Radd-e-Tanasukh

Radd-e-Tanasukh

رَدْ تَنَاسُخْ

Author: Hazrat Hakeem Noor-ud-Deen

Language: UR

UR

اس کتاب کو پہلی دفعہ منشی غلام قادر فصیح نے 1891 ءمیں شائع کیا تھا۔ کاتب کی لکھائی میں 40  صفحات پہ مشتمل اس قیمتی کتاب کو دوبارہ دسمبر 1921 ءمیں میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر الفاروق نے شائع کیا۔ آیات کا اردو ترجمہ فٹ نوٹ میں درج کیا گیا ہے۔ انجمن احمدیہ اشاعت اسلام لاہورنے بھی اس کواپنی ویب سائٹ پرجاری کر رکھا ہے۔جس میں آخری دو صفحات شامل نہیں کئے گئے جن پر فاروق ایجنسی قادیان کی طرف سے آریہ عقائد کے رد میں تیار کی گئی 10کتب کا تعارف درج ہے۔ اس کتاب کے شروع میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ کا تحریر کردہ پیش لفظ موجود ہے۔ آریوں کے مایہ ناز مسئلہ تناسخ کا اس رسالہ میں منقولی اورمعقولی رنگ میں رد کیا گیا ہے۔ اور اس مسئلہ پر ایسی روشنی ڈالی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص تعصب سے خالی ہوکر اس کو دیکھے گا وہ کبھی تناسخ کا قائل نہیں رہے گا۔


Book Content

Page 1

رد تناسخ مصنفه عالیجناب حضرت خلیفہ ایسی مولوی نورالدین صاحبه سیر وی ثم قادیانی خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ بارد و هم ماه دسمبر خاکسار قاسم علی احمدی ایڈیٹر فاروق قادیان سے اپنے فاروق پر میں قادیان میں باہتمام خود طبع کرا سکے فاروق منزل سے شائع کیا.قیمت علاوہ محصولڈاک

Page 2

7bd دیباچہ طبع ثانی خداوند جل و علا کی تعریف کرنے کو خود بخود دل چاہتا ہے کیونکہ اوکی صفت رحیمیت نے خاکسار ایڈیٹر فاروق کو یہ توفیق عطا فرمائی کہ فاروق پر میں جاری ہو گیا اور اس پر لیس سے سلسلہ عالیہ احمدیہ کیخدمت کا کام لیا.اور دن رات اسی خدمت اسلام میں پریس کو لگا دیا.ثم الحمد اللہ علی ذلك : احباب کرام کو معلوم ہو گا کہ یہ عجالہ رو تناسخ ساشا نہ عرمین منشی غلام قادر فصیح نے بار اول پر پنجاب پرمیس میں طبع کرایا تھا جس کو آج تیس سال کا عرصہ گزر چکا.یہ رسالہ ہدایت مقالہ حضرت مصنف نور الدین اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں ہی ختم ہو چکا تھا.مگر کسی کا خیال اس کی طبع ثانی کی طرف نہ ہوا تو خاکسار خادم سلسلہ نے اس کو فائدہ عام کیلئے دوبارہ طبع کرا دیا.ارادہ ہے کہ حضور محمدوح کی تالیف لطیف تصدیق براہین احمدیہ بھی تو بالکل نایاب ہے توفیق الہی بار دوم چھاپ کر شائع کروں.ناظرین دعا کرین کہ خدا تعالے اوسکا بھی مجھے موفقہ عطا فرما دے.آمین :- خادم سلسله خاکسار قاسم علی ایڈیٹر فاروق قادیان ۲۳ دسمبر ۶۱۹

Page 3

ديبا جا ایسے مہربان سولا کی حمد کہ نیکو کیوں بے اختیار جی نہ چاہو جس کی صفت رحمانی نے اظہار عظمت و جلال کیلئے انسان کو محض نیستی کے ظلمت خانہ سے نکالا ہستی کا نورانی جامہ پہنایا.پھر اُسے سمیع و بصیر بنا کہ اپنے افعال کا جوابدہ قرار دیا.اور صفت رحم کو اپنی سب صفات پر سبقت دیگر اُسے بے حد فضل کا امیدوار بنایا.ایسے رؤف رحیم ہادی علیہ فضل الصلواة والتحیات) پر ایمان لاناکیوں واجب نہ سمجھا جاوے.جسنے فطرت انسانی کے بیچے تقاضا اور مضطر انہ طلب یعنے ابدی نجات کی بشارت دیگر انسان کو مسرور الوقت فرمایا.ناظرین پر واضح رہے کہ یہ رسالہ تصدیق جلد دوم کا آغاز ہے.ارادہ کیا گیا تھا.کہ یہ مضمون بھی اور مضامین کی طرح مکمل کتاب کے ضمن میں ہی شایع کیا جائے گا.مگر شایقین کے اصرار والحاج نے اس کے جند اور علیحدہ چھاپ دینے پر مجبور کیا.جلد دوم کے بیقرار منتظر یقین کریں.کہ اس کا بہت سا مودہ ترتیب ہو چکا ہے.حضرت مصنف (سلمہ اللہ تعالٰی) کی عدیم الفرصتی اور پھر شدت علالت طبع کے باعث اس قدر التيار ہوتا رہا.انشاء اللہ تعالیٰ اب بہت جلد اس کے چھاپنے کا انتظام ہو گا ؟ والسلام : خاکسار عبدالکریم سیالکوٹی یہ

Page 4

دوم تناسخ کو سنسکرت والے اواگون کہتے ہیں.اور تناسخ کے ماننے والے تناسخ کے یہ معنی بتاتے ہیں :- گناہوں اور نیکیوں کے باعث بار بار مین لینا پیدا ہونا اور نا.جہاں تک تناسخ کے ماننے والوں سے دریافسنا کیا.اور ائن کے رسائل میں دیکھا.اثبات تناسخ میں اُن کی یہی ایک دلیل سردفترا نکے دلائل کا دیکھی.ہم دیکھتے ہیں کئی آدمی جسم کے اندہ ہے لنگڑ کے لوئے کا کے بہرے.کنگال ہوتے ہیں.اور کئی راجہ شہکر دولتمند امیر جو یہ کہو کہ پر میٹر کی مرضی ہے.تو کیا پر میشر منصف و عادل نہیں.جو ہلا قصور ایک دوسرے میں فرق کرتا ہے.پس بھی نتیجہ سابقہ جنم کے اور کیا کہہ سکتے ہیں.کیونکہ خدا ایسی طرفدار ی اور نامنصفی نہیں

Page 5

تناسخ کی دلیل کا خلاصہ ہم اس دنیا میں تفرقہ کو دیکھتے ہیں.اور اس تفرقہ کیو جہ بجو پہلے جنم کی بُرائی بھلائی کے اور کوئی نہیں."..د و دو، مصدق (اللَّهُمَّ هَدَ في بروح القدس ) پہلا جواب - تامین تناسخ کی اس دلیل سے صاف واضح ہے کہ تناسخ ،انے کا کوئی ثبوت تناسخ ماننے والوں کے پاس نہیں بلکہ صرف اسلئے کہ سکھی آسودہ اور آرام والے کے ٹکہ - آسودگی اور آرام کیوجہ اور دکھی بیمار رہنے والے کے دکھ.بیماری رنج کی وجوہ اوران لوگوں کے باہمی تفرقہ کے اسباب تناسخ ماننے والوں کو معلوم نہیں ہوئے اس واسطے کہ ان لوگوں نے یقین کر لیا.کہ سابقہ اعمال ہی اس تفرقہ کا باعث ہیں.الله پر شکریہ اس رب العلمین کا جس نے اسلامیوں کو ایسے دلائل سے بچے کے واسطے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا.ولا تقع ما ليس لك به علماتُ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالفؤاد القص كُل أولئك كَانَ عَنْهُ مسئول در سن ۱۵ سورہ بنی اسرائیل ع م - دوسرا جواب اپنی کم علمی اپنی کم فہمی اور کمزوری سے تفرقہ کے اسباب کریج اور راحت کے موجبات اور سامان نجانے سے یہ اعتقاد کر لینا کہ ان تفرقوں کا باعث ہمارے پہلے جنم کے اعمال ہی ے.اے اللہ میری روح پاک ہے تائید فرماء اور مجھے منصور کے.تے اور جس چیز کا تجھے علم نہیں.اُسکے پیچھے مت لگ.کیونکہ.کان.آنکھ.اور دل سب سے سوال کیا جاوے گا :

Page 6

ہیں.گویا بیوجہ قویہ ایک چیز کو کسی دوسری چیز کا سبب قرار دے ہے.اور یہ جرات اس قسم کی ہے.کہ ہم کسی آدمی کو اندھیری رات میں نہیں جاتا دیکھیں.اور اپنے ہی آپ میں یہ سوچ لیں.کہ اسوقت کچہریاں بند ہیں.بازار بند نہیں.پس جزا سکے کہ یہ آدمی اسوقت صرف چوری کرنے جاتا ہے.اور کوئی وجہ نہیں.عقل والے سوچ لیں.یہ کیسی منطق اور لاجک ہے.اسی واسطے قرآن کریم نے تناسخ ماننے والوں کی نسبت فرمایا ہے.اور کہا ہے.کہ یہ لوگ انکل بازمی ع الد نحيا وما يهلكنا وقالوا ما هى الاخ الا الله وما لهم بل لكَ مِنْ عِلم انهُمُ الأيظنون.- سوره جائی را : تیسرا جواب.دنیا میں ہم یہ تفرقہ تو دیکھتے ہیں کہ ایک جسم کا بیجار ہے.اور دوسرا تندرست.ایک ٹیم سے دولتمند ہے.اور دوسراء غریب اور مفلس اور دنیا کا تمام کار خانہ اور اسکا تمام انتظام چونکہ ایک علیم و حکیم کی نہ بر دست طاقت اور صفات کا نتیجہ اور اثر ہے.پس ہمیں یقین ہے.کہ یہ تفرقہ ہوجہ دبے حکمت نہ ہو گا.مگر یہ کیا ضروری ہے.کہ اس غیر محدود کی گل باریک حکمتیں اور بے تعداد تدبیریں ایسی ہوں.کہ انسانی محدود عقل اور نجیبہ انپر عادی ہو جا دے؟ یاد رکھو کسی کی بصر اور بصیرہ اسکو احاطہ نہیں کر سکتی.اور وہ سب پر محیط ہے.قرآن فرماتا ہے.نے اور وہ کہتے ہیں.یہی دنیا کی زندگی ہے.ہم مرتے ہیں.اور نہ ندہ ہیں.اور زمانہ ہی ہمیں ہلاک کرتا ہے.اسبات کا انکو علم نہیں.یہ انکل لگاتے ہیں.

Page 7

لَا تَدْرِكُهُ الاَبْصَـ يُدْرِكُ الاَبْصَارُ وهُو اللطيف الخير ہے.العلم لَهُمُ مَا بَانَ أَيْل ايل بهم وَمَا خَلْفَهُمْ وَلا يُحيطون شى مِنْ عِلمِهِ الـ الا مَا شَاء اور فرمایا ہے.يَعْلَمُ مَا بَيْنَ LE NOهِمْ وَمَا خَلَفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِهِ عِلَماء چوتھا جواب کسی کا بیمار ہونا اور کسی کا تندرست کسی کا آسودوں کے گھر جنم لینا اور کسی کا مفلسوں کے گھر میں جائز ہے.اعمال کے سوا کسی اور وجہ سے ہو.پس بایں احتمال اواگون ماننے والوں کا استدلال صحیح اور نام نہیں.پس ہم ان کو کہتے ہیں.کوئی ایسی عقلی دلیل لاؤ جس سے ثابت ہو جاوے.کہ ایسے نفرقوں کا اعمال کے سوا اور کوئی باعث نہیں.صرف اعمال ہی اس تفرقہ کا باعث ہیں.بلکہ یہ تعمیل ارشاد قرآنی جو ذیل میں ہے.کہتے ہیں.کوئی علمی دنیل لاؤ.اٹکلوں اور گمانوں سے کام نہ لو.کیونکہ سچ ہے جس میں لکھتا ہے.ہیوو قل هل عِندَكُمْ عِلم مَحْجُوهُ لَنَا اِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا أَنتَ وانا ان الاخر اصُونَ ط پ ک - سوره انعام - رم :- سے اُس کو آنکھ اور اک نہیں کرتی اور وہ آنکہوں کو ادراک کرتا ہے.اور وہ لطیف و خبیر ہے.لیے اُن کے آگے اور پیچھے کی سب چیزوں کو جانتا ہے.اور وہ اس کے علم کا کچھ بھی احاطہ نہیں کر سکے.مگر جو وہ آپ چاہے.سے کہ تمہارے پاس کوئی علم ہے.تو ہمارے پاس نکال لاؤ تیم تو ظن کی پیروی کرتے ہو.اور اکلیسں دوڑاتے ہو.

Page 8

پانچواں جواب.اگر آکر یہ اسپرانہ ماہ انصاف غور کریں.تو سی قدر لطیف اور داد کے قابل ہے.موجودہ اشیاء میں اس تفرقہ سے بڑھ کر ایک بڑا تفرقہ ہم دیکھتے ہیں.اور اس بڑے تفرقہ کا باعث کی جزا و سزا نہیں.اور اس امر کو دیانندی آریہ صاحبان آپ تسلیم کرینگے.سنو - ارواح ایک چین و کنتو - یعنی عالم ہوشیار نیز ہے.اور پر کرتی بلکہ یہ مانو یعنی اجسام صغیرہ اور نہایت باریک ذرات جن کو عربی علوم طبعیہ کے عالم اجسام ذیمقراطیسی کہتے ہیں.ایک جڑا ور غیر ذی شعور چیز ہے.اور باریتعالے عظیم وخبیر - عزیز و غالب القدوس السلام ایک تیسری چیز ہے.جو ان دونوں اول الذکر ارواح او اجسام بلکہ کال لینے زمانہ پر حکمران ہے.دیانندی آریہ صاحبان ! بلکہ تمام تناسخ کے ماننے والو ا ان تین اشیاء موجودہ میں اول رو میں بنم سے کیا ازل سے بقول آر یہ اللہ تعالٰی کے ماتحت اور اس کی صفت عدل کے باعث جزا وسترا میں گرفتار ہیں.اور بقول تناسخ کے ماننے والوں کے بلکہ دیا نندی اللہ کے ہدایاں بادام تک اسی طرح گر فتار رہیں گی.اگر جہان پر لے کے وقت یا اُسے کسی قدر پہلے اور پیچھے اجسام سے الگ ارواح آرام و راحت میں بھی رہے.تو اسوقت بھی تم کیطرح بڑائی انہیں بنی رہتی ہے.جس کے باعث ارواح کو پھر جنم لینا پڑتا ہے.اور دوم پر مانو بچارے تو ازل سے ابد تک بھی بقول اگر یہ کے محروم ہی نہ ہیں گے.اور سوم اللہ تعالٰی ازل سے ابد تک ہمیشہ انپر حکمران رہا.اور ہمیشہ انپر حکمران رہ ہوگا.اب ہم تناسخ والوں کی دلیل کی طرف توجہ کرتے ہیں.اور کہتے ہیں.ہم دیکھتے ہیں.ان تین میں بعض اشیاء جہنم سے کیا ہمیشہ سے لنگرٹ.اور بعض اشیاء تم سے کیا ہمیشہ سے جزاء- اور سزار "

Page 9

میں گرفتار اور ایک الغنی اور ان دونوں پر حکمران جلشانہ.اب آپ کی دلیل تناسخ کو بعینہ لیکر کہتے ہیں.دیکھو اثبات تناسخ بحث کی ابتداء میں جو کہو پر میشر کی مرضی تو کیا وہ عادل نہیں.پس بنجر نتیجہ سابقہ بینم کے اور کیا کہ سکتے ہو یا لیکن تم آریہ اور تمام قومیں اللہ تعال کو ماننے والے اللہ تعالے اور پر مانوں میں تو جنم کے قائل نہیں پس ظاہر ہوا.کہ تفرقہ کا باعث فقط اعمال ہی نہیں.جو ہم تناسخ کے قائل ہو جا دیں.بلکہ تفرقہ کے اور اسباب بھی ہوتے ہیں.بلکہ ایزدی مخلوق میں ہم دیکھتے ہیں.کوئی چیز پتھر کہلاتی ہے.او کوئی پانی کچھ روشنی کی کرنیں اور الیکٹرسٹی کے ذرات اور کچھ پرلے درجہ کی کثیف اشیا کا ر بن وغیرہ.بتاؤ کیا اس تفرقہ کا باعث پور بلی ٹیم کے اعمال ہیں.ان کے کسی کام کی جزا اور سزا؟ معلوم ہوا کہ تفرقہ کا باعث فقط اعمال بھی نہیں بلکہ اس د القاد تر با یک حکومتیں ہیں.جس نے ہم کو بنایا.اور خبر دی.لفنگ وخلق لكم ما فِى السَّمَوَاتِ وَمَا فِى الْأَرْضِ سَمِيعا منم چھٹا جواب سائنس یعنی پدارتھ و دیا.علم طبیعی نے کہا بہت کر دیا ہے کہ ہیں.جما واستہ اور نہانانہ اور انسان اور حیوان است بتاین اور افریقہ ضرور ہے.مگر تناسخ ماننے والے کہتے ہیں کہ ان اشیا میں کوئی نہایت نہیں.انسانی روح ناقص اعمال سے یقیناً اس نے تم کو مختلف طور پر بنایا.تہ - آسمان و زمین میں جو کچھ ہے سب تمہاری لئے پیدا کیا.اور یہ سب اشیاء ہماری ہیں.

Page 10

مرکز حیوان اور حیوانی روح انسانی بن جاتی ہے.بعض انسان شجر وحجر ہو جاتے ہیں.اور بعضے شجر و حجر انسان.اور نہ وح وہی روح رہتی ہے.اور یہ امیر سائنس کے بالکل خلاف ہے.تعجب آتا ہے.دیانندی آریہ کے اعتقاد پر.روح کے گئی.کریم بہاؤ یعنی روح کے خواص - افعال.اور عادات آزادی اور غیر مخلوق ہیں.اور بروح کے لئے یہ امور دیا نندیوں کے نزدیک لازمی ہیں.روح سے کبھی علیحدہ نہیں ہوتے.پھر روح کے تجر و حجر ہو جانے کی حالت میں ہم پوچھتے ہیں.وہ صفات اور لوازمات کہاں چلے جاتے ہیں.کیا ثبوت ہے.کہ یہ صفات ولوازمات اسوقت یہی روح کے ساتھ موجود رہتے ہیں.ساتواں جواب.تناسخ کے ماننے میں سچے علم طب کا وہ بڑا بھاری خزانہ جس کی صداقت کو ہم رات و دن بچشم خود دیکھیتر لغو ہو گا.حالانکہ ہدایت مشاہدہ اس کو لغو نہیں ٹھیرا سکتا.اور کیوں لغو ٹھیرا سکے.خالق خطرہ اور پیچر کا پیدا کرنے والا خود فرماتا ہیں.ہے.خَلَقَ لَحُكمُ مَا فِي الاَرضِ جَمِيعًا.تناسخ ماننے میں علم طب کا بے فائدہ ہونا اس لئے ثابت ہوتا ہے.کہ تب ہم نے مانا کہ تمام بیماریاں جو انسان اور حیوانات کو لاحق ہوتی ہیں.وہ سب بیماروں کے سابقہ اعمال کا نتیجہ اور نمرہ ہے اور بد اعمال کی سزاء ہے.تو طبیب اور نیچرل فلاسفی کے جاننے کو والے نیچرل اسباب کو کیوں ڈھونڈ رہنے لگے.اور جب الاحتفاء سے سب جو زمین میں ہے.تمہارے لئے پیدا کیا :-

Page 11

9 تناسخ کے مانا گیا.کہ سزاؤں کا بھگتنا ضروری ہے.اور کسی طرح بھی ممکن نہیں کہ اللہ تعالٰی کی عدالت سے وہ سزائل جاوے.تو علاج سے کیا فائدہ اور اس کے باعث کیونکر فضل و کرم الہی ہم کو الہی عدالت سے چھوڑا سکتا ہے.اور اور اسباب الامراض اور معالجة الامراض سے کیا نفع ہوگا.نہ ٹھواں جواب.روح کے گن یعنے خواص رو کے کرم یسے افعال روح کی بہاؤ یعنی عادات دیانندی آریوں کو نزدیک ارواح کو لازم اور ارواح میں انادی ہیں.اور آریہ کے نزدیک یہ صفات ارواح میں باری تعالیٰ کی دی ہوئی نہیں.اب تناسخ کے وہم کا منکر اگر یوں ہے.کہ بعض ارواح کا بہاؤ اور اس کے گن ہی ایسے ہیں.کہ ناقص ذرات کا جسم لیا کریں.اور دکہہ واٹک جسم میں زندگی بسر کریں.آسودگی میں رہنے والوں کے گھر جنم نہ لیں.اور یہ امر ان کے لئے پور بلی جنم یعنی پہلی زندگی کے اعمال کی جزا یا سزا نہ ہو.بلکہ ایسی روح کی شقاوت از لیہ اور اس کا سبہاؤ ہی اس تکلیف کا موجب ہو.بعض ارواح اصل سے ایسا بہاؤر کہتے ہوں.کہ عورتوں کا بدن لین بعضے ارواح مردوں کا جنم اپنے لئے اپنے بہاؤ سے پسند کر لین طبقہ اعمال کو اس میں کچھ دخل نہ ہو.اور نہ پہلے جنم کی یہ جزاء اور سزاء ہو.سعی و سعید شده ان میں سے کوئی سعید ہے.اور کوئی شقی ہے :-

Page 12

نواں جواب دیا نندی آریہ کا اعتقاد ہے.کل ارواح محدود اور غیر مخلوق ہیں.ہمیشہ ادا گون یعنے تسنیم اور مرن میں بتلا اور رہے.اور ہمیشہ رہیں گے.اگر کچھہ زمانہ آزاد بھی رہے.تو بھی ان میں بیج انرم تر یعنے تخم کی طرح برائی موجود رہتی ہے.جس کے باعث آخر پھر ارواح کو جنم لینا پڑتا ہے.اور جو لوگ ارواح کو مخلوق مان کر تناسخ کو مانتے ہیں.انکو یہی ماننا پڑتا ہے.کہ ارواح غیر مخلوق اور قدیم ہیں.کیونکہ ہر ایک نجم کے اعمال افعال اور اقوال جب پہلے جسم کے پھل اور ثمرات پھیرے.تو بصورت مخلوق ہونے ارواح کے پہلے جہنم کے اعمال افعال اور اقوال اور ارواح کا باہمی تفرقہ کس شبنم کا کمرہ ہوگا.اس لئے بر تقدیر سلیم مسئلہ تناسخ یعنی اواگون کے ارواح کو غیر مخلوق اور ہمیشہ سے تنجم اور مرن) میں رہنا پڑا.جب روح انادی اور مخلوق بھی ہیں.اور سورج کا وجود اللہ تعالی کی دیا ہوا نہ شہر اور سرور جان کی اور ابدی ہوئی.تو چاہیے کہ روح اپنی بتا دیں اللہ تعالٰی کی محتاج ہو.رکن ہم دیکہتے ہیں.کہ جیسے ہمارا بدن کہانے پینے پہنے وغیرہ وغیرہ کا محتاج ہے.روح یہی بدلتا سے کم مختاج نہیں ورا ستیا جوں سے قطع نظر کہ کے اس امر کا خیال کرو کہ سورج علوم کے حاصل کرنے میں کتنی محتاج ہے.اسی دلیل کی طرف قرآن کریم نے ایما فی مایا.فرمانا ہے.يا ابهَا النَّاسُ الفقر والى الله والله هو الغنى الحميد والله الغنى أَيُّهَا أَنتُمُ أو ہے.اے لوگو تم سب اللہ کےمحتاج ہو.واللہ ہی غنی حد کیا گیا ہے.اوراللہ ہی طنی ہے.اور تم محتاج ہو:

Page 13

w وانتم الفقراء اور فرمایا.الله خَالِقُ كُلِّ شَى :- دسواں جواب.اگر ار واچ الٹی مخلوق نہیں.تو ہم پوچھتے ہیں.بدی اور بد کار کی ارواح کا ذاتی اور فطری تقاضاء ہے.یا عرضی ؟ اگر بدی اور بد کار ی ارواح کا ذاتی تقاضا اور جیلی منشاء ہو تو ظاہر ہے.کہ ذاتی تقاضوں اور جبلی منشاؤں کے پورا ہو نیکا نام راحت اور آرام ہے.نہ ریح اور تکلیف.اور اگر بدی اور بد کاری کوئی عارضی امر ہے.جو ارواح کو لاحق ہوا.تو چاہئے کبھی وہ عرض دور ہو جا وے.جب عرض دور ہو گئی.تو روح پاک اور پوتر ہو کر آئندہ ہمیشہ نیک اعمال کی طرف متوجہ رہے.بلکہ یقین ہے کہ وہ ایسا ہی کرے.کیونکہ روح کو اگر یہ نے چین اور مجہہ دار ماتا ہے.آریہ صاحبان! اگر اتنے تجربہ پر روح نے ابتک نہیں سمجھا تو وہ چین نہیں.یا کسی راز دار الہامی کو الہاما پتہ لگ جاوے کہ الہی ارادہ بعض کے حق میں اس عرض کے دوام لحوق کا ہو چکا ہے.گیارہواں جواب.لڑکوں کی پرورش کی جاتی ہے.اور ان کو تعلیم کے واسطے تکلیف اور سرزنش دی جاتی ہے.انسان تکلیف کو سزا یا جزا نہیں کہا جاتا.بلکہ اس کا نام تربیت یہ کہتے ہیں.پس ایسی ہی وہ تکالیفت جو دنیا میں عارض ہوتے ہیں.ان کی نسبت نہوں نہیں کہا جاتا کہ وہ تربیت الہی میں داخل ہیں.نہ سزا اور جزا میں ہمارے لئے نہ سہی مجموعہ عالم کے واسطے کہی.اس جواب کو بارہواں جواب اور زیادہ واضح کرتا ہے.بارہواں جواب.حضرت سید ناسیح علیہ السلام کے ہاتھ پر جب ایک جسم کا اندھا اچھا ہوا تو حضور علیہ السّلام کو حواریوں نے عرض کیا.یہ لڑکا کیوں نابینا تھا.کیا اپنے گناہ کے باعث ے اداسی ہر چیز کا پیدا کر نیوالا ہے.

Page 14

۱۲ یا اپنے ماں باپ کے گناہ کے باعث حضرت مسیح علیہ السّلام نے جواب دیا.نہ اپنے گناہ کے باعث اور نہ اپنے ماں باپ کے گناہ کے باعث بلکہ یہ لڑکا اس لئے نا بینا تھا.کہ الہی جلال ظاہر ہو.کیا معنے اللہ تعالے کے پیارے رسول اور بنی اسرائیل کے گھڑانے کے خاتم الانبیاء نبی حضرت مسیح علیہ السلام کی بزرگی او صداقت ظاہر ہو.میرا اس قصہ کے بیان سے صرف یہ مطلب ہے.کہو کہ اور کہہ کے واسطے اعمال کی جزا اور سزا کے ماسوا اور بھی بہت اسباب ہیں.اواگون کے ماننے والوں کے پاس کیا دلیل ہے کہ پور بلی نجم کے اعمال ہی اسکا باعث ہیں.تیرہواں جواب - قانون قدرت اور اللہ تعالیٰ کے بے انت کار خانہ میں ہزاروں ہزار اسباب ہیں.مثلاً غور کیا.ان اسباب پر جو علم طب میں بیان ہوتے ہیں.اور ان علامات و معالجات پر جن کے ذریعہ ہم اسباب کا پتہ لگاتے ہیں.ان کے دفعیہ کی صائب تدبیر کر سکتے ہیں.بیماریوں کے اسباب جاننی سے ہم افلاس اور غریبی.دولتمندی اور حکومت کے اسباب کا اجمالی علم حاصل کر سکتے ہیں." اور س مختصر تمہید کے بعد گزارش ہے.اس تفرقہ کا باعث جیتے ایک لڑکا بیمار اور دوسرا تندرست ہے.نا علایم عناصر ہیں.اس لئے کہ انسانی اور حیوانی روح یا تو عنا صر کا خلاصہ ہے.یا فرض کر لیتے ہیں.کہ روح کو عناصر کے ساتھ تعلق ہے.پہلی صورت میں ظاہر ہے.جیسے عناصر ہونگے.ویسی ہی روح ہو گی.اور دوسری صورت میں جیسے عناصر کے ساتھ روح کا تعلق ہو گا.ویسی تندرستی اور بیماری کے قرات کروح کو لینے پڑیں گے.اور جیسی جگہ ارواح

Page 15

جمع ہوں گے.ویسا ہی سکھ اور دُکھ بھو گئیں گے.پہلی صورت میں روح کا وجود ہی عناصر سے ہوا.جزا اور سزا سابقہ تنم کی کہاں! اور دوسری صورت پر اگر کوئی اعتراض کرے.کہ ارواح نے ایسی جگہ کیوں تعلق پیدا کیا.جہاں ان کو آخر تکلیف اٹھانی پڑی.تو اس کا جواب بالکل ظاہر ہے.کیونکہ - ارواح بقول آریہ کے.اور آزاد ہیں.ارواح کو کوئی یہ دک نہیں.اور پھ بھی ہے.کہ اس روح کو جب ابد الآباد ترقی کی راہ کھول دی گئی.تو اسپر کوئی ظلم نہ ہوا.بلکہ اسپر رحم ہوا.اور یہ بھی ہے کہ اگرچہ اس آج روح کو بظا ہر تکلیف معلوم ہوتی ہے.کہ ناقص اور کہی قالب سے اس کا تعلق ہے.مگر اسی عنصر نی مائیں اسے بڑی بڑی فضیلتوں کے لینے کا موقع دیا گیا ہے.اس لئے اسپر رحم ہے ظلم نہیں.ہاں ایسے موقع ملتے ہیں.اگر روح نے نافرمانی کی تو شر سزاء کا مستحق ہے.اللہ تعالے رحیم - کریم.اور عادل.چاہے پکڑے چاہئے عضو کرے.اور وہ اپنے امیر پر غالب ہے.جود ہوان جواب.مختلف ملکوں کی آب و ہو اسر ارواح کے مختلف صفات ہم مشاہدہ کرتے ہیں.بلکہ مختلف پیشوں مختلف قسم کے مکانوں جن میں روشنی اور ہوا کی آمد و رفت اور صفائی کے لحاظ سے اختلاف ہو.مختلفہ اشیاء کے کھانے اور مختلف بیرون کے پینے پہننے اور استعمال میں لانے سے اور انواع و اقسام کے عادات سے ارواح کے حالات- صفات اور معاملات ہیں اختلاف نظر آتا ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں.بگڑے ہوئے حالات کی اصلاح ان مختلف تدابیر سے ہو جاتی ہے.جن کو اطباء میں اور طبعی حکماء علوم طبعیات میں بیان کرتے ہیں.

Page 16

۱۴ جن لوگوں کے لڑکے بیمار پیدا ہوتے ہیں.ان کے علاج و معالجہ وحفظ صحت تبدیل آب و ہوا اور کچھہ مدت کے ترک جماع سے تندرست بچوں کا پیدا ہونا.بگڑی اور خراب کلوں کی کیا حالت کا جس سے تکلیف ہو.نیچرل اسباب سے درست ہو جانا وغیرہ وغیرہ ہم پر ظاہر کرتا ہے.کہ یا تو ارواح انہیں عناصر کا مطبیعت جو ہر ہیں.یا ان عناصر سے ارواح کا تعلق ایسے مختلف اور اقسام اسباب سے ہے.جن میں بعض خاص حالتوں میں تم اعمال کو داخل کر سکتے ہیں.مگر یہ نہیں کہتے.کہ پور بلے جنم کے اعمال ہوں.کیونکہ اس دعوے کی دلیل کوئی نہیں.اور دعواے بے دلیل.عقل کا کام نہیں.پندرہواں جواب.پہلے جسم کے اعمال ہر گن گنہ اس تفرقہ کا باعثہ نہیں.جس تفرقہ کو دیکھ کر تناسخ کے ماننے والوں 2 تناسخ پر اعتقاد کیا.کیونکہ ہم قدرتی نظارہ میں دیکھتے ہیں.شیاد انسانی آرام اور راحت کے سامان روشنی.ہوا.مٹی - برق - نباتات حیوانات سب کچھ اس کے کام میں لگا رہا ہے.مگر یہ مبتلا ان اشیاء میں سے کسی کے صرف کا نہیں.تو پھر کیا یہ عجوبہ قدرت بالکل لغو اور اتنی بڑی مخلوق پر حکمران محض تا ہے؟ ہرگز نہیں.بلکہ جیسے ملہمین کو بذریعہ الہام اور سلیم الفطرتوں کو بوساطت فطرہ معلوم ہوا ہے.کہ یہ لطیفہ عبادت الہیہ کی واسطے پیدا ہوا.مگر ظاہر ہے.جب تک انسان کے پاس یہ چیزیں موجود نہ ہوں.انسان کچھ بھی نہیں کر سکتا.پس ثابت ہوا.یہ تمام سامان انسان کو عبادت کے لئے دیئے گئے ہیں.اور یہ کل اسباب مقصد عبادت کے آلات اور متممات ہیں.یہ مضمون قرآن میں یوں ادا ہوا

Page 17

۱۵ من يا أيها الناس اعبدوا ربكم الذي خلقكم والذين قبلكم لعلكم تتقون الذي جعل لكم الارض فراشا وا السماء بناء وانزل من السماء ماءاً فاخرج به من الثمرات رزقاً لكم فلا تجعلو الله اندادا اور ذیا یا وما خلقت الجن والانس الا ليعبدون : جب عبادت الہی انسان پر واجب ہوئی.اور یہ سامان اس لئے عطاء ہوا.کہ انسان اپنے فرائض منصبی کو ادا کر سکے.پس یہ سان جزا اور سزار میں داخل نہ ہوگا.کیونکہ اگر جزا اور سزائے اعمال میں اسے داخل کیا جاوے.تو باری تعالے اپر ظلم کا الزام ہوگا.اس لئے کہ یہی چیزین منصبی فرایض کے ادا کر نے میں بھی ضروری تھیں.اور یہی انتہا کر دوری میں بھی داخل ہو گئیں.ہاں ان کا دفور اور ان کا عمدگی سے میسر ہو جانا لعنتی و ثمن اعمال کے بعد ہوتا ہوتا to تو یہ تمہیں.سا جواب.اگر یہ تفرقہ میں کے باعث تناسخ کے ماننے والوں کو شبہ بڑار سابقہ جسم کے اعمال کی سزا اور جزا ہوتا.تو ضرور تھا.کہ اتنی برکت کی بات بلکہ یوں کہئے کہ لا انتہا زمانہ کی و لوگو فرمانبردار ہے رہو.اپنے اس رب کے جینے نکلو اور تم سے پہلوں کو بنایا اور فرمانبرداری کا یہ فائدہ ہوگا.کہ تم دکھوں سے بچے رہوگے.اسی رب نے زمین کو تمہارے لئے فریاش ر آرام گاہ اور گول ) او آسمان کو بناء بنایا.اور بادلو سے پانی اوتارا پہر نکالے اس سے کئی قسم کے پہل رزق تمہار لئے.میں شرد در اللہ کا کسی کوئی امریں شریک نہ بنائو.سے بن وانس تو صرف اسلئے ہیں کہ الہ تو کی فرمانبردار رہیں.

Page 18

باتیں ہمیں یاد ہوتیں.اتنی لمبی مدت کے ہزاروں ہزار باتیں اور کام ہم یک قلم کیوں بھول گئے ؟ اب انعام اور خلوت کے لینے والے کو خبر نہیں.کس کس نیک عمل پر مجھے انعام ملا اور سر پا نے والے کو اطلاع نہیں کہیں بدکاری کے بدلہ میں ماخوذ ہوں.لڑکپن کے حالات بھول جانے پر قیاس نہیں ہو سکتا.اول تو اس لئے کہ اسوقت انسانی عقل ناقص اور بالکل لکھی ہوتی ہے.دوم جیسے آریہ مانتے ہیں.کہ سب آدمی سود ر پیدا ہوتے ہیں.قرآن کریم یوں فرماتا ہے.واللہ آخر جكم من بطون أمها تكم لا تعلمون شيئًا :- سیوم - وہ حالت بھی مختصر وقت کی ہے.اور کچھ بڑی کاموں سے اسکا تعلق نہیں.البتہ اہل اسلام اس قسم سے پہلے ارواح پر عہد الست کا زمانہ تجویز کرتے ہیں.اور اس زمانہ کو مانتے ہیں.گر اول تو وہ ایک عالم مثال کی عجائبات اور اس کی نیرنگیوں کی ایک بات ہے.دوم اسوقت کو بہت تھوڑا وقت سمجھا جاتا ہے.مگر پھر بھی غور کرو.آجتک اسکا کتنا اثر باقی ہے.کہ تمام ارواح کی فطرت میں اس اثر کا باعث باہمہ اختلاف ادیان - وازمان.اور بتا غض و نظام کے اسبات پر قریباً اتفاق ہے کہ ہمارا کوئی رب ہے.چاہے کوئی اُسے اللہ کہے.کوئی یہوواہ - کوئی اونگ کہتی.کوئی یزدان ہے.کسی کی زبان پر دھرم کے نام سے موسوم ہوا کسی کے دہن پر شکتی کے نام سے.

Page 19

iz انبیاء علیہم السلام کو لوگوں نے دیکھا.اُن کے عجائبا ست - مجزایت کو مشاہدہ کیا.مگر ان کے منکر رہے.اور باری تعالے کو بن دیکھے یہاں یوں مان لیا.کہ گویا وہ عیاں ہے.دلائی ہے یہ اتفاق ہرگز مت سمجھو کیونکہ ہم روزمرہ دیکھ رہے ہیں، مباحث اور دلائل سے متخاصمین میں جھگڑا اور عناد بڑھتا ہے.نہ اتفاق - بات یہ ہے کہ کبھی کانوں نے اپنے خالق و خاطر کی آواز سنا دی ہیں.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف مذاہب کے لوگ کیسی کیسی پر تکلیف عبادات کی طرف اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے پر متوجہ ہیں.کیا ایسی جان کا ہی اور اسطرح کی محبت بدوں کسی تنبلی دیکھنے کے هارت شنید سے ہے؟ نہیں نہیں.ایسا ہوتا تو نا دید حیتوں کے حسن کو سر کر لوگ ایسے ہی عشق میں مبتلا ہوتے.بیلے بنوں کو دیکھ کر جان از عشاق کا مال ہو رہا ہے.ولی الخیر کالا در اینت ایا کہ سلیم الفطرت ہمارے سید و سوئی کا منغوله على قائلها العملوت والسلام الکل سچ ہے.اس تحقیق پر یقین وارتی ہے.ہنے ریب کبھی اس راج کو تجلی الی کی عادت انسان ہو چکی ہے.گو اس عالم میں نہ ہی.عالم مثال میں ہیں.اور گو اسوقت ہمارے جسمانی ذرات تقدر عظیم کیر ہوں میہ اسوقت ہیں، بلکہ انہمت کے وقت نہایت جو اجسام ہوں.ستر ہوں جواب - ابدی نجات اور مانگی آرام کا حال کرنا تمام مجھے الفطرت اندارج کا تقاضا ہے.تو کیا یہ فطری خراش پیاس طالب کو محروم رہیگی اور باری تعالے کے کاس رقم کامل قننل والے گھرانے سے پیچھے طالبوں تبلی طلب اوربيه اسب

Page 20

IA کو صاف جواب ملے گا.کہ ابدی نجات - سریدی راحت اور دایی آرام و سرور کا سا ان اس ہمہ قدرت ہمہ فضل ہمہ طاقت کے گھر میں موجود نہیں.ہر گز ایسا نہ ہو گا.او کم نصیب آریوا ہرگز ایسا نہ ہو گا.ہاں او تاریخ کے ماننے والو! اس کریم کی بارگاہ سے الیسا روکھا سوکھا جواب ہر گز نہ ملے گا.بلکہ بات تو یہ ہے.کہ ہوا کی صفت عدل بھی ہم طالبوں کیا پیار شا فرما ہوئی او عرض کرے گا.کہ ان غرباء کے فطری اور پہلی تقاضا کو پورا کیجئے اے اللہ الکریم آپ کے دروازہ کو چھوڑ کر کدھر جاویں.آپ کی سرب شکستیان دانا در بارگاہ میلے سے محروم ہو کہ کہاں سے کامیاب ہوسکتے ہیں.آپ کی شب و روز کیا ازل سے ابد تک کی تختی ایسی نہیں.کہ انہیں کو ئی خروج بھی کم کر سکے.تب ہم کو انشاء اللہ نہائے ابدی آرام نصیب ہو گا."" ہاں تاریخ کے قائل ابدی آرام کے منکر : پابندی) آریہ اید می آرام بدانا بادنجات سے محروم رہ جا دیں.اسلئے کہ ان کی رات اور جہات میں یہ طلب ہی نہیں رہی.ان کی روح نے بری آرام کا سوال ہی چھوڑ دیا.اس اعتقاد نے ان کی فطرت کو اگر رہ کر دیا تو ممکن ہے.ان پہ نہ وہ رحم ہو اور نہ عدل ان کی سپارش کی ہے.اٹھا نہ ہواں جو اس اس دیانندی آریہ کے نزدیک آرا گوت ہوا ایک تعلیم اور یہی نہیں پھر دن کی اس آزادی کے ہیں روح کم سے الگ رہنے کی ران کوئی است اور تمام انوار ازل سے بد تک ہی کا اتار رہے اد

Page 21

19..اور ہمیشہ گرفتار رہینگے.پس ہم کو سخت حیرانی ہے.اگر تمام ارواح کو ہمیشہ ایسی گرفتاری رہی.یا اینکه دیانندی آریہ مانتے ہیں کہ ارواح اللہ تعالیٰ کی مخلوق نہیں.اور نہ اس کے پر نے بمب بچنے ظل ہیں.پس دیا نندی آریہ صاحبان بنتا ہے.ایسی سخت گیری کسی رحیم یا عادل کا کام ہے.قرآن کریم کیسے لطف سے فرماتا ہے.ولا يظلم ربك احداً :- انیسواں جواب.قطع نظر اس امر کے دیانندیوں کے نزدیک اللہ تعالے ارواج کا خالق نہیں.اور پھر انر ایسا سخت گیر ہے.کہ ارواح کو کبھی ابد الآباد نجات نہ دیگا.بتقدير تسلم اعتقاد آواگون کے وہ رحیم.کریم محسن یعنی دالہ بالو بھی نہیں (معاذ اللہ) کیونکہ اس رحمن رحم کریم کے ہر ایک احسان کے بدلہ میں آلہ یہ لوگ کہدین کے تجو ان کو اپنے اعمال کی مزدور شامل رہی ہے.پس میں اللہ تعالٰی کا کوئی فضل انپر نہیں.مگر پیچ ہے.وہی کتاب جس میں لکھا ہے نجات اس کے فضل سے ہوگی.فهم عذاب المحجم فضلا من سورة دخان - رکوع ۳:- وقهم : ا تیرا دین تو کسی پر ظلم نہیں که تا.N ے.اور بچایا اون کو دو رخی کے عذابہ سے.یہ فضل ہوا تیرے ری کا

Page 22

سابقوا الى مغفرة مرربكم وجنة عرضها لعرض السماء والارض اعدت الذين امنوا بالله ورسله ذالك فضل الله يوتيه من يشاء والله ذوا الفضل العظيم سیپارہ نمبر ۲۷ سوره حدید رکوع ۳ - نجات کا مسئلہ فصل الخطاب نام رو نصاری میں مفصل ہے.بیسواں جواب.آریہ صاحبان! باری تعالے کو فضل وکرم سے کس نے روکا.اسپر کون غالب.اس پر کون حکمران.اس نے کب عہد نہیں بلکہ وعید کر دیا ہے.کہ کسی که کسی مریض فضل نہ کرے گا ہ ہم تو کہتے ہیں.اگر ایسا سخت ڈرا دوا دیا بھی ہے.تو بھی وہ نجاستا دے سکتا ہے.کیونکہ وہ ہر طرح کے عیوب سے پاک جانتا ہے.کہ وعدوں کے خلاف کا نام اگر کذب ہو.تو وی کا غلاف کذبہ نہیں بلکہ کرم اور فضل ہے.لانتشال ما يفعل وه يسالون - ای سوال جو اب اس تاریخ کا مسئلہ جیسے تو حید کے جواب 6.خلاف ہے.اور شرکیہ کا باعث.ویسے ہی اخلاق او مارل فلاسفی کا منظر ناک دشمن ہے.توی کے خلاف تو اسلئے ہے.تناسخ ماننے والوں پر 22.دوڑو اپنے رب کی معافی اور اُس جنت کیطرف جسکا پھیلاؤ ہے.آسمان اور زمین کے پر ملاؤ کے برابر رکھی گئی ہے.انکے لئے جو یقین لائے.اللہ پر اور اسکو ہیولوں پر یہ نہیں ہو اللہ کا دیتا ہو جسے چاہتا ہے.اور اللہ کا فضل بڑا ہے.ہے.تو کچھ الاد تبولا کہ کیا پر کسیکو نکتہ چینی اور سوال کی جگہ نہیں.اور جو کھے لوگ کرتے ہیں.امیر تو سکنہ چاہتی اور سوال ہو سکتا ہے ؟

Page 23

I لازم ہے.جیسے دیانندیوں کا اعتقاد ہے.کہ ارواح اللہ تعالے کے بنائے ہوئے نہیں.پر مانو اسکے مخلوق نہیں.زمانہ اس کی کرت نہیں: طرح اللہ تعالی غیر مخلوق ہے.ارواح اور میٹر بھی فر مخلوق ہے.یہ لوگ وحدت وجود کے بھی قائل نہیں.جیسے ان کے ویدانتوں کا خیال ہے.تو کہ کہا جاوے کہ اصل واحد کے معتقد ہو کہ توحید کے مدعی ہیں.اور اخلاق - مارک فلاسفی کا اسواسطے خطرناک دشمن ہے.کہ بشر طیکہ اعتقاد مسئلہ تناسخ - کوئی شخص اپنے کسی محسن خیر خواہ الہی محب - انسانی ہمدرد کی نسبت اعتقادیقین نہیں کر سکتا کہ اس سخت شخص نے مجھ پر احسان کیا یا رحم کھایا.بلکہ تناسخ کا معتقد محسن کے ہر ایک ست احسان کے بدلہ میں کہ سکتا ہے.کہ اس محسن نے کوئی احسان نہیں کیا.ممکن ہے.کہ اس نے ہمارے پہلے احسانوں کا بدلہ دیا ہو :- مجھے یا ایک درشهر جہ کو چھونے کاٹا.شدید نے جن کو اس ملک کی زبان میں والا ہتے ہیں.جھاڑا لیا جب اس کی قصى المزاج مزاج راجہ کو آرا آرام آیا اور جھاڑا کر نیوالے کو انعام دیا.اس کا پہرہ معاف کیا.تناسخ والے خوش اعتقاد بول اٹھے.دیکھو کس طرح اس بچھو نے سپاہی کا قرضہ او تا را :- سوال جوار تناسخ کا مسئلہ ماننے سے ثابت غرض ہیں.کہ بے مزدوری ہوتا ہے.باریت کسی پر رحم - احسان.فرماتے :

Page 24

سبحانه تعالى عما يصفون ط هـ تیسواں جو اب ہم لوگ بعض وقت بیوجہ احسان کرتے.اور پھر دوسرے وقت احسان کے خلاف کرتے یا احسان نہیں کرتے.اس وقسیم کی مختلف کاروائی سے معلوم ہوتا ہے.کہ احسان کرنا ہمارا ذاتی اور خانہ زاد وصف نہیں بلکہ ما بالعرض ہم کو یہ صفت لاحق ہو جاتی ہے.اور ہر ما بالعرض کیو اسطے بالذات ضرور رہتے.پس لازم آیا کسی جگہ انسان بالذات موجود ہے.تو کیوں آریو! اس جگہ کا نام.باری تعالی کی پاک ذات نہیں جانتی؟ ذات ہند چوبیسواں جواب.تاریخ کے اعتقاد پر ضرور ہے.کہ کسی شخص کو جناب باری تعالیٰ کی پاک ذات سے محبت نہ رہے..حالانکہ نص ہے.اور آ پاتے ہیں.والذين امنوا اشد حبا الله :- اور یہ بات کہ تناسخ کو ماننے پر باری تعالی سے محبت نہیں رہ سکتی.اسلئے ہے.کہ جس میچ کی نسبت ہجوم کو استفاد ہو دیار کہ ممکن نہیں کہ میری خلاف ورزی قانون اور جرم کے بعد یہ حاکم محمد قصور وار پہ رحم کرے گا.وہ حاکم مجرم کو کیوں پیارا ہونے لگا.ہاں جس مجرم کا یہ ایمان ہو کہ شاید حاکم سے در گزر ہو جا دے.آج نہ سہی کل.البتہ وہاں محبت ممکن ہے.چیسواں جواب حسب الاعتقاد ایسے عدل ایزدی کے جیمی اللہ تعالیٰ کے فضل و کہ تم عطا.اور احسان کی امید نہ رہے.بد کار کو اسکی جناب جما دعاء پر اور تھنا.لغو اور بیہودہ ہے.ایمان ہے تو اللہ تعالی سے بڑی محبت سکھا کرتے ہیں :

Page 25

ہوگی.معاذاللہ کو کیا پیارا کہ قر آن کریم میں موجود ہے.أنه لا يئس من روح الله الا القوم الکافرون :- اور کیا پیارا ہے کے تقنطوا من رحمتہ الله ان الله يغفر الذنوب جمیعا.اور روح افزا ہے یہ کلمہ اذا سألك عبای عنی فانی قریب اجیب دعوة الداع اذا دعان فليستجسولى وليو منوا - أدعوني استجب لكم ان الذین بیست که برون عرباتی سید خلون جهنم داخرین چھواں جواب.بدکاری اور نافرمانی کے بعد تاریخ ماننے والے کو عقیان و نافرمانی سے نکلنے کی واسطے تناسخ کے اعتقاد یہ چاہے کوئی مدد گار نہ رہے.اسلئے کہ جناب باری تعالیٰ سے کسی عطیہ کی امید نہیں.اسواسطے کہ اس عدالت سے مرا ہی سزا بھگتنے کا فنوک لگ سکا.وہالے تے حضور کی امید آنیسا مگر کیسی لطیفہ بشارت ہے اس کتاب میں نہیں آیا ہے.بات تو یہ ہے کہ ا تعالی کے انعامات اور احسانوں سے اُسکے جنگہ ہی نا امید ہوا کرتے ہیں.سے خبردار اللہ تعالٰی کی رحمت سے کبھی نا امید نہ ہو جو اللہ تو تمام گیا ہوں کو عضو کیا کرتا ہے.پس اسے ترمیم کر ہم کے دیے نا امیدی نہیں ہے.سے جب تجھ سے میرے بندے یہ پونچھیں ہمارا رب کہاں ہیں جو ہم اس دعا کریں.تو کہ وہ فرماتا ہے.ہمیں تو بہت ہی قریب ہوں جب کبھی خاص لوگ دعا مانگے.والے مجھ سے مانگیں.پس لوگو یا چاہئے اپنے آپ کو ایسا بناؤ کہ تمہاری دعائیں قبول ہو کر یں.اور پورے طور پر مجھے بالوں سے مجھ سے مانگو تو میری ہی عبادت کو میں تمہاری دعا اور عبادت قبول کرونگا.جو لوگ میری زمانی داری سے ہے

Page 26

ا من يجيب المضطر اذا دعاء ويكشف السوء ستائیواں جواب تاریخ کے اعتقاد پر چاہئے کہ گناہ اور اللہ تعالیٰ کی بغاوت ہمیشہ ہوتی رہے.او بدی دنیا سے کبھی اٹھو.اول.اسلئے کہ باری تعالے کو بدی کے قائم رکہنی کیضرورت ہوں دوم اسواسطے کہ نیکوں اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبرداروں کو بھی بدی کے قائم رہنے کی ضرورت ہے.باریتعالی کو اسواسطے کہ جب نیک نے نیکی کی احسب الاعتقاد اہل تناسخ کے ضرور ہے.کہ باری تعالیٰ اس نیک کو نیکی کا بدلیہ دیوے.بدلہ کیا ہو یہی گھوڑے.ہاتھی ہیں.اونٹ.بکری و بصیرت عورتیں وغیرہ وغیرہ.اب اگر بد کار بد کاری نہ کریں.تو نیکو بیچے واسطہ وہ اسباب جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے.کہا اس سے آوے اس واسطے یا تو بدکاروں کا اپر احسان ہے.کہ ایسے سامان مہیا کر دیتی ہیں.یا وہ معاذ اللہ یہ مجبوری ان سے بدی کراتا ہے ، تاکہ اسے بہ نیکوں کے انعام میں مدد ملے.نیک اسواسطے بدکاری کو چاہیں.کہ ان کو بدون پای بد کار کے گھوڑے.ہاتھی پنچھ عورتیں کہاں سے ملیں.مکانات کی لکڑ نہیں کہاں سے آویں گرمی میں بچارے ہندوستانی کس بڑی برگہ بلاک کے نیچے آرام کریں.اس واسطے آریہ کے خیال پرلا انتہا زمانہ سے بدکاری دنیا میں موجود ہے.اور لا انتہار نہ مانہ تک بدی موجود ر ہے ی.اللہ تعالیٰ کے سواء دوسرا کون ہو.جو مضطر کے موبار قبولیت عطام سے اور کیا دیہی سنا دکھ کو دور کرے.

Page 27

اٹھائیسواں جواب جب گناہ کا ہمیشہ رہتا بستا نیویں جواب میں بیان ہوا ضرور ی بھرا اور بد کار کو بدکاری کی سزا اٹھانا بھی ضرور پڑا.تو بتا ؤ پھر بد کار کو جناب باریتعالی سے محبت ہوگئی یا نفرت ؟ انتیسواں جواب حسن مہر کی مخدوم مصلح - بادی دیگرم.کو برا کہنا فطرت کی گواہی ہے کہ بہت بڑا ظلم ہے.خالق فطرت کی کلام میں ایک صدیق کا ذکر ہے.وہ فرماتا.انه ربي احسن متواى انه لا يحب الظالمين - یا اور خالق خطرات کے کلام میں ہے.- الطيبات للطيبين والطيبون للطيبات.مر تناسخ کے ماننے والے اپنے تمام محسنوں کو بد کار اور بڑا جانتے.ہیں.بلکہ انپر سوار ہوتے اور ان سے زنا واظت کے واقع ہونے کے مجوز ہیں.کیونکہ اگر ان کے محسن بُرائیوں کے مرتکب نہ ہوں.تو وہ آواگون اور منجم مرن میں کیونکر آویں گر جنم مرن میں آنا تو ضرور ہے.اسلئے ثابت ہوا کہ وہ لوگ بدی کے بھی مرتکب ہوا کرتے ہیں.مسلمان انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کی عصمت کے فائل ہیں.اور جو اعتراض عیسائیوں یہودوں کی تواریخ سے اہالا سلام پر کئے جاتے ہیں.ان میں موتر منوں کو دھوکہ ہی بادہ دہو کہ دیا چاہتے ہیں.ے وہ تومیر امر کی ہے.اسے مجھے اچھی طرح رکھا اگر میں اسے بدسلوکی کروں تو ظالم بنوں اور اللہ تعالیٰ ظالموں سے محبت نہیں رکہتا.کے پہلونکو پہلی بات کہو پہلی باتیں تو پہلوں ہی کے لئے ہیں.اور پہلے لوگ ہی پہلی باتوں کو مستحق ہیں ؟

Page 28

I تیوال جواب.ہم دیانندی آریہ سے پوچھتے ہیں.لک کے بزرگ جہاتما نیک خجستہ کردار تھے.اور ہیں.یا پانی اور بدکار ؟ اگر نیات اور پہلے تھے.اور ہیں.اور برائی ان میں نہیں.تو چاہے وہ ابدی نجات پا جاویں.اور آیند آور گوند میں جو جہنم اور سزاء کا گھر ہے.نہ آویں پھر اور لوگ آپ کو محسن مربی.اور بزرگ بن جا دیں.اور وہ بھی اسیطرح نجات پالیں.یہاں تک که محمد و دانه واح کا سلسلہ آخر محد و زمانه نہیں ختم ہو جا دے.پھر سر نٹی کے پیدا ہونیکا سامان ہی خدا کے یہاں نہ رہے.معاذ اللہ.اور بصورت ثانیہ.اگر نیک اور پھلے نہیں.تو ان میں کوئی بھی قابل اعتبار نہ رہے.اسلاید کار کا اعتبار کیا.اکتيوال جواب مینے اپنے کانوں بڑے بڑے راجوں مہاراجوں سے سنا اور تقدیر مانے مسئلہ تناسخ کے سچ ہی ہیں.وہ لوگ کہا کرتے تھے.تیت در آج.اور راجوں بزرگ کیا معنی تی یعنے دیا مقتول اور سخت سخت اور مشکل عبادتوں کا نتیجہ یہ ہے کہ ریاضت کننده ریاضت کے بعد راجہ ہو جاتا ہی پھر راج کا یہ نتیجہ ہے کہ وہ انسان یعنی را بد دوزخی ہو جاتا ہے.اس کلام کا دوسرا جملہ یعنے راجوں برگ اسلئے بھی یہی ہے.بیچ کہ راجوں اور مہاراجوں سے اکثر ظلم و تعدی ہو جاتی ہے.ان سے پورا انصاف محال ہے.پھر عیاشی اور فضولی وغیرہ وغیرہ آفات میں مبتلا رہتے ہیں.کچھ بلکہ میرے جیسا تجربہ کار تو شہادت بھی دے سکتا ہے.که علی العموم کہ دوسرا جملہ سچ ہو.کیونکہ دوزخ کا نمونہ

Page 29

۲۷ ان میں مجھے دکھائی دیتا ہے.جسے سفلی آتشک پہاڑی روک گرمی - باد مشجرہ مبارک کہتے ہیں.اہل مصر نے نائیٹریٹ آف سلور کا کیسا خوبصورت نام رکھا ہے.الجھ الجہنمی ہیں جب کبھی آتشک کے زخموں پر اسکا استعمال کرتا ہوں.اسوقت اس مصری نام کی خوبی جیسی مجھے معلوم ہوتی ہے.شائد ایک ناتجربہ کار یا شرایع سے نا واقف کو ہرگز معلوم نہ ہو تی ہو گی.بستیواں جواب.ہمنے انا - آرام و تکلیف اعمال کے ثمرات ہیں.مگر یہ کیوں نہیں کہا جاتا ہے.کہ وہ اعمال دنیوی اور اسی قسم کے ہیں.ہاں نمرات کہتے ہیں یہ فائدہ بھی ہے کہ جزا سفراء میں باعث انعام اور موتیبا سزا کا علم اور اس کا یاد ہونا ضرور ہے.ترات میں علم اور یاد اسباب ضرور ہی نہیں.غامیشہ ما فی الباب ہمیں وہ اسباب و موجه است یاد نہ ہوں.سوالیسی یاد داشت تو تاریخ ماننے والوں کے نزدیک بھی غرور نہیں.رہی، بہر ریاست که بیکه ید جہ میں ایسے کون.سے کون سے اعمال ہیں.جن کے باعث بچھو نے سزا بھگتی یا جس کا نمرہ اُٹھایا.سو اس کے سر دست دو جواب اول.یہ کہ اعمال دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ اعمال ہیں جن کا نمرہ یا جزا لینے ہمیں عامل اور فاعلی یا مرتکب کا عاقل و مابغ اور سمجھ دار ہونا جان بوجھ کر قانون قدرت کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ضرور نہیں.مثلاً ایک نادان لڑ کا آگ میں رہتے ڈال ہے.زہریلا دودھ پلایا جا دے.ایسی خلاف ورزی میں

Page 30

سناء جزا اور غمزہ کا اُٹھا نا ضرور ہے.بہت نہ ہو تھوڑا سہی.مگر ایسی صورتیں اگر قدرے قلیل دکھ دائک اور رنج رساں ہوں تو ان کی تلافی اس اجر عظیم سے ہو جاتی ہے.جسے شہادت کا مرتبہ کہتے ہیں.دوسرے وہ اعمال ہیں.جنہیں قانون کی خلاف ورزی میں مرتکب جرایم کا عاقل بالغ، جان بوجھ کر جرم کا مرتکب ہونا ضروری ہے.ایسے قوانین کو قانون شریعت - قانون حکماء قانون حکام کہتے ہیں.پس لڑکے قانون قدرت کی خلاف ورزی میں گرفتار ہیں.انہوں نے خود کی ہے.یا ان کے والدین اور مربیوں نے یہ.دو بیر.لڑکے بھی ہم کہ سکتے ہیں.کہ جان بوجھ کر کسی برائی کے مرتکب ہوا کرتے ہیں.اور اسی کی سزاء میں گرفتار ہوتے ہیں.یا تو ا سلئے کہ برائی کی فرینکوب ان کی روح ہے.اور انکی روح چین ہوشیار اور ان کی کمزوری کے وقت ایسی گن - کرم.اور سمجھاؤ کے ساتھ ہے.جیسے جوانی کے وقت.اور یا اسلئے کہ جقدر کے وہ لڑکے ہیں.اور جبقدر ان کے جسم اور عناصر کی استعداد ہے.اسقدر کی سمجہ والی انکی روح بھی ہو.پھر جیسے چھوٹی سی چیونٹی بھی روح اور سمجھہ کا ایک مقدار رکھتی ہے.اور سمجھہ کے خلاف مرتکب بھی ہوتی ہے.اسی طرح وہ لڑکے بھی جن کو بیمار دیکھتے ہو.اپنی وسعت سمجھ کے موافق کسی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہوں.جب ہم عقل اور حکماء اور بڑے بڑے سمجھ والوں کو دیکھتے ہیں.کہ وہ لوگ بھی عقل اور سمجہ کے خلاف کرتے ہیں اور

Page 31

۲۹ اسکی سزا پاتے ہیں.بھلا چھوٹی سی عقل کے بچے ایسا کیوں نہ کرتے ہوں.بلکہ ہم کہ سکتے ہیں.لڑکوں کو کچھہ بڑی تکلیف نہیں ہوتی اور اس کے والدین و مرتی اپنے اسی شبنم کے استعمال کی سزا بھگت لیتے ہیں.اور جائز ہے.کہ ایسے لڑکوں کو آیندہ ابدال آباد نہ زندگی میں ترقی کا سامان مجاوے.تیتیوال جواب نیکی کا اثر اگرچہ عمدہ ہوتا ہے.مگر نیک اپنی نیکی پر کبھی تجبر کرتا.نیکی کو ریاء اور لوگوں کو د کہلائے کیو اسطے بجا لاتا ہے.کمزور لوگوں کو حقارت کی نگاہ سحر دیکھتا ہے.اور بدی کا اثر اگرچہ بڑا ہونا چاہیئے.مگر بد کا اپنی بدکاری پر جب نظر کرتا ہے.تو بارگاہ الہی میں عجز و انکسار - اضطراب شرمندگی ظاہر کرتا اور دُعائیں مانگتا ہے.اسلئے نیک اپنی بیگی کو تباہ کر دیتا ہے.اور بد کار بدی کے بعد مقرب بارگاہ الہی ہو انگاہ کے لوگ انیک تا ہے تیا جسکو ہم ! جاتا ہے.باد کار کو سہی.اور اپنے غلط تو ہمات سے اگر تمہ دیں کہ یہ تکلیف نیک پر اسکے پور پہلے جسم کا پہل ہیں اور یہ آسائشیں بدکار کو اسکے پور بلے جسم کا پھل ہیں.تو ہمارا یہ تو ہم غلط ہو گا.کیونکہ ممکن ہے.ہماری تشخیص نے غلطی کھائی ہو.چونتیسواں جواب.نیکیوں کے بہت اقسام ہیں.پھر جیسے نیکیوں کے انواع و اقسام ہیں.ایسے ہی نیکیونجے ثرات اور نتائج کے بھی اقسام ہیں.اکثر لوگوں کی یہ حالت ہے.ایک قسم یا سو ہزار قسم کی نیکی کرتے ہیں.اور جس جس قسم کی نیچی کرتے ہیں.اس کے انواع واقسام کی برکات اور

Page 32

ثمرات کو حاصل کرتے ہیں.مگر وہی نیک ایک قسم کی نیکی کرنے والے اور اور طرح کی بدی بھی کرتے ہیں.اور ان بدیوں کی سزا بھگتے ہیں.پھر یہ بھی ہے.کہ بعض نیکیاں اس قسم کی ہیں.کہ جلد پھل دیتی ہیں.اور بعض نیکیاں اپنا نمرہ مدت کے بعد دیتی ر کرتی ہیں.ایسی حالت میں نظارہ کنندہ کبھی غلطی میں پھنسا کسی قسم کی بدی کے مرتکب کو مطلق نیک - اور کسی قسم کی نیکی کرنے والے کو بد کار کہہ بیٹھتا ہے.اس جواب کو یہ قصہ واضح کرتا ہے.خاکسار ایک بار مجلس میں انا لنتصر رسلنا والذين ! في الجنوة الدنيا ير ا حباب کو کچھ سُنا رہا تھا.ایک نے اس میں دریافت کیا.کہ جب تمام آرام ایمان تو حاصل ہو سکتے ہیں.اور انواع و اقسام آلام کفر و نا فرمانی سے تو انگریز کیوں حیوہ دنیا میں منصور و دولتمند ہیں.شخص تبہ نما کسارے اُتے اور عام اہل مجلس سے عرض کیا کہ ایمان کے اونے اترین شعبوں میں سے اماطة الأذى عن الطریق ہے.یعنے رستوں کو صاف کرتا.راستوں میں سے.دُکھ دینے والی اشیا کو دور کرنا.اور مومنوں کی تعریف میں آیا ہے.وام هم شور سے بینھم.مومن وہ ہے جن کی حکومت جنکے کام مشورہ سے ہوں.اور مومنوں کو کہا گیا ہے.وان ليس للانسان الإما سعی وان سعید سونیری میرے پیارے نخا طہوا ان چند ایمانی احکام پر انگریزوں ے اسکا ترجمہ صفحہ اس کے حاشیہ کیتا ہے.

Page 33

نے عمل کیا اور تمنے ان احکام پر عملدرآمد سے مونہہ موڑا جن لوگوں نے ان احکام اسلام کو لیا.وہ ان احکام کے پھل بھی اُٹھا رہے ہیں.ہم نے نافرمانی کی اسکا بدلہ بھی بھگت رہے ہو.یہ تو اوامر کی تمثیل ہے.ایسا ہی الہی نواہی پر نظر کرو.تنازعوا فتفشلوا وتذهب ريحكم آیہ شریف بالا میں تمکو حکم ہے.باہمی جنگ و جدال چھوڑ و والا بودے ہو جاؤ گے.تمہاری ہوا بگڑ جائیگی.اس نہی تم نے پرواہ نہ کی.اللہ کے فضل سے تم بھائی بھائی تھے مگر باہم اعدا ہو گئے.عراض تم لوگ اپنی نافرمانیوں کے وبالوں میں گرفتار ہو.ہاں نمازیں پڑھتے ہو.روزے رکھتے ہو.زکواتیں دیتے ہو.حج ادا کرتے ہو.اور اُن سب سے مقدم تو حید پر ایمان لائے ہو اور انگریز مثلاً ان احکام کے منکر ہیں.تو ان اعمال کے بمثرات تم ہیں اُٹھاؤ گے.انگریز ان کا پھل نہ لینگے، غرض جو شخصی.جس قسم کا بیج بوئے گا.اس قسم کا پھل اُٹھائیگا.لعلكم تتفكرون في الدنيا والآخرة کی صدا سنگ صحابہ کرام اور ان کے اتباع عظام نے دین اور دنیا دونوں حسنات کا بیج بویا تھا.دونوں کا پھل اٹھایا.لے آدمی کو اپنی سعی و کوشش کا نتیجہ ملا کرتا ہے.اور اپنی کوشش کے نتائج آپس میں مت جھگڑا کرو.باہمی اختلافات سے پودے ہو جاؤ گے.اور تمہاری عزیت و ہوا اڑ جائیگی.سے تو کہ تم دنیا اور آخرت میں فکر کرو.

Page 34

پنتیسواں جواب - نیک شخص کے دو پہلو ہیں.ایک جہت میں.وہ اللہ تعالے کا محورب.اور ایک بہت میں بباعث اپنی نیکیوں کے اللہ تعالٰی کا محبوب ہے.نیک پتہ تکالیف کا آنا ممکن ہے کہ محبت کی بہت سے ہو نہ محبوبیت کی بہت ہے.اور الغابات مجبوریت کی بہت سے ہوں.نہ موت ہونیکی و تناسخ پر عقلی بحث تو بقدر ضرورت لکھ چکا ہوں.اب ایک نقلی سنیئے.اور اس بحث کی ضرورت اسلئے پڑی کہ تنقیه دماغ کے مصنف نے تاریخ کے اثبات میں قرآن کریم کی آیات کریمہ سے استدلال کیا ہے.اگر چہ عقل والے اچھی طرح سمجھتے ہیں.کہ اس سمجھ دار قوم کو اتنی عاقبت اندیشی نہیں مسلمان تیرہ سو برس میں تاریخ جیسے ضروری اور اعتقادی مسئلہ کو جو قرآن میں (معاذ اللہ ) موجود ہو نہ سمجھیں.اور یہ ہندی نشر او کو عربی لٹریچر کی بھی خبر نہیں.قرآن سے تناسخ کو سمجھ جاوے.خیر اللہ ہی کیوں نہ ہو.تنقیہ دماغ والے نے تناسخ کی لفظی بحث میں تین مقدمے تائم کہ ہیں اور تلیفون کا ثبوت قرآن ہے دیا ہے.اول روح کا ایک قالبات دوسرے قالب میں آتا دوم.ایک صورت سے دوسری صورت میں آتا.سوم - پاپ کرموں کی وجہ سے بارہ بار سنسارو نہیں جنم لینا.امراول کا ثبوت یہ دیا ہے.قالوا اذا كنا عظاما ور فأنا أعنا الميجوثون خلفا

Page 35

اولم يروا ان الله الذي خلق السموات والارض قادر على ان يخلق مثلهم دوسری دلیل یہ دی ہے.كما بدا نا اول خلق نعيد وعلا علينا انا كنا فاعلين اسكاتر جمركيات جیسا ابتداء سے بنایا ہنی پہلی بار پھر اسکو دھرا دینگے.وعدہ ضرور ہو چکا ہے.ہمپر بیشک ہم کر نیوالے ہیں.مصدق - گر ناظرین یاد رکھیں ان دونوں آیات کریمہ سے تو اتنا نہیں ہوا کہ دنیا کے ختم ہو جانے پر قیامت کے روز لوگ پھر جی اُٹھیں گے.اور اسلامیوں کو اس بات سے انکار نہیں.اسبات امرثانی یعنے ایک صورت سے دوسری صورت میں آنا اسکے اثبات میں کہا ہے.ولقد علمتہ الذین اعتدوا منكم في السبت فقلنا لهم كونو اقردة خائين فجعلناها نكالا لما بين يديها وما خلفها وموعظة للمتقین.اور اسکا ترجمہ کیا ہے :- اور البتہ جان چکے ہو جنہوں نے تم میں سے زیادتی کی ہفتہ کے دن میں تو کہا ہمنے ہو جاؤ بندر پھٹکارے.پھر پہنے وہ دہشت رکھی.اس شہر کے یہ ویبر د والوں کے، اور پیچھے والوں کو.اور نصیحت رکھی ڈروالوں کو یا قوم عاد بھی بندر بنائی گئی تھی.ناظرین غور کرو.یہ آیت کریمہ تو تناسخ کا ابطال کر رہی ہو کیونکہ نظام اور بلحاظ ترجمہ مصنف تنقیہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے.کہ یہود جینے جیتے بندر بن گئے تھے.اور تناسخ ماننے والوں کا اعتقاد یہ ہے کہ جاندار مرکز دوسرے جنم میں ظہور پاتا ہے.اور انندے لال جی کا یہ اضافہ بھی کہ قوم عاد بھی بندر بنائی گئی پہنی آذین کے قابل ہے.جسکا اشارہ بھی قرآن واحادیث میں نہیں.امر ثالث پاپ کرموں کی وجہ سے بار بار نہاروں میں جینم نہ لیا ہیں یہ حکم کہ میں اللہ نے بنا اسمان اور زمین سکتا ہے ایسون کو بنانا.

Page 36

لینا اور اُسکا ثبوت یہ دیا ہے.و حرام على قريبة اهلكناها انهم لا يرجعون حتر انا فتحت یا جوج و ماجوج و هم من كل حدب ينسلون :- اور اس آیت کریمیہ کا یہ ترجمہ کیا ہے..اور مقرر ہو.ہاہیں ہر بستی پر جسکو ہمنے کھپا دیا کہ وہ نہیں پھر بینگے.یہاں تک کہ تکھولا جاوے یا جوج ماجوج اور وہ ہر او جان سے پھیلتے آویں پھر کہا ہی.یا یہ تر جمہ ذرہ صاف نہیں - اسواسطے ہم اسکا انگریزی ترجمہ جو تیل نے کیا ہی.یہاں لکھتے ہیں.پھر انگریزی ترجمہ لکھا ہو.افسوس آپ کو دعوت ہے مگر اتنی سوجھ نہیں کہ مسلمان قرآن کا ترجمہ صاف نہیں کر سکے.اس لئے آپ کو سیل صاحب کے ترجمہ کی ضرورت پڑی.خود ہی لفظی ترجمہ کر لیا ہوتا.پا کسی مسلمان سے پوچھ لیا ہوتا.آیو.اگر میں یا کوئی اور مسلمان ولسن ويدك ترجمہ کے رو سے تمیر الزام لگانا چاہے تو کیا انصاف ہو گا.خیال ہی نہیں.یہ انصاف کر لو اس آیہ کریمیہ میں اول حرام کا لفظ تحقیق طلب تھا.مگر تنقیہ کے مصنف نے جس کا تنقیہ خبط کی واسطے مناسب ہے.جو معنے لئے وہی مناسب اور عمدہ ہیں.اور وہ معنے کیا ہیں مقرر ہو رہا ہو یا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اسکے معنے ہے رضی اللہ واجب کئے ہیں.ان معنے کا ثبوت کو تفسیر میں مخاطب کیلئے ضرور نہیں یگر قوم کی اسطے بہت مفید ہو گا.میں اس معنی کی شہاد قرآن کر دیتا ہوں.کی شہ قل تعالوا اتب ما محمد ديکھو عليكم ان لا تشركو ابن شيخ و بالوالدين احسانا.(سورۂ انجام پارہ نمبشر) دوسرا لفظ اس آیت کریمیہ میں لا یرجعون ہے.جسکے مضر ہیں.اے تو کہ آؤ میں پڑھ دوں تمپر وہ باتیں جو اللہ نے تمہر مقرر کردی کہ واللہ کا کسیکو اور والدین سے سلوک رکہو :

Page 37

وہ نہیں پر ینگے.غور طلب یہ امر ہے کہ کس طرف نہ پہریں گے.اقول - احتمال تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف نہ پھر ینگے.اور جزا استرا کے واسطے زندہ نہ ہونگے.سو یہ معنی تو صحیح نہیں.کیونکہ اس آیت کے ماقبل گذر چکا ہے.کل الينا راجعون.(سوره انبیاء یوں ہے اور اس کے معنے ہیں.تمام لوگ ہماری طرف رجوع اران کلر) اور اس کے معنے ہیں علام دوم معنے ہیں.دنیا میں پھر کر نہ آدینگے.سوم معنے ہیں وہ شریر جنکو اللہ تعالیٰ نے کھپایا اور ہلاک کیا.اپنی شرارت سے پہر نے استاین والے نہیں.یہ دونوں معنے صحیح ہیں.تیسر ا لفظ حتی کا ہی جو جیتے اذا فتحت یا جوج وماجوج میں ہو.یہ سے حرف ابتدا ہو.فقط جیسے کہ نہ مختصر کی اور ابن عطیہ نے کہا ہے.اس صورت میں جتنے کے معنے یہانتک کرنے میے نہ ہونگے.بلکہ یہ کلام علیرہ ہوگا.اور جملہ شرطیہ اذا فتحت کا جواب فاذا هو شاخصہ ہوگا اذا مو شاخصہ کا اذا ا جانا کے معنے دیتا ہے.جبکو عربی میں مفاجاة کہتے ہیں.اور یہ اذا فا کی تاکید ہوا کرتا ہیں.باستے کا حرف ائی کے معنے رکہتا ہو.بین مطلب یہ ہو گا کہ جن جن بستیوں کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک کیا ہے.یا جوج اور ماجوج کے قتحمند ہونے یا شکست پانے اور قیامت کے نزدیک آجانے تک جتنے شریہ ہلاک ہو رہے ہیں.وہ نہ تو دنیا میں واپس آدینگے اور نہ وہ اپنی شرارت سے باز آدینگے.ہاں جب دنیا کا کارخانہ ہی ختم ہو گیا.اور قیامت آگئی.اور جنہ ا سزا کا وقت آپہنچا تو سب آجائینگے.جیسے کل الینا راجعون سے ثابت ہو چکا تھا.جو پہلے گزر چکا.معلوم ہوتا ہو.مصنف تنقیہ کو لفظ حتے سے خیال پیدا ہو ما قبل ما بعد کے خلاف ہو ا کرتا ہے.مگر اس آیت پر غور کرنا چاہیے.१०८

Page 38

۳۶ ومن يعصر الله ورسوله فان له نار جهنم خالدين فيها ابدا حتى اذا ل ا وا ما يوعدون فسيعلمون من اضعف ناصاً واقل عدداً (سوره جن پاره (۲۹) اب ہم تناسخ کے مدعیوں کو جنکودعوی ہے کہ بنا سے قرآن سے بھی ثابت ہوتے و تین آیت قرآنیہ سن کر تناسخ کی بحث کو ختم کرتے ہیں.أول - الميروا كم اهلكنا قيلهم من المقرون انهم اليهم لا يرجعون.وان كل لما جميع لدنيا محضرون.(سورة ليس پاره نمبر دوم - فلا يستطيعون توصيته ولا الى اهلهم يرجعون (سوره پیش پاره ۲۳) سوم - اما الذين سعد واففى الجنة خالدين فيها ما دامت السموات والارض الا ما شاء ربك عطاء غیر محدود.(سورہ ہود پاره ۱۲) اور مصنف تقیہ دماغ کا یہ کہناکہ قرآن میں لکھا ہے اصحاب کہف کا کیتا نیک اعمال کے باعث بہشت میں چلا گیا.اور جانورں گواہی دینگے یا یہ باتیں اس قابل نہیں کہ عقل والا جوابدے.کیونکہ ان لوگوں نے دعوی کیا ہے کہ یہ باتیں قرآن کریم میں مندرج ہیں.حالانکہ قرآن میں مندی نہیں.لہ کیا وہ دیکھتے ہیں کہ انسے پہلے کی بستیاں ہم کھا چکے ہیں.وہ انکی طرف دھیاں نہیں کرتے.یقینا کر کے سب ہمارے حضور میں حاضر ہو نیوالے ہیں.کے نہ تو وہ وصیت ہی کر سکینگے اور نہ انہیں اپنے خاندان کی طرف لونا میگا.ے سعادتمندوں کو تو جنت میگی.انھیں ہمیشہ رہیں گے.جنگ آسمان اور زمین رہیا.گر تو تیرا دیتا ہو.یہ بخشیں کبھی بند نہ ہونگی ؟ **

Page 39

آریہ ہر سکے تو کی چند با استاین.پیدائیش عالم.اس کتاب میں پنڈت دیانند صاحب پالنے آریہ سماج کے اس عقیدہ کی کہ دنیا کا سلسلہ ازلی ہے اس کی ابتدائی اور انتہا نہیں آریہ راہب کی کتب مصنفہ دیا نند جی سے اور عقل و نقل سے ایسی لاجواب تردید کر کے ثابت کر دیا ہے کہ دنیا کا سلسلہ ازلی نہیں ہے بلکہ حادث ہے اور اسکی ابتداء ہے.قیمت سر شد ہی کی اشد ہیں.اس کتاب میں آریون کی اون زیر دست اور مشہور شہ نہیوں کا ذکر ہے جس کو وہ اپنے مذہب کی صداقت مین پشکر کے پھولے نہیں سماتے تھے.اور ہر ایک شدہی کی ایسی حقیقت کھول دی ہے کہ قیامت تک آریہ ان شد ہیوں کا نام نہ ہیں گے.یہ کتاب پانسو روپیہ کے انعام کے سا تحفہ شایع کی گئی ہے.قیمت ار تصدیق کلام مالک متحدہ کے ایک منہ پھٹ بد زبان آریہ لیکچرار نے مسلمانی کی پانی کی کہانی ایک گندہ رسالہ شایع کیا اسکا ناقابل تردید جواب اس کتاب میں دیا گیا ہے.ہر مسلمان کو اس کا مطالعہ ضروری ہے.قیمت ۱۸ تنبیه زبان دراز آریون کے مسافر اگر ہ نے ایک بزند کی طرف سے افتقاد را ریکا رسالہ شایع کیا تھا اسمین اوسکا دندان شکن جواب دیا گیا ہے.قیمت ۱۲ و یدک توحید کا آئینہ.اسلامی توحید کا آئینہ ایک لالحقل آریہ نے شایع کیا تھا.اوس کے جواب میں اسلامی توحید توا کا ایسا نشوة

Page 40

دیا گیا ہے کہ باید و شاید اور ساتھ ہی ویدوں کی توحید کا آئینہ دکھا دیا ہے جس سے، آریہ سماج کو شرم آجائے.قیمت صرت ۲ ازالۃ الشکوک.ایک پیکٹر آریہ کے بنیں اعتراضون کا جوابت کے جو اس نے اسلام پر اپنی جہالت سے کئے تھے.قیمت صرف ۲ کا رساله گوشت خوری.اسمیں آریہ سماج کے علایم گوشت خوری کی دنیلوں کی تردید کر کے عقل و نقل سے جو از گوشت خور ہی کا ثبوت دیا گیا ہے.قیمت اور بد کامل - آریہ سماج کے ایک نو نہال نے اسلام پر اعترضان کئے تھے.اون کا جواب ترکی بہ ترکی ایسا دیا گیا ہے کہ سماجی پیپر لیسی بیہودہ گوئی نہ کرینگے.قیمت یہ.گائے کی عظمت پر تحقیقی نظر ہر ایک مسلما نو اسکالہ کہنا ضروری ہے.قیمت صرف پر دہر میاں کا کچا چٹا.مضمون نام سے ظاہر ہے.قابل دید جو آریون نے خود لکھ کر شائع کیا ہے.قیمت صرف ار اسکے علاوہ اور بہت ہی کو اے و مواد آرہ یہ سماج کی ہیں.اور تمام سلسلہ عالیہ احمدیہ کی کتابیں فاروق اجنبی سے طلب کرنے پر مسکتی ہیں.محصول ڈاک بذمہ خریدار ہو گا :- مینجر فاروق ایجنسی قادیان ضلع گورداسپو پنجاب.

Page 40