Rabt He Jaan-eMuhammad

Rabt He Jaan-eMuhammad

ربط ہے جانِ محمدؐ سے مری جاں کو مدام

Author: Other Authors

Language: UR

UR
حضرت مسیح موعود و مہدی معہود ؑ

ایسے واقعات، مماثلات اور مشابہتیں جن میں عاشق صادق حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنے معشوق حقیقی سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں بعض اعمال خود کیے یا اللہ تعالیٰ نے محب اور محبوب کے تعلق کو مضبوط کرنے کے لئے کروائے۔


Book Content

Page 1

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام امۃ الباری ناصر اداره الفضل آن لائن

Page 2

اداره الفضل آن لائن کی 24 ویں کاوش رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

Page 3

قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَالله وَاسِعٌ عَلِيمٌ (آل عمران (78) روزنامه الفضل مدير ابوسعيد لندن ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام مضمون نگار : امۃ الباری ناصر مرتبه: فضل عمر شاہد اداره الفضل آن لائن لندن

Page 4

ویب سائٹ رابطہ کرنے کے لیے www.alfazlonline.org ای میل ایڈریس: info@alfazlonline.org فون نمبر : editor@alfazlonline.org +44 79 51 614020 +44 73 76 159966 آن لائن ایڈیشن

Page 5

فہر ست مضامین عنوان صفحہ نمبر 13 17 21 25 28 33 40 43 49 52 60 60 63 68 89 71 81 84 93 101 نمبر شمار عاجزانہ راہیں غیر مسلم عادل حکومت کی پناہ اور تعریف نصرت بالرعب خدا کی قسم وہ نبی ہے تبلیغ اسلام کے لیے سفر اور تکالیف اٹھانا دعا سے بارانِ رحمت قرآن پاک سننے کا شوق ناصر دین کے لئے دعا کی قبولیت انداز نشست میں عمومیت خوراک کی سادگی رہائش کی سادگی قیصر ، آتھم اور کسری، لیکھرام" کھانے میں برکت اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے پیاروں کی خود حفاظت فرماتا ہے پانچ نہایت نازک پر خطر مواقع وطن سے محبت خلوت پسندی آنحضرت اور حضرت مسیح موعود کی روزے سے محبت 5 1 له 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18

Page 6

20 20 نمبر شمار عنوان صفحہ نمبر 19 میں نے یہ تو نہیں کہا تھا 107 111 113 13 121 129 140 155 167 179 185 200 213 218 225 237 249 259 274 279 297 21 22 22 قیصر اور قیصرہ قبولیت دعا شمس و قمر کی گواہی فصاحت بلاغت کا ایک الہی نشان کیفیت نماز توکل علی اللہ تعالیٰ 23 23 24 24 25 26 27 28 29 29 دشمنوں کی خیر خواہی کوئی دن منحوس نہیں ہوتا يا بدرنا يا آية الرحمن 30 30 31 32 33 میاں بیوی کا رشتہ، پیار محبت اور احساس کا سچا رشتہ جانوروں اور پرندوں کے لئے رحمت خادموں اور ملازموں سے حسن سلوک دعاؤں میں گداز اور گریہ و زاری دعوی سے پہلے کی پاکیزہ زندگی طنز و مزاح میں شگفتگی والدین کے احترام کی تلقین اور عمل حسن اخلاق کی باتیں 34 =4 35 35 دین میں جبر نہیں بیٹیوں سے پیار، محبت اور اکرام 6 36 37 38

Page 7

عنوان گالیاں سن کے دعا دو پا کے دکھ آرام دو“ سچائی، راستبازی، صداقت شعاری آسمانی تعلیم و تربیت دل اور آنکھ کی پاکیزگی امن عالم کی ضمانت پڑوسی کے حقوق محمد ہی نام اور محمد ہی کام عليك الصلوة عليك السلام بر تر گمان و و ہم سے احمد کی شان ہے جس کا غلام دیکھو! مسیح الزمان ہے اکرام ضيف محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں صفحہ نمبر 315 329 337 350 357 365 373 381 390 400 409 418 424 7 تکمیل ہدایت تکمیل اشاعت ہدایت وصال اکبر مضامین کے لنکس ادارہ الفضل آن لائن کی کتب نمبر شمار 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51

Page 8

Page 9

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام پیش لفظ روز نامہ الفضل آن لائن نے قسط وار شائع ہونے والے مضامین کو قارئین کی سہولت کے لیے کتابی صورت میں آن لائن اشاعت کا سلسلہ جاری کر رکھا ہے جو بفضل اللہ تعالیٰ نہایت کامیابی سے جاری ہے اور قارئین سے یہ کتب نہ صرف داد وصول کر رہی ہیں بلکہ الفضل سے محبت رکھنے والے آئے روز کسی قسط وار مضمون کی طرف اشارہ کر کے اس کو کتابی شکل دینے کی درخواست کرتے رہتے ہیں.اس وقت قریباً دس کتب پر کام ہو رہا ہے.زیر نظر کتاب بعنوان “ اس سلسلہ کی 24 ویں کڑی ہے.جس کو لکھنے والی ہماری بہن جو ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر اور نثر نگار بھی ہیں اور باقاعدہ سے الفضل آن لائن کا نہ صرف روزانہ مطالعہ کرتی ہیں بلکہ اپنے مضامین اور منظوم کلام سے اخبار الفضل کو حُسن بخشتی رہتی ہیں.موصوفہ کا نام امتہ الباری ناصر ہے جو آج کل امریکہ میں رہائش رکھتی ہیں.موصوفہ نے چند روز قبل مجھے میسج کیا کہ لگتا ہے کہ میں ”النور “ سے زیادہ اپنے ”لفضل“ کے لیے کام کرتی ہوں.موصوفہ کا النور امریکہ کی ایڈیٹر ہونے کے ناطے النور کے لیے ”اپنے“ کا لفظ استعمال کرنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں لیکن ”الفضل“ کے لیے ”اپنے“ کے الفاظ کے استعمال سے موصوفہ کی الفضل سے بے پناہ محبت جھلکتی نظر آتی ہے.میں خود ” لفضل“ کا ایڈیٹر ہونے کے ناطے الفضل کے ساتھ ”اپنے“ یا ”اپنا“ کے الفاظ سے حجاب محسوس کرتا ہوں.اگر کسی جگہ کسی سے بات کرتے پیارے الفضل کے ساتھ ”اپنا“ کا لفظ استعمال کر بھی لوں تو مجھے وضاحت میں کہنا پڑتا ہے کہ نہیں! جماعتی اخبار یا آپ تمام لو گوں کا پیارا اخبار.بہر حال یہ اخبار "الفضل آن لائن“ آج کل دنیا بھر کے لاکھوں افراد و خواتین کے دل کی دھڑکن ہے اور جس کثرت کے ساتھ روزانہ ہی علی الصبح دنیا کے کونے کونے سے میسجز، پیغامات، تبصروں اور آراء کا سلسلہ شروع ہوتا ہے.ان تمام کو جزاهم الله خیراً کے ساتھ روزانہ ہی ان الفاظ میں دعا ملتی ہے.تجھ کو اس لطف کی اللہ ہی جزا دے ساقی بات کسی اور طرف چل نکلی ہے.اصل موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے بتانا یہ چاہتا ہوں کہ ایک سال قبل جب موصوفہ نے فون پر زیر نظر عنوان کے متعلق عندیہ دیا کہ ربط ہے جانِ محمدؐ سے مری جاں کو مدام“ کے عنوان کے تحت ایسے واقعات، مماثلتیں اور مشابہتیں قارئین الفضل کے لیے اکٹھی کرنا چاہتی ہوں 9

Page 10

جن میں عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے معشوق حقیقی سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں بعض اعمال خود کیسے یا اللہ تعالیٰ نے محب اور محبوب کے تعلق کو مضبوط کرنے کے لیے کروائے.دو صحاب خاکسار نے موصوفہ کی درخواست پر فوری حامی بھر لی کیونکہ یہ موضوع میرا پسندیدہ مضمون ہے اور سے ملا جب مجھ کو پایا“ کے تحت خاکسار نے صحابہ رسول اور محبین حضرت مسیح موعود کی مشابہتیں اور ملتے جلتے واقعات اکٹھے کرنے کا سلسلہ جاری کر رکھا ہے اور اس ضمن میں 8 قسطیں روزنامہ گلدستہ علم و ادب لندن اور روزنامہ الفضل آن لائن لندن میں طبع ہو چکی ہیں.اس پلیٹ فارم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے پیارے قارئین سے یہ درخواست بھی کرنا چاہوں گا کہ آپ کے زیر مطالعہ یا زیر نظر کوئی واقعہ ایسا گزرے یا کسی دوست نے محفوظ کر رکھے ہوں تو اسے editor@alfazlonline.org پر فی الفور بھجوا کر ممنون فرماویں.ہر انسان کی کوئی نہ کوئی Hobby ہوتی ہے.کسی نہ کسی مشغلہ کے ساتھ اس نے اپنے آپ کو جوڑا ہوتا ہے.خاکسار کے مشاغل میں سے ایک یہ مشغلہ بھی ہے کہ انسان، مقامات اور اشیاء کے ناموں کو قرآن میں تلاش کر کے ان پر غور کر کے ان کے مطالب کو سمجھنا اور متعلقہ افراد یا اشیاء پر اچھے معنی میں لاگو کرنا ہے.خاکسار جب امتہ الباری ناصر کے نام پر غور کرتا ہے تو اس کے معنی اور مطالب کو حقیقی معنوں میں موصوفہ پر لاگو پاتا ہے.دوسرے معنوں میں آپ اسم با مسمی ہیں.”باری“ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے جس کے معنی پیدا کرنے والا، تخلیق دینے والا اور خالق کے ہیں.امہ (میم پر زبر کے ساتھ) کے معانی لونڈی اور کنیز کے ہیں.سو امۃ لباری کے معانی ہوئے خالق کی لونڈی.اور تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ اللَّهِ کے تحت صفات باری تعالیٰ کو اپنے وجود میں اتارنے کا جو حکم ہے اس میں موصوفہ نے حضرت سلطان القلم کی معاون بن کر قلم کے ذریعہ جو تخلیق کی ہے ان میں دسیوں کتب اور سینکڑوں مضامین شامل ہیں.موصوفہ کا زیر نظر 49 اقساط پر مشتمل مضمون قارئین کی طرف سے بہت پسند کیا گیا.اسے سراہا گیا اور الفضل کی مقبول ترین کی کیٹیگری میں جگہ پاتا رہا.امید ہے یہ علمی مجموعہ جماعتی کتب میں ایک مفید اضافہ ثابت ہو گا.اس کی تیاری میں موصوفہ نے خود جو محنت کی اور جن کتب سے استفادہ کیا ان کے مصنفین اور جن کرداروں سے کمپوزنگ وغیرہ کروائی اور بعد ازاں الفضل کی ٹیم نے مختلف angles سے ان کو پر کھا، ان کی نوک پلک درست کی، ان کو قارئین کے لیے الفضل کی ٹرے میں سجایا اور آخری مرحلے پر 10

Page 11

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام فضل عمر شاہد آف لٹویا نے کتابی شکل دے کر خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کیا.یہ تمام شکریہ اور آپ کی دعاؤں کے مستحق ہیں.اللہ تعالیٰ ان تمام کو جزائے خیر عطا کرے اور اپنی لازوال محبت اور پیار سے نوازے.ان تمام کی خدمات کو قبول فرمائے.کان الله معهم حنیف محمود ایڈیٹر روزنامہ الفضل آن لائن لندن 29-01-2023 11

Page 12

Page 13

قسط 1 عاجزانہ راہیں قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ (آل عمران: 32) تو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا.اللہ تبارک تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفی صلی علی کریم کو اپنی طرف آنے کا جو راستہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا اس پر آپ کی امت میں سب سے زیادہ عمل کرنے والا وجود، پیروی کا حقیقی حق ادا کرنے والا، ہمہ وقت آپ پر و درود و سلام بھیجنے والا، آپ کے دین کی اشاعت کو مقصد حیات بنانے والا، فنا فی اللہ اور فنا فی الرسول بزرگ حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام ہیں.آپ کا قلب صافی اپنے محبوب کا آئینہ بن گیا.ایک ہی سر چشمہ نور سے فیض یابی نے دونوں کو یک رنگ بنا دیا.سراج منیر کی روشنی کا دلفریب عکس اس چودھویں کے چاند کی ہر ادا میں جھلکتا ہے.دونوں میں دوئی نہ رہی.غلام احمد علیہ السلام نے احمد صلی اللی علوم کی غلامی میں محمدی نور کے دل نشین جلوے دکھائے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: ”ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے ہم کافر نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے.اس آفتاب ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں“ (حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 119) يَا حِبْ إِنَّكَ قَدْ دَخَلْتَ مَحَبَّةٌ في مُهْجَتِي وَمَدَارِي وَ جَنَانِي 13

Page 14

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام جِسُئ يَطِيرُ إِلَيْكَ مِنْ شَوْقٍ عَلَا يَا لَيْتَ كَانَتْ قُوَّةُ الطَّيَرَانِ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 594) اے مرے محبوب! میری جان اور میرے حواس اور میرے دل میں تیری محبت سرایت کر چکی ہے.(اے مرے معشوق!) تیرا عشق میرے جسم پر (کچھ) اس طرح غلبہ پا چکا ہے (کہ وفور جذبات کی وجہ سے) وہ تیری طرف اڑا جاتا ہے.کاش مجھ میں اڑنے کی طاقت ہوتی اور میں اڑ کر تیرے پاس پہنچ جاتا) اس نادر خزانے سے ہم رنگ موتی ہاتھ آتے ہیں.قارئین کی خدمت میں چند جھلکیاں پیش ہیں : سة اپنا کام خود کرنا ایک دفعہ رسول اللہ صلی العلیم سفر پر جارہے تھے کہ راستے میں ایک منزل پر پہنچ کر ڈیرے لگائے گئے اور صحابہ میدان میں پھیل گئے تا کہ خیمے لگائیں اور دوسرے کام جو کیمپ لگانے کے لیے ضروری ہوتے ہیں وہ بجالائیں.انہوں نے سب کام آپس میں تقسیم کر لیے اور رسول اللہ صلی ای میل کے ذمے کوئی کام نہ لگایا.رسول للہ صلی علی کریم نے فرمایا تم نے میرے ذمے کوئی کام نہیں لگایا؟ میں لکڑیاں چنوں گا تا کہ اس سے کھانا پکایا جاسکے.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی علیہ علم ہ ہم جو کام کرنے والے موجود ہیں آپ کو کیا ضرورت ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں نہیں میرا بھی فرض ہے کہ میں کام میں حصہ لوں.چنانچہ آپ نے جنگل سے لکڑیاں جمع کیں تاکہ صحابہ اس سے کھانا پکا سکیں.(زرقانی) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جس وقت آپ گھر پر ہوتے گھر والوں کی مدد اور خدمت میں مصروف رہتے یہاں تک کہ آپ کو نماز کا بلاوا آجاتا اور آپ نماز کے لیے تشریف لے جاتے.(بخاری، کتاب الاذان ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اپنا کام خود کرنا پسند فرماتے تھے اور اس میں کوئی عار محسوس نہیں فرماتے تھے.حضرت منشی ظفر علی روایت فرماتے ہیں: ایک دفعہ حضور دہلی سے واپسی پر امر تسر اترے.حضرت اماں جان بھی ساتھ تھیں.حضور نے ایک 14

Page 15

صاحبزادے کو جو غالباً حضرت میاں بشیر احمد تھے گود میں لیا اور ایک وزنی بیگ دوسری بغل میں لیا.میں نے عرض کیا حضور یہ بیگ مجھے دیدیں.فرمایا نہیں.ایک دو دفعہ میرے کہنے پر حضور نے یہی فرمایا.ہم چل پڑے اتنے میں دو تین نوجوان انگریز جو اسٹیشن پر تھے انہوں نے مجھے کہا کہ حضور سے کہوں کہ ذرا ٹھہر جائیں.چنانچہ میں نے عرض کیا کہ حضور یہ چاہتے ہیں کہ حضور ذرا کھڑے ہوجائیں.حضور کھڑے ہو گئے اور انہوں نے اسی حالت میں حضور کا فوٹو لے لیا.عاجزانہ راہیں (روایات ظفر صفحہ 64) آنحضرت علی ام اپنی ذات کے لیے احترام میں کسی قسم کا تکلف پسند نہ فرماتے.اول آپ کو ہے مشرکانہ رسوم کا قلع قمع کرنا تھا دوسرے آپ کے مزاج میں عاجزی اور انکساری تھی.ایک دفعہ ایک شخص آپ کے پاس آیا تو آپ کے رعب کی وجہ سے کانپ رہا تھا آپ نے فرمایا: ”مجھ سے مت ڈرو میں تو ایک قریش عورت کا بیٹا ہوں جو سو کھا گوشت کھایا کرتی تھی“ (شفا عیاض، باب تواضعہ جلد اوّل صفحہ 87 شرک کی گرفتار قومیں نئی نئی توحید میں داخل ہوئیں.ایک نے آکر کہا شاہانِ فارس اور روم کو ان کی رعایا سجدہ کرتی ہے کیا ہم آپ کو سجدہ نہ کریں؟ آپ نے فرمایا: سجدہ صرف اللہ تعالیٰ کو کرو.کسی دوسرے کو سجدہ نہ کرو.“ (فصل الخطاب، جلد اول الشركة الاسلامیہ 1963ء صفحہ 20) آپ نے کبھی بھی اپنے لیے کوئی امتیازی نشان، وضع قطع، لباس اور نشست پسند نہیں فرمائی حتی کہ ایک محفل میں داخل ہونے پر احتراماً کھڑے ہونے سے بھی منع فرمایا: ”میرے لیے اس طرح نہ کھڑے ہوا کرو جس طرح مجھی کھڑے ہوتے ہیں“ ( سنن ابی داود کتاب الادب باب الرجل يقوم للرجل يعظمه بذالك ) الله سة فتح مکہ کے دن مکہ کی بستی نعرہ ہائے تکبیر سے گونجتی رہی کبھی فاتح مکہ محمد صل الی ایم کا نعرہ نہیں لگا.آپ کا حال یہ تھا کہ خدا کے حضور حمد وشکر میں جھکتے جھکتے سر اونٹنی کے کجاوے سے لگ رہا تھا.(سیرت ابن ہشام) 15

Page 16

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام فتح مکہ کے دن شام کو آپ حضرت ام ہانی بنت ابی طالب کے ہاں تشریف لائے.بھوک محسوس ہوئی تو آپ نے ان سے پوچھا کھانے کو کچھ ہے؟ جواب ملا روٹی کا ایک ٹکڑا ہے.آپ نے فرمایا وہی لے آؤ.آپ نے اس ٹکڑے کو توڑ کر پانی میں ڈالا.اس پر نمک ڈالا اور سر کہ چھڑک کر بطور سالن استعمال فرمایا.(ترمذی ابواب الاطعمه باب ما جاء فى الخل) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اسی حصن حصین کا عکس حسین تھے.اپنی ذات، نام نمود، شہرت، عزت، ہر دنیاوی وجاہت سے بے نیاز در مولی کی گدائی میں مگن رہتے.اللہ تعالیٰ نے یہ سند عطا فرمائی: تیری عاجزانہ راہیں اس کو پسند آئیں“ (تذکره صفحه 595) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی حضرت شیخ صاحب دین کا بیان فرمودہ واقعہ درج ذیل ہے: غالباً 1904ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق لاہور کی جماعت کو اطلاع ملی کہ حضور فلاں گاڑی پر لاہور پہنچ رہے ہیں.ہم لوگ حضور کی پیشوائی کے لیے ریلوے سٹیشن پر گئے ان دنوں دو گھوڑا فٹن گاڑی کا بڑا رواج تھا.ہم نے فٹن تیار کھڑی کر دی.جب حضور سوار ہو ئے تو ہم نوجوانوں نے جیسا کہ عام رواج تھا گاڑی کے گھوڑے کھلوائے اور گاڑی کو خود کھنچنا چاہا.حضور نے ہمارے اس فعل کو دیکھ کر فرمایا ہم انسانوں کو ترقی دے کر مدارج کے انسان بنانے آتے ہیں.نہ کہ بر عکس اس کے انسانوں کو گرا کر حیوان بناتے ہیں کہ وہ گاڑی کھینچنے کا کام دیں.مفہوم یہی ہے شاید الفاظ کم و بیش ہوں.الفضل 8 مئی 1938ء) اس نور پر فدا ہوں اُس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے 16 روزنامه الفضل آن لائن لندن 9 نومبر 2021ء)

Page 17

قسط 2 غیر مسلم عادل حکومت کی پناہ اور تعریف تم لوگ حبشہ چلے جاؤ.کیو نکہ وہاں پر ایسا بادشاہ ہے جو کسی پر ظلم نہیں کرتاوہ ارضِ حق یعنی سچائی والی زمین ہے".(سيرة ابن ہشام جلد اول صفحہ (321) مکہ میں مسلمانوں پر مسلسل ظلم و ستم سے عرصہ حیات تنگ ہو گیا تو آنحضرت علی لی ایم نے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارشاد فرمایا.ہجرت کے لئے ارضِ حبشہ کے انتخاب کی وجہ کیا تھی؟ حبشہ کا بادشاہ نجاشی مسلم نہیں تھا لیکن ان میں ایسی صفات موجود تھیں جو اسلام کی تعلیم سے مطابقت رکھتی تھیں وہ رحم دل اور عادل تھے آپ کو توقع تھی کہ مسلمان وہاں سکون سے رہیں گے.اس لئے آپ نے ان کا انتخاب فرمایا اور انہیں تعریف سے نوازا.دوسرے آپ نے ایران کے بادشاہ نوشیرواں کی تعریف فرمائی اس کی وجہ بھی اس کا عدل تھا.پیغمبر اسلام نے نوشیرواں عادل کے عہد سلطنت میں ہونے کا ذکر مدح اور فخر کے رنگ میں بیان فرمایا ہے“ (تحریر علی الحائری شیعه عالم موعظه تحریف قرآن 72 از علی الحائری 1932ء) ان دونوں غیر مسلم بادشاہوں سے آپ نے کوئی مالی منفعت حاصل نہیں کی.جہاں اچھائی دیکھی تعریف فرمائی حکمت مومن کی میراث ہے.آپ کا غیر مسلم مگر عادل رعایا کی سلطنت میں ہونے کا مدح اور فخر سے ذکر فرمانا آپ کی ذات کے غیر جانبدار عادل ہونے کی بہت بڑی مثال ہے.یہاں حسن خلق کی قدردانی کی ایک دلفریب مثال کے طور پر ایک واقعہ مختصر 1 پیش ہے.قبیلہ کے کے کچھ جنگی قیدی آپ کی یلم کی خدمت میں پیش ہوئے جن میں حاتم طائی کی بیٹی بھی تھی.اس نے آگے بڑھ کر آپ سے پوچھا: آپ جانتے ہیں میں کون ہوں؟ 17

Page 18

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام رسول کریم صلی الکریم نے فرمایا نہیں میں نہیں جانتا.الله اس لڑکی نے کہا میں اس باپ کی بیٹی ہوں جس کی سخاوت کے ذکر سے سارا عرب گونج رہا ہے.رسول کریم کی ایم نے فرمایا اس کا باپ محسن تھا اور وہ دنیا کے ساتھ نیکی کا سلوک کرتا تھا، ہم ایسے باپ کی لڑکی کو قید کرنا نہیں چاہتے، چنانچہ آپ نے اسے آزاد کر دیا اور اس کی درخواست پر اس کے سارے قبیلے اور مفرور بھائی کو بھی آزاد کر دیا.حاتم طائی کا اسلام پر کوئی احسان نہیں تھا، وہ صرف اپنے علاقہ میں سخاوت کے لئے مشہور تھا محمد رسول اللہ صلی علی کی اور آپ کی جماعت کے لئے اس نے کوئی کام نہیں کیا تھا.آپ نے صرف اس وجہ سے کہ وہ غریبوں پر احسان کیا کرتا تھا اس کے سارے قبیلے کو معاف کر دیا.آپ نے فرمایا.ہم ایسے شخص کی قوم کو قید نہیں کر سکتے جو اپنی زندگی میں غریبوں پر احسان کیا کرتا تھا.(خلاصه از تفسیر کبیر جلد 10 صفحه 374) هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ ) (الرحمن: 61) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک سے پہلے بر صغیر پر سکھوں کا راج تھا جو اسلام کے مخالف تھے اور دشمنی میں اس حد تک بڑھ گئے تھے کہ آواز اذان کی بھی برداشت نہ تھی مساجد پر بے جواز قبضہ کرنا اپنا حق سمجھتے تھے.Sir Lepal Griffin کی رنجیت سنگھ“ نامی کتاب جو کہ 'S Chand & Co' کی طرف سے دہلی میں شائع ہوئی، اس کے صفحہ 84 پر لکھا ہے اس زمانے میں سکھ فوج کو باقاعدہ تنخواہ کا کوئی نظام نہیں تھا.وہ اپنے گرو سے اجازت لے کر کوئی نہ کوئی شہر لوٹتے تھے.جب تک ذاتی دفاع کی طاقت نہ ہو تو نہ کسی کی زمین، گھوڑا یہاں تک کہ بیوی بھی محفوظ نہیں.“ اس کے بر عکس انگریزوں نے انصاف کا بول بالا کیا جس سے معاشرتی گھٹن سے نجات اور مذہبی آزادی حاصل ہوئی.کسمپرسی کی حالت میں رہنے سے کمزور مسلمانوں کی دینی حمیت کو بھی نقصان پہنچا تھا انگریزوں کی انصاف پسندی دیکھ کر مختلف ادیان سے لوگ اور عام مسلمان حتی کہ بعض علمائے اسلام بھی عیسائیت میں پناہ ڈھونڈنے لگے ایسے مذہب تبدیل کرنے والے مرتدین سے عیسائیوں کی تعداد ستائیس ہزار سے پانچ لاکھ تک پہنچ گئی تھی.ان لوگوں نے نہ صرف مذہب تبدیل کیا بلکہ اپنے آقاؤں کو خوش 18

Page 19

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ اس کے رسول صلی علیم قرآن پاک اور اسلامی شعائر کی بے حرمتی اور گستاخی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور انگریز حکومت کی خوشامدانہ تعریف و توصیف میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا پالی فوائد کی بھیک بھی مانگی.ان حقیقی گستاخ مرتدین نے اسلام پر معاندانہ حملے کیے.جبکہ حضرت اقدس نے حکومت کی اعتدال پسندی کی اعتدال کے ساتھ تعریف فرمائی.یہ حکومت اگرچہ ایمانی فضیلتوں اور برکتوں کو اپنے ساتھ نہیں رکھتی تاہم ہیروڈیس کے عہدِ حکومت سے جس کے ساتھ مسیح ابن مریم کا واسطہ پڑا تھا بدرجہا بہتر اور حال کی اسلامی ریاستوں سے بلحاظ امن اور عام رفاہیت کے پھیلانے اور آزادی بخشنے اور حفاظت اور تربیت رعایا اور انتظام قانون معدلت اور سر کوبی مجرموں کے بدرجہا افضل ہے اپنی اس قدردانی کی توجیہہ آپ کے الفاظ میں: (فتح اسلام، روحانی خرائن جلد 3 صفحہ 14، 15 حاشیہ) یہ دعا گو جو دنیا میں عیسی مسیح کے نام سے آیا ہے اسی طرح وجود ملکہ معظمہ قیصرہ ہند اور ان کے زمانے پر فخر کرتا ہے جیسا کہ سید الکونین حضرت محمد مصطفی صلی الیم نے نوشیرواں عادل کے زمانہ سے فخر کیا تھا“ (تحفہ قیصریہ ، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 255) یہ اللہ تعالی کا فضل اور احسان ہے کہ ہم ایک ایسی سلطنت کے نیچے ہیں جو ان تمام عیوب سے پاک ہے یعنی سلطنت انگریزی جو امن پسند ہے جس کو مذہب کے اختلاف سے کوئی اعتراض نہیں.جس کا قانون ہے کہ ہر اہل مذہب آزادی سے اپنے مذہبی فرض ادا کرے چونکہ اللہ تعالی نے ارادہ فرمایا ہے کہ ہماری تبلیغ ہر جگہ پہنچ جاوے اس لئے اس نے ہم کو اس سلطنت میں پیدا کیا.جس طرح آنحضرت صلی الم نوشیرواں کے عہد پر فخر کرتے تھے اسی طرح پر ہم کو اس سلطنت پر فخر ہے.یہ قاعدے کی بات ہے کہ مامور چونکہ عدل اور راستی لاتا ہے اس لئے اس سے پہلے کہ وہ مامور ہو کر آئے عدل اور راستی کا اجرا ہونے لگتا ہے.“ لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 268) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اس عاجز نے جس قدر حصہ سوم کے پرچہ مشمولہ میں انگریزی گورنمنٹ کا شکر ادا کیا ہے وہ صرف اپنے ذاتی خیال سے ادا نہیں کیا بلکہ قرآن شریف اور حدیث نبوی کی ان بزرگ تاکیدوں نے جو اس عاجز کے 19

Page 20

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام پیش نظر ہیں مجھ کو اس شکر ادا کرنے پر مجبور کیا“ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 316) خلاصہ کلام یہ کہ جس کام کا محرک قرآن شریف اور احادیث نبوی ہوں جو خود آنحضرت صلی علیم نے کیا ہو اور جس میں کوئی مالی طمع یا منافع کی لالچ نہ ہو اس پر اگر کم نظر معاند معترض ہوں تو اس کی کوئی اہمیت نہیں سراج منیر اور اس سے بدر کامل میں منعکس ہونے والی روشنی پھیلتی رہے گی.كَانَ خُلُقُهُ حُبَّ مُحَمَّدِ وَاتَّبَاعُهُ عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلَامُ روزنامه الفضل آن لائن لندن 19 نومبر 2021ء) 20

Page 21

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام قسط 3 نُصِرتُ بالرُّعْبِ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلی درجہ کا جواں مرد نبی اور زندہ نبی اور خدا کا اعلی درجہ کا پیارا نبی صرف ایک مرد کو جانتے ہیں.یعنی وہی نبیوں کا سردار.رسولوں کا فخر تمام مرسلوں کا سر تاج جس کا نام محمد مصطفی و احمد مجتبی ملی لیلی کام ہے.جس کے زیر سایہ دس دن چلنے.روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہیں مل سکتی تھی“.سے وہ (سراج منیر، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 82) حضرت محمد مصطفی اصلی ایم کے زیر سایہ دس دن چلنے والے کو ملنے والی روشنی کا اندازہ ممکن نہیں اور جس کی زندگی کی ہر حرکت و سکون ایک ایک لمحہ سب اللہ تبارک تعالیٰ اور اس کے محبوب کے عشق میں گزرے اس کا وجود کس قدر نورانی ہو گا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اتباع کا حق ادا کیا اور اپنے قلب صافی کو قلب محمد ال ای کام کا آئینہ بنا لیا.اصل اور عکس ہم رنگ ہو گئے.برتر گمان و وہم سے احمد کی شان ہے جس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ہے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد تحریر فرماتے ہیں: فضایتیں حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک موقع پر آنحضرت صلی الم نے دوسرے انبیا ء پر اپنی چھ بیان فرمائیں جن میں سے ایک نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ تھی (صحیح مسلم کتاب المساجد) ہمیں آپ کی حیات مبارکہ میں ایسے کئی مواقع ملتے ہیں جہاں غیر معمولی حالات میں اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر دوسروں کے دلوں پر آپ کا رعب بٹھایا.آنحضرت صلی ال نیلم کے سامنے ابو جہل کے مرعوب ہونے کے متعلق ایک اور روایت بھی آتی ہے جس سے پتا لگتا ہے کہ خدائی سنت اسی طرح پر ہے کہ جو لوگ خدا کے مرسلین کے سامنے زیادہ بیباک ہوتے ہیں عموماً انہیں پر خدا تعالیٰ اپنے رسولوں کا رعب زیادہ مسلط کرتا ہے چنانچہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ اراشہ نامی 21

Page 22

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام شخص مکہ میں کچھ اونٹ بیچنے آیا اور ابو جہل نے اس سے یہ اونٹ خرید لئے مگر اونٹوں پر قبضہ کرلینے کے بعد قیمت ادا کرنے میں حیل و حجت کرنے لگا.اس پر اراشہ جو مکہ میں ایک اجنبی اور بے یارومدد گار تھا بہت پریشان ہوا اور چند دن تک ابو جہل کی منت سماجت کرنے کے بعد وہ آخر ایک دن جبکہ بعض رؤسا قریش کعبۃ اللہ کے پاس مجلس جمائے بیٹھے تھے، ان لو گوں کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ اے معززین قریش آپ میں سے ایک شخص ابوالحکم نے میرے اونٹوں کی قیمت دبا ر کھی ہے آپ مہربانی کرکے مجھے یہ قیمت دلوادیں.قریش کو شرارت جو سوجھی تو کہنے لگے ایک شخص یہاں محمد بن عبد اللہ نامی رہتا ہے تم اس کے پاس جاؤ.وہ تمہیں قیمت دلا دے گا اور اس سے غرض ان کی یہ تھی کہ آنحضرت صلی الم تو بہر حال انکار ہی کریں گے اور اس طرح باہر کے لوگوں میں آپ کی سبکی اور جنسی ہو گی.جب اراشہ وہاں سے لوٹا تو قریش نے اس کے پیچھے پیچھے ایک آدمی کر دیا کہ دیکھو! کیا تماشا بنتا ہے، چنانچہ اراشہ اپنی سادگی میں آنحضرت صلی الم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ: میں ایک مسافر آدمی ہوں اور آپ کے شہر کے ایک رئیس ابوالحکم نے میری رقم دبا ر کھی ہے اور مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ مجھے یہ رقم دلواسکتے ہیں.پس آپ مہربانی کر کے مجھے میری رقم دلوادیں“ آنحضرت صلى ال عالم فوراً اُٹھ کھڑے ہوئے کہ چلو میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں چنانچہ آپ اسے لے کر ابو جہل کے مکان پر آئے اور دروازے پر دستک دی.ابو جہل باہر آیا تو آپ کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا اور خاموشی کے ساتھ آپ کا منہ دیکھنے لگا آپ نے فرمایا: یہ شخص کہتا ہے کہ اس کے پیسے آپ کی طرف نکلتے ہیں.یہ ایک مسافر ہے آپ اس کا حق کیوں نہیں دیتے؟" اس وقت ابو جہل کا رنگ فق ہو رہا تھا.کہنے لگا محمد! ٹھہرو.میں ابھی اس کی رقم لاتا ہوں.چنانچہ وہ اندر گیا اور اراللہ کی رقم لا کر اسی وقت اس کے حوالے کر دی.اراشہ نے آنحضرت صلی علم کا بہت شکریہ ادا کیا اور واپس آکر قریش کی اسی مجلس میں پھر گیا اور وہاں جا کر ان کا بھی شکریہ ادا کیا کہ آپ لو گوں نے مجھے ایک بہت ہی اچھے آدمی کا پتہ بتایا.خدا اسے جزائے خیر دے اس نے اسی وقت میری رقم دلا دی.رؤساء قریش کے منہ میں زبان بند تھی اور وہ ایک دوسرے کی طرف حیران ہو کر دیکھ رہے تھے.جب اراشہ چلا گیا تو انھوں نے اس آدمی سے دریافت کیا جو اراشہ کے پیچھے پیچھے ابو جہل کے مکان تک گیا کہ کیا قصہ ہوا ہے.اس نے کہا: 22

Page 23

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام واللہ! میں نے تو ایک عجیب نظارہ دیکھا ہے اور وہ یہ کہ جب محمد نے جا کر ابوالحکم کے دروازہ پر دستک دی اور ابوالحکم نے باہر آکر محمد کو دیکھا تو اس وقت اس کی حالت ایسی تھی کہ گویا ایک قالب بے روح ہے اور جوں ہی کہ اسے محمد نے کہا کہ اس کی رقم ادا کردو، اسی وقت اس نے اندر سے پائی پائی لا کر سامنے رکھ دی.“ تھوڑی دیر کے بعد ابو جہل بھی اس مجلس میں آپہنچا.اسے دیکھتے ہی سب لوگ اس کے پیچھے ہو لیے کہ اے ابو الحکم! تمہیں کیا ہو گیا تھا کہ محمدؐ سے اس قدر ڈر گئے.اس نے کہا: خدا کی قسم! جب میں نے محمد کو اپنے دروازے پر دیکھا، تو مجھے یوں نظر آیا کہ اس کے ساتھ لگا ہوا ایک مست اور غضبناک اونٹ کھڑا ہے اور میں سمجھتا تھا کہ اگر ذرا بھی چون و چرا کروں گا تو وہ مجھے چیا جائے گا.(سیرت ابن ہشام.سیرت خاتم النبیین از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صفحہ 162 - 163) آپ کے غلام صادق سے بھی اللہ تبارک تعالیٰ نے معجزانہ طریق پر لو گوں کے دلوں پر رعب قائم کرنے کا وعدہ فرمایا تھا 1883ء میں الہام ہوا: نصِرْتَ بِالرُّعْبِ وَأَحْيِيتَ بِالصِّدْقِ أَيُّهَا الصِّدِّيقُ نُصِرْتَ وَقَالُوا لَاتَ حِينَ مَنَاصٍ تذ کرہ اردو ایڈیشن چہارم 2004ء صفحہ 53) (ترجمہ) تو رعب کے ساتھ مدد کیا گیا اور صدق کے ساتھ زندہ کیا گیا اے صدیق.تو مدد کیا گیا اور مخالفوں نے کہا کہ اب گریز کی جگہ نہیں، آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ تبارک تعالیٰ کے عنایت کردہ رعب کی مثالوں سے بھرا پڑا ہے.یہاں پر ایک واقعہ درج ہے جو آنحضور صلی ال نیلم کے ابو جہل کے واقعہ سے بہت ملتا ہے.ایک دفعہ ایک ہندو جو گجرات کا رہنے والا تھا.قادیان کسی بارات کے ساتھ آیا.یہ شخص علم توجہ کا ماہر تھا چنانچہ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ہم لوگ قادیان آئے ہوئے ہیں چلو مرزا صاحب سے ملنے چلیں اور اس کا منشاء یہ تھا کہ لوگوں کے سامنے حضرت صاحب پر اپنی توجہ کا اثر ڈال کر آپ سے بھری مجلس میں کوئی بیہودہ حرکات کرائے.جب وہ مسجد میں حضور سے ملا تو اس نے اپنے علم سے آپ پر اپنا اثر ڈالنا شروع کیا مگر تھوڑی دیر کے بعد وہ یکلخت کانپ اُٹھا مگر سنجل کر بیٹھ گیا اور اپنا کام پھر شروع کر دیا 23

Page 24

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام اور حضرت صاحب اپنی گفتگو میں لگے رہے مگر پھر اس کے بدن پر ایک سخت لرزہ آیا اور اس کی زبان سے بھی کچھ خوف کی آواز نکلی مگر وہ پھر سنبھل گیا.مگر تھوڑی دیر کے بعد اس نے ایک چیخ ماری اور بے تحاشا مسجد سے بھاگ نکلا اور بغیر جوتا پہنے نیچے بھاگتا ہوا اتر گیا.اس کے ساتھی اور دوسرے لوگ اس کے پیچھے بھاگے اور اس کو پکڑ کر سنبھالا.جب اس کے ہوش ٹھکانے ہوئے تو اس نے بیان کیا کہ میں علم توجہ کا بڑا ماہر ہوں میں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ مرزا صاحب پر اپنی توجہ ڈالوں اور مجلس میں ان کوئی لغو حرکات کرادوں لیکن جب میں نے توجہ ڈالی تو میں نے دیکھا کہ میرے سامنے مگر ایک فاصلہ پر ایک شیر بیٹھا ہے میں اسے دیکھ کر کانپ گیا لیکن میں نے جی میں اپنے آپ کو ملامت کی کہ یہ میرا وہم ہے.چنانچہ میں نے پھر مرزا صاحب پر توجہ ڈالنی شروع کی تو میں نے دیکھا کہ پھر وہی شیر میرے سامنے ہے اور میرے قریب آ گیا ہے اس پر پھر میرے بدن پر سخت لرزہ آیا مگر میں پھر سنبھل گیا اور میں نے جی میں اپنے آپ کو بہت ملامت کی کہ یوں ہی میرے دل میں وہم سے خوف پیدا ہو گیا چنانچہ میں نے اپنا دل مضبوط کر کے اور اپنی طاقت کو جمع کرکے پھر مرزا صاحب پر اپنی توجہ کا اثر ڈالا اور پورا زور لگایا.اس پر نا گہاں میں نے دیکھا کہ وہی شیر میرے اوپر کود کر حملہ آور ہوا ہے اس وقت میں نے بے خود ہو کر چیخ ماری اور وہاں سے بھاگ اُٹھا.حضرت خلیفہ ثانی بیان فرماتے تھے کہ وہ شخص پھر حضرت صاحب کا معتقد ہو گیا تھا اور ہمیشہ جب تک زندہ رہا آپ سے خط و کتابت رکھتا تھا.(سيرة المهدى صفحه 61 - 62 روزنامه الفضل آن لائن لندن 27 نومبر 2021ء) 24

Page 25

.ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام قسط 4 خدا کی قسم وہ نبی ہے آنحضرت صلی لی کام کو اللہ تبارک تعالیٰ نے ام المومنین حضرت ماریہ قبطیہ کے بطن سے آخری عمر میں ذی الحجہ 8 ہجری میں ایک بیٹے ابراہیم سے نوازا.آپ اپنے بیٹے سے بے حد محبت کرتے تھے بچہ اپنی انا ام سیف کے ہاں مدینے کی نواحی بستی عوالی میں پرورش پارہا تھا.آپ وہاں تشریف لے جاتے.بچے کو گود میں لے کر پیار کرتے چومتے.ام سیف کے شوہر لوہار کا کام کرتے تھے گھر دھوئیں سے بھرا ہوتا مگر بچے کی محبت میں کچے چلے آتے کچھ دیر بچے کے ساتھ رہتے اور رضاعی والدہ کی گود میں دے کر چلے جاتے.حضرت ابراہیم بہت کم عمر لے کر آئے تھے.بیمار ہوئے نزع کا عالم تھا آنحضور تشریف لائے بچے کو گود میں اٹھا لیا.اس کی تکلیف دیکھ کر آنکھوں میں آنسو آگئے حضرت عبد الرحمان بن عوف ساتھ تھے.عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ روتے ہیں؟ فرمایا ”یہ رونا اور یہ آنسو رحمت ہیں“ رسولِ خدا کا یہ لاڈلا بیٹا 19 شوال 10 ہجری صرف سولہ ماہ کی عمر میں وفات پا گیا.آنحضور صلی ا ہم نے صاحبزادے کی وفات پر انتہائی صبر کا نمونہ دکھایا.بچے کو دفن کرنے کے لئے قبر میں اترے لاش کو ہاتھوں میں اُٹھا کر لحد میں رکھا اور فرمایا: ”جاؤ اپنے بھائی عثمان بن مظعون کے پاس“ حضرت عثمان ایک صحابی تھے جو آنحضرت صلی علی کریم کو بہت عزیز تھے اور اس واقعہ سے چھ سال پہلے وفات پا چکے تھے.آپ کو غم کی حالت میں اپنے اس صحابی کی یاد آ گئی.شیر خوار بچے کو یاد کرتے ہوئے فرمایا: ابراہیم میرا بیٹا تھا وہ حالت شیر خوارگی میں ہی وفات پا گیا اس کے لئے دو انائیں ہیں جو جنت میں اس کی رضاعت کی مدت پوری ہونے تک اسے دودھ پلائیں گی“ (مسلم کتاب الفضائل باب رحمۃ الصبیان حدیث (2) حضرت ابراہیم کو اللہ تعالیٰ نے بڑے مرتبے سے نوازا تھا آپ نے فرمایا: وَاللَّهِ إِنَّهُ لَنَبِيُّ ، (الفتاوى الحديثیه صفحه 671 علامہ ابنِ حجر هیشی مطبوعه مصر 1970ء ) 25

Page 26

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام نیز آپ نے فرمایا: لو عَاشَ إِبْرَاهِيمُ) لَكَانَ صِدِّيقَا نَبِيًّا ترجمہ: اگر ابراہیم زندہ رہتا تو وہ سچا نبی ہوتا.ابن ماجه جلد اول باب 454 حدیث 1572) آخری عمر کا بیٹا کچے راستباز نبی ہونے کی بشارت کا حامل قبر میں سُلا کے اللہ کی رضا پر راضی رہنے والے صبر جمیل کے پیکر نے اپنے غم کا اظہار ان درد انگیز الفاظ میں فرمایا: تَدْمَعُ الْعَيْنُ، وَيَحْزَنُ الْقَلْبُ، وَلَا نَقُولُ مَا يُسْخِطُ الرَّبِّ، وَإِنَّا بِكَ يَا إِبْرَاهِيمُ لَيَحْنُونُونَ سولہ ماہ میں راہیء ملک عدم ہو جانے والے بچے کی استعداد کے بارے میں پڑھتے ہوئے اس دور کے مسیحا اور ظل محمد لی لی نام کا ایک ایمان افروز واقعہ یاد آتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا بھی ایک سولہ ماہ کا بچہ فوت ہوا تھا.دونوں بچوں کی اعلیٰ استعداد کے بارے میں پیش خبریاں تھیں.دونوں کو اللہ تعالیٰ نے عمدہ رنگ میں صبر جمیل کی توفیق دی تھی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے 20 فروری و 8 اپریل 1886ء اور 7 اگست 1887ء کو نو سال کے اندر ایک غیر معمولی صفات کے حامل لمبی عمر پانے والے بیٹے کی پیدائش کے متعلق الہام مشتہر فرمائے تھے.ان میں ایک غیر معمولی صفات کے حامل لڑکے کی پیشگوئی تھی جس کی عمدہ صفات اور لمبی عمر کے بارے میں بتایا گیا تھا.اس میں ایک کم عمر والے مہمان کی پیشگوئی بھی تھی.15 اپریل 1886ء کو صاحبزادی عصمت پیدا ہو ئیں تو کم فہم معاندین نے شور مچانا شروع کر دیا کہ بیٹا کہا تھا بیٹی پیدا ہو گئی.پھر سوا سال کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے 7 اگست 1886ء کو ایک بیٹے سے نوازا جو صرف سولہ ماہ زندہ رہ کر 4 نومبر 1888ء کو خالق حقیقی سے جاملا.بشیر اول کی وفات پر مخالفین کو اپنی پرا گندگی طبع کے مظاہرے کا خوب موقع ہاتھ آیا اور جتنا بس چلا مخالفت میں بغیر سوچے سمجھے شور مچا دیا.حضرت اقدس دوسرے بچے کی وفات پر اپنا صدمہ پس پشت ڈال کر راضی برضا دل کے ساتھ جماعت کو سنبھالنے کی فکر میں لگ گئے اور اس وفات میں مضمر اللہ جل شانہ کی قدرتوں کے کئی رنگ دکھانے کے لئے مضمون لکھا.جس میں مومنین کے ازدیاد ایمان کے لئے پیشگوئی پوری ہونے کے کئی رخ اور بدخواہوں کے اعتراضات کے جوابات میں سیر حاصل مدلل بحث کی.26

Page 27

اس بچے کی پیدائش سے پہلے اس پسر متوفی کی بہت سی ذاتی بزر گیاں الہلات میں بیان کی گئیں تھیں جو اس کی پاکیزگی روح اور بلندی، فطرت اور علو استعداد اور روشن جوہری اور سعادت جبلی کے متعلق تھیں اور اس کی کاملیت استعدادی سے علاقہ رکھتی تھیں.“ اس بچے کے بارے میں آپ تحریر فرماتے ہیں: (سبز اشتہار، روحانی خزائن جلد دوم صفحه 450) ”خدا تعالیٰ نے بعض الہامات میں یہ ہم پر ظاہر کیا تھا کہ یہ لڑکا جو فوت ہو گیا ہے ذاتی استعدادوں میں اعلیٰ درجہ کا ہے اور دنیوی جذبات بکلی اس کی فطرت سے مسلوب اور دین کی چمک اس میں بھری ہوئی ہے اور روشن فطرت اور عالی گوہر اور صدیقی روح اپنے اندر رکھتا ہے اور اس کا نام بارانِ رحمت اور مبشر اور بشیر اور ید اللہ بجلال و جمال وغیر ہ اسماء بھی ہیں“ (سبز اشتہار، روحانی خزائن جلد دوم صفحه 453) آنحضرت علا الام اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پر اس اعتراض کے جواب میں کہ کم عمری میں وفات پانے والے بچے کی صفات کیسے معلوم ہوتی ہیں.درج ذیل اقتباس دیکھئے.حضرت اقدس تحریر فرماتے ہیں: و بعض بچے ایسے کامل الخلقت ہوتے ہیں کہ صدیقوں کی پاکیزگی اور فلاسفروں کی دماغی طاقتیں اور عارفوں کی روشن ضمیری اپنی فطرت میں رکھتے ہیں اور ہونہار دکھائی دیتے ہیں مگر اس عالم بے ثبات پر رہنا نہیں پاتے اور کئی ایسے بچے بھی لوگوں نے دیکھے ہوں گے کہ ان کے لچھن اچھے نظر نہیں آتے اور فراست حکم کرتی ہے کہ اگر وہ عمر پاویں تو پرلے درجے کے بدذات اور شریر اور جاہل اور ناحق شناس نکلیں.ابراہیم لخت جگر آنحضرت صلی ا م جو خورد سالی میں یعنی سولھویں مہینے میں فوت ہو گئے اس کی صفاتی استعداد کی تعریفیں اور اس کی صدیقانہ فطرت کی صفت و ثنا احادیث کے رو سے ثابت ہے، ایسا ہی وہ بچہ جو خورد سالی میں حضرت خضر نے قتل کیا اس کی خباثت جبلی کا حال قرآن شریف کے بیان سے ظاہر وباہر ہے.(سبز اشتہار، روحانی خزائن جلد دوم صفحه 454) روزنامه الفضل آن لائن لندن 10 دسمبر 2021ء) 27 22

Page 28

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام قسط 5 تبلیغ اسلام کے لیے سفر اور تکالیف اٹھانا تبلیغ اسلام کے لیے سفر اختیار کرنا نبیوں کی سنت ہے.آنحضرت صلی للی نمی کو شعب ابی طالب کی محصوری سے آزادی ملی تو اہل طائف کو دعوت اسلام کی ٹھانی.طائف مکہ سے جنوب مشرق کی طرف چالیس میل کے فاصلے پر ہے.شوال 10 نبوی کو آپ حضرت زید بن حارثہ کے ہمراہ طائف تشریف لے گئے وہاں دس دن قیام فرمایا اور وہاں کے سرداروں اور عام لوگوں کو اسلام کا پیغام دیا.اہل طائف نے نہ صرف اس پیغام پر کان نہ دھرا بلکہ مذاق اڑایا.حتی کہ وہاں کے رئیس عبدیالیل نے کہا: گر آپ سچے ہیں تو مجھے آپ سے گفتگو کی مجال نہیں اور اگر آپ جھوٹے ہیں تو گفتگو لا حاصل ہے“.آپ واپس جانے لگے تو اس بد بخت نے آوارہ قسم کے آدمی پیچھے لگا دیے جنہوں نے آپ کو برا بھلا کہا گالیاں دیں اور پتھر برسائے تین میل تک آپ کا پیچھا کیا.آپ لہو لہان ہو گئے.تین میل کا سفر اسی طرح کرنے کے بعد آپ نے عتبہ بن ربیعہ کے باغ میں پناہ لی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی ”اے میرے رب! میں اپنے ضعف قوت اور قلت تدبیر اور لوگوں کے مقابلہ میں اپنی بے بسی کی شکایت تیرے ہی پاس کرتا ہوں.اے میرے خدا! تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے اور کمزوروں اور بے کسوں کا تو ہی نگهبان و محافظ ہے اور تو ہی میرا پروردگار ہے.میں تیرے ہی منہ کی روشنی میں پناہ کا خواستگار ہوتا ہوں کیونکہ تو ہی ہے جو ظلمتوں کو دور کرتا ہے اور انسان کو دنیا و آخرت کے حسنات کا وارث بناتا ہے.“ عتبہ اور شیبہ نے آپ کو اس حال میں دیکھا تو اپنے نو کر عداس کو کچھ انگور آپ کو پیش کرنے کے لیے بھیجا.آپ نے عداس کو اسلام کا پیغام دیا جس پر اُس نے اخلاص ظاہر کیا.(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد صفحہ 204 - 205) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے تبلیغ اسلام کی غرض سے کئی شہروں کے دورے فرمائے جن میں سے دہلی اور لدھیانہ میں آپ سے وہی سلوک ہوا جو ہمارے سید و مولا آنحضرت سے سفر طائف میں ہوا تھا.28

Page 29

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام دہلی کا سفر اور مولوی نذیر حسین سے مباحثہ دہلی اس زمانہ میں تمام ہندوستان کا علمی مرکز سمجھا جاتا تھا.آپ 28 ستمبر 1891ء کی صبح کو وہاں پہنچے.وہاں کے لو گوں میں پہلے سے ہی آپ کے خلاف جوش پھیلایا جاتا تھا آپ کے وہاں پہنچتے ہی وہاں کے علماء میں ایک جوش پیدا ہوا اور انہوں نے آپ کو مباحثہ کے چیلنج دینے شروع کیے اور مولوی نذیر حسین جو تمام ہندوستان کے علماء حدیث کے اُستاد تھے، اُن سے مباحثہ قرار پایا.مسجد جامع مقام مباحثہ قرار پائی لیکن مباحثہ کی یہ سب قرار داد مخالفین نے خود ہی کر لی.کوئی اطلاع آپ کو نہ دی گئی.عین وقت پر حکیم عبدالمجید خان صاحب دہلوی اپنی گاڑی لے کر آگئے اور کہا کہ مسجد میں مباحثہ ہے.آپ نے فرمایا کہ ایسے فساد کے موقعہ پر ہم نہیں جا سکتے جب تک پہلے سر کاری انتظام نہ ہو، پھر مباحثہ کے لیے ہم سے مشورہ ہونا چاہیے تھا اور شرائط مباحثہ کے کرنی تھیں.آپ کے نہ جانے پر اور شور ہوا.آخر آپ نے اعلان کیا کہ مولوی نذیر حسین دہلوی جامع مسجد میں قسم کھا لیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام قرآن کی رُو سے زندہ ہیں اور اب تک فوت نہیں ہوئے اور اس قسم کے بعد ایک سال تک کسی آسمانی عذاب میں مبتلا نہ ہوں تو میں جھوٹا ہوں اور میں اپنی کتب کو جلا دوں گا اور اس کے لیے تاریخ بھی مقرر کر دی.مولوی نذیر حسین صاحب کے شاگرد اس سے سخت گھبرائے اور بہت رو کیں ڈالنی شروع کر دیں لیکن لوگ مصر ہوئے کہ اس میں کیا حرج ہے کہ مرزا صاحب کادعویٰ سن کر قسم کھا جائیں کہ یہ جھوٹا ہے اور لوگ اُس وقت کثرت سے جامع مسجد میں اکٹھے ہو گئے.حضرت صاحب کو لوگوں نے بہت رو کا کہ آپ نہ جائیں سخت بلوہ ہو جائے گا لیکن آپ وہاں گئے اور ساتھ آپ کے بارہ دوست تھے.(حضرت مسیح کے بھی بارہ ہی حواری تھے.اس موقعہ پر آپ کے ساتھ یہ تعداد بھی ایک نشان تھی) جامع مسجد دہلی کی وسیع عمارت اندر اور باہر آدمیوں سے پر تھی بلکہ سیڑھیوں پر بھی لوگ کھڑے تھے.ہزاروں آدمیوں کے مجمع میں سے گزر کر جب کہ سب لوگ دیوانہ وار خون آلود نگاہوں سے آپ کی طرف دیکھ رہے تھے آپ اس مختصر جماعت کے ساتھ محراب مسجد میں جا کر بیٹھ گئے.مجمع کے انتظام کے لیے سپر نٹنڈنٹ پولیس مع دیگر افسران پولیس اور قریباً سو کانسٹیبلوں کے آئے ہوئے تھے.لو گوں میں سے بہتوں نے اپنے دامنوں میں پتھر بھرے ہوئے تھے اور ادنیٰ سے اشارے پر پتھراؤ کرنے کو تیار تھے اور مسیح ثانی بھی پہلے مسیح کی طرح فقیہیوں اور فریسیوں کا شکار ہو رہا تھا.لو گ اس دوسرے مسیح کو سولی پر لٹکانے کی بجائے پتھروں سے مارنے پر تلے ہوئے تھے اور گفتگوئے مباحثہ میں تو انہیں ناکامی ہوئی.مسیح کی وفات پر بحث کرنا لوگوں نے قبول نہ کیا.قسم بھی نہ کسی نے کھائی نہ مولوی نذیر حسین 29

Page 30

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام کو کھانے دی.خواجہ محمد یوسف صاحب پلیڈر علی گڑھ نے حضرت سے آپ کے عقائد لکھائے اور سنانے چاہے لیکن چونکہ مولویوں نے لو گوں کو یہ سنا رکھا تھا کہ یہ شخص نہ قرآن کو مانتا ہے نہ حدیث کو نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو.انہیں یہ غریب گھل جانے کا اندیشہ ہوا، اس لیے لوگوں کو اُکسادیا.پھر کیا تھا ایک شور برپا ہو گیا اور محمد یوسف کو وہ کاغذ سنانے سے لوگوں نے باز رکھا.افسر پولیس نے جب دیکھا کہ حالت خطر ناک ہے تو پولیس کو مجمع منتشر کرنے کا حکم دیا اور اعلان کیا کہ کوئی مباحثہ نہ ہو گا.لوگ تتر بتر ہو گئے.پولیس آپ کو حلقہ میں لے کر مسجد سے باہر گئی.دروازہ گاڑیوں کے انتظار میں کچھ دیر ٹھہر نا پڑا.لوگ وہاں جمع ہو گئے اور اشتعال میں آ کر حملہ کرنے کا ارادہ کیا.اس پر افسران پولیس نے گاڑی میں سوار کرا کر آپ کو روانہ کیا اور خود مجمع کے منتشر کرنے میں لگ گئے.(ماخوز از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی صفحہ 27) اس کے بعد اکتوبر 1905ء کو آپ دہلی تشریف لے گئے اور وہاں قریباً پندرہ دن رہے.اُس وقت دہلی گوپندرہ سال پہلے کی دہلی نہ تھی جس نے دیوانہ وار شور مچایا تھا لیکن پھر بھی آپ کے جانے پر خوب شور ہوتا رہا.اس پندرہ دن کے عرصہ میں آپ نے دہلی میں کوئی پبلک لیکچر نہ دیا لیکن گھر پر قریباً روزانہ لیکچر ہوتے رہے جن میں جگہ کی تنگی کے سبب دو اڑھائی سو سے زیادہ آدمی ایک وقت میں شامل نہیں ہو سکتے تھے.ایک دو دن لوگوں نے شور بھی کیا اور ایک دن حملہ کر کے گھر پر چڑھ جانے کا بھی ارادہ کیا لیکن پھر بھی پہلے سفر کی نسبت بہت فرق تھا.اس سفر سے واپسی پر لدھیانہ کی جماعت نے دو دن کے لیے آپ کو لدھیانہ میں ٹھہرایا اور آپ کا ایک پبلک لیکچر نہایت خیر و خوبی سے ہوا.وہاں امرتسر کی جماعت کا ایک وفد پہنچا کہ آپ ایک دو روز امر تسر بھی ضرور قیام فرمائیں جسے حضرت نے منظور فرمایا اور لدھیانہ سے واپسی پر امر تسر میں اُتر گئے.وہاں بھی آپ کے ایک عام لیکچر کی تجویز ہوئی.امر تسر سلسلہ احمدیہ کے مخالفین سے پر ہے اور مولویوں کا وہاں بہت زور ہے.اُن کے اُکسانے سے عوام الناس بہت شور کرتے رہے.جس دن آپ کا لیکچر تھا اُس روز مخالفین نے فیصلہ کر لیا کہ جس طرح ہو لیکچر نہ ہونے دیں.چنانچہ آپ لیکچر ہال میں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ دروازہ پر مولوی بڑے بڑے جسے 30

Page 31

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام پہنے ہوئے لمبے لمبے ہاتھ مار کر آپ کے خلاف وعظ کر رہے تھے اور بہت سے لو گوں نے اپنے دامنوں میں پتھر بھرے ہوئے تھے.آپ لیکچر گاہ میں اندر تشریف لے گئے اور لیکچر شروع کیا.لیکن مولوی صاحبان کو اعتراض کا کوئی موقعہ نہ ملا جس پر لو گوں کو بھڑ کا ئیں.پندرہ منٹ آپ کی تقریر ہو چکی تھی کہ ایک شخص نے آپ کے آگے چائے کی پیالی پیش کی کیونکہ آپ کے حلق میں تکلیف تھی اور ایسے وقت میں اگر تھوڑے تھوڑے وقفہ سے کوئی سیال چیز استعمال کی جائے تو آرام رہتا ہے.آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ رہنے دو لیکن اُس نے آپ کی تکلیف کے خیال سے پیش کر ہی دی.اس پر آپ نے بھی اُس میں سے ایک گھونٹ پی لیا.لیکن وہ مہینہ روزوں کا تھا.مولویوں نے شور مچادیا کہ یہ شخص مسلمان نہیں کیونکہ رمضان شریف میں روزہ نہیں رکھتا.آپ نے جواب میں فرمایا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بیمار یا مسافر روزہ نہ رکھے بلکہ جب شفا ہو یا سفر سے واپس آئے تب روزہ رکھے اور میں تو بیمار بھی ہوں اور مسافر بھی.لیکن جوش میں بھرے ہوئے لوگ کب رُکتے ہیں.شور بڑھتا گیا اور باوجود پولیس کی کوشش کے فرونہ ہو سکا.آخر مصلحتاً آپ بیٹھ گئے اور ایک شخص کو نظم پڑھنے کے لیے کھڑا کر دیا گیا.اُس کے نظم پڑھنے پر لوگ خاموش ہو گئے.تب پھر آپ کھڑے ہوئے تو پھر مولویوں نے شور مچادیا اور جب آپ نے لیکچر جاری رکھا تو فساد پر آمادہ ہو گئے اور سٹیج پر حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھے.پولیس نے روکنے کی کوشش کی لیکن ہزاروں آدمیوں کی رو اُن سے روکے نہ رکتی تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سمندر کی ایک لہر ہے جو آگے ہی بڑھتی چلی آتی ہے.جب پولیس سے اُن کا سنبھالنا مشکل ہو گیا تب آپ نے لیکچر چھوڑ دیا لیکن پھر بھی لوگوں کا جوش ٹھنڈا نہ ہوا اور انہوں نے سٹیج پر چڑھ کر حملہ آور ہونے کی کوشش جاری رکھی.اس پر پولیس انسپکٹر نے آپ سے عرض کی کہ آپ اندر کے کمرہ میں تشریف لے چلیں اور فور آسپاہی دوڑائے کہ بند گاڑی لے آئیں.پولیس لوگوں کو اس کمرہ میں آنے سے روکتی رہی اور دوسرے دروازہ کے سامنے گاڑی لا کر کھڑی کر دی گئی، آپ اُس میں سوار ہونے کے لیے تشریف لے چلے.آپ گاڑی میں بیٹھنے لگے تو لو گوں کو پتہ لگ گیا کہ آپ گاڑی میں سوار ہو کر چلے ہیں.اس پر جو لوگ لیکچر ہال سے باہر کھڑے تھے وہ حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھے اور ایک شخص نے بڑے زور سے ایک بہت موٹا اور مضبوط سونٹا آپ کو مارا.ایک مخلص مرید پاس کھڑا تھا وہ جھٹ آپ کو بچانے کے لیے آپ کے اور حملہ کرنے والے کے درمیان میں آ گیا.چونکہ گاڑی کا دروازہ کھلا تھا سو نٹا اُس پر رُک گیا اور اُس شخص کے بہت کم چوٹ آئی ورنہ ممکن تھا کہ اُس شخص کا خون ہو جاتا.آپ کے گاڑی میں بیٹھنے پر گاڑی چلی لیکن لو گوں نے پتھروں کا مینہ 31

Page 32

برسانا شروع کر دیا.گاڑی کی کھڑ کیاں بند تھیں.اُن پر پتھر گرتے تھے تو وہ گھل جاتی تھی.ہم انہیں پکڑ کر سنبھالتے تھے لیکن پتھروں کی بوچھاڑ کی وجہ سے ہاتھوں سے چھوٹ چھوٹ کر وہ گر جاتی تھیں لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی کے چوٹ نہیں آئی صرف ایک پتھر کھڑ کی میں سے گذرتا ہوا میرے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر لگا.چونکہ پولیس گاڑی کے چاروں طرف کھڑی تھی بہت سے پتھر اُسے لگے جس پر پولیس نے لو گوں کو وہاں سے ہٹایا اور گاڑی کے آگے پیچھے بلکہ اُس کی چھت پر بھی پولیس مین بیٹھ گئے اور دوڑا کر گاڑی کو گھر تک پہنچایا.لو گوں میں اس قدر جوش تھا کہ باوجود پولیس کی موجودگی کے وہ دُور تک گاڑی کے پیچھے بھاگے.دوسرے دن آپ قادیان واپس تشریف لے آئے.(ماخوز از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی صفحہ 55 - 57) حرف آخر کے طور پر حضرت اقدس مسیح موعود کی ایک نصیحت درج ہے فرماتے ہیں: تمام آدم زادوں کے لیے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی.سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ“ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 13 - 14) جان و دلم فدائے جمال محمد است خاکم شار کوچه آل محمد است (میری جان اور میرا دل سب میرے محبوب محمد کے جمال پر قربان.میری خاک بھی آپ کی آل کے کوچه پر قربان) 32 2 روزنامه الفضل آن لائن لندن 1 جنوری 2022ء)

Page 33

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام قسط 6 دعا سے بارانِ رحمت حضرت محمد مصطفی صلی اللی ایم کے بابرکت وجود کے ساتھ آسمان سے روحانی پانی کی موسلا دھار بارش ہونے لگی.اسی طرح آپ کی برکت سے زمین کو بھی پانی ملنے لگا.اللہ تعالیٰ سے عشق تھا.جو بھی خیر اس کی طرف سے آتی خوشی سے خیر مقدم فرماتے.بارش کو اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیتے.موسم گرما کی عام بارش سے خوش ہوتے اور اسے بڑے شوق سے سر پر لے کر فرماتے.”میرے رب کی طرف سے یہ تازہ رحمت آئی ہے“ (مسند احمد جلد 6 صفحہ 129) ایک دوسری روایت ہے ”جب سال کی پہلی بارش ہوتی تو رسول اللہ صلی ال ل ل لم اسے ننگے سر پر لیتے اور فرماتے ہمارے رب سے یہ تازہ نعمت آئی ہے اور سب سے زیادہ برکت والی ہے.(کنز العمال حدیث نمبر 4939) بارش جہاں اللہ کی رحمت یاد دلاتی وہاں اس کا خوف بھی پیدا کرتی.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم کی ملی یکم جب بادل یا آندھی کے آثار دیکھتے تو آپ کا چہرہ متغیر ہو جاتا.میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! لوگ تو بادل دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ بارش ہو گی.مگر میں دیکھتی ہوں کہ آپ بادل دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں.آپ نے فرمایا اے عائشہ! کیا پتہ اس آندھی میں کوئی ایسا عذاب پوشیدہ ہو جس سے ایک گزشتہ قوم ہلاک ہو گئی تھی اور ایک قوم (عاد) ایسی گزری ہے جس نے عذاب دیکھ کر کہا تھا کہ یہ تو بادل ہے.برس کر چھٹ جائے گا.مگر وہی بادل اُن پر درد ناک عذاب بن کر برسا.(بخاری کتاب التفسير سورة الاحقاف باب قوله فلما ر ا وہ عارضا مستقبل او ديتهم ) مشرکین مکہ کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لئے آپ نے مولا کریم سے دعا کی: ے میرے مولا! ان مشرکین مکہ کے مقابلہ پر میری مدد کسی ایسے قحط سے فرما جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کی مدد تو نے قحط سالی کے ذریعہ فرمائی تھی.“ اس دعا میں رحمت و شفقت کا یہ عجیب رنگ غالب تھا کہ ان کو قحط سے ہلاک نہ کرنا بلکہ جس طرح یوسف 33

Page 34

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام کے بھائی قحط سالی سے مجبور ہو کر اس نشان کے بعد بالآخر اُن پر ایمان لے آئے تھے اس طرح میری قوم کو بھی میرے پاس لے آ.چنانچہ یہ دعا قبول ہوئی اور مشرکین مکہ کو ایک شدید قحط نے آ گھیر.یہاں تک کہ ان کو ہڈیاں اور مردار کھانے کی نوبت آئی.تب مجبور ہو کر ابو سفیان آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ”اے محملی للی کرم ہے آپ کی تو صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں.آپ کی قوم اب ہلاک ہو رہی ہے آپ اللہ سے ہمارے حق میں دعا کریں ( کہ قحط سالی دور فرمائے) اور بارشیں نازل ہوں ورنہ آپ کی قوم تباہ ہو جائے گی“ رسول کریم صلی علی نیلم نے ابو سفیان کو احساس دلانے کے لئے صرف اتنا کہا کہ تم بڑے دلیر اور حوصلہ والے ہو جو قریش کی نافرمانی کے باوجود ان کے حق میں دعا چاہتے ہو.مگر دعا کرنے سے انکار نہیں کیا کیونکہ اس رحمت مجسم کو اپنی قوم کی ہلاکت ہر گز منظور نہ تھی.پھر لو گوں نے دیکھا کہ اسی وقت آپ کے ہاتھ دعا کے لئے اٹھ گئے اور اپنے مولا سے قحط سالی دور ہونے اور باران رحمت کے نزول کی یہ دعا بھی خوب مقبول ہوئی.اس قدر بارش ہوئی کہ قریش کی فراخی اور آرام کے دن لوٹ آئے.مگر ساتھ ہی وہ انکار و مخالفت میں بھی تیز ہو گئے.آپ کے چچا ابو طالب نے کیا خوب کہا تھا: بخاری کتاب التفسير سورة الروم والدخان ) وَابْيَضُ يُسْتَسْقَى الغَمَامُ بِوَجْهِهِ تمالُ الْيَتَامَى عِصْمَةٌ لِلاَرَامِلِ محمد (صلی ) کے روشن چہرے کا واسطہ دے کر بارش مانگی جائے تو بادل برس پڑتے ہیں آپ کی یی) یتیموں کے والی اور بیواؤں کے محافظ ہیں.صلح حدیبیہ سے پہلے کی بات ہے ابھی آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ سفر میں تھے کہ ایک جگہ ایک چشمہ کے پاس اونٹنی سے اتر آئے.ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک پارٹی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ چشمہ کا پانی ختم ہو کر خشک ہو گیا ہے اوراب انسان اور جانور سخت تکلیف میں ہیں.اس کے لئے کیا کیا جائے؟ آپ نے ایک تیر لیا اور حکم دیا کہ اس تیر کو خشک شدہ چشمہ کی تہ میں نصب کر دیا جائے اور آپ خود چشمہ کے کنارے پر تشریف لا کر وہاں بیٹھ گئے اور تھوڑا سا پانی لے کر اسے اپنے منہ میں ڈالا اور پھر خدا سے دعا کرتے ہوئے یہ پانی اپنے منہ سے چشمہ کے اندر انڈیل دیا اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ اب تھوڑی دیر انتظار کرو.چنانچہ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ 34

Page 35

اس پر چشمہ کے اندر اتنا پانی بھر آیا کہ سب نے اپنی اپنی ضرورت کے لئے استعمال کیا اور پانی کی تکلیف جاتی رہی.اللہ تعالیٰ نے مزید فضل یہ فرمایا کہ اسی رات یا اس کے قریب بارش بھی ہو گئی.چنانچہ جب صبح کی نماز کے لئے آنحضرت صلی الم نے صحابہ سے مسکراتے ہوئے فرمایا ” کیا تم جانتے ہو کہ اس بارش کے موقع پر تمہارے خدا نے کیا ارشاد فرمایا ہے؟“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے حسب عادت عرض کیا کہ خدا اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں.آپؐ نے فرمایا ”خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندوں میں سے بعض نے تو یہ صبح حقیقی ایمان کی حالت میں کی ہے مگر بعض کفر کی حالت میں پڑ کر ڈگمگاگئے.کیونکہ جس بندے نے تو یہ کہا کہ ہم پر خدا کے فضل ورحم سے بارش ہوئی ہے وہ تو ایمان کی حقیقت پر قائم رہا مگر جس نے یہ کہا کہ یہ بارش فلاں فلاں ستارے کے اثر کے ماتحت ہوئی ہے تو وہ بیشک چاند سورج کا تو مومن ہو گیا، لیکن خدا کا اس نے کفر کیا.“ اس ارشاد سے جو توحید کی دولت سے معمور ہے آنحضرت صلی اہل علم نے صحابہ ی کویہ سبق دیا کہ بے شک سلسلہ اسباب و علل کے ماتحت خدا نے اس کارخانہ عالم کو چلانے کے لئے مختلف قسم کے اسباب مقرر فرما رکھے ہیں اور بارشوں وغیرہ کے معاملہ میں اجرام سماوی کے اثر سے انکار نہیں مگر حقیقی توحید یہ ہے کہ باوجود درمیانی اسباب کے انسان کی نظر اس وراء الوراء ہستی کی طرف سے غافل نہ ہو جو ان سب اسباب کی پیدا کرنے والی اور اس کارخانہ عالم کی علت العلل ہے اور جس کے بغیر یہ ظاہری اسباب ایک مردہ کپڑے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے.(سیرت خاتم النبيين صفحہ 844 - 845) ایک دفعہ مدینہ اور اس کے گرد نواح میں دیر تک بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط کے آثار پیدا ہونے لگے جس پر صحابہ رضی اللہ عنہم نے آنحضرت صلی للی علم کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی تکلیف بیان کی اور درخواست کی کہ ان کے لئے بارش کی دعا فرمائی جائے اس پر آپ صحابہ کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر مصلی یعنی عید گاہ میں تشریف لے گئے اور وہاں قبلہ رخ ہو کر بارش کے لئے دعا فرمائی اور اس کے بعد خدا کے فضل سے بہت جلد بارش ہو گئی.اس کے بعد اسلام میں استسقاء کی نماز کا باقاعدہ آغاز ہو گیا.اس نماز کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں عام نمازوں کی طرح امام مقتدیوں کے آگے تو کھڑا ہوتا ہے مگر قولی دعا کے علاوہ جس میں انسانوں اور جانوروں کی تکلیف کا ذکر کر کے خدا سے بارش کی التجا کی جاتی ہے امام ایک چادر کے کونے پکڑ کر اسے اپنی پیٹھ پر ڈالتا ہے اور پھر اسے اس طرح الٹا دیتا ہے کہ چاروں کونے بدل جاتے ہیں.جو گویا زبان حال سے اس بات کی استدعا ہوتی ہے کہ خدایا! ہم پر یہ سختی کے دن پوری طرح بدل جائیں اور تیری وہ رحمت جو ہر چیز کے پیچھے مخفی ہوتی ہے تکلیف کے ظاہری پہلوؤں کو کلی طور پر دبا 35

Page 36

کر باہر آجائے.بخاری سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک اور موقع پر جبکہ آنحضرت صلی الی یکم جمعہ کے خطبہ کے لئے منبر پر چڑھے ہوئے تھے ایک صحابی نے موسم کی سختی کا ذکر کر کے عرض کیا کہ ”یارسول اللہ! جانور مر رہے ہیں اور سفر کٹھن ہو رہے ہیں.دعا فرمائیں کہ اللہ تعالی بارش برسائے.“ آپ نے اسی وقت دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دئے اور بارش کے لئے بلند آواز سے دعافرمائی.انس بن مالک جو اس روایت کے راوی ہیں اور جو آنحضرت صلی ا ظلم کے خاص خدمت گار تھے بیان کرتے ہیں کہ اس وقت آسمان بالکل صاف تھا، لیکن ابھی ہم مسجد میں ہی تھے اور جمعہ سے فراغت نہیں ہوئی تھی کہ ایک طرف سے بادل کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا نمودار ہوا اور ہمارے دیکھتے دیکھتے وہ سارے آسمان پر چھا گیا اور پھر بارش برسنے لگی اور برابر ایک ہفتہ تک برستی رہی اور اس عرصہ میں ہم نے سورج کی شکل تک نہیں دیکھی (حالانکہ اس ملک میں ایسی صورت بہت شاذ ہوتی ہے) پھر جب دوسرا جمعہ آیا تو ایک شخص نے آنحضرت صلی الم سے عرض کیا کہ ”یارسول اللہ ! بارش نے تو رستے روک دیئے اور چراگاہوں کے غرقاب ہو جانے سے مویشی بھوکے مر رہے ہیں دعا فرمائیں کہ اب اللہ تعالیٰ اس بارش کے سلسلہ کو روک دے.“ آنحضرت صلی علی کریم نے تبسم فرمایا اور پھر آپ نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی کہ: اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا...یعنی خدایا! اب ہم پر اس بارش کے سلسلہ کو بند فرما اور دوسری جگہ جہاں ضرورت ہو وہاں برسا.حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد ہم جمعہ کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکلے تو دھوپ نکلی ہوئی تھی.(سیرت خاتم النبیین صفحہ 817) ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ جس سمت میں ہاتھ سے اشارہ فرماتے تھے بادل پھٹ کر اسی طرف چلا جاتا تھا، بالآخر چاروں طرف بارش ہوتی رہی اور مدینہ درمیان میں ٹکی کی طرح رہ گیا اور ایک ماہ تک قنات نامی نالہ بہتا رہا.سن 10 ہجری میں حجاز کے شمال میں آباد قبیلہ بنو خزاعہ کے ایک ذیلی قبیلہ بنو سلامان کا وفد آنحضرت صلی علیکم کی خدمت میں حاضر ہوا دیگر گزارشات کے ساتھ انہوں نے اپنے علاقے میں بارش کی کمی کے لیے دعا کی درخواست کی.آپ نے وہاں کے لیے بارش کی دعا کی: 36

Page 37

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام اللَّهُمَّ أَسْقِهِم الغَيْثَ فِي دَارِهِمْ اے اللہ! ان کے ہاں بارش برسادے.یہ دعا سن کر ان میں سے ایک شخص نے عرض کیا: "یا رسول اللہ صلی علیکم ! ہاتھ اٹھا کر بھی دعا کریں.“ اس کی درخواست پر آپ نے تبسم فرمایا اور ہاتھ اٹھا کر بھی دعا کی.بعد میں معلوم ہوا کہ وہاں اسی روز بارش ہوئی تھی.( ابن سعد ذكر وفادات العرب ) اللہ تبارک و تعالیٰ کے نور سے ممسوح، نور مجسم محمد رسول اللہ صلی یلم ، دنیا میں سلامتی کی راہوں کی طرف ہدایت دینے کے لیے بھیجے گئے اس فیض کے چشمہ سے سیرابی آپ سے عشق اور آپ کی اطاعت اور آپ کے رنگ میں رنگین ہو جانے کی نسبت سے ہے.یہ سعادت سب سے بڑھ کر آپ کے عاشق صادق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مہدی معہود اور مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے حصے میں آئی.حتی کہ فرشتوں نے آسمان سے نور برسایا.فرماتے ہیں: ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہو گیا.اسی رات خواب میں دیکھا کہ فرشتے آب زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان پر لیے آتے ہیں اور ایک نے ان سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد کی طرف بھیجی تھیں.“ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 598) دگر استاد را نامے نہ دانم که خواندم در دبستان محمد روحانی سفر میں کسی استاد کا نام معلوم نہیں، میں نے تو محمد لیلا نیلم کے دبستان سے تعلیم پا سے تعلیم پائی ہے.حضرت اقدس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ رسول پاک صلی می ریم کے اسوہ حسنہ کا عکس تھا.وہی ادائیں وہی طور طریق وہی عمل اور رد عمل نظر آتا ہے.اللہ تعالیٰ سے عشق کے انداز ہو بہو وہی تھے ہر خیر اسی سے مانگتے شکر گزار ہوتے.باران رحمت کے لئے دعا کے چند نمونے پیش خدمت ہیں.صرف آگ ہی آپ کی اور غلام نہیں تھی بلکہ بادل، بارش، پانی سب آپ کے غلام تھے.37

Page 38

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام اپنے ایک الہام کی تشریح میں فرماتے ہیں "نَفَخْتُ فِيْكَ مِنْ لَّدُنِي رُوحَ الصِّدْقِ...میں جو لفظ لدن کا ذکر ہے.اُس کی شرح کشفی طور پر یوں معلوم ہوئی کہ ایک فرشتہ خواب میں کہتا ہے کہ یہ مقام لدن جہاں تجھے پہنچایا گیا.یہ وہ مقام ہے، جہاں ہمیشہ بارشیں ہوتی رہتی ہیں اور ایک دم بھی بارش نہیں تھمتی.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: (سراج منیر، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 76) ایک بار میرے جی میں آیا کہ اللہ نے جو انعام مجھ پر کئے ہیں اُن پر ایک کتاب لکھوں.فرمایا اس ارادے کی تکمیل کرنے لگا تو کشف میں دیکھا زور سے بارش ہو رہی ہے اور اللہ مجھے فرماتا ہے کہ اگر یہ قطرے گن سکتے ہو تو میرے احسان بھی گن سکو گے.تب میں نے یہ ارادہ چھوڑ دیا.“ (رجسٹر روایات صحابہ جلد 7 صفحہ 310) حضرت اقدس کی دعا سے بارش کے واقعہ کے بارے میں حضرت مفتی محمد صادق رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ایک دفعہ بارش کے لئے نماز استسقاء ہوئی تھی.حضرت صاحب علیہ السلام بھی شامل ہوئے تھے اور شاید مولوی محمد احسن مرحوم امام ہوئے تھے لوگ اس نماز میں بہت روئے تھے.مگر چونکہ حضرت صاحب میں کمال ضبط تھا اس لیے آپ علیہ السلام کو میں نے روتے نہیں دیکھا اور مجھے یاد ہے کہ اس کے بعد بہت جلد بادل آکر بارش ہو گئی تھی بلکہ شاید اسی دن بارش ہو گئی تھی.(سيرة المهدى جلد 2 صفحہ 105) حضرت مرزا نذیر حسین صاحب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک دفعہ جبکہ گرمی کا موسم تھا اور گرمی بہت تھی.بارش نہ ہوتی تھی لو گوں نے صلوۃ استسقاء کے لیے حضور علیہ السلام سے کہا.حضور نے مان لیا.حضور نے صلوۃ استسقاء باہر میدان میں پڑھائی.غالباً کافی دیر لگی.بالآخر حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے پاس حضور کا رقعہ آیا کہ بچوں کو لے کر فوراً شہر چلے جائیں امید ہے سخت بارش ہو گی چنانچہ ابھی ہم شہر پہنچے ہی تھے کہ سخت بارش شروع ہو گئی اور ہمارے 38

Page 39

کپڑے بھی بھیگ گئے.ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام (ماہنامہ انصار اللہ اپریل 1974ء صفحہ 38) حضرت قاضی امیر حسین رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود کا زمانہ عجیب تھا قادیان میں دو دن گرمی نہیں پڑتی تھی کہ تیسرے دن بارش ہو جاتی تھی.جب گرمی پڑتی اور ہم حضرت صاحب سے کہتے کہ حضور بہت گرمی ہے تو دوسرے دن بارش ہو جاتی تھی.(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 52 روایت نمبر (70) آپ علیہ السلام کے سلسلے کے تابناک مستقبل کی نوید بھی آپ کو بارش کے استعارہ سے دی گئی فرماتے ہیں: آج رات میں نے 18 ستمبر 1899ء کو بروز دوشنبہ خواب میں دیکھا کہ بارش ہورہی ہے.آہستہ آہستہ مینہ برس رہا ہے.میں نے شاید خواب میں یہ کہا.کہ ہم تو ابھی دُعا کرنے کو تھے کہ بارش ہو سو ہو ہی گئی.”میں نہیں جانتا کہ عنقریب بارش ہو جائے یا ہمارے الہام 13 ستمبر 1899ء ایک عزت کا خطاب.ایک عزت کا خطاب لَكَ خِطَابُ الْعِزَّة ایک بڑا نشان اس کے ساتھ ہو گا.“ کے متعلق خدا کی رحمت اور فتح اور نصرت کی بارش ہماری جماعت پر ہو گی یا دونوں ہی ہو جائیں.ہماری خواب سچی ہے.اس کا ظہور ضرور ہو گا.دونوں میں سے ایک بات ضرور ہو گی یعنی یا تو خدا تعالیٰ کی مخلوق کے لئے باران رحمت کا دروازہ آسمان سے کھلے گا یا غیر معمولی کوئی نشان روحانی فتح اور نصرت کا ظاہر ہو گا مگر نشان ہو گا نہ معمولی بات.“ (الحکم جلد 3 نمبر 36 مورخہ 10اکتوبر 1899ء صفحہ 7) سر سے پا تک ہیں الہی تیرے احساں مجھ پر مجھ برسا ہے سدا فضل کا باراں تیرا دعا ہے کہ ہم ان مبارک ہستیوں کی دعاؤں کے وارث بنیں اور سدا آسمانی نعماء کی بارش میں شرابور رہیں.آمین اللهم آمین.39 روزنامه الفضل آن لائن لندن 21 جنوری 2023 ء

Page 40

قرآن پاک میں ارشاد الہی ہے قط 7 قرآن پاک سننے کا شوق وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَانْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ )) ۲۰۵ (الاعراف: 205) یعنی جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو تا کہ تم پر رحم کیا جائے.قرآن پاک پڑھنے کے بھی آداب ہیں اور سننے کے بھی.توجہ سے سننے اور خاموشی اختیار کرنے والے کو اللہ تعالیٰ اپنے رحم سے نوازتا ہے.حضرت رسول کریم صلی فیلم عاشق قرآن تھے.خدا کے رحم کو جذب کرنے کے لیے یہ پاک کلام کثرت سے پڑھتے تھے اور اس کے حسن میں ڈوب کر لطف لے کر سنتے.کلامِ الہی کے سحر سے مسحور ہو جاتے آپ پر رقت طاری ہو جاتی اور آنکھیں آنسو بہانے لگتیں.دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی للہ ہم نے ایک روز مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ مجھے کچھ قرآن پڑھ کر سناؤ.میں نے عرض کی کیا میں آپ کو قرآن پڑھ کر سناؤں؟ حالا نکہ آپ پر قرآن کریم نازل کیا گیا ہے.آنحضور نے میرا جواب سن کر فرمایا: میں یہ پسند کرتا ہوں کہ اپنے علاوہ کسی اور سے بھی قرآن کریم سنوں تو حضرت عبد اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سورۃ النساء کی تلاوت شروع کی یہاں تک کہ میں آیت فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا لا (النساء: 42) (ترجمہ: پس کیا حال ہو گا جب ہم ہر ایک امت میں سے ایک گواہ لے کر آئیں گے اور ہم تجھے ان سب 40

Page 41

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام گواہ بنا کر لائیں گے) پر پہنچا تو آنحضور نے فرمایا ٹھہر جاؤ.حضرت عبد اللہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول ال لی لا علمی کی طرف دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے.بخاری کتاب فضائل القرآن باب قول المقرىء للقارىء حسبك ) آپ کی خشیت کا یہ عالم تھا کہ حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی الیم نے ایک شخص کو تلاوت کرتے سنا جو سورۃ مزمل کی اس آیت کی تلاوت کر رہا تھا.إِنَّ لَدَيْنَا أَنْكَالًا وَجَحِيمًا (المزمل: 13) (یعنی ہمارے پاس بیٹیاں اور جہنم ہے) تو نبی کریم ملی کی نیم بے ہوش ہو کر گر پڑے.(کنز العمال جلد 7 صفحہ 206) الله سة اللہ تبارک تعالیٰ نے اسلام کے دور آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو ہر لحاظ سے حضرت رسولِ کریم کا عکس بنایا.فرماتے ہیں خدا نے مجھ پر اس رسول کریم کا فیض نازل فرمایا اور اُس کو کامل بنایا اور اس نبی کریم صلی للی نام کے لطف اور خود کو میری طرف کھینچا یہاں تک کہ میرا وجود اس کا وجود ہو گیا.شخص مجھ میں اور مصطفی اصلی ای کمی تفریق کرتا ہے اس نے مجھ کو نہیں دیکھا ہے اور نہیں پہچانا ہے.( ترجمه خطبہ الہامیه، روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 258) جو اصل اور عکس میں تفریق کی ہی نہیں جاسکتی ہو بہو ایک سے نظر آتے ہیں.قرآن پاک پڑھنے اور سننے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا عشق ظاہر و باہر ہے.پاک کلام پڑھنا آپ کا سب سے محبوب مشغلہ تھا اور سن کر بھی لطف لیتے تھے دو روایات پیش ہیں.حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب سے روایت ہے: ایک روز مغرب کے بعد حضور شہ نشین پر مسجد مبارک میں احباب کے ساتھ بیٹھے تھے کہ آپ کو دوران سر کا دورہ شروع ہوا اور آپ شہ نشین سے نیچے اتر کر فرش پر لیٹ گئے اور بعض لوگ آپ کو دبانے لگ گئے مگر حضور نے ان سب کو ہٹا دیا.جب اکثر لوگ رخصت ہو گئے تو آپ نے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی سے فرمایا کہ کچھ قرآن شریف پڑھ کر سنائیں.مولوی صاحب دیر تک نہایت خوش الحانی سے قرآن شریف سناتے رہے یہاں تک 41

Page 42

کہ آپ کو افاقہ ہو گیا.(سيرة المهدی جلد اوّل روایت نمبر 462 صفحہ 439) حضرت مفتی محمد صادق صاحب بیان فرماتے ہیں: میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو صرف ایک دفعہ روتے دیکھا ہے اور وہ اس طرح کہ ایک دفعہ آپ خدام کے ساتھ سیر کے لیے جارہے تھے اور ان دنوں میں حاجی حبیب الرحمن صاحب حاجی پورہ والوں کے داماد قادیان آئے ہوئے تھے.کسی شخص نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضور یہ قرآن شریف بہت اچھا پڑھتے ہیں حضرت صاحب وہیں راستے کے ایک طرف بیٹھ گئے اور فرمایا کہ کچھ قرآن شریف پڑھ کر سنائیں.چنانچہ انہوں نے قرآن شریف سنایا تو اس وقت میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات پر میں نے بہت غور سے دیکھا تھا مگر میں نے آپ کو روتے نہیں پایا تھا حالا نکہ آپ کو مولوی صاحب کی وفات کا نہایت صدمہ تھا.سيرة المهدى جلد اوّل روایت نمبر 436 صفحہ 393) قرآن کتاب رحماں سکھلائے راہِ عرفاں جو اس کو پڑھنے والے اُن پر خدا کے فیضاں اُن پر خدا کی رحمت جو اس پر لائے ایماں روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي (در ثمین) روزنامه الفضل آن لائن لندن 7 جنوری 2022 ء 42

Page 43

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام قسط 8 ناصر دین کے لئے دعا کی قبولیت رسالت کا ابتدائی زمانہ تھا حضرت رسولِ اکرم علی ای ایم نے خدائے واحد کا پیغام دینا شروع کیا تو قریش مکہ کی طرف سے مسلمانوں پر ظلم و تشدد ہونے لگا جس میں وقت کے ساتھ شدت آنے لگی.دارارقم میں چھپ کر رہنے سے تو اسلام نہیں پھیل سکتا تھا.نبی کریم صلی ال نیلم نے اسلام کی کھل کے تبلیغ کے لئے اور مسلمانوں کی عزت و طاقت میں اضافے کے لئے غلاف کعبہ کو تھام کر اللہ تعالیٰ سے ان الفاظ میں دعا کی:.اللَّهُمَّ أَعِنَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَثٍ هَذَيْنِ الرَّجُدَيْنِ إِلَيْكَ بِأَبِي جَهْلِ أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ.اے اللہ! تو ان دو اشخاص ابو جہل اور عمر بن خطاب میں سے اپنے زیادہ محبوب شخص کے ذریعہ اسلام کو عزت عطا کر.ابن عمر کہتے ہیں کہ ان دونوں میں سے اللہ کو زیادہ محبوب حضرت عمر تھے.(سنن الترمذی ابواب المناقب باب فی مناقب ابی حفص عمر بن الخطاب حدیث 3681) حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اللَّهُمَّ ايْدِ الدِّينَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ.اے اللہ ! عمر بن خطاب کے ذریعہ سے دین کی تائید فرما.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اللَّهُمَّ أَعِنَّ الْإِسْلَامَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ خَاصَّةً کہ اے اللہ ! خاص طور پر عمر بن خطاب کے ذریعہ اسلام کو عزت عطا کر.(مستدرك للحاكم على الصحيحين جلد 3 صفحہ 89 کتاب معرفۃ الصحابه باب من مناقب امیر المومنین عمر بن الخطاب حدیث نمبر 4483 - 4485 دار الكتب العلمية بيروت 2002ء) ایک روایت ہے کہ حضرت عمر کے اسلام لانے سے ایک دن پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی تھی.اللَّهُمَّ أَيِّدِ الْإِسْلَامَ بِاحَ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْكَ، عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَوْ عَمْرِو بْنِ هِشَامٍ اے اللہ ! ان دو لوگوں میں سے جو تجھے زیادہ محبوب ہے اس کے ذریعہ سے اسلام کی تائید فرما.عمر بن خطاب یا عمر و بن ہشام.جب حضرت عمر نے اسلام قبول کیا تو حضرت جبرئیل نازل ہوئے اور کہا اے محمد ؟ عمر کے اسلام لانے سے آسمان والے بھی خوش ہیں.الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 3 صفحہ 143 باب اسلام عمر مطبوعہ دار احياء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء) 43

Page 44

.ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام اللہ تعالیٰ نے حضور صلی علیم کی دعا کو شرف قبولیت سے نوازا اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبوت کے چھٹے سال حلقہ بگوش اسلام ہوئے یہی وجہ ہے کہ آپ کو مرادِ رسول صلی الی کم بھی کہا جاتا ہے.آپ کے قبولِ اسلام سے مسلمان مردوں کی تعداد چالیس ہو گئی.حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ”جب سے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام لائے، یہ دین روز بروز ترقی کرتا چلا گیا“ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر کا اپنی بہن کے گھر قرآن پاک سن کر کلمہ شہادت پڑھنے کا واقعہ لکھنے کے بعد تحریر فرمایا: رض ”حضرت عمر نے دریافت کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آج کل کہاں مقیم ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں مخالفت کی وجہ سے گھر بدلتے رہتے تھے.انہوں نے بتایا کہ آج کل آپ دارِ ارقم میں تشریف رکھتے ہیں.حضرت عمر فوراً اسی حالت میں جب کہ ننگی تلوار انہوں نے لٹکائی ہوئی تھی اس گھر کی طرف چل پڑے.بہن کے دل میں شبہ پیدا ہوا کہ شاید وہ بری نیت سے نہ جا رہے ہوں.انہوں نے آگے بڑھ کر کہا خدا کی قسم! میں تمہیں اس وقت تک نہیں جانے دوں گی جب تک تم مجھے اطمینان نہ دلا دو کہ تم کوئی شرارت نہیں کرو گے.حضرت عمر نے کہا کہ میں پکا وعدہ کرتاہوں کہ میں کوئی فساد نہیں کرونگا.حضرت عمر وہاں پہنچے.“ یعنی اس جگہ جہاں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور دستک دی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ اندر بیٹھے ہوئے تھے دینی درس ہو رہا تھا.کسی صحابی نے پوچھا کون؟ حضرت عمر نے جواب دیا عمر ! صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ! دروازہ نہیں کھولنا چاہئے.ایسا نہ ہو کہ کوئی فساد کرے.حضرت حمزہ نئے نئے ایمان لائے ہوئے تھے وہ سپاہیانہ طرز کے آدمی تھے.انہوں نے کہا دروازہ کھول دو.میں دیکھوں گا وہ کیا کرتا ہے.چنانچہ ایک شخص نے دروازہ کھول دیا.حضرت عمر آگے بڑھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.عمر ! تم کب تک میری مخالفت میں بڑھتے چلے جاؤ گے؟ حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ ! میں مخالفت کیلئے نہیں آیا میں تو آپ کا غلام بننے کیلئے آیا ہوں.وہ عمر جو ایک گھنٹہ پہلے اسلام کے شدید دشمن تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مارنے کیلئے گھر سے نکلے تھے ایک آن میں اعلیٰ درجہ کے مومن بن گئے.حضرت عمر مکہ کے رئیسوں میں سے نہیں تھے لیکن بہادری کی وجہ سے نوجوانوں پر آپ کا اچھا اثر تھا.جب آپ مسلمان ہوئے تو صحابہ نے جوش میں آکر نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے.اس کے بعد نماز کا وقت آیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھنی چاہی تو وہی عمر جو دو گھنٹے قبل گھر سے اس لئے نکلا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مارے.اس نے دوبارہ تلوار نکال لی اور کہا.یارسول اللہ ! خدا تعالیٰ کا رسول اور اس کے ماننے والے تو چھپ کر نمازیں 44

Page 45

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام پڑھیں اور مشر کین مکہ باہر دندناتے پھریں یہ کس طرح ہو سکتا ہے ؟ میں دیکھوں گا کہ ہمیں خانہ کعبہ میں نماز ادا کرنے سے کون روکتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جذبہ تو بہت اچھا ہے لیکن ابھی حالات ایسے ہیں کہ ہمارا باہر نکلنا مناسب نہیں.66 ( تفسیر کبیر جلد 6 صفحه 143) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبول اسلام پر دار ارقم میں موجود مسلمانوں نے خوشی میں اس زور سے تکبیر بلند کی کہ اسے تمام اہل مکہ نے سنا.پھر تمام مسلمان دو صفیں بنا کر نکلے.ایک صف میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے اور ایک میں حضرت عمر تھے اس طرح مسلمان مسجد حرام میں داخل ہوئے تو کفار مکہ کو سخت صدمہ پہنچا.اس دن سے رسول کریم صلی ال نیلم نے حضرت عمر کو 'فاروق' کا لقب عطا فرمایا کیونکہ اسلام ظاہر ہو گیا اور حق وباطل میں فرق پیدا ہو گیا.”ان کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو بہت تقویت پہنچی اور انہوں نے دارِ ارقم سے نکل کر برملا مسجد حرام میں نماز ادا کی.حضرت عمر آخری صحابی تھے جو دار ارقم میں ایمان لائے اور یہ بعثت نبوی کے چھٹے سال کے آخری ماہ کا واقعہ ہے.اس وقت مکہ میں مسلمان مردوں کی تعداد چالیس تھی.“ (سیرت خاتم النبیین از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایم اے صفحہ 159) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ناصر دین کے لئے دعا کی قبولیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام میں تحریر فرماتے ہیں: میں رات دن خدا تعالیٰ کے حضور چلاتا اور عرض کرتا تھا کہ اے میرے رب! میرا کون ناصر و مدد گار ہے.میں تنہا ہوں اور جب دعا کا ہاتھ پے در پے اٹھا اور فضائے آسمانی میری دعاؤں سے بھر گئی تو اللہ تعالی نے میری عاجزی اور دعا کو شرف قبولیت بخشا اور رب العالمین کی رحمت نے جوش مارا اور اللہ تعالٰی نے مجھے ایک مخلص صدیق عطا فرمایا.اس کا نام اس کی نورانی صفات کی طرح نورالدین ہے...جب وہ میرے پاس آکر مجھے ملا تو میں نے اسے اپنے رب کی آیتوں میں سے ایک آیت پایا..اور مجھے یقین ہو گیا کہ یہ میری دعا کا نتیجہ تھا.میں ہمیشہ دعا کیا کرتا تھا اور میری فراست نے بتا دیا کہ اللہ تعالیٰ کے منتخب بندوں میں سے ہے...میرا کلام سننے کے لئے اس پر اپنے وطن کی جدائی آسان ہے اور میرے مقام کی محبت کے لئے اپنے وطن اصلی محبت کی یاد کو بھلا دیتا ہے اور ہر ایک امر میں میری اس طرح پیروی کرتا ہے جیسے 45

Page 46

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے.“ (ترجمه از عربی عبارت مندرجہ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 581 تا 586) حضرت حکیم الامت مولانا نور الدین خلیفہ المسیح اول اللہ تعالیٰ کا انتخاب تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کا ایک نام عبد الباسط رکھا تھا.(تذکره الهام 13 فروری 1887ء صفحہ 117) ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک نشیب گڑھے میں کھڑا ہوں اور اوپر چڑھنا چاہتا ہوں مگر ہاتھ نہیں پہنچتا.اتنے میں ایک بندہ خدا آیا اُس نے اُوپر سے میری طرف ہاتھ لمبا کیا اور میں اُس کے ہاتھ کو پکڑ کر اوپر کو چڑھ گیا اور میں نے چڑھتے ہی کہا کہ خدا تجھے اس خدمت کا بدلہ دیوے.آج آپ کا خط پڑھنے کے ساتھ میرے دل میں پختہ طور پر یہ جم گیا کہ وہ ہاتھ پکڑنے والا جس سے رفع ترد ہوا آپ ہی ہیں کیونکہ جیسا کہ میں نے خواب میں ہاتھ پکڑنے والے کے لئے دعا کی ایسا ہی برقت قلب خط کے پڑھنے سے آپ کے لئے منہ سے دلی دعا نکل گئی.مستجاب إِنْ شَاءَ اللہ تعالیٰ.( تذکرہ صفحہ 117 ایڈیشن دوم) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اور متعدد مقامات پر اپنے مرید با صفا، عالم باعمل حاجی الحرمین حافظ علامہ نور الدین کے متعلق تعریف و توصیف کے الفاظ استعمال فرمائے.موصوف بھی اپنی فدائیت میں ترقی کرتے چلے گئے اور حضرت مسیح موعود کی خلافت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اس ناصر دین کا بہت محبت سے ذکر فرماتے.چند اقتباس ملاحظہ ہوں: (عربی سے ترجمہ) ”میرے سب دوست متقی ہیں ان میں سب سے زیادہ صاحب بصیرت، صاحب علم، اکمل الایمان والاسلام، محبت، معرفت، خشیت اور یقین اثبات والا بزرگ فرد متقی عالم، صالح، فقیہ، عظیم الشان محدث و ماہر طبیب، حکیم حاجی الحرمین، حافظ قرآن، قریشی فاروقی جس کا اسم گرامی حکیم نور الدین بھیروی ہے.اللہ تعالیٰ اسے دین و دنیا میں اجر عظیم سے نوازے.صدق و صفاء اخلاص و محبت اور وفاداری میں میرے سب مریدوں سے وہ اوّل نمبر پر ہے اور ایثار و انقطاع اور خدمت دین میں عجیب حال میں ہیں.اس نے خدمت دین میں بہت خرچ کیا ہے اور میں نے انہیں ایسا مخلص پایا ہے جو اولاد و ازواج پر اللہ تعالیٰ 46

Page 47

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام کی رضا کو مقدم رکھتے ہیں اور ہمیشہ اسی کی رضا کے خواہاں رہتے ہیں اور ہر حال میں شکر گزار رہتے ہیں.وہ شخص رقیق القلب، صاف طبع، حلیم، کریم اور جامع الخیرات، دنیوی لذات سے بہت دور، بھلائی اور نیکی کے کسی موقع کو ضائع نہ کرنے والا.وہ پسند کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی خاطر اپنا خون پانی کی طرح بہا دیں اور اپنی جان اس راہ میں قربان کر دیں اور دین میں فتنوں کا قلع قمع کرنے کے لئے اپنا آپ قربان کر دیں.“ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا: (حمامة البشری، روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 180) مولوی حکیم نوردین صاحب اپنے اخلاص اور محبت اور صفت ایثار اور اللہ شجاعت اور سخاوت اور ہمدردی اسلام میں عجیب شان رکھتے ہیں کثرت مال کے ساتھ کچھ قدر قلیل خدا تعالیٰ کی راہ میں دیتے ہوئے تو بہتوں کو دیکھا مگر خود بھوکے پیاسے رہ کر اپنا عزیز مال رضائے مولیٰ میں اُٹھا دینا اور اپنے لئے دنیا میں سے کچھ نہ بنانا یہ صفت کامل طور پر مولوی صاحب موصوف میں ہی دیکھی.یا ان میں جن کے دلوں پر ان کی صحبت کا اثر ہے اور جس قدر ان کے مال سے مجھ کو مدد پہنچی ہے.اس کی نظیر اب تک کوئی میرے پاس نہیں...خدائے تعالیٰ اس خصلت اور ہمت کے آدمی اس امت میں زیادہ سے زیادہ کرے.آمین ثم آمین.چه خوش بو دے اگر ہر یک زامت نور دین بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقین بودے ایک اور مقام پر حضرت اقدس فرماتے ہیں: نشان آسمانی روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 430 - 434) ان کے مال سے جس قدر مجھے مدد پہنچی ہے میں کوئی ایسی نظیر نہیں دیکھتا جو اس کے مقابل پر بیان کر سکوں.میں نے ان کو طبعی طور پر اور نہایت انشراح صدر سے دینی خدمتوں میں جان نثار پایا.اگر چہ ان کی روز مرہ زندگی اسی راہ میں وقف ہے کہ وہ ہر ایک پہلو سے اسلام اور مسلمانوں کے سچے خادم ہیں مگر اس سلسلہ کے ناصرین میں سے وہ اول درجہ کے نکلے میں یقیناد یکھتا ہوں کہ جب تک وہ نسبت پیدا نہ ہو.جو محب کو اپنے محبوب سے ہوتی ہے.تب تک ایسا انشراح صدر کسی میں پیدا نہیں ہو سکتا.ان کو خدائے تعالیٰ نے اپنے قوی ہاتھوں سے اپنی طرف کھینچ لیا ہے اور طاقت بالا نے خارق عادت اثر ان پر کیا ہے.انہوں نے ایسے وقت میں بلا تردد مجھے قبول کیا کہ جب ہر طرف سے تکفیر کی صدائیں بلند ہونے کو تھیں اور بہتیروں نے 47

Page 48

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام باوجود بیعت کے عہد بیعت فسخ کر دیا تھا اور بہتیرے سست اور متذبذب ہو گئے تھے.تب سب سے پہلے مولوی صاحب ممدوح کا ہی خط اس عاجز کے اس دعویٰ کی تصدیق میں کہ میں ہی مسیح موعود ہوں.قادیان میں میرے پاس پہنچا جس میں یہ فقرات درج تھے.آمَنَّا وَصَدَّقْنَا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ...مولوی صاحب نے وہ صدق قدم دکھلایا جو مولوی صاحب کی عظمت ایمان پر ایک محکم دلیل ہے دل میں از بس آرزو ہے کہ اور لوگ بھی مولوی صاحب کے نمونہ پر چلیں مولوی صاحب پہلے راستبازوں کا ایک نمونہ ہیں.“ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 520 - 522) ایک دفعہ حضرت اماں جان اور بعض دوسری خواتین میں یہ بات ہوئی کہ بھلا حضرت اقدس کو سب متبعین میں سے زیادہ کون محبوب ہے.اس پر حضرت اماں جان نے فرمایا کہ میں حضور سے کچھ بات کروں گی جس سے اس بات کا پتہ چل جائے گا.حضرت اماں جان، حضرت اقدس کے پاس کمرہ میں تشریف لے گئیں اور حضور کو مخاطب کر کے فرمانے لگیں کہ : ”آپ کے جو سب سے زیادہ پیارے مرید ہیں وہ..اتنا فقرہ کہہ کر حضرت اماں جان چپ ہو گئیں اس پر حضرت اقدس نے نہایت گھبرا کر پوچھا ”مولوی نورالدین صاحب کو کیا ہوا جلدی بتاؤ.“ اس پر حضرت اماں جان ہنسنے لگیں اور فرمایا: آپ گھبرائیں نہیں مولوی نور الدین صاحب اچھی طرح ہیں میں تو آپ کے منہ سے یہ بات کہلوانا چاہتی تھی کہ آپ کے سب سے پیارے مرید کون سے ہیں چنانچہ آپ نے وہ بات کہہ دی اب میں جاتی ہوں آپ اپنا کام کریں.“ خدا سے وہی لوگ کرتے ہیں پیار جو سب کچھ ہی کرتے ہیں اُس پر شار اسی فکر میں رہتے ہیں روز و شب که راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب؟ اُسے دے چکے مال و جاں بار بار ابھی خوف دل میں کہ ہیں نابکار لگاتے ہیں دل اپنا اُس پاک وہی پاک جاتے ہیں اس خاک سے (لطائف صادق صفحہ 12 - 13 (در ثمین) روزنامه الفضل آن لائن لندن 14 جنوری 2022ء) 48

Page 49

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام قط 9 انداز نشست میں عمومیت انبیاء علیہم السلام کے مزاج اور فطرت میں نمود و نمائش کی خواہش نہیں ہوتی.وہ اللہ تبارک تعالی کے آستانے پر جھکا رہنا پسند کرتے ہیں اور ایمان یہ ہوتا ہے کہ تمام تر عزت و عظمت اللہ تعالٰی کے لئے ہے.وہ اہل دنیا کی مدح و ثنا کو بے حقیقت سمجھتے ہیں.حقیقی تعریف وہ ہوتی ہے جو اللہ پاک کے دربار سے ملے.وہ فنا فی اللہ ہوتے ہیں ہوائے نفس قریب بھی نہیں آتی.ذات نفسانیت انانیت کو کچل کر ہی دربار الہی میں رسائی ہوتی ہے.پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو عزت ملتی ہے وہ آسمان اور زمین کی وسعتوں پر حاوی اور لازوال ہوتی ہے.انبیائے کرام ایک ہی منبع نور سے فیضیاب ہوتے ہیں.آنحضور سراج منیر ہیں اور بدر منیر آپ کے انوار منعکس کرتا ہے.اسی لئے دونوں کی ادائیں مماثل ہیں.شاگرد نے جو پایا استاد کی دولت ہے احمد کو محمد تم کیسے جدا سمجھے حضرت صوفی عبد الرزاق کاشانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے کیا خوب فرمایا ہے: تمام انبیائے گزشتہ علوم و معارف میں امام موعود کے تابع ہوں گے اس لئے کہ امام موعود کا باطن دراصل محمد مصطفی کا باطن ہے“ آنحضور کی سیرت و سوانح کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے لئے کوئی خصوصی اہتمام پسند نہ فرماتے.آنحضرت اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہجرت کے بعد مدینہ تشریف لائے تو پہلے مدینہ کی نواحی بستی قباء میں قیام فرمایا.مدینہ کے لوگ فرط اشتیاق سے جوق در جوق آپ کے دیدار کے لئے حاضر ہوئے انہوں نے آپ کو پہلے دیکھا نہیں ہوا تھا.محفل میں سردار دو جہاں کے لئے کوئی مخصوص شاندار نشست اور کوئی معین ترتیب نہیں تھی.حضرت ابو بکر عمر میں آپ سے چھوٹے ہونے کے باوجود بال سفید ہونے کی وجہ سے نسبتابڑے دکھائی دے رہے تھے.وہ حضرت ابو بکر کو ہی رسول اللہ سمجھتے رہے.سورج بلند ہوا دھوپ نکلی تو حضرت ابو بکر نے اپنی چادر سے آنحضور پر سایہ کیا.“ (بخاری باب الهجرت) 49

Page 50

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام تعظیم کے اس انداز سے لو گوں کی غلط فہمی دور ہوئی.آپ نے کبھی بھی اپنے لیے کوئی امتیازی نشان، وضع قطع، لباس اور نشست پسند نہیں فرمائی حتی کہ ایک محفل میں داخل ہونے پر احتراماً کھڑے ہونے سے بھی منع فرمایا.”میرے لیے اس طرح نہ کھڑے ہوا کرو جس طرح عجمی کھڑے ہوتے ہیں“ (سنن ابی داؤد کتاب الادب باب الرجل يقوم للرجل يعظمه بذالك ) آپ نے فرمایا یہ تو ایرانیوں کا رواج ہے میں بادشاہ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے مجھے نبی بنایا ہے.(تفسیر کبیر جلد 20 صفحہ 348) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت و سوانح میں بھی اپنی ذات کے لئے کوئی امتیاز نہیں ملتا.جب سے یہ نور ملا نور پیمبر سے ہمیں ذات سے حق کی وجود اپنا ملایا ہم نے مصطفی پر ترا بے حد ہو سلام اور رحمت اُس سے یہ نور لیا بار خدایا ہم نے نشست کے انداز میں عمومیت کا ایک واقعہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ڈیرہ بابانا نک کے دورے میں پیش آیا.حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل کی تحریر ملاحظہ کیجئے: ”حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مع چند خدام کے بابا صاحب کا چولہ دیکھنے کے لئے ڈیرہ بابا نانک تشریف لے گئے تو وہاں ایک بڑ کے درخت کے نیچے کچھ کپڑے بچھا کر جماعت کے لوگ مع حضور کے بیٹھ گئے مولوی محمد احسن صاحب بھی ہمراہ تھے.گاؤں کے لوگ حضور کی آمد کی خبر سن کر وہاں جمع ہونے لگے تو ان میں سے چند آدمی جو پہلے آئے تھے مولوی محمد احسن سے مصافحہ کر کر کے بیٹھتے گئے تین چار آدمیوں کے مصافحہ کے بعد یہ محسوس کیا گیا کہ ان کو دھو کا ہوا ہے اس کے بعد مولوی محمد احسن صاحب ہر ایسے شخص کو جو ان سے مصافحہ کرتا حضرت اقدس مسیح موعود کی طرف متوجہ کردیتے کہ حضرت اقدس مسیح موعود یہ ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ بعض اوقات آنحضور کی مجلس میں بھی ایسا دھو کا لگ جاتا تھا دراصل چونکہ انبیاء کی مجلس بالکل سادہ اور ہر قسم کے تکلفات سے پاک ہوتی ہے اور سب لوگ محبت کے ساتھ باہم ملے جلے بیٹھے رہتے ہیں اور نبی کے لئے کوئی خاص شان یا مسند وغیرہ کی 50

Page 51

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام صورت نہیں ہوتی اس لئے اجنبی آدمی بعض اوقات عارضی طور پر دھوکا کھا جاتا ہے.دروازے پر دربان، نہ پہلے سے وقت لینے اور داخلے کے لئے اجازت کی ضرورت نہ کوئی مخصوص نشست اللہ والوں کی سادگی کا انداز دیکھئے.حضرت منشی ظفر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں: کرنل الطاف علی صاحب نے مجھ سے کہا کہ میں حضور سے تخلیہ میں ملنا چاہتا ہوں.میں نے کہا تم اندر چلے جاؤ باہر سے ہم کسی کو اندر نہیں جانے دیں گے پوچھنے کی ضرورت نہیں.چنانچہ کرنل صاحب اندر چلے گئے اور آدھے گھنٹے بعد جب باہر آئے تو چشم پر آب تھے.میرے پوچھنے پر بتایا کہ جب میں اندر گیا تو حضرت صاحب اپنے خیال میں ایک بوریئے پر بیٹھے تھے مگر بورئیے پر حضور کا ایک گھٹنا ہی تھا باقی زمین پر بیٹھے تھے میں نے کہا حضور زمین پر بیٹھے ہیں تو حضور نے سمجھا کہ غالباً میں (یعنی کرنل صاحب) بورئیے پر بیٹھنا پسند نہیں کرتا اس لئے حضور نے اپنا صافہ بوریئے پر بچھا دیا اور فرمایا ، آپ یہاں بیٹھیں ' یہ حالت دیکھ کر میرے آنسو نکل آئے میں نے عرض کی کہ اگرچہ میں ولایت میں بپتسمہ لے چکا ہوں مگر اتنا بھی بے ایمان نہیں ہوں کہ حضور کے صافہ پر بیٹھ جاؤں.حضور فرمانے لگے کوئی مضائقہ نہیں آپ بلا تکلف بیٹھ جائیں میں صافہ ہٹا کر بوریئے پر بیٹھ گیا اور اپنا حال سنانے لگا کہ میں شراب پیتا ہوں اور دیگر گناہ بھی کرتا ہوں لیکن میں آپ کے سامنے اس وقت عیسائیت سے توبہ کر کے احمدی ہوتا ہوں“ (بحوالہ الفضل انٹر نیشنل 29 اپریل تا 5 مئی 2005ء) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَعَلَى عَبْدِكَ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ روزنامه الفضل آن لائن لندن 21 جنوری 2022 ء 51

Page 52

قسط 10 خوراک کی سادگی نه دل در تنظم ہائے دنیا گر خدا خواہی کہ مے خواہد نگار من تهیدستان عشرت را (در ثمین فارسی) ترجمہ: اگر خدا کا طلبگار ہے تو دنیاوی نعمتوں سے دل نہ لگا کہ میرا محبوب ایسے لو گوں کو پسند کرتا ہے جو عیش کے تارک ہوں.خوراک لباس اور رہائش انسان کی بنیادی ضروریات میں شامل ہیں.ہر انسان اپنی قسمت، گنجائش اور ترجیحات کے مطابق آرائش اور آسائش حاصل کرنے کے لئے مقدور بھر کوشش کرتا ہے اور اس میں اپنی عمر عزیز کا بڑا حصہ صرف کردیتا ہے مگر اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے والوں کا اپنے محبوب میں استغراق انہیں دنیاوی نعماء سے بے رغبت کر دیتا ہے وہ انتہائی صبر وشکر اور استغناء کے ساتھ ان سے صرف اتنا فائدہ اٹھاتے ہیں کہ قوت لایموت قائم رہے اور وہ خدمت دین میں ہمہ تن مصروف رہیں وہ صرف ایک کشتی کے سوار ہوتے ہیں.اپنے مولا کے پیار کی کشتی.اسی میں ان کا سکون ہے اسی میں ساری اعلیٰ لذات ہیں.اللہ تبارک تعالیٰ اپنے پیاروں کی تربیت میں یہ امر شامل فرما دیتا ہے کہ وہ دنیا کے لئے نہیں بنے دنیا ان کے لئے بنی ہے.قرآن پاک میں ارشاد ہے: ۱۳۲ وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَابِةٍ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيْهِ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَى ) طر: 132) ترجمہ: اور اپنی آنکھیں اس عارضی متاع کی طرف نہ پیار جو ہم نے اُن میں سے بعض گروہوں کو دنیوی زندگی کی زینت کے طور پر عطا کی ہے تاکہ ہم اس میں ان کی آزمائش کریں اور تیرے ربّ کا رزق بہت اچھا اور زیادہ باقی رہنے والا ہے.اللہ تعالیٰ کے احکام کی روح سمجھتے ہوئے اس پر بہترین عمل کرنے والے حضرت محمد مصطفی کے اسوۂ حسنہ 52

Page 53

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت کھلتی ہے کہ جس قدر دنیا سے دور ہوں گے خدا سے قرب بڑھے گا.آپ پر ہر قسم کی تنگی ترشی اور فراخی وشاہی کا وقت آیا مگر آپ کے دستور العمل میں فرق نہ آیا.آپ کی دعا تھی: یا اللہ ! مجھے مسکین بنا کر زندہ رکھنا اسی حالت میں موت دینا اور قیامت کے دن مسکینوں کی جماعت میں اٹھانا.(ترمذی کتاب الزهد باب (44) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: خدائے تعالیٰ نے بے شمار خزائن کے دروازے آنحضرت پر کھول دئے.سو آنجناب نے ان سب کو خدا کی راہ میں خرچ کیا اور کسی نوع کی تن پروری میں ایک حبہ بھی خرچ نہ ہوا.نہ کوئی عمارت بنائی نہ کوئی بار گاہ طیار ہوئی بلکہ ایک چھوٹے سے کچے کوٹھے میں جس کو غریب لو گوں کے کوٹھوں پر کچھ بھی ترجیح نہ تھی اپنی ساری عمر بسر کی.بدی کرنے والوں سے نیکی کر کے دکھلائی اور وہ جو دلآزار تھے ان کو ان کی مصیبت کے وقت اپنے مال سے خوشی پہنچائی.سونے کے لئے اکثر زمین پر بستر اور رہنے کے لئے ایک چھوٹا سا جھونپڑا اور کھانے کے لئے نان جو یا فاقہ اختیار کیا.دنیا کی دولتیں بکثرت ان کو دی گئیں پر آنحضرت نے اپنے پاک ہاتھوں کو ذرا آلودہ نہ کیا اور ہمیشہ فقر کو تو نگری پر اور مسکینی کو امیری پر اختیار رکھا.“ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 289 – 290 حاشیہ نمبر (11) آپ کے لئے یہ ساری کائنات اس میں موجود سب نعماء تخلیق کی گئی تھیں اور آپ اللہ تعالیٰ کے لئے تخلیق کئے گئے تھے اس لئے آپ کی ساری اعلیٰ لذات اپنے خالق و مالک میں تھیں.آپ صرف عبادت کے لئے زندہ رہنے کے لئے کھاتے پیتے آپ کی خوراک سادہ اور معمولی ہوا کرتی تھی اس کا ذکر کئی روایات میں ملتا ہے.حضرت عروہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ بھانجے ہم دیکھتے رہتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں دو دو ماہ تک آگ نہیں جلائی جاتی تھی.اس پر میں نے پوچھا خالہ ! پھر آپ لوگ زندہ کس چیز پر تھے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہم کھجوریں کھاتے اور پانی پیتے تھے.سوائے اس کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمسائے انصاری تھے ان کے دودھ دینے والے جانور تھے وہ رسول اللہ کو ان کا دودھ تحفہ بھیجتے تھے جو آپ ہمیں پلا دیتے تھے.ا بخاری کتاب الهبة وفضلها والتحريض عليها باب فضل الهبة ) 53

Page 54

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام آنحضرت خیر الرازقین کی پیدا کی ہوئی ہر نعمت دسترس میں ہونے کے باوجود رضائے الہی کی خاطر ان سے دست کش رہے.ام المؤمنین حضرت عائشہ کے زندگی بھر کے قریبی مشاہدہ کا نچوڑ ملاحظہ ہو.فرماتی ہیں: رسول اللہ نے کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا اور اپنے گھر میں کبھی کھانا خود سے نہیں مانگتے تھے.نہ ہی اس کی خواہش کرتے تھے اگر گھر والے کھانا دے دیتے تو آپ تناول فرمالیتے اور جو کھانے پینے کی چیز پیش کی جاتی قبول فرمالیتے.ابن ماجه کتاب الاقتصاد باب 94 حضرت ابو ہریرۃ آپ کی کم خوری اور سادگی کے ذکر میں روایت کرتے ہیں: آنحضور اس دنیا سے تشریف لے گئے مگر کبھی جو کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہ کھائی.“ تجرید بخاری حصہ دوم صفحہ 814) حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے علم میں نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی طشتریوں میں کھانا کھایا ہو اور نہ ہی آپ کے لئے کبھی چپاتیاں پکائی گئی ہیں، روٹی پکائی گئی اور نہ کبھی آپ نے تپائی (چھوٹی میز سامنے رکھ کر اونچی چیز پر لگا ہوا کھانا باقاعدہ کھایا ہو.قتادہ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس پر کھانا کھایا کرتے تھے.تو انہوں نے جواب دیا کہ دستر خوان پہ.یعنی زمین پہ کپڑا بچھا لیتے تھے اور اس پہ بیٹھ کے کھانا کھایا کرتے تھے.بخاری کتاب الاطعمة باب الخبز المرقق والاكل على الخوان والسفرة ) آپ کی سادہ خوراک کے بارے میں سہل بن سعد سے روایت ہے کہ ان سے سوال کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی چھنے ہوئے آٹے کی چپاتی کھائی ہے؟ سہل نے جواب دیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تادم آخر کبھی چھنے ہوئے آٹے کی چپاتی نہیں دیکھی.اس پر میں نے پوچھا کیا تمہارے پاس آنحضرت کے زمانہ میں چھلنیاں نہیں ہوا کرتی تھیں.انہوں نے کہا آنحضرت نے اپنی بعثت سے لے کر وفات تک چھلنی نہیں دیکھی.ابو حازم کہتے ہیں میں نے سہل سے پوچھا آپ بغیر چھانے کے جو کا آٹا کس طرح کھاتے تھے.انہوں نے کہا کہ ہم کوٹنے کے بعد اسے پھونکیں مار لیتے اور اس طرح جو اڑنا ہوتا وہ اڑ جاتا اور باقی کو ہم بھگو کر کھا لیتے.(بخاری کتاب الاطعمة باب ما كان النبى واصحابه ياكلون ) 54

Page 55

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام حضرت مقداد آنحضور کی کھانے سے بے نیازی کا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں: ”حضور کے پاس چند بکریاں تھیں جن کے دودھ پر رسول اللہ کے مہمان صحابہ کا گزارا ہو تا تھا.دستور یہ تھا کہ ہم یعنی مقداد اور ان کے دو اور مہمان ساتھی بکریوں کا دودھ خود دوہتے اور اپنا حصہ پی کر سوجاتے.باقی دودھ ایک پیالے میں ڈھک کر رسول اللہ کے لئے بچا رکھتے ایک دن دینی کاموں میں تاخیر کی وجہ آنحضور کی گھر واپسی میں تاخیر ہو گئی.ادھر میری بھوک کی شدت اپنے حصے کے دودھ سے دودھ سے کم نہ ہوئی تو دل میں خیال آیا کیوں نہ آنحضور کے حصے کا دودھ پی لیا جائے.یہ سوچ کر کہ حضور کو تو انصار وغیرہ نے دودھ پلا دیا ہو گا وہ سیر ہو کر آئیں گے اٹھا اور دودھ پی کر خالی پیالہ اسی جگہ رکھ دیا.آنحضور کا دستور یہ تھا کہ گھر واپس تشریف لاتے اگر لوگ سوئے ہوئے ہوتے تو بڑی خاموشی سے دوسروں کو جگائے بغیر آہستہ آواز میں سلام کہتے.آپ تشریف لائے اور حسب معمول سونے سے پہلے اس طرف گئے جہاں دودھ کا پیالہ پڑا ہوتا تھا مگر پیالہ خالی تھا ادھر میں عرق ندامت سے پانی پانی ہو رہا تھا کہ مجھ سے کیا حرکت سر زد ہو گئی.ادھر نبی کریم نے بلند آواز سے یہ دعا کی کہ "یا اللہ اس وقت بھوک کی حالت میں جو بھی مجھے کھلائے اسے کھلا اور جو بھی مجھے پلائے تو اسے پلا“ کہتے ہیں تب مجھے کچھ ڈھارس بندھی میں فوراً اٹھا اور ان بکریوں کی طرف گیا جن کا دودھ پہلے دوہا جا چکا تھا.مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جب بکری کے تھن کو میرا ہاتھ پڑا تو اس کو دودھ سے بھرا ہوا پایا.میں نے دودھ سے اپنا برتن بھرا اور آنحضرت کی خدمت میں لے کر آیا حضور نے فرمایا پہلے تم پی لو.میں نے عرض کیا حضور پہلے آپ پی لیں پھر میں آپ کو ساری بات عرض کروں گا.حضور نے دودھ پی لیا پھر بھی باقی بچ گیا.حضور نے مجھے فرمایا اب تم بھی پی لو.میں نے پیا جب خوب سیر ہو گیا تو بے اختیار میری ہنسی چھوٹ گئی اور میں لوٹ پوٹ ہونے لگا.حضور نے فرمایا مقداد کیا بات ہے؟ تب میں نے سارا قصہ سنایا کہ یا رسول اللہ میں تو اس خیال سے آپ کے دودھ کا حصہ پی گیا تھا کہ آپ باہر سے دودھ پی کر آئیں گے مگر جب آپ نے یہ دعا کی تو میں اٹھا اور پھر یہ عجیب نشان ظاہر ہوا کہ خدا تعالیٰ نے ایک بکری کے تھنوں میں دوبارہ دودھ اتار دیا.میں ہنس اس لئے رہا ہوں کہ میں نے حضور کے دودھ کا حصہ بھی پیا اور اپنا بھی اور دودھ دوہنے کے بعد پھر خدا نے مجھے پلایا اس طرح میرے حق میں حضور کی یہ دعا بھی پوری ہو گئی.حضور نے فرمایا کہ یہ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک برکت تھی اور یہ تمہارے ساتھی جو سو رہے ہیں ان کو اس میں سے کیوں حصہ نہ دیا.“ (مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 4) 55

Page 56

اگر کبھی دیر سے گھر واپس تشریف لاتے تو کسی کو زحمت دیتے نہ جگاتے بلکہ خود ہی کھانا یا دودھ تناول فرمالیتے.“ (مسلم کتاب الاشربه ) آنحضرت نے ایک دفعہ فرمایا دل کرتا ہے ایک دن بھو کا رہوں ایک دن سیر ہو کر کھالوں جس دن بھو کا رہوں اپنے رب سے تضرع اور دعا کروں اور سیر ہو کر اللہ کا شکر بجا لاؤں.“ ترمذی کتاب الزهد باب ما جاء في الكفاف) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خوراک کے بارے میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل تحریر فرماتے ہیں : قرآن شریف میں کفار کے لئے وارد ہے يَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ کافر سات انتڑی میں کھاتا اور مومن ایک میں.مراد ان باتوں سے یہ ہے کہ مومن طیب چیز کھانے والا اور دنیا دار یا کافر کی نسبت بہت کم خور ہوتا ہے جب مومن کا یہ حال ہو تو پھر انبیا ء اور مر سلین علیھم السلام کا تو کیا کہنا.آنحضرت کے دستر خوان پر بھی اکثر ایک سالن ہوتا بلکہ سنتو یا صرف کھجور یا دودھ کا ایک پیالہ ہی ایک غذا ہوا کرتی تھی.اسی سنت پر ہمارے حضرت اقدس علیہ السلام بھی بہت کم خور تھے اور بمقابلہ اس کام اور محنت کے جس میں حضور دن رات لگے رہتے تھے اکثر حضور کی غذا دیکھی جاتی تو بعض اوقات حیرانی سے بے اختیار لوگ یہ کہہ اٹھتے تھے کہ اتنی خوراک پر یہ شخص زندہ کیوں کر رہ سکتا ہے خواہ کھانا کیسا ہی عمدہ اور لذیذ ہو اور کیسی ہی بھوک ہو آپ کبھی حلق تک ٹھونس کر نہیں کھاتے تھے.“ (مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صفحہ 435) آپ کا کھانا صرف اپنے کام کے لئے قوت حاصل کرنے کے لئے ہوا کرتا تھا نہ کہ لذت نفس کے لئے.بارہا آپ نے فرمایا کہ ہمیں تو کھانا کھا کر یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ کیا پکا تھا اور ہم نے کیا کھایا...(مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صفحہ 735) حضرت مفتی محمد صادق نے ابتدائی زمانے کی بڑی عمدہ تصویر کھینچی ہے: ابتدا میں جب مہمان کم ہوتے تھے اور گول کمرے میں یا مسجد میں مہمانوں کو کھانا کھلایا جاتا تھا اس 56

Page 57

وقت عموماً حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی باہر مہمانوں میں بیٹھ کر کھانا کھایا کرتے تھے.آپ ایک روٹی ہاتھ میں لیتے اور اس کے دو ٹکڑے کرتے ایک ٹکڑا دستر خوان پر رکھ دیتے دوسرے کے پھر دو ٹکڑے کرتے پھر ایک ٹکڑا دستر خوان پر رکھ دیتے جو ہاتھ میں رہ جاتا اس میں سے ایک چھوٹا سا ٹکڑا کاٹتے جو لمبائی چوڑائی میں ایک انچ سے کم ہوتا اور اسے سالن کے کٹورے میں ڈالتے اسی طرح بہت تھوڑا سا سالن اس ٹکڑے کے ایک کنارے پر لگتا پھر اسے منہ میں ڈالتے اور دیر تک اسی کو چباتے اور مہمانوں کے ساتھ باتیں کرتے رہتے اور کبھی کبھی اپنے آگے سے کوئی کھانے کی چیز اٹھا کر کسی مہمان کو دیتے یا اچار یا مربہ یا کوئی اور خاص چیز دستر خوان پر ہوتی اس میں سے کچھ ایک روٹی پر رکھ کر کسی مہمان کو دیتے میری عادت تھی کہ میں یہ سبب محبت دستر خوان پر حضرت کے قریب بیٹھنے کی کوشش کرتا میں دیکھتا تھا کہ حضور کے کھانے کی مقدار بہت کم ہوتی اور چند نوالوں سے زیادہ نہ ہوتی.“ ذکر حبیب حضرت مفتی محمد صادق صفحہ 9 - 10) اللہ والوں کا یہی دستور ہے وہ کھانے کے لئے زندہ نہیں رہتے زندہ رہنے کے لئے کھاتے ہیں.اس طرح ان کا کھانا بھی عبادت میں شامل ہوتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود نے اپنے آقا و مطاع کی اس ادا کو بھی زندہ کرکے دکھادیا.”ایک دفعہ کا ذکر ہے گورداسپور میں مقدمہ کے ایام میں جو کرم دین سے تھا ایک دن ایسا ہوا کہ مہمان کثرت سے آگئے انگر خانہ بھی نہیں تھا تمام ملازمین مہمانوں کو کھانا کھلاتے حضرت صاحب کو کھانا کھلانا بھول گئے بارہ بجے کے قریب جب دن ڈھلنے کو آیا تو حامد علی نے آکر حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضور کھانا تو ختم ہو گیا اور مجھے اب یاد آیا کہ حضور نے کھانا تناول نہیں فرمایا اگر حضور حکم دیں تو کھانا دوبارہ تیار کیا جائے.فرمایا کوئی ضرورت نہیں ہے ڈبل روٹی اور دودھ لے آؤ میں وہی بھگو کر کھالوں گا فوراً حامد علی دودھ اور ڈبل روٹی کے لئے گیا ڈبل روٹی تو مل گئی مگر دودھ نہ ملا.حامد علی نے عرض کیا حضور ڈبل روٹی تو مل گئی مگر دودھ کہیں نہیں ملتا.فرمایا پانی میں بھگو کر کھائیں گے کوئی حرج نہیں ہے اور حضور نے اسی طرح کچھ ڈبل روٹی پانی میں بھگو کر کھائی اور دن بسر کر دیا.(سیرتِ احمد مرتبه قدرت اللہ سنوری صفحہ 69) اسی مقدمے کے دوران ایک دفعہ آپ کا کھانا لاہور سے آنے والے مہمانوں کو پیش کر دیا گیا آپ نے دریافت کیا گیا کہ دوسرا کھانا تیار کروایا جائے تو آپ نے فرمایا: 57

Page 58

” کوئی ضرورت نہیں اب شام میں تھوڑی دیر ہے.شام کو ہی کھائیں گے اب تھوڑا سا مصری کا شربت پی لوں گا.چنانچہ حضور نے شربت پیا اور اسی طرح دن بسر کیا.آپ کا طریق یہ تھا کہ روٹی کا ایک ٹکڑا لے کراسے ریزہ ریزہ کر کے کھاتے ہوئے ان ریزوں کو سالن سے لگا کر کھالیا کرتے.کھانا بہت آہستگی سے تناول فرماتے سالن بہت ہی کم کھاتے تھے.استغراق اس قدر رہتا کہ اگر کسی نے کھانا لا کر سامنے رکھ دیا تو کھا لیا اور اگر گھر والوں نے بھول کر کھانا نہ بھیجوایا تو کھانے کا یاد بھی نہ کروایا کرتے تھے اور فاقہ کرلیا کرتے تھے.کبھی کسی خاص کھانے کی فرمائش نہ کی جو سامنے آیا کھالیا.کبھی کھانے پر اظہار ناراضگی نہیں فرماتے تھے کہ نمک زیادہ ہے یا سالن مزے دار نہیں وغیرہ.فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں تو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کیا پکا تھا اور ہم نے کیا کھایا.“ کھانے کے بارے آپ کا اپنا ارشاد ہے: (سیرتِ احمد مرتبه قدرت اللہ سنوری صفحہ 69) اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کھانے کے متعلق میں اپنے نفس میں اتنا تحمل پاتا ہوں کہ ایک پیسہ پر دو وقت بڑے آرام سے بسر کر سکتا ہوں...ایک دفعہ میرے دل میں آیا کہ انسان کہاں تک بھوک کی برداشت کر سکتا ہے اس کے امتحان کے لئے چھ ماہ تک میں نے کچھ نہ کھایا کبھی کوئی ایک آدھ لقمہ کھالیا اور چھ ماہ کے بعد میں نے اندازہ کیا کہ چھ سال تک بھی یہ حالت لمبی کی جاسکتی ہے اس اثنا میں دو وقت کھانا گھر سے برابر آتا اور مجھے اپنی حالت کا اخفا منظور تھا اس اخفا کی تدابیر کے لئے جو زحمت مجھے اٹھانی پڑتی تھی شاہد وہ زحمت اوروں کو بھوک سے نہ ہوتی ہو گی.میں وہ دو وقت کی روٹی دو تین مسکینوں میں تقسیم کر دیتا اس حال میں نماز پانچ وقت مسجد میں پڑھتا اور کوئی میرے آشناؤں میں سے کسی نشان سے پہچان نہ سکا کہ میں کچھ نہیں کھایا کرتا.(سیرت حضرت مسیح موعود از حضرت مولوی عبدالکریم صفحہ 62) ایک اور روایت ہے کہ حضرت مرزا اسمعیل بیگ صاحب جنہوں نے بچپن سے آخری عہد زندگی تک حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت کی تھی کہتے ہیں.میں گھر سے سات روٹیاں لایا کرتا تھا.چار آپ کے لئے اور تین اپنے لئے.ان چار میں سے آپ کے حصہ میں ایک روٹی بھی نہیں آیا کرتی تھی.کھانے کے عین وقت پر عنایت بیگ آتا اور دروازہ کھٹکھٹاتا تھا.حضور کا طریق تھا کہ ہمیشہ دروازہ بند رکھا 58

Page 59

کرتے تھے اور میں کھول دیا کرتا تھا دروازہ کھلنے پر آپ ایک روٹی اور سالن کا کچھ حصہ اسے دے دیتے اور وہ وہیں بیٹھ کر کھا لیتا پھر وہ چلا جاتا اور میں دروازہ بند کر لیتا تھوڑی دیر کے بعد دوبارہ دستک ہوتی اور میں دروازے پر جاتا تو ایک اور شخص موجود ہوتا جس کا نام حسینا کشمیری تھا اس کو اندر آنے کی اجازت ملتی ایک روٹی اور سالن کا کچھ حصہ اسے دے دیتے اور وہ وہیں بیٹھ کر کھالیتا.اس کے بعد حافظ معین الدین چلے آتے اسے بھی ایک روٹی سالن کا کچھ حصہ عنایت فرماتے اور اس طرح ساری روٹیاں دوسروں کو کھلا کر خود تھوڑا سا بچا ہوا شور با پی لیتے.میں ہر چند اصرار کرتا مگر میری روٹی میں سے نہ کھاتے.میرے اصرار کرنے پر بھی گھر سے اپنے لئے اور روٹی نہ منگواتے.کبھی جب میں بہت ضد کرتا کہ اگر آپ میرے حصے میں سے نہیں کھائیں گے تو میں بھی نہیں کھاؤں گا تو تھوڑی سی کھالیتے ایسا ہی شام کو بھی ہوتا.البتہ شام کو ایک پیسے کے چنے منگوا کر کچھ آپ چبا لیتے، کچھ مجھے دیتے.(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی عرفانی صفحہ 982) کون چھوڑے خواب شیر میں کون چھوڑے اکل وشرب کون لے خار مغیلاں چھوڑ کر پھولوں کے بار عشق ہے جس سے ہوں طے یہ سارے جنگل پر خطر عشق ہے جو سر جھکا دے زیر تیغ آبدار روزنامه الفضل آن لائن لندن 28 جنوری 2022ء) 59

Page 60

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام قسط 11 رہائش کی سادگی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں : ”خدا تعالیٰ نے بے شمار خزائن کے دروازے آنحضرت صلی ایم پر کھول دئے.سو آنجناب علی ایم نے ان سب کو خدا کی راہ میں خرچ کیا اور کسی نوع کی تن پروری میں ایک حبہ بھی خرچ نہ ہوا.نہ کوئی عمارت بنائی نہ کوئی بار گاہ تیار ہوئی بلکہ ایک چھوٹے سے کچے کوٹھے میں جس کو غریب لو گوں کے کوٹھوں پر کچھ بھی ترجیح نہ تھی اپنی ساری عمر بسر کی.بدی کرنے والوں سے نیکی کر کے دکھلائی اور وہ جو دل آزار تھے ان کو ان کی مصیبت کے وقت اپنے مال سے خوشی پہنچائی.سونے کے لئے اکثر زمین پر بستر اور رہنے کے لئے ایک چھوٹا سا جھونپڑا اور کھانے کے لئے نان جو یا فاقہ اختیار کیا.دنیا کی دولتیں بکثرت ان کو دی گئیں پر آنحضرت علی ایم نے اپنے ہاتھ کو ذرا آلودہ نہ کیا اور ہمیشہ فقر کو تو نگری پر اور مسکینی کو امیری پر اختیار رکھا.“ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 982) حضرت عبد اللہ بیان فرماتے ہیں کہ چٹائی پر لیٹنے کی وجہ سے آنحضرت صلی ایم کے جسم پر نشانات تھے جنہیں دیکھ کر عرض کی ہماری جان آپ پر فدا ہو اگر آپ اجازت دیں تو ہم اس چٹائی پر کوئی گدیلہ وغیرہ بچھادیں جو آپ کو اس سے محفوظ کر دے گا.آپ نے فرمایا: ما انا والدنيا انما انا والدنیا کہ اکب استضل تحت شجرةً ثم راح وتركها ابن ماجہ کتاب الزهد باب مثل الدنيا ) کہ مجھے دنیاوی لذتوں سے کیا غرض ؟ میری اور دنیا کی مثال تو ایسی ہے جیسے ایک مسافر ہو جو ستانے کے لئے سایہ دار درخت کے نیچے کچھ دیر کے لئے بیٹھ جاتا ہے اور پھر اسے چھوڑ کر سفر کے لئے روانہ ہو جاتا ہے.آپ کا اپنا کھانا پینا لباس بستر وغیرہ سب سادہ تھے زمین پر بچھونا ڈال کر سو جاتے بستر یا گدا چمڑے کا تھا 60

Page 61

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام جس کے اندر کھجور کے پتے اور ان کے ریشے بھرے ہوتے.ہم اسی کے ہو گئے ہیں جو ہمارا ہوگیا (بخاری 48 باب الرقاق باب (71) چھوڑ کر دنیائے دوں کو ہم نے پایا وہ نگار حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی رہائش کی سادگی کے بارے میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب فرماتے ہیں: حضرت مکان اور لباس کی آرائش اور زینت سے بالکل غافل اور بے پرواہ ہیں.خدا کے فضل و کرم سے حضور کا یہ پایہ اور منزلت ہے کہ اگر چاہیں تو اپنے مکان کی اینٹیں سنگ مرمر کی ہو سکتی ہیں اور آپ کے پا انداز سندس و اطلس کے بن سکتے ہیں مگر بیٹھنے کا مکان ایسا معمولی ہے کہ زمانے کی عرفی نفاست اور صفائی کا جاں دادہ تو ایک منٹ کے لئے وہاں بیٹھنا پسند نہ کرے میں نے بارہا وہ لکڑی کا تخت دیکھا ہے جس پر آپ گرمیوں میں باہر بیٹھتے ہیں اس پر مٹی پڑی ہوئی ہے اور میلا ہے جب بھی آپ نے نہیں پوچھا اور جب کسی نے خدا کا خوف کر کے مٹی جھاڑ دی ہے جب بھی التفات نہیں کیا کہ آج کیسا صاف اور پاک ہے غرض اپنے کام میں اس قدر استغراق ہے کہ ان مادی باتوں کی مطلق پرواہ نہیں.جب مہمانوں کی ضرورت کے لئے مکان بنانے کی ضرورت پیش آئی ہے بار بار یہی تاکید فرمائی ہے کہ اینٹوں اور پتھروں پر پیسہ خرچ کرنا عبث ہے اتنا ہی کام کرو کہ چند روز بسر کرنے کی گنجائش ہو جائے نجار تیر بندیاں اور تختے رندے سے صاف کر رہا تھا کہ روک دیا کہ یہ محض تکلف اور ناحق کی دیر لگانا ہے.فرمایا: اللہ جانتا ہے کہ ہمیں کسی مکان سے کوئی انس نہیں.ہم اپنے مکانوں کو اپنے پیارے اور اپنے دوستوں میں مشترک جانتے ہیں اور بڑی آرزو ہے کہ ایسا مکان ہو کہ چاروں طرف ہمارے احباب کے گھر ہوں اور درمیان میں میرا گھر ہو اور ہر ایک گھر میں میری ایک کھڑ کی ہو کہ ہر ایک سے ہر ایک وقت واسطہ و رابطہ رہے.(سیرت حضرت مسیح موعود از حضرت مولوی عبد الکریم صفحہ 39 - 40 ) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: إِنَّمَا الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهُوَ دنیا اور دنیا کی خوشیوں کی حقیقت لہو ولعب سے زیادہ نہیں کیو نکہ وہ عارضی اور چند 61

Page 62

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام روزہ ہیں اور ان خوشیوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان خدا سے دور جا پڑتا ہے مگر خدا کی معرفت میں جو لذت ہے وہ ایسی چیز ہے کہ جو نہ آنکھوں نے دیکھی اور نہ کانوں نے سنی اور نہ کسی اور جس نے اسے محسوس کیا وہ ایک چیر کر نکل جانے والی چیز ہے ہر آن ایک نئی راحت اس سے پیدا ہوتی ہے جو پہلے نہیں دیکھی ہوتی.“ (ملفوظات جلد اول صفحہ 211 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ) حضرت اقدس نے ساری عمر کرایے کے یکے ٹانگے میں سفر کرتے گزار دی اپنے لئے کوئی اہتمام نہ کیا.کوئی جائداد بنائی نہ ورثہ چھوڑا.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ان روشن مثالوں کو دیکھ کر اپنی عملی اصلاح کریں تا کہ ہمارا خالق و مالک ہم سے راضی ہو جائے.آمین اللھم آمین.اے دوستو! پیارو عقبی کو مت بسارو کچھ زاد راہ لے لو کچھ کام میں گزارو دنیا ہے جائے فانی دل سے اسے اتارو یہ روز کر مبارک سبحان من برانی جی مت لگاؤ اس سے، دل کو چھڑاؤ اس سے رغبت ہٹاؤ اس سے، بس دور جاؤ اس سے یارو یہ اژدھا ہے، جاں کو بچاؤ اس سے یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی روزنامه الفضل آن لائن لندن 4 فروری 2022 ء 62

Page 63

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام قسط 12 قیصر ، آتھم اور کسری، لیکھرام“.سچا کراماتی وہی ہے جس کی کرامات کا دریا کبھی خشک نہ ہو سو وہ شخص ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.خدا تعالیٰ نے ہر ایک زمانہ میں اس کامل اور مقدس کے نشان دکھلانے کے لئے کسی نہ کسی کو بھیجا ہے اور اس زمانہ میں مسیح موعود کے نام سے مجھے بھیجا ہے.دیکھو! آسمان سے نشان ظاہر ہو رہے ہیں طرح طرح کے خوارق ظہور میں آرہے ہیں اور ہر ایک حق کا طالب ہمارے پاس رہ کر نشانوں کو دیکھ سکتا ہے گو وہ عیسائی ہو یا یہودی یا آریہ.یہ سب برکات ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیں.محمد است امام و چراغ ہر دو جہاں اور محمد است فروزنده زمین و زمان خدانه گویمش از ترس حق مگر بخدا خدا نماست وجودش برائے عالمیاں کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 157 حاشیہ) آتھم قیصر ہے یا قیصر آتھم ہے ”ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بڑے نشان تھے جو ایک اُن میں سے آتھم کے قصہ سے مشابہ اور دوسرا لیکھرام کے ماجرا سے مماثلت رکھتا تھا.اس مجمل بیان کی تفصیل یہ ہے کہ جیسا کہ صحیح بخاری کے صفحہ ۵ میں مذکور ہے.آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خط دعوتِ اسلام کا قیصر روم کی طرف لکھا تھا اور اُس کی عبادت جو صفحہ مذ کورہ بخاری میں مندرج ہے یہ تھی.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمُ من محمد عبد الله ورسوله الى هرقل عظيم الروم - سلام على من اتبع الهدى اما بعد فانّي ادعوك بدعاية الاسلام اسلم تسلم يؤتك الله اجرك مرتين فان توليت فانّ عليك اثم اليریسیین.ویا اھل الکتاب تعالوا الى كلمة سواء بيننا وبينكم ان لا نعبد الا الله ولا نشرك به شيئا ولا يتخذ بعضنا بعضًا اربابا من دون الله فان تولوا فقولوا اشهدوا بأنا مسلمون.یعنی یہ خط محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو خدا کا بندہ اور اُس کا رسول ہے روم کے سردار ہر قل کی طرف ہے.سلام اُس پر جو ہدایت کی راہوں کی پیروی کرے اور اس کے بعد تجھے معلوم ہو کہ میں دعوتِ اسلام کی طرف تجھے بلاتا ہوں یعنی وہ مذہب جس کا نام اسلام ہے جس کے 63

Page 64

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام یہ معنے ہیں کہ انسان خدا کے آگے اپنی گردن رکھ دے اور اُس کی عظمت اور جلال کے پھیلانے کے لئے اور اُس کے بندوں کی ہمدردی کے لئے کھڑا ہو جائے اس کی طرف میں تجھے بلاتا ہوں.اسلام میں داخل ہو جا کہ اگر تو نے یہ دین قبول کر لیا تو پھر سلامت رہے گا اور بے وقت کی موت اور تباہی تیرے پر نہیں آئے گی اور اگر ایسا نہ کیا تو پھر موت اور ہاویہ در پیش ہے اور اگر تونے اسلام کو قبول کرلیا تو خدا تجھے دو اجر دے گا.یعنی ایک یہ کہ تو نے مسیح علیہ السلام کو قبول کیا اور دوسرا یہ اجر ملے گا کہ تو نبی آخر الزمان پر ایمان لایا لیکن اگر تو نے منہ پھیرا اور اسلام کو قبول نہ کیا تو یاد رکھ کہ تیرے ارکان اور مصاحبین اور تیری رعیت کا گناہ بھی تیری ہی گردن پر ہو گا.اے اہل کتاب! ایک ایسے کلمہ کی طرف آؤ جو تم میں اور ہم میں برابر ہے یعنی تعلیمی انجیل اور قرآن کی اس پر گواہی دیتی ہیں اور دونوں فرقوں کے نزدیک وہ مسلّم ہے کسی کو اس میں اختلاف نہیں اور وہ یہ ہے کہ ہم محض اُسی خدا کی پرستش کریں جو واحد لاشریک ہے اور کسی چیز کو اُس کے ساتھ شریک نہ کریں نہ کسی انسان کو نہ کسی فرشتہ کو نہ چاند کو نہ سورج کو نہ ہوا کو نہ آگ کو نہ کسی اور چیز کو اور ہم میں سے بعض خدا کو چھوڑ کر اپنے جیسے دوسروں کو خدا اور پروردگار نہ بنائیں اور خدا نے ہمیں کہا ہے کہ اگر اس حکم کو سن کر یہ لوگ باز نہ آویں اور اپنے مصنوعی خداؤں سے دست بردار نہ ہوں تو پھر ان کو کہہ دو کہ تم گواہ رہو کہ ہم خدا کے اس حکم پر قائم ہیں کہ پرستش اور اطاعت کے لئے اُسی کے آستانہ پر گردن رکھنی چاہیئے اور وہ اسلام جس کو تم نے قبول نہ کیا ہم اُس کو قبول کرتے ہیں.یہ خط تھا جو ہمارے سیّد و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر روم کی طرف لکھا تھا اور اُس کو قطعی طور پر ہلاکت او رتباہی کا وعدہ نہیں دیا بلکہ اُس کی سلامتی اور ناسلامتی کے لئے شرطی وعدہ تھا اور صحیح بخاری کے اسی صفحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی قدر قیصر روم نے حق کی طرف رجوع کر لیا تھا اس لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک مدت تک اُس کو مہلت دی گئی.لیکن چونکہ وہ اُس رجوع پر قائم نہ رہ سکا اور اُس نے شہادت کو چھپایا اس لئے کچھ مہلت کے بعد جو اُس کے رُجوع کی وجہ سے تھی پکڑا گیا اور اُس کا رجوع اُس کے اس کلمہ سے معلوم ہوتا ہے جو صحیح بخاری کے صفحہ 4 میں اس طرح پر مذکور ہے.فان کان ما تقول حقا سيملك موضع قدمي هاتين وقد كنت اعلم انه خارج ولم اكن اظن انه منكم فلواني اعلم انى أخلص اليه لتجسّتُ لقاءه ولوكنتُ عنده الغسلتُ عن قدمیہ.اس عبارت کا ترجمہ کرنے سے پہلے یہ بات ہم یاد دلا دیتے ہیں کہ یہ واقعہ اُس وقت کا ہے جبکہ قیصر روم نے ابوسفیان کو جو تجارت کی تقریب سے مع اپنی ایک جماعت کے شام کے ملک میں وارد تھا اپنے پاس بلایا اور اُس وقت قیصر اپنے ملک کا سیر کرتا ہوا بیت المقدس میں یعنی یروشلم میں آیا ہوا تھا اور قیصر نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ابو سفیان سے جو اُس وقت کفر کی حالت میں تھا بہت 64

Page 65

سی باتیں پوچھیں اور ابوسفیان نے اس وجہ سے جو اُس دربار میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سفیر بھی موجود تھا جو تبلیغ اسلام کا خط لے کر قیصر روم کی طرف آیا تھا بجز راست گوئی کے چارہ نہ دیکھا کیونکہ قیصر نے اُن اُمور کے استفسار کے وقت کہہ دیا تھا کہ اگر یہ شخص واقعات کے بیان کرنے میں کچھ جھوٹ بولے تو اس کی تکذیب کرنی چاہیئے سو ابو سفیان نے پردہ دری کے خوف سے سچ سچ ہی کہہ دیا اور جس قدر قیصر نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کچھ حالات دریافت کئے تھے وہ سچائی کی پابندی سے بیان کر دیئے گو اُس کا دِل نہیں چاہتا تھا کہ صحیح طور پر بیان کرے مگر سر پر جو مکذبین موجود تھے وہ خوف دامنگیر ہو گیا اور جھوٹ بولنے میں اپنی رسوائی کا اندیشہ ہوا جب وہ سب کچھ قیصر روم کے روبرو بیان کرچکا تو اُس وقت قیصر نے وہ کلام کہا جو مندرجہ بالا عربی عبارت میں مذکور ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اگر یہ باتیں سچ ہیں جو تو کہتا ہے تو وہ نبی جو تم میں پیدا ہوا ہے عنقریب وہ اس جگہ کا مالک ہو جائے گا جس جگہ یہ میرے دونوں قدم ہیں اور قیصر نجوم کے علم میں بہت دسترس رکھتا تھا.اس علم کے ذریعے سے بھی اُس کو معلوم ہوا کہ یہ وہی مظفر اور منصور نبی ہے جس کا توریت اور انجیل میں وعدہ دیا گیا ہے اور پھر اُس نے کہا کہ مجھے تو معلوم تھا کہ وہ نبی عنقریب نکلنے والا ہے مگر مجھے یہ خبر نہیں تھی کہ وہ تم میں سے نکلے گا اور اگر میں جانتا کہ میں اُس تک پہنچ سکتا ہوں تو میں کوشش کرتا کہ اُس کو دیکھوں اور اگر میں اُس کے پاس ہوتا تو اپنے لئے یہ خدمت اختیار کرتا کہ اُس کے پیر دھویا کروں.فقط یہ وہ جواب ہے جو قیصر نے خط کے پڑھنے کے بعد دیا یعنی اُس خط کے پڑھنے کے بعد جس میں قیصر کو اُس کی تباہی اور ہلاکت کی شرطی دھمکی دی گئی تھی اور گو قیصر نے اسلم تسلم کی شرط کو جو خط میں تھی پورے طور پر ادا نہ کیا اور عیسائی جماعت سے علیحدہ نہ ہوا لیکن تاہم اُس کی تقریر مذ کورہ بالا سے پایا جاتا ہے کہ اُس نے کسی قدر اسلام کی طرف رجوع کیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ اُس کو مہلت دی گئی اور اُس کی سلطنت پر بکلی تباہی نہیں آئی اور نہ وہ جلد تر ہلاک ہوا.اب جب ہم ڈپٹی آتھم کے حال کو قیصر روم کے حال کے ساتھ مقابل رکھ کر دیکھتے ہیں تو وہ دونوں حال ایک دوسرے سے ایسے مشابہ پائے جاتے ہیں کہ گویا آتھم قیصر ہے یا قیصر آتھم ہے.کیونکہ ان دونوں نے شر طی پیشگوئی پر کسی حد تک عمل کرلیا اس لئے خدا کے رحم نے رفق اور آہستگی کے ساتھ ان سے معاملہ کیا اور اُن دونوں کی عمر کو کسی قدر مہلت دے دی.مگر چونکہ وہ دونوں خدا کے نزدیک اخفائے شہادت کے مجرم ٹھہر گئے تھے اور آتھم کی طرح قیصر نے بھی گواہی کو پوشیدہ کیا تھا.کیونکہ اُس نے بالآخر اپنے ارکان دولت کو اپنی نسبت بدخن پا کر ان لفظوں سے تسلی دی تھی کہ وہ میری پہلی باتیں جن میں میں نے اسلام کی رغبت ظاہر کی تھی اور تمہیں ترغیب دی تھی وہ باتیں میرے دل سے نہیں تھیں بلکہ میں تمہارا امتحان کرتا تھا کہ تم 65

Page 66

کس قدر عیسائی مذہب میں مستحکم : تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحات 372 تا 376) لیکھرام اور کسری لیکھرام کا حال کسری سے یعنی خسرو پرویز سے مشابہ ہے کیو نکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و وسلم کے خط پہنچنے پر اُس نے بہت غصہ ظاہر کیا اور حکم دیا کہ اُس شخص کو گرفتار کرکے میرے پاس لانا چاہیئے.تب اُس نے صوبہ یمن کے گورنر کے نام ایک تاکیدی پروانہ لکھا کہ وہ شخص جو مدینہ میں پیغمبری کا دعویٰ کرتا ہے جس کا نام محمد ہے (صلی اللہ علیہ وسلم) اُس کو بلا توقف گرفتار کرکے میرے پاس بھیج دو.اُس گورنر نے اس خدمت کے لئے اپنے فوجی افسروں میں سے دو مضبوط آدمی متعین کئے کہ تا وہ کسری کے اس حکم کو بجا لاویں.جب وہ مدینہ میں پہنچے اور اُنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ظاہر کیا کہ ہمیں یہ حکم ہے کہ آپ کو گرفتار کر کے اپنے خداوند کسری کے پاس حاضر کریں تو آپ نے اُن کی اِس بات کی کچھ پرواہ نہ کر کے فرمایا کہ میں اس کا کل جواب دوں گا.دوسری صبح جب وہ حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ آج رات میرے خداوند نے تمہارے خداوند کو (جس کو وہ بار بار خداوند خداوند کرکے پکارتے تھے) اُسی کے بیٹے شیرویہ کو اُس پر مسلط کر کے قتل کر دیا ہے.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور جب یہ لوگ یمن کے اُس شہر میں پہنچے جہاں سلطنت فارس کا گورنر رہتا تھا تو ابھی تک اُس گورنر کو کسری کے قتل کئے جانے کی کچھ بھی خبر نہیں پہنچی تھی اس لئے اُس نے بہت تعجب کیا مگر یہ کہا کہ اس عدول حکمی کے تدارک کے لئے ہمیں جلد تر کچھ نہیں کرنا چاہیئے جب تک چند روز تک سلطنت کی ڈاک کی انتظار نہ کرلیں.سو جب چند روز کے بعد ڈاک پہنچی تو اُن کا غذات میں سے ایک پروانہ یمن کے گورنر کے نام نکلا جس کو شیرویہ کسری کے ولی عہد نے لکھا تھا.مضمون یہ تھا کہ خسرو میرا باپ ظالم تھا اور اُس کے ظلم کی وجہ سے اُمورِ سلطنت میں فساد پڑتا جاتا تھا اس لئے میں نے اُس کو قتل کر دیا ہے.اب تم مجھے اپنا شہنشاہ سمجھو اور میری اطاعت میں رہو اور ایک نبی جو عرب میں پیدا ہوا ہے جس کی گرفتاری کے لئے میرے باپ نے تمہیں لکھا تھا اُس حکم کو بالفعل ملتوی رکھو اور جیسا کہ ابھی ہم بیان کرچکے ہیں کہ قیصر اور آتھم کا قصہ بالکل باہم مشابہ ہے ایسا ہی ہم اس جگہ بھی اس بات کے لکھنے کے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اسی طرح لیکھرام کا قصہ کسری یعنی خسرو پرویز کے قصے سے نہایت شدید مشابہت رکھتا ہے کیونکہ جس طرح کسی ہندو نے جو اپنے تئیں نو مسلم قرار دیتا تھا لیکھرام کے پیٹ پر حربہ چلایا اسی طرح شیرویہ نے خسرو کے پیٹ پر حربہ چلایا اور اُن دونوں واقعات لیکھرام اور کسری سے پایه 66

Page 67

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام اُس وقت خبر دی گئی تھی جبکہ کسی کو یہ خیال بھی نہ تھا کہ ایسا واقعہ عنقریب ہم سنیں گے اور جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں جو کچھ آتھم اور قیصر روم کو عذاب الہی پیش آیا وہ جمالی رنگ میں تھا اور آٹھم اور قیصر روم کی نسبت جو پیشگوئی کی گئی تھی وہ شرطی تھی اور اُس شرط کے موافق جبکہ وہ دونوں اُس شرط کے کسی قدر پابند ہوگئے اُن کو ایک تھوڑے عرصہ تک مہلت دی گئی تھی لیکن جو غیب گوئی لیکھرام اور کسری یعنی خسرو پرویز کی نسبت کی گئی تھی وہ بلا شرط تھی اور یہ دونوں وقوعہ کسری اور لیکھرام کے جلالی رنگ میں ظہور میں آئے تھے اور جیسا کہ تمام مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ کسری کا مارا جانا ایک بڑا معجزہ تھا کہ وہ سخت دشمن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا ایسا ہی اگر مسلمان چاہیں تو گواہی دے سکتے ہیں کہ لیکھرام کا مارا جانا بھی ایک بڑا معجزہ تھا کیونکہ وہ بھی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سخت دشمن اور بد زبان تھا.ہاں کسر لی اور لیکھرام میں یہ فرق تھا کہ کسری ایک بادشاہ تھا جو اپنی عداوت کے جوش میں تلوار سے کام لے سکتا تھا اور لیکھرام ایک برہمن عوام ہندوؤں میں سے تھا جس کے پاس بجز بدزبانی اور فحش گوئی اور نہایت قابل شرم گالیوں کے اور کچھ نہ تھا اور کسر گی ہمارے سید و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کی جان پر حملہ کرنا چاہتا تھا اور لیکھرام نے آنجناب کی مقدس شان اور راستبازی اور نبوت کے پاک چشمہ پر حملہ کرنا چاہا اس لئے خدا نے جو اپنے پیاروں کے لئے غیرت مند ہے.کسری کے واقعہ سے تیرہ سو برس بعد پھر اپنے پاک نبی کی عزت اور راستبازی کی حمایت کے لئے لیکھرام کی موت سے وہ معجزہ دوبارہ دکھلایا جو فارس کے پایہ تخت میں خاص ایوانِ شاہی میں شیرویہ کے ہاتھ سے دِکھلایا گیا تھا.اس سے ہر ایک انسان کو سبق ملتا ہے کہ خدا کے پیاروں اور برگزیدوں کی عزت یا جان پر حملہ کرنا اچھا نہیں ہے.گندم از گندم بروید جوز جو از مکافات عمل غافل مشو تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحات 376 تا 378) روزنامه الفضل آن لائن لندن 11 فروری 2022 ء 67

Page 68

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام قسط 13 کھانے میں برکت فروری مارچ 5 شوال 627 ہجری کفار مکہ نے ارد گرد کے قبائل کو ملا کر کثیر لشکر اور سازو سامان کے ساتھ مدینہ کی طرف پیش قدمی شروع کی تو آنحضور صلی ہم نے اپنے دفاع کے لئے حضرت سلمان فارسی کے مشورے پر مدینے کے گرد خندق کھودنے کا کام شروع کروایا یہ شدید محنت طلب کام تھا.سخت سردی میں دن رات کام کرنے سے صحابہ کرام نڈھال ہو گئے اس کام میں مصروفیت سے معمول کی رزق کمانے کی کوششیں بھی معطل تھیں بھوک پیاس برداشت کر کے کام کرنا بہت مشکل تھا ایسے میں اللہ تعالی نے اپنے پیاروں کی جسمانی اور روحانی ضیافت کا انتظام فرمایا.ایک ایمان افروز واقعہ پڑھئے.ایک مخلص صحابی جابر بن عبد اللہ نے آپ کے چہرہ پر بھوک کی وجہ سے کمزوری اور نقاہت کے آثار دیکھ کر آپ سے اپنے گھر جانے کی اجازت لی اور گھر آکر اپنی بیوی سے کہا آنحضرت صلی علی عوام کو بھوک کی شدت سے سخت تکلیف معلوم ہوتی ہے.کیا تمہارے پاس کھانے کو کچھ ہے ؟ ہاں کچھ جو کا آٹا اور ایک بکری ہے جابر کہتے ہیں میں نے بکری کو ذبح کیا اور آٹے کو گوندھا اور پھر اپنی بیوی سے کہا تم کھانا تیار کرو میں جا کر رسول اللہ صلی علی ملک کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ تشریف لے آئیں بیوی نے کہا مجھے ذلیل نہ کرنا کھانا تھوڑا ہے رسول اللہ کے ساتھ زیادہ لوگ نہ آئیں جابر کہتے ہیں کہ میں گیا اور میں نے آہستگی سے آنحضور صلی الم سے عرض کیا یا رسول اللہ میرے پاس کچھ گوشت اور جو کا آٹا ہے جن کے پکانے کے لئے میں اپنی بیوی کو کہہ آیا ہوں آپ اپنے چند اصحاب کے ساتھ تشریف لے آئیں اور کھانا تناول فرمائیں.آپ نے فرمایا کھانا کتنا ہے میں نے عرض کیا کہ اس اس قدر ہے.آپ نے فرمایا بہت ہے پھر آپ نے ادھر ادھر نگاہ ڈال کر بلند آواز سے فرمایا: اے مہاجرین و انصار کی جماعت! چلو جابر نے آپ کی دعوت کی ہے چل کر کھانا کھالو.اس آواز پر کوئی ایک ہزار فاقہ مست صحابی آپ کے ساتھ ہو لئے.آپ نے جابر سے فرمایا تم جلدی جلدی جاؤ اور اپنی بیوی سے کہہ دو کہ جب تک میں نہ آؤں ہنڈیا چولھے سے نہ اتارے اور نہ ہی روٹیاں پکانی شروع کرے.جابر نے جا کر اپنی بیوی کو اطلاع دی اور وہ بیچاری سخت گھبرا گئی کہ کھانا تو چند آدمیوں کا اندازا ہے اور آرہے ہیں اتنے لوگ! اب کیا ہو گا مگر آنحضرت صلی الی نام نے وہاں پہنچتے ہی بڑے اطمینان کے ساتھ ہنڈیا اور آٹے کے برتن پر دعا فرمائی اور پھر فرمایا اب روٹیاں پکانا شروع کر دو اس کے بعد آپ نے آہستہ آہستہ کھانا تقسیم فرمانا شروع فرما دیا.جابر" روایت کرتے ہیں کہ مجھے اس ذات رض 68

Page 69

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں ہماری جان ہے کہ اسی کھانے میں سب لوگ سیر ہو کر اٹھ گئے اور ابھی ہماری ہنڈیا اسی طرح اہل رہی تھی اور روٹیاں اسی طرح پک رہی تھیں.“ بخاری کتاب المغازی حالات غزوہء احزاب ) استفاده از سیرة خاتم النبیین جلد دوم از بادی علی چودھری صفحه 576) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ذات بابرکات سے ایسی ہی برکات و فیوض کا سلسلہ جاری ہوا.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چند مہمانوں کی دعوت کی اور ان کے واسطے گھر میں کھانا تیار کروایا مگر عین جس وقت کھانے کا وقت آیا اتنے ہی مہمان اور آگئے اور مسجد مبارک مہمانوں سے بھر گئی حضرت صاحب نے اندر کہلا بھیجا کہ اور مہمان آگئے ہیں کھانا زیادہ بھجواؤ.اس پر بیوی صاحبہ نے حضرت صاحب کو اندر بلوا بھیجا اور کہا کہ کھانا تو تھوڑا ہے صرف ان چند مہمانوں کے لئے پکایا گیا تھا جن کے واسطے آپ نے کہا تھا مگر شاید باقی کھانے کا تو کھینچ تان کر انتظام ہو سکے گا مگر زردہ تو بہت ہی تھوڑا ہے اس کا کیا کیا جاوے.میرا خیال ہے کہ زردہ بھجواتی ہی نہیں صرف باقی کھانا نکال دیتی ہوں.حضرت صاحب نے فرمایا نہیں یہ مناسب نہیں تم زردے کا برتن میرے پاس لاؤ چنانچہ حضرت صاحب نے اس برتن پر رومال ڈھانک دیا پھر رومال کے نیچے اپنا ہاتھ گزار کر اپنی انگلیاں زردے میں داخل کردیں اور پھر کہا اب تم سب کے واسطے کھانا نکال دو خدا برکت دے گا چنانچہ میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ زردہ سب کے واسطے آیا سب نے کھایا پھر بھی کچھ بچ گیا..(سيرة المهدى صفحه 133 - 134) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی والدہ صاحبہ حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہ سے معجزاتی برکت کے بارے میں استفسار فرمایا تو آپ نے بیان فرمایا: ایسے واقعات بارہا ہوئے ہیں کہ تھوڑا کھانا تیار ہوا پھر مہمان زیادہ آگئے مثلاً پچاس کا کھانا تیار ہوا تو سو آگئے لیکن وہی کھانا حضرت صاحب کے دم سے کافی ہو جاتا رہا.پھر حضرت والدہ صاحبہ نے ایک واقعہ بیان کیا کہ ایک دفعہ کوئی شخص حضرت صاحب کے واسطے ایک مرغ لایا.میں نے حضرت صاحب کے واسطے اس کا پلاؤ تیار کرایا اور وہ پلاؤ بس اتنا ہی تھا کہ بس حضرت صاحب کے واسطے تیار کروایا تھا مگر اسی دن اتفاق ایسا ہوا کہ نواب صاحب نے اپنے گھر میں دھونی دلوائی تو نواب صاحب کے بیوی بچے ادھر ہمارے گھر آگئے اور حضرت صاحب نے مجھے فرمایا کہ ان کو بھی کھانا کھلاؤ.میں نے کہا کہ چاول تو بالکل ہی تھوڑے ہیں صرف آپ کے واسطے تیار کروائے 69

Page 70

تھے.حضرت صاحب نے فرمایا چلول کہاں ہیں پھر حضرت صاحب نے چاولوں کے پاس آکر ان پر دم کیا اور کہا اب تقسیم کر دو.والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ان چاولوں میں ایسی برکت ہوئی کہ نواب صاحب کے سارے گھر نے کھائے او پھر بڑے مولوی صاحب یعنی حضرت مولوی نورالدین صاحب) اور مولوی عبدالکریم صاحب کو بھی بھجوائے گئے اور پھر قادیان میں کئی لوگوں کو دئے گئے اور پھر چونکہ وہ برکت والے چاول مشہور ہو گئے تھے اس لئے کئی لوگوں نے آآکر ہم سے مانگے اور ہم نے سب کو تھوڑے تھوڑے تقسیم کئے اور وہ سب کے لئے کافی ہوئے.(سيرة المهدى صفحہ 134 - 135 روزنامه الفضل آن لائن لندن 25 فروری 2022 ء 70

Page 71

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام قسط 14 اللہ تبارک و تعالٰی اپنے پیاروں کی خود حفاظت فرماتا ہے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی سے اللہ پاک نے وعدہ فرمایا: وَالله يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائده: 68) (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 250 حاشیہ نمبر 11) خدا تجھے ان لو گوں کے شر سے بچائے گا کہ جو تیرے قتل کرنے کی گھات میں ہیں.مراد یہ ہے کہ بڑی آفتوں سے جو دشمنوں کا اصل مقصود تھا بچایا جاوے دیکھو! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی عصمت کا وعدہ کیا گیا تھا حالا نکہ احد کی لڑائی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت زخم پہنچے تھے.( نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 529) سورۃ المائدہ مدینہ میں صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی.اس میں یہود و نصاری کی بے دینی "مسلسل بد عہدیوں اور گستاخانہ رویہ کا ذکر کر کے اللہ تبارک تعالیٰ نے اپنے پیارے حضرت محمد مصطفی کو ارشاد فرمایا کہ آپ اعلائے کلمہ حق کا فرض ادا کرتے رہیں میں خود آپ کی حفاظت کروں گا.جب یہ آیت نازل ہوئی آپ کے خیمے کے گرد پہرہ تھا آپ نے پہرے پر مستعد سر فروشوں سے فرمایا: آپ جاسکتے ہیں اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے.نیز آپ نے فرمایا: اے لوگو! تم اگر میری سچائی کی دلیل تلاش کرتے ہو تو سن رکھو خدا نے مجھ سے وعدہ کر رکھا ہے کہ اے محمد اً جب بھی لوگ تمہیں شر پہنچانا چاہیں گے تو میں تیری حفاظت کروں گا.روایت حضرت عائشه ترمذی ابواب التفسیر سوره مائده) 71

Page 72

اللہ تعالیٰ نے آپ کی جسمانی اور روحانی ہر قسم کی حفاظت کا ذمہ لے لیا.کل عالم کو فریضہ تبلیغ کا کام جان پر کھیلے بغیر ممکن نہ تھا.قلب محمد" کی تقویت اور جمعیت خاطر کے لئے موٹی کریم کی حفاظت کا وعدہ ایک طرف یہ بتا رہا تھا کہ یہ راہ پر خطر ہے اور دوسری طرف روحانی طاقت میں اضافہ کا حوصلہ تھا اور بڑھتے ہوئے قرب الہی کا سکون تھا.فی الوقت اس مضمون میں آپ کی معجزانہ جسمانی حفاظت کا ذکر ہو گا.جو آپ کی صداقت کی ایک دلیل بھی ہے.حفاظت الہی کی تجلیات آپ کی پیدائش سے پہلے شروع ہو گئی تھیں ابرہہ سے خانہ خدا کو بچانا دراصل آنے والی بابرکت ذات کو بچانا تھا.پھر قریبی عزیزوں کی پے در پے وفات سے آپ دربدر نہیں ہوئے زیادہ لاڈ پیار ناز و نعم اور عمدہ پرورش کے سامان ہوتے رہے.اسلام کا ابتدائی زمانہ تھا خانہ خدا میں سجدہ ریز رسول اللہ کا سر کچلنے کے ارادے سے بڑا سا پتھر لے کر آنے والے ابو جہل کو بڑے بڑے دانتوں والے ہیبت ناک مست اونٹ کے نظارے نے شل کر دیا.آپ کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ نے جبریل کو بھیجا تھا.سجدے میں پیشانی رکھنے والے کو گردو پیش میں کسی کارروائی کا علم بھی نہیں ہوا جبکہ اس کی حفاظت کے ضامن نے ابو جہل کو ناکام و نامراد لوٹا دیا.الا اے دشمن نادان و بے راہ بترس از تیغ بران محمد مشرکین مکہ خانہ کعبہ میں بیٹھ کر اسلام کے خلاف زہر اگلنے کے بعد یہ فیصلہ کر کے اٹھتے ہیں کہ برداشت کی حد ختم ہو گئی اب ایک ہی صورت ہے کہ اس فتنے کے سرغنہ محمد کو جان سے مار دیا جائے ایک بہادر سپوت ننگی تلوار لے کر نکلتا ہے ابھی منزل تک نہیں پہنچتا کہ اللہ تعالیٰ اس کا دل پھیرنے کے سامان کر دیتا ہے اور وہ کلمہ شہادہ پڑھ کے مسلمان ہو جاتا ہے.قتل کے ارادے سے آنے والا خود مقتول ہوجاتا ہے اس پر وار کس نے کیا؟ اسی کریم ذات نے جس نے محمد سے حفاظت کا وعدہ کیا تھا.حضرت مصلح موعودؓ تحریر فرماتے ہیں: ”ایک دفعہ آپ عبادت کر رہے تھے.آپ کے گلے میں پڑکا ڈال کر لو گوں نے کھینچنا شروع کیا یہاں تک کہ آپ کی آنکھیں باہر نکل آئیں اتنے میں ابو بکر وہاں آگئے اور انہوں نے یہ کہتے ہوئے چھڑایا کہ اے لو گو! کیا تم ایک آدمی کو اس جرم میں قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے خدا میرا آتا ہے.ایک دفعہ آپ نماز پڑھ رہے تھے کہ آپ کی پیٹھ پر اونٹ کی اوجھری لا کر رکھ دی گئی اور اس کے بوجھ سے اس وقت تک آپ سر نہ اٹھا سکے جب تک بعض لو گوں نے پہنچ کر اس او جھری کو آپ کی پیٹھ سے ہٹایا نہیں.72

Page 73

آپ کے گھر میں ارد گرد کے گھروں سے متواتر پتھر پھینکے جاتے.باورچی خانے میں گندی چیزیں پھینکی جاتیں جن میں بکروں اور اونٹوں کی انتڑیاں بھی شامل ہوتیں.جب آپ نماز پڑھتے تو آپ کے اوپر گردوغبار ڈالی جاتی تھی حتی کہ آپ کو چٹان میں سے نکلے ہوئے ایک پتھر کے نیچے چھپ کر نماز پڑھنی پڑتی تھی.“ (دیباچہ تفسیر القر آن، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 198) طائف کی سنگلاخ زمین پر پتھروں کی چوٹیں سہتے اور زخم کھاتے ہوئے اس حالت میں کہ نعلین مبارک خون جم جانے سے پاؤں میں چپکی ہوئی تھیں تین کوس تک جس طرف رخ تھا بھاگتے گئے.اس بظا ہر بے یارومدد گار بندہ خدا کو ان ظالموں سے قادر و توانا خدا نے بچایا..ہجرت کے وقت غار ثور کے دہانے پر کھوجی کہہ رہا تھا یہاں تک تو پیروں کے نشان ملتے ہیں اس کے بعد انہیں زمین کھا گئی یا آسمان پر چڑھ گئے.آپ وہیں تھے ان کی آوازیں سن رہے تھے مگر اپنے اللہ کی حفاظت میں تھے ذرا سی مکڑی کمزور سا جالا ننھی کبوتری کا گھونسلا اور انڈے یہ ان خونخوار دشمنوں سے نہیں بچا رہے تھے وہ قادر و توانا خدا تھا جو حصار بنائے کھڑا تھا.سراقہ بن مالک سو اونٹوں کے لالچ میں پیچھا کرتا ہوا اپنے مطلوب تک پہنچ گیا تھا کسی طاقت ور کے ہاتھ نے اس کے گھوڑے کو بار بار گرایا یہاں تک کہ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ ان کے ساتھ تو کوئی اور ہی طاقت کام کر رہی ہے.چشم تصور میں ان کے اقتدار کے نقشہ سے دل پر لرزہ طاری ہوا وہ اتنا مرعوب ہوا کہ خو د پناہ مانگنے پر مجبور ہو گیا.بادشاہ ایران خود کو مطلق العنان سمجھتا تھا آنحضور کا دعوت الی اللہ کا خط پہنچا تو خط پھاڑ دیا، اینچی کو قتل کرادیا اور اپنے سپاہی روانہ کئے کہ اس مدعی نبوت کو گرفتار کر کے لے آئیں.اس واقعہ کے بارے میں حضرت اقدس علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: ”وہ شام کے قریب پہنچے اور کہا ہمیں گرفتاری کا حکم ہے.آپ نے اس بے ہودہ بات سے اعراض کرکے فرمایا ”تم اسلام قبول کرو.“ اس وقت آپ صرف دو چار اصحاب کے ساتھ مسجد میں بیٹھے تھے مگر رہبانی رعب سے وہ دونوں بید کی طرح کانپ رہے تھے آخر انہوں نے کہا کہ ہمارے خداوند کے حکم یعنی گرفتاری کی نسبت جناب عالی کا کیا جواب ہے کہ ہم جواب ہی لے جائیں حضرت نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا کل تمہیں جواب ملے گا.صبح کو جو وہ حاضر ہوئے تو آنجناب نے فرمایا کہ وہ جو تم خداوند خداوند کہتے ہو وہ خداوند 73

Page 74

نہیں ہے خداوند وہ ہے جس پر موت اور فنا طاری نہیں ہوتی.مگر تمہارا خداوند آج رات کو مارا گیا میرے سچے خداوند نے اسی کے بیٹے شیرویہ کو اس پر مسلط کر دیا سو وہ آج رات اس کے ہاتھ سے قتل ہو گیا اور یہی جواب ہے، یہ بڑا معجزہ تھا“ (نور القر آن، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 385) ”یہ معجزہ اس لئے بھی بڑا تھا کہ ایک باپ اپنے بیٹے کے ہاتھوں قتل ہوا تھا.شیر ویہ کے اینچی کو بھیجے ہوئے مکتوب کے الفاظ بھی غیر معمولی ہیں.یاد رکھو کہ میرے باپ نے جو حکم عرب کے ایک مدعی نبوت کو گرفتار کرنے کے لئے بھیجا تھا وہ بھی ظالمانہ حکم تھا اسے بھی ہم منسوخ کرتے ہیں اور جب تک کوئی نیا حکم نہ آئے اس کے متعلق کوئی کارروائی نہ کرو“ (طبری جلد 3 صفحہ 1584) ہجری کا واقعہ ہے جنگ احزاب کی ہزیمت کے بعد ابوسفیان نے سوچا کہ ہر تدبیر ناکام ہو گئی ہے.اب کسی دشمن اسلام کو آمادہ کیا جائے کہ وہ چپکے سے مدینہ جائے اور آپ کو قتل کر آئے اس نے دیکھا تھا کہ آپ بغیر کسی پہرے کے گلی کوچوں میں بے تکلف چلتے پھرتے ہیں پانچوں وقت کی نمازیں پڑھاتے ہیں.قتل کرنے والے کا کام کوئی مشکل نہیں ہو گا.اسے اس منصوبے پر عمل کرنے کے لئے ایک بدوی مل گیا جس نے وعدہ کیا کہ وہ خنجر چھپا کے رکھے گا اور موقع ملتے ہی کام تمام کر دے گا.پھر بھاگ کر کسی قافلے کے ساتھ مل کر بیچ کر نکل جائے گا.ابو سفیان نے اسے تیز رفتار اونٹنی اور زاد راہ دے کر رخصت کیا یہ معاملہ انتہائی راز میں رکھا گیا.وہ چھ دن سفر کر کے مدینہ پہنچا اور سیدھا قبیلہ بنی عبد الاشہل کی مسجد گیا جہاں آنحضور تشریف فرما تھے.آپ نے اسے آتے دیکھ کر فرمایا یہ شخص کسی بری نیت سے آیا ہے وہ یہ سن کر اور بھی تیزی سے آگے بڑھا ایک انصاری حضرت اسید بن حضیر نے اسے دبوچ لیا جس سے اس کا خنجر نیچے گر گیا.آنحضور نے اسے پوچھا کہ سچ سچ بتاؤ تم کون ہو اور کس ارادے سے آئے ہو؟ اس نے جاں بخشی اور معافی کے وعدے سے ابو سفیان کا سارا منصوبہ بتا دیا اور چند دن وہاں قیام کے بعد اسلام قبول کرلیا.(سيرة خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد خلاصه صفحات 741 تا 743) سن سات ہجری میں فتح خیبر کے بعد ابھی آپ خیبر میں مقیم تھے کہ یہودیوں نے آپ کو قتل کرنے کی سازش تیار کی ایک خاتون زینب بنت الحارث نے آنحضور کے لئے بھنی ہوئی ران میں زہر ملا کر آپ کو 74

Page 75

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام پیش کی آپ اپنے اصحاب کے ساتھ کھانے کے لئے بیٹھے ابھی آپ نے ایک لقمہ ہی لیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اسے کھانے سے منع کر دیا.جس صحابی بشر نے ایک لقمہ کھایا تھا وہ وفات پا گئے.آنحضور نے اس عورت کو بلا کر پوچھا کہ ایسا کیوں کیا، تو اس نے کہا کہ ہم آپ کو قتل کر نا چاہتے تھے آپ نے فرمایا "اللہ تمہیں ایسا نہیں کرنے دے گا.“ اس نے کہا ” کیا آپ کو قتل نہیں کیا جاسکتا؟“ آپ نے فرمایا نہیں.اس نبی رحمت نے اسے بھی معاف کردیا.کوئی انتقام نہ لیا.مسلم باب السلام کتاب السم) ( ابوداؤد ) جنگ حنین کے بعد ایک شخص شیبہ نے آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا.وہ کہتے ہیں: میں بھی اس لڑائی میں شامل ہوا مگر میری نیت یہ تھی کہ جس وقت لشکر آپس میں ملیں گے تو میں موقع پا کر رسول اللہ کو قتل کردوں گا اور میں نے دل میں یہ کہا کہ عرب اور غیر عرب تو الگ رہے اگر ساری دنیا بھی محمد کے مذہب میں داخل ہو گئی تو میں تو نہیں ہونے کا جب لڑائی تیزی پر ہوئی اور ادھر کے آدمی ادھر کے آدمیوں سے مل گئے تو میں نے تلوار کھینچی اور رسول اللہ کے قریب ہونا شروع ہوا.اس وقت مجھے یہ محسوس ہوا کہ میرے اور آپ کے درمیان آگ کا ایک شعلہ اٹھ رہا ہے جو قریب ہے کہ مجھے بھسم کر دے.اس وقت مجھے رسول اللہ کی آواز آئی ”شیبہ ! میرے قریب ہو جاؤ.“ میں جب آپ کے قریب گیا تو آپ نے میرے سینے پر ہاتھ پھیرا اور کہا.اے خدا! شیبہ کو شیطانی خیالوں سے نجات دے.شیبہ کہتے ہیں رسول اللہ کے ہاتھ پھیرنے کے ساتھ ہی میرے دل سے ساری دشمنیاں اور عداوتیں اڑ گئیں اور اس وقت سے رسول اللہ مجھے اپنی آنکھوں سے اور اپنے کانوں سے اور اپنے دل سے زیادہ عزیز ہو گئے.“ (دیباچہ تفسیر القر آن صفحه 223) 75

Page 76

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام حضرت اقدس غلام احمد مسیح موعود علیہ السلام سے الہی حفاظت کے وعدہ میں مماثلت اللہ تعالیٰ نے دور آخرین میں آنحضور کے نائب سے بھی معجزانہ حفاظت کا وعدہ فرمایا آپ کو احیائے دین اسلام کا فریضہ سونپا.انتہائی صبر آزما کام شش جہات خطرات“ ہر مذہب و ملت کے ماننے والے جانی وسیلہ آپ کی جان اور پیغام کو مٹا دینے کے درپے تھا ایسے میں حوصلہ دیتی ہوئی قادر و توانا اللہ دشمن“ ہر وسی تعالی کی آواز آئی.يظل ربك عليك ويغيثك ويرحمك وان لم يعصمك الناس فيعصمك الله من عنده يعصمك الله من عنده و ان لم يعصمك الناس خدائے تعالیٰ اپنی رحمت کا تجھ پر سایہ کرے گا اور نیز تیرا فریاد رس ہو گا اور تجھ پر رحم کرے گا اور اگر تمام لوگ تیرے بچانے سے دریغ کریں مگر خدا تجھے بچائے گا اور خدا تجھے ضرور اپنی مدد سے بچائے گا.(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 608 - 609 حاشیه در حاشیہ نمبر 3) ان لم يعصبك الناس فيعصمك الله من عنده - يعصمك الله من عنده و ان لم يعصمك الناس اگرچہ لوگ تجھے نہ بچاویں یعنی تباہ کرنے میں کوشش کریں مگر خدا اپنے پاس سے اسباب پیدا کر کے تجھے بچائے گا.خدا تجھے ضرور بچالے گا اگرچہ لوگ بچانا نہ چاہیں.(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 528) انی احافظ كل من في الدار الا الذین علوا من استكبار و احافظك خاصة سلام قولا من رب رحيم یعنی میں ہر ایک ایسے انسان کو طاعون کی موت سے بچاؤں گا جو تیرے گھر میں ہو گا مگر وہ لوگ جو تکبر سے اپنے تئیں اونچا کریں اور میں تجھے خصوصیت کے ساتھ بچاؤں گا خدائے رحیم کی طرف سے تجھے سلام.( نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 401) انی احافظ كل من في الدار یعنی خدا فرماتا ہے کہ جو لوگ اس گھر کی چار دیواری کے اندر ہیں سب کو میں طاعون سے بچاؤں گا سو گیارہ برس سے بڑے بڑے حملے طاعون کے اس نواح میں ہو رہے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے گھر کا ایک کتا بھی طاعون سے نہیں مرا“ (حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 547 76

Page 77

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت قرآن شریف میں یعصمت اللہ کی بشارت ہے ایسا ہی اس خدا کی وحی میں میرے لئے یعصمت اللہ کی بشارت ہے اور سلسلہ کے اول اور آخر کے مرسل کو قتل سے محفوظ رکھنا اس حکمت الہی کے تقاضا سے ہے کہ اگر اول سلسلہ کا مرسل جو صدر سلسلہ ہے شہید کیا جائے تو عوام کو اس مرسل کی نسبت بہت شبہات پیدا ہو جاتے ہیں اور اگر آخر سلسلہ کا مرسل شہید کیا جائے...تو عوام کی نظر میں خاتمہ سلسلہ پر ناکامی اور نامرادی کا داغ لگایا جائے گا اور خدا تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ خاتمہ سلسلہ کا فتح اور کامیابی کے ساتھ ہو.“ ( تذكرة الشهادتين، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 70) اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود سے حفاظت کا بار بار وعدہ فرمایا: ”خدا نے ہم سے وعدہ فرمایا ہے اور اس پر ہمارا ایمان ہے وہ وعدہ والله يعصمك من الناس كا ہے.پس اسے کوئی مخالف آزما لے اور آگ جلا کر ہمیں اس میں ڈال دے آگ ہر گز ہم پر کام نہ کرے گی اور وہ ضرور ہمیں اپنے وعدہ کے مطابق بچالے گا لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہم خود آگ میں کودتے پھریں یہ طریق انبیاء کا نہیں خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ (البقره: 196) پس ہم خود آگ میں دیدہ دانستہ نہیں پڑتے بلکہ یہ حفاظت کا وعدہ دشمنوں کے مقابلہ پر ہے کہ اگر وہ آگ میں ہمیں جلانا چاہیں تو ہم ہر گز نہیں جلیں گے.“ (ملفوظات جلد سوم صفحه 480) ”دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اس کو قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.ہم خوب دیکھ چکے ہیں کہ جب کبھی کسی دشمن نے ہمارے ساتھ بدی کے واسطے منصوبہ کیا خدا تعالیٰ نے ہمیشہ اس میں سے ایک نشان ہمارے تائید میں ظاہر فرمایا ہمارا بھروسہ خدا پر ہے انسان کچھ چیز نہیں.“ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 26) اللہ تبارک تعالیٰ فرشتوں کی افواج کے ساتھ اپنے پیارے کو کس طرح محفوظ رکھتا ہے بے شمار مثالوں میں سے چند ایک کا ذکر تاریخ کے صفحات سے درج ہے.77

Page 78

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام حضرت مسیح موعود سیا لکوٹ تشریف لائے تو آپ نے سب سے پہلے محلہ جھنڈانوالہ میں ایک چوہارے پر قیام فرمایا.ایک دفعہ حضور پندرہ سولہ افراد کے ساتھ اس چوبارے میں آرام فرمارہے تھے کہ شہتیر سے تک تک کی آواز آئی اس پر آپ نے ساتھیوں کو سختی سے نکلنے کا حکم دیا جب آپ کے ساتھی نکل گئے تو آپ نے باہر آنے کا قصد کرتے ہوئے ابھی دوسرے زینے پر ہی قدم رکھا تھا کہ چھت دھڑام سے آگری اور آپ معجزانہ طور پر بچ گئے.“ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 18 ایک دفعہ کا ذکر ہے جبکہ میں سیالکوٹ میں تھا ایک دن بارش ہو رہی تھی جس کمرے میں میں بیٹھا ہوا تھا اس میں بجلی آئی سارا کمرہ دھوئیں کی طرح ہو گیا گندھک کی سی بو آتی تھی لیکن ہمیں کچھ ضرر نہ پہنچا اسی وقت وہ بجلی ایک مندر پر گری جو کہ تیجا سنگھ کا مندر تھا اور اس میں ہندوؤں کی رسم کے مطابق طواف کے لئے پیچ در پیچ ارد گرد دیوار بنی ہوئی تھی اور اندر ایک شخص بیٹھا ہوا تھا بجلی تمام چکروں میں سے کر اندر جاکر اس پر پڑی اور وہ جل کر کوئلہ کی طرح سیاہ ہو گی.ہو (سيرة المهدی حصہ سوم صفحہ 532) ”مولوی محمد حسین بٹالوی نے سیدنا حضرت مسیح موعود کو قتل کرانے کی بھی متعدد بار سازش کی چنانچہ مولوی عمر الدین شملوی کی شہادت ہے کہ ایک دفعہ مولوی محمد حسین بٹالوی اور حافظ عبدالرحمن صاحب سیاح امر تسری آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ مرزا صاحب کو چپ کرانے کی کیا تجویز ہو حافظ عبدالرحمن صاحب نے کہا میں بتاتا ہوں مرزا صاحب اعلان کر چکے ہیں کہ اب میں مباحثہ نہیں کروں گا انہیں مباحثے کا چیلنج دے دو اگر وہ تیار ہو گئے تو انہیں کا قول یاد دلا کر انہیں نادم کیا جائے کہ ہم پبلک کو صرف یہ دکھانا چاہتے کہ آپ کو اپنے قول کا پاس نہیں اور اگر مباحثے سے انکار کیا تو ہم یہ اعلان کردیں گے کہ دیکھو ہمارے مقابل پر آنے کا حوصلہ نہیں مولوی عمر الدین نے کہا مجھے کہو تو میں جا کر انہیں مار آتا ہوں جھگڑا ہی ختم ہو جائے اس پر وہ کہنے لگے تمہیں کیا معلوم ہم یہ سب تدبیریں کر چکے ہیں کوئی سبب ہی نہیں بنتا.یہ سنتے ہی مولوی عمر الدین صاحب کے دل میں حضور کی صداقت کا یقین ہو گیا مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنی اس حسرت کا دوبارہ اظہار اور عیسائی حکومت کو آپ کے قتل پر اُکسا کر 1897ء میں لکھا حکومت و سلطنت اسلامی ہوتی تو ہم اس کا جواب آپ کو دیتے.اسی وقت آپ کا سر کاٹ کر آپ کو مردار کر دیتے.سچے نبی کو گالیاں دینا مسلمانوں کے نزدیک ایک ایسا کفر اور ارتداد 78

Page 79

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام ہے جس کا جواب بجز قتل اور کچھ نہیں.تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 390) حضرت اقدس 1891ء میں دہلی تشریف لے گئے تو مولوی محمد حسین بٹالوی نے آپ کو اطلاع دئے بغیر جامع مسجد میں مباحثے کا اعلان کر دیا.آپ اس میں جانے کے اخلاقاً پابند نہیں تھے تاہم دعوت الی اللہ کے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے وہاں جانے کا فیصلہ فرمایا.مخالفین انتہائی اشتعال انگیز تقریریں کر کے عوام کو شرارت پر اُکسا رہے تھے.دہلی میں آپ کے گھر کا محاصرہ کر کے فساد کے لئے تیار تھے.آپ یہ شوروشر دیکھ کر بالا خانے پر تشریف لے گئے ہجوم کواڑ توڑ کر گھر کے اندر گھس گیا اور کچھ لوگ بالا خانے تک پہنچ گئے.اس صورت حال میں مباحثہ ناممکن تھا.بالآخر 20 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی گئی.آپ کو پیغام آنے لگے کہ آپ جامع مسجد ہر گز نہ جائیں آپ کی جان کو خطرہ ہے مگر اللہ تعالیٰ کے اس شیر نے فرمایا.نہیں اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے والله يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ اللہ تعالیٰ کی " کوئی پیرواه حفاظت کافی“.(تذکرة المهدى حصہ اول صفحہ 344 - 345 آپ اپنے احباب کے ساتھ بگھیوں میں مسجد کی طرف روانہ ہوئے راستے میں کئی بد بخت گھات میں بیٹھ گئے کہ حضور پر فائر کریں گے لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت کہ جس راہ حضرت اقدس اور آپ کے خدام کو جانا تھا بگھی والوں نے کہا کہ ہم اس راہ سے نہیں جائیں گے اس طرح آسمانی حفاظت نے آپ کی جان کو محفوظ رکھا.تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 423 تا 425 کا خلاصہ) بھی 1891ء کا واقعہ ہے لدھیانہ میں ایک گنوار شخص مخالفانہ تقاریر سن کر جوش میں آگیا اور لٹھ لے کر حضرت اقدس کے بالا خانے میں پہنچ گیا.آپ اس حاضرین کو وعظ و نصیحت فرما رہے تھے.وہ بیٹھ کر سننے لگا کچھ دیر بعد وہ لٹھ اس کے کندھے سے اتر کر ہاتھ میں آگیا آپ کا خطاب ختم ہوا تو کہا: یں ایک مولوی صاحب کے وعظ سے اثر پا کر اس ارادہ سے یہاں اس وقت آیا تھا کہ اس لٹھ کے ساتھ آپ کو قتل کر ڈالوں اور جیسا کہ مولوی صاحب نے وعدہ فرمایا ہے سیدھا بہشت کو پہنچ جاؤں.مگر آپ کی تقریر کے فقرات مجھ کو پسند آئے اور میں زیادہ سننے کے واسطے ٹھہر گیا اور آپ کی ان تمام باتوں 79

Page 80

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام کو سُننے کے بعد مجھے یہ یقین ہو گیا ہے کہ مولوی صاحب کا وعظ بالکل بے جا دشمنی سے بھرا ہوا تھا.آپ بے شک سچے ہیں اور آپ کی باتیں سچی ہیں.میں بھی آپ کے مریدوں میں داخل ہونا چاہتا ہوں.“ (ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صفحہ 11، 12) دشمنوں کے آٹھ حملے 66 کپتان ڈگلس صاحب ڈپٹی کمشنر کی عدالت میں میرے پر خون کا مقدمہ دائر کیا گیا میں اس سے بچایا گیا.بلکہ بریت کی خبر پہلے سے مجھے دے دی گئی اور قانون ڈاک کی خلاف ورزی کا مقدمہ میرے پر چلایا گیا جس کی سزا چھ ماہ قید تھی اس سے بھی میں بچایا گیا اور بریت کی خبر پہلے سے مجھے دے دی گئی اسی طرح مسٹر ڈوئی ڈپٹی کمشنر کی عدالت میں ایک فوج داری مقدمہ میرے پر چلایا گیا آخر اس میں بھی خدا نے مجھے رہائی بخشی اور دشمن اپنے مقصد میں نامراد رہے اور اس رہائی کی پہلے مجھے خبر دی گئی پھر ایک مقدمہ فوج داری جہلم کے ایک مجسٹریٹ سنسار چند نام کی عدالت میں کرم دین نام کے ایک شخص نے مجھ پر دائر کیا اس سے بھی میں بری کیا گیا اور بریت کی خبر پہلے سے خدا نے مجھے دی اسی طرح میرے دشمنوں نے آٹھ حملے میرے پر کئے اور آٹھ میں ہی نامراد رہے اور خدا کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو آج سے پہلے براہین احمدیہ میں درج ہے یعنی یہ کہ ینصرك الله في مواطن کیا یہ کرامت نہیں؟“ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن 22 صفحہ 981) آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار روزنامه الفضل آن لائن لندن 4 مارچ 2022 ء 80

Page 81

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام قسط 15 پانچ نہایت نازک پر خطر مواقع حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: پانچ موقعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نہایت نازک پیش آئے تھے جن میں جان کا بچنا محالات سے معلوم ہوتا تھا اگر آنجناب در حقیقت خدا کے سچے رسول نہ ہوتے تو ضرور ہلاک کئے جاتے.ایک تو وہ موقعہ تھا جب کفار قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کیا اور قسمیں کھالی تھیں کہ آج ہم ضرور قتل کریں گے (2) دوسرا وہ موقعہ تھا جبکہ کافر لوگ اس غار پر معہ ایک گروہ کثیر کے پہنچ گئے تھے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مع حضرت ابو بکر کے چھپے ہوئے تھے (3) تیسرا وہ نازک موقعہ تھا جبکہ اُحد کی لڑائی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے تھے اور کافروں نے آپ کے گرد محاصرہ کر لیا تھا اور آپ پر بہت سی تلواریں چلائیں مگر کوئی کار گر نہ ہوئی یہ ایک معجزہ تھا.(4) چوتھا وہ موقعہ تھا جب کہ ایک یہودیہ نے آنجناب کو گوشت میں زہر دے دی تھی اور وہ زہر بہت تیز اور مہلک تھی اور بہت وزن اس کا دیا گیا تھا (5) پانچواں وہ نہایت خطر ناک موقعہ تھا جبکہ خسرو پرویز شاہِ فارس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لئے مصمم ارادہ کیا تھا اور گرفتار کرنے کے لئے اپنے سپاہی روانہ کئے تھے.پس صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ان تمام پر خطر موقعوں سے نجات پانا اور ان تمام دشمنوں پر آخر کار غالب ہو جانا ایک بڑی زبر دست دلیل اس بات پر ہے کہ در حقیقت آپ صادق تھے اور خدا آپ کے ساتھ تھا“.(چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 263 - 264 حاشیہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی للہی حفاظت کی معجزانہ شان اس سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اسلام کا ابتدائی زمانہ نستا کمزور ی کا زمانہ تھا.جبکہ بعد میں ظالموں نے عین شوکت اسلام کے زمانے میں حضرت عمر حضرت عثمان اور حضرت علی کو شہید کر دیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کے ہاتھ سے قتل نہ کیا جانا ایک بڑا بھاری معجزہ ہے...پہلی کتابوں میں یہ پیشگوئی درج تھی کہ نبی آخر الزماں کسی کے ہاتھ سے قتل نہ ہو گا.(ملفوظات جلد 8 صفحہ 11) 81

Page 82

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں پانچ پر خطر مواقع آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار یہ عجیب بات ہے کہ میرے لئے بھی پانچ موقعے ایسے پیش آئے تھے جن میں عزت اور جان نہایت خطرہ میں پڑ گئی تھی.اول وہ موقعہ جب کہ میرے پر ڈاکٹر مارٹن کلارک نے خون کا مقدمہ کیا تھا (2) دوسرے وہ موقعہ جب کہ پولیس نے ایک فوج داری مقدمہ مسٹر ڈوئی صاحب ڈپٹی کمشنر گورداسپور کی کچہری میں میرے پر چلایا تھا (3) تیسرے وہ فوجداری مقدمہ جو ایک شخص کرم الدین نام نے بمقام جہلم میرے پر کیا تھا (4) چوتھے وہ فوجداری مقدمہ جو اس کرم دین نے گورداسپور میں میرے پر کیا تھا (5) پانچویں جب لیکھرام کے مارے جانے کے وقت میرے گھر کی تلاشی کی گئی اور دشمنوں نے ناخنوں تک زور لگایا تھا تا میں قاتل قرار دیا جاؤں مگر وہ تمام مقدمات میں نامراد رہے.چشمه معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 263 حاشیه در حاشیه) بعض مولویوں نے قتل کے فتوے دئے.بعض مولویوں نے جھوٹے قتل کے مقدمات بنانے کے لئے میرے پر گواہیاں دیں بعض مولوی میری موت کی جھوٹی پیشگوئیاں کرتے رہے بعض مسجدوں میں میرے مرنے کے لئے ناک رگڑتے رہے بعض نے جیسا کہ مولوی غلام دستگیر قصوری نے اپنی کتاب میں اور مولوی اسمعیل علی گڑھ والے نے میری نسبت قطعی حکم لگایا کہ وہ اگر کاذب ہے تو ہم سے پہلے مرے گا مگر...جب ان تالیفات کو دنیا میں شائع کر چکے تو پھر بہت جلد آپ ہی مر گئے اور اس طرح پر ان کی موت نے فیصلہ کر دیا کہ کاذب کون تھا مگر پھر بھی یہ لوگ عبرت نہیں پکڑتے پس کیا یہ ایک عظیم الشان معجزہ نہیں ہے.“ (اربعین نمبر 3، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 394 - 395) ”خدا نے میرے لئے یہ نشان بھی دکھلائے کہ اُس نے ہر ایک مباہلہ میں میرے دشمنوں کو ہلاک کیا یا اُن کے مقابل پر مجھے ہر ایک قسم کے انعام سے مشرف کیا اور ان کو ذلت کی زندگی میں ڈالا چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 332 - 333) 82

Page 83

ہے سر رہ پر مرے وہ خود کھڑا مولا کریم اے مرے بد خواہ کرنا ہوش کر کے مجھے وار ܀ 83 روزنامه الفضل آن لائن لندن 11 مارچ 2022ء)

Page 84

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام قسط 16 وطن سے محبت لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللهَ كَثِيرٌ (الاحزاب: 22) یقیناً تمہارے لئے اللہ کے رسول میں نیک نمونہ ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کو یاد کرتا ہے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے وطن سے بہت محبت کرتے تھے.وطن کی محبت انسان کی فطرت میں گوندھی گئی ہے اور شرعی طور سے جائز بلکہ لازم محبت ہے.اسی محبت سے ملک کی رونق آبادی اور ترقی ہوتی ہے.اس تحریر میں آپ کی اپنے وطن سے محبت کے بارے میں چند واقعات درج ہیں.آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نزول وحی کا سلسلہ شروع ہوا تو ذمہ داری کے احساس سے آپ گھبرا گئے.اس انوکھے واقعہ سے آپ پر کپکپی طاری ہو گئی.حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو سارا واقعہ سنایا آپ ایک زیرک معاملہ فہم مدبر خاتون تھیں.آپ کی صداقت پر کامل یقین تھا تاہم آپ کی جمعیت خاطر اور اطمینان قلب کے لئے آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں.جو دین کے بہت بڑے عالم تھے.ورقہ بن نوفل نے سارا واقعہ سنا تو بائبل میں موجود پیش گوئیوں کے مطابق پہچان گئے کہ نوشتوں کا لکھا پورا ہونے والا ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نزول وحی کی تفصیلات سن کر کہا: آپ کی قوم آپ کو جھٹلائے گی آپ کی تکذیب ہو گی.آپ یہ سن کر خاموش رہے.پھر اس نے کہا آپ کو تکلیف اور اذیت دی جائے گی.آپ یہ سن کر بھی خاموش رہے.پھر بتایا کہ آپ کو اپنے وطن سے نکال دیا جائے گا.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حیرت سے فرمایا: أوَ مُخْرِجی هم؟ کیا وہ مجھے میرے وطن سے نکال دیں گے؟ ہاں تیری قوم تجھے نکال دے گی کیونکہ آج تک کوئی شخص اُس تعلیم کو لے کر نہیں آیا جس تعلیم کو تو لے کر کھڑا ہوا ہے مگر اُس کی قوم نے اس کی ضرور دشمنی کی ہے اگر مجھے وہ دن دیکھنا نصیب ہوا جب تم اپنی قوم کے سامنے اس تعلیم کا اعلان کروگے اور قوم تیری شدید مخالفت کرے گی یہاں تک کہ وہ تجھے اس شہر میں سے نکال دے گی تو میں 84

Page 85

تیری مدد کروں گا.(بخاری کتاب بدء الوحي ) اس خبر پر آپ کا حیران ہونا آپ کی اپنے وطن سے شدید محبت پر دلیل ہے اور یہ کہ اپنے وطن سے جدائی کا تصور آپ کے لئے کتنا گراں تھا.وہ بابرکت مقام جہاں اللہ تعالیٰ کا حرم ہے.جو حضرت آدم کے زمانے سے بیت اللہ تھا.جسے ابوالانبیا حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے دعائیں پڑھتے ہوئے از سر نو تعمیر کیا جہاں آپ پیدا ہوئے اس محبوب مقام سے نکالے جانے کی خبر جھٹلائے جانے اور اذیت دئے جانے سے بھی گراں گزری.جس کا بے ساختہ اظہار اس بے یقینی سے ہوا.کیا وہ مجھے وطن سے نکال دیں گے؟ وطن سے بے لوث محبت کا اظہار اس وقت بھی ہوا جب آپ کو نبوت پر سر فراز ہوئے تیرہ سال ہو گئے تھے.پیغام توحید پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی مگر قریش مکہ نے بھی مخالفت میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی مظالم کی انتہا ہو گئی تھی تنگ آ کر مسلمان خاموشی سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے لگے اکثر مسلمان جا چکے تو رسول الله صل اللیل کلام کو بھی ہجرت کی اجازت مل گئی رات کے وقت جبکہ کفار مکہ نے آپ کے گھر کا محاصرہ کیا ہوا تھا آپ سورہ فتح پڑھتے ہوئے اپنے گھر سے نکلے.غار ثور میں مختصر قیام کے بعد اگلی منزل کے لئے روانہ ہونے لگے تو اونٹنی پر بیٹھے ہوئے بو جھل دل کے ساتھ مڑ کر اپنے مکہ مکرمہ کی طرف دیکھا اور حسرت سے اپنی بستی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: مَا أَطْيَبَكِ مِنْ بَلَدٍ وَأَحَبَّكِ إِلَى، وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمِي أَخْرَجُوْنِ مِنْكِ مَا سَكَنْتُ غَيْرَكِ (سنن الترمذی، 5: 723، رقم: 3926، صحیح ابن حبان، 23:9، رقم: 3709، المعجم الكبير للطبرانی، 270:10، رقم: 10633) تو کتنا پاکیزہ شہر ہے اور مجھے کتنا محبوب ہے! اگر میری قوم تجھ سے نکلنے پر مجھے مجبور نہ کرتی تو میں تیرے سوا کہیں اور سکونت اختیار نہ کرتا.حضرت عبداللہ بن عدی کی روایت ہے آپ نے فرمایا ” تو اللہ کی بہترین سر زمین ہے اور اللہ کی سب سے پسندیدہ زمین ہے اگر میں زبر دستی تجھ سے نہ نکالا جاتا تو کبھی یہاں سے نہ نکلتا.“ (مستدرك كتاب المناقب ، مناقب عبدللہ بن عدی حدیث نمبر 5827) حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے آبائی وطن مکہ کی طرح مدینہ منورہ بھی بہت عزیز تھا.85

Page 86

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: إِنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله وسلم كَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ ، فَنَظَرَ إِلى جُدْرَاتِ الْمَدِينَةِ ، أَوْضَعَ رَاحِلَتَهِ، وَإِنْ كَانَ عَلَى دَابَّةٍ ، حَرَّكَهَا مِنْ حُيَّهَا (صحیح البخاری 2: 666، رقم: 1787، مسند أحمد بن حنبل 3: 159، رقم: 12644ء سنن الترمذی 5: 499، رقم : 3441) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سفر سے واپس تشریف لاتے ہوئے مدینہ منورہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی اونٹنی کی رفتار تیز کر دیتے اور اگر دوسرے جانور پر سوار ہوتے تو مدینہ منورہ کی محبت میں اُسے ایڈی مار کر تیز بھگاتے تھے.حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے: وَفِي الْحَدِيثِ دَلَالَةٌ عَلَى فَضْلِ الْمَدِينَةِ ، وَعَلَى مَشْرُوعِيَةِ حُبِّ الْوَطَنِ وَالْحَنِينِ إِلَيْهِ (فتح الباری 3: 621) یہ حدیث مبارک مدینہ منورہ کی فضیلت، وطن سے محبت کی فرضیت و جواز اور اس کے لیے مشتاق ہونے پر دلالت کرتی ہے.حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ خیبر کی طرف نکلا تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کرتا رہوں.جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خیبر سے واپس لوٹے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُحد پہاڑ نظر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: هَذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت رکھتے ہیں.اس کے بعد اپنے دستِ مبارک سے مدینہ منورہ کی جانب اشارہ کر کے فرمایا: اللَّهُمَّ! إِنِّي أُحَرِّمُ مَابَيْنَ لَابَتَيْهَا كَتَحْرِيمِ إِبْرَاهِيمَ مَكَّةَ اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَمُدْنَا (صحیح البخاری، 3: 1058، رقم: 2732، صحیح مسلم، 2: 993، رقم: 1365) 86

Page 87

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام اے اللہ! میں اس کی دونوں پہاڑیوں کے درمیان والی جگہ کو حرم بناتا ہوں جیسے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرم بنایا تھا.اے اللہ ! ہمیں ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما.حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنے وطن کی خیر و برکت کے لیے دعا محبت کی واضح دلیل ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب لوگ پہلا پھل دیکھتے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوتے.حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے قبول کرنے کے بعد دعا کرتے: اے اللہ ! ہمارے پھلوں میں برکت عطا فرما.ہمارے (وطن) مدینہ میں برکت عطا فرما.ہمارے صاع میں اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما اور مزید عرض کرتے: اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُكَ وَخَلِيلُكَ وَنَبِيُّكَ، وَإِنِّي عَبْدُكَ وَنَبِيَّكَ وَإِنَّهُ دَعَاكَ لِمَكَّةَ وَإِنِّي أَدْعُوكَ لِلْمَدِينَةِ بِمِثْلِ مَا دَعَاكَ لِمَكْةُ وَمِثْلِهِ مَعَهُ (صحیح مسلم، 2: 1000، رقم: 1373) اے اللہ ! ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے، تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے اور میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں.انہوں نے مکہ مکرمہ کے لیے دعا کی تھی.میں ان کی دعاؤں کے برابر اور اس سے ایک مثل زائد مدینہ کے لیے دعا کرتا ہوں (یعنی مدینہ میں مکہ سے دو گنا بر کتیں نازل فرما.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی چھوٹے بچے کو بلا کر وہ پھل دے دیتے.وطن سے محبت کا ایک اور انداز یہ بھی ہے کہ حضور نبی اکرم نے فرمایا کہ وطن کی مٹی بزرگوں کے لعاب اور رب تعالیٰ کے حکم سے بیماروں کو شفا دیتی ہے.حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں: إِنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله وسلَّم كَانَ يَقُولُ لِلْمَرِيضِ بِسْمِ اللهِ تُرْبَهُ أَرْضِنَا بِرِيقَةِ بَعْضِنَا يُشْفَى سَقِيمُنَا بِإِذْنِ رَبَّنَا (صحیح البخاری، 5: 2168، رقم: 5413، صحیح مسلم، 4: 1724، رقم: 2194) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مریض سے فرمایا کرتے تھے: اللہ کے نام سے شروع، ہماری زمین (وطن) کی مٹی ہم میں سے بعض کے لعاب سے ہمارے بیمار کو ، ہمارے رب کے حکم سے شفا دیتی ہے.87

Page 88

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ کوئی شخص مکہ مکرمہ سے آیا اور بارگاہِ رسالت تاب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا.سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس سے پوچھا کہ مکہ کے حالات کیسے ہیں؟ جواب میں اُس شخص نے مکہ مکرمہ کے فضائل بیان کرنا شروع کیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو گئیں.آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اے فلاں! ہمارا اشتیاق نہ بڑھا.لَا تُشَوْقْنَا يَا فُلَانُ جب کہ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے فرمایا: دَعِ الْقُلُوبَ تَقِر (شرح الزرقانی علی الموطاء 4: 288، السيرة الحلبية 2: 283) دلوں کو قرار پکڑنے دو مکہ کی یاد دلا کر مضطرب نہ کرو.آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وطن سے محبت کا ثبوت اہل وطن کی خیر خواہی سے بحسن و خوبی ملتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بھی قدرتی طور پر اسی رنگ میں رنگین تھے آپ کے اقوال اور افعال بعینہ اپنے محبوب رسول خدا کے اسوہ حسنہ کا عکس تھے.اس بستی میں وہ الہی نور برسا که که قادیان زیر غار نہ رہی ایسا رجوع جہان ہوا کہ مرجع خواص بن گئی.قادیان سے محبت اس لئے بھی تھی کہ اس خطہ زمین کو اللہ تعالی نے آنحضرت صلی علیہ علم کی بشارتوں کے ساتھ مسیح کی آمد ثانی کے لئے چنا تھا.ایک حدیث مبار کہ ہے حضرت رسول کریم میای لیم نے فرمایا ”تین مساجد کے علاوہ کسی طرف رخت سفر نہ باندھیں اس مسجد یعنی مسجد نبوی مدینہ منورہ، مسجد حرام اور مسجد اقصی“ الله ( صحیح مسلم كتاب الحج باب لا تشد الرحال الا الى ثلاثه مساجد ) مسجد اقصیٰ کا ذکر قرآن پاک میں بھی ہے.سُبْحَنَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَا الَّذِي بَرَكْنَا حَوْلَهُ (بنی اسرائیل: 2) پاک ہے وہ جو رات کے وقت اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف لے گیا جس کے ماحول 88

Page 89

کو ہم نے برکت دی ہے.مشتمل ؟ حضرت اقدس مسیح موعود نے اس آیت کی تشریح میں فرمایا ”معراج مکانی اور زمانی دونوں پر اور بغیر اس کے معراج ناقص رہتا ہے پس جیسا کہ سیر مکانی کے لحاظ سے خدا تعالیٰ نے آنحضرت علی الم کو مسجد الحرام سے بیت المقدس تک پہنچا دیا تھا ایسا ہی سیر زمانی کے لحاظ سے آنجناب کو شوکتِ اسلام کے زمانہ سے جو آنحضرت صلی اللی علم کا زمانہ تھا بر کات اسلامی کے زمانہ تک جو مسیح موعود کا زمانہ ہے پہنچا دیا پس اس پہلو کے رو سے جو اسلام کے انتہاء زمانہ تک آنحضرت صلی الہ وسلم کا سیر کشفی ہے مسجد اقصیٰ سے مراد مسیح موعود کی مسجد ہے جو قادیان میں واقع ہے جس کی نسبت براہین احمدیہ میں خدا کا کلام یہ ہے: مبارك و مبارك و كل امر مبارك يجعل فيه وطن سے محبت کے انداز دیکھئے فرماتے ہیں: (مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحه 54 - 55 حاشیہ) خدا کا تم پہ بس لطف و کرم ہے وہ نعمت کون سی باقی جو کم ہے زمین قادیاں اب محترم ہے نجوم خلق سے ارضِ حرم ہے ظہورِ عون و نصرت دمبدم ہے حسد سے دشمنوں کی پشت خم ہے سنو اب وقت توحید اتم ہے اب مائل ملک عدم ہے خدا نے روک ظلمت کی اُٹھا دی فَسُبحَانَ الَّذِي أَحْرَى الْأَعَادِى 89

Page 90

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام ہمیں تو قادیان کی دھوپ بھی اچھی لگتی ہے اس دارالامان کے لئے اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا انى احافظ كل من فى الدار (تذکرہ صفحہ 379).یہاں فرشتوں کا نزول ہوتا.آسماں سے برکات نازل ہوتیں.خدیجہ جیسی نعمت اور موعود مبشر اولاد ملی، جاں نثار جماعت بنی، بارش کے قطروں سے زیادہ نعماء جو گئی نہ جاسکیں.منارة المسيح، بيت الذكر، بيت الدعا، وسعت پذیر مساجد بهشتی ،مقبره، مبارک مقدس مقامات، گلیاں، محلے، اینٹ پتھر ، ڈھاب، بازار، ہوا، فضا ہر ذرہ حسین پیار کے قابل پھر پیار کیوں نہ ہوتا.سيدة النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالٰی عنہا اور خاندان کے اراکین علیوال کی نہر پر سیر کے واسطے تشریف لے گئے.جہاں سے شام کے قریب واپسی ہوئی.بٹالہ یا علیوال کے سر سبز درختوں کا گھنا سایہ دیکھ کر واہ واہ کہتے ہوئے کسی خادمہ کی زبان سے نکلا.” کیسا پیارا منظر اور ٹھنڈی چھاؤں ہے“.حضور (علیہ الصلوۃ والسلام) نے یہ الفاظ سن کر فرمایا.”ہمیں تو قادیان کی دھوپ بھی اچھی لگتی ہے (سیرت المہدی جلد دوم تتمه صفحه 377 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قادیان سے محبت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو محبت تھی اور کس طرح آپ دیکھا کرتے تھے.آپ فرماتے ہیں کہ ”جن مقاموں کے ساتھ خدا تعالیٰ کا تعلق ہوتا ہے وہ ہمیشہ کے لئے متبرک بنا دیئے جاتے ہیں.قادیان بھی ایک ایسی ہی جگہ ہے.یہاں خدا تعالیٰ کا ایک برگزیدہ مبعوث ہوا اور اس نے یہاں ہی اپنی ساری عمر گزاری اور اس جگہ سے وہ محبت رکھتا تھا.چنانچہ اس موقع پر جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور گئے ہیں اور آپ کا وصال ہو گیا ہے ایک دن مجھے آپ نے ایک مکان میں بلا کر فرمایا کہ محمود دیکھو! یہ دھوپ کیسی زرد سی معلوم ہوتی ہے.چونکہ مجھے ویسی ہی معلوم ہوتی تھی جیسی کہ ہر روز دیکھتا تھا میں نے کہا کہ نہیں اسی طرح کی ہے جس طرح ہر روز ہوا کرتی ہے.آپ نے فرمایا نہیں یہاں کی دھوپ کچھ زرد اور مدھم سی ہے.قادیان کی دھوپ بہت صاف اور عمدہ ہوتی ہے.چونکہ آپ نے قادیان میں ہی دفن ہونا تھا اس لئے آپ نے یہ ایک ایسی بات فرمائی جس سے قادیان سے آپ کی محبت اور الفت کا پتا لگتا تھا.کیوں کہ جب کہیں سے جدائی ہونے لگتی ہے تو وہاں کی ذرا ذرا سی چیز سے بھی محبت اور الفت کا خیال آتا ہے تو اس جگہ کی چھوٹی سے چھوٹی چیز سے بھی خدا کے مسیح کو وہ الفت تھی جس کا 90

Page 91

ثبوت اس واقعہ سے ملتا ہے.(ماخوذ از انوار خلافت، انوار العلوم جلد 3 صفحہ 175) اللہ تبارک و تعالٰی نے متعدد بار اس کی ترقی کی پیش خبریاں عطا فرمائی تھیں خدا نے اس ویرانہ یعنی قادیان کو مجمع الدیار بنا دیا کہ ہر ایک ملک کے لوگ یہاں آ کر جمع ہوتے ہیں.(براہین احمدیہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 95) ایک دن آنے والا ہے جو قادیان سورج کی طرح چمک کر دکھلا دے گی کہ وہ ایک سچے کا مقام ہے.دافع البلاء، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 231) ” مجھے دکھایا گیا ہے (کہ) یہ علاقہ اس قدر آباد ہو گا کہ دریائے بیاس تک آبادی پہنچ جائے گی.“ (تذکرہ ایڈیشن ششم صفحہ 666) ہم نے کشف میں دیکھا کہ قادیان ایک بڑا عظیم الشان شہر بن گیا اور انتہائی نظر سے بھی پڑے تک بازار نکل گئے.اونچی اونچی دو منزلی یا چو منزلی یا اس سے بھی زیادہ اونچے اونچے چبوتروں والی دوکانیں عمدہ عمارت کی بنی ہوئی ہیں اور موٹے موٹے سیٹھ.بڑے بڑے پیٹ والے جن سے بازار کو رونق ہوتی ہے، بیٹھے ہیں اور ان کے آگے جواہرات اور لعل اور موتیوں اور ہیروں، روپوں اور اشرفیوں کے ڈھیر لگ رہے ہیں اور قسما قسم کی دوکانیں خوب صورت اسباب سے جگمگا رہی ہیں یکے، بگھیاں، ٹمٹم، فٹن، پالکیاں، گھوڑے، شکر میں، پیدل اس قدر بازار میں آتے جاتے ہیں کہ مونڈھے سے مونڈھا بھڑ کر چلتا ہے اور راستہ بمشکل سے ملتا ہے.اب ہم اس کمرہ کو نہیں کھولیں گے (تذکرہ ایڈیشن ششم صفحہ 343) حضرت اقدس علیہ السلام کی قادیان سے محبت میں ایک عجیب واقعہ ہے جو حضرت اماں جی حرم حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ”جب 1908ء میں حضرت مسیح موعود " آخری دفعہ لاہور تشریف لے جانے لگے اور اسی سفر میں آپ کی وفات ہوئی تو میں دیکھتی تھی کہ آپ اس موقع پر قادیان سے باہر 91

Page 92

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام جاتے ہوئے بہت متامل تھے اور فرماتے بھی تھے.کہ میرا اس سفر پر جاتے ہوئے دل رکتا ہے مگر چونکہ حضرت ام المؤمنین اور بچوں کی خواہش تھی اس لئے آپ تیار ہوگئے.پھر جب آپ روانہ ہونے لگے تو آپ نے اپنے کمرہ کو جو حجرہ کہلاتا تھا خود اپنے ہاتھ سے بند کیا اور جب آپ اس کے دروازہ کو قفل لگا رہے تھے تو میں نے سنا کہ آپ بغیر کسی کو مخاطب کر کے یہ الفاظ فرما رہے تھے کہ ”اب ہم اس کمرہ کو نہیں کھولیں گے“ جس میں گویا یہ اشارہ تھا کہ اسی سفر کی حالت میں آپ کی وفات ہو جائے گی.(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 779) سب ہم نے اُس سے پایا شاہد ہے تو خدایا وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہے روزنامه الفضل آن لائن لندن 18 مارچ 2022ء) 92 22

Page 93

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام قسط 17 خلوت پسندی خلوت کے معنی ہیں تنہائی اور علیحد گی.پوشیدہ در پردہ ہونا، محبت خلائق اور ہستی سے بیگانہ ہونا.جلوت کا الٹ.انبیائے کرام کی اعلیٰ لذات ان کے معبود میں ہوتی ہیں.عشق الہی میں بے خود ہو کر صرف خالق کائنات کے تصور اور یاد میں محو رہنا پسند کرتے ہیں اس لئے وہ دنیا اور دنیا کی دلچسپیوں سے بے نیاز ہو کر کسی گوشہ تنہائی میں علیحدہ ہو رہتے ہیں جہاں تمام تر محویت کے ساتھ اپنا وقت یاد الہی میں گزار سکیں.ان میں ظاہر داری نہیں ہوتی انہیں لوگوں کی تعریف و توصیف کی طلب نہیں ہوتی جاہ پسند نہیں ہوتے.صرف مولا کریم کی رضا چاہتے ہیں اور اس کے بندوں کی فلاح و بہبود چاہتے ہیں.مخلوق کی ہمدردی اور خیر خواہی میں انہیں صراط مستقیم پر دیکھنا چاہتے ہیں.تنہائی میں ان کے لئے دعائیں کرتے ہیں.حتی کہ اللہ تعالیٰ ایسے خود فراموش بندوں کو اپنے لئے چن لیتا ہے اور ہاتھ پکڑ کر کنج عافیت سے نکال کر خدا نمائی کا کام سونپتا ہے.آنحضور صلی علیکم کی خلوت پسندی کی گواہ غار حرا کی چٹانیں ہیں جن پر کئی کئی دن رات تنہا بیٹھے دعاؤں میں گزار دیتے کبھی آپ جنگل میں نکل جاتے اور تنہا اپنے رب کو یاد کرتے.آپ گھر میں بھی گوشہ عافیت تلاش کر لیتے.شب کی تاریکی بھی دنیا سے پردے کی صورت بن جاتی.پھر آپ اپنے محبوب کی خوب پرستش فرماتے.م حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام جو خود تنہائی میں یاد الہی کے رسیا تھے اور صاحب تجربہ تھے فرماتے ہیں: صل بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ اُنس اور ذوق پیدا ہو جاتا ہے تو پھر دنیا اور اہل دنیا سے ایک نفرت اور کراہت پیدا ہو جاتی ہے.بالطبع تنہائی اور خلوت پسند آتی ہے آنحضرت صلی علیم کی بھی یہی حالت تھی اللہ تعالیٰ کی محبت میں آپ اس قدر فنا ہو چکے تھے کہ آپ اس تنہائی میں ہی پوری لذت اور ذوق پاتے تھے.ایسی جگہ میں جہاں کوئی آرام اور راحت کا سامان نہ تھا اور جہاں جاتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہو آپ وہاں کئی کئی راتیں تنہا گزارتے تھے اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کیسے بہادر اور شجاع تھے جب خدا تعالیٰ سے تعلق شدید ہو تو پھر شجاعت بھی آجاتی ہے اس لئے مومن کبھی بزدل نہیں ہوتا 93

Page 94

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام اہل دنیا بزدل ہوتے ہیں ان میں حقیقی شجاعت نہیں ہوتی“.(مالفوظات جلد چہارم صفحه 317) آپ کی پہلی عبادت وہی تھی جو آپ نے غار حرا میں کی جہاں کئی کئی دن ویرانہ پہاڑی کی غار میں جہاں ہر طرح کے جنگلی جانور اور سانپ چیتے وغیرہ کا خوف ہے دن رات اللہ تعالیٰ کے حضور میں عبادت کرتے تھے اور دعائیں مانگتے تھے.قاعدہ ہے کہ جب ایک طرف کی کشش بہت بڑھ جاتی ہے تو دوسری طرف کا خوف دل سے دور ہو جاتا ہے." 66 ( ملفوظات جلد چہارم صفحه 322) حضرت عائشہ فرماتی ہیں كَانَ يَذْكُرُ اللهَ عَلَى كُلِ حَالٍ کہ حضور "ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتے تھے.آپ کی ر بے شمار دعائیں جو آپ نے مختلف اوقات میں بارگاہ ایزدی میں کیں.آپ کے قلبی جذبات کی شاہد ہیں.ایسی خود سپردگی اور گداز ہے جیسے روح پگھل کر آستانہ الوہیت پر بہہ رہی ہو اے خدا! تُو ہی ہی میرا رب ہے.تیرے سوا کوئی قابل عبادت نہیں.تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں اور اپنی طاقت کے مطابق تیرے عہد اور وعدہ پر قائم ہوں.اپنے کاموں کے خراب پہلو سے تیری پناہ چاہتا ہوں.تیرے احسانوں کا معترف اور اپنی کوتاہیوں کا اقراری ہوں.تیرے سوا کوئی پردہ پوش نہیں.آنحضرت صلی علیم اپنے خاندان اور احباب میں ایک پسندیدہ شخصیت تھے مکہ کے لوگ اس امین وصادق کو محبوب رکھتے تھے پھر گھر کا سکون بھی حاصل تھا قوم کی نظروں میں عزت و توقیر کا مقام تھا اس سکون کو حج کر اختیاری تنہائی میں وقت گزارتے.سارے شہر کے لوگ اپنی اپنی سر گرمیوں میں مگن زندگی کے مزے لے رہے ہوتے.صرف ایک شخص کو اس ماحول میں سکون نہیں ملتا تھا کیو نکہ وہ اس دنیا کا نہیں اپنے رب کا بندہ تھا.زمانہ نبوت سے قبل کی زندگی میں جس کی پاکیزگی کے متعلق قرآن نے اعلان کیا فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُيْرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (یونس: 17) اس مطہر اور مقدس وجود کوسکون غارحرا کی سنج خلوت میں ملتا.بخاری شریف میں لکھا ہے: حُبْبَ إِلَيْهِ الْخَلَاء فَكَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَاءٍ فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ وَهُوَ التَّعَبُدُ اللَّيَالِي ذَوَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَى أَهْلِهِ وَيَتَزَوَّدُ لِذَالِكَ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا حَتَّى جَاءَهُ الْحَقُّ (صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 3) آنحضرت کو خلوت بہت پسند تھی.جو آپ غارِ حرا میں کئی کئی راتوں تک بغرض عبادت اختیار فرماتے اور 94

Page 95

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام اس عرصہ کے لئے کھانا گھر سے لے جاتے.جب وہ کھانا ختم ہو جاتا.واپس آکر پھر توشہ لے جاتے.آپ اسی طرح کیا کرتے یہاں تک کہ آپ پر حق کھل گیا اور وحی لے کر فرشتہ آپ کے پاس حاضر ہو گیا.خلوت پسندی کا یہ جوہر خالق کائنات کی خاص عطا تھی.اللہ پاک کی تربیت کا انداز تھا بڑی ذمہ داری کے لئے بڑی تربیت وہ خود فرماتا ہے اور اپنے تربیت یافتہ کو وہ قوت قدسی عطا فرماتا ہے کہ وہ اپنا نور آگے منتقل کر سکیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”نبی کا کمال یہ ہے کہ وہ دوسرے شخص کو ظلی طور پر نبوت کے کمالات سے متمتع کردے اور رُوحانی امور میں اس کی پوری پرورش کر کے دکھلاوے.اسی پرورش کی غرض سے نبی آتے ہیں اور ماں کی طرح حق کے طالبوں کو گود میں لے کر خدا شناسی کا دودھ پلاتے ہیں.پس اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ دودھ نہیں تھا تو نعوذ باللہ آپ کی نبوت ثابت نہیں ہو سکتی.مگر خدا تعالیٰ نے تو قرآن شریف میں آپ کا نام سراج منیر رکھا ہے جو دوسروں کو روشن کرتا ہے اور اپنی روشنی کا اثر ڈال کر دوسروں کو اپنی مانند بنا دیتا ہے." چشمه مسیحی، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 388 - 389) رسول کریم ملی علی نام اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام میں زبانی بعد بے شک چودہ سو سال کا ہے مگر روحانی طور پر ایک ساتھ ہی تھے اللہ تبارک تعالیٰ کا عشق اور عاشقانہ ادائیں مماثل ہیں.فرماتے ہیں: ابتدا سے گوشہ خلوت رہا مجھ کو پسند شہر توں سے مجھ کو نفرت تھی ہر اک عظمت سے عار پر مجھے تو نے ہی اپنے ہاتھ سے ظاہر کیا میں نے کب مانگا تھا یہ تیرا ہی ہے سب برگ و بار 95

Page 96

آپ کی خلوت پسندی تعلیم کے زمانے سے نظر آتی ہے اساتذہ کرام گھر پر تعلیم دیتے سبق سے فارغ ہو کر آپ بالا خانے پر تشریف لے جاتے اور تنہائی میں بیٹھے کر پوری یکسوئی سے اپنا سبق دہراتے.آپ کے والد صاحب مرزا غلام مر تضی بار بار آپ کو سمجھاتے کہ اس طرح گزارا کیسے ہو گا آپ خاموشی سے سنتے اگر جواب دیتے تو یہ دیتے کہ: با بھلا بتاؤ تو سہی کہ جو افسروں کے افسر اور مالك الملك احكم الحاكمين كا ملازم ہو اور اپنے رب العالمین کا فرماں بردار ہو اس کو کسی کی ملازمت کی کیا پروا ہے.ویسے میں آپ کے حکم سے بھی باہر نہیں“ ( تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 52) والد صاحب فرماتے ”اچھا بیٹا جاؤ، اپنا خلوت خانہ سنبھالو“ پھر آبدیدہ ہو کر کہتے ”جو حال پاکیزہ غلام احمد کا ہے وہ ہمارا کہاں ہے.یہ شخص زمینی نہیں آسمانی (ہے) یہ آدمی نہیں فرشتہ ہے“ چودہ پندرہ سال کی عمر میں تنہا بیٹھ کر قرآن مجید پڑھتے رہنے کے ذکر میں آپ کے والد صاحب نے فرمایا یہ " کسی سے غرض نہیں رکھتا سارا دن مسجد میں رہتا ہے اور قرآن شریف پڑھتا رہتا ہے.“ ریویو آف ریلیجنزار دو قادیان جنوری 1942ء صفحہ 9) ایک اور موقع پر آپ کے والد صاحب نے فرمایا غلام احمد کو پتہ نہیں کہ سورج کب چڑھتا ہے اور کب غروب ہوتا ہے اور بیٹھتے ہوئے وقت کا پتہ نہیں جب میں دیکھتا ہوں چاروں طرف کتابوں کا ڈھیر لگا رہتا ہے.(سیرۃ المہدی حصہ اول صفحہ 494 مطبوعہ 2008ء) اُس زمانے کی مصروفیات کے بارے میں آپ خود فرماتے ہیں ان دنوں میں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میں نہ تھا میرے والد صاحب مجھے بار بار یہی ہدایت کرتے تھے کہ کتابوں کا مطالعہ کم کرنا چاہئے کیو نکہ وہ نہایت ہمدردی سے ڈرتے تھے کہ صحت میں فرق نہ آوے“.کتاب البریه، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 181 بقیہ حاشیہ) 13 - 15 سال کی عمر میں شادی ہوئی.لیکن یہ تعلق بھی آپ کی خلوت نشینی پر اثر انداز نہ ہوا.تعلیم کا 96

Page 97

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام سلسلہ بھی جاری رہا.ان دنوں اگر کوئی آپ کے والد صاحب سے آپ کے متعلق پوچھتا تو وہ بڑی فکر مندی سے جواب دیتے کہ اسے تو تنہا بیٹھ کے کتابیں پڑھنے کے سوا کچھ اچھا نہیں لگتا یا مسجد میں عبادت کرتا ہے.آپ کے کم آمیز ہونے کی وجہ سے ملاں، دلہن اور مسیتر کے القاب دئے جاتے.شادی کے بعد سولہ سترہ سال کی عمر کے مشاغل دیکھئے فرماتے ہیں ”میں سولہ سترہ برس کی عمر سے عیسائیوں کی کتابیں پڑھتا ہوں اور ان کے اعتراضوں پر غور کرتا ہوں میں نے اپنی جگہ ان اعتراضوں کو جمع کیا ہے جو عیسائی آنحضرت صلی للی کم پر کرتے ہیں ان کی تعداد تین ہزار کے قریب پہنچی ہوئی ہے.“ الله سة الحکم 30 اپریل 1900ء صفحہ 2) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: براہین کی تالیف کے زمانہ کے قریب اسی شہر میں قریباً سات سال رہ چکا.تاہم آپ صاحبوں میں ایسے لوگ کم ہوں گے جو مجھ سے واقفیت رکھتے ہوں کیونکہ میں اس وقت ایک گمنام آدمی تھا اور اَحَدٌ مِّنَ النَّاسِ تھا اور میری کوئی عظمت اور عزت لوگوں کی نگاہ میں نہ تھی مگر وہ زمانہ میرے لئے نہایت شیریں تھا کہ انجمن میں خلوت تھی اور کثرت میں وحدت تھی اور شہر میں میں ایسا رہتا تھا جیسا کہ ایک شخص جنگل میں.مجھے اس زمین سے ایسی ہی محبت ہے جیسا کہ قادیان سے کیونکہ میں اپنے اوائل زمانہ کی عمر میں سے ایک حصہ اس میں گزار چکا ہوں اور اس شہر کی گلیوں میں بہت سا پھر چکا ہوں“.(لیکچر سیا لکوٹ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 243) لیکن 19 ویں صدی کے آخری ربع میں آپ کو خدائی تقدیر دنیا کی اصلاح کیلئے گوشہ گمنامی سے نکال کر علمی میدان کی جانب کھینچنے لگی.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تاریخی طور پر اس کی تفصیل یوں بیان فرماتے ہیں: ” پبلک میں آپ نے تصنیف براہین سے صرف کچھ قبل یعنی 1877ء - 1878ء میں آنا شروع کیا اور مضامین شائع کرنے شروع فرمائے اور تبلیغی خطوط کا دائرہ بھی وسیع کیا.مگر دراصل مستقل طور پر براہین احمدیہ کے اشتہار نے ہی سب سے پہلے آپ کو ملک کے سامنے کھڑا کیا اور اس طرح علم دوست اور مذہبی امور سے لگاؤ رکھنے والے طبقہ میں آپ کا انٹروڈکشن ہوا اور لو گوں کی نظریں اس دیہات کے رہنے والے گمنام شخص کی طرف حیرت کے ساتھ اُٹھنی شروع ہو ئیں“.(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ 93 مطبوعہ 2008ء) تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد اٹھائیس سال کی عمر میں آپ سیا لکوٹ بحصول ملازمت تشریف لے گئے اور 97

Page 98

وہاں ڈپٹی کمشنر صاحب کے دفتر میں ملازم ہو گئے ملازمت کے وقت سے فارغ ہو کر اپنی قیام گاہ پر تشریف لاتے تو دروازہ بند کر لیتے مکان سے باہر کم جاتے اور اس خلوت میں اپنا وقت تلاوت قرآن مجید، عبادت گزاری شب بیداری علمی مشاغل میں گزارتے کتابوں کا مطالعہ کرتے یا مذہبی مباحث میں حصہ لیتے تھے.آپ کی پرہیز گاری اور تقویٰ کا اتنا اثر تھا کہ سب آپ کو عزت کی نظر سے دیکھتے تھے اور دینی مسائل دریافت کرتے تھے.ملازمت سے سبکدوش ہو کر قادیان تشریف لے آئے تو کلیۂ فنافی اللہ ہونے کے لئے اپنے والد صاحب کی خدمت میں فارسی میں ایک درخواست تحریر فرمائی اس کے چند جملوں کا ترجمہ ہے: میرا دل دنیا سے سرد ہو گیا ہے اور چہرہ غم سے زرد اور اکثر حضرت شیخ سعدی شیرازی رحمہ اللہ علیہ کے یہ دو مصرع زبان پر جاری رہتے ہیں اور حسرت و افسوس کی وجہ سے آنکھوں سے آنسو بہ پڑتے ہیں.مکن تکیه بر عمر ناپائیدار.مباش ایمن از بازی روزگار (اپنے دل کو دنیائے دوں میں نہ لگا کیو نکہ موت کا وقت نا گہاں پہنچ جاتا ہے) میں چاہتا ہوں کہ باقی عمر گوشہ تنہائی اور کنج عزلت میں بسر کروں اور عوام اور ان کی مجالس سے علیحد گی اختیار کروں اور اللہ تعالیٰ سبحانہ کی یاد میں مصروف ہو جاؤں تا تلاقی کمافات کی صورت پیدا ہو جائے“.فرمایا کرتے تھے ” مجھے تو اللہ تعالیٰ کی محبت نے ایسی محویت دی تھی کہ تمام دنیا سے الگ ہو بیٹھا تھا.تمام چیزیں سوائے اُس کے مجھے ہر گز نہ بھاتی تھیں.میں ہر گز ہر گز حجرہ سے باہر قدم رکھنا نہیں چاہتا تھا.میں نے ایک لمحہ بھی شہرت کو پسند نہیں کیا.میں بالکل تنہائی میں تھا اور تنہائی ہی مجھ کو بھاتی تھی.شہرت اور جماعت کو جس نفرت سے میں دیکھتا تھا اس کو خدا ہی جانتا ہے میں تو طبعاً گمنامی کو چاہتا تھا اور یہی میری آرزو تھی خدا نے مجھ پر جبر کر کے اس سے مجھے باہر نکالا میری ہر گز مرضی نہ تھی مگر اُس نے میری خلاف مرضی کیا کیونکہ وہ ایک کام لینا چاہتا تھا.اُس کام کے لئے اُس نے مجھے پسند کیا اور اپنے فضل سے مجھ کو اس عہدہ جلیلہ پر مامور فرمایا یہ اسی کا اپنا انتخاب اور کام ہے.میرا اس میں کچھ دخل نہیں.میں تو دیکھتا ہوں کہ میری طبیعت اس طرح واقع ہوئی ہے شہرت اور جماعت سے کوسوں بھاگتی ہے اور مجھے سمجھ نہیں آتا کہ لوگ کس طرح شہرت کی آرزو رکھتے ہیں.میری طبیعت اور طرف جاتی تھی لیکن خدا مجھے اور طرف لے جاتا تھا میں نے بار بار دعائیں کیں مجھے گوشہ میں ہی رہنے دیا جائے مجھے میرے خلوت 98

Page 99

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام کے حجرے میں چھوڑ دیا جائے لیکن بار بار یہی حکم ہوا کہ اس سے نکلو اور دین کا کام جو اس وقت سخت مصیبت کی حالت میں تھا اس کو سنوارو انبیاء کی طبیعت اس طرح واقع ہوئی ہے وہ شہرت کی خواہش نہیں کیا کرتے کسی نبی نے کبھی شہرت کی خواہش نہیں کی ہمارے نبی کریم صلی ال کی بھی خلوت اور تنہائی کو ہی پسند کرتے تھے آپ عبادت کے لئے لوگوں سے دور تنہائی کی غار میں جو غار حرا تھی چلے جاتے تھے یہ غار اس قدر خوفناک تھی کہ کوئی انسان وہاں جانے کی جرات نہ کر سکتا تھا لیکن آپ نے اس کو اس لئے پسند کیا ہوا تھا کہ وہاں کوئی ڈر کے مارے بھی نہ پہنچے گا.آپ بالکل تنہائی چاہتے تھے شہرت کو ہر گز پسند نہیں کرتے تھے مگر خدا کا حکم ہوا يَأَيُّهَا الْمُدَّثِرُ قُمْ فَانْذِرُ اس حکم میں ایک جبر معلوم ہوتا ہے اور اسی لئے جبر سے حکم دیا گیا آپ تنہائی کو جو آپ کو بہت پسند تھی اب چھوڑ دیں“.(ذکر حبیب از مفتی محمد صادق صفحہ 159 - 160) اگر خدا تعالیٰ مجھے اختیار دے کہ خلوت اور جلوت میں سے تو کس کو پسند کرتا ہے تو اس پاک ذات کی قسم ہے کہ میں خلوت کو اختیار کروں مجھے تو کشاں کشاں میدانِ عالم میں اس نے نکالا ہے جو لذت مجھے خلوت میں آتی ہے اس سے بجز خدا تعالیٰ کے کون واقف ہے میں قریب 25 سال تک خلوت میں بیٹھا رہا ہوں اور کبھی ایک لحظہ کے لئے بھی نہیں چاہا کہ دربار شہرت کی کرسی پر بیٹھوں مجھے طبعاً اس سے کراہت رہی ہے کہ لوگوں میں مل کر بیٹھوں مگر امر آمر سے مجبور ہوں.فرمایا میں جو باہر بیٹھتا ہوں یا سیر کرنے جاتا ہوں اور لو گوں سے بات چیت کرتا ہوں یہ سب کچھ اللہ تعالی کے امر کی تعمیل کی بنا پر ہے“.(سیرت مسیح موعود از عبد الکریم صفحہ 45) اخبار زمیندار کے ایڈیٹر مولوی ظفر علی خاں صاحب کے والد اور اخبار زمیندار کے بانی منشی سراج الدین احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں لکھا: ”ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے.کاروبار ملازمت کے بعد ان کا تمام وقت مطالعہ دینیات میں صرف ہوتا تھا.عوام سے کم ملتے تھے.1877ء میں ہمیں ایک شب قادیان میں آپ کے ہاں مہمانی کی عزت حاصل ہوئی.ان دنوں میں بھی آپ عبادت اور وظائف میں اس قدر محو و مستغرق تھے کہ مہمانوں سے بھی بہت کم گفتگو کرتے تھے.“ (اخبار زمیندار مئی 1908ء بحوالہ بدر 25 جون 1908ء صفحہ 13 کالم نمبر 1 - 2) 99

Page 100

ئیں تھا غریب و بیکس و گم نام و بے ہنر کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر لوگوں کی اس طرف کو ذرا بھی نظر نہ تھی میرے وجود کی بھی کسی کو خبر نہ تھی کوئی بھی واقف نہ تھا مجھ سے نہ میرا معتقد لیکن اب دیکھو کہ چرچا کس قدر ہے ہر کنار اُس زمانے میں خدا نے دی تھی شہرت کی خبر جو کہ اب پوری ہوئی بعد از مرور روزگار روزنامه الفضل آن لائن لندن 1 اپریل 2022 ء 100

Page 101

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام قسط 18 آنحضرت اور حضرت مسیح موعود کی روزے سے محبت مصطفی پر تیرا بے حد ہو سلام اور رحمت اس سے یہ نور لیا بار خدایا ہم نے روزه اطاعت الہی کی ایک مشق ہے.اپنی ضروریات، خواہشات، توجہات کو رضائے الہی کے ماتحت کرنے کے لئے نفس کا مجاہدہ ہے.قربانی کا حوصلہ ہے.گناہوں کا کفارہ ہے اور آئندہ گناہوں سے بچنے کے لئے ڈھال ہے.نفس کی پاکیزگی کے لئے ہمہ وقت تسبیح، تحمید، ذکر الہی، نوافل، نماز، تہجد، تلاوتِ قرآن کی ترغیب ہے.انفاق فی سبیل اللہ ، صدقہ و خیرات کا تعامل ہے.شر سے حفاظت اور خیر کے حصول کی ضمانت ہے اور کھانے میں اعتدال اور کمی سے روحانیت اور ملائک جیسی خصوصیات کا تعارف ہے.کما حقہ روزے رکھنا بفضل الہی اللہ تبارک تعالیٰ کے قرب کا حصول ہے.سید المرسلین صلی المی روحانیت کی ہر راہ کے رہبر کامل ہیں.آپؐ پر تزکیہ نفس کے لئے جو بھی احکام الہی نازل ہوتے پہلے آپ خود اس پر تمام تر باریکیوں کے ساتھ عمل فرماتے.آپ کا اسوہ حسنہ اصولی اور عملی تعلیم کا کامل نمونہ ہے.آپ صلی الی ٹیم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزہ فرض کئے ہیں اور میں نے اپنی سنت کے ذریعے اس کے قیام کا طریق بتا دیا ہے.پس جو شخص حالت ایمان میں اپنا محاسبہ کرتے ہوئے روزے رکھے گا اور قیام کرے گا تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جائے گا جیسے اس کی والدہ نے اسے جنم دیا تھا (سنن نسائی کتاب الصوم حدیث نمبر 2180) آپ کو اس عبادت سے اس قدر شغف تھا کہ خاص اہتمام سے کثرت سے روزے رکھتے.نبوت کے بعد مکہ میں جبکہ ابھی روزے کی فرضیت کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے آپ کئی مہینوں تک مسلسل روزے رکھتے رہے.جب روزے رکھتے تو لگتا اب کبھی ناغہ نہیں کریں گے.پھر روزہ چھوڑ دیتے تو لگتا کبھی روزہ نہیں رکھیں گے.101

Page 102

(بخاری کتاب الجمعه حديث نمبر (1073) فرضیت کے بعد رمضان کے علاوہ شعبان کے مہینے میں بھی اکثر روزے رکھتے (بخاری کتاب الصوم حدیث نمبر 1834) مہینے کے نصف اول میں اکثر روزے رکھتے اور مہینے میں تین دن معمولاً روزہ رکھتے بالعموم مہینے کے پہلے سوموار اور پھر اگلے دونوں جمعرات کے دن روزہ رکھتے (مسلم کتاب الصيام حدیث نمبر (1972) آپ کی ایام فرماتے تھے کہ سوموار اور جمعرات کو اعمال اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کئے جاتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال اس حال میں پیش ہوں کہ میں روزہ دار ہوں (ترمذی باب الصیام ) اس کے علاوہ محرم کے دس اور شوال کے چھ روزے بھی رکھتے.روزے اس طرح بھی رکھتے کہ گھر تشریف لاتے اگر کھانے کو کچھ نہ ہوتا تو روزہ کی نیت کرلیتے.(ترمذی باب الصیام ) آنحضرت علی ایک روزہ رکھنا اسقدر پسند فرماتے تھے کہ بعض اوقات بغیر سحری کھائے روزے کی نیت فرمالیتے اور کئی دن تک یہی تسلسل رہتا مگر دوسروں کو اس طرح وصال کے روزے رکھنے کی از راہ شفقت اجازت نہ دیتے اس کی جو وجہ بیان فرمائی وہ آپ کے اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق کا بہت حسین اظہار ہے.آپ نے فرمایا: میں تم میں سے کسی کی طرح نہیں ہوں.میں رات ایسی حالت میں گزارتا ہوں کہ میرے لئے ایک کھلانے والا ہوتا ہے جو مجھے کھلاتا ہے اور ایک پلانے والا ہوتا ہے جو مجھے پلاتا ہے.“ (بخاری کتاب الصوم حدیث نمبر 1963) روزوں میں معمولات کے بارے میں حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ: نبی صلی ال یکی نیکی میں لو گوں میں سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں بہت زیادہ سخاوت کرتے تھے.جب حضرت جبرئیل آپ سے ملتے اور حضرت جبرئیل رمضان کی ہر رات آپ سے ملاقات کرتے تھے.یہاں 102

Page 103

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام تک کہ رمضان گزر جاتا نبی لی لی نیم قر آن کا دور کرتے.جب حضرت جبرئیل آپ سے ملتے تو آپ نیکی میں تازہ چلنے والی ہوا سے بھی تیز ہوتے.“ حضرت عائشہ فرماتی ہیں: (بخاری کتاب الصوم حدیث نمبر 1902) رمضان کے مہینے میں آپ کثرت سے قرآنِ کریم کی تلاوت فرماتے.حضرت جبرئیل کے ساتھ ہر ماه قرآن کریم کی دہرائی فرماتے وفات سے قبل آخری رمضان میں آپ نے دو بار قرآنِ کریم دہرایا.“ بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة في الاسلام) روزہ رکھنے کے شوق اور اللہ تعالیٰ کی عنایت کرده غیر معمولی صحت ہمت و طاقت اور برداشت کے باوجود رضائے الہی میں جب روزہ چھوڑنے کا حکم ہوتا تو اس پر عمل فرماتے یہ سمجھانے کے لئے کہ ثواب اطاعت میں ہے آپ سفر میں روزہ نہ رکھتے سب کے سامنے کچھ کھانے پینے سے اطاعت کا عملی درس دیتے.حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ: ”رسول اللہ صل الله علم مدینہ سے مکہ کے لئے نکلے تو آپ نے روزہ رکھا یہاں تا کہ آپ عسفان پہنچے تو پھر پانی منگوایا اور آپ نے اپنے ہاتھوں کو بلند کر کے اٹھایا تاکہ لوگ دیکھ لیں پھر آپ نے روزہ کھول دیا اور اسی حالت افطار میں مکہ پہنچ گئے اور یہ واقعہ رمضان میں ہوا.“ حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں: (بخاری کتاب الصوم حدیث نمبر 1948ء) ”جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو آنحضر مصلی الم کمر ہمت کس لیتے بیدار رہ کر راتوں کو زندہ کرتے خود بھی عبادت کرتے اہل بیت کو بھی جگاتے رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھا کرتے تھے اور آپ کا یہی معمول وفات تک رہا.“ (بخارى كتاب الصلوة التراويح حديث 1884ء) اس سراج منیر سے روشن ہونے والے بدر کامل حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نے قرآنی احکام اور سنت رسول صلی نیلم کو سب سے زیادہ سمجھا اور اسلام کے دور آخرین میں اسلام کا، مرور 103

Page 104

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام زمانہ سے در آنے والے رطب و یابس سے مبراء اصلی حسین چہرہ خود عمل کرکے دکھایا.قرب الہی کی راہوں کے متلاشی روزوں کی عبادت کی قبولیت سے خوب واقف تھے.فرماتے ہیں: وو یہ ماہ تنویر قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے.کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں.صلوۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم وم تجلی قلب کرتا ہے.تزکیۂ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بعد حاصل ہو جائے اور تجلی قلب سے مراد یہ ہے کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لے.“ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 561 - 562) آپ نے وہ نقوشِ قدم پا لئے تھے جو سیدھے یار کے کوچے میں لے جاتے ہیں.ارشاد فرمایا: آنحضرت صلی اللی امام رمضان شریف میں بہت عبادت کرتے تھے ان ایام میں کھانے پینے کے خیال سے فارغ ہو کر اور ان ضرورتوں سے انقطاع کر کے تقبل الی اللہ حاصل کرنا چاہئے.“ ( تقاریر جلسہ سالانہ 1906ء صفحہ 20 - 21) مسلسل روزے رکھنے کا انداز، کھانے پینے کے خیال سے فارغ، ہمہ تن در گه مولا کریم و رحیم پر جھکے ہوئے.مکرم مولانا دوست محمد صاحب مورخ احمدیت تحریر کرتے ہیں: جوانی کے عالم میں ایک دفعہ مسلسل آٹھ نو ماہ تک روزے رکھے اور آہستہ آہستہ خوراک کو اس قدر کم کر دیا کہ دن رات میں چند تولہ سے زیادہ نہیں کھاتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ مجھے خدا کے فضل سے اپنے نفس پر اس قدر قدرت حاصل ہے کہ اگر کبھی فاقہ کرنا پڑے تو قبل اس کے کہ مجھے ذرا بھی اضطراب ہو ایک موٹا تازہ شخص اپنی جان کھو بیٹھے.بڑھا پے میں بھی جب کہ صحت کی خرابی اور عمر کے طبعی تقاضے اور کام کے بھاری بوجھ نے گویا جسمانی طاقتوں کو توڑ کر رکھ دیا تھا.روزے کے ساتھ خاص محبت تھی اور بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ سحری کھا کر روزہ رکھتے تھے اور دن کے دوران میں ضعف سے مغلوب ہو کر جبکہ قریباً غشی کی سی حالت ہونے لگتی تھی خدائی حکم کے ماتحت روزہ چھوڑ دیتے تھے مگر جب دوسرا دن آتا تو پھر روزہ رکھ لیتے.“ تاریخ احمدیت جدید ایڈیشن جلد 2 صفحہ 384) حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود اس طرح کا مجاہدہ توفیق الہی بھر پور ہمت سے کر سکے مگر عام طور پر اس 104

Page 105

طرح کے مجاہدوں سے منع فرماتے.حضرت میر محمد اسمعیل تحریر فرماتے ہیں: چھ ماه تک ”آپ نے اوائل عمر میں گوشہ تنہائی میں بہت بہت مجاہدات کئے ہیں اور ایک موقع پر متواتر روزے منشائے الہی سے رکھے اور خوراک آپ کی صرف نصف روٹی یا کم روزہ افطار کرنے کے بعد ہوتی تھی اور سحری بھی نہ کھاتے تھے اور گھر سے جو کھانا آتا وہ چھپا کر کسی مسکین کو دیدیا کرتے تا کہ گھر والوں کو معلوم نہ ہو.مگر اپنی جماعت کے لئے عام طور پر آپ نے ایسے مجاہدے پسند نہیں فرمائے.“ مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صفحہ 544) حضرت ام المومنین نصرت جہاں بیگم روایت فرماتی ہیں: حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جوانی کا ذکر فرمایا کرتے تھے کہ اس زمانہ میں مجھ کو معلوم ہوا یا فرمایا اشارہ ہوا کہ اس راہ میں ترقی کرنے کے لئے روزے رکھنے بھی ضروری ہیں.فرماتے تھے پھر میں نے چھ ماہ لگاتار روزے رکھے اور گھر میں یا باہر کسی شخص کو معلوم نہ تھا کہ میں روزہ رکھتا ہوں صبح کا کھانا جب گھر سے آتا تو میں کسی حاجتمند کو دے دیتا تھا اور شام کا خود کھا لیتا تھا.آخر عمر میں بھی آپ روزے رکھا کرتے تھے خصوصا شوال کے چھ روزے التزام کے ساتھ رکھتے تھے اور جب کبھی آپ کو کسی خاص کام کے متعلق دعا کرنا ہوتی تھی تو آپ روزہ رکھتے تھے.ہاں مگر آخری دو تین سالوں میں بوجه ضعف و کمزوری رمضان کے روزے بھی نہیں رکھ سکتے تھے.“ (سيرة المهدی حصہ اول صفحہ 14 روزوں سے اللہ تبارک تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہوئی آپ فرماتے ہیں: میں نے چھ ماہ تک روزے رکھے اس اثنا میں میں نے دیکھا کہ انوار کے ستونوں کے ستون آسمان پر جارہے ہیں یہ امر مشتبہ ہے کہ انوار کے ستون زمین سے آسمان پر جاتے تھے یا میرے قلب سے.لیکن یہ سب سے.لیکن کچھ جوانی میں ہو سکتا تھا اگر اس وقت میں چاہتا تو چار سال تک روزہ رکھ سکتا تھا.“ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 562) ”میری تو یہ حالت ہے کہ مرنے کے قریب ہو جاؤں تب روزہ چھوڑتا ہوں.طبیعت روزہ چھوڑنے کو نہیں چاہتی.یہ مبارک دن ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے نزول کے دن ہیں.“ الحلم 24 فروری 1901ء صفحہ 14) 105

Page 106

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام شعائر اسلام کی پابندی کرانے کے لئے آپ بہت موثر انداز میں تلقین فرماتے.ایک مسافر جو قریباً عصر کے وقت قادیان پہنچے تھے حضور اقدس نے روزہ کھول دینے کا ارشاد فرمایا مگر ان کی ہچکچاہٹ دیکھ کر آپ نے فرمایا: ”آپ سینہ زوری سے خدا تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتے ہیں.خدا تعالیٰ سینہ زوری سے نہیں بلکہ فرمانبر داری سے راضی ہوتا ہے.جب اس نے فرما دیا ہے کہ مسافر روزہ نہ رکھے تو نہیں رکھنا چاہئے.“ (سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 97 آپ کی تحریروں میں قرآن و حدیث کی روشنی میں روزے کی اہمیت، تاکید، آداب، مسائل، اجر و ثواب کے بارے میں ہر جہت سے تعلیم موجود ہے.دعا ہے کہ ہم اس بابرکت عبادت کو اپنے محبوبوں کے انداز میں اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں.آمین اللهم آمین.(روزنامه الفضل آن لائن لندن 8 اپریل 2022ء) 106

Page 107

قسط 19 میں نے یہ تو نہیں کہا تھا سن چھ ہجری کا واقعہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ آپ اپنے صحابہ کے ساتھ بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں.آپ صلی ال نیلم نے اسے غیبی اشارہ سمجھ کر طواف کعبہ کی نیت فرمائی اور فروری 628ء کو قریباً چودہ سو اصحاب کے ساتھ مدینہ سے مکہ کے لئے روانہ ہوئے.قریش مکہ نے مسلمانوں کے مکہ میں داخلے کی شدید مخالفت کی.رفع شر کے لئے آپ نکال لی ہم نے اصرار نہ فرمایا اور حدیبیہ کے مقام پر ایک معاہدہ طے پایا جس کی ایک شق یہ تھی کہ اس سال مسلمان واپس چلے جائیں.اگلے سال بیت اللہ کے طواف کی اجازت ہو گی.مسلمان جو خانہء کعبہ سے بہت محبت کرتے تھے مکہ جانے کے لئے بیقرار تھے اور اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ رسول اللہصلی تعلیم کا فرمانا بہر حال پورا ہوتا ہے بہت دل برداشتہ ہوئے اور بڑے دکھ کے ساتھ واپسی کا سفر شروع کیا.حضرت عمر کی آنحضرت صلی لی نام سے اس گفتگو سے ان کی خلش کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے.حضرت عمر آنحضرت صل الم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ” کیا آپ خدا کے بر حق رسول نہیں؟“ آپ کی تعلیم نے فرمایا: ”ہاں ہاں ضرور ہوں“.عمر نے کہا: ”کیا ہم حق پر نہیں اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں؟" آپ صلی الم نے فرمایا: ”ہاں ہاں ضرور ایسا ہی ہے“.عمر نے کہا: ”تو پھر ہم اپنے سچے دین کے معاملے میں یہ ذلت کیوں برداشت کریں؟“ آپ صلی الم نے حضرت عمر کی حالت دیکھ کر مختصر الفاظ میں فرمایا: ”دیکھو عمر میں خدا کا رسول ہوں اور خدا کے منشاء کو جانتا ہوں اور اس کے خلاف نہیں چل سکتا اور وہی میر امدد گار ہے.“ مگر حضرت عمر کی طبیعت کا تلاطم لحظہ بلحظہ بڑھ رہا تھا کہنے لگے: ” کیا آپ صلی علی رام نے ہم سے نہیں فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ کا طواف کرینگے ؟“ آپ صلی ایم نے فرمایا: ”ہاں میں نے ضرور کہا تھا.مگر کیا میں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ طواف اس سال ضرور ہو گا؟“ عمر نے کہا: ”نہیں ایسا تو نہیں کہا.آپ صلی علیم نے فرمایا: ”تو پھر انتظار کرو.تم ان شاء اللہ ضرور مکہ میں داخل ہوگے اور کعبہ کا طواف کرو گے“.(ابن ہشام حالات حدیبیہ) گویا آپ صلی ال کلیم نے اعتراف فرمایا کہ خواب میں بیت اللہ کاطواف دیکھا تھا مگر وقت کا اندازہ درست نہ ہو سکا تاہم آپ کا کوئی کام اللہ تعالی کی حکمت اور تائید سے خالی نہیں ہوتا.اس سفر میں قریش مکہ سے صلح حدیبیہ کا معاہدہ طے پایا جس سے جنگ و جدل کا ماحول بدل کر امن و امان کا راستہ کھلا.واپسی کے سفر میں 107

Page 108

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام سورہ فتح نازل ہوئی.جس کی ایک آیت نمبر 48 کا ترجمہ ہے: یقیناً اللہ نے اپنے رسول کو (اس کی) رویا حق کے ساتھ پوری کرد کھائی کہ اگر اللہ چاہے گا تو تم ضرور بالضرور مسجد حرام میں امن کی حالت میں داخل ہوگے، اپنے سروں کو منڈواتے ہوئے اور بال کتر واتے ہوئے، ایسی حالت میں کہ تم خوف نہیں کروگے.پس وہ اس کا علم رکھتا تھا جو تم نہیں جانتے تھے.پس اس نے اس کے علاوہ قریب ہی ایک اور فتح مقدر کر دی ہے.(ترجمه از تفسیر صغیر) اگلے سال فروری 629ء میں دو ہزار اصحاب کے ساتھ بیت اللہ کا طواف فرمایا.یقیناً آنحضرت صلی الم کی رویا پوری ہوئی.آنحضرت صلی میں کام کا ایک قیاس یا اجتہاد درست نہ نکلا.جس سے کم فہم اور بد گمان دشمنوں کو اعتراض کا موقع ملا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مبارک الفاظ سے اس قسم کی بشری اجتہادی غلطیوں کے بارے میں اصولی تعلیم ملتی ہے.فرماتے ہیں: ”نبی کی شان اور جلالت اور عزت میں اس سے کچھ فرق نہیں آتا کہ کبھی اس کے اجتہاد میں غلطی بھی ہو اگر کہو کہ اس سے امان اٹھ جاتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ کثرت کا پہلو اس امان کو محفوظ رکھتا ہے.کبھی نبی کی وحی خبر واحد کی طرح ہوتی ہے اور مع ذالک مجمل ہوتی ہے اور کبھی وحی ایک امر میں کثرت سے اور واضح ہوتی ہے پس اگر مجمل وحی میں اجتہاد کے رنگ میں کوئی غلطی بھی ہو جائے تو بینات محکمات کو اس سے کچھ صدمہ نہیں پہنچتا.“ (لیکچر سیا لکوٹ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 245) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی اس قسم کے کم فہموں سے واسطہ پڑتا رہا.ایک واقعہ اس طرح ہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے نشان نمائی کے متعلق آپ کی متضرعانہ دعائیں سن کر 20 فروری 1886ء کو ایک غیر معمولی شان والے اولوالعزم بیٹے کی پیدائش کی خوشخبری عطا فرمائی.اس بیٹے کی بیان کردہ خصوصیات سے چند بطور نمونہ درج ذیل ہیں: ”سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا.ایک ز کی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت و نسل سے ہو گا.خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے.اس کا نام عنموائیل اور بشیر بھی ہے.اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے.وہ نور اللہ ہے.مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے.اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب 108

Page 109

چار شکوہ اور عظمت اور دولت ہو گا وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا وہ کلمتہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا اور وہ تین کو کرنے والا ہو گا (اس کے معنی سمجھ نہیں آئے) دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ.فرزند دلبند گرامی ارجمند.مظهر الاول والاخر مظهر الحق والعلاءِ كَانَ الله نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہو گا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گاوہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گااور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا.وَکانَ امراً مقضیا.(اشتہار 20 فروری 1886ء مندرجہ تبلیغ رسالت جلد اول صفحه 59 - 60 تذکرہ صفحہ 109 - 111) اس کے بعد 8 اپریل 1886ء کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مزید انکشاف ہونے والے امور بھی آپ نے اسی دن مشتہر کر دیے: آج 8 اپریل 1886ء میں اللہ جل شانہ کی طرف سے اس عاجز پر اس قدر کھل گیا کہ ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے جو ایک مدت حمل سے تجاوز نہیں کر سکتا اس سے ظاہر ہے کہ غالباً ایک لڑکا ابھی ہونے والا ہے یا بالضرور اس کے قریب حمل میں لیکن یہ ظاہر نہیں کیا گیا جواب پیدا ہو گا یہ وہی لڑکا ہے یا وہ کسی اور وقت میں نو برس کے عرصہ میں پیدا ہو گا.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 132 - 133 تذکرہ صفحہ 114) کہیں آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ موعود بیٹا نو سال کے عرصے کے اندر پیدا ہو گا.نہیں لکھا کہ اس عرصے میں اور کوئی بچہ پیدا نہیں ہو گا.یا جو بھی بچہ ہو گا وہ مصلح موعود ہو گا.مگر جب 15/اپریل 1886ء کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ہاں ایک بیٹی عصمت پیدا ہوئی تو مخالفین نے بے بنیاد اعتراضات کا شور مچادیا کہ پیشگوئی جھوٹی نکلی لڑکا نہیں لڑکی پیدا ہوئی ہے.حالانکہ آپ نے یہ بھی کہیں نہیں لکھا تھا کہ موجودہ حمل سے ہی ضرور لڑکا پیدا ہو گا.عنقریب لڑکا پیدا ہونے کا ذکر تھا.پھر 17 اگست 1887ء کو ایک لڑکا بشیر احمد پیدا ہوا.109

Page 110

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام صاف دل کو کثرت اعجاز کی حاجت نہیں اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہو خوف کر دگار روزنامه الفضل آن لائن لندن 15 اپریل 2022 ء 110

Page 111

قسط 20 قیصر اور قیصرہ قریش کے ساتھ صلح حدیبیہ کے بعد نسبتا سکون کے دن میسر آتے ہی آنحضرت صلی الم نے جہادِ اصغر کے بعد دعوت الی اللہ اور عبادات کے جہادِ اکبر کی طرف توجہ دی.آپؐ کا فرض منصبی کل عالم کو پیغام حق پہنچانا تھا آپ نے اس غرض کے لئے عرب کے چاروں طرف بادشاہوں اور رؤساء کو ایک ساتھ خطوط ارسال فرمائے.ان میں شام میں روما کے شہنشاہ قیصر ، شمال مشرق میں فارس کے شہنشاہ کسر گی، عرب کے شمال مغرب میں مقوقس شاہ مصر، مشرق میں یمامہ کے رئیس ہو زہ بن علی، مغرب میں حبشہ کے بادشاہ نجاشی، شمال میں عرب سے متصل ریاست کے حاکم غسان، عرب کے جنوب میں رئیس یمن اور مشرق میں والی بحرین شامل تھے.آنحضور صلی الم نے ان خطوط کے مضامین کمال حکمت سے ترتیب دئے.نمونے کے طور پر قیصر شاہ روم کے نام خط کا متن درج ذیل ہے: میں اللہ کے نام سے اس خط کو شروع کرتا ہوں.جو بے مانگے رحم کرنے والا اور اعمال کا بہترین بدلہ دینے والا ہے.یہ خط محمد خدا کے بندے اور اس کے رسول کی طرف سے روما کے رئیس ہر قل کے نام ہے سلامتی ہو اس شخص پر جو ہدایت کو قبول کرتا ہے.اس کے بعداے رئیس روما! میں آپ کو اسلام کی ہدایت کی طرف بلاتا ہوں.مسلمان ہو کر خدا کی سلامتی قبول کیجئے کہ اب صرف یہی نجات کا رستہ ہے.اسلام لائیے خدا تعالی آپ کو اس کا دوہرا اجر دے گا.لیکن اگر آپ نے رو گردانی کی تو یاد رکھئے کہ آپ کی رعایا کا گناہ بھی آپ کی گردن پر ہو گا.اور اے اہل کتاب! اس کلمہ کی طرف آجاؤ جو ہمارے تمہارے درمیان مشترک ہے.یعنی ہم خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی صورت میں خدا کا کوئی شریک نہ ٹھہرائیں اور خدا کو چھوڑ کر اپنے میں سے کسی کو اپنا آقا اور حاجت روانہ گردانیں.پھر اگر ان لوگوں نے رو گردانی کی تو ان سے کہہ دو کہ گواہ رہو کہ ہم تو بہر حال خدائے واحد کے دامن کے ساتھ وابستہ اور اس کے فرمانبر دار بندے ہیں.“ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے 1893ء میں اپنی معرکتہ الآرا کتاب ”آئینہ کمالات اسلام“ میں اپنے عہد کے علماء ومشائخ، فقراء اور گدی نشینوں کو دعوتِ حق کے لئے عربی زبان میں ”التبلیغ“ کے نام سے ایک طویل مکتوب تحریر فرمایا اس میں برطانیہ کی ملکہ معظمہ وکٹوریہ کے نام خصوصی طور پر اپنے محبوب کے 111

Page 112

مبارک نقوشِ قدم پر چلتے ہوئے خدائے واحد و یگانہ کا پیغام دیا.انداز وہی تھا جو آنحضور کی ایم نے قیصر و کسری اور دوسرے بادشاہوں کے نام خطوط میں اختیار فرمایا تھا.اس دعوت حق کے لفظ لفظ سے، بیان کی قوت و صداقت سے آپ کے قلب مطہر کا جوش و جذبہ منعکس تھا.آپ نے فرمایا: اے زمین کی ملکہ! تو مسلمان ہو جا.تو اور تیری سلطنت محفوظ رہے گی.ملکہ وکٹوریہ نے شکریے کے خط کے ساتھ آپ سے دیگر تصانیف بھیجوانے کی خواہش کی.یہ تو بظاہر کوئی بڑی کامیابی نہ تھی مگر یہ خط بیج ڈالنے کے مترادف تھے جو سازگار آب و ہوا ملتے ہی اُگنے، بڑھنے پھلنے پھولنے لگتے ہیں.پھر 1897ء میں ملکہ وکٹوریہ کی ساٹھ سالہ جوبلی کے موقع پر ایک رسالہ ”تحفہ قیصریہ“ تحریر فرمایا جس میں ملکہ کو دوسری بار بڑے خلوص سے دعوتِ اسلام دی.اس کے بعد 1899ء میں ”ستارہ قیصریہ“ کے نام سے اسی پیغام کا اعادہ فرمایا.ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار اور جلسہ احباب کے نام سے ملکہ کے لئے مبارکباد اور دعا کے جلسہ کی کارروائی تحریر فرمائی.جس میں اس کے اسلام کی آغوش میں آنے کی دعا بھی شامل ہے.”اے قادر توانا! ہم تیری بے انتہا قدرت پر نظر کر کے ایک اور دعا کے لئے تیری جناب میں جرات کرتے ہیں کہ ہماری محسنہ قیصرہء ہند کو مخلوق پرستی کی تاریکی سے چھڑا کر لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ پر اس کا خاتمہ کر.اے عمیق قدرتوں والے! اے عجیب تصرفوں والے! ایسا ہی کر “ (جلسه احباب، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 290) روزنامه الفضل آن لائن لندن 22 اپریل 2022ء) 112 12

Page 113

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام قسط 21 قبولیت دعا یہ ولایت کامل طور پر ظل نبوت ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: یہ ولایت کامل طور پر ظل نبوت ہے.خدا نے نبوت آنحضرت صلی اللہ نام کے اثبات کے لئے پیشگوئیاں دکھلائیں سو اس جگہ بھی بہت سی پیشگوئیاں ظہور میں آئیں.1.خدا نے دعاؤں کی قبولیت سے اپنے نبی علیہ السلام کی نبوت کا ثبوت دیا.سو اس جگہ بھی بہت سی دعائیں قبول ہوئیں.یہی نمونہ استجابت دعا کا جو لیکھرام میں ثابت ہوا غور سے سوچو !!! 2.ایسا ہی خدا نے اپنے نبی کو شق القمر کا معجزہ دیا سو اس جگہ بھی قمر اور شمس کے خسوف کسوف کا معجزہ عنایت ہوا.3.ایسا ہی خدا نے اپنے نبی کو فصاحت بلاغت کا معجزہ دیا سو اس جگہ بھی فصاحت بلاغت کو اعجاز کے طور پر دکھلایا غرض فصاحت بلاغت کا ایک الہی نشان ہے اگر اس کو توڑ کر نہ دکھلاؤ تو جس دعوی کے لئے یہ نشان ہے وہ اس نشان اور دوسرے نشانوں سے ثابت اور تم پر خدا کی حجت قائم ہے“ (حجۃ اللہ ، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 162 - 163) قبولیت دعا اس اقتباس میں حضرت اقدس نے جن تین مشابہتوں کا ذکر فرمایا ہے ان میں سے پہلی قبولیت دعا ہے اور قبولیت دعا کو آپ نے نبوت کا ثبوت قرار دیا ہے.ہم اسی عنوان کے تحت پہلے آنحضرت صلی میم کی دعاؤں کی قبولیت کے اعجازی نشانات کا ذکر کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے پیارے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے پیار کا اظہار اس طرح کرتا کہ آپ کے من کی مرادوں کو الفاظ کا جامہ پہنا کر پیش کرنے سے بھی پہلے سن لیتا کیو نکہ وہ تو آپ کے دل میں بستا تھا اور آپ کا مدعا خدائے تعالیٰ کے مدعا سے الگ نہ ہوتا تھا.اس عظیم الشان نبی اللہ کی زندگی کا ہر لمحہ اللہ 113

Page 114

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام تعالیٰ کی جلوہ نمائی کا الگ رنگ لئے ہوئے ہے.بیشمار واقعات میں سے مختلف مواقع کی چند جھلکیاں پیش ہیں.ایک روایت میں آتا ہے مسروق بیان کرتے ہیں کہ میں عبداللہ کے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ جب قریش نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب اور نافرمانی کی تو آپ نے ان کے خلاف یہ دعا کی.اللهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعَ كَسَبْعِ يُوْسُفَ (بخاری کتاب التفسير ، تفسير سورة الدخان باب ربنا اكشف عنا العذاب...حدیث نمبر 4822) آپ نے مسلمانوں پر کفار مکہ کے ظلم پر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی اے اللہ ! میری مشرکین کے مقابلے پر اس طرح سات سالوں کے ذریعہ سے مدد فرما جس طرح تو نے یوسف کی سات سالوں کے ذریعہ سے مدد فرمائی تھی اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا عذاب قحط سالی کی صورت میں نازل ہوا تھا مکہ کو ایک شدید قحط نے آگھیرا یہاں تک کہ ہر چیز تہس نہس ہو گئی لوگ بھوک سے عاجز آکر ہڈیاں اور مردار کھانے لگے.ابو سفیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور دعا کی درخواست کی عرض کی کہ اے محمد ! آپ کی قوم تو ہلاک ہو گئی ہے، اللہ سے دعا کریں وہ ان سے اس عذاب کو ٹال دے.آپ نے فرمایا تم اس کے بعد پھر نافرمانی اور سر کشی کرنے لگ جاؤ گے عذاب دور ہونے کے باوجود دوبارہ وہی حرکتیں کرو گے.تاہم بنی نوع کی ہمدردی کی جو تڑپ آپ کے دل میں تھی اس کے تقاضا کے تحت آپ نے دشمنوں کے لئے دعا کی کہ عذاب دور ہو جائے.دشمن کو بھی آپ کی دعاؤں پر یقین تھا لیکن ضد کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے تھے.اللہ تعالیٰ بھی فرماتا ہے جب عذاب دور کر دیتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ اور نبیوں کا انکار کرنا شروع کر دیتے ہیں.ہو پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک دفعہ سخت قحط پڑ گیا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک بدو کھڑا ہوا اور اس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! مال مویشی خشک سالی سے ہلاک گئے، پس اللہ سے ہمارے لئے دعا کریں.آپ نے اپنے ہاتھ اٹھائے.راوی بیان کرتے ہیں کہ ہمیں آسمان پر ایک بھی بادل کا ٹکڑا نظر نہیں آتا تھا، لیکن خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، آپ نے ابھی ہاتھ نیچے نہیں کئے تھے کہ بادل پہاڑوں کی مانند امڈ آئے.ابھی آپ منبر سے بھی نہیں اترے تھے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک پر بارش کے قطرات دیکھے.پھر لگاتار اگلے جمعہ تک بارش ہوتی رہی.پھر وہی بدو کھڑا ہوا اور راوی کہتے ہیں کہ وہ بدو یا کوئی اور شخص، بہر حال جو 114

Page 115

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام بھی شخص کھڑا ہوا اس نے کہا اے اللہ کے رسول! اب تو مکانات گرنے لگے ہیں او رمال بہنا شروع ہو گیا ہے، پس آپ ہمارے لئے دعا کریں.آپ نے اپنے ہاتھ بلند کئے اور دعا کی اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا اے اللہ ان بادلوں کو ہمارے ارد گر د لے جا اور ہم پر نہ برسا.آپؐ جس بادل کی ٹکڑی کی طرف بھی اشارہ کرتے تو وہ پھٹ جاتی اور اس بارش سے مدینہ ایک حوض کی مانند ہو گیا تھا.کہتے ہیں کہ وادی کنات ایک مہینے تک بہتی رہی، جو شخص بھی کسی علاقے سے آتا تو اس بارش کا ذکر کرتا تھا.(بخاری کتاب الجمعة باب الاستسقاء في الخطبة يوم الجمعة حديث نمبر (933) قوم پر قحط نازل کرنا اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے اپنا خاص سلوک دکھانے کے لئے ایسے حالات پیدا فرماتا ہے کہ فہمیدہ لو گوں کو خدائے قادر کا وجود نظر آئے حتی کہ کم فہم لوگ بھی اعجازی نشانوں کے گواہ ہوں اور ہدایت حاصل کریں اللہ تعالیٰ قادر ہے چاہے تو قحط ہی نہ پڑے.قحط پڑ جائے تو صرف نبی اکرم صلی امی کی دعا سے بارش ہو.بارش ہو تو صرف اتنی جس قدر ضرورت ہو.اس وقت تک ہوتی رہے جب تک دوبارہ دعا ہو.اور پھر قحط زدہ علاقے میں نہ ہو ارد گرد ہوتی رہے.اس طرح اللہ تعالیٰ چھوٹی چھوٹی باتوں سے اپنے نبی کی دعاؤں کی قبولیت کے اعجاز د کھا کر مومنوں کے ایمان مضبوط کرتا ہے.ابتلا اور امتحان بھی اسی لئے آتے ہیں وہ سمیع اور مجیب خدا بندے کی پکار پر انہیں ٹال کر اپنے جلوے دکھاتا ہے.حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری والدہ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! اپنے خادم انس کے لئے دعا کریں.آپ نے دعا کی اے اللہ ! اس کے اموال اور اس کی اولاد میں برکت ڈال دے اور جو کچھ تو اسے عطا کرے اس میں برکت ڈال.(بخاری کتاب الدعوات باب دعوة النبی ﷺ لخادمه بطول العمر وبكثرة المال حديث نمبر 6344) چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ: 115

Page 116

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام حضرت انس کا ایک باغ تھا، اس دعا کے بعد سال میں دو دفعہ پھل دیتا تھا.پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس کے لئے کثرت مال اور اولاد کی جو دعا مانگی تھی اس کے نتیجہ میں حضرت انس کی زندگی میں 80 کے قریب آپ کے بیٹے اور پوتے اور پوتیاں اور نواسے نواسیاں تھیں اور آپ نے 103 یا بعض روایتوں میں آتا ہے کہ 110 سال تک عمر پائی.(1993- (اسد الغابۃ جلد اوّل زیر اسم انس بن مالك بن النضر صفحہ 178، مطبع دار الفکر بیروت ایک اور روایت میں آپ کی دشمن کے لئے بددعا اور اس کی قبولیت کا واقعہ یوں بیان ہوا ہے: حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سائے میں نماز ادا کر رہے تھے کہ ابو جہل اور قریش کے چند لوگوں نے مشورہ کیا.مکہ کے ایک کنارے پر اونٹ ذبح کئے گئے تھے، انہوں نے بھیجا اور وہ اونٹ کی اوجڑی اٹھا لائے اور اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر لا کر رکھ دیا.حضرت فاطمہ آئیں اور اسے آپ کے اوپر سے اٹھایا.اس پر آپ نے فریاد کی اے اللہ ! تو قریش کو خود سنبھال، اے اللہ ! تو قریش کو خود سنبھال، اے اللہ ! تو قریش کو خود سنبھال.راوی کہتے ہیں کہ یہ بددعا ابو جہل بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، ابی بن خلف اور عقبہ بن ابو معیط وغیرہ کے متعلق تھی.عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ان سب کو بدر کے میدان میں مقتولین میں دیکھا.(بخاری کتاب الجهاد و السير باب الدعاء على المشركين بالهزيمة والزلزلة حديث نمبر 2934) حضرت اقدس مسیح موعود نے اپنی قبولیت دعا کے لئے بطور نمونہ پنڈت لیکھرام والی پیش گوئی کا ذکر فرمایا ہے.اس مضمون میں آپ کے ہزار ہا نشانات میں سے اسی نشان کا ذکر شامل ہے.پنڈت لیکھرام صوابی ضلع پشاور میں ایک ہندو آریہ پولیس کے محکمہ میں ملازم تھا.یہ شخص اسلام کا سخت دشمن تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا تھا.اس کی زبان بہت گندی تھی.اسلام کا دشمن تھا ہر وقت اعتراض کرتا تھا اور خدا تعالیٰ کو مکار کہا کرتا تھا.1885ء میں قادیان آیا.لیکن حضرت اقدس سے ملا نہیں بس فضول خط و کتابت کے ذریعہ ہی باتیں بناتا رہا.چند روز قادیان ٹھہر کر واپس چلا گیا اور جاتے ہوئے حضرت اقدس کو ایک خط لکھا جس کے آخر پر لکھا: "اچھا آسمانی نشان تو دکھا دیں.اگر بحث نہیں کرنا چاہتے تو رب العرش خیر الماکرین سے میری نسبت 116

Page 117

کوئی نشان تو ما نگیں“.اس فقرہ سے بھی ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہ شخص کس قدر بے باک شوخ اور گستاخ تھا.حضرت اقدس نے جواب میں تحریر فرمایا: ”جناب پنڈت صاحب! آپ کا خط میں نے پڑھا.آپ یقیناً سمجھیں کہ ہمیں نہ بحث سے انکار اور نہ نشان د کھانے سے.مگر آپ سیدھی نیت سے طلب حق نہیں کرتے.بے جا شرائط زیادہ کر دیتے ہیں.آپ کی زبان بد زبانی سے رکتی نہیں.آپ لکھتے ہیں کہ اگر بحث نہیں کرنا چاہتے تو رب العرش خیر الماکرین سے میری نسبت کوئی آسمانی نشان مانگیں.یہ کس قدر ہنسی ٹھٹھے کے کلمے ہیں.نشان خدا کے پاس ہیں وہ قادر ہے جو آپ کو دکھلا دے“ اور اس کے بعد 20 فروری 1886ء تک آسمانی نشان دکھلانے کا وعدہ بھی کر لیا.لیکن لیکھرام یہ لکھ کر قادیان سے چلا گیا کہ میں آپ کی پیشگوئیوں کو واہیات سمجھتا ہوں اور میرے حق میں جو چاہو شائع کرو.میری طرف سے اجازت ہے میں ان باتوں سے ڈرنے والا نہیں.حضرت اقدس نے ایک کتاب ”آئینہ کمالات اسلام“ لکھی.اس میں آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں فارسی میں ایک نظم لکھی.جس میں بڑے جلال سے اس شخص کے انجام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چند اشعار کہے: الا اے دشمن نادان و بے راہ بترس از تیغ بران محمد مولی که گم کردند مردم بجو در آل و اعوان محمد منکر از شان محمد الا ہم از نور نمایان محمد کرامت گرچه بے نام و نشان است ترجمہ: بیا بنگرز غلمان 1.خبر دار اے احمق اور گمراہ دشمن! تو ڈر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تیز تلوار - سے.2.مولی کی راہوں سے مخلوق خدا بھٹک چکی ہے اور اب تو اگر چاہے کہ تجھے سیدھا راستہ نصیب ہو تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم کی آل اولاد اور اس کے مدد گاروں کے پاس پہنچ.117

Page 118

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام 3.اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شان سے انکاری! خبر دار ہو جا.تو اگر نور محمد دیکھنا چاہے تو آ ہم تجھے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا نور د کھاتے ہیں.4.معجزات کا یوں تو آج نام ونشان بھی نظر نہیں آتا.مگر توا گر کوئی معجزہ دیکھنا چاہتا ہے تو محمد کے غلاموں اور خدمتگاروں کے پاس آکر دیکھ لے.اس کی شوخی اور شرارت حد سے زیادہ ہو گئی، تو 20 فروری 1893ء کو حضرت اقدس نے اس کے متعلق ایک اشتہار شائع کیا.حضرت اقدس نے تحریر فرمایا: اس شخص کے بارہ میں مجھے الہام ہوا ہے کہ یہ بے جان بچھڑا ہے اس کے اندر سے مکروہ آواز نکل رہی ہے اور اس کی گستاخیوں اور بد زبانیوں کی وجہ سے اسے سزا ملے گی اور اسے عذاب دیا جائے گا.اگر چھ برس کے اندر اندر اس پر کوئی ایسا عذاب نازل نہ ہوا جو عام تکلیفوں جیسا ہی ہوا اور اس نشان کے اندر خدائی رعب اور ہیبت نہ ہوئی تو سمجھو کہ میں خدا کی طرف سے نہیں اور میں اس کے نتیجہ میں ہر قسم کی سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوں گا چاہے مجھے سولی پر ہی کیوں نہ چڑھا دیا جائے.اس شریر کی بد زبانیاں اور بے ادبیاں ایسی ہیں کہ جنہیں پڑھ کر ہر (مومن کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ یہ پیشگوئی اتفاقی نہیں بلکہ خاص اسی مطلب کے لیے دُعا کی گئی تو خدا نے مجھے اس کا یہ جواب دیا ہے.اس کے ڈیڑھ ماہ بعد 2 اپریل 1893ء کو آپ نے ایک اور اشتہار دیا جس میں آپ نے لکھا: رؤیا میں دیکھا کہ ایک بڑا طاقتور اور خوفناک شکل والا شخص ہے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویاوہ انسان نہیں بلکہ بڑا سخت فرشتہ ہے.اُس نے پوچھا لیکھرام کہاں ہے تو پھر اس وقت حضور نے یہ سمجھا کہ یہ وہ شخص ہے جسے لیکھرام کی سزا کے لیے مقرر کیا گیا ہے.اس اشتہار کی پیشگوئی سے معلوم ہوا کہ لیکھرام قتل کیا جائے گا.اس کے بعد حضور نے ایک اور پیشگوئی فرمائی کہ جس دن لیکھرام کی موت ہو گی وہ عید کے ساتھ والا دن ہو گا.یہ تین پیشگوئیاں ہو گئیں.اول یہ کہ یہ شخص چھری سے قتل ہو گا.دوسری یہ کہ وہ دن عید کے ساتھ والا دن ہو گا اور تیسری یہ کہ چھ سال کے اندر مارا جائے گا.اس سلسلہ میں یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ حضرت اقدس کے ایک الہام کے الفاظ ہیں: يُقْضَى أَمْرُهُ فِی سِتَّ“ یعنی چھ میں اس کا کام تمام کیا جائے گا.اس الہام میں چھ کا ہندسہ اس واقعہ سے کیسا عجیب تعلق رکھتا ہے.سو بالکل اسی طرح ہوا یعنی یہ شخص چھ سال کے اندراندر مارا گیا.اس کے قتل کا دن چھ مارچ 1897ء تھا یہ چھٹے گھنٹے میں قتل ہوا.یہ دن مسلمانوں 118

Page 119

کی عید کا اگلا دن تھا اور آریوں کے لیے بھی یہ دن عید کا ہی دن تھا کیو نکہ اس دن ایک مسلمان نے ہندو مذہب قبول کرنا تھا.لیکھرام کے پاس ایک شخص آیا اور کہا جناب میں مسلمان ہوں اب ہندو بنا چاہتا ہوں یہ سن کر لیکھرام بے حد خوش ہوا.اسے اپنی جیت اور متح کا نشان سمجھا سب کو بتاتا کہ یہ ہمارا پہلا شکار ہے اسے ہندو بنانے کے لئے سات مارچ 1897ء کا دن مقرر ہوا.بڑی دھوم دھام سے اس کا انتظام کیا جارہا تھا اور ہندؤوں کے لیے تو گویا یہ عید کا دن تھا.6 مارچ کو ہفتہ کا دن تھا کہ لیکھرام نے قمیض اتاری ہوئی تھی اور اپنے کمرہ میں بیٹھا تھا.پاس ہی وہ کمبل اوڑھے بیٹھا تھا.کہ لیکھرام نے انگڑائی لی اور اس موقع سے فائدہ اُٹھا کر اس شخص نے پورا خنجر لیکھرام کے پیٹ میں اتار دیا اور یہاں تک کہ اس کی انتڑیاں باہر آگئیں اور منہ سے ایسی آواز نکلی جیسے کہ بیل نکالتا ہے جسے سن کر اس کی بیوی اور ماں بھاگی ہوئی کمرہ میں آگئیں.اب وہاں کیا رکھا تھا.وہ شخص بھاگ چکا تھا.یہ دیکھ کر وہ دروازہ تک دوڑی گئیں.سنا جاتا ہے کہ وہ یہ کہتی تھیں کہ انہوں نے قاتل کو سیڑھیوں پر سے اترتے دیکھا ہے.لیکن آگے پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں غائب ہو گیا.زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا.کیونکہ وہ گلی ایک طرف سے بالکل بند تھی اور اس طرف سے بھاگنے کا کوئی راستہ نہ تھا اور دوسری طرف جو کھلی تھی اس طرف کسی کی شادی تھی اور وہاں خوب کھانے وغیرہ پک رہے تھے اور لوگ بیٹھے تھے اور وہاں سے بھاگتے ہوئے کسی نے دیکھا نہیں تو اب بتاؤ وہ شخص گیا تو کہاں گیا؟ ہندؤوں کا محلہ.بھاگنے کو راستہ نہیں.کسی ہندو کے مکان میں چھپنے کی جگہ نہیں تو پھر ** آخر وہ مسلمان جا کہاں سکتا تھا.ہندؤوں نے بڑا شور مچایا اور لاہور میں مسلمان اداروں کی تلاشیاں ہو ئیں.یہاں تک کہ قادیان میں حضرت صاحب کے مکان تک کی تلاشی ہوئی.انگریز سپر نٹنڈنٹ پولیس نے خود تلاشی لی.حضرت صاحب نے اسے سب کاغذات دکھائے.معاہدہ کا وہ کاغذ بھی دکھایا کہ جس میں دونوں فریقوں نے رضا مندی سے سچی پیشگوئی کو سچائی کا معیار ٹھہرایا تھا.وہاں سے جانے کے بعد کپتان پولیس نے گورنمنٹ کو رپورٹ بھجوائی کہ ان الزامات میں کوئی حقیقت اور سچائی نہیں اور کوئی سازش نہیں ہوئی اور سارا پراپیگینڈا بالکل غلط ہے.لیکھرام کو فوڑا میوہسپتال پہنچایا گیا.شام کا وقت ہو چکا تھا ایک انگریز ڈاکٹر نے اس کا آپریشن کر کے ٹانکے لگائے.چو نکہ اس کی حالت بہت نازک ہو چکی تھی اس لیے ڈاکٹر نے پولیس کو بیان لینے سے بھی روک دیا.صبح ہوتے ہی پنڈت لیکھرام وفات پا گیا.19 119

Page 120

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام اس دن جبکہ ہندؤوں کے لیے عید کا دن تھا.ایک مسلمان نے ہندو بننا تھا وہی ان کے لیے ماتم کا دن بن گیا.اسی دن لیکھرام کی لاش ڈاکٹروں نے چیری بھی اور پھاڑی بھی.اسی دن پھر اس کا جنازہ اٹھایا گیا اور اسی دن اُسے جلایا بھی گیا اور بے شمار ہندو مر گھٹ تک ساتھ گئے.جہاں لیکھرام کا فوٹو لیا گیا اور اس کے بعد اُسے لکڑیوں کی ایک بہت بڑی چتا پر رکھ کر جلا دیا گیا اور پھر اس کی راکھ دریائے راوی میں بہادی گئی اور خدا کا الہام پورا ہوا اور بڑی شان وشوکت کے ساتھ پورا ہوا.جس کی دعا سے آخر لیکھو مرا تھا کٹ کر ماتم پڑا تھا گھر گھر وہ میرزا یہی ہے اچھا نہیں ستانا پاکوں کا دل دکھانا گستاخ ہوتے جانا اس کی جزا یہی ہے ( قادیان کے آریہ اور ہم صفحہ 48) (روزنامه الفضل آن لائن لندن 29 اپریل 2022ء) 120

Page 121

قسط 22 شمس و قمر کی گواہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ نام کا غلام، عکس، ظل، نائب، خلیفه، شاگرد، فرزند، ولی ہونے کی سعادت حاصل ہونے پر فخر محسوس فرماتے ہیں.سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدایا وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : (در ثمین) یہ ولایت کامل طور پر ظل نبوت ہے.خدا نے نبوت آنحضرت صلی اللہ نام کے اثبات کے لئے پیشگوئیاں دکھلائیں سو اس جگہ بھی بہت سی پیشگوئیاں ظہور میں آئیں.1.خدا نے دعاؤں کی قبولیت سے اپنے نبی علیہ السلام کی نبوت کا ثبوت دیا.سو اس جگہ بھی بہت سی دعائیں قبول ہوئیں.یہی نمونہ استجابت دعا کا جو لیکھرام میں ثابت ہواغور سے سوچو!!! 2.ایسا ہی خدا نے اپنے نبی کو شق القمر کا معجزہ دیا سو اس جگہ بھی قمر اور شمس کے خسوف کسوف کا معجزہ عنایت ہوا.3.ایسا ہی خدا نے اپنے نبی کو فصاحت بلاغت کا معجزہ دیا سو اس جگہ بھی فصاحت بلاغت کو اعجاز کے طور پر دکھلایا غرض فصاحت بلاغت کا ایک الہی نشان ہے اگر اس کو توڑ کر نہ دکھلاؤ تو جس دعوی کے لئے یہ نشان ہے وہ اس نشان اور دوسرے نشانوں سے ثابت اور تم پر خدا کی حجت قائم ہے“ (حجۃ اللہ ، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 162 - 163) اس اقتباس میں نبوت کے اثبات کے لئے عطا ہونے والے نشانات میں سے دوسرے کو موضوع بناتے ہیں یعنی خدا نے اپنے نبی کو شق القمر کا معجزہ دیا سو اس جگہ بھی قمر اور شمس کے خسوف کسوف کا معجزہ عنایت ہوا.چاند نے آنحضور صلی ایم کی صداقت کی گواہی دو ٹکڑے ہو کر دی.غالباً ابھی آپ شعب ابی طالب میں تھے 121

Page 122

کہ کفار مکہ نے آپ سے کوئی نشان مانگا.آپ نے اپنی انگلی اٹھا کر چاند کی طرف اشارہ فرمایا سب کی نظریں چاند کی طرف اٹھ گئیں سب کو ایسا لگا کہ چاند دو ٹکڑے ہو گیا.اس کو معجزہ شق القمر کہتے ہیں مگر اس کو دیکھ کر بھی انہوں نے حق کو نہ مانا اور کہنے لگے یہ تو جادو ہے.اس واقعہ کا ذکر سورہ القمر میں ہے: اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ) وَإِنْ يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ (ج) وَكَذَّبُوْا وَاتَّبَعُوْا أَهْوَاءَهُمْ وَكُلُّ أَمْرٍ مُسْتَقِ وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مِنَ الْأَنْبَاءِ مَا فِيْهِ مُزْدَجَرًا حِكْمَةٌ بَالِغَةٌ فَمَا تُغْنِ النُّذُرُ فَتَوَلَ عَنْهُمْ يَوْمَ يَدْعُ الدَّاعِ إِلى شَيْءٍ نكي ال (القمر : 2 تا 7) ساعت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا اور اگر وہ کوئی نشان دیکھیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیشہ کی طرح کیا جانے والا جادو ہے اور انہوں نے جھٹلا دیا اور اپنی خواہشات کی پیروی کی اور جلد بازی سے کام لیا) حالا نکہ ہر آمر (اپنے وقت پر) قرار پکڑنے والا ہوتا ہے.اور ان کے پاس کچھ خبریں پہنچ چکی تھیں جن میں سخت زجر و توبیخ تھی.کمال تک پہنچی ہوئی حکمت تھی.پھر بھی انذار کسی کام نہ آئے.پس اُن سے اعراض کر.(وہ دیکھ لیں گے) وہ دن جب بلانے والا ایک سخت ناپسندیدہ چیز کی طرف بلائے گا.آنکھوں سے معجزہ دیکھنے والے یہ تو نہ کہہ سکے کہ چاند دو ٹکڑے نہیں ہوا یہ اعترض کر دیا کہ یہ قوانین قدرت کے خلاف ہے.فی الحقیقت معجزے کی شان تو یہی ہے کہ اس میں کچھ انوکھا پن ہو معمول کی بات نہ ہو.پھر انسان آج تک علم ہیئت کے سارے پرت نہیں کھول سکا.خدا تعالی کی قدرتیں لا محدود ہیں.چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا نظارہ ایک کشفی نظارہ ہو سکتا ہے جس میں سب کو شریک کر کے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے کی صداقت کا گواہ بنایا.یا زمینی عوامل کو ایسے ترتیب دیا کہ ایک معجزہ ظہور میں آجائے مثلاً کسی آتش فشاں کے پھٹنے سے بخارات کا اٹھنا یا کسی بگولے وغیرہ کا آسمان کی طرف بلند ہونا جس سے وقتی طور پر چاند دو حصوں میں بٹا ہوا نظر آیا.حضرت اقدس فرماتے ہیں: غرض علوم جدیدہ کا سلسلہ منقطع ہوتا نظر نہیں آتا.شق القمر کے ایک تاریخی واقعہ سے کیوں اتنا نفرت یا تعجب کرو.گزشتہ دنوں میں تو جس کو کچھ تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے ایک یورپین فلاسفر کو سورج کے 122

Page 123

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام ٹوٹنے کی ہی فکر پڑ گئی تھی.پھر شاید شگاف ہو کر مل گیا.فلاسفروں کو ابھی بہت کچھ سمجھنا اور معلوم کرنا باقی ہے.کے آمدی کے پیر شدی.ابھی تو نام خدا ہے غنیہ ! صبا تو چھو بھی نہیں گئی ہے یہ نہایت محقق صداقت ہے کہ ہر یک چیز اپنے اندر ایک ایسی خاصیت رکھتی ہے جس سے وہ خدائے تعالیٰ کی غیر متناہی قدرتوں سے اثر پذیر ہوتی رہی.سو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خواص اشیاء ختم نہیں ہو سکتے گو ہم ان پر اطلاع پائیں یا نہ پائیں.اگر ایک دانہ خشخاش کے خواص تحقیق کرنے کے لیے تمام فلاسفر اولین و آخرین قیامت تک اپنی دماغی قوتیں خرچ کریں تو کوئی عقلمند ہر گز باور نہیں کر سکتا کہ وہ ان خواص پر احاطہ تام کرلیں.سو یہ خیال کہ اجرام علوی یا اجسام سفلی کے خواص جس قدر بذریعہ علم ہیئت یا طبعی دریافت ہو چکے ہیں اسی قدر پر ختم ہیں اس سے زیادہ کوئی بے سمجھی کی بات نہیں.“ رمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 93) مکہ میں چاند سے بادشاہ بھی مراد لیا جاتا تھا اس نشان سے اللہ تعالیٰ نے مکہ والوں کو یہ بھی بتا دیا کہ پرانی بادشاہتیں ختم ہو گئی ہیں سرداری صرف حضرت محمد لا الم کی ہو گی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: آئینہ میں صورتوں کا انعکاس (عربی سے ترجمہ) اس خدا کو تمام تعریف ہے جس نے مجھے نشانوں کا جائے ظہور بنایا اور سرور کائنات کا ظل مجھے ٹھہرا دیا اور میرے نام کو آنحضرت صلی للی نیلم کے نام سے مشابہ بنا دیا.اس طرح پر کہ اپنی نعمتوں کو میرے پر پورا کیا تا میں اس کی بہت تعریف کر کے احمد کے نام کا مصداق بنوں اور میرے سبب سے لو گوں کے ایمان کو تازہ کیا تا وہ میری بہت تعریف کریں اور میں محمد کے نام کا مصداق بنوں پس میں احمد ہوں اور میں محمد ہوں جیسا کہ روایات میں آیا ہے اور مجھے آنحضرت صلی اللی کام کے دونوں ناموں کی حقیقت عطا فرمائی گئی ہے جیسا کہ آئینہ میں صورتوں کا انعکاس ہو جاتا ہے پس ہم اس نبی اُمّی پر درود اور سلام بھیجتے ہیں جس کے انوار نیک مردوں اور نیک عورتوں میں چمکتے ہیں اور اس کے نام کے ساتھ بر کتوں کے دروازے کھولے جاتے ہیں“ (حجۃ اللہ ، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 165) 123

Page 124

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام جیسے آنحضور صلی می کنیم کی صداقت کے لئے آسماں پر چاند نے گواہی دی اسی طرح حضرت اقدس علیہ السلام کے لئے بھی آسمان سے سورج چاند نے گواہی دی: آسماں میرے لئے تو نے بنایا اک گواہ چاند اور سورج ہوئے میرے لئے تاریک و تار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق مسیح موعود کی آمد کی نشانیوں میں سے ایک بڑی زبر دست نشانی سورج اور چاند گرہن تھا جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مشرق اور مغرب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تائید میں پورا ہوا.پس اس لحاظ سے گرہن کی نشانی کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت سے ایک خاص تعلق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس نشان کا تفصیل سے ذکر فرماتے ہیں کہ: صحیح دار قطنی میں یہ ایک حدیث ہے کہ امام محمد باقر فرماتے ہیں کہ إِنَّ لِمَهْدِينَا ايَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ يَنْكَسِفُ الْقَمَرُ لِاَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِي النِّصْفِ مِنْه - ترجمه یعنی ہمارے مہدی کے لئے دو نشان ہیں اور جب سے کہ زمین و آسمان خدا نے پیدا کیا یہ دو نشان کسی اور مامور اور رسول کے وقت میں ظاہر نہیں ہوئے.ان میں سے ایک یہ ہے کہ مہدی معہود کے زمانہ میں رمضان کے مہینہ میں چاند کا گرہن اس کی اوّل رات میں ہو گا یعنی تیرھویں تاریخ میں اور سورج کا گرہن اس کے دنوں میں سے بیچ کے دن میں ہو گا.یعنی اسی رمضان کے مہینہ کی اٹھائیسویں تاریخ کو اور ایسا واقعہ ابتدائے دنیا سے کسی رسول یا نبی کے وقت میں کبھی ظہور میں نہیں آیا.صرف مہدی معہود کے وقت اس کا ہونا مقدر ہے.اب تمام انگریزی اور اردو اخبار اور جملہ ماہرین ہیئت اس بات کے گواہ ہیں کہ میرے زمانہ میں ہی جس کو عرصہ قریباً بارہ سال کا گزر چکا ہے اسی صفت کا چاند اور سورج کا گرہن رمضان کے مہینہ میں وقوع میں آیا ہے اور جیسا کہ ایک اور حدیث میں بیان کیا گیا ہے یہ گرہن دو مرتبہ رمضان میں واقع ہو چکا ہے.اول اس ملک میں دوسرے امریکہ میں اور دونوں مرتبہ انہیں تاریخوں میں ہوا ہے جن کی طرف حدیث اشارہ کرتی ہے اور چو نکہ اس گرہن کے وقت میں مہدی معہود ہونے کا مدعی کوئی زمین پر بجز میرے نہیں تھا اور نہ کسی نے میری طرح اس گرہن کو اپنی مہدویت کا نشان قرار دے کر صدہا اشتہار اور رسالے اردو اور فارسی اور عربی میں دنیا میں شائع کئے ، اس لئے یہ نشانِ آسمانی میرے لئے متعین ہوا.دوسری اس پر دلیل یہ ہے کہ بارہ برس پہلے اس نشان کے ظہور سے خدا تعالیٰ نے اس نشان کے بارے میں 124

Page 125

مجھے خبر دی تھی کہ ایسا نشان ظہور میں آئے گا اور وہ خبر براہین احمدیہ میں درج ہو کر قبل اس کے جو یہ نشان ظاہر ہو لا کھوں آدمیوں میں مشتہر ہو چکی تھی“.(حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 202) (حوالہ حدیث سنن الدار قطنی کتاب العيدين باب صفة صلاة الخسوف والكسوف و هیت هما نمبر 1777 مطبوعة دار الكتب العلمية بيروت 2003ء) قرآن کریم کی سورۃ القیامہ میں اس نشان کا بیان وَخَسَفَ الْقَمَرُ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ا اور چاند گہنا جائے گا اور سورج اور چاند اکٹھے کئے جائیں گے.(القیامه: 9-10) پس اے اہل اسلام اور رسول اللہ صلی ال یکم کی پیروی کرنے والو! تمہیں معلوم ہو کہ وہ نشان جس کا قرآن کریم میں تم وعدہ دئے گئے تھے اور رسول اللہ صلی علی کی کم سے جو سید الرسل اور اندھیرے کو روشن کرنے والا ہے تمہیں بشارت ملی تھی یعنی رمضان شریف میں آفتاب اور چاند گرہن ہونا وہ رمضان جس میں قرآن نازل ہوا وہ نشان ہمارے ملک میں بفضل اللہ تعالیٰ ظاہر ہو گیا اور چاند اور سورج کا گرہن ہوا اور دو نشان ظاہر ہوئے پس خدا تعالیٰ کا شکر کرو اور اس کے آگے سجدہ کرتے ہوئے گرو.اسْمَعُوا صَوْتَ السَّمَاءِ جَاءَ الْمَسِيحَ جَاءَ الْمَسِيحُ نیز بشنو از زمین آمد امام کامگار آسمان بارد نشان الوقت می گوید زمیں این دو شاہد از پئے من نعره زن چوں بیقرار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”خدا نے میری سچائی کی گواہی کے لئے تین لاکھ سے زیادہ آسمانی نشان ظاہر کئے اور آسمان پر کسوف خسوف رمضان میں ہوا.اب جو شخص خدا اور رسول کے بیان کو نہیں مانتا اور قرآن کی تکذیب کرتا ہے اور عمداً خدا تعالیٰ کے نشانوں کو رد کرتا ہے اور مجھ کو باوجود صدہا نشانوں کے مفتری ٹھہراتا ہے تو وہ 125

Page 126

مومن کیونکر ہو سکتا ہے.“ ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 168) اور ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ: ”ہمارے لئے کسوف خسوف کا نشان ظاہر ہوا اور صدہا آدمی اس کو دیکھ کر ہماری جماعت میں داخل ہوئے اور اس کسوف خسوف سے ہم کو خوشی پہنچی اور مخالفوں کو ذلّت.کیا وہ قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ ان کا دل چاہتا تھا کہ ایسے موقع پر جو ہم مہدی موعود کا دعویٰ کر رہے ہیں کسوف خسوف ہو جائے اور بلاد عرب میں اس کا نام و نشان نہ ہو اور پھر جبکہ خلاف مرضی ظاہر ہو گیا تو بیشک ان کے دل دکھے ہوں گے اور اس میں اپنی ذلت دیکھتے ہوں گے.“ انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 33) چاند سورج گرہن کی پیشگوئی کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اقتباس پیش ہے.آپ فرماتے ہیں کہ: ” مجھے بڑا تعجب ہے کہ باوجود یکہ نشان پر نشان ظاہر ہوتے جاتے ہیں مگر پھر بھی مولویوں کو سچائی کے قبول کرنے کی طرف توجہ نہیں.وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ ہر میدان میں اللہ تعالیٰ ان کو شکست دیتا ہے اور وہ بہت ہی چاہتے ہیں کہ کسی قسم کی تائید الہی ان کی نسبت بھی ثابت ہو مگر بجائے تائید کے دن بدن ان کا خذلان اور ان کا نامراد ہونا ثابت ہوتا جاتا ہے.مثلاً جن دنوں میں جنتریوں کے ذریعہ سے یہ مشہور ہوا تھا کہ حال کے رمضان میں سورج اور چاند دونوں کو گرہن لگے گا اور لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ یہ امام موعود کے ظہور کا نشان ہے تو اس وقت مولویوں کے دلوں میں یہ دھڑ کہ شروع ہو گیا تھا کہ مہدی اور مسیح ہونے کا مدعی تو یہی ایک شخص میدان میں کھڑا ہے.ایسا نہ ہو کہ لوگ اس کی طرف جھک جائیں.تب اس نشان کے چھپانے کے لئے اول تو بعض نے یہ کہنا شروع کیا کہ اس رمضان میں ہر گز کسوف خسوف نہیں ہو گا بلکہ اس وقت ہو گا کہ جب ان کے امام مہدی ظہور فرما ہوں گے اور جب رمضان میں خسوف کسوف ہو چکا تو پھر یہ بہانہ پیش کیا کہ یہ کسوف خسوف حدیث کے لفظوں سے مطابق نہیں کیونکہ حدیث میں یہ ہے کہ چاند کو گرہن اوّل رات میں لگے گا اور سورج کو گرہن درمیان کی تاریخ میں لگے حالا نکہ اس کسوف خسوف میں چاند کو گرہن تیرھویں رات میں لگا اور سورج کو گرہن اٹھائیس تاریخ کو لگا اور جب ان کو سمجھایا گیا کہ حدیث میں مہینے کی پہلی تاریخ مراد نہیں اور پہلی تاریخ کے 126

Page 127

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام چاند کو قمر نہیں کہہ سکتے اس کا نام تو ہلال ہے اور حدیث میں قمر کا لفظ ہے نہ ہلال کا لفظ.سو حدیث کے معنی یہ ہیں کہ چاند کو اس پہلی رات میں گرہن لگے گا جو اُس کے گرہن کی راتوں میں سے پہلی رات ہے.یعنی مہینہ کی تیرھویں رات اور سورج کو درمیان کے دن میں گرہن لگے گا یعنی اٹھائیس تاریخ جو اس کے گرہن کے دنوں میں سے درمیانی دن ہے.تب یہ نادان مولوی اس صحیح معنی کو سن کر بہت شرمندہ ہوئے اور پھر بڑی جانکاہی سے یہ دوسرا عذر بنایا کہ حدیث کے رجال میں سے ایک راوی اچھا آدمی نہیں ہے تب ان کو کہا گیا کہ جبکہ حدیث کی پیشگوئی پوری ہو گئی تو وہ جرح جس کی بناء شک پر ہے اس یقینی واقعے کے مقابل پر جو حدیث کی صحت پر ایک قوی دلیل ہے کچھ چیز ہی نہیں.یعنی پیشگوئی کا پورا ہونا یہ گواہی دے رہا ہے کہ یہ صادق کا کلام ہے اور اب یہ کہنا کہ وہ صادق نہیں بلکہ کاذب ہے بدیہیات کے انکار کے حکم میں ہے اور ہمیشہ سے یہی اصول محد ثین کا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ شک یقین کو رفع نہیں کر سکتا.پیشگوئی کا اپنے مفہوم کے مطابق ایک مدعی مہدویت کے زمانے میں پوری ہو جانا اس بات پر یقینی گواہی ہے کہ جس کے منہ سے یہ کلمات نکلے تھے اس نے سچ بولا ہے.لیکن یہ کہنا اس کی چال چلن میں ہمیں کلام ہے.یہ ایک شکی امر ہے اور کبھی کاذب بھی سچ بولتا ہے ماسوا اس کے یہ پیشگوئی اور طرق سے بھی ثابت ہے اور حنفیوں کے بعض اکابر نے بھی اس کو لکھا ہے تو پھر انکار شرط انصاف نہیں ہے بلکہ سراسر ہٹ دھرمی ہے اور اس دندان شکن جواب کے بعد انہیں یہ کہنا پڑا کہ یہ حدیث تو صحیح ہے اور اس سے یہی سمجھا جاتا ہے کہ عنقریب امام موعود ظاہر ہو گا مگر یہ شخص امام موعود نہیں ہے بلکہ وہ اور ہو گا جو بعد میں اس کے عنقریب ظاہر ہو گا.مگر یہ ان کا جواب بھی بودا اور باطل ثابت ہوا کیو نکہ اگر کوئی اور امام ہوتا تو جیسا کہ حدیث کا مفہوم ہے وہ امام صدی کے سر پر آنا چاہئے تھا مگر صدی سے بھی پندرہ برس گزر گئے اور کوئی امام ان کا ظاہر نہ ہوا.اب ان لوگوں کی طرف سے آخری جواب یہ ہے کہ یہ لوگ کافر ہیں.ان کی کتابیں مت دیکھو.ان سے ملاپ مت رکھو.ان کی بات مت سنو کہ ان کی باتیں دلوں میں اثر کرتی ہیں.لیکن کس قدر عبرت کی جگہ ہے کہ آسمان بھی ان کے مخالف ہو گیا اور زمین کی حالت موجودہ بھی مخالف ہو گئی.یہ کس قدر ان کی ذلت ہے کہ ایک طرف آسمان ان کے مخالف گواہی دے رہا ہے اور ایک طرف زمین صلیبی غلبے کی وجہ سے گواہی دے رہی ہے.(ضرورة الامام، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 507 تا 509) جب سے یہ نور ملا نور پیمبر سے ہمیں ذات سے حق کی وجود اپنا ملایا ہم نے 127

Page 128

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام مصطفی پر ترا بے حد ہو سلام اور رحمت اُس سے یہ نور لیا بار خدایا ہم نے 128 روزنامه الفضل آن لائن لندن 13 مئی 2022 ء

Page 129

قسط 23 فصاحت بلاغت کا ایک الہی نشان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”یہ ولایت کامل طور پر ظل نبوت ہے.خدا نے نبوت آنحضرت صلی اللہ نام کے اثبات کے لئے پیشگوئیاں دکھلائیں سو اس جگہ بھی بہت سی پیشگوئیاں ظہور میں آئیں.خدا نے دعاؤں کی قبولیت سے اپنے نبی علیہ السلام کی نبوت کا ثبوت دیا.سو اس جگہ بھی بہت سی دعائیں قبول ہوئیں.یہی نمونہ استجابت دعا کا جو لیکھرام میں ثابت ہوا غور سے سوچو!! ایسا ہی خدا نے اپنے نبی کو شق القمر کا معجزہ دیا سو اس جگہ بھی قمر اور شمس کے خسوف کسوف کا معجزہ عنایت ہوا.ایسا ہی خدا نے اپنے نبی کو فصاحت بلاغت کا معجزہ دیا سو اس جگہ بھی فصاحت بلاغت کا اعجاز کے طور پر د کھلایا غرض فصاحت بلاغت کا ایک الہی نشان ہے اگر اس کو توڑ کر نہ دکھلاؤ تو جس دعویٰ کے لئے یہ نشان ہے وہ اس نشان اور دوسرے نشانوں سے ثابت اور تم پر خدا کی حجت قائم ہے 66 (حجۃ اللہ ، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 162 - 163) اس اقتباس میں موجود صداقت کا تیسرا نشان جو آنحضور صلی علی یم اور ان کے ظل کو عنایت ہوا فصاحت بلاغت کا الہی نشان ہے.فصاحت و بلاغت کیا ہے؟ بات کو ایسے طریق پر بیان کرنا کہ کلام خوب صورت بھی ہو پُر اثر بھی اور آسانی سے سمجھ میں بھی آسکے ہر شخص بولنے کی صلاحیت سے کسی نہ کسی حد تک اپنے خیالات کا اظہار کر سکتا.ہے اور جوں جوں فراست اور تجربہ بڑھتا جاتا ہے اپنے کلام کو مختلف طریق سے زیادہ مؤثر اور خوب صورت بناتا جاتا ہے مناسب الفاظ چن کر انہیں صحیح ترتیب دے کر.مثالیں لا کر ( تشبیه و استعارہ وغیره) تزئین کلام کے دوسرے فنون (صنائع بدائع) استعمال کر کے اور ترقی کرتے کرتے بعض اشخاص ایسا کمال حاصل کر لیتے ہیں کہ پھر بغیر کوشش اور تردد کے ان کی زبان اور قلم سے فصیح و بلیغ کلام کا ہے.یہاں تک کہ ان کا کلام حدیث قدسی ان من البيان لسحرا کے مطابق سحر حلال بن جاتا ہے.اس نکلتا 129

Page 130

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام سحر حلال کو نظم کی شکل میں ڈھال لیا جائے تو اسی کا نام شاعری ہے جو بعض ادباء کے نزد یک فصاحت و بلاغت کا انتہائی مقام ہے.در ثمین فارسی کے محاسن صفحہ 17) بلاغت تو یہ ہے کہ کلام وقت اور حال کے مطابق ہو انسان میں گونا گوں خیالات اور جذبات پائے جاتے ہیں کبھی غم و غصہ ہے اور کبھی مسرت و مہربانی.ایک وقت بیتابی و بے قراری ہے تو دوسرے وقت راحت و سکون.کبھی مستی و بے ہوشی ہے اور کبھی باخودی و ہشیاری.پس جس حالت و کیفیت کا بیان ہو کلام اگر اس میں ڈوبا ہوا ہو کہ کہنے والا کہہ رہا ہے اور سننے والے کی آنکھوں کے سامنے اس کا نقشہ کھینچا جاتا ہے تفصیل کی جگہ وضاحت ہے اور اجمال کی جگہ اختصار تو وہ کلام بلیغ کہلائے گا.(مقدمہ ہشت بہشت صفحہ 8 فصاحت و بلاغت کا سب سے بڑا شہکار قرآن کریم ہے جو رحمان خدا نے ہمارے سید و مولا حبیب خدا حضرت محمد مصطفی اصلی انم کو عطا فرمایا.وَلَوْ جَعَلْنَهُ قُرَانًا أَعْجَمِيًّا تَقَالُوْا لَوْلَا فُقِلَتْ أَيْتُهُ وَ أَعْجَمِيٌّ وَعَرَبِيٌّ قُلْ هُوَلِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءُ ۚ وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُوْنَ فِي أَذَانِهِمْ وَقُهُ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَلَى أُولَبِكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَّكَانٍ بَعِيْدِ ) (حم السجدة: 45) اور اگر ہم نے اسے انجمی (یعنی غیر فصیح قرآن بنایا ہوتا تو وہ ضرور کہتے کہ کیوں نہ اس کی آیات کھلی کھلی (یعنی قابل فہم) بنائی گئیں؟ کیا انجمی اور عربی (برابر ہو سکتے ہیں)؟ تُو کہہ دے کہ وہ تو ان لو گوں کے لئے جو ایمان لائے ہیں ہدایت اور شفا ہے اور وہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے اُن کے کانوں میں بہر اپن ہے جس کے نتیجہ میں وہ ان پر مخفی ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ایک دُور کے مکان سے بلایا جاتا ہے.قُلْ لَبِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيا الام (بنی اسرائیل: 89) تو کہہ دے کہ اگر جن و انس سب اکٹھے ہو جائیں کہ اس قرآن کی مثل لے آئیں تو وہ اس کی مثل نہیں لاسکیں گے خواہ ان میں سے بعض بعض کے مدد گار ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآن پاک کو خاتم الکتب فرماتے ہیں جو خاتم النبیین "پر نازل فرمایا گیا.130

Page 131

فرماتے ہیں:.خاتم النبیین کا لفظ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بولا گیا ہے بجائے خود چاہتا ہے اور بالطبع اسی لفظ میں یہ رکھا گیا ہے کہ وہ کتاب جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے وہ بھی خاتم الکتب ہو اور سارے کمالات اس میں موجود ہوں اور حقیقت میں وہ کمالات اس میں موجود ہیں.کیونکہ کلام الہی کے نزول کا عام قاعدہ اور اصول یہ ہے کہ جس قدر قوت قدسی اور کمال باطنی اس شخص کا ہوتا ہے اس قدر قوت اور شوکت اس کلام کی ہوتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اور کمال باطنی چونکہ اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کا تھا جس سے بڑھ کر کسی انسان کا نہ کبھی ہوا اور نہ آئندہ ہو گا اس لئے قرآن شریف بھی تمام پہلی کتابوں اور صحائف سے اس اعلیٰ مقام اور مرتبہ پر واقع ہوا ہے جہاں تک کوئی دوسرا کلام نہیں پہنچا.کیو نکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی استعداد اور قوت قدسی سب سے بڑھی ہوئی تھی اور تمام مقامات کمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو چکے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی نقطہ پر پہنچے ہوئے تھے.اس مقام پر قرآن شریف جو آپ پر نازل ہوا کمال کو پہنچا ہوا ہے اور جیسے نبوت کے کمالات آپ پر ختم ہو گئے اسی طرح پر اعجاز کلام کے کمالات قرآن شریف پر ختم ہو گئے.آپ خاتم النبیین ٹھہرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب خاتم الکتب ٹھہری.جس قدر مراتب اور وجوہ اعجاز کلام کے ہو سکتے ہیں ان سب کے اعتبار سے آپ کی کتاب انتہائی نقطہ پر پہنچی ہوئی ہے.یعنی کیا باعتبار فصاحت و بلاغت، کیا باعتبار ترتیب ،مضامین، کیا باعتبار تعلیم کیا باعتبار کمالات ،تعلیم کیا باعتبار ثمرات تعلیم.غرض جس پہلو سے دیکھو! اسی پہلو سے قرآن شریف کا کمال نظر آتا ہے اور اس کا اعجاز ثابت ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے کسی خاص امر کی نظیر نہیں مانگی بلکہ عام طور پر نظیر طلب کی ہے یعنی جس پہلو سے چاہو.مقابلہ کرو خواہ بلحاظ فصاحت و بلاغت، خواه بلحاظ مطالب و مقاصد ، خواه بلحاظ تعلیم، خواہ بلحاظ پیشگوئیوں اور غیب کے جو قرآن شریف میں موجود ہیں.غرض کسی رنگ میں دیکھو یہ معجزہ ہے.“ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 26 - 27 ایڈیشن 2003 ء حضرت مفتی محمد صادق نے حضرت اقدس کا ایک فرمان لکھا ہے: ھو گوں کی فصاحت و بلاغت الفاظ کے ماتحت ہوتی ہے اور اس میں سوائے قافیہ بندی کے اور کچھ نہیں ہوتا.جیسے ایک عرب نے لکھا کہ سافرت الى روم وانا على جمل ماتوم میں روم کو روانہ ہوا اور میں ایک ایسے اونٹ پر سوار ہوا.جس کا پیشاب بند تھا.یہ الفاظ صرف قافیہ بندی کے واسطے لائے گئے ہیں یہ قرآن شریف کا اعجاز ہے.کہ اس میں سارے ایسے موتی پرو دئے گئے ہیں اور اپنے اپنے مقام پر رکھے گئے ہیں کہ 131

Page 132

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام کوئی ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ نہیں رکھا جا سکتا اور کسی دوسرے لفظ سے بدلا نہیں جا سکتا لیکن باوجود اس کے قافیہ بندی اور فصاحت و بلاغت کے تمام لوازم موجود ہیں“ (ذکر حبیب صفحہ 242) جب حضرت نبی کریم کا یہ کام آتی تھے تاہم اللہ پاک نے آپ کو عرب میں سب سے زیادہ فصیح بنایا تھا.جسہ آپ سے پوچھا گیا کہ آپ کی اس قدر فصاحت کا سبب کیا ہے تو آپ نے فرمایا: أَنَا أَعْرَبُكُمْ، أَنَا قُرَشِي، وَاسْتُرْضِعْتُ فِي بَنِي سَعْدِ بْنِ بَكْرِ یعنی میں عربی میں تم سب سے زیادہ فصیح ہوں، میں قریشی ہوں اور میری رضاعت بنو سعد بن بکر میں ہوئی ہے.آپ کا فرمان ہے اُعْطِيْتُ جَوَامِعَ الْكَلِہ یعنی مجھے جَوَامِعُ الكَلِم عطا کئے گئے.(سیرت ابن ہشام صفحہ 681) (مسلم حدیث: 1167) یہ جوامع الکلم آپ صلی میں کام کی عظمت نبوت کا ثبوت ہیں اور یہ آپ کے خصائص عظیمہ میں سے ہیں جو آپ کے علاوہ دیگر انبیاء کو عطا نہ ہوئے.آپ کے بیان کی شیرینی معجزانہ رنگ رکھتی تھی.مختصر سے جملوں میں حکمت کے سمندر بند ہیں.معانی کے لامتناہی خزائن ہیں.کلام اتنا واضح ہوتا کہ کسی قسم کے ابہام کا شائبہ بھی نہ ہوتا.تکلف اور بناوٹ سے پاک تقویٰ شعار دل کی آواز جو جادو کی طرح اثر رکھتی.سادگی اور سچائی دلوں پر اثر کرتی.خوش بیانی اور شگفتگی بے مثال تھی ہر شخص اپنے فہم کے مطابق آپ کے الفاظ سے علم و حکمت کشید کر سکتا ہے کلام اللہ کے بعد فصاحت میں آپ کا مقام ہے.فصحاء و بلغاء آپ کا کلام سُن کر دنگ رہ جاتے تھے.یہ سراسر عنایت الہی تھی.پندرہ سو سال سے ان گنت کتابیں آپ کے کلمات کی تشریح میں لکھی جارہی ہیں.رسول کریم ملی ال نیم کا تعلق قبیلہ قریش سے تھا اور شیر خواری اور بچپنے کی عمر بنو سعد میں گزاری.مذکورہ قبائل عربی زبان دانی میں نام رکھتے تھے.اس طرح مولا کریم نے بچپن سے ہی بہترین چیزوں کا آپ کے لئے انتظام فرمایا.آپ کی گفتگو میں قلیل الفاظ میں گہری اور بڑی بات کہہ جانے کا انداز ملتا ہے گفتگو میں کوئی لفظ کم یا زیادہ نہ ہوتا کوئی ابہام یا مبالغہ نہ ہوتا.سننے والے کو نہ کمی محسوس ہوتی نہ بے جا طوالت پریشان کرتی بات کا ہر پہلو مکمل ہو تا آپ نے کسی سے بلاغت نہیں سیکھی تھی اور نہ اہل بلاغت کی محفلوں میں بیٹھے تھے بلاغت آپ کی جبلت اور فطرت میں شامل تھی جو فیضان الہی سے عطا ہوئی تھی دست قدرت نے آپ کو ادب سکھایا تھا عام گفتگو میں بھی مخاطب کے ذوق و ذہنی 132

Page 133

سطح کا خیال رکھ کر بات کرتے نصیحت کے الفاظ میں بھی تنوع اور جاذبیت ہے.قرآن پاک نے شہادت دی وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى ) إِنْ هُوَ الَّا وَحْيٌ يُوحَى )) (النجم : 4-5) اور وہ خواہش نفس سے کلام نہیں کرتا.یہ تو محض ایک وحی ہے جو اُتاری جارہی ہے.حضرت حسن بن علی نے آپ کے انداز تکلم کے بارے میں بیان کیا کہ میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ سے آنحضرت علی الم کی گفتگو کے انداز کے بارہ میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ آنحضرت صلی اللی علم ہمیں یوں لگتے جیسے کسی مسلسل اور گہری سوچ میں ہیں اور کسی خیال کی وجہ سے کچھ بے آرامی سی ہے آپ اکثر چپ رہتے.بلا ضرورت بات نہ کرتے.آپ بات کرتے تو پوری وضاحت سے کرتے.آپ کی گفتگو مختصر لیکن فصیح و بلیغ پر حکمت اور جامع مضامین پر مشتمل اور زائد باتوں سے خالی ہوتی.لیکن اس میں کوئی کمی یا ابہام نہیں ہوتا تھا.نہ کسی کی مذمت و تحقیر کرتے نہ توہین و تنقیص، چھوٹی سے چھوٹی نعمت کو بھی بڑا ظاہر فرماتے.شکر گزاری کا رنگ نمایاں تھا.کسی چیز کی مذمت نہ کرتے.نہ اتنی تعریف جیسے وہ آپ کو بے حد پسند ہو.(شمائل الترمذی باب کلام رسول الله ) حضرت عائشہ نے آپ کے نطق گویائی کے بارے میں فرمایا: ”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یونہی باتوں میں نہیں لگے رہتے تھے ”جس طرح تم لوگ باتیں کرتے چلے جاتے ہو بلکہ وہ ایسے انداز میں کلام کرتے تھے جو واضح نکھرا نکھرا ہوتا جسے آپ کے پاس بیٹھنے والا حفظ کر لیتا تھا.“ آنحضور اکثر چپ رہتے تھے.بلا ضرورت بات نہ کرتے تھے.جب بات کرتے تو پوری وضاحت سے کرتے.آپ کی گفتگو مختصر لیکن فصیح و بلیغ، پر حکمت اور جامع ہوتی.کسی کی مذمت و تحقیر نہ کرتے اور نہ توہین و تنقیض.(حديقة الصالحين صفحہ 48) 133

Page 134

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام آپ کی فصاحت و بلاغت کا ایک رخ آپ کی دعاؤں کے الفاظ میں بھی نظر آتا ہے.ایسے دلگداز الفاظ ہیں کہ روح پگھل جاتی ہے.وہ خاکساری عاجزی' بے خودی اور خود سپردگی ہے جو معبود کو لبھالیتی ہے طلب میں وہ جامعیت ہے کہ کوئی پہلو تشنہ نہیں رہتا.اربعین از کلام حضور سید المرسلین صلی انتخاب کردہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل میں شامل ساری و احادیث دو یا تین الفاظ پر مشتمل ہیں.اسی طرح حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا انتخاب چالیس جواہر پارے میں شامل احادیث بھی طویل نہیں ہیں مگر پر حکمت معانی کا ایک جہان ہیں.ایک ایک کلمہ فصاحت بلاغت کی نادر مثال ہے.آپ کے عکس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو بھی آسمان سے فصاحت و بلاغت کا نشان عطا فرمایا گیا تھا الہام ہوا: در کلام تو چیزی است که شعراء را در آن دخله نیست (تذکره صفحه 805) تیرے کلام میں ایک ایسی چیز ہے جس میں شاعروں کو دخل نہیں.آپ کے کلام میں وہ کیا چیز تھی جس میں شاعروں کو دخل نہیں.محاسن کلام کی تعیین لفظی اور معنوی حسن و جمال فن صنائع و بدائع کے خوب صورت برتاؤ سے ہوتی ہے.یہ خوبیاں کم و بیش بہت سے شعرا میں مل جائیں گی.کسی وصف نے آپ کو ایسا امتیاز بخشا.کہ کوئی بھی دنیاوی کلام اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.وہ ممتاز وصف یہ تھا کہ آپ فنا فی اللہ اور فنا فی الرسول تھے.آپ کی زبان سے خدا بولتا تھا آپ کا قلم خدا کے ہاتھ میں تھا.غیب سے مضامین اور الفاظ سوجھتے تھے اور ان میں جذب و اثر رکھا جاتا تھا.پنجاب کے ایک دور افتادہ گاؤں میں پیدا ہونے والے نے کسی یونیورسٹی سے زبان و ادب نہیں سیکھا تھا.شعر و سخن کے اساتذہ کرام کے آگے زانوئے تلمذ طے نہیں کیا تھا.بلکہ طفل شیر خوار کی طرح اللہ پاک کی گود میں رہے تھے وہیں سے زبان سیکھی تھی قرآن مجید کا درس لیا تھا اور ڈوب کے پڑھا تھا.آپ کو وہ صلاحیت عطا ہوئی تھی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی ا لی ایم کے کلام کو سمجھ کے اتنی ہی خوب صورتی کے ساتھ آگے سمجھا سکیں.آپ اس زمانے کے مامور تھے مخاطب ساری دنیا تھی.مقصد شعر و شاعری سے نہیں تھا آپ کو تو کسی ڈھب سے پیغام دینا تھا.عربی فارسی اردو میں نظم نثر لکھتے رہے قلم کے جہاد کا حق ادا کیا.134

Page 135

وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے اُمیدوار یہ سب رحمان خدا کی عطا تھی.آپ کو الہام ہوا: كَلَامُ أُفْصِحَتْ مِنْ لَدُنْ رَبِّ كَرِيمٍ یعنی اس کلام میں خدا کی طرف سے فصاحت بخشی گئی ہے.اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام کی بارش دیکھئے.حضرت اقدس فرماتے ہیں: (تذکره صفحه 805) 11 اپریل 1900ء کو عید اضحی کے دن صبح کے وقت مجھے الہام ہوا کہ آج تم عربی میں تقریر کرو تمہیں قوت دی گئی اور نیز یہ الہام ہو ا كلام أُخْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَبِّ كَرِیم یعنی اس کلام میں خدا کی طرف سے فصاحت بخشی گئی ہے.تب میں عید کی نماز کے بعد عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہو گیا اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ غیب سے مجھے ایک قوت دی گئی اور وہ فصیح تقریر عربی میں فی البدیہہ میرے منہ سے نکل رہی تھی کہ میری طاقت سے بالکل باہر تھی اور میں نہیں خیال کر سکتا کہ ایسی تقریر جس کی ضخامت کئی جزو تک تھی ایسی فصاحت اور بلاغت کے ساتھ بغیر اس کے کہ اول کسی کاغذ میں قلمبند کی جائے کوئی شخص دنیا میں بغیر خاص الہام الہی کے بیان کر سکے.جس وقت یہ عربی تقریر جس کا نام خطبہ الہامیہ رکھا گیا لو گوں میں سنائی گئی اس وقت حاضرین کی تعداد شاید دوسو کے قریب ہو گی.سبحان اللہ اس وقت ایک غیبی چشمہ کھل رہا تھا.مجھے معلوم نہیں کہ میں بول رہا تھا یا میری زبان سے کوئی فرشتہ کلام کر رہا تھا کیو نکہ میں جانتا تھا کہ اس کلام میں میرا دخل نہ تھا.خود بخود بنے بنائے فقرے میرے منہ سے نکلتے جاتے تھے اور ہر ایک فقرہ میرے لئے ایک نشان تھا.چنانچہ تمام فقرات چھپے ہوئے موجود ہیں جن کا نام خطبات الہامیہ ہے.اس کتاب کے پڑھنے سے معلوم ہو گا کہ کیا کسی انسان کی طاقت میں ہے کہ اتنی لمبی تقریر بغیر سوچے اور فکر کے عربی زبان میں کھڑے ہو کر محض زبانی طور پر فی البدیہہ بیان کر سکے.یہ ایک علمی معجزہ ہے جو خدا نے دکھلایا اور کوئی اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتا.“ (حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 375 - 376) 135

Page 136

نیز حضرت اقدس فرماتے ہیں: ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام قلت جہد اور معمولی جستجو کے باوجود عربی زبان میں میرا کمال حاصل کرنا میرے رب کی طرف سے واضح نشان ہے تا کہ وہ لو گوں پر میرا علم اور ادب ظاہر فرمائے پس مخالفین کے گروہ میں کوئی ہے جو اس امر میں میرے ساتھ مقابلہ کر سکے اور اس معمولی کوشش کے باوجود مجھے چالیس ہزار عربی لغات سکھائے گئے ہیں اور مجھے علوم ادبیہ میں کامل وسعت عطا کی گئی ہے“ (ترجمه از مکتوب احمد ، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 234) ”ہمارا تو یہ دعوی ہے کہ معجزہ کے طور پر خدا تعالیٰ کی تائید سے اس انشاء پردازی کی ہمیں طاقت ملی ہے“.( نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 437) براہین احمدیہ میں یہ پیشگوئی ہے کہ تجھے عربی زبان میں فصاحت و بلاغت عطا کی جائے گی جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا.چنانچہ اب تک کوئی مقابلہ نہ کر سکا.“ تاریخ میں مقام (حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 235) یہ کتاب شائع ہوئی تو بڑے بڑے عربی دان اس کی بے نظیر زبان اور عظیم الشان حقائق و معارف پڑھ کر دنگ رہ گئے.حق تو یہ ہے کہ مسیح محمدی کا یہ وہ علمی نشان ہے جس کی نظیر قرآن مجید کے بعد نہیں ملتی.تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ 85 - 86) خطبہ الہامیہ پڑھنے والے کو بھی اعجازی طاقت عطا ہوئی حضرت اقدس فرماتے ہیں: اس روز ہماری جماعت کے بہادر سپاہی اور اسلام کے معزز رکن حبی فی اللہ مولوی عبد الکریم صاحب سیا لکوٹی نے مضمون کے پڑھنے میں وہ بلاغت فصاحت دکھائی گویا ہر لفظ میں ان کو روح القدس مدد دے رہا تھا“.(ضمیمه رساله انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 316) اس سلطان القلم نے براہین احمدیہ سے پیغام صلح تک تقریباً 90 کتب جو دس ہزار صفحات پر مشتمل ہیں (ان میں قریباً 22 عربی زبان میں ہیں) اپنے معجز نما قلم سے تحریر فرمائیں.20 ہزار سے زائد اشتہارات مشتہر فرمائے نوے ہزار سے زائد مکتوبات تحریر فرمائے عربی، اردو اور فارسی میں گراں قدر منظوم کلام کے الوہی 136

Page 137

چشمے اچھال دئے اور اس شاہانہ انداز میں گویا کہ مالك الملك آپ کے ہاتھ سے خود لکھوا رہا ہے.آپ فرماتے ہیں.میں خاص طور پر خدا تعالیٰ کی اعجاز نمائی کو انشاء پردازی کے وقت بھی اپنی نسبت دیکھتا ہوں کیو نکہ جب میں عربی یا اردو میں کوئی عبارت لکھتا ہوں تو میں محسوس کرتا ہوں کہ کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے اور ہمیشہ میری تحریر گو عربی ہو یا اردو یا فارسی دو حصہ پر مشتمل ہوتی ہے (1) ایک تو یہ کہ بڑی سہولت سے سلسلہ الفاظ اور معانی کا میرے سامنے آتا جاتا ہے اور میں اس کو لکھتا جاتا ہوں اور گو اُس تحریر میں مجھے کوئی مشقت اٹھانی نہیں پڑتی مگر دراصل وہ سلسلہ میری دماغی طاقت سے کچھ زیادہ نہیں ہوتا یعنی الفاظ اور معانی ایسے ہوتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کی ایک خاص رنگ میں تائید نہ ہوتی تب بھی اس کے فضل کے ساتھ ممکن تھا کہ اس کی معمولی تائید کی برکت سے جو لازمہ فطرت خواص انسانی ہے کسی قدر مشقت اُٹھا کر اور بہت سا وقت لے کر اُن مضامین کو میں لکھ سکتا.واللہ اعلم.(2) دوسرا حصہ میری تحریر کا محض خارق عادت کے طور پر ہے اور وہ یہ ہے جب میں مثلاً ایک عربی عبارت لکھتا ہوں اور سلسلہ عبادت میں بعض ایسے الفاظ کی حاجت پڑتی ہے کہ وہ مجھے معلوم نہیں ہیں تب اُن کی نسبت خدا تعالیٰ کی وحی رہنمائی کرتی ہے اور وہ لفظ وحی متلو کی طرح روح القدس میرے دل میں اور اس وقت میں اپنی حس سے غائب ہو تا ہوں...مجھے اُس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ یہی عادت اللہ میرے ساتھ ہے اور یہ نشانوں کی قسم میں سے ایک نشان ہے جو مجھے دیا گیا ہے جو مختلف پیرایوں میں امور غیبیہ میرے پر ظاہر ہوتے رہتے ہیں“ (نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 434 – 435) جس مقدس وجود نے اللہ تعالیٰ سے تعلیم پائی ہو اُس کے کلام کی وجاہت بلاغت کے سحر اور اسلوب و بیان کی خوبیاں بیان کرنا آسان کام نہیں.یہ آسمانی سلسلے ہیں.کلمات قدسیہ ہیں.جن کی سمجھ بھی خدا کے فضل و احسان سے عطا ہوتی ہے.اس انوکھی جادوگری کا اقرار اگر اغیار کی طرف سے ہو تو زیادہ جاذب توجہ ہوتا ہے.مولانا ابوالکلام آزاد کا اخبار و کیل امرتسر میں پیش کیا ہوا خراج تحسین ملاحظہ ہو.وہ شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر اور زبان جادو...وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا.جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی.جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تار اُلجھے ہوئے تھے جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں وہ شخص جو مذہبی دنیا کے لئے تیس برس تک زلزلہ اور طوفان رہا.جو شور قیامت ہو کر خفتگانِ خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا خالی ہاتھ دنیا سے اُٹھ گیا.مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے 137

Page 138

مقابل پر اُن سے ظہور میں آیا قبولِ عام کی سند حاصل کر چکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں اس لٹریچر کی قدر و عظمت آج جب وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرتی پڑتی ہے.اخبار و کیل امر تسر بحوالہ بدر 18 جون 1908ء) کرزن گزٹ دہلی میں شائع ہونے والی اس کے ایڈیٹر مرزا حیرت دہلوی کی 1908ء کی درج ذیل تحریر آج بھی زندہ ہے.مرحوم کی وہ اعلی خدمات جو اس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی کی ہیں وہ واقعی بہت ہی تعریف کی مستحق ہیں اس نے مناظرہ کا رنگ بالکل ہی بدل دیا اور ایک جدید لٹریچر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کردی بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے بلکہ محقق ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور بڑے سے بڑے پادری کو یہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابل زبان کھول سکے.اگرچہ مرحوم پنجابی تھا مگر اس کے قلم میں ایسی قوت تھی کہ آج سارے پنجاب بلکہ بلندی ہند میں بھی اس قوت کا لکھنے والا نہیں اس کا پُر زور لٹریچر اپنی شان میں بالکل نرالا ہے اور واقعی اس کی بعض عبارتیں پڑھنے سے ایک وجد کی سی حالت طاری ہو جاتی ہے.“ تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ 565 - 566) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طرز تحریر بالکل جدا گانہ ہے اس کے اندر اتنی روانی اور سلاست پائی جاتی ہے کہ وہ باوجود سادہ الفاظ کے، باوجود اس کے کہ وہ ایسے مضامین پر مشتمل ہے جس سے عام طور پر دنیا ناواقف نہیں ہوتی اور باوجود اس کے کہ انبیاء کا کلام مبالغہ، جھوٹ اور نمائشی آرائش سے خالی ہوتا ہے.اس کے اندر ایک ایسا جذب اور کشش پائی جاتی ہے کہ جوں جوں انسان اسے پڑھتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے الفاظ سے بجلی کی تاریں نکل نکل کر جسم کے گرد لپٹتی جا رہی ہیں اور جس طرح جب ایک زمیندار گھاس والی زمین پر ہل چلانے کے بعد سہا گہ پھیر تا ہے تو سہا گہ کے ارد کرد گھاس لپٹتا جاتا ہے اسی طرح معلوم ہوتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریر انسانوں کے قلوب کو اپنے ساتھ لپیٹتی جارہی ہے اور یہ انتہا درجے کی ناشکری اور بے قدری ہو گی اگر ہم اس عظیم الشان طرز تحریر کو نظر انداز کرتے ہوئے 138

Page 139

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام اپنے طرز کو اس کے مطابق نہ بنائیں.66 (خطبات محمود جلد 13 صفحہ (217) مثال اور ثبوت کے لئے عربی فارسی اردو کی نثر و نظم کی ہر کتاب صفحہ “ پیرا ”سطر “ لفظ پڑھئے: ملتی ہے بادشاہی اس دیں سے آسمانی کے طالبان دولت! ظل ہما یہی ہے روزنامه الفضل آن لائن لندن 20 مئی 2022ء) 139

Page 140

قسط 24 کیفیت نماز حضرت محمد مصطفی صلی الی یوم کے دل میں فطری طور پر اپنے معبود سے عشق ودیعت کیا گیا تھا.ہوش سنبھالی تو اپنے ماحول میں مشرکانہ طور طریق سے بیزار رہنے لگے.انسانی ہاتھوں سے گھڑے ہوئے لکڑی، پتھر ، مٹی اور دھات کے بت عبادت کے لائق نہ لگے کسی بھی گروہ یا مکتبہ فکر کے پاس خدائے واحد کا تصور نہ تھا دین ابراہیمی کا نام تو باقی تھا مگر تعلیمات پر عمل کرنے والے نایاب تھے.اب قلب محمدصلی الیہ کلام کو ایک طاقتور توانا خدا کی کھوج لگ گئی.مظاہر قدرت پر تدبر کرنے لگے.دنیا اور اس کے جھمیلوں سے بیزاری بڑھنے لگی.تنہائی میں معبود کی تلاش میں زیادہ وقت گزرنے لگا.سکون خانہ کعبہ میں ملتا یا غار حرا کی خلوت میں.جوں جوں قدرت آپ صلی اللہ ہم پر اپنے راز ظاہر کر رہی تھی آپ کی ملی یکم محبت الہی، ذکر الہی اور عبادت میں سرشار رہنے لگے مکہ والے کہتے عشقَ مُحَمَّدٌ رَّبَّه - محمد تو اپنے رب کا عاشق ہو گیا ہے.عبادت کا ذوق رگ و پے میں سرایت کیا ہوا تھا.بعثت سے پہلے کی کیفیت کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے شروع شروع میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول شروع ہوا تو وہ رویائے صالحہ کی شکل میں ہوتا تھا یعنی خوابیں وغیرہ آیا کرتی تھیں.آپ رات کے وقت جو کچھ دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح ظاہر ہو جاتا تھا.پھر آپ کو خلوت اچھی لگنے لگی تو آپ غار حرا میں بالکل اکیلے، کئی کئی راتیں خدا تعالیٰ کی عبادت میں گزارتے اور جتنے دن آپ وہاں قیام کرتے آپ اپنا زاد راہ ساتھ لے جاتے اور جب یہ ختم ہو جاتا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس واپس تشریف لاتے اور کھانے پینے کا مزید سامان ساتھ لے کر دوبارہ غار حرا میں چلے جاتے اور عبادتوں میں مشغول ہو جاتے.یہاں تک کہ آپ پر وحی نازل ہوئی اور آپ کے پاس حق آ گیا.(بخاری.کتاب بدء الوحی.باب کیف كان بدء الوحی الی رسول الله ) چکے خدا تعالیٰ سے محبت نے آپ کو نڈر اور جرات مند بنا دیا تھا اللہ تعالیٰ کی محبت میں آپ اس قدر فنا ہو تھے کہ آپ کو اس تنہائی سے خوف نہ آتا بلکہ اس میں پوری لذت اور ذوق پاتے.یہ نہیں کہ گھر میں سکون نہیں تھا.حضرت خدیجہ جیسی جاں نثار بیوی اور بچوں کی نعمت سے جنت جیسا گھر تھا مگر آپ کی اعلیٰ لذات اپنے خدا کی عبادت میں تھیں.رض 140

Page 141

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”آپ کی پہلی عبادت وہی تھی جو آپ نے غارِ حرا میں کی.جہاں کئی کئی دن ویرانہ پہاڑی کی غار میں جہاں ہر طرح کے جنگلی جانور اور سانپ چیتے وغیرہ کا خوف ہے دن رات اللہ تعالیٰ کے حضور میں عبادت کرتے تھے اور دعائیں مانگتے تھے.قاعدہ ہے کہ جب ایک طرف کی کشش بہت بڑھ جاتی ہے تو دوسری طرف کا خوف دل سے دور ہو جاتا ہے" (ملفوظات جلد چہارم صفحه 322) نبوت کا پیغام ملا تو آپ پر نماز فرض ہوئی آپ مکہ کے بلند حصے میں تھے جہاں پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا حضرت جبرائیل نے وضو کیا پھر آنحضرت صلی علی کرم نے اسی طرح وضو کیا.بعد ازاں حضرت جبرائیل نے آپ کو ساتھ لے کر نماز پڑھی اور غائب ہو گئے (اس کشفی نظارہ کے بعد) آنحضرت صلی اللہ علم حضرت خدیجہ کے پاس تشریف لائے ان کے سامنے وضو کیا اور ساتھ لے کر نماز پڑھی جس طرح حضرت جبرائیل نے پڑھی تھی.(السيرة النبويه لابن هشام جز1 صفحہ 243 مطبوعہ مصر) ابتدا میں نماز ایک نفلی رنگ رکھتی تھی کچھ مسلمان مل کر ایک عام عبادت کے رنگ میں نماز ادا کر لیتے تھے ایک دفعہ آنحضرت صلی اللی علم اور حضرت علی مکہ کی کسی گھائی میں نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک اس طرف سے ابو طالب کا گزر ہوا.ابو طالب کو ابھی تک اسلام کی کوئی خبر نہ تھی اس لئے وہ کھڑا ہو کر نہایت حیرت سے یہ نظارہ دیکھتا رہا جب آپ نماز ختم کر چکے تو اس نے پوچھا ” بھتیجے یہ کیا دین ہے جو تم نے اختیار کیا ہے ؟" آنحضرت صلی علیم نے فرمایا ”چا! یہ دین الہی ہے اور دین ابراہیم ہے“ (سیرت خاتم النبيين" صفحہ 144) مکی دور میں ہی حضرت جبریل نے نبی کریم صلی للی ملک کو پانچوں نمازوں کی امامت کروا کے نماز کا طریق اور اوقات سمجھا دیئے تھے.(ترمذی کتاب الصلوة باب (113) حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں نہایت جرات سے بے دھڑک ہو کر خانہ خدا کا طواف کرتے اور وہاں اپنے طریق پر عبادت کیا کرتے تھے.قریش مکہ آپ کو دیکھ کر غصے سے پاگل ہو جاتے ہمارے بتوں 141

Page 142

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام کو برا کہنے والا ہمارے سامنے اپنے کسی ان دیکھے خدا کو یاد کرتا ہے ایک دن ایک شخص نے حضور کی چادر مبارک کھینچ کر مروڑنی شروع کردی حتی کہ آپ کا دم گھٹنے لگا.حضرت ابو بکر بھی وہاں موجود تھے.وہ یہ حالت دیکھ کر روتے ہوئے قریش سے کہنے لگے کہ کیا تم ایسے شخص کو قتل کرتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے.تب قریش نے آپ کو چھوڑ دیا.(خلاصه از مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 218 مطبوعہ بیروت) ایک دن ایک شخص نے اونٹنی کی بچہ دانی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر جبکہ وہ سجدے میں تھے رکھ دی اور مذاق اڑانے لگے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل سجدے میں رہے.آپ اپنا سر نہیں اٹھا سکتے تھے.یہاں تک کہ آپ کے پاس حضرت فاطمہ آئیں اور انہوں نے اس بچہ دانی کو آپ کی کمر سے بمشکل روتے روتے اتارا.اس پر آپ کے والد نے اپنا سر اٹھایا.(خلاصه از بخاری کتاب الوضوء باب اذا القى على ظهر المصلّى قذرا وجيفة حديث نمبر 240) نماز کی فرضیت پھر آپ کے معبود نے آپ کو نبوت پر سر افراز کر کے اعلائے کلمہ توحید کا کام سونپ دیا اس فرض کی ادائیگی کے لئے آپ کو خلوت چھوڑ کر جلوت میں آنا پڑا.عبادت کی معراج نماز شب معراج کو پانچ نبوی میں فرض ہوئی آپ خانہ کعبہ یعنی مسجد حرام میں سورہے تھے معراج کے بعد حضرت جبرائیل نے آنحضرت صلی ال نیم کے پاس آکر پانچوں نمازوں کے اوقات بالتفصیل بتائے.اللہ تعالیٰ نے حکم دیا بخاری کتاب مواقيت الصلوة ) أقِمِ الصَّلوةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا ) (بنی اسرائیل: 79) سورج کے ڈھلنے سے شروع ہو کر رات کے چھا جانے تک نماز کو قائم کر اور فجر کی تلاوت کو اہمیت دے.یقیناً فجر کو قرآن پڑھنا ایسا ہے کہ اُس کی گواہی دی جاتی ہے.142

Page 143

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ) (الانعام: 163) تو کہہ دے کہ میری عبادت اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے.پھر فرمایا یہ عبادت رات کو بھی کرنی ہے:.إِنَّ نَاشِئَةَ الَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَها وَأَقْوَمُ قِيلًا ) (المزمل: 7) رات کا اٹھنا یقینا نفس کو پاؤں تلے کچلنے کے لئے زیادہ شدید اور قول کے لحاظ سے زیادہ مضبوط ہے.يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَ قِيَامًا ) کہ وہ اپنے رب کے لئے تمام رات سجدہ اور قیام میں گزارتے ہیں.الَّذِي يَرِيكَ حِينَ تَقُومُ وَتَقَلُّبَكَ فِي السُّجِدِينَ ) ۲۲۰ (الفرقان: 65) (الشعراء: 219 - 220) یعنی جو دیکھ رہا ہوتا ہے.جب تو کھڑا ہوتا ہے اور سجدہ کرنے والوں میں تیری بے قراری کو بھی.آپ نے اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر بہترین طریق پر عمل کر کے مسلمانوں کے لئے بہترین مثال قائم فرمائی جس کی تصدیق خود خدا تعالیٰ نے فرمائی یقینا اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ رات کے دو تہائی حصے میں یا آدھے حصے میں یا وقت کے لحاظ سے تیسرے حصے میں تو نے عبادت کے اعلیٰ معیار قائم کر دیئے، حق ادا کر دیئے.إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقَوْمُ أَدْنَى مِنْ ثُلُثَيِ الَّيْلِ وَنِصْفَهُ وَثُلُثَهُ وَطَائِفَةٌ مِّنَ الَّذِينَ مَعَكَ (المزمل: 21) یقینا تیرا رب جانتا ہے کہ تو دو تہائی رات کے قریب یا اس کا نصف یا اس کا تیسرا حصہ کھڑا رہتا ہے نیز اُن لوگوں کا ایک گروہ بھی جو تیرے ساتھ ہیں.143

Page 144

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام ایک دفعہ حضرت عائشہ کے ہاں آپ کی باری تھی اور یہ باری نویں دن آتی تھی، موسم سرما کی رات تھی بستر پر لیٹ جانے کے بعد حضرت عائشہ سے فرماتے ہیں کہ عائشہ اگر اجازت دو تو آج رات میں اپنے رب کی عبادت میں گزار دوں.وہ بخوشی اجازت دیتی ہیں اور آپ ساری رات عبادت میں روتے روتے سجدہ گاہ تر کر دیتے ہیں.(انسان کامل صفحہ 69) پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنی دلی خواہش کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: اللہ نے ہر نبی کی ایک خواہش رکھی ہوتی ہے اور میری دلی خواہش رات کی عبادت ہے“ المعجم الكبير للطبرانى باب سعيد بن جبير عن ابن عباس) حضرت عائشہ سے رسول اللہ صلی علیم کی نماز یعنی تہجد کی نماز کی کیفیت پوچھی گئی تو فرمایا کہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم رمضان یا اس کے علاوہ دنوں میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہ پڑھتے تھے مگر وہ اتنی لمبی اور پیاری اور حسین نماز ہوا کرتی تھی کہ اس نماز کی لمبائی اور حسن و خوبی کے متعلق مت پوچھو.“ (بخاری کتاب التهجد باب قیام النبي بالليل في رمضان وغیرہ حدیث نمبر 1147) نماز آپ کی روح کی غذا تھی، اگرچہ امت کی سہولت کی خاطر آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جب کھانا لگ جائے تو پہلے کھانا کھا لو مگر اپنا یہ حال ہے کہ جب ایک دفعہ کھانا کھا رہے تھے تو حضرت بلال نے آواز دی کہ ”نماز کا وقت ہو گیا ہے“ اگلے ہی لمحہ آپ نے کھانا چھوڑ دیا اور سیدھے نماز کے لئے تشریف لے گئے.(ابوداؤد کتاب الطهاره بحوالہ اسوہ انسان کامل صفحہ 57) غزوہ بدر میں ایک جنگ تو تیروں تلواروں سے ہو رہی تھی دوسری آپ کے اپنے خیمہ میں خدا کے حضور سر بسجود رو رو کر دعاؤں سے ہورہی تھی.آپ اپنے خدا کو پکار رہے تھے کہ اے خدا اگر یہ عبادت گزار تباہ ہو گئے تو کون تیری عبادت کرے گا.یہ دعا دراصل نماز اور نمازیوں کی حفاظت کے لئے ہی تھی یہ جنگ دعاؤں کے ذریعہ ہی جیتی گئی.نماز سے ایسی محبت کا عالم تھا کہ جس بیماری سے آپ فوت ہوئے ہیں اس سے تھوڑا سا پہلے جب بیماری سے افاقہ ہوا تو اسی کمزوری کی حالت میں دو صحابہ کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اور سہارا لیکر مسجد میں نماز 144

Page 145

کے لئے پہنچے، اور حالت یہ تھی کہ کمزوری سے پاؤں زمین پر گھسٹتے جارہے تھے.دنیا میں آپ کی آخری خوشی بھی نماز ہی تھی جس دن آپ کی وفات ہوئی ہے اس دن فجر کی نماز کے وقت اپنے حجرے کا پردہ اٹھا کر دیکھا تو صحابہ عبادت میں مشغول تھے.اپنے غلاموں کو نماز میں دیکھ کر آپ کا دل خوشی سے بھر گیا اور چہرے پر مسکراہٹ چھا گئی.(بخاری کتاب الاذان بحوالہ اسوہ کامل صفحہ 60) حضرت حذیفہ بن یمان فرماتے ہیں ایک رات رسول اللہ کے ساتھ نماز ادا کی جب نماز شروع کی تو آپ نے کہا اللهُ أَكْبَرُ وَالْمَلَكُوتِ وَالْجَبَرُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظْمَةِ- یعنی اللہ بڑا ہے جو اقتدار اور سطوت کبریائی اور عظمت والا ہے.پھر آپ نے سورۃ بقرہ مکمل پڑھی.پھر رکوع فرمایا جو قیام کے برابر تھا.پھر رکوع کے برابر کھڑے ہوئے.پھر سجدہ کیا جو کہ قیام کے برابر تھا.پھر دونوں سجدوں کے درمیان رَبِّ اغْفِرْ لِي ، رَبِّ اغفرلی اے میرے رب! مجھے بخش دے، اے میرے رب! مجھے بخش دے کہتے ہوئے اتنی دیر بیٹھے جتنی دیر سجدہ کیا تھا.پھر دوسری رکعتوں میں آپ نے آل عمران، نساء، مائدہ، انعام وغیرہ طویل سورتیں پڑھیں.(ابوداؤد کتاب الصلوۃ باب ما يقول الرجل في ركوعه و سجوده حدیث نمبر (869) حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اتنی لمبی نماز ادا فرمایا کرتے تھے کہ آپ کے پاؤں متورم ہو کر پھٹ جاتے تھے.ایک دفعہ میں نے آپ سے عرض کی اے اللہ کے رسول! آپ کیوں اتنی تکلیف اٹھاتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام قصور معاف فرما دیئے ہیں.تو آپ نے فرمایا أَفَلَا أُحِبُّ أَنْ أَكُونَ عَبْدًا شَكُورًا.کیا میں یہ نہ چاہوں کہ میں اللہ کا شکر گزار بندہ بنوں.(بخاری کتاب التفسير سورة الفتح باب قوله ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبك...) پھر ام المومنین حضرت سودہ نے ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز تہجد ادا کرنے کا ارادہ کیا اور حضور کے ساتھ جا کر نماز میں شامل ہو ئیں.اپنی سادگی میں دن کے وقت انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس لمبی نماز پہ جو تبصرہ کیا اس سے حضور بہت محظوظ ہوئے.کہنے لگیں یا رسول اللہ ! رات آپ نے اتنا لمبار کوع کروایا کہ مجھے تو لگتا تھا جیسے جھکے جھکے کہیں میری نکسیر نہ پھوٹ پڑے.الاصابة في تمييز الصحابة حرف السين القسم الاوّل سودة بنت زمعة ) ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات میرے پاس 145

Page 146

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام تشریف لائے.میرے ساتھ میرے بستر میں لیٹے پھر آپ نے فرمایا اے عائشہ! کیا آج کی رات تو مجھے اجازت دیتی ہے کہ میں اپنے رب کی عبادت کر لوں.میں نے کہا خدا کی قسم! مجھے تو آپ کی خواہش کا احترام ہے اور آپ کا قرب پسند ہے.میری طرف سے آپ کو اجازت ہے.تب آپ اٹھے اور مشکیزہ سے وضو کیا.نماز کے لئے کھڑے ہو گئے اور نماز میں اس قدر روئے کہ آپ کے آنسو آپ کے سینہ گرنے لگے.نماز کے بعد آپ دائیں طرف ٹھیک لگا کر اس طرح بیٹھ گئے کہ آپ کا دایاں ہاتھ آپ کے دائیں رخسار پر تھا.آپ نے پھر رونا شروع کر دیا.یہاں تک کہ آپ کے آنسو زمین پر ٹپکنے لگے.آپ اسی حالت میں تھے کہ فجر کی اذان دینے کے بعد بلال آئے جب انہوں نے آپ کو اس طرح گریہ و زاری کرتے ہوئے دیکھا تو کہنے لگے یا رسول اللہ ! آپ اتنا کیوں روتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ آپ کے گزشتہ اور آئندہ ہونے والے سارے گناہ بخش چکا ہے.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں.(تفسیر روح البیان زیر تفسیر سوره آل عمران آیت 191 - 192) مطرف اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اس وقت شدت گریہ و زاری کے باعث آپ کے سینے سے ایسی آواز آ رہی تھی جیسے چکی کے چلنے کی آواز ہوتی ہے.(سنن ابی داؤ د کتاب الصلوة باب البكاء في الصلوة ) ایک دوسری روایت میں یہ آتا ہے کہ: آپ کے سینے سے ایسی آواز اٹھ رہی تھی جیسے ہنڈیا کے ابلنے کی آواز ہوتی ہے.(سنن نسائی کتاب السهو باب البكاء في الصلوة حديث نمبر 1213) حضرت ام سلمیٰ فرماتی ہیں کہ آپ کچھ دیر سوتے پھر کچھ دیر اٹھ کر نماز میں مصروف ہوتے.پھر سو جاتے، پھر اٹھ بیٹھتے اور نماز ادا کرتے.غرض صبح تک یہی حالت جاری رہتی.( ترمذی کتاب فضائل القرآن باب ما جاء كيف كان قراءة النبى صلى ال ) حضرت عائشہ کی ایک اور روایت ہے کہ ایک رات میری باری میں باہر تشریف لے گئے.کیا دیکھتی ہوں کہ ایک کپڑے کی طرح زمین پر پڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں سَجَدَ لَكَ سَوَادِي وَخَيَالِي وَآمَنَ لَكَ فُؤَادِى 146

Page 147

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام رَبِّ هَذِهِ يَدَايَ وَمَا جَنَيْتُ بِهَا عَلَى نَفْسِى - يَا عَظِيمًا يُرجى لِكُلِّ عَظِيمٍ اغْفِرِ الذَنْبَ العَظِیم کہ اے اللہ ! تیرے لئے میرے جسم و جان سجدے میں ہیں میرا دل تجھ پر ایمان لاتا ہے.اے میرے رب! یہ میرے دونوں ہاتھ تیرے سامنے پھیلے ہیں اور جو کچھ میں نے ان کے ساتھ اپنی جان پر ظلم کیا وہ بھی تیرے سامنے ہے.اے عظیم ! جس سے ہر عظیم بات کی امید کی جاتی ہے، عظیم گناہوں کو تو بخش دے.پھر فرمایا کہ اے عائشہ! جبریل نے مجھے یہ الفاظ پڑھنے کے لئے کہا ہے.تم بھی اپنے سجدوں میں یہ پڑھا کرو.جو شخص یہ کلمات پڑھے سجدے سے سر اٹھانے سے پہلے بخشا جاتا ہے.(مجمع الزوائد للهيثمي كتاب الصلوة باب ما یقول فی رکوعہ و سجوده ) آپ کو یہ کسی طرح گوارا نہیں تھا کہ آرام دہ بستر پر سوئیں اور گہری نیند ہو جو اللہ کی یاد سے غافل کر دے.حضرت حفصہ روایت کرتی ہیں کہ : ایک رات انہوں نے بستر کی چادر کی چار نہیں کر دیں، ذرا نرم ہو گیا.تو صبح آپ نے فرمایا رات تم نے کیا بچھایا تھا.اسے اکہر اگر دو یعنی ایک رہنے دو.اس نے مجھے نماز سے روک دیا.الشمائل النبوية للترمذى باب ما جاء فى فراش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ: جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری یا کسی اور وجہ سے تہجد رہ جاتی تھی تو آنحضور صلی المی دن کو بارہ رکعتیں نوافل ادا کیا کرتے تھے.( صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرين باب جامع صلاة الليل و من نام عنه او مرض ) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ: ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ بیمار تھے.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آج بیماری کا اثر آپ پر نمایاں ہے.فرمانے لگے اس کمزوری کے باوجود آج رات میں نے نماز تہجد میں طویل سورتیں پڑھی ہیں.حضرت عبداللہ ابن ابی قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: الوفاء باحوال المصطفى للجوزى باب التهجد ) 147

Page 148

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ: قیام اللیل مت چھوڑنا اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں چھوڑتے تھے اور جب آپ بیمار ہو جاتے، جسم میں سستی محسوس کرتے تو بیٹھ کر تہجد کی نماز پڑھتے.(سنن ابی داؤد کتاب التطوع باب قیام اللیل حدیث نمبر 1303) حضرت کعب بن مالک روایت کرتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ دن کے وقت سفر سے واپس تشریف لاتے اور سب سے پہلے مسجد تشریف لے جاتے.وہاں دو رکعت نفل ادا کرتے پھر کچھ دیر وہاں بیٹھتے.(مسلم کتاب صلاة المسافرین و قصه ها باب استحباب ركعتين في المسجد لمن قدم من سفر اول قدومه حدیث نمبر 1659) ایک روایت میں آتا ہے: غزوہ اُحد کی شام جب لوہے کے خود کی کڑیاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے داہنے رخسار میں ٹوٹ جانے کی وجہ سے آپ کا بہت سا خون بہہ چکا تھا.کھلے پر لگنے کی وجہ سے خون بہہ چکا تھا.آپ زخموں سے نڈھال تھے.علاوہ ازیں 70 صحابہ کی شہادت کا زخم اس سے کہیں بڑھ کر اعصاب شکن تھا.اس روز بھی آپ بلال کی اذان کی آواز پر نماز کے لئے اسی طرح تشریف لائے جس طرح عام دنوں میں تشریف لاتے تھے.پھر آخری بیماری میں جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شدید بخار میں مبتلا تھے اس وقت بھی اگر آپ کو فکر تھی تو صرف نماز کی تھی.گھبراہٹ کے عالم میں بار بار پوچھتے کیا نماز کا وقت ہو گیا؟ بتایا گیا کہ لوگ آپ کے منتظر ہیں.بخار ہلکا کرنے کی خاطر فرمایا میرے اوپر پانی کے مشکیزے ڈالو.پانی ڈالو.تعمیل ارشاد ہوئی.حکم پورا کیا گیا.پھر غشی طاری ہو گئی.پھر ہوش آیا، پھر پوچھا کہ نماز ہو گئی.جب پتہ چلا کہ صحابہ ابھی انتظار میں ہیں تو پھر فرمایا مجھ پر پانی ڈالو.پھر پانی ڈالا گیا.پھر اس طرح پانی ڈالنے سے جب بخار کچھ کم ہوا تو نماز پر جانے لگے.مگر پھر کمزوی کی وجہ سے بیہوشی کی کیفیت طاری ہو گئی.( بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی علی و وفاته ) حضرت عائشہ فرماتی ہیں: جب آپ مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو بوجہ سخت ضعف کے نماز پڑھنے پر قادر نہ تھے.اس لئے آپ نے 148

Page 149

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا.جب حضرت ابو بکر نے نماز پڑھانی شروع کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ آرام محسوس کیا اور نماز کے لئے نکلے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضرت ابو بکر کو نماز پڑھانے کا حکم دینے کے بعد جب نماز شروع ہو گئی تو آپ نے مرض میں کچھ کمی محسوس کی آپ اس طرح مسجد کی طرف نکلے کہ دو آدمی آپ کو سہارا دے کر لے جا رہے تھے.کہتی ہیں کہ میری آنکھوں کے سامنے یہ نظارہ ہے کہ شدت درد کی وجہ سے اس وقت آپ کے قدم زمین سے گھسٹتے جاتے تھے.آپ کو دیکھ کر حضرت ابو بکر نے ارادہ کیا کہ پیچھے ہٹ جائیں.اس ارادے کو معلوم کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر کی طرف اشارہ فرما کر کہا اپنی جگہ پہ کھڑے رہو.پھر آپ کو وہاں لایا گیا.پھر آپ ابو بکر کے ساتھ بیٹھ گئے اور اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھنی شروع کی اور آپ کی جو حرکت ہوتی تھی اس پر حضرت ابو بکر تکبیر کہتے تھے.الله اكبر بولتے تھے اور باقی لوگ حضرت ابو بکر کی نماز کی اتباع میں آپ کے پیچھے نماز پڑھتے رہے“ حضرت علی اور حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ: (بخاری کتاب الاذان باب حد المريض ان يشهد الجماعة ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت اور آخری پیغام جبکہ آپ جان کنی کے عالم میں تھے اور سانس اکھڑ رہا تھا.یہ تھا کہ الصَّلوةُ وَ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ" نماز اور غلام کے حقوق کا خیال رکھنا.( سنن ابن ماجه کتاب الوصايا باب هل أوطی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ عبودیت کے وہی نظارے چشم فلک نے صدیوں کے انتظار کے بعد پھر عبودیت کے وہی نظارے دیکھے.ایک بدر کامل طلوع ہوا جس نے سراج منیر کی روشنی منعکس کر کے دنیا کو نور محمدی سے منور کیا.دنیا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تشریف آوری کے وقت اٹھارہویں صدی کی ہلاکت آفرینیوں نے الحاد و دہریت اور فسق وفجور کا ایک تند و تیز سیلاب بہار کھا تھا اور بڑے بڑے متدین خاندان اس کی زد میں آچکے تھے بلکہ خود آپ کے خاندان میں بے دینی کی ایک رو چل نکلی تھی لیکن حضرت کے قلب صافی میں ابتداء ہی سے خدا تعالیٰ کی عبادت اور اس سے محبت کے جذبات موجزن تھے اور دنیا کی کوئی دلکشی 149

Page 150

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام اور رنگینی آپ کے اس والہانہ عشق میں حائل نہیں ہو سکی ( تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ 51) آپ تو افسروں کے افسر اور مالك الملك احكم الحاكمين کے حضور حاضر ہو چکے تھے.آپ کے والد صاحب نے اس مسیتر لڑکے کے بارے میں کہا یہ شخص زمینی نہیں آسمانی (ہے) یہ آدمی نہیں فرشتہ ہے تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ 53) آپ کی نہایت چھوٹی عمر کی دعا ” نامرادے دعا کر کہ خدا میرے نماز نصیب کرے“ ظاہر کرتی ہے کہ ذوق عبادت آپ کی فطرت میں شامل تھا آپ فرماتے ہیں: المسجد مكاني والصالحون اخواني و ذكر الله مالی و خلق الله عیالی مسجد میرا مکان صالحین میرے بھائی یاد الہی میری دولت اور مخلوقِ خدا میرا عیال اور خاندان ہے.(سیرت مسیح موعود حصہ سوم از یعقوب علی عرفانی صفحه 387) 1883ء میں الہام ہوا وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ - وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلَّى ترجمہ: اور صبر اور صلوۃ کے ساتھ مدد چاہو اور ابراہیم کے مقام سے نماز کی جگہ پکڑو.آگیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز (تذکره صفحه 67) لٹر کمپن سے ہی قرآن مجید کا مطالعہ اور نماز کی ادائیگی دن رات آپ کا معمول تھا والد صاحب کی اطاعت میں کچھ خاندانی مقدمات کی پیروی کرنی پڑی.یہ فرض نبھاتے ہوئے بھی نماز کی ادئیگی کو مقدم رکھتے.عین کچہری میں نماز کا وقت آجاتا تو اس کمال محویت اور ذوق و شوق سے مصروف نماز ہو جاتے کہ گویا آپ صرف نماز پڑھنے کے لئے آئے ہیں اور کوئی کام آپ کے مد نظر نہیں بسا اوقات ایسا ہوتا کہ آپ خدا تعالیٰ کے حضور کھڑے عجز و نیاز کر رہے ہوتے اور مقدمہ میں طلبی ہو جاتی مگر آپ کا استغراق، تو کل الی اللہ اور حضورِ قلب کا یہ عالم تھا کہ جب تک مولائے حقیقی کے آستانہ پر جی بھر کے الحاح و زاری نہ کر لیتے اس کے دربار سے واپسی کا خیال تک نہ لاتے“ تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ 77) ایک ایسے ہی مقدمے میں آپ نماز کی وجہ سے طلبی پر حاضر نہ ہو سکے مگر اللہ پاک کے کرم سے معجزانہ 150

Page 151

طور پر آپ کے حق میں فیصلہ ہوا.ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام نماز تہجد کا التزام پنجگانہ نماز تو خیر فرض ہی ہے جس کے بغیر کوئی شخص جو اسلام کا دعویٰ رکھتا ہو مسلمان نہیں رہ سکتا نفل نماز کے موقعوں کی بھی حضرت مسیح موعود کو تلاش رہتی جیسے ایک پیاسا انسان پانی کی تلاش کرتا ہے تہجد کی نماز جو نصف شب کے بعد اُٹھ کر ادا کی جاتی ہے اس کے متعلق حضرت مسیح موعود کا دستور تھا که با قاعدہ شروع وقت میں بیٹھ کر ادا فرماتے تھے اور اگر کبھی زیادہ بیماری کی حالت میں بستر سے اُٹھنے کی طاقت نہیں ہوتی تھی تو پھر بھی وقت پر جاگ کر بستر میں ہی اس مقدس عبادت کو بجا لاتے تھے.تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 583 نماز اشراق کے نوافل دو یا چار رکعت کبھی کبھی ادا فرماتے (سیرت المہدی جلد ایک صفحہ 3) جس دن آپ نے بٹالہ جانا ہوتا تو سفر سے پہلے آپ دو نفل پڑھ لیتے ( تاریخ احمدیت جلد ا اول صفحہ 76) 1894ء میں سورج گرہن کے وقت مسجد کی چھت پر نماز کسوف باجماعت ادا کی جس میں قریباً تین گھنٹے دعا جاری رہی.آئینه صدق و صفا صفحه 48) ”نماز تہجد کی خلوت کے علاوہ دن کے وقت بھی عموماً ایک وقت بالکل علیحد گی میں گزارتے تھے.آپ کی رہائش کے کمرے کے ساتھ چھوٹا سا کمرہ بیت الدعا کا ہے اسے اندر سے بند کر کے دو گھنٹہ کے قریب بالکل علیحد گی میں مصروفِ عبادت رہتے ایام سفر میں بھی آپ کے واسطے کوئی چھوٹا سا کمرہ خلوت کے واسطے بالکل الگ کر دیا جاتا.(الفضل 3 جنوری 1931ء) نماز جنازہ خود حضور ہی پڑھاتے تھے.حالانکہ عام نمازیں حضرت مولوی نورالدین صاحب یا مولوی عبدالکریم ساحب پڑھاتے تھے کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ جمعہ کو جنازہ غائب ہونے لگا تو نماز تو مولوی صاحبان میں سے کسی نے پڑھائی اور سلام کے بعد حضرت مسیح موعود آگے بڑھ جاتے اور جنازہ پڑھا دیا کرتے تھے“ حضرت اماں جان سے روایت ہے کہ: (سیرت المہدی جلد 3 صفحہ 167 151

Page 152

حضرت مسیح موعود فرض نماز کی ابتدائی سنتیں گھر میں ادا کرتے تھے اور بعد کی سنتیں بھی عموماً گھر میں اور کبھی کبھی مسجد میں پڑھتے تھے“ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی لکھتے ہیں: (سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 5) حضرت مسیح موعود کے ملازم غفار کا کام اتنا ہی تھا کہ جب آپ مقدمات کے لئے سفر کرتے تو وہ ساتھ ہاتا اور لوٹا اور مصلی اس کے پاس ہوتا ان دنوں آپ کا معمول یہ تھا کہ رات بہت کم سوتے اور اکثر حصہ جاگتے رہتے اور رات بھر نہایت رقت آمیز لہجے میں گنگناتے رہتے“ (شمائل احمد صفحہ 28) حضرت مفتی محمد صادق لکھتے ہیں: ایک دفعہ مقدمہ کرم دین میں جب کہ حضرت صاحب کمرہ عدالت میں یہ سبب سماعت مقدمه تشریف فرما تھے نماز ظہر کا وقت گزر گیا اور نماز عصر کا وقت بھی تنگ ہو گیا تب حضور نے عدالت سے نماز پڑھنے کی اجازت چاہی اور باہر آکر برآمدے میں اکیلے ہی ہر دو نمازیں جمع کر کے پڑھیں.“ (ذکر حبیب صفحہ 110) ’مارچ 1908ء میں پنجاب کے فنانشل کمشنر سر جیمز ولسن ایک روزہ دورے پر قادیان آئے شام کو حضرت اقدس سے ملنے آئے دوسرے دوست بھی تھے حضور پون گھنٹہ اسلام کی خوبیاں بیان کرتے رہے.جب نماز کا وقت ہو گیا.تو یہ کہہ کر رخصت لی کہ آپ دنیاوی حاکم ہیں خدا نے ہمیں دین کے لئے روحانی حاکم بنایا ہے جس طرح آپ کے کاموں کے وقت مقرر ہیں اسی طرح ہمارے بھی وقت مقرر ہیں اب ہماری نماز کا وقت ہو گیا ہے“ (خلاصه از سیرت احمد از حضرت مولوی قدرت اللہ سنوری صفحہ 57) ”اے خدا تعالیٰ قادر و ذوالجلال! میں گناہ گار ہوں اور اس قدر گناہ کے زہر نے میرے دل اور رگ وریشہ میں اثر کیا ہے کہ مجھے رقت اور حضور نماز حاصل نہیں تو اپنے فضل و کرم سے میرے گناہ بخش اور میری تقصیرات معاف کر اور میرے دل کو نرم کر دے اور میرے دل میں اپنی عظمت اور اپنا خوف اور اپنی 152

Page 153

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام محبت بٹھا دے تا کہ اس کے ذریعہ سے میری سخت دلی دور ہو کر حضور نماز میں میسر آوے“.(فتاوی مسیح موعود صفحه 7 مطبوعہ 1935ء) آپ کے ساتھ نماز کی لذت میں شریک خوش نصیب حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب لکھتے ہیں: سید نا حضرت اقدس مسیح موعود کے زمانہ حیات میں جب کہ خدا تعالیٰ کی مقدس وحی کا نزول بارانِ رحمت کی طرح ہو رہا تھا.اس عہد میں جو بات بار بار میرے تجربے میں آئی یہ تھی کہ دعا اور نماز پڑھنے کی سمجھ اور لذت ان نمازوں کے ذریعہ آئی جو حضور اقدس کی معیت میں پڑھی گئیں.سبحان اللہ وہ کیا ہی مبارک زمانہ تھا کہ نماز کے وقت نمازیوں کے خشوع و خضوع، رقتِ قلب اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ گڑ گڑانے اور آہ و بکا کا شور مسجد مبارک میں بلند ہوتا تھا لوگ آستانہ الہی پر سر بسجود ہوتے اور مسجد مبارک وجدانی صداؤں سے گونج اُٹھتی“ (حیات قدسی (871) آنحضرت کیا کم نماز میں کبھی اتنا لمبا قیام کرتے کہ پاؤں متورم ہو جاتے.جنگ بدر اور کئی دیگر مواقع پر رات رات بھر آپؐ نے اس طرح دعائیں کیں کہ صحابہ بیان کرتے ہیں ایسا معلوم ہوتا تھا گویا چکی چل رہی ہو یا ہنڈیا اہل رہی ہو.یہی حال آپ کے فرزند جلیل حضرت مسیح موعود کا تھا.حضرت میاں فتح دین صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک تاریک رات میں نے حضور کو مسجد مبارک میں ماہی بے آب کی طرح تڑپتے دیکھا، رات بھر اضطراب کے عالم میں ٹہلتے رہے.اگلے روز حضور سے اسکی وجہ دریافت کی تو فرمایا ہمیں تو جس وقت اسلام کی مہم یاد آتی ہے اور جو مصیبتیں اسلام پر آرہی ہیں ان کا خیال آتا ہے تو ہماری طبیعت سخت بے چین ہو جاتی ہے اور اسلام کا درد ہمیں اس طرح بے قرار کر دیتا ہے“.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب بیان کرتے ہیں کہ طاعون کے ایام میں حضور آستانہ الہی پر یوں گریہ و زاری کرتے تھے جیسے کوئی عورت دردِ زہ سے بے قرار ہو.روز وصال کی نماز روز وصال 26 مئی 1908 ء کی صبح آپ کو فکر تھا تو نماز کا رات بھر طبیعت خراب رہی.جب ذرا روشنی ہو گئی تو حضور نے پوچھا ” کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے“ عرض کیا گیا ”ہاں حضور ہو گیا ہے“ 153

Page 154

اس پر حضور نے بستر پر ہی ہاتھ مار کر تیم کیا اور نماز شروع کر دی اسی حالت میں تھے کہ غشی سی طاری ہو گئی اور نماز پوری نہ کر سکے تھوڑی دیر بعد حضور نے پھر دریافت فرمایا کہ صبح کی نماز کا وقت ہو گیا ہے؟ عرض کیا گیا حضور ہو گیا ہے آپ نے پھر نیت باندھی اور لیٹے لیٹے نماز ادا کی.اس کے بعد بے ہوشی کی کیفیت طاری رہی مگر جب کبھی ہوش آتا وہی الفاظ ”اللہ میرے پیارے اللہ “ سنائی دیتے تھے اور ضعف لحظہ بلحظہ بڑھتا جاتا تھا...قریباً ساڑھے دس بجے دو ایک دفعہ لمبے سانس آئے روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی اور خدا کا بر گزیدہ، قرآن کا فدائی، اسلام کا شیدائی، محمد مصطفی صلی الل نام کا عاشق اور دین محمدی کا فتح نصیب جرنیل جس نے اپنی پوری عمر علمی اور قلمی جہاد کی قیادت میں بسر کی تھی، اپنے اہل بیت اور اپنے عشاق کو سوگوار اور افسردہ چھوڑ کر اپنے آسمانی آقا کے دربار میں حاضر ہو گیا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُوْنَ.وفات کے وقت حضور کی عمر سوا تہتر سال کے قریب تھی.دن منگل کا اور سمسی تاریخ 26 مئی 1908ء جو (ڈاکٹر محمد شہید اللہ صاحب پروفیسر راجشاہی یونیورسٹی) کی جدید تحقیق کے مطابق آنحضور می یم کا یوم وصال ہے.م سة تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ 541 - 542) اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دعا ہے کہ ہماری نماز میں بھی ایسی کیفیت پیدا فرما دے آمین اللهم آمین.روزنامه الفضل آن لائن لندن 3 جون 2022ء) 154

Page 155

اور قسط 25 تو کل علی اللہ تعالی اللہ تعالیٰ انبیائے کرام علیہم السلام کے سپر د ایسا مشکل کام کرتا ہے جو اس ذات بابر کات پر کامل بھروسے تو کل کے بغیر شروع ہی نہیں ہو سکتا.خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت پر ان کو ایسا اعلیٰ درجے کا یقین ہوتا ہے کہ وہ پورے وثوق سے دعوت الی اللہ کرتے ہیں اور مخالفین کو پوری تحدی سے اپنی کامیابی کے دعوے سناتے ہیں اللہ پاک اپنے وعدوں اور عمل سے یہ حوصلہ بڑھاتا رہتا ہے.يُقَوْمِ انْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَّقَامِن وَتَذْكِبْرِئُ بِايَتِ اللهِ فَعَلَى اللهِ تَوَكَّلْتُ فَاجْمِعُوا أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُيَّةٌ ثُمَّ اقْضُوا إِلَى وَلَا تُنْظِرُونِ ) (یونس: 72) اے میری قوم! اگر تم پر میرا مؤقف اور اللہ کے نشانات کے ذریعہ نصیحت کرنا شاق گزرتا ہے تو میں تو اللہ ہی پر تو کل کرتا ہوں.پس تم اپنی تمام طاقت اکٹھی کر لو اور اپنے شر کاء کو بھی.پھر اپنی طاقت پر تمہیں کوئی اشتباہ نہ رہے پھر کر گزرو جو مجھ سے کرنا ہے اور مجھے کوئی مہلت نہ دو.وَمَا لَنَا أَلَّا نَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ وَقَدْ هَدْنَا سُبُلَنَا وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا اذَيْتُمُونَا وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكَّلُونَ ) (ابرا ہیم: 13) اور ہم کیوں نہ اللہ تعالیٰ پر توکل کریں.حالانکہ اس نے ہمیں ہمارے (مناسب حال) راستے ہمیں دکھائے ہیں اور جو تم نے ہمیں تکلیفیں دی ہیں ہم ضرور ان پر صبر کریں گے اور بھروسہ کرنے والوں کو اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہئے.وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيلًا ) اور اللہ پر تو کل کر اور اللہ ہی کارساز کے طور پر کافی ہے.الَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ (الاحزاب: 4) 155 (الزمر : 37)

Page 156

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں؟ إنَّا لَنَنْصُهُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْأَشْهَادُ ) (المؤمن: 52) یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور اُن کی جو ایمان لائے اِس دنیا کی زندگی میں بھی مدد کریں گے اور اُس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے.وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ (الطلاق: 4) اور جو کوئی اللہ تعالیٰ پر تو کل کرتا ہے تو وہ اس کی مدد اور حفاظت کے لیے کافی ہے.قُلْ هُوَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتَابٍ ) (الرعد: 31) تو کہہ دے وہ میرا رب ہے کوئی معبود اس کے سوا نہیں، اسی پر میں تو کل کرتا ہوں اور اسی کی طرف میرا عاجزانہ جھکنا ہے.پس یہ آپ کے توکل کی قرآنی گواہی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو یہ اعلان کرنے کے لئے کہہ رہا ہے کہ میں جو تیرے دل کا بھی حال جانتا ہوں، میں یہ کہتا ہوں کہ اعلان کر دے کہ تو نے ہمیشہ مجھ پر توکل کیا ہے.(بخاری کتاب البیوع باب كراهية السخب في السوق ) اللہ تعالیٰ نے آپ کا ایک نام متوکل رکھا.حضرت محمد عربی صلی علی کرم اللہ تعالی کی منشا کو سب سے زیادہ سمجھتے تھے اور سب سے زیادہ عمل کرنے والے تھے آپ کی ساری زندگی تو کل علی اللہ کے بے نظیر نمونوں سے بھری پڑی ہے.سارا بھروسہ، یقین اور تو کل قادرو توانا اللہ تعالیٰ کی ذات پر تھا.زندگی میں کئی صبر آزما مقامات آئے مگر آپ نے تو کل علی اللہ کے بہترین نمونے دکھائے آپ اپنی طرف سے دل سے کوشش کرتے تھے اور پھر کام کے انجام کو خالق حقیقی کے سپرد کر دیتے اور کامیابی کیلئے دعا میں لگ جاتے.صدق 156

Page 157

حضرت اقدس مسیح موعود آنحضور صلی ایل کے تو کل کے بارے میں فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ پر بھروسہ کے یہ معنے نہیں ہیں کہ انسان تدبیر کو ہاتھ سے چھوڑ دے بلکہ یہ معنے ہیں کہ تدبیر پوری کر کے پھر انجام کو خدا تعالیٰ پر چھوڑے اس کا نام تو کل ہے.اگر وہ تدبیر نہیں کرتا اور صرف تو کل کرتا ہے تو اس کا تو کل پھو کا ہو گا اور اگر نری تدبیر کر کے اس پر بھروسہ کرتا ہے اور خدا تعالیٰ پر توکل نہیں ہے.تو وہ تدبیر بھی پھو کی ہو گی.ایک شخص اونٹ پر سوار تھا.آنحضرت صلی الیکم کو اس نے دیکھا.تعظیم کے لئے نیچے اترا اور ارادہ کیا کہ تو کل کرے اور تدبیر نہ کرے.چنانچہ اس نے اونٹ کا گھٹنا نہ باندھا.جب رسول اللہ صلی علی میم سے مل کر آیا تو دیکھا کہ اونٹ نہیں ہے.واپس آکر آنحضرت صلی الم سے شکایت کی کہ میں نے تو کل کیا تھا لیکن میرا اونٹ جاتا رہا.آپ نے فرمایا کہ تو نے غلطی کی.پہلے اونٹ کا گھٹا باندھتا، پھر تو کل کرتا تو ٹھیک ہوتا.(ملفوظات جلد 3 صفحہ 566 ایڈیشن 1988ء) حضرت ابو بکر فرماتے ہیں میں رسول کریم صلی اللی نیلم کے ساتھ غار میں تھا.میں نے اپنا سر اٹھا کر نظر کی تو تعاقب کرنے والوں کے پاؤں دیکھے اس پر میں نے رسول کریم کی یا نیلم سے عرض کیا یا رسول اللہ لی لی اگر کوئی نظر نیچی کرے گا.تو ہمیں دیکھ لے گا تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا:اے ابو بکر! ڈرومت.ہم دو ہیں ہمارے ساتھ تیسرا خدا ہے.حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: (بخاری کتاب المناقب باب هجرة النبي ) اللہ اللہ! کیا تو کل ہے.دشمن سر پر کھڑا ہے اور اتنا نزدیک ہے کہ ذرا آنکھ نیچی کرے اور دیکھ لے لیکن آپ کو خدا تعالیٰ پر ایسا یقین ہے کہ باوجود سب اسباب مخالف کے جمع ہو جانے کے آپ یہی فرماتے ہیں کہ یہ کیوں کر ہو سکتا ہے خدا تو ہمارے ساتھ ہے پھر وہ کیوں کر دیکھ سکتے ہیں؟“.الله الله الله (سيرة النبي صفحه 94) ایک غزوہ سے واپسی کے موقع پر آرام کی غرض سے آپ ایک درخت کے نیچے لیٹے ہوئے تھے.باقی صحابہ بھی الگ الگ آرام کر رہے تھے.ایک دشمن آپ کی گھات میں تھا.اس نے آپ کی تلوار جو درخت 157

Page 158

سے لٹک رہی تھی.سونت لی اور آپ کو بیدار کر کے یوں للکارا کہ بتاؤ اب تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے؟ آپ لیٹے ہوئے تھے، کوئی ساتھی اور محافظ پاس نہ تھا، تلوار آپ کے سر پر لہرا رہی تھی.اس حالت میں تو بڑے بڑے بہادروں کا پتا پانی ہو جاتا ہے.لیکن جرآت و استقامت اور تو کل علی اللہ کی شان دیکھیے کہ آپ نے نہایت پر سکون اور پر اعتماد انداز میں فرمایا: اللہ اللہ اللہ“ یہ پر شوکت لفظ سن کر دشمن پر کپکپی طاری ہو گئی.تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی.آپ اٹھے، تلوار اپنے ہاتھ میں لی اور حملہ آور سے کہا کہ اب تم بتاؤ کہ تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے؟ بے چارہ اس قدر مبہوت ہوا کہ آپ کے قدموں میں گر گیا.آپ نے اسے جانے دیا.ایسا تو کل، ایسی جرات اور ایسا عفو تو اس انسان نے کبھی ساری زندگی نہ دیکھا ہو گا.اس واقعہ سے اتنا متاثر ہوا کہ واپس اپنے ساتھیوں کو کہنے لگا کہ میں ایسے شخص کے پاس سے آیا ہوں جو دنیا کا بہترین انسان ہے! کیا ہی سچی بات ہے جو اس دیہاتی کی زبان سے جاری ہوئی.بخاری کتاب المغازی باب غزوہ ذات الرقاع ) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت مسلمہ کو تو کل کا درس دیا.فرماتے ہیں: جو شخص گھر سے نکلتے وقت یہ دعا پڑھے دو بِسْمِ اللهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ میں اللہ کا نام لے کر گھر سے نکلتا ہوں اور اللہ پر بھروسہ کرتا ہوں، اور نہ کسی بھی کام کی قدرت میسر آسکتی ہے نہ قوت، مگر اللہ تعالیٰ کی مدد سے تو اس کو کہہ دیا جاتا ہے کہ تو نے ہدایت پائی، تیری کفالت کر دی گئی، مجھے ہر شر سے بچادیا گیا اور شیطان اس سے دور ہٹ جاتا ہے.“ (ابوداؤد، ترمذی) اگر تم اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر اس طرح بھروسہ کرو جیسے اس پر بھروسہ کرنے کا حق ہے، تو وہ تمہیں اس طرح رزق عطا فرمائے گا جیسے پرندوں کو عطا فرماتا ہے کہ وہ صبح کے وقت خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو سیر ہو کر لوٹتے ہیں.“ (ترمذی، ابواب الزهد ، باب فی التوکل علی اللہ حدیث 2351 پھر ایک دعا کا اس طرح ذکر آتا ہے کہ حضرت جابر سے روایت ہے کہ جب آپ رکوع میں جاتے تو یہ دعا کرتے تھے کہ :.158

Page 159

اللَّهُمَّ لَكَ رَكَعْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ أَنْتَ رَبِّي خَشَعَ سَبْعِي صَرِى وَدَمِنْ وَلَحْيِي وَعَظْمِي وَعَصْبِيْ لِلَّهِ رَبِّ العَلَمِينَ کہ اے اللہ ! میں نے تیرے لئے رکوع کیا میں تجھ پر ایمان لایا، تیرے لئے مسلمان ہوا، اور تجھ پر تو کل کیا.تو ہی میرا رب ہے.میری سماعت اور بصارت، خون اور گوشت اور ہڈیاں اور اعصاب اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ہیں.جو تمام جہانوں کا رب ہے.حضرت اقدس مسیح موعود فرماتے ہیں: النسائی کتاب التطبيق باب نوع آخر ) ”ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامل متبتل تھے ویسے ہی کامل متوکل بھی تھے اور یہی وجہ ہے کہ اتنے وجاہت والے اور قوم و قبائل کے سرداروں کی ذرا بھی پروا نہیں کی اور ان کی مخالفت سے کچھ بھی متاثر نہ ہوئے.آپ میں ایک فوق العادت یقین خدا تعالیٰ کی ذات پر تھا.اسی لئے اس قدر عظیم الشان بوجھ کو آپ نے اٹھا لیا اور ساری دنیا کی مخالفت کی اور ان کی کچھ بھی ہستی نہ سمجھی.یہ بڑا نمونہ ہے تو کل کا جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی.اس لئے کہ اس میں خدا کو پسند کر کے دنیا کو مخالف بنا لیا جاتا ہے.مگر حالت پیدا نہیں ہوتی جب تک گویا خدا کو نہ دیکھ لے، جب تک یہ امید نہ ہو کہ اس کے بعد دوسرا دروازہ ضرور کھلنے والا ہے.جب یہ امید اور یقین ہو جاتا ہے تو وہ عزیزوں کو خدا کی راہ میں دشمن بنا لیتا ہے.اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ خدا اور دوست بنا دے گا.جائیداد کھو دیتا ہے کہ اس سے بہتر ملنے کا یقین ہوتا ہے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ خدا ہی کی رضا کو مقدم کرنا تو تبتل ہے اور پھر تبتل اور تو کل توام ہیں.یعنی تبتل کا راز توکل ہے اور توکل کی شرط ہے تبتل.یہی ہمارا مذہب اس امر میں ہے.“ (الحکم جلد 5 نمبر 37، 10 اکتوبر 1901ء صفحہ 3) آنحضور کے ظل اور عکس حضرت مسیح موعود کا تو کل علی اللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے اصلاح خلق پر مامور فرمایا تو ساتھ ہی ان کی جمعیت خاطر اور تقویت قلب کے لئے اپنی تائید و نصرت پر ایمان کے لئے کثرت سے الہام فرمائے.آپ کو الہام ہوا: یعنی کیا خدا اپنے بندے کے لیے کافی نہیں؟ أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ 159

Page 160

آپ نے تحریر فرمایا: ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام اور اس الہام نے عجیب سکینت اور اطمینان بخشا اور فولادی میخ کی طرح میرے دل میں دھنس گیا پس مجھے اس خدائے عز و جل کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے اپنے اس مبشرانہ الہام کو ایسے طور سے مجھے سچا کر کے دکھلایا کہ میرے خیال اور گمان میں بھی نہ تھا.میرا وہ ایسا متکفل ہوا کہ کبھی کسی کا باپ ہر گز ایسا متکفل نہیں ہو گا.“ اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام بھی متوکل رکھا.(تذکره صفحه 20) حمامة البشري، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 183) لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنْتَ الْأَعْلَى لَا تَخَفْ إِنِّي لَا يَخَافُ لَدَى الْمُرْسَلُونَ يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفَئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِةَ الْكُفْرُونَ کچھ خوف مت کر تو ہی غالب ہو گا.کچھ خوف مت کر کہ میرے رسول میرے قرب میں کسی سے نہیں ڈرتے دشمن ارادہ کریں گے کہ اپنے منہ کی پھونکوں سے خدا کے نور کو بجھا دیں اور خدا اپنے نور کو پورا کرے گا اگرچہ کافر کراہت ہی کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا: (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 92 إِنَّ اللَّهَ مَعَكَ إِنَّ اللَّهَ يَقُومُ أَيْنَمَا قُمْتَ یعنی خدا تیرے ساتھ ہے خدا وہیں کھڑا ہوتا ہے جہاں تو کھڑا ہو.(ضمیمہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 301 حاشیہ) ایسے لا تعداد الہام ہیں جب یہ یقین ہو کہ خدا ساتھ کھڑا ہے اور طفل شیر خوار کی طرح گود میں رکھتا ہے تو تائید الہی پر بھروسے کا عالم آپ کی ساری زندگی میں نظر آتا ہے.جس طرح ہندو سکھ عیسائی اور مسلم سب مل کر مخالفت پر اتر آئے تھے جہاد کرتے چلے جانا دل گردے کا کام ہے.پیشگوئیوں پر اعتراضات سن کر کبھی بھی گھبرائے نہیں بلکہ پورے یقین سے کمال جرات و حوصلہ سے فرماتے ہیں: 160

Page 161

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام میں جانتا ہوں اور محکم یقین سے جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدے کے موافق مجھ سے معاملہ کرے گا.“ (اشتہار تعمیل تبلیغ مورخہ 12 جنوری 1889ء مجموعہ شتہارات جلد 1 صفحہ 208 حاشیہ) مضمون بالا رہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ اعظم مذاہب عالم لاہور میں پیش کرنے کے لئے مضمون ”اسلامی اصول کی فلاسفی مکمل کر لیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاما یہ خوشخبری دی کہ: مضمون بالا رہا.“ (حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 291) آپ نے عام جلسے سے پانچ چھ روز قبل ایک اشتہار دیا اور اس میں فرمایا کہ یہ مضمون انسانی طاقتوں سے برتر اور خدا کے نشانوں میں سے ایک نشان اور خاص اس کی تائید سے لکھا گیا ہے.آپ نے فرمایا کہ خدائے علیم نے الہام سے مطلع فرمایا ہے کہ یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا.پس دوست اپنا اپنا حرج بھی کر کے اس مضمون کو سننے کے لیے ضرور تاریخ جلسہ پر آویں.آپ کا یہ اشتہار جو ایک عظیم الشان پیشگوئی پر مشتمل تھا ملک کے دور دراز مقامات تک پھیلایا گیا، لاہور کے درو دیوار پر بھی چسپاں کیا گیا اور لوگوں میں کثرت سے تقسیم بھی کیا گیا.آپ کا فرمانا کہ یہ مضمون خاص اللہ کی تائید کا نشان ہے، آپ نے تحدی سے لکھا کہ یہ مضمون تمام دیگر تقاریر پر غالب رہے گا، اور آپ کا پورے اعتماد سے لوگوں کو دعوت دینا کہ اپنا حرج کر کے بھی اس مضمون کو سننے کے لیے آئیں اور پھر آپ کا قبل از وقت اس الہام کو کثرت سے شائع کر کے لوگوں میں تقسیم کر دینا یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کے کلام پر اور اس کی نصرت پر کامل یقین تھا.ایسا دعویٰ ہر گز انسان کے بس کی بات نہیں کیونکہ کوئی کتنا ہی قادر الکلام کیوں نہ ہو ایسا دعویٰ نہیں کر سکتا لیکن حضرت اقدس علیہ السلام کو خدا کی تائید و نصرت پر کامل یقین تھا اور آپ کو پورا اعتماد تھا کہ جس خدا نے مجھے غلبے کا وعدہ دیا ہے وہی لو گوں کے دلوں کو بھی میرے مضمون کی طرف پھیرے گا.آپ کے مضمون کو ناقابل تردید حقیقت کی طرح پذیرائی حاصل ہوئی.ہزاروں لوگ جن میں مخالف بڑی تعداد میں تھے مضمون سننے آئے.حاضرین جلسہ کے اصرار پر نہ صرف اُس روز کی کارروائی کے وقت میں اضافہ کیا گیا بلکہ جلسے کا ایک دن صرف اس مضمون کو مکمل کرنے کے لیے مزید بڑھایا گیا.161

Page 162

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام اگر میں سچا ہوں تو مسجد مل کے رہے گی جب جماعت احمدیہ کپور تھلہ کی مسجد پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی اور بالآخر یہ معاملہ عدالت میں پہنچا تو جس حج کے پاس یہ مقدمہ گیا وہ جماعت کا سخت مخالف تھا.اس کی وجہ سے کپورتھلہ کی جماعت کو بڑی فکر ہوئی اور وہ اسی فکر مندی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں دعا کے لیے عرض کرتے.ایک دن حضرت اقدس نے غیرت اور جلال سے فرمایا: گھبراؤ نہیں.اگر میں سچا ہوں تو یہ مسجد تمہیں ضرور مل کر رہے گی.اس جج نے کپورتھلہ کے احمدیوں کے خلاف فیصلہ لکھ دیا.جس دن اس نے فیصلہ سنانا تھا اس روز وہ صبح دفتر آنے کے لئے تیار ہو رہا تھا کہ اچانک اس کو دل کا حملہ ہوا اور وہ ختم ہو گیا.فیصلہ سنانے کی نوبت نہ آئی.دوسرے حج نے احمدیوں کے حق میں فیصلہ دیا.(خلاصه از سیرت المہدی مرتبہ حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے روایت (79) جب میرا کیسہ خالی ہو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی کفالت پر کس قدر بھروسہ تھا.آپ فرماتے ہیں: میں اپنے قلب کی عجیب کیفیت پاتا ہوں جیسے سخت جبس ہوتا ہے اور گرمی کمال شدت کو پہنچ جاتی ہے، لوگ وثوق سے امید کرتے ہیں کہ اب بارش ہو گی.ایسا ہی جب اپنی صند و تمجی کو خالی دیکھتا ہوں تو مجھے خدا کے فضل پر یقین واثق ہوتا ہے کہ اب یہ بھرے گی اور ایسا ہی ہوتا ہے.“ پھر آپ خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر فرماتے ہیں: (ملفوظات، جلد 1 صفحہ 297) ”جب میرا کیسہ خالی ہوتا ہے جو ذوق و سرور خدا تعالیٰ پر تو کل کا اُس وقت مجھے حاصل ہوتا ہے میں اُس کی کیفیت بیان نہیں کر سکتا اور وہ حالت بہت ہی زیادہ راحت بخش اور طمانیت انگیز ہوتی ہے بہ نسبت اس کے کہ کیسہ بھرا ہوا ہو.“ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 297) 162

Page 163

کہ یہ جاں آگ میں پڑ کر سلامت آنے والی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ میں ایسے فنا تھے اور خدا بھی آپ سے ایسی محبت کرتا تھا کہ آپ کو اپنے رب کی غیر معمولی تائید و نصرت اور حفاظت پر ناز تھا.ایک دفعہ جب ایک ہندو نے اسلام پر یہ اعتراض کیا کہ قرآن نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق یہ بات قانون قدرت کے خلاف بیان کی ہے کہ دشمنوں نے ان کو آگ میں ڈالا اور خدا کے حکم سے آگ ان پر ٹھندی ہو گئی تو حضرت مولانا نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ نے اس اعتراض کا یہ جواب دیا کہ حقیقی آگ مراد نہیں بلکہ جنگ اور مخالفت کی آگ مراد ہے.جب حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ جواب سنا تو آپ نے بڑے جلال کے ساتھ فرمایا: اس تاویل کی ضرورت نہیں.حضرت ابراہیم کا زمانہ تو گزر چکا.اب ہم خدا کی طرف سے اس زمانہ میں موجود ہیں ہمیں کوئی دشمن آگ میں ڈال کر دیکھ لے کہ خدا اس آگ کو ٹھنڈا کر دیتا ہے کہ نہیں.آج اگر کوئی دشمن ہمیں آگ میں ڈالے گا تو خدا کے فضل سے ہم پر بھی آگ ٹھنڈی ہو گی.“ (سیرت المہدی، مرتبہ حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے، روایت 147) اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود سے حفاظت کا بار بار وعدہ فرمایا: ”خدا نے ہم سے وعدہ فرمایا ہے اور اس پر ہمارا ایمان ہے وہ وعدہ وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ کا ہے.پس اسے کوئی مخالف آزمالے اور آگ جلا کر ہمیں اس میں ڈال دے آگ ہر گز ہم پر کام نہ کرے گی اور وہ ضرور ہمیں اپنے وعدہ کے مطابق بچالے گا لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہم خود آگ میں کودتے پھریں یہ طریق انبیاء کا نہیں خدا تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ (البقرة: 196) پس ہم خود آگ میں دیدہ دانستہ نہیں پڑتے بلکہ یہ حفاظت کا وعدہ دشمنوں کے مقابلہ پر ہے کہ اگر وہ آگ میں ہمیں جلانا چاہیں تو ہم ہر گز نہیں جلیں گے.“ 163 ( ملفوظات جلد سوم صفحه 480)

Page 164

ترے مکروں سے اے جاہل مرا نقصاں نہیں ہر گز کہ یہ جاں آگ میں پڑ کر سلامت آنے والی ہے خدا تعالیٰ نے تو حضرت اقدس علیہ السلام کو الہاما یہ بھی فرمایا کہ تو لوگوں سے کہہ دے: آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.66 البدر جلد 1 نمبر 5، 6- 28 نومبر ، 5 دسمبر 1902ء صفحہ 34) ہے سر رہ پر مرے وہ خود کھڑا مولیٰ کریم پس نہ بیٹھو میری رہ میں اے شریران دیار اللہ تعالیٰ کے لیے لوہے کے کنگن یک بار جب سپر نٹنڈنٹ پولیس لیکھرام کے قتل کے شبہ میں اچانک قادیان آیا اور حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ کو اس کی اطلاع ہوئی تو وہ سخت گھبراہٹ کی حالت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس گئے.غلبہ رقت کی وجہ سے بڑی مشکل سے آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ وارنٹ گرفتاری کے ساتھ ہتھکڑیاں لیے ہوئے آرہا ہے.حضرت اقدس علیہ السلام اس وقت اپنی کتاب ”نور القرآن“ تصنیف فرما رہے تھے.سر اٹھا کر اطمینان سے مسکراتے ہوئے فرمایا: میر صاحب! لوگ خوشیوں میں چاندی سونے کے کنگن پہنا ہی کرتے ہیں ہم سمجھ لیں گے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں لوہے کے کنگن پہن لیے.مگر ایسانہ ہو گا.کیونکہ خدا تعالیٰ اپنے خلفائے مامورین کی ایسی رسوائی پسند نہیں کرتا.“ طاعون کے زمانے میں آپ کا یقین اور تو کل (ملفوظات جلد 1 صفحہ 279) جس زمانے میں طاعون زوروں پر تھا اور پورے ہندوستان میں شہروں کے شہر خالی ہو رہے تھے انگریز حکومت نے ٹیکے کا انتظام کیا تاکہ لوگوں کی جان بچائی جاسکے.طاعون کے پھوٹنے سے بہت پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ اس ملک میں نشان کے طور پر طاعون پھیلے گا اور اُس وقت چونکہ طاعون کا نام و نشان نہ تھا لوگوں نے آپ کا خوب استہزا کیا.آپ نے یہ پیشگوئی بھی شائع فرمائی کہ اللہ تعالیٰ 164

Page 165

نے مجھے سے وعدہ کیا ہے کہ: ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام إِنِّي أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ یعنی ہر ایک جو تیرے گھر کی چار دیواری کے اندر ہے میں اس کو بچاؤں گا.(الحکم جلد 6 نمبر 16 مورخہ 30 اپریل 1902ء صفحہ 7) طاعون کی وجہ سے چاروں طرف موتا موتی کا عالم تھا.لیکن ذرا دیکھیے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کو خدا کی نصرت پر کیسا اعلیٰ درجے کا یقین تھا.آپ نے فرمایا کہ چونکہ طاعون میری تائید میں ایک نشان ہے اس لیے اگر ٹیکہ لگوا کے ہم اس وبا سے محفوظ رہے تو اس نشان کی عظمت کو کم کرنے والے ہوں گے.لہذا میں ٹیکہ نہیں لگواؤں گا اور اس کے باوجود طاعون سے بچایا جاؤں گا بلکہ وہ سب بھی بچائے جائیں گے جو میری چار دیواری کے اندر رہتے ہیں اور آپ نے فرمایا کہ میرے منجانب اللہ ہونے کا یہ نشان ہو گا کہ میری جماعت بھی نسبتاً و مقابلۂ طاعون کے حملے سے بچی رہے گی.پس نہ صرف آپ خود محفوظ رہے بلکہ آپ کے بچے پیرو کار بھی اس مہلک بیماری سے ٹیکا لگوائے بغیر اللہ کی حفاظت میں رہے.اسی زمانے میں مولوی محمد علی صاحب جو ان دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں مقام پذیر تھے ان کو بخار ہو گیا.مولوی صاحب نے گھبراہٹ کے عالم میں حضور سے ذکر کیا اور یہ فکر ظاہر کی کہ انہیں طاعون ہو گیا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انتہائی اعتماد اور یقین سے فرمایا: ”مولوی صاحب اگر آپ کو طاعون ہو گئی ہے تو پھر میں جھوٹا ہوں اور میرا دعویٰ الہام غلط ہے.“ (خلاصه از حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 265) پھر چند ہی لمحات میں بخار بھی اتر گیا اور آپ بالکل صحت یاب ہو گئے جس زمانے میں حضرت اقدس علیہ السلام کے خلاف کرم دین کی طرف سے ایک لمبا مقدمہ چل رہا تھا آریوں نے اس کیس کے ہندو مجسٹریٹ کو جس کا نام چندو لال تھا خوب اکسایا اور حضرت اقدس کا نام لے کر اسے کہا کہ یہ شخص ہمارا سخت دشمن اور ہمارے لیڈر لیکھرام کا قاتل ہے.اب وہ آپ کے ہاتھ میں شکار ہے اور ساری قوم کی نظر آپ کی طرف ہے.اگر آپ نے اس شکار کو ہاتھ سے جانے دیا تو آپ قوم کے دشمن ہوں گے.اس پر مجسٹریٹ نے اپنا یہ ارادہ ظاہر کیا کہ اگلی پیشی میں وہ کچھ ایسا کرے گا کہ بغیر ضمانت قبول کیے نعوذ باللہ حضور کو گرفتار کروا کے حوالات میں دے دے گا.165

Page 166

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام حضرت اقدس علیہ السلام کے جاں نثار صحابہ کو اس کی خبر قبل از وقت مل گئی تھی اور سب بے حد پریشان تھے.جب یہ سارا ماجرا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سنایا گیا اور شکار کا لفظ آیا تو حضرت صاحب لیٹے ہوئے تھے.آپ یکلخت اُٹھ کر بیٹھ گئے اور آپ کی آنکھیں چمک اُٹھیں اور چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے فرمایا: میں اُس کا شکار ہوں! میں شکار نہیں ہوں.میں شیر ہوں، اور شیر بھی خدا کا شیر.وہ بھلا خدا کے شیر پر ہاتھ ڈال سکتا ہے؟ ایسا کر کے تو دیکھے.الفاظ کہتے ہوئے آپ کی آواز اتنی بلند ہو گئی کہ کمرے کے باہر بھی سب لوگ چونک اٹھے.حضور نے کئی دفعہ خدا کے شیر کے الفاظ دوہرائے اور اُس وقت آپ کی آنکھیں جو ہمیشہ جھکی ہوئی اور نیم بند رہتی تھیں واقعی شیر کی آنکھوں کی طرح کھل کر شعلہ کی طرح چمکتی تھیں اور چہرہ اتنا سرخ تھا کہ دیکھا نہیں جاتا تھا.پھر آپ نے فرمایا: میں کیا کروں میں نے تو خدا کے سامنے پیش کیا ہے کہ میں تیرے دین کی خاطر اپنے ہاتھ اور پاؤں میں لوہا پہنے کو تیار ہوں مگر وہ کہتا ہے کہ نہیں میں تجھے ذلت سے بچاؤں گا اور عزت کے ساتھ بری کرونگا.“ (سیرت المہدی مرتبہ حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے روایت (107) جس پیشی میں اس مجسٹریٹ کا ارادہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حوالات میں دے دے گا وہ پیشی ملتوی ہو گئی.مجسٹریٹ کا گورداسپور سے تبادلہ ہو گیا اور پھر اس کا تنزل بھی ہو گیا.پس جو کہتا تھا کہ مسیح دوراں اس کا شکار ہے وہ خود ذلت کا شکار ہوا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام اور خدا کا کلام: إِنِّي مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ اهَا نَتَكَ کہ جو تیری ذلت کا ارادہ کرے گا میں اسے ذلیل کردوں گا ایک قہری تجلی کے ساتھ پورا ہوا.اللہ تعالیٰ کے ان گنت نشان اور ان گنت واقعات کا احاطہ ممکن نہیں.دعا ہے کہ ہمیں بھی اپنے پیاروں کی اتباع میں تو کل کی حقیقی روح پر قائم رہنے کی توفیق ملے.آمین اللهم آمین.روزنامه الفضل آن لائن لندن 10 جون 2022ء) 166

Page 167

قسط 26 دشمنوں کی خیر خواہی اللہ تبارک تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفی صلی علی ایم کو کل انسانیت کے لئے رحمت بنا کر بھیجا.آپ صرف مومنوں یا مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ بلا تفریق مذہب و ملت رنگ و نسل“ زمان و مکان کل عالمین کے لئے رحمت ہیں.آپ کی بعثت کے وقت عرب میں بات بات پر دشمنی عداوت“ رقابت اور انتقام کے سلسلے سالہا سال تک چلتے.قتل کرنا اعضا کاٹنا کلیجہ چبانا کھوپڑی میں شراب پینا بہادری کی علامت سمجھا جاتا تھا ان وحشیوں کو انسان اور پھر خدا نما انسان بنانا کسی آرڈینینس، قانون یا سزا سے ممکن نہیں تھا.آپ نے انتہائی محبت، حلم اور عفو و در گزر سے دشمنوں کو معاف کرنے کی ریت ڈال کر ان کے دل جیت لئے.جس سے رفتہ رفتہ دشمنی اور انتقام کی آگ ٹھنڈی ہوتی گئی اور وہی معاشرہ امن و سلامتی کا معاشرہ بن گیا.لیا ظلم کا عفو سے انتقام آپ کے نبوت کے دعوی کے ساتھ دشمنی کا آغاز ہو گیا تھا مگر آپ کو اپنے دشمنوں کو معاف کرنے کی تعلیم دی گئی تھی.اسلام کے علاوہ کسی مذہب میں دشمن کو معاف کرنے کی تعلیم نہیں ملتی.جبکہ اسلام کے مطابق جب تک دعا اور تربیت سے اصلاح کی توقع ہو در گزر سے کام لینا بہتر ہے.دشمن اپنی تمام تر طاقت کے ساتھ ایذا رسانی کرتے مگر آپ اسلامی تعلیم کے مطابق ہر سختی برداشت کرتے اور ان کی ہدایت کی دعا کرتے.آپ کے چچا ابو لہب اور اس کی بیوی ام جمیل آپ کے گھر کے آگے کانٹے بچھا دیتے تھے.حکم ابن ابی العاص، عقبہ ابن ابی معیط بکری کی اوجھڑی یا بانڈی حالت نماز میں آپ پر ڈال دیتے آپ کے گھر پر پتھراؤ کرتے.ابو جہل کی دشمنی کا یہ عالم تھا کہ آپ جہاں بھی اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے جاتے وہاں پہنچ جاتا اور لو گوں کو آپ کے خلاف بھڑ کاتا.(مسند احمد جزء 3 صفحہ 492) ذوالمجاز کے میلے میں ایک دفعہ دعوت الی اللہ کے دوران ابو جہل آپ پر خاک اڑاتا اور لو گوں کو آپ کی 167

Page 168

مخالفت پر اکساتا رہا.ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام (مسند احمد جزء 5 صفحہ 371) ایک دفعہ رسول اللہ صلی علی علی صفا کے پاس بیٹھے تھے کہ ابو جہل نے آکر آپ کو بہت گالیاں دیں اور ستایا اور دین کی مذمت کی.لیکن آپ نے ایک لفظ اس سے نہ کہا.(تاریخ طبری جزء 2 صفحہ 78) ایک روز ذوالحجاز کے میلے میں ہی آپ سرخ قبہ پہنے منادی توحید کر رہے تھے کہ ایک شخص نے آپ پر پتھر برسانے شروع کر دیے جس سے آپ کی پنڈلیاں اور ٹخنے لہولہان ہو گئے.(سیرت الحلبیہ جزء 1 صفحہ 354) آپ کو اپنے اصحاب اور خاندان سمیت شعب ابی طالب میں محصور کر کے بنیادی حقوق تک سلب کرلیے گئے.اسی دوران حضرت خدیجہ اور آپ کے مخلص چچا حضرت ابوطالب کی وفات ہوئی.کفار مکہ کی ظلم و زیادتی کی انتہا پر ایک روز بے بس صحابہ نے آپ کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ یارسول اللہ ! جب ہم مشرک تھے تو معززین میں شمار ہوتے تھے اور جب ہم ایمان لائے تو ہمیں ذلیل کیا گیا اس پر آپ صلی ایم نے انہیں صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: إِنِّي أُمِرْتُ بِالْعَفُوفَلَا تُقَاتِلُوا کہ مجھے عفو کا حکم ہوا ہے.اس لئے تم لڑائی سے بچو.نہیں نہیں ایسا نہ کرو 10 نبوی میں آپ دعوت الی اللہ کی خاطر طائف گئے وہاں بنو ثقیف کے سرداروں نے آپ کی دعوت کو قبول نہ کیا اور آپ کے پیچھے بد تہذیب لڑکوں کو لگا دیا کہ وہ آپ کو طائف سے نکال دیں.ان شریروں نے آپ پر آوازے کیسے اور گالیاں دیں جس پر لوگ اکٹھے ہو گئے اور آپ پر پتھر برسانے لگے.آپ تھکاوٹ سے بیٹھتے تو وہ آپ کو زبر دستی کھڑا کر دیتے.آپ کے ساتھی حضرت زید بن حارثہؓ نے آپ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی اور سر پر پتھر لگنے سے زخمی بھی ہوئے.اس پتھر اؤ کے نتیجے میں رسول للہ صلی علیم کی پنڈلیاں لہو لہان ہو گئیں اور خون بہ کر جوتوں میں جم گیا اور سخت تکلیف کا باعث بنا.لیکن آپ نے یہاں بھی کمال صبر کا مظاہرہ کیا.جب آپ قرن الثعالب پہنچے تو حضرت جبرئیل آپ کی 168

Page 169

.خدمت میں تشریف لائے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کا آپ سے کیا گیا سلوک دیکھ لیا ہے اور پہاڑوں کا فرشتہ بھجوایا ہے.آپ اسے جو حکم دیں گے یہ بجالائے گا.چنانچہ پہاڑوں کے فرشتے نے سلام کر کے کہا کہ آپ جو حکم دیں گے میں وہ کروں گا اگر آپ چاہیں تو میں یہ دونوں پہاڑ ان پر گرادوں.آپ نے نہایت عفو ورحم کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ نہیں نہیں ایسا نہ کرو مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل میں سے ایسے لوگ ضرور پیدا کرے گا جو خدائے واحد کے پرستار ہوں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے.(بخاری کتاب بدء الخلق، سیرت ابن ہشام جزء 1 صفحہ 421) رسول اللہ صلی السلام نے طائف میں گزرے مشکل ترین دن کو غزوۂ احد والے دن سے زیادہ تکلیف دہ بیان فرمایا.جبکہ غزوہ احد میں آپ کے دو دندان مبارک شہید ہوئے اور آپ شدید زخمی ہوئے پھر بھی آپ نے اپنے دشمنوں کے خلاف بد دعا اور لعنت نہ فرمائی.قریش مکہ نے دارالندوہ میں جمع ہو کر آپ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا.ہجرت مدینہ کے بعد بھی کفار مکہ نے چین سے نہ بیٹھنے دیا.تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کفار کے معاشی و معاشرتی، دینی و دنیاوی ظلم کی چکی میں پسنے والے مسلمانوں کو اپنے دفاع اور مظلوم مسلمانوں کی مدد کی خاطر جنگ کرنے کی اجازت مل گئی.جنگ احد میں جب مسلمانوں کو نقصان پہنچا اور حضور صلی الی کی بھی زخمی ہو گئے تو کسی نے حضور صلی ایم کی خدمت میں مخالفین اسلام کے خلاف بد دعا کرنے کی درخواست کی تو آپ کی لیے ہم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے لعنت ملامت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا بلکہ اس نے مجھے خدا کا پیغام دینے والا اور رحمت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے.اس کے بعد حضور صلی می کرم نے اللہ کے حضور یہ دعا کی کہ اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے دے کیونکہ وہ حقیقت سے نا آشنا ہیں.اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ: (شعب الایمان للبيهقي ) حضور صلی الم نے اللہ کے حضور یہ التجا کی کہ اے اللہ ! میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ لاعلمی کی وجہ سے 169

Page 170

اسلام کی مخالفت کر رہی ہے.(المعجم الكبير للطبراني ) غزوہ احد کے بعد مکہ میں سخت قحط پڑا اور اہل مکہ خصوصاً غرباء سخت تکلیف میں مبتلا ہو گئے.آنحضرت صلی الی یوم کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے ازراہ ہمدردی مکہ کے غرباء کے لئے اپنی طرف سے کچھ چاندی بھجوائی اور اس بات کا عملی ثبوت دیا کہ آپ کا دل اپنے سخت ترین دشمنوں کے ساتھ بھی حقیقی ہمدردی رکھتا ہے مدافعتی جنگوں میں آپ نے ایسا اسوۂ حسنہ قائم فرمایا جو آئندہ دنیا کی تمام قوموں کے لیے ایک مثال بنا.قرآنی احکام کے مطابق دشمنوں اور دشمنی کو ختم کرنے کے لئے عدل و انصاف پر مبنی معاہدات اور امان نامے لکھے.یہود، نصاری اور قریش مکہ سب کو دینی و دنیوی معاملات میں عدل و انصاف کا حق دیا.میثاق مدینہ اور صلح کی شرائط برابری کی سطح پر طے کی گئیں.حدیده ہم اس سے ضرور اچھا برتاؤ کریں گے.رئیس المنافقین عبد اللہ ابی سلول کے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے.وہ ہر موقع پر اسلام اور بانی اسلام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا.آنحضرت کی شان میں برملا سخت گستاخی کرتا.ایک دفعہ حضرت عمر نے آنحضرت سے اجازت چاہی کہ اُس کی گردن اڑادیں.لیکن آپ نے فرمایا: عمر جانے دو.کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ لو گوں میں یہ چرچا ہو کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قت کرواتا پھر تا ہے.جب اس کے بیٹے حضرت عبد اللہ بن ابی جو مخلص مسلمان تھے کو یہ اطلاع ملی تو وہ آنحضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اگر آپ چاہیں تو میں اپنے باپ کا سر کاٹ کر آپ کے قدموں میں لاڈالوں.آپ نے فرمایا نہیں وہ تمہارا باپ ہے اس سے نیکی اور احسان کا سلوک کرو.(مجمع الزوائد لهيثمي جلد 1 صفحہ 301) ایک دفعہ عبداللہ بن ابی نے کہا تھا لیخْرِجَنَّ الْاَعَةُ مِنْهَا الْأَذَلَ - یعنی عزت والا شخص یا گروہ ذلیل شخص یا گروہ کو اپنے شہر سے باہر نکال دے گا تو حضرت عبداللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا 170

Page 171

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام کہ یا رسول اللہ ! وہی ذلیل ہے اور آپ ہی عزیز ہیں.خود بیٹے نے اپنے باپ کے بارے میں کہا.(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جزء ثالث صفحہ 941 عبد اللہ بن عبد اللہ انصاری“ دار الجیل بیروت) ایک دفعہ حضرت عبداللہ نے اپنے والد عبد اللہ بن ابی کا راستہ روک لیا اور اپنے والد سے کہنے لگے کہ جب تک تم یہ اقرار نہیں کرتے کہ تو ذلیل ترین اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) عزیز ترین ہیں تب تک میں تجھے نہیں چھوڑوں گا.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا اسے چھوڑ دو.میری عمر کی قسم! ہم اس سے ضرور اچھا برتاؤ کریں گے جب تک یہ ہمارے درمیان زندہ ہے.(الطبقات الكبرى جزء 2 صفحہ 50 غزوة رسول اللہ المریسیع، دارالکتب العلمية بيروت 1990ء) غزوة بنو مصطلق سے واپسی پر افک کا واقعہ پیش آیا جس میں حضرت عائشہ کی ذات پر گندے اور انتہائی تکلیف دہ الزامات لگائے گئے تھے اس کا بانی مبانی بھی یہی ظالم شخص تھا.لیکن آپ کی فراخ دلی دیکھئے کہ جب وہ فوت ہوا تو اس کے لئے اپنی قمیض عطا کی اور فرمایا کہ جب تم لوگ تجہیز و تکفین کے معاملات سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے بلا لینا.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز جنازہ پڑھنے لگے تو حضرت عمر نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین کی نماز جنازہ سے منع کیا ہے.پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.مجھے اختیار دیا گیا ہے کہ میں ان کے لیے استغفار کروں یا نہ کروں.پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی پھر جب اللہ تعالیٰ نے ایسے افراد کی نماز جنازہ نہ پڑھنے کی کلیۂ ممانعت فرما دی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کی نماز جنازہ پڑھانی بند کر دی.(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جزء ثالث صفحہ 941 عبد اللہ بن عبد اللہ انصاری“ دار الجیل بیروت) یہ بھی روایت ہے کہ جب آپ پہنچے تو اس کو قبر میں رکھا جا چکا تھا.آپ نے باہر نکلوایا.اپنی ٹانگوں پر اس کا سر رکھا اور پھر اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں ڈالا اور پھر دعا کی اور قمیض کرتہ اتار کے دیا.(صحیح بخاری کتاب الجنائز باب هل يخرج الميت من القبر حديث نمبر 1350) عاشق جان نثار میں بدلا، پیاسا تھا جو خار لہو کا م الله اسلام کے ایک اور دشمن کا نام ثمامہ بن اثال تھا جو قبیلہ بنو حنیفہ کا ایک بااثر رئیس تھا.کئی بے گناہ مسلمانوں کے قتل کا مجرم تھا.آخر مسلمانوں کے ہاتھوں قید ہوا تو آنحضور صلی ا ہم نے اسے مسجد نبوی کے صحن میں ایک ستون سے باندھنے کا ارشاد فرمایا.غرض یہ تھی کہ نمازوں کے روحانی نظاروں سے متاثر ہو 171

Page 172

کر وہ اسلام کی طرف مائل ہو جائے.آپ ہر روز صبح ثمامہ کے قریب تشریف لے جا کر دریافت فرماتے کہ ”تمامہ! اب کیا ارادہ ہے؟“.وہ جواب دیتا: اے محمد ؟ اگر آپ مجھے قتل کردیں تو آپ کو اس کا حق ہے کیونکہ میرے خلاف خون کا الزام ہے لیکن اگر آپ احسان کریں تو آپ مجھے شکر گزار پائیں گے اور اگر آپ فدیہ لینا چاہیں تو میں اس کے لئے تیار ہوں“.تین دن یہ سوال وجواب ہوتا رہا اور پھر آپ نے اُسے آزاد کرنے کا ارشاد فرمایا.وہ مسجد سے نکل کر ایک باغ میں گیا اور نہا دھو کر واپس آکر آنحضرت سے عرض کیا: یا رسول اللہ ! ایک وقت تھا کہ مجھے تمام دنیا میں آپ کی ذات سے اور آپ کے دین اور آپ کے شہر سے سب سے زیادہ دشمنی تھی لیکن اب مجھے آپ کی ذات اور آپ کا دین اور آپ کا شہر سب سے زیادہ محبوب ہے.مکہ فتح ہوا.وہ جو جانی دشمن تھے جن کی وجہ سے مکہ چھوڑنا پڑا تھا یہ لوگ اپنے گھناؤنے جرائم کی وجہ سے واجب القتل تھے اور آپ کے رحم و کرم پر تھے آپ نے "لا تثریب علیکم الیوم“ آج تم پر کوئی ملامت نہیں.آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا فرما کر اپنے جانی دشمنوں کو معاف کر دیا.اس عظیم الشان معافی کی مثال تاریخ عالم اور تاریخ انبیاء میں بھی نہیں ملتی..زہر دے کر مارنے کی سازش فتح خیبر کے بعد مفتوح یہودیوں نے درخواست کی کہ ہمیں یہاں سے نہ نکالا جائے، ہم نصف پیداوار مسلمانوں کے حوالے کر دیا کریں گے، حضور صلی ا ہم نے قبول فرما لیا.مگر یہودی بد عہدی کرتے رہے حتی کہ ایک یہودی عورت نے حضور صل الم کو زہر ملا گوشت کھلا کر جان لینے کی کوشش کی اور حضور مصلی می رویم کے استفسار پر اس نے قبول بھی کرلیا کہ بے شک میری نیت آپ کو قتل کرنا تھی، آپ صلی اللہ کریم نے فرمایا مگر اللہ کی منشاء نہ تھی کہ تیری آرزو پوری ہو جائے.صحابہ نے اسے قتل کرنا چاہا تو آپ کی ہم نے منع فرما دیا، حضور ملی ایم نے جب اس عورت سے پوچھا کہ تمہیں اس ناپسندیدہ فعل پر کس بات نے آمادہ کیا تو اس نے جواب دیا، میری قوم سے آپ مالی ایم کی لڑائی ہوئی تھی، میرے دل میں آیا کہ آپ صلی نیلم کو زہر دے دیتی ہوں اگر واقعی آپ نبی ہوئے تو بچ جائیں گے.رسول صلی یم کو اس زہر سے آخری وقت تک تکلیف رہی آپ مرض الموت میں آخری سانس لے رہے تھے تو حضرت عائشہ سے فرمانے لگے اے عائشہ! میں اب تک اس زہر کی اذیت محسوس کرتا رہا ہوں جو خیبر میں یہودیوں نے مجھے دیا تھا اور اب بھی میرے بدن میں اس زہر کے اثر سے کٹاؤ اور جلن کی کیفیت ہے.مگر رسول اللہ اپنی ذات کے لئے 172

Page 173

کسی سے انتقام نہیں لیا کرتے تھے.آپ نے اس پر بھی یہود کو بخش دیا اور اس عورت کو معاف کر دیا.( صحیح بخاری کتاب المغازی باب مرض النبي وفاته ) ایک موقع پر ایک یہودی نے حضور اکرم لی لی نام سے قرض کی ادائی میں سختی کرتے ہوئے گستاخی کے کلمات کہے اور حضور صلی ال نیم کے گلے میں چادر ڈال کر بل دیا، آپ میلی لی کام کی رگیں ابھر آئیں، حضرت عمر نے بڑی سختی سے یہودی کو ڈانٹا، مگر آپ نے حضرت عمر سے فرمایا تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، تمہیں چاہیے تھا کہ اسے نرمی سے سمجھاتے، اور مجھے قرض ادا کرنے کا کہتے اب اس کا قرض ادا کرتے ہوئے اس سخت کلامی کے تاوان کے طور پر اس کو کچھ زیادہ دینا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”خدا تعالیٰ نے عدل کے بارے میں جو بغیر سچائی پر پورا قدم مارنے کے حاصل نہیں ہو سکتی، فرمایا ہےلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى الَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوَى (المائده: (9) یعنی دشمن قوموں کی دشمنی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو.انصاف پر قائم رہو کہ تقویٰ اسی میں ہے.اب آپ کو معلوم ہے کہ جو قومیں ناحق ستاویں اور دُکھ دیویں اور خونریزیاں کریں اور تعاقب کریں اور بچوں اور عورتوں کو قتل کریں، جیسا کہ مکہ والے کافروں نے کیا تھا اور پھر لڑائیوں سے باز نہ آویں، ایسے لوگوں کے ساتھ معاملات میں انصاف کے ساتھ برتاؤ کرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے.مگر قرآنی تعلیم نے ایسے جانی دشمنوں کے حقوق کو بھی ضائع نہیں کیا اور انصاف اور راستی کے لئے وصیت کی میں سچ سچ کہتا ہوں کہ دشمن سے مدارات سے پیش آنا آسان ہے مگر دشمن کے حقوق کی حفاظت کرنا اور مقدمات میں عدل اور انصاف کو ہاتھ سے نہ دینا یہ بہت مشکل اور فقط جوانمردوں کا کام ہے.نور القرآن نمبر 2، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 409) ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ کو کسی قوم سے خوف ہوتا تو یہ دعا پڑھتے: اللهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُورِهِمْ ، وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ ترجمہ : اے اللہ ! ہم تجھ کو ان کے سامنے کرتے ہیں اور تیرے ذریعے ان کی شرارتوں (برائیوں) سے پناہ مانگتے ہیں.173

Page 174

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام الله سة اخلاق محمدی کا کامل پرتو حضرت مسیح موعود اخلاق محمد صلی علیم کا کامل پر تو تھے آپ نے اُس سراج منیر سے روشنی کا ایسا اکتساب کیا کہ خود بدر کامل بن گئے اور دور حاضر میں آپ کی سنت کا احیا کر کے دکھایا دشمن کو معاف کرنے اس کے حق میں دعا کرنے اور تالیف قلوب کے لئے حسن سلوک کرنے میں خلق محمدی کا عکس نظر آتا ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی فرمایا تھا وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِيْنَ اور میں نے تجھے اس لئے بھیجا ہے کہ تا سب لو گوں کے لئے رحمت کا سامان پیش کروں.(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 603) تَلَطَّف بالناس وترحم عَلَیهِم یعنی تو لوگوں کے رفق اور نرمی سے پیش آ اور ان پر رحم کر.(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد 1 صفحه 605) خدا کی عدالت کافی ہے میرٹھ سے احمد حسین شوکت نے ایک اخبار شحتہ ہند جاری کیا ہوا تھا.یہ شخص اپنے آپ کو مجدد السنتہ المشرقیہ کہا کرتا تھا.حضرت مسیح موعود کی مخالفت میں اس نے اپنے اخبار کا ایک ضمیمہ جاری کیا جس میں ہر قسم کے گندے مضامین مخالفت میں شائع کرتا اور اس طرح پر جماعت کی دل آزاری کرتا.میر ٹھ کی جماعت کو خصوصیت سے تکلیف ہوتی.کیو نکہ وہاں سے ہی وہ گندہ پرچہ نکلتا تھا.1/2 کتوبر 1902ء کا واقعہ ہے کہ میرٹھ کی جماعت کے پریذیڈنٹ جناب شیخ عبدالرشید صاحب جو ایک معزز زمیندار اور تاجر ہیں تشریف فرما تھے.حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ ضمیمہ شحیہ ہند کے توہین آمیز مضامین پر عدالت میں نالش کر دوں.حضرت حجۃ اللہ نے فرمایا ”ہمارے لئے خدا کی عدالت کافی ہے.یہ گناہ میں داخل ہو گا اگر ہم خدا کی تجویز پر تقدم کریں.اس لئے ضروری ہے کہ صبر اور برداشت سے کام لیں.“ (ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود علیه السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی عرفانی صفحہ 108 – 109) 29 جنوری 1904ء کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور ایک گالیاں دینے والے اخبار کا تذکرہ آیا کہ فلاں اخبار جو ہے بڑی گالیاں دیتا ہے.آپ نے فرمایا صبر کرنا چاہئے.ان گالیوں سے کیا 174

Page 175

ہوتا ہے.آپ نے فرمایا کہ ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کے لوگ آپ کی مذمت کیا کرتے تھے اور آپ کو نعوذ باللہ مذمّہ کہا کرتے تھے.تو آپ ہنس کر فرمایا کرتے تھے کہ میں ان کی مذمت کو کیا کروں.میرا نام تو اللہ تعالیٰ نے محمد رکھا ہوا ہے (صلی اللہ علیہ وسلم).فرمایا کہ اسی طرح اللہ نے مجھے بھیجا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اور میری نسبت فرمایا ہے، يَحْمَدُكَ اللهُ مِنْ عَرْشِهِ یعنی اللہ اپنے عرش سے تیری حمد کرتا ہے، تعریف کرتا ہے (ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی عرفانی صفحہ 450) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ: ”مجھے چودھری حاکم علی صاحب نے بتایا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب بڑی مسجد میں کوئی لیکچر یا خطبہ دے رہے تھے کہ ایک سکھ مسجد میں گھس آیا اور سامنے کھڑا ہو کر حضرت صاحب کو اور آپ کی جماعت کو سخت گندی اور فحش گالیاں دینے لگا اور ایسا شروع ہوا کہ بس چپ ہونے میں ہی نہ آتا تھا.مگر حضرت صاحب خاموشی کے ساتھ سنتے رہے.اس وقت بعض طبائع میں اتنا جوش تھا کہ حضرت صاحب کی اجازت ہوتی تو اس کی وہیں تکہ بوٹی اُڑ جاتی.مگر آپ سے ڈر کر سب خاموش تھے.آخر جب اس مخش زبانی کی گئی تو حضرت صاحب نے فرمایا.دو آدمی اسے نرمی سے پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دیں مگر اسے کچھ نہ کہیں.اگر یہ نہ جاوے تو حاکم علی سپاہی کے سپرد کر دیں“ حد ہو (سیرت المہدی جلد اول حصہ اول صفحہ 257 - 258 روایت نمبر 281 جدید ایڈیشن) ڈا کٹر ہنری مارٹن کلارک جو امر تسر کے میڈیکل مشن کے مشنری تھے اور مباحثہ آتھم میں عیسائیوں کی جانب سے پریذیڈنٹ تھے ایک دن خود بھی مناظر رہے انہوں نے 1897ء میں حضرت مسیح موعود کے خلاف ایک مقدمہ اقدام قتل کا دائر کیا.یہ مقدمہ کچھ عرصہ تک چلتا رہا اور بالآخر محض جھوٹا اور بناوٹی پایا گیا اور حضرت اقدس عزت کے ساتھ اس مقدمہ میں بری ہوئے...کپتان ڈگلس ڈسٹر کٹ مجسٹریٹ گورداسپور نے حضرت اقدس کو مخاطب کر کے کہا کہ ”کیا آپ چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر کلارک پر مقدمہ چلائیں اگر آپ چاہتے ہیں تو آپ کو حق ہے.حضرت مسیح موعود نے فرمایا: ”میں کوئی مقدمہ کرنا نہیں چاہتا.میرا مقدمہ آسمان پر دائر ہے.اس موقع پر اگر کوئی دوسرا آدمی ہوتا جس پر قتل کے اقدام کا مقدمہ ہو وہ اپنے دشمن سے ہر لینے کی کاشش کرتا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دشمنوں کو معاف کرو کی تعلیم 66 ممکن انتقام صحیح 175

Page 176

عمل کر کے دکھایا.(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی عرفانی صفحہ 109) مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب مقدمہ ڈاکٹر کلارک میں عیسائیوں کے گواہ کی حیثیت سے عدالت میں پیش ہوئے تو حضرت اقدس کے وکیل مولوی فضل الدین صاحب نے جرح کے دوران گواہ سے ایسے سوالات کرنے چاہے جو مولوی صاحب کی عزت و آبرو کو خاک میں ملا دیتے.لیکن حضور نے باصرار اور بزور ایسا کرنے سے روک دیا.میرا مقدمہ آسمان پر ہے حضرت مسیح موعود کے چچا زاد بھائیوں میں سے مرزا امام الدین نے اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ مل کر اس راستہ کو جو بازار اور مسجد مبارک کا تھا ایک دیوار کے ذریعہ بند کر دیا.سب نمازیوں کو پانچ وقت مسجد مبارک میں جانے کے لئے حضرت اقدس کے مکانات کا چکر کاٹ کر آنا پڑتا.جماعت میں بعض کمزور اور ضعیف العمر انسان بھی تھے.بعض نابینا تھے اور بارشوں کے دنوں میں راستہ میں کیچڑ ہو تا تھا اور بعض بھائی اپنے مولی حقیقی کے حضور نماز کے لئے جاتے ہوئے گر پڑتے تھے اور ان کے کپڑے گارے کیچڑ میں لت پت ہو جاتے تھے.اُن تکلیفوں کا تصور بھی آج مشکل ہے جبکہ احمد یہ چوک میں پکے فرش پر سے احباب گزرتے ہیں.حضرت مسیح موعود اپنے خدام کی ان تکالیف کو دیکھ کر بہت تکلیف محسوس کرتے تھے.مگر کچھ چارہ سوائے اس کے نہ تھا کہ حضرت رب العزت کے سامنے گڑ گڑائیں.آخر مجبوراً عدالت میں جانا پڑا اور عدالت کے فیصلہ کے موافق خود دیوار بنانے والوں کو اپنے ہی ہاتھ سے دیوار ڈھانی پڑی.عدالت نے نہ صرف دیوار گرانے کا حکم دیا بلکہ ہر جانہ اور خرچہ کی ڈگری بھی فریق ثانی پر کر دی.مرزا نظام الدین صاحب کو نوٹس ملا تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو معافی کا ایک خط لکھا.حضرت اقدس نے دیوار کی تکلیف اٹھائی ہوئی تھی مگر کمال رحم سے اسے معاف کر دیا فرمایا کہ و آئندہ کبھی اس ڈگری کو اجرا نہ کرایا جاوے.ہم کو دُنیا داروں کی طرح مقدمہ بازی اور تکلیف دہی سے کچھ کام نہیں.انہوں نے اگر تکلیف دینے کے لئے یہ کام کیا تو ہمارا یہ کام نہیں ہے.خدا تعالیٰ نے مجھے اس غرض کے لئے دُنیا میں نہیں بھیجا.“ (خلاصه از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی عرفانی صفحہ 118 - 119) حضرت حکیم فضل الدین کے ساتھ قادیان کے ایک جو لاہا نے (جو ہمیشہ مقدمہ بازی ضروری سمجھتا تھا) 176

Page 177

ایک زمین کے متعلق مقدمہ بازی شروع کر دی.وہ جگہ دراصل حضرت ہی کی تھی، حکیم فضل الدین صاحب کو دے دی گئی سو اس جولاہا نے حکیم صاحب مرحوم کے خلاف ایک مقدمہ دائر کر دیا.چونکہ حضرت اقدس پسند نہ فرماتے تھے کہ شرارتوں کا مقابلہ کیا جاوے، آپ نے حکیم فضل الدین صاحب کو حکم دیا کہ جوابدہی چھوڑ دو.زمینوں کی پروا نہیں خدا تعالیٰ چاہے گا تو آپ ہی دے دے گا، زمین خدا کی ہے.مرزا نظام الدین صاحب کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے کہلا بھیجا کہ آپ اپنے حق کو تو چھوڑ تے ہیں، چنانچہ انہوں نے ایک پر امیری نوٹ بھی لکھ کر بھیج دیا.حضرت نے فرمایا کہ مرزا نظام الدین صاحب ہی کو یہ ٹکڑا زمین کا دے دیا جاوے.چنانچہ وہ قطعہ زمین کا دے دیا گیا.جو بعد میں مرزا صاحب موصوف نے ایک معقول قیمت پر حضرت کے ایک خادم کے ہاتھ فروخت کر دیا.مگر حضرت نے کبھی اس زمین کی قیمت یا پرامیسری نوٹ کی رقم کا مطالبہ نہ فرمایا.اس لئے کہ آپ کی فطرت میں ہی احسان و مروّت رکھی گئی تھی.یہ واقعہ ایسے وقت کا ہے کہ اس مقدمہ کی کل کارروائی ختم چکی تھی.حضرت مسیح موعود کو بھی فریق ثانی نے بطور شہادت طلب کرایا تھا اور اس طرح پر آپ کو اور آپ کی جماعت کو تکلیف رسانی میں کمی نہ کی تھی.مقدمہ کی حالت یہ تھی کہ اس میں اب حکم سنانا باقی تھا اور وہ ہمارے حق میں تھا.مگر آپ نے ایسے وقت میں اس زمین کو مرزا نظام الدین صاحب کے عرض کرنے پر ان کو دے دیا.امر واقعہ کے طور پر یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ سلسلہ کے ابتدائی ایام میں مرزا نظام الدین صاحب اور اُن کے زیر اثر لوگوں کی وجہ سے ہماری جماعت کو ایسی تکالیف پہنچ چکی تھیں کہ قدرتی طور پر کوئی دُنیا دار اُن کے مقابلہ میں ہوتا تو اُن کی تکلیف اور ایذاءر سانی کے لئے منتقمانہ طور پر جو چاہتا کرتا مگر نہیں حضرت مسیح موعود کو جب موقع ملا اور اُن پر ایک اقتدار حاصل ہوا تو آپ نے اس طرح لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کہہ دیا.جس طرح پر سید الرسل صلی الم نے فتح مکہ کے دن فرمایا تھا.از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی عرفانی صفحہ 119 - 120) دشمن کے لئے دعا میرا تو یہ مذہب ہے کہ دشمن کے لئے دعا کرنا یہ بھی سنت نبوی ہے.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی مسلمان ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے لئے اکثر دعا کیا کرتے تھے.اس لئے بخل کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں کرنی چاہئے اور حقیقتہ موذی نہیں ہونا چاہیے شکر کی بات ہے کہ ہمیں اپنا کوئی دشمن 177

Page 178

نظر نہیں آتا جس کے واسطے دو تین مرتبہ دعا نہ کی ہو.ایک بھی ایسا نہیں اور یہی میں تمہیں کہتا ہوں اور سکھاتا ہوں.خدا تعالیٰ اس سے کہ کسی کو حقیقی طور پر ایذا پہنچائی جاوے اور ناحق بخل کی راہ سے دشمنی کی چاہتا جاوے، ایسا ہی بیزار ہے جیسے وہ نہیں چاہتا کہ کوئی اس کے ساتھ ملایا جاوے.ایک جگہ وہ فصل نہیں اور ایک جگہ وصل نہیں چاہتا.یعنی بنی نوع کا باہمی فصل اور اپنا کسی غیر کے ساتھ وصل اور یہ وہی راہ ہے کہ منکروں کے واسطے بھی دعا کی جاوے.اس سے سینہ صاف اور انشراح پیدا ہوتا ہے اور ہمت بلند ہوتی ہے.اس لئے جب تک ہماری جماعت یہ رنگ اختیار نہیں کرتی.اس میں اور اس کے غیر میں پھر کوئی امتیاز نہیں ہے.میرے نزدیک یہ ضروری امر ہے.کہ جو شخص ایک کے ساتھ دین کی راہ سے دوستی کرتا ہے اور اس کے عزیزوں سے کوئی ادنی درجہ کا ہے تو اس کے ساتھ نہایت رفق اور ملائمت سے پیش آنا چاہیے اور ان سے محبت کرنی چاہیے کیو نکہ خدا کی یہ شان ہے.(ملفوظات جلد سوم صفحہ 95 - 97 ایڈیشن 1984ء) آنحضرت کے خلاف شدید بد زبانی کرنے والا جب خدا کی وعید کے مطابق جان سے گیا تو آپ نے فرمایا: ” یک انسان کی جان جانے سے تو ہم دردمند ہیں اور خدا کی ایک پیشگوئی پوری ہونے سے ہم خوش بھی ہیں.کیوں خوش ہیں؟ صرف قوموں کی بھلائی کے لئے.کاش وہ سوچیں اور سمجھیں کہ اس اعلیٰ درجہ کی صفائی کے ساتھ کئی برس پہلے خبر دینا یہ انسان کا کام نہیں ہے.ہمارے دل کی اس وقت عجیب حالت ہے.درد بھی ہے اور خوشی بھی.درد اس لئے کہ اگر لیکھرام رجوع کرتا زیادہ نہیں تو اتنا ہی کرتا کہ وہ بد زبانیوں سے باز آجاتا تو مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں اس کے لئے دعا کرتا اور میں امید رکھتا تھا کہ اگر وہ ٹکڑے ٹکڑے بھی کیا جاتا تب بھی زندہ ہو جاتا.“ (سراج منیر، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 28) گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمد تیری خاطر سب بار اُٹھایا ہم نے آئینہ کمالات اسلام صفحہ 224 مطبوعہ 1893ء) روزنامه الفضل آن لائن لندن 17 جون 2022ء) 178

Page 179

آنحضرت صلی الم نے فرمایا: قسط 27 کوئی دن منحوس نہیں ہوتا انَّ يَوْمَ الثَّلَاثَاءِ يَوْمُ اللَّهِ وَفِيهِ سَاعَةٌ لَا يَرْقَا (رواہ ابو داود مشکوۃ المصابيح كتاب الطب والرقى حديث نمبر 4549 صفحہ 389 کراچی) کہ منگل کا دن خون کا دن ہے اس میں ایک گھڑی ایسی بھی ہوتی ہے کہ خون بند نہیں ہوتا.آپ نے یہ کہیں نہیں فرمایا تھا کہ منگل کے دن میں نحوست ہوتی ہے.ہمارے مذہب میں کوئی دن بھی منحوس نہیں ہوتا.سارے دن بابرکت اور اللہ تعالیٰ کی حفاظت کے مظہر ہیں حقیقی مسبب الاسباب وہی ذات بابرکات ہے اس کے اذن کے بغیر کوئی چیز نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتی تقدیر خیر و شر کا منبع خدا تعالیٰ کی ذات ہے.جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَانْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُةٍ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرِ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ يُصِيْبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ) ۱۰۸ (یونس: 108) اور اگر اللہ تجھے کوئی ضرر پہنچائے تو کوئی نہیں جو اُسے دور کرنے والا ہو مگر وہی اور اگر وہ تیرے لئے کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو ٹالنے والا کوئی نہیں.اپنے بندوں میں سے جسے وہ چاہتا ہے وہ (فضل) عطا کرتا ہے اور وہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے.اسی طرح سورۃ شوری میں ارشاد ہے: اور وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُوا عَنْ كَثِيرٍ ( ) (الشوری: 31) تمہیں جو مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اس سبب سے ہے جو تمہارے اپنے ہاتھوں نے کمایا.جبکہ وہ بہت سی باتوں سے در گزر کرتا ہے.179

Page 180

اور سورۃ النساء میں فرمان ہے: ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام مَا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيْعَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ (النساء: 80) جو بھلائی تجھے پہنچے تو وہ اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے اور جو ضرر رساں بات تجھے پہنچے تو وہ تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہوتی ہے.ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے علم میں آیا کہ لوگ آنحضرت صلی الم کی طرف منسوب کر کے کہہ رہے ہیں کہ نحوست اور بد شگونی گھر ، عورت اور گھوڑے سے ہوتی ہے.آپ رضی اللہ عنہا یہ سن کر سخت ناراض ہو ئیں، اور فرمایا: ”خدا کی قسم! جس نے محملا لی ہم پر قرآن اتارا ہے رسول اللہ صلی علیم نے ایسا ہر گز نہیں فرمایا بلکہ آپ صلی علیکم نے تو فرمایا تھا کہ اہل جاہلیت ان تین چیزوں کے متعلق نحوست اور بد شگونی کے قائل تھے“.(مسند احمد بن حنبل الملحق المستدرك من مسند الانصار ، مسند الصديقه عائشة بنت الصديق 26562 ) دین اسلام میں آج تک جتنی بھی رسوم، رواج، تبدیلیاں اور بدعات داخل ہوئی ہیں ان کی بنیادی وجہ احکام الہی کو نہ سمجھنا، توہم پرستی اور دیگر مذاہب باطلہ کی بلا سوچے سمجھے پیروی شامل ہے.حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی الم نے فرمایا: بنیادی طور پر کسی دوسرے سے بیماری کے لگ جانے اور بد فالی لینے کا خیال وہم کے سوا کچھ نہیں ہے.یعنی اس بارہ میں خواہ مخواہ کے وہم سے بچنا چاہئے.آپ صلی علی کریم نے فرمایا کہ مجھے نیک فال پسند ہے.صحابہ نے عرض کیا کہ نیک فال کیا ہے ؟ آپ صلی الی یکم نے فرمایا پاکیزہ کلمہ یعنی اچھی بات کہنا اور اچھی بات سے اچھا نتیجہ نکالنا.بخاری کتاب الطب باب الفال ) تمام گھڑیاں، دن، مہینے اور سال اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں نیک کام کریں تو مبارک اور بد کریں تو منحوس ہو جاتے ہیں.ایسے بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی دن کسی کے لئے مبارک اور کسی کے لئے منحوس ہو جیسا کہ قرآن پاک میں قومِ عاد کی سزا کے دنوں کے بارے میں فرمایا: 180

Page 181

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام اس نے اُسے اُن پر مسخر کئے رکھا سات راتوں اور آٹھ دن تک اس حال میں کہ وہ انہیں جڑوں سے اکھیڑ کر پھینک رہی تھی.پس قوم کو تو اُس میں پچھاڑ کھا کر گرا ہوا دیکھتا ہے جیسے وہ کھجور کے گرے ہوئے درختوں کے تنے ہوں.(الحاقة: 8) اور ان سات راتوں اور دنوں کو ان کے لئے منحوس قرار دیا ورنہ تو سارے دن ان کے لئے منحوس تھے.پس ہم نے سخت منحوس دنوں میں اُن پر ایک تیز آندھی چلائی تا کہ ہم انہیں (اس) دنیا کی زندگی میں ذلت کا عذاب چکھائیں اور یقیناً آخرت کا عذاب زیادہ رُسوا کن ہے اور وہ مدد نہیں دیئے جائیں گے.(حم السجدة: 17) نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اچھا کام کریں تو بابرکت اور برا ہو تو منحوس.کسی دن کو منحوس نہیں کہہ سکتے.منگل کے دن کے بارے میں آنحضرت صلی اللی علم کے ارشاد کی حکمت آپ کی یو ایم کے عاشق صادق نے خوب سمجھی.بلکہ اس کی خوب وضاحت فرمائی تاکہ توہمات کا سلسلہ شرک تک نہ لے جائے.حضرت نواب مبار کہ بیگم رضی اللہ عنہا کی پیدائش کا مرحلہ تھا منگل کو ولادت متوقع تھی آپ نے دعا کی کہ: ”خدا اسے منگل کے تکلیف دہ اثرات سے محفوظ رکھے“ اس کی وضاحت میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں: ”بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ رضی اللہ عنہا نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنوں میں سے منگل کے دن کو اچھا نہیں سمجھتے تھے نیز بیان کیا حضرت خلیفۃ المسیح ثانی رضی اللہ عنہ نے کہ جب مبار کہ بیگم (ہماری ہمشیرہ) پیدا ہونے لگی تو منگل کا دن تھا اس لئے حضرت صاحب نے دعا کی کہ خدا اسے منگل کے تکلیف دہ اثرات سے محفوظ رکھے خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جمعہ کے دن پیدا ہوئے تھے اور فوت ہوئے منگل کے دن اور جاننا چاہئے کہ زمانہ کی شمار صرف اہل دنیا کے واسطے ہے اور دنیا کے واسطے واقعی آپ کی وفات کا دن ایک مصیبت کا دن تھا.اس روایت سے یہ مراد نہیں ہے کہ منگل کا دن کوئی منحوس دن ہے بلکہ اس سے صرف یہ مراد ہے کہ منگل کا دن بعض اجرام سماوی کے مخفی اثرات کے ماتحت اپنے اندر سختی اور تکلیف کا پہلو رکھتا ہے چنانچہ منگل کے متعلق حدیث میں بھی آنحضرت صلی الم کا یہ قول آتا ہے کہ منگل وہ دن ہے جس میں خدا تعالیٰ 181

Page 182

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام نے پتھریلے پہاڑ اور ضرر رساں چیزیں پیدا کی ہیں (دیکھو تفسیر ابن کثیر آیت خلق الارض فی یومین) (سیرت المہدی حصہ اول روایت 11 صفحہ 8 - 9) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 2 جولائی 1954ء میں کسی سوال کے جواب میں وضاحت فرماتے ہیں: " یہ وہم کر لینا کہ فلاں دن منحوس ہے اور فلاں دن غیر منحوس یہ تو بڑی خرابی پیدا کرنے والا ہے اس پر انہوں نے کہا کہ آپ ہی نے تو کسی تقریر میں کہا تھا کہ منگل کے دن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو شاید کوئی الہام ہوا تھا یا کوئی اور وجہ تھی کہ آپ اسے ناپسند فرمایا کرتے تھے.میں نے کہا میں نے تو صرف ایک روایت کی تشریح کی تھی یہ تو نہیں کہا تھا کہ منگل کا دن منحوس ہے.چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف ایک ایسی روایت منسوب کی جاتی ہے.اس لئے میں نے بتایا تھا کہ اگر اس روایت کو درست تسلیم کیا جائے تو شاید منگل کے دن سے آپ کو اس لئے تخویف کرائی گئی ہو کہ آپ کی وفات منگل کے دن ہونے والی تھی.مگر بعض لو گوں نے اس مخصوص بات کو جو محض آپ کی ذات کے ساتھ وابستہ تھی وسیع کر کے اسے ایک قانون بنا لیا اور منگل کی نحوست کے قائل ہو گئے.حالانکہ جو چیز خدا کی طرف سے ہو اس کو نحوست قرار دینا بڑی بھاری نادانی ہوتی ہے.اگر منگل کا دن منحوس ہوتا تو خدا تعالیٰ کو کہنا چاہئے تھا کہ اور تو سب دنوں میں میری صفات کام کرتی ہیں لیکن منگل کا دن چو نکہ منحوس ہے اس میں میری صفات کام نہیں کرتیں اور اگر خدا تعالیٰ نے کسی دن کی نحوست محسوس نہیں کی تو ہم یہ کریں یہ ایسی باتیں ہیں جن سے وہم بڑھتا ہے اور زندہ قوموں کے افراد کا فرض کہ وہ اس قسم کے وہموں میں مبتلا ہونے سے اپنے آپ کو بچائیں.ہے ہوتا دنوں میں اگر کوئی خاص برکت نہیں ہوتی تو رسول کریم صلی للہ ہم نے یہ کیوں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری قوم کے لئے جمعرات کے سفر میں برکت رکھی ہے تو اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ وہاں ایک وجہ موجود ہے اور وہ یہ کہ رسول کریم صلی املی کام کا منشاء یہ تھا کہ جمعہ کے دن تمام لوگ شہر میں رہیں اور اکٹھے ہو کر نماز ادا کریں تا کہ جب لوگ اکٹھے ہوں تو وہ ایک دوسرے کی مشکلات حل کریں اہم امور میں ایک دوسرے سے مشورہ لیں اور اپنی ترقی کی تدابیر سوچیں اور یہ چیزیں اتنی اہم ہیں کہ ان کو ترک کر کے کسی سفر کے لئے چلے جانا کسی صورت میں بھی درست نہیں پس رسول کریم ملی ایم نے فرمایا اگر تم کہیں سفر پر جانا چاہو تو جمعرات کو جاؤ تاکہ جمعہ کسی شہر میں ادا کر سکو اور یہ چیز ایسی ہے جس سے کوئی وہم پیدا نہیں ہوتا.182

Page 183

باقی رہی وہ روایت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب کی جاتی ہے اگر وہ درست ہے تو اس نحوست سے مراد صرف وہ نحوست تھی کہ آپ کی وفات منگل کے دن ہونے والی تھی ورنہ جب خدا تعالیٰ نے خود تمام دنوں کو بابرکت کیا ہے اور تمام دنوں میں اپنی صفات کا اظہار کیا ہے تو اس کی موجودگی میں اگر کوئی روایت اس کے خلاف ہمارے سامنے آئے گی تو ہم کہیں گے کہ یہ روایت بیان کرنے والے کو غلطی لگی ہے.ہم ایسی روایت کو تسلیم نہیں کر سکتے اور یا پھر ہم یہ کہیں گے کہ ہر ایک انسان کو بشریت کی وجہ سے بعض دفعہ کسی بات میں وہم ہو جاتا ہے ممکن ہے کہ ایسا ہی کوئی وہم منگل کی کسی دہشت کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی ہو گیا ہو.مگر ہم یہ نہیں کہیں گے کہ یہ دن منحوس ہے.ہم اس روایت میں یا تو راوی کو جھوٹا کہیں گے یا پھر یہ کہیں گے کہ شاید بشریت کے تقاضے کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو اس دن کے بارے میں اپنے لئے بیان فرمایا.ورنہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں مسئلے کے طور پر یہی حقیقت ہے اور یہی بات اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمائی ہے کہ سارے کے سارے دن بابر کت ہوتے ہیں مگر مسلمانوں نے اپنی بدقسمتی سے ایک ایک کر کے دنوں کو منحوس کرنا شروع کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ کامل طور پر نحوست اور ادبار کے نیچے آ گئے“ (ماخوذ از الفضل 21 ستمبر 1960ء صفحہ 2 - 3 جلد 14/49 نمبر (217) پیش گوئی جنگ عظیم کے نام سے نظم میں منگل کے دن آنے والے زلزلہ اور اس کی تباہی کا ذکر ہے فرماتے ہیں: یہ نشان زلزلہ جو ہو چکا منگل کے دن وہ تو اک لقمہ تھا جو تم کو کھلایا ہے نہار اک ضیافت ہے بڑی اے غافلو کچھ دن کے بعد جس کی دیتا ہے خبر فرقاں میں رحماں بار بار دوسرے منگل کے دن آیا تھا ایسا زلزلہ جس سے اک محشر کا عالم تھا بصد شور و پکار ایک ہی دم میں ہزاروں اس جہاں سے چل دیئے جس قدر گھر گر گئے ان کا کروں کیونکر شمار (براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 97 مطبوعہ 1908ء) 183

Page 184

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام وفات کے وقت حضرت مسیح موعود کی عمر سوا تہتر سال کے قریب تھی.دن منگل کا اور سشمسی تاریخ 26 مئی 1908ء جو ڈاکٹر محمد شہید اللہ صاحب پروفیسر راجشاہی یونیورسٹی کی جدید تحقیق کے مطابق آنحضور صل الل نظم کا یوم وصال بھی یہی ہے.تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ 541 - 542) رب كل شيء خادمك رب فاحفظنی و انصرانی و ارحمنی اے رب ساری مخلوق تیری خادم ہے میری حفاظت فرما میری مدد فرما اور مجھ پر رحم فرما.آمین اللهم آمین.شرک اور بدعت سے ہم بے زار ہیں خاک راه احمد مختار ہیں روزنامه الفضل آن لائن لندن 24 جون 2022 184

Page 185

قسط 28 يا بدرنا يا آية الرحمن سب بہادروں سے بہادر یا بدرنا يا آية الرحمن اهدى الهداة و اشجع الشجعان (عربی سے ترجمہ) اے ہمارے کامل چاند اور اے رحمان کے نشان سب رہنماؤں کے رہنما اور سب بہادروں سے بہادر.(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 591) انبیاء کی بعثت کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب بحر و بر میں فساد برپا ہوچکا ہوتا ہے.نبی کو گمراہوں کو راہ راست پر لانے کے لئے غیر معمولی جرات مندانہ انقلابی اقدام کرنے ہوتے ہیں.اس کے لئے اللہ تعالیٰ انہیں غیر معمولی ہمت، حوصلہ، جرآت، شجاعت، دلیری اور مردانگی عطا فرماتا ہے اور اپنی تائید ونصرت کا یقین دلاتا ہے.وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ) (آل عمران: 140) اور کمزوری نہ دکھاؤ اور غم نہ کرو جبکہ (یقیناً) تم ہی غالب آنے والے ہو، اگر تم مومن ہو.وَلَنْ يَجْعَلَ اللهُ لِلْكَفِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا اور اللہ کافروں کو مومنوں پر کوئی اختیار نہیں دے گا.(النساء: 142) حضرت نبی کریم صلی ال نیم کی مبارک حیات میں آپ کی دلیری و شجاعت کے ان گنت واقعات میں سے چند ایک مثال کے طور پر پیش ہیں.185

Page 186

میں موت کے ڈر سے اظہار حق سے رُک نہیں سکتا آپ کے والد صاحب، والدہ صاحبہ اور دادا جان کی وفات کے بعد چچا جان سہارا بنے تھے اور اب یہ محسن چچا ابو طالب اپنے ہاتھوں کے پالے آنحضرت صلی عملی کام سے ملکہ کے سب سرداروں کے اصرار اور دباؤ پر ایک فرمائش کر رہے تھے.”اے میرے بھتیجے! اب تیری دشنام دہی سے قوم سخت مشتعل ہو گئی ہے اور قریب ہے کہ تجھ کو ہلاک کریں اور ساتھ ہی مجھ کو بھی، تو نے ان کے عقلمندوں کو سفیہ قرار دیا اور ان کے بزرگوں کہ شر البریہ کہا اور ان کے قابل تعظیم معبودوں کا نام ہیزم جہنم اور وقود النار رکھا اور عام طور پر ان سب کو رجس اور ذریت شیطان اور پلید ٹھہرایا میں تجھے خیر خواہی کی راہ سے کہتا ہوں کہ اپنی زبان کو تھام اور دشنام دہی سے باز آجا ورنہ میں قوم کے مقابلے کی طاقت نہیں رکھتا.آنحضرت صلی علیم نے جواب میں کہا کہ اے چچا! یہ دشنام دہی نہیں ہے بلکہ اظہار واقعہ اور نفس الامر کا عین محل پر بیان ہے اور یہی تو کام ہے جس کے لئے میں بھیجا گیا ہوں اگر اس سے مجھے مرنا در پیش ہے تو میں بخوشی اپنے لئے اس موت کو قبول کرتا ہوں میری زندگی اسی راہ میں وقف ہے میں موت کے ڈر سے اظہارِ حق سے رک نہیں سکتا اور اے چا! اگر تجھے اپنی کمزوری اور اپنی تکلیف کا خیال ہے تو تو مجھے پناہ میں رکھنے سے دستبر دار ہو جا.بخدا مجھے تیری کچھ بھی حاجت نہیں میں احکام الہی کے پہنچانے سے کبھی نہیں رکوں گا مجھے اپنے مولیٰ کے احکام جان سے زیادہ عزیز ہیں.بخدا! اگر میں اس راہ میں مارا جاؤں تو چاہتا ہوں کہ پھر بار بار زندہ ہو کر ہمیشہ اسی راہ میں مرتا رہوں یہ خوف کی جگہ نہیں بلکہ مجھے اس میں بے انتہاء لذت ہے کہ اس کی راہ میں دکھ اٹھاؤں.آنحضرت صلی کی یہ تقریر کر رہے تھے اور چہرہ پر سچائی اور نورانیت سے بھری ہوئی رقت نمایاں ہورہی تھی اور جب آنحضرت صلی اللہ کی یہ تقریر ختم کرچکے تو حق کی روشنی دیکھ کر بے اختیار ابو طالب کے آنسو جاری ہو گئے اور کہا کہ میں تیری اس اعلیٰ حالت سے بے خبر تھا تو اور ہی رنگ میں اور اور ہی شان میں ہے جا اپنے کام میں لگا رہ جب تک میں زندہ ہوں جہاں تک میری طاقت ہے میں تیر اساتھ دوں گا“ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 110 - 111) 186

Page 187

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام چلو! میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں ایک دفعہ اراشہ نامی شخص مکہ میں کچھ اونٹ بیچنے آیا اور ابو جہل نے اس سے یہ اونٹ خرید لئے.مگر اونٹوں پر قبضہ کر لینے کے بعد قیمت ادا کرنے سے انکاری ہو گیا یا ٹال مٹول سے کام لینے لگا.اس پر وہ شخص جو مکہ میں اکیلا تھا، مسافر تھا، کوئی اس کا دوست ساتھی نہیں تھا بے یارو مدد گار تھا، بہت پریشان ہوا اور چند دن تک اسی طرح ابو جہل کے پیچھے پھرتا رہا، اس کی منت سماجت کرتا رہا.مگر ہر دفعہ اس کو اسی طرح ٹال مٹول سے جواب ملتا رہا، آخر ایک دن وہ کعبہ میں جہاں قریش سردار بیٹھے ہوئے تھے گیا اور کہنے لگا کہ اے معززین قریش! آپ میں سے ایک شخص ابو الحکم ہے.اس نے میرے اونٹوں کی قیمت دبا ر کھی ہے مہربانی کر کے مجھے اس سے دلوا دیں.قریش کو شرارت سوجھی، انہوں نے مذاقا کہا کہ ایک شخص ہے محمد بن عبداللہ نامی وہ تمہیں یہ قیمت دلوا سکتا ہے، تم اس کے پاس جاؤ.ان کا تو یہی خیال تھا کہ آنحضرت صلی می کنم کے پاس جب یہ جائے گا تو آپ ہر حال میں انکار کریں گے اور جب آپ انکار کریں گے تو ان لو گوں کو ایک تو مذاق اڑانے کا موقع ملے گا، دوسرے باہر سے آنے والے لوگوں کو آپ کی حیثیت کا پتہ لگ جائے گا.بہر حال جب یہ اراشہ وہاں پہنچا، آنحضرت صلی للی کم کی خدمت میں حاضر ہوا.اپنا مدعا بیان کیا کہ اس طرح میں نے ابو جہل سے رقم لینی ہے.قریش نے اس آدمی کے پیچھے بھی اپنا ایک آدمی بھیج دیا کہ دیکھیں! اب کیا ہوتا ہے.بہر حال اس نے جب آنحضرت صلی علیم کو اپنی کہانی سنائی اور یہ ذکر کیا کہ ابو الحکم نے میری رقم دبا ر کھی ہے اور مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آپ ہی ہیں جو میری رقم دلوا سکتے ہیں.آپ کی بڑی منت کی کہ مجھے یہ رقم دلوا دیں.آپ فوراً اٹھے اور کہا چلو میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں.ابو جہل کے مکان پر آئے اور دروازے پر دستک دی، اس کو باہر بلوایا.وہ باہر آیا تو آپ کی شکل دیکھتے ہی ایک دم حیران پریشان ہو گیا.آپ نے کہا تم نے اس آدمی کی یہ رقم دینی تھی وہ تم ادا کر دو.اس نے کہا ٹھہریں میں ابھی رقم لے کے آتا ہوں.دیکھنے والے کہتے ہیں کہ اس وقت ابو جہل کا رنگ بالکل فق ہو رہا تھا.کہا محمد! ٹھہرو میں ابھی اس کی رقم لاتا ہوں.چنانچہ وہ رقم لے کر آیا اور اسی وقت اس شخص کے حوالے کر دی اور وہ بھی آنحضرت علی علی ظلم کا شکریہ ادا کر کے چلا گیا.پھر وہ قریش کی مجلس میں دوبارہ گیا اور ان کا بھی شکریہ ادا کیا کہ تم نے مجھے صحیح آدمی کا پتہ بتایا تھا جس کی وجہ سے مجھے رقم مل گئی ہے.اس پر وہ جو سارے رؤسا بیٹھے تھے بڑے پریشان ہوئے.پھر جب وہ آدمی جس کو پیچھے بھیجا تھا آیا تو اس سے پوچھا کہ کیا ہوا تھا.اس نے یہ سارا قصہ سنایا تو یہ سب لوگ بڑے حیران تھے.تھوڑی دیر بعد ابو جہل خود بھی وہاں اس مجلس میں آ گیا تو اس کو دیکھتے ہی لوگوں نے پوچھا یہ تم نے کیا کیا کہ فوری طور الله سة 187

Page 188

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام پر اندر گئے اور ساری رقم واپس کر دی.اس قدر تم محمد سے ڈر گئے تھے.اس نے کہا خدا کی قسم! جب میں نے محمد کو اپنے دروازے پر دیکھا تو مجھے یوں نظر آیا کہ اس کے ساتھ لگا ہوا ایک مست اور غضب ناک اونٹ کھڑا ہے اور میں سمجھتا تھا کہ میں نے اگر ذرا بھی چون و چرا کیا تو وہ اونٹ مجھے چبا جائے گا.(بحوالہ سیرت خاتم النبيين صفحہ 162 - 163 السيرة النبوية لابن هشام صفحه 281 زیر امر الاراشي الذي باع ابا جهل ابله آنحضرت کی شجاعت کے لئے تو یہ نمونہ کافی ہے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: الله س یں رسول کریم صلی الی ایم کے ساتھ غار میں تھا.میں نے اپنا سر اٹھا کر دیکھا تو تعاقب کرنے والوں کے پاؤں دکھائی دیئے.اس پر میں نے رسول کریم کی تعلیم سے عرض کیا یا رسول اللہ کی ملی یکم اگر کوئی نظر نیچے کرے گا تو ہمیں دیکھ لے گا.آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا اے ابو بکر! ہم دو ہیں اور ہمارے ساتھ تیسرا خدا ہے.تو جہاں یہ واقعہ خدا تعالیٰ کی ذات پر یقین کا اظہار کرتا ہے.وہاں آپ کی جرات و شجاعت کا بھی اظہار ہو رہا ہے.آپ خاموشی سے اشارہ بھی کر سکتے تھے کہ خاموش رہو.باہر لوگ کھڑے ہیں بولو نہیں.لیکن خداتعالی کی ذات پر یقین کی وجہ سے آپ میں جو جرآت تھی اس کی وجہ سے دشمن کے سر کھڑا ہونے کے باوجود اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ابو بکر فکر نہ کرو، خدا ہمارے ساتھ ہے“ بخاری کتاب مناقب الانصار باب هجرة النبي واصحابه الى المدينة ) پر اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: کو آپ کی کمال شجاعت کو دیکھو کہ دشمن سر پر ہے اور آپ اپنے رفیق صادق صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں لاتحزن إنّ اللهَ مَعَنا (التوبہ: (40) یہ الفاظ بڑی صفائی کے ساتھ ظاہر کرتے ہیں کہ آپ نے زبان ہی سے فرمایا کیونکہ یہ آواز کو چاہتے ہیں، اشارہ سے کام نہیں چلتا، باہر دشمن مشورہ کر رہے ہیں اور اندر غار میں خادم و مخدوم بھی باتوں میں لگے ہوئے ہیں، اس امر کی پروا نہیں کی گئی کہ دشمن آواز سن لیں گے، یہ اللہ تعالیٰ پر کمال ایمان اور معرفت کا ثبوت ہے.خدا تعالیٰ کے وعدوں پر پورا بھروسہ ہے.آنحضرت صلی الم کی شجاعت کے لئے تو یہ نمونہ کافی ہے“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 250 251 ایڈیشن 1988ء) - 188

Page 189

آپ کو کوئی گھبراہٹ نہیں تھی پھر دشمن کے چلے جانے کے بعد اور یہ اطمینان ہو جانے کے بعد کہ اب غار سے نکل کر اگلا سفر شروع کیا جا سکتا ہے.آپ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ غار سے نکلے اور جو بھی انتظام کیا تھا اس کے مطابق وہاں سواریاں پہنچ گئی تھیں.ان پر سوار ہوئے اور سفر شروع ہو گیا.لیکن کفار مکہ نے آپ کے پکڑے جانے کے لئے 100 اونٹ کا انعام مقرر کیا ہوا تھا اور اس کے لالچ میں کئی لوگ آپ کئی کام کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے.ان میں ایک سراقہ رضی اللہ عنہ بن مالک بھی تھے تو ان کا بیان ہے کہ: میں گھوڑا دوڑاتے دوڑاتے رسول کریم صلی لالی اور ملک کے اس قدر نزد یک ہو گیا کہ میں آپ کے قرآن پڑھنے کی آواز سن رہا تھا.میں نے دیکھا کہ آپ دائیں بائیں بالکل نہیں دیکھتے تھے ہاں حضرت ابو بکر بار بار دیکھتے جاتے تھے.تو اس حالت میں بھی آپ کو کوئی گھبراہٹ نہیں تھی بلکہ آرام سے کلام الہی کی تلاوت فرما رہے تھے“ (بخاری کتاب مناقب الانصار باب هجرة النبي واصحابه الى المدينة ) دشمن کے حملوں کے وقت آپ جرات و بہادری کے حیران کن اعلی جوہر دکھا رہے ہوتے تھے.صحابہ رضی اللہ عنہم بھی بہت بہادر تھے مگر آپ ان سب سے آگے صف اول میں تھے.چنانچہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: ”خدا کی قسم! جب شدید لڑائی شروع ہو جاتی تو ہم رسول کریم کو ڈھال بنا کر لڑتے تھے اور ہم میں سے بہادر وہی سمجھا جاتا تھا جو رسول کریم کے شانہ بشانہ لڑتا تھا.“ آپ خطرے کے وقت مسلم كتاب الجهاد باب غزوة حنين ) دوسروں کے لئے ڈھال بن جاتے پھر جنگ بدر کے موقع پر آپ کی جرات و بہادری کا ایک واقعہ ہے.حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ: رسول کریم صلی ال نام کے صحابہ مدینے سے روانہ ہوئے اور مشرکین سے پہلے بدر کے میدان میں پہنچ گئے.پھر مشرکین بھی پہنچ گئے.تو آنحضرت صلی الیم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی آگے نہ بڑھے جب تک میں سة 189

Page 190

اس سے آگے نہ ہوں“.ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام (مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 136 - 137 مطبوعہ بیروت) غزوہ احد میں بعض اوقات آنحضرت صلی اللہ نیم قریباً اکیلے ہی رہ جاتے تھے.کسی ایسے ہی موقعہ پر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے مشرک بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا ایک پتھر آپ کے چہرہ مبارک پر لگا جس سے آپ کا ایک دانت ٹوٹ گیا اور ہونٹ بھی زخمی ہوا.ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ایک اور پتھر جو عبد اللہ بن شہاب نے پھینکا تھا اس نے آپ کی پیشانی کو زخمی کیا اور تھوڑی دیر کے بعد تیسرا پتھر جو ابن قمئہ نے پھینکا تھا آپ کے رخسار مبارک پر لگا جس سے آپ کے خود کی دو کڑیاں آپ کے رخسار میں چھ گئیں.( السيرة النبوية لابن هشام غزوة احد مالقيه الرسول يوم احد ) جنگ اُحد میں رسول الله صل الله علم زخمی ہونے کے بعد جب صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ ایک گھاٹی میں ٹھیک لگائے ہوئے تھے.ابی بن خلف نے رسول اللہ کی تعلیم کو دیکھ کر للکارتے ہوئے پکارا کہ اے محمد صل الیکم اگر آج تم بچ گئے تو میری زندگی عبث ہے، فضول ہے صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی یا رسول اللہ ! کیا ہم میں سے کوئی اس کی طرف بڑھے رسول اللہ صلی العلیم نے فرمایا تم اسے چھوڑ دو اور راستے سے ہٹ جاؤ.اسے میری طرف آنے دو جب وہ رسول اللہصلی العلیم کے قریب آیا تو حضور صلی علی کریم نے نیزہ تھام لیا اور آگے بڑھ کر اس کی گردن پر ایک ہی وار کیا جس سے وہ چنگھاڑتا ہوا مڑا اور اپنے گھوڑے سے زمین پر گر گیا، قلا بازیاں کھانے لگا.الله سة ( السيرة النبوية لابن هشام، غزوة احد مقتل ابی بن خلف ) غزوہ اُحد کے اگلے دن جب رسول کریم صلی عملی کام اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہمراہ مدینہ پہنچے تو آپ کو یہ اطلاع ملی که کفار مکہ دوبارہ مدینہ پر حملہ آور ہونے کی تیاری کر رہے ہیں کیونکہ بعض قریش ایک دوسرے کو یہ طعنے دے رہے تھے کہ نہ تو تم نے محمد کو قتل کیا (نعوذ باللہ) اور نہ مسلمان عورتوں کو لونڈیاں بنایا اور نہ ان کے مال و متاع پر قبضہ کیا.اس پر رسول کریم ملی کی نیلم نے ان کے تعاقب کا فیصلہ کیا.حضور صلی الیم نے اس بات کا اعلان فرمایا کہ ہم دشمن کا تعاقب کریں گے اور اس تعاقب کے لئے میرے الله سة ساتھ صرف وہ صحابہ رضی اللہ عنہم شامل ہوں گے جو گزشتہ روز غزوہ اُحد میں شامل ہوئے تھے.( الطبقات الكبرى لابن سعد ذكر عدد مغازی رسول اللہ غزوة رسول الله صلى تميم حمراء الاسد) 190

Page 191

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام ایک دفعہ ایک شخص حضرت براء رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے جنگ حنین کے موقع پر دشمن کے مقابلے پر پیٹھ پھیر لی تھی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں سب کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن میں آنحضرت کے بارے میں ضرور گواہی دوں گا کہ آپ نے دشمن کے شدید حملے کے وقت بھی پیٹھ نہیں پھیری تھی.پھر انہوں نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ ہوازن قبیلے کے خلاف جب مسلمانوں کا لشکر نکلا تو انہوں نے بہت ہلکے پھلکے ہتھیار پہنے ہوئے تھے یعنی ان کے پاس زر ہیں وغیرہ اور بڑا اسلحہ نہیں تھا اور ان میں بہت سے ایسے تھے جو بالکل نہتے تھے.لیکن اس کے مقابل پر ہوازن کے لوگ بڑے کہنہ مشق تیر انداز تھے.جب مسلمانوں کا لشکر ان کی طرف بڑھا تو انہوں نے اس پر تیروں کی ایسی بوچھاڑ کر دی جیسے ٹڈی دل کھیتوں پر حملہ کرتی ہے.اس حملے کی تاب نہ لا کر بکھر گئے.لیکن اُن کا ایک گروہ آنحضرت صلی علیم کی طرف بڑھا.حضور صلی الی یکم ایک خچر پر سوار تھے جسے آپ کے چچا ابو سفیان بن حارث لگام سے پکڑے ہوئے ہانک رہے تھے.جب مسلمانوں کو اس طرح بکھرتے ہوئے دیکھا تو آپ کچھ وقفے کے لئے اپنے فیچر سے نیچے اترے اور اپنے مولا کے حضور دعا کی.پھر آپ خچر پر سوار ہو کر مسلمانوں کو مددد کے لئے بلاتے ہوئے دشمن کی طرف بڑھے اور آپ یہ شعر پڑھتے جاتے تھے لشکر : مسلمان أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ أَنَا ابْن عَبْدِ الْمُطَّلِبُ میں خدا کا نبی ہوں اور یہ سچی بات ہے لیکن میں وہی عبد المطلب کا بیٹا ہوں.یعنی میری غیر معمولی جرآت دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ میں کوئی فوق البشر چیز ہوں.ایک انسان ہوں اور اسی طرح جرات دکھا رہا ہوں اور آپ یہ دعا کرتے جاتے تھے کہ اللّهُمَّ نَزِّلُ نَصْرَكَ اے خدا! اپنی مدد نازل کر.پھر حضرت براء نے کہا کہ حضور کی کمی کی شجاعت کا حال سنو کہ جب جنگ جو بن پر ہوتی تھی تو ہم لوگ اس وقت حضور صلی ا ہم کو ہی اپنی ڈھال اور اپنی آڑ بنایا کرتے تھے اور ہم میں سے سب سے زیاہ وہی بہادر سمجھا جاتا تھا جو حضور صلی می کنیم کے شانہ بشانہ لڑتا تھا.( صحیح مسلم کتاب الجهاد باب غز ولا حنين ) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ: نبی کریم صلی ایلیم سب انسانوں سے زیادہ خوبصورت تھے اور سب انسانوں سے زیادہ بہادر تھے.ایک رات اہل مدینہ کو خطرہ محسوس ہوا.کسی طرف سے کوئی آواز آئی اور لوگ آواز کی طرف دوڑے.تو سامنے الله سة 191

Page 192

الدرسة سے نبی کریم صلی علیکم آتے ہوئے ملے.آپ بات کی چھان بین کر کے واپس آرہے تھے اور حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے.آپ نے اپنی گردن میں تلوار لٹکائی ہوئی تھی.آپ نے ان لوگوں کو سامنے سے آتے ہوئے دیکھا تو فرمایا ڈرو نہیں، ڈرو نہیں میں دیکھ کر آیا ہوں کوئی خطرے کی بات نہیں ہے.پھر آپ نے ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کے متعلق فرمایا کہ ہم نے اس کو تیز رفتاری میں سمندر جیسا پایا.(صحیح بخاری كتاب الجهاد باب الحمائل وتعليق السيف بالعنق ) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام آپ کی جرات و شجاعت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: یک وقت ہے کہ آپ فصاحت بیانی سے ایک گروہ کو تصویر کی صورت حیران کر رہے ہیں.ایک وقت آتا ہے کہ تیر و تلوار کے میدان میں بڑھ کر شجاعت دکھاتے ہیں.سخاوت پر آتے ہیں تو سونے کے پہاڑ بخشتے ہیں.حلم میں اپنی شان دکھاتے ہیں تو واجب القتل کو چھوڑ دیتے ہیں.الغرض رسول اللہ صل الم کا بے نظیر اور کامل نمونہ ہے جو خدا تعالیٰ نے دکھا دیا ہے.اس کی مثال ایک بڑے عظیم الشان درخت کی ہے جس کے سایہ میں بیٹھ کر انسان اس کے ہر جزو سے اپنی ضرورتوں کو پورا کر لے.اس کا پھل، اس کا پھول اور اس کی چھال، اس کے پتے غرضیکہ ہر چیز مفید ہو.آنحضرت علی الم اس عظیم الشان درخت کی مثال ہیں جس کا سایہ ایسا ہے کہ کروڑ با مخلوق اس میں مرغی کے پروں کی طرح آرام او رپناہ لیتی ہے.لڑائی میں سب سے بہادر وہ سمجھا جاتا تھا جو آنحضرت صلی لی کام کے پاس ہوتا تھا.کیو نکہ آپ بڑے خطر ناک مقام میں ہوتے تھے.سبحان اللہ ! کیا شان ہے.اُحد میں دیکھو کہ تلواروں پر تلواریں پڑتی ہیں ایسی گھمسان کی جنگ ہو رہی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم برداشت نہیں کر سکتے مگر یہ مرد میدان سینہ سپر ہو رہا ہے.اس میں صحابہ رضی اللہ عنہم کا قصور نہ تھا.اللہ تعالیٰ نے ان کو بخش دیا بلکہ اس میں بھید یہ تھا کہ تا رسول اللہصلى الم کی شجاعت کا نمونہ دکھایا جاوے.ایک موقع پر تلوار پر تلوار پڑتی تھی اور آپ نبوت کا دعویٰ کرتے تھے کہ محمد رسول اللہ میں ہوں کہتے ہیں حضرت کی پیشانی پر ستر زخم لگے مگر زخم خفیف تھے.یہ خُلق عظیم تھا.“ (ملفوظات جلد اول صفحہ 84 جدید ایڈیشن، رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ 152 – 153) اللہ تعالیٰ ہم سب کو آپ کے اسوہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.کر لڑ 192

Page 193

جہاد بالقلم حضرت نبی اکرم کی کام کے روشن سنہرے دور پر صدیاں گزرتی گئیں.اسلام کی حالت نبی سے دوری پر کمزور ہوتی گئی اور طاغوتی طاقتیں بتدریج ان پر تسلط حاصل کرتی رہیں.چودہ سو سال ہوگئے بحر و بر میں فساد پھیل گیا.تو اللہ تعالیٰ نے پیش خبریوں کے مطابق اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے اپنی تائید و نصرت کے ساتھ ایک فنا فی الله جری اللہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو نبیوں کے لبادہ میں شیطان سے جنگ روحانی کے لئے بھیجا اور زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کی.آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: اس نے آپ اپنے مکالمہ میں اس عاجز کی نسبت فرمایا کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اس کو قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا اور میں کبھی امید نہیں کر سکتا کہ وہ حملے بغیر ہونے کے رہیں گے گو ان کا ظہور میرے اختیار میں نہیں.میں آپ لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ میں سچا ہوں.پیارو! یقیناً سمجھو کہ جب تک آسمان کا خدا کسی کے ساتھ نہ ہو ایسی شجاعت کبھی نہیں دکھاتا کہ ایک دنیا کے مقابل پر استقامت کے ساتھ کھڑا ہو جائے اور ان باتوں کا دعویٰ کرے جو اس کے اختیار سے باہر ہیں جو شخص قوت اور استقامت کے ساتھ ایک دنیا کے مقابل پر کھڑا ہو جاتا ہے کیا وہ آپ سے کھڑا ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں بلکہ وہ اس ذات قدیر کی پناہ سے اور ایک غیبی ہاتھ کے سہارے سے کھڑا ہوتا ہے جس کے قبضہ قدرت میں تمام زمین و آسمان اور ہر ایک روح اور جسم ہے سو آنکھیں کھولو اور سمجھ لو کہ اس خدا نے مجھ عاجز کو یہ قوت اور استقامت دی ہے جس کے مکالمہ سے مجھے عزت حاصل ہے.“ آسمانی فیصله، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 333) مجھے اُس خدائے کریم و عزیز کی قسم ہے جو جھوٹ کا دشمن اور مفتری کا نیست و نابود کرنے والا ہے کہ میں اُس کی طرف سے ہوں اور اُس کے بھیجنے سے عین وقت پر آیا ہوں اور اُس کے حکم سے کھڑا ہواہوں اور وہ میرے ہر قدم میں میرے ساتھ ہے اور وہ مجھے ضائع نہیں کرے گا اور نہ میری جماعت کو تباہی میں ڈالے گا جب تک وہ اپنا تمام کام پورا نہ کر لے جس کا اُس نے ارادہ فرمایا ہے“ آپ علیہ السلام نے فرمایا: اربعین حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 348) ”میرے پر ایسی رات کوئی کم گزرتی ہے جس میں مجھے یہ تسلی نہیں دی جاتی کہ میں تیرے ساتھ ہوں 193

Page 194

اور میری آسمانی فوجیں تیرے ساتھ ہیں.“ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 49) ہندوستان میں حضرت اقدس علیہ السلام ایک مذہبی سکالر کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے تھے اور عام مسلمان سمجھتے تھے کہ یہی شخص اس تاریک دور میں اسلام کے دفاع کے لئے علم اور صلاحیت رکھتا ہے.مگر جوں ہی آپ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ماموریت کا اعلان فرمایا اور سب ادیان پر اسلام کی حقانیت ثابت کی تو ہندو، سکھ، عیسائی اور متعصب مسلمان سب آپ کے خلاف ہو گئے.فرد واحد غیر معمولی جواں مردی کے ساتھ خم ٹھونک کے میدان میں آ گیا.اللہ پاک نے اسے اس دور کے لئے یضع الحرب کا ارشاد فرمایا تھا اور تیر و تلوار کی جگہ دعاء قلم اور قرآنی علوم سے لیس کیا تھا یہی وہ ذوالفقار تھی جو حق و باطل کی جنگ میں ہتھیار بنی.زندہ خدا، زندہ قرآن اور زندہ رسول صلی ال نیم کا تعارف کرایا.اسلام کی حمایت اور دفاع میں براہین احمدیہ تصنیف کی.جو جنگ روحانی کے لئے اسلحہ خانہ تھا.کو تاہ اندیش مولوی جن کو اپنی جہالت کی دکانیں بند ہونے کا خوف پیدا ہو گیا تھا آپ کے معاون و مدد گار بننے کی بجائے آپ کی مخالفت میں اُٹھ کھڑے ہو گئے.یہی وہ دشمن دین تھے جنہیں ہر میدان بدر و احد میں آپ کی غیرت دینی اور جوش و تپش نے دعا اور دلائل علمی کی تیز تلوار سے دندان شکن شکست دی.جنگ یہ بڑھ کر ہے جنگ روس اور جاپان سے میں غریب اور ہے مقابل پر حریف نامدار اے خدا! شیطاں پہ مجھ کو فتح دے رحمت کے ساتھ وہ اکٹھی کر رہا ہے اپنی فوجیں بے شمار آپ وہ شجاع تھے کہ للکار للکار کر مقابلے کی دعوت دیتے اور تحدی سے اپنی فتح کا قبل از وقت اعلان فرماتے.ان مہمات دینیہ میں سر فروشی اور فتح کا یقین آپ کے ہی پر شوکت الفاظ میں درج ہے: اگر ایک دنیا جمع ہو کر میرے اس امتحان کے لئے آوے تو مجھے غالب پائے گی اور اگر تمام لوگ میرے مقابل پر اُٹھیں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے میرا ہی پلہ بھاری ہو گا.دیکھو! میں صاف صاف کہتا ہوں اور کھول کر کہتا ہوں کہ اس وقت اے مسلمانو! تم میں وہ لوگ بھی موجود ہیں جو مفسر اور محدث کہلاتے ہیں اور قرآن کے معارف اور حقائق جاننے کے مدعی ہیں اور بلاغت اور فصاحت کا دم مارتے ہیں اور 194

Page 195

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام وہ لوگ بھی موجود ہیں جو فقراء کہلاتے ہیں اور چشتی اور قادری اور نقشبندی اور سہر وردی وغیرہ ناموں سے اپنے تئیں موسوم کرتے ہیں.اُٹھو! اور اس وقت اُن کو میرے مقابلہ پر لاؤ.پس اگر میں اس دعوے میں جھوٹا ہوں کہ یہ دونوں شانیں یعنی شانِ عیسوی اور شانِ محمدی مجھ میں جمع ہیں.اگر میں وہ نہیں ہوں جس میں یہ دونوں شانیں جمع ہوں گی اور ذوالبر وزین ہو گا تو میں اس مقابلہ میں مغلوب ہو جاؤں گا ورنہ غالب آ جاؤں گا.مجھے خدا کے فضل سے توفیق دی گئی ہے کہ میں شانِ عیسوی کی طرز سے دنیوی برکات کے متعلق کوئی نشان دکھلاؤں یا شان محمدی کی طرز سے حقائق و معارف اور نکات اور اسرار شریعت بیان کروں اور میدان بلاغت میں قوت ناطقہ کا گھوڑا دوڑاؤں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے اور محض اُسی کے ارادے سے زمین پر بجز میرے ان دونوں نشانوں کا جامع اور کوئی نہیں ہے پہلے سے لکھا گیا تھا کہ ان دونوں نشانوں کا جامع ایک ہی شخص ہو گا جو آخر زمانہ میں پیدا ہو گا اور اُس کے وجود کا آدھا حصہ عیسوی شان کا ہو گا اور آدھا حصہ محمد کی شان کا سو وہی میں ہوں جس نے دیکھنا ہو دیکھے جس نے پر کھنا ہو پر کھے مبارک وہ جو اب بخل نہ کرے اور نہایت بد بخت وہ جو روش روشنی پا کر تاریکی کو اختیار کرے.“ اور.نیز آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 407 - 408) چونکہ میں حق پر ہوں اور دیکھتا ہوں کہ خدا میرے ساتھ ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اس لئے میں بڑے اطمینان اور یقین کامل سے کہتا ہوں کہ اگر میری ساری قوم کیا پنجاب کے رہنے والے اور کیا ہندوستان کے باشندے اور کیا عرب کے مسلمان اور کیا روم اور فارس کے کلمہ گو اور کیا افریقہ اور دیگر بلاد کے اہل اسلام اور اُن کے علماء اور اُن کے فقراء اور اُن کے مشائخ اور اُن کے صلحاء اور اُن کے مرد اور اُن کی عورتیں مجھے کاذب خیال کر کے پھر میرے مقابل پر دیکھنا چاہیں کہ قبولیت کے نشان مجھ میں ہیں یا اُن میں اور آسمانی دروازے مجھ پر کھلتے ہیں یا اُن پر اور وہ محبوب حقیقی اپنی خاص عنایات اور اپنے علوم لدنیہ اور معارف روحانیہ کے القاء کی وجہ سے میرے ساتھ ہے یا اُن کے ساتھ.تو بہت جلد اُن پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہ خاص فضل اور خاص رحمت جس سے دل مورد فیوض کیا جاتا ہے اسی عاجز پر اس کی قوم سے زیادہ کوئی شخص اس بیان کو تکبر کے رنگ میں نہ سمجھے بلکہ یہ تحدیث نعمت کی قسم میں سے ہے وذلک فضل الله يُوتِه مَن يَشَاءُ“ ہے.(ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 478 - 479) 195

Page 196

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام ہر طرف سے پڑ رہے ہیں دین احمد پر تبر کیا نہیں تم دیکھتے قوموں کو اور ان کے وہ وار کھا رہا ہے دیں طمانچے ہاتھ سے قوموں کے آج اک تزلزل میں پڑا اسلام کا عالی منار قرآنی علوم اور فصاحت و بلاغت پر نا قابل شکست عبور آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: ” مجھے ایک دفعہ یہ الہام ہوا کہ الرّحمن علم القرآن يَا أَحْمَدُ فَاضَتِ الرَّحْمَةُ عَلَى شَفَتَيْكَ.یعنی خدا نے تجھے اے احمد! قرآن سکھلایا اور تیرے لبوں پر رحمت جاری کی گئی اور اس الہام کی تفہیم مجھے اس طرح پر ہوئی کہ کرامت اور نشان کے طور پر قرآن اور زبان قرآن کی نسبت دو طرح کی نعمتیں مجھ کو عطا کی گئی ہیں.(1) ایک یہ کہ معارف عالیه فرقان حمید بطور خارق عادت مجھ کو سکھلائے گئے جن میں دوسرا مقابلہ نہیں کر سکتا.(2) دوسرے یہ کہ زبان قرآن یعنی عربی میں وہ بلاغت اور فصاحت مجھے دی گئی کہ اگر تمام علماء مخالفین باہم اتفاق کر کے بھی اس میں میرا مقابلہ کرنا چاہیں تو نا کام اور نامراد رہیں گے اور وہ دیکھ لیں گے کہ جو حلاوت اور بلاغت اور فصاحت لسان عربي مع التزام حقائق و معارف و نکات میری کلام میں ہے وہ ان کو اور ان کے دوستوں اور ان کے استادوں اور ان کے بزرگوں کو ہر گز حاصل نہیں.اس الہام کے بعد میں نے قرآن شریف کے بعض مقامات اور بعض سورتوں کی تفسیریں لکھیں اور نیز عربی زبان میں کئی کتابیں نہایت بلیغ و فصیح تالیف کیں اور مخالفوں کو ان کے مقابلہ کے لئے بلایا بلکہ بڑے بڑے انعام ان کے لئے مقرر کئے اگر وہ مقابلہ کر سکیں اور ان میں سے جو نامی آدمی تھے جیسا کہ میاں نذیر حسین دہلوی اور ابوسعید محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ ان لوگوں کو بار بار اس امر کی طرف دعوت کی گئی کہ اگر کچھ بھی ان کو علم قرآن میں دخل ہے یا زبان عربی میں مہارت ہے یا مجھے میرے دعوی مسیحیت میں کاذب سمجھتے ہیں تو ان حقائق و معارف پر از بلاغت کی نظیر پیش کریں جو میں نے کتابوں میں اس دعویٰ کے ساتھ لکھے ہیں کہ وہ انسانی طاقتوں سے بالاتر اور خدا تعالیٰ کے نشان ہیں مگر وہ لوگ مقابلہ سے عاجز آگئے.نہ تو وہ ان حقائق معارف کی نظیر پیش کر سکے جن کو میں نے بعض قرآنی آیات اور سورتوں کی تفسیر لکھتے وقت اپنی کتابوں میں تحریر کیا تھا اور نہ اُن بلیغ اور فصیح کتابوں کی طرح دو سطر بھی لکھ سکے جو میں نے عربی میں تالیف کرکے شائع کی تھیں.چنانچہ جس شخص نے میری کتاب نورالحق اور کرامات 196

Page 197

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام الصادقین اور ستر الخلافۃ اور اتمام الحوبیہ وغیرہ رسائل عربیہ پڑھے ہوں گے اور نیز میرے رسالہ انجام آتھم اور مجسم الہدی کی عربی عبارت کو دیکھا ہو گا وہ اس بات کو بخوبی سمجھ لے گا کہ ان کتابوں میں کس زور شور سے بلاغت فصاحت کے لوازم کو نظم اور نثر میں بجا لایا گیا ہے اور پھر کس زور شور سے تمام مخالف مولویوں سے اس بات کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ اگر وہ علم قرآن اور بلاغت سے کچھ حصہ رکھتے ہیں تو ان کتابوں کی نظیر پیش کریں ورنہ میرے اس کاروبار کو خدا تعالیٰ کی طرف سے سمجھ کر میری حقیت کا نشان اس کو قرار دیں لیکن افسوس کہ ان مولویوں نے نہ تو انکار کو چھوڑا اور نہ میری کتابوں کی نظیر بنانے پر قادر ہو سکے.بہر حال ان پر خدا تعالیٰ کی حجت پوری ہو گئی اور وہ اُس الزام کے نیچے آگئے جس کے نیچے تمام وہ منکرین ہیں جنہوں نے خدا کے مامورین سے سر کشی کی.“ تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 230 - 231) ہر مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے آپ علیہ السلام کے بیان میں شان اور شوکت پائی جاتی ہے.فرماتے ہیں: میں عربوں کے دعوئی ادب و فصاحت و بلاغت کو بالکل توڑنا چاہتا ہوں.یہ لوگ جو اخبار نویس ہیں اور چند سطریں لکھ کر اپنے آپ کو اہل زبان اور ادیب قرار دیتے ہیں وہ اس اعجاز کے مقابلہ میں قلم اٹھا کر دیکھ لیں.ان کے قلم توڑ دیئے جائیں گے اور اگر ان میں کچھ طاقت ہے اور قوت ہے تو وہ اکیلے اکیلے یا سب کے سب مل کر اس کا مقابلہ کریں.پھر انہیں معلوم ہو جائے گا اور یہ راز بھی کھل جائے گا جو یہ ناواقف کہا کرتے ہیں کہ عربوں کو ہزار ہا روپے کے نوٹ دے کر کتابیں لکھائی جاتی ہیں.اب معلوم ہو جائے گا کہ کون عرب ہے جو ایسی فصیح و بلیغ کتاب اور ایسے حقائق و معارف سے پر لکھ سکتا ہے.جو کتابیں یہ ادب و انشا کا دعویٰ کرنے والے لکھتے ہیں ان کی مثال پتھروں کی سی ہے کہ سخت، نرم، سیاہ، سفید پتھر جمع کر کے رکھے جائیں مگر یہ تو ایک لذیذ اور شیریں چیز ہے جس میں حقائق اور معارف قرآنی کے اجزا ترکیب دیے گئے ہیں.غرض جو بات روح القدس کی تائید سے لکھی جاوے اور جو الفاظ اس کے القا سے آتے ہیں وہ اپنے ساتھ ایک حلاوت رکھتے ہیں اور اس حلاوت میں ملی ہوئی شوکت اور قوت ہوتی ہے جو دوسروں کو اس پر قادر نہیں ہونے دیتی.“.(ملفوظات جلد دوم صفحہ 375 ایڈیشن 1984ء) ”میرے معجزات اور دیگر دلائل نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کے طلب ثبوت کے لئے بعض منتخب علماء ندوہ 197

Page 198

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام کے قادیان میں آویں اور مجھ سے معجزات اور دلائل یعنی نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کا ثبوت لیں پھر اگر سنت انبیاء علیہم السلام کے مطابق میں نے پورا ثبوت نہ دیا تو میں راضی ہوں کہ میری کتابیں جلائی جائیں“ (تحفة الندوه، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 101) حیات مسیح کے عقیدے کو جڑ سے اکھاڑ دیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”مجھے خدا نے اپنی طرف سے قوت دی ہے کہ میرے مقابل پر مباحثہ کے وقت کوئی پادری ٹھہر نہیں سکتا اور میرا رُعب عیسائی علماء پر خدا نے ایسا ڈال دیا ہے کہ اُن کو طاقت نہیں رہی کہ میرے مقابلہ پر آسکیں.چونکہ خدا نے مجھے رُوح القدس سے تائید بخشی ہے اور اپنا فرشتہ میرے ساتھ کیا ہے اس لئے کوئی پادری میرے مقابل پر آہی نہیں سکتا یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے تھے کہ آنحضرت علی الم سے کوئی معجزہ نہیں ہوا کوئی پیشگوئی ظہور میں نہیں آئی اور اب بلائے جاتے ہیں پر نہیں آتے اس کا یہی سبب ہے کہ ان کے دلوں میں خدا نے ڈال دیا ہے کہ اس شخص کے مقابل پر ہمیں بجز شکست کے اور کچھ نہیں.“ (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 149 - 150) اک بڑی مدت سے دیں کو کفر تھا کھاتا رہا اب یقیں سمجھو کہ آئے کفر کو کھانے کے دن دائمی فتح کا اعلان حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے کس تخذی اور جلال کے ساتھ فرمایا ہے: ”اے تمام لو گو ! سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا.وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد رکھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا.یہاں تک کہ قیامت آجائے گی.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں.سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں 198

Page 199

( تذكرة الشهادتين، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 66 - 67) جو اس کو روک سکے “ فتوحات نمایاں تواتر سے نشاں کیا یہ ممکن ہیں بشر سے کیا یہ مکاروں کا کار روزنامه الفضل آن لائن لندن 1 جولائی 2022ء) 199

Page 200

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام قسط 29 میاں بیوی کا رشتہ، پیار محبت اور احساس کا سچا رشتہ آنحضرت صلی الله علم فرماتے ہیں: تم میں سے بہتر وہ ہے جس کا اپنے اہل و عیال سے سلوک اچھا ہے اور میں تم میں سے اپنے اہل سے اچھا سلوک کرنے کے اعتبار سے سب سے بہتر ہوں.“ میاں بیوی دن رات ایک ساتھ رہتے ہوئے ایک دوسرے کی شخصیت کے نہاں در نہاں پہلوؤں سے واقف ہو جاتے ہیں.خوبیوں اور خامیوں کے رازدار ہو جاتے ہیں کچھ چھپا نہیں رہتا.آنحضور کی اہلی زندگی پر نظر ڈالیں تو آپس کے اعتماد پیار اور احساس کے ایسے پیارے دل لبھانے والے نظارے ملتے ہیں کہ دل بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ واقعی آپ اچھا سلوک کرنے کے اعتبار سے سب سے بہتر تھے.ایک مثالی شوہر تھے.اسی وجہ سے آپ کی ازواج مطہرات بھی آپ سے بے حد محبت کرتی تھیں.سب ازواج مطہرات سے یکساں سلوک کے چند نکات پیش ہیں.جو مستند احادیث سے اخذ کئے ہیں..سب ازواج مطہرات کے گھروں میں مسکراتے ہوئے داخل ہوتے.نرمی سے کلام فرماتے، عام آدمیوں کی طرح بلا تکلف گھر میں رہنے والے..ازواج مطہرات کا حق ادا فرماتے نان و نفقہ کا بطور خاص اہتمام فرماتے تھے حتی کہ وفات کے بعد بھی خرچ دیتے رہنے کا اہتمام فرماتے..گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتے اپنے ذاتی کام خود کر لیا کرتے تھے آپ اپنے کپڑے خود سی لیتے تھے، جوتے ٹانک لیا کرتے تھے اور گھر کا ڈول وغیرہ خود مرمت کر لیتے تھے.بکری خود دوہ لیتے تھے، جانوروں کو چارہ ڈالتے، مل کر کام کرا لیتے.آٹا پسوا دیتے، خود ہی سودا سلف لاتے اور ضرورت کی چیزیں ایک کپڑے میں باندھ کر اٹھا لاتے.ازواج مطہرات کے رشتہ داروں سے بھی اچھا سلوک فرماتے ان کے پہلے بچوں کو اپنا بچہ کہتے..ازواج مطہرات کے جذبات، مزاج اور ذوق کے مطابق برتاؤ فرماتے.ان کے نیک اوصاف کی قدر 200

Page 201

فرماتے.ساری زندگی میں کبھی اپنی کسی بیوی پر ہاتھ اٹھایا، نہ کبھی کسی خادم کو مارا.ازواج مطہرات میں سے کوئی بیمار ہو جاتیں تو آپ بذات خود ان کی تیمار داری فرماتے اور ہر قسم کا خیال رکھتے.جسمانی طور پر بھی آرام کا خیال رکھتے تھے ایک موقع پر اونٹنی چلانے والے نے بہت تیزی کے ساتھ اونٹنیوں کو چلایا تو آپ نے فرمایا شیشہ ہے یعنی صنف نازک ہے احتیاط سے.مخصوص ایام میں بھی خیال رکھتے..اگر رات کو دیر سے گھر آتے تو کسی کو زحمت دیے یا جگائے بغیر کھانا یا دودھ خود تناول فرما لیا ، کرتے تھے.اگر کوئی بیوی آرام کر رہی ہو تو قدم بھی آہستہ رکھتے کہ نیند خراب نہ ہو..جنگوں میں جاتے ہوئے بیویوں میں سے کسی کو ساتھ لے جانے کے لیے قرعہ اندازی فرماتے تھے اور جس کا قرعہ نکلتا اس کو ہمراہ لے جاتے تھے..آپ نماز عصر کے بعد سب ازواج مطہرات کو اس بیوی کے گھر بلا لیتے جس کی باری ہوتی اس طرح سب سے روزانہ ملاقات ہو جاتی حال احوال دریافت فرمالیتے اور دینی تربیت فرماتے..آپ کی کوئی بیوی کبھی آپ سے ناراض نہ ہوئی حتیٰ کہ سورت الاحزاب کی آیت 29 کے مطابق جب آپ نے دنیوی متاع لے کر رخصت ہونے کا اختیار دیا تو کسی نے بھی جدائی پسند نہ کی..کھانے میں کبھی عیب نہ نکالتے جو میسر ہوتا صبر شکر سے کھالیتے.انفرادی طور پر ازواج مطہرات کے ساتھ آپس میں تعلق کا منفرد انداز تھا.جنت نظیر حجروں میں محبت کے دریا رواں تھے.سکینت اور سکون کا دور دورہ تھا.میٹھے میٹھے واقعات کی چند جھلکیاں پیش ہیں.ام المؤمنین حضرت خدیجہ مکہ کی مالدار تاجر خاتون تھیں.تین دفعہ شادی ہوئی تھی بچے بھی تھے.چالیس سال کی عمر میں پچیس سال کے جوان محمد مصطفی صلی اللی علم کے حسن اخلاق سے متاثر ہو کر شادی کی پیش کش کی.شادی ہوئی، دولھا کا اپنا کوئی مکان نہیں تھا.دلھن کے گھر آگئے.جہاں دھن دولت نو کر چاکر کی ریل پیل تھی.اس خیال سے کہ شوہر کو یہ محسوس نہ ہو کہ ان کی مالی حیثیت کم ہے.اپنی ساری متاع آپ کے حوالے کر دی اور اس پر کل اختیار بھی دے دیا.آپ ایک سادہ مزاج غریبوں کے دکھ درد کو سمجھنے والے انسان تھے.ساری دولت، سارا سامان مستحقین میں تقسیم کر دیا.سارے نوکروں کو آزاد 201

Page 202

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام کر دیا.اب گھر میں میاں بیوی تھے.حضرت خدیجہ کو کھانا پکا نا تو کیا چولھا جلانے کی عادت نہیں تھی.دونوں نے مل کر آگ جلائی کھانا پکایا اور ایک محبت بھرے گھر کی شروعات کیں اب حضرت خدیجہ اس آمد میں گزارا کرتیں جو ان کے شوہر کما کر لاتے اس میں بہت سکون تھا.حضرت خدیجہ ایک زیرک خاتون تھیں.انہوں نے آپ میں اپنے خالق و مالک کی غیر معمولی محبت دیکھی پھر وہ آپ کے اپنے معبود کی یاد میں حائل نہ ہو تیں.آپ گھر سے دور غار حرا میں وقت گزارنے لگے آپ کے لئے کھانا تیار کر کے دیتیں کبھی زیادہ دن ہو جاتے تو پریشان ہو تیں یہ سوچ کر کہ کھانا ختم ہو گیا ہو گا کھانا دے آتیں.ایک گھر واپس آئے تو خوف کا عالم تھا بدن پر کپکپی طاری تھی آپ نے کمبل اوڑھایا.جب ذرا طبیعت سنبھلی تو بیوی کو بتایا کہ آج ایک فرشتہ غار حرا میں میرے رب کا پیغام لے کر آیا تھا.انہونی سی بات سن کر بیوی کو کوئی بھی خیال آسکتا تھا.مگر وہ پل پل کی واقف مزاج شناس اور مدبر خاتون تھیں شادی دن کے پندرہ سال میں آپ کی افتاد طبع سے واقف تھیں، تسلی دیتے ہوئے کہتی ہیں: ”اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا.اللہ کی قسم! آپ تو صلہ رحمی کرنے والے ہیں، آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں، آپ کمزور و ناتواں کا بوجھ خود اٹھا لیتے ہیں، جنہیں کہیں سے کچھ نہیں ملتا وہ آپ کے یہاں سے پا لیتے ہیں.آپ مہمان نواز ہیں اور حق کے راستے میں پیش آنے والی مصیبتوں پر لو گوں کی مدد کرتے ہیں.“ (بخاری بدء الوحي باب (1) حضرت خدیجہ نے وہ سارے مراحل دیکھے جو نبوت کا مقام ملنے سے پہلے آپ پر گزرے تھے اور نبوت پر ایمان لانے والی پہلی خاتون تھیں ہر طرح آپ کا ساتھ دیا.ایک مضبوط سہارا بن کر ساتھ رہیں.آپ سے آنحضور کو اولاد عطا ہوئی.اس پر خلوص ساتھی کی موجودگی میں آپ نے کوئی دوسری شادی نہیں کی بلکہ بعد میں بھی کافی عرصہ نہیں کی.آپ کی پچیس سالہ رفاقت کو ساری زندگی محبت سے یاد کرتے رہے ان کے اوصاف بیان کرتے.آپ نے شعب ابی طالب کی سختیوں میں خوب ساتھ نبھایا.آپ کی وفات والے سال کو عام الحزن قرار دیا.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ”مجھے نبی کریم کی کسی دوسری زندہ بیوی کے ساتھ اس قدر غیرت نہیں ہوئی جتنی حضرت خدیجہ سے ہوئی حالانکہ وہ میری شادی سے تین سال قبل وفات پاچکی تھیں.“ (بخاری کتاب الادب باب حسن العهد من الايمان ) 202

Page 203

حضرت خدیجہ کی بہن ہالہ کی آواز کان میں پڑتے ہی کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے اور خوش ہو کر فرماتے یہ تو خدیجہ کی بہن ہالہ آئی ہے اور آپ کی اللی علم کا یہ دستور تھا کہ گھر میں کبھی کوئی جانور ذبح ہوتا تو اس کا گوشت حضرت خدیجہ کی سہیلیوں میں بھیجوانے کی تاکید فرمایا کرتے تھے.(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل خدیجه ) ام المؤمنین حضرت سودہ کی آپ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ آپ کے مبارک الفاظ کو حرز جان بنا لیتیں.اطاعت و فرمانبرداری میں خوشی محسوس کرتیں ایک دفعہ حجتہ الوداع کے موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا تھا کہ میرے بعد گھر میں ہی رہنا حضرت سودہ نے اس پر سختی سے عمل کیا پھر کبھی گھر سے نہ نکلیں کوئی سفر نہ کیا حتی کہ حج بھی نہ کیا فرماتی تھیں، میں نے حج بھی کر لیا ہے اور عمرہ کی سعادت بھی حاصل کرلی ہے اب میں اپنے گھر میں ہی رہوں گی جیسا کہ مجھے اللہ نے حکم دیا ہے آنحضور صلی الم کی محبت میں آپ نے اپنا حق بھی چھوڑ دیا سمجھدار خاتون تھیں اندازہ تھا کہ آپ حضرت عائشہ کے ساتھ خوش رہتے ہیں اس خوشی کی خاطر اپنی باری کا دن بھی حضرت عائشہؓ کے ساتھ گزارنے کی اجازت دے دی.(سير الصحابيات صفحہ 33) ام المؤمنین حضرت عائشہ زمانہ ماموریت میں آپ کے ساتھ رہیں اور آپ کے حسن اخلاق کی گواہی اس طرح دی کہ قرآن ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اخلاق تھا.(مسند احمد : 25108) حضرت عائشہ کم عمر تھیں آپ نے اس کا لحاظ رکھا گڑیوں سے کھیلنے دیا سہیلیوں سے ملنے دیا.ان کے بہت ناز اٹھاتے تھے.ایک دفعہ کچھ فوجی نیزہ بازی کا مظاہرہ کر رہے تھے رسول اللہ صلی علی کریم نے یہ کھیل دکھانے کے لئے حضرت عائشہ کو اپنے پیچھے کھڑا کر لیا اور آپ دیر تک دیکھتی رہیں.آپ نے کھیل دیکھنے کے دوران کس بات کا لطف لیا، بیان کرتی ہیں کہ میں دیر تک آپ کے پیچھے آپ کے کندھے پر ٹھوڑی رکھے آپ کے رخسار سے رخسار ملا کر کھڑی رہی آپ میرا بوجھ سہارے کھڑے رہے.کیسا دونوں طرف سے پیار کا اظہار تھا.عطاء روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں ابن عمر اور عبید اللہ بن عمر کے ساتھ حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے عرض کی کہ مجھے آنحضرت صلی 203

Page 204

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام اللہ علیہ وسلم کی کوئی عجیب ترین بات بتائیے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دیکھی ہو.اس پر حضرت عائشہ آپ کی یاد سے بیتاب ہو کر رو پڑیں اور کہنے لگیں کہ آنحضور صلی الم کی ہر ادا ہی نرالی ہوتی تھی.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آنحضور صلیالم ایک رات میرے پاس تشریف لائے.میرے ساتھ میرے بستر میں لیٹے پھر آپؐ نے فرمایا اے عائشہ! کیا آج کی رات تو مجھے اجازت دیتی ہے کہ میں اپنے رب کی عبادت کر لوں.میں نے کہا خدا کی قسم! مجھے تو آپ کی خواہش کا احترام ہے اور آپ کا قرب پسند ہے.میری طرف سے آپ کو اجازت ہے.تب آپ اٹھے اور مشکیزہ سے وضو کیا.نماز کے لیے کھڑے ہو گئے اور نماز میں اس قدر روئے کہ آپ کے آنسو آپ کے سینہ پر گرنے لگے.نماز کے بعد آپ دائیں طرف ٹیک لگا کر اس طرح بیٹھ گئے کہ آپ کا دایاں ہاتھ آپ کے دائیں رخسار پر تھا.آپ نے پھر رونا شروع کر دیا.یہاں تک کہ آپ کے آنسو زمین پر ٹپکنے لگے.آپ اسی حالت میں تھے کہ فجر کی اذان دینے کے بعد بلال آئے جب انہوں نے آپ کو اس طرح گریہ و زاری کرتے ہوئے دیکھا تو کہنے لگے یا رسول اللہ ! آپ اتنا کیوں روتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ آپ کے گذشتہ اور آئندہ ہونے والے سارے گناہ بخش چکا ہے.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں.( تفسیر روح البیان زیر تفسیر سوره آل عمران آیت 191 - 192، ماخوذ از خطبه جمعه فرمودہ 18 فروری 2005ء) آپ کی ایم نے معمولی نزاع میں بھی حضرت عائشہ کو ثالثیت کا حق دیا اور ان کی پسند سے ثالث مقرر کیا.حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم کے ساتھ ایک دفعہ کچھ تکرار ہو گئی آپ نے مجھ سے پوچھ کر حضرت ابو بکر کو ثالث بنایا.آپ نے بات سن کر ذرا سختی سے مجھ سے بات کی تو رسول کریم ملی ملی یکم فرمانے لگے اے ابو بکڑ ا ہم نے تجھے اس لیے تو نہیں بلایا تھا.حضرت ابو بکڑ نے ایک کھجور کی چھڑی لی اور مجھے مارنے کو دوڑے.میں آگے آگے بھاگی اور جا کر رسول اللہ سے چمٹ گئی.رسول کریم نے حضرت ابو بکر سے کہا میں آپ کو قسم دے کر کہتا ہوں کہ اب آپ چلے جائیں.ہم نے آپ کو اس لیے نہیں بلایا تھا.جب وہ چلے گئے تو میں رسول اللہ سے الگ ہو کر ایک طرف جابیٹھی.آپ فرمانے لگے عائشہ میرے قریب آجاؤ.میں نہیں گئی تو آپ مسکرا کر فرمانے لگے ابھی تھوڑی دیر پہلے تو تم نے میری کمر کو زور سے پکڑ رکھا تھا اور خوب مجھ سے چمٹی ہوئی تھیں.(خلاصه از ازواج النبی صلى الله علم از محمد بن یوسف الصالحى مطبوعہ بیروت بحواله السمطان ه بیروت بحواله السمطا الثمین صفحہ 50) 204

Page 205

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام ایک دفعہ ان سے فرمانے لگے کہ عائشہ! میں تمہاری ناراضگی اور خوشی کو خوب پہچانتا ہوں.حضرت عائشہ نے عرض کیا وہ کیسے؟ فرمایا: جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو اپنی گفتگو میں رب محمد (صلی ) کہہ کر قسم کھاتی ہو اور جب ناراض ہوتی ہو تو رب ابراہیمؑ کہہ کر بات کرتی ہو.حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ہاں یا رسول اللہ ! یہ تو ٹھیک ہے مگر بس میں صرف زبان سے ہی آپ مالی لی ایم کا نام چھوڑتی ہوں.(دل میں تو آپ ہی آپ ہیں) (بخاری کتاب النکاح باب غيرة النساء و وجد هن ) ایک دن حضرت عائشہ گھر میں آنحضرت صلی اللی علم سے کچھ تیز تیز بول رہی تھیں کہ اوپر سے ان کے ابا حضرت ابو بکر تشریف لائے.یہ حالت دیکھ کر ان سے رہا نہ گیا اور اپنی بیٹی کو مارنے کے لیے آگے بڑھے کہ خدا کے رسول کے آگے اس طرح بولتی ہو.آنحضرت یہ دیکھتے ہی باپ اور بیٹی کے درمیان حائل ہو گئے اور حضرت ابو بکر کی متوقع سزا سے حضرت عائشہ کو بچا لیا.جب حضرت ابو بکر چلے گئے تو رسول کریم حضرت عائشہ سے ازراہ تفنن فرمانے لگے.دیکھا آج ہم نے تمہیں تمہارے ابا سے کیسے بچایا؟ کچھ دنوں کے بعد حضرت ابو بکر دوبارہ تشریف لائے تو آنحضرت علی اہل علم کے ساتھ حضرت عائشہ ہنسی خوشی باتیں کر رہی تھیں.حضرت ابو بکر کہنے لگے دیکھو بھئی تم نے اپنی لڑائی میں تو مجھے شریک کیا تھا اب خوشی میں بھی شریک کرلو.(ابوداؤ د باب الادب ) اظہار تعلق الفاظ کا محتاج نہیں ہو تا محبت کرنے والے محسوس کر لیتے ہیں اور لطف لیتے ہیں.حضرت عائشہ فرماتی ہیں حضور گوشت کی بڑی یا بوٹی میرے ہاتھ سے لے لیتے اور بڑی محبت کے ساتھ اس جگہ منہ رکھ کر کھاتے جہاں سے میں نے اسے کھایا ہوتا تھا.میں کئی دفعہ پانی پی کر برتن حضور کو پکڑا دیتی تھی.حضور وہ جگہ ڈھونڈ کر جہاں سے میں نے پانی پیا ہوتا تھا وہیں منہ رکھ کر پانی پیتے تھے.( ابوداؤ د كتاب الطهارة ) یہی والہانہ پیار تھا کہ ایک دفعہ حضرت عائشہ نے فرمایا آنحضور کو اختیار تھا کہ بیویوں میں سے آپ جس کو چاہیں اس کی باری مؤخر کر دیں اور جسے چاہیں اپنے ہاں جگہ دے دیں.پھر بھی زندگی میں ایک دفعہ بھی 205

Page 206

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام آپ نے یہ اختیار استعمال نہیں فرمایا.مگر مجھے اختیار ہو تو میں تو صرف آپ کے حق میں ہی استعمال کرتی.(بخاری کتاب التفسیر باب سورة الاحزاب باب (279) ایک مرتبہ رسول اللہ کی تعلیم نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ مجھے اللہ کی ایک ایسی صفت کا علم ہے جس کا نام لے کر دعا کی جائے تو ضرور قبول ہوتی ہے.حضرت عائشہ نے وفور شوق سے عرض کیا کہ پھر مجھے بھی وہ صفت بتادیں.آپ نے فرمایا میرے خیال میں تمہیں بتانا مناسب نہیں.اس پر حضرت عائشہ جیسے روٹھ کر ایک طرف جا بیٹھیں کہ خود ہی بتائیں گے مگر جب آنحضرت صلی علیم نے کچھ دیر تک نہ بتایا تو عجب شوق کے عالم میں خود اٹھیں، رسول کریم کی پیشانی کا بوسہ لیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! بس مجھے ضرور وہ صفت بتائیں.آپ نے فرمایا کہ دراصل اس صفت کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ سے دنیا کی کوئی مانگنا درست نہیں اس لئے میں بتانا نہیں چاہتا.تب حضرت عائشہ پھر روٹھ کر الگ ہو گئیں اور وضو کر کے مصلیٰ بچھا کر بآواز بلند یہ دعا کرنے لگیں کہ اے میرے مولیٰ! تجھے اپنے سارے ناموں اور صفتوں کا واسطہ.ان صفتوں کا بھی جو مجھے معلوم ہیں اور ان کا بھی جو میں نہیں جانتی کہ تو اپنی اس بندی کے ساتھ عفو کا سلوک فرما.آنحضرت صلی لی کم پاس بیٹھے دیکھتے اور مسکراتے جاتے اور پھر فرمایا: اے عائشہ ! بیشک وہ صفت انہی صفات میں سے ہے جو تم نے شمار کر ڈالیں.چیز ام المؤمنین حضرت ام سلمیٰ کا دل تو آپ کی وسیع القلبی نے موہ لیا آپ نے شادی کے پیغام پر تین شرائط پیش کیں آپ نے تینوں کا حل پیش کر کے ان کا مان رکھا حضور نے فرمایا جہاں تک آپ کی نازک مزاجی کا تعلق ہے سو اللہ تعالیٰ اسے دور کر دے گا رہا معاملہ عمر کا تو میں آپ سے بڑا ہوں اور بچوں کے لئے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں اب آپ کے بچے میرے بچے ہوں گے.یہ تسلی بخش جواب سن کر حضرت ام سلمیٰ نے اپنے بیٹے سے کہا اب مجھے کوئی عذر نہیں میرا نکاح رسول اللہ سے پڑھ دو.آپ فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جو نعم البدل دیا وہ پہلے شوہر سے ہر لحاظ سے افضل اور بہتر ہیں.ازواج مطہرات و صحابیات انسائیکلو پیڈیا صفحہ 166) ایک دفعہ چند صحابہ آپ کے پاس آئے اور آنحضرت کی اندرون خانہ زندگی کے بارے میں پوچھا آپ نے جواب دیا، آنحضرت کا ظاہر و باطن ایک ہے.امت مسلمہ کی مائیں صفحہ 112) ام المؤمنین حضرت زینب کو اپنے آقا سے بہت محبت تھی اس بات پر فخر کرتی تھیں کہ اللہ نے ان کو 206

Page 207

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام آسمان سے آپ کی زوجیت میں دیا ہے پیارے آقا بھی آپ سے بہت محبت کرتے آپ کے حجرے میں نمازیں ادا کرتے یہی وہ لمبے ہاتھوں وال یعنی کثرت سے صدقہ خیرات کرنے والی بیگم تھیں جنہوں نے آنحضور صلی علیم کے بعد سب سے پہلے وفات پائی.ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ کے آپ سے پیار کی انتہا دیکھئے کہ آپ نے اپنے والد ابو سفیان کا حضرت اقدس کے بستر پر بیٹھنے کا ارادہ دیکھ کر بستر سمیٹ دیا اور کہا ”آپ مشرک ہیں اور یہ حضور صلی ایام کا بستر ہے مجھے اچھا نہیں لگتا کہ آپ بستر پر بیٹھیں.میں کیسے برداشت کر سکتی ہوں کہ خدا کے نبی کے بستر کو آپ ہاتھ لگائیں جب میں آپ سے جدا ہوئی تھی تو میں کافر تھی اب مجھے خدا تعالیٰ نے اسلام دیا ہے مجھے علم ہو گیا ہے کہ رسول کریم صلی علی کریم کی کیا شان ہے اور آپ کی کیا حیثیت ہے“ ام المؤمنین حضرت صفیہ یہود سے تھیں کبھی کبھی دیگر ازواج مطہرات آپ کو یہودیہ کہہ دیتیں.جو آپ کو اچھا نہ لگتا.آپ نے کمال حکمت سے انہیں ایسا جواب سکھایا جس سے ان کو بجائے خفت کے اعزاز کا احساس ہوا.کیسی دلداری ہے فرمایا.تم نے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ تم دونوں کس طرح مجھ سے زیادہ معزز ہو میں نبیوں کی اولاد ہوں.میرا باپ ہارون نبی تھا.میرا چا موسیٰ اور میرا خاوند محمد ہے.جنگ خیبر سے واپسی پر حضرت صفیہ کو اونٹ پر بیٹھنے کی جگہ پر اپنی عبا اتار کر تہہ کرکے بچھائی پھر انہیں سوار کراتے وقت اپنا گھٹنا جھکا دیا اور فرمایا اس پر پاؤں رکھ کر اونٹ پر سوار ہو جاؤ.(صحیح بخاری کتاب المغازی باب (36) کیا شان ہے حضرت صفیہ کی آپ کے گھٹنے پر سہارا لے کر اونٹ پر سوار ہوتی ہیں.پھر ایک دن آپ حضرت صفیہ سے دلجوئی کی باتیں کرتے رہے آپ فرماتی ہیں، جب میں رسول کریم صلی یکیم کے پاس سے اٹھی تو آپ کی محبت میرے دل میں ایسی رچ چکی تھی کہ دنیا میں آپ سے بڑھ کر مجھے کوئی پیارا نہ رہا.(مجمع الزوائد لهیشی جلد 9 صفحه 15 بحوالہ طبرانی فی الاوسط) ام المؤمنین حضرت میمونہ کو آپ کا ساتھ صرف تین سال میسر رہا ۵۱ ہجری میں وفات پائی.اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود آپ کی آنحضور ملی ایلیم سے محبت کا یہ عالم تھا کہ وصیت کی کہ مجھے وہاں دفن کرنا جہاں میں رسول پاک صلی ا ہم سے پہلی دفعہ ملی تھی.پیار محبت کی اتنی حسین دنیا بسانے والے خدا کے خوف سے لرزاں یہ دعا بھی کرتے: 207

Page 208

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام ے اللہ ! تو جانتا ہے اور دیکھتا ہے کہ انسانی حد تک جو برابر منصفانہ تقسیم ہو سکتی تھی وہ تو میں کرتا ہوں اور اپنے اختیار سے بری الذمہ ہوں.میرے مولیٰ اب دل پر تو میرا اختیار نہیں اگر قلبی میلان کسی خوبی اور جوہر قابل کی طرف ہے تو تو مجھے معاف فرمانا‘“ (ابوداؤد کتاب النکاح 39) حضرت اقدس مسیح موعود حضرت نبی کریم صلی ال نیم سراج منیر کا عکس لے کر بدر کامل بن گئے تھے آپ کے بھی اخلاق فطری طور پر اپنے آقا و مطاع کا عکس تھے.جب آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خدیجہ حضرت نصرت جہاں بیگم خود سامان کر کے عطا فرمائی تو آپ نے ان کی بہت قدر کی سچے اور حقیقی دوستوں کی طرح حسن سلوک کیا.آپ نصف بہتر کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کو خدا سے صلح کے برابر سمجھتے فرماتے تھے: چاہئے کہ بیویوں سے خاوند کا ایسا تعلق ہو جیسے دو بچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے.انسان کے اخلاقِ فاضلہ اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں.اگر ان ہی سے اس کے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ سے صلح ہو“ اللہ پاک نے آپ کو الہام کیا: (ملفوظات جلد 3 صفحہ 300 ایڈیشن 1988ء) خُذُو الرَّفْقَ الرِّفْقَ فَإِنَّ الرِّفْقَ رَأْسُ الْخَيْرَاتِ یعنی نرمی کرو نرمی کرو کہ تمام نیکیوں کا ستر نرمی ہے.آپ نے نصیحت فرمائی: اپنی بیویوں سے رفق اور نرمی سے پیش آویں وہ ان کی کنیز کیں نہیں ہیں در حقیقت نکاح مرد اور عورت کا ایک طرح معاہدہ ہے پس کوشش کرو کہ اپنے معاہدہ میں دغا باز نہ ٹھہر و اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے وَعَاشِهُ وَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (النساء: (20) یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک سے زندگی کرو اور حدیث میں ہے خَيْرُكُمْ خَيْرُكُم لِأَهْلِه یعنی تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنی بیوی سے اچھا ہے یعنی تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنی بیوی سے اچھا ہے.سو روحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو.ان کے لئے دعا کرتے رہو اور طلاق سے پرہیز کرو.کیو نکہ نہایت بد، خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں 208

Page 209

جلدی کرتا ہے.جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندے برتن کی طرح جلد مت توڑو.“ (ضمیمه تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد نمبر 17 صفحہ 75 حاشیہ) آپ کے گھر میں نیک سلوک کے بارے میں حضرت عبدالکریم سیا لکوٹی کا مشاہدہ دیکھئے: حضرت اقدس کی اہلی زندگی میں عرصہ قریب پندرہ برس کے گزرتا ہے حضرت نے بار دیگر خدا تعالیٰ کے امر سے معاشرت کے بھاری اور نازک فرض کو اٹھایا ہے.اس اثنا میں کبھی ایسا موقع نہیں آیا کہ خانہ جنگی کی آگ مشتعل ہوئی ہو.کوئی بشر خیال کر سکتا ہے ضعیف اور کم علم جنس کی طرف سے اتنے دراز عرصہ میں کوئی ایسی ادا یا حرکت خلاف طبعی سرزد نہ ہوئی ہو گی تجربہ اور عرف عام گواہ ہے کہ خانہ نشین ہم پہلو کج طبعی اور جہالت سے کیسے کیسے رنج وہ امور کے مصدر ہوا کرتے ہیں بایں ہمہ وہ ٹھنڈا دل بہشتی قلب قابل غور ہے جسے اتنی مدت میں کسی قسم کی رنجش اور تنفض عیش کی آگ کی آنچ تک نہ چھوٹی ہو“ (سیرت حضرت مسیح موعود از عبدالکریم سیالکوٹی صفحہ 16) گڑ کے چاول حضرت اقدس اپنی اہلیہ سے بے حد محبت کرتے اور آپ کی عزت اور قدر کرتے تھے اور انہیں اپنے لئے مبارک وجود سمجھتے تھے حضرت اماں جان کو بھی اس کا احساس تھا بعض دفعہ بڑے ناز سے کہا کرتیں.”میرے آنے کے ساتھ آپ کی زندگی میں بر کتوں کا دور شروع ہوا ہے“ اس پر حضور مسکرا کر جواب دیتے، ہاں ٹھیک ہے.حضرت اماں جان بھی حضور سے بہت محبت کرتی تھیں اور ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے دو سینوں میں ایک ہی دل دھڑک رہا ہے جس طرح عام میاں بیوی میں جھگڑے ہوتے ہیں ویسے ان دونوں میں کبھی کوئی جھگڑا نہ ہو تا حضور حضرت اماں جان کے ساتھ پیار سے نرم لہجے میں بات کرتے گھر کے کاموں میں کبھی کوئی اونچ بیچ ہو بھی جاتی تو آپ کچھ نہ کہتے.ایک واقعہ حضرت اماں جان نے خود سنایا بیان کرتی ہیں میں پہلے پہل جب دلی سے آئی تو مجھے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود گڑ کے میٹھے چاول پسند فرماتے ہیں چنانچہ میں نے بہت شوق اور اہتمام سے میٹھے چاول پکانے کا انتظام کیا.تھوڑے سے چاول منگوائے اور اس میں چار گنا گڑ ڈال دیا.وہ بالکل راب سی بن گئی جب پتیلی چولہے سے اتاری اور چاول بر تن میں نکالے تو دیکھ کر سخت 209

Page 210

رنج اور صدمہ ہوا کہ یہ تو خراب ہو گئے.ادھر کھانے کا وقت ہو گیا تھا حیران تھی کہ اب کیا کروں اتنے میں حضرت صاحب آگئے.میرے چہرے کو دیکھا جو رنج اور صدمہ سے رونے والوں کا سا بنا ہوا تھا.آپ دیکھ کر ہنسے اور فرمایا کیا چاول اچھے نہ پکنے کا افسوس ہے؟ پھر فرمایا نہیں یہ تو بہت اچھے ہیں میرے مذاق کے مطابق پچکے ہیں ایسے زیادہ گڑ والے ہی تو مجھے پسندیدہ ہیں.یہ تو بہت ہی اچھے ہیں اور پھر خوش ہو کر کھائے...حضرت صاحب نے مجھے خوش کرنے کی اتنی باتیں کیں کہ میرا دل بھی خوش ہو گیا (سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم حصہ اول صفحہ 315 - 316) کس زباں سے میں کروں شکر کہاں ہے وہ زباں کہ میں ناچیز ہوں اور رحم فراواں تیرا چن لیا تو نے مجھے اپنے مسیحا کے لیے پہلے یہ کرم ہے میرے جاناں تیرا شعائر الله حضرت اقدس الدار میں گرمیوں میں صحن میں سویا کرتے تھے.بارش ہو جاتی تو بستر وغیرہ اٹھا کر اندر لے جانے پڑتے حضرت اماں جان نے تجویز دی کہ آدھے صحن پر چھت ڈال لی جائے تو یہ تکلیف کم ہو سکتی ہے.بعض احباب نے اس تجویز کی مخالفت کی مگر حضور نے اماں جان کی بات رکھی فرمایا ”خدا تعالیٰ نے مجھے لڑکوں کی بشارت دی اور وہ اس بی بی کے بطن سے پیدا ہوئے اس لئے میں اسے شعائر اللہ سے سمجھ کر اس کی خاطر داری رکھتا ہوں اور جو وہ کہے مان لیتا ہوں“ (سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صفحہ 229) حضرت میر محمد اسمعیل صاحب اپنے عینی مشاہدہ کو اس طرح بیان فرماتے ہیں: میں نے اپنے ہوش میں نہ کبھی حضور کو حضرت ام المؤمنین سے ناراض دیکھا نہ سنا.بلکہ ہمیشہ وہ حالت دیکھی جو ایک آئیڈیل جوڑے کی ہونی چاہئے.بہت کم خاوند اپنی بیویوں کی وہ دلداری کرتے ہیں جو حضور حضرت ام المؤمنین کی فرمایا کرتے تھے“ (سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صفحہ 231) 210

Page 211

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام میں ہمیشہ دعا کرتا ہوں کہ تم میرے بعد زندہ رہو حضرت نواب مبار کہ بیگم بیان کرتی ہیں: ” مجھے یاد ہے کہ حضور اقدس حضرت والدہ صاحبہ کی بے حد قدر و محبت کرنے کی وجہ سے آپ کی قدر میرے دل میں بڑھا کرتی تھی.آپ باوجود اس کے کہ انتہائی خاطر داری اور ناز برداری آپ کی حضرت اقدس کو ملحوظ رہتی کبھی حضور کے مرتبہ کو نہ بھولتی تھیں.بے تکلفی میں بھی آپ پر پختہ ایمان اور اس وجود مبارک کی پہچان آپ کے ہر انداز و کلام سے مترشح تھی جو مجھے آج خوب یاد ہے.آخر میں بار بار وفات کے متعلق الہامات ہوئے، تو ان دنوں بہت غمگین رہتیں.ایک بار مجھے یاد ہے کہ حضرت والدہ صاحبہ نے حضرت اقدس سے کہا.(ایک دن تنہائی میں الگ نماز پڑھنے سے پہلے نیت باندھنے سے پیشتر ) کہ ”میں ہمیشہ یہ دعا کرتا ہوں کہ تم میرے بعد زندہ رہو اور میں تم کو سلامت چھوڑ جاؤں“ ان الفاظ پر غور کریں اور اس محبت کا اندازہ کریں جو حضرت مسیح موعود آپ سے فرماتے تھے.حضرت مسیح موعود کے بعد ایک بہت بڑی تبدیلی آپ میں واقع ہوئی پھر میں نے آپ کو پر سکون مطمئن“ اور بالکل خاموش نہیں دیکھا.حق اور محض حق ہے کہ حضرت اماں جان کو خدا تعالیٰ نے سچ مچ اس قابل بنایا تھا.کہ وہ ان کو اپنے مامور کے لئے چن لے اور اس وجود کو اپنی خاص نعمت“ قرار دے کر اپنے مرسل کو عطا فرمائے.“ مبارکہ کی کہانی مبارکہ کی زبانی صفحہ 48 - 49) ایک دفعہ ایک دوست کی درشت مزاجی اور بد زبانی کا ذکر ہوا اور شکایت ہوئی کہ وہ اپنی بیوی سے سختی پیش آتا ہے.حضور علیہ السلام اس بات سے بہت کبیدہ خاطر ہوئے، بہت رنجیدہ ہوئے، بہت ناراض ہوئے اور فرمایا: ”ہمارے احباب کو ایسا نہ ہونا چاہئے." حضور علیہ السلام بہت دیر تک معاشرت نسواں کے بارہ میں گفتگو فرماتے رہے اور آخر پر فرمایا: ”میرا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی پر آوازه کسا تھا اور میں محسوس کرتا تھا کہ وہ بانگ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے اور بائیں ہمہ کوئی دل آزار اور درشت کلمہ منہ سے نہیں نکا لا تھا.اس کے بعد میں بہت دیر تک استغفار کرتا رہا اور بڑے خشوع و خضوع سے نفلیں پڑھیں اور کچھ صدقہ بھی دیا کہ یہ درشتی زوجہ پر کسی پنہانی معصیت الہی کا نتیجہ ہے“ 211 21 (ملفوظات جلد اول)

Page 212

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام آپس میں حسن سلوک کے شاندار نمونے جو ہمارے پیاروں نے اپنے عمل سے ہمیں دکھائے ان کی پیروی کر کے ہم گھروں کا سکون اور جنت کما سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے آمین اللهم آمین.روزنامه الفضل آن لائن لندن 8 جولائی 2022ء) 212

Page 213

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام قسط 30 جانوروں اور پرندوں کے لئے رحمت زہے خُلقِ کامل زہے حسنِ تام عليك الصلوة عليك السلام رحیم و کریم مالک کل نے حضرت نبی کریم صلی ال نیلام کو کل عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجا.آپ نہ صرف انسانوں کے حقوق کا خیال رکھتے اور رکھواتے تھے بلکہ حیوانوں اور حشرات الارض کے حقوق ادا کرنے کی بھی تلقین فرمائی ان کے لئے نرمی اور ہمدردی کا درس دیتے تھے.مکہ مدینہ میں جانور گھروں میں پالنے کا رواج تھا.جانور ان کی بہت سی ضروریات پوری کرتے تھے خوراک کے کام آتے تھے سواری بھی اونٹ، خچر اور گدھے پر ہوتی تھی کھالوں سے مشکیزے بنتے تھے.غرضیکہ روزانہ زندگی کا اہم ح حصہ تھے.بلی ایک پالتو جانور ہے.اس کی خوراک وغیرہ کا خیال رکھنے کے لئے آپ نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا اُس نے اُس بلی کو (کسی جگہ) بند کر دیا تھا یہاں تک کہ وہ بھو کی مر گئی.وہ عورت اُس کی وجہ سے دوزخ میں داخل کی گئی.اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ جب اس نے بلی کو باندھا تو نہ اُسے کھلایا نہ پلایا اور نہ ہی اُسے کھلا چھوڑا کہ وہ (خود) زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیا کرتی.( صحیح مسلم کتاب السلام باب تحريم قتل الهرة ) اسی طرح آپ نے ایک کتے کی کہانی سنا کر جانوروں کو پانی پلانے کے ثواب کا ذکر فرمایا کہ ایک کتا کسی کنوئیں کے گرد گھوم رہا تھا.قریب تھا کہ وہ پیاس سے مر جائے.اچانک اُسے بنی اسرائیل کی ایک بد کار عورت نے دیکھ لیا.اُس نے اپنا موزہ اُتارا اور اُس سے پانی نکال کر کتے کو پلا دیا.اُس کے اس عمل کی وجہ سے اُس کی مغفرت فرما دی گئی.( صحیح مسلم کتاب السلام باب فضل سقى البهائم ) کتے کو پانی پلانے کے ثواب کا ایک دوسری جگہ بھی ذکر ہے.واقعہ کتے کا ہے لیکن سبق یہ ملتا ہے کہ جانداروں کی ضرورت پوری کرنا اللہ پاک کو کس قدر پسند ہے حضور صلی الم نے فرمایا: ” یک شخص پیدل 213

Page 214

جا رہا تھا کہ اُسے سخت پیاس لگی، اُس نے پانی کا ایک کنواں دیکھا اور اس سے پانی پیا وہاں پر ایک کتا پیاس سے بے تاب گیلی مٹی چاٹ رہا تھا اُس شخص نے سوچا اس کتے کی بھی پیاس سے وہی حالت ہو رہی ہے جو (کچھ دیر قبل) میری ہو رہی تھی، پس وہ دوبارہ کنویں میں اترا اور اپنے جوتے میں پانی بھرا، پھر اُس کو منہ سے پکڑ کر اوپر چڑھا اور کتے کو پانی پلایا، اللہ تعالیٰ نے اُس کی یہ نیکی قبول کی اور اُس کی مغفرت فرما دی“ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! کیا ان جانوروں کی وجہ سے بھی ہمارے لئے اجر ہے؟ آپ نے فرمایا: ہر ذی روح اور جاندار چیز کے ساتھ نیکی اور احسان کا اجر ملتا ہے.“ ( سنن ابو د او د كتاب الجهاد باب ما يؤمر به من القيام على الدواب والبهائم ) اونٹوں کے ذکر میں بڑا دلچسپ واقعہ ہے خود اونٹ نے نبی رحمت سے فریاد کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک انصاری شخص کے باغ میں داخل ہوئے تو وہاں ایک اونٹ تھا.جب اُس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو وہ رو پڑا اور اُس کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے.آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اُس کے پاس تشریف لے گئے اور اُس کے سر پر دست شفقت پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: اس اونٹ کا مالک کون ہے، یہ کس کا اونٹ ہے؟ انصار کا ایک نوجوان حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ ! یہ میرا ہے.آپ نے فرمایا: کیا تم اس بے زبان جانور کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے جس کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں مالک بنایا ہے.اس نے مجھے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس سے بہت زیادہ کام لیتے ہو.( صحيح البخاری کتاب المساقاة باب فضل سقى الماء ) آپ کی نظریں مصیبت زدہ کو پہچان لیتی تھیں ایک دفعہ آپ کا گزر ایک اونٹ کے پاس سے ہوا جس کی کمر اُس کے پیٹ سے لگی ہوئی تھی.آپ نے فرمایا: ”اِن بے زبان جانوروں کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو، جب یہ تندرست ہوں تو ان پر سوار ہوا کرو اور جب یہ تندرست نہ رہیں تو انہیں کھا لیا کرو.“ (سنن ابو داود كتاب الجهاد باب ما يومر به من القيام على الدواب والبهائم ) ایک اور واقعہ یوں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی ال نیلم نے نماز ظہر ادا فرمائی تو ایک اونٹنی بندھی ہوئی دیکھی اور فرمایا: اس سواری کا مالک کہاں ہے؟ تو کسی نے جواب نہ دیا.پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے اور نماز ادا فرمائی.یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز سے فارغ ہو گئے.پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اونٹنی کو بدستور بندھا ہوا پایا.آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اس سواری 214

Page 215

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام (اونٹنی) کا مالک کہاں ہے؟ تو اُس کے مالک نے جواب دیا: یا نبی اللہ ! میں ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہیں اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں ہے.یا اسے باندھ کر رکھ (اور چارہ ڈال) یا اسے کھلا چھوڑ دے تا کہ وہ خود چارہ وغیرہ کھا لے.مجمع الزوائد جلد 8 صفحہ 196 - 197) آپ نے جانوروں کو گالی دینے سے بھی منع فرمایا جانور تو سنتے نہیں اپنا اخلاق خراب ہوتا ہے ایک دفعہ ایک انصاری نے اونٹ کی ضد پر اسے بددعا دے کر لعنت ڈالی آپ نے فرمایا اب سامان وغیرہ اس اونٹنی سے اتار لو اور اسے خالی چھوڑ دو اب یہ ہمارے ساتھ نہ چلے اب یہ لعنت والی اونٹنی ہو گئی ہے.(مسلم کتاب البر والصله ) بکری پر رحم کے ثواب میں اللہ کا رحم ملے گا کتنی بڑی نوید عطا فرمائی تا کہ جانوروں سے نرمی کا سلوک ہو.ایک شخص نے آپ کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ ! جب میں بکری کو ذبح کرتا ہوں تو مجھے اُس پر رحم آتا ہے، یا یہ کہا کہ مجھے بکری کو ذبح کرنے سے اُس پر رحم آتا ہے.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تجھے بکری پر رحم آتا ہے تو اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم فرمائے گا.“ ایک شخص بکری کو کان سے پکڑ کر کھینچ رہا تھا دیکھا تو فرمایا: ”اس کا کان چھوڑ دو گردن سے پکڑ لو“ ابن ماجه کتاب الذبائح باب (3) آپ کی رحمت و شفقت کمال کو پہنچی ہوئی تھی.جانور ہے ذبح کرنا ہے چھری سے گلا کاٹنا ہے اس کو تکلیف تو ہو گی آپ نے یہ سوچا کہ اس تکلیف کو کس طرح کم کیا جاسکتا ہے، چھری تیز نہ ہوئی تو ٹھیک سے گلا نہیں کٹے گا اور جانور تڑپتا رہے گا.آپ صلی الیم فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو نرمی اور مہربانی سے پیش آنے کا حکم دیا ہے، یہاں تک کہ اگر تم کسی جانور کو مارنے لگو تو اس میں بھی نرمی اور رحم دلی دکھاؤ جب کسی جانور کو ذبح کرنے لگو تو اچھے اور رحمدلی کے طریق سے ذبح کرو، مثلاً تم اپنی چھری خوب تیز کرلو اور اس طرح سے اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچاؤ.“ (مسلم کتاب الصيد والذبائح باب الامر باحسان الذبح ) جانور کی تکلیف کو کم کرنے کے لئے آپ نے تین آدمیوں کو اکٹھا سوار ہونے سے منع فرمایا.اسی طرح کمزور جانوروں پر بھی سواری پسند نہ فرمائی.انہیں گرم سلاخوں سے چہرے ناک وغیرہ پر داغنے سے 215

Page 216

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام منع فرمایا کہ اس طرح اذیت دینے کا بھی بدلہ لیا جائے گا.اگر ضروری ہے تو پیٹھ کی ہڈی پر نشان لگا سکتے ہیں تا کہ جانور کو تکلیف کم ہو.(مجمع الزوائد لهيثمي جلد 8 صفحہ 203 والبخاري في الادب المفرد) چھوٹے چھوٹے خوش نما پرندے بھی سمجھتے تھے کہ ہمارا چارہ گر کوئی ہے تو حضرت محمد لی ایم ہے.آپ نے ایک سفر میں پڑاؤ کیا.ایک شخص نے جا کر ایک چڑیا کے گھونسلے سے انڈے نکال لئے.وہ چڑیا آ کر رسول کریم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے سر پر منڈلانے لگی.آپ کی نظر اس پر پڑی تو فرمایا کہ اس پرندہ کو کس نے دکھ پہنچایا ہے.ایک شخص نے کہا، حضور میں نے اس کے انڈے اٹھائے ہیں، رسول کریم نے فرمایا: ”جاؤ! اس کے انڈے واپس اس کے گھونسلے میں رکھ دو (مسند احمد جلد 1 صفحہ 404) آپ نے شکاری پرندے نیز چیونٹی، شہد کی مکھی اور ہد ہد کو مارنے سے منع فرمایا.حشرات الارض پر رحمت کا اندازہ اس روایت سے بھی ہوتا ہے کہ آپ نے گھروں میں رہنے والے چھوٹے بے ضرر سانیوں کو مارنے سے بھی منع فرمایا ہے.آپ ایک عظیم ہمدردی اور دوسروں کا احساس رکھنے والے انسان تھے جانوروں سے بھی محبت کرتے تھے مثال کے طور پر ایک بلی کو اپنے کپڑے پر سوئے ہوئے دیکھا تو وہاں سے اٹھانا پسند نہ کیا کہا جاتا ہے کہ کسی معاشرے کا ایک امتحان جانوروں کے ساتھ لو گوں کا رویہ ہوتا ہے تمام مذاہب محبت کے رویے کی حوصلہ افزائی کرتے اور عالم قدرت کی عزت کرتے ہیں محمدصلی اللہ علم ہی سبق دینا چاہتے تھے.جاہلیت میں عرب جانوروں سے بہت برا سلوک کرتے تھے.وہ زندہ جانوروں سے کھانے کے لئے گوشت کاٹ لینے سے دریغ نہ کرتے تھے.وہ اونٹوں کی گردنوں میں تکلیف دہ حلقے ڈال دیتے تھے محمدصلی علی کریم نے جانوروں کو داغنے کے ظالمانہ طریق اور جانوروں کی لڑائیوں سے روک دیا.(Muhammad A Biography of prophet by Karen Armstrong page 231) (منقول از اسوه انسان کامل از حافظ مظفر احمد صفحه 582) رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت کا سب سے بہترین نمونہ آنحضرت صلی للی ملک کے اخلاق فاضلہ میں نظر آتا ہے.216

Page 217

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام آپ کا عکس آپ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود" میں بھی نمایاں تھا.حضرت میاں بشیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ خواجہ عبدالرحمن صاحب کشمیر کے رہنے والے تھے.انہوں نے ان کو خط میں لکھا کہ ایک دفعہ ایک بہت موٹا کتا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر میں گھس آیا اور ہم بچوں نے اسے دروازہ بند کر کے مارنا چاہا.لیکن جب کتے نے شور مچایا تو حضرت صاحب کو بھی پتہ لگ گیا اور آپ ہم پر ناراض ہوئے چنانچہ ہم نے دروازہ کھول کر کتے کو چھوڑ دیا.(ماخوذ از سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ 313 روایت نمبر 342 جدید ایڈیشن) آپ.سے ہی روایت ہے کہ ایک دفعہ میاں (یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی دالان کے دروازے بند کر کے چڑیاں پکڑ رہے تھے کہ حضرت صاحب نے جمعہ کی نماز کے لئے باہر جاتے ہوئے ان کو دیکھ لیا اور فرمایا: ”میاں! گھر کی چڑیاں نہیں پکڑا کرتے.جس میں رحم نہیں اس میں ایمان نہیں.“ (سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر 178 صفحہ 176 جدید ایڈیشن) کتنی پر حکمت بات ہے رحم اور ایمان لازم ملزوم ہیں.رحمۃ للعالمین کے شیدائی نے جانور پر بھی ظلم برداشت نہ کیا.آپ کے رحم کی وسعتیں بے کراں تھیں.حضرت مصلح موعودؓ تحریر فرماتے ہیں: ”میں بچپن میں ایک دفعہ ایک طوطا شکار کر کے لایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے دیکھ کر کہا کہ محمود! اس کا گوشت حرام تو نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ہر جانور کھانے کے لئے ہی پیدا نہیں کیا.بعض خوبصورت جانور دیکھنے کے لئے ہیں کہ انہیں دیکھ کر آنکھیں راحت پائیں.بعض جانوروں کو عمدہ آواز دی ہے کہ ان کی آواز سن کر کان لذت حاصل کریں.پس اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہر حس کے لئے نعمتیں پیدا کی ہیں وہ سب کی سب چھین کر زبان ہی کو نہ دے دینی چاہئیں.دیکھو یہ طوطا کیسا خوبصورت جانور ہے.درخت پر بیٹھا ہوا دیکھنے والوں کو کیسا بھلا معلوم ہوتا ہو گا.“ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 4 صفحه 263) آپ کی محبت انسان حیوان سب کے لئے تھی.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایسے اوصاف اپنانے کی توفیق عطا فرماتا رہے آمین اللهم آمین.روزنامه الفضل آن لائن لندن 15 جولائی 2022ء) 217

Page 218

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام قسط 31 خادموں اور ملازموں سے حسن سلوک مرے اللہ ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ اور مسکینی کی حالت میں موت دے اور مجھے قیامت کے روز زُمر ہ مساکین میں اٹھا.“ شاہ کونین رحمة للعالمین محمد مصطفی ملا لیلی کیم کی یہ دعا سن کر حضرت عائشہ نے پوچھا کیوں یا رسول اللہ ! (صلی اللہ علیہ وسلم)؟ اس پر آنحضور صلی المی کریم نے فرمایا کہ: ”مساکین اغنیاء سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے.اے عائشہ! کسی مسکین کو نہ دھتکارنا خواہ تجھے کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ دینا پڑے.اے عائشہ !مساکین کو اپنا محبوب رکھنا اور انہیں اپنے قرب سے نوازنا.خدا تعالیٰ کے قیامت کے دن تجھے اپنے قرب سے نوازے گا.“ (ترمذی کتاب الزهد باب ما جاء ان فقراء المهاجرين يدخلون الجنة قبل اغنيائهم ) رسول اللہ صلی الی یوم جو مکارم اخلاق کی بلند ترین چوٹی پر فائز ہیں.ہر ذی روح سے حسن سلوک کرنے کا عظیم ترین نمونہ ہیں.محروم طبقوں کا خاص طور پر زیادہ احساس فرمایا.ان میں سے خادموں، ملازموں اور نو کروں پر آپ کے الطاف و اکرام کے واقعات بتانے سے پہلے یہ واضح کردوں کہ ہم جس دور کی بات کر رہے ہیں غلاموں کی خریدو فروخت عام تھی ان زر خرید غلاموں کو کم ترین مخلوق سمجھا جاتا تھا.آپ نے انہیں برابر کا درجہ دیا.چشم فلک نے یہ بھی دیکھا کہ غلامی میں مالک کے ظلم وستم کا شکار، پتھریلی زمین پر گھسٹ کر لہو لہان بلال ایک دن حضرت سیدنا بلال بن گئے.ان گنت واقعات میں سے چند پیش ہیں پڑھئے اور غلامی کو سرے سے ختم کرنے والے پر درود و سلام بھیجئے.حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ میں بچہ تھا اور دس سال تک مجھے حضور کی خدمت کا موقعہ ملا اور میں اس طرح کام نہیں کیا کرتا تھا جس طرح حضور کی خواہش ہوتی تھی.اکثر یہ ہوتا تھا.لیکن آپ نے کبھی مجھے آج تک کام کے بارے میں کچھ نہیں کہا، اُف تک نہیں کہی.یا یہ کبھی نہیں کہا کہ تم نے یہ کیوں کیا ہے یا تم نے یہ کیوں نہیں کیا یا اس طرح کیوں نہیں کیا.کبھی آپ نے کچھ نہیں کہا.( سنن ابی داود کتاب الادب باب في الحلم و اخلاق النبي ) 218

Page 219

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام حضرت انس ہی سے ایک اور روایت ہے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لو گوں سے اچھے اخلاق کے مالک تھے.ایک بار آپ نے مجھے کسی کام کے لئے بھیجا.میں نے کہا میں نہیں جاؤں گا.لیکن میرے دل میں تھا کہ کر لوں گا کام، ابھی کر کے آتا ہوں کیو نکہ حضور کا حکم ہے.بہر حال کہتے ہیں کہ میں چل پڑا، بچہ تھا تو بازار میں بچوں کے پاس سے گزرا.بچے کھیل رہے تھے میں کھڑا ہو گیا اور ان کو دیکھنے لگ گیا.تھوڑی دیر کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور پیچھے سے میری گردن پکڑ لی، گردن پر ہاتھ رکھا.میں نے مڑ کر آپ کی طرف دیکھا تو آپ ہنس رہے تھے.فرمايا: أنيس! (مذاق میں کہا) جس کام کی طرف میں نے تجھے بھیجا تھا وہاں گئے ؟ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول! ابھی جاتا ہوں.انس کہتے ہیں کہ خدا کی قسم میں نے نو سال تک حضور کی خدمت کی ہے.مجھے علم نہیں کہ آپ نے کبھی فرمایا ہو کہ تو نے یہ کام کیوں کیا ہے یا کوئی کام نہ کیا تو آپ نے فرمایا ہو کہ کیوں نہیں کیا.م الله سة (مسلم کتاب الفضائل باب حسن خلقه علی امیرم ) ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ اسامہ بن زید دروازے سے ٹکرا گئے جس کی وجہ سے ان کی پیشانی پہ زخم آ گیا.چنانچہ رسول اللہ صلی علیم نے مجھے فرمایا کہ اس کا زخم صاف کر کے اس کی تکلیف دور کرو.چنانچہ میں نے اس کا زخم صاف کیا اور حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں پھر رسول اللہ صلی علی ولم اس کو بہلاتے ہوئے شفقت اور محبت کا اظہار فرماتے رہے اور فرمایا کہ اگر اسامہ لڑکی ہوتا تو میں اسے عمدہ عمدہ کپڑے پہناتا اور اسے زیور پہناتا یہاں تک کہ میں اس پر مال کثیر خرچ کرتا.(مسند احمد بن حنبل باقی مسند الانصار حدیث سید عائشہ رضی اللہ عنها صفحہ 53) حضرت اسامہ بن زید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صل العالم مجھے پکڑ کر اپنے ایک زانو پر بٹھا لیتے اور دوسرے پر حسن کو.یعنی جب بیٹھے ہوتے تو ران پر ایک طرف حضرت حسنؓ کو بٹھا لیتے اور دوسرے پر مجھے پھر ہم دونوں کو اپنے سینے سے چمٹا لیتے اور فرماتے: "اللَّهُمَّ ارْحَمْهُمَا فَإِنِّي أَزْحَمُهُمَا‘ اے اللہ! ان دونوں پر رحم فرمانا.میں ان دونوں سے شفقت رکھتا ہوں.بخاری کتاب الادب باب وضع الصبي على الفخذ ) اسامہ غلام کا بیٹا اور حسن بن علی آپ کا نواسا مگر کوئی تخصیص نہیں کی.حتی کہ دعا میں بھی دونوں کو برابر شامل کیا.219

Page 220

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام ابو مسعود انصاری کہتے ہیں کہ میں اپنے ایک غلام کو مار رہا تھا.میں نے اپنے پیچھے سے آنے والی ایک آواز سنی جو یہ تھی کہ ابن مسعود جان لو کہ اللہ تعالیٰ تم پر اس سے زیادہ قدرت رکھتا ہے جتنی تم اس غلام پر رکھتے ہو.میں نے مڑ کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ یہ فرمانے والے رسول اللہ صلی کی کم تھے.چنانچہ میں نے کہا یا رسول اللہ! میں اسے اللہ کی خاطر آزاد کرتا ہوں.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم اسے آزاد نہ کرتے تو تمہیں دوزخ کا عذاب پہنچتا.(مسلم کتاب الایمان باب صحبة المماليك وكفارة مَنْ لَطَمَ عَبْدَه ) مارنے والا مالک تھا اور مار کھانے والا غلام تھا.کسی قصور پر مار رہا ہو گا.آپ نے یہ نہیں پوچھا کہ اس کا کیا قصور تھا.اس لئے کہ قصور کتنا بھی بڑا ہو اس طرح مارنے کا اختیار نہیں دیا گیا.اس غلام کو آزادی مل گئی اور غلاموں کا شرف قائم ہو ان کی عزت نفس کا خیال رکھنے کا سبق دیا.غلاموں کو آزاد کرنے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑا ثواب ملنے کی نوید دی اور ایسے قوانین بنائے کہ رفتہ رفتہ غلام رکھنے کا رواج پر ختم ہو گیا.رسول الله صل اللیل کلیم نے کم مراعات یافتہ طبقے خادموں اور ملازموں سے بے مثال حسن سلوک کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ بہت رحیم و کریم ہے.وہ ہر طرح انسان کی پرورش فرماتا اور اس پر رحم کرتا ہے اور اسی رحم کی وجہ سے وہ اپنے ماموروں اور مُرسلوں کو بھیجتا ہے تا وہ اہل دنیا کو گناہ آلود زندگی سے نجات دیں...مومن کی یہ شرط ہے کہ اس میں تکبر نہ ہو بلکہ انکسار، عاجزی، فروتنی اس میں پائی جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے ماموروں کا خاصہ ہوتا ہے.ان میں حد درجہ کی فروتنی اور انکسار ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ وصف تھا.آپ کے ایک خادم سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ آپ کا کیا معاملہ ہے.اس نے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ مجھ سے زیادہ میری خدمت کرتے ہیں.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.یہ ہے نمونہ اعلیٰ اخلاق اور فروتنی کا اور یہ بات بھی سچ ہے کہ زیادہ تر عزیزوں میں خدام ہوتے ہیں جو ہر وقت گرد و پیش رہتے ہیں اس لئے اگر کسی کے انکسار و فروتنی اور تحمل و برداشت کا نمونہ دیکھنا ہو تو ان سے معلوم ہو سکتا ہے بعض مرد یا عورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ خدمتگار سے ذرا کوئی کام بگڑا.مثلاً چائے میں نقص ہوا تو جھٹ گالیاں دینی شروع کر دیں یا تازیانہ لے کر مارنا شروع کر دیا.ذرا شوربے میں نمک زیادہ ہو گیا بس بیچارے خدمتگاروں کی آفت آئی.“ (ملفوظات جلد نمبر 4 صفحہ 437 ایڈیشن 1988ء) 220

Page 221

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام آنحضرت صلی ال نیم کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کے نور کامل سے فیضیاب ہوئے پھر اسی نور کو آگے پھیلایا فرماتے ہیں کہ "اگر اللہ تعالیٰ کو تلاش کرنا ہے تو مسکینوں کے دل کے پاس تلاش کرو اسی لئے پیغمبروں نے مسکینی کا جامہ ہی پہن لیا تھا.اسی طرح چاہیئے کہ بڑی قوم کے لوگ چھوٹی قوم کو ہنسی نہ کریں اور نہ کوئی یہ کہے کہ میرا خاندان بڑا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم جو میرے پاس آؤ گے تو یہ سوال نہ کروں گا کہ تمہاری قوم کیا ہے.بلکہ سوال یہ ہو گا کہ تمہارا عمل کیا ہے.اسی طرح پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہے اپنی بیٹی سے کہ اے فاطمہ! خدا تعالیٰ ذات کو نہیں پوچھے گا اگر تم کوئی برا کام کرو گی تو خدا تعالیٰ اس واسطے در گزر نہ کرے گا کہ تم رسول کی بیٹی ہو.“ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 370) پھر آپ فرماتے ہیں: ”اہل تقویٰ کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ اپنی زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کریں.یہ تقویٰ کی ایک شاخ ہے جس کے ذریعہ سے ہمیں ناجائز غضب کا مقابلہ کرنا ہے.بڑے بڑے عارف اور صدیقوں کے لئے آخری اور کڑی منزل غضب سے بچنا ہی ہے.عُجب و پندار غضب سے پیدا ہوتا ہے اور ایسا ہی کبھی خود غضب عجب و پندار کا نتیجہ ہوتا ہے کیونکہ غضب اس وقت ہو گا جب انسان اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے.میں نہیں چاہتا کہ میری جماعت والے آپس میں ایک دوسرے کو چھوٹا یا بڑا سمجھیں یا ایک دوسرے پر غرور کریں یا نظر استخفاف سے دیکھیں.خدا جانتا ہے کہ بڑا کون ہے یا چھوٹا کون ہے.یہ ایک قسم کی تحقیر ہے جس کے اندر حقارت ہے.ڈر ہے کہ یہ حقارت بیچ کی طرح بڑھے اور اس کی ہلاکت کا باعث ہو جائے.بعض آدمی بڑوں کو مل کر بڑے ادب سے پیش آتے ہیں.لیکن بڑا وہ ہے جو مسکین کی بات کو مسکینی سے سنے اس کی دلجوئی کرے، اس کی بات کی عزت کرے.کوئی چڑ کی بات منہ پر نہ لاوے کہ جس سے دکھ پہنچے خدا تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَبِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيْمَنِ وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَأُولَبِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ (الحجرات: 12) تم ایک دوسرے کا چڑ کے نام نہ لو.یہ فعل فستاق وفجار کا ہے.جو شخص کسی کو چڑاتا ہے وہ نہ مرے گا جب تک وہ خود اسی طرح مبتلا نہ ہو گا.اپنے بھائیوں کو حقیر نہ سمجھو.جب ایک ہی چشمہ سے کل پانی پیتے ہو تو کون جانتا ہے کہ کس کی قسمت میں زیادہ پانی پینا ہے.مکرم و معظم کوئی دنیاوی اصولوں سے نہیں 221

Page 222

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام ہو سکتا.خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑا وہ ہے جو متقی ہے اِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (الحجرات: 14) (ملفوظات جلد اول صفحہ 22-23 رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء) جو خاک میں ملے اسے ملتا ہے آشنا اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما آنحضرت صلی لی ایم کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدمت گزاروں کا خیال رکھنے کے اعلیٰ معیار قائم فرمائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خادموں میں سے ایک پیرا پہاڑ یہ تھا.مزدور آدمی تھا جو پہاڑی علاقے سے آیا ہوا تھا.بالکل جاہل اور اجڈ آدمی تھا.لیکن بہت سی غلطیاں کرنے کے باوجود کبھی یہ نہیں ہوا کہ حضرت مسیح موعود نے کبھی اسے جھڑ کا ہو.ایک دفعہ یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اچانک بیمار ہو گئے گرمی کا موسم ہونے کے باوجود ایک دم ہاتھ پیر ٹھنڈے ہو گئے اور مسجد کی چھت پر ہی مغرب کی نماز کے بیٹھے ہوئے تھے تو اس وقت جو لوگ بیٹھے ہوئے تھے ان کو فوراً فکر ہوئی، تدبیریں ہونی شروع ہوئیں کہ کیا کرنا ہے.یہی جو پیرا تھا، ان کو بھی خبر پہنچی، وہ گارے مٹی کا کوئی کام کر رہے تھے، یہ کہتے ہیں کہ اسی حالت میں اندر آگئے اور یہ نہیں دیکھا کہ دری بچھی ہوئی ہے یا کیا ہے تو اسی فرش پہ نشان بھی پڑنے شروع ہو گئے اور آتے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاؤں دبانے شروع کر دیئے.تو لوگوں نے ذرا ان کو گھورنا شروع کیا، ڈانٹنا شروع کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ: ”اس کو کیا خبر ہے جو کرتا ہے کرنے دو کچھ حرج نہیں.“ (سیرت حضرت مسیح موعود مرتبہ حضرت یعقوب علی عرفانی صفحہ 350) حضرت مسیح موعود کے پرانے خادموں میں سے ایک حضرت حافظ حامد علی صاحب مرحوم تھے.وہ حضرت اقدس کی خدمت میں عرصہ دراز تک رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق اور برتاؤ کا حافظ صاحب سے کرتے تھے ان پر ایسا اثر تھا کہ وہ بارہا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے میں نے ایسا انسان کبھی دیکھا ہی نہیں.بلکہ زندگی بھر حضرت صاحب کے بعد کوئی انسان اخلاق کی اس شان کا نظر نہیں آتا تھا.حافظ صاحب کہتے تھے کہ: " مجھے ساری عمر کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہ جھڑ کا اور نہ سختی سے خطاب کیا.بلکہ میں بڑا 222

Page 223

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام ہی ست تھا اور اکثر آپ کے ارشادات کی تعمیل میں دیر کر دیا کرتا تھا.بائیں سفر میں مجھے ساتھ رکھتے“ (سیرت حضرت مسیح موعود مرتبہ حضرت یعقوب علی عرفانی صفحہ 349 - 350) حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی لکھتے ہیں کہ میں نے خود دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود حافظ حامد علی صاحب کو حاضر غائب اسی پورے نام سے پکارتے یا میاں حامد علی کہتے.(سیرت حضرت مسیح موعود مرتبہ حضرت یعقوب علی عرفانی صفحہ 338) حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی تحریر فرماتے ہیں: حافظ حامد علی کے ساتھ اس قسم کا برتاؤ اور معاملہ کرتے تھے جیسا کسی عزیز سے کیا جاتا ہے اور یہ بات حافظ حامد علی ہی پر موقوف نہ تھی حضرت کا ہر ایک خادم اپنی نسبت یہی سمجھتا تھا کہ مجھ سے زیادہ اور کوئی عزیز آپ کو نہیں.بہر حال حافظ حامد علی کو ایک دفعہ کچھ لفافے اور کارڈ آپ نے دیئے کہ ڈاک خانہ میں ڈال آؤ.حافظ حامد علی کا حافظہ کچھ ایسا ہی تھا.پس وہ کسی اور کام میں مصروف ہو گئے اور اپنے مفوّض کو بھول گئے.ایک ہفتہ کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی (جو اُن دنوں میں میاں محمود اور ہنوز بچہ ہی تھے) کچھ لفافے اور کارڈ لئے دوڑتے ہوئے آئے کہ اتا ہم نے کوڑے کے ڈھیر سے خط نکالے ہیں.آپ نے دیکھا تو وہی خطوط تھے جن میں سے بعض رجسٹرڈ خط بھی تھے اور آپ اُن کے جواب کے منتظر تھے.حامد علی کو بلوایا اور خط دکھا کر بڑی نرمی سے صرف اتنا کہا: ”حامد علی! تمہیں نسیان بہت ہو گیا ہے ذرا فکر سے کام کیا کرو.“ ضروری اور بہت ضروری خطوط جن کے جواب کا انتظار مگر خادم کی غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں اور بجائے ڈاک میں جانے کے وہ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر میں سے جا ملتے ہیں اس پر کوئی باز پرس کوئی سزا اور کوئی تنبیہ نہیں کی جاتی.(سیرت حضرت مسیح موعود صفحہ 109) حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیا لکوئی فرماتے ہیں، کہ ایک عورت نے اندر سے کچھ چاول چرائے، چور کا دل نہیں ہوتا اس لئے اس کے اعضاء میں غیر معمولی قسم کی بیتابی اور اس کا ادھر اُدھر دیکھنا بھی خاص وضع کا ہوتا ہے.کسی دوسرے تیز نظر نے تاڑ لیا اور پکڑ لیا.شور پڑ گیا.اس کی بغل سے کوئی پندرہ سیر کی گٹھڑی چاولوں کی نکلی ادھر سے ملامت اُدھر سے پھٹکار ہو رہی تھی جو حضرت کسی تقریب سے ادھر آنکلے پوچھنے پر کسی نے واقعہ کہہ سنایا.فرمایا: 223

Page 224

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام محتاج ہے کچھ تھوڑے سے اسے دے دو اور فضیحت نہ کرو اور اور خداتعالی کی ستاری کا شیوہ اختیار کرو.“ (سیرت حضرت مسیح موعود مصنفہ حضرت مولانا عبدالکریم سیا لکوئی صفحہ 25 حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی جلد اول صفحہ 101) خان صاحب اکبر خان صاحب نے بتایا کہ مسجد مبارک کی اوپر کی چھت پر سے حضرت اقدس کے مکان پر جانے کے لئے پہلے بھی اسی طرح ایک راستہ ہوتا تھا.ایک دفعہ میں لالٹین اٹھا کر حضرت اقدس کو راستہ دکھانے لگا.اتفاق سے لالٹین ہاتھ سے چھوٹ گئی لکڑی پر تیل پڑا اوپر سے نیچے تک آگ لگ گئی.میں بہت پریشان ہوا.بعض لوگ بھی کچھ بولنے لگے لیکن حضرت اقدس نے فرمایا: خیر ایسے واقعات ہو ہی جاتے ہیں.مکان بچ گیا.“ (سیرت حضرت مسیح موعود از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی جلد اول صفحہ 100) خان اکبر صاحب ہی بیان کرتے ہیں حضرت اقدس کا قاعدہ تھا کہ رات کو عموماً موم بتی جلا یا کرتے تھے اور بہت سی موم بتیاں اکٹھی روشن کر دیا کرتے تھے.جن دنوں میں میں آیا میری لڑکی بہت چھوٹی تھی ایک دفعہ حضرت اقدس کے کمرے میں بتی جلا کر رکھ آئی، اتفاق ایسا ہوا کہ وہ بتی گر پڑی اور تمام مسودات جل گئے علاوہ ازیں اور بھی چند چیزوں کا نقصان ہو گیا.تھوڑی دیر کے بعد جب معلوم ہوا کہ حضرت اقدس کے کئی مسودات ضائع ہو گئے ہیں.تو تمام گھر میں گھبراہٹ، میری بیوی اور لڑکی کو سخت پریشانی ہوئی کیوں کہ حضرت اقدس کتابوں کے مسودات بڑی احتیاط سے رکھا کرتے تھے لیکن جب حضور کو معلوم ہوا تو حضور نے اس واقعہ کو یہ کہہ کر رفت گزشت کر دیا کہ: ”خد اتعالیٰ کا بہت ہی شکر ادا کرنا چاہئے کہ کوئی اس سے زیادہ نقصان نہیں ہو گیا.“ (سیرت حضرت مسیح موعود از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی جلد اول صفحہ 99) ہم آنحضرت صلی نام اور حضرت اقدس مسیح موعود سے عشق کرتے ہیں.بڑے شوق سے ان کے واقعات بھی پڑھتے ہیں.اللہ کرے ہم اپنے ماتحتوں سے یا جن پر کچھ اختیار حاصل ہے سے حسنِ سلوک کے یہ انداز اپنا کر اپنے عشق کو اپنے عمل سے سچا کر دکھائیں.آمین اللهم آمین.(روزنامه الفضل آن لائن لندن 22 جولائی 2022ء) 224

Page 225

قسط 32 دعاؤں میں گداز اور گریہ و زاری ہر کہ عارف تراست ترساں تر حضرت محمد مصطفی ملی لی نام کا دعاؤں میں گداز اور گریہ و زاری کا اپنا ہی رنگ تھا.آپ اپنے رب کے سب سے زیادہ عاشق تھے.ذکر الہی آپ کی روحانی غذا تھی.لولاک لما خلقت الافلاک کا تاج سر پر تھا مگر پیشانی شکر گزاری میں خاک پر تھی رب کے محبوب تھے مگر ناز نہیں تھا عجز و نیاز تھا.آپ کی رفیق زندگی حضرت عائشہ فرماتی ہیں كَانَ يَذْكُرُ الله عَلى كُلِ حَالِ کہ حضور ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتے تھے ہر لمحہ ہر ساعت آپ یاد خدا میں ڈوبے رہتے تھے.عبد اور معبود کے درمیان دعا خاموشی اور رازداری سے کی جاتی ہے.لیکن جب دل گداز ہو، درد حد سے بڑھ جائے تو آنکھ سے آنسو گرتے ہیں جو دوسروں کو نظر آجاتے ہیں.سسکیاں بھی بے اختیار ہو جاتی ہیں.جس سے داعی کی کیفیت کھل جاتی ہے.ایسی ہی کچھ کیفیات درد و گداز اور انداز طلب چاہنے والوں کی نظر اور سماعت میں آیا اور انہوں نے روایت کرکے ہمارے لئے محفوظ کر لیا.جنگ بدر معرکہ اسلام و کفر تھا ظاہری طاقت کا کوئی موازنہ نہ تھا.مگر خدائے عظیم و برتر نے فتح کی بشارتیں دی تھیں صادق الوعد خدا پر حق الیقین ہونے کے باوجود ایک دل انتہائی عاجزی سے اپنے مالک کے در پر جھکا ہوا تھا.جب قریش مکہ نے عام حملہ کر دیا.اس وقت آنحضرت صل ل ل ا م نہایت رفت کی حالت میں خدا کے سامنے ہاتھ پھیلائے ہوئے دعائیں کر رہے تھے اور نہایت اضطراب کی حالت میں فرماتے تھے کہ : اللهُمَّ إِن أَهْلَكْتَ هَذِهِ الْعِصَابَةَ فَلَنْ تُعْبَدُ فِي الْأَرْضِ ابدااے میرے مالک ! اگر مسلمانوں کی یہ جماعت آج اس میدان میں ہلاک ہو گئی تو دنیا میں تجھے پوجنے والا کوئی نہیں رہے گا.(بخاری و مسلم) اس وقت آپ اتنے کرب کی حالت میں تھے کہ کبھی آپ سجدہ میں گر جاتے تھے اور کبھی کھڑے ہو کر خدا کو پکارتے تھے اور آپ کی چادر آپ کے کندھوں سے گر گر پڑتی تھی اور حضرت ابو بکر سے اٹھا اٹھا کر آپ پر ڈال دیتے تھے.حضرت علی کہتے ہیں کہ مجھے لڑتے ہوئے آنحضرت علی ایم کا خیال آتا تھا تو میں آپ کے سائبان کی طرف بھاگا جاتا تھا لیکن جب بھی میں گیا میں نے آپ کو سجدہ میں گڑ گڑاتے ہوئے پایا اور میں نے سنا کہ آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے.225

Page 226

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام یاحی یا قیوم ! یاحی یا قیوم ! یعنی اے میرے زندہ خدا! اے میرے زندگی بخش آقا! حضرت ابو بکر آپ کی اس حالت کو دیکھ کر بے چین ہوئے جاتے تھے اور کبھی کبھی بے ساختہ عرض کرتے تھے: یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں.آپ گھبرائیں نہیں.اللہ اپنے وعدے ضرور پورے کرے گا.مگر اس سچے مقولہ کے مطابق کہ ہر کہ عارف تر است ترساں تر آپ برابر دعا اور گریہ و زاری میں مصروف رہے.(سیرت خاتم النبیین صفحه 361) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس شدید گریہ وزاری کی وجہ جانتے تھے فرمایا کہ: ”بدر کی فتح کی پیش گوئی ہو چکی تھی، ہر طرح فتح کی امید تھی لیکن پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم رورو کر دعا مانگتے تھے.حضرت ابو بکر صدیق نے عرض کیا کہ جب ہر طرح فتح کا وعدہ ہے تو پھر ضرورت الحاح کیا ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ذات غنی ہے.یعنی ممکن ہے کہ وعدہ الہی میں کوئی مخفی شرائط ہوں.“ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 8 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ) قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے کہ مجھ سے دعائیں مانگو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا.خاص طور پر مضطر اور مظلوم کی دعا عرش کے پائے ہلا دیتی ہے.دعا میں دل کا درد بے ساختہ الفاظ میں ڈھلتا ہے تکلف اور لفاظی نہیں ہوتی.مانگنے کا بھی ایک سلیقہ ہوتا ہے.دعا کی اصل روح، اپنے خالق حقیقی کو قادر مطلق یقین کرتے ہوئے، اس پر کامل تو کل کرتے ہوئے اسی کی طرف جھکنا اور فریاد کرنا ہے.عاجزانہ اعتراف کم مائیگی کس طرح دل گداز الفاظ میں ڈھلتا ہے.بارگاہ ایزدی میں رسول اللہ عرض کرتے ہیں: اے خدا! تُو ہی میرا رب ہے.تیرے سوا کوئی قابل عبادت نہیں.تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں اور اپنی طاقت کے مطابق تیرے عہد اور وعدہ پر قائم ہوں.اپنے کاموں کے خراب پہلو سے تیری پناہ چاہتا ہوں.تیرے احسانوں کا معترف اور اپنی کوتاہیوں کا اقراری ہوں.تیرے سوا کوئی پردہ پوش نہیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کی یام کو یہ بھی خوشخبری دی تھی کہ آپ کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ معاف ہیں.لیکن کیا اس کے بعد آپ کی ال کلیم نے نمازیں پڑھنی یا استغفار کرنا یا دعائیں مانگنا بند کر دیا؟ ہر گز نہیں.تاریخ 226

Page 227

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام گواہ ہے کہ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک آپ صلی علی کرم نے دعاؤں کے دامن کو تھامے رکھا.حضرت عائشہ یہ روایت کرتی ہیں کہ: آپ کی یکم رات کو اس قدر لمبا قیام فرماتے تھے کہ اس کی وجہ سے آپ کے پاؤں سوج جایا کرتے تھے.کھڑے ہو کر جو نماز پڑھا کرتے تھے.اس پر میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ کیا آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ آپ کے سارے گناہ بخشے گئے ہیں.پہلے بھی اور بعد کے بھی تو اب بھی اتنا لمبا قیام فرماتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کیا میں خدا کا عبد شکور نہ بنوں جس نے مجھ پر اتنا احسان کیا ہے.کیا میں اس کا شکریہ ادا کرنے کے لئے نہ کھڑا ہوا کروں.( بخاری کتاب التفسير - سورة الفتح باب قوله ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبك وما تأخر ) حضرت عائشہ ہی سے روایت ہے کہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات میرے پاس تشریف لائے اور بستر پر لیٹ گئے.پھر آپ نے فرمایا اے عائشہ! کیا آج کی رات تو مجھے اجازت دیتی ہے کہ اپنے رب کی عبادت کر لوں.میں نے کہا خدا کی قسم! مجھے تو آپ کی خواہش کا احترام ہے اور آپ کا قرب پسند ہے.میری طرف سے آپ کو اجازت ہے.تب آپ اٹھے.مشکیزہ سے وضو کیا اور نماز کے لئے کھڑے ہوئے اور نماز پڑھنی شروع کی اور اس قدر روئے کہ آنسو آپ کے سینے پر گرنے لگے اور نماز کے بعد دائیں طرف ٹیک لگا کر اس طرح بیٹھ گئے کہ آپ کا دایاں ہاتھ آپ کی دائیں رخسار کے نیچے تھا.پھر رونا شروع کر دیا یہاں تک کہ آپ کے آنسو زمین پر ٹپکنے لگے.فجر کی نماز کے وقت حضرت بلال بلانے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے آپ کو اس طرح گریہ وزاری کرتے ہوئے دیکھا تو کہنے لگے کہ یا رسول اللہ ! آپ اتنا کیوں روتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ آپ کے گزشتہ اور آئندہ ہونے والے سارے گناہ بخش چکا ہے.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں اور میں کیوں نہ روؤں کہ آج رات میرے رب نے یہ آیات نازل کی ہیں.وہ آیات ہیں آل عمران کی إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَايَتِ لِأُولِي الْأَلْبَابِ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيِّمًا وَقُعُوْدًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ) (آل عمران: 191-192) یعنی یقیناً آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں، رات اور دن کے ادلنے بدلنے میں صاحب عقل لو گوں کے لئے نشانیاں ہیں.وہ لوگ جو اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے ہوئے بھی اور بیٹھے ہوئے بھی اور اپنے پہلوؤں کے بل بھی 227

Page 228

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور و فکر کرتے رہتے ہیں.(اور بے ساختہ کہتے ہیں) اے ہمارے ربّ! تو نے ہر گز یہ بے مقصد پیدا نہیں کیا.پاک ہے تو.پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے ہم آنحضرت علی ایم کے ساتھ مکہ سے مدینہ واپس لوٹ رہے تھے جب ہم عَزوَراء مقام پر پہنچے تو آنحضور نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور کچھ دیر دعا کی.پھر حضور سجدہ میں گر گئے اور بڑی دیر تک سجدہ میں رہے پھر کھڑے ہوئے اور ہاتھ اٹھا کر دعا کی.پھر سجدہ میں گر گئے.آپ نے تین دفعہ ایسا کیا.پھر آپؐ نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے دعامانگی تھی اور اپنی امت کیلئے شفاعت کی تھی تو اللہ تعالیٰ نے میری امت کی ایک تہائی کی شفاعت کی اجازت دے دی.میں اپنے رب کا شکرانہ بجالانے کیلئے سجدہ میں گر گیا اور سر اٹھا کر پھر اپنے رب سے امت کیلئے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے مزید ایک تہائی امت کی شفاعت کی اجازت فرمائی.پھر میں شکرانہ کا سجدہ بجا لایا.پھر سر اٹھایا اور امت کیلئے اپنے رب سے دعا کی.تب اللہ تعالیٰ نے میری امت کی تیسری تہائی کی بھی شفاعت کیلئے مجھے اجازت عطا فرما دی اور میں اپنے رب کے حضور سجدہ شکر بجا لانے کے لئے گر گیا.حضرت عبد الرحمن بن عوف روایت کرتے ہیں کہ: (ابوداؤ د كتاب الجهاد باب في سجود الشكر ) آنحضرت صلی علیم ایک دن مسجد میں تشریف لائے اور قبلہ رُو ہو کر سجدے میں چلے گئے.بہت لمبا سجدہ کیا.اتنا لمبا کہ میں آپ کو دیکھ کر پریشان ہو گیا.بلکہ یہاں تک میری پریشانی بڑھی کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح قبض کر لی ہے.اس پریشانی کی حالت میں میں آپ کے قریب پہنچا تو آپ سجدہ سے اٹھ بیٹھے.آپ نے فرمایا کہ کون ہے؟ میں نے عرض کی یا رسول اللہ ! میں عبدالرحمن ہوں.پھر میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! آپ کا یہ سجدہ اتنا زیادہ لمبا ہو گیا تھا کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں آپ کی روح تو قبض نہیں ہو گئی.آپ نے فرمایا کہ میرے پاس جبریل آئے تھے اور یہ خوشخبری دی تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کے حق میں فرماتا ہے کہ جو آپ پر درود بھیجے گا اس پر میں رحمتیں نازل کروں گا اور جو سلامتی بھیجے گا اس پر میں سلامتی نازل کروں گا.اس بات پر میں سجدہ شکر بجالا رہا تھا اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کر رہا تھا.(مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 512-513 حدیث نمبر : 1664 مسند عبدالرحمن بن عوف مطبوعہ بیروت ایڈیشن 1998ء) 228

Page 229

آپ کی اندھیری راتوں کی دعاؤں کے بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الہی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں ایک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا.کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچادیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس اُقی بے کس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں.اللهم صل وسلم وبارك عليه و اله بعد دهمه و غمه و حزنه لهذه الامة وانزل عليه انوار رحمتك الى الابد.بركات الدعاء روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 10 - 11) حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جس کے لئے باب الدعا کھولا گیا تو گویا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دیئے گئے اور اللہ تعالیٰ سے جو چیزیں مانگی جاتی ہیں ان میں سے سب سے زیادہ اس سے عافیت مطلوب کرنا محبوب ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دعا اس ابتلا کے مقابلے پر جو آچکا ہے اور اس کے مقابلہ پر بھی جو ابھی نہ آیا ہو، نفع دیتی ہے.اے اللہ کے بندو! تم پر لازم ہے کہ تم دعا کرنے کو اختیار کرو.(ترمذی کتاب الدعوات باب ما جاء في عقد التسبيح بالله ) اس رحمت عالم کا انسانیت پر بڑا احسان ہے کہ بندے کو رب سے براہ راست دعا مانگنے کے آداب و الفاظ سکھا دئے.دعا کا طریق سکھایا کہ دعا حمد و ثنا اور درود شریف سے شروع کی جائے.اس بات کا یقین ہو کہ اللہ قادر مطلق ہے حضور قلب سے کی جائے دعا کے ساتھ صدقہ بھی دیں رزق حلال کھائیں.یقین کامل ہو کہ دعا سنی جائے گی اور.صبر سے دعا جاری رکھیں.اپنی ساری دعاؤں سے رہتی دنیا تک استفادہ کے لئے ایک جامع دعا سکھائی: اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَعَدَكَ مِنْهُ نَبِيَّكَ مُحَمَّد ، ونعوذ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا اسْتَعَاذَ مِنْهُ نَبِيُّكَ مُحَمَّد وَانْتَ 229

Page 230

الْمُسْتَعَانُ وَعَلَيْكَ الْبَلَاغُ ( ترمذی کتاب الدعوات ) اے اللہ ! ہم تجھ سے وہ تمام خیر و بھلائی مانگتے ہیں جو تیرے نبی صلی علی رام نے تجھ سے مانگی اور ہم تجھ سے ان باتوں سے پناہ چاہتے ہیں جن سے تیرے نبی محمدعلی ایم نے پناہ چاہی.تو ہی ہے جس سے مدد چاہی جاتی ہے.پس تیرے تک دعا کا پہنچانا لازم ہے.اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ السلام بھی اپنے آقا و مطاع کی اتباع میں انتہائی عاجزی سے دعائیں کرتے.آپ کو بھی ماموریت کے ساتھ خدا تعالیٰ نے کامیابی کے وعدے دئے تھے مگر ان وعدوں نے آپ کو مانگنے سے بے نیاز نہیں کیا.وہی سوزو گداز وہی اضطرار وہی پروردگار کے مجیب ہونے پر حق الیقین وہی عاجزی اور انکساری وہی خود کو آستانہ الوہیت پر گرا دینا.آپ کا اوڑھنا بچھونا تھا.آپ فرماتے ہیں: دعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں.خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہو گا دعا ہی کے ذریعہ سے ہو گا“ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 36 ایڈیشن 1988ء) ”میں اپنے ذاتی تجربہ سے بھی دیکھ رہا ہوں کہ دعاؤں کی تاثیر آب و آتش کی تاثیر سے بڑھ کر ہے بلکہ اسباب طبعیہ کے سلسلہ میں کوئی چیز ایسی عظیم التاثیر نہیں جیسی کہ دعا ہے.“ آپ کو یہ یقین کامل تھا کہ: (بركات الدعاء روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 11) دعا ایسی چیز ہے کہ خشک لکڑی کو بھی سر سبز کر سکتی ہے اور مردہ کو زندہ کر سکتی ہے اس میں بڑی تاثیریں ہیں.66 230 ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 100)

Page 231

”خدا نے مجھے دعاؤں میں وہ جوش دیا ہے جیسے سمندر میں ایک جوش ہوتا ہے“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 127) الفاظ کا چناؤ پچھلے ہوئے دل کا غماز ہے اور رحمت کو جوش میں لاتا ہے آپ اس کی اہمیت سے خوب واقف تھے فرماتے ہیں: دعا کے لئے رقت والے الفاظ تلاش کرنے چاہئیں.یہ مناسب نہیں کہ انسان مسنون دعاؤں کے ایسا پیچھے پڑے کہ ان کو جنتر منتر کی طرح پڑھتا رہے اور حقیقت کو نہ پہچانے اپنی زبان میں جس کو تم خوب سمجھتے ہو، دعا کرو تا کہ دعا میں جوش پیدا ہو“ ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 538) حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب آپ کی دعا کا طریق بیان فرماتے ہیں کہ: جب حضرت صاحب مجلس میں بیعت کے بعد یا کسی کی درخواست پر دعا فرمایا کرتے تھے تو آپ کے دونوں ہاتھ منہ کے نہایت قریب ہوتے تھے اور پیشانی اور چہرہ مبارک ہاتھوں سے ڈھک جاتا تھا اور آپ آلتی پالتی مار کر دعا نہیں کیا کرتے تھے بلکہ دوزانو ہو کر دعا فرماتے تھے.اگر دوسری طرح بھی بیٹھے ہوں تب بھی دعا کے وقت دوزانو ہو جایا کرتے تھے.یہ دعا کے وقت حضور کا ادب الہی تھا.(سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ 161 روایت نمبر 736) حضرت مولانا مولوی عبدالکریم نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ بیت الدعا کے اوپر میرا حجرہ تھا اور میں اُسے بطرز بيت الدعا استعمال کیا کرتا تھا.اس میں سے حضرت مسیح موعود کی حالت دُعا میں گریہ و زاری کو سنتا تھا.آپ کی آواز میں اس قدر درد اور سوزش تھی کہ سننے والے کا پتہ پانی ہوتا تھ اور آپ اس طرح پر آستانہ الہی پر گریہ و زاری کرتے تھے جیسے کوئی عورت دردزہ سے بیقرار ہو.وہ فرماتے تھے کہ میں نے غور سے سنا تو آپ مخلوقِ الہی کے لئے طاعون کے عذاب سے نجات کے لئے دُعا کرتے تھے کہ الہی اگر یہ لوگ طاعون کے عذاب سے ہلاک ہو جائیں گے تو پھر تیری عبادت کون کرے گا.یہ خلاصہ اور مفہوم حضرت مولانا سیا لکوٹی صاحب کی روایت کا ہے.اس سے پایا جاتا ہے کہ باوجود یکہ طاعون کا عذاب حضرت مسیح موعود کی تکذیب اور انکار ہی کے باعث آیا مگر آپ مخلوق کی ہدایت اور ہمدردی کے لئے اس قدر حریص تھے کہ اس عذاب کے اُٹھائے جانے کے لئے باوجود یکہ دشمنوں اور مخالفوں کی ایک جماعت موجود 231

Page 232

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام تھی.رات کی سُنسان اور تاریک گہرائیوں میں رو رو کر دعائیں کرتے تھے.ایسے وقت میں جبکہ مخلوق اپنے آرام میں سوئی ہے یہ جاگتے تھے اور روتے تھے.القصہ آپ کی یہ ہمدردی اور شفقت علی خلق اللہ اپنے رنگ میں بے نظیر تھی.(سيرة مسیح موعود صفحه 428) حضرت مفتی محمد صادق صاحب فرمایا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں میں ہمیشہ ی کوشش کرتا تھا کہ ہر مجلس میں اور ہر موقع پر حضرت صاحب کے قریب ہو کر بیٹھوں.بعض دفعہ کوئی دوست حضرت مسیح موعود کی خدمت میں دعا کی تحریک کرتے اور حضور اس مجلس میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے تو میں بہت قریب ہو کر یہ سننے کی کوشش کرتا کہ حضور کیا الفاظ منہ سے نکال رہے ہیں.بار بار کے تجربہ سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود ہر دعا میں سب سے پہلے سورہ فاتحہ ضرور پڑھتے تھے اور بعد میں کوئی اور دعا کرتے تھے.“ (سيرة مسیح موعود از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صفحہ 521) حضرت اقدس کی درد دل سے مانگی کچھ دعائیں پڑھئے.ے ہمارے رب! ہمیں ہمارے گناہ بخش دے اور ہماری آزمائشیں اور تکالیف دور کر دے اور ہمارے دلوں کو ہر قسم کے غم سے نجات دے دے اور ہمارے کاموں کی کفالت فرما اور اے ہمارے محبوب! ہم جہاں بھی ہوں ہمارے ساتھ ہو اور ہمارے ننگوں کو ڈھانپے رکھ اور ہمارے خطرات کو امن میں تبدیل کر دے.ہم نے تجھی پر بھروسہ کیا ہے اور اپنا معاملہ تیرے سپرد کر دیا ہے.دنیا و آخرت میں تو ہی ہمارا آقا ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے.“ (ترجمه از عربی عبارت تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 182) آپ اپنے دور کے علماء کے بارے میں دعا کر تے ہیں کہ: ے میرے رب! اے میرے رب! میری قوم کے بارہ میں میری دعا اور میرے بھائیوں کے بارہ میں میرے تضرعات کو سن.میں تیرے نبی خاتم النبیین و شفیع المذنبین کا واسطہ دے کر عرض کرتا ہوں.اے میرے رب! انہیں ظلمات سے اپنے نور کی طرف نکال اور دوریوں کے صحراء سے اپنے حضور میں لے آ.اے میرے رب! ان لوگوں پر رحم کر جو مجھ پر لعنت ڈالتے ہیں اور اپنی ہلاکت سے اس قوم کو 232

Page 233

بچا جو میرے دونوں ہاتھ کاٹنا چاہتے ہیں.ان کے دلوں کی جڑوں میں ہدایت داخل فرما.ان کی خطاؤں اور گناہوں سے در گزر فرما.انہیں بخش دے اور انہیں معاف فرما.ان سے صلح فرما.انہیں پاک و صاف کر اور انہیں ایسی آنکھیں دے جن سے وہ دیکھ سکیں اور ایسے کان دے جن سے وہ سن سکیں اور ایسے دل دے جن سے وہ سمجھ سکیں اور ایسے انوار عطا فرما جن سے وہ پہچان سکیں اور ان پر رحم فرما اور جو کچھ وہ کہتے ہیں اس سے در گزر فرما کیو نکہ یہ ایسی قوم ہیں جو جانتے نہیں.اے میرے رب! مصطفی صلی علیم کے منہ اور ان کے بلند درجات اور راتوں کے اوقات میں قیام کرنے والے مومنین اور دوپہر کی روشنی میں غزوات میں شریک ہونے والے نمازیوں اور جنگوں میں تیری خاطر سوار ہونے والے مجاہدین اور ام القری مکہ مکرمہ کی طرف سفر کرنے والے قافلوں کا واسطہ! تو ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے درمیان صلح کروا.تو ان کی آنکھیں کھول دے اور ان کے دلوں کو منور فرما.انہیں وہ کچھ سمجھا جو تو نے مجھے سمجھایا ہے اور ان کو تقویٰ کی راہوں کا علم عطا کر.جو کچھ گزر چکا وہ معاف فرما اور آخر میں ہماری دعا یہ ہے کہ تمام تعریفیں بلند آسمانوں کے پروردگار کے لئے ہی ہیں.اے رب العالمین میری دعا قبول فرما.“ (ترجمه از عربی عبارت آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 22، 23) ”سب سے عمدہ دعا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی اور گناہوں سے نجات حاصل ہو کیو نکہ گناہوں ہی سے دل سخت ہو جاتا اور انسان دنیا کا کیڑا بن جاتا ہے.ہماری دعا یہ ہونی چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہم سے گناہوں کو جو دل کو سخت کر دیتے ہیں دور کر دے اور اپنی رضا مندی کی راہ دکھلائے.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 30) ”اے رب العالمین! تیرے احسانوں کا میں شکر نہیں کر سکتا.تو نہایت ہی رحیم و کریم ہے اور تیرے بے غایت مجھ پر احسان ہیں.میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جاؤں.میرے دل میں اپنی خاص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تو راضی ہو جائے.میں تیرے وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وار د ہو.رحم فرما اور دنیا اور آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے.آمین ثم آمین.“ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر 4 صفحہ 5) ے میرے محسن! اے میرے خدا! میں ایک تیرا ناکارہ بندہ پر معصیت اور پر غفلت ہوں.تونے مجھ سے ظلم دیکھا اور انعام پر انعام کیا اور گناہ پر گناہ دیکھا اور احسان پر احسان کیا.تو نے ہمیشہ میری پردہ ظلم : 233

Page 234

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام پوشی کی اور اپنی بے شمار نعمتوں سے مجھے متمتع کیا.سو اب بھی مجھے نالائق اور پر گناہ پر رحم کر اور میری بے باکی اور ناسپاسی کو معاف فرما اور مجھ کو میرے اس گناہ سے نجات بخش کہ بغیر تیرے کوئی چارہ گر نہیں.آمین ثم آمین.“ مکتوبات احمدیہ جلد 5 نمبر 2 صفحہ 3) ”اے خدا تعالیٰ قادر و ذوالجلال! میں گناہ گار ہوں اور اس قدر گناہ کے زہر نے میرے دل اور رگ وریشہ میں اثر کیا ہے کہ مجھے رقت اور حضور نماز حاصل نہیں تو اپنے فضل و کرم سے میرے گناہ بخش اور میری تقصیرات معاف کر اور میرے دل کو نرم کر دے اور میرے دل میں اپنی عظمت اور اپنا خوف اور اپنی محبت بٹھا دے تا کہ اس کے ذریعہ سے میری سخت دلی دور ہو کر حضور نماز میں میسر آوے.“ (فتاوی مسیح موعود صفحه 7 مطبوعہ 1935ء) خانہ کعبہ میں آپ کی طرف سے دعا کرنے کے لئے دل گداز الفاظ ے ارحم الراحمین! ایک تیرا بندہ عاجز و ناکارہ پر خطا اور نالائق غلام احمد جو تیری زمین ملک ہند میں ہے.اس کی یہ مایہ عرض ہے کہ اے ارحم الراحمین! تو مجھ سے راضی ہو اور میرے خطیبات اور گناہوں کو بخش کہ تو غفور اور رحیم ہے اور مجھ سے وہ کرا جس سے تو بہت ہی راضی ہو جائے.مجھ میں اور میرے نفس میں مشرق اور مغرب کی دوری ڈال اور میری زندگی اور موت اور میری ہر ایک قوت جو مجھے حاصل ہے اپنی ہی راہ میں کر اور اپنی ہی محبت میں مجھے زندہ رکھ اور اپنی ہی محبت میں مجھے مار اور اپنے ہی کامل محبین میں اٹھا“ خدا تعالیٰ نے خود آپ کو کچھ دعائیں سکھائیں: مکتوبات احمد یہ جلد 5 صفحہ 17 - 18) رَبِّ كُلِّ شَى خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنِي وَانْصُرْنِي وَارْحَمنِی یعنی اے میرے رب! پس مجھے محفوظ رکھ اور میری مدد فرما اور مجھ پر رحم فرما.اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ اسم اعظم ہے اور یہ وہ کلمات ہیں کہ جواسے پڑھے گا ہر ایک آفت سے نجات ہو گی.“ ( تذکره صفحه 442 - 443) 234

Page 235

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمَ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 208) یا حفیظ یا عزیز یا رفیق“.یعنی اے حفاظت کرنے والے! اے عزت والے اور غالب! اے دوست اور ساتھی! فرمایا ”رفیق خدا تعالیٰ کا نیا نام ہے جو کہ اس سے پیشتر اسمائے باری تعالیٰ میں کبھی نہیں آیا.“ (البدر جلد 2 نمبر 53 صفحہ 28 مورخہ 18 ستمبر 1903ء) آپ کی اولاد کے لئے الہی بشارتیں موجود تھیں لیکن اس نے آپ کو دعاؤں سے بے نیاز نہیں کیا تھا.آپ کی نظم نثر میں درد مندی سے اولاد کے لئے دعائیں موجود ہیں: مرے مولیٰ مری اک دعا ہے تری درگاہ میں عجز و بکا ہے وہ دے مجھ کو جو اس دل میں بھرا ہے زباں چلتی نہیں شرم و حیاء ہے مری اولاد جو تیری عطا ہے اک کو ہر دیکھ لوں وہ پارسا ہے تری قدرت کے آگے روک کیا ہے وہ سب دے ان کو جو مجھ کو دیا ہے گناہوں کی بخشش کی منظوم دعا اے خداوند من گنا ہم بخش سوئے درگاه خویش را هم بخش روشنی بخش در دل و جانم پاک کن از گناه پنهانم (در ثمین اردو) 235

Page 236

دلستانی , دلربائی کن به نگا ہے گرہ کشائی کن در دو عالم مرا عزیز توئی و آنچه میخواهم از تو نیز توئی (در شمین فارسی) ترجمہ: اے میرے اللہ ! میرے گناہ بخش اور اپنی درگاہ کی طرف میری رہنمائی فرما.میرے دل و جان کو روشنی عطا کر اور مجھے اپنے مخفی گناہوں سے پاک کر دے.میرے ساتھ محبت اور پیار کا سلوک فرما اور اپنی نگاہ کرم کے ساتھ سب عقدے کھول دے.دونوں جہاں میں تو ہی مجھے پیارا ہے اور میں تجھ سے صرف تجھے ہی مانگتا ہوں.روزنامه الفضل آن لائن لندن 12 اگست 2022ء) 236

Page 237

قسط 33 دعوی سے پہلے کی پاکیزہ زندگی اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ) (یونس: 17) ترجمہ: اس سے پہلے میں ایک عرصہ دراز تم میں گزار چکا ہوں.کیا پھر (بھی) تم عقل سے کام نہیں لیتے.نبوت سے پہلے کی زندگی کو اللہ تعالیٰ نے نبی کی صداقت کا ایک نشان قرار دیا ہے.اس اصول کو سامنے رکھتے ہوئے سیرت نبوی کا مطالعہ کرتے ہیں.عبد المطلب نے حضرت آمنہ کے چاند کا نام محمد صلی علی نام رکھا.جس کا مطلب ہے نہایت ہی تعریف کیا گیا، تعریف و تحسین کے قابل اور آپ کی پاکیزہ زندگی کا ہر لمحہ قابل تعریف ہے.بہت چھوٹی عمر سے آپ کی حسین صفات اپنی طرف متوجہ کر لیتیں.حلیمہ سعدیہ کے آنگن کو بر کتوں سے بھر نے والا یہ بچہ فرشتوں کے سینہ چاک کر کے دل دھونے والے کشفی واقعہ سے غیر معمولی تصور ہونے لگا.دادا کا لاڈلا ہوتا، چچا کا پسندیدہ بھتیجا سب کو پیارا لگتا.کیو نکہ اس کی عادتیں دل لبھانے والی تھیں.اللہ پاک اپنے محمد کی خود تربیت فرما رہا تھا.بچپن کا ایک واقعہ خود آپ کی زبانی سنئے: میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا اور سب بچے کھیل کے واسطے پتھر اٹھا رہے تھے جیسا کہ بچوں کا قاعدہ ہے انہوں نے اپنے تہبند کھول کر کندھوں پر رکھ لئے تھے تا کہ ان پر پتھر ڈھو ڈھو کر لائیں میں نے بھی چاہا کہ میں بھی اپنا تہبند اپنے کندھوں پر رکھ کر پتھر اٹھاؤں کہ غیب سے ایک طمانچہ میرے لگا جس سے مجھ کو نہایت صدمہ پہنچا اور غیب سے آواز آئی کہ اپنے تہبند کو مضبوط باندھ لو پس میں نے اس کو مضبوط باندھ لیا اور گردن پر پتھر اٹھانے لگا حالا نکہ میرے سب ساتھی اسی طرح پتھر اٹھا رہے تھے اور ان میں فقط ایک میں ہی تہبند باندھے ہوئے تھا.“ (ابن ہشام صفحہ 119) مکہ میں رہتے ہوئے جبکہ سارا ماحول بت پرست تھا آپ کو بتوں کی پوجا پسند نہ تھی جاہلانہ رسوم و رواج سے نفرت کرتے تھے.وہاں شام کے وقت راگ رنگ، قصہ گوئی اور کھیل کود کی محفلیں سجتی تھیں.237

Page 238

.جس میں سب دلچسپی سے شریک ہوتے مگر آپ کو اللہ تعالیٰ نے ان میں شمولیت سے روکے رکھا نہ بتوں کی پوجا کی نہ شراب پی نہ بے کار لہو و لعب میں شریک ہوئے خود فرماتے ہیں: ”مجھے جوانی میں کبھی عیش پرستی اور بد کاری کی ہمت نہیں پڑی بلکہ میرے رب نے مجھے ان تمام برائیوں سے ہمیشہ محفوظ رکھا جو جاہلیت کے زمانہ میں مکہ کے نوجوانوں میں عام تھیں.“ (بیہقی) بارہ سال کے تھے جب آپ کے چا ابو طالب شام کے سفر میں آپ کو ساتھ لے گئے راستے میں جر جیں بحیرہ ایک پادری نے آپ صلی ایم کو دیکھا کے جدھر بھی جاتے ہیں سر پر بادل سایہ کرتے ہیں.اس نے ابو طالب کو بتایا کہ یہ بچہ مکہ والوں کا سردار ہو گا اللہ تعالیٰ انہیں رحمت عالم بنا کر بھیجے گا.تم لوگ اس طرف آ رہے تھے تو کوئی بھی درخت یا پتھر ایسا نہیں تھا جو انہیں سجدہ کرنے کے لئے نہ جھکا ہو.یہ چیزیں نبی کے علاوہ کسی اور کو سجدہ نہیں کرتیں اور میں انہیں مہر نبوت سے بھی پہچان گیاہوں اور ان کی صفات ہماری آسمانی کتب ( تورات اور انجیل) میں بھی موجود ہیں.(خلاصه ترندی عن ابی موسی) آپ صلی علی ایم کی عمر مبارک ہیں سال ہوئی تو ذوالقعدہ کے مہینہ میں عکاظ (مقام) میں ایک جنگ ہوئی اس کو جنگ فجار کہتے ہیں کیونکہ یہ حرمت والے مہینے میں ہوئی تھی اس جنگ کے فوراً بعد ذو القعدہ کے مہینہ میں ہی قریش کے پانچ قبائل کے درمیان ایک امن معاہدہ طے پایا جسے حلف الفضول کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.آپ صلی علیم بھی اس معاہدے میں شامل ہوئے جس میں طے پایا کہ ہر مظلوم کی مدد کی جائے گی اور ظالم کو سزا دی جائے گی.رسول اکرم صلی علی ایم نے فرمایا: ”میں عبد اللہ بن جدعان کے مکان میں ایک ایسے معاہدہ (حلف الفضول) میں شریک ہوا کہ مجھے اس کے بدلہ میں سرخ اونٹ (قیمتی سے قیمتی چیز ) بھی پسند نہیں اور اگر دور اسلام میں بھی مجھے ایسے معاہدہ کے لئے بلایا جائے تو میں یقینا اسے قبول کروں گا.“ (بیہقى عن جبير بن مطعم) اہل مکہ کو آپ کی صداقت و امانت پر کو گواہ بنانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کیا خوب انتظام فرمایا.ابتدائے جوانی کی بات ہے تعمیر کعبہ کے وقت حجر اسود کی تنصیب کے لئے قبائل کا باہم اختلاف ہوا اور نوبت جنگ و جدال تک پہنچنے لگی چار پانچ دن تک کوئی حل نظر نہیں آ رہا تھا.پھر ان میں سے ایک عقلمند شخص نے مشورہ دیا کہ اختلاف کرنے کی ضرورت نہیں ہے یہ فیصلہ کر لو کہ جو شخص کل سب سے پہلے بیت اللہ 238

Page 239

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام میں آئے گا وہ فیصلہ کر دے.اس بات پر سارے راضی ہو جاؤ.چنانچہ سب نے یہ تجویز مان لی اور اگلے روز منتظر لوگوں نے دیکھا کہ بیت اللہ میں سب سے پہلے محمد صلی علی کرم داخل ہوئے.اطمینان کی لہر دوڑ گئی بیک زبان سب نے کہا هذ الامین یہ تو امین ہے.ہم خوش ہو گئے یہ محمد ہیں.آپ کی امانت اور دیانت اور صداقت کے گواہوں کے سامنے اللہ تعالیٰ نے آپ کی ایک اور خوبی کھول کر دکھادی کہ آپ دانا بھی ہیں صحیح فیصلے کی صلاحیت رکھتے ہیں.قریش نے حجر اسود کا جھگڑا بتایا.آپ نے ایک چادر منگوائی اس پر حجر اسود رکھ دیا.پھر ہر قبیلہ کو اس کا ایک ایک کونہ پکڑ کر اٹھانے کو کہا جب وہ حجر اسود جہاں رکھنا تھا اپنی اس جگہ پر پہنچ گیا تو آپ نے اسے اٹھا کر اپنے ہاتھ سے اس کی جگہ پر نصب فرما دیا.استفاده از السيرة النبوية لابن هشام حديث بنيان الكعبة...اشارة ابي امية بتحکیم اول داخل فكان رسول الله ) عین شباب کی عمر ہے والدین کا سایہ نہیں ہے صحت مند اور حسین ہیں.مگر حسن اخلاق کی وہ چمک ہے کہ جو دیکھتا ہے متاثر ہوئے بنا نہیں رہتا.مکہ کی متمول خاتون حضرت خدیجہ نے آنحضور صلی علیم کی صدق بیانی اور امانت داری اور اعلیٰ اخلاق کا حال سن کر اپنا مال آپ کو دے کر تجارت کے لئے آپ کو روانہ کیا.اس سفر میں حضرت خدیجہ کے غلام میسرہ بھی آپ کے ساتھ تھے.واپسی پہ میسرہ نے سفر کے حالات بیان کئے تو حضرت خدیجہ نے ان سے متاثر ہو کر آنحضور صلی ایم کو شادی کا پیغام بھجوایا.کہ آپ قرابت داری کا خیال رکھتے ہیں، قوم میں معزز ہیں، امانتدار ہیں اور احسن اخلاق کے مالک ہیں اور بات کہنے میں سچے ہیں.( السيرة النبوية لابن هشام حديث تزويج رسول الله على خديجة رضی الله عنها) مرد کے اخلاق کی سب سے بڑی گواہ اس کی بیوی ہوتی ہے نزول وحی کی ابتدا تھی حضرت خدیجہ کو آپ کے ساتھ رہتے ہوئے پندرہ سال ہو گئے تھے.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ آپ صلی این یکم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے وحی کے وقت اپنی پریشانی کا ذکر کیا.تو انہوں نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے کہا: "لا أَبْشِهُ فَوَاللَّهِ لاَ يُخْزِيكَ اللهُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ “ یعنی ویسے نہیں جیسے آپ سوچ رہے ہیں، آپ کو مبارک ہو.اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا.آپ صلہ رحمی کرتے ہیں اور راست گوئی اور سچائی سے کام لیتے ہیں.(بخاری کتاب التعبیر باب اول ما بدئ به رسول الله من الوحى الرؤيا الصالحة ) بیوی کے بعد بے تکلف دوست ہوتے ہیں جن سے انسان کی کوئی بات نہیں چھپتی.حضرت ابو بکر جن کے 239

Page 240

الله سة ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام ساتھ بچپن سے کھیلے پلے بڑھے یعنی حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کے دوست ہمیشہ ہر حالت میں سچ کہتے اور سچ کی تلقین کرتے ہیں.کبھی جھوٹ بول ہی نہیں سکتے یہی وجہ تھی کہ جب آپ کے دعوئی کے بارے میں سنا تو آپ کے اصرار کے باوجود کوئی دلیل نہیں چاہی.آپ نے آنحضرت صلی للی نام سے صرف یہی پوچھا کہ کیا آپ نے دعویٰ کیا ہے؟ آنحضرت صلی تعلیم نے وضاحت کرنی چاہی تو ہر بار یہی عرض کی کہ مجھے صرف ہاں یا نہ میں بتا دیں اور آنحضور ملی ایم کے ہاں کہنے پر عرض کیا کہ میرے سامنے تو آپ کی ساری سابقہ زندگی پڑی ہوئی ہے.میں کس طرح کہہ سکتا ہوں کہ بندوں سے تو سچ بولنے والا ہو اور اس کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والا ہو اور خدا پر جھوٹ بولے.الله دلائل النبوة للبيهقى جماع ابواب المبعث باب من تقدم اسلامه من الصحابة...) دشمن کی گواہی اس لحاظ اہم ہوتی ہے کہ وہ تو وار کرنے کے لئے گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں.مگر آپ صلی میری کمی کا کردار اس قدر شفاف تھا کہ اس پر داغ لگانا مشکل تھا.ایک مرتبہ سر داران قریش جمع ہوئے جن میں ابو جہل اور اشد ترین دشمن نضر بن حارث بھی شامل تھے.تو حضور صلی ا کریم کے بارے میں جب کسی نے یہ کہا کہ انہیں جادو گر مشہور کر دیا جائے یا جھوٹا قرار دے دیا جائے تو نضر بن حارث کھڑا ہوا اور کہنے لگا.اے گروہ قریش! ایک ایسا معاملہ تمہارے پلے پڑا ہے جس کے مقابلے کے لئے تم کوئی تدبیر بھی نہیں لا سکے.محمد ال ل ل لم تم میں ایک نوجوان لڑکے تھے اور تمہیں سب سے زیادہ محبوب تھے.سب سے زیادہ سچ بولنے والے تھے.تم میں سب سے زیادہ امانتدار تھے.اب تم نے ان کی کنپٹیوں میں عمر کے آثار دیکھے اور جو پیغام وہ لے کر آئے تم نے کہا وہ جادو گر ہے.ان میں جادو کی کوئی بات نہیں.ہم نے بھی جادو گر دیکھے ہوئے ہیں.تم نے کہا وہ کاہن ہے.ہم نے بھی کاہن دیکھے ہوئے ہیں.وہ ہر گز کاہن نہیں ہیں.تم نے کہا وہ شاعر ہیں، ہم شعر کی سب اقسام جانتے ہیں وہ شاعر نہیں ہے.تم نے کہا وہ مجنون ہے، ان میں مجنون کی کوئی بھی علامت نہیں ہے.اے گروہ قریش! مزید غور کر لو کہ تمہار اواسطہ ایک بہت بڑے معاملے سے ہے.( السيرة النبوية لابن هشام ما دار بين رسول اللہ صلی تیم و بین روساء قريش...نصيحة النصر لقريش بالتدبر..) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ابو جہل نے نبی صلی لی ایم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا.ہم تمہیں جھوٹا نہیں کہتے.البتہ ہم اس تعلیم کو جھوٹا سمجھتے ہیں جو تم پیش کرتے ہو.جب عقل پر پردے پڑ جائیں، کسی کی مت ماری جائے تو تبھی تو وہ ایسی باتیں کرتا ہے.اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ 240

Page 241

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام تم کچھ تو عقل کرو.کیا ایک سچا آدمی جھوٹی تعلیم دے سکتا ہے.سچا آدمی تو سب سے پہلے اس جھوٹی تعلیم کے خلاف کھڑا ہو گا.پھر ایک اور موقع پر آپ کے صادق ہونے پر دشمن کی گواہی ہے.حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ انہیں ابو سفیان بن حرب نے بتایا کہ جب وہ شام کی طرف ایک تجارتی قافلے کے ساتھ گیا ہوا تھا تو ایک دن شاہ روم، ہر قل نے ہمارے قافلے کے افراد کو بلا بھیجا تا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت وہ کچھ سوالات پوچھ سکے.شہنشاہ روم کے دربار میں ہر قل سے اپنی گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بیان کیا کہ اس نے مجھ سے کچھ سوال کئے.ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ کیا دعویٰ سے پہلے تم لوگ اس پر جھوٹ بولنے کا الزام لگاتے تھے ؟ میں نے جواباً کہا کہ نہیں.اس پر ہر قل نے ابوسفیان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب تو نے میرے اس سوال کا جواب نفی میں دیا تو میں نے سمجھ لیا کہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ لو گوں پر تو جھوٹ باندھنے سے باز رہے مگر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے.ہر قل نے کہا مَاذَا يَأْمُرُكُم محمد آپ کو کس چیز کا حکم دیتے ہیں.ابو سفیان نے کہا وہ کہتا ہے، اللہ کی عبادت کرو جو اکیلا ہی معبود ہے اور اس کا کسی چیز میں شریک نہ قرار دو اور ان باتوں کو جو تمہارے آباؤ اجداد کہتے تھے چھوڑ دو اور وہ ہمیں نماز قائم کرنے، سچ بولنے، پاکدامنی اختیار کرنے اور صلہ رحمی کرنے کا حکم دیتا ہے.تب ہر قل نے کہا کہ جو تو کہتا ہے اگر یہ سچ ہے تو پھر عنقریب میرے قدموں کی اس جگہ کا بھی وہی مالک ہو جائے گا.(بخاری کتاب بدء الوحی حدیث نمبر (7) قریش نے ایک دفعہ سردار عتبہ کو قریش کا نمائندہ بنا کر رسول کریم صلی اللی ملک کی خدمت میں بھجوایا.اس نے کہا آپ ہمارے معبودوں کو کیوں برا بھلا کہتے ہیں اور ہمارے آباء کو کیوں گمراہ قرار دیتے ہیں.آپ کی جو بھی خواہش ہے ہم پوری کر دیتے ہیں، آپ ان باتوں سے باز آئیں.حضور تحمل اور خاموشی سے اس کی باتیں سنتے رہے.جب وہ سب کہہ چکا تو آپ نے سورۃ حم فضلت کی چند آیات تلاوت کیں.جب آپ اس آیت پر پہنچے کہ میں تمہیں عاد و ثمود جیسے عذاب سے ڈراتا ہوں تو اس پر عتبہ نے آپ کو روک دیا کہ اب بس کریں اور خوف کے مارے اٹھ کر چل دیا.اس نے قریش کو جا کر کہا کہ تمہیں پتہ ہے کہ محمد کی یکم جب کوئی بات کہتا ہے تو کبھی جھوٹ نہیں بولتا.مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں تم پر وہ عذاب نہ آ جائے جس سے وہ ڈراتا ہے.تمام سردار یہ سن کر خاموش ہو گئے.( السيرة الحلبية از علامه برهان الدین باب عرض قريش عليه اشياء من خوارق العادات وغير العادات...) 241

Page 242

عزیز رشتے داروں اور اہل مکہ کی گواہی کا سامان اس طرح ہوا کہ : ”جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ” وَاَنْذِرُ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ (الشعراء: 215) یعنی اپنے قریبی رشتہ داروں کو ہوشیار اور بیدار کر کے احکام اترے تو آنحضرت صلی می نام کوہ صفا پر چڑھ گئے اور بلند آواز سے پکار کر اور ہر قبیلہ کا نام لے لے کر قریش کو بلایا.جب سب لوگ جمع ہو گئے تو آپ نے فرمایا اے قریش! اگر میں تم کو یہ خبر دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بڑا لشکر ہے جو تم پہ حملہ کرنے کو تیار ہے.تو کیا تم میری بات کو مانو گے.بظاہر یہ ایک بالکل ناقابل قبول بات تھی مگر سب نے کہا کہ ہاں ہم ضرور مانیں گے کیونکہ ہم نے تمہیں ہمیشہ صادق القول پایا ہے.آپ نے فرمایا تو پھر سنو، میں تم کو خبر دیتا ہوں کہ اللہ کے عذاب کا لشکر تمہارے قریب پہنچ چکا ہے.خدا پر ایمان لاؤ تا اس عذاب سے بچ جاؤ.“ حضرت اقدس مسیح موعود فرماتے ہیں: (سیرت خاتم النبیین مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے صفحہ 128) ”دوسری خوبی جو شرط کے طور پر مامورین کے لئے ضروری ہے وہ نیک چال چلن ہے کیو نکہ بد چال چلن سے بھی دلوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے اور یہ خوبی بھی بدیہی طور پر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ قرآن شریف میں فرماتا ہے: فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ یعنی ان کفار کو کہہ دے کہ اس سے پہلے میں نے ایک عمر تم میں ہی بسر کی ہے پس کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں کس درجہ کا امین اور راستباز ہوں.اب دیکھو کہ یہ دونوں صفتیں جو مر تبہ نبوت اور ماموریت کے لئے ضروری ہیں یعنی بزرگ خاندان میں سے ہونا اور اپنی ذات میں امین اور راستباز اور خدا ترس اور نیک چلن ہونا قرآن کریم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کمال درجہ پر ثابت کی ہیں اور آپ کے اعلیٰ چال چلن اور اعلیٰ خاندان پر خود گواہی دی ہے اور اس جگہ میں اس شکر کے ادا کرنے سے رہ نہیں سکتا کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں اپنی وحی کے ذریعہ سے کفار کو ملزم کیا اور فرمایا کہ یہ میرا نبی اس اعلیٰ درجہ کا نیک چال چلن رکھتا ہے کہ تمہیں طاقت نہیں کہ اس کی گذشتہ چالیس برس کی زندگی میں کوئی عیب اور نقص نکال سکو باوجود اس کے کہ وہ چالیس برس تک دن رات تمہارے درمیان ہی رہا ہے اور نہ تمہیں یہ طاقت ہے کہ اس کے اعلیٰ خاندان میں جو شرافت اور طہارت اور ریاست اور امارت کا خاندان ہے ایک ذرہ عیب گیری کر سکو.پھر تم سوچو کہ جو شخص ایسے اعلیٰ اور اطہر اور انفس خاندان میں سے ہے اور اس کی چالیس برس کی زندگی جو تمہارے روبروئے گذری.گواہی دے رہی ہے جو افترا اور دروغ بافی اِس کا کام نہیں ہے تو پھر ان خوبیوں کے ساتھ جبکہ آسمانی نشان وہ دِکھلا رہا 242

Page 243

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام ہے اور خدا تعالیٰ کی تائیدیں اس کے شامل حال ہو رہی ہیں اور تعلیم وہ لایا ہے جس کے مقابل پر تمہارے عقائد سراسر گندے اور ناپاک اور شرک سے بھرے ہوئے ہیں تو پھر اس کے بعد تمہیں اس نبی کے صادق ہونے میں کونسا شک باقی ہے.اسی طور سے خدا تعالیٰ نے میرے مخالفین اور مکذبین کو ملزم کیا ہے.چنانچہ براہین احمدیہ کے صفحہ 512 میں میری نسبت یہ الہام ہے جس کے شائع کرنے پر ہیں برس گذر گئے اور وہ یہ ہے وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ یعنی ان مخالفین کو کہہ دے کہ میں چالیس برس تک تم میں ہی رہتا رہا ہوں اور اس مدت دراز تک تم مجھے دیکھتے رہے ہو کہ میرا کام افترا اور دروغ اور خدا نے ناپا کی کی زندگی سے مجھے محفوظ رکھا ہے تو پھر جو شخص اس قدر مدت دراز تک نہیں ہے یعنی چالیس برس تک ہر ایک افترا اور شرارت اور مکر اور خباثت سے محفوظ رہا اور کبھی اس نے خلقت پر جھوٹ نہ بولا تو پھر کیونکر ممکن ہے کہ بر خلاف اپنی عادت قدیم کے اب وہ خدا تعالیٰ پر افترا کرنے لگا.“ تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 281 - 283) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ آپ کے عکس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس دلیل کو اپنی صداقت کے نشان کے طور پر پیش کیا ہے.فرمایا: تم غور کرو کہ وہ شخص جو تمہیں اس سلسلہ کی طرف بلاتا ہے وہ کس درجہ کی معرفت کا آدمی ہے اور کس قدر دلائل پیش کرتا ہے اور تم کوئی عیب، افتراء یا جھوٹ یا دعا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے تا تم یہ خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افتراء کا عادی ہے یہ بھی اس نے جھوٹ بولا ہو گا.کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے.پس یہ خدا کا فضل ہے کہ جو اُس نے ابتداء سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے.“ ( تذكرة الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 64) تاریخ نے آپ کے ماموریت سے پہلے کے سب حالات محفوظ رکھے ہیں.بہت چھوٹی عمر سے آپ کی خوبیاں دوسروں کو متاثر کرنے لگی تھیں.ایک دفعہ جبکہ ابھی آپ بچہ تھے مولوی غلام رسول صاحب قلعہ میاں سنگھ کے پاس گئے جو ولی اللہ و صاحب کرامات تھے.اس مجلس میں کچھ باتیں ہو رہی تھیں.باتوں باتوں میں مولوی صاحب نے فرمایا: 243

Page 244

اگر اس زمانہ میں کوئی نبی ہوتا تو یہ لڑکا نبوت کے قابل ہے.“ انہوں نے یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہی.تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ (53) حضرت مسیح موعود کے مشاغل عام بچوں سے مختلف تھے.ان کے والد صاحب کو فکر رہتا کہ یہ ملاں اور.مسیتر بیٹا دنیا کے جھمیلوں سے کیسے نبٹے گاانہیں دنیا داری سکھانے کی کوشش کرتے تو جواب ملتا: ”ابا بھلا بتاؤ تو سہی کہ جو افسروں کے افسر اور مال کا مالک احکم الحاکمین کا ملازم ہو اور اپنے رب العالمین کا فرماں بردار ہو اس کو کسی ملازمت کی کیا پرواہ ہے“ تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ 52) آپ کے والد صاحب اس نتیجے پر پہنچے ہے تو یہ نیک صالح مگر اب زمانہ ایسوں کا نہیں چالاک آدمیوں کا ہے پھر آبدیدہ ہو کر کہتے کہ ”جو حال پاکیزہ غلام احمد کا ہے وہ ہمارا کہاں یہ شخص زمینی نہیں آسمانی (ہے) یہ آدمی نہیں فرشتہ ہے.“ ( تذكرة المهدی حصہ دوم صفحہ 302) آپ تنہا رہ کر مطالعہ کرنا پسند فرماتے زیادہ ملنا جلنا نہیں رکھتے تھے خود فرماتے ہیں: ”یہ وہ زمانہ تھا جس میں مجھے کوئی بھی نہیں جانتا تھا نہ کوئی موافق تھا نہ مخالف.کیونکہ میں اُس زمانہ میں کچھ بھی چیز نہ تھا اور ایک احد من الناس اور زاویہ گمنامی میں پوشیدہ تھا (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 460) میں تھا غریب و بے کس و گمنام بے ہنر کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر اللہ تعالی کی اپنی تقسیم اوقات ہوتی ہے.اس نے آپ کے طلوع سے پہلے افق پر روشنی پھیلنے کا وقت 19ویں صدی کا آخری ربع مقرر کیا تھا.اخبارات میں آپ کے رشحات قلم جگہ پانے لگے.مسلم امہ چونک کر بیدار ہوئی سب محسوس کرنے لگے کہ باغ احمد میں کوئی گل رعنا کھلا ہے براہین احمدیہ کے ذریعے علم کی خوشبو ہر طرف پھیلنے لگی علم دوست، مذہبی رجحان رکھنے والے حیرت اور خوشی سے سرشار آپ سے رابطے 244

Page 245

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام کرنے لگے.خطوط لکھ کر آپ کے خیالات کو سراہنے اور اپنے مسائل کا حل پوچھنے لگے.اہل حدیث فرقہ کے معروف مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے اپنے رسالہ اشاعت السنہ میں براہین احمدیہ پر ریویو تحریر کیا جس میں حضرت اقدس کی زندگی کی پاکیزگی اور بے عیب ہونے کی گواہی دی نیز خاندانی شرافت اور بزرگی کا اظہار ان الفاظ میں کیا: ”ہم اس قدر کہنے سے باز ہر گز نہیں رہ سکتے کہ اگر یہ معاملہ گورنمنٹ تک پہنچتا تو یقین تھا کہ ہماری زیرک اور دانشمند گورنمنٹ ایسے مفسدوں کو جنہوں نے بحق ایسے شریف خاندانی کے جو ایک معزز نیک نام و خیر خواہ سر کار کا بیٹا ہے اور خود بھی سر کار کا دلی خیر خواه و شکر گزار و دعا گو ہے اور درویشی و غربت سے زندگی بسر کرتا ہے ایسا مفسدانہ افترا کیا اور بہت لوگوں کے دلوں کو آزار پہنچایا ہے، سخت سزا دیتی.“ (اشاعۃ السنہ نمبر 7 جلد 7 صفحہ 193) نیز دعا کی: ”اے خدا! اپنے طالبوں کے رہنما ان پر ان کی ذات سے ان کے ماں باپ سے تمام جہانوں کے مشفقوں سے زیادہ رحم فرما.تو اس کتاب کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دے اور اس کی برکات سے ان کو مالا مال کر دے اور کسی اپنے صالح بندے کے طفیل اس خاکسار شرمسار گنہگار کو بھی اپنے فیوض و انعامات اور اس کے آب کی اخص برکات سے فیض یاب کر آمین.“ (اشاعۃ السنہ نمبر 11 جلد 7 صفحہ 348) مولوی صاحب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی) دلی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جب واپس بٹالہ آئے تو اگرچہ ایک عالم کی حیثیت سے ہندوستان بھر میں مشہور ہو گئے اور ہر جگہ ان کا طوطی بولنے لگا.مگر اس وقت بھی ان کی حضور سے عقیدت کا یہ عالم تھا کہ حضور کا جو تا آپ کے سامنے سیدھا کر کے رکھتے اور اپنے ہاتھ سے آپ کا وضو کرانا موجب سعادت قرار دیتے تھے.چنانچہ حضرت میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی کا چشم دید واقعہ ہے کہ: ”دعوئی سے پہلے ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے مکان واقعہ بٹالہ پر تشریف فرما تھے.میں بھی خدمت اقدس میں حاضر تھا.کھانے کا وقت ہوا تو مولوی صاحب خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ دھلانے کے لئے آگے بڑھے.حضور نے ہر چند فرمایا کہ مولوی صاحب آپ نہ دھلائیں مگر مولوی صاحب نے باصرار حضور کے ہاتھ دھلائے اور اس خدمت کو اپنے لئے باعث فخر سمجھا.“ (سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ 124 طبع اوّل) 245

Page 246

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام اخبار زمیندار کے ایڈیٹر مولوی ظفر علی خاں صاحب کے والد اور اخبار زمیندار کے بانی منشی سراج الدین احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں لکھا: ”ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے.کاروبار ملازمت کے بعد ان کا تمام وقت مطالعہ دینیات میں صرف ہوتا تھا.عوام سے کم ملتے تھے.1877ء میں ہمیں ایک شب قادیان میں آپ کے ہاں مہمانی کی عزت حاصل ہوئی.ان دنوں میں بھی آپ عبادت اور وظائف میں اس قدر محو و مستغرق تھے کہ مہمانوں سے بھی بہت کم گفتگو کرتے تھے.“ اخبار (اخبار زمیندار مئی 1908ء بحوالہ بدر 25 جون 1908ء صفحہ 13 کالم نمبر 1 - 2) و کیل امر تسر نے لکھا: "کیر یکٹر کے لحاظ سے ہمیں مرزا صاحب کے دامن پر سیاہی کا ایک چھوٹا سا دھبہ بھی نظر نہیں آتا.وہ ایک پاکباز کا جینا جیا اور اس نے ایک متقی کی زندگی بسر کی.غرض کہ مرزا صاحب کی زندگی کے ابتدائی پچاس سالوں نے کیا بلحاظ اخلاق و عادات اور پسندیدہ اطوار، کیا بلحاظ مذہبی خدمات و حمایت دین مسلمانانِ ہند میں اُن کو ممتاز بر گزیدہ اور قابلِ رشک مر تبہ پر پہنچایا.“ (اخبار وکیل 30 مئی 1908ء صفحہ 1 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 563 جدید ایڈیشن) میں حضرت مسیح موعود نے ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں نشان نمائی کی دعوت تھی.ریاست جموں کے شاہی طبیب حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب بھیروٹی اس اشتہار کو دیکھتے ہی حضرت اقدس کی زیارت کے لئے قادیان تشریف لے آئے.حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور میری بیعت لے لیں.آپ نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر اس معاملہ میں کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا.اس پر حضرت مولانا نے عرض کیا کہ پھر حضور وعدہ فرمائیں کہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیعت لینے کا حکم آجائے تو سب سے پہلے میری بیعت لی جائے.آپ نے فرمایا ٹھیک ہے.(حیات نور از عبد القادر سوداگر مل صفحہ 117) حضرت مسیح موعود کے اسلام کے دفاع کے مداح ایک بزرگ حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوٹی تھے.براہین احمدیہ کے تین حصوں پر پر تبصرے میں والہانہ عقیدت کا انداز نظر آتا ہے.” یک ایسی کتاب اور ایک ایسے مجدد کی بے شک ضرورت تھی جیسی کہ کتاب براہین احمدیہ اور اس کے مؤلف جناب مخدومنا مولانا میرزا غلام احمد صاحب دام فیوضہ ہیں.جو ہر طرح سے دعوئی اسلام کو مخالفین پر ثابت فرمانے کے لئے موجود ہیں.جناب موصوف عامی علماء اور فقرا میں سے نہیں بلکہ خاص اس کام پر منجانب اللہ مامور اور 246

Page 247

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام ملہم اور مخاطب الہی ہیں.صدہا سچے الہام اور مخاطبات اور پیشگوئیاں اور رؤیاء صالحہ اور امر الہی اور اشارات و بشارات اجراء کتاب اور فتح و نصرت اور ہدایات امداد کے باب میں زبان عربی، فارسی، اردو وغیرہ میں جو مصنف صاحب کو بہ تشریح تمام ہوئے ہیں، مشرح و مفصل اس کتاب میں درج ہیں اور بعض الہامات زبان انگریزی میں بھی ہوئے ہیں.حالا نکہ مصنف صاحب نے ایک لفظ بھی انگریزی کا نہیں پڑھا.چنانچہ صدہا مخالفین اسلام کی گواہی سے ثابت کر کے کتاب میں درج کئے گئے ہیں، جن سے بخوبی صداقت پائی جاتی ہے اور یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے، کہ مصنف صاحب بے شک امر الہی سے اس کتاب کو لکھ رہے ہیں اور صاف ظاہر ہوتا ہے بموجب حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ فِيمَا أَعْلَمُ عَنْ رَّسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِ مِائَةِ سَنَةٍ مَّنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِيْنَهَا ( رواه ابو داؤد ) جس کے معنی یہ ہیں کہ ہر صدی کے شروع میں ایک مجدد منجانب اللہ پیدا ہوتا ہے تو تمام مذاہب باطلہ کے ظلمات کو دور کرتا ہے اور دین محمدی کو منور اور روشن کرتا ہے.ہزار ہا آدمی ہدایت پاتے ہیں اور دین اسلام ترو تازہ ہو جاتا ہے.مصنف صاحب اس چودھویں صدی کے مجدد اور مجتہد اور محدث اور کامل مکمل افراد امت محمدیہ میں سے ہیں اور دوسری حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یعنی عُلَمَاء أُمَّتِي كَانْبِيَاءِ بني اسرا اپیل اسی کی تائید میں ہے.“ حضور کے ذکرِ خیر میں آپ مزید تحریر فرماتے ہیں: اے ناظرین! میں سچی نیت اور کمال جوش صداقت سے التماس کرتا ہوں کہ بے شک و شبہ جناب میرزا صاحب موصوف مجدد وقت اور طالبان سلوک کے واسطے کبریت احمر اور سنگ دلوں کے واسطے پارس اور تار یک باطنوں کے واسطے آفتاب اور گمراہوں کے لئے خضر اور منکران اسلام کے واسطے سیف قاطع اور حاسدوں کے واسطے حجتہ بالغہ ہیں.یقین جانو کہ پھر ایسا وقت ہاتھ نہ آئے گا.آگاہ ہو کہ امتحان کا وقت آ گیا ہے اور حجت الہی قائم ہو چکی ہے اور آفتاب عالم تاب کی طرح بدلائل قطعیہ ایسا بادی کامل بھیج دیا ہے کہ سچوں کو نور بخشے اور ظلمات ضلالت سے نکالے اور جھوٹوں پر حجت قائم کرے، تا کہ حق و باطل چھٹ جائے اور خبیث و طیب میں فرق بین ظاہر ہو جائے اور کھوٹا کھرا پر کھا جائے.“ نیز آپ نے اپنی خداداد فراست سے یہ بھی پہچان لیا کہ یہ شخص مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرے گا.لہذا یہ شعر کہا: ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نظر تم مسیحا بنو خدا کے لئے اخبار الفضل 23 جون 1931ء صفحہ 5 – 7) 247

Page 248

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام آپ فرماتے ہیں کہ : انبیاء وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے اپنی کامل راستبازی کی قوی حجت پیش کر کے اپنے دشمنوں کو بھی الزام دیا جیسا کہ یہ الزام قرآن شریف میں ہے حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے موجود ہے جہاں فرمایا ہے فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (یونس: 17) یعنی میں ایسا نہیں کہ جھوٹ بولوں اور افتراء کروں.دیکھو میں چالیس برس اس سے پہلے تم میں ہی رہتا رہا ہوں کیا کبھی تم نے میرا کوئی جھوٹ یا افتراء ثابت کیا؟ پھر کیا تم کو اتنی سمجھ نہیں یعنی یہ سمجھ کہ جس نے کبھی آج تک کسی قسم کا جھوٹ نہیں بولا وہ اب خد اپر کیوں جھوٹ بولنے لگا.غرض انبیاء کے واقعات عمری اور ان کی سلامت روشی ایسی بدیہی اور ثابت ہے کہ اگر سب باتوں کو چھوڑ کر ان کے واقعات کو ہی دیکھا جائے تو ان کی صداقت ان کے واقعات سے ہی روشن ہو رہی ہے.مثلاً اگر کوئی منصف اور عاقل ان تمام براہین اور دلائل صدق نبوت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے جو اس کتاب میں لکھی جائیں گی، قطع نظر کر کے محض ان کے حالات پر ہی غور کرے تو بلاشبہ انھیں حالات پر غور کرنے سے ان کے نبی صادق ہونے پر دل سے یقین کرے گا اور کیوں کر یقین نہ کرے وہ واقعات ہی ایسے کمال سچائی اور صفائی سے معطر ہیں کہ حق کے طالبوں کے دل بلا اختیار ان کی طرف کھینچے جاتے ہیں.“ (براہین احمدیہ ہر چہار ،حصص، روحانی خزائن جلد اول صفحہ 107 - 108) ابتدا سے گوشہ خلوت رہا مجھ کو پسند شہرتوں سے مجھ کو نفرت تھی ہر اک عظمت سے عار پر مجھے تو نے ہی اپنے ہاتھ سے ظاہر کیا میں نے کب مانگا تھا یہ تیرا ہی ہے سب برگ و بار انبیاء کے طور پر حجت ہوئی ان پر تمام ان کے جو حملے ہیں ان میں سب نبی ہیں حصہ دار تھا برس چالیس کا میں اس مسافر خانہ میں جبکہ میں نے وحی ربانی سے پایا افتخار اس قدر یہ زندگی کیا افترا میں کٹ گئی پھر عجب تر یہ کہ نصرت کے ہوئے جاری بحار ہر قدم میں میرے مولی نے دیئے مجھ کو نشاں ہر عدد پر حجت حق کی پڑی ہے ذوالفقار روزنامه الفضل آن لائن لندن 19 اگست 2022 ء 248

Page 249

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام قسط 34 طنز و مزاح میں شگفتگی قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا هُوَ خَيْرٌ مِنَا يَجْمَعُونَ ) (یونس: 59) تجو کہہ دے کہ (یہ) محض اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہے.پس اس پر چاہئے کہ وہ بہت خوش ہوں.الا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (یونس: 63) سنو کہ یقینا اللہ کے دوست ہی ہیں جن پر کوئی خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے.جو لوگ خدا کے ہو کے رہتے ہیں ان کو کسی قسم کا خوف باقی نہیں رہتا اور وہ غم نہیں کرتے.ست بچن، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 229) آنحضور صلی الی یک نفس مطمئنہ رکھتے تھے اور مقام رضا پر فائز تھے اطمینان قلب نصیب تھا.بشاشت اور لطیف حس مزاح رکھتے تھے آپ کے کھلے کھلے متبسم چہرہ، خندہ پیشانی، شائستہ گفتگو سے ماحول روشن اور خوشگوار رہتا.آپ کی ذات بابرکات میں رؤوف و رحیم خدا کی صفات کا رنگ نظر آتا.نور کی کرنیں مخاطبین کے دل موہ لیتیں.آپ لطیف اور پاکیزہ مزاح، صاف ستھرا اور سچا مذاق کرتے تھے.حق اور سچ سے ہٹ کر کوئی بات نہ ہوتی حتی کہ زیب داستاں کے لئے رنگ آمیزی اور مبالغہ آرائی بھی نہ کرتے.حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ رسولِ ارمیلی لی ہم نے فرمایا، میں مزاح تو کرتا ہوں، لیکن ہمیشہ سچ کہتا ہوں.(مشکوۃ صفحہ 416) ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا کہ حضور صلی نیلام گھر میں ہمیشہ خوش اور ہنستے مسکراتے وقت گزارتے تھے.(شرح مواهب اللدنيه للزرقانی جلد 4 صفحہ 253 249

Page 250

حضور صلی ال نیم سب سے زیادہ کریم الاخلاق تھے، ہنتے اور مسکراتے بھی تھے.لیکن آپ کی تعلیم کی شان ظرافت، خوش طبعی، دل لگی اور دل آویز تبتسم اعتدال اور میانہ روی کا مرقع تھا.میں نے آنحضرت صلی الم کو کبھی زور سے قہقہہ لگا کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا.آپ کا ہنسنا تبسم کے انداز سے ہوتا تھا.(صحیح بخاری کتاب الادب باب التبسم) ہے، حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم کے مدینہ منورہ میں ابتدائی زمانے کے ایک سفر کا ذکر میں لڑکی سی تھی، ابھی موٹا پا نہیں آیا تھا.نبی کریم نے قافلہ کے لو گوں کو آگے جانے کی اجازت دے دی.پھر مجھے فرمانے لگے آؤ، دوڑ کا مقابلہ کرتے ہیں.میں نے دوڑ لگائی تو آپ سے آگے نکل گئی.حضور خاموش رہے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ بعد میں جب میرا جسم کچھ فربہ ہو گیا اور وزن بڑھ گیا ہم ایک اور سفر کے لیے نکلے.رسول اللہ نے پھر قافلہ سے فرمایا کہ آپ لوگ آگے نکل جائیں اور مجھے فرمایا آؤ آج پھر دوڑ لگاتے ہیں.ہم نے دوڑ لگائی اس دفعہ رسول کریم آگے نکل گئے اور مسکراتے ہوئے فرمانے لگے لو پہلی دفعہ تمہارے جیتنے کا بدلہ بھی آج اُتر گیا.(مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 264) حضرت عبداللہ بن حارث بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی علیم سے زیادہ مسکراتے ہوئے کسی اور شخص کو نہیں دیکھا.(سنن ترمذی ابواب المناقب باب بشاشته النبی) حضرت سماک بن حرب کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن سمرہ سے پوچھا کہ کیا آپ حضور کی مجالس میں بیٹھا کرتے تھے ؟ فرمایا بہت کثرت کے ساتھ.حضوراً فجر کی نماز پڑھانے کے بعد جائے نماز پر ہی سورج طلوع ہونے تک تشریف فرما رہتے تھے.صحابہ آپس میں زمانہ جاہلیت کی باتیں کر کے ہنسا کرتے تھے اور حضور بھی ان کے ساتھ تبسم فرمایا کرتے تھے.صحیح مسلم کتاب الفضائل باب تبسم) ایک دفعہ ایک شخص حضور صلی اللہ نیم کے پاس آیا اور آپ سے اپنے لئے سواری مانگی.حضور نے فرمایا ٹھیک ہے 250

Page 251

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام میں تمہیں اونٹنی کا بچہ دے دوں گا.اس نے کہا یا رسول اللہ! میں اونٹنی کے بچہ کو کیا کروں گا.آپ نے فرمایا ” کوئی اونٹ ایسا بھی ہے جو اونٹنی کا بچہ نہ ہو.“ ( سنن ترمذی ابواب البرو الصلة باب في المزاح) ایک بوڑھی عورت نے عرض کیا کہ حضور کیا میں جنت میں جاؤں گی.آپ نے فرمایا کہ جنت میں تو صرف جوان عورتیں جائیں گی وہ افسردہ ہو گئی تو فرمایا ”جنت میں بوڑھے بھی جوان کر کے لیجائے جائینگے.“ ( الشمائل المحمديه للترمذى صفة مزاح رسول اللہ ) حضور صلی ا یمن کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی آپ نے اس کے شوہر کی بابت پوچھا تو اس نے نام بتایا.جس پر آپ نے فرمایا.وہی جس کی آنکھوں میں سفیدی ہے جو نہی وہ عورت گھر پہنچی تو اپنے شوہر کی آنکھوں کو غور سے دیکھنے لگی.اس کے خاوند نے کہا.تجھے کیا ہو گیا ہے.عورت نے جواب دیا کہ رسول کریم صلی علیم نے مجھے بتایا ہے کہ تیری آنکھوں میں سفیدی ہے.یہ سن کر اس نے کہا میری آنکھوں میں سفیدی سیاہی سے زیادہ نہیں ہے.شرف النبی از علامہ ابوسعید نیشا پوری مترجم صفحہ 109) حضور ملی المینیوم ایک دفعہ سواری پر سوار ہو کر قبا کی طرف جانے لگے.ابوہریرہ ساتھ تھے.حضور نے ان سے فرمایا کیا میں تمہیں بھی سوار کرلوں انہوں نے عرض کیا جیسے حضور کی مرضی تو فرمایا آؤ! تم بھی سوار ہو جاؤ.حضرت ابوہریرۃ نے سوار ہونے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوئے اور گرتے گرتے حضور کو پکڑ لیا اور حضور کے ساتھ گر پڑے.حضور پھر سوار ہوئے اور ابو ہریرۃ کو سوار ہونے کی دعوت دی مگر وہ دوسری دفعہ بھی حضور کو لے کر گر پڑے.حضور پھر سوار ہوئے اور ابوہریرہ سے پوچھا کیا تمہیں بھی سوار کرلوں تو کہنے لگے اب میں آپ کو تیسری دفعہ نہیں گرانا چاہتا.المواهب اللدنيه زرقانی جلد 4 صفحہ 265 دار لمعرفه بیروت) حضرت جابر کی روایت ہے کہ رسول کریم پر جب وحی آتی یا جب آپ وعظ فرماتے تو آپ ایک ایسی قوم کو ڈرانے والے معلوم ہوتے جس پر عذاب کا خطرہ ہو مگر آپ کی عمومی کیفیت یہ تھی کہ سب سے 251

Page 252

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام زیادہ مسکراتا ہوا حسین چہرہ آپ کا ہو تا تھا.وہ (مجمع الزوائد جلد 9 صفحہ 17) ایک دفعہ رسول اللہ صلی علی یکم اپنی صاحبزادی فاطمہ کے ہاں تشریف لائے تو حضرت علی کو گھر میں موجود نہ پایا تو آپ نے پوچھا تمہارے شوہر کہاں ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ ہمارے مابین کچھ تکرار ہو گئی.وہ مجھے ناراض پا کر چلے گئے اور گھر میں دو پہر آرام بھی نہیں کیا.رسول کریم صلی اللہ کریم نے ایک شخص کو بھجوایا کہ دیکھو کہاں گئے؟ اس نے آکر بتایا کہ وہ مسجد میں ہیں.رسول اللہ علی ای کلام وہاں تشریف لے گئے تو حضرت علی زمین پر لیٹے تھے ان کی چادر جسم سے سر کی ہوئی تھی اور پہلو غبار آلود تھا.رسول کریم ملایا ہم پہلے تو پیار سے حضرت علی سے مٹی پونچھنے لگے پھر فرمایا: اٹھو اے ابو تراب (مٹی کے باپ)! اور یوں حضرت علی کی ایک یہ کنیت بھی معروف ہوئی.(صحیح مسلم کتاب الفضائل بَابُ مِنْ فَضَابِلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ) اسی طرح رسول الله صل العمل بعض دفعہ اپنے گھر کے خادم حضرت انس کو دو کانوں والا کہہ کر یاد فرماتے.اب ظاہر ہے کہ ہر شخص کے دوکان ہی تو ہوتے ہیں.مگر رسول اللہ کا پیار سے انس کو یوں پکارنا کہ اے دو کانوں والے! ذرا ادھر آنا.کیسا مزاح پیدا کر دیتا ہو گا.(شمائل الترمذی باب فی صفۃ مزاح رسول الله ) حضرت محمود بن ربیع نے کم سنی میں حضور کے محبت بھرے مزاح کی ایک بات عمر بھر یادر کھی.وہ فرماتے تھے کہ میری عمر پانچ سال تھی حضور ہمارے ڈیرے پر تشریف لائے.آپ نے ہمارے کنویں سے پانی پیا اور ڈول سے پانی منہ میں لے کر اس کی ایک پچکاری میرے اوپر پھینکی تھی.(بخاری کتاب العلم باب 13) ایک اور صحابی حضرت سفینہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول کریم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، جب ہمارا کوئی ساتھی تھک جاتا تو وہ اپنا سامان تلوار ڈھال یا نیزہ مجھے پکڑا دیتا یہاں تک کہ میرے پاس بہت ساسامان اکٹھا ہو گیا.نبی کریم نے یہ سب دیکھ کر فرمایا تم تو واقعی سفینہ (یعنی کشتی) ہو.جس نے سب مسافروں کا سامان سنبھال رکھا ہے.(مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 221، ابو داؤد کتاب الادب باب 18) 252

Page 253

ایک دفعہ حضرت صہیب رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضور کے سامنے کھجوریں اور روٹی پڑی تھی.آپ نے صہیب کو بھی دعوت دی کہ کھانے میں شامل ہو جائیں.صہیب روٹی کی بجائے کھجوریں زیادہ شوق سے کھانے لگے.رسول کریم نے ان کی آنکھ میں سوزش دیکھ کر فرمایا کہ تمہاری ایک آنکھ دکھتی ہے.اس میں اشارہ تھا کہ کھجور کھانے میں احتیاط چاہیے.انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ میں صحت مند آنکھ والی طرف سے کھجوریں کھا رہا ہوں.نبی کریم اُس مزاح سے بہت محظوظ ہوئے اور اس صحابی کی حاضر جوابی پر تبسم فرمانے لگے.حضرت براء بن عازب بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لو گوں میں سب سے زیادہ خوبصورت اور خوش اخلاق تھے.( بخاری کتاب المناقب باب صفة النبى مسند احمد جلد 4 صفحہ 61 دار الکتاب العربی بیروت ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک دیہاتی زاہر نامی دوست تھے جو اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدئے بھیجا کرتے تھے.ایک روز وہ بازار میں اپنی کوئی چیز بیچ رہے تھے.اتفاق سے حضور صلی الم ادھر سے گزرے ان کو دیکھا تو بطور خوش طبعی چپکے سے پیچھے سے جاکر ان کو اپنے جسم کے ساتھ لگا لیا اور ہنستے ہنستے آواز لگائی کہ اس غلام کو کون خریدتا ہے؟ زاہر نے کہا مجھے چھوڑ دو کون ہے؟ مڑ کر دیکھا تو حضور صلی الیم تھے.حضرت زاہر نے کہا: یارسول اللہ ! مجھ جیسے غلام کو جو خریدے گا نقصان اٹھائے گا.حضور صلی الظالم نے فرمایا: تم خدا کی نظر میں ناکارہ نہیں ہو.(محسن انسانیت، اسوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ: ”انبیاء علیہم السلام کا وجود بھی ایک بارش ہوتی ہے.وہ اعلیٰ درجہ کا روشن وجود ہوتا ہے.خوبیوں کا مجموعہ ہوتا ہے.دنیا کے لئے اس میں برکات ہوتے ہیں.اپنے جیسا سمجھ لینا ظلم ہے.اولیاء اور انبیاء سے محبت رکھنے سے ایمانی قوت بڑھتی ہے“ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 213 حاشیہ، ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اللهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ 253

Page 254

حضرت مسیح موعود کے مزاح کا طریق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزاج میں اپنے محبوب حضرت محمد مصطفی صلی ال کلام کا عکس ودیعت کیا گیا تھا.وہی خندہ پیشانی بشاش ،چہرہ نرم لہجہ جو دوسروں کے دلوں کو اسیر کرلیتا اور ماحول کو ترو تازہ کر دیتا.حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل حضرت اقدس مسیح موعود کے چہرہ مبارک کی قلمی تصویر بناتے ہوئے لکھتے ہیں: آپ کا چہرہ کتابی یعنی معتدل لمبا تھا اور حالانکہ عمر شریف 70 اور 80 کے درمیان تھی پھر بھی جھریوں کا نام نشان نہ تھا اور نہ متفکر اور غصہ ور طبیعت والوں کی طرح پیشانی پر شکن کے نشانات نمایاں تھے.رنج.فکر.تردد یا غم کے آثار چہرہ پر دیکھنے کی بجائے زیارت کنندہ اکثر تبسم اور خوشی کے آثار دیکھتا تھا.(مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل حصہ اول صفحہ 528) حضرت مولوی عبدالکریم سیا لکوٹی نے حضرت اقدس کی سیرت پر مختصر سی کتاب لکھی ہے مگر جامعیت میں بحر بے کنار ہے.آپ کے مزاج مبارک کی دلآویزی کے بارے میں رقم طراز ہیں: سالہا سال سے دیکھا اور سنا ہے کہ جو طمانیت اور جمعیت اور کسی کو بھی آزار نہ دینا حضرت کے مزاج مبارک کو صحت میں حاصل ہے وہی سکون حالت بیماری میں بھی ہے اور جب بیماری سے افاقہ ہوا معاً وہی خندہ روئی اور کشادہ پیشانی اور پیار کی باتیں.میں بسا اوقات عین اس وقت پہنچا ہوں جب کہ ابھی ابھی سر درد کے لمبے اور سخت دورہ سے آپ کو افاقہ ہوا آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا ہے تو مسکرا کر دیکھا ہے اور فرمایا ہے اب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوا کہ گویا آپ کسی بڑے عظیم الشان دل کشا نزہت افزا باغ کی سیر سے واپس آئے ہیں جو یہ چہرہ کی رنگت اور چمک دمک اور آواز میں خوشی اور لذت ہے.(سیرت مسیح موعود از عبد الکریم سیا لکوٹی صفحہ 25 - 26) حضرت نواب مبار کہ بیگم ایک بڑا ہی پر لطف واقعہ لکھتی ہیں.لینڈو پر سیر کے لئے نکلے، سامنے گھوڑوں کی جانب پشت کی طرف حضرت اقدس علیہ السلام اور حضرت اماں جان ہوتی تھیں اور سامنے میں.لاہور اس وقت اتنا بڑا نہ تھا.باہر نکل کر غیر آباد سڑکوں کے چکر کاٹ کر ہم واپس آتے.آپ فرماتے تھے ”نقاب اٹھا دو گاڑی چل رہی ہے کوئی نہیں دیکھتا.کھیتوں میں ہو گا کوئی بیچارہ کسان اپنے کام میں مصروف ہو گا“ ایک دن اسی طرح بیٹھے ہوئے آپ نے فرمایا: ”اب ذرا نقاب نیچی کر لینا میاں محمود گھوڑے پر آرہے ہیں اس کو پردہ کا بہت خیال رہتا ہے.غصہ چڑھے گا.“ 254

Page 255

یہ الفاظ آپ کے لبوں سے بہت پیاری مسکراہٹ کے ساتھ نکلے تھے.میں نے گردن نکال کر دیکھا، سڑک سے اگلی سڑک کے موڑتے کہیں ان کا گھوڑا نظر نہیں آرہا تھا.چند منٹ کے بعد وہی ہوا کہ حضرت بھائی صاحب گھوڑا دوڑاتے پاس سے گزرے اور مجھے جھانکتے دیکھ کر گھورا.مبارکہ کی کہانی مبارکہ کی زبانی صفحہ 15 - 16) ایک دفعہ مولوی کرم الدین صاحب کے مقدمہ میں حضور گورداسپور تشریف لے گئے اور بوجہ روزانہ پیشیوں کے حضور نے وہاں قیام فرما لیا.حضرت میاں عبد الرحیم صاحب ولد میاں محمد عمر صاحب کھانا پکوا کر اوپر بھجوا دیتے اپنے لئے نہیں نکالتے تھے سارا بھجوا دیتے تھے حضور جب کھانا کھا لیتے تو پھر خود کھاتے تھے.ایک دن مہمان زیادہ آگئے کھانا نہ بچا اس لئے حافظ حامد علی صاحب مرحوم ان کو کھانا نہ بھجوا سکے.حضرت میاں عبد الرحیم بیان کرتے ہیں میں حافظ صاحب سے غصے ہو گیا اور یونہی سو گیا.صبح حضور نے آواز دی کہ کیا کھانا تیار ہے.حافظ حامد علی صاحب نے حضور سے عرض کیا کہ ابھی تو کھانا پکانے والا ہی نہیں اُٹھا اور ہم سے غصہ ہیں.پھر حضور نے کھڑ کی کی طرف سے آواز دی.کھڑ کی چوبارے کی تھی اور باورچی خانے کے سامنے تھی مگر میں نے پھر بھی آواز نہ دی.اس پر حضور نے پھر آواز دی میں نے پھر بھی جواب نہیں دیا.پھر حضور خود تشریف نیچے لے آئے اور فرمایا کہ ”کا کا آج کیا ہو گیا ہے، کھانا کس طرح تیار کرو گے؟ اس پر حافظ حامد علی صاحب نے دوبارہ عرض کیا کہ حضور! یہ رات سے ناراض ہے کیو نکہ اس نے کہا تھا کہ حضور کے کھانے کے بعد میرا کھانا لانا، مگر چو نکہ کھانا بچا نہیں تھا اس لئے اس کو نہ دے سکا.اس پر حضور نے فرمایا کہ اس کو پہلے دے دیا کرو.اُس نے عرض کیا (حافظ حامد علی نے) کہ یہ پہلے نہیں لیتا.پھر حضور نے حافظ صاحب کو کہا کہ اس کے لئے ایک سیر دودھ روزانہ لایا کرو.اُس بات کو سن کے میں مچلا بنا ہوا سو رہا تھا.میں فوراً اُٹھا اور عرض کی کہ آدھے گھنٹے کے اندر اندر کھانا تیار ہو جائے گا.چنانچہ میں نے جلدی جلدی آگ جلا کر آدھا گھنٹہ گزرنے سے پہلے کھانا تیار کر دیا.جب حضور کے پاس کھانا گیا تو میں بھی اوپر چوبارے پر چلا گیا.حضور نے پوچھا تم نے کیا طلسمات کیا ہے؟ کیا جادو کیا ہے؟ میں نے عرض کیا پھر بتاؤں گا.دوسرے دن صبح جب مہندی لگانے کے لئے گیا تو فرمایا کل کیا جادو کیا تھا کہ کھانا اتنی جلدی تیار ہو گیا.چونکہ حضور اکیلے تھے میں نے حضور سے عرض کیا کہ دراصل خالی گوشت پک رہا تھا، گوشت رکھ کے تو ہلکی آنچ میں نے رکھ دی تھی، اور تیز آگ بند کی ہوئی تھی.اُس وقت جب آپ نے کہا تو میں نے جلدی سے سبزی ڈالی اور 255

Page 256

کھانا تیار ہو گیا.حضرت صاحب اس سے بڑے ہنسے اور خوش ہوئے.(ماخوذ از روایات حضرت میاں عبدالرحیم رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد 8 صفحہ 228 - 230) روایات بیان فرمودہ حضرت حکیم اللہ بخش صاحب حضرت حکیم اللہ بخش صاحب نے بیان فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد صاحب ایک ماہر طبیب تھے.ایک دفعہ بیاس کے پار سے ایک نوجوان قادر بخش نام ان کا نام سن کر قادیان آیا.مگر اسے معلوم ہوا کہ وہ تو فوت ہو گئے ہیں.اس پر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.حضرت صاحب نے رہنے کو مکان دیا.دوا اور غذا سب اپنے پاس سے مہیا فرماتے رہے.خدا کے فضل سے وہ جلد صحت یاب ہو گیا اور بعد میں کئی دن یہاں رہا.ایک روز اس نے بانگ کہی چونکہ اُس کی آواز بہت اعلیٰ تھی اس لئے حضرت صاحب نے حکم دیا کہ میاں قادر بخش پانچ وقت تم ہی بانگ کہا کرو.چونکہ اس کی آواز بہت ہی بلند تھی.مسلمان تو بہت ہی خوش ہوتے تھے.مگر ہندوؤں کو تکلیف ہوتی تھی.وہ دل میں بُرا مناتے تھے.ایک دفعہ حضرت صاحب کے پاس آئے اور کہنے لگے.مرزا جی اس قادر بخش کی آواز بہت دور جاتی ہے.فرمایا آپ کو اس سے کوئی تکلیف تو نہیں پہنچتی؟ کہنے لگے واہ گرو واہ گرو گودی سوں تکلیف نہیں اسیں سگوں راجی ہوندے آں.پر ایس نوں تسی کہو ایڈی اچی نہ آکھے ذرا نیویں آکھ لیا کرے.(وا ہے گرو، وا ہے گرو، گائے کی قسم تکلیف نہیں ہم تو بلکہ خوش ہوتے ہیں پر آپ اس کو کہیں اتنی اونچی نہ دیا کرے ذرا ہلکی آواز میں دیا کرے.ناقل) حضور نے فرمایا جب آپ کو تکلیف نہیں دیتی تو اس سے بھی اونچی کہا کرے گا ”نیویں“ کی کیا ضرورت ہے.ایک روز میاں قادر بخش کو فرمایا کہ اب تو تو خوب تندرست ہے.عرض کی.حضور دیکھنے میں ایسا نظر آتا ہوں میرے بیچ میں کچھ نہیں.حضور نے ہنس کر فرمایا ( مجھے مخاطب کر کے) دیکھو اللہ بخش! قادر بخش سچ کہتا ہے.واقعی لہو اور چربی کے سوا اس کے بیچ میں کچھ نہیں.(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 4 صفحات 60 تا 67) حضرت مفتی محمد صادق تحریر فرماتے ہیں (قریباً 1902ء) میں ایک لیڈی مس روز نام تھی جس کے مضامین اُس ملک کے اخباروں میں اکثر چھپا کرتے تھے میں نے اُس کے ساتھ تبلیغی خط و کتابت شروع کی اور اُس کے خط جب آتے تھے میں عموماً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ترجمہ کر کے سنایا کرتا 256

Page 257

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام تھا اور ہماری مجلسوں میں اُسے مس گلابو کہا جاتا تھا.ایک دفعہ میں گلابو نے اپنے خط کے اندر پھولوں کی پتیاں رکھ دیں حضرت صاحب نے انہیں دیکھ کر فرمایا.یہ پھول محفوظ رکھو کیونکہ یہ بھی يَأْتِيكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ کی پیشگوئی کو پورا کرنے والے ہیں.“ (ذکر حبیب صفحہ 99) شخص حضرت پیر سراج الحق نعمانی حضرت اقدس کی پاکیزہ محافل کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: بعض وقت میں کوئی لطیفہ سنا دیتا تو ہنستے اور فرماتے کہ صاحبزادہ صاحب اتنے لطیفے تم نے کہاں سے یاد کرلئے ؟ ایک نماز نہیں پڑھتا تھا وہ اتفاق سے ایک کام کے لئے مسجد مبارک میں گیا مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے کہا آج تم کیسے مسجد میں آگئے نماز تو پڑھتے نہیں.حضرت اقدس نے کچھ نہ فرمایا میں نے کہا کہ حضرت اس کی ایسی مثال ہے کہ ایک مراثی کا گھوڑا مسجد میں گھس گیا لو گوں نے اس کو دھمکایا اور کہا کہ مراثی تیرے گھوڑے نے مسجد کی بے ادبی کی.مراثی نے جواب دیا کہ جناب گھوڑا حیوان تھا اس نے مسجد کی بے ادبی کی اور مسجد میں گھس گیا کبھی مجھے بھی دیکھا کہ میں نے کبھی مسجد کی بے ادبی کی ہو اور مجھے کبھی مسجد میں گھستے اور بے ادبی کرتے دیکھا ہے؟ حضرت اقدس ہنسے اور فرمایا اس شخص پر یہ مثال خوب صادق آئی بے شک یہ آج بھولے سے مسجد میں آگیا ہے.وہ شخص ایسا خفیف اور شرمندہ ہوا کہ اسی روز سے نماز پڑھنے لگا.(تذکرة المهدی صفحه 179) درج ذیل واقعہ بھی حضرت پیر سراج الحق نعمانی نے بیان کیا: حضرت اقدس نے فرمایا ”آج ہمیں دکھایا گیا ہے کہ ان موجود اور حاضر لو گوں میں کچھ ہم سے پیٹھ دئے بیٹھے ہیں اور ہم سے رو گرداں ہیں اور کراہت کے ساتھ ہم سے دوسری طرف پھیر رکھا ہوا ہے.یہ باتیں حضرت اقدس کی سن کر میں اور دوسرے اکثر احباب ڈر کر خوف زدہ ہو گئے اور استغفار پڑھنے لگے.خیر حضرت اقدس جب اندر مکان میں تشریف لے گئے اور اندر سے کنڈی لگالی سید شاہ صاحب بہت ہی گھبرائے اور چہرہ فق ہو گیا اور جلدی سے آپ کے دروازہ کی کنڈی ہلائی حضرت اقدس“ واپس تشریف لائے مسکرا کر فرمایا شاہ صاحب کیا ہے.کیا کام ہے.شاہ صاحب نے عرض کیا کہ میں حضور" کو حلف تو نہیں دے سکتا کہ ادب کی جگہ ہے اور نہ میں اوروں کا حال دریافت کرتا ہوں صرف اپنا حال پوچھتا ہوں کہ رُوگردان لوگوں میں میں ہوں یا نہیں.حضرت اقدس شاہ صاحب کی بات سن کر بہت ہنسے اور 257

Page 258

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام اپنا دایاں ہاتھ اُٹھا کر اور ہلا کر فرمایا شاہ صاحب تم ان میں نہیں.شاہ صاحب تم رو گردان لو گوں میں نہیں ہو اور ہنستے ہنستے یہ فرما کر دروازہ بند کرلیا تب فضل شاہ صاحب کی جان میں جان آئی.الله سة ( تذكرة المهدی صفحه 314) کھیل اور مذاق میں بھی شائستگی رکھنے کی نصیحت کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت اقدس کی مثال دی فرمایا: ہنسی اور مذاق کرنا جائز ہے.رسول کریم ملا لی ایک مذاق کیا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود “ بھی مذاق کرتے تھے.ہم بھی مذاق کر لیتے ہیں.ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم مذاق نہیں کرتے.ہم سو دفعہ مذاق کرتے ہیں لیکن اپنے بچوں سے کرتے ہیں، اپنی بیویوں سے کرتے ہیں.لیکن اس طرح نہیں کہ اس میں کسی کی تحقیر کا رنگ ہو.ا گر منہ سے ایسا کلمہ نکل جائے جس میں تحقیر کا ر نگ پایا جاتا ہو تو ہم استغفار کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم سے غلطی ہوئی...میں اس لحاظ سے برا نہیں مناتا کہ ہنسنا کھیلنا جائز نہیں.تم بے شک ہنسو اور کھیلو لیکن بازی بازی باریش بابا ہم بازی.(یعنی) کھیل کھیل ہے تو ٹھیک ہے لیکن اگر باپ کی داڑھی سے بھی کھیلا جائے تو یہ جائز نہیں.خدا تعالیٰ کا مقام خدا تعالیٰ کو دو.فٹبال کا مقام فٹبال کو دو.مشاعرے کا مقام مشاعرے کو دو اور پیشگوئیوں کا مقام پیشگوئیوں کو دو.اگر تمہیں کھیل اور تمسخر کا شوق ہو تو لاہور جاؤ اور مشاعروں میں جا کر شامل ہو جاؤ.اگر تم لاہور جا کر ایسا کرو گے تو لوگ یہی کہیں گے کہ لاہور والوں نے ایسا کیا.یہ نہیں کہیں گے کہ احمدیوں نے ایسا کیا.لیکن یہاں اس کا دسواں بھی کرو گے تو لوگ کہیں گے کہ احمدیوں نے ایسا کیا.پس میں تمہیں ہنسی سے نہیں روکتا.میں یہ کہتا ہوں کہ ہنسی میں اس حد تک نہ بڑھو جس میں جماعت کی بدنامی ہو.“ حصہ.الفضل 12 مارچ 1952ء صفحہ 4) روزنامه الفضل آن لائن لندن 26 اگست 2022ء) 258

Page 259

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام قسط 35 والدین کے احترام کی تلقین اور عمل والدین کے احترام اور احسان کے سلوک کے بارے میں قرآن پاک میں ارشاد ہے: ”اور تم اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ بہت احسان کرو“ (النساء: 37) اور تیرے رب نے فیصلہ صادر کر دیا ہے کہ تم اُس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین سے احسان کا سلوک کرو.اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک تیرے پاس بڑھاپے کی عمر کو پہنچے یا وہ دونوں ہی، تو اُنہیں اُف تک نہ کہہ اور انہیں ڈانٹ نہیں اور انہیں نرمی اور عزت کے ساتھ مخاطب کر.اور ان دونوں کے لئے رحم سے عجز کا پر جھکا دے اور کہہ کہ اے میرے رب! ان دونوں پر رحم کر جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری تربیت کی.“ والدین کی اطاعت کے بارے میں آنحضرت صلی الم نے بہت تاکید فرمائی: (بنی اسرائیل: 24-25) ”خدا کی رضا والد کی رضا میں مضمر ہے اور خدا کی ناراضگی میں پوشیدہ والد کی ناراضگی.66 (شعب الایمان للبيهقي ) اللہ تعالیٰ سب گناہ معاف کر دیتا ہے سوائے والدین کی نافرمانی کے.وہ اس فعل کے مر تکب کو مرنے سے پہلے زندگی میں ہی سزا دیتا ہے“ (مشكوة كتاب الادب باب البر والصله ) وو " من ادرك احد والديه ثم لم يغفر له فابعده الله عز وجل “ (ابن کثیر جلد 6 صفحہ 61) یعنی جس شخص کو اپنے والدین میں سے کسی کی خدمت کا موقع ملے اور پھر بھی اس کے گناہ نہ معاف کئے جائیں تو خدا اس پر لعنت کرے مطلب یہ کہ نیکی کا ایسا اعلیٰ موقعہ ملنے پر بھی اگر وہ خدا کا فضل حاصل 259

Page 260

نہیں کر سکا تو جنت تک پہنچے کے لئے ایسے شخص کے پاس کوئی ذریعہ نہیں.“ ( تفسیر کبیر جلد 4 صفحہ 321) والد جنت میں داخلے کا بہترین دروازہ ہے، چاہے تم اس دروازے کو اکھاڑ دو یا اس کی حفاظت کرو.“ ( سنن ابن ماجہ ، کتاب الادب رقم الحدیث (543) جس شخص کی خواہش ہو کہ اس کی عمر لمبی ہو اور اس کا رزق بڑھا دیا جائے تو اس کو چاہئے کہ اپنے والدین سے حسن سلوک کرے اور صلہ رحمی کی عادت ڈالے.“ ( الجامع لشعب الايمان جلد 10 صفحه 264 265 باب بر الوالدین حدیث 7471 مكتبة الرشد ناشرون الرياض 2004ء) اللہ بزرگ و برتر ارشاد فرماتا ہے کہ میں اللہ ہوں، میں رحمان ہوں میں نے رحم یعنی رشتے ناتے کو پیدا کیا ہے اور اس کے نام کو اپنے نام یعنی رحمن کے لفظ سے نکالا ہے، لہذا جو شخص رحم کو جوڑے گا یعنی رشتہ ناتا کے حقوق ادا کرے گا تو میں بھی اس کو جوڑوں گا اور جو شخص رحم کو توڑے گا یعنی رشتے ناتے کے حقوق ادا نہیں کرے گا میں بھی اس کو جدا کردوں گا“ (ابوداود، مشکوة: 420) عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آنحضور کی خدمت میں عرض کی کہ میں جہاد پر جانا چاہتا ہوں.فرمایا: کیا تیرے ماں باپ زندہ ہیں؟ اس نے کہا ہاں زندہ ہیں.تو آپ نے فرمایا کہ ان دونوں کی خدمت کرو یہی تمہارا جہاد ہے.(صحیح البخاری کتاب الجهاد والسير باب الجهاد باذن الابوين حدیث 3004) نبی اکرم کی یام کے پاس ایک آدمی آیا.اس نے کہا کہ: اے اللہ کے رسول! میں نے اپنی ماں کو یمن سے اپنی پیٹھ کر اٹھا کر حج کرایا ہے، اسے اپنی پیٹھ پر لئے ہوئے بیت اللہ کا طواف کیا، صفا ومروہ کے درمیان سعی کی، اسے لئے ہوئے عرفات گیا، پھر اسی حالت میں اسے لئے ہوئے مزدلفہ آیا اور منی میں کنکریاں ماریں.وہ نہایت بوڑھی ہے ذرا بھی حرکت نہیں کر سکتی.میں نے یہ سارے کام اُسے اپنی پیٹھ پر اٹھائے ہوئے سر انجام دئے ہیں تو کیا میں نے اس کا حق ادا کر دیا ہے؟ آپ کی تعلیم نے فرمایا: ”نہیں، اس کا حق ادا نہیں ہوا.اس آدمی نے پوچھا: ”کیوں“.آپؐ نے فرمایا: ”اس لئے کہ اس نے تمہارے بچپن میں 260

Page 261

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام تمہارے لئے ساری مصیبتیں اس تمنا کے ساتھ جھیلی ہیں کہ تم زندہ رہو مگر تم نے جو کچھ اس کے ساتھ کیا وہ اس حال میں کیا کہ تم اس کے مرنے کی تمنا رکھتے ہو.تمہیں پتہ ہے کہ وہ چند دن کی مہمان ہے.الوعي، العدد 58، السنة الخامسة ) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی الم نے فرمایا، مٹی میں ملے اس کی ناک.مٹی میں ملے اس کی ناک (یہ الفاظ آپ نے تین دفعہ دہرائے) لوگوں نے عرض کیا کہ حضور کون؟ آپ نے فرمایا وہ شخص جس نے اپنے بوڑھے ماں باپ کو پایا اور پھر ان کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہوسکا.(مسلم کتاب البر والصلة باب رغم انف من ادرك ابويه ) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص آنحضرت صلی ال یکم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ لوگوں میں سے میرے حسن سلوک کا کون زیادہ مستحق ہے؟ آپ نے فرمایا: تیری ماں.پھر اس نے پوچھا پھر کون؟ آپ نے فرمایا تیری ماں.اس نے پوچھا پھر کون؟ آپ نے فرمایا تیری ماں.اس نے چوتھی بار پوچھا اس کے بعد کون؟ آپ نے فرمایا ماں کے بعد تیرا باپ تیرے حسن سلوک کا زیادہ مستحق ہے.پھر درجہ بدرجہ قریبی رشتہ دار.( بخاری کتاب الادب باب من احق الناس بحسن الصحبة ) حضرت ابواسید الساعدی بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ آنحضرت صلی الی یکم کی خدمت میں حاضر تھے کہ بنی مسلمہ کا ایک شخص حاضر ہوا اور پوچھنے لگا کہ یا رسول اللہ! والدین کی وفات کے بعد کوئی ایسی نیکی میں ان کے لئے کر سکوں.آپ نے فرمایا.ہاں کیوں نہیں.تم ان کے لئے دعائیں کرو ان کیلئے بخشش طلب کرو.انہوں نے جو وعدے کسی سے کر رکھے تھے انہیں پورا کرو.ان کے عزیز و اقارب سے اسی طرح صلہ رحمی اور حسن سلوک کرو جس طرح وہ اپنی زندگی میں ان کے ساتھ کیا کرتے تھے اور ان کے دوستوں کے ساتھ عزت و اکرام کے ساتھ پیش آؤ.(ابوداؤد ، کتاب الادب) حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی یم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے ماں باپ کا اطاعت شعار و خدمت گزار فرزند، جب ان کی طرف رحمت و محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر نگاہ کے بدلے میں حج مبرور کا ثواب لکھتا ہے، صحابہ کرام نے پوچھا ”یا رسول اللہ ! اگرچہ وہ ہر روز سو بار دیکھے؟ آپ نے فرمایا! ہاں، اگر چہ وہ سو بار دیکھے، اللہ تعالی بڑا پاک اور بہت بڑا ہے.اگرچہ.(مشکوۃ شریف صفحہ 421) 261

Page 262

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام جس نے اپنے ماں اور باپ دونوں کی اطاعت کرتے ہوئے دن کا آغاز کیا اس کے لئے جنت کے دو دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اگر ایک کی اطاعت کی ہو تو ایک دروازہ کھولا جاتا ہے اور جس نے ماں باپ دونوں کی نافرمانی کرتے ہوئے صبح کی اس کے لئے جہنم کے دو دروازے کھل چکے ہوتے ہیں اور اگر ایک کی نافرمانی کی ہو تو ایک دروازہ کھل جاتا ہے.کسی نے پوچھا اگر ماں باپ ظالم ہوں تو کیا پھر بھی ایسا ہو گا فرمایا اگر چہ وہ ظالم ہوں اگر چہ وہ ظالم ہوں اگرچہ وہ ظالم ہوں.“ آنحضور کا والدین کا احترام مشكوة المصابيح كتاب الآداب ) آنحضور صلی الم کے والد محترم حضرت عبداللہ آپ کی پیدائش سے پہلے ہی وفات پاگئے تھے اور آپ کی لی کی چھ سال کے تھے جب آپ کی والدہ محترمہ حضرت آمنہ بھی رحلت فرما گئیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب فرما کے والدین کے احترام کے بارے میں جو احکامات دئے دراصل ساری امت کے لئے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود تحریر فرماتے ہیں: یعنی " فَلَا تَقُل لَّهُمَا أَيْ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا اپنے والدین کو بیزاری کا کلمہ مت کہو اور ایسی باتیں ان سے نہ کر کہ جن میں ان کی بزرگواری کا لحاظ نہ ہو.اس آیت کے مخاطب تو آنحضرت صمیمی کم ہیں لیکن دراصل مرجع کلام امت کی طرف ہے کیونکہ آنحضرت صلی الی ایم کے والد اور والدہ آپ کی خوردسالی میں ہی فوت ہو چکے تھے اور اس حکم میں ایک راز بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس آیت سے ایک عقلمند یہ سمجھ سکتا ہے کہ جبکہ آنحضرت صلی علی نام کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ تو اپنے والدین کی عزت کر اور ہر ایک بول چال میں ان کے بزرگانہ مرتبہ کا لحاظ رکھ تو پھر دوسروں کو اپنے والدین کی کس قدر تعظیم کرنی چاہئے اور اسی کی طرف ہی دوسری آیت اشارہ کرتی ہے.وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا یعنی تیرے رب نے چاہا کہ تو فقط اسی کی بندگی کر اور والدین سے احسان کر...اگر خدا جائز رکھتا کہ اس کے ساتھ کسی اور کی بھی پرستش کی جائے تو یہ حکم دیتا کہ تم والدین کی بھی پرستش کرو.کیو نکہ وہ بھی مجازی رب ہیں اور ہر ایک شخص طبعاً یہاں تک کہ چرند بھی اپنی اولاد کو ان کی خورد سالی میں ضائع ہونے سے بچاتے ہیں.پس خدا کی ربوبیت کے بعد ان کی 262

Page 263

بھی ایک ربوبیت ہے اور وہ جوش ربوبیت کا بھی خدا تعالی کی طرف سے ہے.“ (حقیقۃ الوحی صفحہ 204 - 205) حضور صلی ا ظلم کو والدین کی خدمت کا موقع تو نہیں ملا مگر آپ انہیں بہت محبت سے یاد فرماتے تھے ان کے لئے دعائیں کرتے تھے.والدین سے محرومی کی پیاس کو آپ نے رضاعی والدین کی خدمت کر کے بجھایا اور خوب ہی احترام کیا.ایک دفعہ آپ کی رضاعی والدہ حلیمہ مکہ آئیں اور حضور سے مل کر قحط اور مویشیوں کی ہلاکت کا ذکر کیا.حضور صلی العلیم نے حضرت خدیجہ سے مشورہ کیا اور رضاعی ماں کو چالیس بکریاں اور ایک اونٹ مال سے لدا ہوا دیا.(طبقات ابن سعد جلد اول صفحه 113 مطبوعہ بیروت 1960) حضرت ابو طفیل بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ملا لی ایم کو مقام جغرانہ میں دیکھا.آپ گوشت تقسیم فرما رہے تھے.اس دوران ایک عورت آئی تو حضور نے اس کے لئے اپنی چادر بچھادی اور وہ عورت اس پر بیٹھ گئی.میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ خاتون کون ہے جس کی حضور اس قدر عزت افزائی فرما رہے ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ آنحضور صلی یم کی رضائی والدہ ہیں.(ابوداؤد کتاب الادب باب في بر الوالدين ) ایک بار حضور تشریف فرما تھے کہ آپ کے رضاعی والد آئے.حضور نے ان کے لئے چادر کا ایک پلو بچھا دیا.پھر آپ کی رضاعی ماں آئیں تو آپ نے دوسرا پلو بچھا دیا.پھر آپ کے رضاعی بھائی آئے تو آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کمر اپنے سامنے بٹھا لیا.(سنن ابوداؤ د کتاب الادب باب بر الوالدين ) جنگ حنین میں بنو ہوازن کے قریباً چھ ہزار قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے.ان میں حضرت حلیمہ کے قبیلہ والے اور ان کے رشتہ دار بھی تھے جو وفد کی شکل میں حضور صلی الم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور کی رضاعت کا حوالہ دے کر آزادی کی درخواست کی.(یعنی یہ حوالہ دیا کہ حضرت حلیمہ اس قبیلے کی ہیں، ان کا دودھ آنحضرت صلی علی کلم نے پیا ہوا ہے).آنحضرت صلی علی کلم نے انصار اور مہاجرین سے مشورہ کے بعد سب کو رہا کردیا.(طبقات ابن سعد جلد اول صفحہ 114 - 115 بیروت 1960ء) 263

Page 264

الله سة م الله حضرت حلیمہ سعدیہ سے پہلے حضور صلی اللی نام کو ابو لہب کی لونڈی ثوبیہ نے دودھ پلایا تھا.حضور صلی لی نام اور حضرت خدیجہ اس کا بہت خیال رکھتے تھے...حضور صلی ال یہ ہجرت کے بعد بھی اس کے حالات سے خبر رکھتے تھے اور کپڑوں وغیرہ سے مدد فرماتے رہتے تھے.(طبقات ابن سعد جلد اول صفحہ 109 بیروت 1960ء) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اللهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ حضرت اقدس مسیح موعود کے والدین کی تکریم کے متعلق ارشادات الله قرآن پاک کی تعلیم، آنحضرت صلی یہ کلم کے ارشادات اور عملی نمونے کے اتباع میں آپ کے شاگرد دخل اور عکس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام والدین کے احترام خدمت اور اطاعت کے بارے میں فرماتے ہیں: اپنے ماں باپ کی عزت نہیں کرتا اور امور معروفہ میں جو خلاف قرآن نہیں ہیں ان کی بات کو نہیں مانتا اور ان کی تعہد خدمت سے لا پروا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.“ ”جو شخص حضرت اقدس مسیح موعود کا ارشاد ہے: (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 19) پہلی حالت انسان کی نیک بختی کی یہ ہے کہ والدہ کی عزت کرے.اویس قرنی کے لئے بسا اوقات رسول الله ل ا ل ل لم یمن کی طرف منہ کر کے کہا کرتے تھے کہ مجھے یمن کی طرف سے خدا کی خوشبو آتی ہے.آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ وہ اپنی والدہ کی فرمانبرداری میں بہت مصروف رہتا ہے اور اسی وجہ سے میرے پاس بھی نہیں آسکتا.بظاہر یہ بات ایسی ہے کہ پیغمبر خداصلی للی نیم موجود ہیں، مگر وہ ان کی زیارت نہیں کر سکتے.صرف اپنی والدہ کی خدمت گزاری اور فرمانبرداری میں پوری مصروفیت کی وجہ سے.مگر الله میں دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی علیم نے دو ہی آدمیوں کو السلام علیکم کی خصوصیت سے وصیت فرمائی.یا اولیس کو یا مسیح کو.یہ ایک عجیب بات ہے، جو دوسرے لوگوں کو ایک خصوصیت کے ساتھ نہیں ملی.چنانچہ لکھا ہے کہ جب حضرت عمر ان سے ملنے کو گئے، تو اویس نے فرمایا کہ والدہ کی خدمت میں مصروف رہتا ہوں اور میرے اونٹوں کو فرشتے چرایا کرتے ہیں.ایک تو یہ لوگ ہیں جنہوں نے والدہ کی خدمت میں اس قدر سعی کی اور پھر یہ قبولیت اور عزت پائی.ایک وہ ہیں جو پیسہ پیسہ کے لئے مقدمات کرتے ہیں اور 264

Page 265

والدہ کا نام ایسی بری طرح لیتے ہیں کہ رذیل قومیں چوہڑے چمار بھی کم لیتے ہونگے.ہماری تعلیم کیا ہے؟ صرف اللہ اور رسول اللہ لی ایم کی پاک ہدایت کا بتلا دینا ہے.اگر کوئی میرے ساتھ تعلق ظاہر کر کے اس کو ماننا نہیں چاہتا، تو وہ ہماری جماعت میں کیوں داخل ہوتا ہے؟ ایسے نمونے سے دوسروں کو ٹھو کر لگتی ہے اور وہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایسے لوگ ہیں جو ماں باپ تک کی بھی عزت نہیں کرتے.میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ مادر پدر آزاد کبھی خیر و برکت کا منہ نہ دیکھیں گے.پس نیک نیتی کے ساتھ اور پوری اطاعت اور وفاداری کے رنگ میں خدا رسول کے فرمودہ پر عمل کرنے کو تیار ہو جاؤ.بہتری اسی میں ہے، ور نہ اختیار ہے.ہمارا کام صرف نصیحت کرنا ہے.“ (ملفوظات جلد اول صفحہ 195 – 196) حضرت اویس قرنی کے بارے میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب تک والدہ زندہ رہیں ان کی تنہائی کے خیال سے حضرت اویس قرنی نے حج نہیں کیا اور ان کی وفات کے بعد حج کا فریضہ ادا کیا.(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابة إن رجلا يأتيكم من اليمن يقال له أويس ) شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی کے والد صاحب احمدیت کے سخت مخالف تھے حضرت مسیح موعود ان کے حالات دریافت فرماتے رہے اور نصیحت فرمائی کہ: ”ان کے حق میں دعا کیا کرو ہر طرح اور حتی الوسع والدین کی دلجوئی کرنی چاہئے اور ان کو پہلے سے ہزار چند زیادہ اخلاق اور اپنا پاکیزہ نمونہ دکھلا کر اسلام کی صداقت کا قائل کرو.اخلاقی نمونہ ایسا معجزہ ہے کہ جس کی دوسرے معجزے برابری نہیں کر سکتے سچے اسلام کا یہ معیار ہے کہ اس سے انسان اعلیٰ درجے کے اخلاق پر ہو جاتا ہے اور وہ ایک ممیز شخص ہوتا ہے شاید خدا تعالیٰ تمہارے ذریعہ ان کے دل میں اسلام کی محبت ڈال دے.اسلام والدین کی خدمت سے نہیں روکتا.دنیوی امور جن سے دین کا حرج نہیں ہوتا ان کی ہر طرح سے پوری فرمانبرداری کرنی چاہئے.دل و جاں سے ان کی خدمت بجا لاؤ.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحه 294) پھر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی والدہ کے بارہ میں ہے کہ وہ قادیان آئی ہوئی ہیں.انہوں نے اپنی والدہ کی پیری اور ضعف کا اور ان کی خدمت کا جو وہ کرتے ہیں ذکر کیا یعنی بڑھاپے اور کمزوری کا تو حضرت نے فرمایا: 265

Page 266

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام والدین کی خدمت ایک بڑا بھاری عمل ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ دو آدمی بڑے بد قسمت ہیں.ایک وہ جس نے رمضان پایا اور رمضان گزر گیا پر اس کے گناہ نہ بخشے گئے اور دوسرا وہ جس نے والدین کو پایا اور والدین گزر گئے اور اس کے گناہ نہ بخشے گئے.والدین کے سایہ میں جب بچہ ہوتا ہے تو اس کے تمام ہم و غم والدین اٹھاتے ہیں.جب انسان خود دنیوی امور میں پڑتا ہے تب انسان کو والدین کی قدر معلوم ہوتی ہے.خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں والدہ کو مقدم رکھا ہے، کیو نکہ والدہ بچہ کے واسطے بہت دکھ اٹھاتی ہے.کیسی ہی متعدی بیماری بچہ کو ہو.چیچک ہو، ہیضہ ہو، طاعون ہو، ماں اس کو چھوڑ نہیں سکتی“ (ملفوظات جلد چہارم صفحه 289 - 290) آپ نے ایک شخص کو نصیحت فرمائی کہ: ”خدا تعالیٰ نے انسان پر دو ذمہ داریاں مقرر کی ہیں.ایک حقوق اللہ اور ایک حقوق العباد.پھر اس کے دو حصے کئے یعنی اول تو ماں باپ کی اطاعت اور فرماں برداری اور پھر دوسری مخلوق الہی کی بہبودی کا خیال اور اسی طرح ایک عورت پر اپنے ماں باپ اور خاوند اور ساس سسر کی خدمت اور اطاعت.پس کیا بد قسمت ہے جو ان لو گوں کی خدمت نہ کر کے حقوق عباد اور حقوق اللہ دونوں کی بجا آوری سے منہ موڑتی ہے“ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 180 ایڈیشن 1988ء) حضرت اقدس مسیح موعود کا والدین کا احترام آنحضور صل الم تو اپنے حقیقی والدین کی خدمت نہ کر سکے تاہم آپ کی تعلیمات پر آپ کے ظل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے عمل کر کے دکھایا.شاگرد نے جو پایا استاد کی دولت ہے احمد کو محمد سے تم کیسے جدا سمجھے اللہ تبارک تعالیٰ نے نبی کا راستہ اس کے والدین کے راستے سے جدا بنایا ہوتا ہے اس کے باوجود والدین کی اطاعت اور احترام کی عظیم الشان مثالیں قائم فرمائیں.آپ کے والد صاحب کا نام حضرت مرزا غلام مرتضیٰ رئیس قادیان اور والدہ محترمہ کا نام حضرت چراغ بی بی تھا.حضرت اقدس علیہ السلام 13 فروری 1835ء کو پیدا ہوئے.آپ کے والد صاحب بڑے جاگیر دار تھے.لیکن ملکی حالات کے زیر اثر ان کی جائیداد ضبط ہو گئی اور باوجود ہزاروں روپیہ خرچ کرنے کے وہ اپنی جا گیر 266

Page 267

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام واپس نہ لے سکے جس کا صدمہ اُن کے دل پر آخری دم تک رہا.تاہم حضرت اقدس کی پیدائش سے چند ماہ پہلے پانچ گاؤں واپس مل گئے تھے جس سے کشائش آ گئی.آپ کی والدہ ماجدہ اکثر فرمایا کرتی تھیں، کہ ہمارے خاندان کے مصیبت کے دن تیری ولادت کے ساتھ پھر گئے اور فراخی میسر آگئی اور اسی لئے وہ آپ کی پیدائش کو نہایت مبارک سمجھتی تھیں.تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 50) آپ کے والد صاحب ایک عالم اور علم سے محبت رکھنے والے انسان تھے.اپنے بچوں کے لئے بہترین اساتذہ کا انتخاب کیا اور بھاری معاوضہ دے کر قادیان بلایا کہ وہ یہاں رہ کر ان کو تعلیم دے سکیں.حضرت اقدس کو فطری طور پر علم سے لگاؤ تھا اللہ تبارک تعالیٰ آپ کو بڑے منصب کے لئے تیار کر رہا تھا.کتب بینی خاص طور پر مذہبی کتب پڑھنا آپ کا اوڑھنا بچھونا تھا.آپ کے والد صاحب کہتے تھے کہ ”غلام احمد تم کو پتہ نہیں کہ سورج کب چڑھتا ہے اور کب غروب ہوتا ہے اور بیٹھتے ہوئے وقت کا پتہ نہیں.جب میں دیکھتا ہوں چاروں طرف کتابوں کا ڈھیر لگا رہتا ہے.“ (سیرت المہدی حصہ سوم روایت نمبر 75).آپ خود بیان فرماتے ہیں: ”ان دنوں میں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میں نہ تھا.میرے والد صاحب مجھے بار بار یہی ہدایت کرتے تھے کہ کتابوں کا مطالعہ کم کرنا چاہیے.کیونکہ وہ نہایت ہمدردی سے ڈرتے تھے کہ صحت میں فرق نہ آوے.“ (کتاب البریه، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 181 حاشیہ) آپ کے والد صاحب بیٹے کی محبت میں چاہتے تھے کہ کچھ کھانے کمانے کی بھی فکر کریں، کہیں نوکری کر لیں.ایک ایسے ہی پیغام پر آپ نے بصد ادب جواب دیا: ”حضرت والد صاحب سے عرض کر دو کہ میں ان کی محبت اور شفقت کا ممنون ہوں مگر میری نوکری کی فکر نہ کریں میں نے جہاں نو کر ہونا تھا ہوچکا ہوں.“ (سیرت طیبه از حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے) والد صاحب کا پے بہ پے ناکامیوں اور خساروں سے دنیا سے دل اٹھ گیا تھا.مگر اپنے بیٹے کے دینداری ا کے مشاغل دیکھ کر فکر ہوتا کہ یہ کیسے گزارا کرے گا پھر ملازمت کی کوئی تجویز پیش کی تو آپ نے 267

Page 268

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام عرض کی: ”با! بھلا بتلاؤ تو سہی کہ جو افسروں کے افسر اور مالک الملک احکم الحاکمین کا ملازم ہو اور اپنے رب العالمین کا فرمانبردار ہو اس کو کسی کی ملازمت کی کیا پرواہ ہے.ویسے میں آپ کے حکم سے بھی ماہر نہیں.“ والد صاحب یہ جواب سن کر خاموش ہو جاتے اور فرماتے اچھا بیٹا جاؤ ، اپنا خلوت خانہ سنبھالو...کہتے کہ یہ میرا بیٹا ملا ہی رہے گا.میں اس کے واسطے کوئی مسجد ہی تلاش کردوں جو دس، ہیں من دانے ہی کمالیتا.مگر میں کیا کروں، یہ تو ملا گری کے بھی کام کا نہیں.ہمارے بعد یہ کس طرح زندگی بسر کرے گا.تو یہ نیک صالح مگر اب زمانہ ایسوں کا نہیں.چالاک آدمیوں کا ہے.پھر آب دیدہ ہو کر کہتے کہ جو ہے حال پاکیزہ غلام احمد کا ہے وہ ہمارا کہاں ہے.یہ شخص زمینی نہیں آسمانی ہے.یہ آدمی نہیں فرشتہ ہے.“ تذكرة المهدی حصہ اوّل و دوم صفحه 300 - 302) ( بالآخر والد صاحب کی اطاعت میں اپنا خلوت خانہ جو دراصل کتب خانہ تھا چھوڑ کر مقدمات وغیرہ کی پیروی کرنی پڑی مگر کس دل کے ساتھ فرماتے ہیں: والد صاحب اپنے بعض آباؤ اجداد کے دیہات کو دوبارہ لینے کے لئے انگریزی عدالتوں میں مقدمات کر رہے تھے انہوں نے ان ہی مقدمات میں مجھے بھی لگا یا اور ایک زمانہ دراز تک میں ان کاموں میں مشغول رہا مجھے افسوس ہے کہ بہت ساوقت عزیز میرا ان بے ہودہ جھگڑوں میں ضائع کیا اور اس کے ساتھ ہی والد صاحب موصوف نے زمینداری امور کی نگرانی میں مجھے لگادیا.میں اس طبیعت اور فطرت کا آدمی نہیں تھا.تہ...تاہم میں خیال کرتاہوں کہ میں نے نیک نیتی سے نہ دنیا کے لئے بلکہ محض ثواب اطاعت حاصل کرنے کے لئے اپنے والد صاحب کی خدمت میں اپنے تئیں محو کر دیا تھا اور ان کے لئے دعا میں بھی مشغول رہتا تھا اور وہ مجھے دلی یقین سے بر بالوالدین جانتے تھے اور بسا اوقات کہا کرتے تھے کہ میں صرف ترحم کے طور پر اپنے اس بیٹے کو دنیا کے امور کی طرف توجہ دلاتا ہوں ورنہ میں جانتا ہوں کہ جس طرف اس کی توجہ ہے یعنی دین کی طرف.صحیح اور سچی بات یہی ہے.ہم تو اپنی عمر ضائع کر رہے ہیں.“.کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 182 - 184 حاشیہ) ان مقدمات کے سلسلے میں آپ کو قادیان سے بٹالہ، گورداسپور، ڈلہوزی، امرت سر اور لاہور کے دشوار سفر کرنے پڑتے کاغذات کی نقول وغیرہ کروانا وقت طلب اور ہمت کا کام تھا.آپ اپنے ساتھیوں سے کہتے ”مجھ کو مقدمہ کی تاریخ پر جانا ہے میں والد صاحب کے حکم کی نافرمانی نہیں کر سکتا دعا کرو کہ اس مقدمہ 268

Page 269

میں حق حق ہو جائے اور مجھے مخلصی ملے میں نہیں کہتا کہ میرے حق میں ہو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ حق کیا ہے پس جو اس کے علم میں حق ہے اس کی تائید اور فتح ہو“ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 71 - 72) عین پیشی کے وقت بھی آپ نماز کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کو اولیت دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ”ایک دفعہ میں کسی مقدمہ کی پیروی کے لئے گیا.عدالت میں اور مقدمہ ہوتے رہے.میں باہر ایک درخت کے نیچے انتظار کرتا رہا.چونکہ نماز کا وقت ہو گیا تھا اس لئے میں نے وہیں نماز پڑھنا شروع کر دی.مگر نماز کے دوران میں ہی عدالت سے مجھے آوازیں پڑھنی شروع ہو گئیں مگر میں نماز پڑھتا رہا.جب میں نماز سے فارغ ہو اتو میں نے دیکھا کہ میرے پاس عدالت کا بہرہ کھڑا ہے.سلام پھیر تے ہی اس نے مجھے کہا مرزا صاحب مبارک ہو آپ مقدمہ جیت گئے ہیں.“ (سیرت المہدی جلد اول حصہ اوّل صفحہ 14 روایت نمبر 17 ایک ہندو مدرس پنڈت دیوی رام کا تفصیلی چشم دید بیان سیرت المہدی میں درج ہے: ”اگر کسی کی تاریخ مقدمہ پر جانا ہوتا تھا تو آپ کے والد صاحب آپ کو مختار نامہ دے دیا کرتے تھے اور مرزا صاحب به تعمیل تابعداری فوراً بخوشی چلے جاتے تھے.مرزا صاحب اپنے والد صاحب کے کامل فرمانبر دار تھے مقدمہ پر لاچاری امر میں جاتے تھے.“ (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 759) آپ کی عمر مبارک پچیس تیس برس تھی جب والد صاحب درخت کاٹنے پر تنازعہ ہو گیا.آپ کو مقدمہ کی پیروی کے لئے گورداسپور جانا پڑا.مجسٹریٹ کے سامنے آپ نے جو حق بات تھی کہہ دی.فیصلہ خلاف ہو گیا والد صاحب ناخوش ہوئے مگر آپ نے حق کا ساتھ نہ چھوڑا.1864ء میں سیالکوٹ میں ملازمت کا انتظام کیا.چار سال کی اس ملازمت کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں: چند سال تک میری عمر کراہت طبع کے ساتھ انگریزی ملازمت میں بسر ہوئی.آخر چونکہ میرا جدا رہنا میرے والد صاحب پر بہت گراں تھا.اس لئے ان کے حکم سے جو عین میری منشاء کے موافق تھا.میں نے استعفاء دے کر اپنے تئیں اس نوکری سے جو میری طبیعت کے مخالف تھی سبکدوش کر دیا اور پھر والد صاحب کی خدمت میں حاضر ہو گیا...بقول صاحب مثنوی رومی وہ تمام ایام سخت کراہت اور درد کے 269

Page 270

ساتھ میں نے بسر کئے.من بہر جمعیتے نالاں شدم جفت خوشحالاں و بد حالاں شدم ہر کسے از ظن خود شدیار من وز درون من بخست اسرار من حضرت والد صاحب مرحوم کی خدمت میں پھر حاضر ہوا تو بدستور انہی زمینداری کے کاموں میں مصروف گیا مگر اکثر حصہ وقت کا قرآن شریف کے تدبر اور تفسیروں اور حدیثوں کے دیکھنے میں صرف ہوتا تھا اور بسا اوقات حضرت والد صاحب کو وہ کتابیں سنایا بھی کرتا تھا.“ ہو..میرے والد صاحب اپنی ناکامیوں کی وجہ سے اکثر مغموم اور مہموم رہتے تھے.انہوں نے پیروی مقدمات میں ستر ہزار کے قریب روپیہ خرچ کیا تھا جس کا انجام آخر کار ناکامی تھی“ ہر (کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 184 – 187 حاشیہ) - قریباً چار سال سیا لکوٹ میں ملازم رہنے کے بعد واپس آئے تو اپنے والد صاحب کے حکم کے ماتحت اُن کے زمینداری کے مقدمات کی پیروی میں لگ گئے لیکن آپ کا دل اس کام پر نہ لگتا تھا.چونکہ آپ اپنے والدین کے نہایت فرمانبر دار تھے اس لیے والد صاحب کا حکم تو نہ ٹالتے تھے لیکن اس کام میں آپ کا دل رگز نہ لگتا تھا.چنانچہ اُن دنوں کے آپ کو دیکھنے والے لوگ بیان کرتے ہیں کہ بعض اوقات کسی مقدمہ میں ہار کر آتے تو آپ کے چہرہ پر بشاشت کے آثار ہوتے تھے اور لوگ سمجھتے کہ شاید فتح ہو گئی ہے.پوچھنے پر معلوم ہوتا کہ ہار گئے ہیں.جب وجہ دریافت کی جاتی تو فرماتے کہ ہم نے جو کچھ کرنا تھا کر دیا، منشائے الہی یہی تھا اور اس مقدمہ کے ختم ہونے سے فراغت تو ہو گئی ہے.یاد الہی میں مصروف رہنے کا موقعہ ملے گا..چونکہ حضرت اقدس ایک عبادت گزار فرزند تھے اس لئے آپ کے والد بزرگوار کو آپ سے محبت بھی ایک عجیب طرز کی تھی.ایک طرف نوکری پہ زبردستی لگواتے اور پھر اپنے اس صاحبزادے کی دوری اور فراق بھی قابل برداشت نہ تھا.حضرت اقدس علیہ السلام والد ماجد کے پر زور اصرار پر اطاعت و فرمانبرداری کے جذبہ کے تحت 1860ء کے لگ بھگ سیا لکوٹ میں ملازم ہوئے تو تھوڑے ہی عرصہ ، یعنی چند سال کے بعد والد صاحب نے انہیں واپس بلالیا.اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آپ کی والدہ صاحبہ سخت بیمار تھیں 270

Page 271

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام حضرت پیغام.م سنتے ہی فوراً سیا لکوٹ سے روانہ ہو گئے.لیکن جب قادیان پہنچے تو معلوم ہوا کہ آپ کی مشفق و مہر بان اور جان سے پیاری والدہ آپ سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو چکی ہیں.گھر میں پیشانی پر بوسہ دینے والی کھلی بانہوں سے استقبال کرنے والی ہر سر دو گرم میں سائباں سایہ سینہ سپر ماں 18 اپریل 1867ء کو اس دنیا سے رخصت ہو چکی تھیں.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ آپ کو بہت صدمہ ہوا کیو نکہ وہ آپ کی مزاج دان تھیں اور نیکی کے رجحان کی قدر دان تھیں.ہر ضرورت کا خیال رکھتی تھیں.کچھ ہی عرصہ پہلے آپ کو کپڑوں کے چار جوڑے سیا لکوٹ بھجوائے تھے.( تاریخ احمدیت صفحہ 83) آپ جب بھی اپنی والدہ کا ذکر فرماتے آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے تھے.ایک چشم دید واقعہ حضرت عرفانی صاحب نے یوں بیان فرمایا ہے کہ ان دعاؤں کا تو ہمیں پتہ نہیں جو آپ اپنے والدین کے لئے کرتے ہوں گے مگر والدہ صاحبہ کی محبت کا ایک واقعہ اور جوش دعا کا ایک موقعہ میری اپنی نظر سے گزرا ہے.ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود سیر کے لئے اس قبرستان کی طرف نکل گئے جو آپ کے خاندان کا پرانا قبرستان موسوم بہ شاہ عبد اللہ غازی مشہور ہے راستہ سے ہٹ کر آپ ایک جوش کے ساتھ والدہ صاحبہ کی قبر پر آئے اور بہت دیر تک آپ نے اپنی جماعت کو لے کر جو اس وقت ساتھ.تھی دعا کی اور کبھی حضرت مائی صاحبہ کا ذکر نہ کرتے کہ آپ چشم پر آب نہ ہو جاتے.حضرت صاحب کا عام معمول اس طرف سیر کو جانے کا نہ تھا مگر اس روز خصوصیت سے آپ کا ادھر جانا اور راستہ سے کترا کر قبرستان میں آ کر دعا کے لئے ہاتھ اٹھانا کسی اندرونی آسمانی تحریک کے بدوں نہیں ہو سکتا.“ حیات احمد جلد اول صفحہ 221) حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب نے حضور کی اپنی والدہ سے محبت کا ذکر یوں فرمایا ہے: خاکسار راقم الحروف کو اچھی طرح یاد ہے کہ جب بھی حضرت مسیح موعود اپنی والدہ کا ذکر فرماتے تھے یا آپ کے سامنے کوئی دوسرا شخص آپ کی والدہ کا ذکر کرتا تھا تو ہر ایسے موقعہ پر جذبات کے ہجوم سے آپ کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے اور آواز میں بھی رقت کے آثار ظاہر ہونے لگتے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس وقت آپ کا دل جذبات کے تلاطم میں گھرا ہوا ہے اور آپ اسے دبانے کی کوشش کر رہے ہیں.آپ کی والدہ صاحبہ کا نام چراغ بی بی تھا اور وہ ایمہ ضلع ہوشیار پور کی رہنے والی تھیں اور 271

Page 272

سنا گیا ہے کہ آپ کی والدہ کو بھی آپ سے بہت محبت تھی اور سب گھر والے آپ کو ماں کا محبوب بیٹا سمجھتے تھے.(سلسلہ احمدیہ جلد اول) آپ کے والد صاحب کی طرف سے ایک دفعہ پھر ریاست کپور تھلہ کے محکمہ تعلیم کا افسر بنانے کی تجویز ہوئی لیکن آپ نے نامنظور کر دیا اور اپنے والد صاحب کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کو ترجیح دی.حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں.قادیان سے دو کوس دور واقع گاؤں کے ایک ضعیف العمر نمبر دار ہندو جاٹ اور میاں جان محمد اور گلاب نجاریہ اور دوسرے بہت سے لوگوں کا متفقہ بیان ہے کہ: مرزا غلام احمد اپنے بچپن کے زمانہ سے اب تک جو چالیس سال سے زیادہ ہوں گے نیک بخت اور صالح تھے اکثر گوشہ نشین رہتے تھے.سوائے یاد الہی اور کتب بینی کے آپ کو کسی سے کوئی کام نہ تھا...اپنے والدین کے دنیاوی معاملات و امور میں فرمانبردار اور ان کے ادب اور احترام میں فرو گذاشت نہیں کرتے تھے.1876ء میں آپ کے والد صاحب مختصر بیماری کے بعد وفات پا گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُوْنَ.والدین کے لئے دعا ربِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّينِي صَغِيرًا ) (بنی اسرائیل: 25) کہ اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی تھی.رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنتِ وَلَا تَزِدِ الظَّلِمِينَ إِلَّا تَبَارًا ) (نوح: 29) اے میرے ربّ! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو بھی اور اسے بھی جو بحیثیت مومن میرے گھر میں داخل ہوا اور سب مومن مردوں اور سب مومن عورتوں کو اور تو ظالموں کو ہلاکت کے سوا کسی چیز میں نہ بڑھانا.رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضُهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي 272

Page 273

عِبَادِكَ الصَّلِحِينَ ) (النمل: 20) اے میرے رب! مجھے توفیق بخش کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر کی اور میرے ماں باپ پر کی اور ایسے نیک اعمال بجالاؤں جو تجھے پسند ہوں اور تو مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیکو کار بندوں میں داخل کر.آمين اللهم آمین 273 روزنامه الفضل آن لائن لندن 2 ستمبر 2022ء)

Page 274

قسط 36 حسن اخلاق کی باتیں وہ ہستی جس کے لئے یہ کائنات تخلیق کی گئی ہے.اس لحاظ سے بھی مثالی ہے کہ اپنے عمل سے احترام انسانیت کا درس دیا آپ اتنے خدا ترس اور مخلوق خدا کی ہمدردی کرنے والے تھے کہ رنگ ونسل ، قوم وقبیلہ مذہب و ملت میں کسی قسم کی تفریق کے بغیر ہر انسان کو انسان سمجھا.اللہ تعالیٰ نے جو رتبہ بلند آپ کو عطا فرمایا تھا اس نے آپ کو عاجزی اور خاکساری میں بڑھایا، کبھی کوئی امتیاز یا پروٹو کول اپنے لئے پسند نہ فرمایا.آپ خود کو کسی سے برتر خیال نہیں فرماتے تھے.آپ کا دستور، منشور اور عمل آپ کے اس قول پر تھا جو آپ نے حجتہ الوداع کے خطبے میں فرمایا تھا کہ سب انسان برابر ہیں ”جاہلیت کے تمام دستور آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں، عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے.خدا سے ڈرنے والا انسان مومن ہوتا ہے اور اس کا نافرمان شقی.تم سب کے سب آدم کی اولاد میں سے ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے.“ آنحضرت صلی الله علم کمزوروں، محروموں، غریبوں، حاجت مندوں، بیماروں کا زیادہ خیال فرماتے.آج ہم آپ م کے سفر کے ہمراہیوں اور ساتھیوں سے آپ کے حسن اخلاق کی مثالیں پیش کریں گے.آنحضرت صلی ا لم جب غزوہ بدر کے لئے مدینہ سے نکلے تو سواریاں بہت کم تھیں تین تین آدمیوں کے حصے میں ایک ایک اونٹ آیا.آنحضرت صلی علم خود بھی اس تقسیم میں شامل تھے اور آپ کے حصہ میں جو اونٹ آیا اس میں آپ کے ساتھ حضرت علیؓ اور حضرت ابولبابہ بھی شریک تھے اور سب باری باری سوار ہوئے.جب رسول کریم صلی علی نام کے اترنے کی باری آتی تو دونوں جانثار عرض کرتے یا رسول اللہ صلی علیم آپ سوار رہیں ہم پیدل چلیں گے مگر آپ فرماتے تم دونوں مجھ سے زیادہ پیدل چلنے کی طاقت نہیں رکھتے اور نہ میں تم دونوں سے زیادہ ثواب سے مستغنی ہوں.سة الله (مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحه 411 المكتب الاسلامي للطباعه و النشر بيروت ) حضور صلی ال کی ایک دفعہ سواری پر سوار ہو کر قبا کی طرف جانے لگے.ابوہریرۃ ساتھ تھے.حضور نے ان سے فرمایا کیا میں تمہیں بھی سوار کرلوں انہوں نے عرض کیا جیسے حضور کی مرضی تو فرمایا آؤ تم بھی سوار ہو جاؤ.حضرت ابوہریرہ نے سوار ہونے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوئے اور گرتے گرتے حضور کو 274

Page 275

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام پکڑ لیا اور حضور کے ساتھ گر پڑے.حضور پھر سوار ہوئے اور ابوہریرۃ کو سوار ہونے کی دعوت دی مگر وہ دوسری دفعہ بھی حضور کو لے کر پڑے.حضور پھر سوار ہوئے اور ابوہریرہ سے پوچھا کیا تمہیں بھی سوار کرلوں تو کہنے لگے اب میں آپ کو تیسری دفعہ نہیں گرانا چاہتا.المواهب اللدنیہ زرقانی جلد 4 صفحہ 265 دار لمعرفه بیروت ) س حضرت عقبہ بن عامر جہنی ایک مرتبہ سفر میں حضور صلی الی نیلم کی خدمت میں حاضر تھے.حضور نے اپنی سواری بٹھا دی اور اتر کر فرمایا اب تم سوار ہو جاؤ.عرض کیا یا رسول الله صل العلیم یہ کیسے ممکن ہے کہ میں آپ کی سواری پر سوار ہو جاؤں اور آپ پیدل چلیں.حضور صلی نیلم نے پھر وہی ارشاد فرمایا اور غلام کی طرف سے وہی جواب تھا.حضور صلی نیلم نے پھر اصرار فرمایا تو اطاعت کے خیال سے سواری پر سوار ہو گئے اور حضور صلی الکریم نے سواری کی باگ پکڑ کر اس کو چلانا شروع کر دیا.(کتاب الولاة کندی بحوالہ سیر الصحابہ جلد 2 صفحہ 216 از شاہ معین الدین احمد ندوی اداره اسلامیات لاہور) اسوہ حسنہ کے یہ واقعات اس زاویہ سے بھی دیکھیں کہ یہ سفر کے ساتھی اپنی خوش قسمتی پر کیسے نازاں اور شکر گزار ہوتے ہوں گے.کسی کا اخلاق سے دل جیت لینا اسے محبت کا اسیر بنا دیتا ہے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اللهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ حضرت مسیح موعود اور حسن اخلاق کی باتیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصلی للی مریم کے ہر نقش قدم پر چلنے کی نعمت ملی.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: ”میں نے خدا کے فضل سے نہ کہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سے کامل حصہ پا یا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے بر گزیدوں کو دی گئی اور میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر میں اپنے سید و مولا، فخر الانبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمد ملا ایم کی راہوں کی پیروی نہ کرتا.سو میں نے جو کچھ پا یا اس پیروی سے پایا اور میں اپنے بچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اس نبی کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفتِ کاملہ کا حصہ پا سکتا ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 64 - 65) 275

Page 276

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام سب ہم نے اُس سے پایا شاہد ہے تو خدایا وہ جس نے حق دکھایا وہ کہ لقا یہی ہے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ حضرت اقدس" کے اپنے والد صاحب کے مقدمات وغیرہ کی پیروی کے ذکر میں تحریر فرماتے ہیں: باوجود اس کے کہ آپ دنیا سے ایسے متنفر تھے آپ سست ہر گز نہ تھے بلکہ نہایت محنت کش تھے اور خلوت کے دلدادہ ہونے کے باوجود مشقت سے نہ گھبراتے تھے اور بارہا ایسا ہوتا تھا کہ آپ کو جب کسی سفر پر جانا پڑتا تو سواری کا گھوڑا نو کر کے ہاتھ آگے روانہ کر دیتے اور آپ پیادہ پا ہیں پچھپیں کوس کا سفر طے کر کے منزلِ مقصود پر پہنچ جاتے.بلکہ اکثر اوقات آپ پیادہ ہی سفر کرتے تھے اور سواری پر کم چڑھتے تھے اور عادت پیادہ چلنے کی آپ کو آخر عمر تک تھی.ستر سال سے متجاوز عمر میں جب کہ بعض سخت بیماریاں آپ کو لاحق تھیں، اکثر روزانہ ہوا خوری کے لیے جاتے تھے اور چار پانچ میل روزانہ پھر آتے اور بعض اوقات سات میل پیدل پھر لیتے تھے اور بڑھاپے سے پہلے کا حال آپ بیان فرمایا کرتے تھے کہ بعض اوقات صبح کی نماز سے پہلے اُٹھ کر نماز کا وقت سورج نکلنے سے سوا گھنٹہ پہلے ہوتا ہے) ئیر کے لیے چل پڑتے تھے اور وڈالہ تک پہنچ کر (جو بٹالہ سڑک پر قادیان سے قریباً ساڑھے پانچ میل پر ایک گاؤں ہے صبح کی نماز کا وقت ہوتا تھا.“ (سیرت مسیح موعود علیه السلام از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صفحہ 16) مرزا دین محمد صاحب سے روایت ہے: ”جن دنوں میری آمد و رفت حضرت صاحب کے پاس ہوئی.ان ایام میں حضرت صاحب اپنے موروثیوں وغیرہ کے ساتھ مقدمات کی پیروی کے لئے جایا کرتے تھے.کیونکہ دادا صاحب نے یہ کام آپ کے سپرد کیا ہوا تھا.تایا صاحب باہر ملازم تھے.جب حضرت صاحب بٹالہ جاتے مجھے بھی ساتھ لے جاتے.جب گھر سے نکلتے تو گھوڑے پر مجھے سوار کر دیتے تھے.خود آگے آگے پیدل چلے جاتے.نو کر نے گھوڑا پکڑا ہوا ہوتا تھا.کبھی آپ بٹالہ کے راستہ والے موڑ پر سوار ہو جاتے اور کبھی نہر پر.مگر اس وقت مجھے اتارتے نہ تھے.بلکہ فرماتے تھے کہ تم بیٹھے رہو.میں آگے سوار ہو جاؤں گا.اس طرح ہم بٹالہ پہنچتے.ان ایام میں بٹالہ میں حضرت صاحب کے خاندان کا ایک بڑا مکان تھا.یہ مکان یہاں محلہ اچھی دروازے میں تھا.اُس میں آپ ٹھہرتے تھے.اس مکان میں ایک جولاہا حفاظت کے لئے رکھا ہوا تھا.مکان کے چوبارہ میں آپ رہتے تھے.شام کو اپنے کھانے کے لئے مجھے دو پیسے دیدیتے 276

Page 277

تھے.ان دنوں میں بھٹیاری جھیوری کی دکان سے دو پیسے میں دو روٹی اور دال مل جاتی تھی.وہ روٹیاں میں لا کر حضرت صاحب کے آگے رکھ دیتا تھا.آپ ایک روٹی کی چوتھائی یا اس سے کم کھاتے.باقی مجھے کہتے کہ اس جولا ہے کو بلاؤ.اسے دیدیتے اور مجھے میرے کھانے لئے چار آنہ دیتے تھے اور سائیس کو دو آنہ دیتے تھے.اس وقت نرخ گندم کا روپیہ سوا روپیہ فی من تھا.بعض دفعہ جب تحصیل میں تشریف لے جاتے تو مجھے بھی ساتھ لے جاتے.جب تین یا چار بجتے تو تحصیل سے باہر آتے تو مجھے بلا کر ایک روٹی کھانے کے ناشتہ کے لئے دیدیتے اور خود آپ اس وقت کچھ نہ کھاتے.تحصیل کے سامنے کنوئیں پر وضو کر کے نماز پڑھتے اور پھر تحصیلدار کے پاس چلے جاتے اور جب کچہری برخاست ہو جاتی تو واپس چلے آتے.جب بٹالہ سے روانہ ہوتے تو پھر بھی مجھے سارا رستہ سوار رکھتے.خود کبھی سوار ہوتے اور کبھی پیدل چلتے.پیشاب کی کثرت تھی.اس لئے گاہے بگاہے ٹھہر کر پیشاب کرتے تھے.“ (سیرت المہدی حصہ اول روایت نمبر 680) حضرت اقدس مسیح موعود کے ایک اور خادم مرزا اسماعیل بیگ صاحب کی شہادت ہے کہ جب حضرت اقدس اپنے والد بزرگوار کے ارشاد کے ماتحت بعثت سے قبل مقدمہ کی پیروی کے لئے جایا کرتے تھے تو سواری کے لئے گھوڑا بھی ساتھ ہوتا تھا اور میں بھی عموماً ہم رکاب ہوتا تھا لیکن جب آپ چلنے لگتے تو آپ پیدل ہی چلتے اور مجھے گھوڑے پر سوار کرا دیتے.میں بار بار انکار کرتا اور عرض کرتا حضور مجھے شرم آتی ہے.آپ فرماتے کہ ہم کو پیدل چلتے شرم نہیں آتی.تم کو سوار ہو کے کیوں شرم آتی ہے.(حیات طیبہ صفحہ 15) اللہ تعالیٰ ہم سب کو سیدنا حضرت مسیح موعود کے اخلاق کو بھر پور طریق پر اپنانے کی توفیق عطا فرمائے کیو نکہ حضرت مسیح موعود نے اپنے اخلاق کا جو نمونہ ہمارے لئے چھوڑا ہے اگر ہم ان پر عمل کریں گے تو ہم اپنے اس معاشرے کو جنت نظیر معاشرہ بنا سکتے ہیں.خدا تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطاء فرمائے.(آمین) حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے حضرت مسیح موعود کے اخلاق حسنہ بیان کرتے ہوئے تحریر فرمایا: یں خدا کی قسم کھا کر بیان کرتا ہوں.کہ میں نے آپ سے بہتر ، آپ سے زیادہ خلیق، آپ سے زیادہ نیک، آپ سے زیادہ بزرگ، آپ سے زیادہ اللہ اور رسول کی محبت میں غرق کوئی شخص نہیں دیکھا.آپ ایک نور تھے جو انسانوں کے لئے دُنیا پر ظاہر ہوا اور ایک رحمت کی بارش تھے جو ایمان کی لمبی خشک سالی کے بعد اس زمین پر برسی اور اسے شاداب کر گئی.اگر حضرت عائشہ نے آنحضرت صلی یام کی نسبت یہ بات.277

Page 278

سچی کہی تھی.کہ ”کان خُلقہ القرآن“ تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت اسی طرح یہ کہہ سکتے ہیں کہ "كان خُلُقُهُ حُبّ محمد واتباعه عليه الصلوة والسلام“ (سیرت المہدی جلد اوّل حصہ سوم صفحہ 827 روایت نمبر 975.روزنامه الفضل آن لائن لندن 9 ستمبر 2022 ء 278

Page 279

قسط 37 دین میں جبر نہیں آنحضرت صل ال نیم مذہب اسلام کے بانی تھے، اسلام کے معنی سلامتی ہیں اسلام میں بلا امتیاز مذہب و عقیدہ ہر انسان کو حریت ضمیر اور آزادی مذہب کے حقوق حاصل ہیں.تنگ نظری، تعصب اور انتہا پسندی کی کوئی جگہ نہیں کسی انسان سے محض مذہبی اختلاف کی وجہ سے نفرت، تعصب اور تعرض کی اجازت نہیں.قرآن کریم کا ارشاد ہے: جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے انکار کر دے.(الكهف: 30) آنحضرت عمال الم جو تمام بنی نوع انسان کے لئے خلق عظیم کا عظیم ترین نمونہ تھے آپ نے اس ارشاد خداوندی پر بھر پور عمل فرمایا.آپ کی بابرکت حیات میں کبھی کسی پر اپنا مذہب چھوڑنے، بدلنے یا اختیار کرنے پر پابندی کی کوئی مثال نہیں ملتی.آپ کا واسطہ صابیوں، مجوسیوں، عیسائیوں، یہود اور بے دین لامذہب مشرک لوگوں سے پڑا آپ نے سب سے شاندار حسن سلوک فرمایا اور مذہبی رواداری کی شاندار مثالیں قائم فرمائیں.بعض معاملات بندے اور خدا کے درمیان ہوتے ہیں.دین مذہب بندے اور خدا کا معاملہ ہے اور اس نے اس جرم کی سزا کا حق اپنے پاس رکھا ہے.کسی دوسرے کو حتٰی کہ رسول اللہ کو بھی عقائد بدلنے پر سزا کا اختیار نہیں دیا گیا.کسی بھی نبی کو کبھی بھی نہیں دیا گیا.یہ کام مالک یوم الدین نے اپنے ذمے رکھا ہے.جب بھی انسان نے مذہب کے معاملے میں خدا بننے کی کوشش کی ہے گھاٹے اور تباہی کا سامان کیا ہے.قرآنی ارشاد ہے: جو لوگ ایمان لائے پھر انہوں نے انکار کر دیا پھر ایمان لائے پھر انکار کر دیا پھر کفر میں (اور بھی) بڑھ گئے.اللہ انہیں ہر گز معاف نہیں کر سکتا.(النساء: 138) اس آیت کریمہ میں حالت ایمان سے کفر میں جانے پر سزا کا ذکر نہیں پھر ایمان لا کر پھر کفر اختیار 279

Page 280

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام کرنے پر بھی گردن مارنے کا ذکر نہیں پھر کفر میں بڑھ جانے پر اللہ کی پکڑ کا ذکر ہے.بندے کو کہیں مختار نہیں بنایا.آپ کل عالمین کے لئے رحمت بنائے گئے.رحمت کی وسعتیں تمام انسانوں تک پھیلی تھیں بنیادی انسانی حق نظر انداز نہیں فرمایا.قرآنی اصول لَكُمْ دِينُكُمْ وَليَ دِین.محبت پیار نرمی عفو در گزر اخلاق سے تالیف قلوب کے لئے قرآنی ارشادات اور آپ کے عمل سے کچھ رہنما اصول پیش ہیں: 1- عالمگیر سلامتی کا پیغام آفشوا السلام سلام ( بخاری کتاب الادب ) کو پھیلاؤ.یعنی سلام کہو ان کو جن کو پہچانتے ہو اور جن کو نہیں بھی پہچانتے.2.اللہ کے سوا پکارنے والے کو گالیاں نہ دینا ورنہ وہ دشمنی کرتے ہوئے بغیر علم کے اللہ کو گالیاں دیں گے.(الانعام: 109) 3.سارے مذہبی رہنماؤں اور ان کی عبادت گاہوں کا احترام کرنا.مسلمان ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کریں گے.ان کا کوئی گرجا گرایا نہیں جائے گا.نہ ہی کسی بشپ یا کسی پادری کو بے دخل کیا جائے گا اور نہ ہی ان کے حقوق میں کوئی تبدیلی یا کمی بیشی ہو گی.نہ انہیں ان کے دین سے ہٹایا جائے گا اور ان پر کوئی ظلم یا زیادتی نہیں ہو گی.(ابو داؤد کتاب الخراج) 4.قرآنی ارشاد ہے بھائی چارے کو بڑھاوا دینے کے لئے دوسرے مذاہب کے ساتھ مشترک باتوں پر سمجھوتے کئے جاسکتے ہیں.ترجمہ: تو کہہ دے اے اہل کتاب! آؤ ایک بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے.(ال عمران: 65) 5.بلا امتیاز عدل و انصاف سے کام لینا.قرآنی ارشاد ہے، کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہر گز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو.انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے.(المائده: 9) 280

Page 281

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام 6.اختلاف عقیدہ کے باوجود دوسروں کی خوبیوں کا اعتراف کرنا.ان اہل کتاب میں سے بعض ایسے ہیں کہ ان کے پاس ڈھیروں ڈھیر مال بھی بطور امانت رکھ دو تو وہ تمہیں واپس کر دیں گے.(ال عمران: 76) 7.اختلاف عقیدہ کے باوجود امن کے لئے معاہدے اور ان کی پاسداری کرنا.اس طرح کمال عدل و انصاف بلکہ حسن و احسان سے پر امن اور خوشگوار تعلقات قائم کرنا.جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے.ترجمہ: جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں قتال نہیں کیا اور نہ تمہیں بے وطن کیا، ان کے ساتھ احسان کرنے اور انصاف کے ساتھ برتاؤ کرنے سے اللہ تمہیں نہیں روکتا (الممتحنة: 9) 8 قیام امن کے لئے امن پسندوں کو اختلاف عقیدہ کے باوجود عند الضرورت پناہ دینا.قرآن پاک کا ارشاد ہے.مشر کوں میں سے اگر کوئی تجھ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے.(التوبہ: 6) ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی عالی عالم نے ان اصولوں کو اپنا کر مذہبی رواداری کا ایسا شاندار نمونہ دکھایا جو چشم فلک نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اور ہمیشہ کے لئے مشعل راہ ہے.حیات طیبہ سے چند واقعات مشتے از خروارے پیش ہیں.مہمان نوازی حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ : ایک دفعہ ایک غیر مسلم آنحضرت صلی الم کے ہاں مہمان ہوا.آپ نے اسے بکری کا دودھ دوہ کر دیا لیکن وہ سیر نہ ہوا.پھر دوسری بکری کا دودھ پیش کیا پھر بھی اس کی تسلی نہیں ہوئی.اس پر تیسری، چوتھی یہاں تک کہ وہ سات بکریوں کا دودھ پی گیا.آپ اُس کی اس حرص مسکرائے لیکن مہمان سے کوئی بات نہ کی.(ترمذی کتاب الاطعمه ) 281

Page 282

دعوت قبول کرنا الله س حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے حضور صلی ای کلام کی دعوت کی اور جو کی روٹی اور چربی پیش کی.حضور ملی ایم نے یہ دعوت قبول فرمائی.(مسند احمد بن حنبل جلد 3 فحہ نمبر 211 بحوالہ اسلام اور غیر مسلم رعایا از ملک سیف الرحمن صفحه 20) تحفہ قبول کرنا خیبر کی ایک یہودی عورت زینب بنت حارث نے آپ کی خدمت میں بکری کے بھنے ہوئے گوشت کا تحفہ پیش کیا آپ نے اسے قبول فرما لیا.بعد میں معلوم ہوا کہ اس میں زہر ملا ہوا تھا.(سیرت حلبیہ اردو، جلد سوئم نصف اول صفحہ 180 مطبوعہ دارالاشاعت کراچی 1999ء) بنو نضیر کے یہودیوں میں سے مخیریق نامی ایک شخص نے مرتے وقت اپنے سات باغ آنحضرت علی کلم کے نام بطور ہبہ وصیت کئے.جو آپ نے قبول فرمائے.(روض الانف جلد 2 صفحہ 143 بحوالہ اسلام اور غیر مسلم رعایا از ملک سیف الرحمن صفحه 21) مریض کی عیادت کرنا م سة ایک دفعہ مدینہ میں ایک یہودی نوجوان بیمار ہو گیا.آنحضرت صلی اللہ نیلم کو اس کا علم ہوا تو عیادت کے لئے تشریف لے گئے.اس کی حالت کو نازک پا کر اسے تبلیغ فرمائی اور فرمایا، خدا کا شکر ہے کہ ایک روح آگ کے عذاب سے نجات پا گئی،، ( بخاری کتاب الجنائز باب عيادت المشرك ) قبر، لاش اور جنازوں کا احترام شام کی فتح کے بعد دو صحابہ ایک جنازہ کو دیکھ کر تعظیماً کھڑے ہو گئے.ایک نئے مسلمان نے تعجب کیا اور کہا یہ تو ایک عیسائی کا جنازہ تھا.انہوں نے جواب دیا ہاں ہم جانتے ہیں مگر آنحضرت صلی للی نام کا یہی طریق تھا.ایک بار ایک جنازہ کے احترام میں آپ کھڑے ہو گئے تو کسی نے کہا کہ یہ تو یہودی کا جنازہ تھا تو 282

Page 283

فرمایا: ” کیا یہودی انسان نہیں ہوتے! اور کیا ان میں خدا کی پیدا کی ہوئی جان نہیں؟“ ( بخاری کتاب الجنائز باب مَنْ قَامَ لِجُنَازَةِ ليَهودى ) (مسند احمد بن حنبل جلد 6 ) ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم علی ایم کے ساتھ کئی سفر کئے.کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ نے کسی انسان کی نعش پڑی دیکھی ہو اور اسے دفن نہ کروایا ہو.کبھی یہ نہیں پوچھا کہ یہ مسلمان ہے یا کافر.(اسوہ انسان کامل از حافظ مظفر احمد صفحه 542 مطبوعہ لاہور 2004ء) غزوہ احزاب میں ایک مشرک سردار نوفل بن عبداللہ خندق میں گر کر ہلاک ہو گیا.مشرکین مکہ نے اس کی لاش کے بدلے دس ہزار درہم کی پیش کش کی.آں حضرت صلی علی کریم نے فرمایا: ان کا مردہ واپس لوٹا دو، ہمیں نہ اس کے جسم کی ضرورت ہے اور نہ قیمت کی.اسوه انسان کامل از حافظ مظفر احمد صفحه 543 مطبوعہ لاہور 2004ء) اسی طرح بنو قریظہ کو جب ان کی سرکشی کی سزا دی گئی تو ان کی نعشوں کو خندقیں کھدوا کر دفن کیا گیا.( السيرة النبوية لابن هشام، الجزء الثالث صفحه 156، دار الجيل بيروت لبنان) حضور صلی الم نے قبروں کو بد نیتی اور بے حرمتی کے طور پر اکھیڑ نے والوں پر لعنت بھیجی ہے.حضور صلی اللہ کا حکم تھا کہ کسی مخالف کی نعش کا مثلہ نہ کیا جائے.(موطا امام مالك ، جنائز، باب ما جاء في الاختفاء وهو النبش ) جنگ بدر میں اور جنگ احد میں آپ نے کفار کی نعشوں کی تدفین کروائی اور ایک ہی میدان میں مسلمانوں اور کافروں کی تدفین ہوئی، وقت کی تنگی کی وجہ سے جس طرح کئی مسلمان شہداء کو ایک ہی قبر میں دفن کروایا گیا اسی طرح کفار کی نعشوں کو بھی ایک ہی جگہ دفن کروایا.( السيرة الحلبية ، تأليف على ابن برهان الدين الحلبي الشافعى الجزء الثانی صفحہ 190، مطبعة محمد علی صبیح و اولاده بميدان الازهر بمصر 1935ء ) 283

Page 284

معاہدات اور ان کی پاسداری غیر مسلموں سےم عاہدوں اور ان کی پاسداری کے لئے بھی آپ کا اسوہ مثالی تھا.صلح حدیبیہ کے موقع پر شرائط لکھنے میں سہیل بن عمرو کے کہنے پر بسم اللہ الرحمن الرحیم کی جگہ بِاسْمِكَ اللَّهُمَّ اور محمد رسول اللہ کٹوا کر محمد بن عبد اللہ لکھوایا.حضرت علیؓ نے جو معاہدہ لکھ رہے تھے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی نیم میں تو آپ کے نام کے ساتھ یہ لفظ کبھی نہیں مٹاؤں گا.اس پر آنحضرت صلی الیم نے نشان دہی کروا کر یہ لفظ خود کاٹ دئے.( بخاری کتاب المغازی ) ابھی معاہدہ لکھا نہ گیا تھا کہ کفار کے نمائندے سہیل بن عمرو کا اپنا بیٹا حضرت ابو جندل جو مکہ میں مسلمان ہونے کے جرم میں قید و بند جھیل رہا تھا.مسلمانوں کے حدیبیہ پہنچنے کی خبر سن کر گرتے پڑتے اس حال میں وہاں آن پہنچے کہ پاؤں میں بیڑیاں تھیں اور جسم پر زخموں کے نشان.آ کر پناہ کے طالب ہوئے.مسلمانوں کی ہمدردیاں ان کے ساتھ تھیں.لیکن سہیل معترض ہوا اور کہا کہ معاہدہ طے پا چکا ہے.آنحضرت صلی الم نے اس سے اتفاق کیا.اس پر حضرت ابو جندل نے عرض کیا:، کیا آپ مجھے پھر ان کافروں کے حوالے کر دیں گے، جنہوں نے مجھے اتنی تکلیفیں پہنچائی ہیں اور ظلم کئے ہیں؟ آنحضرت علی ایم نے فرمایا: ابو جندل! صبر کرو اللہ تمہارے اور دیگر مظلوموں کے لئے کوئی راستہ پیدا کر دے گا.اب صلح ہو چکی ہے اور ہم ان لو گوں سے اپنا عہد نہیں توڑ سکتے.، (سیرت ابن ہشام اردو جلد دوم صفحہ 378 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور) میثاق مدینہ انسانی اقدار اور باہمی تعاون کی خاطر کیا گیا تھا اس میں فریق مسلمان، یہود اور مشرکین تھے اس کو حضرت صلی ا ہم نے مدینہ کی پہلی مسلم حکومت کے آئین کے طور پر منظور فرمایا اس معاہدے میں غیر مذاہب کے لوگوں کو مسلمانوں کے ساتھ ایک قوم ایک ملت قرار دیا گیا.سب کو اپنے عقائد پر رہنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی آزادی کا حق تسلیم کیا گیا.کسی فریق کی جنگ کی صورت میں مسلمان غیر مسلموں کی مدد کریں گے اور غیر مسلم، مسلمانوں کی اعانت کریں گے.یہود کے تعلقات جن قوموں سے دوستانہ ہوں گے ان کے حقوق مسلمانوں کی نظر میں یہود کے برابر ہوں 284

Page 285

گے.(سیرت ابن ہشام اردو جلد اول صفحه 439 - 442 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور) پڑوسی کا خیال ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ ایک بار آنحضرت صلی الم نے فرمایا، ابو لہب اور عقبہ میرے پڑوسی تھے اور میں ان کی شرارتوں میں گھرا ہوا تھا.یہ لوگ مجھے تنگ کرنے کے لئے غلاظت کے ڈھیر میرے دروازے پر ڈال دیتے.میں باہر نکلتا تو خود اس غلاظت کو راستہ سے ہٹاتا اور صرف اتنا کہتا ”اے عبدالمناف کے بیٹو! کیا یہی حق ہمسائیگی ہے؟“ بنی نوع انسان کی خدمت (طبقات ابن سعد جزو اول) ایک غزوہ میں مشرکین کے چند بچے ہلاک ہو گئے.حضور صلی الی نام کو پتہ لگا تو فرمایا یہ کون لوگ ہیں؟ جنہوں نے معصوم بچوں کو بھی قتل کر ڈالا؟ ایک صحابی نے عرض کیا.یا رسول اللہ صلی اللم! وہ مشرکین کے بچے ہی تو تھے.فرمایا! «مشر کین کے بچے بھی تمہاری طرح کے انسان ہیں اور بہترین انسان بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں“.اسلام اور غیر مسلم رعایا از ملک سیف الرحمن صفحه 25 مکہ کی ایک غیر مسلم بوڑھی عورت آپ کی تعلیم کو جادو گر جان کر اپنا گھر چھوڑ کر جا رہی تھی.آپ نے اس کا بوجھ اٹھا کر اس کی مدد کی.اسی طرح ایک اور واقعہ عام ہے.جس میں آپ نے مکہ میں نو وارد اراشی نامی ایک شخص کا حق دلانے کے لئے اپنے ایک جانی دشمن ابو جہل کے در پر دستک دی.یہ نو وارد غیر مسلم بھی تھا اور اجنبی بھی.اسوه انسانِ کامل از حافظ مظفر احمد صفحه 581) 285

Page 286

عدل و انصاف ایک موقع پر ایک یہودی قرض خواہ نے آنحضرت صلی اللی کام سے قرض کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہوئے گستاخی کے کلمات کہے اور آنحضور صلی ال نیم کے گلے میں چادر ڈال کر اتنے بل دئے کہ چہرہ مبارک کی رگیں اُبھر آئیں.حضرت عمر نے جو اس موقع پر موجود تھے سختی سے اس یہودی کو ڈانٹ کر روکا.آنحضرت علی ایم نے حضرت عمر سے فرمایا، عمر ! تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا.تمہیں چاہئے تھا کہ اس کو نرمی سے سمجھاتے اور تمہیں مجھے یہ کہنا چاہئے تھا کہ میں قرض وقت پر ادا کروں، بعد ازاں قرض کی ادائیگی کے ساتھ کچھ زائد کھجور اس سخت کلام کو تاوان کے طور پر ادا کرنے کا حکم فرمایا.اسوه انسان کامل از حافظ مظفر احمد صفحه 571) غیروں کی جان و مال کا تحفظ جنگ خیبر کے محاصرہ کے دوران ایک یہودی رئیس کا گلہ بان مسلمان ہو گیا.یہودی رئیس کا گلہ اس کے ہمراہ تھا جس کے بارے میں اس نے آنحضرت صلی اللی علم سے پوچھا ان بکریوں کا میں کیا کروں؟ فرمایا!، ان کا منہ قلعہ کی طرف کر کے ہانک دو، ایسا ہی کیا گیا.(سیرت حلبیہ اردو جلد سوئم نصف اول صفحہ 137 - 138 دارلاشاعت کراچی 1999ء) فتح خیبر کے موقع پر یہود نے شکایت کی کہ بعض مسلمانوں نے ان کے جانور لوٹے اور پھل توڑے ہیں.آنحضرت صلی الی الم ناراض ہوئے اور تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ تم بغیر اجازت کسی کے گھر گھس جاؤ اور پھل وغیرہ توڑو،.اسلام اور غیر مسلم رعایا از ملک سیف الرحمن صفحه 24) تورات واپس کرادی فتح خیبر کے دوران تورات کے بعض نسخے بھی مسلمانوں کو ملے.یہودی آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ ہماری کتاب مقدس ہمیں واپس کی جائے اور رسول کریم صلی للی امام نے صحابہ کو حکم دیا کہ یہود کی مذہبی کتابیں ان کو واپس کر دو.286 (السيرة الحلبیہ جلد 3 صفحہ 49)

Page 287

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام مشرکوں کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا فتح مکہ کے بعد طائف سے بنو ثقیف کے مشرکین کا ایک وفد آنحضرت صلیا عوام کی خدمت میں حاضر ہوا.اس کی سربراہی عبد یالیل نامی وہی سردار کر رہا تھا.جس نے آنحضرت صلی ایم کے سفر طائف کے دوران آپ کو انتہائی دکھ دیا تھا.اس وفد کے قیام کے لئے حضور صلی ایم نے مسجد نبوی میں خیمے نصب کروائے.بعض صحابہ نے یہ بھی کہا کہ : آپ ان کو مسجد میں ٹھہراتے ہیں حالا نکہ وہ مشرک ہیں اور مشرک نجس ہوتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ یہ ارشاد الہی دلوں کی گندگی کے لئے ہے اور شرک کی نجاست خدا کی زمین کو ناپاک نہیں کیا کرتی.اسلام اور غیر مسلم رعایا از ملک سیف الرحمن صفحه 23) فتح مکہ کے بعد دس ہجری میں نجران کے عیسائیوں کا 60 افراد پر مشتمل ایک وفد مدینہ آیا.دوران گفتگو ان کی نماز کا وقت آگیا.آنحضرت صلی علیم نے ان کو مسجد میں اپنے طریق کے مطابق عبادت کی اجازت دی.چنانچہ عیسائیوں نے مسجد نبوی مصلی تیم میں مشرق کی طرف منہ کر کے عبادت کی.(زرقانی جلد 2 صفحہ 135) دوسروں کے جذبات کے احترام میں مقام کے اظہار میں کمی ایک دفعہ ایک صحابی نے کسی یہودی کے سامنے آنحضرت کی حضرت موسی پر ایسے رنگ میں فضیلت بیان کی جس سے اس یہودی کو صدمہ پہنچا تو آپ نے ہدایت فرمائی کہ ٹھیک ہے میں افضل الانبیاء اور خاتم النبیین ہوں لیکن دوسروں کی دلداری کی خاطر میرے حق کے باوجود لا تخترونى على موسى ( بخاری کتاب التفسیر سوره اعراف) یعنی مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دیا کرو.عقیدہ کا زبانی اظہار کافی ہے ایک لڑائی میں حضرت اسامہ بن زید نے ایک کافر کو باوجود یہ کہنے کے کہ میں مسلمان ہوتا ہوں، قتل کر دیا.اس کا جب آپ کے سامنے ذکر ہوا تو آپ حضرت اسامہ پر سخت ناراض ہوئے اور ان کے اس عذر پر کہ وہ شخص دل سے مسلمان نہ ہوا تھا.آپ نے تکرار سے فرمایا: " کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا.آپ کی ناراضگی اس قدر تھی کہ حضرت اسامہ نے تمنا کی 287

Page 288

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام کہ کاش میں اس واقعہ سے پہلے مسلمان ہی نہ ہو ا ہوتا.“ جانی دشمنوں کو معافی (مسلم کتاب الایمان ) دشمن اسلام ابو جہل کا بیٹا عکرمہ اپنے باپ کی طرح عمر بھر رسول اللہ صل ال ریلی سے جنگیں کرتا رہا.فتح مکہ کے موقع پر بھی رسول کریم ملی این نام کے اعلان عفو اور امان کے باوجود ایک دستے پر حملہ آور ہوا اور حرم میں خونریزی کا باعث بنا.اپنے جنگی جرائم کی وجہ سے ہی وہ واجب القتل ٹھہرایا گیا تھا اس کے قتل کا حکم جاری ہو چکا تھا.لیکن آپ نے نہ صرف اسے معاف فرمایا بلکہ مسلمانوں میں رہتے ہوئے اسے اپنے مذہب پر قائم رہنے کی اجازت آپ نے عطا فرمائی.(ماخوذ موطا امام مالك كتاب النكاح ) عکرمہ نے پوچھا کہ اپنے دین پر رہتے ہوئے؟ یعنی میں مسلمان نہیں ہوا.اس شرک کی حالت میں مجھے آپ نے معاف کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ ہاں.اس پر عکرمہ کا سینہ اسلام کے لئے کھل گیا اور بے اختیار کہہ اٹھا کہ اے ! محمد صل للہ ہم آپ واقعی بے حد حلیم اور کریم اور صلہ رحمی کرنیوالے ہیں.رسول اللہ صلی الیکم کے حسن خلق اور احسان کا یہ معجزہ دیکھ کر عکرمہ مسلمان ہو گئے.السيرة الحلبیہ، جلد سوم صفحہ 109 مطبوعہ بیروت) مشرک سردار صفوان بن امیہ نے جنگ بدر کے بعد عمیر بن وہب کو زہر میں بھی تلوار کے ساتھ آنحضرت صلی الم کو نشانہ بنانے کے لئے مدینہ بھیجا.فتح مکہ کے بعد بھاگ کر جدہ چلا گیا.اس کے چچا زاد نے امان کی درخواست کی.آنحضور صلی علیم نے امان دی اور اپنا عمامہ بطور نشانی عطا فرمایا.جس پر صفوان لوٹ آیا.لیکن بجائے ایمان لانے کے یہ کہا: میں تمہارا دین ابھی قبول نہیں کروں گا مجھے دو مہینے کی مہلت دو “ آپ صلی الی ایم نے جواباً فرمایا: ”دو نہیں تم چار مہینہ لے لو.“ (سیرت حلبیہ اردو جلد سوم نصف اول صفحه 286 - 287 مطبوعہ دارالاشاعت کراچی 1999ء) فتح مکہ کے موقع پر معافی پانے والوں میں ابوسفیان، ہندہ، حضرت حمزہ کا قاتل وحشی اور آپ کی کم کی 288

Page 289

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام صاحبزادی حضرت زینب کا قاتل ہبار جیسے اسلام کے کئی بڑے بڑے دشمن بھی شامل تھے.لیا ظلم کا عفو سے انتقام عليك الصلوة عليك السلام آپ کو صرف حکم الہی پہنچانے کا فریضہ سونپا گیا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: الله سة بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ کے بعد نبی جدا ہوتے تھے اور بادشاہ جدا ہوتے تھے جو امور سیاست کے ذریعے سے امن قائم رکھتے تھے مگر آنحضرت صلی علی ایم کے وقت میں یہ دونوں عہدے خدا تعالیٰ نے آنجناب ہی کو عطا کئے اور جرائم پیشہ لوگوں کو الگ الگ کر کے باقی لوگوں کے ساتھ جو برتاؤ تھا وہ آیت مندرجہ ذیل سے ظاہر ہوتا ہے اور وہ یہ ہے: وَقُلْ لِلَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ وَالْأَمِينَ وَأَسْلَمْتُمْ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّهَا عَلَيْكَ الْبَلغُ (ال عمران: 21) ترجمہ: اور اے پیغمبر ! اہل کتاب اور عرب کے جاہلوں کو کہو کہ کیا تم دین اسلام میں داخل ہوتے ہو.پس اگر اسلام قبول کر لیں تو ہدایت پاگئے.اگر منہ موڑیں تو تمہارا تو صرف یہی کام ہے کہ حکم الہی پہنچا دو.اس آیت میں یہ نہیں لکھا کہ تمہارا یہ بھی کام ہے کہ تم ان سے جنگ کرو.اس سے ظاہر ہے کہ جنگ صرف جرائم پیشہ لوگوں کے لئے تھا کہ مسلمانوں کو قتل کرتے تھے یا امن عامہ میں خلل ڈالتے تھے اور چوری ڈاکہ میں مشغول رہتے تھے اور یہ جنگ بحیثیت بادشاہ ہونے کے تھا، نہ بحیثیت رسالت.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ) (البقرة: 191) ترجمہ: تم خدا کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں.یعنی دوسروں سے کچھ غرض نہ رکھو اور زیادتی مت کرو.خدا زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 242 - 243) 289

Page 290

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام وہ ماہ تمام اُس کا، مہدی تھا غلام اُس کا روتے ہوئے کرتا تھا وہ ذکر مدام اُس کا حضرت مسیح موعود نے جو آنحضرت صلی اللی علم کے سچے عاشق تھے نہ صرف اپنے آقا و مطاع کے اسوۂ حسنہ پر من و عن عمل کر کے تمام عمر انسان دوستی کا طریق اپنایا بلکہ اسلام کے چہرے سے مذہب میں جبر ، سزا، زبر دستی، طاقت کے استعمال اور تشدد کا الزام غلط اور ناجائز ثابت کیا.اسلام کی امن و آشتی اور صلح و صفائی کی اصل تصویر دنیا کو دکھائی اور باور کرایا کہ اسلام تلوار سے نہیں بلکہ اپنی حسین تعلیم سے دنیا میں پھیلا ہے.اسلام کی ترقی پہلے بھی ایک فانی فی اللہ کی دعاؤں کا نتیجہ تھی اور اس زمانہ میں بھی ایک فانی فی اللہ کی دعاؤں سے ہو گی ان شاء اللہ تعالیٰ حضرت اقدس کو بیک وقت سارے جھوٹے مذاہب سے جنگ کرکے اسلام کی سچائی ثابت کرنے کا فریضہ سونیا گیا تھا.اس چو مکھی لڑائی کے لئے دلائل اور دعا کا ہتھیار دیا گیا.لڑائی صرف تھی انسانوں سے نہیں تھی.انسانوں کے دل جیتنے کے لئے رفق، نرمی، عفو، در گزر اور اخلاق سے کام لینے کا ارشاد فرمایا گیا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مسلمانوں کو مخاطب ہو کر فرماتے ہیں: تمام سچے مسلمان جو دنیا میں گزرے کبھی ان کا یہ عقیدہ نہیں ہوا کہ اسلام کو تلوار سے پھیلانا چاہئے بلکہ ہمیشہ اسلام اپنی ذاتی خوبیوں کی وجہ سے دنیا میں پھیلا ہے.پس جو لوگ مسلمان کہلا کر صرف یہی بات جانتے ہیں کہ اسلام کو تلوار سے پھیلانا چاہئے، وہ اسلام کی ذاتی خوبیوں کے معترف نہیں ہیں اور ان کی کارروائی درندوں کی کارروائی سے مشابہ ہے.غلط عقائد سے تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 حاشیہ صفحہ 167) یہ جہالت اور سخت نادانی ہے کہ اس زمانے کے نیم ملا فی الفور کہہ دیتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جبراً مسلمان کرنے کے لئے تلوار اٹھائی تھی اور انہی شبہات میں ناسمجھ پادری گرفتار ہیں مگر اس سے زیادہ کوئی جھوٹی بات نہیں ہو گی کہ یہ جبر اور تعدی کا الزام اس دین پر لگایا جائے جس کی پہلی ہدایت یہی ہے کہ لا اكبر الا في الدِّينِ (البقرہ: 257) یعنی دین میں جبر نہیں چاہیے بلکہ ہمارے نبی صلی علیکم اور آپ کے بزرگ صحابہ کی لڑائیاں یا تو اس لئے تھیں کہ کفار کے حملے سے اپنے تئیں بچایا جائے اور یا اس لئے تھیں کہ امن قائم کیا جائے اور جو لوگ تلوار سے دین کو روکنا چاہتے ہیں، ان کو تلوار سے پیچھے ہٹایا جائے.“ تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 158) 290

Page 291

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام جس کام کے لئے آپ لو گوں کے عقیدوں کے موافق مسیح ابن مریم آسمان سے آئے گا یعنی یہ کہ مہدی سے مل کر لو گوں کو جبراً مسلمان کرنے کے لئے جنگ کرے گا یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جو اسلام کو بدنام کرتا ہے.قرآن شریف میں کہاں لکھا ہے کہ مذہب کے لئے جبر درست ہے.بلکہ اللہ تعالیٰ تو قرآن شریف میں فرماتا ہے لا اكر ا لا فِی الدِّین یعنی دین میں جبر نہیں ہے.پھر مسیح ابن مریم کو جبر کا اختیار کیونکر دیا جائے گا یہاں تک کہ بجز اسلام یا قتل کے جزیہ بھی قبول نہ کرے گا.یہ تعلیم قرآن شریف کے کس مقام، اور کس سیپارہ اور کس سورۃ میں ہے.سارا قرآن بار بار کہہ رہا ہے کہ دین میں جبر نہیں اور صاف طور پر ظاہر کر رہا ہے کہ جن لو گوں سے آنحضرت صلی علیم کے وقت لڑائیاں کی گئی تھیں وہ لڑائیاں دین کو جبر أ شائع کرنے کے لئے نہیں تھیں بلکہ یا تو بطور سزا تھیں یعنی ان لو گوں کو سزا دینا منظور تھا جنہوں نے ایک گروہ کثیر مسلمانوں کو قتل کر دیا اور بعض کو وطن سے نکال دیا تھا اور نہایت سخت ظلم کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ ج (الج: 39) یعنی ان مسلمانوں کو جن سے کفار جنگ کر رہے ہیں بسبب مظلوم ہونے کے مقابلہ کرنے کی اجازت دی گئی اور خدا قادر ہے کہ جو ان کی مدد کرے اور یا وہ لڑائیاں ہیں جو بطور مدافعت تھیں یعنی جو لوگ اسلام کے نابود کرنے کے لئے پیش قدمی کرتے تھے یا اپنے ملک میں اسلام کو شائع ہونے سے جبر أ روکتے تھے ان سے بطور حفاظت خود اختیاری یا ملک میں آزادی پیدا کرنے کے لئے لڑائی کی جاتی تھی.بجز ان تین صورتوں کے آنحضرت صلی علی یم اور آپ کے مقدس خلیفوں نے کوئی لڑائی نہیں کی بلکہ اسلام نے غیر قوموں کے ظلم کی اس قدر برداشت کی ہے جو اس کی دوسری قوموں میں نظیر نہیں ملتی.( تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد 1 صفحہ 747 - 748) میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ جیسے بین المذاہب امن کے اصول بیان فرمائے 1897ء اور 1898ء میں ہندوستان میں مذہبی بحث مباحثہ کے سبب حالات سخت خطر ناک ہو رہے تھے گورنمنٹ نے سٹڈیشن کا قانون پاس کیا تھا اس کے باوجود ہندوستان میں فساد کے خطرات بڑھ رہے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ستمبر 1897ء میں ایک میموریل تیار کر کے لارڈ ایلجن بہادر وائسرائے ہند کی خدمت میں ارسال کیا اس میں آپ نے تحریر فرمایا کہ قانون سٹڈیشن میں مذہبی سخت کلامی کو بھی داخل کرنا چاہیے اور اس کے لیے آپ نے تین تجاویز بھی پیش کیں.291

Page 292

ہ کہ قانون پاس کر دینا چاہیے کہ ہر ایک مذہب کے پیرو اپنے مذہب کی خوبیاں تو بے شک بیان کریں لیکن دوسرے مذہب پر حملہ کرنے کی ان کو اجازت نہ ہو گی.اس قانون سے نہ تو مذہبی آزادی میں فرق آوے گا اور نہ کسی خاص مذہب کی طرفداری ہو گی اور کوئی وجہ نہیں کہ کسی مذہب کے پیر و اس بات.پر ناخوش ہوں کہ اُن کو دوسرے مذاہب پر حملہ کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی.اگر یہ طریق منظور نہ ہو تو کم سے کم یہ کیا جائے کہ کسی مذہب پر ایسے حملے کرنے سے لو گوں کو روک دیا جائے جو خود اُن کے مذہب پر پڑتے ہوں.یعنی اپنے مخالف کے خلاف وہ ایسی باتیں پیش نہ کریں جو خود ان کے ہی مذہب میں موجود ہوں.اگر یہ بھی ناپسند ہو تو گورنمنٹ ہر ایک فرقہ سے دریافت کر کے اس کی مسلمہ کتب مذہبی کی ایک فہرست تیار کرے اور یہ قانون پاس کر دیا جائے کہ اس مذہب پر ان کتابوں سے باہر کوئی اعتراض نہ کیا جائے کیونکہ جب اعتراضات کی بنیاد صرف خیالات یا جھوٹی روایات پر ہو جنہیں اس مذہب کے پیرو تسلیم ہی نہیں کرتے تو پھر اُن کے رُو سے اعتراض کرنے کا نتیجہ باہمی بغض و عداوت ترقی کرنے کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے..(سیرت مسیح موعود از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صفحہ 42 - 43) طاقت ہونے کے باوجود در گزر کرنا بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ.ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اخلاق میں کامل تھے.آپ نہایت رؤف رحیم تھے.سخی تھے.مہمان نواز تھے.اشجع الناس تھے.ابتلاؤں کے وقت جب لو گوں کے دل بیٹھے جاتے تھے آپ شیر نر کی طرح آگے بڑھتے تھے.کسی کی دل آزاری کو نہایت ہی ناپسند فرماتے تھے.اگر کسی کو بھی ایسا کرتے دیکھ پاتے تو منع کرتے...ا ایک مرتبہ دشمن پر مقدمہ میں خرچہ پڑا.تو آپ نے اس کی درخواست پر اُسے معاف کر دیا.ایک فریق نے آپ کو قتل کا الزام لگا کر پھانسی دلانا چاہا مگر حاکم پر حق ظاہر ہو گیا اور اس نے آپ کو کہا کہ آپ ان پر قانونا دعویٰ کر کے سزا دلا سکتے ہیں مگر آپ نے در گزر کیا.آپ کے وکیل نے عدالت میں آپ کے دشمن پر اس کے نسب کے متعلق جرح کرنی چاہی.مگر آپ نے اُسے روک دیا.292

Page 293

غرض یہ کہ آپ نے اخلاق کا وہ پہلو دُنیا کے سامنے پیش کیا.جو معجزانہ تھا.سراپا حسن تھے.سراسر احسان تھے اور اگر کسی شخص کا مثیل آپ کو کہا جاسکتا ہے تو وہ صرف محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم آپ کے اخلاق کے اس بیان کے وقت قریباً ہر خلق کے متعلق میں نے دیکھا کہ میں اسکی مثال بیان کر سکتا ہوں.یہ نہیں کہ میں نے یونہی کہہ دیا ہے.میں نے آپ کو اس وقت دیکھا.جب میں دو برس کا بچہ تھا.پھر آپ میری ان آنکھوں سے اس وقت غائب ہوئے جب میں ستائیس سال کا جوان تھا.مگر میں خدا کی قسم کھا کر بیان کرتا ہوں.کہ میں نے آپ سے بہتر ، آپ سے زیادہ خلیق، آپ سے زیادہ نیک، آپ سے زیادہ بزرگ، آپ سے زیادہ اللہ اور رسول کی محبت میں غرق کوئی شخص نہیں دیکھا.آپ ایک نور تھے جو انسانوں کے لئے دُنیا پر ظاہر ہوا اور ایک رحمت کی بارش تھے جو ایمان کی لمبی خشک سالی کے بعد اس زمین پر برسی اور اسے شاداب کر گئی.اگر حضرت عائشہ نے آنحضرت مصل الم کی نسبت یہ بات سچی کہی تھی.کہ ”کان خلقه القرآن“ تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت اسی طرح یہ کہہ سکتے ہیں کہ ” كان خلقه حُبّ محمد و اتباعہ علیہ الصلوۃ والسلام “ (سیرت المہدی حصہ سوم اول صفحہ 826) صداقت کے گواہ متعصب آریہ لاله شرم پت اور لالہ ملاوامل سلسلہ بیعت سے بہت پہلے کے حاشیہ نشین تھے.متعدد نشانوں کے عینی گواہ بنے.حضرت اقدس نے کئی نشانوں میں ان کو شہادت کے لئے مخاطب کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ والی انگوٹھی تیار کروانی چاہی تو اس کے لئے بھی آپ نے لالہ ملاوامل کو روپیہ دے کر امر تسر بھیجا تھا.چنانچہ لالہ ملاوامل امر تسر سے یہ انگوٹھی قریباً پانچ روپے میں تیار کروا کر لائے تھے.حضرت صاحب نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ میں نے ایسا اس لئے کیا تھا تا کہ لالہ ملاوامل اس الہام کا پوری طرح شاہد ہو جاوے چنانچہ حضرت صاحب نے اپنی کتب میں اس پیشگوئی کی صداقت کے متعلق بھی لالہ ملا وامل کو شہادت کے لئے بلایا ہے.(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 146 روایت (152) 293

Page 294

مخالف کو تحفظ دینے کا خوبصورت انداز رم ایک دفعہ ایک ہندوستانی مولوی قادیان آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس حاضر ہو کر کہنے لگا کہ میں ایک جماعت کی طرف سے نمائندہ ہو کر آپ کے دعوی کی تحقیق کے لئے آیا ہوں اور پھر اس نے اختلافی مسائل کے متعلق گفتگو شروع کر دی اور وہ بڑے تکلف سے خوب بنا بنا کر موٹے موٹے الفاظ استعمال کرتا تھا.اس کے جواب میں جو حضرت صاحب نے کچھ تقریر فرمائی تو وہ آپ کی بات کاٹ کر کہنے لگا کہ آپ کو مسیح و مہدی ہونے کا دعوی ہے مگر آپ الفاظ کا تلفظ بھی اچھی طرح ادا نہیں کر سکتے.اس وقت مولوی عبد اللطیف صاحب شہید بھی مجلس میں حضرت صاحب کے پاس بیٹھے تھے ان کو بہت غصہ آگیا اور انہوں نے اسی جوش میں اس مولوی کے ساتھ فارسی میں گفتگو شروع کر دی.حضرت صاحب نے مولوی عبد اللطیف صاحب کو سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا اور پھر کسی دوسرے وقت جب کہ مولوی عبد اللطيف صاحب مجلس میں موجود نہ تھے.فرمانے لگے کہ اس وقت مولوی صاحب کو بہت غصہ آگیا تھا چنانچہ میں نے اسی ڈر سے کہ کہیں وہ اس غصہ میں اس مولوی کو کچھ مار ہی نہ بیٹھیں مولوی صاحب کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں دبائے رکھا تھا.(سیرت المہدی حصہ دوم صفحہ 337 روایت 366) غیر مسلموں کی دکانوں سے خریدنا اور ان کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھانا.آپ کو عیسائیوں کی تیار شدہ چیزوں کے کھانے میں پرہیز نہیں تھا.بلکہ ہندوؤں تک کی چیزوں میں پر ہیز نہیں تھا.البتہ اس روایت کا یہ منشاء معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ عیسائیوں نے طریق ذبح کے معاملہ میں شرعی طریق کو چھوڑ دیا ہے اس لئے ان کے اس قسم کے کھانے سے پرہیز چاہئے.مگر باقی چیزوں میں حرج نہیں.ہاں اگر کوئی چیز اپنی ذات میں حرام ہو تو اس کی اور بات ہے.ایسی چیز تو عیسائی کیا مسلمان کے ہاتھ سے بھی نہیں کھائی جائے گی.(سیرت المہدی - حصہ سوم صفحہ 563 روایت 591) ایک دفعہ ایک خاتون نے ہندو کے ہاتھ کی مٹھائی کھانے پر حیرت اور اعتراض کا اظہار کیا تو آپ نے ے کہا.تو پھر کیا ہے.ہم جو سبزی کھاتے ہیں.وہ گوبر اور پاخانہ کی کھاد سے تیار ہوتی ہے اور اسی طرح 294

Page 295

بعض اور مثالیں دے کر اُسے سمجھایا..(سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ 759 روایت (850) تحفہ قبول کرنا ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہندوؤں کے ہاں کا کھانا کھا پی لیتے تھے اور اہل ہنود کا تحفہ از قسم شیرینی وغیرہ بھی قبول فرما لیتے تھے اور کھاتے بھی تھے.اسی طرح بازار سے ہندو حلوائی کی دُکان سے بھی اشیاء خوردنی منگواتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ہندوؤں کے ہاتھ کی پکی ہوئی چیز جائز سمجھتے تھے اور اس کے کھانے میں پر ہیز نہیں تھا.آجکل جو عموماً پرہیز کیا جاتا ہے.اس کی وجہ مذہبی نہیں بلکہ اقتصادی ہے.(سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ 794 روایت 921) دعوت قبول کرنا ایک شخص جو ہندو تھا اور بڑا ساہو کار تھا وہ جالندھر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں حضور کی مع تمام رفقاء کے دعوت کرنا چاہتا ہوں.آپ نے فوراً دعوت قبول فرمالی.اُس نے کھانے کا انتظام بستی بابا خیل میں کیا اور بہت پر تکلف کھانے پکوائے.جالندھر سے پیدل چل کر حضور مع رفقاء گئے.اُس ساہو کار نے اپنے ہاتھ سے سب کے آگے دستر خوان بچھایا اور لوٹا اور سلائچی لے کر خود ہاتھ ڈھلانے لگا.ہم میں سے کسی نے کہا کہ آپ تکلیف نہ کریں تو اُس نے کہا کہ میں نے اپنی نجات کا ذریعہ محض یہ سمجھا ہے کہ میری یہ ناچیز خدمت خد ا قبول کر لے.غرض بڑے اخلاص اور محبت سے وہ کھانا کھلاتا رہا.کھانا کھانے کے بعد اُس نے حضرت صاحب سے عرض کی کہ کیا خدا میرے اس عمل کو قبول کرے گا، مجھے نجات دے گا؟ حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ذرہ نواز ہے.تم خدا کو وحدہ لاشر یک یقین کرو اور بتوں کی طرف بالکل توجہ نہ کرو اور اپنی ہدایت کے لئے خدا سے اپنی زبان میں ہی دعا مانگتے رہا کرو.اُس نے کہا کہ میں ضرور ایسا کروں گا.حضور بھی میرے لئے دعا مانگتے رہیں.پھر ہم واپس جالندھر آگئے اور وہ ساہو کار دوسرے تیسرے دن آتا اور بڑے ادب کے ساتھ حضور کے سامنے بیٹھ جاتا.(سیرت المہدی حصہ چہارم صفحہ 50 روایت 1056 295

Page 296

بد کلامی پر صبر و ضبط ایک دفعہ حضرت صاحب بڑی مسجد میں کوئی لیکچر یا خطبہ دے رہے تھے.کہ ایک سکھ مسجد میں گھس آیا اور سامنے کھڑا ہو کر حضرت صاحب کو اور آپ کی جماعت کو سخت گندی اور فحش گالیاں دینے لگا اور ایسا شروع ہوا کہ بس چپ ہونے میں ہی نہ آتا تھا.مگر حضرت صاحب خاموشی کے ساتھ سنتے رہے.اس وقت بعض طبائع میں اتنا جوش تھا کہ اگر حضرت صاحب کی اجازت ہوتی.تو اُس کی وہیں تکا بوٹی اُڑ جاتی.مگر آپ سے ڈر کر سب خاموش تھے.آخر جب اس کی فحش زبانی حد کو پہنچ گئی.تو حضرت صاحب نے فرمایا.کہ دو آدمی اسے نرمی کے ساتھ پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دیں مگر اسے کچھ نہ کہیں.اگر یہ نہ جاوے تو حاکم علی سپاہی کے سپرد کر دیں.(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 257 روایت 286) آخری کتاب.پیغام صلح آپ کو اپنی وفات قریب ہونے کے الہامات ہو رہے تھے.زندگی کے آخری دو تین روز ایک کتاب لکھنے میں گزارے جس کا مقصد خالصتاً نسل انسانی کی بہبود، امن عالم کا قیام اور بین المذاہب صلح و آشتی تھا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اللهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ روزنامه الفضل آن لائن لندن 16 ستمبر 2022 ء 296

Page 297

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام قسط 38 بیٹیوں سے پیار، محبت اور اکرام ، آفتاب ہدایت طلوع ہونے سے پہلے بیٹی کی پیدائش کی خبر سے گھر میں سوگ کی کیفیت پیدا ہو جاتی بعض قبائل میں اس سانحے کو اس قدر باعث ذلت و رسوائی سمجھا جاتا کہ بچی کو زندہ در گور کر دیا جاتا.رحمتہ للعالمین حضرت محمد مصطفی ملا لیا ہم نے ہر تاریکی کو نور میں بدلنے کے لئے انقلابی تعلیم دی اور خود عمل کر کے مثال پیش فرمائی.آنحضور صلی الم نے فرمایا: ”جس کی تین لڑکیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو لڑکیاں اور دو بہنیں ہوں اور وہ انہیں ادب سکھائے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور ان کی شادی کر دے تو ان کے لیے جنت ہے.“ (ابوداود) جس کی ایک بیٹی ہو اور اس نے اسے اچھا ادب سکھلایا اور اچھی تعلیم دی اور اس پر ان انعامات کو وسیع کیا جو کہ اللہ نے اس کو دیے تو وہ بیٹی اس کے لیے جہنم سے رکاوٹ اور پردہ بنے گی.(احمد بن حنبل 4:414) جس شخص کے پاس لونڈی ہو اور وہ اسے تعلیم دے اور اچھی طرح سے پڑھائے اور ادب سکھائے اور خوب اچھی طرح سے ادب سکھائے اور پھر اسے آزاد کر کے شادی کردے تو اسے دو اجر ملیں گے.تین بیٹیاں، دو بیٹیاں، ایک بیٹی حتی کہ لونڈی کی اچھی تعلیم و تربیت پر جنت کی بشارتیں دیں.بیٹیوں.حسن سلوک کے طریق سیکھنے اور جزا میں جنت جیسی نعمت کے حصول کے لئے آپ کے اپنی بیٹیوں سے برتاؤ کا مطالعہ کرتے ہیں.حضرت سیدہ زینب آنحضرت علی الم کی دوسری اولاد اور پہلی صاحبزادی تھیں.آپ کے اعلانِ نبوت سے دس سال قبل حضرت خدیجہ کے بطن سے پیدا ہو ئیں.اپنی والدہ کے ساتھ اسلام قبول کر لیا ان کی شادی کم سنی میں خالہ زاد ابو العاص سے ہو گئی تھی.جب آنحضور صلی ا لم نے مکہ سے ہجرت کی تو آپ نے اپنے شوہر کے ساتھ رہنا پسند کیا.مگر ہجرت کے بعد مخالفین نے مکہ میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کردیا ابو العاص نے بھی اسلام قبول 297

Page 298

سکیں.نہیں کیا تھا.بنتِ رسول کو انتہائی خطرہ تھا.اس لئے حضور صلی علیم نے ان کو مدینہ بلالیا.جب یہ اونٹ پر سوار ہو کر مکہ سے روانہ ہوئیں تو کافروں نے ان کا راستہ روک لیا.ظالم ہبار بن الاسود نے نیزہ مار کر ان کو اونٹ سے زمین پر گرا دیا چوٹ لگنے سے ان کا حمل ساقط ہو گیا یہ دیکھ کر ان کے دیور کنانہ کو طیش آ گیا اور اس نے جنگ کے لیے تیر کمان اٹھا لیا.مشرکین نے پسپائی اختیار کر لی مگر سیدہ زینب ان کے چنگل سے نکل کر ہجرت کی کوشش میں کامیاب نہ ہو.غزوہ بدر کے قیدیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ابو العاص بن ربیع بھی تھے اہل مکہ نے جب اپنے اپنے قیدیوں کا فدیہ روانہ کیا تو حضرت زینب نے اپنے شوہر کے فدیہ میں اپنی والدہ حضرت خدیجہ کا شادی کے وقت دیا ہوا ہار بھیجا جو آنحضرت صلی علی کریم نے پہچان لیا اور آبدیدہ ہو کر فرمایا کہ یہ ہار تو خدیجہ کا ہے پھر آپ نے صحابہ سے پوچھا کہ اگر مناسب سمجھو تو یہ ہار اس کو واپس کر دیں اور اس قیدی کو چھوڑ دیں سب نے سر تسلیم خم کرتے ہوئے قیدی کو بھی چھوڑ دیا اور ہار بھی واپس کر دیا.آپ نے ابوالعاص سے یہ وعدہ لیا کہ مکہ جا کر میری بیٹی زینب کو مدینہ روانہ کر دے گا.آنحضور اپنی بیٹی کی وجہ سے پریشان رہتے تھے.ایک دن حضرت زید بن حارثہ سے ارشاد فرمایا کہ کیا تم زینب کو میرے پاس لا سکتے ہو ؟ حضرت زید نے عرض کیا یا رسول اللہ ؟ کیوں نہیں؟ چنانچہ حضور صلی الم نے فرمایا یہ انگوٹھی لے جاؤ اور زینب کو پہنچا دو حضرت زید کمال حکمت سے مکہ گئے اور شہر کے نواح میں پہنچ کر جائزہ لینے لگے.اس دوران حضرت زید ایک چرواہے سے ملے اور اس سے پوچھا کہ تم کس کے ملازم ہو؟ اس نے بتایا کہ میں ابو العاص کا ملازم ہوں پھر حضرت زید نے پوچھا یہ بکریاں کس کی ہیں اس نے کہا زینب بنت محمد صلی ایم کی.حضرت زید نے نبی کریم صلی علیم کی انگوٹھی اس چرواہے کے ذریعہ حضرت زینب کو بھجوائی.انگوٹھی دیکھ کر وہ سمجھ گئیں کہ ان کے باپ کا سندیسہ ہے اگلی رات ابو العاص حضرت زینب کو لے کر نکلے اور یا جج کے مقام پر انہیں حضرت زید کے ساتھ مدینہ روانہ کر کے واپس آگئے حضرت زینب اپنے مقدس والد کے پاس مدینہ پہنچ گئیں.ابوالعاص نے حسب وعدہ حضرت زینب کو مدینہ منورہ بھیج دیا.فتح مکہ سے کچھ عرصہ پہلے انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور مدینہ تشریف لائے آپ نے ہجرت کے چھ سال بعد حضرت زینب کو ان کی زوجیت میں دے دیا.آپ کی خدمت میں پہنچ کر سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کفار کی طرف سے پہنچنے والے مظالم کا ذکر فرمایا تو آپ کا دل بھر آیا فرمایا هِيَ أَفْضَلُ بَنَاتِي أُصِيْبَتْ فِي یہ میری بیٹیوں میں اس اعتبار سے بہت فضیلت والی ہے کہ میری طرف ہجرت کرنے میں اتنی بڑی مصیبت 298

Page 299

اٹھائی.آپ کو اپنی نواسی امامہ سے بھی بہت محبت تھی وہ جو نماز پڑھتے ہوئے بچی کو اٹھانے کا واقعہ ہے وہ امامہ ہی تھیں کھڑے ہوتے تو اسے گود میں اٹھا لیتے اور سجدے میں جاتے تو ایک طرف بٹھا دیتے ایک دفعہ نجاشی نے کچھ تحائف بھیجے تو ان میں ایک قیمتی انگوٹھی بھی تھی جو آپ نے امامہ کو عنایت فرمائی اسی طرح کسی نے ایک مرتبہ بہت ہی بیش قیمت اور انتہائی خوبصورت ایک بار نذر کیا تو آپ صلی ایم نے یہ فرمایا کہ میں یہ ہار اس کو پہناؤں گا جو میرے گھر والوں میں مجھ کو سب سے زیادہ پیاری ہے یہ فرما کر آپ میلی لیم نے یہ قیمتی ہار اپنی نواسی امامہ کے گلے میں ڈال دیا.سیده زینب آپ کی زندگی ہی میں پرانے زخموں کے ہرا ہونے کی وجہ سے انتقال کر گئیں.آنحضور صلی ا یم نے بہت صدمہ محسوس فرمایا تجہیز و تکفین کے بارے میں ہدایات دیں اپنا تہہ بند ان کے کفن کے لئے دیا اور نماز جنازہ پڑھا کر خود اپنے مبارک ہاتھوں سے ان کو قبر میں اتارا.آپ کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی غمگین دل کے ساتھ فرمایا ”میں نے زینب کے ضعف کے خیال سے اللہ سے دعا کی ہے کہ اے اللہ ! اس کی قبر کی تنگی اور غم کو ہلکا کر دے اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول کرلی اور اس کے لئے آسانی پیدا کر دی ہے“ آپ نے وفات پر وفور غم سے رونے والوں کو منع نہیں فرمایا بلکہ بین کرنے سے منع فرمایا.”وہ دکھ جو آنکھ اور دل سے ظاہر ہو وہ اللہ کی طرف سے ایک پیدا شدہ جذبہ ہے اور رحمت اور طبعی محبت کا نتیجہ ہے اور جو ہاتھ اور زبان سے ظاہر ہو وہ شیطانی فعل ہے“ حضرت سیدہ رقیہ ย حضرت سیدہ رقیہ آنحضرت صلی ایم کی دوسری صاحبزادی تھیں.آپ کے اعلانِ نبوت سے سات سال قبل حضرت خدیجہ کے بطن سے پیدا ہو ئیں.اپنی والدہ کے ساتھ اسلام قبول کر لیا.حضرت رقیہ کا پہلا رشتہ ابولہب کے بیٹے عتبہ سے ہوا مگر اس نے رخصتی سے قبل ہی اسلام دشمنی میں طلاق دے دی.اس کے بعد آپ کی شادی حضرت عثمان بن عفان سے ہوئی.رسول اللہ صل الله علم اپنی بیٹی کے گھر تشریف لائے.وہ اس وقت حضرت عثمان کا سر دھو رہی تھیں.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیٹی! ابو عبد اللہ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتی رہو.یقینا یہ میرے صحابہ میں اخلاق کے لحاظ سے مجھ سے سب سے زیادہ مشابہ ہیں.) المعجم الكبير للطبراني جزء صفحہ 76 حدیث 98 دار احیاء التراث العربي 2002ء ) حضرت رقیہ اور حضرت عثمان دونوں ہی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھے.چنانچہ کہا جاتا ہے کہ اَحْسَنَ 299

Page 300

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام زَوْجَيْنِ رَاهُمَا إِنْسَانٌ رُقَيَّةُ وَزَوْجُهَا عُثْمَانُ - سب سے خوبصورت جوڑا جو کسی انسان نے دیکھا ہو وہ حضرت رقیہ اور ان کے شوہر حضرت عثمان ہیں.(شرح علامہ زرقانی جزء 4 صفحہ 322 - 323 باب فی ذکر اولاده الكرام، دار الكتب العلمية بيروت 1996ء) حضرت سعد بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عثمان بن عفان نے ارضِ حبشہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا کہ رقیہ کو بھی ہمراہ لے جاؤ.میرا خیال ہے کہ تم میں سے ایک اپنے ساتھی کا حوصلہ بڑھاتا رہے گا.یعنی دونوں ہوں گے تو ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے رہو گے.پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء بنت ابو بکر کو فرمایا کہ جاؤ اور ان دونوں کی خبر لاؤ کہ چلے گئے ہیں؟ کہاں تک پہنچے ہیں؟ کیا حالات ہیں باہر کے؟ حضرت اسماء جب واپس آئیں تو حضرت ابو بکر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے.انہوں نے بتایا کہ حضرت عثمان ایک خچر پر پالان ڈال کر حضرت رقیہؓ کو اس پر بٹھا کر سمندر کی طرف نکل گئے ہیں.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابو بکر ! حضرت لوط اور حضرت ابراہیمؑ کے بعد یہ دونوں ہجرت کرنے والوں میں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے ہیں.(مستدرک جزء 4 صفحه 414 کتاب معرفۃ الصحابه باب ذکر رقیہ بنت رسول اللہ حدیث 6999 دار الفكر.بیروت (2002 حضرت عثمان حبشہ میں چند سال رہے.اس کے بعد جب بعض صحابہ قریش کے اسلام کی غلط خبر پا کر اپنے وطن واپس آئے تو حضرت عثمان بھی آگئے.یہاں آ کر معلوم ہوا کہ یہ خبر جھوٹی ہے.اس بنا پر بعض صحابہ پھر حبشہ کی طرف لوٹ گئے مگر حضرت عثمان مکہ میں ہی رہے یہاں تک کہ مدینہ کی ہجرت کا سامان پیدا ہو گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام صحابہ کو مدینہ کی طرف ہجرت کا ارشاد فرمایا تو حضرت عثمان بھی اپنے اہل و عیال کے ساتھ مدینہ تشریف لے گئے.(سیر الصحابہ جلد اوّل (خلفائے راشدین) صفحہ 178 ادارہ اسلامیات انار کلی لاہور پاکستان) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ بدر کے لیے روانہ ہوئے تو حضرت عثمان کو اپنی بیٹی حضرت رقیہ کے پاس چھوڑا.وہ بیمار تھیں اور انہوں نے اس روز وفات پائی جس دن حضرت زید بن حارثہ مدینہ کی طرف اس فتح کی خوشخبری لے کر آئے جو بدر میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی ال ولیم کو عطا فرمائی تھی.الطبقات الكبرى لابن سعد، الجزء الثالث صفحه 32 ، عثمان بن عفان، دار احیاء التراث العربي بيروت 1996ء) 300

Page 301

آپ کی پیاری بیٹی اکیس سال کی عمر میں وفات پا گئی.آپ اپنی لختِ جگر کی وفات سے طبعاً مغموم ہوئے.حضرت فاطمہ جب رسول اللہ صلی اللیل مل کے ساتھ قبر پر حاضر ہو ئیں تو وہ بھی آبدیدہ تھیں.آپ نے ان کو تسلی دی اور آنسو پونچھے.حضرت ام کلثوم حضرت ام کلثوم نے بھی اپنی والدہ محترمہ اور بہنوں کے ساتھ اسلام قبول کیا تھا.آپ کا رشتہ غلبہ کے بھائی عیہ سے ہو چکا تھا.جب سورة المسد یعنی سورۃ اللھب نازل ہوئی تو ان کے باپ ابولہب نے ان سے کہا کہ اگر تم دونوں محملا ایم کی بیٹیوں سے علیحدہ نہ ہوئے تو میرا تم سے کوئی تعلق نہیں ہو گا.یہ رشتے توڑ دو.اس پر ان دونوں نے رخصتی سے قبل ہی دونوں بہنوں کو طلاق دے دی.) شرح علامہ زرقانی جزء 4 صفحه 322 323 باب فى ذكر اولاده الكرام، دار الكتب العلمية بيروت 1996ء ) آنحضرت نے حضرت رقیہ کی وفات کے بعد حضرت اُم کلثوم کی حضرت عثمان سے شادی کر دی اس وجہ سے آپ کو ذوالنورین کہا جانے لگا.الاصابہ فی تمییز الصحابہ لامام حجر العسقلانی، جزء 4 صفحه 377، عثمان بن عفان، دار الكتب العلمية بيروت 2005ء ) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمان سے مسجد کے دروازے پر ملے اور فرمانے لگے کہ عثمان یہ جبریل ہیں انہوں نے مجھے خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ام کلثوم کا نکاح رُقیہ جتنے حق مہر پر اور اس سے تمہارے حسن سلوک پر تمہارے ساتھ کر دیا ہے.( سنن ابن ماجه افتتاح الكتاب فضل عثمان حدیث نمبر (110) آپ نے حضرت ام ایمن سے فرمایا میری بیٹی ام کلثوم کو تیار کر کے عثمان کے ہاں چھوڑ آؤ اور اس کے سامنے دف بجاؤ.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.رسول اللہ کی تعلیم تین دن کے بعد حضرت ام کلثوم کے پاس تشریف لائے اور فرمایا.اے میری پیاری بیٹی ! تم نے اپنے شوہر کو کیسا پایا؟ ام کلثوم نے عرض کیا وہ بہترین شوہر ہیں.(سيرة امير المؤمنین عثمان بن عفان شخصیتہ و عصره از علی محمد الصلابی صفحہ 41 الفصل الاول، ذوالنورین عثمان بن عفان بين مكة والمدينة زواجه من ام كلثوم سنة 3 دار المعرفة بيروت 2006ء) 301

Page 302

حضرت ام کلثوم حضرت عثمان کے ہاں 9 ہجری تک رہیں اس کے بعد وہ بیمار ہو کر وفات پا گئیں.رسول اللہ کی تعلیم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور ان کی قبر کے پاس بیٹھے.حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ام کلثوم کی قبر کے پاس اس حال میں بیٹھے ہوئے دیکھا کہ آپ کی آنکھیں اشکبار تھیں.(سيرة امير المؤمنين عثمان بن عفان شخصیته و عصره از علی محمد الصلابی صفحہ 42، المبحث الثالث: ملازمته للنبى فى المدينة / وفاة ام كلثوم،دارالمعرفة بيروت 2006ء) حضرت سیدہ فاطمتہ الزہرا معروف روایات کے مطابق آپ کی پیدائش مکہ میں بعثت نبوی کے پہلے سال ہوئی چال ڈھال طور اطوار میں آنحضور سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتی تھیں کم سنی میں والدہ کی وفات ہو گئی اور والد کے اعلان نبوت کی وجہ سے شدید دشمنی کا آغاز ہو گیا.آپ کو ہر روز اذیت کے ایک نئے انداز کا سامنا کرنا پڑتا.نبوت کے ابتدائی سال انتہائی تکلیف دہ تھے ابو طالب کی وفات کے بعد تو ان کا ہاتھ اور بھی کھل گیا.ایک دفعہ کسی ظالم نے آپ کے سر پر خاک ڈال دی ننھی فاطمہ باپ کا سر دھوتی اور روتی جارہی تھیں.آپ نے تسلی دی بیٹی رو نہیں اللہ تعالیٰ تمہارے باپ کا محافظ ہے.ایک دن آپ نماز پڑھتے ہوئے سجدے میں گئے تو مخالفین نے اونٹ کی بچہ دانی لا کر آپ کی پیٹھ پر رکھ دی وہ اتنی گندی بدبودار اور بوجھل تھی کہ آپ سجدے سے اٹھ نہ سکتے تھے.کم سن حضرت فاطمہ نے روتے روتے اپنے ہاتھوں سے بچہ دانی ہٹائی.آپ کو غزوات میں شریک ہو کر بھی خدمت کی توفیق ملی.جنگ احد میں آنحضور کے لہو لہان زخمی چہرہ مبارک کی مرہم پٹی کی.حضرت فاطمہ زخم دھو رہی تھیں اور حضرت علی ڈھال میں سے پانی ڈال رہے تھے.جب حضرت فاطمہ نے دیکھا کہ پانی خون کو اور نکال رہا ہے تو انہوں نے بوریہ کا ایک ٹکڑا لیا اور اس کو جلایا اور ان کے ساتھ چپکا دیا.اس سے خون رک گیا اور اس دن آپ کا سامنے والا دانت بھی ٹوٹ گیا تھا اور آپ کا چہرہ زخمی ہو گیا تھا اور آپ کا خود آپ کے سر پر ٹوٹ گیا تھا.( صحیح البخاری کتاب المغازی باب ما اصاب النبی ﷺ من الجراح يوم احد حدیث نمبر 4075 ) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد تحریر فرماتے ہیں: آنحضرت صلی اللہ ہم اپنی اولاد میں سب سے زیادہ حضرت فاطمہ کو عزیز رکھتے تھے اور اپنی ذاتی خوبیوں کی وجہ سے وہی اس امتیازی محبت کی سب سے زیادہ اہل بھی تھیں.اب ان کی عمر کم و بیش پندرہ سال کی تھی حضرت علیؓ نے آنحضرت صلی علیم کی خدمت میں حاضر 302

Page 303

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام ہو کر رشتے کی درخواست پیش کر دی.دوسری طرف آنحضرت صلی ال نیلم کو خدائی وحی کے ذریعہ یہ اشارہ ہوچکا تھا کہ حضرت فاطمہ کی شادی حضرت علی سے ہونی چاہیے.چنانچہ حضرت علی نے درخواست پیش کی تو آپ نے فرمایا کہ مجھے تو اس کے متعلق پہلے سے خدائی اشارہ ہو چکا ہے.پھر آپ نے حضرت فاطمہ سے پوچھا تو وہ بوجہ حیا کے خاموش رہیں.یہ بھی ایک طرح کا اظہار رضا مندی تھا.چنانچہ آنحضرت صلی علیم نے مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت کو جمع کرکے حضرت علی اور فاطمہ کا نکاح پڑھایا.یہ 2 ہجری کی ابتدا یا وسط کا واقعہ ہے.اس کے بعد جب جنگ بدر ہو چکی تو غالباً ماہ ذوالحجہ 12 ہجری میں رخصتانہ کی تجویز ہوئی اور آنحضرت صلی الم نے حضرت علی کو بلا کر دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس مہر کی ادائیگی کے لیے کچھ ہے یا نہیں؟...حضرت علی نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! میرے پاس تو کچھ نہیں.آپ نے فرمایا وہ زرہ کہاں ہے جو میں نے اس دن یعنی بدر کے مغانم میں سے تمہیں دی تھی؟ حضرت علی نے عرض کیا وہ تو ہے.آپ نے فرمایا بس وہی لے آؤ.چنانچہ یہ زرہ چار سواسی درہم میں فروخت کر دی گئی اور آنحضرت صلی الم نے اسی رقم میں سے شادی کے اخراجات مہیا کیے.جو جہیز آنحضرت صلی ا لم نے حضرت فاطمہ کو دیا وہ ایک بیل دار چادر، ایک چمڑے کا گدیلا جس کے اندر کھجور کے خشک پتے بھرے ہوئے تھے اور ایک مشکیزہ تھا اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے حضرت فاطمہ کے جہیز میں ایک چکی بھی دی تھی.جب یہ سامان ہو چکا تو مکان کی فکر ہوئی.حضرت علی اب تک غالباً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد کے کسی حجرے وغیرہ میں رہتے تھے مگر شادی کے بعد یہ ضروری تھا کہ کوئی الگ مکان ہو جس میں خاوند بیوی رہ سکیں.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے ارشاد فرمایا کہ اب تم کوئی مکان تلاش کرو جس میں تم دونوں رہ سکو.حضرت علی نے عارضی طور پر ایک مکان کا انتظام کیا اور اس میں حضرت فاطمہ کارخصتانہ ہو گیا.اسی دن رخصتانہ کے بعد آنحضرت صلی ای ام ان کے مکان پر تشریف لے گئے اور تھوڑا سا پانی منگوا کر اس پر دعا کی اور پھر وہ پانی حضرت فاطمہ اور حضرت علی شہر دو پر یہ الفاظ فرماتے ہوئے چھڑ کا کہ اللهُمَّ بَارِكْ فِيهِمَا وَبَارِكْ عَلَيْهِمَا وَبَارِكَ لَهُمَا نَسْلَهُمَا یعنی اے میرے اللہ ! تو ان دونوں کے باہمی تعلقات میں برکت دے اور ان کے ان تعلقات میں برکت دے جو دوسرے لوگوں کے ساتھ قائم ہوں اور ان کی نسل میں برکت دے اور پھر آپ اس نئے جوڑے کو اکیلا چھوڑ کر واپس تشریف لے آئے.(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد صفحه 455 - 456) حضرت فاطمہ اپنی تنگدستی اور غربت کے باوجود زہد و قناعت کا نمونہ دکھایا کرتی تھیں.حضرت علیؓ نے بیان 303

Page 304

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام فرمایا کہ حضرت فاطمہ نے چکی چلانے سے اپنے ہاتھ میں تکلیف کی شکایت کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تو وہ حضور کی طرف گئیں اور آپ کو نہ پایا.آپؓ حضرت عائشہ سے ملیں اور ان کو بتایا کہ کس طرح میں آئی تھی.جب نبی کریم ملا ل ل ل لم تشریف لائے تو حضرت عائشہ نے حضرت فاطمہ کے اپنے ہاں آنے کا بتایا.حضرت علی کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے.ہم کھڑے ہونے لگے تو آپ نے فرمایا کہ اپنی جگہوں پر ٹھہرے رہو.پھر آپ ہمارے درمیان بیٹھ گئے یہاں تک کہ میں نے آپ کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے پر محسوس کی.آپ نے فرمایا کیا میں تم دونوں کو اس سے بہتر بات نہ بتاؤں جو تم نے مانگا ہے وہ یہ ہے کہ جب تم دونوں اپنے بستروں پر لیٹو تو چونتیس مرتبہ اللہ اکبر کہو، تینتیس دفعہ سبحان اللہ کہو اور تینتیس وقع الحمد للہ کہو.یہ تم دونوں کے لیے خادم سے زیادہ بہتر ہے.(صحیح مسلم كتاب الذكر والدعا و التوبة....باب التسبيح اوّل النهار و عند النوم حدیث نمبر 6915–6918) ہے.آخر میں لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَ هُوَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ پڑھنے کا بھی ذکر.اپنی لخت جگر کے حالات دیکھ کر یہ دعا بھی کی کہ کبھی ان کو بھوک کی تکلیف نہ ہو فاطمہ فرماتی ہیں اس کے بعد مجھے کبھی بھوک کی تکلیف نہیں پہنچی.اولاد کی تربیت کا اتنا خیال تھا کہ شادی کے بعد چھ ماہ تک فجر کی نماز کے وقت حضرت فاطمہ کے دروازے کے پاس سے گزرتے تو فرماتے ”اے اہل بیت نماز کا وقت ہو گیا ہے“ پھر آپ سورہ احزاب کی آیت 33 پڑھتے کہ ”اے اہل بیت! اللہ تم سے ہر قسم کی گندگی دور کرنا چاہتا ہے اور تم کو اچھی طرح پاک کرنا چاہتا ہے“ حضرت علی بن ابو طالب نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ لی لی یکم ایک رات ان کے اور اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کیا تم دونوں نماز نہیں پڑھتے تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی علیکم ! ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں.جب وہ چاہے کہ ہمیں اٹھائے تو ہمیں اٹھاتا ہے.آپ صلی الیم نے مجھے اس کا کوئی جواب نہ دیا اور واپس تشریف لے گئے.نماز سے مراد تہجد تھی یعنی کہ نماز تہجد اگر نہیں پڑھتے، تہجد کے وقت اگر ہماری آنکھ نہیں کھلتی تو یہ اللہ کی مرضی ہے اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو ہمیں اٹھا دے اور جب اٹھا دیتا ہے تو ہم پڑھ لیتے ہیں.آنحضرت صلی علیم نے کوئی بحث نہیں کی اور واپس تشریف لے گئے.پھر میں نے آپ کو سنا جبکہ آپ واپس جا رہے تھے.آپ اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے فرما رہے تھے کہ 304

Page 305

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام وَكَانَ الْإِنْسَانُ اكْثَرَ شَيْ ءٍ جَدَلًا کہ انسان سب سے بڑھ کر بحث کرنے والا ہے.(صحیح البخارى كتاب التهجد باب تحريض النبی ﷺ علی قیام اللیل والنوافل...حديث نمبر 1127) باپ بیٹی کا پیار مثالی تھا.جب آپؓ حضور کی خدمت میں حاضر ہوتیں آپ کھڑے ہو جاتے تھے محبت سے ان کا ہاتھ تھام لیتے تھے اسے بوسہ دیتے تھے اور اپنے ساتھ بٹھاتے تھے اسی طرح جب رسول کریم منال العالم آپ کے ہاں جاتے تو آپ کھڑی ہو جاتیں آپ کے ہاتھ تھام کر انہیں بوسہ دیتیں اور اپنے ساتھ حضور کو بٹھاتیں.آپ مدینہ سے سفر پر تشریف لے جاتے تو سب سے آخر میں اپنی پیاری بیٹی سے ملتے واپسی پر مسجد نبوی میں نفل ادا کرنے کے بعد سب سے پہلے حضرت فاطمہ سے ہی ملتے.آپ کی سی کام کی ساری اولاد آپ کی زندگی میں وفات پا گئی صرف حضرت فاطمہ آپ کے بعد چھ ماہ زندہ رہیں صرف آپ سے سادات کی نسل چلی.آپ کا اپنی بیٹی کا اکرام دیکھئے فرماتے ہیں: ”فاطمہ اس امت کی عورتوں“ تمام جہانوں کی عورتوں بہشت میں جانے والی عورتوں اور ایمان لانے والی عورتوں کی سردار ہیں“ اسی طرح فرمایا: ”فاطمہ کی رضا سے اللہ راضی ہوتا ہے اور اس کی ناراضگی سے اللہ ناراض ہوتا ہے“ (استفاده از اہل بیت رسول الله صلى اللی کم از حافظ مظفر احمد ) حضرت اقدس مسیح موعود کا بیٹیوں سے پیار محبت اور اکرام آنحضور صلی ا یکم سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی مماثلت کا ایک پہلو آپ کا بیٹیوں سے پیار محبت اور اکرام بھی ہے آپ صلی الم کی پیش گوئی تھی کہ آنے والا مسیح شادی کرے گا اور اس کی اولاد ہو گی.یہ مبارک فرمان اس طرح پورا ہوا کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے آپ کو سات بیٹوں اور پانچ بیٹیوں سے نوازا.سب بیٹیاں اس زمانے کی خدیجہ ”ہماری ماں حضرت نصرت جہاں کے بطن سے پیدا ہو ئیں.آپ نے اپنی بیٹیوں سے پیار دلار میں اپنے آقا و مطاع علی ال نیم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق پائی.صاحبزادی عصمت مئی 1886ء تا جولائی 1891ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد میں آپ کی لڑکی عصمت ہی صرف ایسی تھی جو قادیان سے باہر پیدا ہوئی اور باہر ہی فوت ہوئی.اس کی پیدائش انبالہ چھاؤنی کی تھی اور فوت لدھیانہ میں ہوئی.اُسے ہیضہ ہوا تھا.اس لڑکی کو شربت پینے کی عادت پڑ گئی تھی.یعنی وہ شربت کو پسند کرتی تھی.حضرت مسیح موعود 305

Page 306

علیہ السلام اس کے لئے شربت کی بوتل ہمیشہ اپنے پاس رکھا کرتے تھے.رات کو وہ اٹھا کرتی تو کہتی اتا شربت پینا.آپ فوراً اُٹھ کر شربت بنا کر اسے پلادیا کرتے تھے.(سیرت المہدی جلد سوم صفحہ 775 روایت نمبر (879) حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سے روایت ہے کہ آپ بچوں کی خبر گیری اور پرورش اس طرح کرتے ہیں کہ ایک سرسری دیکھنے والا گمان کرے کہ آپ سے زیادہ اولاد کی محبت کسی کو نہ ہو گی اور بیماری میں اس قدر توجہ کرتے ہیں اور تیمارداری اور علاج میں ایسے محو ہوتے ہیں کہ گویا اور کوئی فکر ہی نہیں مگر باریک بین دیکھ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے ہے او ر خدا کے لئے اس کی ضعیف مخلوق کی رعایت اور پرورش مد نظر ہے.آپ کی پلوٹھی بیٹی عصمت لدھیانہ میں ہیضہ سے بیمار ہوئی آپ اس کے علاج میں یوں دوا دہی کرتے کہ گویا اس کے بغیر زندگی محال ہے اور ایک دنیا دار دنیا کی عرف اور اصطلاح میں اولاد کا بھو کا اور شیفتہ اس سے زیادہ جانکاہی کر ہی نہیں سکتا.مگر جب وہ مر گئی آپ یوں الگ ہو گئے کہ گویا کوئی چیز تھی ہی نہیں اور جب سے کبھی ذکر تک نہیں کیا کہ کوئی لڑکی تھی.صاحبزادی نواب مبار که بیگم (سیرت مسیح موعود از یعقوب علی عرفانی مبارکہ بیگم 1897ء میں پیدا ہوئیں.کل گیارہ سال اور چوبیس دن حضرت اقدس کا ساتھ رہا.ذہین تھیں مشاہدہ اچھا تھا.آپ کی یادداشت میں محفوظ باتوں سے حضرت اقدس کی بیٹیوں سے پیار محبت اور تعلیم و تربیت کے بارے میں رہنما اصولوں اور ان پر عمل کا علم ہوتا ہے.تعلیم و تربیت کے لحاظ سے بیٹوں بیٹیوں میں تفریق نہیں کی صاحبزادی مبارکہ نے تین سال کی عمر میں پڑھنا شروع کیا.ساڑھے چار سال کی عمر میں قرآن پاک مکمل پڑھ کے دہرا بھی لیا تھا.آپؐ نے اردو، حساب، فارسی اور انگریزی بھی پڑھ لی.شعر کے اوزان کا تعارف بھی ہو گیا.قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے کے لیے حضرت اقدس نے آپ کو حضرت مولوی عبدالکریم کے پاس بھیجا.آپ پہلے ترجمہ پڑھنے جاتیں پھر پیر جی سے باقی کتابیں پڑھتیں.حضرت مولوی عبدالکریم کی وفات کے بعد حضرت حکیم نور الدین خلیفہ (اول) کے پاس ترجمہ سیکھنے کے لیے بھیجا.اس کے ساتھ آپ نے تجرید بخاری اور کچھ دوسرے مجموعہ احادیث پڑھ لیے.حضرت پیر صاحب بیمار ہو گئے تو حضرت اقدس نے فارسی خود پڑھائی.یہ سلسلہ آپ کی مصروفیات کی وجہ سے جاری نہ رہ سکا.آپ نے فرمایا ” مجھے بہت کام ہوتا ہے.نہیں چاہتا کہ تمہاری تعلیم میں ناغہ ہو.مولوی صاحب (حضرت خلیفۃ المسیح 306

Page 307

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام الاول سے کہو فارسی بھی پڑھا دیا کریں.“ بچوں کی آمین والی نظم میں مبار کہ بیٹی کی ذہانت و فطانت کے اعتراف کا خوب صورت اظہار دیکھئے: اور ان کے ساتھ دی ہے ایک دختر ہے چھ کچھ کم پانچ کی وہ نیک اختر کلام اللہ کو پڑھتی ہے فرفر خدا کا فضل اور رحمت سراسر ہوا اک خواب میں یہ مجھ یہ اظہر کہ اس کو بھی ملے گا بخت برتر لقب عزت کا پاوے وہ مقرر یہی روز ازل سے ہے مقدر خدا نے چار لڑکے اور دختر عطا کی، پس یہ احسان ہے سراسر (در ثمین) لمحہ لمحہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں نیک تربیت کے بارے میں حضرت نواب مبار کہ بیگم بیان فرماتی ہیں: ”حضرت مسیح موعود کی زبان میں معجزانہ اثر تھا آپ نہ بات بات پر ٹوکتے نہ شوخیوں پر جھڑ کنے لگتے بلکہ انتہائی نرمی سے فرماتے کہ یوں نہ کرو جس بات سے آپ نے منع کیا مجھے یاد نہیں کہ کبھی بھول کر بھی وہ بات پھر کی ہو.وہ پیار بھری زبان معجز بیان کہ ایک بار کہا پھر عمر بھر کو اس بات سے طبیعت بیزار ہو گئی.ایک شام آسمان پر ہلکے ہلکے ابر میں خوب صورت رنگ کی دھنک دیکھ کر ہم بچے خوش ہو رہے تھے.آپ اس وقت صحن میں ٹہل رہے تھے.جو بعد میں ام ناصر کا صحن کہلاتا رہا ہے میں نے کہا یہ جو کمان ہے اس کو سب لوگ ( پنجابی میں) مائی بڈھی کی پینگ کہتے ہیں.اس کو عربی میں کیا کہتے ہیں؟ فرمایا: اس کو عربی میں قوس قزح کہتے ہیں مگر تم اس کو قوس اللہ“ کہو.قوس قزح کے معنی شیطان کی کمان ہیں.یہ بات مجھے ہمیشہ یاد رہی.ہمارے بچپن میں ایک کھلونا آتا تھا Look and Laugh دور بین کی 307

Page 308

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام صورت کا.اس میں دیکھو تو عجیب مضحکہ خیز صورت دوسرے کی نظر آتی تھی.جب یہ کھلونا لاہور سے کسی نے لا کر دیا.آپ کو یہ چیز میں نے دکھائی.آپ نے دیکھا اور تبسم فرمایا کہا: ”اب جاؤ دیکھو اور ہنسو کھیلو مگر دیکھو یاد رکھنا میری جانب ہر گز نہ دیکھنا سب والدین بچوں کو تہذیب سکھاتے ہیں مگر یہ ایک خاص بات تھی اللہ تالی کا فرستادہ نبی مؤدب بن کر بھی آتا ہے اور خود اس کو اپنا ادب بھی اپنی ذاتی شخصیت کے لئے نہیں بلکہ اس مقام کی عزت کے لئے جس پر اس کو کھڑا کیا گیا“ اس ذات برتر کے احترام کی وجہ سے جس نے اس کو خاص مقام بخشا جس کی جانب سے وہ بھیجا گیا سکھانا پڑتا ہے.مجھے اور مبارک احمد کو قینچی سے کھیلتے دیکھ کر تنبیہ فرمائی کیونکی قینچی کی نوک اس وقت میں نے مبارک احمد کی طرف کر رکھی تھی فرمایا: » کبھی کوئی تیز قینچی چھری“ چاقو اس کے تیز رخ سے کسی کی طرف نہ پکڑاؤ اچانک لگ سکتی ہے“ کسی کی آنکھ میں لگ جائے کوئی نقصان پہنچے تو اپنے دل کو بھی ہمیشہ پچھتاوا رہے گا اور دوسرے کو تکلیف یہ عمر بھر کو سبق ملا اور آج تک یاد ہے...حضرت اماں جان بہت زیادہ شفقت اور محبت فرماتی تھیں مگر آخر ماں تھیں وہ تربیت اپنا فرض جانتی تھیں کبھی کبھی کہتیں اتنی ناز برداری لڑکیوں کی ٹھیک نہیں ہوتی.نہ معلوم کسی کی قسمت کیسی ہو؟ آپ فرماتے تم فکر نہ کرو خدا شکر خورے کو شکر دیتا ہے“ آپ فرماتے: ”لڑ کی ہے آخر ہمارے پاس چند دن کی مہمان ہے یہ کیا یاد کرے گی“ میں بچہ تھی بالکل چھوٹی جب بھی آپ نے مجھے کہا اور شاید کئی بار کہ ”جب تم آنکھ کھلے کروٹ لیتی ہو اس وقت ضرور دعا کرلیا کرو“ میں اٹھ نہ سکوں ”بیمار ہوں“ کچھ ہو یہ عادت میری اب تک قائم ہے دعا کرتے کرتے درود پڑھتے نیند آجاتی ہے پھر آنکھ کھلے تو وہی سلسلہ.یہ سب آپ کے الفاظ کی برکت ہے.میں چھوٹی تھی تو رات کو اکثر ڈر کر آپ کے بستر میں جا گھستی تھی جب ذرا بڑی ہونے لگی تو آپ نے فرمایا ”جب بچے بڑے ہونے لگتے ہیں اس وقت میری عمر کوئی پانچ سال کی تھی تو پھر بستر میں اس طرح نہیں آ گھسا کرتے.میں تو اکثر جاگتا رہتا ہوں تم چاہے سو دفعہ مجھے آواز دو میں میں جواب دوں گا پھر تم نہیں ڈرو گی اپنے بستر سے ہی مجھے پکار لیا کرو.ایک بار میرے چھوٹے بھائی صاحب حضرت شریف احمد نے وہ بھی آخر بچہ ہی تھے اصرار کیا کہ میرا پلنگ بھی ابا کے قریب بچھا دیں، مگر میں نے اپنی جگہ چھوڑنا نہیں مانا حضرت اماں جان نے فرمایا کہ ”یہ ہمیشہ پاس لیٹتی ہے کیا ہو گا اگر شریف کا بھی دل چاہتا ہے ایک دو دن یہ اپنی ضد چھوڑ دے بھائی کو لیٹنے دے تو کیا حرج ہے ہو جائے گا“ مگر حضرت مسیح موعود نے فرمایا ”نہیں یہ لڑکی ہے اس کا دل رکھنا زیادہ ضروری ہے“ 308

Page 309

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام لاہور میں آپ شام کو تھوڑی دیر کے لئے لینڈو میں سیر کو تشریف لے جاتے ایک بار حضرت اماں جان نے کہا لڑکی کو ساتھ لے جاتے ہو وہ دونوں بہوئیں ہیں ان کو کسی دن لے جایا کرو.آپ نے فرمایا: ”نہیں میرے ساتھ مبار کہ ہی جائے گی وہ الگ جا سکتی ہیں“ ایک دفعہ آپ نے ماہ محرم کے پہلے عشرے میں ہمیں پاس بٹھا کر فرمایا آؤ! آج تم کو محرم کی کہانی سنائیں وہ ہمارے نبی کریم صلی ال نیلم کے نواسے تھے ان کو منافقوں نے ”ظالموں نے بھوکا پیاسا کربلا کے میدان میں شہید کر دیا.اس دن آسمان سرخ ہو گیا تھا.چالیس روز کے اندر قاتلوں ظالموں کو خدا تعالیٰ کے غضب نے پکڑ لیا کوئی کوڑھی ہو کر مرا کسی پر کوئی عذاب آیا اور کسی پر کوئی ”یزید کے ذکر پر یزید پلید فرماتے تھے کافی لمبے واقعات آپ نے سنائے حالت یہ تھی کہ آپ پر روت طاری تھی آنسو بہنے لگتے تھے جن کو امنی انگشت شہادت سے پونچھتے جاتے تھے“ وہ کیفیت مجھے ہمیشہ یاد آتی ہے.مبارکہ کی کہانی مبارکہ کی زبانی صفحہ 16 - 21 تک کا خلاصہ) حضرت اماں جان نے ایک دفعہ فرمایا: تمہارے ابا تمہاری ہر بات مان لیتے اور میرے اعتراض کرنے پر فرمایا کرتے تھی کہ لڑکیاں تو چار دن کی مہمان ہیں یہ کیا یاد کرے گی، یہ جو کہتی ہے وہی کرو مبارکہ کی کہانی مبارکہ کی زبانی صفحہ 47) ایک دفعہ حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ نے بچپن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ ان کے بھائی صاحبزادہ مرزا مبارک احمد (مرحوم) ان سے ناراض ہو گئے ہیں اور کسی طرح راضی نہیں ہو رہے.حضور نے جو اس وقت ایک کتاب تصنیف فرما رہے تھے مندرجہ ذیل اشعار لکھ کر دیئے جو حضرت نواب مہار کہ بیگم نے صاحبزادہ صاحب کے سامنے پڑھ دیئے تو وہ خوش ہو گئے.روایت حکیم دین محمد رجسٹر روایات جلد 13 صفحہ 62) مبارک کو میں نے ستایا نہیں کبھی میرے دل میں یہ آیا نہیں میں بھائی کو کیونکر ستا سکتی ہوں وہ کیا میری آناں کا جایا نہیں الہی خطا کر دے میری معاف کہ تجھ بن تو ربّ البرایا نہیں! 309 الفضل 7 جولائی 1943ء صفحہ 3)

Page 310

حضرت سیدہ چھوٹی آپا فرماتی ہیں درج ذیل واقعہ حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ سے بار ہا سنا ہے اور ہر بار سن کر دل ایک نئی کیفیت سے دو چار ہو تا رہا ہے.آپ نے فرمایا: قادیان میں اس زمانہ میں ڈبل روٹی کہاں تھی؟ دودھ اور ساتھ مٹھائی یا پراٹھا ہم لو گوں کو ناشتہ ملتا تھا.چائے کا بھی باقاعدگی سے کوئی رواج نہ تھا.ڈبل روٹی کبھی تحفہ لا ہو ر سے آجاتی تھی.ایک روز کا واقعہ ہے صبح کا وقت تھا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام باہر مردوں کے ہمراہ سیر کو تشریف لے گئے تھے.اصغری کی اماں جنہوں نے گیارہ سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کھانا پکانے کی خد مت بہت اخلاص سے کی، کھانے کی تیاری میں مصروف تھیں اور حضرت اماں جان بھی ان کے پاس باورچی خانہ میں جو اس وقت ہمارے صحن کا ایک کو نہ تھا کوئی خاص چیز پکا نایا پکوا نا چاہتی تھیں.اصغری کی اماں نے دودھ کا پیالہ اور دو توس کشتی میں لگا کر دیے کہ ”لو بیوی ناشتہ کر لو“ میں نے کہا مجھے تو س تل کر دو.مجھے تلے ہوئے تو س پسند تھے.انہوں نے اپنے خاص منت در آمد والے لہجے میں کام کا عذر کیا اور حضرت اماں جان نے بھی فر ما یا اس وقت اور بہت کام ہیں اس وقت اسی طرح کھا لو.تل کر پھر سہی.میں سن کر چپکی چلی آئی اور اس کمرہ میں، جو اب حضرت اماں جان کا کمرہ کہلا تا ہے، کھڑ کی کے رخ میں ہی کیا دیکھتی ہوں پیارے مقدس ہا تھوں میں سٹول اٹھائے ہو (اب وہ کھڑ کی بند ہو چکی ہے اور و ہاں غسل خانہ بن گیا ہے) ایک پلنگ بچھا تھا اس پر پاؤں لٹکا کر بیٹھ گئی.دل میں یقین تھا کہ دیکھو میرے لبا آتے ہیں اور ابھی سب ٹھیک ہو جائے گا.دیکھوں کیسے نہیں تلے جاتے میرے تو س.جلد ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر سے تشریف لے آئے.کمرہ میں داخل ہوئے.صرف میری پشت دیکھ کر روٹھنے کا اندازہ کر لیا اور اسی طرح خاموش واپس صحن میں تشریف لے گئے.باہر جا کر پو چھا ہو گا اور جواب سے تفصیل معلوم ہوئی ہو گی.میں تھوڑی دیر ئے آئے اور میرے سامنے لا کر رکھ دیا.پھر باہر گئے اور خو دہی دونوں ہاتھوں میں کشتی اٹھا کر لائے اور سٹول پر میرے آگے رکھ دی جس میں میرے حسب منشا تلے ہوئے توس اور ایک کپ دودھ کا رکھا تھا اور فرمایا ”لو اب کھاؤ.“ میں ایسی بد تمیز نہ تھی کہ اس کے بعد بھی منہ پھولا رہتا، میں نے فوڑا کھانا شروع کر دیا.آج تک جب بھی یہ واقعہ ، وہ خاموشی سے سٹول سامنے رکھ کر اس پر کشتی لا کر رکھنا یاد آتا ہے اور اپنی حیثیت پر نظر جاتی ہے تو آنسو بہہ نکلتے ہیں.بڑے ہو کر ٹیسٹ (taste) بدل جاتے ہیں.مگر اس یاد میں، اب تک میں، بہت چاہت سے تلے ہوئے توس کبھی کبھی ضرور کھاتی ہوں.(سیرت و سوانح سیده نواب مبار که بیگم مصنفه و مرتبه پروفیسر سیدہ نسیم سعید صفحه 70) 310

Page 311

حضرت أم ناصر صاحبہ نے بیان کیا کہ حضور علیہ السلام مجھ پر نہایت مہربانی اور شفقت فرمایا کرتے تھے.مجھے جس چیز کی ضرورت ہوتی حضور سے عرض کرتی حضور اس کو مہیا کر دیتے اور کبھی انکار نہ کرتے.میرا اور سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کا روز مرہ کا معمول تھا کہ عصر کے بعد ایک دن میں اور ایک دن مبار کہ بیگم حضور کے پاس جاتے اور کہتے کہ حضوڑ بھوک لگی ہے.حضور کے سرہانے دو لکڑی کے بکس ہوتے تھے.حضور چابی دے دیتے.مٹھائی یا بسکٹ جو اس میں ہوتے تھے جس قدر ضرورت ہوتی ہم نکال لیتے، ہم کھانے والی دونوں ہو تیں تھیں مگر ہم تین یا چار یا چھ کے اندازہ کا نکال لیتیں اور حضور کو دکھا دیتیں تو حضور علیہ السلام نے کبھی نہیں کہا کہ زیادہ ہے اتنا کیا کرو گی.) سیرت المہدی حصہ پنجم صفحہ 253 روایت نمبر 1446) محترمه حسو صاحبہ اہلیہ فجا معمار خادم قدیمی نے بیان کیا کہ جب بڑا زلزلہ آیا تھا مبار کہ بیگم اندر سوئی ہوئی تھیں میں جلدی سے اندر گئی اور بی بی کو اٹھا لائی.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ”یہ لڑکی بڑی ہشیار ہے.یہ جو بھاری کام کیا کرے گی اس میں برکت ہو گی اور اس کو تھکن نہیں ہو گی.“ حضور علیہ السلام کی برکت سے میں بھاری بھاری کام کرتی ہوں مگر تھکتی نہیں.(سیرت المہدی حصہ پنجم صفحہ 288 روایت نمبر 1518) میری لختِ جگر مبار کہ بیگم حضرت نواب محمد علی خان کی طرف سے رشتے کی تحریک کے جواب میں حضرت اقدس نے جو مکتوب تحریر فرمایا اس سے بیٹی کا پیار اور قدردانی خوب مترشح ہے: میری لختِ جگر مبار کہ بیگم کی نسبت جو آپ کی طرف سے تحریک ہوئی تھی میں بہت دنوں تک اس معاملہ میں سوچتا رہا آج جو کچھ خدا نے میرے دل میں ڈالا ہے اس شرط کے ساتھ اس رشتے میں مجھے عذر نہیں ہو گا اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کو بھی اس میں تامل نہیں ہو گا اور وہ یہ کہ مہر میں آپ کی دوسال کی آمدن جا گیر مورر کی جائے یعنی پچاس ہزار روپیہ اور اس اقرار کے بارے میں ایک دستاویز شرعی تحریری آپ کی طرف سے حاصل ہو...” مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ 319) وو بیٹی کا مہر نامہ تحریر کروا کے رجسٹر کروایا.حضرت صاحب نے مہر نامہ کو باقاعدہ رجسٹری کروا کے اس پر بہت سے لوگوں کی شہادتیں ثبت کروائی تھیں..در اصل مہر کی تعداد زیادہ تر خاوند کی موجودہ حیثیت 311

Page 312

اور کسی قدر بیوی کی حیثیت پر مقرر ہوا کرتی ہے اور مہر نامہ کا باقاعدہ لکھا جانا اور رجسٹری ہونا یہ شخصی حالات پر موقوف ہے.چونکہ نواب محمد علی خان صاحب کی جائیداد سر کار انگریزی کے علاقہ میں واقع نہ تھی بلکہ ایک ریاست میں تھی اور اس کے متعلق بعض تنازعات کے پیدا ہونے کا احتمال ہو سکتا تھا اس لئے حضرت صاحب نے مہر نامہ کو باقاعدہ رجسٹری کروانا ضروری خیال کیا اور ویسے بھی دیکھا جاوے تو عام حالات میں یہی بہتر ہوتا ہے کہ مہر نامہ اگر رجسٹری نہ بھی ہو تو کم از کم باقاعدہ طور پر تحریر میں آجاوے اور معتبر لوگوں کی شہادتیں اس پر ثبت ہو جاویں.کیونکہ در اصل مہر بھی ایک قرضہ ہوتا ہے جس کی ادائیگی خاوند پر فرض ہوتی ہے.پس دوسرے قرضہ جات کی طرح اس کے لئے بھی عام حالات میں یہی مناسب ہے کہ وہ ضبط تحریر میں آجاوے.(سیرت المہدی حصہ پنجم صفحہ 253 روایت نمبر 369) جس پر تم ہاتھ رکھ دو ایک روز حضرت اماں جان نے کسی کپڑے والے کو بلوایا تھا اور میرے جہیز کے لئے کچھ کپڑا خرید رہی تھیں حضرت مسیح موعود میرے نزدیک آئے اور کہا ”تمہاری اماں تمہارے لئے ریشم وغیرہ لے رہی ہیں ہمیں تو بنارسی کپڑا پسند ہے یہ تھان بنارسی جو رکھے ہیں جس پر تم ہاتھ رکھ دو وہ اپنے پاس سے خود تم کو لے دوں گا“ (روایت نمبر 1446) حضرت صاحب آخری سفر میں لاہور تشریف لے جانے لگے تو آپ نے ان سے کہا کہ مجھے ایک کام در پیش ہے دُعا کرو اور اگر کوئی خواب آئے تو مجھے بتانا.مبار کہ بیگم نے خواب دیکھا کہ وہ چوبارہ پر گئی ہیں اور وہاں حضرت مولوی نورالدین صاحب ایک کتاب لئے بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو اس کتاب میں میرے متعلق حضرت صاحب کے الہامات ہیں اور میں ابو بکر ہوں.دوسرے دن صبح مبار کہ بیگم سے حضرت صاحب نے پوچھا کہ کیا کوئی خواب دیکھا ہے؟ مبار کہ بیگم نے یہ خواب سنائی تو حضرت صاحب نے فرمایا.یہ خواب اپنی اماں کو نہ منانا.312

Page 313

صاحبزادی امت النصير (جنوری 1903ء تا دسمبر 1903ء) آپ کم سنی میں وفات پا گئیں.شیخ یعقوب علی صاحب نے لکھا ہے کہ جب حضرت صاحب کی لڑکی امۃ النصیر فوت ہوئی تو حضرت صاحب اسے اسی قبرستان میں دفنانے کیلئے لے گئے تھے اور آپ خود اسے اُٹھا کر قبر کے پاس لے گئے.کسی نے آگے بڑھ کر حضور سے لڑکی کو لینا چاہا مگر آپ نے فرمایا کہ میں خود لے جاؤں گا.(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 203 روایت نمبر 201) صاحبزادی امة الحفیظ بیگم جون 1904ء تا 1987ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سب سے آخری اولاد تھیں جو حضرت صاحب کی وفات کے وقت صرف تین سال گیارہ مہینے کی تھیں.بہت ذہین تھیں حضرت اقدس بچی کا محبت سے ذکر فرماتے ہیں: ”حضرت عیسی کی نسبت لکھا ہے کہ وہ مہد میں بولنے لگے اس کا یہ مطلب نہیں کہ پیدا ہوتے ہی یا دو چار مہینہ کے بولنے لگے اس سے یہ مطلب ہے کہ جب وہ چار برس کے ہوئے.کیونکہ یہ وقت تو بچوں کے پنگھوڑوں میں کھیلنے کا ہوتا ہے اور ایسے بچے کے لئے باتیں کرنا کوئی تعجب آمیز امر نہیں ہے.ہماری لڑکی امۃ الحفیظ بھی بڑی باتیں کرتی ہے“ (تفسیر ال عمران صفحه 35) رحیمن صاحبہ اہلیہ قدرت اللہ صاحب ریاست پٹیالہ نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ روزانہ صبح سیر کے لئے جایا کرتے تھے.صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم کی عمر اس وقت اندازاً تین سال کی تھی.میں اور حافظ حامد علی صاحب کی لڑکی آمنہ مرحومہ امتہ الحفیظ بیگم کو باری باری اٹھا کر ساتھ لے جاتی تھیں.چونکہ حضور بہت تیز رفتار تھے.اس لئے ہم پیچھے رہ جاتے تھے.تو امۃ الحفیظ بیگم ہم سے کہتیں کہ ”یا کے ساتھ ساتھ چلو“.اس پر میں نے کہا کہ میں تھک جاتی ہوں تم حضرت صاحب سے دعا کے لئے کہنا.اس پر صاحبزادی نے حضرت صاحب سے کہا.آپ نے فرمایا.”اچھا! ہم دعا کریں گے کہ یہ تم کو ہمارے ساتھ رکھے.“ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اور آمنہ کو اتنی طاقت دی کہ ہم صاحبزادی 313

Page 314

کو اٹھا کر ساتھ ساتھ لے جاتیں اور لے آتیں مگر تھکان محسوس نہ ہوتی.(سیرت المہدی روایت نمبر 1321) حضور حضرت نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ کے ناز اٹھاتے تھے.ایک دفعہ آپ سیر کو جا رہے تھے.حضرت اتاں جان نے کہلا کر بھیجا کہ امۃ الحفیظ رو رہی ہیں اور ساتھ جانے کی ضد کر رہی ہیں.آپ نے ملازمہ کے ہاتھ ان کو بلوایا اور گود میں اٹھا کر لے گئے.دختر کرام از فوزیہ شمیم صفحہ 6 - 7 ایڈیشن 2007ء) حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں: “میری ہمشیرہ امۃ الحفیظ بالکل چھوٹی سی تھیں کسی جاہل خادم سے ایک گالی سیکھ لی اور تو تلی زبان میں حضرت مسیح موعود کے سامنے کسی کو دی.آپ نے بہت خفگی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ اس چھوٹی عمر میں جو الفاظ زبان پر چڑھ جاتے ہیں وہ دماغ میں محفوظ بھی رہ جاتے ہیں اور بعض دفعہ انسان کی زبان پر مرتے وقت جاری ہو جاتے ہیں.بچے کو فضول بات ہر گز نہیں سکھانی چاہیے.(تقریر ذکر حبیب جلسه سالانه مستورات از حضرت سیده نواب مبار که بیگم الفضل 13 جنوری 1974ء صفحہ 3 بحوالہ دخت کرام) بھیج وو درود اس حسن پر تو دن میں سو سو بار پاک محمد مصطفی سی ی ی ی امام نبیوں کا سردار 314 روزنامه الفضل آن لائن لندن 23 ستمبر 2022ء)

Page 315

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام قسط 39 گالیاں سن کے دعا دو پا کے دکھ آرام دو“ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو اعلائے کلمہ حق کا کام سونپتا ہے.انہیں خالق کو بھولے ہوئے گمراہ لو گوں کو سمجھا بجھا کر سیدھا راستہ دکھانے کا کام کرنے کے لئے نرمی، پیار محبت اور عفو و در گزر سے دل جیت کر خدائے واحد کی طرف لانے کا طریق بتاتا ہے.صداقت کو دعا اور دلائل سے منوانے کا گر سکھاتا ہے.انبیائے کرام کی دعوت پر نیک فطرت لوگ بغیر نشان اور دلیل طلب کیسے ایمان لے آتے ہیں.بعض دلیل سے قائل ہو جاتے ہیں لیکن جاہل، غافل، ہٹ دھرم دلیل اور نشان دیکھ کر بھی مخالف رہتے ہیں.جب کچھ بن نہیں پڑتا تو گالی گلوچ، سب و شتم، بد زبانی، ایزاد ہی اور مار دھاڑ پر اتر آتے ہیں.اللہ تعالی کی مدد اپنے فرستادہ کے ساتھ ہوتی ہے وہ انہیں بتدریج بلندیوں کی طرف لے کر جاتا ہے جس سے دشمنوں کے غیظ و غضب جلن اور انتقام کی آگ میں اضافہ ہوتا ہے.عدو شور وفغاں میں بڑھتا ہے تو اللہ والے صبر اور برداشت سے کام لیتے ہیں یار نہاں میں نہاں ہو جاتے ہیں.جب ہو گئے ہیں ملزم اترے ہیں گالیوں پر ہاتھوں میں جاہلوں کے سنگ جفا یہی ہے قرآن کریم نے انبیائے کرام سے ایسے سلوک کو محفوظ کیا ہے.وَلَقَدْ كَذَّبَ أَصْحَبُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِينَ ) اور انہوں نے کہا اے وہ شخص جس پر ذکر اتارا گیا ہے! یقیناً تو مجنون ہے.وَمَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِعُونَ ).اور کوئی رسول ان کے پاس نہیں آتا تھا مگر وہ اس سے تمسخر کیا کرتے تھے.( الحجر :81) (الحجر :12) 315

Page 316

.قَالَ إِنَّ رَسُوْلَكُمُ الَّذِى أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ لَمَجْنُونٌ ) اس (یعنی فرعون) نے کہا یقیناً یہ تمہارا رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے ضرور پاگل ہے.• كَذَلِكَ مَا آتَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُولٍ إِلَّا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ ) (الشعراء: 28) (الذاريات: 53) اسی طرح ان سے پہلے لوگوں کی طرف بھی کبھی کوئی رسول نہیں آیا مگر انہوں نے کہا کہ یہ ایک جادو کر یا دیوانہ ہے.گره.فَإِن كَذَبُوكَ فَقَدْ كُذِبَ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِكَ جَاءَ وَ بِالْبَيِّنَتِ وَالزُّبُرِ وَالْكِتَبِ الْمُنِيرِ ) ۱۸۵ (آل عمران: 185) پس اگر انہوں نے تجھے جھٹلا دیا ہے تو تجھ سے پہلے بھی تو رسول جھٹلائے گئے تھے.وہ کھلے کھلے نشان اور (البی) صحیفے اور روشن کتاب لائے تھے.وَلَقَدِ اسْتَهْزِئُ بِرُسُلِ مِنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوْا مِنْهُمْ مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِعُوْنَ ) (الانعام: 11) اور یقیناً رسولوں سے تجھ سے پہلے بھی تمسخر کیا گیا.پس ان کو جنہوں نے ان (رسولوں) سے تمسخر کیا انہی باتوں نے گھیر لیا جن سے وہ تمسخر کیا کرتے تھے.كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ فَكَذَّبُوا عَبْدَنَا وَقَالُوْا مَجْنُونٌ وَاذْدُ جِرَ (ج) (القمر: 10) ان سے پہلے نوح کی قوم نے بھی جھٹلایا تھا.پس انہوں نے ہمارے بندے کی تکذیب کی اور کہا کہ ایک مجنون اور دھتکارا ہوا ہے.ہمارے سراج منیر حضرت محمد مصطفی صلی علی ایم کو بھی اغیار نے ایسے ہی القاب سے نوازا.آپ نے گالیاں سنیں دکھ سہے، تکالیف بھی برداشت کیں.مارے پیٹے بھی گئے مگر ہمیشہ صبر کیا.خدا تعالیٰ کے مطہر مقدس مقرب بندے گالیوں کا جواب گالی سے نہیں دیتے بلکہ ان کے جہل پر رحم کھا کر انہیں دعا دیتے ہیں اور 316

Page 317

قادر و توانا خدا ان کی طرف سے جواب دیتا ہے اور ان ہی میں سے سعید روحوں کو آپ کے قدموں میں ڈال دیتا.نبوت کا چھٹا سال تھا آپ دار ارقم میں مقیم تھے.آپ کے حقیقی چا حمزہ ایک دن شکار سے واپس آئے تو ایک خادمہ نے ان سے کہا.” کیا آپ نے سنا کہ ابھی ابھی ابو الحکم (یعنی ابو جہل) آپ کے بھتیجے کو سخت برا بھلا کہتا گیا ہے اور بہت گندی گندی گالیاں دی ہیں.مگر محمد نے سامنے سے کچھ جواب نہیں دیا.یہ سن کر حمزہ کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور خاندانی غیرت جوش زن ہوئی.فوراً کعبہ کی طرف گئے اور پہلے طواف کیا.طواف کرنے کے بعد اس مجلس کی طرف بڑھے جس میں ابو جہل بیٹھا تھا اور جاتے ہی بڑے زور کے ساتھ ابو جہل کے سر پر اپنی کمان ماری اور کہا.”میں سنتا ہوں کہ تو نے محمد کو گالیاں دی ہیں.سن! میں بھی محمد کے دین پر ہوں اور میں بھی وہی کہتا ہوں جو وہ کہتا ہے.پس اگر تجھ میں کچھ ہمت ہے تو میرے سامنے بول.“ (سیرت خاتم النبیین صفحہ 175) یہ گالیاں سن کر صبر کا پھل تھا کہ آپ کے چچا شرک ترک کر کے خدائے واحد کے پرستار بن گئے.مکہ میں تبلیغ اسلام کو دس سال ہو گئے تھے.مکہ والوں کی بے حسی سے خاطر خواہ کامیابی نظر نہیں آرہی تھی آپ نے قریبی شہر طائف کا رخ کیا.حق کا پیغام دینے سے وہاں کے رئیس عبدیالیل نے بھی آپ کا تمسخر اڑایا نہ صرف خود بلکہ شہر کے بد بخت نے آوارہ آدمی آپ کے پیچھے لگا دیئے.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہر سے نکلے تو یہ لوگ شور کرتے ہوئے آپ کے پیچھے ہو لئے اور آپ پر پتھر برسانے شروع کئے جس سے سے آپ کا سارا بدن خون سے تر بتر ہو گیا.برابر تین میل تک یہ لوگ آپ کے ساتھ ساتھ گالیاں دیتے اور پتھر برساتے چلے آئے.یہ آپ کی زندگی کا شدید ترین تکلیف کا دن تھا.مگر آپ کا رد عمل کیا تھا؟ گالیاں سن کے دعا دو.آپ نے اللہ کے حضور یوں دعا کی: اللَّهُمَّ إِلَيْكَ اشْكُرْ ضُعْفَ قُوَّتِي وَقِلَّةَ حِيْلَتِي وَهَوَانِي عَلَى النَّاسِ اللَّهُمَّ يَا أَرْحَمَ الرَّحِمِينَ أَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِينَ وَانتَ رَبِّي یعنی اے میرے ربّ! میں اپنے ضعف قوت اور قلتِ تدبیر اور لو گوں کے مقابلہ میں اپنی بے بسی کی شکایت تیرے ہی پاس کرتا ہوں.اے میرے خدا! تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے اور کمزوروں اور بیکسوں کا تو ہی نگہبان و محافظ ہے اور تو ہی میرا پروردگار ہے.میں تیرے ہی منہ کی روشنی میں پناہ کا خواستگار ہوتا ہوں کیونکہ تو ہی ہے جو ظلمتوں کو دور کرتا اور انسان کو دنیا و آخرت کے حسنات کا وارث بناتا ہے.(سیرت خاتم النبیین صفحہ 204) 317

Page 318

آپ کی تربیت اللہ تعالیٰ نے کی تھی ارشاد ہے:.خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَهِلِينَ ) ۲۰۰ یعنی عفو اختیار کر ، معروف کا حکم دے اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کر.(الاعراف: 200) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ : ”خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں اس قدر ہمیں طریق ادب اور اخلاق کا سبق سکھلایا ہے کہ وہ فرماتا ہے: وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُوْنِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدُوا بِغَيْرِ عِلْمٍ (الانعام: 109) یعنی تم مشرکوں کے بتوں کو بھی گالی مت دو کہ وہ پھر تمہارے خدا کو گالیاں دیں گے کیونکہ وہ اس خدا کو جانتے نہیں.اب دیکھو کہ باوجود یکہ خدا کی تعلیم کی رو سے بت کچھ چیز نہیں ہیں مگر پھر خدا مسلمانوں کو یہ اخلاق سکھلاتا ہے کہ بتوں کی بد گوئی سے بھی اپنی زبان بند رکھو اور صرف نرمی سے سمجھاؤ ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ مشتعل ہو کر خدا کو گالیاں نکالیں اور ان گالیوں کے تم باعث ٹھہر جاؤ.“ (پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 460 - 461) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی اپنی زبان مبارک کو گالی سے آلودہ نہ فرماتے.بلکہ دوسروں کو بھی گالی دینے سے منع فرماتے رہے.آپ صلی لیلی کیم کی تربیت کا انداز بہت پیارا تھا..غصے کے موقع پر بس اتنا فرماتے اس کی پیشانی خاک آلود ہوا سے کیا ہو گیا ہے.حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی لی لی نے فرمایا کہ اپنے باپوں کو گالیاں مت دو.تو کسی نے سوال کیا کہ ماں باپ کو کون گالیاں نکالتا ہے.آپ صلی علیم نے فرمایا جب تم کسی کے باپ کو برا بھلا کہو گے تو وہ تمہارے باپ کو گالی نکالے گا اور یہ اسی طرح ہے جس طرح تم نے خود اپنے باپ کو گالی نکالی.آپ صلی نیلم اپنے مخالفوں سے انتقام لینے کی بجائے ان کے لئے استغفار فرماتے گالیاں، بدزبانی اور شوخیاں آپ صلی یلم کو جواباً گالی دینے برا بھلا کہنے غصے یا انتقام پر انگیخت نہ کرتیں وہ خلق مجسم ان کے لئے دعا کرتے اور اعراض فرماتے.خدا تعالیٰ کی بے آواز لاٹھی سے مخالفین خود ہی ذلیل و خوار ہوئے اور تباہ ہوئے.318

Page 319

ان پیر شریروں پر پڑے ان کے شرارے نہ ان سے رک سکے مقصد ہمارے حقیقی عشق رسول اور غیرتِ رسول کیا ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اپنے محبوب آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی ایم کی طرح اپنی قوم کی سب و شتم کا سامنا کرنا پڑا ایک لحاظ سے کئی گنا زیادہ شدت اور اذیت برداشت کرنی پڑی کیونکہ دریدہ دہن آنحضور صلی ایم کو بھی اپنی بد فطرت کا نشانہ بناتے تھے.حکم ربانی یہی تھا کہ برداشت کریں صبر کے ساتھ اور جواب دیں دعاؤں کے ساتھ مگر بعض دفعہ غیرت کا تقاضا تھا کہ شریروں کے شرارے پر الٹانے بھی پڑتے.اس میں بھی ضبط نفس کے ساتھ اپنے لہی منصب کا لحاظ رکھتے ہوئے مناسب اور مسکت جواب دیتے.آپ علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہا عشق تھا اور برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی کرے.آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: ”میرے دل کو کسی چیز نے کبھی اتنا دکھ نہیں پہنچایا جتنا کہ ان لو گوں کے اس ہنسی ٹھٹھے نے پہنچایا ہے جو وہ ہمارے رسولِ پاک کی شان میں کرتے رہتے ہیں.ان کے دل آزار طعن و تشنیع نے جو وہ حضرت خیر البشر کی ذات والا صفات کے خلاف کرتے ہیں میرے دل کو سخت زخمی کر رکھا ہے.خدا کی قسم اگر میری ساری اولاد اور اولاد کی اولاد اور میرے سارے دوست اور میرے سارے معاون و مددگار میری آنکھوں کے سامنے قتل کر دیئے جائیں اور خود میرے اپنے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے جائیں اور میری آنکھ کی پتیلی نکال پھینکی جائے اور میں اپنی تمام مرادوں سے محروم کر دیا جاؤں اور اپنی تمام خوشیوں اور تمام آسائشوں کو کھو بیٹھوں تو ان ساری باتوں کے مقابل پر بھی میرے لئے یہ صدمہ زیادہ بھاری ہے کہ رسولِ اکرم پر ایسے ناپاک حملے کئے جائیں.پس اے میرے آسمانی آقا! تو ہم پر اپنی رحمت اور نصرت کی نظر فرما اور ہمیں اس ابتلا سے نجات بخش.“ (ترجمه عربی عبارت از آئینه کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 15 بحوالہ حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے از سیرت طیبہ صفحہ 41 - 42) حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے لئے بہت حساس تھے فرماتے ہیں : 319

Page 320

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام ”جو لوگ ناحق خدا سے بے خوف ہو کر ہمارے بزرگ نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو برے الفاظ سے یاد کرتے اور آنجناب پر ناپاک تہمتیں لگاتے اور بد زبانی سے باز نہیں آتے ہیں، ان سے ہم کیو نکر صلح کریں.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کر سکتے ہیں لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کر سکتے جو ہمارے پیارے نبی اپر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے، ناپاک حملے کرتے ہیں.خدا ہمیں اسلام پر موت دے.ہم ایسا کام کرنا نہیں چاہتے جس میں ایمان جاتا رہے.“ (پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 459) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک تیغ براں تھامی ہوئی تھی.جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملے کی صورت ہوتی سب سے پہلے مؤثر آواز بلند فرماتے.آپ علیہ السلام نے اپنے عمل سے بھی اور اپنی تحریر و تقریر سے بھی دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ حقیقی عشق رسول اور غیرت رسول کیا ہے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود سفر میں تھے اور لاہور کے ایک سٹیشن کے پاس ایک مسجد میں وضو فر مارہے تھے.اس وقت پنڈت لیکھرام حضور سے ملنے کے لئے آیا اور آکر سلام کیا مگر حضرت صاحب نے کچھ جواب نہیں دیا اس نے اس خیال سے کہ شائد آپ نے سنا نہیں.دوسری طرف سے ہو کر پھر سلام کیا.مگر آپ نے پھر بھی توجہ نہیں کی.اس کے بعد حاضرین میں سے کسی نے کہا.کہ حضور “ پنڈت لیکھرام نے سلام کیا تھا.آپ نے فرمایا.”ہمارے آقا کو گالیاں دیتا ہے اور ہمیں سلام کرتا ہے.“ 1897ء میں جب پادریوں کی طرف سے ایک کتاب شائع ہوئی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے بارہ میں انتہائی دریدہ دہنی کی گئی تھی.آپ نے حکومت کو مشورہ دیا کہ گورنمنٹ ایسا قانون بنائے کہ جس میں ہر ایک فریق صرف اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے اور دوسرے فریق پر گند اچھالنے کی اجازت نہ ہو اور یہی طریق کار ہے جس سے امن امان اور بھائی چارہ قائم ہو سکتا ہے.اس کے علاوہ اور کوئی بہترین طریق نہیں ہے.استہزاء اور گالیاں سننا انبیاء کا ورثہ ہے گالیوں پر آپ کے پر سکون رد عمل کے بارے میں شہادتیں : یک بد زبان مخالف آیا اور اس نے حضرت مسیح موعود کے بالمقابل نہایت دل آزار اور گندے حملے آپ پر 320

Page 321

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام کئے.کہتے ہیں وہ نظارہ اس وقت بھی میرے سامنے ہے.آپ منہ پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے، جیسا کہ اکثر آپ کا معمول تھا کہ پگڑی کے شملے کا ایک حصہ منہ پر رکھ لیا کرتے تھے.پگڑی کا حصہ منہ پر رکھ دیا کرتے تھے یا بعض اوقات صرف ہاتھ رکھ کر بیٹھ جایا کرتے تھے.خاموش بیٹھے رہے، اس کی گالیاں سنتے رہے اور وہ شورہ پشت بکتا رہا.فسادی طبیعت کا آدمی بولتا رہا.آپ اسی طرح پر مست اور مگن بیٹھے تھے کہ گویا کچھ ہو ہی نہیں رہا یا کوئی نہایت ہی شیریں مقال گفتگو کر رہا ہے.اس ہندو لیڈر نے اسے منع کرنا چاہا مگر اس نے پرواہ نہ کی.حضرت نے ان کو فرمایا کہ آپ اسے کچھ نہ کہیں، کہنے دیجئے.آخر وہ خود ہی بکواس کر کے تھک گیا اور اٹھ کر چلا گیا.برہمو لیڈر بے حد متاثر ہوا اور اس نے کہا کہ یہ آپ کا بہت بڑا اخلاقی معجزہ ہے.اس وقت حضور اسے چپ کرا سکتے تھے.اپنے مکان سے نکلوا سکتے تھے بکواس کرنے پر آپ کے ایک ادنی اشارہ سے اس کی زبان کائی جا سکتی تھی.مگر آپ نے اپنے کامل حلم اور ضبطِ نفس کا عملی ثبوت دیا.“ (سیرت حضرت مسیح موعود علیه السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی عرفانی صفحہ 443 - 444) اور ”ایک مرتبہ 1898ء میں مولوی محمد حسین صاحب نے اپنا ایک گالیوں کا بھرا ہوا رسالہ حضور علیہ السلام کو بھیجا آپ علیہ السلام نے اس کے جواب میں پورے حلم اور حوصلہ اور صبر و تحمل کا اظہار کیا.آپ کے سکونِ خاطر اور کوہ وقاری کو کوئی چیز جنبش نہ دے سکتی تھی.بڑی پر سکون طبیعت تھی.بڑی باوقار طبیعت تھی.یعنی اس طرح کہ جس طرح پہاڑ ہو.گویا کہ وہ ایک عظیم شخصیت تھے.وقار کا ایک پہاڑ تھے اور یہ ثبوت تھا اس امر کا کہ کسی قسم کی گالیوں کا آپ پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا.یعنی کبھی یہ نہیں ہوا کہ بے وقاری دکھاتے ہوئے گالیوں کے جواب میں، گالیوں کا جواب آپ کی طرف سے جائے.فرماتے ہیں کہ یہ ثبوت تھا اس امر کا کہ خدا تعالیٰ کی وحی جو آپ پر ان الفاظ میں نازل ہوئی تھی کہ فاضر گیا صَبَر اولو الْعَزْمِ مِنَ الرسل (احقاف: 36) فی الحقیقت خدا کی طرف سے تھی اور اسی خدا نے وہ خارق عادت اور فوق الفطرت صبر اور حوصلہ آپ کو عطا فرمایا تھا جو اولوا العزم رسولوں کو دیا جاتا ہے.(سیرت حضرت مسیح موعود صفحہ 463 - 464) ایک شخص آپ کو رات بھر گالیاں نکالنے پر مقرر کیا گیا تھا جو آپ کے گھر کے سامنے کھڑا ساری ت اونچی اونچی گالیاں نکالتا رہتا.جب سحری کا وقت ہوتا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام دادی صاحبہ کو کہتے کہ اب اس کو کھانے کو کچھ دو کہ یہ ساری رات گالیاں نکال نکال کے تھک گیا ہو گا.اس کا گلا خشک ہو گیا ہو گا.وہ کہتی ہیں کہ میں حضرت صاحب کو کہتی کہ ایسے کمبخت کو کچھ نہیں 321

Page 322

دینا چاہئے تو آپ فرماتے ہم اگر کوئی بدی کریں گے تو خدا دیکھتا ہے اور ہماری طرف سے کوئی بات نہیں ہونی چاہئے.(سیرت المہدی جلد دوم حصہ چہارم روایت نمبر 1130 صفحہ 102 جدید ایڈیشن) حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا: پنے نفس پر اتنا قابو رکھتا ہوں اور خدا تعالیٰ نے میرے نفس کو ایسا مسلمان بنایا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک سال بھر میرے سامنے بیٹھ کر میرے نفس کو گندی سے گندی گالی دیتا رہے، آخر وہی شرمندہ ہو گا اور اسے اقرار کرنا پڑے گا کہ وہ میرے پاؤں جگہ سے اکھاڑ نہ سکا.“ (سیرت حضرت مسیح موعود از مولانا عبد الکریم سیا لکوٹی صفحہ 51 - 52) 29 جنوری 1904ء کا یہ واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کے حضور ایک گالیاں دینے والے اخبار کا تذکرہ آیا کہ فلاں اخبار جو ہے بڑی گالیاں دیتا ہے.آپ نے فرمایا صبر کرنا چاہیئے.ان گالیوں سے کیا ہوتا ہے.آپ نے فرمایا کہ ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کے لوگ آپ کی مذمت کیا کرتے تھے اور آپ کو نعوذ باللہ مذ تم کہا کرتے تھے.تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس کر فرمایا کرتے تھے کہ میں ان کی مذمت کو کیا کروں.میرا نام تو اللہ تعالیٰ نے محمد رکھا ہوا ہے فرمایا کہ اسی طرح اللہ نے مجھے بھیجا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اور میری نسبت فرمایا ہے، يَحْمَدُكَ اللهُ مِنْ عَرشہ یعنی اللہ اپنے عرش سے تیری حمد کرتا ہے، تعریف کرتا ہے اور یہ وحی براہین احمدیہ میں موجود ہے.(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی عرفانی صفحہ 450) حضرت مولوی عبد الکریم صاحب بیان فرماتے ہیں کہ ایک روز ایک ہندوستانی جس کو اپنے علم پر بڑا ناز تھا اور اپنے تئیں جہاں گرد اور سرد و گرم زمانه دیده و چشیدہ ظاہر کرتا تھا ہماری مسجد میں آیا اور حضرت سے آپ کے دعوے کی نسبت بڑی گستاخی سے باب کلام وا کیا.تھوڑی گفتگو کے بعد کئی دفعہ کہا.آپ اپنے دعوئی میں کاذب ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منہ پر کہتا تھا کہ آپ اپنے دعوئی میں جھوٹے ہیں اور میں نے ایسے مکار بہت دیکھے ہیں (نعوذ باللہ) اور میں تو ایسے کئی بغل میں دبائے پھرتا ہوں.غرض ایسے ہی بیباکانہ الفاظ کہے.مگر آپ کی پیشانی پر بل تک نہ آیا.بڑے سکون سے سنا کئے، اور پھر بڑی نرمی سے اپنی نوبت پر کلام شروع کیا.(سیرت حضرت مسیح موعود صفحہ 44) 322

Page 323

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام کس نے مانا مجھ کو ڈر کر کس نے چھوڑا بغض وکیں زندگی اپنی تو ان سے گالیاں کھانے کو ہے ”ایک دفعہ حضرت صاحب بڑی مسجد میں کوئی لیکچر یا خطبہ دے رہے تھے کہ ایک سکھ مسجد میں گھس آیا اور سامنے کھڑا ہو کر حضرت صاحب کو اور آپ کی جماعت کو سخت گندی اور فحش گالیاں دینے لگا اور ایسا شروع ہوا کہ بس چپ ہونے میں ہی نہ آتا تھا.مگر حضرت صاحب خاموشی کے ساتھ سنتے رہے.اس وقت بعض طبائع میں اتنا جوش تھا کہ حضرت صاحب کی اجازت ہوتی تو اس کی وہیں تکہ بوٹی اڑ جاتی.مگر آپ سے ڈر کر سب خاموش تھے.آخر جب اس مخش زبانی کی حد ہو گئی تو حضرت صاحب نے فرمایا.دو آدمی اسے نرمی سے پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دیں مگر اسے کچھ نہ کہیں.اگر یہ نہ جاوے تو حاکم علی سپاہی کے سپرد کر دیں.“ (سیرت المہدی جلد اول حصہ اول صفحه 257 - 258 روایت نمبر 281 جدید ایڈیشن) جب ایک نے اخبار شحنہ حق کے ایڈیٹر پر گندے مضامین چھاپنے پر مقدمہ کرنے کا ذکر کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ”ہمارے لئے خدا کی عدالت کافی ہے.یہ گناہ میں داخل ہو گا اگر ہم خدا کی تجویز پر تقدم کریں.اس لئے ضروری ہے کہ صبر اور برداشت سے کام لیں.“ (سیرت حضرت مسیح موعود از شیخ یعقوب علی عرفانی صفحہ 113 - 114) حضرت اقدس کو گالیاں دینے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب شخص یہ الہام کہ اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَر.اس وقت اس عاجز پر خدا تعالیٰ کی طرف سے القاء ہوا کہ جب ایک نو مسلم سعد اللہ نام نے ایک نظم گالیوں سے بھری ہوئی اس عاجز کی طرف بھیجی تھی اور اس میں اس عاجز کی نسبت اس ہندو زادہ نے وہ الفاظ استعمال کئے تھے کہ جب تک ایک شخص در حقیقت شقی خبیث طینت.فاسد القلب نہ ہو.ایسے الفاظ استعمال نہیں کر سکتا.سو یہ الہام اس کے اشتہار اور رسالہ کے پڑھنے کے وقت ہوا کہ اِنَّ شَانِعَكَ هُوَ الابتر سو اگر اس ہند و زاده بد فطرت کی نسبت ایسا وقوع میں نہ آیا اور وہ نامراد اور ذلیل اور رسوا نہ مرا تو سمجھو کہ یہ خدا کی طرف سے نہیں.“....انجام آتھم حاشیہ، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 58 - 59) ”خدا تجھے دشمنوں کی شرارت سے آپ بچائے گا.گو لوگ نہ بچاویں اور تیرا خدا قادر ہے.وہ عرش پر 323

Page 324

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام سے تیری تعریف کرتا ہے.یعنی جو گالیاں نکالتے ہیں ان کے مقابل پر خدا عرش پر تیری تعریف کرتا ہے.ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تیرے پر درود بھیجتے ہیں اور جو ٹھٹھا کرنے والے ہیں ان کے لئے ہم اکیلے کافی ہیں اور وہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو جھوٹا افترا ہے جو اس شخص نے کیا.ہم نے اپنے باپ دادوں سے ایسا نہیں سنا.یہ نادان نہیں جانتے کہ کسی کو کوئی مرتبہ دینا خدا پر مشکل نہیں.ہم نے انسانوں میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے.پس اسی طرح اس شخص کو یہ مرتبہ عطا فرمایا تا کہ مومنوں کے لئے نشان ہو.“ 66 (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 62) حضرت عیسی کے بارے میں کوئی سخت الفاظ نہیں کہے حضرت اقدس علیہ السلام پر حضرت عیسی علیہ السلام کی توہین کا الزام لگایا جاتا ہے.جو حیرت انگیز ہے آپ علیہ السلام کا دعویٰ تھا کہ آپ مشیل عیسی ہیں پھر خود ہی ان کو برے الفاظ میں یاد کرنا غیر منطقی ٹھہرتا ہے.آپ علیہ السلام نے پادریوں کو انہی کے اعتقادات دکھائے اور وضاحت بھی فرمائی کہ ان کا روئے سخن اس فرضی یسوع کی طرف ہے جو عیسائیوں کے مسلّمہ صحیفوں سے نظر آتا ہے.بائبل سے جو مسیح کا نقشہ ابھرتا ہے وہی عیسائیوں کو دکھایا ہے حضرت اقدس علیہ السلام نے بار بار اس الزام کی تردید کی اور فرمایا: ہم اس بات کے لئے بھی خدا تعالی کی طرف سے مامور ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا سچا اور پاک اور راستباز نبی مانیں اور ان کی نبوت پر ایمان لاویں.سو ہماری کسی کتاب میں کوئی ایسا لفظ بھی نہیں ہے جو ان کی شانِ بزرگ کے برخلاف ہو اور اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ دھوکا کھانے والا اور جھوٹا ہے.“ پھر فرماتے ہیں: (ایام الصلح ٹائٹل پیج، صفحہ 2 روحانی خزائن جلد نمبر 14 صفحہ 228) یہ طریق ہم نے برابر چالیس برس تک پادری صاحبوں کی گالیاں سن کر اختیار کیا ہے..ہمارے پاس ایسے پادریوں کی کتابوں کا ایک ذخیرہ ہے جنہوں نے اپنی عبارت کو صدہا گالیوں سے بھر دیا ہے.جس مولوی کی خواہش ہو وہ آ کر دیکھ لیوے.“ (اشتہار ناظرین کے لئے ضروری اطلاع 20 دسمبر 1895ء نور القرآن نمبر 2 ، روحانی خزائن جلد 9 صفحه 357) 324

Page 325

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام رکتے نہیں ہیں ظالم گالی سے ایک دم بھی ان کا تو شغل و پیشہ صبح و مسا یہی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان تحریرات میں اگر سخت الفاظ آئے ہیں تو ان کا مخاطب چند دریدہ دہن مولوی تھے مثلاً محمد بخش جعفر زٹلی، شیخ محمد حسین بٹالوی، سعد اللہ لدھیانوی، عبدالحق امر تسری جو آپ کو نہایت فخش اور ننگی گالیاں دیتے تھے.ان کے علاوہ کچھ پادری تھے اور آریہ سماج سے تعلق رکھنے والے گستاخ تھے.اس کی تفصیل " کتاب البریہ “ اور ”کشف الغطاء “ میں موجود ہے.غیرت کا تقاضا تھا کہ الزامی جواب دے کر ان کا منہ بند کیا جاتا.دیگر مسلمان علماء کی بہت سی مثالیں ہیں جن میں بہت سخت زبان استعمال کی گئی ہے لیکن آپ نے وہ انداز اختیار کیا جو قرآن پاک کی تعلیم کے عین مطابق تھا.نیک نام علما کے لئے بھی سخت الفاظ استعمال نہیں کئے..حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے برملا فرمایا: مخالفوں کے مقابل پر تحریری مباحثات میں کسی قدر میرے الفاظ میں سختی استعمال میں آئی تھی لیکن وہ ابتدائی طور پر سختی نہیں ہے.بلکہ وہ تمام تحریریں نہایت سخت حملوں کے جواب میں لکھی گئی ہیں مخالفوں کے الفاظ ایسے سخت اور دشنام دہی کے رنگ میں تھے.جن کے مقابل پر کسی قدر سختی مصلحت تھی.یہ بات بالکل سچ ہے کہ اگر سخت الفاظ کے مقابل پر دوسری قوم کی طرف سے کچھ سخت الفاظ استعمال نہ ہوں تو ممکن ہے اس قوم کے جاہلوں کا غیظ و غضب کوئی اور راہ اختیار کر لے.مظلوموں کے بخارات نکلنے کے لئے یہ ایک حکمت عملی ہے کہ وہ بھی مباحثات میں سخت حملوں کا سخت جواب دیں.“ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ: 66 (کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 11 - 12) جماعت کو نصائح یہ مجھے گالیاں دیتے ہیں لیکن میں ان کی گالیوں کی پرواہ نہیں کرتا اور نہ ان پر افسوس کرتا ہوں کیونکہ وہ اس مقابلہ سے عاجز آ گئے ہیں اور اپنی عاجزی اور فرومائینگی کو بجز اس کے نہیں چھپا سکتے کہ گالیاں دیں.کفر کے فتوے لگائیں.جھوٹے مقدمات بنائیں اور قسم قسم کے افترا اور بہتان لگائیں.وہ اپنی ساری طاقتوں کو کام میں لا کر میرا مقابلہ کر لیں اور دیکھ لیں کہ آخری فیصلہ کس کے حق میں ہوتا ہے.میں 325

Page 326

ان کی گالیوں کی اگر پرواہ کروں تو وہ اصل کام جو خدا تعالیٰ نے مجھے سپرد کیا ہے رہ جاتا ہے.اس لئے جہاں میں ان کی گالیوں کی پرواہ نہیں کرتا میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ ان کو مناسب ہے کہ ان کی گالیاں سن کر برداشت کریں اور ہر گز ہر گز گالی کا جواب گالی سے نہ دیں کیونکہ اس طرح پر برکت جاتی رہتی ہے.وہ صبر اور برداشت کا نمونہ ظاہر کریں اور اپنے اخلاق دکھائیں.یقیناً یاد رکھو کہ عقل اور جوش میں خطرناک دشمنی ہے.جب جوش اور غصہ آتا ہے تو عقل قائم نہیں رہ سکتی.لیکن جو صبر کرتا ہے اور بردباری کا نمونہ دکھاتا ہے اس کو ایک نور دیا جاتا ہے جس سے اس کی عقل و فکر کی قوتوں میں ایک نئی روشنی پیدا ہو جاتی ہے اور پھر نور سے نور پیدا ہوتا ہے.غصہ اور جوش کی حالت میں چونکه دل و دماغ تاریک ہوتے ہیں اس لئے پھر تاریکی سے تاریکی پیدا ہوتی ہے.“ (ملفوظات جلد 3 صفحہ 180 ایڈیشن 1985ء) د دیکھو! میں اس امر کے لئے مامور ہوں کہ تمہیں بار بار ہدایت کروں کہ ہر قسم کے فساد اور ہنگامہ کی جگہوں سے بچتے رہو اور گالیاں سن کر بھی صبر کرو.بدی کا جواب نیکی سے دو اور کوئی فساد کرنے پر آمادہ ہو تو بہتر ہے کہ تم ایسی جگہ سے کھسک جاؤ اور نرمی سے جواب دو.بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص بڑے جوش سے مخالفت کرتا ہے اور مخالفت میں وہ طریق اختیار کرتا ہے جو مفسدانہ طریق ہو جس سے سننے والوں میں اشتعال کی تحریک ہو.لیکن جب سامنے سے نرم جواب ملتا ہے اور گالیوں کا مقابلہ نہیں کیا جاتا تو خود اسے شرم آ جاتی ہے اور وہ اپنی حرکت پر نادم اور پشیمان ہونے لگتا ہے.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ صبر کو ہاتھ سے نہ دو.صبر کا ہتھیار ایسا ہے کہ توپوں سے وہ کام نہیں نکلتا جو صبر سے نکلتا ہے.صبر ہی ہے جو دلوں کو فتح کر لیتا ہے.یقیناً یاد رکھو کہ مجھے بہت ہی رنج ہوتا ہے جب میں یہ سنتا ہوں کہ فلاں شخص اس جماعت کا ہو کر کسی سے لڑا ہے.اس طریق کو میں ہر گز پسند نہیں کرتا اور خدا تعالیٰ بھی نہیں چاہتا کہ وہ جماعت جو دنیا میں ایک نمونہ ٹھہرے گی وہ ایسی راہ اختیار کرے جو تقویٰ کی راہ نہیں ہے.بلکہ میں تمہیں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ یہاں تک اس امر کی تائید کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص اس جماعت میں ہو کر صبر اور برداشت سے کام نہیں لیتا تو وہ یاد رکھے کہ وہ اس جماعت میں داخل نہیں ہے نہایت کار اشتعال اور جوش کی یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ مجھے گندی گالیاں دی جاتی ہیں.تو اس معاملے کو خدا کے سپرد کر دو.تم اس کا فیصلہ نہیں کر سکتے.میرا معاملہ خدا پر چھوڑ دو.تم ان گالیوں کو سن کر بھی صبر اور برداشت سے کام لو.تمہیں کیا معلوم ہے کہ میں ان لوگوں سے کس قدر گالیاں سنتا ہوں.اکثر ایسا ہوتا ہے کہ گندی گالیوں سے بھرے ہوئے خطوط آتے ہیں اور کھلے کارڈوں میں گالیاں دی جاتی ہیں.بے رنگ خطوط آتے ہیں جن کا محصول بھی دینا پڑتا ہے اور پھر جب پڑھتے ہیں 326

Page 327

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام تو گالیوں کا طومار ہوتا ہے.ایسی فحش گالیاں ہوتی ہیں کہ میں یقیناً جانتا ہوں کہ کسی پیغمبر کو بھی ایسی گالیاں نہیں دی گئی ہیں اور میں اعتبار نہیں کرتا کہ ابو جہل میں بھی ایسی گالیوں کا مادہ ہو.لیکن یہ سب کچھ سننا پڑتا ہے.جب میں صبر کرتا ہوں تو تمہارا فرض ہے کہ تم بھی صبر کرو.درخت سے بڑھ کر تو شاخ نہیں ہوتی.تم دیکھو کہ یہ کب تک گالیاں دیں گے.آخر یہی تھک کر رہ جائیں گے.ان کی گالیاں، ان کی شرارتیں اور منصوبے مجھے ہر گز نہیں تھکا سکتے.اگر میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتا تو بیشک میں ان کی گالیوں سے ڈر جاتا.لیکن میں یقیناً جانتا ہوں کہ مجھے خدا نے مامور کیا ہے پھر میں ایسی خفیف باتوں کی کیا پروا کروں.یہ کبھی نہیں ہو سکتا.تم خود غور کرو کہ ان کی گالیوں نے کس کو نقصان پہنچایا ہے؟ ان کو یا مجھے؟ ان کی جماعت کھٹی ہے اور میری بڑھی ہے.اگر یہ گالیاں کوئی روک پیدا کر سکتی ہیں تو دو لاکھ سے زیادہ جماعت کس طرح پیدا ہو گئی یہ لوگ ان میں سے ہی آئے ہیں یا کہیں اور سے؟ انہوں نے مجھے پر کفر کے فتوے لگائے لیکن اس فتوی کفر کی کیا تاثیر ہوئی؟ جماعت بڑھی اگر یہ سلسلہ منصوبہ بازی سے چلایا گیا ہوتا تو ضرور تھا کہ اس فتویٰ کا اثر ہوتا اور میری راہ میں وہ فتویٰ کفر بڑی بھاری روک پیدا کر دیتا.لیکن جو بات خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو انسان کا مقدور نہیں ہے کہ اسے پامال کر سکے.جو کچھ منصوبے میرے مخالف کئے جاتے ہیں پہچان کرنے والوں کو حسرت ہی ہوتی ہے.میں کھول کر کہتا ہوں کہ یہ لوگ جو میری مخالفت کرتے ہیں ایک عظیم الشان دریا کے سامنے جو اپنے پورے زور سے آ رہا ہے اپنا ہاتھ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ اس سے رک جاوے.مگر اس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ وہ رک نہیں سکتا.یہ ان گالیوں سے رو کنا چاہتے ہیں مگر یاد رکھیں کہ کبھی نہیں رکے گا.کیا شریف آدمیوں کا کام ہے کہ گالیاں دے.میں ان مسلمانوں پر افسوس کرتا ہوں کہ یہ کس قسم کے مسلمان ہیں جو ایسی بے باکی سے زبان کھولتے ہیں.میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ایسی گندی گالیاں میں نے تو کبھی کسی چوڑے چمار سے بھی نہیں سنی ہیں جو ان مسلمان کہلانے والوں سے سنی ہیں.ان گالیوں میں یہ لوگ اپنی حالت کا اظہار کرتے ہیں اور اعتراف کرتے ہیں کہ وہ فاسق و فاجر ہیں.خدا تعالیٰ ان کی آنکھیں کھولے اور ان پر رحم کرے.“ (ملفوظات جلد 7 صفحہ 203 - 205 ایڈیشن 1985ء) ایام قیام لاہور میں حضور کو بہت ہی مصروفیت رہا کرتی تھی.کیونکہ حضور کے لاہور پہنچتے ہی سارے شہر میں ہلچل مچ گئی اور ایک شور بپا ہو گیا.جس کی وجہ سے ہر قسم کے لوگ اس کثرت سے آتے رہتے تھے کہ خلق خدا کا تانتا بندھا رہتا اور رجوع کا یہ عالم تھا کہ باوجود مخالفانہ کوششوں اور سخت رو کوں کے 327

Page 328

لوگ جوق در جوق لوہے کی طرح اس مقناطیس کی طرف کھنچے چلے آتے.مولویوں کے فتووں کی پرواہ کرتے نہ ان کی دھمکیوں سے ڈرتے.اپنے بھی آتے اور بیگانے بھی.دوست بھی اور دشمن بھی.موافق بھی اور مخالف بھی.محبت سے بھی اور عداوت سے بھی.علماء بھی آتے اور امراء بھی.الغرض عوام اور خواص، عالم اور فاضل، گریجوایٹ اور فلاسفر، ہر طبقہ اور ہر رتبہ کے لوگ جمع ہوتے اپنے علم و مذاق کے مطابق سوالات کرتے اور جواب پاتے تھے.اس اقبال اور رجوع خلق کو دیکھ کر مولوی لو گوں کے سینے پر سانپ لوٹنے لگے.وہ اس منظر کو برداشت نہ کر سکے اور آپے سے باہر ہو گئے.انہوں نے بالمقابل ایک اڈا قائم کیا جہاں ہر روز مخالفانہ تقریریں کرتے.گالی گلوچ اور سب و شتم کا بازار گرم رکھتے.افتراء پردازی اور بہتان طرازی کے ایسے شرمناک مظاہرے کرتے کہ انسانیت ان کی ایسی کرتوتوں پر سر پیٹتی اور اخلاق و شرافت کا جنازہ اٹھ جاتا.توہین و دل آزاری اتنی کرتے کہ قوت برداشت اس کی متحمل نہ ہو سکتی.مجبور ہو کر، تنگ آکر بعض دوستوں نے حضرت کے حضور اپنے درد کا اظہار کیا تو حضور نے یہی نصیحت فرمائی کہ: گالیاں سن کے دعا دو پا کے دکھ آرام دو “ صبر کرو اور ان کی گالیوں کی پرواہ نہ کیا کرو.برتن میں جو کچھ ہوتا ہے وہی نکلتا ہے.دراصل ان کو سمجھ نہیں کیونکہ اس طرح تو وہ آپ ہماری فتح اور اپنی شکست کا ثبوت بہم پہنچاتے ہماری صداقت اور اپنے بطلان پر مہر تصدیق لگاتے ہیں.منہ پھیر کر ، کان لپیٹ کر نکل آیا کرو.کہتے ہیں ” صبر گرچه تلخ است لکن بر شیریں دار د“ صبر کا اجر ہے حضور پرنور کی یہ نصیحت کارگر ہوئی.غلاموں نے کانوں میں روئی ڈال کر، کلیجوں پر پتھر باندھ کر یہ سب و شتم سنا اور برداشت کیا.اف تک نہ کی اور اپنے آقا نامدار کی تعلیم پر ایسی طرح عمل کر کے دکھایا کہ جس کی مثال قرونِ اولیٰ کے سوا بہت ہی کم دنیا میں پائی جاتی ہے.چنانچہ اس کے خوش کن نتائج اور ثمرات شیریں بھی ملنے شروع ہو گئے اور باوجود مخالفوں کی مخالفت کے علی رغم انف، سلیم الطبع اور شریف المزاج انسانوں نے اس زمانہ میں اس کثرت سے بیعت کی کہ ہمارے اخبارات ان اسماء کی اشاعت کی گنجائش نہ پا سکے اور اعلان کیا کہ ” بقدر گنجائش اِنْ شَاءَ الله بتدریج اسماء بیعت کند گان شائع کئے جاتے رہیں گے.“ (سیرت المہدی حصہ دوم صفحہ 388 - 389) روزنامه الفضل آن لائن لندن 14 اکتوبر 2022ء) 328

Page 329

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام قسط 40 سچائی، راستبازی، صداقت شعاری اللہ تعالیٰ اصدق الصادقین ہے جس نے دنیا کو صدق کا پیغام دینے کے لئے قرآن کریم اور حضرت رسولِ کریم صلی ال کو نازل فرمایا اور حق کی آمد کے ساتھ باطل کے فرار کی پیش گوئی فرمائی: وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ) (بنی اسرائیل: 82) حق آ گیا اور باطل بھاگ گیا.یقیناً باطل بھاگ جانے والا ہی ہے.محبوب خدائی لی کم بچپن سے ہی سچ بولا کرتے تھے اور جھوٹ سے سخت نفرت تھی.آپ کے شب و روز جس بستی میں گزرے اس کے مکین آپ کے اوصاف کریمانہ کی ستائش میں رطب اللسان تھے.آپ کی عزت کرتے تھے آپ کو پسند کرتے تھے.اچھی شہرت تھی.آپ حق گوئی کے اعتراف میں ”صادق اور امین“ کے لقب سے یاد کئے جاتے تھے.آپ کو صدوق بھی کہا جاتا تھا یعنی صادق کی اعلیٰ و ارفع صورت.تاریخ نے ایسے بے شمار واقعات محفوظ کئے ہیں جو آپ کی بے خوف، بے لاگ صداقت کے گواہ ہیں.جب آپ پہلی وحی کے بعد گھبرائے ہوئے گھر تشریف لائے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو ساری کیفیت سنائی تو آپ نے جن الفاظ میں تسلی دی وہ آپ کی سچائی کی ناقابل تردید گواہی ہے.انہوں نے آپ کی چند صفات بیان کیں جن میں یہ اہم صفت بھی تھی کہ آپ تو ہمیشہ سچ بولتے ہیں.(بخاری 95 کتاب التعبير باب 1) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آنحضور صلی الم کی سیرت و شمائل کے بارے میں فرمایا كَانَ خُلُقُةُ القُرآن کہ آپ کے اخلاق قرآن کے عین مطابق تھے.قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی قولی کتاب ہے.رسول اللہ صلی ملی یکم اور قانون قدرت اس کی فعلی کتاب ہیں.آپ کی زندگی قرآن کریم کی تصویر اور تفسیر ہے.اسی لئے آپ کی نمایاں صفت حق گوئی، سچائی اور راست بازی ہے.نبی اللہ کا منصب عطا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو قریبی عزیزوں کو پیغام دینے کا ارشاد فرمایا تو آپ نے ان کو دعوت پر بلایا.بات کا آغاز اس طرح کیا کہ اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بہت بڑا لشکر چھپا ہوا ہے تو کیا تم اسے تسلیم کر لو گے؟ کہا جاتا ہے کہ پہاڑ ایک ٹیلہ سا تھا اتنا بڑا نہیں 329

Page 330

تھا کہ اس کے پیچھے لشکر چھپ سکے.لیکن آپ کی راست گفتاری پر سب کو اتنا اعتبار تھا کہ بلا تردد بیک زبان بولے کہ ہاں ہم مان لیں گے.کیونکہ ہم نے آپ کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا.اس گواہی کے بعد جب آپ نے وحدانیت کا پیغام دیا تو وہ مخالفت کے درپے ہو گئے.بخاری کتاب التفسير سورة اللهب ) اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک دلیل سکھائی جو ماموروں اور فرستادوں کی سچائی یعنی صداقت شعاری کا ثبوت ہوتی ہے اور کوئی بھی غور و فکر کرنے والا اس سے انکار نہیں کر سکتا.فرمایا: فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ) (یونس: 17) اس سے پہلے میں تمہارے درمیان عمر کا ایک حصہ گزار چکا ہوں، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے.میں تو حق کی طرف بلانے پر مامور کیا گیا ہوں.جو شخص بچپن اور جوانی میں انسانوں سے جھوٹ نہیں بولتا وہ بڑی عمر میں خدا پر جھوٹ کیسے بول سکتا ہے؟ اپنے قول و فعل سے صداقت شعار کی کی چوٹی پر بیٹھ کر دعوتِ عام دیتے: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّدِقِينَ ) ۱۱۹ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ ہو جاؤ.(توبہ: 119) وہ جو حق پسند تھے صرف آپ کی پیشانی پر حق و صداقت کا نور اور آپ کا کردار دیکھ کر ایمان لے آتے جیسے کہ صدیق اکبر حضرت ابو بکر نے حق پہچان لیا.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی نیلم کے بچپن کے دوست تھے.انہوں نے جب آپ کے دعوی کے بارہ میں سنا تو آپ کے اصرار کے باوجود کوئی دلیل نہیں کیو نکہ زندگی بھر کا مشاہدہ یہی تھا کہ آپ پاکباز اور سچے ہیں.چاہی دلائل النبوة للبيهقى جلد 2 صفحه 164 دار الكتب العلمیہ بیروت) آپ کی دعوت پر حق قبول کرنے والا ہر مؤمن اس بات کا گواہ ٹھہرا کہ ہم آپ کو صادق مانتے ہیں.ایک دفعہ حق و صداقت کو پہچان کر آپ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر پھر جس طرح مصائب برداشت کر کے 330

Page 331

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام ثابت قدم رہے وہ بھی حیرت انگیز ہے قلوب میں انشراح پیدا ہو جائے تو جان ارزاں ہو جاتی ہے.آپ کی راستبازی کی تابانی مؤمنین کو ہی مسحور نہیں کرتی تھی بلکہ آپ کے عقائد کو غلط سمجھنے والے بھی اختلاف کے باوجود آپ کی حق گوئی کے اعتراف پر مجبور تھے.ہجرت حبشہ کے وقت جب کچھ مسلمانوں نے آنحضور صلی اللی علوم کا تاریخی خط حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو دیا اور اسلام لانے کی دعوت دی تو اس نے پہلا سوال ہی یہ کیا کہ جس نبی کا پیغام آپ لائے ہیں کیا اس نے نبوت سے پہلے کی زندگی میں کبھی جھوٹ بولا ہے؟ بے ساختہ جواب ملا نہیں نہیں.اُس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا.الله سة ایک دفعہ قریش کا وفد نبی کریم صلی علیم کی شکایت لے کر ابوطالب کے پاس آیا.ابو طالب نے آپ کو سمجھایا که قریش کی بات مان لو.نبی کریم صلی اللہ کریم نے قریش سے فرمایا کہ اگر تم اس سورج سے روشن شعلہ آگ بھی میرے پاس لے آؤ پھر بھی میرے لیے اس کام کو چھوڑنا ممکن نہیں.آنحضرت صلی ال ولم تقریر کر رہے تھے اور چہرہ پر سچائی اور نورانیت سے بھری ہوئی رقت نمایاں ہو رہی تھی اور جب آنحضرت علی الم یہ تقریر ختم کرچکے تو حق کی روشنی دیکھ کر بے اختیار ابو طالب کے آنسو جاری ہوگئے اور کہا کہ میں تیری اس اعلیٰ حالت سے بے خبر تھا.تو اور ہی رنگ میں اور ہی شان میں ہے.جا اپنے کام میں لگا رہ.جب تک میں زندہ ہوں جہاں تک میری طاقت ہے میں تیرا ساتھ دوں گا.“ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ 110 - 111) شعب ابی طالب کے زمانہ میں جب محصوری کی حالت میں تیسرا سال ہونے کو آیا تو نبی کریم نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر ابو طالب کو اطلاع دی کہ بنو ہاشم سے بائیکاٹ کا جو معاہدہ خانہ کعبہ میں لٹکایا گیا تھا اس کی ساری عبارت کو سوائے لفظ اللہ کے دیمک کھا گئی ہے.ابو طالب کو رسول اللہ کے قول پر ایسا یقین تھا کہ انہوں پہلے اپنے بھائیوں سے کہا کہ خدا کی قسم محمد لی ایم نے مجھ سے آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا.یہ بات بھی لازما سچ ہے.چنانچہ وہ ان کے ساتھ سرداران قریش کے پاس گئے اور انہیں بھی کھل کر کہا کہ میرے بھیجے نے مجھے یہ بتایا ہے کہ تمہارے معاہدہ کو دیمک کھا گئی ہے.اس نے مجھ سے آج تک جھوٹ نہیں بولا، بے شک تم جا کر دیکھ لو، اگر تو میرا بھتیجا سچا نکلے تو تمہیں بائیکاٹ کا اپنا فیصلہ تبدیل کرنا ہو گا.اگر وہ جھوٹا ثابت ہو تو میں اُسے تمہارے حوالے کرونگا.چاہو تو اسے قتل کرو اور چاہو تو زندہ رکھو.انہوں نے کہا بالکل یہ انصاف کی بات ہے.پھر جا کر دیکھا تو جیسے رسول اللہ صلی علی کریم نے فرمایا تھا، سوائے لفظ اللہ کے 331

Page 332

سارے معاہدہ کو دیمک چاٹ چکی تھی.چنانچہ قریش یہ معاہدہ ختم کرنے پر مجبور ہو گئے.الوفاء باحوال المصطفى لابن جوزی صفحہ 198 بیروت ) ہر قل شاہ روم نے اپنے دربار میں جب ابو سفیان اس سے یہ سوال کیا کہ کیا تم نے اس مدعی نبوت آنحضرت) پر اس سے پہلے کوئی جھوٹ کا الزام لگایا؟ ابو سفیان نے جواب دیا کہ نہیں ہر گز نہیں.دانا ہر قل نے اس جواب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں جانتا ہوں یہ ممکن نہیں ہو سکتا کہ اس نے لو گوں کے ساتھ تو کبھی جھوٹ نہ بولا ہو اور خدا پر جھوٹ باندھنے لگ جائے.(بخارى بدء الوحي ) الله رسول اللہ صلی الم کا ایک جانی دشمن نضر بن حارث تھا جو دارالندوہ میں آپ کے قتل کے منصوبے میں بھی شامل تھا.کفار کی مجلس میں جب کسی نے یہ مشورہ دیا کہ ہمیں محمد (صلی ) کے بارے میں یہ مشہور کر دینا چاہئے کہ یہ جھوٹا ہے تو نضر بن حارث سے رہا نہ گیا.وہ بے اختیار کہہ اٹھا کہ دیکھو! محمد (صلی ال ) تمہارے درمیان جوان ہوا، اس کے اخلاق پسندیدہ تھے.وہ تم میں سب سے زیادہ سچا اور امین تھا.پھر جب وہ ادھیڑ عمر کو پہنچا اور اپنی تعلیم تمہارے سامنے پیش کرنے لگا تو تم نے کہا جھوٹا ہے.خدا کی قسم! یہ بات کوئی نہیں مانے گا کہ وہ جھوٹا ہے.( السيرة النبوية لابن هشام جلد 1 صفحہ 320 مصر ) ایک دفعہ اپنے ایک سردار عتبہ کو نمائندہ بنا کر رسول کریم ملی ایم کی خدمت میں بھجوایا گیا.اس نے کہا کہ آپ ہمارے معبودوں کو کیوں برا بھلا کہتے اور ہمارے آباء کو کیوں گمراہ قرار دیتے ہیں؟ آپ کی جو بھی خواہش ہے پوری کرتے ہیں.آپ ان باتوں سے باز آئیں.حضور تحمل اور خاموشی سے اس کی باتیں سنتے رہے.جب وہ سب کہہ چکا تو آپ نے سورۃ حم فضلت کی چند آیات تلاوت کیں، جب آپ اس آیت پر پہنچے کہ میں تمہیں عاد و ثمود جیسے عذاب سے ڈراتا ہوں تو عتبہ نے آپ کو روک دیا کہ اب بس کریں اور خوف کے مارے اُٹھ کر چل دیا.اس نے قریش کو جا کر کہا تمہیں پتہ ہے کہ محمد (صلی انی) جب کوئی بات کہتا ہے تو کبھی جھوٹ نہیں بولتا.مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں تم پر وہ عذاب نہ آجائے جس سے وہ ڈراتا ہے.تمام سردار یہ سن کر خاموش ہو گئے.الله سة (السيرة الحلبيه 13 جلد 1 صفحہ 303) 332

Page 333

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ مدینہ کے ایک بڑے یہودی عالم تھے.وہ مسلمان ہونے سے پہلے کا اپنا یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب آنحضور ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو لوگ دیوانہ وار آپ کو دیکھنے گئے، میں بھی ان میں شامل ہو گیا.آپ کا نورانی چہرہ دیکھ کر ہی میں پہچان گیا کہ یہ چہرہ جھوٹے کا چہرہ نہیں ہو سکتا.ابن ماجہ کتاب الاطعمه باب اطعام ) اس صادق نبی رحمت صلی علی الم نے اپنے متبعین کو بھی سچ بولنے اور جھوٹ سے نفرت کی قرآنی تعلیم دی: وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا ) اور تم ہمیشہ صاف اور سیدھی بات کیا کرو.(الاحزاب: 71) حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ کریم نے فرمایا کہ سچائی نیکی کی طرف اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے، اور جو انسان ہمیشہ سچ بولے اللہ کے نزدیک وہ صدیق لکھا جاتا ہے، اور جھوٹ گناہ کی طرف اور گناہ جہنم کی طرف لے کر جاتا ہے اور جو آدمی ہمیشہ جھوٹ بولے وہ اللہ کے ہاں کذاب لکھا جاتا ہے.(مسلم کتاب البر و الصلته ) حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اور اپنے رسول کریم ملی ایم کے رنگ میں رنگین کر کے بھیجا تھا.فرماتے ہیں: وَ مَنْ فَرَّقَ بَيْنِي وَبَيْنَ الْمُصْطَفَى فَمَا عَرَفَنِي وَمَا رَأَى“ اور جو شخص مجھ میں اور مصطفی ملی لی میں تفریق کرتا ہے اُس نے مجھے نہیں دیکھا ہے اور نہ پہچانا ہے.(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 259) اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو حضرت رسول اکرم منیلی نیلم کی کامل پیروی کرنے کا ارشاد ملا.فرماتے ہیں: أوحى إِلَى أَنَّ الدِّينَ هُوَ الْإِسْلَامُ وَأَنَّ الرَّسُولَ هُوَ الْمُصْطَفَى السَّيِّدُ الْإِمَامُ - رَسُولُ أُمِّنْ آمِينٌ فَكَمَا أَنَّ رَبَّنَا أَنَّ أَحَدٌ يَسْتَحِقُ الْعِبَادَةَ وَحْدَةُ فَكَذَالِكَ رَسُولُنَا الْمُطَامُ وَاحِدٌ لا نَبِيَّ بَعْدَهُ وَلَا شَرِيكَ مَعَهُ وَأَنَّهُ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ 333

Page 334

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام (خدا تعالیٰ نے ) مجھے الہام کیا کہ دین اللہ اسلام ہی ہے اور سچا رسول مصطفی ملی ان کی سر دار امام ہے جو رسول اتی امین ہے.پس جیسا کہ عبادت صرف خدا کے لئے مسلّم ہے اور وہ واحد لاشر یک ہے اسی طرح ہمارا رسول اس بات میں واحد ہے کہ اس کی پیروی کی جائے اور اس بات میں واحد ہے کہ خاتم الانبیاء ہے.(منن الرحمن، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 164) آپ کے نقوش قدم پر چلتے ہوئے آپ کی اتباع میں صادق شاگرد کو وہ مقام ملا کہ صادق رسول اللہ صلی یکم سے کامل مماثلت پیدا ہو گئی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو سند صداقت عطا فرمائی.اسی اصدق الصادقین کے ارشاد پر آپ نے اعلان کیا: ” کہہ اے منکر و! میں صادقوں میں سے ہوں.میرے پاس خدا کی گواہی ہے.کہہ میں خدا کی طرف سے مامور ہوں اور میں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں.“ (براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد نمبر 1 صفحہ 664 - 665) اللہ تبارک تعالیٰ نے اپنے فرستادہ کی حقانیت دنیا پر ظاہر کرنے کا کام بھی اپنے ذمے لیا.اُردو میں الہام فرمایا.میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا.اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا.دنیا میں ایک نذیر آیا، پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا.لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.“ (براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد نمبر 1 صفحہ 664 - 665) رویا میں بھی اللہ تعالیٰ نے صادق کے صدق کی چمک پھیلنے کی بشارت عطا فرمائی: 21 اکتوبر 1899ء کو میں نے خواب میں محبی اخویم مفتی محمد صادق کو دیکھا کہ نہایت روشن اور چمکتا ہوا ان کا چہرہ ہے اور ایک لباس فاخرہ جو سفید ہے پہنے ہوئے ہیں اور ہم دونوں ایک بھی میں سوار ہیں اور وہ لیٹے ہوئے ہیں اور ان کی کمر پر میں نے ہاتھ رکھا ہوا ہے.یہ خواب ہے اور اس کی تعبیر جو خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالی ہے یہ ہے کہ صدق جس سے میں محبت رکھتا ہوں ایک چمک کے ساتھ ظاہر ہو گا اور جیسا کہ میں نے صادق کو دیکھا ہے کہ اس کا چہرہ چمکتا ہے اسی طرح وہ وقت قریب ہے کہ میں صادق سمجھا جاؤں گا اور صدق کی چمک لوگوں پر پڑے گی.“.(ضمیمه تریاق القلوب نمبر 4 روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 505 – 506) 334

Page 335

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام آپ کے اوصاف میں بھی سچائی اور راست بازی نمایاں نظر آتی ہے.منصب نبوت سے پہلے ہی قادیان کے لوگ عزیز واقارب آپ کے تقویٰ و طہارت کے گرویدہ تھے.اس دعوی کے ساتھ ہی نیک طبعوں نے بغیر دلیل اور نشان کے آپ علیہ السلام کو سچا مان لیا اور آپ کی سچائی پر شہادتیں دیں.آپ کی تحریر ہے: ” مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک مرتبہ امر تسر ایک مضمون بھیجا.اس کے ساتھ ہی ایک خط بھی تھا.رلیا رام کے وکیل ہند اخبار کے متعلق تھا.میرے اس خط کو خلاف قانون ڈاکخانہ قرار دے کر مقدمہ بنایا گیا.وکلاء نے بھی کہا کہ اس میں بجز اس کے رہائی نہیں جو اس خط سے انکار کر دیا جاوے.گویا جھوٹ کے سوا بچاؤ نہیں.مگر میں نے اس کو ہر گز پسند نہ کیا بلکہ یہ کہا کہ اگر سچ بولنے سے سزا ہوتی ہے تو ہونے دو جھوٹ نہیں بولوں گا.آخر وہ مقدمہ عدالت میں پیش ہوا.ڈاک خانوں کا افسر بحیثیت مدعی حاضر ہوا.مجھ سے جس وقت اس کے متعلق پوچھا گیا تو میں نے صاف طور پر کہا کہ یہ میرا خط ہے مگر میں نے اس کو جزو مضمون سمجھ کر اس میں رکھا ہے.مجسٹریٹ کی سمجھ میں یہ بات آگئی اور اللہ تعالٰی نے اس کو بصیرت دی.ڈاکخانوں کے افسر نے بہت زور دیا مگر اس نے ایک نہ سنی اور مجھے رخصت کر دیا.میں کیونکر کہوں کہ جھوٹ کے بغیر گزارہ نہیں.ایسی باتین نری بیہود گیاں ہیں.سچ تو یہ ہے کہ سچ کے بغیر گزارا نہیں.میں اب تک بھی جب اپنے اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو ایک مزا آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے پہلو کو اختیار کیا.اس نے ہماری رعایت رکھی اور ایسی رعایت رکھی جو بطور نشان کے ہو گئی.وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُةً (الطلاق: 4) یقیناً یاد رکھو جھوٹ جیسی کوئی منحوس چیز نہیں عام طور پر دنیا دار کہتے ہیں کہ سچ بولنے والے گرفتار ہو جاتے ہیں.مگر میں کیوں کر اس کو باور کروں؟ مجھ پر سات مقدمے ہوئے ہیں اور خدا کے فضل سے کسی ایک میں بھی ایک لفظ بھی مجھے جھوٹ کہنے کی ضرورت نہیں پڑی.کوئی بتائے کسی ایک میں بھی خدا تعالیٰ نے مجھے شکست دی ہو.اللہ تعالیٰ تو آپ کی سچائی کا حامی اور مدد گار ہے.یہ ہو سکتا ہے کہ وہ راستباز کو سزا دے؟ اگر ایسا ہو تو دنیا میں پھر کوئی شخص سچ بولنے کی جرات نہ کرے اور خدا تعالیٰ پر سے اعتقاد ہی اٹھ جاوے.راستباز تو زندہ ہی مر جاویں.اصل بات یہ ہے کہ سچ بولنے سے سے جو سزا پاتے ہیں وہ سچ کی وجہ سے نہیں ہوتی.وہ سزا ان کی بعض اور مخفی در مخفی بد کاریوں کی ہوتی ہے اور کسی اور جھوٹ کی سزا ہوتی ہے خدا تعالیٰ کے پاس تو ان بدیوں اور شرارتوں کا ایک سلسلہ ہوتا ہے.ان کی بہت 335

Page 336

سی خطائیں ہوتی ہیں اور کسی نہ کسی میں وہ سزا پا لیتے ہیں“ اپنے (احمدی اور غیر احمدی میں کیا فرق ہے؟ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 478 – 480) متبعین کو بھی سچ کی عادت ڈالنے اور جھوٹ سے نفرت کی تاکید فرمائی..حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.قرآن شریف نے جھوٹ کو بھی ایک نجاست اور یہ جس قرار دیا ہے.جیسا کہ فرمایا ہے فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ ( ج : 31) دیکھو یہاں جھوٹ کو بت کے مقابل رکھا ہے اور حقیقت میں جھوٹ بھی ایک بت ہی ہے.ورنہ کیوں سچائی کو چھوڑ کر دوسری طرف جاتا ہے.جیسے بت کے نیچے کوئی حقیقت نہیں ہوتی اسی طرح جھوٹ کے نیچے بجز ملمع سازی کے اور کچھ بھی نہیں ہوتا.جھوٹ بولنے والوں کا اعتبار یہاں تک کم ہو جاتا ہے کہ اگر وہ سچ کہیں تب بھی یہی خیال ہوتا ہے کہ اس میں بھی کچھ جھوٹ کی ملاوٹ نہ ہو.اگر جھوٹ بولنے والے چاہیں کہ ہمارا جھوٹ کم ہو جائے، تو جلدی سے دور نہیں ہوتا.مدت تک ریاضت کریں.تب جا کر سچ بولنے کی عادت اُن کو ہو گی.“ ایک اور جگہ فرمایا: (ملفوظات جلد 3 صفحہ 350 ایڈیشن 1985ء) بتوں کی پرستش اور جھوٹ بولنے سے پرہیز کرو.یعنی جھوٹ بھی ایک بت ہے جس پر یہ بھروسہ کرنے والا خدا کا بھروسہ چھوڑ دیتا ہے.سو جھوٹ بولنے سے خدا بھی ہاتھ سے جاتا ہے.“ ایک الہامی شعر میں صادق کی تعریف بتائی گئی.اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 361) صادق آن باشد که ایام بلا ے گزار دیا محبت باوفا ( ملفوظات جلد سوم صفحہ 373) یعنی خدا کی نظر میں صادق وہ شخص ہوتا ہے کہ جو بلا کے دنوں کو محبت اور وفا کے ساتھ گزارتا ہے.روزنامه الفضل آن لائن لندن 21 اکتوبر 2022ء) 336

Page 337

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام قسط 41 آسمانی تعلیم و تربیت چوں حاجتے بود بادیب دگر مرا من تربیت پذیر ز رب میمنم مجھے کسی اور استاد کی ضرورت کیوں ہو.میں تو اپنے خدا سے تربیت حاصل کئے ہوئے ہوں.(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 658) اللہ تبارک تعالیٰ خود اپنے انبیا کا معلم ہو کر ان کو علوم آسمانی سے بہرہ ور فرماتا ہے جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا (البقره: 32) اور اس نے آدم کو تمام نام سکھائے.اسی طرح حضرت لوط علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت موسی علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارہ میں فرمایا کہ آتَيْنَهُ حُكْما وعِلْمًا (الانبیاء: 75) اسے ہم نے حکمت و علم عطا کیا تھاد یگر انبیاء کے بارہ میں بھی یہی فرمایا گیا وَكُلَّا اتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا (الانبیاء: 80) اور ہر ایک کو ہم نے حکمت اور علم عطا کئے.مة الله نبی کریم صلی ا لی ایم کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَعَلَّبَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ (النساء: 114) اور تجھے وہ کچھ سکھایا جو تو نہیں جانتا تھا.تلاوت آیات، قرآن کا علم و حکمت اور تزکیہ نفوس آنحضور ملی ایم کے ساتھ ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا تھی: رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُوْلًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ) 337 (البقره: 130)

Page 338

اے ہمارے ربّ! تو ان میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کر جو ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب کی تعلیم دے اور (اس کی) حکمت بھی سکھائے اور ان کا تزکیہ کر دے.یقیناً تو ہی کامل غلبہ والا (اور) حکمت والا ہے.دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے خود تعلیم و تربیت دے کر تلاوت آیات اور کتاب کی تعلیم و حکمت سکھانے کے لئے آنحضور صلی اللہ نیلم کو مبعوث فرمایا.انبیائے کرام کی بعثت حادثاتی یا اتفاقی طور پر نہیں ہوتی.اللہ قادرو توانا ہزارہا سال پشت ہا پشت ان کے جوہر کی حفاظت کرتا ہے.پھر اپنے خاص فضل و کرم سے اپنے نور سے ممسوح کر کے پاک فطرت ودیعت کر کے پیدائشی طور پر اخلاق فاضلہ سے مزین کرکے اس پاک نفس کو بھیجتا ہے جس کی سرشت میں صرف بھلائی اختیار کرنا اور برائی سے دور ہٹنا شامل ہوتا ہے.یہ خصوصیات کوئی دنیاوی استاد نہیں سکھا سکتا.رسول پاک صلی می کنم تو امی تھے حضرت جبرائیل جب غار حرا میں اللہ کا پیغام لے کر آئے اور آپ کی میریم کو پڑھنے کا ارشاد کیا تو آپ صلی علی کرم نے فرمایا: ما انا بقداریء میں تو پڑھنا نہیں جانتا اور یہ حقیقت تھی.پھر آپ کیا یہ کلام کو جو کچھ سکھایا اللہ پاک نے خود سکھایا.اللہ تبارک تعالی کی سر کار سے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء میں سے صرف آنحضرت صلی ایم کو ”النبی الامی “ کا امتیازی قابل فخر خطاب عطا ہوا.یہ آپ کی تمیم سے خاص تھا.خدائے رحمان نے خود قرآن پاک سکھایا وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا مَا كُنْتَ تَدْرِى مَا الْكِتَبُ وَلَا الْإِيْمَانُ وَلَكِنْ جَعَلْنَهُ نُورًا نَّهْدِئَ بِهِ مَنْ نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا وَإِنَّكَ لَتَهْدِى إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ) (الشعراء: 53) اور اسی طرح ہم نے تیری طرف اپنے حکم سے ایک زندگی بخش کلام وحی کیا.تو جانتا نہ تھا کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے لیکن ہم ہی نے اسے نور بنایا جس کے ذریعہ ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں اور یقیناً تو سیدھے راستہ کی طرف چلاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ صلی ایم کے نبی امی ہونے کی حکمت سمجھاتے ہیں: متقی کا معلم خدا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ نبیوں پر امیت غالب ہوتی ہے ہمارے نبی کر یم ملی الم کو اس لئے امی بھیجا کہ باوجود یہ کہ آپ کی تعلیم نے نہ کسی مکتب میں تعلیم پائی اور نہ کسی کو استاد بنایا.پھر آپ نے وہ معارف اور حقائق بیان کئے جنہوں نے دنیوی علوم کے ماہروں کو دنگ اور حیران کر دیا.قرآن شریف 338

Page 339

الله جیسی پاک، کامل کتاب آپ کے لبوں پر جاری ہوئی.جس کی فصاحت و بلاغت نے سارے عرب کو خاموش کرادیا.وہ کیا بات تھی جس کے سبب سے آنحضرت صلی علی علم علوم میں سب سے بڑھ گئے.وہ تقویٰ ہی تھا.رسول اللہ صلی الی یوم کی مظہر زندگی کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ قرآن شریف جیسی کتاب وہ لائے.جس نے دنیا کو حیران کر دیا ہے.آپ کا امی ہونا ایک نمونہ اور دلیل ہے اس امر کی که قرآنی علوم یا آسمانی علوم کے لئے تقویٰ مطلوب ہے نہ دنیوی چالا کیاں.“ (تفسیر حضرت مسیح موعود سورۃ الاعراف صفحہ 241) آپ کا ہر کلام وحی الہی کے تحت ہوتا آپ کی ہر بات میں خدا تعالیٰ بولتا.ہمہ وقت فرشتے آپ کو اپنے حصار میں رکھتے.وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ الَّا وَحْيٌ يُوحَى (٤) یہ تو محض ایک وحی ہے جو اتاری جارہی ہے اور وہ خواہش نفس سے کلام نہیں کرتا.صاحب تجربہ کی تشریح دیکھئے: (النجم: 4 - 5) ”نبی کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں اور جو کچھ خواطر اس کے نفس میں پیدا ہوتی ہیں در حقیقت وہ تمام وحی ہوتی ہیں جیسا کہ قرآن کریم اس پر شاہد ہے...لیکن قرآن کریم کی وحی دوسری وحی سے جو صرف معانی منجانب اللہ ہوتی ہیں تمیز کلی رکھتی ہے اور نبی کے اپنے تمام اقوال وحی غیر متلو میں داخل ہوتے ہیں کیونکہ روح القدس کی برکت اور چمک ہمیشہ نبی کے شامل حال رہتی ہے اور ہر یک بات اس کی برکت سے بھری ہوئی ہوتی ہے اور وہ برکت روح القدس سے اس کلام میں رکھی جاتی ہے.“ آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحه (353) کشفی طور پر دنیاوی آلائشوں سے پاک کیا حضرت رسول پاک ملی لی نام کو بہت چھوٹی عمر میں آلائشوں سے پاک کر دیا گیا تھا.انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ جب کہ آنحضرت صلی الله علم بعض بچوں کے ساتھ مل کر کھیل رہے تھے آپ کی لی کیم کے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور آپ کی اسی کام کو زمین پر لٹا کر آپ صلی این یکم 339

Page 340

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام سة کا سینہ چاک کر دیا اور پھر آپ صلی یہ کام کے سینہ کے اندر سے آپ میلی لی اکمل کا دل نکالا اور اس میں سے کوئی چیز نکال کر باہر پھینک دی اور ساتھ ہی کہا کہ یہ کمزوریوں کی آلائش تھی جو اب تم سے جدا کر دی گئی ہے.اس کے بعد جبرائیل نے آپ صلی علیم کے دل کو مصفیٰ پانی سے دھویا اور سینہ میں واپس رکھ کر اسے پھر جوڑ دیا.جب بچوں نے جبرائیل کو آپ مالی ایم کو زمین پر گراتے اور سینہ چاک کرتے ہوئے دیکھا تو وہ گھبرا کر دوڑتے ہوئے آپ ملیالم کی دائی کے پاس گئے اور کہا کہ محمد کو کسی نے قتل کر دیا ہے.جب یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ نیم کے پاس پہنچے تو فرشتہ غائب تھا اور آپ مایا یہ نام ایک خوفزدہ حالت میں کھڑے تھے.(مسلم جلد 1 باب الاسراء) یہ واقعہ ایک کشفی نظارہ تھا.احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ معراج کی رات بھی آنحضرت کے ساتھ اسی قسم کے شق صدر کا واقعہ ہوا اور فرشتوں نے آپ کا دل نکال کر زمزم کے مصفا پانی سے دھویا اور پھر اپنی جگہ پر رکھ دیا.اللہ پاک نے فصاحت عطا فرمائی الله سة (بخاری باب المعراج) حضرت نبی کریم کی یلم امی تھے تاہم اللہ پاک نے آپ کو عرب میں سب سے زیادہ فصیح بنایا تھا.جب آپ سے پوچھا گیا کہ آپ کی اس قدر فصاحت کا سبب کیا ہے تو آپ نے فرمایا: أَنَا أَعْرَبُكُمْ أَنَا قُرَشِي وَاسْتُرْضِعْتُ فِي بَنِي سَعْدِ بْنِ بَكْرِ یعنی میں عربی میں تم سب سے زیادہ فصیح ہوں، میں قریشی ہوں اور میری رضاعت بنو سعد بن بکر میں ہوئی ہے.آپ کا فرمان ہے أُعْطِيْتُ جَوَامِعَ الكَلِہ یعنی مجھے جَوَامِعُ الكَلِہ عطا کئے گئے.(سیرت ابن ہشام صفحہ 681) (مسلم صفحہ 210 حدیث: 1167) یہ جوامع الکلم آپ کی عظمت نبوت کا ثبوت ہیں اور یہ آپ کے خصائص عظیمہ میں سے ہیں.فطری و قدرتی نیک رجحان جو عمر بچے کے ادب آداب سیکھنے کی ہوتی ہے اس میں یہ یتیم بچہ کچھ عرصہ ماں کا لاڈ پیار دیکھ اس سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو گیا.دادا نے پیار دیا مگر ان کی زندگی نے وفا نہ کی.آپ چچا کے گھر آگئے.کچھ 340

Page 341

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام تو قدرتی طور پر سنجیدہ تھے کچھ حالات نے خاموش رہنا سکھا دیا آپ ایک مؤدب بچے تھے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس زمانے کا بڑا پیارا نقشہ کھینچا ہے فرماتے ہیں: ابو طالب بعض دفعہ اپنے بچوں کے سامنے کہتے کہ ”یہ میرا بچہ ہے“ رات کو عموماً اپنے ساتھ سلاتے تھے یہی کوشش رہتی کہ حضرت محمدصلی اللہ ہم ہر وقت آپ کی آنکھوں کے آگے رہیں.کبھی کسی کام کے لئے باہر جاتے تو آکر تسلی کرتے کہ آپ بھوکے تو نہیں رہے.آپ کی بچی بھی آپ پر سختی نہیں کرتی تھیں.دراصل آپ اتنی پیاری اداؤں کے مالک تھے کہ سختی کی ضرورت ہی پیش نہ آتی تھی...آپ کے چچا کے گھر میں جب کھانا تقسیم ہوتا تھا تو آپ کبھی بڑھ کر مانگا نہیں کرتے تھے.باقی بچے لڑ جھگڑ کر مانگتے مگر رسول کریم صلی ال نامی ایک طرف خاموش کھڑے رہتے اور جب آپ کی پیچی آپ کو کچھ دیتی تو آپ لے لیتے خود مانگ کر نہیں لیتے تھے...بعض دفعہ ابو طالب جب گھر میں آتے اور وہ رسول کریم کی تعلیم کو عام بچوں سے الگ ایک طرف کھڑے دیکھتے اور یہ بھی دیکھتے کہ باقی بچے شور کر رہے ہیں اور لڑ جھگڑ کر چیزیں لے رہے ہیں.مثلاً مٹھائی تقسیم ہو رہی ہے تو ایک کہتا میں مٹھائی کی ایک ڈلی نہیں دو ڈلیاں لوں گا.دوسرا کہتا ہے اماں مجھے تو تو نے کچھ بھی نہیں دیا اسی طرح ہر بچہ اپنا حق جتا کر چیز کا مطالبہ کر رہا ہے اور رسول کریم ملی ایم ایک کونے میں خاموش بیٹھے ہوئے ہیں تو ابو طالب ان کو بازو سے پکڑ لیتے اور کہتے میرے بچے تو یہاں کیوں خاموش بیٹھا ہے.پھر وہ آپ کو لا کر اپنی بیوی کے پاس کے پاس کھڑا کر دیتے اور کہتے، تو بھی اپنی بچی سے چمٹ جا اور اس سے مانگ.مگر رسول کریم صلی للی کم نہ چمٹتے اور نہ کچھ مانگتے.رسول صلی ال نیلم کی یہ حالت دراصل ان ہی جذبات کا نتیجہ تھی کہ آپ سمجھتے تھے میرا اس گھر پر کوئی حق نہیں اور جو کچھ مجھے ملتا ہے بطور احسان ملتا ہے.“ الله (تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 255 - 256) لکھنے پڑھنے کی عمر میں دنیاوی استادوں کا سہارا لینا پڑتا ہے اللہ پاک نے آپ کو اپنی گود میں مثل طفل شیر خوار لے کر سارے علوم سکھا دیے.آپ کی حیات طیبہ کا کوئی گوشہ تاریخ کی نظر سے اوجھل نہیں رہا.طبعی نیکی اور خدائی تربیت کی روشنی آپ کے افعال و اقوال سے جھلکتی ہے.نو عمری سے علیحد گی پسند تھے.چند دوست تھے جن کا تعلق اعلیٰ خاندانوں سے تھا مثلاً عبد اللہ بن ابی قحافہ (حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ) حکیم بن حزام، زید بن عمر و زمانہ جاہلیت میں بھی مشرک نہ تھے دین ابراہیمی پر قائم تھے.آپ ہمیشہ عرب سوسائٹی کی گندی رسوم سے مجتنب رہے.مشرکانہ رسوم سے بلکلی پرہیز کیا.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ کا ایک قول مروی ہے فرماتے تھے کہ:.341

Page 342

”میں نے بتوں کے چڑھاوے کا کھانا کبھی نہیں کھایا.“ ایک روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کی ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی الم سے کسی نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! کیا آپ نے کبھی بتوں کو پوجا ہے.آپ نے فرمایا نہیں.پھر لو گوں نے پوچھا کیا آپ نے کبھی شراب پی ہے.آپ نے فرمایا نہیں.پھر فرمایا کہ میں ہمیشہ سے ان باتوں کو قابل نفرت سمجھتا رہا ہوں، لیکن اسلام سے پہلے مجھے شریعت اور ایمان کا کوئی علم نہیں تھا.(سیرت حلبیه جلد 1 باب ما حفظه الله ) اسی زمانہ کا ایک واقعہ ہے کہ آنحضرت مصلی علیم نے ایک رات اپنے ساتھی سے کہا جو بکریاں چرانے میں آپ کا شریک تھا کہ تم میری بکریوں کا خیال رکھو تا کہ میں ذرا شہر جا کر لو گوں کی مجلس دیکھ آؤں.ان دنوں میں دستور تھا کہ رات کے وقت لوگ کسی مکان میں جمع ہو کر کہانیاں سناتے اور شعر و غزل کا شغل کیا کرتے تھے اور بعض اوقات اسی میں ساری ساری رات گزار دیتے تھے.آنحضرت صل الل علم بھی بچپن کے شوق میں یہ تماشہ دیکھنے گئے.مگر اللہ تعالیٰ کو اس لغو کام میں خاتم النبیین کی شرکت پسند نہ آئی، چنانچہ ایک جگہ آپ گئے مگر راستے میں ہی نیند آگئی اور سو گئے اور صبح تک سوتے رہے.ایک دفعہ اور آپ کو یہی خیال آیا مگر پھر بھی دست غیبی نے روک دیا.زمانہ نبوت میں آنحضرت صلی ا یکم فرماتے تھے کہ میں نے ساری عمر میں صرف دو دفعہ اس قسم کی مجلس میں شرکت کا ارادہ کیا، مگر دونوں دفعہ روک دیا گیا.(سیرت خاتم النبیین صفحہ 117 بحوالہ طبری) اہالیان مکہ کا آپ کو صادق، امین کہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کی سلامت روی معروف تھی.اللہ تعالیٰ نے بچپن سے آپ کو سچ بولنے کی تربیت دی تھی.مخالفین نے آپ کی زندگی پر کئی جھوٹے اعتراض کئے مگر وہ کوشش کے باوجود آپ کو جھوٹا نہ کہہ سکے.آپ کی زوجہ محترمہ نے، عزیز و اقربا نے دوستوں نے حتی کہ شدید معاند جانی دشمنوں نے برملا آپ کی راست گفتاری کا اعلان کیا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم و تربیت بھی اللہ تعالیٰ نے کی.دنیا بھر میں تلاش کر کے آنحضور صلی الم سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے کو آپ کی کامل اتباع اور پیروی کا ارشاد فرمایا.آپ علیہ السلام کو اس غلامی پر فخر رہا: 342

Page 343

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے وہ دلبر یگانہ علموں کا ہے خزانہ باقی ہے سب فسانہ سچ بے خطا یہی ہے سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدایا وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہے اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو بھی آنحضور صلی ال کام کو الہام فرمائے ہوئے مبارک الفاظ الہام فرمائے: كُل بَرَكَةٍ مِنْ مُحَمَّدٍ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ تمام به (در ثمین) (تذکرہ صفحہ 45 ایڈیشن چہارم) برکتیں محمد صل اللی علم سے حاصل ہوتی ہیں.پس بہت برکت والا ہے وہ بھی جس نے سکھایا وہ بھی بہت برکت والا ہے جس نے سیکھا.سکھانے والے محملی لیلی کام اور سیکھنے والے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام - سبحان الله خدائے رحمان نے خود قرآن پاک سکھایا رسول کریم ملی ای نام پر قرآن نازل ہوا اور خدائے رحمان نے خود سکھایا الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ (٤) حضرت اقدس علیہ السلام کو بھی قرآن پاک اللہ تعالیٰ نے خود سکھایا.الہام ہوا: يَا أَحْمَدُ بَارَكَ اللَّهُ فِيْكَ مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ ترجمہ: اے احمد ! خدا نے تجھ میں برکت رکھ دی ہے.جو کچھ تونے چلایا.یہ تو نے نہیں چلایا.بلکہ خدا نے چلایا.خدا نے تجھے قرآن سکھلایا.(براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 265 حاشیہ نمبر 1) 343

Page 344

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام تلاوت آیات قرآن کا علم و حکمت اور تزکیہ نفوس جس پائے کی تعلیم و تربیت کی نبی کو ضرورت ہوتی ہے وہ معلم و مربی واحد خدا ہی خاص تائید و نصرت سے عطا فرماتا ہے.سورۃ الجمعہ میں مذکور آخرین میں حضرت رسول کریم ملی ایم کی بعثت ثانیہ میں وہی فرائض آپ علیہ السلام کو ادا کرنے تھے جو رسول اکرم صلی علی کریم نے ادا کیے ہیں.سوائے اس فرق کے کہ آپ علیہ السلام کو قرآن مجید اور محمد رسول اللہ کی ملی یکم کا کامل متبع رہنا ہے اور آپ کی شریعت پر عمل کرنا ہے.چنانچہ آپ کو الہام ہوا: هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيْنَ رَسُوْلًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ ايَتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَلٍ مُّبِيْنِ اللَّهِ وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيمُ (ج) ذَلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (3) (الجمعه : 3 - 5) ترجمہ: وہی ہے جس نے امی لو گوں میں انہیں میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا.وہ ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقیناً کھلی کھلی گمراہی میں تھے اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی (اسے مبعوث کیا ہے) جو ابھی ان سے نہیں ملے.وہ کامل غلبہ والا (اور) صاحب حکمت ہے.یہ اللہ کا فضل ہے وہ اس کو جسے چاہتا ا ہے عطا کرتا ہے اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے.آنحضور صلی ایم نے آپ علیہ السلام کے صاحب حکمت ہونے کی پیشگوئی بھی فرمائی کہ: ”امام مہدی حکم عدل ہو گا آپ کا ہر کلام وحی الہی کے تحت تھا (مسند احمد جلد 2 صفحہ 156) اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام میں آنحضور صلی ای کمی کی تمام خصوصیات کا عکس رکھ دیا.آپ علیہ السلام بھی کے بلائے بولتے تھے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا : وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى خدا ترجمہ: یہ اپنی طرف سے نہیں بولتا.بلکہ جو کچھ تم سنتے ہو.یہ خدا کی وحی ہے.یہ خدا کے قریب ہوا.یعنی 344

Page 345

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام اوپر کی طرف گیا اور پھر نیچے کی طرف تبلیغ حق کے لئے جھکا.اس لئے یہ دو قوسوں کے وسط میں آ گیا.اربعین نمبر 3، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 426) آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا بلکہ قرآن اور حدیث کے مطابق اور اس الہام کے مطابق کہتا ہوں جو خد اتعالیٰ نے مجھے کہا.جو آنے والا تھا وہ میں ہی ہوں.“ آپ مزید فرماتے ہیں: (ملفوظات جلد چہارم صفحه 492) م اس عاجز کو اپنے ذاتی تجربہ سے یہ معلوم ہے کہ روح القدس کی قدسیت ہر وقت اور ہر دم اور ہر لحظہ بلا فصل ملہم کے تمام قویٰ میں کام کرتی رہتی ہے اور وہ بغیر روح القدس اور اس کی تاثیر قدسیت کے ایک دم بھی اپنے تئیں ناپاکی سے بچا نہیں سکتا اور انوار دائمی اور استقامت دائگی اور محبت دائگی اور عصمت دائمی اور برکات دائمی کا بھی سبب ہوتا ہے کہ روح القدس ہمیشہ اور ہر وقت ان کے ساتھ ہوتا ہے.“ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 93) کشفی طور پر رجس سے پاک فرمایا رسول کریم ملی ایم کی طرح آپ علیہ السلام کو بھی کشفی حالت میں رجس سے پاک کیا گیا.فرماتے ہیں: میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ ایک شخص جو مجھے فرشتہ معلوم ہوتا ہے مگر خواب میں محسوس ہوا کہ اس کا نام شیر علی ہے.اس نے مجھے ایک جگہ لٹا کر میری آنکھیں نکالی ہیں اور صاف کی ہیں اور میل اور کدورت ان میں سے پھینک دی اور ہر ایک بیماری اور کوتاہ بینی کا مادہ نکال دیا ہے اور ایک مصفا نور جو آنکھوں میں پہلے سے موجود تھا مگر بعض مواد کے نیچے دبا ہو اتھا اس کو ایک چمکتے ہوئے ستارہ کی طرح بنا دیا ہے اور یہ عمل کر کے پھر وہ شخص غائب ہو گیا اور میں اس کشفی حالت سے بیدار ی کی طرف منتقل ہو گیا.“ تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 351 - 352) 345

Page 346

فطری و قدرتی دینی رجحان اور تعلیم آپ علیہ السلام کی فطری نیکی کی مثال میں آپ سے منسوب وہ دعا کی درخواست ہے جو نہایت چھوٹی عمر میں اپنی ہم سن لڑکی کو کیا کرتے تھے کہ ” نامرادے دعا کر کہ خدا میرے نماز نصیب کرے“ ”اس فقرہ سے جو نہایت بچپن کی عمر کا ہے پتہ چلتا ہے کہ نہایت پچپن کی عمر سے آپ کے دل میں کیسے جذبات موجزن تھے اور آپ کی خواہشات کا مرکز کس طرح خدا ہی خدا ہو رہا تھا اور ساتھ ہی اس ذہانت کا پتہ چلتا ہے جو بچپن کی عمر سے آپ کے اندر پیدا ہو گئی تھی کیونکہ اس فقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت بھی آپ تمام خواہشات کو پورا کرنے والا خدا تعالیٰ کو ہی سمجھتے تھے اور عبادت کی توفیق کا دینا بھی اسی پر موقوف جانتے تھے.نماز پڑھنے کی خواہش کرنا اور اس خواہش کو پورا کرنے والا خدا تعالیٰ کو ہی جاننا اور پھر اس گھر میں پرورش پا کر جس کے چھوٹے بڑے دنیا کو ہی اپنا خدا سمجھ رہے تھے، ایک ایسی بات ہے جو سوائے کسی ایسے دل کے جو دنیا کی ملونی سے ہر طرح پاک ہو اور دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر دینے کے لیے خدا تعالیٰ سے تائید یافتہ ہو، نہیں نکل سکتی.“ (سیرت حضرت مسیح موعود از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صفحہ 9) بچے کی تعلیم کا زمانہ آیا تو چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مسیح و مہدی بنانا تھا اس لئے،اگرچہ اس زمانے میں تعلیم عام نہ تھی، آپ کے والد محترم کے دل میں آپ کو تعلیم دلانے کا خاص شوق پیدا کر دیا.چنانچہ اپنے تفکرات اور اقتصادی مشکلات کے باوجود آپ کی تعلیم میں گہری دلچسپی لی.امی نبی ہونے کا اعزاز صرف آنحضور صلی الم کے ساتھ خاص ہے باقی انبیاء کو کچھ نہ کچھ دنیاوی تعلیم حاصل کرنا پڑی.اپنی ابتدائی تعلیم کے بارے میں آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح پر ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لیے نوکر رکھا گیا.جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کا نام فضل الہی تھا اور جب میری عمر تقریباً دس برس کے ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کے لیے مقرر کئے گئے جن کا نام فضل احمد تھا.میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خدا تعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لیے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ بھی فضل ہی تھا.مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار اور بزرگوار آدمی تھے.وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے اور میں نے صرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحوان سے پڑھے اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا تو 346

Page 347

ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا.ان کا نام گل علی شاہ تھا.ان کو بھی میرے والد صاحب نے نو کر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لیے مقرر کیا تھا اور ان آخرالذ کر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خدا تعالیٰ نے چاہا حاصل کیا اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے اور ان دنوں میں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میں نہ تھا.“ (کتاب البریه، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 179 - 181 حاشیہ) مطالعہ کے لئے آپ کے موضوعات کے چناؤ، سنجیدگی اور متانت کے بارے میں کئی روایات ہیں.جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو خاص مقصد کے لئے تیار کر رہاتھا.سترہ اٹھارہ برس کی عمر میں سنجیدگی کا عالم دیکھئے.آپ فرماتے ہیں: میں سولہ سترہ برس کی عمر سے عیسائیوں کی کتابیں پڑھتا ہوں اور ان کے اعتراضوں پر غور کرتا رہا ہوں.میں نے اپنی جگہ ان اعتراضوں کو جمع کیا ہے.جو عیسائی آنحضرت صلی الم پر کرتے ہیں.ان کی تعداد تین ہزار کے قریب پہنچی ہوئی ہے...اللہ تعالیٰ گواہ ہے اور اس سے بڑھ کر ہم کس کو شہادت میں پیش کر سکتے ہیں.کہ جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے.سولہ یا سترہ برس کی عمر سے عیسائیوں کی کتابیں پڑھتا رہا ہوں.مگر ایک طرفۃ العین کے لیے بھی ان اعتراضوں نے میرے دل کو مذبذب یا متاثر نہیں کیا محض خدا تعالیٰ کا فضل ہے میں جوں جوں ان کے اعتراضوں کو پڑھتا جاتا تھا.اسی قدر ان اعتراضوں کی ذلت میرے دل میں سماتی جاتی تھی اور رسول کریم صلی علیم کی عظمت اور محبت سے دل عطر کے شیشہ کی طرح نظر آتا.“ اور یہ (حیات احمد جلد اول صفحہ 398 - 399) اللہ پاک نے معجزانہ طور پر عربی زبان کا علم اور فصاحت عطا فرمائی علیہ السلام کو دینی کتب پڑھنے کے لئے انگریزی اور عبرانی سیکھنے کا خیال آیا جو زیادہ دیر نہ چلا لیکن عربی کیسے سیکھی؟ اس کے لئے پہلے ایک حدیث پڑھئے رسول اللہ صلی اللہ کریم نے فرمایا تھا.الْمَهْدِئُ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ يُصْلِحُهُ اللَّهُ فِي لَيْلَةٍ“ کہ مہدی ہم میں سے اور ہمارے اہل بیت سے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ایک ہی رات میں صالح بنا دے گا.ایک دوسری سند کے ساتھ یہ الفاظ آئے ہیں کہ الْمَهْدِيُّ يُصْلِحُهُ اللَّهُ فِي لَيْلَةٍ 347

Page 348

واحِدَ كه مہدی کو اللہ تعالیٰ ایک ہی رات میں صالح بنا دے گا.(سُنَن ابنِ مَاجَهِ كِتَابُ الْفِتَن بَابِ 43 خُرُوجِ الْمَهْدِي ، حدیث نمبر 4085 ) 1893ء میں ہندوستان کے بعض علماء نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی دانی پر اعتراض کیا اور حضور علیہ السلام کو علوم عربیہ سے بے بہرہ قرار دیا.مخالف علماء کی اس کیفیت کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور مدد طلب فرمائی.اس دعا کو اللہ تعالٰی نے اس رنگ میں قبول فرمایا کہ ایک ہی رات میں عربی زبان کے 40 ہزار مادے آپ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سکھائے گئے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے عربی زبان کا علم دیئے جانے کے بعد حضور علیہ السلام نے عرب و عجم کے علماء کے کبر کو تو ڑنے کے لئے اور اہل عرب پر حجت قائم کرنے کے لئے فصیح و بلیغ عربی زبان میں کم و بیش 24 کتب بھی تحریر فرمائیں جن میں ہزاروں روپیہ کے انعامی چیلنج بھی دیئے لیکن کسی کو مقابلہ کی جرات نہ ہو سکی.(ضرورة الامام، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 496) نیز حضرت اقدس فرماتے ہیں: ”قلت جہد اور معمولی جستجو کے باوجود عربی زبان میں میرا کمال حاصل کرنا میرے رب کی طرف سے واضح نشان ہے تا کہ وہ لوگوں پر میرا علم اور ادب ظاہر فرمائے پس مخالفین کے گروہ میں کوئی ہے جو اس امر میں میرے ساتھ مقابلہ کر سکے اور اس معمولی کوشش کے باوجود مجھے چالیس ہزار عربی لغات سکھائے گئے ہیں اور مجھے علوم ادبیہ میں کامل وسعت عطا کی گئی ہے“ (ترجمه از مکتوب احمد، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 234).”ہمارا تو دعوی ہے کہ معجزہ کے طور پر خدا تعالیٰ کی تائید سے انشاء پردازی کی ہمیں طاقت ملی ہے “ ( نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 437) آپ کا منظوم کلام تین زبانوں میں ملتا ہے.جو بے مثال ہے.تقریر بھی اعلیٰ تھی.اللہ تعالیٰ کی سند ہے.در کلام تو چیزی است که شعراء را در آن دخله نیست تیرے کلام میں ایک ایسی چیز ہے جس میں شاعروں کو دخل نہیں.(تذکره صفحه 805) 348

Page 349

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام عربی میں آپ علیہ السلام نے ایک خطبہ بھی فی البدیہہ ارشاد فرمایا کہ: ”خدا نے مجھے بھی یہی حکم دیا ہے.آج صبح کے وقت الہام ہوا ہے کہ مجمع میں عربی میں تقریر کرو.تمہیں قوت دی گئی ہے.میں کوئی اور مجمع سمجھتا تھا، شاید یہی مجمع ہو اور نیز الہام ہو اہے كَلَامٌ أَفْصِحَتْ مِنْ لَدُنْ رب گریم یعنی اس کلام میں خدا کی طرف سے فصاحت بخشی گئی ہے.“ اس خطبہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.”تب میں عید کی نماز کے بعد عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لیے کھڑا ہو گیا اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ غیب سے مجھے ایک قوت دی گئی اور وہ فصیح تقریر عربی میں فی البدیہہ میرے منہ سے نکل رہی تھی کہ میری طاقت سے بالکل باہر تھی اور میں نہیں خیال کر سکتا کہ ایسی تقریر جس کی ضخامت کئی جزو تک تھی، ایسی فصاحت و بلاغت کے ساتھ بغیر اس کے کہ اول کسی کاغذ میں قلمبند کی جائے، کوئی شخص دنیا میں بغیر خاص الہام الہی کے بیان کر سکے.جس وقت یہ عربی تقریر جس کا نام ”خطبہ الہامیہ " رکھا گیا ہے، لوگوں میں سنائی گئی اس وقت حاضرین کی تعداد شاید دو سو کے قریب ہو گی.سبحان اللہ ! اس وقت ایک غیبی چشمہ کھل رہا تھا.مجھے معلوم نہیں کہ میں بول رہا تھایا میری زبان سے کوئی فرشتہ کلام کر رہا تھا.کیونکہ میں جانتا تھا کہ اس کلام میں میرا دخل نہ تھا.خود بخود بنے بنائے فقرے میرے منہ سے نکلتے جاتے تھے اور ہر ایک فقرہ میرے لئے ایک نشان تھا...یہ ایک علمی معجزہ ہے جو خدا نے دکھلایا اور کوئی اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتا.“ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 375 - 376 نشان نمبر 165) تفسیر نویسی میں بھی آپ علیہ السلام نے چیلنج دیئے کوئی مقابل نہ آیا امروز قوم من نشناسد مقام من روزے بگریه یاد کند وقت خوشترم ”آج میری قوم نے میرے مقام کو نہیں پہچانا لیکن وہ دن آتا ہے کہ میرے مبارک اور خوش بخت زمانہ کو یاد کر کے لو گ رویا کریں گے.“ 349 روزنامه الفضل آن لائن لندن 28 اکتوبر 2022ء)

Page 350

قسط 42 دل اور آنکھ کی پاکیزگی سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ”ول پاک نہیں ہو سکتا جب تک آنکھ پاک نہ ہو.“ تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 164 - 165) آنحضور صلی الم کی بعثت کے وقت کے معاشرہ کی عکاس عربی شاعری پڑھ سکیں تو اندازہ ہو کہ آنکھوں کو پاکیزگی کا درس دینا کتنا بڑا انقلاب تھا.اللہ تعالیٰ نے مومن مردوں اور عورتوں کو یہ سکھانے کا ارشاد فرمایا کہ: ترجمہ: اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں.يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ (النور:31) غض بصر سے مراد اپنی نظر کو ہر اس چیز سے رو کنا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے.( تفسير الطبری جلد 18 صفحہ 116) اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس میں نظر اُٹھانے اور نظر جھکانے کے آداب، اثرات، خطرات سب کچھ واضح کیا ہے.نگاہ کا غلط استعمال بہت سارے فتنوں اور آفتوں کی بنیاد بنتا ہے.مرد و عورت کے باہمی تعلقات کی ابتداء دونوں کی نظریں ملنے سے ہوتی ہے اور یہ ہوتا ہے کہ جب کسی پر نظر پڑتی ہے تو خواہ دوسرے کی نظر نیچی ہی ہو تب بھی اس پر اثر پڑ جاتا ہے.بد نظر سے ہی دل میں تمام قسم کے بد خیالات و تصورات جاگتے ہیں.انسان کے دل میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور طبیعت لذت یابی پر مائل ہو جاتی ہے.جس کے بھیانک نتائج کسی کی نظر سے اوجھل نہیں ہیں.نفس کے خالق سے بڑھ کر علم النفس کی باریکیاں کوئی نہیں جان سکتا.اس نے آنکھوں میں لذت لینے کی صلاحیت رکھی اور پھر اسے جائز حدود میں رکھنے کا حکم دیا تا کہ اجر عظیم سے نوازے.آنکھیں نیچی رکھو کہ کر وہ دروازہ بند کر دیا جہاں سے خرابیاں در آتی ہیں.350

Page 351

حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بد نظری کے حوالے سے ارشاد فرمایا: النَّظْرَ أُسَهُمْ مَسْئُومٌ مِنْ سِهَامِ إِبْلِيسَ مَنْ تَرَكَهَا مِنْ مَخَافَتِي أَبْدَلْتِهِ إِيمَانًا يَجِدُ حَلَاوَتَهُ فِي قَلْبِهِ (المنذری، عبد العظيم، الترغيب والترهيب، بیروت، دار الکتب العلميه، 1417ھ، جلد 3، صفحہ 153) جب کسی مسلمان کی کسی عورت کی خوبصورتی پر نگاہ پڑتی ہے اور وہ غض بصر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ایسی عبادت کی توفیق دیتا ہے جس کی حلاوت وہ محسوس کرتا ہے.نبی کریم صلی ال نیلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ تمہاری نگاہیں اچانک پڑنے والی نظر کی پیروی نہ کریں.کیو نکہ اچانک پڑنے والی نظر معاف ہے.لیکن اس کے بعد دیکھنا معاف نہیں.حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی علیم سے اچانک نظر پڑ جانے کے بارہ میں دریافت کیا.حضور صلی اللہ کریم نے فرمایا ”اضرف بَصَرَک“ اپنی نگاہ ہٹا لو.66 ( ابوداؤد کتاب النکاح باب في ما يؤمر به من غض البصر ) آنحضرت صلی ا لم نے راستہ کے حق کے بارے میں وضاحت فرمائی: راستوں پر مجلسیں لگانے سے بچو.صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی، یا رسول اللہ ہمیں رستوں میں مجلسیں لگانے کے سوا کوئی چارہ نہیں.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر رستے کا حق ادا کرو.انہوں نے عرض کی کہ اس کا کیا حق ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہر آنے جانے والے کے سلام کا جواب دو، غضِ بصر کرو، راستہ دریافت کرنے والے کی رہنمائی کرو، معروف باتوں کا حکم دو اور ناپسندیدہ باتوں سے رو کو.(مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 61 مطبوعہ بیروت) ابو ریحانہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: آگ اس آنکھ پر حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں بیدار رہی اور آگ اس آنکھ پر حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی خشیت کی وجہ سے آنسو بہاتی ہے.آگ اس آنکھ پر بھی حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کو دیکھنے کی بجائے جھک جاتی ہے اور اس آنکھ پر بھی حرام ہے جو اللہ عز و جل کی راہ میں پھوڑ دی گئی ہو.( سنن دارمی، کتاب الجهاد، باب فی الذي يسهر فی سبیل اللہ حارساً ) حضوراکرم علی ایم کے بارے میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ تیز رفتار کوئی نہیں دیکھا ایسے لگتا تھا کہ زمین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے لپٹتی جارہی ہے.351

Page 352

ہم ساتھ چل کر تھک جاتے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر تھکاوٹ کا کوئی اثر نہ ہوتا تھا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم گردن اکڑا کر نہ چلتے بلکہ نظریں نیچی رکھتے تھے.(ترمذی (42) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ فضل بن عباس) رسول اللہ صلی ال نیم کے پیچھے سوار تھے تو خُثعم قبیلہ کی ایک عورت آئی.فضل اسے دیکھنے لگ پڑے اور وہ فضل کو دیکھنے لگ گئی.تو اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کا چہرہ دوسری طرف موڑ دیا.بخاری کتاب الحج باب وجوب الحج وفضله ) حضرت عائشہ فرماتی ہیں: اللہ تعالیٰ کی قسم! بیعت کرتے وقت آپ کے ہاتھ نے کسی عورت کے ہاتھ کو مس نہیں کیا، آپ ان کو صرف اپنے کلام سے بیعت کرتے تھے.(صحیح بخاری، کتاب التفسير سورة الممتحنة ، باب اذا جاءكم المؤمنات مهاجرات، 350/3، الحدیث: 4891) اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے.رسول کریم صلی الم نے فرمایا کہ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ (صحیح بخاری) اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے.اللہ تبارک تعالیٰ غفور اور رحیم ہے.اچانک نظر پڑنا یا نیت کے ساتھ جان بوجھ کر دیکھنے میں فرق ہے.اللہ کے خوف سے جھکی رہنے والی آنکھوں والے مطہر و مقدس وجود پر لاکھوں درودو درود و سلام.کوئی اس پاک سے جو دل لگاوے کرے پاک آپ کو تب اس کو پاوے (در ثمین) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنے آقا و مطاع کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے متبعین کو غض بصر کے قرآنی حکم پر عمل کی تلقین فرمائی اور خود عمل کر کے دکھایا.فرماتے ہیں: ”مومن کو نہیں چاہئے کہ دریدہ دہن بنے یا بے محابا اپنی آنکھ کو ہر طرف اٹھائے پھرے، بلک يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ (النور:31) پر عمل کر کے نظر کو نیچی رکھنا چاہئے اور بد نظری کے اسباب سے بچنا چاہئے.“ (ملفوظات جلد اول صفحہ 533) 352

Page 353

”ایمانداروں کو جو مرد ہیں کہہ دے کہ آنکھوں کو نامحرم عورتوں کے دیکھنے سے بچائے رکھیں اور ایسی عورتوں کو کھلے طور سے نہ دیکھیں جو شہوت کا محل ہو سکتی ہیں.“ (اب اس میں ایسی عورتیں بھی ہیں جو پردہ میں نہیں ہوتیں.اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو عورت پردے میں نہیں ہے اس کو دیکھنے کی اجازت ہے بلکہ ان کو بھی دیکھنے سے بچیں ).اور ایسے موقعوں پر خوابیدہ نگاہ کی عادت پکڑیں اور اپنے ستر کی جگہ کو جس طرح ممکن ہو بچاویں.ایسا ہی کانوں کو نامحرموں سے بچاویں یعنی بیگانہ عورتوں کے گانے بجانے اور خوش الحانی کی آوازیں نہ سنے، ان کے حسن کے قصے نہ سنے.یہ طریق پاک نظر اور پاک دل رہنے کے لئے عمدہ طریق ہے.رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ 100 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم صفحہ 440) 66 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غض بصر اور پردہ کی تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: خد اتعالیٰ نے خلق احصان یعنی عفت کے حاصل کرنے کے لئے صرف اعلیٰ تعلیم ہی نہیں فرمائی بلکہ انسان کو پاک دامن رہنے کے لئے پانچ علاج بھی بتلا دیئے ہیں.یعنی یہ کہ اپنی آنکھوں کو نامحرم پر نظر ڈالنے سے بچانا، کانوں کو نامحرموں کی آواز سننے سے بچانا، نامحرموں کے قصے نہ سننا، اور ایسی تمام تقریبوں سے جن میں اس بد فعل کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو اپنے تئیں بچانا.اگر نکاح نہ ہو تو روزہ رکھنا وغیرہ.اس جگہ ہم بڑے دعوی کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ اعلیٰ تعلیم ان سب تدبیروں کے ساتھ جو قرآن شریف نے بیان فرمائی ہیں صرف اسلام ہی سے خاص ہے اور اس جگہ ایک نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے اور وہ یہ ہے کہ چونکہ انسان کی وہ طبعی حالت جو شہوات کا منبع ہے جس سے انسان بغیر کسی کامل تغیر کے الگ نہیں ہو سکتا یہی ہے کہ اس کے جذباتِ شہوت محل اور موقع پا کر جوش مارنے سے رہ نہیں سکتے یا یوں کہو کہ سخت خطرہ میں پڑ جاتے ہیں.اس لئے خدائے تعالیٰ نے ہمیں یہ تعلیم نہیں دی کہ ہم نامحرم عورتوں کو بلا تکلف دیکھ تو لیا کریں اور ان کی تمام زمینتوں پر نظر ڈال لیں اور ان کے تمام انداز ناچنا وغیرہ مشاہدہ کرلیں لیکن پاک نظر سے دیکھیں اور نہ یہ تعلیم ہمیں دی ہے کہ ہم ان بیگانہ جوان عورتوں کا گانا بجانا سن لیں اور ان کے حسن کے قصے بھی سنا کریں لیکن پاک خیال سے سنیں بلکہ ہمیں تاکید ہے کہ ہم نامحرم عور توں کو اور ان کی زینت کی جگہ کو ہر گز نہ دیکھیں.نہ پاک نظر سے اور نہ ناپاک نظر سے اور ان کی خوش الحانی کی آواز میں اور ان کے حسن کے قصے نہ سنیں.نہ پاک خیال سے اور نہ ناپاک خیال سے.بلکہ ہمیں چاہئے کہ ان کے سننے اور دیکھنے سے نفرت رکھیں جیسا کہ مردار سے تا ٹھو کر نہ کھاویں.کیو نکہ ضرور ہے کہ بے قیدی کی نظروں سے کسی وقت ٹھو کریں پیش آویں.سو چو نکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہماری 353

Page 354

آنکھیں اور دل اور ہمارے خطرات سب پاک رہیں اس لئے اس نے یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم فرمائی.اس میں کیا شک ہے کہ بے قیدی ٹھو کر کا موجب ہو جاتی ہے.اگر ہم ایک بھوکے کتے کے آگے نرم نرم روٹیاں رکھ دیں اور پھر امید رکھیں کہ اس کتے کے دل میں خیال تک ان روٹیوں کا نہ آوے تو ہم اپنے اس خیال میں غلطی پر ہیں.سو خدا تعالیٰ نے چاہا کہ نفسانی قومی کو پوشیدہ کارروائیوں کا موقع بھی نہ ملے اور ایسی کوئی بھی تقریب پیش نہ آوے جس سے بدخطرات جنبش کر سکیں...خوابیدہ نگاہ سے غیر محل پر نظر ڈالنے سے اپنے تئیں بچا لینا اور دوسری جائز النظر چیزوں کو دیکھنا اس طریق کو عربی میں غض بصر کہتے ہیں اور ہر ایک پرہیز گار جو اپنے دل کو پاک رکھنا چاہتا ہے اس کو نہیں چاہئے کہ حیوانوں کی طرح جس طرف چاہے بے محابا نظر اٹھا کر دیکھ لیا کرے بلکہ اس کے لئے اس تمدنی زندگی میں غض بصر کی عادت ڈالنا ضروری ہے اور یہ وہ مبارک عادت ہے جس سے اس کی یہ طبعی حالت ایک بھاری خلق کے رنگ میں آجائے گی اور اس کی تمدنی ضرورت میں بھی فرق نہیں پڑے گا.“ اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 343 - 344) حضرت اقدس علیہ السلام فارسی الاصل مغل تھے آنکھیں بڑی بڑی اور پپوٹے بھاری تھے.آپ کی آنکھوں کی سیاہی، سیاہی مائل شربتی رنگ کی تھی اور آنکھیں بڑی بڑی تھیں مگر پپوٹے اس وضع کے تھے کہ سوائے اس وقت کے جب آپ ان کو خاص طور پر کھولیں ہمیشہ قدرتی غض بصر کے رنگ میں رہتی تھیں بلکہ جب مخاطب ہو کر بھی کلام فرماتے تھے تو آنکھیں نیچی ہی رہتی تھیں.اسی طرح جب مردانہ مجالس میں بھی تشریف لے جاتے تو بھی اکثر ہر وقت نظر نیچے ہی رہتی تھی.گھر میں بھی بیٹھتے تو اکثر آپ کو یہ نہ معلوم ہوتا کہ اس مکان میں اور کون کون بیٹھا ہے.(سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 414) ایک دفعہ حضرت صاحب مع چند خدام کے فوٹو کھینچوانے لگے تو فوٹو گرافر آپ سے عرض کرتا تھا کہ حضور ذرا آنکھیں کھول کر رکھیں ورنہ تصویر اچھی نہیں آئے گی اور آپ نے اس کے کہنے پر ایک دفعہ تکلف کے ساتھ آنکھوں کو کچھ زیادہ کھولا بھی مگر وہ پھر اسی طرح نیم بند ہو گئیں.(سیرت المہدی حصہ دوم صفحہ 364 روایت نمبر 407) حضرت اقدس علیہ السلام نے حضرت شیخ غلام نبی صاحب سیٹھی کے بعض سوالات کے جواب میں دست 354

Page 355

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام وو مبارک سے خط لکھا جس میں ایک فقرہ ہے ” بیگانہ عورتوں سے بچنے کے لئے آنکھوں کو خوابیدہ رکھنا اور کھول کر نظر نہ ڈالنا کافی ہے.اس پر صاحبزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ نے سیر حاصل تبصرہ کیا ہے فرماتے ہیں.ایک اصولی بات اس خط میں موجودہ زمانہ میں بے پردہ عورتوں سے ملنے جلنے کے متعلق بھی پائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ اس زمانہ میں جو بے پردہ عورتیں کثرت کے ساتھ باہر پھرتی ہوئی نظر آتی ہیں اور جن سے نظر کو مطلقاً بچانا قریباً قریباً محال ہے اور بعض صورتوں میں بے پردہ عورتوں کے ساتھ انسان کو ملاقات بھی کرنی پڑ جاتی ہے اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ایسی غیر محرم عورتوں کے سامنے آتے ہوئے انسان کو یہ احتیاط کر لینی کافی ہے کہ کھول کر نظر نہ ڈالے اور اپنی آنکھوں کو خوابیدہ رکھے اور یہ نہیں کہ ان کے سامنے بالکل ہی نہ آئے.کیو نکہ بعض عورتوں میں یہ بھی ایک حالات کی مجبوری ہے ہاں آدمی کو چاہیے کہ خدا سے دعا کرتا رہے کہ وہ اسے ہر قسم کے فتنے سے محفوظ رکھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں بچپن میں دیکھتا تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام گھر میں کسی ایسی عورت کے ساتھ بات کرنے لگتے تھے جو غیر محرم ہوتی تھی اور وہ آپ سے پردہ نہیں کرتی تھی تو آپ کی آنکھیں قریباً بند سی ہوتی تھیں اور مجھے یاد ہے کہ میں اس زمانہ میں دل میں تعجب کیا کرتا تھا کہ حضرت صاحب اس طرح آنکھوں کو بند کیوں رکھتے ہیں.لیکن بڑے ہو کر سمجھ آئی که در اصل وہ اسی حکمت سے تھا.“ (سیرت المہدی - دوم صفحہ 401 – 402 روایت نمبر 442) حصہ حضرت اقدس علیہ السلام گھر کی خواتین کے ساتھ رتھ میں سفر فرماتے تو حضرت بھائی عبدالرحمن قادیانی رضی اللہ عنہ کو انتظام وغیرہ کے لئے ساتھ رکھتے.جو پردے کا لحاظ رکھنے کے لئے منہ دوسری طرف کر کے کھڑے ہو جاتے ایک دن حضور علیہ السلام نے فرمایا: ” میاں عبدالرحمن !یوں تکلف کر کے الٹا کھڑے ہونے کی ضرورت نہیں.سفروں میں نہ اتنا سخت پردہ کرنے کا حکم ہے اور نہ ہی اس تکلف کی ضرورت.الدِّين يسر اور جس طرح عورتوں کو پردہ کا حکم ہے اسی طرح مردوں کو بھی غض بصر کر کے پردہ کی تاکید ہے آپ بے تکلف سیدھے کھڑے ہوا کریں.چنانچہ اس کے بعد پھر میں ہمیشہ سیدھا کھڑا ہوا کرتا تھا برعائت پر دہ.بعض بیگمات کی گودی میں بچے ہوا کرتے تھے.گاڑی سے اترتے وقت ان کے اٹھانے میں بھی میں بہت حد تک تکلف کیا کرتا تھا مگر اس سے بھی حضور نے روک دیا اور میں بچوں کو محتاط طریق سے بیگمات کی گودیوں میں سے بسہولت لے 355

Page 356

دے لیا کرتا تھا.(سیرت المہدی جلد 2 صفحہ 384 - 385) آپ علیہ السلام جب کچہری سے واپس تشریف لاتے تھے تو دروازہ میں داخل ہونے کے بعد دروازہ کو پیچھے مڑ کر بند نہیں کرتے تھے تاکہ گلی میں اچانک کسی نامحرم عورت پر نظر نہ پڑے بلکہ دروازہ میں داخل ہوتے ہی دونوں ہاتھ پیچھے کر کے پہلے دروازہ بند کر لیتے تھے اور پھر پیچھے مڑ کر زنجیر لگایا کرتے تھے.“ (حیات طیبه از شیخ عبد القادر سابق سوداگر مل، صفحہ 20) اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم ان پیاری ہستیوں کی پیروی میں غض بصر کے حکم کی اطاعت کرنے والے ہوں.آمین اللهم آمین.روزنامه الفضل آن لائن لندن 4 نومبر 2022 ء 356

Page 357

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام قسط 43 امن عالم کی ضمانت پڑوسی کے حقوق سورۃ النساء کی آیت 37 کا ترجمہ ہے: اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیر رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی اور ان سے بھی جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے.یقیناً اللہ اس کو پسند نہیں کرتا جو متکبر (اور) شیخی بگھارنے والا ہو.“ قرآن کریم کی اس آیت میں پڑوسیوں کے لئے حسن سلوک کا ارشاد ہے: وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ (النساء: 37) اور رشتہ دار ہمسایوں اور بے تعلق ہمسایوں کے ساتھ بیٹھنے والے لوگوں (اور دوستوں ) سے محبت اور پیار کا تعلق قائم کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی تشریح میں فرماتے ہیں: تم خدا کی پرستش کرو اور اس کے ساتھ کسی کو مت شریک ٹھہراؤ اور اپنے ماں باپ سے احسان کرو اور ان سے بھی احسان کرو جو تمہارے قرابتی ہیں (اس فقرے میں اولاد اور بھائی اور قریب اور دور کے تمام رشتہ دار آگئے اور پھر فرمایا کہ یتیموں کے ساتھ بھی احسان کرو اور مسکینوں کے ساتھ بھی اور جو ایسے ہمسایہ ہوں، جو قرابت والے بھی ہوں اور ایسے ہمسائے ہوں جو محض اجنبی ہوں اور ایسے رفیق بھی جو کسی کام میں شریک ہوں یا کسی سفر میں شریک ہوں یا نماز میں شریک ہوں یا علم دین حاصل کرنے میں شریک ہوں اور وہ لوگ جو مسافر ہیں اور وہ تمام جاندار جو تمہارے قبضہ میں ہیں سب کے ساتھ احسان شخص کو دوست نہیں رکھتا جو تکبر کرنے والا اور شیخی مارنے والا ہو، جو دوسروں پر رحم کرو.خدا ایسے نہیں کرتا.“ چشمه معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 208 - 209) 357

Page 358

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام قرآنی تعلیمات کی روشنی میں حضرت رسول کریم صلی الکریم نے پڑوسی، ہمسایہ، ہم دیوار، ہم جوار، ساتھی، ایک ہی چھاؤں یا سایہ میں رہنے والوں سے حسن سلوک بلکہ احسان کے طریق بتائے اور عمل کر کے دکھایا.دنیاوی مفاد پرست ،نفرت ،تعصب ،تفریق مخاصمت اور عداوت کی دیواریں بلند سے بلند تر کرتے چلے جاتے ہیں جبکہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم دلوں کو جیت کر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرنے کے لئے احسان، نیکی، لطف، بخشش، خیر خواہی، مہربانی، شفقت خوش خلقی اور مُروّت کی تعلیم دیتے ہیں.حسن سلوک کے دائروں کو وسعت دیتے ہوئے پڑوسی کی وضاحت آنحضرت صلی لم یوں فرماتے ہیں: ” پڑوسی تین طرح کے ہیں.ایک وہ پڑوسی جس کے تین حقوق ہیں، اور دوسرا وہ پڑوسی جس کے دو حق ہیں، اور تیسرا وہ پڑوسی جس کا ایک حق ہے.تین حق والا پڑوسی وہ ہے جو پڑوسی بھی ہو، مسلمان بھی اور رشتہ دار بھی ہو، تو اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا، دوسرا پڑوسی ہونے کا اور تیسرا قرابت داری کا ہو گا.دو حق والا وہ پڑوسی ہے جو پڑوسی ہونے کے ساتھ مسلم دینی بھائی ہے، اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا دوسرا حق پڑوسی ہونے کا ہو گا.ایک حق والا غیر مسلم پڑوسی ہے.(جس سے کوئی قرابت ورشتہ داری نہ ہو) اس کے لیے صرف پڑوسی ہونے کا حق ہے.(شعب الایمان 12/105) پڑوسی خواہ غیر مسلم کیوں نہ ہو شریعت اس کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تعلیم دیتی ہے.حضور کے چند ارشادات م حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت اقدس محمد مصطفی صل الل علم سے دریافت فرمایا کہ یا رسول الله صل العلم! میرے دو پڑوسی ہیں اگر میں تحفہ دینا چاہوں تو کس کو بھیجوں.فرمایا: ”جس کا گھر قریب تر ہے وہی تحفہ کا زیادہ مستحق ہے.“ ( صحیح بخاری جلد سوم کتاب الادب باب حق الجواهر في قرب ابواب ).”جبرائیل ہمیشہ مجھے پڑوسی سے حسن سلوک کی تاکید کرتا آ رہا ہے یہاں تک کہ مجھے خیال ہوا کہ کہیں وہ اُسے وارث ہی نہ بنا دے.“ بخاری کتاب الادب باب الوصايا بالجار ).اے مسلمان عور تو! کوئی عورت اپنی پڑوسن سے حقارت آمیز سلوک نہ کرے اگر بکری کا ایک پایہ 358

Page 359

• ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام بھی بھیج سکتی ہو تو اسے بھیجنا چاہیے.(اس میں شرم کی کوئی بات نہیں.) ( بخاری کتاب الادب باب لا تحقرن جارة لجارتها ) اللہ تعالی کے نزدیک ساتھیوں میں سے وہ ساتھی اچھا ہے جو اپنے ساتھی کے لئے اچھا ہو اور پڑوسیوں میں وہ پڑوسی بہترین ہے جو اپنے پڑوسی سے اچھا سلوک کرے.( ترمذی ابواب البر والصلة باب ماجاء فی الحق الجواهر ) پڑوس کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا اور اس کے حقوق کی ادائیگی کرنا واقعتا فضل الہی پر منحصر ہے اور انسان کو بیچے ایمان کا وارث بنا دیتا ہے.(جامع ترمذی کتاب الزهد حدیث نمبر 2227 ) جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے پڑوسی سے نیک سلوک کرنا چاہئے.(مسلم کتاب الایمان) جب کبھی تم اچھا سالن بنا ؤ تو اس کا شوربہ کچھ زیادہ کر لیا کرو اور اپنے پڑوسی کا بھی خیال رکھو یعنی کسی نہ کسی پڑوسی کو بھی اس میں سے سالن بھجواؤ.(مسلم کتاب البر والصلة ) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للی نیلم نے ارشاد فرمایا: وہ شخص (کامل) مومن نہیں ہو سکتا جو خود تو پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑو سی بھو کا رہے.(طبرانی، ابویعلی، مجمع الزوائد) ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول الله صل للم! فلانی عورت کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ کثرت سے نماز، روزہ اور صدقہ خیرات کرنے والی ہے (لیکن) اپنے پڑوسیوں کو اپنی زبان سے تکلیف دیتی ہے (یعنی برا بھلا کہتی ہے).رسول الله الا نیلم نے ارشاد فرمایا: وہ دوزخ میں ہے.پھر اس شخص نے عرض کیا یارسول اللہ صلی می نیما فلانی عورت کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ نفلی روزہ، صدقہ خیرات اور نماز تو کم کرتی ہے بلکہ اس کا صدقہ وخیرات پنیر کے چند ٹکڑوں سے آگے نہیں بڑھتا لیکن اپنے پڑوسیوں کو اپنی زبان سے کوئی تکلیف نہیں دیتی.رسول 359

Page 360

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام الله صلى وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ جنت میں ہے.(مسند احمد).حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن (جھگڑنے والوں میں) سب سے پہلے دو جھگڑنے والے پڑوسی پیش ہوں گے (یعنی بندوں کے حقوق میں سے سب سے پہلا معاملہ دو پڑوسیوں کا پیش ہو گا).(مسند احمد ، مجمع الزوائد).حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے رسول کریم صلی ا للعلم سے پوچھا اے اللہ کے رسول، مجھے کیسے معلوم ہوگا کہ میں نے نیکی کی ہے یا برائی؟ رسول کریم ملی ای نیم نے فرمایا: جب تم سنو کہ تمہارے پڑوسی کہہ رہے ہیں کہ تم نے اچھا کام کیا ہے تو واقعی تم نے اچھا کام کیا ہے اور جب تم ان سے سنو کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ تم نے غلط کام کیا ہے تو واقعی تم نے غلط کام کیا ہے.پڑوسیوں سے حسن سلوک میں آپ کا اسوہ حسنہ (ابن ماجه ) صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوسی انتہائی ضرر رساں، بد خواہ بلکہ جان کے دشمن تھے.مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی نہ برا بھلا کہا نہ انتقام لیا بلکہ خیر خواہی کی.مکی دور میں ابو لہب اور عقبہ بن ابی معیط حضور صلی این نیم کے پڑوسی تھے جو آپ کے دونوں طرف آباد تھے اور انہوں نے شرارتوں کی انتہا کی ہوتی تھی.یہ لوگ بیرونی مخالفت کے علاوہ گھر میں بھی ایذا پہنچانے سے باز نہ آتے تھے اور اذیت دینے کے لیے غلاظت کے ڈھیر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر ڈال دیتے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب باہر نکلتے تو خود اس غلاظت کو راستے سے ہٹاتے اور صرف اتنا فرماتے: ”اے عبد مناف کے بیٹو! یہ تم کیا کر رہے ہو کیا یہی حق ہمسائیگی ہے.66 (طبقات ابن سعد جلد 1 صفحہ 201 بیروت 1960ء) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ میرے پاس استراحت 360

Page 361

فرما رہے تھے تو ایک پڑوس کی بکری آگئی اور جو روٹی میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پکا کر رکھی ہوئی تھی وہ اُٹھا کر چل پڑی.میں اُس کے پیچھے بھاگی تا کہ اس کو مار کے بھگا دوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھو پڑوسی کو اس کی بکری کی وجہ سے تکلیف نہ پہنچاؤ جو لے گئی ہے لے جانے دو.الادب مفرد ترمذی لایو دی جارہ حدیث (120) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص پڑوسی کی شکایت لے کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو فرمایا جا صبر کر یہ شخص دو یا تین بار حضور صلی علیم کی خدمت میں شکایت لے کر آیا تو پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کو فرمایا کہ جا اور اپنا مال و متاع باہر رکھ دے یعنی اپنے گھر کا سامان سڑک پر لے آ.چنانچہ اس نے اپنا مال رستے میں رکھ دیا اس پر لو گوں نے اس کے بارے میں پوچھا کہ تم اس طرح کیوں کر رہے ہو تو ان کو بتاتا رہا کہ کس وجہ سے ہو رہا ہے.تب لو گوں نے ہمسایہ پر لعنت ملامت کی اور کہنے لگے اللہ اسے یوں کرے وغیرہ وغیرہ اس پر اس کا ہمسایہ اس کے پاس آیا اور کہنے لگا تو اپنے گھر میں واپس چلا جا اب تو مجھ سے کوئی ناپسندیدہ بات نہیں دیکھے گا.ترمذی کتاب الزهد باب مثل الدنيا رابعة نفر ) ایک دفعہ ایک شخص نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! میرے کچھ رشتہ دار ہیں.میں ان سے تعلق جوڑتا ہوں وہ توڑتے ہیں.میں احسان کرتا ہوں وہ بد سلو کی کرتے ہیں.میرے نرمی اور حلم کے سلوک کا جواب وہ زیادتی اور جہالت سے دیتے ہیں.نبی کریم صلی ال لیلی نے فرمایا اگر وہ ایسا ہی کرتے ہیں جیسا تم نے بیان کیا تو تم گویا ان کے منہ پر خاک ڈال رہے ہو (یعنی ان پر احسان کر کے ان کو ایسا شرمسار کر کے رکھ دیا ہے کہ وہ منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے) اور اللہ کی طرف سے تمہارے لئے ایک مددگار فرشتہ اس وقت تک مقرر رہے گا جب تک تم اپنے حسن سلوک کے اس نمونہ پر قائم رہوگے.(مسند احمد جلد 2 صفحہ 300 مطبوعہ بیروت) آنحضور صلی اللہ نیلم کے نزدیک حق ہمسائیگی یہ ہے کہ ہمسایہ کے لیے دکھ اور تکلیف کا موجب نہ بنیں ہمسایہ کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے اس کی جان، مال، عزت اور آبرو کی حفاظت کی جائے.گھر میں کوئی عمدہ چیز پکائی جائے تو ہمسایہ کو بھی بھجوائی جائے.تحائف بھجوائیں جس سے آپس کی محبت بڑھتی ہے.ہر 361

Page 362

کے شر اور اذیت سے محفوظ رہے.بوقتِ ضرورت قرض دیا جائے.ضرورت مند پڑوسی کی ضرورت پوری کی جائے.بیمار ہمسایہ کی تیمار داری کی جائے.اس کی خوشی میں شامل ہوا جائے.بیماری، دکھ اور وفات میں ہر ممکن مدد کی جائے.ان کی طرف کوڑا کرکٹ نہ پھینکا جائے.اپنی دیوار اتنی اونچی نہ کی جائے کہ اس کی ہوا میں روک ہو.اپنے سالن کی خوشبو سے تکلیف نہ دیں بلکہ سالن اور پھل وغیرہ بھیج دیا کریں.حضرت مسیح موعود اور پڑوسی کے حقوق يا رَبِّ صَلِّ على نبيك دائما في هذه الدنيا وبعث ثانِ آنحضرت صلی ال ولیم کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی امن عالم کے لئے بلا تفریق مذہب و ملت اور رنگ و نسل مخلوق خداوندی کی فلاح کا درس دیا.جس میں پڑوسیوں کے حقوق کا درس اور عمل بھی شامل ہے.آپ کے گھر اور اس کے پڑوسیوں کی وسعتیں زمین کے کناروں تک پھیلی ہوئی ہیں.آپ فرماتے ہیں: ”خدا تعالیٰ کی کلام میں یہ وعدہ ہے اِنِّي أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ یعنی ہر ایک جو تیرے گھر کی چاردیوار کے اندر ہے میں اس کو بچاؤں گا اس جگہ یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہی لوگ میرے گھر کے اندر ہیں جو میرے اس خاک و خشت کے گھر میں بود و باش رکھتے ہیں بلکہ وہ لوگ بھی جو میری پوری پیروی کرتے ہیں میرے روحانی گھر میں داخل ہیں.کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحه 10) آپ علیہ السلام کے سب پیروی کرنے والے اپنے ارد گرد کے چالیس گھروں کو ہمسایہ سمجھ کر حسن سلوک کریں، ان کے سکون، اطمینان اور خیر کا خیال رکھیں تو احمدی معاشرہ سے ہر قسم کی بد سلو کی کا خاتمہ ہو جائے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (مقدمہ دیوار میں) عدالت نے فیصلہ کیا کہ خرچ کا کچھ حصہ ہمارے چاؤں پر ڈالا جائے.جب اس ڈگری کے اجراء کا وقت آیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور میں تھے.آپ علیہ السلام کو عشاء کے قریب رؤیا یا الہام کے ذریعہ بتایا گیا کہ یہ بار اُن پر بہت زیادہ ہے اور اِس وجہ سے وہ مخالف رشتہ دار تکلیف میں ہیں.چنانچہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے رات نیند نہیں آئے گی اسی وقت آدمی بھیجا جائے جو جا کر کہہ دے کہ ہم نے یہ خرچ تمہیں معاف 362

Page 363

کر دیا ہے.(خطبه جمعه فرمودہ 24 / جولائی 1936ء الفضل جلد 24 مورخہ 2/اگست 1936ء صفحہ 8) اسی سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے ہیں جن میں اپنے بھائیوں کے لئے کچھ بھی ہمدردی نہیں.اگر ایک بھائی بھو کا مر تا ہو تو دوسرا تو جہ نہیں کرتا اور اس کی خبر گیری کے لئے تیار نہیں ہوتا.یا اگر وہ کسی اور قسم کی مشکلات میں ہے تو اتنا نہیں کرتے کہ اس کے لئے اپنے مال کا کوئی حصہ خرچ کریں.حدیث شریف میں ہمسایہ کی خبر گیری اور اس کے ساتھ ہمدردی کا حکم آیا ہے بلکہ یہاں تک بھی ہے کہ اگر تم گوشت پکا ؤ تو شور با زیادہ کرلو تا کہ اسے بھی دے سکو.اب کیا ہوتا ہے، اپنا ہی پیٹ پالتے ہیں لیکن اس کی کچھ پر واہ نہیں.یہ مت سمجھو کہ ہمسایہ سے اتنا ہی مطلب ہے جو گھر کے پاس رہتا ہو.بلکہ جو تمہارے بھائی ہیں وہ بھی ہمسایہ ہی ہیں خواہ وہ سو کوس کے فاصلے پر بھی ہوں.“ ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 215) جب قادیان میں مینارۃ المسیح بن رہا تھا تو کچھ پڑوسیوں نے بے پردگی کے احتمال سے شکایت کردی.ایک ڈپٹی صاحب تحقیق کے لئے آئے.حضرت اقدس علیہ السلام نے ڈپٹی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ بڑھامل بیٹھا ہے آپ اس سے پوچھ لیں کہ بچپن سے لے کر آج تک کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ اسے فائدہ پہنچانے کا مجھے کوئی موقع ملا ہو اور میں نے فائدہ پہنچانے میں کوئی کمی کی ہو اور پھر اسی سے پوچھیں کہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ مجھے تکلیف دینے کا اسے کوئی موقع ملا ہو تو اس نے مجھے تکلیف پہنچانے میں کوئی کسر چھوڑی ہو...اس وقت بڑھامل نے شرم کے مارے اپنا سر نیچے اپنے زانوؤں میں دیا ہوا تھاور اس کے چہرہ کا رنگ سپید پڑ گیا تھا اور وہ ایک لفظ بھی منہ سے نہیں بول سکا.“ (خلاصہ سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 148) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اپنے منظوم فارسی کلام میں اپنی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مرا مطلوب و مقصود و تمنا خدمت خلق است ہمیں کارم ہمیں بارم ہمیں رسم ہمیں راہم یعنی میری زندگی کی سب سے بڑی تمنا اور خواہش خدمت خلق ہے.یہی میرا کام، یہی میری ذمہ داری، 363

Page 364

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام یہی میرا فریضہ اور یہی میرا طریقہ ہے.کہ ہم بھی اپنے محبوب آقاؤں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے حقوق العباد کما حقہ ادا کرنے والے دعا ہے بنیں.آمین اللهم آمین.364 روزنامه الفضل آن لائن لندن 18 نومبر 2022ء)

Page 365

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام قسط 44 محمد ہی نام اور محمد ہی کام عليك الصلوة عليك السلام حضرت آمنہ کو خواب میں بتایا گیا کہ اُن کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہو گا اس کا نام محمد (صلی فیلم) رکھنا.نیز انہوں نے یہ بھی خواب دیکھا کہ ان کے اندر سے ایک چمکتا ہوا نور نکلا ہے اور دُور دراز ملکوں میں پھیل گیا ہے.جب بیٹا پیدا ہوا تو اس کے دادا عبد المطلب کو بتایا کہ میں نے خواب میں بچے کا نام محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) دیکھا تھا.عبد المطلب اس پیارے بچے کو اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر بیت اللہ میں لے گئے اور وہاں جا کر خدا کا شکر ادا کیا اور بچے کے نام محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اعلان کیا.جس کے معنے ہیں بہت قابل تعریف، بے حد تعریف والا، حمد کیا گیا، بہت تعریف کیا گیا، نہایت سراہا گیا.اللہ تعالیٰ نے اس بچے کو تعریف کے قابل بنانے کے لئے اس کے قلب کو مظہر بنایا.بہت بچپن میں ایک دفعہ جب کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) بچوں کے ساتھ مل کر کھیل رہے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو زمین پر لٹا کر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا سینہ چاک کر دیا اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سینہ کے اندر سے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا دل نکالا اور اس میں سے کوئی چیز نکال کر باہر پھینک دی اور ساتھ ہی کہا کہ یہ کمزوریوں کی آلائش تھی جو اب تم سے جُدا کر دی گئی ہے.اس کے بعد جبرائیل نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دل کو مصفیٰ پانی سے دھویا اور سینہ میں واپس رکھ کر اُسے پھر جوڑ دیا.صحیح مسلم میں بیان کردہ اس کشف سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ پاکیزہ، مطہر ، مقدس اور مقرب تھے.نو عمری میں صادق اور امین مشہور ہونا.حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی نگاہوں میں حسن اخلاق کی وجہ سے عزت پانا بھی ظاہر کرتا ہے کہ لوگ آپ کی یکم کی تعریف کرنے پر مجبور تھے.اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محمد لی لی کام کے لئے کائنات تخلیق فرمائی تھی اس کو خیر البشر اور خیر الانبیاء بنایا تھا اور اس کا نام کلمہ طیبہ میں اپنے نام کے ساتھ جوڑ ا تھا.لا الہ الا للہ محمد رسول اللہ ارشاد فرمایا کہ اگر اللہ سے محبت ہے تو محمد صلی ی ی ی یکم کی اطاعت کرو اللہ محمدصلی اللی نام کی اطاعت کرنے والوں سے محبت کرے گا.اس تخلیق کائنات کی عظمت کا سبب یہ بتایا کہ اس کا اسوہ سب سے زیادہ حسین ہے اس لئے قابل تعریف وجہ 365

Page 366

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام ہے.ساری دنیا میں سب لوگوں سے جو ماضی میں تھے حال میں ہیں اور مستقبل میں ہوں گے سب سے زیادہ تعریف کے قابل ہے سب سے زیادہ پسندیدہ شخصیت اللہ کے اس محبوب محمدی امی کی ہے.آپ صلی الہ عالم مظہر انوار سماوی ہیں.آپ صلی امید کرم میں خدا تعالیٰ منعکس ہے.صرف اپنے ہی نہیں غیر بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں.کہ خُلق محمدی سے محبت ہو جاتی ہے اور بے ساختہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف لبوں پر مہک جاتی ہے.الله سة پیار ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں صرف مسلم کا محمد اجارہ تو نہیں (کنور مہندر سنگھ بیدی سحر ) ماہر فلکیات اور مؤرخ ڈاکٹر مائیکل ایچ ہارٹ نے اپنی کتاب تاریخ کی سو متاثر کن شخصیات میں جو 1978ء میں شائع ہوئی.ہمارے پیارے نبی اکرم علی ایم کو سر فہرست رکھا ہے.آج ہم حضرت محمد مصطفی صلی الی یوم کے ننانوے صفاتی ناموں میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نام کا ذکر کریں گے.اس نام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت اور سیرت کے کئی حسین پہلو سامنے آتے ہیں.قرآن کریم میں یہ بابر کت نام چار دفعہ آتا ہے: نمبر 1: وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَأَ بِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُيَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّكِرِينَ ) ۱۴۵ (آل عمران: 145) اور محمد نہیں ہے مگر ایک رسول.یقیناً اس سے پہلے رسول گزر چکے ہیں.پس کیا اگر یہ بھی وفات پا جائے یا قتل ہو جائے تو تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ اور جو بھی اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے گا تو وہ ہر گز اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور اللہ یقیناً شکر گزاروں کو جزا دے گا.محمد مصطفی اسکی یہ کام تمام صفات حسنہ کے مالک اور تمام خوبیوں سے مر ضع رسول ہیں.لیکن آپ صلی اللہ تم ایک انسان ہیں اور یہ اعلیٰ ترین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں میں بہترین ہو کے پایا ہے.بشریت کے تقاضوں سے مبرا نہیں تھے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدائی کا درجہ دینا زیادتی اور شرک ہے.جس طرح باقی رسول وفات پاگئے بالکل اسی طرح رسول اکرم کی لی کی بھی اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے ہیں.کسی کو 366

Page 367

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام استثناء حاصل نہیں خواہ وہ افضل الرسل ہو.خدائے واحد کے سوا کوئی معبود نہیں.نمبر :2 مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ) (الاحزاب: 41) محمد تمہارے (جیسے) مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں بلکہ وہ اللہ کا رسول ہے اور سب نبیوں کا خاتم ہے اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے.رسول خداصلی یکم اگر چہ بہترین خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن قرآن پاک فرماتا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کسی نبی تعلق یا کسی نسلی فضیلت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عظمت کا ایک انقلابی نشان دیا جاتا ہے جو دائمی شان کا حامل ہے جس کی کوئی نظیر نہیں کوئی اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا وہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تمام نبوتوں اور رسالتوں کی تصدیق کے لئے مہر کی حیثیت رکھتی ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کوئی نبی اور رسول نہیں جو آپ کی تصدیق کے بغیر مانا جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی کوئی نبی نہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی، اتباع، اطاعت اور محبت کے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر کے بغیر الہی مکالمہ مخاطبہ کی کثرت کا فیض حاصل کر سکے.نمبر 3: وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ وَامَنُوا بِمَا نُزِّلَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَهُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيَاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْ (٤) (محمد : 3) جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اور وہ کلام جو حضرت محمد صلی علی کلم پر نازل ہوا اس پر ایمان لائے اور وہی حق ہے ایسے لوگوں کے خدا گناہ بخش دے گا اور اُن کے دلوں کی اصلاح کرے گا.”اب دیکھو کہ آنحضرت صلی للی کم پر ایمان لانے کی وجہ سے کس قدر خدا تعالیٰ اپنی خوشنودی ظاہر فرماتا ہے کہ اُن کے گناہ بخشتا ہے اور اُن کے تزکیہ نفس کا خود متکفل ہوتا ہے.پھر کیسا بد بخت وہ شخص ہے جو کہتا ہے کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ ظلم پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں اور غرور اور تکبر سے اپنے تئیں کچھ سمجھتا ہے." (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 133 367

Page 368

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام نمبر 4: مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللَّهِ وَالَّذِيْنَ مَعَةَ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا (الفتح: 30) محمد رسول اللہ اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں کفار کے مقابل پر بہت سخت ہیں (اور) آپس میں بے انتہا رحم کرنے والے.تو انہیں رکوع کرتے ہوئے اور سجدہ کرتے ہوئے دیکھے گا.وہ اللہ ہی سے فضل اور رضا چاہتے ہیں.محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے خلاف بڑا جوش رکھتے ہیں لیکن آپس میں ایک دوسرے سے بہت ملاطفت کرنے والے ہیں جب تو انہیں دیکھے گا انہیں شرک سے پاک اور اللہ کا مطیع پائے گا.وہ اللہ کے فضل اور اس کی رضا کی جستجو میں رہتے ہیں.ان کی شناخت ان کے چہروں پر سجدوں کے نشان کے ذریعہ موجود ہے.“ نیز آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: ( تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورہ الفتح صفحہ 234) نوع انسان کے لیے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن، اور تمام آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر حضرت محمد مصطفے صلی ہی کیا.سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے نبي صلى ا ل ل ل مل کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہو گی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے.نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے کہ خدا سچ ہے اور محمد صلی علی کریم اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم مرتبہ کوئی اور کتاب ہے اور کسی کے لیے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے.مگر یہ بر گزیدہ نبی ہمیشہ کے لیے زندہ ہے.الله سة حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: (کشتی نوح صفحه 13) کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے اہل وعیال، اس کے 368

Page 369

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام مال اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں.“ (صحیح مسلم) اللہ تعالیٰ نے اپنی بنیادی صفات میں سے پہلی دو یعنی الرحمن اور الرحیم میں بھی صفت محمد و صفت احمد کی طرف اشارہ فرمایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اہل عرفان کے نزدیک اس صفت رحمانیت کی حقیقت یہ ہے کہ ہر ذی روح کو انسان ہو یا غیر انسان بغیر کسی سابقہ عمل کے محض احسان کے طور پر فیض پہنچایا جائے اور اس میں کوئی شک نہیں اور نہ کسی اختلاف کی گنجائش ہے کہ اس قسم کا خالص احسان جو مخلوق میں سے کسی کام کرنے والے کے کسی کام کا صلہ نہ ہو مومنوں کے دلوں کو ثنا، مدح اور حمد کی طرف کھینچتا ہے.لہذا وہ خلوص قلب اور صحت نیت سے اپنے محسن کی حمد و ثنا کرتے ہیں.اس طرح بغیر کسی وہم کے جو شک و شبہ میں ڈالے خدائے رحمان یقیناً قابل تعریف بن جاتا ہے.پھر جب اتمام نعمت کے باعث حمد اپنے کمال کو پہنچ جائے تو وہ کامل محبت کی جاذب بن جاتی ہے اور ایسا محسن اپنے محبوں کی نظر میں بہت قابل تعریف اور محبوب بن جاتا ہے اور یہ صفت رحمانیت کا نتیجہ ہے.پس آپ عقلمندوں کی طرح ان باتوں پر غور کیجئے.اب اس بیان سے ہر صاحب عرفان پر واضح ہو گیا ہے کہ الرحمان بہت حمد کیا گیا ہے اور (کامل) حمد کیا گیا الرحمان ہے.بلا شبہ ان دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے اور اس سچائی سے ناواقف ہی اس کا انکار کرنے والا ہے.اعجاز المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 104) حضرت اقدس علیہ السلام الہی نور سے دیکھتے ہوئے کیسی خوبصورتی سے آپ صلی الم کے مقام و مرتبہ کو بیان فرماتے ہیں: "ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد صلی امیدیم (ہزار ہزار درود اور سلام اُس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا اور اُس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں.افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا.وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا.اس نے خدا سے سے انتہائی درجہ : محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اُس کی جان گداز ہوئی.اس لیے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اُس کی مرادیں اس پر 369

Page 370

کی زندگی میں اُس کو دیں.(حقیقۃ الوحی صفحہ 115) دوسرا محمد عربی بادشاه ہر کرے ہے روح قدس جس کے در کی دربانی اسے خدا تو نہیں کہہ سکوں پر کہتا ہوں کہ اُس کی مرتبہ دانی میں ہے خدادانی جمال محمدی کا دوبارہ ظہور اللہ کے حکم کے ساتھ اس زمانہ میں جری اللہ فی حلل الانبیاء حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت کے ذریعہ دوبارہ جمال محمدی کا ظہور ہوا.آپ علیہ السلام کو الہام ہوا.مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَةً أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ.اس وحی الہی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی.ایک غلطی کا ازالہ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 207) نبوت کی تمام کھڑ کیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑ کی سیرت صدیقی کی کھلی ہے یعنی فنافی الرسول کی.پس جو شخص اس کھڑ کی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر ظلی طو ر پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے.اس لئے اس کا نبی ہونا غیرت کی جگہ نہیں کیو نکہ وہ اپنی ذات سے نہیں بلکہ اپنے نبی کے چشمہ سے لیتا ہے اور نہ اپنے لئے بلکہ اس کے جلال کے لئے.اسی لئے اس کا نام آسمان پر محمد اور احمد ہے.اس کے یہ معنی ہیں کہ محمد کی نبوت آخر محمد کو ہی ملی.گو بروزی طور پر مگر نہ کسی اور کو...غرض میری نبوت اور رسالت باعتبار محمد اور احمد ہونے کے ہے.نہ میرے نفس کی رو سے اور یہ نام بحیثیت فنا فی الرسول مجھے ملا ہے.“ ایک غلطی کا ازالہ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 208) بعد از خدا بعشق محمد محمرم گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم 370

Page 371

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام خدا تعالیٰ کے بعد میں محمد مصطفے صلی علی کریم کے عشق میں دیوانہ ہو چکا ہوں اگر اس عشق کی دیوانگی کا نام کوئی کفر رکھتا ہے تو خدا کی قسم میں سخت کافر ہوں (کیونکہ آپ صلی کی کم سے میں شدید محبت رکھتا ہوں).(بحوالہ ازالہ اوہام صفحہ 176) ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا میں بار ہا بتلا چکا ہوں کہ میں بموجب آیت وَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِم بروزی طور پر وہی نبی خاتم الانبیاء ہوں اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے آنحضرت صلی الم کا ہی وجود قرار دیا ہے.پس اس طور سے آنحضرت صلی علی ظلم کے خاتم الانبیاء ہونے میں میری نبوت سے کوئی تزلزل نہیں آیا کیونکہ ظل اپنے اصل سے علیحدہ نہیں ہوتا اور چو نکہ میں ظلی طور پر محمد ہوں پس اس طور سے خاتم النبیین کی مہر نہیں ٹوٹی کیونکہ محمدصلی اللہ ظلم کی نبوت محمدصلی ا لم تک ہی محدود رہی یعنی بہر حال محمد لی لی کی ہی نبی رہا نہ اور کوئی یعنی جبکہ میں بروزی طور پر آنحضرت صلی الم ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی مع نبوت محمدیہ کے میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں تو پھر کونسا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعوی کیا.“ غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 212) و آخرين منهم لما يلحقوا بهم یعنی آنحضرت صلی علم کے اصحاب میں سے ایک اور فرقہ ہے جو ابھی ظاہر نہیں ہوا.یہ تو ظاہر ہے کہ اصحاب وہی کہلاتے ہیں جو نبی کے وقت میں ہوں اور ایمان کی حالت میں اس کی صحبت سے مشرف ہوں اور اس سے تعلیم اور تربیت پاویں.پس اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنے والی قوم میں ایک نبی ہو گا کہ وہ آنحضرت صلى الم کا بروز ہو گا اس لئے اس کے اصحاب آنحضرت صلی للی نیلم کے اصحاب کہلائیں گے اور جس طرح صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے رنگ میں خدا تعالیٰ کی راہ میں دینی خدمتیں ادا کی تھیں وہ اپنے رنگ میں ادا کریں گے.بہر حال یہ آیت آخری زمانہ میں ایک نبی کے ظاہر ہونے کی نسبت ایک پیشگوئی ہے ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ ایسے لوگوں کا نام اصحاب رسول اللہ رکھا جائے جو آنحضرت صلی علیم کے بعد پیدا ہونے والے تھے جنہوں نے آنحضرت صلی ای میل کو نہیں دیکھا.آیت ممدوحہ بالا میں یہ تو نہیں فرمایا واخرين من الأمة بلکہ یہ فرمایا داخرین منھم اور ہر ایک جانتا ہے کہ منہم کی ضمیر اصحاب رضی اللہ عنہم کی طرف راجع ہے.لہذا 371

Page 372

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام وہی فرقہ منہم میں داخل ہو سکتا ہے جس میں ایسا رسول موجود ہو کہ جو آنحضرت علیم کا بروز ہے اور خدا تعالیٰ نے آج سے چھیں 26 برس پہلے میرا نام براہین احمدیہ میں محمد اور احمد رکھا ہے اور آنحضرت صلی علیکم کا بروز قرار دیا ہے.الله سة (تتمہ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 502) بعض وقت بعض گزشتہ صلحاء کی کوئی ہم شکل روح جو نہایت اتحاد اُن سے رکھتی ہے.دنیا میں آ جاتی ہے اور اس روح کو اُس روح سے صرف مناسبت ہی نہیں ہوتی بلکہ اُس سے مستفیض بھی ہوتی ہے اور اس کا دنیا میں آنا بعینہ اُس روح کا دنیا میں آنا شمار کیا جاتا ہے اس کو متصوفین کی اصطلاح میں بروز کہتے ہیں.ست بچن، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 182) در ره عشق محمدؐ این سر و جانم رود ایس تمنا ایں دعا این در دلم عزم صمیم حضرت محمد مصطفی صل اللہ نیلم کے عشق کی راہ میں میرا سر اور جان قربان ہو جائیں.یہی میری تمنا ہے اور یہی میری دعا ہے اور یہی میرا دلی ارادہ ہے.( توضیح مرام صفحہ 11) روزنامه الفضل آن لائن لندن 2 دسمبر 2022ء) 372

Page 373

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام و قسط 45 بر تر گمان و وہم سے احمد کی شان ہے جس کا غلام دیکھو! مسیح الزمان ہے حضرت محمد مصطفیٰ" کا ایک صفاتی نام احمد ہے قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے.وَاذْ قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ يُبَنِي إِسْرَاعِيْلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ مُّصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرِيةِ وَمُبَشِّمَا بِرَسُولِ يَأْتِي مِنْ بَعْدِى اسْمُةَ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْبَيِّنَتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ ) (الصف: 7) ترجمہ: اور (یاد کرو) جب عیسی بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل! یقیناً میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں.اس کی تصدیق کرتے ہوئے آیا ہوں جو تورات میں سے میرے سامنے ہے اور ایک عظیم رسول کی خوشخبری دیتے ہوئے جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہو گا.پس جب وہ کھلے نشانوں کے ساتھ ان کے پاس آیا تو انہوں نے کہا یہ تو ایک کھلا کھلا جادو ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں.حضرت مسیح نے اس نام کی پیشگوئی کی تھی...میرے بعد ایک نبی آئے گا جس کی میں بشارت دیتا ہوں اور اس کا نام احمد ہو گا یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ جو اللہ تعالی کی حد سے زیادہ تعریف کرنے والا ہو.اس لفظ سے صاف پایا جاتا ہے اور سچی بات بھی یہی ہے کہ کوئی اسی کی تعریف کرتا ہے جس سے کچھ لیتا ہے اور جس قدر زیادہ لیتا ہے اسی قدر زیادہ تعریف کرتا ہے اگر کسی کو ایک روپیہ دیا جاوے تو وہ اسی قدر تعریف کرے گا اور جس کو ہزار روپیہ دیا جاوے وہ اسی انداز سے کرے گا.غرض اس سے واضح طور پر پایا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلیا لیلی نے سب سے زیادہ خدا کا فضل پایا ہے.دراصل اس نام میں ایک پیش گوئی ہے کہ یہ بہت ہی بڑے فضلوں کا وارث اور مالک ہو گا.“ ( تفسیر حضرت مسیح موعود سورۃ الصف صفحہ 397 373

Page 374

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ کی ملی کام کے اسم احمد کے متعلق فرماتے ہیں: عربی عبارت سے ترجمہ) اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنے الفاظ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ.میں اپنی حمد بیان فرمائی.پھر اپنے کلام اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِین میں لوگوں کو عبادت کی ترغیب دی.پس اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ در حقیقت عبادت گزار وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی حمد اس طور پر کرے جو حمد کرنے کا حق ہے.پس اس دعا اور درخواست کا ماحصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو احمد بنادیتا ہے جو اس کی عبادت میں لگا رہے.(اعجاز المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 165) روئے زمین پر سب سے زیادہ حمد وثنا کرنے والی ذات بابرکات حضرت محمد مصطفی صلی الم کی ہے.آپ نے اپنے رب سے عشق کا حق ادا کیا.اپنے مولیٰ کریم کے اوصاف وردِ زبان رہتے.اُس محبوب کا ذکر آپ مالی ایم کی غذا تھی.اس کی عبادت میں خشوع و خضوع کی کوئی مثال نہیں ملتی.آپ مالی کیم کی تہجد کے نوافل اور نماز آپ کی تسبیح و تحمید کا انداز ایسا والہانہ تھا کہ جس کی نظیر نہیں ملتی.خلوت اور جلوت میں دعا میں سوزو گداز اور پگھل جانے کا عاجزانہ طریق آپ کی یہ کام پر ختم تھا.جو حمید خدا تعالیٰ کو بہت بھاتا تھا.شکر گزاری میں عاجزی انکساری اللہ تعالٰی کے فضل کی بارشوں میں اضافہ کر دیتی.آپ کی تعلیم کے اپنے اللہ کے حضور شکر ادا کرنے اور اس کی حمد بیان کرنے کی کیفیت کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس طرح بیان فرماتی ہیں: آنحضرت صلی اللہ نام رات کو نوافل ادا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی ایام کے دونوں پاؤں متورم ہو جاتے.میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! آپ یہ کس لئے کرتے ہیں؟ حالا نکہ اللہ تعالیٰ آپ کے تمام اگلے اور پچھلے گناہ معاف فرما چکا ہے.آپ صلی علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں شکر گزار بندہ بننا پسند نہ کروں؟ (صحیح بخاری حدیث نمبر 4837) آپ صلی یو ایم کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ نہ صرف آپ صلی العلیم نے اللہ تعالی کی سب سے زیادہ حمد و ثنا کی بلکہ دنیا میں سب سے زیادہ حمد کروانے والے بھی آپ صلی علیم ہیں سب سے زیادہ حمد وثنا کے طریق سکھا نے والے بھی آپ صلی اللہ ظلم ہیں.374

Page 375

مقام محمود دل کی گہرائیوں سے اللہ کی حمد اور شکر گزاری میں بلند ترین سطح پر متمکن محمدصلی للی نام کو اللہ تعالی نے مقام محمود عطا فرمایا.عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا لا (بنی اسرائیل: 80) قریب ہے کہ تیرا رب تجھے مقام محمود پر فائز کردے.مقام محمود میں ایک بہت بڑی پیشگوئی کی گئی ہے دنیا میں کسی شخص کو بھی اتنی گالیاں نہیں دی گئیں...م محمود عطا فرما کر اللہ تعالیٰ نے ان گلیوں کا آپ کو صلہ دیا ہے فرماتا ہے جس طرح دشمن گالیاں دیتا ہے ہم مومنوں سے تیرے حق میں درود پڑھوائیں گے اسی طرح عرش سے خود بھی تیری تعریف کریں گے اس کے مقابل پر دشمن کی گالیاں کیا حیثیت رکھتی ہیں مقام محمود سے مراد شفاعت بھی ہے.کیونکہ جیسا کہ حدیثوں سے ثابت ہے سب اقوام کے لوگ سب نبیوں کے پاس جائیں گے مایوس ہو کر رسول کریم کی تعلیم کے پاس شفاعت کی غرض سے آئیں گے اور آپ صلی یہ نام شفاعت کریں گے اس طرح گویا ان سب اقوام کے منہ سے آپ صلی الم کے لئے اظہار عقیدت کروایا جائے گا جو اس دنیا میں آپ صلی علی کیم کو گالیاں دیتی تھیں اور یہ ایک نہایت اعلیٰ درجہ کا مقام محمود ہے.(تفسیر کبیر صفحه 375) حمد کا جھنڈا اللہ تعالیٰ کو رسول اللہ صلی ال نیلم کی حمد و ستائش کی ادائیں اتنی پسند آئیں کہ اس نے فیصلہ فرمایا کہ قیامت کے روز جب نفسا نفسی کا عالم ہو گا اور ہر شخص کسی پناہ کی تلاش میں ہو گا تو رسول اللہ صل الم کو ”مقام محمود“ یعنی حمد باری کے انتہائی مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے حمد کا جھنڈا عطا کیا جائے گا.ابن ماجه في السنن، كتاب الزهد ) آپ کی ایم کی صفت احمد کی شان اس رنگ میں ظاہر ہو گی کہ آپ صلی الی نام پر حمد کے نئے مضامین کھولے جائیں گے اور خدا کے لئے تعریفی کلمات سکھائے جائیں گے.375

Page 376

الية پھر آپ صلی میں کم سجدہ ریز ہو کر وہ حمد باری بجالائیں گے جس کے جواب میں آپ کی تعلیم کو یہ انعام ملے گا کہ اے محمدملی یا آج جو مانگیں گے آپ مالی لی نام کو عطا کیا جائے گا.تب آپ کی ملی کام اپنی امت کی شفاعت کی دعا کریں گے اور یہ حمد الہی کی ایک عظیم الشان برکت ہے جو آپ کی یہ کلیم کو نصیب ہو گی.(بخاری بخاری کتاب التفسير سورة البقرة باب قول الله وعلم ادم الاسماء کلھا ) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام شانِ احمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرماتے ہیں: شان احمد را که داند جز خداوند کریم آنچنان از خود جدا شد کز میاں افتاد میم احمد کی شان کو سوائے خداوند کریم کون جان سکتا ہے.وہ اپنی خودی سے اس طرح الگ ہو گیا کہ میم درمیان سے گر گیا.دافع البلاء صفحہ 20 مطبوعہ 1902ء) حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی جو پیشگوئی قرآن شریف میں سورۃ الصف میں درج ہے، اپنے بعد آنے والے کسی ایسے رسول کی آمد کی خبر دیتی ہے جس کا اسم احمد ہو گا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں: فر مایا عیسی بن مریم نے کہ اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کی طرف سے ایک رسول ہوں.مصدق ہوں اس کا جو میرے سامنے ہے.یعنی تورات اور بشارت دیتا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا اور جس کا اسم احمد ہو گا.ان سب باتوں سے نتیجہ نکلا کہ حضرت مسیح موعود کا گو پورا نام غلام احمد تھا لیکن نام کا اصل اور ضروری حصہ یعنی وہ حصہ جس نے آپ کی ذات کی خصوصیت پید ا کی، احمد تھا.اس لئے کوئی حرج نہیں اگر یہ کہا جاوے کہ آپ کا اصل اسم ذات احمد ہی وہوالمراد.مگر یاد رہے کہ یہ ہم نے شروع میں ہی مان لیا تھا کہ پہلی نظر ہم کو محمد رسول اللہ اور مسیح موعود دونوں کی طرف سے مایوس کرتی ہے لیکن ہاں اگر ان ہر دو رسولوں میں سے کسی ایک پر پیشگوئی کو ضرور اسم ذات کے طور پر ہی چسپاں کرنا ہے تو عقل سلیم کا یہی فتویٰ ہے کہ احمد جس کی پیشگوئی کی گئی تھی وہ مسیح موعود ہی تھے.خاص کر جب ہم یہ بھی خیال رکھیں کہ سنت اللہ کے موافق پیشگوئیوں میں ضرور ایک حد تک اخفاء کا پردہ بھی ہوتا ہے اور وہ پردہ اس معاملہ میں غلام کے لفظ میں ہے.جو گو مسیح موعود کے نام کا اصل حصہ نہیں بلکہ 376

Page 377

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام ایک صرف زائد چیز ہے.جیسا اوپر بیان ہوا مگر پھر بھی آخر نام کے ساتھ ہی ہے.“ (مطبوعہ الفضل 15 - 19 مئی 1917ء) زندگی بخش جامِ احمد ہے کیا ہی پیارا یہ نام احمد ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اس خدا کو تمام تعریف ہے جس نے مجھے نشانوں کا جائے ظہور بنایا اور سرور کائنات کا ظل مجھے ٹھہرادیا اور میرے نام کو آنحضرت صلی للی ملک کے نام سے مشابہ بنا دیا.اس طرح پر کہ اپنی نعمتوں کو میرے پر پورا کیا تا میں اس کی بہت تعریف کر کے احمد کے نام کا مصداق بنوں اور میرے سبب سے لوگوں کے ایمان کو تازہ کیا تا وہ میری بہت تعریف کریں اور میں محمد لی ایم کے نام کا مصداق بنوں.“ (حجۃ اللہ ، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 165) جہاں براہین احمدیہ میں اسرار اور معارف کے انعام کا اس عاجز کی نسبت ذکر فرمایا گیا ہے وہاں احمد کے نام سے یاد فرمایا گیا ہے جیسا کہ فرمایا.یا احمد فاضت الرحمة على شفتيك ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 398) جس کو آسمان سے احمد کا نام عطا کیا جاتا ہے اوّل اُس پر بمقتضائے اسم رحمانیت تواتر سے نزول آلاء اور نعماء ظاہری اور باطنی کا ہوتا ہے اور پھر بوجہ اس کے جو احسان موجب محبت محسن ہے اس شخص کے دل میں اس محسن حقیقی کی محبت پیدا ہو جاتی ہے اور پھر وہ محبت نشوو نما پاتے پاتے ذاتی محبت کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے اور پھر ذاتی محبت سے قرب حاصل ہوتا ہے اور پھر قرب سے انکشاف تمام صفات جلالیہ جمالیہ حضرت باری عزاسمہ ہو جاتا ہے پس جس طرح اللہ کا نام جامع صفات کاملہ ہے اسی طرح احمد کا نام جامع تمام معارف بن جاتا ہے اور جس طرح اللہ کا نام خدا تعالیٰ کے لئے اسم اعظم ہے اسی طرح احمد کا نام نوع انسان میں سے اس انسان کا اسم اعظم ہے جس کو آسمان پر یہ نام عطا ہو اور اس سے بڑھ کر انسان کے لئے اور کوئی نام نہیں کیونکہ یہ خدا کی معرفت تامہ اور خدا کے فیوض تامہ کا مظہر ہے اور جب خدا تعالیٰ کی طرف سے زمین پر ایک تجلی عظمی ہوتی ہے اور وہ اپنے صفات کاملہ کے کنز مخفی کو ظاہر کرنا چاہتا ہے تو زمین پر ایک انسان کا ظہور ہوتا ہے.جس کو احمد کے نام سے آسمان پر پکارتے ہیں غرض چو نکہ احمد 377

Page 378

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام کا نام خدا تعالیٰ کے اسم اعظم کا کامل ظل ہے اس لئے احمد کے نام کو ہمیشہ شیطان کے مقابل پر فتحیابی ہوتی ہے اور ایسا ہی آخری زمانہ کے لئے مقدر تھا کہ ایک طرف شیطانی قومی کا کمال درجہ پر ظہور اور بروز ہو اور شیطان کا اسم اعظم زمین پر ظاہر ہو اور پھر اس کے مقابل پر وہ اسم ظاہر ہو جو خدا تعالیٰ کے اسم اعظم کا ظل ہے یعنی احمد.“ (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 274 – 276) اللہ اور سول اللہ صلی الللی امام نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو احمد نام سے مخاطب فرمایا.ے احمد! تیرے لبوں پر رحمت جاری کی گئی.تو میری آنکھوں کے سامنے ہے.خدا تیرا ذکر بلند کرے گا اور اپنی نعمت دنیا اور آخرت میں تجھ پر پوری کرے گا.“ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 267) ے احمد! تو برکت دیا گیا اور جو کچھ تجھے برکت دی گئی وہ تیرا ہی حق تھا.تیری شان عجیب ہے اور تیرا اجر قریب ہے.آسمان اور زمین تیرے ساتھ ہیں جیسے کہ وہ میرے ساتھ ہیں.تو میری درگاہ میں وجیہ ہے میں نے تجھے چن لیا.“ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 579) ے احمد ! تو اور جو شخص تیرا تابع اور رفیق ہے.جنت میں یعنی نجات حقیقی کے وسائل میں داخل ہو جاؤ.میں نے اپنی طرف سے سچائی کی روح تجھ میں پھونک دی ہے.“ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 590) یہ رسول خدا ہے تمام نبیوں کے پیرایہ میں یعنی ہر ایک نبی کی ایک خاص صفت اس میں موجود ہے..بشارت ہو اے میرے احمد !“ تجھے (حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 76) آپ علیہ السلام کو پہلا کشف 1864ء یا 1865ء میں ہوا جب آپ علیہ السلام ابھی صرف انتیس تیس سال کے تھے.آپ علیہ السلام نے اس کشف میں آنحضرت صلی یی کرم کو دیکھا.آپ نے دو دفعہ اپنے اس غلام کو احمد نام سے مخاطب فرمایا:.378

Page 379

ے احمد! تمہارے دائیں ہاتھ میں کیا چیز ہے؟ اے احمد ! اس مردہ کو ایک ٹکڑا دے دو تا اسے کھا کر قوت پائے.“ (خلاصه از آئینه کمالات اسلام صفحہ 548 - 549، تذکرہ صفحہ 1 - 3 حاشیہ) خدا تعالیٰ نے حصص سابقہ براہین احمدیہ میں میرا نام احمد رکھا اور اسی نام سے بار بار مجھ کو پکارا اور یہ اسی بات کی طرف اشارہ تھا کہ میں ظلی طور پر نبی ہوں.پس میں اُمتی بھی ہوں اور ظلی طور پر نبی بھی ہوں.اسی کی طرف وہ وحی الہی بھی اشارہ کرتی ہے جو حصص سابقہ براہین احمدیہ میں ہے.کل بر کتر من محمد صلی اللہ علیہ و سلم فتبارک من علم و تعلم.یعنی ہر ایک برکت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے.پس بہت برکت والا وہ انسان ہے جس نے تعلیم کی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر بعد اس کے بہت برکت والا وہ ہے جس نے تعلیم پائی یعنی یہ عاجز - پس اتباع کامل کی وجہ سے میرا نام امتی ہوا اور پورا عکس نبوت حاصل کرنے سے میرا نام نبی ہو گیا...پس اس طرح مجھے دو نام حاصل ہوتے ہیں.(براہین احمدیہ ، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 360) فرقہ احمدیہ آشتی اور صلح پھیلانے آیا ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”ہمارے نبی صلی ایام کے دو نام تھے ایک محمد صلی علیہ یکم اور ایک احمد صلی علیہ کی...اسم محمد جلالی نام تھا...لیکن اسم احمد جمالی نام تھا جس سے یہ مطلب تھا کہ آنحضرت صلی می کنم دنیا میں آشتی اور صلح پھیلائیں گے...اسی وجہ سے مناسب معلوم ہوا کہ اس فرقہ کا نام فرقہ احمد یہ رکھا جائے تا اس نام کو سنتے ہی ہر ایک شخص سمجھ لے کہ یہ فرقہ دنیا میں آشتی اور صلح پھیلانے آیا ہے.“ (اشتہار واجب الاظہار بحوالہ مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعود حصہ سوم صفحہ 356 - 366) یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ آخری زمانہ میں پھر اسم احمد ظہور کرے گا اور ایسا شخص ظاہر ہو گا جس کے ذریعہ سے احمد کی صفات یعنی جمالی صفات ظہور میں آئیں گی اور تمام لڑائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا.پس اسی وجہ سے مناسب معلوم ہوا کہ اس فرقہ کا نام فرقہ احمد یہ رکھا جائے تا اس نام کو سنتے ہی ہر ایک شخص سمجھ لے کہ یہ فرقہ دنیا میں آشتی اور صلح پھیلانے آیا ہے اور جنگ اور لڑائی سے اس فرقہ کو کچھ سروکار نہیں.آپ لوگوں کو یہ نام مبارک ہو اور ہر ایک کو جو امن اور صلح کا طالب ہے یہ فرقہ بشارت دیتا ہے.379

Page 380

نبیوں کی کتابوں میں پہلے سے اس مبارک فرقہ کی خبر دی گئی ہے اور اس کے ظہور کے لئے بہت سے اشارات ہیں.زیادہ کیا لکھا جائے خدا اس نام میں برکت ڈالے.خدا ایسا کرے کہ تمام روئے زمین کے مسلمان اسی مبارک فرقہ میں داخل ہو جائیں تا انسانی خونریزیوں کا زہر بکلی اُن کے دلوں سے نکل جائے اور وہ خدا کے ہو جائیں اور خدا اُن کا ہو جائے.اے قادر و کریم تو ایسا ہی کر.آمین.وَاخِرُ دَعْوَانَا آنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِين “ (روحانی خزائن جلد 1 - 5 تریاق القلوب صفحہ 528) شاگرد نے جو پایا استاد کی دولت ہے احمد کو محمد سے تم کیسے جدا سمجھے (کلام محمود) (روزنامه الفضل آن لائن لندن 31 دسمبر 2022ء) 380

Page 381

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام قسط 46 اکرام ضيف اے اللہ! تو محمد لی لی پر اور محمدعلی اہل علم کی آل پر درود اور برکتیں بھیج جیسا کہ تو نے حضرت ابراہیم علیہ پر السلام اور ابراہیم علیہ السلام کی آل پر درود اور برکتیں بھیجیں.یقیناً تو حمید اور مجید ہے.اللہ تعالیٰ نے آنحضور صلی لی عوام کو حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسی صفات اور برکات عطا فرمائیں بلکہ ان سے بھی بڑھ کر خلق عظیم پر قائم فرمایا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی اللہ تعالیٰ کو پسند آئی اسے قرآن کریم میں محفوظ کرلیا.”اور یقیناً ابراہیم کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے خوشخبری لے کر آئے.انہوں نے سلام کہا.اس نے بھی کہا سلام اور ذرا دیر نہ کی کہ ان کے پاس ایک بُھنا ہوا بچھڑا لے آیا.“ (ہود: 70) المدرسة آنحضرت صلی اللہ علم میں بھی یہ خُلق بدرجہ اتم موجود و معروف تھا جب پہلی دفعہ وحی نازل ہونے پر آپ کی نیلم سخت گھبرائے ہوئے گھر تشریف لائے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے تسلی دیتے ہوئے آپ کی لی کیم کی جن صفات کا ذکر کیا ان میں آپ مالی الم کی مہمان نوازی بھی شامل تھی.(بخاری کتاب التفسير سورة اقرأ باسم ربک...حدیث نمبر 4953) دین اسلام میں جیسے مہمان نوازی اور حقوق العباد کا خیال رکھنے کا درس دیا گیا ہے اور کسی مذہب میں نہیں ملتا اور بانی اسلام حضرت محمد عربی صلی الیکم فرماتے ہیں: "جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے تو اسے چاہئے کہ مہمان کی تکریم کرے.“ (بخاری کتاب الادب باب اکرام الضيف و خدمته اياه بنفسه حدیث 6135) قرآن پاک میں مسافروں کے لئے اہنِ الشمینیل کا لفظ آیا ہے اور ان پر مال خرچ کرنے اور ان کا حق دینے کی تاکید ہے.آپ صلی الم نے مامور من اللہ کی حیثیت سے تالیف قلوب اور دعوت الی اللہ کے لئے مہمان نوازی کا آغاز ایک بڑی دعوت سے کیا.پہلی دفعہ خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلا تو دوسری دعوت کا اہتمام کیا.جس کے نتیجہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صورت میں پھل ملا.381

Page 382

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام اسلام کا آغاز ہوا تو نوواردان پیارے آقاصلی ال نیلم کے ذاتی مہمان ہوتے.گھر کی خواتین جو کچھ میسر ہو تا پیش کر دیتیں.اگر مہمان زیادہ ہوتے تو اپنے اصحاب کو تحریک فرماتے کہ مہمان کو ساتھ لے جائیں اور خدمت کریں.مکہ مدینہ کا رہن سہن اور ماحول ہمارے آج کے زمانے سے بہت مختلف تھا.عام لوگ محنت مزدوری کر کے بمشکل گزر اوقات کرتے.زندگی سادہ تھی.آسائشیں کم تھیں.مہمانوں کے لئے کوئی الگ انتظام نہیں ہو تا تھا.آپ صلی الیکم نے اپنے متبعین کی اس طرح تربیت فرمائی کہ وہ اپنی ضرورت کو پس پشت ڈال کر ایثار اور قربانی سے دوسروں کا خیال رکھتے.ہمارے آقا حضرت محمد رسول الله صلى الله علم انسانی نفسیات پر گہری نظر رکھتے تھے.ضرورتمند کو چہرے سے پہچان لیتے اور اسے احساس دلائے بغیر ضرورت پوری کرنے کا انتظام فرماتے.آپ صلی نیلم نے مہمانوں کے خوش دلی سے استقبال کی تلقین فرمائی.ماحضر بغیر یہ دریافت کئے کہ آپ کو کھانا چاہئے؟ وقت پر پیش کرنے کی تاکید فرمائی.مہمان کے ساتھ آخر تک کھانے میں شریک رہنے کو پسند فرمایا تا کہ اسے کسی قسم کی خجالت و ندامت نہ ہو کہ وہ اکیلا کھا رہا ہے.(ابن ماجه کتاب الاطعمة باب النهى ان يقام عن الطعام: 3285) آپ کی سی ایم نے مہمان کو الوداع کرتے ہوئے مہمان کی عزت کی خاطر اس کے ساتھ گھر کے دروازے تک جانے کا اعلیٰ نمونہ دکھایا.ابن ماجه کتاب الاطعمة باب الضيافة: 3349) مہمان نوازی میں کسی صلہ یا ستائش کی لالچ رکھنے سے منع فرمایا.یہ کارخیر صرف رضائے الہی کی خاطر ہو نیز تکلفات اور دکھاوے کو ناپسند فرمایا.الله ہو.میز بانوں کے ساتھ آپ صلی الی یکم نے مہمانوں کو بھی آداب سکھائے.آپ صلی الم نے ارشاد فرمایا ہے کہ پر تکلف مہمان نوازی ایک دن رات ہے جبکہ عمومی مہمان نوازی تین دن تک ہے اور تین دن سے زائد صدقہ مہمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اتنا عرصہ میزبان کے پاس ٹھہرا رہے کہ جو اس کو تکلیف میں ہے.ڈال دے.الله (بخاری کتاب الادب باب اکرام الضيف ) مہمان کو چاہئے کہ میزبان کا شکر گزار ہو کر دعا دے آپ صلی ا یکم جب انصار میں سے کسی کے ہاں مہمان جاتے تو آپ کی یہ کام کا معمول تھا کہ آپ کیا کام کھانا وغیرہ تناول فرما کر واپس جانے سے پہلے وہاں دو رکعت نماز نفل ادا فرماتے یا موقع کی مناسبت سے اہل خانہ کے لئے اور ان کے رزق میں برکت کے لئے خاص صلى اليوم 382

Page 383

طور پر دعا کرتے.( بخاری کتاب الادب باب الزيارة و من زار قوماً فطعم عندهم ) آپ صلیم نے اپنے عمل سے دکھایا کہ جس کو دعوت دی گئی ہے وہ اپنے ساتھ زائد لوگوں کو نہ لے کر جائیں.ایک دفعہ ابوشعیب انصاری رضی اللہ عنہ نے رسول الله صلى الم کی دعوت کی اور عرض کیا کہ چار افراد اپنی مرضی سے ساتھ لے آئیں.دعوت پر جاتے ہوئے ایک اور شخص بھی ساتھ تھا.رسول کریم صلی العلیم نے میزبان کو بے تکلفی سے فرمایا کہ آپ نے تو پانچ افراد کی دعوت کی تھی.ایک زائد آدمی ہمارے ساتھ آگیا ہے.اگر آپ اجازت دیں تو یہ آجائیں ورنہ یہ واپس چلے جاتے ہیں.میزبان نے بہت خوشی سے اجازت دے دی.سة (بخاری کتاب الاطعمه باب الرجل يتكلف الطعام لاخوانه ) ایک فارسی نو مسلم حضور صلی علیم کا ہمسایہ بنا جو سالن بہت عمدہ تیار کیا کرتا تھا.اس نے حضور صلی یام کے لئے سالن تیار کیا اور حضور صلی الی یوم کو دعوت دینے آیا تو آپ صلی علیم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارہ میں پوچھا کہ ان کو بھی ساتھ بُلایا ہے نا؟ وہ بولا نہیں حضور صلی یم نے فرمایا پھر ہم بھی نہیں آتے.دوسری دفعہ وہ پھر دعوت دینے آیا تو آپ صلی علیہم نے پھر وہی سوال کیا.تیسری مرتبہ اس نے حامی بھری.تب حضور صلی می کنیم اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس کے گھر کھانے کے لئے تشریف لے گئے.الله سة (مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 123 بیروت) آپ صلی الم کی میزبانی کا ایک واقعہ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یوں بیان فرماتے ہیں: ”ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے غریبی کو اختیار کیا.کوئی شخص عیسائی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا.حضرت نے اس کی بہت تواضع و خاطر داری کی.وہ بہت بھو کا تھا.حضرت نے اس کو خوب کھلایا کہ اس کا پیٹ بہت بھر گیا.رات کو اپنی رضائی عنایت فرمائی.جب وہ سو گیا تو اس کو بہت زور سے دست آیا کہ وہ روک نہ سکا.اس بیچارے کا پیٹ خراب ہو گیا) اور رضائی میں ہی کر دیا.جب صبح ہوئی تو اس نے سوچا کہ میری حالت کو دیکھ کر کراہت کریں گے.شرم کے مارے وہ نکل کر چلا گیا.جب لوگوں نے دیکھا تو حضرت سے عرض کی کہ جو نصرانی عیسائی تھا وہ رضائی کو خراب کر گیا ہے.آنحضرت علی سلم نے فرمایا کہ وہ مجھے دو تاکہ میں صاف کروں.لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت آپ کیوں تکلیف اٹھاتے ہیں.ہم جو حاضر ہیں، ہم صاف کر دیں گے.آنحضرت صلی الم نے فرمایا کہ وہ میرا 383

Page 384

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام مہمان تھا، اس لئے میرا ہی کام ہے اور اٹھ کر پانی منگوا کر خود ہی صاف کرنے لگے.وہ عیسائی جب کہ ایک کوس نکل گیا تو اس کو یاد آیا کہ اس کے پاس جو سونے کی صلیب تھی وہ چارپائی پر بھول آیا ہوں.اس لئے وہ واپس آیا تو دیکھا کہ حضرت اس کے پاخانہ کو رضائی پر سے خود صاف کر رہے ہیں.اس کو ندامت آئی اور کہا کہ اگر میرے پاس یہ ہوتی تو میں کبھی اس کو نہ دھوتا.اس سے معلوم ہوا کہ ایسا شخص کہ جس میں اتنی بے نفسی ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.پھر وہ مسلمان ہو گیا.“ (ملفوظات جلد 3 صفحہ 370 - 371 جدید ایڈیشن) آپ صلی ا و کلم بنفس نفیس مہمانوں کی خاطر داری میں خوشی محسوس فرماتے.حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ نہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے ایک دفعہ حضور صلی علیم کے ہاں مہمانی کا شرف حاصل ہوا.آپ صلی ہم نے ران بھوننے کا حکم دیا اور پھر چھری لے کر گوشت کاٹ کاٹ کر مجھے عطا فرمانے لگے.(ابوداؤد كتاب الطهارة باب في ترك الوضؤ من مست النار: 160 حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت نبی کریم صلی علیم کی شادی حضرت زینب بنت جحش سے ہوئی تو مجھے میری والدہ ام سلیم نے کیس نامی کھانا تیار کیا اور پھر وہ کھانا مجھے دے کر رسول اللہ صلی علیم کے پاس بھیج دیا.جب میں رسول اللہ صلی علیکم کے پاس پہنچا تو آپ صلی الم نے مجھے ارشاد فرمایا اس برتن کو رکھو.پھر کچھ آدمیوں کا نام لے کر فرمایا کہ ان کو بلا لاؤ اور ہر وہ شخص جو تمہیں ملے اسے کہنا کہ میں بلا رہا ہوں.حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضور صلی الم کے ارشاد کے مطابق کیا.جب میں واپس آیا تو گھر آدمیوں سے بھرا ہوا تھا.پھر میں نے نبی کریم صلی الم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک اس کھانے پر رکھا اور اس کو برکت دینے کے لئے کچھ دیر دعا کرتے رہے.پھر رسول اللہ صلی علی یکم دس دس افراد کو بلانے لگے جو اس برتن میں سے کھاتے تھے اور رسول اللہ لال ہیں ان کو فرماتے تھے کہ بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ اور ہر شخص اپنے سامنے سے کھائے.آنحضور صلى الل علم اسی طرح ان سب کو بلاتے رہے یہاں تک کہ ان سب نے کھانا کھا لیا.الله سة (بخاری کتاب النکاح باب الهدية للعروس ) آپ صلی ہم نے ایسی روایات قائم فرمائیں جن پر عمل ہو تو کوئی انسان بھو کا نہ رہے.اسلام کے دور ثانی میں حضرت محمد مصطفی صلی املی کام کے کل آپ صلی اللہ علم کے اسوہ پر چلنے والے حضرت اقدس مسیح موعود عليه الصلوة والسلام نے امر تائید حق اور اشاعت اسلام کے کاموں میں تیسری شاخ مہمانوں کی خدمت 384

Page 385

قرار دی.فرماتے ہیں: ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام تیسری شاخ اس کارخانہ کی واردین اور صادرین اور حق کی تلاش کے لئے سفر کرنے والے اور دیگر اغراض متفرقہ سے آنیوالے ہیں جو اس آسمانی کار خانہ کی خبر پا کر اپنی اپنی نیتوں کی تحریک سے ملاقات کے لئے آتے رہتے ہیں.یہ شاخ بھی برابر نشوونما میں ہے.اگرچہ بعض دنوں میں کچھ کم مگر بعض دنوں میں نہایت سر گرمی سے اس کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے.چنانچہ ان سات برسوں میں ساٹھ 60 ہزار سے کچھ زیادہ مہمان آئے ہوں گے اور جس قدر اُن میں سے مستعد لوگوں کو تقریری ذریعوں سے روحانی فائدہ پہنچایا گیا اور اُن کے مشکلات حل کر دئے گئے.“ فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 14) مہمانوں کے لئے آپ علیہ السلام کے دل اور دروازہ کھلا رہتا.احباب کو قادیان جلدی جلدی آنے اور آکر زیادہ عرصہ ٹھہرنے کی ترغیب دیتے.اپنے الدار میں یا قریب ترین ٹھہرانا پسند فرماتے تھے.جانتے تھے کہ قریب آنے سے مہمانوں کو آپ علیہ السلام کے قلب مطہر کی روشنی سے حصہ ملے گا.خدا نمائی کا یہ ذریعہ مخلوق کی بھلائی کے لئے استعمال فرمایا.اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو مہمانوں کی کثرت سے آمد کی اطلاع کے ساتھ ان کے ساتھ حسن سلوک کا درس دیا تھا: ترجمہ.میں تجھے اپنی طرف اٹھاؤں گا اور میں اپنی طرف سے محبت تیرے پر ڈالوں گا یعنی بعد اس کے کہ لوگ دشمنی اور بغض کریں گے یک دفعہ محبت کی طرف لوٹائے جائیں گے جیسا کہ یہی مہدی موعود کے نشانوں میں سے ہے اور پھر فرمایا کہ جو لوگ تیرے پر ایمان لائیں گے ان کو خوشخبری دے کہ وہ اپنے رب کے نزدیک قدم صدق رکھتے ہیں اور جو میں تیرے پر وحی نازل کرتا ہوں تو ان کو سنا.خلق اللہ سے منہ مت پھیر اور ان کی ملاقات سے مت تھک اور اس کے بعد الہام ہوا.وشع مکانک یعنی اپنے مکان کو وسیع کرلے.اس پیشگوئی میں صاف فرما دیا کہ وہ دن آتا ہے کہ ملاقات کرنیوالوں کا بہت ہجوم ہو جائے گا یہاں تک کہ ہر ایک کا تجھ سے ملنا مشکل ہو جائے گا پس تو اس وقت ملال ظاہر نہ کرنا اور لوگوں کی ملاقات سے تھک نہ جانا.قادیان آنے والوں کے رتبہ بلند کے بارے میں فرمایا: (سراج منیر، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 73) ”خدا تعالیٰ نے انہی اصحاب الصفہ کو تمام جماعت میں سے پسند کیا ہے اور جو شخص سب کچھ چھوڑ کر اس 385

Page 386

جگہ آکر آباد نہیں ہوتا اور کم سے کم یہ کہ یہ تمنا دل میں نہیں رکھتا.اُس کی حالت کی نسبت مجھ کو بڑا اندیشہ ہے کہ وہ پاک کرنے والے تعلقات میں ناقص نہ رہے اور یہ ایک پیش گوئی عظیم الشان ہے اور ان لو گوں کی عظمت ظاہر کرتی ہے کہ جو خدا تعالیٰ کے علم میں تھے کہ وہ اپنے گھر وں اور وطنوں اور املاک کو چھوڑیں گے اور میری ہمسائیگی کے لئے قادیان میں بود و باش کریں گے.“ تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد نمبر 15 صفحہ 262 - 263) ابتدا میں مہمان نوازی کا سارا خرچ اور کام آپ علیہ السلام اور حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کرتے تھے.مہمانوں میں اضافہ ہونے لگا تو اللہ تعالیٰ نے آنے والوں کی مہمان نوازی کے لئے وسائل کی فکر سے بھی مخلصی عطا فرما دی ”ایک دفعہ بہت قحط پڑ گیا اور آٹا روپے کا پانچ سیر ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ کو لنگر کے خرچ کی نسبت فکر پڑی تو آپ کو پھر الہام ہوا.الیسَ اللهُ بِكَافٍ عَبدہ.اس پر والسلام آپ نے فرمایا کہ آج سے لنگر کا خرچ دو گنا کر دو اور بڑا مرغن شوربہ پکا کرتا تھا.“ لنگر (رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 9 صفحه 105 غیر مطبوعہ) خانہ مسیح موعود قادیان سے شروع ہو کر اب دنیا کے کئی یہ وعدہ ان گنت طریق پر پورا ہو رہا ہے.ملکوں میں پھیل چکا ہے اور اس سے ہزاروں لاکھوں افراد فیضیاب ہورہے ہیں.لفاظات الموائد كان اكلى احباب جماعت کو نصیحت فرمائی: وصرت اليوم مطعام الاهالى ”میرے اصول کے موافق اگر کوئی مہمان آوے اور سب و شتم تک بھی نوبت پہنچ جاوے تو اس کو گوارا کرنا چاہئے کیونکہ وہ مریدوں میں تو داخل نہیں ہے.ہمارا کیا حق ہے کہ اس سے وہ ادب اور ارادت چاہیں جو مریدوں سے چاہتے ہیں.یہ بھی ہم ان کا احسان سمجھتے ہیں کہ نرمی سے باتیں کریں.پیغمبر خدا صلی ا ہم نے فرمایا ہے کہ زیارت کرنے والے کا تیرے پر حق ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر مہمان کو ذرا سا بھی رنج ہو تو وہ معصیت میں داخل ہے.اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ ٹھہریں.چونکہ کلمہ کا اشتراک ہے جب تک یہ نہ سمجھیں جو کہیں ان کا حق ہے.“ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 201 - 202، سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن) 386

Page 387

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام ایک دفعہ لنگر خانے کے انچارج کو تاکید فرمائی: ”دیکھو! بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں ان میں سے بعض کو تم شناخت کرتے ہو اور بعض کو نہیں.اس لئے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الا کرام جان کر تواضع کرو.سردی کا موسم ہے چائے پلاؤ اور تکلیف کسی کو نہ ہو.تم پر میرا حسن ظن ہے کہ مہمانوں کو آرام دیتے ہو.ان سب کی خوب خدمت کرو.اگر کسی کو گھر یا مکان میں سردی ہو تو لکڑی یا کوئلہ کا انتظام کر دو.“ (ملفوظات جلد 3 صفحہ 492 جدید ایڈیشن) اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب کھاریاں روایت کرتی ہیں کہ ”ہمارے ساتھ ایک بوڑھی عورت مائی تابی رہتی تھی اس کے کمرے میں ایک روز بلی پاخانہ کر گئی اس نے کچھ ناراضگی کا اظہار کیا میرے ساتھ دوعورتیں تھیں انہوں نے خیال کیا کہ ہم سے تنگ آکرمائی تابی ایسا کہتی ہے ایک نے تنگ آکر اپنے خاوند کو رقعہ لکھا جو ہمارے ساتھ آیا ہوا تھا کہ مائی تابی ہمیں تنگ کرتی ہے ہمارے لئے الگ مکان کا انتظام کر دیں.جلال الدین نے وہ رقعہ حضور علیہ السلام کے سامنے پیش کر دیا رقعہ پڑھتے ہی حضور علیہ السلام کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا اور آپ علیہ السلام نے فورا مائی تابی کو بلایا اور فرمایا تم مہمانوں کو تکلیف دیتی ہوں تمہاری اس حرکت سے مجھے سخت تکلیف پہنچی ہے اس قدر تکلیف کہ اگر خدانخواستہ میرے چاروں بچے مر جاتے تو مجھے اتنی تکلیف نہ ہوتی جتنی مہمانوں کو تکلیف دینے سے پہنچی.(سیرت المہدی حصہ پنجم روایت 1322) ایک دفعہ جب مہمانوں کی زیادتی کی وجہ سے بستر بہت کم ہو گئے تو اپنے گھر میں جو آخری رضائی تھی وہ بھی مہمانوں کو دے دی اور خود ساری رات تکلیف میں گزاری.کسی مہمان کو چار پائی نہ ملی تو اپنی چارپائی بھیج دی یا فوراً تیار کروا دی اور نیا بستر بنوا کر بھیج دیا سردی کے دنوں میں مہمانوں کے لئے انگیٹھی اور کوئلے بھیجوائے.قرض لے کر بھی مہمانوں کی خدمت کرتے.کھانا تناول فرماتے ہوئے بھی اپنا کھانا اٹھا کر مہمانوں کو بھیج دیا اور خود دو گھونٹ پانی پر ہی کفایت فرمائی.حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ ایک دفعہ لاہور سے قادیان آئے تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ آپ بیٹھئے میں آپ کے لئے کھانا لاتا ہوں.یہ کہہ کر آپ اندر تشریف لے گئے.کسی خادم کے ہاتھ کھانا نہیں بھیجا.چند منٹ کے بعد کھڑ کی کھلی تو حضرت اقدس علیہ السلام اپنے ہاتھ سے سینی اٹھائے ہوئے کھانا لائے اور فرمایا کہ آپ کھانا کھائیے میں پانی لاتا ہوں.387

Page 388

ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ خاکسار 1907ء میں جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لیے قادیان حاضر ہوا ایک رات میں نے کھانا نہ کھایا تھا اور اس طرح چند اور مہمان بھی تھے جنہوں نے کھانا نہ کھایا تھا اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہوا یا ایها النبی اطعموا الجائع والمعتر منتظمین نے حضور علیہ السلام کے بتلانے پر مہمانوں کو کھانا کھانے کے لیے جگایا خاکسار نے بھی ان مہمانوں کے ساتھ بوقت تقریباً ساڑھے گیارہ بجے لنگر میں جا کر کھانا کھایا.اگلے روز خاکسار نے یہ نظارہ دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دن کے قریباً دس بجے مسجد مبارک کے چھوٹے زینے کے دروازے پر کھڑے ہوئے تھے اور حضور علیہ السلام کے سامنے حضرت مولوی نورالدین خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے تھے اور بعض اور اصحاب بھی تھے اس وقت حضور علیہ السلام کو جلال کے ساتھ یہ فرماتے ہوئے سنا کہ انتظام کے نقص کی وجہ سے رات کو کئی مہمان بھوکے رہے اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ الہام کیا یا ایھا النبی اطعموا الجائع والمعتر (سیرت المہدی حصہ چہارم روایت 1176) ایک دفعہ میں بائیں مہمان رات کے ساڑھے گیارہ بجے قادیان پہنچے حضور علیہ السلام نے دریافت کیا کہ لنگر میں کوئی روٹی ہے؟ عرض کیا گیا حضور اڑھائی روٹیاں اور کچھ سالن ہے.فرمایا وہی لے آؤ.مسجد مبارک کی اوپر کی چھت پر سفید چادر بچھا کر حضور ایک طرف بیٹھ گئے.ہم تمام آس پاس بیٹھ گئے.حضور نے ان روٹیوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے مہمانوں کے آگے پھیلا دیئے.سب نے سیر ہو کر کھایا اور پھر بھی کچھ ٹکڑے بچے ہوئے تھے تو اُسی چادر میں وہ لپیٹ کر لے گئے“.(رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر 9 صفحہ 15 غیر مطبوع) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مہمانوں سے بہت شفقت اور مہر بانی فرماتے آپ نے ایک دفعہ نصیحت کے رنگ میں بہت دلچسپ اور سبق آموز قصہ سنایا: ”ایک دفعہ ایک شخص کو جنگل سے گزرتے گزرتے رات پڑ گئی اور وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا سردی کا موسم تھا، نہ کھانے کو کچھ، نہ جسم گرم کرنے کو آگ تھی درخت کے اوپر دو نر اور مادہ پرندوں نے گھونسلہ بنا یا ہوا تھا.انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ یہ شخص آج ہمار امہمان ہے.اسے آرام پہنچا نا چاہئے انہوں نے اپنا گھونسلہ نیچے گرا دیا تا کہ وہ آگ جلا سکے.اسکے بعد انہوں نے سوچا کہ اسے بھوک لگی ہوئی ہو گی تو انہوں نے اپنے آپ کو نیچے گرادیا تا کہ وہ ان دونوں کو بھون کر کھا.388

Page 389

آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام ”دیکھو! ان پرندوں نے اپنا سامان بھی دے دیا اور اپنی جانیں بھی قربان کردیں تا کہ اپنے مہمان کو آرام پہنچا دیں اسی طرح ہم کو بھی اپنے مہمان کی خاطر کرنی چاہئے.“ (احکام 14 نومبر 1936ء) آپ علیہ السلام مہمانوں کے جانے سے غم محسوس فرماتے اور مہمان بھی آپ علیہ السلام سے جدا ہوتے وقت افسردہ ہو جاتے.مہماں جو کر کے اُلفت آئے بصد محبت دل کو ہوئی ہے فرحت اور جاں کو میری راحت پر دل کو پہنچے غم جب یاد آئے وقت رخصت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي 389 (مطبوعہ 7 جون 1897ء) روزنامه الفضل آن لائن لندن 6 جنوری 2023 ء

Page 390

قسط 47 محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں محبت، نرمی، رفق، لطافت، بردباری ،آسانی ،سهولت نفع پہنچانا، ملائمت در گزر کرنا، معاف کرنا، بخش دینا، بھلائی سوچنا اور احسان کرنا اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اللہ تعالیٰ بھی ایسے نرم خو سے بخشش کا سلوک فرماتا ہے.بے جا غصہ، درشتی، نفرت اور سختی کرنا ناپسندیدہ امور ہیں.رب العالمین جو رحیم ہے رؤف ہے رفیق اور حلیم ہے.بندوں سے بلا تفریق نرم سلوک کرتا ہے.ایسی ہی صفات سے سب انبیاء اور سب سے بڑھ کر حضرت نبی کریم صلی علیم کو متصف فرمایا.آپ صلیا کی سب بڑوں، چھوٹوں، امیروں، غریبوں، اجنبی، آشنا سے ہمدردی اور پیار سے بات کرتے.آپ صلی نیلم کے فرائض منصبی میں پیغام توحید عام کرنا تھا.آپ صلی علیم کے شیریں لہجے کی کشش سے لوگ آپ صلی کمی کی طرف مائل ہوتے جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے: پس اللہ کی خاص رحمت کی وجہ سے تو ان کے لئے نرم ہو گیا اور اگر تُو تندخو (اور) سخت دل ہوتا تو وہ ضرور تیرے گرد سے دُور بھاگ جاتے.پس ان سے در گزر کر اور ان کے لئے بخشش کی دعا کر اور (ہر) اہم معاملہ میں ان سے مشورہ کر.پس جب تو (کوئی) فیصلہ کر لے تو پھر اللہ ہی پر تو کل کر.یقیناً اللہ تو کل کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے.نیز آپ صلیم کو حسن سلوک کے وہ گر بتائے جس سے دشمن بھی دوست ہو جائیں: (آل عمران: 160) نہ اچھائی برائی کے برابر ہو سکتی ہے اور نہ برائی اچھائی کے (برابر ).ایسی چیز سے دفاع کر کہ جو بہترین ہو.تب ایسا شخص جس کے اور تیرے درمیان دشمنی تھی وہ گویا اچانک ایک جاں نثار دوست بن جائے گا.(تم سجدہ: 35) مکہ کے بڑو پیکر محسوس کو اپنا خالق و مالک سمجھنے کے خوگر تھے اُن کو ان دیکھے خدائے واحد پر ایمان لانے کا درس دینا آسان کام نہ تھا کسی گزرگاہ میں، کسی بازار میں، کسی دوستوں کی محفل میں، کہیں کچھ لوگ اکٹھے دیکھ کر.آپ صلی ل کر نرمی سے بات کا آغاز فرماتے: کیا آپ لوگ میری کچھ باتیں سن سکتے 390

Page 391

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام ہیں؟ میں آپ کی بھلائی کی بات بتاؤں گا پھر اسلام کی دعوت دیتے اور قرآن شریف کی آیات سناتے.نیک فطرت لوگ آپ صلی یم کی بات سنتے اور مانتے.مگر مخالفین کا لاوا ابل پڑتا لو گ زبان ہی سے نہیں ہاتھوں سے بھی جواب دیتے.آپ صلی ا ہم نے نہ کبھی پلٹ کر وار کیا نہ غصہ دکھایا نہ انتقام لیا.حتی کہ طائف کی شدید ترین اذیتوں کے بعد لہو لہان ہو کر بھی پہاڑوں کے فرشتے سے فرماتے ہیں: ”نہیں انہیں ٹکرا کر مت پینا مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں سے ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے.“ پہاڑ الله سة (صحیح بخاری و صحیح مسلم) ہر انسان سے محبت پیار اور احترام کے سلوک اور عاجزانہ راہوں نے آپ صلی ایلی کیم کو ہر دلعزیز بنا دیا تھا.آپ صلی ال کلم نے کبھی اپنے خدمت گاروں کو بھی سخت الفاظ نہیں کہے.ایک دفعہ جب آپ صلی ﷺ کے رعب سے کپکپی طاری ہو گئی تو فرمایا.” گھبراؤ نہیں، میں کوئی جابر بادشاہ نہیں.میں تو ایک عورت ایک شخص : کا بیٹا ہوں جو سو کھا گوشت کھایا کرتی تھی.(سنن ابن ماجه کتاب الاطعمة باب القديد حدیث نمبر 3312) الله آپ صلی میم کے گرد پروانے جاں نثار ہونے کو تیار رہتے.ایسا بھی نظارہ دیکھا گیا کہ آپ صلی مینیم کی طرف آنے والے تیروں کو ہاتھ پر اس طرح رو کا کہ ہاتھ نہ رہا.وضو کے پانی کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے عشاق ہاتھوں پہ لیتے اور بدن پر ملتے.عام دنیا میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ نرم طبیعت والوں کے گرد چاہنے والوں کا ہجوم رہتا ہے جبکہ درشت رویے والوں سے لوگ دور بھاگتے ہیں.آپ صلی اللی کلم نے والدین، بیوی بچوں، قریبی عزیزوں، رشتہ داروں، غیر رشتہ داروں غرضیکہ سارے انسانوں سے نرمی اور رفق اپنانے کا درس دیا.ان تعلیمات پر عمل گھروں معاشرے اور ساری دنیا میں منفی رویوں کو دور کر کے امن اور سکون لا سکتا ہے.چند احادیث پیش ہیں: 1.اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے.نرمی کو پسند کرتا ہے.نرمی کا جتنا اجر دیتا ہے اتنا سخت گیری کا نہیں دیتا بلکہ کسی اور نیکی کا بھی اتنا اجر نہیں دیتا.(صحیح مسلم کتاب البر والصلة والآداب باب فضل الرفق حدیث نمبر 6601) 2.اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا.کہاں ہیں وہ لوگ جو میرے جلال اور میری عظمت کے لئے ایک 391

Page 392

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام دوسرے سے محبت کرتے تھے.آج جبکہ میرے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں.میں انہیں اپنے سایہ رحمت میں جگہ دوں.(صحیح مسلم کتاب البر والصلة والآداب حدیث نمبر 6548) 3.ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو.حسد نہ کرو.بے رُخی اور بے تعلقی اختیار نہ کرو.باہمی تعلقات نہ توڑو بلکہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو.کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض رہے اور اُس سے قطع تعلق رکھے.(صحیح البخارى كتاب الادب باب الهجرة حديث نمبر 6076) 4.کیا میں تم کو بتاؤں کہ آگ کس پر حرام ہے؟ وہ حرام ہے ہر اُس شخص پر جو لو گوں کے قریب رہتا ہے.(سنن الترمذى كتاب القيامة والرقائق حدیث نمبر 2488 5.جو شخص رزق کی فراخی چاہتا ہے یا خواہش رکھتا ہے کہ اُس کی عمر اور ذکر خیر زیادہ ہو، اُسے صلہ رحمی کا خُلق اختیار کرنا چاہئے.(صحیح مسلم کتاب البر والصلة والآداب حدیث نمبر (6523) 6.اُس شخص کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں جو چھوٹے پر رحم نہیں کرتا، بڑوں کا شرف نہیں پہچانتا.یعنی اُس کی عزت نہیں کرتا.(سنن الترمذى كتاب البر والصلة باب ما جاء فى رحمة الصبيان حدیث نمبر (1920) 7.تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کی عیال ہیں.پس اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوقات میں سے وہ شخص پسند ہے جو اُس کے عیال کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے اور اُن کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے.(الجامع لشعب الايمان للبيهقی جلد نمبر 9 صفحہ 523 حدیث نمبر 7048 مكتبة الرشد 2004ء) 8.رحم کرنے والوں پر رحمان خدا رحم کرے گا.اہل زمین پر رحم کرو تو آسمان پر اللہ تم پر رحم کرے گا.(سنن الترمذی كتاب لابر والصلة باب ما جاء فى رحمة المسلمين حديث نمبر 1924) 392

Page 393

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام 9.تین باتیں جس میں ہوں اللہ تعالیٰ اُسے اپنی حفاظت اور رحمت میں رکھے گا اور اُسے جنت میں داخل کرے گا.پہلی یہ کہ وہ کمزوروں پر رحم کرے.دوسری یہ کہ وہ ماں باپ سے محبت کرے.تیسری یہ کہ خادموں اور نو کروں سے اچھا سلوک کرے.(سنن الترمذى كتاب القيامة والرقائق باب 48/113 حدیث نمبر (2494) 10.کسی چیز میں جتنا بھی رفق اور نرمی ہو اُتنا ہی یہ اُس کے لئے زینت کا موجب بن جاتا ہے.اُس میں خوبصورتی پیدا ہوتی ہے اور جس سے رفق اور نرمی چھین لی جائے وہ اتنی ہی بدنما ہو جاتی ہے.سختی جو ہے وہ عمل کو بھی بد نما کر دیتی ہے.(صحیح مسلم کتاب البر والصلة والآداب باب فضل الرفق حديث نمبر (6602 11.جسے نرمی سے محروم کیا جاتا ہے وہ خیر سے محروم کیا جاتا ہے.(صحیح مسلم، کتاب البر والصلة والآداب، باب فَضْلِ الرِّفْقِ، حديث: 4680) 12.مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں.(بخاری کتاب الایمان باب المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ ) اب ایک واقعہ دیکھئے!.عجیب سا سوال تھا پر ناراضگی کا اظہار نہیں کیا تحمل سے جواب عطا فرمایا، دعا دی، نصیحت بھی محبت سے کی جس کا فوری اثر ہوا اور سوال کرنے والے کی کایا پلٹ گئی: ایک دفعہ ایک نوجوان نے عجیب سوال کر ڈالا کہ یا رسول اللہ صلی العلیم ! مجھے زنا کی اجازت دیجئے.لوگوں نے اسے ملامت کی کہ کیسی نامناسب بات کر دی اور اسے سوال کرنے سے روکنے لگے.نبی کریم صلی ا یکم سمجھ گئے کہ اس نوجوان نے گناہ کا ارتکاب کرنے کی بجائے جو اجازت مانگی ہے تو اس میں سعادت کا کوئی شائبہ ضرور باقی ہے.آپ صلی الی یکم نے کمال شفقت سے اسے اپنے پاس بلایا اور فرمایا پہلے یہ بتاؤ کہ کیا تمہیں اپنی ماں کے لئے زنا پسند ہے؟ اس نے کہا نہیں خدا کی قسم! ہر گز نہیں.آپ کی لی کرم نے فرمایا اسی طرح باقی لوگ بھی اپنی ماؤں کے لئے زنا پسند نہیں کرتے.آپ صلی علیم نے دوسراسوال یہ فرمایا کہ کیا تم اپنی بیٹی کے لئے بد کاری پسند کرو گے؟ اس نے کہا خدا کی قسم! ہر گز نہیں.آپ صلی الم نے فرمایا لوگ بھی اپنی بیٹیوں کے لئے یہ پسند نہیں کرتے.پھر آپ نے فرمایا کیا تم اپنی بہن سے بد کاری پسند کرتے ہو؟ اس نے پھر اسی شدت سے نفی میں جواب دیا.آپ کی ایم نے فرمایا لوگ بھی اپنی بہنوں کے لئے یہ پسند نہیں 393

Page 394

کرتے.پھر آپ صلی الم نے بد کاری کی شناعت خوب کھولنے کیلئے فرمایا کہ تم پھوپھی اور خالہ سے زنا پسند کرو گے؟ اس نے کہا خدا کی قسم ہر گز نہیں.آپ کی ایم نے فرمایا لوگ بھی اپنی پھوپھیوں اور خالاؤں کے لئے بد کاری پسند نہیں کرتے.مقصود یہ تھا کہ جو بات تمہیں اپنے عزیز ترین رشتوں میں گوارا نہیں.وہ دوسرے لوگ کیسے گوارا کریں گے اور کوئی اس کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟ پھر نبی کر یم ملی لی ہم نے اس نوجوان پر دست شفقت رکھ کر دعا کی اللَّهُمَّ اغْفِرْ ذَنْبَهُ وَطَهِرْ قَلْبَهُ وَحَصِّنْ فَرْجَہ اے اللہ ! اس نوجوان کی غلطی معاف کر.اس کے دل کو پاک کر دے.اسے باعصمت بنادے.اس نوجوان پر آپ صلی یم کی اس عمدہ نصیحت کے ساتھ دعا کا اتنا گہرا اثر ہوا کہ اس نے بدکاری کا خیال ہی دل سے نکال دیا اور پھر کبھی اس طرف اُس کا دھیان نہیں گیا.آں ترحمها که خلق از وے بدید کس ندیده در جہاں از مادری (مسند احمد جلد 1 صفحہ 335 بیروت) ہمدردی خلق اور رحم و کرم کے جو نظارے مخلوق خدا نے آپ کے بابر کت وجود میں دیکھے، ایسے نظارے تو کسی شخص نے اپنی ماں سے بھی نہ دیکھے ہوں گے.سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِ لا سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيْمِ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَالِ مُحَمَّدٍ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: میں تو آنحضرت صلی الم کی تعلیم کے احیائے ٹو کے لئے آیا ہوں.اللہ تعالیٰ نے الہام فرمایا: (ملفوظات جلد اول صفحہ 490 ایڈیشن 2003ء) لو گوں کے ساتھ رفق اور نرمی سے پیش آ اور اُن پر رحم کر.تو اُن میں بمنزلہ موسیٰ کے ہے اور اُن کی باتوں پر صبر کر.“ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 605) یا داؤد عامل بالناس رفقا و احسانا و اذا حییتم بتحية فحيوا باحسن منھا.واما بنعبت ربك فحدث اے داؤد! خلق اللہ کے ساتھ رفق اور احسان کے ساتھ معاملہ کر اور سلام کا جواب احسن طور پر دے اور 394

Page 395

اپنے رب کی نعمت کا لوگوں کے پاس ذکر کر.میری نعمت کا شکر کر.(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد نمبر 1 صفحہ 665) خُذُوا الرِّفْقَ فَإِنَّ الرِّفْقَ رَأْسُ الْخَيْرَاتِ (تذکره صفحه 323 موجودہ ایڈیشن) نرمی کرو.نرمی کرو.کہ تمام نیکیوں کا سر نرمی ہے.اس الہام الہی کی تشریح کرتے ہوئے حضرت مسیح پاک علیہ السلام فرماتے ہیں: اس الہام میں تمام جماعت کے لئے تعلیم ہے کہ اپنی بیویوں سے رفق اور نرمی کے ساتھ پیش آدیں.وہ ان کی کنیزیں نہیں ہیں...روحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو.ان کے لیے دعا کرتے رہو.“ (اربعین نمبر 3، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 428 حاشیہ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام سر تا پا آنحضور صلی الم کا عکس تھے فرماتے ہیں کہ ”خدا نے مجھے دنیا میں اس لئے بھیجا کہ تا میں حلم اور خُلق اور نرمی سے گم گشتہ لو گوں کو خدا اور اس کی پاک ہدایتوں کی طرف کھینچوں اور وہ نور جو مجھے دیا گیا ہے اس کی روشنی سے لوگوں کو راہ راست پر چلاؤں.“ تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 143) مذہب سے دور انسانوں کو دعوت الی اللہ آسان کام نہیں.آپ عمل یا لال کی کمی بھی اپنے آقا و مطاع کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انتہائی نرم زبان میں خاکساری کے ساتھ پیغام دیتے.بات کا آغاز شائستگی اور نرمی سے کرتے.اے میرے عزیزو! میرے پیارو! میرے بھائیو! جیسے محبت بھرے الفاظ سے مخاطب کے دل کی گرہیں کھلنے لگتیں.اس پیارے طرز تخاطب کے ساتھ اپنے بہشت اپنے خدا، اپنے پیشوا محمد مصطفی صلی للی کم اور اپنے چاند اپنے کعبہ قرآن پاک کی توصیف بیان کر کے نیکی کی ترغیب دیتے جس سے دلوں میں رضائے الہی کا شوق جوش اور تپش پیدا ہوتی.عزیزو! سنو! که قرآں حق کو ملتا نہیں بھی انسان 395

Page 396

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام مجھ سے اُس دل ستاں کا حال سنیں صورت وہ و جمال سنیں (براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 268 مطبوعہ 1882ء) آپ علیہ السلام کی مبارک حیات میں آپ علیہ السلام کی نرمی ، رفق، ضبط و تحمل اور سہار کے ان گنت واقعات ہیں جو جہاں تک آپ علیہ السلام کے روابط کی وسعتیں ہیں دیکھے جاسکتے ہیں.ایک اخبار کی دریدہ دہنی پر نالش کرنے کا مشورہ ملا تو جواب دیا ”ہمارے لئے خدا کی عدالت کافی ہے، یہ گناہ میں داخل ہو گا اگر ہم خدا کی تجویز پر تقدم کریں.اس لئے ضروری ہے کہ صبر اور برداشت سے کام لیں.“ (سیرت حضرت مسیح موعود از شیخ یعقوب علی عرفانی صفحہ 114) 2.ایک دفعہ ایک ہندوستانی مولوی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تلفظ پر اعتراض کیا اس وقت حضرت مولوی عبد اللطیف صاحب شہید رضی اللہ عنہ بھی مجلس میں حضرت صاحب کے پاس بیٹھے تھے ان کو بہت غصہ آ گیا انہوں نے اسی جوش میں اس مولوی کے ساتھ فارسی میں گفتگو شروع کر دی.آپ علیہ السلام نے ان کو سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا.بعد میں کسی وقت فرمایا: ”اس وقت مولوی صاحب کو بہت غصہ آگیا تھا چنانچہ میں نے اسی ڈر سے کہ کہیں وہ اس غصہ میں اس مولوی کو کچھ مار ہی نہ بیٹھیں مولوی صاحب کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں دبائے رکھا تھا.“ (روایت نمبر 336 سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 337) 3.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے چچا زاد بھائیوں نے مسجد مبارک کے راستہ میں دیوار کھینچ کر آپ علیہ السلام اور آپ کی جماعت کو شدید تکلیف پہنچائی تھیں.جب آپ علیہ السلام ان سے انتقام کی پوزیشن میں تھے تو فرمایا: ہم کو دنیا داروں کی طرح مقدمہ بازی اور تکلیف دہی سے کچھ کام نہیں، خدا تعالیٰ نے مجھے اس غرض کے لئے دنیا میں نہیں بھیجا.“ حضور علیہ السلام نے نہ صرف مرزا صاحب کو دل سے معاف کیا بلکہ اُن کی درخواست پر زمین کا ایک ٹکڑا بھی انہیں عنایت فرما دیا.396

Page 397

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام 4.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں کسی غریب عورت نے کچھ چاول چرا لئے.لو گوں نے اسے دیکھ لیا اور شور پڑ گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس وقت اپنے کمرہ میں کام کر رہے تھے.شور سن کر باہر تشریف لائے تو یہ نظارہ دیکھا کہ ایک غریب عورت چیتھڑوں میں کھڑی ہے اور اس کے ہاتھ میں تھوڑے سے چاولوں کی گٹھڑی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو واقعہ کا علم ہوا اور اس.غریب عورت کا حلیہ دیکھا تو آپ علیہ السلام کا دل پسیج گیا.فرمایا یہ بھو کی اور کنگال معلوم ہوتی ہے.اسے کچھ نہ کہو بلکہ کچھ اور چاول دے کر رخصت کر دو.(سیرت مسیح موعود مصنفہ یعقوب علی عرفانی حصہ اول صفحہ 98) محبتیں عام کرنے اور نرمی اپنانے کے لئے حضرت اقدس علیہ السلام کی ایمان افروز ہدایات: 1.ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ نرمی اور رفق سے معاملہ کرو.اپنی ساری مصیبتیں اور بلائیں خدا تعالیٰ پر چھوڑ دو.یقیناً سمجھو اگر کوئی شخص ایسا ہے کہ ہر شخص کی شرارت پر صبر کرتا ہے اور خدا پر اُسے چھوڑتا ہے.تو خدا تعالیٰ اُسے ضائع نہیں کرے گا.(ملفوظات جلد 5 صفحہ 131 ایڈیشن 2003ء) 2.تقویٰ کے بہت سے اجزاء ہیں.عجب خود پسندی، مال حرام سے پر ہیز اور بداخلاقی سے بچنا بھی تقویٰ ہے.جو شخص اچھے اخلاق ظاہر کرتا ہے اس کے دشمن بھی دوست ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ادْفَعُ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَن (المؤمنون: 97) اب خیال فرمائیے یہ ہدایت کیا تعلیم دیتی ہے؟ اس ہدایت میں اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے کہ اگر مخالف گالی بھی دے تو اس کا جواب گالی سے نہ دو بلکہ صبر کرو.اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ تمہاری فضیلت کا قائل اور شرمندہ ہو گا اور یہ سزا اس سزا سے کہیں بڑھ کر ہو گی جو انتقامی طور پر تم اس کو دے سکتے ہو.یوں تو ایک ذرا سا آدمی اقدام قتل تک نوبت پہنچا سکتا ہے لیکن انسانیت کا تقاضا اور تقویٰ کا منشاء یہ نہیں ہے.خوش اخلاقی ایک ایسا جوہر ہے کہ موذی سے انسان پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے.کیا اچھا کہا ہے کہ لطف کن لطف که بیگانه شود حلقه بگوش (تفسیر حضرت مسیح موعود سورۃ حم سجدہ صفحہ 116 - 117) 3.”یں یہ بھی کہتا ہوں کہ سختی نہ کرو اور نرمی سے پیش آؤ.جنگ کرنا اس سلسلہ کے خلاف ہے.نرمی سے کام لو اور اس سلسلہ کی سچائی کو اپنی پاک باطنی اور نیک چلنی سے ثابت کرو.یہ میری نصیحت 397

Page 398

ہے اس کو یاد رکھو اللہ تعالیٰ تمہیں استقامت بخشے.“ آمین 4.اگر (ملفوظات جلد 4 صفحہ 185 جدید ایڈیشن) کسی بھائی کی غلطی دیکھو تو اس کے لئے دعا کرو کہ خدا اُسے بچالے.یہ نہیں کہ منادی کرو.جب کسی کا بیٹا بدچلن ہو تو اس کو سر دست کوئی ضائع نہیں کرتا بلکہ اندر ایک گوشہ میں سمجھاتا ہے کہ یہ برا کام ہے اس سے باز آجا.پس جیسے رفق، حلم اور ملائمت سے اپنی اولاد سے معاملہ کرتے ہو، ویسے ہی آپس میں بھائیوں سے کرو.جس کے اخلاق اچھے نہیں ہیں مجھے اس کے ایمان کا خطرہ ہے کیونکہ اس میں تکبر کی ایک جڑ ہے.اگر خدا راضی نہ ہو تو گویا یہ برباد ہو گیا.پس جب اس کی اپنی اخلاقی حالت کا یہ حال ہے تو اسے دوسرے کو کہنے کا کیا حق ہے؟ دو (ملفوظات جلد 6 صفحہ 368 - 369 ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) 5." کسی پر تکبر نہ کرو کو اپنا ماتحت ہو اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو.غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤ تا قبول کئے جاؤ.بہت ہیں جو علم ظاہر کرتے ہیں مگر وہ اندر سے بھیڑیئے ہیں.بہت سے ہیں جو اوپر سے صاف ہیں مگر اندر سے سانپ ہیں.سو تم اس کی جناب میں قبول نہیں ہو سکتے جب تک ظاہر و باطن ایک نہ ہو.بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرو، نہ ان کی تحقیر اور عالم ہو کر نادانوں کو نصیحت کرو، نہ خود نمائی سے ان کی تذلیل اور امیر ہو کر غریبوں کی خدمت کرو، نہ خود پسندی سے ان پر تکبر.ہلاکت کی راہوں سے ڈرو.خدا سے ڈرتے رہو اور تقویٰ اختیار کرو.“ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 11) زندگی میں بعض دفعہ صرف نرمی اور عفو سے مسائل حل نہیں ہوتے.بلکہ اصلاح کی غرض سے سزا دینی پڑتی ہے.اس میں بھی نرمی کا پہلو رکھا گیا ہے.جرم کی مناسبت سے سزا دی جائے اور تائب ہونے کی صورت میں معاف کر دیا جائے.گناہ پر ندامت دکھانے والا ایسا ہی ہے کہ گویا اس نے گناہ کیا ہی نہیں.قرآن کریم مجبور مقروض کے لئے بھی نرمی کا درس دیتا ہے.ارشاد ہے: اور اگر کوئی تنگ دست ہو تو (اسے) آسائش تک مہلت دینی چاہئے اور اگر تم خیرات کر دو تو یہ تمہارے لئے بہت اچھا ہے، اگر تم کچھ علم رکھتے ہو.(البقرہ: 281) اعلیٰ خُلق کا اظہار باہر غیروں کے سامنے دکھاوا کرنے کے لئے نہ ہو بلکہ سارے ماحول میں نظر آئے.398

Page 399

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام ہر احمدی کے چہرے کے پیچھے اسلام کا چہرہ ہے.دعا ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی توقعات پر پورا اتریں اور آپ کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والے بن کر آپ علیہ السلام کی دعاؤں کے وارث بنیں.آمین اللهم آمین.روزنامه الفضل آن لائن لندن 13 جنوری 2023ء) 399

Page 400

قسط 48 تکمیل ہدایت تکمیل اشاعت ہدایت اللہ تعالیٰ عالمین کا رب ہے اس کا فیض تمام زمانوں تمام ملکوں اور قوموں کے لئے یکساں ہے وہ تمام بنی آدم کی جسمانی ضرورت کے لئے خوراک پانی ہوا روشنی وغیرہ مہیا فرماتا ہے اسی طرح روحانی ضرورت کے لئے ہر قوم میں انبیاء مبعوث فرماتا ہے تاکہ کوئی قوم محروم اور بے نصیب نہ رہے.ہر نبی کی تعلیم اپنی ابتدا میں حق اور راستی پر ہوتی ہے پھر وقت گزرنے کے ساتھ ان میں غلط باتیں شامل ہو جاتی ہیں حتی کہ اصلیت معدوم ہو جاتی ہے قصے کہانیاں رہ جاتی ہیں اور لوگ علمی اور عملی گمراہی میں مبتلا ہو جاتے ہیں.جب انسان کے شعور نے ترقی کی تو ایک عالمگیر شرعی نبی خاتم النبیین حضرت رسول کریم محمد مصطفی صلی ا یکم اور آخری مکمل شریعت قرآن مجید نازل فرمائی جس میں حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسی علیہ السلام تک کی تمام ہدایات جمع کر دی گئیں.یہ رہتی دنیا تک آخری آسمانی کتاب ہے.اس طرح تکمیل ہدایت ہو گئی.دین مکمل ہو گیا.اللہ تعالیٰ نے حضرت رسول کریم صلی اللی کام سے فرمایا کہ کل انسانوں کو مخاطب کر کے آگاہ کردیں: اے انسانو! یقیناً میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں جس کے قبضے میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے.اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں.وہ زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے.پس ایمان لے آؤ اللہ پر اور اس کے رسول نبی اُمّی پر جو اللہ پر اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے اور اُسی کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پا جاؤ.(الاعراف: 159) نیز قرآن پاک فرماتا ہے: وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تمام لو گوں کے لئے بشیر اور نذیر بنا کر.(سبا: 29) مشرق و مغرب سے بالا تر ہو کل عالم کو انذار اور بشارتیں دینے کا کام سونپنے والے علام الغیوب خدا کو 400

Page 401

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام علم تھا کہ ایک زندگی میں، مکہ مدینہ میں رہ کر محدود وسائل اور ذرائع ابلاغ کے ساتھ زمین کے کناروں تک خدائے واحد کا پیغام پہنچانا مشکل کام ہے.اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ آپ صلی ایم کی ایک اور بعثت ہو گی اور یہ کام آپ صلی یم کی آمد ثانی میں ہو گا.جس کے لئے ایک مربوط نظام، طریق کار اور وقت مقرر ہے.یہ بعثت بروزی اور ظلی رنگ میں ہو گی.آپ صلی الم کا ایک عاشق صادق، آپ کی لی کام کا شاگرد، خلیفہ ، عکس، اور ظل آپ صلی ایم کے رنگ میں رنگین ہو کر آپ کی یہ کام کے مقاصد عالیہ کو پورا کرے گا.جیسا کہ فرمایا وَ اخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ (الجمعه: 4) الله سة اسی طرح سورہ نور آیت 56 میں وعدہ استخلاف کے موافق آنحضرت صلیا لیلی کام کو میل موسی قرار دیا گیا اور آپ صلی الی ظلم کے بعد خلفائے کرام کے سلسلہ کو جاری رکھنے کا وعدہ فرمایا.ایسا سلسلہ جو حضرت موسی کے بعد خلفاء کے سلسلہ کی طرح ہو گا.یعنی جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چودہ سو سال بعد حضرت عیسی علیہ السلام تشریف لائے اسی طرح آپ صلی الی یوم کے اتنے ہی عرصے کے بعد خلیفہ عطا کیا جائے گا.یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے.اس کے لئے درود شریف کی دعا بھی سکھائی اور تاکید فرمائی کہ اللہ اور فرشتے رسول اللہ صلی علی ظلم پر درود بھیجتے ہیں.ایمان والو تم بھی درود پڑھو اور دعا کرو کہ جو رحمتیں اور برکتیں ابراہیم اور ال ابراہیم پر نازل کی تھیں وہی رحمتیں اور برکتیں محمد اور الِ محمد پر بھی نازل ہوں.فرشتوں اور مومنوں کی مانگی ہوئی دعائیں قبول ہوئیں اور آنحضرت صلی علیہ وسلم کی امت میں بھی حضرت ابراہیم کی آل کی طرح اس خدمت منصبی کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے ایک امتی جو روحانیت کی رُو سے آپ صلی ایم کے وجود کا ایک ٹکڑا تھا کھڑا کر دیا.اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو ماموریت کے ساتھ عالمگیر اشاعت اسلام کا فریضہ سونپا اور آپ علیہ السلام سے وہی اقرار لیا جو حضرت محمد مصطفی اسی میری کام سے لیا تھا کہ اپنی تمام تر توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف رکھیں گے : قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الانعام: 163) ترجمه از حضرت مسیح موعود علیه السلام: ”ان کو کہہ دے کہ میری نماز اور میری پرستش میں جدو جہد اور میری قربانیاں اور میرا زندہ رہنا اور میرا مرنا سب خدا کے لیے اور اس کی راہ میں ہے.وہی خدا جو تمام عالموں کا رب ہے.“ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 162) 401

Page 402

حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو آپ صلی الی یوم کے روحانی فرزند، ظلِ کامل اور عاشق صادق تھے اس اقرار کو خوب نبھاتے ہیں: جانم فدا شود بره دین مصطفی این است کام دل اگر آید میترم میری جان محمد مصطف اصلی تعلیم کے دین پر فدا ہو.یہی میرے دل کا مدعا ہے کاش یہ مقصد مجھے مل جائے.آنحضور صلیال نیلم کے مشن کی تکمیل کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ” تکمیل اشاعت ہدایت کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ آنحضرت صلی ملی کام پر جو اتمام نعمت اور اکمال الدین ہوا تو اس کی دو صورتیں ہیں.اول تکمیل ہدایت دوسری تحمیل اشاعت ہدایت.تکمیل ہدایت من كل الوجوہ آپ میلم کی آمد اوّل سے ہوئی اور تکمیل اشاعت ہدایت آپ صلی یی کم کی آمد ثانی سے ہوئی کیونکہ سورۂ جمعہ میں جو آخرین منهم والی آیت آپ کی میلی کیم کے فیض اور تعلیم سے ایک اور قوم کے تیار کرنے کی ہدایت کرتی ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ مالی ایم کی ایک بعثت اور ہے اور یہ بعثت بروزی رنگ میں ہے.جو اس وقت ہو رہی ہے.پس یہ وقت تکمیل اشاعت ہدایت کا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اشاعت کے تمام ذریعے اور سلسلے مکمل ہو رہے ہیں.چھاپہ خانوں کی کثرت اور آئے دن ان میں نئی باتوں کا پیدا ہوناڈا کخانوں، تار برقیوں، ریلوں، جہازوں کا اجرا اور اخبارات کی اشاعت، ان سب امور نے مل ملا کر دنیا کو ایک شہر کے حکم میں کر دیا ہے.پس یہ ترقیاں بھی دراصل آنحضرت صلی علیم کی ہی ترقیاں ہیں کیونکہ اس سے آپ کی تعلیم کی کامل ہدایت کے کمال کا دوسرا جزو تکمیل اشاعت ہدایت پورا ہو رہا ہے.“ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 10) اللہ تعالیٰ نے اپنے نظام اوقات کے مطابق احیائے اسلام کے لئے مبعوث کئے گئے موعود مسیح و مہدی کے لئے آسمان اور زمین سے وہ سارے نشان دکھادئے جو اس کی صداقت کے لئے قرآن و احادیث میں بیان ہوئے تھے.حضرت اقدس علیہ السلام نے بڑے لطیف انداز میں ذکر فرمایا ہے: الله آنحضرت صیام کے دوسرے بعث کی ضرورت ہوئی اور ان تمام خادموں نے جو ریل اور تار اور اگن بوٹ اور مطابع اور احسن انتظام ڈاک اور باہمی زبانوں کا علم اور خاص کر ملک ہند میں اردو نے جو ہندوؤں اور مسلمانوں میں ایک زبان مشترک ہو گئی تھی آنحضرت علی ایم کی خدمت میں بزبان حال درخواست کی کہ یا رسول اللہ! ہم تمام خدام حاضر ہیں اور فرض اشاعت پورا کرنے کے لئے بدل و جان سر گرم ہیں.آپ 402

Page 403

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام تشریف لائیے اور اس اپنے فرض کو پورا کیجئے کیونکہ آپ کا دعوی ہے کہ میں تمام کافہ ناس کے لئے آیا ہوں اور اب یہ وہ وقت ہے کہ آپ ان تمام قوموں کو جو زمین پر رہتی ہیں قرآنی تبلیغ کر سکتے ہیں اور اشاعت کو کمال تک پہنچا سکتے ہیں اور اتمام حجت کے لئے تمام لوگوں میں دلائل حقانیت قرآن پھیلا سکتے ہیں تب آنحضرت صلی اللہ علم کی روحانیت نے جواب دیا کہ دیکھو! میں بروز کے طور پر آتا ہوں.“ (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 262 - 263) حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے کام آپ کے الفاظ میں ”میرا کام یہ ہے کہ آسمانی نشانوں کے ساتھ خدائی توحید کو دنیا میں دوبارہ قائم کروں کیونکہ ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض آسمانی نشان دکھلا کر خدائی عظمت اور طاقت اور قدرت عرب کے بت پرستوں کے دلوں میں قائم کی تھی.سو ایسا ہی مجھے رُوح القدس سے مدد دی گئی ہے.“ (گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 28 - 29) نیز فرمایا: ”مجھے کو اس قرآنی آیت کا الہام ہوا تھا اور وہ یہ ہے.هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدین اللہ اور مجھ کو اس الہام کے یہ معنے سمجھائے گئے تھے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تا میرے ہاتھ سے خدا تعالی اسلام کو تمام دینوں پر غالب کرے.“ تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 231 - 232) اور اس کے لئے اسباب مہیا کرنے کا ذمہ خود خدائے قادرو توانا نے اُٹھایا: ”میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.“ دنیا پکار رہی تھی: اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے (تذکره صفحه 260) امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے سب سے پہلے تو آپ علیہ السلام نے اس چو مکھی روحانی جنگ میں کامیابی کے لئے اللہ تبارک تعالٰی کے حضور دستِ دعا دراز کیا: 403

Page 404

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام ے ارحم الراحمین! جس کام کی اشاعت کے لئے تو نے مجھے مامور کیا ہے اور جس خدمت کے لئے تو نے میرے دل میں جوش ڈالا ہے اس کو اپنے ہی فضل سے انجام تک پہنچا اور اس عاجز کے ہاتھ سے حجت اسلام مخالفین پر اور ان سب پر جو اب تک اسلام کی خوبیوں سے بے خبر ہیں پوری کر.“ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 265 مجھ کو دے اک فوق عادت اے خدا جوش و تپش جس سے ہو جاؤں میں غم میں دیں کے اک دیوانہ وار وہ لگادے آگ میرے دل میں ملت کے لئے شعلے پہنچیں جس کے ہر دم آسماں تک بے شمار (براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 147) آپ علیہ السلام نے اپنی تمام تر توانائیاں خدمت اسلام میں صرف کر دیں.براہین احمدیہ کی تصنیف سے اسلام ثریا سے اُتار لائے اور ہزیمت خوردہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھما دیا.قلم سے جہاد کر کے يضع الحرب کا عملی نمونہ دکھادیا.آپ علیہ السلام کی عربی، فارسی اور اردو زبان میں نظم و نثر میں کتب، اشتہارات اور خطوط کے صفحات جمع کرکے زندگی کے دنوں پر تقسیم کریں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے.یہ تھا جہاد جو اس زمانے میں فرض تھا اور یہ ہے گواہی کہ آپ علیہ السلام نے اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی اصلی ایام کا مشن پورا کرنے کے لئے کتنی سعی کی.ان ساری تحریرات کا مقصد زنده خدا، زندہ قرآن اور زندہ رسول صلی الم سے دنیا کو روشناس کروانا تھا.قلم سے جنگ کر کے جزیہ کا سوال ختم کر دیا.کسر صلیب کرتے ہوئے عیسائیت کے رد میں خم ٹھونک کے میدان میں آئے ثابت کیا کہ خدا واحد ہے لا شریک ہے اور لازوال ہے.حضرت عیسی علیہ السلام میں خدائی صفات نہیں تھیں وہ ایک مقرب نبی تھے.جو آسمان پر نہیں چڑھے قرآن اور حدیث انہیں وفات یافتہ مانتے ہیں آپ علیہ السلام نے عیسی مسیح کے صلیب سے بیچ کر ہندوستان کی طرف سفر کا نہ صرف رستہ دکھا دیا بلکہ مقبرے تک لے گئے.ابنِ مریم مر گیا حق کی قسم داخل جنت ہوا وہ محترم مارتا ہے اُس کو فرقاں سربسر 404

Page 405

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام اُس کے مر جانے کی دیتا ہے خبر وہ نہیں باہر رہا اموات سے ہو گیا ثابت یہ تیس آیات سے (ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 764 مطبوعہ 1891ء) ہندوؤں اور آریوں کو ان کے عقائد کی بے بضاعتی دکھا کر زیر کیا.لامذہب لوگوں کو بھی حق کا راستہ د کھایا.ہر معترض کے آگے دلائل و براہین کے پہاڑ کھڑے کر دیے.علمی برتری پر اتنا اعتماد تھا کہ کئی انعامی چیلنج دیے.مگر کسی کی جرات نہ ہوئی کہ اس شیر نر کے سامنے آسکے.کیونکہ سر راہ پر مولی کریم کھڑا تھا.آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند ہر مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے آپ علیہ السلام ہر مذہب کے مناد کو دعوت دیتے کہ اپنی اپنی مذہبی کتابوں میں وہ خوبیاں دکھاؤ جو قرآن مجید میں موجود ہیں.1893ء میں آپ علیہ السلام نے اپنی کتاب "آئینہ کمالات اسلام“ میں فرمایا: ”اب اگر کوئی سچ کا طالب ہے خواہ وہ ہندو ہے یا عیسائی یا آریہ یا یہودی یا برہمو یا کوئی اور ہے اس کے لیے یہ خوب موقع ہے جو میرے مقابل پر کھڑا ہو جائے.اگر وہ امور غیبیہ کے ظاہر ہونے اور دعاؤں کے قبول ہونے میں میرا مقابلہ کر سکا تو میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اپنی تمام جائیداد غیر منقولہ جو دس ہزار روپیہ کے قریب ہو گی اس کے حوالہ کر دوں گایا جس طور سے اس کی تسلی ہو سکے اُس طور سے تاوان ادا کرنے میں اس کو تسلی دوں گا.“ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 349 - 350) قتل خنزیر کا کام بھی آپ کے ہاتھوں: آپ علیہ السلام نے عیسائیت کے رد میں دلائل کے انبار لگا کر مہدی و مسیح کے بارے میں آنحضرت صلی السلام کی پیشگوئی کے مطابق جنگ لڑی.کسر صلیب اور قتل خنزیر کا فرض ادا کیا.فرماتے ہیں: " مسیح کے نام پر یہ عاجز بھیجا گیا تا صلیبی اعتقاد کو پاش پاش کر دیا جائے.سو میں صلیب کے توڑنے اور 405

Page 406

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام خنزیروں کے قتل کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں.میں آسمان سے اُترا ہوں اُن پاک فرشتوں کے ساتھ جو میرے دائیں بائیں تھے.جن کو میرا خدا جو میرے ساتھ ہے میرے کام کے پورا کرنے کے لئے ہر ایک مستعد دل میں داخل کرے گا بلکہ کر رہا ہے اور اگر میں چپ بھی رہوں اور میری قلم لکھنے سے رُکی بھی رہے تب بھی وہ فرشتے جو میرے ساتھ اُترے ہیں اپنا کام بند نہیں کر سکتے اور اُنکے ہاتھ میں بڑی بڑی گرزیں ہیں جو صلیب توڑنے اور مخلوق پرستی کی ہیکل کچلنے کے لئے دیے گئے ہیں.“ فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 11) اور فرشتوں نے وہ کام کئی دفعہ کیا.حضرت اقدس علیہ السلام نے تحریر فرمایا: میرا اصل کام کسر صلیب ہے سو اُس کے مرنے سے (ڈاکٹر الیگزینڈر ڈوئی....ناقل) ایک بڑا حصہ صلیب کا ٹوٹ گیا.کیونکہ وہ تمام دنیا سے اول درجہ پر حائی صلیب تھا جو پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرتا تھا اور کہتا تھا کہ میری دعا سے تمام مسلمان ہلاک ہو جائیں گے اور اسلام نابود ہو جائے گا اور خانہ کعبہ ویران ہو جائے گا.سو خدا تعالیٰ نے میرے ہاتھ پر اُس کو ہلاک کیا.میں جانتا ہوں کہ اُس کی موت سے پیشگوئی قتل خنزیر والی بڑی صفائی سے پوری ہو گئی.کیونکہ ایسے شخص سے زیادہ خطر ناک کون ہو سکتا ہے کہ جس نے جھوٹے طور پر پیغمبری کا دعوی کیا اور خنزیر کی طرح جھوٹ کی نجاست کھائی اور جیسا کہ وہ خود لکھتا ہے اُس کے ساتھ ایک لاکھ کے قریب ایسے لوگ ہو گئے تھے جو بڑے مالدار تھے بلکہ سچ یہ ہے که مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کا وجود اس کے مقابل پر کچھ بھی چیز نہ تھا.نہ اس کی طرح شہرت اُن کی تھی اور نہ اُس کی طرح کروڑ ہا روپیہ کے وہ مالک تھے.پس میں قسم کھا سکتا ہوں کہ یہ وہی خنزیر تھا جس کے قتل کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ مسیح موعود کے ہاتھ پر مارا جائے گا.“ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 513) ایک انبیائے کرام تخم ریزی کرتے ہیں تدریجاً بڑھاتے چلے جانا اللہ تعالیٰ کا کام ہے.کون تصور کر سکتا تھا کہ سو پندرہ سال بعد آپ کے بعد جاری ہونے والی خلافت کے پانچویں دور میں صیحون میں ایک عظیم الشان مسجد فتح عظیم تعمیر ہو گی جس کا افتتاح سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بنفس نفیس امریکہ تشریف لا کر فرما ئیں گے.ڈوئی کے شہر میں احمد کے غلام کی جے کے فلک شگاف نعرے گونجے اور دوسری طرف ایم ٹی اے کے کار کن گلی محلوں میں لوگوں سے پوچھتے پھرے کیا آپ ڈوئی کو جانتے ہیں؟ تو جواب نفی میں ملا.امریکی میڈیا میں دعا کی جنگ یعنی مباہلہ کی گونج اور ہندی مسیح کی فتح کے 406

Page 407

شادیانے بجے.عیسائیت کا زور ٹوٹ گیا.چرچ بلکنے لگے اور مساجد بننے لگیں.دور آخریں میں تیرو تلوار کی جگہ قلم سے اسلام پر حملے مقدر تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو سلطان القلم بنایا.آپ نے ساری جنگیں چھوٹی سی بستی میں اپنے سادہ سے کمرے میں بیٹھ کر قلم کو دوات میں ڈبو کر لڑیں.صبح شام دن رات سردی گرمی بیماری صحت، غمی خوشی ہر حال میں لکھا، ہر وقت لکھا.حتی کہ کھانے پینے اور حوائج ضروریہ میں وقت لگانا بھی آپ کو دُکھتا تھا.آنحضور صلی الم کے خلاف دشنام طرازی کرنے والوں کو آپ صلی یی کم کی سیرت کا حسن دکھا کر خاموش کیا.آپ علیہ السلام کے رشحات قلم میں آنحضور صلی للی نام کا مقام و مرتبہ اتنے دل نشین انداز میں بیان فرمایا ہے کہ روح وجد میں آجاتی ہے.دنیا میں کہیں بھی ایسا شیریں بیان موجود نہیں.عشق کا عالم دیکھئے! فرماتے ہیں: اگر یہ لوگ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کرتے اور ہمارے جانی اور دلی عزیزوں کو جو دنیا کے عزیز ہیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے اور ہمیں بڑی ذلت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام اموال پر قبضہ کر لیتے تو واللہ ثم و اللہ ہمیں رنج نہ ہوتا اور اس قدر کبھی دل نہ دُکھتا جو ان گالیوں اور اس تو ہین سے جو ہمارے رسول کریم سے کی گئی دُ کھا.“ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 52) اُس نور پر فدا ہوں اُس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے سب ہم نے اُس سے پایا شاہد ہے تو خدایا وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارتیں عطا فرمائی گئیں: ”اے تمام لو گو! سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا.و ہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا.دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.دنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے؟“ (تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 66 - 67) 407

Page 408

ہم مسیح محمدی کے غلام گواہ ہیں کہ آپ نے کمال دیانتداری سے اپنا فرض ادا کیا اور ایسا سلسلہ قائم فرمایا جو حضرت رسول کریم ملی ایم کے مشن کو آگے بڑھا رہا ہے.ہر سال خلیفہ وقت بصد حمد و شکر جماعت کی ترقی کا سال به سال جائزہ پیش کرتے ہوئے اس عزم کو دہراتے ہیں کہ تمام دنیا کو خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا قائل کر کے حضرت محمد رسول اللہ صلی علیم کی غلامی میں لانا ہے اور اس کے لئے ہر قربانی کرنے کے لئے تیار رہنا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری نسلوں کو یہ مقام حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین اللهم آمین.روزنامه الفضل آن لائن لندن 20 جنوری 2023ء) 408

Page 409

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام قسط 49 وصال اکبر اللہ تعالی کی جناب سے وفات کی اطلاع جان نثار عشاق کو اپنے محبوب سے جسمانی جدائی کے لئے تیار کرنے کے لئے مولا کریم نے اپنے محبوب کو پہلے سے وصال کی خبریں دیں.جن سے منشائے الہی کے ماتحت آپ صلی الیم نے اپنے پیاروں کو آگاہ فرمایا.خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر آنحضرت صلی الم نے فرمایا: "اے لو گو لطیف و خبیر خدا نے یہ بتایا ہے کہ ہر نبی کو اس سے پہلے نبی سے نصف عمر ضرور دی جاتی ہے میں خیال کرتا ہوں کہ اب مجھے بلاوا آئے گا تو میں اس کا جواب دوں گا" (موطا كتاب الجامع باب النهي عن القول بالقدر ) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی میڈم نے فرمایا: برائیل مجھے ہر سال ایک دفعہ قرآن کریم سنایا کرتے تھے اس سال انہوں نے دو دفعہ سنایا ہے اور مجھے خبر دی ہے کہ کوئی نبی نہیں گزرا کہ جس کی عمر پہلے نبی سے آدھی نہ ہو اور یہ بھی انہوں نے مجھے خبر دی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ایک سو میں سال تک زندہ رہے اور میں سمجھتا ہوں کہ میری عمر ساٹھ سال کے قریب ہو گی“ (زرقانی شرح مواهب اللدنيه جلد اول صفحہ 76) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ یکم فرمایا کرتے تھے: کسی نبی کی روح اس وقت تک قبض نہیں ہوتی جب تک کہ اسے دنیا اور آخرت کے مابین اختیار نہ دیا جائے یعنی اگر وہ مالک حقیقی کے حضور حاضر ہونا چاہتا ہے تو بھی اسے اختیار ہے اور اگر وہ دنیا میں رہ کر مزید الہی کام سر انجام دینا چاہتا ہے تو بھی اسے اختیار ہے کہ وہ دنیا میں رہ لے.“ (بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی ﷺ) اللہ تعالی نے جب آپ کو اختیار دیا تو آپ نے اپنے رفیق اعلی سے وصل اور دنیوی زندگی سے فراق کو 409

Page 410

پسند فرمایا.ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام الله سة آخری خرچ الله حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی علیہ ہم نے سات دینار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس رکھوائے ہوئے تھے.آخری بیماری میں فرمایا کہ اے عائشہ ! وہ سونا جو تمہارے پاس تھا کیا ہوا؟ عرض کیا میرے پاس ہے.فرمایا صدقہ کر دو.پھر آپ مال لیلی نام پر غشی طاری ہو گئی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کی تعلیم کے ساتھ مصروف ہو گئیں.جب ہوش آئی، پوچھا کہ کیا وہ سونا صدقہ کر دیا؟ عرض کی، ابھی نہیں کیا.چنانچہ آپ صلی علیم نے وہ دینار منگوا کر ہاتھ پر رکھ کر گئے اور فرمایا محمد کا اپنے ربّ پر کیا تو کل ہوا اگر خدا سے ملاقات اور دنیا سے رخصت ہوتے وقت یہ دینار اس کے پاس ہوں.پھر وہ دینار صدقہ کر دیئے اور اسی روز آپ کی وفات ہو گئی.الله سة (مجمع الزوائد للهيثمي جلد 3صفحہ 124 مطبوعہ بیروت) آخری خرچ آپ نے وہ چھ دینار کئے جو لو گوں میں تقسیم کے بعد بیچ رہے تھے.آپ کی ایم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا وہ دینار کہاں ہیں جو بچ گئے تھے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا میرے پاس محفوظ ہیں آپ کی تعلیم نے فرمایا ان کو خرچ کر دو.اس بات کے بعد آپ صلی اللہ ہم پر غشی طاری ہو گئی.کچھ بہتر محسوس فرمایا تو پھر دیناروں کے بارے میں دریافت فرمایا کہ خرچ کردئے گئے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ ابھی نہیں.آپ نے وہ دینار منگوا کر اپنے ہاتھ پر رکھ کر گئے وہ چھ تھے.آپ صلی لی ایم نے فرمایا محمد کا اپنے رب پر کیا تو کل ہوا اگر وہ اس سے اس حال میں ملے کہ اس کے پاس یہ ہوں' آپ نے وہ سب کسی کو دلوادئے تب آپ مای لیم کو اطمینان ہوا.( صحيح ابن حبان ذكر من يستحب للمرء و ابن سعد ) رسول الله صلى ال ملک کی آخری بیماری میں کسی بیوی نے حبشہ کے ایک گرجے کا ذکر کیا جو ماریہ (یعنی حضرت الله سة مریم) کے نام سے موسوم تھا.آپ صلی علی کرم اپنی بیماری کی تکلیف دہ حالت میں بھی خاموش نہ رہ سکے.جوش غیرت توحید میں اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ ” برا ہو ان یہودیوں اور عیسائیوں کا جنہوں نے اپنے نبیوں اور بزرگوں کے مزاروں کو معابد بنالیا.گویا بالفاظ دیگر اپنی وفات کو قریب جانتے ہوئے آپ صلی میں کم بیویوں 410

Page 411

ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ دیکھو میرے بعد توحید پر قائم رہنا اور میری قبر پر سجدہ نہ ہونے دینا.( بخاری کتاب الصلوة باب الصلوة في البيعة 24) فجر کی نماز آخری نماز مؤذن نے فجر کی اذان کہی اور آپ کالی لی نام کو نماز کی اطلاع دی آپ کی ایم نے فرمایا: آخری بیماری میں رسول کریم صلی ال ی م ت محرقہ کے باعث شدید بخار میں مبتلا تھے مگر فکر تھی تو نماز کی.گھبراہٹ کے عالم میں بار بار پوچھتے، کیا نماز کا وقت ہو گیا؟ بتایا گیا کہ لوگ آپ کے منتظر ہیں.بخار ہلکا کرنے کی خاطر فرمایا کہ میرے اوپر پانی کے مشکیزے ڈالو.تعمیل ارشاد ہوئی مگر پھر غشی طاری ہو گئی.ہوش آیا تو پھر پوچھا کہ کیا نماز ہو گئی؟ جب پتہ چلا کہ صحابہ انتظار میں ہیں تو فرمایا ”مجھ پر پانی ڈالو “ جس کی تعمیل کی گئی.غسل سے بخار کچھ کم ہوا تو تیسری مرتبہ نماز پر جانے لگے مگر نقاہت کے باعث نیم غشی کی کیفیت طاری ہو گئی اور آپ مسجد تشریف نہ لے جاسکے.( بخاری کتاب المغازی باب مرض النبي ووفاته 4088 ) آخری نماز حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی امامت ادا فرمائی.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے نماز کی تکبیر کہی.آپ مالی ایم نے نقاہت سے قدرے افاقہ محسوس کیا تو مسجد والے دروازے کے پاس تشریف لے آئے اور اس کا پردہ سر کا کر جھانکا.صحابہ نماز پڑھ رہے تھے.آپ صلی الم نے فرمایا قرة عينی فی الصلوة پھر آپ حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ اور ایک خادم حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کے سہارے مسجد میں تشریف لے آئے.جب آپ کی ی علمی آہستہ آہستہ صفوں تک پہنچے تو نماز کی دوسری رکعت شروع ہو چکی تھی.صحابہ نے آپ صلی ظلم کو دیکھا تو خوش ہو گئے.آپ صل اللہ ہم آگے بڑھ کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹنا چاہا مگر آپ کی تعلیم نے ان کا ہاتھ پکڑ کر ان کو مصلی پر ہی روک دیا اور خود ان کے دائیں جانب کھڑے ہو گئے.پھر آنحضرت صلی ال عالم جلد ہی بیٹھ گئے اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے دوسری رکعت کی تلاوت مکمل کی اور باقی نماز پوری کر کے سلام پھیرا اور نماز ختم کی.آنحضرت صلا ل ہم اپنی رہی ہوئی پہلی رکعت پڑھنے کے بعد نماز ختم کی اور سلام پھیرا.اس کے بعد آپ کی تعلیم اپنے حجرے میں تشریف لے گئے.( بخاری کتاب الاذان ) 411

Page 412

آخری الفاظ روز وصال آنحضرت علی کم پر بار بار غشی طاری ہوتی تھی جب بھی ہوش آتی تو آپ کے لب مبارک ہلتے اور آپ صلی علی رام کچھ نہ کچھ کلام فرماتے.حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس وقت آپ کی ہم پر غرغرہ کی حالت تھی آپ صلی ا یہ کام اس وقت یہ فرما رہے تھے الصلوة و ما ملکت ایمانکم ( ابنِ ماجہ کتاب الوصایا ) نماز اور وہ جو تمہارے زیر نگیں ہیں (ان کا خیال رکھنا ہر گز نہ بھولنا) وقتِ وصال آپ صلی علم کے آخری الفاظ جو آپ صلیا ولی کی زبانِ مبارک سے ادا ہوئے ”فی الرفیق الاعلی بالجنہ“ یعنی میں جنت میں اپنے رفیق اعلی میں جذب ہونا چاہتا ہوں.( بخاری کتاب المغازی باب في مرض النبی ) آپ صلی میری کام کا وصال یکم ربیع الاول 11 ہجری مطابق 26 مئی 632 عیسوی کو ہوا.استفاده سيرة خاتم النبيين حصہ دوم از بادی علی چودھری صفحه 791) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے سفر آخرت کے حالات میں اپنے محبوب صلی الم سے ایمان افروز مماثلت ملاحظہ کیجئے.وفات کے متعلق الہی خبریں اللہ تبارک تعالیٰ نے وقت آخر کی اطلاعیں دیں تا کہ عشاق ذہنی طور پر عارضی جسمانی جدائی کا صدمہ برداشت کرنے کے کسی حد تک قابل ہو جائیں.9 مئی 1908ء کو الہام ہوا تھا.الرحيل ثم الرحيل“.(بدر 28 مئی 1908ء) پھر 17 مئی 1908ء کو الہام ہوا: مکن تکیه بر عمر ناپائیدار" اس کے بعد 20 مئی کو الہام ہوا الرحيل ثم الرحيل والموت“ قریب کوچ کا وقت آ گیا ہے ہاں کوچ کا وقت آگیا ہے اور موت قریب ہے.روانگی سے قبل حضور نے وہ حجرہ بند کیا جس میں آپ آخری عمر میں تصنیف فرمایا کرتے تھے اور فرمایا: 412

Page 413

پیغام ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام ”اب ہم اس کو نہیں کھولیں گے“ صلح حضرت اقدس علیہ السلام کی آخری تصنیف ہے جس میں آپ نے ہندو مسلم اتحاد پر زور دیا.یہ مضمون 25 مئی کی شام کو مکمل کیا.فرمایا ”ہماری آخری کتاب ہے اب جو کچھ ہم نے کرنا تھا کر 25 مئی 1908ء کی رات حضور کی تکلیف اور کمزوری بڑھتی دیکھ کر حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے منہ سے نکلا: یا اللہ یہ کیا ہونے والا ہے“.اس پر حضور نے فرمایا وہی جو میں آپ سے کہا کرتا تھا.یعنی واقعہ وصال کی طرف اشارہ تھا.(سیرت المہدی حصہ دوم صفحہ 406) حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا نے سخت گھبراہٹ کا اظہار کیا اور کہا اب قادیان واپس چلیں.اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا ”اب تو ہم اسی وقت جائیں گے جب خدا لے جائے گا“.آخری خرچ 25 مئی 1908ء کو پیغام صلح مکمل کر کے نماز عصر کے بعد سیر کے لئے باہر تشریف لائے ایک کرائے کی گھوڑا گاڑی حاضر تھی جو فی گھنٹہ مقررہ شرح کرایہ پر منگوائی گئی تھی.آپ نے اپنے ایک نہایت مخلص رفیق شیخ (بھائی) عبد الرحمن قادیانی سے فرمایا اس گاڑی والے سے کہہ دیں اور اچھی طرح سے سمجھا دیں کہ اس وقت ہمارے پاس صرف ایک گھنٹہ کے کرایہ کے پیسے ہیں وہ ہمیں صرف اتنی دور لے جائے کہ ہم اس وقت کے اندراندر ہوا خوری کر کے گھر واپس پہنچ جائیں چنانچہ اس کی تعمیل کی گئی اور آپ تفریح کے طور پر چند میل پھر کر واپس تشریف لے آئے.تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ 335) یہ آخری سرمایہ تھا جو آپ نے وصال سے پہلے خرچ کر لیا.حضرت اماں جان نصرت جہاں بیگم رضی اللہ عنہا نے اپنے بچوں کو مخاطب کر کے فرمایا: 413

Page 414

بچو! گھر خالی دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ تمہارے ابا تمہارے لئے کچھ نہیں چھوڑ گئے انہوں نے آسمان پر تمہارے لئے بڑا بھاری خزانہ چھوڑا ہے جو تمہیں وقت پر ملتا رہے گا“ آخری نماز فجر کی نماز الفضل 19 جنوری 1962ء صفحہ 15) 26 مئی کی صبح آپ کو صرف ایک فکر تھا.فکر تھا تو نماز کا رات بھر طبیعت خراب رہی.جب ذرا روشنی ہو گئی تو حضور علیہ السلام نے پوچھا ”کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے ؟“ عرض کیا گیا ”ہاں حضور ہو گیا ہے.66 اس پر آپ نے بستر پر ہی ہاتھ مار کر تیم کیا اور لیٹے لیٹے نماز شروع کر دی اسی حالت میں تھے کہ غشی سی طاری ہو گئی اور نماز کو پورا نہ کر سکے تھوڑی دیر بعد آپ علیہ السلام نے پھر دریافت فرمایا کہ ”صبح کی نماز کا وقت ہو گیا ہے؟ عرض کیا گیا حضور ہو گیا ہے آپ علیہ السلام نے پھر نیت باندھی مگر...نماز پوری نہ کر سکے.اس وقت آپ علیہ السلام کی حالت سخت کرب اور گھبراہٹ کی تھی.،، (سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 9) حضرت اقدس کے لبوں پہ آخری الفاظ اللہ میرے پیارے اللہ کے الفاظ جاری تھے.ضعف لحظہ بلحظہ بڑھتا جاتا تھا.قریباً ساڑھے دس بجے دو ایک دفعہ لمبے سانس آئے روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی اور خدا کا بر گزیدہ، قرآن کا فدائی، اسلام کا شیدائی، محمد مصطفی صلی الل نظم کا عاشق اور دین محمدی کا فتح نصیب جرنیل جس نے اپنی پوری عمر علمی اور قلمی جہاد کی قیادت میں بسر کی تھی، اپنے اہل بیت اور اپنے عشاق کو سو گوار اور افسردہ چھوڑ کر اپنے آسمانی آقا کے دربار میں حاضر ہو گیا انا للہ و انا الیہ راجعون.وفات کے وقت حضور علیہ السلام کی عمر سوا تہتر سال کے قریب تھی.دن منگل کا اور سشمسی تاریخ 26 مئی 1908ء جو (ڈاکٹر محمد شہید اللہ صاحب پروفیسر راجشاہی یونیورسٹی کی جدید تحقیق کے مطابق آنحضور صلی ال سالم الله 414

Page 415

کا یوم وصال بھی ہے.تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ 541 - 542) وفات کی خبر پر آنحضرت صلی علی ظلم اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے عشاق کی بے یقینی کے عالم میں مماثلت حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں پڑھئے.”آپ کے ساتھ جو محبت آپ کی جماعت کو تھی اس کا حال اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ بہت تھے جو آپ کی نعش مبارک صریحاً اپنی آنکھوں کے سامنے پڑا دیکھتے تھے مگر وہ اس بات کو قبول کرنے کو تو تیار تھے کہ اپنے حواس کو مختلف مان لیں لیکن یہ باور کرنا انہیں نا گوار تھا کہ ان کا حبیب ان سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو گیا ہے..آج سے تیرہ سو سال پہلے ایک شخص جو خاتم النبیین بن کر آیا تھا اس کی وفات پر نہایت سچے دل سے ایک شاعر نے یہ صداقت بھرا شعر کہا تھا کہ: كنت السواد الناظري فعمى على الناظر من شاء بعدك فليمت فعليك كنت احاذر ترجمہ: تو تو میری آنکھ کی پتلی تھا تیری موت سے میری آنکھ اندھی ہو گئی ہے.اب تیرے بعد کوئی پڑا مرا کرے ہمیں اس کی پرواہ نہیں کیو نکہ ہم تو تیری ہی موت سے ڈر رہے تھے.آج تیرہ سو سال بعد اس نبی صلی علی یوم کے ایک غلام کی وفات پر پھر وہی نظارہ چشم فلک نے دیکھا کہ جنہوں نے اسے پہچان لیا تھا ان کا یہ حال تھا کہ دنیا ان کی نظروں میں حقیر ہو گئی تھی اور ان کی تمام تر خوشی اگلے جہان میں چلی گئی تھی...خواہ صدی بھی گزر جائے مگر وہ دن ان کو کبھی نہیں بھول سکتے جبکہ خدا تعالی کا پیارا رسول ان کے درمیان چلتا پھرتا تھا.“ (سیرت حضرت مسیح موعود از حضرت خلیفۃ المسیح ثانی صفحہ 58 - 59) اپنے آقا و مطاع عصای لی ایم کے نقوش قدم سے غیر معمولی مشابہت کو سچائی کے نشان کے طور پر پیش کرتے ہوئے آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: کہ میری سچائی کے نشانات میں سے ایک نشان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے رسول کی اتباع اور پیروی کی توفیق دی ہے.میں نے آثار نبویہ میں سے کوئی اثر نہیں دیکھا مگر میں نے اس کی پیروی کی ہے اور مشکلات کے ہر پہاڑ کو سر کیا ہے اور میرے رب نے مجھے ان لوگوں کے ساتھ ملا دیا ہے جن پر اس نے 415

Page 416

اپنے انعامات کئے ہیں.(ترجمه از آئینه و کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 483) صاحبزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ سیرت المہدی میں ایک اور مماثلت تحریر فرماتے ہیں: ”حدیث شریف میں آتا ہے کہ مرض موت میں آنحضرت صلی علیم بھی سخت کرب تھا اور نہایت درجہ بے چینی اور گھبراہٹ اور تکلیف کی حالت تھی اور ہم نے دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی بوقت وفات قریباً ایسا ہی حال تھا.یہ بات ناواقف لوگوں کے لئے موجب تعجب ہو گی کیونکہ دوسری طرف سنتے اور دیکھتے ہیں کہ صوفیا اور اولیاء کی وفات نہایت اطمینان اور سکون کی حالت میں ہوتی ہے.سو وہ یہ در اصل بات یہ ہے کہ نبی جب فوت ہونے لگتا ہے تو اپنی امت کے متعلق اپنی تمام ذمہ داریاں اس کے سامنے ہو تی ہیں اور ان کے مستقبل کا فکر مزید برآں اسکے دامن گیر ہو تا ہے.تمام دنیا سے بڑھ کر اس بات کو نبی جانتا اور سمجھتا ہے کہ موت ایک دروازہ ہے جس سے گزر کر انسان نے خدا کے سامنے کھڑا ہونا ہے پس موت کی آمد جہاں اس لحاظ سے اس کو مسرور کرتی ہے کہ وصال محبوب کا وقت قریب آن پہنچا ہے وہاں اس کی عظیم الشان ذمہ داریوں کا احساس اور اپنی امت کے متعلق آئندہ کا فکر اسے غیر معمولی کرب میں مبتلا کر دیتے ہیں مگر صوفیا اور اولیاء ان فکروں سے آزاد ہو تے ہیں.ان پر صرف ان کے نفس کا بار ہوتا ہے مگر نبیوں پر ہزاروں لاکھوں کروڑوں انسانوں کا بار.پس فرق ظاہر ہے“ (سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 11 - 12) ڈاکٹر بشارت احمد صاحب (غیر مبائع) اپنی مشہور تصنیف مجد اعظم جلد دوم میں لکھتے ہیں.گرمی کا موسم تھا.حضرت اقدس بمعہ بیوی صاحبہ کے عموماً شام کو فٹن یا بند گاڑی میں بیٹھ کر سیر کو جایا کرتے تھے.25 مئی 1908ء کی شام کو بھی تشریف لے گئے مگر چہرہ اداس تھا.کسی نے عرض کیا کہ حضور آج اداس نظر آتے ہیں.فرمانے لگے ”ہاں میری حالت اُس ماں کی طرح ہے جس کا بچہ ابھی چھوٹا ہو اور اپنے تئیں سنبھال نہ سکتا ہو اور وہ اُسے چھوڑ کر رخصت ہو رہی ہو.“ اے خدا بر تربت او بارشِ رحمت با ببار داخلش کن از کمال فضل در بیت النعیم (الفضل 26 مئی 2020ء) روزنامه الفضل آن لائن لندن 27 جنوری 2023ء) 416

Page 417

Page 418

.قسط 1 - عاجزانہ راہیں مضامین کے لنکس https://www.alfazlonline.org/09/11/2021/47699/.قسط 2 - غیر مسلم عادل حکومت کی پناہ اور تعریف https://www.alfazlonline.org/19/11/2021/48297/.قسط 3 - نُصِرْتُ بالرُّعْبِ https://www.alfazlonline.org/27/11/2021/48784/.قسط 4 - خدا کی قسم وہ نبی ہے • https://www.alfazlonline.org/10/12/2021/49561/ قسط 5 - تبلیغ اسلام کے لیے سفر اور تکالیف اٹھانا https://www.alfazlonline.org/01/01/2022/51082/.قسط 6 - دعا سے باران رحمت https://www.alfazlonline.org/21/01/2023/77200/ • ، قسط 7 - قرآن پاک سننے کا شوق https://www.alfazlonline.org/07/01/2022/51437/.قسط 8 - ناصر دین کے لئے دعا کی قبولیت https://www.alfazlonline.org/14/01/2022/52230/ 418

Page 419

.قسط 9 - انداز نشست میں عمومیت https://www.alfazlonline.org/21/01/2022/52719/.قسط 10 - خوراک کی سادگی https://www.alfazlonline.org/28/01/2022/53229/.قسط 11 - رہائش کی سادگی https://www.alfazlonline.org/04/02/2022/53668/.قسط 12 - قیصر ، آتھم اور کسر گئی، لیکھرام“ https://www.alfazlonline.org/11/02/2022/54082/.قط 13 - کھانے میں برکت https://www.alfazlonline.org/25/02/2022/55086/.قسط 14 - اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے پیاروں کی خود حفاظت فرماتا ہے https://www.alfazlonline.org/04/03/2022/55508/.قسط 15 - پانچ نہایت نازک پر خطر مواقع https://www.alfazlonline.org/11/03/2022/56046/.قسط 16 - وطن سے محبت https://www.alfazlonline.org/18/03/2022/56626/.قسط 17 - خلوت پسندی https://www.alfazlonline.org/01/04/2022/57671/ 419

Page 420

.قسط 18 - آنحضرت اور حضرت مسیح موعود کی روزے سے محبت https://www.alfazlonline.org/08/04/2022/58108/.قسط 19 - میں نے یہ تو نہیں کہا تھا https://www.alfazlonline.org/15/04/2022/58761/.قسط 20 - قیصر اور قیصرہ https://www.alfazlonline.org/22/04/2022/59532/.قسط 21 - قبولیت دعا https://www.alfazlonline.org/29/04/2022/59962/.قسط 22 - شمس و قمر کی گواہی https://www.alfazlonline.org/13/05/2022/60701/.قسط 23 - فصاحت بلاغت کا ایک الہی نشان https://www.alfazlonline.org/20/05/2022/61117/ https://www.alfazlonline.org/03/06/2022/62011/.قسط 24 - کیفیت نماز.قسط 25 - توکل علی اللہ تعالیٰ https://www.alfazlonline.org/10/06/2022/62403/.قسط 26 - دشمنوں کی خیر خواہی https://www.alfazlonline.org/17/06/2022/62858/ 420

Page 421

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام.قسط 27 - کوئی دن منحوس نہیں ہوتا https://www.alfazlonline.org/24/06/2022/63288/.قسط 28 - يا بدرنا يا آية الرحمن https://www.alfazlonline.org/01/07/2022/63785/.قسط 29 - میاں بیوی کا رشتہ، پیار محبت اور احساس کا سچا رشتہ https://www.alfazlonline.org/08/07/2022/64186/.قسط 30 - جانوروں اور پرندوں کے لئے رحمت https://www.alfazlonline.org/15/07/2022/64593/.قسط 31 - خادموں اور ملازموں سے حسن سلوک https://www.alfazlonline.org/22/07/2022/65055/.قسط 32 - دعاؤں میں گداز اور گریہ و زاری https://www.alfazlonline.org/12/08/2022/66322/.قسط 33 - دعوئی سے پہلے کی پاکیزہ زندگی https://www.alfazlonline.org/19/08/2022/66754/.قط 34 - طنز و مزاح میں شگفتگی https://www.alfazlonline.org/26/08/2022/67140/.قسط 35 - والدین کے احترام کی تلقین اور عمل https://www.alfazlonline.org/02/09/2022/67527/ 421

Page 422

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام.قسط 36 - حسن اخلاق کی باتیں https://www.alfazlonline.org/09/09/2022/67953/.قسط 37 - دین میں جبر نہیں https://www.alfazlonline.org/16/09/2022/68379/.قسط 38 - بیٹیوں سے پیار، محبت اور اکرام https://www.alfazlonline.org/23/09/2022/68813/.قسط 39 - گالیاں سن کے دعا دو پا کے دکھ آرام دو“ https://www.alfazlonline.org/14/10/2022/70353/.قسط 40 - سچائی، راستبازی، صداقت شعاری https://www.alfazlonline.org/21/10/2022/70821/.قسط 41 - آسمانی تعلیم و تربیت https://www.alfazlonline.org/28/10/2022/71289/.قسط 42 - دل اور آنکھ کی پاکیزگی https://www.alfazlonline.org/04/11/2022/71839/.قسط 43 - امن عالم کی ضمانت پڑوسی کے حقوق https://www.alfazlonline.org/18/11/2022/72766/.قسط 44 - محمد ہی نام اور محمد ہی کام – عليك الصلوة عليك السلام https://www.alfazlonline.org/02/12/2022/73889/ 422

Page 423

.قسط 45 - بر تر گمان و وہم سے احمد کی شان ہے.جس کا غلام دیکھو! مسیح الزمان ہے https://www.alfazlonline.org/31/12/2022/75790/.قسط 46 - اکرام ضيف https://www.alfazlonline.org/06/01/2023/76436/ قسط 47 - محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں https://www.alfazlonline.org/13/01/2023/76766/ قسط 48 - تکمیل ہدایت.تکمیل اشاعت ہدایت https://www.alfazlonline.org/20/01/2023/77119/.قسط 49 - وصال اکبر https://www.alfazlonline.org/27/01/2023/77625/ 423

Page 424

قُلْ إِنَّ الْفَضْلِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَالله وَاسِعٌ عَلِيمٌ ) روزنامه م (آل عمران: 74) الفَضْل مدير ابوسعيد ادارہ الفضل آن لائن کی کتب اسلامی اصطلاحات کا بر محل استعمال ارشادات حضرت مسیح موعود بابت مختلف ممالک و شہر لندن جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں خلافت خامسہ کا عظیم الشان کردار اور معیت الہی ارشادات نور کتاب تعلیم ذیلی تنظیموں کا تعارف اور ان کے مقاصد مجددین اسلام - تعارف و کار ہائے نمایاں میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا جماعت احمدیہ کا نظام خلافت 424.1.2.3.4.5.6.7.8.9

Page 425

.10.11.12 اداریے (حنیف محمود کے قلم سے) جلد اول حیات نور الدین دعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے 13 قرآنی انبیاء 14 معلمین وقف جدید کے لئے مشعل راہ.15.16.17.18.19.20 به به جامع المناهج والاساليب مقام و عظمت خلافت اداریے (حنیف محمود کو قلم سے) جلد دوم الفضل کی اہمیت، افادیت اور قلم کے استعمال کی ترغیب مسر ناصر کی کہانی، مسٹر ناصر کی زبانی واقعہ افک اداریے (حنیف محمود کو قلم سے) جلد سوم.22 قرآنی سورتوں کا تعارف.23 سیدنا حضرت امیر المومنین کا دورہ امریکہ 2022ء 24 ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام اداریہ جات ماہ رمضان (زیر تکمیل) لجنہ اماءاللہ کے سو سال (زیر تکمیل).25 222222.26.27 اداریے بلحاظ ترتیب مضامین جلد اول زیر 28 بچوں کی تقاریر از فرخ شاد (زیر تکمیل) ہجری شمسی مہینوں کا تعارف (زیر تکمیل).29 29 کمیل) 425

Page 426

Page 426