Language: UR
قربانی کی روح اور فلسفہ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ قربانی اللہ تعالیٰ کی خاطر کرنی ہے.خدا تعالیٰ جو تمہارے اندر تقویٰ قائم کرنے کے لئے تم سے قربانی مانگتا ہے.یہ گوشت اور خون جو تم نے جانور کو ذبح کر کے حاصل کیا ہے اور بہایا ہے اگر یہ تقویٰ سے خالی ہے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے مقصد سے خالی ہے تو اللہ تعالیٰ کو تو ان مادی چیزوں (صرف احمدی احباب کے لئے ) عِيدُ الاضْحِبَ سے کوئی سروکار نہیں ہے.اللہ تعالیٰ تو یہ ظاہری قربانی کر کے قربانی کی روح تم میں پیدا کرنا چاہتا ہے.جب تم جانوروں کو ذبح کرو تو تمہیں یہ احساس ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا ایک حکم پورا کروانے کے لئے اس جانور کو میرے قبضہ میں کیا ہے اور میں نے اس کی گردن پر چھری پھیری ہے.اللہ تعالیٰ نے مجھے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت پر عمل کرنے کی توفیق دی ہے.اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کی اس جانور کو ذبح کیا.اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ میں اس کے حکم پر عمل کرنے والا ہوا، اس قابل ہوا کہ اس پر عمل کرسکوں.اس نے مجھے توفیق دی کہ میں اس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنے والوں میں شامل ہوا.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب اس نیت سے قربانی کر رہے ہو گے، تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے قربانی کرو گے تو یہ قربانی مجھ تک پہنچے گی.یہ روح ہے جس کے ساتھ اللہ کے حضور قربانیاں پیش ہونی چاہئیں.“ 66 (حضرت خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ازخطبہ عیدالاضحیہ 21 جنوری 2005ء) قربانی کی حقیقت ، فضائل اور مسائل)
پیش لفظ مجلس مشاورت 2009 میں دوسری تجویز احباب جماعت کا علمی معیار بڑھانے کے بارہ میں تھی.اسی سلسلہ میں عید الاضحیہ کے مبارک موقع پر یہ کتا بچہ پیش خدمت ہے.اس میں نماز عید کا طریق اور اس کے مسائل قربانی کی حقیقت اور اس کے فضائل سے متعلقہ امور بیان کئے گئے ہیں.اس کتابچہ کا بنیادی مقصد احباب جماعت کو یاددہانی کروانا ہے کہ ہماری تمام عبادتوں اور قربانیوں کا مقصد محض خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے.اور یہ قربانیاں خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.قربانیاں وہی سواریاں ہیں جو خدا تعالیٰ تک پہنچاتی ہیں.اور خطاؤں کو محوکرتی ہیں اور بلاؤں کو دور کرتی ہیں.یہ وہ باتیں ہیں جو ہمیں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے پہنچیں جو سب مخلوق سے بہتر ہیں اُن پر خدا تعالیٰ کا سلام اور برکتیں ہوں.“ (خطبہ الہامیہ از روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 45) اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ایسی قربانیوں کی توفیق عطا کرے جو اس کے نزدیک مقبول ٹھہریں اور اس کی محبت اور رضا حاصل کرنے کا ذریعہ بن جائیں.یہ قربانیاں ہماری تمام خطاؤں کو مٹانے والی ہوں اور تمام بلاؤں کو دور کرنے کا موجب بن جائیں.آمین
نمبر شمار 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 فهرست عنوان صفحه قربانی از روئے قرآن کریم 1 قربانی کی روح اور حقیقت قربانی کا حقیقی فلسفہ قربانی رڈ بلا کا موجب قربانی کا اجر قربانی کی اہمیت وفضیلت عیدالاضحیہ کے مسائل نماز عید کا طریق خطبہ عید قربانی اور اس کے مسائل قربانی کا جانور قربانی کا وقت قربانی کا گوشت قربانی کا گوشت محفوظ کیا جاسکتا ہے 4 200 8 9 10 15 16 17 18 19 20 22 ه ت له ت له ت په لار
(صرف احمدی احباب کے لئے ) عِيدُ الأَضْحِيَه قربانی کی حقیقت ، فضائل اور مسائل )
2 1 قربانی از روئے قرآن کریم ارشاد باری تعالی ہے: لا وَلِكُلّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكَاً لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللهِ عَلى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَإِلَهُكُمْ إِلَهُ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُواء وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ o الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَالصَّابِرِينَ عَلَى مَا أَصَابَهُمُ وَالْمُقِيمِي الصَّلوةِ * وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَه وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّنْ شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌى فَاذْكُرُوا اسْمَ اللهِ عَلَيْهَا صَوَاتَ : فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّطَ كَذَالِكَ سَخَّرُنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ، لَنْ يَّنَالَ الله لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوى مِنكُمُ ، كَذَالِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلى مَا هَدَكُمْ، وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ ( سورة الحج : 35-38) اور ہم نے ہر امت کے لئے قربانی کا طریق مقرر کیا ہے تا کہ وہ اللہ کا نام اُس پر پڑھیں جو اس نے انہیں مویشی چوپائے عطا کئے ہیں.پس تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے.پس اس کے لئے فرمانبردار ہو جاؤ.اور عاجزی کرنے والوں کو بشارت دے دے.ط ان لوگوں کو کہ جب اللہ کا ذکر بلند کیا جاتا ہے تو ان کے دل مرعوب ہو جاتے ہیں اور جو اس تکلیف پر جو انہیں پہنچی ہو صبر کرنے والے ہیں اور نماز کو قائم کرنے والے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں.اور قربانی کے اونٹ جنہیں ہم نے تمہارے لئے شعائر اللہ میں شامل کر دیا ہے ان میں تمہارے لئے بھلائی ہے.پس ان پر قطار میں کھڑا کر کے اللہ کا نام پڑھو.پس جب ( ذبح کرنے کے بعد ) ان کے پہلو زمین سے لگ جائیں تو ان میں سے کھاؤ اور قناعت کرنے والوں کو بھی کھلاؤ اور سوال کرنے والوں کو بھی.اسی طرح ہم نے انہیں تمہاری خدمت پر لگا رکھا ہے تا کہ تم شکر کرو.ہرگز اللہ تک نہ ان کے گوشت پہنچیں گے اور نہ ان کے خون لیکن تمہارا تقویٰ اس تک پہنچے گا.اسی طرح اُس نے تمہارے لئے انہیں مسخر کر دیا ہے تا کہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو اس بنا پر کہ جو اس نے تمہیں ہدایت عطا کی اور احسان کرنے والوں کو خوشخبری دیدے.“ (ترجمہ: بیان فرمودہ حضرت خلیفتہ امسیح الرابع ) سنت ابراہیمی کے مطابق ہر سال دسویں ذوالحجہ کو حج کی برکات میسر آنے کی خوشی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام و حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عظیم الشان قربانی کی یاد میں عیدالاضحیہ یا عید قربان منائی جاتی ہے.نماز عید کا اجتماع ایک رنگ میں مسلمانوں کی ثقافت اور دینی عظمت کا مظہر ہوتا ہے اس لئے اس میں خواتین و حضرات ، بچے اور بچیاں سبھی شامل ہوتے ہیں.حتی کہ اجتماع عید میں خواتین مخصوص ایام میں بھی الگ بیٹھ کر ذکر الہی اور تسبیح و تحمید کرتی ، خطبہ عید سنتی اور دعا میں شامل ہوتی ہیں.تا وہ بھی اس عظیم الشان ابراہیمی قربانی کا فیضان حاصل کر سکیں.قربانی کی روح اور حقیقت سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے پر معارف خطبہ عید الاضحیہ میں جو خطبہ الہامیہ کے نام سے موسوم ہے، قربانی کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”اے خدا کے بندو! اپنے اس دن میں کہ جو بقر عید کا دن ہے غور کرو اور سوچو.کیونکہ ان قربانیوں میں عقلمندوں کے لئے بھید پوشیدہ رکھے گئے ہیں...اور ان کو اُن قربانیوں پر سبقت ہے کہ جو نبیوں کی پہلی امتوں کے لوگ کیا کرتے تھے...اور یہ کام ہمارے دین
4 3 میں اُن کاموں میں شمار کیا گیا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے قرب کا موجب ہوتے ہیں.اسی وجہ سے ان ذبح ہونے والے جانورں کا نام قربانی رکھا گیا.حدیثوں میں آیا ہے کہ یہ قربانیاں خدا تعالیٰ کے قرب اور ملاقات کا موجب ہیں اس شخص کے لئے کہ جو قربانی کو اخلاص اور خدا پرستی اور ایمان داری سے ادا کرتا ہے اور یہ قربانیاں شریعت کی بزرگ تر عبادتوں میں سے ہیں اور اسی لئے قربانی کا نام عربی میں نَسِيكَة ہے اور نسک کا لفظ عربی زبان میں فرمانبرداری اور بندگی کے معنوں میں آتا ہے اور ایسا ہی یہ لفظ یعنی نُسُک اُن جانوروں کے ذبح کرنے پر بھی زبان مذکور میں استعمال پاتا ہے جن کا ذبح کرنا مشروع (یعنی شریعت کے مطابق) ہے.“ ہیں: خطبہ الہامیه از روحانی خزائن جلد 16 صفحه 31 تا 33) سید ناظيفة مسح الاول نَوَّرَ اللَّهُ مَرْقَدَہ قربانی کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرماتے قربانی جو عید اضحی کے دن کی جاتی ہے اس میں بھی ایک پاک تعلیم ہے اگر اس میں مد نظر وہی امر ر ہے جو جناب الہی نے قرآن شریف میں فرمایا : لَنْ يَّنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَّنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمُ ( سورة الحج : 38) قربانی کیا ہے ایک تصویری زبان میں تعلیم ہے جسے جاہل اور عالم پڑھ سکتے ہیں.خدا کسی کے خون اور گوشت کا بھوکا نہیں.وہ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ (الانعام: 15) ہے.ایسا پاک ور عظیم الشان بادشاہ نہ تو کھانوں کا محتاج ہے، نہ گوشت کے چڑھاوے اور لہو کا بلکہ وہ تمہیں سکھانا چاہتا ہے کہ تم بھی خدا کے حضور اسی طرح قربان ہو جاؤ جیسے ادنی اعلیٰ کے اور لئے قربان ہوتا ہے.“ پھر فرماتے ہیں: ( خطبات نور صفحہ 431) " قربانی کا نظارہ عقلمند انسان کے لئے بہت مفید ہے.اپنے اعمال کا مطالعہ کرو.اپنے فعلوں میں ، باتوں میں ، خوشیوں میں ، ملنساریوں میں ، اخلاق میں غور کرو کہ ادنی کو اعلیٰ کے لئے ترک کرتے ہو یا نہیں ؟ اگر کرتے ہو تو مبارک ہے تمہارا وجود.عیب دار قربانیاں چھوڑ دو.تمہاری قربانیوں میں کوئی عیب نہ ہو، نہ سینگ کٹے ہوئے ، نہ کان کٹے ہوئے.قربانی کے لئے تین راہیں ہیں.(۱) استغفار.(۲) دعا.(۳) صحبت صلحاء.انسان کو صحبت سے بڑے بڑے فوائد پہنچتے ہیں.صحبت صالحین حاصل کرو.قربانی کے لئے تین دن ہیں، پر روحانی قربانی والے جانتے ہیں کہ سب ان کے لئے یکساں ہیں“.( خطبات نور صفحہ 378) سیدنا حضرت ماریہ اسیح الثانی نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں: رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس عید کا نام عید الاضحیہ رکھ کر بتایا کہ آپ کی امت کو خدا تعالیٰ اس قدر بڑھائے گا اگر ان میں سے اس موقعہ پر بہت کم قربانی کرنے والے ہوں گے تب بھی ان کی قربانیاں ایک بہت بڑا مجموعہ ہو جائیں گی.پس یہ عید بڑی شاندار عید ہے جس کی مثال دنیا میں اور کہیں نہیں ملتی اس موقعہ پر لوگ بکروں اور دُنبوں کی قربانیاں کرتے ہیں لیکن قرآن کریم فرماتا ہے: لَنْ يَّنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ اللہ تعالیٰ کو ان قربانیوں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ قربانی کرنے والوں کا تقویٰ پہنچتا ہے.پس اصل قربانی وہ ہے جو انسان اپنی اور اپنے اہل وعیال کی پیش کرے اور یہی وہ سبق ہے جو عید الاضحیہ ہمیں سکھاتی ہے.“ خطبہ عیدالاضحیه فرموده 19 اگست 1956 بمقام ربوه از الفضل 10 جون 1959) قربانی کا حقیقی فلسفہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.
6 5 اصل روح کی قربانی ہے....اور بکروں کی قربانیاں روح کی قربانی کے لئے مثل سایوں اور آثار کے ہیں سیدنا 66 خطبہ الہامیہ از روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 68) سید نا حضرت خدیت مسیح الاول اوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں.تم قربانیاں کرو اس یقین کے ساتھ کہ ان میں تصویری زبان کے ذریعے تمہیں 66 فرمانبرداری کی تعلیم ہے اور یہ کہ تم بھی ادنی کو اعلیٰ کے لئے قربان کرنا سیکھو.“ (خطبات نور صفحہ 437) ی ناخذ یہ اسیح الثانی نوراللہ مرقدہ دفرماتے ہیں.و محض قربانی کوئی چیز نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں وہ جذبہ اخلاص قدر و قیمت رکھتا ہے جو اس قربانی کے پس پشت ہوتا ہے.اگر کوئی شخص اعلیٰ درجہ کا دُنبہ تو ذبح کر دیتا ہے.لیکن وہ قربانی میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی کو مد نظر نہیں رکھتا تو اس کی یہ قربانی خدا تعالیٰ کے حضور ایک پر کاہ ( تنکا یعنی حقیر اور معمولی چیز ) کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھ سکتی.“ ( تفسیر کبیر جلد 6 صفحه 51) سید نا خلیفہ امسح الثالث نے ایک موقعہ پر قربانی کی حقیقت یوں بیان فرمائی: پس قربانی کی اس عید کا تعلق دنبوں یا بھیڑوں یا بکریوں یا گائے یا اونٹ کی قربانی سے نہیں اس عید کا تعلق ذبح عظیم سے ہے یعنی جان کی قربانی سے نہیں خدا کی راہ میں زندگی کی قربانی سے ہے.یہ تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ بہت سے مواقع پر انسانوں کا جان دینا زندہ رہ کر قربانی دینے سے بہت آسان ہو جاتا ہے اس لئے جو مومن شہداء ہیں ان کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے کہ وہ خدا کے حضور یہ خواہش پیش کریں گے کہ انہیں پھر زندہ کیا جائے اور پھر وہ خدا کی راہ میں جان کی قربانی دیں اور پھر زندہ کیا جائے اور پھر قربانی دیں.اس میں بھی ہمیں یہی سبق دیا گیا ہے کہ خدا کی راہ میں محض جان دے دینا یہ تو کوئی چیز نہیں اصل چیز خدا کی راہ میں زندگی گزارنا ہے اور یہی ذبح عظیم ہے جس کی رو سے انسان اپنی تمام خواہشات کو چھوڑ کر اپنی رضا کو قربان کر کے خدا تعالیٰ کی رضا قبول کرتا اور اس کے پیار کے حصول کی کوشش کرتا ہے.“ ( خطبہ عیدالاضحیہ 22 نومبر 1977ء از الفضل 2 /جنوری 1978ء) پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ آپ سب کے لئے اس عید کو اس رنگ میں مبارک کرے کہ جن قربانیوں کی روایت اس عید سے وابستہ کی گئی ہے اور قرب الہی کی جورا ہیں ان قربانیوں کے نتیجہ میں انسان پر کھولی گئی ہیں وہ راہیں اللہ تعالیٰ ہم پر بھی کھولے اور اپنے قرب کے دروازے ہمارے لئے وا کرے اور اپنی برکتوں اور رحمتوں سے ہمیں نوازے.“ ( خطبہ 16 جنوری 1973 ء از الفضل 26 نومبر 1976ء) سید ناخلیفة المسح الرابع عیدالاضحیہ کی حکمت اور فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں اس عید میں جو ہم آج منارہے ہیں اپنی تمام زندگی خدا کے حضور پیش کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے.کچھ وقت کے لئے کسی جذباتی قربانی کا معاملہ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی اطاعت میں اس طرح ثابت قدم رہنا کہ اپنا کچھ بھی باقی نہ رہنا، ہر چیز کا مالک خدا کو قرار دے کر اس کی مرضی کے سامنے سرتسلیم خم کر دینا، یہ ہے وہ پیغام جو یہ عید ہمیں دیتی ہے.“ ( خطبہ 28 ستمبر 1982 ء از خطبات عیدین صفحہ 364) پھر فرمایا: حقیقت یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تمثیلی طور پر ابراہیم قرار دیا تو واقعہ ایک عظیم الشان واقفین کی نسل پیدا کرنے کی بھی توفیق بخشی اور آج ہزار ہا لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنی تمناؤں کی گردنوں پر چھری پھیر دی ہے اور ذبح عظیم کا جو ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے وہ یہی ذبح عظیم ہے.اگر ذبح عظیم کی روح کو
8 7 آپ نے بھلا دیا تو بے شک کروڑوں بکرے بھی آپ ذبح کرتے چلے جائیں آپ ذبح عظیم کی بات پوری کرنے والے نہیں بن سکیں گے.ذبح عظیم تو وہی ہوتا ہے جو دلوں کا ذبح ہو رہا ہوتا ہے.ذبح عظیم تو وہ ہوتا ہے جو انسان ہمیشہ کے لئے اپنے آپ کو وقف کرتا ہے اور اپنی ساری تمنائیں کسی اور کے ہاتھوں میں پکڑا دیتا ہے.اپنے سارے حقوق اپنے ہاتھوں سے تلف کر دیتا ہے.یہ ہے ذبح عظیم جس کی طرف حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی قربانیاں اشارہ کر رہی ہیں اور جو ذبح عظیم سب سے زیادہ شان کے ساتھ دنیا نے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دیکھا اور آج جس کا اعادہ ہوا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں.“ 66 (خطبہ عیدالاضحیہ 17 ستمبر 1983ء از خطبات عیدین صفحه 388-387) حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز قربانی کی روح اور فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.دو راہوں پر چلتے ہوئے قربانی کرو گے تو یہ قربانی مجھ تک پہنچے گی.تو جیسا کہ میں نے کہا یہ روح ہے جس کے ساتھ اللہ کے حضور قربانیاں پیش ہونی چاہئیں.“ (خطبہ عیدالاضحیہ 21 جنوری 2005 ء از الفضل انٹرنیشنل 4 فروری 2005ء) قربانی رڈ بلا کا موجب سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں."إِنَّ الصَّحَا يَا هِيَ الْمَطَايَا تُوُصِلُ إِلَى رَبِّ الْبَرَايَا وَتَمُحُو الْخَطَايَا وَتَدْ فَعُ الْبَلايَا.هَذَا مَا بَلَغَنَا مِنْ خَيْرِ الْبَرِيَّةِ عَلَيْهِ صَلَوَاتُ اللهِ وَالْبَرَكَاتُ السَّنِيَّةُ.قربانیاں وہی سواریاں ہیں جو خدا تعالیٰ تک پہنچاتی ہیں.اور خطاؤں کو محو کرتی ہیں اور بلاؤں کو دور کرتی ہیں.یہ وہ باتیں ہیں جو ہمیں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے پہنچیں جو سب مخلوق سے بہتر ہیں اُن پر خدا تعالیٰ کا سلام اور برکتیں ہوں.“ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.خطبہ الہامیہ از روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 45) " جس نے اپنی قربانی کی حقیقت کو معلوم کر کے قربانی ادا کی اور صدق دل اور خلوص نیت کے ساتھ ادا کی اس نے اپنی جان اور اپنے بیٹوں اور اپنے پوتوں کی قربانی کر دی اور اس کے لئے اجر بزرگ ہے جیسا کہ ابراہیم کے لیے اس کے رب کے نزدیک اجر تھا.“ خطبہ الہامیہ از روحانی خزائن 16 جلد صفحہ 44) یہ گوشت اور خون جو تم نے جانور کو ذبح کر کے حاصل کیا ہے اور بہایا ہے اگر یہ تقویٰ سے خالی ہے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے مقصد سے خالی ہے تو اللہ تعالیٰ کو تو ان مادی چیزوں قربانی کا اجر سے کوئی سروکار نہیں ہے.اللہ تعالیٰ تو یہ ظاہری قربانی کی روح تم میں پیدا کرنا چاہتا ہے.جب تم جانوروں کو ذبح کرو تو تمہیں یہ احساس ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا ایک حکم پورا کر وانے کے لئے اس جانور کو میرے قبضہ میں کیا ہے اور میں نے اس کی گردن پر چھری پھیری ہے.اللہ تعالیٰ نے مجھے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت پر عمل کرنے کی توفیق دی ہے.اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کی ، اس جانور کو ذبح کیا.اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ میں اس کے حکم پر عمل کرنے والا ہوا، اس قابل ہوا کہ اس پر عمل کر سکوں.اس نے مجھے توفیق دی کہ میں اس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنے والوں میں شامل ہوا.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب اس نیت سے قربانی کر رہے ہو گے، تقویٰ کی سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں: قربانیوں کو ہم نے شعائر اللہ قرار دیا ہے.یعنی وہ انسان کو خدا تک پہنچاتی ہیں اور اُن کے ذریعہ سے دینی اور دنیوی بھلائی ملتی ہے.“ ( تفسیر کبیر جلد 6 صفحه 53)
10 9 سید نا طریقہ اسی الثانی نوراللہ مرقد فرماتے ہیں: یا د رکھو قربانیوں میں یہ حکمت نہیں کہ اُن کا گوشت یا ان کا خون خدا تعالیٰ کو پہنچتا ہے بلکہ 66 اُن میں حکمت یہ ہے کہ ان کی وجہ سے تقویٰ پیدا ہوتا ہے.“ قربانی کی اہمیت وفضیلت ( تفسیر کبیر جلد 6 صفحه 57) احادیث مبارکہ میں قربانی کے کئی فضائل و برکات بیان کئے گئے ہیں.ایک حدیث میں ہے: عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ الا الله قَالَ مَا عَمِلَ ابْنُ آدَمَ يَوْمَ النَّحْرِ عَمَلاً أَحَبَّ إِلَى اللهِ عَزَّوَجَلَّ مِنْ هِرَاقَةِ دَمٍ وَانَّهُ لَيَاتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقُرُونِهَا و أَظْلَافِهَا وَ اَشْعَارِهَا.وَإِنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ بِمَكَانِ قَبْلَ أَنْ يُقَعَ عَلَى الْأَرْضِ فَطِيِّبُوا بِهَا نَفْساً.(ابن ماجه ابواب الاضاحي باب ثواب الأضحية،حدیث نمبر3126) حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قربانی والے دن ابن آدم کا کوئی عمل خدا تعالیٰ کو خون بہانے (یعنی قربانی کرنے ) کے عمل سے زیادہ پیارا اور محبوب نہیں اور قربانی کا جانور قیامت کے روز اپنے سینگوں ، بالوں اور کھروں ( پائے ) سمیت خدا کے حضور حاضر ہوگا.( یعنی قربانی کرنے والے کے حق میں گواہی دے گا ) اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل خدا کے ہاں قبولیت کا درجہ پاتا ہے.پس تم خوش ہو جاؤ.“ عیدالاضحیہ کے مسائل عیدین کے موقعہ پر ہر لحاظ سے ظاہری زینت کا اہتمام کرنا چاہئے.صاف ستھرا، دھلا ہوا اور اچھا لباس پہنا جائے.عیدین کے موقعہ پر غسل کرنا اسوہ رسول ﷺ سے ثابت ہے.حدیث میں ہے: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْتَسِلُ يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ الْأضْحَى.(سنن ابن ماجه ابواب اقامة الصلواة باب ما جاء في الاغتسال في العيدين،حدیث نمبر 1315) حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحی کے دن غسل فرمایا کرتے تھے.اسوۂ رسول علی سے یہ ثابت ہے کہ آپ اجتماعات بالخصوص جمعہ اور عیدین کے مواقع پر اچھی خوشبو لگا کر مسجد میں تشریف لے جاتے.حدیث میں ہے کہ: عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ طيَّبْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لإحْرَامِهِ) قَبْلَ أَنْ يُحْرِمَ وَيَوْمَ النَّحْرِ قَبْلَ أَنْ يَطُوفَ بِالْبَيْتِ بِطِيْبٍ فِيْهِ (سنن نسائی، کتاب مناسك الحج، باب اباحة الطيب عند الاحرام) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو آپ کے احرام باندھنے سے قبل اور عیدالاضحیہ کے روز ایسی خوشبو لگائی جس میں کستوری بھی شامل تھی.کے موقع پر نماز سے فارغ ہونے کے بعد کھانا زیادہ بہتر ہے.حدیث میں آتا ہے.عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُريدةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ لَا يَخْرُجُ
12 11 يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى يَطْعَمَ وَلَا يَطْعَمُ يَومَ الأَضْحَى حَتَّى يُصلّى.(ترمذی ابواب العيدين باب في الاكل يوم الفطر قبل الخروج،حدیث نمبر542) حضرت عبداللہ بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ: آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے موقع پر کھائے بغیر نہ نکلتے تھے اور عیدالاضحیہ کے موقع پر نہیں کھاتے تھے جب تک نماز نہ پڑھ لیتے.سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثانی نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں : "رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عید کے دن یہ سنت تھی کہ آپ صبح کچھ ناشتہ کر کے عید پڑھنے کے لئے جاتے تھے.مگر آج کی عید کا دن کا پہلا حصہ نیم روزہ اور پچھلا حصہ قربانی ہوتا ہے اور آپ کی سنت تھی کہ عید پڑھنے سے پہلے کچھ تناول نہ فرماتے تھے.بعد میں جا کر قربانی کے گوشت سے کھاتے تھے.اس لئے یہ عید اپنے اندر دو نمونے رکھتی ہے کیونکہ اس کا ایک حصہ روزے کا اور دوسرا حصہ کھانے کا ہے.یہ یقینی امر ہے کہ جس شخص نے جس عید پر خدا تعالیٰ کے قرب کی راہ تلاش کی وہی عید اس کے لئے بڑی عید ہے.“ (خطبہ عیدالاضحیہ 6 ستمبر 1919 بمقام قادیان از الفضل قادیان 20 ستمبر 1919) نماز عید کیلئے ایک راستہ سے جانا اور دوسرے راستہ سے واپس آنا سنت ہے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے.كَانَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ إِذَا خَرَجَ يَوْمَ الْعِيدَيْنِ فِي طَرِيقِ رَجَعَ فِي غَيْرِهِ.(ترمذی ابواب العيدين باب خروج النبي الى العيدين في طريق حدیث نمبر 541) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز عید کے لئے ایک راستہ سے جاتے اور دوسرے راستہ سے واپس تشریف لایا کرتے تھے.عید کی تکبیرات کے بارہ میں روایات سے ثابت ہے کہ یہ تکبیرات 9 ذوالحجہ کی فجر سے ۱۳ ذوالحجہ کی عصر تک بلند آواز سے پڑھنی چاہئیں.تکبیرات عید کے بارہ میں روایت ہے: وَكَانَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُكَبِّرُ فِي قُيَّتِهِ بِمِنِّي فَيَسْمَعُهُ أَهْلُ الْمَسْجِدِ ، فَيُكَبِّرُونَ وَيُكَبِّرُ أَهْلُ الْأَسْوَاقِ ، حَتَّى تَرْتَجَّ مِنِّي تَكْبِيرًا وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يُكَبِّرُ بِمِنِّي تِلْكَ الأَيَّامَ وَخَلْفَ الصَّلَوَاتِ ، وَعَلَى فِرَاشِهِ وَفِى فُسْطَاطِهِ، وَمَجْلِسِهِ وَمَمْشَاهُ تِلْكَ الأَيَّامَ جَمِيعًا وَكَانَتْ مَيْمُونَةُ تُكَبِّرُ يَوْمَ النَّحْرِ وَكُنَّ النِّسَاءُ يُكَبِّرُنَ خَلْفَ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ وَعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزَ لَيَالِيَ التَّشْرِيقِ مَعَ الرِّجَالِ فِى الْمَسْجِدِ.(جامع صحیح بخاری کتاب العیدین، باب تکبیر ایام منیٰ،حدیث نمبر 969) سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الرابع فرماتے ہیں: ”جہاں تک تشریق میں صحابہ کا تکبیرات کا کہنے کا طریق ہے اس تعلق میں بخاری کتاب العیدین سے یہ روایت لی گئی ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ منی میں اپنے خیمے میں ہی تکبیرات اتنی بلند آواز سے پڑھا کرتے تھے.کہ مسجد میں بیٹھے لوگ آپ کی آواز کوسن لیتے تھے.خانہ کعبہ کی مسجد اور خیمہ میں بڑا فرق ہوا کرتا تھا لیکن اس قدر بلند آواز سے آپ تکبیرات پڑھا کرتے تھے کہ خانہ کعبہ میں بیٹھے لوگ انہیں سن لیا کرتے تھے اور آپ کی آواز کے ساتھ تکبیرات کہتے تھے اور بازاروں میں چلنے والے لوگ بھی تکبیرات کہتے تھے.یہاں تک کہ منی تکبیرات سے گونج اٹھتا تھا.بہت کثرت سے تکبیریں کہی
14 13 جاتیں.پس آپ بھی اس کو پیش نظر رکھیں اور تکبیرات کہا کریں.یہ چند دن تکبیرات کے ہیں اور اپنے گھر کو تکبیرات کی آواز سے سجائیں اور بچوں کو عادت ڈالیں اس خوبصورت آواز کو سننے کی یہاں تک کہ ان کے دل پر یہ آواز جاگزیں ہو جائے اور کبھی بھی نہ بھولے اور سب سے اچھا نغمہ ان کی روح میں جو سرایت کرے وہ انہیں تکبیرات کا نغمہ ہو.اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَالله اَكْبَرُ الله اَكْبَرُ وَلِلهِ الْحَمْدُ.66 خطبہ 28 / مارچ 1999ء از خطبات عیدین صفحه 651-652) اسی طرح روایت میں آتا ہے کہ ایام تشریق میں حضرت عبد اللہ ابن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما بازار میں نکل جاتے اور تکبیرات پڑھتے اور باقی لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیرات (جامع صحیح بخاری کتاب العیدین، باب فضل العمل في ايام التشريق،حدیث نمبر 968) تکبیرات کے بارہ میں سیدنا مصلح موعود نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں: اصل غرض تکبیر و تحمید ہے خواہ کس طرح ہو اور اس کے متعلق دستور تھا کہ جب مسلمانوں کی جماعتیں ایک دوسرے سے ملتی تھیں تو تکبیر میں کہتی تھیں.مسلمان جب ایک دوسرے کو دیکھتے تو تکبیر کہتے.اٹھتے بیٹھتے تکبیر کہتے کام میں لگتے تو تکبیر کہتے.لیکن ہمارے ملک میں جو یہ رائج ہے کہ محض نماز کے بعد کہتے ہیں اس خاص صورت میں کوئی ثابت نہیں.“ خطبہ عیدالاضحیہ 5 راگست 1922 بمقام قادیان از الفضل قادیان 17 /اگست 1922) عیدالاضحی کی نماز عید الفطر کی بجائے قربانی کرنے کی وجہ سے جلد پڑھی جاتی ہے تا کہ وقت پر قربانی کی جاسکے.دو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت تھی اور آپ کا یہ طریق تھا کہ اس عید کے موقعہ پر آپ نماز جلدی پڑھایا کرتے تھے اور خطبہ بھی مختصر فرماتے تھے.تا کہ جن لوگوں نے قربانی کرنی ہو وہ نماز سے فارغ ہو کر قربانی کر سکیں.“ ( خطبہ عیدالاضحیہ 30 مئی 1928 از الفضل قادیان 15 جون 1928ء) عیدین کے موقع پر عید کی دورکعت نماز کسی کھلے میدان یا عید گاہ میں زوال سے پہلے پڑھی جاتی ہے.حسب ضرورت عید کی نماز جامع مسجد میں بھی ادا کی جاسکتی ہے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ: ایک عید کے موقع پر بارش تھی تو آنحضرت ﷺ نے عید کی نماز مسجد میں پڑھائی.(ابو داود كتاب الصلوة باب يصلى بالناس في المسجد اذا كان يوم مطر) عید کی نما ز سنت ہے.رسول کریم سے ثابت ہے کہ عید کی نماز با جماعت ہی پڑھی جاسکتی ہے اکیلے جائز نہیں.اگر کوئی شخص نماز عید میں تاخیر سے شامل ہو تو وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد امام کے ساتھ نہ پڑھی جا سکنے والی نماز کو اسی طرح مکمل کرے گا جس طرح اس نے اس حصہ نماز کو امام کی اقتداء میں ادا کرنا تھا.(فیصلہ مجلس افتاء)
16 15 نماز عید کا طریق تکبیرات عید کی تعداد کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق احادیث میں یوں درج ہے: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ كَبَّرَ فِي الْعِيُدَيْنِ فِي الْأُولَى سَبْعَاقَبْلَ الْقِرَأَةِ وَفِي الْآخِرَةِ خَمْساً قَبْلَ الْقِرَأَةِ.(جامع ترمذی باب ما جاء في التكبير في العيدين،حدیث نمبر536) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عیدین کے موقعہ پر پہلی رکعت میں ( تکبیر تحریمہ کے علاوہ سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں قرآت سے پہلے کہا کرتے تھے.نماز عید کا طریق یہ ہے کہ پہلے دو رکعت نماز ادا کی جاتی ہے اور پھر خطبہ دیا جاتا ہے.نماز عید کی پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے بعد ہاتھ باندھ کر ثناء پڑھی جاتی ہے اور پھر ثناء کے بعد اور تعوذ سے پہلے امام سات تکبیریں بلند آواز سے کہے اور مقتدی آہستہ آواز سے یہ تکبیرات کہیں.امام اور مقتدی دونوں تکبیرات کہتے ہوئے ہاتھ کانوں تک اٹھا ئیں اور کھلے چھوڑ دیں سات تکبیرات کے بعد امام ہاتھ باندھ کر اعوذ اور بسم اللہ پڑھے.اس کے بعد سورۃ فاتحہ اور قرآن کریم کا کوئی حصہ بالجبر پڑھ کر رکوع و سجود کی ادائیگی کے ساتھ پہلی رکعت مکمل کرے.پھر دوسری رکعت کے لئے اٹھتے ہی پانچ تکبیریں پہلی رکعت کی تکبیرات کی طرح کہے اور پھر سورۃ فاتحہ اور قرآن کریم کا کوئی حصہ پڑھے اور رکوع و سجود کے ساتھ دوسری رکعت مکمل ہونے پر تشہد ، درود شریف اور مسنون دعاؤں کے بعد سلام پھیرے.اس کے بعد امام خطبہ پڑھے.جمعہ کی طرح عید کے بھی دو خطبے ہوتے ہیں.پہلے خطبہ کے بعد امام تھوڑا سا بیٹھ کر دوسرا خطبہ پڑھ کر دعا کروادے.اس طرح عید کی نماز مکمل ہو جائے گی.فقہ احمدیہ حصہ عبادات صفحہ 179 ) عید کا خطبہ وہی جو جمعہ کا خطبہ ہے.خطبہ کی عبارت مندرجہ ذیل ہے.اَشْهَدُ اَنْ لا إِلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمَ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ المُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ اس کے بعد حسب ضرورت وعظ ونصیحت کی جاتی ہے.خطبه ثانیه الْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَ نَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَ نُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَ مَنْ يُضْلِلْهُ فَلَاهَادِيَ لَهُ وَنَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَنَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ - عِبَادَ اللهِ رَحِمَكُمُ اللهُ إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبِي وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغَى يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ - اُذْكُرُوا اللهَ يَذْكُرُكُمْ وَادْعُوهُ يَسْتَجِبْ لَكُمْ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ اس کے بعد امام دعا کروائے.
18 17 جمعۃ المبارک اور عید کی نمازوں میں قرآن کریم کی تلاوت کے بارہ میں مختلف سورتوں کی تلاوت کا روایات میں ذکر ملتا ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بالعموم سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ کی تلاوت کرتے.بعض روایات میں سورۃ ق اور سورۃ القمر اور دیگر سورتوں یا آیات کی تلاوت کا بھی ذکر ملتا ہے.تاہم دیگر نمازوں کی طرح عیدین کی نماز میں بھی امام مَا تَيَسَّر کے حکم کے تحت قرآن کریم کا کوئی بھی حصہ پڑھ سکتا ہے.( خلاصه: سنن ابو داؤد كتاب الصلواة باب ما يقرأبه في الجمعة) قربانی اور اس کے مسائل قربانی ہر صاحب استطاعت کے لئے سنت مؤکدہ اور واجب ہے.جو شخص اکیلا قربانی دینے کی توفیق نہ رکھتا ہو وہ اجتماعی قربانی میں حصہ ڈال سکتا ہے.صلى الله حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک بقر عید کے موقع پر آنحضور علی کے ساتھ عید گاہ میں میں بھی موجود تھا.جب حضور علی نے خطبہ مکمل کیا تو منبر سے اترے اور ایک مینڈھالایا گیا.حضور ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اسے ذبح کیا اور فرمایا: بِسْمِ اللهِ اللهُ اَكْبَرُ.یہ میری طرف سے اور میری امت کے ان افراد کی طرف سے ہے جنہوں نے قربانی نہیں کی.(سنن ابو داؤد كتاب الضحايا باب فى الشاة يضحى بها عن جماعة) قربانی سنت انبیاء ہے.حدیث میں آتا ہے: عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ قَالَ اَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا رَسُولَ اللهِ مَا هَذِهِ الَا صَاحِيُّ ؟ قَالَ سُنَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ.(ابن ماجه ابواب الاضاحي باب ثواب الاضحية، حديث نمبر 3127) حضرت زید بن ارقم بیان کرتے ہیں کہ صحابہ نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا.یارسول اللہ یہ قربانیاں کیا چیز ہیں (یعنی ان کی کیا حیثیت ہے ).آپ نے ارشاد فرمایا.یہ تمہارے باپ ابراہیم کی سنت ہے.عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنِ الصَّحَايَا أَوَاجِبَةٌ هِيَ قَالَ ضَحَّى رَسُولُ اللهِ صلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ مِنْ بَعْدِهِ وَجَرَتْ بِهِ (ابن ماجه ابواب الاضاحي ، باب ثواب الاضحية، حديث نمبر 3123) حضرت امام محمد بن سیرین بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمرؓ سے پوچھا کہ کیا قربانی واجب ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی دی آپ کے بعد مسلمانوں نے اسے جاری رکھا.اس طرح یہ سنت جاری ہو گئی.قربانی کا جانور قربانی کے جانور کے بارہ متعدد احادیث میں ذکر ملتا ہے.ایک روایت میں آتا ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُضَحِيَ اشْتَرَىٰ كَبُشَيْنِ عَظِيمَيْنِ سَمِيْنَيْنِ أَقْرَنَيْنِ...وَذَبَحَ أَحَدُ هُمَا عَنْ أُمَّتِهِ وَ ذَبَحَ الْآخَرَعَنُ مُحَمَّدٍ وَ عَنْ آلِ مُحَمَّدٍ عل الله.صلى الله (ابن ماجه، ابواب الاضاحی، باب ام رسول الله ، حدیث نمبر (3122) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو دوموٹے تازے صحت مند سینگوں والے دُنبے خریدتے.ایک اپنی امت کی طرف سے دوسرا اپنی اور اپنی آل کی طرف سے قربانی کے لئے پیش کر دیتے.قربانی کے لئے اونٹ ،گائے ، بکری، بھیٹر ، دنبہ ان میں سے کوئی سا جانور ذبح کیا جاسکتا ہے.اجتماعی قربانی کی صورت میں اونٹ کی قربانی میں دس افراد شامل ہو سکتے ہیں جبکہ
20 20 19 گائے کی قربانی کے سات حصے ہو سکتے ہیں.حضرت ابن عباس سے مروی ہے: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ الله الله في سَفَرٍ فَحَضَرَ الأَضْحَى فَاشْتَرَكْنَا فِي الْبَقَرَةِ سَبْعَةٌ وَفِي الْجُزُورِ عَشَرَةً.أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيَذْبَحُ مَكَانَهَا أُخْرَى وَمَنْ لَمْ يَذْبَحُ فَلْيَذْبَحُ بِاسْمِ اللهِ.(بخاری کتاب التوحيد باب السوال باسماء الله تعالى والاستعاذه بها) حضرت جندب بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عید الاضحی کے دن (ترمذی ابوب الحج باب ماجاء فى الاشتراك في البدنة والبقرة ،حديث نمبر905) دیکھا کہ پہلے آپ نے نماز پڑھائی پھر آپ نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ جس شخص نے نماز عید یعنی ایک سفر پر ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ عید الاضحیٰ آگئی، تو گائے میں سات افراد نے حصہ لیا اور اونٹ کی قربانی میں دس افراد نے حصہ لیا.اونٹ تین سال ، گائے دو سال اور بھیڑ بکری وغیرہ کم از کم ایک سال کی ہونی چاہئے.قربانی کا جانور، کمزور اور عیب دار نہیں ہونا چاہئے لنگڑا ، کان کٹا سینگ ٹوٹا اور کا ناجانور جائز نہیں اسی طرح بیمار اور لاغر کی قربانی بھی درست نہیں.پڑھنے سے پہلے قربانی کا جانور ذبح کر لیا وہ اس کی جگہ دوسرا جانور ذبح کرے اور جس نے ابھی تک ذبیح نہیں کیا وہ اب بسم اللہ پڑھ کر ذبح کرے.حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آنحضور ﷺ نے دومینڈھے قربانی کئے.ذبح کرتے وقت اپنا پاؤں ان کے پہلوؤں پر رکھا.بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُ أَكْبَرُ پڑھا.اور اپنے ہاتھ سے ان کو ذبح کیا.( صحیح بخاری کتاب الا اضاحي باب تكبير عند الذبح،حدیث نمبر 336) قربانی 10 ذوالحجہ کو نماز عید کے بعد سے لے کر 12 ذوالحجہ کو غروب آفتاب سے قبل (جامع ترمذی ابواب الاضاحي باب مالا يجوز من الأضاحي،حدیث نمبر 1497) تک کی جاسکتی ہے.قربانی کا وقت قربانی عید الاضحی کی نماز پڑھ کر کی جاتی ہے پہلے نہیں.اس بارہ میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد مبارک ہے: عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمٍ نَحْرٍ فَقَالَ لَا يَذْبَحَنَّ أَحَدُكُمُ حَتَّى يُصَلِّى.( ترمذی ابواب الاضاحي باب في الذبح بعد الصلوة، حديث نمبر 1507) حضرت براء بن عازب بیان کرتے ہیں کہ قربانی کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ تم میں سے کوئی نماز (عید) سے پہلے قربانی ذبح نہ کرے.عَنْ جُنْدَبٍ شَهِدَ النَّبِيُّ الله يَوْمَ النَّحْرِ صَلَى ثُمَّ خَطَبَ فَقَالَ مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ قربانی کا گوشت قربانی کا گوشت صدقہ نہیں ہر کوئی کھا سکتا ہے.خود بھی کھا ئیں ،عزیز رشتہ داروں اور دوست احباب، ہمسائے اور غرباء میں بھی تقسیم کرنا چاہیئے.بہتر ہے کہ گوشت کے تین حصے کر کے تقسیم کیا جائے.ایک حصہ اپنے لئے ، دوسرا عزیز رشتہ داروں کے لئے اور تیسرا حصہ اگر جماعتی نظام ہو تو اس کے ذریعہ غرباء ومستحقین میں یا اُن لوگوں میں جنہوں نے قربانی نہیں کی تقسیم کیا جانا چاہئے.اور جہاں جماعتی انتظام نہ ہو وہاں خود تقسیم کرنا چاہئے.
22 21 سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں: قربانی کے گوشت کے متعلق یہ ہے کہ یہ صدقہ نہیں ہوتا.چاہئے کہ خود کھائیں ، دوستوں کو دیں چاہے تو سکھا بھی لیں.امیر غریبوں کو دیں ،غریب امیروں کو کہ اس سے محبت بڑھتی ہے لیکن محض امیروں کو دینا (دین) کو قطع کرنا ہے اور محض غریبوں کو دینا اور امیروں کونہ دینا ( دین ) میں درست نہیں.امیروں کے غریبوں اور غریبوں کے امیروں کو دینے سے محبت بڑھتی ہے اور مذہب کی غرض جو محبت پھیلانا ہے پوری ہوتی ہے.پس چاہئے کہ امیر غریبوں کو دیں اور غریب امیروں کو تا کہ محبت بڑھے.“ (خطبہ عیدالاضحیہ 5 راگست 1922 بمقام قادیان از الفضل 17 اگست 1922) سید نا حضرت خلیفہ اسیح الرابع فرماتے ہیں: ”جب قربانی کا گوشت کھاؤ تو یا درکھو تمہیں اپنی جان ، مال، بچوں کی قربانی ہے جو خدا کے حضور پیش کرنی ہے اور وہی اصل عید ہے جو مومن کو یہ قربانیاں یاد دلاتی ہیں.تو اس کو نہ بھولیں...غریبوں کو اس قربانی میں خصوصیت سے یادرکھیں اور جہاں تک ممکن ہو اپنے گھر کے لئے رکھے ہوئے گوشت کے علاوہ یا نظام جماعت کی معرفت یا اپنے طور پر براه راست غریبوں میں گوشت تقسیم کریں کیونکہ یہ وہ ایک دن ہے جس میں کئی بلکہ لاکھوں کروڑوں غریب ایسے ہوں گے جن کو بس اسی دن گوشت نصیب ہوتا ہے.تو یا درکھیں کہ اس کی لذت میں جب تک آپ غربا کو شامل نہ کریں آپ کا دل لذت پاہی نہیں سکتا یعنی حقیقی لذت نہیں پاسکتا.پس جہاں تک ممکن ہے زیادہ سے زیادہ غربا میں یہ گوشت تقسیم کریں.اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے نظام جماعت کی معرفت بھی کریں اور خود بھی اپنے گردو پیش نظر ڈال کر جہاں تک توفیق ہے اس اہم اور قربانی میں شامل عمل کی توفیق پائیں کیونکہ یہاں غریب کو گوشت پہنچانا بھی آپ کی قربانی کا ایک جزو بن جائے گا اور یہ جزو آپ کی لذت میں اضافہ کرے گا.“ خطبہ 18 اپریل 1997 ئاز خطبات عید بن صفحہ 626) قربانی کا گوشت محفوظ کیا جا سکتا ہے سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح الرابع فرماتے ہیں: ”جہاں تک قربانی کے گوشت کا تعلق ہے.یاد رکھیں کہ اگر تیسرا حصہ اس کا اپنے لئے رکھ لیں اور باقی دوحصوں کو غر با اور مسکینوں اور دوسرے رشتے داروں وغیرہ پر تقسیم کر دیں تو یہ عین سنت کے مطابق ہے.اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور ایسے گوشت کو اگر سنبھالا بھی جا سکتا ہو کچھ عرصے کے لئے قربانی کے گوشت کو تو یہ منع نہیں ہے.“ ( خطبہ عیدالاضحیہ 28 مارچ 1999 از خطبات عیدین صفحه 649) قربانی کے گوشت کے بارہ میں سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الرابع مزید فرماتے ہیں: آنحضور علیہ کے زمانے میں عید الاضحی کے موقع پر بادیہ نشینوں میں سے کچھ گیت گانے والے آئے، یہ محتاج لوگ تھے.حضور اکرم ﷺ نے فرمایا تین دن تک کھانے کے لئے گوشت جمع کر لو اور باقی انہیں خیرات کر دو تا کہ وہ بھو کے نہ رہیں.اس کے بعد آئندہ سال صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! لوگ اپنی قربانیوں کی کھالوں سے مشکیں بناتے ہیں اور ان میں چربی ڈالتے ہیں اس پر حضور نے فرمایا پھر کیا ہوا؟ انہوں نے کہا آپ نے ہی تو ہمیں تین دن کے بعد قربانی کے گوشت سے منع فرمایا ہے.حضور ﷺ نے فرمایا میں نے تو تمہیں ان باہر سے آنے والوں کی وجہ سے منع کیا تھا جو اس وقت آگئے تھے.جاؤ اور گوشت کھاؤ اور جمع کرو اور اس سے صدقہ اور خیرات بھی کرو اس لئے آپ بڑے شوق سے رکھ لیا کریں قربانی کا گوشت.لیکن زیادہ دیر فرج میں رکھنا بھی ٹھیک نہیں.وہ کنجوسی ہے.جس حد تک ممکن ہو اس کو تقسیم کر دیا کریں.“ خطبہ 12 فروری 2003 از خطبات عیدین 710،709)