Language: UR
ایک دیوبندی عالم مولوی محمد یوسف لدھیانوی نے ’’قادیانیوں کو دعوت اسلام‘‘ کے نام سے 48 صفحات کا ایک کتابچہ لکھا تھا جو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، حضوری باغ روڈ ملتان کی طرف سے شائع کیاگیا۔ اس رسالہ میں معاند مولوی نے جماعت احمدیہ کے خلاف کئی درجن اعتراضات درج کئے اور بزعم خویش افراد جماعت کو دعوت دی کہ وہ احمدیت کو چھوڑ کر اسلام قبول کرلیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مولوی موصوف یہ رسالہ بغض، بدزبانی، تعصب، جعل سازی کی تصویر اور دھوکہ و فریب کا شاہکار ہے۔ قریباً دو سو صفحات پر مشتمل اس جوابی کتاب میں مولوی موصوف کے رسالہ کے پیش لفظ سمیت پانچوں فصلوں کا مختصر مگر جامع اور مسکت جواب دیا گیا ہے۔
اسلام سے نہ بھاگو راہ ھدیٰ یہی ہے آسے سونے والو جاگو پہ شمس الضحی یہی ہے راه مهدی ایم.کے.خالد
نمبر شمار مضامین تعارف A پیش لفظ کی حقیقت مسلم اور مومن کون ؟ فصل اوّل فهرست مضامین دو محمد رسول اللہ حقیقت حال فصل دوم قادیانی بعثت کے آثار و نتائج ( اعتراضات اور ان کے جوابات ) عقیدہ میرا خاتم النبین کے بعد عام گمراہی عقیدہ نمبر ۲ پہلی اور دوسری بعثت کا الگ الگ دور عقیدہ نمبر ۳ جامع کمالات محمدیہ فصل سوم و خصوصیات نبوئی اور مرزا صاحب ( اعتراضات اور ان کے جوابات ) ۱۰ ۱۵ عقیدہ نمبرا آیت محمد رسول اللہ والذین معہ کا مصداق آنحضرت کی بجائے مرزا صاحب ہیں عقیدہ نمبر ۲ چودھویں صدی کی تمام انسانیت کا رسول مرزا غلام احمد عقیدہ نمبر ۳ اب دنیا کا بشیر و نذیر مرزا غلام احمد قادیانی ہے عقیدہ نمبر ۴ اب رحمتہ للعالمین مرزا صاحب ہیں عقیدہ نمبر ۵ اب مرزا صاحب کی پیروی ہی موجب نجات ہے.عقیدہ نمبر خاتم النین بطور بروز مرزا صاحب ہیں صفحہ r ۲۳ ۲۳ ۳۲ ۳۵ ۳۹ ۳۹ ۴۷ ۴۸ ۵۰ ar
۵۵ ۵۵ ۵۶ ۵۶ ۶۳ ۶۴ ۶۶ ZA 29 ۸۰ ۸۹ ۹۹ M 14 IA 19 ۲۰ ۲۲ عقیدہ نمبرے صاحب کوثر مرزا صاحب ہیں عقیدہ نمبر ۸ صاحب اسراء مرزا صاحب ہیں عقیدہ نمبر ۹ معراج جسمانی سے انکار کا اعتراض کیا معراج جسمانی تھا عقیدہ نمبر ۱ قاب قوسین کا دعویٰ عقیدہ نمبر خدا مرزا صاحب پر درود بھیجتا اور عرش پر تعریف کرتا ہے عقیدہ نمبر ۲ لولاک لما خلقت الافلاک کا دعویٰ ۲۳ عقیدہ نمبر ۱۳ مرزا صاحب تمام انبیاء سے افضل ہیں عقیدہ نمبر ۱۴ مقام محمود کا دعویٰ ۲۵ ۲۶ عقیده نمبر ۱۵ اگر موسیٰ اور عیسی زندہ ہوتے تو مرزا صاحب کی پیروی کرتے.عقیدہ نمبر ۱۶ مرزا صاحب کی اہلیہ کو ام المومنین کہتے ہیں ۲۷ عقیدہ نمبر ۱۷ اعجاز احمد ی اور اعجاز مسیح بھی معجزہ ہے عقیدہ نمبر ۱۸ کلمہ میں محمد رسول اللہ کی بجائے مسیح موعود ہونے کا اعتراض PA ۲۹ ۳۱ ۳۲ عقیدہ نمبر 19 غیر احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھنے کا اعتراض بزرگان امت کی نظر میں مہدی موعود اور مسیح موعود کا مقام فصل چهارم (اعتراضات اور ان کے جوابات ) کی بعثت پر قادیانی بعثت کی فضیلت عقیدہ نمبر دوسری بعثت اقومی اور اکمل اور اشرت عقیده نمبر ۲ روحانی ترقیات کی ابتداء اور انتہاء ۳۴ عقیدہ نمبر ۳ پہلے سے بڑی اور زیادہ فتح مبین ۳۵ عقیده نمبر ۴ مرزا صاحب کا زمانہ زمان البرکات M عقیدہ نمبر ۵ ہلال اور بدر 1+9 1+9 E 119
۱۲۱ ۱۲۲ ۱۲۵ ۱۲۸ ۱۳۱ هم سوا t ۱۳۵ ۱۳ ۱۳۹ ۱۴۳ M ۱۵۰ اها ادا ۱۵۲ ۱۵۴ ۱۵۴ ۱۵۵ ۵۶ ج ۳۷ عقیدہ نمبر ۶ ظہور کی تکمیل عقیدہ نمبرے حقائق کا انکشاف ۳۹ عقیدہ نمبر ۸ صرف چاند چاند اور سورج دونوں ۴۰ ۴۱ ۴۲ عقیدہ نمبر تین ہزار اور تین لاکھ کا فرق عقیدہ نمبر ۱۰ ذہنی ارتقاء عقیدہ نمبر یا معاملہ صاف ۴۳ عقیدہ نمبر ۲ آگے سے بڑھ کر بم هم عقیدہ نمبر ۱۳ مصطفی مرزا ۴۵ عقیدہ نمبر ۱۴ استاد شاگرد ۴۶ عقیدہ نمبر ۱۵ بنک استهزاء ۴۷ عقیدہ نمبر ۱۶ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مرزا صاحب پر ایمان لانے کا عہد.کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مرزا بر ایمان لانے کا عہد لیا گیا ۴۸ ۴۹ عقیدہ نمبر۱۷ انت منی بمنزلته ولدى ۵۰ عقیدہ نمبر ۱۸ کن فیکون کی شان عقیدہ نمبر ۱۹ انت اسمى الاعلى انت مرادی انت منی و انا منک انت منی بمنزلته بروزی انت منی بمنزلته توحیدی و تفریدی انت مني بمنزلته روحي انت منی بمنزلته سمعى انت منی بمنزلته عرفی ۵۲ ۵۳ ۵۴ ۵۵ ۵۶ ۵۷ ۵۸ ۵۹
۱۵۷ ۱۵۸ ۱۵۹ ۶۰ ۶۹ 141 ۱۷۳ ۱۷۴ ۱۷۵ 166 IZA (Ar ۱۸۷ IAA AI ช ۶۲ و انت منی و سرک سری انا أتيناك الدنيا دعوت غور و فکر فصل پنجم ۱۳ عقیده نمبرا انا انزلناه قريبا من القاديان ۶۴ عقیدہ نمبر ۲ مرزا صاحب عین محمد ہیں عقیدہ نمبر ۳ بہت قوموں کو عین و بروز نے برباد کیا ہے مرزا صاحب عین خدا کیوں نہیں ۶۵ YY ۶۹ عقیدہ نمبر ۴ محمد ثانی عقیدہ نمبر ہ کیا ازواج مطہرات مرزا صاحب سے منسوب ہیں رایت خدیجتی عقیدہ نمبر 4 مرزا صاحب کی جسمانی بیماریاں بروز محمد ہونے کے منافی ہیں کیا مرزا صاحب پاگل ہیں ؟ عقیدہ نمبرے مرزا صاحب کو دوبارہ قالب محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں بھیجنے کا الزام عقیدہ نمبر ۸ مرزا صاحب کی افضلیت کا الزام ہ عقیدہ نمبر ۹ مرزا صاحب نے کونسا روحانی انقلاب برپا کیا ؟ تمر
بسم الله الرحمن الرحیم تعارف ایک دیوبندی عالم مولانا محمد یوسف صاحب لدھیانوی نے " قادیانیوں کو دعوت اسلام" کے نام سے اڑتالیس (۴۸) صفحات کا ایک رسالہ تحریر کیا ہے.جو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت حضوری باغ روڈ ملتان پاکستان کی جانب سے شائع ہوا ہے.اس رسالہ میں لدھیانوی صاحب نے جماعت احمدیہ کے خلاف کئی درجن اعتراضات کئے ہیں اور بزعم خویش افراد جماعت احمدیہ کو اس بات کی دعوت دی ہے کہ وہ احمدیت سے انحراف کر کے اسلام قبول کرلیں.معزز قارئین حقیقت یہ ہے کہ لدھیانوی صاحب کا رسالہ بغض و تعصب کی تصویر اور دھوکہ و فریب کا شاہکار ہے جیسا کہ آپ آئندہ صفحات میں ملاحظہ فرمائیں گے.اس رسالہ کے شروع میں لدھیانوی صاحب نے دو صفحات کا پیش لفظ لکھا ہے اور پھر پانچ فصلیں لکھی ہیں.ہم اسی ترتیب کے ساتھ اس رسالہ کا جواب لکھنا چاہتے ہیں.پیش لفظ کی حقیقت لدھیانوی صاحب نے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ ” اسلام اور قادیانیت کا سو سالہ تصادم ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کے آئینی فیصلہ سے اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے.اس طویل عرصہ میں بے شمار مناظرے ، مباحے مباہلے ہوتے رہے.سینکڑوں کتابوں اور رسالوں کے دفتر دونوں جانب سے تالیف کئے گئے.مگر اب ان میں سے کسی چیز کی ضرورت باقی نہیں رہی." لدھیانوی صاحب کے نزدیک جماعت احمدیہ کی تردید کے لئے پاکستان کی قومی اسمبلی کا بھٹو صاحب کی سرکردگی میں ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کو یہ فیصلہ کرنا کہ جماعت احمدیہ غیر مسلم ہے ، کافی دلیل ہے.
مسلم اور مومن کون ہے قارئین کرام ! اللہ تعالیٰ سورۃ الحجرات کی آیت نمبر ۱۵ میں فرماتا ہے.قَالَتِ الأَعْرَابُ امَنًا عرب کے جنگلی آتے ہیں اور کلمہ پڑھ کر کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان لے آئے - قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَ لَمَّا يَدْخُلِ الْإِيْمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ - (اے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم!) تو کہہ دے کہ تم ایمان نہیں لائے.ہاں میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ تم یہ کہو کہ " ہم مسلمان ہو گئے ہیں." ابھی تک تمہارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا.معزز قارئین! اس آیت کے مضمون پر غور فرمائیں.دلوں کے بھید جاننے والا اور علام الغیوب خدا خود گواہی دیتا ہے کہ یہ لوگ بے شک کلمہ پڑھ رہے ہیں اور اپنے ایمان کا اظہار کر رہے ہیں لیکن ان کے دلوں میں ایمان نہیں ہے اس صورت حال کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو بھی یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ انہیں اسلام سے خارج سمجھے بلکہ فرمایا قُولُوا اسلمنا یعنی وہ خود کو مسلمان کہلانے کے حقدار ہیں.چنانچہ ایک دفعہ جب مدینہ منورہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی فہرست تیار کرنے کا حکم دیا تو یہ ہدایت فرمائی أَكْتُبُو إِلَى مَنْ يَلْفِظُ بِالْإِسْلَامِ مِنَ النَّاسِ (بخاری باب کتابتہ الامام الناس) کہ لوگوں میں سے جو شخص اپنی زبان سے مسلمان ہونے کا اقرار کرتا ہے اس کا نام میرے لئے تیار ہونے والی فہرست میں لکھ لو.اب لدھیانوی صاحب یہ بتائیں کہ کیا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر اسلام کا درد رکھتے ہیں ؟ ہم تو کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اسلام کا درد رکھنے کا دعوی کرنے والا یقیناً فریبی اور جھوٹا ہے.اگر کوئی شخص یہ دعوی کرے کہ مسلمان کہلانے والوں میں بعض غلط دعویدار بھی شامل ہو سکتے ہیں اس لئے میں پوری چھان بین اور تسلی کر لینے کے بغیر کسی کو مسلمان کہلانے کا حق نہیں دیتا ایسے شخص پر تو یہ ضرب المثل صادق آتی ہے کہ ”ماں سے زیادہ چاہے پیچھے کتنی کہلائے" ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو یہ خطرہ برداشت تھا لیکن آج
کے ملانوں کو اللہ بہتر جانتا ہے کہ ان کے اپنے دین کا کیا حال ہے ) یہ برداشت نہیں.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ بالا ہدایت کے مطابق احمدیوں کے نام بھی آپ کی فہرست میں درج ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں تو یقیناً احمدی نہ صرف مسلمان ہونے کا دعوی کرنے کے حقدار ہیں بلکہ اس دعوے کے نتیجہ میں جس قدر وہ ستائے گئے اور دکھ دیئے گئے کسی اور فرقے میں ان کی مثال نہیں ملتی.پس جس وقت تک آنحضرت کی فہرست میں ان کا نام مسلمان کے طور پر درج ہے کسی ماں نے وہ بچہ نہیں جنا کہ اس فیصلے کے علی الرغم اس فہرست سے انہیں خارج کر سکے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو قرآن کریم کے سب سے بڑے عارف تھے فرماتے ہیں.مَنْ صَلَّى صَلَا تَنَاوَ اسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَاوَ اكَلَ ذَ يَحْتَنَا فَذَلِكَ الْمُسْلِمُ الَّذِي لَنذِتَةُ اللَّهِ وَ ذِمَّةٌ رَسُولِهِ فَلا تَغْفَرُوا اللهَ فِى ذميم ( بخارى.....كتاب الصلوۃ باب فضل استقبال القبله ) یعنی جس شخص نے ہماری نماز کی طرح نماز پڑھی ، ہمارے قبلہ کی طرف منہ کیا اور ہمارا ذبیحہ کھایا وہ ایسا مسلمان ہے.جسے خدا اور اس کے رسول کی ضمانت حاصل ہے.پس تم خدا تعالٰی اور اس کے رسول کی ضمانت مت توڑو.آنحضرت کا یہ ارشاد مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں تو اسی پر ہی بات ختم ہو جاتی ہے اور مسئلہ پر مزید بحث کے دروازے بند ہو جاتے ہیں.اگر لدھیانوی صاحب اور ان کے ہمنوا اللہ تعالٰی اور اس کے رسول کے اس ذمہ کو توڑنے کی جسارت کرتے ہیں اور اس ضمانت کو توڑتے ہیں تو اللہ ہی ہے جو ان سے بیٹے گا.لبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ (سورۃ الجاهیه آیت نمبر۷ ) اب ہمارے مخالف اس کے بعد کونسی حدیث سمجھیں گے.کونسی دلیل لائیں گے جو ان کے لئے اللہ تعالیٰ اور رسول کے فیصلہ سے بڑھ کر ہو گی.اس آیت کے بعد خدا تعالٰی نے اور اس ارشاد کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو غیر مسلم قرار دینے کے اختیارات بندوں سے چھین لئے ہیں.لدھیانوی صاحب کہتے ہیں کہ احمدی دکھاوا کرتے ہیں.زبان سے کچھ کہتے ہیں اور ان کے دل میں کچھ اور ہوتا ہے.
معزز قارئین ! فتوی ہمیشہ کسی کی زبان کے اقرار پر لگایا جاتا ہے نہ کہ اس کے دل کی حالت پر کیونکہ دلوں کے حالات صرف خدا جانتا ہے.کوئی انسان نہیں جانتا کہ کسی کے دل میں کیا ہے سوائے اس کے کہ اللہ تعالی کسی انسان کو بذریعہ وحی خبر دے دے کہ فلاں کے دل میں کچھ اور ہے اور زبان پر کچھ اور.مگر لدھیانوی صاحب نے اس رسالہ میں کہیں بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ اللہ تعالٰی نے بذریعہ وحی انہیں خبر دی ہے کہ احمدی دل سے ان باتوں کے قائل نہیں ہیں.ایک جنگ کے موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی حضرت اسامہ بن زید نے ایک کافر پر تلوار اٹھائی اس نے بلند آواز سے کہا لا الہ الا اللہ - حضرت اسامہ نے اس شخص کو اس لئے قتل کر دیا کہ ان کے خیال میں یہ کلمہ توحید کا اعلان دل سے نہیں کر رہا تھا بلکہ محض جان بچانے کے لئے ایسا کر رہا تھا.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم ہوا تو آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور حضرت اسامہ کو مخاطب کر کے بار بار فرمایا أَفَلا نَفتَ عَنْ قَلْبِهِ حَتَّى تَعْلَمَ أَقالَهَا امْ لَا - "1 ( صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم قتل الکافر بعد قولہ لا الہ الا اللہ ) کہ اے اسامہ کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا کہ وہ دل سے کلمہ پڑھ رہا ہے یا نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے واضح ہے کہ کسی شخص کو کسی کے بارے میں یہ کہنے کا حق حاصل نہیں کہ وہ محض زبان سے اس بات کا قائل ہے.دل سے اس بات کا قائل نہیں.اور جو شخص ایسا کرے وہ خواہ کتنا ہی پیارا صحابی کیوں نہ ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس پر شدید ناراض ہوتے ہیں.چنانچہ حضرت اسامہ بیان کرتے ہیں کہ اس طرح شدید ناراضگی کے عالم میں مجھے مخاطب کر کے یہ فقرہ اتنی بار دہرایا کہ میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کاش میں آج سے پہلے مسلمان ہی نہ ہوا ہوتا اور اس طرح مجھے آپ کی ناراضگی نہ دیکھنی پڑتی.اور اس واقعہ کے بعد میں اسلام قبول کرتا.لدھیانوی صاحب اور ان کے ہمنوا اس واقعہ سے سبق حاصل کریں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غضب کو نہ بھڑکائیں.
حضرت امام سیوطی علیہ الرحمہ کی کتاب الخصائص الکبری جلد نمبر ۲ صفحه ۷۷-۷۸ ناشر مکتبہ نوریہ رضویہ لائلپور باب معجزته فيمن مات ولم تقبله الارض میں درج یہ واقعہ بھی قابل غور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک جنگ میں ایک مسلمان ایک مشرک پر غالب آگیا جب مسلمان نے اسے تلوار سے قتل کرنا چاہا تو اس نے فوراً پڑھ دیا لا الہ الا اللہ لیکن وہ مسلمان پھر بھی باز نہ آیا اور اسے قتل کر دیا.پھر اس مسلمان قاتل کے دل میں خلش پیدا ہوئی تو اس نے ساری بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کر دی جس پر آپ نے فرمایا کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا جب وہ قاتل مسلمان فوت ہو گیا تو اس کی تدفین کے بعد اگلے دن دیکھا گیا کہ اس کی لاش قبر سے باہر پڑی ہے اس کے ورثاء نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی آپ نے فرمایا اسے دوبارہ دفن کر دو پھر دوبارہ دفن کیا گیا تو اگلے دن پھر یہی ماجرا ہوا اسے تیسری بار دفن کیا گیا تو پھر زمین نے اس کی لاش باہر پھینک دی تب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زمین نے کلمہ پڑھنے والے کو قتل کرنے والے کی لاش قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے اس لئے اسے کسی غار میں پھینک دو.پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.زمین اس سے بھی برے اشخاص کو قبول کر لیتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو تمہارے لئے عبرت کا نشان بنانے کے لئے ایسا کیا ہے تا تم میں سے کوئی شخص آئندہ کسی کلمہ پڑھنے والے کو یا اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے شخص کو قتل نہ کرے" لدھیانوی صاحب ! آپ بھی اس شخص کی مانند ہم پر ہی الزام لگاتے ہیں کہ ہم دل سے کلمہ نہیں پڑھتے.کاش آپ مندرجہ بالا واقعہ سے عبرت حاصل کر سکیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسلام کی طرف بلایا تو اس میں داخل ہونے کا یہی طریق تھا کہ انسان گواہی دیتا تھا لا اله الا الله محمد رسول الله اگر اس اسلام کی طرف لدھیانوی صاحب بلا رہے ہیں تو جب بھی کوئی احمدی یہی کلمہ پڑھتا ہے تو اس پر لدھیانوی صاحب غوغا بلند کرتے ہیں کہ یہ اوپر سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے رہے ہیں اور اندر سے مرزا غلام احمد کا کلمہ پڑھ رہے ہیں.ہمیں تو اس
کے سوا اور کوئی کلمہ نہیں آتا کیونکہ یہ وہی کلمہ ہے جو رسول اللہ نے سکھایا.پس اگر لدھیانوی صاحب کے نزدیک ہمیں اسلام میں داخل ہونے کے لئے وہ کلمہ پڑھنا چاہئے جو ان کے بزرگ اور پیرو مرشد اشرف علی تھانوی صاحب کے ایک مرید نے دیکھا تو رویا سنانے پر انہوں نے تصدیق کی کہ یہ سیدھا راستہ ہے.وہ کلمہ یہ تھا.لا الہ الا اللہ اشرف علی رسول اللہ.(رساله الاعداد صفحه ۳۵ مطبوعہ تھانہ بھون ۸ صفر ۱۳۳۶ ) ہو سکتا ہے لدھیانوی صاحب یہ جواب دیں کہ ہم جب اشرف علی رسول اللہ کہتے ہیں تو مراد محمد رسول اللہ ہوتی ہے پس ان مولوی صاحب کی دماغی صنعت عجیب ہے کہ احمدی جب محمد رسول اللہ کہیں تو مولوی صاحب کا اصرار ہے کہ مراد مرزا غلام احمد صاحب ہیں اور جب مولوی صاحب اور ان کے ہمنوا اشرف علی رسول اللہ کا نعرہ لگائیں تو دل میں مراد محمد رسول اللہ ہوتی ہے.خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ایک حسن یوسفی وہ تھا جو نور حق سے منور تھا لیکن اس زمانہ کی بد نصیبسی دیکھیں کہ آج یہ حسن یوسفی بھی دیکھنا پڑا.پس ہمیں بتایا جائے کہ کونسا کلمہ پڑھ کر احمدی مسلمان ہو گا.اور نیا ایجاد شدہ کلمہ ہم ہرگز تسلیم نہیں کریں گے اور وہی کلمہ پڑھیں گے جو محمد رسول اللہ نے سکھایا.
ง فصل اول دو محمد رسول الله ؟ زیر نظر رسالہ کی فصل اول کا عنوان لدھیانوی صاحب نے دو محمد رسول اللہ تجویز کیا ہے اور اس کے آگے سوالیہ نشان ڈالا ہے.فصل اول کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ نے اپنی متعدد تحریرات میں علی اور بروزی طور پر اپنے آپ کو محمد قرار دیا ہے.جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ عین محمد ہونے کے دعویدار ہیں.نیز مرزا صاحب یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بعثتیں ہیں اور بعثت ثانیہ بروزی طور پر ہے جو مرزا صاحب کی شکل میں ہوئی ہے.لدھیانوی صاحب کہتے ہیں کہ ظل اور بروز کا تصور غیر اسلامی ہے.تیرہ صدیوں میں کسی مسلمان کا یہ عقیدہ نہیں تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے.لدھیانوی صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کے عقیدہ اور علی اور بروزی طور پر محمد ہونے کے عقیدہ سے ماننا پڑتا ہے کہ دو محمد رسول اللہ ہیں.ایک عربی اور دوسرا قادیانی حقیقت حال چند ایک مختصر گذارشات کے بعد ہم حضرت مرزا صاحب کی چند ایسی تحریرات آپ کے سامنے رکھیں گے جن سے ہر قاری پر جو کچھ ذرا بھی انصاف کا مادہ رکھتا ہو خوب اچھی طرح ظاہر ہو جائے گا کہ جناب لدھیانوی صاحب محض تجاہل عارفانہ سے ہی کام نہیں لے رہے یعنی جان بوجھ کر ہی غلط بات نہیں بنا رہے.بلکہ بڑی بے باکی سے بہت بڑا افتراء کر رہے ہیں.جیسا کہ آئندہ تحریرات سے یہ واضح ہو گا.کہ حضرت مرزا صاحب نے جہاں بھی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز ہونے کا دعویٰ فرمایا ہے.اسے بکثرت مثالوں سے واضح
زیاد بھی کیا ہے.کہ آپ کی کیا مراد ہے.پس یہ بحث بالکل لغو بے حقیقت اور بے معنی ہے کہ بروز کی اصطلاح امت محمدیہ میں رائج ہے کہ نہیں.لیکن آئین صفحات میں ہم آپ کو یہ بھی بتائیں گے کہ مولوی صاحب کس طرح سراسر جھوٹ سے بہ لیتے ہیں.جب یہ کہتے ہیں کہ ظل اور بروز کا تصور غیر اسلامی ہے.سر دست یہ بھول جائیے کہ اسلام میں یہ اصطلاح ہے کہ نہیں.دیکھنا یہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے جب محمد کا لفظ بروزی اور علی طور پر اپنے پر چسپاں کیا.تو کن معنوں میں استعمال کیا.ان اصطلاحوں کے تین ہی معنی عقلا ممکن ہیں.اول یہ کہ حضرت مرزا صاحب نے اپنے آپ کو یہ اصطلاح استعمال کر کے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم مرتبہ ظاہر کیا ( نعوذ باللہ ) اور یہ بتایا کہ میں آپ کے درجہ کے برابر ہوں اگرچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہوں.پس ہم مرتبہ ہونے کی وجہ سے نام محمد دیا گیا ہے.دوسرا یہ معنی قرار دیا جا سکتا ہے کہ (نعوذ باللہ ) دنیا میں ایک محمد نہیں بلکہ وہ محمد ہیں.کہ ایک عرب میں پیدا ہوا تھا.اور ایک ہندوستان قادیان میں.اس طرح ہم مرتبہ ہونے کا ہی دعوئی نہیں بلکہ کلیہ علیحدہ محمد ہونے کا دعویٰ کر دیا.تیسرا یہ معنی ہو سکتا ہے کہ ان معنوں میں اسم محمد کا اپنے اوپر اطلاق کیا جن معنوں میں اللہ کے لفظ کا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر اطلاق کیا گیا جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا - وَمَارَسَتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلِكِنَّ اللهَ رَلى (انفال آیت نمبر ۱۸) یعنی اے محمد " جب تو نے مٹھی بھر کنکریاں کفار کی طرف پھینکیں تو تو نے نہیں بلکہ اللہ نے پھینکیں اور پھر فرمایا کہ ان الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَا يَمُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوقَ أَيْدِيهِمْ (الفتح آیت نمبر 1) کہ یہ لوگ جو تیری بیعت کر رہے ہیں ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ کا ہاتھ ہے.(وہ ہاتھ جو ان کے ہاتھوں پر تھا یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ اللہ کا ہاتھ تھا ) ظاہر ہے کہ ان دونوں مواقع پر خدا تعالی ہرگز یہ بیان نہیں فرماتا کہ نعوذ بااللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے ہم مرتبہ ہیں ، نہ ہی یہ دعوئی فرمایا ہے کہ دو خدا ہیں.ایک وہ جو مکہ میں ظاہر ہوا اور ایک وہ اللہ جو زمین و آسمان میں ہر جگہ ہے.اگر کوئی شخص ان آیات کا یہ مطلب نکالے تو یقیناً مفسد اور شیطان ہو گا.اور کلام اللہ کو
اس کے محل سے الگ کر کے نہایت خیشانہ معنے اس کی طرف منسوب کرے.تو یہ انتہائی مفسدانہ اور شیطانی فعل کہلائے گا.پس اگر آریوں ، عیسائیوں ، بہائیوں میں سے کوئی قرآن - کریم پر اس قسم کا بے باکانہ حملہ کرے تو یقیناً اس کی جسارت نہایت مکروہ اور مردود ہو گی.جماعت احمدیہ بغیر کسی شک کے قطعی طور پر اس بات کی شہادت دیتی ہے.کہ حضرت مرزا صاحب کی تحریروں میں جہاں جہاں بھی لفظ محمد علی و بروزی طور پر استعمال کیا گیا ہے.بعینہ ان معنوں میں ہے.جن معنوں میں آیات مذکورہ میں اللہ کے لفظ کا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اطلاق ہوا ہے.جس کے معنی تمام شرفاء اور متقیوں کے نزدیک یہ بنتے ہیں کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامل طور پر اپنے رب میں فنا ہو گئے اور اپنی کوئی مرضی نہ رہی.آپ کا اٹھنا بیٹھنا.آپ کی حرکت و سکون کچھ بھی اپنا نہ رہا.یہ تعلق ایسا کامل ہو گیا تھا.کہ آپ نے اپنا سب کچھ خدا میں مٹا دیا آپ کا ہر عمل اور ہر ارادہ اس طرح خدا تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہو گیا کہ دیکھنے والے کو آپ کے ہر ارادہ میں خدا کا ارادہ دکھائی دینے لگا اور ہر عمل میں خدا کا عمل.اسی کامل غلامی کی ایک نہایت ہی حسین تصویر ان آیات میں کھینچی گئی ہے.اسی وجہ سے قرآن کریم نے آپ کو عبد اللہ کا لقب عطا فرمایا یعنی اللہ کا کامل غلام.پس جب آقا کا لقب غلام کو عطا ہوتا ہے.تو نہ ہم مرتبہ بنانے کے لئے نہ دو الگ وجود بنانے کے لئے بلکہ ان معنوں میں کہ غلام نے کلیتہ اپنے آپ کو اپنے آقا میں مٹا دیا.پس بجز بتانے کے لئے نہ کہ کبر بتانے کے لئے ایسا کیا جاتا ہے.- اس مضمون کو ہم اچھی طرح سمجھانے کے بعد اب بڑی تحدی کے ساتھ یہ اعلان کرتے ہیں کہ یوسف لدھیانوی صاحب اور ان کے ہم فکر علماء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں سے ویسی ہی زیادتی کر رہے ہیں جس طرح دشمنان اسلام قرآن کریم کی مذکورہ آیات سے کرتے ہیں.حضرت مرزا صاحب نے اپنے آپ کی رسول اللہ سے جو نسبت بیان فرمائی ہے.وہ ایک دو جگہ تو نہیں ، نظم اور نثر کے سینکڑوں صفحات پر پھیلی ہوئی اتنی واضح اور قطعی ہے.اور یہ ایک ایسا کھلا کھلا کلام ہے کہ ایک ادنی سی سمجھ رکھنے والا انسان بھی یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ آپ نے اپنے آپ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم مرتبہ وجود کے طور پر پیش کیا ہے.یا مولوی یوسف لدھیانوی والا دو محمد پیدا ہونے والا نظریہ پیش کیا ہے.حضرت
مرزا صاحب کی متعلقہ تحریرات پیش کرنے سے پہلے ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ مولوی لدھیانوی صاحب کا یہ بیان بھی جھوٹا ہے کہ بروز کی اصطلاح اسلام میں استعمال نہیں ہوئی اور یہ نظریہ غیر اسلامی ہے.ا.دیکھیں کیا فرماتے ہیں حضرت خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ چاچڑاں شریف والے جن کے مرید سرائیکی علاقہ میں کثرت سے موجود ہیں.آپ فرماتے ہیں." بروز یہ ہے کہ ایک روح دوسرے اکمل روح سے فیضان حاصل کرتی ہے.جب اس پر تجلیات کا فیضان ہوتا ہے.تو وہ اس کا مظہر بن جاتی ہے.اور کہتی ہے کہ میں وہ ہوں" ( مقابیس المجالس المعروف به اشارات فریدی مولفه رکن الدین حصہ دوم صفحه الله مطبوعه مفید عام پریس آگره ۱۳۲۱ ) مولوی محمد یوسف صاحب لدھیانوی کو ہم مودبانہ درخواست کے ذریعہ توجہ دلاتے ہیں کہ کم از کم اپنے پیرو مرشد کی تحریرات کا تو مطالعہ کر لیا کریں.-۲- لدھیانوی صاحب تو دیوبندی ہونے کے باوجود کل اور بروز کو غیر اسلامی اصطلاح قرار دیتے ہیں.لیکن ان کے پیرو مرشد مدرسہ دارالعلوم دیوبند کے بانی حضرت مولانا قاسم نانوتوی فرماتے ہیں." انبیاء میں جو کچھ ہے وہ کل اور عکس محمدی ہے " (تحذیر الناس از مولانا قاسم نانوتوی صفحه ۵۳ مطبوعہ مکتبہ قاسم العلوم کورنگی کراچی) اس عبارت میں حضرت مولانا موصوف تمام انبیاء کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل اور بروز قرار دے رہے ہیں.حضرت قطب العالم شیخ المشائخ شیخ محمد اکرم صابری الحنفی القدوس کی کتاب اقتباس الانوار میں لکھا ہے " روحانیت کمل کا ہے بر ارباب ریاضت چناں تصرف میفر ماید که فاعل افعال شان میگردد و این مرتبه را صوفیاء بروز میگویند " ( اقتباس الانوار صفحه ۵۲) اب: حضرت شیخ محمد اکرم صابری ابن محمد علی " براسہ " کے رہنے والے تھے اور ان کا تعلق حفی مذہب سے تھا اور مسلک کے لحاظ سے قدری کہلاتے تھے آپ نے اپنی تصنیف " اقتباس الانوار " میں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور خلفائے راشدین اور اولیائے کرام کے حالات درج کئے ہیں.
روحانیت میں کامل لوگوں کی روحانیت بسا اوقات سالکوں پر اس انداز سے تصرف فرماتی ہے.کہ ان کے افعال کی فائل بن جاتی ہے.اور صوفیاء اس مرتبہ کو بروز کے نام سے موسوم کرتے ہیں.شاہ محمد مبارک علی صاحب نے خزائن اسرار الكلم مقدمہ فی شرح فصوص الحکم میں یہ عنوان باندھا ہے.اٹھارواں مراقبہ مسئلہ بروز اور تمثل کے بیان میں " جس میں یہ لکھا ہے.بروز کو تاریخ نہیں سمجھنا چاہئے.یہ نہیں ہوتا کہ پرانی روح ایک نئے وجود میں آجائے اسے تاریخ کہا جاتا ہے انہوں نے بات کھول دی ہے کہ بروز تاریخ نہیں.مثال پیش کرتے ہوئے ہم ان کی یہ عبارت من و عن نقل کرتے ہیں جس سے لدھیانوی صاحب کا مرزا صاحب پر اعتراض باطل ہو جائے گا.دیکھئے اس بزرگ کی سوچ کتنی عمدہ اور صاف تھی کہ بروز کی مراد ایسی ہے جیسے ایلیا کے دوبارہ آنے کا عقیدہ یہودیوں میں رائج تھا.جب کئی آگئے تو صفات کے لحاظ سے ایلیا کہلائے.ایسا ہی عیسی کا نزول ہو گا.گویا ان کے نزدیک نہ وہی عینی بدن آخر میں حلول کریں گے.بلکہ بصورت صفات جلوہ گر ہوں گے اور ان کے نزدیک صفات کی جلوہ گری یہ نہیں کہ تمام صفات میں ہو بلکہ چند صفات کی جلوہ گری بروز بنانے میں کافی ہے حتی کہ بعض اوقات ایک صفت کی وجہ سے بروز ہو جاتا ہے.فرمایا ” اور ایسا ہی حکم بروز اوریس علیہ السلام کا بنا مزد الیاس علیہ السلام کے.اور نزول عیسی علیہ السلام کا آسمان سے اور یہ کبھی یہ سبب غلبہ کسی ایک صفت کے ہوتا ہے.اور کبھی بغلبہ جمیع صفات کمالیہ کے.اس صورت میں کمال اتحاد مظہر کا بارز کے ساتھ ہو گا اور یہ قسم اعلیٰ مرتبہ بروز کا ہے" (خزائن اسرار الكلم مقدمہ فی شرح فصوص الحکم صفحہ ۴۷ مصنفہ شاہ محمد مبارک علی صاحب حیدر آبادی ) ۴.گیارھویں صدی ہجری کے مجدد امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی سرہندی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں.کمل تابعان انبیاء علیهم الصلوۃ والتسلیمات بجهت کمال متابعت و فرط محبت بلکه محض عنایت و موهبت جمع کمالات انبیاء متبوعه خود را جذب می نمایند و بلیت برنگ
ایشاں منصبغ می گردند حتی که فرق نمی ماند در میان مقبوعان و تابعان الا بالا صالت و التبعیته و الاوليته والاخر نتہ " کہ انبیاء علیهم السلام کے کامل قبع بہ سبب کمال متابعت و محبت انہیں میں جذب ہو جاتے ہیں اور ان کے رنگ میں ایسے رنگین ہوتے ہیں کہ تابع اور متبوع یعنی نبی اور امتی میں کوئی فرق نہیں رہتا سوائے اول و آخر اور سوائے اصل اور تابع ہونے کے " (مکتوبات امام ربانی مکتوب نمبر ۲۴۸ حصه چهارم دفتر اول صفحه ۴۹ مطبوعه مجددی پریس امرتسر) یہ من و عن حضرت مجدد الف ثانی کی تحریر ہے.اگر کوئی مولویانہ ذہنیت سے یہ تحریر پڑھے تو بھڑک اٹھے اور اول و آخر کے بارہ میں یہ کہے کہ محض زمانی ہے.لیکن ہم سمجھتے ہیں.مجدد الف ثانی صاحب کی اس تحریر میں اول اول ہی ہے.خواہ کوئی کتنی ہی مشابہت رکھے مگر مشابہت رکھنے والا بعینہ اول کا ہم مرتبہ نہیں ہو سکتا ہم صفات تو بن سکتا ہے ہم مرتبہ نہیں.بہر حال یوسف لدھیانوی صاحب کیونکہ ایسی ذہنیت رکھتے ہیں کہ اس قسم کی تحریرات پر آگ بگولہ ہو جاتے ہیں.اس لئے ان پر لازم ہے کہ حضرت مرزا صاحب پر زبان دراز کرنے کی بجائے حضرت مجدد الف ثانی پر زبان دراز کر کے دیکھیں.حضرت مجدد الف ثانی کی محبت تو ایسے دلوں پڑھی جاگزیں ہے جو صبر و ضبط نہیں جانتے.اس لئے ہمیں یہ یقین ہے کہ لدھیانوی صاحب حضرت مجدد الف ثانی " پر ہرگز ایسی بے باکی نہیں کریں گے اور اس مصلحت آمیز خاموشی کی وجہ سے اپنا جھوٹا اور دوغلہ ہونا ثابت کر دیں گے.پس اگر مولوی صاحب کو اسلامی لٹریچر میں کہیں بروز کی اصطلاح دکھائی نہیں دی تو ان کی نظر کا قصور ہے اسلامی لٹریچر کا قصور نہیں.لیکن بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی.اسلامی لٹریچر میں تو بروز سے آگے بڑھ کر عین کی اصطلاح بھی موجود ہے.اور ایسے بزرگ موجود ہیں جن کے متعلق ان سے عقیدت رکھنے والوں نے عین محمدؐ کے لفظ لکھے ہیں ان کے قتل عام کا لدھیانوی صاحب کیوں حکم صادر نہیں فرماتے دیکھتے بایزید کے متعلق لکھا ہے کہ حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ چونکہ قطب زمانہ تھے.اس لئے آپ تین رسول علیہ السلام تھے.چنانچہ بحر العلوم مولوی عبد العلی مثنوی مولانا روم کے شعر سے
کاندریں وہ شہر یاری میرسد گفت زمیں سو بوئے یارے میرسد کی شرح میں فرماتے ہیں :- ابو یزید قدس سره قطب الاقطاب بود و قطب نمی باشد مگر بر قلب آن سرور مسلم پس بایزید قلب آن سرور صلعم و عین آن سرور صلی اللہ علیہ وسلم بود - " ( شرح مثنوی - دفتر چهارم صفحه ۵۱) یعنی حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ چونکہ قطب زمانہ تھے اس لئے آپ عین رسول علیہ السلام تھے.کیونکہ قطب وہی ہوتا ہے جو محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر رہتا ہو.اور جو بھی کسی کے دل پر ہو وہ اس کا عین ہوتا ہے.اور حضرت بایزید بسطامی عین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے.حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں :- " كاتب الحروف نے حضرت والد ماجد کی روح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک کے سائے ( ضمن ) میں لینے کی کیفیت کے بارے میں دریافت کیا تو فرمانے لگے یوں محسوس ہوتا تھا.گویا میرا وجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے مل کر ایک ہو گیا ہے.خارج میں میرے وجود کی کوئی الگ حیثیت نہیں تھی." ) انفاس العارفین اردو صفحه ۱۰۳ از حضرت شاہ ولی الله ترجمه سید محمد فاروق القادری ایم اے ناشر المعارف گنج بخش روڈ لاہور ) ضمناً ہم مولوی صاحب کو بتاتے چلیں کہ سائے کو ہی عربی زبان میں کل کہتے ہیں.پھر فرماتے ہیں کہ میرے چچا حضرت شیخ ابو الرضا محمد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ.حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے خواب میں دیکھا جیسے مجھے اپنی ذات مبارک کے ساتھ اس انداز سے قرب و اتصال بخشا کہ جیسے ہم متحد الوجود ہو گئے ہیں اور اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عین پایا." انفاس العارفین صفحہ ۱۹۶ حصہ دوم در حالات شیخ ابو الرضا محمد) اب ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ اس مولوی کے دماغ میں یہ " دو محمد " کا خیال آیا کس طرح ؟
ہم نے جب تحقیق کی کہ آخر ایسا جاہلانہ خیال حضرت مرزا صاحب کی طرف انہوں نے منسوب کیسے کیا ہے تو دوران تحقیق یہ بات سامنے آئی کہ یہ مولوی صاحب کا قصور نہیں ہے بلکہ ان کے بزرگوں نے یہ کیڑا ان کے دماغ میں داخل کیا ہے.چنانچہ دیوبندی فرقہ ، مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کو چودھویں صدی کا مجدد تسلیم کرتا ہے ان کی وفات پر دیوبندی فرقہ کے ایک اور بزرگ شیخ الهند مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندی مرضیہ لکھتے ہوئے ان کے بارے میں کہتے ہیں زباں پر اہل اھواء کی ہے کیوں اہل قبل شاید اٹھا عالم کوئی بانی اسلام کا ثانی مرضیہ صفحہ ۶ - مطبع بلالی ساڈھورہ ضلع انبالہ ) ں نعر میں گنگوہی صاحب کو بانی اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ثانی کہا گیا ہے.اور ثانی کا معنی ہے دوسرا دیکھا آپ نے مولوی لدھیانوی صاحب نے کہیں اور سے بات اٹھائی اور کہیں اور لگا دی.معلوم ہوتا ہے تقویٰ اور دیانت کی طرح یادداشت بھی کمزور ہے.اب ہم حضرت مرزا صاحب کی وہ تحریرات پیش کرتے ہیں.جن سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ حضرت مرزا صاحب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر اپنا کیا م تمام و مرتبہ سمجھتے تھے.ان تحریروں پر غور فرما لیجئے.اگر پھر بھی مولوی صاحب بہتان طرازی سے باز نہ آئے تو خدا کے سامنے جواب دہ ہونگے.اور یاد رکھیں کہ موت کے بعد توبہ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں.دضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں :- خدا تعالی کے فضل اور رحمت نے اس زمانہ میں ان دونوں اقبوں کا مجھے وارث بنا دیا.اور یہ دونوں اقتب میرے وجود میں اکٹھے کر دیئے.سو میں ان معنوں کے رو سے عیسی مسیح بھی ہوں اور محمد مہدی بھی.اور یہ 11 طریق ظہیر ہے جس کو اسلامی اصطلاح میں بروز کہتے ہیں.سو مجھے رو بروز عطا ہوئے ہیں.بروز عیسی اور بروز محمد."
(ضمیمه رساله جهاد صفحه ۶ روحانی خزائن جلد نمبر ۱۷ صفحه ۲۸) پ اپنے ایک شعر میں اسی مضمون کو یوں بیان فرماتے ہیں.لیک آئینه ام ذرب فنی از پنے صورت مه مانی ( نزول المسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۷۸) کہ میں مدینہ کے چاند حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر دکھانے کیلئے خدا کی طرف سے آئینہ بن کر آیا ہوں.نیز فرماتے ہیں: وارث مصطفی شدم به یقین شدم رو تکین به رنگ یار حسیں ( نزول مسیح روحانی خزائن جلد نمبر ۱۸ صفحه ۴۷۷) کہ میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا وارث بن کر آیا ہوں ( آپ کا امتی اور روحانی بیٹا ہونے کے سبب ) اور میں اپنے اس حسین محبوب کے رنگ میں رنگین ہو کر آیا ہوں.نیز فرماتے ہیں: نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت نے ایک ایسے شخص کو اپنے لئے منتخب کیا جو خلق اور خو اور ہمت اور ہمدردی خلائق میں اس کے مشابہ تھا اور مجازی طور پر اپنا نام احمد اور محمد اس کو عطا کیا تا یہ سمجھا جائے کہ گویا اس کا ظہور بعینہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور تحفہ گولڑویہ صفحہ ۱۱ طبع اول روحانی خزائن جلد عاصفحه (۲۹۳) جیسا کہ پانی یا آئینہ میں ایک شکل کا جو عکس پڑتا ہے اس عکس کو مجازا کھہ سکتے ہیں کہ یہ فلاں شخص ہے ایسے شخص کو مٹیل، عکس ، ہم صفت ہونے کے سبب بروزی طور پر اصل کا نام دینے کا محاورہ امت میں ابتداء سے آج تک مستعمل ہے.چنانچہ اسی محاورہ کو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنے بارے میں استعمال فرمایا ہے.
۱۶ " بزرگان امت کی نظر میں مہدی معہود اور مسیح موعود کا مقام " لدھیانوی صاحب اعتراض کرتے ہیں کہ تیرہ سو سال میں امت محمدیہ میں سے کوئی شخص بھی اس بات کا قائل نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ ہو گی اور کوئی شخص آپ کا ظل اور بروز بن کر آئے گا.بزرگان امت کے بعض ایسے اقوال ہم ذیل میں درج کرتے ہیں جن میں امت محمدیہ میں آنے والے مہدی معہود اور مسیح موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بعثت کا مظہر اور آپ کا ظل اور بروز قرار دیا گیا ہے.ان تحریرات سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ مولوی صاحب بزرگان امت کے ان عقائد اور تعلیمات سے آشنا ہی نہیں تو پھر ان کو مذہبی امور میں ایسے دعوے کرنے کا کوئی حق نہیں یا پھر ان سب باتوں کا علم رکھنے کے باوجود محض جھوٹ سے کام لیتے ہوئے عوام الناس کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.ایسی تحریریں امت مسلمہ کے لٹریچر میں کثرت سے موجود ہیں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کا ذکر ہے.اور آنے والے موعود کو اپنے آقا و مولی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل اور بروز قرار دیا گیا ہے.(۱) حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی جنہیں لدھیانوی صاحب بارھویں صدی ہجری کا مجدد قرار دیتے ہیں فرماتے ہیں." اعظم الانبياء شانا من له نوع اخر من البعث ايضا و ذلك ان يكون مراد الله تعالى فيدان يكون سببالخروج الناس من الظلمات الى النور وان يكون قومه خير امة اخرجت للناس فيكون بعثه يتناول بعثا اخر حجتہ اللہ البالغہ جلد اول باب حقیقته النبوة و خواصها صفحه ۸۳ مطبوعہ مصر ۵۱۲۸۴ ) یعنی شان میں سب سے بڑا نبی وہ ہے جس کی ایک دوسری قسم کی بعثت بھی ہوگی اور وہ اس طرح ہے کہ مراد اللہ تعالیٰ کی دوسری بعثت میں یہ ہے کہ وہ تمام لوگوں کو ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لانے کا سبب ہو اور اس کی قوم خیر امت ہو جو تمام لوگوں کے لئے نکالی گئی ہو لہذا اس نبی کی پہلی بعثت دوسری بعثت کو بھی لئے ہوئے ہوگی " اسی طرح حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ بروز حقیقی کی اقسام بیان کرتے
ہوئے فرماتے ہیں :- اما الحقيقي فعلى ضرو.........و تارة اخرى بان تشتبك بحقيقة رجل من اله او المتوسلين اليه كما وقع لنبينا بالنسبة الى ظهور المهدی ) تقسیمات الليه جزو ثانی تقسیم نمبر ۲۲۸ صفحه ۹۸ ، مطبوعہ مدینہ برقی پریس - بجنور ۱۹۳۶ء) یعنی حقیقی بروز کی کئی اقسام ہیں...کبھی یوں ہوتا ہے کہ ایک شخص کی حقیقت میں اس کی آل یا اس کے متوسلین داخل ہو جاتے ہیں جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مہدی سے تعلق میں اس طرح کی بروزی حقیقت وقوع پذیر ہوگی.یعنی مهدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی بروز ہے.حضرت شاہ ولی اللہ صاحب اپنی کتاب الخیرا لکثیر میں فرماتے ہیں.حق له ان ينعكس فيد انوار سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ويزعم العامة انه اذا نزل الى الارض كان واحدا من الامة كلا بل هو شرح للاسم الجامع المحمدي و نسخة منتسخة منه فشتان بينه و بين احد من الامة الخير الكثير صفحه ۷۲ مطبوعه بجنور) یعنی امت محمدیہ میں آنے والے مسیح کا حق یہ ہے کہ اس میں سید المرسلین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار کا انعکاس ہو.عوام کا خیال ہے کہ مسیح جب زمین کی طرف نازل ہو گا تو وہ صرف ایک امتی ہو گا.ایسا ہرگز نہیں بلکہ وہ تو اسم جامع محمدی کی پوری تشریح ہو گا اور اسی کا دوسرا نسخہ ہو گا پس اس میں اور ایک عام امتی کے درمیان بہت بڑا فرق ہے.اس عبارت میں حضرت شاہ صاحب نے آنے والے مسیح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار کا پورا عکس اور آپ کا کامل ظل و بروز قرار دیا ہے.(۲) حضرت امام عبد الرزاق قاشانی رحمتہ اللہ علیہ کی شرح فصوص الحکم میں لکھا ہے." المهدي الذي يجيني في اخر الزمان فانه يكون في الاحكام الشرعية تابعا لمحمد صلی اللہ علیہ و سلم وفي المعارف والعلوم والحقيقة تكون جميع الانبياء والأولياء تابعين له كلهم.....لان باطن، باطن محمد صلی اللہ علیہ و سلم ( شرح فصوص الحکم مطبوعہ مصر صفحه ۵۲)
یعنی آخری زمانے میں آنے والا مہدی احکام شرعیہ میں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع ہو گا.لیکن علوم و معارف اور حقیقت میں آپ کے سوا تمام انبیاء اور اولیاء مہدی کے تابع ہونگے کیونکہ مہدی کا باطن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا باطن ہے.یہ قول سید عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا ہے.اس میں بھی انہوں نے امام مہدی کے باطن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا باطن قرار دے کر انہیں آپ کا عکس اور حل و بروز ہی قرار دیا ہے.شیخ محمد اکرم صابری لکھتے ہیں : محمد بود که بصورت آدم در میداء ظهور نمود یعنی بطور بروز در ابتداء آدم ، روحانیت محمد مصطفیٰ صلی الله علیه و سلم در آدم متجلی شد و هم او باشد که در آخر بصورت خاتم ظاہر گردد یعنی در خاتم الولایت که مهدی است نیز روحانیت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و سلم بروز و ظهور خواهد کرد و تصرفها خواهد نمود " (اقتباس الانوار صفحه ۵۲ مولفه شیخ محمد اکرم صابری) یعنی وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے جنہوں نے آدم کی صورت میں دنیا کی ابتدا میں ظهور فرمایا یعنی ابتدائے عالم میں محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت بروز کے طور پر حضرت آدم میں ظاہر ہوئی اور محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہونگے جو آخری زمانہ میں خاتم الولایت امام مہدی کی شکل میں ظاہر ہونگے یعنی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت مہدی میں بروز اور ظہور کرے گی.اس عبارت میں بھی امام مہدی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز قرار دیا گیا ہے.(۴) حضرت ملا جامی خاتم الولایت امام مہدی کے درجے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں " فمشكوة خاتم الانبياء هي الولاية الخاصة المحمدية وهي بعينها مشكوة خاتم الاولياء لانه قائم بمظهريتها ( شرح فصوص الحکم ہندی صفحہ ۲۹ )
یعنی حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشکوۃ باطن ہی محمدی ولایت خاصہ ہے اور وہی بجنسہ خاتم الاولیاء حضرت امام مہدی علیہ السلام کا مشکوۃ باطن ہے.کیونکہ امام موصوف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی مظہر کامل ہیں.اس عبارت میں بھی امام مہدی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کا مظہر اور بروز قرار دیا گیا ہے.(۵) عارف ربانی محبوب سبحانی حضرت سید عبدالکریم جیلانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:.اس (یعنی امام مہدی - ناقل) سے مراد وہ شخص ہے جو صاحب مقام محمدی ہے اور ہر کمال کی بلندی میں کامل اعتدال رکھتا ہے." انسان کامل اردو - باب نمبر 4 - علامات قیامت کے بیان میں.صفحه ۲۷۰ مطبوعہ اسلامیہ سٹیم پریس لاہور بار اول ) (۲) حضرت خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :- حضرت آدم صفی اللہ سے لے کر خاتم الولایت امام مهدی تک حضور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بارز ہیں.پہلی بار آپ نے حضرت آدم علیہ السلام میں بروز کیا ہے اور پہلے قطب حضرت آدم علیہ السلام ہوئے ہیں.دوسری بار حضرت شیث علیہ السلام میں بروز کیا ہے اس طرح تمام انبیاء اور رسل صلوات اللہ صحیحم میں بروز فرمایا ہے یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جسد عصری ( جسم ) سے تعلق پیدا کر کے جلوہ گر ہوئے اور دائرہ نبوت کو ختم کیا.اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق میں بروز فرمایا ہے پھر حضرت عمر میں بروز فرمایا پھر حضرت عثمان میں بروز فرمایا.اس کے بعد حضرت علی میں بروز فرمایا ہے.اس کے بعد دوسرے مشائخ عظام میں نوبت یہ نوبت بروز کیا ہے.اور کرتے رہیں گے حتی کہ امام مہدی میں بروز فرما دیں گے.پس حضرت آدم سے امام مهدی تک جتنے انبیاء اور اولیاء قطب مدار ہوئے ہیں.تمام روح محمد صلی اللہ علیہ وسلم
۲۰ کے مظاہر ہیں.اور روح محمدی نے ان کے اندر بروز فرمایا ہے.پس یہاں دو روح ہوئے ہیں ایک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روح جو بارز ہے دوسری اس نبی یا ولی کی روح جو مبروز فیہ اور مظہر ہے.مقابیس المجالس المعروف به اشارات فریدی حصہ دوم صفحہ ۱۱ ۱۱۳ مولقہ رکن الدین صاحب مطبوعہ مفید عام پریس آگره ۱۳۲۱ھ زیر انتظام صوفی قادر علی خان ) اس عبارت سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء اور امت میں پیدا ہونے والے جملہ اولیاء اور مجددین سب کے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز بن کر آئے تھے اسی طرح امام مہدی بھی بروز محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن کر آئے گا.سب آپ نے بروزتیت اور عینیت کے متعلق گذشتہ بزرگوں کے حوالے تو پڑھ لئے ہیں لیکن آپ کو چونکہ امت محمدیہ میں ایسی شان کے آدمی پیدا ہونے پر شدید اعتراض ہے.اس لئے ہم آپ کو آپ کے بزرگ قاری محمد طیب صاحب کے الفاظ یاد دلاتے ہیں کہ آپ سب کا یہ عقیدہ ہے کہ اگر عیسی علیہ السلام دوبارہ دنیا میں تشریف لائے تو نہ صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عین اور بروز ہونگے بلکہ شانِ خاتمیت رکھتے ہوں گے.(۷) دیوبندی فرقہ کے بانی حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ کے نواسے قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند آنے والے مسیح کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:- و لیکن پھر سوال یہ ہے کہ جب خاتم الدجالین کا اصلی مقابلہ تو خاتم النبین سے ہے مگر اس مقابلہ کے لئے نہ حضور کا دنیا میں تشریف لانا مناسب نہ صدیوں باقی رکھا جانا شایان شان نہ زمانہ نبوی میں مقابلہ ختم قرار دیا جانا مصلحت اور ادھر ختم دجالیت کے استیصال کے لئے چھوٹی موٹی روحانیت تو کیا بڑی سے بڑی ولایت بھی کافی نہ تھی عام مجددین اور ارباب ولایت اپنی پوری روحانی طاقتوں سے بھی اس سے عہدہ بر آنہ ہو سکتے تھے جب تک کہ نبوت کی روحانیت مقابل نہ آئے.بلکہ محض نبوت کی قوت بھی اس وقت تک موثر نہ تھی جب تک کہ اس کے ساتھ ختم نبوت کا پاور شامل نہ ہو تو پھر شکست
۲۱ دجالیت کی صورت بجز اس کے اور کیا ہو سکتی تھی کہ اس دجال اعظم کو نیست و نابود کرنے کے لئے امت میں ایک ایسا خاتم المجددین آئے جو خاتم النبین کی غیر معمولی قوت کو اپنے اندر جذب کیئے ہوئے ہو اور ساتھ ہی خاتم النبین سے ایسی مناسبت تامہ رکھتا ہو کہ اس کا مقابلہ بعینہ خاتم النبیین کا مقابلہ ہو.مگر یہ بھی ظاہر ہے کہ ختم نبوت کی روحانیت کا انجذاب اسی مجدد کا قلب کر سکتا تھا جو خود بھی نبوت آشنا ہو محض مرتبہ ولایت میں یہ تحمل کہاں کہ وہ درجہ نبوت بھی برداشت کر سکے.چہ جائیکہ ختم نبوت کا کوئی انعکاس اپنے اندر اتار سکے.نہیں بلکہ اس انعکاس کے لئے ایک ایسے نبوت آشنا قلب کی ضرورت تھی جو فی الجملہ خاتمیت کی شان بھی اپنے اندر رکھتا ہو.تاکہ خاتم مطلق کے کمالات کا عکس اس میں اتر سکے.اور ساتھ ہی اس خاتم مطلق کی ختم نبوت میں فرق بھی نہ آئے.اس کی صورت بجز اس کے اور کیا ہو سکتی تھی کہ انبیائے سابقین میں سے کسی نبی کو جو ایک حد تک خاتمیت کی شان رکھتا ہو اس امت میں مجدد کی حیثیت سے لایا جائے جو طاقت تو نبوت کی لئے ہوئے ہو مگر اپنی نبوت کا منصب تبلیغ اور مرتبہ تشریح لئے ہوئے نہ ہو بلکہ ایک امتی کی حیثیت سے اس امت میں کام کرے اور خاتم النبین کے کمالات کو اپنے واسطے سے استعمال میں لائے." تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام صفحه ۲۲۹٬۲۲۸ از قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند پاکستانی ایڈیشن اول مطبوعہ مئی ۱۹۸۶ء نفیس اکیڈمی کراچی) قارئین کرام ! فصل اول میں لدھیانوی صاحب نے جماعت احمدیہ پر جو افتراء باندھے تھے ان کے اصولی اور ناقابل تردید ٹھوس جوابات کے بعد ہم ان کے فصل دوم میں اٹھائے گئے اعتراضات و بتانات کا جواب دیں گے انشاء اللہ.لیکن قبل اس کے کہ فصل دوم میں ہم داخل ہوں ، یہ قارئین کے گوش گزار کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ آئندہ فصول میں لدھیانوی صاحب نے جو جماعت احمدیہ پر افتراء باندھے ہیں ان کا اکثر و بیشتر اصولی اور کافی و شافی جواب فصل اول میں موجود ہے.اس لئے امید ہے قارئین فصل اول کے مندرجات کو ضرور ملحوظ خاطر رکھیں گے.
۲۳ فصل دوم قادیانی بعثت کے آثار و نتائج لدھیانوی صاحب نے فصل دوم کا مذکورہ بالا عنوان دے کر اس کے نیچے لکھا ہے کہ " محمد رسول اللہ کا دنیا میں دوبارہ آنا ( اور پھر قادیان میں مبعوث ہو کر مرزا غلام احمد کی شکل میں ظاہر ہونا ) اپنے جلو میں اور بھی چند ایک عقائد رکھتا ہے جن کے مرزا صاحب اور ان کی جماعت کے لوگ قائل ہیں ان سے پہلے دنیا کا کوئی مسلمان ان کا قائل تھا نہ اب ہے بلکہ تمام امت مسلمہ ان عقائد کو کفر صریح سمجھتی رہی ہے " (صفحہ ۹) گذشتہ صفحات کے مطالعہ سے روشن ہو گیا ہو گا کہ لدھیانوی صاحب کے ہر دعوی کی بنیاد ہی لغو و فضول اور بے معنی ہے دو محمد کا تصور جماعت احمدیہ میں موجود نہیں اس لئے مولوی صاحب کا دعوئی باطل ہو گیا ہے.جہاں تک ظلی بروزی بحث کا تعلق ہے نہ صرف دوسرے علماء بلکہ مولانا کے اپنے پیرو مرشد بھی ان اسلامی اصطلاحوں کا بے دریغ استعمال کرتے تھے پس جب بنیاد ہی ملیا میٹ ہو گئی تو ان اعتراضات کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے پس اس خیال سے کہ لدھیانوی صاحب اس وہم میں مبتلا نہ ہو جائیں کہ ذیلی اعتراض اصل اعتراض سے مضبوط تھا ہم ان کے اعتراضات کے شاخسانوں کو ایک ایک کر کے زیر بحث لاتے ہیں.لدھیانوی صاحب نے اپنے مندرجہ بالا دعویٰ کی تائید میں تین ذیلی عنوان لگائے ہیں جنہیں وہ عقیدہ کے طور پر پیش کرتے ہیں جو ان کے خیال میں ” تمام امت مسلمہ کے نزدیک کفر صریح ہے " عقیدہ نمبرا " خاتم البنین کے بعد عام گمراہی" لدھیانوی صاحب مذکورہ بالا عنوان درج کر کے لکھتے ہیں ” یہ تو سب جانتے ہیں کہ کسی نبی کے آنے کی ضرورت تب لاحق ہوتی ہے جبکہ پہلی نبوت کی لائی ہوئی ہدایت دنیا سے یکسر غائب L
۲۴ ہو جائے اور دنیا اس طرح عام گمراہی کی لپیٹ میں آجائے کہ نہ دنیا میں گذشتہ نبی کا لایا ہوا دین محفوظ رہے اور نہ اس پر کوئی عمل کرنے والا باقی رہے (صفحہ ۹) قارئین کرام ! لدھیانوی صاحب نے رسالہ کا نام رکھا ہے ” قادیانیوں کو دعوتِ اسلام " لیکن خود خلاف اسلام اور خلاف قرآن خیالات کا اظہار کر رہے ہیں.اسلام کی بنیاد قرآن کریم پر ہے اور مذکورہ بالا اقتباس کا ایک ایک فقرہ قرآنِ کریم کی واضح آیات کے خلاف ہے.ہم یہ تو نہیں سمجھتے کہ لدھیانوی صاحب قرآن کریم نہیں پڑھتے ، خواہ سطحی نظر سے ہی پڑھتے ہوں لیکن پڑھتے تو ضرور ہوں گے چاہے بصیرت سے عاری نظر سے پڑھتے ہوں.کیونکہ لدھیانوی صاحب بڑے عالم اور مذہبی کتب کے مصنف ہیں اس لئے یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ عمدا جھوٹ بول کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.یہ بات مسلمان بچے ، عالم ، جاہل سب کو معلوم ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں ان کی درخواست پر حضرت ہارون کو خلعتِ نبوت عطا کی گئی لہذا حضرت ہاروں کا نبی بننا لدھیانوی صاحب کے دعوی کی تکذیب اور تردید کر رہا ہے اسی طرح حضرت ابراہیم نبی تھے اور آپ کی زندگی ہی میں آپ کے دونوں بیٹے حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق کو اللہ تعالیٰ نے خلعت نبوت بخش دی تھی حضرت اسحاق کے بیٹے حضرت یعقوب بھی نبی تھے اور حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے سے کون واقف نہیں ہو گا کہ حضرت یعقوب کی زندگی میں ہی منصب نبوت پر سرفراز فرمائے گئے.اس قرآنی شہادت کے بعد کون مسلمان ہے جو ان مولوی صاحب کی گواہی کو قبول کرے گا.حضرت داؤد نبی تھے ان کے ہوتے ہوئے حضرت سلیمان کو اللہ تعالیٰ نے خلعت نبوت عطا کی.قارئین ! کافی مثالیں ہو گئی ہیں.ہم صرف اتنا گوش گذار کرنا چاہتے ہیں کہ اگر لدھیانوی صاحب بے باکی سے کام لیتے ہوئے یہ عقیدہ پیش کریں کہ مذکورہ بالا انبیاء میں سے کسی دو نے بھی بیک وقت نبوت کا زمانہ نہیں پایا اور یہ اصرار کریں کہ پہلے کے وصال کے بعد پھر نبوت ملی یا باپ کے وصال کے بعد بیٹے کو نبوت عطا کی گئی.اس سے ہمارے مسلک میں کوئی کمزوری پیدا نہیں ہوتی سوال یہ ہے کہ کیا حضرت اسحاق کو اس وقت نبی بنایا جب کلا جب کلیته
۲۵ امت بگڑ چکی تھی اور کیا موسیٰ کے ہوتے ہوئے حضرت ہارون کو اس وقت نبی بنایا گیا جب حضرت موسیٰ کی امت بگڑ چکی تھی کیا حضرت سلیمان کو اس وقت نبی بنایا گیا جب حضرت داؤد کی امت میں بگاڑ پیدا ہو چکا تھا اور کیا حضرت یعقوب کو اسی وقت نبی بنایا گیا تھا جب حضرت اسحاق پر ایمان لانے والے گمراہ ہو چکے تھے اور کیا حضرت یوسف کو اسی وقت نبی بنایا گیا جب حضرت یعقوب کی تعلیم کو آپ کے متبعین نے یکسر بھلا دیا تھا.قارئین کرام ! دیکھ لیجئے کہ ظاہری علم کے ہوتے ہوئے جب کوئی جہالت سے کام لے تو کیسی کیسی سردردی کا موجب بنتا ہے ایسے اعصاب شکن مولوی شاز شاذ ہی دیکھنے میں آتے ہوں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّا اَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيْهَا هُدًى وَ نُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُو اللَّذِيْنَ هَادُوا" (المائده : ۴۵) کہ ہم نے موسیٰ علیہ السلام پر تورات نازل کی اس تورات میں ہدایت بھی تھی اور نور بھی تھا تو رات کی اتباع کرنے والے انبیاء یہودیوں کیلئے تورات کی تعلیم کے مطابق فیصلے کیا کرتے تھے.اس آیت میں اصولی طور پر خدا تعالیٰ نے ثابت کر دیا ہے کہ کتاب کے ہوتے ہوئے اس کی تبدیلی کے بغیر خدا تعالیٰ نے امت کی مزید اصلاح احوال کی خاطر کثرت سے انبیاء بھجوائے.قرآنی حوالوں کے بعد اب ہم مولانا صاحب کو ان کے بزرگ مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی کی کتاب " ختم نبوت میں پیش کردہ یہ حدیث یاد دلاتے ہیں.مفتی صاحب نے صحیح بخاری.صحیح مسلم - مسند احمد بن حنبل - ابن ماجہ - ابن جریر اور ابن ابی شیبہ کے حوالے سے ایک حدیث درج کی ہے جس کے الفاظ ہیں " كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُو سُهُمُ الْاَنْبِيَاءُ كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيُّ خَلَفَتْ نَبِيَّ تَسُوسُهُمُ ختم نبوت حصہ دوم حدیث نمبر ۴ صفحه ۵ از مفتی محمد شفیع دیوبندی طبع دوم دار الاشاعته دیوبند ضلع سہارنپور جمادی الثانی ۱۳۶۴ھ مطبوعه علمی پریس دہلی ) مفتی صاحب نے اس کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ ”بنی اسرائیل کی سیاست خود ان کے انبیاء علیہم السلام کیا کرتے تھے جب کسی نبی کی وفات ہوتی تھی تو اللہ تعالیٰ کسی دوسرے نبی کو ان کا خلیفہ بنا دیتا تھا." اسی طرح مولوی صاحب کے فرقہ کے جد امجد حضرت مولوی محمد قاسم
M صاحب نانوتوی قرآن و حدیث کے مطالعہ کا ماحصل یوں پیش کرتے ہیں کہ " حضرت موسیٰ کے بعد حضرت عیسی تک جتنے نبی ہوئے سب تورات پر ہی عمل کرتے رہے " ( مدینہ اشیقہ - صفحہ ۲۵ مصنفہ مولانا محمد قاسم نانوتوی ) قارئین کرام الدھیانوی صاحب کے بیان کی تردید کے لئے مندرجہ بالا امور پر نگاہ ڈال کر آپ خود فیصلہ فرمائیں کہ کیا وہ ایسی واضح باتوں سے ناواقف ہیں یا جان بوجھ کر لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے جھوٹ بول رہے ہیں.لدھیانوی صاحب مذکورہ بالا عنوان کے تحت دوسرا اعتراض یہ کرتے ہیں کہ " مرزا صاحب کے عقیدہ بعثت ثانی کو تسلیم کرنے سے پہلے یہ بھی ماننا ہو گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہلی بعثت میں جو کچھ لے کر آئے تھے وہ بعثت ثانی کا دور شروع ہونے سے پہلے صفحہ ہستی سے غائب ہو گیا تھا.نہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین اپنی اصلی شکل میں کہیں موجود تھا نہ اس کے سمجھنے ، سمجھانے والا ہی دنیا میں کوئی باقی رہا تھا مختصر یہ کہ مرزا صاحب کی قادیانی بعثت جوان کے نزدیک محمد رسول اللہ کی دوسری بعثت ہے کا عقیدہ تب ممکن ہے جب کہ پہلے یہ عقیدہ رکھا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی بعثت کا نور بجھ چکا تھا.آپ کی رسالت و نبوت کا چراغ گل ہو چکا تھا.اس آفتاب رسالت کے بعد بھی دنیا میں عام تاریکی پھیل چکی تھی اور آپ کے بعد بھی پوری کی پوری دنیا گمراہ ہو چکی تھی.یہ عقیدہ صحیح ہے یا غلط، برا ہے یا بھلا، اس کا فیصلہ بھی آپ عقل خداداد سے خود ہی کیجئے.میں صرف یہ عرض کروں گا کہ یہ عقیدہ بھی کسی زمانہ میں کسی مسلمان کا نہیں رہا نہ ہو سکتا ہے" (صفحہ ۱۰۹) قارئین کرام ! لدھیانوی صاحب کے اعتراض کی بنیاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ اور مہدی معہود و مسیح موعود کے آنے کو ظلی اور بروزی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے انکار پر ہے جس کے لئے ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ فصل اول کو دوبارہ ملاحظہ فرمائیں.اگر ہمارا یہ عقیدہ " صریح کفر " ہے تو پھر لدھیانوی صاحب کے جن مسلّمہ بزرگوں، اولیاء اور علماء کے حوالہ جات فصل اول میں درج ہیں ماننا پڑے گا کہ ان سب بزرگوں نے بھی " صریح کفر " کا ارتکاب کیا ہے.جناب لدھیانوی صاحب نے جب پہلی اینٹ ہی سج رکھ دی تھی تو اب جوں جوں عمارت
۲۷ کھڑی کرتے جا رہے ہیں ٹیڑھی ہوتی جا رہی ہے ایسے احمقانہ خیال پیش کر رہے ہیں کہ حیرت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو کر اور امام مہدی کی بعثت اور عیسی کے نزول کا قائل ہو کر اس قسم کی لغویات کہنے کی ان کو جرات کیوں ہو گئی ہے.سوال یہ ہے کہ امام مہدی اور عیسی کیوں تشریف لائیں گے اگر سب کچھ ٹھیک ہے تو کیا مولوی صاحب کا سر پھر چکا ہے کہ پھر بھی ان کی آمد کے قائل ہیں.جماعت احمد یہ تو حضرت مرزا صاحب کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ ان معنوں میں تسلیم ہی نہیں کرتی.جو مولوی صاحب کر رہے ہیں کہ من و عن دو سرا محمد پیدا ہو جائے گا ( نعوذ باللہ ) اس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے جماعت احمد یہ تو سوائے اس کے اور معنی نہیں لیتی کہ آپ کی پیشگوئیوں کے مطابق امام مہدی کا آنا اور مسیح کا نازل ہونا گویا آپ کی بعثت ثانیہ ہی ہے.پس ہمارا تو یہی عقیدہ ہے اس پر اگر مولوی صاحب نے حملہ کرتا ہے تو پہلے مسیح اور مہدی کی بعثتوں کا انکار کرلیں ورنہ ان کا ہر حملہ ان کی خود کشی کے مترادف ہو گا.ان کی اس جاہلانہ یورش کا سب سے زیادہ تکلیف دہ اور پر عذاب پہلو یہ ہے کہ در حقیقت احمدیت پر حملہ کرنے کی بجائے حضرت اقدس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس پر حملہ کر رہے ہیں آپ کی پیشگوئیوں پر حملہ کر رہے ہیں اور اس بات کو ذرا بھی محسوس نہیں کرتے اور یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ آئندہ زمانے میں صحیح اور مہدی کے آنے کی ضرورت خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرما دی ہے اور جس کے بعد کسی مسلمان کو یہ حق ہی نہیں رہتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور اور آپ کی شریعت کے کامل ہو جانے کے باوجود مہدی اور مسیح کی آمد سے انکار کرے.اور آپ کی پیشگوئیوں کو تخفیف کی نظر سے دیکھے اور ان سے استہزاء کا سلوک کرے.قارئین کرام ! امت محمدیہ کی اکثریت کے بگڑ جانے اور اس کے باہم اختلافات کا شکار ہونے کی پیشگوئیاں احادیث نبویہ میں بھری پڑی ہیں اسلامی شریعت تو قیامت تک محفوظ رہے گی.لیکن اس شریعت کے ماننے والوں کے گمراہی سے محفوظ ہونے اور فرقہ بندی سے بچے رہنے کی خبر کہیں موجود نہیں لیکن افسوس ! کہ لدھیانوی صاحب کے نزدیک خاتم النبیین کے بعد کسی زمانہ میں عام گمراہی کا اقرار " صریح کفر " ہے ذیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض ارشادات درج کیے جاتے ہیں.
سورة جمعہ کی آیت وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا اہم کی تشریح میں آنحضرت صلی اللہ عل صلی علیہ وسلم نے فرمایا لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ مُعَلَّقَا بِالقُرَبَ لَنَا لَهُ رَجُلٌ أَو رِجَالٌ مِنْ هَؤُلَاءِ بخاری کتاب التفسير - تفسير سورة (جمعه) ترجمہ : - اگر ایمان زمین سے پرواز کر کے ثریا ستارے تک بھی جا پہنچا تو اس قوم میں سے ایک شخص یا بعض اشخاص اسے وہاں سے بھی حاصل کر لیں گے.يأتى عَلَى النَّاسِ زَمَانُ لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ وَلَا يُبْقَى مِنَ القُرَانِ إِلَّا رَسُمُ مَسَاجِدُهُمْ عَامِرَةٌ وَهِيَ خَرَابٌ مِنَ الْهُدَى عُلَمَاءُ هُمُ مَرُّ مَنْ تَحْتَ اَدِيمِ السَّمَاءِ مِنْ عِنْدِهِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وَفِيهِمْ تَعُودُ " ۴.( مشکوۃ کتاب العلم صفحه ۳۴۶ مکتبہ امدادیہ ملتان طبع اول ) ترجمہ : - لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا جب اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کے صرف الفاظ باقی رہ جائیں گے ان کی مسجدیں ظاہر میں تو آباد ہوں گی لیکن ہدایت کے لحاظ سے بالکل ویران ہوں گی اس زمانہ کے لوگوں کے علماء آسمان کے نیچے بد ترین مخلوق ہوں گے انہی سے فتنے نکلیں گے اور انہی میں واپس جائیں گے.لَعَنَ سَنَنَ مِنْ قَبْلَكُمْ شِبْرًا بُرا وَ ذِرَاعًا ذِرَاعًا حَتَّىٰ لَوْ دَخَلُوا جُعْرَضَةٍ تبعتموهُم قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ الْيَهُودُ وَ النَّصَارَى قَالَ فَمَنْ » " ( بخاری کتاب الاعتصام باب قول النبي تتبعن سنن من كان قبلكم) ترجمہ : اے مسلمانو تم پہلی قوموں کے حالات کی پیروی کرو گے جس طرح ایک بالشت دوسری بالشت کے مشابہ ہوتی ہے اور ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کے مشابہ ہوتا ہے اس طرح تم پہلی قوموں کے نقش قدم پر چلو گے صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ کیا ہم یہودو نصاری کے نقش قدم پر چلیں گے آپ نے فرمایا اور کس کے ؟ - إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى إِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةَ وَ سَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَ سَبْعِينَ مِلَّةٌ كُلُّهُمْ فِى النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةٌ ترندی ابواب الایمان باب افتراق هذه الامته )
۲۹ ترجمہ : بنی اسرائیل کے بہتر فرقے ہو گئے تھے اور میری امت کے تہتر فرقے ہو جائیں : - گے ان تہتر میں سے سوائے ایک فرقہ کے باقی سب فرقے دوزخ میں جائیں گے.16 ٥ خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ يَفْضُو الْكَذِبُ.( ترمذی ابواب الشهادات باب ما جاء في شهادة الزور ) ترجمہ : بهترین لوگ میری صدی کے ہیں پھر دوسری اور پھر تیسری صدی کے اس کے بعد جھوٹ پھیل جائے گا.حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود آخری زمانہ میں امت میں ظاہر ہونے والے فسادات کا جس تفصیل سے نقشہ کھینچا ہے اسے کفر کہنے والا کم بخت ، خود کیا کہلائے گا.جہالت اور حماقت جب مرکب ہو جاتی ہیں تو ایسا ایسا مولوی پیدا ہوتا ہے کہ جو حملہ کرتے وقت یہ بھی نہیں سوچتا کہ اس کا رخ کس طرف ہے ؟ تمام مشاہیر نے جو اس زمانے میں گمراہی کے نقشے کھینچے ہیں جو لدھیانوی صاحب کے نزدیک " کفر صریح ہے اس کی چند مثالیں بنا کر اس فصل کو ہم ختم کرتے ہیں.لدھیانوی صاحب کہتے ہیں کہ کوئی مسلمان بھی امت محمدیہ میں عام گمراہی کے پھیل جانے کا قائل نہیں ہے چنانچہ وہ اسے " صریح کفر " قرار دیتے ہیں.آیئے ان کے اس دعوئی کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ لدھیانوی صاحب کے بقول کون کون مسلمان اس صریح کفر کا مرتکب ہوا ہے.ا.مولانا الطاف حسین حالی مرحوم نے ۱۸۷۹ء میں اپنی مشہور مسدس میں لکھا.رہا دین باقی نہ اسلام باقی.اک اسلام کا رہ گیا نام باقی پھر اسلام کو ایک باغ سے تشبیہ دے کر فرماتے ہیں.پھر اک باغ دیکھے گا اجزا سراسر جہاں خاک اڑتی ہے ہر سو برابر نہیں زندگی کا کہیں نام جس پر ہری ٹہنیاں جھڑ گئیں جس کی بل کر 2 (مسدس حالی بند نمبر (۱۰۸)
نہیں پھول پھل جس میں آنے کے قابل ہوئے روکھ جس کے جلانے کے قائل (مسدس حالی بند نمبر ) ۲.صدا اور ہے بلبل نغمہ خواں کی کوئی دم میں رحلت ہے اب گلستان کی (مسدس حالی صفحه ۱۵۳ مطبوعہ کشمیر کتاب گھر اردو بازار لاہور ) -1 ڈاکٹر علامہ اقبال مسلمانوں کی حالت یوں بیان فرماتے ہیں :- ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں بت شکن اٹھ گئے باقی جو رہے بت گر ہیں تھا براهیم پدر اور پر آذر ہیں بانگ درا زیر عنوان جواب شکوہ) گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی مسجدیں مرتبہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلمان نابود ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ھنود یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو تم کبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو بانگ درا زیر عنوان جواب شکوہ) مشہور المحدیث عالم نواب صدیق حسن خان صاحب کے فرزند مولوی نور الحسن خان
صاحب لکھتے ہیں.یہ بڑے بڑے قیمہ ، یہ بڑے بڑے مدرس ، یہ بڑے بڑے درویش ، جو ڈنکا دینداری خدا پرستی کا بجا رہے ہیں رو حق، تائید باطل تقلید مذہب و تقید مشرب میں مخدوم عوام کالا نعام ہیں.سچ پوچھو تو دراصل پیٹ کے بندے نفس کے مرید ابلیس کے شاگرد ہیں.چندیں شکل از برائے اکل ان کی دوستی دشمنی ان کے باہم کا رڈو کہ فقط اسی حسد و کینہ کیلئے ہے نہ خدا کیلئے نہ امام کیلئے نہ رسول کیلئے علم میں مجتہد مجدد ہیں.لاکن حق باطل ، حلال ، حرام میں کچھ فرق نہیں کرتے ، غیبت ، سب وشتم ، خدیعت و زور کذب و فجور افتراء کو گویا صالحات باقیات سمجھ کر رات دن بذریعہ بیان و زبان خلق میں اشاعت فرماتے ہیں.“ " ( اقتراب الساعۃ صفحه (۸) ۴.جماعت اسلامی کے بانی مولانا ابو الاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں :- یہ انبوہ عظیم جس کو مسلمان قوم کہا جاتا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس کے 999 فی ہزار افراد نہ اسلام کا علم رکھتے ہیں نہ حق اور باطل کی تمیز سے آشنا ہیں.نہ ان کا اخلاقی نقطہ نظر اور ذہنی رویہ اسلام کے مطابق تبدیل ہوا ہے.باپ سے بیٹے اور بیٹے سے پوتے کو بس مسلمان کا نام ملتا چلا آ رہا ہے اس لئے یہ مسلمان ہیں." ( مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم صفحه ۱۳۰ مطبوعہ آرمی پریس دہلی ) لدھیانوی صاحب کے بزرگ سید عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب مسلمانوں کی اکثریت کو باطل پر قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں و ہم نام نہاد اکثریت کی تابع داری نہیں کریں گے.کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اکثریت باطل پر ہے " ( روزنامه رزم لاہور ۱۳ اپریل ۱۹۲۹) سوانح حیات سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحه ۱ از خان حبیب الرحمن خان کابلی) لدھیانوی صاحب کے ایک اور بزرگ مولوی اشرف علی صاحب تھانوی اپنے ایک دوست کی بات کو لطیف بات قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں.
۳۲ اگر سوادِ اعظم کے معنی یہ بھی مان لئے جائیں کہ جس طرف زیادہ ہوں تو ہر زمانہ کے سواد اعظم مراد نہیں بلکہ خیر القرون کا زمانہ مراد ہے جو غلبہ خیر کا وقت تھا ان لوگوں میں سے جس طرف مجمع کثیر ہو وہ مراد ہے نہ کہ "تم يَقْضُوا كَذِبُ " کا زمانہ.یہ جملہ ہی بتا ثُمَّ رہا ہے کہ خیر القرون کے بعد شر میں کثرت ہو گی " عقیدہ نمبر ۲ (ماہنامہ البلاغ کراچی جولائی ۱۹۷۶ء صفحہ ۵۹) پہلی اور دوسری بعثت کا الگ الگ دور » اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب لکھتے ہیں کہ " مرزا غلام احمد صاحب کے دو بمعشتوں والے عقیدہ کا ایک اہم ترین نتیجہ یہ ہے کہ تیرھویں صدی کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت پر ایمان لانا آپ کی شریعت کی پیروی کرنا اور آپ کی ہدایات و ارشادات پر عمل کرنا موجب نجات نہیں بلکہ یہ ساری چیزیں کالعدم لغو اور بے کار ہیں جب تک کہ مرزا صاحب پر ایمان نہ لایا جائے کیونکہ تیرھویں صدی کے بعد مکی رسالت و نبوت کا دور نہیں رہا بلکہ قادیانی رسالت و نبوت کا دور شروع ہو چکا ہے (صفحہ ۱۳- ۱۴) قارئین کرام ! مولوی صاحب جہالت کے ساتھ ناجائز حملے کرتے چلے جاتے ہیں سوچتے نہیں کہ ان کے کیا نتائج نکلیں گے فیصل اول میں ہم ان کی لغو بنیاروں کو ملیا میٹ کر چکے ہیں اب ان فرضی اعتراضات کی حیثیت ہی کوئی نہیں رہتی.مولوی صاحب ! آپ کے اعتراضوں سے کیا مہدی اور مسیح کی آمد کے عقیدے باطل ہو جائیں گے.کیا آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ نہیں کہ وہ تشریف لائیں گے یا کیا آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ آسمان پر ہی بیٹھے بیٹھے ان کی موت واقع ہو جائے گی اس کے باوجود یہ جسارت کرنا کہ اگر ہم محمد رسول اللہ کی امت میں پیدا ہونے والے کسی غلام کو قبول کر لیں گے تو ساری شریعت کو کالعدم کرنا پڑے گا.سوائے اس کے کہ کوئی پرلے درجے کا غیمی ہو کوئی آپ کا یہ مفروضہ تسلیم نہیں کر سکتا.جماعت احمدیہ کا عقیدہ آپ نے نہیں بنانا احمدی بہتر جانتے ہیں کہ ان کا عقیدہ کیا ہے آپ اپنے عقیدے بے شک نئے نئے بناتے رہیں ہمارے عقیدے نہ گھڑیں ہمارا عقیدہ صحیح موعود کے الفاظ میں یہ ہے اور اس پاک عقیدہ کے ہوتے ہوئے آپ کے من گھڑت عقیدوں
۳۳ کو ہم خاک کی چنکی سے بھی کم تر حیثیت سمجھتے ہیں.آپ فرماتے ہیں:.وو یہ خوب یاد رکھنا چاہئے کہ نبوت تشریعی کا دروازہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل مسدود ہے اور قرآن مجید کے بعد اور کوئی کتاب نہیں جو نئے احکام سکھائے یا قرآن شریف کا حکم منسوخ کرے یا اس کی پیروی معطل کرے بلکہ اس کا عمل قیامت تک ہے " الوصیت صفحه ۱۲ حاشیه روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳ حاشیه ) خدا اس شخص کا دشمن ہے جو قرآن شریف کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہے اور محمدی شریعت کے برخلاف چلتا ہے اور اپنی شریعت چلانا چاہتا ہے" " چشمہ معرفت صفحه ۳۲۵٬۳۲۴ ، روحانی خزائن جلد نمبر ۲۳ صفحه ۳۴۰) اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.سو تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے کل تھے سو تم قرآن کو مذیر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ الْخَيْرُ كُلَّهُ فِی الْقُرانِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں.یہی بات سچ ہے.افسوس ان لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سر چشمہ قرآن میں ہے.کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی.تمہارے ایمان کا مصدق یا مذب قیامت کے دن قرآن ہے" (کشتی نوح روحانی خزائن جلد نمبر ۱۹ صفحه ۲۷) لدھیانوی صاحب یہ دلیل بھی پیش کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص شریعت محمدی کے تمام احکام پر عمل کرے لیکن مرزا صاحب کو مہدی معہود و مسیح موعود قبول نہ کرے تو مرزا صاحب اسے نجات یافتہ قرار نہیں دیتے کیو یا شریعت کی پیروی اسے نجات نہیں دلا سکتی جب تک وہ مرزا صاحب کو نہ مانے.یہی لغو اعتراض جو انہوں نے بنایا ہے انہیں پر الٹتا ہے ایک دفعہ -
۳۴ نہیں ایک لاکھ چوبیس ہزار دفعہ الٹ کر پڑتا ہے پہلے یہ تو بتائیں کہ انہیں کے الفاظ میں اگر کوئی شخص یہ سب کچھ کرے اور ان کے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام کی مزعومہ دوسری بعثت کا انکار کر دے یا یہ سب کچھ کرے اور ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء میں سے کسی ایک کا انکار کر دے تو پھر ان کا کیا فتویٰ ہوگا ؟ یہ محض لفظی چالاکیاں ہیں جن کا نہ تقویٰ سے کوئی تعلق ہے نہ عقل سے، صرف عوام الناس کو شرارت پر اکسانے کے چٹکلے ہیں.ہم ایک دفعہ پھر معزز قارئین سے گذارش کرتے ہیں کہ مولوی یوسف لدھیانوی صاحب کے سب اعتراضات پڑھ کر اس کتاب کی فصل اول کا مطالعہ کر لیں تو ان کے تمام اعتراضات باطل ہو جاتے ہیں یا ان تمام بزرگان امت پر زیادہ سختی سے وارد ہو جاتے ہیں جن کو لدھیانوی صاحب بزرگ ماننے پر مجبور ہیں.در حقیقت مولوی صاحب نے خود یہ نیا شاخسانہ کھڑا کیا ہے اس کا حقیقی جواب یہ ہے کہ جو شخص بھی قرآن شریف اور سنت پر سختی سے اور دل و جان سے عمل پیرا ہو اس کے لئے ممکن ہی نہیں ہے کہ پیشگوئیوں کے مطابق آنے والے موعود زمانہ کا انکار کر دے سوائے اس کے کہ نادانی سے ایسا کرے یا اسے پیغام ہی نہ پہنچا ہو اس صورت میں اس کا فیصلہ خدا تعالی فرمائے گا.باقی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک ارشاد فرمایا ہے کہ جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی گویا اس نے میری نافرمانی کی.حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کا ترجمہ یہ ہے." جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے خود میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے حقیقت میں خود میری ہی نافرمانی کی ( بخاری کتاب الاحکام باسب قول الله تعالی اطیعوا الله و المعو الرسول و اولی الامر منكم) اس ارشاد کی روشنی میں یہ بات قطعی ہے کہ جو بھی امام مہدی کا نافرمان ہو گا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نافرمان ہو گا.اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نافرمان ہو گا اس کے متعلق یہ کہنا کہ قرآن و سنت پر ظاہری عمل کی وجہ سے نجات یافتہ کہلائے گا یہ ایک مردود تصور ہے تہاں دلوں کا حال خدا تعالی جانتا ہے.البتہ اگر کوئی نا کبھی میں غلطی کرتا ہے تو خدا تعالٰی
۳۵ اس سے حسب حال سلوک فرمائے گا.لدھیانوی صاحب! آپ دیوبندی ہیں ، کیا آپ کے نزدیک بریلوی اسلام یا مودودی اسلام یا فرقہ اہلحدیث کا اسلام یا خارجی اسلام یا شیعوں کا اسلام یا پرویز صاحب کا اسلام یا سرسید احمد خان کا اسلام یا دیگر تمام مسلمان کہلانے والے فرقوں کا اسلام درست اور موجب نجات ہے ؟ اگر ہے تو آپ ان تمام فرقوں کو کافر کیوں قرار دیتے ہیں اور دیوبندی فرقہ کو چھوڑ کر ان فرقوں میں شمولیت کیوں نہیں کر لیتے.اور اگر آپ کے نزدیک ان فرقوں کا اسلام صحیح نہیں اور موجب نجات نہیں تو جو الزام آپ جماعت احمدیہ پر لگا رہے ہیں.کیا یہ آپ پر عائد نہیں ہوتا ؟ آپ اپنے بارے میں تو یہ حق تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام کی جو تشریح آپ پیش کریں صرف ات درست اور موجب نجات قرار دیا جائے اور آپ کے سوا باقی مسلمان فرقے اسلام کی جو تشریح کریں اسے موجب نجات نہ سمجھا جائے تو پہلے آپ اپنی حیثیت تو بتائیں کہ کس حیثیت سے آپ کا یہ دعویٰ ہے دوسرے مولویوں کے مقابل پر آپ کی کونسی امتیازی شان ہے کہ اس دعوئی کا حق آپ کو ہے.نہ آپ خدا نہ آپ خدا کے مقرر کردہ امام ، زیادہ سے زیادہ مولویوں میں سے ایک مولوی ہی تو ہیں تو آپ کو یہ حق کیوں نصیب ہو گیا کہ دوسرے عقیدہ کے علماء کے عقائد کو مفسدانہ قرار دے کر ان پر نجات کے دروازے بند کر دیں ؟ عقیدہ نمبر ۳ " جامع کمالات محمدیہ " اس عنوان کے نیچے لدھیانوی صاحب لکھتے ہیں کہ ”جب مرزا صاحب اور ان کی جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بعثت کا مظہر ہونے کی بناء پر بعینہ ” محمد رسول اللہ " بن گئے ہیں تو یہ عقیدہ بھی لازم ٹھہرا ہے کہ وہ تمام اوصاف و کمالات جو پہلی بعثت میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی میں پائے جاتے تھے وہ اب بروزی رنگ میں پورے کے پورے جناب مرزا صاحب کے نام رجسٹرڈ ہو چکے ہیں جو منصب و مقام کہ تیرھویں صدی تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے مخصوص تھا وہ اب مرزا صاحب کو تفویض کیا جا چکا ہے اور جس مسندِ رسالت پر پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جلوہ افروز تھے اب اس پر جناب مرزا صاحب رونق افروز ہیں " (صفحہ ۱۴)
بار بار ہم فصل اول کے حوالے نہیں دے سکتے قارئین کے ذہن میں فصل اول مستحفر ہو گی وہی ان کے اعتراض کو باطل اور لغو قرار دینے کے لئے کافی ہے لیکن مولوی صاحب خود ہی مفروضے بنا بنا کر بار بار وہی حملے کر رہے ہیں ان کی مثال تو اس جادوگر کی سی ہے جو موم کی پتلی بینا کر اسے سوئیاں چھوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ جس کی پہلی ہے اسے تکلیف پہنچے گی.ہم الٹ کر ان سے پوچھتے ہیں کہ ان کے عقیدہ کے مطابق حضرت عیسی نازل ہوں گے تو غلام کی حیثیت سے ہوں گے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مسند پر قابض ہو جائیں گے کیا امام مہدی کا مقام علماء و بزرگان امت کے نزدیک یہ نہیں ہے کہ وہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع اور امتی کی حیثیت سے آئیں گے.اگر ہے تو پھر کیا آپ کے نزدیک ان کا یہی عقیدہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مسند سے ہٹا کر خود فائز ہو جائیں گے.مولوی صاحب ! ایسی جاہلانہ باتیں ان کی طرف منسوب کرنا آپ ہی کو زیب دیتا ہے لہذا پہلے آپ اپنے مسلمہ علماء اور اولیاء سے قضیہ طے کر لیں پھر ہم سے گفتگو فرمائیں.ضمناً یاد آیا کہ علماء و اولیاء امت پر یلغار سے جب فارغ ہوں تو احمدیت کی طرف متوجہ ہونے سے پہلے اپنے بزرگ مولانا قاری محمد طیب صاحب سے نمٹنے کے بعد ہماری طرف رخ فرمائیے آپ کی یادداشت تازہ کرنے کے لئے حسب ذیل اقتباس آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے مولانا قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند فرماتے ہیں.اہم اور اعظم امور میں اگر حضور کی ذات اقدس سے کسی کو کمال اشتراک و تناسب ثابت ہوتا ہے تو حضرت عیسیٰ کی ذات مقدس کو شاید اسی بنا پر جبکہ حضور نے نجات ابدی کو اپنی نبوت ماننے پر معلق فرمایا ہے تو باوجودیکہ اور تمام انبیاء علیهم السلام کی نبوت ماننا بھی جزو ایمان تھا لیکن خصوصیت سے اپنے ساتھ صرف عیسی علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے کو متوازی طریق پر ذکر فرمایا ہے" تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام صفحه ۱۴۱ از قاری محمد طیب مہتم دارالعلوم دیوبند پاکستانی ایڈیشن اول مئی ۱۹۸۶ء نفیس اکیڈیمی کراچی) پھر فرماتے ہیں :.
۳۷ " بهر حال اگر خاتمیت میں حضرت مسیح علیہ السلام کو حضور سے کامل مناسبت دی گئی تھی تو اخلاق خاتمیت اور مقام خاتمیت میں بھی مخصوص مشابہت و مناسبت دی گئی جس سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت عیسوی کو بارگاہ محمدی سے خلقاً و خُلقاً رتباً و مقاماً ایسی ہی مناسبت ہے جیسی کہ ایک چیز کے دو شریکوں میں یا باپ بیٹوں میں ہونی چاہئے " تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام صفحه ۱۲۹ از قاری محمد طیب مہتم دار العلوم دیوبند پاکستان ایڈیشن اول مطبوعه مئی ۱۹۸۶ء ) لدھیانوی صاحب نے اس شق میں اس اعتراض کو دہرایا ہے کہ جماعت احمدیہ صرف تیرھویں صدی تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و منصب اور آپ کے کمالات کی قائل ہے اور تیرھویں صدی کے بعد وہ کمالات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چھن کر مسیح موعود کو مل جانے کا عقیدہ رکھتی ہے.معزز قار یکن ! ہم اس کے جواب میں لعنة اللہ علی الکاذبین کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں.چنانچہ اس جواب کے بعد ہم ایک دفعہ پھر جناب یوسف لدھیانوی سے گذارش کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے عقیدے جماعت احمدیہ پر چھوڑ دیں اپنی طرف سے عقیدے افتراء کر کے ان کی طرف منسوب کرنے کی جہالت سے باز آئیں.آپ نے جب یہ لکھا کہ " تیرھویں صدی کے بعد وہ کمالات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چھین کر مسیح موعود کو مل جانے کا عقیدہ رکھتی ہے تو اپنی صفائی میں قرآن کریم کی زبان میں ہمارے دل سے بے اختیار لعنۃ اللہ على الكاذبين لكلا اور ساتھ ہی جماعت احمدیہ کے اصل عقیدہ کے طور پر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی اس تحریر کی طرف ذہن منتقل ہو گیا اور دل و زبان پر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے درود جاری ہو گیا.آپ فرماتے ہیں.وو.....وہی ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسان نہیں بلکہ ذریت شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیا گیا ہے.جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے.ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے.ہم کا فر نعمت ہونگے
۳۸ اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اس کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے." ) حقیقته الوحی صفحه ۱۵ ۱۶ روحانی خزائن جلد نمبر ۲۲ صفحه ۱۹) اسی طرح آپ اپنی جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں.آخری وصیت یہی ہے کہ ہر ایک روشنی ہم نے رسول نبی امی کی پیروی سے پائی ہے اور جو شخص پیروی کرے گا وہ بھی پائے گا " ) سراج منیر صفحه ۸۰ روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۸۲) یہ خوب یاد رکھنا چاہئے کہ نبوت تشریعی کا دروازہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل مسدود ہے اور قرآن مجید کے بعد اب اور کوئی کتاب نہیں جو نئے احکام سکھائے یا قرآن شریف کا حکم منسوخ کرے یا اس کی پیروی معطل کرے بلکہ اس کا عمل قیامت تک ہے" الوصیت صفحه ۱۲ حاشیه روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۱ حاشیه ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے اور آپ خاتم الانبیاء ہیں " چشمه معرفت صفحه ۸۲ طبع اول روحانی خزائن جلد نمبر ۲۳ صفحه ۹۰) قارئین کرام ! آپ خود ہی اندازہ فرمائیں کہ لدھیانوی صاحب تو سال ہا سال سے جماعت احمدیہ کے خلاف مضمون نگاری کر رہے ہیں اور بزعم خویش حضرت بانی جماعت احمدیہ کی تحریرات سے بخوبی واقفیت رکھتے ہیں اور جن کتب کے اقتباسات ہم نے درج کئے ہیں وہ کتب انہوں نے پڑھی ہوئی ہیں اور ان میں سے بعض فقرات کو اچک کر اپنے مضامین میں اعتراضات کیلئے درج کرتے رہتے ہیں.وہ حقیقت حال سے پوری طرح واقف ہونے کے باوجود محض لوگوں کو احمدیت سے متنفر کرنے اور انہیں دھوکہ دینے کیلئے کس طرح کھلم کھلا جھوٹ بول رہے ہیں.
ce ۳۹ فصل سوم خصوصیات نبوی اور مرزا صاحب اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب یہ بیان کرتے ہیں کہ علی اور بروزی طور پر محمد رسول اللہ ہونے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کا مظہر ہونے کی بنا پر مرزا صاحب کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات اور خصوصیات پیدا ہو گئی ہیں.چنانچہ اس کے تحت انہوں نے انہیں (۱۹) باتیں بیان کی ہیں جن کا اس فصل میں ہم جائزہ لینا چاہتے ہیں.اصولی طور پر فصل اول میں تفصیل کے ساتھ اور فصل دوم میں اختصار کے ساتھ اس امر پر بحث کی جا چکی ہے کہ امتِ مسلمہ کا مسلمہ عقیدہ ہے کہ مہدی معہود اور مسیح موعود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کا مظہر اور آپ کا ظل و بروز بن کر آئے گا اس کا باطن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا باطن اور اس کے وجود میں آپ کے انوار کا عکس ہو گا وہ آپ کی خصوصیات اور کمالات میں شریک اور آپ کا روحانی بیٹا ہونے کے سبب آپ کے خصائص و کمالات کا وارث ہو گا.ان حوالہ جات کو دوبارہ دہرانے کی ضرورت نہیں.کیونکہ معزز قارئین ان حوالہ جات کا مطالعہ کر ہی چکے ہیں.کچھ طمع باقی ہو تو دوبارہ فصل اول اور فصل دوم میں ان حوالہ جات کو ملاحظہ فرمالیں.اس اصولی گزارش کے بعد اب ہم لدھیانوی صاحب کے اس فصل میں موجود اعتراضات کا نمبردار جائزہ لیتے ہیں."عقیدہ نمبرا" اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب لکھتے ہیں کہ ” قرآنی عقیدہ یہ ہے کہ آیت "محمد رسول اللہ والذین معہ" کا مصداق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.مگر قادیانی
عقیدہ یہ ہے کہ یہ آیت مرزا صاحب اور ان کی جماعت کی تعریف و توصیف میں نازل ہوئی.“ (صفحه (۸) tt جواب: - لدھیانوی صاحب نے یہ اعتراض کر کے پبلک کو دھوکہ دینے کی خاطر بڑا واضح جھوٹ بولا ہے.کیونکہ حضرت بانی جماعت احمدیہ نے کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ قرآن کریم کی اس آیت میں میرا اور میری جماعت کا ذکر ہے.بلکہ یہ لکھا ہے کہ یہ آیت مجھے پر بھی خدا نے الہام کی ہے.قرآن کریم کی آیت کا کسی اور پر الہام ہونا قابل اعتراض امر نہیں ہے.چنانچہ اولیائے کرام جنہیں یہ سعادت نصیب ہوئی وہ اس امر کو تسلیم کرتے ہیں.لیکن خشک مولوی جو اہل اللہ کی باتوں کے سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے.وہ اس پر اعتراض کرتے ہیں.سرتاج صوفیاء شیخ اکبر حضرت شیخ محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں.- تنزل القرآن على قلوب الاولياء ما انقطع مع كونه محفو ظالهم ولكن لهم ذوق الانزال وهذا لبعضهم" فتوحات کمیه جلد ۲ صفحه ۲۵۸ باب نمبر ۱۵۹ فی مقام الرسالته البشریتہ مطبوعہ بیروت) یعنی قرآن کریم کا نزول اولیاء کے قلوب پر منقطع نہیں باوجودیکہ وہ ان کے پاس اپنی اصلی صورت میں محفوظ ہے لیکن اولیاء کو نزول قرآنی کا ذائقہ چکھانے کی خاطر قرآن ان پر نازل ہوتا ہے اور یہ شان بعض کو عطا کی جاتی ہے.امام عبد الوہاب شعرانی رحمتہ اللہ علیہ حضرت محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ کا مذہب یوں لکھتے ہیں:." فيرسل وليا ذانبوة مطلقه ويلهم بشرع محمد" الیواقیت والجواہر جلد ۲ صفحه ۸۹ بحث ۴۷ الطبقه الثاثه - بالمطبعہ الازھر یتہ المصریتہ صفحہ ۵۳۲۱) یعنی مسیح موعود ایسے ولی کی صورت میں بھیجا جائے گا.جو نبوت مطلقہ کا حامل ہو گا اور اس پر شریعت محمدیہ الہاما نازل ہو گی.ضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کو ان کے فرزند شاہ کہ بیٹی کی پیدائش پر الہام ہوا.
” انانبشر ک بغلام اسمه یحیی" مقامات امام ربانی صفحه ۱۳۶ مطبوعہ دہلی ) حضرت خواجہ میر درد مرحوم نے اپنی کتاب " علم الکتاب" میں اپنے الہامات درج فرمائے ہیں.ان میں دو درجن سے زائہ الہامات آیات قرآنی پر مشتمل ہیں ان میں سے ایک الہام یہ بھی ہے ” وانذر عشیرتک الاقربین" (علم الكتاب صفحه (۶۴) مولوی صاحب اچھی طرح جانتے ہیں.کہ یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مخصوص ہے.اور کوئی اس میں شریک نہیں.خاص آپ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے.وانذر عشیر تک الاقربین کہ خاندان کے اقرباء کو ( خدا کی پکڑ سے ) ڈراؤ.کیا مولوی صاحب کے نزدیک خواجہ میر درد بعینہ و بجنسه محمد رسول اللہ بن گئے تھے ؟ حضرت مولوی عبداللہ غزنوی رحمتہ اللہ علیہ بڑے مشہور صاحب کشف و الہام ہوئے ہیں.آپ کو درج ذیل آیات قرآنیہ الہام ہوئیں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا گیا ہے.ا سنیسر کللیسری یہ آیت آپ کو بارہا الہام ہوئی (سوانح مولوی عبد اللہ غزنوی مولفه عبد الجبار غزنوی و غلام رسول مطبوعہ مطبع القرآن و السنته (امرتسر) - " ولئن اتبعت اهواءهم بعد الذي جاء ك من العلم مالك من الله من ولي ولا نصیر» ( ایضاً صفحه ۱۵) و اصبر نفسك مع الذين يدعون ربهم بالغداو، والعشى يريدون وجهه ۴- " فاذا قراناه - فاتبع قرانه ثم ان علینابیانه et (ایضاً صفحه ۳۵) (ایضاً صفحه ۳۵) ۵ - " لا تمدن عینیک الی ما تعنا به از و اجا منهم زهرة الحيواة الدنيا ولا تطع من.
۴۲ الغفلنا قلبه عن ذكرنا واتبع هواه و كان امره فرطا - " ولسوف يعطیک ریک فترضی - الم نشرح لك صدرک ( ایضا صفحہ ۳۶) ايضا ( صفحہ ۳۷) ( ایضاً صفحه ۳۷) اسی وجہ سے اس وقت کے مولویوں نے شدید طوفان برپا کیا تھا.مثلاً مولوی غلام علی قصوری نے سخت مخالفت کی.لیکن حضرت مولوی عبداللہ غزنوی کے صاحبزادے نے بڑے متوازن اور سلجھے ہوئے انداز سے حسب ذیل الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کی کہ : "اگر الہام میں اس آیت کا القاء ہو جس میں خاص آنحضرت کو خطاب ہو تو صاحب الہام اپنے حق میں خیال کر کے اس کے مضمون کو اپنے حال کے مطابق کرے گا.اور نصیحت پکڑے گا......ا.اگر کوئی شخص ایک آیت کو جو پروردگار نے جناب رسول اللہ صلعم کے حق میں نازل فرمائی ہے.اسے اپنے پر وارد کرے اور اس کے امرونسی اور تاکید و ترغیب کو بطور اعتبار اپنے لئے مجھے تو بے شک وہ شخص صاحب بصیرت اور مستحق تحسین ہو گا.اگر کسی پر ان آیات کا القاء ہو جن میں خاص آنحضرت کو خطاب ہے مثلاً ” الم نشرح لك صدرک“ کیا نہیں کھولا ہم نے واسطے تیرے سینہ تیرا.ولسوف يعطیک ربک فترضی- فسیکفیکهم الله - فاصبر كما صبر اولوا العزم من الرسل - واصبر نفسك مع الذين يدعون ربهم بالغداوة والعشى يريدون و جهه - فصل لربک و انحر - ولا تطع من الغفلنا قلبه عن ذكرنا واتبع هواه و وجدک ضالا فهدی تو بطریق اعتبار یہ مطلب نکالا جائے گا کہ انشراح صدر اور رضا اور انعام ہدایت جس لائق یہ ہے علی حسب المنولت اس شخص کو نصیب ہو گا اور اس امر و نہی وغیرہ میں اس کو آنحضرت کے حال میں شریک سمجھا جائے گا." اثبات الالهام و البته صفحه ۳۳۴۷۲) نہ کورہ بالا یہ تمام حوالہ جات صاف بتا رہے ہیں کہ نہ تو قرآن کریم کی آیات کا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں میں سے کسی پر نازل ہونا تعجب یا اعتراض کا موجب ہے نہ
۴۳ ہی ایسی آیات کا نازل ہونا محل اعتراض ہے جو خاص حضرت محمد رسول اللہ کے حق میں نازل ہوتی ہیں یا آپ کو مخاطب کر کے نازل فرمائی گئی ہیں.اصل سوال ہمیشہ یہی رہے گا کہ جس شخص کے دل پر ایسی آیات قرآنیہ الہام ہوئی ہوں وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے خود اپنی نظر میں اپنا کیا مقام سمجھتا ہے اور کیا مرتبہ تصور کرتا ہے.اگر وہ یہ اعلان کرے کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ثانی بن کر پیدا ہوا ہوں (نعوذ باللہ ) اور پرانے محمد رسول اللہ کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی.اور اب نیا محمد دنیا میں پیدا ہو چکا ہے.تو اس کا یہ اعلان کفر صریح پر مشتمل ہو گا.لیکن ایسے الہامات کے باوجود اگر ایسا شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر بے انتہاء انکسار اور خاکساری سے کام لیتا رہے.اور کامل یقین رکھتا ہو اور اسی کا برملا اظہار کرتا ہو کہ جو فیض بھی اس کو عطا ہوا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے عطا ہوا ہے.اور آپ کی محبت کے نتیجہ میں خدا اس پر مہربان ہے.اور قیامت تک کوئی شخص پاک محمد مصطفیٰ کے ویلے کے بغیر کوئی فیض کسی سے پا نہیں سکتا اور امت محمدیہ میں جو بکثرت فیض رساں وجود نظر آتے ہیں.وہ اپنا نہیں بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض بانٹنے والے ہیں.جو خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض یاب ہیں.تو ایسے شخص پر اگر لدھیانوی صاحب کی اوقات کا انسان بڑھ چڑھ کر گند ہوئے اور لعنتیں ڈالے تو سوائے اس کے کہ وہ خود اپنی عاقبت برباد کر رہا ہو گا.ہم اور کیا نتیجہ نکال سکتے ہیں.اللہ کرے کہ ان کے ہاتھوں سے عاقبت کی بربادی ان کے اپنے تک ہی محدود رہے اور دوسرے بندگان خدا اس سے محفوظ رہیں.دیکھئے حضرت مرزا صاحب کے جس الہام پر اعتراض کرتے ہوئے لدھیانوی صاحب اپنی دانست میں یہ ثابت کر رہے ہیں کہ گویا مرزا صاحب نے (نعوذ باللہ ) حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ثانی ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور جس کے بعد ہر فیضان محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے انہوں نے اپنی ذات سے جاری کرنے کا دعوی کر دیا ہے.وہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر اپنی حیثیت کریا بیان کرتے ہیں.آپ فرماتے ہیں :-
این چشمہ رواں کہ مخلق خدا وہم یک قطره ز بحر کمال محمد است یعنی معارف و حقائق کا جو چشمہ میں خدا کی مخلوق میں تقسیم کر رہا ہوں یہ میرا مال نہیں بلکہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات کے سمندر کے بے شمار قطروں میں سے ایک قطرہ ہے.نیز فرمایا فرمایا : وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا نام اس کا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدایا وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہے ( قادیان کے آریہ اور ھم روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه (۴۵۶) خداوند کریم نے اس رسول مقبول کی متابعت اور محبت کی برکت سے اور اپنے پاک کلام کی پیروی کی تاثیر سے اس خاکسار کو اپنے مخاطبات سے خاص کیا ہے اور علوم لدنیہ سے سرفراز فرمایا ہے اور بہت سے اسرار مخفیہ سے اطلاع بخشی ہے اور بہت سے حقائق اور معارف سے اس ناچیز کے سینہ کو پر کر دیا ہے اور بارہا بتلا رہا ہے کہ یہ سب عطیات اور عنایات اور یہ سب تفضلات اور احسانات اور یہ سب تلطفات اور توجہات اور یہ سب انعامات اور تائیدات اور یہ سب مکالمات اور مخاطبات نیکن متابعت و محبت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.جمال مشین در من اثر کرد وگرنه من همان خاکم که هستم ، et برا حسین احمدیہ روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۲۴۴۶۳ حاشیہ نمبر ۱۱)
۴۵ فرمایا : سو میں نے خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سے کامل حصہ پایا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی.اور میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر میں اپنے سید و مولی فخر الانبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہوں کی پیروی نہ کرتا.سو میں نے جو کچھ پایا اس پیروی سے پایا اور میں اپنے بچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفت کا ملہ کا حصہ پا سکتا ہے." ( حقیقته الوحی روحانی خزائن جلد نمبر ۲۲ صفحه ۶۵٬۶۴) جہاں تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت عطا ہونے کا تعلق ہے وہ معیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے ساتھ ختم تو نہیں ہو گئی.قرآن کریم تو صاف صاف بتا رہا ہے.کہ آخری زمانہ میں بھی ایسے لوگ پیدا ہونگے.جن کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت حاصل ہو گی.فرمایا." وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ، (سورة الجمعه آیت نمبر ۴) ترجمہ :.اور ان کے سوا ایک دوسری قوم میں بھی وہ اس کو بھیجے گا جو ابھی تک ان سے ملی نہیں.یعنی کچھ اور لوگ بھی صحابہ میں شامل ہو جائیں گے لیکن ابھی تک وہ صحابہ سے نہیں ملے.پس قرآن کریم جس معیت اور فیض کا ذکر فرماتا ہے.اگر یوسف لدھیانوی صاحب اس فیض سے محروم ہیں تو اس میں ان خوش نصیبوں کا تو کوئی قصور نہیں جو اس موعودہ معیت سے فیض یافتہ ہیں.لدھیانوی صاحب کا یہ کہنا کہ مذکورہ بالا آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی بجائے مرزا صاحب اور ان کے ساتھیوں کی توصیف کا بیان جماعت احمدیہ تسلیم کرتی ہے.واضح اور سراسر جھوٹ ہے.حضرت مرزا صاحب، آپ کے خلفاء یا کسی بھی احمدی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ آیت قرآنيه مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَد سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ
مراد نہیں ہیں.M حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں." مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذَا ء میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی کی طرف اشارہ ہے." " عقیدہ نمبر ۲" (الحکم ۱۳۱ جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ 1) اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب لکھتے ہیں کہ " قرآنی عقیدہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انسانیت کا رسول بنا کر بھیجا ہے مگر قادیانی عقیدہ ہے کہ چودھویں صدی سے تمام انسانیت کا رسول مرزا غلام احمد ہے.(صفحه (۸) قارئین کرام ! اس سے قبل اس رسالہ میں آپ حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام کی متعدد تحریرات کا مطالعہ کر چکے ہیں.جو کھلم کھلا لدھیانوی صاحب کے اس افتراء کی تکذیب اور تردید کر رہی ہیں.ایسے قارئین جو خدا کا خوف رکھتے ہیں بلاشبہ ان کے دل گواہی دیں گے کہ لدھیانوی صاحب اپنی اوقات سے بڑھ کر چھلانگیں لگا رہے ہیں.اور خدا کے بندوں کو جو عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ظالمانہ طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے والے ہیں.ان کے ان بہیمانہ حملوں کا کوئی جواز نہیں لدھیانوی صاحب کا مذکورہ بالا حملہ بھی اسی قماش کا ایک حملہ ہے.لدھیانوی مصاحب پر ایک کو وہو کا دینے کے لئے بتا رہے ہیں کہ احمدی تیرھویں صدی تک آنحضرت صلی الله علیه و م کو رول مانتے تھے اور چودھویں صدی سے آپ کے دور رسالت کا انتقام مانتے ہیں اور اسب مرزا صاحب کو تمام انسانیت کا رسول مانتے ہیں.ہم ایک دانہ پھر بیانگ دہل یہ اعلان کرتے ہیں کہ احمدی عقیم در : نہیں تو اس ظالم نے انوروں کی طرف منسوب کیا ہے.احمدی امید یہ ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلم بن مطہر پر جو شریعت نازل ہوئی وہ قیامت تک کے لئے ہے اور ایک شانہ بھی اس شریعت کا اور اس کلام کا ہو آپ پر تالا ہوا کوئی منسوخ نہیں کر سکتا.اسی طرح آپ کا زمانہ بھی قیامت تک مادی
۴۷ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا سکہ قیامت تک چلے گا اور کوئی نہیں جو ایک حرف بھی آنحضرت کے ارشاد کا منسوخ کر سکے.احمدی عقیدہ یہ ہے کہ جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو واجب العمل نہ سمجھے اس کا ایسا گمان اس کے ایمان کو باطل کرنے والا ہے.احمدی عقیدہ یہ ہے کہ جس طرح گذشتہ تیرہ صدیاں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی صدیاں تھیں.اس طرح آئندہ صدیاں بھی صرف اور صرف حضرت محمد رسول اللہ کی صدیاں ہی رہیں گی.اور ان صدیوں میں صرف وہی دوسروں کو ہدایت دینے کا موجب بنے گا پہلے آپ ہدایت یافتہ ہو.یہی مطلب جماعت احمدیہ امام مہدی کی آمد کا سمجھتی ہے.اور انہی معنوں میں اسے امام مہدی تسلیم کرتی ہے.اگر یہ امام مہدی نہیں تو ہم دیکھیں گے کہ وہ امام مہدی جنہیں لدھیانوی صاحب جیسے لوگ تسلیم کرنے والے ہوں گے ان کی آمد کے بعد لدھیانوی صاحب صدیوں کی تقسیم کس طرح کریں گے.کیا لدھیانوی صاحب آنے والے امام مہدی کے متعلق بعینہ وہی عقیدہ رکھتے ہیں جو احمدیوں کی طرف منسوب کرتے ہیں.کیا اس کے آنے کے بعد آئندہ صدیاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونگی یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صدیاں اس لمحے اختتام پذیر ہو جائیں گی جس لمحے امام مهدی دعوی کریں گے.ظاہر ہے یہ محض کھوکھلی اور جاہلانہ باتیں ہیں اور عقل اور سمجھ سے خالی چالاکیاں ہیں.اس کے علاوہ ان کی کوئی حیثیت نہیں اور اگر کوئی حیثیت ہے تو پھر ان کے اعتراضوں سے وہ شخص بھی نہیں بچ سکتا جو ان کی دانست میں خدا کی طرف سے بھیجا جائے گا." عقیدہ نمبر ۳ " اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب لکھتے ہیں کہ :- قرآنی عقیدہ یہ ہے کہ ساری دنیا کیلئے بشیر و نذیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے.لیکن قادیانی عقیدہ یہ ہے کہ اب دنیا کا بشیر و نذیر مرزا غلام احمد ہے." (صفحہ ۱۷) معزز قارئین! یہ وہی اعتراض ہے جو لدھیانوی صاحب نے " عقیدہ نمبر ۲" کے تحت کیا
۴۸ ہے.لیکن محض نمبر شمار بڑھانے کے لئے الفاظ بدل کر وہی بات انہوں نے " عقیدہ نمبر ۳ " کے تحت لکھ دی ہے.اس لئے جو جواب ہم پہلے دے چکے ہیں وہی کافی ہے."عقیدہ نمبر ۴ " (صفحہ ۱۷) اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب لکھتے ہیں کہ " قرآنی عقیدہ یہ ہے کہ رحمتہ للعالمین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.مگر قادیانی عقیدہ یہ ہے اب رحمتہ للعالمین مرزا غلام احمد صاحب ہیں " یہ بھی وہی اعتراض ہے.صرف اپنی دانست میں نمبر بڑھائے ہیں لیکن ساتھ ہی انسانیت کے لحاظ سے اپنے نمبر گراتے جا رہے ہیں.مولوی صاحب ! آپ عجیب و غریب عقل کے مالک ہیں اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ جو رحمتہ للعالمین کا غلام ہے.اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ رحمتہ للعالمین بننے کی بچی کوشش کرے اور تمام بنی نوع انسان کے لئے رحمتہ للعالمین بننے کی کوشش کرے اور اگر وہ اخلاص کے ساتھ کوشش کرے اور اس کوشش میں وہ سچا ثابت ہو تو عملی اور تمثیلی طور پر رحمتہ اللعالمین کہنا ہرگز سنت ابرار کے مخالف نہیں اور یہ کلمہ کفر نہیں بن جاتا.اور اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں نکالا جا سکتا کہ اگر غلامان محمد میں سے کسی کو رحمتہ للعالمین کہا جائے تو وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم پلہ اور ہمسر بن جاتا ہے.چنانچہ اولیاء امت میں سے حضرت شیخ نظام الدین اولیاء کو کئی مرتبہ آیت قرآنی " وَمَا أرْسَلْتَكَ الاَ رَحْمَةً لِلْعَالَمِين " الہام ہوئی.لکھا ہے ” حضرت مخدوم (گیسو دراز - ناقل ) نے فرمایا کہ حضرت شیخ ( نظام الدین - ناقل ) فرماتے تھے کہ کبھی کبھی کسی ماہ میرے سرہانے ایک خوب رو اور خوش جمال لڑکا نمودار ہو کر مجھے اس طرح مخاطب کرتا " وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِين" میں شرمندہ سر جھکا لیتا اور کہتا یہ کیا کہتے ہو.یہ خطاب حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مخصوص ہے.یہ بندہ نظام کس شمار میں ہے جو اس کو اس طرح مخاطب کیا جائے." (جوامع الکلم ملفوظات گیسو در از صفحه ۲۲۶ ڈائری روز دوشنبه ۳۰ شعبان ۵۸۰۲) جہاں تک حضرت نظام الدین کے عجز کا تعلق ہے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے بے شمار حوالے اس بات پر گواہ ہیں کہ آپ نے بھی ایسے الہامات کی وجہ سے کبھی بھی اپنے آپ کو
۴۹ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم پلہ اور ہمسر نہیں سمجھا بلکہ ایسے الہامات کے باوجود ہمیشہ یہی اقرار اور اعتراف کرتے رہے.کہ ہیں" " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کے لئے رسول ہیں اور تمام دنیا کے لئے رحمت پھر فرماتے ہیں :- (روحانی خزائن جلد نمبر ۲۳ صفحه ۳۸۸) یہ تمام شرف مجھے صرف ایک نبی کی پیروی سے ملا ہے جس کے مدارج اور مراتب سے دنیا بے خبر ہے یعنی سید نا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم" چشمه مسیحی روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ صفحه ۳۵۴) لیکن جناب لدھیانوی صاحب سے بحث ہیں ختم نہیں ہو جاتی اب ہم آپ کے پیرو مرشد اور واجب الاحترام بزرگ جناب قاری محمد طیب اور جناب شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندی کی یہ تحریریں پیش کرتے ہیں.اور آپ سے پوچھتے ہیں کہ اگر اس قسم کے صوفیانہ کلمات واقعی نہایت ہی خطرناک ہتک رسول کا درجہ رکھتے ہیں تو پھر ہتک رسول کرنے والوں کے ساتھ جہاد اپنے گھر سے شروع کریں اور ان بزرگوں کا تابڑ توڑ حملے کر کے قلع قمع کریں جو یہ فرماتے ہیں کہ حضرت عیسوی کو بارگاہ محمدی سے خلقاً و خلقاً رتباً و مقاماً ایسی ہی مناسبت ہے جیسی کہ ایک چیز کے دو شریکوں میں یا باپ بیٹوں میں ہونی چاہئے " تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام صفحه ۱۲۹ از قاری محمد طیب صاحب مہتمم مدرسہ دارالعلوم دیوبند پاکستانی ایڈیشن اول مطبوعہ مئی ۱۹۸۶ء نفیس اکیڈمی کراچی) نیز اپنے ایک اور بزرگ شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندی کا اپنے استاد محترم رشید احمد صاحب گنگوہی کی وفات پر لکھا ہوا مرضیہ بھی ملاحظہ فرمائیں جس میں وہ لکھتے ہیں :- زباں پر اہل اھواء کی ہے کیوں اعل مبل شاید مزید لکھتے ہیں :- اٹھا عالم سے کوئی بانی اسلام کا ثانی مرهیه از مولوی محمود الحسن دیوبندی مطبع بلالی ساڈھورہ ضلع انبالہ )
" عقیدہ نمبر ۵" وفات سرور عالم کا نقشہ آپ کی رحلت تھی ہستی گر نظیر ہستی محبوب سبحانی (مرضیه صفحه ۳) ایضاً ) اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب لکھتے ہیں کہ ” قرآنی عقیدہ یہ ہے کہ نجات صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں ممکن ہے اور قادیانی عقیدہ کے مطابق اب صرف مرزا صاحب کی تعلیم کی پیروی ہی موجب نجات ہے.“ ( صفحہ ۱۸) لدھیانوی صاحب کو ہم کس طرح عقل کی باتیں سمجھائیں معلوم ہوتا ہے کہ عقل ان کے قریب بھی نہیں پھٹکی ہم بار بار سمجھا چکے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کی الگ تعلیم کوئی نہیں ہے.تمام تعلیم جو آپ نے پیش کی ہے.قرآن ہی کی بیان کردہ تعلیم ہے.اور ایک نکتہ بھی اس سے باہر نہیں.احمدی عقیدہ یہ ہے کہ نعوذ بااللہ اگر ایک حرف بھی قرآن کریم کے خلاف تعلیم ہو تو ہر گز واجب التعمیل نہیں.حضرت مرزا صاحب کا اپنا عقیدہ بھی یہی ہے.قارئین ان مولوی صاحب کی عقل کا اندازہ لگائیں کہ ایک طرف انہوں نے کتابیں پڑھ کر اور کھنگال کر چن چن کر اعتراضات کی کچلیاں نکالی ہیں اور دوسری طرف ان تمام تحریرات کو قارئین سے چھپائے بیٹھے ہیں جو ان کے اعتراضات کو جھٹلانے والی اور ان کے پھیلائے ہوئے زہر کا تریاق ہیں.نجات حضرت مرزا صاحب کی تعلیم سے وابستہ ہے.یا رسول اللہ کی اتباع سے.اس کے متعلق مرزا صاحب کی ہزارہا تحریریں واشگاف الفاظ میں اعلان کر رہی ہیں کہ آج نجات کا ایک ہی ذریعہ ہے جو محمد رسول اللہ سے وابستہ ہے.چند تحریریں نمونہ ہم ہدیہ قارئین کرتے ہیں.اپنے دل سے پوچھ کر دیکھیں کہ اس معترض کی دیانت اور اس کے تقویٰ کا کیا حال ہو گا حضرت بانی جماعت احمد یہ فرماتے ہیں.حضرت مقدس نبی کی تعلیم یہ ہے کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہنے سے گناہ دور ہو جاتے ہیں.یہ بالکل سچ ہے اور یہی واقعی حقیقت ہے کہ جو محض خدا کو واحد لا شریک جانتا
۵۱ ہے اور ایمان لاتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی قادر یکتا نے بھیجا ہے تو بے شک اگر اس کلمہ پر اس کا خاتمہ ہو تو نجات پا جائے گا.....خدا کو واحد لاشریک سمجھنا اور ایسا مہربان خیال کرنا کہ اس نے نہایت رحم کر کے دنیا کو ضلالت سے چھڑانے کے لئے اپنا رسول بھیجا جس کا نام محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے.یہ ایک ایسا اعتقاد ہے کہ اس پر یقین کرنے سے روح کی تاریکی دور ہوتی ہے اور نفسانیت دور ہو کر اس کی جگہ توحید لے لیتی ہے.آخر توحید کا زبردست جوش تمام دل پر محیط ہو کر اسی جهان میں بہشتی زندگی شروع ہو جاتی ہے." فرمایا.( نور القرآن ۲ صفحه ۴۳ روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۹) نجات اپنی کوشش سے نہیں بلکہ خدا کے فضل سے ہوا کرتی ہے اس فضل کے حصول کے لئے خدا تعالٰی نے اپنا جو قانون ٹھرایا ہوا ہے.وہ اسے کبھی باطل نہیں کرتا وہ قانون یہ ہے.إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ لَا تَبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ اور وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلُ مِنْه - - ( ملفوظات جلد ۴ صفحه ۲۰۶) فرمایا.” اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے.یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو اعلیٰ و افضل سب نبیوں سے اور اتم و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیر الناس ہیں.جن کی پیروی سے خدائے تعالی ملتا ہے اور ظلماتی پردے اٹھتے ہیں اور اس جہان میں کچی نجات کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اور قرآن شریف جو کچی اور کامل ہدایتوں اور تاثیروں پر مشتمل ہے.جس کے ذریعہ سے حقانی علوم اور معارف حاصل ہوتے ہیں اور بشری آلودگیوں سے دل پاک ہوتا ہے.اور انسان جہل اور غفلت اور شبہات کے حجابوں سے نجات پا کر حق الیقین کے مقام تک پہنچ جاتا ہے." برا حسین احمدیہ طبع اول حاشیه در حاشیہ نمبر ۳ صفحه ۴۶۷ لدھیانوی صاحب ! مرزا صاحب جو مہدی معہود اور مسیح موعود ہونے کے دعوے دار ہیں ان پر اعتراض کرنے سے پہلے ذرا اس طرف بھی توجہ فرمائیں کہ مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی جنہیں آپ کا دیوبندی فرقہ ایک بزرگ ولی اللہ بلکہ مجدد تسلیم کرتا ہے انہوں نے کئی
بار فرمایا : - ۵۲ " سن لو حق وہی ہے جو رشید احمد کی زبان سے نکلتا ہے اور قسم کہتا ہوں کہ میں کچھ نہیں ہوں مگر اس زمانہ میں ہدایت و نجات موقوف ہے میری اتباع پر " ( تذكرة الرشيد جلد نمبر ۲ صفحہ ۷ مولفہ عاشق الہی میرٹھی مطبوعه شمس المطالع و عزیز المطالع و نامی پریس وارثی پریس میرٹھ) فرمائیے جناب لدھیانوی صاحب آپ رشید احمد گنگوہی صاحب کو جب تک دائرہ اسلام سے خارج کر کے واپس نہیں آتے اس وقت تک آپ کو احمدیوں پر حملہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے.لیکن آپ سے زیادہ تو ہم آپ کے اس بزرگ سے عدل کا سلوک کرتے ہیں اور آپ کی طرح ان پر چڑھ دوڑنے کی بجائے ان پر حسن ظن سے کام لیتے ہیں.اور سمجھتے ہیں کہ یہ سب صوفیانہ باتیں ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت اور غلامی میں انہیں یہ سب کچھ نصیب ہو رہا ہے.نہ کہ رسول اللہ کے بالمقابل یا مخالف طور پر.لیکن آپ چونکہ حسن ظن کے قائل نہیں ہیں اس لئے واجب ہے کہ رشید گنگوہی صاحب پر بھر پور حملہ کریں اور جب تک ان کے ذکر کو صفحہ ہستی سے مٹا نہ لیں احمدیت کی طرف متوجہ ہونے کی آپ کو چنداں ضرورت نہیں ہے." عقیدہ نمبر ۶" اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب لکھتے ہیں " قرآنی عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور قادیانی عقیدے کے مطابق اب یہ منصب بروزی طور پر غلام احمد قادیانی کا ہے.“ ( صفحہ ۱۸) الجواب :- حضرت بانی جماعت احمدیہ فرماتے ہیں.” ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور قرآن ربانی کتابوں کا خاتم ہے." اربعین نمبر ۴ صفحه ۶ روحانی خزائن نمبر ۷ ۱ صفحه ۴۳۶) حضرت بانی جماعت احمدیہ نے کہیں بھی یہ نہیں فرمایا کہ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النیسین نہیں رہے اور اب میں خاتم انسین ہوں.بلکہ آپ نے یہی لکھا ہے کہ میں
۵۳ بروزی طور پر خاتم النبیین ہوں.چنانچہ خود لدھیانوی صاحب نے بھی اس عنوان کے نیچے لکھا ہے." مرزا صاحب لکھتے ہیں : ا." میں بارہا بتلا چکا ہوں کہ میں بموجب آیت ” وَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ" روزی طور پر وہی خاتم الانبیاء ہوں." ایک غلطی کا ازالہ ) ۲ و پس چونکہ میں اس کا رسول یعنی فرستادہ ہوں مگر بغیر کسی نئی شریعت اور نئے دعوئی اور نئے کام کے ، بلکہ اس نبی کریم خاتم الانبیاء کا نام پاکر اور اسی میں ہو کر اور اسی کا مظہر بن کر آیا ( نزول المسیح صفحه ۲) ہوں.( بحوالہ لدھیانوی صاحب کا رسالہ ” قادیانیوں کو دعوت اسلام » صفحہ ۱۸) قارئین کرام ! دوسرے حوالہ میں مظہر کا لفظ ہی قابل غور ہے جو بتاتا ہے کہ اصل خاتم النیسین آپ نہیں ہیں.اصل خاتم انسین کوئی اور ہے اور آپ اس کے مظہر ہیں.جہاں تک لدھیانوی صاحب کی اس کوشش کا تعلق ہے کہ یہ تاثر پیدا کریں کہ بروزی طور پر خاتم ہونے کے دعوئی کا مطلب یہ ہے کہ گویا مرزا صاحب کے نزدیک اصل کا زمانہ بروز کے ظاہر ہونے کے ساتھ ختم ہو گیا اور جب بروز ظاہر ہو گیا تو اس کا زمانہ شروع ہو گیا سراسر جماعت احمدیہ پر بہتان ہے.اور حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے.جیسا کہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ خود مولانا صاحب کے پیرو مرشد بھی لفظ کل اور بروز کا استعمال کر چکے ہیں اور اس کی تشریح بھی کر چکے ہیں.بروز ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اصل ختم اور بروز شروع بروز رہتا ہی اس وقت تک ہے.جب اصل اپنی پوری شان کے ساتھ موجود رہے.بروز کا معنی اس سے مختلف سمجھنے والے کی مثال ایسی ہی ہے کہ کوئی بے وقوف شیشے میں سورج کا عکس دیکھ کر کہے کہ سورج کی اب کوئی حیثیت نہیں رہی بلکہ عکس ہی اصل ہے.یا چاند کی وساطت سے سورج کی روشنی پا کر سمجھے کہ چاند نے سورج کو منسوخ کر دیا یا کسی کا سایہ دیکھ کر یہ جاہلانہ دعوی کرے کہ اس سامیہ نے اس کو کالعدم کر دیا جس کا یہ سایہ تھا.پس جیسا کہ گذشتہ بزرگوں کی واضح تحریرات سے ثابت کیا جاچکا ہے کہ اگر کوئی بروز محمد ہونے کا دعوئی کرتا ہے تو یہ شیطانی خیال ہر گز اس کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے نعوذ باللہ محمد
۵۴ صلی اللہ علیہ وسلم کو معزول یا کالعدم کرنے کی خبیثانہ جسارت کی ہے اسی طرح بروز خاتم ہونے کے دعویدار کے متعلق یہ جاہلانہ حملہ کہ وہ اسی کو ختم کرنے کا دعویدار ہے جس کے بروز ہونے کا وہ دعوی کر رہا ہے ، یا تو پرلے درجے کی جہالت ہے یا پھر حد سے بڑھا ہوا بغض و عناد ہے، اس کے سوا کوئی اور معنے نہیں لئے جاسکتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنے مقام کے بارہ میں جو تحریرات گذشتہ صفحات میں گذر چکی ہیں بہت کافی ہیں.ان سے اہل بصیرت مطمئن ہو چکے ہیں لیکن چونکہ لدھیانوی صاحب بار بار اپنے دعوے کو دہرا رہے ہیں اس لئے اگر حضرت مرزا صاحب کی ایسی تحریرات سے ایک دو اور اقتباس پیش کر دیئے جائیں تو مضائقہ نہیں قبل اس کے کہ ہم یہ اقتباس پیش کریں ہم مولوی صاحب کو نیہ یاد دلانا چاہتے ہیں کہ یہ اعتراض اس سے بہت بڑھ کر عیسیٰ علیہ السلام پر وارد ہو گا اگر وہ دوبارہ امت محمدیہ میں تشریف لائے جیسا کہ ان مولوی صاحب کا عقیدہ ہے.کیونکہ عیسیٰ کی بعثت ثانی کے بارہ میں خود مولوی صاحب کے بزرگ جناب قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند فرماتے ہیں.بهر حال اگر خاتمیت میں حضرت مسیح علیہ السلام کو حضور سے کامل مناسبت دی گئی تھی تو اخلاق خاتمیت اور مقام خاتمیت میں بھی مخصوص مشابہت و مناسبت دی گئی.جس سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت عیسوی کو بارگاہ محمدی سے خُلقاً و خلقاً وتباو مقلماً ایسی ہی مناسبت ہے جیسی کہ ایک چیز کے دو شریکوں میں یا باپ بیٹوں میں ہونی چاہئے " تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام صفحہ ۱۲۹ از قاری محمد طیب مہتم دارالعلوم دیوبند پاکستانی ایڈیشن اول مطبوعہ مئی ۱۹۸۶ء نفیس اکیڈمی کراچی) یہ بات تو محض ان کو اعتراض کا مزہ چکھانے کے لئے کی گئی تھی تاکہ معتدل ہو کر بات کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں.اب ہم حضرت مرزا صاحب کی مزید دو تحریرات اس پر روشنی ڈالنے کے لئے پیش کرتے ہیں.جن سے آپ اندازہ لگا سکیں گے کہ حضرت مرزا صاحب نے اگر حضرت خاتم الانبیاء کا بروز ہونے کا دعویٰ کیا ہے.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر اپنا کیا مقام سمجھا ہے.فرمایا
۵۵ انظر الى برحمته و تحنن یاسیدی انا احقر الغلمان ترجمہ : اے میرے آقا میں آپ کا ادنی غلام ہوں مجھ پر محبت و شفقت کی نظر ڈالیں.پھر فرمایا." ہم پر جو اللہ تعالی کے فضل ہیں.یہ سب رسول اکرم کے فیض سے ہی ہیں.آنحضرت سے الگ ہو کر ہم سچ کہتے ہیں کہ کچھ بھی نہیں اور خاک بھی نہیں.آنحضرت کی عزت اور مرتبہ دل میں اور ہر رگ و ریشہ میں ایسا سمایا ہے کہ ان کو اس درجہ سے خبر تک بھی نہیں.کوئی ہزار تپسیا کرے ، جب کرے ، ریاضت شاقہ اور مشقتوں سے مشت استخوان ہی کیوں نہ رہ جائے مگر ہرگز کوئی سچا روحانی فیض بجز آنحضرت کی پیروی اور اتباع کے کبھی میتر آ سکتا ہی نہیں اور ممکن ہی نہیں." (الحکم ۱۱۸ مئی ۱۹۰۸ صفحه ۴) عقیدہ نمبرے" (صفحه ۱۹) اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب لکھتے ہیں " قرآن کریم کے مطابق صاحب کوثر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور قادیانی عقیدہ یہ ہے.کہ آیت إِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ مرزا صاحب کے حق میں ہے." یہ بھی سراسر ایک شیطانی جھوٹ ہے.ہمارا تو یہ ایمان ہے جو شخص یہ سمجھے کہ یہ آیت کریمہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نہیں بلکہ کسی اور کے متعلق ہے.وہ ایک بدبخت انسان ہے.لدھیانوی صاحب نے محض نمبر شمار بڑھانے کے لئے حضرت مرزا صاحب کا ایک اور الہام درج کر کے جو قرآن کریم کی آیت بھی ہے عقیدہ نمبرے کے تحت دہرا دیا ہے.حضرت مرزا صاحب نے کہیں نہیں لکھا کہ آیت اِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ کے مخاطب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہیں.بلکہ میں مخاطب ہوں.دعقید نمبر ۱۸ اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب لکھتے ہیں " قرآنی عقیدہ ہے کہ صاحب اسراء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.کمر قادیانی عقیدہ ہے کہ صاحب اسراء بھی مرزا صاحب ہیں کیونکہ آیت "سبحن الذی اسرى بعبدہ ان پر نازل ہوئی ہے.(صفحہ ۱۹) قارئین کرام ! حضرت مرزا صاحب نے ہرگز یہ نہیں لکھا کہ صاحب اسراء رسول اللہ
۵۶ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہیں اور نہ ہی یہ لکھا ہے کہ آیت " سُبْعَنَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نہیں ہے بلکہ خود مرزا صاحب کے بارے میں ہے.اس سے ثابت ہو جاتا ہے کہ قرآنی آیات کا کسی امتی پر نازل ہو جانا کیا معنے رکھتا ہے.کیونکہ مرزا صاحب نے اشارہ یا کنا.تہ کہیں بھی نہیں فرمایا کہ آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح دیسے ہی اسراء اور معراج ہوا تھا.جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوا تھا.پس قطعی طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ قرآنی آیات جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں نازل ہوئیں اگر کسی اور کے حق میں نازل ہوں.تو وہ ہرگز اپنے مقام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے برابر قرار نہیں دیتا.نہ ہی وہ اپنے تئیں خود کو اس کا اصل سمجھتا ہے بلکہ تکبر کی بجائے انکسار میں بڑھتا ہے.یہی حال حضرت مرزا صاحب سے پہلے امتیوں کا تھا.جن کو وہ آیات الہام ہوئیں جن کے مخاطب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے.پس یہ الہام معاملہ کی نوعیت کو واضح اور ہر قسم کے اعتراض کو باطل کرنے والا ہے.مولوی صاحب ایک کے بعد دوسرا اعتراض کرتے جا رہے ہیں اور محض اپنی کم ظرفی کا مظاہرہ کر رہے ہیں.ایک ہی قسم کے چند بے بنیاد اعتراضات ہیں جو ایک ہی شق کے تحت آنے چاہئیں تھے.مگر ان کو نمبر بڑھانے کی فکر پڑی ہوئی ہے.اس نوع کے تفصیلی شافی و کافی جواب ہم فصل سوم کے عقیدہ نمبرا کے جواب میں دے چکے ہیں.عقیدہ نمبر؟ " - اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب نے دو باتیں بیان کی ہیں.ایک یہ کہ تمام مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج جسمانی کے قائل ہیں.لیکن مرزا صاحب معراج جسمانی کے قائل نہیں بلکہ معراج روحانی کے قائل ہیں.اور کہتے ہیں کہ معراج نہایت اعلیٰ درجہ کا کشف تھا.دوم - مرزا صاحب کہتے ہیں کہ اس قسم کے کشوف مجھے بھی ہوتے ہیں.گویا مرزا صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خصوصیت کے بھی اپنے وجود میں پائے جانے کا اقرار کرتے ہیں.کیا معراج جسمانی تھا ؟ اس سے تو ہمیں انکار نہیں کہ گذشتہ صدیوں میں علماء کی ایک کثیر تعداد نظر آتی ہے جو
روحانی معراج کی بجائے جسمانی معراج کی قائل ہے اور اس سے بھی انکار نہیں کہ صحابہ کی کثیر تعداد بھی رفع جسمانی کی قائل دکھائی دیتی ہے.یہاں بھی ایک اجماع کا سا منظر پیدا ہو جاتا ہے لیکن در حقیقت یہ اجماع محض دور سے دکھائی دینے والا اجماع ہے.اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس اجماع کے خلاف حضرت عائشہ صدیقہ کی بخاری شریف میں یہ قطعی گواہی ملتی ہے کہ اسراء کے دوران رسول خدا کا جسم زمین سے غائب نہیں ہوا لیکن اللہ تعالی نے آپ کی روح کا اسراء کیا تھا.اور آنحضرت بیدار ہوئے تو آپ مسجد الحرام میں ہی تھے.پس دو باتوں میں سے ایک لازماً ماننی پڑے گی.یا حضرت عائشہ صدیقہ کی قطعی گواہی سے جسے علماء اجماع سمجھ رہے ہیں وہ اجماع نہیں رہا تھا کیونکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنما کی اس شہادت نے اس اجماع کو توڑ دیا یا پھر یہ نتیجہ نکالنا پڑے گا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنها اجماع کے خلاف تھیں.اس لئے آج کل کے علماء کو نعوذ بااللہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے خلاف بھی منکر اجماع والے فتوے دینے پڑیں گے.پس عافیت اسی میں ہے کہ اس مسئلہ کو اجماع کے مسئلہ سے قطع نظر قرآن و سنت اور عقل کی کسوٹی پر مزید پر کھا جائے اور معلوم کیا جائے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنما کا مسلک درست تھا جن سے آدھا دین امت نے سیکھا ہے یا دیگر صحابہ کا.پس اگر معراج جسمانی کے انکار اور معراج کے کشفی ہونے کا اقرار کرنے کی بناء پر حضرت مرزا صاحب اور ان کی جماعت پر خلاف اجماع امت اور " صریح کفر کا فتویٰ لگانا درست ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں لدھیانوی صاحب کیا ارشاد فرمائیں گے.معزز قارئین! اب ہم یہ ثابت کرتے ہیں کہ واقعی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا معراج کو کشفی واقعہ تسلیم کرتی تھیں.نیز حضرت معاویہ اور حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ بھی حضرت عائشہ کے ہم خیال ہیں :- ا.سیرۃ ابن ہشام میں لکھا ہے :- " قال ابن اسحاق و حدثنی بعض آل ابی بکر ان عائشتہ زوج النبی صلی اللہ علیہ و سلم كانت تقول ما فقد جسد رسول اللہ صلی الله عليه وسلم ولكن الله اسرى
۵۸ بروحه " ( سيرة ابن مشام جلد اول ذكر الاسراء والمعراج زیر عنوان حديث عائشته عن مسراه صلی اللہ علیہ و سلم صفحہ ۳۹۹) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ فرمایا کرتی تھیں کہ اسراء کے دوران رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم زمین سے غائب نہیں ہوا.لیکن اللہ تعالی نے آپ کی روح کو سیر کرائی تھی.ان معاویه ابن ابی سفیان كان اذا سئل عن مسرى رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال كانت روباء من الله صادقة " ( سيرة ابن هشام جلد اول ذکر الاسراء و المعراج زیر عنوان حدیث معادی ته عن مسراه صلی اللہ علیه و سلم صفحه ۴۰۰) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے جب بھی اسراء کے بارے میں پوچھا جاتا تھا تو آپ یہی جواب دیتے تھے کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے ایک کچی خواب تھی.سيرة ابن عشام کے مصنف لکھتے ہیں.فلم بنکر ذلك من قولهما لقول الحسن ان هذه الاية نزلت في ذلك قول الله تبارک تعالی" و ما جعلنا الرویا التي اریناک الا فتنة للناس - (سيرة ابن هشام جلد اول ذكر الاسراء و المعراج زیر عنوان جوازان يكون الاسراء رويا - صفحه ۴۰۰) ترجمہ : حضرت عائشہ اور حضرت معاویہ کا اسراء روحانی کا عقیدہ جھٹلایا نہیں جا سکتا.کیونکہ حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ قرآن کریم کی یہ آیت اسراء کے بارے میں نازل ہوئی ہے وما جعلنا الرويا........الخ ابن اسحاق ۱۵۰ ھ میں فوت ہوئے اور ابن مشام کی وفات ۲۱۸ ھ میں ہوئی.سیرت کے اعتبار سے یہ دونوں ہی قدیم ترین ہیں.تفسیر ابن جریر میں بھی لکھا ہے کہ حضرت معاویہ رہ ، حضرت عائشہ اور حضرت حسن بصری اسراء روحانی کے قائل تھے.( تفسیر ابن جریر جلد نمبر ۸ سورۃ بنی اسرائیل زیر آیت سبحان الذی اسرئی بعہد، صفحه ۱۳)
۵۹ تفسیر ابن جریر کے مصنف ( ۳۱۰ ھ ) میں فوت ہوئے تھے.تفسیر کشاف کے مصنف امام زمحشری لکھتے ہیں " و اختلاف في انه كان في اليقظة ام فى المنام فعن عائشہ رضی الله عنها انها قالت والله ما فقد جسد رسول الله صلى الله علیه و سلم و لكن عرج بر و حد و عن معاوية انما عرج بر و حد و عن الحسن كان في المنام رو با راها ( تفسیر کشاف جلد اول سورة بنی اسرائیل زیر آیت سجن الذی اسری بعیده صفحه ۵۴۰) ترجمہ : اس بات میں اختلاف ہے کہ اسراء بیداری کی حالت میں ہوا یا نیند کے دوران.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ہے.اللہ کی قسم اسراء کے دوران آپ کا جسم زمین سے جدا نہیں ہوا بلکہ آپ کی روح کو معراج ہوا ہے حضرت معاویہ بھی معراج روحانی کے قائل ہیں حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ اسراء کے واقعات خواب کے نظارے ہیں جو آپ نے دیکھے.امام رازی رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں:- " اسراء کی کیفیت میں اختلاف کیا گیا ہے مسلمانوں میں سے اکثر گروہ اسراء کے جسمانی ہونے پر متفق ہیں اور قلیل تعداد یہ کہتی ہے کہ اسراء روحانی تھا.امام ابن جریر سے ان کی تفسیر میں حذیفہ سے مروی ہے کہ یہ خواب تھی اور آپ کا جسم زمین سے جدا نہیں ہوا بلکہ آپ کی روح کو اسراء ہوا تھا اسی طرح امام ابن جریر نے حضرت عائشہ اور حضرت معاویہ کا اسراء روحانی کا عقیدہ بھی درج کیا ہے " ( تفسیر رازی جزو نمبر ۲۰ سورۃ بنی اسرائیل زیر آیت سجن الذی اسری بعیدہ صفحہ ۴۷) امام ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اپنی کتاب زاد المعاد کی جلد اول صفحہ ۳۰۲ پر مذکورہ بالا مسلک نقل کیا ہے نیز لکھا ہے کہ حضرت حسن بصری سے بھی ایسا ہی منقول ہے.علامہ شیلی لکھتے ہیں :- عبداللہ بن عباس اور بہت سے صحابہ کا اعتقاد تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج میں خدا کو آنکھوں سے دیکھا.حضرت عائشہ (رضی اللہ تعالٰی عنها ) نہایت اصرار سے اس کے مخالف تھیں.امیر معاویہ کو معراج جسمانی سے انکار تھا " ( سيرة النعمان مصنفہ شبلی جلد ۲ صفحه ۲۸)
صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے معراج کے واقعات بیان کرنے کے بعد فرمایا - " فَاسْتَيْقَظَ وَ هُوَ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ" بخاری کتاب التوحید باب و قوله كلم الله موسى تكليما) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پھر بیدار ہو گئے اور آپ اس وقت مسجد حرام میں تھے.مندرجہ بالا حوالہ جات اس امر کے ثبوت کے لئے کافی ہیں کہ کوئی شریف النفس مسلمان حضرت مرزا صاحب کے معراج جسمانی کے انکار سے ان پر کفر و الحاد کے تیروں سے یلغار نہیں کر سکتا.کیونکہ اس کی اس یلغار کی زد میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنما حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ ، حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ بھی آجائیں گے.اس طرح سوائے اس کے کہ وہ خود اپنی بد بختی پر مہر ثبت کرے اس کو کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکتا.باقی رہ گئی یہ بات کہ مرزا صاحب کہتے ہیں کہ مجھے بھی اعلیٰ درجہ کے کشف ہوتے رہے ہیں تو یہ کوئی قابل اعتراض امر نہیں ہے اس سے پہلے یہ بحث گذر چکی ہے کہ ہر دور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بچے امتیوں کو رویاء و کشوف اور الہامات سے نوازا گیا ہے.نعوذ بااللہ اس کا یہ مطلب نہیں نکل سکتا کہ سب کے سب لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برابری کرنے اور شریک ہونے کے دعویدار تھے.ہم بار بار قارئین کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ یہ مولوی صاحب کا افتراء ہے.ہم حضرت مرزا صاحب کو ہرگز ہرگز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم پلہ اور برابر نہیں سمجھتے.اگر کوئی حضرت مرزا صاحب کے دل کی کیفیت معلوم کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ نظم و نثر میں آپ کا وہ کلام پڑھے جو اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت میں ڈوبا ہوا لافانی و لاثانی کلام ہے.آپ فرماتے ہیں.ہے." ہم نے ایک ایسے نبی کا دامن پکڑا ہے جو خدا نما ہے.کسی نے یہ شعر بہت ہی اچھا کہا ہر دوسرا محمد عربی پادشاه کرے ہے روح قدس جس کے در کی دربانی اے خدا تو نہیں کہہ سکوں یہ کہتا ہوں کہ اس کی مرتبہ دانی میں ہے خدادانی
ہم کس زبان سے خدا کا شکر کریں جس نے ایسے نبی کی پیروی ہمیں نصیب کی، جو سعیدوں کی ارواح کے لئے آفتاب ہے.جیسے اجسام کیلئے سورج وہ اندھیرے کے وقت ظاہر ہوا اور دنیا کو اپنی روشنی سے روشن کر گیا.وہ نہ تھکا نہ ماندہ ہوا جب تک کہ عرب کے تمام حصہ کو شرک سے پاک نہ کر دیا.وہ اپنی سچائی کی آپ دلیل ہے کیونکہ اس کا نور ہر ایک زمانہ میں موجود ہے اور اس کی کچی پیروی انسان کو یوں پاک کرتی ہے کہ جیسا ایک صاف اور شفاف دریا کا پانی میلے کپڑے کو." چشمه معرفت حصہ دوم صفحه ۲۸۹ ، روحانی خزائن جلد نمبر ۲۳ صفحه ۳۰۳٬۳۰۲) پھر فرماتے ہیں :- ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمرد نبی اور زندہ نبی اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبی صرف ایک مرد کو جانتے ہیں یعنی وہی نبیوں کا سردار - رسولوں کا فخر - تمام مرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے.جس کے زیر سایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہیں مل سکتی تھی.....سو آخری وصیت یہی ہے کہ ہر روشنی ہم نے رسول نبی امی کی پیروی سے پائی ہے اور جو شخص اس کی پیروی کرے گا وہ بھی پائے گا." پھر لکھتے ہیں :.) سراج منیر صفحہ ۷۲ روحانی خزائن جلد نمبر ۱۲ صفحه ۸۲) اگر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت نہ ہوتا.اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں کبھی یہ شرف مکالمہ و مخاطبہ ہرگز نہ پاتا." تجلیات الیه صفحه ۲۴ صفحه ۲۵ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۱۴۴۴ پھر اپنے اردو منظوم کلام میں فرماتے ہیں.ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے کوئی دیں دین محمد " سا نہ پایا ہم نے کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلائے یہ ثمر باغ محمد سے ہی کھایا ہم نے
تیری الفت سے ہے معمور میرا ہر ذرہ اپنے سینہ میں یہ اک شہر بسایا ہم نے ( آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۲۵٬۲۲۴) پھر اپنے عربی منظوم کلام میں اپنے محبوب کا ان الفاظ میں ذکر فرماتے ہیں.انظر الى سیدی Կ برحمة و تحنن احقر الغلمان (اے میرے محبوب ) مجھ پر رحمت اور شفقت کی نظر کیجئے اے میرے آقا میں آپ کا ناچیز غلام ہوں.من ذکر وجهک با حديقة بهجتی لم الخل في لحظ و لا في ان آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد نمبر ۵ صفحه ۵۹۴) اے میری خوشی اور مسرت کے چشمے میں کسی لحظہ اور کسی وقت آپ کے ذکر سے خالی نہیں ہوتا.اپنے فارسی منظوم کلام میں اپنے آقا سے عشق کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں.کرے دلم ہر دارم فدائے خاک احمد وقت قربان محمد تریاق القلوب روحانی خزائن جلد نمبر ۱۵ صفحه ۳۸۳) میرا سراحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خاک پر فدا ہے اور میرا دل ہر وقت آپ پر قربان.وگر استاد را نامی ندانم که خواندم ور دبستان محمد ) تریاق القلوب صفحه ۲۱۸ روحانی خزائن صفحه ۳۸۳ جلد نمبر (۱۵) مجھے کسی اور استاد کا نام معلوم نہیں کیوں کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ہے.آپ تو آنحضرت" کے مقابل پر اپنی حقیقت ہی کوئی نہیں سمجھتے بلکہ جو کچھ آپ نے پایا سب آنحضرت کا ہی فیض قرار دیتے ہیں.
عقیدہ نمبر ۱۰ اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب لکھتے ہیں کہ قرآنی عقیدہ ہے کہ قاب قوسین کا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مختص ہے مگر قادیانی عقیدہ ہے کہ یہ منصب مرزا صاحب کو حاصل ہے." (صفحہ ۱۹) معزز قارئین ! یہ بھی وہی افتراء چل رہا ہے جسے لدھیانوی صاحب مختلف نمبروں کے تحت لاتے ہیں.اس کا کافی و شافی جواب دیا جا چکا ہے.یہاں صرف مرزا صاحب کی حسب ذیل عبارتوں پر اکتفا کرتے ہیں جو حضرت مرزا صاحب پر ایسا بیہودہ الزام لگانے والے کو مفتری ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں.اور اس بات پر ہمیشہ کے لئے گواہ ہیں کہ حضرت مرزا صاحب آیت دنی فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ او ادنی کا مصداق ہر چند کہ یہ آپ پر بھی الہام ہوئی ، اپنے آقا و موٹی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی یقین کرتے تھے.آپ فرماتے ہیں.سید الانبیاء و خیر الورئی مولانا و سید نا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم الشان روحانی حسن لے کر آئے جس کی تعریف میں یہی آیت کریمہ کافی ہے.دنی فَتَدَلَّى الكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَو ادتي" (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد نمبر ۲۱ صفحه ۲۲۰) ایک اور جگہ فرماتے ہیں مقام شفاعت کی طرف قرآن شریف میں اشارہ فرما کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے انسان کامل ہونے کی شان میں فرمایا ہے دَتَی فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى" ریویو آف ریلیجنز جلد انمبر ۵ صفحه ۱۸۳) علاوہ ازیں اپنی کتاب " سرمہ چشم آریہ " میں حضرت مرزا صاحب نے بڑی تفصیل کے ساتھ مذکورہ بالا آیت کی بیسیوں صفحات پر مشتمل انتہائی دقیق تفسیر بیان فرماتے ہوئے اپنے آقا و مولی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی اس مقام ارفع و اعلیٰ و اکمل کا مصداق قرار دیا ہے.اصل بات صرف اتنی ہے حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ یہ
آیت مجھ پر بطور الهام نازل ہوئی ہے.اور یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے.جیسا کہ آپ اسی فصل کے عقیدہ نمبرا کے جواب میں اس کی تفصیل پڑھ چکے ہیں.سر راہ ہم آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ حملہ آور لدھیانوی صاحب کی نظریا تو امت کے گذشتہ صالحین کے اقوال پر پڑی ہی نہیں یا پھر حضرت مرزا صاحب پر حملہ کرتے وقت انہوں نے قارئین سے ان کو چھپا لیا ہے.چنانچہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مقام دنی فتدلی اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی مختص ہے.مگر ہر وہ مومن جو کمینگی کی پستی سے نکل آئے ایک رنگ میں اس مقام رفع کی زیارت کی سعادت پاتا ہے." آپ فرماتے ہیں :- " ازین حضیض دنا ء ت چو بگذری شائد که تا دنی قندلی صعود خود بینی دیوان معین الدین ردیف الياء ) کہ اگر تو کمینگی کی پستی سے باہر نکل جائے تو روحانی بلندیوں میں ترقی کرتے کرتے دنی ندلی کے مقام پر چڑھ جائے گا.اسی طرح بحر العلوم مولوی عبدالعلی صاحب فرماتے ہیں.وایس مقام باصالت خاص به خاتم النبیین است و به وراثت کمال متابعت او کمل اولیاء رازین خطی است " (مثنوی دفتر دوئم حاشیه صفحه ۷۷ ) یعنی قاب قوسین کا یہ مقام اصلی طور پر تو خاتم النبین کے ساتھ مختص ہے اور کامل درجہ کے اولیاء کو بھی آپ کی کامل اتباع کے نتیجہ میں وراثت کے طور پر اس مقام سے حصہ ملتا ہے.عقیدہ نمبر " اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب لکھتے ہیں." قرآنی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی اور اس کے فرشتے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں مگر قادیانی عقیدہ ہے کہ خدا عرش پر مرزا صاحب کی تعریف کرتا ہے اور اس پر درود بھیجتا ہے " (صفحہ ۲۰) یہاں لدھیانوی صاحب نے حسب عادت ایک تو اپنی اسی کمینگی کو دہرایا ہے کہ سراسر ظلم اور
۶۵ تعدی کی راہ سے جماعت احمدیہ کی طرف عقیدے بنا کر منسوب کرتے چلے جا رہے ہیں.ایک بھی احمدی یہ عقیدہ نہیں رکھتا کہ خدا تعالیٰ اور اس کے فرشتے ہمارے آقا و مولیٰ سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں بلکہ حضرت مرزا صاحب پر سلام اور درود بھیجتے ہیں.دوسرے نمبر پر لدھیانوی صاحب نے اس دجل سے کام لیا ہے کہ گویا قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق اللہ تعالٰی اور اس کے فرشتے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور سلام بھیجتے ہیں لیکن آپ کے امتیوں کی طرف اس بات کو منسوب کرنا گویا قرآن کریم کے خلاف ہے اور کلمہ کفر ہے.پتہ نہیں یہ مولوی صاحب کسی مدرسے میں قرآن پڑھے ہیں یا کتنی بار قرآن پڑھے ہیں جن کو اس آیت کا علم ہی نہیں کہ جس میں اللہ تعالٰی امت محمدیہ کو مخاطب کر کے فرمانا ہے - هُوَ الَّذِي يُصَلِّى عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَلِيُخْرِ جَكُمْ مِنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بالمؤمِنينَ رَحِيماً (احزاب آیت نمبر ۴۴) کہ اللہ تعالٰی اور اس کے فرشتے سب مومنوں پر درود بھیجتے ہیں تاکہ وہ اندھیروں سے روشنی میں نکلیں.گویا عرش کا خدا اور اس کے فرشتوں کا سب سچے مومنوں پر درود بھیجنا نہ صرف یہ کہ قرآن سے ثابت ہے بلکہ اس درود کے نتیجہ میں قسما قسم کی ظلمتوں سے نکل کر نور میں داخل ہوتے ہیں.پس اگر لدھیانوی صاحب کی یہ بد نصیبی ہے کہ نہ انہیں ایسے مومنوں کا علم ہے کہ خدا اور اس کے فرشتے جن پر درود بھیجتے ہیں اور نہ کبھی خود خدا اور اس کے فرشتوں کے درود کے مورد بنے ہیں تو ہمیشہ کے اندھیروں کی جو زندگی انہوں نے اپنے لئے قبول کرلی ہے انہیں کو مبارک ہو.جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر خدا کے درود کا تعلق ہے وہ تو مومنوں پر درود سے بہت ارفع اور اعلیٰ ہے اور حسب مراتب اپنی ایک الگ شکل رکھتا ہے چنانچہ حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں دنیا میں کروڑہا ایسے پاک فطرت گزرے ہیں اور آگے بھی ہوں گے لیکن ہم نے سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ اور سب سے خوب تر اس مرد خدا کو پایا ہے جس کا نام ہے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم - إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَةُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبَتِي يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْلِيماً" چشمه معرفت روحانی خزائن جلد نمبر ۲۳ صفحه (۳۰۱)
YY عقید و نمبر ۴۱۴ لدھیانوی صاحب اس عنوان کے تحت لکھتے ہیں." مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود گرامی باعث تخلیق کائنات ہے.آپ کا وجود باجود نہ ہوتا تو کائنات وجود میں نہ آتی.لیکن قادیانیوں کا عقیدہ ہے کائنات صرف مرزا غلام احمد صاحب کی خاطر پیدا کی گئی ہے.وہ نہ ہوتے تو نہ آسمان و زمین وجود میں آتے نہ کوئی نبی ولی پیدا ہو تا.چنانچہ مرزا صاحب کا الہام ہے لولاک لما خلقت الافلاک ( حقیقة الوحی صفحہ 99 ) یعنی اگر میں تجھے پیدا نہ کرتا تو آسمانوں کو پیدا نہ کرتا " (صفحہ ۲۰) معزز قارئین! اس حدیث قدسی کا ایک تو ظاہر و باہر معنی یہ ہے کہ تمام کائنات حجر و شجر اور تمام تر مخلوقات پیدا کرنے کا اعلیٰ و ارفع مقصد خلیفہ اللہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کرنا تھا.اور اگر یہ اعلیٰ و ارفع مقصد پیش نظر نہ ہوتا تو یہ ساری پیدائش عبث جاتی یہ وہ معانی ہیں جن پر سو فیصدی بغیر کسی استثناء اور بغیر کسی تاویل کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایمان لائے تھے اور جماعت احمدیہ کا بھی انہی معنوں پر مکمل غیر مشروط ایمان ہے.یہ امر کہ مولوی صاحب بالا رادہ فریب کاری سے کام لے رہے ہیں اس ایک بات سے ہی قطعی طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے حقیقتہ الوحی کے جس صفحہ پر یہ الہام درج فرمایا ہے.اور جس کا حوالہ لدھیانوی صاحب نے دیا ہے اس صفحہ پر اس الہام کی حسب ذیل تشریح درج ہے.جو یقیناً مولوی صاحب نے پڑھی ہو گی.اور اس کے باوجود ظالمانہ حملے کرنے سے باز نہیں آئے.جس شخص کو کوئی الہام ہوتا ہے.وہی اس کے معنے بتانے کا سب سے اول اہل اور حقدار ہے.وہی اس کے معنوں کو صحیح سمجھتا ہے.اور اس کے برعکس تشریح کر کے اس کی طرف منسوب کرنے کا ہرگز کوئی مجاز نہیں لیکن افسوس کہ اس لدھیانوی مولوی نے اپنی خصلت بنا رکھی ہے کہ پہلے ایک غلط توجیہہ اور عقیدہ کسی کی طرف ناحق منسوب کرتے ہیں اور پھر بے باکانہ حملہ شروع کر دیتے ہیں.اب قارئین وہ تشریح پڑھیں.حضرت مرزا صاحب اس کی تشریح میں فرماتے ہیں " ہر ایک عظیم الشان مصلح کے وقت میں روحانی طور پر نیا آسمان اور نئی زمین بنائی جاتی "
۶۷ ہے یعنی ملائک کو اس کے مقاصد کی خدمت میں لگایا جاتا ہے.اور زمین پر مستعد طبیعتیں پیدا کی جاتی ہیں پس یہ اسی کی طرف اشارہ ہے ".) حقیقۃ الوحی حاشیہ صفحہ 99 طبع اول ، روحانی خزائن جلد نمبر ۲۲ حاشیه صفحه ۱۰۲) اس حوالے میں مزید قابل غور بات یہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے نزدیک ان معنوں کا محدود اطلاق صرف آپ پر ہی نہیں بلکہ تمام انبیاء اور مامورین پر ہوتا ہے.اس ضمن میں ہم حضرت سید عبد القادر جیلانی علیہ الرحم کا یہ قول ہدیہ قارئین کرتے ہیں تاکہ مولوی صاحب کے فاسدانہ خیالات کا موازنہ بزرگان سلف سے کر کے حقیقت حال کو سمجھ جائیں.حضرت عبد القادر جیلانی رحم اللہ علیہ فرماتے ہیں - هم شحن البلاد والعباد بهم يدفع البلاء عن الخلق و بهم يمطرون و بهم يمطر الله السماء وبهم تنبت الأرض (الفتح الربانی مجلس نمبر ۱۲ صفحا ملک چنن الدین تاجر کتب کوچہ گلے زیاں کشمیری بازار لاہور ) یعنی اولیاء اللہ کی وجہ سے آسمان بارش برساتا اور زمین نباتات اگاتی ہے اور وہ ملکوں اور انسانوں کے محافظ ہیں انہیں کی وجہ سے مخلوقات پر سے بلا ملتی ہے.عقیدہ نمبر ۱۳ اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب لکھتے ہیں :- قادیانی عقیدہ یہ ہے کہ مرزا صاحب تمام انبیاء سے افضل ہیں " (صفحہ ۲۰) معزز قارئین ! مولوی صاحب کو افتراء کرنے کی ایسی گندی عادت پڑ چکی ہے کہ کلی بے باک ہو چکے ہیں ان کے گذشتہ تمام اعتراضات بھی جھوٹ ہی تھے مگر یہ تو جھوٹ کے اوپر ایک اور جھوٹ کا طومار ہے.اس مسئلہ کا اصل حل تو یہی ہے کہ قارئین حضرت مرزا صاحب کی ان تحریرات کا خود مطالعہ کریں جو نظم و نثر میں اپنے سینڈو مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں آپ نے تحریر فرمائی ہیں.اس نوع کی پہلے بہت سی تحریریں گذر چکی ہیں لیکن نمونتہ حسب "
۶۸ ذیل چند تحریریں ہم ہدیہ قارئین کرتے ہیں تاکہ ان میں سے ہر منصف مزاج اس حقیقت کو پا جائے کہ لدھیانوی صاحب ظلم و افتراء میں سب حدیں پھلانگ گئے ہیں.حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں: اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم مرتبہ کوئی اور کتاب ہے " ایک اور جگہ فرماتے ہیں :- (کشتی نوح صفحه ۱۳ روحانی خزائن جلد نمبر ۱۹ صفحه ۴) ”ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو سب نبیوں سے افضل اور اعلیٰ اور خاتم الانبیاء تھے " ) حقیقت الوحی صفحه ۳۹۰ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۰۵) پھر فرماتے ہیں وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا.یعنی انسان کامل کو.وہ ملائک میں نہیں تھا.نجوم میں نہیں تھا.قمر میں نہیں تھا.آفتاب میں بھی نہیں تھا.وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا.وہ لعل اور یا قوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا.غرض وہ کسی چیزا رضی اور سماوی میں نہیں تھا.صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ و ارفع فرد ہمارے سید و مولیٰ سید الانبیاء سید الاحیاء محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.“ مزید لکھتے ہیں :.( آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد نمبر ۵ صفحه (۲۲۰) " میں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے ( ہزار ہزار درود اور سلام اس پر ) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے اس کے عالی مقائم انتہا معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں.افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا.وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا.اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی.اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی.اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء
۶۹ اور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اس کی مرادیں اس کی زندگی میں اس کو دیں." ) حقیقت الوحی روحانی خزائن جلد نمبر ۲۲ صفحه ۱۱۹۴۱۱۸) ایک اور جگہ پر یوں فرماتے ہیں " اگر کسی نبی کی فضیلت اس کے ان کاموں سے ثابت ہو سکتی ہے جن سے بنی نوع کی سچی ہمدردی سب نبیوں سے بڑھ کر ظاہر ہو تو اے سب لوگو ! اٹھو اور گواہی دو کہ اس صفت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں....اندھے مخلوق پرستوں نے اس بزرگ رسول کو شناخت نہیں کیا جس نے ہزاروں نمونے کی ہمدردی کے دکھلائے.لیکن اب میں دیکھتا ہوں کہ وہ وقت پہنچ گیا ہے.کہ یہ پاک رسول شناخت کیا جائے چاہو تو میری بات لکھ رکھو...اے سننے والو ! سنو ! اور سوچنے والو! سوچو اور یاد رکھو کہ حق ظاہر ہو گا اور وہ جو سچا نور ہے چپکے گا." ( مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۳۰۷٬۳۰۶) دراصل یہ مولوی صاحب تلیس اور دجل میں چوٹی کے ماہر ہیں اور حضرت مرزا صاحب کے الہامات اور دیگر احمدیوں کی تحریرات کو ایسے ایسے معنے پہناتے ہیں کہ جن کا تصور بھی کسی احمدی کے لئے کفر کا درجہ رکھتا ہے.پہلے یہ من گھڑت کفران کی طرف منسوب کرتے ہیں اور پھر کافر کافر کا شور مچاتے ہیں.ہے کہ مولوی صاحب نے اپنے اعتراض کی ایک بناء تو حضرت مرزا صاحب کے اس الہام پر ڈالی آسمان سے کئی تخت اترے پر تیرا تخت سب سے اونچا بچھایا گیا " اور ساتھ ہی یہ الزام بھی لگا دیا کہ نعوذ بااللہ اس الہام سے مراد یہ ہے کہ حضرت آدم سے لے کر مرزا صاحب کے زمانہ تک جتنے تخت آسمان سے اتارے گئے ان میں سے سب سے اونچا تخت مرزا صاحب کا تھا نہ کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا.حیرت ہے کہ مولوی ہو کر اور عالم دین ہونے کے دعویدار بن کر کس طرح دلیری سے جھوٹ بولتے ہیں.حضرت مرزا صاحب کے اس الہام کا یہ معنی جو یہ مولوی صاحب اس الهام کی طرف منسوب کر رہے ہیں.حضرت مرزا صاحب اور ہر احمدی کے نزدیک کفر ہے.اس کا
صرف اتنا معنی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اولیاء اور علماء کو جو روحانی مراتب عطا ہونگے ان میں مرزا صاحب کا مرتبہ اس وجہ سے سب سے بالا ہے کہ امت محمدیہ میں آپ کو الامام المہدی کا منصب عطا ہوا ہے اور یہ وہ منصب ہے جس کے متعلق گذشتہ بہت سے رفیع المرتبہ بزرگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ امت محمدیہ میں مختلف روحانی درجے پانے والوں میں سے سب سے اونچا درجہ امام مہدی علیہ السلام کا ہو گا.مذکورہ بالا الہام کے علاوہ حضرت مرزا صاحب کے بعض اشعار پیش کر کے بھی مولوی صاحب نے اپنے بہتان کو تقویت دینے کی کوشش کی ہے.مثلاً آپ کا یہ شعر انبیاء گرچہ بودہ نہ بے من بہ عرفاں نہ کم رم نہ کسے - 1 یہ شعر لکھ کر بڑے فخریہ انداز میں مولوی صاحب نے یہ دعویٰ کر دیا کہ یہ بات ثابت ہو گئی کہ نعوذ باللہ حضرت مرزا صاحب انبیاء میں سے کسی سے کم تر نہ ہونے کے دعوے دار ہیں اور آنحضرت بھی اسی زمرے میں شامل ہیں جن کی مرزا صاحب بات کر رہے ہیں.ہم جو بار بار ان لدھیانوی صاحب کو دجل اور تلیس کا ماہر قرار دے رہے ہیں یہ کوئی نا واجب بات نہیں.یہی اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے.کیونکہ اگلا شعر بالبداہت یہ بتا رہا ہے کہ حضرت مرزا صاحب جب کل انبیاء کی بات کرتے ہیں تو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا ریب سب سے افضل قرار دیتے ہیں.اور جہاں محمد رسول اللہ کے سوا دیگر انبیاء کی معرفت کی بات کرتے ہیں وہاں آپ کی امت میں پیدا ہونے والے امام مہدی کو معرفت میں کسی اور سے کم نہیں سمجھتے کیونکہ امام مہدی نے معرفت کے پیالے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کوثر سے پئے ہیں جبکہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور نبی کو عرفان کا ایسا کوثر عطا نہیں کیا چنانچہ مولوی صاحب کے پیش کردہ شعر سے بالکل اگلا شعر یہ ہے.وارث مصطفى شدم یقیں شده رنگیں برنگ یار حسین ( نزول المسیح صفحہ 19 طبع اول ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۷۷) کہ میں اگر دوسرے انبیاء سے شان میں کم تر نہیں ہوں تو وجہ یہ ہے کہ میں محمد مصطفیٰ صلی
41 اللہ علیہ وسلم کا وارث ہوں اور اپنے سب سے حسین یار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگ میں رنگین ہوں.اب بتائیے کہ جس مولوی صاحب نے پہلا شعر پڑھ لیا تھا.اور اسے احباب کے سامنے پیش کیا ہے اس کو دو سرا شعر لکھتے ہوئے آخر کیا تکلیف تھی اور کیوں اس شعر کو قارئین سے چھپائے رکھا ؟ وجہ واضح ہے کہ ان کی تلیس کا بھانڈا پھوٹ جاتا اور لوگ جان لیتے کہ پہلے شعر میں جس زمرہ انبیاء کا ذکر ہے اس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم شامل نہیں بلکہ آپ ان سے بالا تر مقام پر فائز ہیں.جو سید الانبیاء کا مقام ہے.جہاں تک اس بحث کا تعلق ہے کہ حضرت مرزا صاحب کس رنگ میں علم و معرفت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا گذشتہ انبیاء میں سے کسی سے کم تر نہیں تھے تو یہ دعوئی منکرین مرزا صاحب کے لئے بے شک تکلیف کا باعث ہو لیکن ہرگز ایسا دعویٰ نہیں جیسے غیر اسلامی اور باطل قرار دیا جا سکے.تمام دنیا پر یہ بات خوب روشن ہو چکی ہے کہ حضرت مرزا صاحب کا اصل دعوئی یہی ہے کہ آپ وہی موعود امام مہدی ہیں جن کی بعثت کا وعدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا.پس آپ چونکہ یہ کامل یقین رکھتے تھے اس لئے لازم تھا کہ آپ کامل یقین کے ساتھ اپنا وہی مقام سمجھتے جو امام مہدی کا مرتبہ اور مقام ہے.اس سلسلہ میں کبار علماء اور صالحین امت کی حسب ذیل تحریرات ہر منصف مزاج قاری کو مطمئن کرنے کے لئے کافی ہونگی.چنانچہ لکھا ہے المهدى الذى يحبى فى اخر الزمان فانه يكون في الاحكام الشرعية تابعا لمحمد صلى الله عليه وسلم وفى المعارف والعلوم والحقيقة تكون جميع الانبياء والأولياء تابعين له كلهم ( شرح فصوص الحکم عبد الرزاق قاشانی صفحه ۵۳٬۵۲ مطبع مصطفی البابی الحلبی مصری ) کہ آخری زمانہ میں جو مہدی آئے گا وہ شرعی احکام میں تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہو گا لیکن معارف علوم اور حقیقت کے لحاظ سے آپ کے سوا تمام انبیاء اور اولیاء اس کے تابع ہوں گے اور اس کی رتبہ وہ اگلے فقرے میں یوں بیان فرماتے ہیں لان باطنہ باطن محمد صلی اللہ علیہ و سلم کہ مہدی کا باطن حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا باطن ہو گا.حضرت شاہ ولی اللہ صاحب امت محمدیہ میں آنے والے مسیح کی شان میں لکھتے ہیں :-
: : ۷۲ و حق له ان ينعكس فيه انوار سید المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم ويزعم العامة انه اذا نزل الى الأرض كان واحدا من الامة كلابل هو شرح للاسم الجامع المحمدى ونسخة منتسخة منه الخير الكثير صفحه ۷۲ مطبوعہ مدینہ پریس بجنور ) یعنی آنے والے مسیح موعود کا یہ حق ہے کہ اس میں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار کا عکس ہو عام لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ جب وہ دنیا میں آئے گا تو وہ محض ایک امتی ہو گا ایسا ہرگز نہیں بلکہ وہ تو اسم جامع محمدی کی پوری تشریح ہو گا اور اس کا دوسرا نسخہ (TrueCopy) ہو گا پس اس میں اور ایک عام امتی کے درمیان بہت بڑا فرق ہو گا.پھر گیارہویں صدی کے مشہور شیعہ مجرد علامہ باقر مجلسی اپنی کتاب بحار الانوار میں لکھتے ہیں کہ حضرت امام باقر علیہ السلام نے فرمایا :- " يقول (المهدى) يا معشر الخلائق الأو من اراد ان ينظر الی ابراهیم و اسمعیل فها اناذا ابرهیم و اسمعيل - الأو من ارادان ینظر الی موسی و یوشع فها انا ذا موسی و يرفع - الاو من اراد ان ينظر الى عیسی و شمعون فها اناذا عیسی و شمعون الأومن اراد - ان ينظر الى محمد و امیر المومنین ( صلوت الله علیہ ) فها انادا محمد صلی اللہ علیہ تو سلم و امیر المومنین ( بحار الانوار جلد نمبر ۱۳ صفحه ۲۰۲) یعنی جب امام مهدی آئے گا تو یہ اعلان کرے گا کہ اے لوگو ! اگر تم میں سے کوئی ابراہیم اور اسمعیل کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ میں ہی ابراہیم" و اسمعیل" ہوں.اور اگر تم میں سے کوئی موسیٰ اور یوشع کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ میں ہی موسیٰ اور یوشع ہوں.اور اگر تم میں سے کوئی عیسی اور شمعون کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ مینٹی اور شمعون میں ہی ہوں.اور اگر تم میں سے کوئی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور امیر المومنین (علی) کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور امیر المومنین میں ہی ہوں.پھر عارف ربانی محبوب سبحانی سید عبدالکریم جیلانی " فرماتے ہیں.اس (امام مہدی.ناقل ) سے مراد وہ شخص ہے جو صاحب مقام محمدی ہے.اور ہر
کمال کی بلندی میں کامل اعتدال رکھتا ہے." انسان کامل ( اردو ) باب نمبر 1 مہدی علیہ السلام کا ذکر صفحہ ۳۷۵ نفیس اکیڈمی کراچی) پھر حضرت خواجہ غلام فرید صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں.حضرت آدم سے لے کر خاتم الولایت امام مہدی تک حضور حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم بارز ہیں.پہلی بار آپ نے حضرت آدم علیہ السلام میں بروز کیا ہے.....اس کے بعد دوسرے مشائخ عظام میں نوبت بنوبت بروز کیا ہے.اور کرتے رہیں گے.حتی کہ امام مہدی میں بروز فرمائیں گے.پس حضرت آدم سے امام مهدی تک جتنے انبیاء اور اولیاء قطب عدار ہوئے تمام روح محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے مظاہر ہیں." " مقابیس المجالس المعروف بہ اشارات فریدی حصہ دوم صفحه ۱۳۴۱ قاری محمد طیب صاحب فرماتے ہیں :- مؤلفه رکن الدین مطبوعه مفید عام پریس اگست ۶۱۳۲۱ ) لیکن پھر سوال یہ ہے کہ جب خاتم الدجالین کا اصلی مقابلہ تو خاتم البنین سے ہے.مگر اس مقابلہ کے لئے نہ حضور کا دنیا میں دوبارہ تشریف لانا مناسب نہ صدیوں باقی رکھا جانا شایان شان نہ زمانہ نبوی میں مقابلہ ختم کرا دیا جانا مصلحت اور ادھر ختم دجالیت کے استیصال کے لئے چھوٹی موٹی روحانیت تو کیا بڑی سے بڑی ولایت بھی کافی نہ تھی.عام مجددین اور ارباب دلایت اپنی پوری روحانی طاقتوں سے بھی اس سے عہدہ برآنہ ہو سکتے تھے.جب تک کہ نبوت کی روحانیت مقابل نہ آئے.بلکہ محض نبوت کی قوت بھی اس وقت تک موثر نہ تھی جب تک کہ اس کے ساتھ ختم نبوت کا پاور شامل نہ ہو.تو پھر شکست دجالیت کی صورت بجز اس کے اور کیا ہو سکتی تھی.کہ اس دقبالِ اعظم کو نیست و نابود کرنے کے لئے امت میں ایک ایسا خاتم المجددین آئے جو خاتم النبیین کی غیر معمولی قوت کو اپنے اندر جذب کئے ہوئے ہو.اور ساتھ ہی خاتم النبین سے ایسی مناسبت تامہ رکھتا ہو کہ اس کا مقابلہ بعینہ خاتم النبین کا مقابلہ ہو مگر یہ بھی ظاہر ہے کہ ختم نبوت کی روحانیت کا انجذاب اس مجدد کا قلب کر سکتا تھا جو خود بھی نبوت آشنا ہو محض مرتبہ ولایت میں یہ محتمل کہاں کہ وہ درجہ نبوت بھی برداشت کر سکے.چہ جائیکہ ختم نبوت کا کوئی انعکاس اپنے اندر اتار سکے.نہیں بلکہ اس انعکاس کیلئے ایک ایسے
۷۴ نبوت آشنا قلب کی ضرورت تھی جو فی الجملہ خاتمیت کی شان بھی اپنے اندر رکھتا ہو.تاکہ خاتم مطلق کے کمالات کا عکس اس میں اتر سکے.اور ساتھ ہی اس خاتم مطلق کی ختم نبوت میں فرق بھی نہ آئے.اس کی صورت بجز اس کے اور کیا ہو سکتی تھی کہ انبیاء سابقین میں سے کسی نبی کو جو ایک حد تک خاتمیت کی شان رکھتا ہو اس امت میں مجدد کی حیثیت سے لایا جائے جو طاقت تو نبوت کی لئے ہوئے ہو مگر اپنی نبوت کا منصب تبلیغ اور مرتبہ تشریع لئے ہوئے نہ ہو.بلکہ ایک امتی کی حیثیت سے اس امت میں کام کرے.اور خاتم النبیین کے کمالات کو اپنے واسطے سے استعمال میں لائے." تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام صفحه ۲۲۸ صفحه ۲۲۹ از قاری محمد طیب مهتمم دارالعلوم دیوبند پاکستانی ایڈیشن اول مطبوعہ مئی ۱۹۸۶ء شائع کردہ نفیس اکیڈمی کراچی) ۳-۲- دوسرا اور تیسرا شعر لدھیانوی صاحب نے یہ پیش کیا ہے :- آنچه داد است هرنی را جام داد آن جام را مرا به تمام کم نیم زاں ہمہ بروئے یقین ہر کہ گوید دروغ ہست لعین ان اشعار میں بھی انبیاء سے افضلیت کا کوئی دعوئی نہیں کیا گیا بلکہ یہاں پر بھی وہی مضمون بیان کرنا مقصود ہے کہ عرفان الہی اور یقین کا جو جام ہر نبی کو دیا گیا تھا وہی جام خدا تعالیٰ نے مجھے بھی پورے کا پورا دے دیا ہے اور خدا کی ہستی پر یقین اور ایمان کے لحاظ سے میں کسی نبی سے کم نہیں ہوں اور یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں کیونکہ نبی ہوتا ہی وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ کامل یقین اور عرفان عطا فرمائے جو انسان یقین اور عرفان میں کامل نہ ہو وہ نبی ہو ہی نہیں سکتا اسی لئے آپ فرماتے ہیں کہ جس طرح ہر نبی کو یقین کامل دیا گیا مجھے بھی اسی طرح یقین کامل دیا گیا ہے اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ پہلے انبیاء کو تو کامل یقین دیا گیا تھا لیکن مجھے کامل یقین نہیں دیا گیا وہ جھوٹا ہے.لدھیانوی صاحب نے چوتھا شعر یہ پیش کیا ہے.منم مسیح زمان و منم کلیم خدا منم محمد و احمد که مجتبی باشد اس شعر میں بھی انبیاء سے افضل ہونے کا دعویٰ نہیں کیا گیا بلکہ صرف یہ کہا گیا ہے کہ میں علی اور بروزی طور پر حضرت مسیح علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی
۷۵ اللہ علیہ وسلم کا مظہر بن کر آیا ہوں اور یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں.تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ کسی نے حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا." عرش کیا ہے فرمایا میں ہوں پوچھا کرسی کیا ہے فرمایا میں ہوں پوچھا لوح و قلم کیا ہے فرمایا میں ہوں پوچھا کہتے ہیں ابراہیم موسیٰ اور محمد صلعم اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں فرمایا میں ہوں" ( تذکرۃ الاولیاء اردو باب ۱۴ صفحه ۱۲۸ شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سنز) اگر مذکورہ بالا شعر کی بناء پر حضرت بانی جماعت احمدیہ پر تمام رسولوں سے افضل ہونے کے دعوئی کا الزام درست ہے تو لدھیانوی صاحب حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ پر کیا فتویٰ لگائیں گے ؟ حضرت مولانا شاہ نیاز احمد دہلوی نے تمام نبیوں کا بروز ہونے کا دعویٰ کیا ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں:.ہوں.شد بود آدم و شیت و نوح و هود غیر صاحب ہر عصر متم من نه منم نه من منم عیسی مریمی منم احمد ہاشمی منم حیدر شیر نه منم من نه منم نه من منم یعنی آدم ، شیث ، نوح، ہود ، عیسی مریمی ، احمد ہاشمی حیدر شیر خدا بلکہ ہر صاحب عصر میں دیوان نیاز صفحه ۲۲ مطبوعہ ۱۲۹۰ ه ) کیا لدھیانوی صاحب حضرت مولانا شاہ نیاز احمد صاحب دہلوی پر بھی وہی فتویٰ لگانے کو تیار ہیں جو مرزا صاحب پر اس شعر کی بناء پر لگاتے ہیں ؟ لدھیانوی صاحب نے پانچواں شعریہ پیش کیا ہے کہ زنده شد هر نبی باآمدنم ہر رسولے نہاں یہ پیراهنم اس شعر میں بھی انبیاء سے افضلیت کا دعویٰ نہیں کیا گیا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یقینی کلام حاصل کرنے کے لحاظ سے اور ہر نبی کی کسی خاص صفت کا مظہر ہونے کے لحاظت میری آمد پر
ا ہر نبی زندہ ہوا اور ثابت ہو گیا کہ وہ معاملات جو ان کے مخالفین نے ان سے کئے تھے اور اس کے مقابلہ میں وہ تائیدات جو خدا تعالٰی نے ان کی فرمائی تھیں وہ سب صحیح اور درست ہیں.اس الحاد دہریت اور گمراہی کے زمانہ میں اکثر لوگوں نے انبیاء کی نبوتوں کا انکار کر دیا تھا اور طرح طرح کے ان پر حملے کئے.میں نے تمام نبیوں کی طرف سے اس زمانے میں جنگ مدافعت کی اور جو اعتراضات ان پر کئے جاتے تھے وہ دور کر کے ان کے اصل مدارج و مراتب سے ناواقفوں کو واقف اور واقفوں کو واقف تر بنا دیا.جس کے نتیجے میں عظمت اور وقار کے لحاظ سے گویا ہر نبی کو زندگی مل گئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کے نتیجہ میں مجھے خدا تعالٰی نے تمام نبیوں کا مظہر بنا دیا اور تمام نبیوں کے مخالفین اپنے اپنے زمانہ کے انبیاء سے جو سلوک کرتے رہے وہ سلوک آج میرے مخالفین نے میرے ساتھ شروع کر دیا اور تمام انبیاء کی جس طرح اللہ تعالی تائید کرتا رہا اسی طرح آج خدا نے ہر مرحلہ پر میری تائید فرمائی.لدھیانوی صاحب نے چھٹا شعر یہ پیش کیا ہے کہ :- اینک منم که حب بشارات آمدم عینی کجاست تا به نهد پا بمنبرم اس شعر کا صرف یہ مطلب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارات کے مطابق میں آیا ہوں عیسی کہاں ہے تا وہ میرے منبر پر پاؤں رکھ سکے یعنی عیسی علیہ السلام تو زندہ نہیں ہیں بلکہ وفات پا گئے ہیں.اس لئے وہ امت محمدیہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب اور مظہر بن کر نہیں آسکتے.چنانچہ اس سے اگلے شعر میں ان کے نہ آنے کی یہ وجہ بیان کی ہے:.آن را که حق بجنت خلدش مقام داد چون برخلاف وعده برون آرد از ارم کہ حضرت عیسی کو تو اللہ تعالیٰ نے بعد وفات جنت میں جگہ دے دی ہے اس لئے اب اللہ تعالی اپنے وعدہ کہ وَمَاهُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ ( سورة حجر ۴۹ ) کہ جنت سے کوئی نکالا نہیں جائے گا کے مطابق انہیں جنت سے باہر نکال کر کیسے بھیجے گا.
عقیده نمبر ۱۴ اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب لکھتے ہیں کہ : ” اسلامی عقیدہ ہے کہ صاحب مقام محمود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور قادیانیوں کے نزدیک مرزا صاحب" (صفحہ ۲۱) حضرت مرزا صاحب مسیح و مہدی ہونے کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی بیٹا ہونے کی بناء پر اس مقام پر فائز ہیں چنانچہ یہ بھی مولوی نے افتراء کا ایک اور شگوفہ کھلایا ہے.اس بحث سے قطع نظر کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچے غلاموں کو آپ کی متابعت میں مقام محمود عطا ہونا قابل اعتراض ہے کہ نہیں لدھیانوی صاحب سراسر ظلم کی راہ سے جانتے بوجھتے ہوئے یہ غلط بات حضرت مرزا صاحب کی طرف منسوب کر رہے ہیں کہ گویا وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام محمود سے ہٹا کر آپ اس پر فائز ہو چکے ہیں.یہ ایک شیطانی خیال ہے.حضرت مرزا صاحب کا عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام تو بہت بلند ہے.لیکن ایک ادنیٰ سے ادنیٰ احمدی بھی ایسے خیال کو کفر صریح اور باطل سمجھتا ہے.جہاں تک دوسرے حصے کا تعلق ہے کہ کیا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں مہدی علیہ السلام کو مقام محمود عطا ہوتا تھایا کہ نہیں تو اس کے متعلق شرح فصوص الحکم کا حوالہ لدھیانوی صاحب کو یاد دلاتے ہیں اور قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں.امام مہدی کے ذکر میں شرح فصوص الحکم میں یہ بات بطور پیشگوئی کے درج ہے کہ فلہ المقام المحمود ) شرح فصوص الحکم شیخ عبد الرزاق قاشانی مصطفی البابی الحلبی مصری صفحه ۵۳) -> یعنی مهدی موعود کو بھی مقام محمود حاصل ہو گا.لیکن جناب لدھیانوی صاحب بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی امت محمدیہ کے چار بزرگ ترین صوفی فرقوں میں سے سہروردی فرقہ کے بانی حضرت شہاب الدین سہروردی تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ " وهو المقام المحمود الذي لا يشاركه فيه من الانبياء والرسل الالولياء استه ( حدیہ مجددیہ صفحه ۷۰) کہ مقام محمود میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انبیاء اور رسولوں میں سے کوئی شریک نہیں سوائے ان اولیاء کے جو آپکی امت میں سے ہوں.پس جبکہ اولیاء کو بھی یہ مرتبہ مل سکتا ہے
تو مسیح موعود کو کیوں نہیں مل سکتا اب لدھیانوی صاحب بتائیں کہ کیا سہروردی " صاحب اور دنیا بھر میں آپ کے تمام مرید آپ کے نزدیک کافر اور مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہو گئے ہیں ؟ عقیدہ نمبر ۱۵ اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب کسی احمدی کا اخبار الفضل میں سے یہ فقرہ لکھتے ہیں کہ مسیح موعود کے وقت میں بھی موسیٰ و عیسی ہوتے تو مسیح موعود کی پیروی کرتے.(صفحه ۲۱) اس کے جواب میں ہم صرف یہی کہنا کافی سمجھتے ہیں کہ مہدی موعود کے بارے میں امت محمدیہ کا یہی عقیدہ ہے کہ :- المهدى الذى يجمي في اخر الزمان فانه يكون في الاحكام الشرعية تابعا لمحمد صلى اللہ علیہ وسلم وفي المعارف والعلوم والحقيقة تكون جميع الانبياء والأولياء تابعين له كلهم وهذا الابناقص ماذکر نام لان باطنه باطن محمد صلی اللہ علیہ و سلم " ) شرح فصوص الحکم مصری صفحه ۵۳٬۵۲ مصنف عبد الرزاق قاشانی) یعنی امام مهدی" جو آخری زمانہ میں آئیں گے احکام شرعیہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہونگے ، اور معارف و علوم اور حقیقت کے لحاظ سے تمام انبیاء اور اولیاء اس مهدی علیہ السلام کے تابع ہوں گے کیونکہ اس کا باطن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا باطن ہے.اس سلسلہ میں فصل اول میں بڑی تفصیل کے ساتھ حوالہ جات درج کئے جاچکے ہیں.جن سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ مہدی و صحیح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری کاپی بن کر آئے گا جن کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ وہ بہت سے گذشتہ انبیاء سے افضل ہو گا.مزید بر آن در سیانوی صاحب کا خود اپنا یہی عقیدہ ہے.لیکن یہ تلیس سے کام لے کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہے ہیں.یہ خود اعتقاد رکھتے ہیں کہ جب مسیح آئے کیا تو مہدی اس کا امام ہو گا اور مہدی اس کی امامت کرے گا.نانچہ لدھیانوی صاحب بہنیں روایات کے مطابق اپنا عقیدہ خود یہ لکھتے ہیں:.دجال جب شام کا رخ کرے گا تو اس وقت حضرت امام مهدی علیه الرضوان قططيه کے محاذ پر ہوں گے خروج دجال کی خبر سن کر شام واپس آئیں گے اور دجال کے مقابلے میں "
29 صف آراء ہوں گے نماز فجر کے وقت جبکہ نماز کی امامت ہو چکی ہو گی عیسی علیہ السلام نزول فرمائیں گے حضرت مهدی علیہ الرضوان حضرت عیسی علیہ السلام کو نماز کے لئے آگے کریں گے اور خود پیچھے ہٹ آئیں گے مگر حضرت عیسی انہی کو نماز پڑھانے کا حکم فرمائیں گے " (شناخت صفحه ۱۹ از مولانا محمد یوسف لدھیانوی زیر اہتمام مرکزی دفتر عالی مجلس تحفظ ختم نبوة حضوری باغ روڈ ملتان) پس افسوس کہ یہ کس قدر نا قابل اعتماد مولوی صاحب ہیں کہ بنی نوع انسان کو دھوکہ دینے کے لئے اپنے عقیدے بھی چھپاتے ہیں اور وہی بات اگر کوئی دوسرا کے تو اس پر حملہ آور ہو جاتے ہیں.عقیدہ نمبر ۱۶ اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب لکھتے ہیں.( صفحه ۲۱) " قرآن کریم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو امت کی مائیں فرمایا ہے.وَاَزْوَاجُدُ أُمَّهَاتُهُمُ (الاحزاب) لیکن قادیانی مذہب میں یہ لقب جناب مرزا صاحب کی اہلیہ محترمہ کا ہے." یہ بھی مولوی صاحب کی احمقانہ تلیس کی ایک عجیب مثال ہے.اور بھی سوال عقلاً اس موقعہ پر اٹھ سکتے ہیں کہ کیا امھات المومنین کے سوا جو یقیناً ازواج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کسی اور امتی کی زوجہ کو ام المومنین کہنا جائز ہے کہ نہیں دوسرا سوال عقلاً یہ اٹھتا ہے کہ جب احمدی حضرات بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی زوجہ محترمہ کو ام المومنین کہتے ہیں تو ساری امت محمدیہ میں آغاز سے لے کر قیامت تک وہ مومنوں کی ماں ہیں یا ام المومنین سے مراد جماعت احمدیہ سے مسلک وہ مومنین ہیں جو فی الحقیقت حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی زوجہ کا ایک بچی ماں کی طرح احترام کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کا ہمسر اور شریک نہیں سمجھتے.جہاں تک اس دوسری بات کا تعلق ہے یہ تو ہر معقول آدمی سمجھ جائے گا کہ اس احمدی موقف کو دنیا کے سامنے دیانتداری کے ساتھ پیش کیا جائے تو کسی کے نزدیک قابل اعتراض نہیں ہو سکتا جہاں تک پہلے پہلو کا تعلق ہے ہم یہ بات خوب کھول دینا چاہتے ہیں کہ ا -
۸۰ محمدیہ میں ایسی دوسری مثالیں بھی موجود ہیں جن سے ثابت ہو جائے گا کہ اولیاء اور صالحین اور مومنین کی ازواج کو ام المومنین کہا جا سکتا ہے.چنانچہ ا گلدسته کرامات مولفه مفتی غلام سرور صاحب مطبوعہ مطبع افتخار دہلی کے صفحہ ۱۸ پر حضرت سید عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ علیہ کی والدہ محترمہ کو ام المومنین کہا گیا ہے.-۲- اشارات فریدی حصہ دوئم صفحہ 4 مطبوعہ مفید عام پریس آگرہ ۱۳۲۱ھ میں حضرت خواجہ جمال الدین ہانسوی کی اہلیہ محترمہ کو ام المومنین لکھا ہے.سیر الاولیاء تالیف سید محمد بن مبارک کرمانی میسر خورد کے صفحہ ۱۸۷ پر لکھا ہے.کہ حضرت شیخ جمال الدین ہانسوی اپنی ایک خادمہ کو ام المومنین کہا کرتے تھے.تاریخ مشائخ چشت از خلیق احمد نظامی کے صفحہ ۱۶۴ پر لکھا ہے کہ حضرت شیخ جمال الدین صاحب ہانسوی کی ایک خادمہ جو بڑی عابدہ اور صالحہ تمھیں لوگ اسے ام المومنین کہا کرتے تھے.۵.پھر پی ایل او کے سربراہ یا سر عرفات کی بہن بھی ام المومنین کہلاتی ہیں.The PLO Chairman is Known to have two living brothers Fathy' The hospital director and Gamal' Who represents the PLO in Yemen and a sister in Cairo who is known by the nom de guerre Um al Mumeneen' "Mother of the faith-ful.” (Los Angeles Times' march 19'1988) پس ان حوالوں کو پڑھ کر شریف النفس مسلمان لدھیانوی صاحب کے اس اعتراض سے برست کا اعلان کرے گا اور ملامت کرے گا کہ تم اچھے عالم دین ہو کہ ان باتوں سے بے خبر ہو یا ناجائز طور پر ایک سے آنکھ بند کر کے دوسرے پر حملہ کرتے ہو.عقیدہ نمبر۱۷ اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب لکھتے ہیں :-
AN مسلمانوں کے نزدیک محمد عربی کا لایا ہوا قرآن معجزہ ہے اور قادیانیوں کے نزدیک مرزا صاحب کی وحی کے علاوہ ان کی تصنیف ” اعجاز احمدی " اور اعجاز ا مسیح معجزہ ہے " (صفحہ ۲۱) لدھیانوی صاحب یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ احمدی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والے قرآن کریم کو معجزہ تسلیم نہیں کرتے یا پھر قرآن کریم کے مقابل پر اپنا ایک الگ معجزہ بنا رکھا ہے.یہ دونوں الزامات سراسر بہتان طرازی ہے.سچائی سے اس کا کوئی بھی واسطہ نہیں ان دونوں الزامات میں مولوی صاحب نے سخت بہتان طرازی سے کام لیا ہے.حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے.یاد رہے کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ قرآن کریم کے معجزہ ہونے کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں :- " جاننا چاہئے کہ کھلا کھلا اعجاز قرآن شریف کا جو ہر ایک قوم اور ہر ایک اہل زبان پر روشن ہو سکتا ہے جس کو پیش کر کے ہم ہر ایک ملک کے آدمی کو خواہ ہندی ہو یا پارسی یا یورپین یا امریکن یا کسی اور ملک کا ہو ملزم و ساکت ولاجواب کر سکتے ہیں.وہ غیر محدود معارف و حقائق و علوم حکمیہ قرآنیہ ہیں جو ہر زمانہ میں اس زمانہ کی حاجت کے موافق کھلتے جاتے ہیں.اور ہر ایک زمانہ کے خیالات کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلح سپاہیوں کی طرح کھڑے ہیں اگر قرآن شریف اپنے حقائق و دقائق کے لحاظ سے ایک محدود چیز ہوتی تو ہرگز وہ معجزہ تاملہ نہیں ٹھہر سکتا تھا.....کھلا کھلا اعجاز اس کا تو یہی ہے کہ وہ غیر محدود معارف و دقائق اپنے اندر رکھتا ہے.یقیناً یاد رکھو کہ قرآن شریف میں غیر محدود معارف و حقائق کا اعجاز ایسا کامل اعجاز ہے جس نے ہر ایک زمانہ میں تلوار سے زیادہ کام کیا ہے اور ہر یک زمانہ اپنی نئی حالت کے ساتھ جو کچھ شبہات پیش کرتا ہے یا جس قسم کے اعلیٰ معارف کا دعوی کرتا ہے اس کی پوری مدافعت اور پورا الزام اور پورا پورا مقابلہ قرآن شریف میں موجود ہے " نیز فرماتے ہیں :- (ازالہ اوہام صفحه ۳۰۵ تا ۳۰۰ ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۵۵ تا ۲۵۷) ” ہماری طرف سے یہ دعوئی ہے جس کو ہم بمقابل ہر یک فریق کے ثابت کرنے کو تیار
Ar ہیں کہ وحی قرآنی اپنی تعلیم اور اپنے معارف اور برکات اور علوم میں ہر یک وحی سے اقوئی و اعلیٰ ہے" مزید فرمایا :- سرمه چشم آریہ روحانی خزائن جلد ۲ حاشیه صفحه ۲۴۸) فی الحقیقت قرآن شریف اپنے معارف اور حکمتوں اور پر برکت تاثیروں اور بلاغتوں میں اس حد تک پہنچا ہوا ہے جس تک پہنچنے سے انسانی طاقتیں عاجز ہیں اور جس کا مقابلہ کوئی بشر نہیں کر سکتا اور نہ کوئی دوسری کتاب کر سکتی ہے." سرمه چشم آریه حاشیه صفحه ۲۴۸ ، روحانی خزائن جلد نمبر ۲ صفحه ۲۴۸) ان تحریرات کو پڑھ کر ہر ایک پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت مرزا صاحب کو اعجاز المسیح یا اعجاز احمدی کے طور پر یا کسی اور رنگ میں اگر کوئی اعجاز عطا ہوا ہے تو وہ یقیناً اور بلاشبہ قرآن کریم کی برکت سے ہی ملا ہے نہ کہ اس سے الگ اور آزادانہ طور پر - حضرت مرزا صاحب کے نزدیک دراصل یہ اعجاز قرآن کا اعجاز ہے.اور دنیا پر قرآن کریم کی حقانیت ثابت کرنے کے لئے اللہ تعالٰی قرآن سے محبت کرنے والوں کو اعجاز عطا فرماتا ہے.اب ہم حضرت مرزا صاحب کی اس عبارت کو ہدیہ قارئین کرتے ہیں جو اس ضمن میں حرف آخر ہے.فرمایا :- " قرآن شریف کی زبردست طاقتوں میں سے ایک یہ طاقت ہے کہ اس کی پیروی کرنے والے کو معجزات اور خوارق دیئے جاتے ہیں اور وہ اس کثرت سے ہوتے ہیں کہ دنیا ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی " ( مضمون منسلکه چشمه معرفت صفحه ۴۰ روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۰۹) لدھیانوی صاحب یہ تاثر دے رہے ہیں کہ احمدی قرآن کریم کے مقابلہ میں اعجاز احمدی اور اعجاز مسیح کو بطور نشان پیش کرتے ہیں.یہ ان کا اسی طرح کا صریح جھوٹ ہے جس کا نمونہ وہ اپنے اس رسالہ میں بارہا دکھا چکے ہیں حضرت مرزا صاحب نے اپنے اس نشان کو قرآن کریم کے بالمقابل ہرگز قرار نہیں دیا بلکہ آپ فرماتے ہیں.”ہمارا تو یہ دعویٰ ہے کہ معجزہ کے طور پر خدا تعالٰی کی تائید سے اس انشاء پردازی کی ہمیں طاقت ملی ہے تا معارف و حقائق قرآنی کو اس پیرایہ میں بھی دنیا پر ظاہر کریں اور وہ بلاغت جو
A ایک بے ہودہ اور لغو طور پر اسلام میں رائج ہو گئی تھی اس کو کلام الہی کا خادم بنایا جائے " ( نزول المسیح صفحه ۵۹ روحانی خزائن جلد نمبر ۱۸ صفحه ۴۳۷) ایک اور جگہ فرمایا میں قرآن شریف کے معجزہ کے حل پر عربی بلاغت و فصاحت کا نشان دیا گیا ہوں.کوئی نہیں کہ جو اس کا مقابلہ کر سکے " ( ضرورة الامام صفحه ۲۵ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۹۶) قرآن کریم کی برکت سے اور قرآن شریف کے معجزہ کے کل کے طور پر اللہ تعالیٰ سے حضرت مرزا صاحب کو عربی زبان میں انشاء پردازی کی جو طاقت ملی اس کے نتیجہ میں آپ نے معارف و جوائق قرآنی بیان کرنے کے لئے عربی زبان میں دو درجن کے قریب فصیح و بلیغ کتابیں لکھیں اور اپنے مخالفین کے سامنے انہیں انعامی چیلنج کے طور پر پیش فرمایا اعجاز المسیح کا جواب لکھنے پر مبلغ ۵۰۰ روپے اور اعجاز احمدی کا جواب لکھنے کے لئے مبلغ ۱۰۰۰۰ ہزار روپیہ انعام مقرر فرمایا.مگر اس بھاری انعامی رقوم کی پیشکش کے باوجود لدھیانوی صاحب کے بزرگوں سمیت کسی بھی مخالف کو خدا تعالٰی نے ان کا جواب لکھنے کی توفیق نہ دی.1 1- پر لدھیانوی صاحب نصرت الہی کے اس نشان سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اس پر یہ کہہ کر اعتراض کر رہے ہیں کہ اس معجزہ کے ذریعہ جماعت احمدیہ قرآن کریم کی معجزانہ شان کا انکار کر رہی ہے.یہ جو سراسر بہتان ہے.گذشتہ صفحات میں آپ اس کی تفصیل پڑھ چکے ہیں.حضرت مرزا صاحب تو عشق قرآن میں اور قرآن کریم کے حقائق و معارف بیان کرنے کے لحاظ سے دنیا میں عالمگیر شہرت پاگئے ہیں.کوئی شریف النفس انسان جو آپ کی نظم و نثر کا مطالعہ کرتا ہو.آپ کے قرآن سے عشق اور محبت اور عزت سے متاثر ہوئے بغیر رہ نہیں سکتا.جیسی مدح سرائی قرآن کریم کی آپ نے کی ہے اگر کسی مولوی نے اس کا عشر عشیر بھی کیا ہو تو لدھیانوی صاحب نکال کر دکھا ئیں.ایک طرف حضرت مرزا صاحب کی قرآن کریم کے بارے میں مدح سرائی رکھ لیں اور دوسری طرف اپنے پیروں اور مرشدوں کی قرآن کی مدح سرائی رکھ لیں پھر دیکھیں کون مدح سرائی میں بڑھا ہوا ہے.حضرت مرزا صاحب کی نظم و نثر سے چند نمونے ہم یہاں بھی پیش کرتے ہیں.
حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں:.جمال و حسن قرآن نور جان ہر قمر مسلماں ہے ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآن ہے نظیر اس کی نہیں جمتی نظر میں فکر کر دیکھا بھلا کیونکر نہ ہو یکتا کلام پاک رحماں ہے بہار جاوداں پیدا ہے اس کی ہر عبارت میں نہ وہ خوبی چمن میں ہے نہ اس سا کوئی بستاں ہے کلام پاک یزداں کا کوئی ثانی نہیں ہرگز اگر لولوئے.عماں ہے وگر لعل بدخشاں ہے برا حسین احمدیہ حصہ سوم صفحه ۱۸۳ مطبوعه ۱۸۸۲ روحانی خزائن جلد ا صفحه ۱۹۸ تا ۲۰۰) پھر فرماتے ہیں :- نور فرقاں ہے جو سب نوروں سے اجلی نکلا پاک وہ جس سے انوار کا دریا نکلا حق کی توحید کا مرجھا ہی چلا تھا پودا چشمه اصفی نکلا یه ناگہاں غیب سے یا الہی تیرا فرقاں ہے کہ اک عالم ہے جو ضروری تھا وہ سب اس میں کیا نکلا سب جہاں چھان چکے ساری دکانیں دیکھیں مئے عرفاں کا یہی ایک ہی شیشه نکلا کس سے اس نور کی ممکن ہو جہاں میں تشبیہ وہ تو ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلا ( براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ ۲۷۴ بار اول مطبوعه ۱۸۸۲ء روحانی خزائن جلد اول صفحه (۳۰۵ مزید فرمایا تو نے سکھایا فرقاں جو ہے مدار ایماں جس سے ملے ہے عرفاں اور دور ہوئے شیطان
۸۵ پھر فرمایا :- پر شار ہو جاں یہ سب ہے تیرا احساں تجھ روز کر مبارک منیجان من تراني یہ قرآن کتاب رحماں سکھلائے راہِ عرفاں جو اس کو پڑھنے والے ان خدا کے فیضاں پر پر خدا کی رحمت جو اس لائے ایماں روز کر مبارک سُبخان من تراني ان ส ہے چشمہ ہدایت جس کو ہو عنایت یہ ہیں خدا کی باتیں ان سے ملے ولایت نور دل کو بخشے دل میں کرے سرایت روز کر مبارک سبخان من ترانی محمود کی آمین مطبوعہ ۱۸۹۷ء روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۳۲ تا ۳۳۴) ول میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآن کے گرد گھوموں کعبہ میرا یہی ہے ( قادیان کے آریہ اور ہم صفحہ ۵۵ مطبوعہ ۱۹۰۷ ء روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۵۷) مزید فرماتے ہیں:.فرماتے ہیں :.وہ روشنی جو پاتے ہیں ہم اس کتاب میں ہو گی نہیں کبھی وہ ہزار آفتاب میں قرآن خدا نما ہے خدا کا کلام ہے بے اس کے معرفت کا چمن ناتمام ہے (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲) ہماری طرف سے یہ دعوی ہے جس کو ہم بالمقابل ہر ایک فریق کے ثابت کرنے کو تیار
AY ہیں کہ وحی قرآنی اپنی تعلیم اور اپنے معارف اور برکات اور علوم میں ہر ایک وحی سے اقوئی و اعلیٰ ہے" (سرمه چشم آریہ حاشیه صفحه ۱۸۵ - صفحه ۱۸۶ روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۴۸ حاشیه ) مزید بیان فرمایا :- میرا دل اس یقین سے بھرا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام قرآن شریف تمام برکات و یعنیہ کا مجموعہ ہے" پھر فرمایا سرمه چشم آریہ روحانی خزائن جلد نمبر ۲ صفحه (۱۸۸) بلاشبہ قرآن شریف کا کلام بلاغت اور حکمت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طاقت ذہنی سے بہت بلند بلکہ تمام مخلوقات کی طاقت سے برتر و اعلیٰ ہے اور بحجز علیم مطلق اور قادر کامل کے اور کسی سے وہ کلام بن نہیں سکتا “ فرمایا (فتح اسلام صفحہ ۲۲ حاشیه روحانی خزائن جلد نمبر ۳ صفحه ۲۲) میں اپنے دل کو قرآن کریم اور اس کے دقائق ، معارف اور نکات کی طرف مائل پاتا تھا.قرآن نے مجھے محبت کی وجہ سے اپنا لٹو بنالیا ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ وہ مجھے مختلف اقسام کے معارف اور قسم قسم کے پھل دیتا ہے جو کبھی بھی ختم نہیں ہونگے اور نہ انہیں مجھے سے ہٹایا جائے گا اور میں نے دیکھا ہے کہ قرآن کریم ایمان کو مضبوط کرتا اور یقین میں زیادتی کرتا ہے.اور اللہ تعالیٰ کی قسم وہ ایک لاثانی موتی ہے اس کا ظاہر بھی نور ہے اور اس کا باطن بھی نور ہے اور اس کے ہر لفظ اور کلمہ میں نور ہے وہ ایک روحانی جنت ہے جس کے خوشے نہایت قریب ہیں اور اس کے نیچے نہریں بہتی ہیں.ہر ثمر سعادت اس میں پایا جاتا ہے اور ( جرأت ایمان کے لئے ) ہر شعلہ اس سے حاصل کیا جا سکتا ہے.اس کے سوا محض خشک کانٹوں پر ہاتھ مارتا ہے.اس کے فیض کے گھاٹ نہایت خوشگوار ہیں.پس پینے والوں کو مبارک ہو میرے اندر اس کے ایسے نور ڈالے گئے ہیں کہ انہیں کسی اور طریق سے حاصل کرنا میرے لئے مشکل تھا اور اللہ تعالی کی قسم اگر قرآن کریم نہ ہوتا تو میری زندگی کا کوئی مزہ نہ ہوتا
AL میں نے اس کے حسن کو ہزاروں یوسفوں سے زیادہ دیکھا ہے پس میں اس کی طرف انتہائی طور پر مائل ہو گیا اور وہ میرے دل میں گھر کر گیا ہے.اس نے مجھے اس طرح پرورش کیا ہے جیسے رحم میں بچہ کی پرورش کی جاتی ہے اس کا میرے دل پر عجیب اثر ہے اس کے حسن نے مجھے پھسلا لیا ہے.اور میں نے کشف میں دیکھا ہے کہ ” حظيرة القدس " قرآن کریم کے پانی کے ساتھ سیراب کیا جاتا ہے.اور وہ یعنی قرآن کریم زندگی کے پانی کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے.جس نے اس سے پانی پی لیا وہ نہ صرف خود زندہ رہے گا بلکہ وہ آوروں کی زندگی کا بھی موجب ہو گا اور اللہ تعالیٰ کی قسم اس کا چہرہ ہر شے سے زیادہ خوبصورت ہے وہ ایک ایسا چہرہ ہے جسے خوبصورتی کے سانچہ میں ڈالا گیا ہے اور کمال حسن کا جبہ پہنایا گیا ہے اور یقیناً میں اسے خوبصورت اور موزوں قد نوجوانوں کی طرح پاتا ہوں جس کے رخسار دراز اور ملائم ہوں اور اسے مناسب اعضاء سے حصہ وافر عطا ہوا ہو اور اس پر ہر ملاحت اور ہر نور مکمل طور پر پورا ہو چکا ہو وہ ایک پاکیزہ اور خوبصورت نوجوان کی طرح ہے جسے ہر اس پسندیدہ اعتدال اور چنیدہ ملاحت سے پورا پورا حصہ دیا گیا ہے جس کی کسی محبوب کے لئے ضرورت ہے.جیسے آنکھوں کا سیاہ ہونا.کشادہ ابرو ہونا.رخساروں کا بھڑکیلا پن.کمر کا نازک ہونا.دانتوں کی آبداری - لبوں میں فاصلہ.ناک کی بلندی - نیم وا مخمور آنکھیں - پوروں کی نزاکت مزین زلف اور ہر وہ چیز جو دلوں کو موہ لے.آنکھوں کو سرور بخشے اور کسی حسین میں اچھی معلوم ہو.قرآن کریم کے علاوہ باقی تمام کتب ناقص روح کی طرح ہیں یا وہ اس لو تھڑے کی مانند ہیں جو نا مکمل ہونے کی صورت میں گر گیا ہو.اگر آنکھ ہے تو ناک نہیں اور اگر ناک ہے تو آنکھ نہیں.اور تو دیکھے گا کہ ان کے چہرے مکروہ اور بے رونق ہیں اور ان میں ویرانی پائی جاتی ہے ان کی مثال اس عورت کی سی ہے کہ جس کے چہرہ سے اس کی اوڑھنی اور برقع ہٹایا جائے تو وہ انتہائی بدصورت نظر آئے.اس کی آنکھیں مگلی ہوئی ہوں اس کے رخسار داغدار ہوں اور اس کے سر کے بال اڑے ہوئے ہوں اس کے دانتوں پر میل جمی ہوئی ہو.اس کا گلاب کے پھول کا سا چہرہ مرجھایا ہوا ہو اس کے منہ کی نفیس ہوا دھوئیں میں بدل گئی ہو.اس کے چودھویں رات کے چاند کی روشنی میں کمی آگئی ہو اور وہ پھٹ گیا ہو اس کی شعاع دھوئیں میں بدل گئی
ہو.اس کے سر کے بال بالکل سفید ہو گئے ہوں اور وہ ایک گلے سڑے اور بدبودار مردار کی طرح ہو جس کے سونگھنے سے لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہو.اور وہ آنکھوں کے سرور کو ختم کر دیتا ہو اور اس کے گھر والے اپنی رسوائی کی وجہ سے آنسو بہاتے ہوں اور پاک و صاف لوگ اس بات کی تمنا کرتے ہوں کہ اسے مٹی میں دبا دیں یا اسے اپنے سے دور کر کے اسفل السافلین میں پھینک دیں.الحمد للہ ثم الحمد للہ کہ اس نے مجھے قرآن کریم کے انوار سے وافر حصہ دیا ہے اور اس کے موتیوں سے میرے فقر کو دور کر دیا ہے.اس نے مجھے اس کے پھلوں سے سیر کر دیا ہے مجھے ظاہری اور باطنی نعماء سے نوازا ہے اور مجھے اپنی طرف جذب کر لیا ہے.میں جوان تھا اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں اور میری یہ حالت رہی ہے کہ جب بھی میں نے کسی دروازہ کو کھولنا چاہا وہ میں نے کھول لیا.اور جب مجھے کسی نعمت کی ضرورت محسوس ہوئی وہ مجھے عطا کی گئی اور جب بھی میں نے کسی امر پر سے پردہ بنانا چاہا تو وہ میں نے ہٹا لیا اور جب بھی میں نے تضرع سے دعا کی وہ قبول ہوئی.اور یہ سب کچھ میری اس محبت کی وجہ سے ہے جو مجھے قرآن کریم اور اپنے آقا اور امام سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے" ( ترجمه از عربی عبارت آئینه کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۴۵ تا ۵۴۷)
دو عقیده نمبر ۱۸ ۸۹ اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب لکھتے ہیں کہ ” مسلمان تو جب کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھتے ہیں تو محمد رسول اللہ سے ان کی مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہوتی ہے.لیکن قادیانی جب یہی کلمہ پڑھتے ہیں تو محمد رسول اللہ سے بعثت اوٹی کے محمد رسول اللہ مراد نہیں ہوتے بلکہ دوسری بعثت ، قادیانی بعثت کے محمد رسول اللہ یعنی مرزا صاحب مراد ہوتے ہیں اور یہ الزام نہیں بلکہ مرزا صاحب کی بعثت ثانیہ کا منطقی نتیجہ ہے " (صفحه ۲۲) حضرات !! لدھیانوی صاحب نے یہاں بھی حسب عادت بڑا خوفناک جھوٹ بولا ہے حضرت بانی جماعت احمدیہ نے یا آپ کے خلفاء نے کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ میں محمد رسول اللہ سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہیں بلکہ اس سے مراد مسیح موعود کا وجود ہے اور نہ ہی کہیں اپنی جماعت کو یہ تعلیم دی ہے کہ جب تم کلمہ طیبہ پڑھو تو محمد رسول اللہ کے نقرہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مراد نہ لیا کرو بلکہ اس سے مراد مسیح موعود کا وجود لیا کرو.اگر مہدی معہود کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کا مظہر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل اور بروز ہونے کی بناء پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کلمہ طیبہ کے مفہوم میں تبدیلی ہو گئی اور محمد رسول اللہ سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہیں رہے تو لدھیانوی صاحب ذرا تکلیف کر کے ہماری اس کتاب کی فصل اول کو دوبارہ ملاحظہ فرمائیں اور ان تمام بزرگان پر بھی وہی فتویٰ لگائیں جو ہم پر لگاتے ہیں کیا وہ سب بھی کلمہ طیبہ میں محمد رسول اللہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مراد نہیں لیتے بلکہ مہدی اور مسیح کا وجود مراد لیتے ہیں.اب کچھ مزید حوالہ جات بھی ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.(1) حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ صحابی رسول ایک مرتبہ حضرت عمر کے دربار خلافت میں بیٹھے ہوئے تھے حضرت عمر نے انکا ان الفاظ میں تعارف کرایا.سید المرسلین ابی بن کعب الادب المفرد للبخاری باب الخرق صفحه (۶۹)
یعنی ابی بن کعب سید المرسلین ہیں اب کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ان کی بیعت کرنے والے صحابہ اور ازواج مطہرات رضی اللہ حنین کلمہ طیبہ میں محمد رسول اللہ سے مراد حضرت ابی بن کعب کا وجود لیتے تھے ؟ کیونکہ حضرت عمر خلیفہ راشد نے انہیں سید المرسلین کہہ کر انہیں نکلی اور بروزی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرار دیا ہے.(۲) حضرت سید عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ اپنے بارے میں فرماتے ہیں.هذا وجود جدی محمد صلی اللہ علیہ وسلم لا وجود عبد القادر گلدسته کرامات صفحہ ۱۰ کتاب مناقب تاج الاولیاء صفحه ۳۵) کہ یہ عبد القادر کا وجود نہیں بلکہ میرے نانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہے.اس فقرہ میں بھی آپ نے اپنے وجود کو علی اور بروزی طور پر ہی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود قرار دیا ہے.(۳) سلسلہ احمدیہ کے مشہور معاند مولانا محمد عالم آسی کی کتاب " کاویہ علی الغاویہ " میں لکھا ہے." کتاب سیف ربانی صفحہ ۸۰ مصنفہ محمد مکی میں ہے کہ حضرت عبد القادر جیلانی " فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک بار ایسا محو کر دیا کہ میں یوں کہہ رہا تھا کہ لو کان موسی حیالما و سعد الا اتباعی تو مجھے معلوم ہوا کہ میں فنافی الرسول ہوں.پھر ایک دفعہ محو ہوا تو میں کہہ رہا تھا انا سید ولدادم و لا فخر جس سے معلوم ہو گیا کہ میں اس وقت محمد بن گیا تھا ورنہ ایسے لفظ بطور دعویٰ مجھ سے ظاہر نہ ہوتے.ایک دفعہ آپ نے اپنے مرید سے فرمایا تھا کہ اتشهدانی محمد رسول الله تو مرید نے اس کی تصدیق کی تھی" کاویہ علی الغاویه صفحه ۴۹ بار اول مارچ ۶۱۹۳۱ ) اب کیا فتویٰ دیتے ہیں جناب لدھیانوی صاحب حضرت عبد القادر جیلانی اور آپ کو بزرگ اور ولی ماننے والوں پر.جناب لدھیانوی صاحب آپ جس رسالہ میں یہ فتویٰ صادر فرمائیں اس کے نسخہ جات جماعت احمدیہ کے ممبران کو بھی ارسال فرما دیں.(۴) حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ کے متعلق لکھا ہے کہ ان سے کسی نے پوچھا عرش کیا ہے ؟ فرمایا میں ہوں
پوچھا کرسی کیا ہے ؟ فرمایا میں ہوں پوچھا لوح کیا ہے ؟ فرمایا میں ہوں پوچھا کہتے ہیں ابراہیم موسیٰ اور محمد صلعم اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں فرمایا میں ہوں ( تذکرة الاولیاء اردو باب ۱۴ صفحه ۳۸ شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سنز) لدھیانوی صاحب اب فرمائیے اس سے بڑھ کر کوئی اور چیز ہو تو لا کر دکھائیے.یہ عارفانہ کلام پڑھ کر ہمیں تو سمجھ آگئی ہے کہ حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ پر کفر کا فتویٰ لگانے والے کس قماش کے آدمی تھے کیا کچھ آپ کے پلے بھی بات پڑی کہ نہیں ؟ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ کے متعلق لکھا ہے.ایک شخص نے خواجہ سے کہا میں چاہتا ہوں کہ مرید ہو جاؤں کہا لا الہ الا اللہ چشتی رسول اللہ کہو اس نے ایسا ہی کہا خواجہ نے اسے مرید کرلیا.( حسنات العارفین فارسی صفحه ۱۹ زیر عنوان شلح خواجہ معین الدین) ہندوستان و پاکستان میں کروڑہا بندگان خدا جو حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ کو امت محمدیہ کے عظیم ترین اولیاء اور بزرگوں میں شمار کرتے ہیں اور ان کی عقیدت کا دم بھرتے اور ان پر اپنی جان چھڑکتے ہیں وہ سب اس کلمہ یعنی لا الہ الا اللہ چشتی رسول اللہ کو درست سمجھتے ہیں ان سب کے متعلق آنجناب کا کیا فتویٰ ہے کیا ان کے مرشد و امام حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ کے اس کلمہ کے بعد کیا ان کا کلمہ وہی لا الہ الا الله محمد رسول اللہ رہتا ہے.کیا وہ سب کلیتہ دائرہ اسلام سے خارج ہونگے.کیا وہ جب بھی محمد رسول اللہ کا کلمہ پڑھیں گے اس سے مراد چشتی رسول اللہ لیں گے یا پھر ان کے ہاں بھی دو محمد کا تصور موجود ہے اور دو کلمے رائج ہیں.ایک محمد رسول اللہ کا اور ایک چشتی رسول اللہ کا مہربانی فرما کر اس بارہ میں خوب اچھی طرح و مساحت فرما کر غیر مبہم الفاظ میں فتویٰ صادر فرمائیے اور اس فتوے کی نقول گولڑہ شریف کے گڑی نشینوں کو بھی ارسال فرمائیے.اور دنیا میں جہاں جہاں چشتی فرقہ کے لوگ رہتے ہیں انہیں بتا دیں کہ ان کا کلمہ شہادت اور دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں رہا.اس عظیم دینی مہم سے فارغ ہونے کے بعد پھر بے شک احمدایوا یا کی طرف رخ موڑ لیں ( اگر اس وقت
_ 1 تک رخ باقی بچا ) تو کوئی مضائقہ نہ ہو گا.پھر تذکرہ غوشیہ کے صفحہ ۳۲۰ پر لکھا ہے.حضرت ابوبکر شبلی نے ایک مرید سے کہا تھا کہ لا الہ الا اللہ شبلی رسول اللہ کہو اس نے انکار کر دیا.آپ نے اس کی محبت توڑ ڈالی" - ( تذکرة غوشیه صفحه ۳۲۰ ملفوظات و حالات سید غوث علی شاہ قلند ر پانی پتی.مولفہ مولانا شاه گل حسن صاحب ( خلیفہ خاص) ناشر دار الاشاعت بالمقابل مولوی مسافر خانہ کراچی) لدھیانوی صاحب لیجئے ! ایک اور محمد معینیہ کا میدان کھل گیا اب اپنا ڈنڈا اٹھا کر شیلیوں کے پیچھے پڑ جائیں اور جب تک ان سب کے سر نہ توڑلیں اس وقت تک احمدی بیچاروں کی طرف رخ کرنے کا آپ کو کوئی حق نہیں ہے.ہمارے امام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ہیں انہوں نے کبھی ایک مرتبہ بھی نہیں کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے میرا یعنی غلام احمد قادیانی کا کلمہ پڑھا کرو.ضمنا گذارش ہے کہ شیلیوں اور چشتیوں کے سر آپ نے کیا توڑنے ہیں آپ کے ڈنڈے تو کمزوروں پر پڑتے ہیں.ہمیں تو فکر ہے کہ اس مہم میں خود آپ کے سر کی خیر ہو.شیلیوں کے خلاف مزید آپ کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے ایک اور دلچسپ حوالہ پیش خدمت ہے.حضرت سید عبد الکریم جیلانی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ " الاتراه صلی اللہ علیہ و سلم لما ظهر في صورة الشبلى رضی اللہ عنہ قال الشبلي لتلميذه اشہدانی رسول الله و كان التلميذ صاحب كشف فعرفه فقال اشہدانک رسول الله ،، ( الانسان الكامل جلد نمبر ۲ باب ۶۰ صفحه ۱۰۳ اردو ترجمہ مولوی محمد ظہیر صاحب ظهیری الہوانی مطبوعہ فیض بخش سٹیم پریس فیروز پور شهر (۱۹۰۸) یعنی کیا تم نے اس پر غور نہیں کیا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شبلی کی صورت میں ظہور فرمایا تو آپ نے ایک شاگرد سے جو صاحب کشف تھا فرمایا گواہی دو کہ میں (شیلی) اللہ کا رسول ہوں.سو اس نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یقینا تو اللہ کا
رسول ہے.ے.حضرت مولانا شاہ نیاز احمد دہلوی نے تمام نبیوں کے بروز ہونے کا دعویٰ کیا چنانچہ آپ -A فرماتے ہیں آدم و شیت و نوح و ھوڈ غیر حقیقتم نه بود صاحب ہر عصر متم من نه منم نه من منم میٹی مریمی منم احمد ھاشمی منم حیدر شیر نر منم من نه منم نه من منم دیوان نیاز مطبوعہ ۱۲۹۰ھ صفحه (۲۲) یعنی آدم شیٹ ، نوح، ہود عینی مربی ، احمد ہاشمی ، حیدر شیر خدا بلکہ صاحب ہر عصر میں ہوں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی فرماتے ہیں." كاتب الحروف نے حضرت والد ماجد کی روح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک کے سائے میں لینے کی کیفیت کے بارے میں دریافت کیا تو فرمانے لگے یوں محسوس ہوتا تھا گویا میرا وجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے مل کر ایک ہو گیا ہے.خارج میں میرے وجود کی کوئی الگ حیثیت نہیں تھی." انفاس العارفین صفحه ۱۰۳ مصنفہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی مترجم سید محمد فاروق القادری ایم.اے مطبوعہ مکتبہ جدید پریس لاہور ۳۳۹۴ ھ ناشر المعارف لاہور ) پھر حضرت شاہ صاحب اپنے چچا حضرت شیخ ابو الرضا محمد رحمتہ اللہ علیہ کی روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے خواب میں دیکھا جیسے مجھے اپنی ذات مبارک کے ساتھ اس انداز سے قرب و اتصال بخشا کہ جیسے ہم متحد الوجود ہو گئے ہیں اور اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عین پایا " انفاس العارفین صفحہ ۱۹۶ ایضا ) حضرت مولانا جلال الدین رومی اپنے وقت کے مرشد کامل کی شان بیان کرتے ہوئے
مثنوی میں فرماتے ہیں.کہ نبی وقت خویش است زان که او نور نبی آمد مرید پدید ( مثنوی دفتر پنجم زیر عنوان در بیان آنکه ماسوی الله همه آکل و ماکول اند ) که پیر حکمت جو سلوک کی منازل سے آشنا ہوتا ہے وہ نبی وقت ہوتا ہے حضرت ابو الحسن خرقانی رحمتہ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ فرمایا.میں خدائے وقت ہوں اور مصطفائے وقت ہوں" ( تذكرة الاولياء اردو صفحہ ۳۶۸ باب ۷۷ حالات ابو الحسن خرقانی شائع کردہ ملک دین محمد اینڈ سنز لاہور) ظاہر ہے کہ حضرت فرقانی کلی اور بروزی طور پر ہی اپنے آپ کو خدا اور مصطفے قرار دے رہے ہیں نہ کہ حقیقی اور جسمانی طور پر.اگر علی اور بروزی طور پر محمد کہنے کے سبب جماعت احمدیہ پر کلمہ طیبہ میں " محمد رسول اللہ " سے مراد مرزا غلام احمد قادیانی ہونے کا اعتراض درست ہے تو پھر مانا پڑے گا کہ حضرت فرقانی کلمہ طیبہ میں اللہ اور رسول سے مراد دونوں جگہ اپنا وجود لیتے ہیں.دیوبندی فرقہ کے قابل احترام بزرگ مولوی اشرف علی صاحب تھانوی کو ان کے ایک مرید نے لکھا کہ کچھ عرصہ بعد خواب دیکھتا ہوں کہ کلمہ شریف لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھتا ہوں محمد رسول اللہ کی جگہ حضور (مولوی اشرف علی تھانوی - ناقل ) کا نام لیتا ہوں اتنے میں دل کے اندر خیال پیدا ہوا کہ مجھ سے غلطی ہوئی کلمہ شریف پڑھنے میں اس کو صحیح پڑھنا چاہئے اس خیال ته دوباره کلمه شریف پڑھتا ہوں....لیکن زبان سے بے ساختہ بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اشرف علی نکل جاتا ہے...کلمہ شریف کی غلطی کے تدارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھتا ہوں لیکن پھر یہی کہتا ہوں ) - اللهم صل علی سیدناء ابرینا ، والنا اشرف علی" واب تماری مصاحب.اس خلا کے جواب میں لکھتے ہیں.
۹۵ ” اس واقعہ میں تسلی تھی کہ جس کی طرف تم رجوع کرتے ہو وہ بعونہ تعالیٰ منبع سنے (رساله الامداد ماه صفر ۱۳۳۶ھ صفحہ ۳۵ مطبوعہ تھانہ بھون) جناب لدھیانوی صاحب یہ حوالہ پیش کرنے کے بعد تو شاید یہ مناسب نہ ہو کہ آپ کسی دوسرے فرقہ کے خلاف کوئی مہم جاری فرمائیں اب تو خیرات گھر سے ہی شروع کرنی پڑے گی آپ کے پیرو مرشد مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نے اپنے مرید کو یہ نہیں لکھا کہ خواب شیطانی ہے اور یہ نہیں فرمایا کہ کلمہ پڑھتے وقت اشرف علی رسول اللہ کہنا لعنتیوں کا کام ہے.اس لئے یہ رویا مردود ہے.تو بہ کرو ورنہ جہنم میں جاؤ گے بلکہ اس رویا کو قبول فرماتے ہوئے اس پر صاد کیا اور اس کی تاویل کر دی.مگر لطف کی بات یہ ہے کہ اس تاویل کے باوجود آپ کے ایک اور مرشد نے جو مطلب سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندی اپنے استاد مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کی وفات پر مرثیہ لکھتے ہوئے ان کے بارے میں کہتے ہیں :- زبان پر اہل اھواء کی ہے کیوں اعل مبل شاید اٹھا عالم کوئی پائی اسلام کا ثانی مرضیه صفحه ۶ بروفات رشید گنگوہی صاحب از مولانا محمود الحسن دیوبندی مطبع بلالی ساڈھورہ ضلع انبالہ) پھر ایک اور شعر میں کہتے ہیں.وفات سرور عالم کا نقشہ آپ کی رحلت تھی ہستی گر نظیر ہستی محبوب سبحانی ( مرضیه صفحه ۱۳ ایضاً ) پس جب آپ احمدیوں کو یا چشتیوں کو یا شیلیوں کو کسی تاویل کی اجازت نہیں دیتے اور ان سے یہ حق چھین لیتے ہیں.کہ وہ اس قسم کی عبارتوں کو عارفانہ کلام کہیں نہ کہ حقیقی دعوے قرار دیں تو اب بتائیے کہ آپ یا آپ کے ہم عقیدہ دیوبندیوں کا کیا حق رہا ہے کہ جب کوئی اشرف علی رسول اللہ کے تو تاویل کریں.لہذا اب تو آپ پر گھر سے جہاد کرنا واجب ہو گیا ہے.فرمائیے اس حال میں دوسرے دیوبندیوں کا قلع قمع کرنا آپ پر شرعی فریضہ بنتا ہے.یا پہلے آپ
۹۶ پر خود کشی واجب ہوتی ہے.پس آپ کے لئے دو میں سے ایک بات لازم ہو چکی ہے کہ یا تو ہر اس شخص سے تاویل کا حق چھین لیں اور عالم اسلام میں ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم کر دیں یا پھر جماعت احمدیہ کے لئے بھی یہ حق تسلیم کر لیں جس کے تمام مرد و زن بلا استثناء حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام کو غلام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر درجہ نہیں دیتے اور جہاں بھی آپ کے لئے مجاز لفظ محمد استعمال ہوا ہے ، کامل یقین کے ساتھ اس سے مراد یہ لیتے ہیں کہ آپ محمد رسول اللہ کے عشق میں کامل طور پر فنا تھے اور آپ نے اپنے وجود کا کوئی حصہ باقی نہ چھوڑا مگر تابع فرمان محمدؐ کر دیا.اس کے سوا کوئی احمدی ہرگز محمد رسول اللہ کی ہمسری سے بالا ہونا تو درکنار آپ کی ہمسری کو ارتکاب کفر سمجھ کر مردود قرار دیتا ہے.یہ تو ہے ہمارے دل کا حال جو ہم جانتے ہیں اب اے عالم الغیب ہونے کے دعویدار مولوی صاحب بتائیے کہ آپ ہمارے دل کا کیا حال جانتے ہیں ؟ قارئین کرام ! لدھیانوی صاحب کے مزاج سے آپ خوب اچھی طرح واقف ہو چکے ہیں کہ وہ کس طرح قائل کے قول کو اور مصنف کی عبارت کو ان معنوں کے بالکل بر عکس معنے پہنانے کے ماہر ہیں کہ جن معنوں میں اس نے کلام نہیں کیا یا عبارت نہیں لکھی.لدھیانوی صاحب نے اپنے اعتراض کو ثابت کرنے کے لئے کلمتہ الفصل کی ایک عبارت پیش کی ہے.مصنف کتاب " کلمتہ الفصل " کی اس تحریر سے متعلق جسے انتہائی بھیانک کلمہ کفر کے طور پر مولوی صاحب پیش فرما رہے ہیں ہم قارئین پر خوب اچھی طرح واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ لدھیانوی صاحب نے جو معنے اس تحریر کو پہنانے کی کوشش کی ہے سراسر ظلم اور افتراء ہے اور ویسا ہی ظلم و افتراء ہے جیسا کہ کوئی شخص ان بزرگانِ امت پر حملہ کرے جن کا پہلے ذکر گذر چکا ہے اور ان کی تحریرات اور فرمودات سے کفر و الحاد کے معنے اخذ کرے.لدھیانوی صاحب نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی جس عبارت پر اپنے افتراء کی عمارت تعمیر کی ہے وہ یہ ہے." مسیح موعود خود محمد رسول اللہ ہیں جو اشاعت اسلام کے لئے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے اس لئے ہم کو کسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں.ہاں اگر محمد رسول اللہ کی جگہ کوئی اور آتا تو
۹۷ ضرورت پیش آتی." ( کلمتہ الفصل صفحہ ۱۵۸) قارئین کرام - دراصل یہ تحریر ایک ایسے معترض کو پیش نظر رکھ کر لکھی گئی جو خود تسلیم کرتا تھا کہ احمدیوں کا کوئی الگ کلمہ نہیں ہے اور اس طرح چالاکی سے احمدی علم کلام پر حملہ کرنا چاہتا تھا.غرض یہ تھی کہ احمدیوں کو ملزم کرے کہ اگر تمہارا یعنی حضرت مرزا صاحب کا الگ کلمہ نہیں ہے تو وہ کسی معنوں میں بھی نبی نہیں کہلا سکتے اور اگر کلمہ الگ ہے تو امت محمدیہ سے خارج ہو جاتے ہیں.چالاکی کے اس پھندے سے نکلنے کی کوشش سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ عبارت لکھی جس پر جناب لدھیانوی صاحب بھر بھر کر حملہ کر رہے ہیں.در حقیقت اس کا جواب جو مصنف کتاب " کلمتہ الفصل " دنیا چاہتے تھے اور وہی آج بھی ہر احمدی کا جواب ہے جو یہ ہے کہ یہ درست ہے کہ جماعت احمدیہ کا کوئی الگ کلمہ نہیں اور مولوی صاحب جو یہ بات پیش کرتے ہیں کہ جماعت کا کوئی الگ کلمہ ہے یہ بالکل جھوٹ ہے.جماعت احمدیہ کا وہی کلمہ ہے جو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے.ہم حضرت مرزا صاحب کو ہرگز محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر آزاد نبی کے طور پر تسلیم نہیں کرتے.ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام اور تابع کو اگر امتی نبی کے مقام پر سرفراز فرمایا جائے تو ہر گز نئے کلمہ کی ضرورت نہیں کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ ہی قیامت تک کے لئے حاوی ہے اور غیر متبدل ہے.یہ بات معترض کو سمجھاتے ہوئے مصنف " کلمتہ الفصل " نے ایک یہ طرز بھی اختیار کی کہ اسے بتائیں کہ اصل میں محمد نام اور محمد مقام اتنے عظیم ہیں کہ صرف گذشتہ زمانوں پر ہی حاوی نہیں آئندہ زمانوں پر بھی حاوی ہیں.پر جس طرح یہ کہنا درست ہو گا کہ جملہ انبیاء کے نام جیسے آدم ، نوح، ابراہیم موسی ، عیسی وغیرہ محمد نام کے تابع اور اس کے کلمہ میں شامل ہیں اسی طرح یہ کہنا بھی درست ہے کہ بعد میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض یاب ہو کر اگر کسی امتی کو مقام نبوت عطا ہو تو وہ بھی اسم محمد کی جامعیت میں داخل ہو گا.یہ استدلال کوئی محض ذوقی نکتہ نہیں بلکہ ایک ٹھوس حقیقت پر مبنی ہے جس پر ان ظاہری مولویوں کی نظر نہیں.
۹۸ اسم محمد کی تصدیق میں اس لئے دوسرے انبیاء کی تصدیق شامل ہو جاتی ہے ، خواہ وہ بعد میں ہوں یا پہلے ہوں کہ قرآن کریم وہ کتاب ہے جس نے دیگر تمام انبیاء کی تصدیق بنائے ایمان میں داخل کر دی اور اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے ہر شخص پر لازم کر دیا کہ محض یہ ایمان کافی نہیں جبکہ تم خدا کے دیگر انبیاء میں کسی ایک کا انکار کرنے والے ہو.پس یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم احسان ہے کہ آپ دوسرے انبیاء" کے بھی مصدق بن گئے خواہ وہ دنیا میں کہیں بھی کسی بھی زمانہ میں پیدا ہوئے ہوں.یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امتیازی شان ہی ہے جس کو بیان کرتے ہوئے مصنف کتاب " کلمتہ الفصل " نے معترض کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا مقام ہے کہ ان کے نام میں ہر نبی کی تصدیق شامل ہو گئی.تمہارے اور ہمارے درمیان فرق صرف یہ ہے کہ تم صرف گذشتہ انبیاء کی تصدیق اس نام میں سمجھتے ہو ، ہم اس کی پیشگوئی کے مطابق ظاہر ہونے والے امام مہدی کو بھی جس کا درجہ ہم امتی نبی کا درجہ سمجھتے ہیں اس تصدیق میں داخل سمجھتے ہیں.پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے والے کے لئے کسی اور کا کلمہ پڑھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر کلمہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمہ میں داخل ہو چکا ہے.جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام ، موسیٰ علیہ السلام اور عیسی علیہ السلام و دیگر انبیاء کو نبی اللہ تسلیم کرنے والے پر یہ حاجت نہیں رہی کہ ابراہیم رسول الله ، موسیٰ رسول الله ، عیسی رسول اللہ یا کسی اور نبی کا کلمہ پڑھے ، اسی طرح احمدیوں کے لئے ہر گز ضروری نہیں کہ محمد رسول اللہ کا کلمہ پڑھنے کے بعد احمد رسول اللہ کا کلمہ پڑھنا شروع کر دیں.یہ وہ نہایت عالمانہ اور عارفانہ نکتہ تھا جسے سمجھانے کی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مصنف کتاب " كلمته الفصل " نے کوشش فرمائی لیکن انہوں نے یہ خیال نہ کیا کہ ان کے مخاطبین میں بہت سارے نبی بھی شامل ہیں جو حسن نیت کے ساتھ محض بات سمجھنے والے نہیں بلکہ محض اعتراض برائے اعتراض کرتے ہیں اور حق جوئی سے ان کی کوئی غرض نہیں.یہ لدھیانوی صاحب بھی اسی قبیل کے لوگوں میں صف اول میں ہیں.مولوی صاحب ! جو بات ہم
۹۹ نے سمجھائی ہے اسے سمجھیں اور توبہ کریں کیونکہ یہ عقیدہ مینی بر قرآن و حدیث ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب نبیوں کے مصدق بنے اور یہی آیت خاتم النبیین کے معانی میں سے اہم معنی ہیں کہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کے مصدق بن گئے.پس جس نے آپ کی تصدیق کی اس نے گویا ہر نبی کی تصدیق کر دی.خواہ پہلا ہو یا بعد میں ہو.اس وضاحت کے بعد اگر پھر بھی یہ مولوی صاحب از راہ عناد ناواجب اور ناحق حملوں سے - باز نہ آئے تو ہمیں ان سے کلام نہیں ، ہماری ان پر حجت تمام ہو چکی.پس اس صورت میں آخری صورت یہی بنے گی کہ احمدیوں کا یقینا کوئی اور کلمہ نہیں جیسا کہ ہم یقین کرتے ہیں اور ہمارے مخالفین بھی یہی تسلیم کرتے ہیں.اسی لئے تو اعتراض پیدا ہوا ہے.احمدیوں کو اس لئے الگ کلمہ کی ضرورت نہیں کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمہ میں تمام انبیاء کی تصدیق داخل سمجھتے ہیں لیکن لدھیانوی صاحب چونکہ اس عقیدہ کو لحدانہ عقیدہ سمجھتے ہیں شاید اسی لئے ان کے بزرگ اور مرشد نے اپنا الگ کلمہ بنا لیا اور ان کے متبعین کو بھی یہ ضرورت پیش آئی کہ اشرف علی رسول اللہ " کے نعرے لگائیں.(رساله الامداد ۸ صفر ۱۳۳۶ھ صفحہ ۳۵ مطبوعہ تھانہ بھون) عقیدہ نمبر ۱۹ لدھیانوی صاحب لکھتے ہیں.چونکہ مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں دوبارہ آنے کے قائل نہیں.اور مرزا غلام احمد صاحب کو محمد رسول اللہ تسلیم نہیں کرتے اس لئے قادیانیوں کے نزدیک وہ قادیانی کلمہ کے منکر ہونے کی وجہ سے کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں" اس اعتراض سے پتہ چلتا ہے کہ مولوی صاحب اندرونی طور پر کیسے ٹیڑھے ہیں.جس طرح ہڈیوں کا مریض بعض اوقات ٹیڑھا ہو جاتا ہے اور اس کی ہیئت عجیب دکھائی دیتی ہے اسی طرح معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگ روحانی بیماریوں کی وجہ سے ٹیڑھے میڑھے ہو جاتے ہیں.اس اعتراض سے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب نے پہلے کس طرح جھوٹی بات جماعت کی طرف منسوب کی اور پھر حملہ شروع کر دیا.اول تو یہ بات بھی بالکل جھوٹ ہے کہ احمدی محمد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بنفسہ دوبارہ دنیا میں آنے کے قائل ہیں.دوسرے یہ بات بھی جھوٹ ہے کہ اگر معنوی بعثت مراد لی جائے تو دوسرے مسلمان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معنوی طور پر دوبارہ آنے کے قائل نہیں.یہ دونوں باتیں غلط اور ٹیڑھی ہیں.جہاں تک بنفسہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دوبارہ آنے کا سوال ہے نہ دوسرے مسلمان اس کے قائل ہیں اور نہ احمدی اس کے قائل ہیں.اگر کسی پرانے رسول کا بنفسہ آنے کا کوئی قائل ہے تو خود لدھیانوی صاحب اور ان کے ہمنوا ہیں.جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے عیسی علیہ السلام کے بنفسہ پرانے جسم سمیت دوبارہ دنیا میں آنے کے قائل ہیں.جہاں تک معنوی بعثت کا تعلق ہے.جو کامل غلامی کی صورت میں یا فنافی الرسول کی صورت میں ہوئی ممکن ہے.تو اس کے نہ صرف یہ کہ احمدی قائل ہیں بلکہ قرآن کریم کی رو سے اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں.اور اگر یہ عقیدہ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی نائب آپ کی غلامی میں آپ کی بعثت ثانیہ کا مظہر بنے گا، مولوی صاحب کے نزدیک قابل قبول نہیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ مولوی صاحب کو قرآن سے ہی انحراف ہے.اور احادیث صحیحہ سے بھی توبہ کرلیں.دیکھئے سورۃ جمعہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا ذکر کر کے جو پیشگوئی فرمائی کہ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّابَهُ حَقُوا بِهِمْ کیا جناب مولوی صاحب کو یہ معلوم نہیں کہ اس پیشگوئی کی تشریح میں خود حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ گواہی بخاری کی حدیث صحیح میں درج ہے کہ.لو كَانَ الإِيمَانُ مُعَلَّقَا يا كُرَيَّا لَنَا لَدْ رَجُل أَو رِجَالٌ مِنْ هؤلاء کہ اگر آخری زمانہ میں ایمان ثریا پر بھی چلا گیا تو سلمان فارسی کی قوم میں سے ایک شخص یا ایک اور روایت کے مطابق بعض اشخاص اسے واپس زمین پر کھینچ لائیں گے.اب بتائیے کہ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معنوی بعثت ثانی کا ذکر نہیں تو پھر اور کیا ذکر ہے.کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر لدھیانوی صاحب کو فہم قرآن کا دعوی ہے.کیا یہ قطعی اور سب سے بالا گواہی سننے کے باوجود یہ مولوی صاحب اب بھی یہ دعوی کرنے کی جرات کریں گے کہ محمد
|| رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معنوی اور تمثیلی بعثت کا دنیا کا کوئی مسلمان قائل نہیں کیا مجھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر بھی اور کوئی گواہی ہوگی ؟ بزرگان امت کی نظر میں مہدی محمود اور مسیح موعود کا مقام مخص لدھیانوی صاحب اعتراض کرتے ہیں کہ تیرہ سو سال میں امتِ محمدیہ میں سے کوئی فحم بھی اس بات کا قائل نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ ہوگی اور کوئی شخص آپ کا ظل اور بروز بن کر آئے گا.قارئین کرام لدھیانوی صاحب کے اس اعتراض کی تردید ہم فصل اول میں مفضل کر چکے ہیں یہاں دوبارہ بزرگان امت کے بعض ایسے اقوال پیش کرتے ہیں جن میں امت محمدیہ میں آنے والے مہدی معہود اور مسیح موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بعثت کا مظہر اور آپ کا حل اور بروز قرار دیا گیا ہے.ان تحریرات سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ مولوی صاحب بزرگان امت کے ان عقائد اور تعلیمات سے آشنا ہی نہیں تو پھر ان کو مذہبی امور میں ایسے دعوے کرنے کا کوئی حق نہیں یا پھر ان سب باتوں کا علم رکھنے کے باوجود محض جھوٹ سے کام لیتے ہوئے عوام الناس کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.ایسی تحریریں امت مسلمہ کے لٹریچر میں کثرت سے موجود ہیں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کا ذکر ہے اور آنے والے موعود کو اپنے آقا و موٹی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا حل اور بروز قرار دیا گیا ہے.(1) حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی جنہیں دیوبندی بھی بارھویں صدی ہجری کا مجدد قرار دیتے ہیں فرماتے ہیں." اعظم الانبياء شانا من له نوع اخر من البعث ايضا و ذلك ان يكون مراد الله تعالى فيدان يكون سببا لخروج الناس من الظلمات الى النور وان يكون قومه خير امة اخرجت للناس فيكون بعث يتناول بعثا اخر حجتہ اللہ البالغہ جلد اول باب حقیقته النبوة و خواصها صفحه ۸۳ مطبوعہ مصر ۵۱۲۸۳) یعنی شان میں سب سے بڑا نبی وہ ہے جس کی ایک دوسری قسم کی بعثت بھی ہوگی اور وہ اس طرح ہے کہ مراد اللہ تعالی کی دوسری بعثت میں یہ ہے کہ وہ تمام لوگوں کو
ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لانے کا سبب ہو اور اس کی قوم خیر امت ہو جو تمام لوگوں کے لئے نکالی گئی ہو لہذا اس نبی کی پہلی بعثت دوسری بعثت کو بھی لئے ہوئے ہو گی " اسی طرح حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ بروز حقیقی کی اقسام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:- اما الحقيقي فعلى ضروب......و تارة اخرى بان تشتبك بحقيقة رجل من اله او المتوسلين اليه كما وقع لنبينا صلى الله عليه و سلم بالنسبة الى ظهور المهدی تفہیمات اہلیہ فارسی جزو ثانی تقسیم نمبر ۲۲۷ از حضرت شاہ ولی اللہ ناشر شاہ ولی اللہ اکادمی حیدر آباد - سندھ مطبوعہ مطبع حیدر حیدر آباد سندھ ۱۹۷۷ء / ۱۳۸۷ھ ) ہے یعنی حقیقی بروز کی کئی اقسام ہیں.کبھی یوں ہوتا ہے کہ ایک شخص کی حقیقت میں اس کی آل یا اس کے متوسلین داخل ہو جاتے ہیں جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مہدی - تعلق میں اس طرح کی بروزی حقیقت وقوع پذیر ہوگی.یعنی مهدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی بروز ہے.حضرت شاہ ولی اللہ صاحب اپنی کتاب الخیرا لکثیر میں فرماتے ہیں.حق له ان ينعكس فيد انوار سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ويزعم العامة انه اذا نزل الى الارض كان واحدا من الامة كلا بل هو شرح للاسم الجامع المحمدى و نسخة منتسخة منه فشتان بينه و بين احد من الامة الخير الكثير صفحه ۷۲ مطبوعه بجنور) یعنی امت محمدیہ میں آنے والے مسیح کا حق یہ ہے کہ اس میں سید المرسلین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار کا انعکاس ہو.عوام کا خیال ہے کہ مسیح جب زمین کی طرف نازل ہو گا تو وہ صرف ایک امتی ہو گا.ایسا ہرگز نہیں بلکہ وہ تو اسم جامع محمدی کی پوری تشریح ہو گا اور اس کا دوسرا نسخہ ہو گا پس اس میں اور ایک عام امتی کے درمیان بہت بڑا فرق ہے.اس عبارت میں حضرت شاہ صاحب نے آنے والے مسیح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار کا پورا عکس اور آپ کا کامل حل و بروز قرار دیا ہے.
١٠٣ (۲) حضرت امام عبد الرزاق قاشانی رحمتہ اللہ علیہ کی شرح فصوص الحکم میں لکھا ہے." المهدي الذي يجيئي في اخر الزمان فانه يكون في الاحكام الشرعية تابعا لمحمد صلی اللہ علیہ وسلم وفي المعارف والعلوم والحقيقة تكون جميع الأنبياء والأولياء تابعين له كلهم......لان باطنه باطن محمد صلی اللہ علیہ وسلم ،، ) شرح فصوص الحکم از مولانا عبد الرزاق قاشانی مطبوعہ مصر صفحه ۵۲) یعنی آخری زمانے میں آنے والا مہدی احکام شرعیہ میں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع ہو گا.لیکن علوم و معارف اور حقیقت میں آپ کے سوا تمام انبیاء اور اولیاء مہدی کے تابع ہونگے کیونکہ مہدی کا باطن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا باطن ہے.یہ قول سید عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا ہے.اس میں بھی انہوں نے امام مہدی کے باطن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا باطن قرار دے کر انہیں آپ کا عکس اور حل و بروز ہی قرار دیا ہے.(۳) شیخ محمد اکرم صاحب صابری لکھتے ہیں :- محمد بود که بصورت آدم در مبداء ظهور نمود یعنی بطور بروز در ابتداء عالم ، روحانیت مجمد مصطفیٰ صلی الله علیه وسلم در آدم متجلی شد و هم او باشد که در آخر بصورت خاتم ظاهر گردد یعنی در خاتم الولایت که مهدی است نیز روحانیت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بروز و ظهور خواهد کرد و تصرفها خواهد نمود " ( اقتباس الانوار صفحه ۵۲) یعنی وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے جنہوں نے آدم کی صورت میں دنیا کی ابتدا میں ظہور فرمایا یعنی ابتدائے عالم میں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت بروز کے طور پر حضرت آدم میں ظاہر ہوئی اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہونگے جو آخری زمانہ میں خاتم الولایت امام مہدی کی شکل میں ظاہر ہونگے یعنی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت مہدی میں بروز اور ظہور کرے گی.اس عبارت میں بھی امام مہدی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا بروز قرار دیا گیا ہے.(۴) حضرت ما جالی خاتم الولایت امام مہدی کے درجے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں." شكرة خاتم الانبياء في الولاية البغاة المحمدية وفى بعينها مشكوة
خاتم الاولياء لانه قائم بمظهريتها - " ( شرح فصوص الحکم ہندی صفحہ ۶۹) یعنی حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشکوۃ باطن ہی محمدی ولایت خاصہ ہے اور وہی بجنسه خاتم الاولیاء حضرت امام مہدی علیہ السلام) کا مشکوۃ باطن ہے.کیونکہ امام موصوف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی مظہر کامل ہیں.اس عبارت میں بھی امام مہدی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کا مظہر اور بروز قرار دیا گیا ہے.(۵) عارف ربانی محبوب سبحانی حضرت سید عبد الکریم جیلانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:." اس (یعنی امام مهدی - ناقل) سے مراد وہ شخص ہے جو صاحب مقام محمدی ہے اور ہر کمال کی بلندی میں کامل اعتدال رکھتا ہے." انسان کامل اردو - باب نمبر ۶۱ - علامات قیامت کے بیان میں - صفحہ ۲۷۰ - مطبوعہ اسلامیہ سٹیم پریس لاہور - بار اول ) (1) حضرت خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :- " حضرت آدم صفی اللہ سے لے کر خاتم الولایت امام مهدی تک حضور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بارز ہیں.پہلی بار آپ نے حضرت آدم علیہ السلام میں بروز کیا ہے اور پہلے قطب حضرت آدم علیہ السلام ہوئے ہیں.دوسری بار حضرت شیث علیہ السلام میں بروز کیا ہے اس طرح تمام انبیاء اور رسل صلوات اللہ صلیم میں بروز فرمایا ہے یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جسد عصری ( جسم ) سے تعلق پیدا کر کے جلوہ گر ہوئے اور دائرہ نبوت کو ختم کیا.اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق میں بروز فرمایا ہے پھر حضرت عمرہ میں بروز فرمایا پھر حضرت عثمان میں بروز فرمایا.اس کے بعد حضرت علی میں بروز فرمایا ہے.اس کے بعد دوسرے مشائخ عظام میں نوبت بہ نوبت بروز کیا ہے اور کرتے رہیں گے حتی کہ امام مہدی میں بروز فرما دیں گے.پس حضرت آدم سے امام مهدی تک جتنے انبیاء اور اولیاء قطب مدار ہوئے ہیں.تمام روح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مظاہر ہیں.اور روح محمدی نے ان کے اندر بروز فرمایا ہے.پس یہاں دو روح ہوئے
۱۰۵ ہیں ایک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روح جو بارز ہے دوسری اس نبی یا ولی کی روح جو مبروز فیہ اور مظہر ہے.رض ( مقابیس المجالس المعروف به اشارات فریدی حصہ دوم صفحه ۱۱۴۱۱۲ مؤلفه رکن الدین مطبوعہ مفید عام پریس آگرہ ) اس عبارت سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء اور امت میں پیدا ہونے والے جملہ اولیاء اور مجددین سب کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز بن کر آئے تھے اسی طرح امام مہدی بھی بروز محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن کر آئے گا.آپ نے بروزیت اور عینیت کے متعلق گذشتہ بزرگوں کے حوالے تو پڑھ لئے ہیں لیکن آپ کو چونکہ امت محمدیہ میں ایسی شان کے آدمی پیدا ہونے پر شدید اعتراض ہے.اس لئے ہم آپ کو آپ کے بزرگ قاری محمد طیب صاحب کے الفاظ یاد دلاتے ہیں کہ آپ سب کا یہ عقیدہ ہے کہ اگر عیسی علیہ السلام دوبارہ دنیا میں تشریف لائے تو نہ صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عین اور بروز ہونگے بلکہ شانِ خاتمیت رکھتے ہوں گے.(۷) دیوبندی فرقہ کے بانی حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ کے نواسے قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند آنے والے مسیح کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:- لیکن پھر سوال یہ ہے کہ جب خاتم الدجالین کا اصلی مقابلہ تو خاتم النبیین سے ہے مگر اس مقابلہ کے لئے نہ حضور کا دنیا میں تشریف لانا مناسب نہ صدیوں باقی رکھا جانا شایان شان نہ زمانہ نبوی میں مقابلہ ختم قرار دیا جانا مصلحت اور ادھر ختم دجالیت کے استیصال کے لئے چھوٹی موٹی روحانیت تو کیا بڑی سے بڑی ولایت بھی کافی نہ تھی عام مجددین اور ارباب ولایت اپنی پوری روحانی طاقتوں سے بھی اس سے عہدہ بر آنہ ہو سکتے تھے جب تک کہ نبوت کی روحانیت مقابل نہ آئے.بلکہ محض نبوت کی قوت بھی اس وقت تک مؤثر نہ تھی جب تک کہ اس کے ساتھ ختم نبوت کا پاور شامل نہ ہو تو پھر شکست دجالیت کی صورت بجز اس کے اور کیا ہو سکتی تھی کہ اس وجبال اعظم کو نیست و نابود کرنے
104 کے لئے امت میں ایک ایسا خاتم المجددین آئے جو خاتم النبین کی غیر معمولی قوت کو اپنے اندر جذب کیے ہوئے ہو اور ساتھ ہی خاتم النبین سے ایسی مناسبت تامہ رکھتا ہو کہ اس کا مقابلہ بعینہ خاتم النبیین کا مقابلہ ہو.مگر یہ بھی ظاہر ہے کہ ختم نبوت کی روحانیت کا انجذاب اسی مجدد کا قلب کر سکتا تھا جو خود بھی نبوت آشنا ہو محض مرتبہ ولایت میں یہ متحمل کہاں کہ وہ درجہ نبوت بھی برداشت کر سکے.چہ جائیکہ ختم نبوت کا کوئی انعکاس اپنے اندر اتار سکے.نہیں بلکہ اس انعکاس کے لئے ایک ایسے نبوت آتنا قلب کی ضرورت تھی جو فی الجملہ خاتمیت کی شان بھی اپنے اندر رکھتا ہو.تاکہ خاتم مطلق کے کمالات کا عکس اس میں اتر سکے.اور ساتھ ہی اس خاتم مطلق کی ختم نبوت میں فرق بھی نہ آئے اس کی صورت بجز اس کے اور کیا ہو سکتی تھی کہ انبیائے سابقین میں سے کسی نبی کو جو ایک حد تک خاتمیت کی شان رکھتا ہو اس امت میں مجدد کی حیثیت سے لایا جائے جو طاقت تو نبوت کی لئے ہوئے ہو مگر اپنی نبوت کا منصب تبلیغ اور مرتبہ تشریح لئے ہوئے نہ ہو بلکہ ایک امتی کی حیثیت سے اس امت میں کام کرے اور خاتم النبیین کے کمالات کو اپنے واسطے سے استعمال میں لائے." - تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام صفحہ ۲۲۸ ۲۲۹ پاکستانی ایڈیشن اول مطبوعہ مئی ۱۹۸۶ء نفیس اکیڈمی کراچی) (۸) اردو کے مشہور شاعر جناب امام بخش ناسخ امام مہدی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں اول و آخر کی نسبت ہو گئی صادق یہاں صورت معنی شبیہہ مصطفیٰ پیدا ہوا دیکھ کر اس کو کریں گے لوگ رجعت کا گمان یوں کہیں گے معجزے سے مصطفیٰ پیدا ہوا دیوان تاریخ جلد دوم صفحه ۵۴ مطبوعہ مطبع منشی نول کشور لکھنو ۱۹۲۳ء ) در حقیقت کفر و اسلام کی بحث میں جماعت احمدیہ کا مسلک کسی دوسرے فرقے سے الگ نہیں.امت محمدیہ کے تمام بڑے بڑے فرقے باوجود اس کے کہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ سمجھی کلمہ گو ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مصداقت کے قائل ہیں پھر بھی دیگر وجوہات اور
اختلاف عقائد کی بناء پر ایک دوسرے پر فتوے لگاتے ہیں.احمدی جب دوسرے مسلمانوں پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں تو محض اس بناء پر کہ وہ خود حضرت مرزا صاحب کو امام مہدی تسلیم کرنے سے کھلا کھلا انکار کرتے ہیں.پس عقلا " احمدیوں کے لئے کوئی اور راہ ہی نہیں رہتی کہ وہ جس کو خدا کا بھیجا ہوا امام تسلیم کریں اس کے منکر کو کافر قرار دیں یہ کوئی غلط بات دوسروں کی طرف منسوب نہیں کی جا رہی یہ ایسی بات ہے جس پر وہ خود فخر کرتے ہیں کہ اس بات پر کفر کا فتوی لگایا جاتا ہے.پس اگر لدھیانوی صاحب امام مہدی کے انکار کرنے پر فخر کرتے ہیں.تو ان کو کفر کے فتویٰ سے تکلیف کیوں ہوتی ہے.انہیں یہی کہنا چاہئے کہ اگر یہ کفر ہے تو ہم اس پر فخر کرتے ہیں دیکھئے کہ حضرت مرزا صاحب نے ایک نوع کے کفر پر کس شان سے اظہار فخر فرمایا ہے.فرمایا بعد از خدا معشق محمد مخمر تم گر کفر این بود بخدا سخت کافرم ازاله اوهام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۸۵) کہ خدا کے بعد اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں گرفتار ہونا ہی کفر ہے تو بخدا میں سخت کافر ہوں.اب آخر پر ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ خود لدھیانوی صاحب معترض کا اپنا یہ عقیدہ ہے کہ جس کو یہ سچا مہدی سمجھیں گے اس کا منکر کا فر ہو گا کیونکہ امام خدا بناتا ہے جس امام کو خدا بنائے اس کے انکار پر کفر لازم آتا ہے.پس اگر یہ عقیدہ لدھیانوی صاحب اختیار کریں.تو یہ عقیدہ جرم اور گناہ نہیں اور اگر احمدی یہی عقیدہ اختیار کریں تو یہ جرم اور گناہ بن جاتا ہے.یہ کونسی شرافت ہے اگر ہم یہ غلط کہتے ہیں تو لدھیانوی صاحب یہ اعلان کرائیں اور کثرت سے اس اعلان کو شائع کرائیں کہ امام مہدی کا منکر اور ان پر سب و شتم کرنے والا ہرگز کافر نہیں ہو گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَنْكَرَ خُرُوجَ الْمَهْدِي فَقَدْ أَنْكَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى
(ينابيع الموده الباب الثامن و السبعون از علامہ الشیخ سلیمان بن شیخ ابراہیم التوفی ۶۱۲۹۴ ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جس نے مہدی کے ظہور کا انکار کیا اس نے گویا ان ہاتوں کا انکار کیا جو محمد پر نازل ہوئیں.پھر آپ فرماتے ہیں: " مَنْ كَذَّبَ بِالْمَهْدِي فَقَدْ كَفَرَ " ) حجج الکرامه صفحه ۳۵۷ از نواب سید محمد صدیق حسن خاں بھوپالوی جس نے مہدی کو جھٹلایا اس نے کفر کیا.مطبع شاہجہان پریس بھوپال) اب ہم اس باب کو ختم کرتے ہیں.ہر اعتراض کا ترکی بہ ترکی جواب ٹھوس اور مدلل حوالہ جات کے ساتھ پیش کر دیا گیا ہے.پس ایک دفعہ ہم پھر خدا تعالیٰ کو گواہ کر کے کہتے ہیں کہ یہ انیس کے انیس اعتراض جو ان لدھیانوی صاحب نے اٹھائے ہیں یہ سراسر باطل اور جھوٹے اور حقیقت کے خلاف ہیں ہم ان کا معاملہ حوالہ بخدا کرتے ہیں.ہماری جگہ اگر غالب ہو تا تو شاید اپنا یہ مصرعہ پڑھ دیتا کہ ” وہ کافر جو خدا کو بھی نہ سونیا جائے ہے مجھ سے "
١٠٩ فصل چهارم کمی بعثت پر قادیانی بعثت کی فضیلت " فصل چهارم کا لدھیانوی صاحب نے مندرجہ بالا عنوان قائم کیا ہے جس سے وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے نزدیک حضرت مرزا صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز اور آپ کی بعثت ثانیہ کا منظر ہونے کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہیں اپنے اس دعویٰ کی تائید میں انہوں نے انیس عناوین قائم کیے ہیں.معزز قارئین ! گذشتہ اوراق میں متعدد مقامات پر ہم حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام کی عارفانہ تحریرات درج کر چکے ہیں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام نبیوں سے افضل ، رسولوں کا سردار اور آقا تسلیم کیا گیا ہے اور جن میں مرزا صاحب نے خود اپنے آپ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل غلام اور خادم بیان کیا ہے لیکن چونکہ لفظ اُنیں مولوی صاحب کے دماغ پر بہت بری طرح حاوی ہے اور اس اعتراض کی بھی انیس شکلیں بنائی ہیں اس لئے یہیں انیس کا عدد اپنی تمام شدت اور قوت کے ساتھ ان پر الٹانے کی غرض سے ہم ایک ایک نکتہ لدھیانوی کا علیحدہ علیحدہ جواب قلمبند کرتے ہیں.عقیدہ نمبر دوسری بعثت اقومی اور اکمل اور اشد اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب نے درج ذیل اقتباس درج کیا ہے." جس شخص نے اس بات سے انکار کیا کہ نبی علیہ السلام کی بعثت چھٹے ہزار سال سے تعلق نہیں رکھتی جیسا کہ پانچویں ہزار سے تعلق رکھتی تھی پس اس نے حق کا اور نص قرآن کا انکار کیا بلکہ حق یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت چھٹے ہزار کے آخر میں یعنی ان دنوں میں ( مرزا صاحب کی بعثت کے زمانے میں) بہ نسبت ان سالوں کے اقوئی اور اکمل اور اشد ہے" (خطبه الهامیه صفحه ۱۷۱) لدھیانوی صاحب کی پیش کردہ عبارت کے بعد جو دوسرا فقرہ ہے اس میں مرزا صاحب فرماتے ہیں اختار اللہ سبحانه لبعث المسيح الموعود عدة من المأت كعدة ليلة البدر
من هجرة سيدنا خير الكائنات" خطبہ الہامیہ صفحہ ۱۷۲ طبع الاول روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۲۷۲) ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کی بعثت کے لئے ، صدیوں کے شمار کو ہمارے آقا جو پوری کائنات سے افضل وجود ہیں کی ہجرت سے بدر کی راتوں کے شمار کی مانند اختیار فرمایا (یعنی چودھویں صدی ) لدھیانوی صاحب کو نہ جانے یہ دوسرا فقرہ کیوں نظر نہیں آیا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مرزا صاحب نے " اپنا آقا " قرار دیا ہے اور آپ کو " خیر الکائنات " پوری مخلوق میں سب سے افضل مانا ہے اس جملہ سے صرف ایک جملہ اوپر کی عبارت سے لدھیانوی صاحب سیاق و سباق کو نظر انداز کر کے یہ مفہوم اخذ کر رہے ہیں کہ مرزا صاحب اپنے وجود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل قرار دے رہے ہیں.قارئین کرام الدھیانوی صاحب کو خطبہ الہامیہ صفحہ ۱۷۰.۷۱ کی یہ عبارت بھی نظر نہیں آئی جس کا ترجمہ حسب ذیل ہے.مری نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب کی نسبت استاد اور شاگرد کی نسبت ہے اور خدا تعالیٰ کا یہ قول کہ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے پس آخرین کے لفظ میں غور کرو اور خدا نے مجھ پر اس رسول کریم کا فیض نازل فرمایا اور اس کو کامل بنایا اور اس نبی کریم کے لطف اور جود کو مری طرف کھینچا یہاں تک کہ مرا وجود اس کا وجود ہو گیا پس وہ جو مری جماعت میں داخل ہوا وہ در حقیقت میرے سردار خیرالمرسلین کے صحابہ میں داخل ہوا اور یہی معنے آخرین مہم کے لفظ کے بھی ہیں جیسا کہ سوچنے والوں پر پوشیدہ نہیں" (خطبہ الہامیہ صفحہ ۱۷۰ ۱۷۱ روحانی خزائن جلد نمبر ۱۶ صفحه ۲۵۸) لدھیانوی صاحب کو خطبہ الہامیہ کے شروع میں " الاعلان " کے زیر عنوان صفحہ اج کا یہ فقرہ بھی نظر نہیں آیا کہ " لما كان شان المسيح المحمدی کذلک فما اکبر شان نبی هو من استه" یعنی جب مسیح محمدی کی یہ شان ہے تو اس نبی کی کتنی بلند شان ہو گی، مسیح محمدی جس کی امت کا ایک فرد ہے.ضمیمہ خطبہ الہامیہ کے حاشیہ صفحہ "ح میں فرماتے ہیں
" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خیر الاولین والآخرین ہیں" نیز فرماتے ہیں فارت رحمتی کسیدی احمد ( خطبه الهامیه صفحه ۲۸ روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۲) میری رحمت میرے آقا احمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح جوش میں ہے.اسی کتاب میں فرماتے ہیں.هو سيد ولدادم و انقى واسعد و امام الخليقة خطبہ الہامیہ صفحہ ۱۷۲ بار اول ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه (۲۶۰) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اولاد آدم کے سردار ہیں آپ ساری مخلوق کے امام و پیشوا تمام لوگوں میں سب سے زیادہ تقویٰ شعار اور سعید بخت تھے.مولوی لدھیانوی صاحب کے دجل کی یہ حالت ہے کہ جس خطبہ سے یہ عبارت نقل کر کے اپنا سا معنی لیتے ہیں اس کی یہ عبارات یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں.ان عبارات کے ہوتے ہوئے اگر پہلی عبارت کا کوئی اور مطلب نکالے تو اسے بددیانتی نہیں تو اور کیا کہا جا سکتا ہے.قارئین کرام! پوری امت اس بات پر متفق ہے کہ آیت هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الَّدِينِ كُلَّم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصود اسلام کو تمام ادیان پر غلبہ دینا ہے اور چونکہ آپ کی زندگی میں بوجہ عدم وسائل ایسا نہ ہو سکا اس لئے مسیح موعود کے زمانے میں اس کے ہاتھوں یہ کام انجام پائے گا.چنانچہ ابو داؤد کتاب الملاحم باب خروج الدجال میں بھی پیشگوئی لکھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا يُهْلِكُ اللَّهُ فِي زَمَانِهِ الْمِلَكَ كُلَّهَا إِلَّا الْإِسْلَامَ یعنی اللہ تعالیٰ مسیح موعود کے زمانے میں اسلام کے سوا باقی تمام مذاہب کو دلائل کے لحاظ سے مردہ ثابت کر دے گا.چنانچہ لدھیانوی صاحب کی مزید تسلی کے لئے ہم ان کے ایک مسلم بزرگ شہید بالا کوٹ حضرت مولانا محمد اسماعیل شہید کا قول درج کرتے ہیں.
لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّہ کی آیت کے متعلق فرماتے ہیں.و ظاہر است که ابتدائے ظہور دین در زمان پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم بوقوع آمده و اتمام آن از دست حضرت مهدی واقع خواهد گردید منصب امامت از مولانا محمد اسماعیل شهید صفحه ۷۰ مطبوعہ آئینہ ادب چوک مینار انار کلی لاہور ۱۹۶۷ء ) یعنی ظاہر ہے کہ دین کی ابتداء حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی لیکن اس کا "3 اتمام مہدی کے ہاتھ پر ہو گا.پھر آیت قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ اللَيْكُمْ جَمِيعًا کے ماتحت لکھتے ہیں :- و ظاهر است که تبلیغ رسالت به نسبت جمیع ناس از آنجناب متحقق نگشته بلکه امر دعوت از شروع گردیده یوما فیوما بواسطه خلفاء راشدین و ائمه مهد ببین رو به تزاید کشید تا اینکه بواسطه امام مهدی با تمام خواهد رسید" منصب امامت صفحه ای از مولانا سید محمد اسماعیل شهید آئینہ ادب چوک مینار انار کلی لاہور ۱۹۶۷) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تبلیغ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تمام لوگوں کو نہیں ہوئی بلکہ آہستہ آہستہ خلفاء راشدین اور دیگر ائمہ کے ذریعہ بڑھتی رہی اور اب امام مہدی کے ذریعہ اس کی تکمیل ہوگی.المُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِہ کی آیت قرآن کریم میں تین مقامات پر آئی ہے سورۃ توبہ آیت نمبر ۳۳ سورة الفتح آیت نمبر ۲۹ اور سورۃ الصف آیت نمبر 10 ہم بعض پرانی تفاسیر کے حوالہ جات مذکورہ بالا تشریح کی تائید میں یہاں درج کرتے ہیں تا قارئین کو اس کے مضمون کی بابت اندازہ ہو سکے.تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے " و ذلك عند نزول عیسی علیہ السلام" (الجزء العاشر سورۃ توبہ صفحہ ۷۷ زیر آیت (هذا) یعنی اکثر مفسرین اس امر کے قائل ہیں کہ یہ وعدہ مسیح موعود کے زمانہ میں پورا ہو گا.پھر ایک اور جگہ لکھتے ہیں ” و قبل ان تمام هذا الاعلاء عند نزول عيسى" (روح المعانی جزو نمبر ۳۶ سورة الفتح صفحه ۱۲ زیر آیت (هذا)
کہ یہ وعدہ مسیح موعود کے زمانہ میں پورا ہو گا.امام فخر الدین رازی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں ” روی عن ابی هریره رضی الله عنه انه قال هذا و عد من الله بانه تعالى يجعل الاسلام عاليا على جميع الاديان و تمام هذا انما يحصل عند خروج عیسی و قال السدى ذلك عند خروج المهدی ( تفسیر رازی جزو نمبر ۱۶ تفسیر سوره توبه صفحه ۴۰ زیر آیت هذا زیر عنوان الوجه الثانی) ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس آیت میں وعدہ ہے کہ اللہ تعالٰی تمام دینوں پر اسلام کو غالب کرے گا اور اس وعدہ کی تکمیل مسیح موعود کے وقت میں ہوگی ، اور سدی کہتے ہیں کہ یہ وعدہ مہدی موعود کے زمانہ میں ہو گا.تفسیر قرطبی میں لکھا ہے " قال ابو هريرة و الضحاك هذا عند نزول عیسی علیہ السلام و قال السدی ذاک عند خروج المهدى" ( تفسیر قرطبی جزو نمبر ۸ سورۃ توبه زیر آیت هذا صفحه ۱۲۱) کہ حضرت ابو ہریرہ اور ضحاک کہتے ہیں کہ یہ وعدہ نزول مسیح کے وقت پورا ہو گا اور سندی کہتے ہیں کہ ظہور مہدی پر یہ وعدہ پورا ہو گا.پس اگر امام مہدی اور موعود عیسی کے زمانہ میں مقصد اسلام پایہ تکمیل کو پہنچے تو یقیناً محمد رسول اللہ کی شان اقومی اور ارفع ہو کر دنیا میں ظاہر ہوگی نہ کہ خود عیسی اور مہدی کی شان اقومی اور ارفع ہو گی.پس جب بھی جماعت احمدیہ کے علم کلام میں ایسا کلام ملتا ہے وہاں بلاشبہ اور بغیر شک کے ہمیشہ یہی مراد ہوتی ہے کہ جب بھی رسول اللہ کا دین اکمل اور ارفع ہو گا اور مہدی اور عیسی کے زمانہ میں قرآنی پیشگوئی کے مطابق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین پوری شان سے ادیان باطلہ پر غالب آئے گا.تو یہ دور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کو پہلے سے بڑھ کر روشن اور قوی کر کے ظاہر کرے گا.غالبا اس مضمون کی طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی حدیث اشارہ فرما رہی ہے کہ میری امت کی مثال اس بارش کی طرح ہے کہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا پہلا حصہ بہتر ہے
یا دوسرا.(مسند احمد بن حنبل جلد ثالث صفحه ۱۳۰ روایت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ) بہت ہی نجی انسان ہو گا جو اس حدیث کا یہ مطلب نکالے کہ بارش کا کوئی حصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ نہیں گیویا اول بارش محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دور اور آخر بارش کسی اور کا دور ہے اور وہ حصہ محمد رسول اللہ کے حصہ سے افضل ثابت ہو گا.اس عارفانہ حدیث کا سوائے اس کے اور کوئی مطلب نہیں نکل سکتا کہ پہلا دور با برکت ثابت ہو یا آخری دونوں صورتوں میں وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکتوں والی بارش ہی ہوگی.پس آخری دور میں یہ فتح بھی ہر چند کہ وہ فتح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کے ذریعہ ہو اس کا سہرا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی سر ہو گا.اس طرف حضرت مرزا صاحب کا یہ الہام اشارہ فرما رہا ہے." بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں برمنا ر بلند تر محکم افتاد " مسیح موعود علیہ السلام نے اس عمارت کی بنا ڈال دی ہے کہ جو خواہ کتنی بھی بلند ہو اس کی رفعتوں پر ہمیشہ محمد رسول اللہ کا قدم رہے گا.اور اس کی بلندی سے محمد رسول اللہ کا بلند تر مقام دنیا میں ظاہر ہوتا چلا جائے گا.عقیدہ نمبر ۲ روحانی ترقیات کی ابتدا اور انتہاء اس عنوان کے تحت درج ذیل اقتباس درج کیا گیا ہے." ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت نے پانچویں ہزار میں اجمالی صفات کے ساتھ (مکہ میں ) ظہور فرمایا اور وہ زمانہ اس روحانیت کی ترقیات کی انتہا کا نہ تھا بلکہ اس کے کمالات کے معراج کے لئے پہلا قدم تھا پھر اس روحانیت نے چھٹے ہزار کے آخر میں یعنی اس وقت ( قادیان میں ) پوری تجلی فرمائی.(خطبہ الہامیہ صفحہ ۱۷۷)
۱۵ یہ عبارت خطبہ الہامیہ روحانی خزائن جلد ۱۶ کے صفحہ ۲۶۶ پر ہے خطبہ الہامیہ کی اصل عبارت عربی میں ہے اس کے نیچے فارسی اور اردو ترجمہ ساتھ ساتھ چلتا ہے.لدھیانوی صاحب نے اس کا اردو ترجمہ درج کیا ہے اور ترجمہ درج کرتے ہوئے انہوں نے اپنی طرف سے عبارت کے اندر دو بر یکٹیں ڈال دی ہیں جو نہ اصل عربی عبارت میں ہیں اور نہ اردو ترجمہ میں.ان کی بریکٹیں بتا رہی ہیں کہ بہتان سے کام لینے کے لئے حضرت مرزا صاحب کی تحریروں میں تصرف سے کام لیا ہے تاکہ مکہ کے مقابل پر نعوذ باللہ قادیان کو رکھ کر اشتعال انگیزی کریں یہاں نہ مکہ کا ذکر ہے نہ قادیان کا صرف آنحضور کی روحانیت کے آغاز اور اس کے دن بدن روشن تر ہونے کا ذکر ہے جو آخری زمانہ میں پہلے سے بڑھ کر دنیا میں جلوہ گر ہو رہی ہے اور شان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمیشہ بڑھتے رہنے کے عقیدہ کی سند قرآن کریم میں ہے ایک تو جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِ المُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلَّم کہ ایک زمانہ آئے گا کہ اللہ تعالیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو سب دوسرے دینوں پر غالب کر دے گا اور سب دوسرے دینوں پر غالب آنے سے جو روحانیت ظاہر ہو گی وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ہی ہوگی نہ کہ کسی دوسرے کی.دوسرے سورۃ الضحی میں فرمایا - وَلَلآخِرَةُ خَيْرُ الكَ مِنَ الأُولیٰ کہ " تیرا آخر تیرے اول سے بہتر ہو گا " یہ پیشگوئی اس پر شاہد ناطق ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان آئندہ بڑھے گی.اور جو غلامان محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، شان بڑھانے میں مدد کریں گے یہ ان کی نہیں بلکہ "محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ہو گی.قرونِ اولیٰ میں صحابہ نے قربانیاں دیں وہ بھی دراصل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان تھی جو صحابہ میں جلوہ گر تھی پس یہی معنے ہیں حضرت مرزا صاحب کی مذکورہ بالا عبارت کے اس میں نہ مکہ اور قادیان کا ذکر ہے اور نہ قادیان کی مکہ پر فضیلت کا دعویٰ کیا گیا ہے ہمارے نزدیک ایسا خیال شیطانی ہے جس سے ہرگز ہمارا کوئی تعلق نہیں.یہی بات بعینہ خطبہ الہامیہ میں زیر نظر عبارت کی تیسری سطر میں خوب کھول کر پیش کر دی
گئی ہے جو یہ ہے." خیر الرسل کی روحانیت نے اپنے ظہور کے کمال کے لئے اور اپنے نور کے غلبہ کے لئے ایک مظہر اختیار کیا جیسا کہ خدا تعالٰی نے کتاب مبین میں وعدہ فرمایا تھا " خطبہ الہامیہ روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۶۷) اس میں مرزا صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خیر الرسل یعنی تمام رسولوں سے افضل قرار دیتے ہیں اور اپنے آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مظہر.اس سے قارئین اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے مخالف کس قدر بغض و عناد میں جتلا ہو چکے ہیں یہ تو ممکن نہیں کہ لدھیانوی صاحب کی نظر اس عبارت سے آگے نہ گئی ہو اور اسی جگہ رک گئی ہو اگر انہوں نے اس کتاب کا مطالعہ کیا ہوتا تو انہیں تیسری سطر کیوں نہ دکھائی دی؟ عقیدہ نمبر ۳ پہلے سے بہت بڑی اور زیادہ فتح مبین اس عنوان کے تحت وہ درج ذیل اقتباس درج کرتے ہیں.اور ظاہر ہے کہ فتح مبین کا وقت ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں گذر گیا اور دوسری فتح باقی رہی جو کہ پہلے غلبہ سے بہت بڑی اور زیادہ ظاہر ہے اور مقدر تھا کہ اس کا وقت مسیح موعود کا وقت ہو اور اسی کی طرف خدا تعالٰی کے قول میں اشارہ ہے سبحان الذی اسرى بعبده (خطبه الهاميه صفحه ۱۹۳) یہ عبارت خطبہ الہامیہ روحانی خزائن جلد آ کے صفحہ ۲۸۸ پر ہے اور یہاں پر اس عبارت کے سیاق و سباق میں یہ مضمون بیان ہو رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مخالفین اسلام نے اسلام کو دلائل سے مٹانے کی کوشش نہیں کی بلکہ تلوار کے ذریعے جنگیں کر کے مسلمانوں کو زدو کوب اور شہید کر کے اسلام کو مٹانے کی کوشش کی تھی چنانچہ آپ کی زندگی میں اللہ تعالٰی نے تمام ملک عرب پر آپ کو فتح مبین عطا فرمائی.لیکن آپ کے دین کا
112 مقابلہ مسیح موعود کے زمانے میں کیونکہ دنیا کے تمام ادیان سے ہونا مقدر تھا.جیسا کہ آیت...کا ذکر پہلے گزر چکا ہے.اس کے نتیجہ میں صرف ایک ملک نہیں بلکہ دنیا کی تمام اقوام اور تمام ممالک دلائل کے ذریعے اسلام کو مٹانے کی کوشش کریں گے اور پیشگوئیوں کے مطابق دلائل کے ذریعے مسیح موعود کے زمانے میں اللہ تعالٰی نے اسلام کو تمام ملکوں اور تمام دینوں پر فتح عطا فرمائے گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان کا نتیجہ ہونے کی بنا پر آپ ہی کی فتح مبین ہو گی ظاہر ہے کہ اسلام جو آج تک دنیا کی آبادی کا بیسواں حصہ ہے جب یہ تمام ادیان پر غالب آجائے گا تو بنی نوع انسان کے سب سے بڑے مذاہب کے طور پر ابھرے گا جو دراصل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی فتح ہے جو پہلے سے عظیم تر ہے اس لئے ایک فتح کا دوسری فتح سے موازنہ کرنا جو قرآن کریم کے عین مطابق ہے تو اگر لدھیانوی صاحب کو یہ سب کبھی دکھائی دیتی ہے تو ان کی ذہنی کیفیت کے بارے میں ہم کیا کہہ سکتے ہیں.محض کجروی کی بنا پر عبارتوں کو بگاڑ کر سادہ لوح عوام کو جنہوں نے کتا بیں نہیں پڑھیں دھوکا دیتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب نے نعوذ باللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے برتر ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے اور پھر اس کے ثبوت کے طور پر یہ پیش کر دیا کہ میری فتح در اصل بڑی ہے لعنتہ اللہ علی الکاذبین.یہاں زمانہ اول کا آخر سے مقابلہ پیش کیا جا رہا ہے جس سے قرآن کریم کی صداقت کا مظاہرہ ہو رہا ہے اور آیت وَلَلآخِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ الاُولیٰ کی پیشگوئی کے پورا ہونے کا ذکر کیا جا رہا ہے جو نبی لوگوں کو پتہ نہیں سمجھ میں نہیں آتا یا جان بوجھ کر وہ شرارت سے کام لیتے ہیں.ہم قبل ازیں اسی فصل چہارم میں سب سے پہلے اعتراض بعنوان ” دوسری بعثت اقومی اور اکمل اور اشتر" کے جواب میں بزرگان دین کے اقوال درج کر چکے ہیں کہ آخری زمانہ یعنی مسیح و مہدی کے زمانہ میں اسلام ساری دنیا کے تمام مذاہب پر غالب آئے گا.عجیب بات ہے کہ وہ بات جو لدھیانوی صاحب کے مسلم بزرگ بیان کرتے چلے آئے ہیں اگر وہی بات حضرت مرزا صاحب لکھ دیں تو لدھیانوی صاحب کو سخت تکلیف ہوتی ہے اور بھر کر اعتراض کرنا شروع کر دیتے ہیں کاش لدھیانوی صاحب ہم پر حملہ کرنے کی بجائے پہلے اپنے گھر کی
IA خبر لے لیا کریں کیا کوئی تصور بھی کر سکتا ہے کہ کسی جرنیل کے کسی ماتحت کی فتوحات کو جرنیل کے مقابل پر پیش کیا جائے یا کسی جرنیل کی فتوحات کو فرمانروائے سلطنت کے مقابل پر پیش کر کے اس کا رتبہ بڑھایا جائے.محض جہالت اور تعصب کی باتیں ہیں اس کے سوا ان کی کوئی حیثیت نہیں کیا حضرت عمر کے زمانے میں حضرت ابو عبیدہ بن الجراح یا حضرت سعد بن ابی وقاص وغیرہ اپنی فتوحات کو حضرت عمرہ کے مقابل پر پیش کیا کرتے تھے یا خلفاء راشدین کو جو فتوحات ہوئیں وہ آنحضرت کے مقابل پر پیش کی گئیں؟ یہی جماعت احمدیہ کا مسلمہ عقیدہ ہے جو تمام دنیا کے احمدیوں کا اٹل اور غیر متزلزل اعتقاد ہے.پس ایسی پاک جماعت اور اس کے پاک امام پر ایسے بیہودہ خیالات اپنی طرف سے پیش کر کے ناپاک حملے کرنا شرفاء کو زیب نہیں دیتا.عقیدہ نمبر ۴ زمان البركات اس عنوان کے تحت یہ اقتباس دیا گیا ہے.غرض اس زمانہ کا نام جس میں ہم ہیں زمان البرکات ہے ، لیکن ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ زمان التائیدات اور دفع البلیات تھا." (اشتہار ۲۸ مئی ۱۹۰۰ء تبلیغ رسالت صفحه ۴۴ ج ۵) اس عبارت میں بھی کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے صرف یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اسلام اور اہل اسلام کو کفار کی جانب سے بڑے خطرات تھے اور ہر وہ شخص جو مسلمان ہوتا اس پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے تھے چنانچہ اللہ تعالی نے آپ کی زندگی میں ان مصائب کو دور کیا اور کفار کے بالمقابل آپ کو اپنی تائیدات سے نوازا لیکن مسیح موعود کے زمانہ میں اسلام کے مخالفین اسلام کی تعلیمات میں اپنے دلائل اعتراضات اور وسادس کے ذریعہ خامیاں اور عیوب تلاش کرتے ہیں اس لئے اس زمانہ میں اللہ تعالی اسلامی تعلیم کی خوبیاں اس کی حکمتیں اور برکات کا اظہار کر رہا ہے.یہ مضمون ہے جس کو مختلف عنادین کے تحت پیش کر کے عامتہ الناس کی نظر سے چھپایا جا رہا ہے.کوئی قاری اگر اس عنوان کے تابع مضمون پڑھ لے تو اس کے علاوہ اسے کوئی اور مضمون دکھائی نہ دے گا.
#19 کاش مولوی صاحب تقویٰ سے کام لیں آخر خدا کو جان دینی ہے وہاں پر ضرور پوچھے جائیں گے.عقیدہ نمبر ۵ ہلال اور بدر اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب یہ پیرا گراف درج کرتے ہیں." اسلام ہلال کی طرح شروع ہوا اور مقدر تھا کہ انجا مکار آخر زمانہ میں بدر ( چودھویں کے چاند کی طرح کامل و مکمل ) ہو جائے خدا تعالیٰ کے حکم سے.پس خدا تعالی کی حکمت نے چاہا کہ اسلام اس صدی میں بدر کی شکل اختیار کرے جو شمار کی رو سے بدر کے مشابہہ ہو (یعنی چودھویں صدی ) پس ان ہی معنوں کی طرف اشارہ ہے خدا تعالیٰ کے اس قول میں کہ لند نَصَرَكُمُ اللهُ بِبَدْرٍ" (خطبه الهامیه صفحه ۱۸۴) یہ اقتباس خطبہ الہامیہ روحانی خزائن جلد نمبر ۱۶ کے صفحہ ۲۷۵ پر ہے اور لدھیانوی صاحب نے اس عبارت میں خود ہی بریکیں ڈال کر عبارت کو قابل اعتراض بنانے کی کوشش کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان بریکٹوں کے باوجود اس سے یہی عیاں ہے کہ اسلام کی تدریجی ترقی کا ذکر ہو رہا ہے جو لازماً بڑھتی چلی جائے گی.اب اگر اس تدریجی ترقی سے کسی کو تکلیف ہوتی ہو تو اس کا ہم کیا کر سکتے ہیں انہی وعدے تو ضرور پورے ہوں گے اور اسلام نے بہر حال ضرور بڑھتے چلے جانا ہے یہاں اسلام ہی کی بات ہو رہی ہے نعوذ باللہ اسلام کے مقابل کسی اور دین کی بات تو نہیں کی جا رہی کہ جس سے لدھیانوی صاحب کو اذیت پہنچے.معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ تاثر پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ نعوذ بالله مرزا صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہلال اور اپنے آپ کو بدر کہہ رہے ہیں یہ اتنا بڑا بہتان ہے کہ حیرت ہوتی ہے لدھیانوی صاحب کی جسارت پر.یہ اس شخص کے بارہ میں بات کر رہے ہیں کہ جب وہ اپنے لئے چاند کی تشبیہ بیان کرتا ہے تو مقابل پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سورج قرار دیتا ہے.اور خود کو محمد رسول اللہ سے روشنی اخذ کرنے والا چاند قرار دیتا ہے.ناممکن ہے کہ لدھیانوی
صاحب کی نظر سے یہ عبارتیں نہ گذری ہوں جو اس بات پر شاہد ناطق ہیں کہ یہاں ہلال اور بدر سے رسول اللہ اور مرزا صاحب مراد نہیں بلکہ سرا جا منیرا کی وہ روشنی ہے جس نے اسلام کو ہلالی حالت سے بدر میں تبدیل کرنا ہے.چنانچہ مرزا صاحب فرماتے ہیں.و ان رسول الله شمس منيرة و بعد رسول الله بدر و كوكب (کرامات الصادقین صفحہ ۶ روحانی خزائن جلد نمبرے صفحہ ۱۰۳ مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ ) ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو یقینا روشنی دینے والے سورج ہیں اور آپ کے بعد تو بدر اور کو کب کا زمانہ ہے.ایک اور جگہ فرماتے ہیں:.” وہی ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعوی کرتا ہے وہ انسان نہیں بلکہ ذریت شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیا گیا ہے جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے.ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے ہم کافر نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اس نبی کے ذریعہ سے پائی.زندہ خدا کی شناخت ہمیں اس کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا.اس آفتاب ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اس وقت تک ہم پر پڑتی ہے اور اس وقت ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں " ( حقیقتہ الوحی صفحہ ۱۶-۱۵) نیز فرماتے ہیں." ہمارا اس بات پر بھی ایمان ہے کہ ادنی درجہ صراط مستقیم کا بھی بغیر اتباع ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرگز انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ راہ راست کے اعلیٰ مدارج بحجز اقتداء اس امام الرسل کے حاصل ہو سکیں کوئی مرتبہ شرف و کمال کا اور کوئی مقام عزت اور قرب کا بجز بیچی اور کامل متابعت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم ہرگز حاصل کر ہی نہیں
۱۲۱ سکتے ہمیں جو کچھ ملتا ہے ظلی اور طفیلی طور پر ملتا ہے" (ازالہ اوہام حصہ اول صفحه ۱۳۷ روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۷۰) عقیدہ نمبر ۶- ظہور کی تکمیل اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب نے درج ذیل اقتباس درج کیا ہے." قرآن شریف کے لئے تین تجلیات ہیں وہ سید نا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے نازل ہوا.اور صحابہ رضی اللہ عنمم کے ذریعہ اس نے زمین پر اشاعت پائی اور مسیح موعود ( مرزا غلام احمد ) کے ذریعہ سے بہت سے پوشیدہ اسرار اس کے کھلے.ولكل امر وقت معلوم.اور جیسا کہ آسمان سے نازل ہوا تھا ویسا ہی آسمان تک اس کا نور پہنچا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں اس کے تمام احکام کی تکمیل ہوئی اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے وقت میں اس کے ہر ایک پہلو کی اشاعت کی تکمیل ہوئی اور مسیح موعود کے وقت میں اس کے روحانی فضائل اور اسرار کے ظہور کی تکمیل ہوئی " ( براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۵۲) اس عبارت میں بھی کوئی قابل اعتراض بات نہیں.تینوں چیزیں وہی ہیں جو پوری امت مسلمہ کے نزدیک مسلمہ ہیں صحابہ جن کے ذریعے جو خدمت قرآن ہوئی.اس کے نتیجہ میں صحابہ کی شان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ثابت نہیں ہوتی.کیونکہ آپ کے فیضان کے نتیجے میں صحابہؓ کے ذریعہ اس کی اشاعت ہوئی اور مسیح موعود کے زمانہ میں جو خدمت قرآن ہو گی اور مخالفین اسلام کے اس میں قرآن کریم کی تعلیمات پر اعتراضات اور وساوس پیدا کرنے کے نتیجہ میں قرآنی تعلیمات کی جو حکمتیں ، اسرار اور فضائل کا ظہور ہو گا اور وسائل کی فراوانی کے سبب پوری دنیا میں اسرار قرآنی پھیلیں گے تو اس کے نتیجہ میں مسیح موعود کی شان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ثابت نہیں ہوتی کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان کے نتیجہ میں ہی مسیح موعود کے ذریعہ مسیح موعود کے زمانہ میں یہ خدمت قرآن ہو گی.سمجھ نہیں آتی کہ مولوی صاحب کو اس میں اعتراض کی کونسی بات نظر آئی ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآن پڑھتے ہی نہیں ورنہ قرآن کی آیت ہے جو قرآن کریم کے بارے میں بتاتی ہے ان من فی الا عند ناخز انند و ما ننزله الا بقدر معلوم بے شمار خزائن ہیں جو زمانہ کے مطابق ظہور کرتے ہیں اسی قرآن کریم میں نہ کسی اور کتاب میں بدلتے ہوئے زمانے کے لحاظ
۱۲۲ سے جو نئے علوم پیدا ہوئے ہیں ان سے جب بھی اسلام پر حملہ کیا جاتا ہے تو قرآن کریم میں کافی و شافی دلائل موجود ہوتے ہیں اور جس قدر یہ علوم پھیلتے چلے جاتے ہیں قرآن کریم کے باطنی علوم کھل کر سامنے آجاتے ہیں.ان پر اگر مولوی صاحب کی نظر نہیں تو اس کا کیا علاج ہے ؟ یہ مضمون تو شانِ قرآن بڑھانے والا ہے نہ کہ اس کی شان میں گستاخی ہے.عقیدہ نمبرے حقائق کا انکشاف لدھیانوی صاحب یہاں یہ اقتباس پیش کرتے ہیں.اسی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ابن مریم اور دجال کی حقیقت کاملہ بوجہ نہ موجود ہونے کسی نمونہ کے موبمو منکشف نہ ہوئی ہو اور نہ دجال کے ستر باع گدھے کی اصل کیفیت کھلی ہو اور نہ یا جوج ماجوج کی عمیق تہہ تک وحی الہی نے اطلاع دی ہو اور نہ دابتہ الارض کی ماہیت ہی ظاہر فرمائی گئی ہو تو کچھ تعجب کی بات نہیں (مگر بعثت ثانی میں مرزا صاحب پر یہ حقائق پوری طرح منکشف ہو گئے " ہے (ازالہ اوهام صفحه ۶۹۱ روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۷۳) لدھیانوی صاحب نے اعتراض بنانے کے لئے عبارت کے آگے بریکٹ میں اپنی طرف ، فقرہ درج کر دیا ہے تا اعتراض بن جائے کیونکہ اس فقرہ کے اضافے کے بغیر اعتراض بنتا ہی نہیں.قارئین کرام اس عبارت کو دوبارہ ملاحظہ فرمائیں.یہ لفظ " اگر " سے شروع ہو رہی ہے اور کچھ تعجب کی بات نہیں " پر ختم ہو رہی ہے.اس میں مرزا صاحب نے یہ نہیں بیان فرمایا کہ ان امور کی حقیقت وحی الہی نے آپ کو نہیں بتلائی بلکہ لفظ اگر سے عبارت شروع ہو رہی ہے کہ اگر خدا نے نہ بتائی ہو اور آپ کی بعثت ثانی میں ظاہر ہو گئی ہو تو کچھ تعجب کی بات نہیں.معزز قارئین! اصل بات یہ ہے کہ اس عبارت کے سیاق و سباق میں مرزا صاحب یہ مضمون بیان فرما رہے ہیں کہ مستقبل کے بارے میں جو پیشگوئیاں ہوتی ہیں ان کے بارے میں یہ تفصیل کہ وہ کب اور کیسے پوری ہونگی یہ ساری تفصیل اللہ تعالی بعض اوقات اپنے نبیوں کو
۱۳۳ نہیں بتایا کرتا.صرف یہ خبر دیا کرتا ہے کہ فلاں بات ہو گی اور اس کی تمام جزئیات اور اخبار کی تفصیل نہیں دیا کرتا.جب وہ پیشگوئی پوری ہو جاتی ہے تو پھر اس کی پوری حقیقت کھلتی ہے.جب تک پیشگوئی پوری نہ ہو اس کی تفاصیل کے سمجھنے میں غلطی لگ سکتی ہے اور بعض اوقات نبیوں کو بھی غلطی لگ جاتی ہے.دوسرے یہ معروف بات ہے اور احادیث میں کثرت سے درج ہے کہ دجال کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئیں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس جستجو میں رہتے تھے کہ دجال کون ہے.کب ظاہر ہو گا.وغیرہ وغیرہ چنانچہ دخان والی حدیث پر غور کر کے دیکھیں.انبیاء کو بعض اوقات دور دور کی خبروں سے مطلع کیا جاتا ہے جن کی پوری کیفیت بدلے ہوئے زمانہ میں ہی واضح ہو سکتی ہے اور پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابن صیاد کو دجال کیوں سمجھتے پس یہ حدیث قطعی گواہ ہے کہ یہ مضمون نہ صرف یہ کہ غلط نہیں بلکہ احادیث صحیحہ کے عین مطابق ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کمال ادب اور عشق کی رو سے اس بات کو اس نظر سے دیکھا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں جن کا پورا ہونا آپ کی بعثت ثانی کے ساتھ مقدر تھا خدا تعالیٰ نے بعثت ثانی کے وقت ظاہر فرما دیں.قار مکین کو ہم دعوت دیتے ہیں کہ اگر وہ دیکھیں کہ حضرت مرزا صاحب کس قدر محمد رسول اللہ کے خادمانہ اور غلامانہ عشق میں مگن ہیں تو وہ یقیناً اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ آپ پر آنحضرت کی شان میں گستاخی کا دور کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا.زیر نظر معالمہ کی مزید وضاحت خود مرزا صاحب کی اس عبارت میں موجود ہے.البتہ مولوی صاحب جس طرح کتر کیوانت سے کام لیتے ہیں اس سے مولوی صاحب کی خصلت کا پتہ چل جائے گا.جو قابل اعتراض بات انہوں نے نکالی ہے وہ تو حضرت مرزا صاحب نے رسول اللہ کے دفاع میں ایک عارفانہ حربے کے طور پر تحریر کی ہے.اگر لدھیانوی صاحب اسی عبارت سے منسلکہ تھوڑی سی پہلی عبارت بھی درج کر دیتے تو ان کے اعتراض کی عمارت خود بخود منہدم ہو جاتی.حضرت مرزا صاحب نے یہاں کئی ایک مثالیں پیش کی ہیں جن کی وجہ سے دشمن اعتراض
۱۲۴ کر سکتا ہے.مثلاً ا.” یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ایسے امور میں جو عملی طور پر سکھلائے نہیں جاتے اور نہ ان کی جزئیات مخفیہ سمجھائی جاتی ہیں انبیاء سے بھی اجتہاد کے وقت امکان سہو د خطا ہے مثلاً اس خواب کی بناء پر جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے جو بعض مومنوں کے لئے موجب ابتلاء کا ہوئی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کا قصد کیا اور کئی دن تک منزل در منزل طے کر کے اس بلدۂ مبارکہ تک پہنچے مگر کفار نے طواف خانہ کعبہ سے روک دیا اور اس وقت اس رویا کی تعبیر ظہور میں نہ آئی لیکن کچھ شک نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی امید پر یہ سفر کیا تھا کہ اب کے سفر میں ہی طواف میسر آجائے گا اور بلاشبہ رسول اللہ صلعم کی خواب وحی میں داخل ہے لیکن اس وحی کے اصل معنے سمجھنے میں جو غلطی ہوئی اس پر متنبہ نہیں کیا گیا تھا.تبھی تو خدا جانے کئی روز تک مصائب سفر اٹھا کر مکہ معظمہ میں پہنچے اگر راہ میں متنبہ کیا جاتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ضرور مدینہ منورہ میں واپس آ جاتے.۲.اسی طرح ابن صیاد کی نسبت صاف طور پر وحی نہیں کھلی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اول اول یہی خیال تھا کہ ابن صیاد ہی دجال ہے مگر آخر میں رائے بدل گئی تھی" ازالہ اوہام ۶۸۷ تا ۶۸۹ روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۷۲۴۴۷۱) بشری تقاضوں کے تحت ہونے والی اجتہادی غلطیوں کی چند دوسری مثالیں دینے کے بعد فرماتے ہیں.بهر حال ان تمام باتوں سے یقینی طور پر یہ اصول قائم ہوتا ہے کہ پیشگوئیوں کی تاویل اور تعبیر میں انبیاء علیہم السلام کبھی غلطی بھی کھاتے ہیں جس قدر الفاظ وحی کے ہوتے ہیں وہ تو بلاشبہ اول درجہ کے بچے ہوتے ہیں مگر نبیوں کی عادت ہوتی ہے کہ کبھی اجتہادی طور پر بھی اپنی طرف سے ان کی کسی قدر تفصیل کرتے ہیں اور چونکہ وہ انسان ہیں اس لئے تغیر میں کبھی احتمال خطا کا ہوتا ہے.لیکن امور دینیہ ، ایمانیہ میں اس خطاب کی گنجائش نہیں ہوتی کیونکہ ان کی تبلیغ میں من جانب اللہ بڑا اہتمام ہوتا ہے اور وہ نبیوں کو عملی طور پر بھی سکھلائی جاتی ہیں.چنانچہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہشت اور دوزخ بھی دکھایا گیا اور آیات متواترہ محکمہ بینہ سے جنت اور نار کی حقیقت بھی ظاہر کی گئی ہے.پھر کیونکر ممکن تھا کہ اس کی تفسیر
۱۲۵ میں غلطی کر سکتے.غلطی کا احتمال صرف ایسی پیشگوئیوں میں ہوتا ہے جن کو اللہ تعالی خود اپنی کسی مصلحت کی وجہ سے مہم اور مجمل رکھنا چاہتا ہے.اور مسائل دینیہ سے ان کا کچھ علاقہ نہیں ہوتا.یہ ایک نہایت دقیق راز ہے جس کے یاد رکھنے سے معرفتِ صحیحہ، مرتبہ نبوت کی حاصل ہوتی ہے.اور اسی بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ابن مریم اور دجال کی حقیقت کاملہ بوجہ نہ موجود ہونے کسی نمونہ کے موسمو منکشف نہ ہوئی ہو اور نہ دجال کے ستر باغ کے گدھے کی اصل کیفیت کھلی ہو اور نہ یاجوج ماجوج کی عمیق تہہ تک وحی الہی نے اطلاع دی ہو.اور نہ دابتہ الارض کی ماہیت کما ھی بھی ظاہر فرمائی گئی اور صرف امثلہ قریبہ اور صور متشابہ اور امور متشاکلہ کے طرز بیان میں جہاں تک غیب محض کی تقسیم بذریعہ انسانی قومی کے ممکن ہے اجمالی طور پر سمجھایا گیا ہو تو کچھ تعجب کی بات نہیں اور ایسے امور میں اگر وقتِ ظہور کچھ جزئیات غیر معلومہ ظاہر ہو جائیں تو شان نبوت پر کچھ جائے حرف (ازالہ اوہام صفحہ ۶۹۰ - ۶۹۱ روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۷۳٬۴۷۲) نہیں" پس اس سیاق و سباق کے ساتھ جناب لدھیانوی صاحب زیر نظر عبارت پیش کرتے تو اعتراض قائم ہونے کی کوئی بنیاد ہی نہ تھی.عقیدہ نمبر ۸ صرف چاند - چاند اور سورج دونوں اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب نے اعجاز احمدی صفحہ اے سے عربی کا ایک شعر مع ترجمہ لکھا ہے وہ ترجمہ یوں ہے " اس (یعنی نبی کریم ) کے لئے (صرف) چاند کے گرہن کا نشان ظاہر ہوا اور میرے لئے چاند اور سورج دونوں ) کے گرہن ) کا اب تک تو انکار کرے گا (صفحه ۳۶) جناب مولوی صاحب اتنے کو رباطن انسان ہیں کہ انہیں پتہ نہیں چلتا کہ اعتراض کس پر کر رہے ہیں حقیقت میں مولوی صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر اعتراض کر رہے ہیں تمام علماء جانتے ہیں کہ چاند سورج گرہن کی پیشگوئی حضرت مرزا صاحب نے نہیں
۱۲۶ بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی تھی اور یہ بھی جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں چاند کا گرہن ہوا تھا.اور یہی بات حضرت مرزا صاحب نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے اظہار کے لئے بیان کی ہے اور چاند اور سورج کے گرہن کو آج تک کسی احمدی عالم نے حضرت مرزا صاحب کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فضیلت کے طور پر پیش نہیں کیا لیکن یہ مولوی اتنے جاہل ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی جو ایک مسلمہ حقیقت چلی آرہی ہے اور گذشتہ چودہ سو سال میں دین کے مفکرتین نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو صرف ایک چاند ہی کو گرہن لگا تھا اور مہدی کے لئے چاند اور سورج دو کو کیوں گرہن لگے گا.اور نہ ہی کسی نے اس وجہ سے مہدی کی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر فضیلت کا سوچا ہے لیکن ان مولوی صاحب کے ذہن میں فتنہ کو ندا ہے کہ مرزا صاحب نے اپنی تائید میں یہ نشان پیش کر کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی فضیلت کا اعلان کیا ہے.یہ مولوی صاحب کی نیت کی کبھی نہیں تو اور کیا ہے یہ حملہ تو بظاہر حضرت مرزا صاحب پر کرتے ہیں لیکن عملاً ان باتوں پر کرتے ہیں جو حضرت مرزا صاحب کی تخلیق نہیں بلکہ وہ مسائل دینیہ ہیں جن کی سند محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے.اگرچہ کثرت کے ساتھ علماء نے چاند سورج گرہن کی پیشگوئی والی حدیث کو قبول کیا ہے اور ہند و پاکستان میں حضرت مرزا صاحب سے پہلے اس کا خوب چرچا تھا کہ امام مہدی کے ظہور کے وقت چاند اور سورج کو گرہن لگے گا.لیکن اب مرزا صاحب کے دعوئی کے بعد یہ اسے امام باقر کا قول قرار دینے لگے ہیں تاکہ مرزا صاحب سے کسی نہ کسی طریق پر چھٹکارا مل جائے جن کے زمانہ میں ۱۸۹۴ء میں معینہ تاریخوں میں چاند اور سورج کو گرہن لگا.لیکن یہ الگ بحث ہے.یہاں زیر نظر محض یہ بحث ہے کہ چاند اور سورج دو کا گرہن ہونا حضرت مرزا صاحب کی ایجاد نہیں کہ ان پر الزام دو کہ مرزا صاحب نے اپنی فضیلت کی خاطر ایک کی بجائے دو گرہن بنالئے ہیں.اسے اگر حدیث نبوی نہ بھی مانیں تو یہ امام باقر کی پیشگوئی ثابت ہے جو سینکڑوں سال قبل گذرے ہیں.کروڑ ہا شیعہ انہیں امام مانتے ہیں.ان کی طرز روایت یہ نہ تھی کہ سلسلہ
۲۷ وار واقعات سناتے کہ انہوں نے فلاں سے سنا اور فلاں نے فلاں سے سنا بلکہ اہل بیت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کی پرورش ہوئی.اور جو باتیں وہ وہاں سنتے تھے.وہی بیان فرما دیتے تھے.اس لئے ان کی بیان فرمودہ روایت کو دوسرے پیمانے سے نہیں پر کھا جائے گا بلکہ ان بزرگ ائمہ کے مقام اور ان کی نیکی اور تقویٰ کے اعلیٰ مقام اور مرتبہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے جو یہ آنحضرت کی طرف منسوب کریں اسے بدرجہ اولی ملحوظ رکھنا ہو گا.یہ مولوی صاحب مانیں یا نہ مائیں کروڑہا شیعہ امام باقر کی اس روایت کو ہی ماننے پر مجبور ہیں اور سنی علماء میں سے بھی ایک تعداد اس روایت کا احترام کرتی آئی ہے اور لدھیانوی صاحب جیسے سکج بحث بھی اس حقیقت سے بہرحال انکار نہیں کر سکتے کہ یہ حضرت مرزا صاحب کی بنائی ہوئی پیشگوئی نہیں.اگر بنائی ہے تو پھر ضرور امام باقر نے بنائی ہے.پس کیا امام باقر نے امام مہدی کی رسول اللہ پر فضیلت ثابت کرنے کے لئے ایسا کیا تھا ؟ ضمناً یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ یہ روایت حدیث کی کتاب دار قطنی میں موجود ہے جسے سنی علماء ایک پائے کی کتاب تسلیم کرتے ہیں.علاوہ ازیں یہ امر بھی ملحوظ خاطر رہے کہ مولوی صاحب نے اپنی بد دیانتی کا یہاں بھی کرشمہ دکھایا ہے جس نظم سے یہ شعر لیا ہے اس میں یہ شعر بھی ہے واني لظل ان يخالف اصله فما فيه في وجهی بلوح و يزهر یعنی سایہ کیونکر اپنے اصل سے مخالف ہو سکتا ہے پس وہ روشنی جو اس میں ہے وہ مجھ میں چمک رہی ہے.نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں جو کچھ میری تائید میں ظاہر ہوتا ہے دراصل وہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات ہیں" ( تخمه حقیقته الوحی صفحه ۳۵) اس باب میں آخری کلام یہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب کی یہ مذکورہ بالا عبارت جو ان تمام امور میں فیصلہ کن ہے ، لدھیانوی صاحب سادہ لوح عوام سے چھپاتے پھرتے ہیں جس کے بعد اس نوع کا یہ اعتراض جیسا انہوں نے کیا ہے مردود ہو جاتا ہے.
عقیدہ نمبر؟ ۲۸ تین ہزار اور تین لاکھ کا فرق اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب نے دو اقتباس درج کئے ہیں ” تین ہزار معجزات نے دو " ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ظہور میں آئے " (تحفہ گولڑویہ صفحه ۶۳) " میری تائید میں اس خدا نے وہ نشان ظاہر فرمائے ہیں کہ......اگر میں ان کو فردا فردا شمار کروں تو میں خدا کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ وہ تین لاکھ سے بھی زیادہ ہیں" ( حقیقت الوحی صفحہ ۶۷) (کتابچہ لدھیانوی صاحب صفحه (۳۹) معزز قارئین! یہ دونوں باتیں مرزا صاحب نے کسی ایک کتاب میں اکٹھی ایک جگہ بیان نہیں کیں تا یہ کہا جاسکے کہ مرزا صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موازنہ کر کے اپنے آپ کو افضل ثابت کر رہے ہیں.بلکہ یہ دو متفرق کتابوں سے علیحدہ علیحدہ فقرے اُچک کر ان دونوں کو اوپر نیچے درج کر کے اس کے اوپر اپنی مرضی کا عنوان لگا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ گویا مرزا صاحب نے اس معاملہ میں اپنا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا موازنہ کر کے اپنی افضلیت کو ثابت کیا ہے.حالانکہ ایسا نہیں ہے.دو مختلف کتابوں سے یہ دونوں الگ الگ عبارتیں مولوی صاحب اس طرح پیش کرتے ہیں جس طرح نعوذ باللہ مرزا صاحب حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر اپنے معجزات کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں اور اس طرح سخت گستاخی کے مرتکب ہو رہے ہیں اس اعتراض کا بارہا پہلے جواب دیا جا چکا ہے جو شخص اپنے وجود کو اور اپنی تمام کرامات کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعجاز کا ایک قطرہ قرار دے اس کے متعلق اس قسم کی زبان درازیاں کیا کسی شریف النفس کو زیب دیتی ہیں ؟ دیکھئے کہ جب حضرت مرزا صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا موازنہ کرتے ہیں تو کس رنگ میں کرتے ہیں.فرمایا
۱۲۹ اس چشمه روان که مخلق خداد هم یک قطره ز بحر کمال محمد است آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عرفان کو ایک سمندر قرار دیتے ہیں اور اپنے جاری شدہ چشمہ کو اس سمندر کا محض ایک قطرہ قرار دیتے ہیں.معلوم نہیں مولوی صاحب کیوں مرزا صاحب کے ایسے اعترافات کو چھپاتے ہیں جن سے اصل حقیقت حال روشن ہوتی ہے.دوسری چالاکی مولوی صاحب کی یہ ہے کہ معجزے کے مقابل کے نشانات کے لفظ کو اس طرح بیان کیا جیسے ایک ہی بات ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ ایک معجزہ لکھوکھا بلکہ ان گنت نشانات مشتمل ہو سکتا ہے چنانچہ دیکھئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں کی حقیقت - اور معجزات صرف تعداد کے لحاظ سے نہیں جانچے جاتے بلکہ اپنی کیفیت اور کمیت کی بنا پر جانچے جاتے ہیں مثلاً محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین ہزار معجزات ہیں.ایک معجزہ قرآن ہے جو فی ذاتہ ایک ہونے کے باوجود ہزاروں آیات پر مشتمل ہے یعنی نشانات ہی نہیں بلکہ ایسی ہزارہا آیات ہیں جو ان گنت مزید نشانات پر مشتمل ہیں اور ایسا عجیب اعجاز ہے کہ خود قرآن کی زبان میں آیت لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادَ الكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا ( کف آیت نمبر ۷۰) کی صورت میں پیش ہے.پس قرآن کے معارف اور قرآن کے نشانات لا محدود اور ان گنت ہیں اور یہ ایک معجزہ ہے جو تمام انبیاء کے معجزات پر حاوی اور ان سے بڑا ہے.پس مرزا صاحب نے جہاں اپنے نشان بیان فرمائے ہیں وہاں نہ مرزا صاحب کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے موازنہ تھا نہ ایسا تصور کیا جا سکتا ہے.مثلاً مرزا صاحب ان نشانات میں ان متبعین کو بھی شامل رکھتے ہیں جنہوں نے خدا سے روشنی پا کر آپ کو قبول کیا اور کچی رویا و کشوف دیکھے.ایسے نشانات کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر رکھنے کا تصور کوئی بہت ہی ٹیڑھی سوچ والا مولوی ہی کر سکتا ہے ورنہ ایک حقیقت پسند انسان ہرگز اس کو محل اعتراض نہیں سمجھے گا.پس اگر ایسے نشانات کی گنتی کو شامل کرنا ہے تو حضرت مرزا صاحب کے نزدیک آغاز ا ترجمہ : اگر سمندر میرے رب کی باتوں کے لکھنے کے لئے روشنائی بن جاتا تو میرے رب کی باتوں کے ختم ہونے سے پہلے ہر ایک سمندر کا پانی ختم ہو جاتا گو اسے زیادہ کرنے کے لئے ہم اتنا ہی اور پانی سمندر میں لا ڈالتے
اسلام کے بعد جتنے بزرگ اولیاء پیدا ہوئے اور جن غلامان محمد میں آپ بھی شامل ہیں وہ تمام کے تمام خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہیں یہی عقیدہ جماعت احمدیہ کا ہے اور رہے گا.لیکن ظاہر پرست ملاں پھر بھی سن کر حملوں سے باز نہیں آئیں گے.پہلے انہوں نے کب کسی عارف باللہ بزرگ اور ولی اللہ کو چھوڑا تھا جو اب چھوڑ دیں گے.اب ہم حضرت مرزا صاحب کے اپنے الفاظ میں اس مضمون پر ایک ایسی عبارت پیش کرتے ہیں جس کے بعد معمولی خوف خدا رکھنے والا اور انصاف کی قدر کرنے والا شخص بھی ان حملہ آور مولویوں کی کجروی اور بدنیتی پر تف کرے گا کہ دیکھو یہ عالم دین بھی بنتا ہے اور کس طرح جانتے بوجھتے ہوئے ایک برگزیدہ انسان کی طرف سراسر جھوٹے اور غلط معنی منسوب کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں." آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات تو چاروں طرف سے چمک رہے ہیں.وہ کیونکر چھپ سکتے ہیں.صرف وہ معجزات جو صحابہ کی شہادتوں سے ثابت ہیں وہ تین ہزار معجزہ ہے اور پیشگوئیاں تو دس ہزار سے بھی زیادہ ہوں گی جو اپنے وقتوں پر پوری ہو گئیں اور ہوتی جاتی ہیں.ماسوائے اس کے بعض معجزات اور پیشگوئیاں قرآن شریف کی ایسی ہیں کہ ہمارے لئے بھی اس زمانہ میں محسوس و مشہود کا حکم رکھتی ہیں.اور کوئی اس سے انکار نہیں کر سکتا." تصديق النبی صفحه ۲۰ شائع کردہ فخر الدین ملتانی ) حقیقته الوحی کالدھیانوی صاحب نے حوالہ دیا ہے اسی کتاب میں مرزا صاحب لکھتے ہیں.کسی نبی سے اس قدر معجزات ظاہر نہیں ہوئے جس قدر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے.کیونکہ پہلے نبیوں کے معجزات ان کے مرنے کے ساتھ ہی مرگئے مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اب تک ظہور میں آ رہے ہیں.اور قیامت تک ظاہر ہوتے رہیں گے.اور جو کچھ میری تائید میں ظاہر ہوتا ہے دراصل وہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات ہیں." اتمه حقیقته الوحی صفحه ۳۵ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه (۴۶۸) قارئین کرام ! یہی طریق گذشتہ اولیاء اللہ کا تھا کہ وہ اپنی کرامات کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ قرار دیا کرتے تھے جیسے حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں.
"کرامات اولیاء سب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہیں" (کشف المحجوب مترجم اردو صفحه ۲۵۷ شائع کرده برکت علی اینڈ سنز علمی پریس ) عقیدہ نمبر ۱۰ ذہنی ارتقاء اس عنوان کے نیچے لدھیانوی صاحب نے ایک احمدی ڈاکٹر شاہنواز صاحب کے مضمون کا ایک اقتباس درج کیا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ ” حضرت مسیح موعود ( مرزا صاحب) کا ذہنی ارتقاء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہے." (صفحہ ۳۶) ہم اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ ڈاکٹر شاہنواز صاحب کا یہ فقرہ جماعت احمدیہ کے خلاف بطور اعتراض پیش نہیں کیا جا سکتا.جماعت احمدیہ کا ہرگز اس فقرہ سے کوئی تعلق نہیں.جماعت احمدیہ کے دوسرے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ نے اخبار الفضل قادیان ۱۹ اگست ۱۹۳۴ء کے صفحہ ۵ پر اس کی تردید کی ہے.عقیدہ نمبر 1 معاملہ صاف اس عنوان کے نیچے لدھیانوی صاحب نے کلمتہ الفصل صفحہ ۱۳۷ کا وہی اقتباس درج کیا ہے جو فصل سوم کے عقیدہ نمبر 19" کے تحت درج کیا تھا جس میں یہ بیان ہے کہ بانی جماعت احمدیہ کا انکار کرنے والے کافر ہیں.اور یہی اعتراض لدھیانوی صاحب نے فصل دوم کے عقیدہ نمبر ۲ " کے تحت بھی کیا ہے.لدھیانوی صاحب اپنی کتاب کے اعتراضات کی گفتی بڑھانے کیلئے اعتراضات کو بار بار دہراتے ہیں اور ان پر نئے نمبر کا عنوان لگا دیتے ہیں.ہم اس پر مفصل گفتگو فصل دوم کے عقیدہ نمبر ۲ کے تحت کر چکے ہیں.اسے اب یہاں دہرانا مناسب نہیں.قارئین کرام وہاں سے دوبارہ ملاحظہ فرما سکتے ہیں.عقیدہ نمبر ۲ آگے سے بڑھ کر اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب نے ایک احمدی مکرم قاضی اکمل صاحب کی ایک
۱۳۲ نظم کے دو شعر درج کئے ہیں جو اخبار بدر قادیان ۲۵ اکتوبر ۱۹۰۶ء کے حوالہ سے لئے گئے ہیں ( صفحه ۲۷) یہ بھی وہ اشعار ہیں جو جماعت احمدیہ کے عقائد سے ہرگز تعلق نہیں رکھتے نہ ہی یہ شاعر جماعت کی طرف سے مجاز سمجھے جا سکتے ہیں کہ وہ جماعتی مسلک کو بیان کریں لیکن صرف یہی بات نہیں اگر اس طرح ہر کس و ناکس کے خیالات پر فرقوں اور قوموں کو پکڑا ہائے تو پھر تو دنیا میں کسی قوم اور فرقے کا امن قائم نہیں رہ سکتا.اب غور سے سن لیں جناب مولوی صاحب ! اگر اکمل صاحب یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ شخص جو قادیان میں بروز محمد کے طور پر ظاہر ہوا وہ اس محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی شان میں بڑھ کر تھا جو مکہ میں پیدا ہوا تو ہرگز یہ عقیدہ نہ جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے نہ کوئی شریف النفس جو حضرت مرزا صاحب کی تحریرات سے واقف ہو اسے احمدیت کی طرف منسوب کر سکتا ہے.حضرت مرزا صاحب تو زندگی بھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور اس طرح بجز سے بچھے رہے جس طرح قدموں کے لئے راہ بچھی ہو حتی کہ آپ نے اپنے آپ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل کے کوچے کی خاک کے برابر قرار دیا ہے دیکھئے کس طرح والہانہ عشق کے ساتھ گویا ہیں جان و دلم فدائے جمال محمد است خاکم نثار کوچه آل محمد است اب سنئے اکمل صاحب کے ان اشعار کی بات کہ واقعہ کیا ہوا تھا اور اس کا کیا نتیجہ نکلا.در حقیقت شاعر اپنی شعری دنیا میں بسا اوقات ایسی باتیں بیان کر جاتا ہے جو دراصل اس کے ماقی الضمیر کو پوری طرح بیان نہیں کر پاتیں اور بارہا ایسا ہوا ہے کہ بعض اوقات شاعر کو خود اپنے شعروں کی وضاحت کرنی پڑتی ہے ان اشعار سے بھی جو غلط تاثر پیدا ہوتا ہے وہ غلط تاثر یقینا ہر احمدی کیلئے جس نے یہ پڑھا سخت تکلیف کا موجب بنا.جب شاعر سے اس بارہ میں جواب طلبیاں ہوئیں اور مختلف احمدی قارئین نے ان اشعار کی طرز پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا تو ان صاحب نے ان اشعار کا جو مضمون خود پیش کیا وہ حسب ذیل تھا.مندرجہ بالا شعر دربار مصطفوی میں عقیدت کا مشعر ہے.اور خدا جو علیم بذات الصدور ہے
شاہد ہے کہ میرے واہمہ نے بھی کبھی اس جاہ و جلال کے نبی حضرت ختمیت مآب کے مقابل پر کسی شخصیت کو تجویز نہیں کیا.اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے.کہ یہ بات میرے خیال تک میں نہ آئی کہ میں یہ شعر ( آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شان میں ) کہہ کر حضرت افضل الترسل صد کے مقابل میں کسی کو لا رہا ہوں.بلکہ میں نے تو یہ کہا کہ محمد مصطفیٰ کا نزول ہوا.یعنی بعثت ثانیہ اور یہ تمام احمدیوں کا عقیدہ ہے“ کہ نہ تو تاریخ صحیح ہے نہ دوسرے جسم میں روح کا حلول.بلکہ نزول سے مراد اس کی روحانیت کا ظہور ہے.اور چونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ للأخِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ الْأُولى ہر آنے والے دن میں تیری شان پہلے سے زیادہ نمایاں اور افزوں ہو گی.بوجہ درود شریف اور اعمال حسنہ امت محمدیہ جن کا ثواب جیسا کہ عمل کرنے والے کے نام لکھا جاتا ہے.ویسا ہی محرک و معلم کے نام بھی.اس لئے کچھ شک نہیں کہ نبی کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان ہر وقت بڑھ رہی ہے.اور بڑھتی رہے گی اور خدا کے وسیع خزانوں میں کسی چیز کی کمی نہیں.پس میں نے صرف یہی کہا کہ سیدنا محمد مصطفیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کی برکات و فیوض کا نزول پھر ہو رہا ہے.اور آپ کے اترنے سے یہی مراد ہو سکتی ہے.اور آپ کی شان پہلے سے بھی بڑھ کر ظاہر ہو رہی ہے.اسی شعر میں کسی دوسرے وجود کا مطلق ذکر نہیں بلکہ اسی نظم میں آخری شعر یہ ہے غلام احمد مختار ہو کر یہ رتبہ تو نے پایا ہے جہاں میں یعنی حضرت مرزا غلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام نے جو رتبہ مسیح موعود ہونے کا پایا ہے وہ حضرت احمد مجتبی محمد مصطفیٰ کی غلامی کی طفیل اور ان کے اتباع کا نتیجہ ہے." الفضل ۱۳ اگست ۱۹۴۴ء ) ظاہر ہے کہ یہ مفہوم قابل اعتراض نہیں.اگر پھر بھی کوئی کہے کہ یہ مفہوم بعد میں شاعر نے بنا لیا ہے اور دراصل اس کا اصل مفہوم وہی تھا جو بظا ہر دکھائی دیتا ہے اور جس پر لدھیانوی صاحب نے حملہ کیا ہے تو بے شک ایسا سمجھے مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ شاعر نے خود جو تشریح پیش کی ہو وہی
۱۳۴ دراصل اہل علم کے نزدیک قابل قبول ہوا کرتی ہے اور اگر یہ بات بھی کوئی تسلیم نہیں کرتا تو اکمل صاحب کی طرف گستاخی منسوب کر کے ان پر بے شک لعن طعن کرے لیکن ہرگز ان کی طرف منسوب شده گستاخی کو جماعت احمدیہ کی طرف منسوب کرنے کا اسے حق نہیں ہم پھر ایک بار یہ اعلان کرتے ہیں کہ اگر لدھیانوی صاحب کے اخذ کئے ہوئے معانی درست ہیں تو یقیناً یہ شعر لعنت اور ملامت کا سزاوار ہے لیکن احمدیت ہرگز اس لعنت کا نشانہ نہیں بن سکتی.عقیدہ نمبر ۱۳ مصطفى مرزا اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب نے کسی احمدی شاعر کی نظم کے مندرجہ ذیل تین اشعار درج کئے ہیں.صدی چودھویں کا ہوا سر مبارک کہ جس پر وہ بدر الہٹی بن کے آیا پنے چارہ سازی امت ہے اب احمد مجتبیٰ بن کے آیا حقیقت کھلی بعث ثانی کی ہم پر کہ جب مصطفیٰ میرزا بن کے آیا (صفحه ۲۸) یہ اعتراض بھی محض نمبر شماری ہے ظاہر ہے کہ اس قسم کے تمام اعتراضات کے جوابات گذشتہ اوراق میں گذر چکے ہیں لہذا مہربانی فرما کر قارئین ان ابواب کا دوبارہ مطالعہ کریں تو انہیں سمجھ آجائے گی کہ جس طرح گذشتہ اولیاء امام مہدی کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حل اور آپ کی بعثت ثانیہ قرار دینے میں ہرگز کسی گستاخی کے مرتکب نہیں ہوئے تھے بلکہ ہمیشہ ہی پیش نظر رہا کہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو خادم بھی آپ کی نمائندگی کرے گا وہ آپ ہی کے جلوؤں کو منعکس کرے گا اور آپ کے فیض سے فیض یاب ہو گا اور آپ کے ہی حسن سے حسن یافتہ ہو گا پس یہ معنی صلحائے امت میں پہلے بھی مقبول رہے اور آج بھی مقبول ہیں ایک سطحی عقل رکھنے والے مولوی کو اگر یہ سمجھ نہیں آئے اور اسے گستاخی تصور کرتا ہے تو پھر اپنے حملوں کا آغاز ان بزرگوں سے کرے مثلاً حضرت شیخ عبد القادر جیلانی فرماتے ہیں هذا وجود جدی محمد صلی اللہ علیہ و سلم لا وجود عبدالقادر ! ا یہ میرا وجود عبد القادر کا نہیں ہے.بلکہ میرے دادا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وجود ہے.
۱۳۵ گلدسته کرامات مؤلفه مفتی غلام سرور صاحب مطبوعه افتخار ولوی صفحه (۸) نیز حضرت امام عبد الرزاق قاشائی فرماتے ہیں باطنہ باطن محمد 1 ( شرح فصوص الحکم صفحه ۳۵) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں ” نسخة منتسخة منه" ٢.الخير الكثير صفحه ۷۲ از حضرت شاہ ولی اللہ مدینہ پریس بجنور ) اس حملہ کے بعد پھر بے شک کسی احمدی شاعر پر حملہ ہوتا رہے ہمیں فکر نہیں ان سب باتوں کے باوجود یہ حقیقت باقی رہے گی کہ حضرت مرزا صاحب کے تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ احمدی مرزا صاحب کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل رکھنا کفر سمجھتے ہیں اور انہیں ہم مرتبہ قرار دینے والے پر لعنت بھیجتے ہیں اور مولوی صاحب کے ان دلخراش ظالمانہ اعتراضات کے باوجود بھی کسی ایک احمدی کا عقیدہ متزلزل نہیں ہو سکتا جیسا کہ مرزا صاحب نے اپنی تعلیمات سے ہم پر خوب روشن کر دیا ہے کہ آپ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عاشق صادق غلام تھے اور جو کچھ بھی آپ نے پایا سو فیصد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسان پر پایا اور آپ کے فیض سے فیض یاب ہوئے اس پر کوئی بھڑکتا ہے اور ہمیں کافر قرار دیتا ہے تو بخدا ہم سخت کافر ہیں.عقیدہ نمبر ۱۴ استاد شاگرد اس کے نیچے لدھیانوی صاحب نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی ایک تقریر کے چند فقرے درج کئے ہیں " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معلم ہیں اور مسیح موعود ( مرزا صاب) شناگرو.ایک شاگرد خواہ استاد کے علوم کا وارث پورے طور پر بھی ہو جائے یا بعض صورتوں میں بڑھ بھی جائے (جیسا کہ مرزا صاحب بہت سی باتوں میں بڑھ گئے.ناقل ) مگر استاد بهر حال استاد رہتا ہے اور شاگرد شاگر وہی " (صفحہ ۲۸) مولوی صاحب نے بریکٹوں میں جو الفاظ داخل کئے ہیں اصل عبارت کے نہیں اس لئے ان امام مہدی کا باطن حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا باطن ہو گا.امام مهدی حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی تصویر (True copy) ہو گا
ان کی عبارت کا وبال خود ان پر ہی پڑے گا.نہ کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ پر.حضرت مرزا بشیر الدین رضی اللہ عنہ تو صرف یہ بات بیان فرما رہے ہیں جو آپ نے اپنے ایک شعر میں بھی بیان فرمائی ہے کہ شاگرد نے جو پایا استاد کی دولت ہے احمد کو محمد سے تم کیسے جدا سمجھے آپ نے عام دنیا کا دستور بیان فرمایا ہے کہ کبھی کبھی یوں بھی ہوا ہے کہ شاگرد استاد سے بڑھ بھی جاتے ہیں لیکن پھر بھی مرتبے میں آگے نہیں بڑھ جاتے یہ دستور بیان کرتے ہوئے ہرگز آپ نے نہیں لکھا کہ جیسے نعوذ باللہ مرزا صاحب آگے بڑھ گئے.یہ فاسقانہ خیال لدھیانوی صاحب کا اپنا ہے جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کر رہے ہیں اور یہی ان کی بد دیانتی کی دلیل ہے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اس بحث کا اس تقریر میں جو منطقی نتیجہ نکالا ہے وہ یہی ہے کہ " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آقا محسن اور مخدوم ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کے خادم شاگرد اور غلام ہیں " (الحکم قادیان ۲۸ اپریل ۱۹۴ء صفحه ۴) پس جن عوام الناس کی راہنمائی ایسے علماء کر رہے ہوں جو دیانتداری اور تقویٰ سے خالی ہوں ان کی بے راہ روی کا وبال بھی ان ہی کے سر پڑے گا.عقیدہ نمبر ۱۵ ہتک استہزاء اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب نے الفضل سے ایک اقتباس درج کیا ہے جس میں مسیح موعود کے منکرین کے کفر کا بیان ہے.یہ اعتراض وہی ہے جو لدھیانوی صاحب نے فصل دوم کے عقیدہ نمبر ۲ اور فصل سوم کے عقیدہ نمبر 19 کے تحت کیا ہے.پھر اسی اعتراض کو نمبر شمار بڑھانے کیلئے فصل چہارم کے عقیدہ نمبر 1 کے تحت اور اب عقیدہ نمبر ۵ کے تحت دہرا دیا ہے.فصل دوم میں ہم اس اعتراض کے جواب میں مفصل گفتگو کر چکے ہیں.قارئین وہاں ملاحظہ فرمالیں.اسے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں.
۱۳۷ عقیدہ نمبر ۱۶ آنحضرت سے مرزا صاحب پر ایمان لانے کا عہد اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب نے الفضل کے حوالہ سے ایک نظم اور ایک نشریر مشتمل اقتباس درج کیا ہے جس میں یہ بیان ہوا ہے کہ از روئے قرآن کریم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مسیح موعود پر ایمان لانے اور اس کی نصرت کرنے کا عہد لیا گیا ہے.اور اس کے بعد لدھیانوی صاحب نے جماعت احمدیہ کے غیر مبائع فریق کے اخبار ” پیغام صلح " کا ایک اقتباس درج کیا ہے جس میں ایک غیر مبائع مضمون نگار ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے الفضل کے مندرجہ بالا اقتباس پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اگر یہ بات مان لیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسیح موعود پر ایمان لائیں گے تو اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہوتی ہے.اور مسیح موعود کا مرتبہ زیادہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ کم ثابت ہوتا ہے.جس شاعر کے شعروں پر بھی انہوں نے حملہ کیا ہے اس پر بالعموم ہمارا وہی جواب صادق آتا ہے جو پہلے ایک شاعر کے شعروں کے بارہ میں دیا گیا.لیکن فرق صرف یہ ہے کہ ان کے حملہ میں ایک غیر مبائع لاہوری احمدی بھی مولوی صاحب کا شریک ہو چکا ہے.قطع نظر اس کے کہ شاعر قرآن کریم سے کیا سمجھا اور کیا بیان کیا ہم قرآن کریم سے ہی اصل متعلقہ آیت قارئین کے سامنے پیش کر دیتے ہیں جس کا واضح اور قطعی ترجمہ مسلمہ غیر احمدی علماء کے ترجمہ کے مطابق حسب ذیل ہے.وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّيْنَ مِنَاقَهُمْ وَمِنكَ (سورۃ الاحزاب آیت (۸) اے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے نبیوں سے ان کا پختہ عہد لیا تھا اور تجھ سے بھی لیا ہے.اس آیت کریمہ کو پڑھنے کے بعد کوئی معمولی خوف خدا رکھنے والا مسلمان بھی اس آیت کو بگاڑ کر پیش نہیں کر سکتا.
پس جب خدا تعالٰی نے باقی رسولوں کی طرح حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی عہد لیا تھا تو نعوذ باللہ خدا نے خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کی؟ حد سے زیادہ جہالت اور عناد کا غبار مولوی صاحب کے سر کو چڑھا ہوا ہے.وہ شاعر تو اس آیت کریمہ کا حوالہ دے رہا ہے اور استدلال کر رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی شخص نے بطور نبی نہیں آنا تھا تو پھر قرآن کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خاص طور پر اس میثاق نبوی میں کیوں شامل کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کھلم کھلا یہ اظہار کیوں کرتا ہے کہ جب ہم نے نبیوں سے اقرار لیا کہ جب وہ نہیں آئیں گے جو پہلوں کی تصدیق کرنے والے ہوں گے تو پھر ضرور ان پر ایمان لانا اور ان کی تصدیق کرنا.پس یہ ایک علمی نکتہ ہے جو یہاں بیان ہو رہا ہے اور اگر گستاخی ہے تو مولوی صاحب کو خبردار ہو جانا چاہئے کہ دراصل یہ گستاخی وہ کلام الہی کی طرف منسوب کر رہے ہیں.
۱۳۹ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مسیح موعود پر ایمان لانے کا عہد لیا گیا ؟ اللہ تعالی سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۸ میں فرماتا ہے:.وَإِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ " - اور جب ہم نے تمام نبیوں سے ان کا پختہ عہد لیا اور اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تجھ سے بھی یہ پختہ عہد لیا.تاج کمپنی لمیٹڈ لاہور کراچی (پاکستان) نے لدھیانوی صاحب کے دیوبندی فرقہ کے ایک بزرگ شیخ الهند مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندی کا ترجمہ قرآن کریم شائع کیا ہے.جس کے حاشیہ پر دیوبندیوں کے ایک اور بزرگ شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی نے تفسیری " نوٹس لکھے ہیں.ہم لدھیانوی صاحب کی راہنمائی کیلئے اس ترجمہ قرآن کریم کے صفحہ ۵۵۷ سے اس آیت کے نیچے علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی دیوبندی کا نوٹ درج کرتے ہیں.آپ فائدہ نمبرا کے زیر عنوان لکھتے ہیں :.یعنی یہ قول و قرار کہ ایک دوسرے کی تائید و تصدیق کرے گا اور دین کے قائم کرنے اور حق تعالیٰ کا پیغام پہنچانے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھے گا.آل عمران میں اس میثاق کا ذکر ہو چکا ہے." لدھیانوی صاحب کے ایک اور بزرگ مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی اپنی تفسیر معارف القرآن جلد ہفتم کے صفحہ ۹۰ پر سورۃ الاحزاب کی اس آیت کے نیچے یہ نوٹ لکھتے ہیں:- آیت مذکورہ میں جو انبیاء علیہم السلام سے عہد و اقرار لینے کا ذکر ہے وہ اس اقرار عام کے علاوہ ہے جو ساری مخلوق سے لیا گیا.جیسا کہ مشکوۃ میں بروایت امام احمد مرفوعاً آیا ہے کہ خصو ا بميثاق الرسالة والنبوة وهو قوله تعالى واذا خذنا من النيمن ميثاقهم الايه (یعنی انبیاء سے خصوصی طور پر رسالت اور نبوت کا میثاق لیا گیا ہے.اور وہ سورۃ احزاب کی اس آیت میں مذکور ہے واذا خذنا من النبیین میثاقهم - ناقل ).یہ عہد انبیاء علیهم السلام سے نبوت و رسالت کے فرائض ادا کرنے اور باہم ایک دوسرے کی تصدیق اور مدد کرنے کا ا.اس ترجمہ کے حاشیہ پر سورۃ نساء تک محمود الحسن صاحب کے نوٹ ہیں بقیہ عثمانی صاحب کے ہیں.
عہد تھا.جیسا کہ ابن جریر و ابن ابی حاتم و غیرہ نے حضرت قمارہ سے روایت کیا ہے." ( تفسیر معارف القرآن از مفتی محمد شفیع جلد ہفتم صفحه ۹۰ زیر عنوان میثاق انبیاء ادارة المعارف کراچی) لدھیانوی صاحب کے ان دونوں بزرگوں کے دو اقتباسات ہم درج کر چکے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں ہی اس امر کے قائل ہیں کہ سورۃ احزاب کی اس آیت میں تمام انبیاء اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جس میثاق لینے کا ذکر ہے وہ یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سمیت انبیاء سے یہ اقرار لیا گیا تھا کہ تمہارے بعد جو نبی آئے اس پر ایمان لانا اور اس کی نبوت کی تصدیق کرنا.یہی مضمون جو لدھیانوی صاحب کے بزرگوں نے بیان کیا ہے الفضل کے اقتباسات میں درج ہے جس پر لدھیانوی صاحب ناراض ہو رہے ہیں.سطور بالا میں علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی دیوبندی کا جو اقتباس درج کیا گیا ہے اس میں یہ ذکر ہے کہ سورۃ احزاب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سمیت انبیاء سے جو میثاق لیا گیا ہے وہ سورۃ آل عمران میں مذکور ہے.قارئین کرام ! آئیے اب ہم سورۃ آل عمران میں اس میثاق کی تفصیل پڑھیں.وہاں لکھا ہے:.وَإِذْ اَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا أَتَيْكُمْ مِنْ كِتَابِ وَ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِقَ لمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنَنَّ بِهِ، وَلَتَنْصُرُنَّهُ قَالَ أَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ اِصْرِى قَالُوا اقْرَرُنَا ( سورة آل عمران : ۸۲ ) ترجمہ : جب اللہ تعالٰی نے نبیوں سے یہ پختہ عہد لیا کہ میں نے جو تم کو کتاب اور حکمت دی ہے پھر تمہارے پاس کوئی رسول آئے جو تمہارے پاس والی کتاب کی تصدیق کرے تو تم اس رسول پر ایمان لاؤ گے اور اس کی مدد کرو گے.فرمایا کیا تم نے اس عہد کا اقرار کر لیا ہے اور میرے اس عہد کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی ہے.تو انبیاء بولے کہ ہاں ہم نے اقرار کر لیا معزز قارئین ! سورۃ آل عمران کی اس آیت میں میثاق انسین کے الفاظ آتے ہیں اور سورۃ احزاب کی آیت " وَ إِذْ اَخَذْنَا مِنَ البينَ مِنَا لَهُمُ وَمِنكَ " میں بھی نبیوں کے لئے
۱۴۱ میثاق کا ہی لفظ استعمال ہوا ہے ان دو مقامات کے علاوہ قرآن کریم میں کسی جگہ بھی نبیوں کے لئے میثاق کا لفظ استعمال نہیں ہوا.لہذا یہ دونوں آیات ایک دوسری کی تشریح کر رہی ہیں.فرق صرف اتنا ہے کہ سورۃ احزاب کی آیت میں نبیوں کے میثاق کی تفصیل نہیں بیان کی گئی اور سورۃ آل عمران کی آیت میں نبیوں سے جو میثاق لیا گیا اس کی تفصیل بیان کی گئی کہ وہ یہ تھا کہ انبیاء اپنی قوموں کو یہ نصیحت کر جائیں کہ ہمارے بعد جو بھی نبی آئے اس پر ایمان لائیں اور اس کی امداد کریں.ان دونوں آیات کو ملانے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ سورۃ احزاب کی آیت میں موجود لفظ " منک" کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ عہد لیا گیا ہے کہ آپ کے بعد جو نبی آئے اس پر ایمان لائیں اور اس کی امداد کریں.اس کی امداد اس طرح ہو گی کہ اپنی امت کو اس پر ایمان لانے اور اس کی تصدیق کرنے کی نصیحت کر جائیں.اور انہیں اس کی مدد کرنے کی تلقین کریں.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو امام مہدی اور مسیح نبی اللہ کے آنے کی بشارت دی اور اپنی امت کو اس پر ایمان لانے اور اس کی بیعت کرنے کی تلقین کی.جیسا کہ فصل دوم کے عقیدہ نمبر ۲ کے جواب میں مفصل ذکر ہو چکا ہے.قارئین کرام وہاں ملاحظہ فرما سکتے ہیں.شیخ الهند مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندی سورة آل عمران کی آیت کی تشریح میں فائدہ نمبر ۳ کے زیر عنوان لکھتے ہیں :- حق تعالٰی نے خود پیغمبروں سے بھی یہ پختہ عہد لے چھوڑا ہے کہ جب تم میں سے کسی نہی کے بعد دوسرا نبی آئے ( جو یقیناً پہلے انبیاء اور ان کی کتابوں کی اجمالاً یا تفصیلاً تصدیق کرتا ہوا آئے گا ) تو ضروری ہے کہ پہلا نبی پچھلے کی صداقت پر ایمان لائے اور اس کی مدد کرے.اگر اس کا زمانہ پائے تو بذاتِ خود بھی اور نہ پائے تو اپنی امت کو پوری طرح ہدایت و تاکید کر جائے کہ بعد میں آنے والے پیغمبر پر ایمان لا کہ اس کی اعانت و نصرت کرنا.کہ یہ وصیت کر جانا بھی اس کی مدد کرنے میں داخل ہے." اے ) ترجمه القرآن از شیخ الهند مولانا محمود الحسن صاحب دیو بندی صفحه ۷۸) مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی اس آیت کے نیچے لکھتے ہیں :- "میثاق کیا ہے ؟ اس کی تصریح تو قرآن نے کر دی ہے لیکن یہ میثاق کس چیز کے بارہ اب صورة شراء تک شیخ العن صاحب کے نوٹ میں بقیہ سب لوٹ مشرقی صاحب نے کھتے ہیں.
۱۴۲ میں لیا گیا ہے اس میں اقوال مختلف ہیں حضرت علی اور حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس سے مراد نبی علیہ السلام ہیں یعنی اللہ تعالٰی نے یہ عہد تمام انبیاء سے صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں لیا تھا کہ اگر وہ خود ان کا زمانہ پائیں تو ان پر ایمان لائیں اور ان کی تائید و نصرت کریں اور اپنی اپنی امتوں کو بھی یہی ہدایت کر جائیں.حضرت طاؤس ، حسن بصری اور قتادہ رحمھم اللہ فرماتے ہیں کہ یہ میثاق انبیاء سے اس لئے لیا گیا تھا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کی تائید و نصرت کریں (تفسیر ابن کثیر) اس دوسرے قول کی تائید اللہ تعالی کے قول وَإِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِنَا فَهُمْ وَمِنكَ وَ مِن نُوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى بْنِ مَرْيَمَ وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِيْنَا فَا غَلِيظًا (احزاب) سے بھی کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ عہد ایک دوسرے کی تائید و تصدیق کیلئے لیا گیا تھا ( تفسیر احمدی) در حقیقت مذکورہ دونوں تفسیروں میں کوئی تعارض نہیں ہے اس لئے دونوں ہی مراد لی جا سکتی ہیں ( تفسیر ابن اکثیر)" تغییر معارف القرآن جلد ۲ صفحہ نمبر ۹۹ ۱۰۰۰ زیر عنوان میثاق سے کیا مراد ہے ؟) مفتی صاحب مزید لکھتے ہیں : "وَإِذْ اَخَذَ اللَّهُ مِثَاق النبيين الى ان آیات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ اللہ تعالی نے تمام انبیاء سے یہ پختہ عہد لیا کہ جب تم میں سے کسی نبی کے بعد دوسرا نبی آئے جو یقیناً پہلے انبیاء اور ان کی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہو گا تو پہلے نہی کے لئے ضروری ہے کہ پچھلے نبی کی سچائی اور نبوت پر ایمان خود بھی لائے اور دوسروں کو بھی اس کی ہدایت کرے " ( معارف القرآن جلد ۲ صفحہ ۱۰۰) قرآن کریم کی ان دونوں آیات سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ عہد لیا گیا تھا کہ آپ کے بعد جو نبی آئے آپ بھی اس پر ایمان لائیں اور اس کی امداد کریں.اسی کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو مسیح نبی اللہ کی آمد کی بشارت دی ہے.اس آیت میں ہر آئندہ آنے والے پر ایمان لانے کا عہد ہے.مولوی کون ہوتا ہے کہ
۱۳ راستے میں کھڑا ہو جائے بعض اوقات بعد میں آنے والا درجہ میں پہلے سے کم تر ہوتا ہے اگرچہ رسالت میں برابر ہو.ورنہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد آنے والے ہر نبی کو آپ سے درجے میں بڑھ کر ماننا پڑے گا.پس اگر یہ ابراہیم علیہ السلام سے بھی عہد لیا گیا تو کیا وہ بعد میں آنے والے حضرت اسحق، حضرت اسماعیل ، حضرت یعقوب حضرت یوسف علیہم السلام پر ایمان لائے تھے کہ نہیں ؟ اگر لائے تھے تو کیا یہ عقیدہ رکھنا ان کی گستاخی ہے ؟ اسی طرح کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی نبیوں میں شامل تھے یا نہیں اور ان سے بھی یہ عہد لیا گیا اور کیا وہ اپنے بعد آنے والے نبیوں پر ایمان لائے یا عہد شکنی کے مرتکب ہوئے ؟ یقیناً ایمان لائے تو اس صورت میں کیا حضرت واور حضرت سلیمان، حضرت یحی حضرت ذکریا اور حضرت عیسی پر ان کا ایمان لانا ان کی شان میں گستاخی ہے اور ہتک عزت قرار پاتی ہے ؟ عجیب جاہل مولویوں سے واسطہ پڑا ہے کہ واضح کھلے کھلے قرآنی علوم کو دیکھتے ہیں اور پھر بھی ان پر حملہ آور ہو جاتے ہیں.گستاخی کے مقدمے تو ان لوگوں پر چلنے چاہئیں.دیکھئے ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.امَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ - رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلَّ أَمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ (بقره آخری رکوع ) کیا اس " کا " میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ایمان لانے والے شامل نہیں.کیا اس آیت میں یہ اعلان نہیں فرمایا گیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر دوسرے مومن کی طرح خدا کے تمام انبیاء پر ایمان لے آئے اور تمام کتابوں پر ایمان لے آئے یہ ایمان تو تصدیق کے معنی رکھتا ہے ہر گز یہ مطلب نہیں کہ جس پر ایمان لائے وہ اعلیٰ اور افضل ہو جاتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو سب فرشتوں سے بھی افضل تھے حتی کہ جبریل کو بھی معراج میں پیچھے چھوڑ دیا.کیا آپ فرشتوں پر ایمان نہیں لاتے تھے اگر ایمان لاتے تھے تو ان لدھیانوی صاحب کا کیا فتویٰ ہے بول کر تو دیکھیں.عقیدہ نمبر۱۷ اس عنوان کے تحت لدھیانوی لکھتے ہیں." قرآن کریم کی کسی آیت یا آنحضرت صلی اللہ
علیہ وسلم کی کسی حدیث میں یہ مضمون نہیں کہ اللہ تعالٰی نے آپ کو " تو میرے بیٹے جیسا کہا ہو لیکن مرزا صاحب کو یہ شرف حاصل ہے کہ خدا ان سے فرماتا ہے کہ " انت منی بمنزلة ولدى - انت منی بمنزلة اولادی" یعنی تو مجھ سے بمنزلہ میرے بیٹے کے ہے تو مجھ سے بمنزلہ میری اولاد کے ہے." (صفحه (۳۱) " بمنزلة ولدى " اور " ولدی" میں زمین و آسمان کا فرق ہے خدا کا تو کوئی بیٹا نہیں لیکن اگر خدا یہ کہے کہ میں بیٹوں کی طرح پیار کرتا ہوں تو یہ کوئی نیا محاورہ نہیں بائبل ایسے محاوروں سے بھری پڑی ہے بلکہ بائبل میں تو سارے بنی اسرائیل کو خدا کے بیٹے قرار دیا گیا ہے.کیا جناب مولوی صاحب اس کا یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے واقعی خدا کے بیٹے ہوا کرتے تھے اور نزول قرآن کے بعد یہ سلسلہ بند ہوا ہے.قرآن کریم تو فرماتا ہے لَم يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُ کہ خدا کے پہلے کبھی بھی بیٹے نہیں تھے نہ اس نے کبھی کسی کو جنانہ خود جنا گیا حضرت مرزا صاحب اور جماعت احمدیہ کا یہی عقیدہ ہے اور یہی تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے.الہی صحیفوں سے یہ بات ثابت ہے کہ خدا کا کسی کو پیار کے اظہار کے طور پر بیٹا کہہ دینا ہمیشہ ان معنوں میں ہوتا ہے کہ جس طرح تم لوگ بیٹوں سے پیار کرتے ہو اس سے بڑھ کر میں پیار کرتا ہوں.رہا یہ سوال کہ قرآن کریم میں ایسی کوئی آیت مولوی صاحب کو نظر نہیں آتی تو نجانے یہ کس نظر سے قرآن پڑھتے ہیں دیکھئے قرآن کریم میں صاف لکھا ہے یاد کرو.(بقره آیت نمبر ( ۲۰ ) فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكُرِكُمْ آبَاءَ كُم أَو أَمَدَّ ذِكُراً ترجمہ : اپنے باپ دادوں کو یاد کرنے کی طرح اللہ کو یاد کرو اگر ہو سکے تو اس سے بھی زیادہ نجانے مولوی صاحب اس آیت کا کیا مطلب سمجھتے ہیں ظاہر پرست مولوی کا تو عرفان کے ان کو چوں سے کبھی گزر ہی نہیں ہوا.یہ کسے گستاخ قرار دیتے ہیں اور کس کی گستاخی کا مضمون ان کے ذہن میں ابھرتا ہے.امت محمدیہ کے عظیم عارف باللہ بزرگ ان مضامین کو خوب سمجھتے تھے اور ان پر بارہا
۴۵ روشنی ڈال چکے ہیں دیکھئے حضرت مولانا روم فرماتے ہیں.ع اولیاء اطفال حق انداے پر که اولیاء مجازی طور پر خدا کے بیٹے ہیں الهام منظوم ترجمه مثنوی مولانا روم دفتر سوم صفحه ۱۳ مرتبه مولوی فیروز الدین مطبوعه ۱۳۴۷ ) لیکن سب سے بڑے عارف باللہ جو کائنات میں کبھی پیدا ہوئے وہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے پس سب سے زیادہ توحید کی غیرت رکھنے والا آپ ہی کا وجود تھا افسوس یہ ہے کہ یہ مولوی صاحب کیسے کو رباطن ہیں کہ نہ آیات قرآنیہ پر ان کی نظر پڑی نہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پر معارف کلام پر کہ " الْخَلْقُ عَمَالُ اللَّهِ لَا حَبُّ الْخَلْقِ إِلَى اللَّهِ مَنْ أَحْسَنَ إِلى عَمَالِهِ" مشکوة کتاب الادب باب الشفقه ) کہ مخلوق اللہ تعالی کا کنبہ یعنی اس کی اولاد ہے پس جو شخص اللہ تعالٰی کے کنبہ کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے وہ خدا کا محبوب ترین بندہ ہے.لیکن افسوس کہ عدم عرفان کی بحث نہیں یہ مولوی صاحب تو بلاشبہ حق دیکھتے ہوئے بھی اس سے اعراض کرتے ہیں اور غیروں کو باطل بنا کر دکھاتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جس الہام پر یہ پھبتیاں کس رہے ہیں اور اس سے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ مرزا صاحب نے خدا کا بیٹا ہونے کا دعویٰ بھی کر دیا ہے اب دیکھئے اس الہام کی تشریح حضرت مرزا صاحب نے کیا فرمائی جو خود سمجھی اور سمجھائی اس کے خلاف تشریح کرنے کا کسی کو کیا حق ہے سوائے اس کے کہ کسی کی فطرت گندی ہو.آپ فرماتے ہیں: " یاد رہے خدا تعالی بیٹوں سے پاک ہے نہ اس کا کوئی شریک ہے اور نہ بیٹا ہے اور نہ کسی کو حق پہنچتا ہے کہ وہ یہ کہے کہ میں خدا ہوں یا خدا کا بیٹا ہوں لیکن یہ فقرہ ( انت منی بمنزلة اولادی - ناقل ) اس جگہ قبیل مجاز اور استعارہ میں سے ہے خدا تعالٰی نے قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا اور فرمایا بَدُ اللَّهِ فَوقَ الدِیهِمُ ایسا ہی بجائے قُلْ يَا عِبَادَ اللہ کے قُلْ يَا عِبَادِی بھی کہا اور یہ بھی فرمایا فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكُرِكُم ایک کم.پس اس خدا کے کلام کو ہوشیاری اور احتیاط سے پڑھو اور از قبیل متشابہات سمجھ کر
ایمان لاؤ اور اس کی کیفیت میں دخل نہ دو اور حقیقت حوالہ بخدا کرو اور یقین رکھو کہ خدا اتخاذ ولد سے پاک ہے تاہم متشابہات کے رنگ میں بہت کچھ اس کے کلام میں پایا جاتا ہے پس اس سے بچو کہ متشابہات کی پیروی کرو اور ہلاک ہو جاؤ اور میری نسبت بینات میں سے یہ الہام ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے قل انما انا بشر مثلكم يو حى الى انما الهكم الله واحد و الخير كله في القرآن وافع البلاء صفحہ ۷۶ حاشیہ روحانی خزائن جلد ۱۸ حاشیه صفحه ۲۲۷) یہ قطعی طور پر مولویوں کی بددیانتی ہے کہ حضرت مرزا صاحب کی اس عبارت کے ہوتے ہوئے بھی ان کی طرف شرک منسوب کریں.اس ضمن میں حضرت مرزا صاحب کی ایک عاشقانہ تحریر اس قسم کی بحثوں کا قضیہ ایک اور طرح بھی چکا دیتی ہے.آپ فرماتے ہیں خدا میں فانی ہونے والے اطفال اللہ کہلاتے ہیں لیکن یہ نہیں کہ وہ خدا کے در حقیقت بیٹے ہیں.کیونکہ یہ تو کلمہ کفر ہے اور خدا بیٹوں سے پاک ہے بلکہ اس لئے استعارہ کے رنگ میں وہ خدا کے بیٹے کہلاتے ہیں کہ وہ بچہ کی طرح ولی جوش سے خدا کو یاد کرتے رہتے ہیں اسی مرتبہ کی طرف قرآن شریف میں اشارہ کر کے فرمایا گیا ہے " فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكُرِ كُمُ أبَاءَكُمْ أَوَ ادَّ ذكر ا یعنی خدا کو ایسی محبت اور دلی جوش سے یاد کرو جیسا کہ بچہ اپنے باپ کو یاد کرتا ہے.اسی بناء پر ہر ایک قوم کی کتابوں میں آب یا پتا کے نام سے خدا کو پکارا گیا ہے اور خدا تعالی کو استعارہ کے رنگ میں ماں سے بھی ایک مشابہت ہے اور وہ یہ کہ جیسے ماں اپنے پیٹ میں اپنے بچہ کی پرورش کرتی ہے ایسا ہی خدا تعالیٰ کے پیارے بندے خدا کی محبت کی گود میں پرورش پاتے ہیں اور ایک گندی فطرت سے ایک پاک جسم انہیں ملتا ہے.سو اولیاء کو جو صوفی اطفال حق کہتے ہیں یہ صرف ایک استعارہ ہے ورنہ خدا اطفال سے پاک اور لَم يَلِدُ ولَم تتمه حقیقته الوحی روحانی خزائن جلد نمبر ۲۲ صفحه (۱۴۴) يُولد ہے" عقیده نمبر ۱۸ اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب لکھتے ہیں.
۴۷ " قرآن کریم کی کسی آیت یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث میں یہ مضمون بھی نہیں کہ اللہ تعالٰی کے لے " کن فیکون " کی طاقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائی ہو.لیکن مرزا غلام احمد کے بارے میں قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے "کن نیکون " کے اختیارات ان کو عطا فرمائے ہیں چنانچہ مرزا صاحب کا الہام ہے :- انما امرک اذا اردت شيئا ان تقول له كن فيكون ( تذکره صفحه ۵۲۵) (صفحہ ۳۱) اے مرزا ! تیری شان یہ ہے کہ جب تو کسی چیز کا ارادہ کرے تو تو اس سے کہہ دے کہ ہو جا پس وہ ہو جائے گی " معزز قارئین.لدھیانوی صاحب نے مرزا صاحب کا الہام تو صحیح درج کیا ہے لیکن ترجمہ کرتے وقت اپنی دیانت داری کا جنازہ نکال دیا ہے لدھیانوی صاحب یہ تاثر دے رہے ہیں کہ اس الہام میں خدا تعالٰی مرزا صاحب کے وجود میں کن فیکون کی طاقت تسلیم کرتا ہے حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے.چنانچہ مرزا صاحب نے جہاں جہاں بھی اس الہام کو درج کیا ہے کہیں بھی وہ ترجمہ نہیں کیا جو لدھیانوی صاحب نے پبلک کو دھوکہ دینے کے لئے کیا ہے یہ الہام بے شک خدا کا کلام ہے لیکن مرزا صاحب کی زبان سے ادا کیا گیا ہے اور اس میں مخاطب اللہ تعالٰی ہے اور مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں کن فیکون کی طاقت پائی جاتی ہے چنانچہ یہ اسلوب بیان بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ سورۃ فاتحہ کی آیت اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں ہے اس کا بھی ہرگز یہ مطلب نہیں کہ خدا تعالٰی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کہہ رہا ہے کہ اے رسول ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں بلکہ اس آیت میں مخاطب اللہ تعالیٰ ہے اور بندوں کی زبان سے یہ کہا گیا ہے کہ اے خدا ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں.ایک اور جگہ فرمایا إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْدِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاء او لا شكورا (الدھر آیت نمبر ۱۰) یہاں پر بھی لفظ میقولون محذوف ہے اور مراد یہ ہے کہ خدا کے نیک بندے کہتے ہیں کہ اے خدا کے بندو ! ہم تم کو صرف اللہ کی رضا کے لئے کھانا کھلاتے ہیں نہ ہم تم سے کوئی جزا طلب کرتے ہیں نہ تمہارا شکر چاہتے ہیں.به نقل بمطابق اصل ہے یہاں لفظ ” نے " چاہئے.
۱۴۸ ایک اور جگہ فرمایا :- مَا نَعْبُدُهُمُ الَّا لِيَتَرَبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلفى ( الزمر آیت نمبر ۴) یہاں پر بھی یقولون محذوف ہے اور ترجمہ یوں ہو گا کہ مشرکین کہتے ہیں کہ ہم اپنے بنائے ہوئے شریکوں کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں.یہاں پر ہرگز یہ مراد نہیں کہ خدا نعوذ باللہ اپنی بابت یہ کہتا ہے کہ میں مشرکین کے بنائے ہوئے شریکوں کی عبادت کرتا ہوں.بالکل یہی طرز بیان حضرت مرزا صاحب کے مندرجہ بالا الہام میں ہے جس پر لدھیانوی صاحب جان بوجھ کر ایسا غیر معقول اعتراض کر رہے ہیں اور اس طرز کا اعتراض کر کے وہ در اصل دشمنان اسلام کو قرآن کریم پر حملہ کرنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں.چنانچہ مرزا صاحب نے خود اس الہام کے ساتھ نازل ہونے والے دیگر الہامات سمیت جو ترجمہ کیا ہے وہ ذیل میں درج ہے.اے ازلی ابدی خدا ! میری مدد کے لئے آ.زمین باوجود فراخی کے مجھ پر تنگ ہو گئی ہے اے میرے خدا میں مغلوب ہوں.میرا انتقام دشمنوں سے لے پس ان کو پیس ڈال کہ وہ زندگی کی وضع سے دور جا پڑے ہیں تو جس بات کا ارادہ کرتا ہے وہ تیرے حکم سے فی الفور ہو جاتی ) حقیقته الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۰۸٬۱۰۷) ترجمہ یہ ہے کہ "اے خدا تو جس بات کا ارادہ کرتا ہے وہ تیرے حکم سے فی الفور ہو جاتی ہے لیکن مولوی صاحب کی فتنہ پردازی دیکھو کہ کس طرح کھلم کھلا پہلے اتہام باندھتے ہیں اور پھر اپنے مشرکانہ خیالات کا حضرت مرزا صاحب کی طرف منسوب کرنے کی جسارت کرتے ہیں.حضرت مرزا صاحب کا اس بارہ میں کیا مذہب تھا یعنی آپ ان الہامات کی موجودگی میں کن فیکون" کے اختیارات کس کے لئے مانتے تھے اس کی بابت آپ فرماتے ہیں:.” نہ ایک دفعہ بلکہ بیسیوں دفعہ میں نے خدا کی بادشاہت کو زمین پر دیکھا اور مجھے خدا کی اس آیت پر ایمان لانا پڑا کہ کہ مُلكُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ یعنی زمین پر بھی خدا کی بادشاہت ہے اور آسمان پر بھی اور پھر اس آیت پر ایمان لانا پڑا کہ اِإِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَمَّ
۱۴۹ كُن فَيَكُونُ - یعنی تمام زمین و آسمان اس کی اطاعت کر رہے ہیں جب ایک کام کو چاہتا ہے تو کہتا ہے کہ ہو جا تو فی الفور وہ کام ہو جاتا ہے" اب مولوی صاحب کے اعتراض کو دیکھئے ! (کشتی نوح صفحه ۳۵ روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۸) افتراء کی ایسی خبیثانہ مثال اگر کسی اور کے علم میں ہو تو دکھائے امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب کا تو مولوی صاحب کے ہم خیال لوگوں کے ساتھ عمر بھر یہی بحث مباحثہ رہا کہ تم مسلمان علماء ہو کر کیوں خدا کا خوف نہیں کرتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو گڑھے مردوں کا زندہ کرنے کا اعجاز نہیں مانتے اور یہ بھی تسلیم نہیں کرتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹی گوندھ کر پرندے بنائے اور پھونک مار کر انہیں زندہ کر کے اڑا دیا ہو لیکن حضرت عیسی کیلئے یہ مشرکانہ عقیدہ رکھتے ہو کہ وہ گویا خدا تعالیٰ کی کن فیکون کی تنزیہی صفات میں شریک تھے.اس کو ثابت کرنے کے لئے جب تم قرآن کریم کی آیت کا حوالہ دیتے ہو تو یہ مرزا صاحب ہی ہیں جو تمہیں متوجہ کرتے ہیں کہ انبیاء کے بارہ میں ایسا کلام روحانی معنی رکھتا ہے اس کا ظاہر پر اطلاق نہیں ہوتا وہ روحانی مریض ہی تھے جنہیں مسیح اچھا کیا کرتے تھے.وہ روحانی پرندے ہی تھے جو مسیح نے بنائے اور انہیں پر پرواز عطا کئے اور وہ روحانی مردے ہی تھے جنہیں مسیح علیہ السلام زندہ کیا کرتے تھے یہ تولدھیانوی صاحب جیسے مولوی ہیں جو پلٹ کر کہتے ہیں کہ تم تو قرآن کریم کی تاویلیں کرتے ہو اور ہم یقیناً ظاہری معنے ہی لیتے ہیں اور ظاہری معنوں کا اطلاق ہی مسیح پر کرنے کو حق سمجھیں گے.یہ حضرت مرزا صاحب ہی تھے جنہوں نے لمبا عرصہ لدھیانوی صاحب جیسے علماء کو سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ تمہاری ٹیڑھی سوچیں ہی ہیں جو الومیت مسیح کے عقیدہ کو سہارا دے رہی ہیں اور اس کی امنیت کے باطلانہ خیال کو سچ بنا کر دکھا رہی ہیں.تم لوگ ہرگز انصاف سے کام نہیں لیتے کہ جب حضرت مسیح" کے متعلق یہ لکھا ہوا دیکھتے ہو کہ وہ مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے تو یہ یقین کر لیتے ہو کہ وہ سالہا سال کے گڑھے ہوئے جسمانی مردے ہیں جن کا قرآن کریم ذکر فرما رہا ہے لیکن جب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اسی قرآن میں لکھا پاتے ہو کہ اسْتَجبُو اللَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحَيْكُمْ (انفال آیت نمبر ۲۵)
۱۵۰ کہ اللہ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہا کرو جب وہ تمہیں پکارے کیونکہ وہ تمہیں زندہ کرتا ہے اور زندہ کرے گا.تو تم یہاں احیاء کے معنی جسمانی نہیں بلکہ روحانی کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہو اسی طرح تمہارے انصاف اور تقویٰ کا یہ حال ہے کہ جب حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق حدیثوں میں نزول کا لفظ لکھا ہوا دیکھتے ہو تو شور مچا دیتے ہو کہ دیکھو مسیح کا جسم سمیت آسمان سے اترنا ثابت ہو گیا اور جب یہی لفظ قرآن کریم کی حسب ذیل آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق استعمال ہوتا دیکھتے ہو کہ انزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُم تو كَرًا رَسُولاً ( طلاق آیت 1 ) تو یہاں لفظ نزول کی تاویل کرتے ہو اور کہتے ہو کہ جسم سمیت آنحضرت کا اترنا مراد نہیں.پس یہ تمہاری ظاہر پرستیاں اور نا انصافیاں ہی ہیں کہ جن ہتھیاروں سے لیس ہو کر خدا تعالی کے ایک پاک بندے حضرت مرزا صاحب پر حملہ آور ہو رہے ہو.لیکن ظلم اور فتنہ گری کی حد ہے کہ جس شخص نے عمر بھر تم سے امبینت و الوحیت مسیح کے خلاف روحانی جنگیں لڑیں اور یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ مسیح کے متعلق مردوں کو زندہ کرنے کا اور مٹی سے پرندے بنانے کا ذکر ظاہر معنوں میں ہے اور تمہیں متنبہ کیا کہ اس طرح مسیح کو خدا تعالٰی کی ذات کے ساتھ کن ٹینگون میں شریک ماننا پڑے گا.اب تم اسی پاک موحد وجود پر صفت کن سینگون میں شریک ہونے کا الزام دھر رہے ہو.یہ دجل اور فریب کاری کی انتہا ہے.عقیدہ نمبر ۱۹ اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب نے حضرت مرزا صاحب کے دس الہامات بطور اعتراض پیش کئے ہیں.مولوی صاحب نے عقیدہ نمبر 19 کے تحت جو دس الہامات درج فرمائے ہیں اس فعل سے قاری کو ان کی ٹیڑھی طرز فکر پر خوب اطلاع ہو گئی ہے.اس سے پہلے ہم متوجہ کر چکے ہیں کہ مولوی صاحب نے نمبر بنانے کے لئے بعض اعتراضات کو جو ایک ہی نوعیت سے تعلق رکھتے تھے.زائد نمبر دے کر بیان کیا ہے اب مولوی صاحب کے لئے مسئلہ یہ در پیش ہے کہ 19 نمبر ہو چکے ہیں اور مولوی صاحب اس نیت سے کہ قرآن کریم کی آیت علمها تسعة عشر کو عیاذاً باللہ مرزا صاحب پر چسپاں کریں ۱۹ کے نمبر سے آگے نہیں بڑھنا چاہتے.اس لئے 19 کے عدد پر پہنچ کر ایک نہیں دس مختلف الہامات مختلف اعتراضات کی خاطر
۱۵۱ اکٹھے کر دیتے ہیں.کوئی سیدھی سادی سوچ کا آدمی ہوتا تو 19 سے قطع نظر جتنے اعتراضات ذہن میں آتے نمبر شمار کر کے لکھتا چلا جاتا.ان کی یہ طرز بتاتی ہے کہ یہ قرآنی آیات کو بھی بازیچہ اطفال سمجھتے ہیں.تاکہ جس طرح چاہیں ان کا زبردستی اطلاق کر کے دکھائیں اور اپنی بددیانتی اور ذہنی کجروی پر مہر تصدیق ثبت کریں.آئیے اب ہم ان دس اعتراضات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو نمبر 19 کے تابع دس الہامات پر انہوں نے کئے ہیں.- اعتراض نمبر ---- "انت اسمى الا على ( تذکرہ صفحہ ۳۳۸) تو میرا الا علیٰ نام ہے " جواب : اسم کے معانی نام اور صفت کے ہوتے ہیں اور مرزا صاحب انسان ہیں.انسان کو مٹی اور موصوف تو کہا جا سکتا ہے.اسم اور صفت نہیں کہا جا سکتا.پس اس الہام میں کوئی لفظ بطور مضاف محذوف ماننا پڑے گا جیسا کہ عربی زبان میں مضاف اکثر حذف ہو جاتا ہے.پس یہاں پر انت اور امی کے درمیان مظہر کا لفظ بطور مضاف محذوف ہے.چنانچہ حضرت مرزا صاحب نے خود اس الہام کا یہ ترجمہ کیا ہے.تو میرے اسم اعلیٰ کا مظہر ہے یعنی ہمیشہ تجھ کو غلبہ ہو گا " تریاق القلوب صفحه ۸۱ روحانی خزائن جلد نمبر ۱۵ صفحه ۳۱۵) اس الہام میں بعینہ قرآن مجید کی اس آیت کا مضمون بیان کر دیا گیا ہے كتب الله لا تخلين اَنَا وَ رُسُلِي (المجادلہ : ۳۶) کہ خدا نے لکھ چھوڑا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ہی غالب رہیں گے.گویا ہر رسول خدا کے اسم اعلیٰ کا مظہر ہوتا ہے.پس دیکھ لیجئے حضرت مرزا صاحب کا اپنا کیا ہوا ترجمہ قارئین سے چھپانا کس درجے کی بے ادبی ہے اور اپنا بنایا ہوا ترجمہ مرزا صاحب کی طرف منسوب کرنا کیسی بددیانتی ہے" اعتراض نمبر ۲ - أنتَ مُرادی ( تذكرة صفحه ۸۳ ) تو میری مراد ہے اس الہام میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں.اس الہام کے متعلق مولوی صاحب کے دماغ میں غالبا یہ فتنہ داخل ہوا ہے کہ گویا مبینہ طور پر اللہ تعالی اپنی تمناؤں کا منتہی مرزا صاحب کو قرار دے رہا ہے.یہ ہرگز نہ مرزا صاحب کا عقیدہ تھا نہ جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے بلکہ حضرت مرزا صاحب تو بارہا
۱۵۲ خوب صراحت کے ساتھ یہ تحریر فرما چکے ہیں کہ ساری کائنات کے پیدا کرنے پر خدا تعالیٰ کے ارادے کا منتہیٰ اور آخری مراد حضرت محمد مصطفیٰ ہیں.پس یہاں " مراد " سے وہ مراد ہرگز نہیں بلکہ ہر شخص جس منصب پر مقرر ہوتا ہے اس کے مطابق خدا تعالی کی الگ الگ مراد ہوتی ہے.ہر چیز اس کے ارادہ سے پیدا ہوتی ہے اور ہر ارادہ جب پورا ہو تو مراد بن جاتی ہے.پس زمانہ آخرین میں امام مہدی سے متعلق جب اللہ تعالی یہ فرمائے تو اس کا اس کے سوا اور کوئی معنی نہیں ہو سکتا کہ اس زمانہ میں اسے پیدا کرنا مقصود تھا.یہاں حضرت مرزا صاحب کی ذات نہیں بلکہ منصب مہدویت اور منصب مسیحیت ہی ہے.کیونکہ یہی مضمون آپ کا حسب ذیل شعر خوب کھول رہا ہے..وقت تھا وقت مسیحا نہ کسی اور کا وقت میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا پس قطعاً ثابت ہوا کہ جناب لدھیانوی صاحب جو وسوسہ پیدا کر رہے ہیں کہ نعوذ باللہ مرزا صاحب کی ذات کے بارہ میں یہ کہا گیا ہے بے بنیاد اور جھوٹ ہے جسے حضرت مرزا صاحب کی کھلی کھلی تحریر میں رہ کرتی ہیں.اعتراض نمبر ۳ انت متى و انا منك ( تذکرہ صفحہ ۴۲۶ ) تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں.جواب : - یہ عربی زبان کا محاورہ ہے جو محبت و پیار کے اظہار کے لئے استعمال ہوتا ہے چنانچہ ذیل کی احادیث ملاحظہ فرمائیں.---- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو فرمایا " انت منی و انا منک" (بخاری کتاب الصلح باب کیف مکتب هذا) کہ اے علی تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں.اشعری قبیلہ کے بارے میں فرمایا " هُمُ مِنى و انا منهم" (تجريد البخاری باب الشركه اول صفحه ۴۷۴ مرتبہ فیروز الدین اینڈ سنز مطبوعہ کو اپر بیڈ سٹیم پریس لاہور ۵۱۳۴۱ ) کہ وہ لوگ مجھ سے ہیں اور میں ان سے - - - حضرت سلمان فارسی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سلمانُ مِنا أهل البيت (مستدرک حاکم جلد نمبر ۳ کتاب معرفته الصحابة باب ذکر سلمان الفارسی رضی اللہ )
۱۵۳ سلمان ہم میں سے ہے اور اہل بیت ہے لیکن یہ تو محض انسانی تعلقات کی باتیں ہیں.اب سنئے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا اور بندے کے تعلق میں بعینہ یہی فقرہ بیان فرمایا ہے.الْعَبْدُ مِنَ اللهِ وَهُوَ مِنه (الجامع الصغير للسيوطى باب العين) کہ خدا کا کامل اور سچا غلام اللہ میں سے ہوتا ہے اور خدا اس میں سے ہوتا ہے.اب دیکھئے ! جناب لدھیانوی صاحب کا حملہ دراصل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے خلاف سخت گستاخی اور بے باکی ہے اگر اس قسم کے جملوں کے معانی مولوی صاحب مشرکانہ فکاہات سمجھتے ہیں تو دیکھئے کہ کس قدر بد بختی کے مقام پر آپہنچے ہیں کہ ایسا ہی فقره ای حدیث نبوی کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے جاری ہونا ثابت ہوتا ہے.در حقیقت اردو زبان میں انت منی و انا مسنگ کا ترجمہ ایک وقت پیدا کر رہا ہے.تو مجھے سے اور میں تجھ سے ، اس کا لفظی ترجمہ ہے جو پوری طرح عربی مضمون کو واضح نہیں کرتا.اگر اس کا بامحاورہ ترجمہ کیا جائے تو اعتراض خود ختم ہو جاتا ہے.اس کا بامحاورہ ترجمہ یہ ہے." تو میرا ہے میں تیرا ہوں" عربی زبان میں اگر یہ کہنا ہو کہ تو میرا ہے تو " انت " کو متکلم کی ضمیر "ی" کی طرف مضاف کیا ہی نہیں جا سکتا.سوائے اس کے کہ درمیان میں " من " داخل کیا جائے.اسی طرح کہا " کی ضمیر متکلم کو ضمیر "ک" کی طرف مضاف کرنا ممکن نہیں.سوائے اس کے کہ درمیان میں " من " داخل کیا جائے.اس لحاظ سے تو میرا ہے " کے لئے جس طرح آنتی " کہنا بالکل لغو اور غلط ہے اسی طرح ناک" کہنا بھی بالکل لغو اور غلط ہے.پس جب یہ کہتا ہو کہ " تو میرا ہے میں تیرا ہوں " تو عربی محاورہ میں سوائے انت منی و انا منک کہنے کے اور کوئی چارہ ہی نہیں.اب ضمناً مولوی صاحب کو یہ جتاتے چلیں کہ اس زمانہ کے غزنوی خاندان کے مشہور صوفی بزرگ حضرت عبداللہ غزنوی کو بمطابق کتاب " سوانح مولوی عبداللہ غزنوی صفحه ۴۲"
100 ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ یہ الہام ہوا انت منی و انا منک اعتراض نمبر ۴ انت مني بمنزلة بروزى ( تذکرۃ صفحہ ۵۹۶) " تو بمنزلہ میرے بروز کے ہے" اس سے پہلے بکثرت اس مسئلہ پر بحث گذر چکی ہے.اعتراض نمبر ۵ انت منی بمنزلة توحیدی و تفریدی ( تذکره صفحه (۳۸) یعنی تو بمنزلہ میری توحید و تفرید کے ہے " اس الہام کا جو ترجمہ مرزا صاحب نے فرمایا ہے وہی درست با محاورہ ترجمہ ہے اور ذرا پہلے ہم یہ بات ثابت کر چکے ہیں کہ عربی زبان میں جب یہ کہنا ہو کہ تو میرا ہے میں تیرا ہوں تو عربی میں دو الفاظ کے درمیان " من " داخل کرنا پڑتا ہے پس دراصل یہاں اسی طرح کا ایک پیار کا اظہار ہے کہ تو مجھے اسی طرح عزیز ہے جس طرح مجھے توحید عزیز ہے اور جس طرح اپنی یکتائی عزیز ہے.یہی ترجمہ حضرت مرزا صاحب نے اس الہام کا کیا ہے کہ ” تو مجھ سے ایسا قرب رکھتا ہے اور ایسا ہی میں تجھے چاہتا ہوں جیسا کہ اپنی توحید اور تفرید کو " (اربعین نمبر ۳ صفحه ۲۵ حاشیه ) معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب کی نہ تو قرآن پر نظر ہے نہ حدیث پر اور نہ تاریخ اسلام سے انہیں واقفیت ہے دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب جنگ بدر میں یہ دعا کی کہ اے خدا تو نے اگر آج اس مٹھی بھر ( میرے صحابہ کی ) جماعت کو ہلاک ہونے دیا تو پھر کبھی تیری عبادت نہیں کی جائے گی.آپ نے در حقیقت اسی مضمون کو بیان فرمایا ہے کہ خدا کے بعض بندے توحید کے علمبردار ہو جاتے ہیں اگر وہ اٹھ جائیں تو توحید اٹھ جاتی ہے پس خدا کے تمام بھیجے ہوئے انبیاء اسی طرح خدا کی توحید اور تفرید کے مظہر ہوتے ہیں جیسا کہ زیر نظر الہام میں بیان فرمایا گیا ہے اور چونکہ خدا کو اپنی توحید اور تفرید بہت پیاری ہے اس لئے اپنے ان بندوں سے جو اس کی توحید اور تفرید کیلئے سب کچھ قربان کرنے والے ہوتے ہیں خدا تعالٰی ان کے لئے غیرت دکھاتا ہے اور ان کی حفاظت فرماتا ہے.دیکھئے کتنا پیارا مضمون قرآن کریم اور فرمودات نبویہ سے ہالبدامت ثابت ہے اور لدھیانوی صاحب ہیں کہ اپنے ہی خیالات کی تاریکیوں میں بیٹھے اعتراضات کا تانا بانا بنتے چلے
جاتے ہیں.۱۵۵ اعتراض نمبر 4.انت منی بمنزلة روحي ( تذکره صفحه ۷۴۱ ) تو بمنزلہ میری روح کے ہے.مولوی صاحب کا اس پر اعتراض کرنا حیرت انگیز ہے جب یہ خود عیسی علیہ السلام کو روح اللہ قرار دیتے ہیں یہی نہیں بلکہ جب قرآن میں یہ لکھا دیکھتے ہیں کہ آدم میں جب خدا نے اپنی روح پھونکی تو اس وقت انہیں تعجب ہوتا ہے نہ اعتراض پیدا ہوتا ہے اور مزید تعجب یہ ہے کہ ان معترض صاحب نے قرآن کریم کی اس آیت کا مطالعہ نہیں فرمایا کہ يَسْتَلُونَكَ عَنِ الرُّوح قل الروح من امد کر تی (بنی اسرائیل آیت نمبر ۸۶) پس در حقیقت امرالہی کا نام ہی روح ہے ورنہ نعوذ باللہ خدا کا کوئی جسم نہیں کہ جس کی الگ روح ہو پس جب خدا کی روح کی بات کی جاتی ہے تو مراد اس کا امرہی ہے پس امر اللہ سے آدم کو زندگی ملی اور امر اللہ سے ہی مسیح میں جان پڑی اور ہر زمانہ کا مامور خدا کے امر سے بنتا ہے اور وہ اس سے اپنے امر ہی کی طرح پیار کرتا ہے.پس اس کو سمجھتے یہ تاویلوں کی بحث میں کھلم کھلا آیتوں کی نصوص صریحہ کی رو سے روح اور امر کا مضمون سمجھایا ہے اس کے بعد بھی اگر کوئی حملہ کی خو سے باز نہیں آتا تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے.اعتراض نمبرے - انت منی بمنزلة سمعي ( تذکره ۷۴۷ ) تو بمنزلہ میرے کان کے ہے مولوی صاحب غالبا اس الہام پر تمسخر کرنا چاہتے ہیں کہ گویا اللہ تعالیٰ کے کان ہیں اور مرزا صاحب خود وہ کان ہیں.در حقیقت مولوی صاحب سے نپٹنا ایک بہت بڑی سردردی ہے.کیونکہ ان کو کچھ بھی علم نہیں نہ قرآن نہ دین نہ عرفان - پڑھا تو سب کچھ ہوا ہے لیکن سمجھا خاک بھی نہیں.حضرت مرزا صاحب کا یہ الہام یا اس قسم کے دوسرے الہام جن میں خدا کے اعضاء یا بدن کا معنیٰ دکھائی دیتا ہے ان کی کسی تشریح اور تاویل کی جماعت کو ضرورت نہیں.کیونکہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ان مسائل کو حل فرما چکے ہیں اور اس مضمون پر آپ کی بات ہی حرف آخر
۱۵۶ ہے اگر یہ سننے کے بعد بھی مولوی صاحب زبان کھولنے کی جرات کریں تو ایسا کرنا یقیناً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید گستاخی کے مترادف ہو گا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی زبان سے اس حدیث قدسی کو بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے :- میرا بندہ نوافل کے ذریعہ میرے قریب ہوتا چلا جاتا ہے.یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں ) اور جب وہ میرا پیارا بن جاتا ہے ) تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں ہو جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ ہو جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے اور اس کی ٹانگیں ہو جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے.بخاری کتاب الرقاق باب التواضع ) اعتراض نمبر ۸ - انت منی بمنزلة عرضي ( تذكرة صفحه ۵۱۳) تو بمنزلہ میرے عرش کے ہے.جب بھی خدا کا کوئی بندہ آسمان سے آتا ہے ایک نئی زمین اور نیا آسمان پیدا کیا جاتا ہے یہ بحث فصل ثالث کے عقیدہ نمبر ۱۸ میں گذر چکی ہے یہ الہام بھی اسی نوعیت کا ہے.حضرت بایزید بسطامی کے متعلق لکھا ہے کہ ” ان سے کسی نے پوچھا کہ عرش کیا ہے ؟ فرمایا میں ہوں پوچھا کرسی کیا ہے؟ فرمایا میں ہوں پوچھا لوح کیا ہے فرمایا میں ہوں پوچھا کہتے ہیں ابراہیم موسیٰ اور محمد صلعم اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں فرمایا میں ہوں" ( تذکرۃ الاولیاء اردو باب نمبر ۱۴ صفحه ۱۲۸ شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سنز) عرش الہی کوئی مادی مقام نہیں جیسا کہ مولوی صاحب کے دماغ میں ہے جو جو میں کسی جگہ لٹکا پڑا ہے.نہ ہی کرسی سے مراد ویسی کرسی ہے جس پر انسان بیٹھتے ہیں.یہ سب جہالت کی باتیں ہیں جو عرفان سے عاری لوگ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں.خدا تعالی کی شان کے مطابق عرش اور اس کے مختلف معانی ہوتے ہیں جن میں سے ایک معنی عبادت گزار بندے کا قلب ہے جس پر خدا تعالی تجلی فرماتا ہے اور قرار پکڑتا ہے یعنی ہمیشہ کیلئے اس قلب پر قبضہ فرما لیتا ہے چنانچہ مرزا صاحب نے معراج کے مضمون پر عارفانہ کلام میں یہ حقیقت بیان فرمائی کہ وہ بلند ترین مقام جس پر خدا جلوہ گر ہوا اور جسے عرش کے نام سے یاد کیا جاتا ہے وہ خود حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلیٰ اور ارفع قلب ہی تھا.
۱۵۷ امت محمدیہ میں اور بھی ایسے صوفی بزرگ گزرے ہیں جنہوں نے یہی معنی کئے ہیں اور اپنے لئے کئے چنانچہ حضرت بایزید بسطامی کا حوالہ ہم پہلے درج کر چکے ہیں اور پھر یاد دہانی کراتے ہیں.اعتراض نمبر 9 - انت مني و سرک سری ( تذکره صفحه (۲۰۷) تو مجھ میں سے ہے اور تیرا بھید میرا بھید ہے.انسان کے بھید سے خدا واقف ہے.اس الہام کے جب تک کوئی معنی نہ کئے جائیں اس وقت تک اس پر کوئی تبصرہ ہو ہی نہیں سکتا.دنیا میں ہر انسان کے بھید ہوتے ہیں بعض بھیدوں کا گناہوں اور دنیا کی آلائشوں سے تعلق ہوتا ہے انہیں خدا کا بھید نہیں کہا جا سکتا.بلکہ وہ شیطانی ہوتے ہیں.بعض بھید نیکی سے تعلق رکھنے والے بھید ہوتے ہیں بعض انسان اپنی نیکیوں کو اور خدا تعالی کے ہاں اپنے خاص قرب کو بنی نوع انسان سے چھپاتے ہیں پس ایسے بھید جو نیکی اور تقویٰ کے بھید ہوتے ہیں وہ لازماً خدا کے بھید کہلائیں گے.کیونکہ وہ خدا تعالٰی سے تعلق رکھنے والے بھید ہیں.اس قسم کے بھیدوں سے تعلق رکھنے والے بھیدوں کے زمرہ میں خدا تعالٰی کے اپنے خاص بندوں سے اپنے خاص معاملات کو شمار کیا جا سکتا ہے جس طرح بعض دفعہ فقیروں اور درویشوں سے بھی خدا تعالٰی بعض ایسے معاملات رکھتا ہے جو دو سرے بڑے بڑے بزرگ اولیاء اللہ سے نہیں کئے جاتے یہ بات اس کی شان کبریائی کا مظہر ہے جس سے چاہے جس قسم کا چاہے خاص تعلق باندھے پس یہ ان درویشوں اور اولیاء کے بھید ہیں جو خاص بھید ہوتے ہیں.چنانچہ دیکھئے حضرت سید عبد القادر جیلانی جو خود ایسے اسرار کے حامل تھے جو خدا کے اسرار تھے اس معمہ سے پردہ اٹھاتے ہوئے لکھتے ہیں ” مع كل واحد من رسلہ و انبیاء، و اولياء، سر من حيث لا يطلع على ذالك احد غيره حتى انه يكون للمريدستر لا يطلع عليه ( فتوح الغیب مقالہ نمبر۱۷ از شیخ عبد القادر جیلانی فارسی نسخه صفحه ۲ مطبوعہ منشی نول کشور پریس لکھنو) شیخه
۱۵۸ یعنی اللہ تعالٰی کا اپنے ہر رسول نبی اور ولی کے ساتھ ایک بھید اور راز ہوتا ہے کہ دوسرے کسی کو اس پر اطلاع نہیں ہوتی یہاں تک کہ بعض دفعہ مرید کا اللہ تعالیٰ سے ایک بھید ہوتا ہے اور اس کے شیخ کو اس پر آگاہی نہیں ہوتی.اعتراض نمبر ۱۰ انا اتیناک الدنیا و خزائن رحمة ربک ( تذکره صفحه ۳۷۶) ہم نے تجھے دنیا دے دی اور تیرے رب کی رحمت کے خزانے دے دیئے.ہم نے کوشش بھی کی لیکن سمجھ نہیں آئی کہ اعتراض کس بات پر ہے اللہ تعالیٰ اپنے ہر بھیجے ہوئے کو غلبہ عطا کرتا ہے جو رفتہ رفتہ بڑھتا چلا جاتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب کو رحمت کے خزانوں پر اعتراض ہے کیونکہ مولوی صاحب تو ایک ایسے مہدی کے منتظر تھے جو رحمت نہیں سونے چاندی اور زر و جواہر کے خزانے لٹانے آئے گا.پس تعجب نہیں کہ مولوی صاحب کو مرزا صاحب کے اس الہام سے کیا کیا نہ مایوسی ہوئی ہو گی کہ ہم تو زر و جواہر کے خزانوں کی امید لگائے بیٹھے تھے یہ تو آنے والا رحمت کے خزانوں کی باتیں کرتا ہے پس آپ ان رحمت کے خزانوں سے اعراض کر گئے اور پیٹھ دکھا کر دوسرا راستہ اختیار کر لیا ہے ان کے اس سلوک سے قرآن کریم کی یہ آیت یاد آجاتی ہے.وَإِذَا انْعَمنَا عَلَى الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَا بِجَانِينِ (بنی اسرائیل آیت نمبر ۸۴) کہ جب ہم انسان کی بھلائی کی خاطر نعمت نازل فرماتے ہیں ( یاد رہے کہ نعمت قرآن کی اصطلاح میں ثبوت ہے ) تو وہ اعراض کرتا ہے اور پہلو تہی اختیار کرتا ہے.اب مولوی صاحب کے اس اعتراض سے یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ انسان کیوں ایسا کرتا ہے دراصل یہاں انسان سے مراد ہے جو دنیا کی نعمتوں کا منتظر بیٹھا رہتا ہے اور اس پر مصیبت یہ ٹوٹتی ہے کہ اس پر دنیا کی نعمتوں کی بجائے آسمانی نعمتیں نازل ہونے لگتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات پر جو مولوی صاحب کے دس اعتراض تھے ان کا ہم نے جواب دے دیا ہے فالحمد للہ علی ذلک.
فصل پنجم ۱۵۹ دعوت غور و فکر اس فصل کے شروع میں جناب لدھیانوی صاحب نے چند دلچسپ فقرات تحریر کئے ہیں کہ میرا رسالہ پڑھ کر احمدی کیا تأثر لیں گے اور اس کے بعد اپنا یہ دعوی دہرایا ہے کہ مرزا صاحب اور ان کی جماعت کے عقائد ایسے ہیں جن سے امت محمدیہ میں مرزا صاحب سے پہلے کوئی صحابی ، تا بھی ، کوئی امام ، مجدد ان سے آشنا نہیں تھا.اور یہ بات تکذیب احمدیت کے لئے بہت بڑی دلیل کی حیثیت رکھتی ہے.جناب مولوی صاحب ! ہماری تکذیب کے لئے جو کچھ آپ نے بیان فرمایا ہے اس کے جواب میں بہت ہی کافی و شافی جواب ہمارے ہاتھ آگیا ہے.گذشتہ اولیاء اللہ اور آئمہ اور بزرگان سلف تو در کنار خود احمدی بھی ان عقائد سے آشنا نہیں تھے جو احمدیت کی طرف آپ نے منسوب فرمائے ہیں.بس ایک ہی بات ہے کہ دل سے آپ کے لئے دعا نکلتی ہے کہ آپ نے خود اپنے ہاتھ سے اپنے جھوٹے ہونے کی عمدہ دلیل ہمیں تھمادی.یہ کوئی محض چنگلہ نہیں.مولوی صاحب غور سے اس بات کو سن لیں کہ دنیا بھر میں ایک بھی احمدی ایسا نہیں، بلا استثناء پورے وثوق سے اور یقین کے ساتھ ہم کہتے ہیں کہ ایک بھی احمدی ایسا نہیں جو ان عقائد سے آشنا ہو جو آپ اس کی طرف منسوب کر رہے ہیں.آپ کے ہر جھوٹے الزام کے جواب میں ہم بار بار نہ صرف بتا چکے ہیں بلکہ ثابت کر چکے ہیں کہ یہ عقائد احمدیت کے عقائد نہیں ہیں! نہیں ہیں !! نہیں ہیں !!! لیکن شاباش آپ پر بھی کہ ہیں ! ہیں!! ہیں!!! کی ایسی تکرار ہے کہ بند ہونے میں نہیں آتی.جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ احمدی کیا تاثر لیں گے.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کی بہت دل شکنی ہو گی اگر آپ کو آگاہ کر دیا جائے اس لئے اگر اسے نہ ہی چھیڑا جائے تو
اچھا ہے..اور جہاں تک ہمارا رسالہ پڑھ کر آپ کے تاثر کا تعلق ہے ہمیں اس کے جواب کی ضرورت نہیں.کیونکہ قرآن کریم نے ہمیں پہلے ہی سے ان اعلانیہ تاثرات سے بھی آگاہ فرما رکھا ہے جو آپ کی زبان سے نکلیں گے اور ان تاثرات سے بھی آگاہ فرما رکھا ہے جو آپ کے سینہ نے چھپا رکھے ہیں.عقیدہ نمبرا - اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب نے اپنی اس کتاب میں موجود تمام اعتراضات و الزامات کو محض دہرایا ہے.البتہ ایک نیا اعتراض کیا ہے.سب سے پہلے ہم اس نئے اعتراض کا جائزہ لیتے ہیں.لدھیانوی صاحب لکھتے ہیں :." قرآن بھی قادیان کے قریب ہی اتر آیا انا انزلناه قريبا من القاديان.( تذکرہ صفحہ ۷۶)" (صفحه ۳۲) ہم سب سے پہلے پورا اقتباس درج کرتے ہیں جس کی بناء پر لدھیانوی صاحب نے اپنے افتراء کی عمارت تعمیر کی ہے.حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں :- " کشفی طور پر میں نے دیکھا کہ میرے بھائی صاحب مرحوم مرزا غلام قادر میرے قریب بیٹھ کر بآواز بلند قرآن شریف پڑھ رہے ہیں اور پڑھتے پڑھتے انہوں نے ان فقرات کو پڑھا کہ "انا انزلناه قريبا من القادیان" تو میں نے سن کر تعجب کیا کہ کیا قادیان کا نام بھی قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے ؟ تب انہوں نے کہا کہ یہ دیکھو لکھا ہوا ہے.تب میں نے نظر ڈالی جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ فی الحقیقت قرآن شریف کے دائیں صفحہ میں شاید قریب نصف کے موقع پر یہی الہامی عبارت لکھی ہوئی موجود ہے.تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ ہاں واقعی طور پر قادیان کا نام قرآن شریف میں درج ہے." (ازالہ اوہام حاشیہ صفحہ ہے کے کے روحانی خزائن جلد نمبر ۳ صفحه ۱۳۹) قارئین کرام ! جیسا کہ آپ دیکھ چکے ہیں کہ اس تمام عبارت میں کہیں اشار پا بھی قرآن کریم کے قادیان کے قریب نازل ہونے کا ذکر نہیں پس یہ نتیجہ نکالنا ہرگز زیادتی نہیں کہ لدھیانوی صاحب نے عمدا پورا اقتباس پیش کرنے سے اس لئے گریز کیا ہے کہ ایک فقرے
سے جو چاہیں نتیجہ نکالیں اور قاری لاعلمی میں ان کے نکالے ہوئے نتیجہ پر ایمان لے آئے.لدھیانوی صاحب کا یہ رسالہ پڑھ کر جس کا جواب دیا جا رہا ہے اور دیگر اسی قسم کے رسالے دیکھ کر ہمارا یہ تاثر قوی ہو جاتا ہے کہ فی زمانہ تحریف و تلبیس کے لدھیانوی صاحب ایک لاثانی استاد ہیں.اب رہا اس اقتباس کا نفس مضمون تو یہ ایک کھلی کھلی حقیقت ہے کہ خوابوں کی طرح کشفی نظاروں میں بھی بہت سی تعبیر طلب باتیں دکھائی جاتی ہیں جو ظاہری دنیا کے حقیقی واقعات سے مختلف ہوتی ہیں ، انہیں جھوٹ قرار دینے والا بھی پاگل ہو گا اور ان پر اعتراض کرنے والا بھی جاہل مطلق.اب دیکھئے حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ، حضرت امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں لکھتے ہیں.ایک رات آپ نے خواب میں دیکھا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ہڈیوں کو آپ کی لحد مبارک سے جمع کر رہے ہیں اور بعض ہڈیوں کو بعض سے پسند کر رہے ہیں اس خواب کی ہیبت سے آپ بیدار ہوئے.یہ اللہ تعالیٰ کا ان پر خاص احسان تھا کہ یہ رڈیا لدھیانوی صاحب جیسے کسی مولوی کے سامنے بیان نہیں فرما دی.ورنہ تو قیامت برپا ہو جاتی اس کی بجائے آپ نے خدا ترس ، عارف باللہ اور عالم دین محمد بن سیرین سے ڈرتے ڈرتے یہ رویا بیان کی تو دیکھئے کیسی عمدہ روحانی تعبیر انہوں نے فرمائی اور انہوں نے یہ کہہ کر تسلی دی.کہ " تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے علم اور سنت کی حفاظت میں اس درجہ کو پہنچے گا کہ صحیح کو ستم سے جدا کرے گا.(کشف المحجوب مترجم اردو - صفحه ۱۵-۱۱۶ باب ذکر تبع تابعین ترجمه مولوی محمد حسین صاحب مناظر گوندلانوالیہ ضلع گوجرانوالہ مطبوعہ دین محمدی پریس کشمیری بازار لاہور ) پس ایسی بے شمار مثالیں صالحین امت کی زندگیوں میں ملیں گی.ان میں سے چند ایک ہدیہ قارئین کر رہے ہیں جو جناب لدھیانوی صاحب کو بتانے کو دل نہیں کرتا کیونکہ نہ وہ اس کوچے سے آشنا ہیں اور نہ اس کوچے کی باتیں سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں.چنانچہ حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کا درج ذیل کشف ملاحظہ فرمائیں :-
Mr " حضرت مجدد الف ثانی کو ہمیشہ کعبہ شریفہ کی زیارت کا شوق رہتا تھا.....کیا مشاہدہ فرماتے ہیں کہ تمام عالم انسان ، فرشتے ، جن سب کی سب مخلوق نماز میں مشغول ہے اور سجدہ آپ کی طرف کر رہے ہیں.حضرت اس کیفیت کو دیکھ کر متوجہ ہوئے.توجہ میں ظاہر ہوا کعبہ معظمہ آپ کی ملاقات کے لئے آیا ہے اور آپ کے وجود باجود کو گھیرے ہوئے ہے.اس لئے نماز پڑھنے والوں کا سجدہ آپ کی طرف ہوتا ہے.اسی اثناء میں الہام ہوا کہ " تم ہمیشہ کعبہ کے مشتاق تھے ہم نے کعبہ کو تمہاری زیارت کے لئے بھیج دیا ہے اور تمہاری خانقاہ کی زمین کو بھی کعبہ کا رتبہ دے دیا ہے.جو نور کعبہ میں تھا اسی نور کو اس جگہ امانت کر دیا ہے.اس کے بعد کعبہ شریف نے خانقاہ مبارک میں حلول کیا اور دونوں کی زمین باہم مل جل گئی.اس زمین کو بیت اللہ کی زمین میں فناء اور بقاء اتم حاصل ہوا." صدیقه محمودیه ترجمه روضه قیومیه صفحه ۶۸ از حضرت ابوالفیض کمال الدین سرہندی مطبع بلید پریس فرید کوٹ پنجاب ) اب فرمائے لدھیانوی صاحب ! اس عبارت پر کیا کیا عنوانات سجائیں گے اور کیا کیا پھبتیاں کیں گے ؟ حضرت خواجہ سلیمان تونسوی رحمتہ اللہ علیہ کی بابت لکھا ہے.” ایک روز حضرت قبلہ نے حلقہ نشین علماء کے سامنے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میرے دونوں پاؤں کے نیچے مصحف حمید یعنی قرآن مجید ہے.اور میں اس کے اوپر کھڑا ہوا ہوں.اس خواب کی کیا تعبیر ہے.سارے علماء اس خواب کی تعبیر بیان کرنے سے عاجز آگئے.پس آپ نے مولوی محمد عابد سوکڑی علیہ الرحمتہ کو جو کہ بڑے متبحر اور متدین عالم تھے طلب کیا اور ان کے سامنے خواب بیان کیا مولوی صاحب آداب بجا لائے اور کہا کہ مبارک ہو کیونکہ قرآن شریف عین شریعت ہے اور جناب والا کے دونوں قدم ہر زمانہ میں جادہ شریعت پر مستحکم رہے ہیں اور اب بھی ہیں.چنانچہ یہ عمدہ تعبیر ہر کسی کے فکر و عقل کے مطابق تھی.لہذا سب کو پسند آئی." ( تذکرہ خواجہ سلیمان تونسوی - اردو ترجمہ نافع السا لکین ۱۵۶۱۵۷ از صاحبزاده محمد حسین الهی ناشر شعاع ادب مسلم مسجد چوک انار کلی لاہور مطبع اشرف پریس لاہور) ہاں ہاں یہ عمدہ تعبیر ہر کسی کے فکر و عقل کے مطابق تھی سوائے جناب لدھیانوی
صاحب کی عقل و فکر کے.لدھیانوی صاحب کے پیرو مرشد مولوی اشرف علی صاحب تھانوی لکھتے ہیں ایک ذاکر صالح کو کمشوف ہوا کہ احقر اشرف علی تھانوی کے گھر حضرت عائشہ آنے والی ہیں.انہوں نے مجھ سے کہا تو میرا ذہن معا اس طرف منتقل ہوا کہ کم سن عورت ہاتھ آنے والی ہے." (رساله الامداد ماه صفر ۱۳۳۵ ) یہ قصہ تو ہماری سمجھ میں بھی نہیں آیا.تعجب ہے ! خواب دیکھنا تو بے اختیاری اور بے بسی کی بات ہے لیکن تعبیر کرنا تو انسان کی اپنی عقل اور سمجھ کے دائرہ قدرت میں ہوتا ہے.یں لدھیانوی صاحب کے پیر طریقت کی یہ تعبیر ہماری عقل اور ہماری سمجھ سے بالا ہے لیکن یہ یقین رکھتے ہیں کہ لدھیانوی صاحب کی سمجھ اور عقل کے عین مطابق ہوگی.اور آخر میں مولوی صاحب سے یہ درخواست ہے کہ اگر انہیں دسترس ہو تو سلسلہ قادریہ مجددیہ کے مشہور بزرگ ، پیر طریقت ، ہادی شریعت حضرت شاہ محمد آفاق رحمتہ اللہ علیہ متوفی مئی ۱۸۳۵ء کے اس کشف کو پڑھ لیں جو انہوں نے اپنے ایک مرید فضل الرحمان گنج مراد آبادی کو بتایا جو کتاب "ارشاد رحمانی و فضل یزدانی " کے صفحہ ۵۸ میں مذکور ہے اور اس کشف کی تعبیر و تشریح بھی پڑھنی نہ بھولیں جو اسی کتاب میں مذکور ہے.ان چند مثالوں سے ہر قاری پر واضح ہو گیا ہو گا کہ کشوف ہمیشہ تعبیر طلب ہوتے ہیں اور اگر ان کی عقل و سمجھ کے مطابق مناسب تعبیر نہ کی جائے تو نتائج انتہائی بھیانک ہو جاتے ہیں اس کے بعد ہم پھر لدھیانوی صاحب کے اس افتراء کی طرف لوٹتے ہیں جو انہوں نے حضرت مرزا صاحب کے مذکورہ بالا کشف کو اپنے الفاظ میں ڈھال کر پیش کیا ہے.جس سے وہ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کے اس کشف میں جو فقرہ الہام ہوا اس میں یہ کہا گیا تھا کہ قرآن قادیان کے قریب ہی اترا ہے.یہ مضمون حضرت مرزا صاحب نے کسی جگہ پر بھی بیان نہیں کیا بلکہ ہر جگہ یہی بیان کیا ہے کہ قادیان کے قریب جو کچھ نازل ہوا ہے وہ مسیح موعود اور اس پر نازل ہونے والے آسمانی نشانات ہیں.چنانچہ تذکرہ جہاں سے لدھیانوی صاحب نے یہ کشف لیا ہے وہیں پر براہین احمدیہ کا یہ حوالہ لکھا ہے
MM انا انزلناه قريبا من القاديان و بالحق انزلناه وبالحق نزل.....یعنی ہم نے ان نشانوں اور عجائبات کو اور نیز اس الہام پُر از معارف و حقائق کو قادیان کے قریب اتارا ہے.اور ضرورت حقہ کے ساتھ اتارا ہے.اور بضرورت حقہ اترا ہے." (براہین احمدیہ حصہ چهارم صفحه ۴۹۸ حاشیه در حاشیه نمبر ۳ روحانی خزائن جلد۱) ایک اور جگہ لکھا ہے." اس الہام پر نظر غور کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قادیان میں خدائے تعالی کی طرف سے اس عاجز کا ظاہر ہونا الہامی نوشتوں میں بطور پیشگوئی کے پہلے سے لکھا گیا تھا." (ازالہ اوہام صفحہ ۷۳ حاشیہ روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۳۹ حاشیه ) اس جواب کے ساتھ ہی قارئین کو یہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ یہاں مولوی صاحب نے تو صرف اسی ایک کشف کا ذکر کیا ہے لیکن مولوی حضرات براہین احمدیہ میں مذکور حضرت مرزا صاحب کے ایک اور کشف کو بھی تند نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ جس میں آپ نے ایک نظارہ دیکھا کہ گویا آپ ایک معصوم اور چھوٹے بچے کی طرح ہیں اور کیا دیکھتے ہیں کہ یکدفعہ چند آدمیوں کے جلد جلد آنے کی آواز آتی ہے جیسی بسرعت چلنے کی حالت میں آواز آتی ہے.پھر اسی وقت پانچ آدمی نہایت وجیہہ اور مقبول اور خوبصورت سامنے آجاتے ہیں یعنی سرور دو عالم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنما اور حضرت فاطمتہ الزھراء رضی الله عنها - اور یہ سب ایک کمرے میں کھڑے ہیں..اور ان میں سے ایک نے شاید حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نہایت محبت اور شفقت سے ایک شفیق اور مہربان ماں کی طرح آپ کو اپنے ساتھ لگا لیا اس طرح کہ آپ کا سر حضرت فاطمتہ کی ران پر رکھا گیا.یہ ایک کشف تھا جس کا ظاہری اور جسمانی خیالات سے کوئی تعلق نہیں تھا.لیکن مولوی حضرات ہیں کہ اس کشف کو ظاہر پر محمول کر کے اپنے ذہنوں کا گند ظاہر کرتے چلے جا رہے ہیں.حضرت مرزا صاحب پر تو یہ عناد اور بغض کی وجہ سے ایسے اتہام لگاتے چلے جا رہے ہیں کہ جن کی شریعت اسلامیہ کلیتہ اجازت نہیں دیتی لیکن سلسلہ قادریہ مجددیہ کے مشہور بزرگ پیر طریقت ہادی شریعت حضرت شاہ محمد آفاق نے جو کشف دیکھا (جس کا حوالہ پہلے گزر چکا ہے ) اس کے پیش نظر مولوی حضرات کیا فتویٰ صادر فرمائیں گے ؟
۹۵ جبکہ اسی مذکورہ بالا کشف کی تعبیر مولوی محمد علی مونگیری صاحب نے اپنی کتاب " ارشاد رحمانی و فضل یزدانی" مطبوعه قومی پریس لکھنو کے صفحہ ۵۲ پر یہ کی ہے کہ ” اس سے مقصود بلاواسطہ اور بلا حجاب اپنے کمالات باطنی سے فیض یاب کرنا ہے...نیز لکھا ہے کہ tt یہاں یہ امر خوب یاد رہے کہ اس قسم کے واقعات محض عالم روحانیت سے تعلق رکھتے ہیں وہاں جسمانی احکام جاری نہیں ہو سکتے." نیز کیا فرماتے ہیں مولوی صاحب! تیرھویں صدی ہجری کے مجدد حضرت سید احمد صاحب بریلوی شہید بالا کوٹ کے بارہ میں جن کے متعلق لکھا ہے کہ.2 ایک دن حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم اور جناب سیدہ فاطمتہ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو سید صاحب نے خواب میں دیکھا.حضرت علی نے اپنے دست مبارک سے آپ کو نہلایا اور حضرت فاطمہ نے ایک لباس اپنے ہاتھ سے آپ کو پہنایا." حیات سید احمد شهید صفحه ۶۴ مطبوعہ نفیس اکیڈیمی ) اور اب دیکھئے لدھیانوی صاحب کے پیر طریقت اور مرشد مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نے کیا لکھا ہے.فرماتے ہیں: ".ہم ایک دفعہ بیمار ہو گئے ہم کو مرنے سے بہت ڈر لگتا ہے.ہم نے خواب میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا.انہوں نے ہم کو اپنے سینے سے چمٹا لیا ہم اچھے ہو گئے." الافاضات الیومیہ جلد نمبرے صفحہ ۴۴۰) لدھیانوی صاحب اپنے افتراء کو ایک اور ادا سے پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں " بہت موٹی سی بات ہے جس کے سمجھنے کے لئے دقیق فہم و فکر کی ضرورت نہیں کہ کیا ابوبکر و عمر و عثمان و علی (رضوان اللہ علیم ) بھی یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ قادیان میں مبعوث ہوں گے ؟ کیا ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ میں سے کسی سے یہ عقیدہ منقول ہے ، کیا تابعین اور ائمہ دین میں سے کوئی اس کا قائل تھا ؟ جیسا کہ اوپر عرض کر چکا ہوں " (صفحہ ۳۳) مولوی صاحب ! کان کھول کر سن لیں کہ یہ عقیدہ ہم بھی نہیں رکھتے اور نہ ہی حضرت
M ابوبکر حضرت عمر، حضرت عثمان ، حضرت علی و صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین اور آئمہ دین و غیر هم - جہاں تک شہروں کے ناموں کا تعلق ہے ان میں ظاہری طور پر قادیان کا نام کہاں سے آ جانتا تھا جبکہ مکہ کا نام کہیں نہیں آیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ میں نزول کا بائیل میں ذکر نہیں.پس اگر الہی صحیفوں میں شہروں کا نام ہونا چاہئے تھا تو مکہ سے بڑھ کر دنیا میں کوئی مستحق نہیں.پس اگر اس زمانے میں کوئی جاہل عیسائی یہ سوال کر دیتا کہ کیا پطرس ، یعقوب توما یوحنا، وغیر ہم کو علم نہیں تھا کہ عظیم الشان رسول مکہ میں نازل ہو گا تو صحابہ کیا جواب دیتے.مگر ان کے نزدیک تو بحث ہی نامعقول تھی.البتہ آپ غالبا اس بارہ میں بہتر علم رکھتے ہیں اس لئے آپ ہی بتائیں.احمدی تو یہ جواب دینے سے قاصر ہو گئے کہ حضرت ابو بکر ، حضرت عمر، حضرت عثمان ، حضرت علی رضی اللہ عنہم و دیگر صحابہ کو علم تھا یا نہیں.آپ کو تو اس کے جواب سے قاصر نہیں رہنا چاہئے کیونکہ بڑی قعلی سے آپ نے یہ اعتراض اٹھایا ہے.عقیدہ نمبر ۲:- اس نمبر کے تحت لدھیانوی صاحب نے ایک مفروضہ کہ ” اگر مرزا غلام احمد عین محمد ہے تو " قائم کر کے بڑی بے باکی اور بے حیائی کے ساتھ چند سوالات لکھے ہیں.مولوی صاحب ! آپ کے تو سارے سوالات ہی گستاخانہ ہیں.ہم تو ان سوالوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنم پر چسپاں کرنا ہی انتہائی بے حیائی اور گستاخی سمجھتے ہیں.نہ ہمارا یہ عقیدہ ہے اور نہ ہم اسے دہرانے کی ایسی بے باکی کر سکتے ہیں جیسا کہ آپ نے کی ہے.جس مفروضہ کی بناء پر آپ نے یہ گستاخانہ سوالات کئے ہیں پیشتر اس کے کہ ہم قارئین پر اس کی وضاحت کریں ، ایک جواب جو ان سب اعتراضات کی بنیاد اکھیڑ کر پھینک دیتا ہے یہ ہے کہ یہ مفروضہ ہی جھوٹا ہے اور لدھیانوی صاحب کی ایک ہانک سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا.ہرگز حضرت مرزا غلام احمد عین محمد نہیں ہیں.یہ اعلان ہم نیانگ دہل کرتے ہیں اور تمام قارئین کو مطلع کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ پر دیگر خبیثانہ الزامات میں سے یہ بھی ایک خیشانہ الزام ہے.مولوی صاحب ! آپ نے تو دروغ گوئی کی انتہا
ME کر دی ہے.ہم تو سمجھا کرتے تھے کہ مخالفین جھوٹے الزامات لگا رہے ہیں مگر آپ کے اس قول و فعل نے تو اس کی تصدیق کر دی ہے.جہاں تک عین محمد کے لفظ کا تعلق ہے.جماعت احمدیہ حضرت مرزا صاحب کو ہرگز ان معنوں میں عین محمد نہیں سمجھتی جو مولوی صاحب کے دماغ میں فتور کی طرح سمائے ہوئے ہیں.جماعت احمدیہ میں محض کسی عالم نے اگر عین محمد " کے الفاظ بیان کئے ہیں تو محض اور محض ان معنوں میں جن معنوں میں شرح مثنوی میں حضرت بایزید بسطامی کو عین رسول قرار دیا گیا ہے اور حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی کے والد اور چچانے اپنے تئیں حضور کا عین قرار دیا ہے اور حضرت مجدد الف ثانی تو فرماتے ہیں کہ "محبت کے کمال کا یہ تقاضا ہے کہ محبت اور محبوب ایک ہو جائیں اور ان میں دوئی اور غیر بیت اٹھ جائے" (مکتوبات امام ربانی مکتوب نمبر ۸۸ دفتر سوم صفحه ۲۱۲ مطبوعہ دین محمدی پریس لاہور زیر اہتمام ملک چنن الدین کشمیری بازار لاہور ترجمہ مولوی قاضی عالم دین ) اس سے بڑھ کر ایک شوشہ بھی دنیا کا کوئی احمدی حضرت مرزا صاحب کو عین محمد نہیں سمجھتا بلکہ جن معنوں میں آپ عین محمد " کہہ رہے ہیں ان معنوں میں عین محمد " قرار دینا کفر و افتراء ہے.حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم جو حضرت عبداللہ کے صلب سے اور حضرت آمنہ کے بطن سے پیدا ہوئے وہ اپنے جسم اور شخصیت کے لحاظ سے اور ذاتی روحانی مراتب کے لحاظ سے مخلوق میں اس طرح منفرد اور یکتا تھے جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی الومیت میں منفرد و یکتا ہے اور ان معنوں میں آپ جیسا نہ کوئی پیدا ہوا نہ ہو سکتا ہے نہ کبھی ہو گا.ہاں آپ کی غلامی میں آپ کی متابعت کے نتیجہ میں ، آپ کے قرب کا حصول اس طرح ممکن ہے جس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کا قرب حاصل کیا اور اپنی ذات کو اس طرح مٹا دیا کہ آپ کا اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا ، سوچنا اور حرکت کرنا سب کچھ خدا کے لئے ہو گیا.یہاں تک کہ آپ کے بارہ میں عرش کے خدا نے خود گواہی دی کہ.وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ وَلَى (انفال آیت نمبر ۱۸) ترجمہ :.اور جب تو نے پتھر پھینکے تھے.تو تو نے نہیں پھینکے تھے بلکہ اللہ نے پھینکے تھے.
MA اور آپ کو اس کیفیت کو ان الفاظ میں بیان کرنے کی ہدایت دی قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (انعام آیت ۲۱۳) ترجمہ : تو ان سے کہہ دے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے.پس یہ فنافی اللہ کا مقام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جن معنوں میں قرآن کریم عطا کرتا ہے کہ گویا آپ کا مٹھی بھر کنکریاں چلانا آپ کا نہیں گویا خدا کا مٹھی چلاتا تھا ، مین ہونا صرف ان معنوں میں ہے اور ہرگز اس سے بڑھ کر نہیں.اسی طرح عقلاً اور شرعا یہ ممکن ہے کہ کوئی عاشق رسول فنافی الرسول کا درجہ پالے.ہم سمجھتے ہیں کہ مذکورہ بزرگوں کی عبارات میں جہاں عین کا لفظ استعمال ہوا ہے زبان کے لحاظ سے درست استعمال ہو یا نہ ہو مگر ہرگز گستاخانہ استعمال نہیں بلکہ فنافی الرسول کے معنوں میں ہے.پس جناب مولوی صاحب نے جماعت احمدیہ کے جس بزرگ کا لفظ عین کا حوالہ دیا ہے اس کی بھی بعینہ یہی صورت ہے.لفظ عین محمد کو مفروضہ بنا کر مولوی صاحب نے جو تابڑ توڑ حملے کئے ہیں ان سب حملوں کو اسی فصل پنجم کے نمبر ۲ کے تحت جزو نمبر ز میں بیان کیا ہے اور اب انہوں نے جزو نمبر 1 میں حسب ذیل سوالات اسی مفروضہ کے تحت درج کئے ہیں.ا.حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کا داماد کون تھا ؟ ۲ حضرت عائشه و حفصہ کا شوہر کون تھا ؟ حضرت عثمان اور علی کس کے داماد تھے ؟ -۴- حضرت فاطمہ زینب، رقیہ ام کلثوم کس کی صاحبزادیاں تھیں ؟ حسن و حسین کس کے نواسے تھے ؟ بدر و حنین کے معرکے کس نے سر کئے ؟ ۷ شب معراج میں انبیاء کرام کا امام کون تھا ؟ - قیصر و کسری کی گردنیں کس کے غلاموں کے سامنے جھکیں ؟....وغیرہ وغیرہ - ہمارا ان سب سوالات کو بیان کر دیتا ہی کافی ہے.صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ واہ رے مولوی صاحب آپ کی تو مت ہی ماری گئی ہے.
포 عقیدہ نمبر ۳ اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب نے پہلی بات یہ کی ہے کہ ”دنیا کی بہت سی قوموں کو اسی بروز یا عین کے عقیدوں نے برباد کیا ہے" (صفحہ ۳۶) ہم تو فصل اول میں بیان کر چکے ہیں کہ ان عقیدوں کے حامل اس مرتبہ کے بزرگوں نے تو دنیا کو برباد نہیں کیا اگر برباد کیا ہے تو ان مولوی صاحب اور ان کے فکر و عمل کے مولویوں نے برباد کیا ہو گا.لیکن مولوی صاحب جس بات کو بربادی کرنے والی قرار دے رہے ہیں.یہ ایسی ہی عارفانہ باتیں ہیں کہ قرآن کریم میں جن کے متعلق لکھا ہے.يُضِلُّ بِهِ كَثِيرٌ أَو يَهْدِي بِهِ كثيراً بعض اوقات عارفانہ کلام خوش نصیبوں کو ہدایت بخش دیتا ہے اور بد نصیبوں کو برباد کر دیتا ہے.( صفحه ۳۶) لدھیانوی صاحب لکھتے ہیں " مرزا صاحب نے " مرزا عین محمد ہے " کا نظریہ ایجاد کر کے عیسائیت کی بنیادوں کو اور مستحکم کر دیا ہے ذرا سوچئے اگر عیسائی یہ سوال کریں کہ اگر مسیح موعود عین محمد ہو سکتا ہے تو مسیح ابن مریم عین خدا کیوں نہیں ہو سکتا تو آپ کے پاس خاموشی کے سوا اس کا کیا جواب ہو گا ؟ لدھیانوی صاحب اس اعتراض کا جواب بار بار گزر چکا ہے آپ تو ایک نہایت اعصاب شکن مولوی ہیں جو ایک ہی رٹ لگائے چلے جا رہے ہیں لفظ مینِ محمدؐ کے جو معنی آپ سمجھ رہے ہیں ہم پھر اعلان کرتے ہیں کہ یہ بالکل جھوٹ ہے کہ مرزا صاحب ان معنوں میں عین محمد تھے.ہرگز نہیں تھے.جن معنوں میں حضرت بایزید عطائی اور دیگر بزرگوں کی نسبت لفظ عین محمد استعمال ہوا ہے صرف ان عاجزانہ اور عارفانہ معنوں میں حضرت مرزا صاحب نے بھی ”عین محمد " کا لفظ استعمال کیا ہے اور یہ محاورہ کسی احمدی کی ایجاد نہیں بلکہ یہ ان علماء و اولیائے امت کی ایجاد ہے جو مرزا صاحب سے پہلے گزر چکے ہیں پس اگر لدھیانوی صاحب کی دانست میں اس سے عیسائیت کو تقویت ملتی ہے تو آپ کا جھگڑا احمدیت سے نہیں بلکہ بزرگانِ امت سے ہے جس طرح چاہیں یہ قضیہ طے کریں مزید برآں آپ عین محمد سے جو استنباط کرنے لگے ہیں اس کے بجائے عیسائیوں کو تقویت دینے کے لئے ابوالحسن خرقانی رحمتہ اللہ کا " عین اللہ " کا استعمال کیوں نہیں پکڑ لیتے جس سے بہت زیادہ عیسائیت کو تقویت ملے گی.اور آپ کا دل ٹھنڈا ہو گا.لیکن صرف وہی مسلمان گمراہ ہوں گے جو یہاں ”عین " کے وہی معنی کریں گے جو
: آپ کر رہے ہیں اور جب احمدیوں والی تشریح عین کی سنیں گے تو بفضلہ تعالی عیسائیت کے دار سے محفوظ ہو جائیں گے.اصل حقیقت یہ ہے کہ مولوی صاحب کا یہ حملہ محض لفظی چالا کی ہے اس لئے ہم نے انہیں ایسا جواب دیا کہ ان کے ذہن میں سما جائے کہ اس قسم کی لفظی چالاکیوں سے کام نہیں چلتا.اس قسم کی باتیں زیادہ شدت سے آپ پر اکنائی جاسکتی ہیں.جہاں تک احمد یہ عقائد سے عیسائیت کے عقیدوں کو تقویت ملنے کا تعلق ہے یہ ادنیٰ اور اعلیٰ خوب جانتا ہے کہ وہ کونسی جماعت ہے جس سے دنیا بھر میں کلیسیا کی جماعتوں پر لرزہ طاری ہے اور وہ کون سے عقائد ہیں جنہوں نے فی زمانہ دنیا میں صلیب کی کمر توڑ دی ہے.مولوی صاحب کو تو اپنے بزرگوں کی عبارتیں بھی یاد نہیں ورنہ مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کے ترجمہ قرآن کے حاشیہ پر مولانا نور محمد صاحب نقشبندی کا یہ تبصرہ ہمیشہ لدھیانوی صاحب کا منہ چڑاتا رہے گا کہ.اسی زمانہ میں پادری لیفرائے پادریوں کی ایک بڑی جماعت لے کر اور حلف اٹھا کر ولایت سے چلا کہ تھوڑے عرصہ میں تمام ہندوستان کو عیسائی بنالوں گا.ولایت کے انگریزوں سے روپیہ کی بہت بڑی مدد اور آئندہ کی مدد کے مسلسل وعدوں کا اقرار لے کر ہندوستان میں داخل ہو کر بڑا تلاطم برپا کیا اسلام کی سیرت و احکام پر جو اس کا حملہ ہوا تو وہ ناکام ثابت ہوا کیونکہ احکام اسلام و سیرت رسول اور احکام انبیاء بنی اسرائیل اور ان کی سیرت جن پر اس کا ایمان تھا یکساں تھے.پس الزامی و نقلی و عقلی جوابوں سے ہار گیا مگر حضرت عیسی" کے آسمان پر بجسم خاکی زندہ موجود ہونے اور دوسرے انبیاء کے زمین میں مدفون ہونے کا حملہ عوام کے لئے اس کے خیال میں کارگر ہوا.تب مولوی غلام احمد قادیانی کھڑے ہو گئے اور لیفرائے اور اس کی جماعت سے کہا کہ عیسی" جس کا تم نام لیتے ہو دوسرے انسانوں کی طرح سے فوت ہو کر دفن ہو چکے ہیں.اور جس عیسی کے آنے کی خبر ہے وہ میں ہوں پس اگر تم سعادت مند ہو تو مجھ کو قبول کر لو اس ترکیب سے اس نے لیفرائے کو اس قدر تنگ کیا کہ اس کو اپنا پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا اور اس ترکیب سے اس نے ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دے دی " (دیباچه معجز نما کلاں قرآن شریف مترجم صفحه ۳۰ مطبوعہ ۱۹۳۴ء) پس ثابت ہوا کہ عیسائیت کو تقویت دینے والے آنجناب لدھیانوی صاحب کے عقیدے
(صفحه ۳۶) ہیں اور وہ جو مسیح کو زندہ آسمان پر بٹھا رکھا ہے اس سے عیسائی عقیدہ کو تقویت ملتی ہے.لدھیانوی صاحب مزید لکھتے ہیں ” اگر مرزا صاحب " بروز محمد “ ہونے کی وجہ سے ”عین محمد " ہیں تو " بروز خدا " ہونے کی وجہ سے خدا کیوں نہیں ؟ یہ بھی وہی لغو ایچ پیچ ہیں جن کا بار بار کافی و شافی جواب دیا جا چکا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو احمدیت کا فہم ہی کوئی نہیں.کیا آپ کو احمدیت کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ سمجھ آئی ہے؟ حضرت مرزا صاحب کا اپنے متعلق اور ساری جماعت احمدیہ کا آپ کے متعلق کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی یہ عقیدہ نہیں ہوا کہ نعوذ باللہ " بروز محمد " ہونے کا یہ مطلب ہے کہ آپ جسما و روحا و شخصیتا محمد تھے.یا آپ کے ہم مرتبہ تھے اور وہی تشریعی نبوت آپ کو عطا ہوئی جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عطا ہوئی.اور اسی طرح آزاد نبی تھے.اور کسی دوسرے نبی کی غلامی نہیں کی.جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آزاد نبی تھے اور کسی دوسرے نبی کی غلامی نہیں کی.یہ تمام عقائد باطل ، فاسد اور غیر اسلامی ہیں اور جماعتِ احمدیہ کا ان عقائد سے کوئی تعلق نہیں.یہ بخشیں پہلے بھی بارہا اٹھ چکی ہیں کہ بروز محمد ہیں تو کن معنوں میں اور عین محمد ہیں تو کس طرح.اور آئندہ بھی حسب موقع یہی گفتگو پھر ہو گی.اس لئے ان حصوں کا غور سے مطالعہ کریں اور بچی توبہ کریں کہ آپ نے احمدیت کو سمجھے بغیر اپنے تصور سے ایک دین گھڑ کر احمدیوں کی طرف منسوب کر دیا اور پھر اس پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیئے.خدا تعالیٰ آپ کو کچی توبہ اور استغفار کی توفیق عطا فرمائے.آمین لدھیانوی صاحب.مزید لکھتے ہیں ” اگر مرزا صاحب بروز محمد ہونے کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نبوت کے کمالات حاصل کر چکے ہیں تو بروز خدا ہونے کی وجہ سے ان کے خدائی مع اپنے تمام صفات اور کمالات کے کیوں حاصل نہیں " ہم یہ بات بار بار کھول چکے ہیں کہ قرآن کریم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ ور میرا صلی یہاں تک بھی فرمایا ہے.إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللهِ فَوقَ النديين (ع ) ترجمہ.وہ لوگ جو تیری بیعت کرتے ہیں وہ صرف اللہ کی بات کرتے ہیں اللہ باباتہ ان کے ہاتھ پر ہے.(1)
۱۷۲ اور فرمایا : وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى (انفال آیت نمبر ۱۸) ترجمہ.اور جب تو نے پتھر پھینکے تھے تو تو نے نہیں پھینکے تھے بلکہ اللہ نے پھینکے تھے.اگر کوئی کہے کہ اس کے استعاراتی اور بروزی معنی ہیں تو کیا کسی کو یہ اختیار ہو گا کہ یہی سوال آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر اٹھانے شروع کر دے کہ آپ بعینہ خدا بن گئے ہیں.یہ مولوی صاحب اس کوچے سے آشنا ہی نہیں انہیں پتہ ہی نہیں کہ فصیح و بلیغ محاورے کیا ہوتے ہیں.بائبل میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے آنے کو بعینہ خدا کا آنا قرار دیا گیا ہے مولوی صاحب نے تو قرآن کا مطالعہ نہیں کیا.بائبل کے متعلق کیا جانتے ہوں گے.یاد رکھیں کہ بائبل کتنی ہی محترف و مبدل کیوں نہ ہو چکی ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بارہ میں پیش گوئیاں بہر حال محرف و مبدل نہیں.کیونکہ قرآن کریم نے ان کا حوالہ دے کر ان کی تصدیق کی ہے.اس میں پاکستان والی مثال میں حضرت عیسی کی آمد کو خدا کے بیٹے کے طور پر اور حضرت محمد رسول اللہ کی پیشگوئی کرتے ہوئے آپ کی آمد کو خود خدا کا آنا قرار دیا ہے (لوقا باب ۲۰ آیت ۹ تا ۱۸) پس مولوی صاحب روشنی ڈال کر دکھائیں کہ خدا کا آنا کن معنوں میں تھا.در حقیقت ایک بے ادب انسان معرفت سے کلیتہ عاری ہوتا ہے اور کھوکھلے برتن کی طرح بجتا رہتا ہے.یہی حال ان مولوی صاحب کا ہے.ایک لفظ کو پکڑ کر بیہودہ اعتراض شروع کر دیتے ہیں.کوئی بد بخت انسان ہو گا جو بائیبل کی یہ آیات پڑھ کر آنحضرت پر اعتراض شروع کر دے جس طرح اس مولوی صاحب نے کیا ہے.
عقیدہ نمبر ۴ ۱۷۳ اس عنوان کے تحت بھی لدھیانوی صاحب نے وہی اعتراض دہرایا ہے جو عقیدہ نمبر ۳ کے نیچے دیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ عبارت دی ہے." خاتم النبیین کا مفہوم تقاضا کرتا ہے کہ جب تک مدعی نبوت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے درمیان کوئی پردہ مغایرت باقی ہے اس وقت تک کوئی نبی کہلائے گا تو گویا اس مہر کو توڑنے والا ہو گا جو خاتم النبیین پر ہے.لیکن اگر کوئی شخص اسی خاتم النبین میں گم ہو کر باعث نہایت اتحاد اور نفی غیریت کے اس کا نام پا گیا ہو ، اور صاف آئینہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میں انعکاس ہو گیا ہو تو وہ بغیر مہر توڑنے کے نبی کہلائے گا ، کیونکہ وہ محمد ہے گو ظلی طور پر ، پس باوجود اس شخص کے دعوئے نبوت کے جس کا نام ظلی طور پر محمد اور احمد رکھا گیا پھر بھی وہ سیدنا محمد خاتم النبیین ہی رہا کیونکہ یہ "محمد ثانی " اسی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تصویر اور اس کا نام ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد جو در حقیقت خاتم النبیین تھے ، مجھے رسول اور نبی کے لفظ سے پکارا جانا کوئی اعتراض کی بات نہیں ، اور نہ اس سے مہر ختمیت ٹوٹتی ہے کیونکہ میں بار بار بتلا چکا ہوں کہ ہمو جب آیت و آخرين منهم لما يلحقوا بهم بروزی طور پر وہی نبی خاتم الانبیاء ہوں اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ہی وجود قرار دیا ہے پس اس طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا " (اشتہار ایک غلطی کا ازالہ ) قارئین کرام ! احمدی جانتے ہیں اور ہر احمدی اس عبارت سے خوب واقف ہے لیکن حیرت ہے کہ اس واضح عبارت کا بھی صحیح مطلب مولوی صاحب نہیں سمجھ سکے اس کے مفہوم کی کنجی لفظ " مغائرت " اور "آئینہ" میں ہے.مراد یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص آئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دین اور فرمودات سے سرمو بھی باہر قدم رکھنے والا ہو خواہ عقائد کی رو سے یا اعمال کی رو سے تو اس کے متعلق کہا جائے گا کہ خواہ ادنی ہی سہی اس
میں کچھ مغائرت ہے.اسی طرح وہ شخص جو اپنے نفس کو پیش کرنے کی بجائے دنیا کے سامنے صرف آنحضر صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیم کو منعکس کرے اور آپ کی ذات مطہر اور پاک چہرے کو پیش کرے.ایسا شخص اس بچے آئینہ کی طرح ہے جو سورج کا چہرہ سب دنیا کو دکھاتا ہے لیکن کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ آئینہ سورج کا ہمسر ہے یا وہی سورج ہے اگر چہ اس میں بعینہ سورج دکھائی دیتا ہو یہ اعلیٰ درجہ کا فصیح و بلیغ اور سلیس کلام جس کی نظیر دنیا کے ہر کلام اور ہر شعر و ادب میں پائی جاتی ہے.اگر آپ کی سمجھ میں نہیں داخل ہو رہا تو ہم اس کا کیا علاج کر سکتے ہیں ایک دفعہ پھر آنکھیں کھول کر دیکھیں کہ کیا لکھا ہے.حضرت مرزا صاحب نے خود آئینہ ہونے کا دعوئی کیا ہے جو محمد رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا چہرہ دکھانے والا ہے.یہ ایسی ہی بات جیسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نما کہا جاتا ہے کون بد بخت ہے جو اس پر یہ اعتراض کرے کہ اگر وہ خدا نما تھے اور ان کا اٹھنا بیٹھنا اور حرکت و سکون اور ہر قول خدا ہی کے قول اور اس کی شان کا مظہر تھا تو پھر بتاؤ کہ وہ خدا کی کون کونسی صفات میں شریک تھے.انہوں نے کون کونسی دنیا بنائی کیون سی مخلوق تخلیق کی یا خدا کی طرح شادی نہیں ہوئی اور بچے نہیں ہوئے.اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو خدا نما کہنے کے جرم میں کوئی آنجناب کی عدالت میں پیش ہو تو فرمائیے کہ آپ اس پر کیا کیا سوال کریں گے.عقید نمبر ۵ اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب لکھتے ہیں کہ " مرزا صاحب کے بروز محمد ہونے کا بدیہی نتیجہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ازواج مطہرات بروزی طور پر نعوذ بالله مرزا تمام احمد قادیانی سے منسوب میں کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی میں اس سے گندی گالی ہو سکتی ہے اور کوئی مسلمان جس کے دل میں ذرا بھی شن و حیاء ہو وہ اس بدترین حملہ کو برداشت کر سکتا ہے." جناب مواوی صاحب کی ہ یا مائیں نیشنہ بات ہے کہ جا تا ہے کہ اس مخلص کے دل
ها خدا کا کوئی خوف یا تقویٰ کا سایہ بھی نہیں پڑا.ایسی سوچ رکھنے والا آدمی جو محض تمسخر کی خاطر ازواج مطہرات و طیبات کے بارہ میں ایسی باتیں کرنے کی جسارت کرے.اس سے تو خدا اور اس کے وہ فرشتے ہی پیٹیں گے جن کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے.عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ (در آیت نمبر ۳۱) که دوزخ پر ۱۹ فرشتے بطور دار ونحے مقرر ہیں.بالکل یہی بات ہم آپ پر دوہراتے ہیں کہ آپ کی فطرت بڑی خبیث اور گندی ہے اور آپ کی ہر سوچ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں نہایت خیشانہ اور گندی گالی ہے.پس یہ آپ کی گالی ہے.بروز سمجھنے والوں کی نہیں ورنہ آپ کی اس انتہائی سفلہ اشتعال انگیزی کا مورد احمدیوں سے پہلے وہ حضرات بنیں گے جن کے اقوال ہم فصل اول اور فصل سوم میں عقیدہ نمبر ۱۸ کے جواب میں درج کر چکے ہیں جن میں انہوں نے دوسرے اولیاء کو یا آنے والے مہدی و مسیح کو یا خود اپنے تئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حل و بروز قرار دیا ہے.لیکن آپ ہی ہیں جو اس بد بختی پر سخت سے سخت سزا کے مستحق بنتے ہیں نہ کہ وہ بزرگان دین جنہوں نے روحانی معنوں میں اپنے کلام میں لفظ بروز کا استعمال کیا.اس نمبر کے تحت لدھیانوی صاحب لکھتے ہیں "آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پہلی زوجہ مطہرہ کا نام نامی خدیجہ تھا مگر بے غیرتی اور بے حیائی کی حد ہے کہ مرزا غلام احمد نے محمد رسول اللہ بننے کے شوق میں خدیجہ کو بھی اپنی طرف منسوب کر لیا.مرزا کا الہام ہے.اذکر نعمتی رایت خدیجتی (تذکره: ۳۸۷) الجواب:- میری نعمت کو یاد کر تو نے میری خدیجہ کو دیکھا " ( صفحه ۴۰) یہاں بھی لدھیانوی صاحب نے پبلک کو گمراہ کرنے کے لئے اس قدر جھوٹ بولا ہے اور بے غیرتی اور بے حیائی کی حد کر دی ہے جس کی مثال نہیں.معزز قارئین! مرزا صاحب کے تمام الہامات پڑھ جائے.انکی تمام تحریرات اور تقاریر چھان ماریئے کہیں بھی آپ کو یہ نہیں ملے گا کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو مرزا صاحب کی طرف اشارہ بھی منسوب کیا گیا ہو.
لیکن لدھیانوی صاحب نہایت بے حیائی کے ساتھ ایسا دعوی کر رہے ہیں.حالانکہ بات صرف اتنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مرزا صاحب کی بیوی کو صفاتی طور پر حضرت خدیجہ سے مشابہ قرار دیتے ہوئے انہیں خدیجہ قرار دیا ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ جس طرح حضرت خدیجہ خدا کے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی مومن اور نیک بیوی تھیں اسی طرح مسیح موعود کی بیوی بھی مومن اور نیک ہے.حضرت نوح یا لوظ کی بیویوں کی مانند اپنے خاوند کی نبوت کی منکر نہیں.جس طرح بزرگوں کے نام تبرک کے طور پر دوسروں کو دیئے جاتے ہیں اور کثرت سے امت میں رواج ہے کہ عائشہ اور خدیجہ وغیرہ نام رکھے جاتے ہیں اور بندے اس نیک نیت کے ساتھ بزرگوں کے نام رکھ سکتے ہیں اور کسی خبیث کو اشتعال نہیں آتا.ورنہ کوئی اس بات کو پکڑ کر بیٹھ جائے اور لدھیانوی صاحب کو کہے کہ اپنا منہ دیکھو ، اپنے کرتوت دیکھو ! تمہیں جرات کیسے ہوئی کہ اپنا نام محمد اور یوسف رکھ لیا.تو مولوی صاحب کیا جواب دیں گے.پس الهانا بھی کسی بزرگ کا نام دے دینا محض تیریک کے طور پر ہوتا ہے جس سے نہ ہمسری مراد ہوتی ہے نہ مرتبہ میں برابری بلکہ یہ اشارہ ہوتا ہے کہ تم بھی انہیں صفات کے مشابہ بننے کی کوشش کرو.لیکن ہرگز یہاں مرتبہ کی برابری مراد نہیں ہوتی.ویسے بھی جناب لدھیانوی صاحب نے جس قدر بد زبانی کی ہے اسکی ضرورت ہی کوئی نہیں تھی کیونکہ حضرت خدیجہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی زوجہ مطہرہ تھیں جو آج سے چودہ سو سال سے بھی زائد عرصہ پہلے وفات پا چکی ہیں ان کے نام کا تبریکا کسی مسلمان خاتون پر اطلاق پانا تو احمدی عقیدوں کی رو سے کسی صورت ناممکن نہیں.یہاں لدھیانوی عقیدوں کی رو سے ضرور ایسے خبیثانہ خیال پیدا ہو سکتے ہیں کہ چودہ سو سال تو در کنار دو ہزار سال پہلے کا نبی زندہ موجود ہے بلکہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر وہ مر بھی چکا ہو تو بعینہ اسی طرح کی زندگی پا کر دوبارہ اس دنیا میں آجائے گا.دیکھئے کوئی انسان بد بختی سے اگر ایک ٹھوکر کھا جائے تو اس کے مقدر میں اور کتنی ٹھوکریں لکھی جاتی ہیں.قارئین کرام ! قرآن کریم کی سورۂ تحریم کے آخری رکوع میں اللہ تعالیٰ نے صفاتی مشابہت کی
122 بناء پر تمام کفار کو تمثیلی طور پر حضرت نوح اور حضرت لوط کی بیوی قرار دیا ہے اور مومنین کو صفاتی مشابہت کی بناء پر فرعون کی بیوی اور مریم بنت عمران قرار دیا ہے.ہم تو جب یہ آیات پڑھتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ دوسرے مسلمان شرفاء بھی ان آیات کو پڑھتے ہیں تو ان میں مذکورہ تمثیلات کی تہہ میں چھپے ہوئے عرفان کے موتیوں کی تلاش میں ان کی نظر لگی رہتی ہوگی.لیکن لدھیانوی مولوی کی قماش کے مولوی جب ان آیات کو پڑھتے ہوں گے تو اللہ ہی جانتا ہے کہ ان کے دل میں کیسے کیسے گندے خیالات آتے ہوں گے ؟ عقیدہ نمبر ۶ اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب نے لکھا ہے ” ہمارے بھائیوں کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ کیا مرزا صاحب کی جسمانی و دماغی صحت ان کے اس دعوئی سے کہ میں محمد رسول اللہ کی بعثت ثانیہ کا مظہر ہوں کوئی مطابقت رکھتی ہے ؟ مرزا صاحب کے بارے میں ہر عام و خاص جانتا ہے کہ وہ بہت سی پیچیدہ امراض کا نشانہ تھے جن میں سے چند امراض کی فہرست حسب ذیل ہے " ( صفحہ ۴۰ ) اس کے بعد ساری زندگی میں مرزا صاحب کو جو جو بیماری ہوئی ان کی فہرست درج کی ہے.جسمانی صفات کا مظہر ہونا تو اس ٹیڑھی سوچ والے مولوی کا خیال ہے اس لئے جسمانی بیماریوں میں مشابہتیں تلاش کر رہا ہے.ورنہ یہ محض کھو کھلی ، گھٹیا اور جاہلانہ باتیں ہیں.پس جس کی عقل پر حملہ کر رہے ہیں اس پر تو حملہ ہو یا نہ ہو حملہ کرنے والا دیوانہ اور مفتون دکھائی دیتا ہے.معزز قارئین ! حضرت مرزا صاحب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کے مظہر ہونے کا دعوی کیا ہے جس سے مراد روحانی صفات کا مظہر ہوتا ہے نہ کہ جسمانی صفات کا.حمل اور بروز میں جسمانی مشابہت نہیں ہوتی بلکہ روحانی اور صفاتی مشابہت کا بیان مقصود ہوتا ہے.ورنہ تمام انبیاء علی اور اور بروزی طور پر خدا کی صفات کے مظہر ہیں اور آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی صفات کے مظہر اتم ہیں.اگر مظہر ہونے کی بناء پر جسمانی امور کی مشابہت بھی ضروری ہے تو مولوی صاحب سے ہم کہتے ہیں کہ باقی زندگی اس ریسرچ میں صرف کر دیں کہ جملہ انبیاء کو کون کونسے عوارض لاحق ہوئے اور تحقیق مکمل کرنے کے بعد خدا تعالٰی کے متعلق اپنا تصور درست کر لیں اور وہاں اپنا یہ اعتراض لگا کر دیکھیں کہ اگر وہ خدا تعالٰی کے بروز تھے تو وہ بھی ازلی طور پر ان عوارض کا شکار رہا ہو گا اور آئندہ بھی ابدی طور پر انہیں عوارض میں مبتلا رہ کر زندگی کٹے گی.اسی اعتراض میں لدھیانوی صاحب حضرت مرزا صاحب کو دماغی صحت سے محروم اور پاگل قرار دیتے ہیں.اصل مماثلت تو انہوں نے خود ثابت کر دی ہے.صرف حضرت مرزا صاحب کی مماثلت ہی ثابت نہیں کی بلکہ اپنی مماثلت بھی ثابت کر دی ہے.عجیب بات ہے کہ اشتد ترین مخالف عیسائیوں نے جو حملے ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر کئے ہیں وہ سارے حملے یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات پر کرتا چلا جا رہا ہے.اور ساتھ ساتھ مماثلتیں بھی پوچھ رہا ہے.مماثلتیں تو جناب لدھیانوی صاحب آپ نے خود پیش کر دیں کہ خدا کے پاک بندوں پر کس کس قسم کے اعتراض کئے جاتے ہیں اور کس کس قسم کے تمسخر کئے جاتے ہیں.پس ان اعتراضات اور تمسخر کا نشانہ بننے کے لحاظ سے خدا تعالیٰ کے تمام بھیجے ہوئے مماثلت رکھتے ہیں.پر اب یہ معلوم کرنا کچھ مشکل نہیں رہا کہ کہ مولوی صاحب کی مماثلت کن لوگوں سے ہے.مولوی صاحب کے طرز خطاب اور تمسخر کے متعلق قرآن کریم کی چند آیات پیش کی جاتی ہیں اور یہی کافی جواب ہے.اللہ تعالی تمام انبیاء کی نسبت مجموعی طور پر یہ بتاتا ہے کہ كُلَّمَا جَاءَ امَّةً رَسُولُهَا كَذَّبُو، (مومنون آیت نمبر (۴۵) ہر قوم نے اپنے پاس آنے والے رسول کو جھوٹا قرار دیا ہے.اسی طرح فرمایا مَا يَا تِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِعُونَ ) میں آیت نمبر ۳۱ ) لوگوں کے پاس جب بھی خدا کا کوئی رسول آتا رہا ہے تو یہ اس کے ساتھ تمسخر و استہزاء ہی
129 کرتے رہے ہیں.ایک اور جگہ فرمایا مَا آتَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا قَالُوا سَاحِرَاوَ مَجْنُونَ (ذاریات آیت نمبر ۵۳) ان سے پہلے لوگوں کے پاس جب بھی کوئی رسول آتا رہا تو وہ لوگ یہی کہتے رہے کہ یہ جادوگر ہے یا پاگل ہے.لدھیانوی صاحب نے اس زمانہ کے امتی نبی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پاگل قرار دے کر اپنے آپ کو پہلے منکرین انبیاء کا مثیل ثابت کر کے حضرت مرزا صاحب کی سچائی کا ثبوت مہیا کیا ہے کیونکہ قرآن کریم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے بَلْ قَالُوا مِثْلَ مَا قَالَ الْأَوَّلُونَ (مومنون آیت ۸۲) کہ اے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے مخالفین نے آپ کے خلاف وہی باتیں کی ہیں جو پہلے انبیاء کے مخالفین نے کی تھیں.اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا مَا يُقَالُ لَكَ إِلا مَا قَدُ قبل الوصل مِنْ قَبلِكَ (سورة حم سجده آیت (۴۴) کہ اے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تجھ سے صرف وہی باتیں کسی جاتی ہیں جو تجھ سے پہلے رسولوں سے کسی گئی تھیں.ان تمام آیات سے پتہ چلتا ہے کہ تمام بچے انبیاء کے خلاف ایک جیسے ہی اعتراضات ہوتے ہیں.پس لدھیانوی صاحب نے پہلے انبیاء کے مخالفین کا اعتراض دہرا کر اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ مرزا صاحب بچے انبیاء کی صف میں شامل ہیں.اور لدھیانوی صاحب بچے انبیاء کے مخالفین کی صف میں شامل ہیں.اگر حضرت مرزا صاحب نعوذ باللہ مولوی صاحب کے کہنے کے مطابق ایسے ہی پاگل تھے تو آپ کی آمد سے آپ کے پیدا کردہ لٹریچر سے دنیا میں ایک زلزلہ کیوں آگیا.اور ہندو پاکستان کے تمام مولوی آج تک آپ ہی کی تحریرات پر حملہ کرنے اور آپ ہی کی جماعت کو مٹانے کے لئے کیوں تیار ہو گئے اور اسلام کے خلاف ہر اٹھنے والے خطرہ سے آنکھیں بند کرلیں.نہ یہ سوچ رہی کہ آریہ سماج کتنے مسلمانوں کو شدہ کر رہا ہے.نہ یہ فکر رہی کہ عیسائی دنیا میں کس طرح لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کو اچک رہے ہیں اور عیسائی بنا رہے ہیں.اگر وہ اسلام پر حملہ کرنے والے فرزانے ہیں اور لدھیانوی صاحب کے بقول حضرت مرزا صاحب نعوذ بالله
۱۸۰ دیوانے ہیں تو ہندو پاکستان کے لکھو کھا مولویوں کو کیا ہو گیا ہے کہ فرزانوں کے حملوں سے تو بالکل غافل ہوئے بیٹھے ہیں اور ایک دیوانے کی طرف اپنی تمام تر توجہات مبذول کر رکھی ہیں؟ مزید برآں مولوی صاحب کی توجہ ہم اس طرف بھی مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ خدا تعالی کے انبیاء بشر ہوا کرتے ہیں.ہم آپ کی طرح مافوق البشر صفات از قسم زنده جسم سمیت آسمان پر چلے جانا اور دو ہزار سال تک بغیر کھائے پیئے وہاں بیٹھے رہنا اور پیدائشی اندھوں کو شفا بخشا.مٹی کے پرندے بنا کر پھونکیں مار کر انہیں جاندار پرندوں میں داخل کر دینا وغیرہ وغیرہ ظاہری معنوں میں تسلیم نہیں کرتے.پس بحیثیت بشر تقاضہ بشری کے طور پر انبیاء کو طرح طرح کی بیماریاں لگیں.یہاں تک کہ سید الانبیاء حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم بار ہا مختلف عوارض کا شکار ہوئے جیسا کے احادیث نبویہ سے پتہ چلتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہایت تیز بخار چڑھا کرتا تھا بلکہ آپ فرماتے ہیں کہ جس شدت کا بخار دو آدمیوں کو ہوتا اس شدت کا بخار مجھ اکیلے کو ہوتا ہے.آپ کو بھی بعض اوقات باتیں بھول جاتی تھیں.نماز میں بھی بھول جاتے تھے.بعض اوقات آیات قرآنیہ بھی بھول جاتی تھیں.نہایت تیز سردرد بھی ہوا کرتا تھا.مرض الموت میں کئی دن آپ مبتلا رہے اور اتنی غشی اور کمزوری تھی کہ آپ نماز باجماعت پڑھنے کے لئے مسجد میں بھی تشریف نہ لے جا سکے.بلکہ ایک دن یہاں تک بیماری کی شدت تھی کہ کئی بار آپ پر غشی طاری ہوئی جب بھی آپ کو ہوش آتی تو دریافت فرماتے کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے صحابہ عرض کرتے کہ ہو گیا ہے اتنے میں پھر غشی طاری ہو جاتی یہ کیفیت اسدن کئی بار طاری ہوئی.اسی طرح آپ زخمی بھی ہوئے بیہوش اور لہولہان بھی ہوئے آپ کا دانت مبارک بھی شہید ہوا کئی بار آپکو شدید کھانسی اور گلے کی تکلیف بھی ہو جایا کرتی تھی.لیکن یہاں ہم اس لئے احادیث مذکورہ تفصیل سے نہیں لکھ رہے کہ ہمارے لئے یہ امر بہت تکلیف دہ ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیفوں کا ذکر کیا جائے.اس سے ہمارا دل درد و الم سے بھر جاتا ہے.نیز ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ممکن ہے راویوں نے ان میں غلطیاں بھی کی ہوں اور شاید تکلیف اتنی نہ ہو جتنی بیان کی گئی ہے لیکن ہم دیگر انبیاء
IN کے عوارض کی تفصیل کو چھوڑتے ہوئے صرف حضرت ایوب علیہ السلام کا ذکر آنجناب کی خدمت میں بطور یادہانی ضرور پیش کریں گے اور آپ ہی کے مانے ہوئے مفسرین قرآن کی زبان میں ذکر کریں گے تاکہ آپ کو خوب اچھی طرح محسوس ہو جائے کہ انبیاء کرام کے جسمانی عوارض پر تمسخر اور ٹھٹھا کرنا کس طرح قابل سرزنش بات ہے اور بیسفلہ مزاج انسانوں کے سوا کسی کو زیب نہیں دیتی.دیکھئے حضرت ایوب علیہ السلام کے بارہ میں تفسیر کبیر امام رازی سورۃ انبياء ع ۶ زیر آیت وَأَيَوبَ إِذْ نَادَى رَبَّدَ أَنِي مَسَّنِيَ الضُّرُ میں لکھا ہے "دشمن خدا ( ابلیس ) لپک کر حضرت ایوب علیہ السلام کے پاس پہنچا دیکھا تو حضرت ایوب علیہ السلام سجدے میں گرے ہوئے تھے.پس شیطان نے زمین کی طرف سے ان کی ناک میں پھونک ماری جس سے آپ کے جسم پر سر سے پاؤں تک زخم ہو گئے اور ان میں ناقابل برداشت کھلی شروع ہو گئی حضرت ایوب علیہ السلام ناخنوں سے کھجلاتے رہے یہاں تک کہ آپ کے ناخن جھڑ گئے جس کے بعد کھردرے کمبل سے کھیلاتے رہے پھر مٹی کے ٹھیکوں اور پتھروں وغیرہ سے کھجلاتے رہے یہاں تک کہ ان کے جسم کا گوشت علیحدہ ہو گیا اور اس میں بدیو پڑ گئی پس گاؤں والوں نے آپ کو باہر نکال کر ایک روڑی پر ڈال دیا اور ایک چھوٹا سا عریش ان کو بنا دیا.آپ کی بیوی کے سوا باقی سب لوگوں نے آپ سے علیحدگی اختیار کرلی.....حضرت ایوب علیہ السلام نے درگاہ خداوندی میں نہایت تقریع سے یہ دعا کی کہ اے میرے رب مجھے تو نے کس لئے پیدا کیا تھا ؟ اے کاش! میں حیض کا چیتھڑا ہوتا کہ میری ماں اسے باہر پھینک دیتی اے کاش ! مجھے اس گناہ کا علم ہو سکتا جو مجھ سے سرزد ہوا اور اس عمل کا پتہ لگ سکتا جس کی پاداش میں تو نے اپنی توجہ مجھ سے ہٹالی - الہی میں ایک ذلیل انسان ہوں اگر تو مجھ پر مہربانی فرمائے تو یہ تیرا احسان ہے.اور اگر تکلیف دینا چاہئے تو تو میری سزا دہی پر قادر ہے....الہی میری انگلیاں جھڑ گئی ہیں.اور میرے حلق کا کوا بھی گر چکا ہے.میرے سب بال جھڑ گئے ہیں.میرا مال بھی ضائع ہو چکا ہے اور میرا یہ حال ہو گیا ہے کہ میں لقمے کے لئے سوال کرتا ہوں تو کوئی مہربان مجھے کھلا دیتا ہے اور میری غربت اور میری اولاد کی ہلاکت پر مجھے طعنہ دیتا ہے....ابن شہاب حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں.کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت ایوب علیہ السلام اس مصیبت میں اٹھارہ سال تک مبتلا رہے.یہاں تک کہ.
سوائے دو رشتہ داروں کے باقی سب دور و نزدیک کے لوگوں نے آپ سے علیحدگی اختیار کرلی" اسی طرح لکھا ہے.حقیقت یہ ہے کہ حق تعالٰی نے انواع و اقسام کی مصیبتیں ان (حضرت ایوب علیہ السلام) پر مقدر فرما ئیں.تو بلا ئیں ان پر ٹوٹ پڑیں غرضیکہ ان کے اونٹ بجلی گرنے سے ہلاک ہوئے اور بکریاں بہیا آنے سے ڈو میں.اور کھیتی کو آندھی نے پراگندہ کر دیا اور سات بیٹے تین بیٹیاں دیوار کے نیچے دب کر مرگئے اور ان کے جسم مبارک پر زخم پڑ گئے.اور متعفن ہوئے اور ان میں کیڑے پڑ گئے جو لوگ ان پر ایمان لائے تھے سب مرتد ہو گئے جس گاؤں اور جس مقام میں حضرت ایوب علیہ السلام جاتے وہاں سے وہ مرتد لوگ انہیں نکال دیتے.ان کی بی بی رحیمہ نام....حضرت ایوب علیہ السلام کی خدمت میں رہیں.سات برس.سات مہینے.سات دن.سات ساعت حضرت ایوب علیہ السلام اس بلا میں مبتلا رہے.اور بعضوں نے تیرہ (۱۳) یا اٹھارہ (۱۸) برس بھی کہے ہیں....عشرات حمیدی میں لکھا ہے.کہ جو لوگ حضرت ایوب علیہ السلام پر ایمان لائے تھے ان میں سے بعض نے کہا کہ اگر ان میں کچھ بھی بھلائی ہوتی تو اس بلا میں جتلا نہ ہوتے اس سخت کلام نے ان کے دلِ مبارک کو زخمی کر دیا اور انہوں نے جناب الہی میں انّي مَسَّنِيَ الضُّر عرض کیا.یا اس قدر ضعیف و ناتواں ہو گئے تھے کہ فرض نماز اور عرض و نیاز کے واسطے کھڑے نہ ہو سکتے تھے تو یہ بات ان کی زبان پر آئی.یا کیڑوں نے دل و زبان میں نقصان پہنچانے کا اراداہ کیا یہ دونوں عضو توحید اور تمجید کے محل ہیں ان کے ضائع ہونے سے ڈر کر یہ کلمہ زبان پر لائے.یا ان کی بی بی تمام تهیدستی اور بے چارگی کی وجہ سے اپنے گیسو پیچ کر ان کے واسطے کھانا لا ئیں.ایوب علیہ السلام نے اس حال سے مطلع ہو کر آتی مَسَّنِيَ الضُّر کی آواز نکالی.اور بعضوں نے کہا ہے ان کے جسم مبارک میں جو کیڑے پڑتے تھے.ان میں سے ایک کیڑا زمین پر گرا اور جلتی ہوئی خاک میں تڑپنے لگا تو حضرت ایوب علیہ السلام نے اسے اٹھا کر پھر اسی جگہ پر رکھ دیا چونکہ یہ کام اختیار سے واقع ہوا.تو اس نے ایسا کاٹا کہ ایوب علیہ السلام تاب نہ لا سکے اور یہ کلمہ ان کی زبان پر جاری ہوا.( تفسیر حسینی مترجم اردو الموسومه به تغییر قادری مطبع نول کشور لکھنو جلد نمبر ۲ صفحه ۶۴ زیر آیت
١٨٣ اني مسني الضر وانت ارحم الراحمين (انبياء رکوع نمبر ۶) عقیدہ نمبرے اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب لکھتے ہیں ” ہندوؤں کے نزدیک انسان کی جزا و سزا کے لئے یہی صورت قدرت کی جانب سے مقرر ہے کہ اسے نیک و بد اعمال کے مطابق کسی اچھے یا برے قالب میں منتقل کر کے پھر دنیا میں بھیج دیا جائے جس کو وہ نیا جنم اور نئی جون کہتے ہیں مرزا صاحب کو دعوی ہے کہ محمد رسول اللہ کو دوبارہ مرزا غلام احمد قادیانی کے قالب میں بھیجا گیا ہے اب سوال یہ ہے کہ (ہندوؤں کے عقیدہ تاریخ اور مرزا صاحب کے عقیدہ بروز کے مطابق ) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نعوذ باللہ پہلی جون میں کونسا پاپ ہوا تھا کہ انہیں دوبارہ غلام احمد قادیانی کی ناقص شکل میں بھیج دیا گیا." (صفحہ ۴۳) معزز قارئین! آپ دیکھ لیں کہ کیسی کیسی بکواس اس مولوی کی زبان سے نکلتی ہے.ذرا بھی ادب نہیں کیسی کیسی بکو اس محمد رسول اللہ اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں کر رہا ہے.نہ جانے اس کے سر پر کس بھوت کا سایہ ہے.کہ اناپ شناپ جو منہ میں آئے اگلتا چلا جا رہا ہے.صاف ظاہر ہے کہ محض اور محض لغو اور کمینے حملوں کے سوا اس کا کوئی مشغلہ نہیں اور خوب جانتا ہے کہ جو بات کہہ رہا ہے وہ سراسر حقیقت کے خلاف ہے ( ورنہ فصل اول میں مندرج اقوال علمائے سلف و اولیائے امت پر بھی بہی اعتراض دارد ہو گا ) کوئی مرزا صاحب کی تحریرات کا ماہر ہونے کا دعویدار ہو اور اس کو یہ بھی علم نہ ہو کہ ہندوؤں کے عقیدہ تاریخ کے خلاف جیسے جیسے مضبوط اور قومی اور عمیق دلائل حضرت مرزا صاحب نے اپنی کتاب براہین احمدیہ اور دیگر بہت سی کتب میں دیتے ہیں ان کا عشر عشیر بھی اس دور کے تمام علماء نے مل کر پیش نہیں کیا ایسے شخص کے متعلق جانتے بوجھتے ہوئے محض افتراء کی خاطر پہلے یہ عقیدہ گیڑا کہ وہ نبیوں کی طرح کے تاریخ کا قائل تھا اور پھر اس خبیشان انترا میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تصور اتارنے کو حد سے بڑھی ہوئی بد بختی اور بے باکی کے سوا کیا قرار دیا جا سکتا ہے نہیں تو
۱۸۴ ان مولوی صاحب کی جتنی جتنی تحریرات پڑھنے کا موقع ملتا ہے اتنا ہی ذہن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کی طرف منتقل ہوتا چلا جا رہا ہے.عُلَمَهُ هُمْ فَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيمِ ( مشکوۃ کتاب العلم) الشمله.کہ ایک بد نصیب زمانہ آنے والا ہے کہ ان لوگوں کے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے.فی زمانہ اگرچہ بہت ہی تنزّل ہوا ہے لیکن کوئی مسلمان غالبا یہ گمان نہیں کرے گا کہ سارے کے سارے علماء کلیتہ بد ترین مخلوق ہو چکے ہوں گے.لیکن کوئی مسلمان یہ بھی گمان نہیں کر سکتا کہ اس حدیث کا اطلاق مسلمانوں کے کسی گروہ پر بھی نہ ہو کیونکہ مخبر صادق کی باتیں کبھی بھی جھوٹی نہیں ہو سکتیں.لدھیانوی صاحب نے ملکہ وکٹوریہ کے نام حضرت مرزا صاحب کی کتاب ستارہ قیصریہ سے دو اقتباس درج کئے ہیں جن میں اس بات کا ذکر ہے کہ آپ اس کی مملکت کے شہری ہونے کے سبب اسکی حکومت کے اطاعت گزار ہیں اور نیز یہ ذکر ہے کہ آپ نے اس کے نام تحفہ قیصریہ کے نام سے جو تبلیغی خط لکھا تھا جس میں اسے مسیح کی خدائی چھوڑ کر خدا کی توحید قبول کرنے اور عیسائیت چھوڑ کر اسلام میں داخل ہونے کی تلقین کی گئی تھی ملکہ نے اس خط کے پہنچنے کی آپ کو اطلاع نہیں دی جس پر آپ نے ستارہ قیصریہ کے نام سے اسے ایک اور تبلیغی خط لکھا.لدھیانوی صاحب ان تبلیغی خطوط کو طول طویل لیکن بے معنی اور بے مصرف خطوط قرار دیتے ہیں.اور ان تبلیغی خطوط میں جن الفاظ سے ملکہ کو مخاطب کیا گیا ہے اسے چاپلوسی اور خوشامد کا نام دیتے ہیں.ان لغو اور بے اصل اعتراضات سے قارئین پر وہ یہ تاثرات قائم کرنا چاہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب نے انگریز ملکہ کی ایسی چاپلوسی کی کہ پتہ چلتا ہے کہ وہ ان کے حمایتی تھے اور مزید اس سے یہ بھی تاثر پیدا ہوتا ہے کہ عیسائی مملکت کی فرمانروا کی تعریف کرنے والا شخص اور اس کی اطاعت میں پیدا ہونے والا جو ایک غلام ملک میں پیدا ہوا ہو اور اسکی زندگی ایک غیر قوم کی غلامی میں ہی صرف ہوئی ہو وہ کیسے نبی اللہ ہو سکتا ہے اور کس طرح ہم اس کے متعلق یہ تصور کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مسیح موعود بنا کر دنیا میں بھیجا ہو.یہ الفاظ ہمارے ہیں مگر ہر شخص جو ان کی تمسخر آمیز کھو کھلی عبارت کا مطالعہ کرے وہ اس سے اتفاق
۱۸۵ کرے گا کہ بعینہ یہی تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے.جیسا کہ ہم بارہا ان مولوی صاحب کی علمی اور دینی حالت پر سخت افسوس کا اظہار کر چکے ہیں اسی طرح اس اعتراض پر بھی ہم حیران ہیں کہ ایک عالم دین ہونے کا دعویدار ایسی جاہلانہ باتیں کر کیسے سکتا ہے.کیا ان صاحب نے کبھی قرآن کریم کا مطالعہ نہیں کیا یا دل پر تالے پڑے ہیں.افسوس که لدھیانوی صاحب نے حضرت یوسف علیہ السلام کی تاریخ سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنے نام کی بھی حیا نہ کی.حضرت یوسف علیہ السلام کی بلوغت اور نبوت کا بیشتر حصہ فرعون مصر کے تابع صرف ہوا.اور آپ نے اس ملک میں بیشتر زندگی گذاری جہاں فراعنہ مصر کا جابرانہ قانون لاگو تھا اور کسی کو اس قانون سے انحراف کی مجال نہ تھی.پس جس حالت پر یہ مولوی صاحب غلامی کا طعن کرتے ہیں اور بعض ان میں سے اقبال کا ایک شعر بھی بڑے جھوم جھوم کر پڑھتے ہیں جس میں غلام نبی کے تصور سے پناہ مانگی گئی ہے.کیا ان کی قرآن پر ذرا بھی نظر نہیں اور انہیں پتہ نہیں کہ ان کے طعن و تمسخر کی تان کہاں کہاں جا کر ٹوٹے گی.حضرت یوسف علیہ السلام کی بے اختیاری کا ذکر تو قرآن کریم نے ایسے کھلے کھلے الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ کسی کے لئے تاویل کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی.فرماتا ہے کہ اگر ہم یوسف کے بھائی کے یوسف کے پاس ٹھہرنے کی تدبیر اپنی طرف سے نہ کرتے تو بادشاہ کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یوسف علیہ السّلام میں طاقت نہ تھی کہ اپنے بھائی کو روک سکتے.کیا فرماتے ہیں لدھیانوی صاحب اور ان کے ہم خیال علماء کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی نبوت کس نوع اور کس مزاج کی تھی.اسی طرح کیا انہوں ہے فرعون مصر کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ رویہ نہیں دیکھا کہ کس قدر تحکم آمیز اور تحقیر کا رویہ تھا لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کو یہی حکم فرمایا.فقو لاله قَولاً لينا ( طه آیت نمبر ۴۵) کہ خبردار فرعون سے نہایت نرمی سے کلام کرنا کیا جناب لدھیانوی صاحب کی لغت میں اس نرم کلام کا نام چاپلوسی ہے؟ مزید برآں کیا لدھیانوی صاحب حضرت عیسی بن مریم کے حالات سے بے خبر ہیں وہ ایسی قوم میں پیدا ہوئے جو کلیتہ سلطنت روم کی -
MAY غلام تھی.اس میں وہ پیدا ہوئے.اس میں پڑھے اور عمر کا ایک عرصہ وہاں گذارا لیکن کسی لمحہ بھی اس عظیم سلطنت کی فرمانروائی سے روگردانی نہ کی یہاں تک کہ ایک طرف تو یہود نے آپ کو غلامانہ ذہینت کے طعنے دیئے اور اپنے انکار کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی کہ ہم تو ایک ایسے مسیح کے منتظر ہیں جو تاج و افسر کے ساتھ آئے گا اور غلامی سے نجات دلائے گا اور دوسری طرف گورنر روم کے پاس یہ شکائتیں کیں کہ یہ شخص مسیحیت کا دعویدار ہو کر آپ کی سلطنت کے لئے خطرہ ہے کیونکہ ہمارے مذہب کی رو سے ہماری قوم کی سیاسی آزادی بھی مسیح کی ذات سے وابستہ ہے.اب جناب لدھیانوی صاحب ذرا میدان میں آئیں اور بتائیں کہ کیا بعینہ یہی رویہ آپ نے مسیح محمدی کے تعلق میں اختیار نہیں کیا.کیا آپ کے بڑوں نے مرزا صاحب کے خلاف انگریزوں کے دفتروں میں شکائتوں کے پلندے نہیں بھیجے اور کیا بار بار محض رپورٹوں کے ذریعہ متنبہ نہیں کیا کہ یہ شخص انگریزی سلطنت کے لئے خطرہ ہے اور دوسری طرف مسلمان عوام میں یہ کہہ کر اسکی کردار کشی نہیں کی کہ ہم تو ایسے مسیح و محمدی کے منتظر تھے جو ہمیں آزادی دلائے گا.یہ غلامی کی تعلیم دینے والا کیسے صحیح اور مہدی بن بیٹھا ہے.پس یہاں بہت سے سوال اٹھتے ہیں.پہلا سوال تو یہی ہے کہ اگر پہلا مسیح غلام ہی پیدا ہوا اور سینکڑوں سال تک اسکی قوم غلام ہی رہی تو دوسرے مسیح کو اس حالت میں قبول کرنے پر آپ کو کیا تکلیف ہے ؟ اگر آپ مثالیں مانگتے ہیں تو دور جانے کی ضرورت نہیں سب سے پہلے تو مسیح کی مثال مسیح تھی سے دی جائے گی پس اگر ان دو میں کھلی کھلی مشابہت پائی جائے تو مسیح موعود کی صداقت ثابت ہو گی یا کہ برعکس نتیجہ نکلے گا؟ دو سرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ قطعی تاریخی حقائق کہ جو قرآن کریم اور بائیبل سے ثابت ہیں کیا آپ کے علم میں نہیں ہیں ؟ اور تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر علم میں تھے تو پھر اس طرح بد دیانتی سے کام کیوں لیا ہے.اور حضرت مرزا صاحب پر پھبتیاں کتنے کے لئے انہیں عوام الناس سے کیوں چھپائے رکھا ؟ اور چوتھا سوال یہ المحتا ہے کہ کیا آپ کی عقل میں یہ معمولی سی بات بھی داخل نہیں ہو سکتی کہ جن باتوں سے آپ حضرت مرزا صاحب کا تمسخر اڑا رہے ہیں اس حالت میں خدا کے
دیگر ایسے بزرگ انبیاء بھی شامل ہیں جن کی نبوت سے انکار کی آپ کو مجال نہیں.پس اب فرمائیے کہ آپ کی بے باکی کی کوئی حد بھی ہے کہ نہیں ؟ آخری بات قابل توجہ یہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے آپ کی اصطلاح میں جو چاپلوسیاں کیں ان کا کھلا کھلا مقصد اور مطلب سوائے اس کے کچھ نہ تھا کہ ملکہ وکٹوریہ کو اسلام کی دعوت دی.اس کے بدلے ایک آنہ بھی اپنے لئے نہ اپنی جماعت کے لئے طلب کیا اور آپ کو یا آپ کے خاندان یا جماعت کو حکومت برطانیہ کی طرف سے ایک چپہ زمین بھی عنائت نہ ہوئی.پس اگر یہ چاپلوسی ہی ہے تو جیسا کہ ثابت ہے خدا کے رسول کے نام پر ایک عظیم فرمانروا کو ہدایت کی طرف بلانے کے لئے یہ چاپلوسی قابل مذمت نہیں.بلکہ لائق صد آفرین ہے لیکن مولوی صاحب اپنے بزرگ مولویوں کی ان چاپلوسیوں کا کیا جواب دیں گے جن کی چاپلوسیوں کی نظر حکومت برطانیہ کے مادی فیضان پر رہتی تھی.اور ان کا کاسہ گدائی حکومت برطانیہ کی طرف سے بارہا بھرا گیا.کیا مولوی صاحب کو یہ علم ہے کہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتد ترین مخالف تھے.اپنی کن خدمات کے عوض حکومت برطانیہ سے اتنی جائیداد کی جاگیر پائی اور کیا مولوی صاحب کو علم نہیں کہ مدرسہ دیو بند کا افتتاح کس لیفٹینٹ گورنر بہادر نے کیا تھا ہے اور کس حکومت کے وظیفے سے یہ مدرسہ دسیوں سال خیرات پاتا رہا ہے یہ فہرست تو بہت لمبی ہے محض نمونہ ایک دو باتیں پیش خدمت کی ہیں تاکہ آئندہ آپ اپنے قلم کو سنبھال کر رکھیں اور ادب سکھائیں.عقیده نمبر ۸ اس عنوان کے تحت لدھیانوی صاحب نے پھر یہی بات دوپہرا دی ہے کہ مرزا صاحب اپنے آپ کو افضل کہتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سے کمتر قرار دیتے ہیں.ہم اس امر کی بار ہا تردید کر چکے ہیں اس لئے اسے اب یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے جماعت احمد یہ اس قسم کے شیطانی خیال پر ہزار لعنت ڈالتی ہے پتہ نہیں مولوی صاحب کے دماغ میں کہاں سے یہ کیڑا گھس گیا ہے.جو اعتراض مولوی صاحب کر رہے ہیں اس کے ہم بچے او میٹر چکے ہیں اسلئے قارئین ہے.
WA میں گزارش ہے کہ اگر یاد نہ رہا ہو تو از سر نو متعلقہ اوراق کا مطالعہ فرمالیں.حضرت مرزا صاحب کو ہم وہی سمجھتے ہیں جو وہ اپنے آپ کو سمجھتے تھے.آپ فرماتے ہیں.جان و دلم فدائے جمال محمد است خاکم نثار کوچه آل محمد نیزیه که است وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا نام اس کا سب ہے مد ولیر مرا نہیں ہے ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدایا وہ جس نے حق دکھایا اس نور فدا ہوں اس وہ لقا ہی ہے کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے ( قادیان کے آریہ اور ہم روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ صفحه ۴۴۹) بعد از خدا بعشق محمد محترم گر کفر این بود بخدا سخت کا فرم دازالہ اوہام روحانی خزائن جلد نمبر ۳ صفحه (۱۸۵) اس فیصلہ کے بعد کسی کی غوغا آرائی کی ہمیں خاک کی چنکی کے برابر بھی پرواہ نہیں.عقیدہ نمبر ۹ اس کے تحت لدھیانوی صاحب لکھتے ہیں کہ مرزا صاحب نے دنیا میں کونسا روحانی انقلاب بہا کر دیا.کیونکہ دنیا میں فسق و فجور ، ظلم و عدوان اور کفر و ارتداد میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی.مجیب حالت ہے ابھی تو مولوی صاحب کچھ عرصہ پہلے یہ کہہ رہے تھے کہ کسی کے آنے کی ضرورت نہیں اور کہہ رہے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم میں کوئی فساد اور بگاڑ نہیں
پھیلا اور جب تک ظلم وفق نہ پھیل جائے اس وقت تک خدا تعالی کسی کو بھیجا نہیں کرتا.اور اب یہ سب باتیں بھلا کر ظلم و تعدی کا ایسا نقشہ کھینچ رہے ہیں کہ گویا ظہر الفساد فی البر و البحر کا نظارہ ہے.آیئے اب دیکھیں کہ اس فسق و فجور کی ذمہ داری کس پر ہے اور جناب لدھیانوی صاحب کی منطق بات کو کہاں پہنچا کر چھوڑے گی ہر نبی جو اپنی قوم کے لئے آتا ہے صرف اسی حصے کی اصلاح کرتا ہے اور اس میں تدریجی پاک تبدیلیاں یا بعض صورتوں میں انقلابی پاک تبدیلیاں کرتا ہے جو اس پر ایمان لے آئے.اور جو اس کا انکار کر دیں اور کافرو دجال قرار دیں ان کا ہرگز وہ ذمہ دار نہیں ہوتا.ورنہ لدھیانوی صاحب کے پیمانے سے اگر حضرت نوح علیہ السلام کی نبوت کو جانچیں گے تو نعوذ باللہ ایسا خطرناک نتیجہ نکلے گا کہ اس کے تصور سے بھی حواس اڑتے ہیں لیکن سب سے زیادہ خطرناک اور مسلمانوں کے لئے ناقابل قبول بات یہ بنتی ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب تمام دنیا کا نبی تسلیم کیا جاتا ہے تو کیا تمام دنیا میں رائج فسق و فجور نعوذ باللہ من ذالک آپ کے دعا دی پر کوئی منفی اثر ڈالتا ہے.قرآن کریم تو نبوت سے فیض پانے والوں کے ذکر میں صرف ان کو داخل فرماتا ہے جو ان پر صدق دل سے ایمان لائیں اور اپنے دین کو خالص کرنے والے ہوں اور اس پہلو سے ان نافقین کو بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض تربیت سے باہر نکال پھینکتا ہے جو بظاہر مسلمان ہونے کے دعویدار تھے مگر دل میں منافقت تھی پس انبیاء کی صداقت اس پیمانے پر پر کھی جاتی ہے.نہ کہ کسی جاہل کی من گھڑت کسوٹیوں پر.جناب مولوی صاحب ! ابھی دیکھتے دیکھتے اس بات کا فیصلہ ہو جاتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب پر جو لوگ ایمان لائے ان کے اندر پاک تبدیلیاں پیدا ہوئیں کہ نہیں.آپ پاکستان کی جیلوں میں قیدیوں کے حالات کا جائزہ لیں اور ان کے جرائم کی فہرست پر نگاہ ڈال کر کوائف مرتب کر لیں تو وہ لوگ جو آپ کے مرید ہیں اور آپ کی پُر قریب باتوں میں آکر حضرت مرزا صاحب کا انکار کر بیٹھے ہیں ان کے جرائم کی فہرست جس نوع کی بنے گی اسے سب پاکستانی خوب جانتے ہیں لیکن احمدی قیدیوں کی بھاری اکثریت کے متعلق آپ دیکھیں گے کہ ان کے جرائم کی فہرست کچھ اس قسم کی ہے کہ کلمہ پڑھنے کے جرم میں گرفتار ہوئے ، ان سے قرآنِ
کریم پر آنکھ ہوا.کسی مولوی کو غلطی سے السّلام علیکم کہہ بیٹھے.باجماعت نماز پڑھ رہے تھے.خدا کو حاضر و ناظر جان کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر رہے تھے.اور کچھ نہیں تو اس فرد جرم کا ثابت ہونا بھی عدالتوں کے ریکاڑو میں موجود ہے کہ پولیس تلاشی کے دوران ان کے گھر سے بسم الله الرحمن الرحیم لکھی ہوئی دستیاب ہوئی.اس کے مقابل پر دوسرے قیدیوں کی فہرست جرائم پر نظر ڈال کر دیکھ لیں کہ جنہیں بیان کرتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے.لیکن آپ کو ان باتوں میں مخاطب کرنا ایک لاحاصل کوشش ہے.دراصل تو ہم آپ کو مخاطب کر کے ان بندگان خدا کو یہ باتیں سنا رہے ہیں جو آپ کے دام فریب میں آکر ہزار بدگمانیوں میں جتلا ہو رہے ہیں.علاوہ ازیں اگر آپ ان حقائق کی کوئی حقیقت نہیں سمجھتے تو سر راہ اپنے بعض بزرگوں کی آرا بھی پڑھتے جائیے.شاعر مشرق علامہ اقبال نے ایک مرتبہ کہا." پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جسے فرقہ قادیانی کہتے ہیں" قومی زندگی اور ملت بیضاء پر ایک عمرانی نظر صفحہ ۸۴ آئینه ادب چوک مینار انار کلی لاہور از علامہ محمد اقبال) حضرت مرزا صاحب کے بہت ہی شدید مخالف مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے آپ کی کتاب ” براہین احمدیہ " اور آپ کے بارہ میں یہ شہادت دی کہ ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں شائع نہیں ہوئی....اور اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت کم پائی گئی ہے" (اشاعۃ السنہ جلد ۶ : نمبرے )
آخر پر اب ہم قارئین سے مودبانہ عرض کرتے ہیں کہ انہوں نے مولوی صاحب کے سخت نازیبا اور حد سے بڑھے ہوئے جارحانہ اعتراضات کا بھی مطالعہ کر لیا اور جماعت احمدیہ کی طرف سے محققانہ اور دل و دماغ کو مطمئن کرنے والے جوابات بھی مطالعہ کرلئے.ہم نے اپنے جواب میں مولوی صاحب پر جہاں جہاں سختی اختیار کی ہے اگر چہ وہ مولوی صاحب کے تمسخر آمیز اور دل آزار رویہ کے مقابل پر کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی لیکن اتنی سختی بھی ہم نے بادل نخواستہ کی ہے کہ انہیں سمجھایا جائے کہ کسی دوسرے فرقہ یا جماعت کے مذہبی رہنما پر اس طرح بہیمانہ حملہ کرنا اسلام کے اصولوں کے سخت مختلف ہے اور جن لوگوں کے بزرگوں پر حملہ کیا جائے ان کے لئے سخت تکلیف کا موجب بنتا ہے.اس لئے یہ جو چالا کی کا راستہ انہوں نے اختیار کیا ہے کہ پہلے حضرت مرزا صاحب کے اوپر منک رسول کے سراسر مفتریانہ اور بناوٹی الزام لگائے اور پھر نعوذ باللہ ایک شاتم رسول بنا کر ان پر سخت بہیمانہ حملے کئے.یہ کھوکھلی شرافت اور تقویٰ سے گری ہوئی چالا کی ان کے کسی کام نہیں آئے گی.چونکہ ان کی نیت محض آزار پہنچانا ہے اور عوام الناس کو مشتعل کرتا ہے تاکہ وہ جماعت احمدیہ پر صرف زبان کے ہی چہ کے نہ لگائیں بلکہ ان کے مال و جان اور عزت کو انتہائی سفاکی کے ساتھ گلیوں اور بازاروں میں لوٹا جائے.اس لئے انہیں اس دل آزاری کا کچھ نمونہ چکھانے کی خاطر ہم نے کہیں کہیں ان پر جوابی حملہ کیا ہے تاکہ ان کی جہالت اور سفلہ پن کو ننگا کر کے خود انہیں ان کی تصویر دکھائی جائے.اگر اس سے بعض طبعیتوں پر بار ہو تو ہم معذرت خواہ ہیں.آخر پر ہم خدا تعالٰی کی عزت اور جلال کے تقدس کی قسم کھا کر یہ اعلان کرتے ہیں کہ یہ لدھیانوی مولوی صاحب اور ان کے ہمنوا سراسر جھوٹ سے کام لیتے ہیں اور جماعت پر ناجائز اتمام لگا کر عامتہ المسلمین کے جذبات کو انگیخت کرتے اور بھڑکاتے ہیں.یہ سب اتمام جو انہوں نے لگائے ہیں سراسر غلط اور بے بنیاد ہیں.جہاں تک ان کے مسلک کے بزرگوں کا تعلق ہے اگرچہ انہوں نے بھی بعض صورتوں
میں جھوٹ کو جائز قرار دیا ہے جن سے ہم ہر گز اتفاق نہیں کرتے لیکن اس بات سے انکار نہیں کہ بدی کے ارتکاب کے باوجود وہ اپنی نیت نیک بتاتے ہیں چنانچہ ان کے پیرو مرشد اور انکے فرقہ کے نزدیک چودھویں صدی کے مجدد علامہ رشید احمد گنگوہی صاحب نے یہ فتوی دیا کہ حق کو زندہ کرنے کے لئے جھوٹ بولنا جائز ہے.لے اگرچہ ان کی اس بات میں ایک اندرونی تضاد اور تناقض ہے اور دوسرے لفظوں میں بات یہ بنتی ہے کہ جھوٹ کا قلع قمع کرنے کے لئے جھوٹ بولنا ضروری ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ حق کے زندہ ہونے کے لئے جھوٹ کا مرنا ضروری ہے اور ایک کا اثبات دوسرے کا عدم چاہتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ سچ کو زندہ کرنے کے لئے جھوٹ کو بھی زندہ کیا جائے.جھوٹ بولنے کا یہ بہانہ قرآن کریم کی نص صریح کے صریحاً مخالف ہے جس میں خدا تعالٰی فرماتا ہے جَلَدَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِل كَانَ زَهُو فَا (بنی اسرائیل آیت نمبر ۸۲ ) کہ حق کے آتے ہی باطل بھاگ گیا.حق و باطل اکٹھے رہ ہی نہیں سکتے لیکن قرآن کریم کے سرا سر خلاف ان کے بزرگوں کی یہ عجیب منطق ہے کہ حق مر رہا ہو اور جانکنی کی حالت ہو تو جھوٹ کا دارو پلا کر اسے زندہ کر دیا جائے.بہر حال وہ جھوٹ کو واجب قرار دیتے ہیں تو حق کو زندہ کرنے کی خاطر.لیکن ان لدھیانوی مولوی صاحب کا تو عجیب حال ہے کہ جھوٹ حق کو زندہ کرنے کے لئے نہیں بلکہ حق کو مارنے کی خاطر بولتے ہیں.اور اتنا بولتے ہیں کہ کوئی حساب نہیں رہتا.ایک بار پھر ہم خدائے واحد دیگانہ اور اس کی جبروت کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہمارے عقا ئے وہی ہیں اور ان کے سوا کچھ نہیں.جو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو عطا کئے اور جن کا خلاصہ بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام نے حسب ذیل الفاظ میں بیان فرمایا کہ " ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ لا الہ الا الله محمد رسول الله جمارا اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں.جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالی اس اس گنگوہی صاحب لکھتے ہیں ! " احیاء حق کے واسطے کذب درست ہے مگر تا امکان تعریض (یعنی اشاروں ناقل) سے کام لیوے اگر ناچار ہو تو کذب صریح بولے (یعنی سو فیصدی جھوٹ بولے.ناقل ) ورنہ احتراز کرے (فتاوی رشید یه کامل کتاب الحظر والا باخته سوال نمبر ا ا صفحه (۲۴۰)
عالم گذران سے کوچ کریں گے.یہ ہے کہ حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ خاتم النبیین و خیرالمرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعے سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدائے تعالی تک پہنچ سکتا ہے.اور ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے اور ایک شعشہ یا نقطہ اس کی شرائع اور حدود اور احکام اور اوامر سے زیادہ نہیں ہو سکتا اور نہ کم ہو اہے اور اب کوئی ایسی وحی یا ایسا الہام مجانب اللہ نہیں ہو سکتا جو احکام فرقانی کی ترمیم یا تفشیخ یا کسی ایک حکم کے تبدیل یا تغییر کر سکتا ہو اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ ہمارے نزدیک جماعت مومنین سے خارج اور محمد اور کافر ہے اور ہمارا اس بات پر بھی ایمان ہے کہ ادنی درجہ صراط مستقیم کا بھی بغیر اتباع ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرگز انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ راہ راست کے اعلیٰ مدارج بحجز اقتداء اس امام الرسل کے حاصل ہو سکیں کوئی مرتبہ شرف و کمال کا اور کوئی مقام عزت اور قرب کا بجز بیچی اور کامل متابعت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم ہر گز حاصل کرہی نہیں سکتے.ہمیں جو کچھ ملتا ہے علی اور طفیلی طور پر ملتا ہے.(ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ ۱۳۷ طبع اول روحانی خزائن جلد نمبر ۳ صفحه ۱۹ ۱۷۰)