Language: UR
قربانی کا سفر مرتبہ انور محمود خان - لاس انجلس، امریکہ یکے از مطبوعات مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ
ابتدائيه خدا تعالی کی راہ میں مالی قربانیاں پیش کرنا جماعت احمدیہ کے افراد کا طرۂ امتیاز ہے.تحریک جدید کی مد میں افراد جماعت تحریک کی ابتدا سے ہی عظیم قربانیاں پیش کر رہے ہیں اور جب خلفائے احمدیت ان میں سے چند کا انتخاب کر کے اپنے خطبات احباب کو پیش کرتے ہیں اس کی لذت اور اس کا بابرکت اثر مومنین میں مزید قربانی کا جذبہ پیدا کرتا ہے.اس مختصر کتابچہ میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ قربانی کے ان جواہر پاروں کو یکجا جمع کر دیا جائے جو ایک صدی پر پھیلے ہوئے ہیں.دست ان کا ایک انتخاب اس کتابچہ میں پیش خدمت ہے.اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم سب افراد جماعت ان قربانی کرنے والوں کو اپنی شبانه ادعیہ میں یاد رکھیں اور ان کے علم سے مارے اعمال میں قربانی ایک نئی روح بیدار ہو اور ہم سب بھی خدا کے حضور معیاری قربانی پیش کرنے والے ہوں.حضور اقدس ایده الله کی اجازت سے مجلس خدام الاحمديه امريکه اس کو شائع کر رہی ہے اور اس کا انگریزی ترجمہ بھی شائع کیا جا رہا ہے.خدا تعالی اس حقیر کوشش کو قبول فرمائے.آمین والسلام خاکسار انور محمود خان لاس اینجلس آمریکه
بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم پیش لفظ ریزی تحریک جدید جماعت احدیه امریکہ کی سال سے خدمات بالا فجزاء الله تعالى أحسن ) £2 Jul We ایک بہت مبارک اقدام فرمایا.آپ نے مالی قربانی کے موضوع پر قرآن کریم احادیث نبویه، تحررات و ملفوظات حضرت مس موعود علیہ السلام اور خلفائے احدیت کے ارشادات کو جمع کرنا شروع کیا اور مسلسل قسطوں میں جماعت امریکہ کی جماعتوں کو بھجوانے شروع کئے.نیز خدام الام امریکہ کے ممبران کو خصوصیت به روحانی مانده پیش فرمایا مکرم و محترم بلال رانا صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ نے اس اقدام کا اثر دیکھا تو یہ فیصلہ کیا کہ حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی کی اجازت ہے به مجموعه اب حضور پر نور ایدہ اللہ تعالی کی کتاب میں طبع : سے شائع کیا جا رہا.الله تعالی اس کاوش کو شرف قبولیت ہے اور ہر رکت فرما اور تمام قارئین کے ازدیاد ایمان کا باعث بنے.آمين صورت اضافه بوگا اتفاق فی قرآن کریم کے مضامین اتے لیک انگریزی ترجمه انشاء الله وه بهی جلد طبع هو کر أحقر العباد قسم مهدی لاس اینجلس آمریکه
13 16 20 28 32 40 43 47 51 53 54 55 56 58 60 :61 63 63 68 75 فهرست واقعات آدم کے بیٹوں کی قربانی کا ذکر قرآن کریم میں آنحضرت کی قربانیاں صحابہ کی قربانیاں حضرت مسیح علیه السلام کی قربانیاں صابه حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قربانیاں ابتدائی مجاہدین کی قربانیاں اخبار الفضل کا اجراء اور حضرت محمودہ بیگم کی عظیم قربانی خدا اس بندی ؟ تراجم قرآن کریم کی اسکیم کا اجراء مسجد فضل لندن میں پہلے احدی پراس کا قیام مشن بند کرنے کا استعمال اور جامی رد عمل چنده تحریک جدید کا ایک انوکيا پهل، أولاد عطا ہوتا س میں مت ڈرا آگ یاری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے مساجد کے قیام میں مالی قربانیاں واقفات تو کی قربانیاں وعدہ میں غیر معمولی اضافے وعدہ ہات میں کی کے نتائج اور احمدیوں کا ردعمل ان شكرتم لأزيدنكم شادی کے لئے جمع رقم کی قربان سال کا چندہ سال رواں میں دست دیا قبرستان کے لئے ایک برا قطعه زمین دسته دیا زیورات کی قربانی برکات چندہ کے واقعات مالی قربانی کے دردناک واقعات
خدا تعالیٰ کے حضور قربانی پیش کرنے کا عمل اتنا ہی قدیم ہے جتنی کہ انسانی تاریخ ، حضرت آدم کے دو فرزندان کی پیش کردہ قربانی کا ذکر قرآن کریم میں مذکور ہے.چنانچہ قرآن کریم نے سورہ مائدہ کی آیات 28,29 میں اس واقعہ کو اس درج کیا ہے.وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَا ابْنَى ا دَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرُبَانًا فَتُقُتِلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَ لَمْ يُتَقَبَّلُ مِنَ الأَ خَرِ قَالَ لَا فَتَلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ الْمُتَّقِين.اور اُن کے سامنے حق کے ساتھ آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ پڑھ کر سُنا جب ان دونوں نے قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قبول نہ کی گئی.اُس نے کہا میں ضرور تجھے قتل کر دوں گا.( جوابا ) اس نے کہا یقینا اللہ متقیوں ہی کی (قربانی) قبول کرتا ہے.لَئِنُ بَسْطُتُ إِلَى يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَا بِمَا سِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لَا قُتُلَكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبِّ الْعَلَمِينَ اگر تو نے میری طرف اپنا ہاتھ بڑھایا تا کہ تو مجھے قتل کرے (تو) میں (جوابا) تیری طرف ہاتھ بڑھانے والا نہیں تا کہ تجھے قتل کروں یقیناً میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو تمام جہانوں کا رب ہے.1
خلاصہ کلام یہ کہ ان دو بیٹوں میں سے ایک کی قربانی مقبول ہوئی اور دوسرے کی رڈ ہو گئی.یہ پہلا سبق تھا جو کہ بنی نوع انسان کو سکھایا گیا کہ خدا کے حضور وہی قربانی مقبول ہے جو ہر طرح کی ملاوٹ اور الائش سے پاک ہو اور جس کا مقصد حصول خوشنودی ایزدی ہو اور مکمل اخلاص سے پیش کی گئی ہو.قرآن کریم اس اصول قربانی کو اس طرح یوں بیان فرماتا ہے.لَنْ يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاءُ هَا وَلَكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ كَذَلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّر و اللَّهَ عَلَى مَاهَدَكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِيْنَ.(یاد رکھو کہ ) ان قربانیوں کے گوشت اور خون ہرگز اللہ تک نہیں پہنچتے لیکن تمہارے دل کا تقویٰ اللہ تک پہنچتا ہے (در حقیقت ) اس طرح اللہ نے ان قربانیوں کو تمہاری خدمت میں لگا دیا ہے تاکہ تم اللہ کی ہدایت کی وجہ سے اس کی بڑائی بیان کرو.اور تو اسلام کے احکام کو پوری طرح ادا کرنے والوں کو بشارت دے.قربانی کے عمل پر مزید غور کرنے سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ جب ایک شخص کسی کو کوئی تحفہ دیتا ہے اور تحفہ دینے والا اپنے مال کی قربانی کرتا ہے لیکن جس کے لئے یہ قربانی ہوتی ہے وہ اسے تحفہ قبول کر کے لیتا ہے.مثلاً کوئی شوہر اپنی اہلیہ کو زیور بطور تحفہ دیتا ہے تو زیور اس خاتون کے لئے تحفہ کو حکم رکھتا ہے مگر خریدنے والے کی مالی قربانی کا شاہکار.جب وہ خاتون اس تحفہ کو قبول کرتی ہے اور جس کیفیت سے اور مسکراہٹ کے ساتھ وہ اس زیور کو زیب تن کرتی ہے تو اس شوہر کو ایسا لگتا ہے کہ زیور کی قیمت وصول ہو گئی.ہمارے پیارے نبی ﷺ نے یہ فلسفہ تحائف بیان کیا تحائف سے محبت 2
الله بڑھتی ہے.اگر تحفہ دینے والا اپنی نیت کو اور نکھارتا اور یہ کہتا کہ میں یہ اس لئے دے رہا ہوں کہ خدا کے رسول ﷺ نے اہل سے حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے اور تحائف سے محبت بڑھنے کا مژدہ سنایا ہے اور اس تحفہ دینے والے یعنی قربانی کرنے والے کے ثواب میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا.قربانی کی اس داستان کو ذرا آگے لے کر چلیں جب حضرت ابراہیم نے رویاء میں دیکھا کہ آپ اپنے بیٹے کی قربانی دے رہے ہیں.آپ نے حضرت اسماعیل کی رضامندی پر اس عمل کی تیاری شروع کی.جب آپ نے قصد کیا اور قربانی کے عمل کی شروعات کی تو خدا تعالیٰ نے آپ کو یہ آگاہ کیا کہ اس عمل کی شروعات کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے آپ کی یہ قربانی قبول فرمائی ہے.بنی نوع انسان کے لئے قربانی کے ضمن میں دوسری مرتبہ یہ سبق دیا گیا کہ اگر نیت خالص اور محض اللہ ہے تو وہ بارگاہ ایزدی میں مقبول ہے.کسی شاعر نے اپنے خاص انداز میں اس اخلاص قلب کی یوں نشاندہی کی.خلوص دل سے ہو جو سجدہ اس سجدے کا کیا کہنا ہیں کعبہ سرک آیا جبین ہم نے جہاں رکھ دی آئیے اب مزید آگے چلیں اور قربانی کے تصور کی انتہائی منزل کو مشاہدہ کریں کہ کس طرح نبیوں کے سردار حضرت محمد ﷺ کی زندگی کیسے قربانی کی معراج پیش کرتی ہے جس کے بارے میں خدا تعالیٰ خود گواہی دیتا ہے چنانچہ سورہ مائدہ آیت 163 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمينَ تو (اُن سے ) کہہ دے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری 3
زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے.اس آیت کریمہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے کہ آپ کی زندگی کا ہر لمحہ اپنے رب کی یاد میں گزرتا تھا.آئیے چند لمحات زندگی ہم آپ کے ساتھ گزاریں.انفاق فی سبیل اللہ کی مثال کتنی دلکش اور ایمان افروز ہے کہ دل عش عش کر اُٹھتا ہے.صلى الله ایک دفعہ آپ کے پاس دس درہم تھے.کپڑے کا تاجر آیا ،رسول اللہ ﷺ نے چار درہم میں ایک نمیض خریدی ، وہ چلا گیا تو آپ نے وہ ہمیض زیب تن کر لی ، اچانک ایک حاجت مند آیا اس نے آکر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول آپ مجھے کوئی قمیض عطا فرما ئیں.اللہ تعالیٰ آپ کو جنت کے لباس میں سے کپڑے پہنائے.حضور ﷺ نے وہ قمیض اتار کر اسے دے دی.پھر آپ دوکاندار کے پاس گئے اور اس سے ایک اور قمیض چار درہم میں خرید لی.آپ کے پاس ابھی دو درہم باقی تھے.راستے میں آپ کی نظر ایک لونڈی پر پڑی جو بیٹھی رو رہی تھی.آپ نے پوچھا کیوں روتی ہو؟ کہنے لگی مجھے اپنے مالکوں نے دو درہم دے کر آٹا خرید نے بھیجا تھا درہم گم ہو گئے ہیں.نبی کریم ﷺ نے باقی دو درہم اسے دے دیئے.مگر وہ پھر بھی روتی جا رہی تھی.آپ نے اُسے بلا کر پوچھا کہ اب کیوں رو رہی ہو وہ کہنے لگی اس خوف سے کہ گھر والے( تاخیر ہو جانے کے سبب) سزا دیں گے.آپ اس بچی کے ساتھ ہو لئے اور اس کے گھر تشریف لے گئے ، گھر والے تو خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے کہنے لگے ہمارے ماں باپ آر پر قربان آپ نے کیسے قدم رنجہ فرمایا.آپ نے ( تفصیل سنا کر) فرمایا یہ آپ کی
اور آن صل الله لونڈی ڈرتی تھی کہ آپ لوگ اسے سزا دو گے.اس کی مالکہ بولی کہ خدا کی خاطر پ کا ہمارے گھر چل کر آنے کے سبب میں اسے آزاد کرتی ہوں.رسول کریم ﷺ نے اسے جنت کی بشارت دی اور فرمانے لگے دیکھو اللہ تعالیٰ نے ہمارے دس درہموں میں کیسی برکت ڈالی؟ ان درہموں میں اپنے نبی کو قمیض بھی عطا کر دی ، ایک انصاری کے لئے بھی قمیض کا انتظام کیا اور ایک لونڈی کی گردن بھی آزاد کر دی.میں اللہ کی حمد اور تعریف کرتا ہوں جس نے اپنی قدرت سے یہ سب کچھ عطا فرمایا.(اسوہ انسان کامل ص 441) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے 25 سال کی عمر میں حضرت خدیجہ سے شادی کی.شادی کے بعد حضرت خدیجہ نے اپنا سارا مال اور غلام آنحضور ﷺ کو ہبہ کر دیا.آنحضور ﷺ نے غلام زید بن حارثہ کو آزاد کر دیا اور اموال کو خدا تعالیٰ کی راہ میں بے دریغ خرچ کئے.اس نوجوانی میں جب لوگوں کو کس قدر ارمان ہوتے ہیں اور مالی فراخی کی کس قدر خواہش مگر حضور ﷺ نے یہ سب خدا کی خاطر قربان کر دیئے.آئیے اب حضور ﷺ کی زندگی کا وہ لمحہ دیکھیں جب آپ کے پاس سب سے زیادہ اموال آئے اور آپ نے زندگی کے اس لمحے کو کیسے گزارا.ایک دفعہ آپ کے پاس 70 ہزار درہم آئے اور یہ سب سے زیادہ مال تھا جو آپ کے پاس آیا یہ دور ہم آپ نے چٹائی پر رکھ دیئے پھر آپ بانٹنے کے لئے کھڑے ہوئے اور ان کو تقسیم کر کے دم لیا.اس دوران جو سوالی بھی آیا اسے آپ نے عطا کیا.یہاں تک کہ وہ چٹائی صاف ہو گئی ،ایک اور روایت میں 90 ہزار درہم بیان ہوا ہے.(اسوہ انسان کامل ص 447) 5
ہم نے عائلی زندگی کی ابتدا دیکھی کہ کیسے حضرت خدیجہ کی بہ شدہ رقم اور غلام آپ نے اللہ کی راہ میں بانٹ دیئے.ہم نے آپ کی زندگی میں کثرت اموال کے موقعہ پر آپ کی جودوسخا اور قربانی کی لذت اٹھائی.اب آپ کی زندگی کی آخری پونجی کی داستان سنیں جو سات درہم تھی.حضرت سہل بن سعد بیان کرتے ہیں کہ بنی کریم نے سات دینار حضرت عائشہ کے پاس رکھوائے تھے.آخری بیماری میں فرمایا کہ اے عائشہ وہ سونا جو تمہارے پاس رکھوائے تھے کیا ہوا.عرض کیا میرے پاس ہیں فرمایا صدقہ کر دو آپ پر غشی طاری ہو گئی اور حضرت عائشہ آپ کے ساتھ مصروف ہو.جب ہوش آئی پوچھا کہ کیا وہ سونا صدقہ کر دیا ، عرض کی ابھی نہیں کیا ، چنانچہ آپ نے وہ دینار منگوا کر ہاتھ پر رکھ کر گنے اور فرمایا محمد کا اپنے رب پر کیا تو کل ہوا اگر خدا سے ملاقات اور دنیا سے رخصت ہوتے وقت یہ دینار اس کے پاس ہوں پھر وہ دینار صدقہ کر دیئے اور اس روز آپ کی وفات ہوگئی.هشیمی مجمع الروالہ جلد 3 ص 124 مطبوعہ بیروت) یہ تھے ہمارے پیارے آقا جن کا ہر عمل تفسیر قرآن ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں صحابہ رضوان اللہ اجمعین نے جانی اور مالی قربانیاں پیش کیں اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ان کو قبول کیا بلکہ قرآن کریم میں امتیازی القاب سے نوازا کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے سے راضی تھے.سبحان اللہ کیا شان ہے ان پاک وجودوں کی آنحضور ﷺ نے بھی یہ ارشاد فرمایا کہ میرے صحابہ کی مثال ستاروں سے ماند ہے ( جو راستہ دکھانے میں محمد ہوتے ہیں) تم ان میں سے جس کسی کی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤ گے.
آئیے اب قربانی کے سفر کو مزید آگے بڑھاتے ہیں اور صحابہ کی زندگیوں سے وہ روحانی موتی جمع کرتے ہیں جو انہوں نے اپنی مالی قربانیوں سے استوار کئے.، قرآن کریم میں 50 کے لگ بھگ آیات ایسی ہیں جن میں انفاق فی سبیل اللہ کے بارے میں ہدایات اور تفصیلات ہیں.ان میں سے چند ایک کا مطالعہ کرتے ہیں کہ جب ان کا نزول ہوا تو صحابہ نے کس قدر ان احکامات کو حرز جان بنایا اور قربانی کے اس سفر کو نہایت دلکش اور روحانیت سے پُر کر دیا.١ - لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ، وَمَا تُنفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيم o تم ہرگز نیکی کو پا نہیں سکو گے یہاں تک کہ تم اُن چیزوں میں سے خرچ کرو جن سے تم محبت کرتے ہو.اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو تو یقینا اللہ اس کو خوب جانتا ہے.(ال عمران : 93) اس سلسلے میں حضرت طلحہ نے ایک عظیم قربانی پیش فرمائی.حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ ابوطلحہ انصاری مدینہ کے انصار میں سب سے زیادہ مالدار تھے.ان کے کھجوروں کے باغات تھے جن میں سب سے زیادہ عمدہ باغ پر حاء نامی تھا جو حضرت طلحہ کو بہت پسند تھا اور مسجد نبوی کے سامنے بالکل قریب تھا، آنحضور بالعموم اس باغ میں جاتے اور اس کا میٹھا اور عمدہ پانی پیتے.جب یہ آیت نازل ہوئی کہ جب تم اپنے پسندیدہ مال میں سے خرچ نہیں کرتے نیکی کو نہیں پا سکتے تو حضرت ابو طلحہ آنحضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ آپ پر اس مضمون کی آیت نازل ہوئی ہے اور میری سب سے پیاری جائیداد آن 7
پر حاء کا باغ ہے میں اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ اللہ میری اس نیکی کو قبول کرے گا اور میرے آخرت کے ذخیرہ میں شامل کرے گا.حضور اپنی مرضی کے مطابق اس کو اپنے مصرف میں لائیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا واہ واہ بہت ہی اعلیٰ اور عمدہ مال ہے بڑا نفع مند ہے اور جو تو نے کہا ہے وہ بھی میں نے سن لیا ہے.میری رائے یہ ہے کہ تم یہ باغ اپنے رشتہ داروں اور چچیرے بھائیوں میں تقسیم کرو.(حديقة الصالحين 699) ٢ - مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضْعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ کون ہے جو اللہ کو قرضہ حسنہ دے تا کہ وہ اس کے لئے اسے کئی گنا بڑھائے.اور اللہ ( رزق ) قبض بھی کر لیتا ہے اور کھول بھی دیتا ہے.اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے.حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب ابو الله الد عداع' آنحضرت علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ میرے پاس دو باغ ہیں اور اگر میں ان میں سے ایک صدقہ کر دوں تو کیا مجھے جنت میں ایسا ہی باغ ملے گا.فرمایا ہاں پھر انہوں نے پوچھا کہ کیا میری بیوی اور بیٹا بھی میرے ساتھ ہوں گے ، فرمایا ہاں اس پر اس پر ابوالد عدائخ نے کہا کہ میں اپنا بہترین باغ راہِ خدا میں صدقہ کرتا ہوں اور پھر وہ اپنے گھر والوں کے پاس گئے جو اسی باغ میں تھے.وہ باغ کے دروازے پر کھڑے ہو گئے اور اپنی بیوی کو یہ واقعہ سنایا ، انہوں نے جواب دیا کہ آپ نے بہت اچھا سودا کیا ہے.پھر وہ اس باغ سے چلے گئے.آنحضور نے فرمایا ابوالد عداع کے لئے کتنے ہی 00 8
لہلہاتے ہوئے باغات ہیں.ط (سورۃ البقرہ آیت 248 تفسیر کبیر رازی جلد 6 ص 166) ٣- الَّذِينَ يَلْمِرُونَ الْمُطَّوَ عِيْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي صَّدَقَتِ وَ الَّذِيُنِ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَ هُمُ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ سَخِرَ اللهُ مِنْهُمْ وَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمه وہ لوگ جو مومنوں سے دلی شوق سے نیکی کرنے والوں پر صدقات کے بارہ میں تہمت لگاتے ہیں اور ان لوگوں پر بھی جو اپنی محنت کے سوا ( اپنے پاس) کچھ نہیں پاتے.پس وہ ان سے تمسفر کرتے ہیں.اللہ ان کے تمسخر کا جواب دے گا اور ان کے لئے درد ناک عذاب ( مقدر) ہے.قرآن کریم میں چھوٹی سی چھوٹی نیکی کے وافر اجر کا وعدہ کیا ہے اس کا عملی نمونہ حضرت عائشہ کے اس عمل سے واضح ہے ایک دفعہ کسی مسکین نے حضرت عائشہ سے کھانا طلب کیا ان کے سامنے انگور کا ایک خوشہ رکھا ہوا تھا.حضرت عائشہ نے ایک آدمی سے کہا کہ یہ خوشا اس سائل کو دے دو.اس آدمی نے تعجب کیا تو آپ نے یہ آیت تلاوت کی فمن يعمل مثقال ذرة خيراً يره اگر کوئی ذرہ برابر بھی نیکی کرے تو اس کا بدلہ پائے گا.غریب صحابہ کی قربانی کا یہ عالم تھا وہ مزدوری اور رات کی دھاڑی لگا کر مالی قربانی میں حصہ لیتے.مندرجہ بالا آیت کا نزول بھی اس ایک قربانی کی داستان پیش کر رہا ہے.حضرت ابو عقیل ایک دفعہ ایک جہاد کے لئے تیاری میں شریک ہونے کے لئے ساری رات مزدوری کی اور دو صاع (قریباً سات 9
سیر ) کھجوریں حاصل کیں اس میں سے ایک صاع تو گھر والوں کے لئے رکھ لیا اور دوسرا آنحضور ﷺ کی خدمت میں لے کر حاضر ہو گئے اور عرض کیا کہ تقرب الی اللہ کے لئے اسے صدقہ کرتا ہوں.اس مجمع میں منافقین بھی تھے انہوں نے اس بات پر حضرت ابو عقیل کا مذاق اُڑایا کہ ایک صاع کھجور دے کر قرب الہی حاصل کرنا چاہتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت (مندرجہ بالا) نازل کی اور منافقین کو نہ صرف منہ توڑ جواب ملا بلکہ ان کے لئے دردناک عذاب کی خبر دی کتنے پیارے انداز میں خدا تعالیٰ نے اس غریب کی قربانی کو سراہتے ہوئے اس پر ہنسی کرنے والوں کو عذاب کی منذر خبر سنائی.قربانی کی داستانِ صحابہ رہتی دنیا تک حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی مسابقت کے واقعہ سے بھی رہے گی.غزوہ تبوک کے موقع پر ایک دفعہ آنحضور ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ وہ صدقہ کریں.حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ حسنِ اتفاق سے اس وقت میرے پاس کافی مال تھا.انہوں نے اپنے دل میں کہا اگر میں ابو بکر سے کسی دن آگے بڑھ سکتا ہوں تو یہ آج کا دن ہے.چنانچہ میں اپنا نصف مال لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا.حضور نے پوچھا گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو.میں نے کہا نصف مال لیکن ابوبکر اپنا سب کچھ لے کر آگئے.آنحضرت اللہ نے ان سے دریافت کیا اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو انہوں نے کہا میں نے ان کے لئے اللہ اور اس کے رسول کو باقی چھوڑا ہے.ہیں.(جامع ترمذی کتاب المناقب ابی ابی بکر و عمر حدیث نمبر 3608) حضرت مسیح موعود علیہ السلام صحابہ کی ان قربانیوں کے بارے میں فرماتے 10
”ہمارے بادی اکمل کے صحابہ نے اپنے خدا اور رسول کے لئے کیا کیا جاشاریاں کیں ، جلا وطن ہوئے.ظلم اُٹھائے ، طرح طرح کے مصائب برداشت کیے ، جانیں دیں لیکن صدق و وفا کے ساتھ قدم مارتے ہی گئے.پس وہ کیا بات تھی کہ جس نے انہیں ایسا جاں نثار بنا دیا.وہ سچی الہی محبت کا جوش تھا.جس کی شعاع اُن کے دل میں پڑ چکی تھی، اس لیے خواہ کسی نبی کے ساتھ مقابلہ کر لیا جائے ، آپ کی تعلیم ، تزکیہ نفس ، اپنے پیروؤں کو دنیا سے متنفر کر دینا ، شجاعت کے ا ساتھ صداقت کے لیے خون بہا دینا ، اس کی نظیر کہیں نہ مل سکے گی.یہ مقام الله آنحضرت ﷺ کے صحابہ کا ہے اور اُن میں جو باہمی الفت و محبت تھی.اس کا نقشه دو فقروں میں بیان فرمایا ہے.وَ اَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمُ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الَا رُضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوْ بِهِم (الانفال:64) یعنی جو تالیف اُن میں ہے وہ ہرگز پیدا نہ ہوتی ، خواہ سونے کا پہاڑ بھی دیا جاتا.اب ایک اور جماعت مسیح موعودؓ کی ہے جس نے اپنے اندر صحابہ نے اپنا مال ، اپنا وطن راہ حق میں دے دیا اور سب کچھ چھوڑ دیا.حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا معاملہ اکثر سُنا ہو گا.ایک دفعہ جب راہ خدا میں مال دینے کا حکم ہوا تو گھر کا کل اثاثہ لے آئے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ گھر میں کیا چھور آئے.تو فرمایا کہ خدا اور رسول گھر چھوڑ آیا ہوں.رئیس مکہ ہو کمبل پوش، غرباء کا لباس پہنے ، یہ سمجھ لو کہ وہ لوگ تو خدا کی راہ میں شہید ہو گئے.ان کے لیے تو یہی لکھا ہے کہ سیفوں ( تلواروں کے نیچے بہشت ہے ).( ملفوظات جلد اول ص 27) آئیے اب اس قربانی کے سفر کو مزید آگے لے کر چلتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ امام مہدی کے دور میں کیا قربانیاں پیش کی گئیں.خود امام مہدی جو مجسم خدمت اسلام کی جیتی جاگتی تصویر تھے اور جنہوں نے بارگاہ رب العزت میں یہ 11
التجا پیش کی.دیکھ سکتا ہی نہیں میں ضعف دین مصطفی کر مجھے اے مرے سلطان کامیاب و کامگار از سر نو احیائے اسلام کے لئے آپ نے اللہ سے نہ صرف گریہ کی بلکہ اپنا تن من دھن سب اسی راہ میں وقف کر دیا.اس ضمن میں یہ بتانا ضروری ہے کہ ظلمت و تاریکی کے اس پر آشوب دور میں آپ نے ایک معرکۃ الآرا کتاب براہین احمدیہ تصنیف فرمائی اور تمام مذاہب کو مقابلے کے لئے چیلنج کر دیا اور اپنی کل جائیداد جس کی مالیت دس ہزار روپے تھی اس راہ میں پیش فرما دی.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اپنی کتاب ”حیات طیبہ میں اس کا ذکر اس طرح فرماتے ہیں.ان حالات میں قادیان کی گمنام بستی سے خدا کا ایک پہلوان اُٹھا اور اس نے قرآن مجید کی فضیلت ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت ، الہام کی ضرورت اور اس کی حقیقت پر مشتمل ایک ایسی عدیم النظیر کتاب لکھی کہ جس سے جہاں دشمنانِ اسلام کے چھکے چھوٹ گئے وہاں مسلمانانِ ہند کے حوصلے بلند ہو گئے.اس کتاب کا پہلا حصہ ۱۸۸۰ء میں شائع ہوا.اس حصہ میں آپ نے جملہ مذاہب عالم کے لیڈروں کو چیلنج کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن مجید کی حقیقت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے ثبوت میں جو دلائل ہم نے اپنی الہامی کتاب یعنی قرآن کریم سے نکال کر پیش کئے ہیں.اگر کوئی غیر مسلم ان سے نصف یا تیسرا حصہ یا چوتھا حصہ ہی اپنے مذہب کے عقائد کی صداقت کے ثبوت میں اپنی الہامی کتاب سے نکال کر دکھاوے یا اگر دلائل پیش کرنے سے عاجز ہو تو ہمارے دلائل کو ہی نمبر وار تو ڑ کر دکھا دے تو میں بلا تامل اپنی دس ہزار روپیہ کی 12
جائداد اس کے حوالہ کر دوں.مگر یہ شرط لازمی ہوگی کہ تین مسلمہ ججوں کا ایک بورڈ یہ فیصلہ دے کہ جواب شرائط کے مطابق تحریر کیا گیا ہے.اس چیلنج کے جواب میں بعض مخالفین اسلام نے اس کتاب کا رڈ لکھنے کے پُر جوش اعلانات کئے جس پر آپ نے فوراً لکھا کہ :- 25 سب صاحبوں کو قسم ہے کہ ہمارے مقابلہ پر ذرا توقف نہ کریں.افلاطون بن جاویں.بیگن کا اوتار دھاریں ارسطو کی نظر اور فکر لادیں.اپنے مصنوعی خداؤں کے آگے استمداد کے لیے ہاتھ جوڑیں.پھر دیکھیں جو ہمارا خدا غالب آتا ہے یا آپ لوگوں کے آئمہ باطلہ.(حیات طیبہ ص 47) 1890ء میں حضور اقدس نے رسالہ فتح اسلام تصنیف فرمایا جس میں آپ نے نشر و اشاعت اور تبلیغ اسلام کو وسعت دینے کے لئے اذنِ الہی سے ایک آسمانی ورکشاپ کا اعلان فرمایا اور اس کی پانچ شاخیں بیان کیں.تیسری شاخ سلسلۂ مہمانان اور زائرین ہے جس کے ذریعہ ہزاروں حق کے متلاشی بنفس نفیس حضور اقدس کی ملاقات کے لئے تشریف لائے.ان کی مہمان نوازی کے اخراجات خود حضور اقدس برداشت کرتے تھے.اس سلسلہ میں آپ نے فرمایا.تیسری شاخ اس کارخانہ کی واردین اور صادرین کی تلاش کے لئے سفر کرنے والے اور دیگر اغراض متفرقہ سے آنے والے ہیں جو اس آسمانی کارخانہ کی خبر پا کر اپنی اپنی نیتیوں کی تحریک سے ملاقات کے لئے آتے رہتے ہیں.یہ شاخ بھی برابر نشو و نما میں ہے.اگر چہ بعض دنوں میں کچھ کم مگر بعض دنوں میں نهایت سرگرمی سے اس کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے.چنانچہ ان سات برسوں میں ساٹھ ہزار سے کچھ زیادہ مہمان آئے ہوں گے اور جس قدر اُن میں سے مستعد لوگوں کو تقریری ذریعوں سے روحانی فائدہ پہنچایا گیا اور اُن کے مشکلات حل کر 13
دیئے گئے.(فتح اسلام ص 22-21 ) اگلے سال 1891ء میں پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا اور کثیر تعداد میں مہمانان تشریف لائے.ان کی ضیافت کا کل خرچ حضور اقدس نے خود برداشت کئے.اس ضمن میں ایک عظیم تائیدی نشان ظاہر ہوا.تاریخ احمدیت میں یوں درج ہے.ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقعہ پر خرچ نہ رہا.ان دنوں سالانہ جلسہ کے لیے چندہ جمع ہو کر نہیں جاتا تھا حضور اپنے پاس سے ہی صرف فرماتے تھے.میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے آکر عرض کی کہ رات کو مہمانوں کے لیے کوئی سالن نہیں ہے آپ نے فرمایا کہ بیوی صاحبہ سے کوئی زیور لے کر جو کفایت کر سکے فروخت کر کے سامان کر لیں.چنانچہ زیور فروخت یا رہن کر کے میر صاحب روپیہ لے آئے اور مہمانوں کے لیے سامان بہم پہنچادیا.دو دن کے بعد پھر میر صاحب نے رات کے وقت میری موجودگی میں کہا کہ کل کے لئے پھر کچھ نہیں فرمایا کہ ہم نے رعایت اسباب کے انتظام کر دیا تھا.اب ہمیں ضرورت نہیں جس کے مہمان ہیں وہ خود کر لے گا.اگلے دن آٹھ یا نو بجے جب چٹھی رساں آیا تو حضور نے میر صاحب کو اور مجھے بلایا.چٹھی رساں کے ہاتھ میں دس یا پندرہ کے قریب منی آرڈر ہوں گے جو مختلف جگہوں سے آئے تھے سوسو پچاس پچاس روپے کے.اور ان پر لکھا تھا کہ ہم حاضری سے معذور ہیں.مہمانوں کے صرف کے لیے یہ روپے بھیجے جاتے ہیں آپ نے وصول فرما کر تو کل پر تقریر فرمائی.کہ جیسا کہ ایک دنیا دار کو اپنے صندوق میں رکھے ہوئے روپوں پر بھروسہ ہوتا ہے کہ جب چاہوں گا نکال لوں گا.اس سے زیادہ ان لوگوں کو جو اللہ تعالیٰ پر پورا تو کل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ پر یقین ہوتا ہے.اور ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب ضرورت 14
ہوتی ہے تو فوراً خدا تعالیٰ بھیج دیتا ہے.“ ریویو آف ریلیجنز اردو جنوری 1942ء ص 45-44) یہ واضح ثبوت ہے کہ کس طرح نیک نیتی سے پیش کی ہوئی قربانی خدا تعالیٰ نے قبول فرمائی اور آپ کا خود کفیل ہو گیا.الحمد للہ آئیے اب صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قربانیوں پر نظر ڈالتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے خدا کے حضور اپنی مالی قربانیوں کی ایک حسین داستان رقم فرمائی.چند ایک واقعات نمونہ کے طور پر پیش ہیں جن کا ذکر خود خلفائے احمدیت نے پیش کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی تصنیف فتح اسلام میں فرماتے ہیں.”سب سے پہلے میں اپنے ایک روحانی بھائی کے ذکر کے لئے دل میں جوش پاتا ہوں جن کا نام اُن کے نام اُن کے نورِ اخلاص کی طرح نور دین ہے میں ان کی بعض دینی خدمتوں کو جو اپنے مال حلال کے خرچ سے اعلاء کلمہ اسلام کے لیے وہ کر رہے ہیں ہمیشہ حسرت کی نظر سے دیکھتا ہوں کہ کاش وہ خدمتیں مجھے سے بھی ادا ہو سکتیں.اُن کے دل میں تائید دین کے لیے جوش بھرا ہے اُس کے تصور سے قدرت الہی کا نقشہ میری آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے کہ وہ کیسے اپنے بندوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے.وہ اپنے تمام مال اور تمام اسباب مقدرت کے ساتھ جو اُن کو میسر ہیں ہر وقت اللہ رسول کی اطاعت کے لیے مستعد کھڑے ہیں اور میں تجربہ سے نہ صرف حُسنِ ظن سے یہ علم صحیح واقعی رکھتا ہوں کہ انہیں میری راہ میں مال کیا بلکہ جان اور عزت تک دریغ نہیں.اور اگر میں اجازت دیتا تو وہ سب کچھ اس راہ میں فدا کر کے اپنی روحانی رفاقت کی طرح جسمانی رفاقت اور ہر دم صحبت میں رہنے کا حق ادا کرتے.15
از آن جمله اخویم حکیم فضل دین بھیروی ہیں.حکیم صاحب مدروح جس قدر مجھ سے محبت اور اخلاص اور حسن ارادت اور اندرونی تعلق رکھتے ہیں میں اُس کے بیان کرنے سے قاصر ہوں.وہ میرے بچے خیر خواہ اور دلی ہمدرد اور حقیقت شناس مرد ہیں.بعد اس کے جو خدا تعالیٰ نے اس اشتہار کے لکھنے کے لیے مجھے توجہ دی اور اپنے الہامات خاصہ سے امیدیں دلائیں میں نے کئی لوگوں سے اس اشتہار کے لکھنے کا تذکرہ کیا کوئی مجھے سے متفق الرائے نہیں ہوا لیکن میرے یہ عزیز بھائی بغیر اس کے کہ میں ان سے ذکر کرتا خود مجھے اس اشتہار کے لکھنے کے لیے محرک ہوئے اور اس کے اخراجات کے واسطے اپنی طرف سے سو روپیہ دیا میں ان کی فراست ایمانی سے متعجب ہوں کہ اُن کے ارادہ کو خدا تعالیٰ کے ارادہ سے تو ارد ہو گیا.وہ ہمیشہ در پردہ خدمت کرتے رہتے ہیں اور کئی سو روپیہ پوشیدہ طور پر محض ابتغاء لمرضات اللہ اس راہ میں دے چکے ہیں.خدا تعالیٰ انہیں جزائے خیر بخشے (فتح اسلام ) حضرت مصلح موعودؓ حضرت منشی اروڑے خان صاحب کے بارے میں فرماتے ہیں:.” مجھے وہ نظارہ نہیں بھولتا اور نہیں بھول سکتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات پر ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ ایک دن باہر سے مجھے آواز دے کر بلوایا اور خادمہ یا کسی بچے نے بتایا کہ دروازہ پر ایک آدمی کھڑا ہے اور وہ آپ کو بلا رہا ہے.میں باہر نکلا تو منشی اروڑے خان صاحب مرحوم کھڑے تھے.وہ بڑے تپاک سے آگے بڑھے مجھے مصافحہ کیا اور اس کے بعد انہوں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا جہاں تک مجھے یاد ہے انہوں نے اپنی جیب سے دو یا دویا تین پونڈ نکالے اور مجھے کہا کہ یہ اماں جان کو دے دیں اور یہ کہتے ہی ان پر ایسی 16
رقت طاری ہوئی کہ چیچنیں مار کر رونے لگ گئے اور ان کے رونے کی جب ان کو ذرا صبر آیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ روئے کیوں ہیں.وہ کہنے لگے میں غریب آدمی تھا مگر جب بھی مجھے چھٹی ملتی پھر قادیان آنے کے لیے چل پڑتا تھا.سفر کا بہت سا حصہ میں پیدل ہی طے کرتا تھا تا کہ سلسلہ کی خدمت کے لیے کچھ پیسے بچ جائیں مگر پھر بھی روپیہ ڈیڑھ روپیہ خرچ ہو جاتا یہاں آکر جب میں امراء کو دیکھتا کہ وہ سلسلہ کی خدمت کے لئے بڑا روپیہ خرچ کر رہے ہیں تو میرے دل میں خیال آتا کہ کاش میرے پاس بھی روپیہ ہو اور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بجائے چاندی کا تحفہ لانے کے سونے کا تحفہ پیش کروں.آخر میری تنخواہ کچھ زیادہ ہوگئی (اس وقت ان کی تنخواہ شاید میں چھپیں روپیہ تک پہنچ گئی تھی اور میں نے ہر مہینے کچھ رقم جمع کرنی شروع کر دی اور میں اپنے دل میں یہ نیت کی کہ یہ رقم اس مقدار تک پہن جائے گی جو میں چاہتا ہوں تو میں اسے پونڈوں کی صورت میں تبدیل کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کروں گا.پھر کہنے لگے جب میرے پاس ایک پونڈ کے برابر رقم جمع ہو گئی تو وہ رقم دے کر میں نے ایک پونڈ لے لیا.پھر دوسرے پونڈ کے لئے رقم جمع کرنی شروع کر دی اور جب کچھ عرصہ کے بعد اس کے لیے رقم جمع ہو گئی تو دوسرا پونڈ لے لیا.اسی طرح میں آہستہ آہستہ کچھ رقم پونڈوں کی صورت میں تبدیل کرتا رہا اور میرا منشا یہ تھا کہ میں یہ پوند حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کروں گا.مگر جب میرے دل کی آرزو پوری ہو گئی اور پونڈ میرے پاس جمع ہوگئے تو یہاں تک وہ پہنچے تھے کہ پھر ان پر رقت کی حالت طاری ہو گئی اور وہ رونے لگ گئے.آخر روتے روتے انہوں نے اس فقرے کو اس طرح پورا کیا کہ جب پونڈ میرے پاس جمع ہو گئے تو 17
66 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہو گئی.“ لنگر خانے کے ضمن میں ایک واقعہ پہلے بیان ہوا ہے.یہ دوسرا واقعہ بھی اپنی مثال آپ ہے.جب ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب (انہوں) نے ایک دوست سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعوئی سنا تو آپ نے سنتے ہی فرمایا کہ اتنے بڑے دعوے کا شخص جھوٹا نہیں ہوسکتا اور آپ نے بہت جلد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر لی.حضرت صاحب نے ان کا نام اپنے بارہ حواریوں میں لکھا ہے.اور ان کی قربانیاں اس حد تک بڑھی ہوئی تھیں کہ حضرت صاحب نے ان کو تحریری سند دی کہ آپ نے سلسلہ کے لیے اس قدر مالی قربانی کی ہے کہ آئندہ آپ کو قربانی کی ضرورت نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ زمانہ مجھے یاد ہے جبکہ آپ ہر مقدمہ گورداسپور میں ہو رہا تھا اور اس میں روپیہ پیسہ کی ضرورت تھی.حضرت صاحب نے دوستوں میں تحریک بھیجی کہ چونکہ اخراجات بڑھ رہے ہیں لنگر خانہ دو جگہ پر ہو گیا ہے.ایک قادیان میں اور ایک یہاں گورداسپور میں اس کے علاوہ اور مقدمہ پر خرچ ہو رہا ہے لہذا دوست امداد کی طرف توجہ کریں.جب حضرت صاحب کی تحریک ڈاکٹر صاحب کو پہنچی تو اتفاق ایسا ہوا کہ اس دن ان کو تنخواہ قریباً 450 روپے ملی تھی وہ ساری کی ساری تنخواہ اسی وقت حضرت صاحب کی خدمت میں بھیج دی.ایک دوست نے سوال کیا کہ آپ کچھ رقم گھر کی ضرورت کے لیے رکھ لیتے تو انہوں نے کہا کہ خدا کا مسیح لکھتا ہے کہ دین کے لیے ضرورت ہے تو پھر اور کس کے لیے رکھ سکتا ہوں.“ ( تقریر جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1926ء ) ( انوار العلوم جلد 9 ص 403) ابتدائی مجاہدین کی قربانیاں 18
تحریک جدید کا آغاز 1934 ء میں ہوا اور ابتدائے تحریک سے ہی احمد یوں کی قربانیاں ایک نہایت دلکش اور دلسوز اور ایمان افروز واقعات پر مشتمل ہیں.ذیل میں اس ابتدائی دور کی جھلکیاں پیش خدمت ہیں بعض قربانیوں کو خلفائے احمدیت کے مبارک ارشادات کے رنگ میں ضبط تحریر کیا گیا ہے جن میں ان قربانیوں کو ابدی مقام حاصل ہو گیا.حضرت خلیفہ اسیح الرابع کی زبان مبارک سے اس کا ذکر یوں ملتا ہے.چنانچہ اس پس منظر میں 1934 ء حضرت مصلح موعود نے اس تحریک کا آغاز فرمایا.اس وقت کے اقتصادی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور اس وقت کی جماعت کی غربت کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ نے اپنے اندازے کے مطابق ستائیس ہزار روپے کی تحریک فرمائی اور اس پر بھی آپ کا یہ تاثر تھا کہ اس وقت جماعت کے اقتصادی حالات مستقل طور پر یہ بوجھ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں.یا یوں کہنا چاہیے کہ اقتصادی حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ مستقل طور پر یہ تحریک جاری نہ کی جائے بلکہ چند سال کے لیے قربانی مانگی جائے.چنانچہ آپ نے تین سال کے لیے اس چندے کا اعلان فرمایا جس کے ذریعے سے تمام دنیا میں تبلیغ اسلام کی داغ بیل ڈالی جانی تھی.اس وقت حاضرین اس بات کو پوری طرح سمجھ نہیں سکے.بہت سے ایسے تھے جنہوں نے سمجھا کہ یہ تحریک صرف ایک سال کے لیے ہے.چنانچہ انہوں نے بظاہر اپنی توفیق سے بہت بڑھ چڑھ کر ے لکھوائے.سلسلہ کے بعض کلرک ایسے تھے جن کو اس زمانے میں پندرہ روپے ماہانہ تنخواہ ملا کرتی تھی.انہوں نے تین تین مہینے کی تنخواہیں لکھوا دیں بعض ایسے تھے جنہوں نے دو مہینے کی تنخواہ لکھوا دی اور ذہن پر یہی اثر تھا کہ ایک دو سال کے اندر ہم ادا کر دیں گے.سلسلہ کے بہت سے ایسے بزرگ بھی اند 19
لکھوائے جو تھی جو اگر چہ کچھ زائد تنخواہ پانے والے تھے لیکن اس زمانے میں بھی ان کی تنخواہ دنیا کے لحاظ سے بہت کم تھی.مثلاً ناظروں کے معیار کے لوگ اور سلسلہ کے پرانے خدام اور صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی لمبی خدمت کی توفیق پائی تھی پچاس ،ساٹھ ستر روپے ماہوار سے زیادہ ان کی تنخواہیں نہیں تھیں ، ان میں سے بھی بعض نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر چندے لکھوائے.مثلاً حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے اڑھائی سو روپے چندہ لکھوایا.اسی طرح دیگر بزرگوں میں سے مولوی ابوالعطاء صاحب (جو اس وقت کی نسل میں نسبتاً چھوٹے تھے ) اور مولوی جلال الدین صاحب شمس نے بھی پچاس پچاس روپے پچپن پچپن رو پے کو اس زمانے کے لحاظ سے ان کی آمد کے مقابل پر بہت زیادہ تھے.لیکن اس وقت بات کھل کر سامنے نہیں آئی تھی کہ یہ تحریک مستقل نوعیت کی ہے، ہاں بعد میں جب یہ اعلان کیا گیا کہ یہ ایک سال کے لیے نہیں بلکہ تین سال کے لیے تھی تو ان زیادہ لکھوانے والوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا جس نے یہ درخواست کی ہو کہ غلط فہمی میں زیادہ لکھوا دیا گیا ہے، طاقت سے بڑھ کر بوجھ ہے ،اس لیے ہمیں اجازت دی جائے کہ اس چندے کو کم کر دیں.بلکہ خود مصلح موعود نے پیشکش فرمائی کہ اگر کسی نے غلط فہمی سے اپنی طاقت سے بڑھ کر چندہ لکھوا دیا ہے تو اس کو کم کروانے کی اجازت ہے.یہ درخواستیں تو موصول ہوئیں کہ حضور! ہمیں یہ چندہ اسی طرح ادا کرنے کی اجازت دی جائے اور دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس عہد پر قائم رہیں لیکن کوئی یہ درخواست نہیں آئی کہ ہمارے چندے کو کم کر دیا جائے.بعد میں جب یہ بات اور کھل گئی کہ یہ تحریک تین سال کے لئے نہیں بلکہ ایک مستقل اور ایسی عظیم الشان تحریک بننے 20 20
والی ہے جس کے نتیجے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ زمین کے کناروں تک پہنچی تھی.تب بھی کوئی پیچھے نہیں ہٹا ، بلکہ قربانیوں میں آگے بڑھتے چلے گئے.بزرگوں کا بھی یہی عالم تھا.امیروں کا بھی یہی عالم تھا.متوسط طبقے کے لوگ جو سلسلے کے کاموں سے براہ راست متعلق نہیں تھے ان کی بھی یہی کیفیت تھی اور غرباء کی بھی یہی کیفیت تھی.تمام جماعت کے ہر طبقے نے قربانی میں ایک ساتھ قدم اُٹھایا ہے.اور آج جب اعداد و شمار پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ان کے تجزیئے سے ہرگز یہ بات سامنے نہیں آتی کہ کسی طبقے نے زیادہ قربانی کی تھی اور کسی نے کم.امراء نے اپنی توفیق کے مطابق بہت بڑے بڑے قدم اُٹھائے.بڑی بلند ہمتوں کے ساتھ ( دعووں کے ساتھ نہیں ) وعدے لکھوائے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کو پورا کیا.اسی طرح غرباء اپنی توفیق کے مطابق، بلکہ توفیق سے بڑھ کر اس میں شامل ہوئے.وو جوش اور ولولے کا یہ عالم ہوا کرتا تھا کہ جب حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان فرمایا کرتے تھے تو جو لوگ سب سے پہلے دفتر تحریک جدید میں پہنچ کر اپنے چندے لکھواتے تھے ان میں دو دوست پیش پیش تھے.ایک کا نام محمد رمضان صاحب تھا جو مدد گار کارکن تھے اور دوسرے کا نام محمد بوٹا تانگے والا تھا.جب تک وہ زندہ رہے ایک سال بھی اس بات سے پیچھے نہیں رہے.خدا نے ان کو جتنی توفیق بخشی تھی ان کے مطابق وہ لکھواتے تھے اور ادائیگی میں بھی السابقون میں شامل ہوئے تھے.اور وہ لوگ جو سب سے پہلے پرائیویٹ سیکرٹری کے باہر انتظام کر رہے ہوتے تھے (اس زمانے میں لوگ پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر میں پہنچا کرتے تھے ) ان میں یہ دونوں دوست پیش پیش ہوتے تھے.مزدوروں کا یہ عالم تھا کہ سیالکوٹ کے ایک مزدور جو ان دنوں 21
دو روپئے دہاڑی کمایا کرتے تھے ، یعنی دو روپے یومیہ ان کی مزدوری تھی انہوں نے اس زمانے کے لحاظ سے بہت بڑا یعنی تمیں روپے چندہ لکھوایا.ایک اور صاحب تھے ، وہ بھی غریب اور کمزور حال تھے.انہوں نے دس روپے چندہ لکھوایا.تو قربانی کرنے والوں کا یہ حال تھا.جہاں تک اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا تعلق ہے وہ فضل ان لوگوں پر بارش کی طرح اس طرح بر سے ہیں کہ ان پر نگاہ پڑتی ہے تو قربانیاں کہتے ہوئے بھی شرم آنے لگتی ہے.اللہ تعالیٰ نے ان خاندانوں کی کایا پلٹ دی.ان کی نسلوں کے رنگ بدل گئے خدا نے ایسے فضل نازل فرمائے کہ پہچانے نہیں جاتے کہ یہ کون سے خاندان تھے، کس حالت میں رہا کرتے تھے اور کس تنگی ترشی میں گزارہ کیا کرتے تھے.وہ مزدور جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے اور جس نے تمہیں روپے سے اپنے چندے کا آغاز کیا تھا آج اس کا چندہ 5000 ہزار روپے سالانہ سے زائد ہے.اور وہ بچہ جس نے پانچ روپے کے ساتھ اپنے چندے کا آغاز کیا تھا گزشتہ سال اس کا چندہ پانچ ہزار روپے سالانہ سے زائد تھا.پس ہر عمر کے لوگوں کو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے نوازا ، ہر طبقے کے لوگوں کو اپنے فضل سے نوازا.روحانی لحاظ سے بھی ان لوگوں نے بہت ترقیات حاصل کیں اور دنیوی لحاظ سے بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں رہے اور ان کی اولادوں نے بھی ان کی قربانیوں کا اتنا پھل کھایا کہ سیری کے مقام تک پہنچ گئے اور وہ فضل ابھی ختم ہونے میں نہیں آتے.وہ ایک نسل سے تعلق رکھنے والے فضل نہیں ہیں بلکہ وہ دوسری نسل میں جاری ہیں، تیسری نسل میں بھی جاری ہیں اور یہ معاملہ آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے.زمانے کے لحاظ سے بھی لمبا ہو رہا ہے اور وسعت کے لحاظ سے بھی پھیلتا جا رہا ہے.(خطبہ جمعہ فرمودہ 5 نومبر 1982ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ) 22
1940 ء میں بعض مخلصین نے نامساعد حالات میں شاندار قربانیاں پیش کیں.نمونہ کے طور پر ان میں سے چند ایک واقعات درج کئے جاتے ہیں.یہ غرباء کی عظیم قربانیوں کا ایک چھوٹا سا نمونہ پیش کرتے ہیں.وو ایک فدائی نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں یوں لکھا:- پچھلے سال اور اس سال میں مالی مشکلات میں مبتلا رہا ہوں اور ہوں.پہلے ارادہ کیا تھا کہ اس سال میں روپے حضور کی خدمت میں پیش کر کے باقی اس کی اس شرط پر معافی چاہوں گا کہ اگر بقایا ادا کر سکا تو بہتر ورنہ حضور معافی دے دیں.مگر ( حضور کا خطبہ پڑھ کر ) اسی وقت سے میں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ اگر مجھے گھر کا تمام سامان فروخت کرنا پڑے تو کر دوں گا.مگر حضور کے ارشاد کی تعمیل ضرور کروں گا.“ (الفضل 8 نومبر 1940ء) ایک اور مخلص نے تحریر کیا.39 اب جو حضور کے پاک کلمات پہنچے تو بدن میں آگ سی لگ گئی.روح بیچین ہو گئی.پیارے آقا! اس ماہ میں مقروض بھی ہوں تا ہم اپنا وعدہ حضور کے قدموں میں ڈال رہا ہوں اگر چہ یہ حقیر رقم ہے مگر قبولیت پر ممکن ہے میری عاقبت بخیر ہو‘“ (الفضل 8 نومبر 1940ء) ایک اور فدائی نے کہا.خاکسار نے حضور سے مہلت کی درخواست کی جو منظور ہو چکی ہے مگر میرے دل نے کہا کہ آخری تاریخ سے پہلے ہی چندہ داخل کرنا ضروری ہے اس لیے میں نے زیور فروخت کر کے ادا کر دیا ہے.“ (الفضل 24 نومبر 1940ء) اسی طرح ایک اور مجاہد نے لکھا: - ”خاکسار گزشتہ چھ سالوں میں کم و بیش حصہ لیتا رہا یہ صرف حضور کی 23
دعاؤں کا نتیجہ ہے ورنہ میرے جیسا انسان اور خصوصاً ان حالات میں سے گزرنے والا جس کے پاس ایک پائی جمع نہ ہو بلکہ وہ ہزار روپے کا مقروض ہو جس کی ماہوار آمدنی بمشکل تمام گھر کے افراد کے لیے کافی ہو سکتی ہو وہ محض اللہ تعالیٰ کے رحم اور حضور کی دعاؤں کے طفیل ہی اس تحریک میں حصہ لے سکتا ہے.“ (الفضل 19 دسمبر 1940ء) ایک معمر مخلص احمدی اپنے ایمان و اخلاص کا کس والہانہ انداز میں اظہار کر رہے ہیں.سیدی میں چندہ میں اضافہ کرتا ہوں میرا مولا میری آمدنی میں اضافہ کرتا ہے اور میرے مال و اولاد میں برکت بخشتا ہے چندہ میں نہیں دیتا میرا مالک خالق مجھے دیتا ہے میں منی آرڈر کر دیتا ہوں.میں نے قرض بھی دینا تھا ان سالوں میں وہ بھی اُتر گیا ، مکان کچے تھے پختہ ہو گئے ، میں سمجھتا ہوں تحریک جدید کا چندہ اکسیر ہے کیمیا گری ہے.“ (الفضل 18 دسمبر 1940ء) وو.اس دفعہ چندہ تحریک جدید ادا کرنے کی بظاہر کوئی صورت نظر نہ آتی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے اس کی ادائیگی کی توفیق دی...حالت یہ ہے کہ اس وعدہ کے پورا کرنے کے بعد میرے گھر میں ایک پیسہ بھی نہیں سارا مہینہ ہی قرض پر گزارنا ہے.“ (الفضل 18 نومبر 1940ء) تقسیم ہند و پاک کے وقت مسلمانوں کو بے انتہا جانی و مالی نقصان کا سامنا ہوا.اس کے باوجود مجاہدین جماعت نے نہایت جرات مندانہ اور جذبہ قربانی سے سرشار نمونہ پیش کئے.حضرت مصلح موعودؓ نے اس ضمن میں یہ ارشادات فرمائے.ا جالندھر کی ایک احمدی عورت میرے پاس آئی اور اس نے بتایا کہ ان 24
کے ساتھ کیا ہوا ہے اور یہ کہ وہ بالکل برباد ہو گئے ہیں.پھر اس نے دو زیور نکال کر بطور چندہ دے دیئے.میں نے اسے کہا تم تو کٹ کر آئی ہو ، یہ چندہ تو ان لوگوں پر جو یہاں تھے اور جو لوٹ مار سے محفوظ رہے.وہ عورت یہ بھی کہہ رہی تھی کہ اس نے حفاظت مرکز کا چندہ ادا کر دیا ہوا ہے اس نے کہا میں یہی دو زیور نکال کر لائی ہوں.جب میں نے دیکھا کہ جماعت نازک دور سے گزر رہی ہے تو میں نے خیال کیا کہ میرا سارا زیور اور دوسری جائیداد تو کفار نے لوٹ لی ہے کیا اس میں خدا تعالیٰ کا کوئی حصہ نہیں میرے پاس یہی دو زیور ہیں جو میں بطور چندہ دیتی ہوں.“ (الفضل تبلیغ / فروری 1988 ء صفحہ 5 کالم 3).میں نے دیکھا ہے کہ قادیان سے آنے کے بعد بعض غرباء نے اتنی اتنی رقم بطور چندہ کے دی ہے کہ اگر اس کا اندازہ لگایا جائے تو اس کا سینکڑواں حصہ بھی امراء نے نہیں دیا.جو کچھ بھی انہوں نے اپنی ضرورتوں کے لئے پس انداز کیا ہوا تھا وہ میرے سامنے لا کر رکھ دیا، پتہ نہیں کہ وہ روپیہ انہوں نے کتنے سالوں میں جمع کیا تھا.کسی امیر نے ایسا نہیں کیا بلکہ سو سے کم آمدن والوں نے ایسا کیا ہے، 75 سے کم آمدن والوں نے ایسا کیا ہے بلکہ پچاس سے کم آمدن والوں نے ایسا کیا." (الفضل تبلیغ فروری 1988 ، صفحہ 5) 1920ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے مسجد برلن کے لئے عورتوں کو چندہ کی تحریک فرمائی اس سلسلہ میں حضور اقدس نے ان گراں قدر الفاظ میں خواتین کو خراج تحسین پیش کیا.1920 ء میں جماعت کی یہ حالت تھی کہ جب میں نے اعلان کیا کہ ہم برلن میں مسجد بنائیں گے اس کے لیے ایک لاکھ روپے کی ضرورت ہے تو جماعت کی عورتوں نے ایک ماہ کے اندر اندر یہ روپیہ اکٹھا کر دیا.انہوں نے اپنے زیور 25
اُتار دیئے...جہاں دوسرے لوگوں کی یہ حالت تھی کہ مالی خرچ کرنے کی وجہ سے ان میں لوگ مرتد ہو جاتے ہیں ہمیں وہاں ایک نیا تجربہ ہوا ہے میں نے اس مسجد کی تحریک کے لیے یہ شرط رکھی تھی کہ احمدی عورتوں کی طرف سے یہ مسجد ہو گی جو ان کی طرف سے مسلمان بھائیوں کو بطور تحفہ پیش کی جائے گی.اب بجائے اس کے کہ وہ عورتیں جنہیں کمزور کہا جاتا ہے اس تحریک کو سن کر پیچھے نہیں عجیب نظارہ نظر آیا اور وہ یہ کہ اس وقت گیارہ عورتیں داخل احمدیت ہو چکی ہیں تا کہ وہ بھی اس چندے میں شامل ہو سکیں...گویا اس تحریک نے گیارہ روحوں کو ہلاکت سے بچا لیا اور یہ پہلا پھل ہے جو ہم نے اس تحریک سے چکھا.خطبہ جمعہ مطبوعہ الازھالذوات اعمار ) اخبار الفضل کا اجراء 1913 ء میں ہوا یہ بھی ایک قربانی کی داستان ہے حضرت مصلح موعود کے الفاظ میں پیش خدمت ہے.اخبار الفضل کا اجراء اور اس کے لئے حضرت محمودہ بیگم اہلیہ حضرت مصلح موعود کی عظیم قربانی.”خدائے تعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اسی طرح تحریک کی جس طرح حضرت خدیجہ کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی تحریک کی تھی.انہوں نے اس امر کو جانتے ہوئے کہ اخبار میں پیسہ لگانا ایسا ہی ہے جیسے کنویں میں پھینک دینا اور خصوصاً اس اخبار میں جس کا جاری کرنے والا محمود ہو جو اُس زمانہ میں شاید سب سے زیادہ مذموم تھا اپنے دو زیور مجھے دے د.دے دیئے کہ میں اُن کو فروخت کر کے اخبار جاری کر دوں ان میں سے ایک تو اُن کے اپنے کڑے تھے دوسرے اُن کے بچپن کے کڑے تھے جو انہوں نے اپنی اور میری 26
لڑکی ناصرہ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ کے استعمال کے لیے رکھے ہوئے تھے.میں زیورات کو لے کر اُسی وقت لاہور گیا اور پونے پانچ سو کے دو کڑے فروخت ہوئے.یہ ابتدائی سرمایہ الفضل کا تھا.الفضل اپنے ساتھ میری بے بسی کی حالت اور میری بیوی کی قربانی کو تازہ رکھے گا.کیا ہی سچی بات ہے کہ عورت ایک خاموش کارکن ہوتی ہے.اس کی مثال اس گلاب کے پھول کی سی ہے جس سے عطر تیار کیا جاتا ہے.لوگ اُس دکان کو تو یاد رکھتے ہیں جہاں سے عطر خریدتے ہیں لیکن اُس گلاب کا کسی کو خیال بھی نہیں آتا جس نے مرکز اُن کی خوشی کا سامان پیدا کیا.میں حیران ہوتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ یہ سامان پیدا نہ کرتا تو میں کیا کرتا اور میرے لئے خدمت کا کون سا دروازہ کھولا جاتا.“ تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد 1 صفحہ 16) خدا اس غریب بندی کا گھر جنت میں ضرور بنانے گا حضور اقدس نے خواتین کی بے مثال قربانی کے سلسلہ میں فرمایا:- یہ خلافت ہی کی برکت ہے جو تم دیکھ رہے ہو کہ کس طرح قادیان کے غریبوں اور مسکینوں نے ایسی قربانی پیش کی جس کی نظیر کسی اور جماعت میں نہیں مل سکتی.آج بھی مجھے حیرت ہوئی جب کہ ایک غریب عورت جو تجارت کرتی ہے جس کا سارا سرمایہ سو ڈیڑھ سو روپے کا ہے اور جو ہندوؤں سے مسلمان ہوئی ہے صبح ہی میرے پاس آئی اور اس نے دس دس روپے کے پانچ نوٹ یہ کہتے ہوئے مجھے دیئے کہ یہ میری طرف سے مسجد کی توسیع کے لئے ہیں.میں نے اُس وقت اپنے دل میں کہا کہ اس عورت کا یہ چندہ اُس کے سرمایہ کا آدھا یا ثلث ہے مگر اس نے خدا کا گھر بنانے کے لیے اپنا آدھا یا ثلث سرمایہ پیش کر دیا ہے پھر کیوں نہ ہم یقین کریں کہ خدا بھی اپنی اس غریب بندی کا گھر جنت میں بنائے گا اور 27
اسے اپنے انعامات میں سے حصہ دے گا.الفضل 14 مارچ 1944 ، صفحہ 11) حضرت فضل عمر پرانے زمانے کا ذکر فرماتے ہیں کہ جب ابھی بہت زیادہ غربت تھی ، ایک بڑھیا خاتون نے جس کا خاوند فوت ہو چکا تھا.حضور کی تحریک پر باوجود غربت کے وعدہ کیا کہ آٹھ آنے ماہوار دیا کروں گی.آپ اندازہ کریں اُس وقت آٹھ آنے کی کیا قیمت تھی اور اُس زمانے میں آٹھ آنے ماہوار ادا کرنا اُس کے لئے کتنا مشکل تھا لیکن چند مہینے اُس نے آٹھ آنے ماہوار ادا کئے اور اس کے بعد پھر بے قرار ہوگئی کہ مجھے وعدہ پورا کرتے ہوئے ایک سال لگے گا تو حضرت فضل عمر کی خدمت میں باقی پیسے پیش کرتے ہوئے اُس نے کہا اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ خواہ فاقے کرنے پڑیں لیکن میں اکٹھا دوں گی وہ آٹھ آنے بچانے کے لیے واقعی اس عورت کو فاقے درپیش تھے تو بظاہر یہ ایک بہت معمولی قربانی تھی لیکن وہ جذبہ ، وہ اخلاص، اللہ تعالیٰ کی محبت میں فنا ہو کر اپنے اموال پیش کرنا یہ وہی ہے جو آج ساری جماعت کے کام آ رہا ہے.“ حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تقریر 12 ستمبر 1992ء کو و جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر فرمایا.حضرت فضل عمر اُس زمانے میں مسجد برلن کی تعمیر کی تحریک کے دوران ایک احمدی پٹھان عورت کی قربانی کا ذکر فرماتے ہیں کہتے ہیں ضعیف تھی چلتے وقت قدم سے قدم نہیں ملتا تھا.لڑکھڑاتے ہوئے چلتی تھی ، میرے پاس آئی اور دو روپے میرے ہاتھوں میں تھما دیئے زبان پشتو تھی اُردو اٹک اٹک کر تھوڑا تھوڑا بولتی تھی اتنی غریب عورت تھی کہ جماعت کے وظیفہ پر پل رہی تھی اس نے اپنی پنی کو ہاتھ لگا کر دکھایا کہ یہ جماعت کی ہے اپنی نمیض کو ہاتھ میں پکڑ کر بتایا کہ یہ 28
جماعت کی ہے جوتی کی طرف اشارہ کر کے کہا یہ بھی جماعت ہے اور جو وظیفہ ملتا تھا اس میں سے جو دو روپے تھے وہ کہتی ہے وہ بھی جماعت ہی کے تھے.میں نے اپنے لئے اکٹھے بچائے ہوئے تھے اب میں یہ جماعت کے حضور پیش کرتی ہوں کتنا عظیم جذبہ تھا وہ دو روپے جماعت ہی کے وظیفہ سے بچائے ہوئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے حضور اُس دو روپے کی عظیم قیمت ہو گی.حضرت فضل عمر فرماتے ہیں اُس نے کہا یہ جوتی دفتر کی ہے ، میرا قرآن بھی دفتر کا ہے یعنی میرے پاس کچھ بھی نہیں مجھے ہر چیز دفتر سے ملتی ہے فرماتے ہیں اُس کا ایک ایک لفظ ایک طرف تو میرے دل پر نشتر کا کام کر رہا تھا اور دوسری طرف میرا دل اُس محسن کو یاد کر کے جس نے ایک مردہ قوم میں سے زندہ اور سرسبز روحیں پیدا کر دیں شکر و احسان کے جذبات سے لبریز ہو رہا تھا اور میرے اندر سے یہ آواز آ رہی تھی.خدایا ! تیرا مسیحا کس شان کا تھا جس نے اُن پٹھانوں کی جو دوسروں کا مال لوٹ لیا کرتے تھے ایسی کایا پلٹ دی کہ وہ تیرے دین کے لئے اپنے ملک اور اپنے عزیز اور اپنا مال قربان کر دینا ایک نعمت سمجھتے ہیں.مصباح جولائی 1992ء صفحہ 11-12) مسجد برلن کے لیے احمدی خواتین نے بیمثال قربانیاں کیں اور بہت زیادہ ایمان افروز واقعات دیکھنے میں آئے.چند ایک کا تذکرہ بطور نمونہ درج ذیل ہے.حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم کو ایک جائداد کی فروخت سے پانچ سوروپے حاصل ہوئے جو تمام چندہ میں دے دیئے.حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے ایک ہزار روپیہ دیا.اسی طرح حضرت نواب حفیظ بیگم صاحبه ، بیگم مرزا شریف احمد صاحب بیگم میر محمد الحق صاحب ، اور بیگم صاحبہ خان بہادر مرزا سلطان احمد 29
صاحب نے بھی نمایاں حصہ لیا.حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ چندہ جمع کرنے میں کامیابی کا گر ہمیشہ دعا کو اپنا نمونہ بتاتی تھیں.حضرت سیدہ امتہ الحئی صاحبہ نے نقد اور حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ نے اپنا ایک گلو بند اور کچھ نقدی بھی دی قادیان کی دوسری خواتین کے علاوہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی، حضرت قاضی امیر حسین صاحب کے گھر والوں اور حامدہ بیگم صاحبہ بنت پیر منظور محمد صاحب نے نمایاں حصہ لیا.ایک نہایت غریب اور ضعیف بیوہ جو پٹھان اور مہاجر تھیں اور سونٹی لے کر بمشکل چل سکتی تھی خود چل کر آئی اور حضور کی خدمت میں دوسو روپے پیش کر یہ عورت بہت غریب تھی.اس نے چار مرغیاں رکھی ہوئی تھیں جن کے انڈے فروخت کر کے اپنی کچھ ضروریات پوری کیا کرتی تھیں باقی دفتر کی امداد پر گزارا چلتا تھا.ایک پنجابی خاتون جس کی واحد پونجی صرف ایک زیور تھا وہی اس نے مسجد کے لئے دے دیا.ایک بیوہ عورت جو یتیم پال رہی تھی اور زیور یا نقدی کچھ بھی پاس نہ تھا اُس نے استعمال کے برتن ہی چندہ میں دے دیئے.ایک بھاگلپوری دوست کی بیوی دو بکریاں لے کر پہنچی اور کہا ہمارے گھر میں ان کے سوا کوئی چندہ نہیں یہی دو بکریاں ہیں جو قبول کی جائیں.تاریخ احمدیت جلد 5 صفحہ 376) تراجم قرآن کی اسکیم کا اجراء حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے 20 اکتوبر 1944ء کو تراجم قرآن کریم کی ایک سکیم پیش فرمائی.جس کے زیر اہتمام دنیا کی سات اہم زبانوں میں تراجم کئے جائیں گے اور ان کے ساتھ جماعتی لٹریچر کی ایک کتاب بھی شائع کی جائے گی.اس کے لیے آپ نے تین چار خطبات میں اس اسکیم کی تفصیلات بیان کیں 30
اور ہر ترجمۃ القرآن کے لیے 28 ہزار روپے جمع کرنے کی تحریک فرمائی.آپ نے ان کو مندرجہ ذیل طریق پر جماعتوں کے نام مختص کیا.ا.ایک ترجمہ قادیان کی جماعت کی طرف سے ہوگا ۲- ایک لجنہ کی طرف سے ہوگا ۳- ایک حلقہ لاہور کی طرف سے ایک حلقہ صوبہ سرحد کی طرف سے ۵- ایک حلقہ کلکتہ کی طرف سے ۶- ایک حلقہ دہلی کی طرف سے ے.ایک حلقہ حیدر آباد کی طرف سے جن زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم ہوں گے اس کی تخصیص یوں فرمائی.اطالین زبان کا ترجمہ قادیان کے ذمہ ہو گا.لجنہ کے ذمہ جرمن زبان کا ترجمہ ہوگا.دہلی کے ذمہ فرانسیسی.صوبہ سرحد کے ذمہ ہسپانوی اور حیدر آباد دکن کے ذمہ پرتگیزی زبان میں تراجم ہوں گے ، روسی زبان کا ترجمہ جماعت لاہور کے سپرد کیا گیا.(خطبہ جمعہ 14 نومبر 1944ء) تراجم قرآن کریم کی اس اسکیم کے ساتھ ہی احباب جماعت میں اس قربانی کے میدان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی جستجو ہوئی اور بعض غرباء میں اس میں شمولیت کے لئے نئی نئی تدابیر سوچیں ، چنانچہ ان کی ایک تدبیر کا ذکر حضور اقدس نے یوں بیان فرمایا.ہیں.حضرت مصلح موعودؓ اخلاص کی ایک عجیب ادا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے آج ہی باہر سے ایک شخص کا محلہ آیا ہے...وہ شخص معمولی ملازم یعنی خط 31
ڈا کیا ہے اس نے لکھا ہے کہ تراجم قرآن مجید کی تحریک میں قرآن مجید کا ایک زبان میں ترجمہ اور اس کی چھپوائی کا خرچ اور کسی ایک کتاب کا ترجمہ اور اس کی چھپوائی کا خرچ 280001 روپیہ دینے کی تو مجھے توفیق نہیں مگر خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ اور کچھ نہیں تو ہمت کر کے 28000 پائیاں اس مد میں ادا کروں.میں نے حساب کیا ہے 28000 پائیاں اس کی نو ماہ کی تنخواہ بنتی ہے.بہر حال دیکھو یہ بھی خدا کے حضور قبولیت حاصل کرنے کا ایک رنگ ہے کہ جس شخص کو اٹھائیس ہزار روپیہ دینے کی توفیق نہیں تھی خدا تعالیٰ نے اس کے دل میں 28000 پائیاں ادا کر کے ثواب حاصل کرنے کا خیال ڈال دیا اور ایک رنگ فضیلت کا اسے دے دیا.یہ ایک مثال ہے جس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کو توفیق دے دی اور اس کے ذہن میں ایک خیال پیدا کر دیا کہ اس پر عمل کر کے میں ثواب حاصل کروں.‘ (الفضل 25 جون 1960 ء) حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے دور میں یہ اسکیم نہ صرف جاری رہی بلکہ اس نے ایک نئی شکل اختیار کی.چنانچہ حضور اقدس نے اپنے 15 جنوری 1988ء کے خطبہ جمعہ میں اس کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا.مختلف زبانوں میں تراجم قرآن کریم کی اشاعت کی تحریک جو تھی اس نے ایک نئی شکل گزشتہ جلسہ سالانہ پر اختیار کر لی کہ ایک ایک شخص یا ایک ایک خاندان یا بعض صورتوں میں ایک ایک جماعت ایک پورے قرآن کریم کا ترجمہ طباعت و اشاعت وغیرہ کا خرچ پیش کرے.یہ تحریک بھی اللہ کے فضل سے ایسی مؤثر اور ایسی بابرکت ثابت ہوئی ہے کہ اپنی ذات میں اس تحریک میں کم و بیش اتنا ہی روپیہ مہیا ہو گیا ہے جتنا صد سالہ جوبلی کے باہر کے وعدوں کا نصف ہے اور یہ بہت بڑی بات ہے......32
عجیب خطوط ملتے رہتے ہیں.ایک نوجوان کا پاکستان سے خط آیا ہے ان کو خدا تعالیٰ نے ایک جگہ کام دیا ، اس کام کے لئے انہوں نے پیسے اکٹھے کر کے ضرورت کے مطابق ایک موٹر بھی خریدی.لیکن جب یہ تحریک ہوئی تو اس وقت ان کے پاس پھر کوئی اور پیسہ بچا نہیں تھا.مجھے ان کا خط ملا کہ میں اس بارہ میں سوچتا رہا اور دن بدن زیادہ مجھ پر یہ بات واضح ہوتی چلی گئی کہ یہ کوئی عام تحریک نہیں ہے.گزشتہ چودہ سو سال میں دنیا کی کسی کی جماعت کو ایسی توفیق نہیں ملی.ایسے عجیب کام کی طرف بلایا ہی نہیں گیا کہ چند سالوں کے اندر سو زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم پیش کر دو اور تمام دنیا میں قرآن کریم کے تراجم پھیلا دو.اب تک کی تاریخ میں مل کر بھی اتنی زبانوں میں ترجمے نہیں ہوئے.تو میں نے کہا کہ آئندہ تو بہت ہوں گے ، انشاء اللہ ہر زبان میں دنیا کے لیے جیے میں قرآن کریم کے تراجم ملیں گے لیکن اس وقت کو دنیا ہمیشہ حسرت سے یاد کرے گی کاش ہم بھی اس وقت زندہ ہوتے ،کاش ہمیں بھی توفیق ملی ہوتی.اس نوجوان نے ، وہاں بھی اس کی عبارت ایسی خوبصورت ہو گئی ہے ایسی زندہ ہو گئی ہے عام حالات میں میرا خیال نہیں تھا کہ اس کو اچھی اردو لکھنی آتی ہے لیکن یہاں تو جذبہ ایمان سے زبان بن رہی ہے بہت ہی پُر لطف زبان میں اس نے اپنے دل کا ماجرا لکھا ہے کہ یہ یہ میں نے سوچا ، یہ یہ میرے دل پر گزرتی رہی.وہ کہتے ہیں کہ آخر ایک دن خدا تعالیٰ نے مجھے تو فیق عطا فرمائی کہ میں نے کار بیچ دی اور پچاس ہزار روپے مجھے اس کے ملے اور وہ میں نے اس تحریک میں پیش کر دیئے.میں اس لیے نہیں لکھ رہا کہ میں نے یہ قربانی کی ہے.کہنا ہے میں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ اس سے مجھے مزہ آیا ہے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے.اس لذت کا بیان میرے احاطہ تحریر میں نہیں آسکتا اور کہتا ہے اب میں سائیکل پر جاتا ہوں اور 33
ہر پیڈل پر مجھے مزہ آ رہا ہوتا ہے اور اللہ کا شکر ادا کر رہا ہوتا ہوں.یہ ہے اظہار تشکر جو ہم نے منانا ہے سب سے زیادہ خدا تعالیٰ کے احسانات میں سے قربانی پیش کرنے کا احسان ہے اور یہ اپنی ذات میں جزا ہے.بھول جائیں اس بات کو کہ اس کے بعد آپ کو جزا ملے گی.یہ اپنی ذات میں جزا ہے، جس کو کوئی اور جزا بدل نہیں سکتی.(خطبہ جمعہ 15 جنوری 1988 ء خطبات طاہر جلد 7 ص51) حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے 26 اکتوبر 1984ء کے خطبہ جمعہ میں یہ اعلان فرمایا کہ جماعت لیبیا ایک ترجمۃ القرآن کے اخراجات ادا کرنے کا وعدہ کرتی ہے اور بحیثیت جماعت ہم اس میں شامل ہوں گے ، چنانچہ فرمایا:- مثلاً جب میں نے بتایا کہ ہم نے ایک قرآن کریم طبع کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو خدا نے ایک آدمی پیدا کر دیا کہ سارا خرچ میں دوں گا.دوسرے کا فیصلہ ہوا تو ایک اور آدمی پیدا کر دیا، تیسرے کا فیصلہ ہو ا تو خدا نے ایک اور پیدا کر دیا.یعنی قرآن کریم کے تراجم ابھی مکمل نہیں ہوتے کہ خدا تعالیٰ آدمی بھیج دیتا ہے کہ اس خرچ کو وہ اُٹھائے گا.تو بعض جماعتوں کی طرف سے بعض افراد کی طرف سے بڑی درد ناک چٹھیاں آنی شروع ہوئیں اللہ ان کو جزاء دے کہ ہمارے دل کا عجیب حال ہے ایسی بے قرار تمنا پیدا ہوئی ہے، برداشت نہیں کر سکتے ، کاش خدا ہمیں توفیق دے کہ ہم بھی ایک پورے قرآن کریم کے ترجمے کا خرچ اُٹھا ئیں.ایک دو کی بات نہیں ہے بیسیوں ایسے دوست ہیں جن کے دل میں خدا تعالیٰ نے یہ تمنا تڑپا دی ہے ان کے دلوں میں اور بعض جماعتوں نے پھر پیش بھی کر دیا.چنانچہ لیبیا کے احمدیوں نے اس معاملہ میں پہل کی اور مجھے لکھا کہ ہم میں سے ایک آدمی تو نہیں ہے ایسا لیکن آئندہ ترجمہ قرآن کریم جو شائع ہونے والا 34
ہے اس کے لیے ہم عہد کرتے ہیں، سارے لیبیا کی جماعت کے دوست کہ ہم دیں گے.لندن ہجرت کرنے کے بعد حضور اقدس نے سرعت کے ساتھ اپنی توجہ تراجم قرآن کریم پر مرکوز کی چنانچہ ایک خطبہ جمعہ میں آپ نے چند افراد کی قربانیوں کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے خود حضور کی خدمت میں بعض تراجم کے جملہ اخراجات پیش کرنے کی سعادت حاصل کی.چنانچہ آپ نے فرمایا.فرانسیسی ترجمہ بھی تمام مراحل سے گزر کر اب مکمل ہو چکا ہے.روسی ترجمہ جو حضرت مولوی جلال الدین صاحب شمس کے زمانہ میں یہاں سے کروایا گیا تھا وہ حسنِ اتفاق سے ایسا اچھا کیا گیا کہ اس زمانہ کے سارے ترجمہ آج کے صاحب علم نے رڈ کر دیئے سوائے روسی ترجمہ کے اور روسی ترجمہ سے متعلق جہاں رائے ملی ہے انہوں نے حیرت انگیز تعریف کی ہے.روسیوں نے بھی جو مثلاً پاکستان میں سکالرز ہیں یہاں کے ماہرین نے بھی سب سے کہا ہے کہ بہت ہی اعلیٰ معیار کا ترجمہ ہے صرف لکھنے کی طرز میں اس زمانے سے اب کچھ تبدیلی پیدا ہوئی ہے اس کو ماہرین کہتے ہیں ٹھیک کروا لیا جائے تو ہر لحاظ سے معیاری ہے تو ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے تین نئی زبانوں میں قرآن کریم شائع کرنے کے لئے تیار کھڑے ہیں اور اس کے لئے روپیہ بھی ہے.Italian ترجمہ کے لئے ڈاکٹر (عبد السلام ) صاحب نے پیشکش کی تھی کہ میں اپنی طرف سے پیش کرنا چاہتا ہوں اور چونکہ نیکی سے آگے بڑھے بچے پیدا ہوتے ہیں نیکی بڑی Fertile چیز ہے.جب مکمل کر لیا تو ان کا اتنا لطف آیا اس کا کہ وہ ساتھ ہی یہ درخواست کر گئے ہیں کہ اس کی طباعت کا خرچ بھی مجھے برداشت کرنے کی اجازت دی جائے تو جس اخلاص اور محبت سے انہوں نے 35
ترجمہ کروایا تھا اور جس طرح انہوں نے ظاہر کیا تو میں نے ان سے حامی بھر لی کہ ہاں ٹھیک ہے آپ شائع کروا ئیں.اسی طرح روسی زبان کے متعلق چودھری شاہ نواز صاحب نے پہلے ترجمہ کے متعلق درخواست کی تھی ان کا پیچھے پیچھے خط پہنچ گیا کہ اس کے سارے اخراجات میں برداشت کرنا چاہتا ہوں.ان کو بھی میں نے اس کے لئے اجازت دے دی اور وہ خدا کے فضل سے بالکل تیار ہیں.“ خطبہ جمعہ 26 اکتوبر 1984ء) 1 2 3 4 5 6 7 اسماء عطیہ دہندگان برائے تراجم قرآن کریم زبان کا نام نام عطیه دهنده حضرت خلیفہ صبح اثانی حضرت خلیفۃ ابیح الرابع اطالوی چینی چودھری ظفر اللہ خان میاں غلام محمد اختر ملک عبد الرحمان مل اونر سیٹھ عبد اللہ الہ دین لجنہ اماء اللہ قادیان ایک زبان ایک زبان پرتگیزی پرتگیزی جرمن 36
00 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 شیخ رحمت اللہ کراچی شیخ عبد المجید کراچی نار و يجبين بلغارین محمد الیاس ناصر پرتگیزی حامد عزیز الرحمان گریک پروفیسر رشید ہاؤس (HAUSA) ڈاکٹر سمیع اللہ ہاؤس (HAUSA) مامون رشید گوٹن برگ 2/3 اخراجات ڈینش سیٹھ معین الدین اور محمد اسماعیل حیدر آباد تلگو (Telgu) ڈاکٹر حمید الرحمان فرانسیسی چودھری شاہنواز کراچی جاپانی محمد یا مین بنگالی بنگالی ڈاکٹر انوار احمد پشتو منیر نواز کراچی 1/3 خرچ تھائی زبان تشکیل احمد منیر یوسف ایڈوسی محمد ابراہیم بانسو چودھری شاہ نواز کراچی ڈاکٹر عبد السلام جماعت سعودی عرب جماعت ماریشس جماعت نائیجیریا اطالوی کورین مالاگاسی مادری زبان اشانی زبان اشانی زبان رشین زبان 37 23 24 26 27 شه ته شه له له شه لام 25 28
29 جماعت نائیجیریا 30 جماعت منجی آئی لینڈ 31 جماعت ڈنمارک ڈینیش (نوٹ) نمبر ایک تاج سوائے نمبر دو حضور نے 20اکتوبر 84ء میں بیان کئے.باقی تمام اسماء نصیر احمد صاحب قمر کے الفضل انٹر نیشنل کے مضمون میں سے لیا گیا ہے.مسجد فضل لنڈن نامساعد حالات میں خدا تعالیٰ کے غیر معمولی سلوک کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے 7 جنوری کو مستورات میں صبح کے وقت مردوں میں اور پھر 9 جنوری کو جمعہ کے خطبہ میں -/30,000 روپے جمع کرنے کی تحریک فرمائی.گیارہ تاریخ تک قادیان کی غریب جماعت کا چندہ بارہ ہزار تک پہنچ گیا.اس غیر معمولی قربانی پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:- اس غریب جماعت سے اس قدر چندہ کی وصولی خاص تائید الہی کے بغیر نہیں ہو سکتی تھی.اور میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اس چندہ کے ساتھ شامل ہے.ان دنوں میں قادیان کے لوگوں کا جوش و خروش دیکھنے کے قابل تھا.اور اس کا وہی لوگ ٹھیک اندازہ کر سکتے ہیں جنہوں نے اس کو آنکھوں سے 38
دیکھا ہو، مرد اور عورت اور بچے سب ایک خاص نشہ محبت میں چور نظر آتے تھے.کئی عورتوں نے اپنے زیور اُتار دیئے اور بہتوں نے ایک دفعہ چندہ دے کر دوبارہ جوش آنے پر اپنے بچوں کی طرف سے چندہ دینا شروع کر دیا.پھر بھی جوش کو دیتا نہ دیکھ کر اپنے وفات یافتہ رشتہ داروں کے نام سے چندہ دیا کیونکہ جوش کا یہ حال تھا کہ ایک بچہ نے جو ایک غریب اور محنتی آدمی کا بیٹا ہے مجھے ساڑھے تیرہ روپے بھیجے کہ مجھے جو پیسے خرچ کے لئے ملتے تھے ان کو میں جمع کرتا رہتا تھا وہ میں سب کے سب اس چندہ کے لئے دیتا ہوں نہ معلوم کن کن اُمنگوں کے ماتحت اس بچے نے وہ پیسے جمع کئے ہوں گے لیکن اس کے مذہبی جوش نے خدا کی راہ میں ان پیسوں کے ساتھ ان اُمنگوں کو بھی قربان کر دیا.مدرسہ احمدیہ کے غریب طالب علموں نے جو ایک سو سے بھی کم ہیں اور اکثر ان میں سے وظیفہ خوار ہیں ساڑھے تین سو روپے چندہ لکھوایا ان کی مالی حالت کو مد نظر رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کئی ماہ کے لیے اپنی اشد ضروریات کے پورا کرنے سے بھی محرومی اختیار کر لی....یہ حال عورتوں اور بچوں کا تھا جو بوجہ کم علم یا قلت تجربہ کے دینی ضروریات کا اندازہ پوری طرح نہیں کر سکتے تو مردوں کا کیا حال ہو گا.اس سے خود خیال کرلیں کہ ان میں سے بڑی تعداد ایسے آدمیوں کی تھی جنہوں نے اپنی ماہوار آمد نیوں سے زیادہ چندہ لکھوایا.بعض لوگوں کا حال مجھے معلوم ہوا کہ جو کچھ نقد پاس تھا انہوں نے دے دیا اور قرض لے کر کھانے پینے کا انتظام کیا.ایک صاحب نے بوجہ غربت زیادہ رقم چندہ میں داخل نہیں کر سکتے تھا.نہایت حسرت سے مجھے لکھا کہ میرے پاس اور تو کچھ نہیں میری دکان کو نیلام کر کے چندہ میں دے دیا جائے لوگوں نے بجائے آہستہ آہستہ ادا کرنے کے زیورات وغیرہ فروخت کر کے اپنے وعدے ادا کر دیئے.39
( تواریخ مسجد فضل لندن ص 22) جلسہ سالانہ یو کے 2003 ء کے موقعہ پر انعامات الہی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اسی الخامس نے چند واقعات دربارہ مسجد فنڈ یوں بیان فرمائے :- ا.پھر گھانا سے ہمارے مبلغ جبرئیل سعید صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دوست الحاج محمد ا گوبے میرے ساتھ دورے پر ٹوگو گئے ، وہاں ایک جگہ نا جونگ (Najong) میں ہم نے دھوپ میں کھڑے ہو کر نماز ظہر ادا کی.الحاج محمد اگبو بے نے کہا ان لوگوں کے لئے مسجد بنانا ان کا حق ہے.بالکل چھوٹی سی نئی جماعت ہے، چھوٹا گاؤں ہے.چنانچہ انہوں نے بڑی مالی قربانی کرتے ہوئے ایک خوبصورت مسجد اُن کے لئے بنوا دی.یہ الحاج صاحب اچھے امیر آدمی ہیں اور اس مسجد میں تین سو افراد نماز ادا کر سکتے ہیں ، اب اس مسجد کے مینار بھی بن رہے ہیں.اور چونکہ یہ جگہ بہر حال دور دراز علاقے میں ہے ،سامان پہنچانا مشکل ہے لیکن پھر بھی یہ الحاج صاحب خود بڑی تکلیف سے اور خرچ کر کے یہ سامان جو تعمیر کا سامان ہے وہاں پہنچا رہے ہیں.آئیوری کوسٹ کی صدر لجنہ کہتی ہیں کہ اس سال مجلس شوری میں جماعت آئیوری کوسٹ کی پچاس سالہ جوبلی کے موقع پر مرکزی مسجد کی تعمیر کے لئے چندے کی تحریک کی گئی تو لجنہ ممبرات نے اُسی وقت ایک لاکھ فرانک سیفا کا وعدہ لکھوا دیا اور کہتی ہیں کہ ہماری سیکرٹری تحریک جدید جو ایک مخلص احمدی ہیں انہوں نے ایک لاکھ فرانک سیفا کی فوری ادائیگی بھی کر دی.اُن لوگوں کے لئے یہ بہت بڑی رقم ہے.گو ویسے تو ان کی کرنسی میں گو ایک لاکھ ہیں لیکن صرف ایک سو پینتیس پاؤنڈ بنتے ہیں لیکن افریقہ کے لئے بہت بڑی رقم ہے کیونکہ اُس خاتون کی چھوٹی سی سبزی کی ایک دکان تھی اور بڑی عیال دار خاتون ہیں.40
-۳- قازقستان کے ایک نو مبائع دوست کے بارے میں مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ جماعت کی مرکزی مسجد اور مشن ہاؤس کے لئے ایک قطعہ زمین انہوں نے خرید کر دیا اور اس کے ساتھ ایک دو منزلہ زیر تعمیر مکان کی خرید کی، پھر دوسرے شہر میں بھی مسجد کی تعمیر کے لئے ایک پلاٹ خرید کر دیا.یہ نومبائع دوست ہیں اور مجموعی طور پر انہوں نے 495 ہزار ڈالر کی قربانی کی.(الفضل 19 ستمبر 2003ء) -۴- ایک نوجوان دوست نے مسجد کی تعمیر کے لئے اس رنگ میں مالی قربانی کی کہ ایک ہفتہ کی تنخواہ جو اسی روز ملی تھی اور اس کا لفافہ ابھی بند تھا وہ لفافہ جیب سے نکال کر پیش کر دیا کہ ہر ساری تنخواہ مسجد فنڈ میں ڈال دی جائے.از خطاب حضرت خلیفہ ایسیح الخامس بر موقعه جلسہ سالانہ یو کے 2003ء) سیرالیون میں پہلے احمدی پریس کا قیام تحریک جدید کا ایک سنگ میل الہی مدد اور قربانی کی دلکش داستان.بانی تحریک جدید کے الفاظ میں اس ہفتہ میں مجھے ایک مبلغ کی طرف سے ایک چٹھی آئی ہے کہ کس طرح ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے.اس کے بعد اپنا ایک ذاتی واقعہ اس کے ثبوت کے طور پر بیان کروں گا.وہ لکھتے ہیں کہ ہم نے یہاں اخبار جاری کیا اور چونکہ ہمارے پاس پریس نہیں تھا اس لئے عیسائیوں کے پریس میں وہ اخبار چھپنا شروع ہوا.دو چار پر چوں تک تو وہ برداشت کرتے چلے گئے لیکن جب یہ سلسلہ آگے بڑھا تو پادریوں کا ایک وفد اس پریس کے مالک کے پاس گیا اور انہوں 41
نے کہا تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم نے اپنے پریس میں ایک احمدی اخبار شائع کر رہے ہو.جس نے عیسائیوں کی جڑوں پر تبر رکھا ہوا ہے.چنانچہ اسے غیرت آئی اور اس نے کہہ دیا کہ آئندہ یہ تمہارا اخبار اپنے پریس میں نہیں چھاپوں گا، کیونکہ پادری اس پر بُرا مناتے ہیں.جب یہ اخبار چھپنا بند ہو گیا تو عیسائیوں کو اس سے بڑی خوشی ہوئی اور انہوں نے ہمیں جواب دینے کے علاوہ اپنے اخبار میں بھی ایک نوٹ لکھا کہ ہم نے تو احمدیوں کا اخبار چھاپنا بند کر دیا ہے.اب ہم دیکھیں گے کہ اسلام کا خدا اُن کے لیے کیا سامان پیدا کرتا ہے.یعنی پہلے ان کا اخبار ہمارے پریس میں چھپ جایا کرتا تھا.اب چونکہ ہم نے انکار کر دیا ہے اور ان کے پاس اپنا پریس کوئی نہیں اس لئے اب ہم دیکھیں گے کہ یہ جو مسیح کے مقابلے میں اپنا خدا پیش کیا کرتے ہیں اس کی کیا طاقت ہے.اگر اس میں کوئی قدرت ہے تو وہ ان کے لئے خود سامان پیدا کر دے وہ مبلغ لکھتے ہیں کہ جب میں نے یہ پڑھا تو میرے دل میں سخت تکلیف محسوس ہوئی.اور میں نے سمجھا کہ گو ہماری تھوڑی سی جماعت ہے لیکن بہر حال میں انہیں کے پاس جا سکتا ہوں اور کہہ سکتا ہوں کہ اس موقع پر وہ ہماری مدد کریں تا کہ ہم اپنا پر یس خرید سکیں.چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ میں نے لاری کا ٹکٹ لیا اور پونے تین سو میل کا فاصلہ پر ایک احمدی کے پاس گیا تا کہ اسے تحریک کروں کہ وہ اس کام میں حصہ لے....بہر حال وہ مبلغ لکھتے ہیں کہ میں اس چیف کے پاس گیا جو ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا احمدیت میں داخل ہوا تھا اور جو کسی زمانہ میں احمدیت کا اتنا مخالف ہوا کرتا تھا کہ اس نے یہ کہا تھا کہ دریا اپنا رخ بدل سکتا ہے اور وہ نیچے سے اوپر کی طرف بہہ سکتا ہے لیکن میں احمدی نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ کی شان دیکھو کہ جونہی وہ احمدی ہوا اس کی زمین میں سے ہیروں کی کان نکل آئی اور گو قانون کے مطابق گورنمنٹ نے اس 42
پر قبضہ کر لیا مگر اسے کچھ رائلٹی دینی پڑی جس سے یکدم اس کی مالی حالت اچھی ہونی شروع ہو گئی اور جماعتی کاموں میں بھی اس نے شوق سے حصہ لینا شروع کر دیا.بہر حال وہ لکھتے ہیں کہ میں اس کی طرف جا رہا تھا کہ خدا تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ ابھی اس کا گاؤں آٹھ میل پرے تھا کہ وہ مجھے ایک دوسری لاری میں بیٹھا ہوا نظر آ گیا اور اس نے بھی مجھے دیکھ لیا.اس وقت وہ اپنے کسی کام کے سلسلہ میں کہیں جار رہا تھا.وہ مجھے دیکھتے ہی لاری سے اتر پڑا اور کہنے لگا کہ آپ کس طرح تشریف لائے ہیں.میں نے کہا اس اس طرح ایک عیسائی اخبار نے لکھا ہے کہ ہم نے تو ان کا اخبار چھاپنا بند کر دیا ہے.اگر مسیح کے مقابلہ میں ان کے خدا میں کوئی طاقت ہے تو وہ کوئی معجزہ دکھاوے.وہ کہنے لگے آپ یہیں بیٹھیں میں ابھی گاؤں سے ہو کر آتا ہوں.چنانچہ وہ گیا اور تھوڑی دیر کے بعد ہی اس نے پانچ سو پونڈ لا کر ہمارے مبلغ کو دے دیا.پانچ سو پونڈ اس سے پہلے وہ دے چکا تھا گویا تیرہ ہزار کے قریب روپیہ اس نے دے دیا اور کہا کہ میری خواہش ہے آپ پریس کا جلدی انتظام کریں تا کہ عیسائیوں کو جواب دے سکیں کہ اگر تم نے ہمارا اخبار چھاپنے سے انکار کر دیا تھا تو اب ہمارے خدا نے بھی ہمیں اپنا پریس دے دیا ہے.ایک ہزار پونڈ ہمارے ملک کی قیمت کے لحاظ سے تیرہ ہزار روپیہ ہے اور یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ بڑے بڑے تاجر بھی اتنا روپیہ دینے کی اپنے اندر توفیق نہیں پاتے.وہ بڑے مالدار ہوتے ہیں مگر اتنا چندہ دینے کی ان میں ہمت نہیں.انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اس سے پہلے جب اس چیف نے پانچ سو پونڈ چندہ دیا تھا تو میں ایک شامی تاجر سے ملا تھا.میں نے اسے تحریک کی کہ وہ بھی اس کام میں حصہ لے اور میں نے اسے کہا فلاں گاؤں کا جو رئیس ہے اس نے پانچ سو پونڈ چندہ دیا ہے.وہ کہنے لگا کہ میری طرف سے بھی آپ پانچ 43
سو پونڈ لکھ لیں اور پھر کہا کہ میں اس وقت پانچ سو پونڈ لکھواتا ہوں مگر میں دوں گا اس چیف سے زیادہ.یہ کتنا بڑا ثبوت ہے اس بات کا کہ ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے ہے.ایک معمولی گاؤں کا چیف ہے اور پھر احمدیت کا اتنا مخالف ہے کہ کہتا اگر دریا اُلٹا چلنے لگے تو یہ ممکن ہے لیکن یہ ممکن ہی نہیں کہ میں احمدی ہوسکوں.مگر پھر خدا تعالیٰ اسے احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرماتا ہے اور نہ صرف احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرماتا ہے بلکہ یکدم اسے ہزاروں روپیہ سلسلہ کو پیش کرنے کی توفیق مل جاتی ہے.مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری فرماتے ہیں:.مذکورہ بالا پریس کے لئے جب مالی تحریکیں کی جا رہی تھیں تو مجھے دن رات یہ فکر رہنے لگا کہ اب ہم احمد یہ پریس کہاں اور کس عمارت میں فٹ کریں کیونکہ ہمارے پاس اس وقت بو میں سوائے ایک احمد یہ دار التبلیغ کی عمارت کے اور کوئی عمارت نہ تھی.اسی فکر میں ایک شب بے چینی کے عالم میں بار بار بستر پر پہلو بدلتے ہوئے خاکسار اللہ تعالیٰ کے حضور ملتجی تھا کہ الہی اس پریس کے لئے عمارت کا کیا انتظام کیا جائے کہ اچانک اللہ تعالیٰ نے دل میں ڈالا کہ محترم الحاج علی روجرز صاحب کو تحریک کروں کہ وہ اپنے دو مکان اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر جماعت کے نام ہبہ کر دیں چنانچہ اگلے روز خاکسار نے مکرم الحاج علی روجرز صاحب کے پاس جا کر انہیں کہا کہ جماعت کی فوری ضروریات کے پیش نظر آپ یہ دونوں مکان مع ساتھ والی زمین کے اللہ تعالیٰ کی خاطر احمد یہ مشن کو کر دیں کیونکہ ان کی اس وقت اشد ضرورت ہے.میں قربان جاؤں اس پیارے بزرگ بھائی کے وہ کسی تردد اور عذر کے بغیر فی الفور سر تسلیم خم کرتے ہوئے اپنے وہ دونوں مکان ہبہ کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور کہنے لگے کہ آر 44
نے جو کچھ فرمایا ہے بالکل درست ہے.لائیں کاغذ اور قلم اور مجھ سے ابھی لکھوائیں.چنانچہ اسی وقت ہم مشن کے دفتر میں پہنچے اور میں نے لوکل قانون کے مطابق انگریزی میں معاہدے کا ڈرافٹ تیار کر کے اس کی تین نقول کیں اور بطور گواہ جماعت کے دوسر یسر کردہ ممبران کو بلا کر اُن کے سامنے الحاج علی روجرز صاحب سے دستخط کروالئے.چنانچہ اس کے بعد سے شہر کے وسط میں دونوں عمارتیں اور خالی زمین قانونی طور پر احمد مشن سیر الیون کی ملکیت ہے گئیں.اُن کی مالیت مع زمین اس وقت تین ہزار پونڈ سے کم نہ تھی.ان میں سے ایک عمارت میں پریس قائم کیا گیا اور دوسری عمارت جماعت کی سنٹرل لائبریری اور پبلک ریڈنگ روم کے طور پر استعمال ہو نے لگی جس کا افتتاح ملک کے سینکڑوں باشندوں کی موجودگی میں ”بو کے ڈسٹرکٹ کمشنر صاحب نے کیا اور پھر پبلک کا ہر طبقہ اس لائبریری اور ریڈنگ روم سے فائدہ اُٹھانے لگا.اس ریڈنگ روم میں لوکل اخبارات کے علاوہ دنیا بھر سے ہر قسم کے کم و بیش تھیں روزنامے ، ہفتہ وار اور ماہوار اخبار اور رسالے وغیرہ باقاعدہ آیا کرتے تھے جن میں اکثر احمد یہ لائبریری کے نام پر مفت آتے تھے.یہاں اظہار تشکر کے طور ذکر کرنا بھی مناسب ہو گا کہ مجوزہ پریس کی مشینیں خریدنے کے لئے محترم الحاج علی روجرز صاحب نے اپنے دونوں مکانوں کے علاوہ اپنے اور اپنے خاندان کی طرف سے بطور چندہ پریس 500 پونڈ نقد بھی ادا فرمایا.فجزاہ اللہ تعالیٰ.پریس کے لئے انگلستان سے آمدہ چار مشینیں سال ہا سال تک مشن کی ضروریات پورا کرنے کے علاوہ تجارتی لحاظ سے بھی سود مند ثابت ہوئیں.تاریخ احمدیت جلد 18 صفحہ 69-467) 45
مشن بند کرنے کا احتمال اور جماعتی رد عمل.قربانیوں کا نیا باب 1956ء کا سال ایک قربانیوں اور جماعتی اعانت کا شاہکار ہے.مالی قلت کے باعث یہ احتمال تھا کہ بعض بیرونی مشن بند کر دیئے جائیں.حضور اقدس نے اس ضمن میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا.اس کے بعد کے خطبہ میں حضرت مصلح موعود نے اس گزشتہ خطبہ پر جماعتی رد عمل کو ان الفاظ میں بیان فرمایا:- ”میں نے پچھلے دنوں تحریک جدید کے بیرونی مشنوں کے متعلق ایک خطبہ پڑھا تھا جس میں میں نے ذکر کیا تھا کہ تحریک جدید کے پاس بیرونی مشنوں کے لئے اتنا کم روپیہ رہ گیا ہے کہ شائد آب ہمیں اپنے مشن بند کرنے پڑیں مگر ادھر میں نے خطبہ پڑھا اور اُدھر اللہ تعالیٰ کا فضل دیکھو کہ ایک دن میں نے ڈاک کھولی تو اس میں ہمارے ایک مبلغ کا خط نکلا جس میں اس نے لکھا کہ ایک جرمن ڈاکٹر نے احمدیت کے متعلق کچھ لٹریچر پڑھا تو اس نے ہمیں لکھا کہ مجھے اور لٹریچر بھجواؤ.چنانچہ اس پر میں نے آپ کا لکھا ہوا دیباچہ قرآن اسے بھجوادیا.دیباچہ پڑھ کر اس نے لکھا کہ میں چاہتا ہوں کہ اس کو اپنے ملک میں چھاپا جائے اور بڑی کثرت سے یہاں پھیلایا جائے اور میں اس بارے میں آپ کی ہر طرح مدد کرنے کے لیے تیار ہوں.پھر اس نے لکھا کہ یہاں میں لاکھ جرمن نسل کے مسلمان پائے جاتے ہیں.اگر دیباچہ کا یہاں کی زبان میں ترجمہ ہو جائے تو ہیں لاکھ مسلمان عیسائیوں کے ہاتھ میں جانے سے بچ جائے گا.اور وہ احمدیت قبول کر لے گا.گویا ہم تو ڈر رہے تھے کہ کہیں خدا نخواستہ ہمارے پہلے مشن بھی بند نہ ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ نے ہماری تبلیغ کے لئے راستے کھول دیئے.پھر جب 46
خطبہ شائع ہوا تو باہر سے بھی اور اندر سے بھی ہمارے خدا نے زندہ ہونے کی کثرت سے مثالیں ملنی شروع ہو گئیں.ایک غیر احمدی کا خط آیا کہ میں نے آپ کا خطبہ پڑھا تو میرا دل کانپ گیا کہ آپ کو اسلام اور مسلمانوں کی تکلیف کی وجہ سے کس قدر دُکھ ہوا ہے.میں سو روپیہ کا چیک آپ کو بھجوا رہا ہوں آپ اس روپیہ کو جس طرح چاہیں خرچ کریں پھر ایک اور خط کھولا تو وہ ایک احمدی کا تھا اور اس میں لکھا تھا کہ میں سو روپیہ بھجوا رہا ہوں تا کہ بیرونی مشنوں کے اخراجات میں جو کمی آئی ہے وہ اس سے پوری ہو سکے.پھر ایک عورت کا خط آیا کہ میں پاس روپے بھجوا رہی ہوں تاکہ جو نقصان ہوا ہے اس کا ازالہ ہو سکے.پھر چوتھا خط میں نے کھولا تو اس میں ایک ترکی پروفیسر کا ذکر تھا.ہمارا ایک احمدی ان دنوں ایک ترکی پروفیسر سے ترکی زبان سیکھ رہا ہے اور ایک سو بیس روپے ماہوار اسے ٹیوشن دیتا ہے وہ ترکی پروفیسر اسلام کا دشمن تھا اور رات دن اسلام اور جستی باری تعالیٰ پر اعتراض کرتا رہتا تھا وہ احمدی لکھتا ہے کہ میں نے فیصلہ کیا کہ چاہے میری پڑھائی ضائع ہو جائے میں نے آج اس سے مذہبی بحث کرنی ہے.چنانچہ میں اس سے بحث کرتا رہا.اور پھر میں نے اسے آپ کا لکھا ہوا دیباچہ قرآن دیا کہ وہ اسے پڑھنے کے بعد مجھے کہنے لگا کہ میں آج سے پھر سے مسلمان ہو گیا ہوں.پھر جب مہینہ ختم ہوا اور میں اسے روپیہ دینے کے لئے گیا تو وہ کہنے لگا کہ تم مجھ پر یہ مہربانی کرو کہ یہ روپیہ میری طرف سے اپنے امام کو بھجوادو اور انہیں کہو کہ وہ جس طرح چاہیں اس روپیہ کو خرچ کریں اب دیکھو ایک دہر یہ انسان ہے خدا تعالیٰ پر رات دن ہنسی اڑاتا ہے.اسلام سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا.لیکن اس پر ایسا اثر ہوا ہے کہ جب اسے ٹیوشن کی فیس پیش کی جاتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ یہ روپیہ مجھے نہ دو بلکہ اپنے امام کے پاس بھیج دو اور انہیں کہو کہ وہ 47
اسے جس طرح چاہیں خرچ کریں.اس کے بعد میں نے جو پانچواں خط کھولا وہ ایک احمدی دوست کا تھا جو انڈونیشیا سے بھی پڑے رہتے ہیں انہوں نے لکھا کہ یہ پر اطلاع ملتے ہی کہ بیرونی مشنوں کو جو روپیہ بھجوایا جاتا تھا اس میں کمی آگئی ہے میں نے اڑھائی سو پونڈ لندن بینک میں تحریک جدید کے حساب سے جمع کروا دیا ہے میری خواہش تھی کہ میں چھ سو پونڈ جمع کراؤں مگر سر دست فوری طور پر میں نے ڈھائی سو پونڈ بنک میں جمع کرا دیا ہے پھر چھٹا خط میں نے کھولا تو وہ ایک ایسے دوست کی طرف سے تھا جو پاکستان کے باہر رہنے والے ہیں.انہوں نے لکھا آپ اس فکر میں اپنی صحت کیوں برباد کر رہے ہیں، ہماری جائیداد میں اور ہمارے بچے کس غرض کے لئے ہیں.ہم ان سب کو قربان کرنے کے لئے تیار ہیں.آپ پونڈوں کا فکر نہ کریں آپ جتنے پونڈ چاہیں گے ہم جمع کردیں گے اور اس بارہ میں آپ کو کسی قسم کی تکلیف نہیں ہونے دیں گے.غرض اس طرح متواتر خطوط آنے شروع ہو گئے ہیں کہ صاف معلوم ہوتا ہے اس خطبہ کے پہنچتے ہی تمام جماعتوں میں اک آگ سی لگ گئی ہے اور لوگ انتہائی بے تابی کے ساتھ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں.اسی طرح پشاور سے ایک دوست کا خط آیا جس میں انہوں نے لکھا کہ یہ خطبہ پڑھ کر مجھے سخت تکلیف ہوئی ہے.اگر تمام احمدی کوشش کریں تو کیا وہ ہزار دو ہزار پونڈ بھی جمع نہیں کر سکتے.ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کام کے لئے پوری طرح تیار ہیں اور ہم خود اس روپیہ کو جمع کریں گے.آپ اس بارے میں کسی قسم کی تشویش سے کام نہ لیں.یہ تو کل اور پرسوں کی ڈاک کا ذکر تھا.آج ڈاک آئی اور میں نے اسے کھولا تو اس میں سے ایک شہر کی خدام الاحمدیہ کی مجلس کی طرف سے خط نکلا جس میں یہ ذکر تھا کہ ہم نے آپ کا خطبہ تمام خدام کو پڑھ کر سنایا جس پر فوراً مقامی خدام نے دوسو 48
روپیہ چندہ کے وعدے لکھوادیئے اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ یہ روپیہ بہت جلد مرکز میں بھجوا دیں....غرض دیکھو ہمارا خدا کیسا زندہ خدا ہے جو کام ہم نہیں کر سکتے تھے اس کے لئے وہ آپ سامان مہیا کر رہا ہے اور خودلوگوں کے دلوں میں تحریک کر رہا ہے.چنانچہ ایک طرف ایک ترکی پروفیسر کے دل میں تحریک پیدا ہوتی ہے کہ وہ اپنی کمائی کا روپیہ اپنی ذات پر خرچ کرنے کی بجائے تبلیغ اسلام کے لئے بھجوا دے تو دوسری طرف ایک جرمن ڈاکٹر کے دل میں تحریک پیدا ہوتی ہے کہ ہم خود اسلام کی اشاعت میں حصہ لینے کے لئے تیار ہیں.آپ دیباچہ کا ترجمہ ہماری ملکی زبان میں کروا دیں تو لاکھوں لوگ احمدی ہونے کے لئے تیار ہیں.اسی طرح جو پاکستان سے باہر احمدی رہتے ہیں اُن کے دل میں تحریک پیدا ہوئی ہے اور وہ لکھتے ہیں کہ آپ کیوں فکر کرتے ہیں.آپ ہمیں حکم دیں تو ہم اپنے بیوی بچے بھی اس راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار ہیں اور جتنے پونڈ چاہیں گے ہم جمع کر دیں گے مگر ہم سے یہ تکلیف نہیں دیکھی جاتی کہ آپ فکر اور تشویش سے اپنی صحت کو برباد کر لیں.غرض اللہ تعالیٰ نے اپنے زندہ اور قادر ہونے کا ایک نمایاں ثبوت ہمارے سامنے پیش کر دیا ہے کہ وہ کتنی بڑی طاقتیں رکھنے والا خدا ہے.تاریخ احمدیت جلد 18 صفحہ 469).چندہ تحریک جدید کا ایک انوکھا پھل.اولا د عطا ہونا 5 نومبر 2004ء کو حضرت خلیفہ امسح الخامس نے یہ دلچسپ واقعہ تحریک جدید کی ادائیگی چندہ کا بیان فرمایا:- 5 نومبر 2004ء بمطابق 5 نبوت 1383 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت 49
الفتوح مورڈن - لندن) جماعتوں کو میں آج پھر توجہ دلاتا ہوں کہ ان رابطوں کو قائم کریں اور وسیع کریں اور تربیت کی طرف توجہ دیں.اپنی مستیاں دُور کریں اور ان.اور ان نئے لوگوں کو بھی مالی قربانیوں میں شامل کریں چاہے وہ ٹوکن کے طور پر ہی ٹھوڑا بہت دے رہے ہوں.اس طرح جیسا کہ میں نے کہا جو نئے بچے ہیں ان کو بھی ماں باپ شامل کرنے کی کوشش کریں.اس مالی قربانی میں شامل کریں.اور خاص طور پر واقفین بچے ضرور ، بلکہ ہر پیدا ہونے والا بچہ اس میں شامل ہونا چاہیے.بلکہ بعض احمدیوں کا ایمان تو اس سے بھی تازہ ہوتا ہے کہ کسی کے اولاد نہیں ہوتی تھی تو انہوں نے تحریک جدید میں اپنے بچوں کے نام پر بھی چندہ دینا شروع کر دیا.100 روپے بچے کے حساب سے 400 روپے دینے شروع کر دیئے (پاکستان کی بات ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ کچھ عرصے بعد ان کے ہاں اولاد کی امید پیدا ہوئی اور اب چار بچے ہو گئے.جتنے بچوں کا چندہ دیتے تھے اتنے بچے اللہ تعالیٰ نے دے دیئے.اللہ تعالی بعض دفعہ فوری طور پر نظارے دکھا دیتا ہے.جیسا کہ میں نے کہا ہے چاہے بچوں کی طرف سے معمولی رقم ہی دیں لیکن اخلاص سے دی ہوئی یہ معمولی رقم بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے بڑا اجر پانے والی ہوتی ہے.اور جماعت میں اللہ تعالیٰ بہت سوں کو یہ نظارے دکھاتا ہے.اور پھر اسی چندے کی وجہ سے ،ان برکتوں کی وجہ سے پھر آپ کے گھر برکتوں سے بھرتے چلے جائیں گے.حضرت خلیفۃ اصیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے 9 نومبر 2012ء کے خطبے میں آئر لینڈ کے ایک نوجوان کا ذکر اس طرح فرمایا.صدر صاحب آئر لینڈ لکھتے ہیں کہ ایک نوجوان جوڑے نے فیصلہ کیا کہ 50
جب ان کے اولاد ہو گی تو وہ اپنی اولاد کو وقف کر دیں گے.انہوں نے اپنی اولاد کے لئے نام بھی سوچ لئے لیکن ان کی اہلیہ اس وقت تک امید سے نہ تھیں.چند دن بعد انہوں نے تحریک جدید اور وقف جدید کے لئے دونوں بچوں کے نام چندہ کی رسیدیں کٹوادیں جس میں ایک لڑکی اور ایک لڑکا تھا.خدا تعالیٰ نے ان کی اس قربانی کا صلہ اس طرح دیا کہ چند ہفتوں کے بعد پتہ چلا کہ ان کی اہلیہ امید سے ہیں اور ان کے ہاں جڑواں بچے پیدا ہوں گے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے انہیں جڑواں بچوں سے نوازا اور میاں بیوی کا پختہ ایمان ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے جڑواں بچوں سے اس لئے نوازا کہ انہوں نے بچوں کا چندہ دیا تھا.“."آگ سے ہمیں مت ڈرا آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے“ کے حسین نظارے حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے یہ الہام عطا فرمایا ”آگ سے ہمیں مت ڈرا آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے یہ الہام تذکرہ اور اربعین نمبر 3 صفحہ 38-37 پر درج ہے.متعدد بار یہ الہام حضور علیہ السلام کے غلاموں کے ذریعے بھی ظہور میں آیا.غلامانِ مسیح کی مالی قربانیوں کے نتائج کے طور پر ان کو آگ سے محفوظ کیا.اس کے چند ایک نمونے درج ذیل ہیں.ا.یہ بھی ایک عجیب واقعہ ہے اللہ تعالیٰ کے حضور مالی قربانی پیش کرنے کا کہ اللہ تعالیٰ کس طرح محفوظ کرتا ہے اور بدلے دیتا ہے.آئیوری کوسٹ کے ایک احمدی بڑھتی تھے انہوں نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر تحریک جدید کا چندہ لکھوایا اور باوجود مشکل حالات کے اپنا وعدہ مقررہ میعاد سے قبل ادا کر دیا.جس 51
روز انہوں نے چندہ ادا کیا اسی رات اس بازار میں جہاں اُن کی دکان تھی آگ بھڑک اٹھی جو دیکھتے ہی دیکھتے تمام دوکانوں میں پھیل گئی.اور یہ دکانیں لکڑی کی بنی ہوئی تھیں.ان کی دکان درمیان میں تھی، اللہ کے فضل سے یہ بالکل محفوظ رہی.اور دونوں طرف سے آگ نے سب کچھ جلا دیا.یہ بیان کرتے ہیں کہ چندہ کی برکت کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے انہیں ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رکھا.یہاں یہ الہام بھی پورا ہوتا ہے کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے.جلسہ سالانہ برطانیہ دوسرے دن کا خطاب حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ ( 2003 ۲- انڈیا کی ایک رپورٹ ہے کہ وہاں کی کوئمبٹور جماعت کے صدر لکھتے ہیں کہ تحریک جدید کے چندہ میں اپنی استطاعت سے بڑھ کر اضافہ کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے خاکسار کو اپنی معجزانہ قدرت کے دو ایمان افروز نظارے دکھائے.میں اللہ تعالیٰ کے حضور اس وعدہ کی بروقت ادائیگی کے لئے مسلسل دعاؤں میں مصروف تھا کہ اچانک ایک شخص میری دکان میں آیا اور میرے پاس جو سامان تھا اُس نے اُسے اصل قیمت سے بھی کہیں زیادہ قیمت پر خرید لیا جس کے نتیجے میں مجھے اُسی وقت اپنا وعدہ پورا کرنے کی توفیق مل گئی.پھر کہتے ہیں اسی دوران ہمارے علاقے کے گودام میں اچانک آگ لگ گئی جس میں خاکسار کا مال بھی کافی مقدار میں رکھا ہوا تھا.خاکسار دعا کرتے ہوئے وہاں پہنچا تو یہ دیکھ کر حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جہاں دوسرے بیوپاریوں کا سارا سامان جل کر راکھ ہو چکا تھا وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرا مال بالکل محفوظ رہا.آگ اتنی شدید تھی کہ گودام کے لوہے کی چھت بھی پگھل گئی تھی.یہ علاقہ متعصب مسلمانوں کا گڑھ 52
ہے جو ہمیشہ ہماری مخالفت پر کمر بستہ رہتے ہیں لیکن اس واقعہ کے بعد وہ سب خاکسار کی بہت عزت کرنے لگے ہیں.یہ محض چندہ دینے کے افضال ہیں.میں جب بھی ان واقعات کو یاد کرتا ہوں میرا دل شکر سے لبریز ہو جاتا ہے.(خطبہ جمعہ 9 نومبر 2012 ء بمقام لندن حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ ) فرمایا.تحریک جدید کے زیر اہتمام مساجد کے قیام میں مالی قربانیاں حضرت مصلح موعود نے اپنے خطاب 26اکتوبر7 195ء یہ واقعہ بیان یاد ہے پچھلے سال میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک سنا رلڑکا جو چنیوٹ میں رہتا ہے آیا اور اس نے سونے کے کڑے ہاتھ میں لا کر رکھ دیئے اور کہا کہ میری ماں کہتی ہے کہ یہ کڑے میں نے کسی خاص مقصد کے لئے رکھے ہوئے تھے.اب میں چاہتی ہوں کہ اب انہیں بیچ کر کسی دینی کام میں لگا لیں.میں نے انہیں بیچ کر رقم مسجد ہیگ میں دے دی.میرا خیال ہے کہ وہ چار پانچ سو کے ہوں گے.“ واقفات نو بچیوں کی تحریک پر وعدہ تحریک جدید ڈیڑھ گنا بڑھا دیا حضرت خلیفہ اسیح الخامس نے 4 نومبر 2011ء میں تامل ناڈو کے ایک مخلص مجاہد کا تذکرہ فرمایا جس کی دو واقفات نو بچیوں کی تحریک پر والد نے اپنا وعدہ تحریک جدید ایک لاکھ سے بڑھا کر ڈیڑھ لاکھ کر دیا.حضور اقدس نے 53
فرمایا:- ور انسپکٹر تحریک جدید لکھتے ہیں کہ فروری میں خاکسار وکیل المال صاحب کے ساتھ صوبہ تامل ناڈو کے دورے پر تھا.ہم لوگ جماعت احمدیہ کوئمبور پہنچے.بعد نماز مغرب ایک تربیتی اجلاس منعقد کیا گیا جس میں وکیل المال صاحب نے تحریک جدید کے اغراض و مقاصد اور پس منظر کے موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی.اجلاس کے بعد مسجد میں موجود تمام احباب سے نئے سال کے وعدے لئے گئے.ایک مخلص دوست کا سابقہ وعدہ نہیں ہزار روپیہ تھا.اُن کی مالی حالت اچھی تھی.عموماً کیرالہ کے علاقے میں امیر لوگ ہیں.وکیل المال صاحب نے موصوف کو سال نو کے لئے ایک لاکھ روپیہ وعدہ لکھوانے کی تحریک کی.پہلے موصوف نے اپنی مجبوری کا اظہار کیا، پھر اس قربانی کے لئے آمادہ ہو گئے.اُس وقت ان کی دو واقفات نو بچیاں بھی موجود تھیں.انسپکٹر کہتے ہیں کہ مسجد سے نکل کر سیکرٹری صاحب تحریک جدید کے گھر جاتے ہی اُن کو ان صاحب کا فون آیا جنہوں نے ایک لاکھ کا وعدہ کیا تھا کہ میری بڑی بیٹی کہہ رہی ہے ، واقفات نو بچیاں جو ساتھ تھیں ، کہ ابا جان آپ نے جو تحریک جدید کا وعدہ لکھوایا ہے وہ ہمارے لئے کم ہے.اس کو اور بڑھا کر ڈیڑھ لاکھ روپے کر دیں.اس لئے میرا وعدہ ڈیڑھ لاکھ لکھ لو.وعدہ میں غیر معمولی اضافہ کر دیا.پاکستان کے ایک مجاہد کی عظیم قربانی اسی خطبہ جمعہ یعنی 11 نومبر 2011ء میں حضور اقدس نے پاکستان کے مخلص فدائی کا یہ واقعہ بیان کیا.54
ایڈیشنل وکیل المال پاکستان لکھتے ہیں کہ سندھ میں ایک صاحب (گزشتہ دنوں جو بارشیں ہوئیں اُس کی وجہ سے سندھ کے حالات بڑے خراب ہیں ) اُن کا وعدہ پچاس ہزار روپے تھا ، کہتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ فصلوں کو نقصان ہوا ہے میں نے اُن کے حالات کو دیکھتے ہوئے کہ وہ امیر آدمی تھے ، اُن کو کہا آپ کا وعدہ تو زیادہ ہونا چاہیے.اُس پر انہوں نے اپنا وعدہ پانچ لاکھ روپے کر دیا اور اُس کی نقد ادائیگی بھی کر دی مگر چند روز کے بعد جب کہ یہ واپس حیدر آباد آچکے تھے.انہوں نے ان کو فون کیا کہ آپ خلیفہ اسیح کے نمائندے کے طور پر میرے پاس آئے تھے اور پانچ لاکھ کا اُس وقت میں نے وعدہ کیا کیونکہ آپ نے میرے حالات دیکھتے ہوئے مجھے اتنا ہی بتایا تھا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ عہد بیعت کا تقاضا ہے کہ اس سے بڑھ کر وعدہ کروں.جو موجود ہے اُس میں سے دوں اور انہوں نے وہیں دس لاکھ روپے کا وعدہ کر دیا.گھر گئے تو اُن کی اہلیہ نے کہا کہ میرے جو زیورات ہیں وہ میں اپنی طرف سے تحریک جدید میں پیش کرنا چاہتی ہوں.ان کا فون آیا کہ اب رات کا وقت ہے اور میری اہلیہ کہہ رہی ہیں کہ ابھی جا کر مرکزی نمائندے کو یہ زیورات دے کر آؤ، رات میں نہیں رکھوں گی تو انہوں نے ان کی اہلیہ کو فون پر سمجھایا کہ رات کا وقت ہے.سندھ کے حالات ایسے ہیں کہ رات کا سفر مناسب نہیں ہے، صبح مل جائے گا.لیکن وہ بضد تھیں کہ نہیں ابھی میں نے پہنچانا ہے.چنانچہ پھر خاوند کو مجبوراً آنا پڑا.لیکن جب نیت ہوگئی تو اللہ تعالیٰ کے حضور وہ چیز پہنچ جاتی ہے.حالات کو دیکھتے ہوئے اتنا جذباتی نہیں ہونا چاہیے.اگر حالات وہاں خراب ہیں تو رات کے وقت سفر مناسب نہیں.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور کچھ نہیں ہوا لیکن بہر حال احتیاط کرنی چاہیے.بلا وجہ اپنے آپ کو ابتلا میں بھی نہیں ڈالنا چاہیے.55
قازقستان کے ایک نو مبائع دوست کے بارے میں ہمارے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ جماعت کی مرکزی مسجد اور مشن ہاؤس کے لئے ایک قطعہ زمین انہوں نے خرید کر دیا اور اس کے ساتھ ایک دو منزلہ زیر تعمیر مکان کی خرید کی.پھر دوسرے شہر میں بھی مسجد کی تعمیر کے لئے ایک پلاٹ خرید کر دیا.یہ نو مبائع دوست ہیں اور مجموعی طور پر انہوں نے اس کے لئے چار لاکھ پچانوے ہزار ڈالر کی قربانی کی.جرمنی کے سیکرٹری تحریک جدید لکھتے ہیں کہ تحریک جدید کے بارے میں ایک جگہ تحریک کی تو اس کی برکات سننے کے بعد ایک خاتون نے ایک ہزار یورو جو زیور خریدنے کے لئے رکھے تھے وہ اُن کو پیش کر دیئے.جماعت جرمنی کی بہت سی لجنات نے اپنا زیور تحریک جدید کے لئے دے دیا.ایک بہن نے کمیٹی ڈالی ہوئی تھی وہ کمیٹی کی رقم ساری دے دی.کہتے ہیں کہ ایک جگہ میں دورے پر گیا تو ایک دوست نے ایک پرچی خاکسار کو دی.(ان کو جو سیکرٹری تحریک جدید تھے ) اُس پر لکھا ہوا تھا میں ہزار یورو چندہ تحریک جدید.اور اس پرچی کے نیچے لکھا ہوا تھا کہ میرا نام ظاہر نہ کیا جائے.کہتے ہیں جب میں دوسری جگہ گیا تو وہاں میں نے یہ مثال پیش کی کہ اس طرح بھی لوگ قربانیاں دیتے ہیں.میٹنگ ختم ہوئی تو وہاں بھی ایک دوست نے ایک پرچی مجھے دی جس پر لکھا ہوا تھا اکیس ہزار یورو برائے چندہ تحریک جدید اور نیچے لکھا ہوا تھا کہ میرا نام ظاہر نہ کریں.یہ تو چند واقعات میں نے لئے ہیں.بے شمار واقعات تھے.شاید اس سے بھی زیادہ ایمان افروز بعض واقعات ہوں لیکن میں نے کوئی خاص چن کر نہیں لئے بلکہ بغیر غور کئے لئے ہیں.دورہ جات میں کمی کے نتائج خود چندہ دہندہ محسوس کرتا ہے 56
حضرت خلیفہ مسیح الرابع نے ایک دلچسپ خط کا ذکر 26 اکتوبر 1984ء کے خطبہ جمعہ میں یوں فرمایا:- آج ہی میں جو ڈاک دیکھ رہا تھا اس میں ایک دلچسپ خط ملا.ایک صاحب لکھتے ہیں کہ میں نے پچھلے سال اپنی آمد کا 1/3 کم لکھوایا چندہ میں اور اگر چہ آپ کی آواز میرے کانوں میں پہنچی تھی کہ اگر نہیں دے سکتے پورا تو دیانت داری سے کہہ دو ہم تمہیں معاف کر دیں گے، لیکن جھوٹ نہیں بولنا لیکن وہ ان صاحب سے غلطی ہو گئی حالانکہ تاجر آدمی ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے آمدن اچھی تھی.وہ کہتے ہیں 113 لکھوا دیا اللہ تعالیٰ نے مجھے سبق اس طرح دینا تھا کہ آخر پر جب میں نے حساب کیا تو گزشتہ سال کی جو آمد تھی اس سے بعینہ 1/3 آمد ہوئی اور اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ یہ اتفاقی حادثہ نہیں ہے.اللہ تعالیٰ بچانا چاہتا ہے.چنانچہ میں نے پھر اس آمد پر نہیں لکھوایا بلکہ اس سے پچھلے سال کی جو زائد آمد تھی اس پر بجٹ لکھوایا جو اس سال گزر رہا ہے اور نتیجہ یہ نکلا کہ میری گی ہوئی چیزیں واپس مل گئیں ، چوری کئے ہوئے مال واپس آنے شروع ہو گئے ، جو پیسے مارے گئے تھے وہ واپس آنے شروع ہو گئے اور اس سے میری آمد بڑھ خطبات طاہر جلد 3 صفحہ 607) گئی.ان شکرتم لازیدنکم کہ اگر تم شکر خداوندی بجالاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے مالوں میں اضافہ کرے گا “ کے اہل قرآنی اصول کی خوبصورت عملی جھلکیاں.حضرت خلیفہ اسیح الخامس نے 3 نومبر 2006ء کے خطبہ جمعہ میں احباب جماعت کی قربانیوں کے جو واقعات بیان فرمائے وہ اس امر کا شاہکار ہیں کہ جب خلوص دل سے قربانی پیش کی جائے اور شکر کے مضمون کے ساتھ اسے یاد کیا 57
جائے تو کس طرح اللہ تعالیٰ سلسلہ برکات کا نزول فرماتا ہے.آپ نے یہ واقعہ یوں بیان فرمایا.ابھی کل ہی مجھے ایک دوست کا خط ملا ہے کہ میں سوچ رہا تھا کہ تحریک جدید کا نیا سال شروع ہونے والا ہے، میں اپنا وعدہ تین ہزار روپے لکھواؤں اور بیوی بچوں کی طرف سے اور بزرگوں کی طرف سے ملا کے میں اس سال اس کو بڑھا کر پانچ ہزار کر دیتا ہوں.تو کہتے ہیں خیال میں آیا کہ ادا کس طرح ہوگا ؟ لیکن میں نے یہ ارادہ کر لیا تھا کہ میں نے بہر حال اللہ کی توفیق سے انشاء اللہ اتنا ہی یعنی پانچ ہزار روپے کا وعدہ لکھوانا ہے.کہتے ہیں اتنے میں ایک صاحب آئے اور ایک لفافہ مجھے دے گئے ، کھولا تو اس میں تین ہزار روپے تھے ،کسی نے عید کے تحفے کے لئے بھیجے تھے.تو کہتے ہیں میں اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر کر رہا تھا کہ ابھی تو سوچا ہی تھا کہ بڑھانا ہے تو اللہ تعالیٰ نے نواز دیا.اسی دوران پھر ایک اور صاحب آئے ، ایک لفافہ آیا جس میں پانچ ہزار روپے تھے، باہر سے کسی دوست نے ان کو تحفہ بھیجا تھا.تو کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ ابھی تو میں نے ارادہ ہی کیا ہے کہ وعدہ بڑھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش شروع ہو گئی ہے.تو اللہ تعالیٰ جس طرح اس نے فرمایا ہے پھر پور کر کے لوٹاتا ہے تو انہوں نے کہا چلو جب اس طرح آ رہا ہے تو وعدہ ہی پانچ ہزار کی بجائے دس ہزار کر دو اور پھر اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے تو یہ وعدہ کیا تھا اور اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک شروع ہوا ہے تمہارا کیا ارادہ ہے؟ بیوی نے بھی اپنا وعدہ بڑھا یا کہ میرا بھی اتنا لکھوا دیں.میں ان کو ذاتی طور بھی جانتا ہوں ان کے ذرائع ایسے نہیں ہیں کہ آسانی سے اتنا دے سکیں لیکن کیونکہ اللہ تعالیٰ کی باتوں کا فہم و ادراک ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی پر یقین ہے، دین کی ضرورت کا 58
خیال ہے ، خلافت احمدیہ کو اللہ تعالٰی کے انعاموں میں سے ایک انعام سمجھتے ہیں ،اس لئے بے خوف ہو کر یہ قدم اُٹھایا.اللہ تعالیٰ ان کے اور ایسے بہت سے دوسرے لوگوں کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ ان قربانیوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا.شادی کے لئے جمع شدہ رقم چندہ تحریک جدید میں دے دی ا.حضرت خلیفہ امسیح الخامس نے 2012ء کے تحریک جدید کے خطبہ میں جو واقعات بیان فرمائے ان میں ایک واقعہ ایک خاتون کا تھا جس نے اپنی بیٹی کی شادی کے لئے جمع شدہ رقم میں اس کی اجازت سے چندے میں دے دی فرمایا.محمد شباب انسپکٹر تحریک جدید آندھرا پردیش لکھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ اسکندر آباد کی ایک مخلص خاتون نے مالی قربانی کی ایک ایسی نیک مثال قائم کی ہے موصوفہ کے شوہر بعارضہ قلب لمبا عرصہ ہسپتال میں زیر علاج تھے بہت زیادہ زیر بار آجانے کی وجہ سے اپنا چندہ تحریک جدید ادا نہیں کر سکتے تھے.عنقریب ان کی بیٹی کی شادی ہونے والی تھی سیکرٹری صاحب تحریک جدید نے ان کی اہلیہ کو چندے کی ادائیگی کی تحریک کی تو موصوفہ نے فوراً رقم دے دی اور کہا کہ اس کا ذکر میرے شوہر سے نہ کرنا کیونکہ یہ رقم میں نے اپنی بیٹی کی شادی کے تحائف سے اس کی رضامندی سے ادا کی.“ ۲- حضرت خلیفہ اُسیح الثالث نے نصرت جہاں ریزرو فنڈ میں قربانی کرنے والے مجاہد کا ذکر اس طرح بیان کیا.میں نے اس ریز رو فنڈ کے وعدہ جات کے سلسلہ میں احباب کو ایک بار یاددہانی کرائی تھی جس کے جواب میں ابھی چار پانچ دن ہوئے لندن سے ایک 59
احمدی دوست کا خط آیا ہے جس میں لکھا ہے کہ میں نے کچھ رقم اپنی شادی کے لئے جمع کی ہوئی ہے اب آپ کا خط مجھے ملا ہے اور میں نے یہ رقم نصرت جہاں ریز رو فنڈ میں دے دی ہے اور اپنی شادی ملتوی کر دی ہے.پس اس قسم کی قربانیاں دینے والے لوگوں کے چندہ سے نصرت جہاں ریزروفنڈ بنا ہے.“ (حیات ناصر صفحہ 534 مصنفہ محمود مجیب اصغر) اگلے سال کا چندہ دوران سال ہی ادا کر دیا اور خدا نے اتنا ہی لوٹا دیا حضرت خلیفہ امسیح الخامس نے 5 نومبر 2010ء کے خطبہ جمعہ میں امانت نے الہی کا شہ پارہ پیش فرمایا.ایک صاحب نے لکھا کہ میں ڈبے میں سارا سال رقم جمع کرتا جا رہا تھا کہ اگر سال تحریک جدید کا اعلان ہوگا تو اس میں ادا کر دوں گا.اور میری یہ کوشش تھی کہ گزشتہ سال کا جو چندہ تحریک جدید تھا اس کے برابر یہ رقم ہو جائے.اب قریب آ کر جب انہوں نے ڈبے کو کھولا تو وہ رقم بہت کم تھی.ابھی اس سوچ میں تھے کہ یہ کس طرح پوری ہو گی کہ کہتے ہیں سیکرٹری تحریک جدید میرے پاس پہنچ گئے کہ ہمارے اس سال کے ٹارگٹ میں اتنی کمی ہے.ہم نے آپ کے ذمہ اتنی رقم لگائی ہے.تو انہوں نے کہا میری محدود آمدنی ہے میں اتنی بڑی رقم تو ادا نہیں کر سکتا.کہاں سے ادا کروں گا؟ بہر حال اب آپ آئے ہیں تو آپ کو کچھ نہ کچھ رقم میں دے دیتا ہوں ، ورنہ جو میں نے جمع کیا ہوا ہے یا جو میں دیتا ہوں وہ تو سارا سال جمع کر کے دیتا ہوں اور میں نے اگلے سال کے لئے جمع کیا ہوا کہ تحریک جدید کا اعلان ہوگا تو اس کے بعد ادائیگی کروں گا.کہتے ہیں پھر مجھے خیال آیا کہ 60
اگر اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہو تو اس سال یا اگلے سال کا کیا سوال ہے؟ دے دو کیونکہ رقم تو بہر حال ابھی بھی پوری نہیں ہوئی.چنانچہ وہ مطلوبہ رقم انہوں نے سیکرٹری تحریک جدید کو دے دی.اور کہتے ہیں گھر آ کر بیٹھا ہی تھا کہ ایک جگہ سے ایک لفافہ آیا کسی کا خط تھا اور اس میں چیک تھا اور عین اس رقم کے برابر چیک تھا جو میں نے دی تھی.اور اس شخص نے لکھا تھا کہ فلاں وقت میں نے آپ سے قرض لیا تھا میں بھول گیا اور ان کو بھی بھول گیا تھا.آج مجھے یاد آیا تو میں نے وہ قرض واپس کر رہا ہوں.اور معذرت کے ساتھ واپس کرتا ہوں.پھر اسی طرح ایک اور جگہ سے فوری طور پر رقم آگئی.گویا اللہ تعالیٰ نے فوری حساب نہ صرف برابر کر دیا بلکہ بڑھا کر دے دیا.خدا تعالیٰ اس طرح قربانی کرنے والوں کو اجر دیتا ہے کہ چند گھنٹوں کے لئے اس خوف میں نہیں رکھا کہ اگلے سال کے چندے کا انتظام کس طرح ہوگا.پس ایک یہ بھی مطلب ہے وَلا خَوف" عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُون کا کہ ان پر کوئی خوف اور غم نہیں ہوتا.دنیا میں بھی ایسے اجر ملنے شروع ہو جاتے ہیں کہ ان کے ہر خوف اور غم خوشی میں بدلنا شروع ہو جاتے ہیں.لیکن شرط یہ ہے کہ خالص ہو کر خدا تعالیٰ کی خاطر قربانی کے بعد کبھی یہ احساس نہ ہو کہ ہم نے جماعت پر کوئی احسان کیا ہے.قبرستان کے لئے ایک بڑاز مین عطیہ کر دیا 2003 کے جلسہ یوکے کے دوسرے دن حضور نے یہ واقعہ سنایا.امیر صاحب غانا لکھتے ہیں کہ موصیان کی تدفین کے لئے ایک قبرستان قائم کرنے کی تجویز پر جب جائزہ لیا جا رہا تھا تو اس کی اطلاع یہاں کے ایک مخلص الحاج ابراہیم بانسو کو ملی تو انہوں نے دو ایکڑ زمین جس پر چار دیواری پہلے سے تعمیر کی گئی تھی جماعت کو پیش کر دی.اس زمین کی مالیت کا اندازہ 250 ملین 61
سڑی ہے.“ ( الفضل انٹرنیشنل 19 ستمبر 2003) خواتین کا محبوب اور قیمتی اثاثہ کیسے خدا کے لئے قربان کر دیا حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے مختلف مواقع پر جن واقعات کا ذکر فرمایا ان میں سے چند امثال پیش خدمت ہیں.ایک ماں نے میرے پاس دس ہزار روپے بھیجے وہ لکھتی ہیں کہ میرے پاس بیٹی کے زیور کے لئے دس ہزار روپے جمع تھے جو سنار کو دیئے ہوئے تھے....یہ خطبہ سن کر دل نے فیصلہ کیا کہ جب میرا خدا میری بیٹی کے لئے ساتھی دے گا تو زندہ خدا اس کو زیور بھی دے گا.آج میرے حضور کو ضرورت ہے چنانچہ سُنار کو دیئے ہوئے وہ پیسے واپس لے کر یورپین مشن کے چندے میں دے دیئے.“ ایک اور عورت لکھتی ہے میں نے کچھ عرصہ پہلے اپنے زیور کا سیٹ مبلغ چار ہزار روپے میں فروخت کیا تھا کہ کچھ رقم جمع کر کے بھاری سیٹ بناؤں گی تا کہ بچیوں کے کام آسکے لیکن بچیوں کے لئے اللہ کوئی اور انتظام کر دے گا.اب زیور بنوانے کی خواہش نہیں رہی میری طرف سے یورپین مشن کے لئے یہ حقیر قبول فرمائیں.“ ایک واقف زندگی کی بیگم نے لکھا اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ میں اس قربانی کے موقع پر حاضری دوں اور قرآن مجید کے حکم لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ....یعنی تم ہرگز نیکی کو نہیں پا سکو گے جب تک اس میں سے خرچ نہ کرو جو تمہیں عزیز ہو ، جو تمہیں پیارا ہو“ کہتی ہیں کہ اس آیت کے تابع میں نے سوچا کہ مجھے اپنی ملکیتی چیزوں میں سے جو چیز سب سے پیاری ہے وہ پیش کروں تو میں نے دیکھا کہ میرے گلے کا ایک ہار جو میرے زیوروں سے زیادہ بھاری ہے وہی مجھے سب سے پیارا ہے.پس میں یہ ہار یورپین مشن 62
کے لئے پیش کرتی ہوں.پھر لکھتی ہیں کہ اسلام کی ترقی اور عظمت ہی ہمارے گھر کا اصول رہا ہے اور اصل زینت کا باعث یہی ہے.اس لئے مجھے اسلام کی یہی 66 زینت سب سے زیادہ پیاری ہے.ایک صاحب اپنی بیٹی کے متعلق لکھتے ہیں کہ میری بیٹی جس کی عمر پندرہ سال ہے اُس کے کانوں میں صرف دو بالیاں تھیں اور ناک میں ڈالنے والے دو کو کے تھے وہ بے قرار ہو گئی اور اُتار کر دے دیئے اور کہنے لگی ابا جان یہ میرے آقا کے حضور پیش کر دیں اور اس جذبے سے اُس نے کہا کہ باپ بھی انکار نہیں کرسکا.کچھ بعض واقفین زندگی ایسے تھے جن کی خواتین کے پاس پیش کرنے کے لئے کچھ نہیں تھا تو انہوں نے اپنے بچے پیش کئے یہ جو ” وقف نو“ کی تحریک ہے یہ تو بعد میں چلی ہے.بہت پہلے بعض عورتوں نے اس وجہ سے کہ ہمارے پاس کچھ دینے کے لئے نہیں ہے.اپنے بچوں میں سے جو سب سے پیارا لگتا تھا وہی خدمت دین کیلئے پیش کر دیا تھا.“ لندن کی ایک خاتون نے اپنے نکاح کی ایک نشانی رکھ کر باقی سب کچھ خدا کی راہ میں پیش کر دیا تھا.لندن ہی سے ایک اور خاتون نے لکھا آج جب میں نے آپ کا خطبہ سنا تو میری نظر ایک دم میرے ہاتھ کی چوڑیوں اور باقی زیور پر پڑی میں نے گھر آکر اُتار دیں اور کہا عید سے پہلے یہ چیزیں میں دین کے لئے دے دوں اور عید پر کچھ نہ پہنوں حضور آپ یہ قبول فرما دیں.میرا خدا میرے لئے کافی ہے.ایک نہایت غریب اور ضعیف بیوہ جو پٹھان اور مہاجر تھیں اور سونٹی لے کر بمشکل چل سکتی تھی خود چل کر آئی اور حضور کی خدمت میں دوسو روپے پیش کر 63
دیئے.یہ عورت بہت غریب تھی.اس نے دو چار مرغیاں رکھی ہوئی تھیں جن کے انڈے فروخت کر کے اپنی کچھ ضروریات پوری کیا کرتی تھیں باقی دفتر کی امداد پر گزارا چلتا تھا.ایک پنجابی خاتون جس کی واحد پونچی صرف ایک زیور تھا وہی اُس نے مسجد کے لئے دے دیا.ایک بیوہ عورت جو یتیم پال رہی تھی اور زیور یا نقدی کچھ بھی پاس نہ تھا اُس نے استعمال کے برتن ہی چندہ میں دے دیئے.حضرت بانی تحریک جدید احمدی خواتین کی زیورات کی قربانی کو یوں خراج تحسین پیش کرتے ہیں.حضور جماعت کی قربانی اور مطالبات کی تعمیل پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- دنیا میں تو جھگڑے ہوتے ہیں کہ میاں بیوی کی لڑائی ہوتی ہے تو بیوی کہتی ہے مجھے زیور بنوا دو اور میاں کہتا ہے میں کہاں سے زیور بنوادوں میرے پاس تو روپیہ ہی نہیں لیکن میں نے اپنی جماعت میں سینکڑوں جھگڑے اس قسم کے دیکھے ہیں کہ بیوی کہتی ہے میں اپنا زیور خدا تعالیٰ کی راہ میں دینا چاہتی ہوں مگر میرا خاوند کہتا ہے کہ اور وقت کام آ جائے گا.غرض خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو ایسا اخلاص بخشا ہے کہ اور عورتیں تو زیور کے پیچھے پڑتی ہیں اور ہماری عورتیں زیور لے کر ہمارے پیچھے پھرتی ہیں.میں نے تحریک وقف کی تو ایک عورت اپنا زیور میرے پاس لے آئی.میں نے کہا میں نے سر دست تحریک کی ہے کچھ مانگا نہیں.اس نے کہا یہ درست ہے کہ آپ نے مانگا نہیں، لیکن اگر کل ہی مجھے کوئی ضرورت پیش آگئی اور میں یہ زیور خرچ کر بیٹھی تو پھر میں کیا کروں گی.میں نہیں چاہتی کہ میں اس نیکی میں حصہ لینے سے محروم رہوں.اگر آپ اس وقت لینا نہیں چاہتے تو بہر حال یہ زیور اپنے پاس امانت کے طور رکھ لیں اور جب بھی 64
دین کو ضرورت ہو خرچ کر لیا جائے.میں نے بہتیرا اصرار کیا کہ اس وقت میں نے کچھ مانگا نہیں مگر وہ یہی کہتی چلی گئی کہ میں نے تو یہ زیور خدا تعالیٰ کی راہ میں 66 وقف کر دیا ہے اب میں اسے واپس نہیں لے سکتی.یہ نظارے غرباء میں بھی نظر آتے ہیں اور امراء میں بھی لیکن امراء میں کم اور غرباء میں زیادہ.“ (الفضل 22 جون 1946ء) چندہ تحریک جدید کی ادائیگی سے سیاسی پناہ کی درخواست منظور ہوگئی ا سوئٹزر لینڈ سے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ ایک دوست جو کہ نیوشٹل جماعت کے صدر ہیں نیشنل سیکرٹری تحریک جدید بھی ہیں ،انہوں نے بتایا کہ جب وہ سوئٹزر لینڈ آئے اور سیاسی پناہ کی درخواست کی تو جلد ہی متعلقہ ادارے نے رڈ کر دی.اسی دوران تحریک جدید کے نئے مالی سال کا اعلان ہو گیا.اس کے پاس اکاؤنٹ میں کل ایک ہزار فرانک کی رقم تھی جو انہوں نے وکیل وغیرہ کے لئے رکھی ہوئی تھی لیکن تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان سن کر وہ ساری رقم خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے چندے میں ادا کر دی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اصل نعم الوکیل تو وہ ہے، وہی ہمارے ٹوٹے کام بنا دے گا.چندے کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ان پر فضل کیا اور نہ صرف غیبی طور پر ان کی مدد کی بلکہ اُن کی 65
سیاسی پناہ کی درخواست منظور ہوئی اور اُن کو ملک کی شہریت بھی حاصل ہو گئی اور اُن کو کوئی وکیل وغیرہ بھی نہ کرنا پڑا.۲- امریکہ کی منے سوٹا ریاست میں ایک احمدی طالب علم وقاص بن خالد نے صدر جماعت کے ارشاد پر اپنی جملہ بچائی ہوئی پونچھی جو وہ ساتھ لائے تھے مسجد فنڈ میں دے دی اس کے بعد مزید ایک ہزار ڈالر جمع کر کے اس کار خیر میں دے دیا.اب وہ بہت فکر مند تھے کہ ایک ماہ بعد کرایہ وغیرہ دینا ہو گا اور مزید ٹیوشن کا انتظام کیسے ہوگا.اس غور و فکر میں الہی تصرف یوں ہوا کہ ان کے لئے چانسلرز اسکالر شپ منظور ہو گیا اور تین ہزار ڈالر کا چیک انہیں وصول ہوا.وہ فرماتے ہیں کہ یہ سب چندہ دینے کی برکت سے ہوا کیسے اللہ تعالیٰ بڑھا کر بلکہ کئی گنا کر کے ان ادنیٰ قربانیوں کو نوازتا ہے.الحمد للہ نومبائعین کے برکات چندہ کے مشاہدات حضرت خلیفہ اسیح الخامس نے 6 نومبر 2011ء کو آئیوری کوسٹ کے ایک نو مبائع کا یہ ایمان افروز واقعہ بیان فرمایا.ہمارے آئیوری کوسٹ کے مبلغ صاحب لکھتے ہیں کہ ہمارے ایک دوست آئیڈو وڈرا گو صاحب ( Alido Oudrago) نے 2009ء کے آخر میں بیعت کی اور بیعت کے پہلے دن سے ہی اپنی آمدنی کا حساب کر کے باقاعدہ شرح کے مطابق چندہ ادا کرنا شروع کر دیا.اس دوران انہوں نے چندے کی بے شمار برکات کا مشاہدہ کیا.ایک دن جماعت کے پرانے ممبران کے ساتھ ان برکات کا ذکر کر رہے تھے.ان پرانے ممبران میں سے ایک جس نے 2004ء میں بیعت کی تھی ، ان واقعات کو سنتے ہوئے اپنا چندہ دو ہزار فرانک سے بڑھا کر پانچ ہزار فرانک سیفا کرنے کی حامی بھر لی.کہتے ہیں کہ ابھی ادائیگی شروع نہ کی 66
تھی کہ انہوں نے مشاہدہ کیا کہ ان کی آمدنی میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے.چنانچہ وہ پرانے ممبر میرے پاس آئے اور سارا واقعہ بیان کر کے کہا کہ انہوں نے پانچ ہزار فرانک سیفا کی حامی بھری تھی مگر آج سے میں پانچ کی بجائے دس ہزار فرانک سیفا ماہانہ ادا کروں گا اور پھر اس کے مطابق ادائیگی بھی شروع کر دی.اور اس طرح بے تحاشہ اور ممبران ہیں جو چندوں میں آگے بڑھ رہے ہیں.9 نومبر 2012 ء کو حضور اقدس نے تحریک جدید کے نئے سال کے اعلان کے موقع پر یہ واقعہ بیان کیا.کرغزستان سے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک کرغز دوست جو مارٹ (Joomart) صاحب نے ، 2006 ء میں بیعت کی تھی.بہت ہی نیک فطرت نوجوان ہیں.بیعت کے فوراً بعد ہمارے مبلغ نے چندے کے بارے میں سمجھانے کے لئے اُن سے از راہ مزاح کہا کہ دوسرے لوگ تو اپنی جماعت میں داخل کرنے کے لئے پیسے دیتے ہیں ، جبکہ ہماری جماعت میں داخل ہو تو ہم اُس سے پیسے لیتے ہیں.جس پر انہوں نے کہا کہ ماہانہ تین سو کرغیز چندہ عام ادا کیا کروں گا.کچھ عرصے کے بعد ہی انہوں نے چار سو کر دیئے.پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد آٹھ سو کر دیئے.پھر کچھ مدت کے بعد خود ہی بغیر کسی کے کہنے کے ایک ہزار سم ماہانہ ادا کرنا شروع کر دیا.جب تحریک جدید کا وعدہ لکھنے لگے تو اُن کو بیعت کئے ہوئے چند دن ہی ہوئے تھے ، انہوں نے ایک ہزار سم لکھوائے یہ رقم اُن کی مالی حالت کے لحاظ سے زیادہ تھی.اُن کو سمجھایا گیا کہ ابھی چھوٹی رقم لکھوا دیں پھر آہستہ آہستہ اس میں اضافہ کرتے رہنا.خیر اس طرح بہت بحث تمحیص کے بعد پھر انہوں نے اس کو کم کیا.پھر انسپکٹر تحریک جدید احسن بشیر الدین صاحب ہیں.وہ لکھتے ہیں کہ 67
جماعت احمدیہ کا وارتی لکشد یپ پہنچا.وہاں کے امیر صاحب کی زیر صدارت منعقدہ تربیتی جلسہ میں خاکسار نے تحریک جدید کی فضیلت و اہمیت اور اس کی برکات کے موضوع پر تقریر کی.جلسہ کے بعد تمام احباب نے اپنے وعدے خاطر خواہ اضافہ کے ساتھ نوٹ کروائے.اس جلسہ میں پردہ کی رعایت سے مستورات بھی موجود تھیں.کہتے ہیں دوسرے دن وہاں سے چل کر دوسرے شہر پہنچا تو امیر صاحب کا رواتی نے بذریعہ فون بتایا کہ ایک احمدی خاتون محترمہ بی بی صاحبہ نے شکایت کی ہے کہ مردوں سے تو تحریک جدید کے وعدے لئے گئے ہیں ہم مستورات کو محروم رکھا گیا ہے.مجھے آج چندہ تحریک جدید کی اہمیت کا احساس ہوا ہے.میرا دل کہتا ہے کہ میں نے جو وعدہ لکھوایا ہے وہ کم ہے اس لئے میرا وعدہ ڈبل کر دیں.موصوفہ بہت نیک اور مخلص احمدی خاتون ہیں.چھ سال قبل انہوں نے احمدیت قبول کی تھی.چندہ کی ادائیگی کی برکت سے ایک جان لیوا حادثہ سے نجات ضرت علیہ آج اناس کے 21 جون 2012 کے طلبہ میں یہ واقات ء کے پیش کئے.امیر صاحب گیمبیا کہتے ہیں کہ جونگو (Njongon) گاؤں کے دو بھائیوں نے احمدیت قبول کی.وہ دونوں مجلس خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں شرکت کی تیاری کر رہے تھے کہ غیر احمدی نوجوان نے آکر اس بات کی ترغیب دی کہ آج کا دن بہت اچھا ہے.ہم مچھلیاں پکڑنے جاتے ہیں.ایک بھائی نے تو صاف کہہ دیا کہ میں اجتماع پر جا رہا ہوں جبکہ دوسرے نے اجتماع کا چندہ ادا 68
کر دیا لیکن شامل ہونے کی بجائے مچھلیاں پکڑنے چلا گیا.اجتماع کے دوران یہ خبر ملی کہ یہ نوجوان حادثہ کا شکار ہو گیا ہے.کشتی الٹ گئی تھی.اجتماع میں جو نوجوان شریک ہوئے تھے وہ کہنے لگے کہ اس حانثہ میں میرا بھائی ضرور بچ جائے گا کیونکہ اس نے چندہ دے دیا تھا.بعد میں خبر ملی کہ ان کا بھائی کشتی کے اس حادثہ میں زندہ بچ گیا تھا جبکہ باقی دوست حادثہ کا شکار ہو گئے تھے.چندہ کی برکت سے خشک سالی باران رحمت میں بدل گئی حسن بصری صاحب کمبوڈیا سے لکھتے ہیں کہ اپریل 2004 ء میں بہت گرمی پڑی اور بارش نہ ہونے کی وجہ سے فصلوں کو نقصان پہنچنے لگا.لوگ سخت پریشان ہوئے.ہمارے لوکل معلم شافی حسین صاحب نے ان سب ممبران کو بلوایا اور کہا کہ آپ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے اس لئے بارش نہیں آ رہی.آ.سب با قاعدہ چندہ ادا کریں پھر دیکھیں کس طرح اللہ بارش برساتا ہے.چنانچہ یک صد کے قریب ممبران جماعت ان کے گھر آئے اور چندہ ادا کیا.اسی روز چار پانچ بجے شام بادل چھا گئے اور موسلادھار بارش ہوئی جو تین روز تک مسلسل جاری رہی.لوگوں نے خدا کا شکر ادا کیا اور وعدہ کیا کہ اب ہم با قاعدہ چندہ دیا کریں گے.اب دیکھیں دور دور کے علاقوں میں بیٹھے لوگوں کے ایمان بھی اللہ تعالیٰ کس طرح تازہ کرتا ہے.خدا کی خاطر پیش کی جانے والی مرغی کیا رنگ لائی خطبہ جمعہ فرمودہ 21 جون 2012ء جمیل احمد صاحب مبلغ کیفیا لکھتے ہیں کہ خاکسار چیو گا (Chibuga) 69
جماعت میں اپنے معلمین کے ساتھ گیا.احباب کو چندہ کی تحریک کی.پروگرام ختم ہونے پر صدر جماعت ایک مرغی لے کر آیا اور کہا کہ ” میرے پاس مرغی کے سوا کچھ نہیں.یہی چندہ قبول کر لیں.کچھ عرصہ بعد خاکساراس جماعت کے دورہ پر گیا.صدر جماعت کے گھر کافی مرغیاں دیکھیں.میں نے اس سے کہا کہ اتنی مرغیاں کہاں سے آگئیں؟ پچھلی دفعہ تو صرف ایک تھی.اس پر اس نے بتایا کہ کسی سے ایک مرغی ادھار لی تھی اور انڈوں پر بٹھا دی سبھی بچے نکلے ہیں.ان میں سے اب تک ایک بچہ بھی نہیں مرا.اس لئے اب بہت زیادہ ہوگئی ہیں.یہ برکت ایک مرغی چندہ میں دینے کی وجہ سے تھی.پرانے زمانہ میں بھی ایسے واقعات ملتے ہیں کہ انڈے بیچ کر لوگ چندے دیا کرتے تھے تو دیکھیں کہ اس قربانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کے مال میں برکت ڈالی.الفضل انٹر نیشنل 12 جولائی 2013ء) راہ خدا میں قربانی ، قبولیت دعا اور اللہ پر مان ہونے کا ایک دلچسپ واقعہ ہمارے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ فرمودہ 7 نومبر 2003 ء میں حضرت خلیفہ اُسیح الاوّل کا بیان فرمودہ یہ واقعہ بیان کیا.پھر آپ ایک مثال بیان کرتے ہیں حضرت رابعہ بصری کی کہ ایک دفعہ گھر میں بیٹھی ہوئی تھیں تو مہمان آگئے اور گھر میں صرف دو روٹیاں تھیں.انہوں نے ملازمہ سے کہا کہ دو روٹیاں بھی جا کر کسی کو دے آؤ.ملازمہ بڑی پریشان ہوئی اور اس نے خیال کیا کہ یہ نیک لوگ بھی عجیب بیوقوف ہوتے ہیں.گھر میں مہمان آئے ہوئے ہیں اور جو تھوڑی بہت روٹی ہے یہ کہتی ہیں کہ غریبوں میں 70
بانٹ آؤ.تو تھوڑی دیر کے بعد باہر سے آواز ، ایک عورت آئی کسی امیر عورت نے بھیجا تھا، اٹھارہ روٹیاں لے کر آئی.حضرت رابعہ بصری نے واپس کر دیں کہ یہ میری نہیں ہیں.اس ملازمہ نے پھر کہا کہ آپ رکھ لیں ، روٹی اللہ تعالیٰ نے بھیج دی ہے.فرمایا نہیں یہ میری نہیں ہیں.تھوڑی دیر بعد ہمسائی امیر عورت تھی اس کی آواز آئی کہ یہ تم کہاں چلی گئی ہو.رابعہ بصری کے ہاں تو ہیں روٹیاں لے کر جانی تھیں.وہ کہتی ہیں کہ میں نے جو دو روٹیاں بھیجی تھیں اللہ تعالیٰ سے سودا کیا تھا کہ وہ دس گنا کر کے مجھے بھیجے گا.تو دو کے بدلے میں آنی چاہئیں تھیں یہ اٹھارہ میری تھیں نہیں.تو حضرت خلیفہ اسیح الاوّل فرماتے ہیں کہ یہ سچ ہے کہ مجھے بھی اس کا تجربہ ہے اور میں نے کئی دفعہ آزمایا ہے.لیکن ساتھ آپ یہ بھی فرمارہے ہیں کہ خدا کا امتحان نہ لو.کیونکہ خدا کو تمہارے امتحانوں کی پروا ہے.چندہ تحریک جدید میں ایک مجاہد کا غیر معمولی اضافہ اور حضور کا ارشاد حضور انور نے اپنے خطبہ فرمودہ 9 نومبر 2007ء میں ارشاد فرمایا.ایک صاحب نے لکھا ہے کہ میں نے اپنا تحریک جدید کا وعدہ کئی گنا بڑھا دیا تھا.میں ذاتی طور پر انہیں جانتا ہوں ، توفیق سے بڑھ کر انہوں نے وعدہ کیا تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ جو بھی وعدہ انہوں نے کیا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کو پورا کرنے کے سامان بھی پیدا فرما دیئے.اس سال پھر انہوں نے جو وہ وعدہ کیا تھا اس سے دو گنا وعدہ کر دیا.تو پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق کہ ويَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ ط (الطلاق 4:65) اور اس کو 71
وہاں سے رزق دے گا جہاں سے رزق آنے کا اسے خیال بھی نہ ہوگا ، ایسا انتظام کیا کہ ان کی ضروریات بھی پوری ہو گئیں اور وعدہ بھی پورا ہو گیا.اور لکھتے ہیں کہ اس پر اپنے اس سچے وعدوں والے خدا کی حمد سے دل بھر گیا.لیکن ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے دل جتنے بھی اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر جائیں ہم کبھی اس کا حق ادا نہیں کر سکتے.اس لئے ہمیشہ اپنے دلوں کو حمد سے بھرا رکھنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو یہ کہا ہے کہ جتنا تم شکر کرو گے اتنا بڑھاؤں گا اور اللہ جب بڑھاتا ہے تو کئی گنا کر کے بڑھاتا ہے.تو ہمارا شکر تو وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتا جہاں تک اللہ تعالیٰ اس کا اجر دیتا اور بڑہاوا کرتا چلا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ اپنی حمد کرنے والوں اور اس پر توکل کرنے والوں کے ایمان کو اور بڑھاتا ہے.یہی صاحب لکھتے ہیں کہ سیکرٹری تحریک جدید نے جب کہا کہ اتنا وعدہ کر دیا ہے کہ کس طرح ادا کرو گے تو میں نے اس سے کہا کہ اگر تمہیں فکر ہے تو اس خدا کو میری فکر نہیں ہو گی جس کی رضا چاہنے کے لئے اور جس کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے میں نے وعدہ کیا اور یہ خرچ کر رہا ہوں.تو یہ حوصلے اور یہ تو کل احمدیوں میں اس لئے ہے کہ انہوں اس زمانے کے امام کی بیعت کی ہے اور بیعت میں آکر اللہ تعالیٰ کی صفات کا فہم و ادراک حاصل کر لیا ہے.اللہ تعالیٰ پر ایمان میں بڑھ رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین ہے.ان کو اس بات یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ سچے وعدوں والا ہے.ان کو اس بات پر ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر خالص ہو کر کی گئی قربانی کبھی رائیگاں نہیں جاتیں.اُن کا اس بات پر قومی ایمان ہوتا ہے کہ اللہ تعالی خالصتاً اپنی خاطر کئے گئے ہر عمل کی بھر پور جزا دیتا ہے، اُن کو اس بات پر بھی یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق ہر خوف کو امن میں اور ہر غم کو خوشی میں بدل دیتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الَّذِينَ 72
يُنْفِقُونَ أَمْوَا لَهُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرّ اوَّ عَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرہ:275) کہ وہ لوگ جو اپنے اموال خرچ کرتے ہیں رات کو بھی اور دن کو بھی چھپ کر بھی اور کھلے عام بھی تو ان کے لئے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان پر کوئی خوف نہیں ہو گا اور نہ وہ غم کریں گے.پس جو خالصتا اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ،اس کی رضا حل کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں، ان کا ہر خوف ، ہر غم اللہ تعالیٰ دُور کر دیتا ہے.وہ اللہ کے ہو جاتے ہیں اور اللہ اُن کا ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ اُن کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالتا ہے.مالی قربانی کے درد ناک اور انتہائی ایمان افروز متفرقه واقعات از حضرت خلیفه امسیح الرابع بیان فرمودہ 1984ء بعد ہجرت برائے لندن ایک نوجوان یہ خبر دے رہے ہیں اور یہ عجیب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دین کا اس کی عطا کا سلسلہ بھی اس شدت کے ساتھ جاری ہے کہ کوئی اس میں ادھار نہیں ہے.قرض نہیں رکھتا اللہ تعالیٰ.ایک نوجوان جرمنی کے لکھتے ہیں کہ میں بہت ہی دلبر داشتہ تھا کہ میرے پاس کچھ زیادہ نہیں اور مجھے جو آٹھ سو مارک ملتے ہیں یہ حکومت کی طرف ہیں اس میں مجھے نوکری نہیں ملی ہوئی کوئی اس میں سے چار سو کرائے کے نکل جاتے ہیں باقی چار سو میں گزارہ کرنا مشکل ہوتا لیکن ایسی سخت میرے دل میں تمنا تھی کہ میں نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر وعدہ کر لیا اور دوسرے ہی دن اللہ تعالیٰ نے مجھے نوکری عطا فرما دی اور میں نے یہ چندہ جتنا 73
بھی لکھایا تھا وہ خدا کے فضل سے پورا ادا کر دیا ہے.وو ایک خاتون کا خط میں آخر پر پڑھ کر سناتا ہوں جن سے خدا تعالیٰ نے 74 ء میں بھی قربانی کی تھی لیکن اس قربانی کا مزہ تھا اپ اس قربانی کا اور مزہ ہے اور یہ خوش قسمت بہن دونوں مزے لوٹ رہی ہیں.وہ بھتی ہیں ” پیارے آقا 74ء میں لائل پور (فیصل آباد ) میں تھی غالباً شادی کے ایک سال بعد ہی خدا تعالیٰ نے محض اپنے خاص فضل سے اس گناہ گار بندی کو ان چند لوگوں میں چن لیا جن کو خدا تعالٰی کی راہ میں مالی قربانی کرنے کی توفیق ملی.گھر جلایا گیا ،سامان لوٹا گیا ،میاں کو زدوکوب کیا گیا اور آخر کھمبے کے ساتھ باندھ کر جلانے کا پروگرام بنایا گیا تو خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ان کے ارادے خاک میں ملا دیئے اور مارنے والوں نے خود ہی ایک دوسرے کو بُرا بھلا کہنا شروع کیا اور میرے میاں وہ جلا ہوا گھر دیکھنے گئے تو یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ باقی تو تمام چیزیں لوٹ لیں یا جلائی گئیں لیکن زیور جو ایک معمولی سے لکڑی کے ڈبے میں رکھا ہوا تھا اس کو بے کار چیز سمجھ کر باہر صحن میں پھینک گئے اس طرح خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے معجزانہ طور پر میرا تمام زیور بچا لیا اور اس حال میں اس گناہ گار کو خالی ہاتھ نہ ہونے دیا.اس دن کے بعد ہم نے خدا تعالیٰ کے فضلوں اور انعامات کو بارش کے قطروں کی طرح اپنے اوپر اترتے دیکھا.خدا تعالیٰ نے وہ وہ چیزیں دیں ہیں کہ جن کا وہم و گمان بھی نہ کیا تھا.خدا تعالیٰ نے اس معمولی سی قربانی کو اتنا بڑھا چڑھا کر قبول فرمایا اس وقت سے اس گناہگار کے دل میں بڑی شدت سے یہ خواہش پیدا ہوئی کہ یہ زیور جو جاتے جاتے رہ گیا تھا اس کو اپنے ہاتھ سے خدا تعالیٰ کے حضور پیش کروں.“ (خطبہ جمعہ 13 جولائی 1984 ء خطبات طاہر جلد 3 ص 74-372) 74
ایک غریب عورت نے یہ لکھا کہ جب میں نے دیکھا اپنی بہنوں کو قربانی کرتے ہوئے ہر طرف تو اس قدر مجھے شدید تکلیف تھی کہ میں کیا کروں میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے.کہتی ہیں اچانک مجھے خیال آیا کہ یہ جو گائے میں نے لے لی ہے بچوں کو دودھ پلانے کے لئے یہ تو ہے تمہارے پاس اگر تمہیں اس گائے سے محبت ہے اور دل میں خواہش قربانی کی زیادہ ہے تو پھر اس گائے کو پیش کر دو چنانچہ آج کے بعد سے یہ گائے میری نہیں ہے جب تک آپ اس کو سنبھال کر یا بیچ کر انتظام نہیں کر لیتے اس وقت تک کا دودھ میں اس سے لوں گی اس کے پیسے ادا کروں گی.عجیب دیوانے لوگ ہیں دنیا تو تصور بھی نہیں کر سکتی کہ احمدی کیا اس کی حقیقت کیا ہے؟ وہ تو آپ کے ظاہر کو بھی نہیں پہچانتی آپ کے باطن میں کیسے اس کی نگاہیں اتر سکتی ہیں.ایک بچی کا بہت پیارا خط آیا.کہتی ہے (Cassette ) کیسٹ چل رہی تھی عورتوں کی قربانیوں کے جو آپ واقعات بیان کر رہے تھے ،چھوٹی بچی ہے وہ کہتی ہے کہ میرے دل میں عجیب تڑپ اُٹھی اور میں نے اپنی ماں کو کہا کہ امی آپ کے دل پر کوئی اثر نہیں ہوتا.کہتی، یہ کہتے کہتے جو میری نظر اُٹھی تو دیکھا کہ ماں اپنی بالیاں اتار رہی ہے اور روتی چلی جارہی ہے.اس وقت مجھے خیال آیا کہ میں نے اپنی ماں پر بدظنی کی تھی وہی بالیاں اس کے پاس تھیں اور ادھر بیٹی کے دل میں یہ تڑپ پیدا ہوئی ادھر ماں کے ہاتھ پہلے ہی اس طرف اٹھ چکے تھے.یہ قوم ہے جس کو یہ ظالم مٹائیں گے خدا کی قسم آپ نہیں مٹ سکتے ، آپ ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں یہ محمد مصطفے ﷺ کی روحیں ہیں جو آپ کے اندر زندہ ہو رہی ہیں، یہ محمد مصطفے ﷺ کی صفات ہیں جو آپ کو نئی زندگی عطا کر رہیں ہیں ان کو خدا مٹنے دے گا؟ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا یہ ناممکن ہے ساری کائنات مٹ الله 75
سکتی ہے لیکن احمدیت کی روح نہیں مٹ سکتی کیونکہ یہ محمد مصطفے ﷺ کی غلامی کی روح ہے اور خدا اس روح کو کبھی مٹنے نہیں دے گا.خطبہ جمعہ 9 نومبر 1984 ء خطبات طاہر جلد 3 ص 59-658) ایک بچی مھتی ہے میں اپنے زیور کے سیٹ میں سے ایک سیٹ دینا چاہتی ہوں جو میں نے ابھی پہنا نہیں ہے اور شاید وہ میرے استعمال میں اسی لئے نہیں آیا کہ وہ احمدیت کے لئے وقف تھا.آپ اس سیٹ کو جس مرضی تحریک میں شامل کر لیں ، چاہے یورپ کی تحریک میں شامل کر لیں ، چاہے امریکہ کی تحریک میں شامل کر لیں میں نے یہ سیٹ وقف کر دیا ہے اب آپ جس مرضی تحریک میں شامل کر لیں لیکن پلیز (Please) مجھے انکار نہ کریں ، اگر خدانخواستہ انکار بھی کیا تو یہ سیٹ کو کسی بھی تحریک میں ضرور شامل کر لیں اور میرے لئے دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے بھی زیادہ قربانی دینے کی توفیق عطا فرمائے.ایک نوجوان لکھتے ہیں :- پیارے آقا عید الفطر کی نماز پر فرینکفرٹ گیا تھا.ہائی وے پر کار کو اوور ٹیک کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ اس تیز رفتاری میں مسابقت کا نتیجہ کیا ہوگا سوائے اس کے کہ مال و جان کا نقصان اور اس کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں اور پھر یہ سوال پیدا ہوا کیوں نہ اس مسابقت کی روح کو مذہبی دنیا میں تبدیل کیا جائے اور میں نے نیت کر لی کہ یوروپین مراکز کی تحریک میں جس شخص کا سب سے زیادہ وعدہ ہوگا اس سے بڑھ کر وعدہ بمعہ ادائیگی کروں گا.مسجد پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ایک تاجر احمدی دوست جو یہاں مستقل رہائش پذیر ہیں انہوں نے چالیس ہزار ڈینش مارک کا وعدہ کیا ہے.میں نے پوری تحقیق کرنے کے بعد کہ اس سے بڑھ کر کسی کا وعدہ نہیں ہے چالیس ہزار پانچ سو ڈینیش مارک کا وعدہ اپنے دل میں خدا تعالیٰ 76
کے ساتھ کر لیا.چالیس ہزار مارک جو میرا اندوختہ ہے اور پانچ سو انشاء اللہ تعالیٰ اس ماہ کی تنخوہ سے مل جائیں گے ، میں مجبور ہوں میرا قصور نہیں ، میرے بس کی بات نہیں میں کیا کروں ، دشمن کی دن رات کی ذلیل حرکتوں اور کارروائیوں سے جو آپ کو تکلیف پہنچ رہی ہے میرا دل یہ کرتا ہے کہ جو مجھ سے ہو سکے وہ تو کر گزروں.77