Eik Isai Kei Tin Sawal Aur Un Kei Jawabat

Eik Isai Kei Tin Sawal Aur Un Kei Jawabat

ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات

Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR
Ruhani Khazain

مئی یا جون ۱۸۹۲ء مطابق ۱۳۰۹ ہجری میں ایک عیسائی عبداللہ جیمز نے انجمن حمایت اسلام لاہور کو اسلام کے بارہ میں اپنے تین سوالات بغرض جواب بھیجے۔ انجمن نے جواب کی غرض سے یہ سوالات حضرت مسیح موعود علیہ السلام ،حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحبؓ اور مولوی غلام نبی صاحب امرتسری کو بھیجے۔ انجمن حمایت اسلام لاہور نے ان تینوں کے جوابات کو 'ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جواب' کے عنوان سے شائع کر دیا۔ حضرت اقدس مسیح مود علیہ السلام کے تحریر فرمودہ جوابات کو بعد میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے مکتوبات احمدیہ جلد سوم صفحہ ۳۴ تا ۷۹ میں شاید فرمایا اور 'تصدیق نبیﷺ'  کے نام سے علیحده کتاب کی صورت میں بھی شائع کیا گیا تھا۔


Book Content

Page 480

Page 481

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں آخری زمانہ میں اسلام کے ازسر نو احیاء اور غلبہ کے لئے اُمت میں مسیح موعود کے مبعوث ہونے کی بشارت دی وہاں مسیح موعود کا ایک بنیادی کام فَیَکْسِرُ الصَّلِیْبَ وَ یَقْتُلُ الْخِنْزِیْرَ (بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ ابن مریم) یعنی مسیح موعود صلیب کو توڑے گا اور خنزیر کو قتل کرے گا‘ بھی بیان فرمایا.صلیب کو توڑنے سے مراد یہ تھی کہ مسیح موعود عیسائیت کے عقائد باطلہ کے زور کو توڑ کر ان کی بجائے اسلام کے عقائد حقہ کو غالب کرے گا اور خنزیر صفت لوگوں سے ہر قسم کی پلیدی دور کرکے انہیں پاک و صاف اور مطہر بنائے گا.اس حدیث میں جہاں مسیح مو عود کے مبعوث ہونے کی بشارت دی گئی تھی وہاں اس میں یہ واضح اشارہ بھی مضمر تھا کہ آخری زمانہ میں عیسائیت کو بہت فروغ حاصل ہوگا یہاں تک کہ وہ پورے کرّۂ ارض پر چھا جائے گا.اُس وقت جو مسلمانوں کی حالت تھی اس سے ہر وہ مسلمان جس کے دل میں اسلام کا درد تھا بے چین تھا.برصغیر میں آریوں اور عیسائی پادریوں اور اُن کے مبلغوں نے اسلام پر بے انتہا تابڑ توڑ حملے شروع کئے ہوئے تھے اتنے شدید حملے تھے کہ مسلمان علماء بھی اس وقت سہمے ہوئے تھے اور ان کے پاس کوئی جواب ان حملوں کا نہیں تھا.کچھ مسلمان تو لاجواب ہونے کی وجہ سے

Page 482

اسلام کو چھوڑ کر عیسائیت کی جھولی میں گر تے جاتے تھے اور کچھ بالکل اسلام سے لاتعلق ہو رہے تھے.اس وقت اگر عیسائیت اور دوسرے مذاہب کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اگر کوئی شخص تھا تو ایک ہی جری اللہ تھا یعنی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام.آپ نے ان مذاہب سے تن تنہا چومکھی لڑائی لڑی.انجمن حمایت اسلام سے ایک عیسائی عبداللہ جیمز نے تین سوال اسلام کی نسبت بطلب جواب تحریرکئے.انہوں نے یہ سوال حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مولانا نور الدین صاحب کو بھی ارسال کئے.ان جوابات کو انجمن حمایت اسلام نے ۱۳۰۹ھ میں’’ ‘‘ کے نام سے شائع کیا.( اس کتاب کو بعد میں قادیان سے ’’تصدیق النبی‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا جس میں صرف حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے جوابات شائع کئے گئے.) انجمن حمایت اسلام نے اس کے دیباچہ میں تحریر کیا کہ ’’دین اسلام کے وہ مخلص پیرو بندے جو اپنی اعلیٰ درجے کی دین داری، لیاقت، فضیلت، حسن اخلاق وغیرہ خوبیوں کے باعث آج کل کی معدن علم ہونے کی مدعی قوموں کے استاد تھے.انہیں کی نسلیں آج جاہل مطلق بے ہنر محض اور اپنے سچے مذہب کے مقدس اصولوں کی پابندی سے کوسوں دور ہیں.ان کی جہالت کا نتیجہ یہ ہے کہ بت پرست قومیں جن کے پاس اپنے مذہب کی حقیقت کی کوئی بھی عقلی اور نقلی دلیل نہیں علانیہ اسلام کی تردید کے واسطے کھڑی ہیں اور ہمیں اپنی بے علمی اور نالیاقتی سے ان کے جواب دینے کی جرأت نہیں.‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہایت شرح اور بسط کے ساتھ ان سوالات کے جواب دیئے.بطور نمونہ چند اقتباسات پیش ہیں.’’اب اے حق کے طالبو! اور سچے نشانوں کے بھوکو اور پیاسو!! انصاف سے

Page 483

دیکھو اور ذرا پاک نظر سے غور کرو کہ جن نشانوں کا خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں ذکر کیا ہے کس اعلیٰ درجہ کے نشان ہیں او ر کیسے ہر زمانہ کے لئے مشہود و محسوس کا حکم رکھتے ہیں.پہلے نبیوں کے معجزات کا اب نام و نشان باقی نہیں صرف قصے ہیں.خدا جانے ان کی اصلیت کہاں تک درست ہے؟ بالخصوص حضرت مسیح ؑ کے معجزات جو انجیلوں میں لکھے ہیں باوجود قصوں اور کہانیوں کے رنگ میں ہونے کے اور باوجود بہت سے مبالغات کے جوا ن میں پائے جاتے ہیں ایسے شکوک و شبہات ان پر وارد ہوتے ہیں کہ جن سے انہیں بکلّی صاف و پاک کرکے دکھلانا بہت مشکل ہے.‘‘ ’’غرض امریکہ اور یورپ آج کل ایک جوش کی حالت میں ہے اور انجیل کے عقیدوں نے جو برخلاف حقیقت ہیں بڑی گھبراہٹ میں انہیں ڈال دیا ہے یہاں تک کہ بعضوں نے یہ رائے ظاہر کی کہ مسیحؑ یا عیسٰی ؑ نام خارج میں کوئی شخص کبھی پیدا نہیں ہوا بلکہ اس سے آفتاب مراد ہے اور بارہ حواریوں سے بارہ برج مراد ہیں اور پھر اس مذہب عیسائی کی حقیقت زیادہ تر اس بات سے کھلتی ہے کہ جن نشانیوں کو حضرت مسیح ؑ ایمانداروں کے لئے قرار دے گئے تھے ان میں سے ایک بھی ان لوگوں میں پائی نہیں جاتی.حضرت مسیح ؑ نے فرمایا تھا کہ اگر تم میری پیروی کرو گے تو ہر ایک طرح کی برکت اور قبولیت میں میرا ہی روپ بن جاؤ گے اور معجزات اور قبولیت کے نشان تم کو دیئے جائیں گے اور تمہارے مومن ہونے کی یہی علامت ہوگی کہ تم طرح طرح کے نشان دکھلا سکو گے اور جو چاہو گے تمہارے لئے وہی ہوگا اور کوئی بات تمہارے لئے ناممکن نہیں ہوگی لیکن عیسائیوں کے ہاتھ میں ان برکتوں میں سے کچھ بھی نہیں وہ اس خدا سے ناآشنا محض ہیں جو اپنے مخصوص بندوں کی دعائیں سنتا ہے اور انہیں آمنے سامنے شفقت اور رحمت کا جواب دیتا ہے اور عجیب عجیب کام ان کے لئے کر دکھاتا ہے.‘‘ ’’ اب جاننا چاہیئے کہ محبوبیت اور قبولیت اور ولایت حقّہ کا درجہ جس کے کسی قدر مختصر طو ر پر نشان بیان کر چکا ہوں یہ بجز اتباع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے

Page 484

ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا اور سچے متبع کے مقابل پر اگر کوئی عیسائی یا آریہ یا یہودی قبولیت کے آثار و انوار دکھلانا چاہے تو یہ اس کے لئے ہرگز ممکن نہ ہوگا اور نہایت صاف طریق امتحان کا یہ ہے کہ اگر ایک مسلمان صالح مقابل پر جو سچا مسلمان اور سچائی سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا متبع ہو اور کوئی دوسرا شخص عیسائی وغیرہ معاوضہ کے طور پر کھڑا ہو اور یہ کہے کہ جس قدر تجھ پر آسمان سے کوئی نشان ظاہر ہوگا یا جس قدر اسرار غیبیہ تجھ پر کھلیں گے یا جو کچھ قبولیت دعاؤں سے تجھے مدد دی جائے گی یا جس طور سے تیری عزت او ر شرف کے اظہار کے لئے کوئی نمونہ قدرت ظاہر کیا جائے گا یا اگر انعامات خاصہ کا بطور پیشگوئی تجھے و عدہ دیا جائے گا یا اگر تیرے کسی موذی مخالف پر کسی تنبیہہ کے نزول کی خبر دی جائے گی تو ان سب باتوں میں جو کچھ تجھ سے ظہور میں آئے گا او رجو کچھ تو دکھلائے گا وہ مَیں بھی دکھلاؤں گا.تو ایسا معارضہ کسی مخالف سے ہرگز ممکن نہیں اور ہرگز مقابل پر نہیں آئیں گے کیونکہ ان کے دل شہادت دے رہے ہیں کہ وہ کذاب ہیں انہیں اس سچے خدا سے کچھ بھی تعلق نہیں کہ جو راستبازوں کا مددگار اور صدیقوں کا دوست دار ہے جیسا کہ ہم پہلے بھی کسی قدر بیان کر چکے ہیں.و ھٰذااٰخر کلامنا والحمد لِلّٰہِ اوّلًا وَّ اٰخرًا وَّ ظاہرًا وَّ باطنًا ھو مولانا نعم المولٰی و نعم الوکیل.‘‘ ناظر اشاعت

Page 485

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم ۱؂ چند روز ہوئے کہ ایک عیسائی صاحب مسمّٰی عبداللہ جیمز نے چند سوال اسلام کی نسبت بطلب جواب انجمن میں ارسال فرمائے تھے چنانچہ اُن کے جواب اس انجمن کے تین معزز و مقتدر معاونین نے تحریر فرمائے ہیں جو بعد مشکوری تمام بصورت رسالہ ہذا شائع کئے جاتے ہیں.سوالات اوّل: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی نبوت اور قرآن مجید کے کلام اللہ ہونے پر متشکی ہونا جیسا سورۂ بقر اور سورۂ انعام میں درج ہے ۲؂ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دل میں یقین جانتے تھے کہ وہ پیغمبر خدا نہیں اگر وہ پیغمبر خدا ہوتے یا انہوں نے کبھی بھی کوئی معجزہ کیا ہوتا یا معراج ہوا ہوتا یا جبرئیل علیہ السلام قرآن مجید لائے ہوتے تو وہ کبھی اپنی نبوت پر متشکی نہ ہوتے اُس سے ان کا قرآن مجید پر اور اپنی نبوت پر متشکی ہونا صاف صاف ثابت ہوتا ہے اور نہ وہ رسول اللہ ہیں.دوم : محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بھی کوئی معجزہ نہ ملا جیسا کہ سورۂ عنکبوت میں درج ہے (ترجمہ عربی کا) اور کہتے ہیں کیوں نہ اُتریں اس پرکچھ نشانیاں (یعنی کوئی ایک بھی

Page 486

کیونکہ لا نافیہ اس آیت میں جو کہ جنسی ہے کل جنس کی نفی کرتا ہے) اس کے ربّ سے.اور سورۂ بنی اسرائیل میں بھی.اور ہم نے موقوف کیں نشانیاں بھیجنی کہ اگلوں نے ان کو جھٹلایا.اس سے صاف صاف ظاہر ہے خدا نے کوئی معجزہ نہیں دیا.حقیقت میں اگر کوئی ایک معجزہ ملتا تو وہ نبوت اور قرآن پر متشکی نہ ہوتے.سوم : اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبرہوتے تو اس وقت کے سوالوں کے جواب میں لاچار ہو کر یہ نہ کہتے کہ خدا کو معلوم یعنی مجھ کو معلوم نہیں اور اصحابِ کہف کی بابت ان کی تعداد میں غلط بیانی نہ کرتے اور یہ نہ کہتے کہ سورج چشمہ دلدل میں چھپتا ہے یا غرق ہوتا ہے حالانکہ سورج زمین سے نوکروڑ حصہ بڑاہے وہ کس طرح دلدل میں چھپ سکتا ہے.نوٹ:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عبد اللہ جیمز کے تیسرے سوال کو (غالباً اس کی اہمیت کے پیش نظر) دوسرا سوال قرار دے کر اس کا جواب دیا ہے اور دوسرے سوال کو آخر میں رکھا ہے.جبکہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے عبد اللہ جیمز کے سوالات کی ترتیب کو قائم رکھا ہے.(ناشر)

Page 487

مورد برکات رحمانی مصدر انوار قرآنی جناب مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیاں کی طرف سے جوابات پہلے سوال کا جواب معترض نے پہلے اپنے دعوٰی کی تائید میں سورۂ بقرہ میں سے ایک آیت پیش کی ہے جس کے پورے پورے لفظ یہ ہیں.۱؂ اس آیت کا سیاق سباق یعنی اگلی پچھلی آیتوں کے دیکھنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس جگہ نبوت اور قرآن شریف کا کوئی ذکر نہیں.صرف اس بات کا بیان ہے کہ اب بیت المقدس کی طرف نہیں.بلکہ بیت کعبہ کی طرف منہ پھیر کر نماز پڑھنی چاہیئے.سو اللہ جل شا نہٗ اس آیت میں فرماتا ہے کہ یہ ہی حق بات ہے یعنی خانہ کعبہ کی طرف ہی نماز پڑھنا حق ہے جو ابتدا سے مقرر ہو چکا ہے اور پہلی کتابوں میں بطور پیشگوئی اس کا بیان بھی ہے سو تو (اے پڑھنے والے اس کتاب کے) اس بارے میں شک کرنے والوں سے مت ہو* پھر * یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پہلی کتابوں میں اور نیز انجیل میں بھی تحویل کعبہ کے بارے میں بطور پیشگوئی اشارات ہو چکے ہیں.دیکھو یوحنا ۴.۲۱.۲۴ یسوع نے اُس سے کہا کہ اے عورت میری بات کو یقین رکھ وہ گھڑی آتی ہے کہ جس میں تم نہ اِس پہاڑ پر اور نہ یروشلم میں باپ کی پرستش کروگے.

Page 488

اس آیت کے آگے بھی اسی مضمون کے متعلق آیتیں ہیں چنانچہ فرماتا ہے َ ۱؂ یعنی ہر ایک طرف سے جو تو نکلے تو خانہ کعبہ کی ہی طرف نماز پڑھ یہی تیرے ربّ کی طرف سے حق ہے غرض صاف ظاہر ہے کہ یہ تمام آیات خانہ کعبہ کے بارے میں ہیں نہ کسی اور تذکرہ کے متعلق اور چونکہ یہ حکم جو خانہ کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کے لئے صادر ہوا ایک عام حکم ہے جس میں سب مسلمان داخل ہیں لہٰذا بعموم منشاء حکم بعض وسوسے والی طبیعتوں کا وسوسہ دور کرنے کے لئے ان آیات میں اُن کو تسلی دی گئی کہ اس بات سے متردد نہ ہوں کہ پہلے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے پڑھتے اب اُس طرف سے ہٹ کر خانہ کعبہ کی طرف نماز پڑھنا کیوں شروع کر دیا سو فرمایا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ وہی مقرر شدہ بات ہے جس کو خدا ئے تعالیٰ نے اپنے پہلے نبیوں کے ذریعے سے پہلے ہی سے بتلا رکھا تھا اس میں شک مت کرو.دوسری آیت میں جو معترض نے بتائید دعویٰ خود تحریر کی ہے وہ سورہ انعام کی ایک آیت ہے جو معہ اپنی آیات متعلقہ کے اس طرح پر ہے َ۲؂ یعنی کیا بجز خدا کے میں کوئی اور حَکَم طلب کروں اور وہ وہی ہے جس نے مفصل کتاب تم پر اُتاری اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب یعنی قرآن دیا ہے مراد یہ ہے کہ جن کو ہم نے علمِ قرآن سمجھایا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ وہ منجانب اللہ ہے سواے پڑھنے والے تو شک کرنے والوں میں سے مت ہو.اب اِن آیات پر نظر ڈالنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مخاطب اس آیت کے جو ہے ایسے لوگ ہیں جو ہنوز یقین اور ایمان اور علم سے

Page 489

کم حصہ رکھتے ہیں بلکہ اوپر کی آیتوں سے یہ بھی کھلتا ہے کہ اِس جگہ یہ حکم کا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے جس کا قرآن شریف میں ذکر کیا گیا ہے کیونکہ شروع کی آیت میں جس سے یہ آیت تعلق رکھتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ہی قول ہے یعنی یہ کہ سو اِن تمام آیات کا بامحاورہ ترجمہ یہ ہے کہ میں بجز خدا ئے تعالیٰ کے کوئی اور حَکَم جو مجھ میں اور تم میں فیصلہ کرے مقرر نہیں کر سکتا وہ وہی ہے جس نے تم پر مفصل کتاب نازل کی سو جن کو اس کتاب کا علم دیا گیا ہے وہ اس کا منجانب اللہ ہونا خوب جانتے ہیں سو تو (اے بے خبر آدمی) شک کرنے والوں میں سے مت ہو.اب تحقیق سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود شک نہیں کرتے بلکہ شک کرنے والوں کو بحوالہ شواہد و دلائل منع فرماتے ہیں پس باوجود ایسے کھلے کھلے بیان کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف شک فی الرسالت کو منسوب کر نا بے خبری و بے علمی یا محض تعصب نہیں تو کیا ہے.پھر اگر کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ اگر شک کرنے سے بعض ایسے نَومسلم یا متردّد منع کئے گئے تھے جو ضعیف الایمان تھے تو اُن کو یوں کہنا چاہیے تھا کہ تم شک مت کرو نہ یہ کہ تو شک مت کر کیونکہ ضعیف الایمان آدمی صرف ایک ہی نہیں ہوتا بلکہ کئی ہوتے ہیں بجائے جمع کے واحد مخاطب کا صیغہ کیوں استعمال کیا گیا.اس کا جواب یہ ہے کہ اس وحدت سے وحدت جنسی مراد ہے جو جماعت کا حکم رکھتی ہے اگر تم اوّل سے آخر تک قرآن شریف کو پڑھو تو یہ عام محاورہ اُس میں پاؤ گے کہ وہ اکثر مقامات میں جماعت کو فرد واحد کی صورت میں مخاطب کرتا ہے مثلاً نمونہ کے طور پر اِن آیات کو دیکھو.۱؂

Page 490

یعنی خدائے تعالیٰ کے ساتھ کوئی دوسرا خدا مت ٹھہرا اگر تو نے ایسا کیا تو مذموم اور مخذول ہو کر بیٹھے گا.اور تیرے خدا نے یہی چاہا ہے کہ تم اسی کی بندگی کرو اُس کے سوا کوئی اور دوسرا تمہارا معبود نہ ہو اور ماں باپ سے احسان کر اگر وہ دونو یا ایک اُن میں سے تیرے سامنے بڑی عمر تک پہنچ جائیں تو تُو اُن کو اُف نہ کر اور نہ اُن کو جھڑک بلکہ اُن سے ایسی باتیں کہہ کہ جن میں اُن کی بزرگی اور عظمت پائی جائے اور تذلل اور رحمت سے ان کے سامنے اپنا بازو جھکا اور دعا کر کہ اے میرے رَبّ تو ان پر رحم کر جیسا اُنہوں نے میرے بچپن کے زمانے میں میری پرورش کی.اب دیکھو کہ ان آیات میں یہ ہدایت ظاہر ہے کہ یہ واحد کا خطاب جماعت اُمت کی طرف ہے جن کو بعض دفعہ انہیں آیتوں میں تم کر کے بھی پکارا گیا ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان آیات میں مخاطب نہیں کیونکہ ان آیتوں میں والدین کی تعظیم و تکریم اور اُن کی نسبت بِرّو احسان کا حکم ہے اور ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین تو صغر سنی کے زمانے میں بلکہ جناب ممدوح کی شیر خوارگی کے وقت میں ہی فوت ہوچکے تھے سو اس جگہ سے اور نیز ایسے اور مقامات سے بوضاحت ثابت ہوتا ہے کہ جماعت کو واحد کے طور پر مخاطب کر کے پکارنا یہ قرآن شریف کا ایک عام محاورہ ہے کہ جو ابتدا سے آخر تک جا بجا ثابت ہوتا چلا جاتا ہے.یہی محاورہ توریت کے احکام میں بھی پایا جاتا ہے کہ واحد مخاطب کے لفظ سے حکم صادر کیا جاتا ہے اور مراد بنی اسرائیل کی جماعت ہوتی ہے جیسا کہ خروج باب ۳۳ ‘ ۳۴ میں بظاہر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مخاطب کر کے فرمایا

Page 491

ہے.(۱۱) آج کے دن میں جو حکم تجھے کرتا ہوں تو اُسے یاد رکھیو.(۱۲) ہوشیار رہ تا نہ ہووے کہ اُس زمین کے باشندوں کے ساتھ جس میں تو جاتا ہے کچھ عہد باندھے.(۱۷) تو اپنے لئے ڈھالے ہوئے معبودوں کو مت بنائیو.اب ان آیات کا سیاق سباق دیکھنے سے صاف ظاہر ہے کہ اگرچہ ان آیات میں حضرت موسیٰ ؑ مخاطب کئے گئے تھے مگر دراصل حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اِن احکام کا نشانہ نہیں بنایا گیا.حضرت موسیٰ علیہ السلام نہ کنعان میں گئے اور نہ ُ بت پرستی جیسا بُرا کام حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے مردِ خدا ُ بت شکن سے ہو سکتا تھا جس سے ان کو منع کیا جاتا کیونکہ موسیٰ علیہ السلام وہ مقربُ اللہ ہے جس کی شان میں اسی باب میں خدا ئے تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو میری نظر میں منظور ہے اور میں تجھ کو بنام پہچانتا ہوں دیکھو خروج باب ۳۳آیت (۱۷) سو یاد رکھنا چاہیے کہ یہی طرز قرآن شریف کی ہے توریت اور قرآن شریف میں اکثر احکام اسی شکل سے واقعہ ہیں کہ گویا مخاطب اُن کے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں مگر دراصل وہ خطاب قوم اور اُمت کے لوگوں کی طرف ہوتا ہے لیکن جس کو ان کتابوں کی طرز تحریر معلوم نہیں وہ اپنی بے خبری سے یہی خیال کر لیتا ہے کہ گویا وہ خطاب و عتاب نبی منزل علیہ کو ہو رہا ہے مگر غور اور قرائن پر نظر ڈالنے سے اُس پر کھل جاتا ہے کہ یہ سراسر غلطی ہے.پھر یہ اعتراض اُن آیات پر نظر ڈالنے سے بھی بکلّی مستاصل ہوتا ہے جن میں اللہ جل شانہٗ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یقین کامل کی تعریف کی ہے جیسا کہ وہ ایک جگہ فرماتا ہے.۱؂ س نمبر ۷ یعنی کہہ کہ مجھے اپنی رسالت پر کھلی کھلی دلیل اپنے ربّ کی طرف سے ملی ہے اور پھر دوسری جگہ فرماتا ہے

Page 492

۱؂ س نمبر۱۳ یعنی کہہ کہ یہ میری راہ ہے میں اللہ کی طرف بصیرت کاملہ کے ساتھ بُلاتا ہوں اور پھر ایک جگہ فرماتا ہے ۲؂ س نمبر۵ یعنی خدا نے تجھ پر کتاب اُتاری اور حکمت یعنی دلائل حقیت کتاب و حقیت رسالہ تجھ پر ظاہر کئے اور تجھے وہ علوم سکھائے جنہیں تو خود بخود جان نہیں سکتا تھا اور تجھ پر اُس کا ایک عظیم فضل ہے پھر سورہ نجم میں فرماتا ہے ۳؂..۴؂ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل نے جو اپنی صداقت کے آسمانی نشان دیکھے تو اُس کی کچھ تکذیب نہ کی یعنی شک نہیں کیا اور آنکھ َ چپ ور است کی طرف نہیں پھیری اور نہ حد سے آگے بڑھی یعنی حق پر ٹھہر گئی اور اِس نے اپنے خدا کے وہ نشان دیکھے جو نہایت بزرگ تھے.اب اے ناظرین ذرا انصافاً دیکھو اے حق پسندو ذرا منصفانہ نگہ سے غور کرو کہ خدائے تعالیٰ کیسے صاف صاف طور پر بشارت دیتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بصیرتِ کاملہ کے ساتھ اپنی نبوت پر یقین تھا اور عظیم الشان نشان ان کو دکھلائے گئے تھے.اب خلاصہ جواب یہ ہے کہ تمام قرآن شریف میں ایک نقطہ یا ایک شعشہ اس بات پر دلالت کرنے والا نہیں پاؤ گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی نبوت یا قرآن شریف کے منجانب اللہ ہونے کی نسبت کچھ شک تھا بلکہ یقینی اور قطعی بات ہے کہ جس قدریقین کامل و بصیرت کامل و معرفت اکمل کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات بابرکات کی نسبت دعویٰ کیا ہے اور پھر اُس کا ثبوت دیا ہے ایسا کامل ثبوت کسی دوسری موجودہ کتاب میں ہرگز نہیں پایا جاتا.فَھَلْ مَنْ یَّسْمَعُ فَیُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ مُحَمَّدٍ

Page 493

صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَیَکُوْنُ مِنَ المُسْلِمِیْنَ الْمُخْلِصِیْنَ.واضح رہے کہ انجیلوں* میں حضرت مسیح کے بعض اقوال ایسے بیان کئے گئے ہیں جن پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام اپنی عمر کے آخری دنوں میں اپنی نبوت اور اپنے مؤیّد من اللہ ہونے کی نسبت کچھ شبہات میں پڑ گئے تھے جیسا کہ یہ کلمہ کہ گویا آخری دم کا کلمہ تھا یعنی ایلی ایلی لماسبقتنی جس کے معنی یہ ہیں کہ اے میرے خدا ‘ اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.عین دنیا سے رخصت ہونے کے وقت میں کہ جو اہل اللہ کے یقین اور ایمان کے انوار ظاہر ہونے کا وقت ہوتا ہے آنجناب کے منہ سے نکل گیا.پھر آپ کا یہ بھی طریق تھا کہ دشمنوں کے بد ارادہ کا احساس کر کے اُس جگہ سے بھاگ جایا کرتے تھے حالانکہ خدائے تعالیٰ سے محفوظ رہنے کا وعدہ پا چکے تھے ان دونوں امور سے شک اور تحیر ظاہر ہے پھر آپ کا تمام رات رو رو کر ایسے امر کے لئے جس کا انجام بد آپ کو پہلے سے معلوم تھا بجز اس کے کیا معنی رکھتا ہے کہ ہر ایک بات میں آپ کو شک ہی شک تھا.یہ باتیں صرف عیسائیوں کے اس اعتراض اُٹھانے کی غرض سے لکھی گئی ہیں ورنہ ان سوالات کا جواب ہم تو اَحسن طریق سے دے سکتے ہیں اور اپنے پیارے مسیح کے سر سے جو بشری ناتوانیوں اور ضعفوں سے مستثنیٰ نہیں تھے ان تمام الزامات کو صرف ایک نفی الوہیت و ابنیت سے ایک طرفۃ العین میں اُٹھا سکتے ہیں مگر ہمارے عیسائی بھائیوں کو بہت دقت پیش آئے گی.دوسرے سوال کا جواب پوشیدہ نہ رہے کہ ان دونوں آیتوں سے معترض کا مدعا جو استدلال بر نفی معجزات ہے، * یہ شبہات چاروں انجیلوں سے پیدا ہوتے ہیں خاص کر انجیل متی تو اول درجہ کی شبہ اندازی میں ہے.

Page 494

ہرگز ثابت نہیں ہوتا بلکہ برخلاف اس کے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ضرور ایسے معجزات ظہور پذیر ہوتے رہے ہیں کہ جو ایک صادق و کامل نبی سے ہونے چاہئیں.چنانچہ تصریح اس کی نیچے کے بیانات سے بخوبی ہو جائے گی.پہلی آیت جس کا ترجمہ معترض نے اپنے دعویٰ کی تائید کیلئے عبارات متعلقہ سے کاٹ کر پیش کر دیا ہے مع اس ساتھ کی دوسری آیتوں کے جن سے مطلب کھلتا ہے، یہ ہے.ٌ..۱؂..........۲؂ یعنی کہتے ہیں کیوں نہ اُتریں اس پر نشانیاں کہ وہ نشانیاں (جو تم مانگتے ہو یعنی عذاب کی نشانیاں)وہ تو خدا ئے تعالیٰ کے پاس اور خاص اس کے اختیار میں ہیں اور میں تو صرف ڈرانے والا ہوں.یعنی میرا کام فقط یہ ہے کہ عذاب کے دن سے ڈراؤں نہ یہ کہ اپنی طرف سے عذاب نازل کروں اور پھر فرمایا کہ کیا ان لوگوں کیلئے (جو اپنے پر کوئی عذاب کی نشانی وارد کرانی چاہتے ہیں) یہ رحمت کی نشانی کافی نہیں جو ہم نے تجھ پر (اے رسول اُمّی) وہ کتاب (جو جامع کمالات ہے) نازل کی جو اُن پر پڑھی جاتی ہے یعنی قرآن شریف جو ایک رحمت کا نشان ہے.جس سے درحقیقت وہی مطلب نکلتا ہے جو کفّار عذاب کے نشانوں سے پورا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ کفّار مکہ اس غرض سے عذاب کا نشان مانگتے تھے کہ تا وہ ان پر وارد ہو کر انہیں حق الیقین تک پہنچا دے.صرف دیکھنے کی چیزنہ رہے کیونکہ مجرد رویت کے نشانوں میں ان کو دھوکے کا احتمال تھا اور چشم بندی وغیرہ کا خیال سو اس

Page 495

وہم اور اضطراب کے دور کرنے کے لئے فرمایا کہ ایسا ہی نشان چاہتے ہو جو تمہارے وجودوں پر وارد ہو جائے تو پھر عذاب کے نشان کی کیا حاجت ہے؟ کیا اس مدّعا کے حاصل کرنے کے لئے رحمت کا نشان کافی نہیں؟ یعنی قرآن شریف جو تمہاری آنکھوں کو اپنی پُر نور اور تیز شعاعوں سے خیرہ کر رہا ہے اور اپنی ذاتی خوبیاں اور اپنے حقائق اور معارف اور اپنے فوق العادت خواص اس قدر دکھلا رہا ہے جس کے مقابلہ و معارضہ سے تم عاجز رہ گئے ہو اور تم پر اور تمہاری قوم پر ایک خارق عادت اثر ڈال رہا ہے* اور دلوں پر وارد ہو کر عجیب در عجیب تبدیلیاں دکھلا رہا ہے.مدت ہائے دراز کے مردے اس سے زندہ یہ تمام خارق عادت خاصیتیں قرآن شریف کی، جن کی رو سے وہ معجزہ کہلاتا ہے ان مفصلہ ذیل سورتوں میں بہ تفصیل ذیل کہتے ہیں.سورۃ البقرۃ ، سورۃ اٰل عمران، سورۃ النساء، سو رۃ المائدہ، سورۃ الانعام، سورۃ الاعراف، سورۃ الانفال، سورۃ التوبۃ، سورۃ یونس، سورۃ ھود، سورۃ الرعد، سورۃ ابراہیم، سورۃ الحجر، سورۃ الواقعہ، سورۃ النمل، سورۃ الحج، سورۃ البیّنہ، سورۃ المجادلۃ چنانچہ بطور نمونہ چند آیات یہ ہیں فرماتا ہے عزّوجلّ.

Page 496

ہوتے چلے جاتے ہیں اور مادر زاد اندھے جو بے شمار پشتوں سے اندھے ہی چلے آتے تھے.آنکھیں کھول رہے ہیں اور کفر اور الحاد کی طرح طرح کی بیماریاں اس سے اچھی ہوتی چلی جاتی ہیں اور تعصب کے سخت جذامی اس سے صاف ہوتے جاتے ہیں.اس سے نور ملتا ہے اور ظلمت دُور ہوتی ہے اور وصل الٰہی میسر آتا ہے اور اس کی علامات پیدا ہوتی ہیں.سو تم کیوں اس رحمت کے نشان کو چھوڑ کر جو ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہے عذاب اور موت کا نشان مانگتے ہو؟ پھر بعد اس کے فرمایا کہ یہ قوم تو جلدی سے عذاب ہی مانگتی ہے.رحمت کے نشانوں سے فائدہ اُٹھانا نہیں چاہتی.اُن کو کہہ دے کہ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ عذاب کی نشانیاں وابستہ باوقات ہوتی ہیں تو یہ عذابی نشانیاں بھی کب کی نازل ہوگئی ہوتیں اور ۱؂ یعنی قرآن کے ذریعہ سے سلامتی کی راہوں کی ہدایت ملتی ہے اور لوگ ظلمت سے نور کی طرف نکالے جاتے ہیں وہ ہر ایک اندرونی بیماری کو اچھا کرتاہے.خدا نے ایک ایسا پانی اُتارا ہے جس سے مردہ زمین زندہ ہو رہی ہے ایسا پانی اُتارا جس سے ہر ایک وادی میں بقدر اپنی وسعت کے بہہ نکلا ہے.ایسا پانی اُتارا جس سے گلی سڑی ہوئی زمین سرسبز ہوگئی.اس سے خدا خوف بندوں کی جلدیں کانپتی ہیں.پھر ان کی جلدیں اور ان کے دل ذکر الٰہی کیلئے نرم ہو جاتے ہیں.یاد رکھو کہ قرآن سے دل اطمینان پکڑتے ہیں جو لوگ قرآن کے تابع ہو جائیں اُن کے دلوں میں ایمان لکھا جاتا ہے اور روح القدس انہیں ملتا ہے.روح القدس نے ہی قرآن کو اُتارا تا قرآن ایمانداروں کے دلوں کو مضبوط کرے اور مسلمین کیلئے ہدایت اور بشارت کا نشان ہو.ہم نے ہی قرآن کو اُتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں، یعنی کیا صورت کے لحاظ سے اور کیا خاصیت کے لحاظ سے ہمیشہ قرآن اپنی حالت اصلی پر رہے گا اور الٰہی حفاظت کا اس پر سایہ ہوگا.پھر فرمایا کہ قرآن میں تمام معارف و حقائق و صداقتیں ہیں جو حقّانی کتابوں میں پائی جاتی ہیں.اور اس کی مثل بنانے پر کوئی انسان و جن قادر نہیں اگرچہ اس کام کیلئے باہم ممدومعاون ہو جائیں.

Page 497

عذاب ضرور آئے گا اور ایسے وقت میں آئے گا کہ ان کو خبر بھی نہیں ہوگی.اب انصاف سے دیکھو! کہ اس آیت میں کہاں معجزات کا انکار پایا جاتا ہے یہ آیتیں تو بآوازبلند پکار رہی ہیں کہ کفّار نے ہلاکت اور عذاب کا نشان مانگا تھا.سو اوّل انہیں کہا گیاکہ دیکھو تم میں زندگی بخش نشان موجود ہے یعنی قرآن جو تم پر وارد ہو کر تمہیں ہلاک کرنا نہیں چاہتا بلکہ ہمیشہ کی حیات بخشتا ہے مگر جب عذاب کا نشان تم پر وارد ہوا تو وہ تمہیں ہلاک کرے گا.پس کیوں تم ناحق اپنا مرنا ہی چاہتے ہو اور اگر تم عذاب ہی مانگتے ہو تو یاد رکھو کہ وہ بھی جلد آئے گا.پس اللہ جل شانہٗ نے ان آیات میں عذاب کے نشان کا وعدہ دیا ہے اور قرآن شریف میں جو رحمت کے نشان ہیں اور دلوں پر وارد ہو کر اپنا خارق عادت اثر ان پر ظاہر کرتے ہیں ان کی طرف توجہ دلائی.پر معترض کا یہ گمان کہ اس آیت میں لا نافیہ جنس معجزات کی نفی پر دلالت کرتا ہے.جس سے کل معجزات کی نفی لازم آتی ہے.محض صَرف ونحو سے ناواقفیت کی وجہ سے ہے.یاد رکھنا چاہئے کہ نفی کا اثر اُسی حد تک محدود ہوتا ہے جو متکلّم کے ارادہ میں متعین ہوتی ہے.خواہ وہ ارادہ تصریحاً بیان کیا گیا ہو یا اشارۃً.مثلاً کوئی کہے کہ اب سردی کا نام و نشان باقی نہیں رہا، تو ظاہر ہے کہ اس نے اپنے بلدہ کی حالت موجودہ کے موافق کہا ہے اور گو اس نے بظاہر اپنے شہر کا نام بھی نہیں لیا مگر اس کے کلام سے یہ سمجھنا کہ اس کا یہ دعویٰ ہے کہ کل کوہستانی ملکوں سے بھی سردی جاتی رہی اور سب جگہ سخت اور تیز دھوپ پڑنے لگی اور اس کی دلیل یہ پیش کرنا کہ جس لا کو اس نے استعمال کیا ہے وہ نفی جنس کا لا ہے.جس کا تمام جہان پر اثر پڑنا چاہئے، درست نہیں.مکہ کے مغلوب ُ بت پرست جنہوں نے آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور آنجناب کے معجزات کو معجزہ کر کے مان لیا اور جو کفر کے زمانہ میں بھی صرف خشک منکر نہیں تھے بلکہ

Page 498

روم اور ایران میں بھی جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو متعجبانہ خیال سے ساحر مشہور کرتے تھے اور گوبے جا پیرایوں میں ہی سہی، مگر نشانوں کا اقرار کر لیا کرتے تھے.جن کے اقرار قرآن شریف میں موجود ہیں.وہ اپنے ضعیف اور کمزور کلام میں جو انوار ساطعہ نبوت محمدیہ کے نیچے دبے ہوئے تھے کیوں لا نافیہ استعمال کرنے لگے.اگر ان کو ایسا ہی لمبا چوڑا انکار ہوتا تو وہ بالآخر نہایت درجہ کے یقین سے جو انہوں نے اپنے خونوں کے بہانے اور اپنی جانوں کے فدا کرنے سے ثابت کر دیا تھا مشرف بالاسلام کیوں ہو جاتے؟ اور کفر کے ایام میں جو اُن کے بار بار کلمات قرآن شریف میں درج ہیں وہ یہی ہیں کہ وہ اپنی کوتہ بینی کے دھوکہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ساحررکھتے تھے.جیسا کہ اللہ جل شانہٗ فرماتا ہے ۱ ؂ یعنی جب کوئی نشان دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ پکا جادو ہے.پھر دوسری جگہ فرماتا ہے ۲؂ یعنی انہوں نے اس بات سے تعجب کیا کہ انہیں میں سے ایک شخص اُن کی طرف بھیجاگیا اور بے ایمانوں نے کہا کہ یہ تو جادو گر کذّاب ہے.اب ظاہر ہے کہ جبکہ وہ نشانوں کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جادو گر کہتے تھے اور پھر اس کے بعد انہیں نشانوں کو معجزہ کر کے مان بھی لیا اور جزیرہ کا جزیرہ مسلمان ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک معجزات کا ہمیشہ کیلئے سچے دل سے گواہ بن گیا تو پھر ایسے لوگوں سے کیونکر ممکن ہے کہ وہ عام طور پر نشانوں سے صاف منکر ہو جاتے اور انکار معجزات میں ایسا لا نافیہ استعمال کرتے جو اُن کی حد حوصلہ سے باہر اور ان کی مستمررائے سے بعید تھا بلکہ قرائن سے آفتاب کی طرح ظاہر ہے کہ جس جس جگہ پر قرآن شریف میں کفّار کی طرف سے یہ اعتراض لکھا گیا

Page 499

ہے کہ کیوں اس پیغمبر پر کوئی نشانی نہیں اُتری؟ ساتھ ہی یہ بھی بتلا دیا گیا ہے کہ اُن کا مطلب یہ ہے کہ جو نشانیاں ہم مانگتے ہیں.اُن میں سے کوئی نشانی کیوں نہیں اُترتی.* واضح ہو کہ قرآن شریف میں نشان مانگنے کے سوالات کفّار کی طرف سے صرف ایک دو جگہ نہیں بلکہ کئی مقامات میں یہی سوال کیا گیا ہے اور ان سب مقامات کو بنظر یکجائی دیکھنے سے ثابت ہوتا ہے کہ کفّارِ مکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تین قسم کے نشانات مانگا کرتے تھے.(۱) وہ نشان جو عذاب کی صورت میں فقط اپنے اقتراح سے کفّارِ مکہ نے طلب کئے تھے.(۲) دوسرے وہ نشان جو عذاب کی صورت میں یا مقدمہ عذاب کی صورت میں پہلی اُمتوں پر وارد کئے گئے تھے.(۳) تیسرے وہ نشان جس سے پردہ غیبی بکلّی اُٹھ جائے، جس کا اُٹھ جانا ایمان بالغیب کے بکلّی برخلاف ہے.سو عذاب کے نشان ظاہر ہونے کے لئے جو سوال کئے گئے ہیں ان کا جواب تو قرآن شریف میں یہی دیا گیا ہے کہ تم منتظر رہو، عذاب نازل ہوگا.ہاں ایسی صورت کا عذاب نازل کرنے سے انکار کیا گیا ہے جس کی پہلے تکذیب ہوچکی ہے تا ہم عذاب نازل ہونے کا وعدہ دیا گیا ہے جو آخر غزوات کے ذریعہ سے پورا ہو گیا.لیکن تیسری قسم کا نشان دکھلانے سے بکلّی انکار کیا گیا ہے اور خود ظاہر ہے کہ ایسے سوال کا جواب انکار ہی تھا نہ اور کچھ.کیونکہ کفّار کہتے تھے کہ تب ہم ایمان لائیں گے کہ جب ہم ایسا نشان دیکھیں کہ زمین سے آسمان تک نرد بان رکھی جائے اور تو ہمارے دیکھتے دیکھتے اس نرد بان کے ذریعہ سے زمین سے آسمان پر چڑھ جائے اور فقط تیرا آسمان پر چڑھنا ہم ہرگز قبول نہیں کریں گے جب تک آسمان سے ایک ایسی کتاب نہ لاوے جس کو ہم پڑھ لیں اور پڑھیں بھی اپنے ہاتھ میں لے کر.یا تو ایسا کر کہ مکہ کی زمین میں جو ہمیشہ پانی کی تکلیف رہتی ہے.شام اور عراق کے ملک کی طرح نہریں جاری ہو جائیں اور جس قدر ابتدا دنیا سے آج تک ہمارے بزرگ مر چکے ہیں، سب زندہ ہو کر آ جائیں اور اس میں قصی بن کلاب بھی ہو کیونکہ وہ بڈھا ہمیشہ سچ بولتا تھا.اس سے ہم پوچھیں گے کہ تیرا دعویٰ حق ہے یا باطل؟ یہ سخت سخت خود تراشیدہ نشان تھے جو وہ مانگتے تھے

Page 500

اب قصہ کوتاہ یہ کہ آپ نے آیت متذکرہ بالا کے لا نافیہ کو قرائن کی حد سے زیادہ کھینچ دیا ہے ایسا لا نافیہ عربو ں کے کبھی خواب میں بھی نہیں آیا ہوگا.ان کے دل تو اسلام کی حقیت سے بھرے ہوئے تھے.تب ہی تو سب کے سب بجز معدودے چند کہ جو اس عذاب کو پہنچ گئے تھے جس کا اُن کو وعدہ دیا گیا تھا بالآخر مشرف بالاسلام ہوگئے تھے اور پھر بھی نہ صاف طور پر بلکہ شرط پر شرط لگانے سے جن کا ذکر قرآن شریف میں جابجاآیا ہے.پس سوچنے والے کیلئے عرب کے شریروں کی ایسی درخواستیں ہمارے سیّد و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات ظاہرہ و آیات بینہ و رسولانہ ہیئت پر صاف اور کھلی کھلی دلیل ہے.خدا جانے ان دل کے اندھوں کو ہمارے مولیٰ و آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار صداقت نے کس درجہ تک عاجز و تنگ کر رکھا تھا اور کیا کچھ آسمانی تائیدات و برکات کی بارشیں ہو رہی تھیں کہ جن سے خیرہ ہو کر اور جن کی ہیئت سے منہ پھیر کر سراسرٹالنے اور بھاگنے کی غرض سے ایسی دور از صواب درخواستیں پیش کرتے تھے.ظاہر ہے کہ اس قسم کے معجزات کا دکھلانا ایمان بالغیب کی حد سے باہر ہے.یوں تو اللہ جلشانہٗ قادر ہے کہ زمین سے آسمان تک زینہ رکھ دیوے.جس کو سب لوگ دیکھ لیویں اور دو چار ہزار کیا دوچار کروڑ آدمیوں کو زندہ کر کے ان کے منہ سے اُن کی اولاد کے سامنے صدق نبوت کی گواہی دلا دیوے.یہ سب کچھ وہ کر سکتا ہے مگر ذرا سوچ کر دیکھو کہ اس انکشاف تام سے ایمان بالغیب جو مدار ثواب اور اجر ہے دور ہو جاتا ہے اور دنیا نمونہ محشر ہو جاتی ہے.پس جس طرح قیامت کے میدان میں جو انکشاف تام کا وقت ہوگا ایمان کام نہیں آتا.اِسی طرح اس انکشاف تام سے بھی ایمان لانا کچھ مفید نہیں بلکہ ایمان اسی حد تک ایمان کہلاتا ہے کہ جب کچھ اخفا بھی باقی رہے جب سارے پردے کھل گئے تو پھر ایمان ایمان نہیں رہتا اسی وجہ سے سارے نبی ایمان بالغیب کی رعایت سے معجزے دکھلاتے رہے ہیں کبھی کسی نبی نے ایسا نہیں کیا کہ ایک شہر کا شہر زندہ کر کے ان سے اپنی نبوت کی گواہی دلاوے یا آسمان تک نرد بان رکھ کر اور سب کے روبرو چڑھ کر تمام دنیا کو تماشا دکھلاوے.

Page 501

اور یاد رہے کہ ایسا لا نافیہ حضرت مسیح کے کلام میں بھی پایا جاتا ہے اور وہ یہ ہے.فریسیسوں نے مسیح کے نشانات طلب کئے اُس نے آہ کھینچ کر کہا کہ اس زمانہ کے لوگ کیوں نشان چاہتے ہیں میں تم سے سچ کہتا ہوں اِس زمانہ کے لوگوں کو کوئی نشان نہیں دیا جائے گا.دیکھو مرقس ۸ باب۱۱.اب دیکھو کیسا حضرت مسیح نے صفائی سے انکار کر دیا ہے اگر غور فرمائیں تو آپ کا اعتراض اس اعتراض کے آگے کچھ بھی چیز نہیں کیونکہ آپ نے فقط کفار کا انکار پیش کیا اور وہ بھی نہ عام انکار بلکہ خاص نشانات کے بارے میں اور ظاہر ہے کہ دشمن کا انکار بکلّی قابل اطمینان نہیں ہوتا کیونکہ دشمن خلاف واقعہ بھی کہہ جاتا ہے مگر حضرت مسیح تو آپ اپنے ُ منہ سے معجزات کے دکھلانے سے انکار کر رہے ہیں اور نفی صدور معجزات کو زمانہ کے ساتھ متعلق کر دیا ہے اور فرماتے ہیں کہ اس زمانے کے لوگوں کو کوئی نشان دیانہ جائے گاپس اس سے بڑھ کر انکار معجزات کے بارے میں اور کون سا بیان واضح ہو سکتا ہے اور اس لا نافیہ سے بڑھ کر پھر اور کونسا لا نافیہ ہوگا.پھر دوسری آیت کا ترجمہ پیش کیا گیاہے.اس میں بھی سیاق سباق کی آیتوں سے بالکل الگ کر کے اس پر اعتراض وارد کر دیا ہے مگر اصل آیت اور اس کے متعلقات پر نظر ڈالنے سے ہر ایک منصف بصیر سمجھ سکتا ہے کہ آیت میں ایک بھی ایسا لفظ نہیں ہے کہ جو انکار معجزات پر دلالت کرتا ہو بلکہ تمام الفاظ صاف بتلا رہے ہیں کہ ضرور معجزات ظہور میں آئے.چنانچہ وہ آیت معہ اس کے دیگر آیات متعلقہ کے یہ ہے.

Page 502

.َ ً.۱؂ فرماتا ہے عزوجل کہ یوں توقیامت سے پہلے ہر ایک بستی کو ہم نے ہی ہلاک کرنا ہے یا عذاب شدید نازل کرنا ہے یہی کتاب میں مندرج ہوچکا ہے.مگر اس وقت ہم بعض ان گذشتہ قہری نشانوں کو (جو عذاب کی صورت میں پہلی اُمتوں پر نازل ہو چکے ہیں) اس لئے نہیں بھیجتے جو پہلی اُمت کے لوگ اس کی تکذیب کر چکے ہیں.چنانچہ ہم نے ثمود کو بطور نشان کے جو مقدمہ عذاب کا تھا ناقہ دیا جو حق نما نشان تھا.( جس پر انہوں نے ظلم کیا.یعنی وہی ناقہ جس کی بسیار خوری اور بسیار نوشی کی وجہ سے شہر حجر کے باشندوں کے لئے جو قوم ثمود میں سے تھے.پانی تالاب وغیرہ کا پینے کے لئے باقی رہا تھا اور نہ اُن کے مویشی کیلئے کوئی چراگاہ رہی تھی اور ایک سخت تکلیف اور رنج اور بلا میں گرفتار ہوگئی تھی) اور قہری نشانوں کے نازل کرنے سے ہماری غرض یہی ہوتی ہے کہ لوگ اُن سے ڈریں یعنی قہری نشان تو صرف تخویف کیلئے دکھلائے جاتے ہیں پس ایسے قہری نشانوں کے طلب کرنے سے کیا فائدہ جو پہلی اُمتوں نے دیکھ کر انہیں جھٹلا دیا اور اُن کے دیکھنے سے کچھ بھی خائف و ہراساں نہ ہوئے.اس جگہ واضح ہو کہ نشان دو قسم کے ہوتے ہیں.(۱) نشان تخویف و تعذیب جن کو قہری نشان بھی کہہ سکتے ہیں.(۲) نشان تبشیر و تسکین جن کو نشان رحمت سے بھی موسوم کرسکتے ہیں.تخویف کے نشان سخت کافروں اور کج دلوں اورنافرمانوں اور بے ایمانوں اور فرعونی طبیعت والوں کیلئے ظاہر کئے جاتے ہیں تا وہ ڈریں اور خدائے تعالیٰ کی قہری اور جلالی ہیبت ان کے دلوں پر طاری ہو.اور تبشیر کے نشان اُن حق کے طالبوں اور مخلص مومنوں اور سچائی

Page 503

کے متلاشیوں کیلئے ظہور پذیر ہوتے ہیں جو دل کی غربت اور فروتنی سے کامل یقین اور زیادت ایمان کے طلبگار ہیں اور تبشیر کے نشانوں سے ڈرانا اور دھمکانا مقصود نہیں ہوتا بلکہ اپنے اُن مطیع بندوں کو مطمئن کرنا اور ایمانی اور یقینی حالات میں ترقی دینا اور ان کے مضطرب سینہ پر دستِ شفقت و تسلّی رکھنا مقصود ہوتا ہے.سو مومن قرآن شریف کے وسیلہ سے ہمیشہ تبشیر کے نشان پاتا رہتا ہے اور ایمان اور یقین میں ترقی کرتا جاتا ہے.تبشیر کے نشانوں سے مومن کو تسلی ملتی ہے اور وہ اضطراب جو فطرتًا انسان میں ہے جاتا رہتا ہے اور سکینت دل پر نازل ہوتی ہے.مومن ببرکت اتباع کتاب اللہ اپنی عمر کے آخری دن تک تبشیر کے نشانوں کو پاتا رہتا ہے اور تسکین اور آرام بخشنے والے نشان اس پر نازل ہوتے رہتے ہیں تا وہ یقین اور معرفت میں بے نہایت ترقیاں کرتا جائے اور حق الیقین تک پہنچ جائے اور تبشیر کے نشانوں میں ایک لطف یہ ہوتا ہے کہ جیسے مومن ان کے نزول سے یقین اور معرفت اور قوتِ ایمان میں ترقی کرتا ہے ایسا ہی وہ بوجہ مشاہدہ آلاء و نعماءِ الٰہی و احسانات ظاہرہ و باطنہ و جلیہ و خفیہ حضرت باری عزاسمہٗ جو تبشیر کے نشانوں میں بھرے ہوئے ہوتے ہیں محبت وعشق میں بھی دن بدن بڑھتا جاتا ہے.سو حقیقت میں عظیم الشان اور قوی الاثر اور مبارک اور موصل الی المقصود تبشیر کے نشان ہی ہوتے ہیں جو سالک کو معرفتِ کاملہ اور محبتِ ذاتیہ کے اس مقام تک پہنچا دیتے ہیں جو اولیاء اللہ کے لئے منتہی المقامات ہے اور قرآن شریف میں تبشیر کے نشانوں کا بہت کچھ ذکر ہے یہاں تک کہ اس نے اُن نشانوں کو محدود نہیں رکھا بلکہ ایک دائمی وعدہ دے دیا ہے کہ قرآن شریف کے سچے متبع ہمیشہ ان نشانوں کو پاتے رہیں گے جیسا کہ وہ فرماتا ہے

Page 504

۱؂ یعنی ایماندار لوگ دنیوی زندگی اور آخرت میں بھی تبشیر کے نشان پاتے رہیں گے.جن کے ذریعے سے وہ دنیا اور آخرت میں معرفت اور محبت کے میدانوں میں ناپیداکنار ترقیاں کرتے جائیں گے.یہ خدا کی باتیں ہیں جو کبھی نہیں ٹلیں گی اور تبشیر کے نشانوں کو پالینا یہی فوز عظیم ہے (یعنی یہی ایک امر ہے جو محبت اور معرفت کے منتہیٰ مقام تک پہنچا دیتا ہے).اب جاننا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے اس آیت میں جو معترض نے بصورت اعتراض پیش کی ہے صرف تخویف کے نشانوں کا ذکر کیا ہے.جیسا کہ آیت ۱؂سے ظاہر ہو رہا ہے.کیونکہ اگر خدائے تعالیٰ کے کل نشانوں کو قہری نشانوں میں ہی محصور سمجھ کر اس آیت کے یہ معنی کئے جائیں کہ ہم تمام نشانوں کو محض تخویف کی غرض سے ہی بھیجا کرتے ہیں اور کوئی دوسری غرض نہیں ہوتی.تو یہ معنی بہ بداہت باطل ہیں.جیسا کہ ابھی بیان ہوچکا ہے کہ نشان دو غرضوں سے بھیجے جاتے ہیں یا تخویف کی غرض سے یا تبشیر کی غرض سے.انہیں دو قسموں کو قرآن شریف اور بائیبل بھی جا بجا ظاہر کر رہی ہے.پس جب کہ نشان دو قسم کے ہوئے تو آیت ممدوحہ بالا میں جو لفظ الاٰیات ہے (جس کے معنی وہ نشانات) بہرحال اسی تاویل پر بصحت منطبق ہوگا کہ نشانوں سے قہری نشان مراد ہیں کیونکہ اگر یہ معنی نہ لئے جائیں تو پھر اس سے یہ لازم آتا ہے کہ تمام نشانات جو تحت قدرت الٰہی داخل ہیں.تخویف کی قسم میں ہی محصور ہیں حالانکہ فقط تخویف کی قسم میں ہی سارے نشانوں کا حصر سمجھنا سراسر خلاف واقعہ ہے کہ جو نہ کتاب اللہ کی رو سے اور نہ عقل کی رو سے اور نہ کسی پاک دل کے کانشنس کی رو سے درست ہو سکتا ہے.اب چونکہ اس بات کا صاف فیصلہ ہو گیا کہ نشانوں کی دو قسموں میں سے صرف

Page 505

تخویف کے نشانوں کا آیات موصوفہ بالا میں ذکر ہے تو یہ دوسرا امر تنقیح طلب باقی رہا کہ کیا اس آیت کے (جو مَامَنَعَنَا الخ ہے) یہ معنی سمجھنے چاہئیں کہ تخویف کا کوئی نشان خدائے تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر ظاہر نہیں کیا یا یہ معنی سمجھنے چاہئیں کہ تخویف کے نشانوں میں سے وہ نشان ظاہر نہیں کئے گئے جو پہلی اُمتوں کو دکھلائے گئے تھے اور یا یہ تیسرے معنی قابل اعتبار ہیں کہ دونوں قسم کے تخویف کے نشان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے ظاہر ہوتے رہے ہیں.بجز اُن خاص قسم کے بعض نشانوں کے جن کوپہلی پہلی اُمتوں نے دیکھ کر جھٹلا دیا تھا اور ان کو معجزہ نہیں سمجھا تھا.سو واضح ہو کہ آیات متنازعہ فیہا پر نظر ڈالنے سے بتمام تر صفائی کھل جاتا ہے کہ پہلے اور دوسرے معنی کسی طرح درست نہیں.کیونکہ آیت ممدوحہ بالا کے یہ سمجھ لینا کہ تمام انواع و اقسام کے وہ تخویفی نشان جو ہم بھیج سکتے ہیں اور تمام وہ وراء الوراء تعذیبی نشان جن کے بھیجنے پر غیر محدود طور پر ہم قادر ہیں اس لئے ہم نے نہیں بھیجے کہ پہلی اُمتیں اُس کی تکذیب کر چکی ہیں.یہ معنے سراسر باطل ہیں.کیونکہ ظاہر ہے کہ پہلی اُمتوں نے انہیں نشانوں کی تکذیب کی جو انہوں نے دیکھے تھے وجہ یہ کہ تکذیب کیلئے یہ ضرور ہے کہ جس چیز کی تکذیب کی جائے.اوّل اس کا مشاہدہ بھی ہو جائے.جس نشان کو ابھی دیکھا ہی نہیں اس کی تکذیب کیسی حالانکہ نادیدہ نشانوں میں سے ایسے اعلیٰ درجہ کے نشان بھی تحت قدرت باری تعالیٰ ہیں جس کی کوئی انسان تکذیب نہ کر سکے اور سب گردنیں اُن کی طرف جھک جائیں.کیونکہ خدائے تعالیٰ ہر ایک رنگ کا نشان دکھلانے پر قادر ہے اور پھر چونکہ نشان ہائے قدرت باری غیر محدود اور غیر متناہی ہیں تو پھر یہ کہنا کیونکر درست ہو سکتا ہے کہ محدود زمانہ میں وہ سب دیکھے بھی گئے اور ان کی تکذیب بھی ہوگئی.وقت محدود میں تو وہی

Page 506

چیز دیکھی جائے گی جو محدود ہوگی.بہرحال اس آیت کے یہی معنی صحیح ہوں گے کہ جو بعض نشانات پہلے کفّار دیکھ چکے تھے اور ان کی تکذیب کر چکے تھے.ان کا دوبارہ بھیجنا عبث سمجھا گیا.جیسا کہ قرینہ بھی انہیں معنوں پر دلالت کرتا ہے یعنی اس موقعہ پر جو ناقہ ثمود کا خدائے تعالیٰ نے ذکر کیا ہے وہ ذکر ایک بھاری قرینہ اس بات پر ہے کہ اس جگہ گذشتہ اور ردّ کردہ نشانات کا ذکر ہے جو تخویف کے نشانوں میں سے تھے اور یہی تیسرے معنی ہیں جو صحیح اور درست ہیں.پھر اس جگہ ایک اور بات منصفین کے سوچنے کے لائق ہے جس سے اُن پر ظاہر ہوگا کہ آیت الخ ۱؂ سے ثبوت معجزات ہی پایا جاتا ہے نہ نفی معجزات کیونکہ الاٰیٰتکے لفظ پر جو الف لام واقعہ ہے وہ بموجب قواعد نحو کے دو صورتوں سے خالی نہیں.یا کل کے معنے دے گا یا خاص کے اگر کل کے معنے دے گا تو یہ معنے کئے جائیں گے کہ ہمیں کل معجزات کے بھیجنے سے کوئی امر مانع نہیں ہوا مگر اگلوں کا ان کو جھٹلانا اور اگر خاص کے معنی دے گا تو یہ معنی ہونگے کہ ہمیں ان خاص نشانیوں کے بھیجنے سے (جنہیں منکر طلب کرتے ہیں) کوئی امر مانع نہیں ہوا مگر یہ کہ ان نشانیوں کو اگلوں نے توجھٹلایا.بہرحال ان دونوں صورتوں میں نشانوں کا آنا ثابت ہوتا ہے.کیونکہ اگر یہ معنی ہوں کہ ہم نے ساری نشانیاں بوجہ تکذیب اُممِ گذشتہ نہیں بھیجیں تو اس سے بعض نشانوں کا بھیجنا ثابت ہوتا ہے جیسے مثلاً اگر کوئی کہے کہ میں نے اپنا سارا مال زید کو نہیں دیا تو اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ اس نے کچھ حصہ اپنے مال کا زید کو ضرور دیا ہے اور اگر یہ معنے لیں کہ بعض خاص نشان ہم نے نہیں بھیجے تو بھی بعض دیگر کا بھیجنا ثابت ہے.مثلاً اگر کوئی کہے کہ بعض خاص چیزیں میں نے زید کو نہیں دیں تو اس سے صاف پایا جائے گا کہ بعض دیگر

Page 507

ضرور دی ہیں.بہرحال جو شخص اوّل اس آیت کے سیاق و سباق کی آیتوں کو دیکھے کہ کیسی وہ دونوں طرف سے عذاب کے نشانوں کا قصہ بتلا رہی ہیں اور پھر ایک دوسری نظر اُٹھاوے اور خیال کرے کہ کیا یہ معنی صحیح اور قرین قیاس ہیں کہ خدائے تعالیٰ کے تمام نشانوں اور عجائب کاموں کی جو اس کی بے انتہا قدرت سے وقتاً فوقتاً پیدا ہونے والے اور غیر محدود ہیں پہلے لوگ اپنے محدود زمانہ میں تکذیب کرچکے ہوں.اور پھر ایک تیسری نظر منصفانہ سے کام لے کر سوچے کہ کیا اس جگہ تخویف کے نشانوں کا ایک خاص بیان ہے یا تبشیر اور رحمت کے نشانوں کا بھی کچھ ذکر ہے اور پھر ذرا چوتھی نگاہ اَ لْآیات کے ا ل پر بھی ڈال دیوے کہ وہ کن معنوں کا افادہ کر رہا ہے تو اس چار طور کی نظر کے بعد بجز اس کے کہ کوئی تعصب کے باعث حق پسندی سے بہت دور جا پڑا ہو ہر ایک شخص اپنے اندر سے نہ ایک شہادت بلکہ ہزاروں شہادتیں پائے گا کہ اس جگہ نفی کا حرف صرف نشانوں کی ایک قسم خاص کی نفی کیلئے آیا ہے جس کا دوسری اقسام پر کچھ اثر نہیں بلکہ اس سے ان کا متحقق الوجود ہونا ثابت ہو رہا ہے اور ان آیات میں نہایت صفائی سے اللہ جل شانہٗ بتلا رہا ہے کہ اس وقت تخویفی نشان جن کی یہ لوگ درخواست کرتے ہیں صرف اس وجہ سے نہیں بھیجے گئے کہ پہلی اُمتیں ان کی تکذیب کر چکی ہیں.سو جونشان پہلے ردّ کئے گئے اب بار بار انہیں کو نازل کرنا کمزوری کی نشانی ہے اور غیر محدود قدرتوں والے کی شان سے بعید.پس ان آیات میں یہ صاف اشارہ ہے کہ عذاب کے نشان ضرورنازل ہوں گے مگر اور رنگوں میں.یہ کیا ضرورت ہے کہ وہی نشان حضرت موسیٰ ؑ کے یا وہی نشان حضرت نوحؑ اور قوم لوط اور عاد اور ثمود کے ظاہر کئے جائیں.چنانچہ ان آیات کی تفصیل دوسری آیات میں زیادہ تر کی گئی ہے جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے.

Page 508

Page 509

دیئے ہیں.سو جو ان کو شناخت کرے اُس نے اپنے ہی نفس کو فائدہ پہنچایا اور جو اندھا ہو جائے اس کا وبال بھی اسی پر ہے میں تو تم پر نگہبان نہیں.اور تجھ سے عذاب کیلئے جلدی کرتے ہیں.کہہ وہی پروردگار اس بات پر قادر ہے کہ اوپر سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے کوئی عذاب تم پر بھیجے اور چاہے تو تمہیں دو فریق بنا کرایک فریق کی لڑائی کا دوسرے کو مزا چکھا دے اور یہ کہ سب خوبیاں اللہ کے لئے ہیں.وہ تمہیں ایسے نشان دکھائے گا جنہیں تم شناخت کر لو گے اور کہہ تمہارے لئے ٹھیک ٹھیک ایک برس کی میعاد ہے* نہ اس سے تم تاخیر کر سکو گے نہ تقدیم.اور تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ سچ بات ہے.کہہ ہاں مجھے قسم ہے اپنے ربّ کی کہ یہ سچ ہے اور تم خدا ئے تعالیٰ کو اس کے وعدوں سے روک نہیں سکتے.ہم عنقریب ان کواپنے نشان دکھلائیں گے.ان کے ملک کے اردگرد میں اور خود اُن میں بھی یہاں تک کہ اُن پر کھل جائے گا کہ یہ نبی سچا ہے.انسان کی فطرت میں جلدی ہے میں عنقریب تمہیں اپنے نشان دکھلاؤں گا سو تم مجھ سے جلدی تو مت کرو.اب دیکھو کہ ان آیات میں نشان مطلوبہ کے دکھلانے کے بارے میں کیسے صاف اور پختہ وعدے دیئے گئے ہیں یہاں تک کہ یہ بھی کہا گیا کہ ایسے کھلے کھلے نشان دکھلا ئے جائیں گے کہ تم ان کو شناخت کر لو گے اور اگر کوئی کہے کہ یہ تو ہم نے مانا کہ عذاب کے نشانوں کے بارے میں جابجا قرآن شریف میں وعدے دیئے گئے ہیں کہ وہ ضرور کسی دن دکھلائے جائیں گے اور یہ بھی ہم نے تسلیم کیا کہ وہ سب وعدے اس زمانہ میں پورے بھی ہوگئے کہ جب کہ خدائے تعالیٰ نے اپنی خداوندی قدرت دکھلا کر مسلمانوں کی کمزوری اور * یوم سے مراد اس جگہ برس ہے.چنانچہ بائیبل میں بھی یہ محاورہ پایا جاتا ہے سو پورے برس کے بعد بدر کی لڑائی کا عذاب مکہ والوں پر نازل ہوا.جو پہلی لڑائی تھی.

Page 510

ناتوانی کو دور کر دیا اور معدودے چند سے ہزار ہا تک ان کی نوبت پہنچا دی اور ان کے ذریعہ سے ان تمام کفّار کو تہ تیغ کیا جو مکہ میں اپنی سرکشی اور جو رو جفا کے زمانہ میں نہایت تکبر سے عذاب کا نشان مانگا کرتے تھے لیکن اس بات کا ثبوت قرآن شریف سے کہاں ملتا ہے کہ بجز اُن نشانوں کے اور بھی نشان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھلائے تھے سو واضح ہو کہ نشانوں کے دکھلانے کا ذکر قرآن شریف میں جا بجا آیا ہے بعض جگہ اپنے پہلے نشانوں کا حوالہ بھی دیا ہے دیکھو آیت ۱؂ الجز و نمبر۷ سورۂ انعام بعض جگہ کفّار کی ناانصافی کا ذکر کر کے ان کا اس طور کا اقرار درج کیا ہے کہ وہ نشانوں کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ وہ جادو ہے.دیکھو آیت ۲؂ الجزو نمبر۲۷ سورۃ القمر بعض جگہ جو نشانوں کے دیکھنے کا صاف اقرار منکرین نے کر دیا ہے وہ شہادتیں ان کی پیش کی ہیں.جیسا کہ فرماتا ہے ۳؂ یعنی انہوں نے رسول کے حق ہونے پر گواہی دی اور کھلے کھلے نشان ان کو پہنچ گئے اور بعض جگہ بعض معجزات کو بتصریح بیان کر دیا ہے جیسے معجزہ شق القمر جو ایک عظیم الشان معجزہ اور خدائی قدرت کا ایک کامل نمونہ ہے، جس کی تصریح ہم نے کتاب سرمہ چشم آریہ میں بخوبی کر دی ہے جو شخص مفصل دیکھنا چاہے اس میں دیکھ سکتا ہے.اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خود تراشیدہ نشان مانگا کرتے تھے اکثر وہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانوں کے آخر کار گواہ بھی بن گئے تھے کیونکہ آخر وہی لوگ تو تھے جنہوں نے مشرف باسلام ہو کر دین اسلام کو مشارق و مغارب میں پھیلایا اور نیز معجزات اور پیشگوئیوں کے بارے میں کتب احادیث میں اپنی رویت کی شہادتیں قلمبند کرائیں پس اس زمانہ میں ایک عجیب طرز ہے کہ ان بزرگان دین کے اس زمانہ جاہلیت کے انکاروں کو

Page 511

بار بار پیش کرتے ہیں جن سے بالآخر خود وہ دست کش اور تائب ہوگئے تھے لیکن اُن کی اُن شہادتوں کو نہیں مانتے جو راہ راست پر آنے کے بعد انہوں نے پیش کی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات تو چاروں طرف سے چمک رہے ہیں وہ کیونکر چھپ سکتے ہیں صرف معجزات جو صحابہ کی شہادتوں سے ثابت ہیں وہ تین ہزار معجزہ ہے اور پیش گوئیاں تو شاید دس ہزار سے بھی زیادہ ہوں گی جو اپنے وقتوں پر پوری ہوگئیں اور ہوتی جاتی ہیں.ماسوائے اس کے بعض معجزات و پیشگوئیاں قرآن شریف کی ایسی ہیں کہ وہ ہمارے لئے بھی جو اس زمانہ میں مشہود و محسوس کا حکم رکھتی ہیں اور کوئی ان سے انکار نہیں کر سکتا چنانچہ وہ یہ ہیں.(۱) عذابی نشان کا معجزہ جو اس وقت کے کفّار کو دکھلایا گیا تھا یہ ہمارے لئے بھی فی الحقیقت ایسا ہی نشان ہے جس کو چشم دید کہنا چاہئے.وجہ یہ کہ یہ نہایت یقینی مقدمات کا ایک ضروری نتیجہ ہے جس سے کوئی موافق اور مخالف کسی صورت سے انکار نہیں کر سکتا.اوّل یہ مقدمہ جو بطور بنیاد معجزہ کے ہے نہایت بدیہی اور مسلّم الثبوت ہے کہ یہ عذابی نشان اس وقت مانگا گیا تھا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور چند رفیق آنجناب کے مکہ میں دعوت حق کی وجہ سے خود صدہا تکالیف اور دردوں اور دکھوں میں مبتلا تھے اور وہ ایام دین اسلام کے لئے ایسے ضعف اور کمزوری کے دن تھے کہ خود کفّارِ مکہ ہنسی اور ٹھٹھے کی راہ سے مسلمانوں کو کہا کرتے تھے کہ اگر تم حق پر ہو تو اس قدر عذاب اور مصیبت اور دکھ اور درد ہمارے ہاتھ سے کیوں تمہیں پہنچ رہا ہے اور وہ خدا جس پر تم بھروسہ کرتے ہو وہ کیوں تمہاری مدد نہیں کرتا اور کیوں تم ایک قدر قلیل جماعت ہو جو عنقریب نابود ہونے والی ہے اور اگر تم سچے ہو تو کیوں ہم پر عذاب نازل نہیں ہوتا؟ ان سوالات کے جواب میں جو کچھ کفّار کو قرآن شریف کے متفرق مقامات میں ایسے زمانہ تنگی و تکالیف میں کہا گیا وہ دوسرا

Page 512

مقدمہ اس پیشگوئی کی عظمت شان سمجھنے کیلئے ہے کیونکہ وہ زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ پر ایسا نازک زمانہ تھا کہ ہر وقت اپنی جان کا اندیشہ تھا اور چاروں طرف ناکامی ُ منہ دکھلا رہی تھی سو ایسے زمانہ میں کفّار کو اُن سے عذابی نشان مانگنے کے وقت صاف صاف طور پر یہ کہا گیا تھا کہ عنقریب تمہیں اسلام کی فتح مندی اور تمہارے سزایاب ہونے کا نشان دکھلایا جائے گا اور اسلام جو اب ایک تخم کی طرح نظر آتا ہے کسی دن ایک بزرگ درخت کی مانند اپنے تئیں ظاہر کرے گا اور وہ جو عذاب کا نشان مانگتے ہیں وہ تلوار کی دھار سے قتل کئے جائیں گے اور تمام جزیرہ عرب کفر اور کافروں سے صاف کیا جائے گا اور تمام عرب کی حکومت مومنوں کے ہاتھ میں آ جائے گی اور خدا ئے تعالیٰ دین اسلام کو عرب کے ملک میں ایسے طور سے جمادے گا کہ پھر بت پرستی کبھی پیدا نہیں ہوگی اور حالت موجودہ جو خوف کی حالت ہے بکلّی امن کے ساتھ بدل جائے گی اور اسلام قوت پکڑے گا اور غالب ہوتا چلا جائے گا.یہاں تک کہ دوسرے ملکوں پر اپنی نصرت اور فتح کا سایہ ڈالے گا اور دور دور تک اس کی فتوحات پھیل جائیں گی اور ایک بڑی بادشاہت قائم ہو جائے گی جس کا اخیر دنیا تک زوال نہیں ہوگا.اب جو شخص پہلے ان دونوں مقدمات پر نظر ڈال کر معلوم کر لیوے کہ وہ زمانہ جس میں یہ پیشگوئی کی گئی، اسلا م کے لئے کیسی تنگی اور ناکامی اور مصیبت کا زمانہ تھا اور جو پیشگوئی کی گئی وہ کس قدر حالت موجودہ سے مخالف اور خیال اور قیاس سے نہایت بعید بلکہ صریح محالات عادیہ سے نظر آتی تھی.پھر بعد اس کے اسلام کی تاریخ پر جو دشمنوں اور دوستوں کے ہاتھ میں موجود ہے ایک منصفانہ نظر ڈالے کہ کیسی صفائی سے یہ پیشگوئی پوری ہوگئی اور کس قدر دلوں پر ہیبت ناک اثر اس کا پڑا اور کیسے مشارق اور مغارب میں تمام تر قوت

Page 513

اور طاقت کے ساتھ اس کا ظہور ہوا تو اس پیشگوئی کو یقینی اور قطعی طور پر چشم دید معجزہ قرار دے گا جس میں اس کو ایک ذرہ بھی شک و شبہ نہیں ہوگا.پھر دوسرا معجزہ قرآن شریف کاجو ہمارے لئے حکم مشہود و محسوس کا رکھتا ہے وہ عجیب و غریب تبدیلیاں ہیں جو اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ببرکت پیروی قرآن شریف و اثر صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ظہور میں آئیں.جب ہم اس بات کو دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ مشرف باسلام ہونے سے پہلے کیسے اور کس طریق اور عادت کے آدمی تھے اور پھر بعد شرف صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم و اتباع قرآن شریف کس رنگ میں آ گئے اور کیسے اخلاق میں، عقائد میں، چلن میں، گفتار میں، رفتار میں ،کردار میں اور اپنی جمیع عادات میں خبیث حالت سے منتقل ہو کر نہایت طیّب اور پاک حالت میں داخل کئے گئے تو ہمیں اس تاثیر عظیم کو دیکھ کر جس نے ان کے زنگ خوردہ وجودوں کو ایک عجیب تازگی اور روشنی اور چمک بخش دی تھی اقرار کرنا پڑتا ہے کہ یہ تصرف ایک خارقِ عادت تصرف تھا جو خاص خدائے تعالیٰ کے ہاتھ نے کیا.قرآن شریف میں خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے ان کو مُردہ پایا اور زندہ کیا اور جہنم کے گڑھے میں گرتے دیکھا تو اُس ہولناک حالت سے چھڑایا.بیمار پایا اور اُنہیں اچھا کیا.اندھیرے میں پایا انہیں روشنی بخشی.اور خدائے تعالیٰ نے اس اعجاز کے دکھلانے کے لئے قرآن شریف میں ایک طرف عرب کے لوگوں کی وہ خراب حالتیں لکھی ہیں جو اسلام سے پہلے وہ رکھتے تھے اور دوسری طرف ان کے وہ پاک حالات بیان فرمائے ہیں جو اسلام لانے کے بعد ان میں پیدا ہوگئے تھے کہ تا جو شخص ان پہلے حالات کو دیکھے جو کفر کے زمانہ میں تھے اور پھر مقابل اس کے وہ حالت پڑھے جو اسلام لانے کے بعد ظہور پذیر ہوگئی تو ان دونوں طور کے سوانح پر مطلع ہونے سے

Page 514

بہ یقینِ کامل سمجھ لیوے گا کہ یہ تبدیلی ایک خارق عادت تبدیلی ہے جسے معجزہ کہنا چاہئے.پھر تیسرا معجزہ قرآن شریف کا جو ہماری نظروں کے سامنے موجود ہے اس کے حقائق و معارف و لطائف ونکات ہیں جو اس کی بلیغ و فصیح عبارات میں بھرے ہوئے ہیں اس معجزہ کو قرآن شریف میں بڑی شدّومد سے بیان کیا گیا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر تمام جن و انس اکٹھے ہو کر اس کی نظیر بنانا چاہیں تو اُن کے لئے ممکن نہیں یہ معجزہ اس دلیل سے ثابت اور متحقق الوجود ہے کہ اس زمانہ تک کہ تیرہ سو برس سے زیادہ گزر رہا ہے باوجود یکہ قرآن شریف کی منادی دنیا کے ہر ایک نواح میں ہو رہی ہے اور بڑے زور سے ھَلْ مِنْ مُّعَارِضٍکا نقارہ بجایا جاتا ہے مگر کبھی کسی طرف سے آواز نہیں آئی.پس اس سے اس بات کا صریح ثبوت ملتا ہے کہ تمام انسانی قوتیں قرآن شریف کے مقابلہ و معارضہ سے عاجز ہیں بلکہ اگر قرآن شریف کی صدہا خوبیوں میں سے صرف ایک خوبی کو پیش کر کے اس کی نظیر مانگی جائے تو انسان ضعیف البنیان سے یہ بھی ناممکن ہے کہ اس ایک جزو کی نظیر پیش کر سکے مثلاً قرآن شریف کی خوبیوں میں سے ایک یہ بھی خوبی ہے کہ وہ تمام معارف دینیہ پر مشتمل ہے اور کوئی دینی سچائی جو حق اور حکمت سے تعلق رکھتی ہے، ایسی نہیں جو قرآن شریف میں پائی نہ جاتی ہو مگر ایسا شخص کون ہے کہ کوئی دوسری کتاب ایسی دکھلائے جس میں یہ صفت موجود ہو اور اگر کسی کو اس بات میں شک ہو کہ قرآن شریف جامع تمام حقائق دینیہ ہے تو ایسا مشکک خواہ عیسائی ہو خواہ آریہ اور خواہ برہمو ہو، خواہ دہریہ اپنی طرز اور طور پر امتحان کر کے اپنی تسلی کرا سکتا ہے اورہم تسلی کر دینے کے ذمہ دار ہیں.بشرطیکہ کوئی طالب حق ہماری طرف رجوع کرے.بائیبل میں جس قدر پاک صداقتیں ہیں یا حکماء کی کتابوں میں جس قدر حق اور حکمت کی باتیں ہیں جن پر ہماری نظر پڑی ہے یا ہندوؤں کے

Page 515

وید وغیرہ میں جو اتفاقاً بعض سچائیاں درج ہوگئی ہیں یا باقی رہ گئی ہیں جن کو ہم نے دیکھا ہے یا صوفیوں کی صدہاکتابوں میں جو حکمت و معرفت کے نکتے ہیں جن پر ہمیں اطلاع ہوئی ہے اُن سب کو ہم قرآن شریف میں پاتے ہیں اور اس کامل استقراء سے جو تیس برس کے عرصہ سے نہایت عمیق اور محیط نظر کے ذریعہ سے ہم کو حاصل ہے، نہایت قطع اور یقین سے ہم پر یہ بات کھل گئی ہے کہ کوئی روحانی صداقت جو تکمیل نفس اور دماغی اور دلی قویٰ کی تربیت کے لئے اثر رکھتی ہے ایسی نہیں جو قرآن شریف میں درج نہ ہو اور یہ صرف ہمارا ہی تجربہ نہیں بلکہ یہی قرآن شریف کا دعویٰ بھی ہے جس کی آزمائش نہ فقط میں نے بلکہ ہزار ہا علماء ابتداء سے کرتے آئے اور اس کی سچائی کی گواہی دیتے آئے ہیں.پھر چوتھا معجزہ قرآن شریف کا اس کی روحانی تاثیرات ہیں جو ہمیشہ اس میں محفوظ چلی آتی ہیں یعنی یہ کہ اس کی پیروی کرنے والے قبولیت الٰہی کے مراتب کو پہنچتے ہیں اور مکالماتِ الٰہیہ سے مشرف کئے جاتے ہیں.خدا ئے تعالیٰ ان کی دعاؤں کو سنتا اور انہیں محبت اور رحمت کی راہ سے جواب دیتا ہے اور بعض اسرارِ غیبیہ پر نبیوں کی طرح ان کو مطلع فرماتا ہے اور اپنی تائید اور نصرت کے نشانوں سے دوسری مخلوقات سے انہیں ممتاز کرتا ہے یہ بھی ایسا نشان ہے کہ جو قیامت تک اُمت محمدیہ میں قائم رہے گا اور ہمیشہ ظاہر ہوتا چلا آیا ہے اور اب بھی موجود اور متحقق الوجود ہے.مسلمانوں میں سے ایسے لوگ اب بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں کہ جن کو اللہ جلّشانہٗ اپنی تائیداتِ خاصہ سے مؤیَّد فرما کر الہامات صحیحہ و صادقہ و مبشرات و مکاشفات غیبیہ سے سرفراز فرماتا ہے.اب اے حق کے طالبو اور سچے نشانوں کے بھوکو اور پیاسو! انصاف سے دیکھو اور ذرا پاک نظر سے غور کرو کہ جن نشانوں کا خدا ئے تعالیٰ نے قرآن شریف میں ذکر کیا ہے کس

Page 516

اعلیٰ درجہ کے نشان ہیں اور کیسے ہر زمانے کیلئے مشہود و محسوس کا حکم رکھتے ہیں.پہلے نبیوں کے معجزات کا اب نام و نشان باقی نہیں، صرف قصے ہیں.خدا جانے ان کی اصلیت کہاں تک درست ہے.بالخصوص حضرت مسیحؑ کے معجزات جو انجیلوں میں لکھے ہیں باوجود قصوں اور کہانیوں کے رنگ میں ہونے کے اور باوجود بہت سے مبالغات کے جو اُن میں پائے جاتے ہیں.ایسے شکوک و شبہات ان پر وارد ہوتے ہیں کہ جن سے انہیں بکلّی صاف و پاک کر کے دکھلانا بہت مشکل ہے.اور اگر ہم فرض کے طور پر تسلیم بھی کر لیں کہ جو کچھ اناجیل مروجہ میں حضرت مسیح کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ لولے اور لنگڑے اور مفلوج اور اندھے وغیرہ بیمار ان کے چھونے سے اچھے ہو جاتے تھے.یہ تمام بیان بلامبالغہ ہے اور ظاہر پر ہی محمول ہے کوئی اور معنی اس کے نہیں.تب بھی حضرت مسیح کی ان باتوں سے کوئی بڑی خوبی ثابت نہیں ہوتی.اوّل تو انہیں دنوں میں ایک تالاب بھی ایسا تھا کہ اس میں ایک وقت خاص میں غوطہ مارنے سے ایسی سب مرضیں فی الفوردور ہو جاتی تھیں جیسا کہ خود انجیل میں مذکور ہے پھر ماسوائے اس کے زمانہ دراز کی تحقیقاتوں نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ ملکہ سلب امراض منجملہ علوم کے ایک علم ہے جس کے اب بھی بہت لوگ مشاق پائے جاتے ہیں.جس میں شدت توجہ اور دماغی طاقتوں کے خرچ کرنے اور جذب خیال کا اثر ڈالنے کی مشق درکار ہے.سو اس علم کو نبوت سے کچھ علاقہ نہیں بلکہ مردِ صالح ہو نا بھی اس کے لئے ضروری نہیں اور قدیم سے یہ علم رائج ہوتا چلا آیا ہے.مسلمانوں میں بعض اکابر جیسے محی الدین( ابن) عربی صاحب فصوص اور بعض نقشبندیوں کے اکابر اس کام میں مشاق گزرے ہیں.ایسے کہ ان کے وقت میں ان کی نظیر پائی نہیں گئی بلکہ بعض کی نسبت ذکر کیا گیا ہے کہ وہ اپنی کامل توجہ سے باذنہٖ تعالیٰ تازہ

Page 517

مردوں سے باتیں کر کے دکھلا دیتے تھے* اور دو دو تین تین سَو بیماروں کو اپنے دائیں بائیں بٹھلا کر ایک ہی نظر سے تندرست کر دیتے تھے اور بعض جو مشق میں کچھ کمزورتھے وہ ہاتھ لگا کر یا بیمار کے کپڑے کو چھو کر شفا بخشتے تھے.اس مشق میں عامل عمل کے وقت کچھ ایسا احساس کرتا ہے کہ گویا اس کے اندر سے بیمار پر اثر ڈالنے کے وقت ایک قوت نکلتی ہے اور بسا اوقات بیمار کو بھی یہ مشہود ہوتا ہے کہ اس کے اندر سے ایک زہر یلا مادہ حرکت کر کے سفلی اعضا کی طرف اُترتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ بکلّی منعدم ہو جاتا ہے.اس علم میں اسلام میں بہت سی تالیفیں موجود ہیں اور میں خیال کرتا ہوں کہ ہندوؤں میں بھی اس کی کتابیں ہونگی.حال میں جو انگریزوں نے فن مسمریزم نکالا ہے حقیقت میں وہ بھی اسی علم کی ایک شاخ ہے.انجیل پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کو بھی کسی قدر اس علم میں مشق تھی مگر کامل نہیں تھے.اس وقت کے لوگ سادہ اور اس علم سے بے خبر تھے.اسی وجہ سے اس زمانہ میں یہ عمل اپنی حد سے زیادہ قابل تعریف سمجھا گیا تھا مگر پیچھے سے جوں جوں اس علم کی حقیقت کھلتی گئی لوگ اپنے علوّ اعتقاد سے تنزل کرتے گئے.یہاں تک کہ بعضوں نے یہ رائے ظاہر کی کہ ایسی مشقوں سے بیماروں کو چنگا کرنایامجنونوں کو شفا بخشنا کچھ بھی کمال کی بات نہیں بلکہ اس میں ایماندار ہونا بھی ضرور ی نہیں.چہ جائیکہ نبوت یا ولایت پر یہ دلیل ہو سکے.ان کا یہ بھی قول ہے کہ عمل سلبِ امراض بدنیہ کی کامل مشق اور اُسی شغل میں دن رات اپنے تئیں ڈالے رکھنا روحانی ترقی کیلئے سخت مضر ہے اور ایسے شخص کے ہاتھ سے * تازہ مردوں کا عمل توجہ سے چند منٹ یا چند گھنٹوں کیلئے زندہ ہو جانا قانون قدرت کے منافی نہیں جس حالت میں ہم بچشم خود دیکھتے ہیں کہ بعض جاندار مرنے کے بعد کسی دوا سے زندہ ہو جاتے ہیں تو پھر انسان کا زندہ ہونا کیا مشکل اور کیوں دور از قیاس ہے.منہ

Page 518

روحانی تربیت کا کام بہت ہی کم ہوتا ہے اور قوتِ منوّرہ اُس کے قلب کی بغایت درجہ گھٹ جاتی ہے.خیال ہو سکتا ہے کہ اسی وجہ سے حضرت مسیح علیہ السلام اپنی روحانی تربیت میں بہت کمزور نکلے جیسا کہ پادری ٹیلر صاحب جو باعتبار عہدہ و نیز بوجہ لیاقت ذاتی کے ایک ممتاز آدمی معلوم ہوتے ہیں.وہ نہایت افسوس سے لکھتے ہیں کہ مسیحؑ کی روحانی تربیت بہت ضعیف اور کمزور ثابت ہوتی ہے اور اُن کے صحبت یافتہ لوگ جو حواریوں کے نام سے موسوم تھے اپنے روحانی تربیت یافتہ ہونے میں اور انسانی قوتوں کی پوری تکمیل سے کوئی اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھلا نہ سکے.(کاش حضرت مسیح نے اپنے ظاہر ی شغل سلبِ امراض کی طرف کم توجہ کی ہوتی اور وہی توجہ اپنے حواریوں کی باطنی کمزوریوں اور بیماریوں پر ڈالتے خاص کر یہودا اسکریوطی پر) اس جگہ صاحب موصوف یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر نبی عربی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے صحابہ کے مقابلہ پر حواریوں کی روحانی تربیت یابی اور دینی استقامت کا موازنہ کیا جائے تو ہمیں افسوس کے ساتھ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح کے حواری روحانی طور پر تربیت پذیر ہونے میں نہایت ہی کچے اور پیچھے رہے ہوئے تھے اور ان کے دماغی اور دلی قویٰ کو حضرت مسیح کی صحبت نے کوئی ایسی توسیع نہیں بخشی تھی جو صحابہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مقابل تعریف ہو سکے بلکہ حواریوں کی قدم قدم میں بزدلی، سست اعتقادی، تنگدلی ‘ دنیا طلبی، بیوفائی ثابت ہوتی تھی.مگر صحابہؓ نبی عربی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے وہ صدق وفا ظہور میں آیا جس کی نظیر کسی دوسرے نبی کے پیروؤں میں ملنا مشکل ہے سو یہ اس روحانی تربیت کا جو کامل طور پر ہوئی تھی اثر تھا جس نے اُن کو بکلّی مبدّل کر کے کہیں کا کہیں پہنچا دیا تھا.اسی طرح بہت سے دانشمند انگریزوں نے حال میں ایسی کتابیں تالیف کی ہیں کہ جن میں اُنہوں نے اقرار کر لیا ہے کہ اگر ہم نبی عربی

Page 519

(صلی اللہ علیہ وسلم) کی حالت رجوع الی اللہ و توکّل و استقامت ذاتی و تعلیم کامل و مطہر و القائے تاثیر و اصلاح خلق کثیر از مفسدین و تائیدات ظاہری و باطنی قادر مطلق کو ان معجزات سے الگ کر کے بھی دیکھیں جو بمدمنقول ان کی نسبت بیان کی جاتی ہیں تب بھی ہمارا انصاف اس اقرار کے لئے ہمیں مجبور کرتا ہے کہ یہ تمام امور جو اُن سے ظہور میں آئے یہ بھی بلاشبہ فوق العادت اور بشری طاقتوں سے بالاتر ہیں اور نبوت صحیحہ صادقہ کے شناخت کرنے کیلئے قوی اور کافی نشان ہیں.کوئی انسان جب تک اس کے ساتھ خدائے تعالیٰ نہ ہو کبھی ان سب باتوں میں کامل اور کامیاب نہیں ہو سکتا اور نہ ایسی غیبی تائیدیں اُس کے شامل ہوتی ہیں.تیسرے سوال کا جواب جن خیالات کو عیسائی صاحب نے اپنی عبارت میں بصورت اعتراض پیش کیا ہے وہ درحقیقت اعتراض نہیں ہیں بلکہ وہ تین غلط فہمیاں ہیں جو بوجہ قلّتِ تدبیر اُن کے دل میں پیدا ہوگئی ہیں.ذیل میں ہم ان غلط فہمیوں کو دُور کرتے ہیں.پہلی غلط فہمی کی نسبت جواب یہ ہے کہ نبی برحق کی یہ نشانی ہرگز نہیں ہے کہ خدا ئے تعالیٰ کی طرح ہر ایک مخفی بات کا بالاستقلال اس کو علم بھی ہو بلکہ اپنے ذاتی اقتدار اور اپنی ذاتی خاصیت سے عالم الغیب ہونا خدائے تعالیٰ کی ذات کا ہی خاصہ ہے.قدیم سے اہل حق حضرت واجب الوجود کے علم غیب کی نسبت وجوبِ ذاتی کا عقیدہ رکھتے ہیں اور دوسرے تمام ممکنات کی نسبت امتناعِ ذاتی اور امکان بالواجب عزّاسمہٗ کا عقیدہ ہے.یعنی یہ عقیدہ کہ خدائے تعالیٰ کی ذات کے لئے عالم الغیب ہونا واجب ہے اور اس کی ہَوِیّتِ حقّہ کی یہ ذاتی خاصیت ہے کہ عالم الغیب ہو مگر ممکنات کے جو ہالکۃ الذات اور باطلۃ الحقیقت ہیں اس صفت میں اور ایسا ہی دوسری صفات میں شراکت بحضرت باری عزّاِسمہٗ

Page 520

جائز نہیں اور جیسا ذات کی رو سے شریک الباری ممتنع ہے ایسا ہی صفات کی رو سے بھی ممتنع ہے.پس ممکنات کیلئے نظراً علٰی ذاتہم عالم الغیب ہونا ممتنعات میں سے ہے.خواہ نبی ہوں یامحدّ ث ہوں یا ولی ہوں، ہاں الہام الٰہی سے اسرار غیبیہ کو معلوم کرنا یہ ہمیشہ خاص اور برگزیدہ کو حصّہ ملتا رہا ہے اور اب بھی ملتا ہے جس کو ہم صرف تابعین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں پاتے ہیں نہ کسی اور میں.عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ وہ کبھی کبھی اپنے مخصوص بندوں کو اپنے بعض اَسرارِ خاصہ پر مطلع کر دیتا ہے اور اوقات مقررہ اور مقدرہ میں رشحِ فیض غیب ان پر ہوتا ہے بلکہ کامل مقرب اللہ اسی سے آزمائے جاتے ہیں اور شناخت کئے جاتے ہیں کہ بعض اوقات آیندہ کی پوشیدہ باتیں یا کچھ چھپے اَسرار اُنہیں بتلائے جاتے ہیں مگر یہ نہیں کہ ان کے اختیار اور ارادہ اوراقتدار سے بلکہ خدا ئے تعالیٰ کے ارادہ اور اختیار اور اقتدار سے یہ سب نعمتیں انہیں ملتی ہیں.وہ جو اس کی مرضی پر چلتے ہیں اور اُسی کے ہو رہتے اور اسی میں کھوئے جاتے ہیں اس خیرمحض کی ان سے کچھ ایسی ہی عادت ہے کہ اکثر ان کی سنتا اور اپنا گزشتہ فعل یا آئندہ کا منشاء بسا اوقات ان پر ظاہر کر دیتا ہے.مگر بغیر اعلامِ الٰہی انہیں کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا وہ اگرچہ خدائے تعالیٰ کے مقرب تو ہوتے ہیں مگر خدا تو نہیں ہوتے سمجھائے سمجھتے ہیں، بتلائے جانتے ہیں، دکھلائے دیکھتے ہیں‘ بلائے بولتے ہیں اور اپنی ذات میں کچھ بھی نہیں ہوتے.جب طاقت عظمیٰ انہیں اپنے الہام کی تحریک سے بلاتی ہے تو وہ بولتے ہیں اورجب دکھلاتی ہے تو دیکھتے ہیں اور جب سناتی ہے تو سنتے ہیں اور جب تک خدائے تعالیٰ ان پر کوئی پوشیدہ بات ظاہر نہیں کرتا تب تک انہیں اس بات کی کچھ بھی خبر نہیں ہوتی.تمام نبیوں کے حالات زندگی (لائف) میں اس کی شہادت پائی جاتی ہے.حضرت مسیح علیہ السلام

Page 521

کی طرف ہی دیکھو کہ وہ کیونکر اپنی لاعلمی کا آپ اقرار کرکے کہتے ہیں کہ اُس دن اور اس گھڑی کی بابت سوا باپ کے نہ تو فرشتے جو آسمان پر ہیں، نہ بیٹا، کوئی نہیں جانتا.باب۱۳.آیت ۳۲مرقس.اور پھر وہ فرماتے ہیں کہ میں آپ سے کچھ نہیں کرتا (یعنی کچھ نہیں کر سکتا) مگر جو میرے باپ نے سکھلایا وہ باتیں کہتا ہوں.کسی کو راستبازوں کے مرتبہ تک پہنچانا میرے اختیار میں نہیں.مجھے کیوں نیک کہتا ہے نیک کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا.مرقس.۱؂ غرض کسی نبی نے بااقتدار یا عالم الغیب ہونے کا دعویٰ نہیں کیا.دیکھو اس عاجز بندہ کی طرف جس کو مسیح کر کے پکارا جاتا ہے اور جسے نادان مخلوق پرستوں نے خدا سمجھ رکھا ہے کہ کیسے اس نے ہرمقام میں اپنے قول اور فعل سے ظاہر کر دیا کہ میں ایک ضعیف اور کمزور اور ناتواں بندہ ہوں اور مجھ میں ذاتی طور پر کوئی بھی خوبی نہیں اور آخری اقرار جس پر ان کا خاتمہ ہوا کیسا پیارے لفظوں میں ہے.چنانچہ انجیل میںیوں لکھا ہے کہ وہ یعنی مسیح (اپنی گرفتاری کی خبر پا کر) گھبرانے اور بہت دلگیر ہونے لگا اور ان سے (یعنی اپنے حواریوں سے) کہا کہ میر ی جان کا غم موت کا سا ہے اور وہ تھوڑا آگے جاکر زمین پر گر پڑا (یعنی سجدہ کیا) اور دعا مانگی کہ اگر ہوسکے تو یہ گھڑی مجھ سے ٹل جائے اور کہا کہ اے ابّا! اے باپ! سب کچھ تجھ سے ہو سکتا ہے.اس پیالہ کو مجھ سے ٹال دے.یعنی تو قادرِ مطلق ہے اور میں ضعیف اور عاجز بندہ ہوں.تیرے ٹالنے سے یہ بلا ٹل سکتی ہے اور آخر ایلی ایلی لما سبقتنی کہہ کر جان دی.جس کاترجمہ یہ ہے کہ ’’اے میرے خدا ! اے میرے خدا!! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.‘‘ اب دیکھئے کہ اگرچہ دعا تو قبول نہ ہوئی کیونکہ تقدیر مبرم تھی.ایک مسکین مخلوق کی

Page 522

خالق کے قطعی ارادہ کے آگے کیا پیش جاتی تھی.مگر حضرت مسیح نے اپنی عاجزی اور بندگی کے اقرار کو نہایت تک پہنچا دیا.اس امید سے کہ شاید قبول ہو جائے.اگر انہیں پہلے سے علم ہوتا کہ دعا ردّ کی جائے گی ہرگز قبول نہیں ہوگی تو وہ ساری رات برابر فجر تک اپنے بچاؤ کے لئے کیوں دعا کرتے رہتے اور کیوں اپنے تئیں اور اپنے حواریوں کو بھی تقید سے اس لا حاصل مشقت میں ڈالتے.سو بقول معترض صاحب ان کے دل میں یہی تھا کہ انجام خدا کو معلوم ہے مجھے معلوم نہیں.پھر ایسا ہی حضرت مسیح کی بعض پیشگوئیوں کا صحیح نہ نکلنا دراصل اسی وجہ سے تھا کہ بباعث عدم علم براسرارِ مخفیہ اجتہادی طور پر تشریح کرنے میں اُن سے غلطی ہو جاتی تھی جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا کہ جب نئی خلقت میں ابن آدم اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا تم بھی (اے میرے بارہ حواریو) بارہ تختوں پر بیٹھو گے.دیکھو باب ۲۰.آیت ۲۸.متی.لیکن اسی انجیل سے ظاہر ہے کہ یہودا اسکریوطی اس تخت سے بے نصیب رہ گیا.اس کے کانوں نے تخت نشینی کی خبر سن لی مگر تخت پر بیٹھنا اُسے نصیب نہ ہوا اب راستی اور سچائی سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت مسیح کو اس شخص کے مرتد اور بد عاقبت ہونے کا پہلے سے علم ہوتا تو کیوں اس کو تخت نشینی کی جھوٹی خوش خبری سناتے.ایسا ہی ایک مرتبہ آپ ایک انجیر کا درخت دور سے دیکھ کر انجیر کھانے کی نیت سے اس کی طرف گئے مگر جا کرجو دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس پر ایک بھی انجیر نہیں تو آپ بہت ناراض ہوئے اور غصہ کی حالت میں اس انجیر کو بددعا دی جس کا کوئی بد اثر انجیر پر ظاہر نہ ہوا.اگر آپ کو کچھ غیب کا علم ہوتا تو بے ثمر درخت کی طرف اس کا پھل کھانے کے ارادہ سے کیوں جاتے.ایسا ہی ایک مرتبہ آپ کے دامن کو ایک عورت نے چھوا تھا تو آپ چاروں طرف

Page 523

پوچھنے لگے کہ کس نے میرا دامن چھوا ہے؟ اگر کچھ علم غیب سے حصہ ہوتا تو دامن چھونے والے کا پتہ معلوم کرنا تو کچھ بڑی بات نہ تھی ایک اور مرتبہ آ پ نے یہ پیشگوئی بھی کی تھی کہ اس زمانہ کے لوگ گزر نہ جائیں گے جب تک یہ سب کچھ (یعنی مسیح کا دوبارہ دنیا میں آنا اور ستاروں کا گرنا وغیرہ) واقع نہ ہووے لیکن ظاہر ہے کہ نہ اس زمانہ میں کوئی ستارہ آسمان کا زمین پر گرا اور نہ حضرت مسیح عدالت کیلئے دنیا میں آئے اور وہ صدی تو کیااس پر اٹھارہ صدیاں اور بھی گزر گئیں اور انیسویں گزرنے کو عنقریب ہے.سو حضرت مسیح کے علم غیب سے بے بہرہ ہونے کے لئے یہی چند شہادتیں کافی ہیں جو کسی اور کتاب سے نہیں بلکہ چاروں انجیلوں سے دیکھ کر ہم نے لکھی ہیں دوسرے اسرائیلی نبیوں کا بھی یہی حال ہے.حضرت یعقوب نبی ہی تھے مگر انہیں کچھ خبر نہ ہوئی کہ اُسی گاؤں کے بیابان میں میرے بیٹے پر کیا گزر رہا ہے.حضرت دانیال اس مدت تک کہ خدائے تعالیٰ نے بخت نصر کے رؤیا کی ان پر تعبیر کھول دی کچھ بھی علم نہیں رکھتے تھے کہ خواب کیا ہے اور اس کی تعبیر کیا ہے؟ پس اس تمام تحقیق سے ظاہر ہے کہ نبی کا یہ کہنا کہ یہ بات خدا کو معلوم ہے مجھے معلوم نہیں، بالکل سچ اور اپنے محل پر چسپاں اور سراسر اس نبی کا شرف اور اس کی عبودیت کا فخر ہے بلکہ ان باتوں سے اپنے آقائے کریم کے آگے اس کی شان بڑھتی ہے نہ یہ کہ اس کے منصب نبوت میں کچھ فتور لازم آتا ہے.ہاں اگر یہ تحقیق منظور ہو کہ خدائے تعالیٰ کے اعلام سے جو اسرار غیب حاصل ہوتے ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کس قدر ہوئے تو میں ایک بڑا ثبوت اس بات کا پیش کرنے کیلئے تیار ہوں کہ جس قدر توریت و انجیل اور تمام بائیبل میں نبیوں کی پیشگوئیاں لکھی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیاں کَمًّا وَ کَیْفًا ہزار حصہ سے بھی ان سے زیادہ ہیں جن کی تفصیل احادیث نبویہ کی رو سے جو بڑی

Page 524

تحقیق سے قلم بند کی گئی ہیں، معلوم ہوتی ہے اور اجمالی طور پر مگر کافی اور اطمینان بخش اور نہایت مؤثر بیان قرآن شریف میں موجود ہے.پھر دیگر اہل مذاہب کی طرح مسلمانوں کے ہاتھ میں صرف قصہ ہی نہیں بلکہ وہ تو ہر صدی میں غیر قوموں کو کہتے رہے ہیں اور اب بھی کہتے ہیں کہ یہ سب برکات اسلام ہیں ہمیشہ کے لئے موجود ہیں.بھائیو! آؤ اوّل آزماؤ پھر قبول کرو.مگر اُن آوازوں کو کوئی نہیں سنتا.حجت الٰہی ان پر پوری ہے کہ ہم بلاتے ہیں وہ نہیں آتے اور ہم دکھاتے ہیں وہ نہیں دیکھتے.انہوں نے آنکھوں اور کانوں کو بکلّی ہم سے پھیر لیا تا نہ ہو کہ وہ سنیں اور دیکھیں اور ہدایت پاویں.دوسری غلط فہمی جو معترض نے پیش کی ہے یعنی یہ کہ اصحاب کہف کی تعداد کی بابت قرآن شریف میں غلط بیان ہے یہ نرا دعویٰ ہے.معترض نے اس بارے میں کچھ نہیں لکھا کہ وہ بیان کیوں غلط ہے اور اس کے مقابل پر صحیح کونسا بیان ہے اور اس کی صحت پر کون سے دلائل ہیں تا اس کے دلائل پر غور کی جائے اور جواب شافی دیا جائے.اگر معترض کو فرقانی بیان پر کچھ کلام تھا تو اس کے وجوہات پیش کرنی چاہئیں تھیں.بغیر پیش کرنے وجوہات کے یونہی غلط ٹھہرانا متلاشئ حق کا کام نہیں ہے.تیسر ی غلط فہمی معترض کے دل میں یہ پیدا ہوئی ہے کہ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ ایک بادشاہ (جس کی سیر و سیاحت کا ذکر قرآن شریف میں ہے) سیر کرتا کرتا کسی ایسے مقام تک پہنچا جہاں اُسے سورج دلدل میں چھپتا نظر آیا.اب عیسائی صاحب مجاز سے حقیقت کی طرف رُخ کر کے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ سورج اتنا بڑا ہو کر ایک چھوٹے سے دلدل میں کیونکر چھپ گیا.یہ ایسی بات ہے جیسے کوئی کہے کہ انجیل میں مسیح کو خدا کا برّہ لکھا ہے یہ کیونکر ہو سکتا ہے.برّہ تو وہ ہوتا ہے جس کے سر پر سینگ اور بدن پر پشم وغیرہ بھی ہو

Page 525

اور چارپایوں کی طرح سرنگون چلتا اور وہ چیزیں کھاتا ہو جو برّے کھایا کرتے ہیں؟اے صاحب! آپ نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ قرآن شریف نے واقعی طور پر سورج کے دلدل میں چھپنے کا دعوٰی کیا ہے.قرآن شریف تو فقط بمنصب نقل خیال اس قدر فرماتا ہے کہ اس شخص کو اس کی نگاہ میں دلدل میں سورج چھپتا ہوا معلوم ہوا.سو یہ تو ایک شخص کی رویت کا حال بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایسی جگہ پہنچا جس جگہ سورج کسی پہاڑ یا آبادی یا درختوں کی اوٹ میں چھپتا ہوا نظرنہیں آتا تھا جیسا کہ عام دستور ہے بلکہ دلدل میں چھپتا ہوا معلوم دیتا تھا.مطلب یہ کہ اُس جگہ کوئی آبادی یا درخت یا پہاڑ نزدیک نہ تھے بلکہ جہاں تک نظر وفا کرے ان چیزوں میں سے کسی چیز کا نشان نظر نہیں آتا تھا فقط ایک دلدل تھا جس میں سورج چھپتا دکھائی دیتا تھا.ان آیات کا سیاق سباق دیکھو کہ اس جگہ حکیمانہ تحقیق کا کچھ ذکر بھی ہے فقط ایک شخص کی دُور دراز سیاحت کا ذکر ہے اور ان باتوں کے بیان کرنے سے اسی مطلب کا اثبات منظور ہے کہ وہ ایسے غیر آباد مقام پر پہنچا.سو اس جگہ ہیئت کے مسائل لے بیٹھنا بالکل بے محل نہیں تو اور کیا ہے؟ مثلاً اگر کوئی کہے کہ آج رات بادل وغیرہ سے آسمان خوب صاف ہو گیا تھا اور ستارے آسمان کے نقطوں کی طرح چمکتے ہوئے نظر آتے تھے تواس سے یہ جھگڑا لے بیٹھیں کہ کیا ستارے نقطوں کی مقدار پر ہیں اور ہیئت کی کتابیں کھول کھول کر پیش کریں تو بلاشبہ یہ حرکت بے خبروں کی سی حرکت ہوگی کیونکہ اس وقت متکلّمکی نیت میں واقعی امر کا بیان کرنا مقصود نہیں وہ تو صرف مجازی طور پر جس طرح ساری دنیا جہان بولتا ہے بات کر رہا ہے.اے وہ لوگو! جو عشائے ربّانی میں مسیح کا لہو پیتے اور گوشت کھاتے ہو کیا ابھی تک تمہیں مجازات اور استعارات کی خبر نہیں؟ سب جانتے ہیں کہ ہر ایک ملک کی عام

Page 526

بول چال میں مجازات اور استعارات کے استعمال کانہایت وسیع دروازہ کھلا ہے اور وحی الٰہی انہیں محاورات و استعارات کو اختیار کرتی ہے جو سادگی سے عوامُ النَّاس نے اپنی روز مرہ کی بات چیت اور بول چال میں اختیار کر رکھی ہیں.فلسفہ کی دقیق اصطلاحات کی ہر جگہ اور ہر محل میں پیروی کرنا وحی کی طرز نہیں کیونکہ روئے سخن عوامُ النَّاس کی طرف ہے.پس ضرور ہے کہ ان کی سمجھ کے موافق اور ان کے محاورات کے لحاظ سے بات کی جائے.حقائق و دقائق کا بیان کرنا بجائے خود ہے مگر محاورات کا چھوڑنا اور مجازات اور استعارات عادیہ سے یک لخت کنارہ کش ہونا ایسے شخص کے لئے ہرگز روا نہیں جو عوامُ النَّاس سے مذاق پر بات کرنا اس کا فرضِ منصب ہے تا وہ اس کی بات کو سمجھیں اور ان کے دلوں پر اس کا اثر ہو.لہٰذا یہ مسلّم ہے کہ کوئی ایسی الہامی کتاب نہیں جس میں مجازات اور استعارات سے کنارہ کیا گیا ہو یا کنارہ کرنا جائز ہو.کیا کوئی کلامِ الٰہی دنیا میں ایسا بھی آیا ہے؟ اگر ہم غور کریں تو ہم خود اپنی ہر روزہ بول چال میں صدہا مجازات و استعارات بول جاتے ہیں اور کوئی بھی ان پر اعتراض نہیں کرتا.مثلاً کہا جاتا ہے کہ ہلال بال سا باریک ہے اور ستارے نقطے سے ہیں یا چاند بادل کے اندر چھپ گیا اور سورج ابھی تک جو پہر دن چڑھا ہے نیزہ بھر اوپر آیا ہے یا ہم نے ایک رکابی پلاؤ کی کھا ئی یا ایک پیالہ شربت کا پی لیا.تو ان سب باتوں سے کسی کے دل میں یہ دھڑکا شروع نہیں ہوتا کہ ہلال کیونکر بال سا باریک ہو سکتا ہے اور ستارے کس وجہ سے بقدر نقطوں کے ہو سکتے ہیں یا چاند بادل کے اندر کیونکر سما سکتا ہے اور کیا سورج نے باوجود اپنی اس تیز حرکت کے جس سے وہ ہزارہا کوس ایک دن میں طے کر لیتا ہے ایک پہر میں فقط بقدر نیزہ کے اتنی مسافت طے کرے ہے اور نہ رکابی پلاؤ کی کھانے یا پیالہ شربت کا پینے سے یہ کوئی خیال کر سکتا ہے کہ رکابی اور پیالہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھا لیا

Page 527

ہوگا.بلکہ یہ سمجھیں گے کہ جو ان کے اندر چاول اور پانی ہے وہی کھایا پیا ہوگا.نہایت صاف بات پر اعتراض کرنا کوئی دانا مخالف بھی پسند نہیں کرتا.انصاف پسند عیسائیوں سے ہم نے خود سنا ہے کہ ایسے ایسے اعتراض ہم میں سے وہ لوگ کرتے ہیں جو بے خبر یا سخت درجہ کے متعصّب ہیں.بھلا یہ کیا حق روی ہے ؟کہ اگر کلامِ الٰہی میں مجاز یااستعارہ کی صورت پر کچھ وارد ہو تو اس بیان کو حقیقت پر حمل کر کے مورد اعتراض بنایا جائے.اس صورت میں کوئی الہامی کتاب بھی اعتراض سے نہیں بچ سکتی.جہاز میں بیٹھنے والے اور اگنبوٹ پر سوار ہونے والے ہر روز یہ تماشا دیکھتے ہیں کہ سورج پانی میں سے ہی نکلتا ہے اور پانی میں ہی غروب ہوتا ہے اور صدہا مرتبہ آپس میں جیسا دیکھتے ہیں، بولتے بھی ہیں کہ وہ نکلا اور وہ غروب ہوا.اب ظاہر ہے کہ اس بول چال کے وقت میں علم ہیئت کے دفتر اُن کے آگے کھولنا اور نظامِ شمسی کا مسئلہ لے بیٹھنا گویا یہ جواب سننا ہے کہ اے پاگل! کیا یہ علم تجھے ہی معلوم ہے.ہمیں معلوم نہیں.عیسائی صاحب نے قرآن شریف پر تو اعتراض کیا مگر انجیل کے وہ مقامات جن پر حقًّا و حقیقتاً اعتراض ہوتا ہے بھولے رہے.مثلاً بطور نمونہ دیکھو کہ انجیل متی و مرقس میں لکھا ہے کہ مسیح کو اس وقت آسمان سے خلق اللہ کی عدالت کے لئے اُترتا دیکھو گے جب سورج اندھیرا ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہیں دے گا اور ستارے آسمان سے گر جائیں گے.اب ہیئت کاعلم ہی یہ اشکال پیش کرتا ہے کہ کیونکر ممکن ہے کہ تمام ستارے زمین پر گریں اور سب ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین کے کسی گوشہ میں جاپڑیں اور بنی آدم کو ان کے گرنے سے کچھ بھی حرج اور تکلیف نہ پہنچے اور سب زندہ اور سلامت رہ جائیں حالانکہ ایک ستارہ کا گرنا بھی سُکَّانُ الْاَرْضِ کی تباہی کیلئے کافی ہے پھر یہ امر بھی قابل غور ہے کہ جب

Page 528

ستارے زمین پر گر کر زمین والوں کو صفحہ ہستی سے بے نشان و نابود کریں گے تو مسیح کا یہ قول کہ تم مجھے بادلوں میں آسمان سے اُترتا دیکھو گے کیونکر درست ہوگا؟ جب لوگ ہزاروں ستاروں کے نیچے دبے ہوئے مرے پڑے ہوں گے تو مسیح کا اُترنا کون دیکھے گا؟ اور زمین جو ستاروں کی کشش سے ثابت و برقرار ہے کیونکر اپنی حالت صحیحہ پر قائم اور ثابت رہے گی اور مسیح کن برگزیدوں کو (جیسا کہ انجیل میں ہے) دُور دُور سے بلائے گا اورکن کو سرزنش اور تنبیہ کرے گا کیونکہ ستاروں کاگرنا تو بہ بداہت مستلزم عام فنا اور عام موت بلکہ تختۂ زمین کے انقلاب کا موجب ہوگا.اب دیکھئے کہ یہ سب بیانات علم ہیئت کے برخلاف ہیں یا نہیں؟ ایسا ہی ایک اور اعتراض علم ہیئت کی رو سے انجیل پر ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ انجیل متی میں دیکھو وہ ستارہ جو انہوں نے (یعنی مجوسیوں نے) پورب میں دیکھاتھا ان کے آگے آگے چل رہا اور اس جگہ کے اوپر جہاں وہ لڑکا تھا جا کر ٹھہرا.(باب ۲.آیت ۹ متی) اب عیسائی صاحبان براہ مہربانی بتلا ویں کہ علم ہیئت کی رو سے اس عجیب ستارہ کا کیا نام ہے جو مجوسیوں کے ہم قدم اور ان کے ساتھ ساتھ چلا تھا اور یہ کس قسم کی حرکت اور کن قواعد کی رو سے مسلّم الثبوت ہے؟ مجھے معلوم نہیں کہ انجیل متی ایسے ستارہ کے بارے میں ہیئت والوں سے کیونکر پیچھا چھڑا سکتی ہے.بعض صاحب تنگ آ کر یہ جواب دیتے ہیں کہ یہ مسیح کا قول نہیں متی کا قول ہے.متی کے قول کو ہم الہامی نہیں جانتے.یہ خوب جواب ہے جس سے انجیل کے الہامی ہونے کی بخوبی قلعی کھل گئی اور میں بطور تنزل کہتا ہوں کہ گو یہ مسیح کا قول نہیں متی یا کسی اور کا قول ہے مگر مسیح کا قول بھی تو (جس کو الہامی مانا گیا ہے اور جس پر ابھی ہماری طرف سے اعتراض ہوچکا ہے) اسی کا ہم رنگ اور ہم شکل ہے ذرا اُسی کو اصولِ ہیئت سے مطابق کر کے دکھلائیے اور نیز یہ بھی یاد رہے کہ یہ قول الہامی نہیں بلکہ

Page 529

انسان کی طرف سے انجیل میں ملایا گیا ہے تو پھر آپ لوگ ان انجیلوں کو جو آپ کے ہاتھ میں ہیں تمام بیانات کے اعتبار سے الہامی کیوں کہتے ہو؟ صاف طور پر کیوں مشتہر نہیں کر دیتے کہ بجز چند ان باتوں کے جو حضرت مسیح کے ُ منہ سے نکلی ہیں باقی جو کچھ اناجیل میں لکھا ہے وہ مؤلفین نے صرف اپنے خیال اور اپنی عقل اور فہم کے مطابق لکھا ہے، جو غلطیوں سے مبرا متصور نہیں ہو سکتا.جیسا کہ پادری صاحبوں کی عام تحریروں سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ رائے عام طور پر مشتہر بھی کی گئی ہے یعنی بالاتفاق انجیلوں کے بارے میں یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ جو کچھ تاریخی طور پر معجزات وغیرہ کا ذکر ان میں پایا جاتا ہے وہ کوئی الہامی امر نہیں بلکہ انجیل نویسوں نے اپنے قیاس یا سماعت وغیرہ وسائل خارجیہ سے لکھ دیا ہے.غرض پادری صاحبوں نے اس اقرار سے ان بہت سے حملوں سے جو انجیلوں پر ہوتے ہیں اپنا پیچھا چھڑانا چاہا ہے اور ہر ایک انجیل میں تقریباً دس۱۰ حصے انسان کا کلام اور ایک حصہ خدائے تعالیٰ کا کلام مان لیا ہے اور ان اقرارات کی وجہ سے جو جو نقصان انہیں اُٹھانے پڑے.ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عیسوی معجزات ان کے ہاتھ سے گئے اور ان کا کوئی شافی کافی ثبوت ان کے پاس نہ رہا کیونکہ ہر چند انجیل نویسوں نے تاریخی طور پر فقط اپنی طرف سے مسیح کے معجزات انجیلوں میں لکھے ہیں مگر مسیح کا اپنا خالص بیان جو الہامی کہلاتا ہے حواریوں کے بیان سے صریح مبائن و مخالف معلوم ہوتا ہے بلکہ اُسی کی ضد اور نقیض ہے.وجہ یہ کہ مسیح نے اپنے بیان میں جس کو الہامی کہا جاتا ہے جا بجا معجزات کے دکھلانے سے انکار ہی کیا ہے اور معجزات کے مانگنے والوں کو صاف جواب دے دیا ہے کہ تمہیں کوئی معجزہ دکھلایا نہیں جائے گا.چنانچہ ہیرو دیس نے بھی مسیح سے معجزہ مانگا تو اُس نے نہ دکھلایا اور بہت سے لوگوں نے اس کے نشان دیکھنے چاہے اور اور نشانوں کے بارے میں اس

Page 530

سے سوال بھی کیا مگر وہ صاف منکر ہو گیا اور کوئی نشان دکھلا نہ سکا بلکہ اس نے تمام رات جاگ کر خدا تعالیٰ سے یہ نشان مانگا کہ وہ یہودیوں کے ہاتھ سے محفوظ رہے تو یہ نشان بھی اس کو نہ ملا اور دعا ردّ کی گئی.پھر مصلوب ہونے کے بعد یہودیوں نے سچے دل سے کہا کہ اگر وہ اب صلیب پر سے زندہ ہو کر اُتر آوے تو ہم سب کے سب اس پر ایمان لائیں گے مگر وہ اُتر بھی نہ سکا.پس ان تمام واقعات سے صاف ظاہر ہے کہ جہاں تک انجیلوں میں الہامی فقرات ہیں وہ مسیح کو صاحب معجزات ہونے سے صاف جواب دے رہے ہیں اور اگر کوئی ایسا فقرہ ہے بھی کہ جس میں مسیح کے صاحب معجزات ہونے کے بارے میں کچھ خیال کر سکیں تو حقیقت میں وہ فقرہ ذوالوجوہ ہے جس کے اور اور معنی بھی ہو سکتے ہیں.کچھ ضروری نہیں معلوم ہوتا کہ اس کو ظاہر پر ہی محمول کیا جائے یا خواہ نخواہ کھینچ تان کر ان معجزات کا ہی مصداق ٹھہرایا جائے جن کا انجیل نویسوں نے اپنی طرف سے ذکر کیا ہے اورکوئی فقرہ خاص حضرت مسیح کی زبان سے نکلا ہوا ایسا نہیں کہ جو وقوع اور ثبوت معجزات پر صاف طور پر دلالت کرتا ہو بلکہ مسیح کے خاص اور پُرزور کلمات کی اسی امر پر دلالت پائی جاتی ہے کہ اُن سے ایک بھی معجزہ ظہور میں نہیں آیا.* تعجب کہ عیسائی لوگ کیوں ان باتوں پر اعتماد و اعتبار نہیں کرتے جو مسیح کا خاص بیان اور الہامی کہلاتی ہیں اور خاص مسیح کے منہ سے نکلی ہیں؟ اور باتوں پر کیوں اعتماد کیا جاتا ہے اور کیوں ان کے قدر سے زیادہ ان پر زور دیا جاتا ہے جو عیسائیوں کے اپنے اقرار کے موافق الہامی نہیں ہیں بلکہ تاریخی طور پر انجیلوں میں * قرآن شریف میں فقط اس مسیح کے معجزات کی تصدیق ہے جس نے کبھی خدائی کا دعویٰ نہیں کیا کیونکہ مسیح کئی ہوئے ہیں اور ہوں گے اور پھر قرآنی تصدیق ذوالوجوہ ہے جو انجیل نویسوں کے بیان کی ہرگز مصداق نہیں.منہ

Page 531

داخل ہیں اور الہام کے سلسلہ سے بکلّی خارج ہیں اور الہامی عبارات سے بکلّی ان کا تناقض پایا جاتا ہے.پس جب الہامی اور غیر الہامی عبارات میں تناقض ہو تو اس کے دور کرنے کیلئے بجز اس کے اور کیا تدبیر ہے کہ جو عبارتیں الہامی نہیں ہیں وہ ناقابل اعتبار سمجھی جائیں اور صرف انجیل نویسوں کے مبالغات یقین نہ کئے جائیں؟ چنانچہ جا بجا ان کا مبالغہ کرنا ظاہر بھی ہے جیسا کہ یوحنا کی انجیل کی آخری آیت جس پر وہ مقدس انجیل ختم کی گئی ہے یہ ہے.’’پر اور بھی بہت سے کام ہیں جو یسوع نے کئے اور اگر وہ جُدا جُدا لکھے جاتے تو میں گمان کرتا ہوں کہ کتابیں جو لکھی جاتیں دنیا میں سما نہ سکتیں‘‘.دیکھو کس قدر مبالغہ ہے زمین و آسمان کے عجائبات تو دنیا میں سما گئے مگر مسیح کی تین یا اڑھائی برس کی سوانح دنیا میں سما نہیں سکتی ایسے مبالغہ کرنے والے لوگوں کی روایت پر کیونکر اعتبار کر لیا جاوے.ہندوؤں نے بھی اپنے اوتاروں کی نسبت ایسی ہی کتابیں تالیف کی تھیں اور اسی طرح خوب جوڑ جوڑ سے ملا کر جھوٹ کا پل باندھا تھا سو اس قوم پر بھی اس افترا کا نہایت قوی اثر پڑا اور اِس سرے سے ملک کے اُس سرے تک رام رام اور کرشن کرشن دلوں میں رَچ گیا.بات یہ ہے کہ مرتب کردہ کتابیں جن میں بہت سا افتراء بھرا ہوا ہو اُن قبروں کی طرح ہوتے ہیں جو باہر سے خوب سفید کی جائیں اور چمکائی جائیں پر اندر کچھ نہ ہو.اندر کا حال ان بے خبر لوگوں کو کیا معلوم ہو سکتا ہے جو صدہا برسوں کے بعد پیدا ہوئے اور بنی بنائی کتابیں ایسی متبرک اور بے لوث ظاہر کر کے ان کو دی گئیں کہ گویا وہ اسی صورت اور وضع کے ساتھ آسمان سے اُتری ہیں سو وہ کیا جانتے ہیں کہ دراصل یہ مجموعہ کس طرح طیار کیا گیاہے؟ دنیا میں ایسی تیز نگاہیں جو پردوں کو چیرتی ہوئی اندر گھس جائیں اور اصل حقیقت پراطلاع پا لیں اور چور کو پکڑ لیں بہت کم ہیں اور افتراء کے جادو سے متأثر ہونے والی

Page 532

روحیں اس قدر ہیں جن کا اندازہ کرنا مشکل ہے اسی وجہ سے ایک عالم تباہ ہو گیا اور ہوتا جاتا ہے.نادانوں نے ثبوت یا عدم ثبوت کے ضروری مسئلہ پر کچھ بھی غور نہیں کی اور انسانی منصوبوں اور بندشوں کا جو ایک مستمرہ طریقہ اور نیچرلی امر ہے جو نوع انسان میں قدیم سے چلا آتا ہے اس سے چوکس رہنا نہیں چاہا اور یونہی شیطانی دام کو اپنے پر لے لیا.مکّاروں نے اس شریر کیمیا گر کی طرح جو ایک سادہ لوح سے ہزار روپیہ نقد لے کر دس بیس لاکھ کا سونا بنا دینے کا وعدہ کرتا ہے سچا اور پاک ایمان نادانوں کا کھویا اور ایک جھوٹی راستبازی اور جھوٹی برکتوں کا وعدہ دیا جن کا خارج میں کچھ بھی وجود نہیں اور نہ کچھ ثبوت.آخر شرارتوں میں، مکروں میں، دنیا پرستیوں میں، نفس امّارہ کی پیروی میں اپنے سے بدتر ان کو کر دیا.بالآخر یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اعجازات اور پیشگوئیوں کے بارے میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وقوع میں آئیں قرآن شریف کی ایک ذرہ شہادت، انجیلوں کے ایک تودۂ عظیم سے جو مسیح کے اعجاز وغیرہ کے بارے میں ہو، ہزار ہا درجہ بڑھ کر ہے کیوں بڑھ کر ہے؟ اسی وجہ سے کہ خود باقرار تمام محقق پادریوں کے انجیلوں کا بیان خود حواریوں کا اپنا ہی کلام ہے اور پھر اپنا چشم دید بھی نہیں اور نہ کوئی سلسلہ راویوں کا پیش کیا ہے اور نہ کہیں ذاتی مشاہدہ کا دعویٰ کیا لیکن قرآن شریف میں اعجازات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ خاص خدائے صادق و قدوس کی پاک شہادت ہے.اگر وہ صرف ایک ہی آیت ہوتی تب بھی کافی ہوتی.مگر اَلْحَمْدُ لِلّٰہِکہ ان شہادتوں سے سارا قرآن شریف بھرا ہوا ہے.اب موازنہ کرنا چاہئے کہ کجا خدا ئے تعالیٰ کی پاک شہادت جس میں کذب ممکن نہیں اور کجا نا دیدہ جھوٹ اور مبالغہ آمیز شہادتیں.؂ بہ نزدیک دانائے بیدار دل جوئے سیم بہتر زِ صد تودۂِ گِل

Page 533

افترائی باتوں پر کیوں تعجب کرنا چاہئے.ایسا بہت کچھ ہوا ہے اور ہوتا ہے.عیسائیوں کو آپ اقرار ہے کہ ہم میں سے بہت لوگ ابتدائی زمانوں میں اپنی طرف سے کتابیں بنا کر اور بہت کچھ کمالات اپنے بزرگوں کے ان میں لکھ کر پھر خدا ئے تعالیٰ کی طرف اُن کو منسوب کرتے رہے ہیں اور دعویٰ کر دیا جاتا تھا کہ وہ خدا ئے تعالیٰ کی طرف سے کتابیں ہیں.* پس جب کہ قدیم عادت عیسائیوں اور یہودیوں کی یہی جعلسازی چلی آئی ہے تو پھر کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ متی وغیرہ انجیلوں کو اس عادت سے کیوں باہر رکھا جائے؟ * جو کچھ انجیلوں میں ناجائز اور بے ثبوت مبالغہ معجزات حضرت مسیح کی نسبت یا ان کی ناواجب تعریفوں کے بارے میں پایا جاتا ہے.اس کی تحقیق کرنا مشکل ہے کہ کب اور کس وقت یہ باتیں انجیلوں میں ملائی گئی ہیں.اگرچہ عیسائیوں کو اقرار ہے کہ خود انجیل نویسوں نے یہ باتیں اپنی طرف سے ملا دی ہیں مگر اس عاجز کی دانست میں یہ حاشئے آہستہ آہستہ چڑھے ہیں.اور جعلساز مکار پیچھے سے بہت کچھ موقع پاتے رہے ہیں ہاں مستقل طور پر کئی جعلی کتابیں جو الہامی ہونے کے نام سے مشہور ہوگئیں حضرا ت مسیحوں اور یہودیوں نے اوائل دنوں میں ہی تالیف کر کے شائع کر دی تھیں.چنانچہ اسی جعلسازی کی برکت سے بجائے ایک انجیل کے بہت سی انجیلیں شائع ہو گئیں عیسائیوں کا خود یہ بیان ہے کہ مسیح کے بعد جعلی انجیلیں کئی تالیف ہوئیں.جیسا کہ منجملہ اُن کے ایک انجیل برنباس بھی ہے.یہ تو عیسائیوں کا بیان ہے.مگر میں کہتا ہوں کہ چونکہ اُن انجیلوں اور اناجیل اربعہ مروجہ میں بہت کچھ تناقض ہے یہاں تک کہ برنباس کی انجیل مسیح کے مصلوب ہونے سے بھی منکر اور مسئلہ تثلیث کے بھی مخالف اور مسیح کی الوہیت اور ابنیت کو بھی نہیں مانتی اور نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی صریح لفظوں میں بشارت دیتی ہے.تو اب عیسائیوں کے اس دعوٰی بے دلیل کو کیونکر مان لیا جائے کہ جن انجیلوں کو اُنہوں نے رواج دیا ہے.وہ تو سچی ہیں اور جو اُن کے مخالف ہیں وہ سب جھوٹی ہیں.ماسوا اس کے جب کہ عیسائیوں میں جعل کی اس قدر گرم بازاری رہی ہے کہ بعض کامل اُستادوں نے

Page 534

حالانکہ اس ساہوکار کی طرح جس کا روزنامچہ اور بہی کھاتہ بوجہ صریح تناقض اور مشکوکیت کے پوشیدہ حال کو ظاہر کر رہا ہو.ہر چہار انجیلوں سے وہ کارستانی ظاہر ہو رہی ہے جس کو انہوں نے چھپانا چاہا تھا.اسی وجہ سے یورپ اور امریکہ میں غور کرنے والوں کی طبیعتوں میں ایک طوفانِ شکوک پیدا ہو گیا ہے اور جس ناقص اور متغیر اور مجسم خدا کی طرف انجیل رہنمائی کر رہی ہے اس کے قبول کرنے سے وہ دہریہ رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں.چنا نچہ میرے ایک دوست فاضل انگریز نے امریکہ سے بذریعہ اپنی کئی چٹھیوں کے مجھے خبر دی ہے کہ ان ملکوں میں دانشمندوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کہ عیسائی مذہب کو نقص سے خالی سمجھتا ہو اور اسلام کے قبول کرنے کے لئے مستعد نہ ہو.اور گو عیسائیوں نے قرآن شریف کے ترجمے محرف اور بدنما کر کے یورپ اور امریکہ کے ملکوں میں شائع کئے ہیں مگر ان کے بقیہ حاشیہ :.پوری پوری انجیلیں بھی اپنی طرف سے بنا کر عام طور پر قوم میں اُنہیں شائع کر دیا اور ایک ذرہ پروں پر پانی پڑنے نہ دیا.تو کسی کتاب کا محرف مبدل کرنا اُن کے آگے کیا حقیقت تھا.پھر جب کہ یہ بھی تسلیم کر لیا گیا ہے کہ مسیح کے زمانہ میں یہ انجیلیں قلمبند نہیں ہوئیں بلکہ ساٹھ یا ستر برس مسیح کے فوت ہونے کے بعد یا کچھ کم و بیش یا اختلاف روایت اناجیل اربعہ کا مجموعہ دنیا میں پیدا ہوا تو اُس سے ان انجیلوں کی نسبت اور بھی شک پیدا ہوتا ہے.کیونکہ اس بات کا ثبوت دینا مشکل ہے کہ اس عرصہ تک حواری زندہ رہے ہوں یا اُن کی قوتیں قائم رہی ہوں.اب ہم سب قصوں کو مختصر کر کے ناظرین کو یہ باور دلاتے ہیں کہ اس بات کا عیسائیوں نے ہرگز صفائی سے ثبوت نہیں دیا کہ بارہ انجیلیں جعلی اور چار جن کو رواج دے رہے ہیں جعل اور تحریف سے مبرا ہیں بلکہ وہ ان چاروں کی نسبت بھی خود اقرار کرتے ہیں کہ وہ خالص خدا ئے تعالیٰ کا کلام نہیں اور اگر وہ ایسا اقرار بھی نہ کرتے تب بھی انجیلوں کے مغشوش ہونے میں کچھ شک نہیں تھا کیونکہ اس بات کا بار ثبوت اُن کے ذمہ ہے.جس سے آج تک وہ سبکدوش نہیں ہو سکے کہ کیوں دوسری انجیلیں جعلی اور یہ جعلی نہیں.

Page 535

اندر جو نور چھپا ہوا ہے وہ پاکیزہ دلوں پر اپنا کام کر رہا ہے.غرض امریکہ اور یورپ آج کل ایک جوش کی حالت میں ہے اور انجیل کے عقیدوں نے جو برخلاف حقیقت ہیں بڑی گھبراہٹ میں انہیں ڈال دیا ہے یہاں تک کہ بعضوں نے یہ رائے ظاہر کی کہ مسیح یا عیسیٰ نام(کا) خارج میں کوئی شخص کبھی پیدا نہیں ہوا بلکہ اس سے آفتاب مراد ہے اور بارہ حواریوں سے بارہ ُ برج مراد ہیں.اور پھر اس مذہب عیسائی کی حقیقت زیادہ تر اس بات سے کھلتی ہے کہ جن نشانیوں کو حضرت مسیح ایمان داروں کے لئے قرار دیئے گئے تھے اُن میں سے ایک بھی ان لوگوں میں نہیں پائی جاتی حضرت مسیح نے فرمایا تھا کہ اگر تم میری پیروی کرو گے تو ہر ایک طرح کی برکت اور قبولیت میں میرا ہی روپ بن جاؤ گے اور معجزات اور قبولیت کے نشان تم کو دیئے جائیں گے اور تمہارے مومن ہونے کی یہی علامت ہوگی کہ تم طرح طرح کے نشان دکھلا سکو گے اور جو چاہو گے تمہارے لئے وہی ہوگا.اور کوئی بات تمہارے لئے ناممکن نہیں ہوگی.لیکن عیسائیوں کے ہاتھ میں ان برکتوں میں سے کچھ بھی نہیں.وہ اس خدا سے ناآشنا محض ہیں جو اپنے مخصوص بندوں کی دعائیں سنتا ہے اور انہیں آمنے سامنے شفقت اور رحمت کا جواب دیتا ہے.اور عجیب عجیب کام ان کے لئے کر دکھاتا ہے لیکن سچے مسلمان جو اُن راستبازوں کے قائم مقام اور وارث ہیں جو ان سے پہلے گذر چکے ہیں وہ اُس خدا کو پہچانتے اور اس کی رحمت کے نشانوں کو دیکھتے ہیں.اور اپنے مخالفوں کے سامنے آفتاب کی طرح جو ظلمت کے مقابل ہو مابہ الامتیاز رکھتے ہیں.ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ اس دعویٰ کو بلا دلیل نہیں سمجھناچاہئے سچے اور جھوٹے مذہب میں ایک آسمان پر فرق ہے اور ایک زمین پر.زمین کے فرق سے مراد وہ فرق ہے جو انسان کی عقل اور انسان کا کانشنس اور قانون قدرت اس عالم کا اس کی تشریح کرتا ہے.سو عیسائی مذہب اور اسلام

Page 536

کو جب اس محک کی رو سے جانچا جائے تو صاف ثابت ہوتا ہے کہ اسلام وہ فطرتی مذہب ہے جس کے اصولوں میں کوئی تصنع اور تکلّف نہیں اور جس کے احکام کوئی مستحدث اور بناوٹی امر نہیں اور کوئی ایسی بات نہیں جو زبردستی منوانی پڑے اور جیسا کہ خدائے تعالیٰ نے جابجا آپ فرمایا ہے.قرآن شریف صحیفۂ فطرت کے تمام علوم اور اس کی صداقتوں کو یاد دلاتا ہے اور اس کے اسرارِ غامضہ کو کھولتا ہے اور کوئی نئے امور برخلاف اس کے پیش نہیں کرتا بلکہ درحقیقت اُسی کے معارف دقیقہ ظاہر کرتا ہے.برخلاف اس کے عیسائیوں کی تعلیم جس کا انجیل پر حوالہ دیا جاتا ہے ایک نیا خدا پیش کر رہی ہے جس کی خود کشی پر دنیا کے گناہ اور عذاب سے نجات موقوف اور اس کے دُکھ اُٹھانے پر خلقت کا آرام موقوف اور اس کے بے عزت اور ذلیل ہونے پر خلقت کی عزت موقوف خیال کی گئی ہے.پھر بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایک ایسا عجیب خدا ہے کہ ایک حصہ اس کی عمر کا تو منزّہ عن الجسم و عن عیوب الجسم میں گزرا ہے اور دوسرا حصہ عمر کا (کسی نامعلوم بدبختی کی وجہ سے) ہمیشہ کے تجسم اور تحیّز کی قید میں اسیر ہو گیا اور گوشت پوست استخوان وغیرہ سب کے سب اس کی روح کے لئے لازمی ہوگئے اور اس تجسم کی وجہ سے، کہ اب ہمیشہ اس کے ساتھ رہے گا، انواع اقسام کے اس کو دکھ اُٹھانے پڑے آخر دکھوں کے غلبہ سے مر گیا اور پھر زندہ ہوا اور اُسی جسم نے پھر آ کر اس کو پکڑ لیا اور ابدی طور پر اُسے پکڑے رہے گا.کبھیَ مخلصی نہیں ہوگی.اب دیکھو کہ کیا کوئی فطرت صحیحہ اس اعتقاد کو قبول کر سکتی ہے؟ کیا کوئی پاک کانشنس اس کی شہادت دے سکتا ہے؟ کیا قانون قدرت کا ایک جزو بھی خدائے بے عیب و بے نقص وغیر متغیر کیلئے یہ حوادث و آفات روا رکھ سکتا ہے کہ اس کو ہمیشہ ہر ایک عالم کے پیدا کرنے اور پھر اس کو نجات دینے کیلئے ایک مرتبہ مرنا درکار ہے اور بجز خود کشی اپنے کسی افاضۂ خیر کی

Page 537

صفت کو ظاہر نہیں کر سکتا اور نہ کسی قسم کا اپنی مخلوقات کو دنیا یا آخرت میں آرام پہنچا سکتا ہے.ظاہر ہے کہ اگر خدائے تعالیٰ کو اپنی رحمت بندوں پر نازل کرنے کیلئے خود کشی کی ضرورت ہے تو اُس سے لازم آتا ہے کہ ہمیشہ اس کو حادثہ موت کا پیش آتا رہے اور پہلے بھی بے شمار موتوں کا مزہ چکھ چکا ہو اور نیز لازم آتا ہے کہ ہندوؤں کے پرمیشر کی طرح معطل الصفّات ہو.اب خود ہی سوچو کہ کیا ایسا عاجز اور درماندہ خدا ہو سکتا ہے کہ جو بغیر خودکشی کے اپنی مخلوقات کو کبھی اور کسی زمانہ میں کوئی بھلائی پہنچا نہیں سکتا.کیا یہ حالت ضعف اور ناتوانی کی خدائے قادر مطلق کے لائق ہے؟ پھر عیسائیوں کے خدا کی موت کا نتیجہ دیکھئے تو کچھ بھی نہیں.ان کے خدا کی جان گئی مگر شیطان کے وجود اور اس کے کارخانہ کا ایک بال بھی بیکا نہ ہوا.وہی شیطان اور وہی اس کے چیلے جو پہلے تھے اب بھی ہیں.چوری، ڈکیتی، زنا، قتل، دروغ گوئی، شراب خواری،* قماربازی، دنیا پرستی، بے ایمانی، کفر شرک، دہریہ پن اور دوسرے صدہا طر ح کے جرائم * تاز ہ اخبارات سے معلوم ہوا ہے کہ تیرہ کروڑ ساٹھ ہزار پاؤنڈ ہر سال سلطنت برطانیہ میں شراب کشی اور شراب نوشی میں خرچ ہوتا ہے (اور ایک نامہ نگار ایم اے کی تحریر ہے) کہ شراب کی بدولت لندن میں صدہا خودکشی کی وارداتیں ہو جاتی ہیں اور خاص لندن میں شاید منجملہ تیس لاکھ آبادی کے دس ہزار آدمی مے نوش نہ ہوں گے، ورنہ سب مرد اور عورت خوشی اور آزادی سے شراب پیتے اور پلاتے ہیں.اہل لندن کا کوئی ایسا جلسہ اور سوسائٹی اور محفل نہیں ہے کہ جس میں سب سے پہلے برانڈی اور شری اور لال شراب کا انتظام نہ کیا جاتا ہو.ہر ایک جلسہ کا جزوِ اعظم شراب کو قرار دیا جاتا ہے اور طرفہ برآں یہ کہ لندن کے بڑے بڑے قسیس اور پادری صاحبان بھی باوجود دیندار کہلانے کے مے نوشی میں اوّل درجہ ہوتے ہیں.جتنے جلسوں میں مجھ کو بطفیل مسٹر نکلیٹ صاحب شامل ہونے کا اتفاق ہوا ہے ان سب میں ضرور دو چار نوجوان پادری اور ریورنڈ بھی شامل ہوتے دیکھے.لندن میں شراب نوشی کو

Page 538

جو قبل از مصلوبیت مسیح تھے اب بھی اُسی زور و شور میں ہیں بلکہ کچھ چڑھ، بڑھ کر.مثلاً دیکھئے کہ اس زمانہ میں کہ جب ابھی مسیحیوں کا خدا زندہ تھا عیسائیوں کی حالت اچھی تھی جبھی کہ اس خدا پر موت آئی جس کو کفّارہ کہا جاتا ہے.تبھی سے عجیب طور پر شیطان اس قوم پر سوار بقیہ حاشیہ :.کسی بُری مد میں شامل نہیں سمجھا گیا اور یہاں تک شراب نوشی کی علانیہ گرم بازاری ہے کہ میں نے بچشم خود ہنگام سیر لندن اکثر انگریزوں کو بازار میں پھرتے دیکھا کہ متوالے ہو رہے ہیں اور ہاتھ میں شراب کی بوتل ہے.علٰی ہذا القیاس.لندن میں عورتیں دیکھی جاتی تھیں کہ ہاتھ میں بوتل بیئر پکڑے لڑکھڑاتی چلی جاتی ہیں.بیسیوں لوگ شراب سے مدہوش اور متوالے، اچھے بھلے، بھلے مانس مہذب بازاروں کی نالیوں میں گرے ہوئے دیکھے.شراب نوشی کے طفیل اور برکت سے لندن میں اس قدر خود کشی کی وارداتیں واقعہ ہوتی رہتی ہیں کہ ہر ایک سال اُن کا ایک مہلک وبا پڑتا ہے (یکم فروری ۱۸۸۳ء.رہبر ہند لاہور) اسی طرح ایک صاحب نے لندن کی عام زناکاری اور قریب ستر ستر ہزار کے ہر سال ولدالزنا پیدا ہونا ذکر کر کے وہ باتیں ان لوگوں کی بے حیائی کی لکھی ہیں کہ جن کی تفصیل سے قلم رُکتی ہے.بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ یورپ کے اوّل درجہ کے مہذب اور تعلیم یافتہ لوگوں کے اگر دس حصے کئے جائیں تو بلاشبہ نوحصے ان میں سے دہریہ ہوں گے جو مذہب کی پابندی اور خدائے تعالیٰ کے اقرار اور جزاسزا کے اعتقاد سے فارغ ہو بیٹھے ہیں اور یہ مرض دہریّت کا دن بدن یورپ میں بڑھتا جاتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ دولت برطانیہ کی کشادہ دلی نے اس کی ترقی سے کچھ بھی کراہت نہیں کی.یہاں تک کہ بعض پکے دہریہ پارلیمنٹ کی کرسی پر بھی بیٹھ گئے اور کچھ پرواہ نہیں کی گئی.نامحرم لوگوں کو نوجوان عورتوں کا بوسہ لینا صرف جائز ہی نہیں بلکہ یورپ کی نئی تہذیب میں ایک مستحسن امر قرار دیا گیا ہے.کوئی دعویٰ سے نہیں کہہ سکتا کہ انگلستان میں کوئی ایسی عورت بھی ہے کہ جس کا عین جوانی کے دنوں میں کسی نامحرم جوان نے بوسہ نہ لیا ہو.دنیا پرستی اس قدر ہے کہ آروپ الیگزانڈر صاحب اپنی ایک چٹھی میں (جو میرے نام بھیجی ہے) لکھتے

Page 539

ہو گیا اور گناہ اور نافرما نی اور نفس پرستی کے ہزار ہا دروازے کھل گئے.چنانچہ عیسائی لوگ خود اس بات کے قائل ہیں اور پادری فنڈر صاحب مصنف میزان الحق فرماتے ہیں کہ عیسائیوں کی کثرت گناہ اور اُن کی اندرونی بدچلنی اور فسق و فجور کے پھیلنے کی وجہ سے ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم بغرض سزا دہی اور تنبیہ عیسائیوں کے بھیجے گئے تھے.پس ان تقریروں سے ظاہر ہے کہ زیادہ تر گناہ اور معصیت کا طوفان مسیح کے مصلوب ہونے کے بعد ہی عیسائیوں میں اُٹھا ہے.اس سے ثابت ہے کہ مسیح کا مرنا اس غرض سے نہیں تھا کہ گناہ کی تیزی اس کی موت سے کچھ روبہ کمی ہو جائے گی مثلاً اس کے مرنے سے پہلے اگر لوگ بقیہ حاشیہ :.ہیں کہ تمام مہذب اور تعلیم یافتہ جو اس ملک میں پائے جاتے ہیں ان میں سے ایک بھی میری نظر میں ایسا نہیں جس کی نگاہ آخرت کی طرف لگی ہوئی ہو بلکہ تمام لوگ سر سے پیر تک دنیا پرستی میں مبتلا نظر آتے ہیں.اب ان تمام بیانات سے ظاہر ہے کہ مسیح کے قربان ہونے کی وہ تاثیریں جو پادری لوگ ہندوستان میں آ کر سادہ لوحوں کو سناتے ہیں، سراسر پادری صاحبوں کا افترا ہے.اور اصل حقیقت یہی ہے کہ کفّارہ کے مسئلہ کو قبول کر کے جس طرف عیسائیوں کی طبیعتوں نے پلٹا کھایا ہے وہ یہی ہے کہ شراب خواری بکثرت پھیل گئی.زنا کاری اور بدنظری شیر مادر سمجھی گئی.قمار بازی کی از حد ترقی ہوگئی.خدا ئے تعالیٰ کی عبادت سچے دل سے کرنا اور بکلّی روبحق ہو جانا یہ سب باتیں موقوف ہوگئیں.ہاں انتظامی تہذیب یورپ میں بے شک پائی جاتی ہے.یعنی باہم رضامندی کے برخلاف جو گناہ ہیں جیسے سرقہ اور قتل اور زنا بالجبر وغیرہ جن کے ارتکاب سے شاہی قوانین نے بوجہ مصالح ملکی روک دیا ہے ان کا انسداد بے شک ہے مگر ایسے گناہوں کے انسداد کی یہ وجہ نہیں کہ مسیح کے کفّارہ کا اثر ہوا ہے بلکہ رعب قوانین اور سوسائٹی کے دباؤ نے یہ اثر ڈالا ہوا ہے اگر یہ موانع درمیان نہ ہوں تو حضرات مسیحیان سب کچھ کر گزریں اور پھر یہ جرائم بھی تو اور ملکوں کی طرح یورپ میں بھی ہوتے ہی رہتے ہیں انسداد کُلّی تو نہیں.منہ

Page 540

بہت شراب پیتے تھے یا اگر بکثرت زنا کرتے تھے یا اگر پکے دُنیا دار تھے تو مسیح کے مرنے کے بعد یہ ہرایک قسم کے گناہ دور ہو جائیں گے کیونکہ یہ بات مستغنی عن الثبوت ہے کہ جس قدر اب شراب خوری و دنیا پرستی و زنا کاری خاص کر یورپ کے ملکوں میں ترقی پر ہے کوئی دانا ہرگز خیال نہیں کر سکتا کہ مسیح کی موت سے پہلے یہی طوفان فسق و فجور کا برپا ہو رہا تھا بلکہ اس کا ہزارم حصہ بھی ثابت نہیں ہو سکتا اور انجیلوں پر غور کر کے بکمال صفائی کھل جاتا ہے کہ مسیح کو ہرگز منظور نہ تھا کہ یہودیوں کے ہاتھ میں پکڑا جائے اور مارا جائے اور صلیب پر کھینچا جائے کیونکہ اگر یہی منظور ہوتا تو ساری رات اس بلا کے دفعہ کرنے کیلئے کیوں روتا رہتا اور رو رو کر کیوں یہ دعا کرتا کہ اے ابّا! اے باپ!! تجھ سے سب کچھ ہو سکتا ہے یہ پیالہ مجھ سے ٹال دے.بلکہ سچ یہی ہے کہ مسیح بغیر اپنی مرضی کے ناگہانی طور پر پکڑا گیا اور اس نے مرتے وقت تک رو رو کر یہی دعا کی ہے کہ اے میرے خدا! اے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.اس سے بوضاحت ثابت ہوتا ہے کہ مسیح ز۴ندہ رہنا اور کچھ اور دن دنیا میں قیام کرنا چاہتا تھا اور اس کی روح نہایت بے قراری سے تڑپ رہی تھی کہ کسی طرح اس کی جان بچ جائے لیکن بلا مرضی اس کے یہ سفر اس کو پیش آ گیا تھا اور نیز یہ بھی غور کرنے کی جگہ ہے کہ قوم کے لئے اس طریق پر مرنے سے جیسا کہ عیسائیوں نے تجویز کیا ہے.مسیح کو کیا حاصل تھا اور قوم کو اُس سے کیا فائدہ؟ اگر وہ زندہ رہتا تو اپنی قوم میں بڑی بڑی اصلاحیں کرتا بڑے بڑے عیب اُن سے دور کر کے دکھاتا مگر اس کی موت نے کیا کر کے دکھایا بجز اس کے کہ اس کے بے وقت مرنے سے صدہا فتنے پیدا ہوئے اور ایسی خرابیاں ظہور میں آئیں جن کی وجہ سے ایک عالم ہلاک ہو گیا.یہ سچ ہے کہ جوانمرد لوگ قوم کی بھلائی کیلئے اپنی جان

Page 541

بھی فدا کر دیتے ہیں یا قوم کے بچاؤ کے لئے جان کو معرض ہلاکت میں ڈالتے ہیں مگر نہ ایسے لغو اور بیہودہ طور پر جو مسیح کی نسبت بیان کیا جاتا ہے بلکہ جو شخص دانشمندانہ طور سے قوم کے لئے جان دیتا ہے یا جان کو معرض ہلاکت میں ڈالتا ہے وہ تو معقول اور پسندیدہ اور کارآمد اور صریح مفید طریقوں میں سے کوئی سے ایسا اعلیٰ اور بدیہی اَنْفَع طریقہ فدا ہونے کا اختیار کرتا ہے جس طریقے کے استعمال سے گو اس کو تکلیف پہنچ جائے یا جان ہی جائے مگر اُس کی قوم بعض بلاؤں سے واقعی طور پر بچ جائے یہ تو نہیں کہ پھانسی لے کر یا زہر کھا کر یا کسی کوئیں میں گرنے سے خودکشی کا مرتکب ہو اور پھر یہ خیال کرے کہ میری خود کشی قوم کے لئے بہبودی کا موجب ہوگی.ایسی حرکت تو دیوانوں کا کام ہے نہ عقلمندوں دینداروں کا بلکہ یہ موت موتِ حرام ہے اور بجز سخت جاہل اور سادہ لوح کے کوئی اس کا ارادہ نہیں کرتا.میں سچ کہتا ہوں کہ کامل اور اوالوالعزم آدمی کا مرنا بجز اُس حالت خاص کے کہ بہتوں کے بچاؤ کے لئے کسی معقول اور معروف طریق پر مرنا ہی پڑے قوم کے لئے اچھا نہیں بلکہ بڑی مصیبت اور ماتم کی جگہ ہے اور ایسا شخص جس کی ذات سے خلق اللہ کو طرح طرح کا فائدہ پہنچ رہا ہے اگر خودکشی کا ارادہ کرے تو وہ خدائے تعالیٰ کا سخت گنہگار ہے اور اس کا گناہ دوسرے ایسے مجرموں کی نسبت زیادہ ہے پس ہر ایک کامل کے لئے لازم ہے کہ اپنے لئے جناب باری تعالیٰ سے درازیءِ عمر مانگے تا وہ خلق اللہ کے لئے ان سارے کاموں کو بخوبی انجام دے سکے جن کے لئے اُس کے دل میں جوش ڈالا گیا ہے.ہاں! شریر آدمی کا مرنا اس کے لئے اور نیز خلق اللہ کے لئے بہتر ہے تا شرارتوں کا ذخیرہ زیادہ نہ ہوتا جائے اور خلق اللہ اس کے ہر روز کے فتنہ سے تباہ نہ ہو جائے.اور اگر یہ سوال کیا جائے کہ تمام پیغمبروں میں سے قوم کے بچاؤ کے لئے اور الٰہی جلال کے اظہار کی غرض سے

Page 542

معقول طریقوں کے ساتھ اور ضروری حالتوں کے وقت میں کس پیغمبر نے زیادہ تر اپنے تئیں معرضِ ہلاکت میں ڈالا اور قوم پر اپنے تئیں فدا کرنا چاہا آیا مسیح یا کسی اور نبی یا ہمارے سیّد و مولیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے.تو اس کا جواب جس جوش اور روشن دلائل اور آیات بینات اور تاریخی ثبوت سے میرے سینہ میں بھرا ہوا ہے، میں افسوس کے ساتھ اس جگہ اس کا لکھنا چھوڑ دیتا ہوں کہ وہ بہت طویل ہے یہ تھوڑا سا مضمون اس کی برداشت نہیں کر سکتا.انشاء اللہ القدیر، اگر عمر نے وفا کی تو آئندہ ایک رسالہ مستقلہ اس بارے میں لکھوں گا لیکن بطور مختصر اس جگہ بشارت دیتا ہوں کہ وہ فرد کامل جو قوم پر اور تمام بنی نوع پر اپنے نفس کو فدا کرنے والا ہے وہ ہمارے نبی کریم ہیں یعنی سیّدنا و مولانا و وحیدنا و فرید نا احمد مجتبٰی محمد مصطفٰی الرسول النبی الاُ مّی العربی القرشی صلی اللہ علیہ وسلم.اس جگہ میں نے سچے اور جھوٹے مذہب کی تفریق کیلئے وہ فرق جو زمین پر موجود ہے یعنی جو باتیں عقل اور کانشنس کے ذریعہ سے فیصلہ ہو سکتی ہیں، کسی قدر لکھ دیا ہے لیکن جو فرق آسمان کے ذریعہ سے کھلتا ہے وہ بھی ایسا ضروری ہے کہ بجز اس کے حق اور باطل میں امتیاز بیّن نہیں ہو سکتا اور وہ یہ ہے کہ سچے مذہب کے پیرو کے ساتھ خدائے تعالیٰ کے ایک خاص تعلقات ہو جاتے ہیں اور وہ کامل پیرو اپنے نبی متبوع کا مظہر اور اس کے حالات روحانیہ اور برکات باطنیہ کا ایک نمونہ ہو جاتا ہے اور جس طرح بیٹے کے وجود درمیانی کی وجہ سے پوتا بھی بیٹا ہی کہلاتا ہے اسی طرح جو شخص زیر سایہ متابعت نبی پرورش یافتہ ہے اس کے ساتھ بھی وہی لطف اور احسان ہوتا ہے جو نبی کے ساتھ ہوتا ہے اور جیسے نبی کو نشان دکھائے جاتے ہیں ایسا ہی اس کی خاص طور پر معرفت بڑھانے کیلئے اس کو بھی نشان ملتے ہیں.سو ایسے لوگ اس دین کی سچائی کے لئے جس کی تائید کے لئے وہ ظہور

Page 543

فرماتے ہیں، زندہ نشان ہوتے ہیں.خدا ئے تعالیٰ آسمان سے ان کی تائید کرتا ہے اور بکثرت ان کی دعائیں قبول فرماتا ہے اور قبولیت کی اطلاع بخشتا ہے.ان پر مصیبتیں بھی نازل ہوتی ہیں مگر اس لئے نازل نہیں ہوتیں کہ اُنہیں ہلاک کریں بلکہ اس لئے کہ تا آخر ان کی خاص تائید سے قدرت کے نشان ظاہر کئے جائیں.وہ بے عزتی کے بعد پھر عزت پا لیتے ہیں اور مرنے کے بعد پھر زندہ ہو جایا کرتے ہیں تا خدائے تعالیٰ کے خاص کام ان میں ظاہر ہوں.اس جگہ یہ نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ دعا کا قبول ہونا دو طور سے ہوتا ہے.ایک بطور ابتلاء اور ایک بطور اصطفاء.بطور ابتلاء تو کبھی کبھی گنہگاروں اور نافرما نوں بلکہ کافروں کی دعا بھی قبول ہو جاتی ہے مگر ایسا قبول ہونا حقیقی قبولیت پر دلالت نہیں کرتا بلکہ از قبیل استدراج و امتحان ہوتا ہے لیکن جو بطور اصطفاء دعا قبول ہوتی ہے اس میں یہ شرط ہے کہ دعا کرنے والا خدائے تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں میں سے ہو اور چاروں طرف سے برگزیدگی کے انوار و آثار اس میں ظاہر ہوں کیونکہ خدائے تعالیٰ حقیقی قبولیت کے طور پر نافرمانوں کی دعا ہرگز نہیں سنتا بلکہ انہیں کی سنتا ہے کہ جو اس کی نظرمیں راستباز اور اس کے حکم پر چلنے والے ہوں.سو ابتلاء اور اصطفاء کی قبولیت ادعیہ میں مابہ الامتیاز یہ ہے کہ جو ابتلاء کے طور پر دعا قبول ہوتی ہے اس میں متقی اور خدا دوست ہونا شرط نہیں اور نہ اس میں یہ ضرورت ہے کہ خدا ئے تعالیٰ دعا کو قبول کر کے بذریعہ اپنے مکالمہ خاص کے اس کی قبولیت سے اطلاع بھی دیوے اور نہ وہ دعائیں ایسی اعلیٰ پایہ کی ہوتی ہیں جن کا قبول ہونا ایک امر عجیب اور خارقِ عادت متصور ہو سکے لیکن جو دعائیں اصطفاء کی وجہ سے قبول ہوتی ہیں ان میں یہ نشان نمایاں ہوتے ہیں.

Page 544

(۱) اوّل یہ کہ دعا کرنے والا ایک متقی اور راست باز اور کامل فرد ہوتا ہے.(۲) دوسرے یہ کہ بذریعہ مکالماتِ الٰہیہ اُس دعا کی قبولیت سے اس کو اطلاع دی جاتی ہے.(۳) تیسری یہ کہ اکثر وہ دعائیں جو قبول کی جاتی ہیں نہایت اعلیٰ درجہ کی اور پیچیدہ کاموں کے متعلق ہوتی ہیں، جن کی قبولیت سے کھل جاتا ہے کہ یہ انسان کا کام اور تدبیر نہیں بلکہ خدا ئے تعالیٰ کا ایک خاص نمونہ قدرت ہے جو خاص بندوں پر ظاہر ہوتا ہے.(۴) چوتھی یہ کہ ابتلائی دعائیں تو کبھی کبھی شاذو نادر کے طور پر قبول ہوتی ہیں لیکن اصطفائی دعائیں کثرت سے قبول ہوتی ہیں.بسا اوقات صاحب اصطفائی دعا کا ایسی بڑی بڑی مشکلات میں پھنس جاتا ہے کہ اگر اور شخص ان میں مبتلاہو جاتا تو بجز خودکشی کے اور کوئی حیلہ اپنی جان بچانے کیلئے ہرگز اُسے نظر نہ آتا.چنانچہ ایسا ہوتا بھی ہے کہ جب کبھی دنیا پرست لوگ جو خدائے تعالیٰ سے مہجور و دور ہیں بعض بڑی بڑی ہموم و غموم و اَمراض و اَسقام و بلیّاتِ لاینحل میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو آخر وہ بباعث ضعف ایمان خدائے تعالیٰ سے ناامید ہو کر کسی قسم کی زہر کھا لیتے ہیں یا کوئیں میں گرتے ہیں یا بندوق وغیرہ سے خود کشی کر لیتے ہیں لیکن ایسے نازک وقتوں میں صاحب اصطفا ء کا بوجہ اپنی قوت ایمانی اور تعلق خاص کے خدائے تعالیٰ کی طرف سے نہایت عجیب در عجیب مدد دیا جاتا ہے اور عنایت الٰہی ایک عجیب طور سے اس کا ہاتھ پکڑ لیتی ہے یہاں تک کہ ایک محرم راز کا دل بے اختیار بول اُٹھتا ہے کہ یہ شخص مؤیَّد الٰہی ہے.(۵) پانچویں یہ کہ صاحب اصطفائی دعا کا مَورَد عنایاتِ الٰہیہ کا ہوتا ہے اور خدائے تعالیٰ اس کے تمام کاموں میں اس کا متولی ہو جاتا ہے اور عشق الٰہی کا نور اور مقبولانہ کبریائی کی

Page 545

مستی اور روحانی لذت یابی اور تنعم کے آثار اس کے چہرہ میں نمایاں ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ جلّشانہٗ فرماتا ہے.*: خبردا ر ہو یعنی یقیناًسمجھ کہ جو لوگ اللہ( جلّشانہٗ )کے دوست ہیں یعنی جو لوگ خدائے تعالیٰ سے سچی محبت رکھتے ہیں اور خدائے تعالیٰ ان سے محبت رکھتا ہے تو ان کی یہ نشانیاں ہیں کہ نہ ان پر خوف مستولی ہوتا ہے کہ کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے یا فلاں بلا سے کیونکر نجات ہوگی کیونکہ وہ تسلی دیئے جاتے ہیں اور نہ گزشتہ کے متعلق کوئی حزن و اندوہ انہیں ہوتا ہے کیونکہ وہ صبر دیئے جاتے ہیں.دوسری یہ نشانی ہے کہ وہ ایمان رکھتے ہیں یعنی ایمان میں کامل ہوتے ہیں اور تقویٰ اختیار کرتے ہیں یعنی خلافِ ایمان و خلاف فرمانبرداری جو باتیں ہیں اُن سے بہت دُور رہتے ہیں.تیسری اُن کی یہ نشانی ہے کہ انہیں (بذریعہ مکالمہ الٰہیہ و رویائے صالحہ بشارتیں ملتی رہتی ہیں) اس جہان میں بھی اور دوسرے جہان میں بھی خدائے تعالیٰ کاان کی نسبت یہ عہد ہے جو ٹل نہیں سکتا اور یہی پیارا درجہ ہے جو انہیں ملا ہوا ہے.یعنی مکالمہ الٰہیہ اورر ویائے صالحہ سے خدائے تعالیٰ کے مخصوص بندوں کو جو اس کے ولی ہیں

Page 546

اب جاننا چاہئے کہ محبوبیت اور قبولیت اور ولایت حقّہ کا درجہ جس کے کسی قدر مختصر طورپر نشان بیان کر چکا ہوں.یہ بجز اتباع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرگز حاصل نہیں ہو بقیہ حاشیہ :.ضرور حصہ ملتا ہے اور ان کی ولایت کا بھاری نشان یہی ہے کہ مکالمات و مخاطبا ت الٰہیہ سے مشرف ہوں (یہی قانونِ قدرت اللہ جلّشانہٗ کا ہے) کہ جو لوگ اربابِ متفرقہ سے منہ پھیر کر اللہ جلشانہٗ کو اپنا ربّ سمجھ لیں اور کہیں کہ ہمارا تو ایک اللہ ہی ربّ ہے (یعنی اور کسی کی ربوبیت پر ہماری نظر نہیں) اور پھر آزمائشوں کے وقت میں مستقیم رہیں (کیسے ہی زلزلے آویں، آندھیاں چلیں، تاریکیاں پھیلیں ان میں ذرا تزلزل اور تغیر اور اضطراب پیدا نہ ہو پوری پوری استقامت پر رہیں) تو ان پر فرشتے اُترتے ہیں (یعنی الہام یا رؤیائے صالحہ کے ذریعہ سے انہیں بشارتیں ملتی ہیں) کہ دنیا اور آخرت میں ہم تمہارے دوست اور متولّی اور متکفّل ہیں اور آخرت میں جو کچھ تمہارے جی چاہیں گے وہ سب تمہیں ملے گا.یعنی اگر دنیا میں کچھ مکروہات بھی پیش آویں تو کوئی اندیشہ کی بات نہیں کیونکہ آخرت میں تمام غم دور ہو جائیں گے اور سب مرادیں حاصل ہوں گی.اگر کوئی کہے کہ یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ آخرت میں جو کچھ انسان کا نفس چاہے اس کو ملے میں کہتا ہوں کہ یہ ہونا نہایت ضروری ہے اور اسی بات کا نام نجات ہے ورنہ اگر انسان نجات پا کر بعض چیزوں کو چاہتا رہا اور ان کے غم میں کباب ہوتا اور جلتا رہا مگر وہ چیزیں اس کو نہ ملیں تو پھر نجات کاہے کی ہوئی.ایک قسم کا عذاب تو ساتھ ہی رہا.لہٰذا ضرور ہے کہ جنت یا بہشت یا مکتی خانہ یا سُرگ جو نام اس مقام کا رکھا جائے جو انتہا سعادت پانے کا گھر ہے وہ ایسا گھر چاہئے کہ انسان کو من کل الوجوہ اس میں مصفّا خوشی حاصل ہو اور کوئی ظاہری یا باطنی رنج کی بات درمیان نہ ہو اور کسی ناکامی کی سوزش دل پر غالب نہ ہو.ہاں یہ بات سچ ہے کہ بہشت میں نالائق و نامناسب باتیں نہیں ہوں گی مگر مقدس دلوں میں اُن کی خواہش بھی پیدا نہ ہوگی بلکہ ان مقدس اور مطہر دلوں میں جو شیطانی خیالات سے پاک کئے گئے ہیں، انسان کی پاک فطرت اور خالق کی پاک مرضی کے موافق پاک خواہشیں پیدا ہوں گی.تا انسان اپنی ظاہری اور باطنی اور بدنی اور روحانی سعادت کو پورے پورے طور پر پا لیوے اور اپنے جمیع قویٰ کے کامل ظہور سے کامل انسان کہلاوے کیونکہ بہشت میں داخل کرنا

Page 547

سکتا.اور سچے متبع کے مقابل پر اگر کوئی عیسائی یا آریہ یا یہودی قبولیت کے آثار و انوار دکھلانا چاہے تو یہ اس کے لئے ہرگز ممکن نہ ہوگااور نہایت صاف طریق امتحان کا یہ ہے کہ اگر ایک مسلمان صالح کے مقابل پر جو سچا مسلمان اور سچائی سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا متبع ہو کوئی دوسرا شخص عیسائی وغیرہ معارضہ کے طور پر کھڑا ہو اور یہ کہے کہ جس قدر تجھ پر آسمان سے کوئی نشان ظاہر ہوگا، یا جس قدر اسرارِ غیبیہ تجھ پر کھلیں گے، یا جو کچھ قبولیت دعاؤں سے تجھے مدد دی جائے گی، یا جس طور سے تیری عزت اور شرف کے اظہار کے لئے کوئی نمونہ قدرت ظاہر کیا جائے گا، یا اگر انعامات خاصہ کا بطور پیش گوئی تجھے وعدہ دیا جائے گا، یا اگر بقیہ حاشیہ :.انسانی نقش کے مٹا دینے کی غرض سے نہیں جیسا کہ ہمارے مخالف عیسائی و آریہ خیال کرتے ہیں بلکہ اس غرض سے ہے کہ تا انسانی فطرت کے نقوش ظاہراً و باطناً بطور کامل چمکیں اور سب بے اعتدالیاں دور ہو کر ٹھیک ٹھیک وہ امور جلوہ نما ہو جائیں جو انسان کے لئے بلحاظ ظاہری و باطنی خلقت اس کی کے ضروری ہیں.اور پھر فرمایا کہ جب میرے مخصوص بندے (جو برگزیدہ ہیں) میرے بارہ میں سوال کریں اور پوچھیں کہ کہاں ہے تو انہیں معلوم ہو کہ میں بہت ہی قریب ہوں.اپنے مخلص بندوں کی دعا سنتا ہوں جب ہی کہ کوئی مخلص بندہ دعا کرتا ہے (خواہ دل سے یا زبان سے) سن لیتا ہوں (پس اس سے قرب ظاہر ہے) مگر چاہئے کہ وہ ایسی اپنی حالت بنائے رکھیں جس سے میں ان کی دعا سُن لیا کروں.یعنی انسان اپنا حجاب آپ ہو جاتا ہے.جب پاک حالت کو چھوڑ کر دور جا پڑتا ہے تب خدائے تعالیٰ بھی اُس سے دور ہو جاتا ہے اور چاہیئے کہ ایمان اپنا مجھ پر ثابت رکھیں (کیونکہ قوتِ ایمانی کی برکت سے دُعا جلد قبول ہوتی ہے) اگر وہ ایسا کریں تو رُشد حاصل کر لیں گے یعنی ہمیشہ خدائے عزوجل اُن کے ساتھ ہوگا.اور کبھی عنایت و رہنمائی الٰہی اُن سے الگ نہیں ہوگی.سو استجابِ دعاء بھی اولیاء اللہ کے لئے ایک بھاری نشان ہے.فتدبّر.منہ

Page 548

تیرے کسی موذی مخالف پر کسی تنبیہہ کے نزول کی خبر دی جائے گی تو اُن سب باتوں میں جو کچھ تجھ سے ظہور میں آئیگا اور جو کچھ تودکھائے گا، وہ میں بھی دکھلاؤں گا.تو ایسا معارضہ کسی مخالف سے ہرگز ممکن نہیں اور ہرگز مقابل پر نہیں آئیں گے کیونکہ اُن کے دل شہادت دے رہے ہیں کہ وہ کذّاب ہیں.انہیں اس سچے خدا سے کچھ بھی تعلق نہیں کہ جو راستبازوں کا مددگار اور صدیقوں کا دوست دار ہے.جیسا کہ ہم پہلے بھی کسی قدر بیان کر چکے ہیں.وَھَذَا اٰخِرُ کَلَا مِنَا وَالْحَمْدُلِلّٰہِ اَوَّلًا وَّ اٰخِرًا وَّ ظَاہِرًا وَّ بَاطِنًا.ھُوَمَوْلَانَا نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ الْوَکِیْل.

Page 549

ترجمہ فارسی عبارات صفحہ ۳۱.آنکھیں کھلیں، کان کھلے اور یہ عقل موجود.خدا کرے ان کی آنکھیں سینے پر حیران ہوں صفحہ ۴۰.یہ کیا سنگ دلی ہے کہ کسی کی بات کا تجھ پر اثر نہیں حالانکہ نفس آہنی آئینہ پر بھی اثر کرتا ہے صفحہ ۴۱.فقیر کو شروع ہی سے خدا تعالیٰ سے کلام کا شوق تھا اور میں دعا کیا کرتا تھا کہ اے الہ العالمین اپنے کلام کے دروازے اس عاجز پر کھول دے.سالوں گزر گئے اور یہ مصیبت اس حد تک بڑھ گئی کہ جس جگہ بھی میں جاتا بلوہ ہوجاتا.دل تنگ ہوا تو اچانک ہی یہ القا ہوا قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْھِکَ فِی السَّمَائِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰھَا.اس کے بعد قرآن کی طرف توجہ کرنے کے سلسلہ میں چند آیات القا ہوئیں مثلاً اِ تَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖ اَوْلِیَآئَ اور اس طرح کی اور مثالیں حتیٰ کہ ایک روز دیکھا کہ میرے سامنے قرآن کریم رکھا ہے اور القا ہوا.ھٰذَا کِتَابِیْ وَ ھٰذَا عِبَادِیْ فَاقْرَئُ وْا کِتَابِیْ عَلٰی عِبَادِیْ.صفحہ ۴۶.یہ کام تمہارے لائق ہے.مرد ہی ایسے کام کرتے ہیں صفحہ ۵۶.علم تو وہ ہے کہ فراست کا نور اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہے.اس تاریک علم کو تو میں ایک کوڑی کو بھی نہیں خریدتا صفحہ ۶۸.بے وقوف کہتا ہے اور دیوانہ مان جاتا ہے صفحہ ۷۸.دل کے معمولی تغیر کی وجہ سے اپنے پرانے مخدوم سے دلبرداشتہ ہونا اور سالوں کے احسان کے حقوق سے پہلو تہی کرنا

Page 550

صفحہ ۸۶.وہ جو کہ خود ضعف اور مرض سے لاغر ہوجاتا ہے صفحہ ۱۰۳.اگر تو نے کوئی بات نہیں کہی تو کسی کو تجھ سے کوئی واسطہ نہیں لیکن اگر کہی ہے تو اس کی دلیل لانی پڑے گی صفحہ ۱۰۷.اس عجلت پر جو تو نے کی ہے اب پشیمان ہو صفحہ ۱۱۴.کمان سے نکلا ہوا تیر دوبارہ ہاتھ میں نہیں آتا صفحہ ۱۱۶.یہ کیسی عقل ہے کہ سو سال تک جمع کرتے رہنا اس کے بعد ایک پل میں جلا ڈالنا صفحہ ۱۲۱.یہ پتھر ہی ہے جو تو نے میرے سر پر مارا ہے صفحہ ۱۲۳.علم دو قسم کا ہے.ایک ظاہری جو کسب و اکتساب اور نظر و استدلال سے حاصل ہوتا ہے اور دوسرا باطنی جو خدائے غیب الغیب سے ملتا ہے چنانچہ یہ انبیاء علیھم السلام اور ان کے بعد اولیاء کرام کو حاصل ہوتا ہے صفحہ ۲۱۱.احمد کا نام سب نبیوں کے نام کا مجموعہ ہے.جب سو کا ہندسہ آگیا تو نوے بھی ہمارے سامنے ہے صفحہ ۲۲۳، ۲۳۳.یہ جو میں دیکھ رہا ہوں یا رب ! وہ بیداری ہے یا خواب ہے.بہت سی آرزوئیں ہیں جو خاک میں مل گئیں صفحہ ۲۲۴.وہ راز کب پوشیدہ رہ سکتا ہے کہ جو محفلوں کا موضوع سخن بن گیا ہے

Page 551

صفحہ ۲۲۵.وہ قدح (شراب کا بڑا پیالہ) ٹوٹ گیا اور وہ ساقی نہ رہا صفحہ ۲۳۹.اس فقیر کے نزدیک یہ تحقیق شدہ امر ہے کہ صحابہ اور تابعین میں بہت سے ایسے تھے جو یہ کہتے تھے نَزَلَتِ الْاٰیَۃُ فِیْ کَذَا وَ کَذَا اور ان کی غرض اس آیت کی تفسیر ماصدق ہوتی اور بعض واقعات جو اس آیت میں بالعموم شامل شدہ ہیں خواہ وہ کہانی مقدم ہو یا متاخر، اسرائیلی ہو یا جاہلی یا اسلامی تمام قیود آیت کو اکٹھا کیا گیا ہے یا بعض کو.وَاللّٰہُ اَعْلَمُ.اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ اجتہاد کو اس میں کوئی دخل نہیں اور متعدد قصوں کو اس جگہ گنجائش ہے اور جو اس نقطہ کو اپنے ذہن میں مستحضر رکھتا ہے وہ سبب نزول کے اختلافات کو ایک ادنیٰ توجہ سے حل کرسکتا ہے..نیک وفات یافتگان کے ذکر کو ضائع نہ کر تا کہ تیرا نام بھی یادگار رہے صفحہ ۲۴۳.قرآن کی نحو میں ایک عجیب خلل راہ پا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک جماعت نے سیبویہ کا مذہب اختیا ر کیا ہے اور جو کچھ بھی اس کے مطابق یا موافق ہے اس کی تاویل کرتے ہیں.تاویل بعید ہو یا قریب اور میرے نزدیک یہ صحیح نہیں کہ سیاق و سباق کے اقویٰ اور اوفق ہونے کی اتباع کرنی چاہیے اور سیبویہ کا مذہب وَالْمُقِیْمِیْنَ الصَّلٰوۃَ وَالْمُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ.حضرت عثمان نے کہا ہے سَتُقِیْمُھَا الْعَرَبُ بِاَلْسِنَتِھَا اور تحقیق اس فقیر کے نزدیک یہ حکم یوں ہے کہ روزمرہ مشہورہ کے مخالف ہے اور یہ روزمرہ ہے اور اس اوّل کو عرب اپنے خطابات کے دوران محاورات ایسے لاتے ہیں جو گزشتہ زمانہ کے مشہور قاعدہ کے خلاف ہیں کہ اگر کبھی کبھی ’’و‘‘ کی جگہ پر ’’ی‘‘ آجائے یا تثنیہ کی جگہ پر مفرد آجائے یا مذکر کی جگہ مؤنث آجائے تو کیا عجب ہے.پس متحقق یہ ہے کہ ترجمہ وَالْمُقِیْمِیْنَ الصَّلٰوۃَ کو مرفوع کے معنوں میں شمار کرنا چاہیے.وَاللّٰہُ اَعْلَمُ.دیکھو راستہ کا فرق کہاں سے کہاں تک ہے

Page 552

صفحہ ۲۵۹.دیکھو راستہ کا فرق کہاں سے کہاں تک ہے صفحہ ۲۶۳.تو وہ نفس ناطقہ ہے کہ اس مادی جسم کے علاوہ ایک اور جسم بھی رکھتا ہے.پس روح کا جسم سے نکل جانے کا خوف نہ کھا صفحہ ۲۶۷.مشک وہ ہے کہ خود خوشبو دیتی ہے نہ کہ عطار بتاتا ہے.کیا ہی اچھا ہو کہ ایک پنتھ سے دو کاج ہوجائیں صفحہ ۲۶۹.اگر کعبہ سے ہی کفر اٹھے تو مسلمان کہاں جائے گا صفحہ ۲۷۱، ۲۷۸.دشمن کو اس کے گھر تک پہنچانا چاہیے صفحہ ۲۷۴.یہ کام تمہارے لائق ہے مرد ہی ایسے کام کرتے ہیں صفحہ ۲۷۹.میں تجھے بار بار کہہ کر تھک گیا ہوں لیکن تجھ پر ذرہ برابر بھی اثر نہیں صفحہ ۳۰۰.اگر تو نے کوئی بات نہیں کہی تو کسی کو تجھ سے کوئی واسطہ نہیں لیکن اگر کہی ہے تو اس کی دلیل لانی پڑے گی صفحہ ۳۰۵.یہ جہاں وہ جہاں ہے جس میں ہمارا فعل آواز کے ذریعہ سے ظاہر ہوتا رہتا ہے اور یہ صدائیں بازگشت کرتی رہتی ہیں

Page 553

صفحہ ۳۳۵.اے جہاں کو ہدایت دینے والے مالک سچوں کو جھوٹوں کی (گرفت) سے رہائی بخش.فساد کی وجہ سے دنیا میں آگ لگ گئی.اے اہل جہان کے فریاد رس امداد کو پہنچ صفحہ ۳۴۴.گندم سے گندم ہی اگتی ہے اور جو سے جو.تو اپنے عمل کی پاداش سے غافل نہ ہو صفحہ ۳۴۵.اے خدا.اے زمین وآسمان کے مالک اے ہر مصیبت میں اپنی جماعت کی پشت وپناہ.اے رحیم دستگیر اور رہنما اے وہ کہ تیرے ہاتھ میں فیصلہ اور حکم ہے.زمین میں سخت شور برپا ہے اے جان آفریں ! اپنی مخلوقات پر رحم کر.اپنی درگاہ سے کوئی فیصلہ کرنے والی بات ظاہر کر.تا کہ جھگڑے اور فساد بند ہو جائیں صفحہ ۳۵۸.اگر خدا بندہ سے خوش نہیں ہے تو اس جیسا کوئی حیوان بھی مردودنہیں.اگر ہم اپنے ذلیل نفس کو پالنے میں لگے رہیں تو ہم گلیوں کے کتوں سے بھی بدتر ہیں.اے خدا ! اے طالبوں کے رہنما.اے وہ کہ تیری محبت ہماری روح کی زندگی ہے.تو ہمارا خاتمہ اپنی رضا پر کر کہ دونوں جہان میں ہماری مراد پوری ہو صفحہ ۳۵۹.دنیا اور اس کے لوگ سب شور وشر میں مصروف ہیں مگر تیرے طالب اور ہی مقام پر ہیں.ان میں سے ایک کے دل کو ُتو نور بخشتا ہے اور دوسرے کو کیچڑ میں پھنسا ہوا چھوڑ دیتا ہے.آنکھ، کان اور دل تجھ سے ہی روشنی حاصل کرتے ہیں.تیری ذات ہدایت اور فیض کا سرچشمہ ہے صفحہ ۳۶۰.اب تو اپنی غلطی پر ہزاروں عذر پیش کرے لیکن شادی شدہ عورت کے لئے کنوار پن کا دعویٰ زیب نہیں دیتا.اگر تو عقل والا ہے تو جاگ اٹھ اگر ہمت والا ہے تو اپنا مقصد حاصل کرلے.شاید پھر ایسے دن نہ مل سکیں

Page 554

صفحہ ۳۶۲.وہ سر جو اس کے مبارک قدموں میں نہ پڑے مفت کا بوجھ ہے جسے کندھوں پر اٹھانا پڑتا ہے صفحہ ۳۶۴.یہی بہتر ہے کہ میں اس کی راہ میں جان قربان کردوں اگر میں نہ رہوں تو دنیا کا کیا نقصان ہے صفحہ ۳۶۷.جب تو دل والوں کی کوئی بات سنے تو مت کہہ اٹھ کہ غلط ہے.اے عزیز ! تو بات نہیں سمجھ سکتا غلطی تو یہی ہے صفحہ ٹائٹل نشان آسمانی.اس کتاب کا نام ’’نشان آسمانی‘‘ہے اگر ہو سکتا ہے تو اس کی نظیر لا.یا تو اپنے صوفی کو باہر نکال یا پھر بدگمانی سے توبہ کر صفحہ ۳۸۱.ان اشعار کا ترجمہ صفحہ ۳۹۵ تا ۴۰۱ میں آچکا ہے صفحہ ۳۸۴.تیری زلفوں پر دھیان دینا کچے لوگوں کا کام نہیں کیونکہ ان زنجیروں کی نیچے آجانا حد درجہ کی چالاکی ہے صفحہ ۳۹۰.ہر بات کا ایک وقت اور ہر نکتہ کا ایک مقام ہوتا ہے صفحہ ۳۹۱.نبی اولیاء کی شکل میں جھلک دکھاتے ہیں.ہر زمانہ میں ایک نئے روپ میں آتے ہیں صفحہ ۴۱۲.اگرچہ کسی کو بھی متوجہ نہ کرسکے.پیغام لے جانے والوں کی ذمہ داری پیغام پہنچانے تک ہے صفحہ ۴۱۶.سائل کو چاہیے کہ وہ صبر کرنے والا اور برداشت کرنے والا ہو

Page 555

صفحہ ۴۲۲.اے بدگمانی میں مبتلا انسان اور اے بد زبانی پر مستعد شخص.میں تو اس غم سے جل رہا ہوں کہ تو کس طرح مسلمان ہو گا مگر عجیب بات یہ ہے کہ الٹا تو مجھے ہی کافر سمجھتا ہے.اگر آدمی خود ہی تلاش حق میں ُسست نہ ہو تو خدا آپ طالب حق کو راستہ دکھا دیتا ہے.خدا کی رحمت جو اولیاء اللہ کا تعویذ ہے وہ خلقت کی لعنت کے نیچے مخفی ہوا کرتی ہے صفحہ ۴۲۷.تا جس کا جھوٹ ثابت ہوجائے اس کا منہ کالا ہو صفحہ ۴۲۹.اے بخشش کی کان تیرا انکار کرنا موجب کفر ہے اور یہ فتاوے اور مہریں بہشت کی راہ میں رکاوٹ ہیں.میری خواہش ہے کہ میری جان و مال تیری راہ میں فدا کروں اور میری یہ تمنا خدائے کارساز و قادر ضرور پوری کرے گا.میرے چہرے کی رونق تیری ہی وجہ سے ہے اس لئے ادھر ادھر کی باتیں چھوڑ.اے میری پرورش کرنے والے دین کے راہبر ! میں تیرے چہرے پر قربان.دین مردہ تیرے دم سے زندہ ہوگیا تو اے میرے محترم ! میں کیوں کر ان (مبارک) سانسوں سے روگردانی کروں.میں کہاں اور یہ بدعہدی اور گمراہی کہاں.میں تو جب تک زندہ ہوں خادم ہوں اور دل و جان سے خادم ہوں.مجھ پر ان راہ حق کے لٹیروں نے کئی حملے کئے ہیں.اگر خدا کا لطف میرے شامل حال نہ ہوتا تو وہ سب لوٹ کر لے جاتے.ان یہود صفت (علماء) نے تیری قدر کو نہیں پہچانا اور مسیح ناصری کی مانند تو نے طعنے سنے.جو بھی تیری تکفیر کرتا ہے وہ اسی وقت کافر ہوجاتا ہے اور خدا مجھے اس رذیل گروہ سے بچائے رکھے.مجھ اندھے پر بھی اے روشن سورج کرم کردے اور اگر مجھ میں کوئی غلطی دیکھیں تو اس سے صرف نظر کردیں کیونکہ میں معافی کا طلب گار ہوں

Page 556

.میں اندر سے ٹوٹا ہوا ہوں اور دل و جان سے غلام ہوں.مجھ پر لطف فرما کیونکہ میں تذلل کے ساتھ تیرے در پر حاضر ہوا ہوں.دین احمد کا نور تیرے وجود پر کامل ہوا ہے.تو چودھویں (صدی) میں آیا ہے اے میرے چودھویں کے کامل اور روشن تر چاند.تو نے موافق پیشگوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وقت پر ظہور کیا ہے.اے میرے بزرگ اور جلیل خدا کی رحمت تجھ پر سلامتی ہو.دین حق کی مشکلات تیری وجہ سے آسان ہوگئیں تو خدائے کریم کے فضل سے تجدید دین کر رہا ہے.تو نے مہربانی کرتے ہوئے میرے باطن کو بھی مسلمان کر دیا ہے اگر میں تیرے آستانہ پر جان نثار نہ کروں تو میں کافر ہوں صفحہ ۴۳۵.کیا اچھا ہوتا اگر امت میں سے ہر ایک نور دین ہوتا.یہی ہوتا اگر ہر دل نور یقین سے بھرا ہوتا صفحہ ۴۹۰.روشن دل دانش مند کے نزدیک جَو بھر چاندی مٹی کے سینکڑوں ڈھیروں سے بہتر ہے

Page 557

انڈیکس روحانی خزائن جلدنمبر۴ مرتبہ:مکرم محمد محمود طاہر صاحب زیر نگرانی سید عبدالحی آیات قرآنیہ ۳ احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم ۹ الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۱ کلید مضامین ۱۲ اسماء ۲۳ مقامات ۳۸ کتابیات ۴۰

Page 558

Page 559

آیات قرآنیہ الفاتحۃ اھدنا الصراط المستقیم (۶‘۷) ۴۹۵ البقرۃ لاریب فیہ (۳) ۲۲‘۲۹ الا انھم ھم السفہاء (۱۴) ۶۹ انما نحن مستھزء ون (۱۵) ۲۳۶ اللّٰہ یستھزئ بھم ویمدھم (۱۶) ۲۳۶ فلا تجعلوا لِلّٰہِ انداداً (۲۳) ۴۱ ھوالذی خلق لکم ما فی الارض جمیعًا(۳۰) ۵۶ سبحانک لا علم لنا الا ما عملتنا (۳۳) ۲۹۶ فامایا تینکم منی ھدی فمن تبع ھدٰی (۳۹) ۱۵۲ اتامرون النّاس بالبروتنسون انفسکم (۴۵) ۱۹۷ ۲۷۵،۲۹۴ ما ننسخ من اٰیۃ اوننسھا نأت بخیر منھا (۱۰۷) ۸۵ ، ۹۲ قل انّ ھدی اللّٰہ ھو الھدی (۱۲۱) ۲۲ وکذالک جعلنا کم امۃ وسطا(۱۴۴) ۲۴۶ قدنریٰ تقلّب وجھک فی السماء (۱۴۵) ۴۱‘۱۵۲ ۱۷۳‘۲۵۱‘۲۷۶ فلا تکونن من الممترین (۱۴۸) ۴۱۹‘۴۲۱‘۴۲۲ ومن حیث خرجت فولّ (۱۵۰) ۴۲۲ ویعلمکم مالم تکونوا تعلمون (۱۵۲) ۲۹ ولٰکن لا تشعرون(۱۵۵) ۶۸ ولنبلونکم بشیء من الخوف (۱۵۶) ۱۵۲‘۲۵۱ والذین اٰمنوا اشدّحبّاللّٰہ (۱۶۶) ۵۰۱ ھدیً للنّاس وبینات من الھدی (۱۸۶) ۲۲‘۲۹ واذا سالک عبادی عنی (۱۸۷) ۴۷۹ فاذکرو اللّٰہ کذکرکم اٰباء کم (۲۰۱) ۴۹۴‘۵۰۱ واللّٰہ یھدی من یشاء (۲۱۴) ۱۱۴ فمن یکفر بالطاغوت ویؤمن باللّٰہ (۲۵۷) ۲۹ یؤتی الحکمۃ من یشآء(۲۷۰) ۹۳ ممن ترضون من الشھداء (۲۸۳) ۶۲ ولا یکلف اللّٰہ نفسا الا وسعھا(۲۸۷) ۲۲۴‘۵۰۰ اٰل عمران فاما الذین فی قلوبھم زیغ (۸) ۲۳۴ ربنا لا تزغ قلوبنا بعداذھدیتنا (۹) ۱۹۴ وجیھا فی الدنیا والاٰخرہ ومن المقربین (۴۶) ۹۰ یکلم الناس فی المھدوکھلاً(۴۷) ۱۵۶‘۱۶۷‘۱۷۸ یاعیسیٰ انی متوفیک ورافعک (۵۶) ۱۶۷‘۱۶۸ ۱۷۸‘۱۹۳‘۲۱۴‘۲۶۳ لعنت اللّٰہ علی الکٰذبین (۶۲) ۳۴۱ واذ اخذاللّٰہ میثاق النبیین (۸۲.۸۳) ۲۴۸‘۲۵۱ وشھدواانّ الرسول حقّ (۸۷) ۴۴۴ لن تنالوا البرحتّٰی تنفقوا مما تحبون (۹۳) ۴۱۰ واعتصموابحبل اللّٰہ جمیعاً (۱۰۴) ۲۲‘۳۷ ھذا بیانٌ للنّاس...(۱۳۹) ۲۹ ولا تھنوا ولاتحزنواوانتم الاعلون (۱۴۰) ۳۳۳ وما محمدٌالا رسول قدخلت من قبلہ الرسل (۱۴۵) ۲۳۵ لتبلون فی اموالکم و انفسکم (۱۸۷.۱۸۸) ۱۵۳‘۲۵۱ فالّذین ھاجروا و خرجوا من دیارھم(۱۹۶) ۱۵۳‘۲۵۱ النساء احل لکم ماوراء ذٰلکم (۲۵) ۶۰ فلایومنون الا قلیلاً (۴۷) ۲۴۵ تؤدوا الامانات الی اھلھا (۵۹) ۳۳۸ فان تنازعتم فی شیء فردوہ الی اللّٰہ

Page 560

والرسول(۶۰) ۱۸۴ من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین (۷۰) ۱۹۵ ولو کان من عند غیر اللّٰہ (۸۳) ۶۴‘۲۴۵‘۲۵۹ لعلمہ الّذین یستنبطونہ (۸۴) ۴۹۴ لیجمعنّکم الی یوم القیامۃ (۸۸) ۲۵۱ وانزل اللّٰہ علیک الکتاب (۱۱۴) ۴۲۶ ولا ضلنّھم ولا منینھم (۱۲۰) ۱۵۳‘۲۵۱ لن یجعل اللّٰہ للکافرین علی المومنین سبیلاً (۱۴۲) ۳۳۴ لا یحب اللّٰہ الجھر بالسُوءٓ (۱۴۹) ۳۱۸ اناّ قتلنا المسیح عیسی ابن مریم (۱۵۸‘۱۵۹) ۱۵۷‘۱۶۷‘۱۶۸‘۲۵۸‘۲۶۳‘۲۸۲ وان من اھل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ (۱۶۰) ۱۵۱ ۱۵۸‘۱۷۲‘۱۷۸‘۱۸۵‘۱۸۶‘۱۸۷‘۱۹۶‘ ۱۹۹‘ ۲۰۷‘ ۲۲۸‘ ۲۳۲‘ ۲۳۴‘ ۲۴۱‘ ۲۴۴‘ ۲۴۵‘ ۲۵۷‘ ۲۵۹‘ ۲۶۱‘ ۲۶۸‘ ۲۸۴‘ ۲۹۵‘۲۹۶ والمقیمین الصلوٰۃ (۱۶۳) ۲۴۳‘۲۶۸ ولا تقولوا ثلثۃ (۱۷۲) ۴۹۲ المائدۃ الیوم اکملت لکم دینکم (۴) ۱۰۶‘۳۳۵ یحرفون الکلم عن مواضعہٖ (۱۴) ۲۱ فاغرینا بینھم العداوۃ (۱۵) ۱۷۶‘ ۱۷۸‘۱۹۳‘۲۸۷ یھدی بہ اللہ من ا تبع رضوانہ (۱۷) ۲۹‘۴۲۹ فسوف یاتی اللّٰہ بقوم یحبّھم و یحبونہ(۵۵) ۳۴۷ والصّابءُون (۷۰) ۲۶۸ لتجدنّ اشد الناس عداوۃ (۸۳) ۱۵۳‘۲۵۱ یٰایھا الّذین اٰمنوا لیبلونکم اللّٰہ (۹۵) ۱۵۳‘۲۵۱ تکلم النّاس فی المھد وکھلا (۱۱۱) ۲۸۷ واذقال اللّہ یعیسٰی ابن مریم (۱۱۷) ۱۹۷ الانعام لیجمعنّکم الٰی یوم القیٰمۃ(۱۳) ۱۵۳ یعرفونہ کما یعرفون ابناء ھم (۲۱) ۱۶۶ وان یرواکل اٰیۃ (۲۶) ۴۴۲ مافرطنا فی الکتاب من شیءٍ (۳۹) ۸۱ قل انی علی بینۃ من ربیّ (۵۸) ۴۲۵‘۴۴۲ لا رطب ولایابس الا فی کتاب مبین (۶۰) ۲۹۳‘۲۹۴‘۵۰۵ ھوالّذی یتوفّٰکم باللیل (۶۱) ۱۵۹‘۲۶۶ قل ھوالقادر علٰی ان یبعث (۶۶) ۴۴۲ قد جآء کم بصائر من ربکم (۱۰۵) ۴۴۲ کمالم یومنوابہ اوّل مرّۃ (۱۱۱) ۴۴۴ اَفَغیرَاللّٰہِ ابتغی حکماً (۱۱۵) ۴۲۲‘۴۲۳ واذاجآ ء تھم اٰیۃ (۱۲۵) ۴۴۲ اعملوا علٰی مکانتکم انی عامل(۱۳۶) ۱۲۴ قل لا اجدفی ما اوحی الی محرما (۱۴۶) ۵۶‘۱۰۵ الاعراف اتبعواما انزل الیکم من ربکم (۴) ۴۱ فلنسئلنّ الّذین ارسل الیھم (۷.۸) ۱۵۳‘۲۵۲ قد انزلنا علیکم لباسا (۲۷) ۱۶۵ لا تفتَّحُ لھم ابواب السمآء (۴۱) ۲۱۵ فصّلناہ علی علم (۵۳) ۲ ربناافتح بیننا وبین قومنا (۹۰) ۱۶۰ لَاُقطعن ایدیکم وارجلکم (۱۲۵) ۱۵۳‘۲۵۲ واذتاذّن ربک لیبعثن علیھم (۱۶۸) ۱۵۳‘۲۵۲ اخلد الی الارض (۱۷۷) ۳۶۸ فَبِاَیِّ حَدیثٍ بعدہ یومنون (۱۸۶) ۱۲‘۲۲ الانفال ومارمیت اذرمیت (۱۸) ۴۸۵‘۴۸۸‘۴۸۹

Page 561

التوبۃ حتّٰی یعطوا الجزیۃ عن ید (۲۹) ۳۳۵ وقالت الیھود عزیرابن اللّٰہ(۳۰) ۴۹۲ ھوالّذی ارسل رسولہ بالھدٰی (۳۳) ۲۵۷ یونس وَ یَستَنْبِءُوْنَکَ احقٌّ ھو (۵۴) ۴۴۲ شفاءٌ لما فی الصدور(۵۸) ۴۲۹ الآ انّ اولیاء اللّٰہ لا خوف (۶۳.۶۵) ۴۳۷‘۴۷۹ ان یتبعون الاالظن (۶۷) ۹۴ ھود ولو شاء ربک لجعل الناس (۱۱۹.۱۲۰) ۱۱۹‘ ۲۵۷ یوسف لا تایئسوا من روح اللّٰہ (۸۸) ۷۱ وما اکثر النّاس ولو حرصت بمومنین (۱۰۴) ۲۸۵ قل ھذہ سبیلی ادعواالی اللّٰہ (۱۰۹) ۴۲۶ ماکان حدیثًا یفتری (۱۱۲) ۲۹ الرعد انزل من السمآء مآءً (۱۸) ۴۲۹ الا بذکر اللّٰہ تطمئنّ القلوب(۲۹) ۴۲۹ ابراہیم ولنصبرنّ علی ما اٰذیتمونا (۱۳.۱۵) ۱۵۳‘۲۵۲ الحجر اناّنحن نزلنا الذکر و انّا لہ لحافظون (۰ا) ۲۸۲‘ ۴۲۹ وان من شیء الا عندنا خزائنہ (۲۲) ۲۹۶‘۴۹۷ الا عبادک منھم المخلصین (۴۱) ۱۰۳ النحل انزل من السمآء مآء (۶۶) ۴۲۹ وما انزل علیک الکتاب الّا (۶۵) ۲۹ ونزلنا علیک الکتاب تبیاناً لکل شیءٍ (۹۰) ۲۹‘۸۱ ولیبینن لکم یوم القیٰمۃ (۹۳.۹۴) ۱۵۳‘۲۵۲‘ ۲۵۳‘ ۲۵۹‘۳۰۱ من عمل صالحاً من ذکراوانثٰی (۹۸) ۱۵۳‘۱۷۴ ۲۵۳‘۲۷۴ قل نزّلہ روح القدس (۱۰۳) ۲۹‘۴۲۹ بنی اسرائیل وقضینا الی بنی اسرائیل (۵) ۱۵۳‘۲۵۳ انّ ھذاالقرآن یھدی (۱۰) ۲۹ لا تجعل مع اللّٰہ الٰھاً اٰخر...(۲۳تا۲۵) ۴۲۳‘۴۲۴ انّ العھد کان مسؤلا (۳۵) ۲۶۱ ولا تقف ما لیس لک بہ علم (۳۷) ۱۹‘۱۲۱‘۱۸۹‘۲۳۸ وان من قریۃ الانحن مھلکو ھا (۵۹.۶۰) ۴۳۵ ۴۳۶‘۴۳۸‘۴۴۰ جآء الحق وزھق الباطل(۸۲) ۲۱۲ قل لئن اجتمعت الانس (۸۹) ۴۳۰ اوترقٰی فی السماء ولَنْ نومن لرقیک (۹۴) ۳۰۴ بالحق انزلنا ہ و بالحق نزل (۱۰۶) ۲۹ الکہف کبرت کلمۃ تخرج من افواھہم (۶) ۲۲۴‘۲۳۹‘۳۰۰ وعلّمناہ من لدنا علما(۶۶) ۲۹۴ مریم سلام علیہ یوم ولد (۱۶) ۱۰۴ ولنجعلہٗ اٰیۃ للنّاس (۲۲) ۱۶۸ تکا دالسمٰوٰت یتفطرن (۹۱) ۵۵ طٰہ ٰ ان ھذا ن لساحران (۶۴) ۱۷۳‘۱۸۳‘۱۹۲‘۲۶۸ فمن اتبع ھداي فلا یضل (۱۲۴) ۲۹

Page 562

ومن اعرض عن ذکر ی (۱۲۵) ۳۷ الانبیاء فلیا تنا بایۃ کما ارسل الاولون (۶) ۳۹۲ خلق الانسان من عجل (۳۸) ۴۴۲ تااللہ لا کیدن اصنا مکم (۵۸) ۲۴۹ انّ فی ھذا لَبَلَاغاً لقوم عابدین (۱۰۷) ۲۹ الحج ومنکم من یتوفّٰی ومنکم من یرد (۶) ۱۶۰ ولینصرنّ اللّہ من ینصرہ (۴۱) ۱۵۳‘۱۷۵‘۲۵۴‘۲۷۴ وَمآاَرْ سَلْناَ مِنْ قَبْلِکَ...(۵۳) ۴ انزل من السمآء مآءً (۶۴) ۴۲۹ النور سبحانک ھذا بھتان عظیم (۱۷) ۱۹۹‘۲۹۵ نورٌ علیٰ نور (۳۶) ۲۹ لیستخلفنھم فی الارض (۵۶) ۱۵۳‘۲۵۴ النمل وجحدوا بھاوا ستیقنتھا (۱۵) ۱۶۶‘۲۰۳‘۳۰۲ لا عذّبَنّہٗ عذاباً شدیداً (۲۲) ۱۵۳‘۲۵۴ وقل الحمد للہ سیریکم ایتہ (۹۴) ۴۴۲ القصص انّی انا اللّٰہ ربّ العالمین (۳۱) ۴۸۷ العنکبوت والّذین اٰمنوا و عملواالصٰلحٰت لندخلنّھم فی الصالحین (۱۰) ۱۷۵ بل ھوَ اٰیٰتٌ بیّنٰتٌ...(۵۰) ۴۱۹ وقالوا لولا انزل علیہ اٰیٰتٌ (۵۱.۵۲) ۴۲۸ ویستجعلونک بالعذاب (۵۴) ۴۲۸‘۴۴۲ والّذین جاھدوا فینا لنھدینم سبلنا (۷۰)۱۵۳‘۱۷۴ ۱۹۲‘۲۵۴‘۲۷۴‘۲۹۴ الروم فطرت اللّٰہ الّتی فطرالنّاس علیھا (۳۱) ۳۰ واقیمواالصلٰوۃ ولا تکونو امن المشرکین (۳۲) ۴۰‘۶۳‘۱۱۳ ظھر الفساد فی البر والبحر (۴۲) ۲۳۰ لقمان ان انکر الاصوات لصوت الحمیر (۲۰) ۱۰۶ السجدۃ ولو شئنا لاٰتینا کل نفس ھد ھا (۱۴) ۲۵۷ سبا قل لکم میعادُ یومٍ (۳۱) ۴۴۲ فاطر لا تزر وازرۃ وزراخرٰی(۱۹) ۸‘۱۰۹ یٰس اذ ارسلنا الھیم اثنین (۱۵) ۴۸۹ الصّٰفٰت فبشّرنٰہٗ بغلامٍ حلیم (۱۰۲) ۲۰۳ ص ٓ وعجبوا ان جآء ھم منذرٌ (۵) ۴۳۲ ان ھذا لشئٌ عجاب (۶) ۲۵۲‘۲۶۸‘۲۷۸‘۲۸۴ قال ربّ فانظر نی الی یوم یبعثون (۸۰.۸۶) ۲۶۰ الزمر انزل لکم من الانعام ثمٰنیۃ ازواج (۷) ۱۶۵ اللّٰہ نزل احسن الحدیث (۲۴) ۳۷‘۴۲۹ اللّٰہ یتوفی الا نفس حین موتھا(۴۳) ۱۵۹‘۲۶۵‘ ۲۶۶‘۴۸۹ لا تقنطوا من رحمۃ اللّٰہ (۵۴) ۷۱ المومن وان یک صادقا یصبکم بعض الّذی یعدکم (۲۹) ۳۹۴

Page 563

حٰمٓ السجدۃ و قالوا قلوبنا فی اکنۃ (۶) ۸۶ انّ الّذین قالو ا ربنا اللّٰہ (۳۱.۳۲) ۴۷۹ لا یاتیہ الباطل من بین یدیہ (۴۳) ۲۹ قل ھو للذین اٰ منوا (۴۵) ۲۹ سنریھم اٰیٰتنا فی الاٰفاق (۵۴) ۴۴۲ الشوریٰ انزل الکتٰب بالحق و المیزان (۱۸) ۲۹ روحاً من امرنا (۵۳) ۲۹ الزخرف مالھم بذالک من علم (۲۱) ۹۴ ومن یعش عن ذکر الرحمن (۳۷) ۳۷ فاستمسک بالّذی اوحی (۴۴.۵۴) ۳۷ وانہٗ لعلم للساعۃ (۶۲) ۱۵۷‘۱۶۸ قل ان کان الرحمٰن ولد (۸۲) ۴۸۶ الجاثیۃ فبایّ حدیث بعداللّٰہ واٰیاتہ یومنون (۷) ۱۲‘۱۰۷ الاحقاف وَ شھد شاھد من بنی اسرائیل (۱۱) ۳۸۹ محمدؐ ولتعرفنھم فی لحن القول (۳۱) ۱۵۳‘۲۵۴ الفتح انّ الّذین یبا یعونک (۱۱) ۴۸۵ سیما ھم فی وجوھھم من اثر السجود (۳۰) ۳۲۲ الحجرات یٰایھا الّذین اٰ منوا ان جاء کم (۷) ۳۶ النجم وماینطق عن الھوٰی (۴‘۵) ۴۸۵ دنا فتدلّٰی فکان قاب قوسین (۹‘۱۰) ۴۸۵‘۴۹۶ ماَ کذبَ الفؤادُ مارٰای (۱۲) ۴۲۶ ماَزاغ البصر و ماطغٰی (۱۸.۱۹) ۴۲۶ تلک اذًا قسمۃٌ ضیزٰی (۲۳) ۳۳۱‘۲۳۷‘ ۲۴۱ وانّ الظن لا یغنی من الحق شیءًا (۲۹) ۵۰ القمر وَاِنْ یَروا اٰیۃً یعرضوا (۳) ۴۳۲‘۴۴۴ حکمۃٌ بالغۃٌ (۶) ۲۹ مقعدِ صدق عندملیک مقتدر (۵۶) ۲۱۶ الواقعۃ وانّہ لقسم لو تعلمون عظیم (۷۷) ۲۹۵ انّہٗ لقراٰن کریم (۷۸) ۲۹ فی کتٰبٍ مکنون (۷۹) ۲۹ لا یمسّہٗ الا المطھرون (۸۰) ۳۹‘۹۳ الحدید انزلنا الحدید (۲۶) ۱۶۵ المجادلۃ کتب اللّٰہ لاغلبنّ انا و رسلی (۲۲) ۱۷۴‘۲۷۹ الحشر ما اٰتا کم الرسول فخذوہٗ (۸) ۵۶‘۱۰۷‘۱۵۷‘۴۹۱‘۵۰۲ الصف لم تقولون مالا تفعلون (۳) ۱۱۴ کبر مقتاعنداللّٰہ ان تقولوا مالا تفعلون (۴) ۱۱۰ من انصاری الی اللّٰہ (۱۵) ۴۰۷ التغابن قل بلی و ربی لتبعثن (۸) ۱۵۳‘۲۵۵ الطلاق واشھدوا ذوی عدل منکم (۳) ۶۲ انز ل اللّٰہ الیکم ذکراً رسولاً (۱۱.۱۲) ۵ ۱۶

Page 564

التحریم یٰایّھا الّذین اٰ منوا قوآانفسکم (۷) ۴۱۳ الحاقۃ وانّہٗ لحقّ الیقین (۵۲) ۲۹ الجنّ فلا یظھر علی غیبہٖ احدًا الا من ارتضیٰ من رسول(۲۷.۲۸) ۱۱۹‘ ۳۹۴ المطففین تعرف فی وجوھھم نضرۃ النعیم (۲۵) ۴۷۹ الانشقاق لتر کبنّ طبقا عن طبق (۲۰) ۱۵۳‘۲۵۵ البروج بل ھو قرانٌمجید فی لوح محفوظ (۲۲.۲۳) ۲۵۶‘۲۷۹ الطارق انّہ لقول فصل (۱۴) ۲۲‘۲۹ الاعلیٰ لا یموت فیھا و لا یحییٰ (۱۴) ۲۳۰ الفجر یٰایتھا النفس المطمئنۃ ارجعی (۲۸.۳۱) ۱۶۸‘۳۱۷ الضحیٰ وامّابنعمت ربّک فحدّث (۱۲) ۴۰۰ البیّنۃ فیھا کتبٌ قیمۃٌ (۴) ۲۹‘۴۲۹

Page 565

احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم اصول حدیث ؍ علم حدیث (دیکھئے کلید مضامین زیر لفظ حدیث) ان من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ ۳۱‘۲۸۰ ان الحارث الاعور قال...۳۹ انہٗ لا یولد لہ...لا ید خل المدینۃ و لا مکۃ...۷۲ ان یکنہ فلن تسلّط علیہ ۷۵ ان یکن فلست صاحبہ انما صاحبہ عیسیٰ ابن مریم ۷۵ اتقوا عنی الا ما علمتم ۷۷ انی اوتیت الکتاب و مثلہ ۱۰۸ انی ترکت فیکم ما ان تمسکتم بہ ۱۰۹ اوصیٰ بکتاب اللّٰہ ۱۰۹ انّ اللّٰہ امرنی ان اقراء علیک القرآن ۲۳۸ الخلق کلھم عیال اللّٰہ ۴۹۴ امامکم منکم ۲۸۸‘۳۰۴‘ ۳۳۵ بعث معاذ الی الیمن قال لہ بما تقضی یا معاذ ۹۳ تکثرلکم الا حادیث من بعدی ۹۵ ثم یبعث اللّٰہ ریحا طیبۃ فتوفی کل من ۲۸۶ دخو ل فی النار ۱۶۹ کیف انتم اذا نزل ابن مریم فیکم امامکم منکم ۷۸ کلامی لا ینسخ کلا م اللّٰہ ۹۵ کان النبی صلعم بین رجلین بجمع من قتلی احد ۱۱۰ کیف انتم اذا نزل ابن مریم فیکم فأ مّکم ۲۴۲ کنت سمعہ الذی یسمع بہ ۴۸۶‘۴۸۸ قال ھذہ و ھذہ یعنی الخنضر والا بھام سواء ۶۱ قال عمرؓ حسبنا کتاب اللّٰہ ۹۵ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم للیھود ان عیسیٰ لم یمت وانہ راجع علیکم۱۵۸‘۱۶۹‘۲۶۴ لا تنکح المراۃ علی عمتھا ولا خالتھا ۶۰ لا تقوم الساعۃ الا علیٰ شرار الخلق ۲۸۶ لو یعطی الناس بدعوا ھم لا دعی الناس ۲۹۱ لا مہدی الا عیسیٰ ۳۶۸ لا تطرونی کما اطرت النصاریٰ ۴۹۱‘۵۰۶ مامن مولود یولد الا والشیطن یمسہٗ ۱۰۳ ما عندناشیء الا کتاب اللّٰہ ۱۰۹ ماکان من شرط لیس فی کتاب اللّٰہ ۱۰۹ من ترک الصلوٰۃ متعمداً ۶۳‘۶۴‘ ۶۵ من مات فقد قامت قیامتہ ۲۵۳ فَذَ ھبَ وھلی ۲۷‘۱۲۴‘۱۶۹ فلم یزل رسول اللّٰہ صلعم مشفقاً انہٗ ھو الدجالُ ۲۸ فانّ خیر الحدیث کتاب اللّٰہ ۹۵ فامّکم منکم و امامکم منکم ۲۶۳‘۲۸۸ وھذا الکتاب الذی ھدی اللّٰہ بہ ۱۰۹ وکان و قاّ فاً عند کتاب اللّٰہ ۱۰۹ والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم ۱۵۸ ولا یلد غ المؤ من من جحرواحد مرتین ۳۱۶ یا امیر المؤ منین اقض بینی و بین ھذا الکاذب ۹۸ یتزوّ ج و یولدلہ ۳۶۰ یدعی نوح یوم القیامۃ فیقال لہ ھل بلغت ۲۴۶

Page 566

کلید مضامین آ.۱ آسمانی فیصلہ مخالفین مثلاً میاں نذیر حسین اور ساتھیوں کو آسمانی فیصلہ کی دعوت ۳۲۴ رسالہ آسمانی فیصلہ پر بٹالوی کی جرح اور اس کا جواب ۳۹۰ ابتلا ء ابتلاء کے طور پر بھی قبولیت دعا ہوتی ہے یوں کبھی کافروں کی دعا بھی قبول ہوجاتی ہے ۴۷۷ اجتہاد آنحضورؐ وحی مجمل میں اجتہاد کیا کرتے تھے ۲۷ بعزم طواف کعبہ مکہ روانا ہونا اجتہادی غلطی تھی ۲۷ اجماع ۳۲ اجماع کی تعریف اور قسمیں ۲۸‘۷۱‘۱۱۶‘۱۱۷ صحابہ کے اجماع کی تعریف ۴۳‘۷۰ اجماع کی شرائط ۱۱۸ امام احمد بن حنبل کا اجماع کے بارہ نظریہ ۲۰ اجماع امت کے بارہ امام شعرانی کا بیان اور اس کی حقیقت ۱۰۷ ابن صیاد کے دجال معہود ہونے پر صحابہ کا اجماع ۲۳‘۲۸ صحیحین پر اجماع امت کی حقیقت ۹۸ اجماع اتفاقی دلیل نہیں مولوی محمد حسین بٹالوی کا عقیدہ ۱۹ احمدیت اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کو بے نشان نہیں چھوڑے گا اور نہ اپنی تائید سے دستکش ہو گا ۳۳۳ اگر اس جماعت سے ایک نکل جائے گا تو خدا تعالیٰ اس کی جگہ بیس لائے گا ۳۴۷ ارتداد میر عباس علی صاحب لدھیانوی کا ارتداد اور وجوہات ۳۴۳ استخارہ استخارہ کے لئے اپنے نفس سے بکلی بغض و عناد دھو کر بکلّی خالی النفس ہونا ضروری ہے ۴۰۱ تلاش حق اور صادق کی شناخت کے استخارہ کیلئے دورکعت نماز جس میں پہلی رکعت میں یٰسین دوسری میں اکیس بار سورۃ اخلاص اور پھر تین سو بار درود شریف اور تین سو بار استغفار پڑھ کر دعا کریں ۴۰۰‘۴۰۱ اسلام حصول صراط مستقیم کی فطرتی خوبی کا نام اسلام ہے ۳۴۳ فطری مذہب جو تصنع اور تکلف سے پاک ہے ۴۷۰ اسلام کی فتح کی پیشگوئی ۴۴۵‘۴۴۶ تہتر کے قریب فرقے ہو گئے ہیں ۴۰ اشتہار ؍اشتہارات حضورؑ نے دہلی میں تین اشتہارات جاری کئے ۳۱۲ اشتہار ۲۳؍اکتوبر ۱۸۹۱ء ۳۱۴‘۳۲۰ ڈاکٹر جگن ناتھ ریاست جموں کو آسمانی نشان کی طرف دعوت کا اشتہار ۳۳۸ اشتہار دس جولائی ۱۸۸۷ء کا ذکر ۳۵۰ کتاب نشان آسمانی کی قیمت ارسال کرنے کا اشتہار ۳۵۶ حضورؑ کا اشتہار ۲۸؍مئی ۱۸۹۲ء بعنوان ضروری گزارش جس میں اشاعت کے لئے مالی معاونت کی تحریک کی گئی ۴۰۶

Page 567

حضورؑ کا اشتہار ۲۶؍مئی ۱۸۹۲ء اشاعت دین کے لئے سلسلہ واعظین کی خاطر مولوی محمد احسن امروہی کے گزارہ الاؤنس کے لئے چند ہ کی اپیل ۴۰۸ محمد عبداللہ خان مدرس پٹیالہ کا اشتہار کہ میں مرزا صاحب کا معتقد ہوں او ربٹالوی کے فتویٰ تکفیر سے تعلق نہیں ۴۰۵ میر عباس علی لدھیانوی کا مخالفانہ اشتہار ۳۴۷ بٹالوی کے متکبرانہ اشتہار کا ذکر ۳۲۰ اصحاب کہف اصحاب کہف کی تعداد پر اعتراض اور اس کا جواب ۴۵۸ اعتراض ؍اعتراضات احادیث کو موضوع قرار دینے کا اعتراض ۳۱ مرزا صاحب براہین احمدیہ میں حیات مسیح کا اقرارکر چکے ہیں ۲۹۰ اصحاب کہف کی تعداد بیان فرمودہ قرآن پرایک عیسائی کا اعتراض اور جواب ۴۵۸ سورج کے دلدل میں چھپنے کے قرآنی بیان پر اعتراض ۴۵۸ اللہ تعالیٰ صفت قادر ۳۳۵ صفت عالم الغیب ۴۵۳‘۴۵۴ سچے مذہب کے پیرو کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے خاص تعلقات ہو جاتے ہیں ۴۷۶ الہام اکابر کا عقیدہ ہے ایک ملہم الہام الٰہی سے حدیث کو صحیح یا موضوع ٹھہرا سکتا ہے ۱۵ مولوی محمد بشیربھوپالی صاحب کا حضورؑ کے الہامات کو کلیۃً حجت تسلیم نہ کرنا اور اس کا رد ۲۲۱‘۲۲۶ امکان امکان کی دو قسمیں(۱)مترکب الوقوع (۲) مستعد الوقوع ۱۱۱ انٹروڈکشن مباحثہ الحق لدھیانہ و دہلی کا انٹروڈکشن از مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی ۳،۱۲۹ انفاق فی سبیل اللہ اشاعت کتب مسیح موعود کے لئے مالی معاونت اور زکوٰۃ کی رقم اس مد میں دینے کے لئے تحریک ۴۰۶‘ ۴۰۷ صحابہ مسیح موعودؑ کے اخلاص اور مالی قربانی کی شاندار مثالیں ۴۰۹‘۴۱۰ ایمان ؍ایمانیات ایمان اسی تک ایما ن کہلاتا ہے کہ جب کچھ اخفا بھی باقی رہے ۴۳۴ انکشاف تمام سے ایمان لانا کچھ مفید نہیں ۴۳۴ ب.پ.ت برنباس دیکھئے انجیل و عیسائیت بنی اسرائیل بخاری اور مسلم میں کئی جگہ بنی اسرائیل کے قصے درج ہیں ۸۶ توراۃ میں واحد مخاطب کے لفظ سے حکم صادر کیا جاتا ہے اور مراد بنی اسرائیل کی جماعت ہوتی ہے ۴۲۴ بیعت سلسلہ بیعت میں داخل ہو کر پھر ملاقات کی پرواہ نہ رکھنا ایسی بیعت سراسر بے برکت اور صر ف ایک رسم کے طور پر ہو گی ۳۵۱ مہتاب علی شعبدہ بازی کے بعد سلسلہ بیعت میں داخل ہو گیا ۳۹۳‘۳۹۴ پریس مطبع ضیاء الاسلام پریس قادیان جس میں کتاب الحق مباحثہ لدھیانہ طبع ہوئی ۱ مطبع ضیاء الاسلام پریس قادیان جس میں کتاب الحق مباحثہ دہلی طبع ہوئی ۱۲۹ ریاض ہند امرتسر جس میں کتاب آسمانی فیصلہ طبع ہوئی ۳۰۹

Page 568

ریاض ہند پریس امرتسر جس میں کتاب نشان آسمانی طبع ہوئی ۳۵۵ پنجاب پریس سیالکوٹ ۳۵۳‘۴۱۰ پسر موعود نعمت اللہ شاہ ولی کی طرف سے پسر موعود کی پیشگوئی ۳۵۸‘۳۶۰‘۳۷۳ پیشگوئی ؍پیشگوئیاں پیشگوئیوں میں بہت سے اسرار ہوتے ہیں جو اپنے وقت پر کھلتے ہیں ۳۶۶ ملا کی نبی کی ایلیا کے دوبارہ آنے کی پیشگوئی ۳۶۵ حضرت مسیح موعود کی بعض پیشگوئیاں دلیپ سنگھ کی ناکامی کے متعلق دیانند کی موت ‘ شیخ مہر علی کا ابتلا اور بٹالوی کی مخالفت ۳۹۶ آپ کے بارہ نعمت اللہ شاہ ولی اور گلاب شاہ کی پیشگوئی ۳۵۷،۳۶۱ تبلیغ روحانی (نیز دیکھئے زیر عنوان استخارہ) اللہ تعالیٰ سے نشان طلب کر نے اور حق کی شناخت کیلئے استخارہ کا طریق ۳۹۸‘۴۰۱ تحقیق حق لاہور اور لدھیانہ کے عمائداسلام کی مخلصانہ درخواست بنام علماء کہ مرزا صاحب سے مباحثہ بالمشافہ کریں ۱۲۶،۱۲۷ تعامل تعامل کا مقام حدیث سے پہلے ہے ۴۸ تفسیر قرآن کا اوّل مفسر قرآن اور پھر حدیث ہے ۱۰۵ تقدیر مبرم حقیقی تقدیر مبرم دعاؤں سے بدلائی نہیں جاتی ۳۲۴ تقویٰ اللہ کے نزدیک فضیلت تقویٰ میں ہے ۱۱۲ ج.ح.خ جاہلیت ایام جاہلیت آنحضور ؐ کی بعثت سے قبل کا زمانہ ۳ جلسہ سالانہ جلسہ سالانہ کے نظام کے آغاز کا اشتہار ۳۵۱ جلسہ سالانہ کے اغراض و مقاصد ۳۵۲ پہلے جلسہ سالانہ قادیان ۲۷دسمبر ۱۸۹۱ء کے شرکاء کے اسماء ۳۳۶ جنگ بدر جنگ بدر میں مکہ والوں پر عذاب آیا ۴۴۳ حدیث ؍علم واصول حدیث اصول حدیث بیان فرمودہ حضرت مسیح موعود ؑ ۱۴‘۱۹‘۸‘۱۱‘۱۲ تعارض حدیث دور کرنے میں اللہ میری مدد کرتا ہے ۲۶ صحت حدیث کے بارہ میں حضرت مسیح موعود کا مذہب ۸۰ علم حدیث ایک ظنی علم ہے جو مفید ظن ہے ۲۶ حدیث کا مرتبہ یقینی نہیں جیسا قرآن کا ہے ۱۴ جو حدیث قرآن کے مطابق ہو وہ قبول کریں گے ۱۴ قرآن ہر یک وجہ سے احادیث پر مقدم ہے ۳۰ قرآن کے خلاف حدیث قبول نہیں ۱۰۰ مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کو حدیث پر حکم مقرر کرے ۲۲ احادیث اپنی روایتی ثبوت کے رو سے کسی طور سے قرآن کا مقابلہ نہیں کر سکتیں ۱۶ حدیثوں کی حقیقی صحت کا پرکھنے والا قرآن ہے ۲۹‘۳۵‘۳۶ قرآن احادیث کے لئے معیار ہے جو راویوں کے دخل سے جمع کی گئی ہیں ۹۲ صحابہ رسول آنحضرتؐ کی احادیث کے مبلغ تھے ۸۸

Page 569

احادیث سے پہلے تعامل کا سلسلہ جاری تھا ۲۶ سلسلہ تعامل سے احادیث نبویہ کو قوت پہنچتی ہے ۸۷ مراتب صحت میں تمام حدیثیں یکساں نہیں ہیں ۳۶ حدیث کا موضوع ہونا اور ضعیف ہونا دو الگ امور ہیں ۴۲ بعض احادیث میں تعارض و تخالف پایا جاتا ہے ۱۷ احادیث میں باہم تعارض کی چند مثالیں ۸۴‘۱۰۳ تلویح میں لکھا ہے کہ بخاری میں بعض موضوع حدیثیں ہیں جو زنادقہ کا افترا ہیں ۱۱۱ صحیحین کے بعض راوی قدری اور بدعتی ہیں( مسلم الثبوت ) ۱۱۱ کیا صحیحین کی تمام حدیثیں صحیح یا موضوع یا مختلط ہیں ۳۵ صحیحین کی حدیثوں کو واجب العمل سمجھنے پر اجماع کا دعویٰ جبکہ عملی شہادت اس کے برخلاف ہے ۹۴‘ ۹۵ حنفیوں کو بخاری اور مسلم کی تحقیق احادیث پر اعتراض ہیں ۴۰ معیار قرآن اور حدیث کے بارہ میں حنفیوں اور شافعیوں کا نظریہ ۹۴ دمشقی حدیث کو امام بخاری نے ضعیف جان کر چھوڑ دیا ۱۱۴ حنفی فقہ ؍مسلک اس کی روسے مشہور حدیث سے آیت منسوخ ہو سکتی ہے ۹۲ احادیث میں جب تک تواتر ثابت نہ ہو قرآن پر زیادت جائز نہیں ۹۴ حواری مسیح کے حواریوں کی روحانی تربیت یابی صحابہ رسول ؐ کے مقابلہ میں بہت کمزور تھی.پادری ٹیلر کا اقرار ۴۵۲ بارہ حواریوں سے بارہ برج مراد لینا ۴۶۹ حیات مسیح کا عقیدہ ۲۷۳‘۲۷۴ عقیدہ حیات مسیح کے خلاف حضورؑ کے دلائل ۲۰۷ عقیدہ حیات پر مولانا سید محمد احسن صاحب اور مولوی محمد بشیر صاحب بھوپالی کے درمیان مراسلت ۲۲۱ عقیدہ حیات مسیح سے دستبرداری سے وفات مسیح ثابت ہوجائے گی ۲۳۲ حیات مسیح ثابت کرنے کے لئے بحث کر لیں یا قسم کھائیں کہ قرآن میں وفات مسیح کا ذکر نہیں ۳۱۵ اعتراض کا جواب کہ مرزا صاحب براہین احمدیہ میں حیات مسیح کا اقرار کر چکے ہیں ۲۹۰ د.ر.ز دجال/دجالیت ۱۶ آنحضورؐ کا دجال سے ڈرنا ۷۷ فسق و فجور اور کفر وضلالت کے مجموعہ کا نام دجالیت رکھا گیا ہے ۳۶۹ مولوی بھی دجالیت کے درخت کی شاخیں ہیں ۳۶۹ صحیحین میں الدجال کے لفظ کا اطلاق دجال معہود پر ہی ہوتا ہے ۱۲۱ دجال کی حدیث ابتک مشکوٰۃ اور دوسری کتب میں درج ہے ۱۰۹ ابن عمرؓ کا قول دجال کے بارہ میں ۴۳‘۷۰‘۷۳ مشرق کی طرف سے نکلے گا مشرق میں ہندوستان بھی شامل ہے ۱۲۰ صحابہ ابن صیاد کو دجال معہود سمجھتے تھے ۲۳ ابن صیاد کے دجال معہود پر اجماع سکوتی ۱۱۸ ابن صیاد کے دجال معہود ہونے پر صحابہ کا اجماع ۲۸‘۷۰ دعا ؍قبولیت دعا قبولیت دعا کا نشان سچے مذہب کے لوگوں کو ملتا ہے ۴۷۷ اللہ تعالیٰ نے استجابت دعا کو قدیم سے اپنی سنت ٹھہرایا ہے ۳۲۸ قبولیت دعا کی آزمائش کا طریق ۳۲۶ قبولیت دعا دو طور سے یعنی بطور ابتلا اور بطور اصطفاء کے ہوتی ہے ۴۷۷ بطور اصطفاء قبولیت دعا صرف برگزیدوں کی ہوتی ہے ۴۷۷ استجاب دعا اولیا ء اللہ کے لئے بھاری نشان ہے ۴۸۱

Page 570

مؤحد اور بت پرست کے درمیان طریق فیصلہ قبولیت دعا ہے ۳۲۹ دعا جو نشان ہوتا ہے اس کے لئے شرائط و لوازم ۴۷۸ مسیح کی دعا قبول ہوئی ۴۵۶ فرقہ نیچریہ کا قبولیت دعا کو تسلیم نہ کرنا ۳۲۸ دہریہ ؍دہریت انجیل کی راہنمائی کی نسبت یورپ امریکہ کے لوگ دہریہ رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں ۴۶۷ دہریت کا مرض دن بدن یورپ میں بڑھتا جا رہا ہے ۴۷۲ رؤیا ؍خواب قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ مومن رؤیا مبشرہ دیکھتا ہے اور اس کے لئے دکھائی بھی جاتی ہیں ۳۹۸ آنحضورؐ کاکسی کے خواب میں آنا اور اس کی حقیقت ۳۴ پنجاب اور ہندوستان میں بعض صاحبوں کو حضورؑ کو قبول کرنے کے متعلق خواب میں زیارت رسول کریمؐ ۳۹۹ احباب کو ہدایت کی وہ اپنی خوابیں مؤکد بقسم تحریر کر کے ارسال کریں ۴۰۰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سچی خوابوں اور رؤیاکو کتابی صورت میں شائع کرنے کا ارادہ ۴۰۰ مولوی محمد بشیر صاحب کی خواب کہ جسم پر لباس نہیں ۱۸۹ زبان ؍زبانیں ہر زبان ہمیشہ گردش میں رہتی ہے ۱۸۳ زکوٰۃ زکوٰۃ کا روپیہ اشاعت کتب مسیح موعود میں دینے کی تحریک ۴۰۹ س.ش.ص سلطان القلم مسیح موعود سلطان القلم اور اس کا قلم ذوالفقار کا کام کرے گا ۳۷۵ سوال ؍سوالات ۴۱۳ پادری عبداللہ جیمز کے پہلے سوال کا جواب ۴۲۱ پادری عبداللہ جیمز کے دوسرے سوال کا جواب ۴۲۷ پادری عبداللہ جیمز کے تیسرے سوال کا جواب ۴۵۳ شراب برطانیہ میں شراب پر بھاری رقم کا خرچ اور شراب کے بدنتائج ۴۷۱ لندن میں شراب کو بر انہیں سمجھا جاتا ۴۷۲ شعبدہ بازی ۳۹۳‘۳۹۴ شورٰی رسالہ آسمانی فیصلہ کے لئے ۲۷؍دسمبر ۱۹۹۱ کو بلائی جانے والی شورٰی اور شرکاء شورٰی کے اسماء ۳۳۶ شیطان تمثل شیطان کی حقیقت ۳۴۸ صحابہ رسول ؐ صحابہ کی پاک تبدیلی قرآن کا معجزہ اور نشان ہے ۴۴۷ صحابہ رسولؐ روحانی تربیت میں مسیح کے حواریوں سے بہت پختہ تھے پادری ٹیلر کا اقرار ۴۵۲ صحابہ آنحضرت ؐ کی احادیث کے مبلغ تھے ۸۸ آپس میں مباحثات کرتے لیکن جھگڑتے اور الجھتے نہ تھے ۴ صحابہ نے کئی واقعات میں حضرت عائشہ سے رجوع کیا ۴ ابن صیاد کے دجال معہود ہونے پرصحابہ کا اجماع ۲۳‘۲۸ صحابی کے قول کی حیثیت ۲۳ صحابہ مسیح موعودؑ جلسہ سالانہ قادیان ۱۸۹۱ء میں شامل اصحاب کے اسماء ۳۳۶ صحابہ مسیح موعودؑ کے اخلاص اور مالی قربانی کی شاندار مثالیں ۴۰۶‘۴۰۷

Page 571

صرف و نحو ؍عربی قواعد و گرائمر التزام قواعد مخترعہ صرف ونحو کاحجج شرعیہ میں سے نہیں ۱۸۳ اس کو رہبر معصوم تصور نہیں کیا جا سکتا ۱۸۴ ہر زبان ہمیشہ گردش میں رہتی ہے محاورات اور قواعد بدلتے رہتے ہیں ۱۸۳‘۱۸۴ قواعد نحو و غیرہ کو اہل زبان کے تابع ٹھہرانا چاہئے ۲۰۸ قواعد نحویہ اجماعیہ کی بحث ۲۰۴‘۲۰۵ علم نحو ۲۴۲‘۲۴۴‘۲۴۵‘۲۴۸‘۲۴۹ آئمہ کبائر نحو ۲۴۲ مزعومہ لا نافیہ مسیح علیہ السلام کے کلام میں بھی پایا جاتا ہے ۴۳۵ لا نافیہ اور لانفی جنس کے معانی میں فرق ۴۳۱‘۴۳۴ لام تاکید کی بحث ۲۴۸‘۲۵۱‘۲۷۱ الف، لام آنے سے دو معنی ہوں گے یا کل کے یا خاص کے ۴۴۰ نون ثقلیہ؍ تاکید کی بحث ۱۷۱‘۱۷۶‘۱۸۲‘۱۸۴‘۱۹۳‘۱۹۶‘ ۲۴۲ ۲۴۳‘۲۴۸‘ ۲۵۰‘ ۲۵۵‘ ۲۵۸‘ ۲۶۰‘ ۲۷۱‘ ۲۷۳‘ ۲۷۴‘ ۲۷۶‘ ۲۸۲ ۲۹۳‘ ۲۹۴‘ ۳۰۳ نون تاکید مضارع کو خالص استقبال کے لئے کر دیتا ہے ماضی اور حال کے لئے نہیں ۱۵۱ ازمنہ ثلٰثہ ماضی حال و مستقبل اور استمرار سب استقبال میں داخل ہیں ۲۷۹ ع.ف عرب قوم سرداران عرب اس بات پر فخر کرتے کہ ہم کسی کی بات نہیں مانا کرتے ۳ عربی زبان عربی میں کئی محاورات بدل گئے اور تبدیلیاں آگئیں ۱۸۴ علامت/علامتیں کامل مومنین کی علامات اربعہ کے بارہ میں طریق آزمائش ۳۲۵،۳۲۶ علم ؍علوم علم تام سے پہلے علم تام کا دعویٰ نہیں کرنا چاہئے ۳۶ علم اسماء الرجال ۲۳۷ علم اصول حدیث ۲۳۴ علم حدیث ایک ظنی علم ہے جو مفید ظن ہے ۲۶ علم فقہ حدیث ۲۴۱ علم اصول فقہ ۲۳۳، ۲۳۴ علم اصول فقہ و اصول حدیث جملہ علوم خادم کتاب و سنت ہیں ۲۶۸ علم بلاغت ۲۳۵ علم تفسیر ۲۳۸ علم عمل الترب ۳۹۳ علم زبان فارسی ۲۳۹ علم قراء ت ۲۳۷ علم مناظرہ ۲۴۰،۲۴۱ دلیل کی تعریف ۲۶۱، ۲۶۲ علم منطق ۲۳۵ علم دین ایک آسمانی بھید ہے ۳۲۱ عمل توجہ (مسمریزم) ۴۵۱ سلب امراض کا ملکہ من جملہ علوم کے ایک علم ہے ۴۵۰ حضرت مسیح کو کسی قدر اس علم میں مشق تھی مگر کامل نہیں تھے ۴۵۱ عیسائی ؍عیسائیت مسیح ؑ نے فریسیوں کے نشانات طلب کرنے پر نشان دکھانے سے انکار کیا ۴۳۵ انجیلوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام اپنی عمر کے آخری سالوں میں اپنی نبوت کی نسبت شبہات میں پڑ گئے تھے ۴۲۷ پادری ٹیلر کا کہنا کہ حضرت مسیح کی روحانی تربیت کمزور اور ضعیف تھی ۴۵۲ عیسائیوں کا فرقہ یونی ٹیرین وفات مسیح کا قائل ہے ۸۳ انجیل برنباس الوہیت مسیح تثلیث وغیرہ عقائد کے خلاف ہے ۴۶۷

Page 572

انجیل میں مسیح کو خدا کا برّہ لکھا ہے ۴۵۸ الوہیت مسیح کی اوّل دلیل یہی ہے کہ مسیح ابن مریم اب تک آسمان پر زندہ بیٹھا ہے ۳۶۷ عیسوی معجزات کی حقیقت ۴۶۳ عیسائیوں کا اعتراف ہے کہ بعض جعلی انجیلیں تالیف ہوئیں ۴۶۷ بارہ انجیلیں جعلی اور مروجہ چار کے صحیح ہونے کا کیا ثبوت ہے ۴۶۷ انجیل کی راہنمائی سے یورپ امریکہ کے سوچنے والے لوگ دہریہ رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں ۴۶۸ امریکہ یورپ میں عیسائی خیالات سے بے زاری ۴۶۹ مسیح کی بیان کردہ ایمان کی نشانیوں میں سے عیسائیوں میں کوئی نہیں پائی جاتی ۴۶۹ عیسائیوں کی تعلیم ایک نیا خدا پیش کر رہی ہے ۴۷۰ عیسائیوں کے خدا کی موت کا نتیجہ دیکھئے گا تو کچھ بھی نہیں ۴۷۱ عیسائیوں میں بگاڑ‘ صرف برطانیہ میں تیرہ کروڑ ساٹھ ہزار پاؤنڈ شراب پر خرچ ہوتا ہے ۴۷۱ کفارہ کے عقیدہ سے شراب نوشی اور زناکاری بکثرت ہوگئی ۴۷۳ عقیدہ کفارہ کے بدنتائج ۴۷۱‘۴۷۲ کفارہ ہی منظور ہوتا تو مسیح ساری رات رورو کر کیوں دعائیں کرتے رہے ۴۷۴ پادری فنڈر کا کہنا کہ عیسائیوں کے کثرت گناہ کی وجہ سے محمدؐ بطور سزا بھیجے گئے ۴۷۳ ایک عیسائی عبداللہ جیمز کے آنحضورؐ کے بارے تین اعتراضات اور ان کے جوابات ۴۱۹ تحویل کعبہ کے بارہ میں انجیل میں بطور پیشگوئی اشارات ہو چکے تھے ۴۲۱ حیات مسیح اور وفات مسیح کے عقائد کی تفصیل کیلئے دیکھئے ’’حیات مسیح‘‘ اور ’’وفات مسیح ‘‘ علم اصول فقہ کی رو سے وفات مسیح کا استدلال ۲۳۳‘۲۳۴ فارسی اقوال و اشعار نفس در آئینہ آ ہنیں کند تاثیر ۴۰ علم آن بود کہ نور فراست رفیق اوست ۵۶ آنکس کہ خود ضعف و مرض لاغری کند ۸۶ ندارد کسے باتو ناگفتہ کار ۱۰۳ پشیمان شوازاں عجلت کر دی ۱۰۷ تیر از کمان جستہ باز بدست نمے آید ۱۱۴ چہ عقل است صد سال اندوختن ۱۱۶ نام احمدؐ نام جملہ انبیاء است ۲۱۱ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ ۲۲۳ اینکہ می بینم بہ بیداریست یارب یا بخواب ۲۲۳ نہان کے ماند آن رازے کزوسا زند محفلہا ۲۲۴ آن قدح بشکست وآن ساقی نماند ۲۲۵ چہ نسبت خاک رابا عالم پاک ۲۲۷ نام نیک رفتگان ضائع مکن ۲۳۹ عدو شودسبب خیر گر خدا خواہد ۲۵۳ آن توئی کہ بے بدن داری بدن ۲۶۳ اے خداوند رہنمائے جہاں ۳۱۱ چہ خوش بود کہ برآیدبیک کرشمہ دوکار ۲۶۷ چو کفر از کعبہ برخیز وکجاماند مسلمانی ۲۶۹ این کار از تو آید و مردان چنیں کنند ۲۷۴ گفتہ گفتہ من شدم بسیار گو ۲۷۹ گندم از گندم بروئید جوز جو ۳۲۰ گرخدا از بندہ خوشنود نیست ۳۳۴ اکنون ہزار عذر بیاری گناہ را ۳۳۶ غافل مشوگر عاقلی دریاب گر صاحب دلی ۳۳۶ سرکہ نہ درپائے عزیزش رود ۳۳۸ ہماں بہ کہ جان دررہ او فشانم ۳۴۰ چو بشنوی سخن اہل دل مگوکہ خطا است ۳۴۳ قدرت کردگارمے بینم ۳۵۷

Page 573

خیال زلف تو پختن نہ کار خامان ست ۳۶۰ انبیاء و اولیا جلوہ دہند ۳۶۷ گر نیائید بگوش رغبت کس ۳۸۹ رحمت خالق کہ حرز اولیاست ۳۹۸ گر خود آدمی کاہل نباشد در تلاش حق ۳۹۸ اے سخت اسیر بدگمانی ۳۹۸ موجب کفر است تکفیر تو اے کان کرم ۴۰۵ چہ خوش بودے اگر ہریک ز امت نور دین بودے ۴۰۷ بہ نزدیک دانائے بیدار دل ۴۶۶ فقہ اصول فقہ کی رو سے سکوت بھی کلام کا حکم رکھتا ہے ۱۲۲ ق.ک قرآن کریم قرآن حَکَم ، قول فصل اور فرقان ہے ۲۲ قرآن مہیمن‘ امام ، میزان ، قول فصل اور ہادی اور محک ہے ۳۷‘۴۰ قرآن کریم اپنے آپ کو محک اور اپنی ہدایتوں کو کامل اور اعلیٰ درجہ کی بیان کرتا ہے ۲۹ قرآن کا نام قول فصل ، فرقان، میزا ن اور نور ۹۲ اپنی تعلیم میں کامل اور کوئی صداقت اس سے باہر نہیں ۸۱ حقیقت و شان قرآن میں آیات قرآنیہ ۲۹ قرآن کی حقیقتیں اور خصوصیات ۲۹‘۳۰ قرآن زندگی بخش نشان ہے ۴۳۱ قرآن میں نقصان ہرگز نہیں اور وہ داغ ناتمام اور ناقص ہونے سے پاک ہے ۱۰۶ قرآن حق وباطل میں فرق کرنے آیا تمام عظمتیں اور کمالات اس میں ہیں جو مطہرین پر کھلتے ہیں ۹۲ حکمت سے مراد علم قرآن ہے ۹۳ قرآن شریف کی خارق عادت خاصیتیں جن کی رو سے وہ معجزہ کہلاتا ہے ۴۲۹ قرآن میں تبشیر کے نشانوں کا بہت کچھ ذکر ہے ۴۳۷ قرآن کریم کا معجزہ لعل تاباں کی طرح چمک رہا ہے ۳۹۳ اس کی روحانی تاثیرات معجزہ ہے ۴۴۹ مُطّہرون اور صاحب ولایت پر اللہ دقائق مخفیہ قرآن کے کھولتا ہے ۸۱ حضرت مسیح موعود کا فرمانا کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر معارف قرآنی کھولتا ہے ۲۱ قرآن کے حقائق ومعارف فصاحت وبلاغت معجزہ قرآنی ہے ۴۴۸ صحابہ میں پاک تبدیلی قرآن کا معجزہ ہے ۴۴۷ قرآن کریم کے معجزات ۴۴۵ قرآن ایک معجزہ جس سے مخالف مقابلہ سے عاجز تھے ۴۲۹ ہر زمانہ میں بدعات کا مقابلہ کرنے والا ہے ۱۱۰ فتنہ کے وقت ہدایت کے لئے قرآن ہی دلیل ہو گا اس بارہ حدیث ۳۹ قرآن کا اوّل مفسر قرآن پھر حدیث ہے ۱۰۵ قرآن حدیثوں کے لئے معیار ہے جو راویوں کے دخل سے جمع کی گئی ہیں ۹۲ قرآن حدیث پر مقدم ہے ۱۴‘۱۵ مومن کیلئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کو حدیث پر حکم مقرر کرے ۲۲ حدیثوں کی حقیقی صحت پرکھنے والا قرآن ہے ۲۹ قرآن ہریک وجہ سے احادیث پر مقدم ہے ۳۰ قرآن کا محاورہ جماعت کو فرد واحد کی صورت میں مخاطب کرتا ہے ۴۲۳‘۴۲۴ استعارات اور مجازات کا استعمال کرتا ہے ۴۵۹ ناسخ منسوخ کا مسئلہ ۹۲‘۹۳

Page 574

قرآن کا ایک شعشہ یا نقطہ منسوخ نہیں ہو گا ۳۹۰ قصیدہ حضرت مسیح موعود کی مدح میں ایک عربی قصیدہ ۱۳۶ نعمت اللہ شاہ ولی کا قصیدہ ۳۵۷ کعبہ ابتدا سے ہی خانہ کعبہ کا حق ہے کہ اس کی طرف نماز پڑھی جائے ۴۲۱ تحویل کعبہ کی انجیل میں بطور پیشگوئی اشارات ہو چکے تھے ۴۲۱ کہل ؍کہولت لفظ کہل کے معنی اور کہولت کے زمانہ کی بحث ۲۶۰‘۲۶۲ ل.م.ن لام تاکید ؍لام نافیہ تفصیل کیلئے دیکھئے صرف ونحو مباحثہ ؍مناظرہ مباحثات نفس الامر میں بہت مفید امور ہیں ۳ اصول و آداب مناظرہ ۲۷۰ حضرت عائشہ بڑی مناظرہ کرنے والی تھیں ۴ حضرت مسیح موعود اور محمد حسین بٹالوی کے مابین مباحثہ لدھیانہ ۱۰ مباحثہ مابین حضرت مسیح موعود و مولوی محمد بشیر صاحب بھوپالی بمقام دہلی ۱۵۱ مباحثہ لدھیانہ پر ریمارکس ۶ منشی بوبہ شاہ صاحب و منشی محمد اسحق صاحب اور مولوی سید محمد احسن صاحب کے درمیان مراسلت نمبر۲ باب مباحثہ دہلی ۴۸۳ محدث محدث کی بات میں شیطان کا دخل نہیں.بٹالوی کا اقرار ۲۴،۷۸ مذہب سچے مذہب کے پیرو کے ساتھ خدا تعالیٰ کے خاص تعلقات ہو جاتے ہیں ۴۷۶ مسلمان مسلمانوں کو قرآن میں یہودی ٹھوکروں سے بچنے کی نصیحت کی گئی ہے ۳۶۶ آخری زمانہ میں مسلمانوں کے یہود کے قدم بہ قدم چلنے کی پیشگوئی ۳۵۶ مسمریزم ۴۵۱ مسیح موعود دیکھئے مہدی معہود نیز اسماء میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑ مطبع (دیکھئے پریس) معجزہ ؍معجزات ؍نشانات نشانات کی دو اقسام قہری نشان اور نشان رحمت ۴۳۶ قہری نشانات صرف تخویف کے لئے دکھلائے جاتے ہیں ۴۳۶ حقیقت میں عظیم الشان اور قوی الاثر اور مبارک تبشیر کے نشان ہی ہوتے ہیں ۴۳۷ آنحضورؐ کے معجزات تین ہزار او ر پیشگوئیاں دس ہزار سے بھی زیادہ ہوں گی ۴۴۵ آنحضورؐ کا کفار کو عذابی نشان دینے کا معجزہ ۴۴۵ متکبر گروہ مکہ پر نشان عذاب نازل ہوا ۴۴۴ کفار مکہ نے بالآخر آنحضورؐکے معجزات کو دیکھ کر قبول کر لیا ۴۳۱ کفار مکہ کا شرطیں عائد کر کے نشانات مانگنا آپؐ کے معجزات و نشانات پر دلیل ہے ۴۳۴ آنحضورؐ کی پیشگوئیاں اور معجزات انجیل سے ہزارہا درجہ بڑھ کر ہیں ۴۶۶ آنحضورؐ کے نشانات دکھلانے کا ذکر قرآن میں جا بجا ملتا ہے ۴۴۴ معجزہ شق القمر اس کی تصریح سرمہ چشم آریہ میں ہے ۴۴۴ قرآن کریم کے معجزات ۴۴۵ قرآن ایک معجزہ جس سے مخالف مقابلہ سے عاجز تھے ۴۲۹

Page 575

قرآن کی خارق عادت خاصیتیں جن سے وہ معجزہ کہلاتا ہے ۴۲۹ نبی کے کامل پیروؤں کو بھی نشانات عطا ہوتے ہیں ۴۷۶ مسیح علیہ السلام کے معجزات احیاء موتیٰ وغیرہ کی حقیقت ۴۵۰ حضرت عیسیٰ کے معجزات کی حقیقت ۴۶۳ حضرت مسیحؑ نے معجزات دکھانے سے انکار کر دیا ۴۶۳ معراج النبی ؐ معراج میں نمازوں کی فرضیت کا واقعہ ۸۵ واقعات و حالات معراج کے بارہ میں احادیث میں اختلاف ۸۴‘۱۰۳ معراج کی جو روایت شریک نے کی ہے اس پر علماء نے اعتراضات کئے ۱۰۳ مکتوبات حافظ عظیم بخش پٹیالوی کا خط حضورؑ کے نام ۴۰۴ نشان آسمانی کی طبع کی امداد پر مخلصین سلسلہ سید تفضل حسین صاحب ‘نواب محمد علی خاں صاحب حکیم فضل دین صاحب بھیروی اور حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب کے خطوط ۴۰۹ منشی بوبہ شاہ صاحب و منشی محمد اسحق صاحب اور مولوی سید محمد احسن صاحب کے درمیان مراسلت نمبر۲ بابت مباحثہ دہلی ۴۸۳ مومن کامل مومن کی شناخت کی چار علامات ۳۲۳ مخالفت میں مومن پر اللہ کا زیادہ لطف و کرم کا سلوک ہوتا ہے ۳۹۸ کامل مومن کی آزمائش کے لئے سہل طریق فیصلہ ۳۲۹ کامل مومن کی شناخت کے لئے علامات اربعہ کی آزمائش کے لئے لاہور میں ایک انجمن کے قیام کی تجویز ۳۲۵ مہدی معہود ؍ مسیح موعود آنحضورؐ نے آنے والے مہدی کے کئی نام بتائے مثلاً سلطان مشرق ، حارث وغیرہ ۳۷۰ چودھویں صدی کے مہدی کا نام سلطان المشرق بھی ہے ۳۷۹ آنحضورؐ نے چودھویں صدی کے لئے عظیم الشان مہدی کے ظہور کی پیشگوئی فرمائی ۳۷۸ مسیح موعود سلطان القلم اور اس کا قلم ذوالفقار کا کام کرے گا ۳۷۵ مولوی خود کہتے ہیں کہ جب مہدی موعود آئیگا تو مولوی لوگ اس کی بھی تکفیر کریں گے ۴۰۳ مسیح موعود کے وقت ترک سلطنت سست ہو جائیگی ۳۶۰ نبی ؍نبوت ؍رسالت سچے نبی کی شناخت کا معیار پیشگوئیاں اور استجابت دعا ہے ۳۹۴ اللہ تعالیٰ نے امور غیبیہ کو اپنے مرسلین کی ایک علامت خاصہ قرار دی ہے ۳۹۴ اللہ کے بلانے پر بولتے ہیں اور اپنی لاعلمی کا اقرار کرتے ہیں ۴۵۴ کسی نبی نے با اقتدار یا عالم الغیب ہونے کا دعویٰ نہیں کیا ۴۵۵ ظلی نبوت کا دروازہ کھلا ہے مستقل نبوت کا دروازہ آنحضورؐ کے بعد بند ہے ۳۹۰ انبیاء کے کامل پیرو ان کے مظہر ہو جاتے ہیں ۴۷۶ نحو ؍علم نحو دیکھئے صرف و نحو نزول آسمان سے نازل ہونے سے مراد ۱۶۵ نزول عیسیٰ ابن مریم (دیکھئے حیات مسیح و وفات مسیح و عیسیٰ علیہ السلام ) نسخ کا مسئلہ(دیکھئے قرآن کریم(

Page 576

نشان نمائی گلاب شاہ اور نعمت اللہ ولی کی پیشگوئیاں دو نشان ہیں اگر کوئی نشان دکھانے کے لئے تیار ہے تو وہ بھی اپنے حق میں ایسی دو پیشگوئیاں گزشتہ ولی کی پیش کرے ۳۹۶ نماز خانہ کعبہ کی طرف نماز پڑھنا کیوں ضروری ہے ۴۲۲ نونِ ثقلیہ ؍نون تاکید کی بحث دیکھئے صرف و نحو نیچری ؍نیچریت نیچریوں کا اول دشمن میں ہوں ۳۰ نیچری فرقہ کا قبولیت دعا کو تسلیم نہ کرنا ۳۲۸ و.ہ.ی وحی قرآن کریم وحی متلو ہے ۱۲ وحی متلو کے لئے تین ضروری چیزیں کشف ، رویا اور وحی خفی ۱۰۸ وحی متلو کے ساتھ وحی خفی ہوتی ہے جس کو متصوّفہ وحی خفی اور وحی دل کہتے ہیں ۱۰۸ وفات مسیح ۲۴۵‘ ۲۴۶‘ ۲۶۳‘۲۶۴‘۲۶۵‘۲۹۶‘۲۹۷ اللہ تعالیٰ نے مسیح کو متوفیوں میں داخل کیا ہے ۳۱۵ آنحضورؐ بخاری میں وفات مسیح کی تصدیق کرتے ہیں ۳۶۷ مسیح کے آسمان پرجانے کا قرآن میں کہیں بھی ذکر نہیں ۳۱۷ ازالہ اوہام میں توفّی کے بارہ میں ایک ہزار روپیہ کا انعامی چیلنج ۲۹۷ یہود وفات مسیح کے قائل ہیں ۸۳ وفات عیسیٰ انی متوفیک بروایت بخاری ممیتک بطور عبارت النص ثابت ہے ۲۳۳‘۲۳۴ ابن عباس وفات مسیح کی تصدیق کرتے ہیں ۳۶۷ وفات مسیح پر ابن عباس کا قول متوفیک ممیتک ۲۱۷ ابن عباس‘ محمد بن اسحق‘ وہب‘امام بخاری وفات مسیح کے قائل ہیں ۲۱۸‘۲۱۹‘۲۹۹ وفات مسیح کے دلائل ۲۱۴ علم اصول فقہ، اصول حدیث ، منطق ، بلاغت، اسماء الرجال ، قراء ت، تفسیر، زبان فارسی ، مناظرہ و دیگر علوم سے وفات مسیح کے دلائل ۳۳۳تا ۲۴۹ وفات مسیح پر مولانا سید محمد احسن اور مولوی محمد بشیر صاحب بھوپالی کے درمیان مراسلت ۲۲۱ ولی ؍ولایت جو لوگ وحی ولایت عظمیٰ کی روشنی سے منور ہیں ان پر اللہ تعالیٰ دقائق مخفیہ قرآن کے کھولتا ہے ۸۱ ولایت حقہ کا درجہ بجز اتباع رسولؐ حاصل نہیں ہو سکتا ۴۸۰ استجابت دعا اولیاء اللہ کے لئے ایک بھاری نشان ہے ۴۸۱ ہندو مت اوتاروں کی نسبت غلط جوڑ جوڑ کر کتابیں تالیف کیں ۴۶۵ یہود ؍یہودیت ایلیا کی آمد کے اب تک منتظر ہیں ۳۶۵ تحریف آیات کرتے تھے ۲۱۵ یہودیوں کے فقیہوں اور مولویوں نے مسیح کو کافر اور لعنتی کہا ۴۰۲ یہود نے حضرت عیسٰیؑ اور حضرت یحییٰ کو قبول نہیں کیا ۳۶۶ یہود کے معجزات مانگنے پر مسیح نے انکار کیا ۴۶۴ مسلمانوں کا آخری زمانہ میں یہود کے قدم بہ قدم چلنے کی پیشگوئی ۳۶۵ یہود وفات مسیح کے قائل ہیں ۸۳

Page 577

اسماء آ آدم علیہ السلام ۲۵۹ ا ابراہیم علیہ السلام ۸۹ ابن اسحق ۲۹۹ ابن الصلاح ‘امام ۵۰‘۹۵‘۹۶‘۹۷‘۹۸ ابن تیمیہ امام ۵۰۱ ابن جریر طبری ۲۹۶‘۳۰۱‘۳۰۶ ابن حجر‘ امام ۶۲ ابن خزیمہ‘ امام ۵۴‘۱۰۲‘۱۰۳ ابن صیاد ۱۶‘۱۷‘۲۴‘ ۳۲‘ ۳۳‘ ۴۳‘ ۷۰تا۷۵‘۳۳۱‘۳۶۸ مسلمان ہو گیا تھا لیکن عام طور پر صحابہ اسے دجال معہود سمجھتے تھے ۲۳ ابن صیاد کے دجال معہود ہونے پر صحابہ کا اجماع ۲۸ ابن صیاد کے دجال معہود ہونے پر بلاشبہ اجماع سکوتی کا ثبوت ہے ۱۱۸ ابن طاہر حنفی ۵۸ ابن عباسؓ ،عبداللہ ۱۵۵‘۱۸۶‘ ۱۸۸‘ ۱۸۹‘ ۱۹۰‘ ۲۰۱‘ ۲۰۲‘ ۲۰۸‘ ۲۰۹‘ ۲۱۲‘۲۱۶ ۲۱۷‘۲۱۸‘ ۲۱۹‘ ۲۳۸‘۴۸۹ آنحضور ؐ نے آپ کو فہم قرآن عطا ہونے کی دعادی ۱۸۹ آپ کی روایت متوفیک ممیتک ۲۱۶‘۲۱۷ وفات مسیح کے قائل ہیں ۲۹۹ توفی کے معنی موت کے لئے ہیں ۲۶۷ ابن عربی‘ محی الدین ۲۴‘۲۵‘۳۳‘۳۴‘ ۴۴‘۱۲۲‘ ۱۲۳‘ ۴۵۰‘۴۹۹ ابن عمرؓ ، عبداللہ ۴۳‘ ۷۰‘۷۳ ابن عینیہ ۲۴۲ ابن قیم حضرت امام ۵۰۱ آپ کے چند اشعار ۱۳۵ مہدی کے بارہ میں چار قول ہیں ۳۸۰ ابن کثیر حافظ ۵۱‘۵۷‘۳۰۱ ابن ماجہ امام ۳۶۸ ابن مسعودؓ ۵۷ ابن الہمام شیخ ۹۸ ابو الدرداءؓ ۲۷۵ ابو بکر صدیق ؓ ۶۰ ابو حنیفہ ‘امام اعظم ۵۲‘۵۳‘۹۰‘۹۹‘۱۰۰ مسیح علیہ السلام کو امام ابوحنیفہ سے بڑی مشابہت ہے ۹۰ آپ کا کہنا کہ میں ایک ضعیف حدیث کے ساتھ بھی قیاس کو چھوڑ دیتا ہوں ۲۰۹ ابو سعید الخدریؓ ۲۸‘۷۲‘۱۱۸ ابو مالک ۱۵۵‘۱۶۵‘۱۷۶‘۲۰۱‘۲۵۹‘۲۸۳‘۲۹۹ ابو ہریرہؓ ۱۵۵‘۱۵۷‘۱۸۸‘۲۰۱‘۲۳۸‘۲۴۱‘۲۴۲‘۲۵۸‘۳۰۰

Page 578

ابی بن کعبؓ ۱۸۶‘۱۸۹‘۱۹۰‘۲۰۱‘۲۰۸‘۲۰۹‘۲۳۸‘۲۹۸ اپن صاحب بہادر گورنر جنرل لارڈ ۴۸۳ احمد نعمت اللہ شاہ ولی نے آنے والے موعود کا نام احمد بتایا ۳۶۳ احمد سید صاحب شہید بریلویؒ آپ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں کیا ۳۶۰ نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشگوئی کو محمد اسماعیل شہید آپ پر پورا کرنے چاہتے تھے ۳۶۳ نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشگوئی کے آپ مصداق نہیں ٹھہرتے ۳۶۴ ہو سکتا ہے آپ کو یا آپ کے کسی مرید کو الہام ہوا ہو کہ احمد پھر دنیا میں آئے گا ۳۶۶ آپ نے چودھویں صدی کا زمانہ نہیں پایا ۳۷۰ آپ کو مہدی ثابت کرنے کی کوشش ۳۷۰ احمد بن حنبل ۲۰ احمد جان صاحبلدھیانوی‘ حضرت حاجی منشی آپ کی کتاب طب روحانی کا تعارف اور مطالعہ کی تحریک ۴۱۱ احمد خان ‘سر سید ۴۹ احمد سرہندی مجدد الف ثانی ۳۰ آپ کا کہنا کہ امام ابو حنیفہ کی آنے والے مسیح کے ساتھ استخراج مسائل قرآن میں ایک روحانی مناسبت ہے ۱۰۱ احمد الدین حافظ ۴۱۲ احمد اللہ امرتسری مولوی ۱۲۶ احمد اللہ منشی صاحب جموں ۳۳۷ اخفش ۲۶۸ ازہری ۱۷۱‘۲۷۱ اسماعیل بیگ مرز ا.قادیانی ۳۳۷ افتخاراحمدصاحبزادہ.لدھیانہ ۳۳۸‘۴۱۱ امام الدین میاں.سیکھواں ۳۳۷ امداد علی ڈپٹی ۲۸۹ امداد علی منشی.کپور تھلہ ۳۳۶ امیر الدین خواجہ ۱۲۶ امیر حسین، حضرت مولوی قاضی سلسلہ ۴۱۲ انوار حسین خان مولوی رئیس شاہ آباد ۴۱۲ ایلیاعلیہ السلام ۳۶۴ ایلیا سے مراد زکریا کے بیٹے یوحنا ہیں یحییٰ بھی کہلاتے ہیں ۳۶۵ ب.ت.ٹ باقلانی ۱۱۸ بخاری ‘ امام محمد بن اسماعیل ۳۱‘۶۷‘۶۸‘۹۷‘۹۸‘ ۱۰۱‘۱۱۴‘۱۱۵‘۱۱۶‘۱۲۱ تین لاکھ حدیثوں کا ذخیرہ یاد تھا ۱۱۵ چھیانوے ہزار حدیثوں کو اپنی کتاب میں درج نہ کیا ۶۸ امام بخاری نے طوالت کتاب کی خاطر ۹۶ہزار احادیث کو ترک نہیں کیا ۱۱۶ امام بخاری نے بہت سی صحیح احادیث کو بخوف طوالت اپنی صحیح میں ذکر نہیں کیا (محمد حسین بٹالوی) ۶۷ بخت نصر جس نے حملہ کر کے بنی اسرائیل کو قید کرکے مشرق بعید میں پھیلا دیا ۴۵۷ بڈھے خان صاحب میاں نمبر دار بیری ۳۳۷ برہان الدین جہلمی ،حضرت مولوی ۴۱۲

Page 579

بوبہ شاہ منشی آپ کی مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی کے ساتھ مراسلت ۴۸۳ پطرس مسیح کے حواری لیکن مسیحؑ نے ان پر لعنت بھیجی ۳۴۶ تاجدین صاحب منشی اکاؤنٹنٹ لاہور ۳۳۷ تفتا زانی ‘ علامہ ۹۵ تفضل حسین سید علی گڑھ ۴۱۲ نشان آسمانی کیلئے مالی معاونت اور فدائیت بھرے مکتوب کا خلاصہ ۴۰۹ تمیم داری ۱۶‘۱۷‘۱۱۸‘ ۱۱۹ نصاریٰ کی قوم میں سے تھا ۷۲،۱۲۰ دجال کو اپنی آنکھ سے دیکھنا بیان کیا ۷۲ ٹیلر صاحب پادری ان کا کہنا کہ مسیح کی روحانی تربیت بہت کمزور اور ضعیف ثابت ہوتی ہے ۴۵۲ صحابہ رسولؐ کے مقابلہ پر مسیح کے حواری روحانی تربیت میں کمزور تھے ۴۵۲ ج.چ.ح.خ جابرؓ ۱۶‘۴۳‘۷۰‘۷۴‘۷۵ جامی‘ ملا ۱۷۱ جان محمد حکیم امام مسجد قادیان ۳۳۷ جگن ناتھ ڈاکٹرجموں آسمانی نشان کی طرف دعوت ۳۳۸ اگر نشان دیکھنے کے خواہشمند ہیں تو اخبارات میں اقرار دیں کہ اگر نشان دیکھ لوں تو مسلمان ہو جاؤں گا ۳۳۹ جمال الدین میاں سیکھواں ۳۳۷ چراغ علی میاں تھہ غلام نبی ۳۳۷ حارث اعور حارث کو دجال کہنا ۱۰۹ اس کی بیان کردہ حدیث درست ہے ۱۱۰ حافظ شیرازی آپ کا شعر خیال زلف تو پختن نہ کار خامان ست ۲۶۰ حاکم حضرت عائشہ کی روایت بیان کرتے ہیں کہ عیسیؑ ٰ نے ۱۲۰سال کی عمر پائی ۳۶۷ آپ کی کتاب میں حدیث لا مہدی الا عیسیٰ درج ہے ۳۶۸ حامد علی،خادم حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۸‘۳۳۷ حامد شاہ میر سیالکوٹ ۳۳۷ حبیب شاہ‘ مولوی ۴۱۲ حسن بصری ۱۵۵‘۲۰۱‘۲۹۸‘۳۰۰ خدا بخش مرزا اتالیق نواب مالیر کوٹلہ ۳۳۶ خصیب ۳۰۰ خلیل ۱۹۰ خیر اللہ مولوی ۲۳۰ د.ر.ز دانیال ۴۵۷ دلیپ سنگھ شہزادہ ۱۲۴ ارادہ سیر ہندوستان و پنجاب میں ناکام رہنے کی پیشگوئی ۳۴۱

Page 580

دولت محمد منشی سارجنٹ پولیس ۳۳۷ دیانند پنڈت ۱۲۴ موت کی خبر چند ماہ پہلے بتلائی گئی ۳۴۱ رجب الدین خلیفہ رئیس لاہور ۳۳۷ رحمت اللہ شیخ میونسپل کمشنر گجرات ۳۳۷ رحیم اللہ مولوی لاہور ۳۳۷ رستم علی منشی لاہور ۳۳۶ رشید احمد گنگوہی مولوی ۱۲۶‘۳۲۵ رفیع الدین شاہ ۱۷۳‘۱۷۴‘۱۷۵‘۱۹۱‘۲۴۰‘۲۷۸ زجاج ۲۶۸ زکریا علیہ السلام ۳۶۵ زمخشری علامہ ۱۰۳‘۱۰۴ س.ش.ص.ض.ط.ظ سراج الحق نعمانی ۴۱۲ سردار خان منشی کپور تھلہ ۳۳۶ سعدی ؒ شعر ؂ ندارد کسے باتو ناگفتہ کار ۱۰۳ سیبویہ ۱۹۰‘۲۴۲‘۲۴۳‘۲۴۶‘۲۶۸ شافعی ‘امام ۴۸۶‘۵۰۱ شعرانی ‘امام ۵۸‘۱۰۷‘۲۶۴ شمس الدین منشی لاہور ۱۲۶‘۳۳۷ شہاب الدین شیخ تھہ غلام نبی ۳۳۷ شہاب الدین شیخ لدھیانہ ۳۳۷ شیر شاہ رئیس مجذوب جموں ۳۳۷ شیر محمد مولوی‘ ہجن ۴۱۲ صاحب دین ‘ مولوی ۴۱۲ صدیق حسن خان مولوی ۱۷‘۳۰‘۷۳‘۳۷۸‘۳۷۹ صہیبؓ ۱۰۹ ضحاک (مفسر) ۲۰۹ ضیاء الدین قاضی‘ قاضی کوٹ ۴۱۲ طبرانی حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ عیسیؑ ٰ نے ۱۲۰سال کی عمر پائی ۳۶۷ طوسی ‘ شیخ محمد ابن اسلم ۶۳تا۶۶ ‘ ۱۱۲تا ۱۱۴ ظفر احمد‘حضرت منشی ‘اپیل نویس ۳۳۶ ظہور علی سید ۴۱۲ ع.غ عائشہ صدیقہؓ ،ام المومنین ۱۰۹‘۴۸۹ بڑی مناظرہ کرنے والی تھیں ۴ قرآنی آیت کے مقابل پر روایت کر ردّ کر دیا ۸ آپ کی روایت کہ عیسیٰؑ نے ۱۲۰سال کی عمر پائی ۳۶۷ عباس علی میر لدھیانوی ۳۹۶ ان کے بارہ الہام اصلھا ثابت و فرعھا فی السماء کی حقیقت ۳۴۳ بیعت کے بعد ارتداد اور مخالفت ۳۴۳ دس سال تک ثابت قدمی اور اخلاص دکھلایا خود بیعت کی اور حلقہ احباب کو بھی شامل کیا ۳۴۴

Page 581

دوستوں کو ان کے حق میں دعا کی تحریک ۳۴۵ ان کے ا خلاص سے بھرے چند خطوط شائع کرنے کا ارادہ ۳۴۵ محمد حسین بٹالوی کی وسوسہ اندازی نے میر صاحب کو لغز ش میں ڈالا ۳۴۶ نشان نمائی کی دعوت اس کیلئے خواہ قادیان آ جائیں ۳۵۰ عبدالجبار امرتسری ۱۲۶ عبدالجبار مولوی خلف مولوی محمد عبداللہ مرحوم ۳۲۵ عبدالحق شیخ(محدث دہلوی) ۶۸ عبدالحق شیخ لدھیانہ ۳۳۷ عبدالحق منشی ۱۲۶ عبدالحکیم مولانا ۲۴۹ عبدالحکیم ۱۷۱‘۱۷۳‘۴۱۲ عبدالرحمن مولوی لکھو کے والے ۱۲۶‘۳۲۵ عبدالرحمن حاجی لدھیانہ ۳۳۷ عبدالرحمن مولوی مسجد چینیاں لاہور ۳۳۷‘۴۱۲ عبدالرحمن منشی کلرک لاہور ۳۳۷ عبدالرحمن حافظ ساکن سوہیاں ۳۳۷ عبدالرحمن شیخ بی اے گجرات ۳۳۷ عبدالرحمن بن زید بن اسلم ۱۵۵‘۲۰۱ عبدالعزیز لدھیانوی مولوی ۱۲۶ عبدالعزیز شاہ حضرت رحمہ اللہ علیہ ۱۳۳ عبدالقادر مولوی مدرس جمالپور ۳۳۷ عبدالقادر شاہ دہلوی مترجم قرآن ۱۷۳تا ۱۷۵‘۱۹۱‘ ۲۵۲‘ ۲۵۳ عبدالکریم سیالکوٹی ‘ حضرت مولانا ۶۹‘۷۵‘۳۳۷‘۴۱۲ مباحثہ لدھیانہ کے مرتب ۱ الحق کا انٹروڈکشن لکھنا ۹ کتاب آسمانی فیصلہ کا مضمون ۲۷؍دسمبر ۱۸۹۱ء کو قادیان میں احباب کے سامنے پڑھ کر سنایا ۳۳۶ عبدالکریم مولوی ساکن پاترہ ۲۸۹ عبداللہ میاں ساکن سوہل ۳۳۷ عبداللہ ٹونکی مولوی ۱۲۶ عبداللہ جیمز پادری ایک عیسائی جس نے تین سوال کئے اور حضور ؑ نے جوابات دئیے ۴۱۹ اس کے پہلے سوال کا جواب ۴۲۱ اس کے دوسرے سوال کا جواب ۴۲۷ اس کے تیسرے سوال کا جواب ۴۵۳ عبداللہ غزنوی مولوی ۴۱‘۱۲۳ عبدالمجید شہزادہ حاجی لدھیانہ ۳۳۷ عبیداللہ مولوی تبتی ۱۲۶ عتاب بن بشیر ۲۹۸‘۲۹۹‘۳۰۰ عظیم بخش پٹیالوی حافظ حضورؑ سے بیعت ہو چکے اور محمد حسین بٹالوی نے ان کا نام فتویٰ تکفیر میں ناحق لکھ دیا ان کا خط اور اشعار ۴۰۴‘۴۰۵ آپ کا منظوم کلام حضورؑ کی مدح اور فدائیت کے اظہار میں موجب کفر است تکفیر تواے کان کرم ۴۰۵ عکرمہؓ ۱۸۶‘۱۸۷‘۱۸۸‘۱۸۹‘۱۹۰‘ ۲۰۱‘ ۲۰۸‘ ۲۱۰‘ ۲۱۱‘ ۲۱۲ علیؓ کرم اللہ وجھہ ۳۷۵‘۴۹۱ آپ کو آنحضور ؐنے فرمایا تجھ میں عیسٰیؑ کی مشابہت پائی جاتی ہے ۳۶۸‘۳۶۹

Page 582

علی بن طلحہؓ ۱۸۸‘۱۸۹‘۱۹۰‘ ۲۰۱ علی‘ قاضی خواجہ ٹھیکیدار شکرم لدھیانہ ۳۳۷ علی بخش گلاب شاہ کا اس کو کرامت دکھانا ۳۸۶ علی قاری ‘ ملاّ ۷۴ علی محمد بابو رئیس بٹالہ ۳۳۷ عمر بن خطابؓ ۱۶‘۳۲‘۳۳‘۵۹‘۶۰‘۷۴‘۱۰۹‘۱۲۰ آپ کا کہنا کہ حسبنا کتاب اللّٰہ ۴۱‘۶۱ استقامت اور ابتلا ء ۳۴۵ آنحضور ؐ کے روبرو قسم کھا کر کہا کہ ابن صیاد دجال معہود ہے ۲۳ عمر الدین مستری جموں ۳۳۷ عیسیٰ علیہ السلام ۷۵‘ ۸۲‘ ۸۳‘ ۱۲۳‘ ۱۷۰‘ ۱۷۲‘ ۱۷۶ تا ۱۸۱‘ ۱۸۵‘ ۱۸۶‘ ۱۹۱ ۱۹۳‘ ۱۹۶‘ ۱۹۹‘ ۲۰۴‘ ۲۱۶‘ ۲۱۷‘ ۲۳۸‘ ۲۴۳‘ ۲۷۵‘ ۲۹۲‘ ۳۰۲ ۳۰۴‘۳۳۵۵‘۳۶۶‘۴۹۲ عبودیت اور ابطال الوہیت قرآن نے انجیلی مسیح جو خدائی کا دعویدار ہے اس کا انکار کیا ہے ۴۶۴ انجیل نے مسیح کو خدا کا برہّ لکھا ہے ۴۵۸ آپ کے بارہ میں پیشگو ئی تھی کہ وہ بادشاہ ہو گا ۳۷۷ مسیح نے اپنی لا علمی کا اقرار کیا ہے ۴۵۵ آپ کے عالم الغیب نہ ہونے کی چند مثالیں ۴۵۶‘۴۵۷ انجیلوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام اپنی نبوت کے بارہ میں شک میں پڑ گئے تھے ۴۲۷ مسیح کو اگر کفارہ ہی منظور تھا تو ساری رات رو رو کر بچنے کیلئے دعا کیوں کرتے رہے ۴۷۴ مسیح کی دعا کہ اس پیالہ کو مجھ سے ٹال دے اور یہ کہنا کہ ایلی ایلی لما سبقتنی ۴۲۷‘۴۵۵ مسیح کی دعا قبول ہوئی لیکن اپنی عاجزی اور بندگی کے اقرار کو نہایت تک پہنچا دیا ۴۵۶ حضرت مسیح کی روحانی تربیت میں کمزوری تھی پادری ٹیلر کا بیان ۴۵۲ آپ کا کہنا کہ اس زمانہ کے لوگوں کو کوئی نشان نہیں دیا جائے گا ۴۳۵ معجزات مسیح علیہ السلام کی حقیقت ۴۵۰ معجزات دکھانے سے انکار کیا ۴۶۳ آپ کے بعض خاص دوست منحرف ہو گئے ۳۴۶ یہود ا اسکریوطی کی نسبت پیشگوئی ۱۲۴ آپ نے فرمایا کہ ایلیا سے مراد یوحنا یعنی یحییٰ ہیں ۳۶۵ وفات مسیح وفات عیسیٰ پر دو سو کے قریب آیات قرآنی دلالت کر رہی ہیں ۷ وفات مسیح کے دلائل ۲۱۵‘ ۲۱۶‘۲۱۷ وفات مسیح ابن مریم پر کئی احادیث شاہد و ناطق ہیں اسی طرح صحابہ‘ علماء امت‘ نصاریٰ کا ایک فرقہ اور یہود بھی وفات کے قائل ہیں ۸۳ حدیث میں آپ کی عمر۱۲۰سال بیان ہوئی ہے ۳۶۷ عقیدہ حیاتِ مسیح حیات و وفات مسیح پر حضرت مسیح موعود ؑ اور مولوی محمد بشیر صاحب بھوپالی کے درمیان مباحثہ بمقام دہلی ۱۵۱ حیات مسیح ابن مریم کا اثبات اس عقیدہ کے رکھنے والوں کے ذمہ ہے ۱۶۱ حیات مسیح ثابت کرنا ہمارے ذمہ نہیں بلکہ ہمارے مخالف کے ذمہ ہے ۱۸۲ عقیدہ حیات مسیح ؑ کے خلاف حضورؑ کے دلائل ۲۰۷ عقیدہ حیات مسیح کے بارہ مولوی محمد بشیر بھوپالی صاحب کے دلائل ۱۵۶‘۱۵۷‘۲۰۴‘۲۰۵

Page 583

مسیح کی آمد ثانی مرتبہ عیسویت ۳۶۸ جب حضرت عیسیٰ اتریں گے تو ان کی بھی تکفیر ہو گی ۴۰۳ عیسیٰ کا لفظ شراب انگوری اور خوشۂ انگور کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے ۳۸۰ مسیح علیہ السلام کو امام ابو حنیفہ سے مشابہت ہے ۹۰ عیسیٰ جوان ہو گیا ہے او رلدھیانہ میں آویگا ۳۸۴ اورآنے والے عیسیٰؑ کا نام غلام احمدہوگا گلاب شاہ کا بیان ۳۸۴ عیسیٰ لدھیانہ میں آئے گا تو سخت کال پڑے گا گلاب شاہ کی پیشگوئی ۳۸۵ غلام احمد قادیانی ‘ حضرت مرزا مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام دعاوی اور عقائد آپ کے دعاوی ۴ مجھ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی اشاعت اور ٹھیک منشاء قرآن بتانے کیلئے مامور کیا ہے ۳۰ میرا سینہ قرآن کی چشم دید برکتوں اور حکمتوں سے پُر ہے ۱۱۰ تفہیم الٰہی میرے شامل حال ہے.اللہ مجھ پر معارف قرآن کھولتا ہے ۲۱ مجھے اللہ نے حقاً و عدلاً مامور کر کے بھیجا ہے ۱۲۳ میں مامور ہوں اور مجھے فتح کی بشارت دی گئی ہے ۳۲۵ مسیح موعود ہونے کے مدعی ۳۳۱ مثیل مسیح ۴۰۲ دعویٰ عیسیٰ موعود ۳۷۷ دعویٰ مجدد اور مثیل مسیح ہونے پر عرصہ گیارہ سال گزر گئے ہیں ۳۹۷ میں حضرت مسیح علیہ السلام کے نمونہ پر آیا ہوں ۳۴۶ دجالی قوتوں کے فنا کیلئے اللہ نے مجھے حقیقت عیسویہ سے متصف کیا ۴۰۲ آپ کے الہامات کو حجت تسلیم نہ کرنے کا رد ۲۲۱‘۲۲۶ آپؑ کے عقائد ۳۹۰ میں مسلمان ہوں اور ان سب عقائد پر ایمان رکھتا ہوں جو اہلسنت والجماعت مانتے ہیں ۳۱۳ میں نیچر یوں کا اول دشمن ہوں ۳۰ کتاب و سنت کے بارہ میں عقائد.کتاب اللہ مقدم اور امام ہے ۱۱ میں سارے احکام بینہ قرآن کریم و احادیث صحیحہ و قیاسات مسلمہ مجتہدین کو واجب العمل جانتا ہوں ۸۲ صحت حدیث کے بارہ میں آپ کا اصول کہ قرآن کے متصادم حدیث قابل ردّ ہے ۸‘۱۱‘۱۲‘۱۰۰ احادیث کی صحت کے بارہ میں آپؑ کا نظریہ ۳۶‘۴۲‘۴۴‘۸۸ اشاعت دین جلسہ سالانہ کے نظام کے آغاز کا اعلان ۳۵۱ شیخ بٹالوی صاحب کے الزامات تکفیر کے رد کیلئے دافع الوساس کے نام سے رسالہ کی اشاعت کا اعلان ۴۰۲ حقیقت عیسویہ کے حربہ سے حقیقت دجالیہ کو پاش پاش کرنے تک قلمی جہاد کا اعلان ۴۰۶ اشاعت کتب کا سلسلہ مستقل جاری رکھنے اور اس کیلئے احباب سے مالی قربانی کی تحریک ۴۰۶ سلسلہ تالیفات کو بلا فصل جاری کرنے کیلئے میرا پختہ ارادہ ہے ۴۰۷ اشاعت دین اسلام کے حسن انتظام کیلئے ممالک ہند میں واعظ و مناظر مقر رہونے کی خواہش اور اس کی عملی کوشش کا اشتہار ۴۰۸ عبداللہ جیمز عیسائی کے اعتراضات کے جوابات ۴۲۱ آپ اور محمد حسین بٹالوی کے درمیان مباحثہ لدھیانہ ۱۰ مباحثہ دہلی کیلئے حضور ۲۸ستمبر ۱۸۹۱ء کو دہلی پہنچے ۱۳۱ حیات مسیح ثابت کرنا ہمارے ذمہ نہیں ۱۸۲

Page 584

مخالفوں کو چیلنج مولوی محمد حسین بٹالوی کو چالیس دن میں نشان نمائی کا چیلنج ۱۲۴ جو مجھے مفتری سمجھتے ہیں ان کیلئے چالیس دن میں نشان نمائی کا چیلنج ۴ ۱۲ مولوی نذیر حسین اور ان کے شاگردوں کو آسمانی فیصلہ کی طرف بلانا ۳۱۱‘۳۲۵‘۳۳۳‘۳۳۴ آپ کی طرف سے آسمانی فیصلہ کی دعوت مولوی بٹالوی کا اشتہار دینا کہ اس دعوت کی طرف توجہ کی ضرورت نہیں ۳۳۱ علماء مخالفین کو آسمانی فیصلہ کی دعوت ۳۲۵ ڈاکٹر جگن ناتھ ریاست جموں کو نشان آسمانی کی طرف دعوت ۳۴۰ میں نے دہلی میں تین اشتہارات جار ی کئے ۳۱۲ محمد حسین بٹالوی کو چیلنج کہ الدجال جو بخاری میں آیا ہے وہ دجال معہود کے کسی اور کی نسبت ثابت کردیں تو پانچ روپیہ نذ ر ہوگا ۱۲۱ مخالفت ؍اعتراضات احادیث کو موضوع قرار دینے کا اعتراض ۳۱ محمد حسین بٹالوی کے اعتراضات ۳۴ محمد حسین بٹالوی کا اعتراض کہ آپ کے الہامات سب افترا ہیں اس کا جواب ۱۲۳ محمد حسین بٹالوی کا الزام کہ آپ کسی الہام کے دعویٰ میں سچے نہیں سب افترا ہے ۷۸ مخالف مقابلہ کیلئے نہ آئیں تو اشتہار شائع کریں کہ ہم مقابلہ نہیں کر سکتے اور مومنین کا ملین کی علامات ہم میں نہیں پائی جاتیں ۳۳۲ محمد حسین بٹالوی کی طرف سے لعن طعن اور کافر و دجال نام رکھنا ۳۱۸‘۳۱۹ بٹالوی نے لکھا کہ یہ میرا شکار ہے جو دہلی میں میرے قبضہ میں آگیا ۳۲۰ مولوی نذیر حسین اور محمد حسین بٹالوی کا فتویٰ تکفیر اور اس کی حقیقت ۳۱۱ آپ کی کتاب آسمانی فیصلہ پر بٹالوی صاحب کی جرح اور اس کا جواب ۳۹۰ محمد حسین بٹالوی کی طرف سے مخالفانہ حربے ۳۹۷ مجھے کفر کا فتویٰ لگانے کیلئے شیخ بٹالوی نے تین قسم کی خیانت سے کام لیا ۴۰۲‘۴۰۳ تصانیف آپؑ کی کتب کی فہر ست مع قیمت ۴۱۱ الحق مباحثہ لدھیانہ ۱ کتاب الحق مباحثہ دہلی مشتمل بر مباحثہ مابین حضور و مولوی محمد بشیر بھوپالوی ۱۲۹ کتاب آسمانی فیصلہ ۳۰۹ کتب براہین احمدیہ ‘ سرمہ چشم آریہ ‘توضیح مرام فتح اسلام ۱۴۵ کتاب فتح اسلام ‘ توضیح مرام اور ازالہ اوہام کو خریدنے کیلئے اعلان ۳۵۳ نشان آسمانی ۴ سراج منیر، دافع الوساوس،دافع الوساوس ،براہین احمدیہ حصہ پنجم، اربعین فی علامات المقربین ۴۰۷ ۴۱۳ آپ کے بارہ میں پیشگوئیاں آپ کے بارہ میں نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشگوئی ۳۵۷تا۳۵۹ احمد آنے والا آ گیا ۳۶۷ آپ کی نسبت گلاب شاہ مجذوب کی پیشگوئی ۳۶۱ گلاب شاہ کی پیشگوئی جو میاں کریم بخش نے قسم کھا کر بیان کی ۳۸۱ آپ ہی مسیح موعود ہیں گلاب شاہ کی پیشگوئی ۳۸۳ وہ عیسیٰ جو آنے والا ہے اس کا نام غلام احمد ہے گلاب شاہ کا بیان ۳۸۴ نصرت الٰہی اور پیشگوئیاں میرا خدا مجھے کبھی ضائع نہیں ہونے دے گا ۳۳۰ آپ کی طرف سے شناخت حق اور قبولیت حق کیلئے دو ہفتہ کا طریق استخارہ ۴۰۰‘۴۰۱

Page 585

اللہ تعالیٰ سلسلہ کو بے نشان نہیں چھوڑے گا اور نہ اپنی تائید سے دستکش ہو گا اور تازہ بتازہ نشان دکھاتا رہے گا ۳۳۳ میں آپ لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ میں سچا ہوں ۳۳۳ خداوند قادر و قدوس میری پناہ ہے ۳۳۵ میں کسی کے منہ کی پھونکوں سے معدوم نہیں ہو سکتا ۱۲۴ آپ کے بعض نشانات اور پیشگوئیوں کا بیان ۱۲۴ میرا مقتدا اللہ تعالیٰ ہے سر سید احمد خان کا میرا مقتدا ٹھہرانا سراسر افترا ہے ۹۱ یکطرفہ نشانات تو ابتدا سے ظاہر ہو رہے ہیں ۳۳۲ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید ونصرت کے وعدے ۳۱۹ میں حضرت قدس کا باغ ہوں جو مجھے کاٹنے کا ارادہ کریگا وہ خود کاٹا جائے گا ۳۹۷ تفہیم الٰہی میرے ساتھ ہے.اللہ مجھ پر معارف قرآنی کھولتا ہے ۲۱ شدید مخالفت اور تکفیر میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رؤیا کشوف اور الہامات کا سلسلہ ۳۹۸ آپؑ کے بارہ میں لوگوں کی سچی خوابوں کو کتابی صورت میں شائع کرنے کا ارادہ ۴۰۰ آپؑ کی تصدیق اور قبول کرنے کے بارہ میں پنجاب و ہندوستان کے بعض صاحبوں کو سچی خوابیں آنا ۳۹۹ آپ کے آسمانی فیصلہ کی دعوت کو مخالفین نے قبول نہیں کیا.اگر سچے ہوتے تو ذرا توقف نہ کرتے ۳۹۱ اگر میاں نذیر حسین اور بٹالوی کے خیال میں میں کافر و کاذب ہوں تو پھر اللہ میری تصدیق میں کوئی نشان نہیں دکھلائے گا ۳۲۲ میاں نذیر حسین اور بٹالوی صاحب اگر اپنے آپ کو مومن اور شیخ الکل سمجھتے ہیں اور مجھ کو ایمان سے خالی تو کیونکر مقابلہ اور آسمانی دعوت سے بھاگتے ہیں ۳۹۵ تین ہزار کے قریب پیشگوئیاں ہیں جو استجابت دعا کے بعد ظہور میں آئی ہیں ۳۹۶ آپ کی بعض پیشگوئیوں کا ذکر مثلاً دلیپ سنگھ کی ملک واپس آنے میں ناکامی ‘ پنڈت دیانند کی موت ‘ حضرت مصلح موعود کی پیدائش کی ‘سردار محمد حیات خان کی معطلی ‘ شیخ مہر علی صاحب پر مصیبت کاآ نا وغیرہ ۳۴۱ نذیر حسین مولوی کے بارہ میں پیشگوئی کہ وہ ہرگز بحث نہیں کریں گے ۳۱۶ اگر اس جماعت سے ایک نکل جائے گا تو خدا تعالیٰ اس کی جگہ بیس لائے گا ۳۴۷ مکفرین بالآخر شرمندگی کے ساتھ منہ بند کر لیں گے ۳۳۶ محمد حسین بٹالوی کھوپڑی میں ایک کیڑا ہے جسے خدا تعالیٰ ایک ضرور نکال دے گا ۳۲۰ متفرق آ پ کی مدح میں ایک عربی قصیدہ ۱۳۶ امریکہ سے ایک فاضل انگریز کی چٹھیوں کا ذکر کہ دانشمند عیسائیت کو نقص سے خالی نہیں سمجھتے ۴۶۸ میں ترجمہ کی نیت سے نہیں بلکہ تفسیر کی نیت سے معنی کرتا ہوں ۱۲۲ آپ کی منظومات اے خدا اے مالک ارض و سما ۳۲۱ گر خدا از بندۂ خوشنود نیست ۳۳۴ خدا سے وہی لوگ کرتے ہیں پیار ۴۱۰ غلام اکبر منشی لاہور ۳۳۷ غلام دستگیر قصوری مولوی ۱۲۶ غلام حسن پشاوری مولانا ۴۱۲ غلام حسین مولوی امام مسجد گمٹی لاہور ۳۳۷ غلام قادر فصیح مولوی مالک و مہتمم پنجاب پریس سیالکوٹ ۶‘۱۳۲‘۳۳۷‘۳۵۳‘۴۱۰ آپ کا اشتہارات کی طبع و اشاعت کا خرچ اپنے ذمہ لینا ۳۲۶ نشان آسمانی اپنے مطبع میں شائع کرنے کی خواہش اور مالی قربانی ۴۰۷

Page 586

غلام محمد منشی کاتب امرتسر ۳۳۷ آپ کی زیر نگرانی کتاب نشانی آسمانی طبع ہوئی ۳۵۵ غلام محمد منشی خلف مولوی دین محمد صاحب لاہور ۳۳۷ غلام نبی خوشابی ‘ مولوی ۶۹ ف.ق.ک.گ فاضل قندھاری ۶۰ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا ۶۰ فتح علی شاہ حاجی ڈپٹی کلکٹر انہار ۳۳۶ فتح محمد منشی اہلکار ریاست جموں ۳۱۹ فرّاء (نحوی) ۲۶۸ فرعون ۳۲۰ فصیح الدین ۱۳۳ فضل احمد حافظ لاہور ۳۳۷ فضل الدین حکیم بھیرہ ۳۳۷ نشان آسمانی کی سات سو جلدوں کی طباعت کے خرچ کا وعدہ ۴۰۹ فضل الدین مولوی ‘ کھاریاں ۴۱۲ فضل الرحمن مفتی رئیس جموں ۳۳۷ فنڈر پادری عیسائیوں کے کثرت گناہ کی وجہ سے محمدؐ بغرض سزا و تنبیہ بھیجے گئے ۴۷۳ قابیل ۲۵۹ قتادہ ۱۵۵‘۲۰۱ قسطلانی آپ سے وفات مسیح ثابت ہے ۲۶۵ قطب الدین بدوملہی‘ مولوی ۴۱۲ قطب الدین بختیار کاکی ؒ ۳۸۷ قیصر روم ۱۲۰ کرم الٰہی منشی لاہور ۱۲۶‘۳۳۷ کریم بخش جمالپوری ۳۶۳ گلاب شاہ کی صحبت میں اکثر رہتا اور فیض حاصل کرتا تھا ۳۸۳ گلاب شاہ کی پیشگوئی کو بیان کیا ۳۶۱‘۳۶۲ مرزا غلام احمد قادیانی وہی مسیح موعود ہے جن کے آنے کا وعدہ تھا ۳۸۳ گلاب شاہ نے تیس اکتیس برس پہلے مجھے خبریں دی جو آج ظہور میں آئیں ۳۸۵ گلاب شاہ نے پیشگوئی کی کہ تو عیسیٰ کو دیکھے گا گویا طویل عمر کی پیشگوئی فرمائی ۳۸۷ میاں گلاب شاہ مجذوب کی پیشگوئی جو کہ میاں کریم بخش نے قسم کھا کر بیان کی ۳۸۱ گلا ب شاہ مجذوب صاحب کرامات برزگ تھے اور پیشگوئیاں پوری ہوتی دیکھیں تھیں بعض کرامات کا بیان ۳۸۵ حضرت مسیح موعود کی نسبت پیشگوئی ۳۶۱ مسیح موعود کے بارہ میں آپ کی پیشگوئی جو میا ں کریم بخش صاحب جمالپوری نے قسم کھاکر بیان کی ۳۸۱ جمالپور ضلع لدھیانہ کے رہنے والے مجذوب ۳۸۳ وہ عیسیٰ جو آنے والا ہے اس کا نام غلام احمد ہے گلاب شاہ کی پیشگوئی ۳۸۴ آپ نے بیان کیا کہ عیسیٰ جوان ہو گیا ہے اور لدھیانہ میں آوے گا اور قرآن کی غلطیاں نکالے گا اور قرآن کے ساتھ فیصلہ کرے گا ۳۸۴ ہر ایک برکت اللہ اور رسول کی پیروی میں ہے ۳۸۶ ایک مرد باخدا پاک مذہب موحد تھا ۳۸۶

Page 587

جب عیسیٰ لدھیانہ میں آئے گا تو ایک سخت کال پڑے گا ۳۸۵ گلاب شاہ اور نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشگوئی حسب منشا قرآن کریم کے نشان صریح ہیں ۳۹۵ م.ن مالک ‘ امام ۹۹‘۱۰۰‘۱۰۷ مبرّد ۲۶۸ محکم الدین مولوی مختار امرتسر ۳۳۷ محمدمصطفی ﷺحضرت خاتم النبیین آپؐ سب سے بلند مقام پر ہیں ۵۰۱ آپؐ کو بصیرت کاملہ کے ساتھ اپنی نبوت پریقین تھا ۴۲۶ بنی نوع پر اپنے نفس کو فدا کرنے والے فرد کامل ۴۷۶ آپؐ کی پیشگوئیاں جو احادیث میں بیان ہوئیں وہ بائیبل کے نبیوں سے ہزار حصہ زیادہ ہیں ۴۵۷ آپؑ کی پیشگوئیاں اور اعجازات انجیل سے ہزارہا درجہ بڑھ کر ہیں ۴۶۶ آنحضور ؐ کے معجزات اور ذاتی کردار نبوت صادقہ کی شناخت کیلئے کافی نشان ہے عیسائی مؤلفین کا اقرار ۴۵ آپؐ کے معجزات او رپیشگوئیاں ہزاروں کی تعداد میں ہیں ۴۴۵ آپؐ کی اتباع کے بغیر محبوبیت ‘قبولیت اور ولایت حقہ کا درجہ ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا ۴۸۰ انجیل برنباس آپؐ کے آنے کی صریح بشارت دیتی ہے ۴۶۷ آپؐ کے صحابہ روحانی تربیت میں مسیح کے حواریوں سے بہت آگے تھے (پادری ٹیلر) ۴۵۲ صحابہ میں پاک تبدیلی ایک معجزہ ہے ۴۴۷ ظہور نشان میں کوئی آریہ‘ عیسائی یا یہودی آپؐ کے متبع کامل کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۴۸۱ اہل مکہ نے بالآخر آنحضورؐ کے معجزات تسلیم کر کے مان لیا ۴۳۱ آپؐ کے نشانات کا غلط مطلب لے کر کفار نے آپؐ کا نام ساحر رکھا ۴۳۲ حالت کفر میں بھی ا ہل مکہ آنحضور ؐ کے نشانات سے کلی انکار نہ کرتے تھے ۴۳۲ کفار مکہ آپؐ سے تین قسم کے نشانات مانگا کرتے تھے ۴۳۳ کفار کا شرطیں لگا کر نشانات مانگنا آپؐ کے معجزات ونشانات پر کھلی دلیل ہیں ۴۳۴ وحی مجمل میں اجتہاد کیا کرتے تھے ۲۷ آپؐ نے امت میں ہر صدی میں مجدد اور چودھویں صدی کیلئے عظیم الشان مہدی کی پیشگوئی فرمائی ۳۷۸ عبداللہ جیمز عیسائی کا سوال کہ آنحضورؐاپنی نبوت کے بارہ متشکک تھے ۴۱۹ عبداللہ جیمزکاکہنا کہ آنحضور ؐ کو کوئی معجزنہیں ملا ۴۱۹ عبداللہ جیمز عیسائی کا تیسرا اعتراض کہ آنحضورؐ سوالات کے جواب دینے سے لاچار اور محدود علم والے تھے اس لئے پیغمبر نہ تھے ۴۲۰ قرآن میں آنحضور ؐ کو خطاب کر کے اصل مراد امت ہوتی ہے یہی محاورہ توراۃ میں بھی ہے ۴۲۵ محمد صاحب مولوی لکھو کے ۱۲۶ محمد صاحب عرب ان کی طرف سے دو روپیہ برائے نشانی آسمانی ۴۰۶ محمد احسن امروہی ‘ حضرت سید مولوی ۱۳۳‘۱۷۸‘۳۰۷‘۴۱۲ مباحثہ الحق دہلی کے سلسلہ میں مولوی محمد بشیر بھوپالی صاحب سے مراسلت ۲۲۱ ایک فاضل جلیل القدر اور امین اور متقی اور محبت اسلام میں فنا شد ہیں ۴۰۸ بطور واعظ مقرر کرنے کی تجویز اور ان کے گزارہ الاؤنس کیلئے چندہ کی تحریک کا اشتہار ۴۰۸ حضرت مولوی صاحب کی منشی بوبہ شاہ صاحب اور منشی محمداسحق صاحب کے مابین مراسلت نمبر۲ بسلسلہ مباحثہ دہلی ۴۸۳ محمد احسن بھوپالویؓ ۶۹ محمد اسحق منشی آپ کی مولوی سید محمد احسن امروہی کے مابین مراسلت سلسلہ الحق مباحثہ دہلی ۴۸۳

Page 588

محمد اروڑا منشی نقشہ نویس کپورتھلہ ۳۳۶ محمد اسماعیل ‘ امام ۲۱ محمد اسماعیل شہید مولوی دہلوی ۴۸۷‘ ۵۰۲‘۵۰۳‘۵۰۶ نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشگوئی کو سید احمد صاحب شہید پر چسپاں کرنا چاہتے تھے ۳۶۳ محمد اکبر حافظ صاحب لاہور ۳۳۷ محمد اکرم مولوی ۴۱۲ محمد اکبر صاحب قاضی جموں ۳۳۷ محمد افضل ‘ مولوی ۴۱۲ محمد الدین صاحب حاجی خواجہ رئیس لاہور ۳۳۷ محمد بشیر صاحب بھوپالی ‘مولوی ۱۳۲‘۱۳۳‘۱۷۰‘۱۷۹‘ ۱۸۱‘۲۰۶‘۲۱۲‘۳۲۵ حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ مباحثہ بمقام دہلی ۱۵۱ سید محمد احسن امروہی کے ساتھ مباحثہ ۱۲۹ مباحثہ الحق دہلی کے سلسلہ میں مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی سے مراسلت ۲۲۱ اثبات حیات مسیح کے دعویٰ کا ثبوت مولوی صاحب کے ذمہ ہے حضور ؑ کے ذمہ نہیں ۱۶۰ پرچہ ثانی پر سرسری نظر ۲۶۷ پرچہ ثالث پر سرسری نظر ۲۸۸ خواب دیکھی کہ کھانا کھا ر ہا ہوں او رجسم پر لباس کسی قدر نہیں ہے ۲۸۹ محمد ابن اسحق ۱۸۹ وفات عیسیٰ کے قائل ہیں ۲۱۹ محمد جان شیخ صاحب وزیر آباد ۳۳۷ محمد جعفر منشی ۳۵۹‘۳۶۰ محمد چٹو میاں صاحب رئیس لاہور ۱۲۶‘۳۳۷ محمد حبیب الرحمن منشی کپور تھلہ ۳۳۶ محمد حسن رئیس اعظم لدھیانہ ۳۸۸ محمد حسین مولوی کپور تھلہ ۳۳۶‘۴۱۲ محمد حسین بٹالوی ‘ مولوی ابو سعید ۴۵ ‘۴۶‘ ۱۰۱‘ ۱۲۴‘ ۱۲۶ ‘۱۲۷‘ ۱۷۰ ‘۲۲۳ ‘۲۲۸ ۲۲۹‘ ۲۳۱‘۲۴۸‘۲۷۴‘۳۰۵‘ ۳۰۹‘۳۱۱‘۳۲۲‘۳۳۰‘۳۳۴‘۴۹۹‘۵۰۳‘۵۰۴ حضرت مسیح موعود کی تصدیق میں ریویو لکھا اور آپ کو صاحب قوت قدسیہ قرا ردیا اور بعد میں مخالف ہو گئے ۹ حضورؑ کی مخالفت ۴تا۹ حضورؑ کے ساتھ مباحثہ لدھیانہ ۱۰ الہام ملہم کے لئے حجت ہوتا ہے اور محدث کی بات میں شیطان کا دخل نہیں ۲۴،۷۸ حضورؑ سے بعض مسائل اور امور پر جوابات کی طلبی ۳۴ صحیح بخاری و مسلم کی احادیث کے صحیح یا موضوع ہونے کے بارہ میں حضورؑ سے سو ال ۷۹ حضورؑ کی طرف سے چالیس دن میں نشان نمائی کا چیلنج ۱۲۴ اجماع اتفاقی دلیل نہیں ہے ۱۹ قرآن و حدیث دونوں صحیح اور ایک دوسرے کے مصدق ہیں ۶۶ اس کا کہنا کہ نشان کا کیا اعتبار وہ تو ابن صیاد سے بھی ظاہر ہوتے تھے ۳۳۱ اشتہار شائع کرنا کہ حضورؑ کی طرف سے آسمانی فیصلہ کی دعوت کی طرف توجہ دینے کی ضرورت نہیں ۳۳۱ ہر طرح کی گالیوں اور لعن طعن سے اس عاجز کی آبرو پر دانت تیز کرتا ہے ۳۱۸ بٹالوی کی سب بدزبانی درحقیقت میاں نذیر حسین صاحب کی ہے ۳۱۹ بٹالوی کی شوخیاں اور تکبر ۳۲۰ ایک اشتہار میں لکھا کہ یہ میرا شکار ہے پھر دہلی میں میرے قبضہ میں آ گیا ۳۲۰

Page 589

ان کا مخلصین سلسلہ کی نسبت قسم کھانا کہ لاغوینھم اجمعین ۳۴۶ اس کے وسوسہ اندازی نے میرعباس علی لدھیانوی کو لغزش میں ڈالا ۳۴۶ حضورؑ کی کتاب آسمانی فیصلہ پر بٹالوی صاحب کی جرح اور اس کا جواب ۳۹۰ حضورؑ کو کافر و دجال کہنا ۳۹۲ اگر مومن ہیں تو مجھ سے مقابلہ سے کیوں بھاگتے ہیں ۳۹۵ بٹالوی کے مخالف ہو جانے کی پیشگوئی ۳۹۶ اس کے مخالفانہ حربے ۳۹۷ فتویٰ تکفیر تیار کرنے میں یہودیوں کے فقیہوں سے بھی زیادہ خیانت کرنی پڑی اور وہ خیانت تین قسم کی ہے ۴۰۲ شیخ بٹالوی صاحب کے فتویٰ تکفیر کی کیفیت ۴۰۲ فتویٰ کفر میں لوگوں کے نام اپنی طرف سے جڑ دئیے اور فاسقوں کو عالم لکھا اور بعض کو خواہ مخواہ متقی قرار دیا ۴۰۳ حافظ عظیم بخش پٹیالوی کا خط اور محمد عبداللہ خان مدرس پٹیالہ کا اشتہار جس میں انہوں نے حضورؑ سے فدائیت اور محمد حسین بٹالوی کے فتویٰ تکفیر سے لا تعلقی کا اظہار کیا ۴۰۴‘۴۰۵ محمد حیات خان سردار معطلی اور بحالی کے بارہ میں پیشگوئی ۳۴۱ محمد خان منشی اہلمد فوجداری کپور تھلہ ۳۳۶ محمد دین صاحب منشی سیالکوٹ ۳۳۷ محمد زمان‘ حضرت مولوی حافظ ۴۱۲ محمد سعید بنارسی مولوی ۱۲۶ محمد سعید طرابلسی سید ۴۱۲ محمد شاہ مولوی صاحب والد مولوی محمد حسن رئیس لدھیانہ ۳۸۷‘۳۸۸‘ ۳۸۹‘ محمد شاہ سید رئیس جموں ۳۳۷ محمد شریف مولوی ۴۱۲ محمد عبداللہ خان مدرس مہندر کالج پٹیالہ محمد حسین بٹالوی کے فتویٰ تکفیر کی وضاحت میں اشتہار کہ میں حضور ؑ کا معتقد ہوں ۴۰۵ محمد عبدالرحمن منشی کپور تھلہ ۳۳۶ محمد علی حافظ کپور تھلہ ۳۳۶ محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ ۴۱۲ نشان آسمانی کی طباعت کیلئے امداد اور خریداری دو سو کتب کا خط ۴۰۹ محمد علی مرزا صاحب رئیس پٹی ۳۳۷ محمد عمر شیخ صاحب خلف حاجی غلام محمد صاحب بٹالہ ۳۳۷ محمد عیسیٰ میاں مدرسہ نوشہرہ ۳۳۷ محمد مبارک علی صاحب سیالکوٹی ابو یوسف ۱۵۴‘۴۱۲ محمد یوسف صاحب حافظ ضلعدار ۱۲۶ محمد یوسف مولوی‘ سنور ۴۱۲ محمود احمد ‘ حضرت مرزا بشیر الدین پیدائش کی خبر قبل از وقت بذریعہ اشتہار دی گئی ۳۴۱ آپ کے بارہ میں نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشگوئی پسرش یادگار مے بینم ۳۵۸ محمود شاہ صاحب میر سیالکوٹ ۳۳۷ مجاہد (مفسر ) ۲۰۹ مردان علی حضرت مولوی سید ۴۱۲ مسلم‘ امام ۲۱‘۶۸‘۶۹‘۹۷‘۹۸ معین الدین چشتی ؒ ۳۸۷ ملا کی نبی ایلیا کے دوبارہ آنے کی پیشگوئی ۳۶۵

Page 590

موسیٰ علیہ السلام ۸۴‘۸۵‘۸۹‘۱۲۳‘۱۶۶‘۳۲۰‘۳۹۲‘۳۹۳‘۴۲۴‘۴۲۵‘۴۴۱‘۵۰۵ مہتاب علی بمقام جالندھر شعبدہ دکھا یا اور پھر بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہو گیا ۳۹۳ مہر علی شیخ رئیس ہوشیار پور حضور کا ان کو ایک بلا نازل ہونے کی اطلاع دینا ۱۲۴ مصیبت آنے اور بھر بریت کے بارہ پیشگوئی ۳۴۱ ان کے ہاتھ میں قرآن شریف دے کر ان کے ابتلا ء کی پیشگوئی کی نسبت ان کو قسم دینی چاہئے ۳۹۶ ناصر شاہ صاحب سید سب اوورسیئر ۳۳۷ نبی بخش صاحب منشی کلرک لاہور ۳۳۷ نجم الدین میاں صاحب بھیرہ ۳۷۷ نذیر حسین مولوی سید دہلوی ۱۲۶‘۱۳۲‘۱۸۱‘۲۲۳‘ ۳۰۵‘۳۰۹‘۳۱۱‘۳۱۲‘۳۲۲‘۳۳۰‘۳۳۴‘۳۳۵‘۳۹۱‘۴۰۲‘۴۰۴ حضورؑ کی طرف سے آسمانی فیصلہ کی دعوت ۳۱۱‘۳۲۴‘ ۳۳۳‘۳۳۴ فتویٰ تکفیر کی اصل حقیقت ۳۱۱ تقویٰ اور دیانت کے طریق کو بکلی چھوڑ دیا ۲ ۳۱ حیات مسیح ثابت کریں یا قسم کھائیں کہ قرآن میں وفات مسیح کا ذکر نہیں ۳۱۵ حضورؑ کی پیشگوئی کہ وہ ہرگز بحث نہیں کریں گے ۳۱۶ جھوٹی فتح کو خلاف واقعہ مشہو رکر دیا ۳۱۷ مصنوعی فتح کی حقیقت ۳۲۰ ترک تقویٰ کی شامت سے ذلت پہنچی ۳۲۱ حضورؑ کے خلاف کفر کا فتویٰ لکھنا اور کافر و ضال کہنا ۳۹۰‘۳۹۲ خود کو مومن اور مجھے ایمان سے خالی سمجھتے ہیں تو پھر مقابلہ سے کیوں بھاگتے ہیں ۳۹۵ ان کا یہ ناحق ظلم کہ انہوں نے اپنے شاگرد بٹالوی کو بکلی کھلا چھوڑ دیا کہ ہر قسم کی گالیاں اور لعن طعن کرتا ہے ۳۱۸ محمد حسین بٹالوی کی ساری بد زبانی دراصل میاں نذیر حسین صاحب کی ہے ۳۱۹ نظام الدین صاحب حاجی لدھیانہ ۳۳۷ نعمت اللہ شاہ ولی‘ حضرت ۳۶۴‘۳۷۷ آپ کا تعار ف ۳۶۹ حضور ؑ سے سات سوانچاس سال قبل کے زمانہ میں گزرے ہیں ۳۶۳ آپ کا معروف قصیدہ قدرت کردگار مے بینم ۳۵۷ آپ کے قصیدہ کے اشعار اور ان کا ترجمہ ۳۷۱ آپ کے قصیدہ کے اشعار میں خبریں الہامی طور پر دی گئی ہیں ۳۷۱ آپ کا الہام حدیث یتزوج ویولد کے مطابق ہے ۳۶۰ گلاب شاہ اور نعمت اللہ ولی کی پیشگوئیاں حسب منشاء قرآن کریم کے نشان صریح ہیں ۳۹۵ نعمت علی صاحب ہاشمی داروغہ عباسی بٹالوی ۳۳۷ نواس بن سمعان ۱۱۵ نور الدینؓ ‘ حضرت حکیم مولانا ۵‘۱۱‘۶۹‘۷۴‘ ۱۲۶‘۱۷۸‘۲۸۴‘۳۳۷‘۴۱۲ میرے مخلص دوست اور للّہی رفیق ۳۳۸ وہ خود نہیں بولتے بلکہ ان کی روح بول رہی ہے ۳۳۸ حضورؑ کا آپ کے بارہ میں فرمانا کہ جس قدر ان کے مال سے مجھ کو مدد پہنچی ہے اس کی نظیر اب تک کوئی میرے پا س نہیں ۴۱۰ ’’چہ خوش بودے اگر ہریک زامت نور دیں بود ے ‘‘ ۴۱۱ حضرت مسیح موعود ؑ کا آپ کے اخلاص وفدائیت اور عظیم مالی قربانی پر شاندار خراج تحسین ۴۱۰

Page 591

آپ کا حضور ؑ کے نام اخلا ص ووفا اور فدائیت سے بھر اخط ۳۳۸ نشان آسمانی کے سارے خرچ دینے پر مبنی فدائیت سے بھرپور خط ۴۰۶ آپ کے ایک خط بنام مولانا احسن امروہی کا ذکر ۲۶۴ نور الدین صاحب خلیفہ جموں ۳۳۷ نور احمد صاحب حافظ لدھیانہ ۳۳۷ نور احمد مولوی ‘ لودھی ننگل ۴۱۲ نور احمد صاحب شیخ مالک مطبع ریاض ہند امرتسر ۳۳۷ نور محمد مانگٹ‘ مولوی ۴۱۲ نوح علیہ السلام ۴۴۱ نووی ‘ امام ۵‘۵۱‘۹۵‘۹۶‘۹۸‘۱۰۳‘۱۱۱‘۲۹۷‘۴۹۴‘۵۰۶ و.ہ.ی ولی اللہ شاہ ‘ محدث دہلوی ۱۷۳‘۱۷۴‘۱۷۵‘۱۹۱‘۲۲۷‘ ۲۳۸‘۲۳۹‘۲۴۳‘۲۵۲‘۲۵۳‘۲۵۴‘۲۶۸‘۲۷۷‘۲۷۸‘۲۷۹‘ ۲۹۱‘۲۹۲‘۲۹۸ وہب بن منبہ ۳۶۶ وفات عیسیٰ کے قائل تھے ۲۱۹ ہابیل ۲۵۹ ہیرودیس ۴۶۳ یحییٰ علیہ السلام ۱۰۴‘۳۶۴‘۳۶۶‘ ایلیا سے مراد آپ ہیں ۳۶۵ یزید بن ربیعہ ۱۰۷ یعقوب علیہ السلام ۴۵۷ یونس علیہ السلام ۵۰۶ یہودا اسکر یوطی ۱۲۴‘۴۵۲‘۴۵۶

Page 592

مقامات ا.ب.پ.ت امریکہ ۳۲۹‘۴۰۷‘۴۶۸‘ ۴۶۹ انگلستان شراب پر اٹھنے والا خرچ ۴۷۱ زناکاری، شراب نوشی اور بے حیائی ۴۷۲ ایران ۴۳۲ بٹالہ ۴‘۳۸۴ بخارا ۱۰۱ بھوپال ۲۲۵‘۲۶۷‘۲۸۰‘۳۰۷ بیت المقدس ۴۲۱‘۴۲۲ پٹیالہ ۳۵۳‘۴۰۴‘۴۰۵ پنجاب ۴‘۵ پھلور ۳۱۸ ترکی مسیح کے ظہور کے وقت ترک سلطنت سست ہوجائیگی ۳۶۰ ج.ح.د.ر جالندھر ۳۹۳ جمالپور ضلع لدھیانہ ۳۸۳ جموں ۴۱۰‘۳۳۸ حجر یہاں قوم ثمو د کے باشندے رہتے تھے ۴۳۶ دہلی ۱۳۳‘۳۴‘۲۲۰‘۲۲۲‘۲۲۳‘۲۲۴‘۲۲۸ ۲۲۹‘۲۳۱‘۲۸۰‘۳۱۲‘۳۱۶‘۳۲۰‘۳۴۷‘۳۶۹ الحق مباحثہ دہلی ۱۲۹ حضورؑ مباحثہ دہلی کیلئے ۲۸؍ستمبر ۱۸۹۱ء کو دہلی پہنچے ۱۳۱ مباحثہ مابین حضرت اقدس ؑ و مولوی محمد بشیر بھوپالی صاحب بمقام دہلی ۱۵۱ رامپور (ضلع لدھیانہ) گلاب شاہ کا موضع رامپور میں نشان ظاہر کرنا ۳۸۵ روم ۴۳۲ ش.ع.ق.ک سیالکوٹ ۴۱۰ شام ۴۳۳ عراق ۴۳۳ علیگڑھ ضلع فرخ آباد ۴۰۹ قادیان ۳۵۰‘۳۵۳‘۳۸۴ پہلا جلسہ سالانہ قادیان ۲۷ دسمبر ۱۸۹۱ء میں آسمانی فیصلہ پڑھا جانا اور شرکاء جلسہ کے نام ۳۳۶ عیسیٰ جوان ہو گیا ہے تو کہاں ہے گلاب شاہ نے کہا بیچ قادیان کے ۳۸۴ کنعان ۴۲۵ ل.م.ہ.ی لاہور ۵‘۶‘۴۱‘۴۸۳‘۴۸۴ لاہور کے عمائد اسلام کی مخلصانہ درخواست ۱۲۶

Page 593

مخالفین کو مقابلہ کے حسن انتظام کیلئے لاہور میں ایک انجمن کے قیام کی تجویز ۳۲۵ لدھیانہ ۵‘۶‘۸‘۴۵‘۹۵‘۱۲۴‘۱۲۷‘۳۲۱‘۳۸۴‘ ۳۸۷‘۳۸۸‘۴۱۱ الحق مباحثہ لدھیانہ ۱ حضرت مسیح موعوداور محمد حسین بٹالوی کے درمیان مباحثہ بمقام لدھیانہ ۱۰ میاں کریم بخش جمالپوری کو لدھیانہ بلا کر گلاب شاہ کی پیشگوئی کی تصدیق کروائی ۳۶۱ عیسیٰ جوان ہو گیا ہے اور لدھیانہ میں آوے گا گلاب شاہ کی پیشگوئی ۳۸۴ لندن ہر محفل میں شراب نوشی ۴۷۱ لندن میں شراب نوشی‘ زناکاری اور بے حیائی ۴۷۲ مدینہ منور ہ ۱۱۸‘۱۱۹‘۲۱۷ مکہ مکرمہ ۱۱۹‘۴۲۸‘۴۴۵ بت پرست اہل مکہ نے بالآخر آنحضورؐکے معجزات کو تسلیم کر لیا ۴۳۱ کفار مکہ آنحضورؐ سے تین قسم کے نشانات مانگا کرتے تھے ۴۳۳ مکہ والوں پر بدر کی جنگ میں عذاب آیا ۴۴۳ مکہ کے سرکش جو نشان عذاب مانگتے تھے ان کو تہ تیغ کر دیا گیا ۴۴۴ ہندوستان ۱۲۰‘۳۱۱‘۳۱۲‘۳۱۶‘۳۶۳‘۳۶۹‘۳۷۰‘۳۹۹‘۴۷۳ ہوشیار پور ۱۲۴ یروشلم ۴۲۱ یورپ ۳۲۹‘۴۰۷‘۴۶۸‘۴۶۹ کفار ہ کے باوجود یورپ میں گناہ اور جرائم ہوتے ہیں ۴۷۳

Page 594

کتابیات آ.ا آثار القیامۃ از صدیق حسن خان ۱۷‘۳۰ آسمانی فیصلہ(تصنیف حضرت مسیح موعود) ۳۰۹‘۳۷۴‘۳۹۵ یہ رسالہ ۲۷؍دسمبر ۱۸۹۱ء کو مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے مسجد اقصیٰ میں احباب کے سامنے پڑھ کر سنایا ۳۳۶ بٹالوی صاحب کی آسمانی فیصلہ پر جرح اور اس کا جواب ۳۹۰ ابن جریر، تفسیر ۲۰۲‘۲۰۳‘۲۱۴‘۳۰۱‘۳۰۲‘۳۰۶ ابن کثیر، تفسیر ۱۵۵‘۱۶۵‘۱۷۱‘۱۷۴‘۲۰۰‘ ۲۰۱‘ ۲۰۲ ‘۲۰۳ ۲۱۳‘۲۱۴‘۲۳۸‘۲۵۸‘۲۸۰‘۲۹۷‘۲۹۸‘۳۰۰‘۳۰۲ ابو داؤد ‘ سنن ۲۹۹ اتقان ۲۳۷‘۲۳۸ اربعین فی احوال المھدیین ۳۷۰‘۴۰۷ ارشادالفحول ۲۸۵‘۲۸۹‘۵۰۳ ازالہ اوہام (تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) ۳۱‘۴۲‘ ۴۶‘۶۹‘۷۰‘۷۷‘۷۸‘۱۲۲‘۱۵۴‘۱۵۵‘۱۵۸‘۱۵۹‘۱۶۵‘۱۷۱‘۱۷۲‘ ۱۷۶‘۱۷۹‘۱۹۳‘۱۹۴‘۱۹۶‘۱۹۷‘۱۹۹‘۲۲۶‘۲۶۳‘۲۶۴‘۲۶۶‘ ۲۷۱‘۲۷۵‘۲۸۷‘ ۲۸۸‘۲۸۹‘ ۲۹۰‘ ۲۹۲‘ ۲۹۳‘ ۲۹۵‘ ۲۹۷‘ ۳۰۵‘۳۰۷‘۳۳۵‘۳۳۸‘۳۴۳‘۳۵۰‘۳۵۳‘۳۶۱‘۳۶۴‘۳۷۷‘۳۸۱‘۳۸۸ اعلام الناس ۲۶۳ البدایہ و النہایہ از ابن کثیر ۵۱ الحق مباحثہ لدھیانہ ۱ الحق مباحثہ دہلی(تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) ۱۲۹ انجیل ۳۴۶‘۴۲۱‘۴۲۷‘۴۵۰‘۴۵۱‘۴۵۵‘۴۵۶‘ ۴۵۷ انجیل نے مجاز اور استعارہ کا استعمال کیا ہے ۴۶۱‘ ۴۶۲ اناجیل میں دس حصے انسان کا کلام اور ایک حصہ خدا کا کلام پادریوں کا اقرار ۴۶۳ انجیل الہامی نہیں عیسائیوں کا اقرار ۴۶۴ انجیل نویسوں نے مبالغہ سے کام لیا ہے ۴۶۵ عیسائیوں کا اقرار ہے کہ بعض جعلی انجیلیں تالیف ہوئیں ۴۶۷ بارہ انجیلیں جعلی اور چار کے صحیح ہونے کا کیا ثبوت ہے ۴۶۸ انجیل برنباس الوہیت مسیح اور تثلیث کے خلاف ہے اور آنحضور ؐ کی پیشگوئی کرتی ہے ۴۶۷ ب.ت بائبل ۴۳۸‘۴۴۸ یوم سے مراد برس کا محاورہ بائبل میں بھی پایا جاتا ہے ۴۴۳ بخاری جامع صحیح ۱۴‘۱۷‘۱۹تا۲۲‘۲۴‘۲۶‘۲۹‘۳۱‘۳۲‘۳۵‘۳۶‘۴۰‘۴۱‘۴۲‘۴۴ ۴۵‘۴۶‘۴۷‘۵۰‘۵۲‘۵۳‘۶۸‘۶۹‘۷۰‘۷۸‘۷۹‘۸۳‘۸۴‘۸۶ ۹۴تا۱۰۳‘۱۰۷‘۱۰۹‘۱۱۰‘ ۱۱۲‘ ۱۱۴‘ ۱۱۵‘ ۱۱۶‘ ۱۲۱‘ ۱۲۲‘۱۲۴‘ ۱۵۷‘ ۱۵۸‘ ۱۷۸‘ ۱۷۹‘ ۱۹۴‘ ۲۰۴‘ ۲۱۶‘ ۲۱۷‘ ۲۳۳‘ ۲۳۴‘ ۲۷۶‘ ۲۹۷‘ ۲۹۹‘ ۳۰۷‘ ۳۳۵ بخاری کے کئی قلمی نسخوں میں اختلاف ہے ۹۵‘۹۶ بعض موضوع حدیثیں جو زنا دقہ کا افترا ہیں بخاری میں موجود ہیں (تلویح) ۱۱۱ وفات مسیح کی تصدیق کی گئی ہے ۳۶۷ براہین احمدیہ ۱۲۲‘۱۲۳‘۱۴۴‘ ۱۹۴‘ ۱۹۵‘ ۲۵۷‘ ۲۷۱‘ ۲۹۰‘ ۳۱۱‘ ۳۶۴‘ ۳۷۴‘۳۷۵‘ ۳۷۶‘ ۳۹۹‘۴۰۷

Page 595

اس پر محمد حسین بٹالوی کا ریویو ۱۹‘۷۷ برہان قاطع ۳۸۰ برہان شرح مواہب الرحمن ۵۳ بیضاوی تفسیر ۱۵۷‘ ۱۷۱‘ ۱۷۲‘ ۱۷۳‘ ۱۷۴ ‘ ۱۷۶‘ ۱۸۷‘ ۲۰۰‘ ۲۴۳‘ ۲۵۶‘ ۲۵۸‘ ۲۶۶‘ ۲۷۳‘ ۲۷۷‘ ۲۷۹ ترمذی الجامع ۳۹‘ ۲۹۹ تکملہ از عبدالحکیم مولانا ۲۴۹‘ ۲۷۱‘ ۲۷۳ تفسیر ابو المسعود ۱۵۶ تقویۃ الایمان ۴۸۴‘۴۹۱‘۵۰۲‘۵۰۳‘۵۰۷ تلویح ۵۸‘۹۵‘۹۶‘۹۹‘ ۱۰۰‘ ۱۰۲‘ ۱۰۷‘ ۱۱۱ تفسیر حسینی ۴۰‘ ۶۳‘ ۶۴‘ ۶۵‘ ۱۰۷‘ ۱۱۲ توراۃ ۴۲۴‘۴۲۵ تفسیر فتح العزیز ۴۱ تفسیر کبیر امام رازی ۱۵۶‘ ۱۹۰‘ ۱۹۴‘ ۲۸۹ تفسیر نووی ۱۸۶‘ ۲۰۰ توضیح مرام (تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۱۷۰‘ ۱۷۱‘ ۱۷۲‘۱۷۹‘۱۹۶‘۱۹۹‘۲۶۹‘۲۹۲‘۲۹۵‘ ۳۰۹‘ ۳۳۵‘۳۵۳‘ ۴۸۴‘۴۹۳‘۴۹۸‘ ۵۰۱‘۳۰۲‘۵۰۷ ج.ح.د.ر حجج الکرامہ از مولوی صدیق حسن خاں ۳۷۸‘۳۸۰ جلالین ۱۵۷‘۲۹۳‘۵۰۳ حصول المامول ۲۸۶ دار قطنی ۹۵ الدارمی السنن ۳۹‘۵۷ دافع الوساوس (تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۳۵۶‘۴۰۷ شیخ بٹالوی صاحب کے الزامات تکفیر کے جوابات پر مبنی رسالہ ہو گا ۴۰۲ رشیدیہ (اصول مناظرہ پر کتاب) ۲۶۱‘ ۲۶۹‘ ۲۹۲ س.ش.ص.ط سراج منیر(تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۴۰۹ سرمہ چشم آریہ (تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۳۱۱‘ ۴۴۴ شرح السنۃ ۲۸ شرح رسالہ عضدیہ ۱۹۵ شرح فواتح الرحموت ۶۱‘۷۱ شرح صحیح مسلم از امام نووی ۵۰‘۵۱ شرح مسلم الثبوت ۹۶‘۹۷ شرح مشکوٰۃ ۶۸ شرح نووی ۹۸ صراط المستقیم ۴۸۷‘۴۹۱‘۵۰۲‘۵۰۳‘۵۰۷ طب روحانی حضرت منشی احمد جانؓ کی کتاب اس کے مطالعہ کی تحریک ۴۱۱ طبرانی ۴۹۴ طبقات کبریٰ از علامہ شعرانی ۲۶۴ ف.ق.ک فتح الباری ۶۲ فتح اسلام (تصنیف حضر ت مسیح موعود علیہ السلام) ۳۵۳

Page 596

فتح البیان تفسیر ۱۹۰‘۲۵۵‘۲۵۷‘۲۶۰‘۲۷۷ فتوحات مکیہ(ابن عربی) ۱۲۳ فوائد ضیائیہ ۲۷۱‘ ۲۷۲‘ ۲۷۳ فوز الکبیر ۲۴۳‘۴۹۴ قاموس ۱۵۹‘۱۶۷‘۱۹۳ قسطلانی ۱۵۹ القول الجمیل از محمد مبارک علی سیالکوٹی صاحب ۱۵۴‘۲۵۷‘ ۲۵۸ کشاف‘ تفسیر ۱۶۷‘ ۱۹۳‘ ۱۹۹ کمالین ۵۰۳ م.ن.و.ہ مدارک تفسیر ۱۸۷‘۲۰۰ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ از ملا علی قاری ۷۴ مجمع البحار از ابن طاہر حنفی ۵۸‘۱۵۹ مسلم صحیح ۱۴‘۱۵‘۱۶‘۱۷‘ ۱۹‘ ۲۰ ‘۲۱‘ ۲۲‘ ۲۴‘ ۲۶‘ ۲۸‘ ۲۹ ۳۱‘ ۳۲‘ ۳۵‘ ۳۶‘ ۴۰‘ ۴۱‘ ۴۲‘ ۴۵‘ ۴۶‘ ۴۷‘ ۵۰‘ ۵۲‘ ۵۳ ‘ ۵۷‘ ۶۳‘ ۶۶‘ ۶۹‘ ۷۰‘ ۷۲‘ ۷۳‘ ۸۳‘ ۸۶‘ ۹۴‘ ۹۵‘ ۹۷‘۹۸‘ ۹۹‘ ۱۰۰‘ ۱۰۲‘ ۱۱۰‘ ۱۱۵‘ ۱۲۲‘ ۱۵۷‘ ۲۱۶ مسلم الثبوت ۱۱۱‘۵۰۳‘۵۰۴ مسند احمدبن حنبل ۸۴ مشکوٰۃ المصابیح ۲۸‘ ۳۹‘ ۵۹‘ ۱۰۹ مصحف اُبیّ بن کعب ۲۳۷ مُطَوّل ۲۳۵‘ ۲۳۶‘ ۲۴۶‘ ۲۴۷‘ ۲۵۴‘ ۲۵۷‘ ۲۷۸‘ ۳۰۳‘۵۰۳‘۵۰۴ مظہری تفسیر ۱۸۷‘ ۱۹۱‘ ۲۲۰ ‘۲۹۸ معالم التنزیل تفسیر ۱۵۷ ‘ ۱۶۵‘ ۱۹۰‘ ۲۱۰‘ ۲۱۱ مغتنم الحصول ۶۰ مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی ۱۰۱ منار از حافظ ابن لقیم ۳۸۰ منصب امامت ۴۸۷‘۴۹۱‘۵۰۲‘۵۰۳‘۵۰۷ منہج المبین از امام شعرانی ۵۸‘۱۰۷ منہاج شرح صحیح مسلم ۹۵ میزان ۲۰۱ میزان الحق از پادری فنڈر ۴۷۳ میزان الصرف ۲۹۵ میزان کبریٰ ازامام شعرانی ۵۲ نسائی ‘ سنن ۲۹۹ نشان آسمانی (تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ۳۵۶ حضورؑ کی کتاب جس کا دوسرا نام شہادت العالکین ہے ۳۵۵ نشان آسمانی کی امداد طبع کیلئے جو مخلص دوستوں کی طرف سے خط لکھے گئے ان کاخلاصہ جواب ۴۰۹ نور الانوار حنفیوں کی اصول فقہ کی کتاب ۹۳‘ ۹۹ وید ۴۴۹ اخبارات و رسائل اشاعۃ السنۃ ۱۲‘۱۵‘۲۴‘۲۵‘۳۳‘۱۲۲‘۲۲۸‘ ۴۰۴‘ ۴۰۵ رسالہ انجمن حمایت اسلام لاہور ۳۳۹ پنجاب گزٹ سیالکوٹ ۶‘۸‘۱۳۲‘۳۳۹ ناظم الہند لاہور ۳۳۹ نور افشا ں لدھیانہ ۳۳۹

Page 597

Page 598

Page 598