Responsibilities Office Bearers

Responsibilities Office Bearers

عہدیدارانِ جماعت کی ذمہ داریاں

خطبہ جمعہ فرمودہ 15 جولائی 2016ء
Author: Hazrat Mirza Masroor Ahmad

Language: UR

UR

Book Content

Page 1

عہد یداران جماعت کی ذمہ داریاں خطبہ جمعہ حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مؤرخہ 15 جولائی 2016 ء شائع کردہ نظارت علیا ءصدر انجمن احمد یہ قادیان

Page 2

عہدیداران جماعت کی ذمہ داریاں خطبہ جمعہ بیان فرمودہ حضرت مرز امسر در احمد صاحب خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز (بتاریخ 15 / جولائی 2016ء بمقام مسجد بیت الفتوح لنڈن) شائع کردہ نظارت علیاء،صدر انجمن احمد بی قادیان

Page 3

نام کتا بچہ عہد یداران جماعت کی ذمہ داریاں اشاعت باراول : 2016 ء تعداد 2000: شائع کردہ: نظارت علیاءصدر انجمن احمد سید قادیان، باہتمام مطبع ضلع گورداسپور،صوبہ: پنجاب(انڈیا)-143516 : نظارت نشر و اشاعت قادیان فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان

Page 4

امراء، صدران و دیگر عہدیداران و مبلغین کے لئے نہایت اہم ہدایات.یہ ایک بنیادی امتیاز ہونا چاہئے خاص طور پر اُن لوگوں کا جو جماعتی کاموں کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں کہ وہ ہمیشہ سچائی پر قائم رہتے ہوئے اور اپنے تقویٰ کے معیار کو بڑھاتے ہوئے اپنے کام سرانجام دیں.اگر شعبہ تربیت فعال ہو جائے تو بہت سے دوسرے شعبوں کے کام خود بخود ہو جاتے ہیں.تربیت کا کام پہلے اپنے گھر سے شروع کریں اور یہ گھر صرف سیکرٹری تربیت کا گھر نہیں ہے بلکہ عاملہ کے ہر ممبر کا گھر ہے اور مجلس عاملہ سب سے بڑھ کر ہے کہ وہ اپنی تربیت کرے.امیر جماعت ،صدر جماعت اور سیکرٹری تربیت جو بھی پروگرام بناتے ہیں ان کو سب سے پہلے اپنی عاملہ کو دیکھنا چاہئے کہ وہ ان پروگراموں پر عمل کر رہی ہے کہ نہیں.خدا تعالی کے جو بنیادی احکام ہیں اور انسان کی پیدائش کا جو مقصد ہے اسے عاملہ کے ممبران پورا کر رہے ہیں؟ اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سب سے بڑا حق عبادت کا ہے اور اس کے لئے مردوں کو یہ حکم ہے کہ نماز کا قیام کرو اور نمازوں کا قیام با جماعت نماز کی ادائیگی ہے.پس امراء، صدران ، عہدیداران اپنی نمازوں کی حفاظت کر کے اس کے قیام اور باجماعت ادا ئیگی کی بھر پور کوشش کریں.ہمارے ہر عہد یدار میں نماز با جماعت کی ادائیگی کا احساس ہونا چاہئے ورنہ امانتوں کا حق ادا کرنے والے 1

Page 5

نہیں ہوں گے جس کی قرآن کریم میں بار بار تلقین کی گئی ہے.اس کے علاوہ بھی بعض باتیں ہیں جن کا عہد یداروں کو خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے اور یہ باتیں لوگوں کے حقوق اور افراد جماعت کے ساتھ عہدیداروں کے رویوں سے تعلق رکھتی ہیں پھر ایک وصف جو خاص طور پر عہدیداروں کے اندر ہونا چاہئے وہ عاجزی ہے.اپنے اپنے دائرہ کار کو سمجھنے کے لئے عہدیداران کے لئے ضروری ہے کہ قواعد وضوابط کو پڑھیں اور سمجھیں.پھر ایک خصوصیت عہدیداران کی یہ بھی ہونی چاہئے کہ وہ ماتحتوں سے حسن سلوک کریں.کسی کے دل میں یہ خیال نہیں ہونا چاہئے کہ میرا تجربہ اور میر اعلم جماعت کے کاموں کو چلا رہا ہے، یا میرا تجربہ اور علم جماعت کے کاموں کو چلا سکتا ہے.جماعت کے کاموں کو خدا تعالیٰ کا فضل چلا رہا ہے.پھر ایک وصف عہد یداران میں جو ہونا چاہئے وہ بشاشت ہے اور خوش اخلاقی سے پیش آنا ہے.عہد یداروں کی اور خاص طور پر امراء،صدران اور تربیت کے شعبوں اور فیصلہ کرنے والے اداروں کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کے لئے 2

Page 6

آسانیاں پیدا کرنے کے طریق سوچیں.لیکن یہ بھی خیال رہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے اندر رہتے ہوئے یہ طریق اختیار کرنے ہیں.امراء اور صدران اور جماعتی سیکرٹریان کا یہ بھی بہت اہم کام ہے کہ مرکز سے جو ہدایات جاتی ہیں یا سرکلر جاتے ہیں ان پر فوری اور پوری توجہ سے عملدرآمد کریں اور اپنی جماعتوں کے ذریعہ بھی کروایا جائے.موسیان کو پہلی بات تو یہ یاد رکھنی چاہئے کہ اپنے چندے کی باقاعد ہ ادائیگی اور اس کا حساب رکھنا ہر موصی کی اپنی ذمہ داری ہے.لیکن مرکزی دفتر اور متعلقہ سیکرٹریان کا بھی کام ہے کہ ہر موصی کا حساب مکمل رکھیں اور جب ضرورت ہوا نہیں یا دو ہانی بھی کروا ئیں کہ ان کے چندے کی کیا صورتحال ہے؟ ملکی جماعت کا کام ہے کہ مقامی جماعتوں کے سیکرٹریان کو فعال کریں اور ہر موصی ان کے رابطے میں ہو.اللہ تعالیٰ تمام عہدیداروں کو توفیق دے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جو آئندہ تین سال کے لئے خدمت کا موقع دیا ہے اس میں وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کام سرانجام دے سکیں اور اپنے ہر قول وفعل سے جماعت میں نمونہ بننے والے ہوں.3

Page 7

خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسح الخامس اید والله تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 15 جولائی 2016 ء بمطابق 15 روفا1395 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن.لندن.أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ أَمَّا بَعْدُ فَأَعْوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيْمِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ ايَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ کچھ عرصہ پہلے میں ایک خطبہ میں ذکر کر چکا ہوں کہ یہ جماعتی عہد یداران کے انتخاب کا سال ہے.اب اکثر جگہوں پر انتخاب ہو چکے ہیں ملکوں میں بھی اور مقامی جماعتوں میں بھی اور نئے عہد یداروں نے اپنا کام سنبھال لیا ہے.عہد یداروں میں بعض جگہوں پر بعض امراء، صدران اور دوسرے عہد یدار نئے منتخب ہوئے ہیں لیکن بہت سی جگہوں پر پہلے سے کام کرنے والوں کا ہی دوبارہ انتخاب کیا گیا ہے.نئے آنے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ کا جہاں شکر ادا کرنا چاہئے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے جماعت کی خدمت کے لئے چنا وہاں عاجزی سے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی چاہئے کہ اللہ 50

Page 8

تعالیٰ انہیں اس امانت کا حق ادا کرنے کی توفیق دے جو اُن کے سپرد کی گئی ہے.اسی طرح جو عہدیدار دوبارہ منتخب ہوئے ہیں وہ بھی جہاں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ خدمت کی توفیق دی وہاں اللہ تعالیٰ سے یہ عاجزانہ دعا بھی مانگیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ ان امانتوں کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور گزشتہ عرصه خدمت کے دوران ان سے جو کوتاہیاں ستیاں اور غفلتیں ہوگئیں جس کی وجہ سے ان کے سپرد کی گئی امانتوں کا حق ادا نہیں کیا گیا یا حق ادا نہیں ہو سکا اللہ تعالیٰ ایک تو اس سے صرف نظر فرمائے اور پھر اپنا فضل فرماتے ہوئے اس نے آئندہ تین سال کے لئے جو دوباره خدمت کا موقع عطا فرمایا ہے اور جو امانتیں اس کے سپرد کی ہیں ان میں آئندہ ستیاں اور کوتاہیاں اور غفلتیں نہ ہوں اور اللہ تعالیٰ ان امانتوں کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.یا د رکھنا چاہئے کہ جماعتی خدمت کو کوئی معمولی خدمت نہیں سمجھنا چاہئے.سرسری طور پر نہیں لینا چاہئے.ہم میں سے ہر ایک نے چاہے وہ عہدیدار ہے یا ایک عام احمدی ہے اس نے یہ عہد کیا ہے کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم کرے گا اور جب ایک شخص دین کی خدمت یا بحیثیت عہدیدار کسی خدمت کے کرنے کو قبول کرتا ہے یا اس خدمت پر مامور کیا جاتا ہے تو اس پر دوسروں سے زیادہ بڑھ کر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عہد کو پورا کرے اور یادر کھے کہ یہ عہد اس نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے عہدوں کو پورا کرنے کا کئی جگہ قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے.پس ہمیشہ یادرکھیں اللہ تعالیٰ نے یہ بڑا واضح فرمایا ہے کہ تمہارے سپرد کی گئی امانتیں جن کو تم قبول کرتے ہو تمہارے عہد ہیں پس اپنی امانتوں اور اپنے عہدوں کو پورا کرو.ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول کے بچے اور تقویٰ پر چلنے 6

Page 9

والوں کی یہ نشانی بتائی ہے کہ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا.(البقرة:178) یعنی اپنے عہد کو جب کوئی عہد کر لیں پورا کرنے والے ہیں.پس یہ خاص طور پر اُن لوگوں کا ایک بنیادی امتیاز ہونا چاہئے جو جماعتی کاموں کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں کہ وہ ہمیشہ سچائی پر قائم رہتے ہوئے اور اپنے تقویٰ کے معیار کو بڑھاتے ہوئے اپنے کام سرانجام دیں.اگر ان کے سچائی کے معیار میں ذرا سا بھی جھول ہے ، کمی ہے، اگر ان کے تقویٰ کے معیار ایک عام فرد جماعت کے لئے نمونہ نہیں تو وہ اپنے عہد ، اپنے عہدے، اپنی امانت کے حق کو ادا کرنے کی طرف توجہ نہیں دے رہے.پس امراء، صدران سب سے پہلے اپنی عاملہ کے سامنے بھی اور افراد جماعت کے سامنے بھی اپنے نمونے قائم کریں.سیکرٹریان تربیت ہیں جن کے سپر دتربیت کا کام ہے اور تربیت کا کام اسی وقت صحیح رنگ میں ہو سکتا ہے جب نمونے قائم ہوں.جو کام کرنے والا ہے، جس کی ذمہ داری ہے، دوسروں کو نصیحت کرنے والا ہے تو خود بھی ان کاموں پر عمل کرنے والا ہو.پس سیکرٹریان تربیت بھی افراد جماعت کے سامنے اپنے نمونے قائم کریں کہ جماعت کی تربیت کی ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے.میں کئی موقعوں پر ذکر کر چکا ہوں کہ اگر شعبہ تربیت فعال ہو جائے تو بہت سے دوسرے شعبوں کے کام خود بخود ہو جاتے ہیں.جتنا افراد جماعت کی تربیت کا معیار اونچا ہو گا اتناہی دوسرے شعبوں کا کام آسان ہوگا.مثلاً سیکرٹری مال کا کام آسان ہوگا.سیکرٹری امور عامہ کا کام آسان ہوگا.سیکرٹری تبلیغ کا کام آسان ہوگا.اسی طرح دوسرے شعبوں کا، قضاء کا کام آسان ہوگا.7

Page 10

میں اکثر مختلف جگہوں پر عاملہ کی میٹنگ میں کہا کرتا ہوں کہ تربیت کا کام پہلے اپنے گھر سے شروع کریں اور یہ گھر صرف سیکرٹری تربیت کا گھر نہیں ہے بلکہ عاملہ کے ہر مبر کا گھر ہے اور مجلس عاملہ سب سے بڑھ کر ہے کہ وہ اپنی تربیت کرے.امیر جماعت ،صدر جماعت اور سیکرٹری تربیت جو بھی پروگرام بناتے ہیں ان کو سب سے پہلے اپنی عاملہ کو دیکھنا چاہئے کہ وہ ان پروگراموں پر عمل کر رہی ہے کہ نہیں.خدا تعالیٰ کے جو بنیادی احکام ہیں اور انسان کی پیدائش کا جو مقصد ہے اسے عاملہ کے ممبران پورا کر رہے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر تقویٰ نہیں.اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سب سے بڑا حق عبادت کا ہے اور اس کے لئے مردوں کو یہ حکم ہے کہ نماز کا قیام کرو اور نمازوں کا قیام باجماعت نماز کی ادائیگی ہے.پس امراء، صدران ، عہدیداران اپنی نمازوں کی حفاظت کر کے اس کے قیام اور باجماعت ادا ئیگی کی بھر پور کوشش کریں تو اس سے جہاں ہماری مسجد میں آباد ہوں گی ، نماز سینٹر آباد ہوں گے وہاں وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو بھی حاصل کرنے والے ہوں گے اور اپنے عملی نمونے سے افراد جماعت کی بھی تربیت کرنے والے ہوں گے.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بھی ہوں گے.ان کے کاموں میں آسانیاں بھی پیدا ہوں گی.صرف باتیں کرنے والے نہیں ہوں گے.پس کام کرنے والے پہلے اپنے جائزے لیں کہ کس حد تک ان کے قول وفعل ایک ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ.(الصف:3) یعنی اے مومنو وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ آیت ہی بتلاتی ہے کہ دنیا میں کہہ کر خود نہ کرنے والے بھی موجود تھے اور ہیں اور ہوں گے.فرمایا کہ تم میری بات سن رکھو اور خوب یاد کرلو کہ انسان کی گفتگو سچے.8

Page 11

دل سے نہ ہو اور عملی طاقت اس میں نہ ہو تو وہ اثر پذیر نہیں ہوتی.( ملفوظات جلد اول صفحہ 67.ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) پھر فرمایا یا درکھو کہ صرف لفاظی اور استانی کام نہیں آ سکتی جب تک عمل نہ ہو“.اور محض باتیں عند اللہ کچھ بھی وقعت نہیں رکھتیں.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 77.ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) عمل کے علاوہ اگر اور باتیں ہیں تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی کوئی اہمیت نہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق کھول کر بتایا کہ ہمارے عمل اور قول میں تضاد نہیں ہونا چاہئے.پس اس بات کو سامنے رکھ کر اپنے جائزے لینے والے سب سے زیادہ ہمارے عہد یدار ہونے چاہئیں.جہاں فاصلے زیادہ ہیں یا چند گھر ہیں اور مسجد یا سینٹر کی سہولت موجود نہیں وہاں گھروں میں نمازوں کا اہتمام ہو سکتا ہے اور عملاً یہ مشکل نہیں ہے.بہت سے احمدی ہیں جو اس کی پابندی کرتے ہیں.ان کے پاس کوئی با قاعدہ خدمت بھی نہیں ہے.کسی عاملہ کے ممبر بھی نہیں ہیں لیکن اپنے گھروں میں ارد گرد کے احمدیوں کو جمع کر کے نماز باجماعت کا اہتمام کرتے ہیں.پس اگر احساس ہو تو سب کچھ ہوسکتا ہے اور ہمارے ہر عہد یدار میں نماز باجماعت کی ادائیگی کا احساس ہونا چاہئے ورنہ امانتوں کا حق ادا کرنے والے نہیں ہوں گے جس کی قرآن کریم میں بار بار تلقین کی گئی ہے.پس ہمیشہ عہد یداران کو یہ بات سامنے رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے حقیقی مومن کی نشانی ہی یہ بتائی ہے کہ وہ اپنی امانتوں اور اپنے عہدوں کا خیال رکھنے والے ہیں.ان کی نگرانی کرنے والے ہیں.یہ دیکھنے والے ہیں کہ کہیں ہمارے سپر دجو امانتیں کی گئی ہیں 9

Page 12

اور جو ہم نے خدمت کرنے کا عہد کیا ہے اس میں ہماری طرف سے کوئی کمی اور کوتاہی تو نہیں ہو رہی ؟ کیونکہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ بھی فرمایا ہے که اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا - (بنی اسرائیل: 35) کہ ہر عہد کے متعلق ایک نہ ایک دن جواب طلبی ہوگی.یہ عبادت تو ایک بنیادی چیز ہے اور یہی انسان کی پیدائش کا مقصد ہے اور اس کا حق تو ہم نے ادا کرنا ہی ہے.اس میں سستی تو ، خاص طور پر عہدیداروں کی طرف سے بالکل نہیں ہونی چاہئے بلکہ کسی بھی حقیقی مومن کی طرف سے نہیں ہونی چاہئے.اس کے علاوہ بھی بعض باتیں ہیں جن کا عہد یداروں کو خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے اور یہ باتیں لوگوں کے حقوق اور افراد جماعت کے ساتھ عہد یداروں کے رویوں سے تعلق رکھتی ہیں اور اسی طرح یہ باتیں عہدیداروں کے عہدوں سے بھی تعلق رکھتی ہیں.کوئی عہدیدار افسر بننے کے تصور سے یا بنائے جانے کے تصور سے کسی خدمت پر مامور نہیں کیا جاتا بلکہ اسلام میں تو عہد یدار کا تصور ہی بالکل مختلف ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے.(كنز العمال كتاب السفر الفصل الثانى فى آداب السفر جزء 6 صفحه 302 حدیث 17513 مطبوعه دار الكتب العلمية بيروت 2004ء) پس ایک عہد یدار کا لوگوں کے معاملے میں اپنی امانت کا حق ادا کرنا اس کا قوم کا خادم بن کر رہنا ہے.اور یہ حالت اس وقت پیدا ہو سکتی ہے جب انسان میں قربانی کا مادہ ہو.اس میں عاجزی اور انکساری ہو.اس کا صبر کا معیار دوسروں سے اونچا ہو.بعض دفعہ عہدیداروں کو بعض باتیں بھی سننی پڑتی ہیں.اگر نی پڑیں تو سن لینی چاہئیں.اپنا یہ جائزہ تو عہد یدار خود ہی لے سکتے ہیں کہ ان کا برداشت کا یہ پیما نہ کتنا اونچا ہے، کس حد تک ہے اور 10

Page 13

عاجزی کی حالت ان کی کس حد تک ہے.بعض دفعہ ایسے عہدیداران کے معاملات بھی سامنے آ جاتے ہیں جن میں برداشت بالکل بھی نہیں ہوتی اور اگر کوئی دوسرا بد تمیزی کر رہا ہے تو یہ بھی تو تکار شروع کر دیتے ہیں.اگر کوئی عام شخص بدتمیز ہے تو اس سے اسے تو کوئی فرق نہیں پڑتا.اس کے اخلاق تو یہی کہیں گے بڑا بد اخلاق ہے.اس کے اخلاق گرے ہوئے ہیں.لیکن جب عہد یدار کے منہ سے غلط الفاظ لوگوں کے سامنے نکلتے ہیں تو عہد یدار کی اپنی عزت اور وقار پر حرف آتا ہے اور ساتھ ہی جماعت کے افراد پر بھی اثر پڑتا ہے.جماعت کا جو معیار ہونا چاہئے اور جس معیار پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں اس میں اگر کہیں بھی ایک بھی ایسی مثال ہو جائے تو جماعت کی بدنامی کا موجب بنتی ہے اور بن سکتی ہے اور یہ مثالیں بعض جگہوں پر ملتی ہیں.مسجدوں میں بھی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں اور یہ باتیں بچوں اور نو جوانوں پر انتہائی برا اثر ڈالتی ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے اور قربانی کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والوں کا اللہ تعالیٰ نے کس طرح ذکر فرمایا ہے.ایک جگہ فرمایا کہ وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ (الحشر: 10) کہ مومن جو ہیں اپنے دینی بھائیوں کو اپنے نفسوں پر ترجیح دیتے ہیں.یہ مثال انصار نے مہاجرین کے لئے قائم کی.اور یہی ایک نمونہ ہے ہمارے لئے.یہ نفسوں کو ترجیح دینا تو بڑی دُور کی بات ہے اور بڑی بات ہے، بعض دفعہ تو کسی کا جو حق ہے وہ بھی پوری طرح ادا نہیں کیا جاتا.لوگوں کے بعض معاملات عہدیداروں کے پاس یا مرکز میں رپورٹ بھیجوانے کے لئے آتے ہیں یا مرکز سے رپورٹ بھیجوانے کے لئے بعض معاملات بھیجے جاتے ہیں تو بڑی بے احتیاطی سے معاملے کی رپورٹ دی جاتی ہے.صحیح رنگ میں تحقیق نہیں کی جاتی اور رپورٹ بھجوائی جاتی ہے یا معاملے کو اتنا لٹکا دیا جاتا ہے کہ اگر کسی ضرورتمند کی ضرورت پوری 11

Page 14

کرنے کے لئے کوئی درخواست ہے تو وقت پر ضرورت پوری نہ ہونے کی وجہ سے اس ضرورتمند کو نقصان ہو جاتا ہے یا تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے.بعض عہدیداران اپنی مصروفیت کا بھی عذر پیش کر دیتے ہیں.بعض کے پاس کوئی عذر نہیں ہوتا صرف عدم تو جنگی ہوتی ہے.اگر ان کے اپنے معاملے ہوں یا کسی قریبی کے معاملے ہوں تو ترجیحات مختلف ہوتی ہیں.پس حقیقی خدمت کا جذبہ، قربانی کا جذبہ، اپنی امانت کا صحیح حق ادا کرنا تو یہ ہے کہ ایک فکر کے ساتھ دوسرے کے کام آیا جائے اور جب یہ قربانی کا مادہ ہو اور دوسرے کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھ کر کام کیا جائے گا تو جماعت کے افراد کا بھی معیار قربانی بڑھے گا.ایک دوسرے کے حق مارنے کی بجائے حق دینے کی طرف توجہ ہو گی.ہم غیروں کے سامنے تو یہ کہتے ہیں کہ دنیا میں امن تب قائم ہو سکتا ہے جب ہر سطح پر حق لینے اور حق غصب کرنے کی بجائے حق دینے اور قربانی کا جذبہ پیدا ہولیکن ہمارے اندر اگر یہ معیار نہیں تو ہم ایک ایسا کام کر رہے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کو نا پسند ہے.پھر ایک وصف جو خاص طور پر عہدیداروں کے اندر ہونا چاہئے وہ عاجزی ہے.اللہ تعالیٰ نے عباد الرحمن کی یہ نشانی بتائی ہے کہ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا.(الفرقان: 64) کہ وہ زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں.پس اس کی بھی اعلیٰ مثال ہمارے عہد یداروں میں ہونی چاہئے.جتنا بڑا کسی کے پاس عہدہ ہے اتنی ہی زیادہ اسے خدمت کے جذبے سے لوگوں کے ملنے کے لحاظ سے عاجزی دکھانی چاہئے اور یہی بڑا پن ہے.لوگ دیکھتے بھی ہیں اور محسوس بھی کرتے ہیں کہ عہدیداروں کے رویے کیا ہیں.بعض دفعہ لوگ مجھے لکھ بھی دیتے ہیں کہ فلاں عہدیدار کا رویہ ایسا تھا لیکن آج مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ اس عہدیدار نے 12

Page 15

مجھے نہ صرف سلام کیا بلکہ میرا حال بھی پوچھا اور بڑی خوش اخلاقی سے پیش آیا اور اس کے رویے کو دیکھ کر خوشی ہوئی اور اس سے اس عہد یدار کا بڑا پن ظاہر ہوا.پس اکثریت افراد جماعت کی تو ایسی ہے کہ وہ عہد یداروں کے پیار، نرمی اور شفقت کے سلوک سے ہی خوش ہو کر ہر قربانی کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.اگر کسی عہد یدار کے دل میں اپنے عہدے کی وجہ سے کسی بھی قسم کی بڑائی پیدا ہوتی ہے یا تکبر پیدا ہوتا ہے تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ یہ چیز اللہ تعالیٰ سے دور کرتی ہے اور جب خدا تعالیٰ سے انسان دور ہو جاتا ہے تو پھر کام میں برکت نہیں رہتی.اور دین کا کام تو ہے ہی خالصہ خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے اور جب خدا تعالیٰ کی رضا ہی نہیں رہی تو پھر ایسا شخص جماعت کے لئے بجائے فائدے کے نقصان کا موجب بن جاتا ہے.پس ہمیشہ عہد یداروں کو خاص طور پر اس لحاظ سے اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ ان میں عاجزی ہے یا نہیں.اور ہے تو کس حد تک ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جتنا زیادہ کوئی عاجزی اور خاکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتناہی اسے بلند مرتبہ عطا کرتا ہے.(صحيح مسلم كتاب البر والصلة والآداب باب استحباب العفو والتواضع حديث 6487) پس ہر عہد یدار کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس کو اگر اللہ تعالیٰ نے جماعت کی خدمت کا موقع دیا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے اور اس احسان کی شکر گزاری اس میں مزید عاجزی اور انکساری کا پیدا ہونا ہے.اگر یہ عاجزی اور انکساری مزید پیدا نہیں ہوتی تو اللہ تعالیٰ کے احسان کا شکر ادا نہیں ہوتا.بسا اوقات دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض لوگ عام حالات میں اگر ملیں تو بڑی 13

Page 16

عاجزی کا اظہار کرتے ہیں.لوگوں سے بھی صحیح طریق سے مل رہے ہوتے ہیں.لیکن جب کسی کا اپنے ماتحت یا عام آدمی سے اختلاف رائے ہو جائے تو فوراً ان کی افسرانہ رگ جاگ جاتی ہے اور بڑے عہدیدار ہونے کا زعم اپنے ماتحت کے ساتھ متکبرانہ رویے کا اظہار کروا دیتا ہے.پس عاجزی یہ نہیں کہ جب تک کوئی جی حضوری کرتا رہے، کسی نے اختلاف نہیں کیا تو اس وقت تک عاجزی کا اظہار ہو.یہ بناوٹی عاجزی ہے.اصل حقیقت اس وقت کھلتی ہے جب اختلاف رائے ہو یا ماتحت مرضی کے خلاف بات کر دے تو پھر انصاف پر قائم رہتے ہوئے اس رائے کا اچھی طرح جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائے.پس اس عاجزی کے ساتھ بلند حوصلگی کا بھی اظہار ہو گا اور جب یہ ہو گا تو یہ عاجزی حقیقی عاجزی کہلائے گی.ہمیشہ عہد یدار کو اللہ تعالیٰ کا یہ حکم سامنے رکھنا چاہئے کہ وَلَا تُصَعِرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا (لقمان: 19) اور اپنے گال لوگوں کے سامنے غصہ سے مت پھلاؤ.( اپنا منہ نہ پھلاؤ غصہ سے ) اور زمین میں تکبر سے مت چلو.اختلاف رائے کی میں نے بات کی ہے تو اس بارے میں یہ بھی بتادوں کہ قواعد بیشک امیر جماعت کو یہ اجازت دیتے ہیں کہ بعض دفعہ وہ عاملہ کی رائے کو رڈ کر کے اپنی رائے کے مطابق فیصلہ کرے لیکن ہمیشہ یہ کوشش کرنی چاہئے کہ سب کو ساتھ لے کر چلا جائے اور مشورے سے، اکثریت رائے سے ہی فیصلے ہوں اور کام ہوں.بعض جگہ امراء اس حق کو ضرورت سے زیادہ استعمال کرنے لگ جاتے ہیں.اس حق کا استعمال انتہائی صورت میں ہونا چاہئے.جہاں یہ پتا ہو کہ جماعت کا یہ مفاد ہے تو پھر وہاں عاملہ یہ واضح بھی کر دیا جائے.وسیع تر جماعتی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے یہ ہونا چاہئے.اس کے لئے دعا 14

Page 17

سے اللہ تعالیٰ کی مدد بھی لینی چاہئے.صرف اپنی عقل پر بھروسہ نہ کریں.واضح ہو کہ یہ حق صدران جماعت کو نہیں.جہاں نیشنل صدر ہیں وہاں بھی ان کو نہیں کہ عاملہ کی رائے کو رڈ کرتے ہوئے اپنی رائے کے مطابق فیصلہ کریں.اپنے اپنے دائرہ کار کو سمجھنے کے لئے عہد یداران کے لئے ضروری ہے کہ قواعد وضوابط کو پڑھیں اور سمجھیں.اگر قواعد وضوابط کے مطابق عمل کریں گے تو بعض چھوٹے چھوٹے مسائل جو عاملہ کے اندر یا افراد جماعت کے لئے بے چینی کا باعث بن جاتے ہیں وہ نہیں بنیں گے.پھر ایک خصوصیت عہد یداران کی یہ بھی ہونی چاہئے کہ وہ ماتحتوں سے حسن سلوک کریں.جماعت کے اکثر کام تو رضا کارانہ ہوتے ہیں.افراد جماعت جماعتی کام کے لئے وقت دیتے ہیں.اس لئے وقت دیتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی رضا چاہتے ہیں.اس لئے وقت دیتے ہیں کہ ان کو جماعت سے تعلق اور محبت ہے.پس عہد یداروں کو بھی اپنے کام کرنے والوں کے جذبات کا خیال رکھنا چاہئے اور ان سے حسن سلوک سے پیش آنا چاہئے اور یہی اللہ تعالیٰ کا بھی حکم ہے.پھر اس حسن سلوک کے ساتھ اپنے نائبین اور ماتحتوں کو کام سکھانے کی بھی کوشش کرنی چاہئے تا کہ جماعتی کام بہتر طور پر چلانے کے لئے ہمیشہ کا رکن مہیا ہوتے رہیں.اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ جماعت کے کاموں کو اللہ تعالیٰ چلاتا ہے.لیکن اگر افسران عہد یداران جن کو کام کا تجربہ ہے کام کرنے والوں کی دوسری لائن تیار کرتے ہیں تو ان کو اس کام کا بھی ثواب مل جائے گا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہ ہی مجھے، نہ پہلے خلفاء کو کبھی یہ فکر ہوئی کہ جماعتی کام کیسے چلیں گے.یہ تو اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ ہے.وہ انشاء اللہ تعالیٰ کام کرنے والے مخلصین مہیا کرتا رہے گا.(ماخوذ از براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحه 267 حاشیہ ) 15

Page 18

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے وقت میں ایک عہد یدار کا خیال تھا کہ میری حکمت عملی اور میری محنت کی وجہ سے مالی نظام بہت عمدہ طور پر چل رہا ہے.حضرت خلیفہ مسیح الثالث کو جب یہ پتا چلا تو آپ نے اس کو ہٹا کر ایک ایسے شخص کو اس کام پر مقررکردیا جس کو مال کی الف ب بھی نہیں پتا تھی.لیکن کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور خلیفہ وقت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا جو سلوک ہے اس وجہ سے نئے آنے والے افسر جس کو کچھ بھی نہیں پتا تھا اس کے کام میں اتنی برکت پڑی کہ اس سے پہلے کبھی تصور بھی نہیں تھا.پس عہدیداروں کو تو اللہ تعالیٰ موقع دیتا ہے.جماعتی کارکنوں کو تو اللہ تعالیٰ موقع دیتا ہے.واقفین زندگی کو تو خدا تعالیٰ موقع دیتا ہے کہ وہ جماعت کی اور دین کی خدمت کر کے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں ورنہ کام تو خود اللہ تعالیٰ کر رہا ہے اور یہ اس کا وعدہ ہے.اس لئے کسی کے دل میں یہ خیال نہیں ہونا چاہئے کہ میرا تجربہ اور میر اعلم جماعت کے کاموں کو چلا رہا ہے یا میرا تجربہ اور علم جماعت کے کاموں کو چلا سکتا ہے.جماعت کے کا موں کو خدا تعالیٰ کا فضل چلا رہا ہے.ہماری بہت ساری کمزوریاں، کمیاں ایسی ہیں کہ اگر دنیاوی کام ہو تو ان میں وہ برکت پڑ ہی نہیں سکتی.ان کے وہ اچھے نتیجےنکل ہی نہیں سکتے.لیکن اللہ تعالیٰ پردہ پوشی فرماتا ہے اور خود فرشتوں کے ذریعہ سے مدد فرماتا ہے.تبلیغ کے مثلاً کام ہیں.اس میں ہی ان مغربی ممالک میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہاں پلے بڑھے ایسے نوجوان کارکن مہیا کر دیئے ہیں جنہوں نے اپنے طور پر دینی علم حاصل کیا ہے اور پھر مخالفین احمدیت کا منہ بند کرتے ہیں اور ایسے جواب دیتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے اور پھر بہت سارے ایسے نوجوان ہیں جن کے اس طرح کے جوابوں سے مخالفین کو راہ فرار کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں آتا.پس عہد یدار خدمت دین 16

Page 19

کے موقع کو فضل الہی سمجھیں ، نہ کہ اپنے کسی تجربے یا لیاقت اور قابلیت کی وجہ.پھر ایک وصف عہد یداران میں جو ہونا چاہئے وہ بشاشت ہے اور خوش اخلاقی سے پیش آنا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا.(البقرة: 84) یعنی اور لوگوں کے ساتھ نرمی سے بات کیا کرو.اور ان سے خوش اخلاقی سے پیش آؤ.پس یہ بھی ایک بنیادی خلق ہے جو عہد یداروں میں بہت زیادہ ہونا چاہئے.اپنے ماتحتوں سے، اپنے ساتھ کام کرنے والوں سے بھی جب بات چیت کریں اور اسی طرح جب دوسرے لوگوں سے بھی بات کریں تو اس بات کا خیال رکھیں کہ ان کے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ہونا چاہئے.بعض دفعہ انتظامی معاملات کی وجہ سے سختی سے بات کرنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے لیکن یہ ضرورت انتہائی قدم ہے اور اگر پیار سے کسی کو سمجھایا جائے اور عہد یدارلوگوں کو یہ احساس دلا دیں کہ ہم تمہارے ہمدرد ہیں تو ننانوے فیصد ایسے لوگ ہیں جو سمجھ جاتے ہیں اور جماعت سے اس لئے تعاون کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں کہ جماعت سے ان کو ایک تعلق ہے.لیکن بڑی اور اہم شرط یہی ہے کہ لوگوں میں یہ احساس پیدا کیا جائے یا لوگوں کو یہ احساس ہو جائے کہ عہدیدار ہمارے ہمدرد ہیں.نرمی سے لوگوں سے بات کریں.کسی کی غلطی پر شروع میں ہی اس طرح پکڑ نہ کر لیں کہ دوسرے کو اپنی صفائی کا صحیح طرح موقع ہی نہ ملے.ہاں جو عادی ہیں، بار بار کرنے والے ہیں، بات بات پر فتنہ اور فساد پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے ساتھ سختی بھی کرنی پڑتی ہے لیکن اس کے لئے پوری طرح تحقیق ہونی چاہئے.اور پھر ساتھ ہی یہ تختی بھی ذاتی عناد کی شکل اختیار کرنے والی نہیں ہونی چاہئے بلکہ اصلاح کے لئے ہونی چاہئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر اپنے مقرر کردہ یمن کے والیوں کو یہ نصیحت فرمائی تھی کہ لوگوں کے لئے آسانی پیدا کرنا من 17 مشکلیں

Page 20

پیدا کرنا.اور محبت اور خوشی پھیلانا.نفرت کو نہ پہنچنے دینا.(مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحه 638 حدیث 19935 مسند ابو موسیٰ الاشعری مطبوعه عالم الكتب بيروت 1998ء) پس یہ ایسی نصیحت ہے جو عہدیداروں اور افراد جماعت کے درمیان بھی تعلقات میں خوبصورتی پیدا کرتی ہے اور پھر اس کے نتیجہ میں آپس میں افراد جماعت میں بھی ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے کی روح پیدا ہوتی ہے.پس عہد یداروں کی اور خاص طور پر امراء،صدران اور تربیت کے شعبوں اور فیصلہ کرنے والے اداروں کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کے طریق سوچیں.لیکن یہ بھی خیال رہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے اندر رہتے ہوئے یہ طریق اختیار کرنے ہیں.دنیا داروں کی طرح نہیں کہ آسانیاں پیدا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کے حکموں کو بھول جائیں.ہم نے شریعت کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے ، خدا تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھتے ہوئے بندوں کے بھی حق ادا کرنے ہیں اور اپنے عہدوں اور اپنی امانتوں کی بھی حفاظت کرنی ہے.پھر جیسا کہ میں نے کہا کہ قواعد وضوابط کی کتاب کو ہر عہد یدار کو دیکھنا چاہئے اور اپنے شعبے کے کاموں کا علم حاصل کرنا چاہئے.ہر ایک کو اپنی حدود کا علم ہونا چاہئے.بعض دفعہ عہد یداروں کو اپنی حدود کا بھی پتا نہیں ہوتا.ایک شعبہ ایک کام کر رہا ہوتا ہے جبکہ قواعد وضوابط میں دوسرے شعبہ میں وہ کام لکھا ہوتا ہے.یا بعض دفعہ ایسا باریک فرق کاموں کے بارے میں ہوتا ہے جس پر غور نہ کرتے ہوئے دو شعبے ایک دوسرے کی حد میں داخل ہو رہے ہوتے ہیں.18

Page 21

گزشتہ دنوں میں میری یہاں یو کے (UK) کی مجلس عاملہ سے بھی میٹنگ تھی وہاں بھی مجھے احساس ہوا کہ اس بار یک فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بلا وجہ کی بحث شروع ہو جاتی ہے.اگر قواعد کو پڑھیں تو اس طرح وقت ضائع نہ ہو.مثلاً تبلیغ کے شعبہ نے تبلیغی مہم بھی چلانی ہے اور رابطے بھی کرنے ہیں.رابطوں سے ہی تبلیغ آگے پھیلے گی.اسی طرح شعبہ امور خارجہ ہے اس نے بھی رابطے کرنے ہیں اور جماعت کا تعارف بھی کروانا ہے.دونوں کا دائرہ علیحدہ ہے.ایک نے تبلیغی مقصد کے لئے کام کرنا ہے.دوسرے نے اپنی پبلک ریلیشن (Public Relation) کے لئے یہ کام کرنا ہے.تعلقات بڑھانے کے لئے یہ کام کرنا ہے.اصل مقصد تو جماعت کا تعارف اور دین کی طرف رہنمائی ہے تا کہ دنیا کو خدا تعالیٰ کی طرف لا کر ہم ان کی دنیا و عاقبت بھی سنوارنے کی کوشش کریں اور دنیا کے امن کی صورتحال کی طرف بھی توجہ دلائی جائے.دنیاوی طور پر کوئی کریڈٹ لینا تو ہمارا مقصد نہیں ہے.اصل مقصد تو خدا تعالیٰ کو خوش کرنا اور اس کی رضا حاصل کرنا ہے.اگر شعبے آپس میں تعاون سے کام کریں تو نتیجہ کئی گنا بہتر نکل سکتا ہے.پھر اکثر جگہوں سے اس بات کا بھی اظہار کیا جاتا ہے کہ شعبوں کے بجٹ صحیح طرح مختص نہیں کئے جاتے.ہر شعبے کو بجٹ جو شوری میں پاس ہوا ہوتا ہے وہ بجٹ دیا جانا چاہئے اور اس کے خرچ کا متعلقہ سیکرٹری کو اختیار ہونا چاہئے.ہاں یہ ضروری ہے کہ سیکرٹری سال کے کام کا منصوبہ عاملہ میں پیش کرے اور اس منظور شدہ منصوبے کے مطابق خرچ ہو اور پھر کام کا جائزہ ہر عاملہ میٹنگ میں لیا جائے اور اگر منظور شدہ منصوبے میں یا کام کے طریق میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہو یا بہتری کی گنجائش کی طرف کسی کی توجہ ہو اور دلائی جائے تو اس پر دوبارہ غور کر لیا جائے.19

Page 22

پھر امراء اور صدران اور جماعتی سیکرٹریان کا یہ بھی بہت اہم کام ہے کہ مرکز سے جو ہدایات جاتی ہیں یا سرکلر جاتے ہیں ان پر فوری اور پوری توجہ سے عملدرآمد کریں اور اپنی جماعتوں کے ذریعہ بھی کروایا جائے.بعض جماعتوں کے بارے میں یہ شکایات ملتی ہیں کہ مرکزی ہدایات پر پوری طرح عمل نہیں کیا جاتا.اگر کسی ہدایت کے بارے میں کسی خاص ملک یا جماعت کوملکی حالات کی وجہ سے کچھ تحفظات ہوں تو پھر بھی فوری طور پر مرکز سے رابطہ کر کے حالات کے مطابق اس میں تبدیلی کرنے کی درخواست کرنی چاہئے اور یہ کام امیر جماعت اور صدر کا ہے.لیکن یہ کسی طور پر بھی مناسب نہیں کہ اپنی عقل لڑاتے ہوئے اس ہدایت کو ایک طرف رکھ کر دبا دیا جائے اور اس پر عمل نہ کروایا جائے اور نہ ہی مرکز کو اطلاع کی جائے.کسی بھی امیر یا صدر جماعت کی جو یہ حرکت ہے یہ مرکز گریز رویہ سمجھی جائے گی اور اس بارہ میں پھر مرکز کارروائی بھی کر سکتا ہے.موصیان کے بارہ میں بھی میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پہلی بات تو موصیان کو یہ یاد رکھنی چاہئے کہ اپنے چندے کی باقاعدہ ادا ئیگی اور اس کا حساب رکھنا ہر موصی کی اپنی ذمہ داری ہے.لیکن مرکزی دفتر اور متعلقہ سیکرٹریان کا بھی کام ہے کہ ہر موصی کا حساب مکمل رکھیں اور جب ضرورت ہو انہیں یاد دہانی بھی کروائیں کہ ان کے چندے کی کیا صورتحال ہے؟ ملکی جماعت کا کام ہے کہ مقامی جماعتوں کے سیکرٹریان کو فعال کریں اور ہر موصی ان کے رابطے میں ہو.بعض دفعہ دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی معاملے میں کسی شخص کے بارے میں رپورٹ منگوائی جاتی ہے اور وہ شخص موصی ہوتا ہے.رپورٹ میں ذکر کر دیا جاتا ہے کہ اس نے اتنے عرصے سے وصیت کا چندہ نہیں دیا.جب پوچھا جائے کہ وصیت کا چندہ نہیں دیا تو وصیت کس طرح قائم ہے؟ تو پھر تحقیق کرنے پر پتا چلتا ہے کہ موصی کا قصور نہیں تھا.اس 20

Page 23

نے تو چندہ دیا تھا.لیکن ریکارڈ رکھنے والوں نے ، دفتر نے صحیح ریکار ڈ نہیں رکھا.ایک تو ایسی رپورٹ بلا وجہ موصی کو پریشان کرنے کا موجب بنتی ہے.دوسرے جماعتی نظام کی کمزوری کا بھی برا اثر پڑتا ہے.اب تو ٹھوس حسابات کا انتظام ہو چکا ہے.بڑا systematic طریقہ ہے.کمپیوٹر ہیں، سب کچھ ہیں.ایسی غلطی ہونی نہیں چاہئے.ہر ملک کے سیکرٹریان وصایا اور سیکرٹریان مال اپنے ملک کی ہر جماعت کے متعلقہ سیکرٹریان کو فعال کریں اور امرائے جماعت کا بھی یہ کام ہے کہ اس کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے رہا کریں.صرف چندہ جمع کرنا اور اس کی رپورٹ کرنا ان کا کام نہیں ہے بلکہ اس نظام کو قابل اعتماد بنانا اور مرکز اور مقامی جماعتی نظام میں مضبوط ربط پیدا کرنا بھی امراء کا کام ہے.اسی طرح ایک بات مبلغین اور مربیان کے حوالے سے بھی کہنا چاہتا ہوں.بعض جگہ مربیان مبلغین کی باقاعدہ ہر ماہ میٹنگز نہیں ہوتیں.مبلغ انچارج اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ یہ میٹنگز با قاعدہ ہوں.جماعتی تربیتی اور تبلیغی کاموں کا بھی جائزہ ہو.جو بہتر کام کسی نے کیا ہے اس کے بارہ میں تبادلہ خیال ہو اور کسی کی طرف سے اس بہتر کام کا جوطریقہ کار اپنایا گیا تھا اُس سے دوسرے بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.اسی طرح جو جماعتی سیکرٹریان جماعتوں کو ہدایت دیتے ہیں یا مرکز کی ہدایت پر جماعتوں کو ہدایت بھجوائی جاتی ہے اس بارے میں بھی رپورٹ دیں.مربیان یہ بھی دیکھا کریں کہ ہر جماعت میں اس سلسلے میں کتنا کام ہوا ہے اور جہاں سیکرٹریان فعال نہیں ہیں.خاص طور پر تبلیغ اور تربیت اور مالی قربانی کے معاملے میں وہاں مربیان اور مبلغین انہیں توجہ دلائیں.اللہ تعالیٰ تمام عہدیداروں کو توفیق دے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے جو آئندہ تین سال کے لئے خدمت کا موقع دیا ہے اس میں وہ زیادہ سے زیادہ کام اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ہاتھ سرانجام دے سکیں اور اپنے ہر قول وفعل سے جماعت میں نمونہ بننے والے ہوں.21

Page 23