Language: UR
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (القرآن) اوران سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو راکھا ایک اچھے خاوند کی خصوصیات ، عورت اور مرد میں مساوات اور اُن کے حقوق و فرائض مقصود احمد علوی شائع کردہ شعبہ رشتہ ناطہ جماعت احمد یہ جرمنی
نام کتاب راکھا مقصود احمد علوی سن اشاعت $2011 تعداد پانچ ہزار (5000) کمپوزنگ ناشر مقصوداحمد علوی شعبہ رشتہ ناطہ جماعت احمد یہ جرمنی Fuldaer Verlagsanstalt GmbH & Co.KG: له 2
بسم الله الرحمن الحيم سیاس تشکر یورپ کے مخصوص معاشرتی حالات کے پس منظر میں ایک عرصہ سے اس بات کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ قرآن وسنت کی روشنی میں میاں بیوی کے حقوق وفرائض کے بارے میں اسلامی تعلیمات کو کتابی صورت میں یکجا کر کے تمام احمدی گھرانوں تک پہنچایا جائے.لہذا مجلس شوری منعقدہ 2007 کے موقع پر اس ضرورت کو نہ صرف تسلیم کیا گیا بلکہ تجویز کیا گیا کہ اس پر عمل درآمد کیا جائے.شعبہ رشتہ ناطہ نے جب اس سلسلے میں اپنی کوششوں کا آغاز کیا تو معلوم ہوا کہ مکرم مقصود احمد علوی صاحب نے راکھا‘ نام سے اسی موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے.چونکہ مسو دے میں معمولی ردو بدل کے بعد یہ کتاب مندرجہ بالا معیار کے مطابق ڈھالی جا سکتی تھی لہذا مکرم علوی صاحب کی خدمت میں شعبہ رشتہ ناطہ کی طرف سے شائع کئے جانے کی خواہش کا اظہار کیا گیا.ہماری درخواست قبول کرتے ہوئے مناسب تبدیلیوں کے بعد انہوں نے یہ کتاب طباعت کی منظوری کے لئے ایڈیشنل وکیل التصنیف صاحب لنڈن کی خدمت میں بھجوا دی.طباعت کی منظوری کی اطلاع جنوری 2009 میں موصول ہوئی.الحمد للہ.اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ہے کہ کتاب کی افادیت کے پیش نظر بغیر قیمت کے ہر گھر میں پہنچانے کے لئے شعبہ رشتہ ناطہ جرمنی اسے شائع کرنے کی توفیق پارہا ہے.الحمد للہ.اس سلسلہ میں ہم مکرم امیر صاحب جرمنی کے بھر پور تعاون کے بے حد مشکور ہیں اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں 3
بہترین جزا عطا فرمائے.اسی طرح خصوصی طور پر مکرم مقصوداحمد علوی صاحب کے لئے دعا کی درخواست کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے علم و عرفان میں برکت عطا فرمائے.آمین.نیز ان تمام کارکنان کو بھی اپنی دعاؤں میں یا درکھیں جنہوں نے کسی نہ کسی رنگ میں اس پروجیکٹ کی کامیابی میں اپنا کردار ادا کیا ہے.اللہ کرے کہ ہم سب اس کتاب میں درج اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمارے گھروں کو امن اور پیار و محبت کا گہوارہ بنادے اور ہمیں ہمارے ساتھیوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب ہو.آمین.خاکسار طاہر محمود نیشنل سکریٹری رشتہ ناطہ جرمنی 03.05.2011 4
بسم الله الرحمن الرحيم.نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود عرض حال دجالی فتنہ مغربی تہذیب کی شکل میں نہ صرف دُنیا کا امن وسکون برباد کر نے میں مصروف ہے بلکہ اسلامی تمدن پر بھی حملہ آور ہے.ان حملوں کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس نے حقوق نسواں کی بحالی کے نام پر مرد و عورت میں ہر پہلو سے مساوات کا غیر فطری فارمولہ ایجاد کر کے عورتوں کو مردوں کے مقابل پر کھڑا کر دیا ہے.اس کے لازمی نتیجے کے طور پر خصوصاً مغربی دنیا میں نہ صرف گھریلو امن تباہ ہو چکا ہے بلکہ بے حیائی اور جنسی بے راہ روی کا گویا ایک دریا بہ رہا ہے.افسوس اس بات کا ہے کہ شرم و حیاء سے عاری اس معاشرے کی نام نہاد آزادی سے ان ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کا بھی ایک طبقہ متاثر ہو کر اسلامی اقدار کو خیر باد کہتا نظر آتا ہے.اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے گھروں کا امن بھی برباد ہونا شروع ہو گیا ہے اور گھر ٹوٹنے کی شرح میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے.اس صورتِ حال میں ضروری ہے کہ ہم اسلامی اقدار کے دفاع کیلئے سینہ سپر ہو جائیں اور اسلامی تعلیمات کی فلاسفی ، اہمیت ، ضرورت اور افادیت کو بار بار لوگوں کے سامنے پیش کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خلفاء کا پاکیزہ عمل اور ارشادات نہ صرف خود ہمارے لئے مشعل راہ ہیں بلکہ بالخصوص دجالی فتنوں کے مقابلے کیلئے بہترین ہتھیار بھی ہیں.خاکسار کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اِن روحانی خزائن کی روشنی میں گھر یلوزندگی کے حوالے سے اسلامی تعلیمات پر مبنی ایک تفصیلی مضمون لکھ کر اخبار میں شائع 5
کرنے کیلئے بھجوایا جائے.چونکہ اسلامی ضابطہ حیات میں اللہ تعالیٰ نے مردکو گھر کا نگران اور ذمہ دار مقرر کیا ہے اس لئے گھریلو زندگی کے خوشگوار اور پر امن رہنے کا زیادہ تر انحصار اس امر پر ہے کہ گھر کا نگران کس حد تک اپنے فرائض اللہ اور رسول ﷺ کی ہدایات کے مطابق ادا کرتا ہے.چنانچہ اس نظریے کے پیش نظر خاکسار نے راکھا“ کے عنوان سے مضمون لکھنا شروع کیا لیکن جلد ہی احساس ہو گیا کہ اس موضوع کا حق محض ایک مضمون سے ادا کرنا مشکل ہے.بہر حال مضمون پھیلتا چلا گیا اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسے کتابی شکل میں پیش کرنے کی توفیق مل رہی ہے.الحمد للہ علی ذالک.را کھا اردو لفظ تو نہیں لیکن آج ضرورت اس امر کی ہے کہ قوام کے اہلِ خانہ کے ذمہ دار، محافظ اور رکھوالا ہونے کے پہلو کو زیادہ اجاگر کر کے پیش کیا جائے.کتاب کے مضمون کا مزاج بھی یہی ہے اور اس مفہوم کو یہ لفظ خوب ادا کرتا ہے.خاکسار کے نزدیک ایک پنجابی لفظ اگر عام فہم ہو، مفہوم ادا کرتا ہو اور توجہ کا باعث بھی ہو تو اُسے اُردو تحریر میں استعمال کر لینے میں کوئی حرج نہیں.اس مضمون کا ٹائپ شدہ مسودہ مکرم محمد الیاس منیر صاحب اور مکرم محمد احمد راشد صاحب، مربیان سلسلہ عالیہ احمدیہ نے پڑھ کر اپنے قیمتی مشوروں سے نوازا.محترم راجہ محمد یوسف خان صاحب، نیشنل سیکریٹری امور خارجہ جرمنی اور محترم رستم حیات صاحب آف جماعت بالنکن نے بھی اسے بڑی توجہ سے ملاحظہ کیا اور اس کی نوک پلک سنوارنے کے علاوہ بیش قیمت مشورے بھی دیئے.خاکسار ان سب احباب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ انہیں اس کی بہترین جزاء عطا فرمائے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ خاکسار کی اس حقیر کوشش کو قبول فرمائے ، ہماری رہنمائی فرمائے اور ہمیں اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ ہمارے گھر امن و سکون کا گہوارہ بن کر ہمارا معاشرہ ارضی جنت کا نظارہ پیش کرتا رہے.آمین.مقصود احمد علوی ، ۱۹ دسمبر ۲۰۰۶، جرمنی 6
پیش لفظ ( شمشاد احمد قمر مربی سلسلہ پرنسپل جامعہ احمد یہ جرمنی) دنیا کے ہر معاشرے میں عائلی مسائل موجود ہیں جو بعض اوقات گھروں کے ٹوٹنے کا باعث بنتے ہیں اور گھر یلو زندگی کا امن وسکون برباد ہوکر رہ جاتا ہے.اس صورتِ حال کے بعض محرکات تو ہر معاشرے میں مشترک ہوتے ہیں جبکہ بعض دوسروں کی نوعیت مخصوص معاشرتی صورتِ حال کی وجہ سے مختلف ہوتی ہے.عائلی زندگی کے حوالے سے مغربی دنیا کا طرزِ زندگی مشرق سے بہت مختلف ہے اور مغرب میں لوگوں کو کئی ایسے مسائل کا سامنا بھی ہے جن کا مشرق میں کوئی وجود نہیں.مثال کے طور پر مرد اور عورت میں ہر پہلو اور ہر جہت سے برابری کے غیر فطری نعرے نے اس معاشرہ میں ایسی فضا قائم کر رکھی ہے کہ جس کے نتیجے میں شرم وحیا کا فقدان ، جنسی بے راہ روی ، بغیر شادی کے میاں بیوی کے طور پر اکٹھے رہنا اور گھروں کے ٹوٹنے کی شرح میں بے پناہ اضافہ جیسے مسائل اور پھر ان کے قدرتی نتائج نے گھریلو زندگی کے امن کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے.اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور اس کی تعلیمات میں زندگی کے ہر شعبے کیلئے رہنمائی موجود ہے.اسلام مرد اور عورت میں کسی غیر فطری برابری کا قائل نہیں بلکہ اُن کی اصناف کے تقاضوں کے عین مطابق اُن کے حقوق و فرائض متعین کرتا اور طرزِ زندگی اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے.ضرورت ہے تو اس امر کی کہ قانونِ فطرت کو سمجھا جائے اور مرد اور عورت ایک دوسرے کے دائرہ کار میں دخل اندازی کی بجائے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کی گئی صلاحیتوں کے مطابق اپنے اپنے فرائض ادا کریں.یہی وہ واحد طریق ہے جس پر عمل کے نتیجے میں گھر یلو امن کے قیام میں مددمل سکتی ہے.7
اسلامی تعلیمات کی رو سے مرد کو گھر کے یونٹ میں نگران مقرر کیا گیا ہے.اس کتاب کے مصنف مکرم مقصود احمد علوی صاحب نے نگران کا ترجمہ ” کیا ہے جو ایک پنجابی لفظ ہے.کتاب کا بھی انہوں نے یہی نام رکھا ہے اور اس کی وجہ بھی خود ہی عرض حال میں بیان کر دی ہے.اگر کسی گھر کا اپنی خدا داد صلاحتیوں کو بروئے کار لا کر اپنے فرائض صحیح طور سے ادا کرتا ہے تو امید کی جاتی ہے کہ اُس گھر کے معاملات کامیابی کے ساتھ درست سمت میں چلیں گے.اس لئے یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ گھریلو زندگی کی کامیابی کا زیادہ تر دارو مدار گھر کے راکھے کے درست طرز عمل پر ہے.اسلامی تعلیمات کی یہ خوبی اسے دیگر مذاہب سے ممتاز کرتی ہے کہ اس کے ہر حکم کے ساتھ اس کی حکمت بھی بیان کر دی گئی ہے.گھر میں خاوند کو نگران مقرر کئے جانے کی وجوہات بھی اسلام نے بیان کی ہوئی ہیں جو قوانین فطرت کے عین مطابق ہیں.مصنف نے مرد اور عورت میں مساوات اور مرد کو گھر کا نگران مقرر کئے جانے کی حکمت پر سیر حاصل بحث کی ہے.مثال کے طور پر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مرد اور عورت کے فرائض کی مختلف نوعیت اُن میں بعض مختلف قسم کی قوتوں اور صلاحیتوں کے پائے جانے کی وجہ سے ہے.مرد سے قوت افاضہ کا ظہور ہوتا ہے جبکہ عورت میں قوت استفاضہ پائی جاتی ہے.یہ ایسی مدلل اور دلچسپ بحث ہے کہ قاری اسلامی تعلیمات کی حقانیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا.کتاب میں ایک اچھے خاوند کی خصوصیات اور اُس کے فرائض قرآن وسنت اور ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام وخلفائے احمدیت کی روشنی میں بڑی شرح وبسط سے بیان کئے گئے ہیں اور خاوند کو حاکم کی بجائے ایک ایسے ذمہ دار راکھے یعنی محافظ اور سر پرست کے طور پر پیش کیا گیا جو نہایت شفیق اور مہربان ہے.اس کے بعد ایک الگ باب میں بیوی کے فرائض کا تفصیلی بیان ہے جو ظاہر ہے خاوند کے حقوق ہیں.ہر دو قسم کے فرائض کے مطالعہ کے دوران 8
ایک خاوند جہاں ایک طرف خود پر ذمہ داریوں اور جوابدہی کا بوجھ محسوس کرتا ہے تو دوسری طرف اُسے یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ اُس کی بیوی کوئی ملازمہ یا با ندھی نہیں بلکہ اُس کی شریک حیات اور ہمسفر ہے اور گھریلو زندگی کی گاڑی کو کامیابی سے منزل کی طرف گامزن رکھنے میں اُس کا بھی نہایت اہم کردار ہے.اسی طرح بیوی میں جہاں ایک طرف ایک صابرہ، قانتہ اور گھریلو امور کی حفاظت کرنے والی خاتون کا احساس بیدار ہوتا ہے تو دوسری طرف اُسے اپنے اصل مقام اور ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ پیدا ہوتی ہے.ایک نہایت دلچسپ اور اہم باب اس کتاب میں کریں نہ کریں“ کا بھی ہے جس کی تفصیلی فہرست میں خاوند اور بیوی دونوں کو بعض امور کے کرنے اور بعض سے اجتناب کا مشورہ دیا گیا ہے جو پڑھنے والوں کیلئے ناصرف دلچسپی کا موجب ہو گا بلکہ معمولات زندگی میں مثبت تبدیلیاں لانے میں بھی اس سے مدد ملے گی.اس کے بعد کتاب میں ایک مضمون ” چادر بھی شامل ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بیوی کیلئے اُس کا خاوند بمنزلہ چادر کے ہوتا ہے.کوشش کرنی چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو یہ چادرسر سے نہ اتر نے پائے.یہ مضمون خاص طور پر اُن خواتین کو دعوت فکر دیتا ہے جو مغرب کی بعض عورتوں کے طرز عمل سے متاثر ہو جاتی ہیں.کتاب حرف آخر پر ختم ہوتی ہے جس میں مضمون کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے.یہ کتاب خاوندوں اور بیویوں کیلئے یکساں مفید اور وقت کی ایک اہم ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ مصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اس کے نیک ثمرات پیدا فرمائے اور اللہ کرے کہ ہم اسلامی تعلیمات کی روح کو سمجھتے ہوئے ان پر عمل کر کے اپنے گھروں کو جنت بنانے والے ہوں.آمین.شمشاداحمد قمر مربی سلسله 9
صفحہ نمبر 12 18 35 39 49 49 62 68 الله له له 73 76 79 84 86 90 99 102 فہرست مضامین نمبر شمار عنوان را کھے کی خصوصیات 1 2 مساوات 3 گھر کا 4 مخصوص فطری تقاضے 5 گھر کے راکھے کے فرائض 6 جیون ساتھی کا انتخاب 7 حق مہر کی ادائیگی 8 قوام ہونے کے تقاضے 9 کنبے کی کفالت کی ذمہ داری کھیتی کی حقیقت 10 11 عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوف 12.مرد کی نیکی پہچاننے کا پیمانہ 13 - نیک نمونه 14.سخت گوئی اور زدوکوب پر پابندی 15 - لطف اور نرمی کا برتاؤ 16.ماں کہ بیوی 10
108 114 124 126 137 142 145 148 150 151 156 156 158 161 163 165 170 179 11 17 تعد دازدواج اور عدل 18 تربیت اولاد میں نگران کا کردار 19 کام کاج میں مدد 20 طلاق کی صورت میں حُسنِ 21 حُسنِ سلوک بعد از وفات 22 راکھے کے حقوق 23 لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا 24 اللہ تعالیٰ کا مظہر 25 بہترین سامانِ زیست 26 صالحہ، فرمانبردار اور محافظ 28 خاوند کے والدین سے حسن سلوک تعد دازدواج 29 د یتیم خاوند 30 برابر کا بدلہ 31 ایک ماں کی نصیحت 32 چادر 33 کریں نہ کریں 34 حرف آخر
را کھے کی خصوصیات رکھوالی یا نگرانی کرنے والے کو کہتے ہیں.حقیقت میں تو اللہ تعالیٰ ہی سب کا ہے لیکن زندگی کے مختلف شعبوں میں انسان بھی محدود دائرے میں رکھوالی کرتا ہے.مثال کے طور پر پہریدار یا چوکیدار لوگوں کے گھروں اور املاک کی رکھوالی کرتا ہے.باغبان باغ کی رکھوالی کرتا ہے.پولیس مین بھی رکھوالی کے فرائض سرانجام دیتا ہے اور ایک فوجی بھی اپنے ملک کی سرحدوں کی رکھوالی کرتا ہے.حفاظت یا رکھوالی کی نوعیت کی مناسبت سے راکھے میں صلاحیتوں کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے.مثلاً ایک باغبان کے لئے ضروری ہے کہ اُسے نہ صرف پودوں کی واقفیت ہو بلکہ اُن کے بیجوں ، انہیں بونے اور پھل دینے کے موسموں، اُن کی ممکنہ بیماریوں اور علاج اور اُن پر سردی گرمی کے اثرات وغیرہ کا بھی پورا علم ہو.سرحدوں کی رکھوالی کرنے والے میں بھی بعض مخصوص صلاحتیوں کا ہونا از بس ضروری ہے ورنہ وہ اپنا فرض ادا نہیں کر سکے گا.ٹانگوں سے اپاہج آدمی کسی دفتر میں کلرک کے فرائض تو سر انجام دے سکتا ہے مگر سرحدوں کی رکھوالی نہیں کر سکتا.اسی لئے کسی لنگڑے، یک چشم ، ہاتھ سے معذور یا دل کے مریض کو پہریدار مقرر نہیں کیا جاتا اور نہ ہی پولیس یا فوج میں بھرتی کیا جاتا ہے.دُنیا بھر میں رکھوالی کے فرائض بالعموم مردوں کے ہی سپر د کئے جاتے ہیں.ایسا اس لئے ہے کہ مردوں میں اللہ تعالیٰ نے بعض ایسی مخصوص صلاحیتیں رکھ دی ہیں جو ان فرائض کی انجام دہی کیلئے ضروری ہیں.جسمانی طاقت، حوصلہ، برداشت ، جرأت ،قوتِ فیصله، خطرناک صورتِ حال اور آفات کا مقابلہ کر سکنے کی صلاحیتیں رکھوالی کے لئے ضروری ہیں اور یہ بحیثیت مجموعی 12
مردوں میں زیادہ پائی جاتی ہیں.اسی طرح کئی ظاہری اور باطنی قومی اور صلاحیتیوں کی بناء پر نبوت، خلافت اور امامت کے مناصب بھی مردوں کیلئے مخصوص ہیں.اسی طرح ولایت کے مختلف مدارج اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں غیر معمولی مجاہدات اور مخالفتوں کے طوفانوں کے سامنے سینہ سپر ہونے اور مقاصد کی تکمیل کیلئے پہاڑوں جیسی استقامت، جرات مندانہ قیادت اور عوام الناس کیلئے ذاتی نیک نمونہ دکھانے کیلئے اکثر مر دوں کو ہی میدانِ عمل میں دیکھا جاتا ہے.دراصل انسانی معاشرتی زندگی کے انتظامات کو احسن رنگ میں چلانے کیلئے دُنیا بھر میں تقسیم کار کے اصول پر عمل ہوتا ہے.کسی بھی انسان میں ہر قسم کی صلاحیتیں نہیں ہوتیں اور نہ ہی وہ اپنی ہر طرح کی ضروریات خود ا کیلا پوری کر سکتا ہے.دُنیا میں سینکڑوں ہزاروں قسم کے کام ہیں جن کیلئے مختلف قسم کی صلاحتیوں اور ماحول کی ضرورت ہوتی ہے اور انہیں مختلف لوگ سرانجام دیتے ہیں.اس طرح ہر انسان کسی نہ کسی رنگ میں دوسرے کا محتاج ہے.اس میں ادنی اور اعلیٰ کا کسی قسم کا کوئی سوال نہیں بلکہ یہ قسیم کار کا اصول ہے جس پر انتظامات دُنیا کا دارو مدار ہے.اسی اصول کا تقاضا تھا کہ عورت اور مرد کی صلاحیتیں اور قوی بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے.یہی وجہ ہے کہ حکیم مطلق نے ان کو ایک دوسرے سے کئی پہلوؤں سے مختلف بنایا ہے.دونوں کی صلاحتیوں اور قوتوں میں جو فرق آج ہمیں نظر آتے ہیں وہ ان کی اصناف مختلف ذمہ داریوں اور ارتقائی مراحل میں پیش آمدہ صورتِ حال کے اثرات کی وجہ سے ہیں ورنہ دونوں کی پیدائش ایک ہی جنس سے ہوئی ہے اور اس پہلو سے ان میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں.قرآنِ پاک میں زندگی کے ابتدائی ادوار کا بھی بڑی تفصیل سے ذکر ملتا ہے لیکن اُن تفاصیل کو چھوڑتے ہوئے یہاں صرف انسانی زندگی کے اُس دور کا مختصر اذکر کیا جاتا ہے جس میں نر اور مادہ کے ملاپ سے انسانی نسل کے پھیلاؤ کا نظام جاری ہوا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: 13
يَا يُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيراً وَنِسَاءً : ( النساء۲) ترجمہ: ”اے لوگو! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اُس کا جوڑا بنایا اور پھر ان دونوں میں سے مردوں اور عورتوں کو بکثرت پھیلایا.‘ ( ترجمہ از حضرت خلیفہ مسیح الرابع ) صنف کے اس فرق کی وجہ سے آگے چل کر مرد اور عورت میں کئی مزید ظاہری اور باطنی فرق پیدا ہوئے.اسی بنیادی فرق کی وجہ سے مرد اور عورت کے دائرہ کارا لگ الگ ہوئے اور پھر اسی کا ہی تقاضا تھا کہ بعض صلاحیتیں مردوں میں ترقی کرتیں اور بعض عورتوں میں.انسانی زندگی کے ارتقائی ادوار کی کڑیاں ملاتے ہوئے چاہے کتنا ہی پیچھے کیوں نہ چلے جائیں نر اور مادہ کے قدرتی فرق کے اُن کی زندگی پر اثرات ایک ایسی بین حقیقت ہے جسے مانے بغیر چارہ نہیں.اُس وقت بھی ایام حیض حمل ، بچوں کی پیدائش اور پرورش کیلئے عورتوں کو ایک خاص صورتِ حال کا سامنا تھا جس کی وجہ سے انہیں اپنی اور بچوں کی حفاظت کی خاطر پناہ گاہوں اور غاروں میں اکٹھے رہنا پڑتا جبکہ مر دعموماً باہر خوراک اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی وغیرہ کا انتظام کرتے جس کیلئے انہیں بڑی مشقت اٹھانی پڑتی.یہ دو قسم کے ماحول تھے جن کا ابتدائی دور کے مردوں اور عورتوں کو سامنا تھا.ظاہر ہے وقت کے ساتھ ساتھ ان مخصوص ذمہ داریوں اور ماحول کے اثرات ان کے جسموں پر بھی پڑے اور اندرونی صلاحیتیوں پر بھی.چنانچہ مرد جسمانی لحاظ سے اور بھی مضبوط ہوتے گئے اور اُن میں جرات، حوصله، برداشت، قوت فیصلہ، مشکلات اور آفات کا مقابلہ کرنے وغیرہ کی قوتیں اور صلاحیتیں بھی زیادہ ترقی کرتی گئیں.14
سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا مرد اور عورت کے قومی اور صلاحیتیوں میں یہ فرق نا انصافی نہیں؟ جواب اس کا یہ ہے کہ سوال صرف عورت اور مرد کی صلاحتیوں میں فرق کا نہیں.یہ فرق تو تمام انسانوں میں پائے جاتے ہیں.رنگ ، قد ، جسمانی طاقت ، علم ، فہم اور دیگر بیسیوں ظاہری اور باطنی صلاحیتیوں اور اُن کے پیشوں اور ذمہ داریوں میں فرق ہوتا ہے.پس یہ ہرگز نا انصافی نہیں.عورت اور مرد میں یہ فرق بھی اُن کی اصناف مختلف ذمہ داریوں کے تقاضوں اور فطرت کے عین مطابق ہے جس کے بغیر تخلیق کی تکمیل ہی ممکن نہ تھی.مزید برآں اسی فرق میں تو سارا حسن ہے، اسی میں ہی تو چاہت ، موڈت ، ہمدردی اور لذت وغیرہ کا راز پنہاں ہے.اسی کا نام ہی تو زندگی ہے.مردوں کی مردانگی اور عورتوں کی نسوانیت کے مخصوص تقاضوں میں ہی تو کشش اور جذب ہے.اگر یہ فرق نہ ہوتے تو زندگی بالکل بے کیف ہو کر رہ جاتی.پس یہ ایک حقیقت ہے کہ حکیم مطلق نے جیسا اس دُنیا کو اور دنیا کی چیزوں کو بنایا ہے انہیں بالکل اسی طرح ہی ہونا چاہئے تھا.خلاصہ کلام یہ کہ مردوں اور عورتوں میں سب سے بڑا اور بنیادی فرق اُن کی صنف کا ہے.اسی کے لازمی نتیجے کے طور پر ان کے بہت سے ظاہری اور باطنی قومی اور صلاحتیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں.یہ فرق کمیت کے اعتبار سے بھی ہیں اور کیفیت کے اعتبار سے بھی.بیسیوں مثالوں میں سے صرف دو پیش کی جاتی ہیں.کیفیت کے اعتبار سے جسمانی طاقت تو دونوں میں ہوتی ہے لیکن ایک جیسی نہیں ہوتی.رونا مردوں کو بھی آتا ہے اور عورتوں کو بھی لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ عورتیں جذبات سے مغلوب ہو کر بہت جلد رونا شروع کر دیتی ہیں.کمیت کے اعتبار سے حیض و نفاس، حمل، بچے کی پیدائش اور اسکی خوراک کا قدرتی نظام عورت سے خاص امور ہیں.دوسری طرف جسمانی لحاظ سے مردوں کا زیادہ طاقتور ہونا خاص اہمیت کا حامل 15
ہے.اکیلے اس ایک فرق کے اثرات نے عورت اور مرد کی تمدنی زندگی میں ان کے الگ الگ دائرہ کار کے تعین اور دیگر ذمہ داریوں کی تقسیم میں بنیادی کردارادا کیا ہے.بعض مخصوص صلاحیتیں اور قویٰ جو مر دوں میں زیادہ ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ مر داعلیٰ ہیں اور عورتیں ادنی بلکہ یہ اختلاف ان کی ذمہ داریوں کی انجام دہی کا ایک لازمی تقاضا ہے.دونوں ہی برابر کے انسان ہیں اور دونوں ہی انسانی زندگی کی گاڑی کے اہم ترین پرزے ہیں.فرق صرف یہ ہے کہ دونوں کی بعض مختلف ذمہ داریوں کی وجہ سے ان میں مختلف قسم کی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں.اسی طرح مردوں کی اس فوقیت کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہر مرد ہر عورت سے ہر پہلو سے اعلیٰ صلاحیتیں رکھتا ہے.ایسی استثنائی صورتیں بہر حال موجود ہیں کہ بعض عورتیں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کئی مردوں سے کئی قسم کی اعلیٰ صلاحیتیں رکھتی ہیں اور وہ اُن کے ماتحت کام کرتے اور اُن سے علم سیکھتے ہیں.جس فوقیت کا ہم نے ذکر کیا ہے وہ ایک نسبتی امر ہے.یعنی کسی بھی شعبہ کے بلند ترین مقام کیلئے مردوں اور عورتوں کی قوتوں اور صلاحیتیوں کا جائزہ لیں تو اُس میں مر دوں کو فوقیت حاصل ہے.مثال کے طور پر کھیلوں کے کسی بھی شعبہ کے سب سے بڑے کھلاڑی کو اُسی شعبہ کی سب سے بڑی کھلاڑی پر برتری ہوگی.اسی طرح دیگر شعبہ ہائے زندگی میں اگر چہ بالعموم ہر وہ کام جو مرد کر سکتے ہیں عورتیں بھی کر سکتی ہیں لیکن بحیثیت مجموعی مردوں کے معیار کا ر کر دگی تک نہیں پہنچ سکتیں.مردوں کی اس مخصوص فضیلت میں بہت سی حکمتیں مضمر ہیں جو تقسیم کار کے اصول کے تحت ان کی ذمہ داریوں پر غور کرنے سے آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہیں.ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ خالق حقیقی نے انہیں یہ اضافی صلاحیتیں حفاظت اور رکھوالی کے فرائض سرانجام دینے کیلئے عطا فرمائی ہیں.ظاہر ہے ان فرائض کی انجام دہی عموماً غیر معمولی محنت و مشقت ، جانفشانی اور 16
جفاکشی کی متقاضی ہوتی ہے.حفاظت پر مامور افراد کو راتوں کو بھی جاگنا پڑتا ہے اور بسا اوقات خود اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر دوسروں کی املاک اور جانوں کی حفاظت کرنی پڑتی ہے.مردوں کی یہ فضیلت اس لئے نہیں کہ وہ ان طاقتوں کے بل بوتے انہی کے حقوق پامال کرنے لگیں جن کی حفاظت اور رکھوالی کیلئے خدا نے انہیں یہ صلاحیتیں عطا کی ہیں.پس مردوزن میں صلاحیتیوں اور قومی کے اختلافات اور ان کی وجوہات کے اس مختصر بیان کا صرف یہ مقصد ہے کہ ہم اس حکمت کو سمجھیں جس کے تحت اللہ تعالیٰ نے انہیں ہر پہلو سے ایک جیسا نہیں بنایا اور افراط و تفریط کی راہ سے بچتے ہوئے مرد اور عورت اپنے اپنے مقام کو سمجھتے ہوئے ایسا طرز زندگی اختیار کریں جس کے نتیجے میں جہاں دونوں کو یکساں بنیادی انسانی حقوق مل سکیں وہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی گئی مختلف صلاحیتیوں کے مطابق اپنے اپنے فرائض ادا کریں تا کہ ایک صحت مند اور پُر امن معاشرہ تشکیل پاسکے.مغربی دُنیا کا عورت اور مرد میں ہر پہلو سے مساوات کا نعرہ محض دھوکا ہے اور اس پر عمل درآمد کے نتیجے میں کبھی گھر یلو امن قائم نہیں ہوسکتا.17
مساوات مرداور عورت میں مساوات کے حوالے سے ایک ایسے اہم نکتہ کی طرف توجہ مبذول کرانی ضروری معلوم ہوتی ہے جسے بعض اوقات نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور خصوصاً مغربی دُنیا میں اسلام میں عورت کے حقوق کے حوالے سے کہہ دیا جاتا ہے کہ اسلام میں مرد اور عورت کے حقوق برابر ہیں اور اس کی تائید میں قرآن پاک کی آیت کا یہ حصہ بھی پیش کیا جاتا ہے: وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ بِاالْمَعْرُوفِ ص (البقره ۲۲۹) ترجمہ: ”اور جس طرح اُن (عورتوں) پر کچھ ذمہ داریاں ہیں (ویسے ہی ) مطابق دستور انہیں بھی ( کچھ حقوق ) حاصل ہیں.“ ( ترجمہ از تفسیر صغیر ) حضرت مصلح موعود گا یہ ترجمہ بہت ہی واضح ہے لیکن بعض احباب کی طرف سے دیئے جانے والے جواب میں اس کے مطابق پوری وضاحت نہیں کی جاتی.آیت کا مطلب تو صاف ہے کہ جس طرح مردوں کے کچھ حقوق ہیں اسی طرح کچھ حقوق عورتوں کے بھی ہیں.ہر پہلو سے ایک جیسے حقوق مراد نہیں ہیں.دراصل حقوق دو طرح کے ہوتے ہیں.ایک حقوق تو وہ ہیں جنہیں ہم بنیادی انسانی حقوق کا نام دیتے ہیں اور دوسرے وہ ہیں جو حالات ، مرتبے یا ذمہ داریوں کی وجہ سے کسی کو حاصل ہوتے ہیں.جہاں تک بنیادی انسانی حقوق کا تعلق ہے تو وہ سب انسانوں کے ایک جیسے ہیں لیکن ذمہ داریوں کے اعتبار سے نہ تو سب کے فرائض ایک جیسے ہوتے ہیں اور نہ ہی حقوق.ایک بادشاہ اور عام آدمی کے تمام کے تمام حقوق ہرگز ایک جیسے نہیں ہوتے.مالک اور نوکر ، افسر اور ماتحت، والدین اور اولاد کے بعض فرائض بھی مختلف ہوتے ہیں 18
اور حقوق بھی.سربراہ مملکت نے گزرنا ہوتو بالعموم ہر قسم کی آمد و رفت روک کر اُس کی سواری کو گزارا جاتا ہے.الارم بجاتی ہوئی پولیس یا ہسپتال کی گاڑی کو باقی تمام گاڑیاں راستہ دیتی ہیں اور اُسے سرخ اشارے سے گزرنے کا بھی حق حاصل ہوتا ہے.پس یہ وضاحت نہایت ضروری ہے کہ فطری صلاحیتوں اور ذمہ داریوں کے اعتبار سے نہ تو خاوند اور بیوی کے تمام کے تمام فرائض ایک جیسے ہیں اور نہ ہی حقوق.مثلاً اسلام کے مطابق کمانا اور اہلِ خانہ کی ہر طرح کی ضروریات زندگی کی فراہمی مرد کا فرض ہے اور عورت کا حق.اسی طرح نکاح کے موقع پر حسب استطاعت مہر کی رقم کی ادائیگی بھی مرد کا فرض ہے اور عورت کا حق.حمل اور بچے کی پیدائش کی وجہ سے پوری دُنیا میں بعض حقوق عورت کو حاصل ہو جاتے ہیں جن کا مطالبہ کر نہیں کر سکتا.اسی طرح متعدد ایسے فرائض ہیں جو صرف مرد سے خاص ہیں اور وہ عورت کے حقوق ہیں اور کئی ایسے ہیں کہ وہ عورت سے خاص ہیں اور وہ مرد کے حقوق ہیں.حلیم مطلق نے کمال حکمت سے ان دونوں کو اُن کی ذمہ داریوں کی نسبت سے صلاحتیوں سے نواز رکھا ہے اور انہی کے مطابق بعض فرائض مرد کے مقرر فرمائے ہیں اور بعض عورت کے اور بعض دونوں کے ایک جیسے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی ان دونوں قسموں کے حقوق کو واضح طور پر الگ الگ رنگ میں بیان فرمایا ہے.چنانچہ بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے آپ فرماتے ہیں : عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعاً نہیں کی مختصر الفاظ میں فرما دیا ہے وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ کہ جیسے مردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں ویسے ہی عورتوں کے مردوں پر ہیں.بعض لوگوں 19
کا حال سنا جاتا ہے کہ ان بیچاریوں کو پاؤں کی جوتی کی طرح جانتے ہیں اور ذلیل ترین خدمات ان سے لیتے ہیں.گالیاں دیتے ہیں.حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور پردہ کے حکم ایسے ناجائز طریق سے برتتے ہیں کہ اُن کو زندہ درگور کر دیتے ہیں.“ ( ملفوظات جلد ۵ صفحه ۴۱۷.۴۱۸) اس ارشاد سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں انسانی حقوق کا ذکر ہورہا ہے.لیکن ذمہ داریوں کے اعتبار سے مردوں عورتوں کے حقوق کا آپ ان الفاظ میں ذکر فرماتے ہیں : خدا تعالیٰ فرماتا ہے اَلرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاءِ اور اسی لئے مرد کو عورتوں کی نسبت قومی زیادہ دیئے گئے ہیں.اس وقت جو نئی روشنی کے لوگ مساوات پر زور دے رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ مرد اور عورت کے حقوق مساوی ہیں ان کی عقلوں پر تعجب آتا ہے.وہ ذرا مردوں کی جگہ عورتوں کی فوجیں بنا کر جنگوں میں بھیج کر دیکھیں تو سہی کہ کیا نتیجہ مساوی نکلتا ہے یا مختلف.ایک طرف تو اسے حمل ہے اور ایک طرف جنگ ہے وہ کیا کر سکے گی.غرضیکہ عورتوں میں مردوں کی نسبت قویٰ کمزور ہیں اور کم بھی ہیں...( ملفوظات جلدے صفحہ ۱۳۴) سورہ البقرہ کی محولہ بالا آیت کو سمجھنے کی چابی بِالْمَعْرُوف کا لفظ ہے.حضرت مصلح موعودؓ اس آیت کے حوالے سے تفسیر صغیر کے حاشیے میں فرماتے ہیں: یاد رکھنا چاہئے کہ ” مطابق دستور میں دستور کا جو لفظ ہے اس کے اصل معنی تو قانون اور رواج کے ہیں لیکن اردو میں کبھی یہ دستور کا لفظ common sense یعنی عقل عامہ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور مراد یہ ہوتی ہے کہ شرفاء اور عقلاء کا یہی طریق ہے جس کے معنی دوسرے لفظوں میں یہی 66 ہوتے ہیں کہ عقل کا تقاضا یہی ہے.“ 20
دستور دُنیا بھی یہی ہے اور عقل کا بھی یہی تقاضا ہے کہ جہاں تک بنیادی انسانی حقوق کا تعلق ہے تو وہ عورت اور مرد کے برابر ہیں اور ان میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں لیکن ذمہ داریوں کے اعتبار سے ان کے متعدد فرائض بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور حقوق بھی.چنانچہ اس آیت کا اگلا ٹکڑا بھی اسی طرف اشارہ کر رہا ہے.فرمایا: وَ لِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةً ترجمه: ہاں مگر مردوں کو اُن پر ایک طرح کی فوقیت حاصل ہے.اس آیت کی تفسیر میں آپ فرماتے ہیں: عام قانون بتایا کہ مردوں اور عورتوں کے حقوق بحیثیت انسان ہونے کے برابر ہیں.جس طرح عورتوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ مردوں کے حقوق کا خیال رکھیں اسی طرح مردوں کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ عورتوں کے حقوق ادا کریں....انسانی حقوق کا جہاں تک سوال ہے عورتوں کو بھی ویسا ہی حق حاصل ہے جیسے مردوں کو.ان دونوں میں کوئی فرق نہیں...ہاں آپ نے اس بات کا بھی اعلان فرمایا کہ وَ لِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةً یعنی حقوق کے لحاظ سے تو مرد و عورت میں کوئی فرق نہیں لیکن انتظامی لحاظ سے مردوں کو عورتوں پر ایک حق فوقیت حاصل ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک مجسٹریٹ انسان ہونے کے لحاظ سے تو عام انسانوں جیسے حقوق رکھتا ہے اور جس طرح ایک ادنیٰ سے ادنی انسان کو بھی ظلم اور تعدی کی اجازت نہیں اُسی طرح مجسٹریٹ کو بھی نہیں.مگر پھر بھی وہ بحیثیت مجسٹریٹ اپنے ماتحتوں پر فوقیت رکھتا ہے اور اُسے قانون کے مطابق دوسروں کو سزا دینے کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں.اسی طرح تمدنی اور مذہبی معاملات 21
میں مرد و عورت دونوں کے حقوق برابر ہیں لیکن مردوں کو اللہ تعالیٰ نے قوام ہونے کی وجہ سے فضیلت عطا فرمائی ہے.چونکہ میاں بیوی نے مل کر رہنا ہوتا ہے اور نظام اُس وقت تک قائم نہیں رہ سکتا جب تک ایک کو فوقیت نہ دی جائے اس لئے یہ فوقیت مرد کو دی گئی ہے اور اس کی ایک وجہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ یہ بیان فرمائی ہے کہ چونکہ مردا اپنا روپیہ عورتوں پر خرچ کرتے ہیں اس لئے انتظامی پنارو امور میں انہیں عورتوں پر فوقیت حاصل ہے.‘ ( تفسیر کبیر جلد ۲ صفحہ ۵۱۳) حضرت خلیفہ امسیح اول ذمہ داریوں اور صلاحیتیوں کے اعتبار سے حقوق کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: نیز تجھے خبر نہیں کہ عورت اور مرد میں جناب الہی نے قدرت میں مساوات رکھی ہی نہیں.بچہ جننے میں جو تکالیف عورتوں کو ہوتی ہیں اُن میں مردوں کا کتنا حصہ ہے.کیا مساوات ہے؟ کیا قومی میں مساوات ہے؟ ہرگز نہیں.میں ہمیشہ حیران که مرد و عورت میں مساوات کا خیال کسی احمق نے نکالا ؟ ( حقائق الفرقان جلد چهارم صفحه ۲۹۵-۲۹۶) وو اسی طرح ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا: رات دن کا کام نہیں دے سکتی.دن رات کا کام نہیں دیتا.مرد جن کاموں کیلئے پیدا کئے گئے عورتوں سے وہ کام نہیں ہوتے.عورتیں مردوں کا کام نہیں دے سکتیں.ہر ایک کے مختلف کام اپنے حسب حال مختلف نتیجے پیدا کرتے ہیں.“ ( حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ ۳۹۷) 22
حضرت علایقہ اسیح الثانی فرماتے ہیں : " حضرت خلیفہ اسی اول سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ جموں میں ایک حج اسی موضوع پر ان سے بحث کرنے لگا کہ مرد و عورت میں مساوات ہونی ضروری ہے.آپ نے فرمایا کہ پچھلی دفعہ آپ کی بیوی کے لڑکا ہوا تھا اب کے آپ کے ہونا چاہئے.یہ جواب سن کے وہ کہنے لگا کہ میں نے سنا ہوا تھا کہ مولوی بد تہذیب ہوتے ہیں مگر میں آپ کو ایسا نہ سمجھتا تھا لیکن اب معلوم ہوا کہ آپ بھی ایسے ہی ہیں.آپ نے فرمایا کہ اس میں بدتہذیبی کی کوئی بات نہیں.میں نے تو ایک مثال دی تھی اور آپ کو بتایا تھا کہ فطرت نے دونوں کو الگ الگ کاموں کیلئے پیدا کیا ہے تو اس مساوات کے شور سے کیا فائدہ؟ حقیقت یہ ہے کہ مساوات بے شک ہے مگر دونوں کے کام الگ الگ ہیں.اس بات کو پیش کرنے کی کسی کو جرات نہیں ہوتی کیونکہ قومی روح موجود نہیں.ہر شخص اپنی ذات کو دیکھتا ہے.اگر عورتوں کیلئے یہ قربانی ہے کہ وہ گھروں میں رہیں تو مرد کیلئے بھی اس کے مقابلہ میں یہ بات ہے کہ میدانِ جنگ میں جا کر سر کٹوائے.لیکن چونکہ قومی اور ملی روح موجود نہیں اس لئے ان باتوں کو کوئی پیش کرنے کی جرات نہیں کرتا.( خطبہ جمعہ فرموده ۱۰ فروری ۱۹۳۹ء مطبوعه الفضل امارچ ۱۹۳۹ء) ایک مجلس سوال و جواب میں حضرت خلیفہ امسیح الرابع سے قرآن کریم میں مرد کو قوام قرار دینے کی فلاسفی دریافت کی گئی تو آپ نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: تمہارا دل بھی اس بات کو مانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فطری طور پر مرد کو عورت پر فضیلت دی ہے.اور کوئی مساوی حقوق کی تھیوری اس اصولی فرق کو مٹا نہیں سکتی.23
اولمپکس میں ہی دیکھ لو کہ دوڑ میں حصہ لینے والے مرد اور عورتیں کیا مقابلہ میں اکٹھے دوڑتے ہیں؟ کیا وہ فٹ بال، ہاکی اور کسی بھی کھیل میں اکٹھے کھیلتے ہیں؟ اور خاص طور پر امریکن فٹ بال میں کبھی آپ نے دیکھا کہ عورتیں اور مرد کٹھے ایک ہی ٹیم میں کھیل رہے ہوں؟ یہ سوال کرنے والے مغربی دنیا کے لوگ بھی جانتے ہیں اور اس بات پر گواہ ہیں کہ مردوں اور عورتوں کو الگ الگ جسمانی صلاحتیوں کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے.اور قرآنِ کریم بتاتا ہے کہ مردوں کو حقوق کے لحاظ سے عورتوں پر کوئی برتری اور فضیلت نہیں دی گئی.بلکہ فطری استعدادوں اور صلاحتیوں کی بنا پر فضیلت ہے جو خدا تعالیٰ نے مردوں میں زیادہ رکھی ہیں اور ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ فطری صلاحیتیں کیا ہیں.اور دوسری بات یہ ہے کہ وَ بِمَا اَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ.مرد اپنی بیوی اور بچوں کیلئے نان نفقہ کا انتظام کرتا ہے اس لحاظ سے جو روٹی کپڑے کا بندو بست کرتا ہے قدرتی طور پر اسے ایک برتری حاصل ہوتی ہے.جو ہا تھ کھلاتا ہے اسے بہر حال قدرتی طور پر ایک فضیلت حاصل ہوتی ہے.جیسے کہ فرمایا: الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُفلی کیونکہ گھر کی تمام مالی ذمہ داریاں مرد کے سپرد ہیں اس لئے میں یہاں کی ان عورتوں کو سمجھاتا ہوں جو کام کرتی ہیں اور آزاد ہوتی ہیں اور انکے خاوند گھروں میں رہتے ہیں اور بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں کہ قرآنِ کریم کی رو سے ایسے مردوں نے اپنی برتری خود کھو دی.اور وہ برتری ان کام کرنے والی عورتوں نے حاصل کر لی ہے.اور پھر ایسی صورت میں ان گھروں میں عورت کا حکم چلتا ہے کیونکہ وہ کماتی ہیں.24
تو یہاں دو طرح کی برتری کا ذکر ہے.ایک قسم کی برتری تو وہ ہے جو مستقل جسمانی برتری ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت مرد سے نہیں چھین سکتی.اس کی ایک دوسری شکل بھی ہے اور وہ ہے بچوں کو پیدا کرنا.کیا عورت اور مرد اس لحاظ سے برابر ہو سکتے ہیں.کیا یہ عورتیں کہ سکتی ہیں کہ یہ انصاف اور عدل کے خلاف ہے کہ صرف عورتیں ہی بچے جنیں.اب ہم یہ قانون بناتی ہیں کہ آئندہ سے مرد بچے پیدا کیا کریں گے.برتری کی یہ قسم خدا تعالیٰ کی طرف سے مستقل طور پر مرد کو حاصل ہے.کسی انسان کے دائرہ اختیار میں نہیں کہ اس برتری کو اس سے چھین سکے یا تبدیل کر سکے.دوسری قسم کی برتری وہ ہے جسے میں پہلے بیان کر چکا ہوں اور وہ ہے بیوی بچوں کیلئے نان نفقہ کا انتظام.اور یہ برتری مرد کو اس وقت تک حاصل رہتی ہے جب تک وہ اس ذمہ داری کو نبھاتا ہے.“ (الفضل انٹرنیشنل ۱۹ تا ۲۵ فروری ۱۹۹۹) اسی طرح ایک موقع پر آپ نے فرمایا: ”اسلام کی ہر تعلیم کی بنیاد فطرت انسانی پر قائم ہے.اسی لئے اس سے بہتر تعلیم کا تصور محال ہے.عورت سے متعلق اسلامی تعلیم بھی انسان کے فطری قومی اور رجحانات وغیرہ پر قائم ہے.نسلِ انسانی کی بقاء اور تسلسل کے قیام کیلئے مرد اور عورت میں جنسی کشش کی خاصیت رکھی گئی ہے جس کا فطری اور موزوں استعمال نسل انسانی کی بقاء اور ارتقاء کیلئے ضروری ہے...اسلام عورت کو وہ تمام عزت و تکریم اور حقوق دیتا ہے جو اس کی جسمانی، ذہنی، فکری، قلبی ، سماجی، معاشرتی، معاشی ، وراثتی، اخلاقی، روحانی اور دیگر ضروریات کیلئے ضروری ہیں.عورت کی 25
تعلیم و تربیت اسی طرح فرض ہے جس طرح مرد کی.عورت کے فرائض اور حقوق بنیادی طور پر وہی ہیں جو مرد کے ہیں لیکن چونکہ عورت کی فطری بناوٹ مرد سے مختلف ہے اس کے قومی مختلف ہیں، اس کی Physics مختلف ہے، اس کی Chemistry مختلف ہے، اس کی Biology مختلف ہے ، اس کی نفسیات مختلف ہے.ان فطری اختلافات کے پیش نظر مرد اور عورت کے فرائض و حقوق میں بنیادی طور پر ایک جیسے ہوتے ہوئے بھی تفصیلات مختلف ہیں.قبل اس کے کہ میں ان تفصیلات میں جاؤں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مرد اور عورت کے فطری اختلافات کی کچھ وضاحت کر دی جائے.جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے کہ عورت کی فطری بناوٹ ہی مرد سے مختلف ہے.مردقد ، وزن ، جسمانی قوت اور کئی ایک پہلوؤں سے عورت سے مختلف ہے.اس کی ساخت سخت اور محنت طلب کاموں کیلئے زیادہ موزوں ہے.گو یہ حقیقت نا قابلِ تردید ہے لیکن مرد اور عورت کی برابری کی بحثوں کو سلجھانے کیلئے اس کی کسی قدر تفصیل بیان کرنا ضروری ہے.یہ امر کہ مرد کے جسم میں رحم اور اس سے متعلقہ اجزاء نہیں ہوتے غیر متنازعہ امر ہے.اسی طرح پر مرد کا جسم بچے کی خوراک بنانے کی صلاحیت سے عاری ہے.بچے کی پرورش جس حو صلے ، صبر، استقلال، قربانی اور جذباتی لگاؤ کی متقاضی ہوتی ہے مرد بالعموم بچے کی ان ضروریات کی تکمیل کیلئے غیر موزوں ہوتا ہے جبکہ عورت فطری طور پر ان فرائض کی ادائیگی کیلئے بنائی گئی ہے.ان حقائق سے انکار ممکن نہیں.26
متنازع امور یہ ہیں کہ مغرب میں بالخصوص اور مشرق میں بالعموم یہ سمجھا جاتا ہے کہ عورت ہر وہ کام کرسکتی ہے جو مر د کر سکتا ہے.یہ بات اس حد تک تو درست ہے کہ عورت مزدوری بھی کر سکتی ہے.فوج میں بھرتی ہو کر لڑ بھی سکتی ہے.پولیس کے فرائض بھی انجام دے سکتی ہے.کرکٹ ، فٹ بال اور بیس بال وغیرہ بھی کھیل سکتی ہے.تیرا کی بھی کر سکتی ہے اور تمام وہ کام کر سکتی ہے جو عام طور پر مردوں کے کام سمجھے جاتے ہیں.لیکن وہ ان کاموں میں مرد کے معیار کا ر کر دگی تک نہیں پہنچ سکتی.مزدوری تو وہ کر سکتی ہے لیکن مزدوری میں مرد کا مقابلہ نہیں کرسکتی.عورتوں کی پولیس فورس مردوں کی پولیس فورس کے ساتھ مقابلہ نہیں کرسکتی.اسی طرح مرد بعض امور میں عورتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے.بچوں کی تعلیم و تربیت، نرسنگ اور بچوں کی نگہداشت وغیرہ امور میں عورت مرد سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے.گویا که مرد اور عورت کے دائرہ ہائے کار فطری طور پر الگ الگ ہیں.مرد اور عورت صرف اس لحاظ سے مساوی ہیں کہ دونوں انسان ہیں.دونوں کے بنیادی انسانی حقوق مساوی ہیں.لیکن ان کی فطری استعدادیں مختلف اطراف میں جھکی ہوئی ہیں.مرد اور عورت کے انہی فطری اختلافات کی وجہ سے اسلام نے ان کی کار (Division of work) اس طرح پر کی ہے کہ وہ انسانیت کے تقسیم کار بہترین مفاد میں ہے.اس کے برعکس مغربی ممالک میں آزادی نسواں اور مردوں اور عورتوں میں مساوات کے نام پر جس طرح عورت ذلیل ورسوا ہو رہی ہے اور جس قسم کے 27
درد ناک حالات میں وہ مبتلا ہو چکی ہے اس کا احساس خود ان ممالک کے اہلِ دانش کو ہو رہا ہے اور گاہے بگا ہے اس کا تذکرہ میڈیا میں ہوتا رہتا ہے.مرد اور عورت کے دونوں کے گھر سے فل ٹائم جاب کرنے کے باعث گھر اور خاندان تباہ ہو رہے ہیں، ان کا امن وسکون اٹھ چکا ہے.بچے Baby Sitting کے نتیجے میں اخلاقی اور نفسیاتی طور پر تباہ ہو چکے ہیں.بوڑھے والدین بچوں کے ساتھ رہنے کی بجائے Old People Homes میں رہ کر ذہنی مریض بن چکے ہیں.Friendship ،شادیوں پر فوقیت حاصل کر چکی ہے.فیملی سسٹم ٹوٹ چکا ہے.انفرادیت، اجتماعیت پر غالب آچکی ہے.بچوں کے پاس والدین کیلئے وقت نہیں ہے کیونکہ اس سے قبل والدین کے پاس بچوں کیلئے وقت نہیں تھا.اس ساری تباہی و بربادی کے باوجود مغرب پاگلوں کی طرح اسلامی ضابطہ حیات پر اعتراض کرتا چلا جارہا ہے.شاید وہ یہ چاہتا ہے کہ جس طرح مغربی فیملی تباہ ہو چکی ہے اور انسانی اقدار کا جنازہ نکل چکا ہے اسی طرح اسلامی ممالک میں بھی ہو.مغرب زدہ اسلامی ممالک بھی ابھی مغرب سے بہتر ہیں.والدین کا احترام ابھی مسلم معاشرے سے رخصت نہیں ہوا.اسلامی ممالک نے ابھی تک عورت کو تماشا نہیں بنایا کہ وہ ہر جگہ اپنی نسوانیت بکھیرتی رہے.مسلمان بچے ابھی بالعموم ماؤں کی پیار بھری گودوں میں ہی پلتے ہیں نہ کہ Baby Sitters کے پاس.بوڑھے والدین اور رشتہ دار بھی حکومت کی تحویل میں نہیں مرتے بلکہ اپنے بچوں کے درمیان عزت اور احترام سے فوت ہوتے ہیں.مسلمان عورت مجموعی طور پر اب بھی باحیا اور باوقار ہے.28
حقیقت یہ ہے کہ مغرب کے ان تمدنی، خاندانی اور سماجی و معاشرتی مسائل کاحل صرف اور صرف اسلامی تعلیم کو قبول کرنے میں ہے.“ (الفضل انٹر نیشنل ۲۸ اپریل تا ۴ مئی ۱۹۹۵) جو لوگ زندگی کے ہر شعبہ میں مرد اور عورت کے درمیان مساوات کی بات کرتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جہاں مرد اور عورت خلقی طور پر مختلف ہیں وہاں ان میں مساوات کا سوال ہی بے معنی ہے.مثلاً بچے پیدا کرنے کا کام صرف عورت ہی کر سکتی ہے.نو ماہ سے زائد عرصہ تک نسلِ انسانی کے بیج کو صرف عورت ہی اپنے پیٹ میں رکھ کر اس کی پرورش کر سکتی ہے.عورت ہی ہے جو شیر خوارگی اور بچپن کے ابتدائی دور میں اپنے بچوں کی دیکھ بھال کا فریضہ سر انجام دے سکتی ہے جبکہ کوئی مرد یہ کام نہیں کر سکتا.یہ عورتیں ہی ہیں جو انتہائی قریبی خونی رشتہ ہونے کی وجہ سے اپنے بچوں کے ساتھ مردوں کی نسبت کہیں زیادہ گہرا اور مضبوط نفسیاتی تعلق استوار کرتی ہیں.اگر کوئی معاشرتی اور اقتصادی نظام عورت اور مرد کے درمیان اس خلقی فرق کو مدنظر نہیں رکھتا اور اس فرق کے باعث معاشرہ میں عورت اور مرد کے اپنے اپنے مخصوص کردار کو نظر انداز کرتا ہے تو ایسا نظام ایک صحتمند سماجی اور اقتصادی توازن کے پیدا کرنے میں لازماً نا کام ہو جائے گا.عورت اور مرد کی جسمانی ساخت میں فرق ہی وہ بنیاد ہے جس کے نتیجہ میں اسلام نے دونوں کے لئے ان کے مناسب حال الگ الگ دائرہ کار مقرر کئے ہیں.اسلام کے معاشرتی نظام کے مطابق عورت کو خاندان کے لئے روزی کمانے کی ذمہ داری سے جہاں تک ممکن ہے 29
آزا د رکھا جانا چاہئے.اصولی طور پر یہ ذمہ داری مردوں پر عائد ہوتی ہے لیکن اگر عورتوں کو اپنی گھریلو ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے بعد فراغت ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ انہیں اقتصادی ترقی کے عمل میں حصہ لینے سے روکا جائے.شرط صرف یہی ہے کہ ان کے اصل فرائض نظر انداز نہ ہوں.اسلام کی یہی تعلیم ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ عورتیں بالعموم جسمانی ساخت کے لحاظ سے مردوں کی نسبت کمزور ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے حیرت انگیز طور پر عورتوں کو بعض لحاظ سے بہت مضبوط قومی بھی عطا فرمائے ہیں.اس کی وجہ بنیادی طور پر یہ ہے کہ ان کے خلیوں میں نصف کروموسوم زائد ہوتا ہے.یہی وہ نصف کروموسوم ہے جو کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان پائے جانے والے فرق کا ذمہ دار ہے.اور یہ انہیں اسی لئے دیا گیا ہے کہ وہ اس عظیم ذمہ داری کو اٹھا سکیں جو حمل ، زچگی اور ایام رضاعت میں انہیں ادا کرنی ہوتی ہے.اس صلاحیت کے باوجود عورت بظاہر جسمانی لحاظ سے مضبوط اور سخت جان نہیں ہوتی.پس مساوات کے نام پر یا کسی اور بہانہ سے عورتوں پر معیشت کے وہ کام مسلط نہیں کرنے چاہئیں جن میں مردانہ جفا کشی اور مشقت کی ضرورت ہوتی ہے.عورت کی نزاکت اس امر کی بھی متقاضی ہے کہ اس کے ساتھ زیادہ نرمی اور رافت کا سلوک روا رکھا جائے.روز مرہ کی زندگی میں عورتوں کو ہرگز مجبور نہیں کرنا چاہئے کہ وہ مردوں کے برابر بوجھ اٹھائیں بلکہ ان کا بوجھ مردوں کی نسبت ہلکا ہونا چاہئے.مذکورہ بالا بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر خانہ داری کی مخصوص ذمہ داری عورت یا مرد میں سے کسی ایک کے سپرد کرنے کا سوال ہو تو یقیناً عورت مرد کے مقابلہ میں 30
اس کی کہیں زیادہ اہل ہے.مزید برآں فطری طور پر بھی عورت پر بچوں کی نگہداشت کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے.یہ ایسی ذمہ داریاں ہیں جن میں مرد محض جزوی طور پر ہی عورت کے ساتھ شریک ہوسکتا ہے.عورتوں کو یہ حق ملنا چاہئے کہ وہ مردوں کے مقابلہ میں اپنا زیادہ وقت گھروں میں گزار سکیں.لیکن جب انہیں روزی کمانے کی ذمہ داری سے آزاد رکھا جاتا ہے تو انہیں چاہئے کہ وہ لازماً اپنے فارغ وقت کو اپنی اور معاشرہ کی فلاح بہبود کیلئے خرچ کریں.عورتوں کے متعلق اسلام کی تعلیم یہی ہے.اسی وجہ سے یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ عورت کا اصل مقام اس کا گھر ہے.اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ عورتیں ہمیشہ باورچی خانہ یا گھر کی چار دیواری کے اندر قید رہیں.اسلام کسی بھی طرح عورتوں کو اس حق سے محروم نہیں کرتا کہ وہ اپنے فارغ اوقات میں کسی کام کی انجام دہی کیلئے گھروں سے باہر جائیں یا وہ اپنی پسند کے کسی صحت مند شغل میں حصہ لیں مگر شرط صرف یہ ہے کہ عورتوں کی ان سرگرمیوں کی وجہ سے ان کے اصل فرائض کی ادائیگی یعنی آئندہ نسل کی نگہداشت متاثر نہ ہو اور ان کی یہ زائد مصروفیات مستقبل کی نسلوں کے مفاد کے تحفظ اور ان کے حقوق کی ادائیگی میں حارج نہ ہوں.چنانچہ دیگر وجوہات کے علاوہ اس وجہ سے بھی اسلام عورتوں کی حد سے زیادہ سماجی سرگرمیوں میں شمولیت اور مردوں کے ساتھ آزادانہ میل جول کی سختی کے ساتھ حوصلہ شکنی کرتا ہے.اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ عورت کی سرگرمیوں کا اصل مرکز اس کا گھر ہونا چاہئے.دورِ جدید کی بہت سے برائیوں کا یہ ایک بہت دانشمندانہ اور عملی حل ہے.اگر گھر عورت کی دلچسپی کا مرکز نہ رہے تو بچے نظر انداز 31
ہو جاتے ہیں اور گھریلو زندگی تباہ و برباد ہو جاتی ہے.“ (اسلام اور عصرِ حاضر کے مسائل کا حل صفحہ ۱۱۸ - ۱۲۰) بحیثیت انسان مرد اور عورت کے حقوق کا معاملہ ہرگز متنازع نہیں ، یہ دونوں کے برابر ہیں اور ان میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں لیکن جہاں تک ذمہ داریوں کے اعتبار سے حقوق کا تعلق ہے تو نہ ہی ان کی صلاحیتیں اور طاقتیں ایک جیسی ہیں اور نہ ہی حقوق و فرائض.پس ہمیں مغربی دُنیا کے عورت اور مرد میں ” مساوات کے کھو کھلے اور کاغذی نعروں سے ہرگز متاثر نہیں ہونا چاہئے اور ان کے حقوق و فرائض کے بارے میں اسلام کی پر حکمت تعلیم کو بڑی جرأت اور تفصیل کے ساتھ پیش کرنا چاہئے.اس وضاحت کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اسلام کی رو سے ذمہ داریوں کے اعتبار سے مرد کے حقوق عورت سے زیادہ ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس طرح ان کی ذمہ داریاں مختلف ہیں اسی طرح دونوں کے حقوق بھی ایکدوسرے سے مختلف ہیں.اسلامی تعلیمات کچھ اس طرح فطرت کے عین مطابق اور حسین ہیں کہ ان کے مطالعہ سے روح وجد میں آجاتی ہے اور ہزار جان سے قربان ہونے کو جی چاہتا ہے.انسانی زندگی کی مثال تو ایک درخت کی طرح ہے جس کی کئی شاخیں ہوتی ہیں مکمل تعلیم وہی کہلا سکتی ہے جو افراط و تفریط سے پاک ہو اور ہر شاخ کی پرورش کرے تا کہ تو ازن قائم رہے.اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ تعلیم ایسے طرز عمل کی طرف رہنمائی کرنے والی ہو جس میں وقتی فوائد اور لذات ہی پیش نظر نہ ہوں بلکہ اُس میں نتائج اور عواقب کو بھی مد نظر رکھا گیا ہو.مثال کے طور پر اگر برابر کے مواقع مہیا کرنے کے شوق میں جوان لڑکیوں کو فوج میں بھرتی کرنا شروع کر دیں اور اُن سے مردوں کے ساتھ بغیر کسی امتیاز کے فرائض کی ادائیگی کا مطالبہ کیا جائے تو اول تو یہ ہر گز ممکن ہی نہیں کہ وہ محاذ جنگ پر مردوں کی سی کار کردگی کا مظاہرہ کرسکیں اور دوم ان کے ایک ساتھ رہنے 32
کے جو دوسرے قدرتی نتائج ظاہر ہونگے وہ شاید مغربی اقوام کے لئے تو قابلِ قبول ہوں لیکن اسلام میں اس قسم کی گندگی کی قطعا کوئی گنجائش نہیں.اسلام مغرب کی طرح نہ تو کسی غیر فطری مساوات کی تعلیم دیتا ہے اور نہ ہی ایسی نام نہاد آزادی کی اجازت دیتا ہے جس کے نتیجے میں مغربی معاشرہ جنسی بے راہ روی کا شکار ہو چکا ہے اور گھروں کے امن اٹھ چکے ہیں.مغرب کو جو مادر پدر آزادی حاصل ہے اور اس آزادی نے جو گل کھلائے ہیں اس پس منظر میں یہاں کے ایک فلسفی اور دانشور سے بنی نوع انسان کے مستقبل کے بارے میں سوال کیا گیا تو اُس نے ایک لمبی آہ بھر کر کہا کہ جس ملک کا خاندانی نظام بکھر کر رہ گیا ہو، مر د دوسری عورتوں کے ساتھ گھومتا ہو اور بیوی دوسرے مردوں کے ساتھ سیر میں کرتی ہو ،لڑکی کو یہ ضرورت محسوس نہ ہو کہ وہ گھر سے باہر جاتے وقت ماں باپ سے پوچھ لے اور لڑکا اپنی گرل فرینڈ گھر لے آتا ہو، ایک دوسرے کا احترام اٹھ گیا ہو اور شرم وحیا کا تصور مٹ گیا ہو تو پھر انسان کے مستقبل کے بارے میں سوال کرنے والے کو اس کا جواب اپنے گھر میں ڈھونڈ نا چاہئے.ایک اور نقطہ نگاہ بھی ہے.عورتوں کا اپنا ایک عزت و تکریم کا مقام اور اہمیت ہے.اپنا ایک شخص ، ایک پہچان ہے.آخر وہ کیوں مرد بنا چاہتی ہیں؟ وہ نہ تو کوئی ادنی مخلوق ہیں اور نہ ہی محکوم.وہ بھی بالکل اُسی طرح کی انسان ہیں جیسے کہ مرد.جس طرح مردا اپنی خدا داد صلاحیتیوں کے مطابق فرائض سرانجام دیتے ہیں اُسی طرح عورتیں بھی اپنی طاقتوں اور قویٰ کی مناسبت سے کارخانہ حیات میں کام کرتی ہیں.یہ فطرت کے غیر مبدل قوانین ہیں جن کے مطابق ان کی اپنی اپنی ذمہ داریاں اور دائرہ کار ہیں.اسلامی تعلیمات بھی فطرت کے انہی قوانین کے مطابق دونوں کیلئے الگ الگ لائحہ عمل متعین کرتی اور اُن کی فطری ضرورتوں کے مطابق اور ایک پرامن اورخوشگوار معاشرے کی تشکیل و تکمیل کیلئے ایک مکمل نظام مہیا کرتی ہیں.پس عورتوں کو کسی قسم کے احساس کمتری کا شکار ہونے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں.33
خلاصہ کلام یہ کہ اسلام کی یہ خوبی بہر حال مسلّم ہے کہ اس کی کوئی تعلیم انسانی فطرت کے خلاف نہیں.اسلام کسی غیر فطری مساوات کا قائل نہیں.نہ ہی مردوں سے عورتوں کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا تقاضا کرتا ہے اور نہ عورتوں پر وہ بوجھ ڈالتا ہے جو اُن کیلئے اٹھانے ممکن نہیں بلکہ دونوں کو ان کی صلاحیتیوں اور قولی کی مناسبت سے اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی کی تعلیم دیتا ہے.اسلامی تعلیمات میں نگرانی کے فرائض ادا کرنے کیلئے اس قدر تفصیلی ہدایات مردوں کی رہنمائی کیلئے مذکور ہیں کہ اگر وہ اُن کے مطابق عمل کریں تو کسی قسم کی زیادتی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.34
گھر کا انصاف کا تقاضا ہے کہ ذمہ داری اُسے دی جائے جو اُس کا اہل ہے.قرآنِ پاک میں ذکر آتا ہے کہ جب وقت کے ایک نبی نے لوگوں کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے طالوت کو اُن کیلئے بادشاہ مقرر فرمایا ہے تو اُنہوں نے اعتراض کیا اور کہا کہ اسے اُن سے زیادہ مالی وسعت نہیں دی گئی اس لئے وہ کیسے بادشاہ ہو سکتا ہے اور یہ کہ وہ لوگ بادشاہت کے زیادہ حقدار ہیں.اس اعتراض کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَهُ عَلَيْكُمْ وَ زَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللَّهُ يُؤْتِى مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُط وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (البقره ۲۴۸) ترجمہ : ” اُس (نبی) نے کہا.یقیناً اللہ نے اُسے تم پر ترجیح دی ہے اور اسے زیادہ کر دیا ہے علمی اور جسمانی فراخی کے لحاظ سے.اور اللہ جسے چاہے اپنا ملک عطا کرتا 66 ہے اور اللہ وسعت عطا کرنے والا ( اور ) دائی علم رکھنے والا ہے.“ ( ترجمه از حضرت خلیلة امسیح الرابع) اللہ تعالیٰ کا انتخاب غلط نہیں ہوسکتا لیکن اکثر لوگ اُس کی حکمتوں کو نہ سمجھتے ہوئے اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں.لوگوں نے بادشاہت کیلئے مالی فراخی کو معیار سمجھا لیکن اللہ تعالیٰ کے نزد یک اُس مقام و مرتبے کیلئے اصل معیار علمی اور جسمانی فراخی تھا.حضرت مصلح موعودؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : 35 55
دو دولت سے بادشاہت نہیں ہوتی بلکہ علم اور قربانی کی طاقت سے ہوتی ہے سوان دونوں باتوں میں وہ تم سے بڑھا ہوا ہے.وہ تم سے زیادہ علومِ آسمانی جانتا ہے اور خدا کی راہ میں اپنے جسم کو انتہائی ابتلاؤں میں ڈالنے کیلئے تیار ہے.یہاں جسم میں وسعت سے مراد موٹا ہونا نہیں بلکہ قوت برداشت اور قربانی کی قوت مراد ہے ( حاشیہ تفسیر صغیر) اس مثال کا مقصد قارئین کی توجہ اس اہم اصول کی طرف مبذول کرانا ہے جو اس میں بیان ہوا ہے.ایک بادشاہ بھی رعایا پر نگران ہوتا ہے.اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اس ذمہ داری کیلئے اپنے انتخاب کی وجہ بھی بیان فرما دی ہے اور ہمارے لئے ایک رہنما اصول بھی.ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے مناسب حال طاقتوں اور صلاحتیوں کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ خود کسی کو کوئی ذمہ داری دیتا ہے تو وہ لازماً اُس کا اہل ہوتا ہے.بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ کے اصول کی روشنی میں گھر کے نگر ان کیلئے مردوں اور عورتوں کی صلاحیتیوں کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ خالق حقیقی نے جسمانی قوتوں اور دینی و دنیوی علوم اور مقام ومرتبہ میں مردوں کو عورتوں پر واضح برتری عطا فرمائی ہے جس پر تاریخ انسانی گواہ ہے.قبل ازیں مردوں کی جس عظیم الشان فوقیت کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے اُس کی رو سے انصاف کا یہی تقاضا تھا کہ گھر یلوزندگی میں بھی انہیں ہی نگران مقرر کیا جاتا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کی اسی فضیلت کی وجہ سے ہی اُنہیں گھروں کا بھی نگران مقرر فرمایا ہے.ارشادِ خداوندی ہے: الرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَّ بِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ (النساء ۳۵) 36
ترجمہ : ” مرد عورتوں پر نگران ہیں اس فضیلت کی وجہ سے جو اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر بخشی ہے اور اس وجہ سے بھی کہ وہ اپنے اموال (ان پر ) خرچ کرتے ہیں.“ اس آیت کریمہ میں مردوں کیلئے قومونَ کا لفظ استعمال ہوا ہے.یہ قیام سے مبالغہ جمع مذکر ہے جس کا واحد قوام ہے.قوام کے معنی ہیں ”خوبصورت قد والا ، معاملے کا ذمہ دار، کفیل، معاملے کی ذمہ داری کو پورا کرنے پر قادر، امیر (المنجد ).اسی طرح مصباح الغات وو میں اس کے معنی " اچھے قد و قامت والا ، امور کا منتظم ، اچھی نگرانی کرنے والا اور امیر لکھے ہیں.ان معانی کی رو سے یہ صفات مرد پر ہی صادق آتی ہیں.قد وقامت کے لحاظ سے مرد عورتوں کی نسبت عموماً دراز قد ہوتے ہیں اور اُن کا جسم بھی مضبوط اور سخت ہوتا ہے.یہی وہ صفات ہیں جو ایک ذمہ دار رکھوالی کرنے والے کیلئے ضروری ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے جو مر دکو گھر کی نگرانی کے فرائض سونپے ہیں اور اُسے قوام قرار دیا ہے تو یہ اُس میں ودیعت کی گئی صلاحتیوں کے عین مطابق ہے.یہاں ایک اہم نکتہ یا درکھنے کی ضرورت ہے کہ دیگر شعبہ ہائے زندگی میں جو مر د رکھوالی کے فرائض سرانجام دیتے ہیں وہ عموماً اُس چیز کے مالک نہیں ہوتے جس کی وہ رکھوالی کر رہے ہوتے ہیں بلکہ وہ ملا زم ہوتے ہیں اور اُس چیز کے مالک سے رکھوالی کی اجرت لیتے ہیں.اُن کا اُس چیز کے ساتھ کوئی ذاتی یا جذباتی لگاؤ نہیں ہوتا بلکہ اُن کی نظر صرف کام اور اجرت پر ہوتی ہے.گھر کے راکھے کی مثال ہم ایک زمیندار سے دے سکتے ہیں جو زمین کا مالک بھی ہوتا ہے.اُسے اپنی کھیتی سے ایک ذاتی تعلق ہوتا ہے.جس درد اور جانفشانی کے ساتھ وہ کام کرتا ہے ایک نوکر ہر گز نہیں کر سکتا.زمیندار اپنی کھیتی میں فصل بھی ہوتا ہے اور پھر اُس کی رکھوالی بھی کرتا ہے.ظاہر ہے ان دونوں رکھوالوں میں بہت بڑا فرق ہے.37
اللہ تعالیٰ نے گھر کے رکھوالے کو بھی زمیندار ہی قرار دیا ہے.سورہ البقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمُ (البقره (۲۲۴) ترجمہ: ” تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں.جب عورتیں کھیتیاں ہیں تو ظاہر ہے مرد زمیندار ہیں.قبل ازیں درج شدہ قَومُونَ والی آیت کو ذہن میں رکھیں تو یہ آیت عین اُس کے مطابق ٹھیک بیٹھتی ہے.نظام دُنیا چلانے کیلئے جس طرح یہ ضروری تھا کہ جسے رکھوالی کی صلاحیتیں دی گئی ہیں بھی اُسے ہی مقرر کیا جاتا اُسی طرح یہ بھی ضروری تھا کہ جسے گھر کا مقرر کیا گیا تھا اُسے اُس کھیتی سے ذاتی تعلق اور لگا ؤ بھی ہوتا.اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو ایک جیسی صلاحیتیں اور طاقتیں عطا نہیں کیں اس لئے زمیندار کا حاصل بھی مختلف ہوتا ہے.اچھی کھیتی باڑی ، مناسب نگہداشت اور بہتر فصل کیلئے جہاں زمیندار کی ذاتی صلاحیت اور محنت بنیادی کردار ادا کرتی ہیں وہاں اس کا کھیتی پر بھی انحصار ہوتا ہے.بعض اوقات زمین تو بہت زرخیز ہوتی ہے مگر زمیندار ہی کاشت کاری کے بنیادی اصولوں کو نہیں جانتا اور نہ ہی مناسب محنت کرتا ہے.بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ زمین ہی بنجر ہوتی ہے.وہاں نہ تو ہل چلتا ہے اور نہ ہی پانی اثر کرتا ہے.اس صورتِ حال میں ایسی زمینوں میں پھر اُونٹ کٹارے ہی اُگتے ہیں.اس لئے ضروری ہے کہ زمیندار اپنی خدا داد صلاحتیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دے اور زمین میں موجود صلاحتیوں سے فائدہ اٹھائے تا کہ بہترین فصل پیدا ہو.38
مخصوص فطری تقاضے بعض لوگ فطرتا رقیق القلب ہوتے ہیں جبکہ بعض سخت دل.بعض حلیم اور نرم مزاج ہوتے ہیں جبکہ کئی دوسرے جو شیلی طبیعت رکھتے ہیں.اسی طرح کئی باتونی ہوتے ہیں اور دوسرے خاموش طبع.جسمانی لحاظ سے کئی دبلے پتلے اور کئی موٹے تازے ہوتے ہیں.بعض تیز بھاگ سکتے ہیں جبکہ دوسرے گولا اچھا پھینک سکتے ہیں.علیٰ ہذالقیاس.صلاحتیوں اور عادات و خصائل میں یہ اختلاف ہرگز کوئی خامی یا نقص نہیں بقول شاعر : گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینت چمن اے ذوق اس چمن کو ہے زیب اختلاف سے دراصل دُنیا میں ہزاروں قسم کے کام ہیں اور ہر ایک کیلئے الگ الگ قابلیت اور صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے.لہذا صلاحتیوں میں یہ اختلاف تقسیم کار کے اصول کی روشنی میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کی ضروریات کے عین مطابق ہیں.اس زاویہ نگاہ سے اگر ہم غور کریں تو عورتوں میں بھی بعض ظاہری جسمانی فرقوں کے علاوہ کئی مخصوص فطری اور جبتی خصائل پائے جاتے ہیں.یہ ہرگز اُن کے نقائص نہیں بلکہ خالق حقیقی نے اپنی خاص حکمت بالغہ کے تحت انہیں بنایا ہی اس طرح ہے.قبل اس کے کہ مردوں کے فرائض پر بحث کی جائے ذیل میں عورتوں کے چند فطری تقاضوں کی نشاندہی کی جارہی ہے جو گھر کے نگران کے ہمیشہ پیش نظر رہنے چاہئیں تا کہ عورت سے معاملہ کرتے وقت اُس کی نفسیات کے مطابق سلوک کیا جا سکے.39 89
ناز کا پہلو سب سے پہلا واسطہ اور تعلق جس سے ایک راکھے کا ہوتا ہے وہ اُس کی اہلیہ ہوتی ہے.اُس کی اپنے جیسی، دل و دماغ اور احساسات و جذبات رکھنے والی شریک حیات جسے اُس نے زندگی کے سفر میں ساتھ لے کر چلنا ہے.مرد کی اس شریک سفر کی فطرت میں قدرتی طور پر ایک قسم کا ناز کا پہلو ہوتا ہے.عورت چاہے مشرق کی ہو یا مغرب کی یہ بات کم و بیش سب میں ہوتی ہے.مثال کے طور پر عورت کے نسوانی تقاضوں کا ہی ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اسے اپنے خاوند پر کسی دوسرے کا حق تسلیم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے چاہے وہ خاوند کے ماں باپ ہی کیوں نہ ہوں.وہ بلا شرکتِ غیرے اُس کی بھر پور توجہ چاہتی ہے.عورت کے اس قسم کے انداز فکر میں شدت کے نتیجے میں بسا اوقات گھر یلو زندگی میں مشکل صورت حال بھی پیدا ہو جاتی ہے.ناز کے پہلو کو فطرتی کبھی بھی کہا جاتا ہے اور اس کی مثال ہمارے آقا ومولا حضرت محمد مصطفے ﷺ نے پہلی سے دی ہے.یہ امر مد نظر رہنا چاہئے کہ عورتوں میں یہ کبھی جب خود خالقِ حقیقی نے پیدا کی ہے تو ضرور اس کا کوئی نہ کوئی فائدہ ہوگا.پسلیاں بھی تو ٹیڑھی ہوتی ہیں اور اگر یہ بالکل سیدھی ہوتیں تو خیال تو کریں کہ ہمارے جسموں کی کیا شکل ہوتی اور پھر ہمارے پھیپھڑوں ، دل اور سینے کے دیگر اعضاء کو جو ان ٹیڑھی پسلیوں نے ایک طاقچے کی طرح اپنے اندر حفاظت سے پکڑا ہوا ہے یہ بھی نہ ہو سکتا.لہذا یہی ماننا پڑتا ہے کہ حکیم مطلق نے جس چیز کو جیسا بنایا ہے وہ اُسی طرح ہی درست ہے خواہ ہم اُس کی حکمت کو سمجھیں یا نہ سمجھیں.اس حوالے سے آنحضرت ﷺ کی ایک حدیث یہاں نقل کی جاتی ہے: 40
حضرت ابو ہر میر کا بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا عورتوں کی بھلائی اور خیر خواہی کا خیال رکھو کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے یعنی اس میں پہلی کی طرح ٹیڑھا پن ہے، پسلی کے اوپر کے حصہ میں زیادہ کبھی ہوتی ہے.اگر تم اسکو سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اسے توڑ دو گے.اگر تم اسے اس کے حال پر ہی رہنے دو گے تو اس کا جو فائدہ ہے وہ تمہیں حاصل ہوتا رہے گا.پس عورتوں سے نرمی کا سلوک کرو اور اس بارہ میں میری نصیحت مانو.ایک اور روایت میں ہے کہ عورت پسلی کی طرح ہے اگر تم اس کو سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اسے توڑ دو گے لیکن اگر اس کے ٹیڑھے پن کے باوجود اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو گے تو فائدہ اٹھا لو گے.( بخاری ) چنانچہ سب سے پہلی اصولی بات جو ایک اچھے راکھے کو ذہن نشین رکھنی ہے وہ یہ ہے کہ اُس کی جیون ساتھی کی فطرت میں ناز و نخرے کا پہلو یا بالفاظ دیگر پسلی کی مانند ایک قسم کی کبھی ہے جس کے بارے میں ہدایت ہے کہ کبھی اسے زبر دستی سیدھا کرنے کی کوشش نہیں کرنی کیونکہ ایسا کرنے سے یہ ٹوٹ جائے گی ، سیدھی نہیں ہوگی.اس لئے دانشمندی اور حکمت سے ناز کے اس فطرتی پہلو کے ساتھ ہی اُس نے اپنی ہم سفر کے ساتھ زندگی گزارنی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں.ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں.ہم کو خدا نے مرد بنایا ہے.در حقیقت ہم پر ا تمام نعمت ہے.اس کا شکر یہ یہ ہے کہ ہم 41
عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤ کریں ( ملفوظات جلد ۲ صفحہ۱) اختلاف رائے یہ ممکن ہی نہیں کہ ہر معاملے میں تمام پہلوؤں سے میاں بیوی میں ہمیشہ اتفاق رائے ہی ہو.یہ کبھی نہیں ہوتا اور کہیں نہیں ہوتا.عموماً عورتیں اپنے خاوند سے اختلاف کرتی ہیں اور یہ بھی اُن کا ایک مخصوص فطرتی تقاضا ہے.اس سلسلہ میں حضرت مصلح موعود فر ماتے ہیں: عورت کو مرد سے رقابت ہوتی ہے اور وہ اس کے مخالف چلنے کی طبعا خواہش مند ہوتی ہے...اس سے مراد یہ ہے کہ عورتوں کی طبیعت میں ایک قسم کی کبھی ہوتی ہے.یہ مطلب نہیں کہ عورتوں میں بے ایمانی ہوتی ہے بلکہ یہ ہے کہ عورت کو خاوند کی بات سے کسی قدر رقابت ہوتی ہے.اور خاوند کی بات پر ضرور اعتراض کرے گی اور جب وہ کوئی بات مانے گی بھی تو تھوڑی بحث کر کے اور یہ اس کی ایک انا کی حالت ہوتی ہے اور اس میں وہ اپنی حکومت کا راز مستور پاتی ہے.“ سیر روحانی جلد اول صفحه ۵۱-۵۲) اسی طرح لغت کی مشہور کتاب مجمع البحار کے حوالے سے آپ فرماتے ہیں : یہ جو حدیث میں آتا ہے کہ عورتیں پہلی سے پیدا کی گئی ہیں یہ کلام استعارہ کی قسم سے ہے اور مراد یہ ہے کہ ان کے اخلاق میں ناز کا پہلو غالب ہوتا ہے یعنی خاوند سے اختلاف کرنے کو ان کا دل طبعا چاہتا ہے اور یہ امر تجربہ سے ثابت ہے کہ عورت اپنے خاوند سے اختلاف کر کے اُس سے اپنی بات منواتی ہے اور اس پر اثر ڈال کر اس پر حکومت کرتی ہے.اسی کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا ہے اور 42
فرمایا ہے کہ عورت پر جبری حکومت نہ کیا کرو بلکہ محبت سے اسے منوایا کرو اور اس کے احساسات کا خیال رکھا کرو کیونکہ وہ بہت باتوں میں مرد کے تابع ہوتی ہے، طبعا مرد کے ہر حکم کو پرکھنا چاہتی ہے اور اس سے اختلاف ظاہر کرتی ہے تا کہ حقیقت کو معلوم کرے.پس مرد کو بھی چاہئے کہ عورت سے جو بات منوائے دلیل اور محبت سے منوائے.اگر جبر اور زور سے منوائے گا تو عورت کا دل ٹوٹ جائے گا اور اس کا پیار کا تعلق مرد سے نہیں رہے گا.( تفسیر کبیر جلد اصفحہ ۳۰۳) ”مرد کے حقوق کو جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ الرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاءِ.اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد کو گھریلو معاملات میں ویٹو پاور کا درجہ حاصل ہے.جب میاں بیوی میں اختلاف کی صورت پیدا ہو جائے تو اس وقت مردکا فیصلہ ناطق ہو گا.لیکن جب اختلاف بڑھ جائے اور مرد ویٹو پاور کا ناجائز استعمال کرے تو عورت کو عدالت کی رُو سے اپنے حقوق لینے کی اجازت ہے.پس میں مردوں خصوصاً نوجوانوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ عدل قائم کریں اور اسلام کے رستے میں دیوار حائل نہ کریں.“ ( اوڑھنی والیوں کیلئے پھول حصہ اول صفحہ ۴۵۲-۴۵۳) پس دوسری اصولی بات ایک کامیاب راکھے کو یہ یا درکھنی ہے کہ بیوی کے اختلاف ظاہر کرنے کا مقصد جیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا ہے صرف اُس کی انا کی کیفیت کا اظہار ہوتا ہے.ایسے موقع پر صبر اور حوصلے سے اُس کی بات کو سنیں اور پیار اور دلیل سے بات کو سمجھانے کی کوشش کریں.یہ بھی یاد رکھیں کہ بے شک مرد قوام ہیں اور آخری فیصلے کا حق انہی کو حاصل ہے لیکن ہر کام صرف اپنی مرضی کے مطابق ہی کرنا دانشمندی نہیں بلکہ ضروری امور کے متعلق اپنی شریک حیات سے بھی مشورہ کرنا چاہئے اور اُس کی رائے پر ٹھنڈے دل سے غور کر کے اور باہم 43
مل کرسفر زندگی کے امور نپٹانے چاہئیں.خوبیاں اور خامیاں ہر انسان میں خوبیوں کے ساتھ ساتھ بعض خامیاں بھی ضرور موجود ہوتی ہیں.مر دوں میں بھی اور عورتوں میں بھی.ایسے لوگ جنہیں کسی پر نگران ، ناظم یا افسر مقرر کیا گیا ہو انہیں عموماً اپنے سے کم درجہ والوں میں ہی خامیاں نظر آتی ہیں اور یہ خیال اُنہیں کبھی نہیں آتا کہ بعض کمزوریاں یا خامیاں خود اُن میں بھی لازماً موجود ہیں جن کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ ماتحتوں کو بھی شکایت ہو.اگر کوئی نگران اس اصولی بات کا لحاظ رکھتا ہے تو پھر اُسے اہلِ خانہ کی کمزوریوں سے صرف نظر کرنے کا زیادہ موقع ملتا ہے.گھر کا ہونے کی حیثیت سے اسے یہ اصول بھی ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ جس طرح اُسے اپنی بیوی میں بعض خامیاں نظر آتی ہیں بالکل اُسی طرح اُسکی بیوی کو بھی اُس کی بعض کمزوریاں ضرور نظر آتی ہونگی.اسی طرح اگر بیوی میں کچھ خامیاں ہیں تو بہت سی خوبیاں بھی ضرور ہیں اور اُسے زیادہ تر خوبیوں پر نظر رکھنی چاہئے.اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے: فَإِنْ كَرهُتُمُوهُنَّ فَعَسَى اَنْ تَكْرَهُوا شَيْئاً وَّ يَجْعَلَ اللَّهُ فِيْهِ خَيْرًا كَثِيرًا (النساء ٢٠) ترجمہ : اور اگر تم انہیں نا پسند کرو تو عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو نا پسند کرو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھ دے.‘ ( ترجمہ از حضرت خلیفہ اسیح الرابع ) اس بارہ میں ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفے ﷺ فرماتے ہیں: مومن کو اپنی مومنہ بیوی سے نفرت اور بغض نہیں رکھنا چاہئے.اگر اُس کی ایک بات تجھے نا پسند ہے تو کچھ اچھی باتیں بھی ہونگی.ہمیشہ اچھی باتوں پر نظر 44
رکھو (مسلم) حضرت خلیفۃ امسیح الاوّل فرماتے ہیں: د عورت مرد کے تعلق کی آپس میں ایسی خطرناک ذمہ داری ہوتی ہے کہ بعض اوقات معمولی معمولی باتوں پر حُسن و جمال کا خیال بھی نہیں رہتا اور عورتیں کسی نہ کسی نہج میں ناپسند ہو جاتی ہیں اور ان کے کسی فعل سے کراہت پیدا ہوتے ہوئے کچھ اور کا اور ہی بن جاتا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا: وَعَاشِرُوهُنَّ بالْمَعْرُوفِ ، فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئاً وَّ يَجْعَلَ اللَّهُ فِيْهِ خَيْرًا كَثِيرًا.پس عزیز و اتم دیکھو.اگر تم کو اپنی بیوی کی کوئی بات نا پسند ہو تو تم اس کے ساتھ پھر بھی عمدہ سلوک ہی کرو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم اس میں عمدگی اور خوبی ڈال دیں گے.ہو سکتا ہے کہ ایک بات حقیقت میں عمدہ ہو اور تم کو بُری معلوم ہوتی ہے.“ ( حقائق الفرقان جلد۲ صفحہ ۱۳) حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى اَنْ تَكْرَهُوا شَيْئاً وَيَجْعَلَ اللهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا.(النساء۲۰) کہ اُن سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو.اگر تم انہیں نا پسند کرو تو عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو نا پسند کرو اور اللہ اُس میں بہت بھلائی رکھ دے.پس جب شادی ہوگئی تو اب شرافت کا تقاضا یہی ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کریں.ایک دوسرے کو سمجھیں.اللہ کا تقویٰ اختیار کریں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر اللہ کی بات مانتے ہوئے ایک دوسرے سے حسنِ سلوک کرو گے تو بظاہر نا پسندیدگی، پسند میں بدل 45
سکتی ہے اور تم اس رشتے سے زیادہ بھلائی اور خیر پاسکتے ہو کیونکہ تمہیں غیب کا علم نہیں ہے.اللہ تعالیٰ غیب کا علم رکھتا ہے اور سب قدرتوں کا مالک ہے.وہ تمہارے لئے اس میں بھلائی اور خیر رکھ دے گا.“ (خطبہ جمعہ فرموده ۱۰ نومبر آنگنے ۲۰۰۶ بحوالہ الفضل انٹر نیشنل اتاے دسمبر ۲۰۰۶) عورت صنف نازک کہلاتی ہے.جسمانی لحاظ سے مرد کی نسبت کمزور اور نازک اندام ہوتی ہے لیکن یہ ہرگز کوئی نقص نہیں ہے.ہاں اگر عورت نازک نہ ہوتی اور اُس کا جسم مردوں کی طرح ہوتا تو بلا شبہ یہ ایک نقص ہوتا.ایسی عورت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس میں تو نسوانیت ہی نہیں.دراصل اس میں بھی ایک عظیم حکمت پنہاں ہے.اس کی اسی نزاکت میں ہی حسن ، کشش اور جذب کا راز پایا جاتا ہے.حدیث میں عورت کو توار بر یعنی آبگینے بھی کہا گیا ہے اور اس سے لطف ونرمی کے سلوک کی تلقین پائی جاتی ہے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک سفر میں آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات بھی آپ کے ساتھ تھیں.ایک حبشی غلام حذی پڑھنے لگے جس سے اونٹوں نے تیز چلنا شروع کر دیا اور خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں کوئی اونٹ سے گر ہی نہ جائے.آپ ﷺ نے فرمایا: رُوَيْدَكَ سَوْقًا بِالْقَوَارِيرِ یعنی دیکھنا یہ شیشے اور آبگینے ہیں کہیں ٹوٹ ہی نہ جائیں.(مسلم ) ایک دفعہ آپ ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت صفیہ آپ کے ساتھ اونٹ پر سوار تھیں.اونٹ کا پاؤں پھسلا اور آپ دونوں نیچے گر پڑے.حضرت طلحہ جو قریب ہی تھے لپک کر آپ ﷺ کی طرف بڑھے لیکن آپ ﷺ نے فرمایا: عَلَيْكَ بِالْمَرئَةِ الْمَرْأَةُ الْمَرَاةُ یعنی پہلے عورت کا خیال کرو.بعض امور ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں ثابت کرنے کیلئے کسی بڑی دلیل کی ضرورت نہیں 46
ہوتی ، مشاہدہ اور عام دستور دنیا ہی اُن پر کافی دلیل ہوتا ہے.یہ بھی ایسے ہی امور میں سے ایک ہے.دُنیا بھر میں قدرتی آفات یا حادثات کے مواقع پر سب سے پہلے بچوں اور عورتوں کو بچانے کی صلى الله کوشش کی جاتی ہے.آجکل جو Ladies first کہا جاتا ہے یہ وہی بات ہے آنحضرت میر نے چودہ سوسال پہلے بیان فرما دی تھی.ایسی کمزور اور نازک صنف سے جسے آبگینہ کہا گیا ہے بڑی احتیاط سے برتاؤ کی ضرورت ہے.ایک طاقتور اور مضبوط مرد کا اس سے کیا مقابلہ.اس لئے گھر کے راکھے کو یہ اصولی بات بھی ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہئے اور جب کبھی کوئی ایسی صورت سامنے آ جائے تو مناسب اور باوقار طریق سے مقابلے سے حتی الوسع گریز کا پہلو اختیار کرنا ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں: ” میرے نزدیک وہ شخص بزدل اور نامرد ہے جو عورت کے مقابلہ میں کھڑا ہوتا ہے“ ( ملفوظات جلد ۴ صفحه ۴۴) حضرت خلیفہ مسیح اول فر ماتے ہیں : چونکہ عورتیں بہت نازک ہوتی ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان سے ہمیشہ رحم و ترس سے کام لیا جائے اور ان سے خوش خلقی اور علیمی برتی جائے.“ ( خطبات نور جلد ۲ صفحه ۲۱۷) پس گھر کے راکھے کو ایک یہ اصول بھی مد نظر رکھنا ہے کہ اُس کی شریک سفر جسمانی لحاظ سے کمزور اور نازک اندام ہے گویا کہ اُس کی ہتھیلی پر ایک آبگینہ دھرا ہے جسے ساتھ لئے اُس نے سفر زندگی جاری رکھنا ہے.47
احتیاط اے مسافر ہستی تیرے ہاتھوں میں آبگینے ہیں خلاصہ کلام یہ کہ عورتوں میں بالعموم ناز کا پہلو غالب ہوتا ہے اور مخالفانہ رائے کا اظہار بھی کرتی ہیں.نازک اتنی کہ گویا آبگینے ہیں اور ذرا سی ٹھوکر سے ٹوٹنے کا اندیشہ ہے.صنف نازک ہونے کی وجہ سے جسمانی لحاظ سے کمزور ہیں.ایک اچھے اور کامیاب راکھے کیلئے لازم ہے کہ اپنی شریک حیات سے معاملہ کرتے ہوئے ان فطری تقاضوں کو ہمیشہ مد نظر رکھے.اُس کیلئے اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے کہ اُس نے ان تقاضوں کے اظہار کے وقت حو صلے اور برداشت سے کام لیتے ہوئے نرمی اور لطف کا ہی سلوک کرنا ہے.48
راکھے کے فرائض جیون ساتھی کا انتخاب کامیاب عائلی زندگی کیلئے شریک حیات کے انتخاب کو بنیادی حیثیت حاصل ہے.یورپ میں شادیوں کی ناکامی اور طلاق کی شرح میں غیر معمولی اضافے کی ایک بڑی وجہ شریک حیات کے انتخاب کا وہ طریق بھی ہے جو یہاں رائج ہے.لڑکی لڑکا خود ہی تعلیمی اداروں ، نائٹ کلبوں یا سیر گاہوں وغیرہ میں ایک دوسرے کو پسند کر کے دوستی کر لیتے ہیں.در حقیقت یہ دوستی شہوت پرستی کا ایک مہذب طریق ہے کیونکہ عموماً دوستی کے پہلے دن سے ہی یہ کام شروع ہو جاتا ہے.اس کی بنیاد چونکہ ظاہری شکل وصورت کی پسند نا پسند پر ہوتی ہے اس لئے یہ دوستی دیر پا نہیں ہوتی.کچھ عرصے کے بعد جب نشہ اتر جاتا ہے اور ایک سے دل بھر جاتا ہے تو نظریں کسی اور پر جمنے لگتی ہیں.یوں کئی کئی دوست تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور پھر شاذ و نادر کے طور پر کسی دوستی کا انجام شادی بھی ہو جاتا ہے.لیکن آجکل تو اس معاشرے میں شادی کے بغیر ہی کام چلانے کا رجحان بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے.اسلامی معاشرے میں پورا خاندان بچوں کیلئے شریک حیات کے انتخاب میں شامل ہوتا ہے.دونوں اطراف سے والدین لڑکے لڑکی کے کوائف ، سیرت وکردار اور خاندانی حالات وغیرہ دیکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے راہنمائی طلب کرنے کیلئے راستبازوں کے طریق کے مطابق استخارہ بھی کرتے ہیں.یہ رشتے چونکہ وقتی جذبات یا محض ظاہری شکل وصورت کی بنیاد پر نہیں بلکہ نہایت سوچ سمجھ کر اور پورے حالات کا جائزہ لے کر کئے جاتے ہیں اس لئے عموماً کامیاب ہوتے ہیں.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی فرماتے ہیں: 49
یورپ میں ہزاروں مثالیں ایسی پائی جاتی ہیں کہ بعض لوگ دھو کے باز اور فریبی تھے مگر اس وجہ سے کہ وہ خوش وضع نوجوان تھے انہوں نے بڑے بڑے گھرانوں کی لڑکیوں سے شادیاں کر لیں اور بعد میں کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہوئیں لیکن ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوتا.کیونکہ رشتہ کی تجویز کے وقت باپ غور کرتا ہے.والدہ غور کرتی ہے.بھائی سوچتے ہیں.رشتہ دار تحقیق کرتے ہیں اور اس طرح جو بات طے ہوتی ہے وہ بالعموم ان نقائص سے پاک ہوتی ہے جو یورپ میں نظر آتے ہیں.یہ واقعات ہیں جو یورپ میں کثرت سے ہوتے رہتے ہیں.ان واقعات سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے مردوں کے قوام ہونے کے متعلق جو کچھ فیصلہ کیا ہے وہ بالکل درست ہے.شریعت کا اس سے یہ منشاء نہیں کہ عورتوں پر ظلم ہو یا اُن کی کوئی حق تلفی ہو بلکہ شریعت کا اس امتیاز سے یہ منشاء ہے کہ جن باتوں میں عورتوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے اُن میں عورتوں کو نقصان سے محفوظ رکھا جائے....پس قرآن کریم نے جو کچھ کہا ہے وہ اپنے اندر بڑی حکمتیں اور مصالح رکھتا ہے.اگر دنیا ان کے خلاف عمل کر رہی ہے تو وہ کئی قسم کے نقصانات بھی برداشت کر رہی ہے جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام کے خلاف عمل پیرا ہونا کبھی نیک نتائج کا حامل نہیں ہوسکتا.“ (تفسیر کبیر جلد ۲ صفحہ (۵۱۴-۵۱۳ حضور نے جس وقت یہ بات لکھی تھی آج مغربی معاشرہ اُس سے بہت آگے نکل چکا ہے.آج کل تو یہاں شادی وغیرہ کا بندھن ہی سرے سے ختم ہونے کو ہے.بہر حال جن جن راستوں سے گزر کر یہاں جیون ساتھی اپنایا جاتا ہے اس میں چونکہ سرا سر نقصان ہی نقصان ہے اس لئے اسلام اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: 50
وَالْمُحْصَنَتُ مِنَ الْمُؤْمِنتِ وَالْمُحْصَنَتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ مِنْ قَبْلِكُمْ إِذَا اتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسْفِحِيْنَ وَلَا مُتَّخِذِى أخْدَانِ (المائدہ آیت (۶) ترجمہ : ” اور پاکباز مومن عورتیں اور ان لوگوں میں سے پاکباز عور تیں بھی جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تمہارے لئے حلال ہیں جبکہ تم انہیں نکاح میں لاتے ہوئے ان کے حق مہر ادا کرو، نہ کہ بدکاری کے مرتکب بنتے ہوئے اور نہ ہی پوشیدہ دوست بناتے ہوئے.“ حضرت خلیفہ اسیح الاوّل فرماتے ہیں: وو نکاح کی نسبت اللہ کریم فرماتا ہے کہ اس سے غرض صرف مستی کا مٹانا ہی نہ ہو بلکہ مُحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسْفِحِین کو مدِ نظر ر کھے اور ہر ایک بات میں اس خدا کے آگے جس کے ہاتھ میں مال جان ، اخلاق و عادات اور ہر ایک طرح کا آرام ہے بہت بہت استغفار کرے اور بے پرواہی سے کام نہ لے خواہ وہ انتخاب لڑکوں کا ہو یالڑکیوں کا کیونکہ بعد میں بڑے بڑے ابتلاؤں کا سامنا ہوا کرتا ہے.“ (حقائق الفرقان جلد ۲ صفحه (۱۵) قرآن کریم کی اس آیت میں خاص طور پر یورپ کے موجودہ حالات کے پیش نظر ہمارے لئے بہت ہی واضح پیغام موجود ہے.یاد رکھنا چاہئے کہ قرآنی اصطلاح میں اہلِ کتاب.سے مراد صرف یہود اور نصاریٰ ہیں.جیسا کہ بیان ہو چکا ہے یہ پہلو نہایت اہمیت کا حامل ہے اس لئے اس کی کچھ مزید تفصیل کیلئے آنحضرت ﷺ کی ایک حدیث پیش کی جاتی ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رُسُوْلُ اللَّهِ صَلَّ اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِاَرْبَعِ لِمَالِهَا وَ لِحَسَبِهَا وَلِجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا فَاظُفُرُ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ ( بخاری ) 51
ترجمہ: ”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ بیوی کے انتخاب میں عموماً چار باتیں مدنظر رکھی جاتی ہیں.بعض لوگ تو کسی عورت کے مال و دولت کی وجہ سے اس کے ساتھ شادی کرنے کی خواہش کرتے ہیں اور بعض لوگ عورت کے خاندان اور حسب نسب کی وجہ سے شادی کے خواہاں ہوتے ہیں اور بعض لوگ عورت کے حسن و جمال پر اپنے انتخاب کی بنیا د ر کھتے ہیں.اور بعض لوگ عورت کے دین اور اخلاق کی وجہ سے بیوی کا انتخاب کرتے ہیں.سواے مرد و ! تم دین دار اور با اخلاق رفیقہ حیات چن کر اپنی زندگی کو کامیاب بنانے کی کوشش کرو ورنہ تمہارے ہاتھ ہمیشہ خاک آلود رہیں گے.،، 66 اس حدیث کی تشریح میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں: اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے یہ بتانے کے بعد کہ دنیا میں عام طور پر بیوی کا انتخاب کن اصولوں پر کیا جاتا ہے مسلمانوں کو تاکید فرمائی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے انتخاب میں دین اور اخلاق کے پہلو کو مقدم رکھا کریں آپ فرماتے ہیں کہ اس کے نتیجہ میں ان کی اہلی زندگی کامیاب اور بابرکت رہے گی.ورنہ خواہ وہ سطحی اور عارضی خوشی حاصل کر لیں انہیں کبھی بھی حقیقی اور دائمی راحت نصیب نہیں ہو سکتی.آنحضرت ﷺ کا یہ مبارک ارشاد نہایت گہری حکمت پر مبنی ہے کیونکہ اس میں نہ صرف مسلمانوں کی اہلی زندگی کو بہترین بنیاد پر قائم کرنے کا رستہ کھولا گیا ہے بلکہ ان کی آئندہ نسلوں کی حفاظت اور ترقی کا سامان بھی مہیا کیا گیا ہے.مگر افسوس ہے کہ دوسری اقوام تو الگ رہیں خود مسلمانوں میں بھی آج کل کثیر حصہ ان 52
لوگوں کا ہے جو بیوی کا انتخاب کرتے ہوئے یا تو دین اور اخلاق کے پہلو کو بالکل ہی نظر انداز کر دیتے ہیں اور یا دین اور اخلاق کی نسبت دوسری باتوں کی طرف زیادہ دیکھتے ہیں.کوئی شخص تو عورت کے حسن پر فریفتہ ہو کر باقی باتوں کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتا ہے اور کوئی اس کے حسب ونسب کا دلدادہ بن کر دوسری باتوں کو نظر انداز کر دیتا ہے.اور کوئی اس کی دولت کے لالچ میں آکر اس کے ہاتھ پر بک جانا چاہتا ہے حالانکہ اصل چیز جو اہلی زندگی کی دائمی خوشی کی بنیاد بن سکتی ہے وہ عورت کا دین اور اس کے اخلاق ہیں.دنیا میں بے شمار ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ ایک شخص نے کسی عورت کو محض اس کی شکل وصورت کی بناء پر انتخاب کیا لیکن کچھ عرصہ گذرنے پر جب اس کے حسن و جمال میں تنزل کے آثار پیدا ہو گئے کیونکہ جسمانی حسن ایک فانی چیز ہے یا اس کی نسبت کسی زیادہ حسین عورت کو دیکھنے کی وجہ سے بے اصول خاوند کی توجہ اس کی طرف سے ہٹ گئی یا بیوی کے ساتھ شب و روز کا واسطہ پڑنے کے نتیجہ میں اس کی عادات کے بعض ناگوار پہلو خاوند کی آنکھوں کے سامنے آگئے تو ایسی صورت میں زندگی کی خوشی تو در کنار خاوند کے لئے اس کا گھر حقیقتاً ایک دوزخ بن جاتا ہے اور یہی حال حسب و نسب اور دولت کا ہے کیونکہ حسب و نسب کی وجہ سے تو بسا اوقات بیوی کے دل میں خاوند کے مقابلہ میں بڑائی اور تفاخر کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے جو خانگی خوشی کیلئے مہلک ہے اور دولت ایک آنی جانی چیز ہے جو آج ہے اور کل کو ختم ہوسکتی ہے اور پھر بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ بیوی کی دولت خاوند کیلئے مصیبت ہو جاتی ہے اور راحت کا سامان نہیں بنتی.پس جیسا کہ آنحضرت مہ نے فرمایا ہے گھر یلو اتحاد 53
اور گھر یلو خوشی کی حقیقی بنیا د عورت کے دین اور اس کے اخلاق پر قائم ہوتی ہے.اور بڑا ہی بد قسمت ہے وہ انسان جو ٹھوس اوصاف کو چھوڑ کر وقتی کھلونوں یا طمع سازی کی چیزوں کے پیچھے بھاگتا ہے.پھر ایک نیک اور خوش اخلاق بیوی کا جو گہرا اثر اولاد پر پڑتا ہے وہ تو ایک ایسی دائمی نعمت ہے جس کی طرف سے کوئی دانا شخص جسے اپنی ذاتی راحت کے علاوہ نسلی ترقی کا بھی احساس ہو آنکھیں بند نہیں کر سکتا.ظاہر ہے کہ بچپن میں اولاد کی اصل تربیت ماں کے سپر د ہوتی ہے کیونکہ ایک تو بچپن میں بچہ کو طبعا ماں کی طرف زیادہ رغبت ہوتی ہے اور وہ اسی سے زیادہ بے تکلف ہوتا ہے اور اس کے پاس اپنا زیادہ وقت گزارتا ہے اور دوسرے باپ اپنے دیگر فرائض کی وجہ سے اولاد کی طرف زیادہ توجہ بھی نہیں دے سکتا.پس اولاد کی ابتدائی تربیت کی بڑی ذمہ داری بہر حال ماں پر پڑتی ہے.لہذا اگر ماں نیک اور با اخلاق ہو تو وہ اپنے بچوں کے اخلاق کو شروع سے ہی اچھی بنیاد پر قائم کر دیتی ہے.لیکن اس کے مقابل پر ایک ایسی عورت جو دین اور اخلاق کے زیور سے عاری ہے وہ کبھی بھی بچوں میں نیک اخلاق اور نیک عادات پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی.بلکہ حق یہ ہے کہ ایسی عورت بسا اوقات دین کی اہمیت اور نیک اخلاق کی ضرورت کو مجھتی ہی نہیں.پس نہ صرف خانگی خوشی کے لحاظ سے بلکہ آئندہ نسل کی حفاظت اور ترقی کے لحاظ سے بھی نیک اور با اخلاق بیوی ایک ایسی عظیم الشان نعمت ہے کہ دنیا کی کوئی اور نعمت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.اسی لئے ہمارے آقا ہے دوسری جگہ فرماتے ہیں: خير متاع الدنيا المراة الصالحة یعنی نیک بیوی دنیا کی بہترین نعمت ہے.54
مگر حدیث زیر نظر کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ بیوی کے انتخاب میں دوسری تمام باتوں کو بالکل ہی نظر انداز کر دینا چاہئے بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ نیکی اور اخلاق کے پہلو کو مقدم رکھنا چاہئے.ورنہ بعض دوسرے موقعوں پر آنحضور ﷺ نے خود دوسری باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ وہ بھی ایک حد تک انسانی فطرت کے تقاضے ہیں.مثلاً پردہ کے احکام کے باوجود آنحضرت ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ شادی سے پہلے اپنی ہونے والی بیوی کو دیکھ لیا کرو تا کہ ایسا نہ ہو کہ بعد میں شکل وصورت کی وجہ سے تمہارے دل میں انقباض پیدا ہو اور ایک دوسرے موقعہ پر جب ایک عورت اپنی شادی کے متعلق آپ سے مشورہ لینے کی غرض سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ نے فرمایا میں تمہیں فلاں شخص سے شادی کا مشورہ نہیں دیتا کیونکہ وہ مفلس اور تنگ دست ہے اور تمہارے اخراجات برداشت نہیں کر سکے گا اور نہ میں فلاں شخص کے متعلق مشورہ دے سکتا ہوں کیونکہ اس کے ہاتھ کا ڈنڈا ہر وقت ہی اٹھا رہتا ہے.ہاں فلاں شخص کے ساتھ شادی کر لو وہ تمہارے مناسب حال ہے اور ایک تیسرے موقعہ پر آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ قبیلہ قریش کی عورتیں خاوند کی وفادار اور اولاد پر شفقت کے حق میں اچھی ہوتی ہیں اور ایک چوتھے موقعہ پر آپ نے فرمایا کہ حتی الوسع زیادہ اولاد پیدا کرنے والی عورتوں کے ساتھ شادی کرو تا کہ میں قیامت کے دن اپنی امت کی کثرت پر فخر کر سکوں.الغرض آپ نے اپنے اپنے موقعہ پر اور اپنی اپنی حدود کے اندر بعض دوسری باتوں کی طرف بھی توجہ دلائی ہے.لیکن جس بات پر آپ نے خاص طور پر زور دیا ہے وہ یہ ہے کہ ترجیح بہر حال دین اور اخلاق کے پہلو کو ہونی چاہئے ورنہ تم اپنے 55
ہاتھوں کو خاک آلود کرنے کے خود ذمہ دار ہو گے.یہ وہ زریں تعلیم ہے جس پر عمل کر کے مسلمانوں کے گھر برکت و راحت کا گہوارہ بن سکتے ہیں.کاش وہ اسے وو سمجھیں!.‘ ( چالیس جواہر پارے صفحہ ۶ ۵ تا۵۹) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” ہماری قوم میں یہ بھی ایک بد رسم ہے کہ دوسری قوم کولڑ کی دینا پسند نہیں کرتے بلکہ حتی الوسع لینا بھی پسند نہیں کرتے.یہ سراسر تکبر اور نخوت کا طریقہ ہے جو احکامِ شریعت کے بالکل بر خلاف ہے.بنی آدم سب خدا تعالیٰ کے بندے ہیں.رشتہ ناطہ میں یہ دیکھنا چاہئے کہ جس سے نکاح کیا جاتا ہے وہ نیک بخت اور نیک وضع آدمی ہے اور کسی ایسی آفت میں مبتلا تو نہیں جو موجب فتنہ ہو.اور یادرکھنا چاہئے کہ اسلام میں قوموں کا کچھ بھی لحاظ نہیں.صرف تقویٰ اور نیک بختی کا لحاظ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمُ یعنی تم میں سے خدا تعالیٰ کے نزدیک زیادہ تر بزرگ وہی ہے جو زیادہ تر پرہیز گار ہے.(ملفوظات جلده اصفحہ ۴۶) حضرت خلیفہ اسی اول سورۃ النساء کی آیت نمبر ۲ جو يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا سے شروع ہوتی ہے کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وہ تعلق جو میاں بیوی میں پیدا ہوتا ہے بظاہر وہ ایک آن کی بات ہوتی ہے.ایک شخص کہتا ہے کہ میں نے اپنی لڑکی دی اور دوسرا کہتا ہے کہ میں نے لی.بظاہر یہ ایک سیکنڈ کی بات ہے مگر اس ایک بات سے ساری عمر کیلئے تعلقات کو وابستہ کیا جاتا ہے اور عظیم الشان ذمہ داریوں اور جواب دہیوں کا جو امیاں بیوی کی گردن پر رکھا جاتا ہے.اس لئے اس سورۃ کو یا يُّهَا النَّاسُ سے شروع کیا ہے.کوئی اس 56
میں مخصوص نہیں ساری مخلوق کو مخاطب کیا ہے.مومن، مقرب،مخلص، اصحاب الیمین.غرض کوئی ہو کسی کو الگ نہیں کیا.یايُّهَا النَّاسُ فرمایا.النَّاسُ جوانس سے تعلق رکھتا ہے وہ انسان ہے.انسان جب اُنس سے تعلق رکھتا ہے تو سارے انسوں کا سرچشمہ میاں بیوی کے تعلق کے اندر نکاح کا اُنس ہے.اس کے ساتھ اگر ایک اجنبی لڑکی پر فرائض کا بوجھ رکھا گیا ہے تو اجنبی لڑکے پر بھی اس کی ذمہ داریوں کا ایک بوجھ رکھا گیا ہے.اس لئے اس تعلق میں ، ہاں اس نازک تعلق میں جو بہت سی نئی ذمہ داریوں اور فرائض کو پیدا کرتا ہے کامل انس کی ضرورت ہے جس کے بغیر اس بوجھ کا اٹھانا بہت ہی ناگوار اور تلخ ہو جاتا ہے لیکن جب وہ کامل انس ہو تو رحمت اور فضل انسان کے شامل حال ہو سکتے ہیں.غرض اس تعلق کی ابتدا انس سے ہونی چاہئے تا کہ دو اجنبی وجود متحد فی الارادت ہو جائیں.“ ( حقائق الفرقان جلد ۲ صفحه ۲ ) حضرت خلیفۃ امسیح الرابع فرماتے ہیں: بعض لوگ اپنے معیار سے اونچا چاہتے ہیں.بعض لڑکیاں بڑی ہو رہی ہیں اور معیار سے اونچے رشتہ کی تمنا میں بیٹھی رہتی ہیں.اپنا معیار بھی تو دیکھیں.اسی کے مطابق رشتہ بھی قبول کر لیں.اور بعض جگہ یہ ظلم ہو رہا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ولی تو باپ کو بنایا ہے لیکن ماں ، باپ کے اوپر سوار ہوتی ہے اور لڑکیاں بھی اپنی ماں کی طرفداری کر رہی ہوتی ہیں اور ایسی لڑکیاں سوائے اس کے کہ گھر میں بیٹھی بڑھی (بوڑھی) ہو جائیں اور ان کا کیا علاج کیا جائے.اونچے معیار بنائے ہوئے ہیں.آخر ا گلے نے بھی تو معیار دیکھنا ہوتا ہے.جس نے لڑ کی ڈھونڈنی ہے وہ بھی 57
تو کوئی معیار چاہتا ہے.تو یک طرفہ معیار کا جو اونچے معیار کا مطالبہ ہے یہ بہت بڑا گناہ ہے بلکہ ہماری شادی کے رشتوں میں بہت بڑی لعنت ہے، اس کو ختم کرنا چاہئے.اور ولی خدا نے ماں کو نہیں بنایا، ولی باپ کو بنایا ہے.اس لئے باپ جہاں شادی کرنا چاہتا ہے اس میں ماں کو چاہئے ہرگز دخل اندازی نہ کرے اور اپنی بیٹیوں کو بھی سمجھائے کہ باپ آخر تمہارا دشمن نہیں ، خدا نے اُس کو ولی مقرر کیا ہے.جس جگہ بھی وہ چاہتا ہے وہاں شادی کر لو ور نہ گھر بیٹھی بیٹھی بڑھی ہو جاؤ گی اور کوئی تمہیں نہیں پوچھے گا.“ (الفضل ۲۸ مارچ ۲۰۰۱) سورہ المائدہ کی محولہ بالا آیت میں پاکدامن اہلِ کتاب عورتیں شادی کرنے کیلئے حلال قرار دی گئی ہیں.یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ارشاد خدا وندی مخصوص حالات میں ایک اجازت کے رنگ میں ہے.اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ مسلمانوں کو غیر مسلم اہلِ کتاب عورتوں سے شادی کی عام اجازت ہے.بخاری شریف کی جو حدیث اوپر درج کی گئی ہے اُس میں آنحضرت میے مسلمانوں کو ہدایت کر رہے ہیں کہ وہ بیوی کے انتخاب میں دین کے پہلو کو مقدم رکھا کریں.اس فرمان رسول ﷺ سے انسان آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ دین کا ایک نہایت اہم پہلو ہم عقیدہ ہونا بھی ہے.مختلف مذاہب اور عقائد کے حامل والدین کی نہ صرف اولا دشعور کی عمر کو پہنچ کر مشکلات کا شکار ہو جاتی ہے بلکہ اس وجہ سے عموماً اُن میاں بیوی میں بھی اختلافات جنم لے کر گھر کے امن کو تباہ کر دیتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ اس قسم کی شادیوں کے نتیجے میں بے شمار تمدنی، معاشرتی، مذہبی اور تربیتی مسائل اور الجھنوں کے پیش نظر غیر مسلم تو ایک طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خلفائے احمدیت کے نہایت ہی واضح ارشادت موجود ہیں کہ احمدی مسلمانوں کوصرف احمدیوں میں ہی رشتے کرنے چاہئیں.شروع میں مخصوص حالات کے پیش 58
نظر غیر احمدی لڑکی سے شادی کی اجازت تھی لیکن بعد میں ان شادیوں کے نقصانات کی وجہ سے احمدیوں کیلئے یہی ہدایت ہے کہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں اُن کے رشتے احمد یوں میں ہی ہوں.اس بارے میں حضرت خلیفہ ایسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ” یہ جماعت احمدیہ میں بہر حال دیکھا جائے گا کہ لڑکی جہاں رشتہ کر رہی ہے یا رشتے کی خواہش رکھتی ہے وہ لڑکا بہر حال احمدی ہو.کیونکہ ان تمام باتوں کا مقصد پاک معاشرے کا قیام ہے.نیکیوں کو قائم کرنا ہے اور نیک اولا د کا حصول ہے.اگر احمدی لڑکے احمدی لڑکیوں کو چھوڑ کر دوسروں سے شادیاں کریں گے تو معاشرے میں، خاندان میں فساد پیدا ہونے کا خطرہ ہوگا.نئی نسل کے دین سے ہٹنے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا.اس لئے دین کا کفو د یکھنا بھی اسی طرح ضروری ہے جس طرح دنیا کا.(روز نامه الفضل ربو ۱۲۰ اپریل ۲۰۰۵) بعض دفعہ احمدی لڑکے غیر احمدی لڑکیوں سے شادی کر لیتے ہیں اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ اہلِ کتاب سے شادی جائز رکھی گئی ہے.مگر وہ قران کریم کی ان آیات کو بھول جاتے ہیں جن میں اہلِ کتاب کو مشرکوں کے ساتھ شامل کیا گیا ہے.لہذا جب وہ غیر مسلموں سے شادی کر لیتے ہیں تو پھر چند سالوں بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ غلطی ہوئی ہے.اس کے مضر اثرات اولا د اور خود اپنے پر دیکھتے ہیں تو پھر اپنی روشن خیالی پر نادم ہوتے ہیں جو دراصل تاریک خیالی ہے.لیکن اس وقت تک بہت نقصان ہو چکا ہوتا ہے.اسی طرح بعض لڑکیاں جو اپنی آزادانہ اور بے حجابانہ روش کے نتیجہ میں غیر احمدی اور غیر مسلم لڑکوں سے شادی کر لیتی ہیں اور وہ لڑکا احمدیت بھی قبول کر لیتا ہے تو وہ 59
بھی بہت سی مشکلات کا شکار ہو جاتی ہیں.اُن کا خاندان بھی مشکلات میں پڑ جاتا ہے.اگر چہ شروع شروع میں بعض والدین اس بات پر زیادہ توجہ نہیں دیتے مگر جب آہستہ آہستہ اُن کی اولا واحمدیت سے دور ہونی شروع ہو جاتی ہے اور وہ خود بھی شرمندگی کے احساس سے جماعت میں آنا جانا کم کر دیتے ہیں اور پھر بہت دور چلے جاتے ہیں تب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے.لہذا تمام احمدی بچیوں کو ہمیشہ اسلامی تعلیم کو مد نظر رکھنا چاہئے.تمام والدین کو رشتے طے کرتے وقت اسلامی تعلیم کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ خاندان ، دولت ، عزت و مرتبہ کسی بھی چیز کو ترجیح نہ دو.صرف اور صرف تقوی اور نیکی کو دیکھو.دینی حالت کو دیکھو.اگر نیکی اور تقویٰ دیکھ کر رشتے طے کئے جائیں تو اللہ تعالیٰ برکت دے گا اور آئندہ نسلوں میں بھی نیکی قائم رہے گی.“ (الفضل انٹرنیشنل ۱۸ تا ۲۴ اگست ۲۰۰۶) شریک حیات کے انتخاب کے سلسلے میں ایک نہایت ہی اہم بات یہ ہے کہ والدین کو اپنے بچوں کے نیک ساتھیوں کیلئے دعائیں کرتے رہنا چاہئے.پھر رشتوں کی تجویز کے وقت ظاہری اور عمومی باتوں میں تسلی کر لینے کے بعد ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور بھی جھکیں کیونکہ بعض اوقات انسان اپنی سمجھ کے مطابق ایک چیز کو اپنے لئے بہتر سمجھ رہا ہوتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کے علم میں ہوتا ہے کہ یہ اُس کیلئے بہتر نہیں.اسی لئے اسلام میں استخارہ کا نہایت ہی بابرکت طریق مسلمانوں کو بتایا گیا ہے کہ علام الغیوب خدا سے رہنمائی لیں.پھر دیکھا گیا ہے کہ والدین تو استخارہ کرتے ہیں لیکن وہ بچے اور بچیاں جن کی شادی ہوئی ہوتی ہے انہیں اس طرف متوجہ نہیں کیا جاتا حالانکہ بہت ضروری ہے کہ وہ بھی ایک ساتھی کیلئے عام طور پر بھی خدا کے حضور دعائیں کرتے رہیں اور رشتہ کی تجویز کے بعد استخارہ بھی کریں.حضرت خلیفہ اسیح الرابع فرماتے ہیں: 60
ہمیں ہر کام کا آغاز دعا سے کرنا چاہئے.اور رشتہ ناطہ کے معاملہ میں تو خاص طور پر دعا اور استخارہ سے کام لینا چاہئے...نیک دلی سے پُر سوز دعائیں کریں اور دل کو تسکی اور اطمینان ہو جائے تو خدا تعالیٰ پر توکل کریں.اسلام نے ہمیں اس بات کی تعلیم دی ہے کہ شادی کیلئے انسان دعا کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے راہنمائی حاصل کرے.جیسا کہ استخارہ کرنے کا طریق رائج ہے.رشتہ خواہ بیٹی کا پیش نظر ہو یا بیٹے کا یا کسی اور عزیز کا ہر صورت میں ماں باپ کی یہ پہلی اور بنیادی ذمہ داری ہے کہ رشتہ کے مسئلے کا انتہائی عاجزانہ دعا کے ساتھ آغاز کریں.دعاؤں کو رشتہ میں بہت اہمیت ہے اور دعاؤں کا اثر اولاد پر بہت دور تک پڑتا ہے.“ ( الفضل ۲۰ اگست ۲۰۰۲) پس سب سے پہلی بات جو ایک مرد کو پیش نظر رکھنی ہوتی ہے اور جس سے اُس کی عائلی زندگی کا آغاز ہونا ہوتا ہے وہ ہے جیون ساتھی کا درست انتخاب.یہ وہ بنیاد ہے جس پر عائلی زندگی کی عمارت استوار ہوتی ہے.لہذا ضروری ہے کہ وہ اس اہم ترین پہلو پر خصوصی توجہ دے اور اپنی شریک حیات کا انتخاب اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کرے.چونکہ شریک حیات کے انتخاب کے معاملے میں والدین پوری طرح ملوث ہوتے ہیں اس لئے انہیں بھی چاہئے کہ اپنی ترجیحات کو اسلامی تعلیم کے مطابق رکھیں.اپنے بچوں کے جیون ساتھیوں کے بارے میں اُن کی رضا و رغبت اور کفو کے مطابق فیصلے کریں.اگر تو انتخاب ہم کفو ہے تو بہن بھائیوں یا دیگر رشتہ داروں کی خوشنودی اور فائدے کیلئے اُن کے بچوں کو اولیت دینا منع نہیں لیکن بچوں کی مرضی کے خلاف اُن پر بے جوڑ انتخاب زبر دستی مسلط کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے اور ایسے تعلق اگر بوجوہ نہ بھی ٹوٹیں تو حقیقی خوشی کا باعث نہیں بن سکتے.61
حق مہر کی ادائیگی فرماتا ہے: شادی کے بعد یہ سب سے پہلا فرض ہے جو اسلام نے مرد پر عائد کیا ہے.اللہ تعالیٰ وَاتُوا النِّسَاءَ صَدُقَتِهِنَّ نِحْلَةً ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا (النساء آیت (۵) ترجمہ: اور عورتوں کو اُن کے مہر دلی خوشی سے ادا کرو.پھر اگر وہ اپنے دل کی خوشی سے اُس میں سے کچھ دے دیں تو یہ جانتے ہوئے کہ وہ تمہارے لئے مزے اور انجام کے لحاظ سے اچھا ہے تم اسے بے شک کھاؤ.“ مہر وہ رقم ہے جو مرد نکاح کے موقع پر بیوی کو نقدی یا زیور کی صورت میں دینے کا عہد کرتا ہے.اس پر کلیتا عورت کا حق ہوتا ہے ، وہ اُسے جہاں چاہے اور جیسے چاہے خرچ کرے.بہتر صورت یہی ہے کہ نکاح کے موقع پر ہی اسے ادا کر دیا جائے لیکن بعد میں بھی اس کی ادائیگی کی جاسکتی ہے.مرد کا ہرگز یہ حق نہیں کہ اپنی کسی ضرورت کیلئے مہر کی ادا شدہ رقم کا بیوی سے مطالبہ کرے ، ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے اُس میں سے کچھ دے تو مرد اُسے اپنے استعمال میں لاسکتا ہے.اس میں بھی بہت کچھ افراط و تفریط ہوتی ہے.بعض لوگ محض دکھاوے کیلئے بڑی بڑی رقوم مہر کے طور پر مقرر کرتے ہیں.اُن کی نیت دینے کی ہوتی ہی نہیں.اسی طرح بعض اوقات لڑکی والے بڑی رقوم کا مطالبہ کرتے ہیں اور ایک طرح سے اُسے لڑکی کے گھر بسانے کی ضمانت خیال کرتے ہیں.یہ دونوں صورتیں درست نہیں ہیں.مہر مرد کی حیثیت اور طاقت کے مطابق ہونا چاہئے 62
اور پھر اسے ادا کرنا بھی ضروری ہے.فقہ احمدیہ میں ایک عمومی راہنمائی کی گئی ہے جس کے مطابق مرد کی کم از کم چھ ماہ اور زیادہ سے زیادہ ایک سال کی آمدنی کے مطابق مہر کی رقم تجویز کی گئی ہے.جو امیر لوگ ہیں اور جائیدادوں کے مالک ہیں انہیں اپنی حیثیت کے مطابق مقرر کرنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام سے دریافت کیا گیا کہ مہر کتنا ہو تو آپ نے فرمایا: تراضی طرفین سے جو ہو اُس پر کوئی حرف نہیں آتا اور شرعی مہر سے یہ مراد نہیں کہ نصوص یا احادیث میں کوئی اس کی حد مقرر کی گئی ہے بلکہ اس سے مراد اس وقت کے لوگوں کے مروجہ مہر سے ہوا کرتی ہے.ہمارے ملک میں یہ خرابی ہے کہ نیت اور ہوتی ہے اور محض نمود کے لئے لاکھ لاکھ روپے کا مہر ہوتا ہے.صرف ڈراوے کیلئے یہ لکھا جاتا ہے کہ مرد قابو میں رہے اور اس سے پھر دوسرے نتائج خراب نکل سکتے ہیں.نہ عورت والوں کی نیت لینے کی ہوتی ہے اور نہ خاوند کی دینے کی.“ ( ملفوظات جلد ۵ صفحه ۳۹۴) بعض لوگ ساری عمر مہر ادا نہیں کرتے اور یہی چاہتے ہیں کہ بیوی معاف ہی کر دے.بعض لوگ بیوی کی وفات کے وقت اُسے کہتے ہیں کہ مہر بخش دو.اب اُس وقت تو اُس بیچاری نے بخشا ہی ہوتا ہے.یہ بہت ہی ناپسندیدہ فعل ہے.یہ درست ہے کہ بیوی اگر بخشا چاہے تو ایسا کر سکتی ہے لیکن اس کا طریقہ یہ ہے کہ مرد پہلے اُسے ادا کرے اور پھر کچھ مدت کے بعد اگر وہ اپنی مرضی سے معاف کرتے ہوئے واپس کر دیتی ہے تو ٹھیک ہے.یہ درست نہیں کہ ادائیگی کرنے کے بغیر ہی اُسے مجبور کیا جائے کہ وہ معاف کر دے.کئی عورتیں جانتی ہیں کہ دینا تو اس نے ہے نہیں چلو معاف ہی کر دو.یہ بھی دراصل اُن کی شرافت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں سوال ہوا کہ ایک عورت اپنا مہر نہیں بخشتی.اس پر حضور نے فرمایا: 63
یہ عورت کا حق ہے اُسے دینا چاہئے.اوّل تو نکاح کے وقت ہی ادا کرے ورنہ بعد ازاں ادا کر دینا چاہئے.پنجاب اور ہندوستان میں یہ شرافت ہے کہ موت کے وقت یا اس سے پیشتر اپنا مہر خاوند کو بخش دیتی ہیں.یہ صرف رواج ہے جو مروت پر دلالت کرتا ہے.‘‘ ( ملفوظات جلد ۶ صفحہ ۳۹۱) حضرت خلیفہ امسیح الثانی فرماتے ہیں : یوں تو عورت اپنے خاوند کو بھی مہر کا روپیہ دے سکتی ہے لیکن یہ نہیں کہ خاوند مہر ادا کئے بغیر ہی لینے کا اقرار کرالے.اس طرح عورت سمجھتی ہے مہر پہلے کونسا مجھے ملا ہوا ہے صرف زبانی بات ہے اس کا معاف نہ کرنا کچھ فائدہ نہیں دے سکتا اس لئے کہہ دیتی ہے میں نے معاف کیا.ورنہ اگر اُسے دے دیا جائے اور وہ اسکے مصارف جانتی ہو تو پھر معاف کرالینا اتنا آسان نہ ہو.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر ائمہ کبار اور بزرگوں کا فیصلہ تو یہ ہے کہ کم از کم سال کے بعد عورت اپنا مہر اپنے خاوند کو دے سکتی ہے.یعنی مہر وصول کرنے کے بعد ایک سال تک وہ اپنے پاس رکھے اور پھر اگر چاہے تو خاوند کو دیدے.حکیم فضل دین صاحب جو ہمارے سلسلہ کے السابقون الاولون میں سے ہوئے ہیں اُنکی دو بیویاں تھیں.ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرما یا مہر شرعی حکم ہے اور ضرور عورتوں کو دینا چاہئے.اس پر حکیم صاحب نے کہا میری بیویوں نے مجھے معاف کر دیا ہوا ہے.حضرت صاحب نے فرمایا کیا آپ نے ان کے ہاتھ پر رکھ کر معاف کرایا تھا؟ کہنے لگے نہیں ، حضور یونہی کہا تھا اور اُنہوں نے معاف کر دیا.حضرت صاحب نے فرمایا کہ پہلے آپ اُن کی جھولی میں ڈالیں پھر اُن سے 64
معاف کرائیں (یہ بھی ادنی درجہ ہے اصل بات یہی ہے کہ مال عورت کے پاس کم از کم ایک سال رہنا چاہئے اور پھر اُس عرصہ کے بعد اگر وہ معاف کرے تو درست ہے ) اُن کی بیویوں کا مہر پانچ پانچ سو روپیہ تھا.حکیم صاحب نے کہیں سے قرض لے کر پانچ پانچ سورو پیدان کو دے دیا اور کہنے لگے تمہیں یاد ہے تم نے اپنامبر مجھے معاف کیا ہوا ہے.سو اب مجھے یہ واپس دیدو.اس پر انہوں نے کہا اُس وقت ہمیں کیا معلوم تھا کہ آپ نے دے دینا ہے اس وجہ سے کہہ دیا تھا کہ معاف کیا.اب ہم نہیں دیں گی.حکیم صاحب نے آکر یہ واقعہ حضرت صاحب کو سنایا کہ میں نے اس خیال سے کہ روپیہ مجھے واپس مل جائے گا ایک ہزار روپیہ قرض لے کر مہر دیا تھا مگر روپیہ لے کر معاف کرنے سے انہوں نے انکار کر دیا ہے.حضرت صاحب یہ سن کر بہت ہنسے اور فرمانے لگے درست بات یہی ہے پہلے عورت کو مہر ادا کیا جائے اور کچھ عرصہ کے بعد اگر وہ معاف کرنا چاہے تو کر دے ورنہ دیئے بغیر معاف کرانے کی صورت میں تو ” مفت کرم داشتن“ والی بات ہوتی ہے.عورت سمجھتی ہے نہ انہوں نے مہر دیا اور نہ دیں گے.چلو یہ کہتے جو ہیں معاف کر دو مفت کا احسان ہی ہے نا.تو عورت کو جب مہر مل جائے پھر اگر وہ خوشی سے دے تو درست ہے ورنہ دس لاکھ روپیہ بھی اگر اس کا مہر ہو گا اُس کو ملا نہیں تو وہ دیدے گی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ میں نے جیب سے نکال کے تو کچھ دینا نہیں صرف زبانی جمع خرچ ہے اس میں کیا حرج ہے.پس عورتوں سے معاف کرانے سے پہلے اُن کو دیا جانا ضروری ہے.“ ( اوڑھنی والیوں کیلئے پھول صفحہ ۱۵۲-۱۵۳) 65
اگر خدانخواستہ میاں بیوی میں علیحدگی کی صورت بنتی ہے تو بھی خاوند کا فرض ہے کہ اگر اس نے مہر ادا نہیں کیا ہوا تو قضاء کے فیصلے کے مطابق فوراً ادا کر دے بلکہ کچھ زیادہ ہی دے دے.بعض لوگ محض تنگ کرنے کی نیت سے مہر بھی چھوٹی چھوٹی اقساط میں ادا کرنا چاہتے ہیں.یہ نہایت ہی نا پسندیدہ طرز عمل ہے جس کی کسی بھی احمدی مسلمان سے ہرگز توقع نہیں کی جا سکتی.خاوند کو چاہئے کہ اس موقع پر بھی احسان کا سلوک کرے.مثلاً خلع کی صورت میں اگر چہ ادا شدہ مہر عورت نے واپس کرنا ہوتا ہے لیکن احسان یہ ہے کہ وہ بیوی سے واپس نہ لے.اسی طرح اور بھی جو کچھ اسے دے چکا ہے اس کی واپسی کا مطالبہ نہ کرے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأخُذُوا مِمَّا اتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَّخَافَا إِلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ، فَإِنْ خِفْتُمُ الَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۚ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِه ، ( البقره آیت ۲۳۰) لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ ط مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ اَوْ تَفْرِضُوالَهُنَّ فَرِيضَةً وَّ مَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ ج قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُه : مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ.وَ إِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوُ هُنَّ وَ قَدْ فَرَضْتُمُ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمُ إِلَّا أَنْ يَعْفُونَ اَوْ يَعْفُوا الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ ط وَاَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى ، وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ ، إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (البقره آیات ۲۳۷ - ۲۳۸) وَ إِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجِ مَّكَانَ زَوْجِ وَّاتَيْتُمُ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا ط لا اتَأخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَّ إِثْمًا مُّبِينًا (النساء آیت (۲) 66
ترجمہ: ” اور تمہارے لئے جائز نہیں کہ تم اُس میں سے کچھ بھی واپس لو جو تم انہیں دے چکے ہو.سوائے اس کے کہ وہ دونوں خائف ہوں کہ وہ اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے.اور اگر تم خوف محسوس کرو کہ وہ دونوں اللہ کی مقررہ حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں اس (مال کے ) بارہ میں جو وہ عورت ( قضیہ نپٹانے کی خاطر مرد کے حق میں ) چھوڑ دے.تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم عورتوں کو طلاق دے دو جبکہ تم نے ابھی انہیں چھوا نہ ہو یا ابھی تم نے ان کے لئے حق مہر مقرر نہ کیا ہو.اور انہیں کچھ فائدہ بھی پہنچاؤ.صاحب حیثیت پر اس کی حیثیت کے مطابق فرض ہے اور غریب پر اس کی حیثیت کے مناسب حال.( یہ ) معروف کے مطابق کچھ متاع ہو.احسان کرنے والوں پر تو ( یہ ) فرض ہے.اور اگر تم انہیں اس سے پیشتر طلاق دے دو کہ تم نے انہیں چھوا ہو، جبکہ تم ان کا حق مہر مقرر کر چکے ہو، تو پھر جو تم نے مقرر کیا ہے اس کا نصف (ادا کرنا ) ہوگا.سوائے اس کے کہ وہ (عورتیں) معاف کر دیں، یا وہ شخص معاف کر دے جس کے ہاتھ میں نکاح کا بندھن ہے.اور تمہارا عفو سے کام لینا تقویٰ کے زیادہ قریب ہے.اور آپس میں احسان ( کا سلوک) بھول نہ جایا کرو.یقیناً اللہ اس پر جو تم کرتے ہو گہری نظر رکھنے والا ہے.اور اگر تم ایک بیوی کو دوسری بیوی کی جگہ تبدیل کرنے کا ارادہ کرو اور تم اُن میں سے ایک کو ڈھیروں مال بھی دے چکے ہو تو اُس میں سے کچھ واپس نہ لو.کیا تم اُسے بہتان تراشی کرتے ہوئے اور کھے کھلے گناہ کا ارتکاب کرتے ہوئے واپس لو گے.“ 67
یہ عورتوں کے حق مہر اور مال و متاع کے متعلق احکاماتِ خدا وندی ہیں.اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”یہاں تک عورتوں کے حقوق ہیں کہ مرد کو کہا گیا ہے کہ ان کو طلاق دو تو مہر کے علاوہ ان کو کچھ اور بھی دو کیونکہ اُس وقت تمہاری ہمیشہ کیلئے اُس سے جدائی لازم ہوتی ہے.پس لازم ہے کہ اُن کے ساتھ نیک سلوک کرو.“ ( ملفوظات جلد ۸ صفحه ۴۴۲) اب کہاں یہ احکامات اور ارشادات اور کہاں بعض لوگوں کا عمل کہ علیحدگی کے وقت محض عورت کو ذلیل کرنے کیلئے مہر بھی چھوٹی چھوٹی اقساط میں دینا چاہتے ہیں.دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ نے ہر جہت سے مرد کو عورت کے ساتھ لطف اور احسان کا سلوک کرنے کیلئے پابند کر رکھا ہے.پس مرد کا فرض ہے کہ وہ بیوی کے حق مہر کے بارے میں احکامات خداوندی کی پابندی کرے.قوام ہونے کے تقاضے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَلرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَّ بِمَا أَنْفَقُوا مِنْ اَمْوَالِهِمُ : ( النساء آیت (۳۵) ترجمہ: ”مرد عورتوں پر نگران ہیں اُس فضیلت کی وجہ سے جو اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر بخشی ہے.اور اس وجہ سے بھی کہ وہ 66 اپنے اموال ( ان پر ) خرچ کرتے ہیں.“ یہ وہ آیت ہے جو عموماً مردوں کو بہت پسند ہے اور ایک بڑی تعداد کے ذہنوں میں یہ اثر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں عورتوں پر حاکم مقرر فرما دیا ہے اس لئے انہیں اختیار ہے کہ وہ جیسا چاہیں اُن سے سلوک کریں.حالانکہ یہ بات نہ تو قانونی لحاظ سے درست ہے اور نہ ہی اخلاقی 68
لحاظ سے.ایک حاکم اگر چہ با اختیار ہوتا ہے لیکن قانون کا پابند وہ بھی ہوتا ہے اور کوئی ایسا حکم نہیں دے سکتا اور نہ ہی کوئی ایسا فیصلہ کر سکتا ہے جس کی قانون اُسے اجازت نہیں دیتا.ایک مرد کو اللہ تعالیٰ نے اُس کی مخصوص صلاحتیوں کی وجہ سے گھر کا نگران مقرر فرمایا ہے تو اس کے کچھ قانونی اور اخلاقی تقاضے بھی ہیں جن کی پابندی اُس کیلئے لازم قرار دی گئی ہے.اصل میں اس آیت کے ذریعے ایک مرد کو حاکم نہیں بلکہ ایک ذمہ دار نگران قرار دیا گیا ہے.قرآن وحدیث میں بیان فرمودہ تاکیدی احکامات کے مطالعہ سے ایک خاوند کا جو نقشہ ابھرتا ہے وہ ایک شفیق ، مہربان اور محسن ذمہ دار محافظ اور نگران کا ہے جسے برداشت اور حوصلے سے کام لیتے ہوئے اپنی بیویوں سے ہر حال میں نیک سلوک کی تلقین کی گئی ہے..حضرت خلیفہ اسیح الاوّل فرماتے ہیں: یہ آیت بیا ہے ہوئے مر دوں کو اچھی لگتی ہے.اس کا معنیٰ یہ ہے کہ مردوں کو چاہئے اپنی بیویوں کے محافظ اور اُن کی درستی اور ٹھیک رکھنے کا موجب بنیں.“ ( حقائق الفرقان جلد ۲ صفحہ ۲۰) حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جس طرح مردوں کے حقوق ہیں اسی طرح عورتوں کے بھی حقوق ہیں.خدا کے نزدیک دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں.جس طرح مرد خدا کا بندہ ہے اس طرح عورت خدا کی بندی ہے.جیسے مرد خدا کا غلام ہے ویسے ہی عورت خدا کی لونڈی ہے.جیسے مرد آزاد اور حر ہے ویسے ہی عورت آزاد ہے.دونوں کو حقوق حاصل ہیں.69 69
بعض مرد اس مسئلہ کو نہیں سمجھتے.وہ سمجھتے ہیں کہ اَلرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِسَاءِ کے ماتحت عورتوں پر حاکم ہیں حالانکہ اُن کو درجہ نگرانی کا ملا ہے.خلیفہ نگران ہوتا ہے اسی طرح حاکم وقت نگران ہوتا ہے مگر کیا کوئی حکم یا قانون اجازت دیتا ہے کہ وہ جو چاہیں معاملہ کریں.نگران تو اس بات کا ہوتا ہے کہ جو حق اس کو ملا ہے اسے وہ شریعت کے احکام کے مطابق استعمال کرے.نہ یہ کہ جو چاہے کرے.نگران کا مفہوم یہ ہے کہ اس کو شریعت کے ماتحت چلائے مگر ہمارے ہاں اس کا مفہوم یہ لیا جاتا ہے کہ جو چاہا کرلیا.اس وجہ سے بعض عورتوں کو حقوق دینے کو تیار نہیں.وہ ان کو گائے بکری سمجھتے ہیں اور عورتوں پر جبر یہ حکومت کرنا چاہتے ہیں حالانکہ ایسی حکومت تو خدا بھی نہیں کرتا.اس کے برخلاف دوسری حد بھی خطرناک ہے جو عورتوں کی طرف سے ہے.قَوَّامُون کا لفظ بھی آخر کسی حکمت کے ماتحت ہے.یہ قانون خدا کا بنایا ہوا ہے جو خود نہ مرد ہے نہ عورت.اس پر طرفداری کا الزام نہیں آسکتا....وہ خالق ہے.جو طاقتیں اس نے مرد کو دی ہیں ان کا اس کو علم ہے اور انہی کے ماتحت اُس نے اختیارات دیئے ہیں.قوامون کے بہر حال کوئی معنے ہیں جو عورت کی آزادی اور حریت ضمیر کو باطل نہیں کرتے.اس کے لئے عورت کے افعال، اس کے ارادے، اس کا دین و مذہب قربان نہیں ہو سکتے مگر قوامون بھی قربان نہیں ہوسکتا.“ بلا شبہ مر د کو گھر کے انتظامی امور میں آخری فیصلے کا اختیار ہے لیکن وہ بھی پابند ہے اور قانون کے خلاف فیصلہ نہیں کر سکتا.اس کی مثال دیتے ہوئے حضور مزید فرماتے ہیں: شریعت کا حکم ہے کہ عورت خاوند کی اجازت کے بغیر باہر نہ جائے.مگر اس کے باوجود مرد عورت کو اس کے والدین سے ملنے سے نہیں روک سکتا.اگر کوئی مرد ایسا 70
کرے تو یہ کافی وجہ خلع کی ہوسکتی ہے.والدین سے ملنا عورت کا حق ہے مگر وقت کی تعین اور اجازت مرد کا حق ہے.مثلاً خاوند یہ کہ سکتا ہے کہ شام کو نہیں صبح کو مل لینا یا اس کے والدین کو اپنے گھر بلا لے یا اس کو والدین کے گھر بھیج دے.‘‘ (خطباتِ محمود جلد سوئم صفحه ۲۰۵-۲۰۶) مردوں کے قوام ہونے کا مطلب حضور ایک اور موقع پر یوں بیان فرماتے ہیں: ہاں آپ نے اس بات کا بھی اعلان فرمایا کہ وَ لِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةً یعنی حقوق کے لحاظ سے تو مرد و عورت میں کوئی فرق نہیں لیکن انتظامی لحاظ سے مردوں کو عورتوں پر ایک حق فوقیت حاصل ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک مجسٹریٹ انسان ہونے کے لحاظ سے تو عام انسانوں جیسے حقوق رکھتا ہے اور جس طرح ایک ادنیٰ سے ادنی انسان کو بھی ظلم اور تعدی کی اجازت نہیں اُسی طرح مجسٹریٹ کو بھی نہیں.مگر پھر بھی وہ بحیثیت مجسٹریٹ اپنے ماتحتوں پر فوقیت رکھتا ہے اور اُسے قانون کے مطابق دوسروں کو سزا دینے کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں.اسی طرح تمدنی اور مذہبی معاملات میں مرد و عورت دونوں کے حقوق برابر ہیں لیکن مردوں کو اللہ تعالیٰ نے قوام ہونے کی وجہ سے فضیلت عطا فرمائی ہے..چونکہ میاں بیوی نے مل کر رہنا ہوتا ہے اور نظام اُس وقت تک قائم نہیں رہ سکتا جب تک ایک کو فوقیت نہ دی جائے اس لئے یہ فوقیت مردکو دی گئی ہے اور اس کی ایک وجہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ یہ بیان فرمائی ہے کہ چونکہ مردا پنارو پیر عورتوں پر خرچ کرتے ہیں اس لئے انتظامی امور میں انہیں عورتوں پر فوقیت حاصل ہے ( النساء آیت (۳۵) ( تفسیر کبیر جلد ۲ صفحه ۵۱۳) 71
” مرد اپنے گھر کا امام ہوتا ہے“.( ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۲۰۸) اسے یہ مقام خود خدا نے عطا فرمایا ہے.اس لئے لازم ہے کہ وہ اپنے اس مقام کا ہمیشہ لحاظ رکھے اور اسے کبھی نہ چھوڑے.وہ ذمہ داریاں جو بطور ایک نگران اُس کے سپرد ہیں انہیں خود بجالائے.مرد گھر کا رکھوالا ہے، کشتی بان ہے، باغبان ہے.یہ ایک راز کی بات ہے اور اسے پلے باندھ لینا چاہئے کہ مرد کو اپنے یہ فرائض ادا کرتے رہنا چاہئے اور کسی صورت میں ان کی ادائیگی سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے.وہ پورے کنبے کی ہر طرح کی کفالت اور انتظامات کا ذمہ دار بنایا گیا ہے.اس لئے جسے خدا نے ایک فرض سونپا ہے وہی ادا کرے گا تو اُس کے تقاضے پورے ہوسکیں گے.اگر وہ اپنے فرائض ہی ادا نہیں کرتا تو وہ نگران نہیں کہلا سکتا.جن گھرانوں میں مردا اپنی ذمہ داریاں عورتوں کو سونپ دیتے ہیں یا عورتیں خود خاوندوں کی ذمہ داریاں سنبھال لیتی ہیں وہاں سے امن وسکون رخصت ہو جاتا ہے اور اس بدامنی کا پہلا شکار اُس گھر میں پلنے والے بچے بنتے ہیں.یہ پکی بات ہے اور اس میں ہرگز عورتوں کی کوئی بہتک نہیں کیونکہ اُن میں وہ قومی اور صلاحیتیں ہی موجود نہیں ہوتیں جو ایک نگران میں ہونی چاہئیں.اس لئے انہیں ہرگز یہ ذمہ داری نہیں سو نپینی چاہئے.عورتیں گھروں کی نگرانی کی اہل ہوتیں تو اللہ تعالیٰ انہیں قوام مقرر فرما تا.اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے کہ ایک مرد کو اگر ہم امور خانہ داری اور بچوں کی پرورش کی ذمہ داری سونپ دیں تو وہ کبھی اس سے کما حقہ عہدہ برآنہیں ہو سکے گا کیونکہ ان امور کی انجام دہی کیلئے اُس میں وہ صلاحیتیں ہی موجود نہیں ہوتیں.اسی طرح اگر ایک درزی کو ہم لوگوں کے اپریشن کرنے کی ذمہ داری سونپ دیں تو اس کا نتیجہ ظاہر ہے.قانونِ قدرت کے مطابق چل کر ہی امن کی امید کی جا سکتی ورنہ فساد ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے گھر کا نگران مرد کو مقررفرمایا ہے.وہی گھر کے تمام معاملات کا ذمہ دار ہے اس لئے اُسے یہ ذمہ داری خود ادا کرنی چاہئے.72
کنے کی کفالت کی ذمہ داری یہ ان دو بنیادی شرائط میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے مرد کو اللہ تعالیٰ نے قوام قرار دیا ہے جیسا کہ فرمایا: وَ بِمَا أَنْفَقُوا مِنْ اَمْوَالِهِمْ ، چنانچہ کہہ سکتے ہیں کہ مرد کی بحیثیت ایک نگران کے یہ اہم ترین اور بنیادی اہمیت کی حامل ذمہ داری ہے جس کے بغیر اُسے نگران کہلانے کا ہی اصولاً حق نہیں رہتا.حضرت خلیفہ امسیح الرابع فرماتے ہیں: الرِّجَالُ قَوْمُونَ کا ایک ظاہری معنی تو یہ ہے کہ مرد عموماً عورتوں سے مضبوط اور ان کو سیدھی راہ پر قائم رکھنے والے ہوتے ہیں.اگر مرد قَوَّامُون نہیں ہونگے تو عورتوں کے بہکنے کا امکان زیادہ ہے.دوسرا یہ کہ وہ مردقوام ہیں جو اپنی بیویوں کے خرچ برداشت کرتے ہیں.وہ نکھٹو جو بیویوں کی آمد پر پلتے ہیں وہ ہرگز قوام نہیں ہوتے.( حاشیہ ترجمۃ القرآن از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ) اسلامی تعلیمات کی رو سے گھر کے اخراجات پورا کرنے کی ذمہ داری کلیتا مرد کی ہے.عورت کے پاس اگر کوئی مال ہے جو اُس نے کمایا ہے یا اُسے اپنے ماں باپ کی وراثت سے حصے میں آیا ہے یا کسی عزیز رشتہ دار سے تحفہ ملا ہے یا پھر مہر کی رقم اُس کے پاس موجود ہے تو خاوند سے مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ اس رقم کو گھر کے اخراجات کیلئے خرچ کرے.ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے ایسا کرے تو کر سکتی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے : وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا ط اكْتَسَبُوَاءِ وَ لِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَط ( النساء آیت ۳۳) 73
ترجمہ: اور اللہ نے جو تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی ہے اس کی حرص نہ کیا کرو.مردوں کیلئے اس میں سے حصہ ہے جو وہ کمائیں اور عورتوں کیلئے اُس میں حصہ ہے جو وہ کمائیں.عورت کا ضرورت کے تحت اور اپنے خاوند کی اجازت سے نوکری کرنا منع تو نہیں لیکن خاص طور پر جب بچے ہو جائیں تو بہتر ہے کہ عورت گھر میں ہی رہے اور بچوں کی پرورش اور نگہداشت کی ذمہ داریاں ادا کرے.سوچا جائے تو عورت کیلئے یہ کام بھی بہت ہے اور بسا اوقات عورتیں سارا سارا دن امور خانہ داری سرانجام دیتی رہتی ہیں.یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہئے کہ آئندہ نسل کی پرورش اور امور خانہ داری عورت کی بنیادی ذمہ داری ہے.اس لئے محض پیسوں کی خاطر اس سے غفلت نہیں برتنی چاہئے ورنہ توازن بگڑ کر گھریلو زندگی متاثر ہوگی.ایک بہت بڑا مسئلہ گھر کا خرچ چلانے کا بھی ہے.اس خرچ کی تقسیم کیسے ہو؟ اس کی کئی صورتیں مختلف گھروں میں رائج ہیں.مثال کے طور پر : (۱) بعض میں تو اشیائے خورونوش اور معمول کی چھوٹی موٹی چیزوں کیلئے مرد ایک مقرر در قم ہر مہینے باہر چلتے اپنی اہلیہ کو دے دیتے ہیں اور وہ اُس رقم سے خود ہی سودا سلف خریدتی ہے.بڑی اور قیمتی اشیاء کی خرید، کرایہ مکان اور ہر قسم کے بل وغیرہ مردخود اپنے ذمہ رکھتے ہیں.(۲) کچھ گھروں میں یہ طریق ہے کہ جب بھی بیوی کو کوئی چیز خریدنی ہو میاں سے رقم کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور وہ رقم اسے مل جاتی ہے.(۳) بعض گھروں میں بیوی کو کوئی نقد رقم نہیں دی جاتی اور مرد حضرات ضروریات کی چیزیں خود خرید کر گھر میں مہیا کرتے ہے اور بیوی سے کہا جاتا ہے 74
کہ جس چیز کی ضرورت ہو بتا دیا کرو.(۴) بعض مرد حضرات ایسے بھی سننے میں آئے ہیں کہ پورا مہینہ کام کرتے ہیں اور جب تنخواہ ملتی ہے تو گن کر پوری کی پوری بیوی کے ہاتھ ہیں یا پر رھ در یوں کہنا چاہئے کہ وہ رکھوا لیتی ہے اور پھر خود اپنے چائے پانی وغیرہ کے اخراجات بھی بیوی سے مانگ مانگ کے پورے کرتے ہیں.اس سلسلے میں کوئی ایک اصول تو مقرر نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کوئی ایک طریق ہر گھر میں چل سکتا ہے.ہر ایک کے اپنے اپنے حالات ہوتے ہیں.بعض خواتین تو ایسی ہوتی ہیں کہ ادھر اُن کے ہاتھ میں رقم آئی اور اُدھر وہ بازار گئیں.انہیں خریداری کا گویا شوق بلکہ جنون ہوتا ہے.مہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی کئی دفعہ مزید کے مطالبات مرد کو سننا پڑتے ہیں.لیکن بعض خواتین نہایت سلیقہ شعار سمجھدار اور سگھڑ ہوتی ہیں.سوچ سمجھ کر اور صرف ضرورت کی اشیاء خریدتی ہیں اگر ممکن ہو تو پس انداز بھی کر لیتی ہیں اور کسی بڑی ضرورت کے وقت مرد کو پیش کر دیتی ہیں.ایسی دور اندیش اور سمجھدار عورتوں پر پھر مر د بھی مکمل اعتماد کرتے ہیں.اگر حالات اجازت دیں اور ممکن ہو تو اول الذکر طریق استعمال کیا جانا زیادہ مناسب ہے.عورت فطرتا چاہتی ہے کہ اُس کی جیب میں رقم ہو جسے وہ خود استعمال کرے اور ضرورت کی چیزیں خریدے.اُسے ہر روز رقم مانگنے کی کوفت سے آزاد کرنا چاہئے.دوسری بات یہ کہ اُس پر مرد کو اعتماد کرنا چاہئے اور حساب طلب نہیں کرنا چاہئے لیکن اخراجات پر کنٹرول کی یاددہانی بہر حال مرد کی ذمہ داری ہے.تیسرے نمبر پر درج طریق سراسر زیادتی ہے.یہ کسی بھی پہلو سے درست نہیں کہ گھر کی عورت کے پاس کوئی نقد رقم نہ ہو.وہ بھی گھر کی مالکہ ہے کوئی نوکرانی نہیں.لیکن اگر خاتونِ خانہ کے مخصوص حالات کے تحت کسی مرد کو یہ طریق استعمال کرنا پڑے تو بھی اُسے ایک 75
مناسب رقم ہر ماہ اپنی اہلیہ کو دینی چاہئے جس کا پھر حساب نہ لیا جائے.وہ اسے جہاں چاہے استعمال کرے.موخر الڈ ک طریق استعمال کرنے والے مرد یا یوں کہنا چاہئے کہ جو اپنی بیوی کے گھر میں اس طریق پر عمل کرنے پر مجبور ہیں بقول حضرت خلیفتہ امسیح الرابع بے چارے یتیمی کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں.ان کا ذکر مردوں کے فرائض میں نہیں بلکہ حقوق میں آئے گا.کھیتی کی حقیقت سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۴ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ وَقَدِّمُوا لِانْفُسِكُمْ.ترجمہ: ” تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں.پس اپنی کھیتیوں کے پاس جیسے چاہو آؤ.اور اپنے نفوس کیلئے ( کچھ ) آگے بھیجو.‘ اس آیت کا صرف اتنا مطلب ہے کہ عورتیں بقائے نسل کا ذریعہ ہیں اور جس طرح کھیتی میں فصل پیدا ہوتی ہے اسی طرح عورت بچوں کو جنم دیتی ہے.اس لئے ارشادِ خدا وندی ہے کہ ان سے حصول اولا د کیلئے بطریق احسن برتاؤ کرو.لیکن بعض ظالم طبع لوگ ” پس اپنی کھیتیوں کے پاس جیسے چاہو آؤ کے الفاظ سے نہ صرف غیر فطری تعلقات کا جواز نکالتے ہیں بلکہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مرد کو آزادی دی گئی ہے کہ ان سے جیسا سلوک چاہے کرے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اس آیت میں عورت کو کھیتی قرار دے کر اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ (۱) تم اپنی کھیتی کو پھلدار بنانے کی کوشش کرو.اسی کی طرف رسول کریم ﷺ کی یہ حدیث بھی اشارہ فرماتی ہے کہ تَزَوَّجُوا الْوَلُودَ الْوَدُودَ فَإِنِى مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ (ابوداؤ دو نسائی کتاب النکاح) یعنی تم ایسی 76
عورتوں کے ساتھ شادی کیا کرو جو زیادہ اولاد پیدا کرنے والی اور اپنے خاوندوں کے ساتھ محبت کرنے والی ہوں.کیونکہ میں دوسرے نبیوں کی امتوں کے مقابل پر اپنی امت کی کثرت پر قیامت کے دن فخر کرونگا.(۲) عورتوں سے ایسا سلوک کرو کہ نہ اُن کی طاقت ضائع ہو اور نہ تمہاری.اگر کھیتی میں بیج زیادہ ڈال دیا جائے تو بیج خراب ہو جاتا ہے اور اگر کھیتی سے پے در پے کام لیا جائے تو کھیتی خراب ہو جاتی ہے.پس ہر کام ایک حد کے اندر کرو.جس طرح ایک منظمند انسان سوچ سمجھ کر کھیتی سے کام لیتا ہے.اس آیت سے یہ بھی نکل آیا کہ بعض حالات میں برتھ کنٹرول بھی جائز ہے.چنا نچہ کھیتی میں سے اگر ایک فصل کاٹ کر معا دوسری بو دی جائے تو دوسری فصل اچھی نہیں ہوتی اور تیسری اُس سے بھی زیادہ خراب ہوتی ہے.اسلام نے اولاد پیدا کرنے سے روکا نہیں بلکہ خود فرمایا ہے کہ قدموا لَا نُفُسِكُم تم اپنی عورتوں کے پاس اس لئے جاؤ کہ آگے نسل چلے اور تمہاری یاد گار قائم رہے لیکن ساتھ ہی بتا دیا کہ کھیتی کے متعلق خدا تعالیٰ کے جس قانون کی تم پا بندی کرتے ہو اسی کو اولاد پیدا کرنے میں بھی مد نظر رکھو.اگر عورت کی صحت مخدوش ہو یا بچہ کی پرورش اچھی طرح نہ ہوتی ہو تو اس وقت اولاد پیدا کرنے کے فعل کو روک دو.(۳) یہ بھی بتایا کہ عورت سے ایسا تعلق رکھو جس کے نتیجہ میں اولاد پیدا ہو.اس سے خلاف وضع فطرت فعل کی ممانعت نکل آئی.چونکہ قرآنِ کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہے اس لئے وہ بات کو اُسی حد تک ننگا کرتا ہے جس حد تک اخلاق کو کوئی نقصان نہ پہنچتا ہو.لوگ أَنَّى شِئْتُم سے غلط استدلال کرتے ہیں.حالانکہ یہ الفاظ کہہ کر تو خدا نے ڈرایا ہے کہ یہ تمہاری 77
کھیتی ہے اب جس طرح چاہو سلوک کرو.لیکن یہ نصیحت یاد رکھو کہ اپنے لئے بھلائی کا سامان ہی پیدا کرنا ورنہ اس کا خمیازہ بھگتو گے.جب لوگ اپنی لڑکیوں کی شادی کرتے ہیں تو لڑکے والوں سے عموماً کہا کرتے ہیں کہ ہم نے اپنی بیٹی تمہیں دیدی ہے اب جیسا چا ہو اس سے سلوک کرو.اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ تم بے شک اسے جوتیاں مارا کرو.بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ تمہاری چیز ہے اسے سنبھال کے رکھنا.پس آنی شِئْتُم کا مطلب یہ ہے کہ عورت تمہاری چیز ہے اگر خراب سلوک کرو گے تو اس کا نتیجہ تمہارے لئے بھی برا ہوگا اور اگر اچھا سلوک کرو گے تو اچھا ہوگا..اس کے یہ معنی ہیں کہ جب تمہاری بیویاں تمہارے لئے کھیتی کی حیثیت رکھتی ہیں تو اب تمہارا اختیار ہے کہ تم جس طرح چاہو اُن سے سلوک کرو.یعنی چاہو تو اپنی کھیتی کو تباہ کر لو اور چا ہو تو اس سے ایسے فوائد حاصل کرو جن سے دنیا میں بھی تم نیک نامی حاصل کرو اور آخرت میں بھی اپنی روح کو خوش کر سکو.دُنیا میں کوئی احمق زمیندار ہی ہوگا جو ناقص بیج استعمال کرے یا بیج ڈالنے کے بعد کھیتی کی نگرانی نہ کرے اور اچھی فصل حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے.مگر عورتوں کے معاملہ میں بالعموم اس اصول کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور نہ تو جسمانی اور اخلاقی لحاظ سے بیج کی صحیح طور پر حفاظت کی جاتی ہے نہ عورت کی صحت اور اُسکی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ بچوں کی صحیح رنگ میں تربیت کی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مردوں کی صحت کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور عورت کی صحت بھی برباد ہو جاتی ہے اور بچے بھی قوم کا مفید وجود ثابت نہیں ہوتے.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بنی نوع 78
انسان کو اسی اہم نکتہ کی طرف توجہ دلائی ہے اور فرمایا ہے کہ جس طرح تم اپنی کھیتی کی حفاظت کرتے ہو اسی طرح تمہارا فرض ہے کہ تم عورت کی بھی حفاظت کرو.آئندہ نسل کی تعلیم و تربیت کی طرف خاص طور پر توجہ دو تا کہ تمہاری کھیتی سے ایسا روحانی غلہ پیدا ہو جو دنیا کے کام آئے اور انہیں ایک نئی زندگی بخشے.وَقَدِّمُوا لَا نُفُسِكُم میں بتایا کہ تم وہ کام کرو جس کا نتیجہ تمہارے لئے اچھا نکلے.یعنی ظاہری لحاظ سے بھی اور نسلی لحاظ سے بھی.یہ حصہ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللهُ لَكُمُ کے مشابہ ہے اور مراد یہ ہے کہ آج کے بچے کل کے باپ بننے والے ہیں.اس لئے تم ایسی اولاد پیدا کرو جو تمہارے نام کو روشن کرنے والی ہو اور آخرت میں بھی تمہاری عزت اور نیک نامی کا موجب ہو.( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه ۵۰۴-۵۰۵) عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ یہ ایسی بات ہے کہ گویا تمام فرائض کی جان ہے.مرد کی تمام ذمہ داریاں اسی حکم خداوندی کے گردگھومتی ہیں.اس حکم کی احادیث میں بہت زیادہ تاکید مذکور ہے.مطلب اس کا یہ ہے کہ عورتوں سے اچھا سلوک کروں.کہنے کو تو یہ چند الفاظ ہیں لیکن انہوں نے مرد کو ہر جہت سے پابند کر دیا ہے.آئے روز میاں بیوی کو بیسیوں قسم کے حالات سے واسطہ پڑتا ہے.بعض اوقات گھر میں تلخیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں.اختلافات ہو جاتے ہیں.ناراضگیاں ہو جاتی ہیں.بچوں کی وجہ سے، رشتہ داروں کی وجہ سے ، اخراجات کی وجہ سے.بچوں کی شادیوں کی وجہ سے اور خوشی غمی کے مواقع پر شرکت کی وجہ سے کشید گیاں جنم لیتی ہیں اور بعض اوقات بڑھ جاتی ہیں.79
پھر بعض عورتوں کی فطرتی کجیاں اور ناز و نخرے اپنی جگہ رنگ دکھاتے ہیں لیکن مردوں کو حکم ہے کہ عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ.سوال یہ ہے کہ یہ حکم آخر مرد کو ہی کیوں دیا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس لئے کہ وہ گھر کا ہے ، نگران ہے ، سر براہ ہے.اگر ہم غور کریں تو عورت سے مرد کے ہر قسم کے تعلقات مثلاً قوام ہونے کی وجہ سے اُس کا مخصوص صلاحتیوں کا حامل ہونا، گھر کے اخراجات کو پورا کرنے کی ذمہ داری، انتظامی امور میں آخری فیصلہ کا اختیار ، عورت کا مثل کھیتی اور مرد کا مثل زمیندار کے ہونا اور میاں بیوی کے مخصوص تعلقات وغیرہ میں مرد کی حیثیت فاعلی ہوتی ہے.ایک زمیندار بھی اپنی کھیتی میں ہل چلاتا ہے، بیج ڈالتا ہے اور پھر آبپاشی کرتا ہے.اس کے بعد وہ ایک وقت تک انتظار کرتا ہے کہ بیج سے پودا بن کر زمین سے باہر نکلے.اس کے بعد وہ اُس پودے کی حفاظت میں لگ جاتا ہے تا وقتیکہ وہ مضبوطی سے اپنے ڈنٹھل پر قائم ہو جائے.پھر اُس کے گرد باڑ لگا تا ہے ، زمین میں کھاد ڈالتا ہے، گوڈی کرتا ہے، پانی دیتا ہے.غرضیکہ پورے کے پروان چڑھنے تک اُس کی ضروریات کی فراہمی کی خاطر ایک زمیندار سخت محنت کرتا ہے.یہ درست ہے کہ جس زمین میں بیچ مختلف مراحل سے گزر کر ایک پودے کی شکل میں باہر نکلتا ہے اس کی تاثیرات بھی پودے میں موجود ہوتی ہیں لیکن کاشت کاری کی ساری کاروائیوں میں زمیندار کی حیثیت بہر حال فاعلی ہوتی ہے.حفاظتی نقطہ نظر سے بھی ایک مرد کی حیثیت فاعلی ہوتی ہے.مثال کے طور پر میاں بیوی باہر سیر کو جارہے ہوں اور سامنے سے اچانک ایک خونخوار کتا بھونکتا ہوا اُن کی طرف لیکے یا کوئی اور موذی جانوراچانک سامنے سے نمودار ہو تو بالعموم بیوی ہی چیخ مار کر اور ڈر کر اپنے خاوند سے چھٹے گی اور اُس کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرے گی ، مرد ڈر کر بیوی کے پیچھے نہیں چھپے گا.زندگی میں 80
اور بھی بے شمار ایسے مواقع آتے ہیں کہ عورت کو خطرات اور مشکل صورت حال میں مرد کی پناہ ، حفاظت اور مدد کی ضرورت پڑتی ہے.یہاں بھی مرد کی حیثیت فاعلی ہوتی ہے یعنی حفاظت یا پناہ مہیا کرنے والا.اور پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عورت کو فطرتی طور پر مرد کی چاہت اور حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ کے اس سائے میں دلی تسکین محسوس کرتی ہے.مشاہدہ گواہ ہے کہ عورتیں قوانین اور احکامات کی زیادہ پابند ہوتی ہیں.جو حکم بھی انہیں دیا جاتا ہے اُس کے مطابق پورے طور پر عمل کرنے کی کوشش کرتی ہیں.مثلاً ٹریفک کے قوانین کی عورتیں زیادہ پابندی کرتی ہیں.کلاسوں اور دیگر پروگراموں میں حاضری اور متعلقہ احکامات کی پابندی جس رنگ میں عورتیں کرتی ہیں مرد نہیں کرتے.گھروں میں نماز روزہ وغیرہ احکامات کی پابندی جس طرح لڑکیاں کرتی ہیں لڑکے نہیں کرتے.نماز کیلئے آنا ہو یا روزے کیلئے سحری کے وقت اُٹھنا ہولڑ کیاں ہمیشہ لڑکوں سے پہلے موجود ہوتی ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں فطرتی طور پر اطاعت کا مادہ زیادہ ہوتا ہے.اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی تعلیمات فطرت انسانی کے عین مطابق ہیں.اللہ تعالیٰ نے مردکو اگر عورتوں پر نگران مقرر کیا ہے تو عورتوں میں خاص طور پر اطاعت کا مادہ رکھ دیا ہے.عورت میں فطری طور پر قوت متاثرہ زیادہ ہوتی ہے.اس سے بھی ظاہر ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مرد کو قوام کے طور پر ذمہ داریاں ادا کرنے والا بنایا تو لا زم تھا کہ عورت میں مفعولی قوت یعنی اثر قبول کرنے کا مادہ زیادہ رکھا جاتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں: ” عورت میں اثر قبول کرنے کا مادہ بہت ہوتا ہے ( ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۲۰۷) اس پہلو سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ مرد فاعلی حیثیت سے اثر ڈالتا ہے اور عورت اثر قبول کرتی ہے.81
اللہ تعالیٰ کے انبیاء بھی فیض رساں وجود ہوتے ہیں.جیسے سورج کی حیثیت فاعلی ہے اسی طرح یہ بھی لوگوں کو ہدایت کا نور مہیا کرتے ہیں.انبیاء سے قوت افاضہ کا ظہور ہوتا ہے اور جو لوگ اُن سے فیض پاتے ہیں اُن کی قوت استفاضہ حرکت کرتی ہے.یعنی انبیاء فیض پہنچاتے ہیں اور لوگ اُن سے فیضیاب ہوتے ہیں.اس پہلو سے انبیاء کی حیثیت بھی فاعلی ہوتی ہے.سورۃ الیل کی آیت وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَ الأنفی کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفہ امسیح الثانی فرماتے ہیں: اسی طرح کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں رجولیت کا مادہ ہوتا ہے اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں نسوانیت کا مادہ ہوتا ہے.کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کو فیوض پہنچانے والے ہوتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو استفاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں.جو لوگ افاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں وہ ذکر ہوتے ہیں اور جو استفاضہ کی قوت اپنی اندر رکھتے ہیں وہ انٹی ہوتے ہیں یعنی نر میں افاضہ کی قوت ہوتی ہے اور وہ دوسرے کو بچہ دیتا ہے اور مادہ میں استفاضہ کی قوت ہوتی ہے اور وہ بچہ کو اُس سے لیتی اور اس کی پرورش کرتی ہے.یہی دو قو تیں ہیں جن کے ملنے سے دنیا میں اہم نتائج پیدا ہوتے ہیں....بہر حال جس طرح نر اور مادہ کے باہمی اتصال سے نسل ترقی کرتی ہے اسی طرح قو میں اُسی وقت ترقی کرتی ہیں جب ایک راہنما ایسا موجود ہو جو قوت افاضہ اپنے اندر رکھتا ہو اور قوم کے افراد ایسے ہوں جو قوتِ استفاضہ اپنے اندر رکھتے ہوں.اللہ تعالیٰ یہی مثال کفار کے سامنے پیش کرتا ہے اور انہیں بتاتا ہے کہ محمد رسول اللہ ے اور اُن کے صحابہ کا باہمی جوڑ دنیا میں ایک زبر دست نتیجہ پیدا کریگا کیونکہ محمد 82
صلى الله رسول اللہ ﷺ وہ ہیں جن میں قوت افاضہ کمال درجہ کی پائی جاتی ہے اور صحابہ کرام وہ ہیں جن میں قوت استفاضہ کامل طور پر پائی جاتی ہے.وہ دونوں آپس میں مل بیٹھیں گے تو ایک نئی دنیا آباد کرنے کا باعث بنیں گے جس طرح مرد اور عورت آپس میں ملتے ہیں تو بچہ تولد ہوتا ہے اسی طرح رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرام کا روحانی تعلق ایک نئی آبادی کا پیش خیمہ ہے.( تفسیر کبیر جلد نهم صفحه ۵۴-۵۶) یہی وجہ ہے کہ انبیاء کی قوموں کو عورت سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ جس طرح عورت مرد سے فیضیاب ہوتی ہے اسی طرح قوم بھی اپنے وقت کے نبی سے فیض پاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” خدا تعالیٰ کی کتب میں نبی کے ماتحت امت کو عورت کہا گیا ہے جیسا کہ قرآنِ شریف میں ایک جگہ نیک بندوں کی تشبیہ فرعون کی عورت سے دی گئی ہے اور دوسری جگہ عمران کی بیوی سے مشابہت دی گئی ہے.اناجیل میں بھی مسیح کو دولہا اور امت کو دلہن قرار دیا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کی ایسی ہی اطاعت لازم ہے جیسی کہ عورت کو مرد کی اطاعت کا حکم ہے.“ ( ملفوظات جلد ۸ صفحہ ۸) پس قرآنِ کریم میں جو خاوند کی حیثیت سے مرد کو ہی اکثر مقامات پر مخاطب کر کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے احکامات دیئے گئے ہیں تو اس کی یہی وجہ ہے کہ وہ ذکر یعنی کر ہے اور اُس میں قوت افاضہ ہوتی ہے.اُس نے اہلِ خانہ کو فیض پہنچانا ہے اس لئے ظاہر ہے ہدایات کی بھی اُسے ہی ضرورت ہے کہ اُس نے یہ سب کام کیسے سرانجام دینے ہیں.وہ گھر کے پورے نظام کا ذمہ دار ہوتا ہے.حدیث میں آتا ہے کہ الْمَرُاَ ةُ رَاعِيَةٌ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا.اس لحاظ سے مرد ہی زیادہ تر اس پوزیشن میں ہے کہ چاہے تو بیوی سے نیک سلوک کرے اور چاہے تو برا.اس لئے اصولاً نیک سلوک کا تاکیدی حکم بھی اُسے ہی ملنا چاہئے.83
اس کے مقابلے میں عورتوں کیلئے جو احکامات قرآن کریم اور احادیث میں بیان ہوئے ہیں اُن میں سے کوئی ایک حکم بھی ایسا نہیں جس میں اُن کی قوت افاضہ کے ظہور کا ذکر ہو.ایک نبی کو ماننے والے یا ایک مرشد کے مرید اپنے نبی یا پیر کی طرف سے حسن واحسان کے سلوک اور لوگوں کو فیضیاب کرنے کیلئے کچی محنت ، تڑپ اور دلی ہمدردی کے جواب میں اس کی اطاعت، عزت و احترام اور خدمت کرتے اور اس کے کام میں اس کے ممدو معاون ہوتے ہیں.اسی طرح اسلام میں جہاں مرد کو عورت سے نیک سلوک اور اُسے فیضیاب کرنے کیلئے تفصیلی احکامات دیئے گئے ہیں ، عورت کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ بھی خاوند کے نیک سلوک اور اس سے متمتع ہونے کے جواب میں اس کی اطاعت اور خدمت کرے، بچوں کی پرورش اور نگہداشت کرے اور خاوند کے فرائض کی ادائیگی میں اُسکی ممد و معاون ہونے کی خاطر گھر کے ماحول کو خوشگوار رکھے.چنانچہ عورت کیلئے احکامات کا خلاصہ یہی تین امور ہیں.ان کا ذکر انشاء اللہ راکھے کے حقوق میں کیا جائے گا.دوسری بات یہ ہے کہ عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ کے حکم کی جس رنگ میں آنحضرت ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خلفائے احمدیت نے تفاصیل بیان کی ہیں اُس سے بھی اس کی حکمت خود بخود عیاں ہوتی چلی جاتی ہے.جیسا کہ بیان ہو چکا ہے یہ ایک کثیر الجہات فرض ہے اس لئے اسے کسی قدر تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے.مرد کی نیکی جامھنے کا سمانہ: اہل و عیال کے ساتھ حسنِ سلوک کی اس قدر اہمیت اور تاکید ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اسے مردوں کیلئے نیکی اور اعلیٰ اخلاق کی کسوٹی قرار دیا ہے.انسان فطرتا چاہتا ہے کہ وہ لوگوں میں نیک اور اچھے اخلاق والا مشہور ہو.اس لئے بعض لوگ دوسروں کے سامنے ریا کاری سے 84
اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن گھر میں چونکہ انہیں دیکھنے والا کوئی نہیں ہوتا اس لئے وہاں اُن کے اخلاق کا کچھ اور ہی رنگ ہوتا ہے.اسی لئے آنحضرت ﷺ نے انسان کے گھر سے باہر سلوک اور برتاؤ کی بجائے اہلِ خانہ کے ساتھ نیک سلوک کو نیکی کا معیار قرار دیا ہے.فرمایا: خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِاَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لَا هُلِی تم میں سے بہتر وہ ہے جس کا اپنے اہل وعیال سے سلوک اچھا ہے اور میں تم میں سے اپنے اہل سے اچھا سلوک کرنے کے اعتبار سے بہتر ہوں.(مشکوۃ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اس سے یہ مت سمجھو کہ پھر عورتیں ایسی چیزیں ہیں کہ ان کو بہت ذلیل اور حقیر قرار دیا جائے.نہیں نہیں ، ہمارے ہادی کامل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے خیر کم خیر کم لاھلہ تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جس کا اپنے اہل کے ساتھ عمدہ سلوک ہو.بیوی کے ساتھ جس کا عمدہ چال چلن اور معاشرت اچھی نہیں وہ نیک کہاں.دوسروں کیساتھ نیکی اور بھلائی تب کر سکتا ہے جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرتا ہو اور عمدہ معاشرت رکھتا ہو.نہ یہ کہ ہر ادنی بات پر زدوکوب کرے.ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ ایک غصہ سے بھرا ہوا انسان بیوی سے ادنی سی بات پر ناراض ہو کر اُس کو مارتا ہے اور کسی نازک مقام پر چوٹ لگی ہے اور بیوی مرگئی ہے اس لئے اُن کے واسطے اللہ تعالے نے یہ فرمایا ہے کہ وَ عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ.ہاں اگر وہ بے جا کام کرے تو تنبیہ ضروری چیز 85
ہے.انسان کو چاہئے کہ عورتوں کے دل میں یہ بات جمادے کہ وہ کوئی ایسا کام جو دین کے خلاف ہو کبھی پسند نہیں کر سکتا اور ساتھ ہی وہ ایسا جابر اور ستم شعار نہیں کہ وو اس کی کسی غلطی پر بھی چشم پوشی نہیں کر سکتا.( ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۱۴۷.۱۴۸) چاہئے کہ بیویوں سے خاوند کا ایسا تعلق ہو جیسے دو بچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے.انسان کے اخلاق فاضلہ اور خدا تعالیٰ سے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں.اگر ان ہی سے اس کے تعلقات اچھے نہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ سے صلح ہو.رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے خَیرُ كُمُ خَيْرُ كُمُ لاَهْلِهِ تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کیلئے اچھا ہے.( ملفوظات جلد ۵ صفحه ۴۱۸) نیک نمونه آنحضرت ﷺ نے مندرجہ بالا حدیث میں خود اپنے نمونے کو پیش فرمایا ہے جیسا کہ فرمايا: ” وَ أَنَا خَيْرُ كُمُ لاَھلِی اور میں تم میں سے اپنے اہل سے سلوک کرنے میں سب سے بہتر ہوں.یعنی آپ نے صرف قال سے نہیں بلکہ حال سے عورتوں کے ساتھ نیک سلوک فرما کر دکھایا.انسان طبعاً نمونے کا محتاج ہوتا ہے اور عورتوں میں تو خاص طور پر قوت متاثرہ زیادہ ہوتی ہے اور وہ جلد اثر قبول کر لیتی ہیں.اس لئے لازم ہے کہ گھر کا نگران اپنے بیوی بچوں کیلئے نیکی اور اخلاق حسنہ کا نمونہ بنے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” مرد اگر پارسا طبع نہ ہو تو عورت کب صالحہ ہوسکتی ہے.ہاں اگر مرد خود صالح بنے تو عورت بھی صالحہ بن سکتی ہے.قول سے عورت کو نصیحت نہ دینی چاہئے بلکہ 86
فعل سے اگر نصیحت دی جاوے تو اس کا اثر ہوتا ہے.عورت تو در کنار اور بھی کون ہے جو صرف قال سے کسی کی مانتا ہے.اگر کوئی مرد کوئی بھی یا خامی اپنے اندر کھے گا تو عورت ہر وقت اس پر گواہ ہے.اگر وہ رشوت لے کر گھر آیا ہے تو اس کی عورت کہے گی کہ جب خاوند لایا ہے تو میں کیوں حرام کہوں.غرضیکہ مرد کا اثر عورت پر ضرور پڑتا ہے اور وہ خود ہی اُسے خبیث اور طیب بناتا ہے.اسی لئے لکھا ہے.الْخَبِيثَتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثُتُ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَتِ : ( النور۲۷) اس میں یہی نصیحت ہے کہ تم طیب بنو ورنہ ہزار ٹکریں مارو کچھ نہ بنے گا.جو شخص خدا سے خود نہیں ڈرتا تو عورت اس سے کیسے ڈرے؟ نہ ایسے مولویوں کا وعظ اثر کرتا ہے نہ خاوند کا.ہر حال میں عملی نمونہ اثر کیا کرتا ہے.بھلا جب خاوند رات کو اُٹھ اُٹھ کر دعا کرتا ہے روتا ہے تو عورت ایک دو دن تک دیکھے گی آخر ایک دن اُسے بھی خیال آوے گا اور ضرور متاثر ہوگی.عورت میں متاثر ہونے کا مادہ بہت ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ جب خاوند عیسائی وغیرہ ہوتے ہیں تو عورتیں اُن کے ساتھ عیسائی وغیرہ ہو جاتی ہیں.اُن کی درستی کے واسطے کوئی مدرسہ بھی کفایت نہیں کر سکتا جتنا خاوند کا عملی نمونہ کفایت کرتا ہے.خاوند کے مقابلہ میں عورت کے بھائی بہن وغیرہ کا بھی کچھ اثر اس پر نہیں ہوتا.خدا نے مرد عورت دونوں کا ایک ہی وجود فرمایا ہے.یہ مردوں کا ظلم ہے کہ وہ اپنی عورتوں کو ایسا موقع دیتے ہیں کہ وہ ان کا نقص پکڑیں.اُن کو چاہئے کہ عورتوں 87
کو ہرگز ایسا موقعہ نہ دیں کہ وہ کہہ سکیں کہ تو فلاں بدی کرتا ہے بلکہ عورت ٹکریں مار مار کر تھک جاوے اور کسی بدی کا پتہ اُسے مل ہی نہ سکے تو اس وقت اس کو دینداری کا خیال ہوتا ہے اور وہ دین کو بجھتی ہے.مرد اپنے گھر کا امام ہوتا ہے.پس اگر وہی بداثر قائم کرتا ہے تو کس قدر بداثر پڑنے کی امید ہے.مرد کو چاہئے کہ اپنے قومی کو برمحل اور حلال موقعہ پر استعمال کرے.مثلاً ایک قوت غضبی ہے جب وہ اعتدال سے زیادہ ہو تو جنون کا پیش خیمہ ہوتی ہے.جنون میں اور اس میں بہت تھوڑا فرق ہے.جو آدمی شدید الغضب ہوتا ہے اس سے حکمت کا چشمہ چھین لیا جاتا ہے.بلکہ اگر کوئی مخالف ہو تو اس سے بھی مغلوب الغضب ہوکر گفتگو نہ کرے.مرد کی ان تمام باتوں اور اوصاف کو عورت دیکھتی ہے.وہ دیکھتی ہے کہ میرے خاوند میں فلاں فلاں اوصاف تقویٰ کے ہیں.جیسے سخاوت ،حلم ، صبر اور جیسے اُسے پر کھنے کا موقعہ ملتا ہے وہ کسی دوسرے کو نہیں مل سکتا.اسی لئے عورت کو سارق بھی کہا گیا ہے کیونکہ یہ اندر ہی اندر اخلاق کی چوری کرتی رہتی ہے حتی کہ آخر کار ایک وقت پورا اخلاق حاصل کر لیتی ہے.( ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۲۰۷.۲۰۹) کوئی زمانہ ایسا نہیں ہے جس میں اسلامی عورتیں صالحات میں نہ ہوں گو تھوڑی ہوں مگر ہوں گی ضرور.جس نے عورت کو صالحہ بنانا ہو وہ خود صالح بنے.ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ اپنی پر ہیز گاری کے لئے عورتوں کو پر ہیز گاری سکھاویں ورنہ وہ گنہگار ہوں گے اور جبکہ اس کی عورت سامنے ہو کر بتلا سکتی ہے کہ 88
تجھ میں فلاں فلاں عیب ہیں تو پھر عورت خدا سے کیا ڈرے گی.جب تقوی نہ ہو تو ایسی حالت میں اولا د بھی پلید پیدا ہوتی ہے.اولا د کا طیب ہونا تو طیات کا سلسلہ چاہتا ہے.اگر یہ نہ ہو تو پھر اولا دخراب ہوتی ہے.اس لئے چاہئے کہ سب تو بہ کریں اور عورتوں کو اپنا اچھا نمونہ دکھلا دیں.عورت خاوند کی جاسوس ہوتی ہے وہ اپنی بدیاں اس سے پوشیدہ نہیں رکھ سکتا.نیز عورتیں چھپی ہوئی دانا ہوتی ہیں.یہ نہ خیال کرنا چاہئے کہ وہ احمق ہیں.وہ اندر ہی اندر تمہارے سب اثر وں کو حاصل کرتی ہیں.جب خاوند سید ھے رستہ پر ہو گا تو وہ اس سے بھی ڈرے گی اور خدا سے بھی.ایسا نمونہ دکھانا چاہئے کہ عورت کا یہ مذہب ہو جاوے کہ میرے خاوند جیسا اور کوئی نیک دنیا میں نہیں ہے اور وہ یہ اعتقاد کرے کہ یہ باریک سے باریک نیکی کی رعایت کرنے والا ہے.جب عورت کا یہ اعتقاد ہو جاوے گا تو ممکن نہیں کہ وہ خود نیکی سے باہر رہے.سب انبیاء اولیاء کی عورتیں نیک تھیں اس لئے کہ ان پر نیک اثر پڑتے تھے.جب مرد بد کار اور فاسق ہوتے ہیں تو ان کی عورتیں بھی ویسی ہی ہوتی ہیں.ایک چور کی بیوی کو یہ خیال کب ہو سکتا ہے کہ میں تہجد پڑھوں.خاوند تو چوری کرنے جاتا ہے تو کیا وہ پیچھے تہجد پڑھتی ہے؟ الرجال قوامون علی النساء اسی لئے کہا ہے کہ عورتیں خاوندوں سے متاثر ہوتی ہیں.جس حد تک خاوند صلاحیت اور تقویٰ بڑھاوے گا کچھ حصہ اس سے عورتیں ضرور لیں گی.ویسے ہی اگر وہ بدمعاش ہو گا تو بدمعاشی سے وہ حصہ لیں گی.( ملفوظات جلد ۵ صفحه ۲۱۷-۲۱۸) 89
سخت گوئی اور زدوکوب پر پابندی: اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے: وَالَّتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْتَغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًاء إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا ج كَبِيرًا ( النساء آیت ۳۵) ترجمہ: ” اور وہ عورتیں جن سے تمہیں باغیانہ رویے کا خوف ہو تو ان کو ( پہلے تو ) نصیحت کرو، پھر ان کو بستروں میں الگ چھوڑ دو اور پھر ( عند الضرورت ) انہیں بدنی سزا بھی دو.پس اگر وہ تمہاری اطاعت کریں تو پھر ان کے خلاف کوئی حجت تلاش نہ کرو.یقیناً اللہ بہت بلند ( اور ) بہت بڑا ہے.“ یہ وہ آیت کریمہ ہے جس سے بعض کم فہم مسلمان اور غیر مسلم ، عورتوں کو مارنے کا جواز نکالتے ہیں حالانکہ اس میں نہایت واضح طور پر درجہ بدرجہ تین طریق اختیار کرنے کا حکم ہے اور مارنے کا ذکر تیسرے نمبر پر ہے.سب سے پہلی بات جو سمجھنے والی ہے وہ یہ ہے کہ عورت کے کس قسم کے عمل یا رویے سے اُسے باز رکھنے کے یہ علاج بتائے گئے ہیں؟ سو واضح ہو کہ اس کیلئے یہاں نشوز کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں سرکشی ، بغاوت ، نافرمانی.ناشزہ ایسی عورت کو کہتے ہیں جو خاوند کی اطاعت سے باہر نکل جائے اور اپنے آپ کو اس سے بالا سمجھے.غیر مرد کی طرف التفات کرے اور اپنے خاوند سے بغض رکھے.اگر چہ اس قسم کے باغیانہ رویہ رکھنے والی عورت کو کسی بھی قوم اور مذہب کا مرد برداشت نہیں کر سکتا اور عین ممکن ہے کہ وہ پہلا علاج ہی اسے زود کوب کرنے سے کرے لیکن اسلام مرد کو ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتا بلکہ 90
بتدریج اصلاح کے طریق اختیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ پہلے دوطریقوں کے بعد بھی اگر عورت اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتی تو تب بغرض اصلاح سزا دی جاسکتی ہے.اگر درست طریق سے نصیحت کی جائے تو ممکن ہے وہ اصلاح کرلے اور خلوت میں اکیلا چھوڑنے کا ہی موقعہ نہ آئے چہ جائیکہ بدنی سزا کی نوبت آئے.لیکن اگر بفرض محال کوئی عورت بالکل ہی بے لگام ہو چکی ہو اور وہ نہ تو نصیحت مانتی ہو اور نہ ہی خلوت میں تنہائی کا احساس اسے بغاوت اور سرکشی سے باز رکھنے میں مددگار ہوتا ہو تو پھر آخری علاج کے طور پر بدنی سزا کی اجازت دی گئی ہے.یہ بات طے ہے کہ بعض طبیعتیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ اُن پر یہ حربہ کارگر ہو جاتا ہے.لیکن اس کیلئے بھی پھر مرد پر پابندی ہے.یہ نہیں کہ مغضوب الغضب ہوکر اندھا دھند عورت کو زدوکوب کرنے کی اجازت ہے.ایسا نہیں اور ہرگز نہیں.بلکہ اس حکم کے ذریعے ایسے مردوں کو پابند کیا گیا ہے جو اس قسم کی صورتِ حال برداشت نہیں کر سکتے اور فورا سختی پر اتر آتے ہیں.انہیں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تم قوام ہو ، برداشت اور حوصلے سے کام لو اور پہلے مختلف طریقوں سے نصیحت کرو.اگر نہیں سمجھتی تو اسے خلوت میں اکیلا چھوڑ کر اپنی ناراضگی کا اظہار کرو اور اگر پھر بھی وہ سرکشی سے باز نہیں آتی تو تب اجازت ہے کہ بدنی سزا دے سکتے ہو.مارنے کیلئے تفاسیر میں مسواک سے مارنے کی تصریح بھی موجود ہے.پھر وَلَا تَضْرِب الْوَجْهَ اور ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرَّح کے الفاظ بھی احادیث میں موجود ہیں.یعنی چہرہ پر نہیں مارنا اور نہ ہی اس طرح مارنا ہے کہ جسم پر کوئی نشان پڑے.اب قارئین خود ہی اندازہ کر لیں کہ یہ کونسی مار ہے اور وہ بھی پہلے اصلاح کے دو طریق اختیار کرنے کے بعد جن پر کئی مہینے بھی صرف ہو سکتے ہیں.علاوہ ازیں یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ یہ ہر گز ضروری نہیں کہ مارنے کا تیسرا طریق ضرور ہی استعمال کرنا ہے.اسلام کا ہر حکم حکمت پر مبنی ہے.جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے بعض طبیعتیں ہی ایسی ہوتی ہیں کہ وہ بختی سے ماننے والی ہوتی ہیں.ظاہر ہے ایسی عورت اگر اپنی اصلاح نہ کرے تو کوئی 91
بھی اسے اپنے نکاح میں رکھنا نہیں چاہتا بلکہ اسے طلاق دینی پڑتی ہے.مذکورہ آیت میں بھی در اصل عورت سے ہی احسان کے سلوک کا پہلو نمایاں ہے کہ آخری وقت تک اصلاح کی کوشش کرنے کا حکم ہے ورنہ بہت سے لوگ مارنا ہرگز پسند نہیں کرتے اور اگر وہ پہلے دوطریقوں کے ذریعے نہیں سمجھتی تو اُس سے علیحدہ ہو جاتے ہیں.سب سے بڑا نمونہ تو خود آنحضرت ﷺ کا ہمارے سامنے ہے جن پر یہ آیت نازل ہوئی.آپ نے پوری زندگی کبھی ایک دفعہ بھی اپنی کسی بیوی پر ہاتھ نہیں اٹھایا.پس اس آیت سے بات بات پر عورتوں کو بدنی سزا دینے کا جواز نکالنا سراسر ظلم ہے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی فرماتے ہیں: پھر عورت کا یہ حق مقرر کیا ہے کہ خاوند عورت کو بلا کسی کھلی بدی کے سزا نہیں دے سکتا.اگر سزا دینی ہو تو اُس کیلئے پہلے ضروری ہے کہ محلہ کے چار واقف مردوں کو گواہ بنا کر اُن سے شہادت لے کہ عورت واقعہ میں خلاف اخلاق افعال کی مرتکب ہوئی ہے.اس صورت میں بے شک سزا دے سکتا ہے.مگر وہ سزا تدریجی ہوگی پہلے وعظ.اگر وہ اس سے متاثر نہ ہو تو کچھ عرصہ کیلئے اُس سے علیحد ہ دوسرے کمرے میں سونا.اگر اس کا اثر بھی عورت پر نہ ہو تو گواہوں کی گواہی کے بعد بدنی سزا کا دینا جس کیلئے شرط ہے کہ ہڈی پر چوٹ نہ لگے اور نہ ہی اس مار کا نشان پڑے اور یہ بھی شرط ہے کہ یہ سزا صرف مخش کی وجہ سے دی جاسکتی ہے نہ کہ گھر کے کام وغیرہ کے نقص کی وجہ سے.“ ( احمدیت یعنی حقیقی اسلام.بحوالہ انوار العلوم جلد ۸ صفحه ۲۷۲) حضرت خلیفۃ المسیح الرابع فرماتے ہیں: 92
آیت کے آخری حصہ میں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ اگر تم قوام ہو اور اس کے با وجود تمہاری بیوی بہت زیادہ باغیانہ روح رکھتی ہے تو اس صورت میں یہ اجازت نہیں کہ اس کو فوری طور پر بدنی سزا دو بلکہ اسے نصیحت کرو.اگر نصیحت سے نہ مانے تو از دواجی تعلقات سے کچھ عرصہ تک احتراز کرو.( دراصل یہ سز ا عورت سے زیادہ مرد کو ہے ) اگر اس کے باوجود اس کی باغیانہ روش دور نہ ہو تو پھر تمہیں اس پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت ہے مگر اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ایسی ضرب نہ لگے جو چہرہ پر ہو اور جس سے اس پر کوئی داغ لگ جائے.اس آیت کریمہ کے حوالہ سے بہت سے لوگ اپنی بیویوں پر نا جائز تشد د کر تے ہیں کہ مرد کو بیوی کو مارنے کی اجازت ہے حالانکہ اگر مذکورہ بالا شرائط پوری کریں تو بھاری امکان ہے کہ کسی تشدد یا سختی کی ضرورت ہی نہ پڑے.اگر تشدد جائز ہوتا تو حضرت رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں بیویوں پر بدنی تشدد کی کوئی ایک ہی مثال نظر آ جاتی حالانکہ بعض ہو یہاں بعض دفعہ آپ کی ناراضگی کا موجب بھی بن جاتی الله تھیں.“ ( ترجمۃ القرآن از حضرت خلیفہ امسیح الرابع صفحه ۱۳۵) حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: پھر بعض دفعہ بہانہ جو مردوں کی طرف سے ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ یہ نافرمان ہے بات نہیں مانتی.میرے ماں باپ کی نہ صرف عزت نہیں کرتی بلکہ اُن کی بے عزتی بھی کرتی ہے.میرے بہن بھائیوں سے لڑائی کرتی ہے.بچوں کو ہمارے خلاف بھڑکاتی ہے یا گھر سے باہر محلے میں اپنی سہیلیوں میں ہمارے گھر کی باتیں کر کے ہمیں بدنام کر دیا ہے.تو اس بارہ میں بڑے واضح احکام 93
ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَالَّتِى تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ = فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْتَغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلا ، إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا.(النساء آیت ۳۵) اور وہ ط عورتیں جن سے تمیں باغیانہ رویے کا خوف ہو اُن کو پہلے تو نصیحت کرو.پھر اُن کو بستروں میں الگ چھوڑ دو.پھر اگر ضرورت ہو تو انہیں بدنی سزا دو.یعنی پہلی بات یہ ہے کہ سمجھاؤ.اگر نہ سمجھے اور انتہا ہوگئی ہے اور اردگر د بدنامی بہت زیادہ ہو رہی ہے تو پھر سختی کی اجازت ہے.لیکن اس بات کو بہانہ بنا کر ذرا ذراسی بات پر بیوی پر ظلم کرتے ہوئے اس طرح مارنے کی اجازت نہیں کہ اس حد تک مارو کہ زخمی بھی کر دو.یہ انتہائی ظالمانہ حرکت ہے.آنحضرت ﷺ کی اس حدیث کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے.آپ نے فرمایا کہ اگر کبھی مارنے کی ضرورت پیش آ جائے تو مار اِس حد تک ہو کہ جسم پر نشان نظر نہ آئے.یہ بہانہ کہ تم میرے سامنے اُونچی آواز سے بولی تھی ، میرے لئے روٹی اس طرح کیوں پکائی تھی ، میرے ماں باپ کے سامنے فلاں بات کیوں کی، کیوں اس طرح بولی.عجیب چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں.ان باتوں پر تو مارنے کی اجازت نہیں ہے.پس اللہ کے حکموں کو اپنی خواہشوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہ کریں اور خدا کا خوف کریں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری بیوی نے ایک انتہائی قدم جو اٹھایا اور اس پر تمہیں اُس کو سزا دینے کی ضرورت پڑی تو یاد رکھو کہ اب اپنے دل میں کینے نہ پالو.جب وہ تمہاری پوری فرمانبردار ہو جائے ، اطاعت کر لے تو پھر اُس پر زیادتی نہ کرو.فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْتَغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللَّهَ كَانَ 94
عَلِيًّا كَبِيرًا پس اگر وہ تمہاری اطاعت کریں تو پھر تمہیں اُن پر زیادتی کا کوئی حق نہیں ہے.یقیناً اللہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے.یادرکھو اگر تم اپنے آپ کو عورت سے زیادہ مضبوط اور طاقتور سمجھ رہے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہارے سے بہت بڑا ، مضبوط اور طاقتور ہے.عورت کی تو پھر تمہارے سامنے کچھ حیثیت ہے بلکہ برابری کی ہی حیثیت ہے.لیکن تمہاری خدا تعالیٰ کے سامنے تو کوئی حیثیت نہیں ہے.اس لئے اللہ کا خوف کرو اور اپنے آپ کو ان حرکتوں سے باز کرو.(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۰ نومبر ۲۰۰۶، بحوالہ الفضل انٹر نیشنل اتاے دسمبر ۲۰۰۶) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اگر نصیحت کے باوجود نا موافقت کے آثار ظاہر ہو جائیں تو تم بعد از نصیحت خواب گاہوں میں اُن سے جدا ہو جاؤ یعنی خلوت میں اُن سے کنارہ کرو.اُن سے بات کرنا بھی چھوڑ دو ( یعنی جیسی جیسی صورت پیش آوے ) پس اگر وہ تمہاری تابعدار ہو جائیں تو تم بھی طلاق وغیرہ کا نام نہ لو اور تکبر نہ کرو کہ کبریائی خدا کے لئے مسلم ہے.یعنی دل میں یہ نہ کہو کہ اس کی مجھے کیا حاجت ہے میں دوسری بیوی کر سکتا ہوں.بلکہ تواضع سے پیش آؤ کہ تواضع خدا کو پیاری ہے.“ ( آریہ دھرم صفحہ ۴۵) ” اسی طرح عورتوں اور بچوں کے ساتھ تعلقات اور معاشرت میں لوگوں نے غلطیاں کھائی ہیں اور جادہ مستقیم سے بہک گئے ہیں.قرآن شریف میں لکھا ہے عاشروهن بالمعروف مگر اب اس کے خلاف عمل ہو رہا ہے.دو قسم کے لوگ اس کے متعلق بھی پائے جاتے ہیں.ایک گروہ تو ایسا ہے کہ انہوں نے عورتوں کو بالکل خلیج الرسن کر دیا ہے.دین کا کوئی اثر ہی اُن پر نہیں ہوتا.اور وہ کھلے طور 95
پر اسلام کے خلاف کرتی ہیں اور کوئی ان سے نہیں پوچھتا.بعض ایسے ہیں کہ انہوں نے خلیج الرسن تو نہیں کیا مگر اس کے بالمقابل ایسی سختی اور پابندی ہے کہ اُن میں اور حیوانوں میں کوئی فرق نہیں کیا جاتا اور کنیز کوں اور بہائم سے بھی بدتر اُن سے سلوک ہوتا ہے، مارتے ہیں تو ایسے بے درد ہو کر کہ کچھ پتہ ہی نہیں کہ آگے کوئی جاندار ہستی ہے یا نہیں.غرض بہت ہی بری طرح سلوک کرتے ہیں.یہانتک کہ پنجاب میں مثل مشہور ہے کہ عورت کو پاؤں کی جوتی کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں کہ ایک اتار دی دوسری پہن لی.یہ بڑی خطرناک بات ہے اور اسلام کے شعائر کے خلاف ہے.رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم ساری باتوں کے کامل نمونہ ہیں.آپ کی زندگی میں دیکھو کہ آپ عورتوں کے ساتھ کیسی معاشرت کرتے تھے.میرے نزدیک وہ شخص بزدل اور نامرد ہے جوعورت کے مقابلہ میں کھڑا ہوتا ہے.“ ( ملفوظات جلد ۴ صفحه ۴۴ ) و بعض لوگوں کا حال سنا جاتا ہے کہ ان بیچاریوں کو پاؤں کی جوتی کی طرح جانتے ہیں اور ذلیل ترین خدمات اُن سے لیتے ہیں.گالیاں دیتے ہیں.حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور پردہ کے حکم ایسے ناجائز طریق سے برتتے ہیں کہ ان کو زندہ درگور کر دیتے ہیں.“ ( ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۴۱۸) " فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں.ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو عورت سے جنگ کریں.ہم کو خدا نے مرد بنایا ہے.در حقیقت ہم پر اتمام نعمت ہے.اس کا شکر یہ یہ ہے کہ ہم عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤ کریں.“ ( ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۱) 96
” میرا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی پر آوازہ کسا تھا.اور میں محسوس کرتا تھا کہ وہ با نگ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے اور بائیں ہمہ کوئی دل آزار اور درشت کلمہ منہ سے نہیں نکالا تھا.اس کے بعد میں بہت دیر تک استغفار کرتا رہا اور بڑے خشوع اور خضوع سے نفلیں پڑھیں اور کچھ صدقہ بھی دیا کہ یہ درشتی زوجہ پر کسی پنہانی معصیت الہی کا نتیجہ ہے.(ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۲) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام ہرگز پسند نہیں فرماتے تھے کہ خصوصاً وہ احباب جن کا آپ سے قربت کا تعلق ہے کسی بھی طور سے اپنے اہلِ خانہ سے سختی کا برتاؤ کریں.آپ آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ پر خود بھی پورے طور پر عمل کرنے والے تھے اور اسی کی تلقین وہ اپنے ماننے والوں کو بھی کرتے رہتے تھے.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی فطرتاً ذرا سخت طبیعت کے تھے اور اسی وجہ سے اپنی اہلیہ سے بھی سختی سے پیش آتے.چونکہ ان کا حضور سے خاص قربت کا تعلق تھا اس لئے ان کے بارے میں خاص طور پر آپ کو مندرجہ ذیل الفاظ میں الہام ہوا : یہ طریق اچھا نہیں.اس سے روک دیا جائے مسلمانوں کے لیڈ رعبدالکریم کو.خُذُو الرِّفْقَ الرّفْقَ فَإِنَّ الرِّفْقَ رَأْسُ الْخَيْرَاتِ نرمی کرو.نرمی کرو کہ تمام 66 نیکیوں کا سرنرمی ہے.‘ ( تذکرہ صفحہ ۴۰۹ ایڈیشن ۱۹۵۶) اس الہام کے بارہ میں آپ فرماتے ہیں: ا خویم مولوی عبد الکریم صاحب نے اپنی بیوی سے کسی قدرختی کا برتاؤ کیا تھا.اس پر حکم ہوا کہ اسقدر سخت گوئی نہیں چاہئے.“ ( اربعین نمبر ۳ روحانی خزائن جلد ۷ اصفحه ۴۲۹) 97
اپنے ایک صحابی حضرت سید خصیلت علی شاہ صاحب کو خط لکھتے ہوئے آپ فرماتے ہیں : " خونخوار انسان نہیں بننا چاہئے.بیویوں پر رحم کرنا چاہئے اور ان کو دین سکھانا چاہئے.در حقیقت میرا یہی عقیدہ ہے کہ انسان کے اخلاق کے امتحان کا پہلا موقعہ اس کی بیوی ہے.میں جب کبھی اتفاقاً ایک ذرہ درشتی اپنی بیوی سے کروں تو میرا بدن کانپ جاتا ہے کہ ایک شخص کو خدا نے صد ہا کوس سے میرے حوالہ کیا.شاید معصیت ہوگی کہ مجھ سے ایسا ہوا.تب میں ان کو کہتا ہوں کہ تم اپنی نماز میں میرے لئے دعا کرو کہ اگر یہ امر خلاف مرضی حق تعالیٰ ہے تو مجھے معاف فرما دیں اور میں بہت ڈرتا ہوں کہ ہم کسی ظالمانہ حرکت میں مبتلا نہ ہو جائیں.سوئیں امید رکھتا ہوں کہ آپ بھی ایسا ہی کریں گے.ہمارے سید و مولا رسول اللہ ہے صلى الله کس قدر اپنی بیویوں سے علم کرتے تھے.زیادہ کیا لکھوں.“ ( تفسیر حضرت مسیح موعود جلد دوم صفحه ۲۳۰) خلاصہ کلام یہ کہ اصل میں مذکورہ آیت میں عورتوں کو زدوکوب کرنے پر پابندی لگائی گئی ہے.ہمارے سامنے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، خلفائے راشدین ، آئمہ کرام، بزرگانِ اُمت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ، آپ کے بزرگ صحابہ اور خلفاء کے گھریلو زندگی کے نمونے موجود ہیں جنہوں نے کبھی بھی اپنی بیویوں پر ہاتھ نہیں اٹھایا.پس اگر بفرض محال کسی کی بیوی باوجود ہر طرح سے سمجھانے کے نشوز کے طرز عمل سے باز نہیں آتی تو اُس سے علیحدہ ہو جائے لیکن کسی بھی احمدی مسلمان کو ہرگز ہرگز زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھائے کہ یہ شرفاء کا طریق نہیں.98
لطف اور نرمی کا برتاؤ فرمان الہی وَ عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ عورتیں اپنی صنف کے اعتبار سے اس لائق ہیں کہ ان سے رحم اور لطف کا سلوک کیا جائے.اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کا جوڑا بنایا ہی اس لئے تھا کہ وہ ایک دوسرے سے سکون اور چین پائیں اور اس مقصد کیلئے اُن میں ایک دوسرے کے لئے ایک خاص کشش اور جذبات محبت پیدا فرمائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَ مِنْ الله أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ اَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةٌ.إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ.(الروم ۲۲) ترجمہ : ” اور اس کے نشانات میں سے (یہ بھی) ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس میں سے جوڑے بنائے تا کہ تم اُن کی طرف تسکین (حاصل کرنے) کے لئے جاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی.یقینا اس میں ایسی قوم کیلئے جوغور وفکر کرتے ہیں بہت سے نشانات ہیں.“ حضرت خلیفتہ امسیح اول فرماتے ہیں : لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا : یا درکھو بیبیاں اس لئے ہیں کہ ان سے آرام پاؤ.بہت بد بخت ہیں وہ جو بی بی کو دُکھ سمجھیں.مَوَدَّهُ : ان کے ذریعے دو مختلف خاندانوں میں باہمی محبت بڑھتی ہے.رَحْمَةً : بی بی پر رحم کرو.وہ تمہارے مقابل میں بہت کمزور ہے.لطیف پیرائے میں ادب سکھاؤ.“ لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا : دوسرے مقام پر فرمایا: لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ 99
مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةً (الروم :۲۲) عورت ذات بوجہ اپنی کم علمی ، نا تجربہ کاری کے بہت ہی قابلِ رحم و قابل مہر بانی ہے.( حقائق الفرقان جلد ۳ صفحه ۳۵۳) آنحضرت ﷺ نے ایک تو ازواج مطہرات سے اپنے بے نظیر حسن سلوک کو اپنے متبعین کیلئے نمونہ قرار دیا اور دوسرے یہ کہ آپ کو عورتوں کے بارے میں حسن معاشرت کا اس قدر خیال رہتا تھا کہ نہ صرف ہمیشہ اپنے صحابہ کو اس امر کی تلقین کرتے رہتے بلکہ اس کی نگرانی بھی فرماتے اور عورتیں بے تکلفی سے اپنے خاوندوں کی شکایات آپ سے کر سکتی تھیں.حجتہ الوداع کے موقعے پر بھی آپ انہیں نہیں بھولے اور آپ ﷺ نے خاص طور پر ان سے نیک سلوک کی تلقین فرمائی.آپ نے فرمایا: عورتیں تمہارے پاس قیدیوں کی طرح ہیں.اپنے لئے کچھ نہیں کر سکتیں.اس لئے تمہارا فرض ہے کہ ان کا خود خیال رکھو.ان کی ضروریات و حاجات کو پورا کرو اور حسن معاشرت کا رویہ پیشِ نظر رکھو.“ (سیرت ابن ہشام جلد۳) اسی طرح آپ ﷺ نے ایک اور موقعہ پر فرمایا: اَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيْمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلْقًا وَ خِيَارُكُمْ خِيَارُكُمْ لنسائهم (ترندی) ترجمہ: سب سے کامل الایمان وہ شخص ہے جوسب سے - زیادہ با اخلاق ہو اور تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ حسنِ معاشرت میں سب سے اچھا ہو.حضرت خلیفہ اسیح اول فرماتے ہیں : وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ : جہاں تک ہو سکے ان سے بھلائی کرو.تم ان سے 100
نیکی کرو.پھر اللہ تعالیٰ تم کو اس کے عوض بہتر سے بہتر اجر دے گا.چونکہ میرا مطالعہ بہت ہے اور مرد عورتوں کو اکثر درس دینے کا مجھے موقع ملا ہے اس لئے مرد اور عورتوں کی طبائع کا مجھے خوب علم ہے اور ان کی فطرت سے خوب واقف ہوں.میرے خیال میں عورتیں چشم پوشی اور ترس کی مستحق ہیں.( حقائق الفرقان جلد ۲ صفحہ ۱۳) چونکہ عورتیں بہت نازک ہوتی ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان سے ہمیشہ رحم و ترس سے کام لیا جائے اور ان سے خوش خلقی اور حلیمی برتی جائے.“ ( خطبات نور جلد دوم صفحه ۲۱۷) ” بیویوں کے ساتھ احسان کے ساتھ پیش آؤ.بیوی بچوں کے جننے اور پالنے میں سخت تکلیف اٹھاتی ہے.مرد کو اس کا ہزارواں حصہ بھی اس بارے میں تکلیف نہیں.ان کے حقوق کی نگہداشت کرو.وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ (البقره ۲۲۹) انکے قصوروں سے چشم پوشی کرو اللہ تعالیٰ بہتر سے بہتر بدلہ دے گا.“ ( حقائق الفرقان جلد ۲ صفحه ۵۰۴) ایک اور روایت میں ہے پیغمبر ﷺ نے فرمایا: اتَّقُوا اللَّهَ فِي النِّسَاءِ فَإِنَّهُنَّ عِندَكُمْ عَوَانٌ یعنی عورتوں کے حق میں خدا سے ڈرتے رہو کہ وہ تمہارے ہاتھوں میں قیدیوں کی طرح ہیں.“ ( حقائق الفرقان جلد ۲ صفحہ ۲۹۱) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی فرماتے ہیں: ” مرد یا درکھیں کہ عورت ایک مظلوم ہستی ہے اس کے ساتھ محبت اور شفقت کے سلوک سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے.اس لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِاَهْلِهِ یعنی تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل وعیال سے بہتر سلوک کرتا ہے.“ ( اوڑھنی والیوں کیلئے پھول حصہ دوم صفحہ ۱۶۰) 101
ماں کہ بیوی انسان کو بسا اوقات ایسی صورتِ حال کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے کہ کسی معاملے میں ایک رائے بیوی کی ہے اور دوسری ماں کی اور وہ دونوں اپنی اپنی بات منوانے پر بضد ہیں.اگر مرد درست فیصلہ کرنے میں ناکام ہو جائے تو ایسے معاملات بھی گھر کے امن کو تباہ کرنے کا باعث بن جاتے ہیں.ظاہر ہے ماں ایک مقدس رشتہ ہے اور کسی کیلئے بھی اتنا آسان نہیں کہ اُس کی رائے کو آسانی سے نامنظور کرے.دوسری طرف بیوی ہے جس کے ساتھ اُس نے اپنی پوری زندگی گزارنی ہے.ایسی صورت میں مرد اپنے آپ کو چکی کے دو پاٹوں کے درمیان محسوس کرتا ہے اور کوئی راستہ اس مشکل سے نکلنے کا نہیں پاتا.ماں اور بیوی میں اختلاف کی صورت میں مرد کا جھکا و عمو ماماں کی طرف ہوتا ہے.اُس کے احترام کی وجہ سے اُس کا رویہ ماں کیلئے نرم ہوتا ہے.وہ اُس کی بات رد کر نا نہیں چاہتا اور دو ٹوک الفاظ میں کھل کر اُسے غلط قرار دینے میں متذبذب ہوتا ہے.دوسری طرف بیوی اپنے خاوند کے اس رویے کو ماں کی طرفداری قرار دے کر احتجاج کرتی ہے اور اکثر یہ احتجاج تلخی پر منتج ہوتا ہے.اس صورتِ حال سے نپٹنا کوئی آسان کام نہیں.حقیقت یہ ہے کہ ماں سے مرد کا رویہ ایسا ہی ہونا چاہئے اور یہ بات بیوی کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ نہ صرف اُس کے خاوند کو اپنی ماں سے پورے احترام اور نرم لہجے میں ہی بات کرنی ہے بلکہ خود اُس کیلئے بھی لازم ہے کہ اپنی ساس کا ماں کی طرح احترام کرے.جہاں تک اختلاف میں فیصلہ کرنے کا تعلق ہے تو مرد کو جذبات اور تعلقات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اور قرآنی تعلیمات سے راہنمائی لیتے ہوئے عدل کے مطابق فیصلہ کرنا چاہئے اور یہ دیکھنا چاہئے کہ حق پر کون ہے، ماں یا بیوی ؟ قرآنِ پاک 102
میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ماں باپ اگر خدا اور رسول کے واضح احکامات کے خلاف کوئی بات کریں تو اُن کی وہ بات نہیں ماننی.(العنکبوت و تضمن ۱۶) اگر آپ سمجھتے ہیں کہ بیوی حق پر ہے تو اُسی کی رائے کے مطابق عمل کریں اور ماں کو محبت اور ادب واحترام سے سمجھا دیں اور اگر وہ نہیں سمجھتی تو دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اُسے سمجھا دے.اس بات کی کسی صورت میں اجازت نہیں کہ ماں کو حق پر نہ پا کر انسان اُس کا نافرمان ہو جائے اور اُس کے حقوق ادا کرنے سے ہاتھ روک لے اور اس کا ادب احترام ترک کر دے.ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں درج ہے کہ: ایک دوست نے خط کے ذریعے اس امر کا استفسار کیا کہ میری والدہ میری بیوی سے ناراض ہے اور مجھے طلاق کے واسطے حکم دیتی ہے مگر مجھے میری بیوی سے کوئی رنجش نہیں.میرے لئے کیا حکم ہے؟ فرمایا کہ: والدہ کا حق بہت بڑا ہے اور اس کی اطاعت فرض.مگر پہلے یہ دریافت کرنا چاہئے کہ آیا اس ناراضگی کی تہہ میں کوئی اور بات تو نہیں ہے جو خدا کے حکم کے بموجب والدہ کی ایسی اطاعت سے بری الذمہ کرتی ہو مثلاً اگر والدہ اس سے کسی دینی وجہ سے ناراض ہو یا نماز روزہ کی پابندی کی وجہ سے ایسا کرتی ہو تو اُس کا حکم ماننے اور اطاعت کرنے کی ضرورت نہیں.اور اگر کوئی ایسا مشروع امر ممنوع نہیں ہے جب تو وہ خود واجب الطلاق ہے.اصل میں بعض عورتیں محض شرارت کی وجہ سے ساس کو دُکھ دیتی ہیں.گالیاں دیتی ہیں، ستاتی ہیں.بات بات پر اس کو تنگ کرتی ہیں.والدہ کی ناراضگی بیٹے کی بیوی پر بے وجہ نہیں ہوا کرتی.سب سے زیادہ خواہش مند بیٹے کے گھر کی آبادی کی والدہ ہوتی ہے اور اس معاملہ میں ماں کو خاص دلچسپی ہوتی ہے.بڑے شوق 103
سے ہزاروں روپیہ خرچ کر کے خدا خدا کر کے بیٹے کی شادی کرتی ہے تو بھلا اس سے ایسی امید وہم میں بھی آسکتی ہے کہ وہ بے جا طور سے اپنے بیٹے کی بہو (سہوِ کا تب ہے، یہاں بیوی کا لفظ ہے.ناقل ) سے لڑے جھگڑے اور خانہ بربادی چاہے.ایسے لڑائی جھگڑوں میں عموماً دیکھا گیا ہے کہ والدہ ہی حق بجانب ہوتی ہے.ایسے بیٹے کی بھی نادانی اور حماقت ہے کہ وہ کہتا ہے کہ والدہ تو ناراض ہے مگر میں ناراض نہیں ہوں.جب اُس کی والدہ ناراض ہے تو وہ کیوں ایسی بے ادبی کے الفاظ بولتا ہے کہ میں ناراض نہیں ہوں.یہ کوئی سوکنوں کا معاملہ تو ہے نہیں.والدہ اور بیوی کے معاملہ میں اگر کوئی دینی وجہ نہیں تو پھر کیوں یہ ایسی بے ادبی کرتا ہے.اگر کوئی وجہ اور باعث اور ہے تو فوراً اُسے دور کرنا چاہئے.خرچ وغیرہ کے معاملہ میں اگر والدہ ناراض ہے اور یہ بیوی کے ہاتھ میں خرچ دیتا ہے تو لازم ہے کہ ماں کے ذریعہ خرچ کر اوے اور کل انتظام والدہ کے ہاتھ میں دے.والدہ کو بیوی کا محتاج اور دست نگر نہ کرے.بعض عورتیں اوپر سے نرم معلوم ہوتی ہیں مگر اندر ہی اندر وہ بڑی نیش زنیاں کرتی ہیں.پس سبب کو دور کرنا چاہئے اور جو وجہ ناراضگی ہے اس کو ہٹا دینا چاہئے اور والدہ کو خوش کرنا چاہئے.دیکھو شیر اور بھیڑیے اور اور درندے بھی تو ہلائے جاتے ہیں اور بے ضرر ہو جاتے ہیں.دشمن سے بھی دوستی ہو جاتی ہے اگر صلح کی جاوے تو پھر کیا وجہ ہے کہ والدہ کو ناراض رکھا جاوے.( ملفوظات جلد۰ اصفحہ ۱۹۲ ۱۹۳) ساس بہو اور نند بھاوج کی نوک جھونک اور لڑائیاں تو مشہور ہیں.اس لئے بہتر یہی ہے کہ شادی کے بعد لڑ کا اپنی بیوی کے ساتھ الگ مکان میں رہے.اس طرح کم از کم روزانہ ایک وسرے سے بات بات پر اختلافات اور تلخیوں کا سلسلہ تو ختم کیا جاسکتا ہے.104
وو حضرت خلیفہ مسیح الاوّل فرماتے ہیں: ” مِنْ بُيُوتِكُمْ اَوْ بُيُوتِ ابَا نِكُمُ...أَو بُيُوتِ خَلتِكُمْ: ہندوستان میں لوگ اکثر اپنے گھر میں خصوصاً ساس بہو کی لڑائی کی شکایت کرتے رہتے ہیں.قرآن مجید پر عمل کریں تو ایسا نہ ہو.دیکھو اس میں ارشاد ہے کہ گھر الگ الگ ہوں.ماں کا گھر الگ.اولا د شادی شدہ کا گھر الگ.‘“ (حقائق الفرقان جلد ۳ صفحه ۲۳۳) حضرت خلیفہ المسیح الثانی اس بارہ میں فرماتے ہیں : ” جب عورت گھر آتی ہے تو مطالبہ کرتی ہے کہ اُس کا میاں اپنے والدین سے فوراً علیحدہ ہو جائے.اگر چہ یہاں تک تو درست ہے کہ علیحدہ مکان ہو اور یہ شریعت کا بھی حکم ہے کیونکہ وہ نو جوان ہیں اُن کو بے تکلفی کی بھی ضرورت ہے.اگر وہ ہر وقت قیدر ہیں تو پھر وہ کیسے خوش رہ سکتے ہیں...( خطبات محمود جلد ۳ صفحه ۶۴) وو حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: پھر ایک بیماری جس کی وجہ سے گھر برباد ہوتے ہیں ،گھروں میں ہر وقت لڑائیاں اور بے سکونی کی کیفیت رہتی ہے وہ شادی کے بعد بھی لڑکوں کا تو فیق ہوتے ہوئے اور کسی جائز وجہ کے بغیر بھی ماں باپ بہن بھائیوں کے ساتھ اُسی گھر میں رہنا ہے.اگر ماں باپ بوڑھے ہیں ، کوئی خدمت کرنے والا نہیں ،خود چل پھر کر کام نہیں کر سکتے اور کوئی مددگار نہیں تو پھر تو اس بچے کیلئے ضروری ہے اور فرض بھی ہے کہ انہیں اپنے ساتھ رکھے اور اُن کی خدمت کرے.لیکن اگر بہن بھائی بھی ہیں جو ساتھ رہ رہے ہیں تو پھر علیحدہ گھر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے.105
آجکل اس کی وجہ سے بہت سی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں.اکٹھے رہ کر اگر مزید گنا ہوں میں پڑنا ہے تو یہ کوئی خدمت یا نیکی نہیں ہے.تو یہ چیز کہ ہم یا محبت کی وجہ سے اکٹھے رہ رہے ہیں ، اس پیار محبت سے اگر نفرتیں بڑھ رہی ہیں تو یہ کوئی حکم نہیں ہے.اس سے بہتر ہے کہ علیحدہ رہا جائے.تو ہر معاملہ میں جذباتی فیصلوں کی بجائے ہمیشہ عقل سے فیصلے کرنے چاہئیں.اس آیت کی تشریح میں کہ کیس عَلَى الْأَعْمَى حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَّ عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَى اَنْفُسِكُمْ اَنْ تَأكُلُوا مِنْ بُيُوتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ آبَائِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أُمَّهِتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ إِخْوَانِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخَوَتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ اَعْمَامِكُمْ اَوْ بُيُوتِ عَمْتِكُمْ اَوْ بُيُوتِ اَخْوَالِكُمْ اَوْ بُيُوتِ خَلتِكُمْ أَوْ مَا مَلَكُتُمُ مَّفَاتِحَهُ اَوْ صَدِيقِكُمُ (النور ۶۲ ) کہ اندھے پر کوئی حرج نہیں لولے لنگڑے پر کوئی حرج نہیں مریض پر کوئی حرج نہیں اور نہ تم لوگوں پر کہ تم اپنے گھروں سے یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے کھانا کھاؤ ،حضرت خلیفہ امسیح الاوّل فرماتے ہیں کہ ہندوستان میں لوگ اکثر اپنے گھروں میں خصوصا ساس بہو کی لڑائی کی شکایت کرتے رہتے ہیں.اگر قرآن مجید پر عمل کریں تو ایسا نہ ہو.فرماتے ہیں، دیکھو ( یہ جو کھانا کھانے والی آیت ہے ) اس میں ارشاد ہے کہ گھر الگ الگ ہوں.ماں کا گھر الگ.اور شادی شدہ لڑکے کا گھر الگ.تبھی تو ایک دوسرے کے گھروں میں جاؤ گے اور کھانا کھاؤ گے.تو دیکھیں کہ یہ جو 106
لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ہم ماں باپ سے علیحدہ ہو گئے تو پتہ نہیں کتنے بڑے گناہ کے مرتکب ہو جائیں گے اور بعض ماں باپ بھی اپنے بچوں کو اس طرح خوف دلاتے رہتے ہیں بلکہ بلیک میل کر رہے ہوتے ہیں کہ جیسے گھر علیحدہ کرتے ہی اُن پر جہنم واجب ہو جائے گی.تو یہ انتہائی غلط رویہ ہے.میں نے کئی دفعہ بعض بچیوں سے پوچھا ہے.ساس سسر کے سامنے تو یہی کہتی ہیں کہ ہم اپنی مرضی سے رہ رہے ہیں بلکہ اُن کے بچے بھی یہی کہتے ہیں لیکن علیحدگی میں پوچھو تو دونوں کا یہی جواب ہوتا ہے کہ مجبوریوں کی وجہ سے رہ رہے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بہو ساس پر ظلم کر رہی ہوتی ہے اور بعض دفعہ ساس بہو پر ظلم کر رہی ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود تو محبتیں پھیلانے آئے تھے.پس احمدی ہو کر ان محبتوں کو فروغ دیں اور اس کیلئے کوشش کریں نہ کہ نفرتیں پھیلائیں.اکثر گھروں والے تو بڑی محبت سے رہتے ہیں لیکن جو نہیں رہ سکتے وہ جذباتی فیصلے نہ کریں بلکہ اگر توفیق ہے اورسہولتیں بھی ہیں ، کوئی مجبوری نہیں ہے تو پھر بہتر یہی ہے کہ علیحدہ رہیں.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کا یہ بہت عمدہ نکتہ ہے کہ اگر ساتھ رہنا اتناہی ضروری ہے تو پھر قرآن کریم میں ماں باپ کے گھر کا علیحدہ ذکر کیوں ہے.اُن کی خدمت کرنے کا ، اُن کی ضروریات کا خیال رکھنے کا، اُن کی کسی بات کو برا نہ منانے کا، اُن کے سامنے اُف تک نہ کہنے کا حکم ہے.اس کی پابندی کرنی ضروری ہے.بیوی کو خاوند کے رحمی رشتہ داروں کا خیال رکھنا چاہئے اس کی پابندی بھی ضروری ہے اور خاوند کو بیوی کے رحمی رشتہ داروں کا خیال رکھنا چاہئے اس کی پابندی بھی ضروری ہے.یہ بھی نکاح کے وقت ہی بنیادی حکم ہے.107
پس اصل چیز یہ ہے کہ ایکدوسرے کا خیال رکھنا ہے اور ظلم ختم کرنا ہے.اس کے خلاف جہاد کرنا ہے وہ جس طرف سے بھی ہو رہا ہو.“ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۰نومبر ۲۰۰۶ بیت الفتوح لندن ) تعد دازدواج اور عدل اس بات میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے مخصوص حالات میں مسلموں ایک مرد بیک وقت چار تک عورتوں سے شادی کر سکتا ہے.اس اجازت کی حکمت اور غیر مسل کے اعتراضات کے جوابات ہمارا موضوع نہیں بلکہ یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ ایک سے زیادہ بیویوں کی صورت میں ایک مرد نے اپنے فرائض کیسے ادا کرنے ہیں.بنیادی اصول تو اللہ تعالیٰ نے اُسی آیت میں بیان فردیا ہے جس میں یہ اجازت دی گئی ہے.فرمایا: فَإِنْ خِفْتُمُ إِلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً (النساء) ترجمہ: لیکن اگر تمہیں خوف ہو کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے تو پھر صرف ایک ( کافی ہے ) ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کی اجازت مخصوص حالات کی ضرورت کے تحت ہے جس کی حتمی شرط عدل ہے ورنہ ضرورت ہونے کے باوجود ہرگز اجازت نہیں.انصاف سے مراد اُن کی ہر قسم کی ضروریات زندگی کا ایک جیسے معیار سے پورا کرنا ہے.نکاح ثانی کرنے والوں میں سے اکثر پہلی بیوی سے اچھا سلوک روا نہیں رکھتے جبکہ بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا دل جلد ہی دوسری سے بھر جاتا ہے اور کہتے ہیں کہ اس سے تو پہلی ہی اچھی تھی اور پھر اُسے چھوڑنا چاہتے ہیں.پھر کئی ایسے بھی ہوتے ہیں کہ محض شہوات نفسانی کی اتباع میں زیادہ بیویاں کرنا چاہتے ہیں.108
انسانی فطرت کا خاصا ہے کہ وہ سہولتوں اور آسانیوں کی طرف جلد مائل ہو جاتا ہے اور نفس کی خواہش سے مغلوب ہو کر اجازتوں کی آڑ میں مختلف راستے تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے.اس لئے بعض لوگ اس اجازت کے بہانے بیوی سے بدلے لینے کی خاطر دوسری شادی رچا لیتے ہیں اور اُس کے حقوق کی ادائیگی سے اپنے آپ کو فارغ سمجھ لیتے ہیں.بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ دوسری شادی کیلئے معروف اور جائز طریق چھوڑ کر غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں.اسلام اس قسم کے ظلم کی ہرگز اجازت نہیں دیتا بلکہ تقویٰ کی بنیاد پر شرعی ضرورت کے تحت ، جائز طریق سے اور عدل و انصاف کی شرط کے ساتھ ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت دیتا ہے.ہر انسان کے حالات ایک جیسے نہیں ہوتے اور نہ ہی ہر حکم ہر ایک کیلئے ایک ہی طریق پر لاگو ہوتا ہے.اس لئے خدا کے فرستادے موقع محل اور لوگوں کی مخصوص صورتِ حال کے مطابق تعلیم دیتے ہیں.اس موضوع پر مختلف مواقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ فرمایا اُس میں سے چند ارشادات پیش کئے جاتے ہیں : ” میرا تو یہی جی چاہتا ہے کہ میری جماعت کے لوگ کثرت ازدواج کریں اور کثرت اولاد سے جماعت کو بڑھاویں مگر شرط یہ ہے کہ پہلی بیویوں کے ساتھ دوسری بیوی کی نسبت زیادہ اچھا سلوک کریں تا کہ اسے تکلیف نہ ہو.دوسری بیوی پہلی بیوی کو اسی لئے ناگوار معلوم ہوتی ہے کہ وہ خیال کرتی ہے کہ میری غورو پرداخت اور حقوق میں کمی کی جاو گی.مگر میری جماعت کو اس طرح نہ کرنا چاہئے.اگر چہ عورتیں اس بات سے ناراض ہوتی ہیں مگر میں تو یہی تعلیم دوں گا.ہاں یہ شرط ساتھ رہے گی کہ پہلی بیوی کی غور و پرداخت اور اس کے حقوق دوسری کی نسبت زیادہ توجہ اور غور سے ادا ہوں اور دوسری سے اسے زیادہ خوش رکھا 109
وو جاوے ورنہ یہ نہ ہو کہ بجائے ثواب کے عذاب ہو.( ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۱۴۰) محبت کو بالائے طاق رکھ کر عملی طور پر سب بیویوں کو برابر رکھنا چاہئے.مثلاً پارچہ جات ، خرچ خوراک، معاشرت حتی کہ مباشرت میں بھی مساوات برتے.یہ حقوق اس قسم کے ہیں کہ اگر انسان کو پورے طور پر معلوم ہوں تو بجائے بیاہ کے وہ ہمیشہ رنڈ وار ہنا ہی پسند کرے.خدا تعالیٰ کی تہدید کے نیچے رہ کر جو شخص زندگی بسر کرتا ہے وہی اُن کی بجا آوری کا دم بھر سکتا ہے.ایسے لذات کی نسبت جن سے خدا تعالیٰ کا تازیانہ ہمیشہ سر پر رہے تلخ زندگی بسر کر لینی ہزار ہا درجہ بہتر ہے.تعدد ازدواج کی نسبت اگر ہم تعلیم دیتے ہیں تو صرف اس لئے کہ معصیت میں پڑنے سے انسان بچا رہے اور شریعت نے اسے بطور علاج کے ہی رکھا ہے کہ اگر انسان اپنے نفس کا میلان اور غلبہ شہوات کی طرف دیکھے اور اس کی نظر بار بار خراب ہوتی ہو تو زنا سے بچنے کیلئے دوسری شادی کر لے لیکن پہلی بیوی کے حقوق تلف نہ کرے.تو رات سے بھی یہی ثابت ہے کہ اُس کی دلداری زیادہ کرے کیونکہ جوانی کا بہت سا حصہ اُس نے اس کے ساتھ گزارا ہوا ہوتا ہے اور ایک گہرا تعلق خاوند کا اس کے ساتھ ہوتا ہے.پہلی بیوی کی رعایت اور دلداری یہاں تک کرنی چاہئے کہ اگر کوئی ضرورت مرد کو ازدواج ثانی کی محسوس ہو لیکن وہ دیکھتا ہے کہ دوسری بیوی کے کرنے سے اُس کی پہلی بیوی کو سخت صدمہ ہوتا ہے اور حد درجہ کی اُس کی بشکنی ہوتی ہے تو اگر وہ صبر کر سکے اور کسی معصیت میں مبتلا نہ ہوتا ہو اور نہ کسی شرعی ضرورت کا اُس سے خون ہوتا ہو تو ایسی صورت میں اگر اُن اپنی ضرورتوں کی قربانی سابقہ بیوی کی دلداری کیلئے کر دے اور ایک ہی بیوی پر اکتفا 66 کرے تو کوئی حرج نہیں اور اُسے مناسب ہے کہ دوسری شادی نہ کرے.“ 110
اس قدر ذکر ہوا تھا کہ ایک صاحب نے اُٹھ کر عرض کی البدر اور الحکم اخباروں میں تعدد ازدواج کی نسبت جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ذمہ دوسرا نکاح حضور نے فرض کر دیا ہے.آپ نے فرمایا: ہمیں جو کچھ خدا تعالیٰ سے معلوم ہوا ہے وہ بلا کسی رعایت کے بیان کرتے ہیں.قرآن شریف کا منشا زیادہ بیویوں سے یہ ہے کہ تم کو اپنے نفوس کو تقویٰ پر قائم رکھنے اور دوسرے اغراض مثلاً اولا دصالحہ کے حاصل کرنے اور خویش واقارب کی نگہداشت اور اُن کے حقوق کی بجا آوری سے ثواب حاصل ہو اور اپنی اغراض کے لحاظ سے اختیار دیا گیا ہے کہ ایک دو تین چار عورتوں تک نکاح کر لولیکن اگر ان میں عدل نہ کر سکو تو پھر یہ فستق ہوگا اور بجائے ثواب کے عذاب حاصل کرو گے کہ ایک گناہ سے نفرت کی وجہ سے دوسرے گناہوں پر آمادہ ہوئے.دل دکھانا بڑا گناہ ہے اور لڑکیوں کے تعلقات بڑے نازک ہوتے ہیں.جب والدین اُن کو اپنے سے جدا اور دوسرے کے حوالے کرتے ہیں تو خیال تو کرو کہ کیا امید میں اُن کے دلوں میں ہوتی ہیں جن کا اندازہ انسان عاشـر و مـن بالمعروف کے حکم سے ہی کر سکتا ہے.اگر انسان کا سلوک اپنی بیوی سے عمدہ ہو اور اُسے ضرورتِ شرعی پیدا ہو جاوے تو اس کی بیوی اُس کے دوسرے نکاحوں سے ناراض نہیں ہوتی.ہم نے اپنے گھر میں کئی دفعہ دیکھا ہے کہ وہ ہمارے نکاح والی پیشگوئی کے پورا ہونے کیلئے رو رو کر دعائیں کرتی ہیں.اصل بات یہ ہے کہ بیویوں کی ناراضگی کا باعث خاوند کی نفسانیت ہوا کرتی ہے اور اگر اُن کو اس بات کا علم ہو کہ ہمارا خاوند صحیح اغراض اور تقویٰ کے اصول پر دوسری بیوی کرنا چاہتا ہے تو پھر وہ کبھی ناراض نہیں ہوتیں.فساد کی بناء تقویٰ کی خلاف ورزی ہوا کرتی 111
ہے.( ملفوظات جلد ۷ صفحه ۶۳-۶۵) محض شہوات نفسانی کی اتباع میں اور حصول لذات کی خاطر زیادہ بیویاں کرنے کے بارے میں فرمایا: خدا تعالیٰ کے قانون کو اس کے منشاء کے برخلاف ہرگز نہ برتنا چاہئے اور نہ اُس سے ایسا فائدہ اٹھانا چاہئے جس سے وہ صرف نفسانی جذبات کی ایک سپر بن جاوے.یاد رکھو ایسا کرنا معصیت ہے.خدا تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ شہوات کا تم پر غلبہ نہ ہو بلکہ تمہاری غرض ہر ایک امر میں تقویٰ ہو.اگر شریعت کو سپر بنا کر شہوات کی اتباع کیلئے بیویاں کی جاویں گی تو سوائے اس کے اور کیا نتیجہ ہو گا کہ دوسری قو میں اعتراض کریں کہ مسلمانوں کو بیویاں کرنے کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں.زنا کا نام ہی گناہ نہیں بلکہ شہوات کا کھلے طور پر دل میں پڑ جانا گناہ ہے.دنیاوی تمتع کا حصہ انسانی زندگی میں بہت ہی کم ہونا چاہئے...جس شخص کی دنیا وی تمتع کثرت سے ہیں اور وہ رات دن بیویوں میں مصروف ہے اُس کو رقت اور رونا کب نصیب ہو گا.اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ ایک خیال کی تائید اور اتباع میں تمام سامان کرتے ہیں اور اس طرح خدا تعالیٰ کے اصل منشاء سے دُور جا پڑتے ہیں.خدا تعالیٰ نے اگر چہ بعض اشیاء جائز تو کر دی ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ عمر ہی اس میں بسر کی جاوے....پس جاننا چاہئے کہ جو شخص شہوات کی اتباع سے زیادہ بیویاں کرتا ہے وہ مغز اسلام سے دُور رہتا ہے....آخری نصیحت ہماری یہی ہے کہ اسلام کو اپنی عیاشیوں کیلئے سپر نہ بناؤ کہ آج ایک حسین عورت نظر آئی تو اُسے کر لیا.کل اور نظر آئی تو اُسے کر لیا.یہ تو گویا خدا کی گدی پر عورتوں کو بٹھانا اور اُسے بھلا دینا ہوا.( ملفوظات جلدے صفحہ ۶۵ تا ۶۹ ) 112
کسی شخص کے دوسری بیوی کو معمولی سے عذر پر طلاق دینے کے اظہار کے بارے میں ملفوظات میں یہ واقعہ اس طرح درج ہے: ایسا ہی ایک واقعہ اب چند دنوں سے پیش ہے کہ ایک صاحب نے اوّل بڑی چاہ سے ایک شریف لڑکی کے ساتھ نکاح ثانی کیا مگر بعد ازاں بہت خفیف عذر پر دس ماہ کے اندر ہی چاہا کہ اس سے قطع تعلق کر لیا جائے.اس پر حضرت اقدس علیہ السلام کو بہت سخت ملال ہوا اور فرمایا کہ: ” مجھے اسقدر غصہ ہے کہ میں برداشت نہیں کر سکتا اور ہماری جماعت میں ہو کر پھر یہ ظالمانہ طریق اختیار کرنا سخت عیب کی بات ہے.چنانچہ دوسرے دن پھر حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ: وو وہ صاحب اپنی نئی یعنی دوسری بیوی کو علیحدہ مکان میں رکھیں، جو کچھ زوجہ اول کو دیویں وہی اسے دیو ہیں.ایک شب اُدھر رہیں تو ایک شب ادھر رہیں اور دوسری عورت کوئی لونڈی غلام نہیں ہے بلکہ بیوی ہے اُسے زوجہ اول کا دست نگر کر کے نہ رکھا جاوے.( ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۲۰) جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کوئی بیوی اپنی کسی مخصوص خوبی کی وجہ سے خاوند کو زیادہ اچھی لگتی ہے تو چونکہ اس پر کسی کا اختیار نہیں اس لئے یہ بات عدل کے خلاف نہیں.لیکن خاوند کو اس بات کی ہرگز اجازت نہیں کہ وہ محبوب بیوی کی طرف اس حد تک جھک جائے کہ دوسری کی طرف کوئی التفات ہی نہ رہے اور اُسے معلقہ چھوڑ دے بلکہ اُسے چاہئے کہ دوسری شادی کی صورت میں پہلی بیوی کی دلجوئی کی خاطر اُس کا کچھ زیادہ خیال رکھے.اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں انسان کی اس دلی کیفیت کے بارے میں فرماتا ہے: وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا اَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمُ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ (النساء ۱۳۰) 113
ترجمہ: ” اور تم یہ توفیق نہیں پا سکو گے کہ عورتوں کے درمیان کامل عدل کا معاملہ کرو خواہ تم کتنا ہی چاہو.اس لئے ( یہ تو کرو کہ کسی ایک کی طرف ) کلیۂ نہ جھک جاؤ کہ اس ( دوسری) کو گو یا لٹکتا ہوا چھوڑ دو.“ اس آیت کی تشریح میں حضرت خلیفتہ امسیح الرابع فرماتے ہیں : ایک سے زیادہ شادیوں کے نتیجہ میں یہ تو ناممکن ہے کہ ہر بیوی سے ایک جیسی محبت ہو.محبت کا معاملہ تو دل سے ہے.لیکن انصاف انسان کے اختیار میں ہے.اس لئے تاکید فرمائی کہ اگر ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو اس صورت میں انصاف سے کام لینا ہے اور کسی ایک کو ایسے نہ چھوڑ دیا جائے کہ تم اس کی نگہداشت نہ کرو.“ (حاشیہ ترجمۃ القرآن از حضرت خلیفتہ امسیح الرابع ) تربیت اولا داور نگران کا کردار عموماً یہی خیال کیا جاتا ہے کہ امور خانہ داری کی طرح بچوں کی تعلیم و تربیت کی تمام تر ذمہ داری بھی بنیادی طور پر صرف ماں پر عائد ہوتی ہے اور اس طرح بعض مر دحضرات اس اہم ترین فرض سے اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھ لیتے ہیں جو درست نہیں ہے.بے شک کم سنی میں ماں سے ایک خصوصی تعلق ہونے کی وجہ سے بچے ماں سے قربت کا زیادہ موقعہ پاتے ہیں اور اُس سے مانوس بھی زیادہ ہوتے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک خاص عمر کے بعد یہ صورتِ حال بدلنے لگتی ہے.جو نہی بچہ بھاگنے دوڑنے کے قابل ہوتا ہے اور اُس کی دلچسپیاں گھر سے باہر بھی نکلتی ہیں تو اُس عمر میں اُسے ماں سے بڑھ کر باپ کی ضرورت پیش آتی ہے.خصوصاً 114
لڑکوں کو گھر سے باہر کے ماحول سے باپ ہی متعارف کراتا ہے.سکول کی زندگی ، کھیل کے میدان، مساجد، جماعتی اور دیگر سماجی سرگرمیاں، لوگوں سے میل ملاقات اور آداب وغیرہ امور میں باپ ہی اُن کی راہنمائی کرتا ہے.مثال کے طور پر اگر وہ زمیندار یا تاجر ہے تو ان پیشوں کے نشیب و فراز بھی وہی اپنے بیٹوں کو سمجھائے گا.یہ سب امور ایسے ہیں جن میں باپ کا کردار ماں سے کہیں بڑھ کر ہوتا ہے.در اصل ماں کے حوالے سے پرورش اور تربیت میں فرق نہیں کیا جاتا.بچے کی پیدائش کے بعد چھ سات سال کی عمر تک اُس کی ابتدائی پرورش کا زمانہ ہوتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ذمہ داری ماں ہی بہتر رنگ میں ادا کر سکتی ہے.اس دوران وہ ساتھ ساتھ بچے کو بنیادی آداب اور ابتدائی تعلیم نماز، قرآن وغیرہ بھی سکھاتی رہتی ہے.لیکن اس کے بعد بچے کے کردار کی تعمیر اور اُس کی مختلف صلاحیتوں کو سنوار نے اور چلا دینے میں باپ کا کردار ماں سے زیادہ ہوتا ہے.جدید تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سکول کی ابتدائی تعلیم میں جن بچوں کی ماؤں کے ساتھ باپ بھی دلچسپی لیتے اور فعال ہوتے ہیں اُن کا معیار اُن بچوں کی نسبت کہیں بہتر ہوتا ہے جن کا خیال صرف مائیں رکھتی ہیں اور باپ بالکل توجہ نہیں دیتے.قرآن کریم ، احادیث اور ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی ظاہر ہے کہ اولاد کی تربیت اور تعمیر کردار میں بنیادی کردار باپ کا ہی ہے.قرآنِ پاک میں مختلف انبیاء اور مومنین کی اپنی اولاد کیلئے دعائیں اور نصائح مذکور ہیں.مثال کے طور پر : حضرت ابراہیم ، حضرت اسماعیل اور حضرت یعقوب کی دعائیں اور نصائح: رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةٌ لَّكَ من 115
( البقره ۱۲۹) وَوَصَّى بِهَا إِبْراهِمُ بَنِيهِ وَ يَعْقُوبَ يَبْنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (البقرة ۱۳۳) وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَامِنًا وَّاجُنُبُنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَّعْبُدَ الأَصْنَامَ (ابراهيم (۳۶) رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلُ دُعَاءِ (ابراهیم ۴۱) ترجمہ: اے ہمارے رب ! ہمیں اپنے دو فرمانبردار بندے بنادے اور ہماری ذریت میں سے بھی اپنی ایک فرمانبردار اُمت ( پیدا کر دے ).اور اسی بات کی تاکیدی نصیحت ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو کی اور یعقوب نے بھی (کہ) اے میرے پیارے بچو! یقینا اللہ نے تمہارے لئے اس دین کو چن لیا ہے.پس ہرگز نہیں مرنا مگر اس حالت میں کہ تم فرمانبردار ہو.اور (یاد کرو) جب ابراہیم نے کہا اے میرے رب ! اس شہر کو امن کی جگہ بنا دے اور مجھے اور میرے بیٹوں کو اس بات سے بچا کہ ہم بتوں کی عبادت کریں.اے میرے رب ! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری نسلوں کو بھی.اے ہمارے رب ! اور میری دعا قبول کر.آنحضرت مے کو اپنے اہل کو نماز کی تلقین کرنے کا ارشاد وَأمُرُ أَهْلَكَ بالصَّلوةِ وَاصْطَبَرُ عَلَيْهَا (۱۳۳۵) ترجمہ: اور اپنے گھر والوں کو نماز کی تلقین کرتارہ اور اس پر ہمیشہ قائم رہ..حضرت اسماعیل کی اپنے اہل کو نماز کی نصیحت وَكَانَ يَأْمُرُ اَهْلَهُ بِالصَّلوةِ وَالزَّكوةِ وَ كَانَ عِنْدَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا ( مریم ۵۶) 116
۴.ترجمہ: اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوۃ کا حکم دیا کرتا تھا اور وہ اپنے ربّ کے حضور بہت ہی پسندیدہ تھا.حضرت لقمان کی نصیحت وإِذْ قَالَ لُقْمْنُ لا بُنِهِ و هُوَ يَعِظُهُ يُبُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشَّرُكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ.....يبُنَيَّ إِنَّهَا إِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَوَاتِ اَوْفِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللهُ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ.بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلوةَ وَأَمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرُ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الأمُوُرٍ.وَلَا تُصَعِرُ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ.وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ إِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ (لقمن ۱۴، ۲۰۱۷) ترجمہ: اور جب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا جب وہ اُسے نصیحت کر رہا تھا کہ اے میرے پیارے بیٹے ! اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہرا.یقینا شرک ایک بہت بڑا ظلم ہے.اے میرے پیارے بیٹے ! یقینا اگر رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی چیز ہو پس وہ کسی چٹان میں ( دبی ہوئی ) ہو یا آسمانوں یا زمین میں کہیں بھی ہو، اللہ اسے ضرور لے آئے گا.یقیناً اللہ بہت باریک بین (اور ) باخبر ہے.اے میرے پیارے بیٹے !نماز کو قائم کر اور اچھی باتوں کا حکم دے اور ط 117
ناپسندیدہ باتوں سے منع کر اور اُس (مصیبت) پر صبر کر جو تجھے پہنچے.یقینا یہ بہت اہم باتوں میں سے ہے.اور ( نخوت سے ) انسانوں کیلئے اپنے گال نہ پچھلا اور زمین میں یونہی اکڑتے ہوئے نہ پھر.اللہ کسی تکبر کرنے والے (اور ) فخر و مباہات کرنے والے کو پسند نہیں کرتا.اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز کو دھیما رکھ.یقیناً سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے.مومنین کی دعائیں رَبِّ أَوْ زِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَ اَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَهُ وَ اَصْلِحُ لِي فِي ذُرِّيَّتِي إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّى مِنَ الْمُسْلِمِينَ.(الاحقاف (١٦) رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ اِمَامًا.(الفرقان ۷۵ ) ترجمہ: اے میرے ربّ! مجھے توفیق عطا فرما کہ میں تیری اُس نعمت کا شکریہ ادا کرسکوں جو تُو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کی اور ایسے نیک اعمال بجا لاؤں جن سے تو راضی ہو اور میرے لئے میری ذریت کی بھی اصلاح کر دے.یقیناً میں تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں اور بلا شبہ میں فرمانبرداروں میں سے ہوں.اے ہمارے رب ! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنادے.یہ بعض قرآنی دعائیں اور اولاد کیلئے باپ کی وہ نصائح ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اہلِ خانہ کی اصلاح اور تربیت کیلئے مسلسل کوشش، دائمی تلقین اور دعائیں کرنا اول اُسی کی ذمہ داری ہے جو اُن کا نگران ہے.قرآن شریف واضح طور پر گھروں کے نگرانوں کا یہ فرض قرار دیتا ہے کہ 118
وہ اپنے اہل وعیال کے اخلاق و عادات کی نگرانی کریں اور انہیں ایسی باتوں سے بچائیں جو اُن کے دین اور اخلاق کو تباہ کرنے والی ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا (التحريم ۷ ) ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو آگ سے بچاؤ.اس آیت کریمہ میں اَهْلِيكُمُ کا لفظ اس بات پر واضح قرینہ ہے کہ یہاں گھر کے نگران مخاطب ہیں کیونکہ وہی اہل وعیال کی کفالت اور تعلیم و تربیت کے ذمہ دار ہوتے ہیں.اولاد کے حق میں باپ کی دعا کو خاص قبول بخشا گیا ہے.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں : ” تین دعائیں مقبول ہیں.ان کی قبولیت میں کوئی شک نہیں.(۱) والد کی دعا (۲) مسافر کی دعا (۳) مظلوم کی دعا.(ترمندی، ابو داؤد، ابن ماجہ ).حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی جو دعائیں التزام کے ساتھ ہر روز مانگا کرتے تھے اُن میں اپنے بچوں کے خادمِ دین ہونے کی دعا بھی شامل ہوا کرتی تھی.( ملفوظات جلد ۲ صفحه ۴-۵) ماں اپنی مخصوص دلی کیفیات کی وجہ سے اکیلی یہ ذمہ داری کماحقہ نبھا ہی نہیں سکتی.وہ نسبتاً زیادہ نرم دل ہوتی ہے.اُس میں نرمی ، پیار اور رحم کا جذ بہ قدرتی طور پر زیادہ ہوتا ہے یا یوں کہنا چاہئے کہ وہ بچوں کی ناراضگی ، تکلیف یا ضد کو زیادہ برداشت نہیں کر سکتی اور جلد ہی دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اُن کے آگے ہتھیار ڈال دیتی ہے.ظاہر ہے ہر وقت اور ہر حال میں نرمی اور لاڈ پیار سے تربیتی مراحل میں توازن بگڑ جایا کرتا ہے.بعض حالات میں جس طور سے تنبیہ اور سرزنش ضروری ہوتی ہے وہ ماں کر ہی نہیں سکتی.مشاہدہ گواہ ہے کہ جن بچوں کے باپ فوت ہو جاتے ہیں یا گھر سے لمبے عرصے کیلئے باہر رہتے ہیں یا پھر رہتے تو اُسی گھر میں ہیں لیکن کسی وجہ 119
سے اپنے اصل مقام سے ہٹ کر بے اثر اور بے اختیار ہو چکے ہوتے ہیں ، وہ بچے اکثر بگڑ جاتے ہیں اور معاشرے کا مفید وجود نہیں بن پاتے.اس کی یہی وجہ ہے کہ ایک عمر کے بعد ماں اپنے بچوں پر کنٹرول کر ہی نہیں سکتی.وہ اُس سے ضد کر کے ہر جائز نا جائز بات منوا لیتے ہیں اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ ہاتھ سے نکل جاتے ہیں.یہ ممکن ہی نہیں کہ گھر کا نگران اور سربراہ تو مر د ہو، اہلِ خانہ کی تمام ضروریات زندگی مہیا کرنے کا بھی ذمہ دار ہو اور گھر کے تمام معاملات میں آخری فیصلے کا اختیار بھی اُسے حاصل ہو لیکن تربیت اولاد کی ذمہ داری سے وہ بری الذمہ قرار پائے.بچے اور بیوی تو مرد کے زیر کفالت ہونے کی وجہ سے ایک ہی ذیل میں آتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف بچوں کے کردار کی تعمیر کی اصل ذمہ داری گھر کا نگران ہونے کی وجہ سے مرد کی ہے بلکہ خود بیوی کی تربیت اور اُسے سیدھی راہ پر قائم رکھنا بھی اُس کے فرائض میں داخل ہے.علم النفس کا یہ ایک مانا ہوا مسئلہ ہے کہ بچوں اور عورتوں میں قوت متاثرہ زیادہ ہوتی ہے.مر دگھر کا سر براہ ہے اور اُسی نے اپنے کردار کا بچوں پر بھی اثر ڈالنا ہے اور بیوی پر بھی.اس موضوع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے تفصیلی حوالہ جات قبل ازیں پیش کئے جاچکے ہیں.مرد کا قدرتی طور پر گھر میں ایک رعب ہوتا ہے اور یہی رعب ہے جو انتظامی امور میں بہت ہی اہم کردار ادا کرتا ہے.لڑکیاں ہوں یا لڑ کے باپ سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اُسی کی ناراضگی سے زیادہ ڈرتے ہیں.یہ درست ہے کہ لڑکیوں کو کھانا پکانا اور دیگر امور خانہ داری وغیرہ سکھانا بنیادی طور پر ماں کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن مجموعی طور پر تمام بچوں کے اخلاق و کردار کی نگرانی اور انہیں سنوارنے کی بنیادی ذمہ داری بہر حال باپ کی ہی ہے.بعض لوگ اپنے کاروبار، ملازمتوں یا پھر دینی خدمات کی انجام دہی میں مصروفیات 120
وغیرہ کو بچوں کی تعلیم وتربیت میں فعال کردار ادا نہ کرنے کیلئے جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ وہ روزگار کی وجہ سے گھر سے باہر رہتے ہیں اس لئے بچوں کی تربیت اُن کا نہیں بلکہ عورتوں کا کام ہے.یاد رکھنا چاہئے کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے یہ مصروفیات تو ایک طرف عبادات جو خالص حقوق اللہ ہیں، کی وجہ سے بھی ایک سر براہِ خانہ کو اپنے گھریلو معاملات اور اہلِ خانہ کی نگرانی اور اُن کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داریوں سے بری قرار نہیں دیا جا سکتا.اس سلسلے میں حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک نہایت اہم اور واضح ارشاد پیش کیا جاتا ہے.آپ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے مرد کے قومی کو جسمانی لحاظ سے مضبوط بنایا ہے اس لئے اس کی ذمہ داریاں اور فرائض بھی عورت سے زیادہ ہیں.اس سے ادا ئیگی حقوق کی زیادہ توقع کی جاتی ہے.عبادات میں بھی اُس کو عورت کی نسبت زیادہ مواقع مہیا کئے گئے ہیں.اور اس لئے اُس کو گھر کے سربراہ کی حیثیت بھی حاصل ہے اور اسی وجہ سے اُس پر بحیثیت خاوند بھی بعض اہم ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں.اور اسی وجہ سے حیثیت باپ اس پر ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں اور ان ذمہ داریوں کو نبھانے کا حکم دیا کہ تم نیکیوں پر قائم ہو، تقویٰ پر قائم ہو، اور اپنے گھر والوں کو، اپنی بیویوں کو، اپنی اولا د کو تقویٰ پر قائم رکھنے کیلئے نمونہ بنو.اور اس کیلئے اپنے رب سے مدد ! مانگو، اس کے آگے روؤ، گڑ گڑاؤ اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ اے اللہ ! اُن راستوں پر ہمیشہ چلا تارہ جو تیری رضا کے راستے ہیں، کبھی ایسا وقت نہ آئے کہ ہم بحیثیت گھر کے سربراہ کے، ایک خاوند کے اور ایک باپ کے، اپنے حقوق ادا نہ کر سکیں اور اس وجہ سے تیری ناراضگی کا موجب بنیں.تو جب انسان سچے دل سے 121
یہ دعا مانگے اور اپنے عمل سے بھی اس معیار کو حاصل کرنے کی کوشش کرے تو اللہ تعالیٰ نہ ایسے گھروں کو برباد کرتا ہے، نہ ایسے خاوندوں کی بیویاں ان کے لئے دکھ کا باعث بنتی ہیں اور نہ اس کی اولادان کی بدنامی کا موجب بنتی ہے.اور اس طرح گھر جنت کا نظارہ پیش کر رہا ہوتا ہے.عموماً اب یہ رواج ہو گیا ہے کہ مرد کہتے ہیں کیونکہ ہم پر باہر کی ذمہ داریاں ہیں، ہم کیونکہ اپنے کاروبار میں ، اپنی ملازمتوں میں مصروف ہیں اس لئے گھر کی طرف توجہ نہیں دے سکتے اور بچوں کی نگرانی کی ساری ذمہ داری عورت کا کام ہے.تو یاد رکھیں کہ بحیثیت گھر کے سربراہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ اپنے گھر کے ماحول پر بھی نظر رکھے، اپنی بیوی کے بھی حقوق ادا کرے اور اپنے بچوں کے بھی حقوق ادا کرے، انہیں بھی وقت دے ان کے ساتھ بھی کچھ وقت صرف کرے چاہے ہفتہ کے دو دن ہی ہوں، ویک اینڈز پر جو ہوتے ہیں.انہیں مسجد سے جوڑے، انہیں جماعتی پروگراموں میں لائے ، ان کے ساتھ تفریحی پروگرام بنائے ، ان کی دلچسپیوں میں حصہ لے تا کہ وہ اپنے مسائل ایک دوست کی طرح آپ کے ساتھ بانٹ سکیں.بیوی سے اس کے مسائل اور بچوں کے مسائل کے بارے میں پوچھیں ، ان کے حل کرنے کی کوشش کریں.پھر ایک سربراہ کی حیثیت آپ کو مل سکتی ہے.کیونکہ کسی بھی جگہ کے سر براہ کو اگر اپنے دائرہ اختیار میں اپنے رہنے والوں کے مسائل کا علم نہیں تو وہ تو کامیاب سر براہ نہیں کہلا سکتا.اس لئے بہترین نگران وہی ہے جو اپنے ماحول کے مسائل کو بھی جانتا ہے.یہ قابلِ فکر بات ہے کہ آہستہ آہستہ ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو اپنی ذمہ داریوں سے اپنی نگرانی کے دائرے سے فرار حاصل کرنا چاہتے ہیں یا آنکھیں بند کر لیتے ہیں.اور 122
اپنی دنیا میں مست رہ کر زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں.تو مومن کو، ایک احمدی کو ان باتوں سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہونا چاہئے.مومن کے لئے تو یہ حکم ہے کہ دنیا داری کی باتیں تو الگ رہیں، دین کی خاطر بھی اگر تمہاری مصروفیات ایسی ہیں ، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے تم نے مستقلا اپنا یہ معمول بنالیا ہے، یہ روٹین بنالی ہے کہ اپنے گرد و پیش کی خبر ہی نہیں رکھتے ، اپنے بیوی بچوں کے حقوق ادا نہیں کرتے ، اپنے ملنے والوں کے حقوق ادا نہیں کرتے ، اپنے معاشرے کی ذمہ داریاں نہیں نبھاتے تو یہ بھی غلط ہے.اس طرح تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم نہیں ہوتے.بلکہ یہ معیار حاصل کرنے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کر و اور بندوں کے حقوق بھی ادا کرو....تو اس زمانے میں اور خاص طور پر اس ماحول میں باپوں کی بہت بڑی ذمہ داری ہے.صرف اپنی باہر کی ذمہ داریاں نہ نبھائیں ، گھروں کی بھی ذمہ داری ہے.اور اس کو سمجھیں کیونکہ ہر طرف سے معاشرہ اور بگاڑنے والا ما حول منہ کھولے کھڑا ہے.“ ( خطبہ جمعہ فرمودہ ۲ جولائی ۲۰۰۴ء بحوالہ الفضل انٹر نیشنل ۱۶ تا ۲۲ جولائی ۲۰۰۴ء) یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ اولاد پر باپ کا حق فائق ہوتا ہے.بچے ہمیشہ باپ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں، باپ کے گھرانے کے بچے کہلاتے ہیں اور شجرہ نسب بھی باپ کے حوالے سے ہی چلتا ہے.یہی وجہ ہے کہ جب باپ فوت ہو جائے تو بچوں کی رضاعت ، پرورش اور تعلیم و تربیت کے اخراجات کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ نے باپ ہی کے ورثاء کوٹھہرایا ہے، جیسا کہ فرمایا: وَ عَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِكَ ( البقر ۲۳۴۰).حضرت خلیفتہ مسیح الاوّل فرماتے ہیں : انسان کو چاہئے کہ اپنے ماں باپ ، یہ بھی میں نے ملک کی زبان کے مطابق کہہ 123
دیا ہے ورنہ باپ کا حق اوّل ہے اس لئے باپ ماں کہنا چاہئے ، سے بہت ہی نیک 66 سلوک کرے.“ (خطبات نور صفحه ۶۴۱) پس گھر کے نگران کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ اُسے بچوں کی تعلیم و تربیت اور اُن کے کردار کی تعمیر سے یہ سمجھ کر غفلت نہیں برتنی چاہئے کہ یہ صرف ماں کا کام ہے.ایسا ہرگز نہیں، بلکہ یہ خود اُس کا ایک نہایت ہی اہم اور بنیادی فرض ہے اور اسے کسی صورت میں محض بیوی کی ذمہ داری نہیں سمجھنی چاہئے.حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی تحفہ نہیں جو باپ اپنی اولا دکو دے سکتا ہے.( ترمذی ) کام کاج میں مدد ہمارے معاشرے میں ایک طبقہ ایسا بھی پایا جاتا ہے جو گھر میں کسی کام کو ہاتھ لگا نا گویا اپنی ہتک خیال کرتا ہے حتی کہ پانی بھی خود نہیں پیتے جب تک بیوی ، بہن یا بیٹی پیش نہ کرے.مشرقی ممالک میں پلے بڑھے بعض لوگوں پر اپنے پرانے ماحول اور طرز عمل کی چھاپ اتنی گہری ہے کہ یورپ میں آکر بھی اُن کے اطوار نہیں بدلے.یاد رکھنا چاہئے کہ یہ سب پرانی ہندوانہ معاشرتی باقیات ہیں جن کا اسلام سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں.یہ ایک لحاظ سے بڑائی اور تفاخر کا اظہار بھی ہے.دُنیا میں خدا کے پاک نبیوں سے بڑھ کر کوئی بھی مگرم اور معظم نہیں ہوتا.کون ہے جو ہمارے پیارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفے ﷺ سے بڑا ہے اور اُس کی عزت آپ سے کی عزت سے بڑھ کر ہے؟ ایک مسلمان کیلئے تو آپ کا عمل ہی قابلِ تقلید ہونا چاہئے کیونکہ اسی میں ہی ساری عزتیں اور برکتیں ہیں.آپ ﷺ کی پاکیزہ زندگی تو ایک کھلی کتاب ہے جس میں قدم قدم پر ہمارے لئے پاکیزہ نمونے موجود ہیں.گھر کے کام کاج میں مدد کے حوالے سے بھی 124
آپ ﷺ کا نمونہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے.آپ کے بارے میں تو احادیث میں آتا ہے کہ آپ ﷺ گھر کے کاموں میں ازواج مطہرات کی مدد فر ما یا کرتے تھے.سودا سلف بازار سےخود اٹھا کر لاتے.اپنے کپڑوں کو خود پیوند لگا لیتے تھے.بکریوں کا دودھ دھوتے بلکہ چولہے میں آگ جلانے میں مددفرماتے.رات کو دیر سے گھر لوٹتے تو کسی کو نہ جگاتے اور خود ہی کھانا تناول فرما لیتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی گھر کے چھوٹے موٹے کاموں میں مددفرماتے.بچوں کو اٹھاتے ، انہیں بہلاتے ، بارش آنے پر چار پائیاں اور بستر اندر کرنے میں مددفرماتے.حضرت خلیفتہ امسیح الرابع اپنے بہت سے کام خود کیا کرتے تھے اور اپنا ناشتہ بھی خود تیار کرلیا کرتے تھے.حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں : دو بعض ایسی شکایات بھی آتی ہیں کہ ایک شخص گھر میں کرسی پر بیٹھا اخبار پڑھ رہا ہے، پیاس لگی تو بیوی کو آواز دی کہ فریج میں سے پانی یا جوس نکال کر مجھے پلا دو.حالانکہ قریب ہی فریج پڑا ہوا ہے خود نکال کر پی سکتے ہیں اور اگر بیوی بیچاری اپنے کام کی وجہ سے یا مصروفیت کی وجہ سے یا کسی وجہ سے لیٹ ہوگئی تو پھر اس پر گر جنا ، برسنا شروع کر دیا.تو ایک طرف تو یہ دعویٰ کہ ہمیں آنحضرت ے سے محبت ہے اور دوسری طرف عمل کیا ہے، ادنیٰ سے اخلاق کا بھی مظاہرہ نہیں کرتے...حضرت عائشہ ایک روایت کرتی ہیں کہ اگر آپ ﷺ رات کو دیر سے گھر لوٹتے تو کسی کو زحمت دیئے یا جگائے بغیر خود ہی کھانا لے کر تناول فرما لیتے یا دودھ ہوتا تو خود ہی لے کر نوش فرما لیتے.( مسلم کتاب الاشربہ باب اكرام الضيف ) یہ اسوہ ہے آنحضرت میلے کا لیکن بعض مثالیں ایسی سامنے آتی 125
ہیں، عموماً اب یہ ہوتا ہے کہ مرد لیٹ کام سے واپس آتے ہیں اور یہ روز کا معمول ہے اور اگر بیوی کسی دن طبیعت کی خرابی کی وجہ سے پہلے کھانا کھا لے تو ایک قیامت برپا ہو جاتی ہے.موڈ بگڑ جاتے ہیں کہ تم نے میرا انتظار کیوں نہیں کیا.ہمارے معاشرہ میں پاکستانی ، ہندوستانی اس مشرقی معاشرے میں یہ بات زیادہ پیدا ہوتی جارہی ہے، پہلے بھی تھی لیکن پڑھے لکھے ہونے کے ساتھ ساتھ ختم ہونی چاہئے تھی ، اس کی بھی اصلاح کرنی چاہئے.اور زیادہ سے میرا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک دو فیصد بھی ہمارے اندر ہے تب بھی قابلِ فکر ہے، بڑھ سکتی ہے.پھر اس وجہ سے خاوند تو جو ناراض ہوتا ہے بیوی سے تو ہوتا ہے، ساس سسر بھی ناراض ہو جاتے ہیں اپنی بہو سے.کہ تم نے کیوں انتظار نہیں کیا.“ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲ جولائی ۲۰۰۴ ء بحوالہ افضل انٹر نیشنل ۱۶ تا ۲۲ جولائی ۲۰۰۴ء) طلاق اور حسن سلوک اس کے تین مختلف پہلو ہیں جنہیں ایک مرد کو مد نظر رکھنا ضروری ہے.اوّل یہ کہ طلاق کو حدیث شریف میں جائز باتوں میں سب سے زیادہ نا پسندیدہ قرار دیا گیا ہے.چونکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس لئے ضروری تھا کہ اس کی تعلیمات میں ہر مشکل کا حل ہوتا.بعض اوقات مرداور عورت میں ایسی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے کہ اُن کا ایک ساتھ رہنا ایک عذاب سے کم نہیں ہوتا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے طلاق رکھ دی.لیکن خود میاں بیوی ، رشتہ داروں اور ثالثوں کو آخر وقت تک صلح کی کوشش کرنی چاہئے.بے شک بعض صورتوں میں علیحدگی ناگزیر 126
ہوتی ہے اور دونوں کیلئے امن وسکون کا باعث بن جاتی ہے لیکن اکثر ایسا ہوتا کہ طلاق ایک پہاڑ کی طرح گھر پر گرتی ہے اور اُسے پیس کر رکھ دیتی ہے.پس اس حوالے سے گھر کے نگران کو پہلی بات تو یہ ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اُس نے حتی المقدور طلاق سے بچنا ہے.دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر صلح کی کوئی صورت نہ رہے اور طلاق کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو اُس وقت عورت سے احسان کا سلوک کرنا ہے.اور تیسرا پہلو یہ ہے کہ بچوں کی صورت میں اُن کی پرورش اور مطلقہ کے اخراجات اٹھانے ہیں.اب ان تینوں صورتوں کے بارہ میں کسی قدر تفصیل پیش کی جاتی ہے.- اَبْغَضُ الْحَلَالِ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی فرماتے ہیں: بہر حال طلاق ایک ایسی چیز ہے جسے رسول کریم ﷺ نے اَبْغَضُ الْحَلَال قرار دیا ہے.یعنی جائز اور حلال چیزوں میں سے سب سے زیادہ مکروہ اور ناپسندیدہ چیز.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیوی زندگی میں انسان کے لئے جو چیزیں ضروری اور لازمی ہیں اور جن کے ذریعہ انسان آرام اور سکینت حاصل کر سکتا ہے وہ میاں بیوی کے تعلقات ہیں.میاں بیوی کے تعلقات سے جوسکون اور آرام انسان کو حاصل ہوتا ہے وہ اُسے اور کسی ذریعہ سے حاصل نہیں ہوسکتا....ہی دو وجود جو ایک دوسرے کیلئے تسکین اور آرام اور راحت کا موجب ہیں کبھی کبھی انہیں لڑائی اور جھگڑے کا موجب بنالیا جاتا ہے اور راحت اور سکون کی بجائے انسان کیلئے اس کا مد مقابل یعنی خاوند کیلئے بیوی اور بیوی کیلئے خاوند دنیا میں سب سے 127
زیادہ تکلیف دینے کا موجب بن جاتا ہے.ہزاروں خاوند ایسے ہیں جو اپنی بیویوں کیلئے بدترین عذاب ہوتے ہیں اور ہزاروں بیویاں ایسی ہیں جو اپنے خاوندوں کیلئے بدترین عذاب ہوتی ہیں.ایسے مواقع کیلئے اسلام کا حکم ہے کہ مرد عورت کو طلاق دے دے یا عورت مرد سے خلع کرالے.لیکن طلاق اور خلع سے پہلے اسلام نے کچھ احکام بیان کئے ہیں جن کو مد نظر رکھنا مرد اور عورت اور قاضیوں کا فرض قرار دیا گیا ہے تاکہ طلاق یا خلع عام نہ ہو جائے.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں: إِنَّ اَبْغَضَ الْحَلَالِ عِنْدَ اللهِ الطَّلَاقُ یعنی حلال چیزوں میں سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز خدا تعالیٰ کے نزدیک طلاق ہے.جب طلاق حلال چیزوں میں سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے تو ایک مومن جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت ہے وہ اس چیز کے کس طرح قریب جا سکتا ہے جس کے متعلق وہ سمجھتا ہو کہ یہ اللہ تعالیٰ کو سخت نا پسند ہے...پس رشد و ہدایت یہ نہیں کہ طلاق کو عام کیا جائے بلکہ رشد و ہدایت یہ ہے کہ طلاق سے بچنے کی کوشش کی جائے.حلال کے معنی یہ ہیں چا ہو تو کر سکتے ہو.یہ قانون کے لحاظ سے منع نہیں لیکن تمہیں دوسروں کے خیالات دوسروں کے جذبات دوسروں کی ہمدردی اور دوسروں کے پیار کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے.جس حلال پر عمل کرنے سے دوسروں کے خیالات ، دوسروں کے جذبات ، دوسروں کی ہمدردی اور دوسروں کے پیار کا خون ہوتا ہو وہ حلال نہیں بلکہ ایسا حلال ایک جہت سے حلال ہے اور دوسری جہت سے حرام ہے.جب دنیوی اور سفلی عشق رکھنے والے لوگ اپنے محبوب کی چھوٹی چھوٹی خفگی سے بھی ڈرتے ہیں اور اُس کو ناراض ہونے کا موقع نہیں دیتے 128
تو ایک مومن رسول کریم ﷺ کی یہ حدیث پڑھ کر پاسن کر کہ ان ابــــــــــ الْحَلَا عِندَ اللهِ الطَّلاق کس طرح آسانی سے جرات کر سکتا ہے کہ اس کی خلاف ورزی کرے.جب شریعت کہتی ہے کہ تم اس اَبغَضُ الْحَلَال کو اختیار کرنے سے پر ہیز کرو تو ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ ایسے امور میں کمی پیدا کرنے کی کوشش کرے اور اس بات کو میاں بیوی کے تعلقات کی کشیدگی کے وقت بھول نہ جائے.قرآن کریم کا حکم ہے کہ جب میاں بیوی میں کوئی جھگڑا پیدا ہو جائے تو اس کو دُور کرنے کیلئے حکم مقرر کئے جائیں جو کوشش کریں کہ اُن کی رنجش دُور ہو جائے اور وہ پہلے کی طرح پیار اور محبت کی زندگی بسر کرنے لگیں.لیکن اگر ایسے ہی حالات پیدا ہو جائیں کہ صلح کی کوئی صورت نہ ہو سکے تو پھر خلع کی صورت میں قاضی کے سپرد یہ معاملہ کیا جائے اور وہ اس کا فیصلہ کرے.بہر حال یہ امرا چھی طرح یا درکھنا چاہئے کہ ذرا ذراسی بات پر خلع اور طلاق تک نوبت پہنچا دینا نہایت افسوس ناک امر ہے اور یہ اتنا بھیانک اور نا پسندیدہ طریق ہے کہ ہر شریف آدمی کو اس سے نفرت ہونی چاہئے.( تفسیر کبیر جلد ۲ صفحہ ۵۱۹-۵۲۱) تَسْرِيحَ بِاحْسَانِ اگر کوئی صورت صلح کی نہ رہے اور طلاق یا خلع کے ذریعے علیحدگی ہی واحد راستہ ہو تو گھر کے نگران کو دوسری بات یہ یاد رکھنی ہے کہ اُس نے یہاں بھی حسنِ سلوک اور احسان سے کام لینا ہے.بیوی کے ساتھ زندگی کا ایک حصہ اکٹھے گزارہ ہوا ہوتا ہے اس لئے اُسے اس طریق سے الگ کرنا چاہیے جیسے انسان بامر مجبوری اپنے کسی عزیز سے بچھڑتا ہے.اُسے دی ہوئی کوئی چیز بھی واپس نہیں لینی بلکہ اپنے پاس سے کچھ دے کے بطریق احسن اُسے رخصت کرنے کا حکم 129
ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: الطَّلَاقُ مَرَّتَنِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا اتَ يَتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيْمَاحُدُوْدَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ (البقره آیت ۲۳۰) وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَامُسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلَا تُمْسِكُرُ هُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا وَ مَنْ يَفْعَلُ ذَالِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ البقره (۲۳۲) لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً ومَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِع قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ : مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ.وَإِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّو هُنَّ وَ قَدْ فَرَضْتُمُ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمُ إِلَّا أَنْ يَعْفُونَ اَوْ يَعْفُوا الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ وَاَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ ، إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (البقره آیات ۲۳۷ - ۲۳۸) وَ إِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبُدَالَ زَوْجِ مَّكَانَ زَوُجِ " وَّاتَيْتُمُ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا أَتَأخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَّ إِثْمًا مُّبِينًا (النساء ۲۱) ترجمہ: ” طلاق دو مرتبہ ہے.پس (اس کے بعد ) یا تو معروف طرق پر روک 130
رکھنا ہے یا احسان کے ساتھ رخصت کرنا ہے.اور تمہارے لئے جائز نہیں کہ تم اُس میں سے کچھ بھی واپس لو جو تم انہیں دے چکے ہو.سوائے اس کے کہ وہ دونوں خائف ہوں کہ وہ اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے.اور اگر تم خوف محسوس کرو کہ وہ دونوں اللہ کی مقررہ حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں اس ( مال کے بارہ میں جو وہ عورت ( قضیہ نپٹانے کی خاطر مرد کے حق میں ) چھوڑ دے.اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی مقررہ میعاد پوری کر لیں ( تو چاہو ) تو تم انہیں دستور کے مطابق روک لو یا ( چاہو تو ) معروف طریق پر رخصت کر دو.اور تم انہیں تکلیف پہنچانے کی خاطر نہ روکوتا کہ اُن پر زیادتی کر سکو.اور جو بھی ایسا کرے تو یقیناً اُس نے اپنی ہی جان پر ظلم کیا.تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم عورتوں کو طلاق دے دو جبکہ تم نے ابھی انہیں چھوا نہ ہو یا ابھی تم نے ان کے لئے حق مہر مقرر نہ کیا ہو.اور انہیں کچھ فائدہ بھی پہنچاؤ.صاحب حیثیت پر اس کی حیثیت کے مطابق فرض ہے اور غریب پر اس کی حیثیت کے مناسب حال.( یہ ) معروف کے مطابق کچھ متاع ہو.احسان کرنے والوں پر تو ( یہ ) فرض ہے.اور اگر تم انہیں اس سے پیشتر طلاق دے دو کہ تم نے انہیں چھوا ہو، جبکہ تم ان کا حق مہر مقرر کر چکے ہو ، تو پھر جو تم نے مقرر کیا ہے اس کا نصف (ادا کرنا) ہوگا.سوائے اس کے کہ وہ (عورتیں) معاف کر دیں ، یا وہ شخص معاف کر دے جس کے ہاتھ میں نکاح کا بندھن ہے.اور تمہارا عفو سے کام لینا تقویٰ کے زیادہ قریب ہے.اور آپس میں احسان ( کا سلوک) بھول نہ جایا کرو.یقینا اللہ اس پر جو تم کرتے ہو 131
گہری نظر رکھنے والا ہے.اور اگر تم ایک بیوی کو دوسری بیوی کی جگہ تبدیل کرنے کا ارادہ کرو اور تم اُن میں سے ایک کو ڈھیروں مال بھی دے چکے ہو تو اُس میں سے کچھ واپس نہ لو.کیا تم اُسے بہتان تراشی کرتے ہوئے اور کھلے کھلے گناہ کا ارتکاب کرتے ہوئے واپس لو گے.“ سورہ البقرہ کی آیت نمبر ۲۳۰ کی تفسیر میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: استجگہ احسان کا لفظ رکھ کر اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ عورت کو رخصت کرتے وقت اس کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنا چاہئیے.مثلاً اُس کے حق سے زائد مال اُسے دیدیا جائے اور اُسے عزت کے ساتھ روانہ کیا جائے.بعض صحابہ کے متعلق آتا ہے کہ اُنہوں نے اپنی بیویوں کو طلاق دی تو انہیں دس دس ہزار روپیہ تک دے دیا.پھر فرمایا وَ لَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا اتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا - تمہارے لئے ہرگز جائز نہیں کہ اگر کوئی مال یا جائیداد تم انہیں دے چکے ہو تو طلاق کے بعد اُن سے واپس لے لو.یہ آیت بالصراحت بتاتی ہے کہ طلاق کے بعد عورت سے زیورات اور پار چات وغیرہ واپس نہیں لئے جاسکتے.نہ مال واپس لیا جا سکتا ہے.نہ کوئی جائیداد جو اُسے دی جا چکی ہو واپس لی جاسکتی ہے.بلکہ مرد اگر مہر ادا نہ کر چکا ہو تو طلاق کی صورت میں وہ مہر بھی اُسے ادا کرنا پڑیگا.لیکن اس کے بعد ایک استثنیٰ رکھا ہے اور کہا ہے کہ اگر وہ صورت پیدا ہو تو پھر جائز ہے.فرمایا إِلَّا أَنْ يَخَافَا اَلَّا يُقِيْمَا حُدُودَ اللهِ سوائے اس کے کہ اُن دونوں کو خوف ہو کہ خدا تعالیٰ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے یعنی مرد عورت کے حقوق ادا نہ کر سکے گا اور عورت مرد کے حقوق ادا نہ کر سکے گی.اس صورت میں اس کا حکم اور ہے جو فَانُ خِفْتُم سے شروع ہوتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے فَإِنْ خِفْتُمُ الَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا 132
فِيمَا افْتَدَتْ به یعنی اس صورت میں اگر تمہاری رائے بھی یہی ہو کہ دونوں فریق ایک دوسرے کو نقصان پہنچائیں گے یعنی قضا نے بھی دیکھ لیا کہ فی الواقعہ دونوں کا قصور ہے صرف مرد ہی قصور وار نہیں بلکہ عورت بھی قصور وار ہے تو اس صورت میں اگر عورت سے کچھ دلوا کر اُن میں جدائی کروا دی جائے جسے اصطلاحاً خلع کہتے ہیں تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہوگا.( تفسیر کبیر جلد ۲ صفحہ ۵۱۶) ایک اور ضروری امر گھر کے نگران کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ علیحدگی کی صورت میں اپنی بیوی کی کسی خامی کا چرچہ کرنا نہایت ہی ناپسندیدہ فعل ہے.ایک عرصہ تک وہ اُس کا لباس تھی اور دونوں ایک دوسرے کے بہت سے پوشیدہ امور کے محافظ تھے.اب اگر کسی وجہ سے وہ ایک ساتھ نہیں چل سکتے تو اسلام اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ وہ ایک دوسرے کی کمزوریاں اور خامیاں لوگوں کے سامنے بیان کرتے پھریں..رضاعت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : " وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ وَعَلَى الْمَوْلُودِلَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلَّا وُسْعَهَا لَا تُضَا َر وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَّهُ بِوَلَدِهِ ، وَ عَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِكَ فَإِنْ أَرَادَا فِصَا لَّا عَنْ تَرَاضٍ مِنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا (البقره (۲۳۴) ترجمہ: ” اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں اس (مرد) کی خاطر جو رضاعت ( کی مدت) کو مکمل کرنا چاہتا ہے.اور جس (مرد) کا بچہ ہے 133
اُس کے ذمہ ایسی عورتوں کا نان نفقہ اور اوڑھنا بچھونا معروف کے مطابق ہے.کسی جان پر اُس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالا جاتا.ماں کو اُس کے بچے کے تعلق میں تکلیف نہ دی جائے اور نہ ہی باپ کو اُس کے بچے کے تعلق میں.اور وارث پر بھی ایسے ہی حکم کا اطلاق ہوگا.پس اگر وہ دونوں رضا مندی اور مشورے سے دودھ چھڑانے کا فیصلہ کر لیں تو ان دونوں پر کوئی گناہ ہیں.“ اس آیت کی تفسیر میں حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں: وَعَلَى الْمَوْلُودِلَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ میں کھانے اور کپڑے سے مراد تمام اخراجات ہیں نہ کہ صرف روٹی اور لباس.اور معروف سے مراد باپ کی مقدرت ہے کہ امیر اپنی طاقت کے مطابق دے اور غریب اپنی طاقت کے مطابق.اس جگہ عام دودھ پلانے والی عورتوں کا ذکر نہیں بلکہ ماؤں کا ذکر ہے اور یہ ذکر طلاق کے ضمن میں کیا گیا ہے کہ اگر دودھ پلانے والی عورت کو طلاق دی جائے تو بچہ کی خاطر عورت کیلئے یہ ضروری ہے کہ بچے کو دودھ مقررہ مدت تک پلائے اور اس کے بدلہ میں خاوند پر فرض ہے کہ عام مزدور عورت کی طرح نہیں بلکہ اپنی توفیق کے مطابق اُسے خرچ دے.کیونکہ یہ امرعورت کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والا ہو گا کہ ایک طرف تو اُسے مجبور کیا جائے کہ وہ طلاق کے بعد بھی بچہ کو دودھ پلاتی رہے اور دوسری طرف اُسے ایسی حالت میں رکھا جائے جو پہلی حالت سے ادنی ہو اور اُس کیلئے ذلت کا موجب ہو.مگر اس کے ساتھ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلَّا وُسْعَهَا کہہ کر اس طرف اشارہ فرما دیا کہ مرد سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ اپنی طاقت سے زیادہ خرچ کرے یہ بھی نامناسب ہے اور عورت 134
سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ ایک نوکر کی طرح طلاق کے بعد ایک عرصہ گھر میں گذار دے، یہ بھی نامناسب ہے.لَا تُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ ماں اپنے بچہ کی وجہ سے باپ کو ضرر نہ دے اور یہ بھی کہ ماں اپنے بچے کی وجہ سے ضرر نہ دی جائے.اس آیت میں مرد اور عورت دونوں کو یہ نصیحت کی گئی ہے کہ بچہ کو ایک دوسرے پر دباؤ ڈالنے کا ذریعہ نہ بناؤ.بہت سے نادان اس حرکت کے مرتکب ہوتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یا تو بچے ہلاک ہو جاتے ہیں یا اُن کی تربیت خراب ہوتی ہے.اس قسم کا فعل در حقیقت قتل اولا د کے مشابہ ہے اور قرآن کریم نے اس سے روک کر آئندہ اولادوں پر احسانِ عظیم کیا ہے.وَ عَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِكَ کا عطف وَعَلَى الْمَوْلُودِلَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ پر ہے.اس میں اللہ تعالیٰ نے ایک عجیب حق قائم کیا ہے جو تمدن کی صورت ہی بدل دیتا ہے.اور حکم دیا گیا ہے کہ اگر باپ مر جائے تو باپ کے جو ورثاء ہوں اُن پر بچہ کو دودھ پلانے والی عورت کا خرچ ہوگا.گو یا ورثہ کے ساتھ بوجھ بٹانے کا کام بھی اُن کے سپر د کر دیا.خواہ اُنہیں ترکہ ملا ہو یا نہ ملا ہو.تھوڑا ہو یا بہت.چنانچہ فرمایا وَ عَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِكَ وارث پر بھی ویسا ہی حق ہے جیسا کہ باپ پر.یعنی باپ کا وارث خواہ لڑکا ہو خواہ کوئی قریبی رشتہ دار اس پر یہ خرچ واجب ہوگا.یعنی اُس کا پرورش کرنا احسان کے طور پر نہیں ہو گا بلکہ ایک حق کے طور پر ہو گا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر واجب کیا گیا 135
ہے.اور یہ بھی مطلب ہے کہ اُس بچہ کے حصہ میں سے خرچ دیا جا سکتا ہے.بہر حال اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمدن کی ایک نئی بنیاد رکھی ہے.کہ کمزور بچوں کی تربیت بطور حق ورثاء پر ڈال دی ہے.یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جب دو دوھ پلایا جا چکے تو پھر وہ بچوں کو لاوارث چھوڑ دیں بلکہ اس حق کو بلوغت تک ممند کرنا پڑے گا اور اُن کا فرض ہوگا کہ وہ بچہ کے کھانے اور لباس کے اخراجات کے علاوہ اس کے تعلیمی اخراجات بھی بالغ ہونے تک پورے کریں اور اُس کی اعلیٰ درجہ کی تربیت مد نظر رکھیں تا کہ وہ قوم کا ایک مفید وجود بن سکے...فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا سے معلوم ہوتا ہے کہ بچے کے متعلق دودھ پلانے یا چھڑانے کا فیصلہ قرآن کریم نے نہ مرد کے اختیار میں رکھا ہے نہ عورت کے اختیار میں بلکہ دونوں کو مشتر کہ اختیار دیا ہے.شاید تمام شرائع کی تاریخ میں یہ منفر د مثال ہے کہ اس طرح اہلی معاملات میں میاں بیوی کو ایک مقام پر کھڑا کر کے برابر کے اختیار دیے گئے ہیں.ہاں یہ شرط ضرور ہے کہ ودھ پلانے کی جو مدت قرآنِ کریم نے مقرر کی ہے اس سے زیادہ دیر تک دودھ پلانے پر نہ خاوند مجبور کر سکتا ہے ، نہ عورت زور دے سکتی ہے.جب طلاق کے بعد بھی عورت کے جذبات کا اسقدر خیال رکھنے پر خاوند کو مجبور کیا گیا ہے تو ظاہر ہے کہ جو عورت نکاح میں ہو ان امور میں اُس کے جذبات کا خیال رکھنا اسلام کے نزدیک کس قدر ضروری ہوگا.( تفسیر کبیر جلد ۲ صفحہ ۵۲۶-۵۲۷) 136
حسن سلوک بعد از وفات اسلامی تعلیمات میں مر د کو نکاح سے موت تک زندگی کے مختلف حالات میں سے گزرتے ہوئے ہر قدم پر اپنی رفیقہ حیات سے نیک سلوک کرنے کی تلقین پائی جاتی ہے جس کا کسی حد تک ذکر کیا جا چکا ہے.عورتوں سے حُسنِ سلوک کی اس قدر تاکید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک قانون مقرر فرما کر مردوں کے قرابت داروں کو پابند کر دیا ہے کہ اُن کی موت کے بعد بھی اُن کی بیویوں سے نیک سلوک کرنا ہے اور انہیں کم از کم ایک سال تک گھر چھوڑنے پر مجبور نہیں کرنا.ہاں اگر عدت ( چار مہینے اور دس دن گزرنے کے بعد وہ اپنی مرضی سے خود جانا چاہیں تو انہیں اختیار ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَّصِيَّةً لَّا زُوَاجِهِمْ مَّتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجِ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَّعْرُوفٍ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (البقره ۲۴۱) ترجمہ: اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں اور بیویاں پیچھے چھوڑ رہے ہوں ، اُن کی بیویوں کے حق میں یہ وصیت ہے کہ وہ (اپنے گھروں میں ) ایک سال تک فائدہ اٹھائیں اور نکالی نہ جائیں.ہاں اگر وہ خود نکل جائیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں اس بارہ میں جو وہ خود اپنے متعلق کوئی معروف فیصلہ کریں.اور اللہ کامل غلبہ والا (اور ) صاحب حکمت ہے.137
وو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: باوجود اس کے کہ مکان کسی اور وارث کے حصہ میں آیا ہو بیویوں کو ایک سال تک اس میں رہنے کا حق حاصل ہے.اس کے یہ معنی نہیں کہ عورت خود بھی مکان سے نہیں جاسکتی.عورت عدت کے بعد اپنی مرضی سے اور اپنے فائدہ کیلئے جانا چاہے تو جاسکتی ہے.سال بھر کی شرط صرف عورت کے آرام اور فائدہ کیلئے لگائی گئی اور اس میں وارثوں کو پابند کیا گیا ہے.عورت پر پابندی صرف ایا م عدت تک گھر میں رہنے کی ہے.بعد میں اس حکم سے فائدہ اٹھا نا یا نہ اٹھا نا اس کے اختیار میں ہے.یہ امر کہ اس ایک سال میں عدت شامل ہے یا نہیں.اس بارہ میں اختلاف پایا جاتا ہے.لیکن میرے نزدیک جس بات میں عورت کا فائدہ ہو اُسے تسلیم کرنا چاہئے اور وہ صورت یہی ہے کہ عدت کے بغیر ایک سال تک عورت کو گھر میں رہنے دیا جائے.‘ (تفسیر کبیر جلد ۲ صفحہ ۵۳۹) گھر کے نگران کے فرائض قرآن کریم ، سنتِ رسول ﷺ ، احادیث مبارکہ، ارشادات و سیرت حضرت مسیح موعود اور اقوال خلفائے احمدیت کی روشنی میں پیش کئے گئے.بیویوں کے ساتھ حسنِ سلوک کے بارے میں ان کے کلمات طیبات اور پاکیزہ عمل جب عوام الناس دیکھتے ہیں تو انہیں یہ چوٹی بہت اونچی لگتی ہے جسے سر کرنا ناممکن معلوم ہوتا ہے.وہ سوچتے ہیں کہ کہاں سے خدا کے پاک نبیوں جیسے حوصلے اور برداشتیں لائیں کہ ہر حال میں عَاشِرُوهُنَّ بالْمَعْرُوفِ حکم الہی کا حق ادا کر سکیں.لیکن یا درکھنا چاہئے یہ ایک وسوسہ ہے جو کمزور دلوں میں 138
پیدا ہوتا ہے.لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرہ ۲۸۷) کا فرمانِ الہی ہماری اس طرف راہنمائی کرتا ہے کہ اگر اس حکم پر عمل کرنا انسانی طاقت میں نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہرگز انسان کو اس کا مکلف نہ کرتا.دوسرے یہ کہ انبیاء تو آتے ہی اس لئے ہیں کہ احکامات پر خود عمل کر کے دوسروں کیلئے نمونہ ٹھہریں تا کہ متبعین بھی اُن کے نقشِ قدم پر چل سکیں.اگر کسی حکم پر عمل کرنا انسان کے بس میں ہی نہ ہو تو وہ حکم ہی لغو ٹھہرتا ہے.اس بارہ میں حضرت خلیفتہ امسیح اوّل ا فرماتے ہیں: آجکل دنیا میں ایک بیماری ہے نہ صرف عورتوں میں بلکہ مردوں میں بھی کہ جب ہم کسی راست باز کے اعمال ، احکام اور چال چلن بیان کرتے ہیں تو اس وقت بہت لوگ شیطانی اغوا سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ کام ہم سے نہیں ہوسکتا.نہ ہم رسول نہ رسول کی بی بی.میرے نزدیک یہ کہنا کفر ہے.اور خدا پر بھی الزام آتا ہے.اس لئے کہ اگر ہم سے ان احکام کا نباہ نہیں ہوسکتا تو کیا خدا نے کوئی لغو حکم دیا ہے.پھر جب خدا نے نبی کی اتباع کا حکم دیا ہے.جبکہ ہم وہ کام کر ہی نہیں سکتے تو ہمیں ان کی اتباع کا حکم کیوں ملا؟ میرا یہ ایمان ہے کہ جن احکام کا متبع خدا نے ہم کو بنایا ہے ہم ضرور کر سکتے ہیں اور جن سے روکا ہے اُن سے ہم رک سکتے ہیں.پس میں یقین کرتا ہوں کہ خدا نے جو حکم دیے ہیں ان کو ہم کر سکتے ہیں اور اس کے موانعات سے ہم رک سکتے ہیں.“ ( حقائق القرآن جلد سوم صفحه ۴۰۴-۴۰۵) پس عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ پر عمل کرنا عام انسان کیلئے چاہے کتناہی مشکل کیوں نہ ہو لیکن ناممکن ہر گز نہیں.اسلامی تعلیمات میں عورتوں سے نیک سلوک کی جس قدر تاکید پائی جاتی 139
ہے اور جس رنگ میں مردوں کو پابند کیا گیا ہے اُس سے یہ حقیقت بہر حال روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اسلام نے عورتوں کے حقوق کی ایسی حفاظت کی ہے جیسی کسی اور مذہب نے نہیں کی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: عورتیں یہ نہ سمجھیں کہ اُن پر کسی قسم کا ظلم کیا گیا ہے.کیونکہ مرد پر بھی اُس کے بہت سے حقوق رکھے گئے ہیں بلکہ عورتوں کو گو یا بالکل کرسی پر بٹھا دیا گیا ہے اور مرد کو کہا گیا کہ ان کی خبر گیری کر.اُس کا تمام کپڑا کھانا اور تمام ضروریات مرد کے ذمہ ہیں.( ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۳۰) نظام دُنیا تقسیم کار کے اصول کے مطابق چل رہا ہے.دُنیا کے کسی بھی ادارے یا تنظیم کا کام افسری ماتحتی کے بغیر چل ہی نہیں سکتا.اسلامی ضابطۂ حیات میں گھر کے یونٹ میں انتظامی امور کیلئے مرد کو اس کی مخصوص صلاحتیوں کی وجہ سے نگران مقرر کیا گیا ہے.اگر وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق تقوی اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے گھر کی نگرانی کے فرائض ادا کرتا ہے اور اہلِ خانہ کے حقوق ادا کرتا ہے تو اس میں اعتراض والی کونسی بات ہے؟ اگر یہ اعتراض ہو کہ بعض مسلمان مرد اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے عورتوں پر ظلم کرتے ہیں تو یا درکھنا چاہئے کہ یہ بات مسلمانوں سے ہی خاص نہیں.ایس گنا ہیست که در شهر شما نیز کنند.یہ تو ایسا گناہ ہے کہ تمہارے شہر میں بھی کیا جاتا ہے.اس طرح کے ظلم کرنے والے تو دنیا کی ہر قوم اور ہر مذہب میں پائے جاتے ہیں.کیا یورپ میں مرد، عورتوں پر ظلم نہیں کرتے ؟ مردوں کی طرف سے عورتوں پر تشد داور زیادتیوں سے بچاؤ کیلئے یورپ میں بھی مختلف ادارے قائم ہیں جن کے اڈریس اور فون نمبروں پر مشتمل اشتہارات پبلک مقامات پر اور لوکل ٹرینوں میں بھی لگے نظر آتے ہیں.یہ اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ مہذب کہلانے والی اس دُنیا میں بھی مرد عورتوں پر تشد داور ظلم کرتے ہیں.140
یہ مغرب والے اللہ جانے کس اسلام کی بات کرتے ہیں جس میں عورتوں کے حقوق مردوں سے کم ہیں.جس اسلام کو ہم جانتے ہیں ہمیں تو اس میں عورتوں کے حقوق زیادہ نظر آتے ہیں.یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسلامی ضابطۂ حیات میں مرد عورتوں کے خدمتگار ہیں.مرد نگران ہونے کی وجہ سے اگر گھر کا سر براہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اہلِ خانہ کا خدمتگار ہے.اُن کیلئے ہر قسم کی ضروریات زندگی مہیا کرنے کی ذمہ داری بھی مرد کی ہے اور پھر یہ خوف بھی کہ کہیں کوئی زیادتی ہی نہ ہو جائے.مرد اگر گھر کا نگران ہے تو وہ بھی بلا نگرانی نہیں.اسلامی ضابطہ حیات میں اُس کی نگرانی کیلئے ایک تو قضاء کا نظام موجود ہے اور دوسرے خدا کا نبی اور اُس کے نائبین بذات خود نگرانی کرتے ہیں.آج سے چودہ سو سال پہلے کے مسلمان بھی اپنے گھروں میں اپنی بیویوں سے بے تکلفی سے بات کرتے ڈرتے تھے مبادا وہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں شکایت کر دیں اور آج جماعت احمدیہ میں بھی وہی سنت پوری ہوتی نظر آتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام احمدی مسلمان عورتوں کیلئے ایک ڈھال تھے اور آپ کے بعد خلفائے احمدیت بھی اسی سنت کو جاری رکھے ہوئے ہیں.نبوت اور خلافت کی یہ بھی ایک برکت ہے.141
را کھے کے حقوق قرآن و حدیث میں بیان فرمودہ گھر کے نگران کے فرائض اور تاکیدی احکامات کے مطالعہ سے اُس کا جو نقشہ ابھرتا ہے وہ ایک شفیق ، مہربان محسن اور متوازن شخصیت کے حامل ایک ذمہ دار محافظ کا ہے جسے ہر قدم پر برداشت اور حوصلے سے کام لیتے ہوئے اپنی بیویوں سے نیک سلوک کرنے کی تلقین کی گئی ہے.یہ درست ہے کہ ان احکامات پر عمل کا معیار سب کا ایک جیسا نہیں ہوتا اور نہ ہو سکتا ہے لیکن بہر حال یہی وہ معیار ہے جو اسلام نے گھر کے نگران کیلئے مقرر کیا ہے.جہاں مردوں کے فرائض ہیں ظاہر ہے اُن کے کچھ حقوق بھی ہیں اور یہی حقوق عورتوں کے فرائض بن جاتے ہیں.قبل ازیں تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے کہ مردوں اور عورتوں کے نہ تو سب کے سب فرائض ایک جیسے ہیں اور نہ ہی حقوق کمیت اور کیفیت کے لحاظ سے مر دوں کے بہت سے فرائض بالکل مختلف نوعیت کے ہیں.اب عورتوں کے فرائض کا ذکر کیا جا رہا ہے جن کی نوعیت بالکل دوسری ہے.نگران ہونے کی وجہ سے مردوں کو فیض پہنچانے اور نگرانی کرنے والے فرائض ادا کرنے ہیں اور عورتوں کو فیضیاب ہونے والیوں کی حیثیت سے اپنے فرائض ادا کرنے ہیں اور اسلامی تعلیمات کا یہ کمال ہے کہ عورتوں کو بعینہ اسی قسم کے فرائض سونپے گئے ہیں.صنف نازک کے تقاضوں، بچوں کی پیدائش اور پرورش کے حوالے سے بعض مخصوص صلاحتیوں کی وجہ سے عورتوں کی ذمہ داری ایسی ہے جس کی انجام دہی گھر میں رہ کر بہتر طور پر کی 142
جاسکتی ہے.اس فطری ضرورت کے عین مطابق اسلامی ضابطہ حیات میں بنیادی طور پر عورت کا دائرہ کا راُس کا گھر ہوتا ہے اور امور خانہ داری، بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت اُس کی بنیادی ذمہ داریاں ہیں.کہا جاتا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے.اگر چہ اس مقولے کے ہر پہلو سے درست ہونے میں کلام ہے لیکن اس امر میں کیا شک ہے کہ ایک کامیاب مرد کو اُس کی ذمہ داریاں احسن رنگ میں ادا کرنے کیلئے ایک مونس و غم خوار اور ہمدرد جیون ساتھی کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا.آنحضرت ﷺ پر جب پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ گھبراہٹ کے عالم میں گھر آئے تو آپ کی اہلیہ ام المؤمنین حضرت خدیجہ ہی تھیں جنہوں نے نہ صرف یہ کہ آپ سے ہمدردی کا اظہار کیا اور تسلی دی بلکہ سب سے پہلے آپ پر ایمان لائیں.یہ آپ کی شریک حیات ہی تھیں جنہوں نے اپنا تمام مال و دولت آپ کے قدموں میں لا ڈالا اور جانثاری اور فدائیت کی عدیم النظیر مثال قائم فرمائی.آپ ﷺ اور آپ کے ماننے والوں پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑے لیکن اس وفا شعار بیوی نے ہر حال میں آپ کا ساتھ دیا اور آپ کے کاموں میں آپ کی معین و مددگار رہیں.جس سال آپ کی وفات ہوئی اسلامی تاریخ میں اُسے عام الحزن یعنی غم کا سال کہا جاتا ہے.کتنے نصیبوں والی تھی یہ بزرگ ہستی کہ خدا کے رسول ﷺ نے ساری عمر جس کی وفا شعاری اور خدمات کے گیت گائے اور اُس کی یادوں کے چراغ جلائے رکھے.حدیث میں آتا ہے کہ آپ کی وفات کے بعد ایک دفعہ آپ کی بہن ہالہ آنحضرت ﷺ کے گھر آئیں اور باہر سے آواز دی.اُن کی آواز حضرت خدیجہ سے بہت ملتی تھی.آپ ملے آواز سن کر بے قرار ہو گئے اور میری خدیجہ ! میری خدیجہ ! پکار اٹھے حالانکہ آپ ﷺ کی یہ ! پیاری بیوی تو فوت ہو چکی تھیں.کہنے کو تو یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے لیکن اصل میں یہ ایک 143
صالحہ، قانتہ اور جانثار بی بی کیلئے اُس کے عظیم خاوند کے دل میں اُٹھنے والے جذبات محبت کا بے اختیار ا ظہا ر ہے.دنیا کے دیگر عظیم لوگوں کے حالات زندگی کے مطالعہ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اُن کی بیویاں کسی نہ کسی رنگ میں اُن کے کاموں میں ضرور اُن کی مد در گار رہی ہیں.مثال کے طور پر سائنسدان جو عموماً لیبارٹریوں میں اس حد تک مستغرق رہتے ہیں کہ اُنہیں لباس کا ہوش ہوتا ہے نہ کھانے کا.ایسے حالات میں اُن کی جیون ساتھی ہی ہوتی ہیں جو اُن کا حوصلہ بندھاتی اور اُن کی ضروریات کا خود خیال رکھتی ہیں.وہی اُن کو دیگر مصروفیات اور تفکرات سے فارغ رکھتی ہیں اور تبھی وہ یکسوئی سے محنت کر کے اپنے مشن میں کامیاب ہوتے ہیں.مبلغین کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے.یہ لوگ تو واقف زندگی ہوتے ہی ہیں ان کی بیویاں بھی ایک طرح سے وقف ہی ہوتی ہیں.وہ اِن کیلئے گھر کا ماحول خوشگوار رکھتی ہیں ، بچوں کی تعلیم و تربیت اور دیگر مصروفیات کے بڑے حصے کا بوجھ خود اٹھا لیتی ہیں اور اپنے خاوندوں کو تبلیغی اور تعلیمی و تربیتی خدمات کیلئے فارغ رکھنے کی کوشش کرتی ہیں.یہی ان کا وقف ہے جس کا خدا کے حضور بدلہ ہے.ایسی ہی کسی ” نیک بی بی کی یاد میں جب اُس کا خاوند تڑپتا ہے اور نمناک آنکھوں سے اُس کی محبتوں اور جانثاریوں کا تذکرہ کرتا ہے تو اُس بی بی کی خوش نصیبی پر دوسری عورتوں کو ضر ور رشک آتا ہے.اللہ تعالیٰ ہر ایک کی جیون ساتھی کو ایسا بنا دے کہ اُس کے بغیر انسان اپنے آپ کو ادھورا محسوس کرے.آمین.یہ درست ہے کہ اسلام عورت کے کھلے عام کر دوں میں اختلاط کے ساتھ سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ صرف گھر میں مقید ہو کر رہ جائے بلکہ ضرورت کے تحت اور مناسب احتیاط کے ساتھ وہ مرد کے فرائض میں بھی مدد دے 144
سکتی ہے.علاوہ ازیں عورتوں سے متعلق سماجی اور تعلیمی وتبلیغی سرگرمیوں میں بھی حصہ لے سکتی ہے لیکن اس کے ساتھ شرط یہ ہے کہ اُس کی گھریلو ذمہ داریاں متاثر نہ ہوں.عورتوں سے جن فرائض کی ادائیگی کا اسلام تقاضا کرتا ہے اب اُن کا کسی قدر تفصیل سے ذکر کیا جاتا ہے.لتَسْكُنُوا إِلَيْهَا اللہ تعالیٰ نے زندگی کی ہر ایک قسم کا اُسی کی جنس سے جوڑا بنایا ہے.اُس نے اشرف المخلوقات انسان کی بھی اپنی ہی جنس سے اُس کا جوڑا بنایا تا کہ انہیں ایک دوسرے سے تسکین ، آرام اور سکون حاصل ہو اور پھر نہ صرف اُن دونوں کے درمیان بلکہ خاندانوں اور پورے معاشرے میں ایک دوسرے کے ساتھ باہمی محبت اور پیار کے جذبات تشکیل پائیں.اللہ تعالی فرماتا ہے : وَ مِنْ ايته أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ اَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ ط بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةً ، إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ.(الروم (۲۲) ترجمہ: ” اور اس کے نشانات میں سے (یہ بھی) ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس میں سے جوڑے بنائے تا کہ تم اُن کی طرف تسکین (حاصل کرنے) کے لئے جاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی.یقیناً اس میں ایسی قوم کیلئے جو غور وفکر کرتے ہیں بہت سے نشانات ہیں.“ حضرت خلیفہ اسیح اول فرماتے ہیں : لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا : یا درکھو بیبیاں اس لئے ہیں کہ ان سے آرام پاؤ.بہت بد بخت ہیں وہ جو بی بی کو دکھ سمجھیں.مَوَدَّهُ : ان کے ذریعے دو مختلف خاندانوں میں باہمی محبت بڑھتی ہے.“ 66 145
ایک اور موقعہ پر فرمایا: لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا : بیاہ کے بعد اگر خدا چا ہے تو انسان کو آرام ملتا ہے.انسان کی آنکھ، ناک، کان وغیرہ بدی کی طرف راغب نہیں ہوتے.سکونِ قلب حاصل ہوتا ہے.نکاح آرام کیلئے ہوتا ہے، بے آرامی کیلئے نہیں ہوتا.میں نے خود کئی بیاہ کئے ہیں.ہر بیاہ میں مجھے آرام ملا.وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً.(حقائق.الفرقان جلد ۳ صفحه ۳۵۳) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” خدا تعالیٰ نے انسان کے سلسلہ پیدائش کی علت غائی صرف اپنی عبادت رکھی ہے.وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون پس حصر کر دیا ہے کہ صرف عبادت الہی مقصد ہونا چاہئے اور صرف اسی غرض کیلئے یہ سارا کارخانہ بنایا گیا ہے....دنیا کے یہ سامان اور یہ بیوی بچے اور کھانے پینے تو اللہ تعالیٰ نے صرف بطور بھاڑہ کے بنائے تھے جس طرح ایک یکہ بان چند کوس تک ٹو سے کام لے کر جب سمجھتا ہے کہ وہ تھک گیا ہے اُسے کچھ نہاری اور پانی وغیرہ دیتا ہے اور کچھ مالش کرتا ہے تا اس کی تھکان کا کچھ علاج ہو جاوے اور آگے چلنے کے قابل ہو اور درماندہ ہو کر کہیں آدھ میں ہی نہ رہ جائے.اس سہارے کیلئے اُسے نہاری دیتا ہے.سو یہ دنیوی آرام اور عیش اور بیوی بچے اور کھانے کی خورا کیس بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھاڑے مقرر کئے ہیں کہ تا وہ تھک کر اور درماندہ ہو کر بھوک سے پیاس سے مر نہ جاوے اور اس کے قومی کے تحلیل ہونے کی تلافی مافات ہوتی جاوے....حقوق نفس تو جائز ہیں مگر نفس کی بے اعتدالیاں جائز نہیں.حقوق نفس 146
بھی اس لئے جائز ہیں کہ تا وہ درماندہ ہو کر رہ ہی نہ جائے.تم بھی ان چیزوں کو اسی واسطے کام میں لاؤ.ان سے کام اس واسطے لو کہ یہ تمہیں عبادت کے لائق بنائے رکھیں نہ اس لئے کہ وہی تمہارا مقصود اصلی ہوں آنحضرت ﷺ قرآن شریف کے شارح ہیں.آپ ایک موقعہ پر بڑے گھبرائے ہوئے تھے.حضرت عائشہ کو کہا کہ اے عائشہ ہمیں آرام پہنچاؤ.اور اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے آدم کے ساتھ تو ا کو بھی بنا دیا تا وہ اس کے واسطے ضرورت کے وقت سہارے کا موجب ہو.عورتوں کو پیدا کرنے میں ستر یہی ہے کہ خدا کی راہ میں نفس کی قربانی کیواسطے جو ایک کوفت پیدا ہوتی ہے یہ اس کا سہارا ہو جاویں.‘‘ ( ملفوظات جلد ۵ صفحه ۲۴۷-۲۴۹) حضرت خلیفتہ امسیح الثانی فرماتے ہیں: دنیوی زندگی میں انسان کیلئے جو چیزیں ضروری اور لازمی ہیں اور جن کے ذریعہ انسان آرام اور سکینت حاصل کر سکتا ہے وہ میاں بیوی کے تعلقات ہیں.میاں بیوی کے تعلقات سے جو سکون اور آرام انسان کو حاصل ہوتا ہے وہ اسے اور کسی ذریعہ سے حاصل نہیں ہوسکتا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ان وجودوں کو ایک دوسرے کیلئے مودت اور رحمت کا موجب قرار دیا ہے.اسی طرح بائیبل میں آتا ہے اللہ تعالیٰ نے آدم کیلئے تو ا پیدا کی تا کہ وہ آدم کیلئے آرام اور سکون کا 66 باعث ہو.یعنی تو ا کے بغیر آدم کیلئے تسکین اور آرام کی صورت اور کوئی نہ تھی.“ ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه ۵۱۹) 147
ایک حدیث شریف میں یہ بھی آیا ہے کہ عورت وہ اچھی ہے کہ جس کی طرف دیکھنے سے دل خوش ہو.خاوند جب باہر کے کام کاج سے تھکا ماندہ گھر میں آئے تو اگر بیوی صاف ستھرے لباس میں اور مسکراتے چہرے کے ساتھ اسے خوش آمدید کہتی ہے تو آدھی تکان تو اُسی پل دور ہو جاتی ہے اور انسان ایک سکون محسوس کرتا ہے.لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا کا ایک یہ بھی پہلو ہے.حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورت کو اپنے خاوند کی خاطر گھر میں بن سنور کر اور صاف ستھرے لباس میں رہنا چاہئے.اس سے خاوند کے دل میں بیوی کیلئے پیار اور چاہت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں.پس پہلا فرض ایک بیوی کا یہ ہے کہ اپنے گھر کا ماحول ہر پہلو سے اس طرح بنا کر رکھے کہ جس کے نتیجے میں انسان گھر کے اندر آرام ، سکون اور دلی تسکین محسوس کرے اور اُس کا خاوند جہاں کہیں بھی ہو خواہش اور کوشش کرے کہ کب وہ باہر کی مصروفیات سے فارغ ہو اور کب وہ گھر پہنچے جہاں ایک پیار کرنے والی ہستی اُس کی منتظر ہے.اللہ تعالیٰ کا مظہر خاوند اپنی بیوی کیلئے اللہ تعالیٰ کا مظہر ہوتا ہے.حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اگر کسی کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو عورت کو حکم ہوتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے.حدیث کے الفاظ یہ ہیں: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَوْ كُنتُ امِرًا اَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ ِلاَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا (ترندی) ترجمہ : ” حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر میں کسی کو حکم دے سکتا کہ وہ کسی دوسرے کو سجدہ کرے تو عورت کو کہتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے.“ 148
وو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ' خاوند عورت کیلئے اللہ تعالیٰ کا مظہر ہوتا ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنے سوا کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے.پس مرد میں جلالی اور جمالی رنگ دونوں موجود ہونے چاہئیں.اگر خاوند عورت کو کہے کہ تو انیوں کا ڈھیر ایک جگہ ہی اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دے تو اُس کا حق نہیں کہ اعتراض کرے.ایسا ہی قرآن کریم اور حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ مُرشد کے ساتھ مرید کا تعلق ایسا ہونا چاہئے جیسا عورت کا تعلق مرد سے ہے.مرشد کے کسی حکم کا انکار نہ کرے اور اُس کی دلیل نہ پوچھے.( ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۱۴۸) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں: و جس طرح خدا اپنے بندوں سے انتہائی محبت کرنے والا ہے اُسی طرح خاوند کو بھی اپنی بیوی کے متعلق غیر معمولی محبت کا مقام حاصل ہوتا ہے اور جس طرح باوجود اس محبت کے خدا اپنے بندوں کا حاکم اور نگران ہے اسی طرح خاوند بھی بیوی کی محبت کے باوجود گھر کا نگران اور قوام ہوتا ہے.پھر جس طرح خدا اپنے بندوں کا رازق ہے اور ان کی روزی کا سامان مہیا کرتا ہے اسی طرح خاوند بھی اپنی بیوی کے اخراجات مہیا کرنے کا ذمہ دار ہے.اور اسی طرح اور بھی کئی پہلو مشابہت کے ہیں اور یہ مشابہت اتنی نمایاں ہے کہ ہماری زبان میں تو خاوند کو مجازی خدا کا نام دیا گیا ہے اور لفظاً بھی خداوند اور خاوند ایک دوسرے سے بہت ملتے جلتے ہیں...ایک حدیث میں آتا ہے کہ خدا اپنے حقوق سے تعلق رکھنے 149
والے گناہ بخش دیتا ہے مگر بندوں کے حقوق سے تعلق رکھنے والے گناہ اس وقت تک معاف نہیں کرتا جب تک کہ خود بندے معاف نہ کریں.انہی دو حکمتوں کی بناء پر آنحضرت ﷺ خدا کی قسم کھا کر بڑے زور دار الفاظ میں فرماتے ہیں کہ کوئی عورت اس وقت تک خدا کے حقوق ادا کرنے والی نہیں سمجھی جاسکتی جب تک کہ وہ اپنے خاوند کے حقوق ادا نہ کرے اور پھر ان الفاظ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ اس عورت پر خدا راضی نہیں جو اپنے خاوند کے حقوق ادا نہیں کرتی.( چالیس جواہر پارے صفحہ ۸۲ - ۳۸) بہترین سامان زیست گھر چاہے اپنا ہو یا ماں باپ کا ، سسرال کا ہو یا کسی اور کا مکمل گھر وہی ہوتا ہے جس میں عورت موجود ہو.عورت کے بغیر گھر کا کوئی تصور نہیں.عورت ہی گھر کی رونق ، خوبصورتی اور روح رواں ہوتی ہے.یہ جو کہا جاتا ہے کہ ”میرا گھر میری جنت“ تو یہ ایسے ہی گھر کے بارے میں ہے جس میں ایک صالحہ اور قانتہ بیوی موجود ہو.عورت کے بغیر گھر سے کسی کو حقیقی آرام اور سکون ہرگز نہیں مل سکتا.نیک بی بی انسان کیلئے اس جہان میں ایک بہت بڑی نعمت ہے.جسے یہ نعمت ملی ہوئی ہو وہ بہت ہی خوش نصیب انسان ہے.اس حوالے سے آنحضرت ﷺ کی ایک حدیث پیش کی جاتی ہے: حضرت عبداللہ بن عمر و بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ دنیا تو سامانِ زیست ہے اور نیک عورت سے بڑھ کر کوئی سامانِ زیست نہیں.( ابن ماجہ ) اللہ کے رسول نے عورت کو بہترین سامانِ زیست قرار دیا ہے.پس عورتوں کا فرض ہے 150
کہ وہ اپنے گھروں کو جنت نظیر بنانے کیلئے خدا اور اُس کے رسول کے احکامات کے مطابق نیکی کے بلند معیار قائم کرنے کی کوشش کریں کیونکہ گھر کے امن کے ایک بڑے حصے کا تعلق انہی کی ذات سے ہے.صالحہ، فرمانبردار اور محافظ قرآن کریم میں جس جگہ مردوں کو قوام قرار دئیے جانے کا ذکر ہے اُس کیساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے فرائض بھی بیان فرما دیئے ہیں.فرمایا: فَا لصلحتُ قنتت حفظت لِلْغَيْب بمَا حَفِظَ الله (النساء ۳۵) ترجمہ: پس نیک عورتیں فرمانبردار اور غیب میں بھی اُن چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں جن کی حفاظت کی اللہ نے تاکید کی ہے.“ ایک صالحہ بیوی کا فرض ہے کہ وہ اپنے خاوند اور گھر کے رازوں کی حفاظت کرے اور کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے خاوند کی عزت پر حرف آتا ہو.اسی طرح اُس کا واجب احترام کرے اور اس کی مطیع اور فرمانبردار ر ہے.یہی وہ امور ہیں جن سے وہ خاوند کے دل میں جگہ بنا سکتی ہے.اس بارے میں آنحضرت ﷺ کی احادیث پیش کی جاتی ہیں: ”حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کونسی عورت بطور رفیقہ حیات بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا وہ جس کی طرف دیکھنے سے طبیعت خوش ہو.مرد جس کام کے کرنے کیلئے کہے اُسے بجالائے اور جس بات کو اُس کا خاوند نا پسند کر اس سے بچے.(نسائی) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: خاوند کی موجودگی 151
میں اس کی اجازت کے بغیر عورت نفلی روزہ نہ رکھے اور نہ اُس کی اجازت کے بغیر کسی کو گھر کے اندر آنے دے.( بخاری ) ” جب خاوند اپنی بیوی کو بلائے اور عورت جانے سے انکار کر دے اور خاوند کو اپنی نافرمانی سے ناراض کر دے تو ساری رات فرشتے اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں.( بخاری ومسلم ) کوئی عورت اس وقت تک اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے والی نہیں سمجھی جاسکتی جب تک کہ وہ اپنے خاوند کا حق ادا نہیں کرتی.(ابن ماجہ ) حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : جو عورت اس حالت میں فوت ہوئی کہ اس کا خاوند اس سے خوش اور راضی ہے تو وہ جنت میں جائے گی.“ (ابن ماجہ ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: عورتوں میں ایک خراب عادت یہ بھی ہے کہ وہ بات بات میں مردوں کی نافرمانی کرتی ہیں اور ان کی اجازت کے بغیر ان کا مال خرچ کر دیتی ہیں اور ناراض ہونے کی حالت میں بہت کچھ برا بھلا اُن کے حق میں کہہ دیتی ہیں.ایسی عورتیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے نزدیک لعنتی ہیں.ان کا نماز روزہ اور کوئی عمل منظور نہیں.اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ کوئی عورت نیک نہیں ہو سکتی جب تک پوری پوری خاوند کی فرمانبرداری نہ کرے اور دلی محبت سے اس کی تعظیم بجانہ لائے اور پس پشت اس کے لئے اس کی خیر خواہ نہ ہو.اور پیغمبر خدا نے فرمایا ہے کہ عورتوں پر لازم ہے کہ اپنے مردوں کی تابعدار رہیں ورنہ ان کا کوئی عمل 152
منظور نہیں اور نیز فرمایا کہ اگر غیر خدا کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں حکم کرتا کہ عورتیں اپنے خاوندوں کو سجدہ کیا کریں.اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے حق میں کچھ بدزبانی کرتی ہے یا اہانت کی نظر سے اس کو دیکھتی ہے اور حکم ربانی سن کر بھی باز نہیں آتی تو وہ لعنتی ہے.خدا اور رسول اس سے ناراض ہیں.عورتوں کو چاہئے کہ اپنے خاوندوں کا مال نہ چراویں اور نامحرم سے اپنے تئیں بچائیں.اور یاد رکھنا چاہئے کہ بجز خاوند اور ایسے لوگوں کے جن کے ساتھ نکاح جائز نہیں اور جتنے مرد ہیں اس سے پردہ کرنا ضروری ہے.جو عورتیں نامحرم لوگوں سے پردہ نہیں کرتیں شیطان ان کے ساتھ ساتھ ہے.عورتوں پر یہ بھی لازم ہے کہ بدکار اور بد وضع عورتوں کو اپنے گھروں میں نہ آنے دیں اور نہ اُن کو اپنی خدمت میں رکھیں کیونکہ یہ سخت گناہ کی بات ہے کہ بدکار عورت نیک عورت کی ہم صحبت ہو.“ ( ملفوظات جلد ۹ صفحه ۴۴-۴۵) عورت پر اپنے خاوند کی فرمانبرداری فرض ہے.نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر عورت کو اس کا خاوند کہے کہ یہ ڈھیر اینٹوں کا اٹھا کر وہاں رکھ دے اور جب وہ عورت اس بڑے اینٹوں کے انبار کو دوسرے جگہ پر رکھ دے تو پھر اس کا خاوند اس کو کہے کہ پھر اس کو اصل جگہ پر رکھ دے تو اس عورت کو چاہئے کہ چون و چرا نہ وو کرے بلکہ اپنے خاوند کی فرمابرداری کرے.( ملفوظات جلد ۸ صفحه ۴۴۱ ) خاوندوں سے وہ تقاضے نہ کرو جو ان کی حیثیت سے باہر ہیں.کوشش کرو کہ تاتم معصوم اور پاکدامن ہونے کی حالت میں قبروں میں داخل ہو.خدا کے فرائض نماز زکوۃ وغیرہ میں سستی مت کرو.اپنے خاوندوں کی دل و جان سے مطیع رہو.153
بہت سا حصہ ان کی عزت کا تمہارے ہاتھ میں ہے.سو تم اپنی اس ذمہ داری کو ایسی عمدگی سے ادا کرو کہ خدا کے نزدیک صالحات قانتات میں گئی جاؤ.اسراف نہ کرو اور خاوندوں کے مالوں کو بے جا طور پر خرچ نہ کرو، خیانت نہ کرو، گلہ نہ کرو، ایک عورت دوسری عورت یا مرد پر بہتان نہ لگائے.“ ( روحانی خزائن جلد ۹ اصفحہ ۸۱ ) عورتوں کیلئے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر وہ اپنے خاوندوں کی اطاعت کریں گی تو خدا اُن کو ہر ایک بلا سے بچاوے گا اور اُن کی اولا د عمر والی ہوگی اور نیک بخت ہوگی.(تفسیر حضرت مسیح موعود سورۃ النساء جلد ۲ صفحہ ۲۳۷) خاوند کے والد سن سے حسن سلوک عائلی مسائل کی متعدد وجوہات میں سے ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بعض عورتیں اپنے خاوند کے والدین اور اُس کے دوسرے قریبی رشتہ داروں سے نیک سلوک نہیں کرتیں.اسلامی ضابطہ حیات میں گھر کے اخراجات پورا کرنے کی ذمہ داری مرد کی ہے.مرد کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ اگر اُس کے والدین ضرورتمند ہوں تو اُن کا بھی خیال رکھے.یہ ایسی بات ہے جو عام طور پر عورتیں برداشت نہیں کرتیں اور بہت سی تلخیاں محض اسی وجہ سے جنم لے کر گھر کے سکون کو برباد کر دیتی ہیں.اسی طرح خاوند کے رشتہ داروں کی گھر میں آمد پر ناک منہ چڑہاتی اور بات بات پر اپنی بیزاری کا اظہار کرتی ہیں.ہمارے ایک بزرگ کہا کرتے ہیں کہ جب ان کا کوئی اپنا آجائے (جو اکثر آتے رہتے ہیں ) تو بس کچھی جاتی ہیں لیکن ہمارا کوئی رشتہ دار اگر کبھی کبھار آ جائے تو سر باندھ لیتی اور بیمار پڑ جاتی ہیں.خاوند اگر اپنے والدین یا بھائی بہن سے کوئی نیک سلوک کر بیٹھے تو بعض عورتیں ایسا پھڑ ڈالتی ہیں جس کی تلخیاں مہینوں بلکہ سالوں دور نہیں ہوتیں.154
ایسی عورتوں کی نظر میں اُس کے ساس اور سسر ہمیشہ بُرے ہوتے ہیں.لیکن انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اُن کے ساس سسر خاوند کے ماں باپ ہوتے ہیں جو دُنیا میں سب سے پیارا رشتہ ہے.اُن کے بارے میں اگر کوئی عورت نا پسندیدہ بات منہ پر لاتی ہے تو یہ اپنے ہاتھ سے اپنے گھر میں آگ لگانے والی بات ہے.کوئی بھی مردایسی بات سے خوش نہیں ہوسکتا.اس لئے عورتوں کیلئے لازم ہے کہ اپنے خاوند کے والدین اور دوسرے قریبی رشتہ داروں سے نیک سلوک کریں بلکہ اگر خود خاوند اس بارہ میں کبھی ستی یا غفلت کرے تو اُسے یاد دہانی کرائیں.اس طرح وہ اپنے گھر کو خوشیوں سے بھر لیں گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: یہ مرض عورتوں میں بہت کثرت سے ہوا کرتا ہے کہ وہ ذرا سے بات پر بگڑ کر اپنے خاوند کو بہت کچھ بھلا بُرا کہتی ہیں بلکہ اپنی ساس اور سسر کو بھی سخت الفاظ سے یاد کرتی ہیں.حالانکہ وہ اس کے خاوند کے بھی قابلِ عزت بزرگ ہیں.وہ اس کو ایک معمولی بات سمجھ لیتی ہیں اور ان سے لڑنا وہ ایسا ہی سمجھتی ہیں جیسا کہ محلہ کی اور عورتوں سے جھگڑا.حالانکہ خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کی خدمت اور رضا جوئی ایک بہت بڑا فرض مقرر کیا ہے یہانتک کہ حکم ہے کہ اگر والدین کسی لڑکے کو مجبور کر دیں کہ وہ اپنی عورت کو طلاق دیدے تو اس لڑکے کو چاہئے کہ وہ طلاق دیدے.پس جبکہ ایک عورت کی ساس اور سر کے کہنے پر اس کو طلاق مل سکتی ہے تو اور کونسی بات رہ گئی ہے.اس لئے ہر ایک عورت کو چاہئے کہ ہر وقت اپنے خاوند اور اس کے والدین کی خدمت میں لگی رہے.اور دیکھو کہ عورت جو کہ اپنے خاوند کی خدمت کرتی ہے تو اس کا کچھ بدلہ بھی پاتی ہے.اگر وہ اس کی خدمت کرتی ہے....تو وہ 155
اس کی پرورش کرتا ہے مگر والدین تو اپنے بچہ سے کچھ نہیں لیتے.وہ تو اس کے پیدا ہونے سے لے کر اس کی جوانی تک اس کی خبر گیری کرتے ہیں اور بلا کسی اجر کے اس کی خدمت کرتے ہیں اور جب وہ جوان ہوتا ہے تو اس کا بیاہ کرتے اور اس کی آئندہ بہبودی کے لئے تجاویز سوچتے اور اس پر عمل کرتے ہیں اور پھر جب وہ کسی کام پر لگتا ہے اور اپنا بو جھ آپ اٹھانے اور آئندہ زمانہ کے لئے کسی کام کرنے کے قابل ہو جاتا ہے تو کس خیال سے اس کی بیوی اس کو اپنے ماں باپ سے جدا کرنا چاہتی ہے یا کسی ذرا سے بات پر سب وشتم پر اتر آتی ہے اور یہ ایک ایسا نا پسند فعل ہے جس کو خدا تعالیٰ اور مخلوق دونوں نا پسند کرتے ہیں.خدا تعالیٰ نے انسان پر دوذمہ داریاں مقرر کی ہیں.ایک حقوق اللہ اور ایک حقوق العباد.پھر اس کے دو حصے کئے ہیں.یعنی اول تو ماں باپ کی اطاعت اور فرماں برداری اور پھر دوسری مخلوق الہی کی بہبودی کا خیال.اور اسی طرح ایک عورت پر اپنے ماں باپ اور خاوند اور ساس سسر کی خدمت اور اطاعت.پس کیا بدقسمت ہے وہ جو ان لوگوں کی خدمت نہ کر کے حقوق العباد اور حقوق اللہ دونوں کی بجا آوری سے منہ موڑتی ہے.“ ( ملفوظات جلد ۹ صفحہ ۲۳۱.۲۳۲) تعد دازدواج تعد دازدواج پر راکھے کے فرائض میں اُن سے متعلقہ امور کے بارے میں تفصیل.روشنی ڈالی جا چکی ہے.یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو اپنی مخلوق کی تمام ضرورتوں اور حالات کا مکمل علم رکھنے والا ہے مرد کو شرعی ضرورت کے تحت بشرط عدل ایک سے زیادہ 156
شادیوں کی اجازت دی ہے.دیکھا گیا ہے کہ بعض عورتیں اور اُن کے رشتہ دار جائز ضرورت کے تحت بھی مرد کی دوسری شادی کی سخت مخالفت کرتے ہیں اور بسا اوقات یہ مخالفت ناچاقی کی صورت اختیار کر کے طلاق یا خلع تک نوبت جا پہنچتی ہے.ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس بارے میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہی الفاظ میں نصائح درج کر دی جائیں.آپ فرماتے ہیں: عورتوں میں یہ بھی ایک بد عادت ہوتی ہے کہ جب کسی عورت کا خاوند کسی اپنی مصلحت کیلئے دوسرا نکاح کرنا چاہتا ہے تو وہ عورت اور اس کے اقارب سخت ناراض ہوتے ہیں اور گالیاں دیتے اور شور مچاتے ہیں اور بندہ خدا کو ناحق ستاتے ہیں.ایسی عورتیں اور ان کے اقارب بھی نابکار اور خراب ہیں.کیونکہ اللہ جل شانہ نے اپنی حکمت کا ملہ سے جس میں صد با مصالح ہیں مردوں کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ اپنی کسی ضرورت یا مصلحت کے وقت چار تک بیویاں کر لیں.پھر جو شخص اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق کوئی نکاح کرتا ہے تو اس کو کیوں بُرا کہا جاوے.ایسی عورتیں اور ایسے ہی اس عادت والے اقارب جو خدا اور اس کے حکموں کا مقابلہ کرتے ہیں نہایت مردود اور شیطان کے بہن بھائی ہیں کیونکہ وہ خدا اور رسول کے فرمودہ سے منہ پھیر کر اپنے رب کریم سے لڑائی کرنا چاہتے ہیں.اور اگر کسی نیک دل مسلمان کے گھر میں ایسی بدذات بیوی ہو تو اُسے مناسب ہے کہ اس کو سزا دینے کیلئے دوسرا نکاح ضرور کرے.بعض جاہل مسلمان اپنے ناطہ رشتہ کے وقت یہ دیکھ لیتے ہیں کہ جس کے ساتھ اپنی لڑکی کا نکاح کرنا منظور ہے اس کی پہلی بیوی بھی ہے یا نہیں.پس اگر پہلی بیوی 157
موجود ہو تو ایسے شخص سے ہرگز نکاح کرنا نہیں چاہتے.سو یا د رکھنا چاہئے کہ ایسے لوگ بھی صرف نام کے مسلمان ہیں اور ایک طور سے وہ ان عورتوں کے مددگار ہیں جو اپنے خاوندوں کے دوسرے نکاح سے ناراض ہوتی ہیں.اُن کو خدا سے ڈرنا چاہئے.( ملفوظات جلده اصفحه ۴۵ - ۴۶) ” اور اسے عور تو.فکر نہ کرو جو تمہیں کتاب ملی ہے وہ انجیل کی طرح انسانی تصرف کی محتاج نہیں اور اس کتاب میں جیسے مردوں کے حقوق محفوظ ہیں عورتوں کے حقوق بھی محفوظ ہیں.اگر عورت مرد کے تعد دازدواج پر ناراض ہے تو وہ بذریعہ حاکم ضلع کراسکتی ہے.خدا کا یہ فرض تھا کہ مختلف صورتیں جو مسلمانوں میں پیش آنے والی تھیں اپنی شریعت میں اُن کا ذکر کر دیتا تا شریعت ناقص نہ رہتی.سو تم اے عورتو.اپنے خاوندوں کے ان ارادوں کے وقت کہ وہ دوسرا نکاح کرنا چاہتے ہیں خدا تعالیٰ کی شکایت مت کرو بلکہ تم دعا کرو کہ خدا تمہیں مصیبت اور ابتلا سے محفوظ رکھے.بے شک وہ مر دسخت ظالم اور قابل مواخذہ ہے جو دو جو روئیں کر کے انصاف نہیں کرتا مگر تم خدا کی نافرمانی کر کے مور د قہر الہی مت بنو.( کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۸۱) یتیم خاوند بعض مرد ایسے بھی ہوتے ہیں ( اور یورپ میں ان کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے ) جو اپنے اصل مقام سے ہٹ چکے ہوتے ہیں.کسی فطری کمزوری ، شرافت یا مخصوص حالات کی وجہ سے وہ قوام نہیں رہتے.گھر کا پورے کا پورا نظام عورت کے ہاتھ میں ہوتا ہے.نہ تو اُن 158
کی کوئی رائے ہوتی ہے اور نہ ہی فیصلے کا اختیار.اُنہیں اُن کی بیویاں اپنی مرضی کے مطابق چلا رہی ہوتی ہیں.ایسے لوگ اگر کوئی نوکری وغیرہ کرتے ہوں تو پوری کی پوری تنخواہ بیویاں وصول کر لیتی ہے اور اپنے ذاتی اخراجات کیلئے بھی وہ بیویوں سے مانگ کر رقم لیتے ہیں.اصل میں بیویوں نے انہیں کام کاج کرنے اور بازار سے سودا سلف اٹھا کر لانے کیلئے رکھا ہوتا ہے اور کرده و نا کردہ غلطیوں پر ڈانٹ بھی پلاتی رہتی ہیں.اصل میں ایسے مرد اپنی عورتوں کے گھروں میں یتیمی کی زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں.اس صورتِ حال کے نتیجے میں بعض مردوں میں تو مردانگی کی حس بالکل ہی مر جاتی ہے اور اُن کیلئے پھر اُس گھر میں رہنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی اور قطعاً کوئی دقت محسوس نہیں کرتے لیکن جن میں اس کی کچھ رمق باقی ہوتی ہے ان کیلئے گھر ایک عذاب بن جاتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ وقت باہر ہی کہیں گزار لیں.ایسے بیچارے مردوں کی عورتوں کو خدا کا خوف کرنا چاہئے اور یاد رکھنا چاہئے کہ اُن کے گھروں میں حقیقی خوشی کبھی نہیں آسکتی اور نہ بچوں کی تربیت اُس رنگ میں ہو سکتی ہے جیسی کہ ہونی چاہئے.اس کی وجہ یہ ہے کہ قوام اللہ تعالیٰ نے مرد کو بنایا ہے.وہی یہ کام کرے گا تو نتیجہ درست نکلے گا ورنہ کسی نہ کسی صورت میں ضرور فساد بر پار ہے گا.حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایسے مردوں کی عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: بعض مرد کہتے ہیں کہ ہمارا بھی تو ذکر کرو.ہم پر بھی تو ظلم ہوتا ہے اور ایسے بیچارے لوگ ہیں جو واقعہ گھر سے باہر زندگی زیادہ سے زیادہ کاٹتے ہیں کیونکہ گھر جانا ان کیلئے مصیبت بن جاتا ہے.اسی ضمن میں ایک لطیفہ بھی بیان ہوا ہے کہ ایک شخص اپنے دوست کو بتا رہا تھا کہ میرا کتنا کام ہے.اس نے کہا دیکھو تنے گھنٹے میں دفتر میں صرف کرتا ہوں، اتنے گھنٹے فلاں دوکان پر ملازمت کرتا 159
ہوں ، اتنے گھنٹے فلاں کام کرتا ہوں ، اتنے گھنٹے فلاں جگہ کام کرتا ہوں تو گھر کیلئے دو چار گھنٹے صرف بچتے تھے تو اس نے بڑے تعجب سے کہا کہ تمہیں آرام کا کوئی وقت نہیں ملتا ؟ اس نے کہا یہی تو آرام کا وقت ہے جو گھر سے باہر میں خرچ کرتا ہوں وقت.یہی تو میرے آرام کا وقت ہے.گھر تو ایک عذاب ہے.تو ایسے لوگ بھی ہیں بے چارے جن کی بیویاں ظالم ہوتی ہیں اور ان کیلئے گھر جانا ایک مصیبت بن جاتا ہے.ہمارے اپنے تجربے میں بھی ایسے بہت سے احباب ہیں جن کا یہی حال ہے بیچاروں کا.لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس میں عورت خوش کبھی نہیں رہتی.اس لئے یہ نصیحت میں خاوندوں کو کرنے کی بجائے عورتوں کو کر رہا ہوں.خاوند بیچارے تو بے اختیار ہیں.اب ان کے ہاتھ سے معاملہ آگے نکل گیا ہے ، کچھ بھی نہیں کر سکتے سوائے یتیمی کے رونے کے ان کے پلے کچھ نہیں رہا باقی.لیکن عورتوں کو خود اپنا محاسبہ کرنا چاہئے.میں نے گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے ایسی عورتیں کبھی خوش نہیں رہتیں.نہ ان کی اولادیں خوش رہ سکتی ہیں نہ اُن کی اولادوں کی تربیت ہو سکتی ہے کیونکہ خدا نے مرد کو قوام بنایا ہے.جس عورت کا مرد قوام نہ ہو وہ اس طرح اندرونی غصے نکالتی ہیں.تو عورتوں کو چاہئے کہ ہوش کریں اور ایسے لوگوں کی عزت کریں ، ان کے ساتھ عزت سے پیش آئیں ، اپنے گھر کو ان کیلئے جنت بنا ئیں.اگر وہ اپنے گھر کو خاوندوں کیلئے جنت بنائیں گی تو اُن کے پاؤں تلے اُن کے بچے بھی جنت حاصل کریں گے.اگر خاوندوں کیلئے وہ اپنے گھروں کو جنت نہیں بنائیں گی تو 160
ان کے پاؤں تلے سے بچوں کیلئے جہنم تو پیدا ہو سکتی ہے ، ان کو جنت نصیب نہیں ہو سکے گی.کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ان ماؤں کے بچے گستاخ ہو جاتے ہیں جن کی مائیں خاوند سے گستاخ ہوں.ان کے بچے صرف خاوند سے ہی گستاخ نہیں ہوتے بلکہ ماں سے بھی گستاخ ہو جایا کرتے ہیں.اس لئے یہ سوچ کر، غور کرنے کے بعد میں نے یہی سوچا ہے کہ ایسے خاوندوں بیچاروں کو تو میں نصیحت نہیں کر سکتا ، ان کا یتیم تو اب موت ہی دور کر سکتی ہے.عورتوں کو نصیحت کرنی چاہئے اور ان کی بھلائی میں ہے یہ بات.“ (الفضل انٹر نیشنل ۲۶ مارچ تا یکم اپریل ۱۹۹۹ء) برابر کا بدلہ مردوں کا عموماً دینی اور دنیاوی امور میں زیادہ کردار ہوتا ہے.سخت محنت اور مشقت اٹھا کر اپنے اہلِ خانہ کیلئے روزی کماتے ہیں اور دیکھا جائے تو دُنیا کا اکثر کارو بارا نہی کے گردگھومتا ہے.ضرورت پڑنے پر اپنے ملک وقوم اور دین کی خاطر جان تک دے دیتے ہیں.اسی طرح مال ، اوقات اور اپنی دیگر صلاحیتیوں کی قربانی بھی زیادہ پیش کرتے ہیں.اس لئے خیال گزرتا ہے کہ آخرت میں بدلہ بھی انہیں ہی زیادہ ملے گا.لیکن یہ خیال درست نہیں.وہ خدا جس کی انسان کے پاتال تک نظر ہے وہ انسان کے پورے حالات ، طاقتوں اور صلاحیتیوں کو دیکھ کر اجر دیتا ہے.روز قیامت فطرت کے مطابق سلوک ہوگا.کیفیت کو دیکھا جائے گا نہ کہ کمیت کو.اپنے حالات اور طاقتوں کے لحاظ سے جتنا کام بھی عورتیں کرتی ہیں وہ نتیجہ کے لحاظ سے مردوں کے برابر ہو جاتا ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ ایک غریب بڑھیا دو آنے چندہ دے کر ایک امیر 161
اور صاحبِ حیثیت کے سوروپے کے برابر اجر حاصل کر لیتی ہے.اللہ تعالیٰ کے نزدیک اجر کے لحاظ سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں.عورتیں بظاہر کم اور آسان کام کر کے بھی وہی اجر پا لیتی ہیں جو مر دوں کو ملتا ہے اور جنت میں مردوزن ایک ساتھ ہونگے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّلِحَتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا ( النساء ۱۲۵) ترجمہ : ” اور مردوں میں سے یا عورتوں میں سے جو نیک اعمال بجالائے اور وہ مومن ہو تو یہی وہ لوگ ہیں جو جنت میں داخل ہونگے اور وہ کھجور کی گٹھلی کے سوراخ کے برابر بھی ظلم نہیں کئے جائیں گے.“ ایک حدیث بھی اس موضوع پر روشنی ڈالتی ہے جو ذیل میں پیش کی جاتی ہے: ایک دفعہ اسماء بنت یزید انصاری آنحضرت ﷺ کی خدمت میں عورتوں کی نمائندہ بن کر آئیں اور عرض کیا حضور میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں میں عورتوں کی طرف سے حضور کی خدمت میں حاضر ہوئی ہوں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو مر دوں اور عورتوں سب کی طرف مبعوث فرمایا ہے.ہم عورتیں گھروں میں بند ہو کر رہ گئی ہیں اور مردوں کو یہ فضیلت اور موقعہ ہے کہ وہ نماز با جماعت، جمعہ اور دوسرے مواقع اجتماع میں شامل ہوتے ہیں، نماز جنازہ پڑھتے ہیں ، حج کے بعد حج کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور جب آپ میں سے کوئی حج ، عمرہ یا جہاد کی غرض سے جاتا ہے تو ہم عورتیں آپ کی اولاد اور آپ کے اموال کی حفاظت کرتی ہیں اور سوت کات کر آپ کے کپڑے بنتی ہیں، آپ کے بچوں کی دیکھ بھال اور انکی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بھی سنبھالے 162
ہوئے ہیں.کیا مردوں کے ساتھ ہم ثواب میں برابر کی شریک ہوسکتی ہیں جبکہ مرد اپنا فرض ادا کرتے ہیں اور ہم اپنی ذمہ داری نبھاتی ہیں؟ حضور اسماء کی یہ باتیں سن کر صحابہ کی طرف مڑے اور انہیں مخاطب کر کے فرمایا کہ اس عورت سے زیادہ عمدگی کے ساتھ کوئی عورت اپنے مسئلہ کو پیش کرسکتی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا حضور ہمیں تو گمان بھی نہیں تھا کہ کوئی عورت اتنی عمدگی کے ساتھ اور اتنے اچھے پیرا یہ میں اپنا مقدمہ پیش کر سکتی ہے.پھر آپ اسماء کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : اے خاتون ( محترم ) اچھی طرح سمجھ لو اور جن کی تم نمائندہ بن کر آئی ہو اُن کو جا کر بتا دو کہ خاوند کے گھر کی عمدگی کے ساتھ دیکھ بھال کرنے والی اور اُسے اچھی طرح سنبھالنے والی عورت کو وہی ثواب اور اجر ملے گا جو ا سکے خاوند کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے پر ملتا ہے.(اسدالغابہ بحوالہ حدیقۃ الصالحین صفحه ۳۰۴-۴۰۴) ایک ماں کی نصیحت دراصل یہ ایسی نصائح ہیں جن سے ہر عورت کا آگاہ ہونا ضروری ہے اور پھر بطور ماں اُس کا فرض ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کے کانوں میں اللہ اور رسول کے یہ احکامات ڈالتی رہے.یورپین عیسائی یا مشرک عورتوں کی دیکھا دیکھی کئی مسلمان عورتیں بھی اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرتی ہیں اور پھر اس کا وہی نتیجہ نکلتا ہے جو اُن کے حق میں نکل رہا ہے.یادرکھنا چاہئے کہ جوطرز زندگی اپنانے کا خدا اور اُس کے رسول ﷺ نے حکم دیا ہے اسی میں ہی خیر اور بھلائی ہے.حضرت اماں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ رضی اللہ عنھا نے اپنی بیٹی حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کو ان کی 163
شادی کے موقع پر جو نصائح فرمائیں کاش ہر ماں اپنی بیٹی کو کرنے والی بن جائے.آپ نے فرمایا: اپنے شوہر سے پوشیدہ یا وہ کام جس کو ان سے چھپانے کی ضرورت سمجھو ہرگز کبھی نہ کرنا.شوہر نہ دیکھے مگر خدا دیکھتا ہے اور بات آخر ظاہر ہو کر عورت کی وقعت کو کھو دیتی ہے.اگر کوئی کام اُن کی مرضی کے خلاف سر زد ہو جائے تو ہرگز کبھی نہ چھپانا، صاف کہہ دینا کیونکہ اس میں عزت ہے اور چھپانے میں آخر بے عزتی اور بے وقری کا سامنا ہے.کبھی ان کے غصے کے وقت نہ بولنا.تم پر یاکسی نوکر یا بچہ پر خفا ہوں اور تم کو معلوم ہو کہ اس وقت یہ حق پر نہیں ہیں جب بھی اس وقت نہ بولنا.غصہ تم جانے پر پھر آہستگی سے حق بات اور ان کا غلطی پر ہونا ان کو سمجھا دینا.غصے میں مرد سے بحث کرنے والی عورت کی عزت باقی نہیں رہتی.اگر غصے میں کچھ سخت کہہ دیں تو کتنی ہتک کا موجب ہو.☆ ان کے عزیزوں کو ، عزیزوں کی اولا د کو اپنے جاننا.کسی کی برائی تم نہ سوچنا خواہ تم سے کوئی برائی کرے.تم دل میں بھی سب کا بھلا ہی چاہنا اور عمل سے بھی بدی کا بدلہ نہ کرنا.دیکھنا پھر ہمیشہ خدا تمہارا بھلا کرے گا.(سیرت و سوانح حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ مرتبہ پروفیسر سیده نیم سعید صفحه ۱۰۹) 164
چادر (خاکسار کا یہ مضمون اخبار الفضل انٹرنیشنل کے ۱۸ تا ۲۴ /اگست ۲۰۰۶ء کے شمارہ میں شائع ہوا تھا جسے کتاب کے مضامین سے تعلق کی وجہ سے شامل کتاب کر دیا گیا ہے ) 66 ایک چادر تو وہ ہوتی ہے جس کے مطابق دانشمند لوگ پاؤں پھیلاتے ہیں جبکہ ایک کا تعلق چار دیواری سے بیان کیا جاتا ہے.ایک چادر وہ ہے جو مسلمان خواتین پردے کی خاطر سر پر اوڑھتی ہیں.کہنے کو تو دوپٹہ بھی سر پر ہی اوڑھا جاتا ہے اور آجکل سکارف بھی کسی حد تک اسی کام آنے لگا ہے لیکن یہ دونوں اس اعلیٰ مقصد کیلئے ہرگز مفید نہیں جو چادر سے حاصل ہوسکتا ہے.دو پٹہ باریک کپڑے کی ایک چھوٹی اور ہلکی اوڑھنی ہوا کرتی تھی جو خواتین عموماً گھر کے اندر استعمال کیا کرتی تھیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس نے ایک لیر “ کی شکل اختیار کر لی ہے اور جس طریق سے یہ آجکل استعمال ہوتی ہے اُس کا تعلق زیب و زینت سے ہے نا کہ پردے سے.چادر جو آج بھی کہیں کہیں اوڑھنی کے طور پر استعمال ہوتی ہے اُس کی تو بات ہی اور ہے.یہ ناصرف سردی گرمی کے مضر اثرات سے جسم کی حفاظت کرتی ہے بلکہ پردے کے تمام تقاضے بھی پورے کرتی ہے.اسی طرح جسم کی حفاظت کے ساتھ ساتھ عصمت کی حفاظت کیلئے یہ ایک اعلیٰ درجے کی تدبیر بھی ہے.ہر زبان میں بعض اشیاء اپنی مخصوص خصوصیات کی وجہ سے ایک خاص مفہوم کی ادائیگی کیلئے بطور اصطلاح استعمال ہونے لگتی ہیں.مثال کے طور پر چھتری ، سایہ، اور چھت وغیرہ حفاظت مہیا کرنے کا مفہوم ادا کرتے ہیں.اسی طرح چادر کا لفظ بھی اسی مفہوم کی ادائیگی کیلئے 165
استعمال کیا جاتا ہے.علم تعبیر الرویا کے مطابق اگر کوئی عورت خواب میں چادر دیکھے تو اس سے مراد اُس کا خاوند ہوتا ہے.پھر جس حالت میں اور جیسی چادر اس نے دیکھی ہوگی اُسی کے مطابق خواب کی تعبیر ہوگی.ہمارا ایمان ہے کہ سچی خوا ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغامات ہوتے ہیں اور حدیث میں انہیں نبوت کا چالیسواں حصہ قرار دیا گیا ہے.لہذا ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ بھی اشارات کی زبان میں خاوند کے حوالے سے کسی خاتون کو پیغام دینے کیلئے چادر کو استعمال کرتا ہے.پس اس پہلو سے ہر بیوی کیلئے اُس کا خاوند بھی ایک چادر ہے جو اُس کی حفاظت کیلئے ہے.چادر اور چاردیواری کے اندر رہنے کی بات ہو یا سردی سے بچنے کیلئے چادر کی بکل مارنے کا ذکر ہو یا پھر خواتین کا اپنی زیتوں کے چھپانے کیلئے چادر کا اوڑھنی کے طور پر استعمال ہو، ان تمام مواقع میں ایک بات بہر حال مشترک ہے اور وہ ہے حفاظت جس کیلئے چادر کا استعمال کیا جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بھی عورت کیلئے اُس کے خاوند کو چا در قرار دیا ہے جو یقیناً اُس کی حفاظت کیلئے ہے.ایک وقت تھا کہ چادر کا استعمال بڑا عام تھا.قرآن شریف و حدیث میں تو پردے کے تفصیلی احکامات پائے جاتے ہیں.اس لئے دُنیا بھر میں مسلمان خواتین تو بطورِ خاص پردے کی غرض سے چادر کا استعمال کرتی ہیں.بائیبل میں بھی خواتین کیلئے کم از کم سر ڈھانکنے کا ارشاد تو.موجود ہے چنانچہ لکھا ہے: اگر عورت اوڑھنی نہ اوڑھے تو بال بھی کٹائے.اگر عورت کا بال کٹانا شرم کی بات ہے تو اوڑھنی اوڑھے“ (۱.کرنتھیوں باب ۱۱) ایک تو اس وجہ سے اور دوسرے فطری شرم و حیا کی وجہ سے یورپ میں بھی عیسائی خواتین اپنی زمینوں کو چھپایا کرتیں اور سروں پر اوڑھنی لیا کرتی تھیں.بُرا ہو مادہ پرستی کا کہ اس نے 166
آہستہ آہستہ جہاں دیگر کئی اچھی اقدار کو معاشرے سے مٹا ڈالا ہے یہاں کی عورتوں کے سروں سے اوڑھنیاں بھی اتار لی ہیں.یہ چادریں، یہ اوڑھنیاں تو شرم و حیا کی قوتوں کی تقویت اور عصمت کی حفاظت کیلئے ایک قسم کا حصار تھیں.جب یہ اتریں تو ظاہر ہے شرم و حیا بھی رخصت ہوئی اور عصمت کی حفاظت کا احساس بھی مٹ گیا.صرف ایک ظاہری چادر ان عورتوں نے اتاری تھی.اس کا نتیجہ کتنا بھیا نک نکلا ہے.خاوند جنہیں خدا نے عورت کیلئے چادر قرار دیا ہے اُن سے بھی یہ عورتیں مستغنی ہو گئیں.کون خاوند اور کس کا خاوند، کون بیوی اور کس کی بیوی ؟ جس رفتار سے جنسی ہوس پرستی کا عفریت یہاں کی اخلاقی اور مذہبی اقدار کو نگل رہا ہے ڈر ہے کہ ان اقوام سے خاوند بیوی کا بندھن ہی کلیۂ ختم نہ ہو جائے.میاں بیوی کے رشتوں اور عائلی زندگی کی جو بد ترین صورتِ حال آج اس معاشرے کی ہو چکی ہے محتاج بیان نہیں.یہ یورپ کا بہت بڑا المیہ ہے.یہ ایک حقیقت ہے کہ عورت کو اپنی حفاظت کیلئے ایک چادر کی جیسے پہلے ضرورت تھی آج بھی اُسی طرح ہے بلکہ اُس سے کہیں بڑھ کر.اس سے مستغنی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خود اپنے ہاتھوں اپنی حفاظت کا انتظام ختم کر دیا جائے.یہ درست ہے کہ جس طرح خاوند اپنی بیوی کیلئے ایک چادر ہے اُسی طرح بیوی بھی اپنے خاوند کیلئے یقیناً ایک چادر ہے اور دونوں ایکدوسرے کی حفاظت کرتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک نے دونوں کو ایک دوسرے کیلئے لباس قرار دیا ہے جیسا کہ فرمایا: هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ (البقرہ آیت ۱۸۸) لیکن اس حقیقت سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ عصمت اور عائلی زندگی کی حفاظت کے حوالے سے جس طرح ظاہری چادر کا تعلق مرد کی نسبت عورت سے زیادہ ہے اسی طرح معنوی لحاظ سے بھی اس کا تعلق عورت سے ہی زیادہ بنتا ہے.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ پردے کی غرض سے اپنی زمینوں کو چھپانے 167
کا جس رنگ میں عورت کیلئے حکم ہے اُس طرح مرد کیلئے نہیں.یعنی عورت کو اُس کی صنف کے بعض مخصوص تقاضوں کی وجہ سے ظاہری چادر کے استعمال کی زیادہ ضرورت ہے اور اگر وہ اسے استعمال نہیں کرے گی تو اُسے نقصان کا زیادہ خطرہ ہے.چادر کے معنوی لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو خاوند کے بغیر ایک عورت کو نسبتاً زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اُسے زیادہ خطرات درپیش ہو سکتے ہیں.علیحدگی کی صورت میں چھوٹے بچے عموما ماں کے پاس رہتے ہیں اور اُس اکیلی کو اُن کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے مسائل کو بھگتنا پڑتا ہے.یہاں یورپ کے آزاد معاشرے میں بھی جو عورتیں خاوندوں کے بغیر رہتی ہیں اُنکی گھریلو زندگی کا اگر انسان بغور مطالعہ کرے تو یہ سمجھنا ہر گز مشکل نہیں ہوتا کہ وہ طرح طرح کے مسائل میں الجھی ہوئی اور ہمیشہ پریشان رہتی ہیں.گھر کی حفاظت کے حوالے سے مشرق میں ایک ضرب المثل آج بھی مشہور ہے کہ دروازے کے باہر پڑی ہوئی مرد کی تو جوتی بھی کافی ہوتی ہے.یہ تو درست ہے کہ یورپ کی ان عورتوں کیلئے ادھر ادھر سے چادر میں پکڑ کر وقتی ضرورت پوری کرنے میں کوئی روک نہیں لیکن یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ اپنی چادر اپنی ہی ہوتی ہے.اس وقتی ضرورت کے علاوہ بھی تو روز مرہ معاشرتی زندگی میں بے شمار ایسے مواقع آتے ہیں کہ ایک عورت کو مرد کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ اکیلی اُس صورتِ حال سے نہیں نپٹ سکتی.بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے مسئلے سے ہی اکیلی عورت کا صحیح معنوں میں عہدہ برآ ہونا مشکل ہو جاتا ہے.اس قسم کے بیسیوں مسائل سے نپٹنے کیلئے ایک عورت کو اپنی ایک مستقل چادر کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ چادر اُس کا خاوند ہے.اگر چہ غیر مسلم عورتوں کو اس معاشرے میں عارضی چادریں تو ہر وقت میسر ہیں اور وہ چاہیں تو دن میں دو دو بھی تبدیل کر سکتی ہیں.لیکن اپنی چادر اتار پھینکنے کے بعد دوسری مستقل چادر کا حصول ان کیلئے بھی کوئی آسان کام نہیں.168
مندرجہ بالا صورتِ حال کے پیش نظر مسلمان خواتین کا ان غیر مسلم عورتوں کی ریس کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.حضرت مصلح موعودؓ نے گلستان مصطفوی ﷺ سے چن چن کر اوڑھنی والیوں کیلئے پھول پیش کئے ہیں.ہماری خواتین کو چاہئے کہ ان پھولوں کے گلدستوں سے اپنے آنگنوں کو سجائیں اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ اُن کا تو جہان ہی ان لوگوں سے بالکل الگ ہے.آسمان الگ ، زمین الگ ، شرم و حیا کے معیار الگ ، عصمت و پاکدامنی کے تصورات الگ.انہیں تو بہت سوچ سمجھ کر اپنی چادر اتارنی چاہئے کیونکہ ان کیلئے عارضی چادروں کا تو سوال ہی نہیں ، مستقل چادر میں بھی بعد میں ملنی اگر نا ممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہو جاتی ہیں.یادرکھیں سوشل امداد، خاوند کا بدل ہر گز نہیں ہوسکتی.اس لئے خیر اسی میں ہے کہ ذرا ذراسی بات پر بگڑ کر چادریں اتار پھینکنے کا ہر گز نہ سوچیں بلکہ جہاں تک ممکن ہو سکے اپنی اپنی چادروں سے مزین رہیں.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.169
کریں.نہ کریں گھر کے نگران کے بعض فرائض اور حقوق قرآن وحدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت کے ارشادات کی روشنی میں پیش کئے جاچکے ہیں.روزمرہ گھر یلو زندگی میں میاں بیوی کو بیسیوں قسم کے حالات سے واسطہ پڑتا ہے جن میں بے احتیاطی اور نادرست رد عمل کے نتیجے میں تلخیاں جنم لے کر گھر کی خوشیوں کو چاٹ جاتی ہیں.ذیل میں کر یں.نہ کریں کی طرز پر چند ایسے مشورہ جات اور تجاویز پیش کی جارہی ہیں جن کی بنیاد بھی دراصل سنتِ ابرار پر ہی ہے.اگر ان کے مطابق عمل کیا جائے تو امید کی جاتی ہے کہ انشاء اللہ گھر کے ماحول کو پُر امن اور خوشگوار بنانے میں ضرور مدد ملے گی.کریں خاوند کیلئے آپ کا سلوک ایسا ہو کہ اہلِ خانہ آپ کو ایک شفیق اور مہربان نگران تصورکریں نہ کہ سخت گیر حاکم.گھر اور کام کے اوقات میں توازن رکھیں.ملازمت یا دیگر سماجی و جماعتی مصروفیات کو اس طرح ترتیب دیں کہ گھر کیلئے بھی مناسب وقت نکل سکے.170
گھر میں آئیں تو بھر پور انداز میں سلام کہیں.بیوی اور دیگر اہل خانہ کی خیریت دریافت کریں.اپنے پروگراموں سے اپنی اہلیہ کو آگا ہ رکھیں.- گھر سے باہر جائیں تو بیوی کے علم میں ضرور لائیں کہ آپ کہاں جا رہے ہیں.غیر معمولی دیر ہونے کی صورت میں گھر پر اطلاع کر دیں..زیادہ دنوں کیلئے گھر سے باہر رہنے کی صورت میں ٹیلیفون پر رابطہ رکھیں اور اہلِ خانہ کی خیریت دریافت کرتے رہیں.ے.بیوی کی خوبیوں کا ذکر کریں، اکیلے میں اور دوسروں کے سامنے بھی.مثلاً کھانے، لباس، صفائی ، بچت کی عادت ، مہمان نوازی ، بچوں کی نگہداشت، سچ کی عادت وغیرہ باتوں کی ضرور تعریف کیا کریں.و.ا.بیوی کی پسند کی کوئی نہ کوئی چیز از خود خرید کر اسے تحفہ میں دیتے رہیں.بیوی کے والدین، رشتہ داروں اور قریبی سہیلیوں کو اہم تقاریب کے مواقع پر یاد اُن کا واجبی احترام کریں اور اُن سے محبت سے پیش آئیں..گاہے بگا ہے پکنک وغیرہ کے پروگرام بناتے رہیں.اگر توفیق ہو تو کبھی کبھی گھر سے باہر کسی ہوٹل میں اکٹھے کھانا کھا ئیں اور بطور خاص بیوی کی پسند کی ڈش منگوا ئیں.ا.وقتا فوقتا بیوی کے ساتھ سیر اور چہل قدمی کیلئے وقت نکالا کریں.۱۲.جہاں تک ممکن ہو گھر کے کام کاج میں بیوی کی مددکریں.۱۳.اپنے چھوٹے موٹے کام خود بھی کر لیا کریں.مثلاً بستر درست کر دیں.دھونے والے کپڑے اور جرا ہیں وغیرہ یونہی ادھر ادھر پھینکنے کی بجائے مقررہ جگہ پر رکھ دیں.نہانے اور شیو 171
کرنے کے بعد ہاتھ اور متعلقہ اشیاء صاف کر دیں.کبھی اپنے کپڑے خود بھی استری کر لیا کریں.۱۴.کبھی کبھی چائے بنا کر بیوی کو پیش کریں اور اُس کے ساتھ بیٹھ کر پئیں.۱۵.بیوی کی بیماری کی صورت میں پوری توجہ سے اُس کا علاج کروائیں اور صحت بحال ہونے تک اُسے آرام پہنچائیں اور امورِ خانہ داری سے ممکنہ حد تک اُسے فارغ رکھنے کی کوشش کریں..اگر آپ محسوس کریں کہ بیوی غیر معمولی کام کاج کی وجہ سے تھک گئی ہے یا وہ خود ہی اس بات کا اظہار کرے تو اُس سے ہمدردی کا اظہار کریں، حوصلہ افزائی کریں اور اُسے آرام پہنچائیں.۱۷.کسی دعوت یا پروگرام پر جانے یا کسی کو اپنے گھر پر بلانے کے دن اور وقت سے بیوی کو بر وقت مطلع کریں.جہاں ممکن ہو ایسے پروگرام اُس کے مشورے سے بنا ئیں.۱۸.بیوی سے کوئی شکایت ہو تو کسی تیسرے شخص سے بات کرنے کی بجائے جتنی جلدی ممکن ہو خود اُس سے بات کریں تا ایسا نہ ہو کہ شکایت سے غلط انہی پیدا ہو کر تلخی کا باعث بن جائے.وا.خود اپنے سے غلطی ہو جائے تو واضح طور پر اُس کا اعتراف کر لیں اور بیوی سے معذرت کر لیں.۲۰.اخراجات کے بارے میں بیوی پر اعتما ذکر میں گھر کی سجاوٹ یا فرنیچر وغیرہ کی خریداری وغیرہ امور میں بیوی کی پسند کا خیال رکھیں.۲۲.گاہے بگا ہے بیوی اور اگر بچے شعور کی عمر کو پہنچ چکے ہیں تو انہیں بھی شامل کر کے مل بیٹھا کریں اور گھریلو مسائل پر تبادلہ خیال کیا کریں.۲۳.بیوی یا گھر کا کوئی دوسرا فرد بات کرے تو اُس کی طرف پوری طرح متوجہ ہوں اور اُس کی طرف دیکھ کر اُس کی بات سنیں ، اُسے اہمیت دیں اور اُسے مناسب رنگ میں جواب دیں.۲۴.اچھے اور نیک خاندانوں سے روابط رکھیں.172
۲۵.گھر میں ضرور کچھ اصول مقرر کریں اور پھر خود بھی اُن کی پابندی کریں اور اہلِ خانہ سے بھی کروائیں.۲۶.جماعتی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لیں.۲۷.رزق حلال کمائیں.۲۸.بچوں کی عزت کریں.۲۹.بچوں کی عمر کے مطابق اُن سے کھیلا کریں.۳۰.مناسب مزاح اور لطائف سے گھریلو ماحول کو خوشگوار بنائیں.۳۱.بچوں کی تعلیم میں ذاتی دلچسپی کے ساتھ فعال کردار ادا کریں.۳۲.بیٹوں کا مربیانِ سلسلہ سے ذاتی تعلق قائم کروا ئیں.۳۳.شادی کے بعد بیٹوں کی رہائش علیحدہ مکان میں کرنے کا انتظام کریں.۳۴.ٹی وی اور انٹرنیٹ کے مفید استعمال کیلئے مناسب نگرانی رکھیں.۳۵.اپنی پسند نا پسند سے وضاحت کے ساتھ بیوی کو مطلع کریں.۳۶.بیوی کا حق مہر جلد ادا کر دیں.۳۷.بیوی سے گاہے بگا ہے پوچھ لیا کریں کہ آیا اُسے آپ سے کوئی شکایت تو نہیں.۳۹.نمازوں کی خود بھی پابندی کریں اور اہلِ خانہ سے بھی کروائیں.۳۹.قرآنی دعارَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا...کثرت سے پڑھتے رہا کریں.نہ کریں ۲.آپ گھر کے نگران اور محافظ ہیں.خود کو اس مقام سے کبھی نہ گرائیں.بیوی کے سامنے کسی بھی عورت کی تعریف اس انداز میں نہ کریں کہ اُس میں تو فلاں خوبی ہے جو تم میں نہیں.173
.کھانا پسند نہ ہو یا کوئی کمی بیشی ہوگئی ہو تو اُس وقت کچھ نہ کہیں اور نہ ہی ناپسندیدگی کا اظہار کریں.بس کھا لیں یا اگر دل نہیں چاہتا تو ہاتھ کھینچ لیں اور بعد میں مناسب رنگ میں اپنی پسند یا کمی بیشی کا ذکر کر دیں کہ اکثر تو ٹھیک ہی پکتا ہے لیکن آج مجھے ایسا محسوس ہوا ہے.۴.بیوی کی خامیوں کے اظہار سے اجتناب کریں، خاص طور پر دوسروں کے سامنے تو ہرگز ذکر نہ کریں.مناسب اور تعمیری رنگ میں توجہ دلائیں.۵..باورچی خانے کے امور میں خواہ مخواہ دخل دینے سے اجتناب کریں.بیوی کو زبردستی اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش نہ کریں بلکہ دلیل اور اپنے عملی نیک نمو نے سے سمجھا ئیں.و..معمولی باتوں پر چڑنے ، ناک منہ چڑہانے ، اور ”ٹو کاٹا کی“ سے پر ہیز کریں.خشک مزاجی سے مکمل اجتناب کریں.بیوی پر گر جنے برسنے اور بد زبانی سے کلینتا اجتناب کریں..بیوی کے اپنے والدین اور رحمی رشتہ داروں سے ملنے جلنے پر ہرگز پابندی نہ لگا ئیں..ماں باپ کی خدمت اور نیک سلوک سے کبھی غفلت نہ کریں.۱۲.بیٹیوں اور بیٹوں کی تعلیم و تربیت میں کسی قسم کا فرق نہ کریں لیکن بیٹیوں کی اضافی حفاظت ضرور مد نظر رکھیں.۱۳.بچوں کی تعلیم و تربیت سے یہ سمجھ کر غفلت نہ برتیں کہ یہ صرف ماں کی ذمہ داری ہے.۱۴.بچوں کی تعلیم و تربیت اور صحت پر خرچ کرنے میں ہرگز بخل نہ کریں.۱۵.بیوی پر قطعی طور پر ہاتھ نہ اٹھا ئیں کہ یہ شرفاء کا طریق نہیں.174
۱.نظام جماعت اور عہدیداران کے بارے میں منفی گفتگو سے اجتناب کریں.۱۷.کسی بھی صورت میں نظام جماعت سے پیوند نہ توڑیں.۱.حتی الوسع طلاق سے بچیں.کریں ا.بیوی کیلئے مر دکو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام قرآن شریف میں گھر کا نگران مقرر فر مایا ہے.اس حکم الہی کو دل و جان سے قبول کریں.۲.لد.خاوند کو مشورہ تو دیں لیکن حتمی فیصلہ اُسی پر چھوڑ دیں.گھر ، بچوں اور خود اپنے آپ کو صاف ستھرار رکھنے کی کوشش کریں.گھر کی اشیاء سلیقے اور ترتیب سے اپنی اپنی جگہ رکھا کریں.اخراجات آمد کے مطابق رکھیں.مہمان نوازی نہایت اعلیٰ خلق ہے.مہمانوں کی آمد پر خوش ہوں.اُن کا اکرام اور خدمت کریں.ے._^ و.اپنے یا خاوند کے والدین اور رشتہ داروں پر خاوند کے مشورے سے خرچ کریں.خاوند کی ضروریات اور پسند نا پسند کا لبطورِ خاص خیال رکھیں.اکثر و بیشتر خاوند کی پسند کا کھانا پکاتی رہیں.۱۰.گھر میں ایسا اصول بنا ئیں کہ حتی الوسع تمام اہلِ خانہ اکٹھے کھانا کھا ئیں.خاوند کے والدین اور رشتہ داروں کا ذکر ہمیشہ احترام سے کریں.175
۱۲.خاوند کے والدین اور رشتہ دار آپ کے گھر آئیں تو خوش کا اظہار کریں اور اُن کی مناسب خدمت کریں.۱۳.اگر خاوند کی کوئی عادت ناپسند ہے تو اُس سے پیار اور حکمت سے بات کریں.۱۴.معمول کے اخراجات میں سے پس انداز کرنے کی کوشش کریں اور پھر کسی ضرورت کے وقت یہ رقم نکال کر خاوند کے سامنے پیش کر دیں.اعتماد کے قیام کا یہ بہترین نسخہ ہے.۱۵.گھر میں بھی باحیا اور مکمل لباس پہنیں.۱۶.اسلامی پردہ کی پابندی میں اپنی بیٹیوں کیلئے نمونہ بنیں.۱۷.اچھی اور نیک خواتین سے روابط رکھیں.۱۸.نامحرم مردوں سے باوقار اور مضبوط لہجے میں مختصر بات کریں.۱۹.اگر آپ بہو ہیں تو ساس کو ماں کی طرح اور اگر ساس ہیں تو بہو کو بیٹی کی طرح سمجھیں.غلطی ہو جائے تو صاف بتادیں اور خاوند سے معذرت کر لیں.۲۰.غیر معمولی کام کی وجہ سے خاوند تھکا ہوا ہو تو اُسے دبادیں.بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی بنیادی دینی تعلیم ، اچھے کلمات اور ضروری آداب سکھائیں.۲۳.بیٹیوں کی شادی سے پہلے پہلے اُنہیں درست تلفظ کے ساتھ قرآنِ کریم پڑھنا ضرور سکھا دیں.۲۴.بیٹیوں کو چھوٹی عمر سے ہی امور خانہ داری میں ہاتھ بٹانا سکھائیں.۲۵.بیٹیوں کا جماعت کی بزرگ خواتین سے ذاتی تعلق قائم کرائیں.۲۶.بیٹوں اور بیٹیوں سے مساوی سلوک روارکھیں.۲۷.بیٹوں کو اپنی بہنوں سے محبت اور حسن سلوک سے پیش آنا سکھا ئیں.176
۲۸.نمازوں کی پابندی کریں.۲۹.روزانہ با قاعدگی سے اور با ترتیب قرآن پاک کی تلاوت کریں.۳۰.گھر میں خاوند کی خاطر زینت اختیار کریں.۳۱.خاوند کا احترام کریں اور اُس کی مطیع اور فرمانبردار ہیں.نہ کریں ا.۲..۴.۵.خاوند سے کچھ نہ چھپا ئیں.کسی وقت اگر کوئی تکلیف پہنچے تو یوں نہ کہیں کہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے.بلاضرورت اور بغیر کسی خاص مجبوری کے ملازمت نہ کریں.بھول کر بھی خاوند کے والدین کے بارے میں کوئی ناپسندیدہ کلمہ نہ کہیں.خاوند سے معمولی معمولی اختلافات اپنے میکے میں کسی کو نہ بتا ئیں بلکہ انہیں ادھر ہی دور کرنے کی کوشش کریں..ے.و.خاوند اور سسرال کے خلاف کبھی کوئی بات کسی دوسری عورت سے نہ کریں.دوسروں کے گھر اور حالات سے اپنا مقابلہ نہ کریں.بیٹیوں کو محلے کے لڑکوں سے نہ کھیلنے دیں.بچوں کو دوسروں سے چیزیں مانگنے کی عادت نہ ڈالیں.۱۰.خصوصاً بچوں کے سامنے کسی بات پر خاوند سے تکرار نہ کریں.-11 ۱۲.کوئی بھی اہم کام خاوند کے علم میں لائے بغیر ہرگز نہ کریں.خاوند کے کرنے کے کاموں میں بے جا دخل اندازی نہ کریں.۱۳.خاوند گھر میں موجود ہو تو بلا اشد ضرورت گھر سے باہر نہ جائیں.177
۱۴.۱۵.۱۶.نامحرم کو بغیر خاوند کی اجازت کے گھر میں نہ آنے دیں.بازار وغیرہ جاتے وقت بے جازیب وزینت نہ کریں.خلع میں جلدی نہ کریں.178
حرف آخر مرد اپنی مخصوص صلاحیتوں کی وجہ سے گھر کے نگران بنائے گئے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بہت سے مرد اپنے اس مقام کا صیح اور اک نہیں رکھتے.بعض ایسے ہیں جو اپنے آپ کو ایک حاکم سمجھتے ہیں اور گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ اُن کا رویہ بھی تحکمانہ ہوتا ہے.اگر کوئی مرد کسی محکمے میں اعلیٰ افسر ہو جس کے ماتحت ایک معقول تعداد کام کرنے والوں کی ہو تو وہ گھر میں بھی افسرانہ لب و لہجہ استعمال کرتا ہے.اور اگر کوئی پولیس یا فوج میں اعلیٰ افسر ہو جس کے ایک اشارے سے سینکڑوں سپاہی حرکت میں آ جاتے ہیں اور جدھر جاتا ہے سیلوٹوں سے اُس کا استقبال ہوتا ہے اور سب ادب اور احترام سے خاموش کھڑے ہو جاتے ہیں تو ان میں سے اکثر مرد بطور خاص گھروں میں بیوی بچوں پر بھی افسر بنے رہتے ہیں.سکول کے استاد بھی اسی زمرے میں آتے ہیں.وہ اپنے بچوں کیلئے باپ کم اور استاد زیادہ ہوتے ہیں.یہ بھی درست ہے کہ بعض بڑے بڑے افسران جن کا اپنے اپنے محکموں میں بڑا رعب اور دبد بہ ہوتا ہے اُن کی اپنے گھروں میں دال نہیں گلتی اور اپنی بیگمات کے سامنے بھیگی بلی بنے رہتے ہیں.اسی طرح بعض بیچارے مرد اپنی مردانگی کو خیر باد کہ چکے ہوتے ہیں اور حضرت خلیفہ امسیح الرابع کے بقول اپنی بیویوں کے گھروں میں یتیمی کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں.مردوں کا اس قسم کا طرز عمل افراط اور تفریط کا رنگ رکھتا ہے جو درست نہیں ہے.اصل حقیقت یہ ہے کہ ایک مرد اپنے گھر والوں پر حاکم نہیں بلکہ نگران ہے.وہ افسر یا اُستاد نہیں بلکہ بیوی کا خاوند اور بچوں کا باپ ہے.ہر انسان کی مختلف حیثیتیں ہوتی ہیں.گھر سے باہر اگر وہ ایس پی، ڈی سی ، میجر یا استاد و غیرہ ہے تو گھر میں وہ بیٹا، خاوند اور باپ ہے اور گھر 179
میں اُس کے سامنے سپاہی اور شاگرد نہیں ہوتے بلکہ اُس کے ماں باپ، جیون ساتھی اور پیارے بچے ہوتے ہیں.باہر کا افسرانہ طرز عمل گھر میں اختیار کرنا دانشمندی نہیں.گھر کے نگران کی حیثیت سے اُس کے ذمہ اہلِ خانہ کے بہت سے حقوق ہیں جنہیں اُسے ادا کرنا ہے.اُن کی ہر طرح کی ضروریات کا خیال رکھنا اور اُن کی حفاظت کرنی ہے.ان فرائض کی ادائیگی کرتے وقت وہ کسی کی ملازمت نہیں کر رہا بلکہ وہ اُس گھر اور اُس کھیتی کا مالک ہے.اُس کا گھر والوں سے بہت قربت کا ایک جذباتی تعلق ہے.اُس کے سینے میں اُن کیلئے پیار، محبت اور ہمدردی کے قدرتی جذبات اُبلتے ہیں اور اُن کی بہتری اور فلاح و بہبود کیلئے وہ دن رات محنت کرتا ہے.اُس کے اپنی بیوی کے ساتھ قربت کے ایسے تعلقات ہوتے ہیں جو دُنیا میں کسی اور سے نہیں ہو سکتے.بیوی اُس کی خوشنودی اور سکونِ جان کیلئے بنتی سنورتی اور اُس پر اپنی محبت اور چاہت شار کرتی ہے.بیوی کی وجہ سے اور اُس کے ذریعے سے اُسے گھر میں پیار، سکینت اور راحت ملتی ہے.وہ بچوں کی ماں اور مرد کی زندگی کی واحد ساتھی ہوتی ہے جس کے ساتھ اُس نے سفر زندگی جاری رکھنا ہوتا ہے.اُس کے بچے اُس کی پدرانہ شفقت سے لطف اٹھاتے ہیں.پس مرد اہل خانہ پر ہرگز ایک حاکم نہیں بلکہ وہ تو اُن کا ایسا محافظ اور سر پرست ہے جو نہایت مہربان اور شفیق ہے اور یہی مفہوم ہے اس آیت کا کہ الــر جـــالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاءِ اس کے ساتھ ساتھ انتظامی لحاظ سے وہ گھر کا منظم اعلیٰ بھی ہے.اگر چہ گھر کے دیگر افراد بھی اپنی اپنی حیثیت سے ذمہ دار ہوتے ہیں لیکن گھر کے تمام معاملات کا بحیثیت مجموعی وہی ذمہ دار اور جوابدہ ہے.اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک جماعت میں اپنے اپنے شہ کے متعلقہ سیکریٹریان بھی ذمہ دار ہوتے ہیں لیکن بحیثیت مجموعی جماعت کے تمام امور کیلئے مرکز کے سامنے صدر جماعت ذمہ دار ہوتا ہے.180
یہ بھی درست ہے کہ فیصلہ کا اختیار مر دکو ہی دیا گیا ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اُس نے کسی کی رائے کے بغیر سب فیصلے خود ہی کرنے ہیں.ایک اچھے نگران کا یہ فرض ہے کہ وہ اہم معاملات میں اپنی جیون ساتھی کے ساتھ مشورہ کرے، اُس کی رائے بھی دریافت کرے اور تب کوئی فیصلہ کرے.ظاہر ہے جسے فیصلے کا اختیار ہے وہ مشورہ مانے کا پابند نہیں ہوتا لیکن بفرضِ محال اگر اُس نے اپنی سمجھ کے مطابق بیوی کے مشورے کو مفید نہ پا کر اُس کے مطابق عمل نہیں کیا اور نتیجہ درست نہیں نکلا تو یہ صورتِ حال ظاہر ہے بیوی کے حق میں جاتی ہے.اگر گھر کا نگران کوشش کرتا ہے کہ وہ اپنے فرائض اپنی طاقت سمجھ اور علم کے مطابق خدا اور اُس کے رسول کے احکامات کے مطابق ادا کرے تو اُس کا بھی حق ہے کہ اہلِ خانہ بھی اُس کی قدر کریں.اُس سے پیار کریں ، اُس کی عزت کریں اور اُس کی اطاعت کریں.اسلامی تعلیمات میں بیویوں سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا جو اُن کی صنف کے تقاضوں کے خلاف ہو.اُنہیں صرف وہی فرائض ادا کرنے چاہئیں جو خدا اور اُس کے رسول ﷺ نے انہیں سونپے ہیں.مشاہدہ گواہ ہے کہ مردوں میں عورتوں کے فرائض سنبھالنے کا رجحان نا قابل بیان حد تک کم ہوتا ہے.اس کے برعکس عورتوں میں مردوں کے فرائض سنبھالنے کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے اور یہ روز بروز بڑھتا جارہا ہے.اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں اپنے اپنے فرائض ادا کرنے تک محدود ر ہیں کیونکہ اس میں ہی خیر ہے.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں : سب سے پہلے تو یہی ہے کہ عورت اور مرد ایک دوسرے کی ذمہ داریاں ادا کریں ایک دوسرے کا خیال رکھیں.اپنے گھروں کو محبت و پیار کا گہوارہ بنا ئیں اور اولاد کے حق ادا کریں.اُن کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دیں.ایک 181
دوسرے کے ماں باپ اور بہن بھائی سے محبت کا تعلق رکھیں.اُن کے حقوق ادا کریں اور یہ صرف عورتوں کی ہی ذمہ داری نہیں بلکہ مردوں کی بھی ذمہ داری ہے.اس طرح جو معاشرہ قائم ہو گا وہ پیار و محبت اور رواداری کا معاشرہ قائم ہو گا.اس میں ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ ہوگی.ہر عورت اور ہر مرد ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کیلئے قربانی کی کوشش کر رہا ہو گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میری تعلیم ہے.یہ ایک دوسرے کے حقوق ہیں.یہ عورت ومرد کی ذمہ داریاں ہیں جو فطرت کے عین مطابق ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ کس حد تک تم اس پر عمل کرتے ہو.اگر صحیح رنگ میں عمل کرو گے تو میرے فضلوں کے وارث بنو گے تمہیں قطعاً مغربی معاشرے سے متاثر ہونے اور اُن کی نقل کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ وہ تم سے متاثر ہوں گے اور کچھ سیکھیں گے، اسلام کی خوبیاں اپنائیں گے.‘‘ (مستورات سے خطاب بر موقع جلسه سالا نہ جرمنی بحواله الفضل ۲۹ اگست ۲۰۰۳) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” جو شخص اپنے ماں باپ کی عزت نہیں کرتا اور امور معروفہ میں جو خلاف قرآن نہیں ہیں اُن کی بات نہیں مانتا اور اُن کی تعمید خدمت سے لا پرواہ ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص اپنی اہلیہ اور اس کے اقارب سے نرمی اور احسان کے ساتھ معاشرت نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے...ہر ایک مرد جو بیوی سے یا بیوی خاوند سے خیانت سے پیش آتی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.(کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۹) 182
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اسلام کی پاکیزہ اور پر حکمت تعلیم کو سمجھنے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت کی توقعات کے مطابق اس پر عمل کرتے ہوئے اپنے فرائض کما حقہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ہمارے گھروں کو امن ، سلامتی ، پیار اور محبت کا گہوارہ بنا دے اور ہمیں ہمارے زندگی کے ساتھیوں اور اولاد کے طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرمائے.رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (الفرقان (۷۵) ترجمہ : اے ہمارے رب! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا.آمین 183