Language: UR
احمدی داعیان الی اللہ کیلئے راه عمل حضرت مسیح موعود مہدی معہود اور آپکے خلفاء کے ارشادات کا ایک مفید مشموعہ شعبه شائع کردہ تبلیغ جماعت احمدیہ برطانیہ THE LONDON MOSQUE 16 GRESSENHALL ROAD LONDON SW18 5QL TEL: 0181-870 1999 FAX: 0181-874 4779
۶ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کا نمونہ دیکھنا چاہئے وہ ایسے نہ تھے کہ کچھ دین کے ہوں اور کچھ دنیا کے وہ خالص دین کے بن گئے تھے اور اپنا جان و مال سب اسلام پر قربان کر چکے تھے.ایسے ہی آدمی ہونے چاہئیں جو سلسلہ کے واسطے واعطین مقرر کئے جائیں.وہ قانع ہونے چاہئیں اور دولت و مال کا ان کو فکر نہ ہو.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کو تبلیغ کے واسطے بھیجتے تھے تو وہ حکم پاتے ہی چل پڑتا تھا نہ سفر خرچ مانگتا تھا اور نہ ہی گھر والوں کے افلاس کا عذر پیش کرتا تھا.یہ کام اس سے ہو سکتا ہے جو اپنی زندگی کو اس کے لئے وقف کر دے.متقی کو خدا تعالٰی کرد آپ مدد دیتا ہے وہ خدا کے واسطے تلخ زندگی کو اپنے لئے گوارا کرتا ہے....خدا اس کو پیار کرتا ہے جو خالص دین کے واسطے ہو جائے ہم چاہتے ہیں کہ کچھ آدمی ایسے منتخب کئے جائیں جو تبلیغ کے کام کے واسطے اپنے آپ کو وقف کر دیں اور دوسری کسی بات سے غرض نہ رکھیں.ہر قسم کے مصائب اٹھائیں اور ہر جگہ جائیں اور خدا کی بات پہنچائیں.صبر اور تحمل سے کام لینے والے آدمی ہوں.ان کی طبیعتوں میں جوش نہ ہو ہر ایک سخت کلامی اور گالی کو سن کر نرمی کے ساتھ جواب دینے کی طاقت رکھتے ہوں.جہاں دیکھیں کہ شرارت کا خوف ہے وہاں سے چلے جائیں اور فتنہ فساد کے درمیان اپنے آپ کو نہ ڈالیں اور جہاں دیکھیں کہ کوئی سعید آدمی ان کی بات کو سنتا ہے اس کو نرمی سے سمجھائیں جلسوں اور مباحثوں کے اکھاڑوں سے پر ہیز کریں کیونکہ اس طرح فتنہ کا خوف ہوتا ہے.آہستگی اور خوش خلقی سے اپنا کام کرتے ہوئے چلے جائیں." (لمفوظات جلدے صفحہ )) اخراجات کے معاطے میں ان لوگوں کو صحابہ کا نمونہ اختیار کرنا چاہئے کہ وہ فقر و فاقہ اٹھاتے تھے اور جنگ کرتے تھے.ادنیٰ سے ادنی معمولی لباس کو اپنے لئے کافی جانتے تھے.اور بڑے بڑے بادشاہوں کو جا کر تبلیغ کرتے تھے " ( ملفوظات جند ۹ صفحه ۴۲۲ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز بیان " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز بیان کو اگر غور سے دیکھتے ، تو ان کو وعظ
وَاجْعَلُ مِن لَّدُنكَ سُلْطَنَا نَصِيرًا جمع الله الرحمن الروية هُوَ الكَ خدا کے فضل اور رحیم کے ساتھ ساهر ایام ماه خود شوید لندن 3a - 4.91 مکرم سیکرٹری مثاب حدیقہ المبشرین البوه السلام علیکم ورحمة الله و برکانه دعوت الی اللہ سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے سلسلہ کے ارشادات پر مشتمل کتاب آپ کی طرف سے ملی ہے.اس سے بھر پور استفادہ ہونا چاہیے.تمام مربیان و معلمین اور داعیان الی الله کو اس کے استفادہ کی تحریک کرتے رھیں.اللہ تعالٰی آپ کو بیش از پیش خدمات بجالانے کی توفیق عطا فرتاتار ہے.اللہ آپ کے ساتھ ہو.والسلام خیالستار ار الله خليف لي الراح (لاہور آرٹ پریس لاہ ہو نہ )
۲ پیش لفظ تبلیغ اسلام کا مقدس فریضہ اس زمانہ میں بطور خاص جماعت احمدیہ کے سپرد کیا گیا ہے جو احیائے اسلام کی عالمگیر تحریک ہے.ہمارے پیارے امام سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے متعدد بار یہ امر تاکید بیان فرمایا ہے کہ اس زمانہ کا اصل اور حقیقی جہاد یہی ہے کہ اسلام کو ساری دنیا میں روحانی طور پر غالب کر دیا جائے.ظاہر ہے کہ اس مقدس جہاد میں عملاً شامل ہو نانہ صرف اپنے فرض منصبی کو ادا کرنا ہے بلکہ ہر احمدی کی حقیقی سعادت اور خوش بختی اسی میں ہے کہ وہ ایک کا میاب داعی الی اللہ بن جائے.یہ عظیم مقصد کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے ؟ اس کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ ہم ان مقدس بزرگوں کی تحریرات اور ارشادات سے استفادہ کریں جو خدائی نور سے منور ہوئے اور اس نور کی برکت سے ہمارے لئے بھی کامیابی کی نورانی راہیں متعین کیں.دعوت الی اللہ اور تبلیغ اسلام کی اہمیت، افادیت برکت اور ضرورت کے موضوعات پر سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام، حضرت حکیم الامت مولانا نور الدین خلیفتہ المسیح الاول رضی اللہ تعالٰی عنہ ، حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالٰی عنہ ، حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالٰی عنہ اور پیارے امام سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے روح پرور اور بصیرت افروز ارشادات کا ایک مختصر انتخاب راہِ عمل“ کے نام سے آپ کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے.ہماری خوش قسمتی اور سعادت ہے کہ یہ روحانی علمی درشہ ہمارے لئے میسر ہے.مجھے کامل یقین ہے کہ ان نورانی بزرگوں کی یہ با برکت تحریریں ہر پڑھنے والے کے دل میں دعوت الی اللہ کے جذبات کو اجاگر کریں گی اور یہ ولولہ پیدا کریں گی کہ ہر فرد جماعت تبلیغ اسلام کے جذبہ سے سرشار ہو کر دعوت الی اللہ کے میدان میں اتر پڑے اور اپنے آپ کو واقعی ایک سچا اور اطاعت شعار احمدی ثابت کر دے.خدا کرے کہ ایسائی ہو اور یہ مختصر کتابچہ دلوں میں ایک پاکیزہ روحانی انقلاب پیدا کر نے کا ذریعہ بن جائے.آمین.افتخار احمد ایاز امیر جماعت احمدیہ - برطانیہ ۱۵ر دسمبر ۱۹۹۸ عو
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم دعوت الی اللہ کا مقدس فریضہ OO O ☆ O ☆ O حضرت مسیح موعود مہدی مسعود فرماتے ہیں کہ میں تو ایک بیج ہونے آیا ہوں اور وہ بیچ میرے ہاتھوں سے بویا گیا ہے.یہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کی ترقی کو روک سکے.حضور مهدی مسعود نے ہر اس درخت کا جو جماعت کی آئندہ مساعی کا مظہر بنے والا تھا بیج بویا اور کسی نہ کسی رنگ میں جماعت کی ہر پہلو پر راہ نمائی فرمائی جماعت کی تربیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی.اور جماعت کو ان راہوں پر گامزن کیا جو قومی سربلندی کے لئے از بس ضروری ہیں.ہر اس راہ کی نشان دہی کی جس پر چل کر خدا تعالی کی یہ پیشگوئی احسن طریق پر پوری ہوئی تھی: میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا " آج اللہ کے فضل سے جماعت کی مساعی کا جال ساری دنیا میں پھیلا ہوا ہے کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں دعوت الی اللہ کا پیغام نہ پہنچایا جا رہا ہو.اور مسلمانوں کی رفعت و سربلندی کے لئے شبانہ روز کوششیں جاری نہ ہوں.مشرق ہو یا مغرب شمال ہو یا جنوب جزائر ہوں یا براعظم ہر کہیں حضرت مسیح موعود کے خدام اللہ تعالی کے اس آخری مکمل و اکمل پیغام کو جس کو اس نے اپنے پیارے حبیب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل کیا تھا لوگوں کے دلوں میں اتارنے میں مصروف عمل ہیں.حضرت مسیح موعود مهدی مسعود نے اپنی زندگی میں اس کام کا آغاز فرمایا تھا.پہلے تو حضور نے بتایا کہ اسلام در اصل وقف زندگی ہی کا نام ہے.حضور فرماتے ہیں.لغت عرب میں اسلام اس کو کہتے ہیں کہ بطور پیشگی ایک چیز کا مول دیا جائے اور
۴ یا یہ کہ کسی کو اپنا کام سونپیں اور یا یہ کہ صلح کے طالب ہوں اور یا یہ کہ کسی امریا خصومت کو چھوڑ دیں اور اصطلاحی معنی اسلام کے وہ ہیں جو اس آیت کریمہ میں اس کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ کہ بلی من اسلم و جهد لله و هو محسن فله اجره عند ربه ولا خوف عليهم ولا هم يحزنون یعنی مسلمان وہ ہے جو خدا تعالی کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے.یعنی اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کے لئے اور اس کے ارادوں کی پیروی کے لئے اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے وقف کر دے اور پھر نیک کاموں پر خدا تعالٰی کے لئے قائم ہو جائے.اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اس کی راہ میں لگا ! ہوے مطلب یہ ہے کہ اعتقادی اور عملی طور پر محض خدا تعالی کا ہو جائے."اعتقادی طور پر اس طرح سے کہ اپنے تمام وجود کو در حقیقت ایک ایسی چیز سمجھ لے جو خدا کی شناخت اس کی اطاعت اور اس کے عشق اور محبت اور اس کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے.اور " " و عملی طور پر اس طرح سے کہ خالصتا اللہ حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت سے است متعلق اور ہر ایک خداداد توفیق سے وابستہ ہیں بجا لادے.مگر ایسے ذوق و شوق و حضور سے کہ گویا وہ اپنی فرما برداری کے آئینہ میں اپنے معبود حقیقی کے چہرہ کو دیکھ رہا ہے." ( آئینہ کمالات اسلام) آسماں پر دعوت حق کے لئے اک جوش ہے ہو رہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اتار باغ میں ملت کے ہے کوئی گل رعنا کھلا آئی ہے بادصبا گلزار ار سے مستانہ وار اب ای گلشن میں لوگو راحت و آرام ہے وقت ہے جلد آؤ اے آوارگان دشت خار
4 ارشادات سید نا حضرت مسیح موعود مهدی مسعد O☆O⭑O واعظ کیسے ہوں " اس کام کے واسطے وہ آدمی موزوں ہوں گے جو کہ من يتق اللہ و بصبر کے مصداق ہوں.ان میں تقویٰ کی خوبی بھی ہو اور صبر بھی ہو.پاک دامن ہوں.فتق و نجور سے بچنے والے ہوں.معاصی سے دور رہنے والے ہوں.لیکن ساتھ ہی مشکلات پر میر کرنے والے ہوں.لوگوں کی دشنام وہی پر جوش میں نہ آئیں.ہر طرح کی تکلیف اور دکھ کو برداشت کر کے صبر کریں.کوئی مارے تو بھی مقابلہ نہ کریں جس سے فتنہ و فساد ہو جائے.دشمن جب گفتگو میں مقابلہ کرتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ ایسے جوش دلانے والے کلمات بولے جن سے فریق مخالف صبر سے باہر ہو کر اس کے ساتھ آمادہ بجنگ ہو جائے " ( ملفوظات جلد ۹ صفحه ۲۷) " واعظ کو چاہئے کہ امراء کو جو لمبا کلام نہیں سن سکتے ایک چھوٹا سا ٹوٹکا سنائے جو سیدھا ے ایک چھوٹا.کان کے اندر چلا جائے اور اپنا کام کرے " وو ( لمفوظات جلد ۱۰ صفحه ۲۳۶ ) صحابہ کے نمونہ پر چلنے کا وقت قریب آگیا چاہئے کہ ایسے آدمی منتخب ہوں جو تلخ زندگی کو گوارا کرنے کے لئے تیار ہوں اور ان کو باہر متفرق جگہوں میں بھیجا جاوے.بشرطیکہ ان کی اخلاقی حالت اچھی ہو.تقویٰ اور طہارت میں نمونہ بننے کے لائق ہوں.مستقل راست قدم اور بردبار ہوں اور ساتھ ہی قانع بھی ہوں اور ہماری باتوں کو فصاحت سے بیان کر سکتے ہوں.مسائل سے واقف اور متقی ہوں کیونکہ متقی میں قوت جذب ہوتی ہے.وہ آپ جاذب ہوتا ہے.وہ اکیلا رہتا ہی نہیں." ) ملفوظات جلد ۹ صفحه (۴۱۵ ۳۱۶
کہنے کا بھی ڈھنگ آجاتا.ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا ہے اور پوچھتا ہے کہ سب سے بہتر نیکی کون سی ہے.آپ اس کو جواب دیتے ہیں کہ سخاوت.دوسرا آکر یہی سوال کرتا ہے ، تو اس کو جواب ملتا ہے.ماں باپ کی خدمت ، تیسرا آتا ہے.اس کو جواب کچھ اور ملتا ہے سوال ایک ہی ہوتا ہے.جواب مختلف.اکثر لوگوں نے یہاں پہنچ کر ٹھوکر کھائی ہے اور عیسائیوں نے بھی ایسی حد شوں پر بڑے بڑے اعتراض کئے ہیں، مگر باحمقوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مفید اور مبارک طرز جواب پر غور نہیں کی.اس میں سرمی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جس قسم کا مریض آتا تھا.اس کے حسب حال نسور شفا ہلا دیتے تھے.جس میں مثلاً بجل کی عادت تھی اس کے لئے بہترین نیکی یہ ہی ہو سکتی تھی کہ اس کو ترک کرے.جو ماں باپ کی خدمت نہیں کرتا تھا بلکہ ان کے ساتھ سختی کے ساتھ پیش آنا تھا.اس کو اسی قسم کی تعلیم کی ضرورت تھی کہ وہ ماں باپ کی خدمت کرے." " ( لملفوظات جلد اول صفحه ۳۷۴) مغلوب الغضب غلبہ و نصرت سے محروم ہوتا ہے یاد رکھو جو شخص بھی کرتا اور غضب میں آ جاتا ہے اس کی زبان سے معارف اور حکمت کی باتیں ہرگز نہیں نکل سکتیں.وہ دل حکمت کی باتوں سے محروم کیا جاتا ہے جو اپنے مقابل کے سامنے جلدی طیش میں آگر آپے سے باہر ہو جاتا ہے.گندہ دہن اور بے نگام کے ہونٹ لطائف کے چشمہ سے بے نصیب اور محروم کئے جاتے ہیں.غضب اور حکمت دونوں جمع نہیں ہو سکتے.جو مغلوب الغضب ہوتا ہے اس کی عقل موٹی اور فہم کند ہوتا ہے.اس کو کبھی کسی میدان میں غلبہ اور نصرت نہیں دیئے جاتے.غضب نصف جنون ہے جب یہ زیادہ بھڑکتا ہے تو پورا جنون ہو سکتا ہے" نصیحت کا پیرایہ " جسے نصیحت کرنی ہو اسے زبان سے کرو.ایک ہی بات ہوتی ہے وہ ایک پیرایہ میں
با ادا کرنے سے ایک شخص کو دشمن بنا سکتی ہے اور دوسرے پیرایہ میں دوست بنا دیتی ہے.پس جادلهم بالتی ھی احسن (النحل : ۱۲۶) کے موافق اپنا عمل درآمد رکھو.اسی طرز کلام ہی کا نام خدا نے حکمت رکھا ہے چنانچہ فرماتا ہے ہوتى الحكمة من يشك (البقره: (۲۷۰) مگر یاد رکھو جیسی یہ باتیں حرام ہیں ویسے ہی نفاق بھی حرام ہے.اس بات کا بھی خیال رکھنا کہ کہیں پیرایہ ایسا نہ ہو جاوے کہ اس کا رنگ نفاق سے مشابہ ہو.موقعہ کے موافق ایسی کاروائی کرو جس سے اصلاح ہوتی ہو.تمہاری نرمی ایسی نہ ہو کہ نفاق بن جاوے اور تمہارا غضب ایسا نہ ہو کہ بارود کی طرح جب آگ لگے تو ختم ہونے میں ہی نہیں آتی.بعض لوگ تو غصہ سے سودائی ہو جاتے ہیں اور اپنے ہی سر میں پتھر مار لیتے ہیں.اگر ہمیں کوئی گالی دیتا ہے تب بھی صبر کرو میں سمجھتا ہوں کہ جب کسی کے پیرو مرشد کو گالیاں دی جاویں یا اس کے رسول کو ہتک آمیز کلمے کے جاویں تو کیسا جوش ہوتا ہے مگر تم صبر کرو اور علم سے کلام کرد" وو بر اعلیٰ درجہ کا منصب واعظ کا منصب ایک اعلیٰ درجہ کا منصب ہے.اور وہ گویا شان نبوت اپنے اندر رکھتا ہے.بشرطیکہ خدا تری کو کام میں لایا جاوے." }} وعظ کہنے والا اپنے اندر خاص قسم کی اصلاح کا موقعہ پالیتا ہے کیونکہ لوگوں کے سامنے یہ ضروری ہوتا ہے کہ کم از کم اپنے عمل سے بھی ان باتوں کو کر کے دکھا دے جو وہ کتا ہے." ( ملفوظات جلد ۲ صفحه ۱۰۴) ہمارے اختیار میں ہو تو ہم فقیروں کی طرح گھر بہ گھر پھر کر خدا تعالٰی کے بچے دین کی اشاعت کریں.اور پھر اس ہلاک کرنے والے شرک اور کفر سے جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے لوگوں کو بچائیں اور اس میں زندگی ختم کر دیں خواہ مارے ہی جائیں " ( ملفوظات جلد سوم صفحه (۳۹)
ارشادات حضرت خلیفہ المسیح الاول O☆O☆O حضرت خلیفتہ المسیح اول کے جوش " دعوت الی اللہ " کے بارہ میں حضرت شیخ یعقوب علی تراب لکھتے ہیں :.چوٹ اور اس کی تکلیف کم خوابی اور اس کا کرب ضعف اور ناتوانی ایک طرف مگر اس حالت میں " دعوت الی اللہ " کا جوش ایسا ہے.کہ برادرم مفتی محمد صادق صاحب واپس آئے تو بڑے شوق کے ساتھ ان کے حالات سفر کو غیر معمولی طور پر سنا.اور تبلیغ کا جو کام ان حصوں میں ہوا.اس کی تفصیل معلوم کر کے بہت خوش ہوئے.پھر خواجہ صاحب (خواجہ کمال الدین صاحب ( جب پہلی مرتبہ عیادت کے لئے آئے تو انہوں نے ذکر کیا کہ علی گڑھ میں جو لیکچروں کا انتظام ہوا ہے.اس میں پہلا لیکچر میرا ہے صاحبزاده آفتاب احمد خان صاحب کا تار آیا تھا.مگر حضور کی ناسازی طبع کے باعث میں نے انہیں اطلاع دی کہ میں نہیں آسکتا اس پر انہوں نے بذریعہ تار حضور کی عیادت کی ہے.اور مجھے بلا کر کہا کہ جب تک حضرت کی طبیعت درست نہ ہو.نہ آؤ.فرمایا :.نہیں میری علالت اس تبلیغ کے کام میں روک نہ ہو.وہاں ضرور جانا چاہئے انہیں لکھ دو کہ میں اپنے وجود کو کسی طرح پر بھی دین حق " کے کام میں روک نہیں بنانا " چاہتا ہوں.میری آرزو تو یہ ہے.کہ میں " دین حق " ہی کی خدمت میں زندگی پوری کر دوں.تم ضرور جاؤ " " I.( الحکم کے جنوری ۱۹۱۱ء صفحہ ۵) ا حکم ہے.جنوری ۱۹۰۹ء کے صفحہ اول پر ایڈیٹر صاحب کا بیان ہے کہ انہوں نے سفر پر روانہ ہوتے وقت جماعت کے لئے پیغام پوچھا....حضرت خلیفہ اول نے فرمایا : باہمت واعظ مطلوب ہیں جو اخلاص و صواب سے وعظ کریں.عاقبت اندیش صرف اللہ پر بھروسہ کرنے والے دعاؤں کے قائل اور علم پر نہ گھمنڈ کرنے والے علماء ، مطلوب ہیں جن کو فکر لگی ہو کہ کیا کیا جاوے کہ اللہ راضی ہو.(الحکم ہے.اگست ۱۹۰۹ء صفحہ ۱ - ۲ ) کے
" ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الثانی O☆O☆O لنڈن کے مربی حضرت مولانا جلال الدین شمس کو نصائح دین کی دعوت " بھی کو ایک نہایت اعلیٰ درجہ کی نیکی ہے.لیکن " دعوت " کے ساتھ ایک نقص بھی لگا ہوا ہے اور وہ یہ کہ ہو سکتا ہے.ایک " داعی " لفاظی یا محض باتوں ہی باتوں میں الجھ کر رہ جائے اور حقیقت سے کوسوں دور ہو جائے.چونکہ اس کا واسطہ ہمیشہ ایسے لوگوں سے پڑتا ہے جن کے سامنے اس کا دل کھلا نہیں ہوتا بلکہ صرف زبان چلتی ہے اور وہ نہیں جانتے کہ اس کے دل میں نور ہے یا تاریکی.بلکہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ زبان کیسی ہے اور چونکہ وہ اس کی تعریفہ ، اور نشاء اس جو فور کی وجہ سے نہیں کرتے جو اس کے دل میں ہوتا ہے بلکہ محض زبان کی وجہ سے کرتے ہیں.جس سے انہیں کئی قسم کا 5 حاصل ہوتا ہے اس لئے آہستہ آہستہ اگر اس کا تعلق خدا تعالی سے کامل نہیں ہوتا اور اس کے دل کا نور ابھی مکمل نہیں ہو تا تو وہ اس بناء اور تعریف سے متاثر ہو کر اور زبان کی شیرینی سے مسحور ہو کر اس وسوسہ میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ یہی وہ چیز ہے جس کی مجھے ضرورت تھی.تب اس گھڑی سے اس کے دل کا نور سمٹنے لگتا ہے.اور سمٹتے سمٹتے اس کے قلب کے ایک گوشہ میں چھپ جاتا ہے.اور دل کے اس میدان میں جہاں روحانیت کی جگہ ہونی چاہئے تھی.جہاں آسمانی نور اور برکات کی جگہ ہونی چاہئے تھی.کبر اور معجب اپنا ڈیرہ جما لیتا ہے.پس میں اس وقت یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں.کہ ہماری جماعت اور دوسری جماعتوں میں جو فرق ہے.وہ یہی ہے کہ ہمیں یہ ہدایت کی گئی ہے.اور اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ہم لوگوں کے الفاظ کی طرف توجہ نہ رکھیں.بلکہ ہماری توجہ ہمیشہ اللہ تعالی کی طرف ہو.یاد رکھو! حقیقی حمد اور توصیف وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو کیونکہ دل کا نور ہی ہے جو انسانی قدر بڑھاتا ہے.اور اللہ تعالیٰ کی تعریف ہی ہے جو انسان کو اشرف مقام پر پہنچاتی ہے.پس جہاں دعوت میں انسان کو نیکیوں کے حاصل
1 کرنے اور اللہ تعالیٰ کے قرب میں بڑھنے کا موقعہ ملتا ہے وہاں ساتھ ہی ساتھ کبر اور عجب اور نفس کی بڑائی کا خیال بھی لگا رہتا ہے.اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب انسان تلوار کی دھار پر کھڑا ہوتا ہے.اور یہی وقت اس کے لئے پل صراط پر چلنے کا وقت ہوتا ہے.ہے.اس وقت اس کے اختیار میں ہوتا ہے کہ چاہے تو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر لے اور چاہے تو اس کی لعنت کا مستحق بن جائے.پس یاد رکھو! کہ وہ چیز جو تمہاری زبانوں پر جاری ہوتی ہے اس سے تمہارا امتحان نہیں لیا جائے گا.بلکہ وہ چیز جو تمہارے دل میں ہے اس سے تمہارا امتحان ہو گا.پھر تمہاری اس سے قدر نہیں بڑھے گی.جو تمہارے متعلق لوگ کہتے ہیں.بلکہ اس سے بڑھے گی.جو تمہارے متعلق خدا کہے.پس اگر دعوت کی برکات سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو اپنے قلوب کی اصلاح کرو.اللہ تعالیٰ کے سامنے بجز کے ساتھ جھکو اور اس کا فضل چاہو.اس کی تعریف اور توصیف پر بھروسہ کرو.اور اپنی زبان کے پھل پر خوش نہ ہو.اور ڈرو کہ بہت دفعہ اس کا پھل سخت زہریلا ہوتا ہے اور بجائے تریاق بننے کے انسان کے لئے زہر بن جاتا ہے.اور اپنا کمایا ہوا زہر مسلک ہوتا ہے.پس اس عظیم الشان کام کا بیڑا اٹھاتے ہوئے اس امر کو ہمیشہ مد نظر رکھو.ایسا نہ ہو کہ تم بجائے ترقی کرنے کے تنزل میں گر جاؤ.اخبار الفضل قادیان ۲۸ / جنوری ۱۹۳۲ء ) لنڈن کے مربی حضرت قاضی عبداللہ بی.اے.بیٹی کے نام - ۱۳ شهری هدایات) ا.آپ جس کام کے لئے جاتے ہیں وہ بہت بڑا کام ہے بلکہ انسان کا کام ہی نہیں.خدا کا کام ہے کیونکہ دل پر قبضہ سوائے خدا کے اور کسی کا نہیں ہے.دلوں کی اصلاح اس کے ہاتھ میں ہے.پس ہر وقت اس پر بھروسہ رکھنا.اور کبھی مت خیال کرنا کہ میں بھی کچھ کر سکتا ہوں.- دل محبت الہی سے پر ہو اور تکبر اور فخر پاس بھی نہ آئے جب کسی دشمن
١٢ سے مقابلہ ہو اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے آگے گرا دیں اور دل سے اس بات کو نکال دیں کہ آپ جواب دیں گے بلکہ اس وقت یقین کریں کہ آپ کو کچھ نہیں آتا.اپنے سب علم کو بھلا دیں لیکن اس کے ساتھ ہی یقین کریں کہ میرے ساتھ خدا ہے.وہ خود آپ کو سب کچھ سکھائے گا اور دعا کریں اور ایک منٹ کے لئے بھی خیال نہ کریں کہ آپ دشمن سے زیر ہو جاویں گے بلکہ تسلی رکھیں کہ حق کی فتح ہو گی.اور ساتھ ہی خدا کے غنا پر بھی نظر رکھیں.خوب یاد رکھیں وہ جو اپنے علم پر گھمنڈ کرتا ہے وہ دین الہی کی خدمت کرتے وقت ذلیل کیا جاتا ہے.اور اسکا انجام اچھا نہیں ہوتا.لیکن ساتھ ہی وہ جو خدمت دین کرتے وقت دشمن کے رعب میں آتا ہے.خدا تعالی اس کی بھی مدد نہیں کرتا.نہ گھمنڈ ہو نہ فخر ہو نہ گھبراہٹ ہو نہ خوف.متواضع اور یقین سے پر دل کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کریں پھر کوئی دشمن اللہ تعالٰی کی نصرت کی وجہ سے آپ پر غالب نہ آ سکے گا.اگر کسی ایسے سوال کے متعلق بھی آپ کا مخالف آپ سے دریافت کرے گا جو آپ کو معلوم نہیں تو خدا کے فرشتے آپ کی زبان پر حق جاری کر دیں گے.اور الہام کے ذریعے سے آپ کو علم دیا جائے گا.پس اس بات کو خوب یاد رکھیں اور یورپ کے علم سے گھبرائیں نہیں.جب ان کی عظمت دل پر اثر کرنے لگے تو قرآن کریم اور کتب حضرت مسیح موعود کا بغور مطالعہ کریں.ان میں سے آپ کو وہ علوم مل جائیں گے کہ وہ اثر جاتا رہے گا.آپ اس بات کو خوب یاد رکھیں کہ یورپ کو فتح کرنے جاتے ہیں نہ کہ مفتوح ہونے اس کے دعووں سے ڈریں نہیں کہ ان دعووں کے نیچے کوئی دلیل پوشیدہ نہیں.یورپ کی ہوا کے آگے نہ گریں بلکہ اہل یورپ کو اسلامی تہذیب کی طرف لانے کی کوشش کریں.- مگر یاد رکھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے.بشر و اولا تنفروا یعنی لوگوں کو بشارت دیتا.ڈرانا نہیں.ہر ایک بات نرمی سے ہونی چاہئے میرا اس سے مطلب یہ نہیں کہ صداقت کو چھپائیں اگر آپ ایسا کریں گے تو یہ اپنے کو تباہ کرنے کے یہا برابر ہو گا.حق کے اظہار سے کبھی نہ ڈریں میرا اس سے یہ مطلب ہے کہ یورپ بعض کمزوریوں میں مبتلا ہے.اگر عقائد صحیحہ کو مان کر کوئی شخص اسلام میں داخل ہونا چاہتا
۱۳ ہے لیکن بعض عادتوں کو چھوڑ نہیں سکتا تو یہ نہیں کہ اس کو دھکا دے دیں.اگر وہ اسلام کی صداقت کا اقرار کرتے ہوئے غلطی کے اعتراف کے ساتھ اس کمزوری کو آہستہ آہستہ چھوڑنا چاہے تو اس سے درشتی نہ کریں.خدا کی بادشاہت کے دروازوں کو بند نہ کریں.لیکن عقائد صحیحہ کے اظہار سے کبھی نہ جھجکیں جو حق ہو اسے لوگوں تک پہنچا دیں اور کبھی یہ خیال نہ کریں کہ اگر آپ حق بتائیں گے تو لوگ نہیں مانیں گے اگر لوگ خود نہ مائیں تو نہ مانیں لوگوں کو ایمان دار بنانے کے لئے آپ خود بے ایمان کیوں ہوں.کیا احمق ہے وہ انسان جو ایک زہر کھانے والے انسان کو بچانے کے لئے خود زہر کھالے سب سے اول انسان کے لئے اپنے نفس کا حق ہے پس اگر لوگ صداقت کو سن کر قبول نہ کریں تو آپ نفس کے دھوکے میں نہ آئیں کہ آؤ میں قرآن کریم کو ان کے مطلب کے مطابق بنا کر سناؤں ایسے مسلمانوں کا اسلام محتاج نہیں.یہ تو مسیحیت کی فتح ہو گی نہ کہ اسلام کی.جس نقطہ پر آپ کو اسلام کھڑا کرتا ہے اس سے ایک قدم آگے پیچھے نہ ہوں اور پھر دیکھیں کہ فوج در فوج لوگ آپ کے ساتھ ملیں گے.وہ شخص جو دوسرے کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے حق چھوڑتا ہے.دشمن بھی اصل واقع پر اطلاع پانے پر اس سے نفرت کرتا ہے.کھانے پینے میں اسراف اور تکلف سے کام نہ لیں بے شک خلاف دستور بات دیکھ کر لوگ گھبراتے ہیں لیکن ان کو جب حقیقت معلوم ہو اور وہ سمجھیں کہ یہ سب اتقاء کی وجہ سے نہ کہ غفلت کی وجہ سے ہے تو ان کے دل میں محبت اور عزت پیدا ہو جاتی ہے.ہمیشہ کلام نرم کریں اور بات ٹھہر ٹھہر کر کریں جلدی سے جواب نہ دیں اور ٹالا نہ کریں.اخلاص سے سمجھائیں.اور محبت سے کلام کریں اگر دشمن سختی بھی کرے تو نرمی سے پیش آویں ہر انسان کی خواہ کسی مذہب کا ہو خیر خواہی کریں حتی کہ اسے معلوم ہو کہ اسلام کیا پاک مذہب ہے.
۱۴ - جو لوگ آپ کے ذریعہ ہدایت پاویں ( انشاء اللہ ) ان کی خبر رکھیں جس طرح گڈریا اپنے محلے کی پاسبانی کرتا ہے انکی پاسبانی کریں ان کی دینی یا دنیاوی مشکلات میں مدد کریں ہر ایک تکلیف میں ہر اتلا میں محبت سے شریک ہوں ان کے ایمان کی ترقی کے لئے دعا کریں.- قرآن کریم اور احادیث کا کثرت سے مطالعہ کریں حضرت مسیح موعود کی کتب سے پوری واقفیت ہو.مسیحی مذہب کا کامل مطالعہ ہو.فقہ کی بعض کتب زیر نظر رہیں کہ وہ نہایت ضروری کام ہے.آخر وہاں کے لوگوں کو ہی مسائل بتانے پڑیں گے.-۱۰ اگر کوئی تکلیف ہو خدا تعالیٰ سے دعا کریں اگر کوئی بات دریافت کرنی ہو اور فوری جواب کی ضرورت ہو خط لکھ کر ڈال دیں اور خاص طور پر دعا کریں.تعجب نہ کریں اگر خط کے پہنچتے ہی یا پہنچنے سے پہلے ہی جواب مل جائے خدا کی قدرت وسیع اور اس کی طاقت بے انتہا ہے اپنے اندر تصوف کا رنگ پیدا کریں.کم خوردن.کم گفتن.کم خفتن عمدہ نسخہ ہے.- تجد ایک بڑا ہتھیار ہے.یورپ کا اثر اس سے محروم رکھتا ہے کیونکہ لوگ ایک بجے سوتے ہیں آٹھ بجے اٹھتے ہیں آپ عشاء کے ساتھ سو جائیں.دعوت الی اللہ میں حرج ہو گا لیکن یہ نقصان دوسری طرح خدا تعالی پورا کر دے گا.دین کو سننے والے لوگ آپ کی طرف کھنچے چلے آئیں گے چھوٹے چھوٹے گاؤں میں غریبوں اور زمینداروں کو اور محنت پیشہ لوگوں کو جا کر وعظ کریں یہ لوگ حق کو جلد قبول کریں گے اور جلد اپنے اندر روحانیت پیدا کریں گے کیونکہ نسبتا بہت سادہ ہیں.۱۲ گاؤں کے لوگ حق کو مضبوطی سے قبول کیا کرتے ہیں کسی چھوٹے گاؤں میں کسی سادہ علاقہ میں لندن سے دور جا کر کہیں ایک دو ماہ رہین اور دعاؤں سے کام لیتے ہوئے وعظ کریں پھر اس کا اثر دیکھیں.یہ لوگ سختی بھی کریں گے لیکن سمجھیں اور خوب سمجھیں گے.ان کی سختی سے گھبرائیں نہیں.بیمار کبھی خوش ہو کر دودھ نہیں پیتا.۱۳.ہمیشہ بڑے کام مجھ سے پوچھ کر کریں.اللہ تعالٰی آپ کے ساتھ ہو اور ہر ، ایک شر سے محفوظ رکھے.اور اعمال صالحہ کی توفیق بخشے زبان میں اثر پیدا کرے کامیابی کے ساتھ جاویں اور کامیابی سے واپس آئیں.الفضل ۷ ستمبر ۱۹۱۵ء )
۱۵ ماریشس کے مربی حضرت صوفی غلام محمد صاحب کو نصیحت اول اللہ تعالٰی سے جو رحمن ہے رحیم ہے دعاؤں پر زور دیں دعا ہے کہ وہ آپ کا نگران ہو.مشکل میں کام آئے تمام مصائب سے بچائے خیر و عافیت سے منزل مقصود تک پہنچائے راستہ میں بھی مددگار ہو.وہاں بھی معاون ہو روح القدس سے آپ کی تائید کرے.ضرورت کے وقت خود الہام سے آپ کو حق و حکمت پر آگاہ فرمائے یہاں آپکے عزیز و اقارب سب خیر و عافیت سے رہیں اور آپ کامیاب و مظفر و منصور واپس آئیں اسلام کی صداقت آپ کے ہاتھ سے ظاہر ہو احمدیت کی ترقی ہو تقوی نصیب ہو.جلال الہی اصل شے ہے اس کا اظہار ہو اللهم آمين - اللهم آمين - اللهم آمين - بيدك الخير وانت علی کل شی ء قدیر سفر میں حضر میں دعا پر بہت زور دیں گاڑی میں بیٹھے ہوئے شہر میں داخل ہوتے ہوئے دعا کریں (اللهم رب السموات....الى آخره فساد کے مقام سے بچیں.حق کہنے سے نہ رکیں..- احمدیت کی دعوت " اول مدعا ہو اس وقت دین حق یہ ہے.اس کے باہر کوئی شے نہیں دین حق احمدیت سے علاوہ نہیں.دین حق اور احمدیت ایک ہی ہے.عاؤں پر زور دیں اور استخارہ کی عادت ڈالیں لوگوں کو تقویٰ کی تعلیم دیں.احکام قرآنی کی پابندی پر زور دیں.بتائیں کہ باوجود قرآن کے ماننے کے مسیح موعود کی اطاعت کی کیا ضرورت ہے.اپنے اندر ایک نیک تبدیلی پیدا کریں ایک آدمی کا ہدایت پانا دنیا و مافیہا سے زیادہ ہے جسے ایسا عمدہ موقعہ ملے اسے اور کیا چاہئے ؟ ہاں وقت کو مفید کرنے کے لئے دعا سے کام لیں ، اللہ تعالٰی مومن کی ایک گھڑی کو سالوں سے زیادہ مفید کر دیتا ہے.غرض دعا اور تقوی اللہ دونوں ہتھیار ہیں جو آپ کے ہاتھ میں ہوں تو کوئی دشمن مقابلہ نہیں کر سکتا.آپ ایسا نمونہ دکھا نیکی کوشش کریں کہ لوگ آپ کی بات ماننے کے لئے تیار ہوں صحابہ ست زبانیں نہیں جانتے تھے لیکن ان کے عمل کو دیکھ کر دنیا اسلام پر فدا ہو گئی.( احکام کے مارچ ۱۹۱۵ء )
۱۶ طلبہ جامعہ احمدیہ کو پر حکمت نصائح " قرآن کریم سے صراحتاً معلوم ہوتا ہے کہ ایک خاص جماعت کو دین کی خدمت کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ولتكن منكم انت يدعون الى الخير ويامرون بالمعروف وينهون عن المنكر و اولئك هم المفلحون (سوره آل عمران (١١) است ع (۱) اور دوسری طرف فرماتا ہے کنتم خیر امة اخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنهون عن المنکر کہ سارے مومنوں کا فرض ہے کہ دعوت الی الخیر کریں تو ایک خاص جماعت کا ہونا ضروری ہے اور یہ لازمی چیز ہے.کوئی فوج اس وقت تک کامیاب نہیں جب تک اس کا ایک خاص حصہ کام کے لئے مخصوص نہ ہو.تمام نیچر میں یہی بات نظر آتی ہے کہ ایک ذرہ مرکزی ہوتا ہے.مذہبی دعوت کے لئے بھی ایک ایسا مرکز ہونا چاہئے جو اپنے ارد گرد کو متاثر کر سکے اور دوسرں سے صحیح طور پر کام لے سکے.میں غرض داعیان الی اللہ کی ہے.لیکن عام طور پر خود داعیان نے بھی ابھی تک اس بات کو نہیں سمجھا.وہ سمجھتے ہیں کہ وہ احمدیت کے سپاہی ہیں اور کام انہیں خود کرتا ہے.مگر جو یہ سمجھتا ہے وہ سلسلہ کے کام کو محدود کرتا ہے.ہمارا یہ مقصد نہیں کہ علماء مباحثات کے لئے پیدا کریں بلکہ علماء کی غرض یہ ہے کہ وہ آفیسر کی طرح ہوں جو کام لیں.اس گڈریے کی طرح جس کے ذمہ ایک گلے کی حفاظت کرنا ہوتی ہے.جب تک ہمارے داعیان یہ نہ سمجھیں اس وقت تک ہمارا مقصد پورا نہیں ہو سکتا.دائی کے معنے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ غیروں کو مخاطب کرنے والا.مگر صرف یہ معنے نہیں بلکہ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ غیروں کو مخاطب کرانے والا.رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے بڑھ کر کون راضی الی اللہ ہو سکتا ہے ؟ مگر آپ کس طرح وعظ کیا کرتے تھے ؟ اس طرح کہ شاگردوں سے کراتے تھے.صحابہ میں آپ نے ایسی روح پھونک دی کہ انہیں اس وقت تک آرام نہ آتا تھا جب تک خدا تعالی کی باتیں لوگوں میں نہ پھیلا لیں.
14 پھر صحابہ نے دوسروں میں یہ روح پھونکی اور انہوں نے اوروں میں.اور اس طرح یہ سلسلہ جاری رہا حتی کہ مسلمانوں نے اس بات کو بھلا دیا تب خدا تعالیٰ نے اس روح کو دوبارہ پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود کو بھیجا.اس طرح بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہی دعوت الی اللہ کر رہے ہیں.پس علماء کا کام یہ ہے کہ وہ ایسے لوگ پیدا کریں جو دوسروں کو دعوت الی اللہ کرنے کے قابل ہوں.وہ خدمت گزاری اور شفقت علی الناس کا خود نمونہ ہوں اور دوسروں میں یہ بات پیدا کریں..ان کا کام تقریر کرنا ہی نہیں بلکہ لوگوں کے اخلاق کی تربیت ہے انہیں دعوت کرنے کے قابل بنانا ہے اور پھر وہ اپنا تصنیف کا شغل ساتھ رکھیں.جہاں جائیں لکھنے پڑھنے میں مصروف رہیں.کوئی ادبی مضمون لکھیں ، کسی مسئلے کے متعلق تحقیقات کریں ، ضروری حوالے نکالیں ، تاریخی امور جمع کریں تو پھر ان کے متعلق یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ فارغ رہتے ہیں.یہ تاریخی مختلف کام ہیں جن کی طرف ہمارے داعیان الی اللہ کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے.اگر کوئی داعی کہیں جاتا اور وہاں تصنیف کا شغل بھی جاری رکھتا تو لوگ یہ نہ کہتے کہ وہ فارغ رہا بلکہ یہی کہتے کہ لکھنے میں مصروف رہا.مگر داعیان کو اس طرف توجہ نہیں اور یہی وجہ ہے کہ تصنیف کا کام نہیں ہو رہا....جو آئندہ والی بننے والے ہیں....میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ وہی طریق اختیار نہ کریں جو ان سے پہلوں نے کیا اور جس کی وجہ سے نو حصے کام ضائع ہوا اور صرف ایک حصہ ہو رہا ہے.اس طرح جماعت کی ترقی نہیں ہو سکتی.کیونکہ جو داعیان اپنے اوقات کی حفاظت نہیں کرتے انہیں صحیح طور پر صرف نہیں کرتے وہ جماعت کے لئے ترقی کا موجب نہیں بن سکتے.جو لوگ آئندہ دائی بننے والے ہیں وہ اپنے اوقات کی پوری طرح حفاظت کرنے کا تیہ کر لیں.ان کا کام صرف اپنے منہ سے دعوت کرنا نہیں بلکہ دوسروں کو دینی مسائل سے آگاہ کرنا.ان کے اخلاق کی تربیت کرنا ان کو دین کی تعلیم دینا ان کے سامنے نمونہ بن کر قربانی اور ایثار سکھانا اور انہیں دعوت کے لئے تیار کرنا ہے.گویا ہمارا ہر ایک داعی جہاں جائے وہاں دینی اور اخلاقی تعلیم کا کالج کھل جائے.کچھ دیر تقریر کرنے اور لیکچر دینے کے بعد اور کام کئے جا سکتے ہیں مگر متواتر بولا نہیں جا سکتا کیونکہ گلے سے زیادہ کام
نہیں لیا جا سکتا.مگر باقی قوی سے کام لئے جاسکتے ہیں...پس میں داعیان الی اللہ کو یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے اپنا کام جو سمجھا ہوا ہے وہ ان کا کام نہیں ہے.یہ بہت چھوٹا اور محدود کام ہے.....الدائی کا کام یہ ہے کہ جماعت کو دعوت کا کام کرائے.اس طرح خدا تعالی کے فضل سے ہماری جماعت کی ترقی ہو سکتی ہے ، پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ سکتی ہے.اسی طرح جماعت کی تربیت کی طرف داعیان کو توجہ کرنی چاہئے.جماعت کے بیکاروں کے متعلق تجاویز سوچنی چاہئیں.بیاہ شادیوں کی مشکلات کو حل کرنے کے لئے جد وجہد کرنی چاہئے.غرض جس طرح باپ کو اپنی اولاد کے متعلق ہر بات کا خیال ہوتا ہے اسی طرح داعیان کو جماعت سے متعلق ہر بات کا خیال ہونا چاہئے کیونکہ و جماعت کے لئے باپ یا بڑے بھائی کا درجہ رکھتے ہیں.( الفضل ۲۱ نومبر ۱۹۳۵ء ) لنڈن کے مربی حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد کے نام اے خدا! ! جس نے اپنے فضل سے دین حق کو انسان کی ہدایت کے لئے نازل کیا اور پھر جب لوگوں نے اس سے منہ پھیر لیا اور اس کی ہدایت کو بھلا دیا تو پھر انکی آنکھیں کھولنے کے لئے اور ان کو نور بخشنے کے لئے مسیح موعود کو نازل فرمایا.میں تیری زبر دست طاقتوں اور تیرے بے انتہاء رحم سے مدد مانگتے ہوئے تجھ سے عاجزانہ طور پر عرض کرتا ہوں اور التجاء کرتا ہوں.ان کو محنت اور شوق اور عقل سے کام کرنے کی توفیق عطا فرما اور ان کی محنت کو قبول فرما خواہ وہ کتنی ہی حقیر کیوں نہ ہو اور اس کے نیک ثمرات پیدا کر جو سب بلکہ گردا گرد کے ملکوں کو بھی تیری برکتوں سے بھر دیں.اے میرے رب ! ایسا کر کہ ان کا عمل اور ان کا قول اور ان کا فکر اور خیال بھی تیری مرضی اور تیرے منشاء کے خلاف نہ ہو بلکہ ان کا عمل اور ان کا خیال اور ان کا قول تیرے ارادہ اور تیرے حکم کے مطابق ہو.وہ دین حق کو سمجھیں اور اس کے مطابق عمل کریں اور اس کے مطابق
19 لوگوں کو تعلیم دیں اور لوگوں کے خوف سے دین حق کے کسی حکم کو نہ چھپائیں ، نہ اس کے کسی حکم کی شکل کو بدلیں.لیکن یہ بھی نہ ہو کہ وہ لوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہوں اور ان کو ایسی سختی میں ڈالیں جو ان کی برداشت سے بڑھ کر ہو اور بے ضرورت ہو اور تیری خوبصورت ہدایات کو جو انسانی دلچسپی کو اپنی طرف کھینچ لینے والی ہیں ایسی ، صورت میں پیش کریں کہ وہ لوگوں کو بری نظر آویں اور ان کے دلوں میں داخل نہ ہوں ا بلکہ نفرت پیدا کریں.اے خدا ! تو ان کو ایسے مخلصین کی جماعت عطا فرما جو ان کے کاموں میں ان کی مدد گار ہو اور ان کا ہاتھ بٹانے والی ہو اور دین کے لئے ہر قسم کی قربانیوں کے لئے مستعد ہو اور تیرے احکام کی تعمیل اور ان کی اشاعت میں دلی خوشی محسوس کرتی ہو.اور تو اس جماعت کو دین کی اشاعت کے کام میں ہمارے داعیان کے لئے دایاں بازو بنا.اور ان کی کوششوں میں برکت دے اور ان کے حق میں بھی وہ دعائیں سن جو میں نے داعیان کے حق میں کی ہیں.اے میرے رب ! ہمارے داعیان کے متعلق لوگوں کے دلوں میں محبت اور اخلاص پیدا کر اور ان سے تعاون کی خواہش پیدا کر اور ہمارے داعیان کے دلوں میں ان لوگوں کے متعلق جن میں وہ کام کرتے ہیں محبت پیدا کر.اور اخلاق پیدا کر ان کو ہر قسم کے الزامات سے پاک رکھ اور انکی عزت کو محفوظ رکھ.اے میرے خدا ! داعیان کے دلوں میں ایک دوسرے کی نسبت بھی محبت کے جذبات پیدا کر اور جن کی فرمانبرداری ضروری ہے ان کی فرمانبرداری کی ان کو توفیق دے اور جن کے احساسات کا خیال رکھنا مناسب ہے ان کے احساسات کا خیال رکھنے اور محبت اور نرمی کا سلوک کرنے کی ان کو توفیق عطا فرما.اے میرے رب ! وہ اندر اور باہر سے ایک ہوں اور محبت اور پیار اور یگانگت اور اتفاق کا مجسمہ ہوں.اے خدا تو ایسا ہی کر.اما بعدہ مندرجہ ذیل نصیحیں کام کے متعلق مختصر الفاظ میں کرتا ہوں کو اصل ہدایتیں میری دعائیں ہی ہیں جو میں اوپر کر آیا ہوں.
۲۰ - ظاہر کا اثر باطن پر پڑتا ہے اس لئے داعی الی اللہ کو غسل کرنے.بالوں کے درست کرنے اور درست رکھنے کا اور لباس کو صاف رکھنے کا خیال رکھنا چاہئیے.جمعہ کے دن عطر لگانا چاہئے منہ کی صفائی کا بھی خیال رکھنا چاہئے.مکان کو صاف رکھنا چاہئے.باہر سے بھی اور اندر سے بھی.ہر اک چیز با قرینہ ہو اور ترتیب سے ہو.- خانہ خدا کی صفائی کا خاص خیال رکھا جائے اور ہمیشہ جمعہ کے دن وہاں خوشبو جلائی جائے.جلسوں کے موقعوں پر بھی خوشبو کی بتیاں جلائی جاویں.- دعاؤں پر خاص طور پر زور دینا چاہیے کہ یہ سب کام کی جان ہیں.- اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ احمدی زیادہ آپس میں ملیں اور بہ زیادہ سلسلہ کے کاموں میں دلچسپی لیں.چندہ بھی دیں اور کام بھی کریں.اس امر کا خیال رکھنا کہ وہ بلا وجہ مربی سے ناراض نہ ہوں اور ان سے کاموں کے متعلق مشورہ لیتے رہنا چاہیے." دعوت " قبول کرنے والے کی طرف خاص توجہ کرنی چاہیے.ہمیشہ ان سے ایسا تعلق رہے کہ وہ یہ محسوس کریں کہ یہ ہمیں اپنا سمجھتے ہیں.بیمار کی عیادت.تکلیف زدہ کی مدد.خوشی اور غمی میں شراکت ضرور کرنی چاہیے.بغیر اس کے کہ وہ لوگ مضبوط ہوں اسلام ان ممالک میں مضبوط نہ ہو گا.”دعوت“ میں کامیابی کا ایک گر ( تحریک جدید ستمبر ۶۱۹۷۰ ) ہر احمدی " دعوت الی اللہ " کے لئے وقف کرے.اپنے ضلع کے کسی مقام پر جانے کے لئے اگر ایک دن جانے اور ایک دن آنے کا رکھ لیا جائے.تو ۱۳ دن قیام کے لئے نکل سکتے ہیں اور اس عرصہ میں ایک گاؤں میں رہ کر بہت کچھ سنایا جا سکتا ہے.اور خدا کے فضل سے اس کا نیک نتیجہ نکل سکتا ہے اگر تمہیں چالیس آدمی پاس پاس کے تمھیں
۲۱ چالیس گاؤں میں پندرہ دن کے لئے پھیلا دئے جائیں.تو ایسی زیر دست تحریک پیدا ہو سکتی ہے.کہ بہت سے لوگوں کے لئے اس کا مقابلہ کرنا مشکل ہو جائے.دعوت الی اللہ میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے یہ بات مد نظر ہونی چاہیئے کہ مخالف کو ہدایت دینی ہے.اگر یہ مد نظر نہ رہے تو گو بحث و مباحثہ میں فتح تو ہو گی.مگر وہ حقیقی فتح نہیں ہو گی.مثلا یہ ایک موٹی مثال ہے عیسائی کہتے ہیں.ہمارے مذہب کی تعلیم ہے.اگر تمہارے ایک گال پر کوئی تھپڑ مارے.تو دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دو اب اگر کسی عیسائی سے بحث ہو رہی ہو اور بحث کرنے والا عیسائی مناظر کے منہ پر تھپڑ مار دے اور جب وہ اعتراض کرے.تو کہے کیا یہی تمہاری تعلیم ہے.اس وقت اگر لوگ سنجیدگی اور متانت کو چھوڑ کر بحث منے میں مشغول ہوں گے تو کہیں گے.کیسی عمدہ دلیل ہے.مگر عیسائی جس سے اس لئے بحث کی جا رہی ہو گی کہ وہ حق قبول کرنے والا ہو جائے وہ حق قبول کرنے والا نہیں ہو گا.کیونکہ اس کی توجہ اس دلیل کی طرف نہیں ہو گی بلکہ اس تھیڑ کی طرف ہو گی جو اس کو مارا گیا.اس درد کی طرف ہو گی جو اسے ہو رہا ہو گا.اس ذلت کی طرف ہو گی جو اسے پہنچائی گئی تو بعض دلیلیں زیادہ زبردست اور موثر ہوتی ہیں.دوسروں کے لئے.مگر جن کو ہدایت کی طرف لانا مقصود ہوتا ہے.ان کے لئے نہیں ہوتیں انکی بجائے معمولی بات ان کے لئے موثر ہو جاتی ہے.پس دعوت کے لئے نکلتے وقت ہمارے ہر ایک داعی کو یہ بات پہ نظر ہونی چاہیے کہ لوگوں کو ہدایت کی مد طرف لانا ہے نہ کہ بحث کرتی ہے.اس کے لئے تمہارا چپ رہتا یا نرمی سے بولنا یا کم بولنا اگر مفید ہو سکتا ہے تو وہ ہزار درجہ بہتر ہے یہ نسبت بولنے یا زیادہ بولنے یا زور سے بولنے کے جو صرف لوگوں کے لئے لذت کا باعث ہو اور کسی کو ہدایت کی طرف لانے میں کر نہ ہو.جب تمہارے اندر یہ چند یہ احساس اور یہ خواہش پیدا ہو جائے گی کہ ہمارا کام جذ دوسروں کو ہدایت دینا اور راہ راست پر لانا ہے تو تمہاری معمولی معمولی باتیں ان کے لئے نہایت موثر اور مفید ثابت ہوں گی.پس دعوت الی اللہ میں کامیابی کے لئے اپنے دل اور قلب میں یہ احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ لوگ ہدایت پا جائیں.دیکھو نبی جو کامیاب ہوتے ہیں وہ بحثوں سے
۲۲ نہیں ہوتے.حضرت مسیح موعود کہاں ہر جگہ بخشیں کرتے پھرتے تھے بلکہ انبیاء کو ان کا احساس کامیاب کرتا ہے قرآن کریم میں خدا تعالیٰ رسول کریم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی نسبت فرماتا ہے.لعللک باخع نفسك الايکونو امو منين - محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) میں یہ جوش کہ لوگ مومن بن جائیں.اس قدر بڑھ گیا ہے کہ قریب ہے اپنی جان کو نقصان پہنچا لیں.اس سے اندازہ لگا لو کہ آپ کے دل میں کس قدر درد پیدا ہو گیا تھا.دعوت الی اللہ میں کامیابی کا گر یہی ہے کہ انسان اس درد کو لے کر نکلے.اور یہ عزم ہو کہ لوگوں کو منوالیتا ہے.جب کوئی اس طرح نکلتا ہے تو بڑی بڑی باتیں منوا لیتا ہے.اور جو لوگ اس رنگ میں نکلتے ہیں.ان کے متعلق دیکھا گیا ہے کہ ان کے ذریعہ عالموں کی نسبت جن کے مباحثوں میں لوگ واہ واہ کرتے ہیں زیادہ احمدیت میں داخل ہوئے ہیں.پس جب داعی کے دل میں یہ احساس ہو کہ کیوں لوگ حق کی طرف نہیں آتے کیوں گمراہ ہیں.اس میں کامیاب ہو گا.دعوت میں کامیابی کا یہ ایک بنی گر ہے اس کے بعد کسی نصیحت کی ضرورت نہیں.باقی میحیں تو ہوتی رہتی ہیں.کیلو خدا پر بھروسہ اور بے سرو سامانی الفضل ۲۹ جنوری ۱۹۲۲) پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں.کہ وہ بغیر سامان لئے دنیا میں دعوت الی اللہ کے لئے نکل پڑیں اور جس طرح سے بھی ہو.وہ ان علاقوں تک پہنچیں اور دعوت الی اللہ کریں تاکہ پھر دین حق کے روشن ہونے کے دن آئیں.اس قسم کے لوگ اگر ہمارے را ہوئے.تو میں سمجھتا ہوں کہ بڑی سرعت کے ساتھ دین حق دنیا میں پھیل جائے گا ایسے طریق پر دعوت کے لئے نکلنے کے واسطے صرف ہمت کی ضرورت ہے.ایک دفعہ اگر انسان ہمت باندھ لے تو پھر اسے کوئی کام مشکل تمہیں معلوم ہوتا.دیکھو دنیا میں اکثر مذہب اسی طرح پھیلے ہیں.عیسائیت اسی طرح پھیلی ہے.پھر اسلام بھی اسی طرح پھیلا ہے.اور اب احمدیت بھی اسی طرح قائم ہوئی ہے.اور ہماری جماعت میں بہت سے دوستوں نے قربانیاں کی ہیں.
۲۳ دین حق کے لئے قربانیوں کی ضرورت پس اگر پہلے لوگ بھی قربانیاں کر سکتے تھے.اور ہماری جماعت میں سے بہت سے دوست قربانیاں کر چکے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے دوسرے بھائی ایسی قربانیاں نہ کر سکیں.جبکہ ان قربانیوں سے ثواب الگ ملے گا.اور تاریخوں میں نام الگ روشن ہو گا دنیاوی عزتیں بھی قربانیوں کے بعد ملتی ہیں.اور دینی عزتیں بھی قربانیوں سے ہی حاصل ہوتی ہیں.پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بہت جلد تیار ہو جائیں تاکہ ہم ان کو ان ممالک میں بھیج دیں جہاں اس وقت زیادہ ضرورت ہے.اور جو زیادہ تڑپ رہے ہیں.اللہ تعالی ہمیں توفیق دے کہ ہم بہت جلد حق کو تمام لوگوں تک پہنچا دیں.اور دین حق کو دنیا میں پھیلا دیں.داعیان الی اللہ کے لئے پندرہ ذریں نصائح الفضل نے مارچ ۱۹۷۳ء ) ا دعوت میں تزکیۂ نفس سے غافل نہ ہو : سب سے پہلے داعی الی اللہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ تزکیہ نفس کرے.صحابہ کی نسبت تاریخوں میں آتا ہے.جنگ یرموک میں دس لاکھ عیسائیوں کے مقابل میں ساٹھ ہزار صحابہ تھے قیصر کا داماد اس فوج کا کمانڈر تھا.اس نے جاسوس کو بھیجا کہ مسلمانوں کا جا کر حال دریافت کرے.جاسوس نے آکر بیان کیا کہ مسلمانوں پر کوئی فتح نہیں پا سکتا.ہمارے سپاہی لڑ کے آتے اور کمریں کھول کر ایسے سوتے ہیں.کہ انہیں پھر ہوش بھی نہیں رہتی.لیکن مسلمان باوجود دن کو لڑنے کے رات کو گھنٹوں کھڑے رہ رہ کر دعائیں مانگتے ہیں.خدا کے حضور گرتے ہیں.یہ وہ بات تھی جس سے صحابہ نے دین کو قائم کیا.باوجود تھکے ماندے ہونے کے بھی اپنے نفس کا خیال رکھا.بعض دفعہ انسان اپنے فریضہ دعوت میں ایسا منہمک ہو جاتا ہے کہ پھر اسے نمازوں کا بھی خیال نہیں رہتا.ایسا نہیں ہونا چاہئے ہر.
۲۴ ور - ایک چیز اپنے اپنے موقعہ اور محل کے مطابق اور اعتدال کے طور پر ہی ٹھیک ہوا کرتی ہے.لوگوں کی بھلائی کرتے ہوئے یہ نہیں ہونا چاہئے کہ انسان اپنی بھلائی سے بے فکر ہو جائے.پس ضروری ہے کہ وہ اپنا تزکیۂ نفس کرے قرآن شریف کا مطالعہ کرے پھر اپنے نفس کا مطالعہ کرے." دعوت الی اللہ " بہت عمدہ کام ہے.مگر دعوت الی اللہ " کرنے میں بھی انسان کے دل پر زنگ لگتا ہے.کبھی اگر تقریر اچھی ہو گئی.اپنے مقابل کے مباحث کو ساکت کر دیا تو دل میں ضرور آگیا اور کبھی اگر تقریر اچھی نہ ہوئی لوگوں کو پسند نہ آئی تو مایوسی ہو گئی اور کبھی یہ ایک دلیل دیتا ہے.دل ملامت کرتا ہے کہ تو رہو کہ وے رہا ہے اس قسم کی کئی باتیں ہیں جو دل پر زنگ لاتی ہیں.حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم جب کسی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے.تو آپ استغفار پڑھ لیا کرتے تھے.حالانکہ آپ اعلیٰ درجے کے انسان تھے اور آپ کی مجلس میں بھی نیک ذکر ہو تا تھا یہ اس لئے تھا کہ آپ ہمارے لئے ایک نمونہ تھے.یہ ہمیں سکھایا جاتا تھا کہ ہم ایسا کیا کریں کہ جب کسی مجلس میں بیٹھیں تو استغفار کرتے رہیں.اس لئے کہ کسی قسم کا ہمارے دل پر زنگ نہ بیٹھے.اس لئے ذکر الہی پر زیادہ زور دینا چاہیئے.نماز وقت پر ادا کرنی چاہئے..- تہجد کی نماز تہجد کی نماز داعی الی اللہ کے لئے بہت ضروری ہے قرآن شریف میں آتا ہے.یا ایها المزمل قم الليل الا قليلا نصفه او نقص منه قليلا اوزد علیہ و رتل القرآن ترتیلا دان کے تعلقات سے جو زنگ آتے ہیں وہ رات کو کھڑے ہو کر دعائیں مانگ مانگ کر خشوع خضوع کر کے دور کرنے چاہئیں.-۳ روزہ روزہ بھی بڑی اچھی چیز ہے.اور زنگ کے صیقل کرنے کے لئے بہت عمدہ آلہ ہے.صحابہ بڑی کثرت سے روزے رکھتے تھے.روزہ انسان کی حالت کو خوب صاف کرتا ہے جہاں تک توفیق مل سکے روزہ رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے.بعض ایسے مواقع تلاش کرے.جن میں کسی سے کلام نہ کرے.خاموش ہو کر بیٹھے خواہ یہ وقت پندرہ میں منٹ ہی ہو.بہت وقت نہ سہی مگر کچھ وقت ضرور ہونا چاہئے تاکہ
۲۵ خاموشی میں ذکر کرے.دعوت ہو.ذرا فراغت ہوئی تو ذکر ابھی کرے.اس کے لئے یہ بہت مفید وقت ہے.سورج نکلنے سے پہلے صبح کی نماز کے بعد پھر سورج ڈوبنے کے قریب پھر نماز عشاء کے بعد اور نو بجے دن سے لے کر دس بجے دن تک کسی وقت کر لینا چاہئے.یہ اپنے نفس کی اصلاح ہے.مطالعہ و خرید کتب دعوت کے کام میں مطالعہ بہت وسیع چاہیے بعض دفعہ اجڈ گنوار آدمی اگر کچھ سناتے ہیں اور بہت لطیف بات ہوتی ہے.سلسلے کی کتابوں کا مطالعہ رہے.حضرت صاحب کی کتابیں اور پھر دوسرے آدمیوں کی کتابیں.اتنی اتنی دفعہ پڑھو کہ فورا حوالہ ذہن میں آجائے.ایک مرض مولویوں میں ہے یاد رکھو.مولوی کبھی کتاب نہیں خریدتے اس کو لغو پا اسراف سمجھتے ہیں شاذو نادر.زیادہ سے زیادہ مشکواۃ رکھ لی.اور ایک کافیہ رکھ لیا لیکن انسان کے لئے جہاں رہ اور بہت سے چندے دیتا ہے.کتاب خرید نا نفس کے لئے چندہ ہے.کچھ نہ کچھ ضرور کتاب کے لئے بھی نکالنا چاہئے خواہ سال میں آٹھ آنہ ہی کی کتاب خریدی جائے یہ کوئی ضروری نہیں کہ لاکھوں کی ہی کتابیں خریدی جائیں.بلکہ جس قدر خرید کر سکے خریدے یہ اس لئے کہ خریدنے والا پھر اس کتاب کا آزادی سے مطالعہ کر سکے گا.اور اس طرح اس کے علم میں اضافہ ہو گا.فراست بڑھے گی.-۵ سوال و خوشاء کی عادت نہ ڈالو : پھر نفس کے لئے لجاجت خوشاید سوال کی عادت نہیں ہونی چاہئے.حضرت مسیح موعود کو الہام ہوا تھا کہ تیرے پاس ایسا مال لایا جائے گا کہ مال لانے والوں کو الہام ہو گا.کہ مسیح موعود کے پاس لے کر جاؤ.پھر وہ مال آتا تھا.کوئی کہتا تھا.کہ حضور مجھے فلاں بزرگ نے آکر خواب میں کہا اور کوئی کہتا تھا.حضور مجھے النام ہوا.اللہ پر توکل کرو.وہ خود تمہارا کفیل ہوگا : میرا اپنا تجربہ ہے.
ง کہ جب ضرورت ہوتی ہے.تو خدا تعالیٰ کہیں نہ کہیں سے بھیج دیتا ہے.خدا تعالی خود ا لوگوں کے دلوں میں تحریک کرتا ہے جو دو سروں کا محتاج ہو.پھر اس کے لئے ایسا نہیں ہوتا.ہاں اللہ تعالی پر کوئی بھروسہ کرے.تو پھر اللہ تعالیٰ اس کے لئے سامان پیدا کرتا ہے.حضرت مولوی صاحب بنایا کرتے تھے.کہ ایک دفعہ مجھے کچھ ضرورت پیش آئی میں نے نماز میں دعا مانگی.مصلی اٹھانے پر ایک پونڈ پڑا تھا.میں نے اسے لے کر اپنی ضرورت پر خرچ کیا.تو خدا تعالی خود سامان کرتا ہے.کسی کو الہام کرتا ہے.کسی کو خواب دکھاتا ہے.اس طرح اس کی ضرورت پوری کرتا ہے.لیکن کبھی اس طرح پر بھی ہوتا ہے.کہ وہ ضرورت ہی نہیں رہتی ابتدائی مرحلہ یہ ہے.کہ اس کی ضروریات ہی نہیں بڑھتیں.اور اگر ضروریات پیش آتی ہیں.تو پھر ایسے سامان کئے جاتے ہیں کہ وہ مٹ جاتی ہیں.مثلاً ایک شخص بیمار ہے.اب اس کے لئے دوائی وغیرہ کے لئے روپوں کی ضرورت ہے.دعا کی بیمار ہی اچھا ہو گیا تو اب روپوں کی ضرورت ہی پیش نہ آئی.تو نہ ابتدائی مرحلہ یہی ہے کہ ضرورت پیش ہی نہیں آتی.پہلی حکمت یہ ہے کہ وہ لوگوں کا محتاج ہی نہیں ہوتا دوسری حکمت یہ ہے کہ لوگوں کا رجوع اس کی طرف ہو جاتا ہے.خدا خود لوگوں کے ذریعے سے سامان کراتا ہے.تم کبھی دو سروں پر بھروسہ نہ رکھو.سوال ایک زبان سے ہوتا ہے.اور ایک نظر سے.تم نظر سے بھی کبھی سوال نہ کرو.پس جب تم ایسا کرو گے تو پھر خدا تعالیٰ خود سامان کرے گا.اس صورت میں جب کوئی تمہیں کچھ دیگا بھی تو دینے والا پھر تم پر احسان نہیں سمجھے گا.بلکہ تمہارا احسان اپنے اوپر سمجھے گا.لوگوں سے تعلقات: داعی الی اللہ کے لئے بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر خادمانہ حیا رکھے.لوگوں نے یہ نکتہ نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت نقصان اٹھایا ہے بعض نے سمجھا کہ نوکر چاکروں کی طرح کام کرے یہ مراد نہیں اس غلط فہمی کی وجہ سے مانے پیدا ہوئے جن کا کام مردے نہلانا ہوا کرتا ہے.کوئی بیمار ہو جائے.تو کہتے ہیں.
۲۷ بلاؤ میاں جی کو وہ اگر اس کی خدمت کریں کھیتی کاٹنی ہو.تو چلو میاں جی.لوگ میاں جی سے.......وہ ٹائی دھوبی جس طرح ہوتے ہیں.اس طرح کام لیتے ہیں دوسری صورت وہ پھر پیروں والی ہوتی ہے.پیر صاحب چارپائی پر بیٹھے ہیں.کسی کی مجال نہیں کہ پیر صاحب کے سامنے چارپائی پر بیٹھ جائے.حافظ صاحب سناتے تھے.ان کے والد بھی بڑے پیر تھے.لوگ ہمیں اگر سجدے کیا کرتے تھے.تو میں نے ایک دفعہ اپنے باپ سے سوال کیا کہ ہم تو مسجد میں جا کر سجدے کسی اور کے آگے کرتے ہیں اور یہ لوگ ہمیں سجدے کرتے ہیں.اس پر میرے والد نے ایک لمبی تقریر کی.تو ایک طرف کا نتیجہ میاں چی پیدا ہوئے جو جھوٹی گواہی دینی ہو.تو چلو میاں جی.اور اگر انکار کریں تو کہہ دیا کہ تمہیں رکھا ہوا کیوں ہے.آپ قیامت کے دن کیا خاک کام آئیں گے جو اس دنیا میں کام نہ آئے اور دوسری طرف پیر صاحب جیسے پیدا ہو گئے.تو دونوں کا نتیجہ خطرناک نکلا یہ بڑی نازک راہ ہے.داعی الی اللہ خادم ہو.اور ایسا خادم ہو.کہ لوگوں کے دل میں اس کا رعب ہو.خدمت کرنے کے لئے اپنی مرضی سے جائے ڈاکٹر پاخانہ اپنے ہاتھوں سے نکالتے ہیں لیکن کوئی انہیں بھنگی نہیں کہتا.ڈاکٹر اپنے ہاتھوں سے بنا کر دوائی بھی پلاتے ہیں.لیکن کوئی انہیں کمپوڈر نہیں کہتا.وہ بیمار کی خاطر داری بھی کرتے ہیں لیکن کوئی انہیں خادم نہیں کہتا.یہ اس کی شفقت کبھی جاتی ہے.اس لئے جب تم میں بھی توکل ہو گا اور تم کسی کی خدمت کسی بدلے کے لئے نہیں کرو گے.تو پھر تمہاری بھی ایسی ی قدر ہو گی.وہ شفقت سمجھی جائے گی.وہ احسان سمجھا جائے گا.اگر کوئی شخص کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو اس کو تشفی دینے والا ہمارا " راعی " ہو.کوئی بیوہ ہو تو حسب ہدایات شریعت اسلامیہ اس کا حال پوچھنے والا اس کا سودا وغیرہ لانے والا اور اس کے دیگر کاروبار میں اس کی مدد کرنے والا ہمارا " داعی " ہو.اس کا نتیجہ یہ ہو گا.کہ ان کے دلوں میں دو چیزیں پیدا ہوں گی.ادب ہو گیا اور محبت ہو گی.تو کل کا نتیجہ ادب ہو گا اور خادمیت کا نتیجہ محبت ہو گی.ایک داعی " کے لئے ضروری ہے کہ ایک طرف اگر ان میں ذہانت نہ ہو تو دوسری طرف متکبر بھی نہ ہو لوگ نوکر اس کو سمجھیں گے جو ان سے سوال کرتا ہو.جو سوال ہی نہیں کرتا اس کو وہ نوکر کیوں کر سمجھیں گے
۲۸.اگر وہ اس کے پاس آئیں گے تو نوکر سمجھ کر نہیں بلکہ ہمدرد سمجھ کر اس وقت پھر وامی " کو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ میں نوکر نہیں.انہوں نے تو اسے نوکر نہیں سمجھا وہ تو اسے ہمدرد کچھ کر آئے ہیں.تو یہ دور تک ہونے چاہئیں کہ اگر سب سے بڑا خادم ہو تو ہمارا " داعی " ہو.اور اگر لوگوں کے دلوں میں کسی کا ادب ہو تو وہ ہمارے "واعی " کا ہو اس کے لئے وہ اپنے مال قربان کرنے کے لئے تیار ہوں.اس کے لئے جان دینے کے لئے تیار ہوں.دعائیں کرتے رہو.پھر داعی الی اللہ کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ وہ دعائیں کرتا رہے کہ انہی میں ان لوگوں کو ٹار امتی کی طرف نہ لے جاؤں.اول کوئی ایسی بات نہ کرے جس پر پہلے سوچا اور غور نہ کیا ہو.روم دعا کرتا رہے کہ الہی میں جو کہوں وہ ہدایت پر لے جانے والا ہو اگر غلط ہو تو الہی ان کو اس راہ پر نہ چلا.اور اگر یہ درست ہے تو الٹی توفیق دے کہ یہ لوگ اس راہ پر چلیں.-۹ جو بدی کسی قوم میں ہو اس کی تردید میں جرات سے لیکچر دو اپنے عمل دیکھتا رہے.کبھی سستی نہ کرے.لوگوں کو ان کی غلطی سے رو کے ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالی کے قول کے نیچے آئے تو لا ينهم الربانيون والاحبار عن قولهم الاثم واكلهم السحت لبئس ما كانو ايصنعون وہی لیکچر ہونا چاہئے جس کی لوگوں کو ضرورت ہو.ان باتوں پر لیکچر دینے کی ضرورت نہیں جو اچھی باتیں نہیں ہیں یا جو بدیاں ان میں نہیں ہیں اگر وہ لڑکیوں کو حصہ نہ دیں تو اس پر لیکچر درد.روزے نہ رکھیں تو اس پر نماز نہ ا پڑھیں تو اس پر دو.زکوۃ ادا نہ کریں تو اس پر وو.صدقہ خیرات نہ دیں تو اس پر دو.لیکن جو باتیں ان میں ہیں ان پر نہ دو.غریبوں پر اگر وہ ظلم کرتے ہیں یا بڑوں کا ادب نہیں کرتے.چوری کرتے ہیں.جھوٹ بولتے ہیں اس پر لیکچزور.لیکن چوری ان میں نہیں ہے اس پر نہ دو.مرضیں تلاش کرو اور پھر درا دو.کبھی کسی خاص شخص کی طرف اشارہ نہ ہو.میں اپنا طریقہ بتاتا ہوں میں نے جب دو
٢٩ کبھی کسی کی مرض کے متعلق بیان کرنا ہو.تو میں دو تین مہینے کا عرصہ درمیان میں ڈال لیتا ہوں.تاکہ وہ بات لوگوں کے دلوں سے بھول جائے.تو اتنا عرصہ کر دینا چاہئے.اگر موقعہ ملے تو اس شخص کو جس میں یہ مرض ہے علیحدہ تخلیہ میں نرم الفاظ کے ساتھ سمجھاؤ.ایسے الفاظ میں کہ وہ چڑ نہ جائے.ہمدردی کے رنگ میں وعظ کرو ایک طرف اتنی ہمدردی دکھاؤ کہ غریبوں کے خدمت گار تم ہی معلوم ہو.دوسری طرف اتنا بڑا بنو کہ تمہیں دنیا سے کوئی تعلق نہ ہو.دو فریق بننے نہ دو.دو شخصوں کے جھگڑے کے متعلق کسی خاص کے ساتھ تمہاری طرفداری نہ ہو.کوئی مرض پاؤ اس کی دوا فورا دو.کسی موقعہ پر چشم پوشی کر کے مرض کو بڑھنے نہ دو.ہاں اگر اصلاح چشم پوشی ہی میں ہو تو کچھ حرج نہیں.لوگوں کو وعظ کرو تو اس میں ایک جوش ہونا چاہئے جب تک وعظ میں ایک جوش نہ ہو وہ کام کرہی نہیں سکتا.سننے والے پر اثر ڈالو.کہ جو تم کہہ رہے ہو.اس کے لئے جان دینے کے لئے تیار ہو.اور یہ جو کچھ تم سنا رہے ہو.یہ تمہیں ورثے کے طور پر نہیں ملا.بلکہ تم نے خود اسکو پیدا کیا ہے.تم نے خود اس پر غور کیا ہے.ٹھٹھے باز نہیں ہونا چاہئے.لوگوں کے دلوں سے ادب اور رعب جاتا رہتا ہے.ہاں مذاق نہیں کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی کر لیا کرتے تھے.اس میں ہرج نہیں.احتیاط ہونی چاہئے سنجیدہ معلوم ہو.اس میں ہمدردی ہونی چاہئے.نرم الفاظ ہوں.سنجیدگی سے ہوں سمجھنے ما منار H والا سمجھے میری زندگی اور موت کا سوال ہے.تمہاری ہمدردی وسیع ہونی چاہئے.داعی الی اللہ کا فرض ہے.کہ ایسا طریق اختیار نہ کرے کہ کوئی قوم اسے اپنا دشمن سمجھے اگر یہ کسی ہندوؤں کے شہر میں جاتا ہے تو یہ نہ ہو کہ وہ سمجھیں کہ ہمارا کوئی دشمن آیا ہے.بلکہ وہ یہ سمجھیں کہ ہمارا پنڈت ہے.اگر عیسائیوں کے جائے تو سمجھیں کہ یہ ما را پادری ہے.وہ اس کے جانے پر ناراض نہ ہوں بلکہ خوش ہوں.اگر یہ اپنے اندر ایسا رنگ پیدا کرے تو پھر غیر احمدی کبھی تمہارے کسی شہر میں جانے پر کسی مولوی کو نہ بلائیں گے نہ ہندو کسی پنڈت کو اور نہ عیسائی کسی پادری کو.بلکہ وہ تمہارے ساتھ محبت سے پیش آئیں گے.یہی وجہ ہے کہ اسلام نے بڑے بڑے لوگوں کو جو کسی مذہب میں گزر چکے ہوں گالیاں دینے سے روکا ہے.اسلام اس بات کا مدعی ہے کہ تمام دنیا کے
T.لئے نہی آئے اور انہوں نے اپنی امتوں میں ایک استعداد پیدا کر دی پھر بتایا کہ اسلام تمام دنیا کے لئے دعوت و وعظ " کرنے والا ہے.دعوت میں یہ یاد رکھو کہ کبھی کسی شخص کے قول سے گھبراؤ نہیں اور نہ قول پر دارومدار رکھو.دلیل اور قول میں فرق ہے.دلیل پر زور دینا چاہئے.لوگ دلیل کو نہیں سمجھتے.مسلمان آریوں سے بات کرتے ہوئے کہہ دیتے ہیں.قرآن میں یوں آتا ہے.آریوں کے لئے قرآن حجت نہیں.تم روتیہ دلیل کو پیش کرنے کا اختیار کرو.تا جماعت احمدیہ میں یہ رنگ آجائے.ولا ئل سے فیصلہ کرو جو عقلی دلائل بھی ہوں نقلی بھی.جب بحث کرو تو مد مقابل کی بات کو سمجھو.کہ وہ کیا کہتا ہے.مختلف سوالات کر کے پہلے اس کی اصل حقیقت سے آگاہ ہو اور پھر بات کرو.تھوڑے وقت میں بہت کام کرنا سیکھو.تھوڑے وقت میں بہت کام کرنا ایسا گر ہے کہ انسان اس کے ذریعے بڑے بڑے محمدے حاصل کرتا ہے.|* ۱۰ خود کام کرنے اور کام لینے کی طاقت پیدا کرد : ہمیشہ اپنے کاموں میں خود کام کرنے اور اور کام لینے کی طاقت پیدا کرو.ایسے طریق سے لوگوں سے کام لو کہ وہ اسے بوجھ نہ سمجھیں.بہت لوگ خود محنتی ہوتے ہیں.جب تک وہ وہاں رہتے ہیں کام چلتا رہتا ہے لیکن جب وہاں سے ہٹتے ہیں کام بھی بند ہو جاتا ہے.اللہ تعالٰی کے سلسلے جو ہوتے ہیں جب نبی مرجاتا ہے تو وہ سلسلہ متا نہیں بلکہ اس کے آگے کام کرنے والے پیدا ہو گئے ہوتے ہیں.یہ اس لئے کہ نبی ایک جماعت کام کرنے والی تیار کر جاتا ہے.پس تمہارے سپرد بھی یہی کام ہوا ہے.ایک مشق ہوتی ہے خوب مشق کرو.لوگوں میں کام کرنے کی روح پھونک دو.حضرت عمر کے زمانے میں صحابہ میں کام کرنے کی ایک روح پھونکی گئی تھی.ہر دو مہینے کے بعد کونے کا گورز بدلتا تھا.حضرت عمرؓ فرماتے تھے کہ.اگر کوفے والے مجھے روزگور نر بدلنے کے لئے کہیں تو تر میں روز بھی بدل سکتا ہوں.ایسے رنگ میں کام کرو کہ لوگوں کے اندر ایک روح پھونک دو.کبھی مت سمجھو کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو مانتے نہیں.عرب کی زمین کتنے شریروں کی تھی پھر کیسے شریفوں کی بن گئی.یہ بات غلط ہے کہ وہ مانتے نہیں.تم ایک دفعہ سناؤ دو دفعہ ناؤ آخر مائیں گے.یہ اس شخص کی اپنی کمزوری ہوتی ہے جو کہتا ہے مانتے نہیں.
٣١ -# اپنے کام کی پڑتال کرتے رہو : ہمیشہ اپنے کام کی پڑتال کرو کہ کیا کامیابی ہوئی.تمہارے پاس ایک رجسٹر ہونا چاہئے.اس میں لکھا ہوا ہو.کہ فلاں جگہ گئے وعظ فلاں مضمون پر کیا اس اس طبقے کے لوگ شامل ہوئے.فلاں فلاں وجوہات پر مخالفت کی گئی.فلاں فلاں وجوہات لوگوں نے پسند کی.یہ رجسٹر آئندہ تمہارے علم کو وسیع کرنے والا ہو گا.تم سوچو گے کیوں مخالفت ہوئی.اہم مسائل کا تمہیں پتہ لگ جائے گا.ان پر آئندہ غور کرتے رہو گے.اگر تم وہاں سے بدل جاؤ گے تو تمہارے بعد آنے والے کے کام آئے گا.ہر سال کے بعد نتیجہ نکالو.کون سی نئی باتیں پیدا ہوئیں.کون کی باتیں مفید ثابت ہوئی ہیں.جب یہ رپورٹ دوسرے واعظ کے ہاتھوں میں جائے گی تو وہ اپنی بناء زیادہ مضبوط کرے گا.؟ ۱۲ استقلال : کبھی اپنی جگہ نہیں چھوڑنی چاہئے.یہ خیال کر کے کہ اگر یہ یوں نہیں مانتا تو اس طرح مان لے گا.اس میں وہ تو نہ ہارا تم ہار گئے.کہ تم نے اپنی بات کو ناکافی سمجھ کر چھوڑ دیا.تم نے اپنا دین چھوڑ کر دوسرے کو منوا بھی لیا تو کیا فائدہ.بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ غیر احمدی وفات مسیح پر پڑتے ہیں.چلو وفات مسیح چھوڑ کر اور باتیں منواتے ہیں یہ غلط ہے.وفات مسیح مان جائیں تو پھر آگے پیش کرو.ترتیب سے پیش کرو ملمع سازی سے پیش نہ کرو.ملمع سازی سے پیش کرنے کا یہ نتیجہ ہو گا.کہ جب اس پر بات کھلے گی تو یا وہ تم سے بدظن ہوں گے اور یا پھر تمہارے مذہب سے.جن جن باتوں پر خدا نے تمہیں قائم کیا ہے ان کو پیش کرو.اگر لوگ نہ مانیں تمہارا کام پیش کرتا ہے.منوانا نہیں وہ اللہ کا کام ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالٰی فرماتا ہے لذکر انما انت مذکر لست عليهم بمصيطر ۱۳ جماعت میں احساس پیدا کرو : جماعت میں ایک احساس پیدا کرو
٣٢ وہ احمدیوں کی محبت پر دوسرے رشتہ داروں کی محبت کو قربان کر دیں.ایسی محبت احمدی لوگوں سے ہونی چاہئے کہ رشتہ داری کی محبت سے بھی بڑھ جائے حق کی تائید ہونی چاہئے نہیں ہونا چاہئے کہ اگر احمدی کے مقابل میں رشتہ دار آگیا ہے تو....رشتہ دار کی طرف داری اختیار کرلی جائے.ہماری قوم ہماری جماعت احمدیت ہے.پھر اس بات کا احساس پیدا کرنا بھی ضروری ہے.کہ دین کا اب سب کام ہم پر ہے جب یہ کام ہم پر ہے تو ہم نے دنیا کے کتنے مفاسد کو دور کرتا ہے.پھر اس کے لئے کتنی بڑی قربانی کی ضرورت ہے اس بات کو پیدا کرو کہ ہر ایک آدمی داعی الی اللہ ہے صحابہ سبب داعی الی اللہ تھے.اگر ہر ایک آدمی داعی الی اللہ ہو گا.تب اس کام میں آسانی پیدا ہو گی.اس لئے ہر ایک احمدی میں دعوت الی اللہ کا جوش پیدا کرو پھر مالی امداد کا احساس پیدا کرو.اگرچہ ہماری جماعت کا ایک معیار تو قائم ہو گیا ہے.کہ فضول جگہوں میں جو روپیہ خرچ کیا جاتا ہے.مثلا بیاہ شادیوں میں وہ اب دین کے کاموں میں خرچ ہوتا ہے.لیکن یہ احساس پیدا ہونا چاہئے.کہ ضروریات کو کم کر کے بھی دین کی راہ میں روپیہ خرچ کیا جائے.جماعت کا اکثر حصہ ست ہے.کچھ لوگ ہیں.جو بہت جوش رکھتے ہیں لیکن یہ بات پوشیدہ نہیں کہ آخر میں سارا بوجھ انہی لوگوں پر پڑ کر ان لوگوں میں بھی سنتی آنی شروع ہو جائے گی.تو ایک حصہ پہلے ہی سنت ہوا دوسرا پھر اس طرح ست ہو گیا تو یہ اچھی بات نہیں.اس لئے چاہئے کہ جماعت کو ایک پیمانہ پر لایا جائے.ان کے دلوں میں ایسا جوش پیدا کرو کہ جو نہی یہ دین کے لئے آواز سنیں دوڑ پڑیں.پہلے داعی اپنی زندگی میں یہ احساس پیدا کریں -۱۴ مسائل کے متعلق غور کرو : جب کوئی اعتراض پیش آوے پہلے خود اس کے حل کرنے کی کوشش کرو.فوڑا مرکز لکھ کر نہ بھیج دو.خود سوچنے سے اس کا جواب مل جائے گا.اور بیسیوں مسائل پر غور ہو جائے گا.جواب دینے کا مادہ پیدا ہو گا.ہم سے پوچھو گے تو ہم تو جواب بھیج دیں گے لیکن پھر یہ فائدے تمہیں نہیں ملیں گے اس لئے جب اعتراض ہو خود اس کو حل کرو.جب حل کر چکو تو پھر تبادلۂ خیالات ہونا
۳۳ چاہیے.اس سے ایک اور ملکہ پیدا ہوگا.جو آپ ہی سوچے اور پھر اپنے سوچنے ہوئے پر ہی بیٹھ جائے اس کا ذہن کند ہو جاتا ہے لیکن تبادلہ خیالات سے ذہن تیز ہوتا ہے ایک بات ایک نے نکالی ہوتی ہے.ایک اور دوسرے نے اس طرح پھر سب اکٹھی کر کے ایک مجموعہ ہو جاتا ہے.واعیان جہاں میں لغویات باتیں کرنے کی بجائے وہ ان مسائل پر گفتگو کریں.خدا تعالی سے تعلق ہو.دعا ہو.تو کل ہو.-۱۵ مرکز آنے کی تاکید کرتے رہو : لوگوں کو مرکز بار بار آنے کے لئے اور تعلق پیدا کرنے کے لئے کوشاں رہو.جب تک کسی شاخ کا جڑ سے تعلق ہوتا ہے وہ ہری رہتی ہے لیکن شاخ کا جڑ سے تعلق ٹوٹ جانا اس کے سوکھ جانے کا باعث ہوتا ہے.ہمیشہ جہاں جاؤ ان کے فرائض انہیں یاد دلاتے رہو.سیاست میں پڑنا ایک زہر ہے جب آدمی اس میں پڑتا ہے دین سے غافل ہو جاتا ہے.سیاست میں پڑنا امن کا محل ہوتا ہے اور امن کا نہ ہونا دعوت میں روک ہوتا ہے.سیاست صداقت کے خلاف.انسان کے خلاف.شریعت کے احکام کے خلاف ہے یہ ایسا زہر ہے کہ جس جماعت میں اس زہر نے اثر کیا ہے پھر وہ ترقی نہیں کر سکی.اس پر بڑا زور دو.اس وقت سیاست کی ایک ہوا چل رہی ہے.یہ دعوت میں بڑی رکاوٹ ہے.دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی تعلیم دو.( الفضل ۲۲ / ۲اپریل ۱۹۱۷ ء ) محترم شیخ فضل الرحمان صاحب کی نائجیریا روانگی کے موقعہ پر - وہاں کی زبان سیکھنے کی کوشش کریں.کیونکہ اس کے بغیر دعوت الی اللہ نہیں ہو سکتی.- جن لوگوں میں آپ دعوت کا کام کریں.ان سے نہایت محبت اور پیار اور حکمت سے کام لیں.اور ایک انتظام کے ماتحت ان کو رکھیں.مثلاً مختلف آدمی مقرر کئے
۳۴ جائیں.جو ان کی نگرانی کریں.نمازوں میں باقاعدگی کے متعلق بھی انتظام کیا جائے.وہ قومیں اپنے سرداروں کا بہت ادب کرتی ہیں اس لئے ان سے معاملہ کرتے وقت کوئی ایسی بات نہ ہو جو ان کو بری لگے.اور جب نصیحت کریں تو علیحدگی میں کریں تاکہ وہ بھی اپنی ہتک نہ سمجھیں.ہاں الگ ہو کر دونوں گروہوں کو ذہن نشین.کرانے کی کوشش کریں کہ مذہبی طور پر ان کا سردار وہی ہے جو ہمارا آدمی ہو گا.چونکہ ان لوگوں کے دماغ ابھی بہت موٹے ہیں باریک باتوں کو ابھی نہیں سمجھ سکتے مثلا سی کہ جنت میں انعامات جو ہوں گے تو مثلا نمازس متمثل ہو کر پھلوں کی شکل میں ملیں گی.اس لئے ان کے لئے یہی کافی ہو گا کہ دوزخ ایک ایسی چیز ہے جہاں خدا کی نافرمانی سے انسان جاتا ہے اور جہاں سخت عذاب ہوتے ہیں.اور جنت وہ چیز ہے جہاں اس انسان کو جو خدا اور اس کے رسول کے احکام کو بجالائے بڑی بڑی راحتیں اور آرام ملتے ہیں اس سے یہ مطلب نہیں کہ ان کو اعلیٰ تعلیم دی ہی نہ جائے بلکہ پہلی بات ذہن نشین ہونے کے بعد تدریجا بتا ئیں.-۵- انسان کو ست کبھی نہ ہونا چاہیئے ہمیشہ چست رہے.اور اس کے لئے کچھ ورزش کرتے رہنا چاہئے مثلاً چلنا پھرنا ہی سہی.اس کو روح سے بہت تعلق ہوتا ہے.انبیاء کبھی ست نہیں ہوتے.اپنا کام کرتے وقت کبھی یہ خیال دل میں مت لاؤ کہ لوگ میرا کام کردیں گے.کسی دوسرے پر نگاہ مت رکھو.ہاں اگر کوئی دوسرا شخص اس نیت سے کام کر دے کہ مجھے اس کا کام کرنے سے ثواب ہو گا تو اس کی نیت کا بھی لحاظ رکھیں.اخلاق کا خاص خیال رکھیں.جہاں تک ہو سکے اخلاق میں درستی پیدا کریں حکام سے معاملہ کرتے وقت بھی مناسب ادب سے پیش آئیں.اور اپنی تعلیم کی حقیقت سے ان کو بھی آگاہ کرتے رہنا چاہیئے.ان لوگوں کے اختیار میں بھی کچھ ہوتا ہے.خواہ مخواہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ان کو چڑانا نہیں چاہئیے - پھر جن لوگوں میں آپ دعوت کا کام کریں گے.ان میں آج کل یہ خیال خاص طور پر جوش سے پھیلا ہوا ہے کہ دنیا نہیں حقیر جاتی اور ہم سے نفرت کرتی ہے.
۳۵ اس لئے ان سے محبت سے معاملہ کریں اور یہ بات ان پر ظاہر نہ ہونے دیں.اور ان کو ذہن نشین کرائیں کہ دنیا جو ان سے نفرت کرتی ہے اس کی وجہ عدم ایمان ہے اس لئے ان کو قوموں سے نفرت نہیں کرنی چاہئے ، افریقہ جانے والے مربیوں کو بلکہ ان کے مذہب کو حقیر جانیں.ان میں آج کل اس بات کی وجہ سے اس قدر جوش پھیلا ہوا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ساری دنیا کو تباہ کر کے ان کی نسلیں آباد ہو جائیں.اور اس جوش کو دیکھ کر مجھے خیال آتا ہے کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ مکہ پر ایک مبئی حملہ کرے گا تو اس کا کہیں یہی مطلب نہ ہو.اپنی عادات میں.لباس میں.کھانے پینے میں ہمیشہ کفایت مد نظر رہے.کفایت سے انسان کو شکر کی عادت پیدا ہوتی ہے.اور شکر کے بعد بڑی بڑی نعمتیں ملتی ہیں.ایک انسان جس کو کفایت کی عادت نہ ہو اس کو اگر بڑی بڑی نعمتیں بھی مل جائیں تو وہ یہی کہتا ہے کہ میرا حق تھا مجھے کیا ملا.پس جو کفایت شعار نہیں ہوتا.اس کے دل سے شکر کبھی نہیں نکلتا.الوداعی تقریب میں خطاب ) الفضل ۳ مارچ ۱۹۲۴ء ) احمدیت کے آج بہت مخالف ہیں اور یہ مخالف ہر جگہ پائے جاتے ہیں.یہ مخالف ہمارے ہر کام میں نقائص نکالتے ہیں.اور وہ اس بات کو نہیں دیکھتے کہ حضرت مسیح موعود مهدی مسعود کے طفیل آج دنیا میں ایک ایسی جماعت پیدا ہو گئی ہے.جو دین حق کی خاطر ا وہ تمام مصائب برداشت کر رہی ہے جو صحابہ نے کئے.مگر ابھی جماعت میں بھی ایک ایسا طبقہ ہے جو قربانی کرنے میں مست ہے.اگر ایسے مصائب جو بیرونی ممالک کے و اعیان برداشت کر رہے ہیں.ساری جماعت اٹھانے کے لئے تیار ہو جائے.تو ہم دلیری سے کہہ سکتے ہیں کہ ہماری جماعت صحابہ کے نقش قدم پر چلنے والی ہے.اگر جماعت کے سب دوست دین کے لئے ایسی ہی قربانیاں کرنے اور ویسی ہی تکالیف
۳۶ ย برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جائیں جیسی بیرونی ممالک کے مربیان کرتے ہیں.تو بہت جلد ساری جماعت میں صحابہ کا رنگ پیدا ہو سکتا ہے.اور ہم مخالفین کو چیلنج کر سکتے ہیں.کہ ہماری جماعت صحابہ کے رنگ میں رنگین ہے.لیکن ابھی بعض دوستوں میں ایسے نقائص ہیں کہ اگر ہم یہ بات پیش کریں تو مخالف وہ نقائص پیش کر کے ہمیں ساکت کر دے گا.ہماری جماعت کے نوجوانوں ، بچوں ، بوڑھوں ، مردوں اور عورتوں سب کو چاہئے.کہ خود بھی تحریک جدید پر عمل پیرا ہوں.اور دوسروں سے بھی اس پر عمل کرائیں.پنی زندگیوں کو زیادہ سے زیادہ سادہ بنا ئیں کھانے پینے پہنے میں سادگی پیدا کریں.اپنے ماحول کو سادہ بنا ئیں.اپنی گفتگو میں سادگی اختیار کریں.جب تک زندگی کے ہر شعبہ میں سادگی نہ اختیار کی جائے گی.دعوت الی اللہ کما حقہ نہیں کی جاسکے گی.جس شخص کی زندگی سادہ نہ ہو.وہ سارہ تمدن رکھنے والے لوگوں سے خطاب بھی نہیں کر سکتا.وہ ان کو اپنی بات سمجھا نہیں سکتا.اور ان تک اپنی آواز نہیں پہنچا سکتا اور اس طرح ان کی ہدایت کا موجب نہیں بن سکتا پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھا ہوا آدمی میدان میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے کس طرح خطاب کر سکتا ہے.آدمی انہیں لوگوں سے بات چیت کر سکتا ہے جو اس کے سامنے ہوں.جو پہاڑ پر بیٹھا ہوا ہو.اس کو نیچے کا گاؤں نظر تو آسکتا ہے مگر وہ گاؤں کے لوگوں سے بات چیت نہیں کر سکتا اس طرح جن لوگوں کا تمدن بلند ہو.سادہ تھان کے لوگوں کے ساتھ ایسا تعلق نہیں رکھ سکتے جو دعوت الی اللہ کے لئے ضروری ہے اور یہ تعلق قائم نہیں ہو سکتا جب تک کہ دوسروں کا تمدن بھی ویسا ہی بلند نہ ہو جائے یا اونچا تمدن رکھنے والے سادگی اختیار کر کے نیچے نہ آجائیں اور جب تک ہم تمدنی لحاظ سے دو سروں کو اوپر نہیں لے جا سکتے.اس وقت تک ہم کو چاہئے کہ خود نیچے آجائیں.ہاں جب سب لوگ اوپر آجائیں تو ہم بھی اوپر آسکتے ہیں اسلام مساوات چاہتا ہے اور اس کی یہی صورت ہے.کہ یا سادہ تمدن رکھنے والوں کو اوپر لایا جائے اور اگر یہ نہ ہو سکے تو دوسرے اور زیادہ سادگی اختیار کریں اکھو کوئی جماعت چاہتی ہے.کہ معیار زندگی کو بلند کرے تو اسے کوشش کرنی چاہئے کہ دوسروں کا معیار زندگی بھی بلند :
۳۷ ہو.اور جب تک یہ نہ ہو.اپنا معیار بھی نیچے رکھے تا مساوات قائم ہو سکے.اور باہم میل جول میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو.جب تک دنیا میں ایسی اقوام موجود ہیں جو ارنے حالت میں ہیں.اس وقت تک ہمارے لئے کسی اونچی جگہ کا خواب دیکھنا بھی ممکن نہیں اس وقت تک ہمارے لئے ایک ہی رستہ ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالی جو کچھ دے لے لیں.اور پھر اسے دوسروں کی بہتری اور بھلائی کے لئے خرچ کریں اور دوسروں کو اوپر لے جانے کے لئے اسے کام میں لائیں اور جب وہ سرے بھی اوپر آجائیں تو پھر خود بھی آئیں.صحابہ کرام نے بے شک دولتیں بھی کمائیں مگر انہیں اپنے آرام و آسائش پر ا خرچ نہیں کیا.بلکہ دین کی راہ میں خرچ کرتے رہے ابھی دنیا میں اربوں انسان ایسے ہیں کہ جن کے جسم بھی اور جن کی روحیں بھی انتہائی غربت کی حالت میں ہیں.اور ان سب کی اصلاح ہمارے ذمہ ہے.جب تک ان کی اصلاح نہ ہو جائے ہمیں اپنے آرام کا خیال تک بھی نہ کرنا چاہئے.اور اپنی زندگیوں کو ایسا سادہ بنانا چاہئے کر غرباء کے ساتھ باسانی مل سکیں.اور اپنی باتیں انہیں سنا سکیں اگر ہمارے نوجوان اسی طرح غیر ممالک میں دعوت کے لئے جاتے رہیں.جس طرح اب یہ نوجوان جا رہے ہیں تو یہ ایک ایسی خوشکن بات ہو گی جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود مهدی مسعود ناز اور فخر کر سکتے ہیں.اور ہم اس کام کی ابتداء کر سکتے ہیں.کہ جو ہمارے پرد ہے.اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے.کہ دوسرے نوجوانوں میں بھی یہ احساس پیدا ہو وہ اپنے آپ کو پیش کریں دین حق کی طرف دعوت دینے کے لئے بیرون ملک جانے پر خوشی کا اظہار کریں اور ان لوگوں کے پیچھے ایک لمبی اور کبھی نہ ٹوٹنے والی زنجیر بنائی جا سکے.ایک کے بعد دوسرا.دوسرے کے بعد تیسرا جانے کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتا جائے.کیونکہ کروڑوں افراد کی آبادی رکھنے والے ممالک کے لئے ہزاروں داعیان کی ضرورت ہے.جو مربی جا رہے ہیں وہ واقف سے مجاہد بھی بن رہے ہیں.واقف دہ ہوتا ہے جس د نے زندگی وقف کر دی ہو مگر ابھی جہاد میں شرکت کا موقع اسے نہ ملا ہو.اور مجاہد وہ ہوتا ہے جو عملی طور پر جہاد میں شریک ہو جو نوجوان اس وقت دعوت الی اللہ کی تیاری کر رہے
ہیں اور تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ واقف ہیں.وہ واقف کہلانے کے مستحق ہیں.مجاہد کے نہیں.ہاں جب کوئی واقف جہاد کے لئے روانہ ہو جائے تو چونکہ وہ عملی طور پر جہاد میں شریک ہو جاتا ہے.اس لئے وہ واقف ہی نہیں رہتا.بلکہ مجاہد بھی بن جاتا ہے.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تم جانے والے مجاہدین کے ساتھ ہو.اور ہمیں توفیق دے.کہ ہم ان کے بعد جلدی جلدی اور مجاہدین بھیج سکیں.یہاں تک کہ اسلام کو غلبہ حاصل ہو جائے.اور دنیا کی پسماندہ اور گری ہوئی اقوام میں نہ صرف دعوت الی اللہ ہو سکے بلکہ انہیں تمنی ترقی بھی حاصل ہو سکے.اور ان کا شمار دنیا کی اعلیٰ تعلیم یافتہ.ترقی یافتہ اور متمدن اقوام میں ہونے لگے.|| الفضل ۱۴ دسمبر ۱۹۴۴ء ) د داعی الی اللہ ایسے ہونے چاہئیں جن میں دین کی روح دوسروں کی نسبت زیادہ قوی اور طاقتور ہو.اور وہ دین کے لئے ہر وقت قربان ہونے کے لئے تیار ہوں.( مجلس مشاورت ۱۳۶ ) جو شخص تقویٰ و طہارت پیدا کرتا ہے ، جو قلوب کی اصلاح کرتا ہے وہی داعی الی اللہ ہے.داعی الی اللہ وہ ہے کہ اسے کچھ ملے یا نہ ملے اس کا فرض ہے کہ دعوت کا کام کرے.داعیان کا کام یہ ہے کہ خلافت کی آواز کو خود سنیں سمجھیں اور جگہ بہ جگہ اس کو پہنچائیں.) مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء )
۳۹ ارشادات حضرت خلیفة المسیح الثالث OOO دو بنیادی چیزیں میں اپنے مربی بھائیوں کو آج اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اللہ کی نگاہ میں صحیح مربی بننے کے لئے دو بنیادی چیزوں کی ضرورت ہے.ایک نور فراست دوسرے گداز دل - قرآن کریم نے یہ دعوی بھی کیا ہے کہ میں عقل کے نقص کو دور کرنے والا اور اس کو کمال تک پہنچانے والا ہوں اور اس کی جو خامیاں ہیں وہ میرے ذریعہ دور ہونے والی ہیں اور اس کے اندھیرے میرے ذریعہ روشن ہونے والے ہیں.نیز قرآن کریم نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ میرے نزول کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ گداز دل پیدا کئے جائیں.جیسا کہ اللہ تعالی سورہ یوسف میں فرماتا ہے انا انزلنه قرانا عربيا لعلكم تعقلون (سوره یوسف آیت ۳) - آسمانی نور اس آیت میں اللہ تعالی نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ قرآن کریم کو نازل کرنے اور ایک ایسی کتاب بنانے میں جو اپنے مضامین کو کھول کر بیان کرتی ہے ایک حکمت یہ ہے کہ انسان اپنی عقل سے صحیح کام لے سکے.یعنی عقل میں، جو فی نفسہ ایک بنیادی خامی ہے کہ آسمانی نور کے بغیر اندھیروں میں بھٹکتی رہتی ہے اس خامی کو قرآن کریم دور کرے.جس طرح ہماری آنکھ باوجود تمام صلاحیتوں کے اور دیکھنے کی سب قوتیں رکھنے کے اپنے اندر یہ نقص بھی رکھتی ہے کہ وہ خود دیکھنے کے قابل ہے ہی نہیں جب تک بیرونی روشنی اسے میر نہ ہو گداز دل پس ایک مربی کو دوسروں کی نسبت زیادہ گداز دل ہونا چاہئے اس لئے تو اللہ
تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم دعوی کرتے ہو کہ ہماری اس شریعت کی حفاظت کا کام تمہارے سپرد کیا گیا ہے.اگر تمہارا یہ دعوئی ہے تو اس دعویٰ کا جو تقاضا ہے اسے پورا کرو اللہ تعالی فرماتا ہے هذا ما توعدون لكل او اب حفيظ من خشي الرحمن بالغيب و جك بقلب سليم - سوره ق.(۳۴) یعنی میرا یہ وعدہ ہے کہ اس دنیا میں بھی جنت بعض لوگوں کے اس ۳۳ قدر قریب کر دی جائے گی کہ وہ اس دنیا کی حسوں کے ساتھ اسے محسوس کرنے لگیں گے ، يا اور میرا یہ وعدہ ان لوگوں کے لئے جو میرے حضور جھکتے ہیں ، اواب ہیں اور (حفیظ ) وہ صرف منہ کے دعوے سے شریعت کی حفاظت کرنے والے نہیں بلکہ وہ صحیح طور پر اور حقیقی معنی میں شریعت کی حفاظت کرتے ہیں.جہاں تک ان کی زندگی کا تعلق ہے وہ شریعت پر عمل کر کے اس کی حفاظت کرتے ہیں اور جہاں تک دوسروں کا تعلق ہے وہ معروف کا حکم دے کر اور منکر سے روکنے کے ساتھ شریعت کی حفاظت کرتے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شریعت کی حفاظت وہی شخص کر سکتا ہے من خشی الرحمن با لغيب و جله بقلب سلیم جسے رحمان خدا اس کی کسی خوبی یا عمل کے نتیجہ میں نہیں بلکہ محض بخشش اور عطا کے طور پر ایک گداز اور اللہ تعالی سے ڈرنے والا اور اس کی عظمت کو پہچاننے والا دل عطا کرتا ہے.اور خشیت کا یہ دعویٰ محض ایسا دعوئی نہیں جو صرف لوگوں کے سامنے کیا جائے بلکہ من خشی الرحمن بالغیب جس طرح اجتماع میں لوگوں سے میل ملاقات اور معاشرہ کی ضروریات پورا کرتے وقت وہ اپنے دل کی خشیت کو اپنے عمل سے ظاہر کرتا ہے اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ تنہائی کی گھڑیوں میں اپنے رب ا کے حضور اس کی عظمت کا اقبال کرتے ہوئے اور اس کے جلال کا احساس رکھتے ہوئے وہ اس کی خشیت اپنے دل میں رکھتا اور اس کے مطابق اپنے رب کے حضور اداب بنتا ہے.یہ وہ قلب ہے جسے قلب غیب کہا جا سکتا ہے اور یہ وہ قلب سلیم اور قلب غیب ہے جو ایک مربی کے دل میں دھڑکنا چاہئے.اگر ایک مربی کے دل میں ایک قلب غیب نہیں دھڑکتا.اگر اس کا دل تنہائی کے لمحات میں بھی خشیت اللہ سے بھرا ہوا اور لبریز نہیں اگر اس کا دل تنہائی کی گھڑیوں میں بھی اور میل ملاپ کے اوقات میں بھی اللہ تعالٰی
کی خشیت کے نتیجہ میں بنی نوع کی ہمدردی میں گداز نہیں تو پھر ایسا شخص جو اس قسم کا دل رکھتا ہو حفیظ نہیں.یعنی شریعت کی حفاظت کرنے والا نہیں.کے حفیظ بنو کچے حفیظ بنو.حالانکہ ہر مربی کا یہ دعوی ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے (نہ اپنی کسی خوبی کے نتیجہ میں ) حفیظ ہوں.میرے سپرد شریعت کی حفاظت ہے.اور میں نے اپنی زندگی اس کام کے لئے وقف کر دی ہے لیکن اگر اس کا عمل ایسا نہیں اگر اس کے اندر ریاء پائی جاتی ہے اگر اس کے اندر کیر پایا جاتا ہے اگر اس کے اندر خدا تعالی کی مخلوق کی ہمدردی نہیں.ان کے ساتھ پیار نہیں.تعلق نہیں.اگر ان کی جسمانی اور روحانی تکلیف دیکھ کر اس کا دل تڑپ نہیں اٹھتا اگر ایسے وقتوں میں اس کا دل گداز ہو کر اور خدا تعالیٰ کے حضور جھک کر اپنے لئے اور ان کے لئے عاجزانہ طور پر بخشش اور بھلائی اور خیر کا طالب نہیں تو کیا ایسا دل حفیظ ہو سکتا ہے؟ نہیں.ایسا دل تو حفیظ نہیں.پس اے میرے مربی بھائیو دل کو گداز رکھو اس معنی میں جس معنی میں کہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں (جن میں سے بعض کو میں نے ابھی پڑھا ہے ) حکم دیا گیا ہے.جس دل میں رحمان خدا کی خشیت نہیں اور جس دل میں یہ خشیت ظاہر اور باطن میں نہیں.وہ دل غیب نہیں.وہ قلب سلیم نہیں اور جو دل غیب و سلیم نہیں تو جس مینہ میں وہ دھڑکتا ہے جن لوگوں میں وہ خون کا دوران کر رہا ہے وہ سینہ اور وہ دل اور وہ شخص اور اس کی قوت عمل محافظ شریعت نہیں.وہ مربی نہیں.وہ خادم نہیں.وہ اپنے رب کا غلام نہیں.عبد نہیں.وہ اس کی صفات کا مظہر نہیں وہ تو خاکی جسم کا ایک لوتھڑا ہے.جیسا کہ سور کے جسم کا ایک لوتھڑا.یا کتے کے جسم کا ایک لوتھڑا ان کا دل ہوتا ہے.پس اپنے سینہ میں انسان کا غیب دل پیدا کرنے کی کوشش کرو اور حفیظ بننے کی کوشش کرو اپنا دل خدا کے حضور ہر وقت گداز رکھو.تمہاری روح اس کے خوف سے ، اس کی عظمت اور جلال کی خشیت سے پانی ہو کر اور پکھل کر اس کے حضور جھک جائے.
۴۲ ہدری ، غمخواری اور سچا حفیظ اپنی تمام عاجزی کے ساتھ انتہائی انکساری کے ساتھ تم اپنے بھائیوں کے سامنے ان کی ہمدردی اور غمخواری میں جھکے رہو تمہارا نفس بیچ میں سے غائب ہو جائے.اور تم ہمیں اللہ کی مخلوق کے خادم نظر آؤ اللہ تعالیٰ کے حضور اس کے بندے اس کی صفات کا اظہار کرنے والے بن جاؤ.اس کی صفات کا مظہر بن جاؤ.جب دل گداز ہو جائے.جب عقلوں میں جلاء پیدا ہو جائے تبھی تم اپنی ذمہ داریوں کو بجھا سکتے ہو.تبھی تمہاری یہ خواہش پوری ہو سکتی ہے کہ جو توفیق دین کی خدمت کی اور عبادت کی اللہ تعالی نے جو جمان ہے حافظ مختار احمد صاحب کو دی وہی توفیق تمہیں بھی عطا کرے.دین کو سینکڑوں نہیں ہزاروں ایسے حفیظ بننے والوں کی ضرورت ہے.پس جنہوں نے ابھی تک خود کو پیش نہیں کیا وہ آگے بڑھیں اور جو اپنے آپ کو پیش کر چکے ہیں وہ اپنے عمل سے آگے بڑھیں اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں حفیظ بننے کی کوشش کریں تب رحمان خدا انہیں ان کے اعمال کا بہترین ثواب دے گا.اور ان کی پاک اور گداز نیتوں کا اجر بھی انہیں ملے گا.خدائے رحمان کی طرف سے خدا کرے کہ ہم پر ایسے ہی فضل نازل ہوں.خدا کرے کہ ہم میں سے ہر شخص ہی مربی بن جائے اور ہر مربی نور فراست اور ایک گداز دل رکھنے والا بن جائے.خدا کرے کہ یہ جنت جس کا وعدہ دیا گیا ہے ہمارے اتنی قریب ہو جائے کہ اس دنیا میں بھی ہم اس کی خوشبو اور اس کی مٹھاس اور اس کی ٹھنڈک کو محسوس کرنے لگیں اور ایک اطمینان کے ساتھ ہم اس دنیا سے گزریں جس طرح اللہ تعالٰی کے ان گنت اور سب بے شمار فضل ہم پر اس دنیا میں ہوتے رہے ہیں اس زندگی میں بھی اس کے فضل بے شمار اور ان گنت ہی ہوتے رہیں.اور اس کے غضب کی جہنم میں ہمیں نہ دھکیلا جائے..طبیعت کے موافق مختلف دلائل میں اپنے مربی بھائیوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالی نے
۴۳ فرمایا ہے کہ قرآن کریم کے نزول کا مقصد ہی یہ ہے کہ انسانی عقل کو تیز کیا جائے اور ایک مربی کی ذمہ داری دو طرح سے معقل کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.ایک اس طرح کہ اس کی اپنی عقل اندھیروں میں بھٹکتی نہ پھرے بلکہ روشنی میں چلنے والی ہو اور دوسرے اس طرح کہ اس نے خود اپنی ذات ہی کو منور نہیں کرنا بلکہ اسلام کے نور کو غیر تک بھی پہنچاتا ہے.اس کے لئے بھی قرآن کریم نے بہت سے انوار ہماری عقل کو عطا کئے ہیں مثلاً قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ ہم نے اس کتاب میں آیات کو مختلف طریقوں سے اور پھیر پھیر کے بیان کیا ہے (صر لنا) تا لوگ ہماری آیات کو سمجھیں.اس میں ہمیں خصوصا ایک مربی کو یہ بتایا گیا ہے کہ ہر انسان ہر دلیل کو سمجھنے کا اہل نہیں ہوتا.اس کی اپنی انفرادیت ہے.اپنی ایک دنیا ہے.اس کے جذبات ہیں.اس کی عقل ہے.اس عقل کی تربیت ہے.اس کا علم ہے.اس کا ماحول ہے.اس کی عادتیں ہیں.اس کا ورثہ ہے اور اس قسم کی بے شمار ایسی چیزیں ہیں جو اس پر اثر انداز ہو رہی ہیں.بعض ولا ئل کو اس کی طبعیت قبول نہیں کرتی لیکن بعض دوسری دلیلوں کو اس کی طبیعت مان لیتی ہے اور ان سے متاثر ہوتی ہے.غرض قرآن کریم نے جو دلائل کو پھیر پھیر کے بیان کیا ہے وہ اس لئے ہے کہ مربی کو ہر طبیعت کے مطابق دلیل مل جائے اور وہ اس سے فائدہ اٹھائے گویا ایک مربی کا یہ فرض ہوا کہ اول وہ ہر طبیعت کے مطابق بات کر رہا ہو.نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انسان کی طبیعت دیکھ کر اس سے بات کرنی چاہیے دوسرے یہ کہ وہ قرآن کریم کے اوپر عبور رکھتا ہو.قرآن کریم نے مختلف طبائع کے لحاظ سے جو ولا کل ایک مربی کے ہاتھ میں دئے ہیں ان کو وہ جانتا ہو اور یہ سمجھتا ہو کہ فلاں شخص کی طبیعت ایسی ہے اور اس طبیعت کے لئے فلاں دلیل زیادہ موثر اور زیادہ کارگر ہو سکتی ہے..عشق قرآن پس اگر کسی شخص نے خدا تعالٰی کی نگاہ میں حقیقی مربی بننا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کریم کی روشنی سے اپنے لیے نور فراست اور عقل کی روشنی
حاصل کرے اور قرآن کریم سے انتہائی محبت کرے.وہ قرآن کریم کا مطالعہ کرنے والا ہو.قرآن کریم کو خور اور تدبر سے پڑھنے والا ہو.قرآن کریم سیکھنے کے لئے دعائیں کرنے والا ہو اور قرآن کریم کو سکھانے کے لئے بھی دعائیں کرنے والا ہو تاکہ دنیا اپنی کم عقلی کی وجہ سے اور اپنی اس عقل کے نتیجہ میں جس میں اندھیروں کی آمیزش ہوتی ہے.خدا تعالی کے غضب کو مول لینے والی نہ ہو جیسا کہ اللہ تعالٰی نے سورۃ یونس میں فرمایا : و يجعل الرجس على الذين لا يعقلون ) آیت نمبر (١٠) یعنی جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے اور اپنی عقل کو اس نور کی روشنی کی تاثیر سے متاثر نہیں کرتے جو قرآن کریم کے ذریعہ نازل کی گئی ہے.ان پر اللہ تعالی کا غضب نازل ہو جاتا ہے.غرض ایک مربی نے اپنے آپ کو بھی اللہ تعالی کے غضب سے بچانا ہے اور دنیا کو بھی.بنی نوع انسان کو بھی اللہ تعالی کے غضب سے بچانا ہے.اس لئے ضروری ہے کہ وہ اس نور سے وافر حصہ لینے کی کوشش کرے جو قرآن کریم عقل کو دیتا ہے.اور دعاؤں میں مشغول رہے وہ اللہ تعالی نے ہمیشہ یہ دعا مانگتا رہے کہ اسے بھی اور دنیا کو بھی اپنی کم عقلی اور اندھیروں کے نتیجہ میں اللہ تعالی کا غضب نہ ملے.بلکہ اللہ تعالی اسے بھی عقل دے اور قرآنی انوار عطاء کرے اور دنیا کو بھی سمجھ دے اور اسے قرآنی انوار دیکھنے کی توفیق عطا رے تاکہ وہ اس کے غضب کی بجائے اس کی محبت حاصل کرنے والے ہوں.عربی کا ایک بڑا کام جماعتی اتحاد اور جماعتی بشاشت کو قائم رکھنا ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ جو نور میں عقل میں پیدا کرتا ہوں اس کے نتیجہ میں قومی یکجہتی قائم رکھی جاسکتی ہے جیسا کہ سورۃ حشر میں فرمایا تحسبهم جميعا و قلوبهم شتى ذالک با نهم قوم لا يعقلون ( آیت : ۱۵ ) یہاں ویسے تو مضمون اور ہے لیکن ایک بنیادی حقیقت بھی بیان کی گئی ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم انہیں ایک قوم خیال کرتے ہو حالانکہ ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں اور یہ اس لئے ہے کہ قومی اتحاد اور قوم میں ایک مقصد کے حصول کے لئے بشاشت کا پیدا ہونا اس عقل کے ذریعہ سے ممکن ہے جسے خدا تعالیٰ کے قرآن اور اس احسن الحدیث کی روشنی عطا ہو جو اس نے ہمارے لئے نازل کی ہے اگر عقل کو انوار قرآنی حاصل نہیں تو پھر عقل اس بنیادی مسئلہ کو بھی سمجھنے سے قاصر رہ جاتی ہے کہ حجتی اور اخوت اور اتحاد کے
۴۵ بغیر قومی ترقی اور اللہ تعالٰی کے فضلوں کو حاصل نہیں کیا جاسکتا پس ایک مربی کا یہ کام ہے کہ وہ کوشش کر کے قرآنی نور سے اپنی عقل کو منور کرے اور قرآن کریم نے جو اصول اور جو ہدایتیں اور جو تعلیم قوم میں بشاشت پیدا کرنے.محبت پیدا کرنے اور اخوت پیدا کرنے کے لئے دی ہیں انہیں سیکھے اور پھر ان کا استعمال کرے کیونکہ اس کی یہ ذمہ ؟ داری ہے کہ جماعت میں بشاشت پیدا کرے.ہر احمدی کے دل میں یہ یقین ہو کہ میں خدا تعالی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جماعت احمدیہ میں داخل ہوا ہوں.اور اللہ تعالٰی کے بے شمار ایسے فضل مجھ پر ہیں جو ان لوگوں پر نہیں جنہوں نے اللہ تعالی کی آواز پر لبیک نہیں کہا اور اس وجہ سے اسے خدا تعالیٰ کا شکر گزار بندہ اپنی عقل سے کام لینے والا بندہ اور قرآنی انوار سے نور لینے والا بندہ بن کر زندگی کے دن گزارنے چاہئیں.( الفضل ۳ مارچ ۱۹۲۹ء ) اے میرے پیارے خدا ہو تجھ پہ ہر ذرہ مرا پھیر دے میری طرف اے ساریاں جنگ کی مہار ان دلوں کو خود بدل دے اے مرے قادر خدا تو تو رب العلمین ہے اور سب کا شہریار
ارشادات حضرت خلیفة المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز O☆O☆O دعوت الی اللہ کی کامیابی کے طریق خدا تعالی کی توفیق کے بغیر ہم اس دنیا کے حالات بدل نہیں سکتے جس دنیا میں آپ اس وقت یہاں موجود ہیں.اس دنیا کو آج دلائل سے بڑھ کر خدا والوں کی ضرورت ہے لوگ با رہا مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہم ( دعوت الی اللہ ) کیسے کریں ؟ ہم ( دعوت الی اللہ ) کرتے تو ہیں مگر اثر نہیں دکھاتی ( دعوت الی اللہ ) دی اثر دکھاتی ہے جو خدا والے کی ) دعوت الی اللہ ) ہو.جو ان تجارب سے گزرا ہوا ہو.جانتا ہو کہ ایک خدا ہے.وہ جانتا ہو کہ وہ خدا اس کے ساتھ ہے.باہر اس کے پیار اور قرب کے جلوے دیکھ چکا ہو.اس کی بات میں وزن ہوتا ہے.اس کی بات کو قوت عطا کی جاتی ہے.اس کی بات میں گھرا اثر رکھا جاتا ہے.پس یہ باتیں جو میں نے آپ کو بتائی ہیں ان پر آپ قائم ہو جائیں اور پھر ( دعوت الی اللہ ) کریں اور درد دل سے (دعوت الی اللہ ) کریں کو اچھے دوستوں کو تلاش کریں اور ان کے ساتھ تعلقات بڑھائیں کیونکہ (دعوت الی اللہ ) کا ایک اور بھی بہت اہم گر ہے جسے آپ کو لازماً سیکھنا چاہئے کہ ( دعوت الی اللہ ) راستہ چلتے بیچ کا چھٹا کا دینے کا نام نہیں ہے بلکہ بڑی گہری حکمت کے ساتھ ایسی کاشت کا نام ( دعوت الی اللہ ) ہے جس کی انسان پھر مسلسل حفاظت کرتا ہے جو اس کے اپنے دائرہ اختیار میں ہوتی ہے ورنہ بیج پھیلانا تو کوئی ( دعوت الی اللہ ) نہیں ہے.آپ دنیا میں زرخیز سے زرخیز علاقے میں بیچ پھیلاتے چلے جائیں.پیچھے پیچھے پرندے اس پیج کو جگتے چلے جائیں گے کبھی پانی کا فقدان ہو گا.کبھی کسی پھیلا ئیں گے وہ پیچھے سے اور چیز کا نقصان ہو گا اور جو بیچ آ ضائع ہوتا چلا جائے گا.لیکن وہ بیج کام کا بیج ہوا کرتا ہے جسے ایک انسان اپنے کھیت میں اگاتا ہے جو اس کے قبضے میں ہوتا ہے.اس کی حفاظت کرنا جانتا ہے ہر روز اس کی پرورش کرتا ہے اس کے ساتھ مانوس ہو جاتا ہے اس کو اپنے ساتھ مانوس کرتا ہے اور یہی وہ کچی ( دعوت الی اللہ ) ہے جو پھل دیتی ہے.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے
جب خدا تعالٰی سے یہ عرض کی کہ...اے خدا ! تو مجھے اس بات پر مامور تو کر چکا ہے کہ ! پر میں مردوں کو زندہ کروں.اب تو نے ہی زندہ کرتا ہے تو بتا تو سہی کہ مردوں کو کیسے زندہ کرے ؟ تو اللہ تعالٰی نے جو مثال دی اس میں سنکتے کی جو بہت اہم بات بیان فرمائی گئی.وہ یہ تھی کہ پرندوں کو لو.چار پرندوں کو پکڑ...بعض مفسرین بیچارے اب تک یہی سمجھتے ہیں کہ "مر " کا مطلب ہی قیمہ کر دو اور قیمہ کر کے چاروں طرف پہاڑیوں پر پھینک دو.حالانکہ " صر" کا مطلب ہے یہ ہے کہ مانوس کر لو.اگر قیمہ کرنا ہو تو " الیک " کا کیا مطلب ؟ " اپنی طرف قیمہ کر لو " کیا ہوا ؟ مانوس بنانا ہو تو اس کے ساتھ الیک " کا صلہ لگتا ہے کہ ہاں ! اپنی طرف مانوس کر لو اپنے ساتھ مانوس کر لو.تو اس لئے اس کے سوا کوئی معنی ہوہی نہیں سکتا.فرمایا کہ دیکھو ! جب تم پرندوں کو اپنے ساتھ مانوس کر لیتے ہو تو تمہاری آواز کا جواب دیتے ہیں.ان کو مختلف سمتوں میں پہاڑیوں پر چھوڑ بھی آؤ تب بھی وہ تمہاری آواز پر اڑتے ہوئے تمہارے قدموں میں پہنچ جائیں گے.ای طرح انسانی روحوں کی تشخیص ضروری ہوا کرتی ہے ورنہ ( دعوت الی اللہ ) کامیاب نہیں ہو سکتی ورنہ مردے زندہ نہیں ہو سکتے.یہ دنیا جو مادہ پرست ہو چکی ہے اس کی مثال مردوں کی سی ہے اور یہ وہ مردے ہیں جن کو زندہ کرنا آپ کا کام ہے اور زندہ کرنے کی رکیب خدا تعالی نے سکھا دی ہے.بجائے اس کے کہ بازاروں میں پھر کے صرف لٹریچر تقسیم کر دیا یا اسٹال لگا کے گھر آگئے کہ جی! ہم نے برونی ( دعوت الی اللہ ) کر دی.یا ویسے ہی بے ترتیب ، بغیر کسی سلیقے کے بغیر کسی پروگرام کے بھٹیں چھیڑ دیں.اس کا نام (دعوت الی اللہ ) نہیں ہے." مرھن " کے بغیر ( دعوت الی اللہ ) کامیاب نہیں ہو سکتی.داعی الی اللہ کو مسلسل پیار سے کام لینا چاہئے پس آپ کو ہر داعی الی اللہ کو لازما" اپنے ایسے دوست بنانے ہوں گے جن کے ساتھ اس کو مسلسل پیار کرنا ہو گا.بہت محبت کا سلوک کرنا ہو گا.اس کی خدمت کرنی ہو گی.ایسے دوست کو اپنے قریب کرنا ہو گا یہاں تک کہ وہ آپ کی دنیاوی آواز پر لبیک
کہنے کا اہل ہو جائے ایسا شخص آپ کی روحانی آواز کا بھی جواب دے گا.یہ نکتہ ہے جو قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے.میں اچھے شریف لوگوں سے دوستیاں کریں اور امر واقعہ یہ ہے کہ دوستیاں ہم مزاج سے ہی ہوا کرتی ہیں.اس سے ایک اور بات یہ سمجھ آگئی کہ جن کے مزاج مختلف ہیں ان پر آپ کیوں وقت ضائع کرتے ہیں.جن کے مزاج ہی اور طرح کے ہیں ان کے ساتھ سر ٹکرانا اور فضول بخشیں کرنا اپنے وقت کا ضیاع ہے.حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق ان کے ساتھ سر کرانا ایسا ہی ہے جیسے سٹور کے سامنے موتی پھینک دئے جائیں.سور کو موتیوں کی کوئی قدر نہیں ہوتی...یہ مضمون بھی سمجھ آگیا کہ ہم مزاج لوگ تلاش کرو ایسے جو تمہارے مزاج سے ملتے جلتے ہیں.ان سے پیار بڑھاؤ.ان سے تعلقات قائم کرو.ان سے دوستیاں لگاؤ اور ان کو قریب کرتے ہوئے پھر ان کو زندگی کا پیغام دو.اللہ تعالٰی وعدہ فرماتا ہے کہ زندہ کرنے والا میں ہوں.اگر تم ایسا کرو گے تو میں زندہ کروں گا.پس اس نکتے کو آزمانا چاہیے.اس نسخ کو پھیلانا چاہیے اور یہ نسخہ خدا والوں کا نسخہ ہے.ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام خدا والے تھے.اس لئے ان کے ہاتھ پر یہ نسخہ کارگر ثابت ہوا.ایک شخص جو خداوند تعالٰی تعلق نہیں رکھتا اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک پرندہ جس نے خدا کے ساتھ انس اختیار نہیں کیا.وہ پرندہ جو خدا کی آواز کا جواب نہیں دیتا وہ کیسے توقع رکھ سکتا ہے کہ لوگوں کو خدا کی طرف بلائے اور لوگ اس کی آواز کا جواب دیں پس پہلے آپ وہ پرندہ بنیں جو خدا سے زندگی حاصل کرے.سے پہلے آپ وہ پرندہ نہیں جو خدا کی ذات سے مانوس ہو جائے اور اس کی آواز پر لبیک کہنا سیکھیں.پھر آپ لوگوں کو اپنے ساتھ مانوس کریں.پھر دیکھیں آپ کی آواز میں خدائی طاقت پیدا ہو جائے گی.دنیا کی ان روحوں کی مجال نہیں ہو گی کہ ان کا انکار کر سکیں اور ان کے سامنے اباء کر سکیں.خدا تعالٰی نے ہمیں یہ نسخہ سکھایا ہے کہ اس طرح خدا مردے زندہ کیا کرتا ہے.پہلے تم زندہ ہو اور پھرای مثال کے پیچھے چلتے ہوئے خدا کے دوسرے بندوں کو زندہ کرنے کی کوشش کرد - اللہ تعالٰی آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور ( دعوت الی اللہ ) کے صحیح طریق بھی سکھائے اور پھر خود اپنے فضل سے ان کو
۴۹ پھل لگا دے.ایک دفعہ اگر ایمان والے کی ( دعوت الی اللہ ) کو پھل لگنے شروع ہو جائیں تو پھر ایسے درخت بے ثمر نہیں رہا کرتے کہ ہر موسم میں یہ پھل دیتے ہیں بلکہ وہ درخت.جو خدا سے زیادہ گہرا تعلق قائم کر لیتے ہیں ان کے متعلق تو اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ پھر موسم ہو یا نہ ہو ہر حال میں ہمیشہ یہ درخت پھل دیتے چلے جاتے ہیں اللہ تعالٰی ہم میں سے ہر ایک کو ایسا ہی ہمیشہ پھیل دینے والا با ثمر درخت بنا دے " داعی الی اللہ کی شرائط قرض ہر وہ شخص جسے اللہ تعالٰی کی نظر میں ایک حسین ولی اللہ کا کردار ادا کرنا ہے اور ہر وہ شخص جو یہ چاہتا ہے کہ جب میں بلاؤں تو خدا تعالیٰ کے پیار کی نظریں مجھے پر پڑیں اور میرا قول حسین ہو جائے اس کے لئے قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق یہ تین شرطیں لازم ہیں.اول.پہلی شرط یہ ہے کہ وہ بلائے اپنے رب کی طرف اپنی خواہشات کی طرف نہ بلائے ، اپنے ذاتی مقاصد کی طرف نہ بلائے اور خدا کے نام پر بلا کر پس پردہ کچھ اور مقاصد نہ رکھتا ہو خالصتا اللہ تعالٰی کے لئے بلانا ہو مثلاً جماعت احمد یہ دنیا کو خدا کی طرف بلا رہی ہے.اگر کسی جگہ اس دعوت الی اللہ کا مقصد یہ ہے کہ ہماری تعداد بڑھ جائے اور ہم دنیا وی غلبہ حاصل کر لیں تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف بلانا نہیں رہے گا.دوم.اس کا عمل صالح اس بات کی تصدیق کرے کہ ہاں اپنے رب کی طرف بلا رہا ہے پس ایسے لوگ جو عمل صالح کے دعویدار ہوں اگر ان دونوں چیزوں میں سے اموال اور نفوس کی قربانی ) ایک کی بھی کمی آگئی تو ان کے عمل صالح میں نقص پڑ جائے گا اور اسی نسبت سے ان کی دعوت الی اللہ میں نقص پیدا ہو جائے گا.سوم - مسلمانوں میں سے ہو کیونکہ اگر خدا کی طرف بلانے والا ہو اور بظاہر عمل صالح بھی رکھتا ہوں لیکن اگر وہ اسلام کی طرف دعوت نہیں دیتا اور خود کو مسلمانوں میں سے قرار نہیں دیتا تو یہ تیسری شرط باطل ہو جائے گی اور قول حسن کو بھی ساتھ ہی باطل
کر دے گی.اگر تم مسلمان ہو تو تمہیں لازماً خدا تعالیٰ کی طرف بلانا پڑے گا اور تمہیں اپنے اسلام کو چھپانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اگر تم اسلام کو چھپا کر خدا تعالیٰ کی طرف بلاؤ گے تو خدا تعالیٰ کے نزدیک تمہارا یہ قول قول حسن نہیں ہو گا.ہر انسان کس طرح اپنا سارا نفس خدا کے حضور پیش کر سکتا ہے ؟ قرآن کریم نے مختلف مواقع پر مختلف قسم کے گروہوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ کچھ سابقون میں کچھ درمیانے درجہ کے لوگ ہیں کچھ نسبتا پیچھے رہنے والے لوگ ہیں.کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنا سارا نفس جماعت کے سامنے پیش کر کے دعوت الی اللہ کرتے ہیں اور اپنے وقت کا کچھ بھی باقی نہیں رہنے دیتے وہ کہتے ہیں ہمارا جو کچھ بھی ہے خدا کا ہے.ہماری زندگی کا ہر لمحہ دین کے لئے قربان ہے...اور کچھ وہ لوگ ہیں جو کچھ نہ کچھ وقت دے سکتے ہیں دنیا کے دھندوں میں لازماً قوم نے جتلا ہوتا ہے.اجتماعی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے بھی دنیا کمانا ضروری ہے لیکن مقصود ان کا بھی خدمت دین ہوتی ہے.چنانچہ جو اسوال بڑی محنت کے ساتھ کماتے ہیں وہ خدا کے حضور پیش کر دیتے ہیں اور اس طرح وہ بھی اپنے دعوئی کو سچا ثابت کر دکھاتے ہیں...ہر احمدی جو مالی قربانی تو کرتا رہا ہے لیکن وقت کی قربانی پیش نہیں کرتا وہ قرآن کریم کی آیت کی رو سے انگڑا مسلمان ہے.اس کی دو ٹانگوں میں سے ایک ٹانگ نہیں ہے.حضرت مسیح موعود کے وقت میں ہر احمدی داعی الی اللہ تھا امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود کے زمانے میں عملاً ہمارے جتنے داعیان الی اللہ میدان میں کام کر رہے تھے آج ہو گا سواں حصہ بھی نہیں کر رہے جبکہ : ضرورتیں پھیل چکی ہیں اور ہمارے Contact Points بہت بڑھ گئے ہیں.ایک امر واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود کے زمانہ میں جتنا احمدی داعی
۵۱ تھا اور دعوت الی اللہ کیا کرتا تھا آج اس سے کم ہے اس وقت ہر احمدی داعی تھا ہر شخص دعوت الی اللہ کر رہا تھا.ایک زمیندار کھیتوں میں ہل چلاتا تھا تو وہ بھی دعوت کر رہا ہوتا تھا.ایک تاجر جب لفافوں میں سودا ڈال کر گاہکوں کے ہاتھ فروخت کر رہا ہوتا تھا تو اس وقت بھی وہ دعوت کا کام کر رہا ہو تا تھا ایک حکیم جب دوائیوں کی پڑیاں بنا کر کسی کو دیتا تھا یا ڈاک میں پارسل بھیجتا تھا تو وہ ساتھ دعوت دے رہا ہوتا تھا.کوئی احمدی کسی بھی حیثیت کا ہو خواہ وہ وکیل ہو یا ڈاکٹر ہو خواہ وہ تاجر ہو یا کوئی اور پیشہ ور ہو خواہ وہ نجار ہو یا لوہار ہر حیثیت میں وہ پہلے داعی تھا اور اس کی دوسری حیثیت بعد میں تھی.چنانچہ یہی وجہ تھی کہ حضرت مسیح موعود نے لیکچر لدھیانہ میں یہ بات واضح فرمائی کہ جہاں تک بیجوں کے اعداد و شمار کا تعلق ہے.دو ہزار چار ہزار چھ ہزار تک بیتیں وصول ہوئی ہیں...جس کا مطلب ہے حضرت مسیح موعود کے زمانے میں بہتر ہزار بیعتیں سالانہ ہوا کرتی تھیں.داعی کے لئے جامعہ سے پاس ہونا ضروری نہیں اگر ہر احمدی اپنے آپ کو اول طور پر داعی بنا لے اور نفس کی قربانی میں سب سے زیادہ اہمیت دعوت الی اللہ کو دے تو آپ کے داعیان کی تعداد ساری دنیا کے عیسائی مبلغوں سے بڑھ جاتی ہے.بعض جگہ ایک ایک ملک میں آپ کے داعیان کی تعداد ساری دنیا کے عیسائی مبلغوں کی تعداد سے بڑھ جاتی ہے.اور یہ خیال کر لینا کہ دائی ہونے کے لئے باقائدہ جامعہ سے پاس ہونا ضروری ہے بڑی ہی بے وقوفی اور نادانی ہے.انسان اپنی حیثیت کو نہ پہنچانے کے نتیجے میں یہ بات سوچتا ہے.دعوت الی اللہ کا بڑا ہتھیار دعا ہے امر واقعہ یہ ہے کہ ہر مسلمان جو میدان جہاد میں داخل ہونا چاہے اس کا سب سے بڑا ہتھیار دعائیں ہیں انسان جب اللہ تعالی کی طرف بلاتا ہے تو مدد بھی تو اللہ تعالی ہی سے مانگتا ہے.پس دعوت الی اللہ کا سب سے بڑا ہتھیار تو اللہ تعالی کی مدد ہے.اور دعا کے ذریعہ جب ایک مومن میدان جہاد میں داخل ہوتا ہے تو ساری دنیا کی طاقتیں اس کے
۵۲ مقابل پر کوئی حیثیت نہیں رکھتیں.اس لئے تمام دنیا کے احمدیوں کو میں اس اعلان کے مار ذریعہ متنبہ کرتا ہوں کہ اگر وہ پہلے والی نہیں تھے تو آج کے بعد ان کو لازماً رائی بنا پڑے گا.عیسائی دنیا کو مسلمان بنانا کوئی آسان کام نہیں لیکن عیسائی دنیا کے اندر جو مزید بگاڑ پیدا ہو چکے ہیں وہ اتنے خطرناک اور خوفناک ہیں کہ ان کی اصلاح کا کام ایک بہت بڑا منصوبہ چاہتا ہے.اور بے انتہاء ذہنی اور عملی قوتیں اس پر صرف کرنی پڑیں گی.میرا یہ تجربہ ہے کہ حقیقت بھی یہی ہے کہ کسی بھی بڑے سے بڑے عالم کی کوششیں ثمر آور نہیں ہو تیں جب تک وہ بنیادی طور پر متقی اور دعا گو نہ ہو.اور بڑے بڑے ان پڑھ میں نے دیکھے ہیں جن کو دین کے لحاظ سے کوئی وسیع علم نہیں تھا لیکن ان کی باتوں میں نیکی اور تقومی تھا ان کو دعاؤں کی عادت تھی وہ بڑے کامیاب راعی ثابت ہوئے.اس لئے جو اصل ہتھیار ہے وہ تو ہر احمدی کو کیا ہے.پھر وہ باقی چیزوں کا انتظار کیوں کرتا ہے.انقلاب آپ کی راہ دیکھ رہا ہے امر واقع یہ ہے کہ یہ انقلاب آپ کی راہ دیکھ رہا ہے.آج اگر دنیا کا ہر احمدی یہ عزم کرے کہ اس نے داعی الی اللہ کے رنگ میں اپنے نفس کی قربانی خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرنی ہے اور خدا تعالی کی طرف بلاتا ہے تو وہ انقلاب جو ہم سے دور بھاگتا ہوا نظر آ رہا ہے.وہ ہم سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ ہماری طرف جھپٹے گا وہ ہم سے دور جاتا ہوا دکھائی نہیں دے گا.داعی الی اللہ بننے کا عزم کریں اور دعا کریں اللہ تعالی ہمیں توفیق عطا فرمائے.اس اعلان کے نتیجہ میں یہ بات بھی احباب کے سامنے کھول کر رکھنا چاہتا ہوں کہ جو لوگ دعاؤں کے خط لکھتے ہیں وہ اگر اپنے خطوں میں اس بات کا ذکر بھی کر دیا کریں کہ وہ اللہ تعالی کے فضل سے داعی الی اللہ بن چکے ہیں اور انہوں نے دعوت الی اللہ کا کام شروع کر دیا ہے تو ان کے اس خط کے ساتھ یہ میرے لئے بہترین نذرانہ ہو گا...اس سے زیادہ عزیز نذرانہ میرے لئے اور کوئی نہیں ہو گا کہ احمدی خواہ وہ مرد ہو یا عورت بچہ ہو یا بوڑھا دعا کے ساتھ یہ لکھے کہ میں خدا تعالٰی کے فضل کے ساتھ ان
۵۳ لوگوں میں داخل ہو گیا ہوں جو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں جن کا عمل صالح ہے اور جو خدا تعالٰی کے فرمان کے مطابق یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں جب یہ بات ساتھ لکھی ہوئی لے گی تو پھر آپ دیکھیں گے کہ کس طرح میرے دل سے دعائیں پھوٹ پھوٹ کر نکلیں گی.میرے دل میں سے نہیں ہر احمدی کے دل سے ان لوگوں کے لئے پھوٹ پھوٹ کر دعائیں نکلیں گی اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے نذرانے دینے والا بنائے اور مجھے ایسے نذرانے قبول کر کے ان کا حق ادا کرنے والا بنائے.) خطبه جمعه فرموده ۲۸ جنوری ۱۹۸۳ء ) داعی الی اللہ اور استقامت - وہ لوگ ہیں جو یہ اعلان کرتے ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر اس دعوئی پر استقامت اختیار کرتے ہیں...دینا اللہ کا دعوی کرنے والوں پر کئی قسم کے ابتلاء آتے ہیں جن کے نتیجہ میں انہیں استقامت دکھانی پڑتی ہے کچھ اندرونی انتلاء ہیں اور کچھ بیرونی ابتلاء.اندرونی طور پر تو یہ قوم تربیت کے ایسے مشکل راستوں سے گزرتی ہے کہ قدم قدم پر ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ جس رب کے پیچھے تم چل رہے ہو اس کے نتیجہ میں تو تمہارا رزق کم کیا جائے گا اور تم مشکلات اور مصیبتوں میں مبتلا کئے جاؤ گے تم عجیب پاگل قوم ہو کہ بڑی محنت کے ساتھ اپنی حکمتوں کو استعمال کرتے ہوئے اور اپنی جسمانی طاقتوں کا استعمال کرتے ہوئے تم روپیہ کماتے ہو اور پھر اس روپیہ کو از خود خدا کے نام پر خرچ کر دیتے ہو اور دعویٰ یہ ہے کہ ربنا اللہ اللہ ہمارا رب ہے اس کے مقابل دوسرے کمانے کے ہر راستے کو اپنے لئے کھلا رکھتے ہیں اور عیش کرتے ہیں مگر ربنا اللہ کہنے والوں نے رشوت کی کمائی کے رہتے بند کر دیئے.ربنا اللہ کہنے والوں نے ظلم کے ذریعہ ہتھیائی ہوئی جائیدادیں حاصل کرنے کے رستے اپنے اوپر بند کر دیئے ربنا اللہ کہنے والوں نے تکڑی کے قول میں خرابی کے ذریعہ آمدن پیدا کرنے کے رستے بند کر دیئے.ربنا اللہ کہنے والوں نے چوری کے رستے بند کر دیئے ( جبکہ سب راستے دوسروں کے لئے ہیں ) یہ وہ اندرونی ا آزمائش ہے جس میں سے یہ لوگ گزرا کرتے ہیں اور اس کا نام استقامت ہے.
۵۴ بیرونی ابتلاء پھر ایک بیرونی ابتلاء ان پر آتا ہے باہر کی دنیا کہتی ہے اچھا اگر تم اللہ ہی کو رب سمجھ رہے ہو اور سمجھتے ہو کہ وہی تمہارے رزق کا انتظام کرتا ہے اور وہی تمہیں بچاتا ہے تو تمہاری اندرونی قربانی کافی نہیں ہم بھی کچھ حصہ ڈالیں گے یعنی کچھ تمہاری دوکانیں ہم لوٹیں گے کچھ تمہاری جائیدادیں ہم برباد کریں گے کچھ جائز وارثوں سے ہم تمہیں محروم کر دیں گے کچھ جائز ترقیات سے ہم تمہیں عاری کر دیں گے اور اس کے رستے میں رد کیس کھڑی کر دیں گے.کچھ حصول تعلیم کے حق تم سے چھین لیں گے اور وہ تعلیم جو تمہارے رزق کا ذریعہ ہے.ہم حتی المقدور کوشش کریں گے کہ تم اس تعلیم میں قوم......آگے نہ بڑھا سکو جو ربنا اللہ کا دعوی کرتے ہیں تقدیر خداوندی کی طرف سے ان کے امتحان لئے جاتے ہیں ان پر ایسے اندرونی اور بیرونی اسلام آتے ہیں جو حد کر دیتے ہیں...اس لئے ان کی راہ کا نام مستقیم رکھا گیا اور مستقیم راہ پر قائم رہنے کے لئے یہ دعا سکھائی گئی: اهدنا الصراط المستقیم بر صراط مستقیم دراصل استقامت کی تشریح ہے.یا اط مستقیم کی تشریح ہے.یہ دونوں ایک دوسرے پر روشنی ڈال رہے استقامت هر ہیں.استقامت کے نمونے استقامت کے سلسلے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیم اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں اور ساتھیوں نے جو عظیم الشان نمونے دکھائے تاریخ اسلام ان کے واقعات سے روشن ہے....جماعت احمدیہ کو بھی ان درخشندہ مثالوں کی پیروی کی توفیق بخشی اور بخشتا چلا جا رہا ہے.(حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف شہید کا واقعہ نعمت اللہ شہید کا واقعہ ) یہ ہیں وہ لوگ جن کے متعلق اللہ تعالٰی فرماتا ہے.ثم استقامو انتنزل عليهم الملائکہ انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے ربنا اللہ اللہ ہی ہمارا رب ہے (ایسے لوگوں سے لوگوں کے سلوک کے بر عکس ) میرا بھی ایک سلوک ہو گا اور وہ یہ کہ تتنزل عليهم !.الملائکہ کثرت کے ساتھ ان پر فرشتے نازل ہوں گے اور یہ کہتے ہوئے کہ الا تخافو او
۵۵ لا تحزنوا تم کوئی خوف نہ کرو اور کوئی غم نہ کھاؤ ہم تمہیں جنت کی خوشخبری دیتے ہیں.اس کے ایک معانی یہ ہیں کہ استقامت دکھانے والوں میں خدا کے کچھ بندے ایسے بھی ہوں گے جن کو خدا کے رستے کے غم، غم نظر نہیں آئیں گے جن کو جب خدا کے نام پر ڈرایا جائے گا اور خدا کے نام لینے کے نتیجہ میں ڈرایا جائے گا تو وہ خوف سے آزاد لوگ ہوں گے چنانچہ اس گروہ کے متعلق ایک جگہ خدا فرماتا ہے الا ان اولیاء اللہ لا خوف عليهم ولا هم يحزنون.چنانچہ یہ وہ لوگ ہیں جن میں سے داعی الی اللہ پیدا ہوتے ہیں جو مصائب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آگے قدم بڑھاتے ہیں...پس وہ گواہ ہوتے ہیں ان مصائب کے بھی جو ان کو پہنچتے ہیں اور وہ گواہ ہوتے ہیں ان جنتوں کے بھی جو مصائب کے دور میں ہمیشہ ان کو عطا کی جاتی ہیں اس حالت میں وہ اللہ کی طرف بلاتے ہیں تو اللہ فرماتا ہے من احسن قولا ممن دعا الی اللہ دیکھو دیکھو میرے ان بندوں سے زیادہ حسن ادعا کس کا ہو سکتا ہے.مصائب کے سارے ادوار سے گزرنے کے بعد پھر میری طرف بلاتے ہیں پہلے یہ کہا تھا کہ رب ہمارا ہے اب کہتے ہیں کہ اسے دنیا والو تم بھی اسی رب کے ہو جاؤ.یہ ہیں وہ داعی الی اللہ جو ہمیں بننا ہو گا کیونکہ دنیا ہزار قسم کی ظلمات کا شکار ہے ہزار خونوں میں مبتلا ہے ہزار قسم کے حزین ہیں جو دل کو چھلنی کئے ہوئے ہیں.پس اے احمدی آگے بڑھے اور ان خونوں کو دور کر ان اندھیروں کو روشنی میں تبدیل کر دے اور ان غموں کو راحت و اطمینان میں بدل دے کیونکہ تیرے مقدر میں یہی لکھا گیا ہے.داعی الی اللہ کی سات خوبیاں خطبه جمعه ۴ فروری ۱۹۸۳ء ) سورة لحم سجدہ کی آیات و من احسن قولا ممن دعی الی اللہ...کی تلاوت فرمانے کے بعد لا تستوى الحسنة ولا السمئة کی تشریح میں فرمایا.دراصل اس میں دو الگ الگ اعلان ہو رہے ہیں اس لئے یہاں عربی لغت کے مطابق استویٰ کے معنی یہ بنیں گے کہ نہ تو نیکی کو قرار ہے نہ بدی کو قرار ہے...یہ بڑھتی اور گھٹتی رہتی ہے.ان دونوں کے
۵۶ درمیان ہر وقت ایک مقابلہ جاری ہے....چونکہ جہاد کا مضمون چل رہا ہے....چنانچہ ما بعد صرف جہاد کی طرف اقدام لوٹتا ہے فرماتا ہے ادفع بالتي هی احسن اب تمہارا مقابلہ ہو گا جب تم دنیا کو نیک کاموں کی طرف بلاؤ گے تو تمہارا مقابلہ شروع ہو گا یاد رکھو یہ مقابلہ تمہارے لئے بہتر ہے.تم جب تک جہاد میں مصروف رہو گے تمہارا حسن بھی بڑھتا چلا جائے گا اور مقابل پر بدیاں گھٹتی چلی جائیں گی.جب تم جہاد سے غافل ہو جاؤ گے تو تمہاری اندرونی حالت کی بھی ضمانت نہیں دی جا سکتی.کیونکہ کہ لا تستوی الحسنة ولا السيئة قرآن کریم میں اس سے پہلے داعی الی اللہ کے متعلق فرمایا کہ وہ بلاتا بھی ہے اور نیک عمل بھی کرتا ہے.ادفع بالتی ھی احسن کا اطلاق بلانے کی طرف بھی ہو گا اور نیک اعمال کی طرف بھی گویا ان معنوں میں یہ بات بنے گی کہ اللہ تعالٰی ہمیں یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ تمہارا دوسروں کے ساتھ قول میں مقابلہ ہو تو احسن قول سامنے پیش کرو جب تمہارا اعمال میں مقابلہ ہو تو احسن عمل مقابل پر پیش کرو.ا قول حسن : پس احسن قول میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر قسم کی گندہ دہنی گالی گلوچ اور ایذا رسانی کے مقابل پر اچھی بات کہنا سیکھو.چنانچہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے.- مجادلہ کا طریق : جب دلائل کی جنگ شروع ہو تو پہلے کمزور دلائل نہ نکالا کردیا یونسی کوئی دلیل دینی نہ شروع کرد بلکہ ادلع بالتی ھی احسن کی رو سے تم اپنے رکش سے سب سے اچھا تیر نکالو - سب سے مضبوط دلیل نکالو.یہ ہمت بڑی عقل کی بات ہے.تربیتی کلاسز کے انعقاد کا طریق کار : پس احسن دلیل سے صرف یہ مراد نہیں کہ دلیل فی ذاتہ مضبوط ہو بلکہ اس کو پیش کرنے کا ڈھنگ بھی احسن ہو اور اس پر
۵۷ پوری طرح عبور بھی حاصل ہو.اس پہلو سے جب ہم تربیتی کلاسز منعقد کرتے ہیں تو ہمیں حکمت کے اس نکتے سے اس موقع پر بھی زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے کوئی طالب علم جس کو ایسی کلاسوں میں آنے کا تھوڑا سا وقت ملتا ہے.اس کو بجائے اس کے کہ زیادہ سے زیادہ دلائل سمجھائے جائیں جن سے زیادہ ذہن Confuse ہوں یعنی خلط بحث پیدا ہو جائے.کوشش کی جائے کہ قرآنی تعلیم کے مطابق ایک چوٹی کی دلیل چنی جائے یہ اس کو یاد کروائی جائے اس میں اس کو میل کیا جائے.اس کے سارے پہلو ذہن میں اجاگر کئے جائیں تاکہ وہ اسے زیادہ عمدگی کے ساتھ استعمال کر سکے.پھر اس دلیل پر جو حملہ ہوتا ہے اس کا جواب بھی تفصیل سے سمجھایا جائے.گویا ایک دلیل کو لے کر اس پر پوری مہارت پیدا کر دی جائے تو یہ ادلع بالتی ھی احسن کے حکم کی اطاعت ہو گی.غرض ادفع بالتی ھی احسن کے تابع ہر احمدی جو داعی الی اللہ بنا چاہتا ہے اس کو پہلے تمام اختلافی مسائل کی کوئی ایک دلیل چننی نہیں چاہئے بلکہ وہ دلیل چینی چاہئے جس پر وہ ذہنی اور علمی لحاظ سے خوب عبور حاصل کر سکتا ہو اور شروع میں اپنے لم کو بہت زیادہ نہ پھیلائے یہ بعد کی باتیں ہیں فی الحال تو سب سے قومی دلیل وفات مسیح کی ہے اور سب سے عمدہ تشریح قرآن کریم سے آیت خاتم انسین کی ہے اور اسی طرح دیگر مسائل مثلاً صداقت حضرت مسیح موعود کے موضوع پر ایک دلیل کو چنیں اور اس پر عبور حاصل کریں.- - تیسرا پہلو: ادفع بالتي هی احسن کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ جب مناظرہ شروع ہو گفتگو شروع ہو تو تمہارا یہ کام نہیں ہے اور تمہاری گفتگو کا یہ مقصد نہیں ہے کہ تم دوسرے کو نیچا دکھاؤ اور اس کی تذلیل کرو کیونکہ قول کا حسن جاذبیت کے معنی رکھتا ہے اس لئے تم جس بات کو پیش کرو اسے اس طرح پیش کرو کہ لوگوں میں اس کے ، اس کے لئے کشش پیدا ہو نہ کہ نفرت میں اور بھی ا سکیحت ہو جائے.- اعمال کا حسن : داعی الی اللہ کا دوسرا پہلو اعمال کو حسین بنانے سے تعلق رکھتا ہے.کیونکہ دو باتیں بیان فرمائی تھیں ایک یہ کہ مومن داعی الی اللہ ہوتا ہے دوسرے یہ کہ عمل صالح یعنی وہ نیک اعمال بھی بجا لاتا ہے.گویا اعمال کو اس طرح ادا
۵۸ کرتا ہے کہ وہ احسن بن جائیں.یہاں نیک اعمال بمقابلہ بد اعمال مراد ہیں یہ ایک مقابلہ کی صورت ہے جو یہاں پیش کی گئی ہے.مثلاً لوگ مال لوٹتے ہیں.گھر جلاتے ہیں.طرح طرح کے دکھ دیتے ہیں.اس کے باوجود اپنے دل کو اس بات پر آمادہ رکھنا اور اس کی ایسی تربیت کرنا کہ خود دشمن جب دکھ میں مبتلا ہو تو اس کی مدد کی جائے.گویا اعمال کے لحاظ سے یہ ادفع بالتی ھی احسن کی ایک بہترین صورت ہے مثلاً مولانا ظفر علی خان صاحب کی بیماری کے موقع حضرت مصلح موعود نے مری میں ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کو بھیجوایا.یہ ضروری ہے کہ تم برائی کا بدلہ بہر حال نیکی سے دو گے.کوئی مصیبت میں مبتلا ہے اس کی مصیبت کو دور کرنے کے لئے تیار ہو گے اور اپنے عمل سے ہرگز یہ ثابت نہیں کرو گے کہ تم بھی بیروں کی طرح برے ہو جاتے ہو.- تربیت کا یہ طریق ہے کہ بری چیز کے مقابل بہتر چیز پیش کی جائے:.ا دفع بالتي هھی احسن کا دوسرا پہلو تربیت سے بھی تعلق رکھتا ہے فرمایا جب بھی تمہارے اندر کوئی برائی پیدا ہونے لگے تو اس کو حسن سے دور کرو اور جب بھی معاشرہ میں تربیت کے معاملہ میں کوئی برائی پیدا ہو تو اس کو بھی حسن سے دور کرو.کیونکہ انسانی فطرت کا یہ تقاضا ہے کہ جب کسی کو یہ کہا جائے کہ یہ نہ کرو تو سوال یہ ہے کہ کیوں نہ کرے اس سے بہتر کوئی چیز ملے گی تو نہیں کرے گا ورنہ وہ اپنی ضد پر قائم رہے گا فطرت چاہتی ہے کہ کوئی اس کا متبادل ہو کوئی اس سے بہتر چیز ہو اس لئے میں نے بارہا یہ کہا ہے کہ آپ جب اپنے گھروں کی اپنے بچوں کی اپنی عورتوں کی تربیت کرتے ہیں تو اس بات کو پیش نظر رکھا کریں کہ اگر ان کو میوزک سے ہٹانا ہے.یا گندی قسم کے گیتوں سے اور گندے فلمی گانوں سے ہٹانا ہے تو پہلے حضرت مسیح موعود کی نظمیں اچھی آواز میں تیار کریں جو دل پر گہرا اثر کرنے والی ہیں.-۶- احادیث نبویہ :.مثلاً احادیث نبویہ ہیں ان میں سے ایسی احادیث منتخب کریں جو غیر معمولی طور پر دل پر اثر کرنے والی ہوں.وہ احسن کے تابع آئیں گی.
۵۹ - ۷.ایمان لانے سے پہلے لوگوں کی تربیت کا کام شروع ہونا چاہیئے گھروں میں چھوٹی چھوٹی مجلسیں لگیں وہاں اچھی تلاوت سنائی جائے اور پھر اس کے ترجمے ہوں.قرآن کریم میں ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر محل میں وہ ( انبیاء ) اس بات کا انتظار نہیں کرتے تھے کہ مقابل کی سوسائٹی پہلے ایمان لائے تو پھر ان کے اندر حسن عمل پیدا کرنے کی کوشش کی جائے.قرآن کریم میں ایسے جتنے بھی واقعات بیان ہوئے ہیں ان سے پتہ لگتا ہے کہ برائیوں کو دور کرنے کی تعلیم وہ پہلے دیا کرتے تھے.جو قومیں بھی دائی الی اللہ بننا چاہتی ہیں وہ اپنے معاشرہ کی درستی کا انتظام اس بات کا انتظار کئے بغیر شروع کر دیں کہ وہ ایمان لاتے ہیں یا نہیں (یہ ساری باتیں وہ ہیں جن کے نتیجہ میں انسان کو دکھ ملتے ہیں).دعوت الی اللہ کا پھل فاذ الذی بینک و بینه عداوة کاند ولی حمیم وہ جو پہلے تمہاری جان کا دشمن تھا وہ تمہارا جانثار دوست بن جائے گا اور وہ یہی اعلیٰ مقصود ہے جس کو ایک داعی الی اللہ حاصل کرنا چاہتا ہے.یہی اس کی کامیابی کا نشان ہے یا تحفہ ہے جو اسے عطا ہو گا.نفرتیں محبتوں میں تبدیل کی جائیں گی.ساتھ ہی ایک کوئی بھی ہے یعنی اگر کسی وعظ کے نتیجے میں یہ واقعات رونما نہیں ہوتے تو اس وعظ میں کوئی خرابی ہے.دعوت الی اللہ میں صبر کی ضرورت ہے وما يلقها الا الذین صبر و ! بات یہ ہے کہ ہر نصیحت کا راستہ ایک صبر آزما مشکل کا راستہ ہوتا ہے.جب کوئی شخص کسی کو بلاتا ہے تو اس کے دو طریق ہیں یا تو اس شخص کے ساتھ اس کی دوستی ہے اور یا دشمنی ہے اگر دوستی ہے تو زیادہ نصیحت کرنے کے میں دوستیاں بھی ٹوٹ جایا کرتی ہیں اور دشمنی کا ایک حد تک نتیجہ نکلتا ہے (رسول مریم " کا بہترین نمونہ اس کے لئے آپ کے سامنے ہے ) تو پھر فاذالذی بینک و لند عداوة كانہ ولی حمیم کا کیا مطلب ہے اس مضمون کو صبر نے کھولا ہے فرمایا کہ شروع
میں ایسا ہی ہو گا جب تم نیک کاموں کی طرف بلانا شروع کرو گے تو شروع میں قوم کا اس قسم کا رد عمل ہو گا.تمہاری محبتوں کے نتیجہ میں شدید نفرتیں پیدا ہوں گی لیکن اگر تم متزلزل نہ ہوئے...اگر اپنے قول اور فعل کے حسن پر قائم رہے تو پھر اس صبر کے نتیجہ میں اذا الذي والا واقعہ رونما ہو گا اور جب ایسا ہو گا تو تمہیں ایسا لگے گا جیسے اچانک ہو گیا ہے.اذا الذی اچانک پن کے علاوہ ایک غیر معمولی واقعہ کی تحسین کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے کہ دیکھو دیکھو کیسا شاندار نتیجہ نکلنے والا ہے.دیکھنا کتنا عظیم الشان انقلاب برپا ہو گیا کہ تمہارے خون کے دشمن جانار دوست بن گئے.صبر کی اقسام : مبر دونوں جگہ ہے یعنی قول میں بھی اور عمل میں بھی جو بات کہنے کی ہے وہ کہتے چلے جانا یہ ہے قول کا صبر اور جو حسن عمل ہے اس سے پیچھے نہیں ہنا آزمائش جتنی بھی سخت ہوتی چلی جائے گی تم نے اپنے اعمال کے حسن کو بدی میں نہیں تبدیل ہونے دینا.یہ وہ قسم کے صبر تمہیں اختیار کرنے پڑیں گے.صبر کے نتیجہ میں دعا کی قوت: پس مہر سے جو عظیم الشان قوت پیدا ہوتی ہے وہ دعا کی قوت ہے اللہ تعالٰی فرماتا ہے تم محض اپنی باتوں پر اور اپنے نیک اعمال پر انحصار نہ کرنا جب ان باتوں پر صبر کرو گے پھر بھی تمہیں دکھ دیئے جائیں گے.اور وہ صبر لازماً دعاؤں میں ڈھلے گا اور دہ دعائیں عظیم الشان نتیجہ پیدا کریں گی (جیسا کہ رسول اللہ کی دعاؤں کے نتیجہ میں ہوا ) پس تبلیغ کا صبر سے گہرا تعلق ہے اور صبر بھی وہ صبر جو دعا پر منتج ہو جائے دردناک دعاؤں میں تبدیل ہو جائے.آنحضرت ذو حظ عظیم تھے :.اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ اگر تم سیکھنا چاہتے ہو کہ صبر ہوتا کیا ہے تبلیغ کس طرح کی جاتی ہے دعوت الی اللہ کیا ہوتی ہے.اور بدی کو حسن میں تبدیل کرنے کا مضمون کیا ہے تو خلاصہ کلام یہ ہے کہ ذو حظ عظیم یعنی محمد مصطفی کو دیکھ لو.وہ صرف صبر میں ذو حظ عظیم نہیں ہیں بلکہ اس مضمون کی ہر شاخ میں فو حظ عظیم ہیں.
حکمت: حسن عمل میں حکمت بھی ضروری ہے حکمت کے ساتھ ایسا فعل کریں جو صرف ظاہر میں اچھا نظر نہ آئے بلکہ اس کے حسن میں گہرائی ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی کسی بھی حکمت کا دامن چھوڑ کر کوئی فیصلہ نہیں کیا کرتے تھے ہر فیصلہ کے پیچھے حکمت کار فرما ہوتی تھی..داعی الی اللہ بن جائیں :.غرض اس طریق پر اگر آپ داعی الی اللہ نہیں گے تو اللہ تعالٰی کے فضل سے ہر گھر میں انشاء اللہ ایک انقلاب پیدا ہونا شروع ہو جائے گا اللہ تعالٰی ہر داعی الی اللہ کو میٹھے پھل عطا فرمائے گا.اس لئے صبر کریں اور دعائیں کریں اور خدا تعالی کی راہ میں سب دکھ اٹھانے کے باوجود راضی رہیں اور اپنی شکایتیں لوگوں نہ کریں بلکہ اللہ تعالٰی سے کریں وہ کافی ہے.نعم المولى ونعم الوکیل اس سے بہتر کوئی اور مولی نہیں ہے.....سے یہ مقام اپنے دل میں پیدا کریں اپنی عظمت کا احساس پیدا کریں پھر دیکھیں کہ انشاء اللہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی واعلی الی اللہ کسی سال پھل سے محروم رہے ایک ایک دو دو تین تین چار چار پھل آپ کو لگیں گے.جس طرح خدا تعالیٰ کے فرشتے مختلف پروں کے ہوتے ہیں اسی طرح داعی الی اللہ بھی مختلف طاقتوں کے ہوا کرتے ہیں کوئی دو دو کوئی تین تین کوئی چار چار پروں والا ہوتا ہے اور کوئی آٹھ آٹھ پروں والا ہوتا ہے.) خطبه جمعه ۱۸ فروری ۱۹۸۳ء ) C
۶۲ دعوت الی اللہ کے دس اہم طریق ادع الى سبيل ربک میں محض اللہ تعالی کی طرف بلانا مراد نہیں بلکہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر جسمی شان سے خدا تعالٰی ظاہر ہوا تھا اس تمام شان کی طرف بنی نوع انسان کو بلانا مقصود ہے اور وہ خدا ایسا ہے جو رب العالمین ہے.اس سلسلہ میں دس اہم امور حسب ذیل ہیں : ا پیغام تمام مومنوں کے لئے ہے :.یہاں مخاطب صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کیا گیا ہے ، اگرچہ پیغام تمام قبول کرنے والوں کے لئے ہے.یہ تو نہیں فرمایا کہ اے محمد تو اکیلا نکل جا اور تبلیغ شروع کر دے اور تیرا کوئی ساتھی تیرے ساتھ نہ چلے آنحضرت کو مخاطب کیا گیا لیکن پیغام تمام مومنوں کے لئے ہے.بالحكمته والموعظته الحسنہ حکمت کے معنی ! حکمت کے تقاضے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سب سے پہلے ہمیں تاریخ پر نظر ڈالنی چاہیے اور تاریخی واقعات کی روشنی میں یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ اس دشمن کا علاج اتنی بڑھی ہوئی محبت اور حد سے زیادہ تلفت سے ہم دیں گے تب ہماری بات مانی جائے گی ورنہ نہیں مانی جائے گی.موقعہ اور محل کے مطابق : حکمت کا دوسرا تقاضا جسے عموما نظر انداز کر دیا جاتا ہے وہ ہے موقعہ اور محل کے مطابق بات کرنا ہر بات اپنے موقعہ پر اچھی لگتی ہے ایک آدمی کو اپنے کام میں جلدی ہے یا خیالات میں افرا تفری ہے.اور آپ اس کو پیغام دینا شروع کر دیں تو یہ بات موقعہ اور محل کے مطابق نہیں ہے...جب نفرت ہو تو اچھی چیز بھی پیش کی جائے تو انسان اس کو پسند نہیں کرتا.تو جب تک پیش کرنے کا طریقہ اتنا اچھا نہ ہو کہ وہ اس نفرت پر غالب آ جائے اس وقت تک تبلیغ کارگر نہیں ہوتی.پس آپ کا جو کام ہے وہ انتہائی نازک ہے جہاں ایک طرف آپ کو اسوۂ نبوی میں
۶۳ دوسروں کے لئے بے انتہاء رحمت بننا پڑے گا.وہاں طرز کلام بھی نہایت حکیمانہ اختیار کرنا پڑے گا اور یہ سوچ کر بات کرنی ہوگی کہ عام باتوں سے وہ دوست بہر حال بدلیں گے ان سے ملائمت کے ساتھ بات کرنے کی ضرورت ہے.- انسانی مزاج کو سمجھ کر : حکمتوں کے تقاضوں میں سے ایک تقاضا یہ ہے کہ انسانی مزاج کو سمجھ کر بات کی جائے اور اس طریق کو بھی ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئیے...اس کے مزاج کو پوری طرح پڑھ سکیں اور یہ جان سکیں کہ اس کے رجحانات کیا ہیں کن باتوں سے کتراتا ہے پھر اس کے مطابق اس سے معاملہ کریں.اپنی استعدادوں کے مطابق : پھر حکمت کا ایک اور تقاضا یہ بھی ہے کہ اپنے مزاج اور اپنے رجحان کا بھی جائزہ لیں ہر انسان ہر قسم کی تبلیغ نہیں کر سکتا اللہ تعالٰی نے ہر ایک کو اپنے اپنے رنگ میں استعدادیں عطا فرمائی ہیں ایک بزرگ ( چولے پر آگے پیچھے قرآنی آیات لکھوا کر پھرا کرتے تھے قریشی محمد حنیف صاحب سائیکل پر تبلیغ کرتے تھے ) یہ کہنا کہ کسی شخص میں دعوت الی اللہ کی استطاعت نہیں ہے یہ اللہ تعالی پر الزام ہے اور یہ کہنا بھی درست ہے کہ ہر شخص کی استطاعت چونکہ مختلف ہے اس لئے مقابل کے انسان سے مقابلہ بھی الگ الگ کرنا پڑے گا...ہر شخص کی ایک انفرادیت ہے اس کے مطابق اس سے بات کرنی ہو گی اور آپ کے بھی مزاج الگ الگ ہیں.خدا نے آپ کی استعدادیں الگ الگ بنائی ہیں.ان کو مد نظر رکھ کر اپنے لئے ایک صحیح رستہ تجویز کرنا ہو گا کہ میں کیا ہوں اور میں کس طرح اس فریضہ کو بہترین رنگ میں ادا کر سکتا ہوں.بعض لوگوں کو بولنا نہیں آتا بعض لوگوں کو لکھنا نہیں آتا.بعض لوگ پیلنک میں لوگوں سے شرماتے ہیں.لیکن علیحدہ علیحدہ چھوٹی مجالس میں بہت اچھا کلام کرتے ہیں بعض لوگ عوامی مجلسوں میں بڑا کھلا خطاب کر لیتے ہیں پس خدا نے جو مزاج بنایا ہے اگر کوئی اس مزاج سے ہٹ کر بات کرے گا تو اس سے جگ ہنسائی ہوگی.-۵- حالات حاضرہ کے مطابق : پھر وقت الگ الگ ہوتے ہیں اور زمانے الگ الگ ہوتے ہیں وقت کے تقاضے بھی بدل جاتے ہیں.حکمت کا یہ تقاضا ہے کہ ان اوقات سے بھی استفادہ کیا جائے اس لیے مختلف وقتوں میں مختلف قسم کی باتیں
۶۴ زیب دیتی ہیں اور دو اثر کرتی ہیں مثلا جب غم کی کیفیت ہو تو اس وقت اور قسم کی بات کی وہ جاتی ہے.اور جب خوشی کی کیفیت ہو تو اور طرح کی بات کی جاتی ہے اسی طرح خوف و پراس کا زمانہ ہو تو اور طرح سے بات کرنی پڑے گی.مناسب انتخاب -: حکمت کا ایک تقاضا یہ ہے کہ مناسب زمین کا انتخاب کیا جائے دنیا میں بے شمار مخلوق ہے جس کو خدا تعالیٰ کی طرف بلانا ہے انسان نظری فیصلے سے یہ معلوم کر سکتا ہے کہ کن لوگوں پر نسبتا کم محنت کرنی پڑے گی.بعض اوقات بعض احمدی بعض ایسے لوگوں کے ساتھ سرمارتے پھرتے ہیں جن کے متعلق ان کی فطرت گواہی دیتی ہے کہ یہ ضدی اور متعصب ہیں اور ان کے اندر تقویی نہیں ہے اور اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے تو ہدایت کا وعدہ ان لوگوں سے کیا ہے.جو تقویٰ رکھتے ہیں جن کے اندر سچائی کو سچائی کہنے کی ہمت اور حوصلہ ہے ( مسیح نے بھی کہا میں سوروں کے سامنے کس طرح موتی ڈالوں) سعید فطرت لوگوں کو چنیں.ان میں سے بھی پہلے جرات مندوں کو چنیں جو مردانہ صفات رکھتے ہیں.جو خود مبلغ بن جائیں.مسلسل رابطہ رکھیں : پھر فصل کی نگہداشت کرنا بھی حکمت کا تقاضا ہے.جب دعوت الی اللہ کرتے ہو یا کرو گے تو بہت لطف اٹھاؤ گے پھر دوبارہ اس شخص کو تلاش نہیں کرو گے اور اس سے دوبارہ نہیں ملو گے اور سہ بارہ اس سے نہیں ملو گے اور پھر چوتھی دفعہ اس سے نہیں ملو گے اور پھر پانچویں دفعہ نہیں ملو گے تو تم اپنے پھل سے محروم کر دیئے جاؤ گے.کیونکہ وہ نیک اثر ابھی دائمی نہیں ہوا.....اس لیے جب تک وہ تمہارا نہیں ہو جاتا تمہیں مسلسل اس کی طرف توجہ کرنی پڑے گی اگر توجہ نہیں کرو گے تو تمہاری مفتیں ضائع ہوتی چلی جائیں گی.- دعاؤں سے آبیاری : جب تک کسی کھیتی کی آبیاری نہ کی جائے اس وقت تک وہ پھل نہیں دے سکتی اور پانی دینے کے دو طریق ہیں ایک دنیا میں علم کا پانی جو آپ دیتے ہیں لیکن اصل پھل اس فصل کو لگتا ہے جسے آسمان کا پانی میسر آجائے اور وہ آپ کے آنسوؤں کا پانی ہے جو آسمان میں تبدیل ہوتا ہے.اگر محض علم کا پانی
۶۵ - دے کر آپ کھیتی کو سینچیں گے تو ہرگز توقع نہ رکھیں کہ اسے بابرکت پھل لگے گا اور لازما دعائیں کرنی پڑیں گی.لازما خدا تعالی کے حضور گریہ و زاری کرنی ہوگی.اس سے مدد چاہتی ہوگی اور اس کے نتیجہ میں در حقیقت یہ مومن کے آنسو ہی ہوتے ہیں جو باران رحمت بنا کرتے ہیں.موعظہ حسنہ حکمت کو پہلے رکھا پھر فرمایا موعظہ حسنہ سے کام لو...موعہ خستہ دلیل کے علاوہ ایک صاف اور کچی اور پاکیزہ نصیحت ہوتی ہے جو اپنے اندر ایک دلکشی رکھتی ہے اور اس کا کسی فرقہ وارانہ اختلاف سے کوئی کام نہیں ہوتا یہ براہ راست دل سے نکلتی ہے اور دل پر اثر کر جاتی ہے میں دلیلوں کا نمبر بعد میں آئے گا.ہمیشہ بات موقفه حسنہ سے شروع کرو.تم لوگوں کو یہ بتایا کرو کہ بھائی مجھے تم سے ہمد روی ہے تم لوگ ضائع ہو رہے ہو.یہ معاشرہ تباہ ہو رہا ہے.کیونکہ تباہ ہو رہا ہے اس پر غور کرو.دیکھو اللہ تعالی کی طرف سے آنے والے آتے ہیں اور بلا کر چلے جاتے ہیں.میں تمہیں پیغام دیتا ہوں ، آنے والا آگیا ہے تم اس کو قبول کرو.اس لئے قرآن کریم کہتا ہے کہ بحث میں جلدی نہ کرو.حکمت کے ساتھ موصلہ حسنہ شروع کرو تاکہ لوگ جان لیں کہ تم ان کے ہمدرد اور بچے ہو.لوگ سمجھ لیں کہ تمہیں صرف اپنی ذات سے دلچسپی نہیں ان کی ذات میں بھی دلچسپی ہے.- مجادله باوجود مواعظہ حسنہ کے لوگ آپ سے لڑنے کے لئے تیار ہوں گے فرمایا اس وقت بھی ہم تمہیں ہدایت کرتے ہیں کہ مقابلہ کرو اور پیٹھ نہ دکھاؤ..اب تم تیار ہو جاؤ تمہارا پورا حق ہے کہ تم اپنی پوری قوت اور پوری شدت کے ساتھ ان لڑنے والوں کا مقابلہ کرو لیکن مقابلہ جبر سے نہیں کرنا فرمایا.جادلهم بالتي هي احسن اب بھی بدی کے ساتھ مقابلہ حسن کا ہی ہو گا وہ بدی لے کر آئیں گے تم نے اس کی جگہ حسن پیش کرنا ہے وہ تمہاری برائی چاہیں گے تم ان کی اچھائی چاہو گے وہ کمزور دلیلیں دیں گے تم ان سے زیادہ قوی اور طاقت وار اور دلکش دلیلیں نکالا کرنا اور ہر مقابلہ کی شکل میں تم حسن کے نمائندہ بن جاتا اور وہ نفرت اور بدیوں کے نمائندہ بن جائیں گے.صبر ولئن صبر اتم فهو خير للصبر بن کہ یاد رکھو اگر تم صبر سے کام لو تو اللہ تعالیٰ تمہیں بتاتا ہے کہ صبر کرنے والے زیادہ کامیاب ہوا کرتے ہیں اور میر کرنے والوں -1°
۶۶ کا اپنے لئے ہی اچھا ہوتا ہے کہ وہ بدلہ نہ لیا کریں خصوصا دینی مقابلوں میں اور ہر معاملے میں صرف نظر سے کام لیتے چلے جائیں اور اپنی برداشت اور حوصلے کے پیمانے بڑھاتے چلے جائیں.ادع الی سبیل ریک جو واحد سے شروع ہوا تھا اس نے اجتماعیت اختیار کر لی اس لئے میں نے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ تبلیغ کا یہ کام صرف محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تک محدود نہیں بلکہ آپ کے مانے والوں پر بھی فرض ہے.واصبر و ما صبرک الا باللہ فرمایا اے محمد " تجھے ہم یہ نہیں کہتے کہ اگر تو چاہے تو بدلہ لے لے اور چاہے تو صبر کر لے تیرے لیے یہ ارشاد ہے کہ واصبر تو نے میر ہی کرتا ہے.....فرماتا ہے.اے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم تو صبر ہی کرتا چلا جا.کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تو پہلے ہی اللہ تعالی کی خاطر صبر کر رہا ہے جس اس راستے سے کبھی ہمنا نہیں کیونکہ یہی بہترین راستہ ہے صبر دو قسم کے ہوا کرتے ہیں ایک غصہ کا صبر اور ایک غم کا صبر.فرماتا ہے ولا تحزن عليهم وہ غصہ والا صبر نہیں وہ تو غم والا صبر ہے.غصہ تو حضرت محمد" کے قریب بھی نہیں چھاتا.پس ہم نے اس کی پیروی کرنی ہے.جس کے صبر میں غصہ کا نام و نشان بھی نہیں تھا وہ تو سگی ماں والا صبر کرنے والا انسان ہے بلکہ ان سے بھی بڑھ کر صبر کرنے والا وہ تو ان لوگوں کے غم میں اپنی جان ہلکان کر رہا ہوتا ہے.جو اس کی بات کو نہ مان کر اپنا نقصان کر رہے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ولا تحزن عليهم تم میں سے ہر ایک داعی ہے :.پس میں تمام احباب جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ تمام دنیا کے انسانوں کو خدائے حی و قیوم کی طرف بلائیں.مشرق کو بھی بلائیں اور مغرب کو بھی بلائیں.کالے کو بھی بلائیں اور گورے کو بھی بلائیں.عیسائی کو بھی لائیں اور ہندو کو بھی بلائیں بھٹکے ہوئے لوگوں کو بھی بلائیں اور دہریوں کو بھی بلائیں.مشرقی بلاک کو بھی بلانا آج آپ کے سپرد ہے اور مغربی بلاک کو بھی بلانا آج آپ کے ذمہ لگایا گیا ہے.یہ آپ ہی ہیں جنہوں نے دنیا کو موت کے بدلہ زندگی بخشتی ہے.اگر آپ نے یہ کام نہ کیا تو مرنے والے مر جائیں گے اور اندھیروں میں بھٹکتے رہیں گے.اس لیئے اسے محمد کے غلامو! اور اے دین محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے متوالو! اب اس خیال کو چھوڑ دو کہ تم کیا کرتے ہو اور تمہارے ذمہ کیا کام لگائے گئے ہیں تم میں سے ہر ایک داعی.
۶۷ ہے اور ہر ایک خدا تعالٰی کے حضور جواب وہ ہو گا.تمہارا کوئی بھی پیشہ ہو کوئی بھی تمہارا کام ہو دنیا کے کسی خطہ میں بس رہے ہو.کسی قوم سے تمہارا تعلق ہو.تمہارا اولین فرض یہ ہے کہ دنیا کو محمد کے رب کی طرف بلاؤ اور ان کے اندھیروں کو نور میں بدل دو اور ان کی موت کو زندگی بخش دو.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.ہر احمدی داعی الی اللہ بنے ) خطبه جمعه ۲۵ فروری ۶۱۹۸۳ ) میں بار بار اعلان کر رہا ہوں کہ داعی الی اللہ ہو.دنیا کو نجات کی طرف بلاؤ.دنیا کو اپنے رب کی طرف بلاؤ.درنہ اگر بے خدا انسان کے ہاتھ میں دوسروں کی تقدیر چلی جائے تو ان کی ہلاکت یقینی ہو جاتی ہے.پس ہر احمدی بلا استثناء داعی بنے وہ وقت گزر گیا جب چند داعیان پر انحصار کیا جاتا تھا اب تو بچوں کو بھی داعی بننا پڑے گا بوڑھوں کو بھی دائی بننا پڑے گا یہاں تک کہ بستر پر لیٹے ہوئے بیماروں کو بھی دائی بنا پڑے گا اور کچھ نہیں وہ دعاؤں کے ذریعہ دعوت کے جہاد میں شامل ہو سکتے ہیں.دن رات اللہ سے گریہ و زاری کر سکتے ہیں کہ اے خدا ہم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ ہم چل پھر کر دعوت دے سکیں اس لیے بستر پر لیٹے لیٹے تجھے سے التجاء کرتے ہیں کہ تو دلوں کو بدل دے اور ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ لیں اور اس جذبے کے ساتھ کام شروع کر دیں تو مجھے بصد یقین ہے کہ دنیا کی ہلاکت کی تقدیر اللہ کے فضل سے مل جائے گی.دعا ہر احمدی بہر حال اس بات سے اپنی دعوت کا آغاز کر دے کہ فوری طور پر سنجیدگی کے ساتھ دعا کرے اور روازانہ پانچوں وقت اس کو اپنے پر لازم کرے وہ خدا سے یہ التجا کرے کہ اے خدا ہمیں یہ توفیق عطا فرما کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو ادا کر سکیں اور تیری نظر میں داعی الی اللہ بننے کا جو حق ہے اس کو ادا کرنے لگ جائیں اور اے خدا دنیا کو بھی یہ توفیق عطا فرما کہ وہ ہماری باتوں کو سنے.لوگوں کے دل نرم ہوں.ان کی عقلیں
YA صاف اور سیدھی ہو جائیں اور وہ تیرے نام کو قبول کرنے لگیں اس کے ساتھ یہ دعا بھی کریں کہ اللہ تعالٰی نئے آنے والوں کو حوصلہ دے اور ان کو طاقت بخشے کہ وہ مخالفتیں برداشت کر کے بھی حق کو قبول کریں.(اللہ تعالی ) ان کو برکتیں عطا کرے ان سے پیار کا سلوک فرمائے تاکہ وہ دوسروں کے لئے نیک نمونہ بنیں.اللہ ایک نعمت ہے ) خطبه جمعه ۳ مارچ ۶۱۹۸۳ ) دنیا کو مذہبی لحاظ سے آپ دو ہی حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں ایک وہ جو خدا کے قائل ہیں دوسرے وہ جو خدا کے قائل نہیں.جو لوگ خدا کے قائل ہیں اگر ان کو کہا جائے کہ ہم تمہیں خدا کہ طرف بلاتے ہیں تو اس میں غصہ کی کونسی بات ہے نفرت کا کوئی مقام ہی نہیں ہے اور وہ جو خدا کے قائل نہیں ہیں اگر خدا کی طرف بلائے بغیر ان کو کسی مذہب کی طرف بلایا جائے تو نہایت ہی لفو فعل ہو گا اور ساری بحثیں بے معنی اور بے حقیقت.اس لیئے جو دہریہ ہو اس سے لاننا بات بھی خدا کی ہستی سے شروع کرنی ہے.پس دونوں پہلوؤں سے نہایت ہی پر حکمت کلام ہے.فرمایا ادع الی سبیل و یک اپنے رب کی طرف بلاؤ.دوسری جگہ فرمایا.اللہ کی طرف بلاؤ.مذہبی قسمیں بعد میں آئیں گی تو پھر اس کے متعلق اللہ تعالی روشنی ڈالے گا کہ کس طرح اس معاملہ میں گفتگو کرنی ہے.- 1 اللہ ایک نعمت ہے نعمت کی طرف بلانے کے نتیجہ میں لوگوں کو غصہ تو نہیں آیا کرتا ہاں نعمت کو انسان اپنی ذات میں سمیٹ کو بیٹھ جائے اور اس پر قبضہ کرے اور یہ کہہ دے کہ یہ نعمت کسی اور کے لیے نہیں ہے صرف میرے اور میرے عزیزوں کے لیے ہے تو پھر لازما فساد پیدا ہوتا ہے لیکن یہاں تو دعوئی کا آغاز یہ کہہ کر کیا گیا ہے کہ دنیا کو اس نعمت کی طرف بلاؤ اور کہو کہ یہ صرف ہماری ہی نہیں تمہاری بھی ہے یہ تمہارے اور ہمارے اور درمیان مشترک ہے ہم اکیلے اس کے حقدار نہیں ہیں تم بھی آؤ اور اس میں شریک ہو
جاؤ اس اعلان کے بعد پھر فساد کیوں؟ داعی الی اللہ کے لئے رب کو پانا ضروری ہے :.دوسرے اگر خدا کی طرف بلاتا ہے تو اس طبیعی جذبہ سے مجبور ہو کر بلاؤ کہ گویا تم نے اسے پالیا ہے اور خدا کو پانے کے بعد خدا کی طرف جو بلاتا ہے.اس سے آواز میں ایک اور ہی شان پیدا ہو جاتی ہے غرض خدا کی طرف بلانے والی آواز اور ہوتی ہے.اور خدا کو پالینے کے بعد جو بلانے والی آواز ہوتی ہے وہ اور ہوتی ہے....پیس اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کو پائے بغیر اس کی طرف کسی کو نہیں بلانا چاہیے ورنہ تمہاری آواز جھوٹی اور کھوکھلی ہو جائے گی.اس میں طاقت نہیں رہے گی.پانے والی اور نہ پانے والی آواز میں بڑا فرق ہے.پس جس نے بھی داعی الی اللہ بنا ہے اس کے لیے یہ تو لازم ہو جائے گا کہ پہلے خود وہ رب کو پائے اس سے ذاتی تعلق قائم کرے نہ صرف جماعتی تعلق اس بات میں حکمتوں کا ایک خزانہ مخفی ہے کہ اس کی طرف بلاؤ اور اسے پانے کے بعد بلاؤ اس کا ثبوت کیا دیا فرمایا عمل صالحا...اگر خدا کو تم نے پایا ہے تو اس کا حسن تم میں بھی تو پیدا ہونا چاہیئے.یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو پالیا ہو اور اس طرح بد صورت اور بد زیب بے حقیقت اور کریمہ النظر انسان بنے رہو...غرض یہ اس بات کا طبیعی نتیجہ ہے.یہ بات میں آپ پر کھولنا چاہتا ہوں کیونکہ خدا تعالی کی طرف بلانے والے لاکھوں کروڑوں بلکہ اربوں ہوں گے جن کے اعمال گندے ہیں جن کا کردار گواہی دیتا ہے کہ انہوں نے اس ذات سے کچھ بھی حاصل نہیں کیا جس کی طرف بلا رہے ہیں تو عمل صالح کی شرط سے وہ کیوں محروم ہیں اس لیے کہ وہ ایک خیالی خدا کی طرف بلا رہے ہیں انہوں نے پایا کچھ نہیں اگر پالیا ہوتا تو خدا تعالیٰ ان کی ذات میں ظاہر ہو جاتا.ان کی ذات میں نظر آنے لگتا.خدا تعالٰی کو پانے والوں کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ یہ اعلان کرتے ہیں خ سرسے لے کر پاؤں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں یہ امر واقع ہے کہ خدا تعالی کی راہ میں تقویٰ سے لیس ہو کر ، عمل صالح سے مزین ہونے کے بعد جن لوگوں نے جہاد شروع کیا وہ علم میں بھی پیچھے نہیں رہے بلکہ خدا تعالی
خود ان کو علم عطا فرماتا ہے اور علم ظاہری طور پر کتابیں پڑھنے سے نہیں آتا.اصل علم وہ ہے جو خدا تعالیٰ عطا فرماتا ہے.داعی الی اللہ کی صفات : خدا کرے کہ ہر احمدی مرد اور ہر احمدی عورت ہر احمدی بچہ اور ہر احمدی بوڑھا اس قسم کا ایک پاکباز اور پاک نفس داعی الی اللہ بن جائے.جس کی باتوں میں قوت قدسیہ ہو.جس کی آواز میں خدا تعالی کی طرف سے صداقت اور حق کی شوکت عطا کی جائے جس کی بات کا انکار کرنا دنیا کے بس میں نہ رہے.اس کے دم میں خدا شفا ر کھے اور وہ روحانی بیماریوں کی شفا کا جب بنے اللہ تعالیٰ کرے کہ ایسا ہی ہو خطبہ جمعہ ۱۱ مارچ ۶۱۹۸۳ ) --- احمدی ڈرنے والے نہیں ڈاکٹر مظفر احمد آف ڈیٹرائٹ امریکہ کی شہادت کا واقعہ بیان کیا اور فرمایا اگر کچھ لوگوں کے دماغ میں یہ خیال ہے کہ احمدی ڈر جائے گا یا اس کے نتیجہ میں دعوت الی اللہ سے باز آجائے گا تو یہ انکا بڑا ہی احمقانہ خیال ہے احمدی تو ڈرنے کی خاطر پیدا ہی نہیں کیا گیا احمدی کے دل اور اس کے حوصلے سے ایسے لوگ واقف ہی نہیں ہیں احمدی تو یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے غلام اور سپاہی ہیں ہم یہ جانتے ہیں کہ قدم قدم پر اللہ کی نصرت ہمارے ساتھ ہے اس لیئے اس بات کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ ڈیٹرائٹ امریکہ یا دنیا کے کسی گوشے میں اس قسم کی ظالمانہ حرکتوں کے نتیجے میں احمدی دعوت الی اللہ سے باز آجائے گا.وہ بہر حال دعوت الی اللہ دے گا اور دیتا چلا جائے گا اور ایک سے ہو اور سو سے ہزار اور ہزار سے لاکھوں داعی الی اللہ پیدا ہوتے چلے جائیں گے اس لیے کسی خوف اور خطرہ کا ہرگز مقام نہیں ہے شہادتیں تو دعوت الی اللہ کا کام کرنے والی قوموں کے مقدر میں ہوا کرتی ہیں اور یہ شہادتیں انعام کے طور پر مقدر ہوتی ہیں سزا کے طور پر یہ مقدر میں نہیں ہوا کرتیں."
ا، پس خوشی اور مسرت اور عزم اور یقین کے سات آگے بڑھو دعوت الی اللہ کی جو جوت میرے مولا نے میرے دل میں جگاتی ہے اور آج ہزار ہا سینوں میں یہ لو جل رہی ہے اس کو بجھنے نہیں دینا اس کو بجھنے نہیں دینا تمہیں خدائے واحد و یگانہ کی قسم اس کو بجھتے نہیں دینا اس مقدس امانت کی حفاظت کرو میں خدائے ذوالجلال والاکرام کے نام کی قسم کھا کر کہتا ہوں اگر تم اس شمع کے امین بنے رہو گے تو خدا اسے کبھی بجھنے نہیں دے گا یہ لو بلند تر ہو گی اور پھیلے گی اور سینہ بہ سینہ روشن ہوتی چلی جائے گی اور تمام روئے زمین کو گھیر لے گی اور تمام تاریکیوں کو اجالوں میں بدل دے گی.دعوت الی اللہ کے دو نکات ) خطبه جمعه ۱۲ اگست ۱۹۸۳ء ) جہاں تک دعوت الی اللہ کا تعلق ہے ہر احمدی کو یہ دو نکات خوب ذہن نشین کر لینے چاہیں اول : یہ کہ تبلیغ کوئی طوعی چندہ نہیں ہے.کوئی نقل نہیں ہے کہ نہ بھی ادا کریں گے تو آپ کی روحانی شخصیت مکمل ہو جائے گی.دعوت الی اللہ فریضہ ہے اور ایسی شدت کے ساتھ خدا تعالی کا حکم ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے.اگر دعوت نہ دی تو تو نے رسالت کو ہی ضائع کر دیا آپ کی امت بھی جواب وہ ہے ہم میں سے ہر ایک جواب دہ ہے.پیغام رسانی لانگا ایک ایسا فریضہ ہے جس سے کسی وقت انسان غافل ہو ہی نہیں سکتا.اجازت ہی نہیں ہے کہ غافل رہے اور دوسری بات یہ کہ آپ جو چاہیں کریں جتنی چاہیں حکمت سے کام لیں اور حکمت سے کام لینا پڑے گا نرمی کریں اور دکھ دہی سے بھیں اور پیار اور محبت کو شیوہ بنائیں اور ایثار سے کام لیں.لیکن یہ نہ سوچ بیٹھیں کہ اس کی وجہ سے آپ کی مخالفت نہیں ہوگی یہ تو خدا تعالیٰ نے پہلے سے متنبہ فرما دیا ہے کہ جب بھی خدا کی طرف سے رسول آئیں گے تو فساد ضرور برپا ہو گا.لیکن فساد کی ذمہ داری کلیتہ فریق مخالف پو ہو گی.ہمارے رسولوں پر نہیں ہو گی...جب آپ پر ----
فساد کی ذمہ داری نہیں ہے تو داعی کو بتا دیا کہ اس طرح دعوت دیتی ہے.کہ دشمن تم پر نظر رکھے گا دشمن تلاش کرے گا کہ تم سے کوئی اونی سی بھی ایسی غلطی ہو جس کے نتیجے میں تم پر ذمہ داری ڈال سکے.اس لیے خبردار تم سید المعصومین کے غلام ہو اس لیے تمہارے اندر بھی لوگ عصمت کا رنگ دیکھیں گے اور کسی قسم کی بے خوفی سرزد نہ ہو.کسی قسم کی حماقت سرزد نہ ہو.کوئی غلطی نہ کر بیٹھیں کہ واقعہ دشمن کے ہاتھ میں کوئی بہانہ آجائے کہ اس وجہ سے ہم ان کو مارتے ہیں.اس وجہ سے ان کی مخالفت کرتے ہیں اور یہ ان کی غلطی ہے.پس دعوت ہمیں دینی ہے ہم تو مجبور ہیں اور ساتھ ہی ایک اور عظیم الشان بات اس آیت میں بیان فرمائی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ ان دو شرطوں کو پور ا کرنے والے تم بنو.اور دعوت دو اور ضرور دو اور دعوت اس طرح دو جس طرح حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم دعوت دیتے ہیں.تو ہر شخص جو یہ وہ شرطیں پوری کرتا ہے یا ہر قوم جو یہ دو شرطیں پوری کرتی ہے واللہ یعصمک من الناس.اللہ فرماتا ہے کہ میں اس بات کا ذمہ دار ہوں میں تمہیں یہ یقین دلاتا ہوں کہ دنیا تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکے گی.پس مخالفت تو ہو گی لیکن ہم دنیا کو یہ توفیق نہیں دیں گے کہ تمہارا نقصان کر سکے.تمہیں کم کر کے دکھا دے.تمہیں چھوٹا کر کے دکھا دے پس جب ہم ان باتوں پر غور کرتے ہیں تو ایک احمدی کو یہ تینوں امور پیش نظر رکھنے چاہیں.اور دعوت اس طرح کرے جس طرح حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم دعوت الی اللہ فرمایا کرتے تھے.دشمن کے لیے بھی دل غم سے بلاک ہو رہا ہوتا تھا کہ نادان لا علمی کے نتیجے میں مخالفت کر رہا ہے.دشمن کی مخالفت کی وجہ سے آنکھوں سے شعلے نہیں برسا کرتے تھے بلکہ محبت کے پانی المتے تھے.دعاؤں کے وقت آنسو برسا کرتے تھے.یہ ہے دعوت کا رنگ اگر اس رنگ کو انتیار کریں گے تو خدا کا یہ وعدہ لازماً آپ کے حق میں پورا ہو گا.واللہ یعصمک من الناس - اللہ حفاظت کرنے والا ہے اس پر توکل کریں وہ ضرور آپ کو بچائے گا.C
لي موثر دعوت الی اللہ کے لئے لازمی شرط دعوت میں حسن خلق کو بہت ہی دخل ہے اور جتنی آپ کے دل میں نرمی ہوگی بنی نوع انسان کی ہمدردی ہو گی.سچائی سے پیار ہو گا تقویٰ ہو گا دل میں خدا کا خوف ہو گا اور اس کے علاوہ حسن خلق بھی ہو گا.اتنی ہی زیادہ آپ کی دعوت موثر اور نتیجہ خیز ہو گی.حسن خلق بہت ضروری ہے لیکن صرف حسن طلق کافی نہیں.یہ غلط فہمیاں دل سے نکال دیں.کئی احمدی کہتے ہیں کہ ہم اپنے اخلاق سے دعوت دے رہے ہیں اور جو شکایت مجھے معلوم ہوئی ہے اس میں یہ بھی محاورہ شامل کیا گیا تھا کہ فلاں دائی نے علاقے میں اچھا بھلا امن برباد کر دیا.وہاں آگ لگا دی.ہم نے اسے متنبہ بھی کر دیا تھا.اور بتا بھی دیا تھا کہ ہم حسن خلق سے بہت خاموش دعوت کا کام کر رہے ہیں.اور کسی مزید شور ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے.حسن خلق کا انکار تو ممکن ہی نہیں.یہ ایک بہت ہی بڑا اور موثر ہتھیار ہے جس کے ذریعہ دعوت پھل لاتی ہے.اس میں کوئی شک نہیں لیکن محض حسن خلق اور زبان سے خاموش یہ تو نہ انبیاء کا دستور ہے اور نہ کوئی معقول آدمی اسے تسلیم کر سکتا ہے کہ اس طرح دعوت پھیل جائے گی.اگر خدا تعالٰی نے صرف حسن خلق سے کام لیتا ہوتا تو دعوت کے حکم کی ضرورت نہ ہوتی.پھر یہ بھی سوچیں کہ آپ کے خلق کو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کیا نسبت 5 چه نسبت خاک را با عالم پاک احمدی اپنے منصب اور مقام کو سمجھیں.پس جو کمزور ہیں اور بزدل ہیں وہ ایک طرف ہو جائیں جماعت تو لازم آگے بڑھے
۷۴ گی.کتنی دیر ہو گئی ہے آپ کو اس ذلت اور رسوائی کی حالت میں زندگی بسر کرتے ہوئے.جب تک آپ تھوڑے رہیں گے.آپ کو ہر وقت کا فرعون حقیر گردانے گا.اور آپ پر ظلم کرے گا...جب تک آپ دعوت کے ذریعہ عالمی انقلاب برپا نہیں کر لیتے آپ کو لازماً اس دکھ کی زندگی میں سے گزرنا پڑے گا.اور ہم تمہارے لئے چارہ نہیں رہنے دیں گے اور تمہارے لیے کوئی رستہ نہیں چھوڑیں گے.یا ہمیشہ کے لئے دکھوں اور ذلت کی زندگی قبول کر لو یا دعوت الی اللہ کرو اور دنیا میں انقلاب برپا کرو.تیری راہ ہی کوئی نہیں پس یہ ہے جماعت احمدیہ کا منصب اور جماعت احمدیہ کا مقام.....جب تک تم تھوڑے ہو تو مخالف کی نگاہ میں غیظ دلاتے رہو گے تمہارا تھوڑا ہونا ، تمہارا کمزور ہونا ہی غیظ کا موجب ہے ورنہ تم میں قصور کوئی نہیں....اس لیے ہمارے لیے ایک ہی راہ ہے.ہر احمدی جہاں تک بس چلتا ہے جہاں تک اس کی پیش جاتی ہے.اپنے گردو پیش اپنے ماحول میں ہر جگہ انقلابی رنگ میں ایک وقف کی صورت میں دعوت الی اللہ شروع کر دے.تب وہ اپنی غیرت کے اظہار میں سچا ہو گا.تب وہ خدا سے کہہ سکے گا کہ اے خدا ! اب تو ہمیں ان کے دکھ سے بچا...پھر دیکھیں خدا کس طرح آپ کی دعوت میں برکت دیتا ہے کس طرح آپ کے کمزور بھی بڑے بڑے طاقتوروں پر غالب آجائیں گے.( خطبہ جمعہ 19 جولائی ۱۹۸۵ء ) روحانی اولاد حاصل کریں اسلام کی حقیقی مشکل میں اتنا حسن ہے اتنی جاذبیت ہے اور اتنی دل رہائی ہے کہ اس کے ساتھ ان کے ذہنوں ہی کا نہیں بلکہ دلوں کا تعلق بھی ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے اس لیے لوگ بالکل بدلی ہوئی کیفیت میں مجلس سے رخصت ہوتے ہیں یہ وہ رو ہے جو خدا تعالی کی طرف سے چلائی گئی ہے اس سے ہمیں بہر حال مزید استفادہ کرنا ہے اس کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ ہر احمدی داعی الی اللہ بنے ہر احمدی اپنے ماحول میں ان مخفی ہے چینیوں کو ابھارے جو اس وقت سارے مغرب کو بے قرار کیئے ہوئے ہیں.
۷۵ چین کو اگر احمدی کرتا ہے تو ہر احمدی مرد.ہر احمدی عورت ہر احمدی بچے کو اپنے ماحول میں کام کرنا ہو گا.اس کے علم کی کمی اس کی راہ میں حائل نہیں ہو گی کیونکہ اب ایسے ذرائع پیدا ہو چکے ہیں کیسٹ کے لٹریچر کے کہ کم علم لوگ جن کو زبان پر بھی عبور نہیں ہے وہ بھی اچھی طرح دعوت دے لیتے ہیں." میں نے جماعت کو متعدد مرتبہ توجہ دلائی ہے کہ دعوت الی اللہ کا فریضہ روحانی اولاد کے حاصل کرنے کے نقطہ نگاہ سے ادا کریں اپنے اندر وہ رجحان اور وہ تڑپ پیدا کریں جو ایک ماں کو بچے کی خواہش کے لیئے ہوتی ہے...یہ ہے وہ اصل تریپ جب تک یہ تڑپ صحیح معنوں میں دعوت میں منتقل نہ ہو جائے اس وقت تک آپ کی دعاؤں میں جان پیدا نہیں ہوگی اس لیے دل میں یہ فیصلہ کریں کہ آپ نے روحانی طور پر صاحب اولاد ہونا ہے اور پھر ایسے دن گئیں اور دیکھیں کہ کتنے دن ضائع ہو گئے اور پھر سوچیں کہ جو بقیہ وقت ہے اس کو میں کس طرح استعمال میں لاؤں کہ خدا تعالیٰ مجھے روحانی اولاد عطا کر دئے آپ دیکھیں گے کہ اس طرح آپ کی دعوت کا رجحان ہی بالکل اور ہو جائے گا ماگئے آپ کی اندرونی طور پر کایا پلٹ جائے گی اس لیے دعوت الی اللہ کا حق ادا کرنا ہے تو ہر احمدی کو دعوت کرنی پڑے گی اپنے ماحول میں دعوت دیں اپنے دوستوں کو دیں تعلقات بڑھانے کے لیے نئی دوستیاں بنائیں ہر وقت مستعد اور تیار رہیں جہاں کسی سے بات کرنے کا موقع ملے اس کے ساتھ تعلقات قائم کر لیے اور پھر دعوت کا کام شروع کر دیا یہ چیزیں ہر جگہ ہونی چاہئیں.) خطبه جمعه فرموده ۴ اکتوبر ۶۱۹۸۵ ) دعوت الی اللہ کے لئے تقوی ضروری ہے جو لوگ داعی الی اللہ بن چکے ہیں اللہ تعالی ان کو بے حد مبارک فرمائے لیکن جو ابھی تک نہیں بنے ان کو فوری توجہ کرنی چاہیئے اور جو بن چکے ہیں ان کو اپنے کاموں کا
64 1 جائزہ لینا چاہیے کہ آیا ان کی کوششیں پھل پیدا کر بھی رہی ہیں یا نہیں بعض ایسے نوجوان ہیں یا بڑی عمر کے لوگ بھی جو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ پورے اخلاص اور تقویٰ سے اللہ تعالی کی طرف دعوت دینے کے پروگرام میں شامل ہوئے اور ان کو ہر سال اللہ تعالٰی پھل دے رہا ہے انہیں ان جگہوں سے پھل دے رہا ہے جنہیں آپ بے پھل کی جگہیں مجھتے ہیں.انہی زمینوں پر پھل دے رہا ہے جنہیں آپ سنگلاخ سمجھتے تھے اس لیے یہ بہانہ تو خدا تعالٰی کے ہاں مقبول نہیں ہو گا کہ ہم ایسے ملک میں رہتے تھے جہاں دنیا پرستی تھی دنیا داری میں لوگ اتنے بڑھ گئے تھے کہ بات نہیں سنتے تھے اس لیئے بات سنانے کا ڈھنگ سیکھنا پڑے گا اور بات سنانے کے ڈھنگ میں خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ تقویٰ سے کام لیا جائے جتنا زیادہ کسی میں تقویٰ ہوتا ہے اس کی بات میں بھی اتنا ہی زیادہ اثر پیدا ہوتا ہے ورنہ خالی چالا کی کام نہیں آتی، خالی علم کام نہیں آتا اس لیے احباب کو چاہیے کہ بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے وہ اپنے اندرونی تقوی کا معیار بلند کریں اور صرف یہ نہ سوچیں کہ فلاں میں نقص تھا اس لیئے بات نہیں سنی گئی یہ بھی غور کریں کہ کہیں کہنے والے میں تو کوئی نقص نہیں ہے یہی بات ایک اور شخص کہتا ہے تو وہ اثر رکھتی ہے.یہی بات ایک اور شخص کہہ رہا ہے تو وہ اثر کھو دیتی ہے اس لیئے بات کا قصور نہیں ہوتا سنے والے کا قصور ہو سکتا ہے لیکن بعید نہیں کہ سننے والے کا بھی قصور نہ ہو بلکہ سنانے والے کا قصور ہو...اس لیے ہر احمدی کو چاہئے کہ وہ اپنی بات کو درست انداز میں پیش کرے اس کے نوک پلک درست کر کے بیان کرے اسے خوبصورت بنائے اور پھر بیان کرے کیونکہ اللہ تعالٰی نے دعوت الی اللہ کے ساتھ حسن قول کا ذکر فرمایا ہے اور پھر حسن عمل کا ذکر ہے اس لیے قول بھی حسین کریں اور عمل جو اس حسن قول کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ رکھتا ہے جس کے بغیر آپ کی باتوں میں غیر معمولی برکت پیدا ہو اللہ تعالی کی طرف سے خاص اثر پیدا ہو اگر یہ شرائط آپ پوری کر دیں تو نا ممکن ہے کہ آپ کی دعوت بے شمر رہ جائے.سال میں ایک احمدی کا عہد : ہر احمدی کو آئندہ دو سال کے لیے دوبارہ یہ عہد
LL کرنا چاہیئے کہ سال میں ایک دفعہ ایک احمدی بنانے کا جو میں عہد کرتا رہا ہوں یا سنتا رہا ہوں کہ مجھے یہ محمد کرنا چاہیے.اب سو سالہ جشن منانے میں آخری دو سال رہ گئے ہیں ان دو سالوں میں بھی اپنا نام خدا تعالی کی اس فہرست میں لکھوالوں جس کا ذکر قرآن کریم کی ان آیات میں ملتا ہے کہ جو شخص خدا تعالٰی کی خاطر اچھا کام کرتا ہے اس پر خدا تعالی کی نظر پڑتی ہے.تو کہیں یہ نہ ہو کہ سو سال کا عرصہ گزر جائے اور پہلے سو سال میں کہیں شمار ہی نہ ہو یہ بہت ہی اہم فریضہ ہے جسے اگلے سو سال کی تیاری کے لیئے ہمیں ادا کرنا ہے...اور جب میں ایک احمدی کہتا ہوں تو مراد یہ ہوتی ہے کہ خاندان کے نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے اور اس طرح ایک خاندان ایک اور خاندان کو احمدی بنائے مقامی طور پر جہاں جہاں اب تک لوگ احمدی نہیں ہوئے وہاں وہاں احمدیت کے پودے لگانے کی کوشش کی جائے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ ہم کم سے کم ایک سو خاندان تو پیش کر سکیں یعنی یہ کہہ سکیں کہ اے خدا ہر سال کا ایک خاندان ہم تیرے حضور پیش کرتے ہیں.اس اہم منصوبہ کا احساس دل میں پیدا کریں.آپ کو چاہیے کہ اس شان سے اگلی صدی میں داخل ہوں کہ آپ کے ساتھ ایک ذریت طیبہ ہو یعنی متقیوں کی ایک عظیم الشان روحانی اولاد ہو جو آپ کے ساتھ ساتھ اجتماعی رنگ میں ایک جلوس مناتے ہوئے اس گیسٹ سے گزر رہی ہو اس کے لیے بہت ہی محنت کی ضرورت ہے سب سے بڑی اور پہلی ضرورت تو یہ ہے کہ اس اہم منصوبہ کا احساس آپ کے دل میں اس قوت کے ساتھ جاگزیں ہو جائے کہ آپ اس احساس کو کسی طرح بھلا نہ سکیں صبح بھی یہ احساس لے کر اٹھیں اور رات کو بھی یہ احساس لے کر سوئیں اور دن کو بھی سارا وقت آپ کے دل میں یہ احساس بیدار رہے گویا ہر احمدی کو چاہیے کہ وہ اپنے دل کو کرید تا رہے کہ اس نے کتنے احمد کی بنائے ہیں.وہ دوسروں کے متعلق یہ سنتا ہے کہ فلاں نے اتنے احمدی بنائے اسے خود یہ سوچنا چاہیے کہ اسے کتنے احمدی بنانے کی توفیق ملی ہے اس لیے ساری دنیا کے احمدیوں کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنے اندر اس احساس کو پیدا کرنے کی طرف متوجہ ہوں.یہ کام دعاؤں سے ہو گا.غرض جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے ہر کام دعا کے بغیر نہیں
ہو سکتا جب آپ دعائیں کریں گے اور تقویٰ کے ساتھ قول حسن اور فعل حسن کے ساتھ دعوت الی اللہ شروع کریں گے تو اللہ تعالٰی لانا آپ کو اس کا پھل عطا فرمائے گا.یہ خدا تعالی کی سنت ہے جسے وہ تبدیل نہیں فرماتا دعوت الی اللہ کے ساتھ دشمن کے کاموں اور تدبیروں پر بھی نظر رکھیں جو کام آپ نے کرنے ہیں اس کے خلاف وہ (دشمن پہلے سے منصوبے بناتا ہے اس لیے لازماً اس کا خیال رکھنا ہو گا کہ ہر کام آپ کے لیئے اس رنگ میں آسمان نہیں ہے کہ آپ اکیلے کام کر رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کوئی مخالفانہ کوشش نہیں ہو رہی ہر جگہ آپ کی مخالفت ہو رہی ہے جہاں جہاں آپ پیغام حق پہنچانے جائیں گے اور جہاں جہاں آپ احمدیت کو پھیلانے کی کوشش کریں گے وہاں رہاں دشمن آپ کا تعاقب کرنے کی کوشش کرے گا ایسے ہی ہے جیسے ہر درخت کے ساتھ بعض بیماریاں لگی ہوتی ہیں بعض جانور اس کو نقصان پہنچانے کے درپے ہوتے ہیں جو زمیندار کو اس کی محنت کے پھل سے محروم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کچھ اندرونی کیڑے ہوتے ہیں کچھ بیرونی کیڑے ہوتے ہیں پس وہاں ان کیڑوں کی تلفی کی کوشش کی جائے جو آپ کی جڑوں میں ہو سکتے ہیں یعنی تقویٰ کی کمی اور ان مصالحوں کی کی جن کی طرف قرآن کریم توجہ دلا رہا ہے وہاں بیرونی نظر کو بھی بیدار کیا جائے اور ہوشیاری کے ساتھ دشمن کے کاموں اور اس کی تدبیروں پر بھی نظر رکھی جائے آپ اس کام میں اس رنگ میں محنت کریں کہ آپ کی محنت کو جانور نہ کھا جائیں اور آپ کی محنت کو لٹیرے نہ لے اڑیں.خطبہ جمعہ ۳۰ جنوری ۱۹۸۷ء ) کسی لمحہ بھی دعوت الی اللہ کو ترک نہ کریں وہ لوگ جو اس خیال سے دعوت الی اللہ چھوڑ چکے ہیں کہ اب یہ بند ہو گئی ہے بڑی سختی ہو رہی ہے ہم دعوت کریں تو یہ مصیبت پڑے گی یہ ان کا واہمہ ہے جو لوگ دعوت نہیں کریں گے ان پر بھی دعوت کا الزام لگنا ہی لگتا ہے کیونکہ مقابل پر جھوٹے ہیں اس لیے اگر دعوت نہ کر کے آپ قید کیئے جائیں گے تو یہ تو گناہ بے لذت ہے اس کا کوئی فائدہ ہی نہیں اس سزا پر آپ کو کوئی اجر نہیں ملے گا اس لیے جب جیل جانا ہی ہے تو پھر دعوت الی اللہ کر کے قید میں جائیں تاکہ خدا کے پیار کے مورد بنیں آپ کی ادنی سی
29 قربانیوں کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور پیار سے نوازے اور یہ وہ اجر ہے جو خدا اپنے ان بندوں کو عطا فرماتا ہے جو اس کی راہ میں دکھ اٹھاتے ہیں.دعوت کے ذریعہ غالب آنا : دعوت کے ذریعہ غالب آنا جماعت احمدیہ کا مقدر بن چکا ہے سو اس مقصد کو ہمیشہ مد نظر رکھیں اور آگے بڑھتے چلے جائیں ایک دن تو کیا ایک لمحہ بھی اپنے اوپر غفلت کا نہ آنے دیں اور یاد رکھیں کہ بہرحال آپ نے ترقی کرنی ہے ہر حال میں آپ نے فاصلے طے کرنے ہیں حملہ آوروں کا ایک قافلہ آپ پیچھے چھوڑ جائیں گے تو آگے آپ کی راہ میں کوئی اور بیٹھا ہو گا....دشمن کا یہ سلوک تو آپ کے ساتھ بہر حال چلے گا آج کچھ لوگ آپ کے دشمن ہوں گے تو کل کچھ اور آجائیں گے گو ان کے نام بدل جائیں گے...یہ وہ اعلیٰ سفر ہے جو آپ کو درپیش ہے اس میں دشمن کی قدموم ترکتوں کو اس بات کی ہرگز اجازت نہیں ملنی چاہیے کہ وہ کسی قسم کا بداثر ڈال سکیں یا آپ کی رفتار کو روک سکیں یا آپ کی توجہ کو بانٹ سکیں اور خدانخواستہ آپ زندگی کے اعلیٰ مقصد کو بھلا دیں.دعوت الی اللہ کا روح پرور پروگرام خطبه جمعه ۲۰ فروری ۱۹۸۷ء) دعوت الی اللہ کا پروگرام کوئی معمولی پروگرام نہیں ہے.اگلی صدی کے کنارے پر بیٹھے ہیں اور ساری دنیا کو دین حق میں لانے کا تہیہ کر کے ایک سو سال سے جو کوشش کر رہے ہیں.ابھی تک کسی ایک ملک میں بھی واضح اکثریت حاصل کرنا تو در کنار نصف تک بھی ہم نہیں پہنچ سکے.ابھی تک ہمیں کسی ملک میں دسواں حصہ بھی کامیابی نہیں ہو سکی.داعی الی اللہ چین سے نہ بیٹھے : ساری دنیا کو اسلام میں داخل کرنا یہ کوئی معمولی ذمہ داری نہیں ہے.جو خدا تعالٰی نے ہمارے کندھوں پر ڈالی ہے اس کے لیے ہمیں ا سنجیدگی سے تیاری کرنی ہے اور اس کا اس کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے کہ ہم میں سے ہر شخص دعوت الی اللہ کرے اور مؤثر دعوت کرے.اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے
۸۰ جب تک خدا تعالٰی کے فضل کے ساتھ اس کی دعوت کو پھل لگتے نہ لگ جائے.عہدے داران کے فرائض : جہاں تک عہدے داران کا تعلق ہے.خواہ میں ان کی جواب طلی تے کروں.ان کو ہرگز بھولنا نہیں چاہئے کہ اگر وہ اس بات کو بھول جائیں گے تو جماعت بھی بھول جائے گی عمدے داران پر بہت بھاری ذمہ داری عائکہ ہوتی ہے کہ وہ خود بھی یاد رکھیں اور بار بار پلٹ پلٹ کر جماعت کے حالات کو دیکھتے رہیں کہ کس حد تک کام آگے جاری ہے.یہ عمو گاید زمان پایا جاتا ہے کہ عہدیداران چند آدمیوں کے نیک کام کو اپنی رپورٹ میں سمیٹتے ہیں.ان کی حالت آسٹریلیا کے قدیم باشندوں Aborigines کی طرح ہے وہ خود محنت کر کے چیز اگانے کی بجائے قدرت جو پھل دیتی ہے اس کو سمیٹنے والے لوگ تھے مارے اکثر منتظمین کام سمیٹ رہے ہیں.خدا تعالٰی نے اپنے فضل سے جہاں دو چاریا دس داعی الی اللہ دے دیتے ہیں ان کی رپورٹوں کو سمیٹ کر ان کی رپورٹ مزین اور خوبصورت ہو جاتی ہے اور مرکز کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ گویا ساری جماعت بڑا اچھا کام کر رہی ہے.دیکھیں اتنا اچھا پھل لگ گیا.حالانکہ بعض اوقات جو داعی الی اللہ ہیں ان کو بنانے میں ان کا کوئی دخل نہیں ہوتا.داعی الی اللہ کا کام یہ ہے کہ خود اپنی زمینیں بنائے اس کا کام یہ ہے کہ کاشت کی نئی کھیتیاں پیدا کرے.اس کا کام یہ ہے کہ نئے درخت لگائے اور پھر خدا تعالیٰ کے سامنے صاف دل کے ساتھ پیش ہو کر کہے اے خدا ! اس سال میری محنت کا یہ پھل ہے.میں نے کوشش کی تو نے اپنے فضل کے ساتھ مجھے توفیق عطا فرمائی کہ میں نے تیری راہ میں نئے کھیت اگائے ہیں اور تیری راہ میں نئے باغ لگائے ہیں پس دعوت الی اللہ کے باغ اور کھیت اگانا یہ عہدے داران کا کام ہے یہ محض نصیحت سے نہیں ہو گا.یہ محض یاد دھانی سے بھی نہیں ہو گا.یہ ساتھ لگ کر کام سکھانے سے ہوتا ہے.ان میں بعض عادتیں واضح کرنے سے ہوتا ہے بعض لوگوں کو پکڑ کر اپنے ساتھ لگانے اور پھر ان کے ساتھ پیار کا تعلق قائم کرنے ان کے دلوں میں کام کی محبت پیدا کرنا یہ ایک فن ہے اور اس فن کے متعلق قرآن کریم نے ہمیشہ کے لئے نہایت ہی عمدہ اصولی روشنی ڈالی ہے جس سے ہمیں استفادہ کرنا چاہیے...
دعوت الی اللہ کے ضمن میں قرآن مجید کی اصولی راہنمائی: حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خدا تعالٰی نے جو طریق تبلیغ و تربیت کا بتایا اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا.ہر مرلی ہر داعی ہر امیر ہر صدر اور ہر متعلقہ عہدے دار کو خواہ وہ سیکرٹری اصلاح و ارشاد ہو یا جس حیثیت سے بھی اس کام ہے اس کا تعلق ہے اس کو چاہیے کہ جماعت کے بعض افراد کو کپڑے اور نصر من ایک کے تابع ان کو اپنے ساتھ وابستہ کرے.اپنے ساتھ ملا کر ان سے پیار و محبت کا تعلق قائم کر کے ان کی تربیت کرے.تھوڑے تھوڑے کام ان کے سپرد کرے پھر ان کو دنیا میں پھیلا دے.اور ان کے ذریعہ احیائے موتی کا کام لے.پھر دوبارہ کل آٹھ دس.یا میں نوجوان پکڑے جتنی بھی خدا توفیق بڑھاتا چلا جائے.اس کے مطابق ان کو لے کر ان کی طرف توجہ کرے چند مہینے ان کے ساتھ محنت کرے.پیار اور محبت کے ساتھ ان کو طریقے سمجھائے اور جب وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں گے تو پھر اپنے کام وہ خود سنبھال لیں گے اس طرح ہر وقت پہلے سے بڑھتی ہوئی تعداد پیش نظر رہنی چاہیے ذہن پر یہ بات مسلسل حاوی رہنی چاہیے کہ ہر جماعت میں دعوت الی اللہ کرنے والے پہلے سے ہوتے ہیں یا نہیں.کیا میں اپنی تعداد پر بڑھے راضی ہوں.یا میں عمدہ کوشش کر رہا ہوں.کہ پہلے سے تعداد بڑھتی چلی جائے.جن کو دعوت دی جاتی ہے ان کے طبقات اس کے علاوہ یہ بھی دیکھنا ہے کہ جن لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے ان میں کتنے طبقات ہیں اور کیا ہر طبقے کی طرف ہم متوجہ ہیں یا نہیں ہر طبقے کے اپنے اپنے حالات ہیں ہر طبقہ مزاج کے لحاظ سے یکساں مذہبی نہیں.آپ جب بھی کسی نئے طبقے کی طرف توجہ کریں تو دوباره از سرنو داعی کو یا امیر کویا جو بھی عہدے دار ہے اس طبقہ کو ملحوظ رکھ کر نئی محنت کرنی ہو گی جائزہ لینا پڑے گا کہ لٹریچر موجود ہے یا نہیں.کیسٹس موجود ہیں یا نہیں دیگر معلومات جو گفتگو کے دوران چاہیں وہ ان لوگوں کے پاس موجود ہیں یا نہیں.جس طبقہ انسانیت کی طرف توجہ ہے ان کے حالات سے وہ آگاہ ہیں یا نہیں.پھر قیدی ہیں کئی جرموں کے نتیجہ میں اور کئی بغیر جرم کے قید ہو جاتے ہیں ان کو قید کے دوران اصلاح کی طرف توجہ پیدا ہو جاتی ہے اس
٨٣ وقت ان کے پاس وقت ہوتا ہے اس وقت وہ نیک باتوں کو سننے اور ان پر عمل کرنے کا خاص مزاج رکھتے ہیں.پھر ہسپتالوں میں بیمار لوگ ہیں.غریب لوگ ہیں.جن کو رشتے داریوں کی کمی کی وجہ سے یا بوڑھا ہونے کی وجہ سے پوچھنے والا کوئی نہیں.کئی مسافر ایکسیڈنٹ کا شکار ہو جاتے ہیں.غرضیکہ ہر طرف ایسے طبقے پھیلے پڑے ہیں جن کو نئی زندگی دینے کا کام آپ کے سپرد ہے اور ہر طبقہ کو ملحوظ رکھ کر اس کام کو آگے بڑھانا ہو گا.ذیلی تنظیموں اور جماعتی عہدے داروں کی ذمہ داری : سب سے اہم ذمہ داری کسی ملک کے امیر کی ہے اور اس ملک کے مربی کی ہے اور اس ملک کی مجلس عاملہ کی من حیث المجموع ذمہ داری ہے اور متعلقہ عہدے داران کی زمہ داری ہے اسی طرح خدام اور انصار میں اگر سارے اپنی ذمہ داریوں کو پیش نظر رکھ کر حکمت کے ساتھ مسلسل آگے بڑھیں گے اور جو نصیحت کی جاتی ہے اور اس کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہیں کریں گے تو دیکھتے ہی دیکھتے جماعتوں کی کایا پلٹ جائے گی.بعض دفعہ سنتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں ہاں خلیفہ وقت نے کہہ دیا ہے ٹھیک ہے تھوڑی دیر کے بعد یہ بھی بھول جائے گا ہم بھی بھول جائیں گے.میں تو انشاء اللہ نہیں بھولوں گا.کیونکہ مجھے تو خدا یاد کروا دیتا ہے.آپ بھولیں گے تو جرم کریں گے.میری تو دن رات کی یہ تمنا ہے دن رات دل میں ایک آگ لگی ہوئی ہے میں کیسے بھول سکتا ہوں.اس لئے اللہ مجھے یاد کرواتا رہے گا.اور میں یاد رکھوں گا اور آپ کو بھی یاد کرواتا رہوں گا.لیکن اگر آپ نے غفلت کی وجہ سے اس بات کو بھلا دیا تو یاد رکھیں کہ آپ خدا کے سامنے جواب دہ ہوں گے.اس لیے نہ خود بھولیں اور نہ دوسروں کو بھولنے دیں.آج جماعت کی سب سے بڑی اور سب سے اہم ذمہ داری خدا کا پیغام دوسروں تک پہنچانا ہے اور اس میں ہم پہلے ہی پیچھے رہ گئے ہیں.ضائع کرنے کا کونسا وقت رہ گیا ہے.ہر شخص کو تربیت دیں پیار اور محبت سے سمجھا کر آگے بڑھائیں.اور جو ایک دفعہ اس میدان کا سوار بن جائے گا پھر آپ کو دوبارہ اس کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت نہیں رہے گی.
A دعوت الی اللہ کا نشہ : یہ کام ہی ایسا ہے جس طرح دنیا والے نشہ کرتے ہیں تو نشہ ان کو سنبھال لیتا ہے اسی طرح دعوت الی اللہ کا کام ایسا ہے جو نشے سے بڑھ کر طاقت رکھتا ہے اور داعیان کو سنبھال لیتا ہے.داعی الی اللہ بنا رہتا ہے اس کو کسی اور کام میں دلچسپی ہی نہیں رہتی.بعض داعی الی اللہ دعوت الی اللہ میں ایسے محو ہوتے ہیں کہ اپنے گھر کے حالات بھول جاتے ہیں.اپنے خاندان کو بھول جاتے ہیں.دن رات ایک کام کی لگن ہو جاتی ہے.(حضرت مسیح موعود کے ایک رفیق برادرم عبد العزیز صاحب مغل آف لاہور کی مثال ہے گھر سے سبزی لینے نکلتے اور دعوت الی اللہ میں ایسے مشغول ہوتے کہ رات کو گھر واپس آتے ) داعی الی اللہ کی راہنمائی خود خدا تعالٰی کرتا ہے: ایک داعی الی اللہ اگر خالعہ اللہ تعالی کی محبت میں کام شروع کرتا ہے اس پر توکل کر کے کام شروع کرتا ہے تو بسا اوقات خدا اس کی ایسی ایسی حیرت انگیز راہنمائی فرماتا ہے کہ اسے پتہ ہی نہیں ہو تا کہ کس طرح یہ دلیل اس کے ذہن میں آئی اور کس طرح خدا تعالٰی نے اس عظیم الشان غلبہ عطا کیا...اس لیے علم کی کمی کا بہانہ لے کر میدان سے نہ بھاگیں.جو کچھ آپ کے پاس ہے خدا کے سپرد کر دیں.پھر دیکھیں خدا اپنا حصہ کتنا ڈالتا ہے.یہ بات میں وسیع تجربے کے بعد کر رہا ہوں.جو احمدی بھی لاعلمی کے باوجود دعوت الی اللہ کے میدان میں کودتے ہیں.ہر قسم کے دشمن سے واسطہ کے باوجود کبھی بھی خفت محسوس نہیں کرتے کبھی بھی خدا ان کو ذلیل نہیں ہونے دیتا.داعی الی اللہ کے اوصاف : ایک عام آدمی جس کو ایک زبان بھی نہیں آتی اور اس کو زیادہ دینی علم بھی نہیں ہے اس کو خدا تعالیٰ نے یہ توفیق عطا فرما دی.اس لیے کہ اس کا جذبہ خلوص سچا تھا.اس لئے کہ اس کے دل کی بے قرار تمنا تھی اس لیے کہ وہ دعا کرتا تھا اور پھر ایک خوبی جو داعی الی اللہ میں ہونا ضروری ہے وہ اس میں موجود تھی کہ زبان کا میٹھا تھا.سارا علم بے کار ہو جاتا ہے اگر ایک انسان مشتعل مزاج ہو.اگر مغلوب الغضب ہو تو وہ دنیا کے کسی کام کا بھی نہیں رہتا.خصوصا اس وقت جب غیر سے مقابلہ ہو اس وقت تو بہت ہی متحمل ہونا چاہئے.اپنے جذبات پر کنٹرول ہونا اور حوصلے سے
۸۴ اس کی دشمنی کی بات کو سنتا اور پھر محبت اور پیار اس کو سمجھانا اور جواب دیتا یہ دعوت عمل اللہ کا ایسا سلیقہ ہے جو اگر کسی کو حاصل ہو جائے تو بڑے بڑے عالموں پر حاوی ہو سکتا دعوت الی اللہ میں دلوں کو جیتنا ضروری ہے : دعوت الی اللہ میں دماغ سے زیادہ دل جیتے ہوتے ہیں.اس نکتہ کو یاد رکھنا چاہیے جب دل جیتنے ہوتے ہیں.اس نکتہ کو یاد رکھنا چاہئے جب دل جیت لیے تو تین چوتھائی کام وہیں ختم ہو گیا.پھر دماغ جیتنا کوئی مشکل نہیں اگر آپ کسی کا دل پیار اور محبت سے جیت لیں تو وہ باتیں جو حضرت سیح موعود کے کلام اور اس کے دل کے درمیان حائل تھیں.جو دیوار بیچ میں کھڑی تھی وہ ختم ہو جاتی ہے.پس اپنی زبان کو سلیقہ دیں.اپنے دل کو سلیقہ دیں.دلوں میں مٹھاس پیدا کریں زبان سے جو بات نکلے وہ دل کی مٹھاس میں بہتی ہوئی ہو.عجز اور اکسار پیدا کریں پھر دیکھیں کہ خدا تعالٰی کے فضل سے آپ کی دعوت الی اللہ کو کتنی عظیم الشان برکت ملتی ہے دیکھتے ہی دیکھتے دل فتح ہونے شروع ہو جائیں گے.دعا کی ضرورت : سب سے آخر پر لیکن سب سے اہم یہ کہ دعا کی طرف متوجہ کرتا ہوں دعوت الی اللہ کی ہر منزل پر دعا کی عادت ڈالیں.دعوت کے دوران دعا کریں گھر جا کر دعا کریں اپنے بچوں کو کہیں کہ دعا کرو.اگر آپ اس سنجیدگی کے ساتھ دعوت الی اللہ کی طرف توجہ کریں گے اور اپنا دل بیچ میں ڈال دیں گے اپنی معصوم اولاد کو بھی ساتھ شامل کریں گے اور جذبے کے ساتھ ان کو کہیں گے کہ خدا کے لیے میری مدد کرو.میرا دل چاہتا ہے مگر میں مجبور اور بے اختیار ہوں میرا بس نہیں چلتا پھر دیکھیں کہ خدا معصوم بچوں کی دعائیں آپ کے ساتھ شامل کرے گا.آپ کے الفاظ میں کتنی عظیم الشان طاقت پیدا ہو جائے گی.آپ قوموں کو فتح کرنے کے لیے پیدا کئے گئے ہیں لیکن قوموں کو محبت اور پیار کے غالب جذبے اور دعاؤں کے ذریعہ آپ نے فع کرتا ہے.یہ سلیقے سیکھیں اور یہ سلیقے اپنی اولاد کو سکھائیں اگر آپ ایسا کریں گے تو دیکھتے ہی دیکھتے جماعت کی کایا پلٹ جائے گی.نئی زندگی پیدا ہو جائے گی نئی روحانیت آپ کو عطا ہو گی.خطبه جمعه ۲۱ اگست ۱۹۸۷ء )
۸۵ دعوت الی اللہ کے کام تیز کرو اللہ تعالی نے جماعت احمدیہ کو کھیتی لگانے والے قرار دیا ہے لیکن ہر احمدی کو اپنے اس مقام کا علم نہیں جس کی وجہ سے ہم نے بہت نقصان اٹھایا ہے ہر احمدی سے جب میں یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ دعوت الی اللہ کرے اور خدا کی راہ میں کھیتی اگائے اور روحانی اولاد پیدا کرے تو لوگ سمجھتے ہیں مجھے جنون ہو گیا ہے کہ احباب جماعت کو دعوت الی اللہ کی طرف توجہ دلاتا ہوں حالانکہ قرآن کریم میں ہر ایک پر دعوت الی اللہ فرض بھی نہیں ہے.ا اگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھی بننا ہے تو پھر دعوت الی اللہ ہر ایک پر ضرور فرض ہے کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وہی ساتھی شمار ہوں گے جو خدا کی راہ میں کھیتی اگائیں گے اور پھر اس کی پرورش خود کریں گے یہاں تک کہ وہ کھیتی توانا ہو جائے لہذا ہر ہر احمدی جو کسی بھی جگہ دعوت الی اللہ کا کام کرتا ہے اس کا کلام اللہ میں ذکر موجود ہے اس لئے اگر خدا کی بیان کردہ تعریف کی رو سے آپ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھی بنتے ہیں تو آپ کو لازما خدا کی راہ میں کھیتی اگائی ہو گی نئے نئے روحانی وجود پیدا کرنے ہوں گے.یہ اتنا مشکل کام نہیں ہے.جو بھی اخلاص سے کرتا ہے اس کو اس کا اجر ضرور ملتا ہے ہر شخص کے لئے دعوت کا رستہ کھلا ہے اور اس کے اتنے مواقع دنیا میں پیدا ہوتے ہیں کہ اگر ایک شخص بیدار مغزی کے ساتھ رہتے تلاش کرنا چاہے تو اللہ تعالی خود رستے بہیا فرما دیتا ہے.جس طرح کھیتی کے بعض کمزور حصے بار بار محنت پر ضرور پھل لاتے ہیں اسی طرح دعوت الی اللہ کے کام میں بھی بار بار کی یاد دہانی اور بار بار کی محنت سے ضرور پھل ملیں گے اس لئے امراء جماعت کو خواہ وہ کسی مسلک کے ہوں اور متعلقہ سیکرٹریان کو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ایک یا دو دفعہ کی نصیحت سے کام نہیں چلے گا بلکہ اس کام کو ہر مہینے مجالس عالمہ کی میٹنگز میں ضرور ایجنڈے میں رکھا جائے اور دعوت الی اللہ کے کام کا جائزہ لیا جائے کہ کیا کام ہوا ہے.کہاں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اگر آپ امام جماعت احمدیہ کی ہدایات کو تخفیف کی نظر سے دیکھیں گے تو آپ سے برکتیں
۸۶ اٹھ جائیں گی اگر آپ ان ہدایات پر اخلاص اور سنجید گی سے توجہ دیں گے خواہ وہ آپ کو سنجیدگی کچھ میں آئیں یا نہ آئیں تو آپ کے کاموں میں غیر معمولی برکت پڑے گی.بعض جماعتوں میں گنتی کے لوگ ہیں جو یہ کام کرتے ہیں اور ساری جماعت ان کے کام کی وجہ سے اپنے پر فخر کرتی ہے اور اپنی جگہ مطمئن ہے کہ کام ہو رہا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر جماعت کا ہر فرد دعوت الی اللہ کے کام میں شامل ہو آپ دوسروں کے کئے شکار سے کیوں کھاتے ہیں خدا کے وہ شیر بنیں جنہوں نے خدا کی راہ میں خود کچھ پیدا کرنا ہے دوسروں کے شکار پر زندہ نہیں رہنا اس لیے رپورٹوں میں بعض لوگوں کے کام کو اجاگر کر کے مجھے مطمئن کرنے کی کوشش نہ کیا کریں بلکہ بریکار کھیتوں کی طرف بھی توجہ دیں ہر ایک کو زراع کی جماعت میں شامل کریں.جو پروگرام امام جماعت احمدیہ کی طرف سے دیا جاتا ہے اس کو توجہ سے سن کر عمل کے سانچے میں ڈھالا کریں اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ کی زندگیوں میں پاک تبدیلیاں ہوں گی اور آپ کو زندہ رہنے کا زیادہ لطف آئے گا جو دعوت الی اللہ کی طرف توجہ نہیں دیتے وہ قابل رحم ہیں اس لیئے اپنے اوپر رحم کریں اور ان نصیحتوں کی طرف توجہ کریں اللہ تعالی اس کی توفیق عطا فرمائے؟ دعوت الی اللہ اور تعلق باللہ (خطبہ جمعہ نومبر ۶۱۹۸۷ ) دعوت الی اللہ کا بھی تعلق باللہ سے بڑا گہرا تعلق ہے کیونکہ نصیحت اس وقت ہی کارگر ہو سکتی ہے جب اللہ سے تعلق قائم ہو ایسے انسان کی نصیحت میں انقلابی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے اس لیے تعلق باللہ پیدا کریں اور اس کے اظہار کے طور پر ایک ہو جائیں تب آپ میں وہ عظمت پیدا ہوگی جس کے نتیجہ میں آپ کی نصائح میں ایسی قوت آ جائے گی کہ دوسرا اس کا انکار نہیں کر سکے گا.اپنے دلوں کو خدا کی تخت گاہ بنا لو تو تم دیکھو گے کہ غیروں کے لئے احمدیت کے دامن میں آئے بغیر چارہ نہیں رہے گا وہ تمہاری آواز پر لبیک کہتے ہوئے دوڑے چلے آئیں گے.(خطبہ جمعہ ۱۳ نومبر ۶۱۹۸۷ )
۸۷ روحانی انقلاب تیار ہے وہ احمدی جو ابھی تک دعوت الی اللہ کے کام سے غافل ہیں ان کو میں بتاتا ہوں کہ اب تو یہ حالت ہے کہ وہ مجرم بنتے چلے جا رہے ہیں خدا کی تقدیر ان لوگوں کو قریب لانے کا انتظام کر رہی ہے...اس کے باوجود اگر آپ ان کو دین حق سے متعارف نہیں کرواتے تو ان کو دین حق سے محروم رکھنے کا گناہ آپ سرلیتے ہیں اور یہ بڑی جرات ہے اور بڑی بے حسی بھی ہے اللہ تعالی نے وہ ہوائیں چلا دی ہیں جن کے نتیجہ میں اسلامی انقلاب قریب آ رہا ہے دل دین حق کی طرف مائل ہو رہے ہیں.اس کے باوجود آپ کا دعوت الی اللہ کی سعادت سے محروم رہنا نہ تو عقل کے مطابق ہے اور نہ کسی اور پہلو سے بھی کوئی معقول بات دکھائی دیتی ہے یہ محرومی ہی نہیں بلکہ گناہ بن جاتا ہے اس لئے میں براعظم یورپ اور امریکہ میں بسنے والی جماعتوں کو بالخصوص اور باقی جماعتوں کو بالعموم یاد کروانا چاہتا ہوں کہ وہ ہوا چل پڑی ہے جس ہوا کے نتیجہ میں اللہ تعالی کے فضل سے دین حق کو بالا خر دنیا پر غلبہ نصیب ہوتا ہے اس لئے دعوت الی اللہ کے کام میں آپ کی انتہائی جدوجہد کوشش اور دلچسپی لینے کی ضرورت ہے.دلچسپی پیدا کرنے کا طریق : جب میں یہ کہتا ہوں کہ دلچسپی لیں اکثر دوستوں کو طریق کار کا پتہ نہیں ہوتا اس لئے میں نے بار بار جماعتوں کو متوجہ کیا ہے کہ ہر مہینے وہ اپنی مجلس عاملہ میں یہ بات رکھا کریں کہ کتنے دوست دعوت الی اللہ میں دلچسپی لے رہے ہیں اور جو دلچسپی لے رہے ہیں ان کو تبلیغ کا سلیقہ بھی آتا ہے یا نہیں اور جو لوگ اس میں دلچسپی نہیں لے رہے ہو کیوں نہیں لے رہے ان میں اکثر ایسے دوست ہوں گے جن کے دل میں تمنا تو ہو گی لیکن پتہ نہیں ہو گا کہ کیسے تبلیغ کرنی ہے.خلیفہ وقت کی بات کو نظر انداز کرنا باغیانہ رجحان ہے : میں ان (مجالس عاملہ کو متوجہ کرتا ہوں کہ خلیفہ وقت کی طرف سے آپ کو کوئی بات پہنچائی جائے تو اس میں ایک حکمت ہوتی ہے اس میں ایک فائدہ ہوتا ہے اس کے نظر انداز کرنے سے آپ بہت کی سعادتوں سے محروم رہ جاتے ہیں.اور جو کھلی کھلی بر سر عام ہدایت دی گئی ہے اس کی
خلاف ورزی کرنا تو ایک قسم کا باغیانہ رجحان ہے.پس نظام جماعت کے نمائندہ لوگوں کا فرض بن جاتا ہے کہ جب کبھی ان کو کوئی ایسی ہدایت دی جائے وہ اس پر عمل کرنا شروع کر دیں اس میں بہت بڑی سعادت ہے اس کے نتیجہ میں خدا ان کو بہت ساری نیکیاں نصیب فرمائے گا بہت ساری نئی نیکیوں کی توفیق عطا فرمائے گا ان کی کوشش کو مزید بہتر پھل لگنے شروع ہو جائیں گے.ا اس لیے میں دوبارہ یا دہانی کرانی چاہتا ہوں کہ یورپ میں بھی اور امریکہ میں بھی اور باقی ساری دنیا کی جماعتیں بھی اس بات پر پابندی کے ساتھ قائم ہو جائیں کہ ہر مہینے ایک دفعہ مجلس عاملہ میں ان باتوں پر غور کیا جائے کہ کہاں تک جماعت دعوت الی اللہ کا کام کر رہی ہے جہاں دعوت الی اللہ نہیں کر رہے ہیں وہاں کیوں نہیں کر رہے اور ایسے کون سے ذرائع اختیار کرنے چاہیں جن کے نتیجہ میں دعوت الی اللہ کا کام تیز ہو سکے اور معنی خیز ہو سکے پس اگر ہم اس سنجیدگی کے ساتھ کام کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ بہت تیزی کے ساتھ دنیا میں انقلاب پیدا ہونا شروع ہو جائے گا.دعوت الی اللہ کے لئے جذبہ اور دعا کی ضرورت : پس دعوت الی اللہ کے لیے سب سے زیادہ ضرورت ایک تو جذبے کی ہے اور دوسرے دعا کی ہے علم اور دلیل اور اسی طرح باقی سب چیزیں بعد کی ہیں یہ دو باتیں آپ اپنے اندر پیدا کر لیں ایک یہ کہ آپ اپنے اندر جذبہ پیدا کریں اور دوسرے یہ کہ اپنے لیے دعا کرنی شروع کر دیں کہ خدا اس کا کام کے کرنے کی توفیق عطا فرمائے تو باقی سارے مراحل انشاء اللہ آسانی سے ملے ہو جائیں گے.داعی الی اللہ کون ہے ؟ خطبہ جمعہ ۲۵ نومبر ۱۹۸۷ء ) داعی الی اللہ تو وہ ہوتا ہے کہ جب ایک دفعہ عہد کرتا ہے تو پھر عمر بھر اس عمد کو کامل وفا کے ساتھ نباہتا ہے اور آخری سانس تک داعی الی اللہ بنا رہتا ہے.( الفضل ۵ جون ۱۹۸۳ء )