنگ در مکنون
انت مرادی و معی.انت منی بمنزلۃ توحیدی و تفریدی فحان ان تعان و تعرف بین الناس.أنت منی بمنزلۃ لا یعلمھا الخلق.فکلمنی بکلمات لو کانت لی الدنیا کلھاما اسرّنی کما اسرّتنی ھذہ الکلمات المحبوبۃ.فروحی فداء سبیلہ، ھو ولی فی الدنیا والآخرۃ ما اصابنی ظمأ و لا نصب و لا مخمصۃ إلا أتانی لنصرتی و أری آلاء ہ واردۃً تترا علیّ کالذین لا یستحسرون.و من آیات صدقی انہ اعطانی علم القرآن و اخبرنی من دقائق الفرقان الذی لا یمسّہ الا المطّھرون.و من آیات صدقی أنہ أدّبنی فاحسن تأدیبی و جعل مشربی الصبروا الرضاء والموافقۃ لربی والاتباع لرسولی و اودع فی فطرتی رموز العرفان وجعلنی ترجمہ: برون آید.و حمد مرخدار اتبارک و تعالیٰ کہ مرا از ایشان کردہ.آز مایندگان باید بیاز مایند.مرا پروردگار حکمت و بصیرت و معرفت بخشیدہ است بجہت آن آمدہ ام کہ بعضے از مختلفات آنہارا بیان سازم.زیرا کہ اسلام و مسلمانان را پارہ پارہ کردہ اند.و بر یکدیگرمی تازند و تکفیر ہمدگرمی کنند.اکنون آنہارا در میدان ندامی زنم.مبارزے ہست کہ بروزکند؟ بجہت مقاومت آنہارا دعوت کردیم ولے ازان اعراض می ورزند.آگاہ باشند کہ اگر آنہا ابرام امرے را کردہ اند ماہم کردہ ایم.مگر آنہا گمان دارند کہ حق تعالیٰ طیّب را از خبیث تمیز نہ سازد ! اندیشۂ بد درکار میکنند.من زمام امور خود را بدست خدائے توانا می سپارم و از آنہا در میگزرم زود است کہ بد انند.و از علامات آخر زمان آنچہ قرآن کریم انباء ازان میکند واقعات نادرہ میباشد کہ در این
عار فا لمصالح الامور و مفاسدھا و أدخلنی فی الذین ھم منفردون.یا مشایخ العرب وأصفیاء الحرمین ھذہ ھی الأخبار والمواعظ التی عرضتھا علی علماء الھند و نبھتھم فلم ینتبھوا و وعظت فلم یتعظوا و أیقظت فلم یستیقظوا.و وقعوا فی ظنون الجاھلیۃ و ھمّوا بتکفیری و تکذیبی واخذوا بتلابیبی و ھم علی قولھم یصرّون و قد اتممت علیھم حجتی و ابتلج علیھم صباح صدقی وجحدوا بدعوتی و استیقنتھا انفسھم و ھم بلسانھم منکرون.و انی اری قلوبھم وجلۃ و فی مہجتھم حسرۃ و کربۃ و تراء ی لھم الحق و ھم یتجاھلون.و أری انھم قد تفرقوا و کانوا فی امری ازواجا شتّٰی، فبعضھم صدقنی وھم ضعفاء ھم و اتقیاء ھم و بعضھم کذبنی و اعرض و ازدرانی ترجمہ: زمان ہر کسے مشاہدہ و معائنہ اش می نماید.چنانچہ می فرماید.ہرگاہ کوہ ہا روان کردہ شود.و ہرگاہ دریا ہا پارہ پارہ کردہ شود.و ہر گاہ شتر مادہ معطل گزاشتہ شود.و ہر گاہ نفوس را باہم پیوند دادہ شود.و ہرگاہ نوشتہ ہا شیوع و انتشار دادہ شود.و ہر گاہ زمین بزلزلہ آوردہ شود.و ہرگاہ زمین کشیدہ شود و آنچہ را کہ در شکمش می باشد برون اندازد و فارغ بشود.و ہرگاہ ستارہ ہا پریشان شود.و ہرگاہ و حوش فراہم آوردہ شود.این ہمہ نبوتہا و اخبار آخر زمان ست برائے قومے کہ تفکر می کنند.چنانچہ بہ کوہ ہا نگاہ بکنید کہ چہ طور از مواضع ازالت و از جابر آوردہ شدہ خیمہ ہاش منہدم شدہ و آن ہمہ بلند یہاش زمین پستی و ہموار گردیدہ کہ مسافران
فی عینہ کبرًا و قلًی وھم الذین یستکبرون.وانی اری المصدقین انھم یزیدون.واری المکذبین انھم ینقصون، ویأتی الارض ربّی ینقصھا من اطرافھا ویفھّم القلوب ویفتح العیون ویزیل الظنون.والذین یأتوننی بتوسم الاتقیاء فھم یعرفوننی ویبایعون.یشحّذ بصیرۃ تقواھم فھم لا یتردّدون.وقد أنبأنی ربی اننی کسفینۃ نوح للخلق فمن اتانی و دخل فی البیعۃ فقد نجا من الضیعۃ ‘ فطوبی لقوم ھم ینجون.و ما آمر الناس الا بالقرآن و الی القرآن و الی طاعۃ الرب الذی الیہ یرجعون.ان اللّٰہ قد رأی فی قلوب الناس و جوارح الناس و اعین الناس و آذان الناس و نیّات الناس ذنوبًا و آثامًا و اجرامًا و رآھم ملوّثین بانواع المعاصی ترجمہ: بہ تمامتر سہولت بر مناکبش آمد و شد میکنند.و بدریا ہا نگاہ بکنید.حق تعالیٰ قومے را برگماشتہ کہ دریا ہا را پارہ پارہ کردہ وجویہا ازان کشیدہ اند و ہنوز مداومت بر این عمل دارند.مہارت تمام در علم تفجیر انہار بدست آوردہ بہر وادی کہ بے آب و گیاہ بودہ روانش ساختہ اند بجہت اینکہ بلائے خشک سالی را از سر مردم دفع کنند و ہم بجہت اینکہ از حاصل زمین نفع کلی گیر بیارند.و تعطیل شتر مادہ اشارت بہ گاری آتشین است کہ ہمہ مرکوبات را از شتر و بختی و ہرچہ از آن قبیل است بیکار محض گردانیدہ کہ خلق ازان اعراض کردہ بآرزوئے دل سوار برآن میشوند و احمال و اثقال را برآن بار میکنند.و برنگ در نوشتن زمین از ملکے بملکے میرسند.این فضل خداست برما و بر جمیع مردم ولے اکثرے از بنی آدم شکرنمی کنند.دلہائے آنہا در زیر
وا لخطیات فاقام عبدًا من عبادہ لدعوتھم الی لبّ الدین و حقیقۃ الشریعۃ التی ما ذاق الناس طعمھا فھم منھا مہجورون.ترجمہ: پردہ ہا نہان است لا جرم قدرت بر فہم اسرار الٰہی ندارند و گوش ہائے آنہا کر شدہ کہ چیزے نمی شنوند.ہر گاہ صنعتے را از صنائع مردم بہ بینند و اگرچہ ہمہ آن عمل کفار باشد بجہت انتفاع در دستش می آرند ولے اگر صنعت رحمت الٰہی را بہ بینند دست رد برآن می زنند.و ترویج نفوس بر چند نوع است.ازان جملہ اشارت بہ سیم مفتول است (تلغراف) کہ در وقت عسرت امداد مردم می کند و از عزیزان کہ دربلاد بعیدہ باشند خبرمی آرد پیشتر از انکہ پر سندہ از جائے خود برخیزد.و درمیان مشرقی و مغربی سوال و جواب را ادارت می کند کہ گویا آنہا شفہًا بیک دیگر برمیخورند.و چشم در راہان را از احوال شخصے کہ از عدم اطلاع بر حالش بر وے می لرزند باسرع ساعت آگاہ میسازد.از اینجا آشکار شد کہ این سیم مفتول دوکس را کہ ہر یک ازان در مکان دور میباشد باہم پیوند می بخشد بہ نہجے کہ بے حجاب با یکدیگر گفتگو میکنند.و ازان جملہ اشارت بہ امن راہ ہائے برّ و بحر و رفع ہمہ صعوبتہاست کہ مردم بے بیم و ہراس از شہرے بشہرے می روند و می آیند.و حقیقت درین زمان تعلقات بلاد با بلاد تعارف مردم با مردم ازدیاد پذیرفتہ و کمتر روزے سپری میشود کہ درین ارتباط ترقی روننماید.چنانچہ تاجران با تاجران و اہل اطراف را با اہل اطراف و اہل حرفہ را با اہل حرفہ ارتباط و ایتلاف پیدا شدہ کہ در دفع مضرت و جلب منفعت شریک یکدیگر شدہ اند.و در ہر نعمت و سرور و لباس و طعام و در ہر گونہ اسباب راحت دست یکدیگر میگیرند و حاصل یک خطہ بہ خطۂ دیگر میرسد.اکنون بہ دقت نگاہ بکنید کہ بہ چہ طور مردم باہم مزدوج شدہ کہ
ایھا الاخوان من العرب و من مصر و بلاد الشام و غیرھا انی لما رأیت ان ھذہ النعمۃ نعمۃ عظیمۃ و مائدۃ نازلۃ من السماء ترجمہ: بحقیقت ہمہ در یک کشتی نشستہ اند.و ازانجملہ و ابور بحر (آگ بوت) ست کہ درساعتہائے معدودہ ہزاران آدم را ازدیارے بدیارے میرساند و آنہار ا در آن سفر اتفاق تعارف با یکدیگر می افتد.و ازانجملہ اسباب ارسال مکتوبات (بوسطہ) ست کہ راہ ہاش خیلے آسان و سہل شدہ بہ نحویکہ ہر کسے خواہد بے زحمت و مشقت می تواند باطراف و اکناف عالم خط و نامہ برساند.و از جہت این آسانی کثرت ارسال خطوط بمشابہ رو نمودہ کہ در زمان پیشین ہرگز نظیرش موجود نیست.و ہم چنین کثرت مسافران و تاجران شخص ناظر را در شگفت و حیرت می اندازد.این است وسائل تزویج و تعارف مردم کہ پیش ازین نشانے از آن نبود.و من بشما قسم بخدا یاد میدہم کہ بگوئید اگر نظیرش در زمان پیشین دیدہ یاد رکتا بے خواندہ باشید.و انتشار نوشتہ ہا اشارت بہ وسائل آن ست کہ عبارت از چاپ خانہ است.چنانچہ می بینید کہ حق تعالیٰ قومے را برانگیختہ کہ آلات طبع را ایجاد کردہ اند.و بچہ مقدار از این مطبع ہا در ہند و ہمہ بلاد عالم یافتہ می شود.این فعل خداوند بزرگ است بجہت اینکہ مارا در کار تائید کند و بجہت اشاعت دین و کتب و مؤلفات مادر ممالک سببے بر انگیزد کہ بخوانند و ہدایت یابند.و زلزلۂ زمین و برون انداختنش ہمہ چیز ہا را اشارات بآن انقلاب ہاست کہ بچشم مشاہدہ اش میکنید.و ایماست بظہور علوم ارضیّہ و بدائع و صنائع و بدعات و بدکاریہا و مکاید و خدعات آن.و پراگندگی ستارہ ہا اشارت بہ فتنہ ہائے علما و موت متقیان ست.چنانچہ می بینید
وآیۃ کریمۃ من اللّٰہ ذی العطاء فلم تطب نفسی ان لا أشارککم فیھا و رأیت التبلیغ حقا واجبا و دینا لازمًا لا یسقط بدون الاداء فھا انا قد ترجمہ: کہ آثار علم نا پدید شدہ و اہل علم را حالت باین جا رسیدہ کہ بعضے از ایشان فوت کردند و بعضے نابینا و کر شدند باز خدائے رحیم بر ایشان برحمت باز آمد باز اکثرے نابینا و کرشدند.و خدا بصیر است بآنچہ میکنند.و حشر و حوش اشارت بدان ست کہ جاہلان و فاسقان را کثرت و وفور حاصل آید و تقویٰ و دیانت رخت بہ بندد.چنانچہ عیان ست کہ آب در جوئے صلاح و خیر نماندہ و چشمہ ہاش خشک گردیدہ و اکثرے را از خلق میل بشر و مداہنت در امور دین در دل پدید آمدہ.ہر گاہ شرے رامی بینند قبولش میکنند و از امر خیر رو درہم میکشند.در صنعتہائے کافران بہ حب و پسندیدگی بینند و از صنعت خداوندی سر کہ بر روئے می مالند.اے مردمان بہ بینید نعمت ہائے خداوندی را کہ چگو نہ زمان شما و ہیئت آن را جدّت و بدعت بخشیدہ و عجائب ہا درآن ودیعت کردہ کہ در بہرۂ پدران شما نیامدہ و شما حظے از آن برمیگیرید.و صنعت گاری آتشین کہ باہل اروبا تلقین فرمود بجہت آن ست کہ شما و خویشان شما از آن فائدہ بگیرند وتشکر کنند.بہ بینید چگو نہ بامر الٰہی شب و روز در صحرا و بیابان و عمرانات روان می باشد و شما بواسطہ آن ہر جا کہ میخواہید بے تعب و کلفت سفر میکنید.و ہمچنین اہل اروبا را صنعت ہائے دیگر آموخت از آلات جنگ و عمارت و طحن و لبوس و انواع ادوات جرثقیل و آنچہ تعلق دارد بہ نگارش و آر ایش شہر و منزل و تسہیل مہمات آن کہ شما برغبت تمام استعمالش میکنید و در ہر ماہ و سال ایجادات غریبہ و نادرہ بر روئے کارمی آید کہ دیدہ ندیدہ و آنچہ در اسباب معیشت امداد می نماید و از زحمت رستگاری می بخشد.من جملہ قتّی ہائے
قلت لکم ما تَبدّی لی من ربّی وانتظر کیف تجیبون.و و اللّٰہ انی مامور من اللّٰہ الذی أرسل نبیّنا و سیدنا محمد ن المصطفٰی ترجمہ: کبریت است کہ بآن آتش می افروزید و روغن غازکہ در چراغ بکارمی برید.و دیگر عمل ہاکہ بدان در ہنگام شادمانی خانہ ہا را زینت و نگارمی بندید.اکنون باید از دانش و فکر نگاہ بکنید کہ پروردگار شما از وفور عنایت و لطف چہ قدر از نوادر زمین بشما مرحمت فرمودہ ! چرا از نوادر آسمان در شگفت ماندہ اید و بعیدش می پندارید؟ باین چیز ہائے دنیا کہ روزے چند بیش نیست شادیہا میکنید ! و ہیچ التفات و توجہ بہ زاد عقبی نمی آرید !از نزول مسیح و ایام فضل روحانی چرا در حیرت و انکار فرو ماندہ اید؟ چون آشکارمی بینید کہ عجائبات فضل خداوندی بہ پیرایہ ہائے نو و جلوہ ہائے غریب بجہت آرام و آسایش جسم شما درین زمان شما بر منصہ ظہور جاگرفتہ و مثل آن ہرگز گوش و دیدہ پدران شما نہ شنیدہ و نہ دیدہ.بہ عجائب کفار ایمان می آرید و کفران فعل خداوند بزرگ میکنید؟ بر قدرت خلق امیدہا بستہ اید و از قدرت حق تعالیٰ مایوس و نومید شدہ اید؟ چرا بعض افعال نادرۂ الٰہی را بواسطۂ بعض افعالش کہ می شناسید و معائنہ میکنید شناسا نمی شوید؟ پیش ازین بر این نوادر ہا کہ در زمان شما بوجود آمدہ از قبیل گاری آتشین و تلغراف وغیرہ آگاہ بودید؟ این ہمہ در قرآن مکتوب بودہ ولے فہم شما بآن نرسید.ہم چنین سرّ نزول مسیح کہ در قرآن نوشتہ بود از بلادت و کودنی بفہم شما نیامد.و حقیقت آن ست کہ ہیچکس یارائے آن ندارد کہ قبل از تفہیم حق تعالیٰ چیزے را فہم کند اگرچہ نبی باشد.خیلے شگرف امرے ست کہ در قبول و اختیار صنعت ہائے جدیدہ کہ مفید چشم شما باشد ہیچ کراہیت و تنفر اظہار
صلی اللّٰہ علیہ وسلّم لھدایۃ کافۃ الناس.و اعلم من اللّٰہ أنہ لا یضیعنی و قد خلع علی من حلل الولایۃ و سقانی من ترجمہ: نمی کنید ولے ہرگاہ شمارا برخوان صنع اللہ کہ ہر شے را اتقان و احکام فرمودہ صلادر دادم و آن در دیدۂ شما غریب و نادر بود سر انکار و ابا جنبانید و اظہار کراہت و غضب کردید و دانستہ از آن اعراض ورزیدید.اے مردمان من امرے منکر نیاوردہ ام و خدائے بزرگ و برتر بر صدق من گواہی میدہد و خود شما بعض نشان ہائے مرا مشاہدہ کردید و ذکر زمان مرا در آن کتاب کہ بآن ایمان آوردہ اید خواندہ اید و خدا این امر را در پردۂ تنکیر پوشیدہ داشت کہ علم و تقویٰ شما را در ابتلا اندازد پس ناگہان فتنہ اش شما را ا فراگرفت.برادران کتاب اللہ را در دست بگیرید و درآن تدبر بفرمائید کہ وقت آخر زمان در رسید یا ہنوز آمد و ظہورش زمانہ ہا و قرن ہا را میخواہد؟ شما بہ یقین میدانید کہ مسیح در آخر زمان ظہور کند و علامات آن و نوادر ارضیہ را کہ قرآن کریم از آثار آخر زمانش قرار میدہد مشاہدہ و معائنہ میکنید و از آن منتفع میشوید.حیرانم کہ چرا بہ نوادر سماویہ ایمان نمی آرید؟ کہ آیہ کریمہ 3 ۱دلالت بر آن میکند.افسوس بہ زمین و زمینی ہا میلان و از آلائے آسمانی بُعد و اعراض میدارید! و خدائے کریم در این باب بشارت دیگر ہم دادہ بود یعنی 3 ۲ ولے شما آیات الہٰیّہ را فراموش و الحاد را کارمے فرمائید.عزیزان بدانید کہ آسمان و زمین بستہ و بے شگاف بودند.خدا تعالیٰ آنہا را شگاف و کشاد فرمودہ چنانچہ بروفق امرش از آن نوادر و عجائب خروج و نزول آوردہ بجہت اینکہ بندگان را بہ بیند کہ بکدام سو میل دارند.و بہ سبب اینکہ نوادر زمین بر نوادر
کأ سھا و أعطانی ما یعطی المقربون.و أری برکاتہ نازلۃً علی أنفاسی و علی قلبی و لسانی و علی فہمی و بیانی و علی جدران بیتی و عتبۃ بابی ترجمہ: آسمان سبقت و تقدم جست مردم بہ صنائع و عجائب و علوم و فنونش مفتون و شیفتہ گردیدند.کم ماندہ بود ہمہ ہلاک بشوند کہ رب کریم نگاہے بہ زمین کرد و آن را دید کہ از مہلکات و مفسدات لبریز شدہ و خلق را دید کہ ہمہ بر نادرہ کاریہائے نصاریٰ دل بستہ اند و فلاسفۂ نصاری بسحر علوم و فنون عجیبہ دل از دست مردم ربودہ اند و جوانان از غایت میل کہ بآن علوم دارند اسیر شہوات و استیفائے لذات شدہ بسلک بہائم و حشرات منسلک گردیدہ اند و از آزادی و بیباکی و خیرہ چشمی کار بجائے رسیدہ کہ والدین و بزرگان را بدیدہ استخفاف می بینند.چون حال چنین بود غیرت الہٰیّہ بجوش آمد و ارادہ فرمود کہ کتاب خود را و دین خود را از فتنۂ آن نادرہ ہا محفوظ و مصؤن دارد.و آن وعدہ را کہ فرمودہ بود ما این ذکر را نازل کردہ ایم و خود ما حافظش باشیم ایفا کرد و بندۂ خود را از فضل و رحمت خود بتائید بنواخت.و بمن وحی کرد کہ نذار را آمادہ شوم و نوادر نکات و علوم و تائیدات سماویہ را با من نازل ساخت بجہت اینکہ نوادر نصاریٰ و صلیب آنہا را بدان شکست بدہد و ادب و ادیب آنہا را حقیر و خوار وانماید و حجت آنہارا از ہم بپاشد و دور و نزدیک آنہا را ساکت و ملزم بگرداند.اکنون واضح شد کہ مظہر نوادر ارضیہ و فتنہ ہائے آن ہمان است کہ بنام دجال معہود نام زد شدہ.و مظہر نوادر سماویہ و انوار آن کسے است کہ اسم مسیح موعود بر او اطلاق پذیرفتہ.این دو خصم یکدیگراند کہ در زمان واحد مقابل ہم بروز کردہ اندشنوندگان باید بشنوند.
و أُ سکُفّتِھا فھل انتم تقبلون.و عسی ان تکرھوا شیئا و ھو خیر لکم و عسی ان تحبوا شیئا و ھو شر لکم و اللّٰہ یعلم و انتم ترجمہ: و از نشانہائے صدق من آنست کہ مرا در وقت فتن این زمان فرستادہ اند کہ از کتاب اللہ اشارت بدان رفتہ بود.چنانچہ پروردگار مرا از آسمان نازل کردہ است ہمچنان کہ این فتنہ ہا را از زمین اخراج کردہ.و در استعارات سخن گفتہ و مرا برنگ صادقان موید فرمودہ.ایام گذشتہ را تتبع بکنید.از وقت آفرینش انسان مثل این فتنہ ہا بر روئے زمین شائع و غالب شدہ یا در پیشینیان نظیر این نوادر باستماع در آمدہ.نگاہ نمی کنید با قول فلاسفہ آیات اللہ را ردّ می کنند.و برآن خندہ می زنند و در ردآن ہزاران ہزار کتب تدوین و تالیف میشود.اے مورخان بگوئید اگر مثل آن در تواریخ ماضیہ دیدہ و خواندہ باشید.ہمین طور در زمان پیشین رسول کریم (علیہ الصلوٰۃ والسلام) ہدف توہین و دشنام و دین پاک وے مورد لعن و ملام گردانیدہ شدہ بود؟ بہمین نسق در حق کتاب مجید و فرقان حمید الفاظ شنیعہ و مولمہ و سخنان نا سزا و ناگفتنی بر زبانہامی رفت مانند آنچہ درین زمان پر آشوب بشنیدن می آید؟ اندر این حال اے خفتہ بختان چرا از ظہور رحمت اللہ در شگفت فروماندہ اید؟ خدارا نگاہے کہ چگونہ برشما وبر دین شما می خندند.خدا اینہا را ذلیل و خوار دارد کہ دیدہ و گوش از اینہا انتزاع فرمودہ است.اللہ اللہ این اذیتہا و دشنامہا کہ امروز از دست و زبان پرستاران صلیب عاید بحال اہل حق می باشد ہرگز نمونہ آن در ایام گزشتہ یافتہ نمی شود ! اسلام عرضۂ مصائب و محن گردیدہ.خر در چراگاہِ اسپ می چرد ! و سگ
لا تعلمون.و انّی متوکل علی ربی و أفوض أمری الی اللّٰہ و ادعوا اللّٰہ ان یصفی خَلقہ من خبث الاھواء و یلھمھم فعلَ الخَیرات و قبول ترجمہ: بزہرۂ بزرگ بربیشۂ شیر می تازد ! بعد ازین ہمہ کدام وقت و زمان را چشم در راہ می باشید؟ و از نشانہائے صدق من است کہ حق تعالیٰ مرا توفیق اتباع و اقتدائے نبی خود (صلی اللہ علیہ وسلم) مرحمت فرمودہ اثرے را از آثار آنجناب مقدس نیافتم کہ بدنبال آن قدم برنداشتم.و کو ہے از مشکلات در راہ پیش من نیامد کہ بر بالایش بر نشدم و ربّ من مرا بجماعۂ کہ بر ایشان انعام کردہ لاحق ساختہ.و از نشانہائے صدق من ست کہ او بر بسیارے از علوم غیب مرا آگاہایندہ۱.و او غیر از مرسلان کسے را مطلع بر آن نمی سازد.و از نشانہائے صدق من است کہ او (تعالیٰ شانہ) دعوات مرا قبول میفرماید.و حاجات مرا متکفل می باشد و در افعال و اقوال من برکت می نہد.و دوستان مرا دوست و دشمنان مرا دشمن است و از پوشید گیہائے مردم مرا انبا میکند.و بسیار است کہ او گریہ و بکائے مامی شنود.و ہرگاہ پیش او بر زمین افتادم بدست رحمت خود مرا برداشت و آن قدر دعا ہائے مرا بموقع قبول جاداد کہ نتوانم بشمار آرم.و دربارۂ من اکرام و انعام ہا فرمودہ کہ لفظے ندارم کہ از عہدۂ سپاسش بدان بیرون توانم بیایم.و مرا خطاب کردہ و گفتہ اے احمد من تو مراد منی و بامنی.و تو در نزد من بمنزلت توحید و تفرید من می باشی.اکنون وقت آن آمد کہ اعانت کردہ شوی و درمیان مردم شناختہ شوی.تو درپیش من بمنزلتے می باشی کہ خلق از آن آگاہ نیست.این کلمات خداوندے ست کہ بآن مرا نواختہ بخدائے بزرگ کہ در نزد من باین کلمات محبوبہ ہمۂ دنیا و آنچہ در آن است بجوی نمی ارزد.سہو کتابت معلوم ہوتا ہے.غالباً ’’آگاہندہ‘‘ ہے ناشر
نداء اھل الاجتباء و ینجیھم فی الدنیا والآخرۃ من سوء الخزی ترجمہ: روح من فدایش باد.او کارساز من است در دنیا و در آخرت.مرا ہیچگاہ تشنگی و گرسنگی و کوفت و خستگی نرسیدہ کہ اوہم در زمان بتائید و نصرتم برنخاستہ و نعمت ہائے او ا بر خود متصل و لا ینفک می بینم.و از نشانہائے صدق من است کہ او مرا از علم قرآن حظے وافر بخشیدہ و نیکو روشن است کہ غیر از مطہران قدرت برفہمش ندارد.و از نشانہائے صدق من است کہ او (تعالیٰ شانہ) مرا ادب خوبی آموختہ و مرا بر مشرب عذب صبر و رضا و موافقت باخود و اتباع رسولؐ خود فائز گردانیدہ.و در فطرت من انوار عرفان ودیعت نہادہ.بالنسبہ بمصالح و مفاسد امور مرا عارف و بصیر ساختہ.اے مشایخ عرب و اصفیائے حرمین شریفین ہمین آن اخبار و مواعظ است کہ بر علمائے ہند عرض دادم.و ہر چہ آنہارا آگا ہانیدم و اندرز گفتم از مستی خواب گران سر بر نیاوردند و چون از خواب بر آمدند سراسیمہ وار ہر چہ بر زبان آمد گفتند.در پوستینم افتادند و از ظنون فاسدہ و سوء فہم بہ تکفیر و تکذیب من شتاب آوردند و ہنوز دامن من نمی گذارند و برگفتار خود اصرار و استبداد دارند.و من بخوے اتمام حجت بر آنہا کردم کہ صدق من مانند روز روشن بر ایشان آشکار شد.بر زبان انکار و در دل اقرار دارند زیرا کہ اسیر دیو استکبار و استجبارند.من عیان می بینم کہ دل آنہا پر از ہیبت و حسرت و کربت است و دانستہ از حق تجاہل می نمایند.و بالآخر می بینم کہ دربارۂ من در گروہ ہا تفرق
وجھد البلاء و یُلحقھم بالذین ھم صادقون.و آخر دعوانا ان ترجمہ: و انقسام پذیرفتہ اند.بعضے تصدیق می کنند و آنہا ضعیف و تقی و خدا ترس می باشند.و گروہ ے تکذیب می نمایند و از کبر و نخوت کلاہ گوشہ بر آسمان می شکنند.و می بینم مصدقان در افزایش و مکذبان یومًا فیومًا در نگون ساری و کاہش ہستند.و پروردگار من اطراف زمین را (اہل زمین) کشان کشان در پیش من می آرد.و دل و دیدہ ہا را نور می بخشد و ظنون را دور میکند.و آنان کہ درپیش من بافراست اتقیامی آیند مرامی شناسند و بجہت تجلیہ بصیرت و حصول تقویٰ بے تردد و تذبذب دست در دست من میدہند.و حق تعالیٰ مرا خبر دادہ کہ من بجہت خلق مانند کشتی نوح (علیہ و علی نبیّنا الصلوٰۃ والسلام) ہستم آنکہ در نزد من آمد و در سلک بیعتِ من مرتبط شد او لا ریب از ہلاک نجات یافت.و من جز بقرآن و بسوئے قرآن ہیچ امر نمی کنم و ہمۂ مردم را بطاعت رب کریم آواز میدہم.حق تعالیٰ نگاہ کرد و دل و جوارح و دیدہا و گوش و نیات مردم را دید ہمہ پر از فسق و فجور و معاصی و جرائم گردیدہ و بانواع خطاکاریہا آلودہ شدہ.بنا برآن بندۂ را از بندگان اقامت فرمود کہ آنہارا بہ مغز دین و حقیقت شریعت دعوت کند کہ از ذوق و طعم آن محروم و مہجور شدہ اند.اے برادران از عرب و مصر و بلاد شام وغیر ہا آگاہ باشید کہ چون این نعمت نعمت عظیمہ و این مائدہ از آسمان نازل شدہ بود نخواستم کہ شمارا در این خوان پر از الوان آلاء سہیم و انباز نسازم لا جرم امر تبلیغ را برخود دین لازم و حق واجب الادا دانستم.اینک آنچہ درد لم ریختند بمعرض بیان در آوردم و منتظر میباشم کہ چہ پاسخ میگزارید.قسم بخدائے عزّوجلّ کہ من مامور ہستم از ہمان خدا کہ سیدنا و مولانا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم را بجہت
الحمد للّٰہ الذی یھب الایمان و یفتح الآذان و ینور العیون و یزیل الظنون.ترجمہ: ہدایت جمیع عالمیان فرستاد.و بوثوق میدانم کہ او مرا صنائع نخواہد ساخت.او حلّہ ہائے ولایت مرا پوشانیدہ و از کاسہ ہایش مرا نوشانیدہ و ہمہ آنچہ بمقربان دادہ شود مرا عطا فرمودہ.و برکات وے را شب و روز می بینم کہ نازل می شود بر دل من و بر زبان من و برفہم من و بر بیان من و بر دیوار ہائے خانہ من و بر آستان من.بگوئید قبول می کنید؟ و میشود کہ چیزے را بد بدارید و آن بجہت شما بہتر باشد و می شود کہ چیزے را دوست بدارید و آن بجہت شما بد باشد.خدا میداند و شما نمیدانید.و من توکل بر خدا میکنم و زمام امر خود را بدستش می سپارم و از وے میخواہم کہ خلق را از خبث ہوا و ہوس پاک سازد و آنہا را توفیق فعل خیرات و قبول ندائے برگزیدگان عطا فرماید.و آنہا را در دنیا و آخرت از عذاب رسوائی و فضیحت و ہرگو نہ بلا رستگاری بخشد و بزمرۂ صادقان و صدیقان شان جادہد.و آخر دعائے ما حمد آن خدائے کریم ست کہ ایمان می بخشد و گوشہارا می کشاید و دیدہ ہا را نورانی میفرماید و ظن ہا را از الت می نماید.
تتمۃ البیان فی ذکر بعض السوانح و منن اللّٰہ المنان ایھا الاخوان قد ألقی ببالی من بعد ما نمّقتُ مکتوبی و اتممت مقالی ان اکشف القناع عن بعض سوانحی و سوانح آبائی لتعلموا ما اسبغ اللّٰہ علیّ من العطاء و ربّانی من ایدی المنن والآلاء.و لکی یحصل لکم بصیرۃ تامّۃ فی اموری و مھامی و یتضح و ینکشف ترجمہ تتمہ بیان در ذکر برخی از سوانح و منتہائے خدائے منّان برادران چون این نامۂ حقیقت شمامہ را تمام کردم در دلم ریختند کہ برخی از ماجرائے اسلاف و بر سرگزشتہائے خودم را بہ حیز تحریر در آرم تا آشکار شود کہ آن کریم رحیم چہ نعمتہا و منتہا است کہ درکار من بند کردہ و مرا بدست لطف و مرحمت خودش تربیت فرمودہ.وہم بجہت آنانکہ تشنہء آبحیات رشد و ہدایت و طالب فتح باب مراودت و مراسلت با این بندہ می باشند مولد و منشا و مقامم بوضوح پیوندد.خلاصہ بزرگان من پارسی نزاد و از کلانان
علیکم مسکنی و مستقری و مقامی و لعل اللّٰہ یقلب قلوبکم وتاتوننی مسترشدین او تراسلوننی و تسئلون.فاعلموا أیدکم اللّٰہ ان آبائی کانوا الفارسیین أصلا و من سادۃ القوم و امراء ھم ثم قادھم قضاء الرحمان الی بلدۃ ’’سمرقند‘‘ فلبثوا فیہ برھۃ من الزمان و اللّٰہ یعلم بما لبثوا ولا علم لی الاما أنبئتُ من صحفھم التی کانوا یکتبون.ثم بدا لھم ان یسیروا الی ارض الھند فسافروا من وطنھم وانحدروا الی بعض اضلاع منھا یقال لھا ’’فنجاب‘‘ ووجدوا فی بعض نواحھا ارضا طیبۃ مُخصبۃً صالحۃ الھواء عذبۃ الماء ترجمہ: و ناموران و برگزیدگان آن سر زمین دل نشین بودند.جاذبۂ قضا عنان توجہ ایشان را بجانب بلدۂ سمرقند توجیہ فرمود.بہرۂ از روزگار آنجا مکث نمودند.خدائے دانا نیکو میداند تا چہ مدت استقرار و قیام در آنجا داشتند.من بیش ازان چہ از نوشتہ ہائے آنہا دریافتم نمی دانم.خلاصہ باز ازآن خطہ نہضت فرمودہ بہ ملک ہند آمدند و بعضے از نواح پنجاب را کہ ہوائے خوبے و آب خوشگوارے دارد بجہت سکنی و توطن برگزیدند.و با جماعۂ از رفیقان و متغربان رحل اقامت آنجا انداختہ قریۂ بر نام اسلام پور کہ معروف بہ قادیان می باشد آبادان ساختند.و در مواقع جلب منفعت و دفع مضرت و جمیع امور و مہام باتفاق و توادد بسرمی بردند.و حق تعالیٰ در آنہا برکت و خیر و در ہمۂ مقاصد و مطالب آنہا فوز و فلاح را
فالقو ا بھا عصا التسیار.و نزلوا فیھا بنیّۃ الاستقرار.و کانوا متغربین فی نفر من قومھم منھم السادۃ و منھم الخادمون.فآواھم اللّٰہ فی تلک الارض و بوّأ ھم مبوّأ عزۃ و مکّنھم فعمروا فیھا قریۃ و سموھا ’’اسلام بور‘‘ (المعروف بقادیان) ذالک بانھم ارادوا ان یُسکنوھا جماعۃ المسلمین من اعزتھم لیکون بعضھم لبعض ظھیرا و لعلھم یحفظون انفسھم من الاعداء و اذا اصابھم البغی ینتصرون.و سکنوھا و تملکوا و أثمروا و بورکوا ‘ و کان ھذہ الواقعۃ فی ایام دولۃ الملوک الجغتائیۃ الذین کانوا ترجمہ: نفاذ و اجراء فرمود.در این زمان دوران دولت ملوک چغتائی و زمام سلطنتہ بدست بابر بود.بابر در تمجید و تبجیل آن غریبان دقیقۂ را بے رعایت فرو نگذاشت.و بہ طریق مدد معاش و سیور غال بسیارے از قریہ ہا در قسمت ایشان نامزد فرمود.چنانچہ آنہا از کثرت متملکات و حرث و زرع در اہال ئ دیار پنجاب رفعت و عظمت تمام بدست آوردند.و با این ترفع و علو درجات و اقبال و منال سررشتۂ تقویٰ و خشیت و طہارت و عمل خیر از دست ندادند.روئے اسلام را در عہد آنہا رونق عجبے و زیبائے دلکش پدید آمد.در ہمہ کار ہا تمسک بہ کتاب اللہ و ترویج بازار اسلام و اعانت در نوائب حق نصیب عین ہمت ایشان بود.روزے چند بر این منوال سپری شدہ بالآخر اختر دولت مسلمانان رو بہ ہبوط آورد و روز اقبال
من اقوام الجیل و کان زمام الحکومۃ اذ ذاک بید اقتدار الملک الذی کان اسمہ ’’بابر‘‘ و کان من الذین یکرمون الشرفاء و یعظمون.فاعزّھم و أکرمھم و أعطاھم قری کثیرۃ و جعلھم من امراء ھذہ الدیار و اھل الأرضین و عظماء الحراثین و زعماءھم و من الذین یتملکون.فرقوا فی مدارج الاقبال و زادوا أموالا و أراضی و إمارۃ و کانوا مع إماراتھم و ثروتھم یتقون اللّٰہ و فی سبل الخیر یسلکون.و فی ایام امارتھم تَھلّل وجہ الاسلام فی رعایاھم و اقوامھم و کانوا اتقیاء و کانت الامم لھم یخضعون.ترجمہ:آنہا را شبِ ادبار در د امان فرو نہضت کہ بدکرداران و فاسقان را از پادشاہان عقاب الیم و رسوائی عظیم نصیب حال شود.خلاصہ از شومئی سیاہ کاری ضعف و اختلال درکار آنہا راہ یافتہ گردن از ربقۂ کلمۂ واحدہ برون کشیدہ عہد توادد و تعاون را از ہم گسیختند و از بغی و عناد و تحاسد و تنافس بر استیصال ابنائے قوم فرو ریختند.و از ہر گونہ تورع و اتقا و رشد و صلاح اعراض ور زیدہ رو بہ ارتکاب منہیات و معاصی آوردند.و فرایض و حدود اللہ را پشت پازدہ رکون و سکون بمتاع فانی دنیا کردند.از این زیغان و طغیان کار بجائے رسید کہ بعضے از ایشان ارتداد از دین اسلام و شعائر کفرۂ ہنود را شعار و د ثار خود ساختند.در خلال این احوال تنور غضب الٰہی در فوران آمدۂ ارادۂ آن کرد کہ ملک را از دست آنہا انتزاع نماید.لا جرم قومہا را
و کانوا یرغبون فی الصالحات و فعل الخیرات و یمسکون بکتاب اللّٰہ و ینصرون دین اللّٰہ و الی نوائب الحق یأفدون.و بعد ذالک الایام قُلِّب امر سلطنۃ الاسلام و تطرق الاختلال و الضعف فیھا لیصیب الذین اجرموا من الملوک صغارمن عند اللّٰہ و عذاب شدید بما کانوا نسوا حدود اللّٰہ و بما کانوا یعتدون.فصاروا طرائق قددًا یبغی بعضھم علی بعض و یقتلون انفسھم و یفسدون.و ترکوا کل رشدٍ و صلاح و مالوا إلی ما یباین الورع و کانوا فی أعمالھم یعتدون.و لم یبق فیھم من یتعاشر بالمعروف و یرحم ترجمہ: برانگیخت کہ دست تطاول و اعتدا بر مقبوضات و متصرفات آنہا دراز کردند و اکنون شہرے و دیگر قریۂ مرۃ بعد اخری از دست آنہا بدر رفت و قوت و شوکت آنہا بالمرۃ رو بانحطاط و اضمحلال آوردہ در ہر ناحیتے و طرفے ملکے و عالمے سر بالاکشید و ہریکے از خود سری و خلیع العذاری دم زدن بنا کرد و خیلے شگرف طوفان بے تمیزی در تموج بود.ہر حدی و ثغری ملکی فریدی داد کامرانی و مطلق العنانی در آن میداد.ہمچنیں بزرگان این بندہ بے منازعت انبازی و سہیمی زمام اختیار بعض حدود را در دست و شاہانہ اقتدار برآن داشتند و در ہمۂ امور سیاہ و سپید و دار و گیر رعایا و برایا قضا یا وحکومتہا بایشان مرفوع می شد.و در فصل مہام زیر دستان پیوستہ خوف الٰہی مطمح انظار آنہا بودہ.قوتی و دولتے قاہر برسر آنہا نبود کہ می بایست روئے استیذان بدومی آوردند.
علی الضعیف المؤوف بل عاقب بعضہم بعضًا بالسیوف و ارادوا ان یأکلوا شرکاء ھم و یستأصلوا اخوانھم و اکابرھم و آباء ھم و کانوا من بعدھم کالذین لا شریک لھم فی الملک و ھم متوحدون.و اکثرھم کانوا یعملون السیئات و یستوفون دقائق الشھوات و یترکون فرائض اللّٰہ و حدودہ و الی شرک الاھواء یوفضون ثم لا یقصرون.و فرحوا بما عندھم من الدنیا واستقرء وا طرقا منکرۃ و أخذوا سبلا منقلۃ و طاغوا و زاغوا وانتہی امرھم الی فساد ذات البین فسقطوا من الزین فی الشّین فَغُیِّر زمانھم و قُلِّب دھرھم، ذالک ترجمہ: خلاصہ بعد از مرور دہور صالحان و متقیان از پدران ما از عالم ناپائدار پدرود شدہ اخلاف اجلاف جائے آنہا گرفتند.و در ایام خود بالنوبہ انہماک در شہوات عاجلہ و اضاعت جمیع امور صالحہ را وجہ ہمت خود قراردادند.بالجملہ کافۂ امرائے مسلمین در آن عہد ہیچ شغلے غیر از استیفائے لذات دنیہ و ارتکاب بر معاصی و مناہی نداشتند.و عمل بر احکام قرآن و اقامت صلوٰۃ را ہمہ خط کش نسیان ساختند.چون کار بدین غایت انجراریافت کہ از فقدان حرارت ایمانی و برودت غرازت دینی جسم بے روح و ہمہ ہاسگان جیفہ خوار دنیا و ملوث بقاذورات آن شدند خدائے علیم حکیم خواست آنہارا ازین خواب غفلت بیدار و از معارج بلند متنزّل و ذلیل و خوار سازد بیک ناگاہ گروہ ے از پرستاران اصنام کہ خود را خالصہ می گفتند از کنج خمول بمیدان بروز کردند.
بأن اللّٰہ لا یرضی ان یرث ارضہ الفاسقون.و کان بعضھم کمثل الذین ارتدوا من دین الاسلام و خلعوا عنھم رداء اسوۃ خیر الانام وکانوا لا یعرفون نعماء اللّٰہ ولا یشکرون.فغضب اللّٰہ علیھم و مزق ملکھم و جعلہ عضینَ و بعث اقوامًا کانوا یبسطون ایدیہم الی ممالکھم و یقتسمون.و کان ذالک الزمن زمان طوائف الملوک و کانوا الی ثغورھم یحکمون.و کان آبائی منھم یامرون علی ثغرھم و کالملوک علی قراھم یقتدرون.و کان یُرفع الیھم ما وقع فی رعایا ھم فکانوا یحکمون کیف یشاء ون و لا یخافون الا اللّٰہ و لا ترجمہ: این غولان بیابان از دانش و بینش عاری و از زیور آدمیت عاطل بودند.چون بدیدہ اعتبار نگاہ کنیم این دو و دام و حشرات و ہوام پاداش و خامت اعمال و کیفرکردار ہائے مسلمانان بودند کہ آنہا بر تجاوز از حدود الٰہیہ و مجاہرت اعمال سیۂ آگاہ شوند.خلاصہ آن گروہ خالصہ کہ غاشیۂ عامہ بودند ہمہ جدوجہد بر استیصال مسلمانان و استخلاص متملکات را ا ز ایشان مقصود و محصور داشتند و در ہر مصاف و میدان نصرت و ظفر ہمرکاب انہا بود.در این ہنگامہ پر آشوب مصائب و نوازل فوق العادۃ مخصوصًا برسر پدران مافرود آمد باین معنی کہ آن گروہ خالصہ کہ فی الحقیقت طائفہ قطاع الطریق و ناجوانمردان سیاہ اندرون بودند از متصرفات و اثاثہ وامتعہ ہر چہ دردست پدران مابود بقبض و تصرف خود در آوردند.و برقتل و نہب و تخریب عمارات و ہدم بنیانہا و تفریق و تشتیت اجیال آنہا اکتفا نہ کردہ آتش در وار کتب آنہا
یستجیزون احدا و لا یستاذنون.ثم نُقل صلحاء آبائی الی جوار رحمۃ اللّٰہ و خلف من بعدھم قوم اضاعوا الصالحات المسنونات و ما رعوھا حق رعایتھا و وقعوا فی البدعات والرسوم و ما تعافوھا و کانوا لدنیاھم یلتاعون.و کذالک ھبّت الریح فی تلک الایام علی جمیع امراء المسلمین و طوائف ملوکھم و غفلوا من الانقیاد الی اللّٰہ والاخبات لہ و عصوا أحکام القرآن و اذا قاموا الی الصلوۃ قاموا کسالی و کانوا یراء ون و لا یخلصون.و نظر اللّٰہ الیھم فوجدھم کاجساد لا ارواح فیھا ورآھم انھم انتکسوا علی الدنیا وکانوا ترجمہ: زدند.چنانچہ پنج صد از مجلدات کتاب اللہ الفرقان ازین حرق ببا درفت.مسلمانان این ہمہ بے اندامی و خیرگی را بدیدۂ سرمیدیدند و از عجز وبیچارگی خاموش بودند.بالآخر آتش این فتنہ بحدے سرکشید کہ مساجد ما معابد بتان ناپاک و عزیزان ما ذلیل و اکثرے عرضۂ حسام خون آشام آن لیام واجب الملام گردیدند.زمین باہمہ سعت و فراخی برغربائے مسلمین تنگ آمد.ناچار با جماعۂ از عشائر و قبائل و خدم و غلامان در رنگ آل حضرت یعقوب ہر طرف سرگردان و حیران می گشتند.کفار ملاعین در بلاد آنہا شعار و رسوم کفر و شرک را اشاعت و ترویج دادند و در محو آثار امور اسلام سعی ہر چہ تمامتر درکار کردند.عجزۂ مسلمانان را درین ایام کاربجان رسید کہ ہیچکس قدرت آن نداشت کہ قرآن را جہراً تلاوت کند و اذان نماز را در مسجد بگوید و گاوی را ذبح نماید و کسے را کہ برضا و رغبت خواہد اسلام آرد در دین خود
مما سواھا یستوحشون.وکانوا یشفقون علی مھمات دنیاھم و علی الدین لا یشفقون.و تلطخوا بقاذورات النشأۃ الاولی و غفلوا عن النشأۃ الثانیۃ فما طلبوھا و ما کانوا یطلبون.فاقتضت حکمۃ اللّٰہ تعالی لینبّھھم و اراد ان ینزع الملک منہم و یؤتی قومًا من عبدۃ الاوثان کانوا یسمون انفسھم ’’خالصۃ‘‘ و کانوا أمیّین لا یعلمون شیءًا و لا یعقلون.فأھاج اللّٰہ تقریبات عجیبۃ لنصرتھم و اقبالھم و ازعاج شجرۃ المسلمین و حطمھم لیعلموا انھم فسقوا أمام ربھم و انھم ظالمون.فقام ’’الخالصۃ‘‘ بجمیع الجھد ترجمہ:داخل فرماید.واگر چنانچہ کسے از مسلمانان مبادرت باین امور کرد جزائے آن قتل شنیع و اقلًا تقطیع دست و پا بود واگر برکسے رحم آوردند در چاہ زندانش محبوس کردند و بگزاشتند کہ تشنہ و گرسنہ ہمان جا روز زندگی را بشب آرد.خلاصہ مسلمانان در این ایام ہدف آلام گوناگون و مظلوم و ملہوف بودند.و ہمہ گوشہا از استماع نالہ و گریہ آنہا پنبہ آگندہ و کرشدہ بود.خانہ و مسکن را بنا می انداختند ولے نمی شد در آن سکنی بگیرند.از تجارہ و اکتساب زر بدست می آوردند.اما بر ازان نمی خوردند.کمتر روزے میگزشت کہ وقتے قتل گاہے غارت و زمانے اسیری و قید نصیب حال آنہا نمی شد.زراعت می کردند ولے نمی شد خرمن اندوزند.شہرہا ویران و راہ ہا پر خوف و زراعت معدوم و اموال مفقود و مسجد ہا وحشت افزا و علوم ناپدید گشت.مسلمانان در چشم آنہا بیش از ملخ و مور وقعت و
و ا لھمۃ لیستأصلوا المسلمین و یصفو ملکھم لھم و اعانھم اللّٰہ عونًا عجیباً فکانوا فی کل موطن یغلبون.ففی ھذہ الایام صبت علی آبائی حوادث و نوازل و استولی ’’الخالصۃ‘‘ علی بلادھم و جاسوا د یارھم و غصبوا ملکھم و ریاستھم واستخلصوھا من ایدیھم و نھبوا اموالھم و خربوا عماراتھم و فرقوا أجیالھم و أحرقوا دار کتبھم و أُحرق فیھا زھاء خمسماءۃ مجلدات کتاب اللّٰہ الفرقان و کان المسلمون ینظرون إلیھا ویبکون.واتخذوا مساجد ھم معابد اصنامھم وقتلوا کثیرًا منا بحسامھم و جعلوا أعزّتنا اذلۃ.حتی اذا بلغت الکربۃ منتھاھا و أحاطت الھموم علی آبائی ترجمہ: وزن نداشتند.آخر بعضے ازین ذلت روز افزون بہ تنگ آمدہ و نار سقر را بر عار برگزیدہ ترک وطن عزیز گفتند و اکثرے کہ تحمل مشاق ہجرت نتوانستند در دست بیداد کفار ناہنجار اسیر و پا در زنجیر ماندند.و ہر روز طعمۂ اژدہائے جور و جفائے آنہامی شدند.چون ہیچ حیلتے نماند و ہمہ در ہائے خلق بر روئے آنہا بستہ شد ناچار مسلمانان روبہ درگاہ آفریدگار توانا آوردند و جبین تضرع و ابتہال بر خاک آستان خالق زمین و زمان بسودند و کشف این بلیہ و لعنت را گریہ وبکاہا نمودند.اللہ اللہ ہزاران ہزار از آنہا بجرم ذبح گاوے یا خواندن اذان و صلوٰۃ بقتل رسیدند.از ایذاء و عذاب متصل کم ماندہ بود ہمہ ہلاک شوند.می گریستند و نوحہ ہا میکردند.زلزلہ ہا بر ایشان وارد شد و ناکردہ گناہ کشتہ می شدند الی اینکہ نالہائے یتیمان و فغان بیوہا تا بعرش
و ضاقت الأرض علیھم بما رحبت و اُخرجوا من دار ریاستھم فی نفر من اخوانھم و عبیدھم و خدمھم فکانوا فی کل ارض یتیھون.و أظھر الکفرۃ فی بلادھم شعائر الکفر و محوا آثارالاسلام و جعلوھا غثاءً و قلبوا الأمور کلھا و کذالک کانوا یفعلون.فأصابت المسلمین فی ھذہ الایام مصیبۃ عظیمۃ و داھیۃ عامۃ و ما کان لأحد ان یؤذن فی مسجد أو یقرأ القرآن جھرًا او یدخل احدًا من الھنود فی دین اللّٰہ أو یذبح بقرۃ، و کان الجزاء فی کل ھذہ الامور القتل والنھب و إن خُفّف فتقطیع الایدی والأرجل و ان رُحِمَ علیہ ترجمہ: رسید.زمین را در زیر قدم فساق اشرار تپ لرزہ بگرفت و مقربان و صالحان دست در دامان عفو و رحمت الٰہی بزدند.چون دعائے ضعیفان و بے تابان در حضرت خداوندی مجتمع شد و توجہات مقرّبان مضاف بآن گردید و از ہر سو اسباب مساعدت کرد.و خداوند کریم دید کہ مسلمانان در ہر چیز از مال و جان و عیال و عرض و متاع و رحال و عقاید و اعمال عرضۂ مصائب شدہ اند و نوازلہا بحد غایت رسیدہ از فور کرم ترحم برحال گنہ گاران کردہ گوش اجابت بر دعاہائے بندگان برگزیدۂ خود گزاشت.بند گانی کہ چون از پشیمانی آمرزش بخواہند آمر زیدہ شوند.و چون نزول رحمت را دست بیازند و زارنالیہا کنند بخشائیدہ شوند.و چون از جوش زاری و نیاز فغان بکشند یاری و یاوری کردہ شوند و چون بر پیش آمدن اندوہے و رنجے بر روافتند تائید دادہ شوند.و چون حلقۂ در توبہ را بزنند مار دادہ
فا لحبس الشدید حتی یموت فی السجن ظمأً و مخمصۃً و ھم یشھدون.و کان المسلمون مظلومین مجروحین مغصوبین مضروبین کل الایام و ما کان لھم محیص و لا مناص و لا مخلّص و لا راحم وکانوا من کل باب یُطْرَدون.و کانوا یبنون بیتًا و لا یبیتون فیھا ویکسبون أموالا و لا ینتفعون منھا و لا یحظون وکانوا من کل جھۃ شُنَّت الغارات علیھم و یُنْھَبون.و کانوا تارۃ یحبسون و تارۃ یُقتلون و أخری الی السبی یذھبون.وکانوا یزرعون بجھد مھجتھم و لا یاکلون مما زرعوا شیئا و لا یدّخرون.صُیّرت المدن خربۃ ترجمہ: شوند.خلاصہ دعاہا مستجاب شد و تیر ہا بہ ہدف نشست.و قضائے مبرم علی الغفلہ فتوی بہ ہلاک و بوار خالصۂ ناہنجار امضا فرمود.چون وقت تباہی و خرابی آنہا در رسید آتش عداوت و تباغض درمیان آنہا اشتعال و التہاب پزیرفت و قتل ابنائے جنس را مقصود غائی قراردادہ درندہ وار دنبال از ہم دریدن برادران افتادند.و ہریکے درین اندیشہ و کمین بود کہ برادر و انباز رابکشد بجہت اینکہ جائے او را بدست آرد.و بعد از او خود را حاکم با اقتدار بسازد.ازین بدسگالیہا کار بجائے رسید کہ بر پدران و اعمام و برادران و پسران و زنان خود ہا تیغ بے دریغ از نیام برون کشیدند.و در روزے چند روئے زمین از وجود نجس و رجس آنہا پاک گشت و خونناب بے اندامیہا را فروخوردند.و در آن ایام انقسام بر فرق و شعب یافتہ و ہر سو متفرق و منشعب شدہ کمر بر افساد و اضرار بے چارگان چست
و ا لطرق مَخوفۃ والزروع معدومۃ والاموال مفقودۃ والمساجد موحشۃ والعلوم موء ودۃ، و کان المسلمون فی أعینھم کالجراد و فی الازدراء یزیدون.و کان طائفۃ منھم یھاجرون الی بلاد اُخریٰ و یترکون بیوتھم و مساکنھم و علی جناح التعجیل یرحلون.و اکثرھم کانوا کالمقیدین بأیدی الکفرۃ و کانت الفجرۃ کالأفاعی یصولون علی المؤمنین و یلقفون.فتاب المسلمون الی ربھم و طرحوا بین یدی مولاھم الکریم و کانوا فی المساجد یخرون علی المساجد و یدعون علیھم ولکشف ھذا الرجز یتضرعون.و قد قتل ألوف منھم بما اذّنوا و صلّوا و ذبحوا بقرۃ أو عقروا وما کان لھم حکَم لیرفعوا قضایاھم الیہ و لا کھف لیبکوا علی بابہ فکانوا فی کل وقت الی ربھم یرجعون.و أوذوا و عذبوا و کادت أن تزھق انفسھم و ھم یندبون و یرثون.و زلزلوا زلزالا شدیدًا و قُتّلوا تقتیلا ترجمہ: بستند.و در رنگ قطاع الطریق برصادران و واردان ترکتاز یہا می نمودند.از شدت جہل و حرمان از علم بحدی گول خرد و کژ فہم بودند کہ بہ حقیقت دل و دیدہ و گوش نداشتند.از اندیشہ آخرت بکلی فارغ شدہ ہمگی ہمت آنہا بستہ بہ جلب سود این جہان و چون سگان مائل بہ مردار این عالم گزران بود.بہر راہ می تاختند و بہر جافتنہ می انداختند.و ہرچہ از مال و متاع می یافتند.بغارت می بردند.قتل مسلمانان درپیش آنہا بیش از کشتن پشۂ وزن و وقعت
شنیعًا و بُدّدوا تبدیدًا حتی صعد الی العرش عویل الیتامی و نیاح الأرامل و ضجیج الضعفۃ وارتعدت الارض تحت اقدام الکفرۃ و أخذت المقربون أذیال رحمۃ اللّٰہ و ھم یشفعون.فلما اجتمعت أدعیۃ الضعفاء والمضطرین فی حضرۃ اللّٰہ تعالی ولحقت بھا توجھات المقربین و تواطئت الاسباب من کل جھۃ و طرف و رأی اللّٰہ تعالی أن المسلمین أصیبوا فی مالھم و انفسھم و عیالھم و اعراضھم و رحالھم و عقائدھم و اعمالھم و رأی ان المصیبۃ قد بلغت انتھاء ھا فنظر نظر التحنن والترحم الی المذنبین وادّکر قومہ الذین ھم عبادہ المنتخبون.الذین اذا استغفروا متندمین فیُغفرون.و اذا استنزلوا الرحمۃ باکین فیرحمون، و اذا استغاثوا متضرعین فینصرون.و اذا خروا ساجدین عند حدوث نازلۃ یسعی اللّٰہ الیھم و یؤیّدون، و اذا جاء وا ترجمہ: نداشت.کذاب و غدار و خائن و بیوفا بودند.ہیچ عہدے و ذمتے و حلفے و سوگندے را رعایت نمی کردند.آخر دریائے رحمت الٰہی در تموج آمد و ارادہ فرمود کہ جروح مسلمانان را اند مال و گردن آنہارا از طوق ستمگاران و زندان فرعونیان بے سامان نجات و مناص مرحمت فرماید و بر زیردستان و ہیچمئرزان و کس مپرسان برحمت و امتنان باز آید.بنا برآن قومی را کہ باقصائے زمین سکنی داشتند تحریکے و تہییجیدر دل کرد.آن گروہ با شکوہ بر مسکنہائے نژند
توّا بین فیقبلون.و أجیبت الدعوات و سمعت التضرعات واشتد غضب اللّٰہ علی ’’الخالصۃ‘‘ و قضی بھلاکہم و ھم غافلون.فلما حان وقت ھلاکھم أغری اللّٰہ بینھم العداوۃ والبغضاء یقتل بعضہم بعضًا فکانوا کالسباع یفترسون اعزّتھم و یسفکون.و أراد کل واحد منھم ان یقطع دابر أخیہ و أسرّوا فی انفسھم استیصال شرکاءھم و قالوا لوقتلنا ھؤلاء فبعدھم انا لنحن الحاکمون.فسلّوا سیوفھم علی اٰباء ھم و اعمامھم و اخوانھم و ابناءھم فقضی الأمر فی ایام معدودات، و أذاقھم اللّٰہ ما کانوا یستباحون.و ھم فی تلک الایّام تفرقوا و صاروا شیعا و جعلوا یفسدون فی الارض و یقطعون الطریق و یصولون علی المسافرین کالسباع و بادلال الدولۃ الفانیۃ یستکبرون.و ما کان لھم علم لیتھذّبوا و لا قلب ترجمہ:و نامیمون و بر مقام نفرین التیام آنہا بیکبارگی مانند قضائے آسمان فروریخت و بافواج ظفر امواج کہ پرچم نصرت و تائیدات آسمان بر سرِ آنہا در اہتزاز بود خیام با احتشام در میدان بلدہ فیروز پور انتصاب فرمود.مسلمانان از قدوم میمنت لزوم آنہا در رنگ غنچہ کہ از ہبوب نسیم در انبساط آید شادمانیہا کردند و از فرط فرحت و نشاط در جامہ ہا نہ گنجیدند.خالصۂ ہالکہ را دست مقاومت و محاربت با آن قوم کوتاہ شدہ جبانت و نامردی بر آنہا استیلاء
لیفھموا و لا آذان لیسمعوا و لا اعین لیبصروا و کانوا کالوحوش البریۃ فوذرُوا الآخرۃ و ألغوھا و کانوا یقعون علی الآجلۃ کالکلب علی الجیفۃ أو یزیدون.فما بقی من مھجّۃ و لا شعب الا شغبوا علیھا و ما رأوا من اموال الا نھبوھا و کان سفک دماء المسلمین عندھم أخفّ من قتل بعوضۃ و کانوا علی قتلھم یحرصون.و کانوا کذابین غدارین لا یرقبون اِلَّھُم و لا یرعون حلفھم و ینقضون العھود و ینکثون الایمان ولا یتقون.فاراد اللّٰہ ان یأسو جروح المسلمین و یفک رقبتھم من نیر الظالمین و ینقذھم من سجن الفرعونیّین و یمن علی الذین کانوا یستضعفون.فدعا قومًا من أقصی الارض فنسلوا الی دُویرتھم الخریبۃ ینقصونھا من أطرافھا و جاء وا بأفواج کرارۃ مبشرۃ بنجاح و فتح و نزلوا بعراء بلدۃ اسمھا ’’فیروزبور‘‘ ترجمہ:یافتہ و خون در ابدان خوشیدہ و عار فرار را برگزیدہ رو بہ خانہائے ویران بگریختند.و خدائے عظیم و حکیم در دل آنہا رعبے بزرگی انداخت و اندوہ شگرفی را در سینہ آنہا جا داد و آتش فوق العادہ را در کانون احشائے آنہا بر افروخت تا از حب زندگی بہ ہیئت مخنثان پشت بدادند.و بسیارے از دست جوانان آن قوم فرخندہ بخت طعمۂ نہنگ تیغ و اکثرے غرقۂ آب دریا شدند.و قلیلے کہ باقی ماندند با حیاتے کہ مثیل ممات و وجودے کہ ہمکنار صد ہزار نفرین بود در گوشہ ہائے
و کا ن المسلمون بِرَیّا قدومھم یفرحون.فما کان ’’للخالصۃ‘‘ الدّنیّۃ ان یقاوموھم أو یحاربوھم و ألقی اللّٰہ علیھم الفشل کأَنّ الدم عُصِرَ من ابدانھم فواجھوا الی بیوتھم و ھم یُھزمون.و ألقی اللّٰہ فی قلوبھم رعبا عجیبا و ھیج البلا بل فی صدورھم و اضرم فی احشاءھم جمرۃ حب الحیاۃ فولوا الدبر کالخناثی و ھم یبکون.و عاقبتھم فتیۃ قوم کان عون اللّٰہ معھم و سقطوا علی وجوھھم المسودۃ الدمیمۃ کالشھب فکثیر منھم قتلوا و کثیر غرقوا فی الیم و کثیر شابھوا الاموات و ھم یھربون.و ھربت الحواس من بطون دماغھم کأنہ خدرت اعضاء ھم کلھا او ھم مفلوجون.و أقرّ اللّٰہ ترجمہ: گمنامی خزیدند.مسلمانان از دیدار رایات نصرت آیات آن انصار و اعوان شاد کام و فرحان شدند.و خالصہ دنیّہ برنگ رگہائے خردے کہ بر سطح پوست پشہ میباشد دوختہ و پیوستہ بزمین و ہمچو شخصے کہ چنگال اجلش محکم بگیرد سراسیمہ و حیران گردیدند.و یقین آن داشتند کہ در این دیر و زود عین و اثر آنہا از صفحۂ ہستی محو و ناپدید بشود.مسلمانان چون این حال را مشاہدہ کردند دست دعا در حق قاتلان خالصہ بر افراشتند و از جذر قلب مبارکباد ہا و تہنیت ہا بر ناصران و محسنان خود عرض دادند و بصدق دل اعتراف آن کردند کہ آنہا حامیان و محسنان ما ہستند و اگر چنانچہ کفران نعمت آنہا از دست و زبان ما بہ ظہور آید در زمرۂ ظالمان و بیوفایان محسوب و معدود شویم.خلاصہ خدائے قادر بیخ فسقہ خالصہ برکندہ و نشانہائے آنہارا از
اعین المسلمین برؤیۃ رایات أنصارھم و دُقّقت ’’الخالصۃ‘‘ علی وجہ الارض کالعروق الصغار المنتسجۃ علی سطح جلد البعوضۃ و تَراءَ وا کالمغشی علیہ من الموت و تیقنوا أنھم سیوبقون.و کان المسلمون یدعون لقاتلی ’’الخالصۃ ‘‘ قائلین جزیتم خیرًا و وقیتم ضیرًا انکم محسنونًا و ان کفرنا فانا ظالمون.فمحا اللّٰہ بایدیھم اسم ’’ الخالصۃ‘‘ من تحت السماء و استأصلھم من أرضھم و رفع مؤونتھم من خلقہ فما تری منھم من أثر کان الارض ابتلعتھم فیا للعجیبۃ ایھا الناظرون! والآن نقص علیکم قلیلا من حالات ھذا القوم الذی جعلہ اللّٰہ للمسلمین أَوَاصِرَ رحمہ و أرسلھم لنا کالناصر الحارد او المغنم البارد لیجزی المؤذین الملطّطین جزاء أعمالھم و یؤمنّ قوما ترجمہ: بالائے ادیم زمین محو و حک ساختہ بار وجود بے جود آنہا را از دوش خلقت بیچارہ بر انداخت و آثار آنہا را بہ نہجے مفقود و معدوم کرد کہ پنداری زمین آنہا را فرو خورد.اکنون وقت آن آمد کہ نبذے از حالات این قوم فرخ قدم شرح بدہیم کہ وجود ہمایون آنہا بجہت مسلمانان نصرت الٰہیہ و غنیمت باردہ و دربارۂ موذیان حق پوش عقاب الیم و نمونہ جحیم ثابت شدہ.و مصلحت آن است کہ بجہت ایشان تذکرہ جداگانہ کہ از مشارکت لوث وجود خالصہ ممیز و ممتاز باشد مخصوص و مقرر بکنیم.مقصود ما ازین امر اکرام و تعظیم نعمت حق تعالیٰ می باشد و امید واثق داریم
کا نوا یخوفون.و إنی أری أن أذکرھم بتذکرۃ ممیزۃ علی حدۃ منزھۃ من مشارکۃ ذکر ’’الخالصۃ‘‘ اکراما لنعمۃ اللّٰہ تعالی لعل اللّٰہ یجعلنا من الذین یعظمون نعماء ہ و یشکرون.و لأ تّبع سبیل السیدؐ الذی سنّ الشکر للناس و قال: من لم یشکر الناس فلم یشکر اللّٰہ ‘ و نستکفی بہ الافتنان بإطراء فی مدح او اغضاء عند قدح ولا نقول الا الحق فلیشھد الشاھدون.ترجمہ: او (تعالیٰ شانہٗ) ما را از زمرہ بشمارد کہ نعمت ہائے او را بدیدۂ تعظیم و تشکر می بینند.و ہم غرض ما ازین عمل اتباع اسوۂ حسنہ آن سید انام ( علیہ الصلوٰۃ والسلام) میباشد کہ سنت شکر را بنیاد گزاشتہ و فرمودہ آنکہ شکر انسان نہ کرد شکر خدا بجانیا ورد.و از خدا مسئلت می نمائم کہ او مارا محفوظ دارد ازین کہ اطرا در مدح و اغضا در وقت قدح بکنیم و حرفے جز حق و صدق بر زبان آریم.
ذکر الدولۃ البرطانیۃ و قیصرۃ الھند جزاھا اللّٰہ عنا خیر الجزاء اعلموا أیھا الإخوان أننا قد نجونا من ایدی الظالمین فی ظل دولۃ ھذہ الملیکۃ التی نمّقْنا اسمھا فی العنوان.التی نضرنا فی حکومتھا کنضارۃ الأرض فی ایام التھتان.ھی اعزّ من الزَّبّاء بملکھا و ملکوتھا اللھم بارک لنا وجودھا و جودھا واحفظ ملکھا من مکائد الروس و مما یصنعون.قد رأینا منھا الاحسان الکثیر والعیش النضیر فان فرطنا فی جنبھا فقد فرطنا فی جنب اللّٰہ ترجمہ ذکر دولت عظیمہ برطانیہ و قیصرہ ہند
و ا ن شر الدواب عند اللّٰہ الاشرار الذین یؤذون المحسنین و یُتْبِعون المریحین، فاللّٰہ یضع الفاس علی اشجار حیاتھم فھم یُقطعون.ایھا الناس اناکنا قبل عھد دولۃ ھذہ الملیکۃ المکرمۃ مخذولین مطرودین من کل طرف لا نعرف سکنا، و لا نملک مسکنا و کانت ’’الخالصۃ‘‘ یخطفون اموالنا خطفۃ الباشقِ، ثم یمرقون مروق السھم الراشق و ینسلون.و کنا کالذین فی المعامی و الموامی یُستفردون، و من لظی الغربۃ یتأججون.فنجانا اللّٰہ من ھذہ البلایا کلھا و اعاننا بقوم ذی الوجہ البدری واللون الدری فعادت بقدومھم أیام روحنا و ریحاننا و رأینا بھم شکل أوطاننا و إخواننا و أیدوا و نصروا و قاموا لإیطاننا فدخلنا بعد ترجمہ: از نزول باران متصل طراوت و نضارت می یابد.این ملکۂ جلیلہ جمیلہ را در ملک و ملکوتش رعیت جان نثارش از زبّاء دوست تر و عزیز تر میدارند.الہٰی وجود وجودش را از بہر ما مبارک بفرما و ملک وے را از مکائد روس منحوس محفوظ دار.آمین ازین سرا پردہ نشین عظمت احسان کثیر و عیش نضیر دیدہ ایم اگر از کافر نعمتے تقصیرے در ادائے حقوقش بکنیم ہما نا تفریط در حقوق حق تعالیٰ کردہ باشیم.بدترین آفرینش در نزد خدا آن بد کرداران می باشند کہ ایذاء و اضرار محسنان و راحت رسانان را پیش نہاد ہمت می سازند.عاقبت کار خدائے کریم بر درخت زندگی آنہا تبر ہلاکت میگزارد و آنہا را از بیخ برمیکند.برادران قبل از عہد این ملکہ مکرمہ صورت حال ما این بود کہ ازینجا دو اندہ و از آنجا راندہ بے یار و بے دیار.خالصہ اموال مارا ہمچو باز
عمرٍ فی الذین یروَّحون.و ظھرنا برؤیۃ رایاتھم ظھور الشمس بالصباح، و تقوینا بعنایاتھم تقوی الاجسام بالارواح، و ودَّعنا بقدومھم أبا غمرۃ و أبا عمرۃ، کان قد اضرم فی احشائنا الجمرۃ، و صرنا من الذین یعیشون بأرغد عیش و بنوم الأَمنۃ ینامون.و اول ما لقفنا من آلاءھم و ثقفنا من نعماءھم ھو الأمن والنجاۃ من تطاول اللّیام.و ظلم عبدۃ الاصنام.فانھم آمنونا من کل خوف و جبروا بالنا و أزالوا بلبالنا فدخلنا الجنۃ بعد ما کنا من الذین ھم یعذَّبون.و صرنا فی ھذا العھد المبارک من ارباب البضاعۃ و اولی المکسبۃ بالصناعۃ و من الذین یتنعمون.و اما فی عھد ’’الخالصۃ‘‘ فکانت تجاراتنا عرضۃ للمخاطرات.و زروعنا ترجمہ: در می ربودند و چنانچہ تیر از کمان بجہد دردم از دیدہ غائب می شدند.و مثال ما مثال شخصے بود کہ تنہا وجریدہ در بیابان و دشت حیران و پریشان و از آتش غربت سوزان و تپان باشد.آفریدگار مہربان مارا ازان بلیۂ جان فرسانجات دادہ در ظل حمایت قومے ما و او ملجا مرحمت فرمودہ کہ روئے بد رسان و چہرہ روکش دُر درخشان دارند.از قدوم آنہا آن آب رفتہ در جوئے ما باز آمدہ و نہال پژمریدۂ ما باز بار آوردہ.از دستگیری و نصرت آنہا دیگر روئے اوطان مالوفہ و مساکن معہودہ دیدیم و بعد از زمانے دراز روئے امن و راحت را مشاہدہ کردیم.و چون را یات ظفر آیات آنہا را دیدیم از کنج ہائے خمول و خفا مثل آفتاب در صباح بر آمدیم و از عنایات ایشان مانند جسم بروح تقوی تغذی یافتیم.ایام قحط و موجبات
طعمۃ للغارات، و صناعاتنا غیر فاضلۃ الأقوات.و مع ذالک محدودۃ الاوقات و کان انسلاکنا فی أعوان ریاستھم و عمالھم و عملتھم و حفدتھم تمھیدا للغرامات و ارھاصًا لانواع التبعۃ والعقوبات.و کنا کشیءٍ یقلّب فی یوم ماءۃ مرۃ ما ندری این نکون غدا أفی الاحیاء أو فی الذین یشغبون ثم یقتلون.فالحمد للّٰہ الذی بدلنا من بعد خوفنا أمنا و أعطانا ملیکۃ رحیمۃ کریمۃ ما نری فی عمالھا سطوۃ المتحکمین.و نَضْنضۃ اللادغین العاضّین بل ھم علی الضعفاء یرحمون.و نحن تحت ظلھم نقتحم الأخطار، و نخوض الغمار لندرک الاوطار و مع ذالک کنا من الذین لا خوف علیھم و لا ھم یحزنون.و ان اتفق أن ترکنا البیوت عورۃ و فارقنا الدیار ترجمہ: گر سنگی کہ خلق را آتش در خرمن جان و ایمان زدہ بود بہ یمن این دولت فرخ رخت بربستہ و خلق اکنون بافراغ دل بخواب امن استراحت میکند.اول نعمتی و نخستین برکتے کہ ازین قوم مبارک نصیب حال ماشدہ دولت امن و نجات از دست بیداد فرومایگان و جفا کاران بت پرست می باشد.از ہمہ خوف و خطر مارا ایمن گردانیدہ و جبر شکست دلہائے ماکردہ و ہر گو نہ اندوہ و اندیشہ را از مادور ساختہ و در حقیقت از عذاب ہائے زہرہ گداز رہائی بخشیدہ بہ جنت در آوردہ اند.وہم درین عہد مبارک از ارباب بضاعت و بہرہ اندوزان از اکتساب و صناعت شدہ ایم وگرنہ پیش ازین در ایام خالصہ تجارت ما عرضۂ خطر و کشتہائے ما طعمۂ غارت و حاصل حرفہ و صناعت بدشواری ہرچہ تمام تر موجب سدّ رمق می بود و با این ہمہ روزے چند بیش قیام و قرار نمی گرفت.و اگر بفرض از ما کسے
فجأۃ ما کان ان یمسّنا من سوءٍ بل کنا فی امن من کل حرامی و سارق کأنہ لم نَرُم و جارَنا و ظعنّا عن الفِنا و جارِنا فکیف لا نشکر ایھا الغافلون.انھم أعطونا حریۃ تامۃ فی اشاعۃ الدین و تالیف الکتب و اقامۃ البراھین و الوعظ و دعوۃ الخلق إلی الاسلام و فی الصوم والصلٰوۃ و الحج والزکٰوۃ و اکثر قضایا الشریعۃ إلی الشریعۃ یردّون.و یستفتون من علماء الاسلام فی معاملات المسلمین ولا یعتدون.و یفتشون عند کل حکم و قضاء و فصل و امضاء و لا یستعجلون.و اذا حضرمحاکماتھم المسلمان یرغبونھم فی شوری المسلمین و یعظونھم لیقبلوا حَکَمًا حَکَمًا من اھلھما و اذا قبلوا فیفرحون.و ظھرت فی ایامھم علوم الاسلام و سنن خیر الانام صلی اللّٰہ علیہ وسلم ترجمہ: منسلک در اعوان ریاست و عملہ و عمال و خدم گردید عرضۂ گوناگون تاوان ہا و غرامہا و مورد انواع و خامت عاقبت می شد.گویا نوکری تمہید و مقدمۂ ہر رنگ عقاب و وبال بود حال ما مانندی چیزے بود کہ در روزے صد بار زیر و زبر کردہ شود.ہرگز کسے بجزم و قطع نمی تو انست بگوید کہ فردا حالش چہ خواہدبود.درمیان زندہ ہا باشد یا در زمرۂ بغارت رفتہا و کشتہا جاگیرد.صد ہزار سپاس و ستائش مر خدائے راست کہ آن ہمہ خوف و ترس و بیم را بہ امن و امان بدل و عوض فرمودہ و برسر ما سایۂ ملکۂ کریمہ گستردہ کہ عاملانش سطوت و تحکم و تجبرندارند و نہ مثل مار کسے راگزند و آزار می رسانند.بلکہ بر زیر دستان ترحم مے آرند.امروز مارا میسرست کہ دست در ہر گونہ کار ہائے سترگ و امور بزرگ در اندازیم و بجہت استحصال مقاصد و اغراض ہر صعب ناک مہمے کہ خواہیم در پیش گیریم و با این ہمہ ہیچ خوف و خطر و حزن و ملال لاحق
و لا ینکرھا الا المتعصبون.و کم من مدارس عمروھا و اشاعوا انواع الفنون و اخرجوا کل ما کان کالمدفون.و رتبوا فیھا قواعد الامتحان، لیکرم الطالب اویُھان.ولا شک انھم احسنوا ضوابط التعلیم و أکملوا طرق التفھیم و ملکوا فی ھذا الأمر کل زندۃ متعسّرۃ الاقتداح و کل قلعۃ مستصعبۃ الافتتاح، و مع ذالک مؤونۃ ھذا التعلیم قلیلۃ و ایامھا معدودۃ و فوائدھا جلیلۃ فلیغبط الغابطون.ولعمری ان ھذا القوم ترجمہ: و عاید بحال مانشود.اگر چنانچہ بیک ناگاہ باید آہنگ سفر را ساز بکنیم ولذا باید خانہ ہا را بے پاس و حفظ خود مان در عقب بگزاریم ہیچ باک از دزو شب رو تیرہ درون نداریم.ہیچ تفاوتے نمی باشد از این کہ پنداری در زمرۂ دوستان و برادران خویش نشستہ و از دیوار خانہ ہا برون نرفتہ ایم.اکنون عاقلان خود بگویند کہ با این نعمتہا چگو نہ شکر این دولت عظمی بجا نیاریم.مارا آزادی کلّی و اقتدار تام در جمیع امور اسلام از اشاعت دین و تالیف کتب و اقامت براہین و وعظ و دعوت خلق باسلام و روزہ و نماز و حج و زکوٰۃ مرحمت فرمودہ اند.اکثر قضیہ ہائے مسلمانان را کہ تعلق بہ شریعت عزائے محمدیہ (علیٰ صاحبہا السلام والتحیۃ) دارد بشریعت رومیکنند.و در معاملات مسلمانان استفتا از علمائے اسلام میفرمایند و از اعتدا اعراض می نمایند و در وقت امضائے حکمے و نفاذ امرے ہر گو نہ تانی و تفتیش ممکن باشد بجامی آرند و عجلت را روا نمی دارند.و چون دو مسلم حکومت خود را بانہا مرفوع کنند اولًا ہر نہج ترغیب و تحریص آن میدہند کہ آن ہر دو رجوع بہ شورائے مسلمانان آورند.و از میان خود ہا حکم برگزینند.و برقبول آنہا این مشورت
قو م أرسلہ اللّٰہ لنا و لخیرنا، أبادوا من أبادنا، و قلدوا بالنعم أجیادنا، ووجب علینا شکرھم بالقلب واللسان و ھل جزاء الاحسان الا الاحسان فلیتلقہ المسلمون بالاجلال والاعظام و یحملوا نیرطاعتھم علی کاھل المَبَرَّۃ والاکرام، و من عصاہم منا أو خرج علیہم أو حاربھم فاولئک الذین اعتدوا حدود اللّٰہ و رسولہ و أولئک ھم الجاھلون.و حرام علی المؤمنین تجدیفھم حتی یُغیّروا ما بأنفسھم و ما کان لمؤمنٍ و لا مؤمنۃ أن یعصی فی المعروف ملکا یحفظ عرضہ ترجمہ: و اندرز را شادمان میگردند.وہم در این ایام علوم اسلام و سنن حضرت خیر انام علیہ الصلوٰۃ والسلام ظہور فوق العادۃ پذیرفتہ و برین امر جز متعصبے کور باطن انکار نتواند بکند.بجہت اشاعت و ترویج انواع علوم و فنون مدارس اقامت کردہ و دفائن و خزائن علوم را در عالم اشتہار دادہ اند.و درین مدارس بجہت امتحان قواعد و ضوابط تہذیب و ترتیب فرمودہ کہ طلباء در ہنگام آزمائش مستوجب انعام و اکرام بر آیند یا مستحق ملام.شک نیست کہ در اتقان ضوابط تعلیم ہرگونہ دشواریہا و مشکلات را کہ خیلے متعسر و ممتنع و امی نمود تسہیل و چیزے پیش دست ساختہ اند.و بالائے این ہمہ مؤنت این تعلیم خیلے قلیل و ایام آن معدود و فائدہ اش جلیل می باشد.لا ریب این قوم را خدائے رحیم بجہت بہبود ما فرستادہ.آنہا دشمنان مارا ہلاک ساختہ.گردن مارا بہ قلادہائے نعمت و منت بستہ اند.چہ قدر لازم و واجب است کہ بدل و جان سپاس آنہا بجا آریم زیر اکہ جزائے احسان جز باحسان نمی باشد.مسلمانان را باید باجلال و اعظام آنہا را بپذیرند و غاشیۂ وطاعت آنہا بردوش انقیاد و اکرام بگیرند.و ہر کہ از ما عصیان ورزد یا خروج و بغی و جنگ در حق آنہا اختیار کند.لاریب
و ما لہ و یتحامی اھلہ و عیالہ و یفشی الاحسان و یذھب الاحزان و ینشیء الاستحسان، فخذوا الفتوی ایھا المستفتون.فأذنوا بحکم اللّٰہ و لا تمیلو الی جذبات النفس و لا تأذنوا بآراء العلماء الذین یفتون بغیر علم فیَضلون و یُضلون.اننا لقد عاینّا آلاء کثیرۃ و نعماء کبیرۃ من قیصرۃ الھند فکیف ننساھا و نکفربھا و ان اللّٰہ لا یرضی لعبادہ أن یکفروا و ھم منعمون.لا ریب فی ان القیصرۃ احد جناحی المسلمین ترجمہ: او متجاوز از حدود خدا و رسول و جاہل از سنن ہدی خواہد بود.مسلمانان را نا سپاسی ہرگز روا نیست تا آنہا خود ہا را از خود تغیر ندہند و ہیچ مومن و مومنہ را سزاوار نیست کہ در امور معروف داغ عصیان ملکے برجبین خود زند کہ او حافظ عرض و مال و حامیء اہل و عیال او باشد.و آن ملک از غایت کرم احسان ہا را دربارۂ او اظہار رنج و غمہائے او را دور میکند.مستفتیان باید این فتوی رابگیرند بپزیدند.اکنون گوش بحکم خدا بنہید.و برجذبات نفس پشت پا زدہ رائے آن علماء را کہ از جہل فتوی میدہند و گمراہ میشوند و میکنند بموقع قبول جامدہید.خدا میداند کہ ما از قیصرہ ہند نعمتہائے بزرگ و بسیار دیدہ ایم چگو نہ شود کہ نسیان و کفر ان آنہا روا داریم زیرا کہ حق تعالیٰ ہرگز راضی نمی شود کہ بندگانش راہ کفر ان را بگیرند.فی الحقیقت قیصرہ ہند یک جناح مسلمانان و حافظۂ اسلام و محسنۂ آنہا می باشد.وجودش برائے ما برکتے وجودش بجہت ما ابر کرم است.او ہرگز رضا باذیت ما نہ دادہ و خداوند بزرگش از ظلم و ستم و تغافل محفوظ داشتہ.گروہ ہائی مختلف و قومہائے گوناگون در زیر دامان و سیعش ماوا و ملاذ دارند و ہریک بعنایت خاصش مباہات می نمایند.این افساد و تطاول قسیسان کہ شیوع دارد و از ہر جانب سموم دم مسموم آنہا می وزد.
و حا فظۃ آثار الاسلام و من الذین ھم یحسنون.وجودھا لنا برکۃ وجودھا لنا مُزْنۃ لیست علی اذیتنا براضیۃ، و قد عصمھا اللّٰہ من ظلم و تغاضٍی.آوت اقوامًا متفرقۃ فی ذیل فضفاض کل حزب بعنایتھا فرحون.و اما فساد قسیسین و تطاولھم و ھبوب سمومھم، و شیوع ضلالات الفلاسفۃ و انتشار علومھم، فلیس فیھا دخل ھذہ الملیکۃ مثقال ذرۃ و ھذہ الدولۃ بریۃ من الظن بحمایتھا بل ھذہ نتائج حریۃ قد أُعطی لکل قوم نصیب تام منھا ‘ و ما اعطی قانون القیصرۃ حقا زائدا للقسیسین علی المسلمین، بل سواھما فی ذالک فلم یرتاب المرتابون و من فھم ان القسیسین شعبۃ من شعب ھذہ الدولۃ و انہم یعظون بأمرا القیصرۃ فقد ضل ضلالا بعیدًا و صار من الذین یظلمون.ترجمہ: و ضلالت و غوایت فلسفیان کہ عالم را تیرہ و تار گردانیدہ و علوم ناپاک آنہا شہرت تمام یافتہ است ملکۂ معظمہ ہیچ تعلق و دخل باین امور ندارد و ساحت این دولت از ظن حمایت آنہا بکلی مبرا می باشد.بلے این ہا ہمہ از نتائج آن آزادی ناشی و فاشی شدہ کہ ہر قومے را از آن بہرۂ وافر بخشیدہ اند.اسقفان ہیچ حقے زاید برمسلمانان ندارند بلکہ درین باب ہر دو گروہ مساوی می باشند.و ہر کہ گمان دارد کہ اسقفان شعبۂ از شعبہائے این دولت می باشند و وعظ و تبلیغ برحث و تائید قیصرہ می نمایند او خیلے غلط کار و ستمگار باشد.ہرگز نمی شود کہ قیصرۂ ہند اہل اسلام را از اشاعت اسلام منع و زجر می فرماید.چنانچہ پر ظاہرست کہ قومے از متمذہبانش در قرب دار دولت او کلمۂ طیبہ اسلام رابجان پذیرفتہ و تاسیس و تعمیر مساجد نمودہ اند.خلاصہ عنایات وا لطافش مخصوص بقومے خاصے نیست.و این
اتمنع القیصرۃ من اشاعۃ دین الاسلام و کأَیّن من قومھا و من نواح دار دولتھا أسلموا وأسَّس المساجد فیھا وعمرت فما لکم لا تفھمون.و عنایاتھا لیست مختصۃ بقوم دون قوم، ذلک ظن الذین یقنعون علی خیالات سطحیۃ و ھم عن حقیقۃ الامر غافلون.انظروا الی آثار فیضھا کیف اقامت فی کل بلدۃ أندیۃ الافادۃ فمنھا أندیۃ الادب و منھا أندیۃ سیاسۃ المدن و وشحتھا بشوری الحکماء و العقلاء و أجرت من العلوم انھارًا.و فتحت للطلباء مدارس و ھمّنت لفقراء ھم درھما و دینارًا، و أعانتھم ادرارًا، و طالما داومت علی ذلک فاشکروا لھا ایھا المسلمون، وادعوا اللّٰہ ان یدیم عزّ ھذہ الملیکۃ الکریمۃ و ینصرھا علی الروس المنحوس و یدخلھا فی الذین آمنوا باللّٰہ و رسولہ ترجمہ: گمان بد درسر آنہا جامیگیرد کہ قانع بر خیالات سطحیہ و از فقدان ملکۂ غور و فکر غافل از حقیقت امر می باشند.نظر بر اثبات این مدعا می توانیم آن آثار فیوضش را گواہ بیاریم کہ از وفور کرم در ہر بلدہ مجلسہائے افادات برپا فرمودہ است کہ از جملہ آن مجلس اشاعت و ترویج ادب و مجلس سیاست مدن و ہمچنین مجالس دیگر میباشد.این ہمہ مجالس امورش باتفاق رائے و شورائے عقلاء و حکماء قطع و فصل می باید.فرخندہ مادر مہربانی کہ دریا ہائے علوم را روان ساختہ و درسگاہ ہا بجہت طلباء مفتوح فرمودہ.تہیدستان و بیزار ان را از قبل دولت اورا ر و موظفات و اعانہ مرحمت میفرماید.اے مسلمانان برخیزید و شکر این عطیات را بجا بیارید و از خدا مسئلت بنمائید کہ این ملکۂ کریمہ را بقائے دوام و بر روس منحوس نصرت و ظفر بہ بخشد.
و یعطیھا خیر الکونین و یجعلہا من الذین أوتوا حظ الدارین و یسعدون.یا قیصرۃ الھند وُقیتِ التَّلَفَ و أُنیست کل رُزء سلَف، قد بذلت فی اقامۃ الامن جھد المستطیع و وسعت الحریۃ غایۃ التوسیع و نجیت المسلمین من ھموم ناصبۃ، و أخرجت لھم اصداف درر ناضبۃ و رأینا منک راحۃ القلوب و قرۃ الاعین و تودیع الکروب فواھًا لک لو کنت من الذین یسلمون.جزاک اللّٰہ عنا خیر الجزاء.و اعطاک ما فی قلبک من التمنا ۱.لا ینسی نعماء ک ذریۃ المسلمین، و لا یمحی ترجمہ: و او را در جماعہ کہ بخدا و رسول وے ایمان آوردہ اند.داخل و در عطائے خیر کونین وحظ دارین شامل سازد.اے قیصرہ ہند (خدا از تلف محفوظت دارد و ہر رنج گزشتہ از دلت فراموش بشود) ہر قدر استطاعت و جہد و سعی ممکن بود در اقامت امن و توسیع آزادی و فراغ بال مبذول فرمودی.و مسلمانان را از اندوہ و رنج جان فرسا نجات بخشیدہ دامن دامن در ہائے مقصود بر اوشان نثار کر دی.بخدا کہ از لطف تو راحت قلوب و قرت اعین نصیب ماشدہ.اے فرخا حال نیکو مآل تو اگر لباس پاکیزۂ اسلام را در برمیداشتی.حق تعالیٰ از ماجزائے خیرت د ہد و ہمہ متنمیات دل ترا بر آرد.اولاد مسلمانان احسانہائے ترا ابدا فراموش نہ کنند.و نام ہمایونت از دفتر اہل فرقان تا قیامت محو نشود.اے خوشا حال تو.تو بر قومے نظر احسان و امتنان مبذول فرمودی کہ ذلیل و خوار گردیدہ بود.این زمان و زمانیان منقطع شوند ولے مآثر جمیلہ ات ابدالدہر روئے انقطاع نخواہد دید.
اسمک عن دفاتر الفرقانیین.ینقطع الزمان و لا ینقطع ذکر مآثرک، فطوبی لک ایتھا المحسنۃ الی الذین کانوا یُقمعون.أیتھا الملیکۃ المکرمۃ انی فکرت فی نفسی فی کمالاتک فوجدتک انک حاذقۃ یمرّ رایک فی شعاب المعضلات مر السحاب، و تزف مدارکک فی الغامضات کزف العقاب، و لک ید طولی فی استنباط الدقائق و مآثر غراء فی تفتیش الحقائق، و أنت بفضل اللّٰہ من الذین یصیبون فی استقراء المسالک و لا یخطون.انت یا ملیکۃ تستشفین کل ترجمہ: اے ملیکۂ مکرمہ چون باخود در کمالات عجیبہ ات در اندیشہ رفتم دیدم کہ رائے رزین و فکر متین تو از کمال جودت و حذاقت در شعاب امور مشکلہ و غامضہ از سیر ابرو پرواز عقاب سریع تر می رسد و فہمیدم کہ در استنباط دقائق ید طولی و در تفتیش حقائق مآثر غرّا میداری.و دریافتم کہ از فضل خدا در استقرائے مسالک رائے تو پیوستہ بر صواب و مصؤن از خطا می باشد.بافکر دقیق و ذہن رسا ہر گونہ جوہر برگزیدہ و نکات معدلت و نصفت استنباط و استخراج میکنی.چنانچہ ازین بابت ترا مآثرے کہ مذاق شیرین و سیاق نمکین دارد و بر صفحات زمانہ مثبت میباشد و ستود ہا و برگزیدہانیز در ثنائے تو رطب اللسان ہستند.اکنون بعد از آنکہ کمالات و صفات ترا کہ مشام چار دانگ عالم را معطر دارد بخاطر آور دم در دلم ریختند کہ ترا از امرے باخبر بسازم کہ در نزد خدا از آن رفعت و قدر تو بلند و زیاد گردد.و خدا آگاہ است کہ از جوش دلش مذکور میکنم زیرا کہ اخلاص و حب قلبی مرا برآن می آرد کہ بہرچہ در آن فلاح و صلاح تو مرکوز باشد ترا دعوت بکنم ولو ازم شکرت نمی خواہم انعامی آن بنمایم و ہمہ اعمال بستہ بہ نیات می باشد و مخلص از صدق نیت شناختہ گردد.ہرگز ہیچ مخلصے را
جو ھر نقی و تستنبطین دقائق المعدلۃ بفکر دقیق و ذھن ذکی و ان لک فی ھذہ اللیاقۃ مآثر حلوّ المذاقۃ ملیح السیاقۃ و یحمدک المحمودون.فالآن قد اُلقی فی بالی بعد تصور کمالاتک و حسن صفاتک التی تضوعت ریحھا فی العالم ان أخبرک من أمر عظیم، لیرتفع بہ قدرک عند رب کریم.وما اذکرہ الّا بفورۃ إخلاصی لان اخلاصی قد اقتضی ان ادعوک الی خیرک ولا أُلغی لوازم شکرک و ترجمہ: سزاوار نیست کہ امرِ خیر را از محسن خود پنہان دارد بلکہ برا و واجب است کہ متاع خودرا بر او عرض بدہد.اے ملکۂ کریمۂ عظیمہ من خیلے در شگفت فروماندہ ام کہ با این کمال فضل و علم و فراست از قبول اسلام ابا میداری و چنانچہ در امور عظام امعان و غور را کار میفرمائی در اسلام نگاہے نمی اندازی.عجب است کہ در شب تیرہ و تار چیزے را باز می بینی ولے اکنون کہ آفتاب باہمہ تجلی و وضاحت بر آمدہ آنرا در نمی یابی.یقین بدان کہ دین اسلام مجمع انوار و منبع بحار است و ہر دین حقے شعبۂ ازآن میباشد.ہر کہ خواہد بیازماید.فی الحقیقت این دین دین زندہ و مجمع برکات و مظہر آیات است.امر بہ طیبات و نہی از خبیثات میکند.ہر کہ خلاف آن بگوید و اظہار دہدا و لاریب دروغ زن و مفتری باشد.و از مفتریان پناہ بخدا میجوئم.از آنجا کہ آنہا حق را پوشیدہ و با باطل دوستی ورزیدہ اند خدائے حکیم آنہا را مورد نفرین گردانیدہ و نور فطرت را از سینۂ آنہا برون کشیدہ است چنانچہ حظّ خود را ازان نور فراموشیدہ بہ ساختہا و تعصبات خویش شادمانی میکنند.اے ملکہ این قرآن کریم خاصیتے دارد کہ سینہ را پاک و صاف و از نور پُر میفرماید.و
انما الاعمال بالنیات و بصدق النیۃ یعرف المخلصون.و ما کان لمخلص ان یستشعر أمرا فیہ خیر محسنہ بل یستعرض متاعہ لہ ولا یکون من الذین یکتمون.أیتھا الملیکۃ الکریمۃ الجلیلۃ أعجبنی انک مع کمال فضلک و علمک و فراستک تنکرین لدین الاسلام، و لا تُمعنین فیہ بعیون التی تمعنین بھا فی الأمورالعظام.قد رایت فی لیلٍ دجی، والآن لاحت الشمس فما لک لا ترین فی الضحٰی، ایتھا الجلیلۃ اعلمی ایدک اللّٰہ ترجمہ: پیروان را از انوار انبیاء (علیہم السلام) بہرہ مند و مہبط سرور روحانی می نماید.بلے این انوار نصیب آنہا می باشد کہ فساد و کبر و بلندی را دوست ندارند و از تمام اخلاص و صمیم دل رو بقبول انوارش آرند.البتہ امثال این مردم کشاد دیدہ و زکوٰۃ نفس با مرحمت می کنند.من از منت و فضل خداوند (عزّ اسمہ) بہرۂ وافر و حظے متکاثر از انوار قرآن میدارم.دل مرا از آن نور منور و از ہدایت و اصلانہ بہر در ساختہ اند.از انعام جلیل خدا برمن آنست کہ او مرا با آیات بینہ بجہت آن فرستادہ کہ ہمہ خلق را بسوئے دین حق الٰہی دعوت کنم.فرخندہ بختے کہ مرا بپزیرد و موت را بخاطر در آردیا نشانے بخواہد و بعد از دیدنش بمن گردد.اے ملیکۂ کریمہ از نعمائے دنیویہ ترا نصیبے بسیار دادہ اند.باید اکنون رغبت بملک آخرت بکنی و سر نیاز بدرگاہ پروردگار یگانۂ فرود آری کہ ذاتش از گرفتن پسرے و ملکش از مشارکت شریکے بری و غنی است.آن رب وحید را از دل برون کردہ.ہمچو معبودان را اختیار می نمائید کہ چیزے را نیا فریدہ اندوخود شان آفریدہ شدہ اند؟
أن دین الاسلام مجمع الانوار، و منبع الانھار و حدیقۃ الأثمار و ما من دین الا ھو شعبتہ فانظری الی حبرہ و سبرہ و جنتہ و کونی من الذین یُرزقون منہ رزقًا رغدًا و یرتعون.و ان ھذا الدین حی مجمع البرکات و مظھر الآیات یامر بالطیبات و ینہٰی عن الخبیثات و من قال خلاف ذالک أو أبان فقد مان، ونعوذ باللّٰہ من الذین یفترون.فبما اخفاء ھم الحق و إیواء ھم الباطل لعنہم اللّٰہ و نزع من صدورھم انوار الفطرۃ فنسوا حظھم منہا فرحوا بالتعصبات و ما یصنعون.أیتھا الملیکۃ ان ھذا القرآن یطھّر الصدور و یلقی فیھا النور و یری الحبور الروحانی و السرور من تبعہ فسیجد نورا وجدہ النبیون و لا یلقی انوارہ الا الذین لا یریدون علوًّا فی الارض و لا فساد و یاتونہ ترجمہ: و اگر از اسلام شکے در دلت باشد من بحول و قوّت خدا آمادہ ہستم کہ آیات صدقش بنمایم.خدا بہرحال بامن است.دعاہائے مرامی شنود و ندائے مرا پاسخ می گزارد.و چون از وے نصرت و عون بخواہم دست من میگیرد.من بہ یقین میدانم کہ او در ہر موطن و میدان مرا مدد فرماید و مرا صنائع نسازد.آیامی شود کہ ترا از خوف روز قیامت رغبت و میل بدیدن نشانہائے صدق من در دل پدید آید.اے قیصرہ توبہ بکن.توبہ بکن.و بشنو بشنو.خدا در ہمہ چیز ہائے تو و مال تو برکت بخشد.و بر تو رحمت و بخشائش نازل فرماید.و اگر بعد از امتحان کذب و دروغ من پیدا شود تن برآن در میدہم کہ مرابکشند و بردار بکشند یا دست و پائے مرا از ہم ببرند.و اگر صادق بر آیم مردے دیگر آرزو ندارم جز این کہ رجوع انابت بآفرید گارخود آوری کہ ترا پروردہ و نواختہ و ہمۂ مسؤلات ترا بتو مکر مت کردہ.
راغبا فی أنوارہ فاولئک الذین تفتح أعینھم و تزکی انفسھم فاذا ھم مبصرون.و إنی بفضل اللّٰہ من الذین اعطاھم اللّٰہ من انوار الفرقان و اصابھم من اتم حظوظ القرآن، فانار قلبی ووجدت نفسی ھداھا کما یجد الواصلون.ثم بعد ذالک ارسلنی ربی لدعوۃ الخلق و آتانی من آیات بینۃ لأدعو خلقہ الی دینہ فطوبی للذین یقبلوننی و یذکرون الموت او یطلبون الآیات و بعد رؤیتھا یؤمنون.ایتھا الملیکۃ الکریمۃ قد کان علیک فضل اللّٰہ فی آلاء الدنیا فضلا کبیرا فارغبی الآن فی ملک الآخرۃ و توبی واقنتی لرب وحید لم یتخذ ولدا و لم یکن لہ شریک فی الملک و کَبّریہ تکبیرا.أ تتخذون ترجمہ: اے مالکۂ ممالک عظیمہ و قیصرہ ہند آواز مرا بشنو و از ذکر حق دل تنگ مباش.اے قیصرۂ کریمۂ جلیلہ حق تعالیٰ اندوہ ہا را از تو دور سازد و ترا و جگر پارۂ ترا زندگی دراز بخشد و از شر حاسدان و دشمنان ترا در پناہ خویش دارد.این ہمہ از محض ترحم و اشفاق برحال و مآل تو تسطیر کردہ ام.و بجہت تو از خدا برکت روز و شب و برکت دولت ونصرت و ظفر مسئلت می نمایم.اے ملکہ دولت اسلام را بپذیر سلامت بمانی.مسلمان بشو کہ تا بروز پسین تمتع بردار و از شر اشرار رستگار شوی.اے ملکۂ کریمہ مرا خدائے بزرگ از دنیا شاغل و بآخرت مائل فرمودہ است.ازین دنیا جز دو نان خشکے و کوزہ آبے نمی خواہم.ہمہ آز و ہوا و ہوس از دلم بکلی برون شدہ.آرزوئے جاہ و منزلت و رتبت و زینت دنیا نمیدارم و تمنائے لحوق بہ جماعۂ دارم کہ
من دونہ آلھۃ لا یخلُقون شیئا و ھم یخلقون.و إن کنت فی شک من الاسلام فھا انا قائم لاراء ۃ آیات صدقہ و ھو معی فی کل حالی اذا دعوتہ یجیبنی، و اذا نادیتہ یلبینی، و اذا استعنتہ ینصرنی، و انا اعلم انہ فی کل موطن یعیننی و لا یضیعنی.فھل لک رغبۃ فی رؤیۃ آیاتی و عیان صدقی و سدادی، خوفا من یوم التنادی.یا قیصرۃ تو بی توبی واسمعی اسمعی بارک اللّٰہ فی مالک و کُلِّ مالک و کنت من الذین یرحمون.فان ظھر کذبی عندالامتحان فواللّٰہ انی راضٍ ان اُقتل او اُصلب او تُقطع أیدی و أرجلی، والحق بالذین یذبحون.و ان ظھر صدقی فما اسئل اجرًا منک الا رجوعک الی الذی خلقک و ربّاک و اعزک ترجمہ: در جنت بجہت آنہا سریرہا بیارایند و از نعمائے جنت آنہا را روزی بدہند و در بُستانہائے قدس تنزّہ و تفرج نمایند.اے ملیکۂ کریمہ من مسلمانے می باشم کہ بہرۂ تمام عرفان مرا مکرمت فرمودہ اند.ملکوت آسمانہا را در چشم من جلوہ دادند و حبّ و انس بآن در دلم ریختند.و ملک دنیا را برمن عرض کردند و ہمہ علایق دل مرا زان گسیختند.امروز دنیا و حیات دنیا و مال و دولت وے را در دیدۂ من بیش از مردارے مرتبتے و وقعتے نیست.اے قیصرۂ محترمہ آنچہ انجامکار و اہم جمیع امور میخواہم نصحاً در خدمت بہ تقدیم رسانم آنست کہ مسلمانان عضد خاص سلطنت و جناح دولت تو می باشند.و نیز آنہا را در ملک تو خصوصیتے ممتازے و جلیلے است کہ از نظر دور بینت پوشیدہ نیست.باید در آنہا مخصوصا بہ نظر مرحمت و شفقت و لطف فوق العادۃ نگاہے بکنی و راحت و
و آتاک کل ما سألت فاسمعی دعوتی یا ملیکۃ الممالکۃ العظیمۃ وقیصرۃ الھند و لا تکونی من الذین یشمئز قلوبہم عند ذکر الحق و یعرضون.ایتھا القیصرۃ الکریمۃ الجلیلۃ اذھب اللّٰہ احزانک و أطال عمرک و عمر فلذکبدک و عافاک و حفظک من شرالاعداء والحسداء انی کتبت ھذہ الوصایا خالصًا للّٰہ رحما علیک و علی عقباک وأدعولک برکات اللیل و برکات النھار و برکات الدولۃ و برکات المضمار.یا ملیکۃ الارض اسلمی تسلمین اسلمی متعک اللّٰہ الی یوم التنادی، و سلمت و حُفظت من الأعادی، و یحفظک من اللّٰہ الحافظون.أیتھا الملیکۃ الکریمۃ أنا امرء جذبہ اللّٰہ تعالی من الدنیا الی الآخرۃ و ما أسئلہ من ھذہ الدنیا الا رغیفین و کوزۃ ماءٍ و صرف ترجمہ: آرام و تالیف قلوب آنہا را نصب عین ہمت خود سازی.و بسیارے را از آنہا برمنازل عالیہ و مدارج قرب مشرف و سرفراز بفرمائی.آنچہ من می بینم تفضیل و تخصیص و ترجیح آنہا بر جمیع اقوام از لوازمات و منبع مصالح و برکات است.خدا را دل مسلمان راخوش و کشت امید آنہارا سرسبز بکن زیرا کہ حق تعالیٰ ترا نزول اجلال در زمین آنہا مرحمت فرمودہ و مالک ملکے گردانیدہ کہ مسلمانان قریب بہزار سال عنان امر و نہیش در دست داشتہ اند سپاس این نعمت بجا آرد آنہا را درکنار عاطفت و تصدق پرورش بکن.خدائے کریم ہم متصدقان را دوست می دارد.ملک ہمہ مرخدا راست ہر کرا خواہد بدہد و از ہر کہ خواہد انتزاع بکند.او را سنت است کہ ایام شکر گذاران را درازی می بخشد.اے ملکۂ مکرمہ من براستی و صدق بیان میکنم کہ ہمہ مسلمانان ہند از تہ دل مطیع و منقاد تو
قلبی من اھواءٍ لا ارید علوًّا و لا مزیۃ فی الدنیا و لا زینتھا و ارید ان اکون بالذین یُبسط لھم سُرُر فی الجنۃ و من نعماءھا یرزقون، و فی ریاض حظیرۃ القدس یرتعون.ایتھا الملیکۃ انا احد من المسلمین رزقنی اللّٰہ عرفانہ و اعطانی نورہ و ضیاء ہ و لمعانہ، و اظھر علیّ ملکوت السمٰوات و حَبَّبَھا الی بالی و ارانی ملک الارض و کرّھہ الی قلبی و صرف عنہ خیالی، فالیوم ھو فی اعینی کجیفۃ او أَنْتَن منھا و کذا کل زینۃ الحیٰوۃ الدنیا والمال والبنون.و فی آخر کلامی انصح لک یا قیصرۃ خالصًا للّٰہ و ھو ان المسلمین عضدک الخاص و لھم فی ملکک خصوصیۃ تفھمینھا فانظری الی المسلمین بنظر خاص و أقرِّی اعینہم و ألّفی بین قلوبھم واجعلی اکثرھم من الذین یقرّبون التفضیل التفضیل.التخصیص التخصیص و فی ھذہ برکات ومصالح.أَرضیہم فانک وردتِ ترجمہ : می باشند.و ہرگز بوئے فسادے از آنہا استشمام و آتش عناد در آنہا مشاہدہ نمی کنم.و می بینم کہ آنہا بجملگی پیادۂ و سوارۂ تو میباشند و ہموارہ آمادہ و مستعد ہستند کہ شرائط جان نثاری و لوازم انقیاد را بمنصۂ ظہور بیارند و درین امر ہر گو نہ مصائب و مشاق کوہ و دشت را تحمل بکنند.نے نے آنہا در معارک مرد آزما و مصاف جان فرسا اول و اقدام خادمان و جان بازان و در مواضع فصل و امضا چابکترین جوارح و اعضائے تو ہستند.اشارتت را حکم نافذ و طاعتت را غنیمت باردہ می دانند.زنہار زنہار در ہیچ باب از آنہا عذرے و عذرے سر برنزند.اے قیصرۂ ہند این قوم وقتے صاحب شان و مالک تخت و تاج و ازمۂ زمان بودہ اند.این پرستاران اصنام باشارۂ عصائے شوکت آنہا مانند رمہ بر آواز شبان میرفتند.از قضا روزگار از آنہا برگشت و از
أر ضہم و داریھم فانک نزلت بدارھم و آتاک اللّٰہ ملکہم الذی أمروا فیہ قریبًا من ألف سنۃ مما تعدون.فاشکری ربک و تصدقی علیھم فان اللّٰہ یحب الذین یتصدقون.الملک للّٰہ یؤتی من یشاء و ینزع ممن یشاء و یطیل ایام الذین یشکرون.ایتھا الملیکۃ المکرمۃ لا شک أن قلوب مسلمی الھند معک و لا استنشق منھم ریح الفساد وما أری فیھم نار العناد و انّھم رجلک و خیلک المستعدون لفداء النفس و اداء شرائط الانقیاد والحاملون لک جمیع شدائد القُنن والوِھاد بل ھم اول خدمک فی مواطن الاقدام والانبراء.و جوارحک فی مواضع الفصل والامضاء اشارتک لھم حکم، وطاعتک لھم غنم.لن تری منھم غدرًا و لا عذرا ولکنھم یا قیصرۃ الھند قومٌ کان لھم شان.وکانت فیھم سرر و تیجان، وکانوا یحکمون علی عبدۃ الصنم کالرعاۃ علی الغنم، فَقُلِّب أیامھم ترجمہ: بد انجام ئ ناکرد نیہا اسیر پنجۂ جور و جفائے خالصہ گشتند.و از زمانے در از سایۂ ہما پایہ ات راچون روزہ دارے از پئے ہلال عید و برنگ زن آبستن بجہت زادن فرزند سعید چشم در راہ و بیتاب می بودند.بساست کہ یاد ایام گذشتہ کہ حلہ ہائے سلطنت در برداشتند ایشان را نعل در آتش میکند زیرا کہ قلع عادات از محالات می باشد.خدا برنہان من آگاہ و گواہ است کہ این قدر کہ عرض خدمت شریفہ ات کردہ ام ناشی از نصح و خیر طلبی بودہ است.و سو گند بخدا یاد میکنم کہ ہمہ خیر و مصلحت منطوی درین می باشد کہ اکرام و اعزاز ایشان بایشان باز بدہی و از عطائے بعضے مناصب و مدارج ایشان را امتیاز و افتخار بہ بخشی.و ہرگز مصلحت درین نیست کہ برنگ مار و مور ضعیف
من سوء أعمالھم و ظُلموا من أیدی ’’الخالصۃ ‘‘ و إخوانھم و کانوا یستشرفون وقت حکومتک کاستشراف الصائمین ھلال العید، و یرقبون عنایتک رقبۃ الحبلی ولادۃ الابن السعید.و کانوا بقدومک یستفتحون.و قد مضت علیھم ایام کانوا فی حُللِ إمارات و بعصیّ اختیارات فیلوعھم فی بعض الاوقات ادّکار ھذہ الدرجات، فان قلع العادات من المشکلات.و ما قلت لک الا نصحًا و انما الاعمال بالنیات.و واللّٰہ ان الخیر کلہ فی اکرامھم و ردِّ عزتھم الیھم ببعض المناصب و العطیات، و ما أری خیرًا فی حیل استیصالھم و قتلھم کالحیات، و ما کان لنفس ان تموت او تنفی من الارض الا بحکم رب السمٰوات.فأشفقی علیھم ایتھا الملیکۃ الکریمۃ المشفقۃ احسن اللّٰہ الیک وا عفی عنی ان رایت مرارۃ قولی فان الحق لا یخلو من المرارۃ والعفو من کرام الناس ترجمہ: و خوارداشتہ و از جا بردہ شوند.و در حقیقت نمی شود کہ نفسے از نفوس جز حکم خدا بمیرد یا از ملک اخراج کردہ شود.بر این ضعیفان رحمے بفرما و اگر در قول من تلخی رفتہ باشد عفو و درگذر بکن زیرا کہ حق پیوستہ مخلوط بہ مرارت می باشد و بزرگان از زلّات اغماض می کردہ اند.می بینم کار مسلمانان بجائے رسیدہ است کہ از شدت فقر و بیچارگی در ملک امرا جز خشت و سنگ نماندہ.سر ہا از عمامہ و دستار برہنہ شدہ و از اثاثتہ البیت بجہت رہن جزکوزہ سفالین در دست ندارند.وقتے از اوقات بود کہ خدم و حشم و متاع و قماش داشتند و امروز جز دست و پائے آنہا خادم آنہا نمی باشد.از دست گردش روزگار و روز افزونی صعوبات و انسداد راہ ہائے
مأ مول.إنی أری المسلمین قد مسّھم البؤس والافتقار و ما بقی فی بیوت ذریۃ الامراء الا اللَّبن والأحجار.سقطت العمائم عن الرؤوس، و ما بقی للرھن غیر الاباریق والکؤس.کانوا فی وقت ذوی حواشٍ و غواشٍ و متاع و قماش والیوم لا اری حفدتھم الا جوارحھم و أراھم من تقلب الایام کالسکاری وما ھم بسکاری، ولکن غشیھم من الغم ما یغشی الناس عند ازدیاد الاعتیاص و انسداد طرق المناص.و انی أری أنک کریمۃ جلیلۃ و مثلک لا یوجد فی الملوک.و قد وھبک اللّٰہ حُزامۃً وانبعاثًا.تواسین رعایاک بالتعب الشدید و لا تطیعین راحۃ الا حثاثا، و تستغرقین اوقاتک فی تفقد الرعایا و فکر مصالحھم و تختارین النصب لعل الخلق یستریحون.و ظنی انک قد قلت لنائبیک فی الھند ان یفضّلوا شرفاء المسلمین علی غیرھم، و ینظروا الیھم باعزازٍ خاصٍ ترجمہ: نجات سراسیمہ واردست و پاگم کردہ اند.و می بینم در ذات تو کرم و رحم را سرشتہ اند و ہرگز نظیر تو در پادشاہان موجود نمی باشد.از حزم و بیداری حظے کامل ترا بخشیدہ اند.مواسات و مدارات رعایا را بر آرام جان اختیار و از حظ نفس قدرے قلیلے بہرہ میگیری.و بجہت اینکہ رعیت با خواب امن و راحت بخسپند ہر قدر رنج و زحمت ممکن باشد جان خود رامیدہی.درتفقد حال بیچارگان و فکر مصالح ناتوان اوقات عزیزت را مصروف میداری.و یقین من است کہ از پیشگاہت این نواب و عمال را کہ زمام اختیار امور ہندوستان در دست دارند تاکید بلیغے رفتہ کہ بہرحال مسلمانان رابمزیت خاص و فضیلت با اختصاص بر دیگران شرف و امتیاز بہ بخشند.ولے این نواب زاغ را باعقاب
و یقربوھم بخصوصیۃ ولکن النائبین سوّوا الامر و ما رعوا مصلحۃ اعزاز المسلمین حق رعایتھا بل ما خطر ببالھم أن ینظروا الی أطمارھم و یسعفون.ھذا ما قلت شیئا من حال مسلمی الھند و أما عبدۃ الاصنام الذین یقولون اننا ’’ھندو‘‘ و ’’آریۃ‘‘ فھم قوم أنفدوا أعمارھم کالعبید والحفدۃ و مرت علیہم قرون کمجھول لا یعرف أو نکرۃ لا تتعرف.و تعرفین ایتھا الملیکۃ الجلیلۃ انھم مسلوبۃ الطاقات و مطرودۃ الفلوات من دھر طویل.جلودھم قد وسمت، وجنودھم قد حسمت، و زمام نفوسھم قد ضفر.و ظھر عزمھم قد کسر.فیمشون الی ما سیقوا و لا یعتذرون، و لا یریدون عزۃ و فی قلوبھم جبن الغلمۃ فھم لا یبسلون.والسر فی ذالک انھم من حقب متلاحقۃ مطیۃ خدمۃ لا اھل حکومۃ و معتاد فقر و مسألۃ لا من أھل عزۃ ترجمہ: و سہارا با آفتاب بریک پایہ فرود آوردہ ہرچہ باید در استمالت قلوب و اعزاز خاص مسلمانان التفات نکردہ اند.این است آنچہ شمۂ از حال مسلمانان میخواستم عرض بدہم.آن گروہ ہائے دیگر کہ آریہ یا ہندو میباشند ہرگز صلاحیت آن نداشتہ اند کہ بجہت احوال مسلمانان مقیاس و میزان توانند بشوند باین معنے کہ از زمانہائے دراز در رنگ حلقہ بگوشان و خادمان بسرمی بردہ و از قرون کثیرہ مجہول و متواری در کنج خمول بودہ اند.و بمثابۂ جبان و بے زہرہ و مسلوب الطاقہ گردیدہ کہ ہیچ نمودے و بودے و جمعیتے و عزمے در آنہا باقی نماندہ است.بہر سو کہ برانند میروندو بہر جا کہ دوانند بہا نہ نمی انگیزند حل این سر چنان تواند بود کہ چون از مدد مدیدہ متصلًا مسخر و منقاد ملوک اجانب و لذا معرا از لباس زیبائے سروری و شاہی بودہ اند معتاد
و د ولۃ.انتابت الملوک علیہم من غیر قومہم فہم بہ معتادون.مثل المسلمین کمثل ماء لا یجری الا الی ارضٍ غورٍ ذات حطوط، و مثل عبدۃ الاحجارکقوم لوط.او کحمیر احتجت لسوقھا الی سوط.او عصا مخروط.تلک عظام نخرۃ و ھم قوم کانوا عرجوا ویعرجون.ھذا ما رأیت فقلت نصحًا للّٰہ و اخلاصا فی حضرتک والأمر الیک و انا تابعون.ترجمہ : د خوگر بہ مذلت و زبونی گردیدہ و ادنی ملا بستے بہ سربلندی و علو نداشتہ اند.من آنچہ شرط بلاغ و اخلاص و لازم نصح و ارادت است بتقدیم رسانیدم اکنون امر بدست تست و ماکہ تابع و مطیع فرمان می باشیم.الخاتمۃ فی بعض الحالات الخاصۃ التی ھی مفیدۃ للمستطلعین الذین یتمنون زیادۃ المعرفۃ فی سوانحی وسوانح آبائی و سوانح بعض اخوانی فی الدین الحمد للّٰہ الذی جعل العلماء الروحانیین المحدثین ورثۃ النبین و أدبہم فأحسن تأدیبھم، و أزال کدوراتھم کلھا و جعلھم کالماء المعین.
و علّمھم فصفّی علومھم و عرّفھم فأتمّ معارفھم و بلّغھم الی منارات حق الیقین.و وفقھم فدّق لوازم التوفیق فی نیّاتھم و أعمالھم و أفعالھم وأقوالھم حتی تزکّوا و تراء وا کسبیکۃ الذھب بلمع مبین.و شرح صدورھم وأکمل نورھم و جعل وجھہ حبورھم و سرورھم و جعلھم من غیرہ منقطعین.و رفع مقامھم و ثبت اقدامھم و نوَّرا فھامھم و طھر فراستھم والھامھم و أعطی جواھر السیوف اقلامھم و لمعات الدر کلامھم، وآمنھم من کل خوف و أعطاھم من کل شیء فتبارک اللّٰہ أکرم المعطین.والصلوۃ والسلام علی السید الکریم الجلیل الطیب خاتم الانبیاء و فخر المرسلین، الذی سبق الاولین والآخرین فی الاھتداء والاصطفاء والاجتباء والترحم علی عباد اللّٰہ حتی سمی ببعض أسماء رب العالمین.لا شرف الا و ھو الاول فیہ و لا خیر اِلَّا و ھو الدال علیہ و لا ھدایۃ الا و ھو منبعھا و من ابتغی الھدی ممن سواہ فھو من الھالکین.اما بعد فأری ایھا الاخوان ان أفصل لکم قلیلا من بعض حالاتی الخاصۃ و حالات آبائی لتزدادوا معرفۃ و بصیرۃ و ما توفیقی الا باللّٰہ الذی انطقنی من روحہ ھو ربی و محسنی ومعلمی و ھو الذی نورنی بأنوار الیقین.فاعلموا یا اخوان ان اسمی غلام احمد واسم أبی غلام مرتضی و اسم ابیہ عطا محمد و کان عطا محمد ابنُ گل محمد وُ گل محمد ابن فیض محمد و فیض محمد ابن محمد قائم و محمد قائم ابن محمد اسلم و محمد اسلم ابن محمد دلاور و محمد دلاور ابن الہ دین و الہ دین ابن جعفر بیگ و جعفر بیگ ابن محمد بیگ و محمد بیگ ابن عبدالباقی و عبدالباقی ابن محمد سلطان
و محمد سلطان ابن میرزا ھادی بیک المورث الاعلی.فذالک اسمی و ھذہ اسماء آبائی غفر اللّٰہ لنا ولھم و ھو أرحم الراحمین.و ان استطلعتم علاماتٍ لابد منہا فی ایصال المکاتیب إلیّ فاکتبوا ھکذا علی لفافۃ مکتوبکم اعنی بذالک قادیان ضلع گورداسپورہ قسمۃ امرتسر ملک فنجاب من ممالک ھند واکتبوا علیہ اسمی ’’میرزا غلام احمد قادیانی‘‘ یصلنی انشاء اللّٰہ تعالی و ھو خیر الموصلین.والآن ابین لکم من بعض واقعات أری فی تبیینھا خیرا و برکۃ و تفھیم ما لا تعلمون بعلم الیقین.فاعلموا ایھا السادۃ انّ آبائی کما ذکرت فیما مر کانوا من عظماء الحراثین و کانت صناعتہم الفلاحۃ و کانوا من أھل الامارۃ والقری والأرضین.و کانوا من أکرم جرثومۃ و أطھر أرومۃ.ذوی فضل و وجاھۃ، و سیدودۃ و نباھۃ.بناۃ المجدو ارباب الجد و من المقبولین.و کانوا فی زوایا ھذہ الارض خبایا و بقایا من الامراء الصالحین و بعضھم کان من مشاھیر المشایخ و نادرۃ الدھر فی التزام دقائق العفۃ و أنواع الصالحات و صاحب الأوقات المشھود بالکرامات و الآیات و خرق العادات و من المتعبدین المنقطعین.و کانوا فی ھذہ الارض ثاوین فی الکفرۃ الفجرۃ فصبّت علیہم ما صبت و قد ذکرناھا من قبل للناظرین و کنا ذریۃ ضعفاء من بعدھم و من المستضعفین.و لما مکر ’’الخالصۃ‘‘ مکرھم و أخرجوا آباء نا من دیارھم توفی جدی فی الغربۃ و سمعت انہ مات و ھو من المسمومین و بقی ابی یتیمًا غریبا مسافرًا خاوِیَ الوفاض، بادی الإنفاض، مضروب النوازل کالملّم فی اللیل المدلّھم.یجوب طرقات البلاد مثل الھائم ما یدری
ما الشمال و لا الیمین.و کان شغل أبی فی تلک الأیام مکابدۃ صعوبۃ الاسفار أو مطالعۃ الاسفار.و سمعت منہ (غفر اللّٰہ لہ) مرارا أنہ کان یقول کل ما قرأت قرأتہ فی ایام المصائب و الغربۃ والتباعد من الدار.و کان یقول مرارًا انی جربت الخاص والعام کما یجرب الحائر الوحید.و رأیت مکارہ کنت منھا أحید، و کان من المزء ودین.فکان أبی طالما سارکمستہام لیس لہ قیام، لأنہ کان اخرج من ارض الآباء و صُدّ عن الانکفاء و کان عرضۃ لنزوات الظالمین، و اعنات الموذین و غیل المغتالین و سلب السالبین و طُعمۃً للمغیرین.و اسیرًا فی اکف الضائمین.ثم بعد تراخی الأمد و تلاقی الکمد.قصد ’’کشمیر‘‘ یستقری أسباب المعاش لعل اللّٰہ یدرأ بلاء ہ، و یدفع داء ہ، و یاتی قضاء ہ بایام الْاِطْرغشاش و یکون من المطعمین.و قد اتفق فی تلک الایام ان ربی البسنی خلعۃ الوجود، و نقلنی من زوایا الکتم إلی مناظر الشھود، و صرت علی مسقط رأسی من الساجدین و کانت ھذہ ھی الایام التی بدل اللّٰہ ابی من بعد خوفہ امنا و من بعد عسرہ یسرا و صار من المنعمین.و أوی لہ الوالی ورق قلبہ لمصیبتہ و من غیر اللیالی، فلما کلمہ ورأی الوالی.ما اعطاہ اللّٰہ من العلم والعقل والطبع العالی.شھد توسّمہ بانہ من أبہی اللآلی، فصبا الی الاسعاف والاختصاص، والتسلیک فی زمرۃ الخواص، و قال لا تخف انک الیوم من اعواننا المکرمین.و کذالک مکّن اللّٰہ ابی و حبّبہ إلی أعینھم و وھب لہ عزۃً و قبولًا و میسرۃ، و نظر الیہ انعامًا و میاسرۃ ، و کان
ھذا فضل اللّٰہ و رحمتہ و ھو ارحم الراحمین.و سمعت امی تقول لی مرارًا ان ایامنا بُدّلت من یوم ولادتک و کنا من قبل فی شدائد و مصائب و ذا أنواع کروبٍ و محن فجاء نا کل خیر بمجیئک و انت من المبارکین.و کان ابی یعرج من مرتبۃ الی أُخری، و من عالیۃ الی علیا، حتی عرج الی معارج الاقبال، و خلع اللّٰہ علیہ من خُلَع الاکرام والإجلال.و ما أَلتہ من شیء و صار من المتمولین.ثم غلب علیہ تذکار الوطن، والحنین الی المسارح المہجورۃ والعطن، فقوّض خیام الغربۃ والغیبۃ، وأسرج جواد الأوبۃ الی الأھل والعشیرۃ و رجع سالمًا غانما الی العترۃ بنضرۃ و خضرۃٍ و متاعٍ و أثاثٍ رحیب الباع، خصیب الرباع.و کان ذالک فعل اللّٰہ الذی اذھب عنا حزننا، و اماط شجننا، و من علینا، و تولی و تکفل و احسن الینا، و ھو خیر المحسنین.ثم عزم ابی علی ان یسبر بختہ فی الزراعات لینجو من السفر المبرِّح، والبین المطوح من الاھل والبنین والبنات.فاستحسن لنفسہ اتخاذ الضیاع، والتصدی للازدراع، فأحمد بفضل اللّٰہ معیشتہ و استرغد فیھا عیشتہ و رُدّ علیہ قلیل من القری، التی غصبت من الآباء فی زمن خلا.و قوّاہ اللّٰہ بعد ضعف المریرۃ، و بارک اللّٰہ لہ فی اشیاء کانت من قبل نکدالحظیرۃ.وکل ذالک کان من فضل اللّٰہ و رحمتہ و ان خفی علی المحجوبین.لیتم قول رسولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان الموعود الآتی یکون من الحارثین.ھذا قلیل من سوانح ایام ولادتی و صغر سنی
و لما ترعرعتُ و وضعتُ قدمی فی الشباب قرأت قلیلا من الفارسیۃ و نبذۃ من رسائل الصرف والنحو و عدۃ من علوم تعمیقیۃ و شیءًا یسیرًا من کتب الطب.و کان ابی عرّافًا حاذقًا و کانت لہ ید طولی فی ھذا الفن فعلمنی من بعض کتب ھذہ الصناعۃ و اطال القول فی الترغیب لکسب الکمال فیھا فقرأت ما شاء اللّٰہ ثم لم أجد قلبی الیہ من الراغبین.وکذالک لم یتفق لی التوغل فی علم الحدیث والاصول والفقہ الا کطلّ من الوبل، وما وجدت بالی مائلا الی ان أشمرّ عن ساق الجد لتحصل تلک العلوم، و استحصل ظواھر اسنادھا اواقیم کالمحدثین سلسلۃ الأسانید لکتب الحدیث.و کنت احب زمرۃ الروحانیین.و کنت أجد قلبی مائلا الی القرآن و دقائقھا و نکاتھا و معارفھا.و کان القرآن قد شغفنی حبا و رأیت أنہ یعطینی من انواع المعارف و اصناف ثمار لا مقطوعۃ و لا ممنوعۃ، و رایت انہ یقوی الایمان و یزید فی الیقین.وواللّٰہ انہ درۃ یتیمۃ ظاھرہ نور و باطنہ نور و فوقہ نور و تحتہ نور و فی کل لفظہ و کلمتہ نور.جنّۃ روحانیۃ ذُلّلت قطوفھا تذلیلا و تجری من تحتہ الانھار.کل ثمرۃ السعادۃ توجد فیہ و کل قبس یقتبس منہ و من دونہ خَرْطُ القتاد.موارد فیضہ سائغۃ فطوبی للشاربین.و قد قذف فی قلبی انوار منہ ما کان لی ان استحصلھا بطریق آخر.و واللّٰہ لو لا القرآن ما کان لی لطف حیاتی.رأیت حسنہ ازید من ماءۃ الف یوسف، فملت إلیہ أشد میلی و اُشرب ھو فی قلبی.ھو ربّانی کما یربی الجنین.و لہ فی قلبی اثر عجیب و حسنہ یراودنی عن نفسی.و انی ادرکت بالکشف أن حظیرۃ القدس تسقی بماء القرآن
و ھو بحر مواج من ماء الحیاۃ من شرب منہ فھو یحیی بل یکون من المحیین.و واللّٰہ انی أری وجھہ احسن من کل شیء.وجہ اُفْرِغَ فی قالب الجمال، و أُلبس من الحسن حلّۃ الکمال.و انی اجدہ کجمیل رشیق القد، اسیل الخد، اُعطی لہ نصیب کامل من تناسب الاعضاء، و اسبغت علیہ کل ملاحۃ بالاستیفاء، و کل نور و کل نوع الضیاء.و ضَییءٌ اعطی لہ حظ تام من کل ما ینبغی فی المحبوبین، من الاعتد الات المرضیۃ.والملاحات المتخطفۃ، کمثل حور العیون، و بلج الحواجب ولھب الخدود و ھیف الخصور، و شَنَب الثغور و فلج المباسم و شمم الانوف و سقم الجفون، و ترف البنان و الطُّرر المزینۃ و کل ما یصبی القلوب و یسر الاعین و یستملح فی الحسین.و من دونہ کل ما یوجد من الکتب فہی نَسَمَۃ خداج او کمضغۃ مسقطۃ غیر دماج ان کانت عین فلا أنف و ان کان انف فلا عین و تری وجوھہا مکروھۃ مسنونۃ ملوحۃ.و مثلھا کمثل امراۃ اذا کشف برقعھا و قناعھا عن وجھہا فإذا ھی کریھۃ المنظر جدا قد رُمی جفنھا بالعَمَش، و خدھا بالنمش و ذوائبھا بالجلح و دررھا بالقلح و وردھا بالبھار و مسکھا بالبخار، و بدرھا بالمحاق، و قمرھا بالانشقاق، و شعاعھا بالظلام، و قوتھا بالشیب التام.فہی کجیفۃ متعفنۃ نتنۃ منتنۃ تؤذی شامۃ الناس و تستأصل سرور الاعین، یتباکون اھلھا لافتضاحھم و یتمنی النظیفون ان یدسّوھا فی تراب أو یذبّون عن انفسھم الی اسفل السافلین.فالحمد للّٰہ ثم الحمد للّٰہ انہ انالنی حظًّا وافرًا من انوارہ و أزال املاقی من دررہ، واشبع بطنی من اثمارہ،
و منح بی من النعم الظاھرۃ والباطنۃ و جعلنی من المجذوبین.و کنت شاباً و قد شختُ وما استفتحت بابا الافتحت، و ما سألت من نعمۃ الا اعطیت وما استکشفت من أمر الا کشفت، و ما ابتھلت فی دعاءٍ الّا اجیبت.و کل ذالک من حبی بالقرآن و حب سیدی و امامی سید المرسلین، اللھم صل وسلم علیہ بعدد نجوم السماوات و ذرات الارضین.و من اجل ھذا الحب الذی کان فی فطرتی کان اللّٰہ معی من اول امری حین ولدت و حین کنت ضریعا عند ظئری و حین کنت أقرأ فی المتعلمین.و قد حبب الی منذ دنوت العشرین ان انصر الدین.و اجادل البراھمۃ و القسیسین.وقد الفت فی ھذہ المناظرات مصنفات عدیدۃ و مؤلفات مفیدۃ منھا کتابی ’’البراھین‘‘.کتاب نادر ما نسج علی منوالہ فی أیام خالیۃ فلیقرء ہ من کان من المرتابین.قد سللت فیہ صوارم الحجج القطعیۃ علی أقوال الملحدین، ورمیت بشھبھا الشیاطین المبطلین.قد خفض ھام کل معاند بذالک السیف المسلول، و تبیّنت فضیحتھم بین أرباب المنقول والمعقول و بین المنصفین.فیہ دقائق العلوم و شواردھا والالھامات الطیبۃ الصحیحۃ والکشوف الجلیلۃ و مواردھا، و من کل ما یجلی درر معارف الدین المتین ولی کتب أخری تشابھہ فی الکمال، منھا الکحل والتوضیح والازالۃ و فتح الاسلام و کتاب آخر سبق کلھا اَلّفتہ فی ھذہ الایام اسمہ ’’دافع الوساوس‘‘ ھو نافع جدا للذین یریدون ان یروا حسن الإسلام و یکفون افواہ المخالفین.تلک کتب ینظر الیھا کل مسلم بعین المحبۃ و المودۃ و ینتفع من معارفھا و یقبلنی و یصدّق
دعو تی.الا ذریۃ البغایا الذین ختم اللّٰہ علی قلوبھم فھم لا یقبلون.و لما بلغت أشد عمری و بلغت اربعین سنۃ جاء تنی نسیم الوحی بِرَیَّا عنایات ربی لیزید معرفتی و یقینی و یرتفع حجبی و اکون من المستیقنین فأول ما فتح علیّ بابہ ھو الرؤیا الصالحۃ فکنت لا أَری رؤیا الا جاء ت مثل فلق الصبح.و انی رأیت فی تلک الایام رؤیا صالحۃ صادقۃ قریبًا من ألفین او أکثر من ذالک.منھا محفوظۃ فی حافظتی و کثیر منھا نسیتھا، و لعل اللّٰہ یکررھا فی وقت آخر و نحن من الآملین.و رأیت فی غُلَواء شبابی و عند دواعی التصابی کانی دخلت فی مکان و فیہ حفدتی و خدمی فقلت: طھّروا فراشی فان وقتی قدجاء ثم استیقظتُ وخشیت علی نفسی و ذھب وھلی الی اننی من المائتین.و رایت ذات لیلۃ و انا غلام حدیث السن کأنّی فی بیت لطیف نظیف یذکر فیھا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقلت ایھا الناس این رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فأشاروا إلی حجرۃٍ فدخلتُ مع الداخلین.فبش بی حین وافیتہ، و حیّانی بأحسن ما حییتہ وما أنسی حسنہ وجمالہ و ملاحتہ و تحننہ الی یومی ھذا.شَغَفَنِیْ حبًّا و جذبنی بوجہ حسین قال ما ھذا بیمینک یا احمد فنظرت فاذا کتاب بیدی الیمنی و خطر بقلبی انہ من مصنفاتی قلت یا رسول اللّٰہ کتاب من مصنفاتی قال ما اسم کتابک فنظرت الی الکتاب مرۃ أخری و أنا کالمتحیّرین، فوجدتہ یشابہ کتابًا کان فی دار کتبی واسمہ ’’قطبی‘‘ قلت یا رسول اللّٰہ اسمہ قطبی.قال ارنی کتابک القطبی فلما
أخذ ہ و مستہ یدہ إذا ھی ثمرۃ لطیفۃ تسرّ الناظرین.فشققھا کما یشقق الثمر فخرج منھا عسل مصفّٰی کماء معینٍ.و رایت بَلّۃَ العسل علی یدہ الیمنی من البنان الی المرفق کان العسل یتقاطر منھا و کأنہ یرینی ایاہ لیجعلنی من المتعجبین.ثم أُلقی فی قلبی ان عند اُسْکُفَّۃ البیت میت قدر اللّٰہ إحیاۂ بھذہ الثمرۃ و قدّر أن یکون النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم من المحیین.فبینما انا فی ذالک الخیال فاذا المیّت جاء نی حیًّا و ھو یسعی و قام وراء ظھری و فیہ ضعف کانہ من الجائعین.فنظر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم الی متبسما و جعل الثمرۃ قطعات و اکل قطعۃ منھا و آتانی کل مابقی و العسل یجری من القطعات کلھا و قال یا احمد اعطہ قطعۃ من ھذہ لیأکل و یتقوی فأعطیتہ فأخذ یأ کل علی مقامہ کالحریصین.ثم رأیت ان کرسی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قد رفع حتی قرب من السقف و رأیتہ فاذا وجھہ یَتَلَأْ لَ أُ کأن الشمس والقمر ذُرّتا علیہ و کنت انظر الیہ و عبراتی جاریۃ ذوقًا و وجدًا ثم استیقظت و انا من الباکین.فالقی اللّٰہ فی قلبی ان المیت ھو الاسلام و سیحییہ اللّٰہ علی یدی بفیوض روحانیۃ من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وما یدریکم لعل الوقت قریب فکونوا من المتنظرین و فی ھذہ الرؤیا ربّانی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بیدہ وکلامہ و انوارہ و ھدیۃ اثمارہ فانا تلمیذہ بلا واسطۃ بینی و بینہ وکذالک شان المحدثین.و کنت ذات یوم فرغت من فریضۃ المساء و سننھا وانا مستیقظ ما أخذ نی نوم و لا سنۃ و ما کنت من النائمین.فبینما أنا کذالک
اذا سمعت صوت صکِّ الباب فنظرت فاذا المدکُّون یاتوننی مسارعین.فاذا دنوا منی عرفت أنہم خمسۃ مبارکۃ أَعنی علیّا مع ابنیہ و زوجتہ الزھراء و سید المرسلین.اللھم صل و سلم علیہ و آلہ الی یوم الدین.و رأیت أن الزھراء وضعت رأسی علی فخذھا و نظرت بنظرات تحنن کنت اعرف فی وجھھا ففھمت فی نفسی ان لی نسبۃ بالحسین و أشابھہ فی بعض صفاتہ و سوانحہ واللّٰہ یعلم و ھو اعلم العالمین.و رأیتُ أن علیًّا رضی اللّٰہ عنہ یرینی کتابًا و یقول ھذا تفسیر القرآن انا الفتہ و أمرنی ربی ان اعطیک فبسطت الیہ یدی و اخذتہ وکان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ وسلم یری و یسمع ولا یتکلم کأنہ حزین لأجل بعض أحزانی و رأیتہ فاذا الوجہ ھو الوجہ الذی رایت من قبل انارت البیت من نورہ فسبحان اللّٰہ خالق النور والنورانیین.و کنت ذات لیلۃ اکتب شیئا فنمت بین ذالک فرأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و وجھہ کالبدر التام فدنا منی کانہ یرید ان یعانقنی فکان من المعانقین.و رأیت أن الانوار قد سطعت من وجھہ و نزلت علیّ کنت أراھا کالانوار المحسوسۃ حتی أَیقنتُ انی ادرکھا بالحس لا ببصر الروح.وما رأیت انہ انفصل منی بعد المعانقۃ و ما رأیت انہ کان ذاھبا کالذاھبین.ثم بعد تلک الأیام، فتحت علیّ أبواب الالھام و خاطبنی ربی و قال ’’یا احمد بارک اللّٰہ فیک.الرحمٰن علم القرآن لتنذر قومًا ما اُنذر آباؤُھم، و لتستبین سبیل المجرمین.قل انی أُمرت و أنا أول المؤمنین یا عیسٰی انّی متوفیک و رافعک الی و مطھرک من الذین کفروا
وجا عل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الی یوم القیامۃ.انک الیوم لدینا مکین امین.انت منی بمنزلۃ توحیدی و تفریدی فحان ان تعان و تعرف بین الناس.و یعلمک اللّٰہ من عندہ.تقیم الشریعۃ.و تحیی الدین انا جعلناک المسیح بن مریم.و اللّٰہ یعصمک من عندہ ولو لم یعصمک الناس.واللّٰہ ینصرک ولو لم ینصرک الناس.الحق من ربک فلا تکونن من الممترین.یا أحمدی أنت مرادی و معی.انت وجیہ فی حضرتی.اخترتک لنفسی.قل ان کنتم تحبون اللّٰہ فاتبعونی یحببکم اللّٰہ و یغفرلکم ذنوبکم و یرحم علیکم و ھو أرحم الراحمین.‘‘ ھذہ نبذۃ من الھاماتی، و من جملتھا إلھام ’’انا جعلناک المسیح بن مریم‘‘.و واللّٰہ قد کنت اعلم من ایام مدیدۃ اننی جُعِلت المسیح ابن مریم و انی نازل فی منزلہ ولکن أخفیتہ نظرًا الی تأویلہ، بل ما بدلت عقیدتی و کنت علیھا من المستمسکین و توقفت فی الاظھار عشر سنین و ما استعجلت و ما بادرتُ و ما اخبرتُ حِبًّا و لا عدوًّا و لا أحدًا من الحاضرین.و ان کنتم فی شک فاسئلوا علماء الھند کم مضت من مدۃ علی الھامی.’’ یا عیسٰی انی متوفیک‘‘.أو اقرؤوا البراھین.و کنت انتظر الخِیَرۃ والرضاء و أمر اللّٰہ تعالی حتی تکرر ذالک الإلھام، و رفع الظلام، و تواتر الإعلام، و بلغ الی عدۃ یعلمھا رب العالمین.و خوطبت للإظھار بقولہ: فاصدع بما تؤمر.وظھرت علامات تعرفھا حاسۃ الاولیاء، و عقل ارباب الاصطفاء و جُلِّی الصبح و أُکّد الامر، و شرح الصدر، واطمأن الجنان، و أفتی القلب، و تبین أنہ
وحی اللّٰہ لا تلبیس الشیاطین.ثم ما اکتفیت بھذا بل عرضتہ علی الکتاب والسنۃ و دَعوتُ اللّٰہ ان یؤیدنی، فدقق اللّٰہ نظری فیھما و جعلنی من المؤیّدین.و ظھر علیّ بالنصوص البینۃ القرآنیۃ و الحدیثیۃ ان المسیح بن مریم علیہ السلام قد توفی و لحق بإخوانہ من النبیین.و کنت أعلم أن وفاۃ المسیح حق ثابت بالنصوص البینۃ القطعیۃ القرآنیۃ والحدیثیۃ واعلم ان إلھامی لاغبار علیہ و لا تلبیس و لا تخلیط، و مع ذلک کان یقینی بأن اعتقاد المسلمین فی نزول المسیح حق لا شبھۃ فیہ و لا ریب فعسُر علیّ تطبیقھما و کنت من المتحیرین.فما قنعت بالنصوص فقط لأنی وجدت فی الأحادیث رائحۃ قلیلۃ یسیرۃ من دُخْن الاختلاف بظاھر النظر و إن کانت الدلائل القویۃ القاطعۃ معنا و بأیدینا و کان القرآن معنا کلہ بل ابتغیت معرفۃ تامۃً نقیۃ بیضاء التی یتلألأ کل شق من شقوقھا و تبلّغ الی الحق الیقین.فتضرعت فی حضرۃ اللّٰہ تعالی و طرحت بین یدیہ متمنیًا لکشف سرالنزول و کشف حقیقۃ الدجال لأعلمہ علم الیقین و أری بہ عین الیقین.فتوجھت عنایتہ لتعلیمی و تفھیمی و أُلھمت و عُلِّمتُ من لدنہ أن النزول فی أصل مفھومہ حق ولکن ما فھم المسلمون حقیقتہ.لان اللّٰہ تعالی أراد اخفاء ہ فغلب قضاء ہ و مکرہ وابتلاء ہ علی الأفھام فصرف وجوھھم عن الحقیقۃ الروحانیۃ الی الخیالات الجسمانیۃ فکانوا بھا من القانعین.و بقی ھذا الخبر مکتومًا مستورًا کالحبّ فی السنبلۃ قرنا بعد قرن، حتی جاء زماننا واغترب الاسلام
و کثرت الآثام، و غلبت ملۃ عبدۃ الصلیب فصالوا علی المسلمین بالافتراء والمَین، و أَحلُّوا سفک عُشّاقٍ کانوا کصید الحرمین.فصبت علینا مصائب کنا لا نستطیع احصاء ھا و ضاقت الارض علینا و تورمت مقلتنا باستشراف الناصرین.فاراد اللّٰہ ان یاتی بصبح الصداقۃ، و یعین طلاب الحقیقۃ من الاعالی والأدانی، بنَضْوِ الوِشاح عن مخدّرۃ المعانی، و یشفی صدور المؤمنین.و کنا احق بھا و اھلھا لأنا راینا بأعیننا اطراء المسیح و ازدراء المصطفٰی و دعوۃ الناس الی ألوھیّۃ ابن مریم و سبّ خیرالوریٰؐ، و سمعنا السبّ مع الشرک والمین.و احرقنا بالنارین.فکشف اللّٰہ الحقیقۃ علینا لتکون النار علینا بردًا و سلامًا، و کان حقا علی اللّٰہ نصر المضطرین.فأخبرنی ربی ان النزول روحانی لا جسمانی وقد مضی نظیرہ فی سنن الاولین.و ان اللّٰہ لا یبدل سنتہ و لا عاداتہ و لا یکلف نفسًا الّا وسعھا و کذالک یفعل و ھو خیر الفاعلین.والسر فی ذالک أن للأنبیاء عند ھبِّ الاھویۃ المھلکۃ و ابتداع المسالک الشاغرۃ تدلیات و تنزلات الی ھذا العالم فاذا جاء وقت تدلی نبی و نزولہ بمجییء فتنۃ تؤذیہ یطلب من ربہ محط انوارہ.و مظھر إرادتہ و أنظارہ، و وارث روحانیتہ لیکون ھذا المظھر لہ من المنشطین.فیعدّ لہ ربہ عبدًا من عبادہ و یلقی اراداتہ فی قلبہ فیکون ھذا العبد أشد مناسبۃ و اقرب جوھرًا من ذالک النبی و یشابھہ من حیث الھویۃ المبعوثیۃ مشابھۃً تامۃً کاملۃ کانّہ ھو.و یکمل ما تزیّف فی قومہ المخذولین.و ذالک سر عظیم من الأسرار السماویۃ.ما یفھمہ عقول سطحیۃ و لا یلقاھا الا الذین اوتوا العلم من عنداللّٰہ وما کان لعین لاقت الاعتلال ان تجتلی الھلا ل فطوبی للمبصرین.و قد جرت عادۃ اللّٰہ تعالی علی انہ لا یکشف قناع الاخبار الآتیۃ من کل جھۃ الا فی وقتھا و یبقی قبل الوقت بعض اغماضات و معان مطویۃ و مستورۃ مکتومۃً ابتلاءً للذین یجدون زمان ظھورھا فیفضّ الختم فی زمانھم.لیھینھم او یکرمھم بامتحانھم و قد
مضت سنتہ فی فتنۃ المسلمین.و لا یرفع الامان من ذالک *لان الأمر المقصود یبقی علی حالہ، مع قرائنہ القویۃ و صفاء زلالہ فلا یتطرق الاختلال الیہ و انما یجدّد اللّٰہ حلل ظھورہ فی اعین الناس لیری من یعقد حبک النطاق للرحلۃ من خریبتہ کانوا آباء ہ فیہ ساکنین.والحق أن کل ظن فاسد ینشأ من سوء الفھم، و اما وعد اللّٰہ فھو یظھر بلا خلاف.واللّٰہ لا یخلف المیعاد.و کم من وعو ؤاسنی لنا ثم انجز لنا کما وعد و ھو خیر المنجزین.و لعمری ان السفہاء لم یحفظوا کلام اللّٰہ کلہ فی اذھانھم وآمنوا ببعض الآیات و کفروا ببعضھا و جعلوا القرآن والحدیث عضین.و أراھم أساری فی سلاسل الاختلافات والتشاجرات، ولو انھم تفکروا للتطبیق لفتح اللّٰہ علیھم بابا من ابواب المعرفۃ ولکن غضوا و ترکوا القرآن مہجورا فطبع اللّٰہ علی قلوبھم و ترکھم ضالین.اما الدجّال فاسمعوا أُبیّن لکم حقیقتہ من صفاء الھامی و زلالی و ھو حجۃ قاطعۃ ثقفت للمخالفین تثقیف العوالی خذوہ و لا تکونوا ناسی ئاو متناسین.ایہا الاعزۃ قد کشف علیّ ان وحدۃ الدجال لیست وحدۃ شخصیۃ بل وحدۃ نوعیۃ بمعنی اتحاد الآراء الاصل المحکم والخفیر الاعظم فی طرق المکاشفات الذی ھو کقانون عاصم من سوء الفھم فی تفسیر النبوات الواقعۃ فی ھذا العالم العنصری علم تاویل الاحادیث الذی یعطی للصدیقین.و لا یجوز صرف امر کشفی عن التاویلات المصرحۃ فی ھذا العلم الا عند قیام قرینۃ قویۃ موصلۃ الی الیقین، لأن ھذا العلم انما جعل بمنزلۃ لغۃ کاشفۃ لأسرار المکاشفات أحکمت قواعد ھا و فرض ا تباعھا للمؤمنین.فکما ان اللغات المستعملۃ الجاریۃ علی الألسنۃ قاضیۃ لحل التنازعات اللغویۃ فی العالم السفلی و حجۃ قاطعۃ للمتکلمین، کذالک علم تاویل الاحادیث و قواعدہ التی رتبھا لسان الأزل حکم مسلم لقضاء التنازعات الکشفیۃ و من ابی ھذا لحکم فقد جار جورًا عظیما و ھو من الظالمین.مثلا اذا احتذیت حذاء فی رؤیاک فلا یجوز لک عند تاویلہ ان تعنی من الحذاء ما یعنی فی لغات ھذا العالم السفلی بل یجب علیک ان ترجع الی لغۃ وضعھا اللّٰہ لذالک العلم الروحانی فتؤول الحذاء زوجۃً او وُسعۃَ معاش فخذ ھذا السر فانہ ینجیک من آفات المخطین.منہ
فی نوع الدجّالیۃ کما یدل علیہ لفظ الدجال و ان فی ھذا الاسم آیات للمتفکرین.فالمراد من لفظ الدجال سلسلۃ ملتئمۃ من ھمم دجالیۃ بعضھا ظھیر للبعض کأنھا بنیان مرصوص من لبن متحدۃ القالب کل لبنۃ تشارک ما یلیھا فی لونھا و قوامھا و مقدارھا و استحکامھا و أُدخلت بعضھا فی بعض و اشیدت من خارجھا بالطین، أو کرکبٍ ردف بعضھم بعضا و ھم ممتطین شملۃً مشمعلّۃً یرون من شدۃ سرعتھا رجلًا واحدًا فی اعین الناظرین.و نظیرہ فی القرآن خبر الدخان.فانہ کان سلسلۃ خیالات متفرقۃ من شدۃ الجوع و سُمّی بشیء واحد و قیل 3 ۱.و ھذا سِرٌّ لایعرفھا الا العرّافۃ و ما یُطِلّ علیہ فھم الغبیّین.و قد جرت عادۃ الناس عربًا و عجمًا أنھم إذا رأوا کیفیۃ وحدانیۃ فی افراد فینزلونھا فی منزل الواحد نحو أدویۃ مختلفۃ فاذا خلط بعضھا ببعض و دق و سحق و حصل لھا مزاج واحد و أثر واحد فما علیک من ذنب ان قلت انہ شیء واحد حصل من العجین.و انت تعلم أن الناس إذا اجتمعوا فی أرض و القوا فیھا مراسی السکون و حصل لھم نظام تمدنی و تعلق بعضہم بالبعض تعلقًا مستحکمًا و تحقق النسب والاضافات غیر قابلۃ الانفکاک و الزوال و استقرّوا وما ارادوا ان یرتحلوا منھا الی ارض من الارضین، فان شئت تسمی مجموعتھم ’’بلدۃ‘‘ و تجری علی جماعتھم أحکام الواحد وما ھو واحد فی الحقیقۃ
و ما انت من الملومین.و ان اتفق انھم جاء وک للقائک فان شئت قلت ’’جاء نی البلد‘‘.و ذکرتھم کما یذکر الفرد الواحد و ما یعترض علیک اِلّاجاھل او الذی کان من المتجاھلین.فکما أن الأماکن یطلق علیھا اسم الواحد مع انھا لیست بواحدۃ، کذالک لا یخفی علی القرائح السلیمۃ والذین لھم حظ من أسالیب لسان العرب و لطائف استعاراتھم أَن أذیال ھذہ الاستعارات مبسوطۃ ممتدۃ جدًا و لیست محدودۃ فی مورد خاص فانظر حتی یاتیک الیقین.و عجبت لقوم یزعمون فی الدجال انہ رجل من الرجال و یقولون انہ کان فی زمن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و ھو الی الآن من الموجودین.أُّ فٍ لھم ولوھن رأیھم کیف یحکمون.الا یعلمون ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم قال.اقسم باللّٰہ ما علی الارض من نفس منفوسۃ یأتی علیھا ماءۃ سنۃ و ھی حیۃ یومئذٍ.یعنی بذالک ان الناس کلھم یموتون الی مضی الماءۃ و ما یکون فرد من الباقین.فما لھم یقرء ون ’’البخاری‘‘ و’’المسلم‘‘ ثم یضلون المسلمین.أیھا الاعزۃ ان فی ھذا الاعتقاد مصیبتان عظیمتان قد أزجتا کثیرا من الناس إلی نیران الکفران و منعتاھم من مرتع الجنان.فلا تخطوا صراطکم و لا تکونوا من المتخطین.اُولاھما المصیبۃ التی قد ذکرت من استلزام تکذیب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم الذی أکدہ بالقسم فإیاکم و سوء الادب و کونوا من المتأدبین.لا تقدِّموا بین یدی اللّٰہ و رسولہ و لا تعصوا بعد ما بین لکم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم
و ا علموا أنہ صادق صدوق ما ینطق عن الھوی.ان ھو الا وحی یوحی فاخفضوا جناح الذل و لا تأبوا قول رسول اللّٰہ ؐ ان کنتم صالحین.والمصیبۃ الثانیۃ ظاھرۃ لا حاجۃ لھا الی البیان.الا ترون الی الفرقان و تعلیم الرحمان.کیف أقام الناس علی توحید عظیم و نھاھم عن سنن المشرکین.فتفکروا فی قلوبکم کیف یمکن ان یخرج الدجال کما تزعمون و یحی الأموات و یری الآیات، و یسخر السحاب والشمس والقمر والبحار وکان امرہ اذا أراد شیئا ان یقول لہ کن فیکون.أھذا ما علمتم من القرآن.أھذا تعلیم الفرقان.أھذا الذی سفک لہ دماء سراۃ العرب و عظائم القریش ببدر و فی کل مصاف و ھضمھم المسلمون ھضم متلاف.اشھدوا و لا تکونوا من الکاتمین.کیف ینسخ تعلیم القرآن و ینبذ کالقشر.ویفیء المَنْشَر المطویّ الی النشر، و یجیء الدجال المفاجئ لتضلیل نوع البشر.لم تخرجون من خلع الصداقۃ و تنسون یوم الحشر.و تفسدون فی الأرض بعد اصلاحھا.اتقوا اللّٰہ و لا تکونوا من المعتدین.أ یمکن أن السید الذی کسر الأصنام بالعصا.و اذا سئل أغیر اللّٰہ قادر قال لا أ ھو یعلمکم امورا خلاف القرآن الکریم و خلاف التوحید العظیم.کلّا انہ أغیر من کل غیّور للّٰہ و توحیدہ فلا تفتروا علیہ عضیھۃ و لا تکونوا فریسۃ الشیاطین.ھذان بلاء ان فی اعتقادکم، و مصیبتان علی دینکم و توحیدکم و صلاحکم و سدادکم.و اما المعنی الذی بینت و لتعلیمہ تحزمت، فکلہ خیر لا
محذ ور فیہ و لا رائحۃ من شرک و لا من تکذیب النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم بل ھو أقر للعین، و فیہ نجاۃ من الثقلین، فاقبلوہ و کونوا من الشاکرین.و کیف تظنون فی الذی ھو فی زعمکم من أبناء الغید، و تفوَّق من رَأْدٍ ضعیفۃ لا من الشیطان المرید، انہ یتقوی کالشیاطین، و یشابھہ فی بعض الأغارید، بل یکون أزید منھم و یصلب کالحدید.و یکون لہ جسم لا یسع الا فی سبعین باعا تفکروا یا ذریۃ الحُرَّیْن.أیجوز ان یتعطل اللّٰہ فی وقت خروجہ و یقدر الدجال علی کل امرٍ و کل ضیم.و تصیر تحت أمرہ شمس و قمر ونار و ماء وجنۃٌ و خزائن الارض و قطعۃ کل غیم.و یطوف علی کل الارض فی ساعۃ، و یدخل المشارق و المغارب تحت لواء الطاعۃ.و یضع الفأس علی رأس الناس و یجعلھم شقین ثم یحییھم مرۃ أخری و یری الخلق کذب آیۃ الفرقان 3 ۱ و یکون علی کل شیء من الفعالین یسحق التوحید تحت ارجلہ وکان بہ من المستھزئین.سبحان ربنا عما یصفون والحمد للّٰہ رب العالمین.ایھا الناس ان تحت ھذا النبأ سرٌّ.و فھم السر برٌّ.فاقبلوہ بوجہ طلیق وکونوا مسعدین.یرحم اللّٰہ علیکم و ھو ارحم الراحمین.ایھا الاعزۃ ھی العقیدۃ التی علمنی اللّٰہ من عندہ و ثبتنی علیھا فما استصوبہ بعض الغبیین، وما استجادوا قولی ھذا وارتابوا واستنکروا واستعجلوا فی اکفاری، و ما احاطوا علی بطانتی
ولا ظھارتی و لاسراری، و نحتوا بھتانات واکفروا و جاء وا بمفتریات کالشیاطین، لیفرط بتلک المروش الی ذم، أو یلحقنی وَصْمٌ، ولیختلبوا القلوب بمزخرفاتھم و اتراء ی فی اعین الناس من الکافرین.ورایت نفوسھم قد ثعطت و ثلطت و قرحت و تعفنت من حقد و غلّ و صاروا من الذین یُصعَرون و یُصلقون و یؤذون الناس بُحمۃ نطقھم و ینضنضون لسنھم کصل وما بقی فیھم من حب ولا لب کأنھم فی غیابۃ جب و من المغرقین.أیھا الأعزۃ إنی دعوت قومی لیلًا و نھارًا، فلم یزدھم دعائی الا فرارًا.ثم انی دعوتھم جھارًا، ثم انی اعلنتُ لھم و أسر رتُ لھم اسرارًا، فقلت استغفروا ربکم واستخیروا واستخبروا وادعوا اللّٰہ فی امری یمددکم بإلھامات و یظھر علیکم اخبارا فما سمعوا کلمتی و أعرضوا عتوًّا واستکبارًا، و رضوا بان یکونوا لاخوانھم مکفرین.وما کان حجّتھم الا ان قالوا ائتوا بأحادیث شاھدۃ علی ذالک ان کنتم صادقین.و ھم یدرسون کتاب اللّٰہ و یجدون فیہ کل ما قلت لھم و یقرء ون الصحاح و یجدون فیھا ما أظھرتُ علیھم ولکن ختم اللّٰہ علی قلوبھم و کانوا قوما عمین.ولستُ أری أن الأحادیث کلھا موضوعۃ علی التحقیق، بل بعضھا مبنیۃ علی التلفیق، و مع ذالک فیھا اختلافات کثیرۃ، و منافات کبیرۃ، و لأجل ذلک افترقت الأمۃ، و تشاجرت الملۃ فمنہم حنبلی و شافعی و حنفی و مالکی و حزب المتشیّعین.و لا شک ان التعلیم کان واحدا ولکن اختلفت الاحزاب بعد ذالک
فتر ون کل حزب بما لدیھم فرحین.و کل فرقۃ بنی لمذھبہ قلعۃ و لا یرید أن یخرج منھا و لو وجد أحسن منھا صورۃ و کانوا لعماس اخوانھم متحصّنین.فارسلنی اللّٰہ لأستخلص الصیاصی.واستدنی القاصی، وانذر العاصی، ویرتفع الاختلاف و یکون القرآن مالک النواصی و قبلۃ الدین.فلما جئتھم أکفرونی و کذّبونی و رمونی ببھتاناتٍ و إِفکٍ مبین.و انی اری علمھم مخسولًا.و جِیْد تناصفھم مغلولًا، و صُنْعَ عذراتھم مطلولا.واری صورھم کالممسوخین.و قد بعثنی اللّٰہ فیھم حکما فما عرفونی و حسبونی من الملحدین.آذونی بحصائد ألسنتھم و رأیت منھم ظلمًا و ھضمًا کثیرًا و قلبوا لی الامور و ارادو ان یتخطفونی من الأرض ولکن عصمنی اللّٰہ من شرورھم و ھو خیر العاصمین.و رأیت کل احدمنھم مارًّا فی عشواہ و تارکًا سبیل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وھداہ، فقلت: ایھا الحسداء الجھلاء أسأتم فیما صنعتم، و حرَنتم فیما ظننتم.تجلدون للاجتلاد، وأنا تحت اتراس اللّٰہ حافظ العباد، و لن تستطیعوا ان تضرونی ولو أمحش الحقد جلودکم، و سوّد الغیظ خدودکم.یا حسرۃ علیکم ما أری فیکم المتضرع الخائف، خرِف التَّمْر و بقی خرائف و ما اری فیکم رائحۃ الحیٰوۃ ان انتم الا کالأموات، و ان انتم الا کمذعوفین.وأیم اللّٰہ لطال ما قلت لھم ألا لا تردوا مخاوف الاکفار، فانھا مقاحم الاخطار و فلوات التبار.تعالوا أنف ما رابکم، واستسل کل سھم نابکم فما کفّوا السنتھم
وما جاء ونی کتقیّ أمین.ثم قلت ایھا العلماء أرونی نصوص کتاب اللّٰہ لأوافقکم و أرونی أثر رسولہ لأرافقکم، فإنی ما أجد فی کتاب اللّٰہ و آثار رسولہؐ إلا موت المسیح ابن مریم.فارونی خلاف ذالک ان زعمتمونی من الکاذبین.و ان کنتم علی بیّنۃ من عند ربکم فلم لا تأتوننی بسلطان مبین.و ان شئتم أن تختبرونی فتعالوا عاینوا آیات صدقی أو أرونی شیئا من آیاتکم.فان بدا کذب فمی.فمزقوا أدمی، و أریقوا دمی، و إن غلبتُ و ظھر صدق قولی، فالیکم من حولی.و اتقوا اللّٰہ و لا تعتدوا امام ربکم فی العصیان، فان عینہ علی طرق الانسان.و ھو یری کل خطواتکم، و یعلم دقائق خطراتکم، فما لکم لا تخافونہ قد نزل اللّٰہ فی عرائکم فقوموا لہ قانتین.ألایمان نور البشریۃ و نور الایمان عرفان، و من فقد ھما فھو دودۃ لا إنسان.من عرف السر فقد عرف البر، فقوموا و تجسسوا اللُّب الذی ھو باطن الباطن و معنی المعنی و نور النور.و لا تفرحوا بالقشور الحیاۃ.الحیاۃ.البصارۃ.البصارۃ.و لا تکونوا کالمیتین.ھذا ما قلت لھم و فوضت امری الی اللّٰہ ھو ربی وجیدی تحت نیرہ.و اعلم انہ لا یخذلنی و لا یضیعنی و لا یجعلنی من التاءھین.والآن ایھا الأعزۃ أبیّن لکم بعض حلمی و مکاشفاتی رأیت فیھا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعد ما رأیتہ فی مستطرف الأیام.فجعلنی کالعردام و أعدّنی للاصلخمام، لأحارب الفراعنۃ والظالمین.أیھا السادۃ انی رأیتہ مرات، بعد ما وجدت منہ برکات
و ثمرات، فالآن اُبیّن بعضھا لکم لعلکم تتفکرون فی أمری و لعلکم تنظرون الیّ بعین المبصرین.فان القوم فرّوا منی کثور الوحش و ترکوا شطاط الانسانیۃ و حزامتھا و کانوا کجذوۃ ملتھبۃ و قاموا بفدید سَبُعِیٍّ و طبعٍ قِذَمٍّ کوَجین.و ارونی سھوکۃ ریاھم، و سھومۃ محیّاھم، واتفقوا علی إیذائی و ازدرائی ببغی و طغیان، و سابقوا فی الافتراء کفرسی رھان، لکی لا یکونوا فی إخوانھم من المقرَعین.فلما رأیت أرضھم قفرًا وسماء ھم مصحیۃ أعرضت و جئت حضرتکم بمائی المعین.أیھا الأعزۃ والسادۃ جئناکم راغبین فی خیرکم بھدیۃ فیھا لبن أثداء الأمھات الروحانیۃ فتعالوا لشربہ وأتونی ممتثلین.والآن ابین الرؤیا إراحۃ للسامعین.أیھا الکرام رأیت فی المنام کأنی فی حلقۃ ملتحمۃ و رفقۃ مزدحمۃ.و أبین بعض المعارف بجأش متین.و لسان مبین للحاضرین.و رأیت أن المکان ربع لطیف نظیف ینفی التَّرَحَ رؤیتہ و یسرّ الناظرین ھیئتہ، و کنت أخال أنہ مکانی فحبذا ھو من مکان رأیت فیہ سید المرسلینؐ و رایت عندی رجلًا من العلماء لا بل من السفھاء جاثیا علی رکبتہ ینکر علی لغباوتہ و یکلب علی اللجاج لشقاوتہ، و رأیتہ کالحاسدین.فاشتد غضبی و قلتُ : تعسًا لھؤلاء العلماء انھم من اعداء الدین.فقلت ھل من امرئ یخرجہ من ھذا المقام، کاخراج الاشرار و اللئام و یطھرالمکان من ھذا القرین الضنین.فقام رجل من خدامی، و ھم باخراجہ من امام عینی و مقامی لیؤمننی من ذالک الظنین.فرایت انہ اخذہ و جعل یدفعہ و یذبہ و یذأَطہ
من المکان، و لہ رطیط و کرب و فزع مع الاردمان حتی أُخرج فاصبح من الغائبین.فرفعت نظری فاذا حذتنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قائم وکانہ کان یری کل ما وقع بیننا مواریا عیانہ.فأخذنی ھیبۃ من رؤیتہ و نھضت أستقری مکانا یناسب شأنہ، و قمت کالخادمین.فاذا دنوت منہ (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) و نظرت الی وجھہ فاذا وجہ قد رأیتہ من قبل.ما رأیت وجھًا أحسن منہ فی الدنیا فھو خاتم الحسینین و الجمیلین، کما أنہ خاتم النبیین والمرسلین.و رأیت فی یدہ کتابًا فاذا ھو کتابی ’’المرآۃ‘‘ الذی صنّفتہ بعد ’’البراھین‘‘.و کان قد وضع إصبعًا علی محل فیہ مدحہ و اصبعًا علی محل فیہ مدح اصحابہ و قد قیّد لَحْظَہ بھما و ھو یتبسم و یقول ھذا لی و ھذا لأصحابی وکان ینظر الیہ کالقارئین.ثم انحدرت طبیعتی الی الالھام فأشار الرب الکریم الی مقام من مقامات ’’المرآۃ‘‘.و قال ھذا الثناء لی ثم استیقظت‘ فالحمد للّٰہ رب العالمین.و رأیت فی منام آخر کأنی صرت علیًا ابن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ و الناس یتنازعوننی فی خلافتی و کنت فیھم کالذی یضام و یمتھن و یغشاہ أدران الظنون و ھو من المبرّئین.فنظر النبی (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) اِلیّ و کنت أخال نفسی اننی منہ بمنزلۃ الابناء و ھو من آبائی المکرمین.فقال و ھو متحنن ’’یا علی دعھم و أنصارھم و زراعتھم‘‘ فعلمت فی نفسی أنہ یوصینی بصرف الوجہ من العلماء و ترک تذکرھم والإعراض عنہم و قطع الطمع والحنین من إصلاح ھؤلاء المفسدین.
فانھم لا یقبلون الاصلاح فصرف الوقت فی نصحھم فی حکم إضاعۃ الوقت و طمع قبول الحق منھم کطمع العطاء من الضنین.و رأیت انہ یحبّنی و یصدّقنی و یرحم علیّ و یشیر الی أن عُکّازتہ معی و ھو من الناصرین.ورأیتنی فی المنام عین اللّٰہ و تیقنت أننی ھو ولم یبق لی ارادۃ و لا خطرۃ و لا عمل من جھۃ نفسی و صِرت کاناء منثلم بل کشیءٍ تَأَبَّطہ شیءٌ آخر و أخفاہ فی نفسہ حتی ما بقی منہ اثر و لا رائحۃ و صار کالمفقودین.و أعنی بعین اللّٰہ رجوع الظل إلی أصلہ و غیبوبتہ فیہ کما یجری مثل ھذہ الحالات فی بعض الاوقات علی المحبین.و تفصیل ذالک أن اللّٰہ إذا أراد شیءًا من نظام الخیر جعلنی من تجلّیاتہ الذاتیۃ بمنزلۃ مشیّتہ وعلمہ و جوارحہ و توحیدہ و تفریدہ لإتمام مرادہ و تکمیل مواعیدہ کماجرت عادتہ بالأبدال والأقطاب والصدیقین.فرأیت أن روحہ احاط علیَّ و استوی علی جسمی و لفّنی فی ضمن وجودہ حتی ما بقی منی ذرۃ وکنت من الغائبین.و نظرت الی جسدی فاذا جوارحی جوارحہ و عینی عینہ و أذنی أذنہ و لسانی لسانہ.أخذنی ربی و استوفانی وأکدالاستیفاء حتی کنت من الفانین.ووجدت قدرتہ و قوتہ تفور فی نفسی وألوھیتہ تتموج فی روحی و ضُربت حول قلبی سرادقات الحضرۃ و دقق نفسی سلطان الجبروت، فما بقیت وما بقی إرادتی ولامنای.و انھدمت عمارۃ نفسی کلھا و تراء ت عمارات رب العالمین.وانمحت أطلال وجودی و عفت بقایا أنانیتی و ما بقیت ذرۃ من ھویتی، والألوھیۃ غلبت علیّ غلبۃ شدیدۃً تامۃً
وجُذِ بتُ الیھا من شعر رأسی الی أظفار أرجلی، فکنت لُبًّا بلا قشور ودُھنًا بغیر ثُفلٍ و بذور و بُوعِدَ بینی و بین نفسی فکنت کشیء لا یُری أوکقطرۃ رجعت الی البحر فسترہ البحر برداء ہ و کان تحت امواج الیم کالمستورین.فکنت فی ھذہ الحالۃ لا ادری ما کنت من قبل و ما کان وجودی.و کانت الالوھیۃ نفذت فی عروقی و أوتاری و أجزاء أعصابی و رأیت وجودی کالمنھوبین.وکان اللّٰہ استخدم جمیع جوارحی وملکھا بقوۃ لا یمکن زیادۃ علیھا فکنت من اخذہ و تناولہ کانی لم اکن من الکائنین.و کنت أتیقن أن جوارحی لیست جوارحی بل جوارح اللّٰہ تعالی و کنت أتخیل أنی انعدمت بکل وجودی وانسخلت من کل ھویتی والآن لا منازع و لا شریک و لا قابض یزاحم.دخل ربی علی وجودی وکان کل غضبی و حلمی و حلوی و مری و حرکتی و سکونی لہ و منہ و صرت من نفسی کالخالین.و بینما انا فی ھذہ الحالۃ کنت اقول انا نرید نظامًا جدیدًا و سماءً جدیدۃً و أرضًا جدیدۃ.فخلقت السماوات والأرض أولًا بصورۃ إجمالیۃ لا تفریق فیھا و لا ترتیب، ثم فرقتھا ورتّبتھا بوضع ھو مراد الحق و کنت أجد نفسی علی خلقھا کالقادرین.ثم خلقت السماء الدنیا و قلت انا زیّنّا السماء الدنیا بمصابیح.ثم قلت: الآن نخلق الانسان من سلالۃ من طین.ثم انحدرت من الکشف الی الالھام فجری علی لسانی: ’’اردت ان استخلف فخلقت آدم انا خلقنا الانسان فی احسن تقویم.و کنا کذالک خالقین‘‘.و ألقی فی قلبی
ان اللّٰہ اذا أراد ان یخلق آدم فیخلق السمٰوات والارض فی ستۃ ایام و یخلق کل ما لا بد منہ فی السماء والارضین.ثم فی آخر الیوم السادس یخلق آدم و کذالک جرت عادتہ فی الاولین والآخرین.وألقی فی قلبی أن ھذا الخلق الذی رأیتہ إشارۃ الی تائیدات سماویۃ و أرضیۃ و جعل الأسباب موافقۃ للمطلوب و خلق کل فطرۃ مناسبۃ مستعدۃ للحوق بالصالحین الطیبین.و أُلقی فی بالی أن اللّٰہ ینادی کل فطرۃ صالحۃ من السماء و یقول کونی علی عدۃ لنصرۃ عبدی و ارحلوا الیہ مسارعین.و رأیت ذلک فی ربیع الثانی سنۃ۱۳۰۹ھ فتبارک اللّٰہ اصدق الموحین.و لا نعنی بھذہ الواقعۃ کما یعنی فی کتب أصحاب وحدۃ الوجود و ما نعنی بذالک ما ھو مذھب الحلولیین، بل ھذہ الواقعۃ توافق حدیث النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم أعنی بذالک حدیث البخاری فی بیان مرتبۃ قرب النوافل لعباد اللّٰہ الصالحین.أیھا الأعزۃ الآن اقص علیکم من بعض واقعات غیبیۃ أظھرنی ربی علیھا لیجعلھا آیات للطالبین.فمنھا ان اللّٰہ رأی ابناء عمی، و غیرھم من شعوب أبی و أمی المغمورین فی المھلکات، والمستغرقین فی السیئات من الرسوم القبیحۃ والعقائد الباطلۃ و البدعات.و رآھم منقادین لجذبات النفس واستیفاء الشھوات، والمنکرین لوجود اللّٰہ و من المفسدین.و وجدھم أجھل خلقہ بما یھذب نفوسھم و أَلَدَّھم للدنیا الدنیۃ وأذھلھم عن ذکر الآخرۃ، و اغفلھم عن جلال اللّٰہ و سطوتہ و قھرہ
وجو دہ و امور العاقبۃ، والعاکفین علی طواغیت الرسوم، الغافلین عن عظمۃ اللّٰہ القیوم، والمنکرین للنبی المعصوم و من المکذبین.و رأی أنھم یأمرون بالمنکر والشرور.و ینھون عن المعروف والخبر المأثور، و یطیلون الأَلسنۃ بتوھین رسول اللّٰہ (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) والاستخفاف بہ و صاروا للالحاد والارتداد من المتشمرین.و رأی أنھم یسعون تحت الآثام الی الآثام و لا یخافون غضب اللّٰہ الملک العلام و لا یتوبون من سب رسول اللّٰہ (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) بل کانوا علیہ من المداومین.و کانوا لا یحفظون فروجھم و لا یترکون دَوْرَقَھم و دُروجھم وکانوا علی ھجو الإسلام من المصرین.وکانوا یغضبون غضب السباع مع ظلمۃ المعاصی والظلم والایقاع، کأنھم سحاب رکام فیہ شغب الرعد والبرق و الصاعقۃ و لا یخرج قطرۃ وَدَقٍ من خلالہ فنعوذ باللّٰہ من شر المعتدین.و بینما ھم کذالک اذ اصطفانی ربی لتجدید دینہ، و اظھار عظمۃ نبیہ و نشر رَیّا یاسمینہ (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) و أمرنی لدعوۃ الخلق الی دین الاسلام و ملۃ خیر الانام، و رزقنی من الالھامات والمکالمات والمخاطبات والمکاشفات رزقًا حسنًا و جعلنی من المحدثین.فبلغ ھذا الخبر و ھذہ الدعوۃ و ھذا الدعوی ابناء عمی و کانوا أشد کفرًا باللّٰہ و رسولہ والمنکرین لقضاء اللّٰہ و قدرہ و من الدھریین.فاشتعل غضبھم حسدًا من عند انفسھم فطغوا و بغوا واستدعوا لآیات استھزاءً ا و قالوا لا نعلم اِلٰھًا یکلم أحدًا أو یقدر امرًا أو یوحی إلی رجل و ینبئ من شیء إن ھو إلا مکر
مستمر قد انتاب من الاولین.وکلہ کید و ختر و ذلاقۃُ لُسْنٍ فلیاتنا بآیۃ ان کان من الصادقین.و کانوا یستھزء ون باللّٰہ و رسولہ و یقولون (قاتلھم اللّٰہ) ان القرآن من مفتریات محمد (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) و کانوا من المرتدین.و کان القوم کلہ معھم و لا یمنعونھم من ھذہ الکلمات و لا یراجعون، فکانوا یزیدون یومًا فیومًا فی کفرھم و طغیانھم و لم یکونوا من المزدجرین.فاتفق ذات لیلۃ انی کنت جالسا فی بیتی اذ جاء نی رجل باکیًا ففزعت من بکاۂ فقلت اجاء ک نعی موت؟ قال بل أعظم منہ.انّی کنت جالسًا عند ھؤلاء الذین ارتدوا عن دین اللّٰہ فسب احدھم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سبًا شدیدًا غلیظًا ما سمعت قبلہ من فم کافر، و رأیتھم أنھم یجعلون القرآن تحت أقدامھم و یتکلمون بکلمات یرتعد اللسان من نقلھا، و یقولون ان وجود الباری لیس بشیء و ما من الہ فی العالم، إن ھو الا کذب المفترین.قلتُ اولم حذّرتک من مجالستھم فاتق اللّٰہ و لا تقعد معھم و کن من التائبین.و کذالک سدروا فی غَلَواتھم و جمحوا فی جھلاتھم و سدلوا ثوب الخیلاء یومًا فیومًا حتی بدا لھم أن یشیعوا خزعبلاتھم، و یصطادوا السفھاء بتلبیساتھم فکتبوا کتابا کان فیہ سبّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و سبّ کلام اللّٰہ تعالی و إنکار وجود الباری عزّ اسمہ، و مع ذلک طلبوا فیہ آیات صدقی منی و آیات وجود اللّٰہ تعالی و أرسلوا کتابھم فی الآفاق والأقطار و أعانوا بھا کفرۃ الھند و عتوا عتوًّا کبیرًا
ما سمع مثلہ فی الفراعنۃ الأولین.فلما بلغنی کتابہم الذی کان قد صنفہ کبیرھم فی الخبث والعمر، و رأیت فیہ سبّ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سبّا ینشق منہ قلب المؤمنین، و تتقطع أکباد المسلمین، و رأیت فیہ کلمات الأراذل والسفھاء، و توھین الشریعۃ الغراء و ھجو کلام اللّٰہ الکریم فغضبت أسفا و نظرتُ فإذا الکلماتُ کلمات تکاد السماوات یتفطرن منھا.فتحدرت عبرات من مَذارف مآقی.و تصعدت زفراتی الی التراقی.و غلب علی بکاء و أنین.فغلّقت الابواب.و دعوت الرب الوھاب، و طرحت بین یدیہ و خررت امامہ ساجدًا و قرِمتُ الی نصرتہ متضرعًا و فعلتُ ما فعلتُ بلسانی و جنانی و عینای ما لا یعلمھا إلا رب العالمین.و قلت یا رب یا رب انصر عبدک و اخذل اعداء ک.استجبنی یا رب استجبنی اِلامَ یُستھزأ بک و برسولک.و حتام یکذبون کتابک و یسبون نبیک.برحمتک استغیث یا حیّ یا قیّوم یا معین.فرحم ربی علی تضرعاتی و زفراتی و عبراتی و نادانی و قال:’’انّی رأیت عصیانھم وطغیانھم فسوف أضربھم بأنواع الآفات أُبیدھم من تحت السماوات و ستنظر ما أفعل بھم و کنا علی کل شیء قادرین.إنی أجعل نساء ھم أرامل و أبناء ھم یتامی و بیوتھم خربۃ لیذوقوا طعم ما قالوا و ما کسبوا ولکن لا أھلکھم دفعۃ واحدۃ بل قلیلًا قلیلًا لعلہم یرجعون و یکونون من التوابین إن لعنتی نازلۃ علیھم و علی جدران بیوتھم و علی صغیرھم وکبیرھم ونساءھم و رجالھم و نزیلھم الذی دخل أبوابھم.و کلھم کانوا ملعونین.الا الذین
آمنو ا و عملوا الصالحات و قطعوا تعلقھم منھم و بعدوا من مجالسھم فاولئک من المرحومین.ھذہ خلاصۃ ما ألہمنی ربی فبلّغت رسالات ربی فما خافوا و ما صدقوا بل زادوا طغیانًا و کفرًا و ظلّوا یستھزء ون کأعداء الدین.فخاطبنی ربی و قال: انا سنریھم آیات مبکیۃ، و ننزل علیھم ھمومًا عجیبۃ، و امراضًا غریبۃ، و نجعل لھم معیشۃ ضنکًا و نصبّ علیھم مصائب فلا یکون لہم أحد من الناصرین.فکذالک فعل اللّٰہ تعالی بھم و أنقض ظھورھم بأثقال الھموم والدیون و الحاجات، و أنزل علیھم من انواع البلایا والآفات.و فتح علیہم أبواب الموت والوفات، لعلھم یرجعون أو یکونون من المتنبھین.ولکن قست قلوبھم فما فہموا وما تنبھوا وما کانوا من الخائفین.و لما قرب وقت ظھور الآیۃ اتفق فی تلک الأیام أن واحدًا من أَعزّ أعزّتھم الذی کان اسمہ ’’احمد بیک‘‘ اراد ان یملک ارض اختہ التی کان بعلھا مفقود الخبر من سنین.و کان ھو ابن عمی و کانت الأرض من ملکہ فمال احمد بیک أن یخلص الأرض من أیدی أختہ و یستخلصھا.و أن یستخرجھا من قبضتھا ثم یقتنصھا و ارادت ھی ان تھبھا و تمن علی اخیھا و کنا لھا ورثاء جمیعًا علی سواء فرضی أبناء عمی لوجہ بھذا بما کانت أختھم تحتہ و بما کانوا لہ أقربین.کذالک.نعم قد کان لی حق غالبًا علیہم و لأجل ذلک ما کان لہم ان یھبوا الارض قبل ان أرضی و أکون من الرّاضین.فجاء ت امرأۃ احمد بیک تطرح بین یدی لأ ترک حقی و ارضی بھذہ الھبۃ
و لا أکون من المنازعین.فکدتُ ارحم علیھا و أھب الارض لھا تألیفًا لقلوبھم لعلھم یتوبون و یکونون من المھتدین.ثم خشیت شرالاستعجال، فی مال الغائب الذی ھو مفقود الخبر و الحال، فخوفنی تَبِعَۃُ أثمارہ و ما فیہ من الوبال.فاستحسنت استفتاء العلیم الحکیم، و ترقُّب اعلام الرب الرحیم لأکون بریًا من غصب حق غائب و لا أکون من ضیمی کقائب، و أخرج من الذین یظلمون شرکاء ھم و یترکونھم کخائب، و کانوا فی حقوقھم راغبین، و لا یخافون أن یأخذوھم مفاجین.فارتدعت عن الھبۃ ارتداع المرتاب.و طویت ذکرہ کطیِّ السجلّ للکتاب، و کنت لحکم اللّٰہ من المنتظرین.و کنت أظن أن ھذا یوشک ان یکون وما کدت ان اظن انھا قضیۃ قد اراد اللّٰہ بھا ابتلاء قوم کانوا من المعتدین، الذین غلبت علیہم المجون والخلاعۃ والإباحۃ والدھریۃ والتحقوا بالکفار بل کانوا أشد کفرا منہم و کانوا قومًا فاسقین.فقلت لامرأۃ احمد بیک ما کنت قاطعًا أمرا حتی أوامر اللّٰہ تعالی فیہ فارجعی الی خدرک و بلّغی ما سمعتِ أبا عذرک، و ستجدیننی ان شآء اللّٰہ من المخلصین.فذھبت ، و أتی بعلھا یسعی، فألح علیّ کالمضطرین و کان یخبط کخبط المصابین حتی أبکاہ کربتہ.و ذوت سکینتہ.وفاء الی التضرع والاقشعرار، و کان احشاء ہ قد التھبت بطوی العقار، و کان یتنفس کالمخنوقین.ووجدتہ بوجدہ المتھالک کأنّ الہم سیجد لہ و الغم یفیح دمہ و یصول علیہ الحزن کمغتالین.فلما رأیت صَغْوَہ و حزنہ قد بلغ مراتب کمالہ، أخذنی التحنن علی حالہ، وأشفقت علی عینہ و مبکاھا و قصدت ان أریہ ید النصرۃ و جدواھا و عدواھا فأسرعت الی تسلیتہ کالمواسین.
فقلت لہ واللّٰہ ما زاغ قلبی وما مال، و ما انا من الذین یحبون المال، بل من الذین یتذکرون المآل والآجال، و لست شحیحا علی النعم کالذین ھم کالنَّعم، و إننی أرحم علیک وسأُحسن الیک وأعلم أن انفس القربات تنفیس الکربات، وأمتن اسباب النجاۃ، مواساۃ ذوی الحاجات، و کنت لنصرتک من المتأھبین.ولکن ایم اللّٰہ لقدعاھدت اللّٰہ علی اننی لا أمیل إلی أمرٍ فیہ شبھۃ، و لا أضع قدما فی موضع فیہ زلۃ و لا أتلوا المتشابھات حتی أوامر ربی فیھا فالآن أفعل کذلک و أرجو من اللّٰہ خیرًا فلا تکونن من القانطین.و إنّی أری ان المؤامرۃ أقرب للتقوی لأن الوارث مفقود و ما نتیقن أنہ مات أو ھو حی موجود فلا یجوز ان یستعجل فی مالہ کمال المیتین.فالأولی ان تقصر عن القیل والقال، حتی اوامر ربّی عالم الغیب ذالجلال، وأستقری سبل الیقین.قال ما منی خلاف، فلا یکن لو عدک إخلاف.قلت کل وعدی مشروط بأمر رب العالمین.فذھب و کان من وجدہ الذی تیمّہ کالمعتلّین.فتیمّمت حجرتی، والتزمت زاویۃ بقعتی، أ تجشم الی اللّٰہ تعالی لیظھر علیّ امرہ، و یفلق حب الحقیقۃ من نواتھا و یُری لبّ الأمر و قشرہ.فواللّٰہ ما امسکت ریثما یعقد شسع او یشدّ نسع.اذا الوسن اسری إلی آماقی، و أُلھمتُ من اللّٰہ الباقی، و أنبئت من أخبار ما ذھب و ھلی قط الیھا و ما کنت الیھا من المستدنین.فأوحی اللّٰہ إلیّ أن أخطب صبیتہ الکبیرۃ لنفسک، و قل لہ: لیصاھرک أولًا ثم لیقتبس من قبسک، و قل إنی أمرت لأھبک ما طلبتَ من الارض و أرضًا أخری معھا و أحسن إلیک
بإحسانات أخری علی أن تنکحنی إحدی بناتک التی ھی کبیرتھا و ذالک بینی و بینک فإن قبلت فستجدنی من المتقبلین.و إن لم تقبل فاعلم أن اللّٰہ قد أخبرنی أن انکاحھا رجلا آخر لا یبارک لھا ولا لک فإن لم تزدجر فیصب علیک مصائب و آخر المصائب موتک فتموت بعد النکاح الی ثلاث سنین، بل موتک قریب و یرد علیک و انت من الغافلین.و کذالک یموت بعلھا الذی یصیر زوجھا الی حولین و ستۃ اشھر، قضاءً من اللّٰہ فاصنع ما انت صانعہ و انّی لک لمن الناصحین.فعبس و تولّٰی وکان من المعرضین.ثم کتبت الیہ مکتوبا بایماء منانی، و إشارۃ رحمانی، و نمقت فیہ: بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم أما بعد فاسمع ایھا العزیز ما لک اتخذت جدّی عبثا، و حسبتَ تبری خبثا، وواللّٰہ ما أرید أن أشق علیک و ستجدنی انشاء اللّٰہ من المحسنین.و ھا أنا اکتب بعھد موثق فانک إن قبلتَ قولی علی رغم أنف قبیلتی فأفرض لک حصّۃ فی أرضی و خمیلتی، و یرتفع الخلاف والنزاع بھذہ الوصلۃ من بیننا و یصلح اللّٰہ قلوب شعبی و عشیرتی، و فی کل منیتک اقتفی صَغْوَک و أزیل قشفک فتکون من الفائزین لا من الفائزین.والحق والحق اقول انی اکتب ھذا المکتوب بخلوص قلبی و جنانی، فان قبلت قولی و بیانی، فقد صنعت لطفًا الیّ، و کان لک احسانا علیّ، و معروفا لدی فأشکرک وأدعو زیادۃ عمرک من أرحم الراحمین.و إنی أقیم معک عھدی، أنی أعطی بنتک ثلثًا من ارضی و من کل ما ملکتہ یدی، و لا تسألنی خطۃ الا أعطیک إیاھا وا نی من الصادقین.ولن تجد مثلی فی رعایۃ الصلۃ
و مودۃ الاقارب و حقوق الوصلۃ و تجدنی ناصر نوائبک و حامل أثقالک فلا تضیّع و قتک فی الاباء ولا تستنکر حبک ولا تکونن من الممترین.وھا أنا کتبت مکتوبی ھذا من امر ربی لا عن امری فاحفظ مکتوبی ھذا فی صندوقک فانہ من صدوق امین.واللّٰہ یعلم اننی فیہ صادق و کل ما وعدت فھو من اللّٰہ تعالی و ما قلت اذ قلت ولکن انطقنی اللّٰہ تعالی بالھامہ، و کانت ھذہ وصیۃ من ربی فقضیتھا ما کان لی حاجۃ الیک و الی بنتک وما ضیق اللّٰہ علی والنساء سواھا کثیرۃ واللّٰہ یتولی الصالحین.فلا تنظر الی مکتوبی بعین الارتیاب، فانہ کتبتہ بإمحاض النصح والتزام الصدق و الصواب، ودع الجدال وانتظر الآجال، فان مضی الأجل وما حصحص الصدق فاجعل حبلًا فی جیدی و سلاسلا فی أرجلی و عذبنی بعذاب لم یعذب بہ احد من العالمین.کنتم قد طلبتم آیۃ من ربی فھذہ آیۃ لکم انہ یا خذ المنکرین من مکان قریب و یختار ما کان أقرب التعذیبات فی حقھم و أدنی من أفھامھم و أشد أثرا فی أعراضھم وأجسامھم لیری المحتالین ضعفھم و یکسر کبر الضائمین.ھذا ما کتبت إلی احمد بیک فی سنۃ ۱۳۰۴‘ فأعرض و أبی و سکت و بکت وعاف وُصْلتی و صلتی و ضاق ذرعًا من نمیقتی و کان من المعادین.و معہ عادانی قومہ و عشیرتہ الذین کانوا أقربین.و کانوا یعافون أنٍ یزوّجوا بناتھم أقارب مثلی أو یزوّجوا امراءً تحتہ امرأۃ أخری.و کانت بنتہ ھذہ المخطوبۃ جاریۃ حدیثۃ السن عذراء و کنت حینئذٍ جاوزت الخمسین.و کان جذوۃ
المعا دات متطایرۃ و نارھا ملتھبۃ، فزین القدر لنصبہ و وصبہ ھذہ الموانع فی عینیہ فصار من المرتدعین.و کان یعلم صدقی و عفتی وباللّٰہ ثقتی و مقتی، و لکن غلبت علیہ الشقوۃ وأنساہ عاھتہ نباھتی فکان من المنکرین المعرضین.و ما عرانی حزن من ذلک الانکار، بل فرحت فرحۃ المطلق من الاسار، و ھزۃ الموسر بعد الاحسار، و کنت کتبتُ الیہ بایماء اللّٰہ القھار، فعلمت ان اللّٰہ أتم حجتہ علیہ و علی عشیرتہ و لم یبق لہ الاعتذار، و علمتُ أنہ سیجعل کلماتی حسراتٍ علی قلوبھم فسیذکرونھا باکین.ثم غلب قلبہ ذعرو ضجر و فجعہ إلھامی فمکث خمس سنین لا یزوج احدًا بنتہ و لا یخطب خیفۃ من وعید اللّٰہ و صار کالمتشحطین.فلما أنکحھا فما مضی علیہ الا قریبا من ستۃ أشھر إلا و قد أخذہ اللّٰہ و سلط علیہ داءً کالأرضۃ و فوضہ الی قبضۃ المرضۃ و عرکۃ الوعکۃ الی ان اذھب حواسَّہ الأنف، واستشفہ التلف حتی نضی عنہ قدر اللّٰہ ثوب المحیا و سلمہ الی ابی یحیی و مات بمیتۃٍ محسرۃ و نارٍ تطلع علی أفئدۃٍ و رحل بالکربۃ والغم الغابر و کم حسرات فی بطون المقابر، و ان فی ھذ لَآیات للمنکرین.و عرا أھلہ و أقاربہ ضجرو مصیبۃ، کانوا یضربون وجوھہم من وبال الدُّرَخْمین و ھم الذین کانوا یقولون ما نعلم ما اللّٰہ، ان ھی الاحیاتنا الدنیا نموت و نحیا و ما نحن بمبعوثین.فوجدوا وجدًا عظیما لفوت لقیاہ، و انقطاع سقیاہ و بما رأوا ان الالھام قد أری سناہ، و تراء ت من کشف ساقہ ساقاہ، و ظھرت من بدء أمرہ منتہاہ، فکانوا مع حزنھم متخوّفین.ما تمضمضت مقلتہم بنومہا فی تلک الایام، ولا تمخضت لیلتھم عن یومھا لغلبۃ ھذا الظلام، و احلھم نزیل المصائب فأحضروہ شواۃ الکبد و ماء الأنین.فلما بلغہم نعیُ الحمام، و وعیُ اللاطمات علی وجوھھم
وا لحاطمات ھامھم بذکر الراحل عن المقام، انثالوا الی عقوتہ موجفین، و الی دویرتہ الخریبۃ موفضین.فأسالوا الغروب، و عطّوا الجیوب و صکوا الخدود و شجوا الرؤوس و کانت النساء قلن فی نیاحتہم قد اصبح الیوم عدونا الذی انبأنا قبل الوقت من الصادقین.فتفکروا أیھا الطلاب أھذا أضغاث أحلام أھذا افتراء انسان واسألوا أھل المتوفی الذین یتندمون فی أنفسھم و یبکون علی میتھم و یقولون: یا ویلنا انا کنا خاطئین.و ھنّأنی ربّی و قال ’’انا مھلکو بعلھا کما اھلکنا أباھا و رادّوھا الیک.الحق من ربک فلا تکونن من الممترین.وما نؤخّرہ الا لأجل معدود قل تربصوا الأجل و إنی معکم من المتربصین.و اذا جاء وعدالحق أھذا الذی کذبتم بہ ام کنتم عمین.‘‘ ھذا ما بشرتُ من ربی فالحمد للّٰہ رب العلمین.و رأیت فی منام کأنی قائم فی موطن و فی یدی سیف مسلول، قائمہ فی أکفی و طرفہ الآخر فی السماء و لہ برق و لمعان یخرج منہ نور کقطرات متنازلۃ حینا بعد حین.و إنی اضرب السیف شمالًا و جنوبًا و بکل ضربۃ أقتلُ ألوفًا من اعداء الدین.و رأیت فی تلک الرؤیا شیخا صالحًا اسمہ عبد اللّٰہ الغزنوی و قد مات من سنین، فسألتہ عن تأویل ھذہ الرؤیا، فقال اما السیف فہی الحجج التی اعطاک اللّٰہ و نصرک بالدلائل والبراھین.و اما ضربک ایاہ شمالا و جنوبًا فھو إراء تک آیات روحانیۃ سماویۃ و أدلۃ عقلیۃ فلسفیۃ للمنکرین.وأما قتل الاعداء فھو إفحام المخاصمین،
و ا سکاتھم منھا.ھذا تأویل رؤیاک و انت من المؤیدین.و قد کنت فی أیامی التی کنت فی الدنیا أرجو و أظن أن یخرج رجل بھذہ الصفات و ما کنت أستیقن انہ انت و کنت عن أمرک من الغافلین.و منھا أن اللّٰہ بشرنی و قال: سمعت تضرعاتک ودعواتک وانی معطیک ما سألت منی وانت من المنعمین.و ما أدراک ما أعطیک آیۃ رحمۃٍ و فضلٍ و قربۃٍ و فتحٍ و ظفرٍ فسلام علیک انت من المظفرین.انا نبشرک بغلام اسمہ عنموایل * و بشیر.انیق الشکل دقیق العقل و من المقربین.یأتی من السماء والفضل ینزل بنزولہ.و ھو نور و مبارک و طیب و من المطھرین.یُفشی البرکات و یغذی الخلق من الطیبات و ینصر الدین.و یسمو و یعرج و یرقی و یعالج کل علیل و معرضی و کان بأنفاسہ من الشافین و انہ آیۃ من آیاتی، و عَلَمٌ لتائیداتی لیعلم الذین کذبوا أنی معک بفضلی المبین، و لیجئ الحق بمجیۂ و یزھق الباطل بظھورہ و لیتجلی قدرتی و یظھر عظمتی و یعلوا الدین و یلمع البراھین، ولینجو طلاب الحیات من أکف موت الایمان والنور، و لیبعث اصحاب القبور من القبور، و لیعلم الذین کفروا باللّٰہ و رسولہ و کتابہ أنھم کانوا علی خطأ و لتستبین سبیل المجرمین.فسیعطی لک غلام ذکی۱ من صلبک و ذریتک و نسلک و یکون من عبادنا الوجیھین.ضیف جمیل یاتیک من لدنا.نقی من کل درن و شین.و شنار و شرارۃ و عیب و عار و عرارۃ.و من الطیبین.
و ھو کلمۃ اللّٰہ.خُلق من کلمات تمجیدیۃ.و ھو فھیم و ذھین و حسین قد ملئ قلبہ علمًا، و باطنہ حلمًا، و صدرہ سلمًا، و اعطی لہ نفسٌ مسیحی و بورک بالروح الأمین.یوم الا ثنین.فواھا لک یا یوم الاثنین، یأتی فیک أرواح المبارکین.ولد صالح کریم ذکی مبارک مظھر الاول والآخر.مظھر الحق والعلا کأن اللّٰہ نزل من السماء.یظھر بظھورہ جلال رب العلمین.یأتیک نور ممسوح بعطر الرحمٰن، القائم تحت ظل اللّٰہ المنان.یفک رقاب الأساری و ینجی المسجونین.یعظم شأنہ، و یرفع اسمہ و برھانہ، و ینشر ذکرہ و ریحانہ الی اقصی الارضین.امام ھمام، یبارک منہ أقوام، و یأتی معہ شفاء و لا یبقی سقام، و ینتفع بہ أنام، ینمو سریعًا سریعًا کانہ عردام، ثم یرفع الی نقطتہ النفسیۃ التی ھی لہ مقام.وکان امرًا مقضیًا قدرہ قادر علام.فتبارک اللّٰہ خیر المقدرین.* و رأیت فی المنام کأنی اسرجتُ جوادی لبعض مرادی.وما أدری أین تأھّبی وأیّ أمر مطلبی و کنت احس فی قلبی انّنی لأمر من المشغوفین.فامتطیت أجردی باستصحاب بعض السلاح متوکلًا علی اللّٰہ کسنۃ اھل الصلاح، و لم اکن کالمتباطئین.ثم وجدتنی کأنی عثرت علی خیل قصدوا متسلحین داری لاھلاکی و تباری، وکأنھم یجیؤن لإضراری منخرطین.وکنتُ وحیدًا و مع ذالک رأیتنی أنی لا أ لبس من خوذ، غیر عُدَدٍ وجدتہا من اللّٰہ کعوذ، و قد أنفت أن أکون من القاعدین والمتخلفین الخائفین.فانطلقت مجدًا الی جھۃ من الجہات، مستقریًا إربی الذی کنت قد اخبر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان المسیح الموعود یتزوّج و یولد لہ.ففی ھذا اشارۃ الی ان اللّٰہ یعطیہ ولدًا صالحًا یشابہ اباہ و لا یأباہ و یکون من عباد اللّٰہ المکرمین.والسر فی ذالک ان اللّٰہ لا یبشر الانبیاء والاولیاء بذریۃٍ الّا اذا قدر تولید الصالحین.و ھذہ ھی البشارۃ التی قد بُشرت بھا من سنین و من قبل ھذہ الدعوی لیعرفنی اللّٰہ بھذا العلم فی اعین الذین یستشرفون و کانوا للمسیح کالمجلوذین.و أما دفن المسیح فی قبر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کما جاء فی الحدیث فھذا سرّ معکوم و رمز مختوم لا یعرفہ
أحسبہ من أکبر المہمات و اعظم المثوباتفی الدنیا والدین، اذ رأیت ألوفاً من الناس.فارسین علی الأفراس، یأتون الیّ متسارعین.ففرحت برؤیتہم کالخباس، و وجدت فی قلبی حولا للجحاس، و کنت اتلوھم کتُلُوّ الصیادین.ثم أطلقت الفرس علی آثارھم، لادرک من فص أخبارھم، و کنت اتیقن اننی لمن المظفرین.فدنوتُ منہم فاذاھم قوم دروس البزّۃ کریہ الھیءۃ میسمہم کمیسم المشرکین.ولباسہم لباس الفاسقین، ورأیتھم مطلقین أفراسہم کالمغیرین و کنت اقیّد لحظی باشباحھم کالرائین.و کنت اُسارع الیہم کالکُماۃ، و کان فرسی کانہ یزجیہ قائد الغیب کازجاء الحمولات بالحداۃ، و کنت علی طلاوۃ إقدامہ کالمستطرفین.فما لبثوا أن رجعوا متد ھد ھًاالی خمیلتی.لیزاحموا حولی وحیلتی، و لیتلفوا ثماری و یزعجوا أشجاری،ولیشنّوا علیھا الغارات کالمفسد ین.فأوحشنی دخولھم فی بستانی و اد ھشت باغراقھم و ولوجھم فیھا فضجرت ضجرًا شدیدًا و قلق جنانی و شھد توسمی انھم یریدون ابادۃ أ ثماری و کسر أغصانی فبادرتُ الیھم و ظننت أن الوقت من مخاشی اللّاواء، و صارت أرضی موطن الأعداء، و أوجست فی نفسی خیفۃً کالضعیفین المزء و دین.فقصدت الحدیقۃ لأفتش الحقیقۃ.فلما دخلت حد یقتی و استشرفت بتحدیق حدقتی، واستطلعت طلع مقامہم رأیتہم من مکان بعید فی بحبوحۃ بستانی ساقطین مصروعین کالمیتین.فأفرخ کربی و آمن سربی، و بادرت الیہم جذلًا و بأقدام الفرحین.بقیہ حاشیہ: الا الذین یعلمون من ربھم من الملہمین المعزّزین.وحقیقتہ ان اللّٰہ تعالی قد جعل قبر نبیہ مقرونا بالجنۃ فھما صنوان من شجرۃ نورالحق لا ینفک احدھما من الآخر و قرابان للمعاتٍ مخفیۃ واصلۃ الی الواصلین.و قد جرت عادۃ اللّٰہ تعالی انہ یُدنی قبر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من المؤمن المتوفی کما یدنی الجنۃ رزقًا منہ و ھو خیر الرازقین.فاذا مات عبدٌ لہ قرب و مصافات باللّٰہ تعالی فیدنی من قبر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و من الجنۃ بقدر ھذا القرب و المصافاۃ فی الدین.فالذی ھو اشد قربًا و مصافاۃ ھو اشد قربا بقبر رسول اللّٰہ کأنہ داخل فیہ و ضجیع خاتم النبیین فخذ ھذہ التمرۃ، و ایاک والجمرۃ.واعلم أن المسیح قد أنزل علی ھذہ الارض کما خرج فیھا الدجال فلا تکن من المشائمین.منہ
فلما دنوتُ منھم وجدتھم أصبحوا فرسی کموت نفس واحد میتین ذلیلین مقھورین.سلخت جلودھم، و شجّت رء وسھم و ذعطت حلوقھم وقطعت أیدیھم و أرجلھم و صرعوا کالممزقین، واغتیلوا کالذین سقط علیھم صاعقۃ فکانوا من المحرقین.فقمت علی مصارعھم عند التلاقی، وعبراتی یتحدرن من مآقی.و قلت یا رب روحی فداء سبیلک لقد تبت علیّ و نصرت عبدک بنصرۃٍ لا یوجد مثلہ فی العالمین.رب قتلتھم بأیدیک قبل ان قاتل صِرْعَان، و حارب حتنان، و بارز قتلان، تفعل ما تشاء و لیس مثلک فی الناصرین.انت انقذتنی و نجیتنی وما کنت أن أُنجی من ھذہ البلایا لو لا رحمتک یا ارحم الراحمین.تم استیقظت وکنت من الشاکرین المنیبین، فالحمد للّٰہ رب العالمین.و اوّلت ھذہ الرؤیا الی نصرۃ اللّٰہ و ظفرہ بغیر توسط الأیدی والأسباب، لیتمّ علی نعماء ہ و یجعلنی من المنعمین.والآن أبین لکم تاویل الرؤیا لتکونوا من المبصرین.فاما شج الرؤس و ذَعط الحلوق فتأویلہ کسر کبر الاعداء و قصم ازدھاۂم وجعلھم کالمنکسرین.و أما تقطیع الأیدی فتاویلہ إزالۃ قوۃ المبارات والممارات و اعجازھم و صدھم عن البطش و حیل المقاومات، و انتزاع اسلحۃ الھیجاء منھم وجعلھم مخذولین مصدودین.و اما تقطیع الأرجل فتأویلہ إتمام الحجۃ علیھم و سد طریق المناص و تغلیق أبواب الفرار و تشدید الإلزام علیھم وجعلھم کالمسجونین.و ھذا فعل اللّٰہ الذی قادر علی کل شیءٍ یعذب من یشاء، و یرحم من یشاء، و یھزم من یشاء،
و یفتح لمن یشاء وما کان لہ احد من المعجزین.إن الذین کذبوا رسلہ و آذوا عبادہ و کفروا بآیات اللّٰہ و لقاۂ اولئک یئسوا من رحمتہ وارداھم ظنھم.و اھلکھم کبرھم، فحبطت اعمالھم و صاروا ھالکین.یا أیھا الذین آمنوا اتقوا اللّٰہ و لا تتخلفوا عن داعی اللّٰہ و کونوا مع الصادقین.لقد ابلغتکم رسالۃ ربی و نصحت لکم فکیف آسی علی قوم لا یحبون الناصحین.ذکر بعض الانصار شکرًا لنعمۃ اللّٰہ الغفار ما زلتُ مذ أُمِرتُ من حضرۃ الرب و أُحییت من الحی ذی العجب أَحنّ إلی عیان أنصار الدین، و لا حنین العطشان الی الماء المعین و کنت أصرخ فی لیلی و نھاری و أقول یا رب من أنصاری یا رب من أنصاری إنی فرد مھین.فلما تواتر رفع یدالدعوات، وامتلأ منہ جوّ السمٰوات.أجیب تضرعی، و فارت رحمۃ رب العالمین.فأعطانی ربی صدیقا صدوقا، ھو عین أعوانی، و خالصۃ خلصانی، و سلالۃ احبائی* و من الاحباء فی اللّٰہ منشی زین الدین محمد ابراھیم بمبء، والمولوی غلام امام منی پوری.و حبی فی اللّٰہ المولوی غلام حسن پشاوری، و محی الدین الشریف تونتی کورن، والسردار محمد ولایت خان المدراسی، و حبی فی اللّٰہ السید النجیب المولوی محمد أحسن، و حبی فی اللّٰہ المولوی عبدالکریم السیالکوتی سلمہ اللّٰہ الذی ایّدنی و اَمدّنی فی ترجمۃ مکتوبی ھذا و ھو من المحبین المخلصین، و ھو فی ھذہ الایام عندی.کان
فی الدین المتین.اسمہ کصفاتہ النورانیۃ نورالدین ھو بھیروی مولدًا و قرشی فاروقی نسبًا، من سادۃ الاسلام و من ذریۃ النجیبین الطیبین.فوصلتُ بوصولہ الی الجذل المفروق، واستبشرت بہ کاستبشار السید (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) بالفاروق، و لقد أَنیستُ احزانی، مذ جاء نی و لقّانی، و وجدتہ فی سبل نصرۃ الدین من السابقین.و ما نفعنی مال أحد کمالہ الذی آتاہ لوجہ اللّٰہ و یؤتی من سنین.قد سبق الأقران فی البراعۃ والتبرع لھوی ملاقاتی واستحسان مقاماتی أرغب فی الاغتراب واستعذب السفر الذی ھو قطعۃ من العذاب فجزاہ اللّٰہ وثبتہ علی سبیل الصدق والصواب و رحمہ و ھو خیرالراحمین.ومنھم میرزا خدا بخش و ھو فی ھذہ الایام عندی شاب صالح مخلص شرح اللّٰہ صدرہ لحبی و أترع ذیلہ من ثمرات الاخلاص، و ثبتہ مع الثابتین.و منھم حبی فی اللّٰہ الحکیم فضل الدین البھیروی، و حبی فی اللّٰہ الشیخ رحمۃ اللّٰہ الکجراتی.و حبی فی اللہ السید أمیر علی شاہ و السید حامد شاہ و حبی فی اللہ المنشی غلام القادرالمعروف بالفصیح السیالکوتی.و حبی فی اللّٰہ النواب محمد علی خان رئیس مالیر کوتلہ، و حبی فی اللّٰہ السید محمد تفضل حسین اتاوی.وحبی فی اللّٰہ السید الھادی.وحبی فی اللّٰہ محمد خان.والمنشی محمد ارورا.والمنشی ظفر احمد کفورتلوی، و حبی فی اللّٰہ المولوی محمد مردان علی والمولوی محمد مظھر علی حیدر آبادی.و حبی فی اللّٰہ المولوی برھان الدین الجھلمی.وحبی فی اللّٰہ میر ناصر نواب الدھلوی، و حبی فی اللّٰہ القاضی ضیاء الدین قاضی کوتی.وحبی فی اللّٰہ المولوی السید محمد عسکری خان و حبی فی اللّٰہ القاضی غلام المرتضی، وحبی فی اللّٰہ عبدالحکیم خان، و حبی فی اللّٰہ رشید الدین خان، و حبی فی اللّٰہ السید خصلت علی شاہ، و حبی فی اللّٰہ المنشی رستم علی.وحبی المنشی عبداللّٰہ السنوری والمیرزا محمد یوسف بیک السامانوی و المنشی محمد حسین المراد آبادی، والقاضی خواجہ علی اللد ھیانوی.ھولاء من احبائی منھم من قصصنا و منھم من لم نقصص و کلھم من المخلصین.
و ا لجدوی، و مع ذالک حلمہ أرسخ من رضوی.نبذ العُلَقَ للّٰہ تعالی و جعل کل اھتشاشہ فی کلام رب العالمین.رأیت البذل شرعتہ، والعلم نُجْعتہ، والحلم سیرتہ، والتوکل قوتہ، ومارأیت مثلہ عالمًا فی العالمین، ولا فی خُلق مملاق من المنعمین، و لا فی اللّٰہ و للّٰہ من المنفقین.وما رأیت عبقریًا مثلہ مذ کنت من المبصرین.و لما جاء نی و لاقانی ووقع نظری علیہ رأیتہ آیۃ من آیات ربی وأیقنت انہ دعائی الذی کنت اداوم علیہ و أُشرب حسی و نبّأنی حدسی انہ من عباد اللّٰہ المنتخبین.و کنت أکرہ مدح الناس و حمدھم و بث شمائلھم خوفا من انہ یضر انفسھم، ولکننی أری أنہ من الذین انکسرت جذباتھم النفسیۃ و أزیلت شھواتھم الطبعیۃ و کان من اآامنین.و من آیات کمالہ أنہ لمارأی جروح الاسلام، ووجدہ کالغریب المستھام، أوکشجر أُزعج من المقام،أشعرھمًّا وانکدرعیشہ غمًّا وقام لنصرۃ الدین کالمضطرین.و صنف کتبًا احتوت علی إفادۃ المعانی الوافرۃ و انطوت علی الدقائق المتکاثرۃ، ولم یسمع مثلھا فی کتب الاولین.عباراتھا من رعایۃ الإیجاز مملوّۃ من الفصاحۃ، والفاظھا فی نھایۃ الرشاقۃ والملاحۃ، تسقی شرابا طھورا للناظرین.و مثل کتبہ کحریر یضمَّخ بعبیر، ثم یُلفّ فیہ من درر و یواقیتَ و مسک کثیر، ثم یُرتَن فیہ العنبر و یجعل کلہ کالعجین.ولا شک انھا جامعۃ ما تفرق فی غیرھا من الفوائد، فاقت ماعداھا لکثرۃ ما حواھا من الشوارد والزوائد، و لجذب القلوب بحبال الأدلۃ
و البراھین.طوبی لمن حصّلھا وعرفھا وقرأھا بإمعان النظر فلا یجد مثلھا من معین.و من اراد حلَّ غوامض التنزیل، واستعلام اسرار کتاب الرب الجلیل، فعلیہ بالاشتغال بھذہ الکتب وبالعکوف علیھا فإنھا کافلۃ بما یبغیہ الطالب الذھین.یصبی القلوب أریج ریحانھا، والثمرات مستکثرۃ فی اغصانھا، ولا شک انھا جنۃ قطوفھا دانیۃ لا یُسمع فیھا لاغیۃ نُزُلٌ للطیّبین.منھا ’’فصل الخطاب لقضایا اھل الکتاب‘‘.و منھا ’’ تصدیق البراھین‘‘.تناسق فیھا جزیل المعانی مع متانۃ الالفاظ ولطافۃ المبانی، حتی صارت أسوۃ حسنۃ للمؤلفین، و یتمنی المتکلمون أن ینسجوا علی منوالھا وترنمت بالثناء علیھا ألسنۃ النِحْریرین.جواھرھا تفوق جواھرالنحور،و دررھا فاقت درر البحور، و إنھا أحسم دلیل علی کمالاتہ، وأقطع برھان علی ریّا نفحاتہ، و ستعلمون نبأھا بعد حین.قد شمر المؤلف الفاضل فیھا لتفسیر نکات القرآن عن ساق الجد والعنایۃ، واعتنی فی تحقیقہ باتفاق الروایۃ والدرایۃ فواھًا لھممہ العالیۃ، وأفکارہ الوقادۃ المرضیۃ.فھو فخرالمسلمین.ولہ ملکۃ عجیبۃ فی استخراج دقائق القرآن، و بثّ کنوز حقائق الفرقان، و لا شک انہ ینور من انوار مشکٰوۃ النبوۃ، و یأخذ نورًا من نورالنبی (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) بمناسبۃ شان الفتوۃ، و طھارۃ الطین.امرؤ عجیب وفتی غریب، تتفجر انھار انوار الاسرار بلمحۃ من لمحاتہ و تتدفق مناھل الافکار
برَ شْحۃٍ من رشحاتہ، و ھذا فضل اللّٰہ یھب لمن یشاء و ھو خیر الواھبین.لا ریب فی أنہ نخبۃ المتکلمین، و زبدۃ المؤلفین.یشرب الناس من عباب زلالہ، و یشتری کشراب طھور قواریر مقالہ، ھو فخرالبررۃ والخِیَرۃ و فخر المؤمنین.فی قلبہ أنوار ساطعۃ من اللطائف والدقائق، والمعارف والحقائق، والأسرار و أسرار الأسرار و لمعات الروحانیین.إذا تکلم بکلماتہ النظیفۃ الطیبۃ، و ملفوظاتہ البدیعۃ المرتجلۃ المبتکرۃ فکأنہ یصبی القلوب والأرواح بالأغانی اللطیفۃ، والمزامیر الداؤدیۃ الذفیفۃ، و یجیء بخارق مبین.یخرج الحکمۃ من فمہ عند سرد الحدیث و سوق الکلام کانھا عبب مندفقۃ متوالیۃ متصاعدۃ الی افواہ السامعین.و إنی قد اطلقتُ أجرد فکری الی کمالاتہ فوجدتہ وحید الدھر فی علومہ و أعمالہ و برّہ و صدقاتہ و انہ لَوْ ذَعِیٌّ أَلْمَعِیُّ نخبۃ البررۃ، و زبدۃ الخیرۃ.أعطی لہ السخاء و المال، و عُلّقت بہ اآامال، فھو سید خدم الدین، و انی علیہ من الغابطین.ینزل اھل اآامال بساحتہ، و یستنزلون الراحۃ من راحتہ فلا یلوی عذارہ عمن ازدارہ و أَمّ دارہ، و ینفح بعرفہ من وافاہ من المملقین.وھو یجد للُقیانی بکمال میل الجنان، کوَجْد المثری بالعقیان، یأتیمن بلاد نازحۃ علی أقدام المحبۃ والیقین.فتی طیب القلب یحبّناو نحبّہ یسعی إلینا بجھد طاقۃ و لو وجد فواق ناقۃ.انثال اللّٰہ علیہ من جوائز المجازات ووصائل الصلات، و أید ببقاۂ الاسلام والمسلمین.لہ بقلبی عُلَقٌ عجیبۃ وقلبہ نفوح غریبۃ.یختار فی حبی انواع الملامۃ والتعنیف، و مفارقۃ المألف
والأ لیف.و یتسنّی لہ ھجر الوطن لسماع کلامی، و یدع التذکر للمعاھد لحبّ مقامی.و یتبعنی فی کل أمری کما یتبع حرکۃ النبض حرکۃ التنفس و اراہ فی رضائی کالفانین.إذا سئل أعطی ولم یتباطأ و إذا دعی الی خطّۃ فھو أول الملبین.قلبہ سلیم و خلقہ عظیم کرمہ کغزارۃ السحب و صحبتہ یصلح قلوب المتقشفین.و وَثْبُہ علی أعداء الدین و ثبۃ شبل مثار، قد امطرالاحجار علی کفار، و نقرّعن مسائل الویدیین و نقَّب و نزل فی بقعۃ النّوکی و عاقب فجعل سافل أرضہم عالیھا وثقّف کتبہ تثقیف العوالی لإفضاح المکذبین.فأخزی اللّٰہ الویدیین علی یدہ فکان وجوھھم أُسِفَّت رمادا، و اشربت سوادًا، وصاروا کالمیتین.ثم ارادوا الکرۃ ولکن کیف یحی الاموات بعد موتھم فرجعوا کالمخفقین.و لوکان لہم نصیب من الحیاء لما عادوا ولکن صار الوقاحۃ کالتحجیل فی حلیۃ ھذا الجیل فہم یصولون کمذبوحین.والفاضل النبیل الموصوف من احب احبائی و ھو من الذین بایعونی وأخلصوا معی نیۃ العقد، و أعطونی صفقۃ العھد، علی ان لا یؤثروا شیءًا علی اللّٰہ الأحد، فوجدتہ من الذین یراعون عھودھم و یخافون رب العالمین.و ھو فی ھذا الزمن الذی تتطایر فیہ الشرور کالماء المعین الذی ینزل من السماء و من المغتنمین.ما آنست فی قلب احد محبۃ القرآن، کما أری قلبہ مملوًّا بمودۃ الفرقان.شغفہ الفرقان حُبّا و فی میسمہ یبرق حب آیات مبین.یُقذَف فی قلبہ انوار من اللّٰہ الرحمن.فیری بھا ما کان بعیدًا محتجبًا من دقائق القرآن
و یغبطنی أکثر مآثرہ وھذا رزق من اللّٰہ یرزق عبادہ کیف یشاء وھو خیرالرازقین.قدجعلہ اللّٰہ من الذین ذوی الاَیدی والأبصار، و أودع کلامہ من حلاوۃ وطلاوۃ لا یوجد فی غیرہ من الأسفار.و لفطرتہ مناسبۃ تامۃ بکلام الرب الجلیل، وکم من خزائن فیہ أُودعتْ لھذا الفتی النبیل و ھذا فضل اللّٰہ لا منازع لہ فی أرزاقہ، فمن عبادہ رجال ما اعطی لہم بلالۃ، ورجال آخرون اعطی لہم غمر، و ما ھم بہ من المتعللین.ولعمری انہ امرء مواطن عظیمۃ صدق فیہ قول من قال:’’لکل علم رجال ولکل میدان أبطال.‘‘ وصدق فیہ قول قائل ’’ان فی الزوایا خبایا، و فی الرجال بقایا،‘‘ عافاہ اللّٰہ و رعاہ واطال عمرہ فی طاعتہ و رضاہ و جعلہ من المقبولین.إنی أری الحکمۃ قد فاضت علی شفتیہ، و أنوار السماء قد نزلت لدیہ، و أری تواتر نزولھا علیہ کالمتضیّفین.کلما توجہ الی تاویل کتاب اللّٰہ بجمع الافکار، فتح ینابیع الأسرار و فجرعیون اللطائف.وأظھر بدائع المعارف التی کانت تحت الأستار، و دقّق ذرات الدقائق، و وصل الی عروق الحقائق، وأتی بنور مبین.یمد العقلاء أعناقھم فی وقت تقاریرہ متسلمین لإعجاز کلامہ و عجائب تأثیرہ.یری الحق کسبیکۃ الذھب و یزیح شبھات المخالفین.إنّ الوقت کان وقت صراصر الفلسفۃ بل فسُد و خبُث وململ کل حدث ما حدث، و کان العلماء معروق العظم صفرالرایحۃ.من دولۃ العلوم الروحانیۃ و جواہر الأسرار الرحمانیۃ فقام ھذا الفتی و سقط علی أعداء الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کسقوط الشھب علی الشیاطین.فھو کحدقۃ العیون فی العلماء وفی فلک الحکمۃ کالشمس البیضاء
لا یخاف الا اللّٰہ ولا یرضی بالآراء السطحیۃ التی منبتھا النَّجد غیر خَوْر، بل یبلغ فھمہ الی أسرار دقیقۃ المآخذ المخفیۃ فی أرض غَوْر.فللّٰہ درّہ و علی اللّٰہ أجرہ.قد اعاد اللّٰہ الیہ دولۃ منھوبۃ، و ھو من الموفقین.والحمد للّٰہ الذی و ھب لنا ھذا الحب فی حینہ و وقتہ و أیام ضرورتہ، فنسأل اللّٰہ تعالی ان یبارک فی عمرہ و صحتہ و ثروتہ، و یعطینا أوقاتا مستجابۃ للأدعیۃ لہ ولعشیرتہ، و یشھد فراستی أن ھذہ الاستجابۃ * امر محقوق لامظنون و نحن فی کل یوم من الآملین.واللّٰہ إنّی أری فی کلامہ شأنا جدیدًا وأراہ فی کشف أسرار التنزیل و فھم منطوقہ و مفھومہ من السابقین.و إنی أری علمہ و حلمہ کالجبلین المتناوحین ما أدری ایھما فاق الآخر، انما ھو بستان من بساتین الدین المتین رب انزل علیہ برکات من السماء، واحفظہ من شرور الاعداء، اعلم أن استجابۃ الدعاء سر من اسرار حکمۃ ربّانیۃ خصص بھا حزب الروحانیین.و قد جرت عادۃ اللّٰہ أنہ یسخر عالم الموالید و تأثیرات اجرام السماء و قلوب الناس عند دعوات أولیاء ہ المقربین.فربما یستحیل الھواء الردی من عقد ھممھم الی صالحۃ طیبۃ والصالحۃ الی فاسدۃ و بائیّۃ، و القلوب القاسیۃ الی طبائع لینۃ متحننۃ و المتحننۃ الی قاسیۃ غلیظۃ باذن المتصرف فی السماء والارضین.و اذا اشتدت حاجۃ ولی اللّٰہ الی ظھور الشیء معدوم و یتوجہ لظھورہ باستغراق تام فیحدث ھذا الشیء بعقد ھمتہ و کذالک اذا توجہ الولی لاعدام الموجود فاذا ھو من المعدومین.و ذالک أصل الخوارق لا تحسھا حاسۃ حکماء الظاھرو لا یذوق طعمھا عقول الفلسفیین.و إن للأولیاء حواسا آخر تتنزل من تلقاء الحق.فاذا رزقوا من تلک الحواس
و کن معہ حیث ما کان و ارحم علیہ فی الدنیا و الآخرۃ و انت ارحم الراحمین.آمین ثم آمین.والحمد للّٰہ اولًا و آخرًا و ظاھرًا و باطنًا، ھو ولِیّی فی الدنیا والآخرۃ.انطقنی روحہ و حرکتنی یدہ.فکتبت مکتوبی ھذا بفضلہ و ایماء ہ و القاء ہ و لا حول و لا قوۃ الا باللّٰہ و ھو القادر فی السماء والأرضین.رب کتبت ھذا المکتوب بقوتک و حولک و نفحات إلھامک فالحمد لک یا رب العالمین.أنت محسنی و منعمی و ناصری و ملہمی ونور عینی و سرور قلبی و قوۃ اقدامی.أموت وأنا شاکر نعمائک بحالی و قالی و کلامی.یشکرک عظامی فی قبری و عجاجی فی جَدَثی، وروحی فی السماء.غلبت نعمتک علی شکری و استغرقت فی نعمائک عینی وأذنی و جنانی و رأسی و جوارحی و ظاھری و باطنی، و انت لی حصن حصین.أعوذبک من آفات الارض والسماء و من کل حاسد صوّاغ باللسان، و روّاغ فیتحلون بحلل مبتکرۃ و یسمعون اغنیۃ جدیدۃ ما سمعت أذن نظیرھا فی العالمین.یصفی عقولھم بکمال الصفاء و یؤتون علم ذرائع الاستنباط والاجتھاد.یعجب العقول دقۃ غموضھا و یکفر بھا کل غبی غیر ذھین.و کان اللّٰہ معھم فی کل حالھم و کانت یدہ علی مھماتھم و أفعالھم.اذا غلقوا بابًا فی الارض فتغلق فی السماء و اذا فتحوا فتفتح فی الأفلاک.دارت السمٰوات بدورۃِ عزیمتھم و قلب الأمور بتقلب ھممھم و یری اللّٰہ خلقہ عزتھم و وجاھتھم لیرغّب المتفطنین الیھم والسعیدین.منہ
من الحق العیان، و من کل لسان سلیط، و غیظ مستشیط، و من کل ظلمۃ و ظلام، و من کل من یکون من المسیرۃ الیک من المانعین.و آخر دعوانا أن الحمد للّٰہ رب العالمین.القصیدۃ ھذہ القصیدۃ أنیقۃ رشیقۃ مملوّۃ من اللطائف الأدبیۃ والفرائد العربیّۃ فی مدح سیدی وسید الثقلین خاتم النبیین محمد ن الذی وصفہ اللّٰہ فی الکتاب المبین، اللھم صل وسلم علیہ الی یوم الدین.و لیست ھذہ من قریحتی الجامدۃ، و فطنتی الخامدۃ، و ما کانت رویتی الناضبۃ ضلیع ھذا المضمار، ومنبع تلک الاسرار، بل کلما قلت فھو من ربی الذی ھو قرینی، و مؤیّدی الذی ھو معی فی کل حینی، الذی یطعمنی ویسقینی وإذا ضللت فھو یھدینی، وإذا مرضت فھو یشفینی ما کسبت شیءًا من مُلح الادب ونوادرہ، ولکن جعلنی اللّٰہ غالبًا علی قادرہ.وھذہ آیۃ من ربّی لقوم یعلمون، وانی اظھرتھا وبینتھا لعلّی أُجزی جزاء الشاکرین و لا أُلحق بالذین لا یشکرون.یا عین فیض اللّٰہ و العرفان یسعی الیک الخلق کالظمآن یا بحر فضل المنعم المنّان تھوی إلیک الزّمر بالکیزان یاشمس ملک الحسن والإحسان نوّرت وجہ البرّ والعمران قوم رأوک و أمّۃ قد أخبرت من ذالک البدر الذی أصبانی یبکون من ذکر الجمال صبابۃً و تألّما من لوعۃ الھجران و أری القلوب لدی الحناجر کربۃ و أری الغروب تسیلھا العینان یا من غدا فی نورہ و ضیاۂ کالنّیّرین و نوّر المَلَوان
یا بدرنا یا آیۃ الرحمٰن أھدی الھداۃ و أشجع الشُّجعان إنی أری فی وجھک المتھلل شأنًا یفوقُ شمائل الانسان وقداقتفاک أولواالنّہی وبصدقہم و دعوا تذکّر معھد الأوطان قد آثروک و فارقوا أحبابھم و تباعدوا من حلقۃ الاخوان قد ودَّعوا أھواء ھم و نفوسھم و تبرَّؤوا من کل نشْبٍ فانٍ ظھرت علیھم بیّنات رسولھم فتمزق الأھواء کالأوثان فی وقت ترویق اللیالی نُوِّروا واللّٰہ نجاھم من الطوفان قد ھاضہم ظلم الاناس و ضیمہم فتثبّتوا بعنایۃ المنّان نھب اللیام نشوبھم وعقارھم فتھللوا بجواھر الفرقان کسحوا بیوت نفوسھم وتبادروا لتمتُّع الإیقان و الإیمان قاموا باقدام الرسول بغزوھم کالعاشق المشغوف فی المیدان فدم الرجال لصدقھم فی حبھم تحت السیوف أریق کالقربان جاء وک منھوبین کالعریان فسترتھم بملاحف الایمان صادفتھم قومًا کروثٍ ذِلّۃ فجعلتھم کسبیکۃ العقیان حتی انثنی بَرٌّ کمثل حدیقۃ عذب الموارد مُثمرالأغصان عادت بلاد العُرب نحو نضارۃ بعدالوجی و المحل و الخسران کان الحجاز مَغازل الغِزلان فجعلتھم فانین فی الرحمان شیئان کان القوم عمیًا فیھما حسوُ العقار و کثرۃ النّسوان اما النّساء فحرِّمت انکاحھا زوجًا لہ التحریم فی القرآن
و جعلت دسکرۃ المدام مخرَّبا و أزلت حانتھا من البلدان کم شارب بالرّشف دنًّا طافحًا فجعلتہ فی الدّین کالنشوان کم محدثٍ مستنطق العیدان قد صار منک محدَّث الرحمان کم مستھام للرّشوف تعشّقاً فجذبتہ جذبًا الی الفرقان احییت اموات القرون بجلوۃ ماذا یماثلک بھذا الشّان ترکوا الغبوق و بدّلوا من ذوقہ ذوق الدعاء بلیلۃ الأحزان کانوا برنّات المثانی قبلھا قد أُحصروا فی شُحّھا کالعانی قد کان مرتعھم أغانی دائمًا طورًا بغیدٍ تارۃ بدنان ما کان فکر غیر فکر غوانی أو شرب راحٍ او خیالِ جفانِ کانوا کمشغوف الفساد بجھلھم راضین بالأوساخ والأدران عیبان کان شعارھم من جھلھم حُمْق الحمار و وَثْبَۃُ السرحان فطلعت یا شمس الھدی نُصحًا لھم لتُضِیءھم من وجھک النورانی ارسلت من ربّ کریم محسن فی الفتنۃ الصمّاء و الطغیان یا لَلفتی ما حسنہ و جمالہ ریّاہ یصبی القلب کالریحان وجہ المھیمن ظاھرٌ فی وجھہ و شؤنہ لمَعت بھذا الشان فلذا یحبُّ و یستحقُّ جمالہ شغفًا بہ من زمرۃ الأخدان سُجْح کریم باذل خلّ التقی خرق وفاق طوائف الفتیان فاق الوری بکمالہ و جمالہ و جلالہ و جنانہ الریّان لا شک أنّ محمّدًا خیرالوری ریق الکرام و نخبۃ الاعیان
تمّت علیہ صفات کل مزیّۃ خُتِمت بہ نعماء کل زمان واللّٰہ إن محمّدًا کرِدافۃ و بہ الوصول بسُدّۃ السلطان ھو فخر کل مطھّر و مقدس و بہ یباھی العسکر الروحانی ھو خیر کلّ مقرّب متقدِّم والفضل بالخیرات لا بزمان والطَّلُّ قد یبدو أمام الوابل فالطل طلٌّ لیس کالتَّھْتان بطل وحید لا تطیش سھامہ ذو مصمیات موبق الشیطان ھو جنّۃٌ إنّی أری أثمارہ و قطوفہ قد ذلّلت لجنانی ألفیتہ بحر الحقائق والھدی ورأیتہ کالدُّر فی اللمعان قد مات عیسی مطرقا و نبیّنا حیٌّ و ربّی انّہ و افانی واللّٰہ انی قد رأیت جمالہ بعیون جسمی قاعدًا بمکانی ھا إن تظنَّیْت ابْن مریم عائشًا فعلیک إثباتًا من البرھان افانت لاقیت المسیح بِیَقظۃٍ أو جاء ک الأنباء من یقظان أنظر إلی القرآن کیف یُبیّن أفأنت تعرض عن ھدی الرحمان فاعلم بأن العیش لیس بثابت بل مات عیسی مثل عبد فان و نبیّنا حیٌّ و إنی شاھد و قد اقتطفت قطائف اللقیان ورأیت فی ریعان عمری وجھہ ثم النبیؐ بیقظتی لاقانی انی لقد احییت من احیاۂ و اھًا لإعجاز فما أحیانی یا رب صل علی نبیک دائمًا فی ھذہ الدنیا و بعث ثان یا سیّدی قد جئت بابَک لاھفًا والقوم بالإکفار قد آذانی
یفر ی سھامک قلب کل محارب و یَشُجُّ عزمک ھامۃ الثعبان لِلّٰہ درک یا إمام العالم انت السبوق و سیّد الشجعان أُنْظر إلیَّ برحمۃ و تحنّن یا سیدی أنا أحقر الغلمان یا حِبِّ إنک قد دخلت محبۃً فِی مُہْجَتی و مدارکی و جنانی من ذکروجھک یا حدیقۃ بہجتی لم أَخْلُ فی لحظٍ ولا فی آن جسمی یطیر الیک من شوق علا یالیت کانت قوۃ الطیران القصیدۃ المبتکرۃ المحبّرۃ التی خاطری ابو عذرھا و قد أودعتھا أشعارًا تشفی صدور المتفکرین و تروی أُوام الصادین.بمُطَّلعٍ علی أسرار بالی بعالم عیبتی فی کل حالی بوجہٍ قد رأی أعشار قلبی بمستمع لصرخی فی اللیالی لقد أرسلت من رب کریم رحیم عند طوفان الضلال وقد أعطیت برھانًا کرمح و ثقّفناہ تثقیف العوالی فلا تقف الظنون بغیر علم و خفْ أخذا المحاسب ذی الجلال تری آیات صدقی ثم تنسی لحاک اللّٰہ مالک لا تبالی تعال إلی الھدی ذُلًّا خضوعًا إلی ما تکتسی ثوب الدلال و إنْ ناضلتنی فتری سھامی و مثلی لا یفرّ من النضال سھامی لا تطیش بوقت حرب وسیفی لا یغادر فی القتال فإن قاتلتنی فأریک أنی مقیم فی میادین القتال
أبا لإیذاء أترک أمر ربّی و مثلی حین یؤذی لا یبالی و کیف أخاف تھدید الخُناثٰی و قد أعطیت حالات الرّجال ألا انی أقاومُ کلَّ سھمٍ و أَقلی الا کتنان عن النّبال فإن حَرْبًا فحربٌ مثل نارٍ و إن سلمًا فسِلْمٌ کالزُّلال و حربی بالدلائل لاالسھام و قولی لھذمٌ شاجُ القذال وفاق السیف نطقی فی الصقال قد اغْتلتُ المکفّر کالغزال ولم یزل اللّئام یکفّرونی إلی أن جاء نصرۃُ ذی الجلال و قد جادلتنی ظلمًا و زُورًا و جاوزت الدیانۃ فی الجدال ولو قبل الجدال سألت منّی جُذِبتَ إلی الھدی قبل الوبال لنا فی نصرۃ الدِّین المتین مساعٍ فی الترقی والکمال ھدانی خالقی نھجًا قویمًا و ربّانی بأنواع النَّوال لقد أُعطیت أسرار السرائر فسل إن شئت من نوع السؤال و قد غوّصتُ فی بحر الفناء فعدتُ و فی یدی أَبہَی اللآلی رأیت بفضل ربی سبل ربی و إن کانت أدقّ من الھلال و کم سرٍّ أرانی نور ربی و آیاتٍ علی صدق المقال و علم یَبْھَرَنَّ عقول ناس و رأیٍ قد علا قُنَنَ الجبال سعیت و ما ونیت بشوق ربی إلی أن جاء نی ریا الوصال و قد أُشربت کأْسًا بعد کاسٍ الی أن لاح لی نور الجمال وقد اُعطیتُ ذوقًا بعد ذوق و نعماء المحبّۃ والدلال
وجد ت حیات قلبی بعد موتی و عادت دولتی بعد الزّوال لفاظات الموائد کان أُکلی وصرتُ الیوم مطعام الأھالی أزید بفضلہ یومًا فیومًا و أُصلی قلب منتظر الوبال ألا یا حاسدی خف قھر ربی و ما ٰالوک نصحًا فی المقال فلا تستکبرن بفور عجب و کم من مُزْدہٍ صیدُ النَّکال ألا یا خاطب الدنیا الدّنِیّہ تذکّرْ یوم قرب الإرتحال سھام الموت تفجأُ یا عزیزی ولو طال المدی فی الإنتقال ھداک اللّٰہ قد جادلتَ بغضا وما فکّرتَ فی قولی و قالی و کم اکفرتنی کذبًا و زورًا و کم کذّبت من زیغ الخیال و إنی قد أری قد ضاع دِیْنُکْ فقم وَ ارْبَأْ بہ قبل الرِّحال حیاتک بالتغافل نوع نوم و أیام المعاصی کاللّیالی ولستُ بطالب الدُّنیا کَزعمِکْ و قد طَلَّقْتُھَا بِالِاعتزالِ ترکنا ھذہ الدنیا لوجہٍ و آثرنا الجَمال علی الجِمال و إِنک تزدری نُطقی و قولی و لوصادفتہ مثل اللآلی فلا تنظر الی زحفٍ فإِنی نظمت قصیدتی بِالارتجالِ
القصیدۃ أمرت من اللّٰہ الکریمِ الممجّد فقمتُ و لم أکسل و لم أتبلّدِ و ھذا کتابی قد تلألأ وجھہُ تلألُؤَ سِمطَی لؤلوؤ و زَبَرْجدِ تری نور العرفان فیہ کأنہ أیاۃ ذُکاءٍ أو بریق العسجد و انی أری فیہ الشفاء لطالب و یُشفی بہ قلب السعید و یھتدی و أودعتہ أسرار علم و حکمۃ و رتّبتُہ مثل الثقیف المسنّد و کم من لآلی فیہ من سرّ الھدی فیا صاحِ فتِّشھا و لا تتجلّد و قد بان وجہ الحق فیہ وضاحۃً کخدٍّ نقیِّ اللّونِ لم یتخدّد و إِنّی من اللّٰہ الکریم مجدّدٌ و منہ مباراتی و سیفی و أجْرَدی و واللّٰہ إنّی من نخیل خمیلۃ و حِبِّی ببستانی یروح و یغتدی و قد خصَّنی ربی و ألقی رداءَ ہ علیّ فما تدرُون ما تحت بُرجُدی و قد ذُلِّلْت نفسی بتوفیق خالقی فلیس کمثلی فوق مَورٍ معبَّد نما کلُّ علمٍ صالحٍ فی قریحتی کأشجارِ مَولِیِّ الأسرّۃ أغْیَد فجدّدت توحیدًا عفَتْ آثارُہُ و طھّرتُ أرضَ الدین من کل جَلْسَدِ و قومی یعادینی غرورًا و نخوۃً متی أدنُ رحمًا یَنْأَ عنّی و یبعُدِ یسبّ و ما أدری علی ما یسبّنی أ یُکفَرُ من یُعلی لواءَ محمد(ﷺ) یزاحمنی من کلّ باب فتحتُھا لنصرِ رسول اللہ حِبّی و سیّدی و قد أکفرونی قبل کشفِ حجابھم و یعلم ربّی صدق قولی و مقصدی و رُبَّ ولیِّ اللہ برٌّ مقرَّب یُری فی عیون الحاسدین کمُلحِد
و أیقظتُھم رحمًا علیھم و شفقۃً ولکنّھم أعداءُ کل مسھِّد و لستُ بتارک أمر ربی مخافۃً و لو قتّلونی بالحسام المجرَّد و کیف أخاف نھیقَ قومٍ مفنّدٍ مِثل عُواء الذئب بل صوت جُدجُد و کیف یؤثّر حجّتی فی نفوسھم و لا حَظَّ من سِرِّ الھدی لِضَفَنْدَد تبینتِ الآیات حق فما رأوا و صالُوا و خالونی علی غیر مرصد و إنّی أَبَنتُ لھم دلائل مقصدی و لیس لھم أدنی الدلائل فی الید و قد استتروا کالطیر فی وُکناتھا لما عجزوا مِن قِبل عَضبٍ محدَّد فما قاومونی فی مصافٍ و ما اھتدوا فقلنا اخسءُوا لا خوفَ منکم لمھتدی و کیف أعالج قلبِ وجہٍ مسوَّدٍ غبیٍّ شقیٍّ فی البطالۃ* مفسد و یعلون دِعصَ الرمل ھربًا و کلّھم کرَبرَبِ ثورِ الوحش یخشون جَدجَدی و قلت لھم یا قوم خَفْ قھرَ قادرٍ و أَقصِر و مَھلًا بعض ھذا التشدّدِ فما ترکوا أوزارَ شرٍّ و فتنۃٍ و ما خافوا نیرانَ یومٍ مبدّد و قد ترکونی نخوۃً و تباعدوا و لیس فؤادی عن ھواھم بمبعد * ھذا لفظ ذومعنیین: المعنی الأول فظاھر، والمعنی الثانی فھو اشارۃ الی بلدۃ اسمہ ’’ بتالۃ‘‘ ، و یسکن فیھا فتّان مفسد اسمہ شیخ محمد حسین، وا لیہ أشرت فی ھذہ القصائد التی اقتضبتُھا، و رسالتی التی کتبتھا.و ھذا امرء مفلس لم یُرضع ثدیَ الأدب و لم یُرزق من العلوم النُّخَبِ و ھو من الذین یؤثرون الثرائد و یَدَعون الفراید، و مع ذلک ھو عدو الحق خبیث الأنفاس دنیء النُّحاس ثعبان الاخفاس مع الفحیح الانتھاس أصلَتَ لسانہ علی العَضبِ الجُرّاز والفاس، و کشّر عن أنیابہ کالذیاب عند الافتراس، و انہ صفر الید من العلوم و أُزمُول کناس الوسواس و زاملۃ الخنّاسُ.سردتُ علی کتابی فأبی، ودنوتُ ترحمًا فتحامٰی.فتاقت نفسی الآن الی أن أفضّ ختمَ سرِّہ الأخفی، لیعلم الناس أن الحق مبین والشیخ شُیَیْطینٌ.منہ
شیخ محمد حسین بٹالوی کے اس پرچہ کا جواب جو انہوں نے ۹ جنوری ۱۸۹۳ ء کو لکھ کر اپنے پرچہ نمبر ۱ جلد ۱۵ میں شائع کیا خدا چون بہ بندد دو چشم کسے نہ بیند و گر مہر تابد بسے شیخ صاحب بٹالوی نے پھر اس پرچہ کے صفحہ ۲۲ میں اس عاجز پر یہی الزام لگایا ہے کہ دروغ سے آپکی کوئی تحریر خالی نہیں.سچ ہے انسان جس وقت بباعث تکبر اور حسد کے پردوں کے نابینا ہوجاتا ہے تو اس وقت اسکو ظلمت ہی ظلمت نظر آتی ہے.مگر یاد رہے کہ یہ الزام کچھ نئے نہیں خدا تعالیٰ کے نیک بندے جس قدر دنیا میں آئے بدطینتوں نے ان پر یہی الزام لگائے کہ یہ جھوٹے ہیں کذاب ہیں مفتری ہیں شہوت پرست ہیں مال خور ہیں.لیکن جب دنیاان دونوں گروہ میں فیصلہ نہ کرسکے تب آخر اس نے جس کی نظر دلوں کے پاتال تک پہنچتی ہے اپنے آسمانی فیصلہ سے روز روشن کی طرح دکھلا دیاکہ کون کذاب اور کون صادق ہے.سو اس وقت میں کچھ ضر ور نہیں سمجھتا کہ باربار اپنے صدق کے ثبوت پیش کروں.میں خوب جانتا ہوں کہ جس پر میرا بھروسہ ہے اور جو میری اندرونی حالتوں کوسب سے بہتر جانتاہے وہ آپ فیصلہ کرے گا دیکھنا چاہیئے کہ ایک زمانہ تک ہمارے سید ومولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار نابکار سے کیا کچھ اپنے نام سنے اور ان پر کس قدر بیجا تہمتیں افتراء وغیرہ کی لگائی گئیں.لیکن چونکہ وہ سچے تھے اور خدا انکے ساتھ تھا اس لئے آخرکار مخفی نہ رہ سکے اور آسمان نے بڑی قوت کے ساتھ ان نوروں کے ظاہر کرنے کیلئے جوش مارا تو تب سب مکذب ایسے نابود ہوئے اور لپیٹے گئے جیسے کوئی کاغذ کا تختہ لپیٹ دیوے.یاد رہے کہ اکثر ایسے اسرار دقیقہ بصورت اقوال یا افعال انبیاء سے ظہور میں آتے رہے ہیں کہ جو نادانوں کی نظر میں سخت بیہودہ اور شرمناک کام تھے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مصریوں کے برتن اور پارچات مانگ کرلے جانا اور پھر اپنے تصرف میں لانا اور حضرت مسیح کا کسی فاحشہ کے گھر میں چلے جانا اور اس کا عطر پیش کردہ جو حلال وجہ سے نہیں تھا، استعمال کرنا اور اس کے لگانے سے روک نہ دینا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تین مرتبہ ایسے طور پر کلام کرنا جو بظاہر دروغ گوئی میں داخل تھا پھر اگر کوئی تکبر اور خودستائی کی راہ سے اس بنا پر
حضر ت موسیٰ کی نسبت یہ کہے کہ نعوذ باللہ وہ مال حرام کھانے والا تھا.یا حضرت مسیح کی نسبت یہ زبان پر لاوے کہ وہ طوائف کے گندہ مال کو اپنے کام میں لایا.یا حضرت ابراہیم کی نسبت یہ تحریر شائع کرے کہ مجھے جس قدر ان پر بدگمانی ہے اس کی وجہ ان کی دروغ گوئی ہے توایسے خبیث کی نسبت اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ اس کی فطرت ان پاک لوگوں کی فطرت سے مغائر پڑی ہوئی ہے اور شیطان کی فطرت کے موافق اس پلید کا مادہ اور خمیر ہے.سو حضرت بٹالوی صاحب یاد رکھیں کہ جس قدر آپ اس عاجز کی نسبت بباعث اپنی نادانی کے دروغ گوئی کے الزام لگاتے ہیں وہ اسی قسم کے اعتراض ہیں جو پہلے اس سے نابکار لوگوں نے انبیاء علیہم السلام پر کئے ہیں.مگر آپ پر تکبر اور غرور اور خودپسندی کا اعتراض ہے جو اسی معلم الملکوت کا خاصہ ہے جو آپ کا قرین دائمی ہے.اگر کوئی کذب حقیقت میں ہم سے ظہور میں آیا ہے تو ہم اس کی سزا پائیں گے.اور اگر خلیل اللہ کے کلمات کی طرح ہمارا کوئی کلمہ کسی نادان کی نظر میں بصورت دروغ معلوم ہوتو یہ اس کی نادانی ہوگی جو ایک دن ضرور اس کو رسوا کرے گی.خدا تعالیٰ ایسے لوگوں سے پناہ میں رکھے جو کہ ابلیس کی چادر پہن کر اپنی نفسانی پندار سے ہمچومن دیگرے نیست کہتے پھریں اور اپنی کور باطنی سے دوسروں کی نکتہ چینی کریں.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ قیامت کے دن شرک کے بعد تکبر جیسی اور کوئی بلا نہیں.یہ ایک ایسی بلا ہے جو دونوں جہان میں انسان کو رسوا کرتی ہے.خدا تعالیٰ کا رحم ہر یک موحد کا تدارک کرتا ہے مگر متکبر کا نہیں.شیطان بھی موحد ہونے کادم مارتا تھا مگر چونکہ اس کے سر میں تکبر تھا اور آدم کو جو خدا تعالیٰ کی نظر میں پیارا تھا.جب اس نے توہین کی نظر سے دیکھا اور اس کی نکتہ چینی کی اس لئے وہ مارا گیا اور طوق لعنت اس کی گردن میں ڈالا گیا.سو پہلا گناہ جس سے ایک شخص ہمیشہ کیلئے ہلاک ہوا تکبر ہی تھا.اب میں اللہجلّ شانہٗ کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو بدکار مفتری کو بے سزا نہیں چھوڑے گا کہ خدا تعالیٰ نے جیسے مجھے مسیح ابن مریم قرار دیا ایسا ہی آدم بھی قرار دیا اور فرمایا کہ اردت ان استخلف فخلقت آدم.یعنے میں نے ارادہ کیا کہ دنیا میں اپنا خلیفہ مقرر کروں سو میں نے آدم کو پیدا کیا یعنے اس عاجز کو.سو جبکہ میں آدم ٹھہرا تومیرے لئے ایک نکتہ چین بھی چاہیئے تھا.جو اول لوگوں کی نظر میں ملکوت میں داخل ہو اور پھر الٰی یوم الدین کا جامہ پہنے.سو اب معلوم ہوا کہ وہ آپ ہی ہیں.اور پھر میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ فقرہ جو میں اوپر لکھ آیا ہوں یہ اللہ جلّ شانہٗ کا کلام ہے.اور اگر یہ اللہ جلّ شانہٗ کا کلام نہیں تو میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ایک رات بھی مجھ کو مہلت نہ دے اور میرے پر وہ سزا نازل کرے جوکسی پر نہ کی ہو.اے میرے خدا.اے میرے ہادی.رہنما.اگر یہ تیرا کلام نہیں.اگر تو نے ہی مجھے خلیفہ مقرر نہیں کیا.اگر تو نے ہی میرا نام عیسیٰ نہیں رکھا اور تو نے ہی میرا نام آدم نہیں رکھا تو مجھے
زندو ں میں سے کاٹ ڈال.لیکن اگر میں تیری طرف سے ہوں اور تیرا ہی ہوں تو میری مدد کر.جیسا کہ تو ان کی مدد کرتا ہے جو تیری طرف سے آتے ہیں.بالآخر میں اس بات کے لکھنے سے بھی نہیں رہ سکتا کہ بٹالوی صاحب کا رئیس المتکبرین ہونا صرف میرا ہی خیال نہیں بلکہ ایک گروہ کثیر مسلمانوں کا اس پر شہادت دے رہا ہے.اور ساتھ ہی لوگ اس بات سے بھی حیران ہیں کہ یہ تکبر کس وجہ سے اور کس بنا پر ہے.مثلاً شیطان نے جو تکبر کیا تو اس کی یہ بنا تھی جو وہ اپنے تئیں نجیب الخلقت سمجھتا تھا اور 3 ۱ کا دم مار کر حضرت صفی اللہ پر 3 ۲ کی نکتہ چینی کرتا تھا.پس اگر حضرت بٹالوی صاحب اوروں کی نسبت اپنے تئیں ایک خاص طور سے نجیب الطرفین خیال کرتے ہیں تو اس کا کوئی ثبوت دینا چاہیئے اور کوئی ایک آدھ شہادت پیش کرنی چاہیئے.اور اگر تکبر کی بنا کسی نوع کاعلم ہے جو میاں شیخ الکل یا کسی اور سے حاصل کیا ہے تو اس کا بھی ثبوت چاہیئے.کیونکہ اب تک ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ کونسا علم ان کو حاصل ہے.آیا طبیب ہیں یا فلاسفر ہیں یاہئیت دان ہیں یا منطقی یا ادیب.یا حقائق اور معارف قرآن میں سب سے بڑھے ہوئے ہیں یا امام بخاری کی طرح کئی لاکھ حدیث نوک زبان ہے.اور اگر ان باتوں میں سے کوئی بات بھی نہیں تو پھر بجز شیطانی تکبر کے اور کیا ان کی نسبت ثابت ہوسکتا ہے.اب یاد رہے کہ تکبر کو جھوٹ لازم پڑا ہوا ہے بلکہ نہایت پلید جھوٹ وہ ہے جو تکبر کے ساتھ مل کر ظاہر ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ اللہجلّ شانہٗ متکبر کا سب سے پہلے سر توڑتا ہے سو اسی طرح اب بھی توڑے گا.یہ تو ثابت ہو چکا ہے کہ میاں بٹالوی کا یہ شیوہ ہے کہ اپنا تو خاص طور پر مولوی نام رکھا ہے اور دوسروں کا نام جاہل.احمق ان پڑھ اور جس پر بڑی مہربانی ہوئی اس کو منشی کر کے پکارا ہے.اور ہماری جماعت کا نام جہلاء اور سفہاء کی جماعت نام رکھا ہے.اب میاں بٹالوی بتلاویں کہ انہوں نے اپنے تئیں مولوی قرار دینے اور دوسروں کا نام جاہل اور ان پڑھ رکھنے میں سچ بولا ہے یا جھوٹ.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ میں دیکھتا ہوں کہ میاں بٹالوی کی جڑوں میں جھوٹ رچا ہوا ہے اور تکبر کی پلید سرشت نے اور بھی اس جھوٹ کو زہریلا مادہ بنا دیا ہے چونکہ شیطانی نخوت نے اپنا پورا پورا بوجھ ان پر ڈال دیا ہے اس لئے ایک زور کے ساتھ دروغ گوئی کی نجاست ان کے منہ سے بہ رہی ہے.پھر اس کے ساتھ وقاحت یہ کہ دوسروں کا نام دروغ گو رکھتے ہیں.میں یہ حلفاًکہہ سکتا ہوں کہ اگر میرے مکرم و مخدوم دوست مولوی حکیم نورالدین صاحب بارک اللّٰہ تعالٰی فی مجدہ و علمہ و بقا ۂ
و رز ق عبادہ من نفحات فیوضہ و برکات نورہ و ضیاء ہ.ایک طرف کھڑے ہوکر قرآن کریم کے معارف بیان کریں اور ایک طرف میاں بٹالوی فرقان حمید کے کچھ حقائق بیان کرنا چاہیں تو مجھے یقین ہے اور گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ حضرت موصوف کے مقابل پر یہ بیچارہ نیم مُلّا گرفتار عُجب و پندار بٹالوی ایسا عاجز اور پیچھے رہ جاوے کہ ہر یک عقلمند اس پر ہنسے مجھے ہر بار یہی تعجب آتا ہے کہ یہ حاطب اللیل باوجود اپنے اس بیجا تکبر اور کذب صریح کے کیوں اپنے گریبان میں منہ نہیں ڈالتا اور خبث نفس سے علماء اور فضلاء کا حقارت سے نام لیتا ہے.اس کی مولویت اور اس کے ظنون فاسدہ کا فیصلہ نہایت آسان ہے جس کا اب بفضلہ تعالیٰ وقت پہنچ گیا ہے.انشاء اللہ تعالیٰ میں اس فیصلہ کیلئے ایک معیار کامل اس مضمون کے اخیر میں بیان کروں گا.اب چند اعتراضات ضروریہ کا جواب دیتا ہوں اور وہ یہ ہے.قولہ.نبیوں کی بھی پیشگوئیوں کا سچا ہونا ضروری ہے یا نہیں.صفحہ ۲۶.اقول.اس سوال سے معترض نادان کی یہ غرض معلوم ہوتی ہے کہ گویا اس عاجز سے کوئی پیش گوئی خلاف واقعہ نکلی ہے.پس واضح ہو کہ یہ فیصلہ تو آسان ہے.معترض پر واجب ہے کہ ایک جلسہ مقرر کر کے وہ الہام اس عاجز کا پیش کرے کہ جوبقول اس کے نفس الہام میں غلطی ہو نہ کسی ظنی اور خیالی تعبیر میں.لیکن ایسے شخص کیلئے کچھ سزا بھی چاہیئے تا بار بار دروغ گوئی کی نجاست کی طرف نہ دوڑے.قولہ.جس شخص کی کوئی پیشگوئی سچی نکلے اور کوئی جھوٹی.وہ سچی پیشگوئی میں ملہم ہو سکتا ہے.اقول.اے محجوب نادان.کوئی پیشگوئی اس عاجز کی بفضلہ تعالیٰ آج تک جھوٹی نہیں نکلی بلکہ تین ہزار کے قریب اب تک سچی نکلیں اور نکلتی جاتی ہیں.رہی اجتہادی غلطی، سو بخاری کو کھول اور ذھب وھلی کا مضمون یاد کر.اور ان لوگوں کی مشابہت سے ڈر جو بعض پیشگوئیوں کی اجتہادی غلطیوں کو دیکھ کر مرتد ہوگئے تھے.قولہ.ایسا شخص اگر جھوٹ بولتا ہو.لوگوں کے مال ناجائزمارتا ہو الخ تو پھر بھی وہ اگر اس کی کوئی پیشگوئی سچی نکل آوے.ملہم، ولی، محدث اور خدا کا مخاطب ہو سکتا ہے؟ اقول.آپ جیسے نابکار مفتریوں نے انبیاء پر بھی یہی الزام لگائے تھے.حضرت ابراہیم پر جھوٹ کی تہمت.حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ پر مال حرام کی اور اس زمانہ کے کور باطن عیسائی وغیرہ ایسے ہی الزام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر لگاتے ہیں کہ فلاں قافلہ کا مال بغیر کسی موقعہ لڑائی کے لوٹ لیا.چنانچہ ان الزاموں سے ان کی کتابیں بھری پڑی ہیں.اب اگر یہ سوال ہو کہ ایک شخص نے ہزارہا
خون بھی کئے اور مال بھی لوٹے تو وہ کیونکر نبی صادق ٹھہر سکتا ہے تو ایسے جاہل کا یہی جواب ہوگا کہ اپنے ان کامل نوروں کی وجہ سے جو بجز راستباز کے کسی کو نہیں مل سکتے.عقلمند انسان ان نوروں کی چمک دیکھ کر ان امور کی صحیح تاویل آپ اپنی عقل خداداد سے سمجھ لے گا.اور جاہل اعتراضوں پر جمے گا.اور سیدھا جہنم کی طرف جائے گا.اصل حقیقت یہ ہے کہ تمام حقوق پر خدا تعالیٰ کا حق غالب ہے اور ہر ایک جسم اور روح اور مال اسی کی ملک ہے.پھر جب انسان نافرمان ہو جاتا ہے تو اس کی ملک اصل مالک کی طرف عود کرتی ہے.پھر اس مالک حقیقی کو اختیار ہوتا ہے کہ چاہے تو بلا توسط رسل نافرمانوں کے مالوں کو تلف کرے اور ان کی جانوں کو معرض عدم میں پہنچاوے.اور یا کسی رسول کے واسطہ سے یہ تجلی قہری نازل فرماوے.بات ایک ہی ہے.اسی طرح خضر کے کاموں کی مانند ہزاروں امور ہوتے ہیں جو انبیاء اور محدثین پر ان کی خوبی ظاہر کی جاتی ہے اور وہ ان کاموں کیلئے مامور کئے جاتے ہیں اور ان کے کاموں میں جو لوگ عجلت سے مخالفانہ دخل دیتے ہیں.وہی ہیں جو ہلاک ہوتے ہیں.قولہ.اس عاجز کی باون سال کی عمر پر پہنچ کر فوت ہونے کی پیشگوئی آپ نے کی ہے یانہیں.اقول.میں نے آپ کی نسبت یہ پیشگوئی ہرگز نہیں کی.اگر کسی نے میری طرف سے کہا ہے تو اس نے جھوٹ بولا ہوگا.اور آپ کی سراسر یہ بددیانتی اور خیانت ہے کہ بغیر اس کے جو مجھ سے دریافت کرتے یا میری کسی تحریر میں پاتے.ناحق بے وجہ یہ الزام میرے پر لگا دیا.قولہ.بعض مرید آپ کے شراب پیتے ہیں.اور کیا آپ کے بڑے معاون اور مرید نے آپ کے مکان پر شراب نہیں پی.اقول.لعنت اللّٰہ علی الکاذبین اب ثابت کرو کہ کس نے میرے مکان پر شراب پی.اور میرے بیعت کنندوں میں سے کون شراب پیتا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ لوگ بیعت کے بعد معاً ایک پاک تبدیلی اپنے چال چلن میں دکھلاتے ہیں.وہ نماز کے پابند ہوتے ہیں اور منہیات سے پرہیز کرتے ہیں اور دین کو دنیا پر مقدم رکھ لیتے ہیں.اور صادق پرہیزگاروں کو اس بات کی کچھ بھی حاجت نہیں کہ کوئی ان کو نیک کہے.خدا تعالیٰ دلوں کو دیکھ رہا ہے اور اس کا دیکھنا کافی ہے.اب میں اپنے و عدہ کے موافق ایک ایسا معیار ذیل میں ظاہر کرنا چاہتا ہوں جس سے بخوبی کھل جائے کہ یہ عاجز موید من اللہ ہے اور حضرت بٹالوی صاحب اول درجہ کے کاذب اور دجال اور رئیس المتکبرین ہیں اور وہ تقریر یہ ہے کہ حضرت بٹالوی صاحب کی متواتر تحریروں سے ناظرین کو معلوم ہے کہ انہوں نے
اس عاجز کا نام جاہل اور نادان اور ان پڑھ رکھا ہے اور ساتھ اس کے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ یہ عاجز دراصل ملہم اور محدث نہیں ہے بلکہ مفتری اور کذّ اب اور دجال ہے اور بقول ان کے اس عاجز کے رگ و ریشہ میں جھوٹ رچا ہوا ہے اور جب بعض نشان ان کو دکھلائے گئے تو ان کی نسبت ان کا یہ بیان ہے کہ کبھی جھوٹے مدعی کی بھی خدا تعالیٰ مدد کرتا ہے اور حالانکہ جانتا ہے کہ یہ میری مدد اس کذاب کے صدق دعویٰ کیلئے دلیل ٹھہر جائے گی تب بھی مدد کرتا ہے اور ایسے کذابوں کو توفیق دیتا ہے کہ وہ رمل کے ذریعہ سے یا جفر کے ذریعہ سے کوئی بات کہہ دیں اور وہ بات پوری ہو جائے.سو اس قسم کے نشانوں کو بٹالوی صاحب نے اپنے بیہودہ بیانات سے رد کر دیا ہے لیکن اس جگہ ایک اور معیار ہے جو ہم ذیل میں لکھتے ہیں : ایک روحانی نشان جس سے ثابت ہوگا کہ یہ عاجز صادق اور خدا تعالیٰ سے مؤید ہے یا نہیں.اور شیخ محمد حسین بٹالوی اس عاجز کو کاذب اور دجّال قرار دینے میں صادق ہے یا خود کاذب اور دجّال ہے عاقل سمجھ سکتے ہیں کہ منجملہ نشانوں کے حقائق اور معارف اور لطائف حکمیہ کے بھی نشان ہوتے ہیں.جو خاص ان کو دئیے جاتے ہیں جو پاک نفس ہوں اور جن پر فضل عظیم ہو جیسا کہ آیت 3 ۱ اور آیت 33 ۲ بلند آواز سے شہادت دے رہی ہے.سو یہی نشان میاں محمد حسین کے مقابل پر میرے صدق اور کذب کے جانچنے کیلئے کھلی کھلی نشانی ہوگی اور اس فیصلہ کیلئے احسن انتظام اس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک مختصر جلسہ ہو کر منصفان تجویز کردہ اس جلسہ کے چند سورتیں قرآن کریم کی جن کی عبارت اسی آیت سے کم نہ ہو تفسیر کیلئے منتخب کر کے پیش کریں.اور پھر بطور قرعہ اندازی کے ایک سورہ ان میں سے نکال کر اسی کی تفسیر معیار امتحان ٹھہرائی جائے اور اس تفسیر کیلئے یہ امر لازمی ٹھہرایا جاوے کہ بلیغ فصیح زبان عربی اور مقفّّٰیعبارت میں قلمبند ہو اور دس جزو سے کم نہ ہو.اور جس قدر اس میں حقائق اور معارف لکھے جائیں وہ نقل عبارت کی طرح نہ ہو بلکہ معارف جدیدہ اور لطائف غریبہ ہوں.جو کسی دوسری کتاب میں نہ پائے جائیں.
اور بااین ہمہ اصل تعلیم قرآنی سے مخالف نہ ہوں بلکہ ان کی قوت اور شوکت ظاہر کرنے و الے ہوں*.اور کتاب کے آخر میں سو شعر لطیف بلیغ اور فصیح عربی میں نعت اور مدح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں بطور قصیدہ درج ہوں اور جس بحر میں وہ شعر ہونے چاہئیں وہ بحر بھی بطور قرعہ اندازی کے اسی جلسہ میں تجویز کیا جائے اور فریقین کو اس کام کیلئے چالیس دن کی مہلت دی جائے.اور چالیس دن کے بعد جلسہ عام میں فریقین اپنی اپنی تفسیر اور اپنے اپنے اشعار جو عربی میں ہوں گے سنادیں.پھر اگر یہ عاجز شیخ محمد حسین بٹالوی سے حقائق و معارف کے بیان کرنے اور عبارت عربی فصیح و بلیغ اور اشعار آبدار مدحیہ کے لکھنے میں قاصر اور کم درجہ پر رہا.یا یہ کہ شیخ محمد حسین اس عاجز سے برابر رہا تو اسی وقت یہ عاجز اپنی خطا کا اقرار کرے گا اور اپنی کتابیں جلا دے گا.اور شیخ محمد حسین کا حق ہوگا کہ اس وقت عاجز کے گلے میں رسہ ڈال کر یہ کہے کہ اے کذاب.اے دجال.اے مفتری.آج تیری رسوائی ظاہر ہوئی.اب کہاں ہے وہ جس کو تو کہتا تھا کہ میرا مددگار ہے.اب تیرا الہام کہاں ہے اور تیرے خوارق کدھر چھپ گئے.لیکن اگر یہ عاجز غالب ہوا تو پھر چاہیئے کہ میاں محمد حسین اسی مجلس میں کھڑے ہو کران الفاظ سے توبہ کرے کہ اے حاضرین آج میری رو سیاہی ایسی کھل گئی کہ جیسے آفتاب کے نکلنے سے دن کھل جاتا ہے اور اب ثابت ہوا کہ یہ شخص حق پر ہے اور میں ہی دجال تھا اور میں ہی کذاب تھا اور میں ہی کافر تھا اور میں ہی بے دین تھا اور اب میں توبہ کرتا ہوں.سب گواہ رہیں.بعد اس کے اسی مجلس میں اپنی کتابیں جلادے.اور ادنیٰ خادموں کی طرح پیچھے ہولے.* صاحبو.یہ طریق فیصلہ ہے جو اس وقت میں نے ظاہر کیا ہے.میاں محمد حسین کو اس پر سخت اصرار ہے کہ یہ عاجز عربی علوم سے بالکل بے بہرہ اور کو دن اور نادان اور جاہل ہے** اور علم قرآن سے بالکل بے خبر ہے اور خدا تعالیٰ سے مدد پانے کے تو لائق ہی نہیں کیونکہ کذاب اور دجال ہے اور ساتھ اس کے ان کو اپنے کمال علم اور فضل کا بھی دعویٰ ہے.کیونکہ ان کے نزدیک حضرت مخدوم مولوی حکیم نور الدین صاحب جو اس عاجز کی نظر میں علامہ عصر اور جامع علوم ہیں.صرف ایک حکیم.اور اخویم مکرم مولوی سید محمد احسن صاحب جو گویا علم حدیث کے ایک پُتلے ہیں صرف ایک منشی ہیں.پھر باوجود ان کے اس دعویٰ کے اور میرے اس ناقص حال کے جس کو وہ بار بار شائع کرچکے ہیں.اس طریق فیصلہ میں کون سا اشتباہ باقی ہے.اور اگر وہ اس مقابلہ کے لائق نہیں.اور اپنی نسبت بھی جھوٹ بولاہے
اور میری نسبت بھی اور میرے معظم اور مکرم دوستوں کی نسبت بھی تو پھر ایسا شخص کسی قدر سزا کے لائق ہے کہ کذاب اور دجال تو آپ ہو.اور دوسروں کو خواہ نخواہ دروغ گو کر کے مشتہر کرے.اور یہ بات بھی یاد رہے کہ یہ عاجز درحقیقت نہایت ضعیف اور ہیچ ہے.گویا کچھ بھی نہیں.لیکن خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ متکبر کا سر توڑے اور اس کو دکھاوے کہ آسمانی مدد اس کا نام ہے.چند ماہ کا عرصہ ہوا ہے جس کی تاریخ مجھے یاد نہیں کہ ایک مضمون میں نے میاں محمد حسین کا دیکھا.جس میں میری نسبت لکھا ہوا تھا کہ یہ شخص کذاب اور دجال اور بے ایمان اور باایں ہمہ سخت نادان اور جاہل اور علوم دینیہ سے بیخبر ہے.تب میں جناب الٰہی میں رویا کہ میری مدد کر تو اس دعا کے بعد الہام ہوا کہ ادعونی استجب لکم یعنے دعا کرو کہ میں قبول کروں گا مگر میں بالطبع نافرتھا کہ کسی کے عذاب کیلئے دعا کروں آج جو ۲۹ شعبان ۱۳۱۰ ھ ہے اس مضمون کے لکھنے کے وقت خدا تعالیٰ نے دعا کیلئے دل کھول دیا.سو میں نے اس وقت اسی طرح سے رقت دل سے اس مقابلہ میں فتح پانے کیلئے دعا کی اور میرا دلُ کھل گیا اور میں جانتا ہوں کہ قبول ہوگئی.اور میں جانتا ہوں کہ وہ الہام جو مجھ کو میاں بٹالوی کی نسبت ہوا تھا کہ انّی مھین من اراد اھانتک وہ اسی موقع کیلئے ہوا تھا.میں نے اس مقابلہ کیلئے چالیس دن کا عرصہ ٹھہرا کر دعا کی ہے اور وہی عرصہ میری زبان پر جاری ہوا.اب صاحبو اگر میں اس نشان میں جھوٹا نکلا یا میدان سے بھاگ گیا.یا کچے بہانوں سے ٹال دیا تو تم سارے گواہ رہو کہ بیشک میں کذاب اور دجال ہوں.تب میں ہر یک سزا کے لائق ٹھہروں گا.کیونکہ اس موقعہ پر ہر یک پہلو سے میرا کذب ثابت ہو جائے گا اور دعا کا نامنظور ہونا کھل کر میرے الہام کا باطل ہونا بھی ہر یک پر ہویدا ہو جائے گا.لیکن اگر میاں بٹالوی مغلوب ہوگئے تو ان کی ذلت اور رو سیاہی اور جہالت اور نادانی روز روشن کی طرح ظاہر ہو جائے گی.اب اگر وہ اس کھلے کھلے فیصلہ کو منظور نہ کریں اور بھاگ جائیں اور خطا کا اقرار بھی نہ کریں تو یقیناً سمجھو کہ ان کیلئے خدا تعالیٰ کی عدالت سے مندرجہ ذیل انعام ہے : (۱) لعنت (۲) لعنت (۳) لعنت (۴) لعنت (۵) لعنت (۶) لعنت (۷) لعنت (۸) لعنت (۹) لعنت (۱۰)* لعنت
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم قیامت کی نشانی قرب قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ایک بڑی نشانی ہے جو اس حدیث سے معلوم ہوتی ہے جو امام بخاری اپنی صحیح میں عبداللہ بن عمرو بن العاص سے لائے ہیں اور وہ یہ ہے یُقبض العلم بقبض العلماء حتی اذا لم یبق عالم اتخذ الناس رء وسًا جُھالًا فسُءِلوا فافتوا بغیر علم فضلّوا وَ اَضلّوا.یعنے بباعث فوت ہو جانے علماء کے علم فوت ہو جائے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہیں ملے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا مقتدا اور سردار قرار دیدیں گے اور مسائل دینی کی دریافت کے لئے ان کی طرف رجوع کریں گے تب وہ لوگ بباعث جہالت اور عدم ملکہ استنباط مسائل خلاف طریق صدق و ثواب فتویٰ دیں گے پس آپ بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے.اور پھر ایک اور حدیث میں ہے کہ اس زمانہ کے فتویٰ دینے والے یعنی مولوی اور محدث اورفقیہ ان تمام لوگوں سے بدتر ہوں گے جو روئے زمین پر رہتے ہوں گے.پھر ایک اور حدیث میں ہے کہ وہ قرآن پڑھیں گے اور قرآن ان کے حنجروں کے نیچے نہیں اترے گا یعنے اس پر عمل نہیں کریں گے.ایسا ہی اس زمانہ کے مولویوں کے حق میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں.مگر اس وقت ہم بطور نمونہ صرف اس حدیث کا ثبوت دیتے ہیں جو غلط فتووں کے بارے میں ہم اوپر لکھ چکے ہیں تا ہر یک کو معلوم ہو کہ آج کل اگر مولویوں کے وجود سے کچھ فائدہ ہے تو صرف اس قدر کہ ان کے یہ لچھن دیکھ کر قیامت یاد آتی ہے اور قرب قیامت کا پتہ لگتا ہے اور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی کی پوری پوری تصدیق ہم بچشم خود مشاہدہ کرتے ہیں.اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ چونکہ سال گزشتہ میں بمشورہ اکثر احباب یہ بات قرار پائی تھی کہ ہماری جماعت کے لوگ کم سے کم ایک مرتبہ سال میں بہ نیت استفادہ ضروریات دین و مشورہ اعلاء کلمہ اسلام و شرع متین اس عاجز سے ملاقات کریں اور اس مشورہ کے وقت یہ بھی قرین مصلحت سمجھ کر مقرر کیا گیا تھا کہ ۲۷ دسمبر کو اس غرض سے قادیان میں آنا انسب اور اولیٰ ہے کیونکہ یہ تعطیل کے دن ہیں اور ملازمت پیشہ لوگ ان دنوں میں فرصت اور فراغت رکھتے ہیں اور بباعث ایام سرمایہ دن سفر کے مناسب حال بھی ہیں چنانچہ احباب اور مخلصین نے اس مشورہ پر اتفاق کر کے خوشی
ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ یہ بہتر ہے اب ۷ دسمبر ۱۸۹۲ ء کو اسی بناء پر اس عاجز نے ایک خط بطور اشتہار کے تمام مخلصوں کی خدمت میں بھیجا جو ریاض ہند پریس قادیان میں چھپا تھا جس کے مضمون کا خلاصہ یہ تھا کہ اس جلسہ کے اغراض میں سے بڑی غرض یہ بھی ہے کہ تا ہر یک مخلص کو بالمواجہ دینی فائدہ اٹھانے کا موقع ملے اور ان کے معلومات دینی وسیع ہوں اور معرفت ترقی پذیر ہو.اب سنا گیا ہے کہ اس کارروائی کو بدعت بلکہ معصیت ثابت کرنے کیلئے ایک بزرگ نے ہمت کر کے ایک مولوی صاحب کی خدمت میں جو رحیم بخش نام رکھتے ہیں اور لاہور میں چینیانوالی مسجد کے امام ہیں ایک استفتا پیش کیا جس کا یہ مطلب تھا کہ ایسے جلسہ پر روز معیّن پر دور سے سفر کر کے جانے میں کیا حکم ہے اور ایسے جلسہ کیلئے اگر کوئی مکان بطور خانقاہ کے تعمیر کیا جائے تو ایسے مدد دینے والے کی نسبت کیا حکم ہے استفتا میں یہ آخری خبر اس لئے بڑھائی گئی جو مستفتی صاحب نے کسی سے سنا ہوگاجو حبی فی اللہ اخویم مولوی حکیم نور الدین صاحب نے اس مجمع مسلمانوں کیلئے اپنے صرف سے جو غالباً سات سو روپیہ یا کچھ اس سے زیادہ ہوگا قادیان میں ایک مکان بنوایا جس کی امداد خرچ میں اخویم حکیم فضل دین صاحب بھیروی نے بھی تین چار سو روپیہ دیا ہے.اس استفتا کے جواب میں میاں رحیم بخش صاحب نے ایک طول طویل عبارت ایک غیر متعلق حدیث شد رحال کے حوالہ سے لکھی ہے جس کے مختصر الفاظ یہ ہیں کہ ایسے جلسہ پر جانا بدعت بلکہ معصیت ہے اور ایسے جلسوں کا تجویز کرنا محدثات میں سے ہے جس کیلئے کتاب اور سنت میں کوئی شہادت نہیں.اور جو شخص اسلام میں ایسا امر پیدا کرے وہ مردود ہے.اب منصف مزاج لوگ ایماناً کہیں کہ ایسے مولویوں اور مفتیوں کا اسلام میں موجود ہونا قیامت کی نشانی ہے یا نہیں.اے بھلے مانس کیا تجھے خبر نہیں کہ علم دین کیلئے سفر کرنے کے بارے میں صرف اجازت ہی نہیں بلکہ قرآن اور شارع علیہ السلام نے اس کو فرض ٹھہرا دیا ہے جس کا عمدًاتارک مرتکب کبیرہ اور عمداً انکار پر اصرار بعض صورتوں میں کفر کیا تجھے معلوم نہیں کہ نہایت تاکید سے فرمایا گیا ہے کہ طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم و مسلمۃ اور فرمایا گیا ہے کہ اطلبوا العلم و لو کان فی الصین یعنے علم طلب کرنا ہر یک مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے اورعلم کوطلب کرو اگرچہ چین میں جانا پڑے.اب سوچو کہ جس حالت میں یہ عاجز اپنے صریح صریح اور ظاہر ظاہر الفاظ سے اشتہار میں لکھ چکا کہ یہ سفر ہر یک مخلص کا طلب علم کی نیت سے ہوگا پھر یہ فتویٰ دینا کہ جو شخص اسلام میں ایسا امر پیدا کرے وہ مردود ہے کس قدر دیانت اور امانت اور انصاف اور تقویٰ اور طہارت سے دور ہے.رہی یہ بات کہ ایک تاریخ مقررہ پر تمام بھائیوں کا جمع ہونا تو یہ صرف انتظام ہے اور انتظام سے کوئی کام کرنا اسلام میں کوئی مذموم امر اور بدعت نہیں انما الاعمال بالنیّات بدظنی کے مادہ فاسدہ کوذرا دور کرکے دیکھو کہ ایک تاریخ پر آنے میں کونسی بدعت ہے جبکہ ۲۷ دسمبر کو ہر یک مخلص بآسانی ہمیں مل سکتا ہے اور اس کے ضمن میں ان کی باہم ملاقات بھی ہو جاتی ہے تواس سہل طریق سے فائدہ اٹھانا کیوں حرام ہے تعجب کہ مولوی صاحب نے اس عاجز کا نام مردود تو رکھ دیا مگر آپ کووہ حدیثیں یاد نہ رہیں جن میں طلب علم کیلئے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کی نسبت ترغیب دی ہے اور جن میں ایک بھائی مسلمان کی ملاقات کیلئے جانا موجب خوشنودی خدائے عزوجل قرار دیا ہے اور جن میں سفر کرکے زیارت صالحین کرنا موجب مغفرت اور کفارہ گناہاں لکھا ہے.اور یاد رہے کہ یہ سراسر جہالت ہے کہ شدّ رحال کی حدیث کا یہ مطلب سمجھا جائے کہ بجز قصد خانہ کعبہ یا مسجد نبوی یا بیت المقدس اور تمام سفرقطعی حرام ہیں.یہ بات ظاہر ہے کہ تمام
مسلما نوں کو مختلف اغراض کیلئے سفر کرنے پڑتے ہیں کبھی سفر طلب علم ہی کیلئے ہوتا ہے اور کبھی سفر ایک رشتہ دار یا بھائی یا بہن یا بیوی کی ملاقات کیلئے یا مثلًا عورتوں کا سفر اپنے والدین کے ملنے کیلئے یا والدین کا اپنی لڑکیوں کی ملاقات کیلئے اور کبھی مرد اپنی شادی کیلئے اور کبھی تلاش معاش کے لئے اور کبھی پیغام رسانی کے طور پر اور کبھی زیارت صالحین کیلئے سفر کرتے ہیں جیسا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حضرت اویس قرنی کے ملنے کیلئے سفر کیا تھا اور کبھی سفر جہاد کیلئے بھی ہوتا ہے خواہ وہ جہاد تلوار سے ہو اور خواہ بطور مباحثہ کے اور کبھی سفر بہ نیت مباہلہ ہوتا ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور کبھی سفر اپنے مرشد کے ملنے کیلئے جیسا کہ ہمیشہ اولیاء کبار جن میں سے حضرت شیخ عبدالقادررضی اللہ عنہ اور حضرت بایزید بسطامی اور حضرت معین الدین چشتی اور حضرت مجدد الف ثانی بھی ہیں اکثر اس غرض سے بھی سفر کرتے رہے جن کے سفرنامے اکثر ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے اب تک پائے جاتے ہیں.اور کبھی سفر فتویٰ پوچھنے کیلئے بھی ہوتا ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ سے اس کا جواز بلکہ بعض صورتوں میں وجوب ثابت ہوتا ہے اور امام بخاری کے سفر طلب علم حدیث کیلئے مشہور ہیں شاید میاں رحیم بخش کو خبر نہیں ہو گی اور کبھی سفر عجائبات دنیا کے دیکھنے کیلئے بھی ہوتا ہے جس کی طرف آیت کریمہ 3 ۱ اشارہ فرما رہی ہے اور کبھی سفر صادقین کی صحبت میں رہنے کی غرض سے جس کی طرف آیت کریمہ 33.۲ ہدایت فرماتی ہے اور کبھی سفر عیادت کیلئے بلکہ اتباع خیار کیلئے بھی ہوتا ہے اور کبھی بیمار یا بیماردار علاج کرانے کی غرض سے سفر کرتا ہے اور کبھی کسی مقدمہ عدالت یا تجارت وغیرہ کیلئے بھی سفر کیا جاتا ہے اور یہ تمام قسم سفر کی قرآن کریم اور احادیث نبویہ کے رو سے جائز ہیں بلکہ زیارت صالحین اور ملاقات اخوان اور طلب علم کے سفر کی نسبت احادیث صحیحہ میں بہت کچھ حث وترغیب پائی جاتی ہے اگر اس وقت وہ تمام حدیثیں لکھی جائیں تو ایک کتاب بنتی ہے.ایسے فتویٰ لکھانے والے اور لکھنے والے یہ خیال نہیں کرتے کہ ان کو بھی تو اکثر اس قسم کے سفر پیش آ جاتے ہیں.پس اگر بجز تین مسجدوں کے اور تمام سفر کرنے حرام ہیں تو چاہیئے کہ یہ لوگ اپنے تمام رشتے ناطے اور عزیز اقارب چھوڑ کر بیٹھ جائیں اور کبھی ان کی ملاقات یا ان کی غم خواری یا ان کی بیمار پرسی کے لئے بھی سفر نہ کریں.میں خیال نہیں کرتا کہ بجز ایسے آدمی کے جس کو تعصب اور جہالت نے اندھا کر دیا ہو وہ ان تمام سفروں کے جواز میں متامّل ہو سکے صحیح بخاری کا صفحہ ۱۶ کھول کر دیکھو کہ سفر طلب علم کیلئے کس قدر بشارت دی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ مَنْ سلک طریقًا یطلب بہ علمًا سھّل اللّٰہ لہ طریق الجنّۃ یعنے جو شخص طلب علم کیلئے سفر کرے اور کسی راہ پر چلے تو خدا تعالیٰ بہشت کی راہ اس پر آسان کر دیتا ہے.اب اے ظالم مولوی ذرا انصاف کر کہ تُو نے اپنے بھائی کا نام جو تیری طرح کلمہ گو اہل قبلہ اور اللہ رسول پر ایمان لاتا ہے مردود رکھا اور خدا تعالیٰ کی رحمت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے بکلی محروم قرار دیا اور اس صحیح حدیث بخاری کی بھی کچھ پروا نہ کی کہ اسعد النّاس بشفاعتی یوم القیامۃ
من قال لا الہ الا اللّٰہ خالصًا من قلبہ او نفسہ اور مردود ٹھہرانے کی اپنے فتویٰ میں وجہ یہ ٹھہرائی کہ ایسا اشتہار کیوں شائع کیا اور لوگوں کو جلسہ پر بلانے کیلئے کیوں دعوت کی.اے ناخدا ترس ذرا آنکھ کھول اور پڑھ کہ اس اشتہار ۷ دسمبر ۱۸۹۲ ء کا کیا مضمون ہے کیا اپنی جماعت کو طلب علم اور حل مشکلات دین اور ہمدردی اسلام اور برادرانہ ملاقات کیلئے بلایا ہے یا اس میں کسی اور میلہ تماشا اور راگ اور سرود کا ذکر ہے.اے اس زمانہ کے ننگ اسلام مولویو تم اللہ جلّ شانہٗ سے کیوں نہیں ڈرتے کیا ایک دن مرنا نہیں یا ہریک مواخذہ تم کو معاف ہے حق بات کو سن کر اور اللہ اور رسول کے فرمودہ کو دیکھ کر تمہیں یہ خیال تو نہیں آتا کہ اب اپنی ضد سے باز آجائیں بلکہ مقدمہ باز لوگوں کی طرح یہ خیال آتا ہے کہ آؤ کسی طرح باتوں کو بناکر اس کا رد چھاپیں تا لوگ نہ کہیں کہ ہمارے مولوی صاحب کو کچھ جواب نہ آیا.اس قدر دلیری اور بددیانتی اور یہ بخل اور بغض کس عمر کیلئے.آپ کو فتویٰ لکھنے کے وقت وہ حدیثیں یاد نہ رہیں جن میں علم دین کیلئے اور اپنے شبہات دور کرنے کیلئے اور اپنے دینی بھائی اور عزیزوں کو ملنے کیلئے سفر کرنے کو موجب ثواب کثیر و اجر عظیم قرار دیا ہے بلکہ زیارت صالحین کیلئے سفر کرنا قدیم سے سنت سلف صالح چلی آئی ہے اور ایک حدیث میں ہے کہ جب قیامت کے دن ایک شخص اپنی بد اعمالی کی وجہ سے سخت مواخذہ میں ہوگا تو اللہ جلّ شانُہٗ اس سے پوچھے گا کہ فلاں صالح آدمی کی ملاقات کیلئے کبھی تو گیا تھا.تو وہ کہے گا بالارادہ تو کبھی نہیں گیا مگر ایک دفعہ ایک راہ میں اس کی ملاقات ہوگئی تھی تب خدا تعالیٰ کہے گا کہ جا بہشت میں داخل ہو.میں نے اسی ملاقات کی وجہ سے تجھے بخش دیا.اب اے کوتہ نظر مولوی ذرہ نظر کر کہ یہ حدیث کس بات کی ترغیب دیتی ہے.اور اگر کسی کے دل میں یہ دھوکہ ہو کہ اس دینی جلسہ کیلئے ایک خاص تاریخ کیوں مقرر کی.ایسا فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ رضی اللہ عنہم سے کب ثابت ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بخاری اور مسلم کو دیکھو کہ اہل بادیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں مسائل کے دریافت کرنے کیلئے اپنی فرصت کے وقتوں میں آیا کرتے تھے اور بعض خاص خاص مہینوں میں ان کے گروہ فرصت پاکر حاضر خدمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوا کرتے تھے اور صحیح بخاری میں ابی جمرہ سے روایت ہے.قال ان وفد عبدالقیس اتوا النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قالوا اِنا نأتیک من شقۃ بعیدۃ و لا نستطیع ان نأتیک الّا فی شھر حرام.یعنے ایک گروہ قبیلہ عبدالقیس کے پیغام لانے والوں کا جو اپنی قوم کی طرف سے آئے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ ہم لوگ دور سے سفر کر کے آتے ہیں اور بجز حرام مہینوں کے ہم حاضر خدمت نہیں ہوسکتے اور ان کے قول کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رد نہیں کیا اور قبول کیا پس اس حدیث سے بھی یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ جو لوگ طلب علم یا دینی ملاقات کیلئے کسی اپنے مقتدا کی خدمت میں حاضر ہونا چاہیں وہ اپنی گنجائش فرصت کے لحاظ سے ایک تاریخ مقرر کر سکتے ہیں جس تاریخ میں وہ بآسانی اور بلا حرج حاضر ہو سکیں اور یہی صورت ۲۷ دسمبر کی تاریخ میں ملحوظ ہے کیونکہ وہ دن تعطیلوں کے ہوتے ہیں اور ملازمت پیشہ لوگ بہ سہولت ان دنوں میں آ سکتے ہیں.
اور خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ اس دین میں کوئی حرج کی بات نہیں رکھی گئی یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر مثلًاکسی تدبیر یا انتظام سے ایک کام جو دراصل جائز اور روا ہے سہل اور آسان ہوسکتا ہے تو وہی تدبیر اختیار کرلو کچھ مضائقہ نہیں.ان باتوں کا نام بدعت رکھنا ان اندھوں کا کام ہے جن کو نہ دین کی عقل دی گئی اور نہ دنیا کی.امام بخاری نے اپنی صحیح میں کسی دینی تعلیم کی مجلس پر تاریخ مقرر کرنے کیلئے ایک خاص باب منعقد کیا ہے جس کا یہ عنوان ہے من جعل لاھل العلم ایّامًا معلومۃ یعنے علم کے طالبوں کے افادہ کیلئے خاص دنوں کو مقرر کرنا بعض صحابہ کی سنت ہے.اس ثبوت کیلئے امام موصوف اپنی صحیح میں ابی وایل سے یہ روایت کرتے ہیں کان عبداللّٰہ یذکّر الناس فی کل خمیس یعنی عبداللہ نے اپنے وعظ کیلئے جمعرات کا دن مقرر کر رکھا تھا.اور جمعرات میں ہی اس کے وعظ پر لوگ حاضر ہوتے تھے.یہ بھی یاد رہے کہ اللہ جلّ شانہٗ نے قرآن کریم میں تدبیر اور انتظام کیلئے ہمیں حکم فرمایا ہے اور ہمیں مامور کیا ہے کہ جو احسن تدبیر اور انتظام خدمت اسلام کیلئے ہم قرین مصلحت سمجھیں اور دشمن پر غالب ہونے کیلئے مفید خیال کریں وہی بجا لاویں جیسا کہ وہ عزّاسمہ‘ فرماتا ہے.3 ۱.یعنے دینی دشمنوں کیلئے ہر یک قسم کی طیاری جو کرسکتے ہو کرو اور اعلاء کلمہ اسلام کیلئے جو قوت لگا سکتے ہو لگاؤ.اب دیکھو کہ یہ آیت کریمہ کس قدر بلند آواز سے ہدایت فرما رہی ہے کہ جو تدبیریں خدمت اسلام کیلئے کارگر ہوں سب بجا لاؤ اور تمام قوت اپنے فکر کی اپنے بازو کی اپنی مالی طاقت کی اپنے حسن انتظام کی اپنی تدبیر شائستہ کی اس راہ میں خرچ کرو.تا تم فتح پاؤ.اب نادان اور اندھے اور دشمن دین مولوی اس صرف قوّت اور حکمت عملی کا نام بدعت رکھتے ہیں.اس وقت کے یہ لوگ عالم کہلاتے ہیں جن کو قرآن کریم کی ہی خبر نہیں.انا للّٰہ و انا الیہ راجعون.اس آیت موصوفہ بالا پر غور کرنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ برطبق حدیث نبوی کہ انما الاعمال بالنیات کوئی احسن انتظام اسلام کی خدمت کیلئے سوچنا بدعت اور ضلالت میں داخل نہیں ہے جیسے جیسے بوجہ تبدل زمانہ کے اسلام کو نئی نئی صورتیں مشکلات کی پیش آتی ہیں یا نئے نئے طور پر ہم لوگوں پر مخالفوں کے حملے ہوتے ہیں ویسی ہی ہمیں نئی تدبیریں کرنی پڑتی ہیں پس اگرحالت موجودہ کے موافق ان حملوں کے روکنے کی کوئی تدبیر اور تدارک سوچیں تو وہ ایک تدبیر ہے بدعات سے اس کو کچھ تعلق نہیں اور ممکن ہے کہ بباعث انقلاب زمانہ کے ہمیں بعض ایسی نئی مشکلات پیش آجائیں جو ہمارے سید و مولیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس رنگ اور طرز کی مشکلات پیش نہ آئی ہوں مثلاً ہم اس وقت کی لڑائیوں میں پہلی طرز کو جو مسنون ہے اختیار نہیں کر سکتے کیونکہ اس زمانہ میں طریق جنگ و جدل بالکل بدل گیا ہے اور پہلے ہتھیار بیکار ہوگئے اور نئے ہتھیار لڑائیوں کے پیدا ہوئے اب اگر ان ہتھیاروں کو پکڑنا اور اٹھانا اور ان سے کام لینا ملوک اسلام بدعت سمجھیں اور میاں رحیم بخش جیسے مولوی کی بات پر کان دھر کے ان اسلحہ جدیدہ کا استعمال کرنا ضلالت اور معصیت خیال کریں اور یہ کہیں کہ یہ وہ طریق جنگ ہے کہ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا اور نہ صحابہ اور تابعین نے تو فرمائیے کہ بجز اس کے کہ ایک ذلت کے ساتھ اپنی ٹوٹی پھوٹی سلطنتوں سے الگ کئے جائیں اور دشمن فتح یاب ہو جائے کوئی اور بھی اس کا نتیجہ ہوگا.پس ایسے مقامات تدبیر اور انتظام میں خواہ وہ مشابہ جنگ و جدل ظاہری ہو یا باطنی.اور خواہ تلوار کی لڑائی ہو یا قلم کی.ہماری ہدایت پانے کیلئے یہ آیت کریمہ موصوفہ بالا
کافی ہے یعنے یہ کہ3 ۱ اللہ جلّ شانہٗ اس آیت میں ہمیں عام اختیار دیتا ہے کہ دشمن کے مقابل پر جو احسن تدبیر تمہیں معلوم ہو اور جو طرز تمہیں موثر اور بہتر دکھائی دے وہی طریق اختیار کرو پس اب ظاہر ہے کہ اس احسن انتظام کا نام بدعت اور معصیت رکھنا اور انصار دین کو جو دن رات اعلاء کلمہ اسلام کے فکر میں ہیں جن کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہحب الانصار من الایمان ان کو مردود ٹھہرانا نیک طینت انسانوں کا کام نہیں ہے بلکہ درحقیقت یہ ان لوگوں کا کام ہے جنکی روحانی صورتیں مسخ شدہ ہیں اور اگر یہ کہو کہ یہ حدیث کہ حب الانصار من الایمان.و بغض الانصار من النفاق یعنے انصار کی محبت ایمان کی نشانی اور انصار سے بغض رکھنا نفاق کی نشانی ہے یہ ان انصار کے حق میں ہے جو مدینہ کے رہنے والے تھے نہ عام اور تمام انصار.تو اس سے یہ لازم آئیگا کہ جو اس زمانہ کے بعد انصار رسول اللہ ہوں ان سے بغض رکھنا جائز ہے نہیں نہیں بلکہ یہ حدیث گو ایک خاص گروہ کیلئے فرمائی گئی مگر اپنے اندر عموم کا فائدہ رکھتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں اکثر آیتیں خاص گروہ کیلئے نازل ہوئیں مگر ان کا مصداق عام قرار دیا گیا ہے غرض ایسے لوگ جو مولوی کہلاتے ہیں انصار دین کے دشمن اور یہودیوں کے قدموں پر چل رہے ہیں.مگر ہمارا یہ قول کلی نہیں ہے راستباز علماء اس سے باہر ہیں صرف خاص مولویوں کی نسبت یہ لکھا گیا ہے.ہر یک مسلمان کو دعا کرنا چاہیئے کہ خدا تعالیٰ جلد اسلام کو ان خائن مولویوں کے وجود سے رہائی بخشے.کیونکہ اسلام پر اب ایک نازک وقت ہے اور یہ نادان دوست اسلام پر ٹھٹھا اور ہنسی کرانا چاہتے ہیں اور ایسی باتیں کرتے ہیں جو صریح ہریک شخص کے نور قلب کو خلاف صداقت نظر آتی ہیں.امام بخاری پر اللہ تعالیٰ رحمت کرے انہوں نے اس بارے میں بھی اپنی کتاب میں ایک باب باندھا ہے چنانچہ وہ اس باب میں لکھتے ہیں قال علی رضی اللّٰہ عنہ حدثوا الناس بما یعرفون أ تحبون ان یکذب اللّٰہ و رسولہ اور بخاری کے حاشیہ میں اس کی شرح میں لکھا ہے ای تکلموا الناس علی قدر عقولہم یعنی لوگوں سے اللہ اور رسولؐ کے فرمودہ کی وہ باتیں کرو جو ان کوسمجھ جائیں اور ان کو معقول دکھائی دیں خواہ نخواہ اللہ رسول کی تکذیب مت کراؤ.اب ظاہر ہے کہ جو مخالف اس بات کو سنے گا کہ مولوی صاحبوں نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ بجز تین مسجدوں یا ایک دو اور محل کے اور کسی طرف سفر جائز نہیں ایسا مخالف اسلام پر ہنسے گا اور شارع علیہ السلام کی تعلیم میں نقص نکالنے کیلئے اس کو موقع ملے گا اس کو یہ تو خبر نہیں ہوگی کہ کسی بخل کی بناء پر یہ صرف مولوی کی شرارت ہے یا اس کی بیوقوفی ہے وہ تو سیدھا ہمارے سید و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ آورہوگا جیسا کہ انہیں مولویوں کی ایسی ہی کئی مفسدانہ باتوں سے عیسائیوں کو بہت مدد پہنچ گئی مثلاً جب مولویوں نے اپنے منہ سے اقرار کیا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو نعوذ باللہ مردہ ہیں مگر حضرت عیسیٰ قیامت تک زندہ ہیں تو وہ لوگ اہل اسلام پر سوار ہوگئے اور ہزاروں سادہ لوحوں کو انہوں نے انہیں باتوں سے گمراہ کیا اور ان بے تمیزوں نے یہ نہیں سمجھا کہ انبیاء تو سب زندہ ہیں مردہ تو ان میں سے کوئی بھی نہیں.معراج کی رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی کی لاش نظر نہ آئی سب زندہ تھے.دیکھئے اللہ جلّ شانہٗ اپنے نبی کریمؐ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کی قرآن کریم میں خبر دیتا ہے اور فرماتا ہے33۲ اور خود
آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہونے کے بعد اپنا زندہ ہو جانا اور آسمان پر اٹھائے جانا اور رفیق اعلیٰ کو جا ملنا بیان فرماتے ہیں پھر حضرت مسیح کی زندگی میں کونسی انوکھی بات ہے جو دوسروں میں نہیں.معراج کی رات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام نبیوں کو برابر زندہ پایا اور حضرت عیسیٰ کو حضرت یحییٰ کے ساتھ بیٹھا ہوا دیکھا.خدا تعالیٰ مولوی عبدالحق محدث دہلوی پر رحمت کرے وہ ایک محدث وقت کا قول لکھتے ہیں کہ ان کا یہی مذہب ہے کہ اگر کوئی مسلمان ہو کر کسی دوسرے نبی کی حیات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات سے قوی تر سمجھے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے یا شاید یہ لکھا ہے کہ قریب ہے کہ وہ کافر ہو جائے لیکن یہ مولوی ایسے فتنوں سے باز نہیں آتے اور محض اس عاجز سے مخالفت ظاہر کرنے کیلئے دین سے نکلتے جاتے ہیں خدا تعالیٰ ان سب کو صفحہ زمین سے اٹھا لے تو بہتر ہے تا دین اسلام ان کی تحریفوں سے بچ جائے ذرا انصاف کرنے کامحل ہے کہ صدہا لوگ طلب علم یا ملاقات کیلئے نذیر حسین خشک معلم کے پاس دہلی میں جائیں اور وہ سفر جائز ہو.اور پھر خود نذیر حسین صاحب بٹالوی صاحب کا ولیمہ کھانے کیلئے بدیں عمر و پیرانہ سالی دو سو کوس کا سفر اختیار کر کے بٹالہ میں پہنچیں اور وہ سفر بالکل روا ہو اور پھر شیخ بٹالوی صاحب سال بسال انگریزوں کے ملنے کیلئے شملہ کی طرف دوڑتے جائیں تا دنیوی عزت حاصل کرلیں اور وہ سفر ممنوع اور حرام شمار نہ کیا جائے.اور ایسا ہی بعض مولوی وعظ کا نام لیکر پیٹ بھرنے کیلئے مشرق اور مغرب کی طرف گھومتے پھریں اور وہ سفر جائے اعتراض نہ ہو اور کوئی ان لوگوں پر بدعتی اور بد اعمال اور مردود ہونے کے فتوے نہ دے مگر جبکہ یہ عاجز باذن و امر الٰہی دعوت حق کیلئے مامور ہو کر طلب علم کیلئے اپنی جماعت کے لوگوں کو بلاوے تو وہ سفر حرام ہو جائے اور یہ عاجز اس فعل کی وجہ سے مردود کہلاوے کیا یہ تقویٰ اور خدا ترسی کا طریق ہے.افسوس کہ یہ نادان یہ بھی نہیں جانتے کہ تدبیر اور انتظام کو بدعات کی مدمیں داخل نہیں کر سکتے.ہر یک وقت اور زمانہ انتظامات جدیدہ کو چاہتا ہے.اگر مشکلات کی جدید صورتیں پیش آویں تو بجز جدید طور کی تدبیروں کے اور ہم کیا کر سکتے ہیں.پس کیا یہ تدبیریں بدعات میں داخل ہو جائیں گی جب اصل سنت محفوظ ہو اور اسی کی حفاظت کیلئے بعض تدابیر کی ہمیں حاجت پڑے تو کیا وہ تدابیر بدعت کہلائیں گی معاذ اللہ ہرگز نہیں، بدعت وہ ہے جو اپنی حقیقت میں سنت نبویہ کے معارض اور نقیض واقع ہو اور آثار نبویہ میں اس کام کے کرنے کے بارے میں زجر اور تہدید پائی جائے.اور اگر صرف جدت انتظام اور نئی تدبیر پر بدعت کا نام رکھنا ہے تو پھر اسلام میں بدعتوں کو گنتے جاؤ کچھ شمار بھی ہے.علم صرف بھی بدعت ہو گا اور علم نحو بھی اور علم کلام بھی اور حدیث کا لکھنا اور اس کا مبوّب اور مرتب کرنا سب بدعات ہوں گے ایسا ہی ریل کی سواری میں چڑھنا کلوں کا کپڑاپہننا ڈاک میں خط ڈالنا، تار کے ذریعہ سے کوئی خبر منگوانا اور بندوق اور توپوں سے لڑائی کرنا تمام یہ کام بدعات میں داخل ہوں گے بلکہ بندوق اور توپوں سے لڑائی کرنا نہ صرف بدعت بلکہ ایک گناہ عظیم ٹھہرے گا کیونکہ ایک حدیث صحیح میں ہے کہ آگ کے عذاب سے کسی کو ہلاک کرنا سخت ممنوع ہے.صحابہ سے زیادہ سنت کا متبع کون ہو سکتا ہے مگر انہوں نے بھی سنت کے وہ معنی نہ سمجھے جو میاں رحیم بخش نے سمجھے.انہوں نے تدبیر اور انتظام کے طور پر بہت سے ایسے جدید کام کئے
کہ جو نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے اور نہ قرآن کریم میں وارد ہوئے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی محدثات ہی دیکھو جن کا ایک رسالہ بنتا ہے.اسلام کیلئے ہجری تاریخ انہوں نے مقرر کی اور شہروں کی حفاظت کیلئے کوتوال مقرر کئے اور بیت المال کیلئے ایک باضابطہ دفتر تجویز کیا.جنگی فوج کیلئے قواعد رخصت اور حاضری ٹھہرائے اور ان کے لڑنے کے دستور مقرر کئے اور مقدمات مال وغیرہ کے رجوع کیلئے خاص خاص ہدایتیں مرتب کیں اور حفاظت رعایا کیلئے بہت سے قواعد اپنی طرف سے تجویز کرکے شائع کئے اور خود کبھی کبھی اپنے عہد خلافت میں پوشیدہ طور پر رات کو پھرنا اور رعایا کا حال اس طرح سے معلوم کرنا اپنا خاص کام ٹھہرایا لیکن کوئی ایسا نیا کام اس عاجز نے تو نہیں کیا صرف طلب علم اور مشورہ امداد اسلام اور ملاقات اخوان کے لئے یہ جلسہ تجویز کیا.رہا مکان کا بنانا تو اگر کوئی مکان بہ نیّت مہمانداری اور بہ نیت آرام ہر یک صادر و وارد بنانا حرام ہے تو اس پر کوئی حدیث یا آیت پیش کرنی چاہیئے اور اخویم حکیم نور الدین صاحب نے کیا گناہ کیا کہ محض للہ اس سلسلہ کی جماعت کیلئے ایک مکان بنوا دیا جو شخص اپنی تمام طاقت اور اپنے مال عزیز سے دین کی خدمت کر رہا ہے اس کو جائے اعتراض ٹھہرانا کس قسم کی ایمانداری ہے.اے حضرات مرنے کے بعد معلوم ہوگا ذرا صبر کرو وہ وقت آتا ہے کہ ان سب منہ زوریوں سے سوال کئے جاؤ گے.آپ لوگ ہمیشہ یہ حدیث پڑھتے ہیں کہ جس نے اپنے وقت کے امام کو شناخت نہ کیا اور مر گیا وہ جاہلیت کی موت پر مرا لیکن اس کی آپ کو کچھ بھی پرواہ نہیں کہ ایک شخص عین وقت پر یعنے چودھویں صدی کے سر پر آیا اور نہ صرف چودھویں صدی بلکہ عین ضلالت کے وقت اور عیسائیت اور فلسفہ کے غلبہ میں اس نے ظہور کیا اور بتلایا کہ میں امام وقت ہوں اور آپ لوگ اس کے منکر ہوگئے اور اس کا نام کافر اور دجال رکھا اور اپنے بد خاتمہ سے ذرا خوف نہ کیا اور جاہلیت پر مرنا پسند کیا.اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی تھی کہ تم پنج وقت نمازوں میں یہ دعا پڑھا کرو کہ33 ۱ یعنے اے ہمارے خدا اپنے منعم علیہم بندوں کی ہمیں راہ بتا وہ کون ہیں.نبی اور صدیق اور شہید اور صلحاء.اس دعا کا خلاصہ مطلب یہی تھا کہ ان چاروں گروہوں میں سے جس کا زمانہ تم پاؤ اس کے سایہ صحبت میں آجاؤ.اور اس سے فیض حاصل کرو لیکن اس زمانہ کے مولویوں نے اس آیت پر خوب عمل کیا.آفرین آفرین میں ان کو کس سے تشبیہہ دوں وہ اس اندھے سے مشابہ ہیں جو دوسروں کی آنکھوں کا علاج کرنے کیلئے بہت زور کے ساتھ لاف و گذاف مارتا ہے اور اپنی نابینائی سے غافل ہے.بالآخر میں یہ بھی ظاہر کرتا ہوں کہ اگر مولوی رحیم بخش صاحب اب بھی اس فتویٰ سے رجوع نہ کریں تو میں ان کو اللہ جلّ شانہٗ کی قسم دیتا ہوں کہ اگر وہ طالب حق ہیں تو اس بات کے تصفیہ کیلئے میرے پاس قادیان میں آجائیں میں ان کی آمد و رفت کا خرچ دے دوں گا اور ان پر کتابیں کھول کر اور قرآن اور حدیث دکھلا کر ثابت کر دوں گا کہ یہ فتویٰ ان کا سراسر باطل اور شیطانی اغواء سے ہے.والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ.(۱۷دسمبر ۱۸۹۲ ء) خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ ونصلّی کیفیّت جلسہ ۲۷ دسمبر ۱۸۹۲ ء بمقام قادیان ضلع گورداسپورہ اس جلسہ کے موقع پراگرچہ پانسو کے قریب لوگ جمع ہوگئے تھے لیکن وہ احباب اور مخلص جو محض للہ شریک جلسہ ہونے کیلئے دور دور سے تشریف لائے ان کی تعداد قریب تین سو پچیس کے پہنچ گئی تھی.اب جلسہ کے ایّام میں جو کارروائیاں ہوئیں ان کا ہم ذکر کرتے ہیں.پہلے حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب نے قرآن شریف کی ان آیات کریمہ کی تفسیر بیان کی جس میں یہ ذکر ہے کہ مریم صدیقہ کیسی صالحہ اور عفیفہ تھیں اور ان کے برگزیدہ فرزند حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر کیا کیا خدا تعالیٰ نے احسان کیا اور کیونکر وہ اس فانی دنیا سے انتقال کر کے اور سنت اللہ کے موافق موت کا پیالہ پی کر خدا تعالیٰ کے اس دارالنعیم میں پہنچ گئے جس میں ان سے پہلے حضرت یحییٰ حصور
اور دوسرے مقدّس نبی پہنچ چکے تھے اس تقریر کے ضمن میں مولوی صاحب موصوف نے بہت سے حقائق معارف قرآن کریم بیان فرمائے جن سے حاضرین پر بڑا اثر پڑا اور مولوی صاحب نے بڑی صفائی سے اس بات کا ثبوت دے دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام درحقیقت اس عالم سے رحلت فرما ہوگئے ہیں اور ان کے زندہ ہونے کا خیال عبث اور باطل اور سراسر مخالف نصوص بیّنہ قرآن کریم و احادیث صحیحہ ہے اور ان کے نزول کی امید رکھنا طمع خام ہے اور یہ بھی فرمایا کہ اگرچہ بہت سی حدیثوں میں نزول کی خبر دی گئی ہے مگر وہ نزول اور رنگ میں ہے یعنے تجوّز اور استعارہ کے طور پر نزول ہے نہ حقیقی نزول.کیونکہ حقیقی نزول تو نصوص صریحہ بیّنہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے مخالف پڑا ہوا ہے.جس کی طرف قدم اٹھانا گویا خدا تعالیٰ کی خبر میں شک کرنا ہے مولوی صاحب کے وعظ کے بعد سیّد حامد شاہ صاحب سیالکوٹی نے ایک قصیدہ مدحیہ سنایا.اس تقریر کے بعد حضرت اقدس مرزا صاحب کی مختصر تقریر تھی جس میں علماء حال کی چند ان باتوں کا جواب دیا گیا جو اُن کے نزدیک بنیاد تکفیر ہیں اور اسی کے ساتھ اپنے مسیح موعود ہونے کا آسمانی نشانوں کے ذریعہ سے ثبوت دیا گیا اور حاضرین کو اس پیشگوئی کے پورا ہو جانے سے اطلاع دی گئی جو پرچہ نور افشاں دہم مئی ۱۸۸۸ ء میں شائع ہوئی تھی اور مختلف وقتوں میں حجت پوری کرنے کے لئے سمجھا دیا گیا کہ اس پیشگوئی کا پورا ہونا درحقیقت صداقت دعویٰ پر ایک نشان ہے کیونکہ یہ پیشگوئی محض اس لئے ظاہر کی گئی ہے کہ جن صاحبوں کو شک ہے کہ حضرت مرزا صاحب منجانب اللہ( نہیں) ہیں.ان کے لئے اس دعویٰ پر یہ ایک دلیل ہو جو
خدا تعالیٰ کی طرف سے ان پر قائم ہو اور یہ دلیل قطعی ہے کیونکہ جو شخص اپنے دعویٰ منجانب اللہ ہونے میں کاذب ہو اس کی پیشگوئی بموجب تعلیم قرآن کریم اور توریت کے سچی نہیں ٹھہر سکتی وجہ یہ کہ اگر خدا تعالیٰ کاذب کے دعویٰ دروغ پر کوئی پیشگوئی اس کی سچی کر دیوے تو پھر دعویٰ کا سچا ہونا لازم آتا ہے اور اس سے خلق اللہ دھوکہ میں پڑتی ہے.پھر اس کے بعد حضرت اقدس مرزا صاحب نے اپنی جماعت کے احباب کی باہمی محبت اور تقویٰ اور طہارت کے بارے میں مناسب وقت چند نصیحتیں کیں.پھر اس کے بعد ۲۸ دسمبر ۱۸۹۲ ء کو یورپ اور امریکہ کی دینی ہمدردی کے لئے معزز حاضرین نے اپنی اپنی رائے پیش کی.اور یہ قرار پایا کہ ایک رسالہ جو اہم ضروریات اسلام کا جامع اور عقائد اسلام کا خوبصورت چہرہ معقولی طور پر دکھاتا ہو تالیف ہو کر اور پھر چھاپ کر یورپ اور امریکہ میں بہت سی کاپیاں اس کی بھیج دی جائیں.بعد اس کے قادیان میں اپنا مطبع قائم کرنے کے لئے تجاویز پیش ہوئیں اور ایک فہرست ان صاحبوں کے چندہ کی مرتب کی گئی جو اعانت مطبع کیلئے بھیجتے رہیں گے یہ بھی قرار پایا کہ ایک اخبار اشاعت اور ہمدردی اسلام کے لئے جاری کیا جائے اور یہ بھی تجویز ہوا کہ حضرت مولوی سیّد محمد احسن صاحب امروہی اس سلسلہ کے واعظ مقرر ہوں اور وہ پنجاب اور ہندوستان کا دورہ کریں بعد اسکے دعائے خیر کی گئی.آئندہ بھی ہمیشہ اس سالانہ جلسہ کے یہی مقاصد رہیں گے کہ اشاعت اسلام اور ہمدردی نو مسلمین امریکہ اور یورپ کے لئے احسن تجاویز سوچی جائیں اور دنیا میں نیک چلنی اور نیک نیتی اور تقویٰ اور طہارت اور اخلاقی حالات کے ترقی دینے اور اخلاق اور عادات دنیّہ اور رسوم قبیحہ کو
قوم میں سے دور کرنے اور اس گورنمنٹ برطانیہ کا سچا شکر گذار اور قدردان بننے کی کوششیں اور تدبیریں کی جائیں.ان اغراض کے پورا کرنے اور دیگر انتظامات کی غرض سے ایک کمیٹی بھی تجویز کی گئی جس کے صدر پریذیڈنٹ حضرت مولوی نور الدین صاحب بھیروی اور سیکرٹری مرزا خدا بخش صاحب اتالیق جناب خان صاحب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ اور شیخ رحمت اللہ صاحب میونسپل کمشنر گجرات.منشی غلام قادر صاحب فصیح وائس پریذیڈنٹ و میونسپل کمشنر سیالکوٹ اور مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی قرار دئیے گئے.ذیل میں ان احباب کے نام لکھے جاتے ہیں جو اس جلسہ میں شریک ہوئے:.(ا) مولوی حکیم نور الدین صاحب بھیرہ ضلع شاہ پور (۲) حکیم فضل الدین صاحب // (۳) میاں حافظ محمد صاحب // (۴) میاں عبدالرحمن صاحب // (۵) میاں نجم الدین صاحب (۶) سید قاضی امیر حسین صاحب پروفیسر عربی مدرسہ امرتسر // (۷) میاں حسن محمد صاحب زمیندار // (۸) مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹ (۹) میاں مولا بخش صاحب بوٹ فروش // (۱۰) میاں فضل کریم صاحب سیالکوٹ (۱۱) ماسٹر اللہ دتا صاحب ٹیچر سیالکوٹ (۱۲) میاں شادی خاں صاحب ملازم راجہ امر سنگھ صاحب بہادر سیالکوٹ (۱۳) سید نواب شاہ صاحب مدرس امریکن مشن سکول.سیالکوٹ (۱۴) سید امیر علی شاہ صاحب مدرس ساکن سیّداں والی ضلع سیالکوٹ (۱۵) منشی الہ دین صاحب سیالکوٹ (۱۶) چوہدری محمد سلطان صاحب میونسپل کمشنر سیالکوٹ
(۱۷ ) مولوی ابو یوسف محمد مبارک علی صاحب سیالکوٹ (۱۸) میر حامد شاہ صاحب اہلمد معافیات سیالکوٹ (۱۹) منشی غلام قادر صاحب فصیح وائس پریذیڈنٹ میونسپل کمیٹی سیالکوٹ (۲۰) میاں فصل الدین صاحب زرگر سیالکوٹ (۲۱) سید خصلت علی شاہ صاحب ڈپٹی انسپکٹر پولیس کڑیانوالہ ضلع گجرات (۲۲) میاں فتح الدین صاحب گجرات (۲۳) منشی غلام محمد صاحب طالب العلم ٹریننگ کالج لاہور.(سیالکوٹ) (۲۴) منشی گلاب خان صاحب نقشہ نویس سیالکوٹ (۲۵) میاں نور دین صاحب طالبعلم سیالکوٹ (۲۶) مولوی قطب الدین صاحب بدوملی (۲۷) چوہدری سرفراز خان صاحب نمبردار بدوملی ضلع سیالکوٹ.(۲۸) میاں محمد دین صاحب ملازم پولیس سیالکوٹ (۲۹) سید محمود شاہ صاحب سیالکوٹ (۳۰) میاں امام الدین صاحب نوشہرہ.(۳۱) میاں اللہ بخش صاحب قصاب چھاؤنی سیالکوٹ (۳۲) سید امیر علی شاہ صاحب سارجنٹ پولیس سیالکوٹ (۳۳) حکیم شیخ قادر بخش صاحب احمد آباد ضلع جہلم (۳۴) حافظ سراج الدین صاحب عیسیٰ وال ضلع جہلم (۳۵) میاں شرف الدین صاحب زمیندار کوٹلہ فقیر ضلع جہلم (۳۶) میاں عیدا صاحب زمیندار کوٹلہ فقیر ضلع جہلم (۳۷) میاں قطب الدین صاحب کوٹلہ فقیر ضلع جہلم (۳۸) میاں علی محمد صاحب امام مسجد // // (۳۹) مولوی برہان الدین صاحب محلہ نو ضلع جہلم (۴۰) میاں نظام الدین صاحب محلہ خوجیاں ضلع جہلم (۴۱) میاں محمد امین صاحب بزاز چکوال (راولپنڈی)
(۴۲ ) منشی گلاب دین صاحب رہتاس ضلع جہلم (۴۳) میاں اللہ دتا صاحب ؍؍ ؍؍ (۴۴) منشی غلام حسین صاحب ؍؍ ؍؍ (۴۵) منشی محمد حسین صاحب ملازم ریاست پٹیالہ.مراد آباد (۴۶) مولوی محمد احسن صاحب امروہا.ضلع مراد آباد.(۴۷) میاں رشید احمد صاحب میڈیکل سٹوڈنٹ امروہا ضلع مراد آباد (۴۸) میر رشید حسین صاحب ؍؍ ؍؍ (۴۹) شیخ زین الدین محمد ابراہیم صاحب چچ پوکلی کالی چوکے بمبئی انجینئر کلاتھ مینو فیکٹری (۵۰) میاں عبدالغفور ولد شمس الدین صاحب ؍؍ ؍؍ (۵۱) پیر منظور محمد صاحب لودھیانہ (ڈپٹی انسپکٹر دفتر کونسل جموں و کشمیر) (۵۲) پیر افتخار احمد صاحب لدہیانہ محلہ نو (۵۳) پیر عنایت علی صاحب لودہیانہ محلہ نو (۵۴) بابو محمد بخش صاحب ملازم دفتر نہر انبالہ لودہیانہ محلہ نو (۵۵) میاں مولا بخش صاحب کلرک اگزیمنر آفس لاہور.لدہیانہ محلہ نو (۵۶) میاں کرم الٰہی صاحب کنسٹیبل ملازم پولیس لدھیانہ.(۵۷) قاضی خواجہ علی صاحب ؍؍ ؍؍ (۵۸) منشی عبدالحق صاحب خلیفہ عبدالسمیع صاحب ؍؍ ؍؍ (۵۹) حافظ نور احمد صاحب اینڈ کولُنگی مرچنٹ لودیانہ.(۶۰) میاں نظام الدین صاحب صحاف؍؍ (۶۱) مولوی عبدالقادر صاحب جمال پور ضلع لدھیانہ.(مدرس) (۶۲) شاہزادہ عبدالمجید صاحب لودہیانہ (۶۳) میاں کریم بخش صاحب جمالپور ؍؍ (۶۴) حاجی عبدالرحمن صاحب ؍؍ (۶۵) میاں عبدالقادر صاحب جیگن ضلع لدھیانہ مدرس مدرسہ جمال پور
(۶۶) میاں شہاب الدین صاحب لدھیانہ (۶۷) سید عبدالہادی صاحب ماچھی پورہ ضلع لدھیانہ (۶۸) میاں عبدالرحیم صاحب لودہیانہ محلہ موچ پورہ (۶۹) میاں اللہ بخش صاحب ؍؍ ؍؍ (۷۰) میاں عصمت اللہ صاحب مستری لودہیانہ بازار خرادیاں.(۷۱) میاں رحمت اللہ صاحب ؍؍ ؍؍ (۷۲) میاں شہاب الدین صاحب ؍؍ ؍؍ (۷۳) میاں نظام الدین صاحب؍؍ ؍؍ (۷۴) حکیم مولوی نظام الدین صاحب رنگ پور ضلع مظفر گڑھ حال وارد بھیرہ.(۷۵) میاں عبدالحکیم خان صاحب سامانہ ریاست پٹیالہ.(میڈیکل سٹوڈنٹ لاہور) (۷۶) منشی غلام قادر صاحب سنور ریاست پٹیالہ پٹواری سرہند تحصیل (۷۷) منشی محمد ابراہیم صاحب؍؍ ؍؍ (۷۸) قاضی زین العابدین صاحب خانپور.ریاست پٹیالہ (۷۹) منشی عبداللہ صاحب سنوری پٹواری غوث گڑھ ریاست پٹیالہ تحصیل سرہند.(۸۰) منشی ہاشم علی صاحب سنور ریاست پٹیالہ (پٹواری) تحصیل برنالہ.(۸۱) مولوی عبدالصمد صاحب عرف شیخ علی محمد سنور.ریاست پٹیالہ.(۸۲) میاں عبدالرحمن صاحب سنور ریاست پٹیالہ پٹواری تحصیل سنام.(۸۳) منشی محمد ابراہیم صاحب مدرس سنور ریاست پٹیالہ.(۸۴) مولوی محمد یوسف صاحب سنور ریاست پٹیالہ (مدرس) (۸۵) میاں پیر بخش صاحب کہیرو ریاست پٹیالہ (زمیندار) (۸۶) میاں امیر بخش صاحب کہیرو ؍؍ (۸۷) میاں اللہ بخش صاحب حجام؍؍ ؍؍ (۸۸) شیخ جلال الدین صاحب ریاست پٹیالہ
(۸۹ ) میاں علی نواز صاحب موضع چمارو ریاست پٹیالہ.(۹۰) میاں عبدالکریم صاحب نمبردار ؍؍ ؍؍ (۹۱) میاں محمد اسماعیل صاحب ؍؍ ؍؍ (۹۲) محمد اکبر خان صاحب سنور ؍؍ ؍؍ (۹۳) میاں نور محمد صاحب زمیندار غوث گڑھ ریاست پٹیالہ.(۹۴) میاں ماہیا صاحب زمیندارغوث گڑھ ریاست پٹیالہ.(۹۵) میاں بیگا صاحب کہریس پورہ ضلع انبالہ.(۹۶) میاں عطا الٰہی صاحب غوث گڑھ ریاست پٹیالہ.(۹۷) میاں ہمیرا صاحب جسووال ؍؍ (۹۸) منشی محمدی صاحب غوث گڑھ ؍؍ (۹۹) میاں غلام قادر صاحب پٹیالہ محلہ پوریاں.(زمیندار) (۱۰۰) میاں عبدالمجید خان صاحب سانبہر ملک راجپوتانہ (طالب علم) (۱۰۱) حاجی محمد بن احمدّ مکی (مکہ معظمہ).(۱۰۲) مرزا خدا بخش صاحب جھنگ (اتالیق نواب محمد علی خان صاحب بہادر مالیر کوٹلہ) (۱۰۳) حافظ نجم الدین صاحب بھٹیاں ضلع گوجرانوالہ (۱۰۴) قاضی ضیاء الدین صاحب کوٹ قاضی ضلع گوجرانوالہ.ڈاک خانہ بوتالہ.(۱۰۵) منشی محمد دین صاحب پٹواری ضلع گوجرانوالہ.(۱۰۶) منشی احمد دین صاحب گوجرانوالہ.(۱۰۷) سید غلام شاہ صاحب نورنگ ؍؍ (۱۰۸) میاں کرم داد صاحب تہنگ ضلع گجرات.(۱۰۹) مولوی جلال الدین صاحب.بلانی ضلع گجرات.(۱۱۰) میاں صاحب دین صاحب.تہال ضلع گجرات.(۱۱۱) مولوی فضل الدین صاحب کھاریاں ضلع گجرات.
(۱۱۲) میاں محمد علی صاحب جلالپور ضلع گجرات.کلرک اگزیمنر آفس لاہور.(۱۱۳) مولوی سید جمال شاہ صاحب واعظ نندووال ضلع گجرات.(۱۱۴) حافظ فضل احمد صاحب گجرات.کلرک دفتر اگزیمنر آفس لاہور.(۱۱۵) شیخ رحمت اللہ صاحب میونسپل کمشنر گجرات.(۱۱۶) حافظ محمد صاحب پشاور کوٹلہ فیل باناں.(۱۱۷) میاں عبداللہ صاحب ایضاً ؍؍ (۱۱۸) مولوی غلام حسین صاحب مدرس بورڈ سکول ؍؍ (۱۱۹) حافظ حامد علی صاحب قادیان ضلع گورداسپور (۱۲۰) حافظ معین الدین صاحب ؍؍ (۱۲۱) مرزا اسماعیل بیگ صاحب ؍؍ (۱۲۲) میاں جان محمد صاحب امام مسجد ؍؍ (۱۲۳) شیخ نور احمد صاحب زمیندار کھارا ضلع گورداسپورہ.(۱۲۴) شیخ عبدالرحمن صاحب ُ بٹر کلاں ضلع گورداسپورہ( نومسلم) (۱۲۵) حافظ امام الدین صاحب ننگل.ضلع گورداسپورہ.(۱۲۶) میاں محمد بخش صاحب ککے زئی بٹالہ.ضلع گورداسپورہ.(۱۲۷) حاجی غلام محمد صاحب بٹالہ ؍؍ (۱۲۸) شیخ مراد علی صاحب کلانور.ضلع گورداسپورہ.(۱۲۹) میاں ہاشم علی صاحب جنڈما جہہ (۱۳۰) میاں نتھو صاحب زمیندار بازید چک ؍؍ (۱۳۱) میاں مہر دین زمیندار ؍؍ ؍؍ (۱۳۲) مولوی الٰہی بخش صاحب ساکن لیل ؍؍ (۱۳۳) میاں عبداللہ صاحب سوہلا ؍؍ (۱۳۴) میاں علی بخش صاحب درزی ؍؍ ؍؍ (۱۳۵) منشی ہاشم علی صاحب ؍؍ ؍؍ (۱۳۶) فقیر مردان شاہ صاحب ؍؍ ؍؍ (۱۳۷) میاں چراغ علی صاحب تھہ غلام نبی.ضلع گورداسپورہ (زمیندار)
(1۳۸ ) میاں نظام الدین صاحب تھہ غلام نبی ضلع گورداسپورہ (۱۳۹) میاں محمد بخش صاحب زمیندار تھہ غلام نبی ضلع گورداسپورہ (۱۴۰) میاں شہاب الدین صاحب زمیندار تھہ غلام نبی ضلع گورداسپورہ (۱۴۱) میاں سلطان بخش صاحب ؍؍ ؍؍ (۱۴۲) میاں خدا بخش صاحب نو مسلم ؍؍ ؍؍ (۱۴۳) میاں مہر علی صاحب بیبل چک ؍؍ ؍؍ (۱۴۴) حکیم محمد اشرف صاحب بٹالہ ؍؍ (۱۴۵) میاں محمد اکبر صاحب ٹھیکہ دار لکڑی بٹالہ ضلع گورداسپورہ (۱۴۶) شیخ نور احمد صاحب رئیس ؍؍ ؍؍ (۱۴۷) میاں فضل حق صاحب ؍؍ ؍؍ (۱۴۸) منشی دین محمد صاحب ؍؍ ؍؍ محالدار ریاست جموں (۱۴۹) میاں محمد ابراہیم صاحب ؍؍ ؍؍ میڈیکل سٹوڈنٹ لاہور (۱۵۰) میاں نور ماہی صاحب بٹالہ ؍؍ (۱۵۱) حافظ عمر الدین صاحب تھہ غلام نبی ضلع گورداسپورہ (۱۵۲) میاں نتھو صاحب ؍؍ ؍؍ (۱۵۳) میاں رحمت علی صاحب ؍؍ ؍؍ (۱۵۴) منشی غلام قادر صاحب ؍؍ ؍؍ (۱۵۵) میاں عبداللہ صاحب ؍؍ ؍؍ (۱۵۶) میاں فقیر علی صاحب ؍؍ ؍؍ (۱۵۷) میاں شیر علی صاحب ؍؍ ؍؍ (۱۵۸) چوہدری سلطان بخش صاحب زمیندار ؍؍ ؍؍ (۱۵۹) چوہدری محمدا صاحب گرایانوالہ ضلع گورداسپورہ (۱۶۰) چوہدری سلطانا صاحب ؍؍ ؍؍ (۱۶۱) مہر عبداللہ صاحب ؍؍ ؍؍ (۱۶۲) میاں محکم دین صاحب دوکاندار سری گوبند پورہ ؍؍ (۱۶۳) میاں شاہ محمد صاحب پٹولی بٹالہ؍؍ (۱۶۴) سید مہر شاہ صاحب ؍؍ ؍؍ (۱۶۵) سید فقیر حسین صاحب ؍؍ ؍؍ (۱۶۶) سید حسین شاہ صاحب کٹھالہ ؍؍ (۱۶۷) سید عمر شاہ صاحب نواں پنڈ ؍؍ (۱۶۸) مہر نبی بخش صاحب نمبردار ممبر کمیٹی و میونسپل کمشنر بٹالہ ضلع گورداسپورہ.
(۱۶۹ ) شیخ فتح محمد صاحب بٹالہ ضلع گورداسپورہ (۱۷۰) منشی محکم الدین صاحب اشٹام فروش سری گوبند پورہ ضلع گورداسپورہ (۱۷۱) منشی محمد علی صاحب پنشنر ضلعدار بٹالہ ضلع گورداسپورہ (۱۷۲) حاجی غلام محمد صاحب ڈپٹی انسپکٹر ؍؍ ؍؍ (۱۷۳) بابو علی محمد صاحب ؍؍ ؍؍ (۱۷۴) منشی محمد عمر صاحب ؍؍ ؍؍ (۱۷۵) شیخ جان محمد صاحب ؍؍ ؍؍ (۱۷۶) میاں نور محمد صاحب فیض اللہ چک؍؍ (۱۷۷) میاں عمر شاہ صاحب ؍؍ ؍؍ (۱۷۸) میاں اللہ بخش صاحب ؍؍ ؍؍ (۱۷۹) میاں غلام علی صاحب ؍؍ ؍؍ (۱۸۰) میاں کرم الٰہی صاحب ؍؍ ؍؍ (۱۸۱) میاں علی بخش صاحب ؍؍ ؍؍ (۱۸۲) میاں مولا داد صاحب تھہ غلام نبی ؍؍ (۱۸۳) چوہدری حامدعلی صاحب نمبردار وزیر چک ؍؍ (۱۸۴) چوہدری گھسیٹاصاحب بیبل چک ؍؍ (۱۸۵) میاں اللہ دتا صاحب ؍؍ ؍؍ (۱۸۶) میاں ولی محمد صاحب بیبل چک.ضلع گورداسپورہ.(۱۸۷) میاں غلام فرید صاحب بیبل چک ؍؍ (۱۸۸) میاں عنایت اللہ صاحب بٹالہ؍؍ (۱۸۹) مولوی قدرت اللہ صاحب؍؍ ؍؍ (۱۹۰) میاں مظفر اللہ صاحب ؍؍ ؍؍ (۱۹۱) میاں قادر بخش صاحب ؍؍ ؍؍ (۱۹۲) میاں محمد دین صاحب قادیان؍؍ (۱۹۳) میاں حاکم علی صاحب تھہ غلام نبی ؍؍ (۱۹۴) منشی زین العابدین صاحب؍؍ (۱۹۵) منشی محمد جان صاحب پٹواری جہلمی؍؍ (۱۹۶) میاں جمال الدین صاحب پشمینہ باف سیکھواں ؍؍ (۱۹۷) میاں امام الدین صاحب ؍؍ ؍؍ (۱۹۸) میاں خیر الدین صاحب ؍؍ ؍؍ (۱۹۹) میاں محمد صدیق صاحب ؍؍ ؍؍ (۲۰۰) میاں عبداللہ صاحب ٹہیراں؍؍ (۲۰۱) میاں قطب الدین صاحب دفروالہ ؍؍ (۲۰۲) چوہدری دینا صاحب قادر آباد؍؍
(۲۰۳ ) میاں شیر علی صاحب قادیان.ضلع گورداسپورہ (۲۰۴) میاں الٰہیا چوکیدار سیکھواں ضلع گورداسپورہ (۲۰۵) میاں گوہر شا صاحب بہوی ضلع گورداسپورہ.(۲۰۶) چوہدری نواب صاحب زمیندار ملولپور ضلع گورداسپورہ.(۲۰۷) میاں نور الدین صاحب اجوئی ضلع گورداسپورہ.(۲۰۸) میاں کالو شاہ صاحب عالم پور ضلع گورداسپورہ.(۲۰۹) میاں نور احمد صاحب زمیندار کلوی ضلع گورداسپورہ.(۲۱۰) چوہدری امام الدین صاحب کلوی ضلع گورداسپورہ (۲۱۱) چوہدری نظام الدین صاحب کلوی ضلع گورداسپورہ (۲۱۲) فقیر مہر شاہ صاحب کولیان ؍؍ (۲۱۳) مولوی حافظ عظیم بخش صاحب بہومگہ ضلع گورداسپورہ حال پٹیالہ.(۲۱۴) مولوی غلام جیلانی صاحب نوہون ضلع انبالہ مدرس مدرسہ گہرونون.(۲۱۵) مولوی عبداللہ صاحب مدرس ہندو محمڈن سکول.بٹالہ (۲۱۶) بابو اللہ بخش صاحب چھاؤنی انبالہ ریلوے ٹرین کلرک.(۲۱۷) منشی محمد مظاہر الحق خلف مولوی محمد ظہور علی صاحب.اٹاوہ محلہ قاضی ٹولہ (۲۱۸) حکیم مولوی محمد اسحاق صاحب گوہلہ ضلع کرنال.(۲۱۹) میر محمد سعید صاحب دہلی کہڑکی فراش خانہ.دہلی.(۲۲۰) منشی عبدالعزیز صاحب.دہلی قاسم جان کی گلی.ملازم دفتر نہر انبالہ.(۲۲۱) میر محمد کبیر صاحب دہلی کہڑکی فراش خانہ
(۲۲ ۲) میر ناصر نواب صاحب دہلی.کہڑکی فراش خانہ.نقشہ نویس دفتر نہر پٹیالہ.(۲۲۳) مولوی محمد حسین صاحب زمیندار بھاگورائیں ریاست کپورتھلہ ضلع جالندھر.(۲۲۴) منشی اروڑا صاحب کپورتھلہ ؍؍ (۲۲۵) منشی محمد خان صاحب ؍؍ ؍؍ (۲۲۶) منشی ظفر احمد صاحب ؍؍ ؍؍ (۲۲۷) منشی حبیب الرحمن صاحب رئیس حاجی پور.ریاست کپورتھلہ (۲۲۸) میاں جی روشن دین صاحب ریاست کپورتھلہ (۲۲۹) حافظ محمد علی صاحب ایضاً (۲۳۰) میاں عبدالمجید خان صاحب ولد محمد خان ریاست کپورتھلہ.(۲۳۱) حکیم فتح محمد صاحب ایضاً (۲۳۲) حافظ بابا صاحب نابینا ؍؍ (۲۳۳) منشی فیاض علی صاحب ؍؍ (۲۳۴) منشی عبدالرحمن صاحب کپورتھلہ.(۲۳۵) میاں نظام الدین صاحب ؍؍ (۲۳۶) میاں عبداللہ صاحب.؍؍ (۲۳۷) منشی حسن خان صاحب ملازم توپخانہ کپورتھلہ (۲۳۸) چوہدری جھنڈو صاحب ؍؍ (۲۳۹) میاں کریم بخش صاحب ملازم پلٹن کپورتھلہ (۲۴۰) منشی امداد اللہ خان صاحب اہلمدسررشتہ تعلیم کپورتھلہ.(۲۴۱) مستری جان محمد صاحب کپورتھلہ (۲۴۲) منشی محمد دین صاحب لاہور کلرک ڈسٹرکٹ ٹریفک.(۲۴۳) منشی محمد حسین صاحب لاہور.کلرک اگزیمنر آفس لاہور.(۲۴۴) منشی مظفر الدین صاحب ؍؍ (۲۴۵) میاں عنایت اللہ صاحب طالب علم لاہور.(۲۴۶) منشی محمد بخش صاحب لاہور موچی دروازہ کلرک اگزیمنر آفس لاہور.(۲۴۷) خلیفہ رشید الدین صاحب لاہور (میڈیکل سٹوڈنٹ )
(۲۴۸) میاں نور الدین صاحب لاہور.(۲۴۹) مولوی کرم الٰہی صاحب لاہور تکیہ سادھواں.(۲۵۰) حکیم محمد حسین صاحب لاہور لنگے منڈی (۲۵۱) میاں عبدالعزیز صاحب لاہور لنگے منڈی (۲۵۲) میاں رحیم اللہ صاحب لاہور لنگے منڈی.(۲۵۳) منشی عبدالعزیز صاحب باغبانپورہ ضلع لاہور (سابق فارسٹر) (۲۵۴) منشی امام الدین کاتب امرتسر کڑہ کرم سنگھ.(۲۵۵) منشی تاج الدین صاحب لاہور اکونٹنٹ ریلوے آفس.(۲۵۶) ماسٹر احمد صاحب لاہور (۲۵۷) حاجی شہاب الدین صاحب ؍؍ (۲۵۸) منشی عزیز الدین صاحب ؍؍ (۲۵۹) خلیفہ رجب الدین صاحب لاہور (۲۶۰) میاں عزیز الدین صاحب پٹی ضلع لاہور (مدرس بگہبانہ) (۲۶۱) میاں عبداللطیف صاحب باغبانپورہ ضلع لاہور.(۲۶۲) حاجی منشی شمس الدین صاحب لاہور کلرک اگزیمنر آفس لاہور (۲۶۳) میاں نبی بخش صاحب راولپنڈی محلہ قطب الدین کلرک اگزیمنر آفس لاہور.(۲۶۴) میاں پیر بخش صاحب خوجہ مکھڈ ضلع راولپنڈی.(۲۶۵) چوہدری محمد سعید صاحب.مکھڈ ضلع راولپنڈی.(۲۶۶) منشی محمد مقبول صاحب میر منشی پلٹن نمبر ۳۰ راولپنڈی.(۲۶۷) صاحبزادہ سراج الحق جمالی نعمانی صاحب.سرساوہ ضلع سہارنپور (۲۶۸) حافظ غلام رسول صاحب سوداگر
وزیر آباد.ضلع گوجرانوالہ (۲۶۹) میاں محمد جان صاحب ملازم راجہ امر سنگھ وزیر آباد.ضلع گوجرانوالہ.(۲۷۰) شیخ نبی بخش صاحب ؍؍ ؍؍ (۲۷۱) خلیفہ نور الدین صاحب.جموں (۲۷۲) میاں اللہ دتا صاحب ؍؍ (۲۷۳) سید محمد شاہ صاحب ؍؍ (۲۷۴)مولوی تاج محمد صاحب سر باندی؍؍ (۲۷۵) منشی عبدالرحیم صاحب سب اوورسیر سری نگر (جموں) (۲۷۶) منشی عبدالرحیم صاحب اوورسیر کشمیر (جموں) (۲۷۷) مستری عمر صاحب (جموں) (۲۷۸) منشی نواب خان صاحب (جموں) (۲۷۹) منشی محمد شریف صاحب نگیال (ریاست جموں) (۲۸۰) مولوی انوار حسین خان صاحب شاہ آباد ضلع ہر دوئی.(۲۸۱) شیخ نور احمد صاحب مہتمم ریاض ہند امرتسر.(۲۸۲) میاں ظہور احمد ولد میاں نور احمد امرتسر (۲۸۳) شیخ عبدالقیوم صاحب قانون گو امرتسر (۲۸۴) مولوی کریم الدین صاحب نو مسلم امرتسر (کٹرہ آہلو والیہ) (۲۸۵) مولوی عنایت اللہ صاحب حکیم امرتسر (کٹرہ آہلو والیہ) (۲۸۶) منشی عبدالرحمن صاحب امرتسر (کٹرہ کرم سنگھ) (۲۸۷) چوہدری محمدی صاحب.امرتسر (کٹرہ آہلو والیہ) (۲۸۸) میاں غلام قادر صاحب علاقہ بند امرت سر (۲۸۹) میاں امام الدین صاحب ؍؍ گرو بازار (۲۹۰) بابو محکم الدین صاحب مختار عدالت (امرت سر) (۲۹۱) مستری قطب الدین خان صاحب ؍؍
ڈیوڑ ھی کرموں.(۲۹۲) مولوی عبداللطیف صاحب مدرسہ محمدی (امرتسر) کٹرہ موتی رام (۲۹۳) میاں محمد ابراہیم صاحب ؍؍ ؍؍ (۲۹۴) چوہدری شاہ محمد صاحب زمیندار (رام دیوالی (ضلع امرت سر) (۲۹۵) میاں دین محمد صاحب بہوی وال ضلع امرت سر (۲۹۶) میاں فتح الدین صاحب رام دیوالی (ضلع امرتسر) (۲۹۷) سید سکندر شاہ صاحب امام مسجد رام دیوالی.ضلع امرت سر (۲۹۸) میاں بوٹا صاحب اولی والہ ؍؍ (۲۹۹) شیخ عبداللہ صاحب طالبعلم.علی گڑھ (۳۰۰) شیخ حامد علی خان صاحب میڈیکل سٹوڈنٹ علی گڑھ (۳۰۱) جناب خان صاحب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ.(۳۰۲) شیخ ولی محمد صاحب شاہ آباد اہلکار خان صاحب موصوف.؍؍ (۳۰۳) شیخ فضل محمد صاحب؍؍ ملازم خان صاحب محمد ذوالفقار علی صاحب و محمد یوسف علی خان صاحب.(۳۰۴) سید شیر شاہ صاحب ملازم خان صاحب مالیر کوٹلہ (۳۰۵) میاں صفدر علی صاحب ؍؍ ؍؍ (۳۰۶) میاں عبدالعزیز صاحب؍؍ ؍؍ (۳۰۷) میاں جیوا صاحب ؍؍ ؍؍ (۳۰۸) میاں قادر بخش صاحب ؍؍ ؍؍ (۳۰۹) میاں برکت شاہ صاحب ؍؍ ؍؍ (۳۱۰) میاں کمے خان صاحب ؍؍ ؍؍ (۳۱۱) میاں فتح محمد صاحب ؍؍ ؍؍ (۳۱۲) میاں عبدالکریم صاحب حجام ؍؍ ؍؍ (۳۱۳)میاں عبدالجلیل خان صاحب شاہجہاں آباد ؍؍ (۳۱۴) میاں حامد علی صاحب.بریلی.(۳۱۵) منشی علی گوہر خان صاحب.جالندھر (۳۱۶) منشی رستم علی خان صاحب مداران.ضلع جالندھر.ڈپٹی انسپکٹر پولیس ریلوے (۳۱۷) مولوی احمد جان صاحب جالندھر شہر مدرس ضلع گوجرانوالہ.(۳۱۸) میاں وزیرا صاحب ٹھیکہ دار کہیرو ریاست نابھہ.(۳۱۹) مولوی شیخ احمد صاحب واعظ سرہند
ریا ست پٹیالہ وارد بٹالہ.(۳۲۰) میاں محمد صاحب ولد عبداللہ صاحب شیرپور ضلع فیروزپور حال وارد بھیرہ.(۳۲۱) سیّد معراج الدین صاحب بٹالہ.(۳۲۲) میاں جان محمد صاحب طالب علم بٹالہ.(۳۲۳) مولوی وزیر الدین صاحب مکیریاں ضلع ہوشیارپور (۳۲۴) چوہدری کریم بخش صاحب مکیریاں.ضلع ہوشیارپور.(۳۲۵) غلام حسین صاحب مکیریاں ضلع ہوشیارپور.(۳۲۶) میاں میراں بخش صاحب مکیریاں ضلع ہوشیارپور.(۳۲۷) میاں غلام رسول صاحب مکیریاں ضلع ہوشیارپور ناظرین کی توجہ کے لایق اس بات کے سمجھنے کے لئے کہ انسان اپنے منصوبوں سے خدا تعالیٰ کے کاموں کو روک نہیں سکتا.یہ نظیر نہایت تشفی بخش ہے کہ سال گزشتہ میں جب ابھی فتویٰ تکفیر میاں بٹالوی صاحب کا طیار نہیں ہوا تھا اور نہ انہوں نے کچھ بڑی جدوجہد اور جان کنی کے ساتھ اس عاجز کے کافر ٹھہرانے کے لئے توجہ فرمائی تھی صرف ۷۵ احباب اور مخلصین تاریخ جلسہ پر قادیان میں تشریف لائے تھے.مگر اب جبکہ فتویٰ طیار ہوگیا اور بٹالوی صاحب نے ناخنوں تک زور لگا کر اور آپ بصد مشقت ہر یک جگہ پہنچ کر اور سفر کی ہر روزہ مصیبتوں سے کوفتہ ہو کر اپنے ہم خیال علماء سے اس فتویٰ پر مہریں ثبت کرائیں اور وہ اور ان کے ہم مشرب علماء بڑے ناز اور خوشی سے اس بات کے مدعی ہوئے کہ گویا اب انہوں نے اس الٰہی سلسلہ کی ترقی میں بڑی بڑی روکیں ڈال دی ہیں تو اس سالانہ جلسہ میں بجائے
۷۵ کے تین سو ستائیس احباب شامل جلسہ ہوئے اور ایسے صاحب بھی تشریف لائے جنہوں نے توبہ کر کے بیعت کی.اب سوچنا چاہیئے کہ کیا یہ خدا تعالیٰ کی عظیم الشان قدرتوں کا ایک نشان نہیں کہ بٹالوی صاحب اور ان کے ہم خیال علماء کی کوششوں کا الٹا نتیجہ نکلا اور وہ سب کوششیں برباد ہوگئیں.کیا یہ خدا تعالیٰ کا فعل نہیں کہ میاں بٹالوی کے پنجاب اور ہندوستان میں پھرتے پھرتے پاؤں بھی گھس گئے لیکن انجام کار خدا تعالیٰ نے ان کو دکھلا دیا کہ کیسے اس کے ارادے انسان کے ارادوں پر غالب ہیں.33.۱ اس سال میں خدا تعالیٰ نے دو نشان ظاہر کئے.ایک بٹالوی کا اپنی کوششوں میں نامراد رہنا.دوسرے اس پیشگوئی کے پورے ہونے کا نشان جو نور افشاں.۱۰ مئی ۱۸۸۸ ء میں چھپ کر شائع ہوئی تھی.اب بھی بہتر ہے کہ بٹالوی صاحب اور ان کے ہم مشرب باز آجائیں اور خدا تعالیٰ سے لڑائی نہ کریں.والسّلام علٰی من اتبع الھدٰی.مطبوعہ ریاض ہند پریس قادیان
اِشتہا ر ضروری بخدمت شریف تمام مخلصان و بہی خواہان اسلام بعد سلام مسنون واضح ہو کہ بموقع جلسہ سالانہ جو بمقام قادیان ۲۷.۲۸.۲۹ تاریخ ماہ دسمبر ۱۸۹۲ ء کو منعقد ہوا.اس میں چند معزز مخلصان کی تحریک پر قرار پایا کہ چونکہ مطبع کی ہمیشہ شکایت رہتی ہے.اس لئے ایک مستقل انتظام دربارہ مطبع کیا جانا ضروری ہے جس میں علاوہ کتب تائید اسلام مہینے میں دو دفعہ ایک پرچہ اخبار بھی شائع ہوا کرے گا جس میں تفسیر بعض بعض آیات قرآن شریف و جواب مخالفین اسلام وغیرہ درج ہوا کریں گے.چنانچہ اصحاب حاضرین نے نہایت اخلاص و صدق سے اس تجویز کو پسند کیا اور حسب مرضی کل صاحبان تخمینہ لگایا گیا.رقم تخمینہ تقریبًا 3ماہوار قرار پائی.اس پر ہر یک مخلص نے اپنے مقدور کے موافق بطِیب خاطر چندہ لکھوایا جس کی فہرست ذیل میں درج ہے.اس تجویز سے پہلے بہت سے معزز اصحاب واپس تشریف لے جا چکے تھے وہ اس کار خیر میں شامل نہیں ہو سکے.امید کہ صادقاں باوفا و مخلصان بے ریا ضرور اس نیک کام میں شمولیت فرما کر سعادت دارین کے مستحق ہوں گے اور بہت جلد اپنی رقم چندہ سے اطلاع بخشیں گے.لیکن حضرت اقدس فرماتے ہیں کہ کوئی صاحب مجبورًا چندہ نہ لکھوائیں بلکہ اپنی خوشی سے حسب استطاعت لکھوائیں.المشتھر مرزا *خدا بخش اتالیق نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ ضلع لودہیانہ سیکرٹری * نوٹ: سب صاحبان کو واضح رہے کہ اس بارہ میں تمام خط و کتابت بنام احقر ہونی چاہیئے.
فہرست چندہ دہندگان و رقوم چندہ جو بموقع جلسہ ۲۹ دسمبر ۱۸۹۲ء بمقام قادیان لکھا گیا نمبرشمار نام ماھوار سالانہ وصول (۱) جناب حکیم محمد احسن صاحب (۲) جناب خلیفہ نور الدین صاحب (۳) جناب پیر سراج الحق صاحب (۴) منشی ہاشم علی صاحب پٹواری سنور (۵) جناب میر ناصر نواب صاحب (۶) جناب شیخ رحمت اللہ صاحب گجراتی (۷) میاں عبدالرحمن صاحب سنوری (۸) منشی ابراہیم صاحب سنوری مدرس (۹) سید محمد شاہ صاحب ٹھیکہ دار جموں (۱۰) سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹی (۱۱) حافظ محمد صاحب پشاوری (۱۲) سید عبدالہادی صاحب اوورسیر ماچھی واڑہ (۱۳) ڈاکٹر عبدالحکیم خان صاحب میڈیکل کالج لاہور (۱۴) مولوی نظام الدین صاحب رنگپوری (۱۵) میاں شادی خان صاحب ملازم راجہ امر سنگھ صاحب بہادر (۱۶) مرزا خدا بخش مالیر کوٹلہ (۱۷) مولوی غلام حسن صاحب پشاوری (۱۸) سید خصیلت علی شاہ صاحب ڈپٹی انسپکٹر پولیس (۱۹) قاضی ضیاء الدین صاحب قاضی کوٹی (۲۰) مولوی قطب الدین صاحب بدوملہوی (۲۱) سید امیر علی شاہ صاحب سارجنٹ پولیس
(۲۲ ) مولوی محمد یوسف صاحب سنوری (۲۳) شیخ عبدالصمد صاحب سنوری (۲۴) منشی احمد بخش صاحب سنوری پٹواری تحصیل بانگر (۲۵ ) حافظ عظیم بخش صاحب علاقہ پٹیالہ (۲۶) میاں عبدالکریم صاحب علاقہ پٹیالہ (۲۷) سرفراز خان صاحب نمبردار بدوملہی (۲۸) میاں اللہ دتا صاحب سیالکوٹی (۲۹) شاہزادہ عبدالمجید صاحب لدھیانوی (۳۰) حافظ نور احمد صاحب سوداگر لدھیانوی (۳۱) شیخ عبدالحق صاحب لدھیانوی (۳۲) منشی نبی بخش صاحب کلرک اگزیمنر آفس لاہور (۳۳) منشی تاج الدین صاحب اکونٹنٹ اگزیمنر آفس لاہور (۳۴) حافظ فضل احمد صاحب کلرک اگزیمنر آفس لاہور (۳۵) مولوی مفتی غلام جیلانی صاحب مدرس کہر ونوہ (۳۶) مولوی عبدالقادر صاحب مدرس جمالپور ضلع لدھیانہ (۳۷) مولوی قدرت اللہ صاحب بٹالوی (۳۸) بابو غلام محمد صاحب سیالکوٹی (۳۹) مہر عبدالعزیز صاحب عرف مہر نبی بخش صاحب بٹالوی (۴۰) منشی نظام الدین صاحب خوجہ جہلمی (۴۱) منشی عبدالمجید صاحب طالب علم وٹرنری سکول لاہور (۴۲) شیخ چراغ الدین صاحب ساکن تھہ غلام نبی ضلع گورداسپور (۴۳) منشی کرم الٰہی کنسٹیبل پولیس لدھیانہ (۴۴) منشی کرم الٰہی صاحب مدرس مدرسہ نصرت الاسلام لاہور (۴۵) میاں عمرا ساکن جمال پور ضلع لدھیانہ
(۴۶ ) میاں خیرا نمبردار جمال پور ضلع لدھیانہ (۴۷) مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی (۴۸) منشی فیاض علی صاحب کپورتھلوی (۴۹) منشی حبیب الرحمن صاحب (۵۰) منشی محمد اروڑا صاحب (۵۱) منشی علی گوہر صاحب جالندھری (۵۲) منشی عبدالرحمن صاحب کپورتھلوی (۵۳) مولوی محمد حسین صاحب کپورتھلوی (۵۴) حکیم فتح محمد صاحب کپورتھلوی (۵۵) میاں روشن دین صاحب کپورتھلوی (۵۶) منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی (۵۷) منشی محمد خان صاحب کپورتھلوی (۵۸) مرزا صفدر علی خدمتگار نواب محمد علی خان صاحب مالیر کوٹلہ (۵۹) مرزا اسماعیل بیگ صاحب قادیان ضلع گورداسپورہ (۶۰) حافظ محمد علی صاحب کپورتھلوی (۶۱) منشی اللہ بخش صاحب سیالکوٹی (۶۲) منشی عبدالعزیز صاحب ملازم دفتر نہر انبالہ ساکن دہلی قاسم جان کی گلی (۶۳) منشی ابراہیم صاحب پٹواری سنور (۶۴) منشی غلام قادر صاحب پٹواری گہنواں تحصیل سرہند (۶۵) میاں جمال دین صاحب ساکن سیکھواں (۶۶) مستری عمر بخش صاحب ساکن جلالپور جٹاں وارد جموں (۶۷) منشی گلاب دین صاحب مدرس مدرسہ زنانہ رہتاس ضلع جہلم (۶۸) میاں فضل کریم صاحب عطار ساکن سیالکوٹ (۶۹) شیخ امام الدین صاحب ساکن نوشہرہ ضلع سیالکوٹ
(۷۰ ) منشی غلام قادر صاحب فصیح سیالکوٹی (۷۱) میاں اللہ دتا صاحب ساکن رہتاس ضلع جہلم (۷۲) میاں نور احمد صاحب ساکن کھارا ضلع گورداسپورہ (۷۳) میاں محمد ٹپ گر ساکن امرتسر کٹرہ آہلو والیہ (۷۴) میاں غلام حسین صاحب ساکن رہتاس ضلع جہلم (۷۵) میاں عطا الٰہی صاحب زمیندار غوث گڑھ ریاست پٹیالہ (۷۶) بابو محکم الدین صاحب مختار امرتسر (۷۷) میاں ماہیا صاحب زمیندار غوث گڑھ ریاست پٹیالہ (۷۸) منشی عبداللہ صاحب پٹواری غوث گڈھ (۷۹) حکیم محمد اشرف صاحب خطیب بٹالہ (۸۰) مولوی تاج محمد صاحب علاقہ لودہیانہ (۸۱) میاں امیر الدین صاحب ساکن جسووال ضلع لودہیانہ (۸۲) میاں نور محمد صاحب زمیندار ساکن غوث گڑھ پٹیالہ (۸۳) میاں محمدی صاحب زمیندار غوث گڑھ ریاست پٹیالہ (۸۴) میاں شہزادہ صاحب زمیندار غوث گڑھ (۸۵) میاں کرم الٰہی صاحب ولد مادا ؍؍ ؍؍ (۸۶) میاں شاہ محمد صاحب ساکن رام جوالی مسلمانان تھانہ کتھوننگل (۸۷) چوہدری محمد سلطان صاحب ممبر کمیٹی سیالکوٹ (۸۸) سیّد محمد سعید صاحب دہلی کہڑکی فراش خانہ (۸۹) میاں اسماعیل صاحب ساکن چمارو ریاست پٹیالہ (۹۰) حکیم محمد شاہ صاحب سیالکوٹی (۹۱) حافظ عبدالرحمن صاحب امرتسری حال وارد بٹالہ (۹۲) حکیم محمد امین صاحب بٹالوی (۹۳) شیخ نور احمد صاحب مالک مطبع ریاض ہند
قابل توجہ احباب اگرچہ مکرر یاد دہانی کی کچھ ضرورت نہیں تھی لیکن چونکہ دل میں انجام خدمت دینی کے لئے سخت اضطراب ہے اس وجہ سے پھر یہ چند سطریں بطور تاکید لکھتا ہوں.اے جماعت مخلصین خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اس وقت ہمیں تمام قوموں کے ساتھ مقابلہ درپیش ہے اور ہم خدا تعالیٰ سے امید رکھتے ہیں کہ اگر ہم ہمت نہ ہاریں اور اپنے سارے دل اور سارے زور اور ساری توجہ سے خدمت اسلام میں مشغول ہوں تو فتح ہماری ہوگی.سو جہاں تک ممکن ہو اس کام کیلئے کوشش کرو.ہمیں اس وقت تین قسم کی جمعیت کی سخت ضرورت ہے.جس پر ہمارے کام اشاعت حقائق و معارف دین کا سارا مدار ہے.اول یہ کہ ہمارے ہاتھ میں کم سے کم دو پریس ہوں.دوئم ایک خوشخط کاپی نویس.سوئم کاغذ.ان تینوں مصارف کے لئے اڑھائی سو روپیہ ماہواری کا تخمینہ لگایا گیا ہے.اب چاہیئے کہ ہر ایک دوست اپنی اپنی ہمت اور مقدرت کے موافق بہت جلد بلاتوقف اس چندہ میں شریک ہو.اور یہ چندہ ہمیشہ ماہواری طور سے ایک تاریخ مقررہ پر پہنچ جانا چاہیئے.بالفعل یہ تجویز ہوئی ہے کہ بقیہ براہین اور ایک اخبار جاری ہو اور آئندہ جو جو ضرورتیں پیش آئیں گی ان کے موافق وقتًا فوقتًا رسائل نکلتے رہیں گے.اور چونکہ یہ تمام کاروبار چندہ پر موقوف ہے اس لئے اس بات کو پہلے سوچ لینا چاہیئے کہ اس قدر اپنی طرف سے چندہ مقرر کریں جو بہ سہولت ماہ بماہ پہنچ سکے.اے مردمان دین کوشش کرو کہ یہ کوشش کا وقت ہے اپنے دلوں کو دین کی ہمدردی کیلئے جوش میں لاؤ کہ یہی جوش دکھانے کے دن ہیں.اب تم خدا تعالیٰ کو کسی اور عمل سے ایسا راضی نہیں کر سکتے جیسا کہ دین کی ہمدردی سے.سو جاگو اور اٹھو اور ہوشیار ہو جاؤ اور دین کی ہمدردی کے لئے وہ قدم اٹھاؤ کہ فرشتے بھی آسمان پر جزاکم اللہ کہیں اس سے مت غمگین ہو کہ لوگ تمہیں کافر کہتے ہیں تم اپنا اسلام خدا تعالیٰ کو دکھلاؤ اور اتنے جھکو کہ بس فدا ہی ہو جاؤ.دوستان خود را نثار حضرت جانان کنید در رہِ آن یار جانی جان و دل قربان کنید آن دل خوش باش را اندر جہان جویدخوشی ازپئے دین محمد کلبۂ احزان کنید از تعیش ہا بروں آئید اے مردان حق خویشتن را از پئے اسلام سرگردان کنید
فمن تاب من بعد ظلمہ و اصلح فان اللّٰہ یتوب علیہ ان اللّٰہ غفور رحیم بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کیفیت جلسہ سالانہ قادیان ضلع گورداسپورہ تاریخ ۲۷ ؍ دسمبر ۱۸۹۲ء بر مکان جناب مجدّدِ وقت مسیح الزمان مرزا غلام احمد صاحب سلمہ الرحمن اور اس پر بندہ کی رائے جو ملاقات مرزا صاحب موصوف اور معاینہ جلسہ اور اہل جلسہ کے بعد قائم ہوئی مرزا صاحب نے مجھے بھی باوجودیکہ ان کو اچھی طرح معلوم تھا کہ میں ان کا مخالف ہوں نہ صرف مخالف بلکہ بدگو بھی اور یہ مکرّ ر سہ کرّ ر مجھ سے وقوع میں آ چکا ہے جلسہ پر بلایا اور چند خطوط جن میں ایک رجسٹری بھی تھا بھیجے.اگرچہ پیشتر بسبب جہالت اور مخالفت کے میرا ارادہ جانے کا نہ تھا لیکن مرزا صاحب کے بار بار لکھنے سے میرے دل میں ایک تحریک پیدا ہوئی.اگر مرزا صاحب اس قدر شفقت سے نہ لکھتے تو میں ہرگز نہ جاتا اور محروم رہتا.مگر یہ انہیں کا حوصلہ تھا.آج کل کے مولوی تو اپنے سگے باپ سے بھی اس شفقت اور عزت سے پیش نہیں آتے.میں ۲۷ ؍ تاریخ کو دوپہر سے پہلے قادیان میں پہنچا.اس وقت مولوی حکیم نور الدین صاحب مرزا صاحب کی تائید میں بیان کر رہے تھے اور قریب ختم کے تھا.افسوس کہ میں نے پورا نہ سنا.لوگوں سے سنا کہ بہت عمدہ بیان تھا.پھر حامد شاہ صاحب نے اپنے اشعار مرزا صاحب کی صداقت اور تعریف میں پڑھے.لیکن چونکہ مجھے ہنوز رغبت نہیں تھی اور میرا دل غبار آلودہ تھا کچھ شوق اور محبت سے نہیں سنا.لیکن اشعار عمدہ تھے.اللہ تعالیٰ مصنّف کو جزائے خیر عنایت فرماوے.جب میں مرزا صاحب سے ملا اور وہ اخلاق سے پیش آئے تو میرا دل نرم ہوا گویا مرزا صاحب کی نظر سرمہ کی سلائی تھی جس سے غبار کدورت میرے دل کی آنکھوں سے دور ہوگیا اور غیظ و غضب کے نزلہ کا
پانی خشک ہونے لگا اور کچھ کچھ دھندلا سا مجھے حق نظر آنا شروع ہوا اور رفتہ رفتہ باطنی بینائی درست ہوئی.مرزا صاحب کے سوا اور کئی بھائی اس جلسہ میں ایسے تھے کہ جن کو میں حقارت اور عداوت سے دیکھتا تھا اب ان کو محبت اور الفت سے دیکھنے لگا اور یہ حال ہوا کہ کل اہل جلسہ میں جو مرزا صاحب کے زیادہ محب تھے وہ مجھے بھی زیادہ عزیز معلوم ہونے لگے.بعد عصر مرزا صاحب نے کچھ بیان فرمایا جس کے سننے سے میر ے تمام شبہات رفع ہوگئے اور آنکھیں کھل گئیں.دوسرے روز صبح کے وقت ایک امرتسری وکیل صاحب نے اپنا عجیب قصہ سنایا جس سے مرزا صاحب کی اعلیٰ درجہ کی کرامت ثابت ہوئی.جس کا خلاصہ یہ ہے کہ وکیل صاحب پہلے سنت جماعت مسلمان تھے.جب جوان ہوئے رسمی علم پڑھا تو دل میں بسبب مذہبی علم سے ناواقفیّت اور علمائے وقت وپیرانِ زمانہ کے باعمل نہ ہونے کے شبہات پیدا ہوئے اور تسلی بخش جواب کہیں سے نہ ملنے کے باعث سے چند بار مذہب تبدیل کیا.ُ سنّی سے شیعہ بنے وہاں بجز تبرّا بازی اور تعزیہ سازی کچھ نظر نہ آیا.آریہ ہوئے چند روز وہاں کا مزا بھی چکھا.مگر لطف نہ آیا.برہمو میں شامل ہوئے.ان کا طریق اختیار کیا.لیکن وہاں بھی مزا نہ پایا.نیچری بنے لیکن اندرونی صفائی یا خدا کی محبت.کچھ نورانیت کہیں بھی نظر نہ آئی.آخر مرزا صاحب سے ملے اور بہت بیباکانہ پیش آئے.مگر مرزا صاحب نے لطف سے مہربانی سے کلام کیا.اور ایسا اچھا نمونہ دکھایا کہ آخرکار اسلام پر پورے پورے جم گئے اور نمازی بھی ہوگئے.اللہ و رسولؐ کے تابعدار بن گئے.اب مرزا صاحب کے بڑے معتقد ہیں.رات کو مرزا صاحب نے نواب صاحب ۱ کے مقام پر بہت عمدہ تقریر کی اور چند اپنے خواب اور الہام بیان فرمائے.چند لوگوں نے صداقت الہام کی گواہیاں دیں جنکے روبرو وہ الہام پورے ہوئے.ایک صاحب نے صبح کو بعد نماز صبح عبداللہ صاحب غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک خواب سنایا.جبکہ عبداللہ صاحب خَیردی گاؤں میں تشریف ۱ نواب صاحب مالیر کوٹلہ جو اُس وقت مع چنداپنے ہمراہیان کے شریک جلسہ تھے.۱۲
رکھتے تھے.عبداللہ صاحب نے فرمایا ہم نے محمد حسین بٹالوی کو ایک لمبا کرتہ پہنے دیکھا اور وہ کرتہ پارہ پارہ ہوگیا.یہ بھی عبداللہ صاحب نے فرمایا تھا کہُ کرتے سے مراد علم ہے.آگے پارہ پارہ ہونے سے عقلمند خود سمجھ سکتا ہے کہ گویا علم کی پردہ دری مراد ہے جو آجکل ہو رہی ہے اور معلوم نہیں کہ کہاں تک ہوگی.جو اللہ کے ولی کو ستاتا ہے گویا اللہ تعالیٰ سے لڑتا ہے.آخر پچھڑے گا.اب مجھے بخوبی ثابت ہوا کہ وہ لوگ بڑے بے انصاف ہیں جو بغیر ملاقات اور گفتگو کے مرزا صاحب کو دور سے بیٹھے دجال کذاب بنا رہے ہیں اور ان کے کلام کے غلط معنے گھڑ رہے ہیں یا کسی دوسرے کی تعلیم کو بغیر تفتیش مان لیتے ہیں اور مرزا صاحب سے اس کی بابت تحقیق نہیں کرتے.مرزا صاحب جو آسمانی شہد اُگل رہے ہیں اس کو وہ شیطانی زہر بتاتے ہیں اور بسبب سخت قلبی اور حجاب عداوت کے دور ہی سے گلاب کو پیشاب کہتے ہیں اور عوام اپنے خواص کے تابع ہو کر اس کے کھانے پینے سے باز رہتے ہیں اور اپنا سراسر نقصان کرتے ہیں.سب سے بڑھ کر اس عاجز کے قدیمی دوست یا پرانے مقتدا مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی لوگوں کو مرزا صاحب سے ہٹانے اور نفرت دلانے میں مصروف ہیں جن کو پہلے پہل مرزا صاحب سے بندہ نے بدظن کیا تھا جس کے عوض میں اس دفعہ انہوں نے مجھ بہکایا اور صراط مستقیم سے جدا کر دیا.چلو برابر ہوگئے.مگر مولوی صاحب ہنوز درپے ہیں.اب جو جلسہ پر مرزا صاحب نے مجھے طلب کیا تو مولوی صاحب کو بھی ایک مخبر نے خبر دی.انہوں نے اپنے وکیل کی معرفت مجھے ایک خط لکھا جس میں ناصح مشفق نے مرزا صاحب کو اس قدر بُرا بھلا لکھا اور ایسے ناشائستہ الفاظ قلم سے نکالے کہ جن کا اعادہ کرتے ہوئے شرم آتی ہے.مولوی صاحب نے یہ بھی لحاظ نہ کیا کہ علاوہ بزرگ ہونے کے مرزا صاحب میرے کس قدر قریبی رشتہ دار ہیں پھر دعویٰ محبت ہے.افسوس.اس جلسہ پر تین سو سے زیادہ شریف اور نیک لوگ جمع تھے جن کے چہروں سے مسلمانی نور ٹپک رہا تھا امیر، غریب، نواب، انجینئر، تھانہ دار، تحصیلدار، زمیندار، سوداگر، حکیم،غرض ہر قسم کے لوگ تھے.ہاں چند مولوی بھی تھے مگر مسکین مولوی.مولوی کے ساتھ مسکین اور منکسر کا لفظ یہ مرزا صاحب کی کرامت ہے کہ مرزا صاحب سے مل کر مولوی بھی مسکین بن جاتے ہیں ورنہ آجکل مسکین مولوی اور بدعات سے
بچنے والا صوفی کبریت احمر اور کیمیائے سعادت کا حکم رکھتا ہے.مولوی محمد حسین صاحب اپنے دل میں غور فرما کر دیکھیں کہ وہ کہاں تک مسکینی سے تعلق رکھتے ہیں.ہرگز نہیں.ان میں اگر مسکینی ہوتی تو اس قدر فساد ہی کیوں ہوتا.یہ نوبت بھی کیوں گذرتی.اس قدر ان کے متبعین کو ان سے عداوت اور نفرت کیوں ہوتی.اہلحدیث اکثر ان سے بیزار کیوں ہو جاتے.اگر مولوی صاحب اس میرے بیان کو غلط خیال فرماویں تو میں انہیں پر حوالہ کرتا ہوں.انصافًا و ایمانًا اپنے احباب کی ایک فہرست تو لکھ کر چھپوا دیں کہ جو اُن سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسا کہ مرزا صاحب کے مرید مرزا صاحب سے محبت رکھتے ہیں.مجھے قیافہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ وقت عنقریب ہے کہ جناب مرزا صاحب کی خاکِ پا کو اہل بصیرت آنکھوں میں جگہ دیں اور اکسیر سے بہتر سمجھیں اور تبرک خیال کریں.مرزا صاحب کے سینکڑوں ایسے صادق دوست ہیں جو مرزا صاحب پر دل و جان سے قربان ہیں.اختلاف کا تو کیا ذکر ہے.روبرو اُف تک نہیں کرتے سرتسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے.مولوی محمد حسین صاحب زیادہ نہیں چار پانچ آدمی تو ایسے اپنے شاگرد یا دوست بتا ویں جو پوری پوری (خدا کے واسطے) مولوی صاحب سے محبت رکھتے ہوں اور دل و جان سے فدا ہوں اور اپنے مال کو مولوی صاحب پر قربان کر دیں اور اپنی عزت کو مولوی صاحب کی عزت پر نثار کرنے کیلئے مستعد ہوں.اگر مولوی صاحب یہ فرماویں کہ سچوں اور نیکوں سے لوگوں کو محبت نہیں ہوتی بلکہ جھوٹے اور مکاروں سے لوگوں کو اُلفت ہوتی ہے تو میں پوچھتا ہوں کہ اصحاب و اہل بیت کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت تھی یا نہیں.وہ حضرت کے پورے پورے تابع تھے یا ان کو اختلاف تھا.بہت نزدیک کی ایک بات یاد دلاتا ہوں کہ مولوی عبداللہ صاحب غزنوی جو میرے اور نیز محمد حسین صاحب کے پیر و مرشد تھے.اُن کے مرید اُن سے کس قدر محبت رکھتے تھے اور کس قدر اُن کے تابع فرمان تھے.سنا ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے اپنے ایک خاص مرید کو کہا کہ تم نجد واقعہ ملک عرب میں جاکر رسائل توحید مصنّفہ محمد بن عبدالوہاب نقل کر لاؤ.وہ مرید فوراً رخصت ہوا.ایک دم کا بھی توقف نہ کیا.حالانکہ خرچ راہ و سواری بھی اس کے پاس نہ تھا.مولوی محمد حسین صاحب اگر اپنے کسی دوست کو بازار سے پیسہ دے کر دہی لانے کو فرماویں تو شاید
منظو ر نہ کرے.اور اگر منظور کرے تو ناراض ہو کر اور شاید غیبت میں لوگوں سے گلہ بھی کرے.ع.ببیں تفاوتِ رہ از کجا است تا بکجا.یہ نمونہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے.ہر صدی میں ہزاروں اولیاء (جن پر ان کے زمانہ میں کفر کے فتوے بھی ہوتے رہے ہیں) گذرے ہیں.اور کم و بیش ان کے مرید ان کے فرمانبردار اور جان نثار ہوئے ہیں.یہ نتیجہ ہے نیکوں کی خدا کے ساتھ دلی محبت کا.مرزا صاحب کو چونکہ سچی محبت اپنے مولا سے ہے اس لئے آسمان سے قبولیّت اتری ہے اور رفتہ رفتہ باوجود مولویوں کی سخت مخالفت کے سعید لوگوں کے دلوں میں مرزا صاحب کی الفت ترقی کرتی جا رہی ہے (اگرچہ ابو سعید صاحب خفا ہی کیوں نہ ہوں) اب اس کے مقابل میں مولوی صاحب جو آج ماشاء اللہ آفتاب پنجاب بنے ہوئے ہیں اپنے حال میں غور فرماویں کہ کس قدر سچے محب ان کے ہیں اور ان کے سچے دوستوں کا اندرونی کیا حال ہے.شروع شروع میں کہتے ہیں مولوی صاحب کبھی اچھے شخص تھے مگر اب تو انہیں ُ حبِّ جَاہ اور علم و فضل کے فخر نے عرشِ عزت سے خاکِ مذلت پر گرا دیا.ا نّا للّٰہ و ا نّا الیہ راجعون.اب مولوی صاحب غور فرماویں کہ یہ کیا پتھر پڑ گئے کہ مولوی اور خصوصاً مولوی محمد حسین صاحب سرآمد علماء پنجاب (بزعم خود) سے لوگوں کو اس قدر نفرت کہ جس کے باعث مولوی صاحب کو لاہور چھوڑنا پڑا.موحدین کی جامع مسجد میں اگر اتفاقاً لاہور میں تشریف لے جاویں تو مارے ضد اور شرم کے داخل نہیں ہو سکتے.اور مرزا صاحب کے پاس (جو بزعم مولوی صاحب کافر بلکہ اکفر اور دجّال ہیں).گھر بیٹھے لاہور، امرتسر، پشاور، کشمیر، جموں، سیالکوٹ، کپورتھلہ، لدھیانہ، بمبئی، ممالک شمال و مغرب، اودھ، مکہ معظمہ وغیرہ بلاد سے لوگ گھر سے بوریا بدھنا باندھے چلے آتے ہیں.پھر آنے والے بدعتی نہیں.مشرک نہیں.جاہل نہیں.کنگال نہیں.بلکہ موحد.اہلحدیث.مولوی.مفتی.پیرزادے.شریف.امیر.نواب.وکیل.اب ذرا سوچنے کا مقام ہے کہ باوجود مولوی محمد حسین کے گرانے کے اور اکثر مولویوں سے کفر کے فتوے پر مہریں لگوانے کے اللہ جلّ شانہٗ نے مرزا صاحب کو کس قدر چڑھایا اور کس قدر
خلق خدا کے دلوں کو متوجہ کر دیا کہ اپنا آرام چھوڑ کر.وطن سے جدا ہو کر.روپیہ خرچ کر کے قادیان میں آکر زمین پر سوتے بلکہ ریل میں ایک دو رات جاگے بھی ضرور ہوں گے اور کئی پیادہ چل کر بھی حاضر ہوئے.میں نے ایک شخص کے بھی منہ سے کسی قسم کی شکایت نہیں سنی.مرزا صاحب کے گرد ایسے جمع ہوتے تھے جیسے شمع کے گرد پروانے.جب مرزا صاحب کچھ فرماتے تھے تو ہمہ تن گوش ہو جاتے تھے.قریباً چالیس پچاس شخص اس جلسہ پر مرید ہوئے.مرزا احمد بیگ کے انتقال کی پیشگوئی کے پورے ہونے کا ذکر بھی مرزا صاحب نے ساری خلقت کے روبرو سنایا جس کے بارے میں نور افشاں نے مرزا صاحب کو بہت کچھ برا بھلا کہا تھا.اب نور افشاں خیال کرے کہ پیشگوئیاں اس طرح پوری ہوتی ہیں.یہ بات بجز اہل اسلام کے کسی دین والے کو آجکل حاصل نہیں اور مسلمان خصوصاً مخالفین سوچیں کہ یہ خوب بات ہے کہ کافر اکفر.دجال.مکار کی پیشگوئیاں باوجودیکہ اللہ تعالیٰ پر افتراؤں کی طومار باندھ رہا ہے اللہ تعالیٰ پوری کر دے اور رسول اللہ صلعم کے (بزعمِ خود) نائبین کی باتوں میں خاک بھی اثر نہ دے اور ان کو ایسا ذلیل کرے کہ لاہور چھوڑ کر بٹالہ میں آنا پڑے.افسوس صد افسوس آجکل کے ان مولویوں کی نابینائی پر جو العلم حجاب الاکبر کے نیچے دبے پڑے ہیں اور بایں وجہ ایک ایسے برگزیدہ بندہ کا نام دجال و کافر رکھتے ہیں جس کی اللہ تعالیٰ کو ایسی محبت ہے کہ دین کی خدمت پر مقرر کر رکھا ہے اور وہ بندۂ خدا آریہ ، برہمو ، عیسائیوں ، نیچریوں سے لڑ رہا ہے.کوئی کافر تاب مقابلہ نہیں لا سکتا.نہ کوئی مولوی باوجود کافر ، ملعون ، دجال بنانے کے خلقت کے دلوں کو ان کی طرف سے ہٹا سکتا ہے.معاذاللہ، عصاء موسیٰ و ید بیضا کو بزعم خود مولویان پسپا اور رسوا کر رہا ہے.نائبین رسول مقبول میں کوئی برکت کچھ نورانیت نہیں رہی.اتنا بھی سلیقہ نہیں کہ اپنے چند شاگردوں کو بھی قابو میں رکھ سکیں اور خلق محمدی کا نمونہ دکھا کر اپنا شیفتہ بنالیں.کسی ملک میں ہدایت پھیلانا اور مخالفین اسلام کو زیر کرنا تو درکنار ایک شہر بلکہ ایک محلہ کو بھی درست نہیں کر سکتے.برخلاف اس کے مرزا صاحب نے شرقًا غربًا مخالفین اسلام کو دعوت اسلام کی اور ایسا نیچا
کر دکھایا کہ کوئی مقابل آنے جوگا نہیں رہا.اکثر نیچریوں کو جو مولوی صاحبان سے ہرگز اصلاح پر نہیں آ سکے توبہ کرائی اور پنجاب سے نیچریت کا اثر بہت کم کر دیا.اب وہی نیچری ہیں جو مسلمان صورت بھی نہیں تھے مرزا صاحب کے ملنے سے مومن سیرت ہوگئے.اہلکاروں، تھانہ داروں نے رشوتیں لینی چھوڑ دیں.نشہ بازوں نے نشے ترک کر دئیے.کئی لوگوں نے حقہ ترک کر دیا.مرزا صاحب کے شیعہ ۱ مریدوں نے تبرّا ترک کر دیا.صحابہ سے محبت کرنے لگے.تعزیہ داری، مرثیہ خوانی موقوف کر دی.بعض پیر زادے جو مولوی محمد حسین بٹالوی بلکہ محمد اسماعیل شہید کو بھی کافر سمجھتے تھے مرزا صاحب کے معتقد ہونے کے بعد مولانا اسماعیل شہید کو اپنا پیشوا اور بزرگ سمجھنے لگے.اگر یہ تاثیریں دجّالین.کذّابین میں ہوتی ہیں اور نائبین رسول مقبول نیک تاثیروں سے محروم ہیں تو بصد خوشی ہمیں دجالی ہونا منظور ہے.پھلوں ہی سے تو درخت پہچانا جاتا ہے اللہ تعالیٰ کو بھی لوگوں نے صفات سے پہچانا.ورنہ اس کی ذات کسی کو نظر نہیں آتی.کسی تندرست ہٹے کٹے کا نام اگر بیمار رکھ دیں تو واقعی وہ بیمار نہیں ہو سکتا.اسی طرح جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مومن پاکباز ہے اور جس کے دل میں اللہ اور رسولؐ کی محبت ہے اس کو کوئی منافق، کافر، دجال وغیرہ لقب دے تو کیا حرج ہے.سفید کسی کے کالا کہنے سے کالا نہیں ہو سکتا.اور چمگادڑ کی دشمنی سے آفتاب لائق مذمت نہیں.یزیدی عملداری سے حسینی گروہ اگرچہ تکالیف تو پا سکتا ہے مگر نابود نہیں ہو سکتا.رفتہ رفتہ تکالیف برداشت کر کے ترقی کرے گا اور کرتا جاتا ہے.یعنی مولویوں کے سدّ راہ ہونے سے مرزا صاحب کا گروہ مٹ نہیں سکتا بلکہ ایسا حال ہے جیسا دریا میں بندھ باندھنے سے دریا رک نہیں سکتا لیکن چند روز رُکا معلوم ہوتا ہے آخر بند ٹوٹے گا اور نہایت زور سے دریا بہہ نکلے گا.اور آس پاس کے مخالفین کی بستیوں کو بہا لے جاوے گا.آندھی اور ابر سورج کو چھپا نہیں سکتے.خود ہی چند روز میں گم ہو جاتے ہیں.اسی طرح چند روز میں یہ غل غپاڑہ فرو ہو جائے گا اور مرزا صاحب کی صداقت کا سورج چمکتا ہوا نکل آوے گا.پھر نیک بخت تو افسوس کر کے مرزا صاحب سے ۱ یعنی چند مرید مرزا صاحب کے ایسے بھی ہیں جو پہلے شیعہ مذہب رکھتے تھے.
موا فق ہو جاویں گے اور پچھلی غلطی پر پچھتاویں گے اور مرزا صاحب کی کشتی میں جو مثل سفینہ نوح علیہ السلام کے ہے سوار ہو جائیں گے.لیکن بدنصیب اپنے مولویوں کے مکر اور غلط بیانی کے پہاڑوں پر چڑھ کر جان بچانا چاہیں گے.مگر ایک ہی موج میں غرق بحر ضلالت ہو کر فنا ہو جاویں گے.یا الٰہی ہمیں اپنی پناہ میں رکھ اور فہم کامل عنایت فرما.امت محمدیؐ کا تو ہی نگہبان ہے.حجابوں کو اٹھا دے.صداقت کو ظاہر فرما دے.مسلمانوں کو اختلاف سے راہ راست پر لگا دے.آمین یا ربّ العالمین.العلم حجاب الاکبر جو مشہور قول ہے اس کی صداقت آج کل بخوبی ظاہر ہو رہی ہے.پہلے اس قول سے مجھے اتفاق نہ تھا.لیکن اب اس پر پورا یقین ہوگیا.جس قدر مرزا صاحب کے مخالف مولوی ہیں اس قدر اور کوئی نہیں.بلکہ اوروں کو عالموں ہی نے بہکایا ہے ورنہ آج تک ہزاروں بیعت کرلیتے.اور ایک جم غفیر مرزا صاحب کے ساتھ ہو جاتا لیکن مخالفت کا ہونا کچھ تعجب نہیں کیونکہ اگر ایسا زمانہ جس میں اس قسم کے فساد ہیں جس کی نظیر پچھلی صدیوں میں نامعلوم ہے نہ آتا تو ایسا مصلح بھی کیوں پیدا ہوتا.دجّال ہی کے قتل کو عیسیٰ تشریف لائے ہیں.اگر دجّال نہ ہوتا تو عیسیٰ کا آنا محال تھا.اور دنیا گمراہ نہ ہو جاتی تو مہدی کی کیا ضرورت تھی.اللہ تعالیٰ ہر ایک کام کو اس کے وقت پر کرتا ہے.یا اللہ تو ہمیں اپنے رسولؐ کی اپنے اولیاء کی محبت عنایت کر اور بے یقینی اور تردّدات سے امان بخش.صادقین کے ساتھ ہمیں الفت دے.کاذبوں سے پناہ میں رکھ.ہماری انانیت دور کر دے اور حرص و ہوا سے نجات بخش.آمین یا رب العالمین.راقم.ناصر نواب تاریخ ۲؍ جنوری ۱۸۹۳ ء اشعار مصنفہ مولوی محمد عبداللہ خاں صاحب دوم مدرّس عربی مہندر کالج پٹیالہ دل میں جس شخص کے کچھ نور صفا ہوتا ہے حق کی وہ بات پہ سو جاں سے فدا ہوتا ہے حق کی جانب جو وہ ہر وقت جھکا ہوتا ہے لوم لائم سے نہ خوف اس کو ذرا ہوتا ہے دیکھنے والے یہ کہتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے ان کو کہہ دو کہ یونہی فضل خدا ہوتا ہے
ضمیمہ اخبار ریاض ہند امرتسر مطبوعہ یکم مارچ ۱۸۸۶ء بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم جان و د لم فد ا ئے جما ل محمدؐ ا ست خاکم نثار کوچۂ آل محمدؐ است دیدم بعین قلب و شنیدم بگوش ہوش در ہر مکان ندائے جلال محمدؐ است این چشمۂ روان کہ بخلق خدا دہم یک قطرۂ ز بحر کمال محمدؐ است این آتشم زآتش مہر محمدؐیست و این آب من ز آب زلال محمدؐ است رسالہ سراج منیر مشتمل بر نشانہائے رب قدیر یہ رسالہ اس احقر (مؤلف براہین احمدیہ) نے اس غرض سے تالیف کرنا چاہا ہے کہ تا منکرین حقیّت اسلام و مکذبین رسالت حضرت خیرالانام علیہ و آلہ الف الف سلام.کی آنکھوں کے آگے ایک ایسا چمکتا ہوا چراغ رکھا جائے جس کی ہرایک سمت سے گوہر آبدار کی طرح روشنی نکل رہی ہے اور بڑی بڑی پیشگوئیوں پر جو ہنوز وقوع میں نہیں آئیں مشتمل ہے چنانچہ خود خداوند کریم جلّ شانہٗ و عز اسمہ نے جس کو پوشیدہ بھیدوں کی خبر ہے.اس ناکارہ کو بعض اسرار مخفیہ و اخبار غیبیہ پر مطلع کر کے بارعظیم سے سبکدوش فرمایا حقیقت میں اسی کا فضل ہے اور اسی کا کام جس نے چار طرفہ کشاکش مخالفوں و موافقوں سے اس ناچیز کوَ مخلصی بخشی.ع.قصہ کوتہ کرد ورنہ درد سر بسیار بود.اب یہ رسالہ قریب الاختتام ہے اور انشاء اللہ القدیر صرف چند ہفتوں کا کام ہے.* اور اس رسالہ میں تین قسم کی پیشگوئیاں ہیں.اول وہ پیشگوئیاں کہ جو خود اس احقر کی ذات سے تعلق رکھتی ہیں یعنے جو کچھ راحت یا رنج یا حیات یا وفات اس ناچیز سے متعلق ہے یا جو کچھ تفضلات و انعامات الٰہیہ کا وعدہ اس ناچیز کو دیا گیا ہے وہ ان پیشگوئیوں میں مندرج ہے.دوسری وہ پیشگوئیاں جو بعض احباب یا عام طور پر کسی ایک شخص یا بنی نوع سے متعلق ہیں اور ان میں سے ابھی کچھ کام باقی ہے اور اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو وہ بقیہ بھی طے ہو جاوے گا.تیسری وہ پیشگوئیاں جو مذاہب غیر کے پیشواؤں یا واعظوں یا ممبروں سے تعلق رکھتی ہیں اور اس قسم میں ہم نے صرف بطور نمونہ چند آدمی آریہ صاحبوں اور چند قادیان کے ہندوؤں کو لیا ہے جن کی نسبت مختلف قسم کی پیشگوئیاں ہیں کیونکہ انہیں میں آجکل نئی نئی تیزی اور انکا ر اشد پایا جاتا ہے اور ہمیں اس تقریب پر یہ بھی خیال ہے کہ خداوند کریم ہماری محسن گورنمنٹ انگلشیہ کو جس کے احسانات سے ہم کو بتمام تر فراغت و آزادی گوشہ خلوت میسر و کنج امن و آسائش حاصل ہے ظالموں کے ہاتھ سے اپنی حفظ و حمایت میں رکھے اور روس منحوس کو اپنی سرگردانیوں میں محبوس و معکوس و مبتلا کر کے ہماری گورنمنٹ کو فتح و نصرت نصیب کرے تاہم وہ بشارتیں بھی (اگر مل جائیں) اس عمدہ موقع پر درج رسالہ کر دیں انشاء اللہ تعالیٰ اور چونکہ پیشگوئیاں کوئی اختیاری بات نہیں ہے تا ہمیشہ اور ہر حال میں خوشخبری پر دلالت کریں اس لئے ہم بانکسار تمام اپنے موافقین و مخالفین کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ اگر وہ کسی پیشگوئی کو اپنی نسبت ناگوار طبع (جیسے خبر موت فوت یا کسی اور مصیبت کی نسبت) پاویں تو اس بندہ ناچیز کو معذور تصور فرماویں بالخصوص وہ صاحب جو بباعث مخالفت و مغایرت مذہب اور بوجہ نامحرم اسرار ہونے کے حسن ظن کی طرف بمشکل رجوع کر سکتے ہیں جیسے منشی اندرمن صاحب * یہ رسالہ بعض مصالح کی وجہ سے اب تک ۲۵ فروری ۱۸۹۳ء ہے چھپ نہیں سکا مگر متفرق طور پر اس کی بعض پیشگوئیاں شائع ہوتی رہی ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی شائع ہوتی رہیں گی.منہ
مراد آبادی و پنڈت لیکھرام صاحب پشاوری وغیرہ جن کی قضا و قدر کے متعلق غالباً اس رسالہ میں بقید وقت و تاریخ کچھ تحریر ہوگا.ان صاحبوں کی خدمت میں دلی صدق سے ہم گذارش کرتے ہیں کہ ہمیں فی الحقیقت کسی کی بدخواہی دل میں نہیں بلکہ ہمارا خداوند کریم خوب جانتا ہے کہ ہم سب کی بھلائی چاہتے ہیں اور بدی کی جگہ نیکی کرنے کو مستعد ہیں اور بنی نوع کی ہمدردی سے ہمارا سینہ منور و معمور ہے اور سب کے لئے ہم راحت و عافیت کے خواستگار ہیں لیکن جو بات کسی موافق یا مخالف کی نسبت یا خود ہماری نسبت کچھ رنجدہ ہو تو ہم اس میں بکلی مجبور و معذور ہیں.ہاں ایسی بات کے دروغ نکلنے کے بعد جو کسی دل کے دُکھنے کا موجب ٹھہرے.ہم سخت لعن و طعن کے لائق بلکہ سزا کے مستوجب ٹھہریں گے.ہم قسمیہ بیان کرتے ہیں اور عالم الغیب کو گواہ رکھ کر کہتے ہیں کہ ہمارا سینہ سراسر نیک نیتی سے بھرا ہوا ہے اور ہمیں کسی فرد بشر سے عداوت نہیں اور گو کوئی بدظنی کی راہ سے کیسی ہی بدگوئی و بد زبانی کی مشق کر رہا ہے اور نا خدا ترسی سے ہمیں آزار دے رہا ہے ہم پھر بھی اس کے حق میں دعا ہی کرتے ہیں کہ اے خدائے قادر و توانا اس کو سمجھ بخش اور ہم اس کو اس کے ناپاک خیال اور ناگفتنی باتوں میں معذور سمجھتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ابھی اس کا مادہ ہی ایسا ہے اور ہنوز اُس کی سمجھ اور نظر اسی قدر ہے کہ جو حقائق عالیہ تک نہیں پہنچ سکتی.زاہد ظاہر پرست از حال ما آگاہ نیست در حق ما ہرچہ گوید جائے ہیچ اکراہ نیست اور باوجود اس رحمت عام کے کہ جو فطرتی طور پر خدائے بزرگ و برتر نے ہمارے وجود میں رکھی ہے اگر کسی کی نسبت کوئی بات نا ملائم یا کوئی پیشگوئی وحشت ناک بذریعہ الہام ہم پر ظاہر ہو تو وہ عالم مجبوری ہے جس کو ہم غم سے بھری ہوئی طبیعت کے ساتھ اپنے رسالہ میں تحریر کریں گے.چنانچہ ہم پر خود اپنی نسبت اپنے بعض جدّی اقارب کی نسبت اپنے بعض دوستوں کی نسبت اور بعض اپنے فلاسفر قومی بھائیوں کی نسبت کہ گویا نجم الہند ہیں اور ایک دیسی امیر نووارد پنجابی الاصل کی نسبت بعض متوحش خبریں جو کسی کے ابتلاء اور کسی کی موت و فوت اعزا اور کسی کی خود اپنی موت پر دلالت کرتی ہیں جو انشاء اللہ القدیر بعد تصفیہ لکھی جائیں گی منجانب اللہ منکشف ہوئی ہیں.اور ہر ایک کے لئے ہم دعا کرتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر تقدیر معلق ہو تو دعاؤں سے بفضلہ تعالیٰ ٹل سکتی ہے.اسی لئے رجوع کرنے والی مصیبتوں کے وقت مقبولوں کی طرف رجوع کرتے ہیں اور شوخیوں اور بے راہیوں سے باز آجاتے ہیں- بااین ہمہ اگر کسی صاحب پر کوئی ایسی پیشگوئی شاق گذرے تو وہ مجاز ہیں کہ یکم مارچ ۱۸۸۶ ء سے یا اس تاریخ سے جو کسی اخبار میں پہلی دفعہ یہ مضمون شائع ہو ٹھیک ٹھیک دو ہفتہ کے اندر اپنی دستخطی تحریر سے مجھ کو اطلاع دیں تا وہ پیشگوئی جس کے ظہور سے وہ ڈرتے ہیں،اندراج رسالہ سے علیحدہ رکھی جاوے اور موجب دل آزاری سمجھ کر کسی کو اس پر مطلع نہ کیا جائے اور کسی کو اس کے وقت ظہور سے خبر نہ دی جائے.
ان ہر سہ قسم کی پیشگوئیوں میں سے جو انشاء اللہ رسالہ میں بہ بسط تمام درج ہوں گی.پہلی پیشگوئی جو خود اس احقر سے متعلق ہے.آج ۲۰ فروری ۱۸۸۶ ء میں جو مطابق پندرہ جمادی الاوّل ہے برعایت ایجاز و اختصار کلمات الہامیہ نمونہ کے طور پر لکھی جاتی ہے اور مفصل رسالہ میں درج ہوگی، انشاء اللہ تعالیٰ.پہلی پیشگوئی بالہام اللہ تعالیٰ و اعلامہ عزّوجلّ.خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے جو ہر یک چیز پر قادر ہے (جلّ شانہٗ و عزّاسمہ) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایاکہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا.سو میں نے تیری تضرّعات کو سنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بپایہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو (جو ہوشیارپور اور لدھیانہ کا سفر ہے) تیرے لئے مبارک کر دیا سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے.فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے.اے مظفر تجھ پر سلام.خدا نے یہ کہا.تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیٰؐ کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے.سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا.ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا.وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذر ّ یت و نسل ہوگا.خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اس کا نام عنموائیل اور بشیر بھی ہے اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے وہ نور اللہ ہے مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے ُ پر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ.فرزند دلبند گرامی ارجمند مظہر الاوّل والآخر مظہر الحق و العلاء کان اللّٰہ نزل من السماء جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا.و کان امرًا مقضیًّا.پھر خدائے کریم جلّ شانہٗ نے مجھے بشارت دیکر کہا کہ تیرا گھر برکت
سے بھرے گا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا تیری نسل بہت ہوگی اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی اور ہر یک شاخ تیرے جدی بھائیوں کی کاٹی جائے گی اور وہ جلد لاولد رہ کر ختم ہو جائے گی.اگر وہ توبہ نہ کریں گے تو خدا ان پر بلا پر بلا نازل کرے گا یہاں تک کہ وہ نابود ہو جائیں گے ان کے گھر بیواؤں سے بھر جائیں گے اور ان کی دیواروں پر غضب نازل ہوگا.لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدا رحم کے ساتھ رجوع کرے گا.خدا تیری برکتیں اردگرد پھیلائے گا اور ایک اجڑا ہوا گھر تجھ سے آباد کرے گا.اور ایک ڈراؤنا گھر برکتوں سے بھر دے گا.* تیری ذریت منقطع نہیں ہوگی اور آخری دنوں تک سرسبز رہے گی.خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے.عزت کے ساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا.میں تجھے اٹھاؤں گا اور اپنی طرف بلاؤں گا.پر تیرا نام صفحہ زمین سے کبھی نہیں اٹھے گا اور ایسا ہوگا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے ناکام رہنے کے در پے اور تیرے نابود کرنے کے خیال میں ہیں *نوٹ:یہ ایک پیشگوئی کی طرف اشارہ ہے جو دہم جولائی ۱۸۸۸ ء کے اشتہار میں شائع ہوچکی جس کا ماحصل یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس عاجز کے مخالف اور منکر رشتہ داروں کے حق میں نشان کے طور پر پیشگوئی ظاہر کی ہے کہ ان میں سے جو ایک شخص احمد بیگ نام ہے اگر وہ اپنی بڑی لڑکی اس عاجز کو نہیں دے گا تو تین برس کے عرصہ تک بلکہ اس سے قریب فوت ہو جائے گا اور وہ جو نکاح کرے گا وہ روز نکاح سے اڑھائی برس کے عرصہ میں فوت ہوگا اور آخر وہ عورت اس عاجز کی بیویوں میں داخل ہوگی.سو اس جگہ اجڑے ہوئے گھر سے وہ اجڑا ہوا گھر مراد ہے.منہ وہ خود ناکام رہیں گے اور ناکامی اور نامرادی میں مریں گے لیکن خدا تجھے بکلی کامیاب کرے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا.میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور انکے نفوس و اموال میں برکت دوں گا اور ان میں کثرت بخشوں گا اور وہ مسلمانوں کے اس دوسرے گروہ پر تا بروز قیامت غالب رہیں گے جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے خدا انہیں نہیں بھولے گا اور فراموش نہیں کرے گا اور وہ علیٰ حسب الاخلاص اپنا اپنا اجر پائیں گے.تو مجھ سے ایسا ہے جیسے انبیاء بنی اسرائیل (یعنی ظلّی *طور پر ان سے مشابہت رکھتا ہے) تو مجھ سے ایسا ہے جیسی میری توحید.تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں اور وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دلوں میں تیری محبت ڈالے گا یہاں تک کہ وہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اے منکرو اور حق کے مخالفو اگر تم میرے بندہ کی نسبت شک میں ہو.اگر تمہیں اس فضل و احسان سے کچھ انکار ہے جو ہم نے اپنے بندہ پر کیا تو اس نشان رحمت کی مانند تم بھی اپنی نسبت کوئی سچا نشان پیش کرو اگر تم سچے ہو.اور اگر تم پیش نہ کر سکو اور یاد رکھو کہ ہرگز پیش نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو کہ جو نافرمانوں اور جھوٹوں اور حد سے بڑھنے والوں کیلئے تیار ہے.فقط * حاشیہ : امتی کا کمال یہی ہے کہ اپنے نبی متبوع سے بلکہ تمام انبیاء متبوعین علیہم السلام سے مشابہت پیدا کرے.یہی کامل اتباع کی حقیقت اور علت غائی ہے جس کیلئے سورہ فاتحہ میں دعا کرنے کیلئے ہم لوگ مامور ہیں.بلکہ یہی انسان کی فطرت میں تقاضا پایا جاتا ہے اور اسی وجہ سے مسلمان لوگ اپنی اولاد کے نام بطور تفاول عیسیٰ، داؤد، موسیٰ، یعقوب، محمدؐ وغیرہ انبیاء علیہم السلام کے نام پر رکھتے ہیں اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہی اخلاق و برکات بطور ظلّی ان میں بھی پیدا ہوجائیں.فتدبّر.منہ راقم خاکسار غلام احمد مؤلف (براہین احمدیہ) ہوشیار پور طویلہ شیخ مہر علی صاحب رئیس ۲۰ ؍فروری ۱۸۸۶ ء
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم (حاشیہ متعلقہ صفحہ ۲ اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ ء مندرجہ آئینہ کمالات اسلام) عجب نوریست درجان محمدؐ عجب لعلیست درکان محمدؐ زظلمتہا دلے آنگہ شود صاف کہ گردد از محبّان محمدؐ عجب دارم دل آن ناکسان را کہ رو تابند از خوان محمدؐ ندانم ہیچ نفسے در دو عالم کہ دارد شوکت و شان محمدؐ خدازان سینہ بیزارست صدبار کہ ہست ازکینہ دارانِ محمدؐ خدا خود سوزد آن کرم دنی را کہ باشد از عدوّانِ محمدؐ اگر خواہی نجات از مستی نفس بیا در ذیل مستانِ محمدؐ اگر خواہی کہ حق گوید ثنایت بشو ازدل ثنا خوانِ محمدؐ اگر خواہی دلیلے عاشقش باش محمدؐ ہست ُ برہان محمدؐ سرے دارم فدائے خاک احمد دلم ہر وقت قربانِ محمدؐ بگیسوئے رسول اللہ کہ ہستم نثار روئے تابانِ محمدؐ دریں رہ گر کشندم ور بسوزند نتابم رو ز ایوانِ محمدؐ بکار دین نترسم از جہانے کہ دارم رنگ ایمان محمدؐ بسے سہل ست از دنیا بریدن بیادِ حُسن و احسانِ محمدؐ فدا شد در رہش ہر ذرۂ من کہ دیدم حسن پنہانِ محمدؐ دگر اُستاد را نامے ندانم کہ خواندم در دبستانِ محمدؐ بدیگر دلبرے کارے ندارم کہ ہستم کُشتۂ آنِ محمدؐ مرآں گوشۂ چشمے بباید نخواہم جز گلستان محمدؐ دلِ زارم بہ پہلوئم مجوئید کہ بستیمش بدامانِ محمدؐ من آں خوش مرغ از مرغان قدسم کہ دارد جا بہ بُستانِ محمدؐ تو جان ما منوّ ر کر دی ا زعشق فدایت جانم اے جانِ محمدؐ دریغا گردہم صد جان درین راہ نباشد نیز شایان محمدؐ چہ ہیبت ہا بداوند این جوان را کہ ناید کس بہ میدانِ محمدؐ الا اے دشمن نادان و بے راہ بترس از تیغ ُ برّان محمدؐ رہ مولیٰ کہُ گم کردند مردم بجو در آل و اعوان محمدؐ الا اے منکر از شان محمدؐ ہم از نور نمایانِ محمدؐ کرامت گرچہ بے نام و نشان است بیابنگر ز غلمانِ محمدؐ 3 لیکھرام پشاوری کی نسبت ایک پیشگوئی واضح ہو کہ اس عاجز نے اشتہار ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ ء میں جو اس کتاب
کے ساتھ شامل کیا گیا تھا اندرمن مراد آبادی اور لیکھرام پشاوری کو اس بات کی دعوت کی تھی کہ اگر وہ خواہشمند ہوں تو ان کی قضا و قدر کی نسبت بعض پیشگوئیاں شائع کی جائیں.سو اس اشتہار کے بعد اندرمن نے تو اعراض کیا اور کچھ عرصہ کے بعد فوت ہوگیا.لیکن لیکھرام نے بڑی دلیری سے ایک کارڈ اس عاجز کی طرف روانہ کیا کہ میری نسبت جو پیشگوئی چاہو شائع کردو میری طرف سے اجازت ہے.سو اس کی نسبت جب توجہ کی گئی تو اللہ جلّ شانہٗ کی طرف سے یہ الہام ہوا :.عجل جسد لہ خوار.لہ نصب و عذاب یعنے یہ صرف ایک بے جان گوسالہ ہے جس کے اندر سے ایک مکروہ آواز نکل رہی ہے.اور اس کے لئے ان گستاخیوں اور بد زبانیوں کے عوض میں سزا اور رنج اور عذاب مقدر ہے جو ضرور اس کو مل رہے گا.اور اس کے بعد آج جو ۲۰؍ فروری ۱۸۹۳ ء روز دو شنبہ ہے اس عذاب کا وقت معلوم کرنے کے لئے توجہ کی گئی تو خداوند کریم نے مجھ پر ظاہر کیا کہ آج کی تاریخ سے جو بیس فروری ۱۸۹۳ ء ہے.چھ برس کے عرصہ تک یہ شخض اپنی بدزبانیوں کی سزا میں یعنے ان بے ادبیوں کی سزا میں جو اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کی ہیں عذاب شدید میں مبتلا ہو جائے گا.سو اب میں اس پیشگوئی کو شائع کر کے تمام مسلمانوں اور آریوں اور عیسائیوں اور دیگر فرقوں پر ظاہر کرتا ہوں کہ اگر اس شخص پر چھ برس کے عرصہ
میں آج کی تاریخ سے کوئی ایسا عذاب* نازل نہ ہوا جو معمولی تکلیفوں سے نرالا اور خارق عادت اور اپنے اندر الٰہی ہیبت رکھتا ہو تو سمجھو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور نہ اس کی روح سے میرا یہ نطق ہے اور اگر میں اس پیشگوئی میں کاذب نکلا تو ہر یک سزا کے بھگتنے کے لئے میں طیار ہوں اور اس بات پر راضی ہوں کہ مجھے گلہ میں رسہ ڈال کر کسی سولی پر کھینچا جائے اور باوجود میرے اس اقرار کے یہ بات بھی ظاہر ہے کہ کسی انسان کا اپنی پیشگوئی میں جھوٹا نکلنا خود تمام رسوائیوں سے بڑھ کر رسوائی ہے زیادہ اس سے کیا لکھوں.واضح رہے کہ اس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت بے ادبیاں کی ہیں جن کے تصور سے بھی بدن کانپتا ہے.اس کی کتابیں عجیب طور کی تحقیر اور توہین اور دشنام دہی سے بھری ہوئی ہیں کون مسلمان ہے جو ان کتابوں کو سنے اور اس کا دل اور جگر ٹکڑے ٹکڑے نہ ہو.با ایں ہمہ شوخی و خیرگی یہ شخص سخت جاہل ہے.عربی سے ذرّہ مس نہیں بلکہ دقیق اردو لکھنے کا بھی مادہ نہیں اور یہ پیشگوئی اتفاقی نہیں بلکہ اس عاجز نے خاص اسی مطلب کیلئے دعا کی جس کا یہ جواب ملا.اور یہ پیشگوئی مسلمانوں کیلئے بھی نشان ہے.کاش وہ حقیقت کو سمجھتے اور ان کے دل نرم ہوتے.اب میں اسی خدا عزّوجلّ کے نام پر ختم کرتا ہوں جس کے نام سے شروع کیا تھا.والحمد للّٰہ والصّلٰوۃ والسلام علٰی رسولہ محمدن المصطفٰی افضل الرسل و خیر الورٰی سیدنا و سید کل ما فی الارض والسماء.خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپورہ (۲۰ ؍فروری ۱۸۹۳ ء) * اب آریوں کو چاہیئے کہ سب مل کر دعا کریں کہ یہ عذاب ان کے اس وکیل سے ٹل جائے.منہ
اشتہا ر کتاب آئینہ کمالات اسلام یا ایھا الذین اٰمنوا ان تنصروا اللّٰہ ینصرکم اے ایماندارو اگر تم اللہ تعالیٰ کی مدد کرو تو وہ تمہاری مدد کرے گا.اے عزیزان مدد دین متین آں کارے ست کہ بصد زہد میسّر نہ شود انسان را واضح ہو کہ یہ کتاب جس کا نام نامی عنوان میں درج ہے.ان دنوں میں اس عاجز نے اس غرض سے لکھی ہے کہ دنیا کے لوگوں کو قرآن کریم کے کمالات معلوم ہوں اور اسلام کی اعلیٰ تعلیم سے ان کو اطلاع ملے اور میں اس بات سے شرمندہ ہوں کہ میں نے یہ کہا کہ میں نے اس کو لکھا ہے کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اول سے آخر تک اس کے لکھنے میں آپ مجھ کو عجیب در عجیب مددیں دی ہیں اور وہ عجیب لطائف و نکات اس میں بھر دئیے ہیں کہ جو انسان کی معمولی طاقتوں سے بہت بڑھ کر ہیں.میں جانتا ہوں کہ اس نے یہ اپنا ایک نشان دکھلایا ہے تاکہ معلوم ہو کہ وہ کیونکر اسلام کی غربت کے زمانہ میں اپنی خاص تائیدوں کے ساتھ اس کی حمایت کرتا ہے اور کیونکر ایک عاجز انسان کے دل پر تجلی کر کے لاکھوں آدمیوں کے منصوبوں کو خاک میں ملاتا اور ان کے حملوں کو پاش پاش کر کے دکھلا دیتا ہے.مجھے یہ بڑی خواہش ہے کہ مسلمانوں کی اولاد اور اسلام کے شرفاء کی ذرّیت جن کے سامنے نئے علوم کی لغزشیں دن بدن بڑھتی جاتی ہیں.اس کتاب کو دیکھیں.اگر مجھے وسعت ہوتی تو میں تمام جلدوں کو مفت ِ للہ تقسیم کرتا.عزیزو! یہ کتاب قدرت حق کا ایک نمونہ ہے اور انسان کی معمولی کوششیں خودبخود اس قدر ذخیرہ معارف کا پیدا نہیں کر سکتیں.اس کی ضخامت چھ سو صفحہ کے قریب ہے اور کاغذ عمدہ اور کتاب خوشخط اور قیمت د3و روپیہ اور محصول علاوہ ہے اور یہ صرف ایک حصہ ہے اور دوسرا حصہ الگ طبع ہوگا اور قیمت اس کی الگ ہوگی.اور اس میں علاوہ حقائق و معارف قرآنی اور لطائف کتاب ربِّ عزیز کے ایک وافر حصہ اُن پیشگوئیوں کا بھی موجود ہے جن کو اوّل سراج منیر میں شائع کرنے کا ارادہ تھا.اور میں اس بات پر راضی ہوں کہ اگر خریداران کتاب میری اس تعریف کو خلاف واقعہ پاویں تو کتاب مجھے واپس کر دیں میں بلاتوقف ان کی قیمت واپس بھیج دوں گا.لیکن یہ شرط ضروری ہے کہ کتاب کو دو ہفتے کے اندر واپس کریں اور دست مالیدہ اور داغی نہ ہو.اخیر میں یہ بات بھی لکھنا چاہتا ہوں کہ اس کتاب کی تحریر کے وقت دو د فعہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت مجھ کو ہوئی اور آپ نے اس کتاب کی تالیف پر بہت مسرت ظاہر کی اور ایک رات یہ بھی دیکھا کہ ایک فرشتہ بلند آواز سے لوگوں کے دلوں کو اس کتاب کی طرف بلاتا ہے اور کہتا ہے ھذا کتاب مبارک فقوموا للاجلال والاکرام یعنے یہ کتاب مبارک ہے اس کی تعظیم کیلئے کھڑے ہو جاؤ.اب گذارش مدعا یہ ہے کہ جو صاحب اس کتاب کو خریدنا چاہیں وہ بلاتوقف مصمم ارادہ سے اطلاع بخشیں تاکہ کتاب بذریعہ ویلیو پی ایبل ان کی خدمت میں روانہ کی جائے.والسلام علٰی من اتبع الھدٰی خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپورہ پنجاب
شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی تا دلِ مردِ خدا نامد بدرد ہیچ قومے را خدا رسوا نہ کرد (کلا ان الانسان لیطغی ان راہ استغنی) انسان باوجود سخت ناچیز اور مشت خاک ہونے کے پھر اپنی عاجزی کو کیسے جلد بھول جاتا ہے ایک ذرہ درد فرو ہونے اور آرام کی کروٹ بدلنے سے اپنی فروتنی کا لہجہ فی الفور بدل لیتا ہے پنجاب کے قریباً تمام آدمی شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیارپور سے واقف ہوں گے اور میرے خیال میں ہے کہ جس ایک بیجا الزام میں اپنے بعض پنہانی قصوروں کی وجہ سے جن کو خدا تعالیٰ جانتا ہوگا وہ پھنس گئے تھے.وہ قصہ ہمارے ملک کے بچوں اور عورتوں کو بھی معلوم ہوگا.سو اس وقت ہمیں اس منسوخ شدہ قصہ سے تو کچھ مطلب نہیں صرف اس بات کا ظاہر کرنا مطلوب ہے کہ اس قصہ سے تخمیناً چھ ماہ پہلے اس عاجز کو بذریعہ ایک خواب کے جتلایا گیا تھا کہ شیخ صاحب کی جائے نشست فرش کو آگ لگی ہوئی ہے اور اس آگ کو اس عاجز نے بار بار پانی ڈال کر بجھایا ہے سو اُسی وقت میرے دل میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بہ یقین کامل یہ تعبیر ڈالی گئی کہ شیخ صاحب پر اور ان کی عزت پر سخت مصیبت آئے گی اور میرا پانی ڈالنا یہ ہوگا کہ آخر میری ہی دعا سے نہ کسی اور وجہ سے وہ بلا دور کی جائے گی اور میں نے اس خواب کے بعد شیخ صاحب کو بذریعہ ایک مفصل خط کے اپنے خواب سے اطلاع دیدی اور توبہ اور استغفار کی طرف توجہ دلائی مگر اس خط کا جواب انہوں نے کچھ نہ لکھا آخر قریباً چھ ماہ گذرنے پر ایسا ہی ہوا اور میں انبالہ چھاؤنی میں تھا کہ ایک شخص محمد بخش نام شیخ صاحب کے فرزند جان محمد کی طرف سے میرے پاس پہنچا اور بیان کیا کہ فلاں مقدمہ میں شیخ صاحب حوالات میں ہوگئے میں نے اس شخص سے اپنے خط کا حال دریافت کیا جس میں چھ ماہ پہلے اس بلا کی اطلاع دی گئی تھی تو اس وقت محمد بخش نے اس خط کے پہنچنے سے لا علمی ظاہر کی لیکن آخر خود شیخ صاحب نے رہائی کے بعد کئی دفعہ اقرار کیا کہ وہ خط ایک صندوق
میں سے مل گیا.پھر شیخ صاحب تو حوالات میں ہو چکے تھے لیکن ان کے بیٹے جان محمد کی طرف سے شاید محمد بخش کے دستخط سے جو ایک شخص ان کے تعلق داروں میں سے ہے کئی خط اس عاجز کے نام دعا کیلئے آئے اور اللہ جلّ شانہٗ جانتا ہے کہ کئی راتیں نہایت مجاہدہ سے دعائیں کی گئیں اور اوائل میں صورت قضا و قدر کی نہایت پیچیدہ اور مبرم معلوم ہوتی تھی لیکن آخر اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کی اور ان کے بارے میں رہا ہونے کی بشارت دیدی اور اس بشارت سے ان کے بیٹے کو مختصر لفظوں میں اطلاع دی گئی.یہ تو اصل حقیقت اور اصل واقعہ ہے لیکن پھر اس کے بعد سنا گیا کہ شیخ صاحب اس رہائی کے خط سے انکار کرتے ہیں جس سے لوگ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ گویا اس عاجز نے جھوٹ بولا.سو اس فتنہ کے دور کرنے کی غرض سے اس عاجز نے شیخ صاحب سے اپنا خط طلب کیا جس میں ان کی بریت کی خبر دی گئی تھی مگر انہوں نے وہ خط نہ بھیجا بلکہ اپنے خط ۱۹؍ جون ۱۸۹۲ ء میں میرے خط کا گم ہو جانا ظاہر کیا.لیکن ساتھ ہی اپنے بیٹے جان محمد کی زبانی یہ لکھا کہ قطعیت بریت کا خبر دینا ہمیں یاد نہیں مگر غالباً خط کے یہ الفاظ یا اس کے قریب قریب تھے کہ فضل ہو جائے گا دعا کی جاتی ہے.*یہ قصہ تو یہاں تک رہا اور وہ خط شیخ صاحب کا میرے پاس موجود پڑا ہے لیکن اب بعض دوستوں کے خطوط اور بیانات سے معلوم ہوا کہ شیخ صاحب یہ مشہور کرتے پھرتے ہیں کہ ہمیں رہائی کی کوئی بھی اطلاع نہیں دی تھی.اور نہ صرف اسی قدر بلکہ اس عاجز پر ایک اور طوفان باندھتے ہیں اور وہ یہ کہ گویا یہ عاجز یہ تو جانتا تھا کہ میں نے کوئی خط نہیں لکھا مگر شیخ صاحب کو جھوٹ بولنے کے لئے تحریک دے کر بطور بیان دروغ ان سے یہ لکھوانا چاہا کہ اس عاجز نے رہائی کی خبر دے دی تھی گویا اس عاجز نے کسی خط میں شیخ صاحب کی خدمت میں یہ لکھا ہے کہ اگرچہ یہ بات صحیح اور واقعی تو نہیں کہ میں نے رہائی کی اطلاع قبل از وقت بطور پیشگوئی دی ہو مگر میری خاطر اور میرے لحاظ سے تم ایسا ہی لکھ دو تا میری کرامت ظاہر ہو.شیخ صاحب کا یہ طریق عمل سن کر سخت افسوس ہوا.انّا للّٰہ و انّا الیہ راجعون.خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ شیخ صاحب کے اول و آخر کے متعلق ضرور شیخ صاحب کو اطلاع دی گئی تھی اور وہ دونوں پیشگوئیاں صحیح ہیں اور دونوں کی نسبت شیخ یہ اس عاجز کا لفظ نہیں ہے کہ دعا کی جاتی ہے بلکہ یہ تھا کہ دعا بہت کی گئی.اور آخر فقرہ میں بریت اور فضل الٰہی کی بشارت دی گئی تھی وہ الفاظ اگرچہ کم تھے مگر قلّ و دلّ تھے.خدا تعالیٰ کسی کا محتاج اور خوشامد گر لوگوں کی طرح نہیں اس کی بشارتیں اکثر اشارات ہی ہوتے ہیں اس کا ہاں یا نہیں کہنا دوسرے لوگوں کے ہزار دفتر سے زیادہ معتبر ہے مگر نادان اور متکبر دنیا دار یہ چاہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ بھی فرمانبرداروں کی طرح لمبی تقریریں کرے تا ان کو یقین آوے اور پھر اس بات کو قطعی سمجھیں.منہ
صاحب کی طرف خط بھیجا گیا اور وہی خط مانگا گیا تھا یا اس کا مضمون طلب کیا گیا تھا.شیخ صاحب نے اگر درحقیقت ایسا ہی بیان کیا ہے تو ان کے افترا کا جواب کیا دیا جائے ناظرین اس بارے میں میرے خطوط ان سے طلب کریں اور ان کو باہم ملا کر غور سے پڑھیں.* اگر شیخ صاحب میں مادہ فہم کا ہوتا تو پہلی ہی پیشگوئی کے خط سے میرا بریت کا خبر دینا سمجھ سکتے تھے کیونکہ اس سے یہی بہ بداہت سمجھا جا سکتا تھا کہ اس عاجز کے ذریعہ سے ہی ان کی بند خلاص ہوگی وجہ یہ کہ ان کو اطلاع دی گئی تھی کہ میں نے ہی پانی ڈال کر آگ کو بجھایا.کیا شیخ صاحب کو یاد نہیں کہ بمقام لودہیانہ جب وہ میرے مکان پر دعوت کھانے آئے تھے تو انہوں نے اس خط کو یاد کر کے رونا شروع کر دیا تھا اور شاید روٹی پر بھی بعض قطرے آنسوؤں کے پڑے ہوں.پھر وہ آگ پر پانی ڈالنا کیوں یاد نہ رہا.اور اگر میں نے رہائی کی خبر شائع نہیں کی تھی تو پھر وہ صد ہا آدمیوں میں قبل از رہائی مشہور کیونکر ہوگئی تھی اور کیوں آپ کے بعض رشتہ دار جلدی ** کر کے اس خبر کے صدق پر اعتراض کرتے تھے جو اب تک زندہ موجود ہیں اور پھر آپ نے کیوں میرے خط کا یہ خلاصہ مجھ کو تحریر کیا کہ گویا میں نے خط میں صرف اتنا ہی لکھا تھا کہ فضل ہو جائے گا یہ کیسی ناخدا ترسی ہے کہ مجالس میں افترا کی تہمت لگا کر دل کو دکھایا جائے.خیر اب ہم بطریق تنزل ایک آسان فیصلہ اپنے صدق اور کذب کے بارے میں ذیل میں لکھتے ہیں اور وہ یہ ہے :.فیصلہ آج رات میں نے جو ۲۵؍ فروری ۱۸۹۳ ء کی رات تھی.شیخ صاحب کی ان باتوں سے سخت دردمند ہو کر آسمانی فیصلہ کیلئے دعا کی.خواب میں مجھ کو دکھلایا گیا کہ ایک دوکاندار کی طرف میں نے کسی قدر قیمت بھیجی تھی کہ وہ ایک عمدہ اور خوشبودار چیز بھیج دے اس نے قیمت رکھ کر ایک بدبودار چیز بھیج دی وہ چیز دیکھ کر مجھے غصہ آیا اور میں نے کہا کہ جاؤ دوکاندار کو کہو کہ وہی چیز دے ورنہ میں اس دغا کی اس پر نالش کروں گا اور پھر عدالت سے کم سے کم چھ ماہ کی اس کو سزا ملے گی اور امید تو زیادہ کی ہے.تب دوکاندار نے شاید یہ کہلا بھیجا کہ یہ * مناسب ہے کہ ناظرین ان قریب قریب تاریخوں کے تمام میرے خطوط کو شیخ صاحب سے لیکر پڑھیں میرے کسی خط کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ شیخ صاحب کوئی بات خلاف واقعہ لکھیں بلکہ ان کو اپنے خط سابق کے مضمون سے اطلاع دی گئی تھی اور امید تھی کہ یاد دلانے سے وہ مضمون انہیں یاد آجائے گا.اس بناء پر ان سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ ہمارے خط کا یہ خلاصہ ہے اور اس کی ہم آپ سے تصدیق چاہتے ہیں مگر افسوس کہ شیخ صاحب نے میرے خط کو تو تحکم کی راہ سے دبا لیا اور مجھ پر یہ افترا کیا کہ میں نے ان سے جھوٹ کہلوانا چاہا.خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں نے تو صرف اپنے خط کے مضمون کی تصدیق کرانی چاہی تھی.اگر میں سچ پر نہیں تو شیخ صاحب میرا متنازعہ فیہ خط پیش کریں جس کے پہنچنے کا ان کو اقرار ہے اور نہ صرف اسی قدر بلکہ یہ بھی اقرار ہے کہ اس میں لکھا تھا کہ فضل ہو جائے گا.منہ * * آپ کے رشتہ دار شاید ہمشیرہ زاد شیخ میراں بخش ساکن دسوہہ نے بمقام امرتسر اپنی دوکان پر روبرو شیخ سندھی خان ساکن خانپور میرے ملازم شیخ حامد علی سے نومیدی رہائی کی حالت میں تکرار کی تھی کہ مرزا غلام احمد تو کہتے تھے کہ شیخ صاحب بری ہو جائیں گے اور اب وہ پھانسی ملنے لگے ہیں.حامد علی کا بیان ہے کہ میں نے کہا تھا کہ انجام دیکھنے کے بعد اعتراض کرنا.منہ
میر ا کام نہیں یا میرا اختیار نہیں اور ساتھ ہی یہ کہلا بھیجا کہ ایک سودائی پھرتا ہے اس کا اثر میرے دل پر پڑ گیا اور میں بھول گیا اور اب وہی چیز دینے کو تیار ہوں- اس کی میں نے یہ تعبیر کی کہ شیخ صاحب پر یہ ندامت آنے والی ہے اور انجام کار وہ نادم ہوں گے اور ابھی کسی دوسرے آدمی کا ان کے دل پر اثر ہے.پھر میں نے توجہ کی تو مجھے یہ الہام ہوا :.انا نرٰی تقلّب وجھک فی السماء نقلّب فی السماء ما قلّبتَ فی الارض انا معک نرفعک د رجات.یعنے ہم آسمان پر دیکھ رہے ہیں کہ تیرا دل مہر علی کی خیر اندیشی سے بد دعا کی طرف پھر گیا سو ہم بات کو اسی طرح آسمان پر پھیر دیں گے جس طرح تو زمین پر پھیرے گا.ہم تیرے ساتھ ہیں تیرے درجات بڑھائیں گے.لہٰذا یہ اشتہار شیخ صاحب کی خدمت میں رجسٹری کرا کر بھیجتا ہوں کہ اگر وہ ایک ہفتہ کے عرصہ میں اپنے خلاف واقعہ فتنہ اندازی سے معافی چاہنے کی غرض سے ایک خط بہ نیت چھپوانے کے نہ بھیج دیں تو پھر آسمان پر میرا اور ان کا مقدمہ دائر ہوگا اور میں اپنی دعاؤں کو جو ان کی عمر اور بحالی عزت اور آرام کیلئے تھیں واپس لے لوں گا یہ مجھے اللہجلّ شانہٗ کی طرف سے بتصریح بشارت مل گئی ہے پس اگر شیخ صاحب نے اپنے افتراؤں کی نسبت میری معرفت معافی کا مضمون شائع نہ کرایا تو پھر میرے صدق اور راستی کی یہ نشانی ہے کہ میری بد دعا کا اثر ان پر ظاہر ہوگا جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مجھ کو وعدہ دیا ہے.ابھی میں اس کی کوئی تاریخ بیان نہیں کر سکتا کیونکہ ابھی خدا تعالیٰ نے کوئی تاریخ میرے پر کھولی نہیں اور اگر میری بددعا کا کچھ بھی اثر نہ ہوا تو بلاشبہ میں اسی طرح کاذب اور مفتری ہوں جو شیخ صاحب نے مجھ کو سمجھ لیا.میں اللہجلّ شانہٗ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے مصیبت سے پہلے ہی شیخ صاحب کو خبر دی تھی اور مصیبت کے بعد بھی.اور اگر میں جھوٹا ہوں تو شیخ صاحب میری بد دعا سے صاف بچ جائیں گے اور یہی میرے کاذب ہونے کی کافی نشانی ہوگی.اگر یہ بات صرف میری ذات تک محدود ہوتی تو میں صبر کرتا.لیکن اس کا دین پر اثر ہے اور عوام میں ضلالت پھیلتی ہے اس لئے میں نے محض حمایت دین کی غرض سے دعا کی اور خدا تعالیٰ نے میری دعا منظور فرمائی.دنیا داروں کو اپنی دنیا کا تکبر ہوتا ہے اور فقیروں میں کبریائی تکبر اپنے نفس پر بھروسہ کر کے پیدا ہوتا ہے اور کبریائی خدا تعالیٰ پر بھروسہ کر کے پیدا ہوتی ہے.پس میرے صادق اور کاذب ہونے کیلئے یہ بھی ایک نشانی ہے.میرا یہ دعویٰ ہے کہ شیخ صاحب کی نجات صرف میری ہی دعا سے ہوئی تھی جیسا کہ میں نے آگ پر پانی ڈالا تھا.اگر میں اس دعویٰ میں صادق نہیں ہوں تو میری ذلت ظاہر ہو جاوے گی.والسلام علی من اتبع الھدٰی راقم خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپورہ.(مطبوعہ ریاض ہند قادیان )
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم اللّٰھم صل علی محمد و اٰل محمد افضل الرسل و خاتم النبیین اشتہار کتاب براہین احمدیہ جس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے مؤلف نے ملہم و مامور ہو کر بغرض اصلاح و تجدید دین تالیف کیا ہے جس کے ساتھ دس ہزار روپیہ کا اشتہار ہے جس کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ دنیا میں منجانب اللہ اور سچا مذہب جس کے ذریعہ سے انسان خدا تعالیٰ کو ہر یک عیب اور نقص سے بری سمجھ کر اس کی تمام پاک اور کامل صفتوں پر دلی یقین سے ایمان لاتا ہے وہ فقط اسلام ہے جس میں سچائی کی برکتیں آفتاب کی طرح چمک رہی ہیں اور صداقت کی روشنی دن کی طرح ظاہر ہو رہی ہے اور دوسرے تمام مذاہب ایسے بدیہی البطلان ہیں کہ نہ عقلی تحقیقات سے ان کے اصول صحیح اور درست ثابت ہوتے ہیں اور نہ ان پر چلنے سے ایک ذرہ روحانی برکت و قبولیت الٰہی مل سکتی ہے بلکہ ان کی پابندی سے انسان نہایت درجہ کا کور باطن اور سیاہ دل ہو جاتا ہے جس کی شقاوت پر اسی جہان میں نشانیاں پیدا ہو جاتی ہیں.اس کتاب میں دین اسلام کی سچائی کو دو طرح پر ثابت کیا گیا ہے (۱) اول تین سو مضبوط اور قوی دلائل عقلیہ سے جن کی شان و شوکت و قدر و منزلت اس سے ظاہر ہے کہ اگر کوئی مخالف اسلام ان دلائل کو توڑ دے تو اس کو دس ہزار روپیہ دینے کا اشتہار دیا ہوا ہے اگر کوئی چاہے تو اپنی تسلی کے لئے عدالت میں رجسٹری بھی کرالے.(۲) دوم ان آسمانی نشانوں سے کہ جو سچے دین کی کامل سچائی ثابت ہونے کے لئے ازبس ضروری ہیں.اس امر دوم میں مولف نے اس غرض سے کہ سچائی دین اسلام کی آفتاب کی طرح روشن ہو جائے تین قسم کے نشان ثابت کر کے دکھائے ہیں.اول۱ وہ نشان کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مخالفین نے خود حضرت ممدوح کے ہاتھ سے اور آنجناب کی دعا اور توجہ اور برکت سے ظاہر ہوتے دیکھے جن کو مولف یعنی اس خاکسار نے تاریخی طور پر ایک اعلیٰ درجہ کے ثبوت سے مخصوص و ممتاز کر کے درج کتاب کیا ہے.دوم۲ وہ نشان کہ جو خود قرآن شریف کی ذات بابرکات میں دائمی اور ابدی اور بے مثل طور پر پائی جاتی ہیں جن کو راقم نے بیان شافی اور کافی سے ہر یک عام و خاص پر کھول دیا ہے اور کسی نوع کا عذر کسی کے لئے باقی نہیں رکھا.سوم وہ نشان کہ جو کتاب اللہ کی پیروی اور متابعت رسول برحق سے کسی شخص تابع کو بطور وراثت ملتے ہیں جن کے اثبات میں اس بندہ درگاہ نے بفضل خداوند حضرت قادر مطلق یہ بدیہی ثبوت دکھلایا ہے کہ بہت سے سچے الہامات اور خوارق اور کرامات اور اخبار غیبیہ اور اسرار لدنیہ اور کشوف صادقہ اور دعائیں قبول شدہ کہ جو خود اس خادم دین سے صادر ہوئے ہیں اور جن کی صداقت پر بہت سے مخالفین مذہب (آریوں وغیرہ سے) بشہادت و رؤیت گواہ ہیں کتاب موصوف میں درج کئے ہیں اور مصنف کو اس بات کا بھی علم دیا گیا ہے کہ وہ مجدد وقت ہے اور روحانی طور پر اس کے کمالات مسیح بن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں اور ایک کو دوسرے سے بشدت مناسبت و مشابہت ہے اور اس کو خواص انبیاء و رسل کے نمونہ پر محض بہ برکت متابعت حضرت خیر البشر افضل الرسل صلی اللہ علیہ وسلم ان بہتوں پر اکابر اولیاء سے فضیلت دی گئی ہے کہ جو اس سے پہلے گذر چکے ہیں اور اس کے قدم پر چلنا موجب نجات و سعادت و برکت اور اس کے برخلاف چلنا موجب بعد و حرمان ہے یہ سب ثبوت کتاب براہین احمدیہ کے پڑھنے سے کہ جو منجملہ تین سو جزو کے قریب ۳۷ جزو کے چھپ چکی ہے ظاہر ہوتے ہیں اور طالب حق کے لئے خود مصنف پوری پوری تسلی و تشفی کرنے کو ہر وقت مستعد اور حاضر ہے.و ذٰلک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء ولا فخر.والسلام علٰی من اتبع الھدٰی اور اگر اس اشتہار کے بعد بھی کوئی شخص سچا طالب بن کر اپنی عقدہ کشائی نہ چاہے اور دلی صدق سے حاضر نہ ہو تو ہماری طرف سے اس پر اتمام حجت ہے جس کا خدا تعالیٰ کے روبرو اس کو جواب دینا پڑے گا.بالآخر اس اشتہار کو اس دعا پر ختم کیا جاتا ہے کہ اے خداوند کریم تمام قوموں کے مستعد دلوں کو ہدایت بخش کہ تا تیرے رسول مقبول ا فضل الرسل محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور تیرے کامل و مقدس کلام قرآن شریف پر ایمان لاویں اور اس کے حکموں پر چلیں تا ان تمام برکتوں اور سعادتوں اور حقیقی خوشحالیوں سے متمتع ہو جاویں کہ جو سچے مسلمان کو دونوں جہانوں میں ملتی ہیں اور اس جاودانی نجات اور حیات سے بہرہ ور ہوں کہ جو نہ صرف عقبیٰ میں حاصل ہو سکتی ہے بلکہ سچے راستباز اسی دنیا میں اس کو پاتے ہیں بالخصوص تمام انگریز جنہوں نے ابھی تک اس آفتاب صداقت سے کچھ روشی حاصل نہیں کی اور جن کی شائستہ اور مہذب اور با رحم گورنمنٹ نے ہم کو اپنے احسانات اور دوستانہ معاملات سے ممنون کر کے اس بات کے لئے دلی جوش بخشا ہے کہ ہم ان کے دنیا و دین کے لئے دلی جوش سے بہبودی و سلامتی چاہیں تا ان کے گورے و سپید منہ جس طرح دنیا میں خوبصورت ہیں آخرت میں بھی نورانی و منور ہوں.فنسئل اللّٰہ تعالی خیرھم فی الدنیا واآاخرۃ اللّٰھم اھدھم و ایّدھم بروح منک واجعل لھم حظًا کثیرًا فی دینک واجذبھم بحولک و قوّتک لیؤمنوا بکتابک و رسولک و یدخلوا فی دین اللّٰہ افواجًا.آمین ثم آمین والحمد للّٰہ ربّ العالمین.المشتھر خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپورہ ملک پنجاب (بیس ہزار اشتہار چھاپے گئے)
خاتمہ اشعار در شکر و حمد حضرت اعلیٰ پروردگار تعالیٰ شانہ و جل اسمہ بجمیع الانوار قربان تست جانِ من اے یار محسنم بامن کدام فرق تو کردی کہ من کنم ہر مطلب و مراد کہ مے خواستم ز غیب ہر آرزو کہ بود بخاطر معیّنم ازجود دادۂ ہمہ آں مدعائے من و از لطف کردۂ گذر خود بمسکنم ہیچ آگہی نبود ز عشق و وفا مرا خود ریختی متاع محبت بدامنم این خاک تیرہ را تو خود اکسیر کردۂ بود آن جمال تو کہ نمودست احسنم ایں صیقل دلم نہ بزہد و تعبّد است خود کردۂ بلطف و عنایات روشنم صد منّتِ تو ہست برین مشت خاکِ من جانم رہینِ لطف عمیم تو ہم تنم سہل است ترک ہر دو جہان گر رضائے تو آید بدست اے پنہ و کہف و مامنم فصل بہار و موسم ُگل نایدم بکار کاندر خیال روئے تو ہر دم بگلشنم چون حاجتے بود بادیب دگر مرا من تربیت پذیر ز ربّ مہیمنم ز انساں عنایت ازلی شد قریب من کامدندائے یار زہر کوئے و برزنم یا رب مرا بہر قدمم استوار دار وان روز خود مباد کہ عہد تو بشکنم در کوئے تو اگر سر عشّاق را زنند اول کسے کہ لافِ تعشّق زند منم
a higher rank than that of other Prophets, I also by virtue of being a follower of the August Person (the benefactor of mankind, the best of the messangers of God) am favoured with a higher rank than, that assigned to many of the Saints and Holy Personages preceding me.To follow my footsteps will be a blessing and the means of salvation whereas any antogonism to me will result in estrangemen and disappointment.All these evidences will be found by perusal of the book which will consist of nearly 4800 pages of which about 592 pages have been published.I am always ready to satisfy and convince any seeker of truth.'All this is a Grace of God He gives it to whom-soever.He likes and there is no bragging in this.' 'Peace be to all the followers of righteousness!' If after the publication of this notice any one does not take the trouble of becoming earnest enquirer after the truth and does not come forward with an unbiassed mind to seek it then my challenging (discussion) with him ends here and he shall be answerable to God.Now I conclude this notice with the following prayer: Oh Gracious God! guide the pliable hearts of all the nations, so that they may have faith on Thy chosen Prophet (Muhammad) and on Thy holy Al-Quran, and that they may follow the commandments contained therein, so that they may thus be benifitted by the peace and the true happiness which are specially enjoyed by the true Muslims in both the worlds, and may obtain absolution and eternal life which is not only procurable in the next world, but is also enjoyed by the truthful and honest people even in this world.Expecially the English nation who have not as yet availed themselves of the sunshine of truth, and whose civilized, prudent and merciful empire has, by obliging us numerous acts of kindness and friendly treatments, exceedingly encouraged us to try our utmost for their numerous acts of welfare, so that their fair faces may shine with heavenly effulgence in the next We beseech God for their well being in this world and the next.Oh God! guide them and help them with Thy grace, and instil in their minds the love for Thy religion, and attract them with Thy power, so that they may have faith on Thy Book and prophet, and embrace Thy religion in groups Amen! Amen!' 'Praise be to God the supporter of creation!' (Sd) MIRZA GULAM AHMAD Chief of Qadian, District Gurdaspur, Punjab, India
TRANSLATION OF THE VERNACULAR NOTICE ON REVERSE Being inspired and commanded by God, I have undertaken the compilation of a book named 'Barahin-i-Ahmadia,' with the object of reforming and reviewing the religion, and have offered a reward of Rs.10,000 to any one who would prove the arguments brought forward therein to be false.My object in this Book is to show that only true and the only revealed religion by means of which one might know God to be free from blemish, and obtain a strong conviction as to the perfection of His attributes is the religion of Islam, in which the blessings of truth shine forth like sun, and the impress of veracity is as vividly bright as the day-light.All other religions are so palpably and manifestly false that neither their principles can stand the test of reasoning nor their followers experience least spiritual edification.On the contrary those religions so obscure the mind and divest it of discernment that signs of future misery among the followers become apparent even in this world.That the Muhammadan religion is the only true religion has been shown in this book in two ways: (1st), By means of 300 very strong and sound arguments based on mental reasoning (their congency and sublimity being inferred from the fact that a reward of Rs.10,000 has been offered by me to any one refuting them, and from my further readiness to have this offer registered for the satisfaction of any one who might ask for it): (2) From those Divine signs which are essential for the complete and satisfactory proof of a true religion.With a view to establish that Muhammadan religion is the only true religion in the world, I have adduced under this latter head 3 kinds of evidences: (1) The miracles performed by the Prophet during his life time either by deeds or words which were witnessed by people of other persuasions and are inserted in this book in a chronological order (based on the best kind of evidences): (2), The marks which are inseparably adherent in the Al-Quran itself, and are perpetual and everlasting, the nature of which has been fully expounded for facility of comprehension (3), The signs which by way of inheritances devolve on any believer in the Book of God and the follower of the true Prophet.As an illustration of this, I, the humble creature of God, by His help have clearly evinced myself to be possessed of such virtues by the achieving of many unusual and supernatural deeds by foretelling future events and secrets, and by obtaining from God the objects of my prayers to all of which many persons of different persuasions like Aryas, & c., have been eye-witness ( A full description of these will be found in the said book).I am also inspired that I am the Reformer of my time, and that as regards spiritual excellence, my virtues bear a very close similarity and strict analogy to those of Jesus Christ, in the same way as the distinguished chief of Prophets were assigned
ترجمہ فارسی کلام ٹائٹل پیج کا دوسرا صفحہ.اے جوانو ! کوشش کرو کہ دین میں قوت پیدا ہو اور ملّت اسلام کے باغ میں بہار اور رونق آئے.اے دوستو ! اگر اب تم اسلام کی غربت پر رحم کرو تو خدا کے ہاں تمہیں آنحضرتؐ کے صحابہ سے مناسبت پیدا ہو جائے.نا اہل لوگوں کا آپس کا اختلاف اور نفاق دور ہو جائے اور کمال درجہ کا اتفاق دوستی اور محبت پیدا ہو جائے.کوشش کے لئے حرکت میں آؤ.کہ خدا کی درگاہ سے مددگارانِ اسلام کے لئے ضرور نصرت ظاہر ہو گی.اگر آج دین کی عزت کا خیال تمہارے دل میں جوش مارے تو خدا کی قسم خود تمہارے لئے بھی عزت و مرتبت پیدا ہو جائے.اگر اسلام کی تائید میں تم اپنا سخاوت کا ہاتھ کھول دو تو فوراً تمہارے اپنے لئے بھی خدائی قدرت کا ہاتھ نمودار ہو جائے.اُس کی راہ میں مال خرچ کرنے سے کوئی مفلس نہیں ہو جایا کرتا اگر ہمت پیدا ہو جائے تو خدا خود ہی مددگار بن جاتا ہے.اے دوستو ! اپنی عمر کے دو دن دین کے کام میں گزارو کہ آخر کار مرنے کی گھڑی سینکڑوں حسرتیں لے کر آجائے گی.تو دین کی امید پوری کرتا کہ تیری امیدیں پوری ہوں سینکڑوں نا امیدیوں، یاس اور غم کے بعد رحمت پیدا ہو جائے گی.آنحضرتؐ کے انصار کی طرف دیکھ کہ کس طرح انہوں نے کام کیا تا کہ تجھے پتہ لگے کہ دین کی مدد کرنے سے دولت کا منبع پیدا ہو جاتا ہے.دل وجان سے کوشش کرتا کہ تیرے ہاتھوں سے کوئی خدمت اسلام ہو جائے اگر یہ شربت پیدا ہو جائے تو تو بقائے دوام حاصل کر لے گا
.اے بھائی مفت میں تجھے نصرت کا یہ بدلہ دے رہے ہیں ورنہ یہ تو آسمانی فیصلہ ہے جو ضرور ہو کر رہے گا.میں تو یہ دیکھ رہا ہوں کہ قادر وقدوس خدا کا منشا یہ ہے کہ اسلام کی وہ قوت اور وہ شوکت پھر پیدا ہو جائے.اے خداوند کریم سینکڑوں مہربانیاں اُس شخص پر کر جو دین کا مددگار ہے اگر کبھی آفت آئے تو اس کی مصیبت کو ٹال دے.اے خداوند قادر مطلق اسے ایسا خوش رکھ کہ اس کی حالت اور سب کاروبار میں ایک جنت پیدا ہو جائے.افسوس قوم میری چیخ وپکار کو نہیں سنتی میں تو ہر طریقہ سے اسے نصیحت کرتا ہوں کاش اس کو عبرت ہو.مجھے یقین نہیں آتا کہ یہ لوگ کبھی اپنی آنکھیں کھولیں گے مگر صرف اس وقت جب تقویٰ، پاکدامنی اور خشیت اللہ ان میں پیدا ہو جائے.یہ تو مجھے دجّال، جھوٹا اور کافروں سے بدتر سمجھتے ہیں، میں نہیں جانتا کہ خدا کے نور سے انہیں کیوں نفرت ہو گئی.اے دین سے غافل اور ناواقف انسانو.کیا تمہیں تعجب آتا ہے کہ اس اندھیرے میں خدا کی طرف سے ایک چشمہئِ حیات پیدا ہو گیا ہے.آدمی یہ بات سوچ کر کیوں حیران ہو کہ نیند کے متوالوں کے لئے ایک غفلت کا دور کرنے والا پیدا ہو گیا.اے میری قوم.تو رسول اللہؐ کی حدیثوں کو بھی بھول گئی کہ ہر صدی کے سر پر امت کے لئے ایک مصلح پیدا ہوا کرتا ہے صفحہ ۱.تیری محبت ہزار بیماریوں کی دوا ہے تیرے منہ کی قسم کہ اس گرفتاری ہی میں اصل آزادی ہے.تیری پناہ ڈھونڈنا دیوانوں کا طریقہ نہیں ہے بلکہ تیری پناہ میں آنا ہی تو کمال درجہ کی عقل مندی ہے.میں تیری محبت کی دولت کو ہرگز نہیں چھپاؤں گا.کہ تیرے عشق کا مخفی رکھنا بھی ایک غدّاری ہے.میں تیار ہوں کہ جان ودل تجھ پر قربان کر دوں کیونکہ جان کو محبوب کے سپرد کر دینا ہی اصل دوستی ہے صفحہ ۱۱.شرم، شہرت اور عزت ہم نے سب اپنی جھولی سے پھینک دئیے.ہم مٹی میں مل گئے تا (اس طرح) شاید محبوب مل جائے
.ہم نے دل دے دیا اور جان کو بھی اس راہ میں ہتھیلی میں رکھ کر پیش کیا اور محبوب کے وصال کے لئے ہر حیلہ بروئے کار لائے صفحہ ۱۸.یعنی اخویم مولوی نور الدین بھیروی کہ جن پر ہمدردی اسلام کا جذبہ غالب ہے اور اسی وجہ سے سماوی نورانیت کے انتشار سے مشابہت رکھتے ہیں اور یہ اللہ کا فضل ہے صفحہ ۲۳.مجھ سے اُس عالی قدر سردار کی تعریف کس طرح ہو سکے جس کی مدح سے زمین وآسمان اور دونوں جہان عاجز ہیں.قرب کا وہ مقام جو وہ محبوبِ ازلی کے ساتھ رکھتا ہے اُس کی شان کو واصلانِ بارگاہِ الٰہی میں سے بھی کوئی نہیں جانتا.وہ مہربانیاں جو محبوب ازلی اس پر فرماتا رہتا ہے.وہ کسی نے دنیا میں خواب میں بھی نہیں دیکھیں.خاصانِ حق کا سردار اور عاشقانِ الٰہی کی جماعت کا بادشاہ ہے جس کی روح نے محبوب کے وصل کے ہر درجہ کو طے کر لیا ہے.وہ مبارک قدم جس کی ذات والا صفات رحمت بن کر اس ربّ العالمین پروردگار کی طرف سے نازل ہوئی صفحہ ۲۴.وہ جو کہ جناب الٰہی میں قرب خاص رکھتا ہے وہ جس کی شان خواص اور بزرگ بھی نہیں سمجھتے.احمد آخر الزمان جو پہلوں کے لئے فخر کی جگہ ہے اور پچھلوں کے لئے پیشوا.مقام پناہ، جائے حفاظت اور قلعہ ہے.اُس کی عالی بارگاہ سارے جہان کو پناہ دینے والی کشتی ہے.حشر کے دن کوئی بھی اس کی پناہ میں آنے کے بغیر نجات نہیں پائے گا.وہ ہر قسم کے کمالات میں ہر ایک سے بڑھ کر ہے اس کی بلندی ئِ ہمت کے آگے آسمان بھی ایک ذرہ کی طرح ہیں.وہ اس نور کا مظہر ہے جو روز ازل سے مخفی تھا اور اس سورج کے نکلنے کی جگہ ہے جو ابتدا سے نہاں تھا.وہ آسمانی مجلس کا میر مجلس اور زمین پر اللہ کی حجت ہے نیز ذات باری کا عظیم الشان مضبوط نشان ہے.اس کے وجود کا ہر رگ وریشہ خداوندِ ازلی کا گھر ہے اس کا ہر سانس اور ہر ذرہ دوست کے جمال سے مامور ہے.اس کے چہرہ کا حسن سینکڑوں چاند اور سورج سے بہتر ہے اس کے کوچہ کی خاک تاتاری مشک کے سینکڑوں
نافوں سے زیادہ خوشبودار ہے.وہ لوگوں کی عقل وسمجھ سے بالاتر ہے فکر کی کیا مجال کہ اس ناپیدا کنار سمندر کی حد تک پہنچ سکے.قَوْلِ بَلٰی کہنے میں اس کی روح سب سے اول ہے وہ توحید کا آدم ہے اور آدم سے بھی پہلے یار سے اُس کا تعلق تھا.مخلوق الٰہی کے لئے جان دینا اس کی فطرت میں ہے وہ شکستہ دلوں کا جان نثار اور بیکسوں کا ہمدرد ہے.ایسے وقت میں جبکہ دنیا کفر وشرک سے بھر گئی تھی سوائے اس بادشاہ کے اور کسی کا دل اس کے لئے غمگین نہ ہوا.کوئی بھی شرک کی نجاست اور بتوں کی گندگی سے آگاہ نہ تھا صرف احمد کے دل کو یہ آگاہی ہوئی جو محبت الٰہی سے چور تھا.کون جانتا ہے اور کسے اُس آہ وزاری کی خبر ہے؟جو آنحضرت نے دنیا کے لئے غارِ حرا میں کی صفحہ ۲۵.میں نہیں جانتا کہ کیا درد، غم اور تکلیف تھی جو اسے غم زدہ کر کے اُس غار میں لاتی تھی.نہ اُسے اندھیرے کا خوف تھا، نہ تنہائی کا ڈر، نہ مرنے کا غم، نہ سانپ بچھو کا خطرہ.وہ کشتہ ئِ قوم فدائے خلق اور اہل جہاں پر قربان تھا نہ اسے اپنے تن بدن سے کچھ تعلق تھا نہ اپنی جان سے کچھ کام.خدا کی مخلوق کے لئے دردناک آہیں بھرتا تھا اور خدا کے سامنے رات دن گریہ وزاری اس کا کام تھا.اُس کے عجزو دعا کی وجہ سے آسمان پر سخت شور برپا ہو گیا اور اس کے غم کی وجہ سے فرشتوں کی آنکھیں بھی غم سے اشکبار ہو گئیں.آخر کار اُس کی عاجزی مناجات اور گریہ وزاری کی وجہ سے خدا نے تاریک وتار دنیا پر مہربانی کی نظر فرمائی.جہاں میں بدعملیوں کا خطرناک طوفان بپا تھا اور ہر ملک میں لوگ شرک اور گناہوں کے مارے اندھے اور بہرے ہو رہے تھے.دنیا نوح کے زمانہ کی طرح ہر قسم کے فسادوں سے بھر گئی تھی کوئی دل بھی ظلمت اور گردو غبار سے خالی نہ تھا.ہر روح اور ہر نفس پر شیاطین کا قبضہ تھا تب خدا تعالیٰ نے محمدؐ کی روح پر تجلی فرمائی.تمام گوری اور کالی قوموں پر اُس کا احسان ثابت ہے اُس نے نوع انسانی کے لئے اپنی جان قربان کر دی.اے نبی اللہ ! تو ہی ہدایت کے راستوں کا سورج ہے تیرے بغیر کوئی عارف پرہیز گار ہدایت نہیں پا سکتا
.اے نبی اللہ ! تیرے ہونٹ زندگی بخش چشمہ ہیں اے نبی اللہ! تو ہی خدا کے راستہ کا رہنما ہے.ایک تو تیری پاک باتیں زید وعمر کے پاس جا کر تلاش کرتا ہے اور دوسرا بلا توسط تیرے منہ سے ان کو سنتا ہے.وہ شخص زندہ ہے جو تیرے چشمہ سے پانی کے گھونٹ پیتا ہے اور وہی انسان عقلمند ہے جس نے تیری پیروی اختیار کی صفحہ ۲۶.عارفوں کی معرفت کا آخری نقطہ تیرے رخ کا علم ہے اور راستبازوں کے صدق کا منتہا تیرے عشق پر ثابت قدم رہنا ہے.تیرے بغیر کوئی عرفان کی دولت کو نہیں پا سکتا، اگرچہ وہ ریاضتیں اور جدوجہد کرتا مر بھی جائے.تیرے عشق کے سوا صرف اپنے اعمال پر بھروسہ کرنا بے وقوفی ہے جو تجھ سے غافل ہے وہ ہرگز نیکی کا منہ نہ دیکھے گا.تیرے عشق کی وجہ سے ایک دم میں وہ نور حاصل ہو جاتا ہے جو سالکوں کو ایک لمبے زمانے میں حاصل نہیں ہوتا.دنیا کی عجیب چیزوں میں سے جو چیز بھی دل پسند اور مفید ہے ایسی ہر چیز کی خوبیاں مَیں تیری ذات میں پاتا ہوں.تیرے عشق کے زمانہ سے اور کوئی زمانہ زیادہ اچھا نہیں اور کوئی کام تیری مدح وثنا سے زیادہ بہتر نہیں.چونکہ مجھے تیری بے انتہا خوبیوں کا تجربہ ہے اس لئے اگر دوسرے تیرے خدمت گزار ہیں تو میں تجھ پر جان فدا کرنے کو تیار ہوں.ہر شخص اپنی نماز میں ) اپنے لئے(دعا کرتا ہے مگر میں اے میرے آقا تیری آل واولاد کے لئے دعا مانگتا ہوں.اے نبی اللہ !میں تیرے بال بال پر فدا ہوں اگر مجھے ایک لاکھ جانیں بھی ملیں تو تیری راہ میں سب کو قربان کر دوں.اصل میں تیری اتباع اور تیرا عشق ہر دل کے لئے کیمیا اور ہر زخمی جان کے لئے اکسیر ہے.دل اگر تیری محبت میں خون نہیں تو وہ دل ہی نہیں اور جو جان تجھ پر قربان نہ ہو وہ جان کس کام کی.تیری محبت میں میرا دل موت سے بھی نہیں ڈرتا میرا استقلال دیکھ کہ میں صلیب کے نیچے خوش خوش جا رہا ہوں.اے اللہ کی رحمت ہم تیرے رحم کے امیدوار ہیں تو وہ ہے کہ ہم جیسے لاکھوں تیرے در کے امیدوار ہیں.اے نبی اللہ! میں تیرے پیارے مکھڑے پر نثار ہوں.مَیں نے اُس سر کو جو کندھوں پر بار ہے تیری راہ میں وقف کر دیا ہے
صفحہ ۲۷.جب سے مجھے رسول پاک کا نور دکھایا گیا تب سے اس کا عشق میرے دل میں یوں جوش مارتا ہے جیسے آبشار میں سے پانی.میرے دل سے اُس کے عشق کی آگ بجلی کی طرح نکلتی ہے اے خام طبع رفیقو میرے آس پاس سے ہٹ جاؤ.میرا دل وجد میں ہے جب سے آنحضورؐ کو خواب میں دیکھا ہے اُس چہرے اور سر پر میری جان، سر اور منہ قربان ہوں.اُس چاہِ ذقن میں مَیں لاکھوں یوسف دیکھتا ہوں اور اُس کے دم سے بے شمار مسیح ناصری پیدا ہوئے.وہ ہفت کشور کا شہنشاہ اور مشرق ومغرب کا آفتاب ہے دین ودنیا کا بادشاہ اور ہر خاکسار کی پناہ ہے.کامیاب ہو گیا وہ دل جو صدق ووفا کے ساتھ اس کی راہ پر چلا، خوش قسمت ہے وہ سر جو اس شہسوار سے تعلق رکھتا ہے.اے نبی اللہ! کفر اور شرک سے دنیا اندھیرا ہو گئی، اب وقت آگیا ہے کہ تو اپنا سورج کی مانند چہرہ ظاہر کرے.اے میرے دلبر میں انوار الٰہی تیری ذات میں دیکھتا ہوں اور ہر عقلمند دل کو تیرے عشق میں سرشار پاتا ہوں.صاحب دل تیری قدر پہچانتے ہیں اور عارف تیرا حال جانتے ہیں لیکن چمگادڑوں کی آنکھ سے دوپہر کا سورج چھپا ہوا ہے.ہر شخص دنیا میں کوئی نہ کوئی محبوب رکھتا ہے مگر میں تو تیرا فدائی ہوں اے پھول سے رخساروں والے محبوب.سارا جہان چھوڑ کر میں نے تیرے حسین چہرہ سے دل لگایا ہے اور اپنے وجود پر تیرے وجود کو ترجیح دی ہے.زندگی کیا ہے؟ یہی کہ تیری راہ میں جان کو قربان کر دینا، آزادی کیا ہے؟ یہی کہ تیری قید میں شکار بن کر رہنا.جب تک میرا وجود باقی ہے تیرا عشق میرے دل میں رہے گا، جب تک میرے دل میں خون دورہ کرتا ہے تب تک اس کا دارومدار تجھ پر ہے.یا رسول اللہ !میں تجھ سے مضبوط تعلق رکھتا ہوں اور اس دن سے کہ میں شیر خوار تھامجھے تجھ سے محبت ہے صفحہ ۲۸.جو قدم بھی میں نے خدائے بے ہمتا کی راہ میں مارا میں نے پوشیدہ طور پر ہر جگہ تجھے اپنا معین، حامی اور
مددگار دیکھا.دونوں جہانوں میں مَیں تجھ سے بے انتہا تعلق رکھتا ہوں تو نے خود بچے کی طرح اپنی گود میں میری پرورش فرمائی.وہ وقت یاد کر کہ جب تو نے کشف میں مجھے اپنی صورت دکھائی تھی اور ایک اور موقع بھی یاد کر جب تو میرے پاس مشتاقانہ تشریف لایا تھا.ان مہربانیوں اور رحمتوں کو یاد کر جو تو نے مجھ پر کیں اور ان بشارتوں کو بھی جو خدا کی طرف سے تو مجھے دیتا تھا.وہ وقت یاد کر جب بیداری میں تو نے مجھے دکھایا تھا.اپنا وہ جمال، وہ چہرہ اور وہ صورت جس پر موسم بہار بھی رشک کرتا ہے.جو کچھ ہم کو ان دو موذی شیخوں سے تکلیف پہنچی، اے رسول اللہ ! اس کا حال اس قادر اور علیم خدا سے پوچھ لے.ہمارے حال اور ان دو بدزبان شیخوں کی شوخی کو خدائے علیم و ُبردبار پورے طور پر جانتا ہے.انہوں نے میرا نام دجال.گمراہ اور کافر رکھ چھوڑا ہے اور ان کے خیال میں میرے جیسا اور کوئی ناپاک، بد اور ذلیل نہیں.مجھ مظلوم اور غمگین کے لئے کسی کا دل نہ جلا.سوائے تیرے جس نے خوابوں میں مجھ پر بار بار شفقت دکھائی.ہاں اس خدائے کریم نے جو میرا معشوق ومحبوب ہے ایک ہمدرد کی طرح ہمیشہ مجھے تسلی دی اور دیتا رہتا ہے.سینکڑوں تکالیف پر اُسی کی مہربانی کی وجہ سے ہم نے صبر کیا کیونکہ ُسرمہ آنکھ کے قابل نہیں ہوتا جب تک غبار کی طرح باریک نہ ہو جائے.اے وہ شخص جو بخل اور دشمنی کی وجہ سے مسلمانوں کی تکفیر کرتا ہے.تجھے منصف اور قادر خدا سے شرم آنی چاہیے.اپنی زبان سے کسی کو کافر کہہ دینا آسان ہے مگر اس وقت مشکل پڑے گی جب خدائے کردگار پوچھے گا.اے بھائی تو کلمہ گوؤں کا نام کافر کیوں رکھتا ہے اگر تو خوف خدا رکھتا ہے تو خود اپنے کفر کو جڑ سے نکال صفحہ ۲۹.تو بوڑھا ہو گیا مگر ابھی تک بوڑھوں والے اخلاق کو نہیں جانتا، خدا تجھے بوڑھوں کی طرح سوز اور صبر عنایت کرے.اگر تو نے اپنی قوم ہی کی تکفیر کی تو کیا کام کیا؟ اگر تو جو انمرد ہے تو جا اور کسی یہودی کو اسلام میں داخل کر.جب قیامت کی صبح کی ہوا حقیقت پر سے پردہ اٹھاوے گی تو صاف ظاہر ہو جائے گا کہ کون کافر ہے اور کون مومن
.اگر تو عقلمند ہے تو جا اور پہلے اپنی جان کی فکر کر ایمان کا دعویٰ کچھ چیز نہیں نور ایمان لا.کب تک تو تکفیر پر ناز کرے گا اور کب تک تمسخر کرتا رہے گا.جا اپنے آپ کو اپنے ایمان پر اور ہم کو ہمارے کفر پر چھوڑ دے.مجھ سے نہ تو جنت کا ذکر کر نہ دوزخ کا میں تو محمد کے دین کے غم میں دیوانوں کی سی زندگی بسر کرتا ہوں.اس وقت جبکہ مجھے دین کی مہم یاد آتی ہے تو دونوں جہان کی خوشیاں اور غم مجھے بالکل بھول جاتے ہیں صفحہ ۳۲.اے وہ شخص کہ میں تیری نظر میں دجال اور گمراہ ہوں تو خدائے ذوالجلال سے کیوں نہیں ڈرتا.تو مومن کا نام کافر رکھتا ہے اگر تو اس عقیدہ کے باوجود مومن ہے تو واقعی میں کافر ہوں صفحہ ۵۵.محبت کے درختوں کو اپنی آنکھوں کے پانی سے سیراب کرتا کہ ایک دن وہ تجھے شیریں پھل دیں.اسلام کا چاند اپنے اندر بہت سی حقیقتیں رکھتا ہے.ظاہر بینوں کو اس چاند (کی خوبیوں ) کی کیا خبر ہوسکتی ہے.میں اس یار کی طرف سے آیا ہوں کہ مخلوق کو یہ چاند دکھاؤں اگر آج تو مجھے نہیں دیکھے گا تو ایک روز حسرت کا دن دیکھے گا.اگر میری شان تیری آنکھوں سے پوشیدہ ہے تو بھی خاموش رہ.کہ بد پرہیز بیمار تندرستی کا منہ نہیں دیکھتا.چونکہ تجھے معرفت کی آنکھ اور نور عرفان نہیں دیا گیا اس لئے تو نے عاشقانِ اسلام کا نام کافر رکھ دیا ہے.اے بیوقوف ہم درگاہِ مصطفوی سے کہاں بھاگ کر جائیں کیونکہ ہم کسی اور جگہ یہ عزت اور دولت نہیں پا سکتے.الحمد للہ کہ اس قوم نے خود ہی مجھ سے قطع تعلق کر لیا اور خدا نے مہربانی اور کرم سے خلوت میسر کر دی..ان چہروں کے دیکھنے سے میں کس قدر تکلیف پاتا تھا مجھے اپنے دلبر پر ناز ہے کہ اس نے پھر مجھے جنت عطا کی.تو اس قرب کی وجہ سے جو مجھے دلدار سے حاصل ہے کیوں جلتا ہے اگر تیرے ہاتھ میں زور ہے تو قسمت کے رزق کو بند کر دے.اس کا مقدس دامن تکبر سے ہاتھ نہیں آتا.اس کے ہاں اسی کو عزت ملتی ہے جو لباس عزت جلا دیتا ہے.اگر مولا کی راہ چاہتا ہے تو علم کی شیخی ترک کر کہ اس کے کوچہ میں ا ِسیر کبر ونخوت کو گھسنے نہیں دیتے
.اگر خدا کا طلب گار ہے تو دنیوی نعمتوں سے دل نہ لگا کہ میرا محبوب ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے جو عیش کے تارک ہوں.پانی کا مصفا قطرہ چاہیے تا کہ اُس سے موتی پیدا ہو.ناپاک دل خدا کے پاک چہرہ کو کہاں دیکھ سکتا ہے.مجھے ذرہ بھر دنیا کی عزت درکار نہیں.ہمارے لئے کرسی نہ بچھا کہ ہم تو خدمت پر مامور ہیں صفحہ ۵۶.سب لوگ اور سارا جہاں اپنے لئے عزت چاہتا ہے برخلاف اس کے میں یار کی راہ میں ذلت مانگتا ہوں.سب لوگ اس زمانہ میں امن وعافیت کے خواستگار ہیں میرے سر کو کیا ہوا کہ وہ مصیبت کا خواہشمند ہے.مجھے تو جدھر دیکھتا ہوں رُخِ جاناں ہی نظر آتا ہے سورج میں بھی وہی چمکتا ہے اور چاند میں بھی وہی ملاحت دکھاتا ہے.میں اُس روز سے غربت اور عجز کا حریص ہوں جب سے میں نے جانا کہ اُس کے حضور میں زخمی مسکین دل کی عزت ہے.میں نے خودی اور خودرائی کی اس شاخ کو جڑ سے کاٹ ڈالا جو اپنی ناپاکی سے نفرین اور لعنت کا پھل پیدا کرتی ہے.اگر میرے جان ودل کے چمن سے پردہ اٹھایا جائے تو ُتو اس میں اس پاکیزہ طلعت معشوق کا چہرہ دیکھ لے گا.اس کے نورِ عشق کی تجلّی سے ہمارے بام وقصر روشن ہیں.لیکن اسے وہی دیکھتا ہے جو بصیرت رکھتا ہو.محبوب کی نگاہِ رحمت نے مجھ پر بڑی عنایتیں کی ہیں ورنہ مجھ جیسا انسان کس طرح اس رشد وسعادت کو پاتا.ظاہری علوم کے واقف اپنے علم پر نازاں ہیں انہوں نے اپنے ہاتھ سے اصلیت اور حقیقت اور مغز کو پرے پھینک دیا.انہوں نے تکبر کے پردوں میں اپنی عقل ودانش کو چھپا دیا اور اس شراب کے ایسے خواہشمند ہیں جیسے پاک لوگ قرب الٰہی کے.خدا نے خود شیطان کا قصہ اس لئے بیان کیا ہے تا کہ لوگ جانیں کہ تکبر عبادت گذار کو بھی شیطان بنا دیتا ہے.ان لوگوں نے اپنی عمر بے فائدہ لفاظیوں میں بسر کر دی مگر حقیقت کے لئے ان کو ایک لحظہ کی فرصت نہیں.ظاہری شرع کے بارے میں بھی اُن کی لاف وگزاف باطل ہے کیونکہ حقائق سے غافل انسان شریعت کو کب سمجھ سکتا ہے
.یہ مسیحِ ناصری کو قیامت تک زندہ سمجھتے ہیں.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فضیلت نہیں دیتے.چونکہ نافہء عرفان کی خوشبو سے ازلی محروم تھے اس لئے شاہنشاہِ عالم کی شان میں یہ ذلّت پسند کی.قرآن کے تمام موتیوں کو کوڑے کرکٹ کی طرح پھینک دیا اُن کے ناقص علم کی وجہ سے ملّت اسلام کا کس قدر نقصان ہوا.انہوں نے اپنے عقیدہ سے تمام عیسائیوں کی مدد کی اسی وجہ سے ُمردہ پرستوں میں بھی دلیری آگئی.اس آتشیں زمانے میں مَیں آرام کی نیند کیونکر سو سکتا ہوں جبکہ زمانہ فریاد کر رہا ہے کہ جلدی مدد کو پہنچو.اندھیری رات، چور کا خوف اور قوم غافل اس غم سے کہاں جاؤں؟ یا رب خود دست قدرت دکھا صفحہ ۵۷.جو میری روشنی پر خاک ڈال رہے ہیں اس کا مجھے خوف نہیں بھلا وہ نور کب چھپ سکتا ہے جو خدا نے میری فطرت کو بخشا ہے.ان کے شور وشغب سے میرے دل میں گھبراہٹ نہیں پیدا ہوتی، صادق کبھی بزدل نہیں ہوتا خواہ قیامت کو دیکھے صفحہ ۱۱۲.مصطفی کا درجہ کیونکر کم ہو گیامسیح ناصری.سے اے نادان لڑکے.وہ کہ جس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہے اُس کی بابت کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ روح القدس سے الگ ہے.وہ جس کا ہر قول وفعل ہمارا دین ہے تو ایک دم کے لئے بھی جبریل سے اس کی جدائی کیونکر جائز ہوسکتی ہے.نبیوں کے سردار پر یہ افترا، تم کیوں خدا کے غصّے سے نہیں ڈرتے صفحہ ۱۶۴.موسٰیؑ اور عیسٰیؑ آپ کی جماعت کے ہی افراد ہیں.سب اس راہ میں آپ کے طفیلی ہیں صفحہ ۱۷۳.فرشتے اس امانت کا بوجھ نہ اٹھا سکے آخر قرعہ فال مجھ دیوانہ کے نام ہی نکلا صفحہ ۲۹۹.دلائل پر بھروسہ کرنے والوں کا پاؤں لکڑی کا ہوتا ہے
صفحہ ۳۰۳.بدخواہ کی آنکھ کہ خدا کرے پھوٹ جائے.اسے ہنر بھی عیب دکھائی دیتا ہے صفحہ ۳۱۰.تا جس کا جھوٹ ثابت ہوجائے اس کا منہ کالا ہو صفحہ ۳۲۹.دلائل پر بھروسہ کرنے والوں کا پاؤں لکڑی کا ہوتا ہے اور لکڑی کا پاؤں سخت کمزور ہوتا ہے.اگر دین کا مدار دلیلیں پیش کرنے پر ہوتا تو فخر الدین رازی دین کے راز دان ہوتے صفحہ ۳۵۸.چونکہ مجھے عیسائی قوم کے لئے ایک نور دیا گیا ہے.اس وجہ سے میرا نام ابن مریم رکھا گیا.میں چاند کی طرح روشن ہوں اور آفتاب کی طرح چمکتا ہوں وہ اندھے ہیں جو انکار میں پڑے ہوئے ہیں.اے طالبو! سنو غیب سے یہ آواز آرہی ہے کہ ایک ُمصلح درکار ہے کیونکہ ہر جگہ فساد پیدا ہو گئے ہیں.میں صادق ہوں اور مولیٰ کی طرف سے نشان لے کر آیا ہوں علم وہدایت کے سینکڑوں در مجھ پر کھولے گئے ہیں.آسمان نشان برسا رہا ہے اور زمین پکار رہی ہے کہ یہی وقت ہے میری تصدیق کے لئے یہ دو گواہ کھڑے ہیں صفحہ ۵۹۷.خدا جب کسی کی دونوں آنکھیں بند کر دیتا ہے تو اسے کچھ نظر نہیں آتا خواہ سورج کتنا ہی چمکتا رہے صفحہ ۶۳۶.اے دوستو اپنے تئیں محبوبِ حقیقی پر قربان کر دو اور اُس جانی دوست کی راہ میں جان ودل نثار کر دو.اس آرام پسنددل کو جو اس جہان میں خوشیاں ڈھونڈتا ہے محمدؐ کے دین کی خاطر بیت الحزن بنا دو.اے مردانِ خدا عیش وعشرت کی زندگی چھوڑ دو اور اب اپنے آپ کو اسلام کی خاطر سرگرداں کرو صفحہ ۶۴۱.دیکھو راستہ کا فرق کہاں سے کہاں تک ہے
صفحہ ۶۴۵.میری جان ودل محمدؐ کے جمال پر فدا ہیں اور میری خاک آلِ محمدؐ کے کوچے پر قربان ہے.میں نے دل کی آنکھوں سے دیکھا اور عقل کے کانوں سے سنا.ہر جگہ محمدؐ کے جلال کا شہرہ ہے.معارف کا یہ دریائے رواں جو میں مخلوق خدا کو دے رہا ہوں یہ محمدؐ کے کمالات کے سمندر میں سے ایک قطرہ ہے.یہ میری آگ محمدؐ کے عشق کی آگ کا ایک حصہ ہے اور میراپانی محمدؐ کے مصفا پانی میں سے لیا ہوا ہے.اس نے معاملہ کو مختصر کر دیا ورنہ بہت بڑی درد سری تھی صفحہ ۶۴۶.کوئی ظاہر پرست زاہد ہمارے حال سے واقف نہیں ہوسکتا اس لئے ہمارے متعلق تو جو کچھ بھی کہے برا منانے کی کوئی وجہ نہیں صفحہ ۶۴۹.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان میں ایک عجیب نور ہے محمدؐ کی کان میں ایک عجیب وغریب لعل ہے.دل اُس وقت ظلمتوں سے پاک ہوتا ہے جب وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دوستوں میں داخل ہو جاتا ہے.میں اُن نالایقوں کے دلوں پر تعجب کرتا ہوں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر خوان سے منہ پھیرتے ہیں.دونوں جہان میں مَیں کسی شخص کو نہیں جانتا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سی شان وشوکت رکھتا ہو.خدا اُس شخص سے سخت بیزار ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کینہ رکھتا ہو.خدا خود اس ذلیل کیڑے کو جلا دیتا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں میں سے ہو.اگر تو نفس کی بد مستیوں سے نجات چاہتا ہے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مستانوں میں سے ہو جا.اگر تو چاہتا ہے کہ خدا تیری تعریف کرے تو تہ دل سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مدح خواں بن جا.اگر تو اُس کی سچائی کی دلیل چاہتا ہے تو اُس کا عاشق بن جا کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی خود محمد کی دلیل ہے.میرا سر احمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خاک پا پر نثار ہے اور میرا دل ہر وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان رہتا ہے.رسول اللہ کی زلفوں کی قسم کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نورانی چہرے پر فدا ہوں.اس راہ میں اگر مجھے قتل کر دیا جائے یا جلا دیا جاوے تو پھر بھی میں محمدؐ کی بارگاہ سے منہ نہیں پھیروں گا
.دین کے معاملہ میں مَیں سارے جہان سے بھی نہیں ڈرتا کہ مجھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ایمان کا رنگ ہے.دنیا سے قطع تعلق کرنا نہایت آسان ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن واحسان کو یاد کر کے.اُس کی راہ میں میرا ہر ذرّہ قربان ہے کیونکہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مخفی حسن دیکھ لیا ہے.میں اور کسی استاد کا نام نہیں جانتا میں تو صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مدرسہ کا پڑھا ہوا ہوں.اور کسی محبوب سے مجھے واسطہ نہیں کہ میں تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نازو ادا کا مقتول ہوں.مجھے تو اسی آنکھ کی نظر مہر درکار ہے.میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے باغ کے سوا اور کچھ نہیں چاہتا.میرے زخمی دل کو میرے پہلو میں تلاش نہ کرو کہ اسے تو ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے باندھ دیا ہے.میں طائرانِ ُقدس میں سے وہ اعلیٰ پرندہ ہوں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے باغ میں بسیرا رکھتا ہے.تو نے عشق کی وجہ سے ہماری جان کو روشن کر دیا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تجھ پر میری جان فدا ہو.اگر اس راہ میں سو جان سے قربان ہو جاؤں تو بھی افسوس رہے گا کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے شایاں نہیں.اس جوان کو کس قدر رعب دیا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے میدان میں کوئی بھی (مقابلہ پر) نہیں آتا.اے نادان اور گمراہ دشمن ہوشیار ہو جا.اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کاٹنے والی تلوار سے ڈر.خدا کے اس راستہ کو جسے لوگوں نے بھلا دیا ہے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آل اور انصار میں ڈھونڈ.خبردار ہو جا! اے وہ شخص جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان نیز محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چمکتے ہوئے نور کا منکر ہے.اگرچہ کرامت اب مفقود ہے مگر تو آ اور اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں میں دیکھ لے صفحہ ۶۵۲.اے عزیزو ! دین متین کی مدد ایسا عظیم الشان کام ہے کہ انسان اسے سو زہد کے بدلے میں بھی حاصل نہیں کر سکتا صفحہ ۶۵۳.جب تک کسی اللہ والے کا دل نہیں کڑھتا خدا کسی قوم کو ذلیل نہیں کرتا صفحہ ۶۵۸.اے میرے محسن دوست میری جان تجھ پر قربان ہے تو نے مجھ سے کون سا فرق کیا ہے کہ میں تجھ سے کروں.ہر مراد اور مدعا جو میں نے غیب سے طلب کیااور ہر خواہش جو میرے دل میں تھی
.تو نے اپنی مہربانی سے میری وہ مرادیں پوری کر دیں اور مہربانی فرما کر تو میرے گھر تشریف لایا.مجھے عشق ووفا کی کچھ بھی خبر نہ تھی.تو نے ہی خود محبت کی یہ دولت میرے دامن میں ڈال دی.اس سیاہ مٹی کو تو نے خود اکسیر بنا دیا وہ صرف تیرا ہی جمال ہے جو مجھے اچھا لگا.یہ میرے دل کی صفائی زُہد اور کثرت عبادت کی وجہ سے نہیں بلکہ تو نے مجھے آپ اپنی مہربانیوں سے روشن کر دیا ہے.میں ایک مُشت خاک ہوں جس پر تیرے سینکڑوں احسان ہیں تیری مہربانیوں سے میرا جسم وجان زیر بار ہے.دونوں جہان کا ترک کرنا آسان ہے اگر تیری رضا مل جائے اے میری پناہ، اے میرے حصار، اے میرے دارالامان.فصل بہار اور پھولوں کا موسم میرے لئے بیکار ہیں کیونکہ میں تو ہر وقت تیرے چہرے کے خیال کی وجہ سے ایک چمن میں ہوں.مجھے کسی اور استاد کی ضرورت کیوں ہو.میں تو اپنے خدا سے تربیت حاصل کئے ہوئے ہوں.اس کی دائمی عنایت اس قدر میرے قریب ہو گئی کہ دوست کی آواز میری ہر گلی کوچہ سے آنے لگی.اے رب! مجھے ہر قدم پر مضبوط رکھ اور ایسا کوئی دن نہ آئے کہ میں تیرا عہد توڑوں.اگر تیرے کوچہ میں عاشقوں کے سر اتارے جائیں تو سب سے پہلے جو عشق کا دعویٰ کرے گا وہ میں ہوں گا
آیات قرآنیہ ترتیب بلحاظ سورۃ الفاتحۃ اھدنا الصراط المستقیم......(۶،۷) ۲۴۶ح،۶۱۲ البقرۃ الم ذالک الکتاب لا ریب فیہ (۲،۳) ۱۴۰ یؤمنون بالغیب(۴)...۳۳۶ افکلما جاء کم رسول(۸۸) ۳۴،۷۵،۱۰۴،۲۷۵ بلی من اسلم وجھہ للّٰہ (۱۱۳) ۵۸،۶۳ ولنبلونکم بشیء من الخوف(۱۵۶) ۱۵۵ فاذکروا اللہ کذکرکم آباء کم(۲۰۱) ۶۵ ولعبد مؤمن خیر من مشرک (۲۲۲) ۱۹۱ یؤتی الحکمۃ من یشاء (۲۷۰) ۱۸۵،۱۸۶ ،۶۰۲ اٰل عمران فقل اسلمت وجھی للّٰہ (۲۱) ۱۶۲ قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی (۳۲) ۱۶۲،۱۹۲ یٰعیسی انی متوفیک (۵۶)۴۳،۴۵،۳۷۸،۴۳۴،۴۵۲ کنتم خیر امۃ اخرجت للناس (۱۱۱) ۱۹۷ ما محمد الا رسول (۱۴۵) ۳۷۸ النساء ان اللّٰہ یأمرکم ان تؤدوا الامٰنٰت(۵۹) ۱۶۱ وعلّمک ما لکم تکن تعلم (۱۱۴) ۱۸۷ لن یجعل اللّٰہ للکافرین علی المؤمنین سبیلا (۱۴۲) ۲۹۶ المائدۃ کانا یأکلان الطعام (۷۶) ۴۵ وکنت علیھم شھیدا(۱۱۸) ۴۲،۴۶،۳۷۸،۴۳۳ الانعام ھو القاھر فوق عبادہ (۱۹) ۱۸۱ وان کان کبر علیک اعراضھم (۳۶) ۳۳۳ ویرسل علیکم حفظۃ (۶۲) ۷۹ فبھدٰھم اقتدہ (۹۱) ۳۴۳ واقسموا باللّٰہ جھد ایمانھم (۱۱۰) ۳۳۳ او من کان میتا فاحینٰہ (۱۲۳) ۹۹ وان ھٰذا صراطی مستقیما (۱۵۴) ۱۶۲ یوم یأتی بعض آیات ربک (۱۵۹) ۳۳۳ قل ان صلا تی و نسکی (۱۶۳،۱۶۴) ۱۶۲ وبذٰلک امرت وانا اول المسلمین (۱۶۴) ۱۸۶ الاعراف خلقتنی من نار (۱۳) ۹۹ فیھا تحیون (۲۶) ۴۳۳ قد انزلنا الیکم لباسا (۲۷) ۴۴۱ و لقد جاء تھم رسلھم بالبینٰت (۱۰۲) ۳۳۳ ربنا افرغ علینا صبرا (۱۲۷) ۲۴۴ح ملکوت السمٰوٰت والارض (۱۸۶) ۱۹۵ الانفال وما رمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمٰی (۱۸) ۶۵ یا یھا الذین آمنوا ان تتقوا اللّٰہ (۳۰) ۹۷،۱۷۷،۲۹۶ و اعدّوا لھم ما استعطم من قوۃ (۶۱) ۶۰۹،۶۱۰
التوبۃ یا ایھا الذین آمنوا اتقوا اللّٰہ وکونوا مع الصادقین(۱۱۹) ۶۰۷ یونس انّ ربکم اللّٰہ الذی خلق السمٰوٰت (۴) ۱۷۲ح ح ویقولون متی ھذا الوعد ان کنتم صادقین(۴۹،۵۰) ۳۳۳ ھو خیر مما یجمعون (۵۹) ۱۸۶ لھم البشرٰی فی الحیٰوۃ الدنیا (۶۵) ۲۹۳،۲۹۶ ھود قیل یا ارض ابلعی ماء ک (۴۵) ۲۶۱ح یوسف اذ قال یوسف لابیہ یا أبت (۵) ۴۵۳ واللّٰہ غالب علٰی امرہ (۲۲) ۶۳۰ انی ارٰی سبع بقرات سمان (۴۴) ۴۵۳ الرعد لہ معقبات من بین یدیہ (۱۲) ۷۹ وان ما نرینک بعض الذی نعدھم (۴۱) ۴۳ الحجر انا نحن نزلنا الذکر(۱۰) ۲۶۰ح،۲۶۴ح،۲۶۵ح ۴۷۹،۴۸۰ وما ننزّلہ الا بقدر معلوم (۲۲) ۴۴۱ فاذا سوّیتہ ونفخت فیہ من روحی (۳۰) ۱۷۸ح ح انّ عبادی لیس لک علیھم سلطان (۴۳) ۷۷،۳۵۴ النحل یفعلون ما یؤمرون (۵۱) ۸۷ح ان اللّٰہ مع الذی اتقوا (۱۲۹) ۳۰۷ بنی اسرائیل من کان فی ھٰذہ اعمٰی (۷۳) ۱۴۹ کل یعمل علٰی شاکلتہ (۸۵) ۲۵۹ح الکہف ولم تظلم منہ شیءًا (۳۴) ۱۳۷،۱۶۶ مریم وان منکم الا واردھا (۷۲) ۱۵۶ وان منکم الا واردھا (۷۲،۷۳) ۱۴۲،۱۴۳ ثم ننجّی الذین اتقوا (۷۳) ۱۵۳ طٰہٰ قل رب زدنی علما (۱۱۵) ۱۸۶ الانبیاء او لم یر الذین کفروا (۳۱) ۱۹۱ح ح یوم نطوی السماء کطیّ السجلّ (۱۰۵) ۱۵۲ح ح الحج وما ارسلنا من قبلک من رسول (۵۳) ۲۳۹،۳۵۲ المؤمنون ولقد خلقنا الانسان من سلالۃ (۱۳ تا ۱۵) ۱۷۶،۱۷۷ح ح فخلقنا المضغۃ عظامًا (۱۵) ۲۰۷ح ح، ۱۹۴ح ح النور اللّٰہ نور السمٰوٰت والارض (۳۶) ۱۷۶ح الفرقان لو لا نزّل علیہ القرآن جملۃ واحدۃ (۳۳) ۳۰۶ النمل من جاء بالحسنۃ فلہ خیر منھا (۹۰) ۱۴۷ ومن جاء بالسیّءۃ فکبت وجوھھم (۹۱) ۱۴۸ العنکبوت احسب الناس ان یترکوا (۳) ۴۵۵
السجدۃ فلا تکن فی مریۃ من لقاۂٖ (۲۴) ۶۱۰ الاحزاب و داعیا الی اللّٰہ باذنہٖ (۴۷) ۴۵۸ انا عرضنا الامانۃ علی السمٰوٰت والارض (۷۳) ۱۴۲،۱۵۸،۱۶۷،۱۶۸،۱۶۹ لیعذب اللّٰہ المنٰفقین والمنٰفقٰت(۷۴) ۱۷۵ الفاطر وما یستوی الاحیاء ولا الاموات (۲۳) ۹۹ انما یخشی اللّٰہ من عبادہ العلمآؤا (۲۹) ۱۸۵ ومنھم ظالم لنفسہ ومنھم مقتصد (۳۳) ۹۷،۱۲۸ یٰس کل فی فلک یسبحون (۴۱) ۱۳۸ح ح، ۱۴۸ح ح انما امرہ اذا اراد شیءًا (۸۳) ۱۶۰ح ح الصافات و ما منا الا لہ مقام معلوم (۱۶۵) ۹۳ الزمر و انزل لکم من الانعام (۷) ۴۴۱ فیمسک التی قضٰی علیھا الموت (۴۳) ۵۵۸ قل یٰعبادی الذین اسرفوا علٰی انفسھم (۵۴) ۱۸۹ و یوم القیٰمۃ تری الذین کذبوا علی اللّٰہ (۶۱) ۱۵۵ وینجی اللّٰہ الذین اتقوا بمفازتھم (۶۲) ۱۵۶ والسمٰوٰت مطویات بیمینہٖ (۶۸) ۱۵۲ح ح المؤمن لمن الملک الیوم للّٰہ الواحد القھار (۱۷) ۱۵۴ح ح و ان یک صادقًا یصبکم (۲۹) ۳۲۲ و أمرت ان اسلم لرب العٰلمین (۶۷) ۱۶۲ حٰم السجدۃ ان الذین قالوا ربنا اللّٰہ ثم استقاموا (۳۱،۳۲) ۹۸ الزخرف یٰعبادِ لا خوف علیکم الیوم (۶۹) ۱۴۸ الفتح اشدّاء علی الکفار رحماء بینھم (۳۰) ۲۰۵ح ح الذاریات والذاریات ذروا (۲ تا ۵) ۱۳۵ح النجم والنجم اذا ھوٰی (۲ تا ۸) ۱۰۲،۱۰۳ح وما ینطق عن الھوٰی (۴،۵) ۹۱ح، ۱۱۲،۲۳۱،۳۵۲ الرحمان کل من علیھا فان (۲۷،۲۸) ۱۵۴ح ح الواقعۃ لا یمسہ الا المطھرون (۸۰) ۶۰۲ الحدید اعلموا ان اللّٰہ یحیی الارض بعد موتھا (۱۸) ۱۹۴ واقرضوا اللّٰہ قرضا حسنا (۱۹) ۱۵۴ و انزلنا الحدید (۲۶) ۴۴۱ ویجعل لکم نورًا تمشون بہٖ (۲۹) ۹۷،۱۷۷،۲۹۶ المجادلۃ اولئک کتب فی قلوبھم الایمان (۲۳) ۱۰۰،۱۰۴،۱۹۵ الصف فلما زاغوا ازاغ اللّٰہ قلوبھم (۶) ۳۱۸ح مبشرًا برسول یأتی من بعدی (۷) ۴۲ الجمعۃ ھو الذی بعث فی الامیین رسولا منھم (۳،۴) ۲۰۸ وآخرین منھم لما یلحقوا بھم (۴) ۲۱۳
الطلاق اللّٰہ الذی خلق سبع سمٰوٰت(۱۳) ۱۵۶ح ح التحریم واغلظ علیھم (۱۰) ۳۰۶ الملک ولقد زیّنا السمآء الدنیا بمصابیح (۶) ۷۷ح ح،۱۴۰ح الحاقہ وانشقت السمآء (۱۷،۱۸) ۱۳۸ح الجن و انّا لمسنا السمآء فوجدناھا ملئت( ۹،۱۰) ۱۰۴،۱۰۵ح فلا یظھر علٰی غیبہ احدًا (۲۷،۲۸) ۳۲۲ المدثر ما یعلم جنود ربک الا ھو (۳۲) ۳۸۵ المرسلات والمرسلات عرفا (۲ تا ۶) ۱۳۶ التکویر اذا الجبال سیرت (۴) ۴۶۹ و اذا العشار عطلت (۵) ۴۶۹ و اذا الوحوش حشرت (۶) ۴۶۹ و اذا النفوس زوّجت (۸) ۴۶۹ و اذا الصحف نشرت (۱۱) ۴۶۹ اذا السمآء کشطت (۱۲) ۸ ۴۷ الانفطار و اذا الکواکب انتثرت (۳) ۴۶۹ و اذا البحار فجرت (۴) ۴۶۹ و انّ علیکم لحافظین (۱۱) ۷۹ الانشقاق و اذا الارض مدت (۴) ۴۶۹ و ألقت ما فیھا و تخلّت (۵) ۴۶۹ الطارق والسمآء والطارق (۲،۳) ۷۶ والسمآء والطارق (۲تا۵) ۹۹ح النجم الثاقب (۴،۵) ۷۷ ان کل نفس لما علیھا حافظ (۵) ۱۳۸ح انہ علٰی رجعہ لقادر (۹) ۴۴۵ والسمآء ذات الرجع (۱۲) ۴۴۶ والسمآء ذات الرجع (۱۲ تا ۱۷) ۴۴۲ الشمس فألھمھا فجورھا وتقوٰھا (۹) ۸۱ح قد أفلح من زکّٰھا (۱۰) ۳۵۴ الضحیٰ الم یجدک یتیمًا فاٰوٰی (۷ تا ۹) ۱۷۱ و وجدک ضالّا فھدٰی (۸) ۱۷۰ فأما الیتیم فلا تقھر (۱۰ تا ۱۲) ۱۷۱ التین لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم (۵) ۱۸۲ح ح الزلزال اذا زلزلت الأرض زلزالھا (۲) ۴۶۹ النصر و رأیت الناس یدخلون فی دین اللّٰہ افواجا(۳) ۲۰۷ الأخلاص قل ھو اللّٰہ احدٌ (۲) ۴۵
احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم اجب عنی اللّٰھم ایدہ بروح القدس ۱۰۳ اذا اراد اللّٰہ تبارک وتعالٰی ان یوحی بامرہ تکلم بالوحی ۱۰۷ اسعد الناس بشفاعتی یوم القیٰمۃ من قال لا الٰہ الا اللّٰہ ۶۰۷،۶۰۸ اصدقکم حدیثًا ۲۹۶ اطلبوا العلم ولو کان فی الصین ۶۰۶ اقسم باللّٰہ ما علی الارض من نفس منفوسۃ یأتی علیھا ماءۃ سنۃ وھی حیۃ یومئذٍ ۵۵۶ الائمۃ من قریش ۲۷۰ اللّٰھم اغفر لقومی فانھم لا یعلمون ۳۱۸ انا الحاشر الذی یحشر الناس علی قدمی ۱۹۴ ان رسول اللّٰہ وضع لحسان ابن ثابت منبرًا فی المسجد ۱۰۲،۱۰۳ ان معکم من لا یفارقکم الا عند الخلاء وعند الجماع فاستحیوھم واکرموھم ۷۹ ان وفد القیس اتوا النبیؐ ۶۰۸ انما الاعمال بالنّیات ۶۰۶،۶۰۹ حب الانصار من الایمان ۶۱۰ حدثوا عن بنی اسرائیل ۲۶۹ح خیر ھذہ الامۃ اولھا وآخرھا ۲۱۶ ذھب وھلی ۳۰۵،۶۰۰ طلب العلم فریضۃ علٰی کل مسلم و مسلمۃ ۶۰۶ غیّر عتبۃ بابک ۴۵۹ قال علیٌّ حدثوا الناس بما یعرفون ۶۱۰ کان عبد اللّٰہ یذکر الناس فی کل خمیس ۶۰۹ لو کان الایمان عند الثریا لنالہ رجل من فارس او رجال من فارس ۲۱۶،۲۱۷ ما فی السمآء موضع قدم الا علیہ ملک ساجد ۸۹ح ما منکم من احد الا وقد وکل بہ قرینہ من الجن وقرینہ من الملائکۃ ۸۰ من سلک طریقًا یطلب بہٖ علمًا سھّل اللّٰہ لہ طریق الجنۃ ۶۰۷ من لم یشکر الناس فلم یشکر اللّٰہ ۵۱۶ متوفّیک ممیتک ۳۷۸ ھاجھم وجبرائیل معک ۱۰۴ وتکون السمٰوات بیمینہ ۱۵۳ ح ح یتزوّج و یولد لہ ۵۷۸ح یضع الحرب ۴۵۶ یقبض العلم بقبض العلماء ۶۰۵ یکسر الصلیب و یقتل الخنزیر ۲۶۹،۳۷۸،۴۳۷ احادیث بالمعنی آگ کے عذاب سے کسی کو ہلاک کرنا سخت ممنوع ہے ۶۱۱ اپنی رؤیا میں صادق تر وہی ہوتا ہے جو اپنی باتوں میں صادق تر ہوتا ہے ۲۹۳ اس زمانہ کے فتویٰ دینے والے ان تمام لوگوں سے بدتر ہوں گے جو روئے زمین پر رہتے ہوں گے ۶۰۵ اگر ایمان آسمان پر چلا جاتا تب بھی آخرین اسے زمین پر لے آتے ۲۱۱، ۲۱۲،۲۲۰ اگر فاطمہ بنت محمدؐ چوری کرے تو اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیا جائے گا ۳۰۹
اللہ تعالیٰ کا وعدہ کہ ہر صدی کے سر پر ایک شخص کو مبعوث کرے گا جو دین کو پھر سے تازہ کرے گا ۳۴۰ ایک حصہ نام کا ہر بشر کے لئے مقدر ہے چاہے تو وہ اس دنیا میں اس آگ کو قبول کر لیوے اور چاہے تو تنعم اورغفلت میں عمر گذار دے اور آخرت میں حساب دے ۱۴۵،۱۴۶ ایک دم کے لئے بھی آسمان بقدر بالشت بھی فرشتوں سے خالی نہیں رہتا ۱۰۶ بیس فرشتے مختلف خدمات کے بجا لانے کے لئے انسان کے ساتھ رہتے ہیں.دن کو ابلیس اور رات کو ابلیس کے بچے ضرر رسانی کی غرض سے ہر دم گھات میں لگے رہتے ہیں ۸۰ تپ بھی جو مومن کو آتا ہے وہ نارِ جہنم میں سے ہے ۱۴۵ جب قیامت کے دن ایک شخص اپنی بداعمالی کی وجہ سے سخت مؤاخدہ میں ہو گا تو اللہ پوچھے گا فلاں صالح آدمی کی ملاقات کیلئے کبھی گیا تو کہے گا بالارادہ نہیں گیا تھا ۶۰۸ جس نے اپنے وقت کے امام کو شناخت نہ کیا اور مر گیا وہ جاہلیت کی موت پر مرا ۶۱۲ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا کہنا کہ مَیں جو کچھ آنحضرتؐ سے سنتا لکھ لیتا ۱۱۳ دجال پہلے نبوت کا دعویٰ کرے گا پھر خدائی کا ۳۴۴ شدِّ رحال ۶۰۶ کوئی ایسا انسان نہیں جس کی حفاظت کے لئے دائمی طور پرایک فرشتہ مقرر نہ ہو ۸۰ زمانہ فیج اعوج مولوی تمام لوگوں سے بدتر ہوں گے ۲۱۵ مجھ کو یونس بن متّٰی سے زیادہ فضیلت نہ دی جائے ۱۶۳ مسیح دمشق میں اترے گا ۴۵۶ ملائکہ ہر ایک شرّ سے بچانے کے لئے انسان کے ساتھ رہتے ہیں اور جب تقدیر مبرم نازل ہو تو الگ ہو جاتے ہیں ۸۰ مومن اسی دنیا میں نارِ جہنم کا حصہ لیتا ہے اور کافر جہنم میں بجبر و اکراہ گرایا جاتا ہے ۱۴۵ مومن کے لئے اس دنیا میں بہشت دوزخ کی صورت میں متمثل ہوتا ہے ۱۴۵ مہدی پیدا ہو گا اور اس کا نام میرا نام ہو گا اور اس کا خُلق میرا خُلق ہو گا ۳۴۶ میری حضرت عیسیٰ سے نصف عمر ہو گی ۴۳۱ میری مسیح سے بشدت مناسبت ہے اور اس کے وجود سے میرا وجود ملا ہوا ہے ۳۴۳ نوافل کے ذریعہ قرب الٰہی ۵۶۶ وہ قرآن پڑھیں گے مگر قرآن ان کے گلے سے نیچے نہیں اترے گا ۶۰۵ ہر ایک بندہ کے لئے ایک فرشتہ مؤکل ہے جو اس کے ساتھ ہی رہتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے ۷۹
الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام عربی الہامات اجیب کل دعائک الا فی شرکائک ۲۹۷ الحق من ربک فلا تکونن من الممترین ۵۵۱، ۵۷۶ اخترتک لنفسی ۱۱، ۵۵۱ ادعونی استجب لکم ۶۰۴ الرحمان علم القرآن ۱۰۹ح، ۵۵۰ اردت ان استخلف فخلقت آدم ۵۶۵، ۵۹۸ اردت ان استخلف فخلقت آدم نجی الاسرار ۲۶۷ ان اصنع الفلک باعیننا ووحینا ۳۷۳ انت معی و انا معک ۲۸۷ انت معی وانا معک ولا یعلمھا الا المسترشدون ۲۶۶ انت منی و سرّک سرّی و انت مرادی و معی ۱۱ انت منی بمنزلۃ توحیدی و تفریدی ۴۸۴،۵۵۱ انت منی بمنزلۃ لا یعلم الخلق ۱۱ انت منی بمنزلۃ لا یعلمھا الخلق ۴۸۴ انت وجیہ فی حضرتی ۱۱، ۵۵۱ انظر الٰی یوسف واقبالہٖ ۲۶۶ ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللّٰہ ۳۷۴،۳۷۵ ان اللّٰہ مع الذین اتقوا و ان اللّٰہ مع المحسنین ۳۷۵ ان ربک فعال لما یرید ۲۸۷، ۳۵۵ ان نوری قریب ۲۶۶ انا جلعناک المسیح ابن مریم ۳۷۳،۵۵۱ انا خلقنا الانسان فی احسن تقویم ۵۶۵ انا خلقنا الانسان فی یوم موعود ۲۶۷ انا سنریھم آیات مبکیۃ وننزل علیھم ھموما عجیبۃ ۵۷۰ انا معک نرفعک درجات ۶۵۶ انا مھلکو بعلھا کما اھلکنا اباھا ورادوھا الیک ۵۷۶ انا نری تقلب وجھک فی السمآء ۶۵۶ انک الیوم لدینا مکین امین ۵۵۱ انما امرہ اذا اراد شیءًا ۳۷۴ اننی غالب علٰی کل خصیم اعمٰی ۳۸۲ انہ یری الاوقات ویعلم مصالحھا ۳۷۴ انھم ینادون من مکان بعید ۳۶۶ انی بدک اللازم وعضدک الاقوٰی ۳۸۳ انی جاعلک عیسی ابن مریم ۴۲۶ انی معک حیث ما کنت ۳۸۳ انی معین من اراد اعانتک ۱۱ انی مھین من اراد اھانتک ۱۱،۲۹۴،۳۸۲،۶۰۴ انی ناصرک ۳۸۳ تقیم الشریعۃ و تحیی الدین ۵۵۱ ذرونی اقتل موسٰی ۲۱۹ح ربنا اغفرلنا انا کنا خاطئین ۲۶۶ سیولد لک الولد ویدنٰی منک الفضل ۲۶۶ عجل جسد لہ خوار لہ نصب و عذاب ۶۵۰ عسٰی ان یبعثک مقاما محمودا ۲۸۷ فاصدع بما تؤمر ۵۵۱ فحان ان تعان و تعرف بین الناس ۴۸۴، ۵۵۱ قالوا کتاب ممتلئی من الکفر والکذب...فنجعل لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین ۲۶۴ قد جاء وقت الفتح والفتح اقرب ۲۶۶ قل اتعجبون من فعل اللّٰہ ۳۷۴ قل الحمد للّٰہ الذی اذھب عنی الحزن ۳۷۴ قل ان کنتم تحبون اللّٰہ فاتبعونی ۳۷۵، ۵۵۱
قل انی امرت و انا اول المؤمنین ۱۰۹ح،۵۵۰ قل تربصوا الاجل و انی معکم من المتربصین ۵۷۶ قل تعالوا ندع ابناء نا و ابناء کم ۲۶۴، ۲۶۵، ۳۷۴ قل لعبادی اننی امرت وانا اول المؤمنین ۳۶۷ قل ھذا فضل ربی ۳۷۳ قل ھو اللّٰہ اعجب العجیبین ۳۷۴ کذبوا باٰیاتنا وکانوا بھا یستھزء ون ۲۸۶ کلب یموت علٰی کلب ۳۰۵ لا تبدیل لکلمٰت اللّٰہ ۲۸۶ لا تثریب علیکم الیوم ۲۶۶، ۲۶۷ لا تخف اننی معک ۱۱ لا یسئل عما یفعل وھم من المسؤلین ۳۷۴ لتنذر قوما ما انذر آباء ھم ۵۵۰ لتنذر قوما ما انذر آباء ھم ولتستبین سبیل المجرمین ۱۰۹ح،۳۷۳ ما رمیت اذ رمیت ولکن اللّٰہ رمٰی ۱۰۹ح،۳۷۳ نرد الیک الکرۃ الثانیۃ ۲۶۶ نظر اللّٰہ الیک معطرا ۲۶۳ نقلب فی السمآء ما قلّبت فی الارض ۶۵۶ واذا جآء وعد الحق أ ھٰذا الذی کذبتم ۵۷۶ واللّٰہ معھم حیث ما کانوا ۳۷۵ واللّٰہ یعصمک من عندہ ولو لم یعصمک الناس ۵۵۱ واللّٰہ ینصرک و لو لم ینصرک الناس ۵۵۱ و امرت من اللّٰہ و انا اول المؤمنین ۳۷۳ و امرک یتأتی ۲۶۶ و ان من شیء الا عندہ خزائنہ ۳۷۴ وانی اجرد نفسی من ضروب الخطاب ۳۷۳ وجدتک ما وجدتک ۱۱ وادع عبادی الی الحق وبشّرھم بأیام اللّٰہ ۳۷۴ واصنع الفلک بأعیننا و وحینا ۲۶۱ح و طوبٰی لمن سنَّ و سار ۲ و قالوا أتجعل فیھا من یفسد فیھا ۲۶۳، ۲۶۴ و قالوا انی لک ھٰذا قل ھو اللّٰہ عجیب ۲۶۶ و قالوا کتاب ممتلئی من الکفر والکذب ۳۷۴ و قم وانذر فانک من المامورین ۳۷۳ ولا تیئس من روح اللّٰہ ۲۶۶ ولتستبین سبیل المجرمین ۵۵۰ و یعلمک اللّٰہ من عندہ ۵۵۱ وما رمیت اذ رمیت ولکن اللّٰہ رمٰی ۱۱۰ح وما نؤخرہ الا لأجل معدود ۵۷۶ وماشٍ مع مشیک ۱۱ ونجعل لھم معیشۃ ضنکًا ونصبّ علیھم مصائب فلا یکون لھم احد من الناصرین ۵۷۰ ھٰذا الثناء لی ۲۱۷ح،۵۶۳ ھٰذا کتاب مبارک فقوموا للأجلال والاکرام ۶۵۲ یا احمد بارک اللّٰہ فیک ۱۰۹ح،۵۵۰ یا احمدی انت مرادی و معی ۴۸۳، ۴۸۴، ۵۵۱ یا عیسٰی انی متوفیک و رافعک الیّ ۵۵۰ یا عیسٰی سأریک آیاتی الکبرٰی ۳۸۲ یأتی قمر الانبیاء ۲۶۶ یأتی قمر الانبیاء و امرک یتأتی ۳۵۵ یجیئ الحق و یکشف الصدق ویخسر الخاسرون ۳۵۵ یخرون علی المساجد ۲۶۶ یرفع من یشآء ویضع من یشآء ۳۷۴ یسر اللّٰہ وجھک وینیر برھانک ۲۶۰ یوم یجیئی الحق و یکشف الصدق ۲۶۶ اردو الہامات تیرا گھر برکت سے بھرے گا اور مَیں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا ۶۴۷، ۶۴۸
دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا ۳۴۹ مَیں نے تیری تضرعات کو سنا ۵۷۷ مَیں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں ۶۴۷ فارسی الہامات کہ میخواہد نگارِ من تہیدستانِ عشرت را ۵۵ مصفا قطرۂ باید کہ تا گوہر شود پیدا ۵۵ رؤیا و کشوف مَیں وسیع مکان میں ہوں.اوپر کی منزل ہے اور جماعت کثیر کو حقائق سنا رہا ہوں...نبی کریمؐ کے ہاتھ میں میری یہ کتاب تھی اور ہاتھ وہاں تھا جہاں آپ کی اور آپ کے صحابہ کی تعریف کی گئی تھی ۲۱۵ح تا ۲۱۷ح،۵۶۲، ۵۶۳ مَیں حضرت علیؓ بن گیا ہوں...رسول اللہ ؐ کا فرمانا یا علی دعھم انصارھم وزراعتھم ۲۱۸ح، ۵۶۳ رلیا رام وکیل نے ایک سانپ میرے کاٹنے کے لئے بھیجا ہے مگر مَیں نے مچھلی کی طرح تل کر واپس بھیج دیا ۲۹۸ ایک شخص نے میری ٹوپی اتانے کے لئے ہاتھ مارا مَیں نے کہا کیا کرنے لگا ہے تب اس نے ٹوپی سر پر رہنے دی اور کہا خیر ہے خیر ہے ۲۹۹ ایک مکان میں داخل ہونا جہاں آپ کے خدام بھی ہیں مَیں نے کہا کہ میرا بستر صاف کرو میرا وقت آ گیا ہے ۵۴۸ میں صاف ستھرے گھر میں ہوں جہاں رسول اللہؐ کا ذکر ہو رہا ہے.میں پوچھتا ہوں کہ آپؐ کہاں ہیں تو انہوں نے ایک حجرہ کی طرف اشارہ کیا...آپؐ کے ہاتھ میں میری کتاب جس کا نام قطبی بتایا...۵۴۸ مَیں نے دروازے پر دستک کی آواز سنی تو کیا دیکھتا ہوں کہ کچھ لوگ یعنی پنج تن میری طرف جلدی آ رہے ہیں...حضرت فاطمہؓ نے اپنی ران پر میرا سر رکھا ۵۵۰ حضرت علیؓ کا آپ کو اپنی تفسیر القرآن عطا کرنا کہ اللہ نے مجھے آپ کو دینے کا حکم دیا ہے اور نبی کریمؐ بھی پاس تھے ۵۵۰ ایک رات لکھتے لکھتے نیند آ گئی تو رسول اللہ کو دیکھا تو آپ کا چہرہ چودھویں کے چاند کی مانند تھا آپ میرے پاس آئے اور معانقہ فرمایا جس سے آپؐ کے انوار مجھ میں سما گئے ۵۵۰ خواب میں اپنے آپ کو خدا دیکھنا اور اسی حالت میں زمین و آسمان پیدا کرنا...۵۶۴، ۶۵۶ ایک میدان میں کھڑا ہوں اور میرے ہاتھ میں تلوار ہے جس کا ایک رخ میری جانب تو دوسرا آسمان میں ہے خواب میں ہی عبداللہ غزنوی کا تعبیر بتانا ۵۷۶ گھوڑے پر سوار ہوں اور معلوم نہیں کہاں کا قصد ہے اوردیکھتا دیکھتا ہوں کہ گھوڑ سوار مجھے ہلاک کرنے کے لئے آ رہے ہیں...میرے باغ میں داخل ہوئے تو انہیں مُردہ پایا ۵۷۸ ایک فرشتہ بلند آواز سے لوگوں کے دلوں کو اس کتاب آئینہ کمالات اسلام کی طرف بلاتا ہے اور کہتا ہے ھٰذا کتاب مبارک فقوموا للاِجلال والاکرام ۶۵۲ شیخ مہر علی صاحب کی جائے نشست کو آگ لگی ہے اور اس عاجز نے بار بار پانی ڈال کر بجھا دیا ہے ۶۵۳ ایک دوکاندار کی طرف کچھ قیمت بھیجی کہ وہ عمدہ اور خوشبودار چیز بھیجے مگر اس نے بدبودار چیز بھیجی...۶۵۵
مضامین آ، ا ، ب، پ، ت،ث آخرت آخرت میں جو کچھ نجات کے متعلق مشہود و محسوس ہوگا وہ درحقیقت اسی کیفیت راسخہ کے اظلال و آثار ہیں ۵۹ عالم آخرت میں ہر ایک کو متمثل کر کے دکھا دیا جائے گا کہ وہ دنیا میں سلامتی کی راہ پر چلا یا ہلاکت کی راہوں پر ۱۴۶ عالم آخرت درحقیقت دنیوی عالم کا ایک عکس ہے ۱۴۸ تمثلات کو عالم آخرت سے نہایت مناسبت ہے ۱۵۱،۱۵۳ آخرت میں نجات کے امور دنیا میں مومن کی خدا کے ساتھ کیفیت کے مطابق جسمانی طور پر ظاہر ہوں گے ۵۹ دنیا میں سب سے بڑی خرابی جو آخرت کی طرف سر اٹھانے نہیں دیتی ۱۵۹ح دنیا اور آخرت کے عذاب کا علاج ایمان ہے ۲۷۱ح آریہ پادریوں کی تحریک سے ان کا خروج اور چند عقائد ۴۲۴ آریوں کی بدحالت ۵۳۹ آریوں کا اعتراض کہ زمین و آسمان کی پیدائش کی چھ دن میں تخصیص کیوں کی گئی ۱۷۳ح ح آریوں کا اعتراض کہ حال کی طبی تحقیقاتوں کی رو سے بچہ بننے کی قرآنی طرز ثابت نہیں ہے ۱۸۷ح ح آزمائش عرف عام میں آزمائش کا مفہوم ۱۵۵ صادقوں کی آزمائش کے مختلف طریقے ۲۹۶ صادقوں کے لئے ابتلاء کا زمانہ ۳۳۸ جو شخص ابتلاء کے وقت صادق نکلتا ہے اور سچ کو نہیں چھوڑتا اس کے صدق پر مہر لگ جاتی ہے ۳۰۱ متقی اسی دنیا میں جو دارا لابتلا ہے ۱۴۴ انسان کی ابتلاء کے لئے دو روحانی داعیوں کا تقرر ۸۰ح انسان کو ابتلاء میں ڈالنے کا سبب ۸۲،۸۳ح،۱۵۵ خدا کے نشان دکھانے میں توقف کا باعث ۳۳۴،۳۵۵ ایک شخص کی جو نبی متبوع کا متبع ہو اس کی انبیاء کی طرح آزمائش کرنا ناسمجھی ہے ۳۳۹ حضرت اقدس ؑ کی آزمائش کے تین واقعات ۲۹۷ گناہ گار قوم کی آزمائش کا طریق ۴۲۹ مخالفین کے اسلام پر اعتراضات کے سبب سے اس زمانہ کے مسلمانوں کے لئے ایک ابتلاء ۳۸ اس اعتراض کا جواب کہ خدا کو انسان کی آزمائش کی کیا ضرورت تھی ۸۲ح ح آسمان آسمان کی بقا بباعث ملائک کے ہے ۱۳۹ح، ۱۴۱ح،۱۴۳ح فلاسفروں کا آسمان کے بارہ میں نظریہ ۱۳۸ح ح یونانیوں کا آسمان کے بارہ میں نظریہ ۱۳۸ح ح یونانیوں کے آسمان کے متعلق عقیدہ پر اعتراضات ۱۴۰ح ح قرآن کے مطابق آسمان کی حقیقت ۱۴۲ح ح خدا نے کسی فضا کو محض خالی نہیں رکھا ۱۴۳ح ح قرآن میں آسمان کے پھٹنے اور شگاف ہونے کے الفاظ کی حقیقت ۱۴۹ح ح ، ۱۵۱ح ح اللہ کے آسمان کو اپنے داہنے ہاتھ لپیٹنے سے مراد ۱۵۳ح ح آسمان اور زمین کا آپس میں تعلق ۱۵۶ح ح آسمان و زمین کا تعلق اور اس کے اثرات ۴۴۳
قرآن میں آسمان کے لئے رجع اور زمین کے لئے صدع کا لفظ لانے میں حکمت ۴۴۵ کفار کے رُو برو روحانی آسمان کی گٹھڑی کا کھلنا ۱۹۲ح ح اس اعتراض کا جواب کہ اگر آسمانوں کا وجود ہے تو کیوں نظر نہیں آتا ۱۴۸ح ح خدا نے آسمانوں کو سات میں کیوں محدود کیا ۱۵۵ح ح چھ دن میں زمین و آسمان کو پیدا کرنا خدا کے ضعف پر دلالت کرتا ہے ۱۶۰ح ح آریوں کا اعتراض کہ زمین و آسمان کی پیدائش کی چھ دن میں تخصیص کیوں کی گئی ۱۷۳ح ح ابلیس ابلیس اور شیطان کا نام داعی الی الشرّہے ۸۰ح،۸۷ ایک روایت کے مطابق دن کو ابلیس اور رات کو اسکے بچوں کا انسان کو نقصان پہنچانے کیلئے اس کی گھات میں رہنا ۸۰ ابلیس کی چادر پہن کر نفسانی تکبر سے دوسروں کی نکتہ چینی کرنے والوں سے خدا کی پناہ طلب کرنا ۵۹۸ اجتہادی غلطی الہام میں اجتہاد کے خطا جانے سے اس کی وقعت اور عظمت میں کچھ فرق نہیں آتا ۳۰۴ انبیاء کی اجتہادی غلطیوں کا سبب ۱۱۵،۳۵۳ نبی کریمؐ کی اجتہادی غلطیاں ۱۱۴،۳۰۴ انبیاء کا اجتہاد سے کام لینا ۳۱۶ح اجرام فلکی اجرام سفلی و علوی میں تغیر و حدوث کی دو علتیں ۱۲۳ح، ۱۲۹ح ان کے لئے منجانب اللہ مدبر کا مقرر ہونا ۱۲۸ح ان کا انسان کی خدمت میں لگے رہنا ۱۳۳ح،۱۵۰ح تمام اجرام ملائک کے ساتھ زندہ ہیں ۱۳۹ح،۱۴۱ح تمام اجرام قابلِ خرق ہیں ۱۵۰ح ح احسان حدیث کی رو سے احسان کی تعریف ۶۴ کمال محبت یا حسن سے پیدا ہوتی ہے یا احسان سے ۱۸۲ اس محبوب حقیقی کے احسانات دفتروں میں نہیں سما سکتے ۱۸۴ احمدیت اللہ اس درخت کو کبھی نہیں کاٹے گا جس کو اس نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے ۵۴ اسلام کی اعلیٰ طاقتوں کا علم حضرت اقدس کو دیا جانا ۲۵۵ح اسلام کے احیاء کی دعا ۶ تائید اسلام میں تین رسالے ۳۰ اسلام کو حملوں سے بچانے کے لئے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت ۲۵۱ مخلص احمدی انصار و احباب کا ذکر ۵۸۱ح اب زمانہ اسلام کی روحانی تلوار کا ہے ۲۵۴ح آخرین کی صحابہ سے مشابہت ۲۱۰ آخرین میں پائی جانے والی صفات ۲۱۳ مطبع کے مستقل انتظام کی تجویز ۶۳۱ جلسہ سالانہ جلسہ سالانہ کے مقاصد ۶۱۵ جماعت کے لوگ کم سے کم ایک مرتبہ سال میں ضروریاتِ دین اور مشورہ اعلائے کلمہ اسلام کے لئے جمع ہوں ۶۰۵ جلسہ کی ایک بڑی غرض ۶۰۶ جلسہ کو بدعت قرار دینے کا رد ۶۰۶ قادیان میں ۲۷ دسمبر کو جلسہ رکھنے کی و جہ ۶۰۵،۶۰۸ کیفیت جلسہ ۲۷ ؍ دسمبر ۱۸۹۲ء ۶۱۳ اس جلسہ میں شاملین کے اسماء ۶۱۶ میر ناصر نواب صاحب کے قلم سے کیفیت جلسہ ۶۳۷ فہرست چندہ دہندگان بر موقع جلسہ ۶۳۲
بٹالوی کے فتویٰ کفر سے قبل ۷۵ اور بعد میں جلسہ میں ۳۲۷احباب کا شامل ہونا ۳۲۳،۶۲۹،۶۳۰ ارادہ ارادۂ کاملہ کے لوازم ۱۷۰ ح ح برے ارادوں پر غالب آنے کے لئے ایمان کے ساتھ عرفان کی آمیزش بھی ضروری ہے ۳۸ استخارہ صداقت معلوم کرنے کے حوالہ سے استخارہ کا طریق ۳۵۱ استخارہ شیطان کے دخل سے محفوظ نہیں ۳۵۲ استعارہ خدا کا کلام استعارات سے بھرا پڑا ہے ۱۵۰ح ح انبیاء کے کلام میں استعارات ۴۵۸ مسیح کے نزول میں استعارہ ۲۵۵،۶۱۴ خدا استعارہ کی زبان میں بھی امور غیبیہ کوبیان کرتا ہے ۴۴۶ ابراہیم ؑ کا خواب میں بیٹے کو ذبح کرنا استعارہ تھا ۴۵۰ دجال کی علامات میں لطیف استعارات کا ہونا ۴۵۱،۵۵۶ استقراء اکثر دنیا کے ثبوتوں کو اسی سے مدد ملی ہے ۱۴۶ح ح استقراء کے انکار سے تمام علوم کا درہم برہم ہونا ۱۴۸ح ح اسرار اسرارِ جدیدہ کی حقیقت ۳۹ باریک بھید کے پانے کا طریق ۴۸ اسلام لغت عرب میں لفظ اسلام کے مختلف معانی ۵۷ اسلام کے اصطلاحی معنی قرآنی آیت کی روشنی میں ۵۸ اسلام کی حقیقت اور اس کا لُب لباب ۶۲ اسلام کی حقیقت کے متحقق ہونے کا طریق ۵۹ خدا کی راہ میں زندگی کا وقف کرنا حقیقت اسلام ہے ۶۰ حقیقتِ اسلام جس کی تعلیم قرآن دیتا ہے تمام انبیاء اسی حقیقت کے ظاہر کرنے کے لئے بھیجے گئے تھے ۱۲۶ وجود باری اور اس کا واحد لا شریک ہونا اسلامی حکمت اور معرفت کا مرکز ہے ۲۴۴ح حقیقتِ اسلام کے حصول کے وسائل ۱۸۰تا۱۸۹ معرفتِ تامہ کے مقام پر حقیقت اسلام کا حاصل ہونا ۱۸۹ اسلام اور امانت کی حقیقت ایک ہی ہے ۱۷۴ خشیت اور اسلام اپنے مفہوم کی رو سے ایک ہی چیز ہے ۱۸۵ اسلام کے ثمرات ۲۲۶تا ۲۳۰ اسلام کی خوبیاں ۵۳۱ برکات اور نشانوں میں کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۲۲۴ اسلام میں قابل تعریف باتوں کا بینظیر کمال سے ہونا ۲۷۵ اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا ثبوت ۲۴۵ اسلام میں بڑی خوبی اس کی برکات کا ہمیشہ ہونا ہے ۲۴۶ اسلامی حکمت اور معرفت کا مرکز ۲۴۴ح اسلام کی پیروی سے ملنے والے ثمرات اور حضور کا اپنی مثال پیش کرنا ۲۷۶ اسلام کی اعلیٰ طاقتوں کا علم حضرت اقدس کو دیا جانا ۲۵۵ح اسلام کے احیاء کی دعا ۶ تائید اسلام میں تین رسالے ۳۰ اسلام کو حملوں سے بچانے کے لئے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت ۲۵۱ اسلام میں آنحضرتؐ کا روحانی نزول ۳۴۶ اسلام کے روحانی اقبال اور روحانی فتح کی پیشگوئی ۲۵۴ح اسلام کی کشتی کی حفاظت کا خدائی وعدہ ۲۶۰ح،۲۶۵ح وجود باری اور اس کا واحد لا شریک ہونا اسلامی حکمت اور معرفت کا مرکز ہے ۲۴۴ح اسلام کا ان فسادوں سے محفوظ رہنا جن میں عیسائیت پڑی ہوئی ہے ۳۴۶ امت کے افتراق کی و جہ ۵۵۹ اسلام میں حضرت عمرؓ کی محدثات ۶۱۲ اب زمانہ اسلام کی روحانی تلوار کا ہے ۲۵۴ح
انصارِ دین کو مردود ٹھہرانا نیک طینت لوگوں کا کام نہیں ۶۱۰ آخرین کی صحابہ سے مشابہت ۲۱۰ آخرین میں پائی جانے والی صفات ۲۱۳ ہر صدی کے سر پر نبی کے قائمقام کی پیدائش ۲۴۷ اسلام کے تین زمانے ہیں ۲۱۳ اسلام کا درمیانی زمانہ فیج اعوج ہے ۲۱۱ نواب صدیق حسن خان کا تسلیم کرنا کہ یہی آخری زمانہ ہے ۳۰۱ یورپ و امریکہ کے لئے اسلامی عقائد پر مشتمل رسالہ کی اشاعت کی تجویز ۶۱۵ اس خیال کا رد کہ ہندسہ و حساب کی طرح ہمارے عقائد ہونے چاہئیں ۲۴۶ح اسلام اور مسلمانوں پر قیصرہ کے احسانات ۵۲۰،۵۲۱ قیصرہ ہند اسلام کے پروں میں سے ایک پَر ہے اور آثار اسلام کی محافظ ہے ۵۲۴ خدا اسلام کی کشتی کا ناخدا ہے ۲۶۰ح اسلام پر اندرونی و بیرونی مصائب اسلام پر بیرونی اور اندرونی مصائب ۷،۸ گذشتہ صدی میں اسلام کو پہنچنے والی آفات ۲۵۲ اس زمانہ میں اسلام پر وارد مشکلات ۲۶۲ح اس زمانہ میں اسلام کی حالت زار ۲۵۶ح اس زمانہ میں مخالفوں کے کینوں کا بہت بڑھنا ۳۷ اس زمانہ میں اسلام پر ہونے والے فلسفیانہ اور دہریانہ حملوں کی نظیر پہلے کہیں نہیں ملتی ۲۶۳ح وہ آفات جنہوں نے اسلام کو گھیر رکھا ہے ۲۵۲،۴۱۵ علماء کا اسلام کی بجائے عیسائیوں کو مدد دینا ۴۶ مولویوں، پیرزادوں اور فقراء کی اسلام کی طرف سے بے پروائی اور غفلت ۲۶۵ح اس زمانہ میں مخالفین کے اعتراضات سے تغافل کے نتیجہ میں مسلمانوں کے لئے ایک بھاری ابتلا ۳۸ اس زمانہ میں جو کچھ اسلام اور رسول کریم کی توہین کی گئی اس کی نظیر کسی دوسرے زمانہ میں نہیں ملتی ۵۱ موجودہ زمانہ کے فتنوں سے بڑھ کر کوئی اور نہیں ۵۲ اسلام اور قرآن اور ہمارے سید و مولیٰ کی نسبت کوتہ بینوں کے تین ہزار کے قریب اعتراضات ۳۷ چھ کروڑ کے قریب مخالفِ اسلام کتابوں کا تالیف ہونا ۵۱ بیرونی فتنوں کے باعث نوتعلیم یافتہ طبقہ کا اسلام چھوڑنا ۴۱ ایک فرقہ کا دوسرے کو دین سے خارج کرنا ۳۱ آخرین کے وقت اسلام کی حالت ۲۰۹ فیج اعوج کے زمانہ کے مولویوں کا حال ۲۱۵ اسماء اسلام میں انبیاء کے نام تفاؤل کے طور پر رکھنا ۳۴۱ غلام نبی، غلام رسول، غلام احمد مشرکانہ نام نہیں بلکہ مدارِ نجات یہی نام ہیں ۱۹۲ اطفال اللہ بعض اہلِ تصوف کا لقاء کے مرتبہ پر پہنچنے والوں کا نام اطفال اللہ رکھنا ۶۴ افترا مفتری کبھی خدا سے ہمکلام نہیں ہو سکتا ۵۴ خدا مفتری کو کبھی نہیں چھوڑتا ۱۲۰ح اس زمانہ کے علماء کا اسلام پر بیرونی آفات کو اندرونی افتراؤں سے قوت دینا ۴۶ اقتداری خوارق دیکھئے ’’ معجزہ‘‘ اللہ اللہ کے رات کے آخری حصہ میں ورلے آسمان پر اترنے کی حقیقت ۳۸۶ اس محبوب حقیقی کے احسانات دفتروں میں نہیں سما سکتے ۱۸۴ خدا اسلام کی کشتی کا ناخدا ہے ۲۶۰ح اللہ کے ملک کے حوالے سے امام رازی ؒ کا ایک قول ۱۱۹ح
اب وقت آ گیا ہے کہ بتوں کو بکلی توڑ دیا جائے اور خدا پرست لوگ گم گشتہ حقیقتوں کو پھر پا لیویں ۳۶ احکام الٰہی ۶۰۰ ہیں ۱۹۶ تمام احکام الٰہی ۶۰۰ سے کچھ زیادہ ہیں ۱۸۷ اعتراض کا جواب کہ خدا کو آزمائش کی کیا ضرورت ہے ۸۲ ح ح اس اعتراض کا جواب کہ اللہ کو فرشتوں سے کام لینے کی کیا حاجت ہے ۸۵ح اس اعتراض کا جواب کہ چھ دن میں زمین و آسمان کو پیدا کرنا خدا کے ضعف پر دلالت کرتا ہے ۱۶۰ح ح ہستی باری تعالیٰ اللہ کی ہستی کا ثبوت ۸۸ وجود باری اور اس کا واحد لا شریک ہونا اسلامی حکمت اور معرفت کا مرکز ہے ۲۴۴ح خدا کی ہستی اور اس کی صفات کاملہ ایمانیات میں سب سے مقدم ہیں ۲۴۸ح خدا کے متعلق فلسفیوں کے خیالات ۲۴۴ح مغربی فلسفیوں کے اقوال میں خدائی کا دعویٰ ۳۴۴ قرآن خدا کے وجود کے ثبوتوں سے بھرا ہواہے ۲۰۷ح ح تمام اہل مذاہب کا خدا کے موجود ہونے پر اتفاق ۲۷۴ صفات باری تعالیٰ رحمانیت سے معرفت کی ابتدا ۱۸۸ اللہ کی قدرت اور طاقت کی حقیقت ۱۶۱ح ح اللہ کے حسن اور اس کی صفات کی خوبیوں کا بیان ۱۸۲ اللہ کی صفاتِ قہریہ اور لطیفہ کے ظہور کا طریق ۱۶۷ح ح خدا کی قیومیت کا ہم پر اثر ۱۷۱ح دنیا کی کوئی چیز اپنے ہر ایک خاصہ میں مستقل بالذات نہیں بلکہ خدا کے سہارے سے ہے ۱۷۱ح اللہ کے کاموں میں وحدت اور تناسب ۱۳۴ح اللہ کی تمام قدرتوں کے اسباب کے توسط سے ظاہر ہونے میں حکمتیں ۸۵ح خدا بغیر وسائط کے کام نہیں کرتا ۲۱۲ح اللہ کی ذات غنی ہے جب تک کسی میں تذلل اور انکسار نہیں دیکھتا اس کی طرف توجہ نہیں فرماتا ۳۴۹ خدا تمام رحمتوں کا سرچشمہ ہے ۲۴۴ اللہ کی رحمتوں کے آثار اور نشانات ۳۶۴ ہمیشہ خدا ضرورتوں کے موافق اپنے دین کی مدد کرتارہا ہے ۳۹ اسلام کا خدا ہرنئی دنیا کے لئے نشان دکھاتا ہے ۲۴۷ حکمت سے مراد علم عظمت ذات و صفات باری ہے ۱۸۶ تعلق باللہ خالق کی اطاعت کی حقیقت ۶۱ اللہ تعالیٰ ایک ذرہ محبت خالصہ کو ضائع نہیں کرتا ۷۸ح جسے محبت الٰہی کا دعویٰ ہے لیکن کلامِ الٰہی جاننے سے لاپرواہ ہے وہ ہرگز محب صادق نہیں ۳۶۱ خدا پر مستحکم ایمان کا طریق ۳۸ امت محمدیہ پر الٰہی طاقت کا پرتوہ سب سے زیادہ ہے ۶۷ خدا کا بطور تمثل اہل کشف کو صورت بشر پر نظر آنا ۱۲۱ ادنیٰ سے ادنیٰ نیکی کا خیال روح القدس سے پیدا ہوتا ہے ۸۰ح دنیا میں خدا کو طلب کرنے والے بہت کم ہیں ۱۵۸ح بڑی خرابی جو افعالِ شنیعہ کا موجب اور آخرت کی طرف سر نہیں اٹھانے دیتی وہ خدا پر ایمان میں کمی ہے ۱۵۹ح ح اس زمانہ میں خدا پر ایمان نہ لانے کی و جہ ۱۶۰ح خدا کے سچے طالب پر نازل ہونے والے انعامات ۲۲۷ اس زمانہ کی خرابیوں کو صرف خدا دور کر سکتا ہے ۴۶،۵۰ ایمان رضائے الٰہی اور مراتب قرب کا زینہ ۲۷۰ح وہ جسے عزیز رکھتا ہے اسے ایمانی فراست عطا کرتا ہے ۳۵۰ اللہ جنہیں اپنے انعامات قرب سے مشرف کرے وہ انسانی کمالات میں سے بھی ایک حصہ وافر رکھتے ہیں ۳۶۲ الٰہی اور انسانی محبت کے ملاپ سے جو نور پیدا ہو وہ روح القدس سے موسوم ہے ۷۹ح اللہ کا مخلوق کو متشارک الصفات رکھنے اور بعض کو بعض کا مثیل ٹھہرانے کی و جہ ۴۴
ہر فیضان کے لئے ہم میں اور خدا میں علل متوسطہ ۸۴، ۸۶ اللہ اور مرتبہ لقاء پر فائز شخص کے اقتداری کاموں میں فرق ۶۷ اللہ کا عارفوں کے ساتھ سلوک ۱ اللہ کا علماء کے ساتھ سلوک ۵۴۰ اللہ کا ظاہری اور روحانی بارش کے نزول کے متعلق قانون ۵۰ اگر خدا صرف داعی الی الشر مقرر کرتا اور داعی الی الخیر نہ مقرر کرتا تو اس کے عدل اور رحم پر دھبہ لگتا ۸۱ خدا کے لئے قرآن کریم میں قرض کا استعمال ۱۵۴ خدا کا اپنے بندوں کو امتحان میں ڈالنے سے غرض ۸۲ح، ۱۵۵ اللہ کی کتابوں کاامت کی استعدادوں کے مطابق نزول ۱۹۷ اللہ کی قسموں کا فلسفہ اللہ کی قسموں کی حقیقت اور فلسفہ ۹۵ح اللہ کی قسم کھانے پر آپؐ کا توجہ سے جواب دینا ۲۹۲ انسان کو غیر اللہ کی قسم سے منع کرنے کا سبب ۹۵ح چند قسموں کی تفصیل جو قرآن میں ہیں ۹۸ح اللہ کی مخلوق کی قسم کھانے سے غرض ۹۸ح شہب اور ستاروں کی قسم کھانے میں حکمت ۱۰۶ح سورۃ الطارق میں اللہ نے غیر کی قسم کیوں کھائی ۹۴ح الہام القاء اور الہام برعایت فطرت ہوتا ہے ۱۸۶ح الہام کی تین اقسام ۳۱۶ح مومن کے لئے اعلیٰ سے اعلیٰ عطیہ مکالمات اور مخاطبات الٰہیہ ہیں ۲۳۰ مکالمہ الٰہیہ اور الہام میں فرق ۲۳۱ مکالمہ الٰہیہ کی غرض ۲۳۲ مکالمہ الٰہیہ کے حصول کا طریق ۲۳۳ ایمانی روح کے ذریعہ خدا کا کلام سننا ۲۸۴ کلام الٰہی کے چھ مراتب ۲۰۷، ۲۱۱ ملہم کی انکساری حالت الہامی آگ کے افروختہ ہونے کے لئے بہت دخل رکھتی ہے ۲۳۹ الہام کے ذریعہ ایک مجاہدہ کرنے والے پر علوم غیبیہ کا کھولے جانا ۲۵۳ح ملہم کا الہام میں اجتہاد کبھی خطا ہوجاتا ہے ۳۰۴ پادریوں کا مدت سے الہام پر مُہر لگانا ۲۸۴ مجھے کشفاً بتایا گیا ہے کہ میرے الہامات شریعت کے موافق صحیح اورخالص ہیں ۲۱ ذاتی تجربہ سے معلوم کہ روح القدس کی قدسیت ہر وقت بلافصل ملہم کے تمام قویٰ میں کام کرتی ہے ۹۳ح زمانہ کی حالت کے موافق خدا کے کلام کا ثبوت ۳۹ اکثر شدائد اور مصائب کے نزول کے وقت اولیاء پر کلام الٰہی نازل ہوتا ہے ۲۳۹ صدہا اولیاء کا الہام سے گواہی دینا کہ چودھویں صدی کا مجدد مسیح موعود ہو گا ۳۴۰ کلام الٰہی کے بعض مقامات بعض کی شرح ہیں ۱۶۶ کلام الٰہی میں یہود کی تحریف ۲۲۹ح مکالمہ الٰہیہ کے مقام پر ملنے والے انعامات ۲۳۷ اس اعتراض کا جواب کہ جسے مکالمہ الٰہیہ نصیب ہو وہ کب افاضۂ کلام الٰہی کا زیادہ تر مستحق ہوتا ہے؟ ۲۳۹ امانت امانت کی حقیقت ۱۶۱ امانت اور اسلام کی حقیقت ایک ہی ہے ۱۷۴ اللہ کی امانت کو سب سے پہلے انبیاء کے سپرد کیا گیا ۱۶۹ اللہ کی امانت کو کامل طور پر آنحضرتؐ نے واپس کیا ۱۶۹ اللہ کی امانت کو صرف مومنوں نے قبول کیا ۱۷۶ اللہ کی امانت کو ظلوم و جہول انسان کے اٹھانے کی حقیقت ۱۵۸ امت محمدیہ برکات اور نشانوں میں کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۲۲۴ امت محمدیہ پر الٰہی طاقت کا پرتوہ سب سے زیادہ ہے ۶۷ جس قدر قرآنی تعلیم کے کمالات خاصہ ہیں وہ اس امت کے استعدادی کمالات پر شاہد ہیں ۱۹۷
مسلمان خواہ کیسے ہی محجوب الحقیقت ہیں مگر سبھی اعلانیہ توحید کے قائل ہیں کسی انسان کو خدا نہیں بناتے ۲۲۳ اس امت کو حاصل ہونے والے کمالات ۲۴۴ امتی کا کمال ۶۴۸ح امور غیبیہ نیز دیکھئے ’’معجزات‘‘ اور ’’نشان‘‘ امور غیبیہ کے بیان میں خدا کا طریق ۴۴۶ امورِ غیبیہ کی چار اقسام ۴۴۷ امور غیبیہ میں ابتلا کا ہونا ۵۵۳ اللہ ہر قوم کو امور غیبیہ سے آزماتا ہے ۴۵۵ امور غیبیہ کے تسلیم کرانے کے لئے اللہ نے براہین بھی عطا فرمائے ہیں ۲۰۵ح انسان اللہ نے انسان کی اعلیٰ درجہ کی مدح ’’ ظلوم و جہول‘‘ سے کی ہے ۱۵۷،۱۵۸ وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کامل کو دیا گیا ۱۶۰ انسان کامل بننے کا طریق ۱۹۶ انسانی استعدادوں کی تدریجاً ترقی ۱۹۸ انسانی فطرت خدائی کی طاقتیں پیدا نہیں کر سکتی ۲۳۷ح انسان کے ابتلا کے لئے دو روحانی داعی ۸۰ح، ۸۳ انسان کی شیطان کے ذریعہ آزمائش کی و جہ ۸۲ح ح، ۸۳ انسان کی روحانی اور جسمانی تربیت کے لئے وسائط ۸۶ح انسان کو غیر اللہ کی قسم سے منع کرنے کا سبب ۹۵ح ملائک اور ستاروں کی حفاظت کی حقیقت ۹۹ح ح،۱۰۰ح اجرام سماوی کا انسان کی خدمت میں لگے رہنا ۱۳۳ح ہمارے قویٰ کی تکمیل اسباب خارجیہ میں ہے ۱۳۴ح ہماری روحانی اغراض پورا کرنے والے ملائک ہیں ۱۳۴ح کامل القدرت انسان سے مراد ۱۶۴ح ح ہر انسان کی فطرت اپنی بشریت کے مناسب حال ملکہ رکھتی ہے ۲۳۷ح انسان کے عالم صغیر ہونے کا ثبوت ۱۷۳ح،۱۸۲ح ح باعتبار روح عالم صغیر اور بلحاظ صفات روح الٰہی کا مظہر تام ہونا ۱۷۸،۱۷۹ح ح انسان کی پیدائش میں مراتب ستہ ۱۷۶ح ح،۱۹۸ح ح نجوم ستہ کا جنین کی تکمیل میں تعلق ۱۸۶ح ح بچہ کو ساقط ہونے سے بچانے کا نسخہ ۱۷۹ح ہمارا اپنی حرکات و سکنات میں غیبی مدد کا محتاج ہونا ۱۷۱ح انسان کے خدا کا محتاج ہونے کا ثبوت ۲۷۱ح صرف ہمارے قویٰ انسانیت کی کل چلانے کیلئے کافی نہیں ۸۵ آریوں کا اعتراض کہ حال کی طبی تحقیقاتوں کی رو سے بچہ بننے کی قرآنی طرز ثابت نہیں ہے ۱۸۷ح ح انگریزی حکومت انگریزی حکومت کے حالات اور ان کے مسلمانوں پر احسانات کا تذکرہ ۵۱۵،۵۱۷ اس کا کامل مذہبی آزادی دینا ۵۲۱ اس کے زیر سایہ ہر خوف سے امن میں ہونے پر خدا کا شکر ۱۸ پادری اس گورنمنٹ کا شعبہ نہیں ۵۲۵ فیروز پور کی جنگ میں سکھوں پر فتح حاصل کرنا ۵۱۳ قیصرہ کی فتح اور اس کے مسلمان ہونے کے لئے دعا ۵۲۶ مسلمانوں کے بالمقابل ہندوؤں کو اعلیٰ عہدے نہ دیے جائیں کیونہ وہ قوم ان کی غلام رہی ہے ۵۳۹ علماء کو انگریزی حکومت کا خوف نہ ہوتا تولوگوں کو میرے قتل پر اکساتے ۱۸ اہلحدیث ان کا ائمہ اربعہ کے مقلدین کا نام بدعتی اور فیج اعوج رکھنا ۲۵۷ اہل سنت آج کل اہل سنت کہلانا کسی خاص فرقہ کا حق تسلیم نہیں کیا گیا ۲۵۸ ایمان ایمان کی حقیقت ۲۴۸ح،۲۷۰ح،۳۳۸
ایمان کی ثناء ۲۷۰.۲۷۱ح ایمان بالغیب میں حکمت ۲۵۲ح ایمانی امور کے مخفی رکھے جانے کی و جہ ۲۵۰ح ایمانیات اگر علوم مشہودہ محسوسہ میں داخل ہو جائیں تووہ ایمانیات نہ رہیں گی ۱۹۸ح ایمان میں ثواب کی و جہ ۱۸۸ح ایمان کی قوت سے حاصل ہونے والے ثمرات ۲۷۱ح ایمان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والی چیز ۲۷۲ح دل میں ایمان کے لکھنے کا مطلب ۱۰۰ خدا کی ہستی اور اس کی صفات کاملہ ایمانیات میں سب سے مقدم ہیں ۲۴۸ح ایمان کو مستحکم کرنے کا طریق ۳۸ ایمانِ کامل سے سارے استبعادات کا دور ہونا ۲۷۲ح ایمان کے ذریعہ عرفان کے مقام پر پہنچنے کا طریق ۲۵۳ح ایمان کے درجہ سے عرفان کے مرتبہ پر حاصل ہونے والی برکات ۲۰۰ح،۲۴۳ح ایمان رضائے الٰہی کا وسیلہ، مراتب قرب کا زینہ اور گناہوں کو زنگ سے دھونے کے لئے چشمہ ہے ۲۷۰ح دنیا اور آخرت کے عذاب کا علاج ایمان ہے ۲۷۱ح امور غیبیہ کے تسلیم کرانے کے لئے اللہ نے براہین بھی عطا فرمائے ہیں ۲۰۵ح معرفت الٰہی اور معادمیں مطلوب انکشاف اور برہان اس عرفان سے حاصل ہوتا ہے جو ایمان کے بعد ملتا ہے ۲۴۲ح یقینی معرفت کے حصول کیلئے ایمان ایک زینہ ہے ۲۵۲ح ایمان کو آسمان سے لانے سے مراد ۲۱۱ح،۲۲۰ ارکانِ ایمان کیوں نجات کا سبب ہیں ۱۹۰ح نجات ایمان سے وابستہ ہے اور ایمان امور مخفیہ سے وابستہ ہے ۲۷۰ح ایمان کے ذریعہ دنیا کے عذابوں سے نجات ۲۷۲ح خدا پر مستحکم ایمان کا طریق ۳۸ بڑی خرابی جو افعالِ شنیعہ کا موجب اور آخرت کی طرف سر نہیں اٹھانے دیتی وہ خدا پر ایمان میں کمی ہے ۱۵۹ح ح اس زمانہ میں خدا پر ایمان نہ لانے کی و جہ ۱۶۰ح ایمانی امور کے ساتھ دلائل قرآن مرجحہ کا ہونا جو طالب حق کو تشفی بخشتے ہیں ۲۵۱ح ایمانی روح کے ذریعہ خدا کا کلام سننا ۲۸۴ اللہ جسے عزیز رکھتا ہے اسے ایمانی فراست عطا کرتا ہے ۳۵۰ برے ارادوں پر غالب آنے کے لئے ایمان کے ساتھ عرفان کی آمیزش بھی ضروری ہے ۳۸ بارش ظاہری اور روحانی بارش کے نزول کا وقت ۵۰ آنحضرت ؐ کی بڑی بھاری روحانی بارش کے بعد اب چھوٹی چھوٹی بارشوں کی ضرورت ہے ۵۱ بدعت بدعت کی حقیقت ۶۱۱ برکت کامل طور پر اسلام پر قائم ہونے والے کو ملنے والی برکات ۲۲۸ اہل اللہ کی ہر چیز میں برکت ہوتی ہے ۶۹ بیضہ بشریت کے روحانی بچوں کا روح القدس کی معرفت آنحضرتؐ کی متابعت کی برکت سے پیدا ہونا ۱۹۷ آپؐ کی جاودانی برکتوں کا ہمیشہ کے لئے جاری رہنا ۲۰۷ بشارت خدا کی بشارتیں اکثر اشارات میں ہوتی ہیں ۶۵۴ح مخالفوں کی مخالفت کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کی بشارت پر خوشی کا اظہار ۱۱ اگر کوئی مخالف دین میرے سامنے مقابلہ کے لئے آئے گا تو مَیں اس پر غالب رہوں گا اور وہ ذلیل ہو گا ۳۴۸ جب اللہ انبیاء اوراولیاء کی ذریت کی بشارت دیتا ہے تو اس سے مراد صالحین کی پیدائش ہوتی ہے ۵۷۸ح
بقا اس مرتبہ کے پیدا ہونے کا وقت ۶۳، ۷۰ اس مرتبہ پر روح القدس کا کامل طور پر عطا کیا جانا ۲۰۶ح ح بقا کے مرتبہ پر شیطان کا کالعدم ہوجانا ۸۲ بقا اور لقا کسبی نہیں بلکہ وہبی ہیں ۷۱ پادری مخالفت کے جوش میں پچاس پچاس برس کے ہو کر عربی زبان کو سیکھنا اور قرآن کے معانی پر اطلاع پانا ۳۶۰ پادریوں کو دعوت مقابلہ ۲۷۷،۲۸۴ پادریوں کا مدت سے الہام پر مُہر لگانا ۲۸۴ پادریوں کے فتنہ کے حد سے زیادہ بڑھنے پر خدا کا اپنے ایک بندہ کو بھیجنا ۴۲۴ اسلام پر ان کے حملے اور مسلمانوں کی غفلت ۱۳،۱۴ پادری ہی دجال ہیں ۴۶۰ پُل صراط پُل صراط کی حقیقت ۱۴۶ پیشگوئی نیز دیکھئے ’’امور غیبیہ‘‘ پیشگوئیوں میں ربانی طاقتوں کا ہونا ۱۵۷ح ح جب کسی واقعہ کو اخفاء کی صورت میں بیان کرنا ہو تو وہ چار قسم کا ہوتا ہے.ان کی تفصیلات ۴۴۷ منجموں کی پیشگوئیوں اور الہامی پیشگوئیوں میں فرق ۳۲۱ پیشگوئیوں کا پورا ہونا مدعی صادق کی علامت ہے ۳۲۲ خدا کی بشارتیں اکثر اشارات میں ہوتی ہیں ۶۵۴ح قرآن آئندہ اور گذشتہ کی پیشگوئیوں سے بھراہوا ہے۲۳۴ح قرآن جو سچے فلسفہ سے بھرا ہوا ہے حال کے دھوکہ دینے والے فلسفہ کے طوفان پر بھی غالب آئے گا ۴۰ مذہب اور سائنس کی جنگ میں اسلام کے غالب آنے کی پیشگوئی ۲۵۴ح قرآن و تورات کے مطابق مدعی کاذب کی پیشگوئی ہرگز پوری نہیں ہوتی ۳۲۶ تورات کے مطابق پیشگوئی کا پورا ہونا صادق کی نشانی ۲۸۰ آخری زمانہ میں ایک حارث کے پیدا ہونے کی پیشگوئی۳۰۳ نزول مسیح کی پیشگوئی پر اس اعتراض کا جواب کہ ساری امت ہی غلطی پر رہی اور سمجھ نہ سکی ۴۵۵ یورپ کے ہیئت دانوں کی کائنات الجو اور ان کے نتائج کے متعلق پیشگوئیوں کی حقیقت ۱۱۸ح ہمارا صدق یا کذب جانچنے کے لئے ہماری پیشگوئی سے بڑھ کر اور کوئی محک امتحان نہیں ہو سکتا ۲۸۸ تدبیر اعلائے کلمہ اسلام کیلئے تدبیر ضروری ہے ۶۰۹ تدبیر اور انتظام بدعات میں داخل نہیں ۶۱۱ اگر مدبرات اور مقسمات امر فرشتے ہیں تو ہماری تدبیریں کیوں پیش جاتی ہیں ۱۸۵ح تعدد ازدواج نیز دیکھئے ’’نکاح‘‘ اس کی ضرورت اور حکمت ۲۸۱ اس پر عیسائیوں کے اعتراض کا جواب ۲۸۲ بائبل سے تعدد نکاح کا ثبوت ۲۸۳ تصوف ہندوستانی صوفیوں کی بد حالت ۳۹۰،۳۹۹، ۴۰۷ چشتی اور قادری صوفیاء کی بری حالت اور ان کی مجالس سے اجتناب کی نصیحت ۴۰۷ صوفیوں کا دعویٰ کہ ہم اپنے ادنیٰ مرید کو محدث کے مقام تک پہنچا سکتے ہیں ۴۰۸ اس اعتقاد کا رد کہ تمام برکات شیخ کی بیعت سے ملتی ہیں۴۰۹ جسے محبت الٰہی کا دعویٰ ہے لیکن کلامِ الٰہی جاننے سے لاپرواہ ہے وہ ہرگز محب صادق نہیں ۳۶۱ فنا کی تعریف ۶۳ اس درجہ تک پہنچنے کا طریق ۱۹۶ پہلی ہستی فنا کئے بغیر نئی ہستی نہیں مل سکتی ۲۳۳
کسب اور جدوجہد صرف اس درجہ تک ہے ۷۱ اسلم وجھہ کے درجہ کو صوفی فنا اور قرآن استقامت کے اسم سے موسوم کرتا ہے ۶۹ سالک کا سلوک صرف فنا کی حد تک ہے ۷۱ اس درجہ کے بعد بقا اور لقا کا درجہ بلاتوقف ہے ۷۱ بقا کے مرتبہ کے پیدا ہونے کا وقت ۶۳، ۷۰ بقا کے مرتبہ پر روح القدس کا کامل طور پر عطا کیا جانا ۲۰۶ح ح اس مرتبہ پر شیطان کا کالعدم ہوجانا ۸۲ بقا اور لقا کسبی نہیں بلکہ وہبی ہیں ۷۱ بعض اہلِ تصوف کا لقاء کے مرتبہ پر پہنچنے والوں کا نام اطفال اللہ رکھنا ۶۴ لقاکا مرتبہ کب سالک کیلئے کامل طور پر متحقق ہوتا ہے ۶۴ لقا کے درجہ کی کیفیت اور اس درجہ پر سالک کی حالت ۷۰ لقا کے مرتبہ پر شیطان کا کالعدم ہوجانا ۸۲ اس مرتبہ پرروح القدس کسی حال میں جدا نہیں ہوتا ۷۲ اس مقام پر پہنچنے والوں کا نام بعض اہلِ تصوف نے اطفال اللہ رکھا ہے ۶۴ اللہ اور مرتبہ لقاء پر فائز شخص کے اقتداری کاموں میں فرق ۶۷ خدا اور لقاء کے مرتبہ پر فائز شخص کے کُن میں مشابہت ۶۸ اس درجہ میں بعض ایسے امور کا صادر ہونا جو بشریت کی طاقتوں سے بڑھے ہوئے الٰہی طاقت اندر رکھتے ہیں ۶۵،۶۸ لقاء کے مرتبہ پر اہل اللہ سے اقتداری نشانات کے ظہور کی وجہ ۷۲ لقاء کے مقام پر بعض سالکین کا لغزش کھا کر شہودی پیوند کو وجودی پیوند کے رنگ میں سمجھنا ۶۴ سالک کو اپنے ابتدائی اور درمیانی حالات میں تمام امیدیں ثواب کی مخالفانہ جذبات سے پیدا ہوتی ہیں ۸۴ح سالک پر ہونے والے خدا کے انعامات ۲۲۷ وہ مقام جہاں سالک انبیاء کے انعامات ظلی طور پا لیتا ہے ۲۳۷ عارفوں کی علامات ۱،۲ عارفوں پر ہونے والے انعامات الٰہیہ ۲،۳۱ عارف پر کشفی رنگ میں معاد کی خبروں کا کھلنا ۱۵۲ عارف کشفی مشاہدات سے روح القدس اور شیطان دیکھ کوسکتاہے ۸۸ ایمان کے درجہ سے عرفان کے مرتبہ پر ترقی ۲۰۰ح،۲۴۳ح عرفان کے مقام پر پہنچنے کا طریق ۲۵۳ح برے ارادوں پر غالب آنے کے لئے ایمان کے ساتھ عرفان کی آمیزش ضرورری ہے ۳۸ اعمالِ صالحہ کا محرک معرفت ہے ۱۸۸ یقینی معرفت حاصل کرنے کا زینہ ۲۵۲ح معرفت الٰہی اور معاد میں مطلوب امر ۲۴۲ح علم و معرفت حقیقت اسلامیہ کے حصول کا ذریعہ ہے ۱۷۸ معرفت تامہ کی کیفیت ۱۸۸ کرامت کیا چیز ہے؟ ۲۴۵ اولیاء کی اعلیٰ درجہ کی کرامت ۱۷۸ ولایت کی حقیقت ۲۴۲ اولیاء کی اعلیٰ درجہ کی کرامت ۱۷۸ ولی کی توجہ سے خوارق کا پیدا ہونا ۵۸۸ح ولایت ساری کی ساری دعاؤں کی قبولیت میں ہے ۲۴۲،۳۹۹ طیبین کی ارواح میں وحدت کا سِرّ ۳۷۶ اولیاء انبیاء کے جوہر اور طبیعت میں شریک ہیں ۳۷۵ اول فضیلت اور کمال کسی ولی کا یہ ہے کہ علم قرآن اسے عطا کیا جائے ۳۶۳ اکثر شدائد اور مصائب کے نزول کے وقت اولیاء پر کلام الٰہی نازل ہوتا ہے ۲۳۹ صدہا اولیاء کا الہام سے گواہی دینا کہ چودھویں صدی کا مجدد مسیح موعود ہو گا ۳۴۰ اولیاء کا مواضع متفرقہ میں بصور متعددہ نظر آنا ۱۲۲ اس زمانہ کے فقراء کی حالت ۲۶۶ح،۳۶۰،۳۷۰ فقراء کی علماء سے بھی بدتر حالت ہے ۴۸،۴۹
تقدیر اگر تقدیر معلق ہو تو دعاؤں سے ٹل سکتی ہے ۶۴۶ تکبر تکبر اور کبریائی میں فرق ۶۵۶ قیامت کے دن شرک کے بعد تکبر جیسی اور کوئی بلا نہیں ۵۹۸ شیطان کا تکبر کے باعث مارے جانا ۵۹۸ نہایت پلید جھوٹ وہ ہے جو تکبر کے ساتھ ظاہر ہو ۵۹۹ مجھے کمزور اور ضعیف لوگ مان رہے ہیں اور بڑھ رہے ہیں اور متکبر انکار کرتے ہیں اور کم ہو رہے ہیں ۴۸۵ توحید توحید کے تین درجے ۲۲۳ توحید فی النظام خدا کے مسئلہ کو مؤید ہے ۱۷۷ح اس زمانہ میں توحید کی طرف لوگوں کی توجہ کے لئے دعا ۲۱۳ح ح خدا بالذات توحید کو چاہتا ہے ۴۴ توحید کی برکت سے مسلمانوں میں نور ہے ۲۲۳ قرآن کا خداشناسی اور گم گشتہ توحید کو قائم کرنا ۴۰ مسلمان خواہ کیسے ہی محجوب الحقیقت ہیں مگر سبھی اعلانیہ توحید کے قائل ہیں کسی انسان کو خدا نہیں بناتے ۲۲۳ ثواب ایمان میں ثواب کی و جہ ۱۸۸ح ثواب کی امیدیں مخالفانہ جذبات سے پیدا ہوتی ہیں ۸۴ح مامور من اللہ کی طرف سفر کا ثواب نفلی حج سے زیادہ ہے ۳۵۲ ج، چ ، ح، خ جبرائیل ؑ دیکھئے ’’روح القدس‘‘ جلسہ سالانہ دیکھئے ’’احمدیت‘‘ جنّ جنّات کے وجود کا ثبوت ۸۶ جنّ کے مسلمان ہونے سے مراد ۸۴،۸۵ح آنحضرت ؐ کے جنّ کا مسلمان ہونا ۸۱ جنت بہشت اور دوزخ پر ایمان لانے کی غرض ۳۳۴ ثابت قدمی دکھانے والوں کے لئے بہشت کا وعدہ ۹۸ طلبِ علم کے لئے سفر کرنے والے کے لئے جنت کی راہ کا آسان کیا جانا ۶۰۷ مومن کیلئے اس دنیا میں بہشت کا دوزخ کی صورت میں متمثل ہونا ۱۴۵ ایک بُرے شخص کا صالح کی صحبت سے جنت میں جانا ۶۰۸ قیامت کے روز نیکی کے اعمال جنت اور بدی کے اعمال دوزخ کی صورت میں ظاہر ہو جائیں گے ۱۴۸ بہشت میں دودھ اور شہد کی نہروں کے چلنے سے مراد ۱۵۲ جنت کی نعماء کی حقیقت ۴۵۴ جنت اور روضۂ رسول کی مناسبت ۵۷۹ح دجال کے ساتھ جنت، آگ اور خزائن ہونے سے مراد ۴۵۱ جہاد اس زمانہ میں طریق جنگ و جدال کا بدلنا ۶۰۹ اب زمانہ اسلام کی روحانی تلوار کا ہے ۲۵۴ح جہنم ایک مومن کے جہنم میں جانے سے مراد ۱۴۳،۱۴۴ جہنمی عذاب کی جڑھ اسی جہان کی گندی اور کورانہ زیست ہے ۵۹ قیامت کے روز نیکی کے اعمال جنت اور بدی کے اعمال دوزخ کی صورت میں ظاہر ہو جائیں گے ۱۴۸ حج مامور من اللہ کی طرف سفر کا ثواب نفلی حج سے زیادہ ہے ۳۵۲ حدیث احادیث کا مقام ۵۵۹ تمام احادیث وحی غیر متلو ہیں ۳۵۳ احادیث کی تاویل کا علم صدیقوں کو دیا جاتا ہے ۵۵۴ ح
شدِّ رحالکی حدیث کا صحیح مفہوم اور علم دین کے لئے سفر کرنے پر مشتمل احادیث ۶۰۶ حسن کمال محبت یا حسن سے پیدا ہوتی ہے یا احسان سے ۱۸۲ اللہ کے حسن اور اس کی صفات کی خوبیوں کا بیان ۱۸۲ حنفی ان کا غیر مقلدین کو سنت جماعت سے باہر سمجھنا ۲۵۷ حواری عیسائیوں کا عقیدہ کہ حواریوں سے روح القدس جدا نہیں ہوتا تھا ۷۶ حواریوں کی ایمانی حالت کی زبوں حالی ۲۰۱ح،۲۲۱ مسیح کا بعض کو سست اعتقاد اور شیطان کہنا ۲۰۳ح ایک حواری کا مرتد ہونا ۳۵۵ خدمتِ خلق خالق کی اطاعت اور خلق کی خدمت سے مراد ۶۱ خواب ؍ رؤیا سچی خواب اپنی سچائی کے آثار آپ ظاہر کر دیتی ہے ۳۵۲ رحمانی خواب کی علامات ۳۵۴ آنحضرتؐ کی خواب بلاشبہ وحی میں داخل ہے ۹۲ح انبیاء کی وحی میں رؤیا کی تکذیب جھوٹی نہیں ہو سکتی ۴۵۰ سچی خواب کے لئے ضروری کہ انسان بیداری میں ہمیشہ سچا اور خداکے لئے راستباز ہو ۳۵۳ فاسق اور فاجر کا روح القدس کے اثر سے سچی خواب دیکھنا ۸۰ح کشف اور رؤیا صالحہ کے ذریعہ انسان کے عالمِ صغیر ہونے کا ثبوت ۱۷۴ح خواب میں ایک شخص کا اپنے تئیں دوسرا خیال کرنا ۲۱۸ح ح صادق کی نشانی کہ اس کی خوابوں پر سچ کا غلبہ ہوتا ہے ۲۹۳ خواب سچی ہوتی ہے مگر تعبیر میں غلطی ہو جاتی ہے ۳۰۴ اگر شیطان کے دخل سے امن میں نہیں تو کیسے معلوم ہو کہ وہ رحمانی ہے یا شیطانی ۳۵۴ خواب میں حضرت ابراہیم ؑ کا اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کی حقیقت ۴۵۰ فرعون کا خواب اور حضرت یوسف ؑ کی رؤیا ۴۵۳ خواب میں جوتی دیکھنے کی تعبیر بیوی یا معاش میں وسعت ہے۵۵۴ح خواب میں کرتہ سے مراد علم ہے ۶۳۹ حضرت عمرؓ کا دروازہ ٹوٹنے سے اپنی وفات مراد لینا ۴۵۹ خواص الاشیاء چند اشیاء کے خواص جو اُن میں محجوب ہیں ۱۶۳ح دنیا میں بہتیرے ایسے خواص ہیں جو تجارب سے ثابت ہیں مگر عقل کے مافوق ہیں ۲۳۹ح ہر چیز کی پوری حقیقت اس کے کمال سے کھلتی ہے ۲۴۳ح د، ذ، ر، ز داعی الی الخیر اس کا نام روح القدس ہے ۸۰ح،۸۷ حدیث کی رُو سے اس کا ہمیشہ انسان کے ساتھ رہنا۸۰،۸۱ داعی الی الشرّ اس کا نام ابلیس اور شیطان ہے ۸۰ح،۸۷ دجال دجال گروہ کو کہتے ہیں ۳۵۷ دجال کی حقیقت ۴۰، ۵۲، ۴۵۰، ۵۵۴ احادیث کی رو سے ہندوستان اس کا محل ہے ۲۱۸،۴۶۰ عیسائی مذہب اور قوم ہی دجال ہے ۲۵۴،۲۶۹ پادری ہی دجال ہیں ۴۶۰ دجال یہود میں سے نہیں ہو سکتا ۴۵۲ دجال کا نبوت اور خدائی کا دعویٰ کرنا ۳۴۳ اس کا ہر فلسفی انا الرّب ہونا کا دعویٰ کرتا ہے ۵۳
دجال کی وحدت شخصی نہیں نوعی ہے ۵۵۴ حدیثوں میں جو آیا ہے کہ دجال اول نبوت کا دعویٰ کرے گا اور پھر خدائی کا اس کے معنی ۳۴۴،۳۷۱ یہ عام ضلالت وہی سخت دجالیت ہے جس سے ہر نبی ڈراتا آیا ہے ۲۵۴ یہی زمانہ دجال اکبر کا ہے ۲۶۷ح دجال کے ساتھ جنت، آگ اور خزائن ہونے سے مراد ۴۵۱ زمینی نوادر اور فتنوں کا مظہر ۴۸۰ دجال کے فتنہ کا ہر طبقہ کے لوگوں پر اثر ۵۳ مسلمانوں کے اس خیال کی تردید کہ اس کے ساتھ جنت ونار وغیرہ چیزیں ہوں گی ۵۵۷ اس سوال کا جواب کہ دجال تو نبی کریمؐ کے زمانہ میں ایک شخص تھا ۵۵۶ دخان دخان سے مراد شدت بھوک سے متفرق خیالات کا سلسلہ ہے۵۵۵ دعا اگر تقدیر معلق ہو تو دعاؤں سے ٹل سکتی ہے ۶۴۶ قبولیت دعا ربانی حکمت کے اسرار میں سے ایک سرّ ۵۸۸ح وہ مقام جب خدا مومن کی دعا سن لیتا ہے ۲۴۱ کسی ملہم کی دعا سے ہدایت اسے ملتی ہے جس کے دل پر زیغ اور کجی کا غلبہ نہیں ہوتا ۳۱۸ح مومن پر خدا کے فضلوں میں سے ایک بڑا بھاری فضل اس کی دعاؤں کا قبول ہونا ہے ۲۴۲،۲۴۴ ولایت ساری کی ساری دعاؤں کی قبولیت میں ہے۲۴۲،۳۹۹ موجودہ زمانہ کی ظلمت مٹانے کے لئے جو نور رحمت الٰہیہ نے تیار کیا ہے اس کے پہچاننے کے لئے دعائیں کرو ۵۴، ۴۰۴ اھدنا الصراط المستقیمکی دعا کا ہر نماز میں پڑھنا ۲۴۶ح اھدنا الصراط المستقیمکی دعا کا خلاصہ مطلب ۶۱۲ وہ لوگ جنہیں ملہم کی دعا سے ہدایت ملتی ہے ۳۱۸ح یا حی یا قیوم برحمتک استغیث ۱ اپنے لئے عربی زبان میں ایک نہایت عجیب دعا ۵ مخالف علماء کے لئے دعا کہ خدا انہیں ظلمات سے نور کی طرف لائے اور لعنت کرنے والوں پر رحم کرے ۲۲ غافل قوموں پر قرآنی حقائق کے ظاہر ہونے کی دعا ۲۱۳ح ح بٹالوی سے تفسیر لکھنے کے مقابلہ میں فتح پانے کے لئے دعا پر الہام ہونا اور اس کی ذلت کا قریب ہونا ۶۰۴ دنیا اسلام کا خدا ہرنئی دنیا کے لئے نشان دکھاتا ہے ۲۴۷ دنیا میں صدق دل سے خدا کے طالب اور اس کی معرفت کی راہوں کے بھوکے بہت کم ہیں ۱۵۸ح دنیا اور آخرت کے عذاب کا علاج ایمان ہے ۲۷۱ح دنیا کی کوئی چیز اپنے ہر ایک خاصہ میں مستقل بالذات نہیں بلکہ خدا کے سہارے سے ہے ۱۷۱ح دنیا کا چھ دن کام کرنا اور ایک دن تعطیل کرنا ۱۹۹ح دہریت اثباتِ ملائک کے لئے دہریہ کے ساتھ طریق گفتگو ۲۰۹ح فلسفہ کا کمال دہریت ہے ۲۴۳ح رجع قرآن میں آسمان کے لئے رجع اور زمین کے لئے صدع کا لفظ لانے میں حکمت ۴۴۵ سورۃ الطارق میں دو مرتبہ رجع کا لفظ لانے میں حکمت ۴۴۵ روح القدس روح القدس نام رکھا جانے کی و جہ ۱۰۱ روح القدس اور شیطان کے وجود کا ثبوت ۸۸ یہ داعی الی الخیر ہے ۸۰ح،۸۷ قرآن میں اس کا نام نور اور حیات ہے ۹۹ اس کی چمک اور شیطانی ظلمت کے لحاظ سے تین گروہ ۹۷ ادنیٰ سے ادنیٰ نیکی کا خیال اس سے پیدا ہوتا ہے ۸۰ح الٰہی محبت اور انسانی محبت کے ملنے سے روح القدس کا روشن سایہ دل میں پیدا ہونا ۷۲ وہ آیات جن سے معلوم ہوتا ہے کہ روح القدس ہمیشہ کے لے کامل مومنوں کو دیا جاتا ہے ۷۶، ۹۷
احادیث کی رو سے روح القدس سے مقربوں کے ہمیشہ رہنے کا ثبوت ۱۰۲ ولیوں اور نبیوں سے روح القدس کے الگ ہونے کے عقیدہ کا بطلان ۷۲ آیات کی رو سے فرشتوں کے دائمی طور پر انسان کے ساتھ رہنے کا ثبوت ۷۸ حدیث کی رو سے اس کا ہمیشہ انسان کے ساتھ رہنا ۸۰،۸۱ ہر شخص فطرتی نور کی و جہ سے کچھ نہ کچھ روح القدس کی چمک اپنے اندر رکھتا ہے ۹۶ اس کا خدا کے خاص بندوں کو شیطان کے تسلط سے بچانا ۷۷ انسان کے ظاہر اور باطن کی حافظت کے لئے مقرر ۷۷ ایک طرفۃ العین کے لئے بھی برگزیدوں سے جدا نہیں ہوتا ۷۲ روح القدس کا کامل نزول صرف مقربوں پر ہوتاہے ۷۸ح الٰہی اور انسانی محبت کے ملاپ سے جو نور پیدا ہو وہ روح القدس سے موسوم ہے ۷۹ح اس کے اثر سے فاسق اور فاجرکا سچی خواب دیکھنا ۸۰ح عام مسلمانوں کا اس کے نزول کے متعلق عقیدہ ۷۴ شیخ بطالوی اور دہلوی کااس کے متعلق عقیدہ ۹۰ روح القدس کے نزول کی حقیقت ۷۲، ۸۸تا۹۱ح،۱۱۹ روح القدس کے اپنے اصلی وجود کے ساتھ نزول کے بدیہی البطلان ہونے کی و جہ ۱۲۳ حدیثوں کی رو سے روح القدس کے نزول کی حقیقت ۱۰۹ صحاح کا اتفاق کہ انبیاء پر وحی کے ساتھ اس کا نزول وقتاً فوقتاً آسمان سے ہوتا تھا ۱۰۶ مولویوں کا اس کے نزول کے متعلق اعتقاد ۱۰۵ اس کا نزول نورانیت اور جدائی ظلمت کا موجب ہے ۷۶ روح القدس کے چھ سو پَر اور چھ سو قرآنی احکام ۱۹۶ کشفی مشاہدات سے اس کا نظر آنا ۸۸ شیطان کے اسلام لانے سے روح القدس کے نور کا انتہاء درجہ پر چمکنا ۸۲ صحابہ کا اتفاق کہ روح القدس صرف دو مرتبہ حقیقی وجود کیساتھ آپؐ کودکھائی دیا ۱۲۲ مسلمانوں کا یہ عقیدہ کہ روح القدس حضرت مسیح ؑ سے جدا نہیں ہوتا تھا مگر آنحضرتؐ سے جدا ہو جاتا تھا ۷۵ح مفسرین کا اتفاق کہ یہ ہر وقت حضرت عیسیٰ ؑ کا قرین تھا ۱۰۴ روح القدس کے ذریعہ حاصل ہونے والی برکتیں ۹۳ح روح القدس کے مقربوں سے علیحدہ ہونے سے مراد ۹۱ح روح القدس کی قدسیت ہر دم ملہم کے تمام قویٰ میں کام کرتی رہتی ہے اس کے متعلق مؤلف کا ذاتی تجربہ ۹۳ح مرتبہ بقا میں روح القدس کا کامل طور پر عطا کیا جانا ۲۰۶ح ح لقا کے مرتبہ پر یہ کسی حال میں جدا نہیں ہوتا ۷۲تا۷۴ اس عقیدہ کا رد کہ شیطان ہر وقت انسان کے ساتھ رہتا ہے اور روح القدس نہیں ۹۰ عیسائیوں کا عقیدہ کہ نہ صرف مسیح بلکہ حواریوں سے بھی روح القدس جدا نہیں ہوتا تھا ۷۶ اس اعتراض کا جواب کہ جب روح القدس صرف بقا اور لقا کے درجہ میں ملتا ہے تو ہر ایک کا نگران کیسے ہوا ۷۸ح روح القدس انسان کو بدیوں سے روکنے کے لئے ہے پھر اس کے باوجود اس سے گناہ کیوں سرزد ہوتے ہیں ۸۰ح بعض ایام میں جبرائیل آنحضرتؐ پر کیوں نہ اترا ۸۸ح اس اعتراض کا جواب کہ قرآن میں کہاں لکھا ہے کہ یہ مقربوں سے کبھی جدا نہیں ہوتا ۷۶ زمانہ اوائل زمانوں میں اکثر ایسے لوگ تھے جو کم عقل، غبی، پلید کم دل اور کم ہمت تھے ۱۹۸ یہ روحانی بارش کا زمانہ ہے ۵۱ اس زمانہ میں مذہب اور علم کی سرگرمی سے لڑائی ۲۵۴ح یہی زمانہ دجال اکبر کا ہے ۲۶۷ح آخری زمانہ کی بعض علامات ۴۶۳،۴۶۹
قرآن میں مذکور بعض آخری زمانہ کی علامات ۴۶۸ یہ زمانہ صنائع جدیدہ کے ظہور کا زمانہ ہے ۲۱۳ح ح نبی کریم ؐ کا دو زمانوں کو نیک قرار دینا ۲۱۴ نواب صدیق حسن خان کا تسلیم کرنا کہ یہی آخری زمانہ ہے ۳۰۱ موجودہ زمانہ کی اندرونی اور بیرونی زہرناک ہوا کا استیصال صرف خدائے قادر مطلق کے اختیار میں ہے ۵۰ اس زمانہ میں جو کچھ اسلام اور رسول کریم کی توہین کی گئی اس کی نظیر کسی دوسرے زمانہ میں نہیں ملتی ۵۱،۵۲ آخری زمانہ کے نوادرارضیہ و سماویہ ۴۷۴ زمین زمین اور آسمان کا آپس میں تعلق ۱۵۶ح ح سات زمینوں سے مراد ۱۵۸ح ح زمین پر سورج کا اثر ۱۶۲ح ح کفار کے رُو برو روحانی زمین کی گٹھڑی کا کھلنا ۱۹۲ح ح آسمان و زمین کا تعلق اور اس کے اثرات ۴۴۳ قرآن میں آسمان کے لئے رجعاور زمین کے لئے صدع کا لفظ لانے میں حکمت ۴۴۵ زمین کا اپنے مخفی خزانوں کو باہر نکالنا ۴۰ کیاچھ دن میں زمین و آسمان کو پیدا کرنا خدا کے ضعف پر دلالت کرتا ہے ؟ ۱۶۰ح ح آریوں کا اعتراض کہ زمین و آسمان کی پیدائش کی چھ دن میں تخصیص کیوں کی گئی ۱۷۳ح ح زندگی خوش اور مبارک زندگی ۳۵ حیاتِ روحانی سے مراد ۱۹۶ روحانی زندگی کے حصول کا طریق ۲۲۴ خدا کی راہ میں زندگی کا وقف کرنے کی دو اقسام ۶۰ روحانی حیات صرف آنحضرتؐ کی اتباع سے مل سکتی ہے ۱۹۶ قرآن روحانی حیات کے ذکر سے بھرا ہوا ہے ۱۰۲ روحانی زندگی کا ماحصل ۲۲۴ س، ش، ص، ض سائنس اس زمانہ کی سائنس کی بلا یونانیوں کے علوم کے اسلامی ممالک میں پھیلنے سے ہزارہا درجہ شدید ہے ۲۶۳ح سالک لقاء کے مقام پر بعض سالکین کا لغزش کھا کر شہودی پیوند کو وجودی پیوند کے رنگ میں سمجھنا ۶۴ سالک کا سلوک صرف فنا کی حد تک ہے ۷۱ سالک کو اپنے ابتدائی اور درمیانی حالات میں تمام امیدیں ثواب کی مخالفانہ جذبات سے پیدا ہوتی ہیں ۸۴ح سالک پر ہونے والے خدا کے انعامات ۲۲۷ وہ مقام جہاں انبیاء کے انعامات ظلی طور پا لیتا ہے ۲۳۷ ستارے ستاروں کا ہماری خدمت میں لگے رہنا ۱۳۳ح کل ستارے ملائک کی حفاظت میں ہیں ۷۷ح نجوم کے قویٰ فرشتوں سے فیضیاب ہیں ۱۴۳ح ستاروں کے حفاظت کرنے کی حقیقت ۹۹ح ح،۱۰۰ح عربوں کے نزدیک ستاروں کا کثرت سے گرنا عظیم الشان انسان کے پیدا ہونے کی دلیل ہے ۱۰۴ح،۱۰۶ح اہلِ یورپ کو مسیح کے ظہور کے وقت کا ستارہ دکھائی دینا ۱۱۱ح دم دار ستاروں کے متعلق نئی روشنی کے محققین کی رائے ۱۱۵ح نجوم ستہ کا جنین کی تکمیل میں تعلق ۱۸۶ح ح ستاروں کی تاثیرات ۴۴۴ سعادت سعادت تامہ کے تین درجے ۶۳،۷۲ سعید آدمی کی پہلی نشانی ۵۴ سفر دنیا میں مختلف اغراض کے لئے سفر ۶۰۷ للہ سفر عند اللہ ایک قسم کی عبادت ہے ۳۵۷ وہ احادیث جن میں علم کے لئے سفر کی تحریض ہے ۶۰۶
سکھ سکھوں کا پنجاب پر قبضہ ۵۰۶ سکھ دور میں حضرت اقدسؑ کے خاندان پر آنیوالے ابتلاء ۵۰۷ سکھوں کی تباہی و ہلاکت کے آثار ۵۱۲ فیروز پور کی جنگ میں سکھوں کی پسپائی ۵۱۳ شرک شرک کی حقیقت اور اس کے مقدمات ۴۴ شہاب ثاقب اللہ کا شہب اور ستاروں کی قسم کھانے میں حکمت ۱۰۶ح تساقط شہب کا کام عبث نہیں ۱۲۹ح ابن کثیر نے لکھا ہے کہ شہب کا کثرت سے گرنا نبی کی آمد کی دلیل ہے ۱۰۸ح شہب کے گرنے کے ساتھ فرشتوں کا تعلق ۱۲۶ح، ۱۲۹ح تساقطِ شہب سے شیاطین کے بھاگنے کی و جہ ۱۲۶ح شہب کا گرنا نہ صرف نبی یا وارث نبی سے بلکہ ان کے ارہاصات اور ان کی نمایاں فتوحات سے بھی مخصوص ہے ۱۲۱ح عربوں کے نزدیک کثرتِ شہب کا سبب ۱۰۳.۱۰۴ح ۲۸ نومبر ۱۸۸۵ء کے شہب کے گرنے کا دنیا کی اخباروں میں حیرت کے ساتھ ذکر ۱۱۰ح انیسویں صدی میں شہب کے بکثرت گرنے کا سبب ۱۲۲ح شہب جن کے گرنے سے ہیئت دان حیرت میں رہ گئے ۱۱۶ح شرح اشارات میں شہب کے گرنے کے اسباب کا بیان ۱۱۲ح شہب کے گرنے کے متعلق نئی روشنی کے محققین کی رائے ۱۱۵ح حضرت مسیح کی گرفتاری کے بعد شہب کا گرنا ۱۱۴ح حضرت مسیح موعودؑ کے لئے شہب کے گرنے کا نشان ۱۱۰ح اس سوا ل کا جواب کہ اگر شہب کا گرنا نبی کے بعث کی دلیل ہے تو یہ ہمیشہ گرتے ہیں مگر نبی دنیا میں مبعوث نہیں ہوتا۱۰۷ح اس اعتراض کا جواب کہ محققوں کی رو سے شہب کے پیدا ہونے کے اَور اسباب ہیں ۱۱۱ح، ۱۱۹ح تساقطِ شہب کا رجم شیاطین سے کیا تعلق ہے ۱۲۲ح قرآن میں رمی شہب کا فاعل فرشتوں اور ستاروں کو ٹھہرانے کی و جہ ۱۴۲ح شیطان اس کا نام داعی شرّ ہے ۸۰ح،۸۷ اشرار اور کفار کے لے دائمی بئس القرین ۷۴ شیطان کے وجود کا ثبوت ۸۶.۸۷ عارف کشفی مشاہدات سے شیطان کو دیکھ لیتا ہے ۸۸ شیطان کے اسلام لانے سے مراد ۸۲، ۸۵ح ملائک اور شیاطین کے اثبات کے لئے خدا نے قرآن کے استنباط حقائق میں اس عاجز کو منفرد کیا ہے ۸۹ مخالفین کے اس اعتراض کا جواب کہ خدا نے شیطان کو دانستہ انسان کے پیچھے لگا رکھا ہے ۸۲ح انسان کی شیطان کے ذریعہ آزمائش کی و جہ ۸۲ح ح، ۸۳ شیطان کا تکبر کے باعث مارے جانا ۵۹۸ بقا اور لقا کے مرتبہ پر شیطان کا کالعدم ہوجانا ۸۲ روح القدس کی چمک اور شیطانی ظلمت کے لحاظ سے تین قسم کے گروہ ۹۷ صادق پیشگوئیوں کا پورا ہونا مدعی صادق کی علامت ہے ۳۲۲ صادق کی آزمائش ۶۹۶ صادقوں کے لئے ابتلاء کا زمانہ ۳۳۸ جو شخص ابتلاء کے وقت صادق نکلتا ہے اور سچ کو نہیں چھوڑتا اس کے صدق پر مہر لگ جاتی ہے ۳۰۱ صادق کی نشانی کہ اس کی خوابوں پر سچ کا غلبہ ہوتا ہے ۲۹۳ تورات کے مطابق پیشگوئی کا پورا ہونا صادق کی نشانی ۲۸۰ پاک نفس لوگوں کو حقائق و معارف اور لطائف حکمیہ کا ملنا ۶۰۲ جو صادق سے لڑتا ہے وہ اس سے نہیں بلکہ خدا سے لڑتا ہے۲۸۱ صحابہ صحابہؓ کی تعریف اور ان کے کمالات کا تذکرہ ۳،۴،۴۲۲ صحابہؓ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کا اثر ۳،۴
صحابہؓ میں اختلافات بھی تھے ۲۵۹ کبار صحابہ کا بغیر طلب معجزہ کے ایمان لانا ۳۳۲ صحابہ کا اعتقاد کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فعل وحی کی آمیزش سے خالی نہ تھا ۱۱۲ ط، ظ، ع، غ طب چند دواؤں کے وہ خواص جو اُن میں محجوب ہیں ۱۶۳ح مقویات رحم ۱۷۹ح اسہال لانے کی دوائیں ۱۸۷ح طلاق اگر مرد قوت مردی میں قصور رکھے تو عورت اس سے طلاق لے سکتی ہے ۲۸۲ طُوبیٰ دس قسم کے اشخاص کے لے طوبیٰ کا استعمال ۱۳ ظلم لغت کی رو سے ظلم اور ظالم کے معنی ۱۳۶، ۱۶۶ ظالموں کی وہ قسم جو خدا کے برگزیدہ ہیں ۱۳۴،۱۴۱ قرآن میں ظالموں کے لئے اصطفاء کے لفظ کا استعمال ۱۳۸ اپنے نفس پر خدا کی خاطر جبرو اکراہ کرنے والے ظالم ہیں جن کا نام توابین بھی ہے ۱۳۹ ظالموں کی دو قسمیں ۱۴۳ ظلوم یہ ایک نہایت ہی قابل جوہرہے جو صرف انسان کو دیا گیا ۱۴۱ ظلوم وجہولکا قرآن میں مقام مدح میں استعمال ۱۵۸ اس وسوسہ کا رد کہ ظلوم وجہول کے یہ معنے متقدمین میں سے کس نے کئے ہیں ۱۶۵ اس صفت سے حاصل ہونے والی برکات ۱۵۷ اس بات کا ثبوت کہ اس سے مراد مومن ہیں ۱۷۵ عارف عارفوں کی علامات ۱،۲ عارفوں پر ہونے والے انعامات الٰہیہ ۲،۳۱ عارف پر کشفی رنگ میں معاد کی خبروں کا کھلنا ۱۵۲ عارف کشفی مشاہدات سے روح القدس اور شیطان کو دیکھ سکتاہے ۸۸ عالَم انسان کے عالم صغیر ہونے کا ثبوت ۱۷۳ح عالم کبیر کمال خلقت کے وقت گٹھڑی کی طرح تھا ۱۹۱ح ح عالم صغیر اور عالم کبیر کا چھ مرتبے طے کر کے کمال خلقت کو پہنچنا ۱۷۵ح ح،۱۸۴ح ح عبد لغت عرب میں یہ غلام کے معنوں میں آتا ہے ۱۹۱ اس کا یہ مفہوم کہ اپنے مولیٰ کا پور امتبعہو ۱۹۲ عرب (قوم) عرب قوم کو تبلیغ ۴۱۹ عرب قوم کیلئے فخر کی وجوہات ۴۲۰ عربوں سے ملاقات کے اشتیاق کا اظہار ۴۲۱ عرش عرش کی حقیقت ۱۴۹ح ح عرش اللہ تک پہنچنے کا طریق ۲۷۱ح عرفان ایمان کے درجہ سے عرفان کے مرتبہ پر ترقی ۲۰۰ح،۲۴۳ح یقینی معرفت حاصل کرنے کا زینہ ۲۵۲ح عرفان کے مقام پر پہنچنے کا طریق ۲۵۳ح برے ارادوں پر غالب آنے کے لئے ایمان کے ساتھ عرفان کی آمیزش ضروری ہے ۳۸ عقل ہزاروں چیزوں کے خواص عقل سے برتر ہیں ۱۳۱ح عقل خود کوئی چیز نہیں صرف ثابت شدہ صداقتوں سے قدرومنزلت پیدا کرتی ہے ۲۳۹ح عقل کی پیروی سے انسان کا بہکنا ۲۴۹ح علم علم دین کے لئے سفرکی تحریض پر مشتمل احادیث ۶۰۶
علم و معرفت حقیقت اسلامیہ کے حصول کا ذریعہ ہے ۱۷۸ اہلِ بادیہ کا خاص ایام میں نبی کریمؐ کے پاس آنا ۶۰۸ کوئی علم واقعات صحیحہ پر غالب نہیں آ سکتا ۲۴۲ح اس زمانہ میں مذہب اور علم کی لڑائی ۲۵۴ح،۲۶۲ح انسان کو چاہیئے کہ وہ مسائل صحیحہ کا معلم ہو ۲۵۹ح علماء علماء انبیاء کے وارث ہیں ۵۴۰ ان میں ایسے سعید کم ہیں جنہوں نے مقبولانِ درگاہِ الٰہی کو وقت پر قبول کیا ۳۴ اس زمانہ کے صالح علماء کی تعریف ۸ اس زمانہ کے علماء کی بدحالت ۵تا ۸،۴۶تا۴۸ علماء کی دنیا اور اس کی زینت سے محبت اور ترکِ تقویٰ ۱۵ حضورؑ کی دعوت کا انکار اور بے سوچے سمجھے تکفیر کرنا ۷ مخالف علماء کے حق میں حضورؑ کی دعا ۲۲ اکثر صرف ظاہر اور مجاز پر قناعت کرنے والے ہیں ۳۶ ان کے دلوں میں وہم پرستی کے بُت ہیں ۳۶ آخری زمانہ کے علماء کا گمراہ ہونا قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ہے ۶۰۵ وہ علماء جنہوں نے عیسائیت اختیار کی اوراسلام پر حملے کیے ۱۵ بد علماء حبشی کے بیت اللہ پر حملہ آور ہونے کی طرح مجھ پر حملہ آور ہوئے ۱۰ ان کا یہودیوں سے مشابہت اختیار کرنا ۳۴،۴۷،۴۹ ان کا عیسائیوں کی مشرکانہ تعلیم میں مدد دینا ۴۱ یہ لوگ چھپے ہوئے رسول اللہؐ کے دشمن ہیں ۱۱۱ ان کا ملائک کے اترنے اور آسمان پر جانے کے متعلق عقیدہ ۹۳ ان کا کسی کو کافر ٹھہرانے میں ترقی کرنا ۳۱،۳۳ مشائخ ، اکابر اور ائمہ وقت کی کتابوں کے بعض حقائق نہ سمجھ میں آنے کی وجہ سے انہیں دائرہ اسلام سے خارج کرنا ان کی قدیم سے عادت ہے ۳۳ تمام علماء کا بلا تفتیش کفرنامہ پر مہر لگانااور اُن پر اظہار افسوس ۳۲ مکفرین علماء کا اشعار میں ذکر ۲۸ ناشکری کی وجہ سے میرے سابقہ رسائل میں حقائق قرآنیہ دیکھ کر ان کا شور و غوغا کرنااور انہیں کلماتِ کفر قرار دینا ۳۰ نبی کریمؐ کے تذکرہ کے ساتھ طعنہ زنی کرنے والے علماء کا ذکر کرنے کے دو اسباب ۹،۲۲ ان کی گستاخی اور بے ادبی کہ آنحضرتؐ سے روح القدس جدا ہو جاتا تھا مگر مسیح ابن مریم سے نہیں ۷۵، ۱۰۴، ۱۱۰ نواب صدیق حسن خان صاحب کا حدیث کے موافق اس زمانہ کے علماء کو بدترین مخلوق کہنا ۳۰۱ عیسائیت مسیح کی حیات عیسائی مذہب کا ایک ستون ہے ۴۱ عیسائی مذہب اور قوم ہی دجال ہے ۲۵۴،۲۶۹ عیسائیوں کا دنیاوی علوم میں کمال ترقی حاصل کرنا ۳۶۹ اس زمانہ میں عیسائیوں کی دجالیت کا کمال تک پہنچنے کا ثبوت ۳۴۵ عیسائیوں کے دعویٰ نبوت اور الوہیت کی تفصیل ۳۷۱ ان میں دجالی خیالات کے پھیلانے کا جوش ۳۴۷ ان میں دجالیت کے صفت کے اتم طور پر آنے پر مسیح کی روحانیت کا نزول کے لئے جوش میں آنا ۳۴۳ نفسانیت کی تنگ قبروں میں مرے ہوئے ہیں ۲۰۳ح عیسائیت کا چار قسم کی موت میں مبتلا ہونا ۲۰۴ح یہ مردہ اور شرک کے گڑھے میں پڑے ہوئے ہیں ۲۲۳ ایک فرقہ کا انجیل کو توڑنا مروڑنا ۳۴۵ چھ کروڑ کتابیں تالیف کرنا ۳۴۵ تھوڑے عرصہ میں ایک لاکھ لوگوں کا عیسائیت اختیار کرنا ۵۱ کشفاً ظاہر ہونا کہ عیسائیوں کی ضلالت کی خبر سن کر حضرت عیسیٰ ؑ کی روح روحانی نزول کے لئے حرکت میں آئی ۲۵۴ عیسائیوں کے تعدد ازدواج پر اعتراض کا جواب ۲۸۲ پادریوں کا مخالفت کے جوش میں پچاس پچاس برس کے ہو کر عربی زبان کو سیکھنا اور قرآن کے معانی پر اطلاع پانا ۳۶۰
پادریوں کو دعوت مقابلہ ۲۷۷،۲۸۴ پادریوں کا مدت سے الہام پر مُہر لگانا ۲۸۴ پادریوں کے فتنہ کے حد سے زیادہ بڑھنے پر خدا کا اپنے ایک بندہ کو بھیجنا ۴۲۴ اسلام پر ان کے حملے اور مسلمانوں کی غفلت ۱۳،۱۴ پادری ہی دجال ہیں ۴۶۰ ف، ق، ک، گ فرشتے دیکھئے ’’ملائک‘‘ فطرت انسانی فطرت خدائی کی طاقتیں پیدا نہیں کر سکتی ۲۳۷ح القاء اور الہام برعایت فطرت ہوتا ہے ۱۸۶ح ہر شخص فطرتی نور کی وجہ سے کچھ نہ کچھ روح القدس کی چمک اپنے اندر رکھتا ہے ۹۶ فلسفہ فلسفہ کے خیالات کی بنیاد ہی غلط ہے ۱۹۸ح ایمان کا ایک ذرہ فلسفہ کے ہزار دفتر سے بہتر ہے ۲۷۲ح خدا کے متعلق فلسفیوں کے خیالات ۲۴۴ح مغربی فلسفیوں کے اقوال میں خدائی کا دعویٰ ۳۴۴ فلسفہ موجودہ ثابت شدہ صداقتوں کے مقابل پر مُردہ اور بے طاقت ہے ۲۴۲ح فلسفہ قرآن کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ۲۵۷ح فلسفہ کا کمال دہریت ہے ۲۴۳ح فلسفہ کے علم کا انتہائی معراج ۲۴۴ح یہ ہمیشہ ایمان سے لاپروا رہے ہیں ۲۵۲ح اس زمانہ کا فلسفہ اسلام پر غالب نہیں آ سکتا ۲۵۵ح اس زمانہ کے فلسفہ کی بلا یونانیوں کے علوم کے اسلامی ممالک میں پھیلنے سے ہزارہا درجہ شدید ہے ۲۶۳ح اس زمانہ کے فلسفیوں کا انا الرّب ہونے کا دعویٰ ۵۳ فنا فنا کی تعریف ۶۳ اس درجہ تک پہنچنے کا طریق ۱۹۶ پہلی ہستی فنا کئے بغیر نئی ہستی نہیں مل سکتی ۲۳۳ کسب اور جدوجہد صرف اس درجہ تک ہے ۷۱ اس درجہ کے بعد بقا اور لقا کا درجہ بلاتوقف ہے ۶۹ اسلم وجھہ کے درجہ کو صوفی فنا اور قرآن استقامت کے اسم سے موسوم کرتا ہے ۶۹ فیج اعوج اسلام کا درمیانی زمانہ فیج اعوج ہے ۲۱۱ احادیث کی رو سے فیج اعوج کا ذکر ۲۱۵ فیصلہ دنیا کے اکثر فیصلے قیل و قال سے ہوتے ہیں ۳۵۶ قدرت اللہ کی قدرت اور طاقت کا مفہوم ۱۶۱ح ح قدرت کاملہ سرعت اور بطو دونوں شقوں کو چاہتا ہے ۱۷۰ ح ح کامل القدرت شخص سے مراد ۱۶۴ح ح قرآن شریف تیئیس سال میں نازل ہوا ۳۰۶ قرآن کے نزول کی علت غائی ۱۳۹ قرآن کے اتارنے سے اللہ کا مقصد ۱۲۸ خدا کی کتاب پر مستحکم ایمان کا طریق ۳۸ خدا نے اپنی کتاب کا وارث اپنے برگذیدہ بندوں کو کیا ہے جو تین قسم کے گروہ ہیں ۱۲۹ تا ۱۳۳ قادیان میں سکھوں کے دور میں قرآن کے ۵۰۰ نسخے جلا دیے گئے ۵۰۷ قرآن کی تعلیم پر مخالفین کے اس اعتراض کا جواب کہ خدا نے شیطان کو دانستہ انسان کے پیچھے لگا رکھا ہے ۸۲ح اس اعتراض کا جواب کہ قرآنی قصے نبی کریمؐ نے یہود ونصاریٰ سے سن کر قرآن میں درج کیے ۲۳۵ح کمال اس کا حرف حرف قطعی اور متواتر اور یقینی الصحت ہے ۲۲۸ح
تحریف اور نسخ سے پاک ہے ۲۱ یہ ایک عظیم الشان ابدی معجزہ اور تمام معجزات سے بڑھ کر ہے ۴۰،۳۵۶ آنحضرتؐ کے زمانہ میں قرآن کا بڑا کام ۴۰ یہ لوگوں کا مقتدا و پیشوا و ہادی و رہنما ہے ۳۶۳ یہ ہر زمانہ کے فساد کا کامل طور پر تدارک کرتا ہے ۴۰ عوام الناس جو قرآن کی خوبیوں سے ناواقف اور بیرونی اعتراضات کے رفع کرنے سے عاجز ہیں خطراتِ لغرش سے محفوظ نہیں ۳۸ فلسفہ قرآن کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ۲۵۷ح قرآن سینوں کو پاک کر کے ان میں نور ڈال دیتا ہے ۵۳۱ یہ ایک ایسا موتی ہے جس کا ظاہروباطن اور سب کچھ نور ہے۵۴۵ اس کا خداشناسی اور حقوق عباد کے اصول اور گم گشتہ توحید کو قائم کرنا ۴۰ یہ عجیب رازوں اور دقائق اور لطائف سے مملو ہے ۳۹۴ یہ ایک ایسا پتھر ہے جس پر گرے گا اسکو پاش پاش کر دے گا اور جو اس پر گرے گا وہ خود پاش پاش ہو جائیگا ۲۵۷ح قرآن کے بے نہایت کمالات پر مشتمل ہونے کا سبب ۴۰ قرآن کا حسن ہزار یوسف سے بھی بڑھ کر ہے ۵۴۵ رسول اللہؐ کی قدر بذریعہ قرآن کے کھلتی ہے ۳۶۳ قرآن آئندہ اور گذشتہ کی پیشگوئیوں سے بھراہوا ہے۲۳۴ح قرآن خدا کے وجود کے ثبوتوں سے بھرا ہواہے ۲۰۷ح ح اول فضیلت اور کمال کسی ولی کا یہ ہے کہ علم قرآن اسے عطا کیا جائے ۳۶۳ تعلیم احکام الٰہی ۶۰۰ ہیں ۱۹۶ تمام احکام الٰہی ۶۰۰ سے کچھ زیادہ ہیں ۱۸۷ قرآنی تعلیم کا ایک معجزہ جو کسی اور نے بیان نہیں کیا ۸۳ قرآن مجید کے اسرارِ جدیدہ سے مراد ۳۹ قرآنی تعلیم کے دوسری تعلیموں پر کمال فوقیت کی دو وجوہ ۱۲۶ قرآن روحانی حیات کے ذکر سے بھرا ہوا ہے ۱۰۲ ولی کا کمال یہ ہے کہ علم قرآن اسے عطا کیا جائے ۳۶۳ قرآنی تعلیم کی حکمتوں سے مولویوں کا بے خبر ہونا ۱۴۵ح مسلمانوں کا عقیدہ کہ قرآن بجز موٹے الفاظ اور سرسری معنوں کے اور کوئی باریک حقیقت اپنے اندر نہیں رکھتا ۳۹ جسے محبت الٰہی کا دعویٰ ہے لیکن کلامِ الٰہی جاننے سے لاپرواہ ہے وہ ہرگز محب صادق نہیں ۳۶۱ قرآن میں ۲۵ مرتبہ توفی کا مطلب روح کا قبض کرنا آیا ہے ۴۳ قرآن میں مسیح کی وفات کی تاکید کی و جہ ۴۵ قرآن میں جمع کا لفظ واحد کے لئے آنا ۲۲۰ قرآن میں جہول کا مقام مدح میں استعمال ۱۵۸،۱۷۷ قرآنی حقائق کی طرف توجہ کے لئے دعا ۲۱۳ح ح قرآنی آیت کے معنی کرنے کا طریق ۲۲۹ح اس کی بعض آیات بعض کی شرح ہیں ۱۳۷،۱۶۶ قرآن میں بعض الفاظ کا اپنی اصل حقیقت سے پھر کر مستعمل ہونا ۱۵۴،۱۷۰ قرآنی معارف عطا کئے جانے والوں کی صفات ۳۹۴ قرآنی آیات جن میں نزول کا لفظ آیا ہے ۴۴۱ چندقرآنی قسموں کی تفصیل ۹۸ح قرض قرض کا اصل مفہوم اور خدا کے لئے قرض کا استعمال ۱۵۴ قسم اللہ کی قسموں کی حقیقت ۹۵ح اللہ کی قسم کھانے پر آپؐ کا توجہ سے جواب دینا ۲۹۲ انسان کو غیر اللہ کی قسم سے منع کرنے کا سبب ۹۵ح چند قسموں کی تفصیل جو قرآن میں ہیں ۹۸ح اللہ کی مخلوق کی قسم کھانے سے غرض ۹۸ح قیامت مسیح کا قول کہ قیامت اور زندگی میں ہوں ،اس کی اصل حقیقت ۱۹۹ح،۲۲۱
روحانی قیامت کا اصل نمونہ نبی کریمؐ تھے ۲۰۵ح قرب قیامت کی نشانی ۶۰۵ کائنات الجو اس میں تغیر و حدوث کی دو علتیں ۱۲۳ح،۱۲۹ح کبریائی کبریائی اور تکبر میں فرق ۶۵۶ کرامت کرامت کیا چیز ہے؟ ۲۴۵ اولیاء کی اعلیٰ درجہ کی کرامت ۱۷۸ کشف عالم کشف میں جسمانی اشکال دیکھنے کی حقیقت ۱۴۹ کشف کی ایک اعلیٰ قسم یہ کہ بالکل بیداری میں ہونا ۱۵۰ عارف پر کشفی رنگ میں معاد کی خبروں کا کھلنا ۱۵۲ کشف میں انسان کا عالم صغیر ہونا ۱۷۴ح عارفوں کا کشف میں فرشتوں کو روحانی آنکھ سے دیکھنا اور ان سے علم اخذ کرنا ۱۸۲ح کفر متقی اور حلال زادہ بے تحقیق کامل کسی پر فسق اور کفر کا الزام نہیں لگاتا ۲۹۲ جزئیات کے اختلاف کی و جہ سے جھٹ پٹ کسی کا نام کافر رکھ دینا بہت بڑی بات ہے ۲۵۸ مسلمان مؤحد کو کافر کہہ دینا ایک نہایت نازک امر ہے ۳۳ جو مسلمان کو کافر کہے وہ وہی نتائج بھگتے گا جن کا نا حق کے مکفرین کے لئے آپؐ نے وعدہ دے رکھا ہے ۳۰۹ اس زمانہ میں کسی کو کافر ٹھہرانا بہت ترقی کر گیا ہے ۳۱ عقائد اسلام کا پابند ہونے کے باوجودعلماء کا کافر ٹھہرانا ۳۲ کلام زمانہ کی حالت کے موافق خدا کے کلام کا ثبوت ۳۹ کلام الٰہی کے بعض مقامات بعض کی شرح ہیں ۱۶۶ مکالمہ الٰہیہ اور الہام میں فرق ۲۳۱ مکالمہ الٰہیہ کی غرض ۲۳۲ مکالمہ الٰہیہ کے حصول کا طریق ۲۳۳ ایمانی روح کے ذریعہ خدا کا کلام سننا ۲۸۴ کلام الٰہی کے چھ مراتب ۲۰۷، ۲۱۱ کلام الٰہی میں یہود کی تحریف ۲۲۹ح مکالمہ الٰہیہ کے مقام پر ملنے والے انعامات ۲۳۷ جسے مکالمہ الٰہیہ نصیب ہو وہ کب اور کن حالات میں افاضہ کلام الٰہی کا زیادہ تر مستحق ہوتا ہے؟ ۲۳۹ گناہ ایمان گناہوں کو دھونے کے لئے چشمہ ہے ۲۷۰ح گناہ گار قوم کی آزمائش کا طریق ۴۲۹ ل،م ، ن لغت لغات زبان کے متعلق جھگڑوں کو دور کرتی ہیں ۵۵۴ح کتب لغت قرآن کے لئے حکَم نہیں ۱۳۷ لقا یہ مرتبہ کب سالک کیلئے کامل طور پر متحقق ہوتا ہے ۶۴ اس درجہ کی کیفیت اور اس درجہ پر سالک کی حالت ۷۰ اس مرتبہ پر شیطان کا کالعدم ہوجانا ۸۲ بقا اور لقا کسبی نہیں بلکہ وہبی ہیں ۷۱ اس مرتبہ پرروح القدس کسی حال میں جدا نہیں ہوتا ۷۲ اس مقام پر پہنچنے والوں کا نام بعض اہلِ تصوف نے اطفال اللہ رکھا ہے ۶۴ اللہ اور مرتبہ لقاء پر فائز شخص کے اقتداری کاموں میں فرق ۶۷ خدا اور لقاء کے مرتبہ پر فائر شخص کے کُن میں مشابہت ۶۸ اس درجہ میں بعض ایسے امور کا صادر ہونا جو بشریت کی طاقتوں سے بڑھے ہوئے الٰہی طاقت اندر رکھتے ہیں ۶۵،۶۸
مباہلہ مباہلہ کے لئے اشتہار ۲۶۱ حضرت اقدس ؑ کے مسلمانوں سے مباہلہ سے اعراض کرنے کی و جہ ۲۵۶ مباہلہ کی اجازت کا دیا جانااور اس کی حکمت ۳۳۱ اس کتاب کے ساتھ مباہلہ شائع کرنے کا سبب ۳۳۲ مثیل مخلوق کو متشارک الصفات رکھنے اور بعض کو بعض کا مثیل ٹھہرانے کی و جہ ۴۴ مجدد ہر صدی کے سر پر مجدد بھیجنے کا خدائی وعدہ ۳۴۰ صدہا اولیاء کا گواہی دینا کہ چودھویں صدی کا مجدد مسیح موعودؑ ہے ۳۴۰ چودھویں صدی کے مجدد کا نام مسیح موعود رکھے جانے کی و جہ ۳۴۱ بعض مجدد دنیا میں ایسے آتے ہیں کہ عام طور پر دنیا کو ان کی خبر بھی نہیں ہوتی ۱۰۸ح محبت کامل درجہ کی محبت یا حسن سے پیدا ہوتی ہے یا احسان سے ۱۸۲ محدث محدث نبی بالقوۃ ہوتا ہے ۲۳۸ مخلوق مخلوق کی شناخت کی بڑی علامت ۴۵ ہر مخلوق کی پیدائش کا چھ مرتبوں میں ہونا ۲۰۱ح خالق کی اطاعت اور خلق کی خدمت کی حقیقت ۶۱ مذہب تمام اہل مذاہب کا خدا کے موجود ہونے پر اتفاق ۲۷۴ اس زمانہ میں مذہب اور علم کی سرگرمی سے لڑائی۲۵۴ح،۲۶۲ح سچے اور جھوٹے مذہب میں مابہ الامتیاز ۲۷۵ مسلمان حقیقی طور پر کب کسی کو مسلمان کہا جاتا ہے ۶۱ کیسے ہی محجوب ہوں پھر بھی علانیہ توحید کے قائل ہیں ۲۲۳ اس زمانہ کے اہل اللہ کی حالت ۲۶۶ح اہل اللہ کو قرآن سے بہت عشق ہوتا ہے ۳۶۱ ایک مسلمان کے اعتقادی اور عملی طور پر محض خدا کا ہوجانے کا مطلب ۵۸ خالق کی اطاعت اور خلق کی خدمت سے مراد ۶۱ مخالفین کے اعتراضات سے تغافل ان کی ہلاکت کا سبب ہو گا ۳۸ مسلمانوں کے افتراق کا سبب ۵۵۹ انگریزوں کے آنے سے قبل مسلمانوں کی حالت ۵۱۸ اس زمانہ کے مسلمانوں کی زبوں حالی کا تذکرہ ۵۳۸ حضور ؑ کا مسلمانوں کو انتباہ ۵۳ علماء اور مشائخ ہند کو انذار ۴۱۷،۴۱۹ علماء کو انگریزی حکومت کا خوف نہ ہوتا تولوگوں کو میرے قتل پر اکساتے ۱۸ مسلمانوں کا ہندوستان پر ایک ہزار سال حکومت کرنا ۵۳۶ قیصرہ عادلہ کے احسانات کا تشکر ۱۹،۲۰،۵۱۷، ۵۲۰ ، ۵۲۱ ملکہ ہند کے ذریعہ مسلمانوں کے خوف کا امن میں بدلا جانا ۵۲۰ قیصرہ کا اشاعت دین میں مسلمانوں کو آزادی دینا ۵۲۱ قیصرہ کے قانون میں پادریوں اور مسلمانوں کے حقوق برابر ہیں ۵۲۵ مسلمانانِ ہند کے دل قیصرہ کے ساتھ ہیں ۵۳۶ مسلمانوں کے بالمقابل ہندوؤں کو اعلیٰ عہدے نہ دیے جائیں کیونہ وہ قوم ان کی غلام رہی ہے ۵۳۹ مطبع مطبع کے مستقل انتظام کی تجویز ۶۳۱
معجزہ اقتداری خوارق کی اصل و جہ ۶۹ اقتداری خوارق خدا کی بلا توسط قدرتوں سے کم درجہ پر رہتا ہے ۶۷ کبار صحابہ کا بغیر طلب معجزہ کے ایمان لانا ۳۳۲،۳۳۶ اقتداری خوارق خدا کے ان افعال سے جو بلا توسط ارادۂ غیر ظہور میں آتے ہیں کسی طور سے برابری نہیں کر سکتے ۶۷،۶۸ نبی کریمؐ کے اقتداری معجزات کا سلسلہ تا قیامت ہے ۶۷ برہمو ، فلسفی وغیرہ اقتداری معجزات کے منکر ہیں ۶۶ انبیاء پر اوائل میں کھلے کھلے معجزات کا مخفی رہنا ۳۳۸ بدر کی لڑائی میں ظاہر ہونے والے معجزات ۶۵،۴۴۷،۴۴۸ شق القمر کا معجزہ الٰہی طاقت سے ظہور میں آیا ۶۶ جس قدر اقتداری خوارق آنحضرت ؐ نے دکھلائے حضرت مسیحؑ ہرگز نہ دکھا سکے ۶۷ مسیح کے بعض خوارق کی بناء پر عیسائیوں کے انہیں الوہیت کی دلیل ٹھہرانے کا رد ۶۷ معراج معراج کی رات آنحضرتؐ نے تمام نبیوں کو زندہ پایا ۶۱۰ معرفت اعمالِ صالحہ کا محرک معرفت ہے ۱۸۸ یقینی معرفت حاصل کرنے کا زینہ ۲۵۲ح معرفت الٰہی اور معاد میں مطلوب امر ۲۴۲ح علم و معرفت حقیقت اسلامیہ کے حصول کا ذریعہ ہے ۱۷۸ معرفت تامہ کی کیفیت ۱۸۸ ملائک نیز دیکھئے ’’روح القدس‘‘ ملائک کے وجود کا ثبوت ۸۴، ۸۶ ملائک کے وجود اور ان کی خدمات کی حقیقت ۱۳۳ح ملائک کی ضرورتِ وجود کا ماحصل ۱۶۰ح ایک عارف کا کشفی مشاہدات سے انہیں دیکھنا ۸۸ ظاہری اسباب کے نیچے جو اسباب ہیں جومدبر بالارادہ ہیں ان کا نام ملائک ہے ۱۲۵ح،۱۳۷ح جو فلسفہ سے متاثر ہو کرملائک اور شیاطین کے وجود سے منکرہیں وہ الحاد کے گڑھے میں گرپڑے ہیں ۸۹ اس بات کا معقولی طور پر ثبوت کہ نظام ظاہری میں جو امرِ خیر ہو رہا ہے وہ ملائکہ کے افعالِ خفیہ سے ہے ۱۴۶ح ملائک کے لئے دہریہ سے طریقِ گفتگو ۲۰۹ح ملائک کا بکلّی جوارح الحق کی طرح ہونا ۱۶۹ح ح ان کے مدبرات الامر ہونے کا ثبوت ۱۸۵ح نزول کی حقیقت ملائک کے نزول کی حقیقت ۸۹ح،۹۳، ۹۶،۳۸۵ احادیث سے ثبوت کہ فرشتے آسمان سے علیحدہ نہیں ہوتے۸۹ ملائک اور شیاطین کے اثبات کے لئے خدا نے قرآن کے استنباط حقائق میں اس عاجز کو منفرد کیا ہے ۸۹ احادیث سے ثبوت کہ یہ انسان سے جدا نہیں ہوتے ۷۹ ملائک کے کام ملائک اپنے کاموں میں اکثر روحانی اغراض مد نظر رکھتے ہیں ۱۲۵ح ، ۱۳۴ح ان کے کاموں کی اغراض جاننے کا اصل ذریعہ ۱۳۰ح ان کا فیوضِ الٰہی کو قبول کرنے کے بعد انبیاء، رسل اور محدثین پر نازل کرنا ۵۰،۵۱ اس بات کا ثبوت کہ نظام ظاہری میں جو ہو رہا ہے وہ فرشتوں کی شمولیت کے بغیر نہیں ہوتا ۱۳۷ح خدا کا باطنی نظام فرشتوں سے متعلق ہے ۱۲۵ح شیاطین اور ملائک کی عداوت ذاتی ہے ۱۲۶ح ملائک کے ذریعہ انتشارِ نورانیت ۱۳۰ح انسانوں کی روحانی اغراض پورا کرنے والے ۱۳۴ح یہ خدا کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں ۱۳۸ح
ملائک کا محافظ ہونا ملائک کی حفاظت کی حقیقت ۹۹ح ح،۱۰۰ح ہر چیز جس پر نفس کا اطلاق پاسکتا ہے فرشتے اس کی حفاظت کرتے ہیں ۷۱ح ہر نفس کی نگہبانی کے لئے فرشتہ کے تقرر کا ثبوت ۷۶ح،۱۳۸ح انسان کی تربیت، حفاظت اور اس کے اعمال لکھنے کے لئے دائمی طور پر فرشتوں کا آس پاس رہنا ۷۸ کل ستارے ملائک کی حفاظت میں ہیں ۷۷ح ۷۷ح ح،۱۴۱ح ملائک اور اجرام نجوم کے قویٰ فرشتوں سے فیضیاب ہیں ۱۴۳ح تمام ذرات اور سیارات ایک قسم کے فرشتے ہیں ۸۶ح اجرام کے لئے ملائک کا مقرر ہونا ۱۲۸ح فرشتوں کے اجرام سماوی کے ساتھ تعلق کی حقیقت ۱۴۴ح ملائک کے متعلق اعتراضات بدر کی لڑائی میں پانچ ہزار فرشتوں کی مدد سے مراد ۴۴۸ اس اعتراض کا جواب کہ اللہ کو فرشتوں سے کام لینے کی کیا حاجت ہے ۸۵ح اس اعتراض کا جواب کہ ملائک کی کیا ضرورت ہے ہر چیز خدا کے حکم اور اذن سے ہی خدمت بجا لاوے ۱۴۹ح ملائک موجود ہیں تو نظر کیوں نہیں آتے ۱۷۷ح ہمیں ان کے کاموں کا احساس کیوں نہیں ہوتا ۱۸۳ح اگر مدبرات اور مقسمات امر فرشتے ہیں تو ہماری تدبیریں کیوں پیش جاتی ہیں ۱۸۵ح موت موت کی چار اقسام ۲۰۴ح مولوی نیز دیکھئے ’’علماء‘‘ مولویوں کا قرآنی تعلیم کی حکمتوں سے بے خبر ہونا ۱۴۵ح نبی کریمؐ کو مردہ اور عیسیٰ کو زندہ قرار دینا ۶۱۰ فیج اعوج کے زمانہ کے مولویوں کا حال ۲۱۵ اس زمانہ کے مولویوں کی حالت زار ۲۶۵ح،۳۷۰ ایک پیسہ پر ایمان بیچنے کو تیار ہیں ۳۰۰ اس زمانہ کے مولویوں کا یہود کے قدموں پر چلنا ۶۱۰ اس زمانہ کے اکثر مُلا تکفیر میں مستعجل ہیں ۳۱ مومن مومن پر خدا کا ایک بڑا بھاری فضل ۲۴۲ مومن کو ملنے والا نور ۱۷۷ مومنوں کو تین قسم کا ملنے والا نور ۶۹۶ مومن کی دوسروں کی نسبت خوابیں سچی نکلنا ۲۹۳ وہ آیات جن سے معلوم ہوتا ہے کہ روح القدس ہمیشہ کے لئے کامل مومنوں کو دیا جاتا ہے ۹۷ خدا سب سے زیادہ رحمت مومن پر کرتا ہے ۲۴۴ ایمانی روح کے ذریعہ مومن پر ہونے والے فضل ۲۸۴ ایک مومن کے جہنم میں جانے سے مراد ۱۴۳ نبی ؍ نبوت انبیاء کی آمد کا مقصد ۳۳۹ انبیاء کی کامل اتباع کی حقیقت اور علت غائی ۶۴۸ح انبیاء کا ابتدائی زمانہ ابتلا کا ہوتا ہے ۳۳۸ عربوں کے نزدیک ستاروں کا کثرت سے گرنانبی کے پیدا ہونے کی دلیل ہے ۱۰۴ح،۱۰۶ح ابن کثیر نے لکھا ہے کہ شہب کا کثرت سے گرنا نبی کی آمد کی دلیل ہے ۱۰۸ح بدطینتوں کا انبیاء پر مفتری وغیرہ کے الزامات لگانا ۵۹۷ انبیاء پر اوائل میں کھلے کھلے معجزات کا مخفی رہنا ۳۳۸ وہ مقام جہاں انبیاء کے انعامات ظلی طور ایک سالک بھی پا لیتا ہے ۲۳۷ نبی کے قائمقام ہونے کی حقیقت ۳۴۱
ہر صدی کے سر پر نبی کا قائمقام پیدا ہونا ۲۴۷ محدث نبی بالقوۃ ہوتا ہے ۲۳۸ نبی کے تدلّٰی کی حقیقت ۴۳۹، ۵۵۳ انبیاء کے نزول اور روحانی ظہور کی حقیقت۲۵۵،۴۳۹،۴۴۴ بعض مصلح دنیا میں ایسے آتے ہیں کہ عام طور پر دنیا کو ان کی خبر بھی نہیں ہوتی ۱۰۸ح معراج کی رات سارے نبی زندہ تھے ۶۱۰ طیبین کی ارواح میں وحدت کا سِرّ ۳۷۶ انبیاء مسائل صحیحہ کے معلم ہوتے ہیں ۲۵۹ح انبیاء کا تعدد ازدواج ۲۸۱ انبیاء کا اجہتاد سے بھی کام لینا ۳۱۶ح انبیاء کی اجتہادی غلطیوں کا سبب ۱۱۵ نبی کی اجتہادی غلطی درحقیقت وحی کی غلطی ہے ۳۵۳ انبیاء کے وہ افعال جو نادانوں کی نظر میں شرمناک ہیں ۵۹۷ انبیاء کے انکار کی و جہ ۳۳۸ جو شخص نبی متبوع ؐکا متبع ہے اس کی آزمائش انبیاء کی آزمائش کی طرح کرنا ایک قسم کی ناسمجھی ہے ۳۳۹ تمام انبیاء کی شانوں کا نبی کریم ؐ کی ذات میں ہونا ۳۴۳ اسلام میں انبیاء کے نام تفاؤل کے طور پر رکھنا ۳۴۱ نبی کی ایک قسم کی وحی میں شیطان کا دخل ۳۵۳ اولیاء کا انبیاء کے جوہر اور طبیعت میں شریک ہونا ۳۷۵ خدا کی طرف سے آنیوالوں کو خدا کی طرف سے علوم کاملنا اور ان کی صفات حسنہ ۴۰۹ انبیاء کے کلام میں استعارات ۴۵۸ سوا ل کا جواب کہ شہب کا گرنا بعثت نبی کی دلیل ہے تو ہمیشہ یہ گرتے ہیں مگر نبی دنیا میں مبعوث نہیں ہوتا ۱۰۷ح نجات نجات کی حقیقت ۱۵۴، ۱۹۳ح،۲۷۰ح آپؐ کی غلامی سے ہی اب نجات وابستہ ہے ۱۹۱ نجات ایمان سے وابستہ ہے ۲۷۰ح بہشتی زندگی اسی جہان سے شروع ہو جاتی ہے ۵۹ نجات کی ایک راہ ۲۵۰ح بدیہی بات ماننے کا نجات سے کوئی تعلق نہیں ۲۴۷ح ارکانِ ایمان کیوں نجات کا سبب ہیں ۱۹۰ح برہان یقینی اور انکشاف تام جو معرفت الٰہی اور معاد میں مطلوب ہے درحقیقت سرچشمۂ نجات ہے ۲۴۲ح نشان نیز دیکھئے ’’معجزہ‘‘ لقاء کے مرتبہ پر اہل اللہ سے اقتداری نشانات کے ظہور کی وجہ ۷۲ اسلام کا خدا ہرنئی دنیا کے لئے نشان دکھاتا ہے ۲۴۷ نشانوں کے ظہور کا طریق اور اُن میں ابتلا ۱۹۵ح،۱۹۶ح نشان دکھلانے میں توقف کا سبب ۳۵۵ نشانوں سے فائدہ اٹھانے والے لوگ ۳۳۸ نشان کے مطالبہ کے حوالہ سے دو قسم کے انسان ۳۳۲ نشانوں کے لئے ادنیٰ ادنیٰ معیار رکھنا بے ادبی ہے ۳۵۰ نشان نازل ہونا عذاب کے نزول کی تمہید ہے ۳۵۱ وہ آیات جن میں نشانی کا مطالبہ کرنے والوں کو موردِ غضب الٰہی قرار دیا گیا ہے ۳۳۳ قرآن میں عیسائیوں کی طلب پر نشان دکھانے کے بعد انکار کی صورت میں عذابِ شدید کا وعدہ ۳۵۱ نشان کا مطالبہ کرنے والوں کی ضلالت کا موجب امر ۳۳۵ اس سوال کا جواب کہ نشان طلب کرنے والے کیوں موردِ غضبِ الٰہی ہیں؟ ۳۳۴ اس سوال کا جواب کہ بغیر کسی نشان کے حق اور باطل میں کیونکر فرق کیا جا سکتا ہے؟ ۳۳۷ اب تک تین ہزار کے قریب یا زیادہ خدا نشانات دکھلا چکا ہے ۳۵۰
۱۸۹۲ء کے سال دو نشانوں کا ظاہر ہونا ۶۳۰ نظام اس عالم کے چلانے کے لئے خدا کے دو نظام ۱۲۵ح جسمانی نظام کے متعلق ظاہر بین حکماء کا نظریہ ۱۲۳ح روحانی نظام کے بغیر جسمانی نظام چل نہیں سکتا ۱۲۳ح کائنات الجو میں تغیر و حدوث کی علتیں ۱۲۳ح، ۱۲۹ح نکاح نیز دیکھئے ’’تعدد ازدواج‘‘ بائبل سے تعدد نکاح کا ثبوت ۲۸۳ انبیاء کا تعدد ازدواج ۲۸۱ ایمان میں قوی الطاقت وہ ہے جو بیویوں اور بچوں کا بوجھ اٹھانے کے باوجود ان تعلقات سے بے نیاز ہو ۲۸۴ نور اعلیٰ درجہ کا نور انسان کامل کو دیا گیا ۱۶۰ تقویٰ اختیار کرنے والوں کو ملنے والا نور ۱۷۷ مومنوں کو تین قسم کا ملنے والا نور ۶۹۶ و،ہ،ی وحی وحی و الہام کی غرض ۱۳۰ح وحی کی کیفیت ۲۳۲ وحی متلو اور غیر متلو میں فرق ۳۵۳ وحی میں الٰہی طاقتوں کا ہونا ۲۴۱ح روایات سے انبیاء پر کیفیت نزول وحی کا بیان ۱۰۶ نزولِ وحی کے متعلق علماء کا عقیدہ ۱۰۵ نبی کے دلی خیالات اور اقوال وحی غیر متلو ہیں ۳۵۲ وحی کے انوار قبول کرنے کیلئے فطرت قابلہ شرط ہے ۲۳۷ح حضور کا سید احمد کے انکارِ وحی پر وحی کا ثبوت دینا ۲۳۴ح وحی آدم ؑ سے شروع ہوئی اور نبی عربیؐ پر ختم ہو گئی ۴۲۰ احادیث اور آنحضرتؐ کی خواب بلاشبہ وحی میں داخل ہے ۹۲ح مدارج النبوۃ سے حوالہ کہ صحابہ آنحضرت ؐ کے ہر قول و فعل کو وحی سمجھتے تھے ۱۲۴ اس وہم کا رد کہ اگر کل قول و فعل آنحضرتؐ کا وحی سے تھا توپھر اجتہادی غلطی کیوں ہوئی ۱۱۴ اس وہم کا رد کہ وحی صرف فطرتی ملکہ ہے ۲۳۶ح اس وہم کا رد کہ وحی انسانی عقل سے مافوق ہے ۲۳۸ح وسیلہ کسی شے کے وسیلہ سے مراد ۱۷۹ حقیقتِ اسلام کے حصول کے وسائل ۱۸۰،۱۸۷ وقت یہ رونے کا وقت ہے نہ کہ سونے کا، تضرع کا وقت ہے نہ ٹھٹھی اور ہنسے اور تکفیر بازی کا ۵۳ اب وقت آ گیا ہے کہ بتوں کو بکلی توڑ دیا جائے اور خدا پرست لوگ گم گشتہ حقیقتوں کو پھر پا لیویں ۳۶ وقف خدا کی راہ میں زندگی وقف کرنے کی دو اقسام ۶۰ للّٰہی وقف کے اسم بامسمی ہونے کا طریق ۶۲ ولی ولایت کی حقیقت ۲۴۲ اولیاء کی اعلیٰ درجہ کی کرامت ۱۷۸ ولی کی توجہ سے خوارق کا پیدا ہونا ۵۸۸ح ولایت ساری کی ساری دعاؤں کی قبولیت میں ہے۲۴۲،۳۹۹ طیّبین کی ارواح میں وحدت کا سِرّ ۳۷۶ اولیاء انبیاء کے جوہر اور طبیعت میں شریک ہیں ۳۷۵
اول فضیلت اور کمال کسی ولی کا یہ ہے کہ علم قرآن اسے عطا کیا جائے ۳۶۳ اکثر شدائد اور مصائب کے نزول کے وقت اولیاء پر کلام الٰہی نازل ہوتا ہے ۲۳۹ صدہا اولیاء کا الہام سے گواہی دینا کہ چودھویں صدی کا مجدد مسیح موعود ہو گا ۳۴۰ اولیاء کا مواضع متفرقہ میں بصور متعددہ نظر آنا ۱۲۲ ہندو ہندوؤں کی بدحالت ۵۳۹ ہیئت دان وہ شہب جن کے گرنے سے ہیئت دان حیرت میں رہ گئے ۱۱۶ح یورپین ہیئت دانوں کی پیشگوئیوں کا جھوٹا نکلنا ۱۱۸ح ان کے خیالات میں بے ثبوت باتوں کا بڑھا ہونا ۱۱۹ح یاجوج ماجوج اس سوال کا جواب کہ مسیح موعود تودجال اور یاجوج ماجوج کے خروج کے وقت آئے گا جبکہ ابھی وہ ظاہر نہیں ہوئے ۴۵۹ روس اور برطانیہ کی اقوام یاجوج ماجوج ہیں ۴۶۰ یہود ان کا کلام الٰہی میں تحریف کرنا ۲۲۹ح یہودیت نابود ہو گئی ہے ۳۴۶ اب مسلمانوں کی حالت اس سے زیادہ نازک ہے جو حضرت عیسیٰ ؑ کے وقت یہودیوں کی تھی ۴۷ یہودیوں سے علماء کی مشابہت ۳۴،۴۷،۴۹
اسماء آ، ا، ب،پ، ت، ث آدم علیہ السلام ۱۹۹،۲۵۳،۲۵۳ح،۲۳۶ح، ۲۶۳ح ۲۶۷ح،۳۴۳ وحی آدم ؑ سے شروع ہوئی اور نبی عربیؐ پر ختم ہو گئی ۴۲۰ مسیح موعود کی حضرت آدم ؑ سے مشابہت ۵۹۸ ابراہیم علیہ السلام ۲۷۷،۲۸۳،۳۴۶،۳۶۷، ۳۷۷ قرآن شریف میں آپ کو امت کہا جانا ۲۲۰ رؤیا پوری کرنے کے لئے آپ کا اپنے بیٹے کو ذبح کرنا اور رؤیا کی اصل حقیقت ۴۴۹،۴۵۰ آپ کا استعارۃً بات کرنا اور اسماعیل کا اسے سمجھنا ۴۵۹ آپ کا تین مرتبہ ایسے طور سے کلام کرنا جو بظاہر دروغ گوئی میں داخل تھا ۵۹۷،۵۹۸ ابراہیم ،پٹواری، منشی ۶۳۴ ابراہیم سنوری مدرس، منشی ۶۳۲ ابن جریر ۸۹ح،۱۰۶ رئیس المفسرین ۱۶۸ ابن سیرین ۱۰۳ ابن عباسؓ ۱۰۵ح دینی معاملات میں تمام صحابہ سے ۵۰ اختلافات ۲۵۹ ابن کثیر ۱۰۶،۱۶۸ ان کا لکھنا کہ شہب کا کثرت سے گرنا کسی نبی کے آنے پر دلالت کرتا ہے ۱۰۸ح ابن ما جہ ۱۰۶ ابن مریم (دیکھیے مسیح ابن مریم ؑ ) ابو بکر صدیق ؓ ۲۵۹ آپ کا بغیر کسی طلب معجزہ کے نبی کریم ؐ پر ایمان لانا ۳۳۷ ابو جہل ۳۰۷ آنحضرتؐ پر ایمان نہ لانے کا سبب ۳۳۸ ابو حنیفہ، امام اعظم ۲۱۴ ابو داؤد ۱۰۳، ۱۰۶ ابولہب ۳۰۷ آنحضرتؐ پر ایمان نہ لانے کا سبب ۳۳۸ ابی وائل ۶۰۹ احمد ، امام ۸۰، ۱۰۵ح،۱۱۳ احمد، ماسٹر ۶۲۶ احمد بخش سنوری، میاں ۶۳۳ احمد بیگ ہوشیار پوری، مرزا ۳۲۰،۶۴۲،۶۴۸ اس کے خاندان کی ایمانی حالت کا ذکر اور ان کا نشان نمائی کا مطالبہ ۲۸۵ اپنی بہن کی زمین پر قبضہ کی کوشش ۵۷۰ اس کی بیٹی کے متعلق پیشگوئی اور اس کی تفصیلات ۲۷۹ ۲۸۰، ۲۸۵،۳۲۰،۵۶۶ نور افشاں میں اس پیشگوئی کا شائع ہونا ۳۲۰ نور افشاں کا پیشگوئی کو شائع کر کے اعتراض کرنا ۲۷۹ اس اعتراض کا جواب کہ اگر یہ الہام خدا کی طرف سے تھا تو کیوں پوشیدہ رکھنے کی تاکید کی ۲۸۷ پیشگوئی کی بنیادی و جہ ۳۲۰ اس پیشگوئی میں چھ دعاوی کا ہونا ۳۲۵ اس پیشگوئی کا اپنی میعاد کے اندر پورا ہونا ۳۱۲ احمد بیگ کے متعلق پیشگوئی اس وقت کی ہے جبکہ اس کی بیٹی ابھی آٹھ یا نو برس کی تھی ۲۸۸ اس کی بیٹی کا دوسری جگہ نکاح ہونا ۲۸۰
بعض مکاشفات کی رو سے احمد بیگ کا زمانہ حوادث نزدیک پایا جانا ۲۸۶ح ۳۰ ستمبر ۱۸۹۲ء کو وفات ۳۲۱ پیشگوئی کے مطابق ا س کا مرنا ۳۱۲ اس کے مرنے کے متعلق حضرت اقدس نے کئی سال قبل مجملاً پیشگوئی کی ہوئی تھی ۲۸۸ احمد جان، مولوی ۶۲۸ احمد دین، منشی ۶۲۰ احمد علی ۳۱۹ اسماعیل علیہ السلام ۴۵۹ اسماعیل بیگ، مرزا ۶۲۱،۶۳۴ اسماعیل، میاں ۶۳۵ اعظم بیگ لاہوری، مرزا اس کا مقدمہ دخل ملکیت دائر کروانا ۲۹۷ افتخار احمد، پیر ۶۱۸ الہ بخش، میاں ۶۱۹ الہ بخش حجام، میاں ۶۱۹ الہ بخش قصاب، میاں ۶۱۷ الہ دین ۵۴۱،۶۱۶ الٰہیا چوکیدار، میاں ۶۲۴ الٰہی بخش، مولوی ۶۲۱ اللہ بخش، بابو ۶۲۴ اللہ بخش، میاں ۶۲۳ اللہ دتا، میاں (سیالکوٹ) ۶۳۳ اللہ دتا، میاں (بیبل چک) ۶۳۳ اللہ دتا، میاں (جموں) ۶۲۷ اللہ دتا، میاں(رہتاس) ۶۱۸،۶۳۵ امام الدین، چوہدری ۶۲۴ امام الدین، حافظ ۶۲۱ امام الدین، شیخ ۶۳۴ امام دین ، مرزا ۲۸۷ امام الدین کاتب، منشی ۶۲۶ امام الدین، میاں (امرتسر) ۶۲۷ امام الدین، میاں (سیکھواں) ۶۲۳ امام الدین، میاں(نوشہرہ) ۶۱۷ امداد اللہ خان اہلمد سر رشتہ، منشی ۶۲۵ امر سنگھ، راجہ، سر ۲۹۱،۶۲۷ امیر بخش(کہیرو) ۶۱۹ امیر بخش ،شیخ ۳۱۹ امیر حسین، سید، قاضی ۶۱۶ امیر الدین، میاں ۶۳۵ امیر علی شاہ، سید، مدرس ۵۸۲ح،۶۱۶ امیر علی شاہ،سید، سارجنٹ پولیس ۶۱۷،۶۳۲ اندر من مراد آبادی، منشی ۶۴۵،۶۵۰ اوزاعی ۱۲۴ اویس قرنی ؓ حضرت عمرؓ کا آپ سے ملنے کے لئے سفر کرنا ۶۰۷ ایلیا ۳۸۰ ایلیا کے نزول کی حقیقت ۲۵۶،۴۳۹،۴۴۰ ایلیا کا یوحنا نبی کے رنگ میں نزول ۶۲۸،۲۶۹ح بابا ، حافظ ۶۲۵ بابر بادشاہ شرفاء کی تکریم اور عظمت کیا کرتا تھا ۵۰۱ حضرت اقدس ؑ کے خاندان کی تکریم کرنا اور انہیں کئی دیہات عطا کرنا ۵۰۱ بایزید بسطامی مرشد سے ملاقات کے لئے سفر کرنا ۶۰۷ بخاری ؒ ، امام ۱۰۶ طلب حدیث کے لئے سفر کرنا ۶۰۷
دینی تعلیم کی مجلس پر تاریخ مقرر کرنے کے لئے صحیح بخاری میں ایک خاص باب رکھنا من جعل لاھل العلم ایاماً معلومۃً ۶۰۹ اپنی صحیح میں ایک باب باندھا جس میں لکھتے ہیں قال علیؓ حدثوا الناس بما یعرفون...۶۱۰ برکت شاہ، میاں ۶۲۸ برکت علی ۳۱۹ برہان الدین، مولوی، محلہ نو ضلع جہلم ۶۱۷ برہان الدین جہلمیؓ ، مولوی ۵۸۲ح بوٹا، میاں ۶۲۸ بیگا، میاں ۶۲۰ بیہقی، امام ۲۱۵ پیر بخش( کہیرو) ۶۱۹ پیر بخش ، میاں ۶۱۹ تاج الدین، منشی ۶۲۶،۶۳۳ تاج محمد ، مولوی ۶۲۷،۶۳۵ ترمذی، امام ۱۰۳، ۱۰۶ ثمود ان کا نافرمانی کی و جہ سے ہلاک ہونا ۲۸۳ ج، چ، ح، خ، د جان محمد ۶۵۳،۶۵۴ جان محمد امام مسجد، میاں ۶۲۱ جان محمد، شیخ ۶۲۳ جان محمد ، مستری ۶۲۵ جان محمدطالب علم، میاں ۶۲۹ جعفر بیگ ۵۴۱ جلال الدین، شیخ ۶۱۹ جلال الدین، مولوی ۶۲۰ جمال الدین ، میاں(سیکھواں) ۶۲۳،۶۳۴ جمال شاہ، سید ، مولوی ۶۲۱ جھنڈو، چوہدری ۶۲۵ جیوا، میاں ۶۲۸ چٹو، میاں ۳۱۶ چراغ الدین، شیخ ۶۳۳ چراغ علی، میاں ۶۲۱ چغتائی بادشاہ ۵۰۰ حافظ شیرازی ۱۷۳ حافظ محمد، میاں ۶۱۶ حاکم علی، میاں ۶۲۳ حامد شاہ، سید، میر ۵۸۲ح،۶۱۷،۶۳۷ جلسہ سالانہ میں قصیدہ مدحیہ سنانا ۶۱۴ حامد علی،چوہدری ۶۲۳ حامد علی، حافظ ۶۲۱ حامد علی خان ۶۲۸ حامد علی، شیخ ۶۵۵ح حامد علی، میاں (بریلی) ۶۲۸ حبشی ۱۰ حبیب الرحمان، منشی ۶۲۵،۶۳۴ حذیفہ ؓ ۴۵۹ حسان بن ثابتؓ وہ احادیث جن میں آپ پر روح القدس کے نزول کا ذکر کیا گیا ہے ۱۰۲تا ۱۰۴ حسان بن عطیہ ۱۲۴ حسن خان، منشی ۶۲۵ حسن محمد، میاں ۶۱۶ حسینؓ امامِ کامل ۳۴ حسین بخش ، اپیل نویس ۳۱۹ حسین شاہ، سید ۶۲۲
حسین واعظ کاشفی (صاحب تفسیر حسینی) ۱۶۷ خدا بخش، مرزا ۲۹۱،۳۲۶،۵۸۲ح،۶۱۶، ۶۲۰،۶۳۱،۶۳۲ خدا بخش نو مسلم، میاں ۶۲۲ خصلت علی شاہ، سید ۵۸۲ح،۶۱۷،۶۳۲ خضر خضر کے کاموں کی مانند ہزاروں امور انبیاء سے ظاہر ہوتے ہیں ۶۰۱ خواجہ علی، قاضی ۶۱۸ خیرا نمبردار، میاں ۶۳۴ خیر الدین، میاں ۶۲۳ داؤد علیہ السلام ۳۴۶،۶۴۸ ۱۰۰ بیویاں کرنا ۲۸۲، ۲۸۳ دحیہ کلبیؓ ۱۲۰،۱۲۱ ان کی شکل پر حضرت جبریل کا متمثل ہو کر ظاہر ہونا ۹۶ دلیپ سنگھ ۳۱۲ دیانند سرسوتی ۳۱۲ فرشتوں کے نظام پر اعتراض کرنا ۸۷ح دین محمد محالدار، منشی ۶۲۲ دین محمد، میاں ۶۲۸ دینا ، چوہدری ۶۲۳ ر،ز،س،ش رازی ؒ ، امام آپ کا قول من اراد ان یکتال مملکۃ الباری بمکیال العقل فقد ضل ضلالا بعیدا ۱۱۹ح رجب الدین، خلیفہ ۶۲۶ رجب الدین ، میاں ۳۱۶ رحمت اللہ گجراتی، شیخ ۵۸۲ح،۶۱۶،۶۲۱،۶۳۲ رحمت اللہ، میاں ۶۱۹ رحمت علی، میاں ۶۲۲ رحیم بخش، میاں، مولوی ۶۰۷، ۶۰۹،۶۱۱، ۶۱۲ حدیث شدِّ رحال کے حوالہ سے جلسہ کو بدعت کہنا ۶۰۶ رستم علی، منشی ۵۸۲ح، ۶۲۸ رشید حسین، امیر ۶۱۸ رشید الدین خان ۵۸۲ح رشید الدین ، خلیفہ ۶۲۵ رلیا رام(عیسائی وکیل اور اخبار کا مالک) حضرت اقدس ؑ کے خلاف مقدمہ کرنا ۲۹۷،۲۹۸ روشن دین، میاں جی ۶۲۵،۶۳۴ زین الدین محمد ابراہیم، منشی ۵۸۱ح،۶۱۸ زین العابدین، قاضی ۶۱۹ زین العابدین، منشی ۶۲۳ سدی ۱۰۸ح سراج الحق جمالی نعمانی، صاحبزادہ ۶۲۶،۶۳۲ سراج الدین، حافظ ۶۱۷ سرفراز خان نمبردار، چوہدری ۶۱۷،۶۳۳ سعد اللہ ، منشی ۱۱ح سکندر شاہ، سید ۶۲۸ سلطانا چوہدری ۶۲۲ سلطان احمد آپ کا ایک ہندو کے خلاف مقدمہ کرانا ۲۹۹،۳۰۰ سلطان بخش زمیندار، چوہدری ۶۲۲ سلطان بخش، میاں ۶۲۲ سلمان فارسی ؓ آپ کے کندھے پر نبی کریم ؐ کا ہاتھ رکھنا ۲۱۶، ۲۲۰ سلیمان علیہ السلام آپ کا تعدد نکاح ۲۸۳ سندھی خان، شیخ ۶۵۵ح سید احمد خان ان کا عقیدہ کہ کسی کا مخاطباتِ الٰہیہ سے مشرف ہونا غیر ممکن ہے اور اگر کوئی دعویٰ کرے تو وہ مجانین میں سے ہے ۲۳۰ح
اس بات سے انکار کہ سچ مچ کسی کو مخاطبہ اور مکالمہ الٰہیہ نصیب ہو سکے ۲۲۶ح،۲۳۳ح احادیث کے سرے سے انکاری ۲۶۴ح حضور کا سید احمد کے انکارِ وحی پر وحی کا ثبوت دینا ۲۳۴ح شیعوں کی طرح ان کے کلام میں تقیہ ۲۵۶ح وحی سے مراد صرف ایک ملکہ لینا ۲۳۴ح سید احمد کو حضور کی نصیحت اور اتمام حجت ۲۶۹،۲۷۰ح حضرت اقدس کی دعوت کہ مَیں اپنی الہامی پیشگوئیوں کا نمونہ دے کر آپ کا شک دور کرتا ہوں ۲۳۴ح قرآن سے قبل یورپ کے فلاسفروں کی کتابوں کی طرف ان کا متوجہ ہونا ۲۲۷ح مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے بارہ میں لکھنا کہ وہ ایک ذرہ کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتیں ۲۳۰ح ان کا مصلح کے رنگ میں نقصان پہنچانا ۲۵۸ح شادی خان ۶۱۶،۶۳۲ شاہ محمد زمیندار، چوہدری ۶۲۸ شاہ محمد، میاں ۶۲۲،۶۳۵ شرف الدین، میاں ۶۱۷ شمس الدین ، فقیر ۳۱۹ شمس الدین، منشی ۳۱۹ شہاب الدین، حاجی ۶۲۶ شہاب الدین، میاں (تھہ غلام نبی) ۶۲۲ شہاب الدین، میاں(لدھیانہ) ۶۱۹ شہزادہ زمیندار، میاں ۶۳۵ شیخ احمد، مولوی ۶۲۸ شیخ محمد ، فقیر ۶۱۹ شیر شاہ، سید ۶۲۸ شیر علی، میاں (تھہ غلام نبی) ۶۲۲ شیر علی، میاں (قادیان) ۶۲۴ ص، ض، ظ،ع، غ صاحب دین ، میاں ۶۲۰ صدیق حسن خان، نواب ان کا تسلیم کرنا کہ آخری زمانہ یہی ہے ۳۰۱ شیخ بطالوی کے نزدیک یہ مجدد وقت ہیں ۲۱۴ ان کا عقیدہ کہ روح القدس مسیح کی وفات تک کبھی آپ سے جدا نہیں ہوا ۱۰۴،۱۰۵ صفدر علی، میاں ۶۲۸،۶۳۴ ضیاء الدین، قاضی کوٹی، قاضی ۲۹۱،۵۸۲ح،۶۲۰،۶۳۲ ظفر احمد کپور تھلوی، منشی ۲۹۱،۵۸۲ح،۶۲۵،۶۳۴ ظہور احمد، میاں ۶۲۷ عائشہ رضی اللہ عنہا ۸۹ح،۱۰۲ آپ کی معراج اور رویت باری کے بارہ میں دوسرے صحابہ کی نسبت اور رائے تھی ۲۵۹ عاد نافرمانی کی و جہ سے ہلاک ہونا ۲۸۳ عبدالباقی ۵۴۱ عبدالجلیل خان، میاں ۶۲۸ عبدالحق لدھیانوی، شیخ ۶۳۳ عبدالحق محدث دہلوی ۱۱۹،۳۲۷ ملائک وحی آنحضرتؐ کے لئے دائمی قرین ہیں ۱۷۷ نزول جبرائیل تمثیلی ہے نہ کہ حقیقی ۱۲۰،۱۲۲ باستثناء چند مواقع کے آنحضرتؐ کے تمام کلمات وحی خفی ہیں ۱۲۴ آپ کا ایک محدث کا قول لکھنا کہ اگر کوئی مسلمان ہو کر کسی دوسرے نبی کی حیات کو آنحضرتؐ کی حیات سے قوی تر سمجھے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے ۶۱۱ عبدالحکیم خان ۵۸۲ح عبدالحکیم خان، میاں، میڈیکل سٹوڈنٹ ۶۱۹،۶۳۲ عبدالرحمان ۲۹۱، ۶۱۶ عبدالرحمان، حاجی ۶۱۸ عبدالرحمان، شیخ ۶۲۱
عبدالرحمان، منشی (امرتسر) ۶۲۷،۶۳۵ عبدالرحمان ، منشی (کپور تھلہ) ۶۲۵،۶۳۴ عبدالرحمان، میاں (سنور) ۶۲۵،۶۳۲ عبدالرحیم اوور سیر، منشی ۶۲۷ عبدالرحیم سب اوورسیر، منشی ۶۲۷ عبدالرحیم، میاں ۶۱۹ عبد الصمد، مولوی، عُرف شیخ علی محمد ۶۱۹،۶۳۳ عبدالعزیز،شاہ، محدث دہلوی ۶۱۸ تفسیر میں ذکر کہ آسمان کی بقا بباعث ملائک کے ہے ۱۳۹ح مرشد سے ملاقات کے لئے سفر کرنا ۶۰۷ آسمان کی بقاء بباعث ارواح یعنی ملائکہ کے ہے ۱۳۹ح عبدالعزیز ، منشی (دہلی) ۶۲۴ عبدالعزیز، منشی (لاہور) ۶۲۶ عبدالعزیز، مہر ۶۳۳ عبدالعزیز ، میاں (لاہور) ۶۳۳ عبدالعزیز ، میاں (مالیرکوٹلہ) ۶۲۸ عبدالغفور ولد شمس الدین، میاں ۶۱۸ عبدالقادر ،شیخ مرشد سے ملاقات کے لئے سفر کرنا ۶۰۷ عبدالقادر ، مولوی ۶۱۸،۶۳۳ عبدالقادر ، میاں (تھہ غلام نبی) ۶۲۲ عبدالقادر، میاں ( جیگن ضلع لدھیانہ) ۶۱۸ عبدالقیس اس قبیلہ کے وفد کا نبی کریم ؐ کی خدمت میں آنا ۶۰۸ عبدالقیوم، شیخ ۶۲۷ عبدالکریم حجام، میاں ۶۲۸ عبدالکریم سیالکوٹی ؓ ۲۹۱،۳۶۴ح،۶۱۶ التبلیغ کا ترجمہ کرنا ۵۸۱ح عبدالکریم، میاں (پٹیالہ) ۶۳۳ عبدالکریم نمبردار، میاں ۶۲۰ عبداللطیف، مولوی ۶۲۸ عبداللطیف، میاں ۶۲۶ عبداللہ ۶۲۹ عبداللہ ، شیخ ۶۲۸ عبداللہ ، مہر ۶۲۲ عبداللہ پٹواری، منشی ۶۳۵ عبداللہ مدرس ، مولوی ۶۲۴ عبداللہ، میاں (تھہ غلام نبی) ۶۲۲ عبداللہ ، میاں (ٹہیراں) ۶۲۳ عبداللہ، میاں (کپورتھلہ) ۶۲۵ عبداللہ بن عمرؓ ۱۱۳ عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ ۶۰۵ عبد اللہ سنوری ؓ ، منشی ۲۹۱،،۵۷۶،۵۸۲ح،۶۱۹ عبداللہ غزنوی آپ کے ایک مرید کا آپ کے حکم پر عرب جانے کے لئے تیار ہو جانا ۶۴۰ ان کی وفات کے بعد خواب میں حضور سے ملاقات اور خواب کی تعبیر بھی بتانا ۵۷۶ عبداللہ، میاں(پشاور) ۶۲۱ عبداللہ، میاں (سوہلا) ۶۲۱ عبدالمجید، شاہزادہ ۶۱۸،۶۳۳ عبدالمجید، منشی ۶۳۳ عبدالمجید خان، میاں ۶۲۰ عبدالمجید خان، میاں (کپور تھلہ) ۶۲۵ عبدالہادی، سید ۶۱۹،۶۳۲ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ۸۰ عزرائیل(ملک الموت) ۹۲، ۹۳ عزیز الدین ، منشی ۶۲۶ عزیز الدین، میاں ۶۲۶ عصمت اللہ مستری، میاں ۶۱۹
عطا الٰہی، میاں ۶۲۰،۶۳۵ عطا محمد، مرزا (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دادا) ۵۴۱ آپ کی وفات زہر سے ہوئی ۵۴۲ عطا محمد، حکیم ۳۹ عظیم بخش، حافظ ۶۳۳ عظیم بخش، مولوی ۶۲۴ عکرمہ بن ابی جہل ۸۰ علی رضی اللہ عنہ آپ کو کشف میں دیکھنا ۵۵۰ علی احمد، شیخ، وکیل ۳۰۰ علی بخش، میاں ۶۲۳ علی بخش درزی، میاں ۶۲۱ علی گوہر خان جالندھری ۲۰۱،۶۲۸،۶۳۴ علی لدھیانوی قاضی، خواجہ ۵۸۲ح علی محمد ۳۱۹ علی محمد، بابو ۶۲۳ علی محمد، میاں، امام مسجد ۶۱۷ علی نواز، میاں ۶۲۰ عمر، مستری ۶۲۷ عمرا، میاں ۶۳۳ عمر بخش، مستری ۶۳۴ عمر الدین، حافظ ۶۲۲ عمر شاہ، سید ۶۲۲ عمر شاہ، میاں ۶۲۳ عمر فاروق رضی اللہ عنہ ۲۵۹،۵۸۲ حضرت اویس قرنی سے ملنے کے لئے سفر کرنا ۶۰۷ دروازہ ٹوٹنے سے اپنی وفات مراد لینا ۴۵۹ آپ کی محدثات ۶۱۲ عنایت اللہ، مولوی ۶۲۷ عنایت اللہ، میاں ۶۲۳ عنایت علی، پیر ۶۱۸ عیدا، میاں ۶۱۷ عیسیٰ علیہ السلام (دیکھیے مسیح ابن مریم) غلام احمد ، قادیانی، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نیز دیکھئے ’’مسیح موعود‘‘ آپ کی ذات پر بٹالوی کی طرف سے کئے جانے والے اعتراضات کیلئے دیکھئے ’’محمد حسین بٹالوی‘‘ آپ کا شجرہ نسب ۵۴۱ اپنی سوانح اور خدا کے چند احسانوں کا ذکر ۴۹۸ سوانح ذکر کرنے کی و جہ ۴۹۸ آپ کے آباء کا فارسی الاصل ہونا ۴۹۹ آپ کے آباء کا بابر کے عہد میں آ کر اسلام پور آباد کرنا اور ستّر۷۰گاؤں بطور جاگیر دیا جانا ۵۰۰،۵۰۱،۵۴۳ آپ کے آباء و اجداد کے سوانح کا تذکرہ ۴۹۸،۵۴۰ سکھ دور میں حضورؑ کے خاندان پر ہونے والے ابتلاء ۵۰۶ ۵۰۷،۵۴۲ آپ کی والدہ کا کہنا کہ تمہاری پیدائش سے ہمارے حالات تبدیل ہونا شروع ہوئے ۵۴۴ والد کا زراعت کی طرف توجہ کرنا اور بڑا زمیندار بننا تاکہ حارث موعود کی پیشگوئی پوری ہو ۵۴۴ آپ کی رسمی تعلیم ۵۴۵ جوانی میں قرآن کریم اور آنحضرتؐ سے عشق ۵۴۷ آپ کے چچا اور ان کے بیٹوں کا دہریت اور رسول اللہ ؐ کی شان میں گستاخانہ کلمات کہنا ۵۶۶تا۵۶۹ آپ کی نظر میں حدیث کا مقام ۵۵۹ اپنے آپ کو قید میں یوسف سے تشبیہ دینا ۱۲ عربوں سے ملاقات کے اشتیاق کا اظہار ۴۲۱ مَیں نے دوسروں پر کبھی مقدمات نہیں کئے ۳۰۲ ملکہ کو نشان نمائی کی دعوت ۵۳۳
اشعار میں جماعت کو نصیحت ٹائیٹل پیج ۲ عوام کو نصیحت کہ وہ وقت اور موقع کو پہچانیں ۵۳ مسلمانوں کو نصیحت ۵۵ قیصرہ کو مسلمانوں کا خیال رکھنے کی نصیحت ۵۳۵،۵۳۷ آپ کا گمان کہ ملکہ نے مسلمان شرفاء کو دوسروں پر فضیلت دینے کا کہا اپنے نائبین کوہے لیکن ان کاایسا نہ کرنا ۵۳۸ محمد حسین بٹالوی صاحب کے والد کو بٹالوی کی پردہ دری سے روکنا ۳۰۵ح قوم کو دعوت اور اُن کا انکار کرنا ۵۵۹ اس اعتراض کا جواب کہ دجال اور یاجوج ماجوج کے ظہور سے قبل ہی مسیح موعود آ گیا ہے ۴۵۹ آپ کے عقائد اپنے عقائد کا بیان ۲۱، ۱۹۰ح، ۳۸۴،۳۸۷ اپنے مومن مسلم ہونے پر اللہ کی قسم کھانا ۲۱ تبلیغ اسلام کے لئے جوش کئی ہزار رجسٹری شدہ خط مختلف ملکوں میں روانہ کرنے کی بنیادی غرض ۲۲۲ تبلیغ کے لئے بارہ ہزار کے قریب مذاہب غیر کے نام اشتہار شائع کرنا ۳۴۷،۳۴۸ اسلام کی اشاعت کے لئے ایمانی جوش کی انتہا ۳۵ بیس سال کی عمر سے برہموؤں اور پادریوں سے مباحثے کرنا اور اسلام کی طرف دعوت دینا ۵۴۷ اسلام کے سچے اور زندہ مذہب ہونے کے حوالہ سے جملہ مذاہب کے ماننے والوں کو چیلنج ۲۷۵تا ۲۷۷ عرب کے مشائخ اور صلحاء کے نام عربی خط ۴۱۹ عربی زبان میں خط لکھنے کی و جہ ۳۶۲ ایک امرتسری وکیل کا حضرت اقدس ؑ کے ذریعہ احمدی ہونا ۶۳۸ ملکہ کو اسلام کی صداقت کے دلائل دکھانے کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنا ۵۳۳ قیصرہ کو اسلام کی دعوت ۵۲۹،۵۳۰ آنحضرتؐ سے عشق اتباع نبوی میں آپ کو ایک گرم جوش فطرت کا ملنا تاکہ حقیقی متابعت کی راہیں لوگوں کو دکھائی جائیں ۳۴،۳۵ جوانی سے ہی اسلام اور نبی کریم ؐ سے محبت ۳۸۸ آنحضرتؐ کی محبت میں فنا اور رنگ میں رنگین ہونا ۴۶۸ اگر ساری اولاد اور خدام قتل کئے جاتے اور ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جاتے تو یہ بات مجھ پر توہینِ رسولؐ سے زیادہ رنج دہ نہ ہوتی ۱۵، ۲۵ نبی کریم ؐ سے آپ کے عشق کی انتہا ۵۲ اللہ تعالیٰ نے مجھے آنحضرتؐ کی پوری پوری اتباع کی توفیق بخشی ہے ۴۸۳ نبی کریم ؐ پر درود ۳۶۵،۴۲۰،۵۴۷ کشف و رؤیا میں نبی کریم ؐ کو بارہا دیکھنا ۵۶۱ قرآن سے محبت قرآن کی طرف جوانی سے ہی آپ کا طبعی میلان ۵۶۱ خدا نے مجھے فرقان کے انوار سے نوازا ہے ۵۳۲ قرآن و نبی کریمؐ کی محبت سے حاصل ہونیوالی برکات ۵۴۷ بعثت کا مقصد آپ کی بعثت اور نزول کا مقصد ۲۵۱،۳۳۹،۵۵۹ مَیں اللہ تعالیٰ کے اذن سے تجدید دین کے لئے آیا ہوں ۷ مَیں اس زمانہ کے فساد کی اصلاح کے لئے مرسل و مامور بنا کر بھیجا گیا ہوں ۱۶ مجھے اس لئے بھیجا گیا ہے کہ تا میں اس زمانہ کے اوہام دور کروں اور ٹھوکر سے بچاؤں ۲۶۹ح میں اس لئے آیا ہوں تاکہ میں تمہیں بتاؤں کہ کن رستوں پر تم چلتے ہو اور تمہارے اخلاق کیا ہیں ۴۱۴ قرآنی حفاظت کے وعدہ کو پورا کرنے کے لئے میں اس زمانہ میں بھیجا گیا ہوں ۴۸۰
عیسائیوں کے دجالی فتنہ کے مقابل خدا نے بھیجا ہے ۳۶۷ پادریوں کے فتنہ کے حد سے بڑھنے پر خدا کا مجھے بھیجنا ۴۲۴ میں اللہ کی طرف سے تمام لوگوں کی ہدایت کیلئے مامورہوں۴۹۰ اسلام کی کشتی کو بچانے کے لئے خدا نے بھیجا ہے ۲۶۱ح خدا نے مجھے اس لئے بھیجا تا اس زمانہ کے اوہام دور کروں اور ٹھوکرسے بچاؤں ۲۶۹ح دعویٰ ماموریت میرے دعاوی معمولی دعاوی نہیں ۲۳۲ح میرے تمام دعاوی قرآن و احادیث اور گذشتہ اولیاء کی پیشگوئیوں سے ثابت ہیں ۳۵۶ حضرت عیسیٰ کے نام پر آنے کا سِرّ ۲۵۴، ۲۶۸ح ۳۴۱، ۴۳۹، ۴۴۱، ۴۲۶،۵۵۳ خدا نے مجھے مسیح ابن مریم اور آدم بھی قرار دیا ۵۹۸ مجھے ابتداء سے معلوم تھا کہ مجھے ابن مریم بنا کر بھیجا گیا ہے مگر عمداً مخفی رکھا ۵۵۱ مسیح ناصری اور مسیح محمدی ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے ۲۵۵ آپ کا نام مسیح موعود رکھے جانے کی و جہ ۳۴۱ ۳۶۷، ۳۷۵،۳۷۷ مسیح موعود کے دعویٰ کے بعد لوگوں کا تذبذب میں پڑنا ۳۳۱ مسیح موعود کے دعویٰ کی حقیقت ۳۳۹ مسیح موعود کے دعویٰ کو تسلیم کرنے کے قرائن ۳۴۰ علماء کا خاموش رہنا جب ان سے پوچھا جائے کہ بجز میرے اور کون مسیح موعود ہونے کادعویدار ہے ۳۴۰ نزول مسیح کے راز سے خدا نے مجھے آگاہ فرمایا ہے ۴۰۵،۵۵۲ اگر میرے دعویٰ میں شک ہے کہ تو میری صحبت میں رہ کر دیکھ لو خدا صداقت کے نشان دکھائے گا ۴۰۵ چالیس روز خدا کے حضور دعا کرنے والے پر وہ میری صداقت کھول دے گا ۴۰۶ مجھے خدا نے بتایا کہ مَیں خلق کیلئے نوح کی کشتی کی مانند ہوں اور جس نے میری بیعت کی وہ ضائع ہونے سے بچ گیا۴۸۶ میں صلیب توڑنے اور خنزیر کو قتل کرنے آیا ہوں جو اس کے بعد پھر کبھی زندہ نہیں کیا جائے گا ۴۳۷ اللہ تعالیٰ نے مجھے علم قرآن عطا فرمایا ہے ۴۸۴ خدا کی قسم مَیں اس اللہ کی طرف سے مامور ہوں جس نے محمدؐ کو تمام لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا ۴۹۱ آخرین منھم کے اعداد ۱۲۷۵ ہیں اور یہی تاریخ اس عاجز کے بلوغ، پیدائش ثانی اور تولد روحانی کی ہے ۲۱۹ مَیں نبی نہیں بلکہ محدث اور کلیم اللہ ہوں تاکہ دین مصطفیٰ کی تجدید کروں ۳۸۳ محدث ہونے کا دعویٰ ۳۶۷ مجھے اللہ نے حلل ولایت کی خلعت عطا فرمائی ہے ۴۹۱ اللہ نے مجھے امام اور خلیفہ اور اس صدی کا مجدد بنایا ہے۴۲۳ خدا نے مجھے حَکم بنا کر بھیجا ہے اور وہ مجھے ملحد کہتے ہیں ۵۶۰ خدا نے خود میری تربیت کی اور صبر ، رضا اور رب کی موافقت میرا مشرب ہے ۴۸۴ بنی نوع کی ہمدردی سے ہمارا سینہ منور و معمور ہے ۶۴۶ خدا اس درخت کو کبھی نہیں کاٹے گا جس کو اس نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے ۵۴ میں خدا کی طرف سے ہوں جو چاہے امتحان لے لے ۴۰۳ اسلام کی اعلیٰ طاقتوں کا علم مجھ کو دیا گیا ہے ۲۵۵ح ملائک اور شیاطین کے اثبات کے لئے خدا نے قرآن کے استنباط حقائق میں اس عاجز کو متفرد کیا ہے ۸۹ اسلام کے ماننے اورمحبت رسول اللہ کی و جہ سے مکالمہ الٰہیہ اور قبولیت دعا کا مقام حاصل ہونا ۲۷۶ خدا میری دعائیں قبول کرتا ہے اور لاتعداد دعائیں قبول کی ہیں اور میرے کاموں میں برکت ڈالتا ہے ۴۸۳ بعض دن بارش کی طرح الہامات کا برسنا ۳۵۵ آپ پر ایمان لانے والوں کا حال اور ان کی کیفیت ۳۴۹ مجھے کمزور اور ضعیف لوگ مان رہے ہیں اور بڑھ رہے ہیں اور متکبر انکار کرتے ہیں اور کم ہو رہے ہیں ۴۸۵
میرے پھلوں سے تم مجھے پہچانو گے ۴۰۶ ہمیں کسی فرد بشر سے عداوت نہیں ۶۴۶ دو ہزار سے زیادہ رؤیائے صالحہ کا دیکھنا ۵۴۸ ذاتی تجربہ سے معلوم کہ روح القدس کی قدسیت ہر وقت بلا فصل ملہم کے تمام قویٰ میں کام کرتی ہے ۹۳ح عالم کشف میں بارہا ملائک کو دیکھا اور علم حاصل کیا ۱۸۲ح صداقت ضرورت زمانہ کی دلیل ۳۸۲،۴۰۲، ۴۱۴، ۴۳۷، ۴۷۹،۴۸۱ آپ کی صداقت کے دلائل ۵۴، ۱۱۰،۱۱۱ح، ۳۲۲ ۳۴۳تا ۳۴۹، ۳۸۹، ۴۸۱ تا ۴۸۵ میرا زمیندار ہونا میرے صدق کی علامت ہے ۳۰۳ آپ کی زندگی اس بات کی گواہ کہ خدا نے ہمیشہ آپ کو کذب کی ناپاکی سے محفوظ رکھا ۲۹۰ تین نمونے اس امر کے پیش کرنا کہ جب بجز کذب کے کوئی اور ذریعہ کامیابی کا نہ تھا مگر سچائی کو نہ چھوڑا ۲۹۷تا ۳۰۰ ایک معیار جس سے بٹالوی صاحب کا کاذب ہونا اور خاکسار کا مؤید من اللہ ہونا ثابت ہو جائے گا ۶۰۱،۶۰۲ اب تک تین ہزار کے قریب امور غیبیہ کا ظاہر ہوناجو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہیں ۳۵۰،۶۰۰ مخالفت اور مخالفین کو دعوتِ مقابلہ مخالفین کو نشان نمائی کی دعوت ۱۵۸ح، ۲۷۷، ۳۸۱،۳۸۹ اپنی صحبت میں رہنے اور نشان نمائی کی دعوت ۴۰۵ اس دعویٰ کے اثبات کے لئے کہ روحانی حیات،برکات روحانیہ صرف آنحضرتؐ کی اتباع سے مل سکتی ہیں ہر مخالف کو مقابلہ کے لئے بلانا مگر کسی کا رخ نہ کرنا ۲۲۲ مسلمانوں کو دعوت کہ وہ آپ کو قبول کریں ، اپنے ملہم اور مؤید من اللہ ہونے کا دعویٰ اور شناخت کے ذریعہ کا ذکر۴۱۲ میدانِ مقابلہ کے لئے ہر وقت کھڑا ہوں اور سب اکٹھے ہو کر آؤ اور دیر نہ کرو ۳۸۳ علماء اور مشائخ کے سامنے لعنت اور برکت رکھنا ۴۰۳ مشائخ ہند کو مقابلہ کی دعوت ۴۱۳ مجھے بشارت دی گئی ہے کہ اگر کوئی مخالف دین میرے سامنے آئے گا تو مَیں اس پر غالب آؤں گا ۳۴۸ حضور کا بٹالوی کو تفسیر لکھنے کے مقابلہ کی دعوت دینا ۶۰۲ بٹالوی سے مطالبہ کہ میرا مخالف اسلام ، کافر اور جھوٹا ہونا ثابت کرے ۲۹۲ خوابوں کا سچا نکلنا مومنوں کا خاصہ ہے اس لحاظ سے بٹالوی کو دعوت کہ مومن ہونے کی نشانی کس میں ہے ۲۹۳ امور غیبیہ کے ظہور اور قبولیت دعا کے لحاظ سے مخالفین کو مقابلہ کی دعوت اور دس ہزار روپیہ کی جائیداد دینے کا وعدہ ۲۷۶ خوابوں کی صداقت کے حوالہ سے بٹالوی کو مقابلہ کی دعوت ۲۹۳ اپنی ذات پر مخالف علماء کے حملہ کو حبشی کے بیت اللہ پر حملہ سے تشبیہ دینا ۱۰ مخالفین کی سبّ و شتم اور ان کی ناکامیاں ۱۷ مخالفت کے باوجود نورانی فوج کا آپ کو ملنا ۱۸ آپ کا نام کافر، ملحد، زندیق اور دجال رکھا جانا ۳۰ آپ کی تکفیر کی اصل وجہ ۲۲۲ سب سے پہلے کافر اور مرتد ٹھہرانے میں میاں نذیر حسین دہلوی نے قلم اٹھائی اور اس کے مختلف وجوہ ۳۱ مکفرین سے آپ کی ایک درخواست ۲۲ بٹالوی کی بدزبانی پر آپ کا صبر ۳۰۸ بد علماء حبشی کے بیت اللہ پر حملہ آور ہونے کی طرح مجھ پر حملہ آور ہوئے ۱۰ مسلمانوں سے مباہلہ حضرت اقدس ؑ کے مسلمانوں سے مباہلہ سے اعراض کرنے کی و جہ ۲۵۶ مباہلہ کے لئے اشتہار ۲۶۱ مباہلہ کی اجازت کا دیا جانااور اس کی حکمت ۳۳۱ اس کتاب کے ساتھ مباہلہ شائع کرنے کا سبب ۳۳۲ آپ کی دعائیں خدا کے حضور مناجات ۵،۶،۵۶۹
التبلیغ کے لکھے جانے پر خدا کا شکر ادا کرنا او ر اس کے حضور مناجات ۵۸۹ (حضورؑ کے اپنے ہاتھ سے) اسلام کے احیاء کی دعا ۶ آپ کی دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے خدا کا آپ کو ایک صدیق عطا کرنا ۵۸۱ ناشناس قوم کے لئے خدا کے حضور ان کی ہدایت کے لئے عاجزانہ دعا ۳۲۴ قیصرہ کے لئے دعا ۵۱۷، ۵۲۶،۵۳۴ پیشگوئیاں اور نشانات آپ کی پیشگوئیوں کی کیفیت ۳۵۵ اپنی جماعت کی فتح کی خوشخبری ۳۴۹ میں متواتر دیکھتا ہوں کہ کوئی امر ہونے والا ہے ۳۵۵ احمد بیگ کے مرنے کی کئی سال قبل کی مجملاً پیشگوئی ۲۸۸ اس کی بیٹی کے متعلق پیشگوئی اور اس کی تفصیلات ۲۷۹ ۲۸۰، ۲۸۵،۳۲۰،۵۶۶ بٹالوی کے خوار ہونے کی پیشگوئی ۲۹۴ پیشگوئی مصلح موعود ۵۷۷،۶۴۷ ایک دیسی امیر نووارد پنجابی الاصل کی نسبت متوحش خبریں ۶۴۶ لیکھرام پشاوری کی نسبت پیشگوئی ۶۴۹ شیخ مہر علی رئیس کی رہائی کی بشارت ۶۵۴ آپ کے چچا اور ان کے خاندان کا نشان نمائی کا مطالبہ جس پر نشان کا نازل ہونا ۵۶۶ اسلام کے روحانی اقبال اور روحانی فتح کی پیشگوئی ۲۵۴ح مخالفین کی ناکامی اور جماعت کے قائم رہنے کی پیشگوئی ۵۴ ہر مخالفِ دین سے مقابلہ کے وقت غلبہ کی پیشگوئی ۳۴۸،۳۸۲ اب تک تین ہزار کے قریب یا زیادہ خدا نشانات دکھلا چکا ہے ۳۵۰ ۱۸۹۲ء کے سال دو نشانوں کا ظاہر ہونا ۶۳۰ منظوم کلام اردو کلام ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے کوئی دیں دینِ محمدؐ سا نہ پایا ہم نے ۲۲۴ اردو اشعار جب مر گئے تو آئے ہمارے مزار پر پتھر پڑیں صنم تیرے ایسے پیار پر ۳۴ پیشگوئی کا جب انجام ہویدا ہو گا قدرت حق کا عجب ایک تماشا ہو گا ۲۸۱ دل میں جس شخص کے کچھ نورِ صفا ہوتا ہے حق کی وہ بات پہ سو جاں سے فدا ہوتا ہے ۶۴۴ اردو مصرعہ سر تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے ۶۴۰ عربی قصائد یا عین فیض اللّٰہ والعرفان یسعٰی الیک الخلق کالظمأٰن ۵۹۰ بمطلع علٰی اسرار بالی بعالم عیبتی فی کل حالی ۵۹۴ فارسی کلام بکوشید اے جواناں تا بہ دیں قوت شود پیدا بہار و رونق اندر روضۂ ملت شود پیدا ٹائیٹل صفحہ ۲ محبتِ تُو ہزار بیماری است بروئے تُو کہ رہائی دریں گرفتاری است ۱ چو زمن آید ثنائے سرورِ عالی تبار عاجز از مدحش زمین و آسمان و ہر دو دار ۲۳ بدہ از چشم خود آ بے درختانِ محبت را مگر روزے دہندت میوہائے پُر حلاوت را ۵۵
مصطفی را چوں فروتر شد قمام از مسیح ناصری کہ از رُوحش جدا است ۱۱۲ چوں مَرا نورے پئے قومے مسیحی دادہ اند مصلحت را ابنِ مریم نامِ من بنہادہ اند ۳۵۸ دوستانِ خود را نثارِ حضرت جاناں کنید در رہِ آں یار جانی جان و دل قربان کنید ۶۳۶ جان و دلم فدائے جمال محمد است خاکم نثار کوچۂ آل محمد است ۶۴۵ عجب نوریست در جانِ محمدؐ عجب لعلے است در کانِ محمدؐ ۶۴۹ قربان تست جانِ من اے یارِ محسنم با من کدام فرق تو کردی کہ من کنم ۶۵۸ دوسروں کے فارسی اشعار اور مصرعہ جات کا استعمال ننگ و نام و عزت دنیا ز داماں ریختیم یار آمیزد مگر با ما بخاک آمیختیم ۱۱ اے کہ دجالم بچشمت نیز ضال چوں نترسی از خدائے ذوالجلال ۳۲ موسیٰ و عیسیٰ ہمہ خیلِ تواند جملہ دریں راہ طفیلِ تواند ۱۶۴ آسماں بارِ امانت نتوانست کشید قرعہ فال بنام من دیوانہ زدند ۱۷۳ چشم بد اندیش کہ بر کندہ باد عیب نماید ہنرش در نظر ۳۰۳ پائے استدلالیاں چو بیں بود پائے چو بیں سخت بے تمکین بود ۳۲۹ خدا چوں بہ بندد دو چشم کسے نہ بیندد گر مہر تابد بسے ۵۹۷ زاہد ظاہر پرست از حالِ ما آگاہ نیست در حقِ ما ہر چہ گوید جائے ہیچ اکراہ نیست ۶۴۶ اے عزیزان مدد دین متین آں کار ست کہ بصد زہد میسر نہ شود انسان را ۶۵۲ تا دل مرد خدا نامد بدرد ہیچ قومے را خدا رسوا نہ کرد ۶۵۳ فارسی مصرعہ جات پائے استدلالیاں چوں بیں بود ۲۲۹ح آفرین باد بریں ہمتِ مردانہ تُو ۳۰۹ تا سیہ روئے شود ہر کہ دروغش باشد ۳۱۰ ببیں تفاوتِ رہ از کجا است تا بکجا ۶۴۱ قصہ کوتاہ کرد ورنہ درد سر بسیار بود ۶۴۵ غلام احمد، مفتی، مولوی ۵۸۱ح غلام جیلانی، مولوی ۶۲۴،۶۳۳ غلام حسن پشاوری، مولوی ۵۸۱ح، ۶۳۲ غلام حسین ، مرزا (حضور کے ایک چچا زاد بھائی) عرصہ پچیس سال سے مفقود ہونا ۲۸۵ غلام حسین(مکیریاں) ۶۲۹ غلام حسین مدرس، مولوی ۶۲۱ غلام حسین، منشی، رہتاس ۶۱۸،۶۳۵ غلام رسول سوداگر، حافظ ۶۲۶ غلام رسول، میاں ۶۲۹ غلام شاہ، سید ۶۲۰ غلام علی، میاں ۶۲۳ غلام فرید، میاں ۶۲۳ غلام قادر، حافظ ۳۱۹ غلام قادر، مرزا(حضرت مسیح موعودؑ کے برادر اکبر) ۲۹۷ غلام قادر، منشی، سنوری ۶۱۹ غلام قادرپٹواری، منشی، ۶۳۴ غلام قادر فصیح، منشی ۵۸۲ح،۶۱۶،۶۱۷،۶۳۵ غلام قادر، میاں(پٹیالہ) ۶۲۰ غلام قادر، میاں (علاقہ بند) ۶۲۷
غلام محمد، بابو ۶۳۳ غلام محمد ، حاجی ۶۲۱ غلام محمدڈپٹی انسپکٹر، حاجی ۶۲۳ غلام محمد، منشی ۶۱۷ غلام مرتضیٰ صاحب (والد حضرت اقدس علیہ السلام) ۲۹۷،۵۴۱ آپ کے مقدمات کی کیفیت ۳۰۲ بٹالوی کے والد کا آپ سے کہنا کہ مجھے مقدمات کے لئے نوکررکھ لیں ۳۰۴ ان کا کہنا کہ جوپڑھا مصائب کے ایام اور سفروں میں پڑھا ۵۴۳ کشمیر میں ان پر ہونے والے فیوض کا تذکرہ ۵۴۳ غلام مرتضیٰ ، قاضی ۵۸۲ح ف، ق، ک،گ، ل فاطمہ بنت محمد ؐ ۳۰۹ آپ کو کشف میں دیکھنا ۵۵۰ فتح دین ، بابو ، سب پوسٹ ماسٹر ۳۰۰،۶۱۷ فتح الدین، میاں ۶۲۸ فتح محمد، حکیم ۶۲۵،۶۳۴ فتح محمد، شیخ ۶۲۳ فتح محمد، میاں ۶۲۸ فرعون ۴۵۳ اپنی جماعت سمیت غرق کر دیا گیا ۲۸۳ فضل احمد، حافظ ۶۲۱،۶۳۳ فضل حق، میاں ۶۲۲ فضل الدین بھیروی، حکیم ۲۹۱،۵۸۲ح،۶۰۶،۶۱۶ فضل الدین زرگر ۶۱۷ فضل الدین، مولوی ۶۲۰ فضل کریم، میاں ۶۱۶،۶۳۴ فضل محمد، شیخ ۶۲۸ فقیر حسین، سید ۶۲۲ فقیر علی، میاں // فیاض علی ،منشی ۶۲۵،۶۳۴ فیض محمد ۵۴۱ قادر بخش، حکیم، شیخ ۶۱۷ قادر بخش، میاں (بٹالہ) ۶۲۳ قادر بخش، میاں (مالیر کوٹلہ) ۶۲۸ قدرت اللہ، مولوی ۶۲۳،۶۳۳ قریش ۵۵۷ ظاہری سلطنت، خلافت اور امامت کا صرف قریش میں ہونا ۲۷۰ قشیری، ابو القاسم ۱۳۷ح قطب الدین بدو ملہوی، میاں ۲۹۱،۶۱۷،۶۳۲ قطب الدین ، مستری ۶۲۷ قطب الدین، میاں (دفر والہ) ۶۲۳ قطب الدین، میاں، کوٹلہ فقیر ۶۱۷ کالو شاہ، میاں ۶۲۴ کرم الٰہی ، منشی(لاہور) ۶۳۳ کرم الٰہی، مولوی ۶۲۶ کرم الٰہی کنسٹیبل، میاں ۶۱۸،۶۳۳ کرم الٰہی، میاں (غوث گڈھ) ۶۳۵ کرم الٰہی، میاں (فیض اللہ چک) ۶۲۳ کرم داد، میاں ۶۲۰ کریم بخش، چوہدری ۶۲۹ کریم بخش، میاں(جمالپور) ۶۱۸ کریم بخش، میاں(کپورتھلہ) ۶۲۵ کریم الدین، مولوی ۶۲۷ کعب الاحبار ۷۹ کمے خان، میاں ۶۲۸ گل محمد، مرزا (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پردادا) ۵۴۱ گلاب خان، منشی، نقشہ نویس ۶۱۷
گلاب دین، منشی ۶۱۸،۶۳۴ گوہر شاہ، میاں ۶۲۴ گھسیٹا ، چوہدری ۶۲۳ لوط علیہ السلام ۵۴۰ آپ کی قوم پر پتھر برسائے گئے ۲۸۳ لیکھرام پشاوری،پنڈت ۲۸۸،۶۴۶ اس کی نسبت پیشگوئی ۶۴۹ م،ن، و ، ہ، ی مادا ۶۳۵ ماہیازمیندار، میاں ۶۲۰،۶۳۵ مجاہد ۸۰ محکم الدین، بابو ۶۲۷،۶۳۵ محکم دین دوکاندار، میاں ۶۲۲ محکم الدین، منشی اشٹام فروش ۶۲۳ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم محمدؐ کے معنی ۳۴۳ آپؐ کے متعلق پیشگوئی مسیح کا کہنا کہ وہ نبی میرے نام پر آئے گا.حدیث کی رو سے اس کی تصدیق ۳۴۳ بعثت آپ کی بعثت کے وقت حد سے زیادہ سقوط شہب ہوا۱۰۴ح آپ کی آمد کا ایک مقصد مسیح کو بے جا الزاموں سے پاک کرنا تھا ۳۴۶ مقام وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کامل کو دیا گیا ۱۶۰،۱۶۱ و وجدک ضالا میں ضالا بمعنی عاشق و جہ اللہ ہے ۱۷۱ آپؐ کا اول المسلمین ہونا ۱۶۲،۱۸۶ رسول اللہؐ کی قدر بذریعہ قرآن کے کھلتی ہے ۳۶۳ آپؐ کا وجود تجلیاتِ الٰہیہ کے لئے اتم و اعلیٰ و ارفع و اکمل نمونہ تھا ۶۸ اللہ کی امانت کو کامل طور پر آپؐ نے واپس کیا ۱۶۱ تمام انبیاء کے نام اپنے اندر رکھنا اور آپ کا جامع کمالات متفرقہ ہونا ۳۴۳ آپؐ کی نسبت قرآن میں ضالّ کے لفظ کا اصل مفہوم ۱۷۰ قرآن کے مطابق سب سے زیادہ ابراہیم ؑ سے مناسبت رکھنے والے آپؐ ہیں ۳۴۳ آپؐ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگاجو ناسخ قرآن ہو ۳۷۷ خصوصیات آپؐ کی خوبیوں اور فضائل کا تذکرہ ۲تا۴ آپؐ کی بلند شان کا قرآن میں ذکر ۱۶۲ تا ۱۶۵،۱۹۱،۱۹۶ آپؐ ہر بزرگی میں اول اور ہر چیز کی طرف دعوت دینے میں سب سے مقدم ہیں ۵۴۱ آپؐ کا دلوں سے تین تاریکیوں کا نکالنا ۲،۳ آپؐ کے ذریعہ روحانی حیات اور روحانی قیامت کا ظہور ۲۰۵، ۲۲۱،۲۲۴ اس اعتقاد کا رد کے آپؐ کی دوسرے انبیاء پر فضیلت کلی طور پر ثابت نہیں ۱۶۳ آپؐ کا انکسار اور تذلل ۱۶۳ اوروں کی نسبت علوم معرفت الٰہی میں آپؐ کے اعلم ہونے کا ثبوت ۱۸۶ آخری زمانہ کے فتنوں سے آگاہ کرنا آپؐ کے احسانات میں سے ہے ۴ خدا کی قسم دینے پر آپؐ توجہ کے ساتھ جواب دیتے تھے ۲۹۲ آپ کے دس لاکھ کے قریب قول و فعل میں سراسر خدائی کا جلوہ نظر آتا ہے ۱۱۶ آپؐ کی نسبت صحابہ کا مسِ شیطان کا عقیدہ نہ تھا ا۱۱، ۱۱۲ صحابہ کا آپ کی نسبت اعتقاد کہ آپ کا کوئی فعل اور قول وحی کی آمیزش سے خالی نہیں ۱۱۲،۱۲۴ وحی آدم ؑ سے شروع ہوئی اور نبی عربیؐ پر ختم ہو گئی ۴۲۰
آنحضرتؐ کا روحانی نزول اسلام میں آپ کا روحانی نزول ۳۴۶ مہدی کی صورت میں آپؐ کے نزول کی حقیقت ۴۴۰ آنحضرتؐ اور روح القدس آپؐ کے خاص معاملات و مکالمات سب اسی خیال سے احادیث میں داخل کئے گئے کہ وہ تمام کام اور کلام روح القدس کی روشنی سے ہیں ۱۱۳ جبرائیل کے آپؐ کے ساتھ ہر وقت رہنے اور اس کی قرارگاہ آسمان ہونے کے امر کی وضاحت ۱۱۸،۱۱۹ مسلمانوں کا اعتقاد کہ روح القدس کبھی مسیح سے جدا نہیں ہوا اور آنحضرت ؐ سے جدا ہو جاتا تھا ۷۵،۹۴ح جبرائیل اپنے حقیقی وجد کے ساتھ صرف دو مرتبہ آپؐ کو دکھائی دیے ۱۲۲ سلف صالحین کا عقیدہ نہ تھا کہ روح القدس آپؐ پر خاص خاص وقتوں میں نازل ہوتا تھا ۱۱۷ ملائک ابتدائے نبوت سے تین برابر برس آپؐ کے ساتھ رہے پھر جبرائیل کا دائمی رفاقت کے لئے آنا ۱۱۷ آنحضورؐ کی بعثت کے ایام میں کئی دن تک جبرائیل کا نہ اترنا ۸۸ح، ۹۲ح اطاعت کے ثمرات آپؐ کی غلامی سے ہی اب نجات وابستہ ہے ۱۹۱ آپؐ کی غلامی سے حاصل ہونے والا فیض ۱۹۳ حیاتِ روحانی صرف آپؐ کی متابعت سے ملتی ہے ۱۹۶ وہ لوگ جنہیں آپؐ کے کلمات کا فہم عطا کیا جائے ان کی صفات حسنہ ۴۶۶،۴۶۷ بیضہ بشریت کے روحانی بچوں کا روح القدس کی معرفت آنحضرتؐ کی متابعت کی برکت سے پیدا ہونا ۱۹۷ آپؐ کی جاودانی برکتوں کا ہمیشہ کے لئے آپؐ کے متبعین میں جاری رہنا ۲۰۷ جنت اور روضۂ رسول کی مناسبت ۵۷۹ح مخالفت آپ کی اور آپ کے دین کی اس زمانہ میں جو توہین کی گئی اس کی نظیر کسی دوسرے زمانہ میں نہیں ۵۱ اس زمانہ میں بدگوئی اور دشنام دہی کی کتابیں آپؐ کے حق میں اس قدر چھاپی گئیں کہ ان کی نظیر نہیں ملتی ۵۲ معجزات نبی کریم ؐ سے تمام انبیاء سے زیادہ معجزات کا ظاہر ہونا ۳۳۸ کبار صحابہ کا بغیر معجزہ دیکھنے کے آپ پر ایمان لانا ۳۳۲ ۳۳۶،۳۳۷ نبی کریم ؐ کے چند اقتداری معجزات ۶۵،۶۶ نبی کریمؐ کے اقتداری معجزات کا سلسلہ تا قیامت ہے ۶۷ جس قدر اقتداری معجزات آنحضرتؐ نے دکھائے اس قدر مسیح نے نہیں دکھائے ۶۷ بدر کی جنگ میں نبی کریم ؐ کو دشمن کی تعداد کم کر کے دکھائی جانے کی و جہ ۴۴۷ اجتہادی غلطی اس سوال کا جواب کہ اگر کل قول و فعل آنحضرتؐ کا وحی سے تھا تو پھر اجتہادی غلطی کیوں ہوئی ۱۱۴،۱۱۶ نبی کریم ؐ کی اجتہادی غلطیاں ۳۰۴،۳۰۵ متفرق آپؐ نے امت کے صرف دو زمانے نیک قرار دیے ہیں ۲۱۴ آپؐ نے درمیانی زمانے کا نام فیجِ اعوج رکھا ہے ۲۱۵ زمانہ حال کے فقر اور تصوف کے دعویداروں کو نہ نبی کریم ؐ سے اور نہ قرآن سے کامل محبت ہے ۳۶۰تا۳۶۳ معراج کی رات آپؐ نے تمام انبیاء کو برابر زندہ پایا ۶۱۰ آپؐ کی شان میں عربی زبان میں قصیدہ ۵۹۰ آپؐ کی شان میں فارسی زبان میں اشعار ۲۳ محمد، چوہدری ۶۲۲
محمد، حافظ(پشاور) ۶۲۱،۶۳۲ محمد بن احمد مکی، حاجی ۶۲۰ محمد بن عبدالوہاب ۶۴۰ محمد بن یعقوب شیرازی ( صاحب سفر السعادت) ۱۱۷ محمد، میاں ۶۲۹ محمدی، چوہدری ۶۲۷ محمدی، میاں ۶۳۵ محمد ابراہیم ۳۱۹ محمد ابراہیم، منشی، سنوری ۶۱۹ محمد ابراہیم ، منشی، مدرس ۶۱۹ محمد ابراہیم، میاں ۶۲۸ محمد ابراہیم میڈیکل سٹوڈنٹ، میاں ۶۲۲ محمد احسن امروہی ۲۹۱،۵۸۱ح،۶۱۸ آپ کوسلسلہ کا واعظ مقرر کرنے کی تجویز ۶۱۵ محمد احسن، حکیم ۶۳۲ محمد احمد اللہ، مسکین ۳۱۹ محمد اروڑا ، منشی ۵۸۲ح، ۶۲۵،۶۳۴ محمد اسحاق ۳۱۹ محمد اسحاق، مولوی، حکیم ۶۲۴ محمد اسلم ۵۴۱ محمد اسماعیل شہید ۶۴۳ محمد اشرف، حکیم (بٹالہ) ۶۲۲،۶۳۵ محمد اشرف علی ہاشمی، حکیم ۲۹۱ محمد اعظم ۳۱۹ محمد اکبر ۲۹۱ محمداکبرٹھیکہ دار، میاں ۶۲۲ محمد اکبر خان ۶۲۰ محمد امین بزاز ۶۱۷ محمد امین بٹالوی، حکیم ۶۳۵ محمد بخش ۶۵۳،۶۵۴ محمد بخش زمیندار، میاں ۶۲۲ محمد بخش ککے زئی، میاں ۶۲۱ محمد بخش، منشی ۶۲۵ محمد بیگ ۲۸۵،۵۴۱ محمد پارسا، خواجہ ۱۶۷ محمد تفضل حسین اٹاوی، سید ۵۸۲ح محمد پشاوری، حافظ ۲۹۱ محمد جان، میاں ۶۲۷ محمد جان پٹواری، میاں ۶۲۳ محمد حسین بٹالوی، ابو سعید ۱۱ح،۳۲،۹۲ح،۳۱۹ ۶۳۸ تا ۶۴۰، ۶۴۳ حضرت اقدس پر کفر کا فتویٰ لگانا ۱۷ کفر کے فتنہ کا اصل بانی ۳۱ حضرت اقدس کے خلاف فتویٰ کفر لکھوانا ۳۰۹ جزوی اختلاف کی بناء پر کسی کا نام اکفر رکھنا ۲۵۹ ان کی فطرت کو تدبر اور غور اور حسنِ ظن کا حصہ قسامِ ازل سے ہی بہت کم ملا ہے ۳۱ عبداللہ غزنوی کا بٹالوی صاحب کو خواب میں دیکھنا کہ اس نے لمبا کرتہ پہنا ہے جو پارہ پارہ ہو گیا ہے ۶۳۹ لوگوں کی نفرت کی و جہ سے لاہور چھوڑنا ۶۴۱ ۱۸۹۷ء کے جلسہ سالانہ میں شرکت کی دعوت ۳۵۷ بٹالوی صاحب کی علمیت کا حال ۳۰۸ تکبر، غرور اور خودپسندی میں مبتلا ہونا ۵۹۷،۵۹۸ اس کے رئیس المتکبر ہونے پر مسلمانوں کی شہادت ۵۹۹ ان کے بعض افتراؤں، بہتانوں کا جواب ۲۹۱تا۳۱۰ ان کے پرچہ کا حضرت صاحب کی طرف سے جواب ۵۹۷ بٹالوی صاحب کا حضرت اقدس کے خلاف خط ۳۱۰ حضرت اقدس کے بٹالوی کے نام خط کو السلام علیکم سے شروع نہ کرنے کا سبب ۲۸۹
اجمالی طور پر ان کی نسبت حضور کو کچھ معلوم ہونا مگر آپ کا اسے شائع نہ کرنا ۲۹۰ مباہلہ کے دوسرے مخاطب ۲۶۲ حضور کا انہیں تفسیر لکھنے کے مقابلہ کی دعوت ۶۰۲ بٹالوی سے مطالبہ کہ میرا مخالف اسلام ، کافر اور جھوٹا ہونا ثابت کرے ۲۹۲ خوابوں کا سچا نکلنا مومنوں کا خاصہ ہے اس لحاظ سے بٹالوی کو دعوت کہ مومن ہونے کی نشانی کس میں ہے ۲۹۳ حضور کا ان کے نام خط جس میں ایک منذر الہام کا ذکر اور اپنی زندگی کے بے عیب ہونے کو اپنی صداقت ٹھہرانا ۲۸۹ ان کی ذلت کا وقت آ پہنچا ہے.گریز کی صورت میں ان پر دس لعنتیں ہوں گی ۲۹۴ یہ اس کا سراسر افتراء ہے کہ الہام کلب یموت علٰی کلب اپنے اوپر وارد کررہا ہے ۶۰۰ بٹالوی کے خلاف حضور کی دعا کا قبول ہونا ۶۰۴ ان کے والد کا بخار کی حالت میں بٹالہ سے قادیان آنا ۳۰۸ بٹالوی صاحب کا ایک شیوہ ۵۹۹ اس اعتقاد کے مخالف کہ ہر انسان کو دو قرین دیے گئے بلکہ صرف ایک قرین داعی الی الشر دیا گیا ہے ۹۰ بٹالوی اور شیخ نذیر حسین کا عقیدہ کہ چالیس دن یا اس سے زیادہ روح القدس نبی کریمؐ سے الگ رہا.اس کی تردید ۹۲ ان کے والد کا مقدمہ بازی میں زندگی گذارنا ۳۰۳ حضرت مسیح موعود ؑ پر اعتراضات قرآن، پہلی کتابوں، اسلام، پہلے دینوں اور نبیؐ پر میرے ایمان کا لازمہ ہے کہ مَیں آپ کو جھوٹا جانوں ۲۹۲ عقائد باطلہ مخالفہ دین اسلام کے علاوہ جھوٹ بولنا آپ کی سرشت کا ایک جز بن گیا ہے ۲۹۲ اس اعتراض کا جواب دینا کہ آپ مختاری اور مقدمہ بازی کا کام کرتے رہتے ہیں ۳۰۱ آپ کی الہامی بیٹے کے تولد کی پیشگوئی جھوٹی نکلی ۳۰۴ جو شخص بندوں پر جھوٹ بولنے میں دلیر ہو وہ خدا پر جھوٹ بولنے سے کیونکر رک سکتا ہے ۳۰۵ براہین میں دس ہزار روپیہ کے خوردبرد کا الزام ۳۰۶ مسیح موعود کے دعویٰ کی تشہیر کی بعد آپ کی کوئی تحریر ، خط یا تصنیف جھوٹ سے خالی نہیں ۳۰۶ آپ نے بحث سے گریز کر کے انواع اتہام و اکاذیب کا اشتہار دیا ۳۰۷ دعویٰ مسیحائی کے خلاف میرے اظہار پر اگرآپ میں رحمت اور ہمدردی کا شمہ اثر ہوتا تو آپ مجھے اپنی جگہ بلاتے ۳۰۷ آپ کا جھوٹ کھولنے کے لئے قادیان آتا مگر اندیشہ کہ آپ میری جان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے ۳۰۱ دروغ سے کوئی تحریر خالی نہیں ۵۹۷ نبیوں کی بھی پیشگوئیوں کا سچا ہونا ضروری ہے یا نہیں ۶۰۰ جس کی کوئی پیشگوئی سچی نکلے اور کوئی جھوٹی وہ سچی پیشگوئی میں ملہم ہو سکتا ہے ۶۰۰ جھوٹے، لوگوں کے مال کھانے والے کی پیشگوئی سچی نکل آوے تو ملہم ، ولی، محدث اور خدا کا مخاطب ہو سکتا ہے ۶۰۰ عاجز کی باون سال کی عمر پر فوت ہونے کی پیشگوئی آپ نے کی ہے یا نہیں ۶۰۱ بعض مرید آپ کے شراب پیتے ہیں، کیا آپ کے بڑے معاون اور مرید نے آپ کے مکان پر شراب نہیں پی ۶۰۱ محمد حسین، حکیم ۶۲۶ محمد حسین زمیندار، مولوی ۶۲۵،۶۳۴ محمد حسین، منشی (لاہورر) ۶۲۵،۶۳۴ محمد حسین مراد آبادی، منشی ۵۸۲ح،۶۱۸ محمد حیات خان سی.ایس.آئی، سردار ۳۰۰ محمدخان ۵۸۲ح محمد خان، منشی ۶۲۵،۶۳۴ محمد دلاور ۵۴۱
محمد دین، منشی (لاہور) ۶۲۵ محمد دین پٹواری، منشی ۶۲۰ محمد دین، میاں(سیالکوٹ) ۶۱۷ محمد دین، میاں(قادیان) ۶۲۳ محمد ذوالفقار علی ۶۲۸ محمد سعید ، چوہدری ۶۲۶ محمد سعید، میر ۶۲۴،۶۳۵ محمد سلطان، چوہدری ۵۴۱،۵۴۲،۶۱۶،۶۳۵ محمد شاہ، حکیم ۶۳۵ محمد شاہ، سید(جموں) ۶۲۷،۶۳۲ محمد شریف، منشی ۶۲۷ محمد صدیق، میاں ۶۲۳ محمد ظہور علی ۶۲۴ محمد عسکری خان، مولوی، سید ۵۸۲ح محمد علی تھانہ دار ۳۱۹ محمد علی، حافظ ۶۲۵،۶۳۴ محمد علی، میاں ، کلرک ۶۲۱ محمد علی خان، نواب ۵۸۲ح،۶۱۶، ۶۲۰،۶۳۱،۶۲۸،۶۳۴ حضرت اقدسؑ کے دعویٰ مثیل المسیح کی نسبت بعض امور حل طلب کے لئے آپ کی خدمت میں خط لکھنا ۳۲۶ حضرت اقدس کا آپ کے نام خط ۳۳۱ محمد عمر، منشی ۶۲۳ محمد فیض محی الدین قادری ۳۱۹ محمد قائم ۵۴۱ محمد کبیر، میر ۶۲۴ محمد مبارک علی، ابو یوسف، مولوی ۶۱۷، ۶۳۴ محمد مردان علی، مولوی ۵۸۲ح محمد مظہر علی حیدر آبادی، مولوی ۵۸۲ح محمد مقبول، منشی ۶۲۶ محمد ولایت خان مدراسی، سردار ۵۸۱ح محمد یوسف، مولوی (سنور) ۶۱۹،۶۳۳ محمد یوسف بیگ سامانوی، میرزا ۵۸۲ح محمد یوسف علی خان ۶۲۸ محمود شاہ، سید ۶۱۷ محی الدین ابن عربی (صاحب فتوحات مکیہ ) ظلوم و جہول کو مقامِ مدح میں لکھنا ۱۶۷ محی الدین شریف ۵۸۱ح مراد علی، شیخ ۶۲۱ مردان شاہ، فقیر ۶۲۱ مریم صدیقہ علیہا السلام ۲۷۷،۶۱۳ آپ کے لئے فرشتہ کا متمثل ہونا ۹۶ آپ پر یہود کا الزام لگانا ۲۸۲،۲۸۳ مسلم، امام ۱۰۶ مسیح ابن مریم علیہ السلام ۳۹،۴۱، ۴۳،۴۴، ۵۶، ۱۱۲، ۱۲۶، ۲۳۶ح، ۲۰۴، ۲۶۸ح، ۲۷۷، ۲۸۲، ۳۴۳، ۳۵۱، ۲۸۳، ۳۳۲، ۴۷۶ تا ۴۷۸، ۶۱۳، ۶۴۸ اسلام میں تفاؤل کے طور پر انبیاء کے نام رکھنے کا رواج جیسے موسیٰ، عیسیٰ وغیرہ ۳۴۱ انجیل میں بعض اشارے کہ آپ بھی جورو کرنے کی فکر میں تھے مگر تھوڑی عمر میں اٹھائے گئے ۲۸۳ح آپ کا کہنا کہ وہ نبی میرے نام پر آئے گا.حدیث کی رو سے اس کی تصدیق ۳۴۳ اوائل میں ۷۲ آدمیوں کے مرتد ہونے کی و جہ ۳۵۵ آپ کا فاحشہ کے گھر جانا اور اس کا عطر استعمال کرنا ۵۹۷ جب آپ گرفتار ہوئے تو شدید گرمی کا مہینہ تھا ۱۱۷ح وہ شہب ثاقبہ جو مسیح کی گرفتاری کے بعد ظاہر ہوئے قیاساً ان کی ابتداء جون کے مہینہ میں ہوئی ہو گی ۱۱۶،۱۱۷ح آپ کی گرفتاری کے بعد پہلے شہب گرے پھر ایک زمانہ آتش ایک سال تک آسمان میں دکھائی دیا ۱۱۴ح
احادیث میں ابنِ مریم کے ذکر کی و جہ ۳۷۹ مسیح سے قبل ایلیاء کے آنے کا واقعہ ۳۸۰ یہود کا آپ پر تہمتیں لگانا ۳۴۲ معراج کی رات نبی کریمؐ نے آپ کو یحییٰ کے ساتھ دیکھا ۶۱۱ آپ کی روحانیت کا دو مرتبہ قائمقام کو طلب کرنا ۳۴۲ انجیل یوحنا میں آپ کا قول کہ قیامت اور زندگی مَیں ہوں ۱۹۹ آپ قیامت کا ہرگز نمونہ نہ تھے ۲۰۴،۲۲۳ آپ کا اپنے حواریوں کو نفسانی قبروں میں چھوڑنا ۲۲۱ آپ کے ماننے والوں کا استقامت اور ایمانداری کا بہت بدنمونہ دکھلانا ۲۰۱ مسیح کا خود حواریوں کو سست اعتقاد اور بعض کو شیطان کے لفظ سے یاد کرنا ۲۰۳ الٰہی صداقت اور ربانی توحید کے پھیلانے میں آپ کا سب انبیاء سے زیادہ ناکام رہنا ۲۰۰ خوارق اور اقتداری معجزات آنحضورؐ اور مسیح کے اقتداری خوارق کا مقابلہ ۶۷،۶۸ آپ کے اقتداری معجزات کو دیکھ کر عیسائیوں کو آپ کو ابن اللہ قرار دینا ۶۷ حضرت مسیح کی چڑیوں کی حقیقت ۶۸ حواریوں کا آپ سے مائدہ کا نشان مانگنا ۳۵۰ آپ کا انجیر کی طرف دوڑنا جبکہ پھل نہیں تھا ۱۱۶ پادریوں کا آپ کی شان میں غلو اور نبی کریمؐ کی شان میں گستاخیاں کرنا ۴۲۶ آپ پر مال حرام کی تہمت کا لگایا جانا ۶۰۰ مولویوں کا بات بات میں حضرت عیسیٰ کو بڑھانا اور نبی کریمؐ کی توہین کرنا ۱۱۰ عیسائیوں کا اعتقاد کہ روح القدس آپ سے کبھی جدا نہیں ہوا ۷۵ مولویوں کا عقیدہ کہ روح القدس ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتا تھا اور آپ مسِ شیطان سے پاک تھے ۴۹ح،۷۵ ،۱۱۰ آپ کی حیات کا مسئلہ عیسائیت کے لئے ایک ستون ہے جس سے افضل البشر ہونا ثابت ہوتا ہے ۴۱ حیات کے عقیدہ سے شرک کا لازم ہونا ۴۴ وفاتِ مسیح فوت ہو چکے اور اپنے بھائی انبیاء کی طرف رفع ہونا ۳۸۷ خدا کا اپنے کلام میں وفات کی تاکیدکرنا اس کی و جہ ۴۵ قرآن کریم سے آپ کی وفات کے دلائل ۴۲،۴۳۳،۴۴۴ قرآن و حدیث سے آپ کی وفات کے دلائل ۳۷۷ ۳۷۸، ۴۳۰،۴۳۱،۵۶۱ صحاح میں ذکر کہ مسیح فوت ہو کر یحییٰ کے پاس ہیں ۴۳۱ نبی کریم ؐ کا بارہ مستحکم دلیلوں سے آپ کی وفات کا سمجھانا ۴۶ قرآن میں وفات مسیح کا خاص طور پر ذکر نہ کرنے کی و جہ۴۵ نزولِ مسیح مسیح کے نزول کی حقیقت ۲۵۴، ۳۴۱،۴۳۹،۴۴۱ ۲۵۶،۵۵۲،۵۵۳ مسیح کا تین بار مثالی نزول ۱.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ۲.مسیح موعود علیہ السلام ۳.جب شرک اور فساد ہو گا تو پھر مسیح کی روحانیت جوش میں آ کر جلالی طور پر اپنا نزول چاہے گی ۳۴۲تا۳۴۶ نزول مسیح امرِ غیبی تھا اللہ نے جیسے چاہا کر دیا ۴۰۴ اس وہم کا جواب کہ نزول کے لئے صرف مسیح کو کیوں مخصوص کیا گیا ۳۴۶ نزولِ مسیح کے راز سے خدا نے مجھے آگاہ فرمایا ہے ۴۰۵،۵۵۲ مسیح کے دمشق کے منارہ پر نزول کی حقیقت ۴۵۶ دس سال تک حقیقتِ نزول کے اخفاء کی وجہ ۵۵۱ جدید ایجادات جو قرآن میں مذکور ہیں لیکن ان کا فہم نہیں تھا اسی طرح تم نزولِ مسیح کے راز کو نہیں سمجھ سکے ۴۷۷
میرے پر کشفاً کھولا گیا کہ حضرت مسیح کی روح ان افتراؤں کی و جہ سے جو اِس زمانہ میں کیے گئے ہیں اپنے مثالی نزول کے لئے شدت جوش میں تھی ۳۴۱ کشفاً ظاہر ہونا کہ عیسائی قوم کی ضلالت کی خبر سن کر حضرت عیسیٰ ؑ کی روح کا روحانی نزول کے لئے حرکت میں آنا ۲۵۴ آنے والے موعود کی(عیسیٰ) ابن مریم کے نام سے آنے کی و جہ ۳۴۵، ۳۶۷،۳۷۹،۴۳۵، ۴۳۹ مجدد وقت کے مسیح کے نام پر آنے کی و جہ ۲۵۴ عیسیٰ کے اس امت میں سے ہونے کے عقیدہ کے مخفی رہنے کی دو مصلحتیں ۴۲۶ مسیح موعود علیہ السلام(نیز دیکھئے حضرت مرزا غلام احمدؑ ) احادیث میں مسیح کے ظہور کی علامات ۲۶۹،۳۷۸ نبی کریم ؐ کی مسیح کے بارہ میں پیشگوئیاں ۲۱۶تا۲۱۸ پیشگوئی ظہور مسیح موعود میں اخفا رکھنے کی دو مصلحتیں ۴۲۷ مسیح کا دمشق کے میناروں پر اترنے سے مراد ۲۱۸،۴۵۶ آسمان سے اترنے کا مطلب ۲۶۸ح مسیح کے کسرِ صلیب کی حقیقت ۴۶۰ مسیح موعود کے پیدا ہونے کا زمانہ اور اس کی علامتیں ۲۶۸ ایک حدیث میں مسیح کو مہدی کے لفظ سے موسوم کیا جانا ۲۱۷ رجل فارسی دوسری حدیث میں مہدی کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ۲۱۷ دجال کی طرح اس کاظہور بھی بلادِ شرقیہ میں ہو گا ۲۱۷ آخری زمانہ میں آنے والا ایک زمیندار ہو گا ۳۰۳ احادیث کی رو سے مسیح موعود پر کفر کا فتویٰ ہو گا ۲۱۵ صدہا اولیاء کا الہام سے گواہی دینا کہ چودھویں صدی کا مجدد مسیح موعود ہو گا ۳۴۰ وہ ظاہری بادشاہ نہیں ہو گا ۲۷۰ اسے کسی شیخ کی بیعت کی ضرورت نہیں ۴۰۹ علماء کا خاموش رہنا جب ان سے پوچھا جائے کہ بجز میرے اور کون مسیح موعود ہونے کادعویدار ہے ۳۴۰ اس زمانہ کے مجدد کا نام مسیح موعود رکھے جانے کی و جہ ۳۴۱ مسیح موعود ہونے کا دعویٰ مسئلہ حیات و وفات مسیح کی فرع ہے ۳۳۹ مسیح موعود کی خلافت روحانی ہے ۲۷۱ آسمانی انوار اور نوادرات کا مظہر ۴۸۰،۴۸۱ آسمانی علوم کے ساتھ نازل ہونا ۴۰۹ حکما عدلا کے طور پر آئے گا ۴۳۰ حدیث میں مذکور مسیح کی شادی اور اولاد سے مراد ۵۷۸ح خدا تعالیٰ کی طرف سے تجدید دین کا دعویٰ ۳۰ فتح الاسلام، توضیح مرام اور ازالہ اوہام میں مثیل مسیح کے مرتبہ کا الہام کی روشنی میں ذکر ۳۰ مثیل مسیح ہونے میں کوئی اصلی فضیلت نہیں اصلی اور حقیقی فضیلت ملہم من اللہ اور کلیم اللہ ہونے میں ہے ۳۴۱ مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ حسب الہام اور القاء ربانی تھا ۳۰ مَیں خلیفۃ اللہ اور مامور من اللہ اور مجددِ وقت اور مسیح موعود ہوں ۳۲۲، ۴۲۳ مجھے مسیح کا نام عیسائی قوم کی وجہ سے دیا گیا ۳۶۷ نبی کریم ؐ کی قبر میں دفن ہونے سے مراد ۵۷۸ح آخری زمانہ مسیح موعود کا زمانہ ہے ۲۱۳،۲۱۴ آنے والے مسیح کی ابن مریم کے نام سے آنے کی و جہ ۳۴۵، ۳۶۷،۳۷۹،۴۳۵، ۴۳۹ اس اعتراض کا جواب کہ کیا ساری امت غلطی پر رہی اور سمجھ نہ سکی ۴۵۵ اس اعتراض کا جواب کہ مسیح نے دمشق کے منارہ پر اتر کر دشمنوں سے لڑنا تھا اور دجال کو قتل کرنا تھا ۴۵۶ مظاہر الحق، منشی ۶۲۴ مظفر الدین، منشی ۶۲۵ مظفر اللہ، میاں ۶۲۳ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ۱۳۷ح
معاویہؓ آپ اور آپ کے گروہ کی معراج اور رویت باری کے بارہ میں دوسرے صحابہ کی نسبت اور رائے تھی ۲۵۹ معراج الدین، سید ۶۲۹ معین الدین چشتی مرشد سے ملاقات کے لئے سفر کرنا ۶۰۷ معین الدین، حافظ ۶۲۱ منظور محمد، پیر ۶۱۸ موسیٰ علیہ السلام۳۹،۲۷۵ح،۲۷۷،۲۸۳، ۳۳۲، ۳۴۳، ۳۴۷، ۳۷۷، ۶۱۰، ۶۴۲، ۶۴۸ آپ کا عصا باوجود کئی دفعہ سانپ بننے کے آخر عصا ہی رہا۶۸ آپ کی امت کی ابتر حالت ۳۴۶،۳۴۷ مصریوں کے برتن اور پارچات مانگ کر لے جانا اور پھر تصرف میں لانا ۵۹۷،۵۹۸ مولا بخش بوٹ فروش ۶۱۶ مولا بخش، میاں، کلرک اگزیمنر ۶۱۸ مولا داد، میاں ۶۲۳ مہدی ایک حدیث میں مسیح کو مہدی کے لفظ سے موسوم کیا جانا ۲۱۷ رجل فارسی دوسری حدیث میں مہدی کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ۲۱۷ مہر دین زمیندار، میاں ۶۲۱ مہر شاہ، فقیر ۶۲۴ مہر علی رئیس ہوشیار پور ، شیخ ۳۱۲، ۶۴۸،۶۵۳،۶۵۶ حضرت اقدس کا بذریعہ خط ایک انذاری خواب لکھنا کہ ان کی مصیبت آپ کی دعا سے کی جائے گی.خواب کی تکمیل پر شیخ صاحب کا خط ملنے سے انکار کرنا اور ان کے متعلق ایک نئی رؤیا۶۵۳ ان کاحضرت اقدسؑ کے خط کو یاد کر کے آپ کے سامنے رونا ۶۵۵ مہر علی، میاں ۶۲۲ میاں محمد ٹپ گر ۶۳۵ میراں بخش، شیخ ۶۵۵ح میراں بخش، میاں ۶۲۹ ناصر نواب دہلوی،میر ۵۸۲ح،۶۴۴،۶۲۴،۶۳۲ جلسہ سالانہ کی کیفیت بیان کرنا اور باوجود مخالفت کے آپ کا بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہونا ۶۳۷ نبی بخش پٹواری ۳۰۰ نبی بخش، شیخ ۶۲۷ نبی بخش، منشی ۶۳۳ نبی بخش، میاں ۶۲۶ نبی بخش نمبردار، مہر ۶۲۲ نتھو، میاں // نجم الدین، حافظ ۶۲۰ نجم الدین، میاں ۶۱۶ نذیر حسین دہلوی، میاں ۹۲ح، ۶۱۱ اول المکفرین ۳۱ سطحی خیالات کے آدمی ۳۱ موت کے قریب فتویٰ کفر لکھنا ۳۰۹ جزوی اختلاف کی بناء پر کسی کا نام اکفر رکھنا ۲۵۹ اس اعتقاد کے مخالف کہ ہر انسان کو دو قرین دیے گئے بلکہ صرف ایک قرین داعی الی الشر دیا گیا ہے ۹۰ ان کے نام مباہلہ کے اشتہار کا شائع کیا جانا ۲۶۰ مباہلہ کے پہلے مخاطب ۲۶۱ نظام الدین، مرزا حضرت اقدسؑ کی پیشگوئی پر مشتمل مضمون کو خود ہی شائع کر دینا ۲۸۷،۲۸۸ نظام الدین، چوہدری (کلوی) ۶۲۴ نظام الدین، مولوی( رنگ پور) ۶۱۹،۶۳۲ نظام الدین، میاں (تھہ غلام نبی) ۶۲۲ نظام الدین، میاں(جہلم) ۶۱۷،۶۳۳
نظام الدین صحاف، میاں ۶۱۸ نظام الدین، میاں (کپور تھلہ) ۶۲۵ نظام الدین، میاں (لودھیانہ) ۶۱۹ نواب خان، منشی ۶۲۷ نواب زمیندار، چوہدری ۶۲۴ نواب شاہ، سید ۶۱۶ نواس بن سمعانؓ ۱۰۶،۱۰۷ نور احمد، حافظ ۶۱۸،۶۳۳ نور احمد مہتمم، شیخ ۶۲۷،۶۳۵ نور احمد، میاں ۶۲۷ نور احمد رئیس، شیخ ۶۲۲ نور احمد زمیندار، شیخ(گورداسپورہ) ۶۲۱،۶۳۵ نور احمد زمیندار، میاں ۶۲۴ نور احمد، قاضی ۳۱۹ نور دین، میاں،طالبعلم ۶۱۷ نور الدین، خلیفہ ۶۲۷،۶۳۲ نور الدین، میاں ۶۲۶ نور الدین اجوئی، میاں ۶۲۴ نور الدین، مولوی، حکیم ۲۹۱،۶۰۳،۶۰۶،۶۱۶، ۶۳۷ آپ کے اوصافِ حمیدہ کا ذکر ۵۸۲ آپ پر ہمدردی اسلام اس قدر غالب ہے کہ انتشار نورانیت سماوی سے مشابہ ہے ۱۸ آپ کی کتب میں پائی جانی والی خوبیاں ۵۸۳ آپ کی دو کتابوں کا ذکر اور ان کی خوبیاں ۵۸۴ اگر مولوی صاحب قرآنی معارف بیان کریں تو اس کے مقابل بٹالوی صاحب عاجز آ جائیں گے ۵۹۹،۶۰۰ جلسہ سالانہ میں آپ کی تقریر ۶۱۳ نور ماہی، میاں ۶۲۲ نور محمد صاحب زمیندار ۶۲۰،۶۳۵ نور محمد ، میاں ۶۲۰ وزیر الدین، مولوی ۶۲۹ وزیرا، میاں ۶۲۸ وکٹوریہ، ملکہ (قیصرۂ ہند) ۵۱۷ قیصرہ عادلہ کے احسانات کا تشکر ۱۹،۲۰،۵۱۷، ۵۲۰ ، ۵۲۱ مسلمانانِ ہند کے دل قیصرہ کے ساتھ ہیں ۵۳۶ زمانہ مٹ جائے گا مگر قیصرہ کا ذکر منقطع نہیں ہو گا ۵۲۸ قیصرہ کو مسلمانوں کا خیال رکھنے کی نصیحت ۵۳۵،۵۳۷ قیصرہ کے آنے سے قبل مسلمانوں کی حالت زار ۵۱۸ قیصرہ اسلام کے پروں میں سے ایک پر ہے اور آثار اسلام کی محافظ ہے ۵۲۴ ملکہ میں پائے جانے والے کمالات ۵۲۸ ملکہ کے ذریعہ مسلمانوں کے خوف کا امن میں بدلا جانا ۵۲۰ مسلمانوں کو اشاعت اسلام میں آزادی دینا ۵۲۱ قیصرہ کے قانون میں پادریوں اور مسلمانوں کے حقوق برابر ہیں ۵۲۵ ملکہ کے فیض کے آثار ۵۲۶ انگریزوں کے آنے سے قبل مسلمانوں کی حالت ۵۱۸ مسلمانوں کے بالمقابل ہندوؤں کو اعلیٰ مناصب نہ دیے جائیں کیونکہ وہ قوم ان کی غلام رہی ہے ۵۳۹ معروف امور میں قیصرہ کی نافرمانی کسی مومن مرد و عور ت کے لئے جائز نہیں ۵۲۲ قیصرہ کو اسلام کی دعوت ۵۲۹،۵۳۰ ملکہ کو اسلام کی صداقت کے دلائل دکھانے کے لئے حضرت اقدسؑ کا اپنے آپ کو پیش کرنا ۵۳۳ قیصرہ کے لئے دعا ۵۱۷، ۵۲۶،۵۳۴ ولی محمد، شیخ ۶۲۷ ولی محمد، میاں ۶۲۳ ہادی ، سید ۵۸۲ح ہادی بیگ،میرزا ۵۴۲
ہاشم علی، منشی(سنور) ۶۱۹،۶۳۲ ہاشم علی ، منشی (سوہلا) ۶۲۱ ہاشم علی، میاں ۶۲۱ ہمیرا ، میاں ۶۲۰ یحییٰ علیہ السلام ۲۷۷،۳۸۰،۳۸۷،۶۱۳ یعقوب علیہ السلام ۱۷۳، ۲۸۳،۳۴۳،۶۴۸ یوسف علیہ السلام ۲۳۵ح، ۳۴۳،۴۵۳، ۵۴۵ یونس بن متّٰی علیہ السلام ۱۶۳
مقامات ا، ب ،پ،ت،ٹ اٹاوہ ۶۲۴ اجوئی (ضلع گورداسپور) ۶۲۴ احمد آباد ۶۱۷ اسلام پور (قادیان) ۵۰۰ افغانستان ۳۶۴ ام القرٰی (مکہ مکرمہ) ۳۶۵،۴۲۷ امرتسر ۲۸۵،۲۹۷،۳۱۰،۵۴۲، ۶۲۶ تا ۶۲۸، ۶۳۵ ۶۴۱، ۶۵۵ح امروہہ ۶۱۸ امریکہ ۲۲۲ شہب کے گرنے کا اخبارات میں حیرت سے ذکر ۱۱۰ح فلاسفروں کا خدا کی تخلیق میں حصہ لینے کی کوششیں ۳۴۴ ۱۸۹۲ء کے جلسہ میں طے پانا کہ ان کے لئے عقائد اسلام کے متعلق ایک رسالہ شائع کر کے بھجوایا جائے ۶۱۵ انبالہ ۶۱۸،۶۲۰،۶۲۴،۶۳۴ انبالہ چھاؤنی ۶۵۳ اودھ ۶۴۱ اولی والہ (امرتسر) ۶۲۸ ایران ایران کے پیرزادوں ، فقیروں اور صوفیوں وغیرہ کے لئے رسالہ ’’التبلیغ‘‘ کا لکھنا ۳۵۹ ایشیا ۲۲۲ بازید چک ۶۲۱ باغبانپورہ ۶۲۶ بانگر (پٹیالہ) ۶۳۳ بٹالہ ۳۱،۲۹۰،۲۹۱،۳۰۰،۳۰۴ ، ۳۰۸تا ۳۱۰، ۳۲۳ ۶۱۱،۶۲۱تا ۶۲۴، ۶۲۹، ۶۳۵ بُٹر کلاں(تحصیل بٹالہ) ۶۲۱ بدو ملہی(ضلع سیالکوٹ) ۲۹۱،۶۱۷،۶۳۳ برطانیہ یاجوج ماجوج سے مراد روس اور برطانیہ کی اقوام ہیں ۴۶۰ برنالہ (پٹیالہ) ۶۱۹ بریلی ۶۲۸ بلانی(ضلع گجرات) ۶۲۰ بمبئی ۵۸۱ح، ۶۱۸، ۶۴۱ بند (امرتسر) ۶۲۷ بوتالہ(ضلع گوجرانوالہ) ۶۲۰ بھاگو رائیں(ریاست کپور تھلہ) ۶۲۵ بہو مگہ(ضلع گورداسپور) ۶۲۴ بہوی وال (ضلع گورداسپور) ۶۲۴ بھیرہ (ضلع شاہ پور) ۶۱۶، ۶۱۹، ۶۲۹ بیبل چک(ضلع گورداسپور) ۶۲۲ پٹی (ضلع لاہور) ۶۲۶ پٹیالہ ۳۱۴،۶۱۸ تا ۶۲۰، ۶۲۴،۲۶۵، ۶۲۹، ۶۳۳، ۶۳۵ پشاور ۶۲۱،۶۴۱ پنجاب ۳۶۰، ۴۹۹، ۶۱۵، ۶۴۳،۶۵۳، ۶۵۷ پنجاب کے پیرزادوں ، فقیروں اور صوفیوں وغیرہ کے لئے رسالہ ’’التبلیغ‘‘ کا لکھنا ۳۵۹ ترکستان ترکستان کے پیرزادوں ، فقیروں اور صوفیوں وغیرہ کے لئے رسالہ ’’التبلیغ‘‘ کا لکھنا ۳۵۹ تکیہ سادھواں(لاہور شہر) ۶۲۶ تہال(ضلع گجرات) ۶۲۰ تہنگ (ضلع گجرات) ۶۲۰ تھہ غلام نبی (ضلع گورداسپور) ۶۲۱ تا ۶۲۳،۶۳۳ ٹہیراں(ضلع گورداسپور) ۶۲۳ ج، چ، ح،خ جالندھر، ضلع ۶۲۴،۶۲۸ جرمنی ۲۷۰ جسووال (ریاست پٹیالہ ضلع لدھیانہ) ۶۲۰،۶۳۵ جلال پور (ضلع گجرات) ۶۲۰،۶۳۵ جلال پور جٹاں ،ضلع ۶۳۴ جمال پور (ضلع لدھیانہ) ۶۱۸،۶۳۳۶۱۹،۶۳۴ جموں ۶۱۸، ۶۲۷، ۶۳۲،۶۳۴، ۶۴۱ جنڈ ماجہہ(ضلع گورداسپور) ۶۲۱ جہلم، ضلع ۶۱۷،۶۱۸،۶۳۴،۶۳۵ جھنگ ۶۲۰ جیگن(ضلع لدھیانہ) ۶۱۸ چچ پُہگلی کالے چوکے( ممبئی) ۶۱۸ چکوال (ضلع راولپنڈی) ۶۱۷ چمارو (ریاست پٹیالہ) ۶۲۰ چینیاں والی مسجد (لاہور شہر) ۶۰۶ حاجی پور (ریاست کپور تھلہ) ۵ ۶۲ خانپور (ریاست پٹیالہ) ۶۱۹، ۶۵۵ح خانہ کعبہ ۶۰۶ خَیر دی گاؤں ۶۳۸ د، ر،س، ش دسوہہ ۶۵۵ح دفر والہ (ضلع گورداسپور) ۶۲۳ دمشق لفظ دمشق کے مختلف معانی ۴۵۷ احادیث کی رو سے دمشق کے شرقی کنارے مسیح کے نزول کی حقیقت ۴۵۶ تا ۴۵۹ دہلی ۳۱۴،۶۱۱،۶۳۴۶۲۴ راجپوتانہ ۶۲۰ رام دیوالی (ضلع امرتسر) ۶۲۸ راولپنڈی ۶۱۷،۶۲۶ رنگ پور(ضلع مظفر گڑھ) ۶۱۹ روس ۲۷۰ یاجوج ماجوج سے مراد روس اور برطانیہ کی اقوام ہیں ۴۶۰ دعاکرو کہ اللہ قیصرہ کی روس منحوس کے خلاف مدد کرے۵۲۶ روم روم کے پیرزادوں ، فقیروں اور صوفیوں وغیرہ کے لئے رسالہ ’’التبلیغ‘‘ کا لکھنا ۳۵۹ رہتاس(ضلع جہلم) ۶۱۷،۶۱۸،۶۳۴،۶۳۵ ریاض ہند پریس (قادیان) ۶۰۶، ۶۳۰، ۶۵۲، ۶۵۶ سرساوہ (ضلع سہارنپور) ۶۲۶ سرہند ، تحصیل ۶۱۹،۶۲۸،۶۳۴ سری گوبند پورہ(ضلع گورداسپور) ۶۲۲،۶۲۳ سری نگر (ضلع جموں) ۶۲۷ سمرقند ۴۹۹ سنام (پٹیالہ) ۶۱۹ سنور (پٹیالہ) ۶۳۲ سہارنپور ۶۲۶ سیالکوٹ ۲۳۰،۳۱۴،۶۱۶،۶۱۷، ۶۳۴،۶۳۵،۶۴۱ سیالکوٹ چھاؤنی ۶۱۷ سیکھواں(ضلع گورداسپور) ۶۲۳،۶۲۴،۶۳۴ شام ۴۵۶، ۴۸۸ شاہ آباد(ضلع ہردوئی) ۶۲۷ شاہ پور( ضلع سرگودھا) ۶۱۶ شاہجہان آباد(ضلع مالیرکوٹلہ) ۶۲۸ شملہ ۶۱۱ شیر پور(ضلع فیروزپور) ۶۲۹ ط، ع، غ، ف طائف آنحضرت ؐ کے وقت کثرت سے شہب گرنے پر اہلِ طائف کا بہت ڈرنا ۱۰۵ح عالم پور(ضلع گورداسپور) ۶۲۴ عرب ۴۸۵،۴۸۸ عرب کے لوگوں میں کاہنوں کے اثرات ۱۰۴،۱۰۵ح عرب کے کاہنوں کے نزدیک شہب کا کثرت سے گرنا نبی کے پیدا ہونے کی دلیل ہے ۱۰۶ح عرب کے لوگوں کی نبی کریم ؐ سے قبل حالت ۲۰۵،۲۰۷ عرب کے پیرزادوں ، فقیروں اور صوفیوں وغیرہ کے لئے رسالہ ’’التبلیغ‘‘ کا لکھنا ۳۵۹ علیگڈھ ۲۴۷ح،۶۲۸ غوث گڈھ(ریاست پٹیالہ) ۶۲۰،۶۳۵ فارس ۲۲۰ اس کے پیرزادوں ، فقیروں اور صوفیوں وغیرہ کے لئے رسالہ ’’التبلیغ‘‘ کا لکھنا ۳۵۹ فرانس ۲۷۶ فیروز پور ۵۱۳،۶۲۹ فیض اللہ چک(ضلع گورداسپور) ۶۲۳ ق، ک گ، ل ، م قادر آباد(ضلع گورداسپور) ۶۲۳ قادیان ۲۹۷،۳۱۰، ۳۱۶، ۵۰۰، ۵۴۲، ۶۰۵، ۶۰۶، ۶۱۲، ۶۱۵، ۶۲۳، ۶۲۴، ۶۳۰تا ۶۳۲، ۶۳۴، ۶۳۷، ۶۴۲، ۶۵۱، ۶۵۶، ۶۵۷ قادیان میں سکھوں کے دور میں قرآن کے ۵۰۰ نسخے جلا دیے گئے ۵۰۷ کپور تھلہ ۶۲۵، ۶۴۱ کٹھالہ (ضلع گورداسپور) ۶۲۲ کرنال، ضلع ۶۲۴ کڑہ آہلو والیہ(امرتسر) ۶۲۷، ۶۳۵ کڑہ کرم سنگھ(//) ۶۲۶، ۶۲۷ کڑہ موتی رام(//) ۶۲۸ کڑیانوالہ(ضلع گجرات) ۶۱۷ کشمیر ۵۴۳، ۶۱۸،۶۲۷،۶۴۱ کلانور (ضلع گورداسپور) ۶۲۱ کلوی(//) ۶۲۴ کنعان ۴۵۷ کوٹ قاضی(ضلع گوجرانوالہ) ۶۲۰ کوٹلہ فقیر(ضلع جہلم) ۶۱۷ کوٹلہ فیل باناں(پشاور) ۶۲۱ کولیان(ضلع گورداسپور) ۶۲۴ کھارا (//) ۶۳۵ کھاریاں(ضلع گجرات) ۶۲۰ کُہریس پورہ (ضلع انبالہ) ۶۲۰ گجرات ۶۱۶، ۶۱۷، ۶۲۰، ۶۲۱ گرایانوالہ(ضلع گورداسپور) ۶۲۲ گوجرانوالہ ۲۹۱،۶۲۰،۶۲۷،۶۲۸ گورداسپور، ضلع ۲۸۵،۲۹۸، ۵۴۲، ۶۱۳،۶۲۱ تا ۶۲۴ ۶۳۳ تا ۶۳۵، ۶۳۷، ۶۵۷ گوہلہ(ضلع کرنال) ۶۲۴ گہنواں(تحصیل سرہند) ۶۳۴ لاہور ۳۱۰، ۳۱۴، ۳۱۶، ۶۰۶، ۶۱۸، ۶۱۹، ۶۲۱، ۶۲۵ ۶۲۶، ۶۳۲، ۶۳۳، ۶۴۱ لدھیانہ ، ضلع ۳۰۰، ۳۱۴، ۶۱۸، ۶۱۹، ۶۳۱، ۶۳۳، ۶۳۵ ۶۴۱، ۶۴۷، ۶۵۵ لنگے منڈی(ضلع لاہور) ۶۲۶ ماچھی واڑہ (ضلع لدھیانہ) ۶۱۹،۶۳۲ مالیر کوٹلہ ۵۸۲، ۶۱۶، ۶۲۶، ۶۲۸، ۶۳۱،۶۳۲،۶۳۴، ۶۳۸ مدینہ منورہ ۱۲۳ مدینہ سے ہندوستان سمت مشرق میں واقع ہے ۲۱۸ مراد آباد، ضلع ۶۱۸ مصر ۱۶۷، ۳۶۴، ۴۸۸ مظفر گڑھ، ضلع ۶۱۹ مکہ مکرمہ ۱۲۳، ۳۶۵ح، ۶۲۰،۶۴۱ مکیریاں(ضلع ہوشیار پور) ۶۲۹ ملول پور(ضلع گورداسپور) ۶۲۴ منی پور (آسام) ۵۸۱ح ن، و، ہ، ی نابھہ، ریاست ۶۲۸ نگیال (ریاست جموں) ۶۲۷ نندو وال (ضلع گجرات) ۶۲۰ ننگل(ضلع گورداسپور) ۶۲۱ نواں پنڈ (//) ۶۲۲ نوشہرہ(ضلع سیالکوٹ) ۶۱۷،۶۳۴ وزیر آباد (ضلع گوجرانوالہ) ۶۲۷ وزیر چک(ضلع گورداسپور) ۶۲۳ ہردوئی، ضلع ۶۲۷ ہندوستان ۳۶۰، ۳۶۴، ۳۹۰، ۴۷۳، ۴۸۵، ۴۹۹ ۵۳۶، ۵۴۲، ۶۱۵ مدینہ سے ہندوستان سمت مشرق میں واقع ہے ۲۱۸ احادیث کے مطابق دجال کا یہاں پیدا ہونا ۲۱۸ مسلمانوں کا ہندوستان پر ایک ہزار سال حکومت کرنا ۵۳۶ مدینہ کے پیرزادوں ، فقیروں اور صوفیوں وغیرہ کے لئے رسالہ ’’التبلیغ‘‘ کا لکھنا ۳۵۹ ہوشیار پور ۶۲۹،۶۴۷،۶۴۸،۶۵۳ یثرب (مدینہ منورہ) ۵۶ یورپ ۲۲۲،۲۷۰،۴۷۵ یورپ کے لوگوں کو وہ ستارہ جو مسیح کے وقت میں نکلا تھا دکھائی دینا ۱۱۱ح آج کل کے یورپین ہیئت دانوں کا آسمان کے بارہ میں بیان قرآنی بیان کے مخالف نہیں ہے ۱۳۸ح ح یورپ کے ہیئت دانوں کی کائنات الجو کے بارہ میں پیشگوئیاں مگر ان کا جھوٹا نکلنا ۱۱۸ح یورپ کے ہیئت دانوں کا حیرت سے ۲۷؍ نومبر ۱۸۷۵ء کے شہب ثاقبہ کا ذکر کرنا ۱۲۱ح شہب کے گرنے کا اخبارات میں حیرت سے ذکر ۱۱۰ح گناہ کی موت کے لئے یورپ کی سیر کرو ۲۰۴ فلاسفروں کا خدا کی تخلیق میں حصہ لینے کی کوششیں ۳۴۴ ۱۸۹۲ء کے جلسہ میں طے پانا کہ ان کے لئے عقائد اسلام کے متعلق ایک رسالہ شائع کر کے بھجوایا جائے ۶۱۵ یونان اس زمانہ میں ان کی اکثر تحقیقات پر ہنسا جاتا ہے ۱۱۴ح یونانیوں کا آسمان کے بارہ میں تصور ۱۳۸ح ح، ۱۴۰ح ح موجودہ فلسفہ اور سائنس کی بلا اس بلا سے ہزار درجہ شدید ہے جو یونانیوں کے علوم سے اسلامی ملکوں میں پھیلی۲۶۳ح
کتابیات آ، ا، ب،ت آئینہ کمالات اسلام(نیز دیکھیے دافع الوساوس)۳۳۱،۵۶۳ اس کی کتاب کی وجۂ تالیف ۱۱،۶۵۲ ایک مقدمہ اور تین باب اور ایک خاتمہ پر مشتمل ۲۹ وہ طریق جس سے اس کتاب میں علماء کے اوہام اور الزامات کے جوابات دیے گئے ہیں ۲۲ اس کتاب میں برکت کے لئے دعا ۱۲ اس کتاب کی تالیف کے دوران دو مرتبہ نبی کریم ؐ کی زیارت ہونا ۶۵۲ مباہلہ کی درخواست کو اس کتاب کے ساتھ شائع کرنے کا سبب ۳۳۲ اس کتاب کے متعلق حضرت اقدس ؑ کا کشف ۶۵۲ اس کتاب کی خوبیوں کے متعلق اشتہار ۶۵۲ کتاب کی تفصیل خطبہ ۱ مقدمہ ۳۰ اخبار نور افشاں ۱۰ مئی ۱۸۸۸ء کے ایک مضمون کا جواب ۲۷۹ پیشگوئی از وقوع کا اشتہار ۲۸۱ خط بخدمت محمد حسین بٹالوی اور اس کے بعض افتراؤں کا جواب، بٹالوی کا خط اور اسکا جواب الجواب ۳۸۹ نواب محمد علی خان صاحب کا خط اور اسکا جواب الجواب ۳۵۷ فارسی نظم: چوں مرا نورپئے قوم مسیحی دادہ اند ۳۵۸ التبلیغ ۳۵۹ مشائخ ہند، متصوفہ افغانستان، مصر وغیرہ ممالک کے نام عربی زبان میں تبلیغی خط ۳۶۴ مشائخ عرب اور صلحاء کے نام عربی خط ۴۱۹ عربی زبان میں خط لکھنے کی وجہ ۳۶۲ تتمہ: اپنے بعض سوانح اور اللہ کے احسانات کا تذکرہ ۴۹۸ دولت برطانیہ اور قیصرہ ہند کا ذکر ۵۱۷ الخاتمہ: اپنے اور آباء کے حالات، بعض دینی بھائیوں کا ذکر ۵۴۰ دو عربی قصائد ۵۹۰ محمد حسین بٹالوی کے ایک پرچہ کا جواب ۵۹۷ ایک روحانی نشان (حضور کی صداقت کے متعلق) ۶۰۲ اشتہار: قیامت کی نشانی ۶۰۵ کیفیت جلسہ ۲۷؍ دسمبر ۱۸۹۲ء ۶۱۳،۶۳۷ اشتہار: ناظرین کی توجہ کے لائق ۶۲۹ اشتہار ضروری ۶۳۱ فہرست چندہ دہندگان بر موقع جلسہ سالانہ ۶۳۲ اشتہار: قابل توجہ احباب ۶۳۶ ضمیمہ اخبار ریاض ہند امرتسر یکم مارچ ۱۸۸۶ء ۶۴۵ لیکھرام پشاوری کی نسبت ایک پیشگوئی ۶۴۹ اشتہار کتاب آئینہ کمالات اسلام ۶۵۲ اشتہار:شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور ۶۵۳ اشتہار: (متعلق براہین احمدیہ) ۶۵۷ اشتہار: (متعلق براہین احمدیہ بزبان انگریزی)آخری صفحات ابو داؤد ۱۱۳ ازالہ اوہام ۳۰، ۵۴۷ اشاعۃ السنۃ ۳۲۳،۳۲۵ انجیل عیسائیوں کا انجیل کے تراجم کرنا اور ان میں تبلیغ کے لئے ایک جوش ۳۴۷ محققین کی رائے کہ اس کی تعلیم کامل نہیں ۱۹۸
عیسائیوں کے ایک فرقہ کا انجیل کو توڑنا مروڑنا ۳۴۵ حضرت مسیح ؑ کا قول کہ اس زمانہ کے حرامکاروں کو کوئی نشان نہیں دیا جائے گا ۳۳۷ حضرت مسیح ؑ کا قول کہ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ مجھ کو نہ دیکھو گے اس وقت تک کہ تم کہو گے مبارک ہے جو خداوند کے نام پر آتا ہے ۳۴۲ انجیل یوحنا باب ۱۱ آیت ۶ میں ہے کہ قیامت اور زندگی مَیں ہوں ۱۹۹ باب ۱۶ میں ہے کہ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ تمہارے لئے میرا جانا فائدہ مند ہے ۳۴۲ بخاری، صحیح ۱۰۲، ۱۰۳،۱۹۴،۳۴۳،۳۷۸، ۴۵۶، ۴۵۹ ۴۶۶، ۵۵۶، ۵۶۶، ۶۰۰، ۶۰۵، ۶۰۷، ۶۰۸، ۶۱۰ براہین احمدیہ ۱۰۹ح،۳۱۱،۳۱۳،۳۴۹، ۵۵۱، ۵۶۳ یہ ایک ایسی نادر کتاب ہے کہ اس جیسی ماضی میں کبھی نہیں لکھی گئی ۵۴۷ اس الزام کا جواب کہ اس کتاب کی فروخت میں دس ہزار روپیہ خورد بُرد کر لیا ۳۰۶ براہین کے بقیہ حصہ کے جاری ہونے کی تجویز ۶۳۶ اس میں دینِ اسلام کی سچائی کا دو طرح سے ثبوت ۶۵۷ اسلام کی سچائی کے لئے تین قسم کے نشانات ۶۵۷ اس کے متعلق انگریزی زبان میں ایک اشتہار ۶۵۶، ۶۶۰ براہین احمدیہ حصہ پنجم زمین و آسمان کی پیدائش اور عرش وغیرہ کے بارہ میں اعتراضات کا جواب اس کتاب میں دیا جائے گا۲۱۲ح ح بائبل (بیبل) بائبل کی رو سے تعدد نکاح کا ثبوت ۲۸۳ تصدیق براہین احمدیہ ۵۸۴ تفسیر ابن جریر ۷۵ح فالمدبرات امرا سے مراد ملائک ہیں ۱۳۷ح تفسیر ابن کثیر ۷۵ح، ۱۰۴ ملائک کی نسبت روایات کہ مدبرات امرا سے مراد ملائک ہیں ۱۳۷ح تفسیر حسینی ۷۵ح، ۱۰۴، ۱۶۷ تفسیر عزیزی ۱۵۴ تفسیر کبیر ۷۵ح تفسیر مظہری ۱۰۴ توریت (نیز دیکھیے بائبل) کاذب کی پیشگوئی ہرگز پوری نہیں ہوتی ۳۲۶ استثناء کے مطابق پیشگوئی کا پورا ہونا صادق کی نشانی ہے ۲۸۰ جو شخص صلیب پر کھینچا جائے وہ لعنتی ہوتا ہے ۳۴۲ توضیح مرام(از حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۳۰، ۵۴۷ اس میں مفصل بحث کہ خدا نے عالم کا کاروبار چلانے کے لئے دو نظام رکھے ہیں ۱۲۵ح ج، چ، ح، د، ر،س،ش،ص جامع الاصول ۱۱۷ چشمہ نور امرتسر اس میں احمد بیگ کا ایک اشتہار شائع کروانا ۲۸۵ حجج الکرامہ آخریت ایں امت از ہدایت الف ثانی شروع گردید ۲۱۴ مہدی پر کفر کا فتویٰ دینے ولاے علماء سُو ہوں گے ۲۱۵ دافع الوساوس(نیز دیکھئے آئینہ کمالات اسلام) ۳۴۹ آئینہ کمالات اسلام کا دوسرا نام ٹائیٹل ان لوگوں کے لئے مفید جو اسلام کا حسن دیکھنا چاہیں ۵۴۷ مولوی عبدالکریم صاحب کا خط کہ اس کتاب میں فقراء اور پیرزادوں کے نام خط بھی ہونا چاہیئے ۳۵۹ رسائلِ توحید ۶۴۰
ریاض ہند، اخبار ۶۴۵ سدیدی نجوم کے جنین کی تکمیل میں تعلق پر مبسوط بحث ۱۸۶ح ح سراج منیر اس رسالہ کی تالیف کی غرض ۶۴۵ اس میں تین قسم کی پیشگوئیوں کا بیان ۶۴۵ سرمہ چشم آریہ(از حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۵۴۷ شرح اشارات حدوث شہب کا سبب ۱۱۲ح صحاح (جوہری) اس میں ظلم کے معنی کم کرنا لکھے ہیں ۱۶۶ صراح ( لغت عربی) اس میں ظلم کے معنی کم کرنا لکھے ہیں ۱۶۶ ف، ق، ک ، م، ن، و فتح اسلام (از حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۳۰، ۵۴۷ فتح البیان (تفسیر) ۷۵ح، ۸۹ح،۱۰۴ فتوحاتِ مکیہ زیر آیت احزاب ۶۲ ظلوم کو مقام مدح میں لکھنا ۱۶۷ فصل الخطاب(از حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ ) ۵۸۴ قاموس( لغت عربی) اس میں ظلم کے معنی کم کرنا لکھے ہیں ۱۶۶ کتاب الوفا ۱۱۷ کشاف، تفسیر ۷۵ح مدارج النبوۃ ۱۱۷،۱۱۹، ۱۲۴ آنحضرتؐ کے تمام کلمات و حدیث وحی خفی ہیں ۱۲۴ نزول جبرائیل کا تمثیلی ہے نہ کہ حقیقی ۱۲۰ صحابہ آنحضرتؐ کے ہر قول و فعل کو وحی سمجھتے تھے ۱۲۴ مسلم، صحیح ۸۰، ۸۱، ۱۰۳، ۵۵۶، ۶۰۸ معالم (التنزیل) ، تفسیر ۷۵ح ،۱۰۴ نشانِ آسمانی ( از حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۳۴۷ نور افشاں ۲۱۵ح، ۲۲۰، ۲۸۰، ۶۱۴، ۶۳۰، ۶۴۱ اس کی سخت زبانی کا اصل موجب ۲۸۴ اس میں پادریوں کا چھپوانا کہ ہمیں ایک بند خط کے مضمون کی خبر دی جائے ۲۸۴ الہام پر اس کے ایک اعتراض کا جواب ۲۸۷ ۱۰ مئی ۱۸۸۸ء کے پرچہ میں اس کے ایڈیٹر کی حضرت اقدس ؑ کے خلاف زبان درازی ۲۷۹، ۲۸۱ اس میں احمد بیگ کی بیٹی کے ساتھ حضرت اقدس کے نکاح اور الہام کا شائع ہونا ۲۸۸ اس کے ایک پرچہ میں درج ایک وہم کا ازالہ ۱۹۹ وید آریوں کے بقول ان کا نزول ابتدائے دنیا میں ہوا ۴۲۵ اس میں اجرام پرستی کا ذکر ۴۲۵