Rasoomat K Mutalaq Taleem

Rasoomat K Mutalaq Taleem

رسومات کے متعلق تعلیم

Author: Other Authors

Language: UR

UR
اخلاقیات

مصنفہ نے رسومات کے متعلق تعلیم کے عنوان سے جلسہ سالانہ 1966ء کے موقع پر تقریر کی تھی جسے افادیت کے پیش نظر متعدد بار کتابی شکل میں پیش کیاجاچکا ہے۔ چونکہ نئے لوگ بھی جماعت میں داخل ہوتے ہیں اور نئی نسل بھی جوان ہورہی ہوتی ہے۔ اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ ا ن کو معاشرے میں بڑی تیزی سے پھیلنے والی رسومات و بدعات سے بچایاجائے۔ خلفائے احمدیت کا رسومات کے خلاف جہاد جاری وساری ہے، ایسے میں احمدیوں کو بطور خاص آگہی، روشنی اور درست معلومات سے واقف ہونا ضروری ہے تاکہ وہ نہ صرف خود محفوظ رہیں، اپنی اولادوں اور نسلوں کو بچانے والے ہوں بلکہ اپنے معاشروں کی اصلاح کا سامان بھی کرسکیں۔


Book Content

Page 1

(احمدی احباب جماعت کیلئے ) رسومات کے متعلق تعلیم از حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ

Page 2

1 عَرِضْ حَالٍ رسومات کے متعلق تعلیم کے عنوان پر عاجزہ نے جلسہ سالانہ 1966 ء کے موقع پر تقریر کی تھی.جسے پہلی دفعہ لجنہ اماءاللہ پشاور نے اور دوسری بار لجنہ مرکزیہ نے کتابی صورت میں شائع کیا تھا.نئے لوگ بھی جماعت میں داخل ہوتے ہیں اور نئی نسل بھی جوان ہوتی ہے.اس لئے ضروری ہے کہ بار بار یہ باتیں ان کے سامنے بیان کی جائیں تا کہ وہ رسومات اور بدعات سے بچیں.کچھ عرصہ سے بعض لجنات کے دوروں کے نتیجہ میں اور یہاں بھی بہنوں اور بچیوں سے بات چیت کرنے کے نتیجہ میں میرا مشاہدہ ہے کہ بہت سے اہم مسائل کے متعلق نئی نسل کو کم واقفیت ہے جس کی وجہ سے وہ غلطیوں کا شکار ہو جاتی ہے.اس لئے اس کتا بچہ کو مزید حوالہ جات کے اضافہ کے ساتھ شعبہ اشاعت لجنہ اماء اللہ مرکزیہ پاکستان شائع کر رہا ہے.تمام بہنوں کو اسے پڑھنا چاہئے اپنی بچیوں کو پڑھانا چاہئے.بجنات کثیر تعداد میں اکٹھی خرید لیں تا کوئی ایک احمدی بہن اور بچی ایسی نہ رہے جس نے اسے نہ پڑھا ہو.دیہاتی لجنات کو خصوصی توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ دیہات میں اب بھی رسوم کثرت سے پائی جاتی ہیں.میں سیدنا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد مظہر ثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے

Page 3

2.مندرجہ ذیل الفاظ کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرواتی ہوں.کہ کس درد سے آپ نے جماعت کو رسومات کے خلاف جہاد کرنے کی طرف توجہ دلائی تھی اللہ تعالیٰ آپ کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.میں ہر گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر اور ہر (احمدی ) گھرانہ کو مخاطب کر کے بد رسوم کے خلاف جہاد کا اعلان کرتا ہوں اور جو احمدی گھرانہ آج کے بعد ان چیزوں سے پر ہیز نہیں کرے گا اور ہماری اصلاحی کوشش کے باوجود اصلاح کی طرف متوجہ نہیں ہو گا وہ یہ یادر کھے کہ خدا اور اس کے رسول اور اس کی جماعت کو اس کی کچھ پرواہ نہیں...پس آج میں اس مختصر سے خطبہ میں ہر احمدی کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق ہر بدعت اور بد رسم کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا ہے اور میں امید رکھتا ہوں آپ سب میرے ساتھ اس جہاد میں شریک ہوں گے اور اپنے گھروں کو پاک کرنے کے لئے شیطانی وسوسوں کی سب راہوں کو اپنے گھروں پر بند کر دیں گے (خطبہ جمعہ 23 جون 1967ء) اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں خلافت سے وابستہ رہنے اور قدرت ثانیہ " کے مظہر الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ کی پوری پوری اطاعت کی توفیق عطا فرمائے.آمین خاکسار مریم صدیقہ

Page 4

3 بسم الله الرحمن الرحيم، نحمده ونصلى على رسوله الكريم تیرا نبی جو آیا اس نے خدا دکھایا دین قویم لایا بدعات کو مٹایا شریعت کے بنیادی اصول صرف تین ہیں.قرآن مجید.سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حدیث اور اس زمانہ کے لحاظ سے موعود آخر الزمان کے فتاوی.کیونکہ اس زمانہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس کو حکم اور عدل بنا کر مبعوث فرمایا اور آپ نے دنیا کو بتایا کہ کونسا کام صحیح ہے اور کونسا غلط.رسم کی تعریف:.اس اصولی تعلیم کے لحاظ سے ہم رسم اس کام کو کہیں گے جس کا صلى الله ثبوت قرآن مجید اور حدیث رسول اللہ ﷺ سے نہ ملے.جس کا کرنا آپ کے خلفاء رضی اللہ عنہم سے ثابت نہ ہوتا ہو اور جو انسان اس لئے نہ کرتا ہو کہ اس کے لئے ضروری ہے بلکہ اس لئے کہ اس کے باپ دادا یہ کام کرتے چلے آئے ہیں اور اس کے کرنے کی غرض خود نمائی اور اپنی برادری کنبہ میں اپنی ناک اونچی رکھنا ہو.

Page 5

4 رسول کریم ﷺ کی بعثت کی غرض :- :.آنحضرت ﷺ کی بعثت کی غرض ہی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ بیان فرمائی ہے کہ آپ نوع انسانی کو ان قسما قسم کے پھندوں سے آزاد کروائیں.جن کے طوق انسانوں نے خود پہن رکھے تھے اور ان کی روح کو پاک وصاف کر کے ان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کریں.مذہب کا مرکزی نقطہ توحید ہے یعنی انسان کی پوری توجہ اس کی عبادت اس کے بندوں سے تعلقات.رشتہ داریوں کا نبھانا.مرنا جینا سب اللہ تعالیٰ کی خاطر ہو جب انسان تو حید کے اس مقام سے جہاں اس کے لئے قائم ہونا ضروری ہے ذرا بھی ادھر ادھر ہٹتا ہے تو پہلے مختلف رسومات میں گرفتار ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ ان کے جال میں ایسا پھنستا ہے کہ شرک کرنے پر اتر آتا ہے.گویا شرک لازمی نتیجہ ہے.رسومات کی پیروی کا اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيُّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْههُم.الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَ عَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِى أُنْزِلَ مَعَهُ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (سورة الاعراف: 158) عَنِ

Page 6

5 ترجمہ:.وہ (لوگ) جو ہمارے اس رسول ( یعنی محمد رسول اللہ ﷺ) کی اتباع کرتے ہیں جو نبی ہے اور امی ہے جس کا ذکر تو رات اور انجیل میں ان کے پاس لکھا ہوا موجود ہے وہ ان کو نیک باتوں کا حکم دیتا ہے اور بُری باتوں سے روکتا ہے اور سب پاک چیزیں ان پر حلال کرتا ہے اور سب بُری چیزیں ان پر حرام کرتا ہے اور ان کے بوجھ (جوان پر لا دے ہوئے تھے ) اور طوق جو ان کے گلوں میں ڈالے ہوئے تھے وہ ان سے دور کرتا ہے.پس وہ لوگ جو اس پر ایمان لائے اور اس کو طاقت پہنچائی اور اس کو مدد دی اور اس نور کے پیچھے چل پڑے جو اس کے ساتھ اتارا گیا تھا وہی لوگ با مراد ہوں گے.اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ کامیابی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان ہر کام میں یہ مد نظر رکھے کہ وہ آنحضرت ﷺ کی کامل اتباع کر رہا ہے یا نہیں.آپ کی اتباع سے ہی وہ نیک کام کر سکے گا.پاک چیزوں اور پاک باتوں کو اختیار کر سکے گا.اور بُرے کاموں سے مجتنب رہے گا.یہی تقویٰ کا حقیقی مقام ہے جو آنحضرت ﷺ کی کامل اطاعت اور پیروی کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا.آنحضرت ﷺ کے طریق پر چلنا سنت ہے اور اس کو چھوڑ کر کوئی اور طریق اختیار کرنا بدعت.سنت اور بدعت میں فرق:.حضرت اقدس موعود امام آخر الزمان سنت اور بدعت کا فرق بتاتے ہوئے فرماتے ہیں:

Page 7

غرض اس وقت لوگوں نے سنت اور بدعت میں سخت غلطی کھائی ہوئی ہے اور ان کو ایک خطر ناک دھوکہ لگا ہوا ہے وہ سنت اور بدعت میں کوئی تمیز نہیں کر سکتے.آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ کو چھوڑ کر خود اپنی مرضی کے موافق بہت سی راہیں خود ایجاد کر لی ہیں اور ان کو اپنی زندگی کے لئے کافی راہ نما سمجھتے ہیں حالانکہ وہ ان کو گمراہ کرنے والی چیزیں ہیں.جب آدمی سنت اور بدعت میں تمیز کر لے اور سنت پر قدم مارے تو وہ خطرات سے بچ سکتا ہے لیکن جو فرق نہیں کرتا اور سنت کو بدعت کے ساتھ ملاتا ہے اس کا انجام اچھا نہیں ہو سکتا.ملفوظات جلد دوم صفحہ 389 ) پھر آپ فرماتے ہیں :.اعمال صالحہ کی جگہ چند رسوم نے لے لی ہے اس لئے رسوم کے تو ڑنے سے یہی غرض ہوتی ہے کہ کوئی فعل یا قول قال اللہ اور قال الرسول کے خلاف اگر ہو تو اسے توڑا جائے جبکہ ہم....کہلاتے ہیں اور ہمارے سب اقوال اور افعال اللہ تعالیٰ کے نیچے ہونے ضروری ہیں پھر ہم دنیا کی پرواہ کیوں کریں؟ جو فعل اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے رسول لے کے خلاف ہو اس کو دور کر دیا جاوے اور چھوڑا جاوے جو حدود الہی اور وصایا رسول اللہ علیہ کے موافق ہوں ان پر عمل کیا جاوے کہ احیاء سنت اسی کا نام ہے.ملفوظات جلد دوم صفحہ 391.....کا پیدا کردہ انقلاب:.آنحضرت ﷺ سے قبل دنیا شرک گمراہی اور ضلالت میں

Page 8

7 گھری ہوئی تھی بت پرستی کے ساتھ ساتھ ہزاروں قسم کی رسومات کے پھندے ان کے گلوں میں پڑے ہوئے تھے لیکن ہزاروں درود و سلام اس محسن انسانیت پر جس نے ساری دنیا کو شرک سے پاک کر دیا.ہزار ہا سال کے پھندے جو ان کی گردنوں میں پڑے ہوئے تھے وہ نکال کر پھینک دیئے اور سب قسم کی برائیوں سے پاک کر کے خدائے واحد کے آگے ان کا سر جھکا دیا.وہ جو بتوں کے آگے سجدہ کرتے تھے اور ان پر چڑھاوے چڑھاتے تھے وہ ایک خدا کے پرستار ہو گئے اور اپنے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی رضا کو مدنظر رکھنے لگ گئے جو شرا میں پیتے تھے فسق و فجور میں گرفتار رہتے تھے اور اپنے ان کاموں کو فخر یہ بیان کرتے تھے وہ ان افعال سے اس طرح دور بھاگنے لگے جیسے سانپ سے.یہی وہ لوگ ہیں جن کا اس آیت میں ذکر ہے اور وہ آنحضرت ﷺ پر ایمان لائے آپ کی کامل اطاعت کی.اپنی جان ، مال ، عزت اور اولا دسب کچھ آپ کے قدموں میں لا ڈالا.جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ان پر بے حد فضل اور الله انعامات کئے اور دنیا کا حکمران ان کو بنا دیا.شراب ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی.جوئے کے وہ عادی تھے لیکن آنحضرت ﷺ کی ایک آواز پر شرابوں کے منکے اس طرح توڑ دیئے گئے کہ گلی کوچوں میں شراب بہتی پھرتی تھی اور پھر کبھی کسی مسلمان کا دہن شراب سے آشنا نہ ہوا.ہر قسم کے رسوم ، برائیاں ، نفسانی خواہشات، احباب ، دوست چھوڑ کر انہوں نے آنحضرت ﷺ کی محبت اور اطاعت

Page 9

8 کو اختیار کر لیا.جیسا کہ حضرت اقدس فرماتے ہیں : قَدُ اثَرُوكَ وَفَارَقُوا اَحبَ وَتَبَاعَدُوا مِنْ حَلْقَةِ الْإِخْوَانِ قَدْ وَدَّعُوا أَهْوَاءَ هُمْ وَنُفُوسَهُمُ وَتَبَرَّؤُوا مِنْ كُلِّ نَبِ فَـــــان ظَهَرَتْ عَلَيْهِمُ بَيِّنَاتُ رَسُولِهِم فَتَمَزَّقَ الْاهُوَاءُ كَالا وثَـــــان ترجمہ:.کہ انہوں نے تجھے اختیار کیا اور اپنے دوستوں سے جدا ہو گئے.اور اپنے بھائیوں کے دائرہ سے دوری اختیار کر لی.انہوں نے اپنی خواہشات اور نفسوں کو الوداع کہہ دیا.اور ہر قسم کے فانی مال و منال سے بیزار ہو گئے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے واضح اور روشن دلائل ان پر ظاہر ہوئے تو ان کی نفسانی خواہشیں بتوں کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو گئیں.اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا ہے.قَدْ أَنْزَلَ اللهُ إِلَيْكُمُ ذِكْرًا رَسُوْلَا يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آيَاتِ اللهِ مُبَيِّنَتٍ لِيُخْرِجَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ مِنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّورِ.( سورة الطلاق :12) ترجمہ :.اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے شرف کا سامان یعنی رسول اتارا ہے جو تم کو اللہ تعالیٰ کی ایسی آیات سناتا ہے جو ہر نیکی اور بدی کو کھول

Page 10

9 دیتی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مومن لوگ جو اپنے ایمان کے مطابق عمل کرتے ہیں وہ اندھیروں سے نکل کر نور میں آجاتے ہیں.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے اور آپ کے بتائے ہوئے طریق پر چلنے کے نتیجہ میں انسان اندھیرے سے نکل کر ایمان کے اجالے میں آ جاتا ہے.یہ کون سا اندھیرا ہوتا ہے؟ یہ اندھیرا شرک و بدعت اور رسوم کا اندھیرا ہوتا ہے جس نے انسان کے گرد جالے تنے ہوئے ہوتے ہیں.جو آنحضرت ﷺ کی کامل اطاعت اور آپ کے نقش قدم پر چلنے سے ٹوٹنے شروع ہو جاتے ہیں.اب بھی اگر اپنے معاشرے سے ہم نے رسومات کے اندھیروں کو دور کرنا ہے تو اپنے ہر کام میں اس بات کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ ہمارا یہ کام سنت رسول صلى الله اللہ علہ کے مطابق ہے یا نہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ قرآن مجید کی سورۃ ابراہیم میں فرماتا ہے:.كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّورِ بِاِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَى صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ (ابراهيم :2) ترجمہ:.(یہ قرآن مجید ) ایک کتاب ہے جسے ہم نے تجھ پر اس لئے اتارا ہے کہ تو تمام لوگوں کو ان کے رب کے حکم سے ظلمت سے نکال کر نور کی طرف یعنی اس کامل طور پر غالب اور کامل محمود ہستی تک پہنچنے کے راستہ کی طرف لے جائے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ قرآن کریم ایک

Page 11

10 روشنی ہے جس کے ذریعہ سے آنحضرت ﷺ لوگوں کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لے جائیں گے اور وہ روشنی کا راستہ وہی راستہ ہے جو عزیز وحمید خدا کی طرف جاتا ہے.یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ رسم و رواج پر چل کر انسان خدا کا نور حاصل نہیں کر سکتا.بلکہ برادری اور رسوم سب پر لات مار کر اللہ تعالیٰ کے ان احکام پر جو اس نے قرآن مجید میں بیان فرمائے ہیں.عمل پیرا ہو کر خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے راستہ پر گامزن ہو سکتا ہے.قصور اپنا ہی اندھوں کا وگرنہ وہ نور ہے که صد تیر بیضاء نکلا ایسا چمکا ہے کہ زندگی ایسوں کی کیا خاک ہے اس دنیا میں جن کا اس نور کے ہوتے بھی دل اعمی نکلا مذکورہ بالا تینوں آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کی روحانی ترقی صرف اس صورت میں ہوسکتی ہے کہ ہر کام کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ کی کامل اطاعت کی جائے اور دیکھ لیا جائے کہ اس کام کے متعلق قرآن مجید کیا تعلیم دیتا ہے اور آنحضرت ﷺ کے ارشادات اور آپ کا عمل صلى الله اس بارہ میں کیا تھا.آنحضرت ﷺ کے زمانہ سے جوں جوں بعد ہوتا گیا مسلمان رسم ورواج کے پھندوں میں گرفتار ہوتے گئے.نام کا اسلام رہ گیا شریعت پر عمل نہ رہا.ہندوؤں اور عیسائیوں کی ہمسائیگی میں ان کے طور و طریق اختیار کر لئے اور وہ وہ رسوم رائج ہوئیں جن کا اسلام سے دور کا

Page 12

11 تعلق بھی نہ تھا.اللہ تعالیٰ کا امت محمدیہ پر خاص فضل ہوا کہ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں اور اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق حضرت اقدس موعود امام الزمان تشریف لائے تا کہ اس اثر کو مسلمانوں پر سے دور کر دیں جو مسلمانوں پر چھایا ہوا تھا.چنانچہ جنہوں نے حضور کو مانا انہوں نے سب کچھ چھوڑ دیا.اور ظلمت سے نکل کر نور کے سایہ تلے آگئے.انہوں نے خود محسوس کیا کہ آج تک ہم اندھیروں میں بھٹک رہے تھے.حضرت اقدس نے بھی دل کی صفائی کا یہی طریق بتایا ہے کہ آپ کی مکمل اطاعت کی جائے.چنانچہ حضور فرماتے ہیں:.غرض اس خانہ کو ( مراد دل.ناقل ) بتوں سے پاک وصاف کرنے کے لئے ایک جہاد کی ضرورت ہے اور اس جہاد کی راہ میں تمہیں بتا تا ہوں اور یقین دلاتا ہوں اگر تم اس پر عمل کرو گے تو ان بتوں کو توڑ ڈالو گے اور یہ راہ میں اپنی خود تراشیدہ نہیں بتا تا.بلکہ خدا نے مجھے مامور کیا ہے کہ میں بتاؤں.اور وہ راہ کیا ہے؟ میری پیروی کرو اور میرے پیچھے چلے آؤ.یہ آواز نئی آواز نہیں ہے مکہ کو بتوں سے پاک کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ نے بھی کہا تھا قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله (ال عمران : 32) اسی طرح پر اگر تم میری پیروی کرو گے تو اپنے اندر کے بتوں کو توڑ ڈالنے کے قابل ہو جاؤ گے اور اس طرح پر سینہ کو جو طرح طرح کے بتوں سے بھرا پڑا ہے پاک کرنے کے

Page 13

12 لائق ہو جاؤ گے.ملفوظات جلد اول صفحہ 120 121 یہ اللہ تعالیٰ کا خاص احسان ہے کہ جماعت احمد یہ تو حید کے اعلیٰ مقام پر قائم ہے اور اللہ تعالیٰ اور آنحضرت ﷺ کے ارشادات پر چلنے میں ہی فخر محسوس کرتی ہے لیکن جب کوئی جماعت ترقی کرتی ہے اور پھیلنے لگتی ہے تو نئے نئے لوگ داخل ہوتے ہیں اور اپنے ساتھ بہت سی کمزوریاں لاتے ہیں جن کے نتیجہ میں کئی رسومات پھیل جاتی ہیں.بعضوں میں نقالی کا مادہ ہوتا ہے دوسروں کو دیکھ کر بغیر یہ سوچے سمجھے کہ یہ جائز بھی ہے یا نہیں یا ہماری روایات کے مطابق ہے یا نہیں عمل کرنے لگتے ہیں.چند سال سے مجھے یہ احساس ہو رہا ہے کہ جماعت احمدیہ کے ایک طبقہ میں جن میں عورتیں زیادہ ہیں پھر سے رسومات کی ابتدا ہو گئی ہے اور جن ظلمتوں سے نکالنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو بھیجا تھا ان ظلمتوں کے خفیف سائے ان پر پھر پڑنے لگے ہیں.حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا.کیونکہ جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص انعام ، انعام خلافت سے وعدہ کے مطابق نوازا ہے.خلیفہ وقت جانشین ہوتا ہے حضرت مسیح موعود امام آخر الزمان کا.اور حضرت مسیح موعود امام آخر الزمان ظنِ کامل ہیں آنحضرت ﷺ کے گویا خلیفہ وقت کے احکام پر چلنے آپ کی کامل اطاعت کرنے سے ہم حضرت بانی سلسلہ احمد یہ اور آنحضرت اللہ کے مطیع و فرمانبردار بن سکتے ہیں.رسومات کا تعلق چونکہ زیادہ تر عورتوں سے ہوتا ہے.اس لئے

Page 14

13 عورتوں کو اس طرف از حد توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ وہ قرآن مجید کی تعلیم کی خلاف ورزی تو نہیں کر رہیں.انہیں قرآن مجید کا یہ حکم ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُوْلَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ - النساء : 52 اللہ تعالیٰ اور آنحضرت ﷺ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ خلفاء کی اطاعت بھی ہم پر فرض ہے بغیر مکمل اطاعت کے ترقی ناممکن ہے.ہر تحریک جو خلیفہ وقت کی طرف سے پیش ہو اس پر ہر مرد عورت اور بچہ کا لبیک کہنا فرض ہے.تمام تنظیموں کا کام بھی یہی ہونا چاہئے کہ خلیفہ وقت کی تحریکات کو چلانے میں اپنی قوتیں بروئے کارلائیں.حضرت مصلح موعود نے بھی جب لجنہ اماءاللہ کا قیام فرمایا تو لجنہ اماءاللہ کے دستور کی ایک شق یہ قرار دی:.اس امر کی ضرورت ہے کہ جماعت میں وحدت کی روح قائم رکھنے کے لئے جو بھی خلیفہ وقت ہو اس کی تیار کردہ اسکیم کے مطابق اور اس کی ترقی کو مد نظر رکھ کر تمام کارروائیاں ہوں.“ الجنہ اماءاللہ کی ابتدائی تحریک 1922ء الازهارلذوات الحمارص 53 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی رسومات منانے کے متعلق تحریک حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے جو تحریکات

Page 15

14 مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد جماعت اور خصوصاً احمدی مستورات کے سامنے رکھیں ان میں سے ایک تحریک جماعت سے رسومات کی بیخ کنی کرنا تھا.آپ نے فرمایا تھا: پہلا امتحان اور آزمائش وہ احکام الہی یا تعلیم الہی ہے جو ایک نبی اللہ تعالیٰ کی طرف سے لے کر آتا ہے اور جس تعلیم کے نتیجہ میں مومنوں کو کئی قسم کے مجاہدات کرنے پڑتے ہیں.بعض دفعہ اپنے مالوں کو قربان کرنے سے اور بعض دفعہ اپنی عزتیں اور وجاہتیں اللہ تعالیٰ کے لئے نچھاور کرنے سے.خطبہ جمعہ 8 اپریل 1966 ء کی پھر آپ نے لجنہ اماءاللہ کے سالانہ اجتماع 1966ء کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:.حضرت مصلح موعود نے جماعت میں اور خصوصاً جماعت کی مستورات میں ایک مہم جاری کی تھی اور اس نے بڑی کامیابی حاصل کی تھی اور وہ مہم یہ تھی کہ جماعت بد رسوم اور بُری عادتوں کو چھوڑ دے اور بے تکلف زندگی اور اسلامی زندگی گزارنے کی عادی ہو جائے.ایک وقت جماعت پر ایسا آیا کہ حضور اپنی کوششوں میں کامیاب ہوئے اور جماعت بد رسموں سے اور بد رسموں کے بدنتائج سے محفوظ ہوگئی لیکن اب پھر جماعت کا ایک حصہ اس طرف سے غفلت برت رہا ہے خصوصا وہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے دنیوی مال یا دنیوی وجاہتیں عطا کی ہیں وہ بجائے اس کے کہ اپنے رب کے شکر گزار بندے بن کر اپنی زندگیوں کے دن گزارتے

Page 16

15 لوگوں کی خوشنودی کے حصول کی خاطر اور اس عزت کے لئے جو حقیقت میں ذلت سے بھی زیادہ ذلیل ہے اس دنیا کی عزت اور بد رسوم کی طرف ایک حد تک مائل ہو رہے ہیں یہ بد رسوم شادی بیاہ کے موقع پر بھی کی جاتی ہیں اور موت فوت کے موقع پر بھی ہوتی ہیں ہمیں کلیۂ ان کو چھوڑ نا پڑے گا.“ تقریر 22 اکتوبر 1966 ء المصابیح صفحہ 31) پھر آپ نے فرمایا:.مختصراً میں بڑی تاکید کے ساتھ آپ میں سے ہر ایک کو کہتا ہوں کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے تعلیمی لحاظ سے قرآن کریم کے اس اعلان کے ذریعہ ان رسوم کو یک قلم مٹا دیا ہے آپ اپنے گھروں سے اور اپنی زندگیوں سے ان رسوم کو اور بد عادات کو یکسر اور یک قلم مٹا دیں اور دنیا اور دنیا داروں کی پرواہ نہ کریں اور اپنے رب کی رضا کی پرواہ کریں.“ 66 المصابیح صفحہ 32 پھر 23 جون 1967ء کے خطبہ جمعہ میں آپ نے بڑے واضح الفاظ میں مستورات کو مخاطب کر کے فرمایا:.میں ہر گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر اور ہر گھرانہ کو مخاطب کر کے بد رسوم کے خلاف اعلان جہاد کرتا ہوں اور جو احمدی گھرانہ بھی آج کے بعد ان چیزوں سے پر ہیز نہیں کرے گا اور ہماری اصلاحی کوششوں کے باوجود اصلاح کی طرف متوجہ نہیں ہو گا وہ یہ یادر کھے کہ خدا اور اس کے رسول ﷺ اور اس کی جماعت کو اس کی کچھ پرواہ نہیں ہے.وہ اس

Page 17

16 طرح جماعت سے نکال کے باہر پھینک دیا جائے گا جس طرح دودھ سے مکھی.پس قبل اس کے کہ خدا کا عذاب کسی قہری رنگ میں آپ پر وارد ہو یا اس کا قہر جماعتی نظام کی تعزیر کے رنگ میں آپ پر وارد ہوا اپنی اصلاح کی فکر کرو اور خدا سے ڈرو اور اس دن کے عذاب سے بچو کہ جس دن کا ایک لحظہ کا عذاب بھی ساری عمر کی لذتوں کے مقابلہ میں ایسا ہی ہے کہ اگر یہ لذتیں اور عمریں قربان کر دی جائیں اور انسان اس سے بچ سکے تو تب بھی وہ سودا مہنگا سودا نہیں سستا سودا ہے.“ 66 خطبات ناصر جلد اول ص 763 - خطبہ جمعہ 23 جون 1967ء کی پھر 1978ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر ایک بار پھر جب بعض نقائص حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے سامنے آئے تو آپ نے عورتوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :.کیا آپ آج مہدی موعود کو یہ کہیں گی کہ ہم آپ پر ایمان لائیں ہمیں اسلام کی روشنی ملی ہم اس کے نور سے منور ہوئے.ہمارے سامنے اسلام کی حقیقت آ گئی ہر قسم کے گردوغبار کو صاف کر کے بدعات کو دور کر کے لیکن پھر بھی ہم حقیقی اسلام چھوڑ کر بدعات سے چھٹی رہنا چاہتی ہیں.ایک حدیث میں آتا ہے کہ کوئی ایک بدعت بھی ایسی نہیں ہوگی اسلام کی تعلیم کے ساتھ چمٹی ہوئی ( چمٹنے کا لفظ ہے فارسی میں ) کہ جس کو مہدی اکھیڑ کے پرے نہیں پھینک دے گا وہ خالص اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کرے گا اور ہر سنت کا احیاء کرے گا اور اس کو قائم کرے گا.“

Page 18

17 پھر اسی تقریر میں آپ نے فرمایا:.ان دس سال میں (لجنہ اماءاللہ کا پروگرام میں یہ بنا رہا ہوں جس کا آج اعلان کر رہا ہوں ) عالمگیر جماعت احمدیہ کی اجتماعی زندگی کے ہر پہلو کو ہر قسم کی بڑی یا چھوٹی بدعت سے پاک کیا جائے گا.یا پھر علیحدہ ہو جاؤ مسیح پاک کی اس پاک جماعت سے.‘ المصابیح صفحہ 349 350 ﴾ پس ان بدعات اور رسومات کو دور کرنے کے لئے ہر لجنہ اماءاللہ کو خصوصی اقدامات کرنے چاہئیں کیونکہ رسومات ہم کو سیدھی راہ سے دور رکھتی ہیں اور خدا تعالیٰ کے شہر میں داخل ہونے سے روکتی ہیں.اس لحاظ سے ہم پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم ہر اس کام کو ترک کر دیں جس پر رسم کی اصطلاح کا اطلاق ہوتا ہے.رسوم مختلف قسم کی ہوتی ہیں.مذہب کی طرف منسوب ہونے والی رسوم -1 -2 -3 شادی بیاہ سے متعلق رسوم وفات سے متعلق رسوم اور 4.بچہ کی پیدائش کے متعلق رسوم مذہب کی طرف منسوب ہونے والی رسوم :.مثلاً قبر پرستی ، قبروں پر عرس کرنا.میلا د کے وقت کھڑے ہونا اور شیرینی تقسیم کرنا.مختلف وظیفے بنالینا جن کا احادیث سے کوئی ثبوت نہ ملتا ہو.نماز میں تو اللہ تعالیٰ سے دعا نہ مانگی لیکن نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی.ختم قرآن.تعویذ گنڈے.جھاڑ پھونک وغیرہ وہ رسومات ہیں جو مذہب

Page 19

18 کے نام پر کی جاتی ہیں حالانکہ اسلام سے ان کا کوئی واسطہ نہیں.اسلام نام ہے تو حید کا توحید کے قیام کے لئے ہی اللہ تعالیٰ انبیاء صلى الله مبعوث فرماتا ہے.دنیا میں کامل توحید کا قیام آنحضرت ﷺ کے ذریعہ ہوا اور آج آپ کے ہی نام لیوا قبروں پر جا کر خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر ان بزرگوں سے جن کی ساری عمریں تو حید کے قیام میں گزریں دعائیں مانگتے اور ان کی قبروں پر چڑھاوے چڑھاتے ہیں.حالانکہ وہ بھول جاتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے تو فرمایا تھا کہ یہود ونصاری پر لعنت ہو جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ اس شرک و بدعت سے تو بکلی پاک ہے لیکن پھر بھی ضرورت ہے کہ ان کے مردوزن اور بچوں کی زندگیاں تو حید کے قیام اور شرک کے خلاف جہاد کرنے میں گزریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے الہاماً حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کو فرمایا:.خُذُوا التَّوْحِيدَ التَّوْحِيدَ يَا أَبْنَاءَ الْفَارِسِ(تذكره ص: 197) اس الہام میں آپ کے ذریعہ ساری جماعت بھی مخاطب ہوسکتی ہے کہ جس طرح ابناء فارس کے لئے تو حید کا دامن مضبوطی سے تھا منا لازم ہے اسی طرح ابناء فارس سے تعلق رکھنے والوں کے لئے یہ بھی وہ مرکزی نقطہ ہے جس کے گرد ہماری ساری تعلیم گھومتی ہے اگر مرکزی نقطہ ہی کمزور پڑ جائے تو ہمارے سارے دعاوی کمزور پڑ جاتے ہیں.تو حید کا دامن مضبوطی سے تھامنے سے مراد یہ نہیں کہ صرف منہ

Page 20

19 سے اقرار کرتے رہیں کہ اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں بلکہ خذ والتوحید سے یہ مراد ہے کہ ہر کام کرتے ہوئے ہم پہلے یہ سوچ لیں کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی جہاں اللہ تعالیٰ کے احکام اور برادری کی روایات میں ٹکر ہوتی ہو وہاں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام کو ترجیح دیں اور خدا کی خاطر نہ برادری کی پرواہ کریں نہ روایات کی نہ رشتہ داروں کی نہ کسی کے طعن و تشنیع کی.اسی مضمون کو بیان کرتے ہوئے حضور اقدس فرماتے ہیں:.د کتاب اللہ کے برخلاف جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب بدعت ہے اور سب بدعت فی النار ہے اسلام اس بات کا نام ہے کہ بجز اس قانون کے جو مقرر ہے ادھر اُدھر بالکل نہ جاوے کسی کا کیا حق ہے کہ بار بار ایک شریعت بناوے.‘ ملفوظات جلد سوم صفحہ 128 مسلمان قبروں پر عرس کرتے ہیں اس کے متعلق حضرت اقدس بانی سلسلہ فرماتے ہیں :.شریعت تو اسی بات کا نام ہے کہ جو کچھ آنحضرت ﷺ نے دیا ہے اسے لے لے اور جس بات سے منع کیا ہے اس سے ہٹے اب اس وقت قبروں کا طواف کرتے ہیں.ان کو مسجد بنایا ہوا ہے.عرس وغیرہ ایسے جلسے نہ منہاج نبوت ہے نہ طریق سنت ہے.ملفوظات جلد سوم صفحہ 128 مختلف وظائف اور گنڈے تعویذ کے متعلق آپ فرماتے ہیں :.وو ہمارا صرف ایک ہی رسول ہے اور صرف ایک ہی

Page 21

20 قرآن شریف اس رسول پر نازل ہوا ہے جس کی تابعداری سے ہم خدا کو پاسکتے ہیں.آج کل فقراء کے نکالے ہوئے طریقے اور گدی نشینوں اور سجادہ نشینوں کی سیفیاں اور دعائیں اور درود اور وظائف یہ سب انسان کو مستقیم راہ سے بھٹکانے کا آلہ ہیں.سو تم ان سے پر ہیز کرو.ان لوگوں نے آنحضرت ﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے کی مہر کو توڑنا چاہا.گویا اپنی الگ ایک شریعت بنالی ہے تم یادرکھو کہ قرآن شریف اور رسول اللہ علی کے فرمان کی پیروی اور نماز روزہ وغیرہ جو مسنون طریقے ہیں ان کے سوا خدا کے فضل اور برکات کے دروازے کھولنے کی اور کوئی کنجی ہے ہی نہیں.بھولا ہوا ہے وہ جو ان راہوں کو چھوڑ کر کوئی نئی راہ نکالتا ہے نا کام مرے گا وہ جو اللہ اور اس کے رسول کے فرمودہ کا تابعدار نہیں بلکہ اور اور راہوں سے اسے تلاش کرتا ہے.ملفوظات جلد سوم صفحہ 103 مسلمان آنحضرت ﷺ کے اخلاق حسنہ کا تذکرہ کرنے کے لئے میلاد کی مجلسیں منعقد کرتے ہیں جہاں تک میلا د کر نے کا سوال ہے اس سے بڑھ کر اور کیا نیکی ہو سکتی ہے کہ آپ کے اخلاق فاضلہ کا بار بار ذکر کیا جائے.آپ پر بار بار درود بھیجا جائے اور آپ کے اسوہ حسنہ کو اختیار کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جائے.لیکن مسلمانوں نے اپنی بدقسمتی سے اس نیک کام میں بھی بدعت داخل کر دی ہے کہ کھڑے ہو کر اس تصور سے درود پڑھا جائے کہ اس وقت آنحضرت ﷺ کی روح آتی ہے.قرآن تو کہتا ہے کہ جو اس دنیا سے

Page 22

21 رخصت ہو جائے وہ خواہ کتنی ہی بلند ہستی کیوں نہ ہو پھر اس دنیا میں واپس نہیں آتی.باقی رہنے والی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے درود انسان کھڑے بیٹھے ، لیٹے ، چلتے ، پھرتے ہر وقت بھیج سکتا ہے.یہ تو ایک دعا ہے الله جو ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق آنحضرت ﷺ اور آپ کی امت کے لئے کرتے ہیں لیکن وہی دعا جب اس ذہنیت سے کی جائے کہ درود پڑھتے ہی آپ کی روح آجاتی ہے تو وہی نیک کام بدعت بن جاتا ہے کسی حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا اگر ایسا ہونا ممکن تھا تو آنحضرت ﷺ یا آپ کے صلى الله صحابہ سے کوئی روایت بھی ثابت ہوتی.حضرت اقدس فرماتے ہیں:.آنحضرت ﷺ کا تذکرہ بہت عمدہ ہے بلکہ حدیث سے ثابت ہے کہ انبیاء اور اولیاء کی یاد سے رحمت نازل ہوتی ہے اور خود خدا نے بھی انبیاء کے تذکرہ کی ترغیب دی ہے لیکن اگر اس کے ساتھ ایسی بدعات مل جاویں جن سے توحید میں خلل واقع ہو تو وہ جائز نہیں.خدا کی شان خدا کے ساتھ اور نبی کی شان نبی کے ساتھ رکھو.آج کل کے مولویوں میں بدعت کے الفاظ زیادہ ہوتے ہیں اور وہ بدعات خدا کے منشاء کے خلاف ہیں اگر بدعات نہ ہوں تو پھر تو وہ ایک وعظ ہے آنحضرت ﷺ کی بعثت.پیدائش اور وفات کا ذکر ہو تو موجب ثواب ہے ہم مجاز نہیں کہ اپنی شریعت یا کتاب بنالیویں.ملفوظات جلد سوم صفحه 160,159 پھر آپ فرماتے ہیں :.و بعض ملاں اس میں غلو کر کے کہتے ہیں کہ مولود خوانی حرام

Page 23

22 ہے اگر حرام ہے تو پھر کس کی پیروی کرو گے؟ کیونکہ جس کا ذکر زیادہ ہواس سے محبت بڑھتی ہے اور پیدا ہوتی ہے.مولود کے وقت کھڑا ہونا جائز نہیں اور کہاں لکھا ہے کہ روح آتی ہے.ملفوظات جلد سوم صفحہ 160 پھر حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :.الله و نحضرت ﷺ نے ہر ایک کام کا نمونہ دکھلا دیا ہے وہ ہمیں کرنا چاہئے سچے مومن کے واسطے کافی ہے کہ دیکھ لیوے کہ یہ کام آنحضرت ﷺ نے کیا ہے کہ نہیں اگر نہیں کیا تو کرنے کا حکم دیا ہے یا نہیں؟ حضرت ابراہیم آپ کے جد امجد تھے اور قابل تعظیم تھے کیا وجہ کہ آپ نے ان کا مولود نہ کروایا.ملفوظات جلد سوم صفحه 162 " آج کل ایک رسم ختم قرآن کی بھی رائج ہے اس سلسلہ میں حضرت اقدس فرماتے ہیں :.کیا آنحضرت ﷺ نے کبھی روٹیوں پر قرآن پڑھا تھا ؟ اگر آپ نے ایک روٹی پر پڑھا ہوتا تو ہم ہزار پر پڑھتے.“ 66 ملفوظات جلد سوم صفحہ 162,161 پھر آپ فرماتے ہیں :.خدا تعالیٰ کے پاک کلام قرآن کو نا پاک باتوں سے ملا کر پڑھنا بے ادبی ہے وہ تو صرف روٹیوں کی غرض سے ملاں لوگ پڑھتے ہیں.اس ملک کے لوگ ختم و غیرہ دیتے ہیں تو ملاں لوگ لمبی لمبی سورتیں پڑھتے ہیں کہ شور با اور روٹی زیادہ ملے.وَلَا تَشْتَرُوا بِايَتِى ثَمَنًا قَلِيلًا (البقره: 42)

Page 24

23 یہ کفر ہے.“ ملفوظات جلد سوم صفحہ 158 ایک بزرگ نے عرض کی کہ حضور میں نے اپنی ملازمت سے پہلے یہ منت مانی تھی کہ جب میں ملازم ہو جاؤں گا تو آدھ آنہ فی روپیہ کے حساب سے نکال کر اس کا کھانا پکوا کر حضرت پیران پیر کا ختم دلواؤں گا.اس کے متعلق حضور کیا فرماتے ہیں.فرمایا کہ:.خیرات تو ہر طرح اور ہر رنگ میں جائز ہے اور جیسے چاہے انسان دے مگر اس فاتحہ خوانی سے ہمیں نہیں معلوم کیا فائدہ ؟ اور یہ کیوں کیا جاتا ہے؟ میرے خیال میں یہ جو ہمارے ملک میں رسم جاری ہے کہ اس پر کچھ قرآن شریف وغیرہ پڑھا کرتے ہیں یہ طریق تو شرک ہے اور اس کا ثبوت آنحضرت ﷺ کے فعل سے نہیں غرباء ومساکین کو بے شک کھانا کھلاؤ ملفوظات جلد سوم صفحہ 180 غرض اس قسم کی اور بھی بہت سی بدعات ہیں جو مذہب کے نام پر لوگوں نے مذہب میں داخل کر کے مذہب کا حصہ قرار دے دی ہیں لیکن تیرہ سو سال کی اسلامی تاریخ میں ان کا نام ونشان بھی نہیں ملتا کہ کبھی مسلمانوں نے ان پر عمل کیا ہو.مسلمان جب مذہب سے دور جا پڑے تو ان کی گمراہی کو دور کرنے اور صحیح راستے پر چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت موعود آخرالزمان کو مبعوث فرمایا.آپ نے پھر سے محمدی شریعت کا قیام فرمایا اور دنیا کو یہ تعلیم دی کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہی انسان کی زندگی کا مقصد اور نصب العین ہے اور اللہ تعالیٰ کے خوش کرنے کا ایک ہی

Page 25

24 طریق ہے کہ آنحضرت ﷺ کی کامل فرمانبرداری کی جائے.وظیفہ کے متعلق کسی کے سوال کرنے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:.وظیفوں کے ہم قائل نہیں.یہ سب منتر جنتر ہیں جو ہمارے ملک کے جوگی ہند وسنیاسی کرتے ہیں جو شیطان کی غلامی میں پڑے ہوئے ہیں.البتہ دعا کرنی چاہئے خواہ اپنی ہی زبان میں ہو سچے اضطراب اور کچی تڑپ سے جناب الہی میں گداز ہوا ایسا کہ وہ قادر الحی القیوم دیکھ رہا ہے.جب یہ حالت ہوگی تو گناہ پر دلیری نہ کرے گا.ملفوظات جلد سوم صفحہ 323 ﴾ 66 پھر حضور فرماتے ہیں:.بندوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو انعامات و اکرامات ہوتے ہیں وہ محض اللہ پاک کے فضل وکرم سے ہی ہوتے ہیں.پیروں ، فقیروں ،صوفیوں، گدی نشینوں کے خود تراشیدہ وظائف طریق ، رسومات فضول بدعات ہیں جو ہرگز ہرگز ماننے کے قابل نہیں انسان کو چاہئے کہ سب کچھ خدا تعالیٰ سے طلب کرے.“ ملفوظات جلد سوم صفحه 322 قاضی ظہور الدین صاحب اکمل مرحوم نے سوال کیا کہ محرم کی دسویں کو جو شربت و چاول وغیرہ تقسیم کرتے ہیں اگر یہ اللہ بہ نیت ایصال ثواب ہو تو اس کے متعلق حضور کا کیا ارشاد ہے؟ حضور نے فرمایا:.ایسے کاموں کے لئے دن اور وقت مقرر کر دینا ایک رسم و بدعت

Page 26

25 ہے اور آہستہ آہستہ ایسی رسمیں شرک کی طرف لے جاتی ہیں.پس اس سے پر ہیز کرنا چاہئے کیونکہ ایسی رسموں کا انجام اچھا نہیں.ابتداء میں اسی خیال سے ہو مگر اب تو اس نے شرک اور غیر اللہ کے نام کا رنگ اختیار کر لیا ہے اس لئے ہم اسے ناجائز قرار دیتے ہیں جب تک ایسی رسوم کا قلع قمع نہ ہو عقائد باطلہ دور نہیں ہوتے.ملفوظات جلد پنجم صفحہ 168 کسی نے حضور سے نصف شعبان کی نسبت سوال کیا.آپ نے فرمایا:.یہ رسوم حلوا وغیرہ سب بدعات ہیں.ملفوظات جلد پنجم صفحہ 297 ایک شخص نے آپ کے سامنے سوال پیش کیا کہ محرم پر جو لوگ تابوت بناتے ہیں اور محفل کرتے ہیں اس میں شامل ہونا کیسا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ گناہ ہے ملفوظات جلد پنجم صفحہ 169 تعویذ کے متعلق اپنے عمل سے حضور نے وضاحت فرمائی کہ ناجائز ہے.ایک شخص نے اپنی کچھ حاجات تحریری طور پر پیش کیں.66 حضرت اقدس نے پڑھ کر فرمایا کہ اچھا ہم دعا کریں گے.“ اس پر وہ شخص بولا کہ حضور کوئی تعویذ نہیں کیا کرتے ؟ فرمایا: تعویذ گنڈے کرنا ہمارا کام نہیں ہمارا کام تو صرف اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرنا ہے.ملفوظات جلد پنجم صفحہ 505 خود تراشیدہ وظائف کے متعلق حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:.اپنی شامت اعمال کو نہیں سوچا ان اعمال خیر کو جو پیغمبر علی سے ملے تھے ترک کر دیا اور ان کی بجائے خود تراشیدہ درود و وظائف

Page 27

26 داخل کر لئے اور چند کا فیوں کو حفظ کر لینا کافی سمجھا گیا.بلہے شاہ کی کافیوں پر وجد میں آجاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف کا جہاں وعظ ہو رہا ہو وہاں بہت ہی کم لوگ جمع ہوتے ہیں لیکن جہاں اس قسم کے مجمع ہوں وہاں ایک گروہ کثیر جمع ہو جاتا ہے.نیکیوں کی طرف سے یہ کم رغبتی اور نفسانی اور شہوانی امور کی طرف توجہ صاف ظاہر کرتی ہے کہ لذت روح اور لذت نفس میں ان لوگوں نے کوئی فرق نہیں سمجھا ہے.“ ملفوظات جلد دوم صفحہ 63 نیازوں کے متعلق آپ نے فرمایا یہ سب بدعتیں ہیں اور حرام ہیں ان کا کوئی ثبوت قرآن مجید، احادیث اور سلف صالحین کے طریق سے ثابت نہیں.آپ مزید فرماتے ہیں:.” ہمارے گھروں میں شریعت کی پابندی کی بہت سستی کی جاتی ہے.بعض عورتیں زکوۃ دینے کے لائق ہیں اور بہت سا زیور ان کے پاس ہے مگر وہ زکوۃ نہیں دیتیں.بعض عورتیں نماز روزہ کے ادا کرنے میں بہت کو تا ہی کرتی ہیں.بعض عورتیں شرک کی رسمیں بجالاتی ہیں جیسے چیچک کی پوجا بعض فرضی دیویوں کی پوجا کرتی ہیں.بعض ایسی نیازیں دیتی ہیں جن میں یہ شرط رکھ دیتی ہیں کہ عورتیں کھاویں کوئی مرد نہ کھاوے یا حقہ نوش نہ کھاوے.بعض جمعرات کی چوکی بھرتی ہیں مگر یاد رکھنا چاہئے کہ یہ سب شیطانی طریق ہیں.ہم صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ان لوگوں کو نصیحت کرتے

Page 28

27 ہیں کہ آؤ خدا تعالیٰ سے ڈروور نہ مرنے کے بعد ذلت اور رسوائی سے سخت عذاب میں پڑو گے اور اس غضب الہی میں مبتلا ہو جاؤ گے جس کی انتہا نہیں “ ملفوظات جلد پنجم ص: 49 حضور نے جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم پا کر بیعت لینی شروع کی تو شرائط بیعت میں سے ایک شرط یہ بھی قرار دی.( شرط ششم ): یہ کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آ جائیگا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کرے گا اور قال اللہ اور قال الرسول کو اپنی ہر یک راہ میں دستور العمل قرار دے گا.“ ہر احمدی مرد اور عورت جس نے حضور کے ہاتھ پر بیعت کی ہے اس کو اس شرط کو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے اور اپنی روز مرہ کی زندگی کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ بیعت کی اس شرط کے مطابق وہ اتباع رسم سے باز رہتا ہے یا نہیں.پھر اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور آنحضرت ﷺ کی کامل فرمانبرداری کے ساتھ حضرت موعود آخر الزمان کے احکام کی فرمانبرداری بھی ہم پر صلى الله لازم ہے.جیسا کہ آپ خود فرماتے ہیں:.اب تم خود یہ سوچ لو اور اپنے دلوں میں فیصلہ کر لو کیا تم نے میرے ہاتھ پر جو بیعت کی ہے اور مجھے مسیح موعود حکم عدل مانا ہے تو اس ماننے کے بعد میرے کسی فیصلہ یا فعل پر اگر دل میں کوئی کدورت یا رنج آتا ہے تو اپنے ایمان کا فکر کرو.وہ ایمان جو خدشات اور توہمات سے بھرا ہوا ہے کوئی نیک نتیجہ پیدا کرنے والا نہیں ہوگا لیکن اگر تم نے سچے دل سے تسلیم کر لیا

Page 29

28 ہے کہ مسیح موعود واقعی حکم ہے تو پھر اس کے حکم اور فعل کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دو اور اس کے فیصلوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھو تا تم رسول اللہ ﷺ کی پاک باتوں کی عزت اور عظمت کرنے والے ٹھہرو.“ ملفوظات جلد دوم صفحه 52 یہی اصولی تعلیم ہے جو ہر احمدی مرد اور عورت کے لئے قابل عمل ہونی چاہئے کہ ہم ہر کام سے پہلے اس پر غور کریں کہ آیا یہ قرآن کی تعلیم کے خلاف تو نہیں.آنحضرت کے کسی قول یا سنت کے خلاف تو نہیں اور پھر امام الزمان کے فتویٰ اور ارشاد کے خلاف تو نہیں.اگر اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری زندگیاں بسر ہوں تو یقیناً اللہ تعالیٰ کے فضل کے ہم امید وار ہو سکتے ہیں.شادی بیاہ سے متعلق رسومات :.دوسری قسم کی وہ رسومات ہیں جو مذہب کے ساتھ تو منسوب نہیں کی جاتیں مگر ہماری روایت میں وہ اس طرح مل گئیں ہیں کہ ان سے بظاہر پیچھا چھٹنا مشکل نظر آتا ہے لیکن ہیں وہ صریحا قرآنی تعلیم کے خلاف یہ وہ رسومات ہیں جو عموماً نکاح شادی اور منگنی وغیرہ کے موقع پر کی جاتی ہیں.شادی کے موقع پر خوشی منانا اچھی بات ہے خوشی کا موقع ہوتا ہے لیکن قرآنی تعلیم ایسے موقعوں کے لئے یہ ہے کہ كُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا - (اعراف : 32) اسراف نہ کرو.اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا.

Page 30

29 اسلام سادگی سکھاتا ہے تکلف اور تصنع کو نا پسند فرماتا ہے لیکن ہمارے ہاں شادیوں میں بھاری چیزوں کے مطالبہ جات کئے جاتے ہیں.حضرت مصلح موعود خلیفہ اسیح الثانی نے بہت دفعہ نکاح پڑھاتے وقت جماعت کو اس طرف توجہ دلائی کہ مطالبات نہ کریں.7 مارچ 1931 ء کو نکاح کا خطبہ پڑھتے ہوئے فرمایا:.اس امر کی طرف اپنی جماعت کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ رسمیں خواہ کسی رنگ میں ہوں بُری ہوتی ہیں اور مجھے افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے لوگوں نے اگر بعض رسمیں مٹائی ہیں تو دوسری شکل میں بعض اختیار کر لی ہیں.نکاحوں کے موقعوں پر پہلے تو گھروں میں فیصلہ کر لیا جاتا تھا کہ اتنے زیور اور کپڑے لئے جائیں گے.پھر آہستہ آہستہ ایسی شرائط تحریروں میں آنے لگیں.پھر میرے سامنے بھی پیش ہونے لگیں.شریعت نے صرف مہر مقرر کیا ہے اس کے علاوہ لڑکی والوں کی طرف سے زیور اور کپڑے کا مطالبہ ہونا بے حیائی ہے اور لڑکی بیچنے کے سوا اس کے اور کوئی معنے میری سمجھ میں نہیں آئے.میں آئندہ کے لئے اعلان کرتا ہوں کہ اگر مجھے علم ہو گیا کہ کسی نکاح کے لئے زیور اور کپڑے کی شرائط لگائی گئیں ہیں یا لڑکی والوں نے ایسی تحریک بھی کی ہے تو ایسے نکاح کا اعلان میں نہیں کروں گا.الفضل 7 اپریل 1931ء ) ہمارے ملک میں سسرال والوں کو جوڑے اور زیور دینے کی منحوس رسم پڑ چکی ہے جس کی وجہ سے احمدی گھرانوں میں رشتوں میں

Page 31

30 مشکل پیش آرہی ہے اور اگر رشتہ ہو بھی جائے تو سسرال والوں کے مطالبات پورے نہ کئے جانے کے باعث آپس میں جھگڑے پیدا ہو جاتے ہیں.احمدی خواتین اپنے امام کے ہاتھ پر بیعت کرتے وقت یہ عہد دہراتی ہیں کہ ” جو نیک کام آپ بتائیں گے اس میں آپ کی فرمانبرداری کروں گی.اس رسم کو چھوڑ نا یقیناً عہد بیعت کو پورا کرنا ہے کیونکہ اس کا حکم آپ کے امام نے آپ کو دیا ہے.فرمایا: آپ نے 9 رفروری 1921ء کو ایک نکاح کا خطبہ پڑھاتے ہوئے ,, لوگوں میں رواج ہے کہ جہیز وغیرہ دکھاتے ہیں اس رسم کو چھوڑنا چاہئے.جب لوگ دکھاتے ہیں تو دوسرے پوچھتے ہیں جب دکھانے کی رسم بند ہوگی تو لوگ پوچھنے سے بھی ہٹ جائیں گے.“ خطبات محمود جلد 3 ص 93 لڑکی کے گھر مہندی لے جانے سے حضرت مصلح موعود نے منع فرمایا اور شوری 42ء میں بھی اس کے متعلق فیصلہ کیا گیا: شادیوں میں خوشی کا اظہار بعض گھرانوں میں بے ہودہ گانوں اور باجا وغیرہ بجانے سے بھی کیا جاتا ہے جہاں تک گانے کا سوال ہے اگر بے ہودہ نہ ہوں تو ان کی اجازت ہے لیکن باقی باجے بجانے یا ناچ وغیرہ ناجائز ہے.نکاح پر باجا بجانے اور آتش بازی چلانے کے متعلق کسی نے حضور علیہ السلام سے سوال کیا.آپ نے فرمایا:

Page 32

31 ” ہمارے دین میں دین کی بناء یسر پر ہے عسر پر نہیں اور پھر إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ضروری چیز ہے باجوں کا وجود آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں نہ تھا اعلان نکاح جس میں فسق و فجور نہ ہو جائز ہے.بلکہ بعض صورتوں میں ضروری شئے ہے کیونکہ اکثر دفعہ نکاحوں کے متعلق مقدمات تک نوبت پہنچتی ہے پھر وراثت پر اثر پڑتا ہے.اس لئے اعلان کرنا ضروری ہے مگر اس میں کوئی ایسا امر نہ ہو جو فسق و فجور کا موجب ہو.رنڈی کا تماشا یا آتش بازی فسق و فجور اور اسراف ہے.یہ جائز نہیں.“ ملفوظات جلد سوم صفحہ 227 پھر فرماتے ہیں : ” جو چیز بُری ہے وہ حرام ہے اور جو چیز پاک ہے وہ حلال.خدا تعالیٰ کسی پاک چیز کو حرام قرار نہیں دیتا بلکہ تمام پاک چیزوں کو حلال فرماتا ہے.ہاں جب پاک چیزوں ہی میں بُری اور گندی چیزیں ملائی جاتی ہیں تو وہ حرام ہو جاتی ہیں اب شادی کو دف کے ساتھ شہرت کرنا جائز رکھا گیا ہے لیکن اس میں جب ناچ وغیرہ شامل ہو گیا تو وہ منع ہو گیا اگر اسی طرح پر کیا جائے جس طرح نبی کریم ﷺ نے فرمایا تو کوئی حرام نہیں ملفوظات جلد پنجم صفحہ 354 355 رشتہ کرتے وقت صرف تقوی مد نظر ر ہے:.حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں:.وو ہماری قوم میں یہ بھی ایک بد رسم ہے کہ دوسری قوم کولڑ کی دینا

Page 33

32 پسند نہیں کرتے بلکہ حتی الوسع لینا بھی پسند نہیں کرتے.یہ سراسر تکبر اور نخوت کا طریقہ ہے جو احکام شریعت کے بالکل بر خلاف ہے.بنی آدم سب خدا تعالیٰ کے بندے ہیں رشتہ ناطہ میں یہ دیکھنا چاہئے کہ جس سے نکاح کیا جاتا ہے وہ نیک بخت اور نیک وضع آدمی ہے اور کسی ایسی آفت میں مبتلا تو نہیں جو موجب فتنہ ہو اور یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام میں قوموں کا کچھ بھی لحاظ نہیں صرف تقویٰ اور نیک بختی کا لحاظ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَاكُمُ (الحجرات : 14) یعنی تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ تر بزرگ وہی ہے جو زیادہ تر پر ہیز گار ہے ہماری قوم میں ایک یہ بھی بد رسم ہے کہ شادیوں میں صدہا روپیہ کا فضول خرچ ہوتا ہے.سو یا درکھنا چاہئے کہ شیخی اور بڑائی کے طور پر برادری میں بھاجی تقسیم کرنا اور اس کا دینا اور کھانا.یہ دونوں باتیں عند الشرع حرام ہیں اور آتش بازی چلانا اور رنڈی بھڑوؤں ڈوم ڈھاریوں کو دینا.یہ سب حرام مطلق ہے نا حق روپیہ ضائع ہو جاتا ہے اور گناہ سر پر چڑھتا ہے.سو اس کے علاوہ شرع شریف میں تو صرف اتنا حکم ہے کہ نکاح کرنے والا بعد نکاح کے ولیمہ کرے یعنی چند دوستوں کو کھانا پکا کر کھلا دیوے.ملفوظات جلد پنجم ص 48 49﴾ حضرت مصلح موعود نے حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی بڑی صاحبزادی سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ کی تقریب رخصتانہ کے موقع پر ایک اہم تقریر فرمائی تھی.اس تقریر سے اصولی طور پر ان رسومات کے متعلق راہ نمائی

Page 34

33 حاصل ہوتی ہے.جہیز کے متعلق آپ نے فرمایا:.وو دوسری بات جہیز دینا ہے جس چیز کو شریعت نے مقرر کیا ہے وہ یہی ہے کہ مرد عورت کو کچھ دے عورت اپنے ساتھ کچھ لائے یہ ضروری نہیں ہے اور اگر کوئی اس کے لئے مجبور کرتا ہے تو وہ سخت غلطی کرتا ہے ہاں اگر اس کے والدین اپنی خوشی سے کچھ دیتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن یہ ضروری نہیں.ہاں لڑکے والے نہ دیں گے تو یہ نا جائز ہوگا.شریعت نے ہر مرد کے لئے عورت کا مہر مقرر کرنا ضروری رکھا ہے.“ پھر آپ فرماتے ہیں :.اس میں شبہ نہیں کہ جہیز اور بری کی رسوم بہت بُری ہیں.اس لئے جتنی جلدی ممکن ہو ان کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے...ایسی وباء اور مصیبت جو گھروں کو تباہ کر دیتی ہے اس قابل ہے کہ اسے فی الفور مٹا دیا جائے اور میں نے دیکھا ہے کہ اچھے اچھے گھرانے اس رسم میں بہت بُری طرح مبتلا ہیں.دو لیکن اس کے معنے یہ نہیں کہ جہیز بھی اگر کوئی دے سکے تو نہ دے.ایسے موقعوں پر ہمارے لئے سنت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طرز عمل ہے...خدا تعالیٰ کی طرف سے جو مامور آیا اس کی وحی تازہ بہ تازہ ہے اور جو کچھ اس نے کہا وہ اس رس کی طرح ہے جو تازہ پھل سے نچوڑا گیا ہو.پس اس کا عمل ہی صحیح سنت اور تعلیم اسلام ہے.جو یہ کہے کہ جہیز نہیں دینا وہ غلطی کرتا ہے اور جہیز ضرور دینا چاہئے

Page 35

34 تو وہ بھی بدعت پھیلانے والوں میں سے ہے لیکن اگر کوئی شخص اپنی خوشی سے لڑکی کو کچھ دیتا ہے تو یہ ہرگز بدعت نہیں کہلا سکتی...اصل بات یہ ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق اگر کوئی دیتا ہے تو اچھی بات ہے لیکن جو شخص یہ معمولی چیز بھی دینے کی استطاعت نہیں رکھتا اور پھر زیر بار ہو کر ایسا کرتا ہے تو شریعت اسے ضرور پکڑے گی.چونکہ اس نے اسراف سے کام لیا حالانکہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے اسراف و تبذیر سے منع فرمایا ہے جیسے ارشاد ہے لَا تُبَدِّرُ تَبْذِيرًا (بنی اسرائیل : 27) اور اسراف کرنے والوں کو شیطان کا بھائی کہا ہے لیکن اگر کوئی اپنی طاقت اور خوشی کے مطابق اس سے بہت زیادہ بھی دے دیتا ہے تو اس میں مضائقہ نہیں اگر آج ایک شخص اس قدر حیثیت رکھتا ہے کہ وہ لڑکی کو دس ہزار روپے دے سکتا ہے بے شک دے.اگر اس کے بعد اس کی حالت انقلاب دہر کے باعث ایسی ہو جائے کہ دوسری لڑکی کو کچھ بھی نہ دے سکے تو اس میں اس پر کوئی الزام نہیں آسکتا کیونکہ پہلی کو دیتے وقت اس کی نیت یہی تھی کہ سب کو دے اب حالات بدل گئے.مختصر یہ کہ بدعت وہ ہے جسے لوگ قطعی حکم نہ ہونے کے باوجود پابندی سے اختیار کریں اور وہ اسلام سے ثابت نہ ہو.لیکن لوگوں کے کہنے سے اس کو ضروری سمجھا جائے یہ نمائش ہوتی ہے.اقتباس از تقریر حضرت مصلح موعود - مصباح مئی 1930 تحریک جدید کی غرض سادگی کا قیام:- تحریک جدید کی غرض بھی یہی تھی.حضرت مصلح موعود کو اللہ تعالیٰ

Page 36

35 نے جماعت کی ترقی کے لئے تحریک جدید کے اصول القاء فرمائے تھے کہ جماعت کی ترقی وابستہ ہے سادگی کے اصولوں پر چلنے سے تقریبات سادگی سے کرنے اور اسراف سے بچنے اور اپنے روپے کو بچا کر اشاعت اسلام میں خرچ کرنے سے یہی غرض ہے.اسی غرض سے حضرت مصلح موعود نے شادیوں میں سادگی اختیار کرنے کا حکم فرمایا.بُری اور جہیز کی نمائش سے منع فرمایا.نمائش کرنے کے نتیجہ میں ایک دوسرے کی نقل کی جاتی ہے اور جو غریب گھرانہ اتنا سامان جہیز میں بیٹی کو نہیں دے سکتا.وہ اپنے ہمسایہ کی نقل میں قرض لے کر اتنا دینے کی کوشش کرتا ہے سسرال والوں کو جوڑے دینے سے منع فرمایا.مہندی لڑکی کے گھر لے جانے سے خاص طور پر روکا کہ یہ ایک فضول رسم ہے.مہندی بے شک دلہن کے لگائی جائے لیکن اس کے گھر والے بچی کو گھر میں لگا دیں اس کے لئے نمائش کرتے ہوئے سرال سے مہندی لے کر جانے اور ایک علیحدہ تقریب پیدا کرنا محض نمائش اور اسراف ہے.مجلس مشاورت کا فیصلہ:.چنانچہ 1942 ء کی مجلس مشاورت جو 3 4 اور 5 را پریل کو منعقد ہوئی.مشاورت کے ایجنڈا میں ایک تجویز رسومات شادی کے متعلق تھی کہ ان کا سد باب کرنے کے لئے کیا تجاویز اختیار کی جائیں.سب کمیٹی نے خصوصی طور پر جن رسومات کا ذکر کیا کہ ان کی مخالفت ہونی چاہئے وہ

Page 37

36 مندرجہ ذیل تھیں :.1.جہیز اور بری دکھانے کی قطعی ممانعت ہونی چاہئے.-2 لڑکی والوں یا لڑکے والوں کی طرف سے علاوہ مہر کے کپڑوں اور زیورات کی شرط یعنی تعیین کا مطالبہ ممنوع قرار دیا جائے.-3 مہندی کی رسم یعنی لڑکے کے رشتہ دار عورتوں کا اجتماعی صورت میں لڑکی والوں کے گھر لے کر جانا بند کیا جائے.حضرت مصلح موعود کی اہم تقریر :.ان تجاویز پرنمائندگان کے اظہار خیالات کے بعد حضرت خلیفۃالمسیح الثانی نے فرمایا:.شادی بیاہ کی رسوم یا دوسری رسوم ایسا نا زک اور اہم سوال ہے کہ جو کسی زندہ جماعت کی دائمی توجہ کا مستحق ہے دنیا میں تین قسم کے مذاہب ہیں ایک وہ جنہوں نے حرمت پر زیادہ زور دیا ہے یہ بھی حرام ہے دوسرے وہ جنہوں نے حلت پر زور دیا ہے جیسے عیسائی مذہب ہے اس نے ہر چیز کو حلال کر دیا ہے...تیسری قسم اسلام ہے یعنی اس میں بعض چیز میں حلال بھی ہیں اور حرام بھی ہیں.پھر ایسی صورتیں ہیں کہ ہر حال میں حرام کی اور ہر حرام میں حلال کی صورت پیدا ہو جاتی ہے.اسلام نے اصولی طور پر بعض چیزوں کے متعلق ہدایات دے دی ہیں اور پھر انسان کی عقل پر چھوڑ دیا ہے.پس اسلام نے حلال و حرام دونوں حالتوں میں عقل سے کام لینے کا حکم دیا

Page 38

37 ہے اور بعض اصول مقرر کر دیئے ہیں اور یہی حالت رسوم کے متعلق ہے.اسلام نے بعض باتیں کرنے کا حکم دیا ہے اور بعض سے منع کیا ہے.مثلاً ولیمہ کا حکم اسلام نے دیا ہے مگر دوسری طرف اسراف سے منع کیا ہے اور ولیمہ کے وقت اس کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.“ حضور نے مزید فرمایا:.وو مجھ پر یہ اثر ہے کہ اس بارہ میں ہماری جماعت میں زیادہ اسراف ہو رہا ہے.ہم یہ جو قوانین بناتے ہیں یہ دائمی نہیں آئندہ نسل اگر چاہے تو ان کو بدل بھی سکتی ہے اس وقت ہم جو قوانین بناتے ہیں ان کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ ہمارے اندر ایک بدی آ رہی ہے.اسے روکنے کی کوشش کی جائے....ہم کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتے کہ شادی بیاہ پر اتنی رقم خرچ کی جائے یا ضرور اتنے ہی مہمان مدعو کئے جائیں ہاں نمائش اور ریاء سے روک سکتے ہیں اور اس پر پابندیاں لگا سکتے ہیں چونکہ کثرت آراء اس کے حق میں ہیں اس لئے میں اس تجویز کو منظور کرتا ہوں نمائش اور ریاء سے ہمارے دوستوں کو ہمیشہ بچنا چاہئے اس کا دوسروں پر بہت بُرا اثر پڑتا ہے.رپورٹ مجلس مشاورت 1942ء صفحہ 23°24 رسم مہندی کی ممانعت:.حضرت خلیفۃ اسیح الثانی نے شادی پر مطالبات ممنوع قرار دیئے جانے کی تجویز اور مہندی کی رسم کی ممانعت کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے فرمایا:.

Page 39

38 میں نے حضرت اماں جان) سے اس کے متعلق دریافت کر لیا ہے اور انہوں نے فرمایا ہے کہ حضرت...( اقدس) کے زمانہ میں مہندی کی رسم نہ کبھی ہمارے ہاں ہوئی اور نہ آپ کے زمانہ میں قادیان میں کسی اور احمدی کے ہاں یہ رسم ادا ہوئی.لیکن اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ عام ہو رہی ہے..اب یہ ایک رسم کی صورت اختیار کر گئی ہے اس لئے اسے روکنا ہمارا فرض ہے آپ نے فرمایا:.وو یہ رسوم ایسی صورت اختیار کرتی جا رہی ہیں کہ خطرہ ہے کہ وہ جز و شریعت نہ بن جائیں اس لئے ان کا روکنا ہمارا فرض ہے.“ رپورٹ مجلس مشاورت 1942 صفحہ 25 ﴾ 1947ء کی مجلس مشاورت کے موقع پر جماعت کی تمدنی اصلاح کی خاطر شادیوں میں زیادہ چھان بین کرنے اور کپڑے زیور کے مطالبات کرنے والوں سے حضرت مصلح موعود نے اظہار نفرت کرتے ہوئے فرمایا:.شادیوں کے معاملہ میں زیادہ چھان بین اور کرید لغو ہے خدا نے مرد عورت کا جوڑا بنایا ہے اور وہ بہر حال مل بیٹھیں گے.شادی اللہ تعالیٰ کا قانون اور انسانی فطرت میں داخل ہے.“ (الفضل 18 اپریل 1947 ء) نیز آپ نے فرمایا:.دد لیکن اس میں بعض دفعہ ایسی غیر معقول باتیں کرتے ہیں اور ایسی لغو شرطیں لگا دیتے ہیں کہ حیرت آتی ہے مثلاً بعض لوگ جہیز کی شرطیں

Page 40

39 لگاتے ہیں اتنا سامان ہو تو ہم شادی کریں گے.یہ سب لغو ہے میں متواتر سالہا سال سے جماعت کو توجہ دلا رہا ہوں کہ ان کی اصلاح کی جائے.اگر جماعت کے لوگ اس طرف توجہ کریں تو بہت جلد اصلاح ہو سکتی ہے اگر وہ یہ عہد کر لیں کہ ہر ایسی شادی جس میں فریقین میں سے کسی کی طرف سے بھی ایسی شرطیں عائد کی گئی ہوں تو ہم اس میں شریک نہ ہوں گے تو دیکھ لو تھوڑے ہی عرصہ میں وہ لوگ ندامت محسوس کرنے لگیں گے اور ان شنیع حرکات سے باز آجائیں گے بھلا اس سے زیادہ اور کیا ذلیل کن بات ہو سکتی ہے کہ لڑکیوں کے چار پایوں کی طرح سودے کئے جائیں اور منڈی میں رکھ کر ان کی قیمت بڑھائی جائے.پس ہماری جماعت کو ایسی شنیع حرکات سے بچنا چاہئے اور عہد کرنا چاہئے کہ ایسی شادی میں کبھی شامل نہ ہوں گے خواہ وہ سگے بھائی یا بہن کی ہی ہو.“ الفضل 18 اپریل 1947 ء کی لڑکی کی شادی میں کھانا یا چائے دینے سے منع فرمایا تا کہ صرف دعا میں کثرت سے لوگ شامل ہوں.سوائے اس کے کہ لڑکی کی بارات کسی دوسرے شہر سے آ رہی ہو.لڑکی کی شادی کے موقع پر چائے یا کھانا دینے میں بظاہر کوئی حرج نہیں.گھر آئے مہمان کی مہمان نوازی کرنا اسلام کا یک حکم ہے لیکن یہ سمجھ لینا کہ ضرور کھلایا جائے یہ بدعت ہے اس سلسلہ میں حضرت مصلح موعود کا ارشاد مندرجہ ذیل ہے:.وو 66 لڑکی والوں کی طرف سے دعوت جہاں تک میں نے غور کیا ہے ایک تکلیف دہ چیز ہے لیکن اگر لڑکی والے بغیر دعوت کے آنے والوں

Page 41

40 کو کچھ کھلا دیں تو یہ ہرگز بدعت نہیں ہاں اگر یہ کہا جائے جو نہیں کھلاتا وہ غلطی کرتا ہے تو یہ ضرور بدعت ہے لیکن اگر کوئی شخص اپنی خوشی سے لڑکی کو کچھ دیتا ہے یا آنے والے مہمانوں کو کچھ کھلاتا ہے تو یہ ہرگز بدعت نہیں کہلا سکتی.خود حضرت...( اقدس) نے مبارکہ بیگم کی شادی پر بعض چیزیں اپنے پاس سے روپے دے کر آنے والے مہمانوں کے لئے امرتسر سے منگوائیں جو شخص یہ سمجھ کر کہ ایسا کرنا ضروری ہے ایسا کرتا ہے وہ بدعتی ہے لیکن جو شخص اپنے فطری احساس اور جذ بہ کے ماتحت آنے والوں کی کچھ خاطر کرتا ہے اسے بدعت نہیں کہا جا سکتا.“ اقتباس تقریر حضرت مصلح موعود 15 مئی 1930 ء میں سمجھتی ہوں کہ شادی بیاہ کی تقریبات کے سلسلہ میں مذکورہ بالا اقتباسات جماعت کی خواتین کی راہ نمائی کرنے کے لئے کافی ہوں گے لیکن تحریک جدید جاری کرنے کے بعد جماعت کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کے لئے اور اس لئے کہ امیر وغریب سب اپنے بھائی کی بچی کی شادی میں شرکت کر سکیں.امیر وغریب کا تفاوت باقی نہ رہے آپ نے حکم دیا کہ احباب جماعت سادگی کے ساتھ رخصتانہ کی تقریب کر دیا کریں سب بھائی بہنیں شادی والے گھرانہ کی خوشی کی تقریب میں شرکت کر لیں دعا کے ساتھ بچی کو رخصت کر دیں.اور ہمارے معاشرہ کی یہ شادیاں نمونہ بن جائیں تمام عالم اسلام کے گھرانوں کے لئے.مگر ابھی تک سو فیصد حضرت مصلح موعود کے اس فرمان پر جماعت کے احباب عمل نہیں کر رہے

Page 42

41 بہت سے گھرانوں میں اب بھی شادی کے کارڈوں پر باقاعدہ عصرانہ اور طعام کے الفاظ چھپے نظر آتے ہیں.پھر بعض گھرانے صرف شادی کی دعوت طعام پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ مہندی والے دن بھی چائے یا کھانا دینا ضروری سمجھتے ہیں اور اس طرح جو غرض سادگی اختیار کرنے کی حضرت مصلح موعود کے ارشاد میں تھی وہ پوری ہوتی نظر نہیں آتی.شادی کے موقعہ پر بہت مہنگے کارڈ چھپوانا بھی اسراف میں داخل ہے اس سے بھی اجتناب کرنا چاہئے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مستورات کو خطاب فرماتے ہوئے کہا تھا:.اس سال بعض واقعات ( گو وہ تھوڑے ہیں ) جماعت میں ہوئے ہیں جن کی وجہ سے میرے لئے ضروری ہے کہ میں آپ میں سے ہر ایک کو تنبیہہ کر دوں.شادی بیٹے کی تھی یا بیٹی کی بعض افراد نے خدا تعالیٰ کے حکم کے خلاف نمائش اور رسوم کو اختیار کیا اور اتنا قرض اٹھا لیا کہ بعد میں انہیں یہ کہنا پڑا کہ ہمارے چندوں میں تخفیف کی جائے.اگر یہ صورت تھی تو تم نے ان بد رسوم اور نمائش کو اختیار ہی کیوں کیا تھا کہ اس کی وجہ سے آج تم ثواب سے محروم ہو رہے ہو.اس کے اور بھی نقصانات ہیں صرف وقتی طور پر ہی ان کی وجہ سے نقصان نہیں ہوتا بلکہ اس کے نقصانات کا ایک سلسلہ چل پڑتا ہے جس میں سے انسان کو گزرنا پڑتا ہے تمہاری زندگی میں کوئی اسراف نہیں ہونا چاہئے تمہاری زندگی میں کوئی رسم نہیں ہونی چاہئے.تقریر بر موقع سالانہ اجتماع لجنه مرکز یہ 22 اکتوبر 1969ء

Page 43

42 پس ہمیں قرآن مجید کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے شادی کی سب فضول رسوم ترک کر دینی چاہئیں.جہاں مطالبات پورے کئے جائیں گے آپس میں اخوت کا خاتمہ ہو جائے گا وہ محبت اور پیار جوان رشتوں کی بقا کا موجب ہوتا ہے جن کی اساس پر آئندہ تعلقات کی بنیاد پڑتی ہے وہ جاتا رہے گا اور ہمارے معاشرہ کی فضا پر امن اور صاف نہیں رہے گی جس کا تقاضا اسلامی معاشرہ کرتا ہے.شادی کی تقریب پر ایک ضروری چیز گانا بجانا سمجھی گئی ہے جہاں تک خوشی کی تقریب میں خوشی کے گانے گائے جانے کا سوال ہے یہ جائز ہے آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بچیوں کا گیت گانا ثابت ہے اس سلسلہ میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے ارشادات تحریر کرتی ہوں.میاں اللہ بخش صاحب امرتسری نے عرض کیا کہ حضور یہ جو باراتوں کے ساتھ باجے بجائے جاتے ہیں اس کے متعلق حضور کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا:.فقہاء نے اعلان بالدف کو نکاح کے وقت جائز رکھا ہے اور یہ اس لئے کہ پیچھے جو مقدمات ہوتے ہیں تو اس سے گویا ایک قسم کی شہادت ہو جاتی ہے.ہم کو مقصود بالذات لینا چاہئے.اعلان کے لئے یہ کام کیا جاتا ہے یا کوئی اپنی شیخی اور تعلی کا اظہار مقصود ہے...بلکہ نسبتوں کی تقریب پر جوشکر وغیرہ بانٹتے ہیں دراصل یہ بھی اسی غرض کے لئے ہوتی ہے کہ دوسرے لوگوں کو خبر ہو جاوے اور پیچھے کوئی خرابی پیدا نہ ہو.مگراب یہ اصل مطلب مفقود ہو کر اس کی جگہ صرف رسم نے لے لی ہے.“

Page 44

43 ملفوظات جلد دوم صفحه 310 حضرت اقدس کے اس ارشاد کا خلاصہ یہ ہے کہ شادی کا اعلان ہونا ضروری ہے اس غرض سے پہلے دف بجائی جاتی تھی اب یہ اعلان مسجد میں ہو جاتا ہے یا الفضل اور سلسلہ کے کسی اور اخبار میں شائع ہو جاتا ہے اور جماعت کو معلوم ہو جاتا ہے کہ فلاں گھرانہ میں نکاح ہو گیا ہے.چپ چاپ بغیر اعلان شادی جائز نہیں.آتش بازی وغیرہ کے متعلق آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:.آتش بازی اور تماشا وغیرہ یہ بالکل منع ہیں کیونکہ اس سے مخلوق کو کوئی فائدہ بجز نقصان کے نہیں ہے.ملفوظات جلد دوم صفحہ 310 پھر یہ سوال آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا کہ لڑکی یا لڑکے والوں کے ہاں جو جوان عورتیں مل کر گاتی ہیں وہ کیسا ہے فرمایا: صلى الله اصل یہ ہے کہ یہ بھی اسی طرح پر ہے.اگر گیت گندے اور ناپاک نہ ہوں تو کوئی حرج نہیں.رسول اللہ ﷺ جب مدینہ میں تشریف لے گئے تو لڑکیوں نے مل کر آپ کی تعریف میں گیت گائے تھے غرض اس طرح پر اگر فسق و فجور کے گیت نہ ہوں تو منع نہیں مگر مردوں کو نہیں چاہئے کہ عورتوں کی ایسی مجلسوں میں بیٹھیں یہ یاد رکھو کہ جہاں ذرا بھی مظنہ فسق و فجو رکا ہو وہ منع ہے.بزہد و ورع کوش و صدق ولیکن صدق و صفا مصطفا میفرمائے پر

Page 45

44 یہ ایسی باتیں ہیں کہ انسان خودان میں فتویٰ لے سکتا ہے جو امر تقویٰ اور خدا کی رضا کے خلاف ہے مخلوق کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہے.وہ منع ہے اور پھر جو اسراف کرتا ہے وہ سخت گناہ کرتا ہے.اگر ریا کاری کرتا ہے تو گناہ ہے غرض کوئی ایسا امر جس میں اسراف ریا، فسق، ایذائے خلق کا شائبہ ہو وہ منع ہے اور جو ان سے صاف ہو وہ منع نہیں گناہ نہیں کیونکہ اصل اشیاء کی حلت ہے.66 وفات سے متعلق رسوم :.: ملفوظات جلد دوم صفحه 311 تیسری قسم کی رسومات کا تعلق انسان کی وفات کے ساتھ ہے.غیر احمدیوں میں تو قل ، چہلم، دسواں ، چالیسواں نہ جانے کیا کیا ہوتا ہے الحمد للہ کہ احمدیوں میں یہ چیزیں نہیں پائی جاتیں.لیکن بعض بعض جگہ سے مستورات کے متعلق ایسا کرنے کی شکایات ملتی رہتی ہیں.پس ایسی محفلوں میں شمولیت اور دوسروں کے ساتھ مل کر ایسی رسومات کرنا جو توحید کے سراسر خلاف ہیں گناہ ہے ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ حضرت اقدس فرماتے ہیں: " قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْنِكُمُ اللهُ - (آل عمران: 32) اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کا ایک یہی طریق ہے آنحضرت ﷺ کی سچی فرمانبرداری کی جاوے.دیکھا جاتا ہے کہ لوگ طرح طرح کی رسومات میں گرفتار ہیں.کوئی مر جاتا ہے تو قسم قسم کی بدعات اور رسومات کی جاتی ہیں.حالانکہ چاہئے کہ مردہ کے حق میں دعا کریں رسومات کی بجا آوری

Page 46

45 میں آنحضرت ﷺ کی صرف مخالفت ہی نہیں ہے بلکہ ان کی ہتک بھی کی جاتی ہے اور وہ اس طرح سے کہ گویا آنحضرت ﷺ کے کلام کو کافی نہیں سمجھا جاتا.اگر کافی خیال کرتے تو اپنی طرف سے رسومات کے گھڑنے کی کیوں ضرورت پڑتی.ملفوظات جلد سوم صفحہ 316 ﴾ پھر تفصیلی طور پر حضرت اقدس نے ذیل کی عبارت میں ان رسوم کی تشریح فرمائی کہ: (1) ماتم کی حالت میں جزع فزع اور نوحہ یعنی سیا پا کرنا اور چیچنیں مار کر رونا اور بے صبری کے کلمات زبان پر لانا.یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ جن کے کرنے سے ایمان کے جانے کا اندیشہ ہے اور یہ سب رسمیں ہندوؤں سے لی گئی ہیں جاہل مسلمانوں نے اپنے دین کو بھلا دیا اور ہندوؤں کی رسمیں اختیار کر لیں کسی عزیز اور پیارے کی موت کی حالت میں مسلمانوں کے لئے قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ صرف إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (سورة البقره: 157) کہیں یعنی ہم خدا تعالیٰ کا مال اور ملک ہیں.اسے اختیار ہے جب چاہے اپنا مال لے لے اور اگر رونا ہو تو صرف آنکھوں سے آنسو بہانا جائز ہے اور جو اس سے زیادہ کرے وہ شیطان سے ہے.(2) برابر ایک سال تک سوگ رکھنا اور نئی نئی عورتوں کے آنے کے وقت یا بعض خاص دنوں میں سیا پا کرنا اور با ہم عورتوں کا سر ٹکرا کر چلانا رونا اور کچھ کچھ منہ سے بھی بکواس کرنا اور پھر برابر ایک برس تک بعض

Page 47

46 چیزوں کا پکانا چھوڑ دینا اس عذر سے کہ ہمارے گھر میں یا ہماری برادری میں ماتم ہو گیا ہے یہ سب نا پاک رسمیں اور گناہ کی باتیں ہیں جن سے پر ہیز کرنا چاہئے.(3) سیا پا کرنے کے دنوں میں بے جا خرچ بھی بہت ہوتے ہیں حرام خور عورتیں شیطان کی بہنیں جو دور دور سے سیا پا کرنے کے لئے آتی ہیں اور مکرو فریب سے منہ کو ڈھانپ کر اور بھینسوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرا کر چیچنیں مار کر روتی ہیں ان کو اچھے اچھے کھانے کھلائے جاتے ہیں اور اگر مقدور ہو تو اپنی شیخی اور بڑائی جتلانے کے لئے صد ہا روپیہ کا پلاؤ اور زردہ پکا کر برادری وغیرہ میں تقسیم کیا جاتا ہے اس غرض سے کہ لوگ واہ واہ کریں کہ فلاں شخص نے مرنے پر اچھی کر توت دکھلائی اچھا نام پیدا کیا سو یہ سب شیطانی طریق ہیں جن سے تو بہ کر نالازم ہے.(4) اگر کسی عورت کا خاوند مر جائے تو گو وہ عورت جوان ہی ہو دوسرا خاوند کرنا ایسا بُرا جانتی ہے جیسا کہ کوئی بڑا بھاری گناہ ہوتا ہے اور تمام عمر بیوہ اور رانڈ رہ کر یہ خیال کرتی ہے کہ میں نے بڑے ثواب کا کام کیا ہے اور پاک دامن بیوی ہوگئی ہوں حالانکہ اس کے لئے بیوہ رہنا سخت گناہ کی بات ہے عورتوں کے لئے بیوہ ہونے کی حالت میں خاوند کر لینا نہایت ثواب کی بات ہے ایسی عورت حقیقت میں بڑی نیک بخت اور ولی ہے جو بیوہ ہونے کی حالت میں بُرے خیالات سے ڈر کر کسی سے نکاح کرلے اور نابکار عورتوں کے لعن طعن سے نہ ڈرے ایسی عورتیں جو خدا اور رسول کے حکم

Page 48

47 صلى الله سے روکتی ہیں خود لعنتی اور شیطان کی چیلیاں ہیں جن کے ذریعہ سے شیطان اپنا کام چلاتا ہے جس عورت کو رسول اللہ ﷺہ پیارا ہے اس کو چاہئے کہ بیوہ ہونے کے بعد کوئی ایمان دار اور نیک بخت خاوند تلاش کرے اور یاد رکھے کہ خاوند کی خدمت میں مشغول رہنا بیوہ ہونے کی حالت کے وظائف سے صد ہا درجہ بہتر ہے.ملفوظات جلد پنجم ص 46 47 ﴾ 28 فروری 1904 ء کو ایک شخص نے چند مسائل دریافت کئے.ان میں یہ سوال بھی تھا کہ میت کے قبل جو تیسرے دن پڑھے جاتے 66 ہیں ان کا ثواب اسے پہنچتا ہے یا نہیں؟ حضرت اقدس نے فرمایا:.قل خوانی کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ہے.صدقہ ، دعا اور 66 استغفار میت کو پہنچتے ہیں.ملفوظات جلد سوم ص 605 رض پھر فرمایا : ” ہمیں تعجب ہے کہ یہ لوگ ایسی باتوں پر امید کیسے باندھ لیتے ہیں.دین تو ہم کو نبی کریم ﷺ سے ملا ہے.اس میں ان باتوں کا نام تک نہیں.صحابہ کرام بھی فوت ہوئے کیا کسی کے قل پڑھے گئے.صد ہا سال کے بعد اور بدعتوں کی طرح یہ بھی ایک بدعت نکل آئی ہوئی ہے.ملفوظات جلد سوم صفحہ 605 ایک شخص نے اسی مجلس میں آپ سے یہ سوال کیا کہ میت کے لئے فاتحہ خوانی کے لئے جو بیٹھتے ہیں اور فاتحہ پڑھتے ہیں ؟ حضور نے جواب میں فرمایا :

Page 49

48 وو یہ درست نہیں ہے.بدعت ہے.آنحضرت ﷺ سے یہ ثابت نہیں کہ اس طرح صف بچھا کر بیٹھتے اور فاتحہ خوانی کرتے تھے.“ " فاتحہ خوانی کے متعلق مزید فرمایا:.ملفوظات جلد سوم صفحہ 606 نہ حدیث میں اس کا ذکر ہے نہ قرآن شریف میں نہ سنت میں.“ ملفوظات جلد پنجم صفحه 16 11 فروری 1906 ء حضرت اقدس کی مجلس میں ایک شخص نے سوال کیا کہ میت کے ساتھ جو لوگ روٹیاں پکا کر یا اور کوئی شے لے کر با ہر قبرستان میں لے جاتے ہیں اور میت کو دفن کرنے کے بعد مساکین میں تقسیم کرتے ہیں اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ فرمایا:.سب باتیں نیت پر موقوف ہیں اگر یہ نیت ہو کہ اس جگہ مساکین جمع ہو جایا کرتے ہیں اور مردے کو صدقہ پہنچ سکتا ہے ادھر وہ دفن ہوا دھر مساکین کو صدقہ دے دیا جاوے تا کہ اس کے حق میں مفید ہو اور وہ بخشا جاوے تو یہ ایک عمدہ بات ہے لیکن اگر صرف رسم کے طور پر یہ کام کیا جاوے تو جائز نہیں ہے کیونکہ اس کا ثواب نہ مردے کے لئے اور نہ دینے والوں کے واسطے اس میں کچھ فائدے کی بات ہے.“ ملفوظات جلد پنجم صفحه 6 ایک شخص نے سوال کیا کہ کسی شخص کے مرجانے پر جو اسقاط کرتے ہیں اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ فرمایا:

Page 50

49 بالکل بدعت ہے اور ہرگز اس کے واسطے کوئی ثبوت سنت اور حدیث سے ظاہر نہیں ہوسکتا.ملفوظات جلد پنجم صفحہ 7 ایک شخص نے دریافت کیا کہ مردے کو کھانے کا ثواب پہنچتا ہے یا نہیں؟ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا:.طعام کا ثواب پہنچتا ہے بشرطیکہ حلال کا طعام ہو.“ پھر فرمایا:.ملفوظات جلد پنجم ص 345 قرآن شریف جس طرز سے حلقہ باندھ کر پڑھتے ہیں یہ تو سنت سے ثابت نہیں ملاں لوگوں نے اپنی آمدن کے لئے یہ رسمیں جاری کر دی ہیں.ہاں اگر خدا تعالیٰ چاہے تو مردہ کے حق میں دعا بھی قبول ہو جاتی ہے.لیکن یاد رکھو کہ اپنے ہاتھ سے ایک پیسہ دینا بھی بہتر ہوتا ہے.بہ نسبت اس کے کہ کوئی دوسرا آدمی اس کے عوض میں بہت سا مال خرچ کر دے.ملفوظات جلد پنجم صفحہ 345 ﴾ 66 پھر ایک بار حضرت اقدس کی مجلس میں سوال پیش ہوا کہ کسی کے مرنے کے بعد چند روز لوگ ایک جگہ جمع ہوتے اور فاتحہ خوانی کرتے ہیں فاتحہ خوانی ایک دعا مغفرت ہے.پس اس میں کیا مضائقہ ہے؟ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا:.ہم تو دیکھتے ہیں وہاں سوائے غیبت اور بے ہودہ بکو اس کے

Page 51

50 اور کچھ نہیں ہوتا.پھر یہ سوال ہے کہ آیا نبی کریم ﷺ یا صحابہ کرام دائمہ عظام میں سے کسی نے یوں کیا ؟ جب نہیں کیا تو کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ بدعات کا دروازہ کھولنے کی؟ ہمارا مذہب تو یہی ہے کہ اس رسم کی کچھ ضرورت نہیں نا جائز ہے جو جنازہ میں شامل نہ ہوسکیں وہ اپنے طور سے دعا 66 کریں یا جنازہ غائب پڑھ دیں.“ ملفوظات جلد پنجم صفحہ 214,213 ﴾ موت ہر انسان کے ساتھ لگی ہوتی ہے اس مرحلہ پر بھی ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ وہی نمونہ دکھا ئیں جو آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام دکھاتے رہے اور جو اس زمانہ میں حضرت اقدس اور آپ کے خلفاء نے دکھایا کوئی فعل ایسا نہ ہو جو آنحضرت ﷺ کی سنت اور قرآن مجید کے احکام کے خلاف ہو اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے.بچہ کی پیدائش کے ساتھ وابستہ رسوم :.بچہ کی پیدائش پر شریعت کا تو یہ حکم ہے کہ بچہ کے کان میں اذان دو.ساتویں دن عقیقہ کرواؤ.بال کٹواؤ.لڑکا ہے تو ختنہ کرواؤ اور بکرا ذبح کر و گوشت خود کھاؤ دوستوں کو کھلا ؤ اور غرباء میں تقسیم کرو تا کہ وہ بھی تمہاری خوشی میں شامل ہوں لیکن اس کے برعکس ابھی تک غیر احمدیوں کی طرح بعض احمدی گھرانوں میں بھی ختنوں کے موقعہ پر باقاعدہ تقریب کی جاتی ہے دعوت ہوتی ہے عزیز اور اقرباء ا کٹھے ہوتے ہیں اور اسراف ہوتا ہے حالانکہ یہ صریح بدعت ہے اس کا جواز اسلامی تاریخ اور سنت سے کہیں نہیں ملتا.

Page 52

51 بسم اللہ کی رسم :.بچوں کے سلسلہ میں ایک رسم اور کی جاتی ہے اور وہ ہے بسم اللہ کی تقریب.ہر مسلمان کے لئے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت کی طرف توجہ دے.درحقیقت تو جس دن بچہ پیدا ہوتا ہے اذان دینے سے ہی اس کی تربیت شروع ہو جاتی ہے تاہم جب پڑھنے کے لائق ہو تو اس کی تعلیم کا انتظام کیا جائے سب سے مقدم یہ ہے کہ پہلے قرآن مجید پڑھایا جائے بعض لوگ بچے خواہ بعد میں پڑھیں یا نہ پڑھیں لیکن چار یا ساڑھے چار سال کی عمر میں باقاعدہ بچہ کی بسم اللہ کی تقریب منعقد کرتے ہیں اور اسراف سے کام لیتے ہیں.ایک شخص نے بذریعہ تحریر حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کی کہ ہمارے ہاں رسم ہے کہ جب بچہ کو بسم اللہ کرائی جائے تو بچہ کو تعلیم دینے والے مولوی کو ایک عدد سختی چاندی یا سونے کی اور قلم و دوات چاندی یا سونے کی دی جاتی ہے اگر چہ میں ایک غریب آدمی ہوں مگر چاہتا ہوں کہ یہ اشیاء اپنے بچہ کی بسم اللہ پر آپ کی خدمت میں ارسال کروں.حضرت اقدس علیہ السلام نے جواب میں تحریر فرمایا :- و سختی اور قلم و دوات سونے یا چاندی کی دینا یہ سب بدعتیں ہیں ان سے پر ہیز کرنا چاہئے اور باوجود غربت کے اور کم جائیداد ہونے کے اس قد را سراف اختیار کرنا سخت گناہ ہے.ملفوظات جلد پنجم صفحہ 265 ﴾ ایک اور رسم جو انگریزوں کی تقلید میں اب ہمارے ملک میں

Page 53

52 جاری ہو گئی ہے وہ ہے سالگرہ کی رسم یعنی بچہ کی پیدائش کا دن ہر سال منانا اور اس پر دعوت پارٹی دینی یہ سب فضولیات ہیں جن سے گریز کرنا چاہئے.بے شک آنحضرت ﷺ نے فرمایا خُذْ مَا صَفَا وَدَعُ مَا كَدَر اگر اچھی پاک صاف بات کسی قوم میں بھی نظر آئے تو اسے اختیار کرو.لیکن بُری بات اپنی قوم میں بھی ہو تو چھوڑ دو.سالگرہ کی رسم " ما صفا کے تحت نہیں آتی.یہ تو نقل ہے مغربی تہذیب کی.فائدہ اس کا کچھ نہیں وہی مال جو انسان غریبوں کی مدد کے لئے یا اشاعت اسلام کے لئے خرچ کر سکتا تھا وہ ایک دن کی تقریب میں خرچ کر دیتا ہے.اس کی بجائے اگر ماں باپ اپنے بچے کے ایک سال اور خیریت سے گزرنے پر اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے اپنے آپ کو ثابت کرنا چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے غریب اور ضرورت مند بندوں کے کپڑوں تعلیم اور علاج پر خرچ کریں تا قوم کو فائدہ ہو اور اللہ تعالیٰ خوش ہو.آمین کی تقریب :.احمدی گھرانوں میں ایک اور تقریب منائی جاتی ہے جس کو آمین کہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ بچہ کے قرآن مجید ختم کرنے کی خوشی میں کوئی تقریب بغرض دعا منعقد کی جائے تا بچہ کو یہ احساس ہو کہ میرا پہلا فرض قرآن مجید ختم کرنا تھا.الحمد للہ کہ میں نے ختم کر لیا اور دوسرے بچے جو شامل ہوں ان کو تحریک ہو جائے کہ ہم بھی جلدی جلدی پڑھیں.ہمارے لئے اصل جواز اس کام میں ہے جو حضرت مسیح موعود آخر الزمان

Page 54

53 نے کیا اور جس کا نمونہ پیش فرمایا حضور نے اپنے بچوں کی آمین کی اس لئے ہمارے لئے بھی یہ فعل جائز ہے لیکن اس کو بھی رسم نہیں بنانا چاہئے کہ ضرور ہی کیا جائے.اصل غرض دعا ہے اگر اس تقریب میں بھی اسراف سے کام لیا جانے لگ جائے تو یہ تقریب بھی ناپسندیدہ امر بن جائے گی.ہاں سادگی سے دعا کی غرض سے تقریب منعقد کی جائے تو اچھی اور پسندیدہ بات ہے.نومبر 1901ء میں جب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی آمین ہوئی اس وقت جیسا کہ حضرت اقدس کا معمول تھا کہ خدا تعالیٰ کے انعام و عطایا پر شکریہ کے طور پر صدقات دیتے تھے آپ نے دعوت دی اس پر حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے ایک سوال کیا کہ حضور یہ جو آمین ہوئی ہے یہ کوئی رسم ہے یا کیا ہے؟ اس کے جواب میں حضور نے جو کچھ فرمایا وہ بہت سے شبہات کا ازالہ کرتا ہے اور ہر کام کرتے وقت ہماری راہ نمائی کرتا.ہے.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا :.’جوامر یہاں پیدا ہوتا ہے اس پر اگر غور کیا جاوے اور نیک نیتی اور تقویٰ کے پہلوؤں کوملحوظ رکھ کر سو چا جاوے تو اس سے ایک علم پیدا ہوتا ہے میں اس کو آپ کی صفائی قلب اور نیک نیتی کا نشان سمجھتا ہوں کہ جو بات سمجھ میں نہ آئے اس کو پوچھ لیتے ہیں.ملفوظات جلد دوم صفحہ 385 ﴾

Page 55

54...آپ نے فرمایا:.”بخاری کی پہلی حدیث یہ ہے کہ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ اعمال نیت ہی پر منحصر ہیں صحت نیت کے ساتھ کوئی جرم بھی جرم نہیں رہتا.قانون کو دیکھو اس میں بھی نیت کو ضروری سمجھا ہے.مثلاً ایک باپ اگر اپنے بچے کو تنبیہ کرتا ہو کہ تو مدرسہ جا کر پڑھ اور اتفاق سے کسی ایسی جگہ چوٹ لگ جاوے کہ بچہ مر جاوے تو دیکھا جاوے گا کہ یہ قتل عمد مستلزم سزا نہیں ٹھہر سکتا کیونکہ اس کی نیت بچے کو قتل کرنے کی نہ تھی تو ہر ایک کام میں نیت پر بہت بڑا انحصار ہے.اسلام میں یہ مسئلہ بہت سے امور کو حل کر دیتا ہے.پس اگر نیک نیتی کے ساتھ محض خدا کے لئے کوئی کام کیا جاوے اور دنیا داروں کی نظر میں وہ کچھ ہی ہو تو اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے.“ ملفوظات جلد دوم صفحه 386 پھر آپ نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے جو کچھ قرآن شریف میں بیان فرمایا ہے وہ بالکل واضح اور تین ہے اور پھر رسول اللہ علیہ نے اپنے عمل سے کر کے دکھا دیا ہے.آپ ﷺ کی زندگی کامل نمونہ ہے لیکن باوجود اس کے ایک حصہ اجتہاد کا بھی ہے جہاں انسان واضح طور پر قرآن شریف یا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی کمزوری کی وجہ سے کوئی بات نہ پا سکے تو اس کو اجتہاد سے کام لینا چاہئے مثلاً شادیوں میں جو بھاجی دی جاتی ہے اگر اس کی غرض صرف یہی ہے کہ تا دوسروں پر اپنی شیخی اور بڑائی کا اظہار کیا

Page 56

55 جاوے تو یہ ریاء کاری اور تکبر کے لئے ہوگی اس لئے حرام ہے.لیکن اگر کوئی شخص محض اسی نیت سے کہ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِتْ الضُّحَى : 12) کا عملی اظہار کرے اور مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقره: (4) پر عمل کرنے کے لئے دوسرے لوگوں سے سلوک کرنے کے لئے دے تو یہ حرام نہیں.پس جب کوئی شخص اس نیت سے تقریب پیدا کرتا ہے اور اس میں معاوضہ ملحوظ نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا غرض ہوتی ہے تو پھر وہ ایک سونہیں خواہ ایک لاکھ کو کھانا دے منع نہیں.اصل مدعا نیت پر ہے نیت اگر خراب اور فاسد ہو تو ایک جائز اور حلال فعل کو بھی حرام بنادیتی ہے ایک قصہ مشہور ہے ایک بزرگ نے دعوت کی اور اس نے چالیس چراغ روشن کئے بعض آدمیوں نے کہا کہ اس قد را سراف نہیں کرنا چاہئے اس نے کہا کہ جو چراغ میں نے ریا کاری سے روشن کیا ہے اسے بجھا دو کوشش کی گئی ایک بھی نہ بجھا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی فعل ہوتا ہے اور دو آدمی اس کو کرتے ہیں ایک اس فعل کو کرنے میں مرتکب معاصی کا ہوتا ہے اور دوسرا ثواب کا اور یہ فرق نیتوں کے اختلاف سے پیدا ہو جاتا.اسی طرح پر میں ہمیشہ اسی فکر میں رہتا ہوں اور سوچتا رہتا ہوں کہ کوئی راہ ایسی نکلے جس سے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کا اظہار ہو اور لوگوں کو اس پر ایمان پیدا ہو.ایسا ایمان جو گناہ سے بچاتا ہے اور نیکیوں کے قریب کرتا ہے میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے مجھ پر لا انتہاء فضل اور انعام ہیں ان کی تحدیث مجھ پر فرض ہے پس میں جب کوئی کام کرتا

Page 57

56 ہوں تو میری غرض اور نیت اللہ تعالیٰ کے جلال کا اظہار ہوتی ہے ایسا ہی اس آمین کی تقریب پر بھی ہوا ہے.اس وقت جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی کلام کو پڑھ لیا تو مجھے کہا گیا اس تقریب پر میں چند دعائیہ شعر جن میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا شکریہ بھی ہو لکھ دوں میں جیسا کہ ابھی کہا ہے کہ اصلاح کی فکر میں رہتا ہوں میں نے اس تقریب کو بہت ہی مبارک سمجھا اور میں نے مناسب جانا کہ اس طرح پر تبلیغ کر دوں.“ 66 ملفوظات جلد دوم صفحہ 389 390 یہ رسمیں کیسے بنتی ہیں ؟ کیوں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کی جاتی ہے محض نمائش اور دکھاوا اور اس بات کے اظہار کے لئے کہ ایک نے شادی یا کسی اور تقریب پر پانچ ہزار خرچ کئے تو دوسرا فخر یہ یہ کہتا ہے میں نے دس ہزار کئے محض نمائش.دکھاوا یا برادری میں اپنی ناک اونچی رکھنے کے لئے.حالانکہ مومن کی زندگی کا مقصد دین کو دنیا پر مقدم کر رکھنا ہوتا ہے اور یہی مقصد ہر احمدی عورت اور مرد کا ہونا چاہئے اور ہر کام کرنے کی نیت محض رضائے الہی اور اطاعت رسول ﷺ ہونی چاہئے.دنیا کو دین پر مقدم رکھنے والوں کے انجام کی طرف قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے یوں توجہ دلائی ہے فرمایا فَلَمَّا مَنْ طَغَى وَاثَرَ الْحَيَاةَ الدُّنْيا فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأوى (النازعات : 38) یعنی جس شخص نے احکام الہی سے سرکشی اختیار کی اور دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دی.یقینا جہنم ہی اس کا ٹھکانہ ہے.لیکن اس کے برعکس فرماتا ہے

Page 58

57 أَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأوى - النزعت : 41 42) جس نے اپنے رب کی شان سے خوف کیا اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا اور خدا تعالیٰ کی خاطر برادری کے تعلقات کی پرواہ نہ کی یقیناً جنت اس کا ٹھکانہ ہے.اس چیز کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت خلیفہ اصبح الثالث نے فرمایا:.خدا تعالیٰ کے احکام میں ایک حصہ نوا ہی کا ہے یعنی بعض باتیں ایسی ہیں جن سے وہ روکتا ہے مثلاً دنیوی رسم و رواج ہیں جن کی وجہ سے بعض لوگ اپنی استطاعت سے زیادہ بچوں کی بیاہ شادی پر خرچ کر دیتے ہیں حالانکہ وہ اسراف ہے جس سے اللہ تعالیٰ منع فرماتا ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے رسم و رواج کو پورا کرنے کے لئے خرچ نہ کیا تو ہمارے رشتہ داروں میں ہماری ناک کٹ جائے گی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری خاطر رسم ورواج کو چھوڑ کر اپنی ناک کٹواؤ تب تمہیں میری طرف سے عزت کی ناک عطا کی جائے گی.خطبات ناصر جلد اوّل صفحہ 216 اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے متعلق جو اللہ تعالیٰ کے تعلقات پر دنیا کے تعلقات کو ترجیح دیتے ہیں فرماتا ہے سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرُطُومِ (القلم: 17) اس دنیا میں انہوں نے اپنی ناک اونچی رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکام کی پرواہ نہ کی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قیامت کے دن ہم ان اونچی ناکوں کو داغ لگا ئیں گے.

Page 59

58 عہد بیعت ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے:.حضرت اقدس نے اپنی بعثت کی ایک غرض یہ بتائی ہے کہ آپ کی بیعت کے ذریعہ ایک گروہ متقیوں کا پیدا ہو جو دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والا ہو.اگر ہم حضور اور آپ کے خلفاء کی کامل اطاعت کر کے اپنے آپ کو اس تقوی شعار لوگوں کی جماعت میں شامل کرتے ہیں تو یقیناً ہم اپنے عہد بیعت کو پورا کرنے والے ہیں کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے ہر ایک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:.یہ سلسلہ بیعت محض بمراد فراہمی طائفہ متقین یعنی تقوی شعار لوگوں کی جماعت کے جمع کرنے کے لئے ہے تا ایسے متقیوں کا ایک بھاری گروہ دنیا پر اپنا نیک اثر ڈالے اور ان کا اتفاق اسلام کے لئے برکت و عظمت و نتائج خیر کا موجب ہو.اور وہ بابرکت کلمہ واحدہ پر متفق ہونے کے اسلام کی پاک و مقدس خدمات میں جلد کام آ سکیں اور ایک کا ہل اور بخیل و بے مصرف مسلمان نہ ہوں اور نہ ان نالائق لوگوں کی طرح جنہوں نے اپنے تفرقہ و نا اتفاقی کی وجہ سے اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ہے اور اس کے خوبصورت چہرہ کو اپنی فاسقانہ حالتوں سے داغ لگا دیا ہے.....بلکہ وہ ایسے قوم کے ہمدرد ہوں کہ غریبوں کی پناہ ہو جائیں یتیموں کے لئے بطور باپوں کے بن جائیں اور اسلامی کاموں کے انجام دینے کے لئے عاشق زار کی طرح فدا ہونے کو تیار ہوں اور تمام تر کوشش اس بات کے لئے

Page 60

59 کریں کہ ان کی عام برکات دنیا میں پھیلیں اور محبت الہی اور ہمدردی بندگان خدا کا پاک چشمہ ہر یک دل سے نکل کر اور ایک جگہ اکٹھا ہو کر ایک دریا کی صورت میں بہتا ہوا نظر آوے.خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ محض اپنے فضل اور کرامت خاص سے اس عاجز کی دعاؤں اور اس ناچیز کی توجہ کو ان کی پاک استعدادوں کے ظہور و بروز کا وسیلہ ٹھہرا دے اور اس قدوس جلیل الذات نے مجھے جوش بخشا ہے تا میں ان طالبوں کی تربیت باطنی میں مصروف ہو جاؤں اور ان کی آلودگی کے ازالہ کے لئے رات دن کوشش کرتا رہوں اور ان کے لئے وہ نو ر مانگوں جس سے انسان نفس اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے اور بالطبع خدا تعالیٰ کی راہوں سے محبت کرنے لگتا ہے.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ان کے لئے کہ جو..داخل سلسلہ ہو کر صبر سے منتظر رہیں گے ایسا ہی ہو گا.“ 66 روحانی خزائن جلد 3 ازالہ اوہام صفحہ 562561 ہم روزانہ کئی کئی بار نماز میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (فاتحہ : 6) اے اللہ ہمیں سیدھے راستہ پر چلا ئیو.ایسا راستہ جو سیدھا تجھ تک جاتا ہو.یہ راستہ اور ہدایت متقیوں کو ہی نصیب ہو سکتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کی کامل فرمانبرداری کرنی چاہیئے اور اپنی مرضی کو خدا تعالیٰ کی مرضی کے لئے چھوڑ دینا چاہئے اور اپنے پر فتنا وارد کرنی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا نصیب ہو اللہ تعالیٰ ہم سب کو تو فیق عطا فرمائے آمین

Page 61

60 احمدی مستورات کا فرض :- پس ہم جنہوں نے حضرت مسیح موعود امام آخر الزمان اور آپ کے خلفاء کے ہاتھ پر بیعت کی ہے.ہمیں آپ کے اس ارشاد کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا چاہئے کہ ہر قسم کی رسوم اور ہوا و ہوس کو چھوڑ کر خالص اللہ تعالیٰ کے لئے اپنی زندگیاں گزاریں.ایک پاک تبدیلی ہمارے نفوس میں پیدا ہو اور اس کی روشنی ہر طرف پھیلے.ہم نمونہ بنیں اسلامی برکات کا اور ان لوگوں میں شامل ہوں جن کو قبولیت اور نصرت دی جاتی ہے.لجنہ اماءاللہ کی تمام ممبرات اور تمام احمدی مستورات کا فرض ہے کہ وہ حضرت خلیفتہ اسیح الرابع کی تمام ہدایات پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ ترک رسومات کی تحریک کو پورے زور وشور سے جاری کریں رسومات کا پھر سے جماعت میں پیدا ہونا بھی عورتوں کی وجہ سے ہے ان میں اپنی جہالت، کم عقلی اور قرآن مجید کی تعلیم سے لاعلمی کے باعث اور رشتہ داروں اور برادری سے مقابلہ نہ کر سکنے کی ہمت اور جرات نہ ہونے کی وجہ سے وہ رسومات پھر سے پھیلنی شروع ہو گئی ہیں جو جماعت کے ابتدائی مانے والوں نے حضور کی مقدس صحبت میں ترک کر دی تھیں.میری بہنو! اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک قربانی مانگتا ہے اور سب سے بڑی قربانی یہی ہے کہ اپنی خواہشات اور جذبات کی گردن پر چھری پھیرتے ہوئے ہماری زندگیاں رسومات اور تکلفات سے پاک ہو کر محض اللہ تعالیٰ کی خاطر ہو جائیں تا وقتیکہ ہمارا نصب العین ہمیں حاصل ہو جائے.اے اللہ تو ایسا ہی کر.

Page 61