Language: UR
حضرت مولانا محمد اسماعیل حلالپوری کا مرتب کردہ ’’رسالہ درود شریف‘‘ پہلی دفعہ قادیان سے شائع ہوا، اور اس کی مقبولیت کے باعث متعدد ایڈیشن سامنے آتے رہے، جن میں ضروری ترامیم اور مناسب اضافے بھی ہوتے تھے۔ 1939ء میں منائی جانے والی خلافت جوبلی کے موقع پر 180بزرگان سلسلہ نے یہ کتاب بطور ’’ہدیہ مبارکہ‘‘ حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت پائی تھی۔اس کتاب میں نبی کریم ﷺ پربھیجے جانے والے مسنون درود وسلام کے حوالہ سے ضروری حوالہ جات اور اقتباسات کا گلدستہ سجایا گیا ہےاوراس مبارک ذکر کے افضال و برکات اور اس کو سمجھ کر پڑھنے کے نتیجہ میں ملنے والی برکات کا جماعتی لٹریچر سے مفید مواد جمع کردیا گیا ہے۔
هديد مباركة ورود رساله حضرت مولوی محمد اسمعیل حصا حلالپوری
J بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ " " پیش لفظ رساله درود شریف" قادیان دارالامان سے کئی دفعہ شائع ہوا.مختلف ایڈیشنوں میں کچھ کمی بیشی ہوتی رہی.۱۹۳۹ء میں بہت سے بزرگوں اور دوستوں نے اسے ہدیہ مبارکہ " کی صورت میں سیدنا حضرت خلیفہ" المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا.مؤلف رسالہ حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب حلالپوری رضی اللہ عنہ کی وفات (۱۹۴۰ء) کے بعد سے اس کی اشاعت نہیں ہو سکی.اب اسے آخری ایڈیشن مطبوعہ ۱۹۳۹ء کے مطابق شائع کیا جا رہا ہے البتہ قرآن کریم کی آیات کے حوالہ جات رکوع نمبر کی بجائے آیت نمبر کے تحت اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے حوالہ جات "روحانی خزائن" کے مطابق کر دیئے گئے ہیں.تازہ ایڈیشن کے تعلق میں خاکسار بعض احباب کا تشکر کے طور پر ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہے.کچھ عرصہ ہوا اخویم عبدالرحمن صاحب دھلوی (نزیل کینیڈا) نے رسالہ درود شریف شائع کرنے کی پر زور تحریک کی اور طباعت کے اخراجات میں اپنی اپنی اہلیہ اور عزیزوں کی طرف سے معتد بہ حصہ لیا.کے علاوہ مکرم الیاس چوہدری صاحب آف امریکہ اور بعض دیگر ان -
عزیزوں نے بھی معقول حصہ لیا.عزیزم محمد اعظم صاحب اکسیر نے تیاری کے سلسلہ میں عملی طور پر غیر معمولی محنت کی.مکرم سید عبدالحی صاحب نے طباعت کا انتظام و اہتمام فرمایا.اسی طرح مختلف مراحل میں جن دوستوں نے کمپوزنگ، عربی عبارت پر اعراب لگانے اور پروف ریڈنگ میں حصہ لیا، اللہ تعالیٰ ان سب کی خدمت قبول فرمائے اور رسالہ درود شریف" کی اشاعت کو آنحضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر کثرت سے دا پڑھا جانے کی تحریک کا ذریعہ بنائے.آمین.محمد احمد عفی عنہ درود بد الله الرحمن الرحي نَحْمَدُهُ وَتُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَ عَلَى أَلِم بِمَا الْمَسِيحِ الْمَوْ مُوْدِمَعَ التَّعْلِيمِ گزارش بحضور سید ناو امامنا حضرت خلیفہ المسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سید نا وابن سید نا السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکامیه خاکساران جن کے نام ذیل میں درج ہیں.اس رسالہ کو حضور کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کر کے حضور سے اس دعا کی درخواست کرتے ہیں.کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحم سے اور اپنی ستاری سے اسے ہم سب کی طرف سے قبول فرمائے.اور اس میں ایسی برکت ڈال دے.کہ اس کے ذریعہ سے تمام عالم میں آنحضرت کے احسانات کو یاد کر کے نہایت محبت اور کمال اخلاص سے آپ پر آپ کے مدارج اور مراتب کی ترقی کے لئے اور آپ کی کامیابیوں کے واسطے درود اور سلام بھیجنے کی ایک نہایت پر زور اور کبھی نہ ختم ہونے والی اور ہر آن میں بے حد ترقی کرنے والی تحریک پیدا ہو جائے جو ابد الاباد تک روز افزوں طور پر جاری رہے.اور راوند کریم آپ پر اپنی کامل برکات نازل کرے اور آپ کو تمام عالم کے لئے سرچشمہ برکتوں کا بنادے.اور آپ کی بزرگی اور آپ کی شان و شوکت اس عالم اور اس عالم میں ظاہر کرے.اور آپ کا جلال دنیا اور
آخرت میں چمکے.نیز آپ کے مظہر اتم اور بروز اکمل حضرت مسیح موعود پر.جن کے ذریعہ سے ہمیں آپ کے محاسن اور احسانات کا پتہ ملا.اور جن (۲۰) (مفتی محمد صادق (۲۱) محمد سعید (سرگودھوی) (۲۲) شیر علی (۲۳) سراج الدین (ریٹائرڈ سٹیشن ماسٹر) (۲۴) محمود احمد (احمدیہ میڈیکل ہال) کے طفیل آج تیرہ سو سال کے بعد دوبارہ آپ کا نورانی چہرہ اپنی حقیقی شان (۲۵) مرزا عبدالحق (وکیل) (۲۶) سید عبدالمجید (آف منصوری) کے ساتھ دنیا کے سامنے جلوہ گر ہوا ہے اور آپ کے تمام عشاق اور اعوان و انصار پر جو گزر چکے ہیں یا اس وقت موجود ہیں یا آئندہ ہوں گے نیز دعا فرمائیں کہ اس آفتاب حقیقی اور اس کے ماہتاب کے انوار و برکات ہمیشہ اس عالم میں اور آخرت میں ہم سب پر.ہمارے بزرگوں پر.ہماری اولادوں پر ہماری ازواج پر.ہمارے متعلقین پر.ہمارے احباب پر.اور ہمارے تمام محسنوں اور بہی خواہوں پر ہر آن میں بیش از پیش نازل ہوتے رہیں.اور اللہ تعالیٰ ہمیں ان راہوں پر چلنے کی توفیق بخشے جو اس مقصد کو پانے کا ذریعہ ہیں.اور روئے زمین پر کوئی فرد بشر بھی آپ کے فیوض سے محروم نہ رہے.آمین خاکساران الف : (۱) میرزا بشیر احمد قادیان (۲) چودھری مظفرالدین (بنگالی) (۳) محمد عبد اللہ خاں (آف مالیر کوٹلہ) (۴) عبدالرحیم نیر (۵) محمد شریف (ای.اے.سی) لاہور (۶) محمد علی انور تا تار کاندی بنگال.ب : (۷) محمد طفیل (مدرس مدرسہ احمدیہ) قادیان (۸) ڈاکٹر حشمت اللہ (۹) فضل احمد (بٹالوی) (۱۰) غلام رسول (راجیکی) (11) حاکم علی (چودھری) (۱۲) غلام احمد (واعظ ) (۱۳) جان محمد (ڈسکوی) (۱۴) مرزا محمد شفیع (دہلوی) (۱۵) عبد المغنی خاں (۱۲) (ملک) نورالدین (۱۷) (خانصاحب) فرزند علی (۱۸) محمد اسماعیل (ریٹائرڈ سٹیشن ماسٹر) (۱۹) حکیم محمد الدین (گوجر انوالوی) (۲۷) عبدالرحمن (مدرس مدرسه احمدیه) (۲۸) (کپتان ڈاکٹر) سید محمد حسین شاہ (۲۹) محمد بخش (مدرس تعلیم الاسلام) (۳۰) مصباح الدین (۳۱) (خانصاحب) برکت علی (شملوی) (۳۲) محمد نذیر ملتانی (مبلغ) (۳۳) سید عزیز اللہ شاہ (۳۴) تاج الدین (مدرس مدرسه احمدیه) (۳۵) (ڈاکٹر سید) غلام غوث (۳۶) کرم الہی (بزاز ) (۳۷) محمد الدین ) اور حموی مدرس متفرقين) (۳۸) بدرالدین (کلرک) (۳۹) (ڈاکٹر میرا محمد اسماعیل (سول سرجن) (۴۰) محمد احمد خاں (آف مالیر کوٹلہ) (۴۱) قاری محمد امین (۴۲) غلام نبی (مدرس مدرسہ احمدیہ) (۴۳) مولا بخش (ایضا) (۴۴) محمد الدین (ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام) (۴۵) محمد الدین (محرر امور عامه ) (۴۶) مرزا شریف احمد (۴۷) میرزا ناصر احمد (۴۸) ظهور حسین (مبلغ) (۴۹) کرم داد خاں (بلوچ) (۵۰) سید محمد اسحاق (۵۱) مسعود احمد خاں (آف مالیر کوٹلہ ) (۵۲) عباس احمد خاں (ایضاً) (۵۳) چودھری ابو الانصار علی قاسم (۵۴) محمد اسماعیل (مرتب رساله هذا) (۵۵) غلام محی الدین خاں امرتسر (۵۶) زین العابدین مڈھ رانجھہ (شاہ پور) (۵۷) (حافظ سید محمد طیب ( فرزند اصغر حضرت مولانا عبد اللطیف کابلی شهید رضی اللہ عنہ) بنوں (۵۸) (چودھری) اسد اللہ خاں (بیرسٹر) لاہور (۵۹) فضل الدین اسٹنٹ اگر مینر پنجاب ہائیکورٹ) (۲۰) محمد امیر (۶۱) صوفی علی محمد مرنگ (۶۲) عبید اللہ بٹالوی (۱۳) شیر محمد خاں (جمعدار ایم ٹی) صدر پشاور.
" ز ج : (۱۴) حکیم عبد العزیز خاں (ایمن آبادی) قادیان (۶۵) احمد جان الرحمن (برادر حکیم فضل الرحمن) (111) محمد سلیم (مبلغ) (۱۱۲) عبد الکریم (پسر او جلوی (۲۲) چودھری عبدالرحیم (ہیڈ ڈرانسمین) (۷۷) عبداللہ (جلد ساز) مرتب رسالہ ہزا) (۱۱۳) (سید) محمد ہاشم (شاہجہانپوری ڈومیلی (ضلع جہلم) (۶۸) میرزا حمید احمد خان (۶۹) (خان صاحب) برکت علی (منجانب اہل بیت (خود) (۱۱۴) عبد الواحد ( مبلغ) سری نگر (۱۱۵) (خلیفہ) نورالدین جموں (١١٦) ( (شیخ) (۷۰) فقیر علی (سٹیشن ماسٹر) (۷۱) محمد جمیل (ننگی.حال افریقہ) (۷۲) ارجمند عبد الحق وڈالہ بانگر (گورداسپور) (۱۱۷) خواجہ محمد صدیق (ریلوے گارڈ) وزیر خان (مدرس مدرسه احمدیه) (۷۳) مرزا نصر اللہ خاب (۷۴) (قاضی) عبدالرحیم آباد (۱۱۸) (ڈاکٹر) فیروز الدین ایبٹ آباد (۱۱۹) محمد بخش گرد اور قانونگو) بھٹی (۷۵) حکیم محمد الدین (گوجر انوالوی) (من جانب اہلیہ خود) (۷۷) محمد بخش بھلوال (۱۲۰) (چودھری) احسان اللہ خاں (والد چودھری مظفرالدین صاحب) مگنید نهری) (۷۷) برکت علی خاں (آڈیٹر) (۷۸) (پیر) رشید احمد ارشد برہمن بڑیہ (۱۲۱) مرزا صفدر بیگ مزنگ (لاہور) (۱۲۲) احمد دین کوٹ شاہ (۷۹) عطاء الرحمن (مولوی فاضل) (۸۰) سید محمد اسماعیل (سپرنٹنڈنٹ دفاتر) عالم (گوجرانوالہ) (۱۲۳) بشیر الدین مڈھ رانجهه (شاہ پور) (۱۲۴) (چودھری) (۸۱) فضل الدین (وکیل) (۸۲) (حکیم) غلام حسین (لائبریرین) (۸۳) فتح محمد عبداللہ خاں (اگزیکٹو افسر) قصور (۱۲۵) شیخ بشیر احمد (ایڈوکیٹ) گوجرانوالہ سیال (۸۴) عبد المنان عمر (۸۵) عبد السلام عمر (۸۶) (چودھری) مظفر الدین (۱۲۶) قاسم دین سیالکوٹ (۱۲۷) فضل الدین اجمیری لاہور (۱۲۸) چودھری (بنگالی) (از جانب والده (خود) (۸۷) سبحان علی (کاپی نویس رسالہ ہذا) ظفر اللہ خاں (بیرسٹر) (۱۲۹) (پروفیسر) علی احمد بھاگل پور (۱۳۰) (خواجہ) نذیر احمد (۸۸) (حافظ) نبی بخش (محله دارالفضل) (۸۹) (لفٹیسٹ ڈاکٹر غلام احمد دہلی (۱۳۱) غلام محمد اختر (سٹاف وارڈن) لاہور (۱۳۲) عبد العزیز (برادر فضل خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب) انبالہ (۱۳۳) عبدالرحمن (جلمی) نئی دہلی (۱۳۴) غلام رسول مونگ (ضلع گجرات) (۱۳۵) محب الرحمن لاہور (۱۳۶) ( چودھری) محمد لطیف (سب حج) منٹگمری (۱۳۷) سید دلاور شاہ لاہور.د : (۱۳۸) محمد اسماعیل سیالکوٹی (دار الفضل) قادیان (۱۳۹) (ملک) غلام فرید (۱۴۰) عبد العزیز (ریٹائرڈ پٹواری) (۱۴۱) برکت اللہ (برادر مولانا درد صاحب) (۱۴۲) ایضاً منجانب والده خود (۱۴۳) (ملک الطاف خان (۱۴۴) (ملک) علی حیدر (وولمیالی) (۱۴۵) محمد ابراہیم بقا پوری (۱۴۶) (چودھری (۹۰) (میجر ڈاکٹر) سید حبیب الله شاه (۹۱) سید ناصر شاه (۹۲) حکیم الرحمان ( مبلغ افریقہ) (۹۳) مرزا عزیز احمد (۹۴) فخرالدین ملتانی (۹۵) علی محمد اجمیری (۹۷) عبد الوہاب عمر (۹۷) اللہ بخش (مالک مطبع) (۹۸) محمد حسین (خوشنویس) (۹۹) سید محمد سرور شاہ (۱۰۰) عبدالرحمن (مهر سنگھ ) (۱۰۱) ابوالحسن قدی (فرزند حضرت سید عبد اللطیف شهید کابلی (رضی اللہ عنہ) (۱۰۲) (قاضی) نور محمد قادیانی (۱۰۳) (ملک) عزیز احمد (دار الفضل) (۱۰۴) لطیف الرحمن بی اے (۱۰۵) محمد عبد الله مولوی فاضل دار الفضل) (۱۰۶) سید محمود اللہ شاہ د: (۱۰۷) (شیخ) یعقوب علی عرفانی (۱۰۸) (خواجہ) غلام نبی (ایڈیٹر الفضل) عبد الرحیم ( جگت سنگھ) (۱۴۷) نظام الدین جہلمی (۱۴۸) (قریشی) محمد احسن (۱۰۹) حکیم فضل الرحمن ( مبلغ منجانب والده مرحومه خود) (۱۱۰) (ملک) حبیب (۱۴۹) عبدالغفور ( مبلغ ہرسیانی) (۱۵۰) فضل حسین (مینجر بکڈپو) (۱۵۱) جلال
ح الدین شمس (۱۵۲) فخرالدین (دار الفضل) (۱۵۳) عبدالمجید حلالپوری (۱۵۴) سید محمود عالم (۱۵۵) امام الدین آف گولیکی (۱۵۷) محمد ظہور الدین اکمل (۱۵۷) سلیم احمد خاں اٹاوی (۱۵۸) عبدالرحمن مصری (۱۵۹) عبدالرحیم شرما (۱۶۰) غلام محمد (بی ایس سی) (۱۶۱) علی محمد صابر (۱۷۲) غلام حیدر (مدرس مدرسہ احمدیہ ) (۱۶۳) (شیخ یوسف علی (بی اے) (۱۷۴) رمضان علی کلرک) (۱۶۵) محمد احمد حلالپوری (۱۶۶) (حافظ) محمد ابراہیم (۱۶۷) (چودھری) غلام محمد (بی اے) (۱۶۸) (صوفی) غلام محمد (مارشن) (۱۲۹) محمد علی اظهر (۱۷۰) مهدی شاه (دار الفضل) (۱۷۱) (قاضی) محمد عبد اللہ بھٹی (۱۷۲) غلام احمد مجاہد (۱۷۳) زین العابدین ولی اللہ شاہ (۱۷۴) عبد القدیر (سنوری) (۱۷۵) (ڈاکٹر) سید عبد الستار شاہ (۱۷۷) (شیخ) غلام مجتبی (۱۷۷) محمد ابراہیم (مدرس مدرسہ احمدیہ) (۱۷۸) (ڈاکٹر) احمد دین کھاریاں (۱۷۹) عبدالحمید شملہ (۱۸۰) عبد الرحمن خاکی.کوہ مری.رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ شکریہ احباب کرام.خاکسار (مرتب رسالہ ہذا) ان تمام بزرگوں اور احباب کا تہ دل سے شکر گزار ہے.کہ انہوں نے اشاعت رسالہ ہذا کے مصارف میں حصہ لیکر نہ صرف اس کام میں سہولت پیدا کی.بلکہ اس ذریعہ سے جناب الہی میں اس کام کے شرف قبول پانے کی بھی ایک راہ پیدا ہو گئی.(وَ عَلَيْهِ كُلّ تَوَكَّلِي وَ رَجَائِي) خصوصاً (الف) جن احباب اور بزرگوں نے اشاعت رسالہ کے کئی کئی حصص لئے.اور (ب) جنہوں نے حال کی اشاعت میں بھی حصہ لیا ہے.اور اس سے قبل کی اشاعت میں بھی لیا تھا.پھر (ج) جو اس دفعہ اس کام میں شریک ہوئے ہیں اور (د) جو اس سے قبل کی اشاعت میں شامل ہوئے تھے.نیز جن دیگر احباب نے کسی نہ کسی صورت میں (مثلاً حوالجات کے فراہم کرنے میں یا طباعت کے متعلقہ کاموں میں) مجھے مدد دی ہے میں ان تمام کا جذر قلب سے شکر گزار ہوں.اللہ تعالیٰ انہیں اس کا بہتر سے بہتر اور اعلیٰ سے اعلیٰ اجر دے.خاکسار محمد اسماعیل عفی عنہ.۱۸ جمادی الاخری ۱۳۵۳ھ مطابق ۲۸ ستمبر ۱۹۳۴ء یوم الجمعه
ی ک مدح نبوی از سید نا وامامنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایده الله بصرہ العزیز محمد ہماری پر فدا جاں ہے که وہ کوئے صنم کا رہنما ہے خدا کو اس سے مل کر ہم نے پایا وہی اک راہ دیں کا رہنما ہے ہو اس کے نام پر وہ قربان سب شاہنشہ ہر مرا ہر ذره ہو قربان 13 کچھ احمد سرا ہے مرے دل کا یہی اک مدعا ہے کے عشق میں نکلے مری جاں کہ یاد یار میں بھی اک مزا ہے اسی اسی سے میرا دل پاتا ہے تسکیں وہی آرام میری کا روح ہے مرا دل اس نے روشن کر دیا ہے اندھیرے گھر کا میر فهرست مضامین رساله درود شریف مضمون باب اول - فاتحہ الکتاب حمد اللی و مناجات از حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام (الف) بزبان عربی (ب) بزبان فارسی (ج) بزبان اردو باب دوم - مدح نبوی مدح نبوی بھی صلوۃ علی النبی میں داخل ہے (الف) مدح نبوی از قرآن کریم (ب) مدح نبوی در وحی حضرت مسیح موعود (ج) مدح نبوی از حضرت مسیح موعود (۱) بزبان عربی وہ دیا ہے مجھے اس بات پر فخر محمود مرا معشوق محبوب خدا ہے (۲) بزبان فارسی (کلام محمود) (۳) بزبان اردو صفحہ 19 ۴۱ ۵۶ ۹۷
۱۲۵ ۱۲۵ ۱۲۶ ۱۲۷ ۱۲۷ ۱۲۸ ۱۲۹ ۱۲۹ ۱۳۴ ۱۳۵ ۱۳۷ ۱۳۸ ١٣٩ ۱۴۰ ۱۴۰ ل باب سوم - درود شریف (الف) حکم قرآن کریم درباره درود شریف (ب) وحی و کشوف و رویائے حضرت مسیح موعود (ج) تعلیمات وارشادات حضرت مسیح موعود ا.ہدایات (1) شرائط بیعت میں درود کے التزام کی تاکید (۲) عملی طریق کی تعلیم میں درود کی تاکید (۳) درود پڑھنے کا صحیح طریق اور اس کی غرض (۴) درود شریف ذاتی محبت سے پڑھنا چاہئے (۵) درود شریف روحانی جوش سے پڑھنا چاہئے (۶) درود شریف کی حکمت (۷) درود لذت و انشراح سے پڑھنا چاہئے (۸) نماز میں درود وغیرہ دلی جوش سے پڑھنا چاہئے (۹) نماز میں درود اپنی زبان میں بھی پڑھنا چاہئے (۱۰) تہجد سے معذوری کے وقت درود وغیرہ اذکار کی ہدایت (11) دعا استخارہ میں درود شریف کی ہدایت (۱۲) کسی کرشمہ قدرت کے دیکھنے کے وقت درود کی ہدایت (۱۳) مجالس تذکرہ نبوی میں درود شریف (۱۴) دلائل الخیرات وغیرہ کے ورد کا کیا حکم ہے ۱۱۴ 112 112 HA IA ۱۱۸ 119 ۱۲۰ ۱۲۳ ۲- بركات (۱) درود دارین کی محمودیت کا ذریعہ ہے (۲) د رود نزول انوار نبویہ کا ذریعہ ہے (۳) درود زیارت نبوی و تنویر باطن کا ذریعہ ہے (۴) درود اندفاع قبض روحانی کا ذریعہ ہے (۵) درود رضا الہی و زیارت نبوی کا ذریعہ ہے (۶) درود حصول استقامت و قبولیت دعا کا ذریعہ ہے (۷) درود حصول شرف غلامی آنحضرت کا ذریعہ ہے (۸) د رود دفع عموم و افکار و حل مشکلات کا ذریعہ ہے - فضائل (۱) د رود استغفار و نماز بہترین وظیفہ ہے (۲) درود میں آنحضرت کے احسانات کی شکر گزاری ہے (۳) نمازوں میں حضرت مسیح موعود کی اصل دعاد رود شریف (۴) درود میں تمام دعائیں آجاتی ہیں (۵) درود ہی کا ہدیہ آنحضرت کو پہنچتا ہے (۶) درود کمی صدقہ کی تلافی کرتا ہے (۷) ملائکہ آنحضرت کو درود پہنچاتے ہیں (۸) حقیقی برکات صرف درود خواں پر نازل ہوتے ہیں
121 ۱۸۹ 199 ۲۰۴ ۲۰۵ ۲۰۹ ۲۱۰ ۲۱۲ ۲۱۳ ۲۱۳ ۲۱۴ ۲۲۶ ۲۳۲ 3 باب چهارم - احادیث نبویہ ا الفاظ درود شریف ۲- فضائل و برکات (۱) آنحضرت کے درود خواں پر خدا تعالی درود بھیجتا ہے (۲) د رود عفو ذنوب و حصول حسنات و رفع درجات کا ذریعہ ہے (۳) د رود باطنی پاکیزگی اور روحانی ترقی کا ذریعہ ہے (۴) درود جنت کی راہ ہے (۵) د رود نجات اخروی کا ذریعہ ہے (۶) درود قیامت کے روز آنحضرت کے قرب و تعلق خاص کا ذریعہ ہو گا (۷) درود شفاعت نبوی کا ذریعہ ہے (۸) د رود تمام دعاؤں سے افضل اور جامع دعا ہے (۹) درود قبولیت دعا کا ذریعہ ہے (۱۰) درود قضائے حاجات کا ذریعہ ہے (11) درود کشائش کا ذریعہ ہے (۱۲) درود دماغی پریشانی کے دور ہونے کا ذریعہ ہے (۱۳) درود بھولی ہوئی بات کے یاد آجانے کا ذریعہ ہے (۱۴) ورود کمی صدقہ کی تلافی کا ذریعہ ہے الدا ۱۴۱ 후흐 ۱۵۳ ۱۵۵ ۱۵۷ ۱۵۸ 141 ۱۶۲ ۱۶۳ ۱۷۲ ۱۷۴ ۱۵ ہر ایک درود خواں کی طرف سے آنحضرت کو درود پہنچتا ہے ۱۷۵ تاکید و اہمیت دیگر ہدایات (۱) درود پوری توجہ اور کوشش سے پڑھنا چاہئے (۲) درود کی محبت اور دلی خلوص سے پڑھنا چاہئے (۳) درود شریف کثرت سے پڑھنا چاہئے (۴) ورود کو دعا کا اصل اور اہم حصہ بنانا چاہئے (۵) قبولیت دعا کے خاص مواقع پر درود پڑھنا چاہئے (۶) گھر میں جا کر آنحضرت پر درود بھیجنے کی تاکید (۷) ہر ایک مجلس میں درود کی تاکید (۸) تمام انبیاء پر درود بھیجنے کی تاکید -۵- درود شریف کے بعض خاص خاص مواقع (الف) نماز کے آخری قعدہ میں درود شریف (ب) درود شریف کے بعض دیگر مواقع ۶ - الفاظ درود شریف باب پنجم.ارشادات ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح ثانی رضی اللہ عنہ درود پر خطبہ حضرت مولانا عبد الکریم رضی اللہ عنہ ۲۵۱ ۲۶۸ ۲۸۴
فاتحه الكتاب حمد الهی و مناجات باب اول ۲۹۰ ۲۹۱ ۲۹۲ ۲۹۵ ۲۹۵ ۲۹۶ ۲۹۸ ۳۰۲ ۳۰۷ ۳۰۹ ۳۱۸ ع بعض مزید ہدایات از حضرت مسیح موعود علیہ السلام (۱) درود روحانیت اور تقویٰ کے حصول کا ذریعہ ہے (۲) درود و استغفار بہترین وظیفہ ہے (۳) درود خدا سے بے نیاز نہیں کر دیتا (۴) درود حل مشکلات کی کلید ہے (۵) نزول برکات درود کی ایک شرط (۶) حصول تقویٰ کے لئے درود سے استعانت کا حکم بعض مزید ہدایات از حضرت خلیفۃ المسیح اول" ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام پر درود (1) قرآن کریم میں آپ پر درود بھیجنے کا حکم (۲) آپ کی وحی میں آپ پر درود بھیجنے کا حکم (۳) آپ کے ارشادات میں آپ پر درود بھیجنے کا حکم (۴) مولانا عبد الکریم کے ایک خطبہ جمعہ کا اقتباس (۵) آپ پر درود بھیجنے کا طریق از حضرت خلیفۃ المسیح ثانی (۶) آپ پر درود بھیجنے کے طریق مدح نبوی از حضرت سیده نواب مبارکه بیگم صاحبه سلام بحضور سید الانام صلی اللہ علیہ و سلم
رساله درود الرحيم بنا الله الرحمن الزين الحمدُ للهِ رَبِّ العلمين والصلوةُ وَالسَّلامُ عَلى خَيْرٍ رُسُلِهِ مُحَمَّدٍ وَالِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ (حقیقۃ الوحی- روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳) اما بعد فَاعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ o الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الصّالِينَ ) (میں) اللہ کا نام لے کر ( شروع کرتا ہوں) جو بے حد وسیع رحمت والا نہایت رحم کرنے والا ہے.حقیقی تعریف اللہ ہی کی شان کے لائق ہے جو تمام مخلوقات کا رب ہے بے حد وسیع رحمت والا نہایت رحم کرنے والا جزا کے دن کا مالک.(اے اللہ ) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے ہم مدد چاہتے ہیں.ہمیں سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا ہے.جن پر نہ تو ( تیرا) غضب نازل ہوا ہے اور نہ وہ جو گمراہ ہیں.ا
ر ساله درود شریف حمد اللی و مناجات از حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بزبان عربی يَا مَنْ أَحَاطَ الْخَلْقَ بِالْأَلاء نُثْنِي عَلَيْكَ وَ لَيْسَ حَوْلُ ثَنَاءِ اے وہ ذات جس کی نعمتیں تمام مخلوق پر حاوی ہیں ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور (حق یہ ہے کہ ہمیں تیری ثنا کی طاقت ہی نہیں.انت الملاذُ وَ اَنْتَ كَهُفُ نُفُوسِنَا في هَذِهِ الدُّنْيَا وَ بَعْدَ فَنَاءِ تو ہی ہمارے لئے پناہ ہے اور تو ہی ہماری جانوں کے لئے جائے پناہ ہے اس دنیا میں بھی اور موت کے بعد بھی.إِنَّا رَبَّيْنَا فِي الظُّلامِ مُصِيبَةٌ فَارْحَمْ وَ اَنْزِلْنَا بِدَارِ ضِيَاءٍ ہم نے تاریکیوں میں سخت مصیبت اٹھائی ہے پس تو رحم فرما اور ہمیں روشنی کے مقام میں اتار.تَعْفُو عَنِ الذَّنْبِ الْعَظِيمِ بِتَوْبَةٍ تُنجى رِقَابَ النَّاسِ مِنْ أَعْبَاء تو رحمت کے ساتھ رجوع فرما کر بڑے سے بڑے گناہ معاف کر دیا کرتا ہے.تو لوگوں کی گردنوں کو طرح طرح کے بوجھوں سے نجات دیتا ہے.أنتَ الْمُرَادُ وَ انْتَ مَطْلُبُ مُهْجَتِى و عَلَيْكَ كُلِّ تَوَكَّلِى وَ رَجَانِي رساله درودش تو ہی میرا مطلوب ہے اور تو ہی میری روح کی مراد ہے اور تجھی پر میرا تمام بھروسہ اور امید ہے.إني أموتُ وَ لَا يَمُوتُ مَحَبَّنِي يُدرى بِذِكْرِكَ فِي التُّرَابِ نِدَائِي مجھے پر تو موت کا وقت آئے گا مگر میری محبت پر کبھی موت نہیں آئے گی تیرے ذکر کی آواز میری قبر سے بھی آتی رہے گی.مَا شَاهَدَتْ عَيْنِي كَمِثْلِكَ مُحْسِنًا يا وَاسِعَ الْمَعْرُوفِ ذَا النُّعَمَاءِ میری آنکھوں نے تجھ سا کوئی محسن نہیں دیکھا.اے وسیع احسان کرنے والے اور بے حد کرم کرنے والے! لَمَّا رَأَيْتُ كَمَالَ لُطْفِكَ وَ النَّدَى ذَهَبَ الْبَلاءُ فَمَا أُحِسُّ بَلَائِي جب میں نے تیری حد درجہ کی مہربانی اور بخشش دیکھی تو میری سبب تکلیفیں جاتی رہیں.حتی کہ مجھے اپنی کوئی تکلیف یاد تک بھی نہیں.من الرحمن - روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۱۶۹)
رساله درود شریف ايضاً بزبان فارسی محبت تو دوائے ہزار بیماری بروئے تو کہ رہائی دریں گرفتاری ست پناہ روئے تو جستن نه طور مستان است که آمدن به پناهت کمال ہشیاری ست متاع مهر رخ تو نہاں نخواهم داشت کہ خفیه داشتن عشق تو ز غداری ست بر آن سرم کہ سر و جاں فدائے تو بکنم کہ جان به یار سپردن حقیقت یاری ست ( آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه (۲) (1) تیری محبت سینکڑوں بیماریوں کی ایک ہی) دوا ہے.تیرے چہرہ کی قسم کہ نجات اس گرفتاری میں ہی ہے.(۲) تیرے چہرہ کی پناہ لینا مستوں کا کام نہیں.بلکہ تیری پناہ میں آنا تو کمال درجہ کی ہوشیاری ہے.(۳) میں تیری محبت کے سرمایہ کو پوشیدہ نہیں رکھوں گا.کیونکہ تیرے عشق کو پوشیدہ رکھنا بیوفائی میں داخل ہے.(۴) میں نے عزم کر لیا ہے کہ اپنا جسم اور جان تجھ پر فدا کر دو نگا.کیونکہ اپنی جان محبوب کے سپرد کر دینا ہی محبت کی حقیقت ہے.رساله درود شریف ايضاً اے خالق ارض و سما بر من در رحمت کشا دانی تو آں درد مرا کز دیگراں پنہاں کنم از بس لطیفی دلبرا در هر رگ و تارم درآ تا چون به خود یابم ترا دل خوشتر از بستان کنم در سر کشی اے پاک خو جاں بر کنم در ہجر تو ز انسان ہے گریم کزو یک عالمے گریاں کنم " خواهی قهرم کن جدا خواهی بلطفم رونما خواهی بکش یا کن رہا کے ترک آں داماں کنم (براہین احمدیہ - روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۱۳) (۱) اے زمین و آسمان کے خالق مجھ پر اپنی رحمت کا دروازہ کھول دے تو میرے درد کو جانتا ہے جسے میں اوروں سے چھپاتا ہوں.(۲) اے میرے دلبر تو بہت ہی لطیف ہے.تو میرے وجود کے ہر رگ وریشہ کے اندر آجا.تاکہ جب میں تجھے اپنے اند ر پاؤں تو میرا دل باغ باغ ہو جائے.(۳) اور اے پاک خو.اگر تو نے میری عرض نہ مانی تو میں تیری جدائی کی تاب نہ لا کر اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالوں گا.میں ایسا روؤں گا.کہ اپنے ساتھ ایک جہان کو رلا دونگا.(۲) اب چاہے تو اپنے قہر کے ساتھ مجھے جدا کر دے.چاہے تو مہربانی فرما کر مجھے اپنا چہرہ دکھا دے.چاہے تو مار ڈال یا بچالے.میں تیرا دامن کبھی نہیں چھوڑونگا.
رساله درود شریف ايضا چہ شیریں منظری اے دلستانم چہ شیریں خصلتی اے جان جانم چو دیدم روئے تو دل در تو بستم نمانده غیر تو اندر جهانم توان برداشتن دست از دو عالم مگر ہجرت بسوزد استخوانم در آتش تن به آسانی توان داد ز ہجرت جاں رود باصد فغانم (حقیقۃ الوحی- روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۵۶) ايضاً اے خشک دیده که گریانش اے ہمایوں دلے کہ بریانش اے مبارک کے کہ طالب اوست فارغ از عمرو و زید بارخ دوست در حقیقت بس است یار یکے دل یکے جاں یکے نگار یکے (براہین احمدیه - روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۲۵) (1) اے میرے محبوب تیری صورت کیسی پیاری ہے.اے میری جان کی جان ! تیری خصلتیں کیسی شیریں ہیں.(۲) جب میں نے تیرا چہرہ دیکھا.تو میں تیرا گرویدہ ہو گیا.اب تمام جہان میں تیرے سوا میرا اور کوئی (محبوب) نہیں ہے.(۳) دونوں جہانوں کو چھوڑا جا سکتا ہے.مگر تیری جدائی کی مجھ میں برداشت نہیں.وہ تو میری ہڈیوں تک کو جلا دے گی.(۴) آگ میں پڑنا آسان ہے مگر تیری جدائی تو مجھے رلا دلا کر مار ہی ڈالے گی.(ایضاً) (۱) وہ آنکھ کیا ہی ٹھنڈی ہے جو اس کے لئے روتی ہے.وہ دل کیا ہی مبارک ہے جو اس کی محبت سے بریاں ہے.(۲) وہ شخص کیا ہی مبارک ہے جو اس کا طالب ہے اور اپنے محبوب کے چہرہ کے عشق میں محو ہو کر اوروں سے فارغ ہے.(۳) حقیقت میں وہ ایک ہی محبوب کافی ہے جس طرح دل ایک ہے.اور جان بھی ایک ہے.اسی طرح محبوب بھی ایک ہی ہونا چاہئے.ايضاً بزبان اردو رساله درود شریف قدر ظاہر ہے نور اس مبدء الانوار کا بن رہا ہے سارا عالم آئینہ انصار کا چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بیکل ہو گیا کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمال یار کی اس بہار حسن کا دل میں ہمارے جوش ہے مت کرد کچھ ذکر ہم سے ترک یا تاتار کا ہے عجب جلوہ تری قدرت کا پیارے ہر طرف جس طرف دیکھیں وہی رہ ہے تیرے دیدار کا خورشید میں موجیں تری مشہور ہیں ہر ستارے میں تماشا ہے تری چکار کا تو نے خود روحوں پہ اپنے ہاتھ سے چھڑکا نمک اس سے ہے شور محبت عاشقان زار کا کیا عجب تو نے ہر اک ذرہ میں رکھے ہیں خواص کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر ان اسرار کا تیری قدرت کا کوئی بھی انتہا پاتا نہیں کس سے کھل سکتا ہے بیچ اس عقدہ دشوار کا خوبرؤوں میں ملاحت ہے ترے اس حسن کی ہر گل و گلشن میں ہے رنگ اس ترے گلزار کا چشم مست ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے
ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا آنکھ کے اندھوں کو حائل ہو گئے سو سو حجاب ورنہ تھا قبلہ ترا رخ کافر و دیندار کا ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا اک تیغ تیز جس سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غم اغیار کا تیرے ملنے کے لئے ہم مل گئے ہیں خاک میں تا مگر درماں ہو کچھ اس ہجر کے آزار کا ایک دم بھی کل نہیں پڑتی مجھے تیرے سوا جاں گھٹی جاتی ہے جیسے دل گھٹے بیمار کا شور کیسا ہے ترے کوچہ میں لے جلدی خبر خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا سرمه چشمه آرید - روحانی خزائن جلد ۲ صفحه (۵۲) ايضاً دنیا میں عشق تیرا باقی ہے سب اندھیرا معشوق ہے تو میرا عشق صفا یہی ہے لئے اڑایا مشت غبار اپنا تیرے جب سے سنا کہ شرط مهر و وفا یہی ہے درد آیا حرف خودی مٹایا جب میں مرا جلایا جام بقا کی ہے دلبر کا اس عشق میں مصائب سو سو ہیں ہر قدم میں پر کیا کروں کہ اس نے مجھ کو دیا یہی ہے رساله در دو حرف وفا نہ چھوڑوں اس عہد کو نہ توڑوں اس دلبر ازل نے مجھ کو کہا یہی ہے دلبر کی رہ رہ میں یہ دل ڈرتا نہیں کسی سے ہشیار ساری دنیا اک باولا یہی ہے ہیں اس رہ میں اپنے قصے میں تم کو کیا سناؤں دکھ درد کے جھگڑے سب ماجرا کی ہے.دل کر کے پارہ پارہ چاہوں میں اک نظارہ دیوانه مت کہو تم عقل رسا یہی ہے اے میرے یار جانی کر خود ہی مہربانی مت کہہ تو لن ترانی تجھ سے رجا یہی ہے فرقت بھی کیا بنی ہے ہر دم میں جانکنی ہے عاشق جہاں مرتے وہ کربلا میں ہے تیری وفا ہے پوری ہم میں ہے عیب دوری طاعت بھی ہے ادھوری ہم پر بلا کی ہے تجھ میں وفا ہے پیارے بچے ہیں عہد سارے ہم جا پڑے کنارے جائے پکا کہی ہے پر تو کھلا رہی ہے ہم نے نہ عمد پالا یاری میں رخنہ ڈالا ہے فضل والا ہم پر اے میرے دل کے درماں ہجراں ہے تیرا سوزاں جس کو دوزخ وہ جانگزا یہی ہے کہتے ہیں ( قادیان کے آریہ اور ہم.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۵۱ تا ۳۵۳) i
اللہ درود شریف ۱۲ ايضاً تجھے سب زور و قدرت ہے خدایا تجھے پایا ہر اک مطلب کو پایا ہر اک عاشق نے ہے اک بت بنایا ہمارے دل میں یہ دلبر سمایا وہی آرام جاں اور دل کو بھایا وہی جس کو کہیں رب البرایا ہوا ظاہر قَبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي مجھے وہ بالا یادی ہے مجھے اس یار سے پیوند جاں ہے وہی جنت وہی دار الاماں ہے بیاں اس کا کروں طاقت کہاں ہے محبت کا تو اک دریا رواں ہے کیا احساں ترے ہیں میرے ہادی سبحان الَّذِي أَثْرَى الْأَعَادِي تری رحمت کی کچھ قلت نہیں ہے تمہی اس سے کوئی ساعت نہیں ہے شمار فضل اور رحمت نہیں ہے مجھے اب شکر کی طاقت نہیں ہے کیا احسان ہیں تیرے میرے ہادی فسبحان الَّذِي أَخرَى الأعادي ترے کوچہ میں کن راہوں سے آؤں وہ خدمت کیا ہے جس سے تجھ کو پاؤں محبت ہے کہ جس سے کھینچا جاؤں خدائی ہے خودی جس سے جلاؤں محبت چیز کیا کس کو بتاؤں وفا کیا راز ہے کس کو سناؤں میں اس آندھی کو اب کیونکر چھپاؤں یہی بہتر کہ خاک اپنی اڑاؤں کہاں ہم اور کہاں دنیائے مادی فحان الَّذِي أَخرَى الأَعادِي رساله و رو کوئی اس پاک سے جو دل لگاوے کرے پاک آپ کو تب اس کو پاوے جو مرتا ہے وہی زندوں میں جاوے جو جلتا ہے وہی مردے جلا دے ثمر ہے دور کا کب غیر کھادے چلو اوپر چلو اوپر کو وہ نیچے نہ آوے نہاں اندر نہاں ہے کون لاوے غریق عشق وہ موتی اٹھاوے مجھے تو نے دولت اے خدا دی نَبْحَانَ الَّذِي أَخرى ايضاً الأعادي ( آمین صاحبزادگان) اے خدا اے کارساز و عیب پوش و کردگار اے مرے پیارے مرے محسن میرے پروردگار کس طرح تیرا کروں اے ذوالمنن شکر و سپاس وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار اے فدا ہو تیری رہ میں میرا جسم و جان ودل میں نہیں پاتا کہ تجھ سا کوئی کرتا ہو پیار اس قدر مجھ پر ہوئیں تیری عنایات وکرم جن کا مشکل ہے کہ تا روز قیامت ہو شمار باغ میں تیری محبت کے عجب دیکھے ہیں پھل ملتے ہیں مشکل سے ایسے سیب اور ایسے انار ہے تیرے بن اے میری جاں یہ زندگی کیا خاک ایسے جینے سے تو بہتر مر کے ہو جانا غبار
ماله درود شریف گر ۱۴ نہ ہو تیری عنایت عبادت بیچ ہے فضل پر تیرے ہے سب جہد و عمل کا انحصار جن یہ ہے تیری عنایت وہ بدی سے دور ہیں رہ میں حق کی قوتیں ان کی چلیں بن کر قطار چھٹ گئے شیطاں سے جو تھے تیری الفت کے اسیر جو ہوئے تیرے لئے بے برگ و بر پائی بہار سب پیاسوں سے نکوتر تیرے منہ کی ہے پیاس جس کا دل ہے اس سے بریاں پا گیا وہ آبشار جس کو تیری دھن لگی آخر وہ تجھ کو جا ملا جس کو بے چینی ہے یہ وہ پا گیا آخر قرار علامت گریه و دامان دشت عاشقی کی ہے کیا مبارک آنکھ جو تیرے لئے ہو اشکبار تیری درگہ میں نہیں رہتا کوئی بھی بے نصیب شرط رہ پر صبر ہے اور ترک نام اے مرے پیارے جہاں میں تو ہی ہے اک بینظیر جو ترے مجنوں حقیقت میں وہی ہیں ہوشیار اس جہاں کو چھوڑنا ہے تیرے دیوانوں کا کام نقد پا لیتے ہیں وہ اور دوسرے امید وار اضطرار کون ہے جس کے عمل ہوں پاک بے انوار عشق کون کرتا ہے وفا بن اس کے جس کا دل فگار ۱۵ رساله درود شریفه کون چھوڑے خواب شیریں کون چھوڑے اکل و شرب کون لے خار مغیلاں چھوڑ کر پھولوں کے ہار کوئی عشق ہے جس سے ہوں طے یہ سارے جنگل پر خطر عشق ہے جو سر جھکا دے زیر تیغ آبدار نزدیک تر راہ محبت سے نہیں طے کریں اس راہ سے سالک ہزاروں دشت خار اس کے پانے کا یہی اے دوستو اک راز ہے ره کیمیا ہے جس سے ہاتھ آ جائے گا زر بے شمار تیر تاثیر محبت کا خطا جاتا نہیں تیر اندازد نہ ہونا اس میں زینهار ہے یہی اک آگ تا تم کو بچاوے اگ سے ہے یہی پانی کہ نکلیں جس سے صدہا آبشار اس سے خود آ کر ملے گا تم سے سے وہ یار ازل اس سے تم عرفان حق سے پہنو گے پھولوں کے ہار (براہین احمدیہ حصہ پنجم.روحانی خزائن ۲۱ صفحہ ۱۲۷)
باب دوم 16 رساله درود شریف مدح نبوی المال العالم قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام
19 رساله درود ل مضمون یہ مضمون محض تمہیدی نہیں بلکہ دراصل اس رسالہ کے نفس کا ایک حصہ ہے کیونکہ صلوۃ کے معنے دعا کے علاوہ مدح و ثنا اور اظہار عظمت کے بھی ہیں.پس آیت اِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النّبِيِّ يَاتُهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا میں ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے حق میں دعائیں کرنے کا ہی حکم نہیں دیا گیا بلکہ آپ کے محامد بیان کرنے اور آپ کی عظمت شان کے اظہار کا بھی حکم دیا گیا ہے.علاوہ اس کے یہ حکم ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے احسانات کی شکر گزاری کے لئے دیا گیا ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:." آپ کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالی نے ہمیشہ کے لئے یہ حکم دیا کہ آئندہ لوگ شکر گزاری کے طور پر ( آپ پر درود بھیجیں" (اخبار الحکم جلدے نمبر ۱۵ صفحه ۲) 1 - لفظ صلوٰۃ کے معنے کتب لغت میں حسب ذیل لکھتے ہیں:.(1) حسن مثالیعنی بہترین تعریف (۲) رحمت (۳) مسلسل طور پر رحمت کرتے چلے جانا (۴) دعا (۵) استغفار (۶) خیر و برکت کے لئے دعا کرنا (۷) تسبیح (۸) تعظیم و تکریم (۹) برکت بخشا (۱۰) برکت چاہنا (11) لزوم اور دوام (۱۲) اول رہنا (۱۳) گھڑ دوڑ وغیرہ میں دوم نمبر پر رہنا (۱۴) بهترین جانشین کا بلا فصل اور بلا توقف قائم ہو جانا (لفظی معنے بعد میں آنے والے فرد کا ایسے طور پر بلا فصل ساتھ ہی آپہنچنا کہ گویا پہلے فرد کے ساتھ دوسرا فرد ٹکرا رہا ہے) (۱۵) نماز (۱۷) معبد یعنی عبادت گاہ.منہ
رساله درود شریف اور شکر گزاری کے حقیقی طریقے یہی دونوں ہیں لینی محسن کی مدح وثنا اور محسن کے لئے دعا.جیسا کہ حدیث میں آتا ہے:.عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ أَتَاهُ الْمُهَاجِرُونَ - فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللهِ مَا رَأَيْنَا قَوْمًا أَبْذَلَ مِنْ كَثِيرِ وَلَا أَحْسَنَ مُوَاسَاةٌ مِّنْ قَلِيْلٍ مِّنْ قَوْمٍ نَزَلْنَا بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ لَقَدْ كَفَوْنَا الْمَؤْنَةٌ وَاشْرَكُونَا فِي الْمَهُنَا - حَتَّى لَقَدْ خِفْنَا أَنْ يَذْهَبُوا بِالْأَجْرِ كُلِهِ - فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا مَا دَعَوْتُم الله لَهُمْ وَالْتُمْ عَلَيْهِمْ (جامع ترمذی ابواب الزهد) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے.کہ جن ایام میں آنحضرت اما مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تھے.انہی ایام میں ایک دفعہ مہاجرین نے آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ جن لوگوں کے پاس ہم آکر اترے ہیں.ان سے بڑھکر کوئی فراخ دل اور ہمدردی کرنے والا ہم نے نہیں دیکھا.جس کے پاس مالی وسعت تھی.اس نے اپنے کثیر مال کو ہمارے لئے وقف کر دیا ہے.اور جو وسعت نہیں رکھتا اس نے دوسرے رنگ میں کمال درجہ کی ہمدردی سے کام لیا ہے.محنت خود کرتے ہیں.اور اپنے سامان معیشت میں ہمیں بھی برابر کے حصہ دار بناتے ہیں.ہمیں تو اندیشہ ہے کہ سارے کا سارا اجر وہی نہ لے جائیں.اور ہم کہیں محروم ہی نہ رہ جائیں.حضور نے اس کے جواب میں فرمایا.کہ جبتک تم ان کے لئے اللہ تعالٰی کی جناب میں دعائیں اور ان کی مدح و ثناء کرتے رہو گے اس وقت تک ایسا نہیں ہو گا.(بلکہ تم بھی ویسا ہی اجر پاؤ گے) اس کے علاوہ آیت: ۲۱ رساله درود شریف إِنَّا اَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَيِّرًا وَنَذِيرًا لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَاصِيْلاً (فتح...ترجمہ: (اے نبی) ہم نے تمہیں اپنی ہستی کا اور اپنی باتوں کام گواہ، رحمتوں کی بشارت دینے والا اور (عذاب سے آگاہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے.تاکہ (اے لوگو) تم اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ.اور اس (رسول) کی مدد کرو.اور اس کی تعظیم کرو.اور صبح و شام اس کی (یعنی اللہ تعالیٰ کی ہی تسبیح کرو.کی رو سے بھی ہر مومن کے لئے آنحضرت مال کے محامد کو پھیلانا اور آپ کی مدح وثناء اور عظمت شان کا اظہار کرنا اسی طرح ضروری ہے.جیسا کہ آپ پر درود بھیجنا ضروری ہے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ پس اس بنا پر درود شریف کے مضمون کو شروع کرنے سے قبل قرآن کریم میں سے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وحی اور منظوم کلام میں سے کسی قدر آنحضرت مالیم کے محامد بیان کئے جاتے ہیں.اور حقیقت یہ ہے.کہ آنحضرت میا کے محامد اور عظمت شان کو خدا تعالیٰ ہی بہتر بیان کر سکتا ہے.اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جن کو اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لئے بھیجا ہے.اللّهُمَّ صَلَّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَأَصْحَابِ مُحَمَّدٍ وَ عَلَى عَبْدِكَ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ وَبَارِكَ وَسَلَّم اس ضمیر کا مرجع بھی آنحضرت امال ہو سکتے ہیں.(خاکسار مرتب)
رساله و رود شریف ۳۲ آنحضرت م کی عظمت شان کے متعلق بعض آیات قرآن کریم (!) وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً (بقرہ:۳۱) اے رسول (یاد کرو) جب تمہارے رب نے (تمہاری ربوبیت کے سلسلہ میں فرشتوں سے کہا کہ میں زمین پر ایک نائب پیدا کر نیوالا ہوں (یعنی آدم کی خلافت بعثت محمدیہ کے لئے محض بطور تمہید تھی) (۲) قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ۖ قُلْ أَطِيعُوا الله وَالرَّسُولَ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللهَ لا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ (آل عمران (٣٢) (اے پیغمبر! لوگوں سے) کہدو - کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو.تو میری پیروی کرو.(ایسا کرو گے) تو (خود) وہ تم سے محبت کرے گا.اور تمہاری تقصیریں معاف اور کمزوریاں دور کر دے گا اور اللہ بہت ہی بخشنے والا (اور) نہایت رحم کرنے والا ہے تم (انہیں) کہو.کہ اللہ کی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو.پس اگر وہ روگردان ہو جائیں.تو (یاد رکھیں کہ اللہ کافروں سے محبت نہیں رکھتا.۲۳ رساله درود شریف وَإِذْ اَخَذَ اللهُ مِيْفَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا أَتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتب وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَ كُمْ رَسُولُ تُصَدِّقَ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِه وَلْتَنْصُرُنَّهُ (آل عمران:۸۴) اور (یاد کرو) جب اللہ نے تمام انبیاء سے عہد لیا.کہ میں نے تمہیں جو بھی کتاب اور حکمت دی ہو وہ خواہ کتنی ہی عظیم الشان کیوں نہ ہو) اس کے بعد تمہارے پاس (یا تمہارے پیروؤں کے پاس) جو ایسا رسول آئے.کہ وہ (میرے) اس (کلام کے وعدوں) کو (پورا کر کے اسے) سچا ثابت کرنیوالا ہو.جو تمہارے پاس ہو تو تمہارے لئے (اور تمہارے پیروؤں کے لئے) اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا لازم اور ضروری ہو گا.(۴) فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ (آل عمران (١٢) اس عظیم الشان رحمت کی وجہ سے جو ( تمہیں) اللہ کی طرف سے (عطا ہوئی) ہے.تم ان کے لئے نرم دل واقع ہوئے ہو.(۵) فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيْدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا يَوْمَئِذٍ يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَعَصَوا الرَّسُولَ لَوْ تُسَوَّى بِهِمُ الْأَرْضُ وَلَا يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثًا (النساء : ٢٢) ب ہم ہر ایک قوم میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے.اور ان (تمام) پر تمہیں گواہ ٹھہرائیں گے اس وقت ان کی کیا حالت ہو گی.اس روز اس رسول کے منکر اور نافرمان لوگ تمنا کریں گے.کہ کاش ہمیں زمین سے قرآن شریف فرماتا ہے کہ ہر ایک امت سے بذریعہ ان کے نبی کے یہ عہد لیا گیا تھا.(حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۷۸)
رساله درود شریف ۲۴ پیوند کر دیا جائے.اور وہ اللہ سے کوئی بات چھپا نہیں سکتے.(1) وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ - وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاء ُ وَكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِى أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا - وَلَوْانَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِنْ دِيَارِكُمْ مَّا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِيلٌ مِّنْهُمْ وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَشَدَّ تَنْبِيْتًا وَإِذَا لَا تَيْنَهُمْ مِنْ لَّدُنَّا أَجْرًا عَظِيمًا وَلَهَدَيْنَهُمْ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا- وَمَنْ تُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالتّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أولَئِكَ رَفِيقًا - ذَلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللهِ وَكَفَى بِاللهِ عَلِيمًا - (النساء:۱۵ تاه) اور ہم نے جو بھی رسول بھیجا ہے وہ اسی لئے بھیجا ہے) کہ اللہ کے اذن سے اسکی فرمانبرداری کی جائے.اور اگر یہ لوگ ایسا کرتے کہ ) جب ان سے اپنے آپ پر ظلم ہو تا تو (اے رسول) تمہارے پاس آکر اللہ کی بخشش کے طالب ہوتے اور (اللہ کا) یہ رسول ان کیلئے (اللہ تعالیٰ سے بخشش چاہتا تو وہ یقیناً اللہ کو بہت ہی رجوع برحمت کرنے والا اور رحمت پر رحمت کرنے والا پاتے.پس (اے رسول) تمہارے رب کی قسم ہے.کہ جب تک یہ ۲۵ (لوگ) ایسا نہیں کریں گے.کہ ہر اس نزاع میں جو ان میں پیدا ہو.تم سے فیصلہ کی درخواست کریں پھر جو (بھی) تم فیصلہ کر دو.اس کے متعلق اپنے سینوں میں کوئی تنگی نہ پائیں.اور (اسے) پورے طور پر بہت اچھی طرح سے تسلیم کر لیں وہ مومن نہیں بنیں گے.اور اگر ہم انہیں حکم دیتے.کہ تم ایک دوسرے کو قتل کرو.یا اپنے گھروں (اور اپنے وطن) سے چلے جاؤ.تو ان میں سے چند افراد کے سوا کوئی ایسا نہ کرتا.اور اگر یہ لوگ اس نصیحت پر چلتے جو انہیں کی جاتی ہے.تو ان کے حق میں بہتر ہو تا.اور ان کی ثابت قدمی کا بہت بڑا موجب ہوتا.اور اس صورت میں ہم انہیں یقیناً بڑا عظیم الشان اجر دیتے اور ایک درست راستے پر انہیں قائم کر دیتے.اور جو لوگ اللہ کی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کریں گے.وہ ان لوگوں میں شامل ہونگے جن پر اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہے.یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین.اور یہ بہت ہی اچھے رفیق ہیں.یہ اللہ کا بہت بڑا فضل ہے.اور اللہ جاننے والا کافی ہے.(<) وَكَانَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكَ عَظِيما النساء (اے رسول) تم پر اللہ کا بہت ہی بڑا فضل ہے.(۸) يَاهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَ كُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِّمَّا كُنتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَبِ وَيَعْفُوا عَنْ كَثِيرٍ قَدْ جَاءَ كُمْ من الله تورو كتب مُّبِينَ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلمِ وَيُخْرِجَهُمْ مِنَ الظُّلمتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ
رساله و ۲۶ وَيَهْدِيهِمْ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمَ (مائده :) اے اہل کتاب تمہارے پاس ہمارا (موعود) رسول آگیا ہے.جو تمہیں (تمہاری) کتاب کی بہت سی باتیں جنہیں تم چھپاتے تھے کھول کر بتاتا ہے.اور تمہاری بہت سی (قابل مواخذہ) باتیں (تمہیں) معاف کر دیتا ہے (دیکھو!) تمہارے پاس اللہ کا ایک نور آگیا ہے.اور (نیز) ایک روشن کتاب (آگئی ہے جس کے ذریعہ سے اللہ ان لوگوں کو جو اس کی خوشنودی کے مطابق چلتے ہیں.سلامتی کی راہیں دکھاتا اور اپنے دیے ہوئے) علم کے ذریعہ سے انہیں تمام قسم کی ظلمتوں سے نکال کر نور میں لاتا اور ایک راہ راست پر قائم کر دیتا ہے.(9) قُلْ إِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَتِ الْعَلَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (انعام: ۱۶۳) (اے ہمارے رسول لوگوں سے) کہہ دو.کہ میری نماز اور میری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا (سب) اللہ کے لئے ہے.جو (تمام اقوام اور تمام مخلوقات کا رب ہے.اس کا کوئی بھی شریک نہیں.اور مجھے یہی حکم دیا گیا ہے اور میں (اس کا سب سے اول (مرتبہ پر) فرمانبردار ہوں (۱۰) الَّذِيْنَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مكتوبا عندَهُمْ فِي التَّوْرَةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَ ينههُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَ يُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهُمُ رساله درود شریف الخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالأغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّور الَّذِى أَنْزِلَ مَعَةَ أولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ - قُلْ يَاتِهَا النَّاسُ اِنّى رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ فَامِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النبي الأمي الذي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ هتَدُونَ (اعراف ۱۵۸ تا ۱۵۹) جو اس امی رسول اور نبی کی پیروی کرتے ہیں.جس (کے ذکر) کو وہ اپنے ہاں تو رات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں.جو انہیں اچھی باتوں کی طرف بلاتا اور بری باتوں سے روکتا ہے.اور پاکیزہ چیزوں کو ان کے لئے حلال ٹھیرا تا اور بری چیزوں کو ان پر حرام قرار دیتا ہے.اور ان کے بوجھوں کو ان پر سے اتارتا ہے.اور ان پھندوں کو بھی ان سے دور کرتا ہے) جن میں وہ پڑے ہوئے تھے.سو جو لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں.اور اس کی تعظیم و تکریم کرتے اور اس کی مدد کرتے ہیں.اور جو نور اس کے ساتھ اتارا گیا ہے.اس کی پیروی کرتے ہیں.وہی کامیاب ہوں گے (اے رسول! لوگوں سے) کہہ دو.کہ میں اللہ کی طرف سے جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے.تم سب کی طرف رسول ہوں.اس کے سوا کوئی بھی چیز پرستش کے قابل نہیں ہے.وہ جلاتا ہے اور مارتا ہے.پس تم اللہ پر اور اس کے اس امی رسول اور نبی پر جو اللہ پر اور اس کی تمام باتوں پر ایمان رکھتا ہے.ایمان لاؤ.اور اس کی پیروی کرو.تا کہ تم ہدایت پاؤ.
رساله درود شریف ۲۸ (IF): وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمى (انفال ) اور (اے رسول جو کچھ تم نے چلایا تھا) جب (بظاہر) تم چلا رہے تھے.تو اسے (در حقیقت) تم نے نہیں بلکہ اللہ نے چلایا تھا.(۱۲) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيْبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ (انفال (۲۵) اے مومنو! اللہ کا حکم مانو.اور اس کے رسول کا حکم بھی (مانو) جب وہ تمہیں بلائے کیونکہ وہ تمہیں زندگی بخشتا ہے.(۱۳) وَمَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيْهِمْ وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ (انفال:۳۳) (اے پیغمبر) ایسا نہیں ہو سکتا.کہ تم ان لوگوں میں موجود ہو.اور پھر اللہ انہیں عذاب دے اور نہ ہی یہ ممکن ہے.کہ وہ تو استغفار کر رہے ہوں اور اللہ تعالیٰ انہیں عذاب دیتا چلا جائے.(۱۴) نايها النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (انفال: ۱۵) اے نبی اللہ تعالیٰ کی مدد) تمہارے لئے بھی کافی ہے.اور ان مومنوں کے لئے بھی جنہوں نے تمہاری پیروی اختیار کرلی ہے.۲۹ (10) رساله درود شریف اذُنُ خَيْر لَكُمْ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ (توبه ۲۱) (لوگو اس نبی کا کان) تمہارے حق میں بہتری کا کان (ہے وہ) اللہ پر ایمان رکھتا ہے.اور مومنوں کا کہنا بنتا ہے.اور تم میں سے جو لوگ ( بچے طور پر) ایمان لائے ہیں.ان کے لئے (اسکا وجود مجسم) رحمت ہے.ہے (۱۶) إِنَّ صَلونَكَ سَكَن لَّهُمْ (توبه ۳) (اے رسول) تمہاری دعا ان کے حق میں تسکین کا موجب (اور سہارا) (12) لَقَدْ جَاءَ كُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزُ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمُ (توبه :۲۸) (اے لوگو) تمہارے پاس خود تمھی میں سے ایک رسول آیا ہے.جسے تمہاری تکلیف (سخت) شاق گزرتی ہے.وہ تمہاری بھلائی کا بہت ہی خواہشمند ہے.(اور) مومنوں پر بہت ہی شفقت اور رحمت رکھتا ہے.(IA) قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي ادْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي (يوسف) (اے رسول! لوگوں سے) کہہ دو کہ یہ میری راہ ہے (اور) میں بھی برت پر قائم ہو کر (تمہیں) اللہ کی طرف بلاتا ہوں.اور جو میرے پیرو
رساله درود شریف ہیں.وہ بھی.الْحَدِيثِ أَسَفًا (كهف) ۳۱ رساله درود (19) بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَى صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ اللَّهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ (ابراہیم:) (اے رسول) اس کتاب کو ہم نے اس لئے اتارا ہے.کہ سب لوگوں کو تم ان کے رب کے حکم سے ظلمتوں میں سے نکال کر نور کی طرف یعنی اس غالب اور تمام تعریفوں کے مالک اللہ کی راہ کی طرف لاؤ.جو آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں کا مالک ہے.(۲۰) ۷۳) لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ (حجر: ٢٣) (اے رسول) تمہاری پاک زندگی کی قسم ہے کہ یہ (لوگ بھی) اپنی (بد) مستی میں پڑے بھٹک رہے ہیں.(۲۱) عَسَى أَن يَبْعَتَك رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا (اسراء ۸) (اے رسول) قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں مقام محمود پر کھڑا کرے.(۲۲) إِنَّ فَضْلَهُ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيرًا (اسراء ۸۸) (اے رسول) اس کا تم پر بہت بڑا فضل ہے.(۲۳) لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى أَثَارِهِمْ إِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا (اے پیغمبر) اگر یہ (لوگ) ایمان نہ لائے.تو تم شاید ان کے پیچھے اور ان کے غم میں اپنے آپ کو ہلاکت تک پہنچا دو.(۲۴) وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِينَ (انبیاء : ۱۰۸) اور (اے پیغمبر) ہم نے تمہیں تمام اقوام عالم (اور تمام مخلوق) کے لئے سراسر رحمت بنا کر بھیجا ہے.(۲۵) مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ تُبرَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارُ نُورُ عَلَى نُورٍ يَهْدِى اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ وَ يَضْرِبُ اللهُ الأمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِهُمْ فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَفِيهَا اسْمة - (نور۳ - ۳۷) اس کے (یعنی اللہ تعالیٰ کے نور کی مثال ایسی ہے.جیسے ایک طاق ہو.جس میں ایک روشن چراغ (رکھا) ہو.وہ چراغ ایک قندیل میں ہو.اور قندیل ایسی ہو کہ گویا وہ موٹے موتیوں کا سا ایک درخشاں ستارہ ہے.اس (چراغ) کو ایک مبارک درخت کے تیل) سے روشن رکھا جاتا ہے.جو زیتون کا درخت ہے.مگر ایسا کہ نہ مشرق میں اس سا کوئی درخت پایا جاتا ہے.نہ مغرب میں.جس کے تیل کو آگ نہ چھوئے.تو بھی وہ خود بخود ہی روشن ہو جانیوالا ہے.ایک نور پر دوسرا نور (اترا) ہے.اللہ جسے چاہتا ہے.
رساله درود شریف اپنے نور کا راستہ دکھا دیتا ہے.اور یہ باتیں اللہ تعالیٰ لوگوں کو سمجھانے) کے لئے بیان کرتا ہے.اور اللہ ہر ایک چیز کو کامل طور پر جانتا ہے (یہ نور) ان گھروں میں (اترا) ہے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حکم دے دیا ہے.کہ انہیں اونچا کیا جائے اور ان میں صبح و شام اس کے نام کا ذکر ہو.ہو.(۲۶) أطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الوردة) (اے لوگو ہمارے) رسول کی فرمانبرداری کرد.تا کہ تم پر رحمت نازل (۲۷) ۳۳ رساله درود شریف اَرْسَلْنَكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا وَدَاعِيَّا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ - وَسِرَاجًا منيرا (احزاب ۴ تا ۴۷) (اے لوگو) محمد میں اور جسمانی رشتہ کی رو سے) تم مردوں میں سے کسی کے بھی باپ نہیں ہیں.ہاں اللہ کے رسول اور تمام انبیاء کے خاتم ہیں.اور اللہ ہر ایک چیز کو خوب جانتا ہے اے لوگو جو مومن ہو.اللہ (کے اس احسان کو) بہت اچھی طرح اور کثرت سے یاد کیا کرو.اور صبح و شام اس کی تسبیح کیا.کرو.وہی ہے کہ وہ اور اس کے فرشتے تم پر درود بھیجتے ہیں تا کہ وہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کر نور میں لائے اور وہ مومنون پر رحمت پر رحمت کرنے والا ہے.وہ جس روز اس سے ملیں گے.انہیں سلام کا تحفہ ملے گا.اور لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ اس نے ان کے لئے (اس نبی کے طفیل) بہت باعزت اجر تیار کر رکھا ہے.رجوا الله واليوم الْأَخِرَ وَذَكَرَ اللَّهُ كَثِيرًا (احزاب:٢٢) (اے لوگو ) اللہ کے رسول میں تمہارے لئے ہاں (تم میں سے) ان لوگوں کے لئے جو اللہ سے اور آخرت کے دن سے ڈرتے ہوں اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے ہوں.بہترین نمونہ (پایا جاتا) ہے.(۲۸) انے نبی ہم نے تمہیں گواہ بشارت دینے والا ( خطرات سے آگاہ کر نیوالا اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانیوالا اور نور بخش چراغ بنا کر بھیجا ہے.(۲۹) إِنَّ اللهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ نَايُّهَا الَّذِينَ امَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولِ اللهِ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللهُ فِى الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا وخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْ عَلِيمًا يَا يُّهَا الَّذِينَ امَنُوا اذْكُرُوا اللهَ ذِكْرًا كَثِيرًا وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلاً - هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلْئِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُمْ مِّن الWALK إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا - تَحِيَّتُهُم يَوْمَ يَلْقَوْنَهُ سَلْمَ- وَأَعَدَّ لَهُمْ أَجْرًا كَرِيمًا - يا تُهَا النَّبِيُّ إِنَّا مهينا (احزاب:۵۸۵۷) اللہ اور اس کے تمام فرشتے اس نبی پر درود بھیجتے ہیں.(پس) اے لوگو ! جو ایمان رکھتے ہو تم (بھی) اس پر درود اور سلام بہت خوبی کے ساتھ بھیجا کرو.جو لوگ اللہ کو اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں.ان پر دنیا و آخرت میں اللہ کی لعنت ہے.اور ان کے لئے اس نے رسوا کن عذاب
ر ساله درود شریف تیار کر رکھا ہے.سلام ۳ (۳۰) اليس الله يكاي عندَهُ وَيُحَةٍ هُونَكَ بِالَّذِينَ مِنْ دُونِهِ (زمر:۳۷) کیا اللہ اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے اور (اے رسول!) یہ (لوگ) تمہیں ان سے ڈراتے ہیں.جو اس کے غیر ہیں.(۳۱) قُلْ لِعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (زمر:۵۴) (اے رسول اپنے بچے پیروؤں سے) کہدو.کہ اے میری غلامی اختیار کرنے والو.جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے.تم اللہ کی رحمت سے نا امید مت ہو.اللہ (تمہارے) تمام گناہ بخش دے گا.وہ بہت ہی بخشنے والا (اور) رحمت پر رحمت کرنے والا ہے.(۳۲) اِنَّا اَرْسَلْنَكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا لِتُؤْمِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيْلاً - إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ افتح نا) (اے نبی) ہم نے تمہیں (اپنی ہستی کا اور اپنی باتوں کا گواہ اور (رحمتوں کی بشارت دینے اور عذاب سے لوگوں کو آگاہ کرنیوالا بنا کر بھیجا ہے تا کہ ۳۵ رساله درود شریف (اے لوگو) تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو.اور اس کی تعظیم کرو.اور صبح و شام اس کی (یعنی اللہ کی تسبیح کرو.جو لوگ تمہارے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں.وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہوتا ہے.إِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا (طور) (۳۳) اے رسول تم ہماری حفاظت میں ہو.(۳۴) وَالنَّجْمِ إِذَا هَوًى مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيَّ يُوحَى عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى ذُومِرَّةٍ فَاسْتَوَى وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَى ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى (نجم (تام) جب ثریا غروب کی طرف مائل ہو.تو اس کی قسم (یعنی شہادت جتاتی) ہے.کہ (یہ) تمہارا رفیق نہ تو کبھی (اعتقادا) گمراہ ہوا ہے.اور نہ (عملاً) بد راہ ہوا اور نہ ہی وہ نفسانی خواہش کے ماتحت بولتا ہے.(بلکہ جو کچھ وہ بیان کرتا ہے) وہ محض وحی ہے جو (اس پر) نازل کی جاتی ہے.اسے زبر دستہ، قوتوں والے (اور) بڑے طاقت والے (معلم حقیقی) نے تعلیم دی ہے.اس لئے اس نے اس حالت میں اعتدال پایا ہے (یعنی افراط و تفریط سے بالکل پاک ہے وہ سب سے بلند تر مقام پر ہے.پھر وہ اور بھی قریب ہوا.پھر وہ جھک گیا.پھر وہ دو کمانوں کے (اتصال سے پیدا ہونے والے) دائرہ (کے وتر)
رساله درود شریف ۳۹ کی طرح ہو گیا.بلکہ اس سے بھی بڑھ کر قریب ( ہو گیا) یعنی مرکزی نقطہ پر پہنچ گیا.تب اس (معلم حقیقی) نے اپنے اس بندہ پر وحی کے ذریعہ جو نازل کرنا ا چاہا کیا.جو کچھ (اس کے ) دل کو نظر آیا اس میں کوئی خطا واقع نہیں ہوئی.(۳۵) ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَأَمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَّحْمَتِهِ وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِه و يَغْفِرُلُكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمُ (حديد اے لوگو جو مومن ہو.اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.اور کرو.اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ.ایسا کرو گے.تو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی رحمت کا دو ہرا حصہ دے گا.اور تمہیں ایک خاص نور عطا کرے گا.جو جدھر جاؤ گے.تمہارے ساتھ رہے گا.اور وہ تمہاری تقصیریں بخش دے گا.اور تمام کمزوریاں دور کر دے گا اور اللہ بہت ہی بخشنے والا اور رحمت پر رحمت کرنے والا ہے.(۳۶) هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أيتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي صَدْلٍ مُّبِينٍ وَأَخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ - ذَلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَا والله ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ وہی ہے جس نے امی لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا ہے.جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے.اور انہیں پاک کرتا ہے اور کتاب اور حکمت کی انہیں تعلیم دیتا ہے اور اس سے پہلے وہ یقیناً کھلی گمراہی میں پڑے إجمعه ۳ تاه) ۳۷ رساله درود شریف ہوئے تھے.اور کچھ اور لوگوں کو بھی (وہ تعلیم دے گا اور پاک کرے گا) جو انہی میں سے ہوں گے.وہ ابھی ان سے نہیں ملے.اور وہ غالب اور حکمت والا ہے.یہ اللہ کا فضل ہے.وہ جسے چاہے گا دے گا.اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے.وَإِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍ وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (۳۷) قلم: ۱۵۰۲ اور (اے رسول) تمہیں یقیناً ایسا اجر ملے گا جو کبھی بند نہیں ہو گا.اور تم یقیناً نهایت عظیم الشان اخلاق رکھتے ہو.(۳۸) لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا (جن : ۲۰) جب اللہ کا بندہ نماز میں کھڑا ہو کر اس کے حضور دعائیں کرتا ہے تو یہ اس پر کود پڑتے اور اس سے آدیختہ ہونے کی حد تک پہنچ جاتے ہیں.(۳۹) وَالضُّحَى وَالَّيْلِ إِذَا سَجِّي مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأَوْلى وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضى اضحی (تا) چاشت کے وقت کی اور نیز رات کی جب وہ چھا جاتی ہے قسم (یعنی شهادت بتاتی ہے کہ اے رسول تمہارے رب نے تمہیں چھوڑ نہیں دیا.اور نہ ہی وہ تجھ سے ناراض ہوا ہے.اور تمہاری ہر پیچھے آنیوالی گھڑی پہلی
رساله درود شریف PA ۳۹ رسالہ درود گھڑی سے تمہارے حق میں بہتر ہوگی اور تمہارا رب تم پر اپنی خاص عطا مدح نبوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وحی میں کرے گا.جس سے تم خوش ہو جاؤ گے.(الده) الَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِى اَنْقَضَ ظَهْرَكَ وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ (انشراح:۲تا۵) کیا یہ درست نہیں کہ ہم نے تمہیں شرح صدر بخشا ہے.اور تمہارے اس بوجھ کو تم سے اتار دیا ہے.جس نے تمہاری پیٹھ تو ڑ دی تھی.اور ہم نے تمہارے ذکر کو بلند کر دیا ہے.(۴۱) إِنَّا أَعْطَيْنُكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ إِنَّ شَانِئَكَ هو الابتر (کوثر) (اے رسول) ہم نے تمہیں بہت ہی خیر و برکت عطا کی ہے.پس تم اپنے رب کے لئے نمازیں پڑھو.اور قربانی ادا کرو.تمہارا دشمن ہی ابتر رہے گا.(f) ” بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمدیان بر منار بلند تر محکم افتاد.پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کا سردار " (حقیقۃ الوحی- روحانی خزائن جلد نمبر ۲۲ صفحه نمبر ۸۳) ( ترجمه از مرتب رساله) تم خوشی و خرمی سے چلو.کہ تمہارے عروج و اکرام کا وقت آگیا ہے.اور محمد رسول اللہ میں ایم کے ساتھ حقیقی نسبت رکھنے والی جماعت کا قدم بہت ہی بلند اور سب سے اونچے منار پر خوب مضبوطی اور استحکام سے جا پہنچا ہے.اور یہ تمام برکات محمد مصطفی میر کے فیضان سے ہیں جو نہ صرف غیر نبی برگزیدہ لوگوں کے بلکہ) انبیاء کے (بھی) سردار ہیں.يُلْقِي الرُّوحَ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ - كُلُّ بَرَكَةٍ مِّنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ - خدا کی فیلنگ اور خدا کی مہر نے کتنا بڑا کام کیا." (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد صفحہ ۹۹) ( ترجمه و تفسیر از حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام) جس پر اپنے بندوں میں سے چاہتا ہے.اپنی روح ڈالتا ہے یعنی منصب نبوت اس کو بخشا ہے.اور یہ تمام برکت محمد میں سے ہے.پس بہت ہی برکتوں والا ہے جس نے اس بندہ کو تعلیم دی.اور بہت ہی برکتوں والا ہے جس نے تعلیم
رساله درود شریف پائی.خدا نے وقت کی ضرورت محسوس کی اور اس کے محسوس کرنے اور نبوت کی مہر نے جس میں شدت قوت کا فیضان ہے.بڑا کام کیا ہے یعنی تیرے مبعوث ہونے کے دو باعث ہیں.خدا کا ضرورت کو محسوس کرنا اور آنحضرت کی مہر نبوت کا فیضان ہے ايضاً بصورت منظوم برتر گمان و وہم سے احمد کی شان ہے جس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ہے (حقیقة الوحی- روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه (۲۸۶) حاشیہ: یہ وحی الہی کہ خدا کی فیلنگ اور خدا کی مہر نے کتنا بڑا کام کیا.اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا نے اس زمانہ میں محسوس کیا کہ یہ ایسا فاسد زمانہ آگیا ہے جس میں ایک عظیم الشان مصلح کی ضرورت ہے.اور خدا کی مرنے یہ کام کیا کہ آنحضرت کی پیروی کرنے والا اس درجہ کو پہنچا کہ ایک پہلو سے وہ امتی ہے.اور ایک پہلو سے نبی.کیونکہ اللہ جل شانہ نے آنحضرت مالی تعلیم کو صاحب خا تم بنایا.یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لئے مردی.جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی.اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبیین ٹھہرا.یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے.اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے.اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی" (حقیقۃ الوحی - روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۰۰٬۹۹ حاشیه) رساله درود شریف مدح آنحضرت اما م ا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بزبان عربی يَا عَيْنَ فَيْضِ اللَّهِ وَالْعِرْفَانِ يَسْعَى إِلَيْكَ الْخَلْقُ كَالظَّمانِ اے خدا کے فیض اور عرفان کے چشمے ! لوگ تیری طرف پیاسے کی طرح دوڑے آتے ہیں.يَا بَحْرَ فَضْلِ الْمُنْعِمِ الْمَتَانِ تُهوِى إِلَيْكَ الرُّمَرُ بِالْكِيْزَانِ اے منعم ومنان کے فضل کے سمند ر لوگ کوزے لئے تیری طرف بھاگے آرہے ہیں.ياشمس مُلْكِ الْحُسْنِ وَ الْإِحْسَانِ نَوَّرْتَ وَجْهَ الْبَرِّ وَ الْعُمْرَانِ چہرہ روشن کر دیا.اے حسن و احسان کے ملک کے آفتاب! تو نے ویرانوں اور آبادیوں کا قَوْم رَأَوكَ وَ أُمَّةٌ قَدْ أُخْسِرَتْ مِنْ ذلِكَ الْبَدْرِ الَّذِي أَصْبَانِي ایک قوم نے تجھے آنکھ سے دیکھا اور ایک قوم نے اس بدر کی خبریں سنیں جس نے مجھے اپنا دیوانہ بنایا ہے.يَبْكُونَ مِنْ ذِكْرِ الْجَمَالِ صَبَابَةٌ
رساله درود شریف وَ تَالّماً مِنْ كَوْعَةِ الْهِجَرَانِ وہ آپ کے جمال کو یاد کر کے مارے شوق کے روتے ہیں اور جدائی کی جلن سے دکھ اٹھا کر چلاتے ہیں).و أرَى الْقُلُوبَ لَدَى الْحَنَاجِرِ كُرْبَةٌ وَارَى الْغُرُوبَ تُسِيلُهَا الْعَيْنَانِ میں دیکھتا ہوں کہ دل بیقراری سے گلے تک آگئے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں.يَا مَنْ غَدَا فِي نُورِهِ وَ ضِيَائِهِ كَالنَّرَيْنِ وَ نُورَ الْمُلَوَانِ اے وہ جو اپنے نور اور روشنی میں آفتاب و مہتاب کی مانند ہے اور جس سے رات اور دن روشن ہو گئے.يَا بَدرَنَا يَا أَيَةً الرَّحْمَانِ أهْدَى الْهُدَاةِ وَ أَشْجَعَ الشَّجَعَانِ اے ہمارے بدر اے رحمان کے نشان سب ہادیوں سے بڑھ کر ہادی اور سب بہادروں سے بڑھ کر بہادر.إني أرى فِي وَجْهِكَ الْمُتَهَتِّلِ شَانَّا تَفُوقُ شَمَائِلَ الْإِنْسَانِ میں تیرے درخشاں چہرہ میں ایک ایسی شان دیکھتا ہوں جو انسانی صفات سے بڑھ کر ہے.وقَدِ اقْتَفَاكَ أُولُو النُّهَى وَ بِصِدْقِهِمْ وَدَعُوا تَذَكَّرَ مَعْهَدِ الْأَوْطَانِ ۴۳ رساله درود شریف دانشمندوں نے تیری پیروی کی اور اپنے صدق کی وجہ سے مالوف وطنوں کی یاد بھی ترک کر دی.قَدْ أَثَرُوكَ وَ فَارَقُوْا أَحْبَابَهُمْ وَ تَبَاعَدُوا مِنْ حَلْقَةِ الْإِخْوَانِ انہوں نے تجھے مقدم کر لیا اور اپنے دوستوں کو چھوڑ دیا اور اپنے بھائیوں کے حلقہ سے دور ہو گئے.قَدْ وَدَّ مُحُوا أَهْوَانَهُمْ وَ نُفُوسَهُم وَ تَبَرَّءُوا مِنْ كُلِّ نَشْبٍ فَانٍ انہوں نے اپنی خواہشوں اور نفسوں کو چھوڑ دیا اور سب طرح کے فانی مالوں سے بیزار ہو گئے.ظَهَرَتْ عَلَيْهِمْ بَيِّنَاتُ رَسُولِهِمْ فَتَمَزَّقَ الْأَهْوَاء كَالأَوْتَانِ رسول کریم کی کھلی کھلی دلیلیں ان پر ظاہر ہو ئیں اس لئے ان کی نفسانی خواہشیں بھی وہاں کے بتوں کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو گئیں.فِي وَقْتِ تَرْوِيقِ اللَّيَالِي نُورُوا وَالله نَجَّاهُمْ مِنَ الطُّوفَانِ بچالیا.وہ راتوں کی تاریکی کے وقت منور ہوئے اور خدا نے ان کو طوفان سے قَدْ هَاضَهُمْ ظُلْمُ الْأَنَاسِ وَضَيْمُهُمْ فتوا بعناية الْمَنَّانٍ لوگوں کے ظلم دستم نے ان کو چور چور کر دیا مگر وہ خدائے منان کی
رساله درود شریف رساله درود شریف مہربانی سے ثابت قدم رہے.نَهَبَ اللّتَامُ نُشُوبَهُمْ وَعِقَارَهُمْ فَتَهَلَّلُوا بِجَوَاهِرِ الْفُرْقَانِ ادباشوں نے ان کے مال اور جائدادیں لوٹ لیں مگر اس کے عوض فرقان کے موتی پاکر ان کے چہرے چمک اٹھے.كَسَحُوا بُيُوتَ نُفُوسِهِمْ وَ تَبَادَرُوا لِتَمَتُّع الْإِيْمَانِ وَ الْإِيْمَانِ انہوں نے اپنے نفسوں کے گھروں کو خوب صاف کیا اور یقین اور ایمان کی دولت لینے کو آگے بڑھے.قَامُوا بِاقْدَامِ الرَّسُولِ بِغَزُوِهِمْ كَالْعَاشِقِ الْمَشْغُوفِ فِي الْمَيْدَانِ رسول کریم کی حملہ آوری کے ساتھ میدان میں لڑائی پر یوں ڈٹ گئے جیسے کوئی عاشق ہوتا ہے.فَدَمُ الرِّجَالِ لِصِدْقِهِمْ فِي حُبِّهِمْ تحْتَ السُّيُوفِ أَرِيقَ كَالْقُرْبَانِ سو ان پہلوانوں کا خون محبت کی راہ میں ثابت قدمی کی و قربانیوں کی طرح تلواروں کے نیچے بہایا گیا.جَاءُوكَ مَنْهُوبِيْنَ كَالْعُرْيَانِ فَسَتَرْتَهُمْ بِمَلَاحِفِ الْإِيمَانِ وہ تیرے حضور لوٹے ہوئے اور ننگے آئے جس پر تو نے ایمان کی چادریں ان کو پہنائیں.دیا.صَادَفَتَهُمْ قَوْمًا كَرُوبٍ ذِلَّةٌ فَجَعَلْتَهُمْ كَسَبِيكَةِ الْعِقْيَانِ تو نے گوبر کی طرح ان کو ایک ذلیل قوم پایا اور سونے کی ڈلی کی طرح بنا حَتَّى انْتَنى بَرُّ كَمِثْلِ حَدِيقَةٍ عَذْبِ الْمَوَارِدِ مُثْمِرِ الْأَعْصَانِ یہاں تک کہ (عرب کا) جنگل اس باغ کی مانند ہو گیا جس کے چشمے.شیریں اور درختوں کی شاخیں پھل دار ہوں.عَادَتْ بِلادُ الْعُرْبِ نَحْوَ نَضَارَةٍ بَعْد الْوَجَى وَالْمَحْلِ وَالْخُسْرَانِ عرب کی زمین ویرانی اور خشکی اور تباہی کے بعد سرسبز ہو گئی.كَانَ الْحِجَازُ مُغَازَلَ الْغِرُلان فَجَعَلْتَهُمْ فَانِيْنَ فِي الرَّحْمَانِ ملک حجاز زنان آہو چشم کے عشقیہ مذاکروں کا جولانگا بنا ہوا تھا مگر تو نے ان کو رحمان میں فانی بنا دیا.شَيْئَانٍ كَانَ الْقَوْمُ عُمْيًّا فِيْهِمَا حَشرُ الْعُقَارِ وَ كَثْرَةُ النِّسْوَانِ دو باتیں تھیں جن میں وہ اندھے ہو رہے تھے.شراب کا پینا اور عورتوں کی کثرت.أَمَّا النِّسَاءُ فَحُرِّمَتْ إِنْكَاحُهَا زوجًا لَهُ التَّحْرِيمُ فِي الْقُرانِ
رساله درود شریف My رساله درود شریف عورتوں کی نسبت تو یوں فیصلہ ہوا کہ ان خاوند دں سے ان کا نکاح حرام کر دیا گیا جن کی حرمت قرآن میں آگئی ہے.و جَعَلْتَ دَشَكَرَةَ الْمُدَامِ مُخَرَّب وَ أَزَلْتَ حَانْتَهَا مِنَ الْبُلْدَانِ اور شراب خانون کو تو نے ویران کر دیا اور شراب کی دکانیں شہروں ے اٹھوادیں.كُمْ شَارِبِ بِالرَّشْفِ دَنَّا طَافِعًا فَجَعَلْتَهُ فِي الدِّينِ كَالنَّشَوَانِ بہتیرے تھے جو غم کے غم نے پی جاتے تھے جنہیں تو نے دین کے متوالے کر دیا.كُمْ مُحْدِرٍ مُسْتَنْطِقِ الْعِيْدَانِ قَدْ صَارَ مِنْكَ مُحَدَّثَ الرَّحْمَانِ بہتیرے بد کردار سارنگیوں سے باتیں کرنے والے جو تیرے رحمان کے ہمکلام ہو گئے.كُمْ مُسْتَهَامٍ لِلرَّسُوفِ تَعَدُّما طفیل فَجَذَبْتَهُ جَذبًا إِلَى الْفُرْقَانِ بہتیرے تھے جو خوشبو دہن عورتوں کے عشق میں سرگردان تھے.تو نے انہیں فرقان کی طرف کھینچ لیا.أحْيَيْتَ أَمْوَاتَ الْقُرُونِ بِجَلْوَةٍ مَاذَا يُمَائِلُكَ بِهَذَا الشَّانِ تو نے صدیوں کے مردوں کو ایک بلوہ سے زندہ کر دیا کون ہے جو اس شان میں تیرے جیسا ہے.تركوا الْعَبُوقَ وَ بَدَّلُوا مِنْ ذَوقِهِ ذوقَ الدُّعَاءِ بِلَيْلَةِ الْأَحْزَانِ انہوں نے شام کی شراب چھوڑ دی اور اس کی لذت کی بجائے غم کی راتوں میں دعا کی لذت اختیار کرلی.كَانُوا بِرَتِّاتِ الْمَثَانِي قَبْلَهَا قَدْ أَحْصِرُوا فِي شُحِهَا كَالْعَانِي اس سے پہلے وہ دو تاروں کی سروں کی محبت میں قیدیوں کی طرح گرفتار تھے.قَدْ كَانَ مَرْتَعَهُمْ أَغَانِيُّ دَائِمًا طورا بعيد تَارَةً بِدِنَانٍ ہمیشہ ان کی فرحت و خوشی کا میدان راگ رنگ تھا.کبھی نازک اندام عورتوں کے امیر اور کبھی خم مے کے گرفتار.مَا كَانَ فِكْرُ غَيْرُ فِكْرِ غُوَانِي أو شرب راح أو خَيَالِ جِفَانٍ حسینہ عورتوں سے دلبستگی کے سوا اور کچھ فکر ہی نہ تھی.یا شراب نوشی تھی یا سامان خور و نوش کا تصور تھا.كَانُوا كَمَشْعُوْفِ الْفَسَادِ بِجَهْلِهِمْ راضِينَ بِالْأَوْسَاخِ وَ الْأَدْرَانِ یوقوفی سے فساد کے شیفتہ تھے.میل کچیل اور ناپاکی پر خوش تھے.عَيْبَانِ كَانَ شِعَارَهُمْ مِنْ جَهْلِهِمْ
رساله درود شریف ۴۸ حُمْقُ الْحِمَارِ وَ وَثَبَةُ السّوحَانِ جہالت سے دو عیب تو ان کے شامل حال تھے.اڑ گدھے کی اور حملہ بھیڑیے کا.فَطَلَعْتَ يَا شَمْسَ الْهُدَى نُصْحًا لَّهُمْ لتُضِيْتَهُمْ مِنْ وَجْهِكَ النُّوْرَانِي اتنے میں اے آفتاب ہدایت ان کی خیر خواہی کے لئے تو نے طلوع کیا کہ اپنے نورانی چہرہ سے انہیں منور کرے.أرْسِلْتَ مِنْ رَّبِّ كَرِيمٍ مُّحْسِنِ فِي الْفِتْنَةِ الصَّمَّاءِ وَ الطُّغْيَانِ تو خوفناک فتنے اور طغیان کے وقت خداوند کریم کی طرف سے بھیجا يَا لَلْفَتَى مَا حُسْنَةَ وَ جَمَالُهُ رَيَّاهُ يُصْبِي الْقَلْبُ كَالرَّيْحَانِ واہ کیا ہی خوش شکل اور خوبصورت جوان ہے جس کی خوشبو دل کو ریحان کی طرح شیفتہ کر لیتی ہے.وَجْهُ الْمُهَيْمِن ظَاهِرُ فِي وَجْهِهِ وَ شُونُهُ لَمَعَتْ بِهَذَا الشَّانِ اس کے چہرہ سے خدا کا چہرہ نظر آتا ہے اور اس کی شان سے خدا کی شان نمایاں ہو گئی ہے.فَلِذَا يُحَبُّ وَ يَسْتَحِقُ جَمَالُهُ شَغَفَّا بِهِ مِنْ زُمْرَةِ الْأَخْدَانِ ۴۹ رساله درود شریف اسی لئے وہ محبوب ہے اور اس کا جمال اس لائق ہے کہ تمام دوستوں کو چھوڑ کر اسی کے جمال سے دلبستگی پیدا کی جائے.سُجُحُ كَرِيمٌ بَاذِلُّ حَلُّ التَّقَى خِرْقَ وَ فَاقَ طَوَائِفَ الْفِتْيَانِ خوش خو کریم ، سخی، عاشق تقوی، کریم الطبع اور تمام احیاء سے بڑھ کرخی.ģ فَاقَ الْوَرُى بِكَمَالِهِ وَ جَمَالِهِ جلاله وَجَنَانِهِ الرَّيَّانِ اپنے کمال اور جمال اور جلال اور تازگی دل کے سبب سے تمام مخلوق سے بڑھا ہوا ہے.ہیں.لا شك أنَّ مُحَمَّدًا خَيْرُ الْوَرى رَيْقُ الْكِرَامِ وَ نُحْبَةُ الْأَعْيَانِ بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم خیر الوری، برگزیدہ کرام اور چیدہ اعیان تَمَّتْ عَلَيْهِ صِفَاتُ كُلّ مَرِيَّةٍ خُتِمَتْ به نَعْمَاءُ كُلِّ زَمَانٍ ہر قسم کی فضیلت کی صفتیں آپ کے وجود میں اپنے کمال کو پہنچی ہوئی ہیں اور ہر زمانہ کی نعمتیں آپ کی ذات پر ختم ہیں.وَاللَّهِ إِنَّ مُحَمَّدًا كَرَدَافَةٍ وَ بِهِ الْوَصولُ بِسُدَّةِ السُّلْطَانِ اللہ کی قسم آنحضرت شاہی دربار کے سب سے اعلیٰ افسر کی طرح ہیں
رساله درود شریف ۵۱ رساله درود شریف اور آپ ہی کے ذریعہ سے دربار سلطانی میں رسائی ہو سکتی ہے.هُوَ فَحْرُ كُلِّ مُطَهَّرٍ وَ مُقَدَّسٍ وَ بِهِ يُبَاهِي الْعَسْكَرُ الرُّوْحَانِي آپ ہر مطہر اور مقدس کا فخر ہیں اور روحانی لشکر کو آپ ہی کے وجود پر ناز ہے.هُوَ خَيْرُ كُلِّ مُقَرَّبٍ مُّتَقَدِّم وَ الْفَضْلُ بِالْخَيْرَاتِ لَا بِزَمَانٍ آپ ہر آگے بڑہنے والے مقرب سے افضل ہیں اور فضیلت کا مدار خوبیوں پر ہو تا ہے نہ کہ زمانہ پر.وَالطَّلُ قَدْ يَبْدُو أَمَامَ الْوَابِلِ فَالطَّلِّ طَلَّ لَيْسَ كَالتَهْتَانٍ چنانچہ ہلکا مینہ موسلادھار بارش سے پہلے آتا ہے لیکن ہلکے مینہ اور جھڑی میں بڑا فرق ہے.بَطَلُّ وَحِيْدٌ لَّا تَطِيْشُ بِهَامُهُ ذُو مُعْمِيَاتٍ مُوبِقُ الشَّيْطَانِ آپ یگانہ پہلوان ہیں آپ کے تیر کبھی خطا نہیں جاتے.آپ نشانہ کی رو سے تیروں کے مالک ہیں اور شیطان کے ہلاک کنندہ ہیں.هُوَ جَنَّةٌ إِنِّي أَرى أَثْمَارَهُ وَ قُطُوفَهُ قَدْ ذُلِلَتْ لِجَنَانِي آپ ایک باغ ہیں میں دیکھتا ہوں کہ آپ کے پھل اور خوشے میرے دل کے قریب کئے گئے ہیں.الْفَيْتُهُ بَحْرَ الْحَقَائِقِ وَ الْهُدَى وَ رَأَيْتُهُ كَالدُّرِ فِي اللَّمَعَانِ میں نے آپ کو حقائق اور ہدایت کا سمند ر پایا اور چمک دمک میں آپ کو موتی دیکھا.قَدْ مَاتَ عِيسَى مُطْرِفًا وَ نَبِيُّنا حَى وَ رَبِّي إِنَّهُ وَافَانِي عیسی چپ چاپ گزر گئے اور ہمارے نبی می زندہ ہیں اور بخدا وہ مجھ سے ملے بھی ہیں.ہے.وَاللَّهِ إِنِّي قَدْ رَأَيْتُ جَمَالُهُ بِعُيُونِ جِسْمِ فَاعِدًا بِمُكَانِي قسم بخدا میں نے آپ کا جمال دیدہ سر سے اپنے مکان میں بیٹھے دیکھا هَا إِنْ تَيْتُ ابْنُ مَرْيَمَ عَائِشَا فَعَلَيْكَ الْبَانًا مِنَ الْبُرْهَانَ دیکھو اگر تم ابن مریم کو زندہ سمجھتے ہو تو دلیل سے ثبوت پیش کرنا تمہارا فرض ہے.ا فَانْتَ لاقيت الْمَسِيحَ بِيَقْطَةٍ أو جَاءَكَ الْأَنْبَاءُ مَنْ يَقْظَانِ کیا تم کہیں بیداری میں مسیح سے ملے ہو یا کسی جیتے جاگتے نے تمہیں خبر دی ہے.کہ وہ زندہ ہے.أنْظُرُ إِلَى الْقُرْآنِ كَيْفَ يُبَيِّنُ
رساله درود ۵۲ ۵۳ رساله درود شریف أ فَانتَ تُعْرِضُ عَنْ هُدَى الرَّحْمَنِ قرآن کو دیکھو کہ وہ کیسے صاف اس کی موت کا ذکر کرتا ہے.کیا تم رحمن کی ہدایت سے منہ پھیرتے ہو.فَاعْلَمُ بِأَنَّ الْعَيْشَ لَيْسَ بِثَابِتٍ بَلْ مَاتَ عِيسَى مِثْلَ عَبْدٍ فَانٍ جان لو کہ حیات کا کوئی ثبوت نہیں ہے بلکہ (حضرت) عیسی ایک فانی بندہ کی طرح فوت ہو گئے.وَ نَبِيُّنَ حَيَّ وَ إِنِّي شَاهِدٌ وَ قَدِ اقْتَطَفْتُ قَطَائِفَ اللُّقْيَانِ اور ہمارے نبی زندہ ہیں اور میں گواہ ہوں اور میں آپ کی ملاقات کے ثمرات سے بہرہ مند ہوا ہوں.وَ رَأَيْتُ فِي رَيْعَانِ عُمْرِى رَيْعَانِ عُمُرِى وَجْهَهُ ثُمَّ النَّبِيُّ بِنِقْطَنِي لَا قَانِي میں نے آغاز جوانی میں آپؐ کا چہرہ دیکھا پھر آنحضرت بیداری میں مجھ سے ملے.إِنِّي لَقَدْ أُحْيِيْتُ مِنْ إِحْيَانِهِ واها الإِعْجَارٍ فَمَا أَحْيَانِي میں آپ کے زندہ کرنے سے زندہ کیا گیا ہوں.سبحان اللہ ! کیا ہی اعجاز ہے اور میں بھی کیا خوب زندہ ہوا ہوں.يا رَبِّ صَلِّ عَلَى نَبِيِّكَ دَائِمًا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا وَبَعْبٍ ثَانٍ اے میرے رب! اپنے نبی پر ہمیشہ درود بھیج ، اس دنیا میں بھی اور دو سرے عالم میں بھی.يَا سَيِّدِى قَدْ جِئْتُ بَابَكَ لَاهِقًا وَالْقَوْمُ بِالْإِكْفَارِ قَدْ أَذَانِي میرے آقا میں سخت غمزدہ ہو کر تیرے دروازہ پر حاضر ہوا ہوں اور قوم نے مجھے کافر کہہ کر سخت ستایا ہے.کو کچلتا ہے.ہے.ہوں.يُفْرِى سِهَامُكَ قَلْبَ كُلّ مُحَارِبِ وَ يَشْةٌ عَزْمُكَ هَامَةَ الثَّعْبَانِ تیرے تیر ہر جنگجو کے دل کو چھید تے ہیں اور تیرا عزم اژدہاؤں کے سر للهِ دَركَ يَا إِمَامَ الْعَالَمِ أنتَ السَّبُوقُ وَ سَيدُ التَّجْعَانِ آفرین تجھے اے امام جہاں! تو سب سے بڑھا ہوا اور شجاعوں کا سردار انظُرُ إِلَيَّ بِرَحْمَةٍ وَ تَحَتُّنِ يَا سَيِّدِى أَنَا أَحْفَرُ الْعِلْمَانِ مجھ پر رحم اور محبت کی نظر کر اے میرے آقا! میں تیرا ایک ناچیز غلام يَا حِبْ إِنَّكَ قَدْ دَخَلْتَ مَحَيَّةٌ فِي مُهْجَتِى و مَدَارِكِي وَ جَنَانِي اے میرے پیارے ! تیری محبت میری جان میرے سر اور دماغ میں رچ
رساله درود شریف گئی ہے.۵۴ مِنْ ذِكْرِوَجُهِكَ يَا حَدِيْقَةً بَهْجَتِي لَمْ اَخْلُ فِي لَحْرٍ وَ لَا فِي أَن تیرے منہ کی یاد سے اے میری خوشی کے باغ میں کبھی ایک لحظہ بھی فارغ نہیں رہتا.جسْمِي يَطِيرُ إِلَيْكَ مِنْ شَوْقٍ عَلَا يَا لَيْتَ كَانَتْ قُوَّةُ الطَّيَرَانِ میرا جسم شوق غالب کے سبب سے تیری طرف اڑا جاتا ہے اے کاش مجھ میں اڑنے کی قوت ہوتی.( آئینہ کمالات اسلام - روحانی خزائن جلد صفحه ۵۹۰ تا۵۹۶) ايضاً يَا قَلْبِي اذْكُرُ أَحْمَدًا عَيْنُ الْهُدَى مُقْنِي الْعِدًا اے میرے دل احمد کو یاد کر.وہ ہدایت کا چشمہ اور دشمنوں کو فنا کر نیوالا ہے.بَرًّا كَرِيمًا مُّحْسِنًا بَحْرَ الْعَطَايَا وَالْجَدَا نیک ہے ، کریم ہے ، محسن ہے ، بخششوں اور سخاوتوں کا سمند رہے.بَدْرُ منير زَاهِرُ فِي كُلِّ وَصْفٍ حُمَّدًا چودھویں کا چاند ہے، نورانی ہے، روشن ہے، ہر بات میں اس کی تعریف کی گئی ہے.۵۵ رساله درود شریف إِحْسَانُهُ يُصْبِي الْقُلُوبَ وَ حُسْنُهُ يُروى الصَّدَا اس کا احسان دلوں کو مائل کرتا ہے اور اس کا حسن پیاس کو بجھاتا ہے.مسهدا مَا إِنْ رَأَيْنَا مِثْلَهُ لِلنَّائِمِينَ ہم نے اس جیسا سوتوں کو جگانے والا اور کوئی نہیں دیکھا.الْمُصْطَفَى وَالْمُجْتَبى وَالْمُقْد والمجد (وہ) مصطفیٰ ہے اور مجتبی ہے اور مقتدا ہے اور اس سے جو دو عطا طلب کی جاتی ہے.جُمِعَتْ مَرَابِيعُ الْهُدَى فِي وَبُلِهِ حِيْنَ النَّدا ہدایت کی بارشیں اس کی بارش میں اس کی سخاوت کے وقت اکٹھی کی گئی ہیں.نَسِيَ الزَّمَانُ رِهَامَةَ مِنْ جَوْدِ هَذَا الْمُقْتَدَا زمانہ اپنی آہستہ آہستہ مسلسل بارش کو اسی مقتداء کی بارش کی وجہ سے بھول گیا ہے.کرامات الصادقین.روحانی خزائن جگہ صفحہ ۷۰)
رساله درود شریف ۵۶ ایضاً بزبان فارسی درباره عظمت شان و کمال فیضان و شفقت و برکات محبت و اتباع نبوی ور آنکه در خوبی ندارد ہمیرے بر دلم جوشد ثنائے سرورے آنکه جانش عاشق یار ازل آنکہ روحش واصل آن دلبرے آنکه مجذوب عنایات حققت ہمچو طفلے پروریده در برے د کرم بحر عظیم آنکه در لطف اتم یکتا درے آنکه در فیض و عطا یک خاوری در جود و سخا ابر بہار آنکه آنکه ور پر ر (1) میرے دل میں ایک سردار کی ثنا جوش مار رہی ہے جو خوبی میں اپنا کوئی ہمسر نہیں رکھتا (۲) جس کی جان یار ازل (خدا تعالی) کی عاشق ہے.اور جس کی روح اس دلبر سے وصل رکھتی ہے.(۳) جس کو خدا تعالیٰ کی عنایتوں نے اپنی طرف کھینچ لیا اور بچے کی طرح اپنی گود میں پالا.(۴) جو نیکی اور بخشش میں ایک بڑا سمندر ہے اور کامل مہربانی میں یکتا موتی (کی طرح) ہے (جس کی نظیر نہ ہو).(۵) جو سخاوت کرنے میں موسم بہار کا بادل ہے اور جو فیض اور عطا ( کے آفتاب ، تاب) کا مشرق ہے.رساله درود شریف اں رحیم و رحم حق را ایتے آن کریم و جود حق را مظہرے آن رخ فرخ که یک دیدار اد زشت رو را میکند خوش منظرے آن دل روشن که روشن کرده است صد درون تیره را چون اختری اں مبارک پے کہ آمد ذات او رحمتے زاں ذات عالم پرورے احمد آخر زماں کر نور او شد دل مردم زخور تاباں ترے از بنی آدم فزوں تر در جمال و ز لالی پاک تر در گوہرے بر لبش جاری زحکمت چشمیه در دلش پر از معارف کوثرے (۶) جو رحیم ہے اور خدا تعالیٰ کی رحمت کا نشان ہے.جو کریم ہے اور خدا تعالٰی کی بخشش اس کے وجود میں ظاہر ہوئی ہے.(۷) وہ مبارک چرہ جس کو ایک دفعہ دیکھ لینا بد صورت کو خوش شکل بنا دیتا ہے.(۸) وہ دل روشن کہ جس نے بیشمار ایسے دلوں کو جو سیاہ تھے ستارہ کی طرح روشن کر دیا ہے.(۹) وہ مبارک قدم جس کا وجود رب العالمین کی طرف سے مجسم رحمت بن کر (۱۰) اس سردار کا نام احمد آخر زمان ہے.جس کے نور سے لوگوں کے دن سورج سے بھی زیادہ چمکنے والے بن گئے.(10) وہ آدم کی اولاد میں سے سب سے بڑھ کر صاحب جمال ہے.اور اپنی اصلیت میں موتیوں سے بھی زیادہ پاک ہے.آیا ہے.(۱۲) اس کے ہونٹوں پر حکمت کا چشمہ جاری ہے.اس کے دل میں حقائق اور معارف سے بھرا ہوا ایک کوثر ہے.
رساله درود شریف ۵۸ بهر حق داماں زغیرش برفشاند ٹانے او نیست در بحر و برے اں چراغش داد حق کش تا ابد نے خطر نے غم زیاد صرصرے پہلوان حضرت رب جلیل برمیاں بستہ زشوکت خنجرے تیر او تیزی بهر میدان نمود تیغ او ہر جا نمودہ جو ہرے کرد ثابت ہر جہاں عجز بتاں وا نموده زور آن یک قادری تا نماند بے خبر از زور حق بہت ستاؤ بت پرست و بت گرے عاشق صدق و سداد و راستی دشمن کذب و فساد و هر شرے (۱۳) خدا کے لئے خدا کے غیر سے اس نے اپنا دامن خالی کر دیا.تری اور خشکی میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہے (۱۴) خدا تعالیٰ نے اس کو ایک ایسا چراغ دیا ہے کہ ہمیشہ کے لئے اس چراغ کو کسی آندھی سے بجھنے کا کوئی خطرہ اور غم نہیں ہے.(۱۵) وہ خدا تعالیٰ کا پہلوان ہے اپنی کمر پر شوکت اور رعب کی تلوار باندھے ہوئے.(۱۶) لڑائی کے ہر ایک میدان میں اس کے تیر نے اپنی تیزی دکھائی ہے.اس کی تلوار نے ہر ایک مقام پر اپنی کاٹ کا جو ہر دکھایا ہے.(۱۷) تمام دنیا کے لوگوں پر اس نے بتوں کا عاجز ہونا ثابت کر دیا اور خداوند مقتدر کا زور اس نے کھول کر دکھلا دیا ہے.(۱۸) تاکہ کوئی بتوں کی تعریف اور پرستش کرنیوالا اور بت بنانے والا خدا تعالیٰ کی طاقت سے بے خبر نہ رہے.(19) سچائی اور راستی اور کی بات کا عاشق اور جھوٹ اور فساد اور ہر ایک برائی کادشمن.۵۹ رساله درود شریف خواجه و مر عاجزان را بنده بادشاه و بیکساں را چاکرے اں ترحمها که خلق از دے بدید کس ندیده در جهان از مادری از شراب شوق جاناں بیخودی در سرش برخاک بنهاده سری روشنی از دے بهر قومی رسید نور او رخشید بر ہر کشورے آیت رحماں برائے ہر بصیر حجت حق بہر ہر دیدہ درے ناتوانان را برحمت دستگیر خستہ جاناں را به شفقت غمخور حسن روکش به زماه و آفتاب خاک کوئش به ز مشک و عنبری (۲۰) آقا ہو کر عاجزوں کی غلامی اختیار کرنے والا.بادشاہ ہو کر بے کسوں کا خادم.(۲۱) جو شفقت اور محبت خلق خدا نے اس سے دیکھی ہے، دنیا میں کسی نے اپنی ماں کی طرف سے بھی نہیں دیکھی.(۲۲) اپنے محبوب کی محبت کے نشہ میں اپنے آپ سے بے خبر اس کی یاد میں کر بہ سجود (۲۳) اس کی روشنی ہر ایک قوم کو پہنچی.اس کا نور ہر ایک ملک پر چمکا.(۲۴) وہ ہر ایک بینا کے لئے خدا تعالٰی کا ایک نشان ہے.اور ہر ایک دیکھنے والے کے لئے خدا تعالی کی ہستی کی حجت ہے.(۲۵) کمزورں پر رحم کر کے ان کا ہاتھ پکڑنے والا شکستہ دلوں کی شفقت سے غمخواری کرنے والا.(۲۷) اس کے چہرہ کا جمال چاند اور سورج سے بڑھ کر ہے.اس کی گلی کی مٹی مشک اور خیبر سے بہتر ہے.
ساله رود شریف 4.در و دلش از نور حق صدیے آفتاب و مه چه می ماند بدو گرفتند کس را براں خوش پیکرے یک نظر بهتر ز عمر جاوداں جاں فشانم گر دہر دل دیگرے ہر زمان مستم کند از ساغری منکه از حسنش همی دارم خبر یاد آن صورت مرا از خود برد مے پریدم سوئے کوئے او مدام من اگر مے داشتم بال و پرے لاله و ریحان چه کار آید مرا من سرے دارم ہاں رو و سرے خوبے او دامن دل می کشد موکشانم سے برو زور آورے (۲۷) سورج اور چاند بھلا اس جیسے کہاں ہو سکتے ہیں.اس کے دل میں تو خدا تعالٰی کے نور کے صدہا چاند اور سورج ہیں.(۲۸) اس حسین کو ایک دفعہ دیکھ لینا ہمیشہ کی زندگی سے بہتر ہے.(۲۹) چونکہ مجھے اس کے حسن کا علم ہے.اس لئے جہاں دوسروں نے اسے اپنا صرف دل دیا ہے ، وہاں اس پر میں اپنی جان بھی قربان کرتا ہوں.(۳۰) اس صورت کی یاد مجھے بیجود کر رہی ہے، جو مجھے ہر وقت (محبت کی) شراب سے مست رکھتی ہے.(۳۱) اگر میرے پر ہوتے تو میں اڑ کر اس کی گلی میں پہنچتا.(۳۲) گلاب اور چنبیلی کے پھول میرے کس کام.میرا تصور تو اسی چہرے اور سر کی طرف لگا رہتا ہے.(۳۳) اس کی خوبی میرے دل کے دامن کو کھینچ رہی ہے.اور ایک زور دار چیز مجھے گھینٹے لئے جا رہی ہے.ہا دیده ام کو ہست نور دیده با در اثر مهرش چو مهر انورے تافت آنروئے کزاں رو سرنتافت یافت آن درماں کہ بگزید آن درے ہر کہ بے او زد قدم در بحر دیں کرد در در اول قدم گم مجرے امی و در علم و حکمت بے نظیر زیں چہ باشد مجھے روشن ترے چه شد عیاں از وے علی الوجہ الا تم جو ہرے انسان کہ بود آں مضمرے ختم شد برنفس پاکش ہر کمال لاجرم شد ختم ہر پیغمبرے آفتاب ہر زمین و ہر زماں رہبر ہر اسود ہر احمد نے (۳۴) میں نے دیکھ لیا ہے کہ وہی آنکھوں کا نور ہے.اس کی محبت تاثیر کے لحاظ سے آفتاب کی طرح ہے.(۳۵) اس شخص کا چہرہ روشن ہوا جس نے اپنا منہ اس کی طرف سے نہیں پھیرا اور اس شخص نے شفا پائی جس نے اس دروازے کو اختیار کر لیا.(۳۶) جس شخص نے اس سے الگ ہو کر دین کے سمندر میں قدم مارا.اس نے پہلے ہی قدم میں جائے عبور کو گم کر دیا.(۳۷) لکھنا پڑھنا نہ جاننے کے باوجود علم و حکمت میں بے نظیر.اس سے بڑھ کر (اس کے سچا ہونے کی اور کونسی روشن دلیل ہو سکتی ہے.(۳۸) انسان کے جوہر کا جو بالکل پوشیدہ تھا اس کے ذریعہ سے پوری طرح پتہ لگا ہے.(۳۹) اس کے پاک وجود پر ہر ایک کمان ختم ہوا جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ ہر ایک پیغمبر کا اختتام ہو گیا.(۴۰) وہ ہر ایک ملک اور ہر زمانہ کا سورج ہے اور ہر ایک کالے اور گورے کا رہنما.
رساله درود شریف مجمع البحرین علم و معرفت جامع الاسمین ابر و خاورے سالکاں را نیست غیر از دے امام رهروان را نیست جزوے رہبرے جائے او جائے کہ طیر قدس را سوزد از انوار آن بال و پرے خلق را بخشید از حق کام جاں وا رہانیده از کام اژدری یک طرف حیران از و شاہان وقت یک طرف مبہوت ہر دانشورے نے معلمش کس رسید و نے بزور شکستہ کبر ہر متکبری ور (۴۱) وہ علم کے سمندر اور معرفت کے سمندر کے جمع ہونے کی جگہ ہے اور اس کے دو نام ہیں ابر بھی (جو سورج میں حائل ہوتا ہے) اور مشرق بھی (جو اسے نکالتا ہے).(۴۲) سالکوں کا اس کے سوا اور کوئی امام نہیں.اور راہروؤں کو اس کے سوا اور کوئی رستہ دکھانیوالا نہیں.(۴۳) اس کا مقام وہ مقام ہے کہ اس کے انوار سے طائر قدس کے وہاں جانے سے پر جلتے ہیں.(۴۴) خلقت کو اس کی دلی مراد عطا فرمائی یعنی حق اور راستی.اور اس کو اثر رہا کے منہ سے چھڑایا.(۴۵) ایک طرف تو بادشاہان وقت اس کے جاہ و جلال کو دیکھ کر حیران ہیں.اور دوسری طرف ہر ایک عقل کا مدعی اس کے علم اور عقل کو دیکھ کر) ششدر.(۴۶) اس کے علم اور اس کی طاقت کا کوئی مقابلہ نہ کر سکا.ہر ایک متکبر کے غرور کو اس نے تو ڑ دیا.۶۳ رساله درود شریف او چه میدارد بوح کس نیاز مدح او خود فخر ہر مدحت کرے ت او در روضه قدس و جلال و از خیال مادحاں بالا ترے اے خدا بر وے سلام ما رساں ہم بر اخوانش ز ہر پیغمبرے اول آدم آخر شاں احمد است اے جنگ آنکس که بیند آخرے انبیاء روشن گهر هستند لیک ہست احمد زاں ہمہ روشن ترے پیغمبران را چاکریم ہمچو خاکے اوفتاده بر درے ہر رسولے کو طریق حق نمود جان ما قرباں بر آن حق پرور نے (۴۷) اس کو کیا حاجت ہے کہ کوئی اس کی تعریف کرے.اس کی تعریف کرنا خود تعریف کرنیوالے کے لئے باعث فخر ہے.ما ہمہ (۴۸) وہ قدس اور جلال کے باغ میں رہتا ہے اور تعریف کرنے والوں کے خیالات کی رسائی سے بالا تر ہے.(۴۹) اے خدا ہمار اسلام اس کو پہنچا.اور اس کے بھائیوں کو بھی یعنی ہر ایک پیغمبر کو.(۵۰) ان میں سے سب سے پہلا آدم ہے اور سب سے آخر احمد ہے.کیا ہی خوش قسمت ہے وہ شخص جسے اس آخر میں آنے والے کو دیکھنا نصیب ہو.(۵۱) تمام انبیاء روشن گوہر والے ہیں.لیکن ان میں سے سب سے زیادہ روشن احمد ہے.(۵۲) ہم تمام پیغمبروں کے خادم ہیں.مٹی کی طرح ان کے دروازے پر پڑے ہوئے.(۵۳) جس رسول نے بھی خدا تعالیٰ کا رستہ دکھایا.ہماری جان ایسے حق پرور پر قربان ہے.
رساله درود شریف ура اے خداوندم به خیل انبیاء کش فرستادی به فضل او فرے معرفت ہم وہ چو بخشیدی دلم ے بدہ زاں ساں کہ دادی ساغر اے خداوندم بنام مصطفی کش شدی در هر مقام ناصرے دست من گیر از ره لطف و کرم در مهم باش یار و یاوری تکیه بر زور تو دارم گرچه ہمچو خاکم بلکہ زاں ہم من کمرے ا براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۷ تا ۲۳) (۵۴) اے میرے خدا! انبیاء کے گروہ کے طفیل.جس کو تو نے اپنے بہت بڑے فضل سے بھیجا.(۵۵) جب تو نے مجھے دل دیا ہے تو اس کو اپنی معرفت بھی دے.اور جس طرح تو نے پیالہ دیا ہے.اسی طرح شراب بھی دے (جو اس میں ڈال کر پیئوں).(۵۷) اے میرے خدا اس مصطفیٰ کے نام کے طفیل جس کی تو نے ہر مقام میں مدد کی ہے.(۵۷) اپنے لطف و کرم سے میری دستگیری کر.اور میری مشکل میں میرا مددگار اور حامی ہو.(۵۸) مجھے تو تیری ہی طاقت اور زور پر بھروسا ہے ورنہ میں تو مٹی بلکہ اس ت بھی کم ہوں.۶۵ ايضا در عظمت شان و ہمدردی خلق و برکات اتباع و عشق نبوی ملایم ر ساله درود شریف چون ز من آید تائے سرور عالی تبار عاجز از مدحش زمین و آسمان و هر دو دار اں مقام قرب کو دارد بدلدار قدیم کس نداند شان آن از واصلان کردگار.آں عنا تها کہ محبوب ازل دارد بدو کس بخوابے ہم ندیده مثل آن اندر دیار سرور خاصان حق شاہ گروه عاشقاں آنکه روحش کرد طے ہر منزل وصل نگار (1) مجھ سے اس عالی خاندان سردار کی تعریف کس طرح ہو سکے.اس کی تعریف سے تو زمین اور آسمان بلکہ دونوں جہان عاجز ہیں.(۲) اس کے قرب کے مقام کی شان کو جو وہ خدا تعالی کے پاس رکھتا ہے ، مقربان الہی اور بڑی شان کے لوگوں میں سے بھی کوئی نہیں جانتا.(۳) وہ مہربانیاں جو محبوب ازل (خدا تعالٰی) کی اس پر ہیں.دنیا میں اس جیسی مہربانیاں کسی نے خواب میں بھی نہیں دیکھیں.(۴) وہ خدا تعالیٰ کے خاص بندوں کا سردار ہے اور عاشقان الہی کے گروہ کا بادشاہ.اس کی روح نے محبوب کے وصل کی ہر منزل کو طے کیا.
ر ساله درود شریف ۶۶ ان مبارک ہے کہ آمد ذات با آیات او رحمتے زاں ذات عالم پرور و پروردگار آن که دارد قرب خاص اندر جناب پاک حق آن که شان او نه فمند کس ز خاصان و کبار احمد آخر زماں کو اولیس را جائے فخر آخرین را مقتدا و ملجا و کیف و حصار هست درگاه بزرگش کشتی عالم پناہ کس نگردد روز محشر جز پناهش رستگار از همه چیزے فزوں تر در همه نوع کمال آسمانها پیش ادج ہمت او زره وار (۵) وہ مبارک قدم جس کی مجموعہ معجزات ہستی ذات رب العالمین و پروردگار عالم کی طرف سے رحمت بن کر آئی.(1) جو خدا تعالی کی جناب میں وہ خاص قرب رکھتا ہے.جس کی شان کو خاص اور بڑے لوگوں میں سے بھی کوئی نہیں جانتا.(۷) وہ احمد آخر زماں ہے جو پہلوں کے لئے فخر کی جگہ ہے.اور پچھلوں کا پیشوا جائے پناہ کنف اور قلعہ.(۸) اس کی عالیشان بارگاہ جہان کو پناہ دینے والی کشتی ہے.قیامت کے دن کوئی بھی اس کی پناہ کے سوا خلاصی نہیں پائے گا.(۹) کمال کی ہر ایک قسم میں ہر ایک چیز سے بڑھ کر ہے.اس کی ہمت کی بلندی کے سامنے (تمام) آسمان ایک ذرہ کے برابر ہیں.46 رساله درود شریف مظہر نورے کہ پنہاں بود از عهد ازل مطلع تمے کہ بود از ابتداء را استتار صدر بزم آسمان و حجتہ اللہ بر زمیں ذات خالق را نشانے بس بزرگ و استوار تار وجودش خانه یار ازل ہر رگ و ہر دم د هر ذره اش پر از جمال دوستدا حسن روئے او به از صد آفتاب و ماہتاب خاک کوئ او به از صد نافه مشک تار او از عقل و فکر و و هم مردم دور تر کے مجال فکر تا آں بحر ناپیدا کنار (۱۰) وہ اس نور کا مظہر ہے جو ازل سے پوشیدہ تھا.وہ اس سورج کا مطلع ہے جو ابتدا سے چھپا ہوا تھا.(11) آسمان والوں کی مجلس کا صدر ہے اور زمین پر خدا کی حجت ہے.خدا تعالیٰ کی ہستی کا بہت بڑا اور محکم نشان ہے.(۱۲) اس کے وجود کا ہر ایک رگ وریشہ خدا تعالیٰ کا گھر ہے.اس کا ہر ایک سانس اور ہر ایک ذرہ محبوب حقیقی کے جمال سے پر ہے.(۱۳) اس کے چہرہ کا حسن صدہا سورجوں اور چاندوں سے بڑھ کر ہے.اس کی گلی کی مٹی تاتار کے مشک کے صدہا نانوں سے بہتر ہے.(۱۴) وہ لوگوں کی عقل فکر اور وہم سے بالا تر ہے.فکر کی کیا مجال ہے.کہ اس نا پیدا کنار سمندر تک پہنچ سکے.
رساله ورود روح او در گفتن قول بلی اول کسے آدم توحید و پیش از آدمش پیوند یار جان خود دادن ہے خلق خدا در فطرتش جاں نثار خستہ جاناں بیدلان را غمگسار اندر آن وقتیکہ دنیا پر ز شرک و کفر بود هیچ کس را خون شد دل جز دل آں شہریار هیچ کس از خبث شرک و رجس بت آگه شد ایس خبر شد جان احمد را که بود از عشق زار کس چه میداند کرا زاں ناله ها باشد خبر شفیع کرد از بهر جہاں در کاں کنج غار (۱۵) "بلی" کا لفظ کہنے میں اس کی روح سب سے پہلے تھی.وہ توحید کا آدم ہے اور آدم ( کی پیدائش) سے بھی پہلے اس کا تعلق خدا تعالیٰ سے ہے.(۱۷) خدا کی مخلوق کے لئے اپنی جان دینا اس کی فطرت میں تھا وہ شکستہ دلوں پر اپنی جان قربان کرنے والا اور بیدلوں کا غمخوار تھا.(ن) اس وقت جب کہ دنیا شرک اور کفر سے بھری ہوئی تھی.اس سرور عالم کے دل کے سوا اور کسی کا دل رنج اور غم سے پکھل کر خون نہ ہوا.(۱۸) کوئی شخص بھی شرک کی ناپاکی اور بت پرستی) کی پلیدی سے واقف نہ ہوا.اس بات کا صرف احمد کو پتہ لگا جو عشق سے نڈھال تھا.(19) کسی کو اس آہ وزاری کی کیا خبر اور کیا علم جو اس شفیع الوری نے لوگوں کے لئے غار حرا کے گوشہ میں کی.۶۹ رساله درود شریف من نمیدانم چه دردی بود و اندوه وغمے کاندر آن غاری در آوردش حزین و دلفگار نے ز تاریکی توحش نے ز تنہائی ہراس نے ز مردن غم نہ خوف کردم و نے بیم مار کشتہ قوم و فدائے خلق و قربان جہاں نے کسم خویش میلش نے بنفس خویش کار نعرہ ہا پر درد مے زد از پئے خلق خدا شد تضرع کار او پیش خدا لیل و نهار سخت شوری بر فلک افتاد زاں عجز و دعا قدسیاں را نیز شد چشم از غم آں اشکبار (۲۰) میں نہیں جانتا کہ وہ کیسا درد اور دکھ اور غم تھا جو اس کو اس غار میں غمگین اور دلفگار بنا کر لایا.(۲۱) نہ تاریکی کی وجہ سے کچھ گھبراہٹ ہوئی نہ تنہائی کی وجہ سے کچھ ڈر پیدا ہوا.نہ جان کے خطرہ کی کوئی پروا کی اور نہ سانپ یا بچھو کا خوف کیا.(۲۲) غم مخلوق کا کشتہ ملک پر خدا اور خلق خدا پر قربان، نہ اسے اپنے جسم کا خیال تھا نہ اپنی جان کی پروا تھی.(۲۳) خدا کی مخلوق کے لئے درد سے بھرے نعرے مارتا تھا.خدا کے آگے رات دن گڑ گڑانا اس کا کام تھا.(۲۴) اس عاجزی اور دعاؤں سے آسمان پر سخت شور پڑ گیا.اس کے غم سے فرشتے بھی رونے لگے.
رساله درود شریف آخر از عجز و مناجات و تضرع کردنش شد نگاه لطف حق بر عالم تاریک و تار عظ در جهان از معصیت ها بود طوفان بود خلق از شرک و عصیاں کور و کر در هر دیار ہر فسار ہمچو وقت نوح دنیا بود از هیچ دل خالی نبود از ظلمت و گرد و غبار مر شیاطین را تسلط بود بر هر روح ونفس پس تجملی کرد پر روح محمد کردگار او بر ہمہ سرخ و سیا ہے ثابت است آنکه بهر نوع انسان کرد جان خود شار (۲۵) آخر کار اس کی عاجزی اور آہ وزاری اور دعاؤں سے خدا تعالیٰ نے اپنی مہربانی کی نگاہ اندھیری دنیا پر ڈالی.(۲۶) دنیا میں گناہوں کا بہت بڑا طوفان آیا ہوا تھا.ہر ملک کے لوگ خدا تعالی کی نافرمانی اور شرک کی وجہ سے اندھے اور بہرے ہو رہے تھے.(۲۷) نوح کے زمانہ کی طرح دنیا ہر ایک خرابی سے بھری ہوئی تھی.کوئی دل بھی تاریکی اور گردو غبار سے خالی نہ تھا.(۲۸) ہر ایک روح اور جان پر شیطانوں کا ہی قابو تھا.ایسے حال میں خدا تعالٰی نے محمد کی روح پر اپنی تجلی کی.(۲۹) دنیا کے تمام لوگوں پر اس کا احسان ثابت ہے.اس نے انسان کے لئے اپنی جان قربان کر دی.<1 یا نبی اللہ توئی خورشید رہ ہائے ہدی ہے تو نارد ر ساله درود شریف رو برا ہے عارف پرہیز گار یا نبی اللہ لب تو چشمه جان پرور است یا نبی اللہ توئی در راه حق آموزگار آں یکے جوید حدیث پاک تو از زید و عمرو وان دگر از خود دہانت بشنود بے انتظار زنده آن شخصی که نوشد جرعه از چشمه ات زیرک آن مردیکه کرد است اتباعت اختیار عارفان را منتہائے معرفت علم رخت صادقان را منتہائے صدق بر عشقت قرار (۳۰) اے اللہ کے نبی تو ہی ہدایتوں کی راہوں کا سورج ہے.تیرے بغیر کوئی بھی عارف اور پر ہیز گار رستہ نہیں پا سکتا.(۳۱) اے اللہ کے نبی تیری باتیں جان بخشنے والا چشمہ ہے.اے اللہ کے نبی خدا کی راہ کا تو ہی دکھانے والا ہے.(۳۲) ایک وہ شخص ہے جو تیری باتیں زید اور عمرو کے پاس سے ڈھونڈتا ہے.ایک وہ شخص ہے جو بغیر انتظار کے تیرے منہ سے خود سنتا ہے.(۳۳) وہی آدمی زندہ ہے جو تیرے چشمہ سے پانی پیتا ہے.وہی آدمی عقلمند ہے جس نے تیری اتباع اختیار کی ہے.(۳۴) عارفوں کی معرفت کا انتہا تیرے حسن کا علم ہے.بچوں کی سچائی کا کمال تیرے عشق پر استقامت ہے.
رساله درود شریف く ہے تو ہرگز دولت عرفاں نے یابد کیسے گرچه میرد در ریاضت ها و جهد بے شمار تکیه بر اعمال خود بے عشق رویت ابلهی است غافل از رویت نه بیند روئے نیکی زینهار در دے حاصل شود نورے زعشق روئے تو کال نباشد سالکان را حاصل اندر روزگار از عجائب ہائے عالم ہرچہ محبوب و خوش است شان آن ہر چیز ہر چیز بینم در وجودت آشکار خوشتر از دوران عشق تو نباشد بیچ خوبتر از وصف و مدح تو نباشد بیچ کار رور (۳۵) معرفت کی دولت تیرے بغیر کوئی بھی نہیں پاتا.خواہ کتنی ہی محنت اور کوشش کرے.(۳۶) تیرے عشق کے بغیر اپنے اعمال پر بھروسہ کرنا بیوقوفی ہے.جو تجھ سے غافل ہے وہ نیکی کا منہ ہرگز نہیں دیکھے گا.(۳۷) تیرا عاشق ہو کر فورا ایسا نور حاصل ہوتا ہے جو سالکوں کو اپنے طور پر ساری عمر میں بھی حاصل نہیں ہوتا.(۳۸) دنیا کے عجائبات میں سے جو چیز بھی اچھی ہے اس کی شان تیرے وجود میں میں کھلم کھلا پاتا ہوں.(۳۹) جو وقت تیرے عشق میں گزرے اس وقت سے بہتر اور کوئی وقت نہیں.تیری ثنا اور تعریف سے اچھا اور کوئی کام نہیں.منکه ره بروم بخوبی ہائے بے پایان تو جاں گزارم بهر تو گر دیگرے خدمتگزار ہر کے اندر نماز خود دعائے مے کند من دعا ہائے بروبار تو اے باغ و بہار یا نبی اللہ فدائے ہر سر موئے تو ام وقف راه تو کنم گر جاں دہندم صد ہزار انتباع و عشق رویت از ره تحقیق کیمیائے ہر دلے اکسیر ہر جان فگار دل اگر خون نیست از بهرت چه چیز است آندلی در شار تو نگردد جاں کجا آید کار (۴۰) چونکہ مجھے تیری بے انتہا خوبیوں کا علم حاصل ہو گیا ہے.اس لئے اگر دوسرا خد متگذار ہے.تو میں تیرے لئے اپنی جان پیش کر نیوالا ہوں.(۴۱) ہر شخص اپنی نماز میں کوئی نہ کوئی دعا کرتا ہے.لیکن اے باغ و بہار میں تو تیرے ہی پھلوں پھولوں کے لئے دعا کیا کرتا ہوں.(۴۲) اے اللہ کے نبی میں تو تیرے روئیں روئیں پر قربان ہوں.اگر مجھے لاکھ جانیں بھی ملیں تو تیری راہ میں وقف کر دوں.(۴۳) تحقیقات کے بعد یہ بات پختہ طور پر ثابت ہو گئی ہے کہ تیری اتباع اور تیرا عشق ہر ایک دل کے لئے کیمیا ہے اور ہر ایک کچلی ہوئی جان کے لئے اکسیر ہے.(۴۴) جو دل تیرا عاشق نہ ہو وہ کس کام کا اور جو جان تجھ پر نار نہ ہو وہ کس کام کی.
رساله درود شریف دل نمی ترسد بهر تو مرا از موت ہم پایداری ہا میں خوش میروم راغب اندر رحمتت یا رحمت الله آمدیم ایکہ چوں เ تا یائے دار بر در تو صد ہزار امیدوار یا نبی اللہ ثار روئے محبوب تو ام وقف راست کرده ام این سرکه بر دوش است بار تا بمن نور رسول پاک را بنموده اند عشق او در دل همی جوشد چو آب از آبشار آتش عشق از دم من ہچو برقے مے جہد یک طرف اے ہمدمان خام از گرد و جوار (۴۵) تیری محبت میں میرا دل موت سے بھی نہیں ڈرتا.میری ثابت قدمی دیکھ کہ کس طرح خوش خوش سولی کی طرف جا رہا ہوں.(۴۶) اے اللہ کی رحمت ہم تیری رحمت کے امیدوار بن کر تیری طرف آئے ہیں.تو وہ ہے کہ ہم جیسے لاکھوں امیدوار تیرے دروازے پر پڑے ہیں.(۴۷) اے اللہ کے نبی میں آپ کے پیارے چہرے پر قربان ہوں میں نے اپنا سر جو میرے کندھوں پر ہے تیری راہ میں وقف کر دیا ہے.(۴۸) جب سے رسول پاک کا نور مجھے دکھلایا گیا ہے.تب سے میرے دل میں اس کا عشق ایسا جوش مارتا ہے جیسے آبشار کا پانی.(۴۹) اس کے عشق کی آگ میری سانس سے اسطرح شعلہ مارتی ہے جیسے بجلی.اے کچے عاشقو! میرے پاس سے ہٹ جاؤ (ایسا نہ ہو کہ جھلسے جاؤ ).ፈል رساله درود شریف بر سر وجد است دل تا دید روئے او بخواب اے بر آن روئے وسرش جان و سر و رویم نثار صد ہزاراں یوسفے بینم دریں چاہ ذقن واں صحیح ناصری شد از دم او بیشمار و تاجدار هفت کشور آفتاب شرق و غرب بادشاه ملک لمت ملجاء ہر خاکسار کامران آن دل که زد در راه او از صدق گام نیک بخت آں سر که میدارد سر آن شهسوار یا نبی اللہ جہاں تاریک شد از کفر و شرک وقت آں آمد که بنمائی رخ خورشید دار (۵۰) جب سے میرے دل نے خواب میں اس کی شکل دیکھی ہے تب سے وجد کر رہا ہے.میرا سر اور میری جان اور منہ سب کے سب اس کے سر اور منہ پر قربان ہیں.(۵۱) میں لاکھوں یوسف اس کے چاہ ذقن میں دیکھ رہا ہوں.اور لاکھوں اس کے دم سے مسیح ناصری بن گئے.(۵۲) وہ سات ولایتوں کا تاجدار اور مشرق اور مغرب کا آفتاب ہے.ملک اور ملت کا بادشاہ ہے.اور ہر ایک خاکسار کی جائے پناہ.(۵۳) کامیاب ہے وہ دل جس نے سچائی سے اس کی راہ میں قدم مارا.خوش نصیب ہے وہ سر جس میں اس شہسوار کا شوق بھرا ہوا ہے.(۵۴) اے اللہ کے نبی دنیا کفر اور شرک سے تاریک ہو گئی.اب وقت آگیا ہے کہ آپ سورج سا چمکتا اپنا چہرہ دکھلائیں.
رساله درود شریف 64 بینم انوار خدا در روئے تو اے دلبرم عشق روئے تو بینم دل ہر ہوشیار اہل دل فمند قدرت عارفاں دانند حال چشم شیراں پنہاں خور نصف النهار ہر از رو کے دارد سرے با دلیرے اندر جہاں من فدائے روئے تو اے دلستان گل عزار از همه عالم دل اندر روئے خوبت بسته ام بر وجود خوشتن کردم وجودت اختیار زندگانی چیست جاں کردن براه تو فدا رستگاری چیست در بند تو بودن صید دار (۵۵) اے میرے پیارے میں آپ کے منہ پر خدا تعالیٰ کے انوار دیکھ رہا ہوں.ہر ہوشیار کا دل میں آپ کے عشق میں مست دیکھ رہا ہوں.(۵۶) آپ کا مرتبہ اور آپ کا حال اہل دل اور عارف ہی جانتے ہیں.چمگادڑوں کو دوپہر کا سورج نظر نہیں آتا.(۵۷) دنیا میں ہر کسی کا کوئی نہ کوئی معشوق ہے لیکن اے خوبصورت چہرے والے معشوق میں تو تجھ پر ہی خدا ہوں.تے (۵۸) سارے جہان سے اپنا دل ہٹا کر میں نے آپ کے ساتھ ہی لگایا ہے.اور اپنے وجود پر آپ کے وجود کو میں نے مقدم کر لیا ہے.(۵۹) آپ کی راہ میں جان کو فدا کرنا اصل جینا یہی ہے.شکار کی طرح تیری قید میں رہنا اصل آزادی یہی ہے.وجودم بست خواهد بود عشقت در رساله درود دلم تا دلم دوران خون دارد به تو دار و مدار یا رسول الله برویت عهد دارم استوار عشق تو دارم ازاں روزے کہ بودم شیر خوار ہر قدم کاندر جناب حضرت بیچوں زدم معین در رو دیدمت پنہاں و حامی و نصرت شعار عالم نسبتی دارم بتو از بس بزرگ پرورش دادی مرا خود ہیچو طفلی در کنار کفه نمودی شکل خویش یاد کن وقتیکه یاد کن ہم وقت دیگر کامدی مشتاق دار (۲۰) جب تک میرا وجود ہے آپ کا عشق میرے دل میں رہے گا.جب تک میرے دل میں خون گردش کرتا رہے گا آپ کا ہی عاشق رہے گا.(۶۱) اے اللہ کے رسول! میں پختہ عہد کے ساتھ آپ کے چہرے کا ندائی ہوں.میں تو اس دن سے آپ کا عاشق ہوں جب کہ ماں کی گود میں دودھ پیتا تھا.(۲۲) جو قدم بھی میں نے خدا تعالی کی درگاہ کی طرف اٹھایا ہے.اس میں میں نے آپ کو پوشیدہ طور پر (اپنا) حامی اور مدد گار پایا ہے.(۶۳) دونوں جہانوں میں میں آپ کے ساتھ بہت بڑی نسبت رکھتا ہوں آپ نے خود مجھے بچے کی طرح اپنی گود میں پالا ہے.(۱۴) اس وقت کو یاد کرو جبکہ آپ نے کشف میں مجھے اپنی شکل دکھائی.اس دو سرے وقت کو بھی یاد کرو جب آپ مشتاق کی طرح میرے پاس آئے.
رساله درود شریف یاد کن آں لطف و رحمتها که با من داشتی واں بشارتها که میدادی مرا از کردگار یاد کن وقتے چو بنمودی به بیداری مرا اں جمالے آں رخے آن صورتے رشک بهار ( آئینہ کمالات اسلام - روحانی خزائن جلد صفحه ۲۳ تا ۲۹) ايضا در عظمت شان نبوی المال العالم صلی محمد است امام و چراغ ہر دو جہاں محمد است فروزنده زمین خدا نگوش از ترس حق مگر بخدا ر زمان خدا نما است وجودش برائے عالمیاں ۱۱۵۷ (کتاب البریہ - روحانی خزائن جلد صفحه 1 (۲۵) اپنی ان عنایتوں اور مہربانیوں کو بھی یاد کرو جو آپ مجھ پر کیا کرتے تھے.اور ان بشارتوں کو بھی یاد کریں جو آپ مجھے خدا کی طرف سے دیا کرتے تھے.(۱۷) اس وقت کو بھی یاد کریں جب آپ نے جاگنے کی حالت میں مجھے اپنا رشک بہار چہرہ اور جمال اور اپنی صورت دکھلائی تھی.ہے.(1) محمد دونوں جہان کا امام اور چراغ ہے.محمد زمین و زمان کو روشن کرنے والا (۲) میں خدا کے خوف کی وجہ سے اسے خدا تو نہیں کہہ سکتا.لیکن خدا کی قسم اس کا وجود تمام مخلوق کے لئے خدا نما ہے.29 رساله درود شریف ایضا در برکات محبت و اتباع و عظمت شان نبوی می عجب نوریست در جان محمد عجب لعلیست در کان محمد ز ظلمتها دلے آنگه شود صاف که گردو از محبان محمد عجب دارم دل آن ناکسانرا رو تابند از خوان محمد که دارد شوکت دشان محمد در رو عالم ندانم بیچ نفے خدا زان سینه بیزار ست صدبار که هست از کینه داران محمد خدا خود سوزد آن کرم دنی را که باشد از عدوان محمد اگر خواہی نجات از مستی نفس بیا در ذیل مستان محمد (1) محمد میں کی جان میں عجیب نور ہے.محمد کی کان میں عجیب لعل ہے (۲) تاریکیوں سے دل اس وقت صاف ہوتا ہے جب محمد کے عاشقوں میں سے ہو جائے.(۳) مجھے ان کمینوں اور نالائقوں کے دل کی حالت پر تعجب آتا ہے جو محمدؐ کے دستر خوان سے منہ پھیرتے ہیں.(۴) مجھے دونوں جہان میں ایسا انسان کوئی نظر نہیں آتا جو محمد کی سی شان و شوکت رکھتا ہو.(۵) خدا تعالیٰ اس آدمی سے بالکل بیزار ہے جو اپنے دل میں محمد کا کینہ رکھتا ہو.(1) خدا تعالیٰ اس ذلیل کیڑے کو خود ہی تباہ کر دے گا جو محمد کا دشمن ہو (۷) اگر تو نفس کی بدمستی سے نجات پانا چاہتا ہے تو محمد کے مستوں کے ذیل میں آجا.
رساله درود شریف اگر خواهی که حق گوید ثایت بشو از دل ثنا خوان محمد اگر خواہی دیلے عاشقش باش محمد برہان محمد سرے دارم فدائے خاک احمد ولم ہر وقت قربان محمد بگیسوئے رسول اللہ کہ ہستم نار روئے تابان محمد دریں رہ گر گشتندم در بسوزند تابم رو ز ایوان محمد بکار دیں نترسم از جهانی دارم رنگ ایمان محمد ہے سل ست از دنیا بریدن بیاد حسن و احسان محمد (۸) اگر تو چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ تیری تعریف کرے تو تو جان و دل سے محمدؐ کا ناخواں ہو جا.(۹) اگر تو اس بات کا ثبوت چاہتا ہے تو اس کا عاشق بن جا کیونکہ محمد اپنی دلیل آپ ہے.(10) میرا سر محمد کے پاؤں کے غبار پر فدا ہے.میرا دل ہر وقت محمد پر قربان ہے.(11) رسول اللہ کے زلفوں کی قسم کہ میں محمد کے رخ تاباں پر نثار ہوں.(۱۲) اس راہ میں خواہ مجھے قتل کیا جائے خواہ جلایا جائے.میں محمد کی بارگاہ سے منہ نہیں پھیرو نگا.(۱۳) دین کے کام میں میں سارے جہان کے لوگوں سے بھی نہیں ڈرتا.کیونکہ مجھ پر محمد کے ایمان کا رنگ چڑھا ہوا ہے.(۱۴) دنیا ( کی آلودگی) سے (نجات پانا اور اس سے) قطع تعلق کرنا محمد کے حسن اور احسان کی یاد سے بالکل آسان ہو جاتا ہے.Al ر ساله درود شریف فدا شد در رہش ہر ذره من که دیدم حسن پنهان محمد در دبستان محمد دگر استاد را نامی ندانم که خواندم بدیگر دلبری کاری ندارم که هستم کشته آن محمد مرا آن گوشه چشم بیاید نخواهم جز گلستان محمد دل زارم به پہلو تم مجوسید که سیمش بدامان محمد من آن خوش مرغ از مرغان قدیم که وارد جا تو جان ما منور کردی از عشق فدایت جانم اے جان محمد (۱۵) میرا ہر ذرہ اس کی راہ میں خدا ہو گیا کیونکہ میں نے محمدؐ کے پوشیدہ حسن کو دیکھ لیا.بستان محمدم (۱) میں کسی دوسرے استاد کا نام نہیں جانتا کیونکہ میں نے محمدؐ کے مدرسہ میں ہی تعلیم پائی ہے.(۱۷) مجھے کسی دوسرے معشوق سے واسطہ نہیں.میں تو محمد کی ادا کا کشتہ ہوں (۱۸) میں تو اس کی ایک نظر کا طلب گار ہوں خواہ گوشہ چشم سے ہی کیوں نہ ہو.محمد کے باغ کے سوا مجھے کسی اور باغ کی ضرورت نہیں ہے.(۱۹) میرے خستہ حال دل کو میرے سینہ میں مت ڈھونڈو کیونکہ ہم نے اسے محمد کے پہلے سے باندھ دیا ہوا ہے.(۲۰) میں قدس کے پرندوں میں سے وہ بہترین پرندہ ہوں جس کا آشیانہ محمدؐ کے باغ میں ہے.(۲۱) اے محمد کی جان! تو نے اپنے عشق سے ہماری جان کو نورانی کر دیا ہے.میری جان تجھ پر فدا ہو.
رساله درود شریف " ۸۲ دریغا گرد هم صد جاں دریں راہ نباشد نیز شایان محمد که ناید کس به میدان محمد چہ ہیبت ها بداوند این جوان را الا اے دشمن نادان و بے راہ بترس از شیخ بران محمد ره مولی که گم کردند مردم بچو در آل و اعوان محمد الا اے منکر از شان محمد ہم از نور نمایان محمد کرامت گرچہ بے نام نشان است بیا بنگر j ر غلمان محمد داشتهار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء) (۲۲) ہائے حسرت ، اگر میں اس راہ میں مارا جاؤں اور پھر زندہ کر کے اس کے لئے مارا جاؤں اور اسی طرح سو بار اس پر جان فدا کروں تو پھر بھی یہ محمد کی شان کے مناسب حال نہیں ہو گا.(۲۳) اس جو ان کی کیسی ہیبت ہے کہ آپ کے مقابل پر میدان میں آپ کے ڈر کے مارے کوئی نہیں آتا.(۲۴) اے نادان اور گمراہ دشمن ہوش میں آ.محمد کی کاٹنے والی تلوار سے ڈر جا.(۲۵) خدا تعالیٰ کا رستہ جو لوگوں نے گم کر دیا ہے اب اس کو محمد کی آل اور اس کے مددگاروں میں ڈھونڈ.ے.(۲۶) اے وہ شخص جو محمد کی شان کا اور آپ کے بالکل ظاہر نور کا منکر ہے سن (۲۷) کہ کرامت اگر چہ بے نام و نشان ہو چکی ہے.آکر محمد کے غلاموں کے پاس اسے دیکھ لے.سوم رساله درود شریف ايضا در عظمت شان و افاضه آنحضرت مال العالم جان و دلم فدائے جمال محمد است خاکم نثار کوچه آل محمد دیدم بعین ور قلب و شنیدم بگوش ہوش ہر مکاں ندائے جمال محمد است این چشمه روان که بخلق خدا دہم یک قطره ز بحر کمال محمد است ایس آشم ز آتش مهر محمدی است دیں آب من ز آب زلال محمد است اشتهار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء) (1) میری جان اور دل محمد کے جمال پر فدا ہے.میری خاک محمد کی آل کے کوچے پر نثار ہے.(۲) میں نے دل کی آنکھ سے دیکھا ہے اور ہوش کے کان سے سنا ہے کہ ہر ایک مقام میں محمد کے جمال کی ندا کی گونج ہے.(۳) یہ جاری چشمہ جو میں لوگوں کو پلا رہا ہوں.محمد کے کمال کے سمندر کا ایک قطرہ ہے.(۴) یہ میری آگ محمد کی محبت کی آگ سے روشن شدہ ہے اور یہ میرا پانی محمد ہی کے مصفا پانی سے حاصل شدہ ہے.
رساله درود شریف ۸۴ ايضا در عظمت و رفعت شان آنحضرت اختاری افتاد شان احمد را که داند جز خدا وند کریم آنچنان از خود جدا شد کز میاں زاں نمط شد محو دلبر کز کمال اتحاد پیکر او شد سراسر صورت رب رحیم ہوئے محبوب حقیقی میدید زاں روئے پاک ذات حقانی صفاتش مظهر ذات قدیم گرچه منسوبم کند کس سوئے الحاد و ضلال چوں دل احمد نمی بینم دگر عرش عظیم (1) احمد کی شان کو خدا تعالیٰ کے سوا اور کون جانتا ہے.وہ خودی سے ایسا جدا ہوا کہ اس وصف میں یکتا ہو گیا.(۲) وہ دلبر میں کچھ ایسا محو ہوا کہ (اس کا کوئی الگ وجود نہ رہا حتی کہ ) کمال اتحاد کی وجہ سے اس کا وجود خدا تعالی ہی کا وجود ہو گیا.(۳) اس پاک چہرہ سے محبوب حقیقی کی خوشبو آتی ہے.اس کی خدائی صفات والی ذات خدا تعالی کی مظہر ہے.(۴) خواہ کوئی مجھے محمد اور گمراہ ہی کیوں نہ کیے میں تو یہی کہوں گا کہ میں احمد کے دل جیسا کوئی اور عرش عظیم نہیں جانتا.احدیت سے مراد خدائی یا وحدت وجود نہیں.بلکہ اس وصف (از خود جدا شدن) میں یکتائی مراد ہے (از حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام.بروایت حکیم مولوی محمد الدین گوجرانوالہ - حال قادیان).AD رساله درود شریف ایزد را که من بر رغم اہل روزگار صد بلا را میخرم از ذوق آن عین النعیم از عنایات خدا و ز فضل آن دادار پاک دشمن فرعونیانم بهر عشق آن کلیم آن مقام و رتبت خامش که بر من شد عیاں گفتم گر دیدے طعے دریں راہے سلیم در عشق محمد ایس سر و و جانم رود ایں تمنا ایں دعا این در این در دلم عزم صمیم توضیح مرام - روحانی خزائن جلد صفحه ۷۳۰۶۲) (۵) خدا تعالیٰ کا احسان ہے کہ میں تمام بدخواہ) لوگوں کے ارادوں اور خواہشوں کے خلاف اس نعمتوں کے چشمہ کے مزے حاصل کر رہا ہوں اور اس کے لئے ہر ایک طرح کی مصیبت کو عین راحت سمجھ کر اسے اختیار کر رہا ہوں.(1) خدا تعالی کے فضل اور اس کی عنایتوں سے میں اس موسیٰ کے عشق کی وجہ سے خود موسیٰ بن کر فرعونی گروہ کے مقابل پر کھڑا ہوں.(۷) اس کا وہ مقام اور خاص رتبہ جو مجھ پر ظاہر ہوا ہے میں بتلا دیتا اگر اس راہ میں کوئی سلیم طبع والا میں دیکھتا.(۸) محمد ( میں اس کے عشق میں میرا یہ سر اور جان چلی جائے.یہی میری تمنا ہے یہی میری دعا ہے اور یہی میرے دل کا پکا ارادہ ہے.
رساله درود شریف AY ایضا در عظمت شان و برکات اتباع نبوی اں شہ عالم که نامش مصطفیٰ سید عشاق حق شمس الضحیٰ آنکہ ہر نورے طفیل نور اوست آنکه منظور خدا منظور اوست آن که بهر زندگی آب رواں در معارف ہیچو بحر بیکراں آنکه بر صدق و کمالش در جہاں دلیل و حجت روشن عیاں آنکہ انوار خدا بر روئے او مظهر کار خدائی کوئے او آنکه جمله انبیا و راستان راستان خادمانش ہمچو خاک آستاں صید (1) وہ تمام جہان کا بادشاہ جس کا نام مصطفی ہے جو خدا تعالیٰ کے عاشقوں کا سردار اور شمس الضحی ہے.(۲) وہ ہر ایک نور جس کے نور کے طفیل سے ہے.آپ کی یہ شان ہے کہ آپ کا منظور نظر خدا کا منظور نظر ہے.(۳) جو زندگی کے لئے آب حیات ہے اور حقائق اور معارف میں نا پیدا کنار سمندر ہے.(۴) آپ کی سچائی اور آپ کے کمال پر دنیا میں صدہا روشن دلائل اور ثبوت موجود ہیں.(۵) آپ کے چہرہ پر خدا تعالٰی کے انوار برس رہے ہیں.آپ کا کوچہ خدائی کاموں کا مظہر ہے.(1) تمام انبیاء اور راستباز خادم بنگر دہلیز کی مٹی کی طرح آپ کے دروازہ پر AL رساله درود شریف آنکہ مرش می رساند تا سما می رساند تا کما میکند چون ماه تاباں در صفا طرح بنا دیتی ہے.ہر ے دہد فرعونیاں را ہر زماں چوں ید بیضائے موسے صد نشاں در شے پیدا شود روزش کند در خزان آید دل افروزش کند مظهر انوار آں بیچوں بود در خرد از هر بشر افزوں بود اتباعش آن دهد دل را کشاد کش نه بیند کس بصد ساله جهاد اتباعش دل فروزد جاں دہر جلوه از طاقت یزدان دهد اتباعش سینه نورانی کند با خبر از یار پنهانی کند (۷) آپ کی محبت آسمان پر پہنچا دیتی ہے اور صدق و صفا میں چمکنے والے چاند کی (۸) آپ فرعون کی سیرت والے لوگوں کو ہر دم موئنے کے ید بیضا کی طرح کے صد ہا نشان دکھاتے ہیں.(۹) جب آپ رات کے وقت (یعنی تاریکی کے زمانہ میں) اپنا چہرہ دکھائیں تو اسے دن بنا دیتے ہیں.اور خزاں کے موسم میں آکر اسے بہار دکھتا بنا دیتے ہیں.(۱۰) وہ خدا تعالیٰ کے انوار کا مظہر ہے.اور دانائی میں ہر انسان سے بڑھ کر ہے.(11) اس کی اتباع دل کو ایسی کشادگی عطا کرتی ہے جو کسی کو سو برس کے مجاہدہ سے بھی حاصل نہیں ہوتی.(۱۲) اس کی اتباع دل کو روشن کرتی ہے اور مردوں میں جان ڈالتی ہے.خدا تعالی کی طاقت کا ایک جلوہ دکھاتی ہے.(۱۳) اس کی اتباع سینہ کو منور کرتی ہے اور اس دراء الوراء ہستی تک پہنچنے کی را ہیں بتا دیتی ہے.پڑے ہیں.
رساله درود شریف AA ۸۹ رہ سالہ ور ہر بیان او سراسر در بود منطق او از معارف پر بود از کمال حکمت و تکمیل دیں پا نهد بر اولین و آخرین و ز کمال صورت و حسن اتم جمله خوباں را کند زیر قدم تا عش چون انبیا گردد ز نور نورش افتد بر همه نزدیک ! و دور شیر حق پر ہیبت از رب جلیل دشمناں پیشش چو روباه ذلیل (براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۲۲ تا ۷۳۸) (۱۴) اس کا کلام حقائق و معارف سے بھرا ہوا ہوتا ہے.اس کا ہر ایک بیان سرا سر موتیوں کی لڑی کی طرح ہوتا ہے.(۱۵) حکمت کے کمال اور دین کی تکمیل کی رو سے تمام اولین اور آخرین اس کے قدم کے نیچے ہیں.(۱۶) اس کے انتہائی جمال اور کمال حسن کی وجہ سے تمام حسین اس کے آگے اسکے پاؤں کے نیچے کی مٹی کی طرح ہیں.(۱۷) اس کا متبع منور ہو کر انبیاء کی طرح ہو جاتا ہے.اس کا نور نزدیک والوں کو اور دور والوں کو سب کو روشن کرتا ہے.(۱۸) خدا تعالی کا پر ہیبت شیر ہے.اس کے دشمن اس کے آگے ذلیل لومڑی کی طرح ہیں.ايضا در اثبات حیات نبوی میم (ماخوذ از مکتوب منظوم بنام مولوی الله و تا صاحب استاد صاحبزادگان مورخه ۶ ستمبر ۱۸۸۲ء) کیسے کش بود مصطفیٰ رہنما سر بخت او باشد اندر سما جہاں جمله مرده فقاد است و زار یکی زنده او هست از کرد گار چنین است ثابت بقول سروش اگر راز معنی نیابی خموش اگر در ہوا ہمچو مرغان پری دگر بر سر آب یا بگذری وگر ز آتش آئی سلامت بروں وگر خاک را زر کنی از فسوں اگر منکری از حیات رسول سراسر زیاں است و کار فضول (1) جس کا رہبر مصطفی میں ہی ہو اس کے نصیبے کا سر اپنی بلندی کی وجہ سے آسمان پر پہنچا ہوا ہوتا ہے.(۲) تمام جهان مردہ اور خستہ حال پڑا ہے.خدا تعالی کے ہاتھ سے زندہ کیا ہوا (۳) جبرائیل کی لائی ہوئی وحی الہی سے ایسا ہی ثابت ہو تا ہے.اگر تم حقیقت سے نا آشنا ہو تو اس معاملہ میں خاموش رہو.(۴) اگر تو پرندوں کی طرح ہوا میں بھی اڑے یا (میدان کی طرح) پانی کی سطح پر چل کر دکھائے.(۵) یا آگ میں پڑ کر اس سے صحیح سلامت نکل آتا ہو یا کوئی منتر پڑھ کر مٹی کو ایک وہی ہے.سونا بنا دیتا ہو.(۲) تاہم اگر تو حیات رسول سے منکر ہے تو یہ سب کار روائی سراسر فضول اور موجب نقصان ہو گی.
ر ساله درود شریف ۹۰ خدایش چو خوانده گواہ جہاں چرا داندش عاقل از غائبان بمهر منیرش خطاب از خدا است دریغا ازین پس گمانها چرا ایضا در عشق آنحضرت مال ست (اخبار بدر جلد ۸ نمبر ۲۷) بعد از خدا بعشق محمد محمرم گر کفر ایس بود بخدا سخت کافرم از خود تهی و از غم آن دلستاں پرم ہر تار و پود من بسراید بعشق او جانم خدا شود بره دین مصطفی این است کام دل اگر آید میسرم (ازالہ اوہام - روحانی خزائن جلہ صفحہ ۱۸۵) (۷) جب خدا تعالٰی نے اس کا نام گواہ جہان رکھا ہے.تو کوئی عظمند شخص اسے غائب کیوں سمجھنے لگا.ہیں.(۸) خدا تعالٰی نے اس کو مہر منیر فرمایا ہے.پھر اس قسم کی بدگمانیاں کیوں کی جاتی (1) خدا کے بعد میں محمد ( م ) کے عشق میں سرشار ہوں.اگر کفر یہی ہوتا کفریہی ہے تو خدا کی قسم میں سخت کافر ہوں.(۲) میرا ہر رگ وریشہ اس کے عشق کے راگ گاتا ہے.میں اپنے آپ خالی اور اس محبوب کے غم سے بھرا ہوا ہوں.(۳) میری جان مصطفیٰ کے دین کی راہ میں خدا ہو جائے.یہ ہے میرا دلی مقصد خدا کرے پورا ہو.۹۱ ايضا در عظمت شان آنحضرت مال العالم رساله درود شریف محمد میں نقش نور خدا است کہ ہرگز چنو بگیتی نخاست تمی بود از راستی هر دیار بکردار آن شب که تاریک و تار خدا ئیش فرستاد و حق گسترید زمین را بدان مقدمے جاں دمید نهایست از باغ قدس و کمال ہمہ آل او پہنچو گلہائے آل ( براحسین احمدیہ.روحانی خزائن جلد ا صفحه ۸۵) ایضا در عظمت شان و برکات عشق و اتباع نبوی سید شاں آنکه نامش مصطفی است رہبر ہر زمره صدق وصفا است می درخشد روئے حق در روئے او ہوئے حق آید ز بام و کوئے او خدا تعالی کے نور کا سب سے بڑا نقش ہے کہ آپ جیسا کوئی فرد کبھی دنیا (1) محمد خدا میں پیدا نہیں ہوا.(۲) ہر ایک ملک سچائی سے خالی تھا اور اس رات کی طرح تھا جو بالکل تاریک ہو.(۳) خدا تعالٰی نے اس کو بھیجا اور سچائی کو پھیلایا.اس (راستی مجسم کی آمد سے (مردہ) زمین میں جان آگئی.(۴) آپ قدس اور کمال کے باغ کا ایک پودا ہیں.آپ کی تمام اولاد سرخ پھولوں کی طرح ہے.(1) ان کا سردار جس کا نام مصطفیٰ ہے.ہر ایک صدق و صفا والے گروہ کا سردار ہے.(۲) آپ کے چہرہ میں خدا تعالٰی کا چہرہ چمکتا ہے.آپ کے درو دیوار سے خدا تعالی کی خوشبو آتی ہے.
رساله درود شریف ۹۲ ہر کمال رہبری بر وے تمام پاک روؤ پاک رویان را امام اے خدا اے چارہ آزار ما کن شفاعت ہائے او در کار ما هر که مهرش در دل و جانش فتد ناگہاں جانے در ایمانش فند آنکه اورا ظلمتی گیرد براه نیستش چوں روئے احمد مہر و ماہ تا بعش بحر معانی می شود از زمینی آسمانی می شود ہر که در راه محمد زد قدم انبیا را شد مثیل آں محترم ضیاء الحق.روحانی خزائن جلد صفحه ۲۵۴) (۳) ہادی اور ہنما ہونے کا ہر ایک کمال آپ پر ختم ہے.آپ پاک رو ہیں اور پاک رو لوگوں کے امام ہیں.(۴) اے خدا اے ہمارے دکھوں کے علاج! ہمارے معاملہ میں آپ کی شفاعتیں قبول فرما.(۵) جس کے جان و دل میں آپ کی محبت داخل ہو جائے.نورا اس کے ایمان میں جان پڑ جاتی ہے.(۶) جس شخص کو دین کے راستہ میں کسی قسم کی ظلمت روک ہو.اس کے لئے احمد کے چہرے جیسا نور بخش نہ کوئی سورج ہو سکتا ہے نہ چاند.(۷) اس کا متبع باطنی علوم کا سمندر بن جاتا ہے.اور زمینی ہونے کی حالت سے نکل کر آسمانی بن جاتا ہے.گیا.(۸) جس نے محمد کی راہ میں قدم مارا وہ واجب الاحترام شخص نبیوں کا مثیل بن ۹۳ رساله درود شریف ایضا در عظمت شان و ذکر عشق و اوصاف عشق نبوی رہبر ما سید ما مصطفی است آنکه ندیدست نظیرش سر دش آنکه خدا مثل رخش نافرید آنکہ رہش مخزن ہر عقل و ہوش دشمن دیں حملہ پر دے کند حیف بود گر بنشینم خموش بر آں نہ مسلماں بتر از کافر است کش نبود از پئے آں پاک جوش جاں شود اندر ره پاکش فدا مژدہ ہمیں است گر آید بگوش سر که نه در پائے عزیزش و بار گران است کشیدن بدوش (اشتہار ۱۷.مارچ ۶۹۴) 331 (۱) ہمارا رہنما اور ہمارا سردار مصطفیٰ ہے.جس کا مثیل و نظیر (فرشتہ وحی) جبرئیل نے نہیں دیکھا.(۲) آپ جیسا کوئی چہرہ اللہ تعالی نے پیدا نہیں کیا.آپ کا رستہ ہر عقل و خرد کا (۳) دین کا دشمن آپ پر حملہ کرتا ہے.یہ افسوس کا مقام ہو گا اگر میں خاموش خزانہ ہے.بیٹھا رہوں.(۴) وہ مسلمان نہیں بلکہ کافر سے بد تر ہے جس کو اس پاک کے لئے جوش نہ ہو.(۵) آپ کی پاک راہ میں میری جان فدا ہو جائے.اس سے بڑھ کر اور کوئی خوشخبری نہیں ہو سکتی.کاش مجھے یہ مژدہ مل جائے اور اس کا سننا مجھے نصیب ہو.(۶) جو سر آپ کے بزرگ شان قدموں پر قربان نہ ہو جائے اسے اٹھائے پھرنا ایک فضول اور بے فائدہ بوجھ کا اٹھانا ہے.
رساله و رود شریف ۹۴ تمام انبیاء آنحضرت کے طفیلی ہیں موسیٰ و عیسی ہمہ خیل تو اند جمله دریس راه طفیلی تو اند ( آئینہ کمالات اسلام - روحانی خزائن جلد صفحه ۱۶۴) ایضا در عظمت شان و برکات اتباع و ذکر عشق نبوی آں رسولے کش محمد ہست نام دامن پاکش بدست ما مدام مهر او با تیر شد اندر بدن جاں شد و باجان بدر خواهد شدن بست او خیر الرسل خیر الانام ہر نبوت را برو شد اختام ما از و نوشیم ہر آہے کہ ہست زوشده سیراب میرا بے کہ ہست (1) موسی اور عیسی (اور دوسرے تمام انبیاء) آپ کے گلہ کی بھیڑیں یا آپ کی فوج کے چابک سوار ہیں.اور اس راہ میں آپ کے طفیلی.(1) وہ رسول جس کا نام محمد ) میں یا ہو رہا ہے.اس کا پاک دامن ہر وقت ہمارے ہاتھ میں ہے.(۲) آپ کی محبت ماں کے دودھ کے ساتھ یعنی پیدائش کے دن سے میرے وجود کے اندر داخل شدہ ہے.اس لئے آپ کی محبت جان بن گئی ہے اور مرنے کے وقت جان کے ساتھ ہی جائے گی.(۳) آپ تمام رسولوں سے اور تمام خلقت سے بہتر ہیں.نبوت کا ہر ایک شعبہ آپ پر ختم ہے.(۴) فیضان اللی کا ہر ایک پانی ہم آپ کے طفیل پیتے ہیں.جو بھی سیراب ہوا ہے رسالہ آنچه ما را وحی و ایمائ بود آن نه از خود از ہماں جائے بود ما از و یا بیم هر نور و کمال وصل دلدار ازل بے او محال اقتدائے قول او در جان ماست هرچه زو ثابت شود ایمان ماست الغرض فرقان مدار دین ماست او انیس خاطر غمگین ماست همچنین عشقم بروئے مصطفی مصطفی دل پرو چوں مرغ سوئے مصطفیٰ تا مرا دادند از حسنش خبر شد دلم از عشق او زیر و زبر (۵) جو بھی ہمیں وحی یا اشارہ ہوتا ہے.وہ براہ راست نہیں بلکہ آپ ہی کے فیضان سے ہوتا ہے.(۶) ہر ایک نور اور کمال ہم آپ ہی سے پاتے ہیں.خدا تعالی کا وصل بغیر آپ کے ناممکن ہے.(۷) آپ کے فرمودہ کی پیروی کرنا ہماری جان میں داخل ہے.جو بات آپ کی طرف سے ثابت ہو جائے اس پر ہمارا ایمان ہے.(۸) الغرض قرآن شریف پر ہمارے دین کا دار ومدار ہے.وہ ہمارے غمگین دل کا انیس ہے.(۹) اسی طرح مصطفی میں کا مجھے عشق ہے.میرا دل مصطفی کی طرف پرندے کی طرح پرواز کرتا ہے (۱۰) جب سے میں آپ کے حسن سے آگاہ ہوا ہوں.تب سے میرا دل آپ کے عشق سے پریشان اور سراسیمہ ہے.آپ ہی سے ہوا ہے.
رساله درود شریف 94 جاں فشانم گر دہر دل دیگرے منکه می بینم رخ آن دلبری ساقی من بست آں جاں پرورے ہر زمان مستم کند از ساغرے محور وئے او شد است ایں روئے من ہوئے او آید ز بام و کوئے من بکه من در عشق او هستم نہاں من ہمانم، من ہمانم، من ہماں جان من از جان او یا بد غذا از گریبانم عیاں شد آن ذکا احمد اسم اندر جان احمد شد من گردید آن اسم وحید ضمیمہ سراج منیر روحانی خزائن جلد صفحہ ۹۵) ۹۷ رساله درود شریف مدح نبوی در وحی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام بزبان اردو ”پاک محمد مصطفے نبیوں کا سردار" (براہین احمدیہ - روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۲۳) ايضاً برتر گمان و و ہم سے احمد کی شان ہے غلام دیکھو مسیح الزمان ہے جس کا (حقیقتہ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه (۲۸۶) (11) چونکہ میں اس دلبر کا چہرہ دیکھ رہا ہوں.اس لئے دوسرا اگر صرف عاشق ہو تا مطرح نبوئی از حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بزبان اردو ہے تو میں اپنی جان بھی قربان کرتا ہوں.(۱۲) میرا ساقی وہی جان پرور ہے.وہ ہر وقت مجھے نیا جام پلا کر مست کر رہا ہے.(۱۳) میرا منہ آپ کے چرہ کے دیدار کے لئے وقف ہو چکا ہے.میرے درد دیوار سے آپ کی خوشبو آرہی ہے.(۱۴) چونکہ میں آپ کے عشق میں اپنے وجود سے فتا شدہ ہوں.اس لئے میں وہی ہوں وہی ہوں.اور بالکل وہی ہوں.(۱۵) میری جان اس کی جان سے غذا پاتی ہے.وہ آفتاب میرے گریبان سے ظاہر ہوا ہے.ہے.(۱) وہ احمد اس احمد میں ہو کر ظاہر ہوا ہے اور اس یکتا کا نام میرا ہی نام بن گیا وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا نام اس کا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے سب پاک ہیں پیمبر اک دوسرے سے بہتر لیک از خدائے برتر خیر الوری یہی ہے ہے پہلوں سے خوبتر ہے خوبی میں اک قمر اس پر ہر اک نظر ہے بدر الدجی یہی ہے پہلے تو رہ میں ہارے پار اس نے ہیں اتارے میں جاؤں اس کے وارے بس ناخدا یہی ہے پردے جو تھے ہٹائے دلبر کے راہ دکھائے دل یار سے وہ آشنا میں ہے ملائے
رساله درود ٩٩ رساله درود شریف 03 یار لامکانی وہ دلبر نهانی دیکھا ہے ہم نے اس نے اس سے بس رہنما یہی ہے وہ آج شاہ دیں ہے وہ تاج مرسلیں ہے وہ طیب و امیں ہے اس کی ثناء یہی ہے حق سے جو حکم آئے اس نے وہ کر دکھائے جو راز تھے بتائے نعم آنکھ اس کی دور میں ہے، دل یار سے قریب ہے ہاتھوں میں شمع دیں ہے عین الضیاء یہی ہے العطا نہیں ہے جو راز دیں تھے بھارے اس نے بتائے سارے دولت کا دینے والا فرماں روا کی ہے 05 اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے دلبر یگانہ علموں کا خزانه ہے باقی ہے سب فسانہ سچ بے خطا یہی ہے سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدایا وہ جس نے حق دکھایا وہ میر لقا کی ہے ہم تھے دلوں کے اندھے سو سو دلوں پر پھندے پھر کھولے جس نے جندے وہ مجتبی یہی ہے ( قادیان کے آریہ اور ہم.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۵۶) مصطفیٰ تیرا بید اس سے ايضاً ہو سلام اور رحمت نور لیا بار خدایا ہم نے ربط ہے جان محمد سے مری جان کو مدام ده دل کو اس سے بہتر نظر آیا نہ کوئی عالم میں لاجرم غیروں سے دل اپنا چھڑایا ہم نے جام لبالب ہے پلایا ہم نے تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمد تیری خاطر سے یہ سب بار اٹھایا ہم نے تیری الفت سے ہے معمور مرا ہر ذرہ اپنے سینے میں یہ اک شہر بسایا ہم نے نقش ہستی تری الفت سے مٹایا ہم نے اپنا ہر ذرہ تری رہ میں اڑایا ہم نے شان حق تیرے شمائل میں نظر آتی ہے تیرے پانے سے ہی اس ذات کو پایا ہم نے چھو کے دامن تیرا ہر دام سے ، ملتی ہے نجات لا جرم در په ترے سر کو جھکایا ہم نے دلیرا مجھ کو قسم ہے تیری یکتائی کی آپ کو تیری محبت میں بھلایا ہم نے بخدا دل سے مرے مٹ گئے سب غیروں کے نقش جب سے دل میں یہ ترا نقش جمایا ہم نے
" رساله درود شریف دیکھ کر تجھ کو عجب نور کا جلوہ دیکھا نور سے تیرے شیاطیس کو جلایا ہم نے ہم ہوئے خیر اہم تجھ سے ہی اے خیر رسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے آدمی زاد تو کیا چیز فرشتے بھی تمام مدح میں تیری وہ گاتے ہیں جو گایا ہم نے ( آئینہ کمالات اسلام - روحانی خزائن جلد صفحه ۲۲۵) ايضاً زندگی بخش جام احمد ہے کیا ہی پیارا یہ نام احمد ہے باب سوم H درود شریف کے متعلق رساله درود شریف لاکھ ہوں انبیاء مگر بخدا سے بڑھ کر مقام احمد ہے قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام باغ احمد سے ہم نے پھل کھایا میرا بستاں کلام احمد ہے ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس بہتر غلام احمد ہے وافع البلاء - روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۴۰) کے ارشادات
۱۰۳ رساله درود شریف اعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّحِيمِ و لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَ عَلَى الِهِ سِيَّمَا المَسِيحِ الْمَوْعُودِ مَعَ التَّسْلِيمِ اَللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ درود شریف درود شریف کے متعلق قرآن کریم میں حکم إن الله وملكتة يُصَلُّون على النبي يايها الذين امنوا صَلّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (احزاب : ۵۷) " خدا اور اس کے سارے فرشتے اس نبی کریم پر درود بھیجتے ہیں.اے ایماندارو تم بھی اس پر درود بھیجو.اور نہایت اخلاص اور محبت سے سلام کرو " (براہین احمدیہ حصہ سوم روحانی خزائن جلد، صفحه ۲۴۱) " اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے.کہ رسول اکرم ( م ) کے اعمال ایسے تھے.کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف یا اوصاف کی تحدید کرنے کے لئے کوئی لفظ خاص نہ فرمایا.لفظ تو مل سکتے تھے.لیکن خود استعمال نہ کئے.یعنی آپ کے اعمال صالحہ کی تعریف تحدید سے بیرون تھی.اس قسم کی آیت کسی
رساله درود شریف ۱۰۴ اور نبی کی شان میں استعمال نہ کی.آپ کی روح میں وہ صدق و صفا تھا.اور آپ کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے یہ حکم دیا.کہ آئندہ لوگ شکر گزاری کے طور پر درود بھیجیں.ان کی ہمت اور صدق وہ تھا.کہ اگر ہم اوپر یا نیچے نگاہ کریں.تو اس کی نظیر نہیں ملتی" از حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام بحوالہ اخبار الحکم جلدے نمبر ۲۵ پرچه ۱۰ جولائی ۱۹۰۲ء صفحہ ۲) وحی و کشوف و رویائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام درباره درود شریف (۱) وَأَمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَالِ مُحَمَّدٍ الصَّلَوةُ هُوَ الْمُرَتِي (براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد ا صفحه (۲۶۷) نیک کاموں کی طرف رہنمائی کر.اور برے کاموں سے روک.اور محمد اور آل محمد م پر درود بھیج.درود ہی تربیت کا ذریعہ ہے.(۳) صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ سَيْدِ وُلدِ آدَمَ وَخَاتَمِ " درود بھیج محمد اور آل محمد پر جو سردار ہے آدم کے بیٹوں کا اور خاتم الانبیاء ہے." یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے.کہ یہ سب مراتب اور تفضلات اور عنایات اسی کی طفیل سے ہیں.اور اسی سے محبت کرنے کا صلہ ہے.سبحان ۱۰۵ رساله درود شریفه اللہ اس سرور کائنات کے حضرت احدیت میں کیا ہی اعلیٰ مراتب ہیں اور کس قسم کا قرب ہے.کہ اس کا محب خدا کا محبوب بن جاتا ہے.اور اس کا خادم ایک دنیا کا مخدوم بنایا جاتا ہے.محبوبے نہ ماند ہیچو یار دلبرم مهر و مه را نیست قدری در دیار دلبرم آل کجا روئے کہ دارد بیچو رویش آب و تاب واں کجا باغے کہ مے دارد بهار دلبرم اس مقام پر مجھ کو یاد آیا.کہ ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہو گیا.اسی رات خواب میں دیکھا.کہ آب زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں.اور ایک نے ان میں سے کہا.کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد کی طرف بھیجے تھے.اسلامی اور ایسا ہی عجیب ایک اور قصہ یاد آیا ہے.کہ ایک مرتبہ الہام ہوا.جس کے معنی یہ تھے کہ ملاء اعلی کے لوگ خصومت میں ہیں.یعنی ارادہ الہی احیاء دین کے لئے جوش میں ہے لیکن ہنوز ملاء اعلیٰ پر شخص می کی تعیین ظاہر نہیں ہوئی.اس لئے وہ اختلاف میں ہے.اسی اثنا میں خواب میں دیکھا.کہ لوگ ایک محیی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں.اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا.اور اشارہ سے اس نے کہا هَذَا رَجُلٌ يُحِبُّ رَسُولُ الله یعنی یہ وہ آدمی ہے.جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے.اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسول ہے.سودہ
رساله درود شریف اس شخص میں متحقق ہے.14 اور ایسا ہی الہام متذکرہ بالا میں جو آل رسول پر درود بھیجنے کا حکم ہے.سو.اس میں بھی یہی سر ہے کہ افاضہ انوار الہی میں محبت اہل بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے.اور جو شخص حضرت احدیت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے وہ انہیں طیبین طاہرین کی وراثت پاتا ہے.اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے.اس جگہ ایک نہایت روشن کشف یاد آیا.اور وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ نماز مغرب کے بعد مین بیداری میں ایک تھوڑی سی غیبت حس سے جو خفیف سے نشاء سے مشابہ تھی ایک عجیب عالم ظاہر ہوا.کہ پہلے یکد فعہ چند آدمیوں کے جلد جلد آنے کی آواز آئی.جیسے بہ سرعت چلنے کی حالت میں پاؤں کی جوتی اور موزہ کی آواز آتی ہے.پھر اسی وقت پانچ آدمی نہایت وجیہ اور مقبول اور خوبصورت سامنے آگئے.جناب پیغمبر و حضرت علی و حسنین و فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہم اجمعین.اور ایک نے ان میں سے اور ایسا یاد پڑتا ہے.کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نہایت محبت اور شفقت سے مادر مہربان کی طرح اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا.پھر بعد اس کے ایک کتاب مجھ کو دی گئی.جس کی نسبت یہ بتلایا گیا.کہ یہ تفسیر قرآن ہے.جس کو علی نے تالیف کیا ہے اور اب علی وہ تفسیر تجھ کو دیتا ہے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ (براہین احمدیہ.روحانی خزائن جلد اصفحہ ۵۹۷) (۳) سَلَام عَلَيْكَ يَا إِبْرَاهِيمُ إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِينُ امِينَ - ذُو عَقْلٍ مَّتِينٍ - حِبُّ اللَّهِ خَلِيلُ اللَّهِ اسَدُ اللهِ وَصَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ" رساله درود شریف تیرے پر سلام ہے اے ابراہیم.تو آج ہمارے نزدیک صاحب مرتبہ اور امانتدار اور قوی العقل ہے.اور دوست خدا ہے.خلیل اللہ ہے.اسد اللہ ہے.محمد پر درود بھیج یعنی یہ اسی نبی کریم کی متابعت کا نتیجہ ہے." (براہین احمد یه روحانی خزائن جلد ا صفحه (۲۶۶) (۴) ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا.کہ درود شریف کے پڑھنے میں یعنی آنحضرت میمی دلم پر درود بھیجنے میں ایک زمانہ تک مجھے بہت استغراق رہا.کیونکہ میرا یقین تھا کہ خدا تعالیٰ کی راہیں نہایت دقیق راہیں ہیں.وہ بجز وسیلہ نبی کریم کے مل نہیں سکتیں.جیسا کہ خدا بھی فرماتا ہے.وَابْتَغُوا الَيْهِ الْوَسِيلَةَ - تب ایک مدت کے بعد کشفی حالت میں میں نے دیکھا کہ دوستے یعنی ماشکی آے.اور ایک اندرونی راستے سے اور ایک بیرونی راستے سے میرے گھر میں داخل ہوئے ہیں.اور ان کے کاندھوں پر نور کی مشکیں ہیں.اور کہتے ہیں:.له هُذَا بِمَا صَلَّيْتَ عَلَى مُحَمَّدٍ “ (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۳۱ حاشیہ) (۵) ایک مرتبہ میں سخت بیمار ہوا.یہاں تک کہ تین مختلف وقتوں میں میرے وارثوں نے میرا آخری وقت سمجھ کر مسنون طریقہ پر مجھے تین مرتبہ اہ اس تک پہنچنے کے لئے اس کا بتایا ہوا وسیلہ اختیار کرو..یہ اس بات کی وجہ سے ہے.کہ تم نے آنحضرت مسلم پر درود بھیجا ہے.
رساله درود شریف ١٠٨ سورہ یسین سنائی.جب تیسری مرتبہ سورہ یسین سنائی گئی.تو میں دیکھتا تھا کہ بعض عزیز میرے جو اب دنیا سے گزر بھی گئے.دیواروں کے پیچھے بے اختیار روتے تھے.اور مجھے ایک قسم کا سخت قولنج تھا.اور بار بار دمبدم حاجت ہو کر خون آتا تھا.سولہ دن برابر ایسی حالت رہی.اور اسی بیماری میں میرے ساتھ ایک اور شخص بیمار ہوا تھا.وہ آٹھویں دن راہی ملک بقا ہو گیا.حالانکہ اس کے مرض کی شدت ایسی نہ تھی جیسی میری.جب بیماری کو سولھواں دن چڑھا.تو اس دن بکلی حالت یاس ظاہر ہو کر تیسری مرتبہ مجھے سورہ یس سنائی گئی.اور تمام عزیزوں کے دل میں یہ پختہ یقین تھا کہ آج شام تک یہ قبر میں ہو گا.تب ایسا ہوا کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے مصائب سے نجات پانے کے لئے بعض اپنے نبیوں کو دعائیں سکھلائی تھیں مجھے بھی خدا نے الہام کر کے ایک دعا سکھلائی.اور وہ یہ ہے سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ اعظم اللهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ اور میرے دل میں خدا تعالیٰ نے یہ الہام کیا.کہ دریا کے پانی میں جس کے ساتھ ریت بھی ہو ہاتھ ڈال.اور یہ کلمات طیبہ پڑھ.اور اپنے سینہ اور ۱۰۹۰ رساله و روونه اس خدا کی قسم ہے.جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ہر ایک دفعہ ان کلمات طیبہ کے پڑھنے اور پانی کو بدن پر پھیرنے سے میں محسوس کرتا تھا.کہ وہ آگ اندر سے نکلتی جاتی ہے.اور بجائے اس کے ٹھنڈک اور آرام پیدا ہوتا جاتا ہے.یہاں تک کہ ابھی اس پیالہ کا پانی ختم نہ ہوا تھا.کہ میں نے دیکھا.کہ بیماری بکلی مجھے چھوڑ گئی.اور میں سولہ دن کے بعد رات کو تندرستی کے خواب سے سویا.جب صبح ہوئی.تو مجھے یہ الہام ہوا :- وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِشِفَاءٍ مِّنْ مثله یعنی اگر تمہیں اس نشان میں شک ہو.جو شفادے کر ہم نے دکھلایا.تو تم اس کی نظیر کوئی اور شفا پیش کرو.تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۰۹ نشان نمبر ۱۵) (۶) (نشان نمبر۷۷ تاریخ ۱۸۸۰ء) ایک مرتبہ میں ایسا سخت بیمار ہوا.کہ میرا آخری وقت سمجھ کہ مجھ کو مسنون طریقہ سے تین دفعہ سورۂ نفس سنائی گئی.اور میری زندگی سے سب مایوس ہو چکے تھے.اور بعض عزیز دیواروں کے پیچھے روتے تھے.تب اللہ تعالیٰ نے الہاما مجھے یہ دعا سکھلائی.سُبْحَانَ پشت سینہ اور دونوں ہاتھوں اور منہ پر اس کو پھیر.کہ اس سے تو شفا پائے اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى گا.چنانچہ جلدی سے دریا کا پانی معہ ریت منگوایا گیا.اور میں نے اس طرح عمل کرنا شروع کیا.جیسا کہ مجھے تعلیم دی گئی.اور اس وقت حالت یہ تھی کہ میرے ایک ایک بال سے آگ نکلتی تھی.اور تمام بدن میں درد ناک مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ - اور القا ہوا.کہ دریا کے پانی میں جس کے - ساتھ ریت بھی ہو.ہاتھ ڈال.اور یہ کلمات طیبہ پڑھ.اور اپنے سینے اور پشت سینہ اور دونوں ہاتھوں اور منہ پر اس کو پھیر.کہ تو اس سے شفا پائے جلن تھی.اور بے اختیار طبیعت اس بات کی طرف مائل تھی کہ اگر موت گا.چنانچہ اس پر عمل کیا گیا.اور ابھی پیالہ ختم نہ ہونے پایا تھا.کہ مجھے بکلی بھی ہو تو بہتر.تا اس حالت سے نجات ہو مگر جب وہ عمل شروع کیا.تو مجھے صحت ہو گئی.پھر یہ الہام ہوا.وَ اِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى
ر ساله درود شریف عبْدِنَا فَأْتُوا بِشِفَاءٍ مِنْ مِثْلِهِ - یعنی اگر تمہیں اس نشان میں شک ہو.جو ہم نے شفاد یکر دکھایا ہے تو تم اس کی نظیر پیش کرو.نزول المسیح - روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۸۶) (۷) (۱۸ اپریل ۱۹۰۵ء) ” دیکھا کہ زور سے اللہ اکبر اللہ اکبر (ساری اذان کہہ رہا ہوں.ایک اونچے درخت پر ایک آدمی بیٹھا ہے.وہ بھی یہی کلمات بول رہا ہے.اس کے بعد میں نے بہ آواز بلند درود شریف پڑھنا شروع کیا.اور اس کے بعد وہ آدمی نیچے اتر آیا..اور اس نے کہا.کہ سید محمد علی شاہ آگئے ہیں.اس کے بعد کیا دیکھتا ہوں کہ بڑے زور سے زلزلہ آیا ہے.اور زمین اس طرح اڑ رہی ہے.جس طرح روئی دھنی جاتی ہے" اخبار بدر ۲۰ اپریل ۱۹۰۵ء صفحه (۱۰) درود شریف کے الفاظ حضرت مسیح موعود کی وحی الہی میں (1) ” جس طرح خدا تعالیٰ نے مصائب سے نجات پانے کے لئے بعض اپنے نبیوں کو دعائیں سکھلائی تھیں.مجھے بھی خدا نے الہام کر کے ایک دعا سکھلائی.اور وہ یہ ہے:.سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ اللَّهُمَّ صَلِ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ تریاق القلوب - روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۰۸) (۲) اللہ تعالیٰ نے الہاما مجھے یہ دعا سکھلائی.سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى أَلِ محمد (نزول المسیح س (۲۰۸) (۳) ٣ كُلُّ بَرَكَةٍ مِّنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صلی رساله و رود فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ و تَعَلَّمَ ہر ایک برکت محمد مسلم کی طرف سے ہے.پس بڑا مبارک وہ ہے جس نے تعلیم دی اور جس نے تعلیم پائی.(حقیقۃ الوحی- روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۷۰) (۴) آج ہمارے گھر میں پیغمبر میں آگئے.عزت اور سلامتی" ( بدر جلد ۶ نمبر ۳۳) (۵) رسول اللہ میں پناہ گزین ہوئے قلعہ ہند میں " اخبار البدر جلد ۳ نمبر صفحہ ۶) نوٹ نمبرا - درود شریف کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وحی الہی کے کلمات ذیل میں بھی من وجہ الفاظ درود شریف کی تعلیم پائی جاتی ہے (۱) صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ (براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد ا صفحه (۲۴۲) (۲) صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ سَيّدِ وُلْدِ أَدَمَ وَخَاتَمِ النَّبِيِّينَ " (ايضا صفحه ۵۰۲) (۳) صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ (ایناس (۵۵۸) نوٹ نمبر ۲.بہت سے بزرگ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ میں سے بالا تفاق شہادت دیتے ہیں.کہ مسجد مبارک کی دیوار پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لکھوائے ہوئے درود شریف کے یہ الفاظ درج تھے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اور ان میں سے اکثر سے میں نے یہ بھی سنا ہے.کہ یہ الہامی الفاظ ہیں.مگر جب میں نے ان سے کھول کر دریافت کیا.تو انہوں نے اس کی کوئی یقینی سندیا حوالہ نہیں بتایا.(خاکسار مرتب رسالہ ہذا)
ر ساله درود شریف ١١٢ تعلیمات وارشادات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بعض ہدایات دربارہ درود شریف شرائط بیعت میں درود شریف کے التزام کی تاکید (شرط) سوم یہ کہ بلا ناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا.اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا.اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روزہ درد بنالے گا.(اشتہار ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء) عملی طریق کی تعلیم اور اس میں درود شریف کے التزام کی تاکید مکتوب بنام حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالٰی عنہ ) بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و فصلی علی رسولہ الکریم مکرم اخویم میر صاحب سلمہ اللہ تعالی.السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته عنایت نامہ پہنچا جو آپ نے اپنے عملی طریق کے لئے دریافت کیا ہے.وہ یہی امر ہے کہ رسول اللہ مین اسلام کی حقیقی اتباع کی طرف رغبت کریں.رسول اللہ میں اللہ نے جن اعمال پر نہایت درجہ اپنی محبت ظاہر فرمائی ہے.وہ دو ہیں.ایک نماز اور ایک جہاد.نماز کی نسبت آنحضرت فرماتے ہیں کہ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلوۃ یعنی میری آنکھ کی ١١٣ رساله درود شریف ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے.اور جہاد کی نسبت فرماتے ہیں کہ میں آرزو رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں قتل کیا جاؤں اور پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر قتل کیا جاؤں اور پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر قتل کیا جاؤں.سو اس زمانہ میں جہاد روحانی صورت سے رنگ پکڑ گیا ہے.اور اس زمانہ کا جہاد یہی ہے.کہ اعلاء کلمہ اسلام میں کوشش کریں.مخالفوں کے الزامات کا جواب دیں.دین متین اسلام کی خوبیاں دنیا میں پھیلا دیں.آنحضرت کی سچائی دنیا پر ظاہر کریں.یہی جہاد ہے جب تک خدا تعالی کوئی دوسری صورت دنیا میں ظاہر کرے..اور نماز اسی پہلی حالت پر ہے.کہ نماز میں خدا تعالیٰ سے ہدایت چاہیں.اور اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کا تکرار کریں.خواہ گنجائش وقت کے ساتھ وہ تکرار سو مرتبہ تک پہنچ جائے.سجدہ میں اکثر يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيْتُ تمام تر عجز کہا کریں.مگر نماز کی قنوت میں عربی عبارتیں ضروری نہیں.قنوت ان دعاؤں کو کہتے ہیں.جو مختلف وقتوں میں مختلف صورتوں میں پیش آتی ہیں.سو بہتر ہے کہ ایسی دعا ئیں اپنی زبان میں کی جائیں.قرآن کریم اور ادعیہ ماثورہ اسی طرح پڑھنی چاہئیں.جیسا کہ پڑھی جاتی ہیں.مگر جدید مشکلات کی قنوت اگر اپنی زبان میں پڑھیں تو بہتر ہے تا اپنی مادری زبان نماز کی برکت سے بے نصیب نہ رہے.قنوت کی دعاؤں کا التزام حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے.بعض پانچ وقت کے قائل ہیں.اور بعض صبح سے مخصوص رکھتے ہیں اور بعض ہمیشہ کے لئے.اور بعض کبھی کبھی ترک بھی کر دیتے ہیں.مگر اصل بات یہ ہے کہ قنوت مصائب اور حاجات جدیدہ کے وقت یا ناگہانی حوادث کے وقت ہوتا ہے.چونکہ
رساله درود شریف مسلمانوں کے لئے یہ دن مصائب اور نوازل کے ہیں.اس لئے کم سے کم صبح کی نماز میں قنوت ضروری ہے.قنوت کی بعض دعائیں ماثور بھی ہیں.مگر مشکلات جدیدہ کے وقت اپنی عبارت میں استعمال کرنی پڑیں گی.غرض نماز کو مغز دار بنانا چاہئے.جو دعا اور تسبیح و تہلیل سے بھری ہوئی ہو.اور دعا اور استغفار اور درود شریف کا التزام رکھنا چاہئے.اور ہمیشہ خدا تعالیٰ سے نیک کاموں اور نیک خیالوں اور نیک ارادوں کی توفیق مانگنی چاہئے.کہ بجز اس کی توفیق کے کچھ نہیں ہو سکتا.یہ ہستی سخت نا پائیدار اور بے بنیاد ہے.غفلت اور غافلانہ آسائش کی جگہ نہیں.ہر سال اپنے اندر بڑے بڑے انقلاب پوشیدہ رکھتا ہے.خدا تعالیٰ سے عافیت مانگنی چاہئے.اور ہراساں اور ترساں رہنا چاہئے کہ وہ ڈرنیوالوں پر رحم کرتا ہے.اگر چہ وہ گنہگار ہی ہوں.اور چالاکوں اور خود پسندوں اور ناز کرنے والوں پر اس کا قہر نازل ہوتا ہے.اگر چہ وہ کیسے ہی اپنے تئیں نیک سمجھتے ہوں.والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان ۲۱ جنوری ۱۸۹۲ء (اخبار البدر جلد ۲ نمبر ۳۰ پر چه ۱۴ اگست ۱۹۰۳ء) ا پرچہ درود شریف کے پڑھنے کا صحیح طریق اور اس کی غرض " آپ اتباع طریقہ مسنونہ میں یہ لحاظ بدرجہ غایت رکھیں کہ ہر ایک عمل رسم اور عادت کی آلودگی سے پاک ہو جائے.اور دلی محبت کے پاک فوارہ سے جوش مارے.مثلاً درود شریف اس طور پر نہ پڑھیں کہ جیسا عام لوگ طوطے کی طرح پڑھتے ہیں.نہ ان کو جناب حضرت رسول الله من الم سے کچھ کامل خلوص ہوتا ہے اور نہ وہ حضور نام سے اپنے رسول مقبول کے ۱۱۵ رساله و رود شریف لئے برکات الہی مانگتے ہیں.بلکہ درود شریف سے پہلے اپنا یہ مذہب قائم کر لیتا چاہئے.کہ رابطہ محبت آنحضرت میں اور اس درجہ تک پہنچ گیا ہے.کہ ہرگز اپنا دل تجویز نہ کر سکے.کہ ابتدائے زمانہ سے انتہا تک کوئی ایسا فرد بشر گزرا ہے جو اس مرتبہ محبت سے زیادہ محبت رکھتا تھا.یا کوئی ایسا فرد آنے والا ہے.جو اس سے ترقی کرے گا.اور قیام اس مذہب کا اس طرح پر ہو سکتا ہے.کہ جو کچھ محبان صادق آنحضرت مسلم کی محبت میں مصائب اور شدائد اٹھاتے رہے ہیں.یا آئندہ اٹھا سکیں.یا جن جن مصائب کا نازل ہونا عقل تجویز کر سکتی ہے.وہ سب کچھ اٹھانے کے لئے دلی صدق سے حاضر ہو.اور کوئی ایسی مصیبت عقل یا قوت واہمہ پیش نہ کر سکے.کہ جس کے اٹھانے سے دل رک جائے.اور کوئی ایسا حکم عقل پیش نہ کر سکے.کہ جس کی اطاعت سے دل میں کچھ روک یا انقباض پیدا ہو.اور کوئی ایسا مخلوق دل میں جگہ نہ رکھتا ہو.جو اس جنس کی محبت میں حصہ دار ہو.اور جب یہ مذہب قائم ہو گیا.تو درود شریف......اس غرض سے پڑھنا چاہئے.کہ تا خداوند کریم اپنی کامل برکات اپنے نبی کریم پر نازل کرے اور اس کو تمام عالم کے لئے سرچشمہ برکتوں کا بناوے.اور اس کی بزرگی اور اس کی شان و شوکت اس عالم اور اس عالم میں ظاہر کرے.یہ دعا حضور تام سے ہونی چاہئے.جیسے کوئی اپنی مصیبت کے وقت حضور نام سے دعا کرتا بلکہ اس سے بھی زیادہ تضرع اور التجاء کی جائے.اور کچھ اپنا حصہ نہیں رکھنا چاہئے.کہ اس سے مجھ کو یہ ثواب ہو گا.یا یہ درجہ ملے گا.بلکہ خالص یہی مقصود چاہئے.کہ برکات کاملہ اللہ حضرت رسول مقبول می پر ہے.-
رساله درود شریف 119 نازل ہوں.اور اس کا جلال دنیا اور آخرت میں چمکے.اور اسی مطلب پر انعقاد ہمت ہونا چاہئے.اور دن رات دوام توجہ چاہئے.یہاں تک کہ کوئی مراد اپنے دل میں اس سے زیادہ نہ ہو.پس جب اس طور پر یہ درود شریف پڑھا گیا.تو وہ رسم اور عادت سے باہر ہے.اور بلاشبہ اس کے عجیب انوار صادر ہوں گے.اور حضور نام کی ایک یہ بھی نشانی ہے.کہ اکثر اوقات گریہ و بکا ساتھ شامل ہو اور یہاں تک یہ توجہ رگ اور ریشہ میں تاثیر کرے کہ خواب اور بیداری یکساں ہو جائے." (ماخوذ از مکتوب حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام مورخہ ۱۵ اپریل ۱۸۸۳ء مطابق ۱۷ جمادی الثانی ۱۳۰۰ھ منقول از الحکم جلد دوم نمبر ۷ ۲۸،۲ صفحه و مکتوبات احمد یہ جلد اول صفحه ۱۳۶۱۲) درود شریف آنحضرت مسلم کی ذاتی محبت کی بنا پر پڑھنا چاہئے " آپ درود شریف کے پڑھنے میں بہت ہی متوجہ رہیں.اور جیسا کہ کوئی اپنے پیارے کے لئے فی الحقیقت برکت چاہتا ہے.ایسے ہی ذوق اور اخلاص سے حضرت نبی کریم میں کے لئے برکت چاہیں.اور بہت ہی تضرع سے چاہیں.اور اس تضرع اور دعا میں کچھ بناوٹ نہ ہو.بلکہ چاہئے.کہ حضرت نبی کریم سے کچی دوستی اور محبت ہو.اور فی الحقیقت روح کی سچائی سے وہ برکتیں آنحضرت ملا کے لئے مانگی جائیں.کہ جو درود شریف میں مذکور ہیں.....اور ذاتی محبت کی یہ نشانی ہے.کہ انسان کبھی نہ تھکے اور نہ ملول ہو.اور نہ اغراض نفسانی کا دخل ہو.اور محض اس غرض کے لئے پڑھے کہ آنحضرت اور پر خداوند کریم کے برکات ظاہر ہوں" (مکتوبات احمد یہ جلد اول صفحہ ۲۵۷۲۴) 114 رساله درود شریف آنحضرت پر درود روحانی جوش سے بھیجنا چاہئے.درود کی حکمت و اگر چہ آنحضرت میمی کو کسی دوسرے کی دعا کی حاجت نہیں.لیکن اس میں ایک نہایت عمیق بھید ہے.جو شخص ذاتی محبت سے کسی کے لئے رحمت اور برکت چاہتا ہے وہ یباعث علاقہ ذاتی محبت کے اس شخص کے وجود کی ایک جزو ہو جاتا ہے.پس جو فیضان شخص مدعولہ پر ہوتا ہے.وہی فیضان اس پر ہو جاتا ہے.اور چونکہ آنحضرت پر فیضان حضرت احدیت کے و المسلم صلی کالی آروم بے انتہا ہیں.اس لئے درود بھیجنے والوں کو کہ جو ذاتی محبت سے آنحضرت کے لئے برکت چاہتے ہیں.بے انتہا برکتوں سے بقدر اپنے جوش کے حصہ ملتا ہے.مگر بغیر روحانی جوش اور ذاتی محبت کے یہ فیضان بہت ہی کم ظاہر ہوتا ہے." (مکتوبات احمد یہ جلد اول صفحه ۲۵٬۲۴) درود شریف کو لذت اور انشراح سے پڑھنے کی ہدایت ” درود شریف کے پڑھنے کی مفصل کیفیت پہلے لکھ چکا ہوں...کسی تعداد کی شرط نہیں.اس قدر پڑھا جائے.کہ کیفیت صلوۃ سے دل مملو ہو جائے.اور ایک انشراح اور لذت اور حیات قلب پیدا ہو جائے.اور اگر کسی وقت کم پیدا ہو.تب بھی بیدل نہیں ہونا چاہئے.سو جس قدر میسر آوے.اس کو کبریت احمر سمجھے.اور اس میں دل و جان سے مصروفیت اختیار کرے" (مکتوبات احمد یہ جلد اول صفحہ ۲۶)
ر ساله درود شریف HA نماز میں درود وغیرہ اذکار دلی جوش سے پڑھنے کی ہدایت ” جہاں تک ہو سکے.پاک اور صاف ہو کر اور نفی خطرات کر کے نماز ادا کریں.اور کوشش کریں.کہ نماز ایک گری ہوئی حالت میں نہ رہے.اور اس کے جس قدر ارکان حمد وثناء حضرت عزت اور توبہ و استغفار اور دعا اور درود ہیں.وہ دلی جوش سے صادر ہوں" (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۳۵) نماز میں درود و غیرہ اذکار اپنی زبان میں بھی پڑھنے کی ہدایت ”نمازوں میں دعائیں اور درود ہیں.یہ عربی زبان میں ہیں.مگر تم پر حرام نہیں.کہ نمازوں میں اپنی زبان میں بھی دعائیں مانگا کرو.ورنہ ترقی نہ ہو گی.خدا کا حکم ہے کہ نماز وہ ہے جس میں تضرع اور حضور قلب ہو.ایسے ہی لوگوں کے گناہ دور ہوتے ہیں.“ (الحکم جلد ۸ پر چہ ۱۰ ۷ انو مبر ۱۹۰۴ء) معذوری کی حالت میں نماز تہجد کی بجائے درود و غیرہ اذکار "اگر کوئی شخص بیمار ہو.یا کوئی اور ایسی وجہ ہو.کہ وہ تہجد کے نوافل ادانہ کر سکے.تو وہ اٹھ کر استغفار.درود شریف اور الحمد شریف ہی پڑھ لیا (ڈائری یکم نومبر ۱۹۰۳ء) (منقول از البدر جلد ۲ نمبر ۴۳ صفحه ۳۳۵) 119 دعاء استخارہ میں درود شریف رساله درود شریف (1) ” میں ایک آسان صورت رفع شک کی بتلاتا ہوں.جس سے ایک طالب صادق انشاء اللہ مطمئن ہو سکتا ہے.اور وہ یہ ہے کہ اول تو بہ نصوح کر کے رات کے وقت دو رکعت نماز پڑھیں.جس کی پہلی رکعت میں سورہ ین اور دوسری رکعت میں اکیس مرتبہ سورہ اخلاص ہو.اور پھر بعد اس کے تین سو مرتبہ درود شریف اور تین سو مرتبہ استغفار پڑھ کر خدا تعالیٰ سے یہ دعا کریں.کہ اے قادر کریم تو پوشیدہ حالات کو جانتا ہے.اور ہم نہیں جانتے.اور مقبول اور مردود اور مفتری اور صادق تیری نظر سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا.پس ہم عاجزی سے تیری جناب میں التجا کرتے ہیں کہ اس کا تیرے نزدیک جو مسیح موعود اور مہدی اور مجدد الوقت ہونے کا دعوی کرتا ہے.کیا حال ہے....سو اگر تو خدا تعالیٰ سے کوئی خبر دریافت کرنا چاہیے.تو اپنے سینہ کو بکلی بغض اور عناد سے دھو ڈال اور اپنے تئیں بکلی خالی النفس کر کے اور دونوں پہلوؤں بغض اور محبت سے الگ ہو کر اس سے ہدایت کی روشنی مانگ.کہ وہ ضرور اپنے وعدہ کے موافق اپنی طرف سے روشنی نازل کرے گا جس پر نفسانی اوہام کا کوئی دخان نہیں ہو گا." انشان آسمانی طبع اول صفحه ۴۱۴۴۰) Geir (۳) قُومُوا فِي أَوَاخِرِ اللَّيَالِي وَتَوَضَّوا ثُمَّ صَلُّوا رَكَعَاتٍ وَابْكُوا وَ تَضَرَّعُوا وَصَلُّوا عَلَى النَّبِيِّ الكَرِيمِ وَسَلّمُوا تُم اسْتَغْفِرُوا لِأَنْفُسِكُمْ وَاسْتَخْبِرُوا وَدَاوِمُوا عَلَى هَذَا ارْبَعِينَ يَوْمَا وَلَا تَسْتَمُوا فَسَتَجِدُونَ مِنَ اللَّهِ امْرَايَقُودُكُمْ
رساله درود شریف إلَى الْحَقِّ ) آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۰۷٬۴۰۶) ترجمہ.پچھلی رات کو اٹھ کر وضو کر کے گریہ وزاری اور عجز و تضرع کے ساتھ چند رکعت نماز پڑھو.اور آنحضرت مال پر درود اور سلام بھیجو.اس کے بعد اپنے حق میں استغفار کرو.اور اس کے بعد خدا تعالیٰ سے حقیقت حال دریافت کرو.اور چالیس روز تک برابر روزانہ ایسا ہی کرو اور تھکو نہیں.تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضرور وہ امر کھو دیا جائے گا.جو تمہیں حق کی طرف لے جائے گا.کسی کرشمہ قدرت کے دیکھنے کے وقت درود شریف کے پڑھنے کی تعلیم انسانی عادت اور اسلامی فطرت میں داخل ہے.کہ مومن کسی ذوق کے وقت اور کسی مشاہدہ کرشمہ قدرت کے وقت درود بھیجتا ہے." اربعین نمبر ۲ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۵۰) مجالس تذکرہ نبوی میں درود شریف مجلس مولود کی نسبت ایک شخص نے حضرت اقدس سے بذریعہ خط کے استفسار کیا.اس کا جواب جو آپ نے تحریر فرمایا.وہ یہ ہے:.” میرا اس میں یہ مذہب ہے کہ اگر مصالح اعلاء کلمه اسلام و تذکرہ نبوی کی نیت سے کوئی ایسا جلسہ کیا جائے کہ جس میں سوانح مقدسہ نبویہ کا ذکر ہو اور نہایت خوبی اور صحت و بلاغت سے اس تقریر کو سنایا جائے.کہ کیونکر رساله درود شریف آنحضرت ما تاریکی کے زمانہ میں پیدا ہوئے.اور کس طرح بے سامانی کی حالت میں تمام قوموں کے جو رو جفا اٹھا کر بفضلہ تعالیٰ کامیاب ہو گئے.اور کیسی خدا تعالے نے اپنے اس مقبول بندہ کی وقتا فوقنا تائیدیں کیں.اور آخر کس طور سے اس دین کو مشارق و مغارب میں پھیلا دیا.اور اس تقریر میں کچھ کچھ نظم بھی ہو.اور پر درد اور موثر بیان ہو.اور درمیان میں کثرت درود شریف کی سامعین کی طرف سے ہو.اور کوئی علت اور بدعت درمیان میں نہ ہو.تو ایسا جلسہ صرف جائز ہی نہیں بلکہ میری نظر میں موجب ،عظیم ہے.کیونکہ اس میں یہ نیت کی گئی ہے کہ تا سوانح مقدسہ نبی کریم میں اسلام کی محبت بڑھا دی جائے.اور لوگوں کو عشق رسول کریم کے لئے حرکت دی جائے.اور ناواقفوں پر عظمت اس انسان کامل اور مرد فانی فی اللہ کی کھولدی جائے.جس نے دنیا میں تنہا آکر اور تمام دنیا کو شرک اور غفلت میں گرفتار پا کر بڑی مردی سے اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر ہر ایک قوم میں توحید کی صدا بلند کی.اور ہر ایک کان میں لا اله الا الله کی آواز پہنچائی.غرض سوانح نبویہ کو خوش آواز سے لوگوں پر ظاہر کرنا حقیقی مومنوں کا فرض ہے.وہ مومن کا ہے کا ہے.جس میں سوانح نبویہ کی عزت نہیں.دوسرے لفظوں میں اسی جلسہ اظہار سوانح کا نام مجلس مولود ہے.اس جلسہ اظہار سوانح میں در حقیقت بڑے فوائد ہیں.ان سوانح کے سننے سے محبان رسول کا وقت خوش ہو گا.اور ہر ایک مرد طالب جب ان سوانح کے ذریعہ سے ہمت اور صدق اور استقامت کے کام سنے گا.تو اس کو بھی ہمت اور صدق اور استقامت کی طرف شوق بڑھے گا.اور اس کی طلب زیادہ ہو گی.اور مسلمان کہلا کر جو کچھ دین کی راہ میں کسل اور ضعف اور
رساله درود شریف بزدلی رکھتا ہے سوانح نبویہ علیہ الصلوۃ والسلام سن کر خوش ہو گا.اور اپنے اسلام پر افسوس کرے گا اور خدا تعالیٰ سے چاہے گا کہ جس نبی کے اقتدا کا اس کو دعوئی ہے.اس کی سرگرمی اور اس کا عشق اور اس کی ہمدردی اس کو بھی نصیب ہو.اور جس طرح ایک شخص جو ایک جنگل میں اکیلا بیٹھا ہو.اور درندوں اور دوسری بلاؤں سے ڈر رہا ہو.اور ناگاہ اس کو ایک قافلہ نظر آیا.جس میں صدہا سپاہی ہیں.اب دیکھنا چاہئے کہ وہ شخص اس قافلہ کو پاکر کس طرح قوی دل ہو جائے گا.ایسا ہی سوانح طیبہ نبویہ ایک لشکر مسلح کی مانند ہیں جن کے سننے سے دل قوی ہو جاتا ہے.اور تخویفات شیطانی نجات ملتی ہے.اور حدیث صحیح میں ہے کہ عِندَ ذِكْرِ الصَّلِحِينَ تَنَزَّلُ الرَّحْمَةُ یعنی ذکر صالحین کے وقت رحمت الہی نازل ہوتی ہے.پھر نبی کریم میل کے ذکر کے وقت کس قدر نازل ہو گی.ہاں اس جلسہ کو بدعات سے محفوظ رکھنا چاہئے.تا بجائے ثواب کے گناہ پیدا نہ ہو.صرف سوانح نبویہ کا ذکر ہو.اور درود شریف اور تسبیح ہو.اگر کسی قسم کا شرک یا بدعت درمیان ہو.تو یہ ہرگز جائز نہیں.لیکن جو میں نے ذکر کیا ہے.وہ نہ صرف جائز بلکہ میری سمجھ میں ضروریات سے ہے." اخبار البدر جلد ۳ نمبر ۲۱۴۲۰ صفحه ۵ پر چه ۲۴ مئی کیم جون ۱۹۰۴ء) دلائل الخیرات و غیره کتب از کار درود شریف کو بطور ورد پڑھنا چاہئے یا نہیں؟ ایک صاحب آمده از امروہہ نے دریافت کیا.کہ دلائل الخیرات جو ایک کتاب وظیفوں کی ہے.اگر اسے پڑھا جاوے.تو کچھ حرج تو نہیں.کیونکہ ۱۲۳ بر ساله درود شریف اس میں آنحضرت پر درود شریف ہے.اور اسمیں آنحضرت ہی کی تعریف جابجا ہے.فرمایا:.انسان کو چاہئے کہ قرآن شریف کثرت سے پڑھے.جب اس میں دعا کا مقام آوے تو دعا کرے.اور خود بھی خدا سے وہی چاہے.جو اس میں چاہا گیا ہے.اور جہاں عذاب کا مقام آوے.تو اس سے پناہ مانگے.اور ان بد اعمالیوں سے بچے.جس کے باعث وہ قوم تباہ ہوئی.بلا مدد وحی کے ایک بالائی منصوبہ جو کتاب اللہ کے ساتھ ملاتا ہے اس شخص کی ایک رائے ہے جو کہ کبھی باطل بھی ہوتی ہے اور ایسی رائے جس کی مخالفت احادیث میں موجود ہو.وہ محدثات میں داخل ہو گی.رسوم اور بدعات سے پر ہیز بہتر ہے.اس سے رفتہ رفتہ شریعت میں تصرف شروع ہو جاتا ہے.بہتر طریق یہ ہے کہ ایسے وظائف میں جو وقت اس نے صرف کرنا ہے.وہی قرآن شریف کے تدبر میں لگاوے.دل کی اگر سختی ہو تو اس کے نرم کرنے کے لئے یہی طریق ہے کہ قرآن شریف کو ہی بار بار پڑھے.جہاں جہاں دعا ہوتی ہے وہاں مومن کا بھی دل چاہتا ہے کہ یہی رحمت الہی میرے بھی شامل حال ہو.قرآن شریف کی مثال ایک باغ کی ہے کہ ایک مقام سے انسان کسی قسم کا پھول چتا ہے.پھر آگے چل کر اور قسم کا چتا ہے.پس چاہئے کہ ہر ایک مقام کے مناسب حال فائدہ اٹھا دے.اپنی طرف سے الحاق کی کیا ضرورت ہے.ورنہ پھر سوال ہو گا کہ تم نے ایک نئی بات کیوں بڑھائی.خدا کے سوا اور کس کی طاقت ہے کہ کے.فلاں راہ سے سورہ یسین پڑھو گے تو برکت ہوگی ورنہ نہیں.قرآن شریف سے اعراض کی دو صورتیں ہوتی ہیں.ایک صوری اور
رساله درود شریف ۱۲۴ ایک معنوی.صوری کہ کبھی کلام الہی کو پڑھا ہی نہ جاوے.جیسے لوگ اکثر مسلمان کہلاتے ہیں مگر وہ قرآن شریف کی عبارت تک سے بالکل غافل ہیں.اور ایک معنوی کہ تلاوت تو کرتا ہے.مگر اس کے برکات وانوار و رحمت الہی پر ایمان نہیں ہوتا.پس دونوں اعراضوں میں سے کوئی اعراض ہو.اس سے پر ہیز کرنا چاہئے.امام جعفر کا قول ہے.واللہ اعلم کہاں تک صحیح ہے.کہ میں اس قدر کلام الہی پڑھتا ہوں کہ ساتھ ہی الہام الہی شروع ہو جاتا ہے.مگر بات معقول معلوم ہوتی ہے.کیونکہ ایک جنس کی شے دوسری شے کو اپنی طرف کشش کرتی ہے.اب اس زمانہ میں لوگوں نے صد با حاشیہ چڑھائے ہوئے ہیں.شیعوں نے الگ سنیوں نے الگ.ایک دفعہ ایک شیعہ نے میرے والد صاحب سے کہا.کہ میں ایک فقرہ بتلاتا ہوں.وہ پڑھ لیا کرو.تو پھر طہارت اور وضو وغیرہ کی ضرورت نہیں ہوگی.اسلام میں کفر.بدعت الحاد.زندقہ وغیرہ اسی طرح سے آئے ہیں.کہ ایک شخص واحد کی کلام کو اس قدر عظمت دی گئی.جس قدر کہ کلام الہی کو دی جانی چاہئے تھی.صحابہ کرام اس لئے احادیث کو قرآن شریف سے کم درجہ پر مانتے تھے.ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فیصلہ کرنے لگے.تو ایک بوڑھی عورت نے اٹھ کر کہا.حدیث میں یہ لکھا ہے.تو آپ نے فرمایا میں ایک بڑھیا کے لئے کتاب اللہ کو ترک نہیں کر سکتا." اخبار البدر جلد ۳ نمبر ۴ صفحه ۲ پرچه ۲۴ جنوری ۶۱۹۰۴ ۱۲۵ رساله درود شریف برکات درود شریف بیان فرمودہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام درود شریف دنیا و آخرت کے محمود ہونے کا ذریعہ ہے (مکتوب بنام چودھری رستم علی صاحب) از طرف خاکسار غلام احمد - به اخویم منشی رستم علی صاحب سلمہ.بعد سلام مسنون آپ کا عنایت نامہ پہنچا.بعض اوقات یہ عاجز بیمار ہو جاتا ہے اس لئے ارسال جواب سے قاصر رہتا ہے.آپ کے لئے دعا کی ہے.خدا تعالیٰ دنیا و آخرت محمود کرے.بعد نماز عشاء درود شریف بہت پڑھیں.اگر تین سو مرتبہ درود شریف کا ورد مقرر رکھیں تو بہتر ہے.اور بعد نماز صبح اگر ممکن ہو تو تین سو مرتبہ استغفار کا ورد رکھیں.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ ۱۸ ستمبر ۱۸۸۴ء " (مکتوبات جلد ۵ نمبر ۳ صفحه ۳) درود شریف انوار نبویہ کے نزول کا ذریعہ ہے (ماخود از خطبه حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوئی رضی اللہ عنہ ) مورخہ ۲۰ فروری ۱۹۰۳ء) ایک بار میں نے خود حضرت امام علیہ الصلوۃ والسلام سے سنا.آپ فرماتے تھے.کہ درود شریف کے طفیل اور اس کی کثرت سے یہ درجے خدا نے مجھے عطا کئے ہیں.اور فرمایا کہ میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فیوض
ر ساله درود شریف ۱۲۹ عجیب نوری شکل میں آنحضرت مالی و لیلی کی طرف جاتے ہیں.اور پھر وہاں جا کر آنحضرت مﷺ کے سینہ میں جذب ہو جاتے ہیں.اور وہاں سے نکل کر ان کی لا انتہا نالیاں ہوتی ہیں.اور بقدر حصہ رسدی ہر حقدار کو پہنچتی ہیں.یقینا کوئی فیض بدون وساطت آنحضرت مال دو سر دوسروں تک پہنچ ہی نہیں سکتا.اور فرمایا.درود شریف کیا ہے؟ رسول اللہ مال کے اس عرش کو حرکت دینا ہے.جس سے یہ نور کی نالیاں نکلتی ہیں.جو اللہ تعالی کا فیض اور فضل حاصل کرنا چاہتا ہے.اس کو لازم ہے کہ وہ کثرت سے درود شریف پڑھے.تاکہ اس فیض میں حرکت پیدا ہو." (اخبار الحکم جلد نمبر ۸ صفحہ ۷ رچه ۲۸ فروری ۱۹۰۳ء) درود شریف زیارت نبوتی اور تنویر باطن کا ذریعہ ہے (مکتوب بنام چودھری رستم علی صاحب رضی اللہ عنہ) بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم مشفقی مکرمی السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ.بعد نماز مغرب و عشاء جہاں تک ممکن ہو درود شریف بکثرت پڑھیں.اور دلی محبت واخلاص سے پڑھیں.اگر گیارہ سو (۱۱۰۰) دفعہ روز درود مقرر کریں یا سات سو دفعه ورد مقرر کریں تو بہتر ہے اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ ۱۲۷ ر ساله درود شریف مَّجِیدُ.یہی درود شریف پڑھیں.اگر اس کی دلی ذوق اور محبت سے مداومت کی جائے.تو زیارت رسول کریم بھی ہو جاتی ہے.اور تنویر باطن اور استقامت دین کے لئے بہت موثر ہے.اور بعد نماز صبح کم سے کم سو مرتبہ استغفار ولی تضرع سے پڑھنا چاہئے.والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ.۲- اگست ۱۸۸۵ء " (مکتوبات جلد ۵ نمبر ۳ صفحه ۷۶ ) درود شریف قبض روحانی کا علاج ہے انسان پر قبض اور بسط کی حالت آتی ہے.بسط کی حالت میں ذوق اور شوق بڑھ جاتا ہے اور قلب میں ایک انشراح پیدا ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کی طرف توجہ بڑھتی ہے.نمازوں میں لذت اور سرور پیدا ہوتا ہے.لیکن بعض وقت ایسی حالت بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ذوق اور شوق جاتا رہتا ہے اور دل میں ایک تنگی کی سی حالت ہو جاتی ہے.جب یہ صورت ہو تو اس کا علاج یہ ہے.کہ کثرت کے ساتھ استغفار کرے.اور پھر درود شریف بہت پڑھنے.نماز بھی بار بار پڑھیں.قبض کے دور ہونے کا کیمی علاج ہے" (الحکم ۱۰ جون ۱۹۰۳ء) درود شریف رضاء الہی کا اور زیارت نبوی کا ذریعہ ہے بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم از عاجز عائذ باللہ الصمد غلام احمد به اخویم منشی ظفر احمد صاحب بعد سلام علیکم و رحمتہ الله و بركاته ، عنایت نامہ آپ کا پہنچا.حرف حرف
رساله درود شریف IPA اس کا پڑھا گیا اور آپ کے لئے دعا کی گئی...غور سے ترجمہ قرآن شریف دیکھا کرو...جناب رسول الله معلم کی زیارت کے لئے مناسبت و پیروی و محبت اور پھر کثرت درود شریف شرط ہے.یہ باتیں بالعرض حاصل ہو جاتی ہیں.خدا تعالیٰ کے راضی ہونے کے بعد بآسانی یہ امور طے ہو جاتے ہیں.و السلام خاکسار غلام احمد از قادیان ضلع گورداسپور ۱۱ مئی ۱۸۸۹ء" اخبار بد ر جلد ۸ نمبر ۳۵ پرچه ۳ جون ۱۹۰۹ء صفحه ۳) صلی علیه مردم درود شریف حصول استقامت اور قبولیت دعا کا ذریعہ ہے (ماخوذ از خلاصه تقریر مورخه ۱۸ جنوری ۱۸۹۹ منقول از ریویوار دو جلد ۳ نمبر صفحه ۱۵٬۱۴) " رسول اللہ کی محبت کے ازدیاد اور تجدید کے لئے ہر نماز میں درود شریف کا پڑھنا ضروری ہو گیا.تاکہ اس دعا کی قبولیت کے لئے استقامت کا ایک ذریعہ ہاتھ آئے.درود شریف جو حصول استقامت کا ایک زبر دست ذریعہ ہے.بکثرت پڑھو.مگر نہ رسم اور عادت کے طور پر بلکہ رسول الله تعلیم کے حسن اور احسان کو مد نظر رکھ کر اور آپ کے مدارج اور مراتب کی ترقی کے لئے اور آپ کی کامیابیوں کے واسطے.اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ قبولیت دعا کا شیریں اور لذیذ پھل تم کو ملے گا.قبولیت دعا کے تین ہی ذریعے ہیں.اول إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي - دوم - ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيمًا - سوم موہبت الہی" (سلسلہ کلمات طیبات حضرت امام الزمان نمبرا حضرت اقدس کی ایک تقریر صفحه ۲۲ رساله ریویوار دو جلد ۳ نمبر صفحه ۱۵٬۱۴) لے زیارت کے متعلق ایک حوالہ صفحہ نمبر ۲۸ پر دیکھا جائے.۱۲۹ رساله درود شریف درود شریف آنحضرت ام وی کی غلامی میں آنے کا ذریعہ ہے "اگر تم چاہتے ہو کہ آنحضرت میم کے فیض حاصل کرو.تو ضرور ہے کہ اس کے غلام ہو جاؤ.قرآن کریم میں خدا فرماتا ہے.قُلْ لِعِبَادِی الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ...الآية.اس جگہ بندوں سے مراد غلام ہی ہیں.نہ کہ مخلوق.رسول کریم میم کا بندہ ہونے کے واسطے ضروری ہے کہ آپ پر درود پڑھو اور آپ کے کسی حکم کی نافرمانی نہ کرو.حکموں پر کار بند رہو.جیسے کہ کم ہے.قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ الله فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله یعنی اگر تم خدا سے پیار کرنا چاہتے ہو تو آنحضرت میا کے پورے فرمانبردار بن جاؤ.اور رسول کریم کی راہ میں فنا ہو جاؤ.تب خدا تم سے محبت کرے گا.“ (البدر جلد ۲ نمبر ۱۴ صفحہ ۱۰۹) درود شریف عموم اور پریشانیوں کے دور ہونے کا ذریعہ ہے (1) (مکتوب بہ سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراس) مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته عنایت نامہ پہنچا.یہ عاجز دعا میں بدستور مشغول ہے اور انشاء اللہ القدير اسی طرح مشغول رہے گا جب تک آثار خیرو برکت ظاہر ہوں.دیر آید درست آید.میرے نزدیک بہتر ہے کہ آپ بھی اس تشویش کے وقت اکیس مرتبہ کم سے کم استغفار اور سو مرتبہ درود شریف پڑھ کر اپنے لئے دعا کر لیا کریں.اور اب سے مجھے یہ بھی خیال آیا ہے کہ آپ اگر اس تردد کے
رساله درود شریف ١٣٠ وقت میں قادیان تشریف لاویں تو غالبا دعا کی قبولیت کے لئے یہ تکلیف کشی اور بھی زیادہ موثر ہوگی.سو اگر موانع اور حارج پیش نہ ہوں تو بعد استخارہ مسنون ان دنوں میں جو سفر کے بہت مناسب حال ہیں تشریف لاویں.لیکن اگر راہ میں بوجہ بیماری طاعون کے تکلیف قرنطینہ در پیش ہو.اور کچھ تکلیف دہ روکیں ہوں.جس کی مجھے اطلاع نہیں ہے.تو اس امر کو خوب دریافت کر لیں.غرض تشریف لانے کے یہی دن ہیں.شاید آپ کا یہ کام ہی جناب الہی میں قابل رحم تصور ہو.مگر میں بار بار آپ کو وصیہ کہتا ہوں کہ یہ تکالیف خدا تعالیٰ کے نزدیک کچھ چیز نہیں ہیں.صرف ثواب اور اجر دینے کے لئے خدا تعالیٰ امتحان میں ڈالتا ہے.اس لئے آپ بہت استقلال اور مردانہ شجاعت اور بہادری سے بڑے قوی صبر کے ساتھ روز کشائش کے منتظر رہیں کہ جب وہ وقت آئے گا تو ایک دم میں فضل الہی شامل حال ہو جائے گا.آپ کے لئے اس خلوص اور توجہ کے ساتھ دعا کر رہا ہوں.کہ جس سے بڑھ کر متصور نہیں.زیادہ خیریت ہے.والسلام - خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ۱۳ نومبر۶۹۷." (۲) (ایضاً) مخدومی مکرمی اخویم حاجی سیٹھ عبد الرحمن صاحب سلمہ السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبركاته آج آئمکرم کا دوسرا عنایت نامہ پہنچا.آپ کے اضطراب پر دل نہایت درد مند ہوتا ہے.خدا ایسا کرے کہ مجھے جلد تر خوشخبری کا خط پہنچے.میں سرگرمی سے دعا میں مشغول ہوں.اور میری وہ مثال ہے کہ جیسے کوئی نہایت احتیاط سے کسی نشانہ پر تیر مار رہا ہے کہ امید ہے کہ جلد یا کچھ تیر بہدف ہو.میں خیال کرتا ہوں کہ میں آپ سے زیادہ اس غم میں آپ کا دیر سے رساله درود شریف شریک ہوں.آپ خدائے کریم و رحیم پر پورا پورا بھروسہ رکھیں.ہم امید رکھتے ہیں کہ ایک دن خدا تعالیٰ ہماری دعا سن لے گا.إِنَّهُ لَا يَيْنَسُ مِنْ رُّوحِ اللهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَفِرُونَ - امید کہ حالات سے جلد جلد مطلع فرماتے رہیں.اور میری نصیحت یہی ہے کہ آپ نہ گھبرا ئیں اور نہ مضطر ہوں.اور رحیم و کریم پر پورا یقین رکھیں.کہ اس کی ذات عجیب در عجیب قدرتیں رکھتی ہے.جن کو صبر کرنے والے آخر کار دیکھ لیتے ہیں.اور بے صبر شامت بے صبری سے محروم رہ جاتے ہیں.بلکہ ان کا ایمان بھی معرض خطر میں ہی ہوتا ہے.خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.آمین ثم آمین.میرے نزدیک بہتر خیال ہے کہ ان دنوں میں آپ استغفار اور درود شریف کا التزام بہت رکھیں.اللہ تعالیٰ آپ کو جلد تر کامیاب کرے.آمین ثم آمین.والسلام - خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان - ۲۶ نومبر۶۹۷ (۳) (مکتوب بنام قاضی ضیاء الدین صاحب) بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم - مکرمی اخویم قاضی ضیاء الدین صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ.آپ کا پر درد و غم خط مجھ کو ملا.آپ صبر کریں جیسا کہ خدا تعالیٰ کے صابر بندے صبر کرتے رہے ہیں.خدا تعالیٰ ان غموں سے اور ان پریشانیوں سے نجات دے گا.اور درود شریف بہت پڑھیں.تا اس کے برکات آپ پر نازل ہوں....اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں اور اگر طبیعت پریشان ہے تو چند ماہ کے لئے میرے پاس آجائیں.زیادہ خیریت ہے.والسلام خاکسار غلام احمد از قادیان ۲۵ جون ۱۸۹۲ء " (منقول از شعید الاذہان جلد نمبر ۴)
رساله درود شریف (۴) (مکتوب بنام چودھری اله داد صاحب مرحوم) بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ.صادق آن باشد که ایام بلا می گزارد با محبت باوفا.ہر ایک مرضی الہی پر صبر کرنا اور اپنے مولا سے کامل تعلق اور گاڑھا پیوند کرنا چاہئے.اور مخالفین کی کوئی پروانہ کرنی چاہئے.متوکل علی اللہ رہنا چاہئے.درود.استغفار و تلاوت قرآن مجید میں لگے رہنا بہتر ہے.خدا تعالیٰ وہ دن لاتا ہے کہ مخالف روسیاہ اور موافق مسرور و سر خرو ہوں گے.آپ کے واسطے دعا کی گئی ہے.خدا تعالیٰ ہر بلا سے نجات دے.والسلام جولائی ۱۸۹۷ء " (البدر جلد ۲ نمبر ۳۶ صفحه ۲۸۷) (۵) روایت حضرت شاہزادہ حاجی عبدالمجید خانصاحب لدھیانوی مبلغ طهران ملک ایران رضی الله عنه ماخوذ از مکتوب شاہزادہ صاحب ممدوح بطرف حضرت پیر منظور محمد صاحب مصنف قاعده سیسرنا القرآن آمده از طهران مورخہ ۲۸ دسمبر ۱۹۲۶ء.حضرت شاہزادہ صاحب رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں:.” جب یہ عاجز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کر چکا.تو حضور نے فرمایا کہ مشکلات کے وقت بعد از نماز عشاء دو رکعت نماز قضائے حاجت ادا کر کے سو دو سو دفعہ یا اس سے کم و بیش استغفار اور ایسا ہی سو دو سو دفعہ یا کم و بیش درود شریف پڑھ کر خوب دعا مانگو.اللہ تعالیٰ حاجتوں کو نہیں انکاوے گا.چنانچہ ہر رات بندہ ایسا ہی کرتا ہے.اللہ تعالیٰ خواب میں لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا کے ماتحت حل مشکلات اور قضائے حاجات کی بشارت ۱۳۳ رساله درود شریف دے دیتا ہے.اور دن میں اس کا ظہور ہو جاتا ہے فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذلك" (۱) (روایت صوفی نبی بخش صاحب متوطن راولپنڈی) صوفی نبی بخش صاحب سابق کلرک ریلوے لاہور نے میرے پاس بیان کیا.کہ مجھے ۱۸۸۶ء میں ایک مشکل کے وقت نماز عشاء کے بعد تین سو بار درود شریف پڑھنا الہاما بتایا گیا.جس پر عمل کرنے سے امید سے بڑھ کر کامیابی ہوئی.اس کے بعد جلد ہی بیعت کرنے پر میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں اس واقعہ کا ذکر کیا.حضور نے فرمایا.ہاں ٹھیک ہے.مگر اس کے ساتھ تین سو بار استغفار کا اضافہ کریں.اور عشاء کی نماز کے بعد اسے پڑھا کریں.میں نے کچھ دن تو ایسا کیا.مگر اس طرح سے رات کو نیند پوری نہیں ہوتی تھی.اور ملازمت کی وجہ سے دن کو سونے کا موقع نہیں ملتا تھا.اس لئے میں نے اس مشکل کو حضور کی خدمت میں پیش کیا.حضور نے فرمایا.اس کا اصل وقت تو وہی (بعد از نماز عشاء) ہے مگر آپ صبح کی نماز کے بعد پڑھ لیا کریں.اور انہی ایام میں میں نے مسجد مبارک مین مغربی دیوار پر مَنْ دَخَلَهُ كَانَ أَمِنَّا - (آيت) إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا (پوری آیت) اور پھر درود شریف بالفاظ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكَ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ لکھا ہوا دیکھا جو حضور نے خود لکھوایا تھا) اس لئے میں اس وقت سے یہی درود پڑھتا ہوں.اور اس وقت اس مسجد کے غسل خانہ کی مشرقی دیوار پر (جواب حجرہ بنا ہوا ہے.اور جس کی یہ مشرقی دیوار گول کمرہ کے اوپر کی مغربی دیوار ہے الهامی فقره مُبَارَكَ وَمُبَارِك وَكُل
ر ساله درود شریف أمْرِ تُبَارَكَ يُجْعَلُ فِيْهِ لکھا ہوا تھا.خاکسار مرتب رسالہ ھذا عرض کرتا ہے کہ مسجد مبارک کی مغربی اور مشرقی دیوار پر لکھے ہوئے کلمات طیبات اور آیات کریمہ کے متعلق مکرمی صوفی نبی بخش صاحب کے اس بیان کی تصدیق مکرمی پیر سراج الحق صاحب نعمانی.میر مهدی حسن صاحب حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری اور حضرت مولوی شیر علی صاحب کے ذریعہ سے بھی ہو گئی ہے.اور یہ بات حدیقین تک پہنچ گئی ہے.کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں مغربی دیوار پر درود شریف بالفاظ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَالِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِك وَسَلَّمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌی لکھا ہوا تھا درود شریف کے فضائل بیان فرموده حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام درود شریف و استغفار اور نماز بہترین وظیفہ ہے ایک شخص نے بیعت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا.کہ حضور مجھے کوئی وظیفہ بتا ئیں.اس پر حضور نے فرمایا کہ ”نمازوں کو سنوار کر پڑھو.کیونکہ ساری مشکلات کی یہی کنجی ہے.اور اس میں ساری لذت اور خزانے بھرے ہوئے ہیں.صدق دل سے روزے رکھو.صدقہ و خیرات کرو.درود و استغفار پڑھا کرو." (الحکم جلد ۲۸۳۷ فروری ۱۹۰۳ء) ۱۳۵ رساله درود شریف درود شریف میں آنحضرت امی کے احسانات کی شکر گزاری ہے (۱) فَأَيُّهَا النَّاسُ صَلُّوا وَسَلِّمُوا عَلَى رَسُولٍ حُشِرَ النَّاسُ عَلى قَدَمِهِ وَجُذبُوا إِلَى الرَّةِ الرَّحِيمِ الْمَتَانِ الَّذِى اَخْرَجَ خَلْقًا كَثِيرًا مِنَ الْمَفَاوِزِ الْمُهْلِكَةِ المُبَرِحَةِ إِلى رَوْضَاتِ الْاَ مَن وَالْآمَانِ وَشَجَّعَ قُلُوبًا مزؤُدَةٌ - وَقَوَّى هِمَمَّا مَجْهُودَةٌ وَابْدَعَ انْوَارًا مَفَفُوْدَةٌ وَ جَاءَ بِابْهَى الدُّرَرِ وَ الْيَوَاقِيْتِ وَالْمَرْجَانِ وَأَصَّلَ الْأَصُولَ وَادَّبَ الْعُقُولَ وَ نَجى كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ مِنْ سَلَاسِلٍ الْكُفْرِ وَالضَّلَلةِ وَالطَّغْيَانِ وَ سَقَى الْمُؤْمِنِينَ الْمُسْلِمِيْنَ الرَّاغِيْنَ فِي خِيَرِهِ كَأَسَ الْيَقِينِ وَ السَّكِينَةِ وَالْإِطْمِيْنَانِ وَ عَصَمَهُمْ مِنْ طُرُقِ الشَّرِّ وَ الْفَسَادِ وَ الْخُسْرَانِ وَ هَدَاهُمْ إِلَى جَمِيعِ سُبُلِ الْخَيْرِوَ السَّعَادَةِ وَالْإِحْسَانِ" (آئینہ کمالات اسلام - روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴) پس اے لوگو اس رسول پر درود اور سلام بھیجو.جس کے قدم پر تمام لوگوں کو جمع کیا گیا.اور وہ اپنے خداوند رحیم ومنان کی طرف کھینچے چلے آئے.جس نے بہت سی مخلوق کو مملک اور پر مشقت جنگلوں سے نکال کر امن وامان کے سبزہ زاروں اور باغوں میں پہنچایا.اور دہشت زدہ دلوں کو دلیری اور بہادری بخشی.اور تھک کر چور ہو چکی ہوئی ماندہ ہمتوں کو قوی کیا اور مفقود ہو چکے ہوئے انوار کو موجود کر دیا.اور حقائق و معارف کے نہایت درخشاں اور خوبصورت موتی اور یا قوت اور مرجان لایا.اور اصول قائم
رساله درود شریف کئے.اور عقول کو آداب سے مزین کیا اور لوگوں کو کفر اور گمراہی اور سرکشی کی زنجیروں سے نکالا.اور مومنوں اور مسلموں کو جو آپ کی خیرو برکات کے طالب تھے.یقین اور جمعیت اور اطمینان کا پیالہ پلایا.اور انہیں شر اور فساد اور خسارہ کی راہوں سے بچایا.اور خیر اور سعادت اور نیکو کاری کی تمام راہوں کی طرف رہنمائی کی." (۳) فَصَلَّوْا عَلى هَذَا النَّبِيِّ الْمُحْسِنِ الَّذِي هُوَ مُظْهَرُ صِفَاتِ الرَّحْمَنِ الْمَتَانِ وَ هَلَ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانِ وَ الْقَلْبُ الَّذِي لَا يَدْرِى إِحْسَانَهُ فَلَا إِيْمَانَ لَهُ - أَوْ يُضِيعُ إِيْمَانَة - اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى هَذَا الرَّسُولِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي سَقَى الْآخَرِيْنَ كَمَا سَقَى الْأَوَّلِينَ - وَصَبَغَهُمْ بِصِبْعَ نَفْسِهِ وَادْخَلَهُمْ فِي الْمُطَهَّرِينَ" انجاز المسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۶۴۵) ” (اے لوگو) اس محسن نبی پر درود بھیجو.جو خداوند رحمان ومنان کی صفات کا مظہر ہے.کیونکہ احسان کا بدلہ احسان ہی ہے.اور جس دل میں آپ کے احسانات کا احساس نہیں.اس میں یا تو ایمان ہے ہی نہیں اور یا پھر وہ اپنے ایمان کو تباہ کرنے کے درپے ہے.اے اللہ اس امی رسول اور نبی پر درود بھیج جس نے آخرین کو بھی پانی سے سیر کیا ہے جس طرح اس نے اولین کو سیر کیا.اور انہیں اپنے رنگ میں رنگین کیا تھا.اور انہیں پاک لوگوں میں داخل کیا تھا" (۳) ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ مال کا ہی صدق و صفا دیکھئے.آپ نے ہر ایک قسم کی بد تحریک کا مقابلہ کیا.طرح طرح کے مصائب رساله درود شریف اور تکالیف اٹھائیں.لیکن پروانہ کی یہی صدق وصفا تھا جس کے باعث اللہ تعالٰی نے فضل کیا.اسی لئے تو فرمایا :- إِنَّ اللهَ وَمَليكتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَاتِهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلّوا عَلَيْهِ وَسَلّمُوا تَسْلِيمًا - (احزاب:)) ترجمہ :.اللہ تعالی اور اس کے تمام فرشتے اس نبی پر درود بھیجتے ہیں.اے ایمان والو تم بھی اس پر درود اور سلام بھیجو اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اکرم کے اعمال ایسے تھے کہ اللہ تعالی نے ان کی تعریف یا اوصاف کی تحدید کرنے کے لئے کوئی لفظ خاص نہیں فرمایا.لفظ تو مل سکتے تھے لیکن خود استعمال نہ کئے.یعنی آپ کے اعمال صالحہ کی تعریف تحدید سے بیروں تھی.اس قسم کی آیت کسی اور نبی کی شان میں استعمال نہ کی.آپ کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالٰی نے ہمیشہ کے لئے یہ حکم دیا.کہ آئندہ لوگ شکر گزاری کے طور پر درود بھیجیں.ان کی ہمت اور صدق وہ تھا.کہ اگر ہم اوپر یا نیچے نگاہ کریں تو اس کی نظیر نہیں ملتی." (اخبار الحکم جلدے نمبر ۲۵ صفحہ ۶ پر چہ ۱۰ جولائی ۱۹۰۳ء) نماز میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اصل دعا.درود شریف دو ہر کے اندر نماز خود دعائے مے کند من دعا ہائے بر و بار تو اے باغ و بہار " ترجمہ:.ہر شخص اپنی نمازوں میں اپنے لئے دعائیں کرتا ہے.مگر اے موسم بہار اور باغ! میں آپ ہی کے پھلوں اور پھوٹوں کے لئے دعائیں کیا کرتا ( آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه (۲۶) ہوں.
رساله و رود درود شریف میں تمام دعا ئیں آجاتی ہیں (روایت حضرت مفتی محمد صادق (صاحب) ہنوز میں لاہور کے دفتر اکو شنٹ جنرل میں ملازم تھا ۱۸۹۸ء کا یا اس کے قریب کا واقعہ ہے.کہ میں درود شریف کثرت سے پڑھتا تھا.اور اس میں بہت لذت اور سرور حاصل کرتا تھا.انہی ایام میں میں نے ایک حدیث میں پڑھا.کہ ایک صحابی نے رسول کریم ملی الا اللہ کے حضور میں عرض کیا کہ میری ساری دعائیں درود شریف ہی ہوا کریں گے.یہ حدیث پڑھ کر مجھے بھی پر زور خواہش پیدا ہوئی کہ میں بھی ایسا ہی کروں.چنانچہ ایک روز جب کہ میں قادیان آیا ہوا تھا.اور مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر تھا.میں نے عرض کیا کہ میری یہ خواہش ہے کہ میں اپنی تمام خواہشوں اور مرادوں کی بجائے اللہ تعالی سے درود شریف ہی کی دعا مانگا کروں.حضور نے اس پر پسندیدگی کا اظہار فرمایا اور تمام حاضرین سمیت ہاتھ اٹھا کر اسی وقت میرے لئے دعا کی.تب سے میرا اس پر عمل ہے کہ اپنی تمام خواہشوں کو درود شریف کی دعا میں شامل کر کے اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہوں.اور یہ قبولیت دعا کا ایک بہت بڑا ذریعہ میرے تجربہ میں آیا ہے.وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللهِ العَلِيِّ الْعَظِيمِ - محمد صادق ۱۸ اپریل ۱۹۳۳ء " ۱۳۹ رساله درود شریف درود شریف ہی کا ہدیہ آنحضرت میر کو پہنچتا ہے درود شریف صدقہ کی کمی کی تلافی کا ذریعہ ہے "محبی اخویم مفتی محمد صادق صاحب سلمہ اللہ.السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ.میں نے آپ کا خط پڑھا.میں انشاء اللہ الکریم آپ کے لئے دعا کرونگا.تایہ حالت بدل جائے.اور انشاء اللہ دعا قبول ہو گی.مگر میں آپ کو ابھی صلاح نہیں دیتا.کہ اس تنخواہ پر آپ دس روپیہ ماہوار بھیجا کریں.کیونکہ تنخواہ قلیل ہے.اور اہل وعیال کا حق ہے بلکہ میں آپ کو تاکیدی طور پر اور حکم لکھتا ہوں.کہ آپ اس وقت تک کہ خدا تعالٰی کوئی با گنجائش اور کافی ترقی بخشے.یہی تین روپے بھیج دیا کریں.اگر میرا کانشنس اس کے خلاف کہتا تو میں ایسا ہی لکھتا مگر میرا نور قلب یہی مجھے اجازت دیتا ہے.کہ آپ اس مقررہ چندہ پر قائم رہیں.ہاں بجائے زیادت کے درود شریف پڑھا کریں.کہ وہی ہدیہ ہے جو آنحضرت ان کے پاس پہنچتا ہے.ممکن ہے کہ اس ہدیہ کے ارسال میں آپ سے سستی ہوئی ہو.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ۱۸ مارچ ۶۹۸" 1.اس وقت حضرت مفتی صاحب کی تنخواہ (۳۰) روپے ماہوار تھی.
رساله درود شریف ۱۴۰ ملائکہ آنحضرت امام کو درود شریف پہنچاتے ہیں سوال : السلام علیکم یا اهل القبور جو کہا جاتا ہے کیا مردے سنتے ہیں؟ جواب.دیکھو وہ سلام کا جواب و علیکم السلام تو نہیں دیتے.خدا تعالیٰ وہ سلام ان کو پہنچا دیتا ہے.اب ہم جو آواز سنتے ہیں.اس میں ہوا ایک واسطہ ہے لیکن یہ واسطہ مردہ اور تمہارے درمیان نہیں.لیکن السلام علیکم میں خدا تعالیٰ ملائکہ کو واسطہ بنا دیتا ہے.اسی طرح درود شریف ہے.کہ ملائکہ آنحضرت مال کو پہنچا دیتے ہیں." اخبار البدر جلد ۳ نمبر پرچه صفحه ۵-۱۶ مارچ ۱۹۰۴ء) برکات الیہ انسی پر نازل ہوتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ پر درود بھیجیں (بادا نانک کے اس بارہ میں کلام کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے تصدیق به شهادت آیات قرآن کریم) باد ا صاحب ایک شہد گر نتھ میں فرماتے ہیں:.پیر پیغمبر سالک شہدے اور شہید شیخ مشائخ قاضی ملا در درویش رسید برکت تن کو اگلی پڑھتے رہیں درود یعنی جس قدر پیر پیغمبر اور سالک اور شہید گزرے اور شیخ مشائخ اور قاضی ملا اور نیک درویش ہوئے ہیں.ان میں سے انہیں کو برکت ملے گی.جو جناب محمد مصطفی میں پر درود بھیجتے ہیں.۱۴۱ رساله درود شریف یہ اشارہ اس آیت کی طرف ہے اِنَّ اللهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلّمُوا تَسْلِيمًا - قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُم.الله وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ - یعنی اللہ اور تمام فرشتے اس کے اس نبی پر درود بھیجتے ہیں.اے وے لوگو جو ایماندار ہو.تم بھی اس پر درود اور سلام بھیجو.اے نبی ان کو کہدے کہ اگر تم خدا سے پیار کرتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو.تا خدا بھی تم سے پیار کرے.اور تمہارے گناہ بخش دیوے." است بچن.روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۷) بعض الفاظ درود شریف از ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام (1) "درود شریف وہی بہتر ہے کہ جو آنحضرت امام کی زبان مبارک سے نکلا ہے اور وہ یہ ہے:.اَللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدُ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ کی ترجمہ.اے اللہ محمد رسول اللہ پر اور محمد رسول اللہ آل پر درود بھیج جیسا کہ تو نے حضرت ابراہیم پر اور حضرت ابراہیم کی آل پر درود بھیجا ہے.تو بہت ہی تعریف والا اور بزرگی والا ہے.اے اللہ محمد رسول الله عمان ام پر اور محمد رسول اللہ علی ال کی آل پر برکات نازل فرما.
رساله درود شریف ۱۴۲ جیسا کہ تو نے حضرت ابراہیم پر اور حضرت ابراہیم کی آل پر برکات نازل کیں.تو بہت ہی تعریف والا اور بزرگی والا ہے.اس درود کی فضیلت جو الفاظ ایک پرہیز گار کے منہ سے نکلتے ہیں ان میں ضرور کسی قدر برکت ہوتی ہے.پس خیال کر لینا چاہئے کہ جو پرہیز گاروں کا سردار اور نبیوں کا سپہ سالار ہے.اس کے منہ سے جو لفظ نکلے ہیں.وہ کس قدر متبرک ہوں گے.غرض سب اقسام درود شریف سے یہی درود شریف زیادہ مبارک ہے.یہی اس عاجز کا ورد ہے.تعداد کی پابندی ضروری نہیں اور کسی تعداد کی پابندی ضروری نہیں.اخلاص اور محبت اور حضور اور تضرع سے پڑھنا چاہئے.اور اس وقت تک ضرور پڑھتے رہیں.کہ جب تک ایک حالت رقت اور بیخودی اور تاثر کی پیدا ہو جائے.اور سینہ میں انشراح اور ذوق پایا جائے." (مکتوبات احمدیہ جلد اول صفحہ ۱۸) موزون تروقت ” بعد نماز مغرب و عشاء جہاں تک ممکن ہو، درود شریف بکثرت پڑھیں.اور دلی محبت و اخلاص سے پڑھیں.اگر گیارہ سو دفعہ رو زور د مقرر کریں یا سات سو دفعہ ورد مقرر کریں تو بہتر ہے.اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ ۱۴۳ رساله درود شریف وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ - یی درود شریف پڑھیں.اس درود شریف کے بعض برکات اگر اس کی دلی ذوق اور محبت سے مداومت ملے کی جائے تو زیارت رسول کریم بھی ہو جاتی ہے.اور تنویر باطن اور استقامت دین کے لئے بہت موثر ہے.(مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۳ صفحه ۷۶) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَالِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اے اللہ آنحضرت پر اور آنحضرت کی آل پر درود اور برکات اور سلام بھیج.تو بہت ہی تعریف والا اور بزرگی والا ہے.نوٹ:.یہ الفاظ درود شریف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مسجد مبارک کے اندر مغربی دیوار پر مع بعض آیات قرآن کریم به ترتیب ذیل لکھوائے ہوئے تھے.جیسا کہ بہت سے صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبانی بلا اختلاف معلوم ہوا ہے جیسے صوفی نبی بخش صاحب متوطن راولپنڈی سابق کلرک محکمہ ریلوے لاہور.پیر سراج الحق صاحب نعمانی.حضرت مولوی شیر علی صاحب.میرمہدی حسین صاحب.مولانا غلام رسول صاحب را جیکی و غیر ہم رضی اللہ عنم وارضا ہم اجمعین مداومت یعنی ہمیشگی.(خاکسار مرتب رسالہ)
۱۴۵ رساله درود شریف رساله درود شریف ۱۴۳ صورت کتبہ لے مَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ - وَمَنْ تُبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ تُقْبَلُ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ - اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَالِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِكْ وَسَلَّمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اس درود شریف کے بعض برکات پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے میرے پاس بیان کیا ہے کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ سے میں نے سنا تھا وہ فرماتے تھے.کہ اس درود شریف کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوئی مجددیت سے قبل بھی اور اس کے بعد بھی ہزارہا مرتبہ پڑھا.اور اس کے پڑھنے سے حضور پر بہت برکات اور معارف نازل ہوئے.(۳) اللّهُمَّ صَلِّ عَلى نَبِيِّكَ وَحَبِيْبِكَ سَيِّدِ الْأَنْبِيَاءِ وَأَفْضَلِ الرُّسُلِ وَخَيْرِ الْمُرْسَلِينَ وَخَاتَمِ النَّبِيِّينَ مُحَمَّدٍ وَالِهِ وَأَصْحَابِهِ وَبَارِكْ وَسَلَّم (براہین احمدیہ.روحانی خزائن صفحہ ۲۴۶ ۲۴۷) لے اس کتبہ کے علاوہ اس مسجد کی مشرقی دیوار پر یعنی اس کے غسل خانہ والے کمرہ کی شرقی دیوار پر جسے بعد میں کسی قدر تبدیلی کے ساتھ مسجد کا حجرہ بنا دیا گیا شرقی طرف یہ الہام الہی لکھا اقد مبارك مُبَارِكَ وَ كُلَّ امْرِ تُبَارَ يا تُجْعَلُ فِيهِ.اے اللہ اپنے نبی اور اپنے محبوب اپنے تمام انبیاء کے سردار اور تمام رسولوں میں سے افضل اور تمام پیغمبروں کے برگزیدہ اور تمام انبیاء کے خاتم حضرت محمد رسول اللہ میں پر اور آپ کی آل پر اور آپ کے صحابہ پر درود اور برکات اور سلام بھیج.اللَّهُمَ صَلِّ عَلَى سَيِّدِنَا وَمَوْلْنَا مُحَمَّدٍ وَالِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ (سرمه چشم آریہ.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۵۰) اے اللہ ہمارے سردار اور آقا محمد رسول اللہ مال پر اور آپ کی تمام آل اور اصحاب پر درود بھیج.(٥) رَبِّ...صَلّ وَسَلّمْ وَبَارِكْ عَلَى نَبِيِّكَ وَحَبِيْكَ مُحَمَّدٍ خَاتَمِ النَّبِيِّينَ وَخَيْرِ الْمُرْسَلِينَ وَالِهِ الطَّيِّبِينَ الطَّاهِرِينَ وَأَصْحَابِهِ عَمَائِدِ الْمِلَّةِ وَالدِّينِ وَعَلَى جَمِيعِ عِبَادِكَ الصَّالِحِيْنَ (سر الخلافه صفحه ۲) اے میرے رب اپنے نبی اور اپنے محبوب خاتم النبین خیر المرسلین حضرت محمد رسول اللہ میں پر آپ کی آل طیسین طاہرین پر اور آپ کے بہ کرام پر جو ملت اور دین کے ستون ہوئے ہیں.اور اپنے تمام نیک بندوں پر درود اور سلام اور برکات بھیج.صحابه (٣) اَللّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ (براہین احمدیہ - روحانی خزائن جلد ا صفحه ۵۰۹) اے اللہ محمد رسول اللہ مال پر اور محمد رسول اللہ ان کی آل پر ورود و بھیج.(ع) اللّهُمَ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ
رساله درود شریف وَسَلّم (کشتی نوح صفحه (۷۷) اے اللہ محمد رسول الله الا اللہ پر اور محمد رسول اللہ کی آل پر درود اور برکات اور سلام بھیج.(۸) اللَّهُمَّ صَلَّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ أَفْضَلِ الرُّسُلِ وَخَاتَمِ النَّبِيِّينَ اشتهار براهین بزبان اردو و انگریزی - ضمیمه سرمه چشم آرمید (غیره) اے اللہ اپنے تمام رسولوں سے افضل اور خاتم الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ پر اور حضرت محمد رسول اللہ میم کی آل پر درود بھیج (۹) میر عنایت علی شاہ صاحب لدھیانوی نے میرے پاس بیان کیا.کہ میں نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ میں آنحضرت مالی و پر کن الفاظ سے درود بھیجا کروں.تو حضور نے مجھے یہ الفاظ ارشاد فرمائے تھے.صَلَّى اللهُ عَلَى حَبِيبِهِ مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِهِ وسلم اللہ تعالیٰ اپنے محبوب حضرت محمد رسول اللہ میں اللہ پر اور آپ کی آل پر درود اور سلام بھیجے.(۲) رَبِّ - صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ خَيْرِ الْمُرْسَلِينَ وَاِمَامِ الْمُتَّقِينَ - وَهَبْ لَهُ مَرَاتِبَ مَا وَهَبْتُ لِغَيْرِهِ مِنَ النَّبِيِّينَ رَبِّ أَعْطِهِ مَا أَرَدْتُ أَنْ تُعْطِيَنِي مِنَ النَّعْمَاءِ ثُمَّ اغْفِرْلِيْ بِوَجْهِكَ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرُّحَمَاءِ (اعجاز المسیح.روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۰۰) (اے میرے رب) تمام رسولوں میں سے برگزیدہ اور تمام متقیوں کے ہے.۱۴۷ رساله درود شریف پیشوا حضرت محمد رسول الله ما پر درود بھیج.اور آپ کو وہ مراتب بخش.جو تو نے کسی اور نبی کو نہیں بخشے.اے میرے رب جو نعمتیں تو نے مجھے دینے کا ارادہ کیا ہے وہ بھی آپ کو ہی دے.اور پھر مجھے اپنے وجہ کریم کے طفیل بخش دے.اور تو تمام رحم کرنیوالوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا () اللّهُمَّ صَلّ وَسَلّمْ وَبَارِكْ عَلَيْهِ وَآلِهِ بِعَدَدِ هُيِّهِ وَعَتِهِ وَ حُزبِهِ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ وَ انْزِلُ عَلَيْهِ انْوَارَ رَحْمَتِكَ إِلَى الأبد (بركات الدعا.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ ۷) اے اللہ آپ پر اور آپ کی آل پر اس قدر درود اور سلام اور برکات بھیج جس قدر آپ نے اس امت کی خاطر ہم و غم اٹھایا.اور ابد الاباد تک آپ پر اپنی رحمت کے انوار نازل فرما.(۱۳) اَللّهُمَّ صَلِّ وَسَلّمْ وَبَارِكْ عَلَيْهِ وَالِهِ وَأَصْحَابِهِ أجْمَعِينَ ( اتمام الحجہ.روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۲۸) اے اللہ آپ پر اور آپ کی تمام آل اور اصحاب پر درود اور سلام اور برکات بھیج.(۳) اَللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَالِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَآلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اے میرے رب اپنے نبی پر ہمیشہ درود بھیج.اس دنیا میں بھی اور بعثت ثانی میں بھی.نوٹ:.درود شریف کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد سے کہ :.
رساله درود شریف کسی تعداد کی پابندی ضروری نہیں.اخلاص اور محبت اور حضور اور تضرع سے پڑھنا چاہئے اور اس وقت تک ضرور پڑھتے رہیں.کہ جب تک ایک حالت رفت اور بے خودی اور تاثر کی پیدا ہو جائے.اور سینہ میں انشراح اور ذوق پایا جائے." (مکتوبات حصہ اول صفحہ ۱۸) نیزار شاد: " کسی تعداد کی شرط نہیں.اس قدر پڑھا جائے.کہ کیفیت صلوٰۃ سے دل مملو ہو جائے.اور ایک انشراح اور لذت اور حیات قلب پیدا ہو جائے." ( ایضا صفحہ ۲۶).سے ظاہر ہوتا ہے.کہ جن ارشادات میں حضور نے درود شریف کی کوئی خاص تعداد ( مثلا ۱۰۰ ۲۰۰- ۳۰۰ - ۷۰۰.یا ۱۱۰۰ روزانہ ) بتائی ہے.اس سے اصل مقصود کثرت سے پڑھنا ہی ہے.واللہ اعلم بالصواب باب چهارم برکات درود شریف رساله درود شریف از احادیث نبویہ وارشادات حضرت مسیح موعود
۱۵۱ 3 احادیث نبویه درباره درود شریف فضائل و برکات درود شریف رساله و رود جو آنحضرت پر درود بھیجے اس پر اللہ تعالیٰ درود بھیجتا ہے عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عَنْ ى رَسُولَ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَلَّى عَلَى وَاحِدَةً صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ عشرا (صحیح مسلم) ترجمہ :.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا ہے.جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجے گا اس پر اللہ تعالیٰ دس بار درود بھیجے گا.یعنی اللہ تعالیٰ اس کی کو تاہیاں معاف کر دے گا.اور ان کے شرسے اسے محفوظ رکھے گا.اسے عظمت در فعت بخشے گا.اسے خیرو برکت نصیب کرے گا.اس کے اچھے مقاصد کو پورا کرے گا.اس کے مستقبل کو سنوار دے گا.اسے اپنی رحمت کا مورد بنائے گا اور اسے ناپسندیدہ باتوں سے پاک کر کے اور پسندیدہ امور سے آراستہ کر کے خود اس کی مدح و ثنا کرے گا.اور اپنے ملائکہ اور اپنے پاک بندوں کی زبان سے بھی اس کی ستائش کرائے گا جیسا کہ اس لفظ کے معنوں سے ظاہر ہے).اس کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں..اگر خواهی که حق گوئد ثانیت بشو از دل شاخوان محمد یعنی اگر تم چاہتے ہو.کہ اللہ تعالیٰ تمہاری مدح و ثنا کرے.تو تم بچے دل
رساله درود شریف ۱۵۲ سے آنحضرت میں کے ثناخواں بن جاؤ.اللہ تعالیٰ تمہاری مدح وثناء کرے گا اور کرائے گا.اس حدیث کی تصدیق قرآن کریم کی اس آیت سے ہوتی ہے.من جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ امْثَالِهَا (انعام:(۱۶) جو شخص نیک کام کرے گا.اسے اس کے نیک کام کے ہم رنگ دس گنا اجر ملے گا.پس جو خیر و برکت آنحضرت امی کے لئے کوئی شخص چاہے گا.اللہ تعالیٰ وہی خیر و برکت خود اسے بھی عطا کرے گا.اس حدیث میں اور ایسا ہی دوسری احادیث میں دس سے مراد یہ نہیں.کہ ہر ایک درود خواں کو اس کے درود کی تعداد کے مطابق یکساں اجر ملے گا.بلکہ جو درود خدا تعالیٰ کی جناب میں قبولیت کے لائق ہو.یا اللہ تعالیٰ کی ستاری اور کرم سے جس درود کو شرف قبول بخشا جائے.اس کا کم سے کم اجر یہ ہو گا اور اس سے زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے.جس قدر زیادہ محبت اور اخلاص سے اور پابندی شرائط کے ساتھ درود بھیجا جائے گا.اسی قدر اجر زیادہ ہو گا.چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنما سے (موقوفاً) مردی ہے کہ جو شخص آنحضرت ما پر بہت عمدگی کے ساتھ (ایک بار) درود بھیجے گا.اس پر اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس کے بدلہ میں ستر بار درود بھیجیں گے اب کوئی چاہے تو اس میں کمی رکھے.اور چاہے تو زیادہ کرے.(جلاء الافہام بحوالہ مسند امام احمد ) نوٹ :.صلوٰۃ کے معنے دعا ہی کے نہیں.بلکہ اس کے معنے حسن ثناء اور تعظیم و تکریم کے بھی ہیں.اس لئے درود کی دعا کو آنحضرت امام نے اللہ تعالی کی صفت حمید مجید کے ساتھ وابستہ کیا ہے.نیز درود ایک دعا ہے.اور و ۱۵۳ رساله درود شریف دعا کی قبولیت کے لئے بموجب آیت ایشاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ نیز آیت نَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (بقره: ٢٥٠ ان تھک کوشش اور عملی مجاہدہ بھی ضروری ہے.اس لئے آنحضرت م م پر درود بھیجنے والے شخص کو چاہئے.کہ وہ اس کے ساتھ عملی طور پر بھی آنحضرت ام کی مدح و ثناء میں آپ کی عظمت شان کے اظہار میں اور آپ کے مقاصد کی پیروی میں کوشاں رہے.اس حدیث میں یہ تعلیم بھی دی گئی ہے کہ آنحضرت پر کثرت سے درود بھیجنا چاہئے.اور درود میں آنحضرت مال کے لئے زیادہ سے زیادہ خیرات و برکات اللہ تعالیٰ سے مانگنی چاہئیں.اور اس دعا کے دائرہ کو بہت وسیع کرنا چاہئے.وباللہ التوفیق درود شریف عفو ذنوب و حصول حسنات اور رفع درجات کا ذریعہ ہے (۳) عَنْ أَبِي طَلْحَةَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَصْبَحَ رسول الله صلى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا طَيِّبَ النَّفْسِ يُرى فِي وَجْهِهِ الْبَشَرُ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَصْبَحْتَ الْيَوْمَ طَيِّبَ النَّفْسِ يُرَى فِى وَجْهِكَ الْبَشَرُ ۖ قَالَ أَجَلُ أَتَانِي أَتٍ مِّنْ رَّبِّي فَقَالَ مَنْ صَلَّى عَلَيْكَ مِنْ اُمَّتِكَ صَلوةٌ كَتَبَ الله لَهُ بِهَا عَشْرَ حَسَنَاتٍ وَمَحَا عَنْهُ عَشْرَ سَيِّئَاتٍ وَرَفَعَ لَهُ عَشَرَ دَرَجَاتٍ وَرَدُّ عَلَيْهِ مِثْلَهَا (جلاء الافہام مولفہ حافظ ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ بحوالہ مسند امام احمد حنبل صفحہ ۳۱)
رساله درود شریف ۱۵۴۴ ترجمہ.حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز آنحضرت مالم جب صبح کو تشریف لائے.تو حضور کے چہرہ پر خاص طور پر بشاشت تھی.صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ آج حضور کے چہرہ انور پر خاص طور پر خوشی کے آثار ہیں فرمایا.ہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرشتہ نے آکر مجھے کہا ہے کہ تمہاری امت میں سے جو شخص تم پر ایک بار عمدگی سے درود بھیجے گا.اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ اس کی دس نیکیاں لکھے گا.اور اس کی دس بدیاں معاف فرمائے گا.اور اسے دس درجے بلند کرے گا.اور دیسی ہی رحمت اس پر نازل کرے گا ( جیسی اس نے تمہارے لئے مانگی ہو گی).یہ حدیث کسی قدر تغیر الفاظ کے ساتھ اور بھی کئی طریقوں سے مروی.ہے.چنانچہ سنن نسائی میں بھی آئی ہے.اور قریباً قریباً اسی مضمون کی ایک حدیث جلاء الافہام میں بحوالہ کتاب الصلوه علی النبی تصنیف قاضی اللہ اور اسماعیل بن اسحاق حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے.اسی طرح ایک حدیث اس بارہ میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے بھی جلاء الافہام میں بحوالہ مسند امام احمد حنبل و مسند عبد الحمید مذکور ہے.اس حدیث میں درود شریف کے جو برکات بیان ہوئے ہیں.ان کی طرف خود لفظ صلوۃ کے لغوی معنے بھی رہنمائی کرتے ہیں.کیونکہ لغت میں اس کے معنے استغفار کے اور مغفرت کے بھی ہیں.اور اس حدیث میں اس بات کی بھی تعلیم دی گئی ہے کہ آنحضرت مسلم پر درود پوری توجہ اور عقد ہمت سے اور حقیقی محبت اور دلسوزی کے ساتھ بھیجنا چاہئے.اور یہ کہ محض کثرت شمار کوئی خاص فضیلت کی بات نہیں.بلکہ اصل فضیلت اس بات میں ۱۵۵ رساله درود شریفه ہے کہ آنحضرت میں پر بہتر سے بہتر طور پر درود بھیجا جائے.اس بارہ میں اور بھی کئی احادیث آئی ہیں.درود شریف باطنی پاکیزگی، روحانی ترقی اور اعلی کمالات کے حصول کا ذریعہ ہے عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلُّوا عَلَيَّ فَإِنَّ صَلوتَكُمْ عَلَى زكوة لكُم - (جلاء الافهام بحوالہ کتاب صلو علی النبی میر اسماعیل بن اسحاق) ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت لم نے فرمایا.مجھ پر درود بھیجا کرو.تمہارا مجھ پر درود بھیجنا خود تمہاری پاکیزگی اور ترقی کا ذریعہ ہے.اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ درود شریف ایک طرف تو تمام روحانی آلائشوں سے پاک کرتا ہے.اور دوسری طرف اعلیٰ سے اعلیٰ کمالات انسانی پر پہنچاتا ہے.درود شریف کی اس خاصیت کی طرف قرآن کریم میں بھی اشارہ پایا جاتا ہے.اور وہ اس طرح پر کہ باتها الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيمًا میں درود شریف کا حکم دے کر آیت مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ امْثَالِهَا من بتایا ہے.کہ جو شخص آنحضرت میں پر ایک بار درود بھیجے گا اس پر اللہ تعالی دس بار درود بھیجے گا.اور آیت هُوَ الَّذِي يُصَلِّى عَلَيْكُمْ ومليكه ليُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَ كَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا - تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يُلْقَوْنَهُ سَلَمُ وَأَعَدَّ
رساله درود شریف ۱۵۶ لَهُمْ أَجْرًا كَرِيمًا (احزاب: ۴۴) میں بتایا ہے.کہ جس شخص پر اللہ تعالیٰ درود بھیجتا ہے.وہ دمبدم ظلمات سے نکلتا چلا جاتا ہے.اور انوار الیہ میں داخل ہوتا جاتا ہے.اور یہ رحمت اس پر بار بار اپنا فیضان کرتی ہے.حتی کہ ایک وقت اس پر ایسا آجاتا ہے.کہ وہ خدا تعالیٰ کا خاص مقرب ہو جاتا ہے.یہاں تک کہ اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے سلامتی کی بشارتیں آنے لگتی ہیں.اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑا اجر اور کرامت پاتا ہے.پس معلوم ہوا.کہ آنحضرت مسلم پر درود بھیجنا ان برکات کا ذریعہ ہے.اور جب اس آیت کے ماقبل کو دیکھا جائے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے.کہ یہ فیضان الی آنحضرت میں کی ختم نبوت کی برکات میں سے ہے.اور یہ کہ جس قدر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی اس رحمت اور اس احسان کو یاد کر کے اس کا شکر بجا لائے گا.اسی قدر اس پر یہ فیضان زیادہ ہو گا.سبحان اللہ ! اس سرور کائنات کے حضرت احدیت میں کیا ہی اعلیٰ مراتب ہیں میں.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک وحی میں بھی اس بات کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے.اور وہ یہ ہے وَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ الصَّلَوةُ هُوَ الْمُرَبِّى یعنی آنحضرت پر اور آنحضرت ام کی آل پر درود بھیجو.کیونکہ آپ پر اور آپ کی آل پر درود بھیجنا ہی حقیقی تربیت کا ذریعہ ہے (یا یہ کہ آنحضرت م م پر اور آپ کی آل پر درود بھیجنے کا التزام رکھو.کیونکہ آپ ہی کا وجود حقیقی مربی ہے.اور اس فیضان کا حصول آپؐ پر درود بھیجنے سے وابستہ ہے) اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام اپنے ایک مکتوب بنام چودھری رستم علی صاحب رضی اللہ عنہ میں ود شریف کو تنویر باطن اور استقامت کا ذریعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے - صلی ای آروم ۱۵۷ رساله درود شریف ہیں.” یہی درود شریف (یعنی جو نماز میں پڑھا جاتا ہے.ناقل) پڑھیں اس کی ولی ذوق اور محبت سے مداومت (یعنی ہمیشگی.ناقل) کی جائے.تو زیارت رسول کریم بھی ہو جاتی ہے.اور تنویر باطن اور استقامت دین کے لئے بھی بہت موثر ہے." (مکتوبات احمد یہ جلد نمبر ۳ صفحه ۷) ۵ درود شریف جنت کی راہ ہے عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ نَّبِيِّ الصَّلوةَ عَلَى خَطِئَ طَرِيق الجنه (سنن ابن ماجه ) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے.کہ آنحضرت م نے فرمایا.جس نے مجھ پر درود بھیجنا چھوڑا.اس نے جنت کی راہ کو چھوڑ دیا.یہ حدیث حضرت ابو ہریرہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما سے اور حضرت محمد بن حنفیہ سے بھی مروی ہے.اور ایک حدیث میں آتا ہے کہ کثرت سے درود شریف پڑھنے والا اسی زندگی میں جنت کے اندر اپنا مقام دیکھ لیتا ہے.اور وہ حدیث یہ ہے (٥) عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلَّى عَلَى فِي يَوْمٍ أَلْفَ مَرَّةٍ لَمْ يَمُتْ حَتَّى يرى مُقْعَدَهُ مِنَ الْجَنَّةِ - (جلاء الافهام بحوالہ ابن الغازى و كتاب الصلوۃ علی النبی لابی عبد اللہ المقدسی) ترجمہ :.حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت میم
رساله درود شریف ۱۵۸ نے فرمایا ہے جو شخص ایک دن میں ہزار بار مجھ پر درود بھیجے گا وہ اسی زندگی میں جنت کے اندر اپنا مقام دیکھ لے گا.اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت مال پر کثرت سے درود بھیجنے والا اقرب راہ سے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَة اَنْ لا تَخَافُوا وَلا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُم تُوعَدُونَ ( حم سجدہ: ۳۱) کے مطابق اسی زندگی میں جنت کی بشارت بلکہ خود جنت کو پالیتا ہے.مگر جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے.محض کثرت تعداد کوئی چیز نہیں.جب تک اس کے ساتھ جوش محبت نبوی اور دلسوزی نہ ہو.وَمَا التَّوْفِيقٌ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ درود شریف نجات اخروی کا ذریعہ ہے آنحضرت پر درود بھیجنے میں خود درود بھیجنے والے کی بہتری اور بہبودی ہے (٢) عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ الله عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَنْجُكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ أَهْوَالِهَا وَمَوَاطِنِهَا أكْثَرُكُمْ عَلَيَّ فِي الدُّنْيَا صَلوةٌ فَإِنَّهُ قَدْ كَانَ فِي اللهِ وَمَلَئِكَتِهِ كِفَايَةٌ وَلَكِنْ حَقَّ الْمُؤْمِنِينَ بِذلِكَ فَيُنيبهم عَلَيْهِ (تفسیر در منشور بحواله ترغیب اصفهانی و مسند دیلمی) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت امام نے فرمایا قیامت کے روز اسدن کے خطرات سے اور ہولناک مواقع سے تم میں سے سب سے زیادہ محفوظ اور نجات یافتہ وہ شخص ہو گا.جو دنیا میں مجھ پر ۱۵۹ رساله درود شریف سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہو گا.(میرے لئے تو اللہ تعالیٰ کا اور اس کے فرشتوں کا درود ہی کافی تھا.یہ تو اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو ثواب پانے کا ایک موقع بخشا ہے.اور ایک حدیث میں آتا ہے کہ درود گناہوں کا کفارہ ہے.اور وہ حدیث یہ ہے:.(4) عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى ANWALLEN ANGE وَسَلَّمَ صَلّوا عَلَى فَإِنَّ الصَّلوةَ عَلَيَّ كَفَّارَةٌ لَّكُمْ فَمَنْ صَلَّى عَلَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ عَشْرًا (جلاء الافہام بحوالہ کتاب الصلوة على النبي من امام علی ابن ابی عاصم ) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا ہے مجھ پر درود بھیجا کرو.کیونکہ مجھ پر درود بھیجنا تمہارے لئے ایک کفارہ ہے.جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجے گا اس پر اللہ تعالیٰ دس بار درود بھیجے گا.اور ایک حدیث میں آتا ہے کہ جس مجلس میں آنحضرت امی پر درود بھیجا جائے اس سے اٹھنے سے قبل درود بھیجنے والے کے گناہ بخشے جاتے ہیں اور وہ حدیث یہ ہے:.(۸) عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ لِلَّهِ سَيَّارَةً مِّنَ الْمَلَئِكَةِ إِذَا مَرُوا بِحَلَقِ الذِّكْرِ قَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضِ اقْعُدُوا فَإِذَا دَعَا الْقَوْمُ امَنُوا عَلَى دُعَائِهِمْ فَإِذَا صَلُّوا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلّوا مَعَهُمْ حَتَّى يَفْرُغُوَالُمَّ يَقُولَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ
ر ساله درود شریف طُوبَى لِهَؤُلَاءِ يَرْجِعُونَ مَغْفُورًا لَّهُمْ جلاء الافہام صفحه ۲۴ بحوالہ فوائد ابو سعید قاص) ترجمہ.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضر لم نے فرمایا.اللہ تعالی کے فرشتوں کی ایک جماعت اس کام پر متعین ہے.کہ وہ پھرتے رہتے ہیں.اور جب وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی کسی مجلس کے پاس پہنچتے ہیں تو وہاں ٹھہر جاتے اور ایک دوسرے کو ٹھہرا لیتے ہیں.پس جب وہ لوگ دعا کریں.تو فرشتے آمین کہتے ہیں.اور جب وہ خدا کے نبی می ایم پر درود بھیجیں تو وہ فرشتے بھی درود بھیجنے میں ان کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں اور جب وہ لوگ اس کام سے فارغ ہو کر واپس جانے لگتے ہیں تو فرشتے ایکدوسرے کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ یہ لوگ کیا ہی خوش نصیب ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مغفرت اور بخشش پا کر واپس جا رہے ہیں.اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ درود شریف بھی ذکر الہی ہی ہے.ذکر الہی اسی بات کا نام نہیں ہے کہ تسبیح و تقدیس اور تحمید الہی کی جائے بلکہ دعا اور درود شریف بھی ذکر الہی ہی ہے.اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے موقوفا مردی ہے.کہ آنحضرت میں پر درود بھیجنا انسان کو گناہوں سے بالکل پاک کر دیتا ہے.اور وہ روایت یہ ہے:.عَنْ أَبِي بَكْرِ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ الصَّلَوةُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْحَقُ لِلْخَطَايَا مِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ وَالسَّلَامُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْضَلُ مِنْ عِشقِ الرِّقَابِ وَ حُبُّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْضَلُ 191 رساله درود شریف مِنْ مُهَجِ الْأَنْفُسِ أَوْ قَالَ مِنْ ضَرْبِ السَّيْفِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تفسیر در منشور بحواله تاریخ خطیب و ترغیب اصفهانی) ترجمہ.حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت پر درود بھیجا اس سے بھی کہیں بڑھ کر گناہوں کو نابود کرتا ہے.جتنا کہ ٹھنڈا پانی پیاس کو اور آپ پر سلام بھیجنا گردنوں کو آزاد کرنے سے بھی زیادہ فضیلت رکھتا ہے.اور آپ کی محبت اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان دینے یا جہاد کرنے سے بھی افضل ہے.اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ درود اور سلام کی بنا محبت نبوی پر ہونی چاہئے اور اسی صورت میں وہ گناہوں سے بھی نجات دلاتا ہے.جب کسی دل میں آنحضرت ما کی محبت جاگزیں ہو.اور اس محبت کی بنا پر اس سے آنحضرت میم کے حق میں درود اور سلام نکلے.تو اس دل میں کوئی گناہ نہیں ٹھر سکتا.اور محبت نبوئی کے بغیر درود کچھ حقیقت نہیں رکھتا.درود شریف قیامت کے روز آنحضرت کے ساتھ خاص تعلق اور قرب کا ذریعہ ہو گا () عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ الله | صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْلَى النَّاسِ بِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أكْثَرُهُمْ عَلَى صَلوةٌ ( ) (جامع ترندی) جمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ م نے فرمایا ہے.قیامت کے روز میرے ساتھ تمام لوگوں
ر ساله درود شریف ۱۶۲ سے زیادہ تعلق اور قرب رکھنے والا شخص وہ ہو گا جو مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ہو گا.اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت م پر کثرت سے درود بھیجنے والے کو آپ کے ساتھ روحانی مناسبت اور خاص تعلق حاصل ہو جاتا ہے.جس سے بڑھ کر کوئی سعادت نہیں ہے.(٣) عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَقْرَبَكُمْ مِنِّى يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي كُلِّ موطنٍ أَكْثَرُكُمْ عَلَيَّ صَلوةٌ فِي الدُّنْيَا (۱۳) ۱۶۳ ر ساله درود شریف عَنْ رُوَيْفِعِ ابْنِ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ قَالَ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَانْزِلَهُ الْمَقْعَدَ المُقَرَّبَ عِنْدَكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَجَبَتْ لَهُ شَفَاعَتِي طلاء الافہام صفحہ ۵۸ بحوالہ معجم کبیر طبرانی) ترجمہ: روس فع بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت لم نے فرمایا.جو شخص میرے لئے یہ دعا کرے گا کہ اے اللہ آنحضرت پر درود بھیج اور آپ کو قیامت کے روز اپنے خاص قرب کے مقام میں جگہ دیجیو اسے میری شفاعت نصیب ہوگی.( تفسیر در منشور بحواله شعب الایمان للبیهقی و تاریخ ابن عساکر) درود شریف تمام دعاؤں کی جامع اور سب سے افضل دعا ہے ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا.قیامت کے روز اسدن کے ہر ایک ہولناک) مقام میں تم میں سے سب سے زیادہ مجھ سے قریب وہ شخص ہو گا.جس نے دنیا میں مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجا ہو گا.درود شریف قیامت کے روز شفاعت نبوئی کا ذریعہ ہو گا ) عَنْ أَبِي بَكرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ والصِّدِّيقِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلَّى عَلَى كُنتُ شَفِيْعَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (جلاء الافہام صفحہ ہے بحوالہ ابن شاہین) ترجمہ : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ملی الہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص مجھ پر درود بھیجے گا.قیامت کے روز میں اس کی شفاعت کرونگا.(۱۳) عَنْ أَبِي ابْنِ كَعْبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَهَبَ ثُلُنَا اللَّيْلِ قَامَ فَقَالَ يايُّهَا النَّاسُ اذْكُرُو اللَّهَ اذْكُرُوا اللَّهَ جَانَتِ الرَّاحِفَةٌ تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِيهِ- جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فيهِ- قَالَ أَبَيُّ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَكْثَرُ الصَّلوةَ علَيْكَ فَكَمْ أَجْعَلُ لَكَ مِنْ صَلوَتِي - قَالَ مَاشِتَتَ.قُلْتُ الربع ؟ قَالَ مَا شِئتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ قُلْتُ النِّصْفُ قَالَ مَا شِئْتَ وَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرُ قُلْتُ فَالقُلتَيْنِ؟ قَالَ مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرُ قُلْتُ اَجْعَلُ لَكَ صَلوتِيْ كُلَّهَا قَالَ إِذَا تكفى هَمَّكَ وَيُغْفَرَ لَكَ ذُنُبُكَ هَذَا حَدِيثُ حَسَنَّ (جامع تر مندی)
رساله درود شریف صل عالمی دوم ترجمہ.حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت اور رات کا دو تہائی حصہ گذر چکنے کے وقت اٹھ کر اپنے گھر والوں اور ارد گرد کے لوگوں کو نماز تہجد کے لئے جگا کر انہیں فرمایا کرتے تھے کہ اے لوگو اللہ کو یاد کر لو.اللہ کو یاد کر لو.وہ ہولناک زلزلہ آور) گھڑی سریر آ پہنچی ہے جس کے بعد ساتھ ہی دوسری اور بھی زیادہ ہولناک گھڑی آجائے گی.موت مع ان آفات کے جو اس کے آنے کے ساتھ آجاتی ہیں، سر پر آپہنچی ہے.ہاں وہ موت مع اپنے ساتھ کی آفات کے بس آہی پہنچی ہے اس حدیث کے راوی) ابی کہتے ہیں میں نے (ایک رات حضور کے جگانے پر اٹھ کر عرض کیا یا رسول اللہ.میں اپنی دعا کا ایک بہت بڑا حصہ حضور کے لئے مخصوص کر دیا کرتا ہوں.(مگر بہتر ہو کہ حضور ارشاد فرما دیں کہ میں اپنی دعا کا کتنا حصہ حضور کے لئے مخصوص کیا کروں.فرمایا جتنا چاہو.میں نے عرض کیا ایک چوتھائی؟ فرمایا جتنا چاہو اور اگر اس سے زیادہ (حصہ میرے لئے مخصوص کیا کرو تو زیادہ بہتر ہو گا.میں نے عرض کیا نصف حصہ ؟ فرمایا جتنا چاہو.اور اگر اس سے بھی بڑھا دو تو اور بھی بہتر ہو گا.میں نے عرض کیا دو تہائی فرمایا جتنا چاہو اور اگر اس سے بھی زیادہ کرو تو اور بھی بہتر ہو گا.میں نے عرض کیا کہ میں آئندہ اپنی تمام دعا کو حضور کے لئے ہی مخصوص رکھا کروں گا.فرمایا اس میں تمہاری ضرورتیں اور حاجتیں آجائیں گی.اور اللہ تعالیٰ تمہارے سارے کام درست کر دے گا.اور تمہاری ساری مرادیں پوری کر دے گا اور کو تاہیوں کو معاف کر دے گا.اس حدیث کے مضمون کی تصدیق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فعل سے بھی ہوتی ہے.چنانچہ حضور فرماتے ہیں:.ہر ۱۶۵ کیسے اندر نماز خود دعائے میکند رساله درود شریف من دعا ہائے بر و بار تو اے باغ و بہار یعنی دوسرے لوگ تو اپنی نماز میں اپنے ذاتی مطالب کے لئے دعائیں کرتے ہیں.مگر میں محض آنحضرت امام کے مقاصد کے پورا ہونے کے لئے اور حضور کے رفع درجات کے لئے دعائیں کیا کرتا ہوں.اور اس حدیث میں یہ بھی تعلیم پائی جاتی ہے کہ سچے مومن کے لئے ضروری ہے کہ اپنے ذاتی مقاصد کے لئے دعائیں کرنے پر اسلام کی ترقی کے لئے.اعلاء کلمتہ اللہ کے لئے.آنحضرت امام کے تمام مقاصد کے پورا ہونے کے لئے.آپ کی حقیقی شان کے لوگوں پر روشن ہونے کے لئے اور آپ کے فیوض و برکات سے سب لوگوں کے کامل طور پر فیضیاب ہونے کے لئے اور اسی طرح دین اسلام کی ترقی کے لئے دعائیں کرنے کو ہمیشہ اور ہر حال میں مقدم رکھے.اور اپنے تمام مقاصد کو آنحضرت میر کے مقاصد کے تابع کر دے.اور کوئی ایسا مقصد اپنا نہ بنائے جو آنحضرت کے مقاصد سے خارج ہو.اور اپنی تمام دعاؤں کا مرکزی نقطہ درود شریف کو بنائے.اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص یہ مسلک اختیار کرتا ہے اس کی تمام ضرورتوں کے پورا کرنے کا اللہ تعالیٰ آپ ہی متکفل ہو جاتا ہے.وَمَا التَّوْفِيْقُ إِلَّا بِاللَّهِ وَلَا حَولَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِي الْعَظِيمِ - اسی طرح اس حدیث سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ آنحضرت مسلم پر درود بھیجنا حسن خاتمہ اور بہترین موت نصیب ہونے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے کیونکہ اس حدیث میں برے انجام سے ڈرا کر اس سے بچنے کا یہ ذریعہ بتایا گیا ہے کہ آدھی رات کے بعد اٹھ کر نماز میں خدا
رساله درود شریف 144 تعالیٰ کے حضور دعائیں کی جائیں.جس کی طرف آیت وَمِنَ اللَّيْلِ.فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةٌ لَّكَ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا نَحْمُودًا اسرائیل (۸۰) بھی رہنمائی کرتی ہے اور ان دعاؤں میں سے بهترین اور جامع دعا اس حدیث میں درود شریف کو بتایا گیا ہے پس معلوم ہوا که درود شریف دنیا و آخرت کے محمود ہونے کا اور انجام کے بہتر ہونے کا بهترین ذریعہ ہے.اور اس بات کی تصدیق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے:.” خدا تعالیٰ دنیا و آخرت محمود کرے.بعد نماز عشاء درود شریف بہت پڑھیں" (مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۳ صفحه ۳) اس حدیث کی بنا پر ایک دفعہ حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں عہد کیا تھا کہ میں باقی سب دعاؤں کی بجائے آنحضرت مال پر درود بھیجا کرونگا.جس پر حضور نے ہاتھ اٹھا کر حضرت مفتی صاحب کے لئے دعا کی.اور اس طرح سے اس حدیث کی تصدیق فرمائی اور اس بات کو بہت پسند فرمایا.حضرت مفتی صاحب کا اب تک اسی پر عمل ہے.درود شریف قبولیت دعا کا ذریعہ ہے (۳) عَنِ بنِ حُبَيشِ عَنْ عَبْدُ اللَّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ كُنتُ أصَلِي وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَ عُمَرُ مَعَهُ فَلَمَّا جَلَسْتُ بَدَأَتُ بِالثَّنَاءِ عَلَى اللَّهِ ثُمَّ الصَّلوةِ عَلَى النّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ دَعَوْتُ لِنَفْسِي فَقَالَ 144 رساله درود شریف النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَلْ تُعْطَنَّ سَلْ تُعْطَهُ (جامع ترندی جلد ا صفحه (۷۶) ترجمہ : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ میں مسجد میں نماز نفل پڑھ رہا تھا اور آنحضرت میں وہیں تشریف رکھتے تھے.اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمرہ بھی حضور کی خدمت میں حاضر تھے.جب میں آخری تشہد کے لئے بیٹھا تو میں نے اپنے لئے دعا شروع کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی، پھر آنحضرت می پر درود بھیجا.اور اس کے بعد اپنے لئے دعا کرنے لگا.اس پر آنحضرت م نے فرمایا.اب خدا تعالیٰ سے جو مانگنا ہو مانگو تمہیں دیا جائے گا.مانگو تمہیں دیا جائے گا.اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حمد و ثناء الہی اور آنحضرت می پر درود بھیجنا قبولیت دعا کا ذریعہ ہے.اور بعض احادیث میں یہ بھی آتا ہے کہ تشہد کے اذکار کے بعد یعنی التَّحِيَاتُ لِلَّهِ سے لے کر عَبْدُهُ وَ رَسُولُه تک پڑھنے کے بعد جو دعا چاہیں کر سکتے ہیں.اور اس کا مطلب بھی دراصل یہی ہے.کیونکہ تشہد کی دعا میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء اور تعظیم بھی موجود ہے.اور آنحضرت میں اللہ کے حق میں سلام، رحمت اور برکات کی دعا یعنی درود بھی.اور اس کے قریب المعنے حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کی مندرجہ ذیل حدیث ہے:.عَنْ فُضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدَ إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ فَصَلَّى فَقَالَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
رساله درود شریف IMA وَسَلَّمَ عَجِلْتَ أَيُّهَا الْمُصَلّى إِذَا صَلَّيْتَ فَقَعَدْتَ فَاحْمَدٍ اللهِ بِمَا هُوَ أَهْلُه وَصَلّ عَلَى ثُمَّ ادْعُهُ - قَالَ ثُمَّ صَلَّى رَجُلٌ أخَر بَعْدَ ذلِكَ فَحَمِدَ اللهَ وَصَلَّى عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّهَا المُصَلَّى ادْعُ تُجَبْ - هَذَا حَدِيثُ حَسَنُ (جامع ترندی جلد ۲ صفحه ۱۸۶) حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دفعہ) آنحضرت ام مسجد میں مجلس فرما رہے تھے.اسی دوران میں ایک شخص آکر نماز پڑھنے لگا.اور جب اس نے دعا کرنی شروع کی تو حمد و ثناء اور درود کے بغیر ہی یوں دعا کرنے لگا کہ اے اللہ مجھے بخش دے اور مجھے پر رحم فرملا جب وہ دعا کر چکا تو آنحضرت میں نے اسے فرمایا کہ اے نمازی تم نے (دعا میں) جلد بازی کی ہے، جب تم نماز کے آخر میں تشہد کے لئے بیٹھو تو پہلے اللہ تعالی کی ایسے طور پر حمد و ثناء بیان کرو جو اس کی شان کے لائق ہو.اور مجھ پر درود بھیجو.اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور جو دعا کرنی ہو کرو.اس حدیث کے راوی حضرت فضالہ بن عبید بیان کرتے ہیں کہ جب حضور اس شخص کو یہ ہدایت دے چکے.تو اس کے بعد ایک اور شخص آکر نماز پڑھنے لگا اور اس نے اپنے لئے دعا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی.اور اس کے بعد آنحضرت میں پر درود بھیجا.اس پر آنحضرت امی نے اسے فرمایا.اے نمازی ! اب دعا کرو.تمہاری دعا قبول ہو گی.غرض دعا سے قبل اللہ تعالٰی کی حمد کرنا اور آنحضرت میم پر درود بھیجنا دعا کی قبولیت کا ذریعہ ہے کیونکہ حمد وصلوٰۃ در حقیقت شکر نعمت ہے اور شکر نعمت بموجب آیت لاِنْ شَكَرْتُمْ لَا زِيْدَنَّكُمْ زیادت نعمت کا ذریعہ ہے الله 149 رساله درود شریف اور قبولیت دعا نعم الہیہ میں سے ایک عظیم الشان نعمت ہے.پس حمد وصلوٰۃ قبولیت دعا کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے.نیز اس طرح سے وہ دعا درود شریف کا ایک ضمیمہ بن کر شرف قبولیت پانے کے قابل ہو جاتی ہے کیونکہ درود قبول کی جانیوالی دعا ہے.نوٹ:.یہاں پر اس بارہ میں بعض اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال کا ذکر کر دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے.() عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ إِنَّ الدُّعَاءِ مَوْقُوفٌ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَا يُصْعَدُ مِنْهُ شَيْيٌّ حَتَّى تُصَلِّيَ عَلَى نَبِتِكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (جامع تندی) حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے موقوفاً مروی ہے کہ جب تک دعا میں آنحضرت مال پر درود نہ بھیجا جائے اس وقت تک وہ آسمان پر نہیں پہنچتی (بلکہ نیچے ہی رہتی ہے) اس کا ایک مطلب تو یہی ہے کہ دعا سے پہلے آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنا دعا کی قبولیت کا بہت بڑا ذریعہ ہے.اس کے علاوہ اس میں یہ بھی تعلیم دی گئی ہے کہ دعا کا حقیقی مدعا (جو اپنی عاجزی اور کمزوری کے اعتراف کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور گر جانا اور اس سے مدد چاہتا ہے.اور جس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ انسان کو اس قدر رفعت بخشتا ہے کہ اسے زمینی سے آسمانی بنا دیتا ہے اسی صورت میں حاصل ہو گا کہ انسان کا اصل مقصد آنخ کی عظمت اور رفعت اور آپ کے مقاصد میں آپ کی کامیابی چاہنا ہو.اور دعا کرنے والا آنحضرت میں تعلیم کے مقاصد کو اپنے مقاصد پر مقدم رکھ کر اور اپنے مقاصد کو آپ کے مقاصد کے تابع کرکے دعا کرے.اور
رساله و رود شریف ۱۷۰ اس کے ہم معنے ایک روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی ہے.اور وہ یہ ہے:.(۳) عَنْ عَلِيّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ مَا مِنْ دُعَاءِ إِلَّا بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ حِجَابٌ حَتَّى يُصَلَّى عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا صَلَّى عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الخَرَق الحِجَاب وَاسْتَجِيبَ الدُّعَاءِ (جلاء الافهام) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہر ایک دعا کے آسمان پر پہنچنے میں ایک حجاب حائل ہوتا ہے جو آنحضرت مسلم پر درود بھیجنے سے جو دور ہوتا ہے اور وہ دعا قبول ہوتی ہے.ہی اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے طریق دعا کے متعلق روایت ہے:.(۳) عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَسْأَلَ الله حَاجَةٌ فَابْدَأَ بِالْمَدْحَةِ وَالتَّحْمِيدِ وَالثَّنَاءِ عَلَى اللهِ عَزَّوَجَلَّ بِمَا هُوَ اهْلُهُ ثُمَّ صَلِّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ ادْعُ بَعْدُ فَإِنَّ ذلِكَ أَخْرُى أَنْ تُصِيبَ حَاجَتَكَ (جلاء الافہام صفحه ۳۵۸) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے (موقوفا) روایت ہے کہ تمہیں کوئی حاجت اور مشکل پیش آئے.اور اس کے لئے دعا کرنے لگو تو پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرو.پھر آنحضرت مال پر درود بھیجو.اور اس کے بعد اپنی ضرورت کے لئے دعا کرو.ایسے طور پر دعا کرنا حاجات کے پورا ہونے کا بہت بڑا ذریعہ ہے.نام 121 رساله درود شریف ان احادیث اور روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دعا کے شروع میں بھی درود پڑھنا چاہئے اور اس کے آخر میں بھی.درود شریف قضائے حاجات کا ذریعہ ہے نماز قضائے حاجات اور درود شریف (۲) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَتْ لَهُ إِلَى اللهِ حَاجَةً أَوْ بَنِي آدَمَ فَلْيَتَوَضَّأَ فَلْيُحْسِنِ الْوُضُوءَ ثُمَّ لَيُصَلِّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ لَيُمْنِ عَلَى اللهِ وَلْيُصَلِّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ ليَقُلْ ترجمہ : حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت میں نے فرمایا ہے جس شخص کو کوئی حاجت در پیش ہو جس کے پورا ہونے کے ظاہری اسباب نہ ہوں.بلکہ اللہ تعالیٰ کے کرم سے ہی پوری ہو سکتی ہو.یا اس میں کسی انسان کا بھی دخل ہو.تو اسے چاہئے کہ خوب اچھی طرح سے وضو کر کے دو رکعت نفل پڑھے.اور ان میں سلام سے قبل) اللہ کی حمد و ثناء بیان کرے.اور خدا کے نبی میل پر درود بھیجے.اور اس کے بعد یوں دعا کرے.لا إله إلا الله الحمُ الكَرِيمُ سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ - أَسْأَلُكَ مُوَجِبَاتِ رَحْمَتِكَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ وَالْغَنِيمَة مِنْ كُلِّ بِرِّ وَ السَّلَامَةَ
رساله درود شریف 14 رساله درود مِنْ كُلِّ إِثْمِ لَا تَدْعُ لِى ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَهُ وَلَا هَمَّا إِلَّا فَرَّجْتَهُ جلاتو وَلَا حَاجَةً هِيَ لَكَ رِضًا إِلَّا قَضَيْتَهَا يَا أَرْحَمَ الرَّحِمِينَ الافهام صفحه ۵۸ بحوالہ جامع ترمذی) اللہ کے سوا کوئی بھی عبادت کے لائق ہستی نہیں.وہ حلیم اور کریم ہے (میں) اللہ کی تسبیح کرتا ہوں جو عرش عظیم کا مالک ہے.ہر ایک رنگ میں کامل تعریف اللہ ہی کی شان کے لائق ہے.جو تمام مخلوقات کا رب ہے.(اے اللہ ) میں تجھ سے تیری رحمت (کے حصول کے ذرائع ، تیری کامل اور دوامی بخشش کے یقینی وسائل، ہر ایک نیکی کی توفیق اور ہر ایک گناہ کی بات سے سلامتی چاہتا ہوں.تو میرا ہر ایک گناہ بخش دے.اور کوئی باقی نہ چھوڑ.اور میری ہر ایک مشکل کو حل کر دے.اور میری ہر ایک حاجت کو جو تیری نظر میں پسندیدہ ہو، پورا کر.اے وہ ذات جو ارحم الراحمین (تمام رحمت کرنیوالوں سے بڑھ کر رحمت کرنیوالا) ہے.درود شریف تنگی کے دور ہونے کا ذریعہ ہے (ع) عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ السَّوَائِي عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَفَرَةُ الذِّكْرِ.وَالصَّلوةِ عَلَى تَنْفِى الْفَقْرَ (جلاء الافهام بحوالہ حلیہ ابی نعیم اختصارا منه) ترجمہ :.حضرت جابر بن سمرہ سوائی رضی اللہ عنہ سے روائت ہے کہ آنحضرت میم نے فرمایا ہے.کثرت سے اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا اور مجھ پر درود بھیجنا تنگی کے دور ہونے کا ذریعہ ہے.درود شریف دماغی پریشانی کا علاج ہے (۸) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا طَنَّتْ أُذُنٌ أَحَدِكُمْ فَلْيَذْ كُرْنِي وَلْيُصَلِّ عَلَى (جلاء الافهام بحوالہ طبرانی) ترجمہ: حضرت عبداللہ بن ابی رافع رضی اللہ عنہ آزاد فرمبوده آنحضرت میں سے روایت ہے کہ آنحضرت میم نے فرمایا ہے جب تم ں سے کسی شخص کو دماغی پریشانی کے باعث ہوائے پریشان کی آواز کے جو مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی سی ہوتی ہے اور کچھ سنائی نہ دے.تو وہ میرے تعلق اور میرے احسانات کو یاد کر کے مجھ پر درود بھیجے.راس کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس کی اس پریشانی کو دور کر کے اسے چین بخشے گا ) درود شریف بھولی ہوئی بات کے یاد آنے کا ذریعہ ہے ) عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا نَسِيتُمْ شَيْئًا فَصَلُّوا عَلَى تَذْكُرُوهُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ (جلاء الافہام صفحہ ۳۵۷) ترجمہ:.حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا.کہ جب تمہیں کوئی بات بھول جائے.تو اس کا خیال چھوڑ کر مجھ پر درود بھیجو.اس کی برکت سے اللہ چاہے گا تو تمہیں وہ بات بھی بیاد آ جائیگی.
رساله درود شریف ፈል رساله درود شریف درود شریف کی صدقہ و خیرات کی تلافی کا ذریعہ ہے عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّمَا رَجُلٍ لَمْ يَكُنْ عِندَهُ صَدَقَةٌ فَيَقُلْ فِى دُعَائِهِ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَ رَسُولِكَ وَصَلِّ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ فَإِنَّهَا لَهُ ذُكوةٌ (جلاء الافهام صفحه ۳۶۳) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے.کہ آنحضرت نے فرمایا ہے.جس شخص کے پاس صدقہ دینے کے لئے کچھ نہ ہو.تو الله شكر صلی می روم وہ مجھ پر یوں درود بھیجے.اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ وَصَلَّ عَلَى المؤمِنينَ وَالْمُؤْمِنَاتُ وَالْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ اے اللہ محمد رسول اللہ مین اسلام پر جو تیرا یکتا بندہ اور تیرا یکتا رسول ہے اور تمام مومن مردوں اور عورتوں اور تمام مسلم مردوں اور درود عورتوں پر بھی درود بھیج.یہ دعا بموجب آیت تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيْهِمْ بِهَا.اس کے لئے پاکیزگی اور ترقی درجات کا ذریعہ ہوگی.نوٹ:.اس حدیث کی تصدیق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے جو حضور نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو فرمایا تھا کہ آپ اس مقررہ چندہ پر قائم رہیں.ہاں بجائے زیادت کے درود شریف بہت پڑھا کریں.کہ وہی ہدیہ ہے جو آنحضرت مالا کے پاس پہنچتا ہے.(دیکھو رسالہ ہذا صفحہ ۱۳۹) ہر ایک درود خواں کی طرف سے آنحضرت کو درود ملائکہ کے ذریعہ سے پہنچایا جاتا ہے عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْن مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى الله عليه وسلم قال إن اللهِ مَلَيْكَةُ سَبَّاحِيْنَ يُسْلِمُونَنِي عَن أُمَّتِي السَّلَامَ (جلاء الافہام صفحہ ۳۰ بحوالہ سنن نسائی) ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت میمی و سلم نے فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ کے بعض فرشتے ایسے ہیں جو زمین پر پھرتے رہتے ہیں.اور وہ مجھے میری امت کی طرف سے سلام پہنچاتے ہیں.نوٹ:.سلام میں درود بھی آ جاتا ہے.اسی لئے درود شریف کے بارہ میں حکم دیتے ہوئے خدا تعالیٰ نے فعل صلوا کی الگ تاکید نہیں بیان فرمائی بلکہ سلموا کے مصدر سے صلوا اور سلموا دونوں کی تاکید کا کام لیا گیا ہے.(۲۲) عن عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرًا مَلَكَ مُوَكَّلُ بِهَا حَتَّى يُبْلِغَنِيهَا (جلاء الافهام بحوالہ معجم کبیر طبرانی) حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت میم نے فرمایا ہے.جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجے گا اس پر اللہ تعالیٰ دس بار
رساله درود شریف 124 درود بھیجے گا.اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نہ ایک فرشہ داس شخص کے پاس موجود ہوتا ہوتا ہے.ہے.تاکہ وہ مجھے اس کی طرف پہنچائے.(۳۳) سے درود عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ 144 رساله درود شریف رَقِيْتُ الثَّالِثَةَ قَالَ بَعِدَ مَنْ أَدْرَكَ أَبَوَيْهِ الْكِبَرُ أَوْ أَحَدُهُمَا فَلَمْ يُدْخَلَ الْجَنَّةَ فَقُلْتُ أمين - (جلاء الافہام بحوالہ مستدرک حاکم) حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے.کہ آنحضرت نے (ایک دفعہ) صحابہ کو حاضر ہونے کا حکم دیا جس پر ہم لوگ حاضر ہو صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ حَيْثُمَا كُنتُمْ فَصَلُّوا عَلَى فَإِنَّ گئے ہیں جب آپ نے ممبر کی پہلی سیڑھی پر قدم مبارک رکھا تو فرمایا آمین.صَلوتَكُمْ تَبْلُغُنی (جلاء الافهام بحوالہ مجم کبیر طبرانی) حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت با سلام نے فرمایا ہے تم جہاں بھی ہو مجھ پر درود بھیجا کرو.تمہارا درود مجھے پہنچ جائے گا.اسی طرح دوسری سیڑھی پر چڑھ کر آمین کہی.اور پھر تیسری سیڑھی پر چڑھ کر کہا آمین اور جب آپ (خطبہ سے فارغ ہو کر ممبر سے اترے تو ہم لوگوں نے عرض کیا.یا رسول اللہ آج ہم نے حضور سے ایک ایسی بات سنی ہے جو اس سے پہلے کبھی حضور سے نہیں سنی.فرمایا (جب میں ممبر پر چڑھنے لگا تو) آنحضرت م پر درود بھیجنے کی تاکید اور اس کی اہمیت جبریل میرے سامنے آیا.اور اس نے کہا کہ جسے رمضان کا مہینہ ملا اور اسے آنحضرت کا ذکر سن کر آپ پر درود نہ بھیجنے والا خدا تعالیٰ سے دور ہوتا ہے (۲۳) عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احْضُرُوا فَحَضَرْنَا فَلَمَّا ارْتَقَى الدَّرَجَةَ قَالَ أمِينَ ثُمَّ ارْتَفَى الدَّرَجَةَ الثَّانِيَةَ فَقَالَ أَمِينَ ثُمَّ ارْتَقَى الدَّرَجَةَ الثَّالِثَةَ فَقَالَ أَمِينَ فَلَمَّا فَرَغَ نَزَلَ عَنِ الْمِنْبَرِ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللهِ سَمِعْنَا مِنْكَ الْيَوْمَ شَيْئًا مَّا كُنَّا نَسْمَعُهُ فَقَالَ إِنَّ جِبْرِيلَ عَرَضَ لِيْ فَقَالَ بَعِدَ مَنْ أَدْرَكَ رَمَضَانَ فَلَمْ يُعْفَرلَهُ فَقُلْتُ أمِينَ فَلَمَّا رَقِيتُ الثَّانِيَةَ قَالَ بَعِدَ مَنْ ذُكِرْتَ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْكَ فَقُلْتُ أَمِينَ فَلَمَّا بخشا نہیں گیا اس کے لئے دوری ہو.جس پر میں نے کہا کہ آمین.اور جب میں دوسری سیڑھی پر چڑھا تو اس نے کہا جس شخص کے پاس آپ کا ذکر آیا اور اس نے آپ پر درود نہ بھیجا اس کے لئے بھی دوری ہو.میں نے کہا آمین.پھر جب میں تیسری سیڑھی پر چڑھا تو اس نے کہا جس شخص کی موجودگی میں اس کے والدین یا ان میں سے کسی ایک پر بڑھاپا آیا اور اسے ان کی خدمت کر کے) جنت کا پانا نصیب نہ ہوا اس کے لئے بھی دوری ہو.میں نے کہا آمین.نوشوا.بعد کے معنی ہیں ( خدا تعالیٰ کی جناب سے دور ہوا.خدا کی لعنت کے نیچے آیا.ہلاک ہوا.لیکن جب یہ لفظ دعائیہ طور پر کہا جائے تو اس کے معنے "دور ہوا" وغیرہ کی بجائے " دور ہو" وغیرہ کئے جائیں گے.اس حدیث کی بعض دوسری روایات میں بعد کی بجائے شقی آیا ہے جس کے
رساله درود شریف معنے ہیں بد بخت ہوا.مجروم ہوا.ناکام ہوا.اور بعض روایات میں رغم اَنْفُ رَجُلٍ آیا ہے.جس کے معنے ہیں.اس کی ناک مٹی سے آلودہ ہو گئی.یعنی وہ ذلیل اور رسوا ہوا.اور اس حدیث کی بعض روایات میں یہ بھی مذکور ہے کہ ہر بار مجھے جبریل نے آمین کہنے کے لئے کہا.جس کی بنا پر میں نے تینوں بار آمین کہا.نوٹ ۲.درود شریف کے متعلق اس حدیث سے صرف یہی نہیں ثابت ہوتا.کہ جب آنحضرت مال کا ذکر آئے.تو آپ پر درود بھیجنا نہایت ضروری ہوتا ہے.اور جو شخص اس وقت آپ پر درود بھیجتا ہے.اللہ تعالیٰ اس کے گناہ اسی طرح بخش دیتا ہے.جس طرح والدین کی حقوق شناسی اور خدمت سے یا رمضان شریف کے روزوں سے اور اس کے متعلقہ دیگر مجاہدات و عبادات سے بخشے جاتے ہیں.اور جو شخص آنحضرت میر کا ذکر آنے پر آپ پر درود بھیجنے میں بخل سے کام لیتا ہے اور اس کی پروا نہیں کرتا.وہ اپنے لئے خدا تعالیٰ کی جناب سے دوری اپنی ہلاکت، شقاوت و محرومی اور ذلت و رسوائی کا سامان پیدا کرتا ہے.بلکہ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت میں پر درود بھیجنا خدا تعالیٰ کے قرب کا ہلاکت اور لعنت سے بچنے کا بد بختی محرومی اور ناکامی سے امن پانے کا اور دنیا و آخرت کی ذلتوں اور رسوائیوں سے محفوظ رہنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے.خواہ آپ کا ذکر کرنے یا سنے یا پڑھنے کے موقع پر ہو یا اس کے بدوں.نوٹ ۳.اس حدیث سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ درود شریف والدین کی حق شناسی اور ان کی خدمت کے برکات اور رمضان کے برکات بھی اپنے اندر رکھتا ہے.اور اگر کوئی شخص اپنے والدین کی خدمت اور حق شناسی 169 رساله درود شریف سے محروم رہا ہے.یا وہ سمجھتا ہے کہ مجھ سے اس معاملہ میں کو تاہی ہوئی ہے.تو اسے چاہئے کہ آنحضرت مال پر نہایت محبت اور اخلاص کے ساتھ کثرت سے درود شریف بھیجے.اس طرح سے وہ اس سعادت کو حاصل کر سکتا ہے.جس سے وہ محروم ہو چکا ہے یا اپنے آپ کو محروم پاتا ہے.اور اگر کوئی شخص رمضان کے برکات سے پورے طور پر فائدہ اٹھانے سے محروم ہے یا وہ سمجھتا ہے کہ میں ان برکات سے اپنے آپ کو محروم کر رہا ہوں یا کر چکا ہوں.تو اسے بھی چاہئے کہ وہ اس کی تلافی کے لئے آنحضرت می پر کثرت سے درود بھیجے.اور اس ذریعہ سے ان برکات کو پائے.(اور کمی درود کی تلافی کا ذریعہ بھی درود ہی ہے).والدین کی خدمت اور حق شناسی کا اور درود شریف کا تعلق بہت واضح اور روشن ہے.قرآن کریم میں تمام مومنوں کو آنحضرت میر کی آل بتایا گیا ہے اور آپ کی ازواج مطہرات کا نام امہات المومنین رکھا گیا ہے.اور آنحضرت ملا کے اور مومنوں کے باہمی رشتہ کو باپ اور بیٹے کے رشتہ سے نسبت دے کر ساتھ ہی اس نبوی رشتہ کو ابوت و بنوت کے رشتہ سے قوی تر اور قریب تر بیان کیا گیا ہے.پس درود شریف میں حقیقی باپ کی حق شناسی ہے.اس لئے وہ والدین کی خدمت کا بدل ہو سکتا ہے.علاوہ اس کے درود شریف میں اور والدین کی حق شناسی میں ایک یہ بھی مناسبت پائی جاتی ہے کہ درود شریف کی حقیقت شکر گزاری ہے.اور انسانی تعلقات میں سب سے بڑا تعلق والدین کا ہوتا ہے.اور والدین کی شکر گزاری اور حق شناسی کی قرآن کریم میں دو صورتیں بتائی گئی ہیں.ایک یہ کہ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا.یعنی والدین کے احسانات کو یاد کر کے ان
رساله درود شریف A.کے احسانات سے بہت بڑھ کر ان کے ساتھ نیک سلوک کرنا.(کیونکہ ان کے احسان کے برابر ان سے حسن سلوک کرنا احسان نہیں بلکہ محض عدل ہو گا اور اس میں کمی رکھنا ظلم میں داخل ہو گا.اور احسان اسی صورت میں ہو گا کہ ان کے احسانات سے بڑھ کر ان سے حسن سلوک کیا جائے.اور بموجب آيت وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ (بى اسرائیل:۲۵) ان کے آگے اطاعت اور فرمانبرداری کے ساتھ گرے رہنا.اور ان کی رحمت و شفقت کی انہیں بہترین جزا دینا (جس کا نام اس آیت میں بطریق مشاکلہ رحمت ہی رکھا گیا ہے).اور دوسری صورت یہ بتائی گئی ہے کہ ان کے احسانات کو یاد کر کے اور نظر کے سامنے لا کر ان کے بدلہ میں ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی رحمت طلب کرنا اور ان کے لئے دعائیں کرنا.جیسا کہ فرمایا وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا.یعنی اپنے والدین کے لئے دعا کیا کرو کہ اے میرے رب جس طرح انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی تھی.اسی طرح تو ان پر رحمت اور فضل کرے پس جب آنحضرت ام کا رشتہ والدین کے رشتہ سے بہت ہی بڑا امام ہے.اور آپ کے احسانات کے سامنے والدین کے احسانات کچھ بھی چیز نہیں.تو جس قدر والدین کی حقوق شناسی اور احسانمندی ضروری ہے.اس سے بدرجہا بڑھ کر آنحضرت میم کی حقوق شناسی اور احسانمندی ضروری ہوگی.اور اس کی بھی دو ہی صورتیں ہیں.ایک یہ کہ جس کام کے لئے آپ نے اپنی زندگی وقف کی ہوئی تھی.اس کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی جائے.اور جس راستے پر آپ اپنی امت کو چلانا چاہتے تھے.اسے اختیار کر کے استقامت کے ساتھ آگے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے.اور ذکر JAI رساله درود شریف الہی اور اعلائے کلمتہ اللہ کا شغل رکھا جائے.اور اس کے لئے ہر قدم پر آپ کے پاک نمونہ کی پیروی کی جائے.اور آپ کے محاسن اور محامد سے غافل لوگوں کو آگاہ کیا جائے.اور آپ کی شان ارفع کے خلاف جو باتیں کسی جاتی ہیں.اور آپ کی طرف منسوب کی جاتی ہیں.ان کا ابطال کیا جائے.اور دوسری صورت یہ ہے کہ آپ کے احسانات کو یاد کر کے آپ کے لئے دعائیں کی جائیں.اور کثرت سے اور نہایت محبت اور خلوص سے آپ پر درود بھیجا جائے اور آپ کے رفع درجات اور آپ کے مقاصد کی تکمیل کے لئے اور دین اسلام کے لئے اور انصار دین کے لئے دعائیں کی جائیں.اور رمضان شریف کا اور درود شریف کا باہم تعلق اور برکات کے لحاظ سے ان کی مناسبت بھی واضح ہے.قرآن کریم میں رمضان شریف کا اور نزول قرآن کریم کا خاص تعلق بیان کر کے اس کی جو برکات بتائی گئی ہیں.وہ بتاتی ہیں کہ رمضان شریف انسان کو خدا تعالیٰ کی جناب میں ایسا قرب بخشا ہے.کہ اگر کوئی روک درمیان میں نہ ہو.تو وہ مکالمہ الہیہ اور وحی الہی سے بھی مشرف ہو سکتا ہے اور اسے دعاؤں کی قبولیت کا اور ان کے متعلق خدا تعالی کی طرف سے جواب پانے کا انعام بھی مل سکتا ہے.اور درود شریف کی بھی یہی برکات قرآن کریم سے اور احادیث نبویہ سے ثابت ہوتی ہیں.نوٹ ۴.والدین کی خدمت حقوق العباد میں سے سب سے اہم حق ہے.اور روزہ حقوق اللہ میں سے وہ حق ہے جس کی نسبت ایک حدیث میں آتا ہ القَومُ لِى وَأَنَا أَجْرِى بِهِ - یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ محض مجھے پانے کے لئے رکھا جاتا ہے اور اس کا بدلہ بھی میری ہی ذات سے تعلق رکھتا ہے.یعنی روزہ حقوق اللہ میں سے ہے.جس کا ثمرہ اللہ تعالیٰ کو پالینا
رساله درود شریف العالم TAP ہے.اور درود شریف میں یہ دونوں باتیں موجود ہیں.اس میں حقوق العباد میں سے سب سے مقدم حق کی ادائیگی بھی ہے اور حقوق اللہ کی ادائیگی بھی.کیونکہ درود میں جو آنحضرت مالی ایم کے رفع درجات کے لئے دعائیں کی جاتی ہیں.ان میں آپ کی حق شناسی اور شکر گزاری ہے.اور اس میں جو آپ کے مقاصد کے پورا ہونے کے لئے دعائیں کی جاتی ہیں.اس میں اللہ تعالی کی حق شناسی ہے.کیونکہ آنحضرت مال کے مقاصد کا لب لباب الله تعالٰی کی عظمت اور بڑائی چاہنا اور اعلائے کلمتہ اللہ ہی ہے.نیز درود میں اللہ تعالی کی عبادت بھی ہے.اور اس سے استعانت بھی.اور اسی میں اللہ تعالی کی حق شناسی ہے.پس درود شریف والدین کی خدمت سے محروم رہنے کی صورت میں اس کی تلافی کا ذریعہ بھی ہے.اور رمضان کی برکات سے محروم رہنے کی حالت میں اس کی تلافی کا ذریعہ بھی.لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انسان والدین کی خدمت کرنی چھوڑ بیٹھے.اور رمضان کا احترام بھی نہ کرے.اور درود پڑھ چھوڑا کرے.بلکہ درود تو ان سعادتوں سے اپنی محرومی پر حقیقی ندامت اور افسوس کی حالت میں اس محرومی کے بدنتائج اور وبال سے مخلصی پانے کی ایک راہ ہے.واللہ اعلم بالصواب.(۲۵) عَنْ أَنَسِ ابْنِ مَالِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَخِيلُ مَنْ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ - فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَى مَرَّةً صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ عَشْرًا (جلاء الافہام صفحہ ۳۱۸ بحوالہ سنن نسائی) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ام نے فرمایا ہے جس شخص کے پاس میرا ذکر آئے.اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے.وہ IAM رساله درود شریف بڑا بخیل ہے.کیونکہ جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجے.اس پر تو اللہ تعالیٰ دس بار درود بھیجتا ہے (پس اس میں کو تاہی کرنا اپنے آپ سے بخل کرنا ہے).یعنی جو شخص مجھ پر جو ماں باپ سے بڑھ کر محسن ہوں درود بھیجنے میں بخل کرتا ہے اس سے بڑھ کر بخیل کوئی نہیں ہو سکتا.علاوہ اس کے مجھ پر درود بھیجنے میں تو درود بھیجنے والے کا اپنا فائدہ ہے.کہ اس پر خدا تعالی درود بھیجے گا.اور بھیجے گا بھی ایک بار کے بدلہ میں کم از کم دس بار.اور جس پر خدا تعالی درود بھیجے.اس سے بڑھ کر خوش قسمت کوئی ہو ہی نہیں سکتا.پس جس شخص کو خود اپنی بھلائی چاہنے سے بھی دریغ ہو.اس سے بڑھ کر بخیل کون ہو سکتا ہے.اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ درود شریف بہت ہی عظیم الشان عطا کی دعا ہے.اور آنحضرت می پر درود بھیج کر اس عطا کو حاصل کرنے والا بڑا ہی خوش نصیب ہے اور اس سے محروم رہنا بہت بڑی بدنصیبی ہے.- اس حدیث کی بعض روایات میں اَلْبَخِيْلُ کی بجائے اَبْخَلُ النَّاسِ آتا ہے جس کے معنے ہیں سب سے بڑا بخیل.اور ایک روایت میں ہے.بِحَسْبِ الْمُؤْمِنِ مِنَ الْمُحْلِ أَنْ أَذْكَرَ عِنْدَهُ فَلَا يُصَلَّى عَلَی - یعنی میرا ذکر سن کر مجھ پر درود نہ بھیجنا ایک مومن کے حق میں بہت بڑا بخل ہے.اور مومن کہلانے والے کا آنحضرت میر کا ذکر آنے کے وقت آپ پر درود نہ بھیجنا نہ صرف دعوی ایمان کے خلاف ہے.بلکہ خود اپنی بھی پرلے درجہ کی بدخواہی ہے.اور ایک روایت میں کفی به شحاً آتا ہے.اور اس کے معنے بھی یہی ہیں.کہ یہ بہت بڑا بخل ہے.'
رساله درود شریف (جلاء الافہام) (۳۶) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَّمْ يُصَلِّ عَلَى فَلَا دين له (جلاء الافہام بحوالہ محمد بن حمدان مروزی) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت سلم نے فرمایا ہے جو شخص مجھ پر درود نہیں بھیجتا.اس کا کوئی دین ہی اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے.کہ دین لفظ پر ستی یا ظاہر پرستی کا نام نہیں ہے بلکہ دین کی اصل حقیقت اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول میر کی سچی محبت ہے.جس کی طرف اس حدیث نبوی میں بھی اشارہ ہے کہ لا يُؤْمِنُ اَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ اجْمَعِینَ.کوئی شخص مومن ہو ہی نہیں سکتا.جب تک اس کے دل میں باپ اور اولاد اور دوسرے سب لوگوں سے بڑھ کر میری محبت نہ ہو.اور آپ کی محبت کا ایک بہت بڑا نشان اخلاص کے ساتھ اور کثرت سے آپ پر درود بھیجنا ہے.پس جس شخص کے اندر آپ پر درود بھیجنے کا جذبہ نہیں وہ صاحب ایمان اور دیندار ہی نہیں.اَللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ (۳۷) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ نَسِيَ الصَّلوةَ عَلَى خَطِئَ طَرِيقَ الْجَنَّةِ (سنن ابن ماجه ) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ۱۸۵ رساله درود درود شریف لم نے فرمایا ہے.جس شخص نے مجھ پر درود بھیجنا چھوڑا وہ جنت کی راہ کو کھو بیٹھا.یہ حدیث فضائل و برکات درود شریف کے ذکر میں بھی بیان ہو چکی ہے.اور اس سے درود شریف کی جس قدر اہمیت معلوم ہوتی ہے.وہ کچھ محتاج بیان نہیں ہے.(۳۸) عَنْ قَتَادَةَ (تَابِعِيُّ) قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْجَفَاءِ أَنْ أَذْكَرَ عِنْدَ الرَّجُلِ فَلَا يُصَلِّيَ عَلَى (جلاء الافهام بحوالہ سعید بن الاعرابی) حضرت قتادہ سے ( مرسلا) روایت ہے کہ آنحضرت امام نے فرمایا ہے: یہ ایک کج خلقی اور بد اطواری کی بات ہے کہ ایک شخص کے پاس میرا ذکر ہو اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے.نوٹ.ان احادیث سے اس بات کی بڑی تاکید پائی جاتی ہے کہ جب بھی آنحضرت م یا اللہ کا ذکر کیا جائے.تو آپ پر درود بھیجا جائے.اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے وقت سے لے کر آج تک تمام مسلمانوں کا عمل چلا آتا ہے.اور اس بات کی کوئی مثال ملنی مشکل ہے کہ کوئی مسلمان کہلانے والا جو کھلم کھلا بے دین نہ ہو آنحضرت میم کے ذکر کے وقت آپ پر الر صلی علیه درود نہ بھیجتا ہو.اور یہ تعامل ان احادیث کی صحت کا ایک بہت بڑا گواہ ہے.نوٹ ۲.ان احادیث کا یہ مطلب نہیں.کہ اگر کسی موقع پر آنحضرت کے اسم مبارک کا متعدد مرتبہ تکرار کے ساتھ ذکر آئے.تو ہر بار از سر نو اور فی الفور آپ پر درود بھیجا جائے بلکہ جس طرح سجدہ تلاوت کی کسی
رساله درود شریف HAY آیت کے تکرار کے ساتھ سجدہ کا تکرار ضروری نہیں ہوتا.اور نہ ہی یہ ضروری ہوتا ہے کہ ہر حالت میں فورا ہی سجدہ بھی کیا جائے.بلکہ ایک ہی بار سجدہ کر لینا کافی ہوتا ہے.اور موقع کے مطابق اس میں تاخیر بھی ہو سکتی ہے.اسی طرح آنحضرت میں کے ایسے رنگ میں تکرار ذکر کے موقع پر ایک ہی مرتبہ درود پڑھنا اور عند الضرورت کسی قدر وقفہ کے بعد پڑھنا بھی اس حکم پر عمل کرنے کے لئے کافی ہو سکتا ہے.چنانچہ اس کی مثالیں عبادت میں اور دینی عبارات میں بکثرت پائی جاتی ہیں.عبادات میں ایک مثال تو اس کی اذان ہی ہے.جس میں کم از کم دو بار آنحضرت میں اللہ کا ذکر آتا ہے.لیکن اذان کے اندر درود ایک بار بھی نہیں پڑھا جاتا.بلکہ اذان کے ختم ہونے پر (خاص مسنون الفاظ میں) درود بھیجا جاتا ہے.اسی طرح تکبیر اقامت میں بھی درود نہیں پڑھا جاتا.اقامت کے بعد یا قَدْ قَامَتِ الصَّلوة کا کلمہ کہا جانے پر آنحضرت مما لا السلام کے لئے دعا کرنا بعض روایات سے ثابت ہے.اس کے علاوہ پہلے تشہد نماز کے آخر میں کلمہ شہادت کے ضمن میں آنحضرت کا ذکر آتا ہے.اور اس موقع پر درود بھیجنا سنت سے ثابت نہیں.بلکہ وہی درود کافی ہوتا ہے.جو السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ کے الفاظ میں اس سے پہلے آچکا ہوتا ہے.اور بعض مواقع پر تو یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ آپ کے ذکر سے پہلے یا پیچھے کہیں درود پڑھا جاتا ہو.مثلاً جب صحابہ کرام آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر "یا رسول اللہ " کے الفاظ سے آپ کو مخاطب کرتے تھے.تو وہ ان الفاظ کے بعد درود نہیں پڑھتے تھے.پس ایسے رنگ میں ذکر آنے کے موقع پر درود کا بھیجنا ضروری نہیں ہوتا.اور اگر غور سے دیکھا جائے تو حضرت مسیح ر ساله درود شریف موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قصیدہ نعتیہ (عجب نوریست در جان محمد) بھی اسی کی ایک مثال ہے.اور حضور کے کلام منشور میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں.کہ آنحضرت اللہ کے اسم مبارک کا بار بار ذکر آنے پر ہر بار درود کا اعادہ نہیں کیا گیا.جس کی ایک مثال میں اس جگہ پیش کرتا ہوں حضور فرماتے ہیں:.اس احقر نے ۱۸۶۴ یا ۱۸۶۵ عیسوی میں یعنی اسی زمانہ کے قریب کہ جب یہ صنعیف اپنی عمر کے پہلے حصہ میں ہنوز تحصیل علم.میں مشغول تھا.جناب خاتم الانبیاء سلم کو خواب میں دیکھا.اور اس وقت اس عاجز کے ہاتھ میں ایک دینی کتاب تھی.کہ جو خود اس عاجز کی تالیف معلوم ہوتی تھی.آنحضرت میں نے اس کتاب کو دیکھ کر عربی زبان میں پوچھا.کہ تو نے اس کتاب کا کیا نام رکھا ہے.خاکسار نے عرض کیا کہ اس کا نام میں نے قطبی رکھا ہے.جس نام کی تعبیر اب اس اشتہاری کتاب کی تالیف ہونے پر یہ کھلی.کہ وہ ایسی کتاب ہے کہ جو قطب ستارہ کی طرح غیر متزلزل اور مستحکم ہے.جس کے کامل استحکام کو پیش کر کے دس ہزار روپیہ کا اشتہار دیا گیا ہے.غرض آنحضرت نے وہ کتاب مجھ سے لے لی.اور جب وہ کتاب حضرت مقدس نبوی کے ہاتھ میں آئی تو آنجناب کا ہاتھ مبارک لگتے ہی ایک نہایت خوش رنگ اور خوبصورت میوہ بن گئی.کہ جو امرود سے مشابہ تھا مگر بقدر تربوز تھا.آنحضرت نے جب اس میوہ کو تقسیم کرنے کے لئے قاش قاش کرنا چاہا.تو اس قدر اس میں سے شہد نکلا کہ آنجناب کا
رساله درود شریف IAA ہاتھ مبارک مرفق تک شہد سے بھر گیا.تب ایک مردہ کہ جو دروازہ سے باہر پڑا تھا.آنحضرت کے معجزہ سے زندہ ہو کر اس عاجز کے پیچھے آکھڑا ہوا.اور یہ عاجز آنحضرت کے سامنے کھڑا تھا.جیسے ایک مستغیث حاکم کے سامنے کھڑا ہوتا ہے.اور آنحضرت بڑے جاہ و جلال اور حاکمانہ شان سے ایک زبردست پہلوان کی طرح کرسی پر جلوس فرما رہے تھے.پھر خلاصہ کلام یہ کہ ایک قاش آنحضرت نے مجھ کو اس غرض سے دی کہ تا میں اس شخص کو دوں کہ جو نئے سرے سے زندہ ہوا اور باقی تمام قاشیں میرے دامن میں ڈال دیں اور وہ ایک قاش میں نے اس نئے زندہ کو دے دی.اور اس نے وہیں کھالی.پھر جب وہ نیا زندہ اپنی قاش کھا چکا تو میں نے دیکھا کہ آنحضرت کی کرسی مبارک اپنے پہلے مکان سے بہت ہی اونچی ہو گئی.اور جیسے آفتاب کی کرنیں چھوٹتی ہیں.ایسا ہی آنحضرت کی پیشانی مبارک متواتر چمکنے لگی کہ جو دین اسلام کی تازگی اور ترقی کی طرف اشارت تھی.تب اسی نور کے مشاہدہ کرتے کرتے آنکھ کھل گئی.والحمد للہ علی ذالک" (براہین احمدیہ حصہ سوم صفحه ۲۴۹٬۲۴۸ حاشیه در حاشیہ نمبر۱) خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس حوالہ کا آخری فقرہ اس رویا کی تعبیر کر کے بتاتا ہے کہ وہ مردہ جو زندہ ہوا تھا وہ دین اسلام تھا.اور یہ رویا اس مکاشفہ نبویہ کی بھی تغییر کرتی ہے جس کی طرف نواس بن سمعان کی اس حدیث میں اشارہ پایا جاتا ہے.جس میں دجال کا مفصل ذکر ہے اور جس میں آتا ہے کہ ۱۸۹ رساله درود شریف دجال ایک مومن کو قتل کر کے اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے بڑے غرور سے اس کی لاش کو مخاطب کرتے ہوئے کہے گا.کہ اب ذرا اٹھ کر تو دکھا.جس پر وہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے اٹھ کر پوری طاقت اور قوت کے ساتھ کھڑا ہو جائے گا.اور اس کے بعد دجال ایسا کرنے پر قادر نہیں ہو گا.اس حدیث میں جس مردہ کے زندہ کئے جانے کا ذکر ہے.وہ دین اسلام ہی ہے.(جیسا کہ خاکسار نے حضرت خلیفہ المسیح اول رضی اللہ عنہ سے بھی سنا تھا).واللہ اعلم بالصواب درود شریف کے متعلق بعض ہدایات درود شریف سرسری طور پر نہیں بلکہ ہر رنگ میں پوری کوشش اور توجہ سے پڑھنا چاہئے عَنْ زَيْدِ ابْنِ خَارِجَةً رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَنَا سَأَلْتُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ الصَّلوةُ عَلَيْكَ فَقَالَ صَلُّوا عَلَى وَاجْتَهِدُوا ثُمَّ قُولُوا اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى لِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيد (جلاء الافهام حواله سند امام احمد ) حضرت زید بن خارجہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں نے آنحضرت میم کی خدمت میں عرض کیا.کہ حضور پر درود کس طرح بھیجا جائے.فرمایا اسی لفظ صلوۃ کے ساتھ میرے لئے دعا کیا کرو اور پوری کوشش اور توجہ سے کیا کرو اور اس میں یہ بھی کہا کرو کہ
رساله درود شریف 19.اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ على ألِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اے اللہ محمد پر اور محمد کی تمام آل پر برکتیں نازل کر جس طرح تو نے (پہلے بھی) ابراہیم کی آل پر برکات نازل کیں.تو بہت ہی حمد والا اور بزرگی والا ہے.نوٹا.اس حدیث میں اجتہاد یعنی اپنی طاقت اور سمجھ کے مطابق پوری 191 رساله درود شریف دعا میں اللہ تعالیٰ کے گزشتہ اسی قسم کے انعامات اور اس کے فضلوں کا ذکر کرنا جس قسم کا اس کا فضل اور انعام اس دعا میں مانگنا مقصود ہو.اسے قبولیت کے زیادہ قریب اور زیادہ زور دار بنا دیتا ہے.علاوہ اس کے کما صَلَّيْتَ اور كَمَا بَارَكْتَ کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ جیسا کہ تو اس بات کا وعدہ کر چکا اور اسے اپنے ذمہ لے چکا ہے.اور اس کی مثالیں عربی زبان میں اور خود قرآن کریم میں بکثرت پائی جاتی ہیں.چنانچہ ایک جگہ پر کوشش اور توجہ کے ساتھ آپ پر درود بھیجنے کا حکم دے کر اس کا طریق یہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا اتَوُا یعنی جو کچھ اپنی نیت اور بتایا گیا ہے کہ (۱) نہ صرف لفظ صلوۃ کے ساتھ بلکہ اس لفظ کے معنوں کی وسعت کو مد نظر رکھتے ہوئے تفصیلی طور پر بھی اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے والے الفاظ مثلاً برکت یا سلام کے لفظ سے بھی آپ کے لئے دعائیں کی جائیں (۲) ان دعاؤں میں آل نبوی کو تصریح کے ساتھ شامل کیا ارادہ میں دے چکے ہوتے ہیں اس کے متعلق اپنے ارادہ کو عملی رنگ میں پورا کرتے رہتے ہیں.اور ایک جگہ پر فرماتا ہے إِذَا سَلَّمْتُمُ مَا أَتَيْتُم یعنی جو کچھ تم نے دینا ٹھرایا ہو جب وہ دے دو اور یہ ظاہر ہے.کہ جس بات کا وعدہ ہو چکا ہو.اس کا دیا جانا زیادہ یقینی ہوتا ہے.اور چونکہ حضرت ابراہیم جائے (۳) ان رحمتوں اور برکتوں کا ذکر بھی کیا جائے جو حضرت ابراہیم اور علیہ السلام نے بھی زیادہ تر برکات اپنی اولاد کے لئے ہی مانگی تھیں.اور خدا آپ کی آل پر ہوئیں.( آل ابراہیم میں خود حضرت ابراہیم بھی عربی زبان کے محاورہ کے مطابق آجاتے ہیں) (۴) اللہ تعالیٰ کی صفات حمید اور مجید کو بھی بیان کیا جائے.نوٹ ۲.صلوۃ کے ذکر کے بعد برکات کے صریح ذکر سے اس دعا کے مضمون میں جو زور پیدا ہوتا ہے وہ تو ظاہر ہی ہے اور اسی طرح اس بات کے باوجود کہ درود کی دعا آل پر بھی حاوی ہوتی ہے ، تصریح سے بھی اس میں آل کے ذکر کو رکھنا جو زور پیدا کرتا ہے وہ بھی محتاج بیان نہیں ہے.اور آل ابراہیم کے ذکر سے اس دعا میں اس طرح پر مزید قوت پیدا ہوتی ہے کہ حضرت زکریا کی دعا کے الفاظ وَ لَمْ أكُنْ بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا کی طرح تعالٰی نے بھی ان سے جن انعامات کے وعدے کئے تھے.ان کا تعلق زیادہ تر ان کی اولاد سے ہی تھا.اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں آنحضرت کی وہی شان ہے جو آسمانی ستاروں اور سیاروں میں سورج کی شان ہے.اور اس لحاظ سے ان وعدوں کا سب سے زیادہ تعلق آپ کی ذات کے ساتھ اور آپ کے واسطہ سے آپ کی آل کے ساتھ ہی ہے.اس لئے كَمَا صَلَّيْتَ اور كَمَا بَارَكْتُ کے معنے یہی ہونگے کہ جو صلوات اور برکات آپ پر اور آپ کی آل پر نازل کرنے کا تیرا وعدہ ہے.وہ آپ پر اور آپ کی آل پر نازل کر.اور یہ بات اس دعا کو جس قدر زور دار بنا دیتی ہے.وہ کچھ محتاج اظہار نہیں ہے.
رساله درود شریف ۱۹۲ ۱۹۳ ر ساله درود شریف حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس قول سے بھی ہوتی ہے جو اسی طرح لفظ حمید مجید کا ذکر اس دعا کو بہت زور دار بنا رہا ہے کیونکہ دعا کو اسماء الہی کے ذکر سے موکد کرنے کا خود اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے جیسا کہ فرماتا سنن ابن ماجہ میں مذکور ہے:.ہے وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا.یعنی سب سے اچھے عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ إِذَا صَلَّيْتُمْ عَلَى نام اللہ ہی کے ہیں اس لئے تم ان ناموں کا واسطہ دے کر اس کے حضور رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَحْسِنُوا الصَّلوةَ دعائیں کیا کرو.اور ان دونوں صفتوں کا اس دعا کے ساتھ خاص تعلق ہے.عَلَيْهِ فَإِنَّكُمْ لَا تَدْرُونَ لَعَلَّ ذَلِكَ يُعْرَضُ عَلَيْهِ قَالَ فَقَالُوا حمد کے ایک معنے شکر کے ہیں.اور حمید کے معنے اس لحاظ سے شکور کے ہیں لَهُ فَعَلّمُنَا قَالَ قُولُوا اللّهُمَّ اجْعَلْ صَلَوَاتِكَ وَ رَحْمَتَكَ اور علی العموم شراح نے اس جگہ اس کے یہی معنے بیان کئے ہیں.اور صلوۃ وَبَرَكَاتِكَ عَلَى سَيِّدِ الْمُرْسَلِينَ وَ اِمَامِ الْمُتَّقِينَ وَخَاتَم اسی رحمت کا نام ہے جو کسی الہی امتحان میں پاس ہونے کے وقت مومن پر النَّبِيِّينَ مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَ رَسُولِكَ اِمَامِ الْخَيْرِ وَ قَائِدِ الْخَيْرِ وَ رَسُولِ الرَّحْمَةِ اللَّهُمَّ ابْعَثْهُ مَقَامًا مَّحْمُودًا يُغْبِطُهُ بِهِ الْأَوَّلُونَ وَالْأَخِرُونَ ترجمہ.حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب آنحضرت امی پر درود بھیجو.تو بہت اچھی طرح سے بھیجا کرو.کیونکہ اگر اچھے طور پر بھیجو گے تو امید رکھو.کہ وہ آپ کو پہنچایا جائے گا (ورنہ وہ آپ کی جناب میں پہنچائے جانے کے قابل نہیں ہوگا).راوی ہے کہ اس پر سامعین نے ان سے کہا کہ آپ ہمیں اس کا طریق بتائیں.انہوں نے کہا یوں کہا کرو.اے اللہ اپنے تمام رسولوں کے سردار تمام متقیوں کے پیشوا تمام انبیاء کی مہر اپنے بندہ اور اپنے رسول محمد م پر جو ہر ایک نیکی کی بات کے پیشوا ہر ایک نیکی کے کام کے حامل گروہ کے سپہ سالار اور مجسم رحمت بن کر آنے والے رسول ہیں، ہر رنگ میں اپنی جناب سے درود اور اپنی رحمت اور اپنی ہر قسم کی برکات بھیج.اے اللہ آپ کو اس مقام پر کھڑا کر جسمیں تمام مخلوقات آپ کی مرہون منت شکر یعنی قدر دانی کے طور پر اللہ تعالی کی طرف سے ہوتی ہے.پس لفظ حمید اس جگہ یہ معنے پیدا کرتا ہے کہ یا الہی آنحضرت میم نے ہماری نجات کی خاطر جو تکلیفیں اٹھائی ہیں اور جو جو قربانیاں کی ہیں ان کا آپ کو بہتر سے بہتر اجر عطا کر.اور اگر حمد سے مراد ستائش اور تعریف ہو تو بھی اس کا لفظ صلوۃ کے ساتھ تعلق ظاہر ہے کیونکہ صلوۃ کے معنے حسن ثناء کے بھی ہیں.اور اس صورت میں اس صفت کے ذکر کا مدعا یہ ہو گا کہ اے خدا جو تمام محامد کا مالک ہے آنحضرت امی کی ستائش اور محامد دنیا پر روشن کر اور تمام دنیا کو آپ کا شاء خواں بنا.اور مجید میں آپ کے لئے اللہ تعالیٰ سے وہ بزرگی اور عظمت مانگی جاتی ہے جو لفظ صلوۃ کے مفہوم میں داخل ہے.اور اس لحاظ سے اس صفت کے ساتھ اس دعا کا خاص تعلق ہے.غرض اس حدیث میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ درود شریف سرسری طور پر نہیں پڑھنا چاہئے بلکہ پورے طور پر عقد ہمت کے ساتھ اثر اور تمام تر توجہ اور کوشش کے ساتھ پڑھنا چاہئے.اس حدیث کے مضمون کی وضاحت کہتا
رسالہ ور درود شریف ۱۹۴ احسانمند ، شکر گزار اور ثناخواں ہو.اور جس کی وجہ سے (گزشتہ لوگ) کیا پہلے اور کیا پچھلے سب آپ پر رشک کریں.(٣٠) عَنْ عَلِيّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَكْتَالَ بِالْمِكْيَالِ الْأَوْفَى إِذَا صَلَّى عَلَيْنَا أَهْلَ الْبَيْتِ فَلْيَقُلْ اللَّهُمَّ اجْعَلْ صَلَوَاتِكَ وَبَرَكَاتِكَ عَلَى مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ وَأَزْوَاجِهِ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ وَذُرِّيَّتِهِ وَ أَهْلِ بَيْتِهِ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مجيد (جلاء الافهام بحوالہ سنن نسائی) ترجمہ.حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت میم نے فرمایا ہے جس شخص کے لئے یہ بات خوشی کا موجب ہو کہ جب وہ ہم لوگوں یعنی اس گھر میں رہنے والے لوگوں پر درود بھیجے.تو وہ اس نعمت کا بڑے سے بڑا پیمانہ لبالب بھرا ہوا لے رہا ہو.وہ یوں درود بھیجے اَللّهُمَّ اجْعَلْ صَلَوَاتِكَ وَبَرَكَاتِكَ عَلَى مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ وَازْوَاجِهِ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ وَذُرِّيَّتِهِ وَأَهْلِ بَيْتِهِ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اے اللہ اپنے کامل نبی محمد مال پر اور آپ کی سب بیویوں پر جو تمام مومنوں کی مائیں ہیں.اور آپ کی اولاد پر اور آپ کے اہلبیت پر ہر ایک رنگ میں اپنی جناب سے صلوات اور برکات نازل کرے جیسا کہ تو نے ابراہیم پر اپنی خاص رحمت بھیجی تھی.تو بہت ہی حمد والا اور بزرگی والا ہے.(۳) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا اللَّهَ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤدِّنَ ۱۹۵ رساله درود شریف فَقُولُوا مِثلَ مَا يَقُولُ ثُمَّ صَلَّوا عَلَيَّ فَإِنَّ مَنْ صَلَّى عَلَى صَلوةَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ عَشْرًا ثُمَّ سَلُوا اللَّهَ لِى الوَسِيلَةَ فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةَ لَا تَنْبَغِي إِلا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ وارْجُوا أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ فَمَنْ سَاَلُ اللهُ لِي الْوَسِيلَةَ حَلَّتْ عَلَيْهِ الشَّفَاعَةُ (صحیح مسلم) ترجمہ.حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت میں سے سنا ہے آپ فرماتے تھے.جب ازان سنو تو جو کلمات موذن کے تم بھی کہا کرو.اور اس کے بعد مجھ پر درود بھیجا کرو (اور یاد رکھو) کہ جو شخص مجھ پر بہت عمدگی کے ساتھ (ایک بار) درود بھیجے گا اس پر اللہ تعالیٰ دس بار درود بھیجے گا.اور درود یوں بھیجو کہ میرے حق میں اللہ تعالیٰ کے حضور وسیلہ کے لئے دعا کرو.جو جنت میں ایک خاص منصب اور مقام ہے اور جو اللہ کے ایک ہی بندہ کی شان کے لائق ہے.اور میں امید رکھتا ہوں کہ وہ میں ہی ہونگا.اس لئے جو شخص میرے حق میں اللہ تعالیٰ سے اس منصب کے لئے دعا کرے گا.اسے میری شفاعت نصیب ہوگی نوٹ له وسیلہ کے معنے ہیں ذریعہ واسطہ.شاہی دربار میں اعلیٰ منصب.خاص درجہ.اور ان معانی کا مشترک مفہوم ہے، خدا تعالیٰ کی جناب میں ایسا عزت اور عظمت کا مقام جسے پانے والا تمام مخلوق کی سعادت یابی کے لئے ذریعہ اور واسطہ ہو.اذان کے بعد اس بات کے لئے دعا کرنے کا طریق اس حدیث میں بیان ہوا ہے:.عَنْ جَابِرِبْنِ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ قَالَ حِيْنَ يَسْمَعُ النِّدَاءُ اللَّهُمَّ -
ر ساله درود شریف 194 رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلوةِ الْقَائِمَةِ أتِ مُحَمَّدُ الوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَتْهُ مَقَامًا مَّحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ حَلَّتْ لَهُ شَفَاعَتِيْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (صحیح بخاری) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت میں نے فرمایا.جو شخص اذان سن کر یوں دعا کرے اے اللہ جس کی طرف بلانے کے لئے اور جس کے نام پر یہ اذان کہی گئی ہے.اور جس کے لئے اب نماز ادا ہو گی تو محم مام کو وسیلہ اور فضیلت کا مقام عطا کر اور قیامت کے روز آپ کو اس مقام پر کھڑا کر یو.جس میں تمام مخلوق آپ کی ممنوں احسان ہو.جس کا تو نے آپ سے وعدہ کیا ہوا ہے، اسے قیامت کے روز میری شفاعت نصیب ہو گی.نوٹ ۲.اس حدیث میں آپ پر عمدگی کے ساتھ درود بھیجنے کی تاکید اور اس کی فضیلت اور برکت کے ذکر کے علاوہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ درود میں آپ کے رفع درجات کے لئے اور اس بات کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں کہ آپ کے فیوض و برکات اور انوار سے تمام مخلوق فیضیاب ہو.اور کوئی فرد بشر ان سے محروم اور بے نصیب نہ رہے.نیز اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت میای پر درود بھیجنے کا یہی ایک طریق نہیں ہے کہ لفظ صلوۃ کے ساتھ آپ کے لئے دعا کی جائے.بلکہ اصل مقصود وہ مدعا ہے جو درود کی دعا میں مانگا جاتا ہے، اس کے لئے الفاظ جو بھی مناسب اور موزون مل جائیں، ان میں یہ دعا کی جا سکتی ہے.ہاں خاص مواقع اور مقامات کے لئے جو خاص الفاظ درود شریف کے بتائے گئے ہیں ان کی پابندی ضروری ہے.پس نماز میں وہی درود پڑھنا چاہئے جسے نماز میں پڑھنے کی تعلیم دی گئی ہے.192 ر ساله درود شریف اور جو الفاظ اذان کے بعد کہنے کا حکم ہے اس موقع پر انہی الفاظ میں دعا کرنی چاہئے.(۳۲) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَكْتَالَ بِالْمِكْيَالِ الْأَوْفَى إِذَا صَلَّى عَلَيْنَا أَهْلَ الْبَيْتِ فَلْيَقُلْ اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ النَّبِي وَازْوَاجِهِ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ وَذُرِّيَّتِهِ وَأَهْلِ بَيْتِهِ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى الِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ (من الى داود).حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت میں نے فرمایا جس شخص کے لئے یہ امر موجب خوشی ہو کہ جب وہ ہم لوگوں پر جو اس گھر کے ساتھ تعلق رکھنے والے ہیں درود بھیجے تو اس کے حصہ میں بہت ہی.بڑا اور کامل پیمانہ آئے.اسے ہم پر یوں درود بھیجنا چاہئے اے اللہ اپنے کامل اور یکتا نبی محمد میر پر اور آپ کی سب بیویوں پر جو تمام مومنوں کی مائیں ہیں اور آپ کی تمام اولاد پر اور تمام آپ کے گھر کے ساتھ تعلق رکھنے والوں پر درود بھیج.جیسا کہ تو نے حضرت ابراہیم (اور ان کی آل پر درود بھیجا ہے.تو بہت ہی تعریف والا اور بزرگی والا ہے اس حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ درود بھیج کر انسان اللہ تعالیٰ پر یا اللہ تعالیٰ کے رسول م م پر کوئی احسان نہیں کرتا بلکہ یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے جسے وہ خود لے رہا ہوتا ہے (ناپ کر دینے کو عربی زبان میں کیل کہتے ہیں اور ناپ کر لینے کو اکتیال کہتے ہیں.یہاں پر کیل کا لفظ نہیں.بلکہ اکتیال کا لفظ استعمال ہوا ہے) پس جو شخص اس سعادت سے بہرہ یاب ہونا چاہتا ہو.اس کے لئے ضروری ہے کہ ہر رنگ میں اچھے سے اچھے طریق پر درود بھیجے
رساله درود شریف ۱۹۸ ١٩٩ رساله درود شریف اور اسی کو اپنی حقیقی خوشی کا سامان سمجھے.اور اس کے بعد عمدہ طور پر درود بھیجنے کا ایک طریق سکھایا گیا ہے.درود شریف کے مختلف طریق احادیث سے ثابت ہوتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک طریق اپنے اندر ایک نہ ایک خصوصیت رکھتا ہے.اس حدیث میں جو طریق بتایا گیا ہے اس میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ اول تو اس میں آنحضرت میا کے اسم مبارک کے ساتھ لفظ النبی بڑھایا گیا ہے اور یہی لفظ ہے جس کے ذکر کے ساتھ قرآن کریم میں آپ پر درود بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے.اور اس کے ذکر کے ساتھ قرآن کریم میں تمام مومنوں کو آپ کی اولاد اور آپ کی ازواج مطہرات کو ان کی مائیں قرار دیا گیا ہے (اور گو اس نام کا مصداق ہونے میں تمام انبیاء شامل ہیں.لیکن پیشگوئیوں میں اسے آپ کی طرف خاص ممتاز طور پر منسوب کیا گیا ہے اور اس وصف میں آپ کو ایک رنگ میں یکتا اور منفرد بتایا گیا ہے) پس اس نام کا درود کے ساتھ بہت تعلق ہے.اسی طرح اس میں ازواج نبویہ کا ذریت طیبہ کا اور بیت نبوی کے ساتھ وابستہ ہونے والے تمام افراد کا تصریح کے ساتھ ذکر ہے اور جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے درود کی دعا میں اس سے بہت زور پیدا ہو جاتا ہے اور کما صَلَّيْتَ اور حَمِيدٌ مَّجِید کے الفاظ کے بڑھانے سے بھی اس میں قوت پیدا ہوتی ہے جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے (سورہ ہود کی آیت رَحْمَةٌ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيْدُ من صلوٰۃ کو رحمت سے تعبیر کر کے اس کو صفت حمید مجید کا فیضان بتایا گیا ہے اور دعاؤں میں صفات الہی کو ذکر کرنے سے بموجب آیت وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا جو قوت اور قبولیت کی اہلیت پیدا ہو جاتی ہے وہ ظاہر ہی ہے.(واللہ اعلم بالصواب) کی محبت اور دلی خلوص سے آنحضرت مالی پر درود بھیجنے کی تعلیم (۳۳) عَنْ عُمَيْرِ الْأَنْصَارِي الْبَدْرِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلَّى عَلَى صَادِقًا مِنْ نَّفْسِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ عُشَرَ صَلَوَاتٍ وَرَفَعَهُ عشرَ دَرَجَاتٍ وَ كَتَبَ لَهُ بِهَا عَشْرَ حَسَنَاتٍ (جلاء الافہام صفحہ ۷۳ بحوالہ عبد الباقی بن قانع) صلی ترجمہ - حضرت عمیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت مم العالم نے فرمایا ہے جو شخص مجھ پر دلی خلوص سے (ایک بار) درود بھیجے گا.اس پر اللہ تعالٰی دس بار درود بھیجے گا اور اسے دس درجات کی رفعت بخشے گا اور اس کی دس نیکیاں لکھے گا.اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ درود پر اعلیٰ ثمرات اور برکات کے مرتب ہونے کے لئے یہ ضروری شرط ہے کہ دلی توجہ سے اور اخلاص سے آپ پر درود بھیجا جائے (۳۳) عَنْ أَبِى كَاهِلِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ وَكُلَّ لَيْلَةٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ حُبًّا أَوْ شَوق إِلَيَّ كَانَ حَقًّا
رساله درود شریف عَلَى اللَّهِ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ ذُنُوبَهُ تِلْكَ اللَّيْلَةَ وَذَلِكَ الْيَوْمَ (جلاء الافہام صفحه ۳۴۹ بحوالہ کتاب ابن ابی عاصم ) حضرت ابو کاہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت میں نے ( مجھے مخاطب کر کے) فرمایا اے ابو کاہل جو شخص میری محبت کی بنا پر یا (یہ فرمایا کہ میرے اشتیاق کے ساتھ مجھے پر ہر روز تین بار اور ہر رات تین بار درود بھیجے گا.اللہ تعالیٰ اس روز اور اس رات ضرور ہی اسے ان تمام گناہوں سے بچائے گا جن میں وہ گرفتار ہے.اور اسے ان سے محفوظ رکھے گا نوٹ.قرآن کریم سے اور سنت سے پانچ نمازوں کے علاوہ تہجد کی نماز کی بھی بڑی اہمیت ثابت ہوتی ہے.اور نماز تہجد کو ملا کر آٹھ پہر کی چھ نمازیں ہوتی ہیں.تین دن کی (فجر ظہر.عصر) اور تین رات کی (مغرب.عشاء اور تجد) اور گوان میں سے ہر ایک وقت کی نماز میں متعدد مرتبہ درود شریف پڑھا جاتا ہے لیکن کم از کم ایک بار تو ہر حالت میں پڑھا جاتا ہے خواہ انسان سفر میں ہو یا گھر میں.پس ہر ایک نمازی دن کے وقت بھی اور رات کو بھی کم از کم تین بار ضرور درود شریف پڑھتا ہے علاوہ اس کے اگر چھ اوقات کے درود کو چھ بار کا درود سمجھا جائے.اور ایک وقت کے اندر جتنی دفعہ بھی درود پڑھا گیا ہو.اسے اس ایک وقت کے لحاظ سے ایک بار کا درود قرار دیا جائے تو یہ بھی قرین قیاس ہے.پس بالکل ممکن ہے کہ اس حدیث میں اسی بات کی طرف اشارہ ہو.نیز اس حدیث میں جو آٹھ پہر کے اندر چھ بار درود پڑھنے کی فضیلت اور برکت بیان ہوئی ہے.وہ مغفرت ذنوب ہے.جن کے معنے گناہوں کی بخشش کے ہی نہیں ہیں بلکہ گناہوں سے بچانے اور محفوظ رکھنے کے بھی ہیں رساله درود شریف اور نماز کی جو برکات قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ والْمُنْكَرِ یعنی نماز تمام بدیوں اور مکروہ باتوں سے روکتی اور بچاتی ہے.حصہ پس اس حدیث میں اشارہ ہے کہ درود شریف نماز کا ایک نہایت اہم ہے جس کے بغیر نماز میں نماز کی حقیقت پیدا نہیں ہو سکتی.اور کچھ بعید نہیں کہ نماز کا اور درود کا ایک ہی نام یعنی صلوۃ اسی بنا پر رکھا گیا ہو.نماز میں اور درود میں جو تعلق ہے اس کا پتہ صحیح بخاری کی اس حدیث سے بھی لگتا ہے جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کتاب البیوع میں مروی ہے.اور جس میں آتا ہے:.وَالْمَلَئِكَةُ تُصَلَّى عَلى أَحَدِكُمْ مَّا دَامَ فِي مُصَلَاهُ الَّذِي صَلَّى فِيهِ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِ اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ مَا لَمْ يُحْدِثُ فِيهِ مَا لَمْ يُوَذِ فِيْهِ (صحیح بخاری) جب تک نمازی اپنی نماز کی جگہ میں (نماز کی خاطر) بیٹھا رہتا ہے.اس پر فرشتے یوں درود بھیجتے رہتے ہیں.کہ اے اللہ اس پر درود بھیج اے اللہ اس پر رحمت نازل کر.اور ان کی یہ دعا اس وقت تک برابر جاری رہتی ہے.جب تک کہ وہ وہاں کوئی خلاف شریعت کام نہ کرے.یا یہ کہ وہ باوضو ہو.اور جب تک کہ اس کا وہاں ٹھہرنا لوگوں کے لئے اذیت کا موجب نہ بنے.اور یہ برکت اور فضیلت احادیث میں درود شریف کی بھی بیان ہوئی ہے.چنانچہ سنن ابن ماجہ کی ایک حدیث میں ہے:.عَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُصَلَّى عَلَيَّ إِلَّا صَلَّتْ عَلَيْهِ
رساله درود شریف ٢٠٢ الْمَلَئِكَةُ مَا صَلَّى فَلْيَقِلَ الْعَبْدُ مِنْ ذَلِكَ أَوِ لَيُكْثِرُ.ترجمہ.حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت امام نے فرمایا ہے جو مسلم مجھ پر درود بھیجے گا.وہ جب تک مجھے پر درود بھیجتا رہے گا اس وقت تک فرشتے اس پر درود بھیجتے رہیں گے.اب چاہے تو اس میں کمی رکھے اور چاہے تو اسے زیادہ کرے علی علیدو ۲۰۳ رساله درود شریف بار درود بھیجے گا اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ اس پر دس بار درود بھیجے گا.اور اسے دس درجے بلندی اور رفعت بخشے گا.اور اس کی دس نیکیاں شمار کرے گا.اور اس کے دس گناہ معاف فرمائے گا.درود شریف کے یہ برکات متعدد احادیث سے ثابت ہیں اور اس حدیث میں اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ یہ برکات دلی اخلاص سے درود بھیجنے کے اور جس طرح درود شریف کے مقابل پر قرآن کریم میں ایڈا کو رکھا گیا ساتھ تعلق رکھتے ہیں.اس کے بغیر جو درود بھیجا جائے، وہ محض رسم اور ہے اسی طرح مذکورہ بالا حدیث میں بھی اسے صلوۃ کے مقابل پر رکھا گیا ہے عادت کے طور پر ہو گا.اور چونکہ دلی اخلاص کا پیدا ہونا آپ کے حالات والا اور یہ تمام امور درود شریف کی اہمیت کو ثابت کر کے اس کی ادائیگی میں ان صفات، آپ کے احسانات اور آپ کی قربانیوں کے جاننے سے تعلق رکھتا آداب کو ملحوظ رکھنے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں جو نماز سے تعلق رکھتے ہے.اس لئے جو شخص آپ پر حقیقی طور پر درود بھیجنا چاہتا ہو اس کے لئے ہیں.پس جس طرح نماز کے لئے اقامت یعنی اسے کماحقہ ادا کرنا ضروری ہے.اور غافلانہ نماز بموجب آیت فَوَيْلٌ لِلْمُصَدِّينَ الَّذِينَ هُم عَنْ صَلوتِهِمْ سَاهُونَ قابل پذیرائی نہیں ہوتی.بلکہ موجب وبال ہوتی ہے اسی طرح درود کے لئے بھی ضروری ہے کہ اسے حضور دل سے پڑھا جائے.ورنہ وہ محض رسم و عادت میں داخل ہو گا.نهایت ضروری ہے کہ وہ آپ کے تفصیلی حالات اور سیرت مقدسہ کو اپنے مطالعہ میں رکھے اور اسے نظر کے سامنے رکھ کر اس پر غور کرتا رہے.وما التوفيق الا بالله نوٹ.درود کے لئے جس دلسوزی کی طرف ان احادیث میں توجہ دلائی گئی ہے اس کی طرف خود لفظ صلوۃ بھی رہنمائی کرتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح صلوٰۃ کا لفظ پر سوز معنے پر دلالت کرتا ہے جیسے آگ سے سوزش پیدا ہوتی ہے ویسے ہی گدازش دعا میں ہونی چاہئے جب ایسی حالت کو پہنچ جائے.جیسے موت کی حالت ہوتی ہے تب اس کا نام صلوۃ ہوتا ہے.(بدر جلد ۴ پرچہ ۲۵ مئی ۱۹۰۵ء) (٣٥) عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ يَسَارٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.الله صلى الله ANGEL وَسَلَّمَ مَنْ صَلَّى عَلَى مِنْ أُمَّتِي صَلوةٌ مُخْلِصًا مِنْ قَلْبِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرَ صَلَوَاتٍ وَرَفَعَهُ بِهَا عَشْرَدَ رَجَاتٍ وَ كَتَبَ لَهُ بِهَا عَشْرَحَسَنَاتٍ وَمَحْى عَنْهُ عَشْرَسَيِّئَاتٍ (جلاء الافهام بحوالہ سنن نسائی) حضرت ابو بردہ بن نیار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت سلم نے فرمایا ہے جو شخص مجھ پر دلی اخلاص سے عمدگی کے ساتھ (ایک
رساله درود شریف ۳۰۳ کثرت سے آنحضرت پر درود بھیجنے کی تاکید ۲۰۵ رساله و روو لغایت ۱۶۹ و صفحہ (۱۸۰) اور حق یہ ہے کہ جب تک درود میں یہ باتیں موجود نہ ہوں.اس وقت تک وہ صلوۃ یعنی درود کہلا ہی نہیں سکتا.جیسا کہ اس بارہ میں بہت سی احادیث مروی ہیں جن میں سے بعض احادیث پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.بیان ہو چکی ہیں.چنانچہ ایک حدیث تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ والی ہی ہے جو اس رسالہ کے صفحہ ۱۶۳ پر زیر نمبر ۱۳ گزر چکی ہے.اور ایک حدیث عامر بن ربیعہ کی روایت سے صفحہ ۲۰۱ پر بیان ہو چکی ہے یہ دونوں حدیثیں کئی کئی سندوں کے ساتھ اور کسی قدر اختلاف الفاظ کے ساتھ رسول کریم ا ا ا ا ل ل لما سے مروی ہیں.ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاں تک وو صلوٰۃ کا لفظ پر سوز معنے پر دلالت کرتا ہے جیسے آگ سے سوزش پیدا ہوتی ہے ویسے ہی گدازش دعا میں ہونی چاہئے.جب ایسی حالت کو پہنچ جائے جیسے موت کی حالت ہوتی ہے تب اس کا نام صلوۃ ہوتا ہے.“ ( بدر جلد ۴ پر چه ۲۹ مئی ۱۹۰۵ء ) نیز ضروری ہے کہ اس دعا سے اصل مقصود رضاء الہی ہو نہ کہ دنیوی ممکن ہو اور انسان کو توفیق ملے کثرت سے آنحضرت پر درود بھیجنا مقاصد جیسا کہ حضور فرماتے ہیں چاہئے.لیکن جیسا کہ احادیث نمبر ۲۹ لغایت نمبر ۳۵ سے ثابت ہوتا ہے کثرت تعداد کی نسبت یہ بات بہت زیادہ ضروری ہے کہ نہایت عمدگی کے ساتھ درود شریف پڑھا جاوے.اور آنحضرت میر کی محبت کی بنا پر اور آپ کے احسانات کو اپنی آنکھوں کے سامنے لا لا کر اور انہیں گن گن کر ” جب انسان کی دعا محض دنیاوی امور کے لئے ہو تو اس کا نام صلوہ نہیں لیکن جب انسان خدا کو ملنا چاہتا ہے اور اس کی رضا کو مد نظر رکھتا ہے اور ادب اور انکسار تواضع اور نہایت محویت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں کھڑا ہو کر اس کی رضا کا طالب ہوتا ہے تب وہ صلوۃ میں ہوتا ہے " (ایضاً) پڑھا جائے.اور اس بات کی تصدیق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام درود شریف کو دعا کا اصل اور اہم حصہ بنانے کی تاکید کے ارشادات سے بھی ہوتی ہے جن میں کثرت سے آنحضرت پر درود بھیجنے کی بھی تاکید پائی جاتی ہے (دیکھو صفحہ ۱۱۶۹ ۱۸۰۹۱۷۷، ۱۹۷۹۹۴) (۳) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ لیکن اس سے کہیں بڑھ کر اس بات کی ان میں تاکید کی گئی ہے کہ درود رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَجْعَلُونِي كَقَدْحٍ شریف نہایت عمدگی سے آنحضرت امی کے احسانات کو یاد کر کے آپ الرَّاكِبِ إِنَّ الرَّاكِبُ يَمُلأُ قَدْحَهُ فَإِذَا فَرَغَ وَعَلَّقَ مَعَالِيقَةً کی کامل محبت کی بنا پر اور حقیقی دلسوزی کے ساتھ پڑھنا چاہئے.اور اس سے فَإِن كَانَ فِيهِ مَاءٍ شَرِبَ حَاجَتَهُ أَوِ الْوِضُوْهُ تَوَضَّاءُ وَ إِلَّا أَعْرَاقَ مقصود کوئی دنیوی مقصد یا اپنا ذاتی فائدہ نہ ہونا چاہئے (دیکھو صفحات ۱۶۴ الْقَدْحَ فَاجْعَلُونِي فِي أَوَّلِ الدُّعَاءِ وَفِي وَسَطِهِ وَلَا
رساله درود شریف تَجْعَلُونِي فِي أَخِرم (جلاء الافهام بحوالہ احمد بن عمرو بن ابی عاصم) ترجمہ.حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آنحضرت وسلم نے فرمایا میرے لئے ایسے طور پر دعا نہ کیا کرو جیسے کوئی سوار مسافر راستے میں پانی کے لئے اتر کر اور اپنے سامان سفر میں سے پیالہ نکال کر اپنا پیالہ پانی سے بھر لے.اور جب اس کام سے فارغ ہو کر اپنا سامان پھر لادنے ۲۰۷ رساله درود شریف بھی دعا کرے.یہ اس واسطے روا رکھا گیا ہے کہ دنیاوی مشکلات بعض دفعہ دینی معاملات میں حارج ہو جاتی ہیں خاص کر خامی اور سچ پنے کے زمانہ میں یہ امور ٹھوکر کا موجب بن جاتے ہیں“ (بدر جلد ۴ پرچه ۲۵ مئی ۱۹۰۵ء) اصل بات یہ ہے کہ درود شریف آنحضرت مس کے احسانات کے لگے.اور جتنا پینا تھا پی چکے یا وضو وغیرہ کر چکے تو اس پیالہ کو سامان میں شکر نعمت کی ایک صورت اور آپ کے درجات کی بلندی اور آپ کے باندھنے کی غرض سے باقی بچے ہوئے پانی کو گرا دیتا ہے (یا کسی کو دے دیتا ہے) مقاصد کے پورا ہونے کی دعا ہے.پس اس مقصد کے سوا کسی اور مقصد کے بلکہ دعا کے شروع میں بھی مجھ پر درود بھیجو اور اس کے وسط میں بھی اور لئے جو ہماری زندگی کی اصل غایت سے بھی دور لے جانے والا ہو اسے پڑھنا اسے پیچھے مت رکھو.ایسا ہی ہو گا جیسا کہ قرآن کریم کو ہدایت یابی کے لئے نہیں جس کے لئے وہ اور طبرانی کی روایت میں اس حدیث کے آخری الفاظ وَلاً اتارا گیا ہے بلکہ کسی ادنی اور ذلیل مقصد کے لئے یا جنتر منتر وغیرہ کے طور پر تَجْعَلُونِي فِي آخِرم کی بجائے وفی اخرہ آتا ہے.یعنی دعا کے آخر پڑھا جائے.یا جیسے نماز کے اصل مقصد کو چھوڑ کر کسی ذلیل مقصد کے لئے میں بھی مجھ پر درود بھیجو.اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ دعا میں درود کو طفیلی نماز پڑھی جاوے.پس اپنی ضرورتوں اور تکلیفوں کے موقع پر درود اس نہیں بنانا چاہئے.بلکہ اصل حصہ دعا کا درود ہونا چاہئے اور باقی مطالب کے طور پر پڑھنا چاہئے کہ اپنے ذاتی اغراض کو آنحضرت میم کے مقاصد پر فدا لئے جو دعائیں کرنی ہوں.انہیں طفیلی بنانا چاہئے.اور قربان کر کے آنحضرت ام کی کامیابیوں کے لئے اور آپ کے دین حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دعا کے متعلق تعلیم دیتے ہوئے کے خادموں کے لئے اور آپ کے لائے ہوئے دین اسلام کے لئے دعائیں اور دعا کا حقیقی مقصد بتاتے ہوئے فرماتے ہیں.اصل حقیقت دعا کی وہ ہے جس کے ذریعہ سے خدا اور انسان کے درمیان رابطہ تعلق بڑھے.یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے.اور انسان کو نا معقول باتوں سے ہناتی ہے.اصل بات یہی ہے کہ انسان رضا الہی کو حاصل کرے اس کے بعد روا ہے کہ انسان اپنی دنیوی ضروریات کے واسطے کی جائیں اور آنحضرت مال کے مقاصد کو سامنے رکھ کر خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کیا جائے.اور جب دل پورے انشراح کے ساتھ فتوی دے.کہ اپنے ذاتی اغراض کبھی آ نحضر ت ل لا لا لا ل کے مقاصد میں سے ہی ہیں.تو لعمال العالم اس کے بعد ان مقاصد کے پورا ہونے کے لئے بھی دعائیں کی جائیں.اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اس دعا کرنے والے شخص کی ذاتی ضرورتیں بھی جو حقیقی ہونگی پوری کر دے گا.اور اس کی تمام تکالیف اور مشکلات دور ہو
رساله درود شریف ۲۰۸ ۲۰۹ رساله درود شریف جائیں گی.کیونکہ ان تکالیف کے پیدا کرنے سے اصل مقصد یہی تھا کہ وہ قبولیت دعا کے خاص مواقع پر آنحضرت پر درود بھیجنے کا ارشاد خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرے.اور اس کی جناب میں گڑ گڑائے.جیسا کہ (۳) عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ الله تعالیٰ فرماتا ہے اَخَذْنَاهُم بِالْبَاسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ يُتَضَرَّعُونَ (انعام (۴۳) یعنی یہ ہماری قدیم سے سنت ہے کہ جو لوگ خدا فِيهِ خُلِقَ ادَمُ وَ فِيْهِ قُبِضَ وَفِيهِ التَّفْعَةُ وَفِيهِ الصَّعَقَةُ تعالیٰ کی طرف رجوع نہیں کرتے انہیں ہم اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے فَاكْفِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلوةِ فِيْهِ فَإِنَّ صَلوتَكُمْ مَعْرُوْضَةٌ ان پر تنگی اور تکالیف بھیجدیتے ہیں.اور فرماتا ہے اَخَذْنَا أَهْلَهَا عَلَى قَالَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللهِ وَكَيْفَ تُعْرَضُ صَلوبَنَا بِالْبَاسَاءِ وَالضَّرَاءِ لَعَلَّهُمْ يَضُرَّعُونَ (اعراف : ۹۵) یعنی لوگوں کو عَلَيْكَ وَ قَدْ اَرِمْتَ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ ہم اس لئے تنگی اور تکلیف میں مبتلا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے حضور گریہ أجْسَادَ الأنبياء (سنن ابي داؤد - ابواب الجمعہ) وزاری کے ساتھ رجوع کریں وَلَقَدْ اَخَذْنَاهُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا ترجمہ.حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اشتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ (مومنون: ») ہم نے ان پر آنحضرت امام نے فرمایا.تمہارے بہترین ایام میں سے جمعہ کا دن بھی عذاب بھیجا.مگر انہوں نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا.اور اپنے رب کے ہے.اسی روز آدم پیدا ہوئے تھے.اسی روز ان کی وفات ہوئی.اسی روز حضور تضرع نہ کیا.نہ خاکساری کے ساتھ اس کے حضور میں گرے.(قیامت کے اہوال اور اشراط ظہور میں آئیں گے اور) نفخ صور ہو گا.اور پس جب انسان خدا تعالیٰ کی طرف بچے طور پر رجوع کرتا ہے اور وہ بھی کسی اسی روز وہ تجلی اور ظہور جلال الہی ہو گا.جس سے لوگ بے ہوش ہو جائیں ذاتی لالچ سے نہیں.بلکہ اپنے مقاصد کو آنحضرت امی کے مقاصد پر قربان کر گے.پس اس روز تم مجھ پر خاص طور پر کثرت سے درود بھیجا کرو.تمہارا کے اور آپ کے رفع درجات اور آپ کی کامیابی کے لئے دعاؤں کی صورت میں رجوع کرتا ہے تو اس کا یہ قطعی نتیجہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی ضرورتوں کو بھی درود مجھے پہنچایا جائے گا.اوس کہتے ہیں کہ اس پر صحابہ نے عرض کیا کہ جب آپ کا وجود بوسیدہ ہو چکا ہو گا تو اس وقت ہمارا درود آپ کو کیسے پہنچایا جائے جو حقیقی ضرورتیں ہوں پورا کر دیتا ہے اور اسے تمام تکالیف سے نجات بخشتا ہے گا.فرمایا.اللہ تعالٰی نے انبیاء کے وجودوں کو وہ حرمت اور کرامت بخشی اور اگر کوئی شخص اس طور پر نہیں بلکہ آیت وَأتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ہے کہ زمین انہیں فنا نہیں کر سکتی.کے خلاف اپنے مقاصد کو آنحضرت مالی تعلیم کے مقاصد پر مقدم کرے گا.تو وہ ایک غلط راستے کو اختیار کرنے والا ہو گا.(اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمُغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ اس حدیث میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ انسان کو دعا کے لئے جو افضل اور بہتر موقع میسر آئے اس میں اسے آنحضرت می پر درود بھیجنے کو مقدم کرنا
رساله درود شریف ٢١٠ ار ساله درود چاہئے اور مثال کے طور پر اس کے لئے جمعہ کا دن بتایا ہے.اور اس میں ترجمہ.حضرت ابو ہرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت میم آپ پر کثرت سے درود بھیجنے کی تاکید فرمائی ہے.اور اس کے بعض فضائل نے فرمایا ہے تم اپنے گھروں کو قبریں مت بناؤ.اور میری قبر کو میلہ کی طرح بھی بیان فرمائے ہیں.ان فضائل میں جو حضرت آدم کی اس روز وفات ہونے کا ذکر ہے.یہ اس لئے فضیلت ہے کہ خدا کے کسی برگزیدہ بندہ کی وفات دراصل اس کی ایک نئی پیدائش ہوتی ہے.اور اس کا اپنے وقت پر دنیا سے جانا بھی درحقیقت ایک رحمت ہی ہوتا ہے.جیسا کہ سورج کل اپنے وقت پر ڈوبنا ایک رحمت الہی ہوتا ہے.اور اس فضیلت کا پتہ اس بات سے بھی لگتا ہے کہ آنحضرت کی جس روز وفات ہوئی تھی.اس دن کو بھی خاص شرف حاصل ہے.جو دوشنبہ کا مبارک دن ہے.اسی دن آپ کی پیدائش بھی ہوئی تھی.اور اس حدیث میں اشراط قیامت کے زمانہ ظہور کا نام جمعہ رکھا گیا ہے جو مسیح موعود کی آمد کا زمانہ ہے جیسا کہ سورہ جمعہ سے بھی ظاہر ہوتا ہے.اس میں مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے لئے یہ تعلیم بھی پائی جاتی ہے کہ اسے خصوصیت کے ساتھ آنحضرت مال پر کثرت سے درود بھیجنا چاہئے.واللہ اعلم بالصواب گھر میں جاکر آنحضرت ملی یا مسلم پر درود بھیجنے کی تاکید (۳۸) عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لاَ تَجْعَلُوا بُيُوتِكُمْ فَبُورًا وَلاَ تَجْعَلُوا فَجْرِى عِيْدًا وَصَلِّوا عَلَى فَإِنَّ صَلوتِكُمْ تَبْلُغُنِي حَيْتُمَا كُنتُم (جلاء الافہام بحواله جزء حسین بن احمد ) مت بنانا.اور جہاں بھی تم ہو مجھے پر درود بھیجا کرنا.تمہارا درود مجھے پہنچایا جائے گا.یہ حدیث بتاتی ہے کہ جس گھر میں آنحضرت مسلم پر درود نہیں بھیجا جاتا وہ گھر نہیں بلکہ قبرستان ہے، اور اس میں رہنے والے زندہ نہیں، بلکہ مردہ ہیں.اور اس حدیث میں جو آپ کی قبر کو میلہ گاہ بنانے سے منع کیا گیا ہے.اسی کے مطابق ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہود اور نصاری پر لعنت کرے.کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہیں بنا لیا.یعنی تم ایسا نہ کرنا.اور اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میری قبر پر نہ آنا.کیونکہ آپ کی قبر پر جا کر آپ پر درود بھیجنے کی تو بعض احادیث میں تاکید پائی جاتی ہے.چنانچہ جلاء الافهام صفحہ ۱۷ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت میں نے فرمایا مَنْ صَلَّى عَلَى عِنْدَ قَبْرِي وَكُلَ اللهُ بِهِ مَلَكَ تُسْلِمين وَكَفَى أَمْرَدُنْيَاهُ وَاخِرَتِهِ وَكُنتُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَهِيدًا أَوْ شَفِيعًا ترجمہ.جو شخص میری قبر پر آکر مجھ پر درود بھیجے گا اس کے درود کو مجھے تک پہنچانے کے لئے اللہ تعالیٰ فرشتہ کو مقرر کر دے گا.جو مجھے اس کی طرف سے درود پہنچائے گا.اور اس شخص کی دنیا اور آخرت کی ضرورتیں اللہ تعالٰی آپ پوری کرے گا.اور قیامت کے روز میں اس کے حق میں گواہ یا
رساله درود شریف ( یہ فرمایا کہ ) شفیع ہونگا.۲۱۲ اور موطا امام مالک میں مذکور ہے.کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ.عنہ نے آنحضرت علی کی قبر پر جا کر آپ پر درود بھیجا.اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنما کو بھی اس میں شامل کیا.واللہ اعلم بالصواب ہر ایک مجلس میں آنحضرت میل پر درود بھیجنے کی تاکید (٢٠) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا اجْتَمَعَ قَوْم ثُمَّ تَفَرَّقُوا عَنْ غَيْرِ ذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَصَلَوَةٍ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى الله عَليْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا قَامُوا عَنْ أَنْتَنِ حِيْفَةٍ - (جلاء الافهام بحوالہ سنن کبیر نسائی) ترجمہ.حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت میں نے فرمایا.جس مجلس میں لوگ جمع ہوں اور اس میں اللہ تعالی کا ذکر کرنے اور خدا کے نبی امی پر درود بھیجنے کے بغیر چلے جائیں.وہ ایک نہایت سڑے ہوئے اور سخت بدبودار مردار کی طرح ہو گی.اور اس میں شامل ہو نیوالے لوگ مردار خور جانوروں میں شمار ہونے کے قابل ہوں گے.اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو چاہئے کہ خواہ کسی قدر تکلف سے کام لینا پڑے تاہم ہر ایک مجلس میں کوئی نہ کوئی تقریب پیدا کر کے اس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی حمد و ثناء کرنا اور آنحضرت امام ذکر کرنا اور آپ پر درود بھیجنا چاہئے.اور جس شخص کے اندر یہ جذبہ نہیں ۲۱۳ رساله درود شریف وہ انسان کہلانے کا مستحق ہی نہیں.بلکہ وہ دنیا کا کتا ہے جس کی نظر میں سوائے اس مردار کے اور کچھ ہے ہی نہیں.(نعوذ باللہ من ذالک) تمام انبیاء پر درود بھیجنے کی ہدایت (۳۱) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ صَلَّوا عَلَى أَنْبِيَاءِ اللهِ وَرُسُلِهِ فَإِنَّ اللهَ بَعَثَهُمْ كَمَا بَعَثَنِي (جلاء الافہام بحوالہ مسند ابن ابی شیبه ) ترجمہ.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ہیلی نے فرمایا.اللہ تعالی کے تمام انبیاء اور رسل پر درود بھیجا کرو.کیونکہ جس طرح اس نے مجھے بھیجا ہے.اسی طرح اس نے انہیں بھی بھیجا تھا.اَللّهُمَّ صَلِّ عَلى سَيّدِنَا مُحَمَّدٍ وَعَلَى سَائِرِ النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ وَعَلَى جَمِيعِ عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ وَبَارِكْ وَسَلَّمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ پس آنخفه درود شریف کے بعض خاص مواقع درود شریف ایک دعا ہے اور دعا بھی وہ جو تمام دعاؤں کی سردار ہے.اور دعائیں ذکر الہی میں داخل ہیں.اور ذکر الہی ہر حالت میں کیا جا سکتا ہے.آنحضرت م پر درود ہر وقت اور ہر حالت میں بھیجا جا سکتا ہے اور اس کے لئے کسی قسم کی حد بندی نہیں ہے.ہاں جس طرح بعض مواقع پر خصوصیت کے ساتھ عام دعا ئیں اور ذکر الہی کرنے کا حکم ہے.اسی طرح بعض مواقع پر درود شریف بھی خاص طور پر پڑھنے کا حکم ہے، ایسے بعض
رساله درود شریف مهم ۲۱ ۲۱۵ رساله درود شریف مواقع جن میں درود شریف خصوصیت کے ساتھ پڑھنے کا احادیث سے پتہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص (نماز میں) خدا کے نبی پر درود نہ بھیجے لگتا ہے حسب ذیل ہیں:.نماز کا آخری قعدہ جس طرح عام دعاؤں کا اور اذکار الہی کا سب سے اہم اور مقدم موقع اور محل نماز ہے اس طرح درود شریف کا سب سے اہم اور مقدم مقام بھی اس کی کوئی نماز نہیں ہے.د رود تمام ارکان نماز میں پڑھا جا سکتا ہے اور جس طرح باقی دعائیں نماز کے ہر ایک رکن میں کی جاسکتی ہیں.اسی طرح آنحضرت مال پر درود بھی ہر ایک رکن میں بھیجا جا سکتا ہے.اور نماز ہی ہے بلکہ نماز کا اور درود شریف کا تو ایسا گہرا تعلق ہے کہ قرآن کریم کسی رکن میں عام دعائیں کرنے یا درود شریف کے پڑھنے کی کوئی ممانعت میں اور احادیث میں ان دونوں کا نام بھی ایک ہی رکھا گیا ہے.اور نماز میں نہیں ہے.ہاں یہ ضروری ہے کہ ہر رکن کے لئے جو اذکار اور دعائیں شریعت نے بتائی ہیں.ان کو ان کے اپنے اپنے موقع اور محل پر ادا کرنا بہر شریف پڑھنے کی احادیث میں بہت سخت تاکید کی گئی ہے اس جگہ اس درود بارہ میں دو تین حدیثیں درج کی جاتی ہیں:.(۴۲) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُول اللهِ صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لا تُقْبَلُ صَلوةٌ إِلَّا بِطُهُورٍو بِالصَّلوةِ عَلَى (سنن دار قطنی) ترجمہ:.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے.وہ کہتی ہیں میں نے آنحضرت مال سے سنا ہے آپ نے فرمایا جس طرح وضو کے بغیر نماز قبول نہیں ہوتی اسی طرح مجھ پر درود بھیجنے کے بغیر بھی قبول نہیں ہوتی.ایک اور حدیث میں ہے:.١٣١ عن سهل بن سعد الساعدي أن النبي صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا صَلوةَ لِمَنْ لَّمْ يُصَلِّ عَلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (ايضا) ترجمہ.حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت حال مقدم رکھا جائے.رود شریف کا قعدہ کے ساتھ خاص تعلق اور جس طرح باقی اذکار نماز کا نماز کے مختلف ارکان کے ساتھ خاص تعلق ہے.اسی طرح درود شریف کا بھی نماز کے ایک خاص رکن کے ساتھ خاص تعلق ہے جو قعدہ ہے.چنانچہ سنن دار قطنی میں ہے:.(۳۳) عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ عَلَّمَنِي رَسُولُ اللهِ صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشَّشَهدَ كَمَا كَانَ يُعَلِّمُنَا السُّورَة مِنَ الْقُرانِ ترجمہ.حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں مجھے حضرت رسول کریم میں نے اسی طرح تشہد سکھایا جس طرح آپ ہمیں قرآن کریم کی کوئی (نئی نازل شدہ) سورۃ پڑھاتے اور سکھاتے
رساله درود شریف تھے.جو یہ ہے:.M14 التَّحِيَّاتُ لِلّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ اَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ السّلامُ عَلَيْنَا وَعَلى عِبَادِ اللَّهِ الصَّلِحِينَ - اَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ - اَللّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اَللّهُمَّ صَلِّ عَلَيْنَا مَعَهُمُ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى الِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَيْنَا مَعَهُمْ صَلَوَاتُ اللهِ وَصَلَوَاتُ الْمُؤْمِنِينَ عَلى مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه.(ترجمہ) تمام قولی عبادتیں اور بدنی عبادتیں اور تمام مالی عبادتیں اللہ ہی کے لئے ہیں.اے نبی! آپ پر سلام اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکات ہوں.ہم پر اور اللہ تعالیٰ کے تمام نیک بندوں پر سلام ہو.میں شہادت دیتا ۲۱۷ ر ساله درود شریف ہم پر بھی برکات نازل فرما.اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور تمام مومنوں کی طرف سے اس امی نبی حضرت محمد رسول اللہ مال پر بے شمار درود ہوں.تم سب پر سلام اللہ کی رحمت اور اس کی برکات ہوں.اور ایک حدیث میں ہے:.(۳۶) عن بُرَيْدَةَ بْنِ الْحُصَيْبِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا بُرَيْدَةُ إِذَا جَلَسْتَ فِي صَلوتِكَ فَلا تَترُكن التَّشَهدَ وَ الصَّلوةَ عَلَيَّ فَإِنَّهَا زَكَوة الصَّلوة وَسَلّمْ عَلى جَمِيعِ أَنْبِيَاءِ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَسَلَّمْ عَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ ترجمہ.حضرت بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت میں ایم کیو ایم نے مجھے فرمایا.اے بریدہ جب تم نماز میں قعدہ کا رکن ادا کرنے کے لئے بیٹھو.تو تشہد میں اور مجھ پر درود بھیجنے میں کو تاہی نہ کرنا کیونکہ یہ نماز کی تکمیل اور درستی کا ذریعہ ہے.اور (ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء ورسل پر اور اللہ کے تمام صالح بندوں پر بھی سلام بھیجا کرو.ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی پرستش کے لائق نہیں.اور میں یہ بھی شہادت تشہد کے بعد درود شریف کے واجب ہونے کے متعلق اختلاف دیتا ہوں.کہ محمد اس کا بندہ اور اس کا رسول ہے.اے اللہ حضرت محمد رسول اللہ مال پر اور آپ کے اہل بیت پر درود بھیج.جیسا کہ تو نے حضرت ابراہیم پر درود بھیجا.تو بہت ہی حمد والا اور بزرگی والا ہے.اے اللہ ان کے ساتھ ہم پر بھی درود بھیج.اے اللہ حضرت محمد رسول الله ما پر اور آپ کے اہل بیت پر برکات بھیج.جیسا کہ تو نے حضرت ابراہیم کی آل پر برکات بھیجیں.تو بہت ہی حمد والا اور بزرگی والا ہے.اے اللہ ان کے ساتھ ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز میں اور خصوصاً تشہد میں آنحضرت مسلم پر درود بھیجنا اشد ضروری ہے جس کے بغیر نماز قابل پذیرائی نہیں ہوتی.اور اسی بناء پر امام شافعی اور اسحاق کہتے ہیں کہ نماز میں درود شریف کا پڑھنا واجب اور لازم ہے جس کے بغیر نماز درست اور معتبر نہیں ہوتی.اور امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کا آخری قول بھی یہی
۲۱۹ ر سیال و رساله درود شریف PIA ہے.اور بعض اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنم جیسے حضرت عبد اللہ بن عمر حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہم اور بعض تابعین جیسے ابو جعفر محمد بن علی ، شعبی اور مقاتل بن حیان نے بھی ایسا ہی کہا ہے.نوٹ.حضرت امام شافعی کہتے ہیں کہ پہلے تشہد کے بعد بھی درود شریف پڑھنا چاہئے.ہاں واجب نہیں اور زیادہ تر صحابہ تابعین اور ائمہ کا یہ قول ہے کہ گو درود شریف کا نماز میں پڑھنا بہت ضروری ہے مگر مسنون سے بڑھ کر نہیں ، اس لئے اس کے بغیر بھی نماز ہو جاتی ہے.جس کی بنا یہ ہے کہ بعض احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ تشہد کے بعد (نماز کے مناسب حال) جو دعائیں کرنا چاہیں کر کے سلام پھیر سکتے ہیں.چنانچہ بخاری میں باب مَا يَتَخَيَّرُ مِنَ الدُّعَاءِ بَعْدَ التَّشْهَدِ وَلَيْسَ بِوَاجِبِ (تشہد کے بعد نمازی جو دعا کرنا چاہے کر سکتا ہے اور دعا کرنا ضروری نہیں ہے) میں جو حدیث مذکور ہے.اس میں تشہد کے کلمات کے ذکر کے بعد آتا ہے.ثُمَّ يَتَخَيَّرُ مِنَ الدُّعَاءِ أَعْجَبَهُ إِلَيْهِ فَيَدْعُو یعنی تشہد سے فارغ ہو کر جو دعا انسان کو سب سے اچھی معلوم ہو.وہ کر سکتا ہے، جس میں درود کا کوئی ذکر نہیں ہے.پس معلوم ہوا کہ درود شریف کے بغیر بھی نماز درست ہو سکتی ہے.تشہد میں بھی درود آ جاتا ہے لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ اختلاف اس بارہ میں نہیں کہ نماز میں درود شریف کا پڑھنا ضروری ہے یا نہیں.بلکہ در حقیقت اختلاف اس امر کے متعلق ہے کہ آیا نماز میں تشہد کے بعد درود شریف کا پڑھنا ضروری ہے یا نہیں.یا بلفظ دیگر قعدہ میں تشہد کے بعد از سر نو درود شریف کا پڑھنا ضروری ہے یا نہیں.کیونکہ جیسا کہ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے، تشہد میں بھی درود شریف آیا ہوا ہے اور تشہد کے پڑھنے سے ایک رنگ میں درود شریف بھی پڑھا جاتا ہے.اور اس میں شک نہیں کہ احادیث سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ نماز میں درود شریف کا پڑھنا اشد ضروری ہے.اور تشہد کے بعد مستقل الفاظ میں از سرنو درود شریف پڑھنا پوری صراحت کے ساتھ اس قدر ضروری ثابت نہیں ہوتا کہ اس کے بغیر نماز ہوتی ہی نہ ہو.ہاں جو احادیث کیفیت درود شریف کے متعلق مردی ہیں، ان میں سے اکثر کا سیاق کلام یہی بتاتا ہے کہ نماز میں جس طرح تشہد ضروری ہے اسی طرح اس کے بعد درود شریف کا پڑھنا بھی ضروری ہے.تشہد میں درود کس طرح آتا ہے اس جگہ اس بات کو واضح کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تشہد کے اندر درود شریف کس طرح آتا ہے.سو واضح ہو کہ تشہد کے دوسرے جملہ السّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا التَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ مِیں رَحْمَةُ الله سے مراد صلوۃ یعنی درود ہے جس کا قرینہ یہ ہے کہ التَّحِيَّاتُ اللهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَات کے بعد واقع ہے اور ان دونوں جملوں میں تین تین امور کا ذکر ہے جو ایک دوسرے کے مقابل پر واقع ہیں.اَلتَّحِيَّاتُ کے مقابل پر السّلام کا لفظ ہے جس کا نام قرآن کریم کی آیت فَسَلِّمُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةٌ مِّنْ عِندِ اللهِ
رساله درود شریف ۲۲۰ ۲۲۱ رساله درود شریف مُبرَكَةٌ طَيِّبَةٌ میں تحیہ ہی رکھا گیا ہے.اور الصلوات کے مقابل پر رحمہ ہے اور رَحْمَةُ الله ایک رنگ میں صلوۃ یعنی درود اور بَرَكَاتُهُ سلام اللہ کا لفظ ہے اور یہ معنے صلوٰۃ کے خود کتب لغت میں مذکور ہیں.اس کے ہے.تو یہ بات خود بخود روشن ہو جاتی ہے کہ تشہد میں بھی درود اور سلام علاوہ حدیث وَالْمَلَيْكَةُ تُصَلَّى عَلَى أَحَدِكُمْ مَّا دَامَ فِي میں وہی ترتیب رکھی گئی ہے جو قرآن کریم میں ہے یعنی صلوٰۃ پہلے ہے اور مُصَلَّاهُ الَّذِي صَلَّى فِيْهِ تَقُولُ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِ اللَّهُمَّ ارْحَمُہ میں صلوۃ کے لئے دوسرا لفظ رحمت لایا گیا ہے اور نماز کے لئے مسجد میں آنے کے وقت جو دعا پڑھنے کی ہدایت ہے اس میں بھی صلوٰۃ کی جگہ رحمت کا لفظ ہی آتا ہے.اور الطَّيِّبَات کے مقابل پر برکات کا لفظ لایا گیا ہے.اور طیب اور برکت میں جو تعلق ہے وہ آست مزکورہ بالا کے الفاظ مُبَارَكَةٌ طَيِّبَةٌ سے اور قومہ نماز کے وقت کہے جانے والے الفاظ حَمَّدًا كَثِيرًا طَيِّبًا تُبَارَكَا فیہ سے ظاہر ہے.پس اس میں کچھ شک نہیں کہ تشہد میں رَحْمَةُ الله سے مراد صلوٰۃ اللہ یعنی درود ہے جس کی طرف امام نسائی نے بھی اپنی سنن میں ایماء کیا ہے.چنانچہ انہوں نے باب تَخَيَّرُ الدُّعَاءِ بَعْدَ الصَّلوةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نماز میں آنحضرت ا م پر درود بھیجنے کے بعد جو دعا کرنا چاہیں کر سکتے ہیں) میں حدیث وہی بیان کی ہے جس میں تشہد کے بعد نماز کے حال دعائیں کرنے کے متعلق اختیار کا ذکر ہے.اور اس میں تشہد کے علاوہ درود پڑھنے کا کوئی ذکر نہیں ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ تشہد میں درود بھی آجاتا ہے.واللہ اعلم بالصواب صلوٰۃ اور سلام کی ترتیب سلام اس کے بعد.اور یہی ترتیب الفاظ درود شریف کے دونوں حصوں اَللّهُمَّ صَلّ اور اللهُمَّ بَارِک میں بھی ہے علاوہ اس کے صلوٰۃ اور سلام ایک دوسرے کے لئے لازم اور ملزوم ہیں.اور اس لحاظ سے انہیں متحد بھی کہا جا سکتا ہے.اور کچھ بعید نہیں ہے کہ اسی بنا پر قرآن کریم میں اِنَّ اللهَ وَمَلَكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ كے ساتھ وَيُسْلِمُونَ عَلَيْهِ اوريايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلّوا عَلَيْهِ کے ساتھ صلوٰۃ کا لفظ نہ لایا گیا ہو اور يُصَلُّونَ اور تَسْلِيمًا کو ہی يُسَلِّمُونَ اور صلوۃ کا بھی قائمقام قرار دیا ہو.اور اس صورت میں تقدیم و تاخیر کا سوال ہی اٹھ جاتا ہے.واللہ اعلم بالصواب اور چونکہ قرآن کریم میں صلوا اور سَلِّمُوا میں دو الگ الگ لفظوں کے ساتھ درود اور سلام کا حکم دیا گیا ہے اور ان میں من وجہ مغائرت بھی پائی جاتی ہے.اور تشہد میں (جس کی تعلیم صحابہ کرام کو کیفیت درود کی تعلیم سے پہلے دی گئی تھی) سلام کا ذکر صریح لفظوں میں بھی تھا اور مکرر بھی.اور صلوٰۃ کا ذکر صرف ایک بار اور وہ بھی بالمعنی تھا.اس لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنم نے آنحضرت کی خدمت میں عرض کیا کہ جس طرح ہمیں سلام کی تعلیم دی گئی ہے اسی طرح درود شریف کی تعلیم بھی دی جائے.جس پر حضور نے انہیں درود شریف کا وہ طریق بتایا.جس میں اور جب یہ بات ذہن نشین ہو جائے کہ تشہد کے اندر بھی درود موجود صلوٰۃ کا صراحت کے ساتھ ذکر ہے اور سلام کا بالمعنی.پس اس سوال اور
رساله درود شریف رساله درود شریف جواب سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ تشہد درود سے بالکل خالی ہے.یا یہ کہ والی اور آپ سے ملاقات نصیب کرا دینے والی چیز ہے.اور روحانی گھر کا بھی عند اللہ وہی حکم ہے جو ظاہری گھر کا حکم ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.درود کے الفاظ سلام کے ذکر سے خالی ہیں.واللہ اعلم بالصواب تشہد میں ایہا النبی کہنے کی وجہ اس کا الہامی ہونا ہے تشهد من السّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِی کہہ کر آنحضرت مال پر سلام، رحمت اور برکات بھیجنے کی وجہ احادیث سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ تشہد کے کلمات الہامی ہیں جن میں آنحضرت کو مخاطب کیا گیا ہے.اور الہامی الفاظ کو ان کی اصل صورت میں ہی بیان کیا جاتا ہے.صحیح بخاری میں بروایت حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ مذکور ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور پر (نماز میں) سلام بھیجنے کا طریق تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتا دیا ہے.درود آپ پر کس طرح بھیجا جائے.جس پر حضور نے انہیں درود شریف کے وہ الفاظ سکھائے جو نمازوں میں پڑھے جاتے ہیں.جس سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ تشہد کے کلمات جو سلام پر مشتمل ہیں الہامی ہیں.السّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ بطور تحیہ کہا جاتا ہے معلوم اس کے علاوہ معنوی پہلو سے بھی تشہد میں یہی الفاظ موزون ہوتے ہیں.کیونکہ تشہد میں السّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ كے الفاظ "جو شخص میری تعلیم پر پورا پورا عمل کرتا ہے وہ اس میرے گھر میں داخل ہو جاتا ہے جس کی نسبت خدا تعالیٰ کی کلام میں یہ وعدہ ہے.اِنّى أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ.یعنی ہر ایک جو تیرے گھر کی چار دیوار کے اندر ہے.میں اس کو بچاؤں گا اس.جگہ یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہی لوگ میرے گھر کے اندر ہیں جو میرے اس خاک و خشت کے گھر میں بود و باش رکھتے ہیں بلکہ وہ لوگ بھی جو میری پوری پوری پیروی کرتے ہیں میرے روحانی گھر میں داخل ہیں." (کشتی نوح صفحہ ۱۰) پس اگر اس مناسبت کی بنا پر اس جگہ آنحضرت مال کے لئے جملہ ندائیہ اور خطاب کا صیغہ اختیار کیا گیا ہو، تو بھی کچھ بعید نہیں ہے.بلکہ بالکل قرین قیاس ہے (1) بعض کلمات تشہد کی لغوی تحقیق تحِيَّاتُ تَحِيَّةُ کی جمع ہے.اور تَحِيَّةٌ حسني کی مصدر ہے.جس کا ماخذ یعنی اصل حیاۃ ہے جس کے معنے زندگی کے ہیں اور حسنی کے اس سلام کی صورت پر واقع ہوئے ہیں جو ملاقات کے موقع پر مخاطب سے کہا معنی ہیں لمبی زندگی اور بقا بخشا.سلامتی بخشی.تعظیم و تکریم کی.احسان کیا.جاتا ہے.اور اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے کہ نماز واقعی انسان کو رت ما کی بارگاہ عالی میں اور آپ کے روحانی گھر میں پہنچا دینے بادشاہت عطا کی.خوشی و خرمی نصیب کی.خاص عزت کے القاب اور شاہانہ خطابات سے مخاطب کیا.سلام دیا.سلامتی کے لئے دعا کی.اور اس کا تعلق
رساله درود شریف ۲۲۵ رساله درود شریف زیادہ تر حال سے یعنی حاصل شدہ نعمت کے سلامت رہنے سے ہے.اور اس کے معنے قولی عبادت کے بھی کئے جاسکتے ہیں بخش) التبريك (برکت بخشا.برکت کے لئے دعا کرنا) التسبيح (تسبیح کرنا.پاک صفات کا اظہار اور اقرار کرنا.اور عظمت شان کے خلاف امور پس التَّحِيَّاتُ لِلّه کے ایک معنے یہ ہیں.کہ زندگی بخشنا.بقا و دوام کی نفی کرنا) اللّزُومُ (دائم اور لازم ہو جانا اور جدا اور الگ نہ ہونا.کام بخشا.سلامتی دینا.بادشاہت عطا کرنا.خوشی و خرمی نصیب کرنا.اور اس مسلسل اور متواتر طور پر کرتے چلے جانا.دائم رہنا) صَلَّى الْفَرَسُ إِذَا بارہ میں دعائیں قبول کرنا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے.اور ایک معنے اس کے یہ ہیں کہ حقیقی طور پر ہم ہر رنگ میں اللہ تعالی ہی کی تعظیم و تکریم کرتے ہیں.اسی کے احسان مند ہیں.اسی سے بقا اور دوام چاہتے ہیں.اسی کے ہم پرستار ہیں.اور بقائے دوام اور سلامتی کے لئے اسی کے حضور ہماری تمام دعائیں اور التجائیں ہیں.اور اس کے یہ بھی معنے ہیں کہ اگر ہم کسی اور کی تعظیم و تکریم کرتے ہیں.کسی کے لئے بقا اور دوام چاہتے ہیں.کسی کو عزت کے خطابات سے مخاطب کرتے ہیں اور ہر رنگ میں اس کی خوشی و خرمی اور کامرانی چاہتے ہیں.تو اس کی ذات کی خاطر نہیں.بلکہ محض اللہ تعالیٰ کے لئے اور اللہ تعالٰی کو راضی کرنے کے لئے ہم ایسا کرتے ہیں اور ہماری تمام قولی عبادتیں اسی کے لئے مخصوص ہیں.(۲) الصَّلَواتُ کا لفظ صلوۃ کی جمع ہے جو فعل صلَّی کا اسم مصدر ہے.اور اس کے معنے ہیں الرُّكُوعُ وَالسُّجُودُ (نماز) الدُّعَاءُ الله تعالیٰ کو پکارنا) الاستغفارُ ( اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی بخشش.غلطیوں سے حفاظت اور عصمت.اور ان کے بد نتائج سے بچائے جانے کی درخواست کرنا) الرَّحْمَةُ الله تعالٰی کی رحمت و عطوفت) حُسنُ الثَّنَاءِ (بهترین تعریف) السّرحَمُ (بار بار رحم کرنا) الدُّعَاءُ بِالْبَرَكَةِ وَالْخَيْرِ (خیر و برکت چاہتا ) التَّعْظِيمُ وَالتَّكْرِيمُ (اعزاز و اکرام کرنا.عظمت جَاءَ مُصَلِيَّا وَالْمُصَلَّى مِنَ الْخَيْلِ الَّذِي يَجِئُ بَعْدَ السَّابِقِ - لِاَنَّ رَأْسَهُ يَلِى صَلَا الْمُتَقَدِّمِ (آگے آگے جانے والے کے بعد اس کے پیچھے آنے والے کا معا ساتھ ہی آپہنچنا.اور درمیان میں وقفه یا فاصلہ نہ آنے دینا) الْمُصَلَّى فِي كَلَامِ الْعَرَبِ السَّابِقُ الْمُتَقَدِّمُ (اوروں سے آگے بڑھ جانا) صَلَّى يَدَهُ بِالنَّارِ سَخَّنَهَا شدت سردی کے وقت آگ تاپنا) (لسان العرب) نیز اس کے معنے دوام ترقی کے ہیں.(حاشیہ صحیح مسلم طبع مصر مطبع بابی ملی).اور اس کے معنے جسمانی اور فعلی عبادت کے بھی کئے جاتے ہیں (زرقانی شرح موطا).پس و الصَّلَوَاتُ يله) کے معنے یہ ہیں کہ ہم حقیقی طور پر اللہ تعالیٰ کی ہی تعظیم اور تسبیح و تحمید کرتے ہیں اور اسی سے لزوم اور دوام کے ساتھ وابستگی رکھتے ہیں.اسی کے حضور دعائیں اور استغفار کرتے ہیں.اسی کے لئے ہم نمازیں پڑھتے ہیں.اسی سے ہم دائمی ترقی کی درخواست کرتے ہیں.اور جس کی تعظیم و تکریم کرتے اور حسن ثناء بیان کرتے ہیں.محض اسی کی رضا کے لئے کرتے ہیں.اور ان باتوں کی توفیق دینا بھی اسی کا کام ہے.اور ہماری تمام فعلی عبادات بھی اسی سے خاص ہیں.اس لفظ کا تعلق خصوصیت سے مستقبل اور آئندہ کے ساتھ ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وحی الى صَلوةُ الْعَرْشِ إِلَى الْفَرَشِ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:.”یہ الہام
رساله درود شریف PFY ۲۲۷ رساله درود شریف آئندہ بشارت پر دلالت کرتا ہے" (بدر یکم جون ۱۹۰۵ء) اور ہدایت پائی جاتی ہے.ان میں سے اذان کے بعد (بطریق مسنون) دعا کے وقت.جمعہ کے روز.آنحضرت ام کا ذکر آنے پر.اور قبر نبوی پر درود.(۳) الطَّيِّبَاتُ طَيِّبَةٌ (اور طیب) کی جمع ہے جس کے معنے ہیں.دعائیں.اذکار.پاک کلمات.پاک اموال.صدقات اور مالی عبادات.شریف پڑھنے کا ذکر اس سے قبل آچکا ہے.اس لئے اسے دہرانے کی اور و الطلبات اللہ کے یہ معنے ہیں کہ ہمارے تمام اذکار اور تمام مالی ضرورت نہیں ہے.اب چند ایسے مواقع کا ذکر کیا جاتا ہے جو اس سے پہلے عبادات محض اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں.اور یہ کہ ان باتوں کا میسر آنا اسی کے بیان نہیں ہوئے.فضل و کرم سے وابستہ ہے.نیز اس میں نعم الہیہ کا شکر اپنا کچھ نہ رکھنے اور سب کچھ اس کا کر دینے کا اقرار.اور زیادت فضل کی دعا ہے.(۴) السَّلامُ فعل سَلَّمَ کا اسم مصدر ہے.جس کے معنے ہیں.السلام دعاء قنوت میں دعاء قنوت کے آخر میں وَ صَلَّى اللهُ عَلَى النَّبِيِّ يَا وَصَلَّى علیکم کہنا.تمام عیوب آفات اور مصائب سے بچانا اور محفوظ رکھنا (اور تسلیم الله عَلَى النَّبِيِّ مُحَمَّدٍ کے الفاظ میں آنحضرت.آنحضرت می پر درود بھیجنا کے معنے ان کے علاوہ یہ بھی ہیں کہ سپرد کر دیتا.پورے طور پر رضامند ہو جاتا.اطاعت اور فرمانبرداری اختیار کر لینا.اور ملاوٹ سے پاک رکھنا).(۵) رحمةُ کے معنی ہیں کسی کو تکلیف میں پاکر اس پر شفقت اور کرم کرنا.اس کی تکلیف کو دور کرنا یا دور کرنے کی کوشش کرنا.مہربان ہونا.احسان کرنا اور قصوروں کو معاف کرنا.خود بخود کرم کرنا.محنت کا اچھا اجر دینا.اور ضائع ہونے سے محفوظ رکھنا.(1) بركة کے معنے ہیں بڑھنا.دوام اور ثبات پاتا اور مستحکم ہو جانا.سعادت پانا اور زوال سے محفوظ رہنا.طہارت.خوشنودی اور دوام شرف و کرامت.درود شریف کے بعض دیگر مواقع ماثورہ دیگر جن مواقع میں درود شریف کے پڑھنے کی احادیث نبویہ میں تاکید متعدد احادیث سے ثابت ہوتا ہے.اور چونکہ دعا قنوت اس ماثور دعا کے علاوہ اور الفاظ میں بھی اور خود اپنی زبان میں بھی کی جا سکتی ہے بلکہ کرنی چاہئے.اس لئے اس میں درود شریف بھی اپنی زبان میں یا جن الفاظ میں چاہیں پڑھا جا سکتا ہے نماز جنازہ میں نماز جنازہ میں بھی دوسری تکبیر کے بعد درود شریف کا پڑھنا ضروری ہے.اور اس کے لئے مقدم الفاظ وہی ہیں جو نماز میں پڑھے جاتے ہیں.اور ان کے علاوہ خود اپنی زبان میں بھی درود پڑھنا اور اس میں گزشتہ صالحین کے لئے بھی دعائیں کرنا چاہئے.اور اس درود میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی شامل اور یاد کر لینا چاہئے.
رساله درود شریف ۲۲۸ مسجد میں آنے اور جانے کے وقت جامع ترمذی میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت نبی کریم ملی - روایت ہے کہ جب آنحضرت امام مسجد میں داخل ہونے لگتے تو پہلے اپنے آپ پر اپنے اسم مبارک محمد کے ذکر کے ساتھ ) درود اور سلام بھیجتے.اور اس کے بعد یہ دعا کرتے.اللّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ (اے اللہ مجھے بخش.اور اپنی رحمت کے تمام دروازے مجھے یہ کھول دے.یعنی ہر رنگ میں مجھے نماز کو کامل طور پر ادا کرنے کی توفیق دے).اور جب آپ مسجد سے واپس تشریف لے جانے لگتے.تو پہلے اپنے آپ پر (اپنے اسم مبارک محمد کے ذکر کے ساتھ ) درود اور سلام بھیجتے.اور اس کے بعد یہ دعا کرتے.اللّهُمَّ اغْفِرْلِي وَافْتَحْ لِى أَبْوَابَ فَضْلِكَ (اے اللہ مجھے بخش اور اپنے فضل کے تمام دروازے مجھ پر کھول دے).جیسے نماز سے فارغ ہو کر اور مسجد سے باہر جا کر طلب اور تلاش کرنے کا سورۃ جمعہ میں حکم دیا گیا ہے.اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت مال اپنی ذات پر درود بھیجتے وقت اپنے لئے ضمیر متکلم استعمال کرنے کی بجائے اپنے اسم مبارک محمد کا ذکر فرمایا کرتے تھے.اور حقیقت یہ ہے کہ درود شریف کو اس نام کے ساتھ خاص نسبت ہے.جیسا کہ درود کے الفاظ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ سے بھی ظاہر ہوتا ہے.اسی لئے ان تمام احادیث میں جن میں درود شریف کے طریق کی تعلیم دی گئی ہے.آپ کے اس اسم مبارک کے ساتھ آپ پر درود بھیجنے کا ارشاد ہے.کیونکہ درود شکر نعمت ہے.اور حمد کے معنے بھی شکر ۲۲۹ رساله درود شریف کے ہیں.اس لحاظ سے محمد کے معنے ہیں تمام عالم کے شکریہ کا مستحق.پس اس مقدس نام کے ساتھ درود شریف کو خاص نسبت اور تعلق ہے.آپ کا اسم مبارک لکھنے کے وقت - جلاء الافہام میں بحوالہ کتاب ابی الشیخ منقول ہے :.(۳۶) عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ فِي كِتَابٍ لَّمْ تَزَلٍ المَلَئِكَةُ يَسْتَغْفِرُونَ لَهُ مَادَامَ اسْمِي فِي ذَلِكَ الْكِتَبِ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت میم نے فرمایا.جو شخص کسی تحریر میں مجھ پر درود بھیجے گا.اس کے لئے فرشتے اس وقت تک اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگتے رہیں گے.جب تک میرا نام اس تحریر میں (پڑھا جاتا) رہے گا.اس حدیث میں صلوٰۃ کی جزاء کا نام استغفار رکھا گیا ہے.اور بہت سی اور احادیث میں اس کا نام بھی صلوٰۃ ہی رکھا گیا ہے.پس معلوم ہوا کہ صلوٰۃ کے معنے استغفار کے بھی ہیں وضو کے بعد جلاء الافہام میں بحوالہ کتاب ابی الشیخ مذکور ہے:.(٤٧) عَنْ عَبْدِ اللهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا فَرَغَ أَحَدُكُمْ مِنْ طُهُورِهِ فَيَقُلُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا الله وَانَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ثُمَّ لِّيُصَلِّ عَلَيَّ فَإِذَا قَالَ
رساله درود شریف ۲۳۰ ۲۳۱ ذلك فُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ الرَّحْمَةِ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے.کہ آنحضرت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے.کہ آنحضرت میم نے فرمایا جس (اہم) کلام سے پہلے اللہ تعالی کا ذکر اور اس کے بعد مجھ پر درود م نے فرمایا جب وضو کر چکو.تو پہلے کلمہ شہادت پڑھو.اور اس کے بعد نہ ہو.وہ بے خیر اور برکت سے خالی ہو گا.مجھ پر درود بھیجو.ایسا کرنے سے (اس) رحمت الہی کے دروازے کھل جاتے احباب کی باہم ملاقات کے وقت ہیں (جس کے لئے وضو کیا جاتا ہے.یعنی نماز کو صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق ملتی ہے) صبح و شام جلاء الافہام میں بحوالہ طبرانی مروی ہے:.(۳۸) عَنْ أَبِي الْدَرْدَاءِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ حِيْنَ يُصْبِحُ عَشْرًا وَحِينَ يُمْسِي عَشْرًا أَدْرَكَتْهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ الله حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت میم نے فرمایا.جو شخص روزانہ صبح و شام مجھ پر دس دس بار درود بھیجے گا.اسے قیامت کے روز میری شفاعت نصیب ہو گی.ہر ایک اہم کلام سے پہلے جلاء الافہام میں بحوالہ ابو موسیٰ مدینی مردی ہے:.جلاء الافہام میں بحوالہ مسند ابو یعلی موصلی مردی ہے:.(٥٠) عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا مِنْ عَبُدَيْنِ مُتَحَابَّيْنِ يَسْتَقْبِلُ اَحَدُهُمَا الأَخَرَ يُصَلِّيَانِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا لَمْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يُغْفَرَ لَهُمَا ذُنُوبُهُمَا مَا تَقَدَّمَ مِنْهَا وَمَا تاخر حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے.کہ آنحضرت میں نے فرمایا خدا کے جو دو بندے ایک دوسرے سے محبت رکھنے والے باہم ملاقات کے وقت خدا تعالیٰ کے نبی م پر درود بھیجیں گے.ان کے الگ ہونے سے پہلے ان کے سب گناہ اور قصور معاف کر دیئے جائیں گے.تقدیم کے بھی اور تاخیر کے بھی.دیگر بعض مواقع ان کے علاوہ خطبوں میں.اقامت نماز کے بعد.اور نماز عید (۳۹) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلُّ كَلَامِ لَا يُذْكَرُ اللَّهُ عَلَيْهِ فَيُبْداً تکبیرات کے درمیان درود شریف کا پڑھنا بھی احادیث سے مسنون ثابت يه وبالصَّلوة عَلَى فَهُوَ أقْطَعُ مَشْحُوقَ مِنْ كُلّ بَرَكَةٍ.ہوتا ہے.اور حج اور عمرہ میں صفا و مردہ پر پہنچ کر.حجراسود کی تقبیل کے
رساله درود شریف ۲۳۳ ۴۳۳ رساله درود شریف وقت.بازار کی طرف جاتے وقت.پچھلی رات اٹھنے کے وقت.مجلس سے إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ (صحیح بخاری کتاب الانبياء) اٹھ کر جاتے وقت.مساجد کے پاس سے گزرتے وقت اور رشتہ کی تحریک عبد الرحمن بن ابی لیلی (تابعی) سے روایت ہے.وہ کہتے ہیں ایک دفعہ مجھے کرتے وقت درود شریف کا پڑھنا بعض اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ (صحابی) ملے اور کہنے لگے میں آنحضرت اقوال اور طریق عمل سے ثابت ہوتا ہے.اور بعض مواقع پر بعض اکابر سے سنی ہوئی ایک بات بطور ہدیہ تمہیں پہنچاؤں؟ میں نے کہا آپ ضرور ائمہ دین رحمہم اللہ تعالیٰ نے درود شریف کے پڑھنے کی تعلیم دی ہے.جیسے یہ ہدیہ دیں.انہوں نے کہا.ہم لوگوں نے (ایک دفعہ) حضرت رسول قرآن کریم کو ختم کرنے کے وقت.تبلیغ دین اور تعلیم دین کے وقت.نماز کریم مین کی خدمت میں عرض کیا.کہ یا رسول اللہ ہم آپ لوگوں یعنی میں تشہد کے سوا دوسرے ارکان میں.سونے کے وقت.نیند سے اٹھنے کے آپ کے گھر کے ساتھ تعلق رکھنے والے تمام لوگوں پر درود کس طرح بھیجا وقت.نماز جنازہ کے لئے جاتے وقت.دعوتوں وغیرہ میں شمولیت کے موقع کریں.سلام بھیجنے کا طریق تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتا دیا ہے مگر درود بھیجنے کا پر.نماز کے بعد.اور بعض بزرگوں نے چھینک آنے کے وقت اور جانور کو طریق ہم نہیں جانتے.آپ نے فرمایا یوں کہا کرو:.ذبح کرتے وقت بھی درود شریف پڑھنے کی ہدایت کی ہے.احادیث درباره الفاظ درود شریف (۵) عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ لَقِيَنِي كَعْبُ ابْنُ عُجْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَقَالَ اَلَا اهْدِى لَكَ هَدِيَّةً سَمِعْتُهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ بَلَى فَاهْدِهَا لِي قَالَ سَأَلْنَا رَسُولُ اللهِ صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللهِ كَيْفَ الصَّلوةُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ عَلَّمْنَا كَيْفَ نُسَلّمُ قَالَ قُوْلُوا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى الِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى الِ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدُ اللَّهُم بارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اے اللہ محمد مال پر اور محمد کی آل پر درود بھیج.جیسا کہ تو نے حضرت ابراہیم پر اور حضرت ابراہیم کی آل پر درود بھیجا ہے.تو بہت ہی حمد والا اور بزرگی والا ہے.اے اللہ تو محمد پر اور محمد کی آل پر برکات بھیج.جیسا ا کہ تو نے حضرت ابراہیم اور حضرت ابراہیم کی آل پر برکات بھیجے ہیں تو بہت ہی حمد والا اور بزرگی والا ہے نوٹا.یہ درود شریف سنن ابن ماجہ میں بھی مذکور ہے.مگر آنحضرت سے نہیں بلکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے موقوفاً مروی ہے.اور اس کے شروع میں درود شریف کے کچھ اور الفاظ بھی
رساله درود شریف ہیں.جو اس رسالہ کے صفحہ ۱۸۹ پر درج ہو چکے ہیں.نوٹ ۲.سنن نسائی میں بھی یہ الفاظ درود شریف بروایت حضرت کعب ۲۳۵ رساله درود شریف مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ نوٹ:.اس روایت میں درود شریف کے دونوں حصوں میں علی بن عجرہ رضی اللہ عنہ آتے ہیں.لیکن ان میں اللهُم بَارِک کی بجائے إبْرَاهِيمَ نہیں ہے بلکہ صرف على آلِ إِبْرَاهِيمَ ہے.اور صحیح مسلم کی وَبَارِک آتا ہے اور تغییر در منشور میں بھی بحوالہ سعید بن منصور، عبد بن حمید ابن ابی حاتم وابن مردویہ مذکور ہیں.اور ان میں اللهُمَّ بَارِک کی بجائے وَبَارِک اور درود کے دوسرے حصہ میں وَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ کی بجائے وَ آلِ إِبْرَاهِيمَ ہے.اور سنن نسائی کی ایک روایت میں اللهُمَّ بَارِک کی بجاۓ وَبَارِک کے علاوہ دونوں جگہ عَلیٰ آلِ إبْرَاهِيمَ کی بجائے وَ الِ إِبْرَاهِيمَ ہے.(۵۲) عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قِيْلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ امَّا السَّلَامُ عَلَيْكَ فَقَدْ عَرَفْنَاهُ فَكَيْفَ الصَّلوةُ قَالَ قُولُوا اَللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى أَلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَالِ حَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ ( صحیح بخاری کتاب التفسير و كتاب الدعوات) (ترجمہ) حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ صحابہ کی طرف سے حضور کی خدمت میں یہ سوال پیش ہوا کہ حضور پر سلام بھیجنے کا طریق تو ہمیں معلوم ہو گیا ہے.درود کس طرح بھیجا جائے.تو حضور نے فرمایا.یوں کہا کرو.اللهمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى الِ إبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَالِ ایک روایت میں اس کے علاوہ اللهُمَّ بَارِک کی بجاۓ وَبَارِک ہے.اور سنن نسائی کی ایک روایت میں بجائے اس فرق کے یہ فرق ہے کہ دوسرے حصہ درود میں وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدِر کی بجاۓ وَ الِ مُحَمَّدٍ آیا ہے.اور صحیح بخاری کی ایک روایت میں اس درود کے دونوں حصوں میں وَآلِ مُحَمَّد ہے.(۵۳) عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قُلْنَا أَوْ قَالُوا) يَا رَسُولَ اللهِ اَمَرْتَنَا أَنْ نُصَلِّيَ عَلَيْكَ وَانْ نُسَلَّمَ عَلَيْكَ فَامَّا السَّلَامُ فَقَدْ عَرَفْنَاهُ فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ قَالَ قُولُوا اَللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدُ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدُ مجيد (سنن ابی داؤد) (ترجمہ) حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ صحابہ نے عرض کیا.یا رسول اللہ آپ نے ہمیں ارشاد فرمایا ہے کہ ہم آپ پر درود بھی بھیجیں اور سلام بھی.سو سلام بھیجنے کا طریق تو ہمیں معلوم ہو گیا ہے.درود آپ پر کس طرح بھیجا جائے.فرمایا یوں کہا کرو.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدُ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ
رساله درود شریف ۲۳۶ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ نوٹ.اس درود شریف کے پہلے حصہ میں صرف عَلى إِبْرَاهِيمَ ہے اور اس دوسرے حصہ میں صرف على آلِ إِبْرَاهِيمَ ہے.اور ایک روایت میں اس کے بر عکس پہلے حصہ میں عَلَى آلِ إِبْرَاهِم ہے.اور دوسرے میں علی ابراهیم اور اس دوسری روایت کے پہلے حصہ کے آخر میں اِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِیدُ نہیں آتا.اور دوسرا حصہ وَ بَارِک سے شروع ہوتا ہے.اور ایک روایت میں دونوں حصوں میں عَلَى إِبْرَاهِيمُ ۲۳۷ رساله درود شریف اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ على ألِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِك عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا بارَكْتَ عَلَى الِ إِبْرَاهِيمَ فِى الْعَالَمِينَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ وَالسَّلام كَمَا عَلِمْتُمْ (صحیح مسلم و جامع ترندی) (ترجمہ) حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ (یعنی بعض صحابہ ایک دفعہ حضرت سعد بن عبادہ کی مجلس میں بیٹھے تھے اتنے میں آنحضرت میں تشریف لائے.اس پر حضرت سعد" کے لڑکے بشیر نے عرض کیا.یا رسول اللہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے آپ پر درود بھیجنے کا پر ہے اور باقی تمام درود مطابق درود شریف اول ہے.اور اسی کے مطابق جو حکم دیا ہے.اس کے ماتحت ہم آپ پر درود کس طرح بھیجا کریں.یہ جامع ترمذی میں بھی ایک روایت ہے مگر اس میں اللهُمَّ بَارِک کی بجائے سوال سن کر حضور خاموش ہو گئے.جس سے ہمیں یہ خیال ہوا کہ شاید آپ وبار کی ہے اور سنن ابی داؤد کی ایک روایت میں اس درود کے دونوں نے اس سوال کو ناپسند فرمایا ہے.اور ہم دل میں کہنے لگے کہ کاش وہ سوال حصوں میں وَ عَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کی بجائے وَ الِ مُحَمَّدٍ ہے نیز دونوں نہ کرتا.اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا یوں جگہ صرف عَلَى إِبْرَاهِيمَ ہے.اور پہلے حصہ کے آخر میں انگ کہا کرو:- حَمِيدٌ مَجِيدٌ نہیں ہے.اور دوسرا حصہ وَبَارِک سے شروع ہوتا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ ہے.عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا (٥٣) عَنْ أَبِي مَسْعُودِ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ بَارَكْتَ عَلَى الِ إِبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.آتَانَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ فِي مَجْلِسِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فَقَالَ لَهُ بَشِيرُ بْنُ سَعْدٍ أَمَرَنَا اللَّهُ أَنْ نُصَلَّى عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ قَالَ فَسَكَتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تَمَتَّهِنَا أَنَّهُ لَمْ يَسْئَلُهُ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُولُوا اور سلام کا طریق وہی ہے جو تمہیں معلوم ہو چکا ہے.نوٹ: اس حدیث سے پایا جاتا ہے کہ درود شریف کے الفاظ بھی الہامی ہیں.اس درود میں عَلى إِبْرَاهِيمَ کا لفظ نہیں ہے.اور فی الْعَالَمِینَ کا لفظ زیادہ ہے.اور اس سے مراد اقوام عالم بھی ہو سکتی ہیں.اور حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے آنحضرت امام کا تمام اقوام عالم
رساله و رود کی طرف مبعوث ہونا حضرت ابراہیم پر محیط عالم صورت میں خدا تعالی کی برکات کے نزول کا نہایت روشن ثبوت ہے.اور دنیا و آخرت بھی مراد ہو سکتی ہے.جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے.وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ (بقره: ۱۳۱) نوٹ ۲.یہ حدیث جامع ترمذی میں بھی آئی ہے اور موطا امام مالک میں بھی ہے.مگر اس کے پہلے حصہ درود شریف میں عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ کی بجائے عَلى إِبْرَاهِيمَ ہے اور در منشور میں بھی بحوالہ موطا امام مالک.مسند عبدالرزاق - مسند ابن ابی شیبہ - مسند عبد بن حمید - سنن ابی داؤد - جامع ترمذی.سنن نسائی و کتاب ابن مردویہ مروی ہے.اور اس میں دونوں جگہ عَلى إِبْرَاهِيمَ ہے اور سنن ابی داؤد میں بھی ہے.اور اس میں بھی دونوں حصوں میں عَلى إِبْرَاهِيمَ ہے.اور وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ کی بجائے وَ آلِ مُحَمَّدٍ ہے.اور اس کی ایک روایت جلاء الافہام میں مسند انتم ۲۳۹ رساله درود شریفه رَجُلاً قَالَ يَا رَسُولَ اللهِ اَمَّا السّلامُ عَلَيْكَ فَقَدْ عَرَفْنَاهُ فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ إِذَا نَحْنُ صَلَّيْنَا عَلَيْكَ فِي صَلوتِنَا فَصَمَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ إِذَا هُمْ صَلَّيْتُمْ عَلَى فَقَوْلُوا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدِ النَّبِيِّ الأمّي وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى أَل إبْرَاهِيمَ وَبَارِك عَلَى مُحَمَّد النَّبِي الْأُمِّي وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مجيد در منشور بحواله ابن خزیمہ و عاصم و بیہقی) (ترجمہ) حضرت ابو مسعود عقبہ بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ پر نماز میں سلام بھیجنے کا طریق تو ہمیں معلوم ہو گیا ہے.مگر جب آپ پر درود بھیجنے لگیں.تو کس طرح امام احمد - صحیح مسلم - جامع ترمذی اور سنن نسائی کے حوالہ سے منقول ہے جو بھیجیں.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم خاموش ہو گئے.پھر اس حدیث کی پہلی روایت کے مطابق ہے.مگر وہ صرف كَمَا بَارَكْتَ عَلى إبْرَاهِیمَ تک ہے.اور سنن نسائی کی ایک روایت میں صرف یہ الفاظ ہیں.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى أَلِ إبْرَاهِيمَ اللّهُمَّ بَارِكْ عَلى مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى أَل إبْرَاهِيمَ اور در منشور میں بھی بحوالہ تفسیر ابن جریر یہ آخری الفاظ مروی ہیں.مگر ان میں كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ کی بجائے كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ ہے.عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ عُقْبَةَ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ (00) تھوڑی دیر بعد فرمایا.جب مجھ پر درود بھیجنا ہو تو یوں کہا کرو:.اللهمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلى آلِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ نوٹ :.یہ درود شریف سنن دار قطنی میں بھی مروی ہے.اور سنن ابی داؤد میں بھی یہ درود شریف آتا ہے مگر اس میں صرف یہ الفاظ ہیں.اللهمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدِ النَّبِيِّ الْأُمِّي وَ عَلَى آلِ مُحَمَّد اور -
رساله درود شریف ۲۴۰ جلاء الافہام میں بحوالہ بیہقی صرف یہ الفاظ منقول ہیں.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدِ النَّبِيِّ الْأُمِّي - اس حدیث میں السی کے لفظ سے آيت يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِی کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے.اور الا می کے معنے یہ بھی ہیں کہ جو اتم القری میں بھیجا جانیوالا نبی ہے اور جس کی بعثت تمام اقطار عالم کی طرف اور تمام آبادیوں کے باشندوں کی طرف ہوئی ہے اور جس کی تربیت کا تمام عالم محتاج ہے.واللہ اعلم بالصواب (۵) عَنْ أَبِي سَعِيدِ الْخُدْرِي رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللهِ هَذَا التَّسْلِيمُ فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ قَالَ قُولُوا حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے (ایک دفعہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا.کہ یا رسول اللہ ( حضور پر سلام بھیجنے کا طریق تو یہ ) تشہد میں مذکور ہی ہے درود حضور پر کس طرح بھیجا جائے.فرمایا یوں کہا کرو:- اَللّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ (صحيح بخاری) نوٹ:.صحیح بخاری میں اس حدیث کی ایک روایت میں کما بارکت کے بعد عَلَى الِ إِبْرَاهِيمَ کی بجائے عَلى إِبْرَاهِيمَ ہے اور ایک میں كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ اور كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَ الِ إبراهيم ہے.اور سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ کی روایت میں اس درود کے دونوں حصوں میں عَلیٰ اِبْرَاهِيمَ ہے.اور ایک اور روایت میں جو جلاء الافہام میں بحوالہ صحیح بخاری و سنن نسائی و سنن ابن ماجہ مذکور ہے اس درود میں ا موم - رساله درود شریف پہلی بار عَلى إِبْرَاهِيمَ اور دوسری بار عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ - نوٹ ۲.عربی زبان میں اضافت کے دو طریق ہیں ایک بواسطہ حرف جر ظاہر جیسے بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ (بقرہ : ۳۷ ) یعنی تم ایک دوسرے کے دشمن ہو.اور دوسرا بلا ذ کر حرف جر.جیسے کتاب اللہ اللہ تعالیٰ کی کتاب پہلی صورت میں مضاف نکرہ کا نکرہ ہی رہتا ہے اور دوسری صورت میں معرفہ بن جاتا ہے.اور گو وہ نام کئی افراد پر بولا جا سکتا ہو.مگریہ اضافت اس فرد کو باقی افراد سے اس وصف میں ممتاز کر دیتی ہے جیسا کہ آیت لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللهِ (سورہ جن) میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا نام عبد اللہ رکھ کر بتایا گیا ہے کہ آپ عبودیت کے لحاظ سے بھی تمام مخلوق سے بڑھ کر اور بالاتر ہیں.جیسا کہ آپ نبوت کے لحاظ سے تمام انبیاء کے سردار ہیں.پس اس درود شریف میں عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ کے معنی یہ ہیں کہ آپ بلحاظ عبودیت میں بھی تمام انبیاء سے بڑھ کر ہیں.اور بلحاظ رسالت بھی.اسی حقیقت کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا " ( اتمام الحجہ صفحہ ۲۸) معنے نبوت کے اور علت غائی رسالت اور پیغمبری کی انہیں کی ذات بابرکات میں متحقق ہو رہی ہے" (براہین احمدیہ حصہ دوم صفحه ۱۲۵) اور رسالہ الوصیت میں فرماتے ہیں:.نبوت محمدیہ اپنی ذاتی فیض رسانی سے قاصر نہیں.بلکہ سب
رساله درود شریف ۲۳۲۰ نبوتوں سے زیادہ اس میں فیض ہے.اس نبوت کی پیروی خدا تک بہت سہل طریق سے پہنچا دیتی ہے.اور اس کی پیروی سے خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کے مکالمہ مخاطبہ کا اس سے بڑھ کر انعام مل سکتا ہے جو پہلے ملتا تھا.مگر اس کا کامل پیرو صرف نبی نہیں کہلا سکتا.کیونکہ نبوت کاملہ نامہ محمدیہ کی اس میں ہتک ہے.ہاں امتی اور نبی دونوں لفظ اجتماعی حالت میں اس پر صادق آسکتے ہیں کیونکہ اس میں نبوت تامہ کاملہ محمدیہ کی ہتک نہیں.بلکہ اس نبوت کی چمک اس فیضان سے زیادہ تر ظاہر ہوتی ہے".جس کے یہ معنے ہیں کہ پہلے انبیاء ان معنوں میں کامل اور تام نبی نہیں تھے جن معنوں میں آپ کامل اور نام نبی ہیں.جس کی وجہ سے ان نبوتوں کے دور میں کسی شخص کا امتی نہ کہلانا بلکہ صرف نبی کہلانا اس وقت کے انبیاء کی ہتک کا موجب نہیں تھا لیکن آپ کی نبوت چونکہ نامہ اور کاملہ ہے اس لئے اس کی موجودگی میں کوئی شخص آپ کا امتی کہلانے کے بغیر نبی نہیں کہلا سکتا.غرض اس درود میں عَبدِكَ وَرَسُولِک کے الفاظ اس بات کی طرف رہنمائی کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہر لحاظ سے اکمل فرد اور جامع کمالات انسانیت و نبوت ورسالت ہیں.عَنْ أَبِي حُمَيْدِ السَّاعِدِيّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّهُمْ قَالُوا.يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ نُصَلّى عَلَيْكَ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله ANGELAGE و سلم قولوا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَازْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَازْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مجيد (صحیح بخاری) ۳۳ رساله درود شریف حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دفعہ) بعض صحابہ نے آنحضرت مین الم کی خدمت میں عرض کیا.یا رسول اللہ ہم آپ پر درود کس طرح پر بھیجا کریں.آپ نے فرمایا یوں کہا کرو:.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ ازْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى الِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ نوٹ.دھر منشور میں یہ درود شریف ترندی کے سوا تمام اصحاب صحاح نیز امام مالک.امام احمد عبد بن حمید اور ابن مردویہ کے حوالہ سے منقول ہے مگر اس میں كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ کی بجاۓ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ ہے.اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں اس درود شریف میں دونوں جگہ وازواجہ کی بجائے وَ عَلَى أَزْوَاجِهِ ہے.راس کی ایک روایت میں یہ درود شریف اس طرح پر آتا ہے:.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَعَلَى أَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ وَبَارِكَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى أَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اور سنن ابن ماجہ میں اس کے دونوں حصوں میں عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ کی بجائے عَلَى إِبْرَاهِيمَ ہے.اور إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ صرف دوسرے حصہ میں ہے.اور اس سے پہلے فِی الْعَالَمِین بھی ہے.اور سنن ابی داؤد میں بروایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یہ الفاظ ہیں :.
رساله درود شریف اَللّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ وَأَزْوَاجِهِ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ وَذُرِّيَّتِهِ وَأَهْلِ بَيْتِهِ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى الِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ ازواج مطہرات نوٹ ۲.آنحضرت مسلم کی ازواج مطہرات امہات المومنین رضی اللہ منین کے نام یہ ہیں.حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا.جو ابراہیم کے سوا آنحضرت میر کی تمام اولاد کی ماں ہیں (ابراہیم ماریہ قبطیہ کے بطن سے پیدا ہوئے تھے).حضرت سودہ رضی اللہ عنہا بنت زمعہ.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بنت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ.حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بنت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ.حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنها بنت ابوسفیان رضی اللہ عنہ ان کا اصل نام رملہ تھا.حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنها بنت ابی امیہ بن مغیرہ ان کا اصل نام ہند تھا.حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا جن کے ساتھ آنحضرت میا کے نکاح کا سورہ احزاب میں ذکر ہے.حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنما.جو عقد نبوی میں آنے کے بعد صرف دو تین مہینے زندہ رہیں.حضرت جویریہ بنت حارث رضی اللہ عثما.حضرت صفیہ بنت حیسی رضی اللہ عنہا.یہ دونوں جنگی قیدیوں میں آئی تھیں.موخر الذکر حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے تھیں.حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا بنت حارث جو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی خالہ تھیں.یہ کل 11 ازواج مطہرات ہیں اور ماریہ قبطیہ کو شامل کر کے ۱۲ ہوتی ہیں ۴۴۵ ذرتیت نبوی رساله درود شریف نوٹ ۳.آنحضرت میم کی ذریت کے متعلق سیدی حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے ایدہ اللہ تعالیٰ کی کتاب سیرت خاتم النسین حصہ اول میں سے حسب ذیل فقرہ نقل کر دینا کافی ہو گا.آنحضرت میں کی جتنی بھی اولاد ہوئی.وہ سب (سوائے ابراہیم کے.جو ماریہ قطبیہ کے بطن سے پیدا ہوئے) خدیجہ کے بطن سے ہوئی.لکھا ہے کہ خدیجہ سے آپ کے تین لڑکے ہوئے.اور چار لڑکیاں.لڑکوں کے نام یہ ہیں.قاسم.طاہر.طیب.بعض ایک اور چوتھا بیٹا عبد اللہ قرار دیتے ہیں.مگر بعض کا یہ خیال ہے کہ طاہر ہی کا اصل نام عبد اللہ تھا.واللہ اعلم.لڑکیوں کے نام یہ ہیں.زینب.رقیہ.ام کلثوم اور فاطمہ.آنحضرت کی کنیت ابو القاسم آپ کے بڑے بیٹے قاسم کے نام پر تھی.آنحضرت میں کی اولاد نرینہ سب بچپن میں ہی فوت ہو گئی.مگر لڑکیاں سب بڑی ہوئیں.اور اسلام لائیں.لیکن سوائے چھوٹی لڑکی فاطمہ الزہراء کے باقی کسی لڑکی کی نسل نہیں چلی.بڑی لڑکی زینب ابو العاص بن ربیع کے ساتھ بیاہی گئیں.جو حضرت خدیجہ کے ایک عزیز تھے.ابو العاص کے ہاں زینب کے بطن سے ایک لڑکا علی اور ایک لڑکی امامہ پیدا ہوئے.مگر لڑکا تو بچپن میں ہی فوت ہو گیا.اور لڑکی بڑی ہوئی.اور حضرت فاطمہ کی وفات کے بعد حضرت علی کے عقد میں آئی.مگر اس کی نسل نہیں چلی.آنحضرت مال امامہ کو بہت عزیز رکھتے تھے.ابو العاص ہجرت کے کئی سال بعد تک اسلام نہیں لائے.جس کی وجہ سے زینب کو بھی بعض تکالیف کا
رساله درود شریف سامنا کرنا پڑا.زینب آنحضرت امی کی زندگی میں ہی فوت ہو گئیں.رساله درود شریف رقیہ اور ام کلثوم آنحضرت میں تعلیم کے چا ابو لہب کے دولڑکوں عقبہ اور اللَّهُمَّ اجْعَلْ صَلَوَاتِكَ وَبَرَكَاتِكَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا عتیبہ کے عقد میں آئیں.مگر اسلام کے زمانہ میں جب البولہب نے آنحضرت جَعَلْتَهَا عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ - م کی سخت مخالفت کی.تو طرفین کی خواہش پر یہ دونوں نکاح فسخ ہو گئے.اس کے بعد رقیہ اور ام کلثوم یکے بعد دیگرے حضرت عثمان بن عفان اس درود شریف کی ایک روایت حضرت بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے اور اس میں وَبَرَكَاتِک کی بجائے وَرَحْمَتِكَ کے نکاح میں آئیں جس کی وجہ سے ان کو ذوالنورین کہتے ہیں.مگر ان ہے.اور عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ کی بجائے عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ دونوں کی نسل نہیں چلی.رقیہ کا جنگ بدر کے زمانے میں اور ام کلثوم کا فتح مکہ کے بعد انتقال ہو گیا.سب سے چھوٹی صاحبزادی حضرت فاطمہ تھیں.یہ ہجرت کے بعد حضرت علی کے عقد میں آئیں.اور انہی کے بطن سے حضرت امام حسن و حسین پیدا ہوئے.جن کی اولاد مسلمانوں کے اندر سید کہلاتی ہے.حضرت فاطمہ آنحضرت کی وفات سے چھ ماہ بعد فوت ہو ئیں" اميرة خاتم النبیستین حصہ اول صفحه ۹۲٬۹۱) (۵۸) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قُلْنَا يَا رَسُول الله قَدْ عَلِمْنَا السَّلاَمَ عَلَيْكَ فَكَيْفَ نُصَلّى عَلَيْكَ قَالَ قُولُوا اللّهُمَّ اجْعَلْ صَلَوَاتِكَ وَبَرَكَاتِكَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا جَعَلْتَها عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ.(در منثور بحواله ابن مردویه حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ہم لوگوں نے حضور کی خدمت میں عرض کیا.یا رسول اللہ.آپ پر سلام بھیجنے کا طریق تو ہمیں معلوم ہو گیا ہے.درود آپ پر کس طرح بھیجا جائے.فرمایا یوں کہا مُحَمَّدٍ ہے.اور عَلى آلِ إِبْرَاهِيمَ کی بجائے عَلى إِبْرَاهِيمَ ہے اور ایک روایت میں وَرَحْمَتِک بھی ہے.اور اس کے بعد وَبَرَكَاتِک بھی.اور باقی الفاظ موخر الذکر ہی ہیں.اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں وَبَرَكَاتِكَ وَرَحْمَتِكَ ہے.اور وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ کی بجائے وَ أَزْوَاجِهِ وَ ذُرِّيَّتِهِ وَأُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ ہے.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّهُمْ سَأَلُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ قَالَ قُولُوا اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ وَ بَارَكْتَ عَلَى إبْرَاهِيمَ وَآلِ إِبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ (جلاء الافہام بحوالہ محمد بن اسحاق سراج و در منثور بحوالہ عبد بن حمید و نسائی وابن مردویه) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے.کہ (ایک دفعہ) بعض صحابہ نے آنحضرت امی کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم حضور پر درود کس طرح پر بھیجا کریں.فرمایا یوں کہا کرو:.
ر ساله درود شریف ۲۴۸ اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ وَ بَارَكْتَ عَلَى إبْرَاهِيمَ وَآلِ إِبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ (۲۰) عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللهِ قَدْ عَرَفْنَا كَيْفَ السَّلَامُ عَلَيْكَ فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ قَالَ قولُوا اللَّهُمَّ صَلَّ عَلى مُحَمَّدٍ وَأَبْلِغْهُ دَرَجَةَ الْوَسِيْلَةِ مِنَ الْجَنَّةِ اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِى الْمُصْطَفَيْنَ مَحَبَّتَهُ وَفِي الْمُقَرَّبِينَ مُوَدَّتَهُ وَفِى العِلّينَ ذِكْرَةَ وَ دَارَهُ وَالسّلام عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ (در منثور بحواله ابن مردویه) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دفعہ) ہم لوگوں نے حضرت رسول کریم ان کی خدمت میں عرض کیا.یا رسول باب پنجم ۲۴۹ رساله درود شریف درود شریف کے متعلق ارشادات اللہ ! حضور پر سلام بھیجنے کا طریق تو ہمیں معلوم ہو گیا ہے درود حضور پر کس حضرت خلیفہ المسیح الاول والثانی رضی اللہ عنما طرح بھیجا کریں.فرمایا یوں کہا کرو:.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَبْلِعُهُ دَرَجَةَ الْوَسِيلَةِ مِنَ الْجَنَّةِ اللّهُمَّ اجْعَلْ فِى الْمُصْطَفَيْنَ مَحَبَّتَهُ وَفِي الْمُقَرَّبِينَ مَوَدَّتَهُ وَفِى العِلبِينَ ذِكْرَهُ وَدَارَة وَالسَّلاَمُ عَلَيْكَ وَرَحْمَةٌ | الله وبركاته اے اللہ آنحضرت ﷺ پر درود بھیج.اور جنت میں آپ کو وسیلہ کے مقام پر پہنچا.اے اللہ آپ کو اپنے برگزیدہ لوگوں کا محبوب اور اپنے مقربین کا پیارا بنا.اور سب سے بالا تر مقام والے لوگوں میں آپ کو شرف اور مقام بخش.(اے نبی) آپ پر اللہ کا اسلام اور رحمت اور اس کی برکات ہوں.
۲۵۱ رساله درود شریف درود شریف کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح اول کے ارشادات نماز کے تشہد میں آنحضرت پر سلام.آنحضرت کے بعض احسانات السّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ قاعدہ کی بات ہے کہ ہر محسن اور مربی کی محبت کا جوش انسان کے دل میں فطر تا پیدا ہوتا ہے.اور ظاہر ہے کہ رسول اللہ ان کے ہم پر کیسے کیسے احسان ہیں.وہی ہیں جن کے ذریعہ سے ہم نے خدا کو جانا مانا اور پہچانا.وہی ہیں جن کے ذریعہ سے ہمیں خدا کے اوامر و نواہی اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی راہیں بذریعہ قرآن شریف معلوم ہو ئیں.وہی ہیں جن کے ذریعہ سے خدا کی عبادت کا اعلیٰ سے اعلیٰ طریقہ اذان اور نماز ہمیں میسر ہوا.اور وہی ہیں جن کے ذریعہ سے ہم اعلیٰ سے اعلیٰ مدارج تک ترقی کر سکتے ہیں.حتی کہ خدا سے مکالمہ و مخاطبہ ہو سکتا ہے.وہی ہیں جن کے ذریعہ سے لا اله الا الله کی پوری حقیقت ہم پر منکشف ہوئی.اور وہی ہیں جو خدا نمائی کا اعلیٰ ذریعہ ہیں.کلمہ طیبہ میں عہدہ نہ ہو تا تو آپ کو خدا ہی سمجھا جاتا غرض آنحضرت میں کے ہم پر اتنے احسانات اور انعامات ہیں کہ جس
رساله درود شریف ۲۵۲ ۲۵۳ رساله درود شریف کا گمان بھی جن باتوں سے ممکن تھا.ان کا خود خدا نے اسلام کی کچی اور پاک تعلیم میں ایسا بندوبست کر دیا.کہ ممکن ہی نہیں.کہ کوئی مسلمان اس امر کا مر تکب ہو.طرح سے اور قومیں اپنے محسنوں اور نبیوں کو بوجہ ان کے انعامات کثیرہ کے غلطی سے بجائے اس کے کہ ان کو خد انمائی اور خداشناسی کا ایک آلہ سمجھتے.انہی کو خدا بنا لیا.اور توحید سکھانے والے لوگوں کو واحد ویگانہ مان لیا.اور ان کی تعلیمات کو جو نہایت ہی خاکساری اور عبودیت سے بھری ہوئی تھیں.بھول کر ترک کر دیا.اور انہی کو معبود یقین کر لیا.ہم مسلمان بھی ممکن تھا کہ سلام بصیغہ مخاطب بھیجنے کی وجہ ایسا کر بیٹھتے.مگر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل وکرم سے اور اس امت جومہ پر رحم کرنے اور اسے خطرناک ابتلا سے بچانے کی غرض سے مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ کا فقرہ ہمیشہ کے لئے توحید التی لا اله الا الله مرحومہ کا جزو بنا کر مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے شرک سے بچالیا.آپ کی قبر کا مدینہ میں ہونا بھی شرک سے امن کا موجب ہوا مگر چونکہ محسن سے محبت کرنا اور گرویدہ احسان ہونا انسانی فطرت کا تقاضا تھا.اس واسطے ایک راہ کھولدی.کہ ہم آپ کے لئے دعا کیا کریں اور اس طرح سے آنحضرت مال کے مدارج میں ترقی ہوا کرے.چنانچہ ہر مسلمان نماز میں آنحضرت ملا وَرَحْمَةٌ کے واسطے السّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرّ الله وبركاته کا پاک تحیہ پیش کرتا ہے.اور درد دل سے گداز ہو کر گویا آپ کے احسانات اور مہربانیوں کے خیال سے آپ کی ایسی محبت پیدا کر لیتا ہے.جیسے آنحضرت میں اور اس کے سامنے موجود ہیں.آپ کے حسن و احسانات کے نقشہ اور مہربانیوں سے آپ کا وجود حاضر کی طرح سامنے لاکر مخاطب کے رنگ میں دعا کرتا ہے.السلام عليْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ بلکہ اسی بار یک حکمت کے لئے آنحضرت میر کی قبر بھی مدینہ منورہ میں بنوائی.مکہ معظمہ میں نہیں رکھی.کیونکہ اگر مکہ معظمہ میں آپ کی قبر ہوتی تو ممکن تھا کہ کسی کے دل میں خیال پرستش کا آجاتا.یا کم از کم دشمن اور مخالف ہی اس بات پر اعتراض کرتے.مگر اب مدینہ میں قبر ہونے سے جو لوگ مکہ معظمہ میں جانب شمال سے جانب جنوب منہ کر کے نماز ادا کرتے برکت کی دعا میں کیا تعلیم ہے نہیں.تو ان کی پیٹھ آنحضرت امام کی قبر مبارک کی طرف ہوتی ہے.اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لئے یہ ایک راہ آپ کی قبر کے نہ پوجا جانے اور مسلمانوں کے شرک میں مبتلا نہ ہونے کے واسطے بنا دی.غرض اسی طرح جن باتوں میں اس بات کا وہم و گمان بھی ہو سکتا تھا کہ کوئی انسان آپ کو خدا بنائے گا.یا آپ کے شریک فی الذات یا فی الصفات ہونے بركة عربی زبان میں تالاب کو کہتے ہیں.یہ اس نشیب کا نام ہے جہاں ادھر ادھر کا پانی جمع ہوتا ہے.مبارک بھی اسی سے نکلا ہے.اور برکت بھی اسی سے ہے.مطلب یہ کہ آنحضرت می کی امت میں ہمیشہ کچھ ایسے پاک لوگ پیدا ہوتے رہیں.جو آنحضرت امام کے اصل اور حقیقی مذہب اور تعلیم توحید کو قائم کرتے اور شرک و بدعات کا جو کبھی امتداد زمانہ کی وجہ سے اسلام میں راہ پا
۲۵۵ رساله درود شریفه رساله درود شریف ۲۵۴ یوں ادا کیا گیا ہے.وَالَّذِيْنَ جَاءُ وَ مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا جاویں.ان کا قلع قمع کرتے رہیں.اور یہ ضروری بات ہے کہ آپ کی کچی تعلیم و تربیت کا نمونہ ہمیشہ بعض ایسے لوگوں کے ذریعہ سے ظاہر ہوتا رہے.جو امت مرحومہ میں ہر زمانہ میں موجود ہوا کریں.چنانچہ قرآن شریف میں بھی بڑی صراحت سے اس بات کو اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلا للذين أمنوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيم - (الحشر) غرض اپنے پہلے بزرگوں اور خادمان اسلام و شریعت محمدیہ کے واسطے دعائیں کرنا اور ان کی طرف سے کوئی بغض و کینہ ، غل و غش دل میں نہ رکھنا یہ بھی ایمان اور ایمان کی سلامتی کا ایک نشان ہے.پس انسان کو مریج بالفاظ ذیل بیان کیا گیا ہے:.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا کسی سے بغض نہ رکھنا چاہئے التِ لَيَسْتَخْلِفَتَهُمُ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ منْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمَنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (الور:۵۷) خدام دین کے لئے دعا کی تعلیم صلی د مرنجاں ہونا چاہئے.اور خدا کی باریک در بار یک حکمتوں اور قدرتوں پر ایمان لانا چاہئے.اور کسی سے بھی بغض و کینہ دل میں نہ رکھنا چاہئے.خدا اسی طرح سے السّلامُ عَلَيْنَا وَ عَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ كنا کی شان ستاری سے ہمیشہ فائدہ اٹھاتے رہنا چاہئے.کیونکہ ممکن ہے کہ جن اور رسول اللہ مال کے بعد آپ کے دین کے کچھ خادموں جو صحابہ کو تمہاری نظریں برا اور بدخیال کرتی ہیں ان کو توبہ کی توفیق مل جائے.اولیاء اللہ ، اصفیاء، اتقیاء اور ابدال کے رنگ میں آئے.اور قیامت تک اللَّهُ أَفَرَحُ بِتَوْبَةِ الْعَبْدِ خدا اپنے بندوں کی تو بہ سے بہت خوش ہو تا آتے رہیں گے، کے واسطے بھی بوجہ ان کی حسن خدمات کے جن کی وجہ سے ہے.اس سے بھی بڑھ کر جس کا کسی ویران اور بھیانک وسیع جنگل میں انہوں نے بعد رسول کریم میں والی مہم پر بہت بڑے بھاری احسانات اور سامان خور و نوش گم ہو جائے اور اس لئے اسے ہلاکت کا اندیشہ ہو.مگر پھر انعامات کئے، دعا کریں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو کوئی اس گروہ پاک کی اسے سامان میسر آجائے.جس طرح وہ شخص خوش ہو گا.اس سے بھی کہیں مخالفت کرے گا.اور اس کو نظر عزت سے نہ دیکھے گا.اور ان کے احکام بڑھ کر خدا اپنے بندوں کی توبہ سے خوش ہو تا ہے.پس کسی کو حقارت کی نظر اور فیصلوں کی پروا نہ کرے گا.تو وہ فاسق ہو گا.بلکہ وہاں تک جہاں تک سے مت دیکھو.خدا نکتہ نواز بھی ہے.اور نکتہ گیر بھی.ممکن ہے جسے تم تعظیم الہی اور تعظیم کتاب اللہ اور تعظیم رسول اللہ عام اجازت دیتی ہو، اس گروہ کا ادب و عزت کرنے اور اِس خیل پاک کے حق میں دعائیں کی وجہ سے راندہ درگاہ اور ہلاک ہو جاوے.بعض بدیاں حبط اعمال کا کرنے کا حکم قرآن سے ثابت ہے.چنانچہ آیت ذیل میں اس مضمون کو موجب ہو جاتی ہیں.اور بعض اعمال جنم میں لے جاتے ہیں.حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو اسے توبہ کی توفیق مل جائے.اور دوسرا اپنے کبر
رساله درود شریف ۲۵۶ ۲۵۷ رساله درود تمام صالحین کے لئے دعا کی تعلیم بعد پڑھا جاتا ہے.جس قدر کوئی احسان کرے.اسی قدر اس سے محبت.ﷺ بڑھتی ہے اور ایثار پیدا ہوتا ہے.نبی کریم ( م ) نے فرمایا.جُبِلَتِ تمام صالحین کے واسطے دعائیں کرتے رہنا چاہئے.ان کے احسانات الْقُلُوبُ عَلى حُبِّ مَنْ اَحْسَنَ إِلَيْهَا (اللہ تعالٰی نے دلوں کو ایسی اسلام اور مسلمانوں پر بہت کثرت سے ہیں.غور کا مقام ہے کہ انہوں نے یہ فطرت بخشی ہے کہ جو احسان کرے.اس سے فطرۃ دلی محبت پیدا ہو جاتی دین اور یہ کتاب اور یہ سنت یہ نماز و روزہ ہم تک پہنچانے کے واسطے کس ہے) اللہ تعالیٰ نے ہم پر کیا کیا احسان کے ہیں.....وأنا كُمْ مِنْ كُلِّ مَا طرح اپنی جانیں خرچ کر دیں.خون پانی کی طرح بہا دیئے.اپنے نفسوں پر سَأَلْتُمُوهُ الله تعالیٰ نے تمہاری تمام ضرورتیں پوری کیں.اور جو کچھ آرام اور نیند حرام کرلی.کتنے بڑے بڑے سفر پا پیادہ اس مشکلات کے زمانہ تمہاری فطرت نے مانگا وہ اس نے تمہیں دیا) پھر اس کے غلط استعمال یا اپنی میں کئے.ایک ایک حدیث کی تحقیقات اور اس کے راوی کے منہ سے سننے شامت اعمال نے لا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمْ (صحیح محل پر خرچ کے واسطے سینکڑوں کوسوں کے ناقابل گذر اور دشوار گزار سفر انہوں نے کرنے کی اہلیت نہ رکھنے والوں کے قبضہ میں اموال نہ دو) کے ماتحت کسی کئے.پس ان کے احسانات، ان کے مساعی جمیلہ کوششوں، محنتوں اور کے لئے اس میں تنگی پیدا کر دی جانفشانیوں کو نظر کے سامنے رکھ کر ان کے واسطے درد مند دل سے تڑپ پھر دوسرے درجہ پر محسن ہے رسول کریم ما.کیا کیا تڑپ تڑپ کر تڑپ کر دعائیں کرو.اگر ان کی ایسی محنتیں اور کوششیں نہ ہوتیں.اور وہ دعائیں مانگی ہونگی.کیا سوز دل سے التجائیں کی ہو نگی.جب یہ دین اسلام ہم بھی ہماری طرح ست اور کاہل ہوتے.تو غور کرو کہ کیا اسلام موجودہ حالت تک پہنچا.پس السّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ میں ہم آپ کے لئے میں ہو سکتا تھا.اور ہم مسلمان کہلانے کے مستحق ہو سکتے تھے ؟ ہرگز نہیں.سلامتی کی دعا مانگتے ہیں.کہ دین اسلام سلامت رہے.قیامت کے دن آپ پس ان کے واسطے دعائیں کرنا اور نماز میں ان کے حقوق ادا کرنے کا جزو ہونا کی عزت میں فرق نہ آئے.وہ سید الاولین والا خرین ثابت ہو.بھی لازم اور ضروری تھا.بلکہ از بس ضروری تھا.کیونکہ مَنْ لَّمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمْ يَشكر الله " (الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۵) درود میں آنحضرت کے لئے کیا دعائیں کی جاتی ہیں خلفاء ہیں.نواب (جانشین) ہیں.مبلغین ہیں.ان سب کے لئے سلامتی (ماخوذ از خطبه جمعه مورخه ۲۵ فروری ۱۹۱۰ء) پھر اسی چشمہ کو السّلامُ عَلَيْنَا وَعَلى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِین میں اور بھی بڑھایا.اور جس قدر مخلوق میں ! اولیاء ہیں.چاہی ہے.میں نے دیکھا کہ ایسی دعا سے بعض وقت آسمان میں شور پڑ جاتا ہے." (اخبار بدر جلد ۹ نمبر ۱۹ صفحه ۲) " التَّحِيَّاتُ لِلّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ ہر دو رکعت کے
ر ساله درود شریف ۲۵۸ بعض کلمات تشہد کی تفسیر ۲۵۹ رساله درود شریف ہے.اس لئے حکم ہے.وَأَمَّا بِنِعْمَتِ رَبِّكَ فَحَدِث تحدیث نعمت کرنا اور خدا تعالیٰ کے انعامات کا شکر ادا کرنا ازدیاد انعامات کا باعث ہوتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَئِن شَكَرْتُمْ لَا زِيْدَنَّكُمْ ہی اس " تحیہ عربی میں کسی کی تعریف مدح ستائش.بڑائی اور اس کی طرح سے تحدیث نعماء اور عطایا الہی اور شکر کا اظہار زبان سے کرنے کا نام ہے تحیہ.صلوة مہربانیوں اور انعامات کے بیان کرنے اور اس کی شکر گزاری کے واسطے اس کے حسن اور احسان کو یاد کر کے اس کے گرویدہ ہونے کے بیان کرنے کو کہتے ہیں.اور بعض نے قولی عبادت بھی اس کا ترجمہ کیا ہے.عبادت فرمانبرداری اور تعظیم کا نام ہے.اس واسطے زبان سے جو کچھ عبادت اور صلوۃ اس تعظیم اور عبادت کا نام ہے جو زبان دل اور اعضاء کے اتفاق فرمانبرداری کا اظہار کیا جاتا ہے اس کا نام تحیہ ہے.چونکہ کل انعامات اور سے ادا کی جائے.کیونکہ ایک محتافق کی نماز جو کہ ریاء اور دکھلاوے کی غرض فیوض کا سچا اور حقیقی سرچشمہ اللہ تعالیٰ ہی ہے.اور بجز اس کے خاص فضل سے ادا کی گئی ہو نماز نہیں ہے.نماز بھی ایک تعظیم ہے.جس کا تعلق بدن کے ہم دنیا و مافیہا کے کل سامان آرام و اسائش سے متمتع نہیں ہو سکتے.اس سے ہے.بدن کا بڑا حصہ دل اور دماغ ہیں.چونکہ زبان نماز کے الفاظ ادا لئے صرف اور صرف اسی کی حمد وستائش کے گیت گانے کو اور اس کی کرنے میں اور دل و دماغ اس کے مطالب و معانی میں غور کر کے توجہ الی اللہ فرمانبرداری کو سب پر مقدم کرنا چاہئے.دیکھو اگر کوئی محسن ہمیں ایک اعلیٰ کرنے میں.اور ظاہری اعضاء ہاتھ پاؤں وغیرہ ظاہری حرکات تعظیم کے ادا درجہ کی عمدہ اور نفیس گرم پوشاک دے مگر اللہ کا فضل شامل حال نہ ہو.کرنے میں شریک ہوتے ہیں.اور ان سب کے مجموعہ کا نام بدن یا جسم اور ہمیں سخت محرقہ تپ ہو.تو وہ لباس ہمارے کس کام آسکتا ہے.اور اگر ہے.اس لئے بدنی عبادت کا نام صلوۃ ٹھہرا.دل و دماغ خدا کی بزرگی اور ہمارے سامنے اعلی سے اعلی مرغن کھانے قسم قسم کے رکھے جائیں.مگر ہم کو حق سبحانہ کی عظمت کا جوش پیدا کرتے ہیں، بذریعہ اس کے انعامات اور حسن قے کا مرض لاحق ہو.تو ہم ان کھانوں کی لذت کیسے اٹھا سکتے ہیں.و احسان میں غور کرنے کے.اور پھر اس جوش کا اثر زبان پر یوں ظاہر ہوتا غرض غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آسائش و آرام کے کل سامانوں ہے کہ زبان کلمات تعریف اور ستائش کہنے شروع کر دیتی ہے.اور پھر اس کا کے مادے پیدا کرنا بھی جس طرح اللہ ہی کا کام ہے.اسی طرح سے ان سے اثر اعضاء اور ظاہری جوارح پر پڑتا ہے.اور ادب و تعظیم کے لئے کمربستہ متمتع اور بارور ہونا بھی محض اللہ کے فضل پر موقوف ہے.صحت عطا کرنا ہونا، رکوع کرنا، سجود کرنا وغیرہ ظاہری حرکات تعظیم بجالاتے ہیں.قوت ذائقہ بخشا، قوت ہاضمہ کا بحال رکھنا سب اللہ تعالی کے فضل پر موقوف
رساله درود شریف طیبات ۲۶۰ پھر یہ اثر اسی جگہ محدود نہیں رہتا.بلکہ انسان کے مال پر بھی پڑتا ہے.اور اس طرح سے انسان اپنے عزیز وطیب مالوں کو خدا کی رضا جوئی اور خوشنودی کے واسطے بے دریغ خرچ کرتا ہے.اور اپنے مال کو بھی اپنے دل و دماغ ، زبان اور ظاہری اعضاء کے ساتھ شامل و متفق کر کے عبادت الہی میں لگا دیتا ہے.تو اس کا نام ہے الطیبات جس کو بالفاظ دیگر یوں بیان کیا گیا ہے مالی عبادت.اور یہ بھی صرف اللہ جل شانہ کا حق ہے.غرض التميمات الصلوات الطیبات تینوں طرح کی عبادات فقط اللہ جل ۲۶۱ رساله درود شریف آنحضرت ما پر ورود درد دل کے ساتھ بھیجنا چاہئے اگر ہم اللہ تعالیٰ کے پورے بندے اور عابد اور تعظیم کرنے والے ہیں.اور مخلوق پر شفقت اور رحم کرنیوالے.اور علوم اور عقائد سے خوشحال ہیں.تو یہ سب فیضان اور احسان حقیقت میں نبی کریم مل ہی کا ہے.آپ کے دل کے درد اور جوش نہ ہوتے.تو قرآن کریم جیسی پاک کتاب کا نزول کیسے ہوتا.آپ کی مہربانیاں اور توجہات اور محنتیں اور تکالیف شاقہ نہ ہوتیں.تو یہ پاک دین ہم تک کیسے پہنچ سکتا.آپ نے یہ دین ہم نتک پہنچانے کی غرض سے خون کی ندیاں بہا دیں.اور ہمدردی خلق کے لئے اپنی شانہ ہی کا حق ہے.کسی قسم کی عبادت میں اس کا کوئی شریک نہیں.اللہ جان کو جو کھوں میں ڈالا.تو پھر غور کا مقام ہے کہ جب ادنی اونی محسنوں سے تعالیٰ اس بات سے غنی ہے کہ کوئی اس کا شریک اور ساجھی ہو." الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۵ مورخه ۱۶ اپریل ۱۹۰۸ء) آنحضرت کا دنیا کو سلامتی بخشنا آپ پر سلام بھیجنے کا متقاضی ہے ” جب اس بات کا خیال کیا جاتا ہے کہ دنیا میں خصوصاً عرب میں نبی کریم کے طفیل کس قدر سلامتیاں پھیلیں.تو بے اختیار ان کے لئے سلامتی کی دعا کرنے کو ابال اٹھتا ہے.اور منہ سے نکلتا ہے.السّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه - التی تو میرے پیارے نبی کی عزت و درجہ کو ترقی دے.اپنی خاص رحمتوں کا نزول فرمائیو.اپنی برکات نازل لیجیئو" (بدر جلد ۹ نمبر ۴۳ صفحه ۳) ہمیں محبت پیدا ہو جانا ہماری فطرت سلیمہ کا تقاضا ہے.تو پھر آنحضرت مریم کی محبت کا جوش کیوں مسلمان کے دل میں موجزن نہ ہو گا.درود بھی درد سے ہی نکلا ہوا ہے.یعنی خاص درد سوز گداز اور رفت سے خدا کے حضور التجا کرنی.کہ اے مولیٰ تو ہی ہماری طرف سے خاص خاص انعامات اور مدارج آنحضرت ام الله و سلم کو عطا کر.ہم کرہی کیا سکتے ہیں.ملی کلیه دروم اور کس طرح سے آپ کے احسانات کا بدلہ دے سکتے ہیں.بجز اس کے کہ تیرے ہی حضور میں التجا کریں.کہ تو ہی آپ کو ان بچی محنتوں اور جانفشانیوں کا سچا بدلہ جو تو نے آپ کے واسطے مقرر فرما رکھا ہے.وہ آپ کو عطا فرما.انسان جب اس خاص رفت اور حضور قلب اور تڑپ سے گداز ہو کر آپ کے واسطے دعائیں کرتا ہے تو آنحضرت امی کے مدارج میں ترقی ہوتی ہے.اور خاص رحمت کا نزول ہوتا ہے.اور پھر اس دعا گو درود
رساله درود ر ساله درود شریف خواں کے واسطے بھی ادھر سے رحمت کا نزول ہوتا ہے.اور ایک درود کے ٹھہرے.اور ہم جناب الہی سے اپنے محسن کے لئے درد دل سے خاص بدلہ میں دس گنا اجر اسے دیا جاتا ہے کیونکہ آنحضرت میم کی روح اس رحمتوں کا نزول طلب کریں گے تو خدا تعالیٰ ہماری عرضداشت پر جناب نبی درود خواں اور آپ کی ترقی مدارج کے خواہاں سے خوش ہوتی ہے اور اس کریم میں یا علی ملک کے لئے خاص رحمتوں کا بھیجنا منظور فرمائے گا اور چونکہ اس دعا خوشی کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ اس کو دس گنا اجر عطا کیا جاتا ہے.انبیاء کسی کا کے لئے اس نے خود ہمیں حکم دیا ہے.اس واسطے یقیناً صلوٰۃ اور سلام کی دعا قبول ہو گی اور اس ذریعہ سے جب ہمارے نبی کریم میر کو خاص انعامات احسان اپنے ذمہ نہیں رکھتے“.(الحکم ۱۶ اپریل ۱۹۰۸ء) الله البر حاصل ہوں گے.تو وہ خوش ہو کر ملاء اعلی میں ہمارے لئے توجہ کریں گے.درود میں آنحضرت جیسے عظیم الشان انسان کے لئے کیا مانگا سوال جاسکتا ہے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمُ اس کے بعد درود شریف پڑھ کر محمد رسول اللہ میں کے لئے کیا مانگا جا سکتا ہے؟ جواب یاد رکھو ایک خدا کا فضل ہوتا ہے اور ایک تکمیل دین ہوتی ہے.خدا تعالیٰ کے فضل محدود نہیں ہوتے کیونکہ اللہ تعالیٰ خود محدود نہیں.پس ایسا ہی اس کے فضل بھی محدود نہیں.اس کے گھر کا دوالہ کبھی نہیں نکلتا.وہ جو کچھ کسی کو عنایت کرتا ہے اس سے بھی بدرجہا بڑھ کر دے سکتا ہے.اسی مسلمانوں نے بہشت اور بہشت کی نعماء کو ابدی اور لا انقطاع ابدی مانا ہے.جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے عَطَاء غَيْرَ مُجْدُون اور پھر فرمایا.لا مَقْطُوعَةٍ وَلاَ مَمْنُوعَةٍ - غرض جب کہ خدا کے فضل بے انت پس درود شریف کے پڑھنے سے مومن کو چار فائدے حاصل ہو سکتے ہیں..(۱) خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آجائے گا.کیونکہ وہ ایک ایسی بلند شان والی قادر اور توانا ہستی ہے کہ سب کے سب انبیاء رسول اور دیگر اولوا العزم ہر وقت اس کے محتاج ہیں.(۲) خدا تعالیٰ کا کمال غنا ظا ہر ہو گا.کہ سارا جہان اس سے سوال کرتا ہے مگر اس کے خزانے ختم نہیں ہو سکتے.اور جتنا دیتا ہے اس سے بھی بدرجہا بڑھ کر دینے کے لئے اس کے پاس موجود ہے.(۳) اپنے نبی کریم میں کی نسبت یہ اعتقاد پختہ ہو جائے گا.کہ وہ خدا کا محتاج ہے اور ہر آن میں محتاج ہے.خدائی کے مرتبہ پر نہیں پہنچا.اور نہ پہنچے گا.بلکہ عبد کا عبد ہی ہے.اور عبد ہی رہے گا.خدا تعالی کا فیضان ان پر ہمیشہ ہو تا رہتا ہے اور ہو تا رہے گا.(۴) درود شریف کے پڑھنے والا اس ذریعہ سے آنحضرت میم کے ساتھ اس ترقی میں شریک رہے گا." اخبار الحکام جلد ۱۳ نمبر ۴ پر چه ۱۴ جنوری ۱۹۰۸ء)
ر ساله درود شریف ۲۶۴ ورود میں کما صلیت کہ کر آنحضرت کے لئے کیا مانگا جاتا ہے سوال درود شریف پڑھ کر محمد رسول اللہ میم کے لئے جو کچھ مانگا جاتا ہے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کم درجہ پر کیوں مانگا جاتا ہے.جیسا کہ کما صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ سے ظاہر ہوتا ہے ہمارے نبی کریم ملی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آل میں بھی داخل ہیں اور صلوٰۃ بھیجنے والا چاہتا ہے کہ جس قدر برکات اور انعامات الہیہ حضرت ابراہیم اور اس کی اولاد پر ہوئے ہیں.ان سب کا مجموعہ ہمارے نبی کریم کو عطا ہو.اس سے یہ تو ثابت نہیں ہو سکتا.کہ ہمارے نبی کریم ی لا لال اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کمتر درجہ پر ہیں.بلکہ اس سے تو ان کے اعلیٰ مدارج کا پتہ لگتا ہے آنحضرت کی افضلیت کا ثبوت چونکہ درود شریف پڑھنا ایک نیک کام ہے.اور یہ ایک حکم ہے کہ جو کوئی نیکی سکھاتا ہے تو اس کو بھی اسی قدر ثواب پہنچتا ہے.جس قدر کہ سیکھ کر عمل کرنے والے کو.اس لئے دنیا میں جس قدر لوگ نمازیں پڑھتے ہیں.اور عبادتیں کرتے ہیں.ان سب کا ثواب ہمارے نبی کریم کو بھی پہنچتا ہے اور ہر وقت پہنچتا ہے.کیونکہ زمین گول ہے اگر ایک جگہ فجر ہے تو ۲۶۵ رساله درود شریف دوسری جگہ عشا ہے.ایک جگہ اگر عشا ہے تو دوسری جگہ شام ہے.ایسے ہی اگر ایک جگہ ظہر کا وقت ہے تو دوسری جگہ عصر کا وقت ہو گا.غرض ہر گھڑی اور ہر وقت ہمارے نبی کریم ملی کو ثواب پہنچتا رہتا ہے.دنیا میں کروڑ در کروڑ رکوع اور سجود کرتے.اور درود پڑھتے اور دوسری دعائیں مانگتے ہیں.اور پھر اس کے علاوہ دوسرے احکام پر چلتے، روزے رکھتے زکوتیں ادا کرتے ہیں.اس لئے ماننا پڑے گا کہ ہر آن میں محمد رسول اللہ م کو بھی ان عبادات کا ثواب پہنچتا رہتا ہے.کیونکہ اسی نے تو یہ باتیں سکھائی ہیں.کہ تم لوگ نمازیں پڑھو ، زکو تیں دو اور مجھ پر درود بھیجو.اور پھر محمد رسول الله الا الا السلام کی اپنی روح جو دعائیں مانگتی ہوگی وہ ان کے علاوہ ہیں.اب تم سوچ سکتے ہو.کہ جب سے مسلمان شروع ہوئے اور جب تک رہیں گے ان سب کی عبادتیں ہمارے نبی کریم کے نامہ اعمال میں بھی ہونی چاہئیں.اس لئے ماننا پڑے گا کہ وہ دنیا کی کل مخلوقات کا سردار ہے کیونکہ اس کے اعمال تمام دنیا سے بڑھے ہوئے ہیں.کیونکہ جو کوئی مسلمان نیکی کرے گا.وہ محمد رسول اللہ میں اس کے نامہ اعمال میں ضرور لکھی جائے گی.اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ تمام رسولوں، نبیوں اور اولیاء کا بھی سردار ہے.کیونکہ دنیا میں جس قدر رسول گزرے ہیں.ان کی امتیں ان کے لئے دعائیں نہیں کرتیں.مگر ہمارے نبی کریم میل کے لئے آپ کی امت دن رات دعائیں مانگتی رہتی ہے.اور ہمارے نبی کریم ملی کا تمام نبیوں اور تمام مخلوق سے بڑھ کر ہونے کا یہ ایک ثبوت ہے" الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴ پرچه مورخه ۱۴ جنوری ۱۹۰۸ء)
ر ساله درود شریف درود شریف کی برکت سے زیارت نبوی ایک دفعہ حضرت خواجہ غلام فرید صاحب مرحوم سجادہ نشین چاچڑاں نے حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ کو زیارت نبوی کے لئے دردہ شریف کے کچھ خاص الفاظ بنائے تھے.جن کے پڑھنے سے پہلی ہی رات حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ کو آنحضرت عمر کی زیارت ہوئی.حضرت ممدوح اس واقعہ کا علی العموم ذکر فرمایا کرتے تھے.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں بھی اس کا ذکر کیا.چنانچہ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ایک مکتوب بنام خواجہ صاحب ممدوح میں فرماتے ہیں (یہ خط حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب سراج منیر کے ضمیمہ میں بھی درج ہے.اور وہیں سے یہ حوالہ نقل کیا جاتا ہے).از مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین و صاجزادہ محمد سراج الحق جمالی السلام علیکم.مولوی صاحب بذکر خیر آن مکرم اکثر رطب اللسان مے مانند.عجب کہ اوشان در اندک صحبتے دلی محبت د اخلاص به آن مکرم چند بار این خارق امر ازاں مخدوم ذکر کرده اند که مرا یک درود شریف برائے خواندن ارشاد فرمودند که ازیں زیارت حضرت نبوی می خواهد شد.چنانچہ ہماں شب مشرف به زیارت شدم.والسلام الراقم خاکسار غلام احمد از قادیان" ترجمہ.مکرمی اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب اور پیر سراج الحق صاحب ۲۶۷ رساله درود شریف کی طرف سے آپ کو السلام علیکم.مولوی صاحب موصوف علی العموم آپ کا ذکر خیر کرتے رہتے ہیں.یہ عجیب بات ہے کہ تھوڑی سی ہم نشینی اور ملاقات کے نتیجہ میں ان کے دل میں آپ سے بہت ہی محبت اور اخلاص جاگزیں ہو گیا ہے.انہوں نے متعدد مرتبہ آپ کی اس کرامت کا ذکر کیا ہے کہ آپ نے انہیں ایک درود شریف بتایا اور کہا کہ اس کے پڑھنے سے آنحضرت کی زیارت نصیب ہو گی.چنانچہ پہلی ہی رات اس درود شریف کی برکت سے وہ آنحضرت میر کی زیارت سے مشرف ہو گئے.لو و السلام خاکسار غلام احمد از قادیان (بدر جلد ۳/۱۴) نوٹ: ایک دفعہ ایک صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں یکھنے کا بہت خواہش مند ہوں.آپ نے فرمایا: " آپ درود شریف بہت پڑھا کریں".(بدر جلد ۳ نمبر (۱۴) ا.اس درود شریف کے الفاظ یہ تھے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ تَعَيَّنِكَ الْأَقْدَمِ وَالْمَظْهَرِ الْاتَم الإشمِكَ الْأَعْظَمِ بِعَدَدِ تَجَلَّيَاتِ ذَاتِكَ وَ تَعَيَّنَاتِ صفَاتِكَ وَعَلَى آلِهِ كَذلِكَ - (از مولانا اختراوچی) ترجمہ : اے اللہ ! آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جو تیری ذات کے سب سے پہلے جلوہ گاہ اور تیرے اسم اعظم کے سب سے کامل مظہر ہیں، اس قدر درود بھیج کہ جس قدر تیری ذات کی تجلیات اور تیری صفات کے مظاہر ہیں.اور اسی طرح آپ کی آل پر بھی.(خاکسار مرتب رسالہ)
ر ساله درود شریف ۲۶۹ رساله درود شریف درود شریف کے متعلق حضرت خلیفۃ اصحیح ثانی ایدہ اللہ امام کی انتظار میں جو وقت مسجد میں گذرتا ہے.اس کو رائیگاں نہیں گزارنا تعالیٰ کے ارشادات ذکر الہی اور درود شریف کی تاکید اور درود کی حقیقت) ذکر الہی کی تاکید جماعت کو چاہئے کہ ذکر الہی میں بھی اپنے اوقات خرچ کرے.تا اس کا قلب خدا کی صفات کا جلوہ گاہ بن جائے.اور اس کے انوار کا اس پر نزول شروع ہو جائے.جب انسان ذکر الہی سے اپنے دل کی کیفیت کو بدل ڈالے تو اس کا وہ مقصد پورا ہو جاتا ہے.جس کے لئے اسے دنیا میں بھیجا گیا.پس میں پھر جماعت سے کہتا ہوں کہ وہ نماز کے علاوہ ذکر الہی بھی کرے.ذکر الہی کا بہترین موقع اگرچہ ذکر الہی کے لئے کوئی خاص وقت مقرر نہیں.جس وقت بھی انسان چاہے ذکر الہی کر سکتا.لیکن اس کے لئے بہترین وقت مسجد میں اگر امام کی انتظار کرنے کا وقت ہے.کیونکہ ایک تو اس سے مسجد میں آکر ادھر ادھر کی باتوں سے انسان بچا رہتا ہے.دوسرے یہ وقت فرصت کا ہوتا ہے.خواہ کوئی زمیندار ہو یا تاجر.ملازم ہو یا پیشہ ور وہ سمجھتا ہے کہ یہ فارغ وقت ہے.اور جب تک نماز نہیں ہو لیتی ، میں مسجد سے نہیں جا سکتا.پس وہ اس خالی وقت میں اچھی طرح ذکر الہی کر سکتا ہے.اور اگر اس کو ضائع نہ کرنے اور اس میں ذکر الہی کرنے کی عادت ڈالے تو قلب میں بہت بڑی اصلاح ہو جاتی ہے.اور پھر انوار الہی کا نزول شروع ہو جاتا ہے.پس چاہئے بلکہ اس میں ذکر الہی کرنا چاہیے.کیونکہ ذکر الہی ایک ایسی چیز ہے جس سے مومن کا آئینہ دل صاف ہو جاتا ہے جس میں وہ خدا کی شکل کو دیکھتا ہے اور انوار الہی کا صبط بن جاتا ہے.تسبیح و تحمید پھر ذکروں میں سے بعض ذکر ایسے ہیں جو زیادہ مفید ہیں اور جلد ہی ایک شخص کے دل کو پاک اور انوار الہی کا صبط اور نزول گاہ بنا دیتے ہیں.ان ذکروں میں سے خصوصیت کے ساتھ تسبیح و تحمید ہے.اس سے انسان جلدی ترقی کرنی شروع کر دیتا ہے.منعم علیہ گروہ کے نمونہ پر چلنے کی ہدایت دنیا میں ہر ایک شخص جو بات حاصل کرتا ہے، عام طور پر سامنے نمونہ رکھ کر حاصل کرتا ہے.پھر اس کے ساتھ ایک اور فرض بھی ہے.جو انسان کے ذمہ ہے.اور وہ اس غرض کو حاصل کرنا ہے جس کے لئے وہ دنیا میں بھیجا گیا ہے.مگر یہ غرض حاصل نہیں ہو سکتی جب تک انسان ویسے عمل نہ کرے جو اس غرض کو حاصل کرانے والے ہیں.اور چونکہ انسان اکثر نمونہ دیکھ کر کچھ حاصل کرتا ہے اس لئے اس غرض کو حاصل کرنے کے لئے بھی وہ بعض ایسے لوگوں کے اعمال سامنے رکھ لیتا ہے جنہوں نے اس غرض کو حاصل کر لیا ہو.پھر جب وہ ان پر عمل پیرا ہو تو اس غرض کو حاصل کر لیتا ہے جس کے لئے وہ دنیا میں بھیجا گیا ہے.پس ہماری جماعت کو بھی اس غرض کے حصول
رساله درود شریف ۲۷۰ کے لئے منعم علیہ لوگوں کے اعمال کا نمونہ اپنانا چاہئے.تاکہ ان کا دل بھی ایسا ہو جائے کہ خدا کی صفات اس پر جلوہ گر ہوں.اور اپنی پیدائش کی غرض کو پالیں.تسبیح و تحمید انسان کے دل کو ایسا بنا دیتی ہے.اور وہ غرض جو کہ انسان کے دنیا میں آنے کی ہے، اس کے ذریعہ سے پوری ہو جاتی ہے.کیونکہ جب ایک شخص خدا کی تسبیح و تحمید کرتا ہے تو دونوں باتیں اس کے سامنے آجاتی ہیں.جب ہم کہتے ہیں کہ خدا پاک ہے تو ہمیں بھی پاک بننے کا خیال آتا ہے.کیونکہ اس کے بغیر ہم اس کو پا نہیں سکتے.اور چونکہ وہ پاک ہے اور اس کے پانے کے لئے پاک ہونا چاہئے.اس لئے ہم اگر اس کو پانا چاہیں تو ہمیں پاک ہونا چاہئے.اس لئے جب ہم خدا کو پاک کہتے ہیں تو ہمیں بھی پاک ہونے کا خیال ہوتا ہے.اسی طرح جب ہم تحمید کریں گے تو بہترین نمونه صفات الہیہ کا ہمارے سامنے آجائے گا.اور خدا تعالیٰ کی صفات کے نمونہ کو دیکھ کر ہمیں خیال پیدا ہو گا کہ ہم میں بھی یہ صفات پیدا ہوں.نیز پھر اس سے یہ خیال پیدا ہو گا کہ ہمیں اپنے عیوب دور کرنے چاہئیں.اور بجائے ان کے اپنے اندر خوبیاں پیدا کرنی چاہئیں.ان دونوں صورتوں میں تسبیح و تحمید مفید ہو گی.استغفار دوسرا خاص ذکر الہی استغفار ہے.اس میں بظاہر ایک شخص اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے لیکن در حقیقت اس میں بھی خدا کی صفات مینی کا ذکر رہتا ہے.کبھی نہیں دیکھو گے کہ ایک شخص وکیل سے جا کر کہے کہ مجھے فلاں مرض ہے اس کے لئے نسخہ لکھد بیجئے.اسی طرح کبھی نہیں دیکھو گے کہ رساله درود شریف ایک شخص ڈاکٹر کے پاس جائے اور اپنا مقدمہ بیان کر کے اس سے کہے کہ اس کے متعلق مشورہ دیجئے.کیوں؟ اس لئے کہ انسان کا خاصہ ہے کہ وہ اسی کے پاس جاتا ہے جس سے اسے امید ہو کہ میرا فلاں کام کر سکتا ہے.ایک وکیل چونکہ نسخہ نہیں لکھ سکتا.اس لئے وہ اس کے پاس اس غرض کے لئے نہیں جاتا.بلکہ ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ڈاکٹر نسخہ لکھ سکتا ہے پس جب ہم کہتے ہیں کہ اے خدا ہمیں معاف فرما.تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ وہ غفور ہے، رحیم ہے، علیم ہے، اور وہ معاف کرتا ہے.پس استغفار بھی ذکر الہی ہے.اور ایسا ذکر الہی ہے کہ اسے کثرت سے کرنا چاہئے.کیونکہ انسان بغیر خدا کی مدد و نصرت کے کچھ کر نہیں سکتا.اور نہ ہی بغیر اس کے اسے کچھ مل سکتا ہے.پھر استغفار میں اپنی غلطیوں کی معافی بھی ہوتی ہے اور خدا کی مدد و نصرت بھی ملتی ہے.پس استغفار میں یہ دونوں باتیں ہیں کہ انسان اپنی غلطیوں کا اقرار بھی کرتا ہے جس سے اسے معافی ملتی ہے اور مدد و نصرت حاصل ہوتی ہے.اور صفات الہی کو بھی سامنے لاتا ہے درود شریف کے متعلق جماعت کو تاکید اس کے علاوہ درود ہے.درود سے بھی انسان روحانی ترقی کرتا اور روحانی فوائد پاتا ہے.ہماری جماعت کو چاہئے کہ خصوصیت کے ساتھ درود کی کثرت کو اپنے لئے لازم کریں.اور مسجد میں آکر بالضرور آنحضرت م پر درود پڑھنا چاہئے.
رساله درود شریف درود کی حقیقت ۲۷۲ ورود دراصل اس احسان کا اقرار ہے کہ جو آنحضرت میا نے ہم پر کیا.اور احسان کا اقرار انسان کے لئے از حد ضروری ہے.کبھی کسی شخص کے اعمال میں پاکیزگی نہیں پیدا ہو سکتی.جب تک وہ اپنے احسان کرنے والے کا احسان مند نہیں ہوتا.کیونکہ اتمام صفائی اعمال میں احسان مندی سے بیج بڑھتا بڑھتا ان کو منافق بنا گیا.درود میں کیا دعا کی جاتی ہے ۲۷۳ رساله درود شریف پس رسول اللہ مین ایم کے احسانوں کو یاد کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حضور میں کہنا چاہئے.کہ ہم تو ان کا کچھ بدلہ نہیں دے سکتے.تو ہی ان کا عوض رسول کریم میر کو دے.اور اس کا اجر آپ کو عطا فرما.یہی درود ہی پیدا ہوتی ہے.اس لئے ہمارے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم کثرت کا مطلب ہے.پس چاہئے کہ اس کی کثرت اختیار کی جائے.اور اس کے ذریعہ سے اپنی احسان مندی کو بہترین صورت میں ظاہر کیا جائے.“ سے درود پڑھیں.تاکہ ہم آنحضرت امی کے احسانوں کے لئے آپ کے احسان مند ہوں.اور پھر ہمارے اعمال میں بھی پاکیزگی اور صفائی پیدا ہو.ناشکری کے بد نتائج جو شخص اپنے محسن کا احسان مند نہیں ہوتا وہ فتنہ وفساد کا بیج ہوتا ہے کیونکہ نا احسانمندی اور ناشکر گزاری ہمیشہ فساد اور جھگڑا پیدا کرتی ہے.غور کر کے دیکھ لو.جتنی لڑائیاں اور جھگڑے پیدا ہوتے ہیں وہ نا احسان مندی سے ہی ہوتے ہیں.پس ہمیں احسان فراموش نہیں بننا چاہئے.آنحضرت کے بیشمار احسان ہم پر ہیں.ہمیں ان کو یاد رکھنا چاہئے اور ان کا اقرار کرتے رہنا چاہئے.آنحضرت میاں جب مدینہ تشریف لے گئے تو درود پڑھنے میں اپنا فائدہ پھر یہی نہیں کہ درود میں صرف احسان کا اقرار یا شکریہ ہی ہے بلکہ اس میں ہمارا بھی فائدہ ہے.اور اس فائدے کو اگر الگ بھی کر دیا جائے جو اقرار احسان سے حاصل ہوتا ہے تو بھی درود ہمارے فائدے کی چیز ہے.کیا ہم درود میں یہ نہیں کہتے کہ اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ.پھر کیا ہم خود آل میں شامل نہیں.یقینا ہم بھی آل میں شامل ہیں.اور اس صورت میں درود نہ صرف آنحضرت میم کے احسانوں کا اقرار ہے.بلکہ اپنے لئے بھی ایک دعا ہے.مدینہ کے بعض لوگوں نے اس سے برا منایا.حالانکہ آپ کے بہت سے تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے احسان ان پر تھے مگر ان لوگوں نے ناشکری کی.اور طعن وغیرہ کرنے شروع کر دئیے.اگر چہ بعض ان میں دبی زبان سے کرتے تھے.مگر ایسے لوگوں نے بھی آپ کے احسانوں کی ناشکری ضرور کی.جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ ناشکری کا پھر ہم درود میں اور دعاؤں میں رسول کریم میں اللہ کے لئے یہ دعا تو نہیں کرتے کہ یا الہی تو ان کو جائداد دے.باغ دے.زمین دے.مکان دے.
رساله درود شریف ۲۷۴ ۲۷۵ رساله درود شریف دولت دے.یہ چیزیں تو آنحضرت رت عالم نے اس دنیا میں جمع نہ کیں.پھر اس صدا کا ماں پر بہت اثر ہوتا ہے جب ماں یہ آواز سنتی ہے تو دوڑی آتی وہاں آپ کو ان کی کیا ضرورت ہے.جب دنیا میں جہاں سے ان چیزوں کا ہے اور فقیر کو خیرات دیتی ہے.دیکھو اس آواز کے سنتے ہی جو اس کے تعلق ہے.آپ نے ان کی پروا نہیں کی.آپ نے مال نہیں جمع کیا.جائداد پیارے بچے کے لئے ایک دعا ہوتی ہے وہ کس طرح دوڑی آتی ہے.اسی نہیں بنائی.باغ نہیں لگائے.محل نہیں تیار کئے.تو اگلے جہان میں آپ کو طرح درود پڑھنے والے شخص کے متعلق جب خدا دیکھتا ہے کہ اس نے اس ان کی کیا احتیاج ہو سکتی ہے.کے پیارے کے لئے دعا کی ہے.تو کہتا ہے تو نے میرے پیارے کے لئے دعا ہم اگر آپ کے لئے دعا کرتے ہیں تو یہی کہ آپ کے روحانی مدارج میں کی آ میں تیری دعا بھی قبول کرتا ہوں...ہم مسجدوں میں جب آئیں تب ترقی ہو.خدا آپ کو اور بھی ترقی دے.اور یہ صاف بات ہے کہ جب آپ بھی درود پڑھیں.اور گھروں میں جب جائیں.تب بھی آنحضرت می پر روحانیت میں ترقی کریں گے تو امت بھی آپ کے ساتھ ترقی کرے گی.درود پڑھیں".(الفضل جلد ۱۳ نمبر ۶۸ پر چه اا د سمبر ۱۹۲۵ء) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.ع تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے پس جوں جوں آنحضرت میں آگے بڑھیں گے.توں توں ہم بھی بڑھیں گے.اس لئے درود نہ صرف آپ کے مدارج بڑھنے کے لئے ہے.بلکہ ہمارے لئے بھی ہے.درود اجابت دعا کی کلید ہے دعا سے قبل درود شریف پڑھنے کی ہدایت دعا کرنے سے پہلے آنحضرت می پر درود بھیجیں.رسول کریم وہ انسان ہیں جو خدا تعالیٰ کے حضور تمام بنی نوع انسان سے زیادہ مقبول ہیں.خواہ وہ آپ سے پہلے گزرے یا بعد میں آئے یا آئیں گے.ہر ایک انسان کی نظر میں اس کا استاد یا اس کے خاندان کا بزرگ بڑا ہوتا ہے مگر ہم کو جس انسان سے اس زمانہ میں نور ملا ہے ہم اس کو بھی مستثنیٰ کا مقام اعلی وارفع ہے.اور آپ ایک ایسے مقام پر ہیں کہ گویا سب پھر درود سے ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ جو شخص درود کثرت سے پڑھتا نہیں کرتے.اور علی الاعلان کہتے ہیں کہ سب انسانوں کی نسبت آنحضرت ہے اس کی دعائیں کثرت سے قبول ہوتی ہیں.دنیا میں یہ طریق ہے کہ اگر کسی سے کچھ کام کرانا ہوتا ہے تو اس کی پیاری چیز سے پیار کیا جاتا ہے.کسی سے علیحدہ ہو کر ایک اکیلے نظر آتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے کلمہ عورت سے اگر کوئی کام کرانا ہو تو اس کے بچے سے محبت کرو.پھر دیکھو وہ توحید کے ساتھ آپ کا نام بھی رکھ دیا ہے.ایسے انسان کی نسبت جو درود کیسی مہربان ہوتی ہے.فقیر بھی جب خیرات لینے کے لئے دروازہ پر جاتا ہے بھیج کر خدا تعالیٰ سے برکات چاہے ، خدا تعالیٰ کی رحمت جوش میں آکر اس پر تو یہ صدا کرتا ہے ”مائی تیرے بچے جیئیں".کیونکہ فقیر بھی جانتے ہیں کہ فضل کرنا شروع کر دیتی ہے.خدا تعالیٰ نے آنحضرت میم کو تمام انعامات
رساله درود شریف ۲۷۶ رساله درود شریف کا وارث کرنے اور سب سے بڑارتبہ عطا کرنے کے لئے اس طریق سے بھی السلام کے متعلق دو قسم کی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں.ایک تو ذاتی مثلا یہ کہ کام لیا ہے کہ جو لوگ آنحضرت اما م پر درود بھیج کر دعا کریں گے.ان کی دعائیں زیادہ قبول ہوں گی." (رسالہ قبولیت دعا کے طریق) رود شریف کی تاکید اور درود کا مطلب رسول کریم میں نے ہی ہمیں خدا کے قرب کا راستہ بتایا ہے اس ابراہیم حلیم ہے اواب ہے ، صدیق ہے خدا کا مقرب ہے.ان فضیلتوں کے لحاظ سے لازماً ماننا پڑے گا کہ رسول کریم ملی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بڑھ کر تھے.ورنہ آپ خاتم النبیین اور سید ولد آدم نہیں ہو سکتے.مگر ایک چیز حضرت ابراہیم علیہ السلام میں ایسی پائی جاتی ہے جو ان کی ذاتی خوبی نہیں بلکہ ان کی قوم کی فضیلت ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا.ہے لئے ہمارا فرض ہے کہ جس قدر آپ کا شکریہ ادا کر سکیں کریں.اور اس کا وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ کہ ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہی طریق یہ ہے کہ ہم آپ کے لئے کثرت سے درود پڑھیں.درود کا مطلب نیہ نبوت نہیں دی تھی.بلکہ اس کی ذریت کو بھی بڑا درجہ دیا تھا، اس میں نبوت ہے کہ خدا تعالیٰ آپ کے مدارج عالیہ کو اور ترقی دے.اور یہ رسول کریم رکھدی تھی.یہ وہ فضیلت ہے جو حضرت ابراہیم کی نسل کو خاص طور پر سوال کے احسان کا بدلہ ہے جو آپ نے ہر مومن پر کیا".الفضل جلد ۲۲ نمبر ۵ پر چه ۱۰ جولائی ۱۹۳۴) درود شریف کے الفاظ كَمَا صَلَّیت کی تفسیر رسول کریم میل کا درجہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بڑا ہے.ایک بڑے درجہ والے کے لئے یہ دعا کرنا کہ اسے وہ کچھ ملے جو اس سے چھوٹے درجہ والے کو ملا.اور نہ صرف ایک دفعہ بلکہ یہ دعا کرتے ہی چلے جانا اور قیامت تک کرتے چلے جانا.یہ ایک معمے اور چیستان ہے.جواب قرآن کریم کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں حضرت ابراہیم علیہ حاصل ہوئی.کہ اس میں نبوت رکھی گئی.اس کے ساتھ ہی ہم ایک اور بات دیکھتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم نے خدا تعالیٰ سے دعا مانگی تھی.کہ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةٌ لَّكَ (البقره : ۱۲۹) کہ میری اور اسماعیل کی اولاد سے امت مسلمہ پیدا کر دے.اب دیکھو حضرت ابراہیم علیہ السلام تو یہ دعا مانگتے ہیں کہ ان کو امت مسلمہ ملے.مگر خدا تعالی اس دعا کو اس رنگ میں قبول کرتا ہے کہ ہم نبیوں کی جماعت پیدا کریں گے گویا حضرت ابراہیم نے خدا تعالیٰ سے جو مانگا اس سے بڑھ کر خدا تعالیٰ نے دیا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ سلوک تھا کہ آپ نے جو مانگا خدا تعالیٰ نے اس سے بڑھ کر دیا.سوائے اس کے جو اس کی سنت اور قضا کے معاملہ میں آکر ٹکرانے والا تھا.ایسے موقعہ پر بے شک انکار کر دیا.ورنہ ان سے یہ معاملہ ہوا کہ انہوں نے مانگے مسلم اور ملے
رساله درود شریف نبی.۲۷۹ رساله ورود جب رسول کریم ما عرفان میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بڑھے ہوئے تھے.تو یقینی بات ہے کہ آپ کی دعائیں بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام درود میں یہ دعا کہ جو کچھ آنحضرت نے مانگا اس سے بڑھ کر آپ کو دیا جائے کی دعاؤں سے بڑھی ہوئی ہونگی.اب یہی بات رسول کریم کے متعلق سمجھو.اور درود کے یہ درود میں دعا کہ جو کچھ حضرت ابراہیم کو دیا گیا اس سے بہت بڑھ معنے کرو.کہ خدایا جو معاملہ تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کیا، وہی محمد کر آنحضرت کو دیا جائے سے کرنا.یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو مانگا اس سے بڑھ کر صلی تعالی د دوم ان کو دیا ، اسی طرح محمد رسول الله ما لم نے جو مانگا.اس سے بڑھ کر ان کو پس درود میں جو دعا مانگی جاتی ہے اس کا صحیح مطلب یہ ہوا کہ الہی حضرت ابراہیم نے آپ سے جو مانگا انہیں آپ نے اس سے بڑھ کر دیا.اب محمد نے جو مانگا انہیں بھی مانگنے سے بڑھ کر عطا کیجئے.دوسرے لفظوں.میں اسکے یہ معنی ہوئے کہ جو کچھ حضرت ابراہیم کو ملا محمد میر کو اس سے درجہ کے لحاظ سے حضرت ابراہیم کی دعا میں اور آنحضرت کی دعا میں فرق اب درجہ کے لحاظ سے فرق یہ ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے عرفان کے مطابق اللہ تعالٰی سے دعائیں کیں.اور رسول کریم ملی نے اپنے عرفان کے مطابق.کیونکہ جتنی جتنی معرفت ہوتی ہے اس کے مطابق مطالبہ کیا جاتا ہے.ایک چھوٹا بچہ چیچی مانگتا ہے لیکن جب ذرا بڑا ہوتا ہے تو مٹھائی مانگنے لگتا ہے.جب جوان ہونے پر آتا ہے تو اچھے کپڑے طلب کرتا ہے.جوان ہو کر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ماں باپ اس کی کسی اچھی صلی می روم بڑھ کر دیا جائے.اور وہ چیز جس کے لئے حضرت ابراہیم سے بڑھ کر رسول کریم کو دینے کی دعا کی گئی ہے ، یہی ہے کہ حضرت ابراہیم نے امت مسلمہ مانگی.ان کی نسل میں نبوت قائم کر دی گئی.رسول کریم میں نے الله الر اپنی امت کے لئے ان سے بڑھ کر دعا کی.اس لئے آپ کی امت کو ان کی امت سے بڑھ کر نعمت دی جائے.اس نکتہ کو مد نظر رکھتے ہوئے درود کو دیکھو تو معلوم ہو سکتا ہے کہ کتنی عظیم الشان مدارج کے حصول کے لئے اس میں دعا سکھائی گئی ہے.درود میں دراصل اپنے لئے ہی دعا کی جاتی ہے جگہ شادی کریں.پھر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اسے جائداد کا حصہ دے دیا جائے.غرض جوں جوں عرفان بڑھتا ہے، مطالبہ بھی بڑھتا جاتا ہے اسی طرح جتنا کسی کا خدا تعالیٰ کے متعلق عرفان ہوتا ہے اسی کے مطابق وہ دعا کرتا ہے.الله اور جب ہم درود پڑھتے ہیں تو رسول کریم ملی و پر احسان نہیں کر رہے ہوتے.بلکہ اپنے لئے دعا کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ اس میں رسول
رساله درود شریف ۲۸۰ کریم ملی علیم کیلئے نہیں کر رہے ہوتے.بلکہ اپنے لئے دعا کر رہے ہوتے ہیں.کیونکہ اس میں رسول کریم امام اہل علم کی امت کی ترقی کی دعا ہے.اور اتنی جامع دعا ہے.کہ اس سے بڑھ کر خیال میں بھی نہیں آسکتی.اس میں یہ سکھایا گیا ہے کہ وہ رحمتیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ سے نازل ہو ئیں.ان سے بڑھ کر رسول کریم میں اہلیہ کے ذریعہ سے نازل کی جائیں.یعنی جس طرح ان کو مانگنے سے بڑھ کر دیا گیا.اسی طرح رسول کریم می ایم نے جو کچھ مانگا اس سے بڑھ کر آپ کو دیا جائے.آنحضرت کی دعا کی وسعت چونکہ وسعت فیض کے لحاظ سے رسول کریم میل کی دعائیں بڑھی ہوئی تھیں.اس لئے ان سے بڑھ کر دینے کا یہ مطلب ہوا.کہ آپ کی شان سب سے بڑھی ہوئی تھی.دیکھو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواہش کی کہ ایک بچہ ملے جو نسل چلائے.مگر خدا تعالیٰ نے اس کے مقابلہ میں فرمایا میں تیری نسل کو اتنا بڑھاؤں گا کہ جس طرح آسمان کے ستارے گنے نہیں جاتے.اسی طرح وہ بھی گئی نہ جائے گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.رسول کریم نے ایک بچہ نہ مانگا.بلکہ یہ فرمایا انتى مُكَاثِرُ تِكُمُ الْأُمَم کہ میں اپنی امت کی کثرت پر فخر کرونگا.اس وجہ سے خدا تعالیٰ نے آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی زیادہ امت دی.پس درود کی دعا کا یہ مطلب ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم کی دعائیں ان کی امت کے متعلق اس سے بڑھ کر قبول ہو ئیں جس قدر کہ کی گئی تھیں.اسی طرح امت محمدیہ کو کیفیت اور کمیت کے لحاظ سے ان دعاؤں سے بڑھ کر دیا جائے جو رسول کریم نے کی ہیں.۲۸۱ رساله درود شریف امت کے حق میں دعا کو درود میں رکھنے کی حکمت اب یہ سوال ہو سکتا ہے کہ اس کے لئے درود کیوں رکھا.مسلمان یہ دعائیں کر سکتے تھے.کہ جو کچھ پہلی امتوں کو ملا اس سے بڑھ کر انہیں دیا جائے.میرے نزدیک درود کے ذریعے دعا سکھانے میں بہت بڑی حکمت ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کو یہ دھوکا لگنے والا تھا.کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی امت کو جو کچھ ملا.وہ محمد عالم کی ذریت کو نہیں مل سکتا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق تو خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ ہم تمہاری ذریت میں نبوت رکھتے ہیں.مگر مسلمانوں نے یہ دھوکا کھانا تھا کہ امت محمدیہ اس نعمت سے محروم کر دی گئی ہے.اور اس طرح رسول کریم میر کی تک ہوتی تھی.اس لئے یہ دعا سکھائی گئی کہ جو کچھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی امت کو ملا اس سے بڑھ کر رسول کریم ما کی امت کو ملے.اور اس میں نبوت بھی آگئی.پس جب کوئی مسلمان درود کی دعا پڑھتا ہے تو گویا یہ کہتا ہے کہ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النبوة کا جو انعام حضرت ابراہیم پر ہوا تھا وہ محمد م پر بھی ہو.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی چونکہ جسمانی ذریت بھی تھی.اور رسول کریم اللہ کا کوئی جسمانی بیٹا نہ تھا.اس لئے خیال کیا جا سکتا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جو وعدہ کیا گیا وہ یہاں پورا نہ ہو گا.اس خیال کو دور کرنے کے لئے درود کے ذریعہ سے یہ بتایا گیا.کہ اے مسلمانو! تم ہی محمد میں کی ذریت ہو، تمہیں یہ انعام دیا جا سکتا ہے.
رساله درود شریف ۲۸۲ آنحضرت سے قبل ابراہیمی ملت میں آنیوالے تمام انبیاء سے بڑھ کر عظیم الشان نبی امت محمدیہ میں پس درود میں یہ دعا کی جاتی ہے کہ جو کچھ حضرت ابراہیم کی امت کو دیا گیا، اس سے بڑھ کر ہمیں دے.اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ رسول کریم کی امت میں جو نبی آئے ، وہ ابراہیمی سلسلہ کے نبیوں سے بڑھ کر اللہ تک ہو.کے امت محمد محمدیہ میں آنے والے نبی کا جسمانی اولاد میں سے نہ ہونے باوجود سابقہ انبیاء سلسلہ ابراہیمی سے بڑھ کر ہونا آنحضرت کی عظمت کا ایک ثبوت ہے ہاں ان میں یہ بھی فرق ہو گا کہ رسول کریم کی روحانی ذریت میں نبوت رکھی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جسمانی ذریت میں.اس میں بھی رسول کریم میں اللہ کا کمال ظاہر ہوتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ اگر مومن سے کسی کو جسمانی رشتہ ہو.تو اس کا بھی لحاظ رکھا جاتا ہے.اس وجہ سے حضرت ابراہیم کی نسل کو جو نبوت ملی ، اس میں جسمانی رشتہ کا بھی لحاظ رکھا گیا تھا.مگر رسول کریم ملی کی امت پر جو فیض ہوا وہ صرف روحانی تعلق کی وجہ سے اور روحانیت میں کمال حاصل کرنے کے باعث ہوا.درود میں امت محمدیہ کی حوصلہ افزائی پس درود مسلمانون کو یہ بتانے کے لئے ہے کہ تمہارے اندر ان فیوض ۲۸۳ ر ساله درود شریف سے بڑھ کر جو حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی امت پر ہوئے جاری رہیں گے.اور یہ دعا مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کے لئے تھی.کہ تمہیں وہ کچھ ملنا ہے جو مانگنے سے بڑھ کر ہو گا.کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق ایسا ہی ہوا.اس دعا کی جامعیت رسول کریم میں سے بڑھ کر عرفان کس کو ہو سکتا ہے، اور آپ نے اپنی امت کے لئے کیا کیا دعائیں نہ کی ہونگی.مگر باوجود اس کے خدا تعالیٰ آپ کی امت سے یہ دعا کراتا ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو ان کے مانگنے سے بڑھ کر دیا گیا.اسی طرح رسول کریم میں ہم نے جو دعائیں کیں، ان سے بڑھ کر دیا جائے.یہ کیسی جامع دعا ہے ، اس سے بڑھ کر کوئی کیا مانگ سکتا ہے.یہی وجہ ہے کہ صوفیاء کہتے چلے آئے ہیں کہ روحانی ترقی کا گر درود ہے.درود انسان کی اپنی روحانی ترقی کا ذریعہ ہے یہ سن کر نادان کہتے ہیں کہ محمد م کے لئے رحمت و برکت درود میں مانگی جاتی ہے، اپنے لئے اس میں کیا ہے کہ اس کے ذریعہ سے روحانی ترقی ہو سکتی ہے.مگر درود دراصل اپنے ہی لئے دعا ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نسبت دیگر اس دعا کی وسعت اور جامعیت کو اور زیادہ بڑھا دیا گیا ہے.پس درود بہترین دعا ہے اور اس پر جتنا زور دیا جائے.اتنا ہی تھوڑا ہے.میں سمجھتا ہوں اس نکتہ کو یاد رکھ کر اگر کوئی درود پڑھے گا.تو اسے
رساله درود شریف ۲۸۵ رساله درود شریفه دعاؤں میں خاص لطف اور مزا آئے گا.کیونکہ اب پڑھنے والے کے لئے اس کے الفاظ کوئی چیستان اور معمے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ تک پہنچانے کے لئے کھلا ہوا راستہ ہے، غور و فکر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.ورنہ خدا اور رسول کی طرف سے جتنی باتیں سکھائی گئی ہیں ان میں بڑی بڑی انسان اپنی نادانی سے انہیں قابل اعتراض سمجھتا ہے.مگر وہ بڑی بڑی برکتیں اپنے اندر رکھتی ہیں".(الفضل ۱۳ جنوری ۱۹۲۸) اہیں نوٹ.ایک دوست نے 9 ستمبر ۳۴ء کو سید نا وامامنا حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ایده اللہ تعالی کی خدمت میں عرض کیا.کہ ملیریل اثر کے علاج اور اس سے بچنے کی تدابیر میڈیکل لحاظ سے قوت ارادی کے لحاظ سے اور روحانی اثرات کے ماتحت کیا ہیں.فرمایا :- ہے.(۱) غذا کی احتیاط.کونین کا استعمال (۲) آپ کی کوشش ہی آپ کا فرض ہے (۳) دعا ، درود تسبیح و تحمید " پس درود شریف جسمانی امراض اور ان کے بداثرات کا بھی ایک علاج درود شریف پر حضرت مسیح موعود کی موجودگی میں حضرت مولانا عبد الکریم صاحب کا خطبہ جمعہ اِنَّ اللهَ وَمَليكتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَايُّهَا الَّذِيْنَ امَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلّموا تسلیما ن اللہ تعالیٰ اور اس کے تَسْلِيمًا فرشتے اس نبی پر درود بھیجتے ہیں.اے ایمان والو تم بھی اس پر درود اور سلام ہ بھیجا کرو.ہمارے نبی کریم ملا مال او لیول کو اللہ تعالٰی نے بہت سی بزرگیاں اور خصوصیتیں عطا فرمائی ہیں.جن پر نظر کرنے سے یقیناً معلوم ہوتا ہے کہ اللہ جل شانہ نے اپنی مخلوقات میں سے جیسا اس عظیم الشان پاک انسان کو بنایا ہے کسی کے لئے ارادہ نہیں کیا کہ اس کی وہ عزت اور تکریم ہو جو آپ کی ہوئی ہے.آنحضرت مہ کے فضائل اور وجوہ اعزاز اس قدر ہیں کہ میں یقینا کہتا ہوں کہ کوئی دعوئی نہیں کر سکتا.کہ پورے طور پر ان کو گن سکے.صلی مالی روم منجملہ اور باتوں کے یہ کس قدر عظیم الشان بات ہے کہ آپ کا نام محمد واحمد رکھا گیا.جس قدر نام انبیاء کے قرآن میں ہیں یا تو رات میں مذکور ہوئے ہیں مع ان کے جن کو لَمْ نَقصض کے نیچے رکھا ہے، کسی نام کے ساتھ یہ نہیں پایا جاتا کہ ایسی ابدی زندگی عطا کی گئی ہو.تمام نبی جو آدم علیہ السلام سے لے کر آنحضرت میل تک ہوئے.اس دنیا سے الگ ہو گئے.دنیا کی کوئی کتاب اور نہ ان کی امتیں اور قومیں.غرض کوئی بھی ان کا نشان نہیں دے سکتا.اور ان کی زندگی کا پتہ نہیں دیتا.یہ قرآن کریم اور آنحضرت مللی کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے سب کو خدا کے راستباز اور برگزیدہ نبی تسلیم کر لیا.اور اسی کے طفیل سے وہ زندہ ہو گئے.اگر قرآن شریف نہ آیا ہوتا تو یقیناً مشکل کیا، ناممکن ہو تا ان کی نبوتوں کا ثابت کرنا.باوجود اس کے کہ قرآن شریف اور نبی کریم میم نے ان کو ایک زندگی بخشی ہے اور یہ عظیم الشان احیاء موتی ہے آنحضرت میں کا.جس نے ہزاروں سال کے مردوں کو زندہ کر دیا ہے) یہ بھی صحیح مسلم بات ہے کہ
رساله درود شریف ان انبیاء علیہم السلام میں سے اپنی خصوصیت ذاتی کے لحاظ سے کوئی زندہ نہیں.یہ زندگی اور ابدی زندگی آنحضرت میر کے سوا کسی کو نہیں ملی.جو اپنی خصوصیت ذاتی کے لحاظ سے زندہ جاوید ہیں.(نوٹ) آنحضرت کی ابدی زندگی کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ نمازوں میں ہمیشہ کے لئے السّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ کے الفاظ رکھے گئے.ورنہ آپ وصیت فرما دیتے کہ میرے بعد ایسا نہ کہا جائے.اور جو لوگ بعد میں ان الفاظ کی بجائے السلام علی النبی کہنے لگے تھے.ان کی یہ اجتہادی غلطی تھی.اور غالباً اسی کے ازالہ کے لئے حضرت عمر نے ایک خطبہ جمعہ میں لوگوں کو اصل الفاظ تشہد کی طرف توجہ دلائی تھی.وَاللهُ أَعْلَمُ بالصواب.(نوٹ از مرتب رساله ) جیسا کہ میں نے ابھی کہا آپ کی زندگی اور تعظیم و جلال کا سب سے بڑا نشان جو ابتدا سے انتہا تک فضیلت بتاتا ہے ، آپ کا نام مبارک ہے یعنی محمد واحمد.یہ دونوں نام ہمیشہ کی زندگی ، فضیلت اور اکرام پر دلالت کرتے ہیں.جو آنحضرت میاں ای میل کے لئے مخصوص ہے.محمد کا لفظ ظاہر کرتا ہے کہ آسمان پر بھی یہی مقدر ہوا اور زمین پر بھی یہی مقرر ہوا کہ آپ کی تعریف کی جاوے.اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ آپ میں ایک ابدی زندگی کا نشان موجود ہے کیونکہ اگر مثلا دو سو یا تین سو برس بعد آپ کا نشان مٹ جاتا تو محمد (صیغہ مبالغہ کا) موزون نہ ہوتا.لیکن اللہ کا رکھا ہوا نام ضروری تھا کہ ہر زمانہ میں زندہ رہتا.احمد کے لفظ میں بھی اسی کی طرف اشارہ ہے کہ جو طریقہ اور جو ذریعہ اللہ تعالی کی لاشریک محمد کا آپ لائے ہیں وہ بھی ابدی ہے اور جو ستائش اللہ ۲۸۷ رساله درود تعالی نے اس کے عوض میں آپ کی کی ، وہ بھی ابدی ہے.یہ چھوٹی سی بات نہیں.جس قدر نام نبیوں کے ہیں ان کو یاد کرو اور ان پر غور کرو کہ کیا کسی نام میں کوئی ایسی پیشگوئی ہے جیسی آنحضرت امی کے ناموں میں پائی جاتی ہے.اس طرح پر یہ بڑی عظیم الشان فضیلت ہے آپ کی کل مقربوں اور راستبازوں پر.پھر اس زندگی کے ماتحت عظیم الشان بات یہ ہے کہ آپ کے آثار موجود ہیں جیسے آپ کا دین محفوظ ہے، ویسے ہی آپ کی پیدائش کا مقام، سونے کا مقام ، لڑائی کی جگہ اور آخری آرام کرنے کی جگہ بھی بدستور محفوظ ہے.یہ چھوٹی سی بات نہیں کہ کتاب محفوظ مولد محفوظ مدفن محفوظ.یہ فضیلت ایسی فضیلت ہے کہ خدا پکار کر کہہ رہا ہے کہ لاریب آپ افضل الموجودات ہیں..- پھر منجملہ ان تمام باتوں کے جو آپ کی زندگی پر دلالت کرتی ہیں.خدا نے جو اپنے فضل سے چاہتا ہے کہ آپ ہمیشہ زندہ رہیں.اس کیلئے یہ سبب بھی پیدا کیا ہے کہ إِنَّ اللهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ - آسمان پر ایک جوش رہتا ہے اس امر کے لئے کہ آنحضرت میم کے مراتب اور مدارج میں ترقی ہو.اور آپ کی کامیابیاں بڑھیں.اس لئے خود اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ آنحضرت مینی پر درود بھیجتے ہیں.اب دیکھو کہ چھوٹے سے چھوٹے مومن کی دعا بیکار نہیں جاتی.اور جو مَنْ يَعْمَلُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ کے موافق چھوٹی سی نیکی بھی کسی کی ضائع نہیں کرتا.تو خود ملائکہ کی دعاؤں کو اور اپنے درود کو کیونکر ضائع کر دے گا.اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ہر ساعت آپ کے مدارج اور مراتب میں کس
رساله درود شریف قدر ترقی ہو رہی ہے.جو آپ کی زندگی کو بڑھا رہی ہے.خود جب خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ مین کے مدارج کی ترقی ہو.ملائکہ کہتے ہیں ترقی ہو.اور پھر مومن کو حکم ہوتا ہے کہ تم بھی درود پڑھو.کوئی وقت ایسا نہیں گزرتا جب آپ پر درود نہ پڑھا جاتا ہو.کیونکہ علاوہ ان درود پڑھنے والوں کے جو مومنوں کا گروہ ہے.اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ تو ہر وقت اس کام میں مشغول رہتے ہیں.کیونکہ ان میں کسل نہیں ہوتا.اور جس کثرت سے درود شریف پڑھا جاتا ہے اس سے اندازہ کرو.کہ آپ کے درجات میں ہر آن کس قدر ترقی ہو رہی ہے.- ایک بار میں نے خود حضرت امام علیہ الصلوۃ والسلام سے سنا آپ فرماتے تھے کہ درود شریف کے طفیل اور اس کی کثرت سے یہ درجے خدا نے مجھے عطا کئے ہیں.اور فرمایا کہ میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فیوض عجیب نوری شکل میں آنحضرت امی کی طرف جاتے ہیں.اور پھر وہاں جاکر آنحضرت م کیو ایم کے سینہ میں جذب ہو جاتے ہیں اور وہاں سے نکل کر ان کی لاانتہا نالیاں ہو جاتی ہیں اور بقدر حصہ رسدی ہر حقدار کو پہنچتی ہیں.یقینا کوئی فیض بدون وساطت آنحضرت میل کے دوسروں تک پہنچ ہی نہیں سکتا.اور فرمایا درود شریف کیا ہے.رسول اللہ مال کے اس عرش کو حرکت دیا ہے.جس سے یہ نور کی نالیاں نکلتی ہیں.جو اللہ تعالی کا فیض اور فضل حاصل کرنا چاہتا ہے، اس کو لازم ہے کہ وہ کثرت سے درود شریف پڑھے.تاکہ اس فیض میں حرکت پیدا ہو.غرض اللہ تعالیٰ کو آنحضرت مال کی بڑی عظمت اور عزت منظور ہے کیونکہ خدا کی جو عزت اور توحید آپ نے قائم کی ہے کسی اور کے ذریعہ سے ٢٨٩ رساله درود شریف نہیں ہوئی.اور اس وقت بھی اس کے بروز احمد نے (خدا کی نصرتیں اور تائیدیں اس کے ساتھ ہوں) اسی توحید کو قائم کرنے کے لئے غیرت اور جوش پایا ہے.اب میرا یہ منشا ہے کہ ایسی حالت میں مسلمانوں کو کس قدر درود شریف کے پڑھنے کی ضرورت ہے.کیونکہ جس رسول کا یہ درجہ ہے کہ اللہ اور اس کے ملائکہ اس پر درود بھیجتے ہیں، ناخدا ترس مردہ پرست قوم نے اس کی بہت ہتک کی ہے.اس سید المعصومین کی نسبت بہت سے نخش ہمیں ان سے سننے پڑے ہیں.لا انتہا کتابیں اس شرک عظیم کے حامیوں کی طرف سے شائع کی گئی ہیں.اور جو مسلمان باقی رہ گئے ہیں انہوں نے بھی اپنے عملی رنگ سے ہتک کی جب کہ آپ کی اتباع سنت کو چھوڑ دیا.جو دین آپ لائے تھے.اور جو تعلیم قرآن نے دی تھی.اس کو چھوڑ دیا گیا.گویا دونوں طرح پر آنحضرت میں دل کی ہتک کی گئی ہے، اس بے عزتی اور ہتک کا انتقام لینے اور اس عزت کو قائم کرنے کے لئے پھر خدا نے اسی کو بھیجا ہے تاکہ پھر زمین پر ایک خدا کی پرستش ہو.اور وہ حمد الہی سے بھر جاوے.اور رسول اللہ علی ال محمد و احمد ثابت ہو ".الحکم جلد نمبر ۸ پرچه ۲۸ فروری ۱۹۰۳ء)
رساله درود شریف ۲۹۰ بعض دیگر ہدایات درباره درود شریف جو اس رسالہ کے یہاں تک تیار ہو جانے کے بعد حال میں ملی ہیں ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام) درود شریف روحانیت اور تقویٰ کے حصول کا ذریعہ ہے مولوی غلام حسین صاحب ڈنگوی نے میرے پاس بیان کیا کہ میں نے پہلی طالب علمی کے زمانہ میں ادائل ۱۸۹۲ء میں جب مولوی عبدا صاحب کلانوری پروفیسر اور مینٹل کالج لاہور حضور کے ساتھ لاہور میں مناظرہ کر رہے تھے.بیعت کی تھی.لیکن اپنے والد صاحب کے خوف سے اخفاء کی اجازت لے لی تھی.پھر جب میں ۱۸۹۵ء میں ملازم ہو گیا.تو اعلان کر دیا اور دار الامان میں حاضر ہو کر از سر نو بیعت کی اور بیعت کے بعد عرض کیا کہ میں پہلے اہلحدیث میں سے تھا اور گو اس وقت سے نمازیں لمبی پڑھتا ہوں مگر نور ایمان اور تقویٰ اور خشیت الہی سے کو راہوں.حضور مجھے کوئی وظیفہ بتائیں جس سے یہ خشکی کی حالت دور ہو.اور ایمانی کیفیت دل میں پیدا ہو.حضور نے فرمایا کہ تم آنحضرت مال پر کثرت سے درود بھیجا کرو.اور استغفار کیا کرو.ان کی برکت سے یہ خشکی انشاء اللہ تعالیٰ دور ہو جائے گی.اور فرمایا کہ درود شریف وہی پڑھا کرو.جو نمازوں میں پڑھا جاتا ہے.سو جب میں نے پر عمل کرنا شروع کیا تو اللہ تعالی کے رحم اور کرم سے وہ خشکی کی حالت اس پر جاتی رہی.۲۹۱ درود واستغفار بہترین وظیفہ ہے رساله درود شریف اور انہی ایام میں ایک دفعہ میں نے عرض کیا کہ میرے والد صاحب چشتیائی طریق سے تعلق رکھتے ہیں.اس لئے میرا بھی اس طریق کے و ظائف کی طرف میلان رہا ہے.بلکہ کسی حد تک اب بھی ہے.پس حضور مجھے کوئی وظیفہ بتا ئیں.جو میں پڑھا کروں.فرمایا ہمارے ہاں تو کوئی ایسا وظیفہ نہیں ہے.ہاں استغفار بہت کیا کریں.اور حضرت نبی کریم میر کے احسانات کو یاد کر کے آپ پر کثرت سے درود بھیجا کریں.بس یہی وظیفہ ہے.اور ایک دفعہ میرے ایک دوست چودھری محمد خاں صاحب رئیس جستر وال ضلع امرت سر نے جو حضور کے پرانے مخلصین میں سے تھے.میری موجودگی میں عرض کیا کہ مجھے کوئی وظیفہ بتایا جائے.انہیں بھی حضور نے درود شریف اور استغفار ہی بتایا.نوٹ: درود (جس کا نام صلوۃ ہے) کی بناء ہر حالت میں شکر پر ہی ہوتی خواہ انسان کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے حق میں ہو جیسے: انا ہے.أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ - فَصَلِّ لِرَبِّكَ.یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندہ کے حق میں جیسے: اُو لَيْكَ عَلَيْهِمْ صَلوتٌ جس کے بعد فرمایا فَإِنَّ اللہ شاکر.یا بندہ کی طرف سے بندہ کے حق میں بصورت دعا ہو جیسے خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ کے بعد وَ صَلِّ عَلَيْهِمْ کا حکم ہے.پس اللہ تعالیٰ کا آنحضرت پر درود فَاِنَّ اللهَ شَاکر کے ماتحت ہے.اور ملائکہ کا آپ کے ذریعہ سے ان کی کوششوں کے بار آور ہونے پر.اور مومنوں پر آپ کے احسانات کی تو کوئی انتہاء نہیں.(خاکسار مرتب رسالہ)
رساله درود شریف ۲۹۲ درود شریف انسان کو خدا تعالیٰ سے بے نیاز نہیں کر دیتا مکرمی شیخ کرم الہی صاحب پٹیالوی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بہت پرانے مخلصین میں سے ہیں اپنے ایک خط بنام خاکسار میں لکھتے ہیں:.ایک دفعہ ہم دس بارہ آدمی پٹیالہ سے یہ معلوم سے یہ معلوم کر کے کہ آجکل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام انبالہ چھاؤنی میں تشریف فرما ہیں.صرف زیارت کی غرض سے وہاں گئے.یہ وہ وقت تھا جب کہ حضرت میر ناصر نواب صاحب ( والد ماجد حضرت ام المومنین رضی اللہ عنما) ہنوز بسلسلہ ملازمت انبالہ چھاؤنی میں رہتے تھے.جو زمانہ شیر خوارگی حضرت خلیفہ المسیح ثانی ایدہ اللہ تعالی تھا.جب ہم لوگ حضور کی خدمت میں بنگلہ ناگ پھنی میں جو حضور نے کرایہ پر لیا ہوا تھا حاضر ہوئے.تو حضور نے اطلاع پاتے ہی شرف باریابی بخشا.اور قریب ایک گھنٹہ کے ہم خدمت میں حاضر رہے.اس جلسہ میں ہمارے ہمراہیوں میں سے ایک صاحب نے عرض کیا کہ مجھ کو ایک درویش ایک خاص درود بتا گئے ہیں جس کی تاثیر اس درویش نے یہ بتائی تھی کہ جو مشکل پیش آئے.اس درود شریف کو پڑھ لیا کرو.وہ مشکل حل ہو جائے گی.اور کہا کہ میرا تجربہ ہے کہ جب کوئی مشکل کا وقت آیا تو جہاں میں نے اس درود شریف کا ورد کیا.وہ مشکل فورا حل ہو گئی.حضور کی اس بارہ میں کیا رائے ہے.حضور نے فرمایا کہ:.درود شریف کے جس قدر بھی فضائل بیان کئے جائیں کم ہیں.میں خود اس کا صاحب تجربہ ہوں.مجھ پر جو خدا تعالیٰ کے ۲۹۳ رساله درود شریف انعامات ہیں.درود شریف کی برکات اور تاثیرات کا اس میں زیادہ حصہ ہے.درود شریف کا ورد کرنے والا نہ صرف ثواب اخروی پاتا ہے بلکہ وہ اس دنیا میں بھی عزت پاتا ہے.لیکن باوجود اس کے میں کسی ایسے درود کا قائل نہیں کہ جو انسان کو خدا سے بے نیاز کر دے.اور جس کے درد کے بعد قضا و قدر کے احکام خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں نہ رہیں بلکہ درود رہیں بلکہ درود خواں ان پر حاکم ہو جائے.اس مقام پر حضور کے کلام میں جوش کے آثار نمایاں.ہو گئے اور چہرہ پر سرخی آگئی.اور فرمایا کہ بیشک درود شریف کی بڑی برکات اور تاثیرات ہیں اور اس کی کثرت سے انسان پر برکات نازل ہوتی ہیں.اور اسکی برکت سے دعائیں قبول ہوتی ہیں اور اس کے بے شمار فضائل ہیں.لیکن باوجود اس کے انسان کو خدا تعالی کی بے پروائی اور بے نیازی سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہئے.کبھی ایسا بھی وقت ہو تا تھا کہ جس نبی اکرم م پر درود بھیج کر لوگ خیرو برکت پاتے ہیں.خود اسے بھی خدا کے احکام کے آگے تسلیم ورضا کے سوا چارہ نہ تھا.پس درود خوب پڑھو.اور کثرت سے پڑھو.مگر اس بات کو بھی ہمیشہ پیش نظر رکھو.اور خدا تعالیٰ کو قادر مطلق اور بے نیاز خدا سمجھو.اور تسلیم اور رضا پر ایمان کی بنیاد رکھو.حضور نے اس شخص سے وہ درود شریف دریافت نہیں فرمایا تھا.اور آپ نے فرمایا کہ وہ درود اچھا ہو گا اور ہر وہ کلام جس میں آنحضرت میر پر صلوۃ و سلام ہو.وہ درود شریف ہی ہے.اگر آپ کو
رساله ورود ۲۹۴ دہ پسند ہے تو وہی پڑھا کریں.لیکن جو درود شریف نماز میں پڑھا ۲۹۵ رساله درود شریف والا شخص بھی ذکر الہی کے برکات سے محروم نہیں رہتا، اپنی کسی ذاتی مگر جائز غرض کے لئے درود شریف کو وسیلہ بنانے والا شخص بھی اس کے برکات سے محروم نہیں رہتا.بلکہ بسا اوقات اسی ذریعہ سے اسے مقصود حقیقی کا پانا بھی نصیب ہو جاتا ہے.پس دیگر جائز اغراض و مقاصد کے لئے درود شریف کا جاتا ہے اس کے الفاظ زیادہ صحیح احادیث سے ثابت ہیں".شیخ صاحب موصوف لکھتے ہیں کہ چونکہ یہ بہت لمبے عرصہ کی بات ہے اس لئے بہت ممکن بلکہ اغلب ہے کہ حضور کے اصل الفاظ میری قوت حافظہ محفوظ نہ رکھ سکی ہو.لیکن جہاں تک میری یاد داشت کام دیتی ہے اس کی بنا پڑھنا ممنوع نہیں ہے.بلکہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پر میں کہہ سکتا ہوں کہ مفہوم یہی تھا.جو پورے غور اور حزم سے کام لے کر لکھا گیا ہے.بہت لوگوں کی اس کی طرف رہنمائی کی ہے.لیکن خود ایسا کبھی نہیں کیا بلکہ جب بھی درود شریف پڑھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رفع درجات کے لئے اور آپ کی کامیابیوں کے لئے پڑھا.واللہ اعلم بالصواب.(خاکسار مرتب رساله) خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض ارشادات دربارہ درود شریف میں یہ تعلیم بھی دی گئی ہے کہ درود شریف کو جنتر منتر کے طور پر نہیں پڑھنا چاہئے.کیونکہ یہ ایک عبادت ہے نہ کہ حل درود شریف حل مشکلات کی کلید ہے مشکلات کا جنتر منتر.پس جب کسی مقصد کے لئے درود شریف کو وسیلہ بنانا ہو.تو اس کا صحیح طریق یہ ہے کہ درود کے ضمن میں استخارہ کے طریق پر) اس کے متعلق یوں دعا کی جائے.کہ اے اللہ اگر تیری نگاہ میں میرا یہ مقصد آنحضرت مریم کے مقاصد میں داخل یا ان کے پورا ہونے کا ایک ذریعہ ہے تو اپنے رحم و کرم سے اسے بھی پورا کر دے.ورنہ اسے مجھ سے اور مجھے اس سے دور رکھ.اور اگر اس دعا کے الفاظ بصورت استخارہ نہ ہوں.تو کم از کم دل میں اور ارادہ میں یہ بات ضرور ہونی چاہئے.واللہ اعلم بالصواب حافظ نبی بخش صاحب متوطن فیض اللہ چک (والد حکیم فضل الرحمن صاحب مبلغ) جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ سابقین اولین میں سے ہیں.اور براہین کے زمانہ کے اصحاب میں سے ہیں.بیان کرتے ہیں کہ میں نے متعدد مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سنا ہے کہ درود شریف تمام فیوض کے حصول کی کلید ہے.اور یہ کہ جو مشکل اور جو حاجت پیش آئے.اس کے لئے درود کا پڑھنا اس کے حل ہونے کا ذریعہ ہے نوٹ: توسل بہ درود شریف کی اصل صورت تو یہی ہے.لیکن بحکم برکات درود شریف کن لوگوں پر نازل ہوتے ہیں أو ليْكَ قَوْمُ لا يَشْقَى جَلِيسُهُمْ - ذکر الہی کے لئے جمع ہونے والے لوگوں کے پاس اتفاقی طور پر یا کسی ذاتی کام کے سلسلہ میں آکر بیٹھ جانے خاکسار عرض کرتا ہے کہ درود شریف کے برکات کا نام بھی احادیث میں
رساله درود شریف مخص ۲۹۶ صلوۃ یعنی درود ہی رکھا گیا ہے.چنانچہ بہت سی احادیث صحیحہ بتاتی ہیں کہ جو آنحضرت پر درود بھیجے.اس پر اللہ تعالی درود بھیجتا ہے اور بہت سی احادیث میں آتا ہے کہ اس پر اللہ تعالی کے فرشتے درود بھیجتے ہیں.اور چونکہ خدا تعالی کا درود اور فرشتوں کا درود لازم و ملزوم ہیں اس لئے ان تمام احادیث کا مدعا ایک ہی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ واسلام کے بعض ارشادات سے مفہوم ہوتا ہے کہ فرشتے انہی لوگوں پر درود بھیجتے ہیں جو آنحضرت مسلم کی اتباع میں خارق عادت طور پر صدق و صفا اختیا بہ کریں.چنانچہ حضور کشتی نوح کے صفحہ ۷۵ پر فرماتے ہیں.ہمارے نبی ﷺ کی انسانیت اس قدر زیر دست ہے کہ روح القدس کو بھی انسانیت کی طرف کھینچ لائی.پس تم ایسے برگزیدہ نبی کے تابع ہو کر کیوں ہمت ہارتے ہو.تم اپنے وہ نمونے دکھلاؤ جو فرشتے بھی آسمان پر تمہارے صدق وصفا سے حیران ہو جائیں.اور تم پر درود بھیجیں".پس معلوم ہوا کہ درود کے برکات صحیح طور پر اسی وقت ظہور میں آتے ہیں جب درود بھیجنے والا صدق وصفا کے ساتھ آنحضرت امام کا تابع بھی ہو.اور اس کی اتباع نبوی محض نمائشی نہ ہو.بلکہ سچی اور دلی ہو.واللہ اعلم حصول تقویٰ کے لئے درود شریف کے ساتھ استعانت کا حکم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کشتی نوح کے آخر میں آیت وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة و آيت صَلُّوا عَلَيْهِ وسلّمُوا تَسْلِيمًا کے ماتحت حصول تقویٰ کے لئے درود شریف کا رساله درود شریف وسیلہ اختیار کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں:.يُعِبَادَ اللهِ أذَكِّرُكُمْ أَيَّامَ اللَّهِ وَاذَكَرُكُمْ تَقْوَى الْقُلُوبِ إِنَّهُ مَنْ يَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْي فَلَا تُخْلِدُوا إِلَى زِينَةِ الدُّنْيَا وَزُوْرِهَا وَاتَّقُوا اللَّهُ وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة إِنَّ اللَّهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ نَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلّمُوا تَسْلِهما اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِكَ وَسَلَّمُ (کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۸۵) اے اللہ کے بندو.میں تمہیں اللہ کی گرفت) کے دن یاد دلاتا اور دلوں کے تقویٰ کی طرف متوجہ کرتا ہوں.یاد رکھو کہ جو شخص مجرم بن کر اپنے رب کے حضور پیش ہو.اس کے لئے دوزخ ہے.وہ اس میں نہ مرے گا اور نہ جئے گا.اس لئے تم دنیا کی زینت اور اس کی جھوٹی آب و تاب کی طرف مت جھکو.اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو.اور (اس کے لئے) صبر اور صلوہ (درود) کے ذریعہ سے (اللہ تعالٰی سے مدد مانگو.اللہ تعالٰی اور اس کے تمام فرشتے اس نبی پر درود بھیجتے ہیں.پس اے مومنو! تم (بھی) اس پر نہایت عمدگی کے ساتھ درود اور سلام بھیجا کرو.اے اللہ ! محمد پر اور آل محمد پر درود اور برکات اور سلام بھیج.
رساله درود شریف ۲۹۸ ۲۹۹ ر ساله درود شریف حضرت خلیفۃ المسیح اول کی بعض دیگر ہدایات درباره درود شریف سوز دل سے درود شریف پڑھنے کی تاکید شیخ کرم الہی صاحب پٹیالوی موصوف لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ مبارک میں ایک دفعہ جب میں قادیان سے واپس آنے کے لئے تیار ہوا.تو میں نے حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے کوئی وظیفہ بتایا جائے آپ نے فرمایا کہ حضرت صاحب اکثر درود شریف اور استغفار کثرت سے پڑھنے کا ہی ارشاد فرمایا کرتے ہیں.ہم اس سے زیادہ اور کیا بتا سکتے ہیں پس درود شریف کا جس قدر ممکن ہو ورد رکھو.اور چلتے پھرتے استغفار پڑھا کرو.چنانچہ حسب توفیق میں اس پر کار بند رہا.اس کے بعد جب میں پھر قادیان آیا.اور چند روز رہ کر واپسی کے وقت حضرت ممدوح کی خدمت میں حاضر ہوا.تو میں نے عرض کیا کہ میں حسب الارشاد درود شریف پڑھتا رہا ہوں مگر کوئی خاص تاثیر یا برکت کے آثار نمایاں نہیں ہوئے.فرمایا درود شریف ایک دعا ہے اور تم کو اپنی بعض پیش آمدہ مشکلات کے لئے بھی دعائیں کرنے کا موقع ملتا ہو گا پس جس رجوع درد اور تڑپ کے ساتھ تم اپنے مطالب کے لئے دعائیں کرتے ہو.کیا وہ تڑپ کبھی درود شریف میں بھی پیدا ہوئی ہے یا نہیں.اگر نہیں ہوئی تو پھر عدم ظهور تاثیر کی شکایت درست نہیں.آپ درد دل کے ساتھ آنحضرت لم پر درود بھیجا کریں.تو انشاء اللہ تعالی ضرور نمایاں طور پر آثار برکت مشہور ہوں گے.درود شریف کے لئے وقت کس طرح نکالا جا سکتا ہے شیخ صاحب موصوف لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مسجد مبارک میں مع خدام کھانا کھا رہے تھے اور میں دستر خوان پر حضرت خلیفہ المسیح اول رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا.حضرت مولوی صاحب مروح نے آہستہ سے مجھ سے پوچھا کہ نماز مغرب کے بعد کتنا وقت گزرا ہو گا میں نے کہا قریباً ایک گھنٹہ آپ نے فرمایا کہ جب ہم کسی شخص کو درود شریف یا استغفار کے لئے کہتے ہیں تو اکثر لوگ عدیم الفرصتی اور وقت کی کمی کا عذر کر دیتے ہیں مگر یہ عذر درست نہیں.دیکھو ہم حضرت صاحب کی باتیں بھی توجہ سے سنتے رہے ہیں.اور اس ایک گھنٹہ کے قریب وقت میں ہم نے پانچ سو مرتبہ درود شریف بھی پڑھا ہے.شیخ صاحب لکھتے ہیں کہ میں نے اس زریں اصول کی پابندی سے بفضلہ تعالیٰ بہت فائدہ اٹھایا ہے.اور اگر غفلت یا شامت اعمال حائل نہ وہ تو اس طرح سے انسان تفصیح اوقات سے بہت حد تک بچ سکتا ہے.وباللہ التوفیق طریق دعا اور اس میں درود شریف حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ نے اپنے آخری دور درس قرآن کریم میں سورہ فاتحہ کے درس میں فرمایا کہ سورۃ الحمد میں اللہ تعالیٰ نے دعا کرنے کا طریق سکھایا ہے.”جب انسان کو کوئی امر پیش آئے تو چاہئے کہ تازہ وضو کرے اور دو رکعت نماز پڑھے.استغفار کرے.اللہ تعالیٰ.
رساله درود شریف اپنے گناہ بخشوائے.رسول کریم ملی الہ وسلم پر درود بھیجے.پھر اپنے مطلب کی دعا مانگے خواہ اپنی زبان میں ہو انشاء اللہ قبول ہو گی.دعا نماز کے اندر بھی سلام پھیرنے سے پہلے مانگنی چاہئے." (اور اس کے بعد اس حدیث کو بیان کیا جو اس رسالہ کے صفحہ ۱۶۶ پر درج ہو چکی ہے.(اخبار بدر جلد ۱۴ نمبرا) درود شریف آنحضرت کی ترقیات کا موجب ہے ایضاً ایک سوال کے جواب میں کوئی نبی یا رسول کہلانے سے حضرت محمد رسول اللہ مال کے برابر نہیں ہو سکتا.میرا اعتقاد حضرت نبی کریم کی نسبت وہی ہے جو درس میں بعض وقت بے اختیار کہدیا کرتا ہوں.کہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی کامل انسان آپ کی مثل پیدا ہو.مسیح اور موسیٰ بھی رسول تھے.مگر محمد رسول اللہ کے مقابل میں کیا حقیقت رکھتے ہیں.تمام مذہبوں کا مشترک مسئلہ دعا ہے.تیرہ سو برس سے اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ کی دعا ہو رہی ہے جو کسی نبی کو نصیب نہیں ہوئی.پس ان کے مدارج میں کس قدر ترقی ہوئی ہوگی." (بدر جلد ۸ نمبر ۲۶) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر درود قرآن کریم میں مسیح موعود پر درود بھیجنے کا حکم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت اور بروز (یعنی ظہور) آنحضرت ہی کی دوسری بعثت اور دوسرا بروز ہے.جیسا کہ حضور اپنے اشتہار ایک غلطی کا ازالہ " میں فرماتے ہیں:.امام رساله درود شریف میں بموجب آیت وَ اخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ بروزی طور پر وہی خاتم الانبیاء ہوں.اور خدا نے آج سے ہیں برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے آنحضرت امام کا ہی وجود قرار دیا ہے.میں بروزی طور پر آنحضرت میں ہوں.اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ کے میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں." اور تمہ حقیقۃ الوحی میں فرماتے ہیں:." وَأَخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ یعنی آنحضرت کے اصحاب میں سے ایک اور فرقہ ہے جو ابھی ظاہر نہیں ہوا.یہ تو ظاہر ہے کہ اصحاب وہی کہلاتے ہیں جو نبی کے وقت میں ہوں.اور ایمان کی حالت میں اس کی صحبت سے مشرف ہوں.اور اس سے تعلیم اور تربیت پاویں.پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آنے والی قوم میں ایک نبی ہو گا کہ وہ آنحضرت امی کا بروز ہو گا.اس لئے اس کے اصحاب آنحضرت میام کے اصحاب کہلائیں گے.اور جس طرح صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے رنگ میں خدا تعالیٰ کی راہ میں دینی خدمتیں ادا کی تھیں.وہ اپنے رنگ میں ادا کریں گے.بہر حال یہ آیت آخری زمانہ میں ایک نبی کے ظاہر ہونے کی نسبت ایک پیشگوئی ہے ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ ایسے لوگوں کا نام اصحاب رسول اللہ رکھا جائے جو آنحضرت م کے بعد پیدا ہونے والے تھے جنہوں نے آنحضرت ملی ایم کو نہیں دیکھا.
رساله درود شریف آیت ممدوحہ بالا میں یہ تو نہیں فرمایا وَأَخَرِينَ مِنَ الْأُمَّةِ بلکہ یہ فرمایا واخرِينَ مِنْهُمْ اور ہر ایک جانتا ہے کہ منختم کی ضمیر اصحاب رضی اللہ عنم کی طرف راجع ہوتی ہے لہذا وہی فرقہ سسٹم میں داخل ہو سکتا ہے جس میں ایسا رسول ۳۰۳ أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ يُصَلُّونَ عَلَيْكَ رساله درود شریف اربعین نمبر ۲ - روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۵۰) تمہیں اصحاب الصفہ کی ایک عظیم الشان جماعت دی جائے گی اور تمہیں موجود ہو کہ جو آنحضرت میر کا بروز ہے.اور خدا تعالیٰ نے آج سے چھیں کیا معلوم کہ اصحاب الصفہ کس شان کے لوگ ہیں تم ان کی آنکھوں سے - برس پہلے میرا نام براہین احمدیہ میں محمد اور احمد رکھا ہے اور الحضرت میر کا بروز بکثرت آنسو بہتے دیکھو گے.وہ تم پر درود بھیجیں گے".لا يَحْمَدُكَ اللهُ مِنْ عَرْدِهِ نَحْمَدُكَ وَنُصَلِّي.مجھے قرار دیا ہے.اسی وجہ سے براہین احمدیہ میں لوگوں کو مخاطب کر کے فرما دیا ہے قل إن كُنتُمْ تُحِبُّونَ الله فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ اور نیز فرمایا ہے كُلَّ بَرَكَةٍ مِّنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ » تتمہ حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۰۲) اربعین نمبر ۳.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۴۱۴۳۵۲ خدا عرش پر تیری تعریف کرتا ہے ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تیرے پر درود بھیجتے ہیں" (۳) يُرْفَعُ اللَّهُ ذِكْرَكَ وَيُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ فِي الدُّنْيَا والأخرة" (اربعین نمبر ۲.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۵۲) ” خدا تیرے ذکر کو اونچا کرے گا اور دنیا اور آخرت میں اپنی نعمت تیرے پس آیت يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلّمُوا تسْلِيمًا کی رو سے اور ان احادیث کی رو سے جن میں درود شریف کی تاکید پائی جاتی ہے جس طرح آنحضرت مسلم پر درود بھیجنا ضروری ہے.پر پوری کرے گا." اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر بھی درود بھیجنا ضروری ہے.اور اس کے لئے کسی مزید دلیل اور ثبوت کی ضرورت نہیں ہے.انسانی عادت اور اسلامی فطرت میں داخل ہے کہ مومن کسی ذوق کے وقت اور کسی مشاہدہ کرشمہ قدرت کے وقت درود بھیجتا ہے.سو اس يُصَلُّونَ عَلَيْكَ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وحی میں آپ پر کے فقرہ میں اشارہ ہے کہ وہ لوگ جو ہر دم پاس رہیں گے وہ کئی قسم کے نشان دیکھتے درود بھیجنے کا حکم اَصْحَابُ الصُّفَةِ وَمَا أَدْرَكَ مَا أَصْحَبُ الصُّفَةِ تَرى رہیں گے.پس ان نشانوں کی تاثیر سے بسا اوقات ان کے آنسو جاری ہو جائیں گے.اور شدت ذوق اور رقت سے بے اختیار درود ان کے منہ سے نکلے گا.چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آرہا ہے اور یہ پیشگوئی بار بار ظہور میں آ رہی ہے.بشرط صحبت ہر ایک سعادت مند اس کیفیت کو حاصل کر سکتا ہے.منہ (ایضا صفحہ ۳۵۰)
۳۰۵ رساله درود شریف رساله درود شریف م ۳۰ (۴) خدا تیرے سب کام درست کر دے گا.اور تیری ساری مرادیں اللہ تعالیٰ کے درود بھیجنے کا ذکر ہے ان میں جماعت کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ پر تجھے دے گا.سَلَامٌ عَلَيْكَ جُعِلتَ مُبَارَكَاتُرجمہ :.تیرے پر سلام رود بھیجیں.اور چونکہ درود کی حقیقت اور ماہیت میں حمد اور رفع ذکر بھی داخل ہے اس لئے ایسے کلمات وحی الہی جن میں حضور کے محامد کا اور رفعت تو مبارک کیا گیا (اربعین نمبر ۲ - روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۵۵) (۵) اسلامُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ (ایضاً صفحه ۳۵۵) ابراہیم پر سلام (یعنی اس عاجز پر ") (٢) السَّلَامُ عَلَيْكَ إِنَّا أَنْزَلْنَاكَ بُرْهَانَا وَكَانَ اللَّهُ قَدِيرًا - عَلَيْكَ بَرَكَاتٌ وَ سَلَام سَلَامٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبِّ رَّحِيم (ایضاً صفحه ۳۸۰٬۳۷۹) و تم پر سلام.ہم نے تمہیں برہان کے طور پر نازل کیا ہے اور اللہ کامل قدرتوں والا ہے تم پر برکات اور سلام.خداوند رحیم فرماتا ہے کہ سلام ( صَلوةُ الْعَرْشِ إِلَى الْفَرْشِ.یعنی رحمت الہی جو تم پر ہے اس کی کیفیت یہ ہے کہ وہ عرش سے لے کر فرش تک ہے.فرمایا اس میں کمی اور کیفی مبالغہ ہے گویا اللہ تعالیٰ کی رحمت نے فضا کو بھی بھر دیا.یہ الہام آئندہ بشارت پر دلالت کرتا ہے یہ لفظی ہی نہیں بلکہ عملی رنگ میں ظاہر ہونے والا ہے اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ جب وہ کسی پر خوش ہوتا ہے تو عملی رنگ میں اس کا اظہار دنیا پر کرتا ہے." (بدر جلد ۴ پر چہ یکم جون ۱۹۰۵ء) نوٹ: آیت إِنَّ اللّهَ وَمَليكتَهُ وَيُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيمًا جاتی ہے کہ جس پر اللہ تعالیٰ درود بھیجے اس پر درود بھیجنا ہر مومن کے لئے ضروری اس شان کا ذکر ہے وہ بھی اس امر کی طرف رہنمائی کرتے ہیں.واللہ اعلم.حضرت مسیح موعود کے ارشادات میں آپ پر درود بھیجنے کی تعلیم بعض بے خبر ایک یہ اعتراض بھی میرے پر کرتے ہیں کہ شخص کی جماعت اس پر فقره عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلَامُ اطلاق کرتے ہیں اور ایسا کرنا حرام ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ میں مسیح موعود ہوں اور دوسروں کا صلوٰۃ یا سلام کہنا تو ایک طرف خود آنحضرت میں نے فرمایا کہ جو شخص اس کو پاوے.میرا سلام اس کو کہے اور احادیت اور تمام شروع احادیث میں مسیح موعود کی نسبت صدہا جگہ صلوٰۃ اور سلام کا لفظ لکھا ہوا موجود ہے پھر جب کہ میری نسبت نبی علیہ السلام نے یہ لفظ کہا.صحابہ نے کہا کہ خدا نے کہا.تو میری جماعت کا میری نسبت یہ فقرہ بولنا کیوں حرام ہو گیا.(اربعین نمبر ۲.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۴۹) " جس شخص کو تمام نبی ابتدائے دنیا سے آنحضرت میم تک عزت دیتے آئے ہیں اس کو ایک ایسا ذلیل سمجھتے ہیں کہ صلوٰۃ اور سلام بھی اس پر کہنا حرام ہے “ (ایضاً صفحہ ۳۶۷) * عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ ہے.پس جن کلمات وحی الہی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر
رساله درود شریف ٣٠٧٠ رساله درود شریف کہیں تو یقیناً یاد رکھیں کہ اس آخری زمانہ میں مسیح موعود اور اس کے حضرت مولنا عبد الکریم صاحب کے ایک خطبہ جمعہ کا اقتباس متبعین اسی آل میں داخل ہیں.جس میں آپ نے حضور کی موجودگی میں جماعت کو آپ پر درود بھیجنے کی بہت تاکید کی ہے.آخر میں اپنی ساری جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ دونوں صورتوں سے درود شریف پڑھنے میں مصروف رہیں.بہت تھوڑے ہیں جو جانتے ہیں کہ ان کا محبوب و آقا کس نازک کام میں مصروف ہے.پس سب مسلمان اس وقت آنحضرت میم پر درود بھیجنے کی دو ہی صورتیں ہیں اول یہ اللہ اور اس کے ملائکہ کے ساتھ ہو کر نبی کریم ملی پر درود بھیجیں.حیف که مسلمان اتباع سنت کریں.اور تقویٰ و طہارت اختیار کریں.اور پھر جو ہو گا اگر ہماری جماعت کا کوئی وقت ضائع ہو جاوے.وہ یاد رکھیں کہ ہمارا آنحضرت مسلم کو زندہ نبی ثابت کرنے کے لئے آیا ہے یعنی مسیح موعود اس محبوب آقا بہت بڑے فکروں میں گھرا ہوا ہے.دشمنان دین کے حملوں سے کی امداد اور نصرت کے لئے سب اکٹھے ہو جائیں.اور سب مل کر اس کے وہ اکیلا اسلام کے لئے سینہ سپر ہو کر لڑ رہا ہے.پس بد نصیب ہو گاوہ شخص جو واسطے دعائیں کریں.درود شریف پڑھتے وقت جب عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ بقیہ حاشیہ وَسَلَّمَ إِنِّي لَا رَجُوَانُ طَالَ بِى عُمْرَانَ الْقَى عِيسَى بْنَ مَرْيَمَ فَإِنْ عَجِلٌ بِى مَوْتَ فَمَنْ لَقِيَهُ مِنْكُمْ فَلْيَقْرَأَهُ مِنِّي السَّلَامَ - جلوک اکنز العمال من ۲ بحوالہ مسلم و حجم الكرامه ص ۴۴۹ بحوالہ مسلم واحمد) (حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت امی نے فرمایا) اگر میری عمر کسی قدر لمبی ہوئی تو میں امید کرتا ہوں کہ میں عیسی بن مریم سے ملوں گا.اور اگر میری وفات جلد ہو جائے تو اس صورت میں تم میں سے جو اس سے ملے وہ اسے میری طرف سے سلام پہنچائے.حضرت انس سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.مَنْ أَدْرُكَ مِنْكُمْ عِيسَى بْنَ مَرْيَمَ فَلْيَقْرَهُ هُ مِنِّي السَّلَامَ - یعنی تم میں سے جو شخص مسیح موعود کو پائے وہ اسے میری طرف سے سلام پہنچائے.اس کا بوجھ بٹانے میں شریک نہ ہو.اور اس کی راہ یہی ہے کہ اپنے چال چلن کو درست کریں.اور اتباع سنت کی طرف قدم بڑھائیں.اور درود شریف پڑھتے رہیں.اب وقت ہے کہ ہر ایک اپنے وقت کی قدر کرے.اور اسے ضائع نہ کرے." (الحکم جلدے نمبر ۸ صفحہ ۷ کالم ۳۴۲) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر درود بھیجنے کا ارشاد از حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) صلی ” میں نے بتایا ہے کہ درود رسول کریم میم کے احسانوں کو یاد کرنا.اور اپنی احسانمندی کا جتانا اور خدا سے اس کا عوض دینے کی درخواست کرنا ہے.آنحضرت مال لا السلام کے بعد ہم پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بھی بے شمار احسانات ہیں.اس لئے درود میں ان کو بھی شامل کرنا چاہئے.ایک یہی کیا کم احسان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہم پر ہے.
رساله درود شریف ۳۰۸ ہے.کہ آپ کے ذریعہ سے آنحضرت ملی کا پتہ ہم کو ملا.آج لوگوں نے ۳۰۹ رساله درود شریف جھوٹی اور بناوٹی اور ہتک آمیز روایتوں سے آنحضرت ام کو کچھ کا کچھ بنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر درود بھیجنے کی کیفیت اور طریق دیا تھا.نہ صرف یہ بلکہ مختلف قسم کی باتوں سے آپ کی اصل شان کو ہی گھٹا دیا تھا اور بعض ایسی غلط اور بیہودہ باتیں آپ کی طرف منسوب کر رکھی تھیں جو ہرگز آپ کے شایان شان نہ تھیں.غرض لوگوں کی غلط روایتوں نے آپ کو پس پردہ چھپا دیا تھا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اگر ان سب پردوں کو اٹھا دیا.اور اس مبارک اور خوبصورت چہرہ پر سے آنحضرت پر درود بھیجنے سے ایک رنگ میں حضرت مسیح موعود کو بھی درود پہنچ جاتا ہے یہ بات درست ہے کہ آنحضرت پر درود بھیجنے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی درود پہنچ جاتا ہے.کیونکہ جب آپ پر تمام پردے اٹھا کر ہمیں دکھا دیا.پس یہ کیا کم احسان ہے حضرت مسیح موعود درود بھیجا جائے.تو اس میں آپ کی تمام آل پر بھی درود آ جاتا ہے اور علیہ الصلوۃ والسلام کا کہ آپ نے آکر آنحضرت میر کی اصل شان کو ظاہر فرما دیا.اور ان سب باتوں سے آپ کو پاک کر دیا جو آپ کی طرف منسوب آپ کی آل میں بموجب آیت النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ انفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ (احزاب : ۷) چھوٹا بڑا ہر ایک مومن کی جاتی تھیں.پس درود میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی داخل ہے پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس میں بطریق اولی شامل کرنا چاہئے.اور بھی احسان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہیں.اور بے شمار احسان ہیں پس ہمارا یہ بھی فرض ہونا چاہئے کہ ہم ان کو بھی درود میں شامل کریں.ہم مختلف اوقات میں آنحضرت امی پر درود اور سب سے مقدم طور پر آئیں گے.اور اس حقیقت کی طرف بھی خود وہی آیت قرآن کریم رہنمائی کرتی ہے جس میں درود شریف کا حکم دیا گیا ہے چنانچہ اس سے پہلی اور پچھلی آیات میں صلوٰۃ یعنی درود کے مقابل پر بھیجیں.اور اس درود میں آپ کے خلیفہ مسیح اور مہدی کو بھی شامل کریں.ایذاء کو رکھ کر اس کا نشانہ آنحضرت ام تعلیم کے ساتھ مومنوں کو بھی بیان کیا اور ان پر درود پڑھیں.تا ان کے احسانوں کا بھی اقرار ہو.اور شکریہ ادا ہو te "جو شخص کثرت سے درود پڑھتا ہے وہ نہ صرف آنحضرت مال پر درود پڑا بلکہ اس درود میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی شامل کرے." (الفضل جلد ۱۳ نمبر ۶۸) گیا ہے.(ایذاء سے اس جگہ مراد کامیابی میں روکیں ڈالنا اور دکھ اور رسوائی چاہتا ہے اور صلوٰۃ سے عزت و عظمت اور کامیابی چاہنا.پس معلوم ہوا کہ درود میں بھی مومن آپ کے ساتھ ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ چپ صحابہ کرام نے اس نے اس آیت کا حوالہ دیکر آپ سے طریق درود دریافت کیا.تو آپ نے اس میں اپنی آل و ازواج کو بھی داخل قرار دیا.اسی طرح جب کوئی صحابی آنحضرت کی خدمت میں زکوۃ یا
رساله و رود شریف ۳۱۱ رساله و رود صدقہ پیش کرتا تو حضور بموجب آیت خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةٌ | ہو.جو تمہارے مناسب حال نہیں ہے اور اس لئے کہ تم ایک معصوم اور قابل رحم بچی چھوڑ گئی ہو.جسے اپنے درد کا اظہار کرنا بھی نہیں آتا.در حقیقت لفظ صلوۃ کا تعلق مستقبل کی بہتری سے ہے جیسا کہ حماسہ کے تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلوتَك سكن لَّهُمْ (توبہ: (۱۰۳) - اس شخص کے لئے صلوٰۃ کے لفظ سے دعا کرتے وقت اس میں اس کی آل کو بھی داخل کر لیتے تھے.چنانچہ جب حضرت ابوادنی رضی اللہ عنہ نے حضور کی خدمت میں صدقہ پیش کیا (یا بھیجا) تو حضور نے اس کے لئے یہ دعا فرمائی.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى أَي أَبِي أو فى جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صلوۃ کے ساتھ آل کا خصوصیت سے تعلق ہے اور اس حقیقت کا پتہ عربی زبان کے بعض محاورات سے بھی لگتا ہے چنانچہ ایک شاعر (مویلک) اپنی بیوی کی وفات پر جس کی ایک ننھی سی لڑکی ایک اور شعر سے بھی ظاہر ہوتا ہے جو یہ ہے:.صَلَّى الإِلهُ عَلَى صَفِي مُدْرِكَ يَوْمَ الْحِسَابِ وَمَجْمَعِ الْأَشْهَادُ یعنی اللہ میرے چیدہ دوست مدرک پر قیامت کے روز خاص رحمت کرے جب گواہ جمع ہونگے.سنت نبویہ کی رو سے مسیح موعود پر تصریح کے ساتھ درود بھیجنا رہ گئی تھی.اس کے مرضیہ میں اس کے لئے لفظ صلوۃ کے ساتھ دعا کرتا ہوا اس دعا کے اختیار کرنے کی ایک وجہ یہ بتاتا ہے کہ اس کی یادگار بچی (یا بلفظ دیگر اسکی آل) کی حالت بہت ہی قابل رحم ہے اور اس بناء پر وہ دعا کرتا ہے کہ یا الہی اس عورت پر اس رنگ میں رحمت فرما کہ اس کی یاد گار سلامت رہے.چنانچہ دیوان حماسہ میں اس کے متعلق اس کی جو نظم درج ہے اس میں وہ کہتا ہے:.صَلَّى عَلَيْكَ اللهُ مِنْ تَفَفُودَةٍ إذ لا يُلائِمُ الْمَكَانُ الْبَلْقَعُ فَلَقَدْ تَرَكَتِ صَغِيرَةٌ مَّرْحُومَةٌ لَمْ تَدْرِ مَا جَزَعُ عَلَيْهِ فَتَجْزَعُ یعنی اے میری پیاری بیوی جسے میں کھو بیٹھا ہوں تم پر اللہ تعالیٰ کی وہ خاص رحمت ہو جس کا نام صلوٰۃ ہے کیونکہ تم ایک ویران جگہ میں مدفون بھی ضروری ہے پس جب آنحضرت می پر درود بھیجا جائے گا تو بالضرور اس میں آپ کی تمام آل پر یعنی ہر ایک مومن پر اور خصوصاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام پر بھی درود ہو گا.لیکن آنحضرت میر کا مذکورہ بالا طریق عمل تعلیم بتاتی ہے کہ اس اجمالی درود پر ہی کفایت نہیں کرنی چاہئے.بلکہ تفصیلی طور پر بھی تمام آل نبوی پر عموماً اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام پر خصوصاً درود بھیجنا چاہئے.اور ہر بار درود میں آل نبوی پر تصریح سے درود بھیجنا ضروری نہیں ہاں یہ ضروری نہیں کہ جب بھی آنحضرت میں پر درود بھیجا جائے تو اس میں آپکی تمام آل پر اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر بھی
ر ساله درود شریف ۳۱۲ درود بھیجا جائے.بلکہ عام حالات میں صرف صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے الفاظ سے درود بھیجنا بھی کافی ہوتا ہے جس پر نہ صرف تعامل بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وحی شاہد ہے.یعنی " كُلِّ بَرَكَةٍ مِّنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ محمد رسول الله من پناہ گزین ہوئے قلعہ ہند میں." " آج ہمارے گھر میں پیغمبر میں آگئے.عزت اور سلامتی" حضرت مسیح موعود پر درود بھیجنے کی دو صورتیں اور آنحضرت امی پر درود بھیجتے وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر مستقل الفاظ میں درود بھیجنے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں.ایک یہ کہ درود میں آلِ مُحَمَّدٍ یا خُلَفَاءِ مُحَمَّدٍ کے الفاظ بڑھا کر اس میں حضور پر بھی درود بھیجنے کی نیت کر لی جائے.اور دوسری یہ کہ درود میں مسیح موعود کا لفظ بھی بڑھا لیا جائے.اور ان دونوں صورتوں میں آپ پر درود بھیجنے کی آپ نے جماعت کو تعلیم دی ہے جس کے متعلق چند روایات ذیل میں درج کی جاتی ہیں:.(۱) صاحبزادہ پیر افتخار احمد صاحب لدھیانوی نے میرے پاس بیان کیا.کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اگر درود شریف کے الفاظ میں وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ کہتے وقت مجھ پر درود بھیجنے کی نیت کرلی چاہئے تو اس طرح سے اس میں مجھ پر درود بھی آجاتا ہے اور حکیم مولوی محمد الدین صاحب ساکن گوجر انواله حال قادیان نے میرے پاس ذکر کیا کہ یہی بات میں نے خود حضور کی زبان مبارک سے یا حضور کی مجلس میں یا حاضرین ۳۱۳ رساله درود شریف میں سے کسی کے واسطہ سے سنی تھی.اور حضرت مولوی شیر علی صاحب نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا کہ آج میں نے آنحضرت م پر کثرت سے درود بھیجا ہے اور اس میں اُلِ مُحَمَّدِ کا لفظ کہتے وقت حضور پر درود بھیجنے کی نیت کر لیتا رہا ہوں.کیا میں نے یہ درست کیا ہے ؟ حضور نے فرمایا کہ ہاں درست کیا ہے.اور حافظ محمد ابراہیم صاحب نابینا امام مسجد محلہ دار الفضل قادیان نے مجھ سے ذکر کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا.کہ حضور پر درود کس طرح بھیجا جائے.جس کے جواب میں حضور نے ارشاد فرمایا کہ الِ مُحَمَّدٍ کا لفظ کہتے وقت مجھ پر درود بھیجنے کی نیت کر لی جائے.اس طرح سے مجھے کو بھی درود پہنچ جائے گا.اور مکرمی مولوی ذوالفقار علی خانصاحب رامپوری نے مجھ سے ذکر کیا کہ میں نے بھی ایک دفعہ یہی سوال حضور کی خدمت میں کیا تھا.اور حضور نے مجھے بھی اس کا یہی جواب ارشاد فرمایا تھا.اور پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے میرے پاس بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوی مینیت بو مہدویت کے اوائل ایام میں حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ کیا حضور پر درود بھیجنے کے لئے درود پڑھتے وقت آل محمد کہتے ہوئے حضور پر درود بھیجنے کی نیت کرلی جائے؟ فرمایا ہاں یہ لفظ کہتے وقت مجھ پر درود کی نیت بھی کرلی جائے.(۲) حضرت صاحبزادہ میرزا ناصر احمد صاحب بی اے سلمہ اللہ تعالی واید.فرزند اکبر حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے توسط سے
رساله درود شریفه ۳۱۴ میرے دریافت کرنے پر حضرت ام المومنین (رحمۃ اللہ وبرکاتہ علیم) نے مجھے بتایا کہ میں نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سوال کیا تھا کہ آپ پر درود کن الفاظ میں بھیجا جائے.جس پر حضور نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے تھے صَلَّى اللهُ عَلَى حَبِيْهِ مُحَمَّدٍ وَخُلَفَاءِ مُحَمَّدٍ وَالِهِ وَسَلَّمَ اور میاں محمد اسماعیل صاحب مالیر کوٹلوی مهاجر جلد ساز قادیان (والد میاں عبداللہ صاحب جلد ساز) نے میرے پاس بیان کیا کہ جب میں نے ۱۹۰۲ء میں قادیان میں آکر حضور کے ہاتھ پر بیعت کی.تو اس کے بعد اسی مجلس میں ایک دوست نے حضور کی خدمت میں یہ سوال پیش کیا کہ حضور پر درود کس طرح بھیجا جائے.جس پر حضور نے ان الفاظ میں درود بھیجنے کا ارشاد فرمایا اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى حُلَفَاءِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِک وَ سَلَّم میاں محمد اسماعیل صاحب نے اس کے ساتھ یہ بھی ذکر کیا کہ اس وقت سے میں انہی الفاظ میں درود شریف پڑھا کرتا ہوں.نوٹ.میاں احمد دین صاحب زرگر قادیان نے میرے پاس بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اصحیح اول رضی اللہ عنہ نے ایک مجلس میں فرمایا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنی سچائی کا اور آنحضرت میں یہ کا خلیفہ ہونے کا اس قدر یقین تھا کہ جب ایک شخص نے حضور کی خدمت میں یہ سوال پیش کیا کہ حضور پر درود کس طرح بھیجا جائے تو حضور نے درود کے جو الفاظ بتائے ان میں تصریح سے اپنا ذکر کرنے کی بجائے آنحضرت امی کے خلفاء کا لفظ رکھا.اور اس کو کافی سمجھا.اور درود کے یہ الفاظ ارشاد فرمائے اللهُمَّ صَلِّ على مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَ عَلَى خُلَفَاءِ مُحَمَّدٍ اور فرمایا طور پر ۳۱۵ رساله درود شریف کہ خلفاء کے لفظ میں ہم بھی آجاتے ہیں خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضور کے اس ارشاد سے نہ صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضور کو اپنے آل محمد رسول اللہ اور خلیفہ محمد رسول اللہ مال ہونے پر کامل یقین تھا بلکہ اس سے اس وحی الہی کی بھی عملی پر تفسیر ہوتی ہے کہ قُل أجَرِّدُ نَفْسِي مِنْ ضُرُوبِ الْخِطَابِ (حقیقۃ الوحی- روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۵۹) (۳) حضرت مولوی عبد الستار صاحب مهاجر کابلی رضی اللہ عنہ ( یکے از شاگردان حضرت شاہزادہ مولانا عبد اللطیف صاحب کا بلی شهید رضی اللہ عنہ ) نے میرے پاس بیان کیا کہ مولوی غلام محمد خانصاحب احمدی مهاجر متوطن علاقه خوست (کابل) نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں اس مضمون کا عریضہ لکھا تھا کہ حضور پر درود کس طرح بھیجا جائے.جس کا جواب حضور نے اپنے دست مبارک سے تحریر فرما کر بھیجا تھا.اور اس میں حضور نے آپ پر درود بھیجنے کے لئے یہ الفاظ لکھے تھے.(یہ روایت الفضل جلد ۲ نمبر میں بھی مختصرا شائع ہو چکی ہے) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَأَصْحَابِ مُحَمَّدٍ وَعَلَى عَبْدِكَ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ وَبَارِكَ وَسَلّم ( طالب دعا خاکسار محمد اسماعیل عفی عنہ)
رساله درود شریف ۳۱۶ HIL رسال و مدح نبوی از حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ دامت برکاتهم السلام اے ہادی راه مرئی جان جہاں والصلوۃ اے خیر مطلق اے شہ کون و مکاں تیرے ملنے سے ملا ہم کو وہ مقصود حیات تجھ کو پاکر ہم نے پایا.”کام دل آرام جاں آپ چل کر تو نے دکھلا دی رہ وصل حبیب تو نے بتلایا کہ یوں ملتا ہے یار بے نشاں کشادہ آپ کا باب سخا ہے کے لئے زیر احسان کیوں نہ ہوں پھر مردوزن پیرو جواں ނ تشنہ روحیں ہو گئیں سیراب تیرے فیض علم و عرفان خداوندی کے بحر بے کراں ایک ہی زینہ ہے اب بام مراد وصل کا بے ملے تیرے ملے ممکن نہیں وہ دلستان تو وہ آئینہ ہے جس نے منہ جس نے منہ دکھایا یار کا جسم خاکی کو عطا کی روح اے جان جہاں ہے تا قیامت جو رہے تازہ تیری تو ہے روحانی مریضوں کا طبیب جاوداں ہے یہی ماہ میں جس پر زوال آتا نہیں ہے یہی گلشن جسے چھوٹی نہیں باد خزاں کوئی ره نزدیک تر راہ محبت سے نہیں خوب فرمایا نکته مهدی آخر زماں دعا ہے میرا دل ہو اور تیرا پیار ہو میرا سر ہو اور تیرا پاک سنگ آستاں الفاظ درود شریف کے متعلق ایک اور روایت مکرمی چوہدری حاکم علی صاحب نے میرے پاس بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ میں.درود شریف کن الفاظ میں پڑھا کروں.جس پر حضور نے مجھے یہ الفاظ ارشاد فرمائے اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ.اور اس وقت سے میں انہی الفاظ میں درود شریف پڑھا کرتا ہوں اور حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی نے ذکر کیا کہ جب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کر چکا تو حضور نے مجھے درود اور استغفار کثرت سے پڑھنے کا ارشاد فرمایا.
رساله درود شریف ۳۱۸ سلام بحضور سید الانام مینیم زاز حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب سول سرجن ) بدرگاہ ذی شان خیر الانام شفیع الوری مرجع خاص و عام بعد عجز و منت بصد احترام یہ کرتا ہے عرض آپ کا اک غلام کہ اے شاہ کونین عالی مقام عَلَيْكَ الصَّلوةُ عَلَيْكَ السَّلامُ حسینان عالم ہوئے شرمگیں جو دیکھا وہ حسن اور وہ نور جبیں پھر اس پر وہ اخلاق اکمل تریں کہ دشمن بھی کہنے لگے آفریں ز ہے خلق کامل زہے حسن تام عَلَيْكَ الصَّلوةُ عَلَيْكَ السَّلَامُ خلائق کے دل تھے یقین سے تھی بتوں نے تھی حق کی جگہ گھیر لی ضلالت تھی دنیا پہ وہ چھا رہی کہ توحید ڈھونڈے سے ملتی نہ تھی دم سے اس کا قیام ہوا آپ کے.عَلَيْكَ الصَّلوةُ عَلَيْكَ السَّلَامُ محبت سے گھائل کیا آپ نے دلائل سے قائل کیا آپ نے جہالت کو زائل کیا آپ نے شریعت کو کامل کیا آپ نے بیاں کر دیئے سب حلال اور حرام عَلَيْكَ الصَّلوةُ عَلَيْكَ السَّلَامُ ۳۱۹ رساله درود شریف نبوت کے تھے جس قدر بھی کمال وہ سب آپ میں جمع ہیں لامحال صفات جمال اور صفات جلال ہر اک رنگ ہے بس عدیم المثال لیا ظلم کا عفو ނ انتقام عَلَيْكَ الصَّلوةُ عَلَيْكَ السَّلَامُ مقدس حیات اور مطہر مذاق اطاعت میں یکتا عبادت میں طاق سوار جہاں گیر یکراں براق که بگذشت از قصر نیلی رواق محمد ہی نام اور محمد ہی کام عَلَيْكَ الصَّلوةُ عَلَيْكَ السّلامُ علمدار عشاق ذات یگاں پهدار افواج قدوسیاں معارف کا اک قلزم بے کراں افاضات میں زندہ جاوداں پلا ساقیا آب کوثر کوثر کا جام عَلَيْكَ الصَّلوةُ عَلَيْكَ السَّلامُ ☑ ☑ ☑