Tafseer Hazrat Masih-e-Maud Volume 8

Tafseer Hazrat Masih-e-Maud Volume 8

تفسیر حضرت مسیح موعودؑ (جلد ۸)

Chapters: 63-114
Author: Hazrat Mirza Ghulam Ahmad

Language: UR

UR
Holy Quran

تفسیر بیان فرمودہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام


Book Content

Page 1

تفسير بیان فرموده حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام جلد سورة المنافقون تا سورة الناس

Page 2

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلّى عَلى رَسُولِهِ الكَرِيمِ و على عبده المسيح الموعود عرض حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.میں قرآن شریف کے حقائق معارف بیان کرنے کا نشان دیا گیا ہوں کوئی نہیں کہ جو 66 اس کا مقابلہ کر سکے.‘“ ( ضرورت الامام.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۹۶) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۰ / جولائی ۱۹۰۰ ء کو اپنے مخالفین کو قرآن کریم کی تفسیر لکھنے کا چیلنج دیا مگر کوئی مد مقابل نہ آیا.حضور علیہ السلام نے شرائط کے مطابق تفسیر لکھ کر شائع فرمائی اور فرمایا.وو و میں نے اس تفسیر کو اپنی طاقت سے نہیں لکھا.میں تو ایک کمزور بندہ ہوں اور اسی طرح میرا کلام بھی.لیکن یہ سب کچھ اللہ اور اس کے الطاف کریمانہ ہیں کہ اس تفسیر کے خزانوں کی چابیاں مجھے دی گئی ہیں اور پھر اسی جناب سے مجھے اس کے دفینوں کے اسرار عطا کئے گئے ہیں.میں نے اس میں طرح طرح کے معارف جمع کئے اور انہیں ترتیب دیا ہے." (اعجاز مسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۶،۵۵ - اردو تر جمعہ ) قرآن کریم کے حقائق و معارف جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائے آپ کی کتب و ملفوظات میں مذکور ہیں، ان کو یکجا کر کے تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام سے طبع اول کتابی صورت میں ۸ جلدوں میں اشاعت پذیر ہوا تھا.طبع دوم کی اشاعت کے وقت ۸ جلدوں کو ۴ جلدوں میں شائع کیا گیا.یہ جلد میں کتابت سے پرنٹ ہوئی تھیں.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کمپیوٹرائزڈ ورژن کی اشاعت کی ہدایت و اجازت فرمائی ہے.نیز حضور کا منشائے مبارک

Page 3

کہ چونکہ ۴ جلدوں کی صورت میں ہر کتاب بھاری ہوگئی ہے اور اس کو بسہولت ہاتھ میں سنبھال کر پڑھنا مشکل ہو جاتا ہے اور یہ کتاب مسلسل مطالعہ میں رہنے والی ہے ، اس لئے اس کو ۸ جلدوں میں منقسم کر لیا جائے.ا.تمام اقتباسات کو حضرت مسیح موعود کی کتب کے اول ایڈیشنز سے از سر نو تقابل کر کے متن کی صحت کو قائم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے.۲.حوالہ میں قبل ازیں کتاب کا نام اور صفحہ درج تھا.اب اس کے ساتھ روحانی خزائن اور ملفوظات کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے.-۳.اس عمل کے دوران بعض اور اقتباسات سامنے آئے ہیں ، ان کو بھی شامل کر لیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے.سو تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو.ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں." (کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۷) اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضور علیہ السلام کی اس نصیحت کو حرز جان بنا کر اس پر عمل کرنے اور مداومت اختیار کرنے اور معارف قرآنی اور انوار روحانی سے اپنے دلوں کو منور کرنے کی توفیق عطا فرمائے.نیز اس اشاعت کی تیاری میں جن مربیان کرام نے جو حصہ پایا انہیں اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے.آمین !!

Page 4

iii بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ (طبع اوّل) الْحَمْدُ لِلہ ! حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تفسیر قرآن کریم کی آٹھویں جلد جو اس سلسلہ کی آخری جلد ہے طبع ہو گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب ۲۰ جولائی ۱۹۰۰ء کو اپنے مخالفین کو تفسیر نویسی کا چیلنج دیا تو آپ نے تحریر فرمایا تھا کہ قرآن شریف سے یہ ثابت ہے کہ جو لوگ در حقیقت خدا تعالیٰ کے راستباز بندے ہیں ان کے ساتھ تین طور سے خدا کی تائید ہوتی ہے.ان میں سے ایک یہ ہے ) کہ ان کو علم معارف قرآن دیا جاتا ہے اور غیر کو 66 نہیں دیا جاتا جیسا کہ آیت لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ اس کی شاہد ہے.“ معارف قرآن کا یہ علم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اُردو، عربی اور فارسی کی انٹی سے زائد تصانیف اور ملفوظات میں جا بجا مذکور ہے.۱۹۶۷ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثالث، مرزا ناصر احمد ، رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام روح پرور قرآنی معارف اور تفسیری نکات کو یکجا جمع کرنے کا ارشاد فرمایا چنانچہ مولوی سلطان احمد صاحب فاضل ( پیر کوئی ) نے بہت تھوڑے وقت میں انتہائی محنت اور عرقریزی کے ساتھ یہ کام مکمل کر کے جنوری ۱۹۶۸ء میں مسودہ حضور کی خدمت میں پیش کر دیا.

Page 5

iv جون ۱۹۶۹ ء میں اس سلسلہ کی پہلی جلد شائع ہوئی تھی اور صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر اس کی آخری جلد پیش ہے.حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ۷ / مارچ ۱۹۸۰ء کو تحریک فرمائی تھی کہ ہر احمدی گھرانہ میں اس تفسیر کا سیٹ ضرور موجود ہونا چاہئے.

Page 6

V بسم اللہ الرحمن الرحیم نمبر شمار 1 ۶ ۹ 11 ۱۲ ۱۳ ۱۴ نحمده و نصلی علی رسولہ الکریم مختصر فہرست مضامین جلد هشتم مضمون انفاق کے بارے میں منافقین کا وہم رزق کی اقسام منافقانہ رجوع در حقیقت رجوع نہیں ہے آیت لَنْ يُؤَخِّرَ اللهُ نَفْسًا کی لطیف تفسیر علم اور حکمت کی مانند کوئی مال نہیں مؤمن کا مال درہم ودینار نہیں بلکہ جواہر حقائق و معارف اس کا مال ہیں اَمْوَالُكُمْ میں عورتیں داخل ہیں مال سے مراد ایمان تو وہ ہوتا ہے جس میں لغزش نہ ہو مال اور اولاد تمہارے دشمن ہیں بہت سے لوگ ہیں جو چھپے ہوئے مرتد ہیں سچا خدا پرست انسان کی نیک بختی یہی ہے کہ وہ خدا کو ہر چیز پر مقدم رکھے بخیل کی عبادت قابل قبول نہیں صفحہ ۲،۱ 1 ۴ ۴

Page 7

صفحہ Δ > σ ۲۱ 11 = ۱۲ ۱۲ vi نمبر شمار ۱۵ حضرت ایوب کا صبر ۱۶ ۱۷ ۱۸ ۱۹ مضمون ہمیشہ دیکھنا چاہیے کہ ہم نے تقویٰ طہارت میں کہاں تک ترقی کی ہے برکات تقویٰ اگر کوئی تم میں سے خدا سے ڈرے....خدا اس کو تمام مشکلات سے رہائی دے گا قبض اور بسط کا سرایسا ہے کہ انسان کی سمجھ میں نہیں آتا صحابہ کا صبر وشکر L ۱۳ 17 ۱۷ ۱۸ خوشحالی کا اصول آدمی با خدا اور متقی ہو اس کی سات پشت تک بھی خدارحمت اور برکت کا ہاتھ رکھتا ہے خدا تعالیٰ بندے سے یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی نفسانی خواہش اس کے حضور پیش نہ کرے گناہ سے بچنے کا طریق يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا اس کے یہی معنی ہیں کہ جس شے کی اسے ضرورت ہوگی اس کے لئے وہ خود راہ پیدا کر دے گا نا امیدی حیض کی صورت میں مہلت طلاق تین مہینہ ہے آیت قرآنی اَنْزَلَ اللهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا رَّسُولًا کی تشریح سات آسمانوں کو پیدا کرنے کی حکمت ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸

Page 8

صفحہ ۱۸ > ۱۹ ۲۱ ۲۱ Σ ۲۲ ۲۷ vii نمبر شمار ۲۹ ۳۲ ٣٣ ۳۴ PIN STEE ۳۹ سات زمینوں سے مراد مضمون تمام ذرات اور سیارات در حقیقت ایک قسم کے فرشتے ہیں جو دن رات خدمت میں مشغول ہیں ترقیات غیر متناہیہ کے حصول کی دعا دوزخ اور بہشت دونوں اصل میں انسان کی زندگی کے اظلال اور آثار ہیں مغفرت کے اصل معنی بہشتیوں اور دوزخیوں کے لئے دخول جنت عظمی یا جہنم کبری سے قبل کا درمیانی درجہ تو بہ کے لئے تین شرائط امت کے بعض افراد کی حضرت مریم سے مشابہت ہر ایک مومن جو تقویٰ اور طہارت میں کمال پیدا کرے وہ بروزی طور پر مریم ہوتا ہے اور خدا اس میں اپنی روح پھونک دیتا ہے اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو دو قسم کی عورتوں سے مثال دی ہے امت کی دو قسمیں خدا کی کتب میں نبی کے ماتحت امت کو عورت سے مشابہت دی گئی ہے اَحْصَنَتُ فَرْجَهَا کے متعلق اعتراض کا جواب دنیا کی کامیابیاں ابتلاء سے خالی نہیں ۴۳ فرشتے آسمان اور آسمانی اجرام کے لئے بطور جان کے ہیں ۲۹ ۲۹ ٣٠ } } } }

Page 9

viii نمبر شمار ۴۴ ۴۵ ۴۶ مضمون قلوب کی اصلاح اسی کا کام ہے جس نے قلوب کو پیدا کیا ہے ساری سعادتیں علم صحیح کی تحصیل میں ہیں لفظ عظیم محاورہ عرب میں اس چیز کی صفت پر بولا جاتا ہے جس کو اپنا نوعی کمال پورا پورا حاصل ہو ۴۷ جس قدر انسان میں من حیث الانسانیت اندرونی خواص پائے جاتے ہیں ۴۸ ۴۹ ۵۱ ۵۲ ۵۳ ۵۴.....ان سب کا نام خلق ہے خلق کے لفظ سے جو کسی مذمت کی قید کے بغیر بولا جائے ہمیشہ اخلاق فاضلہ مراد ہوتے ہیں اللہ تعالی انبیاء اور اولیاء کی عمر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتا ہے یہ مصائب حقیقت میں انبیاء اور اولیاء کے لئے روحانی نعمتیں ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا دونوں طور پر علی وجہ الکمال ثابت ہونا تمام انبیاء کے اخلاق کو ثابت کرتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام ان اخلاق فاضلہ کا جامع ہیں جو نبیوں میں متفرق طور پر پائے جاتے تھے ملائک آسمان اور آسمانی اجرام کے لئے بطور روحوں کے ہیں جیسے روح بدن پر تصرف رکھتی ہے اسی طرح بعض ملائک آسمان اور آسمانی اجرام پر تصرف رکھتے ہیں اللہ تعالی کی بعض صفات ذاتی ہیں جو اس کی ذات کے تقاضا سے پیدا صفحہ ۳۵ ۳۶ ۳۹ ۳۹ ۴۰ ۴۰ ۴۲ ۴۳ ۵۳ ۵۴ ہونے والی ہیں انہیں پر سب جہانوں کا مدار ہے اور وہ چار ہیں

Page 10

صفحہ ۵۵ ۵۹ ۵۹ ۶۰ ۶۰ ۶۲ ۶۶ ۶۷ ix مضمون عرش دنیا کی چیزوں میں سے نہیں بلکہ دنیا اور آخرت کے درمیان برزخ اور اور رب العالمین ، رحمان ، رحیم ، مالک یوم الدین کی صفات کی تجلیات کا ازلی منبع ہیں اس دن آٹھ فرشتے خدا تعالیٰ کا عرش اٹھا ئیں گے یہ استعارہ کے طور پر کلام ہے چونکہ اللہ تعالیٰ کی ہر صفت کے مناسب حال ایک فرشتہ بھی پیدا کیا کیا گیا ہے عرش کوئی جسمانی چیز نہیں جو اٹھائی جائے یا اٹھائے جانے کے لائق ہو بلکہ صرف تنزہ اور تقدس کے مقام کا نام عرش ہے دنیا کا روحانی عذاب عالم معاد میں جسمانی طور پر نمودار ہوگا فاسق انسان دنیا کی زندگی ہوا و ہوس کا ایک جہنم اپنے اندر رکھتا ہے قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ جو شخص خدا پر افترا کرے ہلاک کیا جاتا ہے میں خدا کا ظلی اور بروزی طور پر نبی ہوں اور ہر ایک مسلمان کو دینی امور میں میری اطاعت واجب ہے اور مسیح موعود ماننا واجب ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت جو فر مایا کہ اگر وہ ہمارے پر کچھ افترا کرتا تو ہم اس کو ہلاک کر دیتے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ صرف خدا تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ اپنی غیرت ظاہر کرتا ہے.....دوسروں کی نسبت یہ غیرت نہیں ہے یہ بات خدا کی خدائی پر داغ لگاتی ہے کہ دنیا میں جھوٹے نبی کو وہ دائمی عزت اور قبولیت دی جائے نمبر شمار ۵۷ ۵۸ ۵۹ ۶۰ ۶۱ ۶۲ ۶۳

Page 11

X نمبر شمار ۶۴ ۶۶ 72 ۶۸ ۶۹ اے ۷۲ ۷۳ ۷۴ مضمون زلزلہ کے متعلق الہامات انداری پیشگوئیاں....سب شرطی طور پر ہیں اہل جہنم جہنم میں موت کے بعد بغیر کسی انتظار کے داخل ہوں گے جب ارادہ الہی کسی قوم کی تباہی سے متعلق ہوتا ہے تو نبی میں درد کی حالت پیدا ہوتی ہے اگر ہمیشہ شہب گرتے ہیں مگر ان کے گرنے سے کوئی نبی یا ملہم دنیا میں نزول فرما نہیں ہوتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ حکم کثرت پر ہے کثرت سقوط شہب کی وجوہات امر مستحدث کے حدوث کی علتیں شیاطین اور ملائک کی عداوت اس عالم کی حرکات اور حوادث خود بخود نہیں اور نہ بغیر مرضی مالک اور نہ عبث اور بے ہودہ ہیں استقاط شہب سے ملائکہ کی غرض رجم شیاطین ہے برگزیدوں کی شناخت کے لئے قرآن شریف میں یہی معیار ہے کہ ان کی الہامی پیشگوئیوں میں متشابہات کا حصہ کم ہو ۵ پیشگوئی بہت بڑا معجزہ ہے تمام کتب سابقہ اور قرآن کریم سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہے کہ پیشگوئی سے بڑھ کر کوئی نشان نہ ہوگا ۷۶ نبی کے معنی لغت کی روح سے یہ ہیں کہ خدا کی طرف سے اطلاع پا کر غیب کی خبر دینے والا پس جہاں یہ معنی صادق آئیں گے نبی کا لفظ بھی صادق آئے گا نبی کا رسول ہونا شرط ہے صفحہ ง 21 ۷۳ ۷۴ ۷۴ ZA ۸۳ ۸۴ ۸۵ ΔΙ ۸۷ ۹۳ ۹۳ ۹۴

Page 12

xi نمبر شمار LL ۷۸ مضمون خاتم النبیین کا مفہوم تقاضا کرتا ہے کہ جب تک کوئی پردہ مغائرت باقی ہے اس وقت تک اگر کوئی نبی کہلائے گا تو گویا اس مہر کو توڑنے والا ہو گا جو خاتم النبین پر ہے خوش البانی سے قرآن شریف پڑھنا بھی عبادت ہے ۷۹ خدا کی طرف سے جو بات آتی ہے وہ پر شوکت اور لذیذ ہوتی ہے ہمارے نزدیک اس وقت کسی کو متبتل کہیں گے جب وہ عملی طور پر اللہ تعالیٰ ۸۰ ΔΙ ۸۲ اور اس کے احکام اور رضا کو دنیا اور اس کی متعلقات و مکروہات پر مقدم کرلے یا درکھو تم ہر کام میں دیکھ لو کہ اس میں خدا راضی ہے یا مخلوق جب تک یہ حالت نہ ہو......ٹھوکر کھانے کا اندیشہ ہے جو شخص متبتل ہو گا متوکل بھی وہی ہوگا گویا متوکل کے واسطے متبتل ہونا شرط ہے ۸۳ مماثلت تامہ بھی متحقق ہو سکتی تھی کہ جب مماثلت فی الانعامات متحقق ہو ۸۴ ۸۵ ۸۶ مرسل ہونے میں نبی اور محدث ایک ہی منصب رکھتے ہیں ایک شخص کا امت میں سے مسیح کے نام پر آنا کیوں ضروری ہے مسیح موعود کا ذکر نہایت اکمل اور اتم طور پر قرآن شریف میں پایا جاتا ہے ۸۷ انبیاء کی طبیعت اسی طرح واقع ہوئی ہے کہ وہ شہرت کی خواہش نہیں کیا کرتے کسی نبی نے کبھی شہرت کی خواہش نہیں کی ۸۸ ۸۹ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرُ کی لطیف تفسیر جو شخص جسمانی پاکیزگی کی رعایت کو بالکل چھوڑ دیتا ہے وہ رفتہ رفتہ وحشیانہ حالت میں گر کر روحانی پاکیزگی سے بھی بے نصیب رہ جاتا ہے صفحہ ۹۵ لا لا ۹۸ : 1+1 ۱۰۴ ۱۰۴ ۱۰۵ ۱۰۵ ۱۱۵ 112 112

Page 13

صفحہ ۱۲۳ ۱۲۳ ۱۳۱ ۱۳۶ ۱۳۷ ۱۳۸ ۱۳۸ ۱۳۹ ۱۳۹ ۱۴۱ ۱۴۲ ۱۴۳ xii مضمون نمبر شمار اخلاقی حالتوں کے دوسرے سر چشمہ کا نام قرآن شریف میں نفس لوامہ ہے اس کا نام لوامہ اس لئے رکھا کہ وہ انسان کو بدی پر ملامت کرتا ہے قرآن شریف نے کسوف خسوف کے نشان کو قرب قیامت کے نشانوں میں سے لکھا ہے جولوگ سچے دل سے خدا تعالی کو نہیں ڈھونڈتے ان پر خدا کی طرف سے رجعت پڑتی ہے وہ دنیا کی گرفتاریوں میں ایسے مبتلا رہتے ہیں کہ گویا پا بز نجیر ہیں سچی خوشحالی حقیقت میں ایک متقی ہی کے لئے ہے کافور کا لفظ اس واسطے اس آیت میں اختیار فرمایا گیا ہے کہ لغت عرب میں کفر دبانے اور ڈھانکنے کو کہتے ہیں زنجبیل دولفظوں سے مرکب ہے زنا اور جبل سے زنا لغت عرب میں اوپر چڑھنے کو کہتے ہیں اور جبل پہاڑ کو علم طب کی رو سے زنجبیل وہ دوا ہے جس کو ہندی میں سونٹھ کہتے ہیں کا فور” گفر “ سے مشتق ہے اور لغت عرب میں دبانے اور ڈھانکنے کو کہتے ہیں مومن کے نفس کی تکمیل دوشر بتوں کے پینے سے ہوتی ہے انسان کامل نیک تب ہی ہوتا ہے کہ نہ صرف بدیوں کو ترک کرے بلکہ اس کے ساتھ نیکیوں کو بھی کامل درجہ تک پہنچائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ اعلیٰ درجہ کا قوت قدسی اور تزکیہ نفس کی طاقت کا ہے ۹۰ ۹۱ ۹۲ ۹۳ ۹۴ ۹۵ ۹۶ ۹۷ ۹۸ ۹۹ : 1+1

Page 14

صفحہ ۱۵ ۱۵۳ ۱۵۵ ۱۵۷ 17.۱۶۳ ۱۶۳ ۱۶۶ 121 ۱۶۷ ۱۸۸ ۱۸۹ ۱۹۵ xiii نمبر شمار ۱۰۲ ۱۰۳ ۱۰۴ ۱۰۵ 1+4 ۱۰۷ مضمون قرائن بینہ صاف طور پر شہادت دے رہے ہیں کہ اس ظلمت کے کمال کے بعد خدا تعالیٰ کسی مرسل کو بھیجے گا انْطَلِقُوا إلى ظلّ ذِي ثَلث شُعَب کی لطیف تفسیر بڑے تعجب کی بات ہے کہ آخری زمانہ کے متعلق جس قدر نشانات تھے ان میں سے بہت پورے ہو چکے ہیں مگر پھر بھی لوگ توجہ نہیں کرتے اس آیت میں لفظ روح سے مرا در سولوں اور نبیوں اور محدثوں کی جماعت ہے خدا تعالیٰ نے فرشتوں کا نام مدبرات اور مقسمات امر رکھا ہے ہوائے نفس کو روکنا یہی فنافی اللہ ہونا ہے اور اس سے انسان خدا کی رضا کو حاصل کر کے اسی جہان میں مقام جنت کو پہنچ سکتا ہے ۱۰۸ جب تک انسان سچا مجاہدہ نہیں کرتا وہ معرفت کا خزانہ جو اسلام میں رکھا 1+9 ہے....اس کو نہیں مل سکتا جنت عظمی اور جہنم کبری سے قبل کا درمیانی درجہ تکبر اور شرارت بری بات ہے ایک ذراسی بات سے ستر برس کے عمل ضائع ہو جاتے ہیں قرآن کریم میں آخری زمانہ کی علامات وَالَّيْلِ إِذَا عَسْعَسَ کی لطیف تشریح إذَا السَّمَاءُ انْفَطَرَتْ کی لطیف تشریح قرآن کریم میں سماء سے مراد کل مافی السماء کو لیا گیا ہے ۱۱۲ ۱۱۳ ۱۱۴

Page 15

صفحہ ١٩٩ ۲۰۱ ۲۰۴ ۲۰۴ ۲۰۶ ۲۰۷ ۲۱۳ ۲۱۵ ۲۱۹ ۲۲۹ ۲۲۹ ۲۳۳ ۲۳۴ xiv نمبر شمار مضمون ۱۱۵ عرش کی حقیقت ١١٦ روح القدس مقربوں کے ساتھ ہمیشہ رہتا ہے اور ان سے جدا نہیں ہوتا روح القدس انسان کو بدیوں سے روکنے کے لئے مقرر ہے تو پھر اس سے گناہ کیوں سرزد ہوتا ہے آزمائش اور امتحان کی غرض سے لمہ ملک اور لمہ ابلیس برابر طور پر انسان کو دیئے گئے ہیں توقف نزول جبرائیل کے معنی خدا تعالیٰ کی غیر اللہ کی قسمیں کھانے کی حقیقت ۱۱۷ ۱۱۸ 119 ۱۲ ۱۲۱ ۱۲۲ ۱۲۴ آسمان اور زمین مؤثرات اور متاثرات کا مجموعہ ہیں وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرّجع اس جگہ آسمان سے مراد کرہ زمہریر ہے....رجع کے معنی مینہ ہے قرآن شریف میں یہ طرز اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے کہ نظری امور کے اثبات کے لئے امور بدیہی کو بطور شاہد پیش کرتا ہے فلاح وہ شخص پاوے گا جو اپنے نفس میں پوری پاکیزگی اور تقوی طہارت پیدا کر لے اور گناہ اور معاصی کے ارتکاب کا کبھی بھی اس میں دورہ نہ ہو ۱۲۵ صدق کی دو قسمیں ۱۲۶ میرے دعوی کا فہم کلید ہے نبوت اور قرآن شریف کی ۱۲۷ اونٹ کی سرشت میں اتباع امام کا مسئلہ ایک مانا ہوا مسئلہ ہے

Page 16

XV نمبر شمار ۱۲۸ ۱۲۹ مضمون ملائکہ اپنی صفات میں اللہ تعالیٰ کی صفات سے مشابہت رکھتے ہیں اس آیت فَادْخُلِي فِي عِبْدِى وَادْخُلِي جَنَّتِی سے صاف ظاہر ہے کہ انسان جب تک فوت نہ ہو جائے گذشتہ لوگوں کی جماعت میں داخل نہیں ہوسکتا جولوگ بہشت میں داخل ہوں گے ان کے ساتھ جسم بھی ہوں گے کوئی مجرد روح بہشت میں داخل نہ ہوگی محبت دو قسم کی ہوتی ہے ایک ذاتی محبت ہوتی ہے اور ایک محبت اغراض سے وابستہ ہوتی ہے ۱۳۲ اگر مسیح کے صعود الی السماء سے یہ غرض تھی کہ وہ اس لعنت سے بچ رہیں تو ۱۳۳ اس رفع کے لئے ضروری ہے کہ پہلے موت ہو انسانی نفس کی اقسام اور ان کی تفصیل ۱۳۴ قیامت سے پہلے سوائے شہداء کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا ۱۳۵ انسان کے نفس کے لئے عبودیت ایسی لازمی چیز ہے کہ نہ نبی بن کر اور نہ ۱۳۶ رسول بن کر اور نہ صدیق بن کر اور نہ شہید بن کر نہ اس جہاں میں اور نہ اس جہاں میں الگ ہو اس جگہ مرحمت سے مراد شفقت ہے کیونکہ مرحمت کا لفظ زبان عرب میں شفقت کے معنوں میں مستعمل ہوتا ہے ۱۳۷ یا درکھو تم میں دوا خو تیں جمع ہو چکی ہیں صفحہ ۳۳۵ ۲۳۸ ۲۴۴ ۲۴۶ ۲۴۷ ۲۴۷ ۲۵۴ ۲۵۶ ۲۵۷ ۲۵۸

Page 17

صفحہ ۲۶۵ ۲۶۸ ۲۶۸ ۲۷۹ ۲۸۱ ۲۸۷ xvi مضمون نمبر شمار ۱۳۸ قرآن شریف میں بعض بعض چیزوں کی قسمیں کھائی ہیں ان قسموں سے ۱۳۹ ہر جگہ یہی مدعا اور مقصد ہے کہ تا امر بدیہہ کو اسرار مخفیہ کے لئے جوان کے ہم رنگ ہیں بطور شواہد کے پیش کیا جائے انسان میں وہ متفرق کمالات موجود ہیں جو تمام عالم میں پائے جاتے ہیں اور ان پر یقین لانے کے لئے یہ ایک سیدھی راہ ہے کہ انسان حسب منشائے قانون الہی تزکیہ نفس کی طرف متوجہ ہو ۱۴۰ انسان کا نفس بھی در حقیقت اس غرض کے لئے پیدا کیا گیا ہے کہ تاوہ ۱۴۱ ۱۴۲ ناقتہ اللہ کا کام دیوے ناقتہ اللہ کا سقیا یعنی اس کے پانی پینے کی جگہ جو یاد الہی اور معارف الہیہ کا چشمہ ہے جس پر ناقتہ اللہ کی زندگی موقوف ہے بند مت کرو سورج بحکمت کا ملہ الہی....اپنے تئیں متشکل کر کے دنیا پر مختلف قسموں کی تاثیرات ڈالتا ہے نفس انسان بھی باعتبار مختلف تعینات کے مختلف تاثیرات ڈالتا ہے ۱۴۳ تزکیہ نفس بڑا مشکل مرحلہ ہے اور مدار نجات تزکیہ نفس پر موقوف ہے ۱۴۴ مجاہدہ انسانی نفس کو اس کی خرابیوں اور سختیوں سے صاف کر کے اس قابل بنا دیتا ہے کہ اس میں ایمان صحیحہ کی تخم ریزی کی جاوے ۱۴۵ اوی کا لفظ زبان عرب میں ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے کہ جب کسی شخص کو کسی قدر مصیبت یا ابتلا کے بعد اپنی پناہ میں لیا جائے

Page 18

xvii نمبر شمار ۱۴۶ مضمون جب سخت ابتلا آئیں اور انسان خدا کے لئے صبر کرے تو پھر وہ ابتلا فرشتوں سے جاملاتے ہیں ۱۴۷ استقلال اور ہمت ایک ایسی عمدہ چیز ہے اگر یہ نہ ہو تو انسان کامیابی کی منزلوں کو طے نہیں کر سکتا ۱۴۸ جو لوگ کہتے ہیں ہم کو عبادت میں لذت نہیں ان کو پہلے اپنی جگہ سوچ لینا ضروری ہے کہ وہ عبادت کے لئے کس قدر دکھ اور تکالیف اٹھاتے ہیں عربی میں آدمی کو انسان کہتے ہیں یعنی جس میں دوانس ہیں ایک انس ۱۴۹ ۱۵۱ خدا کی اور ایک انس بنی نوع انسان کی آدم کامل بننے کے لئے ضروری ہے کہ انسان کا خدا سے سچا اور پکا تعلق عبودیت کا الوہیت سے ایسا تعلق ہے کہ عبدا اپنے مولیٰ کا ذرہ ذرہ کے لئے محتاج ہے اور ایک دم خدا کے سوا نہیں گزار سکتا صفحہ ۲۹۳ ۲۹۵ ۲۹۵ ۲۹۷ ۲۹۸ ٣٠١ ٣٠٢ ٣٠٢ ٣٠٣ ٣٠٩ ۳۱۷ ٣٢٠ قضاء عمری کی نماز اذان بطور علاج ۱۵۲ ۱۵۳ ۱۵۴ دنیا کی ظلمانی حالت بھی اپنی پوشیدہ خوبیوں میں لیلتہ القدر کا ہی حکم رکھتی ہے ۱۵۵ ہرنبی کے نزول کے وقت ایک لیلتہ القدر ہوتی ہے سب سے بڑی لیلتہ القدر ۱۵۶ جو ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی گئی ہے لیلۃ القدر کے تین معنی ۱۵۷ قرآن کل دنیا کی صداقتوں کا مجموعہ ہے اور سب دین کی کتابوں کا فخر

Page 19

صفحہ ۳۲۴ ۳۲۷ ۳۳۰ ۳۳۹ ۳۴۹ ۳۵۹ ۳۶۰ ۳۶۸ ۳۶۹ xviii نمبر شمار مضمون ۱۵۸ إِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ وَالْمُشْرِكِينَ...کے نزول پر مشرکین کا ابو طالب کے پاس شکایت کرنا اور ان کا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا کر تشویش سے آگاہ کرنا اور آپ کے دلیرانہ جواب پر ابوطالب کا اظہار اطمینان ۱۵۹ اذا زلزلت کے لفظ سے اس کی طرف اشارہ کرتا ہے جب تم یہ نشانیاں دیکھو تو سمجھ لو کہ وہ لیلتہ القدر اپنے تمام تر زور کے ساتھ پھر ظاہر ہوئی ہے خدائے تعالیٰ کے تائید یافتہ بندے قیامت کا ہی روپ بن کر آتے ہیں ۱۶۱ ۱۶۲ ۱۶۳ اور انہیں کا وجود قیامت کے نام سے موسوم ہو سکتا ہے علم کے تین درجات میں چھٹے ہزار کے آخر اوقات میں پیدا کیا گیا ہوں جیسا کہ آدم چھٹے دن میں اس کی آخری ساعت میں پیدا کیا گیا عمر دنیا چھ ہزار سال ۱۶۴ پیدائش انسانی کے مراتب ستہ کی تفصیل ۱۶۶ صداقت حضرت مسیح موعود کی چار ضروری علامات آدم چھٹے دن جمعہ کی اخیر ساعت میں پیدا ہوا کیونکہ وہ سب سے آخر ہے اور چونکہ خدا کا ایک دن دنیا کے ہزار سال کے برابر ہے اس مشابہت سے خدا نے مسیح موعود کوششم ہزار کے اخیر میں پیدا کیا ۱۶۷ ہم ساتویں ہزار میں ہیں اور یہ ضرور تھا کہ مثیل آدم جس کو دوسرے لفظوں میں مسیح موعود کہتے ہیں چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو جو جمعہ کے دن کے قائم مقام ہے جس میں آدم پیدا ہوا اور ایسا ہی خدا نے مجھے پیدا کیا

Page 20

صفحہ ۳۷۰ ۳۷۲ ۳۷۳ ۳۷۷ ۳۸۴ ۳۸۴ ۳۸۵ ۳۸۵ ۳۸۷ Xix مضمون نمبر شمار ۱۶۸ یا د رکھو صلاح کا لفظ وہاں آتا ہے جہاں فساد کا بالکل نام و نشان نہ رہے انسان کبھی صالح نہیں کہلا سکتا جب تک وہ عقا ئدرد یہ اور فاسدہ سے خالی ۱۶۹ نہ ہو سورۃ العصر میں دنیا کی تاریخ موجود ہے جس پر خدا تعالیٰ نے اپنے الہام سے مجھ کو اطلاع دی ہے اور یہ اصلی اور سچی تاریخ ہے ۱۷۰ دوزخ وہ آگ ہے جو خدا کا غضب اس کا منبع ہے اور گناہ سے بھڑکتی ہے اور پہلے دل پر غالب آتی ہے اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ قرار دیا ہے 121 ۱۷۲ نماز وہی اصلی ہے جس میں مزا آ جاوے ایسی ہی نماز کے ذریعہ سے گناہ سے نفرت پیدا ہوتی ہے ۱۷۳ صلوۃ اصل میں آگ میں پڑنے اور محبت الہی اور خوف الہی کی آگ میں پڑ کر اپنے آپ سے چل جانے اور ماسوی اللہ کو جلا دینے کا نام ہے ۱۷۴ گناہوں سے پاک کرنا خدا کا کام ہے اس کے سوائے کوئی طاقت نہیں جوز ور کے ساتھ تمہیں پاک کر دے ۱۷۵ صلوۃ کا لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ دعا صرف زبان سے نہیں بلکہ اس کے ساتھ سوزش اور جلن اور حرقت کا ہونا بھی ضروری ہے ۱۷۶ اگر ہم یہ اعتقاد نہ رکھیں کہ کثرت کے ساتھ آپ کی روحانی اولا دہوئی ہے تو اس پیشگوئی کے بھی منکر ٹھہریں گے

Page 21

صفحہ ۳۸۸ ۳۸۹ ۳۹۵ ۴۰۱ ۴۰۳ ۴۰۴ ۴۰۶ ۴۱۳ ۴۱۷ ۴۲ XX نمبر شمار مضمون ۱۷۷ روحانی اولا دہی کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نبی ہیں کیونکہ ۱۷۹ ۱۸۰ ۱۸۱ ۱۸۲ آپ کے انوار و برکات کا سلسلہ برابر جاری ہے ۱ بستر کے معنی لغت عرب میں یہ لکھے کہ الْبِئرُ : اسْتِبْصَالُ اللَّني قطعًا یعنی بتر کہتے ہیں کسی چیز کو جڑھ سے کاٹ دینے کو قیامت کا نمونہ روحانی حیات کے بخشنے میں اس ذات کامل الصفات نے دکھایا جس کا نام نامی محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم مخالفانہ تحریکوں سے بڑے بڑے فائدے ہوتے ہیں اور ہماری جماعت ان مخالفوں ہی میں سے نکل کر آئی ہے دنیا میں کوئی آدمی بھی ایسا نہیں آیا جو اتنی بڑی کامیابی اپنے ساتھ رکھتا ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ماننے والوں کا نام سابقین رکھا ہے لیکن جب بہت سے مسلمان فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے تو ان کا نام صرف ناس رکھا گیا.۱۸۳ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کروڑ معجزوں سے بڑھ کر معجزہ تو یہ تھا کہ جس غرض کے لئے آئے تھے اسے پورا کر گئے ۱۸۴ شرکت حصری از روئے عقلی ۱۸۵ نصاری کا فتنہ سب سے بڑا ہے اس واسطے اللہ تعالیٰ نے ایک سورت قرآن شریف کی ان کے متعلق خاص کر دی ہے ۱۸۶ آخری مظہر شیطان کے اسم دجال کا جو مظہر اتم اور اکمل اور خاتم المنظا ہر ہے ہے وہ قوم ہے جس کا قرآن کے اول میں بھی ذکر ہے اور قرآن کے آخر میں بھی یعنی وہ ضالین کا فرقہ جس کے ذکر پر سورۃ فاتحہ ختم ہوتی ہے

Page 22

صفحہ ۴۲۵ ۴۲۶ ۴۲۶ ۴۲۷ ۴۲۸ ۴۳۰ ۴۳۱ ۴۳۲ xxi نمبر شمار مضمون ۱۸۷ دجال معبود ایک شخص نہیں ہے ورنہ ناس کا نام اس پر اطلاق نہ پاتا ۱۸۸ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ شرور صرف آسمانی انوار و برکات سے ۱۸۹ ۱۹۰ ۱۹۱ ۱۹۲ ۱۹۳ ۱۹۴ دور ہوں گے جن کو آسمانی مسیح اپنے ساتھ لائے گا تین قسم کے حقوق کا بیان خناس عربی میں سانپ کو کہتے ہیں عبرانی میں نحاش کہتے ہیں خناس کی وسوسہ اندازی کا وہ زمانہ ہوگا کہ جب اسلام کے لئے نہ کوئی مربی اور عالم ربانی زمین پر موجود ہوگا اور نہ اسلام میں کوئی حامی دین بادشاہ ہوگا یہ تین وساوس ہیں انکے دور کرنے کے واسطے یہ تین تعویز ہیں آخری زمانہ میں شیطان اور آدم کی آخری جنگ کا خاص ذکر ہے مجھے مسیح موعود بنایا تو ساتھ ہی آدم بھی میرا نام رکھا

Page 23

Xxiii اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطنِ الرَّجِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ فہرست آیات جن کی تفسیر بیان ہوئی ہے نمبر آیت آیت صفحہ نمبر آیت آیت صفحہ سورة الملك الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيوة.۳۳ وَلَقَد زَيَّنَا السَّمَاءِ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ...٣٣ ۳۵ ۳۵ ۳۷ ۳۷ ۳۹ ۵۰ ۵۱ ۵۳ ་ سورۃ المنافقون هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لا تُنْفِقُوا.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوالَا تُلْهِكُمْ وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ.سورة التغابن إنَّمَا اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ...سورة الطلاق 10.9 ۲ 11 ۲۰ تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ كُتبَا الْقِى.وَقَالُوا لَو كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ.اوَ لَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ فَوْقَهُمْ ۲۷،۲۶ وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ اِن..سورة القلم وَ إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ ۹ تا ۱۱ فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِ بِين.۱۲ تا ۱۷ هَمَّازٍ مَشَاءٍ بِنَمِيمٍ مَّنَّاعٍ لِلْخَيْرِ.فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُن..سورة الحاقة وَانْشَقَتِ السَّمَاءُ فَهِيَ يَوْمَينِ.فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ.L وَالنْ يَسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ......۱۵ ذلِكَ اَمرُ اللهِ أَنْزَلَةٌ إِلَيْكُم.۱۶ اعد اللهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا.اللهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَوَاتِ وَ مِنَ...١٧ ۴۹ ۱۶ ۱۸،۱۷ ۳۳۳۱ خُذُوهُ فَغْلُوهُ ثُمَّ الْجَحِيمَ صَلُّوهُ..۴۱ تا ۴۸ اِنَّه لَقَولُ رَسُولٍ كَرِيمٍ.وَإِنَّهُ لَتَذْكِرَةٌ لِلْمُتَّقِينَ ۱۹ ۴۹ ۲۳ سورة التحريم يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللهِ.ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ كَفَرُوا.....۱۲ ۱۶ ۴،۳ ۶ ۱۲،۱۱ ۱۳ ۹ ۱۳،۱۱

Page 24

Xxiv نمبر آیت آیت صفحہ نمبر آیت آیت صفحہ سورة القيامة وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ التَّوَّامَةِ ۷ تا ۱۳ يَسْتَلُ أَيَّانَ يَوْمُ الْقِيمَةِ.۱۲۳ ۱۲۵ ۲۳ ، ۲۴ وجود يَومَن نَّاضِرَةٌ إِلى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ، ١٣٣ سورة الدهر ۱۳۵ ۱۳۵ ۱۳۵ ۱۳۷ ۱۳۷ ۱۳۷ ۱۴۷ ۱۴۹ ۱۵۰ ۱۵۱ هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِّنَ.إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ.اَعْتَدْنَا لِلْكَفِرِينَ سَلْسِلَا.اِنَّ الْاَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِنْ كَاسِ..وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبّه.، اے ۷۳ ۷۳ ۷۴ ۷۴ 10.9 22 ۱۶ تا ۱۹ وَيُطَافُ عَلَيْهِمْ بِانِيَةٍ مِنْ فِضَّةٍ.عَلِيهُمْ ثِيَابُ سُنْدُسٍ خُضْرُ.مورة المرسلت ۸۹ ۲۲ ۹۰ ۹۷ 11 ۹۷ ۲تا۶ وَالْمُرْسَلتِ عُرُفًا.وَإِذَا الْجِبَالُ نُسِفَتُ وَإِذَا الرُّسُلُ يُقتَتُ ۱۲ ۹۷ سورة المعارج إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيدًا وَ نَرِيهُ قَرِيبًا سورة نوح قَالَ يُقَومِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُّبِينٌ مَا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَادًا.مِمَّا خَطِيتِهِمْ أَغْرِقُوا فَأَدْخِلُوا.وَقَالَ نُوحٌ رَبِّ لَا تَذَرُ عَلَى.سورة الجن وَانَّا لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدتها.قُلْ إِنْ أَدْرِى أَقَرِيبٌ مَا.۸،۷ ۱۵،۱۴ ۲۶ ۲۸ 10.9 ۲۶ ۲۸،۲۷ علِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبة.سورة المزمل أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَ رَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا إِنَّا سَنُلْقِى عَلَيْكَ قَوْلاً ثَقِيلاً.وَاذْكُرُ اسْمَ رَبِّكَ وَ تَبَتَلُ إِلَيْهِ.اِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا...۱۰۲ ۲۶ ۲۷ اَلَم نَجْعَلِ الْاَرْضَ كِفَاتًا.۱۱۳ ۳۰ تا ۳۳ اِنْطَلِقُوا إلى مَا كُنتُم بِهِ تُكَذِّبُونَ...۱۵۲ سورة النبا ۱۱۵ ۳۹ 119 عَنِ النَّبَا الْعَظِيمِ ۱۵۵ يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلبِكَةُ صَفًّا...۱۵۵ فَكَيْفَ تَتَّقُونَ إِنْ كَفَرْتُمْ.يَوْمًا...۱۷،۱۶ ۱۹،۱۸ سورة المدثر ۲ تا ۶ يَايُّهَا المُد قرقم فَانْذِرُ.وَمَا جَعَلْنَا اَصْحبَ النّارِ الاَ مَليكة.۳۲

Page 25

XXV نمبر آیت آیت صفحہ نمبر آیت آیت صفحہ ۱۹۵ ۱۹۶ ۱۹۹ 69 ۱۹۹ 69 ۲۰۱ ۲۱۲ ۲۲۹ ۲۲۹ ۲۳۳ ۲۳۴ ۲۳۵ ۲۳۵ ۲۵۷ سورة الانشقاق إذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتُ وَاِذَا الْأَرْضُ مُدَّت.سورة البروج ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيد فَقَال لِمَا يُرِيدُ ۱۵۹ ۵،۴ ۱۶۱ ۱۶ ۱۷ سورة الطارق ۲تا۵ وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ.۱۲ تا ۱۷ وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرّجع.سورة الاعلى قَد أَفْلَحَ مَنْ تَزَى اِنَّ هَذَا لَفِي الصُّحُفِ الأولى.سورة الغاشية أَفَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ.۱۶۲ ܬܪܙ ۱۶۶ ۱۶۷ IAL ۱۵ ۱۸۷ ۲۰،۱۹ ۱۸۸ ۱۸ ۲۳،۲۲ فَذَكَرُ إِنَّمَا اَنْتَ مُذَكر.سورة الفجر وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًا ۱۸۸ ۱۸۹ ۱۹۲ ۱۹۲ ۲۳ ۱۹۲ ۲۸ تا ۳۱ يَايَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْبِنَّةُ.سورة البلد ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَ تَوَاصَوا.۱۹۳ ۱۸ ۱۹۳ سورة النازعات فَالمُد براتِ أَمْرًا يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاحِفَةُ.۸،۷ ۳۸ تا ۴۲ فَأَمَّا مَنْ طَغَى وَاثَرَ الْحَيوةَ الدُّنْيَا...سورة عبس ۲تا۵ عَبَسَ وَتَوَلَّى.۳۹ تا ۴۳ وُجُوهٌ يَوْمَيةٍ مُّسْفِرَةٌ.سورة التكوير ۲ تا ۱۱ إِذَا الشَّمْسُ كُورَتْ.وَإِذَا السَّمَاءُ كشطَتُ وَالَّيْلِ إِذَا عَسْعَسَ.۱۲ ۱۹،۱۸ ۲۵ تا ۲۷ وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينِ....۲۹،۲۸ إِنْ هُوَ الا ذكر لِلْعَلَمِينَ.سورة الانفطار ۲ تا ۴ اِذَا السَّمَاءُ انْقَطَرَتْ.الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوكَ فَعَد لَكَ ۱۱ تا ۱۳ وَاِنَّ عَلَيْكُمْ لَحفِظين.وَإِنَّ الْفُجَارَ لَفِي جَحِيمِ سورة المطففين سكتة كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا.۱۶،۱۵ ۱۶،۱۵ ۲۳، ۲۴ إِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِی نَعِيمٍ.

Page 26

xxvi نمبر آیت آیت صفحہ نمبر آیت آیت صفحہ ۳۲۷ ۳۳۹ ۳۴۹ ۳۷۳ سورة الزلزال ۲ تا ۹ اِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا.سورة التكاثر ۲ تا ۹ الهيكمُ التَّكَاثُرُ سورة العصر ۲ تا ۴ وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ سورة الهمزه نارُ اللَّهِ الْمُوقَدَةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى.سورة الفيل اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَب...۳۷۷ سورة قريش ۳۸۱ ۳۸۳ ۳۸۶ ۳۸۷ ۸،۷ ۲تا۵ لا يُلفِ قُرَيْنِ الفِهِم رِحْلَةَ.سورة الماعون فَوَيْلٌ لِلْمُصَدِّينَ.الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ ۲۶۱ ۲۸۵ ۲۸۷ ۲۹۳ ۲۹۴ ۲۹۷ ۳۰۱ ۳۰۳ ۶،۵ سورة الكوثر ۲ تا ۴ اِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ.۳۱۹ ۳۲۴ سورة الشمس ۲ تا ۱۶ وَالشَّمُسِ وَضُحيهَا.۲ تا ۴ والصحى سورة الضحى ۷ تا ۱۲ اَلَم يَجِدُكَ يَتِيماً فَأَوى.سورة الم نشرح ۲تا۵ الَم نَشْرَحْ لَكَ صَدرَكَ.، فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا.سورة التين لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ.سورة العلق ۶،۵ ۸،۷ كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطغَى.11610 ارَعَيْتَ الَّذِي يَنْهى.سورة القدر ۲تا۶ اِنَّا اَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدرِ.سورة البينة ۲ تا ۴ لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ.اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتب.۸،۷

Page 27

Xxvii نمبر آیت آیت صفحہ نمبر آیت آیت صفحہ ۴۱۳ ۴۱۹ ۴۲۵ سورۃ الاخلاص ۲تا۵ قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ.سورة الفلق ۲ تا ۶ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ.سورة الناس ۲ تا ۷ قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ.۳۹۳ ۳۹۵ ۴۰۹ ۴۱۱ سورة الكافرون ۲ تا ۷ قُلْ يَايُّهَا الكَفِرُونَ.سورة النصر ۲ تا ۴ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ.سورة اللهب تبت يدا أبِي لَهَبٍ وتَب.وَامْرَأَتُه حَمَّالَةَ الْحَطَبِ ۵

Page 28

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّجِيمِ 1 سورة المُنْفِقُونَ بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة المُنْفِقُونَ بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا وَلِلَّهِ خَزَايِنُ السّمواتِ وَالْاَرْضِ وَلَكِنَّ الْمُنْفِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ ) وہ شخص بڑا نادان ہے جو یہ خیال کرتا ہے کہ آئے دن ہم پر بوجھ پڑتا ہے.اللہ تعالیٰ بار بار فرماتا ہے وہ وَلِلَّهِ خَزَايِنُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ یعنی خدا کے پاس آسمان وزمیں کے خزانے ہیں.منافق اس کو سمجھ نہیں سکتے لیکن مومن اس پر ایمان لاتا اور یقین کرتا ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر سب لوگ جو اس وقت موجود ہیں اور اس سلسلہ میں داخل ہیں یہ سمجھ کر کہ آئے دن ہم پر بوجھ پڑتا ہے وہ دست بردار ہوجائیں اور بخل سے یہ کہیں کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے تو خدا تعالیٰ ایک اور قوم پیدا کر دے گا جو ان سب اخراجات کا بوجھ خوشی سے اٹھائے اور پھر بھی سلسلہ کا احسان مانے.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۲ مورخه ۲۴/جون ۱۹۰۶ صفحه ۲) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَا اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكرِ اللَّهِ ۚ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُولَبِكَ هُمُ الْخَسِرُونَ.رزق دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک ابتلا کے طور پر، دوسرے اصطفا کے طور پر.رزق ابتلا کے طور پر تو وہ

Page 29

سورة المُنفِقُونَ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام رزق ہے ، جس کو اللہ سے کوئی واسطہ نہیں رہتا.بلکہ یہ رزق انسان کو خدا سے دور ڈالتا جاتا ہے.یہاں تک کہ اس کو ہلاک کر دیتا ہے.اسی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ کر کے فرمایا ہے لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ تمہارے مال تم کو ہلاک نہ کر دیں اور رزق اصطفا کے طور پر وہ ہوتا ہے، جو خدا کے لئے ہو.ایسے لوگوں کا متولی خدا ہو جاتا ہے اور جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے، وہ اس کو خدا ہی کا سمجھتے ہیں اور اپنے عمل سے ثابت کر دکھاتے ہیں.صحابہ کی حالت کو دیکھو ! جب امتحان کا وقت آیا تو جو کچھ کسی کے پاس تھا، اللہ تعالیٰ کی راہ میں دے دیا.حضرت ابوبکر صدیق سب سے اول کمبل پہن کر آگئے.پھر اس کمبیل کی جزا بھی اللہ تعالیٰ نے کیا دی کہ سب سے اول خلیفہ وہی ہوئے.غرض یہ ہے کہ اصلی خوبی، خیر اور روحانی لذت سے بہرہ ور ہونے کے لئے وہی مال کام آسکتا ہے، جو خدا کی راہ میں خرچ کیا جائے.الحکم جلد ۳ نمبر ۲۲ مورخه ۲۳/جون ۱۸۹۹ صفحه ۱) وَلَنْ يُوَخِرَ اللهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ) منافقانہ رجوع در حقیقت رجوع نہیں ہے لیکن جو خوف کے وقت میں ایک شقی کے دل میں واقعی طور پر ایک ہر اس اور اندیشہ پیدا ہو جاتا ہے اس کو خدا تعالیٰ نے رجوع میں ہی داخل رکھا ہے اور سنت اللہ نے ایسے رجوع کو دنیوی عذاب میں تاخیر پڑنے کا موجب ٹھہرایا ہے گو اخروی عذاب ایسے رجوع سے ٹل نہیں سکتا مگر دنیوی عذاب ہمیشہ ملتا رہا ہے اور دوسرے وقت پر پڑتا رہا ہے.قرآن کو غور سے دیکھو اور جہالت کی باتیں مت کرو اور یادر ہے کہ آیت لَن يُوخّرَ اللهُ نَفْسًا کو اس مقام سے کچھ تعلق نہیں اس آیت کا تو مدعا یہ ہے کہ جب تقدیر مبرم آ جاتی ہے تومل نہیں سکتی مگر اس جگہ بحث تقدیر معلق میں ہے جو مشروط بشرائط ہے جبکہ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں آپ فرماتا ہے کہ میں استغفار اور تضرع اور غلبہ خوف کے وقت میں عذاب کو کفار کے سر پر سے ٹال دیتا ہوں اور ٹالتا رہا ہوں پس اس سے بڑھ کر سچا گواہ اور کون ہے جس کی شہادت قبول کی جائے.(انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۸۰)

Page 30

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ 7 سورة التغابن بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة التغابن بیان فرموده سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ إنَّمَا اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَاللهُ عِنْدَةُ أَجْرٌ عَظِيمٌ.۱۶ علم اور حکمت کی مانند کوئی مال نہیں.یہ وہی مال ہے جس کی نسبت پیشگوئی کے طور پر لکھا تھا کہ مسیح دنیا میں آکر اس مال کو اس قدر تقسیم کرے گا کہ لوگ لیتے لیتے تھک جائیں گے.یہ نہیں کہ مسیح درم و دینار کو جو مصداق آيت إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ ہے جمع کرے گا اور دانستہ ہر ایک کو مال کثیر دے کر فتنہ میں ڈال دے گا مسیح کی پہلی فطرت کو بھی ایسے مال سے مناسبت نہیں.وہ خود انجیل میں بیان کر چکا ہے کہ مومن کا مال درم و دینار نہیں بلکہ جواہر حقائق و معارف اُس کا مال ہیں.یہی مال انبیا ء خدائے تعالیٰ سے پاتے ہیں اور اسی کو تقسیم کرتے ہیں.اس مال کی طرف اشارہ ہے کہ إِنَّمَا أَنَا قَاسِم وَاللهُ هُوَ الْمُعْطى (ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۵۵) اموالکم میں عورتیں داخل ہیں.عورت چونکہ پردہ میں رہتی ہے، اس لئے اس کا نام بھی پردہ ہی میں رکھا ہے اور اس لئے بھی کہ عورتوں کو انسان مال خرچ کر کے لاتا ہے.مال کا لفظ مائل سے لیا گیا ہے.یعنی جس کی طرف طبعاً توجہ اور رغبت کرتا ہے.عورت کی طرف بھی چونکہ طبعاً توجہ کرتا ہے، اس لئے اس کو مال میں داخل فرمایا ہے.مال کا لفظ اس لئے رکھا تا کہ عام محبوبات پر حاوی نہ ہو ورنہ اگر صرف نساء کا لفظ ہوتا.تو اولا د اور عورت دو چیزیں قرار دی جائیں.اور اگر محبوبات کی تفصیل کی جاتی تو پھر صرف دس جزو میں

Page 31

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة التغابن بھی ختم نہ ہوتا.غرض مال سے مراد كُلما يَمِيلُ إِلَيْهِ القَلْبُ ہے.اولاد کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ انسان اولا دجگر کا ٹکڑا اور اپنا وارث سمجھتا ہے.مختصر بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور انسان کے محبوبات میں ضد ہے.دونوں باتیں یک جا جمع نہیں ہو الحکم جلد ۴ نمبر ۴۶ مورخه ۲۴ دسمبر ۱۹۰۰ صفحه ۲) سکتیں.مال اور اولاد تمہاری دشمن ہیں.ان سے ڈرتے رہو.کیونکہ اگر زندہ رہے توممکن ہے کہ نافرمان ہو.مرتد ہو جاوے.بدکار ہو ، چور یا ڈاکو بن جاوے.مرجاوے تو پھر ویسے ابتلا آجاتا ہے.پس ہر حالت میں موجب فتنہ اور ابتلاء ہوتی ہے مگر جب مومن کو خدا سے تعلق ہوتا ہے تو وہ خوش ہوتا ہے کہ اگر یہ بچہ مر گیا ہے تو کیا ہوا.اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا ہے مَا نَنْسَحْ مِنْ آيَةٍ اَوْ تُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ( البقرة : ١٠٧) دیکھو آنحضرت کے ۱۲ بچے فوت ہوئے.ایمان تو وہ ہوتا ہے جس میں لغزش نہ ہو اور ایسے ایمان والا خدا کو بہت محبوب ہوتا ہے.ہاں اگر بچہ خدا سے زیادہ محبوب ہے تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ ایسا شخص خدا پر ایمان کا دعویٰ کر سکے.اور وہ کیوں ایسا دعویٰ کرتا ہے.ہم نہیں جان سکتے کہ ہماری اولادیں کیسی ہوں گی.صالح ہوں گی یا بدمعاش.اور نہ اُن کے ہم پر کوئی احسان ہیں اور خدا کے تو ہم پر لاکھوں لاکھ احسان ہیں.پس سخت ظالم ہے وہ شخص کہ اس خدا سے تعلق تو ڑ کر اولاد کی طرف تعلق لگاتا ہے.ہاں خدا کے حقوق کے ساتھ مخلوق کے حقوق کا بھی خیال رکھو.اگر خدا پر تمہارا کامل ایمان ہو تو پھر تو تمہارا یہ مذہب ہونا چاہیے کہ هر چه از دوست میرسد نیکوست اور اس ایمان والے کے شیطان قریب بھی نہیں آتا.احکام جلد ۸ نمبر ۳۹،۳۸ مورخه ۱۰ و۷ ارنومبر ۱۹۰۴ صفحه ۱۴) بہت سے لوگ ہیں جو چھپے ہوئے مرتد ہیں.بہت سے ایسے ہیں جو باوجود اس کے کہ وہ بیعت میں داخل ہیں اور پھر مجھے خط لکھتے ہیں کہ فلاں شخص نے مجھے کہا کہ جب تک تیرے گھر بیٹا نہ ہو وہ کیوں کرسچا ہوسکتا ہے؟ یہ نادان اتنا نہیں جانتے کہ کیا خدا نے مجھے اس لیے بھیجا ہے کہ میں لوگوں کو بیٹے دوں؟ کسی کے گھر بیٹا ہو یا بیٹی مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں اور نہ میں اس لیے بھیجا گیا ہوں.میں تو اس لیے آیا ہوں کہ تالوگوں کے ایمان درست ہوں.پس جو لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے ایمان درست ہوں اور خدا تعالیٰ سے ان کا سچا تعلق پیدا ہوان کو میرے ساتھ تعلق رکھنا چاہیے خواہ بیٹے مریں یا جئیں.کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ تو

Page 32

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة التغابن فرماتا ہے کہ اِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ -.جولوگ ایسے خطوط لکھتے ہیں یا اپنے دل میں ایسے خیالات رکھتے ہیں وہ یا درکھیں اور خوب یا درکھیں کہ وہ مجھ پر نہیں خدا تعالی پر اعتراض کرتے ہیں.یقیناً سمجھو کہ میرے پیچھے آنا ہے اور بچے مسلمان بننا ہے تو پہلے بیٹوں کو مارلو.بابا فرید کا مقولہ بہت صحیح ہے کہ جب کوئی بیٹا مر جاتا تو لوگوں سے کہتے کہ ایک کتورہ ( کتنی کا بچہ ) مر گیا ہے اس کو دفن کر دو.پس کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا نہیں کر سکتا جب تک باوجود اولاد کے بے اولاد نہ ہو اور باوجود مال کے دل میں مفلس و محتاج نہ ہو اور باوجود دوستوں کے بے یارو مددگار نہ ہو.یہ ایک مشکل مقام ہے جو انسان کو حاصل کرنا چاہیے.اسی مقام پر پہنچ کر وہ سچا خدا پرست بنتا ہے.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۲ مورخہ ۱۷ جنوری ۱۹۰۷ صفحه ۷،۶ ) اولاد چیز کیا ہے؟ بچپن سے ماں اس پر جان فدا کرتی ہے مگر بڑے ہو کر دیکھا جاتا ہے کہ بہت سے لڑکے اپنی ماں کی نافرمانی کرتے ہیں اور اس سے گستاخی سے پیش آتے ہیں.پھر اگر فرمانبردار بھی ہوں تو دکھ اور تکلیف کے وقت وہ اس کو ہٹا نہیں سکتے.ذرا سا پیٹ میں درد ہو تو تمام عاجز آ جاتے ہیں.نہ بیٹا کام آسکتا ہے نہ باپ نہ ماں نہ کوئی اور عزیز.اگر کام آتا ہے تو صرف خدا.پس ان کی اس قدر محبت اور پیار سے فائدہ کیا جس سے شرک لازم آئے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّمَا اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ اولاد اور مال انسان کے لئے فتنہ ہوتے ہیں.دیکھو اگر خدا کسی کو کہے کہ تیری کل اولا د جو مر چکی ہے زندہ کر دیتا ہوں مگر پھر میرا تجھ سے کچھ تعلق نہ ہوگا تو کیا اگر وہ عقلمند ہے اپنی اولاد کی طرف جانے کا خیال بھی کرے گا.پس انسان کی نیک بختی یہی ہے کہ خدا کو ہر ایک چیز پر مقدم رکھے.جو شخص اپنی اولاد کی وفات پر برامنا تا ہے وہ بھیل بھی ہوتا ہے کیونکہ وہ اس امانت کے دینے میں جو خدا نے اس کے سپرد کی تھی بخل کرتا ہے اور بخیل کی نسبت حدیث میں آتا ہے کہ اگر وہ جنگل کے دریاؤں کے برابر بھی عبادت کرے تو وہ جنت میں نہیں جائے گا.پس ایسا شخص جو خدا سے زیادہ کسی چیز کی محبت کرتا ہے اس کی عبادت نماز روزہ بھی کسی کام کے نہیں.حضرت ایوب کی طرف دیکھو کہ وہ کیسے صابر تھے خدا تعالیٰ نے ان کا ذکر قرآن شریف میں بھی کیا ہے کہ وہ میرا ایک صابر بندہ ہے.پہلی کتابوں میں ان کا ذکر ہاتفصیل لکھا ہے کہ شیطان نے خدا تعالیٰ سے کہا کہ ایوب کیوں صبر نہ کرے کہ اس کو تو نے مال دیا ہے.دولت دی ہے.غلام دیئے ہیں.نوکر چاکر دیئے کہاک

Page 33

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة التغابن ہیں.اولا د دی ہے.بیوی دی ہے صحت دی ہے تو خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ تو اس کو آزما.اس پر پہلے تو اس کی بھیڑ بکریاں ماری گئیں.پھر اور بڑے بڑے جانور مارے گئے مگر پھر بھی حضرت ایوب نے صبر سے کام لیا.اس پر شیطان نے کہا کہ ابھی اس کے پاس دولت اور غلام اور اولاد ہے وہ صبر کیوں نہ کرے.اس پر اس کے غلام بھی مر گئے.پھر انہوں نے صبر کیا.یہاں تک کہ ہوتے ہوتے سب کچھ ہلاک ہو گیا.ایک وہ اور ان کی بیوی رہ گئیں.پھر بھی شیطان نے کہا کہ ابھی ان کی صحت درست ہے اس پر ان کو جذام ہو گیا یعنی کوڑھ ہو گیا.پھر بھی انہوں نے صبر سے کام لیا پس جب وہ اس طرح صابر اور صادق ثابت ہوئے تو خدا تعالیٰ نے ان کو آگے سے بھی زیادہ مال و دولت غلام لونڈیاں اور اولاد عطا فرمائی اور صحت بھی عطا فرمائی.پس جب انسان صبر سے کام لے تو اس کو سب کچھ ہی مل رہتا ہے.انسان کو چاہیے جو کام کرے خدا کی رضا کے مطابق الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۸ مورخه ۲۲/اگست ۱۹۰۸ء صفحه ۲،۱) کرے.

Page 34

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۷ سورة الطلاق بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الطلاق بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ b وَأَشْهِدُوا ذَوَى عَدْلٍ مِنْكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّهِ ذَلِكُمْ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجَاتٌ وَيَرْزُقُهُ مِنْ حيثُ لا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْران ذَلِكُمْ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ یعنی یہ اس کو وعظ کیا جاتا ہے جو تم میں سے اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے.شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۱) ہمیشہ دیکھنا چاہیئے کہ ہم نے تقویٰ و طہارت میں کہاں تک ترقی کی ہے اس کا معیار قرآن ہے.اللہ تعالی نے متقی کے نشانوں میں ایک یہ بھی نشان رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو مکروہات دنیا سے آزاد کر کے اس کے کاموں کا خود متکفل ہو جاتا ہے.جیسے کہ فرمایا وَ مَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ جو شخص خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ ہر ایک مصیبت میں اس کے لئے راستہ مخلصی کا نکال دیتا ہے اور اس کے لئے ایسے روزی کے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ اس کے علم و گمان میں نہ ہوں یعنی یہ بھی ایک

Page 35

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الطلاق علامت متقی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو نا بکا رضرورتوں کا محتاج نہیں کرتا.مثلاً ایک دوکاندار یہ خیال کرتا ہے کہ درو نگوئی کے سوا اس کا کام ہی نہیں چل سکتا اس لئے وہ درونگوئی سے باز نہیں آتا اور جھوٹ بولنے کے لیے وہ مجبوری ظاہر کرتا ہے لیکن یہ امر ہر گز سچ نہیں خدا تعالیٰ متقی کا خود محافظ ہو جاتا اور اسے ایسے موقعہ سے بچالیتا ہے جو خلاف حق پر مجبور کرنے والے ہوں.یاد رکھو جب اللہ تعالیٰ کو کسی نے چھوڑا ، تو خدا نے اسے چھوڑ دیا.جب رحمان نے چھوڑ دیا تو ضرور شیطان اپنا رشتہ جوڑے گا.- یہ نہ سمجھو کہ اللہ تعالی کمزور ہے.وہ بڑی طاقت والی ذات ہے.جب اس پر کسی امر میں بھروسہ کرو گے وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا.وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ لیکن جو لوگ ان آیات کے پہلے مخاطب تھے وہ اہل دین تھے.ان کی ساری فکریں محض دینی امور کے لیے تھیں اور ان کے دنیوی امور حوالہ بخدا تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو تسلی دی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں فرض برکات تقویٰ میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو ان مصائب سے مخلصی بخشتا ہے جو دینی امور کے حارج ہوں.ایسا ہی اللہ تعالیٰ متقی کو خاص طور پر رزق دیتا ہے.یہاں میں معارف کے رزق کا ذکر کروں گا.آنحضرت کو باوجود اُمّی ہونے کے تمام جہان کا مقابلہ کرنا تھا جس میں اہل کتاب ، فلاسفر، اعلیٰ درجہ کے علمی مذاق والے لوگ اور عالم فاضل شامل تھے لیکن آپ کو روحانی رزق اس قدر ملا کہ آپ سب پر غالب آئے اور ان سب کی غلطیاں نکالیں.یہ روحانی رزق تھا کہ جس کی نظیر نہیں.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحه ۳۵،۳۴) اگر کوئی تم میں سے خدا سے ڈرے گا یعنی طلاق دینے میں جلدی نہیں کرے گا اور کسی بے ثبوت شبہ پر بگڑ نہیں جائے گا تو خدا اس کو تمام مشکلات سے رہائی دے گا اور اس کو ایسے طور سے رزق پہنچائے گا کہ اسے علم نہیں ہو گا کہ مجھے کہاں سے رزق آتا ہے.آریہ دھرم ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۵۳) پھر ایک اور راہ ہے کہ انسان مشکلات اور مصائب میں مبتلا ہوتا ہے اور حاجات مختلفہ رکھتا ہے.اُن کے حل اور روا ہونے کے لیے بھی تقوی ہی کو اصول قرار دیا ہے.معاش کی تنگی اور دوسری تنگیوں سے راہ نجات تقویٰ ہی ہے.فرمایا وَ مَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ متقی کے لئے ہر مشکل سے ایک مخرج پیدا کر دیتا ہے اور اس کو غیب سے اس سے مخلصی پانے کے اسباب بہم پہنچا دیتا ہے.اُس کو ایسے طور سے رزق دیتا ہے کہ اُس کو پتہ بھی نہ لگے.اب غور کر کے دیکھ لو کہ انسان اور دُنیا میں چاہتا کیا ہے.انسان کی بڑی سے بڑی خواہش دنیا میں یہی

Page 36

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹ سورة الطلاق ہے کہ اس کو سکھ اور آرام ملے اور اُس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک ہی راہ مقرر کی ہے جو تقویٰ کی راہ کہلاتی ہے اور دوسرے لفظوں میں اُس کو قرآن کریم کی راہ کہتے ہیں اور یا اس کا نام صراط مستقیم رکھتے ہیں.کوئی یہ نہ کہے کہ کفار کے پاس بھی مال و دولت اور املاک ہوتے ہیں اور وہ اپنی عیش وعشرت میں منہمک اور مست رہتے ہیں.میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ وہ دنیا کی آنکھ میں بلکہ ذلیل ذلیل دنیا داروں اور ظاہر پرستوں کی آنکھ میں خوش معلوم دیتے ہیں، مگر در حقیقت وہ ایک جلن اور دکھ میں مبتلا ہوتے ہیں.تم نے ان کی صورت کو دیکھا ہے مگر میں ایسے لوگوں کے قلب پر نگاہ کرتا ہوں تو ایک سعیر اور سلاسل واغلال میں جکڑے ہوئے ہیں.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۱ مورخه ۲۴ / مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۳) جو خدا کے آگے تقوی اختیار کرتا ہے خدا اس کے لئے ہر ایک تنگی اور تکلیف سے نکلنے کی راہ بتادیتا ہے اور فرما يا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ وہ متقی کو ایسی راہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے رزق آنے کا خیال و گمان بھی نہیں ہوتا.یہ اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں.وعدوں کے سچا کرنے میں خدا سے بڑھ کر کون ہے؟ پس خدا پر ایمان لاؤ.خدا سے ڈرنے والے ہرگز ضائع نہیں ہوتے يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا ایک وسیع بشارت ہے.تم تقویٰ اختیار کرو خدا تمہارا کفیل ہوگا.اس کا جو وعدہ ہے وہ سب پورا کر دے گا.الحکم جلد ۵ نمبر ۴۲ مورخه ۷ ارنومبر ۱۹۰۱ صفحه ۱۴) قبض و بسط رزق کا سر ایسا ہے کہ انسان کی سمجھ میں نہیں آتا.ایک طرف تو مومنوں سے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں وعدے کئے ہیں.مَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُه یعنی جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے اس کے لیے اللہ کافی ہے مَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ جو اللہ تعالى کے لیے تقویٰ اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے کہ اس کو معلوم بھی نہیں ہوتا...جب کہ اس قسم کے وعدے اللہ تعالیٰ نے فرمائے ہیں.پھر با وجود ان وعدوں کے دیکھا جاتا ہے کہ کئی آدمی ایسے دیکھے جاتے ہیں جو صالح اور متقی نیک بخت ہوتے ہیں اور ان کا شعائر اسلام صحیح ہوتا ہے ،مگر وہ رزق سے تنگ ہیں.رات کو ہے تو دن کو نہیں اور دن کو ہے تو رات کو نہیں...غرض یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس قسم کے واقعات ہوتے ہیں، مگر تجر بہ دلالت کرتا ہے کہ یہ امور خدا کی طرف منسوب نہیں ہو سکتے.ہمارا یہ مذہب کہ وہ وعدے جو خدا تعالیٰ نے کئے ہیں کہ متقیوں کو خود اللہ تعالیٰ رزق دیتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں بیان کیا ہے.یہ سب بچے ہیں.اور سلسلہ اہل اللہ کی طرف دیکھا جاوے تو کوئی ابرار میں سے ایسا نہیں ہے کہ بھو کا مرا

Page 37

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1.سورة الطلاق ہو.مومنوں نے جن پر شہادت دی اور جن کو اتقیامان لیا گیا یہی نہیں کہ وہ فقر و فاقہ سے بچے ہوئے تھے.گو اعلیٰ درجہ کی خوشحالیاں نہ ہوں ، مگر اس قسم کا اضطراری فقر و فاقہ بھی کبھی نہیں ہوا کہ عذاب محسوس کریں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقر اختیار کیا ہوا تھا.مگر آپ کی سخاوت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خود آپ نے اختیار کیا ہوا تھا، نہ کہ بطور سزا تھا.غرض اس راہ میں بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں.بعض لوگ ایسے دیکھے جاتے ہیں کہ بظا ہر منتقلی اور صالح ہوتے ہیں مگر رزق سے تنگ ہوتے ہیں.ان سب حالات کو دیکھ کر آخر یہی کہنا پڑتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے وعدے تو سب بچے ہیں، لیکن انسانی کمزوری ہی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۰ مورخه ۲۴ /اگست ۱۹۰۲ء صفحه ۵) متقی کو ہر تنگی سے نجات ملتی ہے.اس کو ایسی جگہ سے رزق دیا جاتا ہے کہ اس کو گمان بھی نہیں ہوتا.احکام جلد ۶ نمبر ۳۰ مورخه ۲۴ /اگست ۱۹۰۲ صفحه ۱۰) ) اوائل میں جو سچا مسلمان ہوتا ہے اسے صبر کرنا پڑتا ہے صحابہ پر بھی ایسے زمانے آئے ہیں کہ پتے کھا کھا کر گزارا کیا بعض وقت ان کو ٹکڑا بھی میسر نہیں آتا تھا کوئی انسان کسی کے ساتھ بھلائی نہیں کر سکتا جب تک خدا بھلائی نہ کرے جب انسان تقویٰ اختیار کرتا ہے تو خدا اس کے واسطے دروازہ کھول دیتا ہے وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا خدا تعالیٰ پر سچا ایمان لاؤ اس سے سب کچھ حاصل ہوگا استقامت چاہیے.انبیاؤں کو جس قدر درجات ملے ہیں استقامت سے ملے ہیں.اور یوں خشک نمازوں اور روزوں سے کیا ہو سکتا ہے.البدر جلد اوّل نمبر ۴ مورخه ۲۱ /نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۳۰) انسان جب متقی ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اور اس کے غیر میں فرقان رکھ دیتا ہے اور پھر اس کو ہر تنگی سے نجات دیتا ہے نہ صرف نجات بلکه يَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ پس یا درکھو جو خدا سے ڈرتا ہے خدا اس کو مشکلات سے رہائی دیتا ہے اور انعام واکرام بھی کرتا ہے.الحکم جلدے نمبر ۲ مورخہ ۱۷/جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۱۰) متقی کے لئے خدا تعالیٰ ساری راحتوں کے سامان مہیا کر دیتا ہے مَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا - وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَیب پس خوشحالی کا اصول تقویٰ ہے لیکن حصول تقویٰ کے لئے نہیں چاہیے کہ ہم شرطیں باندھتے پھریں تقویٰ اختیار کرنے سے جو مانگو گے ملے گا خدا تعالیٰ رحیم و کریم ہے تقویٰ اختیار کرو جو چاہو گے وہ دے گا.جس قدر اولیاء اللہ اور اقطاب گزرے ہیں انہوں نے جو کچھ حاصل کیا تقومی ہی

Page 38

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 11 سورة الطلاق سے حاصل کیا اگر وہ تقویٰ اختیار نہ کرتے تو وہ بھی دُنیا میں معمولی انسانوں کی حیثیت سے زندگی بسر کرتے.دس ہیں کی نوکری کر لیتے یا کوئی اور حرفہ یا پیشہ اختیار کر لیتے اس سے زیادہ کچھ نہ ہوتا مگر اب جو عروج ان کو ملا اور جس قدر شہرت اور عزت انہوں نے پائی یہ سب تقویٰ ہی کی بدولت تھی.انہوں نے ایک موت اختیار کی اور زندگی اس کے بدلہ میں پائی.الحکم جلدے نمبر۷ مورخه ۲۱ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۸) جو خدا کا متقی اور اس کی نظر میں متقی بنتا ہے.اس کو خدا تعالیٰ ہر ایک قسم کی تنگی سے نکالتا اور ایسی طرز سے رزق دیتا ہے کہ اسے گمان بھی نہیں ہوتا کہ کہاں سے اور کیوں کر آتا ہے خدا کا یہ وعدہ برحق ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ خدا اپنے وعدوں کا پورا کرنے والا اور بڑا رحیم کریم ہے.جو اللہ تعالیٰ کا بنتا ہے وہ اسے ہر ذلت سے نجات دیتا ہے.اور خود اس کا حافظ و ناصر بن جاتا ہے.مگر وہ جو ایک طرف دعوی انتظا کرتے ہیں اور دوسری طرف شا کی ہوتے ہیں کہ ہمیں وہ برکات نہیں ملے ان دونوں میں سے ہم کس کو سچا کہیں اور کس کو جھوٹا ؟ خدا تعالی پر ہم کبھی الزام نہیں لگا سکتے إِنَّ اللهَ لَا يُخْلِفُ الْمِیعاد خدا تعالیٰ اپنے وعدوں کا خلاف نہیں کرتا.ہم اس مدعی کو جھوٹا کہیں گے.اصل یہ ہے کہ ان کا تقومی یا ان کی اصلاح اس حد تک نہیں ہوتی کہ خدا کی نظر میں قابل وقعت ہو یا وہ خدا کے متقی نہیں ہوتے لوگوں کے متقی اور ریا کارانسان ہوتے ہیں سوان پر بجائے رحمت اور برکت کے لعنت کی مار ہوتی ہے جس سے سرگرداں اور مشکلات دنیا میں مبتلا رہتے ہیں.خدا تعالیٰ متقی کو کبھی ضائع نہیں کرتا.وہ اپنے وعدوں کا پکا اور سچا اور پورا ہے.رزق بھی کئی طرح کے ہوتے ہیں یہ بھی تو ایک رزق ہے کہ بعض لوگ صبح سے شام تک ٹوکری ڈھوتے ہیں اور برے حال سے شام کو دو تین آنے ان کے ہاتھ میں آتے ہیں یہ بھی تو رزق ہے مگر لعنتی رزق ہے نہ رزق مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ - حضرت داؤوز بور میں فرماتے ہیں کہ میں بچہ تھا جو ان ہوا جوانی سے اب بڑھا پا آیا مگر میں نے کبھی کسی متقی اور خدا ترس کو بھیک مانگتے نہ دیکھا اور نہ اس کی اولاد کو در بدرد ھکے کھاتے اور ٹکڑے مانگتے دیکھا یہ بالکل سچ اور راست ہے کہ خدا اپنے بندوں کو ضائع نہیں کرتا اور ان کو دوسرے کے آگے ہاتھ پسارنے سے محفوظ رکھتا ہے بھلا اتنے جو انبیاء ہوئے ہیں اولیاء گزرے ہیں کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ بھیک مانگا کرتے تھے؟ یا ان کی اولاد پر یہ مصیبت پڑی ہو کہ وہ در بدر خاک بسر ٹکڑے کے واسطے پھرتے ہوں؟ ہر گز نہیں میرا تو اعتقاد ہے.کہ آدمی با خدا اور سچا متقی ہو تو اس کی سات پشت تک بھی خدارحمت اور برکت کا ہاتھ رکھتا.اور

Page 39

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲ سورة الطلاق الحکم جلدے نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۵) ان کی خود حفاظت فرماتا ہے.خدا پر ایمان ہے تو خدا رزاق ہے.اس کا وعدہ ہے جو تقویٰ اختیار کرتا ہے اس کا ذمہ وار میں ہوں.مَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ یعنی باریک سے بار یک گناہ جو ہے اسے خدا سے ڈر کر جو چھوڑے گا خدا ہر ایک مشکل سے اسے نجات دے گا.یہ اس لیے کہا ہے کہ اکثر لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہم کیا کریں ہم تو چھوڑنا چاہتے ہیں مگر ایسی مشکلات آکر پڑتی ہیں کہ پھر کرنا پڑ جاتا ہے خدا وعدہ فرماتا ہے کہ وہ اسے ہر مشکل سے بچالے گا اور پھر آگے ہے یرزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ یعنی ایسی راہ سے اسے روزی دے گا کہ اس کے گمان میں بھی وہ نہ ہوگی.البدرجلد ۲ نمبر ۱۲ مورخه ۱۰ را پریل ۱۹۰۳ صفحه ۹۲) خدا تعالی کی یہ عادت ہر گز نہیں ہے کہ جو اس کے حضور عاجزی سے گر پڑے وہ اسے خائب و خاسر کرے اور ذلت کی موت دیوے.جو اس کی طرف آتا ہے وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا.جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ایسی نظیر ایک بھی نہ ملے گی کہ فلاں شخص کا خدا سے سچا تعلق تھا اور پھر وہ نامرادر ہا.خدا تعالیٰ بندے سے یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی نفسانی خواہشیں اس کے حضور پیش نہ کرے اور خالص ہو کر اس کی طرف جھک جاوے جو اس طرح جھکتا ہے اسے کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور ہر ایک مشکل سے خود بخود اس کے واسطے راہ نکل آتی ہے جیسے کہ وہ خود وعدہ فرماتا ہے مَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا - يَحْتَسِبُ.اس جگہ رزق سے مراد روٹی وغیرہ نہیں بلکہ عزت علم وغیرہ سب باتیں جن کی انسان کو ضرورت ہے اس میں داخل ہیں.خدا تعالیٰ سے جو ذرہ بھر بھی تعلق رکھتا ہے وہ بھی ضائع نہیں ہوتا فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَةُ ( الزلزال : ٨) ہمارے ملک ہندوستان میں نظام الدین صاحب اور قطب الدین صاحب اولیاء اللہ کی جو عزت کی جاتی ہے وہ اسی لئے ہے کہ خدا سے ان کا سچا تعلق تھا اور اگر یہ نہ ہوتا تو تمام انسانوں کی طرح وہ بھی زمینوں میں ہل چلاتے.معمولی کام کرتے مگر خدا تعالیٰ کے سچے تعلق کی وجہ سے لوگ ان کی مٹی کی بھی عزت کرتے ہیں.(البدر جلد ۲ نمبر ۱۴ مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۱۰۷) جو شخص بہت دعا کرتا ہے اس کے واسطے آسمان سے توفیق نازل کی جاتی ہے کہ گناہ سے بچے اور دعا کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گناہ سے بچنے کے لئے کوئی نہ کوئی راہ اسے مل جاتی ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے يَجْعَلُ لَّهُ مَخْرَجًا یعنی جو امور ا سے کشاں کشاں گناہ کی طرف لے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان امور سے بچنے کی توفیق

Page 40

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳ سورة الطلاق ( البدر جلد ۲ نمبر ۱۴ مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۱۰۹) اُسے عطا فرماتا ہے.جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے گا اس کو اللہ ایسے طور سے رزق پہنچائے گا کہ جس طور سے معلوم بھی نہ ہوگا.رزق کا خاص طور سے اس واسطے ذکر کیا کہ بہت سے لوگ حرام مال جمع کرتے ہیں اگر وہ خدا تعالی کے حکموں پر عمل کریں اور تقویٰ سے کام لیویں تو خدا خودان کو رزق پہنچا دے.البدر جلد ۲ نمبر ۲۸ مورخه ۳۱ جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۱۷) خوف الہی اور تقوئی بڑی برکت والی شے ہے انسان میں اگر عقل نہ ہو مگر یہ باتیں ہوں تو خدا اسے اپنے پاس سے برکت دیتا ہے اور عقل بھی دے دیتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا اس کے یہی معنے ہیں کہ جس شے کی ضرورت اسے ہوگی اس کے لیے وہ خود راہ پیدا کر دے گا بشرطیکہ انسان متقی ہو لیکن اگر تقویٰ نہ ہوگا تو خواہ فلاسفر ہی ہو وہ آخر کا ر تباہ ہوگا.(البدر جلد ۲ نمبر ۴۳ مورخه ۱۶ نومبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۳۳) تقویٰ اس بات کا نام ہے کہ جب وہ دیکھے کہ میں گناہ میں پڑتا ہوں تو دعا اور تد بیر سے کام لیوے ورنہ نادان ہو گا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے مَن يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ كه جو شخص تقویٰ اختیار کرتا ہے وہ ہر ایک مشکل اور تنگی سے نجات کی راہ اس کے لیے پیدا کر دیتا ہے.متقی در حقیقت وہ ہے کہ جہاں تک اس کی قدرت اور طاقت ہے وہ تد بیر اور تجویز سے کام لیتا ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۴۸ مورخه ۲۴ دسمبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۸۴).جن کا اللہ تعالی متولی ہو جاتا ہے.وہ دنیا کے آلام سے نجات پا جاتے ہیں اور ایک کچی راحت اور طمانیت کی زندگی میں داخل ہو جاتے ہیں.اُن کے لیے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ جو شخص تقویٰ اختیار کرتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہر ایک بلا اور الم سے نکال لیتا ہے اور اس کے رزق کا خود کفیل ہو جاتا ہے اور ایسے طریق سے دیتا ہے کہ جو وہم اور گمان میں بھی نہیں آ سکتا.دنیا میں کئی قسم کے جرائم ہوتے ہیں.بعض جرائم قانون کی حد میں آسکتے ہیں اور بعض قانون کی حد میں بھی نہیں آسکتے.گناہ خون اور نقب زنی وغیرہ جب کرتا ہے تو اُن کی سزا قانون سے پاسکتا ہے.لیکن جھوٹ وغیرہ جو معمولی طور پر بولتا ہے یا بعض حقوق کی رعایت نہیں رکھتا وغیرہ ایسی باتیں ہوتی ہیں جن کے لیے قانون تدارک نہیں کرتا.لیکن اللہ تعالیٰ کے خوف سے اور اس کو راضی کرنے کے لیے جو شخص ہر ایک بدی

Page 41

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴ سورة الطلاق سے بچتا ہے اس کو متقی کہتے ہیں.....اللہ تعالیٰ تو متقی کے لیے وعدہ کرتا ہے کہ مَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَّهُ مَخْرَجًا یعنی جو اللہ تعالیٰ کے لیے تقویٰ اختیار کرتا ہے تو ہر مشکل سے اللہ تعالیٰ اس کو رہائی دے دیتا ہے.لوگوں نے تقویٰ کے چھوڑنے کے لیے طرح طرح کے بہانے بنارکھے ہیں.بعض کہتے ہیں کہ جھوٹ بولے بغیر ہمارے کاروبار نہیں چل سکتے اور دوسرے لوگوں پر الزام لگاتے ہیں کہ اگر سچ کہا جائے تو وہ لوگ ہم پر اعتبار نہیں کرتے.پھر بعض لوگ ایسے ہیں.جو کہتے ہیں کہ سود لینے کے بغیر ہمارا گزارہ نہیں ہو سکتا.ایسے لوگ کیوں کر متقی کہلا سکتے ہیں.خدا تعالیٰ تو وعدہ کرتا ہے کہ میں متقی کو ہر ایک مشکل سے نکالوں گا.اور ایسے طور سے رزق دوں گا جو گمان اور وہم میں بھی نہ آسکے.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے جو لوگ ہماری کتاب پر عمل کریں گے ان کو ہر طرف سے اوپر سے اور نیچے سے رزق دوں گا.البدر جلد ۳ نمبر ۲۵ مورخہ یکم جولائی ۱۹۰۴ء صفحه ۵،۴) ہم ایسے مہوسوں کو ایک کیمیا کانسخہ بتلاتے ہیں بشرطیکہ وہ اس پر عمل کریں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ بس تقویٰ ایک ایسی چیز ہے کہ جسے یہ حاصل ہوا سے گویا تمام جہان کی نعمتیں حاصل ہو گئیں.یادرکھو متقی کبھی کسی کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ وہ اس مقام پر ہوتا ہے کہ جو چاہتا ہے خدا اس کے لئے اس کے مانگنے سے پہلے مہیا کر دیتا ہے.میں نے ایک دفعہ کشف میں اللہ تعالیٰ کو تمثل کے طور پر دیکھا.میرے گلے میں ہاتھ ڈال کر فرمایا.جے توں میرا ہور ہیں سب جگہ تیرا ہو.بس یہ وہ نسخہ ہے جو تمام انبیاء و اولیاء و صلحاء کا آزمایا ہوا ہے.( اخبار بدر جلد ۶ نمبر ۱۷ مورخه ۲۵ را پریل ۱۹۰۷ صفحه ۸) تو کل کرنے والے اور خدا کی طرف جھکنے والے کبھی ضائع نہیں ہوتے.جو آدمی صرف اپنی کوششوں میں رہتا ہے اس کو سوائے ذلت کے اور کیا حاصل ہو سکتا ہے.جب سے دُنیا پیدا ہوئی ہمیشہ سے سنت اللہ یہی چلی آتی ہے کہ جو لوگ دنیا کو چھوڑتے ہیں وہ اس کو پاتے ہیں اور جو اس کے پیچھے دوڑتے ہیں وہ اس سے محروم رہتے ہیں جو لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے وہ اگر چند روز مکر و فریب سے کچھ حاصل بھی کر لیں تو وہ لا حاصل ہے کیونکہ آخر ان کو سخت نا کامی دیکھنی پڑتی ہے.اسلام میں عمدہ لوگ وہی گزرے ہیں جنہوں نے دین کے مقابلہ میں دنیا کی کچھ پروانہ کی.ہندوستان میں قطب الدین اور معین الدین خدا کے اولیاء گزرے

Page 42

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵ ہیں.ان لوگوں نے پوشیدہ خدا کی عبادت کی مگر خدا نے ان کی عزت کو ظاہر کر دیا.سورة الطلاق ( اخبار بدرجلد ۶ نمبر ۳۲ مورخه ۸ راگست ۱۹۰۷ صفحه ۸) اصل رازق خدا تعالیٰ ہے.وہ شخص جو اس پر بھروسہ کرتا ہے کبھی رزق سے محروم نہیں رہ سکتا.وہ ہر طرح سے اور ہر جگہ سے اپنے پر توکل کرنے والے شخص کے لئے رزق پہنچاتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو مجھ پر بھروسہ کرے اور توکل کرے میں اس کے لئے آسمان سے برساتا اور قدموں میں سے نکالتا ہوں.پس چاہیے کہ ہر ایک شخص خدا تعالیٰ پر بھر وسہ کرے.( اخبار بدر جلد ۶ نمبر ۳۸ مورخہ ۱۹ ستمبر ۱۹۰۷، صفحہ ۷) وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ اس کے یہ معنے ہیں کہ مومن جو بات یقین سے کہے وہ پوری ہو جاتی ہے لفظوں کی پابندی اس میں ضروری نہیں ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۲۰ مورخه ۵ /جون ۱۹۰۳ء صفحه ۱۵۳) ایک دانشمند کے لئے ضرور ہے کہ موت کا انتظام کرے.خدا تو موجود ہے اس کے لئے بھی کچھ فکر چاہیے ہم اس قدر عرصہ سے اپنی برادری سے الگ ہیں.ہمارا کسی نے کیا بگاڑ لیا جو اور کسی کا برادری بگاڑے گی.مَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُه خدا کے مقابلہ پر کسی کو معبود نہ بنانا چاہیے.البدر جلد ۲ نمبر ۲۶ مورخہ ۱۷؍جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۰۲) وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى الله کہ جو خدا کی طرف سے پورے طور پر آ گیا اور اعداء وغیرہ کسی کی پرواہ نہ کی فَهُوَ حَسْبُه تو پھر خدا تعالیٰ اس کے ساتھ پوری وفا کرتا ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۲۸ مورخه ۳۱ جولائی ۱۹۰۳ ء صفحه ۲۱۸) اصل میں تو کل ہی ایسی ایک چیز ہے کہ انسان کو کامیاب و با مراد بنا دیتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ من يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُة جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے اللہ اس کو کافی ہو جاتا ہے بشرطیکہ سچے دل سے توکل کے اصلی مفہوم کو سمجھ کر صدق دل سے قدم رکھنے والا ہو اور صبر کرنے والا اور مستقل مزاج ہو.مشکلات سے ڈر کر پیچھے نہ ہٹ جاوے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۱ مورخه ۶ رمئی ۱۹۰۸ صفحه ۳) وَالَّى يَبِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَابِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَثَةُ اَشْهُرٍ وَالْيْ لَمْ يَحِضْنَ وَأَوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ -

Page 43

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلُ لَهُ مِنْ اَمْرِهِ يُسْرًا ۱۶ سورة الطلاق حمل والی عورتوں کی طلاق کی عدت یہ ہے کہ وہ وضع حمل تک بعد طلاق کے دوسرا نکاح کرنے سے دستکش رہیں.اس میں یہی حکمت ہے کہ اگر حمل میں ہی نکاح ہو جائے تو ممکن ہے کہ دوسرے کا نطفہ بھی ٹھہر جائے تو اس صورت میں نسب ضائع ہوگی اور یہ پتہ نہیں لگے گا کہ وہ دونوں لڑکے کس کس باپ کے ہیں.آریہ دھرم ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۱) جو عورتیں حیض سے نومید ہو گئی ہیں ان کی مہلت طلاق بجائے تین حیض کے تین مہینہ ہیں اور جو خدا سے ڈرے گا یعنی طلاق دینے میں جلدی نہیں کرے گا خدا اس کے کام میں آسانی پیدا کر دے گا.آریه دهرم ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۵۳) ذلِكَ اَمْرُ اللَّهِ أَنْزَلَةٌ إِلَيْكُمْ وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يُكَفِّرُ عَنْهُ سَيَاتِهِ وَيُعْظِمُ لَهُ اجران یہ خدا کا حکم ہے جو تمہاری طرف اُتارا گیا ہے اور جو خدا سے ڈرے گا یعنی طلاق دینے میں جلدی نہیں کرے گا اور حتی الوسع طلاق سے دستبردار ر ہے گا خدا اس کے تمام گناہ معاف کر دے گا اور اس کو بہت اجر دے گا.( آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۵۳) اَعَدَّ اللهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا فَاتَّقُوا اللهَ يَأُولِي الْأَلْبَابِ الَّذِينَ آمَنُوا قَد اَنْزَلَ اللهُ اِلَيْكُمْ ذِكْرًا رَّسُولًا يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آیتِ اللهِ مُبَيِّنَتِ لِيُخْرِجَ الَّذِينَ امَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ مِنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّورِ وَمَنْ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُدخِلْهُ جَنَّتِ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهرُ خَلِدِينَ فِيهَا أَبَدًا قَدْ اَحْسَنَ اللهُ لَهُ رزقان خدا نے اپنی کتاب اور اپنا رسول بھیجا وہ تم پر کلام الہی پڑھتا ہے تا وہ ایمانداروں اور نیک کرداروں کو ظلمات سے نور کی طرف نکالے پس خدائے تعالیٰ نے ان تمام آیات میں کھلا کھلا بیان فرما دیا کہ جس زمانہ

Page 44

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷ سورة الطلاق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھیجے گئے اور قرآن شریف نازل کیا گیا اُس زمانہ پر ضلالت اور گمراہی کی ظلمت طاری ہورہی تھی اور کوئی ایسی قوم نہیں تھی کہ جو اس ظلمت سے بچی ہوئی ہو.( براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۴۹) نزول کے لفظ سے در حقیقت آسمان سے نازل ہونا ثابت نہیں ہوتا.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کھلے کھلے طور پر قرآن شریف میں آیا ہے اَنْزَلَ اللهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا رَسُولاً تو کیا اس سے یہ سمجھ لینا چاہیے که در حقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آسمان سے ہی اُترے تھے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۵۰) نزول سے کہاں سمجھا جاتا ہے جو آسمان سے نزول ہو خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے......ہم نے یہ نبی اُتارا.الحق مباحثه دیلی ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۶۵) قرآن شریف میں آیت انْزَلَ اللهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا رَسُولاً میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نازل ہی لکھا گیا ہے مگر کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم در حقیقت آسمان سے نازل ہوئے تھے....بعض نادان کہتے رض ہیں کہ بعض اقوال صحابہ میں نزول کے ساتھ الی کا لفظ آیا ہے جو اوپر سے نیچے کی طرف کے لئے مستعمل ہے مگر وہ نہیں سمجھتے کہ جس حالت میں استعارہ کے طور پر خدا تعالیٰ کے ماموروں کی نسبت توریت اور انجیل اور قرآن میں یہ محاورہ آگیا ہے کہ وہ آسمان سے نازل ہوتے ہیں تو اس صورت میں استعارہ کے طور پر مسیح موعود کے نزول کے ساتھ الی کا لفظ ملانا کون سی غیر محل بات ہے.کیا قرآن میں نہیں ہے انْزَلَ اللهُ الیکم ذِكْرًا رَّسُولًا - ایام الصلح ، روحانی خسته ائن جلد ۱۴ صفحه ۳۱۶، ۳۱۷) اللهُ الَّذِى خَلَقَ سَبْعَ سَمُوتٍ وَ مِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعلَمُوا أَنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَ أَنَّ اللهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا کوئی یہ اعتراض پیش کرے کہ خدا تعالیٰ نے آسمانوں کو سات میں کیوں محدود کیا اس کی کیا وجہ ہے تو اس کا یہ جواب ہے کہ در حقیقت یہ تاثیرات مختلفہ کی طرف اشارہ ہے جو مختلف طبقات سماوی سے مختلف ستارے اپنے اندر جذب کرتے ہیں.اور پھر زمین پر ان تاثیرات کو ڈالتے ہیں.چنانچہ اسی کی تصریح اس آیت میں موجود ہے.اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمُوتٍ وَ مِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزِّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ

Page 45

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام IA سورة الطلاق الله عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ، وَ اَنَّ اللهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا یعنی خدائے تعالیٰ نے آسمانوں کو سات پیدا کیا اور ایسا ہی زمینیں بھی سات ہی پیدا کیں اور ان سات آسمانوں کا اثر جو بامرالہی ان میں پیدا ہے سات زمینوں میں ڈالا تا کہ تم لوگ معلوم کر لو کہ خدا تعالیٰ ہر ایک چیز کے بنانے پر اور ہر ایک انتظام کے کرنے پر اور رنگارنگ کے پیرائیوں میں اپنے کام دکھلانے پر قدرت تامہ رکھتا ہے اور تا تمہارے علم وسیع ہو جائیں اور علوم وفنون میں تم ترقی کرو اور ہیئت اور طبعی اور طبابت اور جغرافیہ وغیرہ علوم تم میں پیدا ہو کر خدا تعالیٰ کی عظمتوں کی طرف تم کو متوجہ کریں اور تم سمجھ لو کہ کیسے خدا تعالیٰ کا علم اور اس کی حکمت کا ملہ ہر ایک شے پر محیط ہو رہی ہے اور کیسی ترکیب ابلغ اور ترتیب محکم کے ساتھ آسمان اور جو کچھ اس میں ہے اپنا رشتہ زمین سے رکھتا ہے اور کیسے خدا تعالیٰ نے زمین کو قوت قابلہ عطا کر رکھی ہے اور آسمانوں اور ان کے اجرام کو قوت مؤثرہ مرحمت فرمائی ہے اور یادر ہے کہ جس طرح تنزل امر جسمانی اور روحانی دونوں طور پر آسمانوں سے ہوتا ہے اور ملائک کی توجہات اجرام سماوی کی تاثیرات کے ساتھ مخلوط ہو کر زمین پر گرتی ہیں ایسا ہی زمین اور زمین والوں میں بھی جسمانی اور روحانی دونوں قوتیں قابلیت کی عطا کی گئی ہیں تا قوابل اور مؤثرات میں بکلی مساوات ہو.اور سات زمینوں سے مرادزمین کی آبادی کے سات طبقے ہیں جو نسبتی طور پر بعض بعض کے تحت واقع ہیں اور کچھ بے جانہ ہوگا اگر ہم دوسرے لفظوں میں ان طبقات سبعہ کو ہفت اقلیم کے نام سے موسوم کر دیں لیکن ناظرین اس دھو کہ میں نہ پڑیں کہ جو کچھ ہفت اقلیم کی تقسیم ان یونانی علوم کی رو سے ہو چکی ہے جس کو اسلام کے ابتدائی زمانہ میں حکماء اسلام نے یونانی کتب سے لیا تھا وہ بکلی صحیح اور کامل ہے کیونکہ اس جگہ تقسیم سے مراد ہماری ایک صحیح تقسیم مراد ہے جس سے کوئی معمورہ باہر نہ رہے اور زمین کی ہر ایک جزو کسی حصہ میں داخل ہو جائے ہمیں اس سے کچھ غرض نہیں کہ اب تک یہ صحیح اور کامل تقسیم معرض ظہور میں بھی آئی یا نہیں بلکہ صرف یہ غرض ہے کہ جو خیال اکثر انسانوں کا اس طرف رجوع کر گیا ہے کہ زمین کو سات حصہ پر تقسیم کیا جائے.یہ خیال بھی گویا ایک الہامی تحریک تھی جو الہی تقسیم کے لئے بطور شاہد ہے.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۵۵ تا ۱۶۰ حاشیه در حاشیه )

Page 46

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّجِيمِ ۱۹ سورة التحريم بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة التحريم بیان فرموده سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَليكة غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللهَ مَا أَمَرَهُمْ وَ يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ جو شخص معرفت کا کچھ حصہ رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ ہر یک ذرہ خدا تعالیٰ کے ارادہ کے موافق کام کر رہا ہے اور ایک قطرہ پانی کا جو ہمارے اندر جاتا ہے وہ بھی بغیر اذن الہی کے کوئی تاثیر موافق یا مخالف ہمارے بدن پر ڈال نہیں سکتا پس تمام ذرات اور سیارات وغیرہ در حقیقت ایک قسم کے فرشتے ہیں جو دن رات خدمت میں مشغول ہیں کوئی انسان کے جسم کی خدمت میں مشغول ہے اور کوئی روح کی خدمت میں اور جس حکیم مطلق نے انسان کی جسمانی تربیت کے لئے بہت سے اسباب کا توسط پسند کیا اور اپنی طرف سے بہت سے جسمانی مؤثرات پیدا کئے تا انسان کے جسم پر انواع اقسام کے طریقوں سے تاثیر ڈالیں.اسی وحدہ لاشریک نے جس کے کاموں میں وحدت اور تناسب ہے یہ بھی پسند کیا کہ انسان کی روحانی تربیت بھی اسی نظام اور طریق سے ہو کہ جو جسم کی تربیت میں اختیار کیا گیا تا وہ دونوں نظام ظاہری و باطنی اور روحانی اور جسمانی اپنے تناسب اور یک رنگی کی وجہ سے صانع واحد مد تم بالا رادہ پر دلالت کریں.

Page 47

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة التحريم پس یہی وجہ ہے کہ انسان کی روحانی تربیت بلکہ جسمانی تربیت کے لئے بھی فرشتے وسائط مقرر کئے گئے مگر یہ تمام وسائط خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں مجبور اور ایک کل کی طرح ہیں جس کو اس کا پاک ہاتھ چلا رہا ہے اپنی طرف سے نہ کوئی ارادہ رکھتے ہیں نہ کوئی تصرف.جس طرح ہوا خدا تعالی کے حکم سے ہمارے اندر چلی جاتی ہے اور اسی کے حکم سے باہر آتی ہے اور اسی کے حکم سے تاثیر کرتی ہے یہی صورت اور بنتامہ یہی حال فرشتوں کا ب يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ( آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۸۷،۸۶ حاشیه ) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللهِ تَوْبَةً نَصُوحًا عَسَى رَبِّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيَأْتِكُم وَيُدخِلَكُمْ جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهُرُ يَوْمَ لَا يُخْزِي اللَّهُ النَّبِيَّ وَ الَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَ بِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا آتْهِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ جو لوگ دنیا میں ایمان کا نور رکھتے ہیں ان کا نور قیامت کو ان کے آگے اور ان کے داہنی طرف دوڑتا ہوگا ، وہ ہمیشہ یہی کہتے رہیں گے کہ اے خدا ہمارے نور کو کمال تک پہنچا اور اپنی مغفرت کے اندر ہمیں لے لے.تو ہر چیز پر قادر ہے.اس آیت میں یہ جو فرمایا کہ وہ ہمیشہ یہی کہتے رہیں گے کہ ہمارے نور کو کمال تک پہنچا.یہ ترقیات غیر متناہیہ کی طرف اشارہ ہے یعنی ایک کمال نورانیت کا انہیں حاصل ہوگا.پھر دوسرا اکمال نظر آئے گا.اس کو دیکھ کر پہلے کمال کو ناقص پائیں گے.پس کمال ثانی کے حصول کے لئے التجا کریں گے اور جب وہ حاصل ہوگا تو ایک تیسرا مرتبہ کمال کا ان پر ظاہر ہوگا.پھر اس کو دیکھ کر پہلے کمالات کو بیچ سمجھیں گے.اور اس کی خواہش کریں گے.یہی ترقیات کی خواہش ہے جو انجمند کے لفظ سے سبھی جاتی ہے.غرض اسی طرح غیر متناہی سلسلہ ترقیات کا چلا جائے گا.تنزل کبھی نہیں ہوگا اور نہ کبھی بہشت سے نکالے جائیں گے.بلکہ ہر روز آگے بڑھیں گے اور پیچھے نہ ہٹیں گے اور یہ جو فرمایا کہ وہ ہمیشہ اپنی مغفرت چاہیں گے.اس جگہ سوال یہ ہے کہ جب بہشت میں داخل ہو گئے تو پھر مغفرت میں کیا کسر رہ گئی اور جب گناہ بخشے گئے تو پھر استغفار کی کون سی حاجت رہی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مغفرت کے اصل معنی یہ ہیں.نا ملائم اور ناقص حالت کو نیچے دبانا اور ڈھانکنا.سو بہشتی اس بات کی خواہش کریں گے کہ کمال تام حاصل کریں اور سراسر

Page 48

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱ سورة التحريم نور میں غرق ہو جائیں.وہ دوسری حالت کو دیکھ کر پہلی حالت کو ناقص پائیں گے.پس چاہیں گے کہ پہلی حالت نیچے دبائی جائے.پھر تیسرے کمال کو دیکھ کر یہ آرزو کریں گے کہ دوسرے کمال کی نسبت مغفرت ہو یعنی وہ حالت ناقصہ نیچے دبائی جاوے اور مخفی کی جاوے.اسی طرح غیر متناہی مغفرت کے خواہشمند رہیں گے.یہ وہی لفظ مغفرت اور استغفار کا ہے جو بعض نادان بطور اعتراض ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت پیش کیا کرتے ہیں.سوناظرین نے اس جگہ سے سمجھ لیا ہو گا کہ یہی خواہش استغفار فخر انسان ہے.جو شخص کسی عورت کے پیٹ سے پیدا ہوا اور پھر ہمیشہ کے لئے استغفار اپنی عادت نہیں پکڑتا وہ کیڑا ہے نہ انسان اور اندھا ہے نہ سوجا کھا اور نا پاک ہے نہ طبیب - اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن شریف کی رو سے دوزخ اور بہشت دونوں اصل میں انسان کی زندگی کے ظلال اور آثار ہیں.کوئی ایسی نئی جسمانی چیز نہیں ہے کہ جو دوسری جگہ سے آوے.یہ سچ ہے کہ وہ دونوں جسمانی طور سے متمثل ہوں گے مگر وہ اصل روحانی حالتوں کے اظلال و آثار ہوں گے.ہم لوگ ایسی بہشت کے قائل نہیں کہ صرف جسمانی طور پر ایک زمین پر درخت لگائے گئے ہوں اور نہ ایسی دوزخ کے ہم قائل ہیں جس میں در حقیقت گندھک کے پتھر ہیں.بلکہ اسلامی عقیدہ کے موافق بہشت دوزخ انہی اعمال کے انعكاسات ہیں جو دنیا میں انسان کرتا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۱۲، ۴۱۳) بہشتیوں اور دوزخیوں کے لئے...ایک اور درجہ دخول جنت دخول جہنم ہے جس کو درمیانی درجہ کہنا چاہیے اور وہ حشر اجساد کے بعد اور جنت عظمی یا جہنم کبری میں داخل ہونے سے پہلے حاصل ہوتا ہے اور بوجہ تعلق جسد کامل قومی میں ایک اعلیٰ درجہ کی تیزی پیدا ہو کر اور خدائے تعالیٰ کی تجلی رحم یا تجلی قہر کا حسب حالت اپنے کامل طور پر مشاہدہ ہو کر اور جنت عظمی کو بہت قریب پا کر یا جہنم کبری کو بہت ہی قریب دیکھ کر وہ لذات یا عقوبات ترقی پذیر ہو جاتے ہیں.....اس دوسرے درجہ میں بھی لوگ مساوی نہیں ہوتے بلکہ اعلیٰ درجہ کے بھی ہوتے ہیں جو بہشتی ہونے کی حالت میں بہشتی انوار اپنے ساتھ رکھتے ہیں.انہیں کی طرف اللہ جل شانہ فرماتا ہے نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ ایسا ہی دوزخی ہونے کی حالت میں اعلیٰ درجہ کے کفار ہوتے ہیں کہ قبل اس کے جو کامل طور پر دوزخ میں پڑیں اُن کے دلوں پر دوزخ کی آگ بھڑکائی جاتی ہے جیسا کہ اللہ جل کھائے فرماتا ہے نَارُ اللهِ الْمُوقَدَةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْئِدَة ( الهمزة : ٨٠٧) (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۸۴)

Page 49

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲ سورة التحريم تو به دراصل حصولِ اخلاق کے لئے بڑی محرک اور موید چیز ہے اور انسان کو کامل بنادیتی ہے یعنی جو شخص اپنے اخلاق سیئہ کی تبدیلی چاہتا ہے اُس کے لئے ضروری ہے کہ بچے دل اور پکے ارادے کے ساتھ تو بہ کرے.یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ تو بہ کے لیے تین شرائط ہیں.ہدوں ان کی تکمیل کے سچی توبہ جسے تَوْبَةُ النُّصوح کہتے ہیں حاصل نہیں ہوتی.ان ہر سہ شرائط میں سے پہلی شرط جسے عربی زبان میں اقلاع کہتے ہیں.یعنی ان خیالات فاسدہ کو دور کر دیا جاوے جوان خصائل رڈیہ کے محرک ہیں.اصل بات یہ ہے کہ تصورات کا بڑا بھاری اثر پڑتا ہے کیونکہ حیطہ عمل میں آنے سے پیشتر ہر ایک فعل ایک تصوری صورت رکھتا ہے.پس تو بہ کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ ان خیالات فاسد و تصورات بد کو چھوڑ دے.مثلاً اگر ایک شخص کسی عورت سے کوئی ناجائز تعلق رکھتا ہو تو اسے تو بہ کرنے کے لئے پہلے ضروری ہے کہ اس کی شکل کو بدصورت قرار دے اور اس کی تمام خصائل رذیلہ کو اپنے دل میں مستحضر کرے.کیونکہ جیسا میں نے ابھی کہا ہے.تصورات کا اثر بہت زبر دست اثر ہے اور میں نے صوفیوں کے تذکروں میں پڑھا ہے کہ انہوں نے تصور کو یہاں تک پہنچایا کہ انسان کو بندر یا خنزیر کی صورت میں دیکھا.غرض یہ ہے کہ جیسا کوئی تصور کرتا ہے.ویسا ہی رنگ چڑھ جاتا ہے.پس جو خیالات بدلذات کا موجب سمجھے جاتے تھے ان کا قلع قمع کرے.یہ پہلی شرط ہے.دوسری شرط عدم ہے یعنی پشیمانی اور ندامت ظاہر کرنا.ہر ایک انسان کا کانشنس اپنے اندر یہ قوت رکھتا ہے کہ وہ اس کو ہر برائی پر متنبہ کرتا ہے.مگر بد بخت انسان اس کو معطل چھوڑ دیتا ہے.پس گناہ اور بدی کے ارتکاب پر پشیمانی ظاہر کرے اور یہ خیال کرے کہ یہ لذات عارضی اور چند روزہ ہیں اور پھر یہ بھی سوچے کہ ہر مرتبہ اس لذت اور حفظ میں کمی ہوتی جاتی ہے.یہاں تک کہ بڑھاپے میں آکر جبکہ قومی بیکار اور کمزور ہو جاویں گے.آخر ان سب لذات دنیا کو چھوڑنا ہو گا.پس جبکہ خود زندگی ہی میں یہ سب باتیں چھوٹ جانے والی ہیں تو پھر ان کے ارتکاب سے کیا حاصل؟ بڑا ہی خوش قسمت ہے وہ انسان جو تو بہ کی طرف رجوع کرے اور جس میں اول اقلاع کا خیال پیدا ہو یعنی خیالات فاسدہ و تصورات بیہودہ کو قلع و قمع کرے.جب یہ نجاست اور نا پا کی نکل جاوے تو پھر نادم ہوا اور اپنے کئے پر پشیمان ہو.تیسری شرط عزم ہے.یعنی آئندہ کے لئے مصمم ارادہ کر لے کہ پھر ان برائیوں کی طرف رجوع نہ کرے گا اور جب وہ مداومت کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے سچی توبہ کی توفیق عطا کرے گا.یہاں تک کہ وہ

Page 50

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳ سورة التحريم سیئات اس سے قطعا زائل ہو کر اخلاق حسنہ اور افعال حمیدہ اس کی جگہ لے لیں گے اور یہ فتح ہے اخلاق پر.اس پر قوت اور طاقت بخشا اللہ تعالیٰ کا کام ہے.کیونکہ تمام طاقتوں اور قوتوں کا مالک وہی ہے.جیسے فرما یا اَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا - رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۱۵۸،۱۵۷) انسان کو چاہئے کہ اگر تو بہ کرے تو خالص تو بہ کرے.توبہ اصل میں رجوع کو کہتے ہیں.صرف الفاظ ایک قسم کی عادت ہو جاتی ہے.اس لئے خدا تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ صرف زبان سے تو بہ تو بہ کرتے پھرو بلکہ فرمایا کہ خدا کی طرف رجوع کرو جیسا کہ حق ہے رجوع کرنے کا کیونکہ جب متناقض جہات میں سے ایک کو چھوڑ کر انسان دوسری طرف آجاتا ہے تو پھر پہلی جگہ دور ہوتی جاتی ہے اور جس کی طرف جاتا ہے وہ نزدیک ہوتی جاتی ہے.یہی مطلب تو بہ کا ہے کہ جب انسان خدا کی طرف رجوع کر لیتا ہے اور دن بدن اس کی طرف چلتا ہے تو آخر یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ شیطان سے دور ہو جاتا ہے.اور خدا کے نزدیک ہوجاتا ہے اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جو جس کے نزدیک ہوتا ہے اس کی بات سنتا ہے اس لیے ایسے انسان پر جو عملی طور پر شیطان سے دور اور خدا سے نزدیک ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ کے فیوض اور برکات کا نزول ہوتا ہے اور سفلی آلائشوں کا گند اُس سے دھویا جاتا ہے جیسے آگے فرمایا.عسى رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيَأْتِكُم کیونکہ تو بہ میں ایک خاصیت ہے کہ گذشتہ گناہ اس سے بخشے جاتے ہیں.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴ مورخه ۱۴ جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۲) ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللهِ شَيْئًا وَ قِيلَ ادْخُلَا الرَ مَعَ اللهِ خِلِينَ وَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ آمَنُوا امْرَاتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجْنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ ) وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمانَ الَّتِى اَحْصَنَتُ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِنْ رُوحِنَا وَ صَدَّقَتْ بِكَلِمَتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَنِتِينَ.انظُرُوا كَيْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلَ دیکھو اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں کس طرح مریم لا

Page 51

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴ سورة التحريم مَرْيَمَ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ فِي هَذِهِ السُّورَةِ، وَوَعَدَ في عليها السلام کی مثال اس امت کے لئے بیان کی ہے هذِهِ الْحُلَّةِ أَنَّ ابْنَ مَرْيَمَ مِنْكُمْ عِنْدَ التَّقَاةِ اور اس لباس میں وعدہ فرمایا ہے کہ ابن مریم کامل الْكَامِلَةِ.وَكَانَ مِنَ الْوَاجِبِ لِتَحْقِيقِ هَذَا متقیوں کے نزدیک تمہیں میں سے ہوگا.اس آیت الْمَثَلِ الْمَذْكُورِ فِي هَذِهِ الْآيَةِ بِأَنْ يَكُونَ میں مثال مذکورہ کے متحقق ہونے کے لئے ضروری تھا فَرْدْ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ که ای امت کا ایک فرد عیسی بن مریم ہوتا.یہ مثال لِيَتَحَقِّقَ الْمَقلُ في الخارج مِنْ غَيْرِ الشَّكِ خارج میں بھی بلا شک وشبہ متفق ہو ورنہ یہ مثال عبث وَالشُّبْهَةِ، وَإِلَّا فَيَكُونُ هَذَا الْمَثَلُ عَبَقًا اور جھوٹ ہوگی جس کا مصداق اس امت کے افراد وَكِنْبًا لَيْسَ مِصْدَاقَهُ فَرْدْ مِنْ أَفَرَادِ هذہ میں سے کوئی نہیں ہوگا اور یہ ایسی بات ہے جو خدائے الْمِلَّةِ، وَذَالِكَ مِمَّا لَا يَلِيقُ بِشَأْنِ حَضْرَةِ قدوس اور رب العزت کی شان کے شایان نہیں.التَّقَدسِ وَالْعِزَّةِ (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۳۱۰) (ترجمه از مرتب) ہمارے مخالف مولوی لوگوں کو دھوکہ دے کر یہ کہا کرتے ہیں کہ قرآن شریف سے اگر چہ نہیں مگر حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئیں گے.مگر ہمیں معلوم نہیں کہ حدیثوں میں کہاں اور کس جگہ لکھا ہے کہ وہی اسرائیلی نبی جس کا عیسی نام تھا جس پر انجیل نازل ہوئی تھی باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے کے پھر دنیا میں آجائے گا.اگر صرف عیسی یا ابن مریم کے نام پر دھوکہ کھانا ہے تو قرآن کریم کی سورۃ تحریم میں اس امت کے بعض افراد کا نام عیسی اور ابن مریم رکھ دیا گیا ہے.ایماندار کے لئے اس قدر کافی ہے کہ اس امت کے بعض افراد کا نام بھی عیسی یا ابن مریم رکھا گیا ہے کیونکہ جب خدا تعالیٰ نے سورۂ موصوفہ میں بعض افراد امت کو مریم سے مشابہت دی اور پھر اس میں نفخ روح کا ذکر کیا تو صاف ظاہر ہے کہ وہ روح جو مریم میں پھونکی گئی وہ عیسی تھا.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس اُمت کا کوئی فرداول اپنے خدا داد تقویٰ کی وجہ سے مریم بنے گا اور پھر عیسی ہو جائے گا.جیسا کہ براہین احمدیہ میں خدائے تعالیٰ نے پہلے میرا نام مریم رکھا اور پھر نفخ روح کا ذکر کیا اور پھر آخر میں میرا نام عیسی رکھ دیا.(تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۱، ۲۲) وَكَذَالِكَ أَشِيْرَالَى الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ قرآن کریم میں سورۃ تحریم میں مسیح موعود کی طرف

Page 52

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵ سورة التحريم فِي الْكِتَابِ الْكَرِيمِ أغنى في سُورَة اشارہ کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کا وہ قول یہ ہے کہ التَّحْرِيمِ وَهُوَ قَوْلُهُ تَعَالَى وَ مَرْيَمَ ابْنَتَ وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتُ فَرْجَهَا فَنَفَخُنَا عمان التى أحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيْهِ مِنْ فِيْهِ مِنْ رُوحِنَا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس آیت رُّوحِنَا وَلَاشَكَ أَنَّ الْمُرَادَ مِنَ الرُّوح میں روح سے مراد عیسی بن مریم ہے اور آیت کا مطلب هُهُنَا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ فَحَاصِلُ الْآيَةِ آن یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ اس اُمت اللهَ وَعَدَانَّهُ يَجْعَلُ الحَشَى النَّاسِ مِن هذہ میں سب سے زیادہ خشیت اللہ رکھنے والے فرد کو مسیح ابن الْأُمَّةِ مَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَ يُنْفِخُ فِيْهِ مریم بنائے گا اور اس میں بروزی طور پر اپنی روح رُوحَهُ بِطَرِيقِ الْبُرُوزِ فَهَذِهِ وَعَد من الله فی پھونکے گا اور یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ مثال کی صورت میں صُورَةِ الْمَثَلِ لِانْقَى النَّاسِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ مسلمانوں میں سے سب سے زیادہ تقویٰ رکھنے والے فَانْظُرْ كَيْفَ سَمَّى اللهُ بَعْضَ افَرَادِ هذِهِ کے لئے ہے.پس دیکھ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اس امت کے بعض افراد کا نام عیسی بن مریم رکھ دیا ہے.(ترجمه از مرتب) الْأُمَّةِ عِيسَى بْن مَرْيَمَ (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۲۸۳ حاشیه) وَقَد وَعَدَ اللهُ الْمُؤْمِنِينَ فِي سُورَةِ اللہ تعالیٰ نے سورۃ تحریم میں اپنے قول فَنَفَخُنَا التَّحْرِيمِ في قَوْلِهِ فَنَفَخْنَا فِيْهِ مِنْ رُوحِنَا أَن فِيهِ مِنْ رُوحِنا میں مومنوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ان يَخلُقَ ابْنَ مَرْيَمَ مِنْهُمْ، وَهُوَ يَرِثُ هَذَا میں سے ابن مریم پیدا کرے گا اور وہ شخص اس نام کا الْاِسْمَ وَيَكُونُ عِيسَى مِنْ غَيْرِ فَرْقٍ في وارث ہوگا اور وہ ماہیت میں بغیر کسی فرق کے عیسی ہوگا.الْمَاهِيَّةِ، فَقَدْ تَقَرَّرَ في هَذِهِ الْآيَةِ وَعْدًا من پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ پختہ وعدہ کیا الله أَن فَرْدًا مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ يُسمّى ابن گیا ہے کہ اس امت میں سے ایک فرد کا نام ابن مریم رکھا مَرْيَمَ وَيُنْفَخُ فِيْهِ رُوحُهُ بَعْدَ التَّفَاقِ جائے گا اور اس میں کامل تقوی کے بعد مسیح کی روح پھونکی التّامَّةِ فَأَنَا ذَالِكَ الْمَسِيحُ الَّذِي لُمْتُمُونِی جائے گی سو میں ہی وہ مسیح ہوں جسے تم اس کے دعوئی کے فِيهِ، وَلَا مُبدِّلَ لِكَلِمَاتِ الله ذی الجبروت بارہ میں ملامت کر رہے ہو اور خدائے ذوالجبروت والعزة وَالْعِزَّةِ.أَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ مِنْ وَعْدِ اللهِ أَنْ کے کلمات کو کوئی تبدیل کرنے والا نہیں.کیا تم اللہ تعالیٰ تَكُونُوا يَهُوْدًا كَيَهُودِ أُمَّةٍ مُوسَى فِي الْخَبثِ کے وعدہ میں سے یہ حصہ لینا پسند کرتے ہو کہ تم موسیٰ کی فِي

Page 53

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶ سورة التحريم وَالتَّمُرُّدِ الْعَظِيمِ، وَلَا تُرِيدُونَ أَن قوم کی مانند سرکشی اور خبیث میں تو یہود کی مانند ہو جاؤ لیکن تم یہ يَكُونَ الْمَسِيحُ مِنْكُمْ كَمَسِيحِ نہیں چاہتے سلسلہ کلیم کے مسیح کی مانند تم میں سے کوئی فرد مسیح سِلْسِلَةِ الْكَلِيمِ.بن جائے.تم پر افسوس تم نے شہر میں تو مماثلت کو پسند کیا لیکن مخطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۰۹) خیر میں تم مثیل بنا پسند نہیں کرتے.( ترجمہ از مرتبہ ) سورہ تحریم میں اشارہ کیا گیا ہے کہ بعض افراد اس امت کے ابن مریم کہلائیں گے کیونکہ اول مریم سے اُن کو تشبیہ دے کر پھر مریم کی طرح نفخ رُوح اُن میں بیان کیا گیا ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اول وہ مریمی وجود لے کر اور اس سے ترقی کر کے پھر ابن مریم بن جائیں گے.جیسا کہ براہین احمدیہ میں خدا تعالیٰ نے اپنی وحی میں اوّل میرا نام مریم رکھا اور فرمایا يَا مَرْيَمُ اسْكُنُ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ - يعنى اے مریم تو اور تیرے دوست بہشت میں داخل ہو جاؤ.اور پھر فرمایا يَا مَرْيَمُ نَفَخْتُ فِيْكَ مِنْ رُّوحِ الصِّدْقِ یعنی اے مریم میں نے صدق کی رُوح تجھے میں پھونک دی ( گویا استعارہ کے رنگ میں مریم صدق سے حاملہ ہوگئی ) اور پھر آخر میں فرمایا يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى یعنی اے عیسی ! میں تجھے وفات دوں گا اور اپنی طرف اُٹھاؤں گا.پس اس جگہ مریمی مقام سے مجھے منتقل کر کے میرا نام عیسی رکھا گیا اور اس طرح پر ابن مریم مجھے ٹھہرایا گیا تاوہ وعدہ جو سورہ تحریم میں کیا گیا تھا پورا ہو.لیکچر لاہور ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۸۷،۱۸۶) یہ قرآنی دعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے قبول ہو کر اخیار وابرار مسلمان بالخصوص ان کے کامل فردا نبیاء بنی اسرائیل کے وارث ٹھہرائے گئے اور دراصل مسیح موعود کا اس امت میں سے پیدا ہونا یہ بھی اسی دعا کی قبولیت کا نتیجہ ہے کیونکہ گوشفی طور پر بہت سے اختیار و ابرار نے انبیاء بنی اسرائیل کی مماثلت کا حصہ لیا ہے مگر اس اُمت کا مسیح موعود کھلے کھلے طور پر خدا کے حکم اور اذن سے اسرائیلی مسیح کے مقابل کھڑا کیا گیا ہے تا موسوی اور محمدی سلسلہ کی مماثلت سمجھ آ جائے اسی غرض سے اس مسیح کو ابن مریم سے ہر ایک پہلو سے تشبیہ دی گئی ہے یہاں تک کہ اس ابن مریم پر ابتلا بھی اسرائیلی ابن مریم کی طرح آئے اول جیسا کہ عیسی ابن مریم محض خدا کے نفح سے پیدا کیا گیا اسی طرح یہ مسیح بھی سورۃ تحریم کے وعدہ کے موافق محض خدا کے نفخ سے مریم کے اندر سے پیدا کیا گیا اور جیسا کہ عیسی ابن مریم کی پیدائش پر بہت شور اُٹھا اور اندھے مخالفوں نے مریم کو کہا لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَریا (مریم :۲۸) اسی طرح اس جگہ بھی کہا گیا اور شور قیامت مچایا گیا اور جیسا

Page 54

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷ سورة التحريم کہ خدا نے اسرائیلی مریم کے وضع حمل کے وقت مخالفوں کو عیسی کی نسبت یہ جواب دیا وَ لِنَجْعَلَةُ آيَةٌ لِلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِنَّا وَ كَانَ أَمْرًا مَقْضِيًّا ( مریم : ۲۲ ) یہی جواب خدا تعالیٰ نے میری نسبت براہین احمدیہ میں روحانی وضع حمل کے وقت جو استعارہ کے رنگ میں تھا مخالفوں کو دیا اور کہا کہ تم اپنے فریبوں سے اس کو نا بود نہیں کر سکتے میں اس کو لوگوں کے لئے رحمت کا نشان بناؤں گا اور ایسا ہونا ابتدا سے مقدر تھا.(کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۵۳،۵۲) ایک اور نکتہ یادر کھنے کے لائق ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ وحی یعنی ھذى إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تَسْقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جنیا یہ حضرت مریم کو اس وقت وہی ہوئی تھی کہ جب ان کا لڑ کا عیسی علیہ السلام پیدا ہوا تھا اور وہ کمزور لڑکا ہوئی تھیں اور خدا تعالیٰ نے اسی کتاب براہین احمدیہ میں میرا نام بھی مریم رکھا اور مریم صدیقہ کی طرح مجھے بھی حکم دیا کہ وَكُنْ مِنَ الصَّالِحِينَ الصَّدِيقِينَ.دیکھوص ۲۴۲ براہین احمدیہ.پس یہ میری وحی یعنی ه اليك اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ صدیقیت کا جو حمل تھا اس سے بچہ پیدا ہوا جس کا نام عیسی رکھا گیا اور جب تک وہ کمزور رہا صفات مریمیہ اس کی پرورش کرتی رہیں اور جب وہ اپنی طاقت میں آیا تو اس کو پکارا يا يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى دیکھو صفحه ۵۵۶ براہین احمدیہ.یہ وہی وعدہ تھا جو سورہ تحریم میں کیا گیا اور ضرور تھا کہ اس وعدہ کے موافق اس امت میں سے کسی کا نام مریم ہوتا اور پھر اس طرح پر ترقی کر کے اس سے عیسی پیدا ہوتا اور وہ ابن مریم کہلا تاسو وہ میں ہوں.وحی ھر مٹی اليك مریم کو بھی ہوئی اور مجھے بھی مگر با ہم فرق یہ ہے کہ اس وقت مریم ضعف بدنی میں مبتلا تھی اور میں ضعف مالی میں مبتلا تھا.( نزول المسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۴۱٬۵۴۰) کتاب براہین احمدیہ میں اول خدا نے میرا نام مریم رکھا اور پھر فرمایا کہ میں نے اس مریم میں صدق کی رُوح پھونکنے کے بعد اس کا نام عیسی رکھ دیا گویا مریمی حالت سے عیسی پیدا ہو گیا اور اس طرح میں خدا کے کلام میں ابن مریم کہلایا.اس بارہ میں قرآن شریف میں بھی ایک اشارہ ہے اور وہ میرے لئے بطور پیشگوئی کے ہے.یعنی اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اس اُمت کے بعض افراد کو مریم سے تشبیہ دیتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ وہ مریم عیسی سے حاملہ ہوگئی اور اب ظاہر ہے کہ اس اُمت میں بجز میرے کسی نے اس بات کا دعویٰ نہیں کیا کہ میرا نام خدا نے مریم رکھا اور پھر اس مریم میں عیسیٰ کی روح پھونک دی ہے اور خدا کا کلام باطل نہیں ضرور ہے کہ اس اُمت میں کوئی اس کا مصداق ہو.اور خوب غور کر کے دیکھ لو اور دنیا میں تلاش کر لو کہ قرآن شریف کی اس

Page 55

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸ سورة التحريم آیت کا بجز میرے کوئی دنیا میں مصداق نہیں.پس یہ پیشگوئی سورہ تحریم میں خاص میرے لئے ہے اور وہ آیت یہ ہے وَ مَرْيَمَ ابْنَتَ عِمانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِنْ رُوحِنا دیکھو سوره تحريم الجز و نمبر ۲۸ (ترجمہ) اور دوسری مثال اس اُمت کے افراد کی مریم عمران کی بیٹی ہے جس نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا تب ہم نے اُس کے پیٹ میں اپنی قدرت سے روح پھونک دی یعنی عیسی کی روح.اب ظاہر ہے کہ بموجب اس آیت کے اس اُمت کی مریم کو پہلی مریم کے ساتھ تب مشابہت پیدا ہوتی ہے کہ اس میں بھی عیسی کی روح پھونک دی جائے جیسا کہ خدا نے خود روح پھونکنے کا ذکر بھی اس آیت میں فرما دیا ہے اور ضرور ہے کہ خدا کا کلام پورا ہو.پس اس تمام اُمت میں وہ میں ہی ہوں میرا ہی نام خدا نے براہین احمدیہ میں پہلے مریم رکھا اور بعد اس کے میری ہی نسبت یہ کہا کہ ہم نے اس مریم میں اپنی طرف سے روح پھونک دی اور پھر روح ۱۳۰۰ پھونکنے کے بعد مجھے ہی میسی قرار دیا.پس اس آیت کا میں ہی مصداق ہوں.میرے سوا تیرہ سو برس میں کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ پہلے خدا نے میرا نام مریم رکھا اور مریم میں اپنی طرف سے روح پھونک دی جس سے میں عیسی بن گیا.خدا سے ڈرو اور اس میں غور کرو جس زمانہ میں خدا نے براہین احمدیہ میں یہ فرمایا اُس وقت تو میں اس دقیقہ معرفت سے خود بے خبر تھا جیسا کہ میں نے براہین احمدیہ میں اپنا عقیدہ بھی ظاہر کر دیا کہ عیسی آسمان سے آنے والا ہے.یہ میرا عقیدہ اس بات پر گواہ ہے کہ میری طرف سے کوئی افتر انہیں اور میں خدا کی تفہیم سے پہلے کچھ نہیں سمجھ سکا.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۵۱،۳۵۰ حاشیه ) یہ نکتہ بھی یادر کھنے کے لائق ہے کہ خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں مجھے عیسی کے نام سے موسوم کرنے سے پہلے میرا نام مریم رکھا اور ایک مدت تک میرا نام خدا کے نزدیک یہی رہا اور پھر خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ اے مریم میں نے تجھ میں سچائی کی رُوح پھونک دی گویا یہ مریم سچائی کی روح سے حاملہ ہوئی اور پھر خدا نے براہین احمدیہ کے اخیر میں میرا نام عیسی رکھ دیا گویا وہ سچائی کی روح جو مریم میں پھونکی گئی تھی ظہور میں آکر عیسی کے نام سے موسوم ہو گئی.پس اس طرح پر میں خدا کی کلام میں ابن مریم کہلایا اور یہی معنی اِس وحی الہی کے ہیں کہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ.(حقیقة الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۵۱، ۳۵۲) قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے مومن کی دو مثالیں بیان فرمائی ہیں.ایک مثال فرعون کی عورت سے ہے جو کہ اس قسم کے خاوند سے خدا کی پناہ چاہتی ہے.یہ ان مومنوں کی مثال ہے جو نفسانی جوش کے آگے گر

Page 56

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹ سورة التحريم جاتے ہیں اور غلطیاں کر بیٹھتے ہیں پر پچھتاتے ہیں تو بہ کرتے ہیں خدا سے پناہ مانگتے ہیں.ان کا نفس فرعون سے خاوند کی طرح ان کو تنگ کرتا رہتا ہے.وہ لوگ نفس لوامہ رکھتے ہیں بدی سے بچنے کے لئے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں.دوسرے مومن وہ ہیں جو اس سے اعلیٰ درجہ رکھتے ہیں.وہ صرف بدیوں سے ہی نہیں بچتے بلکہ نیکیوں کو حاصل کرتے ہیں ان کی مثال اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم سے دی ہے.اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهَا مِنْ رُوحِنَا (الانبیاء :۹۲) ہر ایک مومن جو تقویٰ و طہارت میں کمال پیدا کرے وہ بروزی طور پر مریم ہوتا ہے اور خدا اس میں اپنی روح پھونک دیتا ہے.جو کہ ابن مریم بن جاتی ہے.زمخشری نے بھی اس کے یہی معنی کیے ہیں کہ یہ آیت عام ہے.اور اگر یہ معنی نہ کیے جاویں تو حدیث شریف میں آیا ہے کہ مریم اور ابن مریم کے سوا میں شیطان سے کوئی محفوظ نہیں.اس سے لازم آتا ہے کہ نعوذ باللہ تمام انبیاء پر شیطان کا دخل تھا.پس در اصل اس آیت میں بھی اشارہ ہے کہ ہر مومن جو اپنے تئیں اس کمال کو پہنچائے ، خدا کی روح اس میں پھونکی جاتی ہے اور وہ ابن مریم بن جاتا ہے اور اس میں ایک پیش گوئی ہے کہ اس امت میں ابن مریم پیدا ہو گا.تعجب ہے کہ لوگ اپنے بیٹوں کا نام محمد اور عیسی اور موسیٰ اور یعقوب اور اسحاق اور اسماعیل اور ابراہیم رکھ لیتے ہیں اور اس کو جائز جانتے ہیں پر خدا کے لئے جائز نہیں جانتے کہ وہ کسی کا نام عیسی یا ابن مریم رکھ الحکم جلد ۵ نمبر ۲۸ مورخه ۳۱ جولائی ۱۹۰۱ صفحه ۴) دیں.اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس میں دو قسم کی عورتوں سے مثال دی ہے.اوّل فرعون کی بیوی سے اور ایک مریم سے.پہلی مثال میں یہ بتایا ہے کہ ایک مومن اس قسم کے ہوتے ہیں جو ابھی اپنے جذبات نفس کے پنجے میں گرفتار ہوتے ہیں اور ان کی بڑی آرزو اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ خدا ان کو اس سے نجات دے.یہ مومن فرعون کی بیوی کی طرح ہوتے ہیں کہ وہ بھی فرعون سے نجات چاہتی تھی مگر مجبور تھی.لیکن جو مومن اپنے تئیں تقویٰ اور طہارت کے بڑے درجہ تک پہنچاتے ہیں اور احصانِ فرج کرتے ہیں تو پھر خدا تعالیٰ ان میں عیسیٰ کی روح نفخ کر دیتا ہے.نیکی کے یہ دو مرتے ہیں جو مومن حاصل کر سکتا ہے مگر دوسرا وہ بہت بڑھ کر ہے کہ اس میں نفخ روح ہو کر وہ عیسی بن جاتا ہے یہ آیت صاف اشارہ کرتی ہے کہ اس امت میں کوئی شخص مریم صفت ہوگا کہ اس میں نفخ روح ہو کر عیسی بنا دیا جاوے گا.اب کوئی عورت تو ایسی ہے نہیں اور نہ کسی عورت کے متعلق پیشگوئی ہے.اس لئے صاف ظاہر ہے کہ اس سے یہی مراد ہے کہ اس امت میں ایک ایسا انسان ہوگا جو پہلے اپنے تقویٰ وطہارت اور احصان و عفت کے لحاظ سے صفت مریمیت سے موصوف ہوگا اور پھر

Page 57

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة التحريم اس میں نفخ روح ہو کر صفات عیسوی پیدا ہوں گی.اب اس کی کیفیت اور لطافت براہین احمدیہ سے معلوم ہوگی کہ پہلے میرا نام مریم رکھا.پھر اس میں روح صدق نفخ کر کے مجھے عیسی بنایا.مومنوں کی جو یہ دو مثالیں بیان کی گئی ہیں.وہ اس آیت سے بھی معلوم ہوتی ہیں.الحکم جلد نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۱۰) امت کی دو ہی قسم ہیں ایک فرعون کی بیوی اور دوسرے مریم بنت عمران اور اسی کی طرف اس آیت میں ج E و صم اشارہ ہے مِنْهُمْ ظَالِمُ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْراتِ (فاطر : ۳۳) ظالم سے مراد وہ لوگ ہیں جو کہ نفس امارہ کے تابع ہیں کہ جس راہ پر نفس نے ڈالا اسی راہ پر چل پڑے اور وہ صح بکھ کی طرح ہوتے ہیں اور ان کی مثال بہائم کی ہے اس لئے کسی مد میں نہیں آسکتے اور یہ کثرت سے ہوتے ہیں.پھر ان کے بعد نفس تو امہ والے جو کہ فرعون کی بیوی ہیں یعنی ان کو نفس ہمیشہ ملامت کرتا رہتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ امارہ سے ان کو آزادی ملے.یہ کم ہوتے ہیں اور پھر ان سے کم نفس مطمئنہ والے یعنی مریم بنت عمران.جس زمانے کا وعدہ خدا نے کیا ہوا تھا کہ ضرور تھا کہ اس میں ایک نفس مریم کی طرح ہوتا اور اس زمانے میں خدا نے فیہ میں ضمیر مذکر کی استعمال کی ہے تا کہ اشارہ اس طرف ہو کہ ایک مرد ہو گا جو صفات مریمیت حاصل کر کے عیسی ہوگا.البدر جلد ۲ نمبر ۳ مورخه ۶ رفروری ۱۹۰۳ ء صفحه ۲۰) خدا کی کتب میں نبی کے ماتحت اُمت کو عورت کہا جاتا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں ایک جگہ نیک بندوں کی تشبیہ فرعون کی عورت سے دی گئی ہے اور دوسری جگہ عمران کی بیٹی سے مشابہت دی گئی ہے.اناجیل میں بھی مسیح کو دولہا اور امت کو دلہن قرار دیا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ امت کے واسطے نبی کی ایسی ہی اطاعت لازم ہے جیسی کہ عورت کو مرد کی اطاعت کا حکم ہے.البدر جلد نمبر ۲۳ مورخه ۷ استمبر ۱۹۰۵ء صفحه ۲) ان (کرشن.ناقل ) کے متعلق جو گو پہیوں کی کثرت مشہور ہے اصل میں ہمارے خیال میں بات یہ ہے کہ اُمت کی مثال عورت سے بھی دی جاتی ہے.چنانچہ قرآن شریف سے بھی اس کی نظیر ملتی ہے.جیسا کہ فرماتا ہے.ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ الح - یہ ایک نہایت ہی بار یک رنگ کا لطیف استعارہ ہوتا ہے.اُمت میں جو ہر صلاحیت ہوتا ہے اور نبی اور اُمت کے تعلق سے بڑے بڑے حقائق معارف اور فیضان کے چشمے پیدا ہوتے ہیں اور نبی اور اُمت کے سے تعلق سے وہ نتائج پیدا ہوتے ہیں جن سے خدائی فیضان اور رحم کا جذب ہوتا ہے پس کرشن اور گوپیوں کے ظاہری قصہ کی تہہ میں ہمارے خیال میں

Page 58

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہی راز حقیقت یہناں ہے.۳۱ سورة التحريم الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۷ مورخه ۶ / مارچ ۱۹۰۸ء صفحه ۸) أحْصَنَتُ فَرْجھا کے متعلق اس اعتراض کے جواب میں کہ یہ تہذیب کے خلاف ہے فرمایا کہ ) جو خدا تعالیٰ کو خالق سمجھتے ہیں تو کیا اس خلق کو لغو اور باطل قرار دیتے ہیں جب اس نے ان اعضا کو خلق کیا اس وقت تہذیب نہ تھی خالق مانتے ہیں اور خلق پر اعتراض نہیں کرتے تو پھر اس ارشاد پر اعتراض کیوں؟ دیکھنا یہ ہے کہ زبان عرب میں اس لفظ کا استعمال ان کے عرف کے نزدیک کوئی خلاف تہذیب امر ہے جب نہیں تو دوسری زبانوں والوں کا حق نہیں کہ اپنے عرف کے لحاظ سے اسے خلاف تہذیب ٹھہرائیں.ہر سوسائٹی کے عرفی الفاظ اور مصطلحات الگ الگ ہیں اور تہذیب اور خلاف تہذیب امورا الگ.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۰)

Page 59

Page 60

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٣ سورة الملك اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الملك بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ الَّذِى خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيوة لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ ودو الغفور دنیا کی کامیابیاں ابتلا سے خالی نہیں ہوتی ہیں.قرآن شریف میں آیا ہے خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيوة لِيَبْلُوَكُمْ یعنی موت اور زندگی کو پیدا کیا تا کہ ہم تمہیں آزمائیں، کامیابی اور نا کامی بھی زندگی اور موت کا سوال ہوتا ہے.کامیابی ایک قسم کی زندگی ہوتی ہے.جب کسی کو اپنے کامیاب ہونے کی خبر پہنچتی ہے تو اس میں جان پڑ جاتی ہے اور گو یا نئی زندگی ملتی ہے اور اگر نا کامی کی خبر آجائے تو زندہ ہی مرجاتا ہے اور بسا اوقات بہت سے کمزور دل آدمی ہلاک بھی ہو جاتے ہیں.انحام جلد ۵ نمبر ۲۳ مورخه ۲۴ جون ۱۹۰۱ صفحه اول ) وَ لَقَد زَيَّنَا السَّمَاءِ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَهَا رُجُومًا لِلشَّيطِيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيرِ.ہم نے سماء الدنیا کوستاروں کے ساتھ زینت دی ہے اور ستاروں کو ہم نے رجم شیاطین کے لیے ذریعہ ٹھہرایا ہے اور پہلے اس سے نص قرآنی سے ثابت ہو چکا ہے کہ آسمان سے زمین تک ہر یک امر کے مقسم اور مدبر

Page 61

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴ سورة الملك فرشتے ہیں اور اب یہ قول اللہ جل شانہ کا کہ شہب ثاقبہ کو چلانے والے وہ ستارے ہیں جو سماء الدنیا میں ہیں بظاہر منافی اور مبائن ان آیات سے دکھائی دیتا ہے جو فرشتوں کے بارے میں آئی ہیں لیکن اگر بنظر غور دیکھا جائے تو کچھ منافی نہیں کیونکہ ابھی ہم ذکر کر چکے ہیں کہ قرآن کریم کی تعلیم سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ فرشتے آسمان اور آسمانی اجرام کے لیے بطور جان کے ہیں اور ظاہر ہے کہ کسی شے کی جان اس شے سے جدا نہیں ہوتی.اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے بعض مقامات میں رمی شہب کا فاعل فرشتوں کو ٹھہرایا اور بعض دوسرے مقامات میں اسی رمی کا فاعل ستاروں کو ٹھہرا دیا کیونکہ فرشتے ستاروں میں اپنا اثر ڈالتے ہیں جیسا کہ جان بدن میں اپنا اثر ڈالتی ہے تب وہ اثر ستاروں سے نکل کر ان ارضی بخارات پر پڑتا ہے جو شہاب بننے کے لائق ہوتے ہیں تو وہ فی الفور قدرت خدا تعالیٰ سے مشتعل ہو جاتے ہیں اور فرشتے ایک دوسرے رنگ میں شہب ثاقبہ سے تعلق پکڑ کر اپنے نور کے ساتھ یمین اور بیسار کی طرف ان کو چلاتے ہیں اور اس بات میں تو کسی فلسفی کو کلام نہیں کہ جو کچھ کا ئنات الجو یا زمین میں ہوتا ہے عمل ابتدائی ان کے نجوم اور تاثیرات سماویہ ہی ہوتی ہیں.ہاں اس دوسرے دقیق بھید کو ہر ایک شخص نہیں سمجھ سکتا کہ مجوم کے قومی فرشتوں سے فیض یاب ہیں اس بھید کو اول قرآن کریم نے ظاہر فرمایا اور پھر عارفوں کو اس طرف توجہ پیدا ہوئی.غرض اس آیت سے بھی منقولی طور پر یہی ثابت ہوا کہ فرشتے نجوم اور آسمانی قومی کے لیے جان کی طرح ہیں اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے قران کریم میں کبھی نجوم کا فعل فرشتوں کی طرف منسوب کیا ہے اور کبھی فرشتوں کا فعل نجوم کی طرف منسوب کر دیا ہے بات یہ ہے کہ جب کہ قرآن کریم کی تعلیم کی رو سے فرشتے نجوم اور شمس اور قمر اور آسمان کے لیے جان کی طرح ہیں اور قیام اور بقا ان تمام چیزوں کا فرشتوں کے تعلق پر موقوف ہے.اور ان کے ارجاء کی طرف کھسک جانے سے تمام اجرام ستاروں اور شمس و قمر اور آسمان کو موت کی صورت پیش آتی ہے تو پھر اس صورت میں وہ جان کی طرح ہوئے یا کچھ اور ہوئے.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۴۰ تا ۱۴۴ حاشیه ) چونکہ رجم کی خدمت فرشتے کرتے ہیں نہ کہ ستارےلہذا اسی سے قطعی طور پر ثابت ہوا کہ ہر یک ستارے پر ایک فرشتہ مؤکل ہے اور چونکہ فرشتے ستاروں کے لئے بوجہ شدت تعلق جان کی طرح ہیں اس لئے اس آیت میں فرشتوں کا فعل ستاروں کی طرف منسوب کیا گیا.فتند بر.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۷۷ نوٹ )

Page 62

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵ سورة الملك دو، تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ كُلَّمَا ألْقِيَ فِيهَا فَوج سَالَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمُ نَذِيرُه قَالُوا بَلَى قَدْ جَاءَنَا نَذِيرٌ فَكَذَّبُنَا وَ قُلْنَا مَا نَزَّلَ اللهُ مِنْ شَيْءٍ إِنْ انْتُم الا في ضَلل كبيره اور جب دوزخ میں کوئی فوج کافروں کی پڑے گی تو جو فرشتے دوزخ پر مقرر ہیں وہ دوزخیوں کو کہیں گے کہ کیا تمہارے پاس کوئی نذیر نہیں آیا تھا.وہ کہیں گے کہ ہاں آیا تو تھا مگر ہم نے اس کی تکذیب کی اور ہم نے کہا کہ خدا نے کچھ نہیں اُتارا.اب دیکھو ان آیات سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ دوزخی دوزخ میں اس لئے پڑیں گے کہ وہ وقت کے نبیوں کو قبول نہیں کریں گے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۳۲) خوب یا د رکھو کہ قلوب کی اصلاح اس کا کام ہے جس نے قلوب کو پیدا کیا ہے.نرے کلمات اور چرب زبانیاں اصلاح نہیں کر سکتی ہیں.بلکہ ان کلمات کے اندر ایک روح ہونی چاہیے.پس جس شخص نے قرآن شریف کو پڑھا اور اس نے اتنا بھی نہیں سمجھا کہ ہدایت آسمان سے آتی ہے تو اس نے کیا سمجھا ؟ آلھ يَأْتِكُم نَذیر کا جب سوال ہوگا تو پتہ لگے گا.اصل بات یہی ہے کہ ؎ خدا را بخدا تواں شناخت اور یہ ذریعہ بغیر امام نہیں مل سکتا.کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے تازہ بتازہ نشانوں کا مظہر اور اس کی تجلیات کا مورد ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ حدیث شریف میں آیا ہے مَن لَّمْ يَعْرِفُ إِمَامَ زَمَانِهِ فَقَدْ مَاتَ ميتة الجاهلية.یعنی جس نے زمانہ کے امام کو شناخت نہیں کیا.وہ جہالت کی موت مر گیا.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۸ مورخه ۲۴ مئی ۱۹۰۵ صفحه ۱۰) وَقَالُوا لَو كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَب السَّعِيرِ دوزخی کہیں گے کہ اگر ہم عقلمند ہوتے اور مذہب اور عقیدہ کو معقول طریقوں سے آزماتے یا کامل عقلمندوں اور محققوں کی تحریروں اور تقریروں کو توجہ سے سنتے تو آج دوزخ میں نہ پڑتے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۳۲) قلب اور عرش کے درمیان گویا بار یک تار ہے.قلب کو جو حکم کرتا ہے اس سے ہی لذت پاتا ہے.

Page 63

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶ سورة الملك خارجی دلائل اور براہین کا محتاج نہیں ہوتا ہے، بلکہ ملہم ہو کر خدا سے اندر ہی اندر باتیں پا کر فتویٰ دیتا ہے.ہاں یہ بات سچ ہے کہ جب تک قلب قلب نہ بنے کو كُنَّا نَسْعُ او تعقل کا مصداق ہوتا ہے.یعنی انسان پر ایک وہ زمانہ آتا ہے کہ جس میں نہ قلب و دماغ کی قوتیں اور طاقتیں ہوتی ہیں.پھر ایک زمانہ دماغ کا آتا ہے.دماغی قو تیں اور طاقتیں نشونما پاتی ہیں اور ایک ایسا زمانہ آتا ہے کہ قلب منور اور مشتعل اور روشن ہو جاتا ہے.جب قلب کا زمانہ آتا ہے.اس وقت انسان روحانی بلوغ حاصل کرتا ہے اور دماغ قلب کے تابع ہو جاتا ہے اور دماغی قوتوں کو قلب کی خاصیتوں اور طاقتوں پر فوق نہیں ہوتا.الحام جلد ۵ نمبر ۹ مورخه ۱۰ مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۴) ساری سعادتیں علم صحیح کی تحصیل میں ہیں.یہ جس قدر لوگ نصرانی ہوئے ہیں وہ جہالت کے سبب ہوئے اگر علم کامل ہوتا تو انسان کو خدا نہ بناتے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جہنمی کہیں گے لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنا في أصحب السَّعِير - الحکم جلد ۶ نمبر ۲۵ مورمحه ۷ ارجولائی ۱۹۰۲ صفحه ۲) لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا في أصحب السَّعِيرِ یعنی اگر ہم شریعت پر چلتے یا کانشس پر ہی عمل کرتے تو اصحاب السعیر سے نہ ہوتے.البدر جلد نمبر ۲ مورخہ ۷ /نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۱۵) میری تائید اور تصدیق اور اس سلسلہ کی سچائی کے لیے دلائل عقیلہ موجود ہیں.کاش یہ لوگ اگر نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ سے واقف نہیں تھے اور ان آیات ارضیہ اور سماویہ کو جو میری صداقت کے ثبوت میں میرے ہاتھ پر ظاہر ہوئے نہیں دیکھ سکتے تھے تو عقل ہی سے کام لیتے.ایسے ہی لوگوں کے متعلق قرآن کریم میں ذکر آیا ہے کہ جب وہ دوزخ میں داخل ہوں گے تو اس وقت ان کی آنکھیں کھلیں گی اور اپنی غلطی پر اطلاع ہوگی تو کہیں گے لَوْ كُنَّا نَسْع أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَا فِي اَصْحَب السَّعِيرِ اے کاش اگر ہم سنتے اور پھر سن کر عقل سے کام لیتے تو ہم جہنمی نہ ہوتے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تدبر کے سوا ایمان صحیح نہیں ہوتا.الخام جلد ۹ نمبر ۲۰ مورخه ۱۰ جون ۱۹۰۵ صفحه ۲) (اخبار بد جلدے نمبر ۳ مورخه ۲۳ /جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۳) علم صحیح اور عقل سلیم یہ بھی خوش قسمتی کی نشانیاں ہیں.جس میں شقاوت ہو اس کی مت ماری جاتی ہے.وہ نیک کو ہد اور بد کو نیک سمجھتا ہے.( اخبار بدر جلدے نمبرے مورخہ ۲۰ فروری ۱۹۰۸ء صفحه ۴)

Page 64

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷ سورة الملك لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا في اصحب الشعیر سے معلوم ہوتا ہے کہ سماع اور عقل انسان کو ایمان کے واسطے جلد تیار کر دیتی ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۱۹ مورخه ۲۹ رمئی ۱۹۰۲ ء صفحه ۱۴۶) اَو لَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ فَوْقَهُمْ طَفْتِ وَ يَقْبِضْنَ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا الرَّحْمنُ إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْ ءٍ بَصِيرٌ (٢٠ کیا ان لوگوں نے اپنے سروں پر پرندوں کو اڑتے ہوئے نہیں دیکھا کہ کبھی وہ بازو کھلے ہوئے ہوتے ہیں اور کبھی سمیٹ لیتے ہیں رحمن ہی ہے کہ ان کو گرنے سے تھام رکھتا ہے یعنی فیضان رحمانیت ایسا تمام ذی روحوں پر محیط ہورہا ہے کہ پرندے بھی جو ایک پیسہ کے دو تین مل سکتے ہیں وہ بھی اس فیضان کے وسیع دریا میں خوشی اور سرور سے تیر ر ہے ہیں.(براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۵۰،۴۴۹ حاشیہ نمبر ۱۱) وَ يَقُولُونَ مَتى هَذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صَدِقِينَ قُلْ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُّبِينٌ ص کا فر پوچھتے ہیں کہ یہ دعوئی پورا کب ہوگا.اگر تم سچے ہو تو تاریخ عذاب بتاؤ.ان کو کہہ دے مجھے کوئی تاریخ معلوم نہیں.یہ علم خدا کو ہے میں تو صرف ڈرانے والا ہوں.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۵۳)

Page 65

Page 66

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۳۹ سورة القلم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة القلم بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ وَ إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ تو اے نبی ایک خلق عظیم پر مخلوق و منظور ہے یعنی اپنی ذات میں تمام مکارم اخلاق کا ایسا متمم و کمل ہے کہ اس پر زیادت متصور نہیں کیونکہ لفظ عظیم محاورہ عرب میں اس چیز کی صفت میں بولا جاتا ہے جس کو اپنا نوعی کمال پورا پورا حاصل ہو.مثلاً جب کہیں کہ یہ درخت عظیم ہے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ جس قدر طول و عرض درخت میں ہوسکتا ہے وہ سب اس میں موجود ہے.اور بعضوں نے کہا ہے کہ عظیم وہ چیز ہے جس کی عظمت اس حد تک پہنچ جائے کہ حیطہ ادراک سے باہر ہو.اور خلق کے لفظ سے قرآن شریف اور ایسا ہی دوسری کتب حکمیہ میں صرف تازہ روی اور حسن اختلاط یا نرمی و تلطف و ملائمت ( جیسا عوام الناس خیال کرتے ہیں ) مراد نہیں ہے بلکہ خلق بفتح خا اور خلق بضم خاد و لفظ ہیں جو ایک دوسرے کے مقابل واقعہ ہیں.علق بفتح خا سے مراد وہ صورت ظاہری ہے جو انسان کو حضرت واہب الصور کی طرف سے عطا ہوئی.جس صورت کے ساتھ وہ دوسرے حیوانات کی صورتوں سے ممیز ہے.اور خلق بضم خا سے مراد وہ صورت باطنی یعنی خواص اندرونی ہیں جن کی رو سے حقیقت انسانیہ حقیقت حیوانیہ سے امتیاز کلی رکھتی ہے.پس جس قدر انسان میں من حیث الانسانیت اندرونی خواص پائے جاتے ہیں اور شجرہ انسانیت کو نچوڑ کر نکل سکتے ہیں جو کہ انسان اور حیوان میں من حیث الباطن ما بہ الامتیاز ہیں.اُن سب کا نام خُلق ہے.اور چونکہ شجرہ فطرت انسانی

Page 67

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰ سورة القلم اصل میں توسط اور اعتدال پر واقعہ ہے.اور ہر یک افراط و تفریط سے جو قوی حیوانیہ میں پایا جاتا ہے منزہ ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے لَقَدْ خَلَقْنَا الإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقُويمِ (التين : ۵) اس لئے خلق کے لفظ سے جو کسی مذمت کی قید کے بغیر بولا جائے ہمیشہ اخلاق فاضلہ مراد ہوتے ہیں.اور وہ اخلاق فاضلہ جو حقیقت انسانیہ ہے.تمام وہ خواص اندرونی ہیں جو نفس ناطقہ انسان میں پائے جاتے ہیں جیسے عقل ذکا.سرعت فہم.صفائی ذہن.حسنِ تحفظ.حسن تذکر.عفت.حیا.صبر.قناعت.زہد - تورع.جوانمردی.استقلال.عدل.امانت - صدق کہجہ - سخاوت کی محلہ.ایثار فی محلہ - کرم فی محلہ مروت کی محلہ.شجاعت کی محلہ - علو ہمت فی محلہ علم فی محلہ محتمل فی محلہ - حمیت فی محلہ.تواضع فی محلہ.ادب کی محلہ.شفقت فی محلہ.رافت فی محلہ رحمت کی محلہ.خوف الہی.محبت الہیہ.انس بالله انقطاع الی اللہ وغیرہ وغیرہ (براہین احمد یہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۹۴، ۱۹۵ حاشیه ) غرض خدائے تعالیٰ کا ارادہ انبیاء اور اولیاء کی نسبت یہ ہوتا ہے کہ ان کے ہر یک قسم کے اخلاق ظاہر ہوں اور یہ پایہ ثبوت پہنچ جائیں.سو خدائے تعالیٰ اسی ارادہ کو پورے کرنے کی غرض سے ان کی نورانی عمر کو دو حصہ پر منقسم کر دیتا ہے.ایک حصہ تنگیوں اور مصیبتوں میں گزرتا ہے اور ہر طرح سے دکھ دیئے جاتے ہیں اور ستائے جاتے ہیں تا وہ اعلیٰ اخلاق ان کے ظاہر ہو جائیں کہ جو بجر سخت تر مصیبتوں کے ہرگز ظاہر اور ثابت نہیں ہو سکتے.اگر ان پر وہ سخت تر مصیبتیں نازل نہ ہوں.تو یہ کیوں کر ثابت ہو کہ وہ ایک ایسی قوم ہے کہ مصیبتوں کے پڑنے سے اپنے مولی سے بے وفائی نہیں کرتے بلکہ اور بھی آگے قدم بڑھاتے ہیں.اور خداوند کریم کا شکر کرتے ہیں کہ اس نے سب کو چھوڑ کر انہیں پر نظر عنایت کی.اور انہیں کو اس لائق سمجھا کہ اس کے لئے اور اس کی راہ میں ستائے جائیں.سو خدائے تعالیٰ ان پر مصیبتیں نازل کرتا ہے تا ان کا صبر ، ان کا صدق قدم، ان کی مردی، ان کی استقامت، ان کی وفاداری، ان کی فتوت شعاری لوگوں پر ظاہر کر کے الاستقامة فوق الكرامة کا مصداق ان کو ٹھہر اوے.کیونکہ کامل صبر بجز کامل مصیبتوں کے ظاہر نہیں ہوسکتا اور اعلیٰ درجہ کی استقامت اور ثابت قدمی بجز اعلیٰ درجہ کے زلزلے کے معلوم نہیں ہوسکتی اور یہ مصائب حقیقت میں انبیاء اور اولیاء کے لئے روحانی نعمتیں ہیں جن سے دنیا میں ان کے اخلاق فاضلہ جن میں وہ بے مثل و مانند ہیں ظاہر ہوتے ہیں اور آخرت میں ان کے درجات کی ترقی ہوتی ہے.اگر خدا ان پر یہ مصیبتیں نازل نہ کرتا.تو یہ نعمتیں بھی ان کو حاصل نہ ہوتیں اور نہ عوام پر ان کے شمائل حسنہ کما حقہ کھلتے بلکہ

Page 68

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱ سورة القلم دوسرے لوگوں کی طرح اور ان کے مساوی ٹھہرتے.اور گو اپنی چند روزہ عمر کو کیسے ہی عشرت اور راحت میں بسر کرتے پر آخر ایک دن اس دار فانی سے گزر جاتے اور اس صورت میں نہ وہ عیش اور عشرت ان کی باقی رہتی نہ آخرت کے درجات عالیہ حاصل ہوتے نہ دنیا میں ان کی وہ فتوت اور جوانمردی اور وفاداری اور شجاعت شہرہ آفاق ہوتی جس سے وہ ایسے ارجمند ٹھہرے جن کا کوئی مانند نہیں اور ایسے لگا نہ ٹھہرے جن کا کوئی ہم جنس نہیں اور ایسے فرد الفر ٹھہرے جن کا کوئی ثانی نہیں اور ایسے غیب الغیب ٹھہرے جن تک کسی ادراک کی رسائی نہیں اور ایسے کامل اور بہادر ٹھہرے کہ گویا ہزار ہا شیر ایک قالب میں ہیں اور ہزار ہا پلنگ ایک بدن میں جن کی قوت اور طاقت سب کی نظروں سے بلند تر ہو گئی اور جو تقرب کے اعلیٰ درجات تک پہنچ گئی.اور دوسرا حصہ انبیاء اور اولیاء کی عمر کا فتح میں، اقبال میں، دولت میں بمرتبہ کمال ہوتا ہے تا وہ اخلاق ان کے ظاہر ہو جائیں کہ جن کے ظہور کے لئے فتح مند ہونا، صاحب اقبال ہونا، صاحب دولت ہونا ، صاحب اختیار ہونا، صاحب اقتدار ہونا ، صاحب طاقت ہونا ضروری ہے.کیونکہ اپنے دکھ دینے والوں کے گناہ بخشا اور اپنے ستانے والوں سے درگزر کرنا اور اپنے دشمنوں سے پیار کرنا اور اپنے بداندیشوں کی خیر خواہی بجالا نا.دولت سے دل نہ لگانا، دولت سے مغرور نہ ہونا، دولتمندی میں امساک اور بخل اختیار نہ کرنا اور کرم اور جو د اور بخشش کا دروازہ کھولنا اور دولت کو ذریعہ نفس پروری نہ ٹھہرانا اور حکومت کو آلہ ظلم و تعدی نہ بنانا.یہ سب اخلاق ایسے ہیں کہ جن کے ثبوت کے لئے صاحب دولت اور صاحب طاقت ہونا شرط ہے.اور اسی وقت یہ پایہ ثبوت پہنچتے ہیں کہ جب انسان کے لئے دولت اور اقتدار دونوں میسر ہوں.پس چونکہ بجز زمانہ مصیبت واد با روز مانه دولت و اقتدار سیہ دونوں قسم کے اخلاق ظاہر نہیں ہو سکتے.اس لئے حکمت کا ملہ ایزدی نے تقاضا کیا کہ انبیاء اور اولیاء کو ان دونوں طور کی حالتوں سے کہ جو ہزار ہا نعمتوں پر مشتمل ہیں متمتع کرے.لیکن ان دونوں حالتوں کا زمانہ وقوع ہریک کے لئے ایک ترتیب پر نہیں ہوتا.بلکہ حکمت الہیہ بعض کے لئے زمانہ امن و آسائش پہلے حصہ عمر میں میسر کر دیتی ہے اور زمانہ تکالیف پیچھے سے اور بعض پر پہلے وقتوں میں تکالیف وارد ہوتی ہیں اور پھر آخر کار نصرت الہی شامل ہو جاتی ہے اور بعض میں یہ دونوں حالتیں مخفی ہوتی ہیں اور بعض میں کامل درجہ پر ظهور و بروز پکڑتی ہیں اور اس بارے میں سب سے اول قدم حضرت خاتم الرسل محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کمال وضاحت سے یہ دونوں حالتیں وارد ہو گئیں اور ایسی ترتیب سے آئیں کہ جس سے تمام اخلاق فاضلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مثل آفتاب کے روشن

Page 69

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲ سورة القلم ہو گئے اور مضمون إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ کا یہ پایہ ثابت پہنچ گیا.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا دونوں طور پر علی وجہ الکمال ثابت ہونا تمام انبیاء کے اخلاق کو ثابت کرتا ہے کیونکہ آنجناب نے ان کی نبوت اور ان کی کتابوں کو تصدیق کیا اور ان کا مقرب اللہ ہونا ظاہر کر دیا ہے.پس اس تحقیق سے یہ اعتراض بھی بالکل دور ہو گیا کہ جو سیح کے اخلاق کی نسبت دلوں میں گزرسکتا ہے یعنی یہ کہ اخلاق حضرت مسیح علیہ السلام دونوں قسم مذکورہ بالا پر علی وجہ الکمال ثابت نہیں ہو سکتے بلکہ ایک قسم کے رو سے بھی ثابت نہیں ہیں.کیونکہ مسیح نے جو زمانہ مصیبتوں میں صبر کیا.تو کمائیت اور صحت اس صبر کی تب یہ پایہ صداقت پہنچ سکتی تھی کہ جب مسیح اپنے تکلیف دہندوں پر اقتدار اور غلبہ پا کر اپنے موڈیوں کے گناہ دلی صفائی سے بخش دیتا جیسا حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں اور دوسرے لوگوں پر بکلی فتح پا کر اور انکو اپنی تلوار کے نیچے دیکھ کر پھر ان کا گناہ بخش دیا.اور صرف انہیں چند لوگوں کو سزا دی جن کو سزا دینے کے لئے حضرت احدیت کی طرف سے قطعی حکم وارد ہو چکا تھا.اور بجز ان از لی ملعونوں کے ہر یک دشمن کا گناہ بخش دیا اور فتح پا کر سب کو لا تَثْرِيْب عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کہا.اور اسے عفو تقصیر کی وجہ سے کہ جو مخالفوں کی نظر میں ایک امر محال معلوم ہوتا تھا اور اپنی شرارتوں پر نظر کرنے سے وہ اپنے تئیں اپنے مخالف کے ہاتھ میں دیکھ کر مقتول خیال کرتے تھے.ہزاروں انسانوں نے ایک ساعت میں دین اسلام قبول کر لیا اور حقانی صبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ جو ایک زمانہ دراز تک آنجناب نے ان کی سخت سخت ایذاؤں پر کیا تھا.آفتاب کی طرح ان کے سامنے روشن ہو گیا اور چونکہ فطرتا یہ بات انسان کی عادت میں داخل ہے کہ اسی شخص کے صبر کی عظمت اور بزرگی انسان پر کامل طور پر روشن ہوتی ہے کہ جو بعد زمانہ آزاد کشی کے اپنے آزار دہندہ پر قدرت انتقام پا کر اس کے گناہ کو بخش دے.اس وجہ سے مسیح کے اخلاق کہ جو صبر اور علم اور برداشت کے متعلق تھے.بخوبی ثابت نہ ہوئے اور یہ امر اچھی طرح نہ کھلا کہ مسیح کا صبر اور حلم اختیاری تھا یا اضطراری تھا.کیونکہ مسیح نے اقتدار اور طاقت کا زمانہ نہیں پایا تا دیکھا جاتا کہ اس نے اپنے موذیوں کے گناہ کو عفو کیا یا انتقام لیا.برخلاف اخلاق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کہ وہ صدہا مواقع میں اچھی طرح کھل گئے اور امتحان کئے گئے اور ان کی صداقت آفتاب کی طرح روشن ہوگئی.اور جو اخلاق، کرم اور جود اور سخاوت اور ایثار اور فتوت اور شجاعت اور زہد اور قناعت اور اعراض عن الدنیا کے متعلق تھے.وہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک میں ایسے روشن اور تاباں اور درخشاں ہوئے کہ مسیح کیا بلکہ دنیا میں آنحضرت سے پہلے کوئی بھی ایسا نبی نہیں گزرا جس

Page 70

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳ سورة القلم کے اخلاق ایسی وضاحت تامہ سے روشن ہو گئے ہوں.کیونکہ خدائے تعالیٰ نے بے شمار خزائن کے دروازے آنحضرت پر کھول دیئے.سو آنجناب نے ان سب کو خدا کی راہ میں خرچ کیا اور کسی نوع کی تن پروری میں ایک حبہ بھی خرچ نہ ہوا.نہ کوئی عمارت بنائی.نہ کوئی بارگاہ طیار ہوئی.بلکہ ایک چھوٹے سے کچے کوٹھے میں جس کو غریب لوگوں کے کوٹھوں پر کچھ بھی ترجیح تھی.اپنی ساری عمر بسر کی.بدی کرنے والوں سے نیکی کر کے دکھلائی اور وہ جو دل آزار تھے ان کو ان کی مصیبت کے وقت اپنے مال سے خوشی پہنچائی.سونے کے لئے اکثر زمین پر بستر اور رہنے کے لئے ایک چھوٹا سا جھونپڑا.اور کھانے کے لئے نان جو یا فاقہ اختیار کیا.دنیا کی دولتیں بکثرت ان کو دی گئیں پر آنحضرت نے اپنے پاک ہاتھوں کو دنیا سے ذرا آلودہ نہ کیا.اور ہمیشہ فقر کوتو نگری پر اور مسکینی کو امیری پر اختیار رکھا.اور اس دن سے جو ظہور فرمایا تا اس دن تک جو اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملے.بجز اپنے مولیٰ کریم کے کسی کو کچھ چیز نہ سمجھا.اور ہزاروں دشمنوں کے مقابلہ پر معرکہ جنگ میں کہ جہاں قتل کیا جانا یقینی امر تھا.خالصاً خدا کے لئے کھڑے ہو کر اپنی شجاعت اور وفاداری اور ثابت قدمی دکھلائی.غرض مجود اور سخاوت اور زہد اور قناعت اور مردی اور شجاعت اور محبت الہیہ کے متعلق جو جو اخلاق فاضلہ ہیں.وہ بھی خداوند کریم نے حضرت خاتم الانبیاء میں ایسے ظاہر کئے کہ جن کی مثل نہ کبھی دنیا میں ظاہر ہوئی اور نہ آئندہ ظاہر ہوگی.لیکن حضرت مسیح علیہ السلام میں اس قسم کے اخلاق بھی اچھی طرح ثابت نہیں ہوئے.کیونکہ یہ سب اخلاق بجز زمانہ اقتدار اور دولت کے یہ پایہ ثبوت نہیں پہنچ سکتے اور مسیح نے اقتدار اور دولت کا زمانہ نہیں پایا.اس لئے دونوں قسم کے اخلاق اس کے زیر پردہ رہے اور جیسا کہ شرط ہی ظہور پذیر نہ ہوئی.پس یہ اعتراض مذکورہ بالا جو سیح کی ناقص حالت پر وارد ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل حالت سے بنکلی مندفع ہو گیا.کیونکہ وجود با جود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر یک نبی کے لئے متم اور مکمل ہے اور اس ذات عالی کے ذریعہ سے جو کچھ امر مسیح اور دوسرے نبیوں کا مشتبہ اور مخفی رہا تھا.وہ چمک اٹھا.اور خدا نے اس ذات مقدس پر انہیں معنوں کر کے وحی اور رسالت کو ختم کیا کہ سب کمالات اس وجود باجود پرختم ہو گئے.وھذا فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ - ( براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۷۷ تا ۲۹۲ حاشیه ) جو اخلاق فاضلہ حضرت خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن شریف میں ذکر ہے وہ حضرت موسیٰ سے ہزار ہا درجہ بڑھ کر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تمام ان اخلاق فاضلہ کا جامع ہے جو نبیوں میں متفرق طور پر پائے جاتے تھے.اور قرآن نے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق

Page 71

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴ سورة القلم میں فرمایا ہے اِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ تو خلقِ عظیم پر ہے.اور عظیم کے لفظ کے ساتھ جس چیز کی تعریف کی جائے وہ عرب کے محاورہ میں اس چیز کے انتہائے کمال کی طرف اشارہ ہوتا ہے مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ یہ در محت عظیم ہے تو اس سے یہ مطلب ہوگا کہ جہاں تک درختوں کے لئے طول و عرض اور تناوری ممکن ہے وہ سب اس درخت میں حاصل ہے.ایسا ہی اس آیت کا مفہوم ہے کہ جہاں تک اخلاق فاضلہ و شمائلِ حسنہ نفس انسانی کو حاصل ہو سکتے ہیں وہ تمام اخلاق کا ملہ تامہ نفس محمدی میں موجود ہیں.سو یہ تعریف ایسی اعلیٰ درجہ کی سے جس سے بڑھ کر ممکن نہیں.( براہین احمد یه روحانی چهار صص، خزائن جلد ۱ صفحه ۶۰۶ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) اس جگہ بہتر ہوگا کہ میں خلق کے لفظ کی بھی کسی قدر تعریف کردوں.سو جاننا چاہئے کہ خلق خا کی فتح سے ظاہری پیدائش کا نام ہے اور خلق خا کے ضمہ سے باطنی پیدائش کا نام ہے.اور چونکہ باطنی پیدائش اخلاق سے ہی کمال کو پہنچتی ہے نہ صرف طبعی جذبات سے.اس لئے اخلاق پر ہی یہ لفظ بولا گیا ہے طبعی جذبات پر نہیں بولا گیا.اور پھر یہ بات بھی بیان کر دینے کے لائق ہے کہ جیسا کہ عوام الناس خیال کرتے ہیں کہ خلق صرف حلیمی اور نرمی اور انکسا رہی کا نام ہے یہ ان کی غلطی ہے بلکہ جو کچھ بمقابلہ ظاہری اعضاء کے باطن میں انسانی کمالات کی کیفیتیں رکھی گئی ہیں ان سب کیفیتوں کا نام خلق ہے.مثلاً انسان آنکھ سے روتا ہے اور اس کے مقابل پر دل میں ایک قوت رقت ہے وہ جب بذریعہ عقل خداداد کے اپنے محل پر مستعمل ہو تو وہ ایک خُلق ہے.ایسا ہی انسان ہاتھوں سے دشمن کا مقابلہ کرتا ہے اور اس حرکت کے مقابل پر دل میں ایک قوت ہے جس کو شجاعت کہتے ہیں.جب انسان محل پر اور موقع کے لحاظ سے اس قوت کو استعمال میں لاتا ہے تو اس کا نام بھی خُلق ہے.اور ایسا ہی انسان کبھی ہاتھوں کے ذریعہ سے مظلوموں کو ظالموں سے بچانا چاہتا ہے یا ناداروں اور بھوکوں کو کچھ دینا چاہتا ہے یا کسی اور طرح سے بنی نوع کی خدمت کرنا چاہتا ہے اور اس حرکت کے مقابل پر دل میں ایک قوت ہے جس کو رحم بولتے ہیں اور کبھی انسان اپنے ہاتھوں کے ذریعہ سے ظالم کو سزا دیتا ہے اور اس حرکت کے مقابل پر دل میں ایک قوت ہے جس کو انتقام کہتے ہیں اور کبھی انسان حملہ کے مقابل پر حملہ کرنا نہیں چاہتا اور ظالم کے ظلم سے در گزر کرتا ہے اور اس حرکت کے مقابل پر دل میں ایک قوت ہے جس کو عفو اور صبر کہتے ہیں اور کبھی انسان بنی نوع کو فائدہ پہنچانے کے لیے اپنے ہاتھوں سے کام لیتا ہے یا پیروں سے یا دل اور دماغ سے اور ان کی بہبودی کے لیے اپنا سرمایہ خرچ کرتا ہے تو اس حرکت کے مقابل پر دل میں ایک قوت ہے جس کو سخاوت کہتے ہیں.پس جب انسان ان تمام قوتوں کو موقع اور محل کے لحاظ سے

Page 72

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۵ سورة القلم استعمال کرتا ہے تو اس وقت ان کا نام خُلق رکھا جاتا ہے.اللہ جلشانہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے.إِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظیم یعنی تو ایک بزرگ خلق پر قائم ہے.سو اسی تشریح کے مطابق اس کے معنے ہیں یعنی یہ کہ تمام قسمیں اخلاق کی سخاوت ، شجاعت، عدل، رتم، احسان ، صدق، حوصلہ وغیرہ تجھ میں جمع ہیں.غرض جس قدر انسان کے دل میں قو تیں پائی جاتی ہیں جیسا کہ ادب، حیا، دیانت ، مروت، غیرت، استقامت، عفت، ذہانت، اعتدال، مؤاسات یعنی ہمدردی.ایسا ہی شجاعت، سخاوت،عفو، صبر، احسان، صدق، وفا وغیرہ جب یہ تمام طبعی حالتیں عقل اور تدبر کے مشورہ سے اپنے اپنے محل اور موقع پر ظاہر کی جائیں گی تو سب کا نام اخلاق ہوگا.اور یہ تمام اخلاق در حقیقت انسان کی طبعی حالتیں اور طبعی جذبات ہیں اور صرف اس وقت اخلاق کے نام سے موسوم ہوتے ہیں کہ جب محل اور موقعہ کے لحاظ سے بالا رادہ ان کو استعمال کیا جائے.چونکہ انسان کے طبعی خواص میں سے ایک یہ بھی خاصہ ہے کہ وہ ترقی پذیر جاندار ہے اس لئے وہ بچے مذہب کی پیروی اور نیک صحبتوں اور نیک تعلیموں سے ایسے طبعی جذبات کو اخلاق کے رنگ میں لے آتا ہے.اور یہ امر کسی اور جاندار کے لیے نصیب نہیں.(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۳۲ تا ۳۳۳) چونکہ اماموں کو طرح طرح کے اوباشوں اور سفلوں اور بد زبان لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے اس لئے ان میں اعلیٰ درجہ کی اخلاقی قوت کا ہونا ضروری ہے تا ان میں طیش نفس اور مجنونانہ جوش پیدا نہ ہو اور لوگ ان کے فیض سے محروم نہ رہیں.یہ نہایت قابل شرم بات ہے کہ ایک شخص خدا کا دوست کہلا کر پھر اخلاق رذیلہ میں گرفتار ہو اور درشت بات کا ذرہ بھی متحمل نہ ہو سکے اور جو امام زمان کہلا کر ایسی کچی طبیعت کا آدمی ہو کہ ادنی ادنی بات میں منہ میں جھاگ آتا ہے.آنکھیں نیلی پیلی ہوتی ہیں وہ کسی طرح امام زمان نہیں ہو سکتا.لہذا اس پر آیت إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ کا پورے طور پر صادق آجانا ضروری ہے.( ضرورة الامام، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۷۸) وَحَمِدَهُ وَعَذَا إِلَيْهِ خُلْقًا عَظِيمًا مِنَ اللہ تعالیٰ نے آپ (رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) کی التَّفْحِيْمِ وَالتَّكْرِيمِ.كَمَا جَاءَ في تعریف کی ہے اور آپ کی طرف خلق عظیم کو بطور ا کرام اور الْقُرْآنِ الْكَرِيمِ.وَإِنْ سَأَلَتْ مَا خُلُقُهُ اعزاز منسوب کیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں اس کا ذکر آیا الْعَظِيمُ فَتَقُولُ أَنَّهُ رَحْمَانُ وَرَحِیم ہے.اور اگر تو سوال کرے کہ آپ کے خلق عظیم کیا ہیں تو اعجاز اسی روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۱۱۸) ہم کہیں گے کہ آپ رحمان اور رحیم ہیں.( ترجمہ از مرتب )

Page 73

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۶ سورة القلم کل انسانوں کے کمالات بہ بیت مجموعی ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع ہیں اور اسی لیے آپ کل دنیا کے لیے نبی مبعوث ہوئے اور رحمتہ للعالمین کہلائے اِنكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ میں بھی اس مجموعہ کمالات انسانی کی طرف اشارہ ہے اسی صورت میں عظمت اخلاق محمدی کی نسبت غور ہو سکتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ آپ پر نبوت کا ملہ کے کمالات ختم ہوئے یہ ایک مسلم بات ہے کسی چیز کا خاتمہ اس کی علت غائی کے اختتام پر ہوتا ہے.جیسے کتاب کے جب گل مطالب بیان ہو جاتے ہیں تو اس کا خاتمہ ہو جاتا ہے اسی طرح پر رسالت اور نبوت کی علت غائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوئی اور یہی ختم نبوت کے معنے ہیں.کیونکہ یہ ایک سلسلہ ہے جو چلا آیا ہے اور کامل انسان پر آکر اس کا خاتمہ ہو گیا.ہے.ریویو آف ریال به، جلد ۳ نمبر ۱ جنوری ۱۹۰۴ صفحه ۱۱، ۱۲) بلحاظ اخلاقی معجزات کے خود اس مقدس نبی علیہ الصلوۃ والسلام کا وجود إِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ کا مصداق رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۸۴) رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۹۹) آنحضرت صلعم کے اخلاقی معجزات میں ایک اور معجزہ بھی ہے کہ آپ کے پاس ایک وقت بہت سی بھیڑیں تھیں.ایک شخص نے کہا اس قدر مال اس سے پیشتر کسی کے پاس نہیں دیکھا.حضور نے وہ سب بھیڑیں اس کو دے دیں.اس نے فی الفور کہا کہ لاریب آپ سچے نبی ہیں.سچے نبی کے بغیر اس قسم کی سخاوت دوسرے سے عمل میں آنی مشکل ہے.الغرض آنحضرت کے اخلاق فاضلہ ایسے تھے کہ إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عظیم قرآن میں وارد ہوا.اخلاقی حالت ایک ایسی کرامت ہے جس پر کوئی انگلی نہیں رکھ سکتا اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے بڑا اور قومی اعجاز اخلاق ہی کا دیا گیا.جیسے فرما یا إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ یوں تو آنحضرت صلعم کے ہر ایک قسم کے خوارق قوت ثبوت میں جملہ انبیاء علیہم السلام کے معجزات سے بجائے خود بڑھے ہوئے ہیں.مگر اخلاقی اعجاز کا نمبر ان سب سے اول ہے جس کی نظیر دنیا کی تاریخ نہیں بتلا سکتی اور نہ پیش کر سکے گی.سب سے اکمل نمونہ اور نظیر آنحضرت صلعم ہیں جو جمیع اخلاق میں کامل تھے اسی لئے آپ کی شان میں فرما یا إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ - خلق اور تعلق دو لفظ ہیں جو بالمقابل معنوں پر دلالت کرتے ہیں.خلق ظاہری پیدائش کا نام ہے جیسے رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۱۵۹) رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ صفحه ۱۵۲)

Page 74

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۷ سورة القلم کان، ناک یہاں تک کہ بال وغیرہ بھی سب خلق میں شامل ہیں اور خلق باطنی پیدائش کا نام ہے.ایسا ہی باطنی قومی جو انسان اور غیر انسان میں مابہ الامتیاز ہیں وہ سب خلق میں داخل ہیں.یہاں تک کہ معقل فکر وغیرہ تمام قوتیں خلق ہی میں داخل ہیں.خُلق سے انسان اپنی انسانیت کو درست کرتا ہے.اگر انسانوں کے فرائض نہ ہوں تو فرض کرنا پڑے گا کہ آدمی ہے؟ گدھا ہے؟ یا کیا ہے؟ جب خُلق میں فرق آ جاوے تو صورت ہی رہتی ہے.مثلاً عقل ماری جاوے تو مجنون کہلاتا ہے صرف ظاہری صورت سے ہی انسان کہلاتا ہے.پس اخلاق سے مراد خدا تعالیٰ کی رضا جوئی ( جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی میں مجسم نظر آتی ہے ) کا حصول ہے.اس لئے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرز زندگی کے موافق اپنی زندگی بنانے کی کوشش کرے.یہ اخلاق بطور بنیاد کے ہیں.اگر وہ متزلزل رہے تو اس پر عمارت نہیں بنا سکتے.اخلاق ایک اینٹ پر دوسری اینٹ کا رکھنا ہے.اگر ایک اینٹ ٹیڑھی ہو تو ساری دیوار ٹیڑھی ہی رہتی ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحه ۱۵۲،۱۵۱) اخلاق کی درستی بہت ضروری چیز ہے، کیونکہ نیکیوں کی ماں اخلاق ہی ہے.خیر کا پہلا درجہ جہاں سے انسان قوت پاتا ہے.اخلاق ہے.دو لفظ ہیں.ایک خلق اور دوسرا خلق خلق ظاہری پیدائش کا نام ہے اور خلق باطنی پیدائش کا.جیسے ظاہر میں کوئی خوب صورت ہوتا ہے اور کوئی بہت ہی بدصورت.اسی طرح پر کوئی اندرونی پیدائش میں نہایت حسین اور دلربا ہوتا ہے اور کوئی اندر سے مجذوم اور مبروص کی طرح مکروہ.لیکن ظاہری صورت چونکہ نظر آتی ہے، اس لیے ہر شخص دیکھتے ہی پہچان لیتا ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے اور نہیں چاہتا کہ بدصورت اور بد وضع ہو، مگر چونکہ اس کو دیکھتا ہے اس لیے اُس کو پسند کرتا ہے اور خلق کو چونکہ دیکھا نہیں، اس لیے اُس کی خوبی سے نا آشنا ہو کر اُس کو نہیں چاہتا.ایک اندھے کے لئے خوبصورتی اور بدصورتی دونوں ایک ہی ہیں.اسی طرح وہ پر انسان جس کی نظر اندرونہ تک نہیں پہنچتی ، اس اندھے کی ہی مانند ہے.خلق تو ایک بدیہی بات ہے.مگر خلق ایک نظری مسئلہ ہے.اگر اخلاقی بدیاں اور ان کی لعنت معلوم ہو.تو حقیقت کھلے.غرض اخلاقی خوب صورتی ایک ایسی خوبصورتی ہے، جس کو حقیقی خوبصورتی کہنا چاہیے.بہت تھوڑے

Page 75

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۸ سورة القلم ہیں جو اس کو پہچانتے ہیں.اخلاق نیکیوں کی کلید ہے.جیسے باغ کے دروازہ پر قفل ہو.دُور سے پھل پھول نظر آتے ہیں.مگر اندر نہیں جا سکتے.لیکن اگر قفل کھول دیا جائے ، تو اندر جا کر پوری حقیقت معلوم ہوتی ہے اور دل و دماغ میں ایک سرور اور تازگی آتی ہے.اخلاق کا حاصل کرنا گویا اس قفل کو کھول کے اندر داخل ہونا ہے.کسی کو اخلاق کی کوئی قوت نہیں دی گئی مگر اس کو بہت سی نیکیوں کی توفیق ملی.ترک اخلاق ہی بدی اور گناہ ہے.ایک شخص جو مثلاً زنا کرتا ہے.اُس کو خبر نہیں کہ اُس عورت کے خاوند کو کس قدر صدمہ عظیم پہنچتا ہے.اب اگر یہ اُس تکلیف اور صدمہ کو محسوس کر سکتا اور اس کو اخلاقی حصہ حاصل ہوتا ، تو ایسے فعل شنیع کا مرتکب نہ ہوتا.اگر ایسے نابکار انسان کو یہ معلوم ہو جاتا کہ اس فعل بد کے ارتکاب سے نوع انسان کے لئے کیسے کیسے خطر ناک نتائج پیدا ہوتے ہیں تو ہٹ جاتا.ایک شخص جو چوری کرتا ہے.کمبخت ظالم اتنا بھی تو نہیں کرتا کہ رات کے کھانے کے واسطے ہی چھوڑ جائے.اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایک غریب کی کئی سالوں کی محنت کو ملیا میٹ کر دیتا ہے اور جو کچھ گھر میں پاتا ہے.سب کا سب لے جاتا ہے.ایسی فتیح بدی کی اصل جڑ کیا ہے؟ اخلاقی قوت کا نہ ہونا.اگر رحم ہوتا اور وہ یہ سمجھ سکتا کہ بچے بھوک سے بلبلا ئیں گے.جن کی چیخوں سے دشمن کا بھی کلیجہ لرزتا ہے اور یہ معلوم کر کے کہ رات سے بھوکے ہیں اور کھانے کو ایک سوکھا ٹکڑا بھی نہیں ملا، تو پتہ پانی ہو جاتا ہے.اب اگر ان حالتوں کو محسوس کرتا اور اخلاقی حالت سے اندھا نہ ہوتا، تو کیوں چوری کرتا.آئے دن اخبارات میں دردناک موتوں کی خبریں پڑھنے میں آتی ہیں کہ فلاں بچہ زیور کے لالچ سے مارا گیا.فلاں جگہ کسی عورت کو قتل کر ڈالا.میں خود ایک مرتبہ اسیر ہو کر گیا تھا.ایک شخص نے بارہ آنے یا ع ۲ ( سوار و پیر ) میں ایک بچہ کا خون کیا تھا.اب سوچ کر دیکھو کہ اگر اخلاقی حالت درست ہو تو ایسی مصیبتیں کیوں آئیں؟ احکام جلد ۴ نمبر ۲۵ مورخه ۹ جولائی ۱۹۰۰ صفحه ۴،۳) طلق اور طلق دو لفظ ہیں خلق تو ظاہری حسن پر بولا جاتا ہے اور خلق باطنی حسن پر بولا جاتا ہے باطنی قومی جس قدر مثل عقل، فہم سخاوت شجاعت غضب وغیرہ انسان کو دیئے گئے ہیں ان سب کا نام خلق ہے اور عوام الناس میں آج کل جسے خُلق کہا جاتا ہے جیسے ایک شخص کے ساتھ تکلف کے ساتھ پیش آنا اور تصنع سے اس کے ساتھ ظاہری طور پر بڑی شیریں الفاظی سے پیش آنا تو اس کا نام خلق نہیں بلکہ نفاق ہے.ایسر ASSESSOR)

Page 76

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۹ سورة القلم خُلق سے مراد یہ ہے کہ اندرونی قوی کو اپنے اپنے مناسب مقام پر استعمال کیا جاوے جہاں شجاعت دکھانے کا موقع ہو وہاں شجاعت دکھاوے جہاں صبر دکھانا ہے وہاں صبر دکھا دے.جہاں انتظام چاہئے وہاں انتقام لیوے.جہاں سخاوت چاہئے وہاں سخاوت کرے.یعنی ہر ایک محل پر ہر ایک قومی کو استعمال کیا جاوے نہ گھٹا یا جاوے نہ بڑھایا جاوے.یہاں تک کہ عقل اور غضب بھی جہاں تک کہ اس سے نیکی پر استعانت لی جاوے خُلق ہی میں داخل ہے اور صرف ظاہری حواس کا نام ہی حواس نہیں ہے بلکہ انسان کے اندر بھی ایک قسم کے حواس ہوتے ہیں ظاہری حواس تو حیوانوں میں بھی ہوتے ہیں جیسے کھانا پینا ، دیکھنا، چھونا وغیرہ مگر اندرونی حواس انسانوں میں ہی ہوتے ہیں.مثلاً اگر ایک بکری گھاس کھا رہی ہے اور دوسری بکری آجاوے تو پہلی بکری کے اندر یہ ارادہ پیدا نہ ہوگا کہ اسے بھی ہمدردی سے گھاس کھانے میں شریک کرے.اسی طرح شیر میں اگر چہ زور اور طاقت تو ہوتی ہے مگر ہم اسے شجاع نہیں کہہ سکتے کیونکہ شجاعت کے واسط محل اور بے محل دیکھنا بہت ضروری ہے انسان اگر جانتا ہے کہ مجھ کو فلاں شخص سے طاقت مقابلہ کی نہیں ہے یا اگر میں وہاں جاؤں گا تو قتل ہو جاؤں گا تو اس کا وہاں نہ جانا ہی شجاعت میں داخل ہوگا پھر اگر محل اور موقع کے لحاظ سے مناسب دیکھے کہ میرا وہاں جانا ضروری ہے خواہ جان خطرہ میں پڑتی ہو.تو اس مقام پر جانے کا نام شجاعت ہے.جاہل آدمیوں سے جو بعض وقت بہادری کا کام ہوتا ہے حالانکہ ان کو محل بے محل دیکھنے کی تمیز نہیں ہوتی اس کا نام تہور ہوتا ہے کہ وہ ایک طبعی جوش میں آ جاتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ یہ کام کرنا چاہئے تھا کہ نہیں.غرضیکہ انسان کے نفس میں یہ سب صفات مثل صبر، سخاوت، انتقام، ہمت، بخل، عدم بخل، حسد، عدم حسد ہوتی ہیں اور ان کو اپنے محل اور موقع پر صرف کرنے کا نام مطلق ہے حسد بہت بری بلا ہے لیکن جب موقع کے ساتھ اپنے مقام پر رکھا جاوے تو پھر بہت عمدہ ہو جاوے گا.حسد کے معنے ہیں دوسرے کا زوال نعمت چاہنا لیکن جب اپنے نفس سے بالکل محو ہو کر ایک مصلحت کے لئے دوسرے کا زوال چاہتا ہے تو اس وقت یہ ایک محمود صفت ہو جاتی ہے جیسے کہ ہم تثلیث کا زوال چاہتے ہیں.(البدر جلد اوّل نمبر ۱۱ مورخه ۹/جنوری ۱۹۰۳ ء صفحه ۸۳) اگر انسان نہایت پر غور نگاہ سے دیکھے تو اسے معلوم ہوگا کہ جانور کھلے طور پر خلق رکھتے ہیں.میرے مذہب میں سب چرند پرند ایک خلق ہیں اور انسان اس کے مجموعہ کا نام ہے یہ نفس جامع ہے اور اسی لیے عالم صغیر کہلاتا ہے کہ کل مخلوقات کے کمال انسان میں یکجائی طور پر جمع ہیں اور کل انسانوں کے کمالات بہیت مجموعی

Page 77

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة القلم ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع ہیں اور اسی لیے آپ کل دنیا کے لیے مبعوث ہوئے اور رحمتہ للعالمین کہلائے.اِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ میں بھی اس مجموعہ کمالات انسانی کی طرف اشارہ ہے اسی صورت میں عظمت اخلاق محمدی کی نسبت غور کر سکتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ آپ پر نبوت کاملہ کے کمالات ختم ہوئے.(حضرت اقدس کی ایک تقریر اور مسئلہ وحدت الوجود پر ایک خط صفحہ ۷ مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِبِينَ وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيْدُ هِنُونَ وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلافٍ مهين و اسلام نے مداہنہ کو کب جائز رکھا اور ایسا حکم قرآن شریف کے کس مقام میں موجود ہے بلکہ اللہ جنشائنہ مداہنہ کی ممانعت میں صاف فرماتا ہے کہ جو لوگ اپنے باپوں یا اپنی ماؤں کے ساتھ بھی ان کی کفر کی حالت میں مداہنہ کا برتاؤ کریں وہ بھی ان جیسے ہی بے ایمان ہیں اور کفار مکہ کی طرف سے حکایت کر کے فرماتا ہے وَ ذُوا لَوْ تُدْهِنُ فید هنون یعنی اس بات کو کفار مکہ دوست رکھتے ہیں کہ اگر تو حق پوشی کی راہ سے نرمی اختیار کرے تو وہ بھی تیرے دین میں ہاں میں ہاں ملا دیا کریں مگر ایسا ہاں میں ہاں ملانا خدائے تعالیٰ کو منظور نہیں.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۱۳) توان مکذبوں کے کہنے پر مت چل جو بدل اس بات کے آرزو مند ہیں کہ ہمارے معبودوں کو برامت کہو اور ہمارے مذہب کی ہجومت کرو تو پھر ہم بھی تمہارے مذہب کی نسبت ہاں میں ہاں ملاتے رہیں گے اور ان کی چرب زبانی کا خیال مت کرو یہ شخص جو مداہنہ کا خواستگار ہے جھوٹی قسمیں کھانے والا اور ضعیف الرائے اور ذلیل آدمی ہے (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۱۷ حاشیہ) هَمَّارٍ مَشَاءٍ بِنَمِيمٍ ﴿ مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ عُتُلٍ بَعْدَ ذَلِكَ زَنِيمٍ لا اَنْ كَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِينَ ﴿ إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ ايْتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرُطُومِ دوسروں کے عیب ڈھونڈنے والا اور سخن چینی سے لوگوں میں تفرقہ ڈالنے والا اور نیکی کی راہوں سے روکنے والا زنا کار اور بائیں ہمہ نہایت درجہ کا بدخلق اور ان سب عیبوں کے بعد ولد الزنا بھی ہے.عنقریب ہم اس کے

Page 78

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۱ سورة القلم اس ناک پر جو سور کی طرح بہت لمبا ہو گیا ہے داغ لگا دیں گے لمبی ناک سے مراد رسوم اور ننگ و ناموس کی پابندی ہے جو حق کے قبول کرنے سے روکتی ہے (اے خدائے قادر مطلق ہماری قوم کے بعض لمبی ناک والوں کی ناک پر بھی اُسترہ رکھ ) اب کیوں حضرت مولوی صاحب کیا آپ کے نزدیک ان جامع لفظوں سے کوئی گالی باہر رہ گئی ہے.اور اس جگہ ایک نہایت عمدہ لطیفہ یہ ہے کہ ولید ( بن ) مغیرہ نے نرمی اختیار کر کے چاہا کہ ہم سے نرمی کا برتاؤ کیا جائے.اس کے جواب میں اس کے تمام پردے کھولے گئے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مومنین سے مداہنہ کی امید مت رکھو.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۱۶، ۱۷ حاشیه ) بَعد ذلِكَ زَنِيمٍ یعنی یہ ولد الزنا ہے اور تجربہ بتلاتا ہے کہ ولد الزنا شرارت سے باز نہیں آیا کرتے.البدر جلد اوّل نمبر ۳ مورخه ۱۴ / نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۲۲) ۴۹ فَاصْبِرُ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُنْ تَصَاحِبِ الْحُوتِ إِذْ نَادَى وَهُوَ مَنْظُوم خدا تعالیٰ کے فعل پر اعتراض کرنا بڑی گستاخی ہے.یہ لوگ کس گنتی میں ہیں.ایک نبی ( یونس ) بھی صرف لَنْ اَرْجِعَ إِلى قَوْمِي كَذَّابا کہنے سے زیر عتاب ہوا در اصل خدا تعالی کے کسی فعل پر شرح صدر نہ رکھنا بھی ایک مخفی اعتراض ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد ہوتا ہے وَلَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوتِ ایسے امور میں مخاطب تو انبیاء ہوتے ہیں مگر دراصل سبق امت کو دینا منظور ہوتا ہے.ا البدر جلد ۶ نمبر ۱۹ مورخہ ۹ مئی ۱۹۰۷ء صفحه ۴) اللہ تعالیٰ کی عادت ہے کہ ہمیشہ اس کا عتاب ان لوگوں پر ہوتا ہے جن پر اس کے فضل اور عطایات بے شمار ہوں اور جنہیں وہ اپنے نشانات دکھا چکا ہوتا ہے.وہ ان لوگوں کی طرف کبھی متوجہ نہیں ہوتا کہ انہیں عتاب یا خطاب یا ملامت کرے جن کے خلاف اس کا آخری فیصلہ نافذ ہونا ہوتا ہے؛ چنانچہ ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے.فَاصْبِرُ كَمَا صَبَرَ أُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلُ لَهُمُ اور فرماتا وو ب وَلَا تَكُن كَصَاحِبِ الْحُوتِ.....یہ حجت آمیز عتاب اس بات پر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت جلد فیصلہ کفار کے حق میں چاہتے تھے، مگر خدا تعالیٰ اپنے مصالح اور سنن کے لحاظ سے بڑے تو قف اور حلم کے ساتھ کام کرتا ہے، لیکن آخر کار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کو ایسا کچلا اور پیسا کہ اُن کا نام و نشان مٹا دیا.الحکم جلد 4 نمبر ۲۰ مورخه ۳۱ رمئی ۱۹۰۲ صفحه ۵)

Page 79

Page 80

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيطنِ الرَّحِيمِ ۵۳ سورة الحاقة بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الحاقة بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ وَ الْشَقَتِ السَّمَاءِ فَهِيَ يَوْمَبِذٍ وَاهِيَةٌ وَ الْمَلَكُ عَلَى أَرْجَابِهَا ۖ وَ يَحْمِلُ عَرْشَ رَبَّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَبِذٍ ثَنِيَةٌ.جب قیامت واقع ہوگی تو آسمان پھٹ جائے گا اور ڈھیلا اور سست ہو جائے گا اور اس کی قوتیں جاری رہیں گی کیونکہ فرشتے جو آسمان اور آسمانی اجرام کے لیے جان کی طرح تھے وہ سب تعلقات کو چھوڑ کر کناروں پر چلے جائیں گے اور اس دن خدا تعالیٰ کے عرش کو آٹھ فرشتے اپنے سر پر اور کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ہوں گے.اس آیت کی تفسیر میں شاہ عبدالعزیز صاحب لکھتے ہیں کہ در حقیقت آسمان کی بقا باعث ارواح کے ہے یعنی ملائک کے جو آسمان اور آسمانی اجرام کے لیے بطور روحوں کے ہیں اور جیسے روح بدن کی محافظ ہوتی ہے اور بدن پر تصرف رکھتی ہے اسی طرح بعض ملائک آسمان اور آسمانی اجرام پر تصرف رکھتے ہیں اور تمام اجرام سماوی ان کے ساتھ ہی زندہ ہیں اور انہیں کے ذریعہ سے صدور افعال کوا کب ہے پھر جب و ہ ملا ئک جان کی طرح اس قالب سے نکل جائیں گے تو آسمان کا نظام ان کے نکلنے سے درہم برہم ہو جائے گا جیسے جان کے نکل جانے سے قالب کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۳۸ تا ۱۴۰ حاشیه )

Page 81

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۵۴ سورة الحاقة ثُمَّ اعْلَمْ أَنَّ لِله تَعَالَى صِفَاتٍ پھر واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ کی بعض صفات ذاتی ہیں جو اس ذَاتِيَةٌ نَاشِيَةٌ مَنِ افْتِضَاء ذَاتِهِ وَعَلَيْهَا کی ذات کے تقاضا سے پیدا ہونے والی ہیں اور انہیں پر مَدَارُ الْعَالَمِيْنَ كُلِّهَا وَهِيَ أَرْبَعُ رَبُوبِيَّةٌ سب جہانوں کا مدار ہے اور وہ چار ہیں.ربوبیت، وَرَحْمَانِيَّةٌ وَرَجِيْبِيَّةٌ وَمَالِكِيَّةٌ كَمَا أَشَارَ ،رحمانیت، رحیمیت، مالکیت.جیسا کہ اللہ تعالی نے اس الله تَعَالَى إِلَيْهَا في هذِهِ السُّورَةِ وَقَالَ سورة ( فاتحہ ) میں ان کی طرف اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ.الدِّينِ فَهَذِهِ الصَّفَاتُ الذَّاتِيَّةُ سَابِقَةُ پس یہ ذاتی صفات ہر چیز پر سبقت رکھتی ہیں اور ہر چیز پر عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَمُحِيطَةٌ بِكُلِّ شَيْءٍ وَمِنْهَا محيط ہیں.تمام اشیاء کا وجود، ان کی استعدادیں، ان کی وُجُودُ الْأَشْيَاء وَاسْتِعْدَادُهَا وَقَابِلِيَّتُهَا قابلیت اور ان کا اپنے کمال کو پہنچنا انہیں صفات کے ذریعہ وَوُصُوْلُهَا إِلى كَمَالَاتِها وَأَمَّا صِفَةُ سے ہے.لیکن غضب کی صفت خدا تعالیٰ کی ذاتی صفت الْغَضَبِ فَلَيْسَت ذَاتِيَّةٌ لِله تَعَالى بَل نہیں ہے بلکہ وہ بعض موجودات کے مطلقا کمال قبول نہ هِيَ نَاشِيَةٌ مِنْ عَدَمِ قَابِلِيَّةِ بَعْضٍ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور اس طرح گمراہ الْأَعْيَانِ لِلْكَمَالِ الْمُطلق وَكَذَلِكَ صِفَةُ ظہرانے کی صفت کا ظہور بھی گمراہ ہونے والوں میں کبھی الْإِضْلَالِ لَا يَبْدُو إِلَّا بَعْدَ زَيْجُ الضَّالِّین پیدا ہونے کے بعد ہی ہوتا ہے.وَأَمَّا حَضُرُ الصَّفَاتِ الْمَذْكُورَةِ فِي لیکن صفات مذکورہ کا حصر چار کے عدد میں اس عالم کو الْأَرْبَعِ فَنَظَرًا عَلَى الْعَالَمِ الَّذِي يُوجَدُ مد نظر رکھ کر ہے جس میں ان صفات کے آثار پائے جاتے فِيْهِ آثَارُهَا أَلَا تَرَى أَنَّ الْعَالَمَ كُلَّه ہیں.کیا تم نہیں دیکھتے کہ یہ عالم سارے کا سارا بزبانِ يَشْهَدُ عَلى وُجُوْدِ هَذِهِ الصَّفَاتِ بِلِسَانِ حال ان چاروں صفات کے وجود پر شہادت دے رہا ہے الْحَالِ وَقَد تَجَلَّتْ هذهِ الصَّفَاتُ بنخولا اور یہ چاروں صفات اس طور پر جلوہ افروز ہیں کہ کوئی يَشُكُ فِيْهَا بَصِيرٌ إِلَّا مَنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ صاحب بصیرت ان میں شک نہیں کر سکتا سوائے اس کے عَمِينَ.وَهُذِهِ الصَّفَاتُ أَرْبَعُ إِلَى الْقِرَاضِ جو اندھوں میں سے ہو اور یہ صفات اس دُنیا کے اختتام تک النَّشْأَةِ الدُّنْيَوِيَّةِ ثُمَّ تَتَجَى مِن تَحْتِهَا چار کی تعداد میں ہی رہیں گی پھر ان ہی میں سے چار اور أَرْبَعُ أُخْرَى الَّتِي مِن شَأْتِهَا أَنَّهَا لَا تَظْهَرُ صفات جلوہ گر ہوں گی جن کی شان یہ ہے کہ وہ دوسرے الفاتحة : ۲ تا ۴

Page 82

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام سورة الحاقة إِلَّا فِي الْعَالَمِ الْآخِرِ وَأَوَّلُ مَطالِعِهَا جہان میں ہی ظاہر ہوں گی اور ان کی پہلی جلوہ گاہ رب کریم عَرْشُ الرَّبِ الْكَرِيمِ الَّذِي لَمْ يَتَدَنَّسُ کا عرش ہو گا جو کبھی غیر اللہ کے وجود سے آلودہ نہیں ہوا اور بِوُجُودِ غَيْرِ اللهِ تَعَالَى وَصَارَ مَظْهَرًا تامًا وہ عرش پر پروردگار عالم کے انوار کا مظہر تام ہے اور اس الأَنْوَارٍ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَقَوائمه أَربع کے پائے چار ہیں.ربوبیت، رحمانیت، رحیمیت اور رَبُوبِيَّةٌ وَرَحْمَانِيَّةٌ وَرَحِيْمِيَّةٌ وَمَالِكِيَّةُ مالكيت يوم الدین.اور ظلی طور پر ان چاروں صفات کا ، يَوْمِ الدِّينِ.وَلَا جَامِعَ لِهَذِهِ الْأَرْبَعِ عَلى مکمل طور پر جامع اللہ تعالی کے عرش یا انسان کامل کے وَجْهِ الظَّلِيَّةِ إِلَّا عَرْشُ اللہ تعالی وَقَلْبُ دل کے سوا اور کوئی نہیں ، اور یہ چاروں صفات اللہ تعالی الْإِنْسَانِ الْعَامِلِ وَهُذِهِ الصِّفَاتُ أُمَّهَاتُ کی باقی صفات کے لئے اصولی صفات ہیں اور وہ اس لِصِفَاتِ اللهِ كُلِّهَا وَوَقَعَتْ كَقَوَائِمِ عرش کے لئے بمنزلہ پایوں کے ہیں جس پر خدا تعالیٰ الْعَرْشِ الَّذِي اسْتَوَى اللهُ عَلَيْهِ وَفِي لفظ مستوی (جلوہ گر ) ہے اور خدا تعالیٰ کے مستوی ہونے الْإِسْتَوَاء إِشَارَةٌ إِلى هَذَا الْإِنْعِكاس على میں ذات باری کی صفات کے کامل انعکاس کی طرف الْوَجْهِ الْأَتَمِ الْأَكْمَلِ مِنَ الله الذى هُوَ اشارہ ہے جو بہترین خالق ہے.پھر عرش کا ہر پایہ ایک أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ.وَتَنْعَنِى كُلُّ قَائِمَةٍ مِن فرشتہ تک پہنچتا ہے جسے وہ اُٹھائے ہوئے ہے اور اس پایہ الْعَرْشِ إلى ملك هُوَ حَامِلُهَا وَمُدَیر کے متعلق امر کا انتظام کرتا ہے.وہ اس کی تجلیات کے أَمْرِهَا وَمَوْرِدُ تَجَلْيَاتِهَا وَقَاسِمُهَا عَلَى پھیلانے کا ذریعہ بنتا ہے اور ان تجلیات کو بحصہ رسدی أَهْلِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِينَ فَهَذَا مَعْلى قَوْلِ آسمانوں اور زمینوں کے رہنے والوں پر تقسیم کرتا ہے.اللهِ تَعَالَى وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ پس اللہ تعالیٰ کے قول وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةٌ فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ يَحْمِلُوْنَ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةُ کے یہی معنی ہیں.کیونکہ ملائکہ ان صفات صِفَاتًا فِيهَا حَقِيقَةٌ عَرْشِيَّةٌ وَالسر في الہیہ کو اٹھائے ہوئے ہیں جو عرش کی حقیقت سے متعلق ذلِكَ أَنَّ الْعَرْشَ لَيْسَ شَيْئًا مِنْ أَشْيَاء ہیں اور اس میں بھید یہ ہے کہ عرش اس دُنیا کی چیزوں میں الدُّنْيَا بَلْ هُوَ بَرْزَخٌ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ سے نہیں بلکہ وہ دُنیا اور آخرت کے درمیان برزخ اور وَمَبْدَأُ قَدِيم للتجلْبَاتِ الرَّبَّانِيَّةِ رب العالمين، الرحمن الرحیم ، مالک یوم الدین کی صفات وَالرَّحْمَانِيَّةِ وَالرَّحِيمِيَّةِ وَالْمَالِكِيَّةِ کی تجلیات کا ازلی منبع ہے تا احسانات الہیہ کا اظہار اور

Page 83

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۵۶ سورة الحاقة لإظْهَارِ التَّفَضُلَاتِ وَتَكْبِيْلِ الْجَزَاء جزاء سزا کی تکمیل ہو اور یہ عرش اللہ تعالیٰ کی صفات میں وَالدِّينِ.وَهُوَ دَاخِل فِي صِفَاتِ الله تعالی داخل ہے کیونکہ اللہ تعالی ازل سے صاحب عرش ہے اور فَإِنَّهُ كَانَ ذَا الْعَرْشِ مِنْ قَدِيمٍ وَلَمْ يَكُن اس کے ساتھ ازل میں کوئی اور چیز نہ تھی.پس ان باتوں معه شَيئ فَكُنْ مِنَ الْمُتَدَترين پر غور وفکر کرنے والوں میں سے بنو.وَحَقِيقَةُ الْعَرْشِ وَاسْتِوَاءِ اللهِ عَلَيْهِ سری اور عرش کی حقیقت اور اللہ تعالیٰ کا اس پر مستوی ہونا سِ عَظِيمٌ مِنْ أَسْرَارِ الله تَعَالَى وَحِكْمَةُ الہی اسرار میں سے ایک بہت بڑا ستر ہے اور ایک بلیغ حکمت بَالِغَةٌ وَمَعْنَى رُوحَانِي وَسُمّی عَرُنا اور روحانی معنی پر مشتمل ہے اور اس کا نام عرش اس لئے لِتَفْهِيْمِ عُقُولِ هَذَا الْعَالَمِ وَلِتَفْرِيبِ رکھا گیا ہے تا اس جہاں کے اہل عقل کو اس کا مفہوم سمجھایا الْأَمْرِ إلى اِسْتِعْدَادَاتِهِمْ وَهُوَ وَاسِطَةٌ في جائے اور اس بات کا سمجھنا ان کی استعدادوں کے قریب وُصُوْلِ الْفَيْضِ الْإِلهِي وَالتَّجَلِي الرَّحْمَانِي کر دیا جائے اور وہ عرش الہی فیض اور اللہ تعالیٰ کی رحمانی من حَضْرَةِ الْحَق إِلَى الْمَلائِكَةِ وَمِن تجمل کو ملائکہ تک پہنچانے میں واسطہ ہے اور اسی طرح الْمَلَائِكَةِ إِلَى الرُّسُلِ.وَلَا يَقْدَحُ في ملائکہ سے رسولوں تک پہنچانے کا ذریعہ ہے.خدا تعالیٰ کی وَحْدَتِهِ تَعَالَى تَكَثُرُ قَوَابِلِ الْفَيْضِ بَلِ توحید پر یہ بات حرف نہیں لاتی کہ اس کے فیض کو قبول التَّكَثُرُ ههنا يُوجِبُ البَرکات لبنی آدم کرنے والے اور آگے پہنچانے والے وجود بکثرت ہوں وَيَعِيْتُهُمْ عَلَى الْقُوَّةِ الرُّوحَانِيَّة بلکہ اس مقام میں وسائط کی کثرت بنی آدم کے لئے وَيَنْصُرُهُمْ فِي الْمُجَاهَدَاتِ وَالرِّيَاضَات برکات کا موجب ہے اور روحانی قوت کے حصول میں ان کو الْمَوْجِبَةِ لظهورِ الْمُنَاسَبَاتِ الَّتى مدددیتی ہے اور انہیں ان مجاہدوں اور ریاضتوں میں مدد دیتی بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَصِلُونَ إِلَيْهِ مِنَ ہے جو ان مناسبتوں کے ظہور کا موجب بنتی ہے جو بنی آدم النَّفُوسِ كَنَفْسِ الْعَرْشِ وَالْعُقُولِ اور نفوس عالیہ مثلاً نفس عرش اور عقول مجردہ میں موجود ہیں الْمُجَرَّدَةِ إِلَى أَنْ يَصِلُونَ إِلَى الْمَبْدَأَ الْأَوَّلِ جن تک بنی آدم نے پہنچنا ہے یہ سلسلہ جاری رہے گا یہاں وَعِلَّةِ الْعِلْلِ.ثُمَّ إِذَا أَعَانَ السَّالِك تک کہ بنی آدم مبدء اول اور علت علل (ذات باری ) الْجَنَّبَاتُ الْإِلَهِيَّةُ وَالنَّسِيْمُ الرَّحْمَانِيَّةُ تک پائی جائیں.پھر جب الہی کشش اور اس کی رحمانیت فَيَقْطَعُ كَثِيرًا مِنْ مُقْبِهِ وَيُنْجِيْهِ مِنْ بُعْدِ کی ٹھنڈی ہوا سالک کی مدد کریں تو اللہ تعالیٰ اس کے

Page 84

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۵۷ سورة الحاقة الْمَقْصَدِ وَكَثْرَةِ عَقَبَاتِه وَافَاتِه بہت سے پردے دور کر دیتا ہے اور اسے مقصد کی دوری وَيُنَورُهُ بِالنُّورِ الْإِلهِي وَيُدخِلُه في سے اور بہت سی درمیانی روکوں اور آفات سے نجات دے الْوَاصِلِينَ فَيَكُمُلُ لَهُ الْوُصُول دیتا ہے اور اسے (سالک) کو الہی نور سے منور کر دیتا ہے اور وَالشَّهُودُ مَعَ رُؤْيَتِهِ عَجَائِبَاتِ الْمَنَازِلِ زمرہ واصلین میں داخل کر دیتا ہے اور راہ سلوک کی منزلوں وَالْمَقَامَاتِ.وَلَا شُعُورٌ لأَهل العقل اور مقامات کے عجائبات دیکھنے کے ساتھ ساتھ وہ وصال هذِهِ الْمَعَارِفِ وَالنَّعَاتِ وَلَا مَدْخَلَ الہی اور دیدار الہی کے مرتبہ وصول و شہود کو پالیتا ہے لیکن لِلْعَقْلِ فِيْهِ وَالْإطلاعُ بِأَمْقَالِ هذه فلسفیوں کو ان معارف اور باریکیوں کا کچھ بھی پتہ نہیں اور نہ الْمَعَانِي إِنَّمَا هُوَ مِنْ مِشْكَاةِ النُّبُوَّةِ ہی محض عقل کو اس شعور میں کوئی دخل ہے.اور ایسے مطالب وَالْوِلَايَةِ وَمَا شَمَتِ الْعَقْلَ رائحتُه وَمَا اور معانی پر آگاہی صرف مشکوۃ نبوت اور ولایت سے كَانَ لِعَاقِلٍ أَنْ يَضَعَ الْقَدَمَ في هذا حاصل ہوتی ہے اور اس کی خوشبو عقل کو نہیں پہنچ سکتی اور نہ کسی الْمَوْضِع إِلَّا يُجَنْبَةٍ مِنْ جَنَّبَاتِ رَبِّ عظمند کے لئے ممکن ہے کہ وہ اس مقام پر بجز رب العالمین کی کسی کشش کے قدم مار سکے.العالمين.وَإِذَا انْفَكَتِ الْأَرْوَاحُ الطَّيِّبَةُ اور جب نیکوں کی پاک اور کامل روحیں ان مادی الْعَامِلَةُ مِنَ الْأَبْدَانِ وَيَتَطَهَّرُونَ عَلى جسموں سے الگ ہو جاتی ہیں اور وہ مکمل طور پر گناہوں کی وَجْهِ الْكَمَالِ مِنَ الْأَوْسَانِ وَالْأَخْرَانِ میل کچیل سے پاک ہو جاتے ہیں تو وہ فرشتوں کی وسائط يُعْرَضُونَ عَلَى اللهِ تَحْتَ الْعَزِش سے اللہ تعالیٰ کے سامنے عرش کے نیچے اس کے حضور پیش بِوَاسِطَةِ الْمَلَائِكَةِ فَيَأْخُذُونَ بِطَوْرٍ کئے جاتے ہیں تب وہ ایک نئے طور سے ربوبیت سے ایسا جَدِيدٍ حَظًّا مِنْ رَبُوْبِيَّتِهِ يُغَائِرُ رَبُوبِيَّةٌ حصہ پاتے ہیں جو پہلی ربوبیت سے بالکل مختلف ہوتا سَابِقَةً وَحَظًّا مِنْ رَحْمَانِيَّةٍ مُغَايِدِ ہے اور اسی طرح رحمانیت سے حصہ پاتے ہیں جو پہلی رَحْمَانِيَّةٍ أُوْلى وَحَظًّا مِن رَحِيْمِيَّة رحمانیت سے مختلف ہوتا ہے.پھر وہ رحیمیت اور مالکیت وَمَالِكِيَّةٍ مُغَابِرَ مَا كَانَ فِي الدُّنْیا سے ایسا حصہ پاتے ہیں جو دُنیا میں ملنے والے حصہ سے فَهُنَالِكَ تَكُونُ ثَمَانِي صِفَاتٍ تَحْمِلُهَا مختلف ہوگا.اس وقت ان صفات کی تعداد آٹھ ہو جائے گی ثَمَانِيَةٌ مِنْ مَلَائِكَةِ اللهِ بِاذْنِ أَحْسَن جن کو اللہ تعالی کے آٹھ فرشتے احسن الخالقین کے اذن سے

Page 85

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۵۸ سورة الحاقة الْخَالِقِينَ فَإِنَّ لِكُلِ صِفَةٍ مَلَكَ مُوَكَّلْ اُٹھائیں گے اور ہر یک صفت کے لئے ایک فرشتہ مقرر قَد خُلِقَ لِتَوْزِيعِ تِلْكَ الصَّفَةِ عَلَى وَجْهِ ہوگا جو بڑے منظم طریق سے اس صفت کی برکات کو w التَّدْبِيرِ وَوَضْعِهَا في عَمَلِهَا وَإِلَيْهِ إِشَارَةً في باننے اور اسے برحمل رکھنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے.اس في.کیا قَوْلِهِ تَعَالَى فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا فَتَدَبَّرُ وَلا کی طرف اللہ تعالیٰ کے کلام فَالْمُدرَتِ امرا میں تَكُن مِنَ الْغَافِلِينَ.اشارہ ہے.پس تو بھی غور کر اور غافلوں میں شامل نہ ہو.وَزِيَادَةُ الْمَلَائِكَةِ الْحَامِلِين في الآخِرَةِ آخرت میں ملائکہ حاملین عرش کی تعداد کی زیادتی لِزِيَادَةِ تَجَلِّيَاتٍ رَبَّانِيَّةِ وَرَحْمَانِيَّة خدا کی ربوبیت ، رحمانیت ، رحیمیت اور مالکیت کی تجلیات وَرَحِيْمِيَّةٍ وَمَالِكِيَّةٍ عِنْدَ زِيَادَةِ الْقَوَابِل کی زیادتی کی وجہ سے ہے جب کہ فیض قبول کرنے فَإِنَّ النَّفُوسَ الْمُطْمَئِنَّةُ بَعْدَ انْقِطَاعِهَا والے زیادہ ہو جائیں گے کیونکہ نفس مضمونہ اس دنیا سے وَرُجُوْعِهَا إِلَى الْعَالَمِ الثَّانِي وَالرَّبِ تعلق توڑ کر دوسری دُنیا اور رب کریم کی طرف واپس الْكَرِيمِ تَتَرَى فِي اسْتِعْدَادَاتِهَا فَتَتَموّج لوٹنے کے بعد اپنی استعدادوں میں ترقی کرتے ہیں.پس الرُّبُوبِيَّةُ وَالرَّحْمَانِيَةُ وَالرَّحِيْمِيَّةُ ان کی قابلیتوں اور استعدادوں کے مطابق صفات الہیہ وَالْمَالِكِيَّةُ بِحَسْبٍ قَابِلِيَّاتِهم ربوبیت، رحمانیت، رحیمیت اور مالکیت موجزن ہوتی وَاسْتِعْدَادَاتِهِمْ كَمَا تَشْهَدُ عَلَيْهِ ہیں.جیسا کہ عارف باللہ لوگوں کے کشوف اس امر پر كُشُوْفُ الْعَارِفِينَ.وَإِنْ كُنْتَ مِنَ الَّذِينَ گواہ ہیں ، اور اگر تم ان لوگوں میں سے ہو جنہیں قرآن أُعْطِيَ لَهُمْ حَظِّ مِنَ الْقُرْآنِ فَتَجِدُ فِيهِ کریم کے فہم کا کچھ حصہ عطا کیا گیا ہے تو تمہیں بھی اس كَثِيرًا مِنْ مِثْلِ هَذَا الْبَيَانِ فَانظُرُ کتاب مجید میں ایسے بہت سے بیانات ملیں گے.پس تم بِالنَّظرِ الدَّقِيقِ لِتَجِدَ شَهَادَةَ هذا گہری نظر سے دیکھو تا تمہیں اللہ تعالیٰ پروردگار عالم کی التَّحْقِيقِ مِنْ كِتَابِ اللهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.کتاب سے میری اس تحقیق کی تصدیق مل جائے.(کرامات الصادقین ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۱۲۸ تا ۱۳۱) (ترجمه از مرتب) یہ چاروں صفتیں ( ربوبیت، رحمانیت، رحیمیت اور مالکیت.ناقل ) دنیا میں ہی کام کر رہی ہیں مگر چونکہ دنیا کا دائرہ نہایت تنگ ہے اور نیز جہل اور بے خبری اور کم نظری انسان کے شامل حال ہے اس لئے یہ نہایت وسیع دائرے صفات اربعہ کے اس عالم میں ایسے چھوٹے نظر آتے جیسے بڑے بڑے گولے ستاروں کے دُور النازعات :

Page 86

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۵۹ سورة الحاقة سے صرف نقطے دکھائی دیتے ہیں.لیکن عالم معاد میں پورا نظارہ ان صفات اربعہ کا ہوگا.اس لئے حقیقی اور کامل طور پر یوم الدین وہی ہو گا جو عالم معاد ہے.اُس عالم میں ہر ایک صفت ان صفات اربعہ میں سے دو ہری طور پر اپنی شکل دکھائے گی یعنی ظاہری طور پر اور باطنی طور پر اس لئے اس وقت یہ چار صفتیں آٹھ صفتیں معلوم ہوں گی.اسی کی طرف اشارہ ہے جو فرمایا گیا ہے کہ اس دنیا میں چار فرشتے خدا تعالیٰ کا عرش اُٹھا رہے ہیں اور اُس دن آٹھ فرشتے خدا تعالیٰ کا عرش اٹھا ئیں گے.یہ استعارہ کے طور پر کلام ہے.چونکہ خدا تعالیٰ کی ہر صفت کے مناسب حال ایک فرشتہ بھی پیدا کیا گیا ہے اس لئے چار صفات کے متعلق چار فرشتے بیان کئے گئے.اور جب آٹھ صفات کی تجلی ہو گی تو اُن صفات کے ساتھ آٹھ فرشتے ہوں گے.اور چونکہ یہ صفات الوہیت کی ماہیت کو ایسا اپنے پر لئے ہوئے ہیں کہ گویا اُس کو اُٹھا رہے ہیں اس لئے استعارہ کے طور پر اُٹھانے کا لفظ بولا گیا ہے.ایسے استعارات لطیفہ خدا تعالیٰ کی کلام میں بہت ہیں جن میں روحانیت کو جسمانی رنگ میں دکھایا گیا ہے.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۵۲،۲۵۱) ایک اور اعتراض مخالف لوگ پیش کرتے ہیں اور وہ یہ کہ قرآن شریف کے بعض مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن عرش کو آٹھ فرشتے اٹھا ئیں گے جس سے اشارۃ النص کے طور پر معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں چار فرشتے عرش کو اٹھاتے ہیں اور اب اس جگہ اعتراض یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ تو اس بات سے پاک اور برتر ہے کہ کوئی اُس کے عرش کو اٹھاوے.اس کا جواب یہ ہے کہ ابھی تم سن چکے ہو کہ عرش کوئی جسمانی چیز نہیں ہے جو اٹھائی جائے یا اٹھانے کے لائق ہو بلکہ صرف تنزہ اور تقدس کے مقام کا نام عرش ہے اسی لئے اس کو غیر مخلوق کہتے ہیں.ورنہ ایک مجسم چیز خدا کی خالقیت سے کیوں کر باہر رہ سکتی ہے اور عرش کی نسبت جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ سب استعارات ہیں.پس اس سے ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ایسا اعتراض محض حماقت ہے.اب ہم فرشتوں کے اٹھانے کا اصل نکتہ ناظرین کو سناتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے تنزہ کے مقام میں یعنی اس مقام میں جب کہ اُس کی صفت تنزہ اُس کی تمام صفات کو روپوش کر کے اُس کو وراء الوراء اور نہاں در نہاں کر دیتی ہے.جس مقام کا نام قرآن شریف کی اصطلاح میں عرش ہے تب خدا عقول انسانیہ سے بالاتر ہو جاتا ہے اور عقل کو طاقت نہیں رہتی کہ اُس کو دریافت کر سکے تب اُس کی چار صفتیں جن کو چار فرشتوں کے نام سے موسوم کیا گیا ہے جو دُنیا میں ظاہر ہو چکی ہیں اُس کے پوشیدہ وجود کو ظاہر کرتی ہیں.(۱) اول ربوبیت جس کے ذریعہ سے وہ انسان کی روحانی اور جسمانی تکمیل کرتا ہے چنانچہ روح اور جسم کا ظہور ربوبیت کے تقاضا سے

Page 87

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۰ سورة الحاقة ہے اور اسی طرح خدا کا کلام نازل ہونا اور اُس کے خارق عادت نشان ظہور میں آنار بوبیت کے تقاضا سے ہے(۲) دوم خدا کی رحمانیت جو ظہور میں آچکی ہے یعنی جو کچھ اُس نے بغیر پاداش اعمال بیشمار نعمتیں انسان کے لئے میسر کی ہیں یہ صفت بھی اُس کے پوشیدہ وجود کو ظاہر کرتی ہے (۳) تیسری خدا کی رحیمیت ہے اور وہ یہ کہ نیک عمل کرنے والوں کو اول تو صفت رحمانیت کے تقاضا سے نیک اعمال کی طاقتیں بخشتا ہے اور پھر صفت رحیمیت کے تقاضا سے نیک اعمال اُن سے ظہور میں لاتا ہے اور اس طرح پر اُن کو آفات سے بچاتا ہے.یہ صفت بھی اُس کے پوشیدہ وجود کو ظاہر کرتی ہے (۴) چوتھی صفت مَالِكِ يَوْمِ الدِّين ہے یہ بھی اُس کے پوشیدہ وجود کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ نیکوں کو جزا اور بدوں کو سزا دیتا ہے.یہ چاروں صفتیں ہیں جو اُس کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں یعنی اُس کے پوشیدہ وجود کا ان صفات کے ذریعہ سے اس دنیا میں پتہ لگتا ہے اور یہ معرفت عالم آخرت میں دو چند ہو جائے گی گویا بجائے چار کے آٹھ فرشتے ہو جا ئیں گے.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۷۹،۲۷۸) خُذُوهُ فَعلُوهُ ثُمَّ الْجَحِيمَ صَلُّوهُ ثُمَّ فِى سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُونَ ذِرَاعًا فاسلكوه (۳۳) اس جہنمی کو پکڑو.اس کی گردن میں طوق ڈالو.پھر دوزخ میں اس کو جلاؤ.پھر ایسی زنجیر میں جو پیمائش میں سنتی گز ہے اس کو داخل کرو.جاننا چاہئے کہ ان آیات میں ظاہر فرمایا ہے کہ دنیا کا روحانی عذاب عالم معاد میں جسمانی طور پر نمودار ہوگا.چنانچہ طوق گردن دنیا کی خواہشوں کا جس نے انسان کے سرکوزمین کی طرف جھکا رکھا تھا.وہ عالم ثانی میں ظاہری صورت پر نظر آ جائے گا.اور ایسا ہی دنیا کی گرفتاریوں کی زنجیر پیروں میں پڑی ہوئی دکھائی دے گی اور دنیا کی خواہشوں کی سوزشوں کی آگ ظاہر بھر کی ہوئی نظر آئے گی.فاسق انسان دنیا کی زندگی میں ہوا و ہوس کا ایک جہنم اپنے اندر رکھتا ہے اور ناکامیوں میں اس جہنم کی سوزشوں کا احساس کرتا ہے.پس جبکہ اپنی فانی شہوات سے دور ڈالا جائے گا اور ہمیشہ کی ناامیدی طاری ہوگی تو خدا تعالیٰ ان حسرتوں کو جسمانی آگ کے طور پر اس پر ظاہر کرے گا.جیسا کہ وہ فرماتا ہے.وَحِيل بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ یعنی ان میں اور ان کی خواہشوں کی چیزوں میں جدائی ڈالی جائے گی اور یہی عذاب کی جڑھ ہوگی.اور پھر جو فرمایا کہ ستری گز کی زنجیر میں اس کو داخل کرو.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے

Page 88

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام บ سورة الحاقة کہ ایک فاسق بسا اوقات ستر برس کی عمر پالیتا ہے بلکہ کئی دفعہ اس دنیا میں اس کو ایسے ستر برس بھی ملتے ہیں کہ خوردسالی کی عمر اور پیر فرتوت ہونے کی عمر الگ کر کے پھر اس قدر صاف اور خالص حصہ عمر کا اس کو ملتا ہے جو عقلمندی اور محنت اور کام کے لائق ہوتا ہے لیکن وہ بد بخت اپنی عمدہ زندگی کے سنہرے برس دنیا کی گرفتاریوں میں گزارتا ہے اور اس زنجیر سے آزاد ہونا نہیں چاہتا.سو خدا تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ وہی ستر برس جو اس نے گرفتاری دنیا میں گزارے تھے عالم معاد میں ایک زنجیر کی طرح مستمثل ہو جائیں گے جو سترگز کی ہوگی.ہر ایک گز بجائے ایک سال کے ہے.اس جگہ یا درکھنا چاہئے کہ خدا تعالی اپنی طرف سے بندہ پر کوئی مصیبت نہیں ڈالتا بلکہ وہ انسان کے اپنے ہی برے کام اس کے آگے رکھ دیتا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۱۰،۴۰۹) اِنَّه لَقَولُ رَسُولِ كَرِيمٍ وَ مَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُونَ وَلَا بِقَوْلِ كَاهِن قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ ، تَنْزِيلٌ مِنْ رَّبِّ الْعَلَمِينَ وَ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الأَقاويل لاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ فَمَا مِنْكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَجِزِيْنَ یہ قرآن کلام رسول کا ہے یعنی وحی کے ذریعہ سے اُس کو پہنچا ہے.اور یہ شاعر کا کلام نہیں مگر چونکہ تمہیں ایمانی فراست سے کم حصہ ہے اس لئے تم اس کو پہچانتے نہیں اور یہ کا ہن کا کلام نہیں یعنی اس کا کلام نہیں جو جنات سے کچھ تعلق رکھتا ہو.مگر تمہیں تدبر اور تذکر کا بہت کم حصہ دیا گیا ہے اس لئے ایسا خیال کرتے ہو.تم نہیں سوچتے کہ کا ہن کس پست اور ذلیل حالت میں ہوتے ہیں بلکہ یہ ربّ العالمین کا کلام ہے.جو عالم اجسام اور عالم ارواح دونوں کا رب ہے یعنی جیسا کہ وہ تمہارے اجسام کی تربیت کرتا ہے ایسا ہی وہ تمہاری رُوحوں کی تربیت کرنا چاہتا ہے اور اسی ربوبیت کے تقاضا کی وجہ سے اُس نے اس رسول کو بھیجا ہے.اور اگر یہ رسول کچھ اپنی طرف سے بنالیتا اور کہتا کہ فلاں بات خدا نے میرے پروحی کی ہے حالانکہ وہ کلام اس کا ہوتا نہ خدا کا تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے اور پھر اُس کی رگِ جان کاٹ دیتے اور کوئی تم میں سے اس کو بچانہ سکتا.یعنی اگر وہ ہم پر افترا کرتا تو اس کی سزا موت تھی کیونکہ وہ اس صورت میں اپنے جھوٹے دعوے سے

Page 89

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۶۲ سورة الحاقة افترا اور کفر کی طرف بلا کر ضلالت کی موت سے ہلاک کرنا چاہتا تو اس کا مرنا اس حادثہ سے بہتر ہے کہ تمام دنیا اس کی مفتر یانہ تعلیم سے ہلاک ہو اس لئے قدیم سے ہماری یہی سنت ہے کہ ہم اُسی کو ہلاک کر دیتے ہیں جو دنیا کے لئے ہلاکت کی راہیں پیش کرتا ہے اور جھوٹی تعلیم اور جھوٹے عقائد پیش کر کے مخلوق خدا کی روحانی موت چاہتا ہے اور خدا پر افتر اکر کے گستاخی کرتا ہے.اب ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی پر یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ اگر وہ ہماری طرف سے نہ ہوتا تو ہم اس کو ہلاک کر دیتے اور وہ ہرگز زندہ نہ رہ سکتا گوتم لوگ اس کے بچانے کے لئے کوشش بھی کرتے.(اربعین، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۸۹٬۳۸۸) خدا تعالیٰ قرآن شریف میں ایک شمشیر برہنہ کی طرح یہ حکم فرماتا ہے کہ یہ نبی اگر میرے پر جھوٹ بولتا اور کسی بات میں افترا کرتا تو میں اس کی رگِ جان کاٹ دیتا اور اس مدت دراز تک وہ زندہ نہ رہ سکتا.تو اب جب ہم اپنے اس مسیح موعود کو اس پیمانہ سے ناپتے ہیں تو براہین احمدیہ کے دیکھنے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دعویٰ منجانب اللہ ہونے اور مکالمات الہیہ کا قریبا تیس برس سے ہے اور اکیس برس سے براہین احمدیہ شائع ہے.پھر اگر اس مدت تک اس مسیح کا ہلاکت سے امن میں رہنا اس کے صادق ہونے پر دلیل نہیں ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تئیس برس تک موت سے بچنا آپ کے سچا ہونے پر بھی دلیل نہیں ہے کیونکہ جبکہ خدا تعالیٰ نے اس جگہ ایک جھوٹے مدعی رسالت کو تیس برس تک مہلت دی اور کو تقول علینا کے وعدہ کا کچھ خیال نہ کیا تو اسی طرح نعوذ باللہ یہ بھی قریب قیاس ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی باوجود کا ذب ہونے کے مہلت دے دی ہو مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کا ذب ہونا محال ہے.پس جو مستلزم محال ہو وہ بھی محال.اور ظاہر ہے کہ یہ قرآنی استدلال بدیہی الظہور جبھی ٹھہر سکتا ہے جبکہ یہ قاعدہ کلی مانا جائے کہ خدا اس مفتری کو جو خلقت کے گمراہ کرنے کے لئے مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہو کبھی مہلت نہیں دیتا کیونکہ اس طرح پر اُس کی بادشاہت میں گڑ بڑ پڑ جاتا ہے اور صادق اور کاذب میں تمیز اُٹھ جاتی ہے.(اربعین، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۹۱، ۳۹۲) قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ جو شخص خدا پر افترا کرے وہ ہلاک کیا جاتا ہے.....اللہ تعالی نے آیت کو تقول عَلَيْنَا کو بطور لغو نہیں لکھا جس سے کوئی حجت قائم نہیں ہو سکتی.اور خدا تعالیٰ ہر ایک لغو کام سے پاک ہے.پس جس حالت میں اس حکیم نے اس آیت کو اور ایسا ہی اُس دوسری آیت کو جس کے یہ الفاظ ہیں

Page 90

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۶۳ سورة الحاقة إذا الأَذَقْتُكَ ضِعْفَ الحَيوةِ وَضِعْفَ الْمَسَاتِ (بنی اسرائیل : ۷۶ ) ( یعنی اگر یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پر کچھ جھوٹ باندھتا تو ہم اس کو اس کی زندگی اور موت سے دو چند عذاب چکھاتے.اس سے مراد یہ ہے کہ نہایت سخت عذاب سے ہلاک کرتے.) محل استدلال پر بیان کیا ہے تو اس سے ماننا پڑتا ہے کہ اگر کوئی شخص بطور افترا کے نبوت اور مامور من اللہ ہونے کا دعوی کرے تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ نبوت کے مانند ہر گز زندگی نہیں پائے گا.ورنہ یہ استدلال کسی طرح صحیح نہیں ٹھہرے گا اور کوئی ذریعہ اس کے سمجھنے کا قائم نہیں ہوگا کیونکہ اگر خدا پر افترا کر کے اور جھوٹا دعوی مامور من اللہ ہونے کا کر کے تیئیس برس تک زندگی پالے اور ہلاک نہ ہو تو بلاشبہ ایک منکر کے لئے حق پیدا ہو جائے گا کہ وہ یہ اعتراض پیش کرے کہ جبکہ اس دروغگو نے جس کا دروغگو ہونا تم تسلیم کرتے ہو تئیس برس تک یا اس سے زیادہ عرصہ تک زندگی پالی اور ہلاک نہ ہوا تو ہم کیوں کر سمجھیں کہ ایسے کاذب کی مانند تمہارا نبی نہیں تھا.ایک کا ذب کو تئیس برس تک مہلت مل جانا صاف اس بات پر دلیل ہے کہ ہر ایک کا ذب کو ایسی مہلت مل سکتی ہے.پھر کو تَقَولَ عَلَيْنَا کا صدق لوگوں پر کیوں کر ظاہر ہوگا ؟ اور اس بات پر یقین کرنے کے لئے کون سے دلائل پیدا ہوں گے کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم افتر اکرتے تو ضرور تئیس برس کے اندر اندر ہلاک کئے جاتے لیکن اگر دوسرے لوگ افترا کریں تو وہ تئیس برس سے زیادہ مدت تک بھی زندہ رہ سکتے ہیں اور خدا ان کو ہلاک نہیں کرتا.یہ تو وہی مثال ہے.مثلاً ایک دوکاندار کہے کہ اگر میں اپنے دوکان کے کاروبار میں کچھ خیانت کروں یا رڈی چیزیں دوں یا جھوٹ بولوں یا کم وزن کروں تو اُسی وقت میرے پر بجلی پڑے گی اس لئے تم لوگ میرے بارے میں بالکل مطمئن رہو اور کچھ شک نہ کرو کہ کبھی میں کوئی روی چیز دوں گا یا کم وزنی کروں گا یا جھوٹ بولوں گا بلکہ آنکھ بند کر کے میری دوکان سے سودالیا کرو اور کچھ تفتیش نہ کرو تو کیا اس بیہودہ قول سے لوگ تسلی پا جائیں گے.اور اس کے اس لغو قول کو اس کی راستبازی پر ایک دلیل سمجھ لیں گے؟ ہر گز نہیں.معاذ اللہ ایسا قول اس شخص کی راستبازی کی ہرگز دلیل نہیں ہوسکتی بلکہ ایک رنگ میں خلق خدا کو دھوکا دینا اور ان کو غافل کرنا ہے.ہاں دوصورت میں یہ دلیل ٹھہر سکتی ہے.(۱) ایک یہ کہ چند دفعہ لوگوں کے سامنے یہ اتفاق ہو چکا ہو کہ اس شخص نے اپنی فروختنی اشیاء کے متعلق کچھ جھوٹ بولا ہو یا کم وزن کیا ہو یا کسی اور قسم کی خیانت کی ہو تو اسی وقت اُس پر بجلی پڑی ہو.اور نیم مردہ کر دیا ہو.اور یہ واقعہ جھوٹ بولنے یا خیانت یا کم وزنی کرنے کا بار بار پیش آیا ہو اور بار بار بجلی پڑی ہو یہاں تک کہ لوگوں کے دل یقین کر گئے ہوں کہ درحقیقت خیانت اور جھوٹ

Page 91

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۶۴ سورة الحاقة کے وقت اس شخص پر بجلی کا حملہ ہوتا ہے تو اس صورت میں یہ قول ضرور بطور دلیل استعمال ہوگا.کیونکہ بہت سے لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ جھوٹ بولا اور بجلی گری.(۲) دوسری صورت یہ ہے کہ عام لوگوں کے ساتھ یہ واقعہ پیش آوے کہ جو شخص دوکاندار ہو کر اپنی فروختنی اشیاء کے متعلق کچھ جھوٹ بولے یا کم وزن کرے یا اور کسی قسم کی خیانت کرے یا کوئی رڈی چیز بیچے تو اس پر بجلی پڑا کرے.سواس مثال کو زیر نظر رکھ کر ہر ایک منصف کو کہنا پڑتا ہے کہ خدائے علیم و حکیم کے مُنہ سے لو تقول عَلَيْنَا کا لفظ نکلنا وہ بھی تبھی ایک برہان قاطع کا کام دے گا کہ جب دو صورتوں میں سے ایک صورت اس میں پائی جائے.(۱) اول یہ کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اس سے کوئی جھوٹ بولا ہو اور خدا نے کوئی سخت سزا دی ہو اور لوگوں کو بطور امور مشہودہ محسوسہ کے معلوم ہو کہ آپ اگر خدا پر افترا کریں تو آپ کو سزا ملے گی جیسا کہ پہلے بھی فلاں فلاں موقعہ پر سزا ملی لیکن اس قسم کے استدلال کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک وجود کی طرف راہ نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ایسا خیال کرنا بھی کفر ہے.(۲) دوسرے استدلال کی یہ صورت ہے کہ خدا تعالیٰ کا یہ عام قاعدہ ہو کہ جو شخص اُس پر افتر ا کرے اس کو کوئی لمبی مہلت نہ دی جائے اور جلد تر ہلاک کیا جائے.سو یہی استدلال اس جگہ پر صیح ہے.ورنہ کو تقول عَلَيْنَا کا فقرہ ایک معترض کے نزدیک محض دھوکا دہی اور نعوذ باللہ ایک فضول گو دوکاندار کے قول کے رنگ میں ہوگا.جولوگ خدا تعالیٰ کے کلام کی عزت کرتے ہیں اُن کا کانشنس ہر گز اس بات کو قبول نہیں کرے گا کہ تو تَقَولُ عَلَيْنَا کا فقرہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا مہمل ہے جس کا کوئی بھی ثبوت نہیں.صاف ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کا ان مخالفوں کو یہ بے ثبوت فقرہ سنانا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو نہیں مانتے اور نہ قرآن شریف کو من جانب اللہ مانتے ہیں محض لغو اور طفل تسلی سے بھی کمتر ہے.اور ظاہر ہے کہ منکر اور معاند اس سے کیا اور کیوں کر تسلی پکڑیں گے بلکہ ان کے نزدیک تو یہ صرف ایک دعویٰ ہوگا جس کے ساتھ کوئی دلیل نہیں.ایسا کہنا کس قدر بیہودہ خیال ہے کہ اگر فلاں گناہ میں کروں تو مارا جاؤں کو کروڑہا دوسرے لوگ ہر روز دنیا میں وہی گناہ کرتے ہیں اور مارے نہیں جاتے.اور کیسا یہ مکروہ عذر ہے کہ دوسرے گناہگاروں اور مفتریوں کو خدا کچھ نہیں کہتا یہ سزا خاص میرے لئے ہے.اور عجیب تریہ کہ ایسا کہنے والا یہ بھی تو ثبوت نہیں دیتا کہ گذشتہ تجربہ سے مجھے معلوم ہوا ہے اور لوگ دیکھ چکے ہیں کہ اس گناہ پر ضرور مجھے سزا ہوتی ہے.غرض خدا تعالیٰ کے حکیمانہ کلام کو جو د نیا میں اتمام حجت کے لئے نازل ہوا ہے.ایسے بیہودہ طور پر خیال کرنا خدا تعالی کی پاک کلام سے ٹھٹھا اور جنسی ہے اور

Page 92

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام سورة الحاقة قرآن شریف میں صد ہا جگہ اس بات کو پاؤ گے کہ خدا تعالیٰ مفتری علی اللہ کو ہر گز سلامت نہیں چھوڑتا اور اسی دنیا میں اس کو سزا دیتا ہے اور ہلاک کرتا ہے.اربعین ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۴۳۰ تا ۴۳۳) خدا تعالیٰ قرآن شریف میں بار بار فرماتا ہے کہ مفتری اسی دنیا میں ہلاک ہوگا بلکہ خدا کے سچے نبیوں اور مامورین کے لئے سب سے پہلی یہی دلیل ہے کہ وہ اپنے کام کی تکمیل کر کے مرتے ہیں.اور ان کو اشاعت ۲۳ دین کے لئے مہلت دی جاتی ہے اور انسان کی اس مختصر زندگی میں بڑی سے بڑی مہلت تیئیس برس ہیں کیونکہ اکثر نبوت کا ابتدا چالیس برس پر ہوتا ہے اور تئیس برس تک اگر اور عمر ملی تو گویا عمدہ زمانہ زندگی کا یہی ہے.اسی وجہ سے میں بار بار کہتا ہوں کہ صادقوں کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا زمانہ نہایت صحیح پیمانہ ہے اور ہر گز ممکن نہیں کہ کوئی شخص جھوٹا ہو کر اور خدا پر افتر اکر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ۲۳ زمانہ نبوت کے موافق یعنی تیس برس تک مہلت پا سکے ضرور ہلاک ہوگا.اس بارے میں میرے ایک دوست نے اپنی نیک نیتی سے یہ عذر پیش کیا تھا کہ آیت کو تَقَولَ عَلَيْناً میں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب ہیں.اس سے کیوں کر سمجھا جائے کہ اگر کوئی دوسرا شخص افتر ا کرے تو وہ بھی ہلاک کیا جائے گا.میں نے اس کا یہی جواب دیا تھا کہ خدا تعالیٰ کا یہ قول محل استدلال پر ہے اور منجملہ دلائل صدق نبوت کے یہ بھی ایک دلیل ہے اور خدا تعالیٰ کے قول کی تصدیق تبھی ہوتی ہے کہ جھوٹا دعوی کرنے والا ہلاک ہو جائے ورنہ یہ قول منکر پر کچھ حجت نہیں ہو سکتا اور نہ اس کے لئے بطور دلیل ٹھہر سکتا ہے بلکہ وہ کہہ سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تیئیس برس تک ہلاک نہ ہونا اس وجہ سے نہیں کہ وہ صادق ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ خدا پر افترا کرنا ایسا گناہ نہیں ہے جس سے خدا اسی دنیا میں کسی کو ہلاک کرے کیونکہ اگر یہ کوئی گناہ ہوتا اور سنت اللہ اس پر جاری ہوتی کہ مفتری کو اس دنیا میں سزا دینا چاہئے تو اس کے لئے نظیر یں ہونی چاہیئیں تھیں.اور تم قبول کرتے ہو کہ اس کی کوئی نظیر نہیں بلکہ بہت سی ایسی نظیریں موجود ہیں کہ لوگوں نے تیس برس تک بلکہ اس سے زیادہ خدا پر افترا کئے اور ہلاک نہ ہوئے.تو اب بتلاؤ کہ اس اعتراض کا کیا جواب ہوگا ؟ ۲۳ (اربعین، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۴۳۵،۴۳۴) اس مقام سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالی کی تمام پاک کتابیں اس بات پر متفق ہیں کہ جھوٹا نبی ہلاک کیا جاتا ہے.اب اس کے مقابل یہ پیش کرنا کہ اکبر بادشاہ نے نبوت کا دعوی کیا یا روشن دین جالند ہری نے دعوی کیا یا کسی اور شخص نے دعویٰ کیا اور وہ ہلاک نہیں ہوئے یہ ایک دوسری حماقت ہے جو ظاہر کی جاتی ہے.

Page 93

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۶۶ سورة الحاقة بھلا اگر یہ سچ ہے کہ ان لوگوں نے نبوت کے دعوے کئے اور تیئیس برس تک ہلاک نہ ہوئے تو پہلے اُن لوگوں کی خاص تحریر سے ان کا دعویٰ ثابت کرنا چاہئے اور وہ الہام پیش کرنا چاہئے جو الہام انہوں نے خدا کے نام پر لوگوں کو سنایا.یعنی یہ کہا کہ ان لفظوں کے ساتھ میرے پر وحی نازل ہوئی ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں.اصل لفظ اُن کی وحی کے کامل ثبوت کے ساتھ پیش کرنے چاہئیں.کیونکہ ہماری تمام بحث وحی نبوت میں ہے جس کی نسبت یہ ضروری ہے کہ بعض کلمات پیش کر کے یہ کہا جائے کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ہمارے پر نازل ہوا ہے.غرض پہلے تو یہ ثبوت دینا چاہئے کون سا کلام الہی اس شخص نے پیش کیا ہے جس نے نبوت کا دعوی کیا پھر بعد اس کے یہ ثبوت دینا چاہئے کہ جو تیئیس برس تک کلام الہی اس پر نازل ہوتا رہا وہ کیا ہے یعنی کل وہ کلام جو کلام الہی کے دعوے پر لوگوں کو سنایا گیا ہے پیش کرنا چاہئے.جس سے پتہ لگ سکے کہ تیس برس تک متفرق وقتوں میں وہ کلام اس غرض سے پیش کیا گیا تھا کہ وہ خدا کا کلام ہے.یا ایک مجموعی کتاب کے طور پر قرآن شریف کی طرح اس دعوے سے شائع کیا گیا تھا کہ یہ خدا کا کلام ہے جو میرے پر نازل ہوا ہے.جب تک ایسا ثبوت نہ ہو تب تک بے ایمانوں کی طرح قرآن شریف پر حملہ کرنا اور آیت کو تقول کو ہنسی ٹھٹھے میں اُڑانا اُن شریر لوگوں کا کام ہے جن کو خدا تعالی پر بھی ایمان نہیں اور صرف زبان سے کلمہ پڑھتے اور باطن میں اسلام سے بھی منکر ہیں.(اربعین، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۷۷) تقول کا حکم قطع اور یقین کے متعلق ہے پس جیسا کہ میں نے بار بار بیان کر دیا ہے کہ یہ کلام جو میں سناتا ہوں یہ قطعی اور یقینی طور پر خدا کا کلام ہے جیسا کہ قرآن اور توربیت خدا کا کلام ہے اور میں خدا کا ظلی اور بروزی طور پر نبی ہوں اور ہر ایک مسلمان کو دینی امور میں میری اطاعت واجب ہے اور مسیح موعود ماننا واجب ہے اور ہر ایک جس کو میری تبلیغ پہنچ گئی ہے گو وہ مسلمان ہے مگر مجھے اپنا حکم نہیں ٹھہراتا اور نہ مجھے مسیح موعود مانتا ہے اور نہ میری وحی کو خدا کی طرف سے جانتا ہے وہ آسمان پر قابل مواخذہ ہے کیونکہ جس امر کو اُس نے اپنے وقت پر قبول کرنا تھا اُس کو رڈ کر دیا میں صرف یہ نہیں کہتا کہ میں اگر جھوٹا ہوتا تو ہلاک کیا جاتا بلکہ میں یہ بھی کہتا ہوں کہ موسیٰ اور عیسی اور داؤد اور آنحضرت صلعم کی طرح میں سچا ہوں اور میری تصدیق کے لئے خدا نے دس ہزار سے بھی زیادہ نشان دکھلائے ہیں.قرآن نے میری گواہی دی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری گواہی دی ہے.پہلے نبیوں نے میرے آنے کا زمانہ متعین کر دیا ہے کہ جو یہی زمانہ ہے اور قرآن

Page 94

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۶۷ سورة الحاقة بھی میرے آنے کا زمانہ متعین کرتا ہے کہ جو یہی زمانہ ہے اور میرے لئے آسمان نے بھی گواہی دی اور زمین نے بھی اور کوئی نبی نہیں جو میرے لئے گواہی نہیں دے چکا اور یہ جو میں نے کہا کہ میرے دس ہزار نشان ہیں یہ بطور کفایت لکھا گیا اور نہ مجھے قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر ایک سفید کتاب ہزار حجز کی بھی کتاب ہو اور اس میں میں اپنے دلائل صدق لکھنا چاہوں تو میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ کتاب ختم ہو جائے گی اور وہ دلائل ختم نہیں ہوں گے.(تحفة الندوة ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۹۶٬۹۵) اگر یہ نبی ہمارے پر افترا کرتا تو ہم اس کو دبنے ہاتھ سے پکڑ لیتے پھر اس کی وہ رگ کاٹ دیتے جو جان کی رگ ہے یہ آیت اگر چہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن اس کے معنوں میں عموم ہے جیسا کہ تمام قرآن شریف میں یہی محاورہ ہے کہ بظاہر اکثر امر و نہی کے مخاطب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے ہیں لیکن اُن احکام میں دوسرے بھی شریک ہوتے ہیں یا وہ احکام دوسروں کے لئے ہی ہوتے ہیں...آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت جو فرمایا کہ اگر وہ ہمارے پر کچھ افترا کرتا تو ہم اُس کو ہلاک کر دیتے.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ صرف خدا تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ غیرت اپنی ظاہر کرتا ہے کہ آپ اگر مفتری ہوتے تو آپ کو ہلاک کر دیتا مگر دوسروں کی نسبت یہ غیرت نہیں ہے اور دوسرے خواہ کیسا ہی خدا پر افترا کریں اور جھوٹے الہام بنا کر خدا کی طرف منسوب کر دیا کریں اُن کی نسبت خدا کی غیرت جوش نہیں مارتی.یہ خیال جیسا کہ غیر معقول ہے.ایسا ہی خدا کی تمام کتابوں کے برخلاف بھی ہے اور اب تک توریت میں بھی یہ فقرہ موجود ہے کہ جو شخص خدا پر افتر اکرے گا اور جھوٹا دعوی نبوت کا کرے گا وہ ہلاک کیا جاوے گا.علاوہ اس کے قدیم سے علماء اسلام آیت کو تقول عَلَيْنَا کو عیسائیوں اور یہودیوں کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کے لئے بطور دلیل پیش کرتے رہے ہیں.اور ظاہر ہے کہ جب تک کسی بات میں عموم نہ ہو وہ دلیل کا کام نہیں دے سکتی.بھلا یہ کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اگر افترا کرتے تو ہلاک کئے جاتے اور تمام کام بگڑ جاتا لیکن اگر کوئی دوسرا افترا کرے تو خدا ناراض نہیں ہوتا بلکہ اس سے پیار کرتا ہے اور اُس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی زیادہ مہلت دیتا ہے اور اُس کی نصرت اور تائید کرتا ہے اس کا نام تو دلیل نہیں رکھنا چاہئے بلکہ یہ تو ایک دعوی ہے کہ جو خود دلیل کا محتاج ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۱۳ تا ۲۱۴)

Page 95

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۸ سورة الحاقة ( حافظ محمد یوسف صاحب کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا.) ان کو تو سرے سے سب باتوں پر انکار ہے.جبکہ قرآن شریف نے صداقت نبوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں کو تقول والی دلیل پیش کی ہے.اور حافظ صاحب اس سے انکار کرتے ہیں تو پھر کیا ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اگر تو اپنی طرف سے کوئی بات بنا کر لوگوں کو سنائے اور اس کو میری طرف تو منسوب کرے اور کہے کہ یہ خدا کا کلام ہے، حالانکہ وہ خدا کا کلام نہ ہو تو تو ہلاک ہو جائے گا.یہی دلیل صداقت نبوت محمدیہ مولوی آل حسن صاحب اور مولوی رحمت اللہ صاحب نے نصاریٰ کے سامنے پیش کی تھی.جو وہ اس کا کوئی جواب نہ دے سکے اور اب یہی دلیل قرآنی ہم اپنے دعوی کی صداقت میں پیش کرتے ہیں.حافظ صاحب اور ان کے ساتھی اکبر بادشاہ کا نام لیتے ہیں.مگر یہ ان کی سراسر غلطی ہے.تقول کے معنے ہیں کہ جھوٹا کلام پیش کرنا.اگر اکبر بادشاہ نے ایسا دعویٰ کیا تھا، تو اس کا کلام پیش کریں جس میں اس نے کہا ہو کہ مجھے خدا کی طرف سے یہ یہ الہامات ہوئے ہیں.ایسا ہی روشن دین جالندھری اور دوسرے لوگوں کا نام لیتے ہیں.مگر کسی کے متعلق یہ نہیں پیش کر سکتے کہ اس نے کون سے جھوٹے الہامات شائع کیے ہیں.اگر کسی کے متعلق ثابت شدہ معتبر شہادت کے ساتھ حافظ صاحب یا ان کے ساتھی یہ ثابت کر دیں کہ اس نے جھوٹا کلام خدا پر لگا یا حالانکہ خدا کی طرف سے وہ کلام نہ ہو.اور پھر ایسا کرنے پر اس نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر عمر پائی ہو.یعنی ایسے دعوئی پر وہ ۲۳ سال زندہ رہا ہو، تو ہم اپنی ساری کتابیں جلا دیں گے.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۷ مورخہ ۲۴ جولائی ۱۹۰۱ صفحہ ۷۶ ) صادق کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک اور نشان بھی قرار دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ اگر تو مجھ پر تقول کرے تو میں تیرا داہنا ہاتھ پکڑ لوں.اللہ تعالیٰ پر تقول کرنے والا مفتری فلاح نہیں پاسکتا بلکہ ہلاک ہو جاتا ہے اور اب پچیس سال کے قریب عرصہ گزرا ہے کہ خدا تعالیٰ کی وحی کو میں شائع کر رہا ہوں.اگر افترا تھا تو اس تقول کی پاداش میں ضروری نہ تھا کہ خدا اپنے وعدہ کو پورا کرتا ؟ بجائے اس کے کہ وہ مجھے پکڑتا اس نے صد با نشان میری تائید میں ظاہر کئے اور نصرت پر نصرت مجھے دی.کیا مفتریوں کے ساتھ یہی سلوک ہوا کرتا ہے؟ اور دجالوں کو ایسی ہی نصرت ملا کرتی ہے؟ کچھ تو سوچو.ایسی نظیر کوئی پیش کرو اور میں دعویٰ سے کہتا ہوں ہرگز نہ ملے گی.الحکم جلدے نمبر۷ مورخه ۲۱ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۸) پیغمبر صاحب کو تو یہ حکم کہ اگر تو ایک افترا مجھے پر باندھتا تو میں تیری رگ گردن کاٹ دیتا جیسے کہ آیت

Page 96

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۹ سورة الحاقة لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ - لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ - ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ سے ظاہر ہوتا ہے اور یہاں چوبیس سال سے روزانہ افتر اخدا پر ہوا اور خدا اپنی سنت قدیمہ کو نہ برتے.بدی کرنے میں اور جھوٹ بولنے میں کبھی مداومت اور استقامت نہیں ہوتی.آخر کار انسان دروغ کو چھوڑ ہی دیتا ہے.لیکن کیا میری ہی فطرت ایسی ہورہی ہے کہ میں چوبیس سال سے اس جھوٹ پر قائم ہوں اور برابر چل رہا ہوں اور خدا بھی بالمقابل خاموش ہے اور بالمقابل ہمیشہ تائیدات پر تائیدات کر رہا ہے.پیشگوئی کرنا یا علم غیب سے حصہ پانا کسی ایک معمولی ولی کا بھی کام نہیں.یہ نعمت تو اس کو عطا ہوتی ہے جو حضرت احدیت مآب میں خاص عزت اور وجاہت رکھتا ہے.(الکام جلد ۸ نمبر ۲۰۱۹ مورخه ۱۰ تا ۷ ارجون ۱۹۰۴ صفحه ۶) ہم اپنی زبان سے کسی کو مفتری نہیں کہتے.جبکہ وحی شیطانی بھی ہوتی ہے تو ممکن ہے کہ کسی سادہ لوح کو دھوکا لگا ہو.اس لیے ہم فعل الہی کی سند پیش کرتے ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ پیش کی تھی اور خدا تعالیٰ نے فعل پر بہت مدار رکھا ہے.وَلَوْ تَقَولَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيْلِ لَاخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ میں فعل ہی کا ذکر ہے.پس جبکہ یہ مسنون طریق ہے تو اس سے کیوں گریز ہے.ہم لوگوں کے سامنے ہیں اور اگر فریب سے کام کر رہے ہیں تو خدا تعالیٰ ایسے عذاب سے ہلاک کرے گا کہ لوگوں کو عبرت ہو جاوے گی اور اگر یہ خدا کی طرف سے ہے اور ضرور خدا کی طرف سے ہے تو پھر دوسرے لوگ ہلاک ہو جاویں گے.البدر جلد ۴ نمبر ۶ مورخه ۱۸ فروری ۱۹۰۵ صفحه ۶) جو شخص انسانی سلطنت میں جھوٹا دعویدار تحصیلداری یا چپڑاسی ہونے کا کرے اس کو پکڑا جاتا ہے اور سزا دی جاتی ہے پھر کیا خدا کی سلطنت میں ایسا اندھیر چل سکتا ہے؟ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَ لَوْ تَقَولَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقاويل - لاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ.یعنی اگر یہ نبی ہمارے اوپر بعض باتیں جھوٹی بنالیتا تو ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے اور اس کی رگِ جان کو کاٹ دیتے.یہ آیت صاف بیان کر رہی ہے کہ خدا تعالیٰ پر کوئی جھوٹی وحی والہام بنانے والا جلدی پکڑا جا تا اور نا کامیاب ہوکر مرتا ہے.الحکم جلد نمبر ۹ مورخہ ۱۷ مارچ ۱۹۰۷ ء صفحہ ۱۰) ۱۱ اگر کوئی شخص تقول علی اللہ کرے تو وہ ہلاک کر دیا جاوے گا.خبر نہیں کیوں اس میں آنحضرت ہی کی خصوصیت رکھی جاتی ہے.کیا وجہ کہ رسول اللہ اگر تقول علی اللہ کرے تو ان کو تو گرفت کی جاوے اور اگر کوئی اور کرے تو اس کی پرواہ نہ کی جاوے.نعوذ باللہ اس طرح سے تو امان اُٹھ جاتی ہے.صادق اور مفتری

Page 97

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں مایہ الامتیاز ہی نہیں رہتا.سورة الحاقة الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۸ مورخه ۱۰/ مارچ ۱۹۰۸ء صفحه ۵) اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے لَو تَقَولَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيْلِ لَاخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ.جب ایسے ایک عظیم الشان انسان کے واسطے ایسا فرمان ہے تو پھر ادنی انسان کے واسطے تو چھوٹی سی چھری کی ضرورت تھی اور کبھی کا فیصلہ ہو گیا ہوتا.الحاکم جلد ۱۲ نمبر ۴۱ مورخہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۰۸ صفحه ۱۳) میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر یہ کاروبار انسان کا ہے تو تمہیں اس کے خلاف کوشش کرنے کی ضرورت نہیں خود بخود بگڑ جائے گا کیونکہ وہ فرما چکا ہے قَدْ خَابَ مَنِ افْتَری.وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا الآية جو غیور خدا اپنے پیارے نبی کی نسبت فرماتا ہے کہ کو تقول عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيْلِ لَاخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الوَتِينَ.اگر ہم پر افترا کرتا تو اس کی رگِ جان کاٹ دیتے تو اسے ایک مجھ سے ادنی کی کیا پر واہ تھی جس کے لئے ایک چُھری کافی تھی.اگر میں جھوٹا ہوتا تو کبھی کا ہلاک ہو گیا تھا.(البدر جلدے نمبر ۲۵ مورخه ۲۵ ؍جون ۱۹۰۸ صفحه ۱۰،۹) یہ بات خدا کی خدائی پر داغ لگاتی ہے کہ دُنیا میں جھوٹے نبی کو وہ دائمی عزت اور قبولیت دی جائے جو سچوں کو ملتی ہے کیونکہ اس صورت میں حق مشتبہ ہو جاتا ہے اور امان اُٹھ جاتا ہے.کیا کسی نے دیکھا کہ مثلاً ایک جھوٹا تحصیلدار سے تحصیلدار کے مقابل پر دو چار برس تک مقدمات کرتارہا اور کسی کو قید اور کسی کو رہائی دیتا رہا اور اعلیٰ افسر اس مکان پر سے گزرتے رہے مگر کسی نے اس کو نہ پکڑا نہ پوچھا بلکہ اس کا حکم ایسا ہی چلتا رہا جیسا کہ بچے کا.سو یقیناً سمجھو کہ یہ بات بالکل غیر ممکن ہے کہ ایک نبی کی اتنی بڑی عزتیں اور شوکتیں دُنیا میں پھیل جائیں کہ کروڑ با مخلوق اس کی امت ہو جائے.بادشاہیاں قائم ہو جا ئیں اور صدہا برس گزر جائیں اور دراصل وہ نبی جھوٹا ہو جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی ایک بھی اس کی نظیر نہیں پاؤ گے.وَإِنَّهُ لَتَذْكِرَةٌ لِلْمُتَّقِينَ ( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۸۹) قرآن متقیوں کو وہ سارے امور یاد دلاتا ہے جو ان کی فطرت میں مخفی اور مستور تھے.جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۸۷)

Page 98

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ 21 سورة المعارج بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة المعارج بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ إنَّهُم يَرَوْنَهُ بَعِيد الى وَ نَابَهُ قَرِيبًا بار بار زلزلہ کے متعلق جو الہامات ہوتے ہیں اور خواہیں آتی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان پر کچھ ایسی طیاری ہو رہی ہے کہ یہ امرجلد ہونے والا ہے.بہت سے باتیں ہوتی ہیں کہ انسان ان کو دور سمجھتا ہے مگر خدا کے علم میں وہ بہت قریب ہوتی ہیں إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيدًا.وَ نَربه قريبا.تم اسے دور سے دیکھتے ہو اور ہم قریب دیکھتے ہیں.البدر جلد نمبر ۴ مورخه ۱/۲۷ پریل ۱۹۰۵ صفحه ۸)

Page 99

Page 100

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّجِيمِ ۷۳ سورة نوح بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة نوح بیان فرموده سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ قَالَ يُقَومِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُّبِينٌ.قرآن شریف میں حضرت نوح سے لے کر ہمارے سید و مولی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تک جس قدر نافرمانوں کے حق میں انذاری پیشگوئیاں ذکر فرمائی گئی ہیں وہ سب شرطی طور پر ہیں جن کے یہی معنے ہیں کہ فلاں عذاب تم پر آنے والا ہے.پس اگر تم تو بہ کرو اور نیک کام بجالاؤ تو وہ موقوف رکھا جائے گا ورنہ تم ہلاک ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۳۳) کئے جاؤ گے.مَا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارَات وَقَدْ خَلَقَكُمُ أَطْوَارًا حکمت تفاوت مراتب رکھنے میں انواع اقسام کی قدرتوں کا ظاہر کرنا اور اپنی عظمت کی طرف توجہ دلانا ہے جيسا فرمایا مَا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا - یعنی تم کو کیا ہو گیا کہ تم خدا کی عظمت کے قائل نہیں ہوتے حالانکہ اس نے اپنی عظمت ظاہر کرنے کے لئے تم کو مختلف صورتوں اور سیرتوں پر پیدا کیا.یعنی اختلاف استعدادات وطبائع اسی غرض سے حکیم مطلق نے کیا تا اس کی عظمت و قدرت شناخت کی جائے.( براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۰۷،۲۰۶ حاشیہ نمبر۱۱)

Page 101

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۴ سورة نوح مِمَّا خَطِيَّتِهِمْ أَغْرِقُوا فَأَدْخِلُوا نَارًا فَلَمْ يَجِدُوا لَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ انصاران جو لوگ اپنی کثرت نافرمانی کی وجہ سے ایسے فنافی الشیطان ہونے کی حالت میں دنیا سے جدا ہوتے ہیں کہ شیطان کی فرمانبرداری کی وجہ سے بکلی تعلقات اپنے مولی حقیقی سے توڑ دیتے ہیں اُن کے لئے اُن کی موت کے بعد صرف دوزخ کی طرف کھڑ کی ہی نہیں کھولی جاتی بلکہ وہ اپنے سارے وجود اور تمام قومی کے ساتھ خاص دوزخ میں ڈال دیئے جاتے ہیں جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے مِنَا خَطِيتِهِمْ أَغْرِقُوا فَأَدْخِلُوا نَارًا سورہ نوح مگر پھر بھی وہ لوگ قیامت کے دن سے پہلے اکمل اور اتم طور پر عقوبات جہنم کا مزہ نہیں (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۸۳، ۲۸۴) چکھتے.يَعْبُتُ مِنَ الْقُرْآنِ أَنَّ أَهْلَ جَهَنَّمَ | قرآن کریم سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اہل جہنم جہنم میں يَدْخُلُونَهَا بَعْدَ الْمَوْتِ مِنْ غَيْرِ مُكْثٍ، موت کے بعد بغیر کسی انتظار کے داخل ہوں گے جیسا کہ كَمَا لا يخفى عَلَى الَّذِينَ يَتَدَبَّرُونَ فِي آيَةٍ آيت فَرَاهُ فِي سَوَاءِ الْجَحِيمِ پر تدبر کرنے والوں پر مخفی فَرَاهُ فِي سَوَاءِ الْجَحِيمِ ، وَكَمَا قَالَ اللهُ نہیں اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مِمَّا خَطِيتِهِم تعالى مِمَّا خَطِيتِهِمْ أَغْرِقُوا فَأَدْخِلُوا نَارًا حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۵۳) أغْرِقُوا فَأَدْخِلُوا نَارًا - ( ترجمه از مرتب ) وَقَالَ نُوحٌ رَبِّ لَا تَذَرُ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَفِرِينَ دَيَّارات جب ارادہ الہی کسی قوم کی تباہی سے متعلق ہوتا ہے تو نبی میں درد کی حالت پیدا ہوتی ہے.وہ دعا کرتا ہے.پھر اس قوم کی تباہی یا خیر خواہی کے اسباب مہیا ہو جاتے ہیں.دیکھو نوح علیہ السلام پہلے صبر کرتے رہے اور بڑی مدت تک قوم کی ایذائیں سہتے رہے.پھر ارادہ الہی جب ان کی تباہی سے متعلق ہوا تو درد کی حالت پیدا ہوئی اور دل سے نکلا رَبْ لَا تَذَرُ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَفِرِينَ دَيَّارًا.جب تک خدا کا ارادہ نہ ہو وہ حالت پیدا نہیں ہوتی.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ سال پہلے صبر کرتے رہے.پھر جب درد کی حالت پیدا ہوئی تو قتال کے ذریعے مخالفین پر عذاب نازل ہوا.خود ہماری نسبت دیکھو جب یہ شجھ چپک جاری ہوا تو اس

Page 102

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۵ سورة نوح کا ذکر تک بھی نہیں کیا گیا.مگر جب ارادہ الہی اس کی تباہی کے متعلق ہوا تو ہماری توجہ اس طرف بے اختیار ہوگئی اور پھر تم دیکھتے ہو کہ رسالہ ابھی اچھی طرح شائع بھی نہ ہونے پایا کہ خدا کی باتیں پوری ہوگئیں.البدر جلد ۶ نمبر ۱۹ مورخه ۹ رمئی ۱۹۰۷ء صفحه ۴)

Page 103

Page 104

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيطنِ الرَّحِيمِ LL سورة الجن بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الجن بیان فرموده سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَ اَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاء فَوَجَدْ نَهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيدًا وَ شُهُبَانَ وَ أَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّبْع فَمَنْ يَسْتَمِع الْآنَ يَجِدُ لَهُ شِهَابًا تَصَدَّان عرب کے لوگ بوجدان خیالات کے جو کاہنوں کے ذریعہ سے اُن میں پھیل گئے تھے نہایت شدید اعتقاد سے ان باتوں کو مانتے تھے کہ جس وقت کثرت سے ستارے یعنی شہب گرتے ہیں تو کوئی بڑا عظیم الشان انسان پیدا ہوتا ہے خاص کر اُن کے کا ہن جو ارواح خبیثہ سے کچھ تعلق پیدا کر لیتے تھے اور اخبار غیبیہ بتلایا کرتے تھے اُن کا تو گویا پختہ اور یقینی عقیدہ تھا کہ کثرت شہب یعنی تاروں کا معمولی اندازہ سے بہت زیادہ ٹوٹنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ کوئی نبی دنیا میں پیدا ہونے والا ہے اور ایسا اتفاق ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت حد سے زیادہ سقوط اشہب ہوا جیسا کہ سورۃ الجن میں خدا تعالی نے اس واقعہ کی شہادت دی ہے اور حکایتا عن الجنات فرماتا ہے وَ أَنَا لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدْ نَهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيدٌ او شُهُبا - وَأَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعَ ، فَمَنْ يَسْتَمِع الْآنَ يَجِدُ لَهُ شِهَابًا رَصَدَّ ا یعنی ہم نے آسمان کو ٹولا تو اُس کو چوکیداروں سے یعنی فرشتوں سے اور شعلوں سے بھرا ہوا پایا اور ہم پہلے اس سے امور غیبیہ کے سننے کے لئے آسمان میں گھات میں بیٹھا کرتے تھے اور اب جب ہم سننا چاہتے ہیں تو گھات میں ایک شعلے کو پاتے ہیں جو

Page 105

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ZA سورة الجن ہم پر گرتا ہے.ان آیات کی تائید میں کثرت سے احادیث پائی جاتی ہیں.بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ وغیر ہ سب اس قسم کی حدیثیں اپنی تالیفات میں لائے ہیں کہ شہب کا گرنا شیاطین کے رد کرنے کے لئے ہوتا ہے اور امام احمد ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ شہب جاہلیت کے زمانہ میں بھی گرتے تھے لیکن ان کی کثرت اور غلظت بعثت کے وقت میں ہوئی چنانچہ تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت جب کثرت سے شہب گرے تو اہلِ طائف بہت ہی ڈر گئے اور کہنے لگے کہ شاید آسمان کے لوگوں میں تہلکہ پڑ گیا تب ایک نے اُن میں سے کہا کہ ستاروں کی قرار گاہوں کو دیکھو اگر وہ اپنے محل اور موقعہ سے ٹل گئے ہیں تو آسمان کے لوگوں پر کوئی تباہی آئی ورنہ یہ نشان جو آسمان پر ظاہر ہوا ہے ابن ابی کبشہ کی وجہ سے ہے ( وہ لوگ شرارت کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ابن ابی کبشہ کہتے تھے ) غرض عرب کے لوگوں کے دلوں میں یہ بات بھی ہوئی تھی کہ جب کوئی نبی دنیا میں آتا ہے یا کوئی اور عظیم الشان آدمی پیدا ہوتا ہے تو کثرت سے تارے ٹوٹتے ہیں.اسی وجہ سے بمناسبت خیالات عرب کے شہب کے گرنے کی خدائے تعالیٰ نے قسم کھائی جس کا مدعا یہ ہے کہ تم لوگ خود تسلیم کرتے ہو اور تمہارے کا ہن اس بات کو مانتے کا ہیں کہ جب کثرت سے شہب گرتے ہیں تو کوئی نبی یا ملہم من اللہ پیدا ہوتا ہے تو پھر انکار کی کیا وجہ ہے.چونکہ شہب کا کثرت سے گرنا عرب کے کاہنوں کی نظر میں اس بات کے ثبوت کے لئے ایک بدیہی امر تھا کہ کوئی نبی اور مہم من اللہ پیدا ہوتا ہے اور عرب کے لوگ کا ہنوں کے ایسے تابع تھے جیسا کہ ایک مرید مرشد کا تابع ہوتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے وہی بد یہی امران کے سامنے قسم کے پیرایہ میں پیش کیا تا اُن کو اس سچائی کی طرف توجہ پیدا ہو کہ یہ کاروبار خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے انسان کا ساختہ پرداختہ نہیں.اگر یہ سوال پیش ہو کہ شہب کا گرنا اگر کسی نبی یا ملہم یا محدث کے مبعوث ہونے پر دلیل ہے تو پھر کیا وجہ کہ اکثر ہمیشہ شہب گرتے ہیں مگر اُن کے گرنے سے کوئی نبی یا محدث دنیا میں نزول فرما نہیں ہوتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ حکم کثرت پر ہے اور کچھ شک نہیں کہ جس زمانہ میں یہ واقعات کثرت سے ہوں اور خارق عادت طور پر اُن کی کثرت پائی جائے تو کوئی مرد خدا دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف سے اصلاح خلق اللہ کے لئے آتا ہے کبھی یہ واقعات ارہاص کے طور پر اُس کے وجود سے چند سال پہلے ظہور میں آ جاتے ہیں اور کبھی عین ظہور کے وقت جلوہ نما ہوتے ہیں اور کبھی اُس کی کسی اعلی فتحیابی کے وقت یہ خوشی کی روشنی آسمان پر ہوتی ہے.ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں سدی سے روایت کی ہے کہ شہب کا کثرت سے گرنا کسی نبی کے آنے پر

Page 106

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۹ سورة الجن دلالت کرتا ہے یا دین کے غلبہ کی بشارت دیتا ہے مگر جو کچھ اشارات نص قرآن کریم سے سمجھا جاتا ہے وہ ایک مفہوم عام ہے جس سے صاف اور صریح طور پر مستنبط ہوتا ہے کہ جب کوئی نبی یا وارث نبی زمین پر مامور ہو کر آوے یا آنے پر ہو یا اُس کے ارباصات ظاہر ہونے والے ہوں یا کوئی بڑی فتحیابی قریب الوقوع ہو تو ان تمام صورتوں میں ایسے ایسے آثار آسمان پر ظاہر ہوتے ہیں اور اس سے انکار کرنا نادانی ہے کیونکہ عدم علم سے عدم شے لازم نہیں آتا.بعض مصلح اور مجدد دین دنیا میں ایسے آتے ہیں کہ عام طور پر دُنیا کو اُن کی بھی خبر نہیں ہوتی.مجھے کو یاد ہے کہ ابتدائے وقت میں جب میں مامور کیا گیا تو مجھے یہ الہام ہوا کہ جو براہین کے صفحہ ۲۳۸ میں مندرج ہے یا احمد بَارَكَ اللهُ فِيْك مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَى الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَنْذِرَ آبَاءَهُمْ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيْلُ الْمُجْرِمِينَ.قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ وانا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ یعنی اے احمد خدا نے تجھ میں برکت رکھ دی اور جو تو نے چلایا یہ تو نے نہیں چلایا بلکہ خدا نے چلایا اُس نے تجھے علم قرآن کا دیا تاتو ان کو ڈراوے جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے.اور تا مجرموں کی راہ گھل جائے یعنی سعید لوگ الگ ہو جائیں اور شرارت پیشہ اور سرکش آدمی الگ ہو جائیں اور لوگوں کو کہہ دے کہ میں مامور ہو کر آیا ہوں اور میں اول المومنین ہوں.ان الہامات کے بعد کئی طور کے نشان ظاہر ہونے شروع ہوئے چنانچہ منجملہ ان کے ایک یہ کہ ۲۸ نومبر ۱۸۸۵ء کی رات کو یعنی اس رات کو جو ۲۸ نومبر ۱۸۸۵ء کے دن سے پہلے آئی ہے اس قدرت شہب کا تماشا آسمان پر تھا جو میں نے اپنی تمام عمر میں اس کی نظیر کبھی نہیں دیکھی اور آسمان کی فضا میں اس قدر ہزار ہا شعلے ہر طرف چل رہے تھے جو اس رنگ کا دنیا میں کوئی بھی نمونہ نہیں تائیں اس کو بیان کر سکوں مجھ کو یاد ہے کہ اُس وقت یہ الہام بکثرت ہوا تھا کہ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ الله رعی سواس رمی کو رمی شہب سے بہت مناسبت تھی.یہ شہب ثاقبہ کا تماشہ جو ۲۸ نومبر ۱۸۸۵ء کی رات کو ایسا وسیع طور پر ہوا جو یورپ اور امریکہ اور ایشیا کے عام اخباروں میں بڑی کو حیرت کے ساتھ چھپ گیا لوگ خیال کرتے ہوں گے کہ یہ بے فائدہ تھا.لیکن خداوند کریم جانتا ہے کہ سب سے زیادہ غور سے اس تماشا کے دیکھنے والا اور پھر اُس سے حظ اور لذت اٹھانے والا میں ہی تھا.میری آنکھیں بہت دیر تک اس تماشا کے دیکھنے کی طرف لگی رہیں اور وہ سلسلہ رمی شہب کا شام سے ہی شروع ہو گیا تھا.جس کو میں صرف الہامی بشارتوں کی وجہ سے بڑے سرور کے ساتھ دیکھتا رہا کیونکہ میرے دل میں

Page 107

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۰ سورة الجن الہاما ڈالا گیا تھا کہ یہ تیرے لئے نشان ظاہر ہوا ہے.اور پھر اس کے بعد یورپ کے لوگوں کو وہ ستارہ دکھائی دیا جو حضرت مسیح کے ظہور کے وقت میں نکلا تھا میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ ستارہ بھی تیری صداقت کے لئے ایک دوسرا نشان ہے.اس جگہ اگر یہ اعتراض پیش کیا جاوے کہ علم حکمت کے محققوں کی تحقیقات قدیمہ وجدیدہ کی روسے شہب وغیرہ کا پیدا ہونا اور اسباب سے بیان کیا گیا ہے.جو ان امور سے بیان کئے گئے ہیں کچھ بھی تعلق نہیں ہے.رکھتے.چنانچہ شرح اشارات میں جہاں کا ئنات الحجو کے اسباب اور علل لکھے ہیں صرف اسی قدر حدوث شہب کا سبب لکھا ہے کہ جب دخان حیز نار میں پہنچتا ہے اور اس میں کچھ دہنیت اور لطافت ہوتی ہے تو باعث آگ کی تاثیر کے یک دفعہ بھڑک اٹھتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھڑ کنے کے ساتھ ہی بجھ گیا مگر اصل میں وہ بجھتا نہیں.بات یہ ہے کہ دُخان کی دونوں طرفوں میں سے پہلے ایک طرف بھڑک اٹھتی ہے جو اوپر کی طرف ہے پھر وہ اشتعال دوسری طرف میں جاتا ہے اور اُس حرکت کے وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا اُس اشتعال کا ایک خط ممتد ہے اور اسی کا نام شھاب ہے جو دخان کے خط ممتد میں طرف اسفل کے قریب پیدا ہوتا ہے اور پھر جب اجزاء ارضیہ اُس دخان کی آتش خالص کی طرف مستحیل ہو جاتی ہیں تو بوجہ پیدا ہو جانے بساطت کے وہ عصر نار نظر نہیں آتا اور دیکھنے والے کو یہ گمان گزرتا ہے کہ گویا وہ بجھ گیا ہے حالانکہ دراصل وہ سمجھا نہیں ہے اور یہ صورت اُس وقت پیدا ہوتی ہے کہ جب دُخان لطیف ہو لیکن اگر غلیظ ہو تو اشتعال اُس آگ کا کئی دنوں اور برسوں تک رہتا ہے اور طرح طرح کی شکلوں میں وہ روشنی جو ستارہ کے رنگ پر ہے آسمان کے جو میں نظر آتی ہے کبھی ایسا دکھائی دیتا ہے کہ گویا دمدار ستارہ ہے اور کبھی وہ ڈم زلف کی شکل پر نظر آتی ہے کبھی وہ ناری ہیکل نیزہ کی صورت میں نمودار ہوتی ہے اور کبھی ایک حیوان کی طرح جو کئی سینگ رکھتا ہے اور کبھی یہ ناری ہیکل بصور مختلفہ ایک برس تک یا کئی برسوں تک دکھائی دیتی ہے اور کبھی یہ ناری ہیکل ٹکڑے ٹکڑے ہو کر شہب ثاقبہ کی صورت میں آجاتی ہے اور کبھی شہب ثاقبہ اس ناری ہیکل کی شکل قبول کر لیتے ہیں جب یہ ناری ہیکل قطب شمالی کے عین کنارہ پر نظر آتی ہے تو بسا اوقات بہ نسبت اور اطراف کے بہت دیر تک رہتی ہے اور اگر مدت دراز تک موجود ر ہے تو اُس کی حرارت سے کئی ہولناک نتائج پیدا ہو جاتے ہیں.تاریخ کی رو سے یہ بھی منقول ہے کہ حضرت مسیح کی گرفتاری کے بعد اول شہب ثاقبہ اور پھر ایک زمانہ آتش پورے ایک برس تک جو آسمانی میں دکھائی دیا اور آسمان پر سے ایک چیز خاکستر کی طرح برستی تھی اور

Page 108

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ΔΙ سورة الجن دن کے نو بجے سے رات تک ایک سخت اندھیرا ہو جاتا تھا.غرض شہب اور دمدار ستاروں کی اصلیت میں یونانیوں کے خیالات ہیں جو اسلام کے حکماء نے لے لئے اور اپنے تجارب کو بھی ان میں ملایا لیکن حال کی نئی روشنی کی تحقیقا توں کا اُن سے بہت کچھ اختلاف ثابت ہوتا ہے ان ظلنی علوم میں یہ بات نہایت درجہ دل توڑنے والی ہے کہ آئے دن نئے نئے خیالات پیدا ہوتے ہیں.ایک زمانہ وہ تھا کہ یونان کی طبیعی اور ہیئت حکمت کے کمال تک پہنچنے کے لئے ایک صراط مستقیم سمجھی جاتی تھی اور اب یہ زمانہ ہے کہ اُن کی اکثر تحقیقاتوں پر ہنسا جاتا ہے اور نہایت تحقیر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ہم یہ خیال نہ کریں کہ کچھ عرصہ کے بعد اس طبعی اور ہیئت پر بھی ہنسی کرنے والے پیدا ہو جائیں گے کیونکہ گو دعوی کیا جاتا ہے کہ اس زمانہ کے طبعی اور ہیئت تجارب حسیہ مشہودہ مرتیہ کے ذریعہ سے ثابت کی گئی ہے مگر در حقیقت یہ دعویٰ نہایت درجہ کا مبالغہ ہے جس سے بعض خاص صورتوں کے مسائل یقینیہ میں اُن ہزار ہا مشتبہ اور طنی اور غیر محقق خیالات کو خواہ نخواہ گھسیڑ دیا گیا ہے جن کا ابھی تک ہرگز ہرگز پورا پورا اور کامل طور پر کسی حکیم نے تصفیہ نہیں کیا.نئی روشنی کے محقق شہب ثاقبہ کی نسبت یہ رائے دیتے ہیں کہ وہ در حقیقت لو ہے اور کوئلہ سے بنے ہوئے ہوتے ہیں جن کا وزن زیادہ سے زیادہ چند پونڈ ہوتا ہے اور دمدار ستاروں کی مانند غول کے غول لمبے بیضوی دائرے بناتے ہوئے سورج کے ارد گرد جو میں پھرتے ہیں.ان کی روشنی کی وجہ در حقیقت وہ حرارت ہے جو اُن کی تیزی ، رفتار سے پیدا ہوتی ہے.اور دمدار ستاروں کی نسبت اُن کا بیان ہے کہ بعض اُن میں سے کئی ہزار سال رہتے ہیں اور آخر ٹوٹ کر شہاب بن جاتے ہیں.وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب آفتاب برج اسد میں یا میزان میں ہو تو ان دونوں وقتوں میں کثرت شہب ثاقبہ کی توقع کی جاتی ہے اور اکثر ۳۳ سال کے بعد یہ دورہ ہوتا ہے لیکن یہ قاعدہ کلی نہیں بسا اوقات ان وقتوں سے پس و پیش بھی یہ حوادثات ظہور میں آ جاتے ہیں چنانچہ ۱۸۷۲ء میں ستاروں کا گرنا با قرار ان ہیئت دانوں کے بالکل غیر مترقب امر تھا.اگر چہ ۱۴ نومبر ۱۸۳۳ء اور ۲۷ نومبر ۱۸۸۵ء کو کثرت سے یہ واقعہ ظہور میں آنا اُن کے قواعد مقررہ سے ملتا ہے لیکن تاریخ کے ٹولنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ نہایت فرق کے ساتھ اور ان تاریخوں سے بہت دور بھی وقوع میں آیا ہے چنانچہ دہم مارچ ۱۵۲۱ء اور ۱۹ ؍ جنوری ۱۱۳۵ ء اور ماہ مئی ۶۱۰ء میں جو کثرت شہب ثاقبہ وقوع میں آئے اُس میں ان تمام ہیئت دانوں کو بجز سکتہ حیرت اور کوئی دم مارنے کی جگہ نہیں.اور وہ شہب ثاقبہ جو

Page 109

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۲ سورة الجن حضرت مسیح کی گرفتاری کے بعد ظہور میں آئے اور پھر ایک دمدار ستارہ کی صورت میں ہو گئے.اگر چہ اب ہم پوری صحت کے ساتھ اُس کی کوئی تاریخ مقرر نہیں کر سکتے مگر قیاسا معلوم ہوتا ہے کہ اس حادثہ کی ابتدائجون کے مہینہ سے ہوگی کیونکہ گو ہم اس پرانے واقعہ کی تشخیص میں عیسائیوں کے مختلف فیہ بیانات سے کوئی عمدہ فائدہ نہیں اٹھا سکتے مگر استنباط کے طور پر یہ پتہ ملتا ہے کہ حضرت مسیح جب یہودیوں کے ہاتھ میں گرفتار ہوئے تب شدت گرمی کا مہینہ تھا کیونکہ گرفتاری کی حالت میں اُن کا سخت پیاسا ہونا صاف ظاہر کر رہا ہے کہ موسم کا یہی تقاضا تھا کہ گرمی اور پیاس محسوس ہو.سو وہ مہینہ جون ہے کیونکہ اُس وقت ایک سخت آندھی بھی آئی تھی جس کے ساتھ اندھیرا ہو گیا تھا اور جون کے مہینہ میں اکثر آندھیاں بھی آتی ہیں.اب اس تمام تحقیقات سے معلوم ہوا کہ در حقیقت کا ئنات الحجز بالخصوص شہب ثاقبہ اور دمدار ستاروں کے بارے میں کوئی قطعی اور یقینی طریق بصیرت ہیئت دانوں اور طبعی والوں کو اب تک ہاتھ میں نہیں آیا جب کبھی اُن کے قواعد تراشیدہ کے برخلاف کوئی امر ظہور میں آتا ہے تو ایک سخت پریشانی اور حیرت اُن کو لاحق ہو جاتی ہے اور گھبراہٹ کا ایک غل غپاڑہ اُن میں اٹھتا ہے.یورپ کے ہیئت دان اور سائنس اور نجوم میں بڑی بڑی لاٹھیں مارنے والے ہمیشہ کا ئنات الجو اور اُن کے نتائج کے بارہ میں پیشگوئیاں ایک بڑے دعوے کے ساتھ شائع کیا کرتے ہیں اور کبھی لوگوں کو قحط سالیوں سے ڈراتے اور طوفانوں اور آندھیوں کی پیش خبری سے دھڑ کے میں ڈالتے اور کبھی بروقت کی بارشوں اور ارزانی کی امیدیں دیتے ہیں مگر قدرت حق ہے کہ اکثر وہ ان خبروں میں جھوٹے نکلتے ہیں مگر بائیں ہمہ پھر بھی لوگوں کے دماغوں کو ناحق پریشان کرتے رہتے ہیں یوں تو وہ اپنے فکروں کو دور تک پہنچا کر خدائے عزوجل کی خدائی میں ہاتھ ڈالنا چاہتے ہیں مگر حکمت از لی ہمیشہ اُن کو شرمندہ کرتی ہے.اب ظاہر ہے کہ جن لوگوں کی فاش خطا ہمیشہ ثابت ہوتی رہتی ہے اُن کی نسبت کیوں کر گمان کر سکتے ہیں کہ جو کچھ انہوں نے نظام اور سائنس کے بارے میں اب تک دریافت کیا ہے وہ سب یقینی ہے ہمیں تو اُن کے اکثر معلومات کا فنی مرتبہ ماننے میں بھی شرم آتی ہے کیونکہ اب تک اُن کے خیالات میں بے اصل اور بے ثبوت باتوں کا ذخیرہ بڑھا ہوا ہے.اس وقت امام رازی رحمتہ اللہ کا یہ قول نہایت پیارا معلوم ہوتا ہے کہ مَنْ أَرَادَ أَنْ يَكْتَالَ مَمْلُكَةَ الْبَارِى مِكْيَالِ الْعَقْلِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا.یعنی جو شخص خدا تعالی کے ملک کو اپنی عقل کے پیمانہ سے ناپنا چاہے تو وہ راستی اور صداقت اور سلامت روی سے دور جا پڑا.

Page 110

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۳ سورة الجن اب اس عاجز پر خداوند کریم نے جو کچھ کھولا اور ظاہر کیا وہ یہ ہے کہ اگر ہیئت دانوں اور طبعی والوں کے قواعد کسی قدر شہب ثاقبہ اور دمدار ستاروں کی نسبت قبول بھی کئے جائیں تب بھی جو کچھ قرآن کریم میں اللہ جل شانہ وعزاسمہ نے ان کا ئنات الحق کی روحانی اغراض کی نسبت بیان فرمایا ہے اُس میں اور ان ناقص العقل حکماء کے بیان میں کوئی مزاحمت اور جھگڑا نہیں کیونکہ ان لوگوں نے تو اپنا منصب صرف اس قدر قرار دیا ہے کہ علل مادیہ اور اسباب عادیہ ان چیزوں کے دریافت کر کے نظام ظاہری کا ایک با قاعدہ سلسلہ مقرر کر دیا جائے.لیکن قرآن کریم میں روحانی نظام کا ذکر ہے اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کا ایک فعل اُس کے دوسرے فعل کا مزاحم نہیں ہو سکتا پس کیا یہ تعجب کی جگہ ہو سکتی ہے کہ جسمانی اور روحانی نظام خدا تعالیٰ کی قدرت سے ہمیشہ ساتھ ساتھ رہیں بالخصوص جس حالت میں ہمیشہ ربانی مصلح دنیا میں آتے رہتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے بڑے بڑے ارادوں کی حرکت شروع رہتی ہے اور کوئی صدی ایسی نہیں آتی کہ جو دنیا کے کسی نہ کسی حصہ میں اِن اُمور میں سے کسی امر کا ظہور نہ ہو تو اس بات کے ماننے کے لئے ذرہ بھی استبعاد باقی نہیں رہتا کہ کثرت شہب وغیرہ روحانی طور پر ضرور خدا تعالیٰ کے اس روحانی انتظام کے تجدد اور حدوث پر دلالت کرتے ہیں جو الہی دین کی تقویت کے لیے ابتداء سے چلا آتا ہے خاص کر جب اس بات کو ذہن میں خوب یا درکھا جائے کہ کثرت سقوط شہب وغیرہ صرف اس امر سے براہ راست مخصوص نہیں کہ کوئی نبی یا وارث نبی اصلاح دین کے لئے پیدا ہو بلکہ اس کے ضمن میں یہ بات بھی داخل ہے کہ اس نبی یا وارث اور قائم مقام نبی کے ارباصات پر بھی کثرت شہب ہوتی ہے بلکہ اس کی نمایاں فتوحات پر بھی کثرت سقوط شہب ہوتی ہے کیونکہ اس وقت رحمان کا لشکر شیطان کے لشکر پر کامل فتح پالیتا ہے.پس جب ایسے بڑے بڑے امور پیدا ہونے لگتے ہیں کہ اس نبی یا وارث نبی کے لیے بطور ا رہاص ہیں یا اس کی کارروائیوں کے اول درجہ پر محمد اور معاون ہیں یا اس کی فتح یابی کے آثار ہیں تو ان کے قرب زمانہ میں بھی کثرت سقوط شہب وغیرہ حوادث وقوع میں آجاتے ہیں تو اس صورت میں ہر یک نبی کو بھی یہ بات صفائی سے سمجھ میں آ سکتی ہے کہ در حقیقت یہ کثرت سقوط شہب روحانی سلسلہ کی متفرق خدمات کے لئے اور ان کے اول یا آخر یا درمیان میں آتی ہے اور وہ سلسلہ ہمیشہ جاری ہے اور جاری رہے گا.مثلاً حال کے یورپ کے ہئیت دان جو ۲۷ رنومبر ۱۸۸۵ء کے شہب یا انیسویں صدی کے دوسرے واقعات شہب کا ذکر کرتے ہیں اور ان پر ایساز ور دیتے ہیں کہ گویا ان کے پاس سب سے بڑھ کر یہی نظیریں ہیں وہ ذرہ غور سے سمجھ سکتے ہیں کہ اس صدی کے اواخر میں جو

Page 111

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۴ سورة الجن روحانی سلسلہ کے بڑے بڑے کام ظہور میں آنے والے تھے اور خدا تعالیٰ اپنے ایک بندہ کے توسط سے دین توحید کے تازہ کرنے کے لیے ارادہ فرمارہا تھا اس لئے اس نے اس انیسویں صدی عیسوی میں کئی دفعہ کثرت سقوط اشہب کا تماشہ دکھلایا تا وہ امر موکد ہو جاوے جس کا قطعی طور پر اس نے ارادہ فرما دیا ہے.اور اگر یہ سوال کیا جائے کہ اس تساقط شہب کو جس کے اسباب بتا مہا بظاہر مادی معلوم ہوتے ہیں رجم شیاطین سے کیا تعلق ہے اور کیوں کر معلوم ہو کہ در حقیقت اس حادثہ سے شیاطین آسمان سے دفع اور دور کئے جاتے ہیں.اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایسے اعتراض در حقیقت اس وقت پیدا ہوتے ہیں کہ جب روحانی سلسلہ کی یادداشت سے خیال ذہول کر جاتا ہے یا اس سلسلہ کے وجود پر یقین نہیں ہوتا ورنہ جس شخص کی دونوں سلسلوں پر نظر ہے وہ بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ اجرام علوی اور اجسام سفلی اور تمام کائنات الجو میں جو کچھ تغییر اور تحول اور کوئی اور امر مستحدث ظہور میں آتا ہے اس کے حدوث کی در حقیقت دو علتیں یعنی موجب ہیں.جو اول.پہلے تو یہی سلسلہ عمل نظام جسمانی جس سے ظاہری فلسفی اور طبعی بحث اور سروکار رکھتا ہے اور جس کی نسبت ظاہر بین حکماء کی نظریہ خیال رکھتی ہے کہ وہ جسمانی علل اور معلولات اور موثرات اور متاثرات سے منضبط اور ترتیب یافتہ ہے.دوم.دوسرے وہ سلسلہ جو ان ظاہر بین حکماء کی نظر قاصرسے مخفی ہے اور وہ خدا تعالیٰ کے ملائک کا سلسلہ ہے جو اندر ہی اندر اس ظاہری سلسلہ کو مدد دیتا ہے اور اس ظاہری کا روبار کو انجام تک پہنچا دیتا ہے اور بالغ نظر لوگ بخوبی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ بغیر تائید اس سلسلہ کے جو روحانی ہے ظاہری سلسلہ کا کام ہرگز چل ہی نہیں سکتا.اگر چہ ایک ظاہر بین فلاسفر اسباب کو موجود پا کر خیال کرتا ہے کہ فلاں نتیجہ ان اسباب کے لیے ضروری ہے مگر ایسے لوگوں کو ہمیشہ شرمندہ ہونا پڑتا ہے.جبکہ باوجود اجتماع اسباب کے نتیجہ برعکس نکلتا ہے یا وہ اسباب اپنے اختیار اور تدبیر سے باہر ہو جاتے ہیں مثلاً ایک طبیب نہایت احتیاط سے ایک بیمار بادشاہ کا علاج کرتا ہے یا مثلاً ایک گروہ طبیبوں کا ایسے مریض کے لیے دن رات تشخیص مرض اور تجویز دوا اور تد بیر غذا میں ایسا مصروف ہوتا ہے کہ اپنے دماغ کی تمام عقل اس پر خرچ کر دیتا ہے مگر جب کہ اس بادشاہ کی موت مقدر ہوتی کر مگر ہے تو وہ تمام تجویزیں خطا جاتی ہیں اور چند روز طبیبوں اور موت کی لڑائی ہو کر آخرموت فتح پاتی ہے اس طور کے ہمیشہ نمونے ظاہر ہوتے رہتے ہیں مگر افسوس کہ لوگ ان کو غور کی نظر سے نہیں دیکھتے بہر حال یہ ثابت ہے

Page 112

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۵ سورة الجن کہ قادر مطلق نے دنیا کے حوادث کو صرف اسی ظاہری سلسلہ تک محصور اور محدود نہیں کیا بلکہ ایک باطنی سلسلہ ساتھ ساتھ جاری ہے.اگر آفتاب ہے یا ماہتاب یا زمین یا وہ بخارات جن سے پانی برستا ہے یا وہ آندھیاں جو زور سے آتی ہیں یا وہ اولے جو زمین پر گرتے ہیں یا وہ شہب ثاقبہ جو ٹوٹتے ہیں اگر چہ یہ تمام چیزیں اپنے کاموں اور تمام تغیرات اور تحولات اور حدوثات میں ظاہری اسباب بھی رکھتی ہیں جن کے بیان میں ہیئت اور طبعی کے دفتر بھرے پڑے ہیں لیکن با ایں ہمہ عارف لوگ جانتے ہیں کہ ان اسباب کے نیچے اور اسباب بھی ہیں جو مد بر بالا رادہ ہیں جن کا دوسرے لفظوں میں نام ملائک ہے وہ جس چیز سے تعلق رکھتے ہیں اس کے تمام کاروبار کو انجام تک پہنچاتے ہیں اور اپنے کاموں میں اکثر ان روحانی اغراض کو مد نظر رکھتے ہیں جو مولی کریم نے ان کو سپرد کی ہیں اور ان کے کام بے ہودہ نہیں بلکہ ہر ایک کام میں بڑے بڑے مقاصد ان کو مدنظر رہتے ہیں.اب جبکہ یہ بات ایک ثابت شدہ صداقت ہے جس کو ہم اس سے پہلے بھی کسی قدر تفصیل سے لکھ چکے ہیں اور ہمارے رسالہ توضیح مرام میں بھی یہ تمام بحث نہایت لطافت بیان سے مندرج ہے کہ حکیم مطلق نے اس عالم کے احسن طور پر کا روبار چلانے کے لیے دو نظام رکھے ہوئے ہیں اور باطنی نظام فرشتوں کے متعلق ہے اور کوئی جز ظاہری نظام کی ایسی نہیں جس کے ساتھ در پردہ باطنی نظام نہ ہو تو اس صورت میں ایک مستر شد بڑی آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ شہب ثاقبہ کے تساقط کا ظاہری نظام جن عمل اور اسباب پر مبنی ہے وہ عمل اور اسباب روحانی نظام کے کچھ مزاحم اور سد راہ نہیں اور روحانی نظام یہ ہے کہ ہر ایک شہاب جو ٹوٹتا ہے دراصل اس پر ایک فرشتہ موکل ہوتا ہے جو اس کو جس طرف چاہتا ہے حرکت دیتا ہے چنانچہ شہب کی طرز حرکات ہی اس پر شاہد ہے اور یہ بات صاف ظاہر ہے کہ فرشتہ کا کام عبث نہیں ہو سکتا اس کی تحت میں ضرور کوئی نہ کوئی غرض ہوگی جو مصالح دین اور دنیا کے لئے مفید ہو لیکن ملائک کے کاموں کے اغراض کو سمجھنا بجز توسط ملائک ممکن نہیں سو بتوسط ملائک یعنی جبرائیل علیہ السلام آخر الرسل صلی اللہ علیہ وسلم پر یہی ظاہر ہوا کہ ملائک کے اس فعل رمی شہب سے علت غائی رجم شیاطین ہے.اور یہ بھید کہ شہب کے ٹوٹنے سے کیوں کر شیاطین بھاگ جاتے ہیں اس کا سر روحانی سلسلہ پر نظر کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شیاطین اور ملائک کی عداوت ذاتی ہے.پس ملائک ان شہب کے چھوڑنے کے وقت جن پر وہ ستاروں کی حرارت کا بھی اثر ڈالتے ہیں اپنی ایک

Page 113

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۶ سورة الجن نورانی طاقت جو میں پھیلاتے ہیں اور ہر یک شہاب جو حرکت کرتا ہے وہ اپنے ساتھ ایک ملکی نور رکھتا ہے کیونکہ فرشتوں کے ہاتھ سے برکت پا کر آتا ہے اور شیطان سوزی کا اس میں ایک مادہ ہوتا ہے.پس یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ جنات تو آگ سے مخلوق ہیں وہ آگ سے کیا ضر ر ا ٹھا ئیں گے.کیونکہ در حقیقت جس قدر ری شہب سے جنات کو ضرر پہنچتا ہے اس کا یہ ظاہری موجب آگ نہیں.بلکہ وہ روشنی موجب ہے جو فرشتہ کے نور سے شہب کے ساتھ شامل ہوتی ہے جو بالخاصیت محرق شیاطین ہے.اس ہماری تقریر پر کوئی یہ اعتراض نہ کرے کہ یہ تمام تقریر صرف بے ثبوت خیالات اور غایت کار خطابیات میں سے ہے جس کا معقولی طور پر کوئی بھی ثبوت نہیں کیونکہ ہم اس بات کو بخوبی ثابت کر چکے ہیں کہ اس عالم کی حرکات اور حوادث خود بخود نہیں اور نہ بغیر مرضی مالک اور نہ عبث اور بے ہودہ ہیں بلکہ در پردہ تمام اجرام علوی اور اجسام سفلی کے لیے منجانب اللہ مد بر مقرر ہیں جن کو دوسرے لفظوں میں ملائک کہتے ہیں اور جب تک کوئی انسان پابند اعتقاد وجود ہستی باری ہے اور دہر یہ نہیں اس کو ضرور یہ بات ماننی پڑے گی کہ یہ تمام کاروبار عبث نہیں بلکہ ہر یک حدوث اور ظہور پر خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت بالا رادہ کا ہاتھ ہے اور وہ ارادہ تمام انتظام کے موافق بتوسط اسباب ظہور پذیر ہوتا ہے چونکہ خدا تعالیٰ نے اجرام اور اجسام کو علم اور شعور نہیں دیا اس لئے ان باتوں کے پورا کرنے کے لیے جن میں علم اور شعور درکار ہے ایسے اسباب یعنی ایسی چیزوں کے توسط کی حاجت ہوئی جن کو علم اور شعور دیا گیا ہے اور وہ ملائک ہیں.اب ظاہر ہے کہ جب ملائک کی یہی شان ہے کہ وہ عبث اور بے ہودہ طور پر کوئی کام نہیں کرتے بلکہ اپنی تمام خدمات میں اغراض اور مقاصد ر کھتے ہیں اس لئے ان کی نسبت یہ بات ضروری طور پر ماننی پڑے گی کہ رجم کی خدمت میں بھی ان کا کوئی اصل مقصد ہے اور چونکہ عقل اس بات کے درک سے قاصر ہے کہ وہ کون سا مقصد ہے اس لئے اس عقدہ کے حل کے لیے عقل سے سوال کرنا بے محل سوال ہے اگر عقل کا اس میں کچھ دخل ہے تو صرف اس قدر کہ عقل سلیم ایسے نفوس کے افعال کی نسبت کہ جو ارادہ اور فہم اور شعور رکھتے ہوں ہرگز یہ تجویز نہیں کر سکتی کہ ان کے وہ افعال عبث اور بے ہودہ اور اغراض صحیحہ ضرور یہ سے خالی ہیں.پس اگر عقل سلیم اول اس بات کو بخوبی سمجھ لے کہ جو کچھ اجرام اور اجسام سماوی و ارضی اور کائنات الجو میں انواع اقسام کے تغیرات اور تحولات اور ظہورات ہورہے ہیں وہ صرف عمل ظاہر یہ تک محدود نہیں ہیں بلکہ ان تمام حوادث کے لیے اور علل بھی ہیں جو شعور اور ارادہ اور فہم اور تدبیر اور حکمت رکھتے ہیں تو اس سمجھ کے بعد ضرور عقل اس

Page 114

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۷ سورة الجن بات کا اقرار کرے گی کہ یہ تمام تغییرات اور حدوثات جو عالم سفلی اور علوی میں ہمیں نظر آتے ہیں عبث اور بے ہودہ اور لغو نہیں بلکہ ان میں مقاصد اور اغراض پوشیدہ ہیں گو ہم ان کو سمجھ سکیں یا ہماری سمجھ اور فہم سے بالا تر ہوں.اور اس اقرار کے ضمن میں تساقط شہب کی نسبت بھی یہی اقرار عقل سلیم کو کرنا پڑے گا کہ یہ کام بھی عبث نہیں کیونکہ یہ بات بداہتا ممتنع ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ جو نفوس ارادہ اور فہم اور تدبیر اور حکمت کے پابند ہیں وہ ایک اغو کام پر ابتدا سے اصرار کرتے چلے آئے ہیں.سو اگر چہ عقل پورے طور پر اس بستر کو دریافت نہ کر سکے مگر وجود ملائک اور ان کی منصبی خدمات کے ماننے کے بعد اس قدر تو ضر ور دریافت کر لے گی کہ ان کا کوئی فعل عبث اور بے ہودہ طور پر نہیں.اس اقرار کے بعد اگر چه عقل مفصلاً تساقط شہب کی ان اغراض کو دریافت نہ کر سکے جو ملائک کے ارادہ اور ضمیر میں ہیں لیکن اس قدر جمالی طور پر تو ضرور سمجھ جائے گی کہ بے شک اس فعل کے لیے بھی مثل اور افعال ملائکہ کے در پردہ اغراض و مقاصد ہیں پس وہ بوجہ اس کے کہ ادراک تفصیلی سے عاجز ہے اس تفصیل کے لیے کسی اور ذریعہ کے محتاج ہوگی جو حدود عقل سے بڑھ کر ہے اور وہ ذریعہ وحی اور الہام ہے جو اسی غرض سے انسان کو دیا گیا ہے کہ تا انسان کو ان معارف اور حقائق تک پہنچا دے کہ جن تک مجرد عقل پہنچا نہیں سکتی اور وہ اسرار دقیقہ اس پر کھولے جو عقل کے ذریعہ سے کھل نہیں سکتے.اور وحی سے مراد ہماری وحی قرآن ہے جس نے ہم پر یہ عقدہ کھول دیا کہ اسقاط شہب سے ملائکہ کی غرض رجم شیاطین ہے.یعنی یہ ایک قسم کا انتشار نورانیت ملائک کے ہاتھ سے اور ان کے نور کی آمیزش سے ہے جس کا جنات کی ظلمت پر اثر پڑتا ہے اور جنات کے افعال مخصوصہ اس سے رو بھی ہو جاتے ہیں اور اگر اس انتشار نورانیت کی کثرت ہو تو بوجہ نور کے مقناطیسی جذب کے مظاہر کاملہ نورانیت کے انسانوں میں سے پیدا ہوتے ہیں ورنہ یہ انتشار نورانیت بوجہ اپنی ملکی خاصیت کے کسی قدر دلوں کو نور اور حقانیت کی طرف کھینچتا ہے اور یہ ایک خاصیت ہے جو ہمیشہ دنیا میں انی طور پر اس کا ثبوت مانتا رہا ہے.دنیا میں ہزار ہا چیزوں میں ایسے خواص پائے جاتے ہیں جو انسان کی عقل سے برتر ہوتے ہیں اور انسان کوئی عقلی دلیل ان پر قائم نہیں کر سکتا اور ان کے وجود سے بھی انکار نہیں کرسکتا.پھر اس خاصیت ثابت شدہ کا صرف اس بنیاد پر انکار کرنا کہ عقل اس کے سمجھنے سے قاصر ہے اگر نادانی نہیں تو اور کیا ہے.کیا انسانی عقل نے تمام ان خواص دقیقہ پر جو اجسام اور اجرام میں پائے جاتے ہیں دلائل عقلی کی رو سے احاطہ کر لیا ہے؟ تا اس اعتراض کا حق پیدا ہو کہ تساقط شہب کی نسبت جو انتشار نورانیت کا بھید بیان کیا

Page 115

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٨٨ سورة الجن جاتا ہے یہ کیوں عقل کی دریافت سے باہر رہ گیا ہے.اور جیسا کہ ہم ابھی لکھ چکے ہیں یہ بات بھی نہیں کہ اس بھید کے تسلیم کرانے کے لیے عقل پر سراسر جبر ہے بلکہ جس حد تک عقل انسانی اپنے وجود میں طاقت فہم رکھتی ہے وہ اپنی اس حد کے مناسب حال اس بھید کو تسلیم کرتی ہے انکار نہیں کرتی کیونکہ عقل سلیم کو وجود ملائکہ اور ان کی خدمات مفوضہ کے تسلیم کرنے کے بعد مانا پڑتا ہے کہ یہ تساقط شہب بھی ملائکہ کے ذریعہ سے ظہور میں آتا ہے اور ملائکہ کسی غرض اور مقصد کے لیے اس فعل کو بحکم مولی کریم بجالاتے ہیں.پس عقل سلیم کا اس قدر ماننا اس کی ترقی کے لیے ایک زمینہ کی طرح ہے اور بلاشبہ اس قدر تسلیم کے بعد عقل سلیم تساقط شہب کو دہریوں اور طبیعیوں کی عقول ناقصہ کی طرح ایک امر عبت خیال نہیں کرے گی بلکہ تعین کامل کے ساتھ اس رائے کی طرف جھکے گی کہ در حقیقت یہ حکیمانہ کام ہے جس کے تحت میں مقاصد عالیہ ہیں اور اس قدر علم کے ساتھ عقل سلیم کو اس بات کی حرص پیدا ہوگی کہ ان مقاصد عالیہ کو مفصل طور پر معلوم کرے پس یہ حرص اور شوق صادق اس کو کشاں کشاں اس مرشد کامل کی طرف لے آئے گا جو وحی قرآن کریم ہے.ہاں اگر عقل سلیم کچھ بحث اور چوں چرا کر سکتی ہے تو اس موقعہ پر تو نہیں لیکن ان مسائل کے ماننے کے لیے بلا شبہ اول اس کا یہ حق ہے کہ خدا تعالیٰ کے وجود میں جس کی سلطنت تبھی قائم رہ سکتی ہے کہ جب ہر یک ذرہ عالم کا اس کا تابع ہو بحث کرے.پھر ملائک کے وجود پر اور ان کی خدمات پر دلائل شافیہ طلب کرے یعنی اس بات کی پوری پوری تسلی کر لیوے کہ در حقیقت خدا تعالیٰ کا انتظام یہی ہے کہ جو کچھ اجرام اور اجسام اور کائنات الجو میں ہو رہا ہے یا کبھی کبھی ظہور میں آتا ہے.وہ صرف اجرام اور اجسام کے افعال شتر بے مہار کی طرح نہیں ہیں بلکہ ان کے تمام واقعات کی زمام اختیار حکیم قدیر نے ملائک کے ہاتھ میں دے رکھی ہے جو ہر دم اور ہر طرفتہ العین میں اس قادر مطلق سے اذن پا کر انواع اقسام کے تصرفات میں مشغول ہیں اور نہ عبث طور پر بلکہ سراسر حکیمانہ طرز سے بڑے بڑے مقاصد کے لیے اس کرہ ارض و سما کو طرح طرح کی جنبشیں دے رہے ہیں اور کوئی فعل بھی ان کا بے کار اور بے معنی نہیں.اور ہم فرشتوں کے وجود اور ان کی ان خدمات پر کسی قدر اسی رسالہ میں بحث کر آئے ہیں جس کی تفصیل یہ ہے کہ فرشتوں کا وجود ماننے کے لیے نہایت سہل اور قریب راہ یہ ہے کہ ہم اپنی عقل کی توجہ اس طرف مبذول کریں کہ یہ بات طے شدہ اور فیصل شدہ ہے کہ ہمارے اجسام کی ظاہری تربیت اور تحمیل کے لئے اور نیز اس کام کے لیے کہ تا ہمارے ظاہری حواس کے افعال مطلوبہ کما ینبغی صادر ہوسکیں خدا تعالیٰ نے یہ قانون

Page 116

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۹ سورة الجن قدرت رکھا ہے کہ عناصر اور شمس و قمر اور تمام ستاروں کو اس خدمت میں لگا دیا ہے کہ وہ ہمارے اجسام اور قومی کو مدد پہنچا کر ان سے بوجہ احسن ان کے تمام کام صادر کرا دیں اور ہم ان صداقتوں کے ماننے سے کسی طرف بھاگ نہیں سکتے کہ مثلاً ہماری آنکھ اپنی ذاتی روشنی سے کسی کام کو بھی انجام نہیں دے سکتی جب تک آفتاب کی روشنی اس کے ساتھ شامل نہ ہو اور ہمارے کان محض اپنی قوت شنوائی سے کچھ بھی سن نہیں سکتے جب تک کہ ہوا متکیف بصوت ان کی ممد و معاون نہ ہو.پس کیا اس سے یہ ثابت نہیں کہ خدا تعالیٰ کے قانون نے ہمارے قومی کی تکمیل اسباب خارجیہ میں رکھی ہے اور ہماری فطرت ایسی نہیں ہے کہ اسباب خارجیہ کی مدد سے مستغنی ہوا گرغور سے دیکھو تو نہ صرف ایک دو بات میں بلکہ ہم اپنے تمام حواس تمام قومی تمام طاقتوں کی تکمیل کے لئے خارجی امدادات کے محتاج ہیں پھر جب کہ یہ قانون اور انتظام خدائے واحد لاشریک کا جس کے کاموں میں وحدت اور تناسب ہے ہمارے خارجی قومی اور حواس اور اغراض جسمانی کی نسبت نہایت شدت اور استحکام اور کمال التزام سے پایا جاتا ہے تو پھر کیا یہ بات ضروری اور لازمی نہیں کہ ہماری روحانی تکمیل اور روحانی اغراض کے لیے بھی یہی انتظام ہوتا دونوں انتظام ایک ہی طرز پر واقع ہو کر صانع واحد پر دلالت کریں اور خود ظاہر ہے کہ جس حکیم مطلق نے ظاہری انتظام کی یہ بنا ڈالی ہے اور اسی کو پسند کیا ہے کہ اجرام سماوی اور عناصر وغیرہ اسباب خارجیہ کے اثر سے ہمارے ظاہر اجسام اور قومی اور حواس کی تکمیل ہو اس حکیم قادر نے ہمارے روحانیت کے لیے بھی یہی انتظام پسند کیا ہوگا کیونکہ وہ واحد لاشریک ہے اور اس کی حکمتوں اور کاموں میں وحدت اور تناسب ہے اور دلائل الیہ بھی اسی پر دلالت کرتی ہیں.سو وہ اشیاء خارجیہ جو ہماری روحانیت پر اثر ڈال کر شمس اور قمر اور عناصر کی طرح جو اغراض جسمانی کے لیے ممد ہیں ہماری اغراض روحانی کو پورا کرتی ہیں انہیں کا نام ہم ملائک رکھتے ہیں.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۰۳ تا ۱۳۵ حاشیه ) قُلْ اِنْ اَدْرِى اَقَرِيبٌ مَا تُوعَدُونَ أَمْ يَجْعَلُ لَهُ رَبِّي أَمَدًان یعنی ان کو کہہ دے کہ میں نہیں جانتا کہ عذاب قریب ہے یا دُور ہے.اب اے سننے والو! یا د رکھو کہ یہ بات سچ ہے اور بالکل سچ ہے اور اس کے ماننے کے بغیر چارہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئیاں کبھی ظاہر پر پوری ہوتی ہیں اور کبھی استعارہ کے رنگ میں.پس کسی نبی یا رسول کو یہ حوصلہ نہیں کہ ہر جگہ اور ہر پیشگوئی میں یہ

Page 117

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الجن دعوی کر دے کہ اس طور پر یہ پیشگوئی پوری ہوگی.ہاں....اس امر کا دعویٰ کرنا نبی کا حق ہے کہ وہ پیشگوئی جس کو وہ بیان کرتا ہے خارق عادت ہے یا انسانی علم سے وراء الوراء ہے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۵۳) علِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبة أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا رسول کا لفظ عام ہے جس میں رسول اور نبی اور محدث داخل ہیں.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۲۲) لَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْيَةٍ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ یعنی خدائے تعالیٰ کھلے کھلے طور پر کسی کو اپنے غیب پر بجز رسولوں کے یعنی بجز ان لوگوں کے جو وحی رسالت یا وحی ولایت کے ساتھ مامور ہوا کرتے ہیں اور منجانب اللہ سمجھے جاتے ہیں مطلع نہیں کرتا.الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۱۹) مکذبین کے دلوں پر خدا کی لعنت ہے خدا ان کو نہ قرآن کا نور دکھلائے گا نہ بالمقابل دعا کی استجابت جو اعلام قبل از وقت کے ساتھ ہوا اور نہ امور غیبیہ پر اطلاع دے گا لا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِةٍ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ - انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۳۰۳ حاشیه ) کامل طور پر غیب کا بیان کرنا صرف رسولوں کا کام ہے دوسرے کو یہ مرتبہ عطا نہیں ہوتا.رسولوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے جاتے ہوں خواہ وہ نبی ہوں یا رسول یا محدث اور مجد دہوں.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۴۱۹ حاشیه ) یہ آیت علم غیب صحیح اور صاف کا رسولوں پر حصر کرتی ہے.تحفہ گولڑ و سیه روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۳۵ حاشیه ) استجابت دعا کے ساتھ اگر حسب مراد کوئی امر غیب خدا تعالی کسی پر ظاہر کرے اور وہ پورا ہو جائے تو بلا شبہ اس کی قبولیت پر ایک دلیل ہوگی اور یہ کہنا کہ نجومی یا رتال اس میں شریک ہیں یہ سراسر خیانت اور مخالف تعلیم قرآن ہے کیونکہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے لا يُظهِرُ عَلَى غَيْبة أَحَدًا - إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ - ( نشان آسمانی، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۹۴)

Page 118

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۱ سورة الجن کرتا.خدا تعالیٰ بجز ان لوگوں کے جن کو وہ ہدایت خلق کے لیے بھیجتا ہے کسی دوسرے کو اپنے غیب پر مطلع نہیں ( نشانی آسمانی، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۹۴ حاشیه ) غیب کو چنے ہوئے فرستادوں کے سوا کسی پر نہیں کھولا جاتا.(سراج منیر، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۲۰) آيت لا يُظهِرُ عَلى غَيْبة احدا نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ...کھلی کھلی پیشگوئی صرف خدا کے مرسلوں کو دی جاتی ہے نہ منجموں سے ہو سکتی ہے نہ دجالوں سے.(حجۃ اللہ ، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۱۵۴) قرآن شریف بجز نبی بلکہ رسول ہونے کے دوسروں پر علوم غیب کا دروازہ بند کرتا ہے جیسا کہ آیت لا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِةٍ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضى مِنْ رَّسُولٍ سے ظاہر ہے.پس مصفی غیب پانے کے لئے نبی ہونا غلطی کا ازالہ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۰۹ حاشیه ) ضروری ہوا.صاف اور صریح غیب محض برگزیدہ رسولوں کو دیا جاتا ہے.کچی پیشگوئی بجز سچے رسول کے کس کی طرف منسوب ہوسکتی ہے؟ (نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۱۴) کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۶۳ ) اللہ تعالیٰ کے غیب کا کسی پر ظہور نہیں ہوتا مگر اللہ تعالی کے برگزیدہ رسولوں پر ہوتا ہے.لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۵۷) کھلا کھلا غیب صرف برگزیدہ رسول کو عطا کیا جاتا ہے غیر کو اس میں حصہ نہیں.تجلیات الهیه، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۹۸) ہر ایک مومن پر غیب کامل کے امور ظاہر نہیں کئے جاتے بلکہ محض ان بندوں پر جو اصطفاء اور اجتباء کا مرتبہ رکھتے ہیں ظاہر ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ ایک جگہ قرآن شریف میں فرماتا ہے لَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبة اَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولِ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے غیب پر کسی کو غالب ہونے نہیں دیتا مگر ان لوگوں کو جو اس کے رسول اور اس کی درگاہ کے پسندیدہ ہوں.براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۸۶) کھلی کھلی غیب کی بات بتلانا بجز نبی کے اور کسی کا کام نہیں ہے.اللہ تعالی قرآن شریف میں فرماتا ہے لا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبَةٍ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولِ یعنی خدا اپنے غیب پر بجز برگزیدہ رسولوں کے کسی کو مطلع (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۰۴) نہیں فرماتا.

Page 119

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۲ سورة الجن غیب کا ایسا دروازہ کسی پر کھولنا کہ گویا وہ غیب پر غالب اور غیب اس کے قبضہ میں ہے یہ تصرف علم غیب میں بجز خدا کے برگزیدہ رسولوں کے اور کسی کو نہیں دیا جاتا کہ کیا باعتبار کیفیت اور کیا باعتبار کمیت غیب کے دروازے اس پر کھولے جائیں ہاں شاذ و نادر کے طور پر عام لوگوں کو کوئی سچی خواب آسکتی ہے یا سچا الہام ہوسکتا ہے اور وہ بھی تاریکی سے خالی نہیں ہوتا مگر غیب کے دروازے ان پر نہیں کھلتے یہ موہبت محض خدا کے برگزیدہ رسولوں کے لیے ہوتی ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۵۰،۳۴۹) احادیث نبویہ میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے ایک شخص پیدا ہوگا جو عیسی اور ابن مریم کہلائے گا.اور نبی کے نام سے موسوم کیا جائے گا یعنی اس کثرت سے مکالمہ و مخاطبہ کا شرف اس کو حاصل ہوگا اور اس کثرت سے امور غیبیہ اس پر ظاہر ہوں گے کہ بجز نبی کے کسی پر ظاہر نہیں ہو سکتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ اَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ یعنی خدا اپنے غیب پر کسی کو پوری قدرت اور غلبہ نہیں بخشتا جو کثرت اور صفائی سے حاصل ہوسکتا ہے بجز اُس شخص کے جو اس کا برگزیدہ رسول ہو اور یہ بات ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس قدر خدا تعالیٰ نے مجھ سے مکالمہ ومخاطبہ کیا ہے اور جس قدر امور غیبیہ مجھ پر ظاہر فرمائے ہیں تیرہ سو برس ہجری میں کسی شخص کو آج تک بجز میرے یہ نعمت عطا نہیں کی گئی.اگر کوئی منکر ہو تو بار ثبوت اس کی گردن پر ہے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۰۶) خدا تعالیٰ صاف صاف اور کھلا کھلا غیب بجز اپنے رسولوں کے کسی پر ظاہر نہیں کرتا اور ظاہر ہے کہ دعوے کے ساتھ کسی پیشگوئی کو بتا متر تصریح شائع کرنا اور پھر اُس کا اسی طرح بکمال صفائی پورا ہونا اس سے زیادہ روشن نشان کی اور کیا علامت ہوسکتی ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۳۵) اس آیت سے قطعی اور یقینی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کھلی کھلی پیشگوئیاں جو مقدار میں زیادہ اور صفائی میں اول درجہ پر ہوں صرف خدا کے برگزیدوں کو ہوتی ہیں دوسرے آدمی ان میں شریک نہیں ہوتے.اور جو اس درجہ پر الہام نہیں وہ دوسروں کو بھی ہو سکتے ہیں اور اکثر اُن میں مہمل اور متشابہ الہام ہوتے ہیں.پس اسی مقابلہ سے برگزیدے لوگ شناخت کئے جاتے ہیں.یادر ہے کہ اس آیت کی رو سے اس بات کا جواز پایا جاتا ہے کہ وہ الہامی پیشگوئیاں جو اس آیت کے منشاء کے مطابق کھلی کھلی نہ ہوں اور نیز اپنے مقدار میں انسانوں کی معمولی حالت سے بڑھ کر نہ ہوں اور متشابہات کا حصہ اُن پر غالب ہو.ایسی الہامی پیشگوئیاں اور ایسے الہام اُن لوگوں کو بھی ہو سکتے ہیں جو خدا کے برگزیدہ نہیں ہیں اور معمولی انسانوں میں سے ہیں.پس

Page 120

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۳ سورة الجن برگزیدوں کی شناخت کے لئے قرآن شریف میں یہی معیار ہے کہ ان کی الہامی پیشگوئیوں میں متشابہات کا حصہ کم ہو اور اپنی کثرت اور صفائی میں اس درجہ پر ہوں کہ دنیا میں کوئی ان کا مقابلہ نہ کر سکے ورنہ اس آیت کی رو سے ایک فاسق کو بھی الہام ہو سکتا ہے جو اس درجہ پر نہیں ہے.مثلاً نظیر کے طور پر ہم بیان کرتے ہیں کہ براہین احمدیہ کی یہ پیشگوئی که يَأْتِيكَ مِن كُلِّ فَجَ عَمِيقٍ يَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ جس پر چھبیس برس گزرچکے ہیں ایسے کھلے کھلے طور پر پوری ہوئی ہے کہ نہ ایک دفعہ بلکہ لاکھوں دفعہ اُس نے اپنی سچائی ثابت کر دی ہے جس میں تائید اور نصرت الہی بھری ہوئی ہے.پس ایسی پیشگوئی بجز خدا کے کسی خاص برگزیدہ کے دوسروں سے ہرگز ظہور میں نہیں آسکتی.اگر آسکتی ہے تو کوئی اس کی نظیر پیش کرے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶۰۶ حاشیه ) انکل باز رتالوں اور کا جنوں کی غیب دانی اور مامور من اللہ اور مہم کے اظہار غیب میں یہ فرق ہوتا ہے کہ مہم کا اظہار غیب اپنے اندر الہی طاقت اور خدائی ہیبت رکھتا ہے چنانچہ قرآن کریم نے صاف طور پر فرمایا ہے لا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبَةٍ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ یہاں اظہار کا لفظ ہی ظاہر کرتا ہے کہ اس کے اندر ایک شوکت اور قوت ہوتی ہے.( الحکم جلد ۲ نمبر ۲۹،۲۸ مورخه ۲۰ تا ۲۷ ستمبر ۱۸۹۸ء صفحه ۴) نبیوں کا عظیم الشان کمال یہ ہے کہ وہ خدا سے خبریں پاتے ہیں چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے لا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبةٍ أَحَدًا - إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ یعنی خدا تعالیٰ کے غیب کی باتیں کسی دوسرے پر ظاہر نہیں ہوتیں ہیں.ہاں اپنے نبیوں میں سے جس کو وہ پسند کرے، جو لوگ نبوت کے کمالات سے حصہ لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ اُن کو قبل از وقت آنے والے واقعات کی اطلاع دیتا ہے اور یہ بہت بڑا عظیم الشان نشان خدا کے مامور اور مرسلوں کا ہوتا ہے.اس سے بڑھ کر اور کوئی معجزہ نہیں.پیش گوئی بہت بڑا معجزہ ہے.تمام کتب سابقہ اور قرآن کریم سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہے کہ پیشگوئی سے بڑھ کر کوئی نشان نہیں ہوتا.احکم جلد ۵ نمبر ۱۰ مورخه ۱۷ مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۳) اللہ تعالیٰ اپنی رضا مندی اس طرح سے بار بار ظاہر کرتا ہے کہ اول ایک امر کو خواب میں دکھاتا ہے پھر اُسے کشف میں.پھر اس کے متعلق وحی ہوتی ہے اور پھر وحی کی تکرار ہوتی رہتی ہے حتی کہ وہ امرغیب اس کے لیے مشہودہ اور محسوسہ امور میں داخل ہو جاتا ہے اور جس قدر تکرار ایک مہم کے نفس میں ہوتا ہے اسی قدر تکرار اس کے مکالمہ میں ہوا کرتا ہے اور اصفی اور اجلی مکالمہ انہی لوگوں کا ہوتا ہے جو اعلیٰ درجہ کا تزکیہ نفس کرتے

Page 121

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۴ سورة الجن ہیں اس لیے تقویٰ اور طہارت کی بہت ضرورت ہے.(البدر جلد ۲ نمبر ۶ مورخه ۲۷ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۴۲) آج قرآن شریف کی آیت شریفہ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبةٍ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ سے مجھے ایک نکتہ خیال میں آیا اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ اس کے غیب کا اظہار سوائے برگزیدہ رسولوں کے اور کسی پر نہیں ہوتا.اس میں سوچنے کے لائق لفظ اظہار ہے اظہار سے مراد یہ ہے کہ کھلا کھلا غیب کثرت کے ساتھ کسی پر کھولا جائے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف متشابہات کے طور پر تھوڑا سا غیب تو گاہے گاہے کسی دوسرے پر بھی کھولا جاتا ہے.مگر اس میں محکم بات نہیں ہوتی اور اس کے واسطے شرط نہیں کہ جس پر کھولا جائے وہ مومن ہو یا کافر ہو.ہر ایک مذہب کے آدمی کو یہ حالت گا ہے حاصل ہوسکتی ہے کہ کوئی تھوڑی سی بات مشتبہ یا غیر مشتبہ اس کو غیب سے مل جائے.یہ سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن منع صرف اظہار علی الغیب کی ہے.اظہار کا لفظ اس کی کیفیت اور کمیت پر دلالت کرتا ہے یعنی وہ غیب کی خبر مصفی ہو.شک اور شبہ سے پاک ہو اور دوسرا کثرت سے ہو جس سے ظاہر ہو کہ یہ خارق عادت اور معجزہ نما ہے.اس آیت سے خود ظاہر ہوتا ہے کہ رسولوں کے سوائے دوسرے لوگوں کو بھی غیب کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے مگر ان کے غیب میں اظہار کا رنگ نہیں ہوتا.اظہار کا لفظ ایک خاص امتیاز کو ظاہر کرتا ہے.(البدر جلد ۶ نمبر ۲۰ مورخه ۱۶ رمئی ۱۹۰۷ ء صفحه ۳) لوگوں کی خوابوں اور انبیاء کے الہامات ، مکالمات اور مخاطبات میں ایک ما بہ الامتیاز ہوتا ہے انبیاء کی وحی اپنے تمام لوازمات کے ساتھ ہوتی ہے.اس میں ایک شوکت اور جلال ورعب ہوتا ہے.انبیاء کی وحی کیا بلحاظ کیفیت اور کیا بلحاظ کمیت عام لوگوں سے بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہے.اور وہ ان کی کامیابی اور ان کے دشمنوں کی نامرادی پر مبنی ہوتی ہے.انبیاء کی وحی غیب پر مشتمل ہوتی ہے.لَا يُظهِرُ عَلى غَيْبَةٍ اَحَدًا - إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ غرض انبیاء کی وحی میں کسی انسان کو کسی طرح کا اشتراک نہیں ہوتا.جنسیت کے لحاظ سے جو اشتراک رکھا گیا ہے وہ بھی صرف اس واسطے کہ تا انسان کو انبیاء کی پاک وحی پر ایمان لانے میں مدد دے ورنہ اس کی کوئی حقیقت نہیں اور وہ تو انبیاء کی وحی کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں.(الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۸ مورخه ۱۰ مارچ ۱۹۰۸ صفحه ۴) نبی کے معنے لغت کی رو سے یہ ہیں کہ خدا کی طرف سے اطلاع پا کر غیب کی خبر دینے والا.پس جہاں یہ معنے صادق آئیں گے نبی کا لفظ بھی صادق آئے گا اور نبی کا رسول ہونا شرط ہے کیونکہ اگر وہ رسول نہ ہو تو پھر

Page 122

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۵ سورة الجن غیب مصفی کی خبر اس کو مل نہیں سکتی اور یہ آیت روکتی ہے لا يُظهرُ عَلی غَيْبِهِ أَحَدًا - إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رسُول.اب اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان معنوں کی رو سے نبی سے انکار کیا جائے تو اس سے لازم آتا ہے کہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ یہ امت مکالمات و مخاطبات الہیہ سے بے نصیب ہے کیونکہ جس کے ہاتھ پر اخبار غیبیہ منجانب اللہ ظاہر ہوں گے بالضرورت اس پر مطابق آیت لَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبة کے مفہوم نبی کا صادق آئے گا.اسی طرح جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا جائے گا اسی کو ہم رسول کہیں گے.فرق درمیان یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک ایسا نبی کوئی نہیں جس پر جدید شریعت نازل ہو یا جس کو بغیر توسط آنجناب اور ایسی فنافی الرسول کی حالت کے جو آسمان پر اس کا نام محمد اور احمد رکھا جائے یونہی نبوت کا لقب عنایت کیا جائے.وَ مَنِ ادَّعَى فَقَدْ كَفَرَ.اس میں اصل بھید یہی ہے کہ خاتم النبیین کا مفہوم تقاضا کرتا ہے کہ جب تک کوئی پردہ مغائرت کا باقی ہے اس وقت تک اگر کوئی نبی کہلائے گا تو گویا اس مہر کو توڑنے والا ہو گا جو خاتم النہین پر ہے لیکن اگر کوئی شخص اسی خاتم النبین میں ایسا کم ہو کہ باعث نہایت اتحاد اور نفی غیریت کے اس کا نام پالیا ہو اور صاف آئینہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میں انعکاس ہو گیا ہو تو وہ بغیر عمبر توڑنے کے نبی کہلائے گا کیونکہ وہ محمد ہے گو ظلی طور پر.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۵۲۵،۵۲۴)

Page 123

Page 124

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۹۷ سورة المزمل بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة المزمل بیان فرموده سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ او زِدْ عَلَيْهِ وَ رَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا ) وَ خوش الحانی سے قرآن شریف پڑھنا بھی عبادت ہے اور بدعات جو ساتھ ملا لیتے ہیں وہ اس عبادت کو ضائع کر دیتی ہیں.بدعات نکال نکال کر ان لوگوں نے کام خراب کیا ہے.إنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلاً ) الحکم جلدے نمبر ۱۱ مورخہ ۲۴ / مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۵) بعض لوگ حدیث النفس اور شیطان کے القاء کو الہام الہی سے تمیز نہیں کر سکتے اور دھوکا کھا جاتے ہیں.خدا کی طرف سے جو بات آتی ہے وہ پر شوکت اور لذیذ ہوتی ہے.دل پر ایک ٹھوکر مارنے والی ہوتی ہے.وہ خدا کی انگلیوں سے نکلی ہوئی ہوتی ہے.اس کا ہموزن کوئی نہیں وہ فولاد کی طرح گرنے والی ہوتی ہے جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہے إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلاً ثَقِيلاً ثقیل کے یہی معنی ہیں مگر شیطان اور نفس کا القاء ایسا نہیں ہوتا.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۹) / واذكر اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلا اور خدا کو یا دکر اور اس کی طرف جھکارہ.ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۳۱)

Page 125

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۸ سورة المزمل میرے نزدیک رؤیا میں یہ بتانا کہ تجمل کے معنے مجھے سے دریافت کئے جاویں اس سے یہ مراد ہے کہ جو میرا مذہب اس بارہ میں ہے وہ اختیار کیا جاوے.منطقیوں یا نحویوں کی طرح معنے کرنا نہیں ہوتا بلکہ حال کے موافق معنے کرنے چاہئیں.ہمارے نزدیک اس وقت کسی کو متقبل کہیں گے جب وہ عملی طور پر اللہ تعالیٰ اور اس کے احکام اور رضا کو دنیا اور اس کی متعلقات و مکروہات پر مقدم کرلے.کوئی رسم و عادت کوئی قومی اصول اس کا رہزن نہ ہو سکے، نہ نفس رہزن ہو سکے، نہ بھائی ، نہ جو رو، نہ بیٹا ، نہ باپ.غرض کوئی شے اور کوئی متنفس اس کو خدا تعالیٰ کے احکام اور رضا کے مقابلہ میں اپنے اثر کے نیچے نہ لا سکے اور وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول میں ایسا اپنے آپ کو کھو دے کہ اس پر فنائے اتم طاری ہو جاوے اور اس کی ساری خواہشوں اور ارادوں پر ایک موت وارد ہو کر خدا ہی خدارہ جاوے.دنیا کے تعلقات بسا اوقات خطرناک رہنرن ہو جاتے ہیں.حضرت آدم علیہ السلام کی رہزن حضرت حوا ہو گئی.پس مقتل تام کی صورت میں یہ ضروری امر ہے کہ ایک سکر اور فنا انسان پر وارد ہو مگر نہ ایسی کہ وہ اسے خدا سے گم کرے بلکہ خدا میں گم کرے.غرض عملی طور پر تل کی حقیقت تب ہی کھلتی ہے جبکہ ساری روکیں دور ہو جائیں اور ہر ایک قسم کے حجاب دور ہو کر محبت ذاتی تک انسان کا رابطہ پہنچ جاوے اور فناء اتم ایسی حاصل ہو جاوے.قیل وقال کے طور پر تو سب کچھ ہوسکتا ہے اور انسانی الفاظ اور بیان میں بہت کچھ ظاہر کر سکتا ہے مگر مشکل ہے تو یہ کہ عملی طور پر اسے دکھا بھی دے جو کچھ وہ کہتا ہے.یوں تو ہر ایک جو خدا کو مانے والا ہے پسند بھی کرتا ہے.اور کہہ بھی دیتا ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ خدا کو سب پر مقدم کروں اور مقدم کرنے کا مدعی بھی ہو سکتا ہے لیکن جب ان آثار اور علامات کا معائنہ کرنا چاہیں جو خدا کو مقدم کرنے کے ساتھ ہی عطا ہوتے ہیں تو ایک مشکل کا سامنا ہو گا.بات بات پر انسان ٹھوکر کھاتا ہے.خدا تعالیٰ کی راہ میں جب اس مال اور جان کے دینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ ان سے ان کی جانوں اور مالوں یا اور عزیز ترین اشیاء کی قربانی چاہتا ہے حالانکہ وہ اشیاء ان کی اپنی بھی نہیں ہوتی ہیں.لیکن پھر بھی وہ مضائقہ کرتے.ابتداء بعض صحابہ کو اس قسم کا ابتلاء پیش آیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بناء مسجد کے واسطے زمین کی ضرورت تھی ایک شخص سے زمین مانگی تو اس نے کئی عذر کر کے بتادیا کہ میں زمین نہیں دے سکتا.اب وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا تھا اور اللہ اور اس کے رسول کو سب پر مقدم کرنے کا عہد اس نے کیا تھا لیکن جب آزمائش اور امتحان کا وقت آیا تو اس کو پیچھے ہٹنا پڑا گو آخر کار اس نے وہ قطعہ دے دیا.تو بات اصل میں یہی ہے کہ کوئی امر محض

Page 126

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۹ سورة المزمل بات سے نہیں ہو سکتا.جب تک عمل اس کے ساتھ نہ ہو اور عملی طور پر صحیح ثابت نہیں ہوتا جب تک امتحان ساتھ نہ ہو ہمارے ہاتھ پر بیعت تو یہی کی جاتی ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کروں گا اور ایک شخص کو جسے خدا نے اپنا مامور کر کے دنیا میں بھیجا ہے اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہے جس کا نام حکم اور عدل رکھا گیا ہے اپنا امام سمجھوں گا.اس کے فیصلے پر ٹھنڈے دل اور انشراح قلب کے ساتھ رضامند ہو جاؤں گا لیکن اگر کوئی شخص یہ عہد اور اقرار کرنے کے بعد بھی ہمارے کسی فیصلے پر خوشی کے ساتھ رضا مند نہیں ہوتا بلکہ اپنے سینہ میں کوئی روک اور اٹک پاتا ہے تو یقینا کہنا پڑے گا کہ اس نے پورا تعبیل حاصل نہیں کیا اور وہ اس اعلیٰ مقام پر نہیں پہنچا جو تنبل کا مقام کہلاتا ہے بلکہ اس کی راہ میں ہوائے نفس اور دنیوی تعلقات کی روکیں اور زنجیریں باقی ہیں اور ان حجابوں سے وہ باہر نہیں نکلا جن کو پھاڑ کر انسان اس درجہ کو حاصل کرتا ہے جب تک وہ دنیا کے درخت سے کاٹا جا کر الوہیت کی شاخ کے ساتھ ایک پیوند حاصل نہیں کرتا اس کی سرسبزی اور شادابی محال ہے.دیکھو جب ایک درخت کی شاخ اس سے کاٹ دی جاوے تو وہ پھل پھول نہیں دے سکتی خواہ اسے پانی کے اندر ہی کیوں نہ رکھو اور ان تمام اسباب کو جو پہلی صورت میں اس کے لئے مایہ حیات تھے استعمال کرو.لیکن وہ کبھی بھی بار آور نہ ہوگی.اسی طرح پر جب تک ایک صادق کے ساتھ انسان کا پیوند قائم نہیں ہوتا وہ روحانیت کو جذب کرنے کی قوت نہیں پاسکتا جیسے وہ شاخ تنہا اور الگ ہو کر پانی سے سرسبز نہیں ہوتی اسی طرح پر یہ بے تعلق اور الگ ہو کر بار آور نہیں ہوسکتا.پس انسان کو منتقل ہونے کے لئے ایک قطع کی ضرورت بھی ہے اور ایک پیوند کی بھی.خدا کے ساتھ اسے پیوند کرنا اور دنیا اور اس کے تمام تعلقات اور جذبات سے الگ بھی ہونا پڑے گا.اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ بالکل دنیا سے الگ رہ کر یہ تعلق اور پیوند حاصل کرے گا.نہیں.بلکہ دنیا میں رہ کر پھر اس سے الگ رہے یہی تو مردانگی اور شجاعت ہے اور الگ ہونے سے مراد یہ کہ دنیا کی تحریکیں اور جذبات اس کو اپنا زیر اثر نہ کر لیں اور وہ ان کو مقدم نہ کرے بلکہ خدا کو مقدم کرے.دنیا کی کوئی تحریک اور روک اس کی راہ میں نہ آوے اور اپنی طرف اس کو جذب نہ کر سکے.میں نے ابھی کہا ہے کہ دنیا میں بہت سی روکیں انسان کے لئے ہیں.ایک جور و یا بیوی بھی بہت کچھ ر ہرن ہو سکتی ہے خدا نے اس کا نمونہ بھی پیش کیا ہے.خدا نے ایک نہی کی تعلیم دی تھی اس کا اثر پہلے عورت پر ہوا پھر آدم پر ہوا.غرض تجمل کیا ہے؟ خدا کی طرف انقطاع کر کے دوسروں کو محض مردہ سمجھ لینا.بہت سے لوگ ہیں جو

Page 127

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة المزمل ہماری باتوں کو صحیح سمجھتے ہیں اور کہتے کہ یہ سب کچھ بیجا اور درست ہے مگر جب ان سے کہا جاوے کہ پھر تم اس کو قبول کیوں نہیں کرتے تو وہ یہی کہیں گے کہ لوگ ہم کو برا کہتے ہیں.پس یہ خیال کہ لوگ اس کو برا کہتے ہیں یہی ایک رگ ہے جو خدا سے قطع کراتی ہے کیونکہ اگر خدا تعالیٰ کا خوف دل میں ہو اور اس کی عظمت اور جبروت کی حکومت کے ماتحت انسان ہو پھر اس کو کسی دوسرے کی پروا کیا ہوسکتی ہے کہ وہ کیا کہتا ہے کیا نہیں؟ ابھی اس کے دل میں لوگوں کی حکومت ہے نہ خدا کی.جب یہ مشرکانہ خیال دل سے دور ہو جاوے پھر سب کے سب مردے اور کیڑے سے بھی کمتر اور کمزور نظر آتے ہیں.اور اگر ساری دنیامل کر بھی مقابلہ کرنا چاہیے تو ممکن نہیں کہ ایسا شخص حق کو قبول کرنے سے رک جاوے.تبتل تام کا پورانمونہ انبیاءعلیہم السلام اور خدا کے ماموروں میں مشاہدہ کرنا چاہیے کہ وہ کس طرح دنیا داروں کی مخالفتوں کے باوجود پوری بیکسی اور ناتوانی کے پروا تک نہیں کرتے.ان کی رفتار اور حالات سے سبق لینا چاہیے.بعض لوگ پوچھا کرتے ہیں کہ ایسے لوگ جو برا نہیں کہتے مگر پورے طور پر اظہار بھی نہیں کرتے محض اس وجہ سے کہ لوگ برا کہیں گے کیا ان کے پیچھے نماز پڑھ لیں ؟ میں کہتا ہوں ہرگز نہیں اس لئے کہ ابھی تک ان کے قبولِ حق کی راہ میں ایک ٹھوکر کا پتھر ہے اور وہ ابھی تک اسی درخت کی شاخ ہیں جس کا پھل زہریلا اور ہلاک کرنے والا ہے.اگر وہ دنیا داروں کو اپنا معبود اور قبلہ نہ سمجھتے تو ان سارے حجابوں کو چیر کر باہر نکل آتے اور کسی کے لعن طعن کی ذرا بھی پروانہ کرتے اور کوئی خوف شماتت کا انہیں دامنگیر نہ ہوتا بلکہ وہ خدا کی طرف دوڑتے.پس یا د رکھو کہ تم ہر کام میں دیکھ لو کہ اس میں خدا راضی ہے یا مخلوق خدا.جب تک یہ حالت نہ ہو جاوے کہ خدا کی رضا مقدم ہو جاوے اور کوئی شیطان اور رہزن نہ ہو سکے اس وقت تک ٹھوکر کھانے کا اندیشہ ہے لیکن جب دنیا کی برائی بھلائی محسوس ہی نہ ہو بلکہ خدا کی خوشنودی اور ناراضگی اس پر اثر کرنے والی ہو.یہ وہ حالت ہوتی ہے جب انسان ہر قسم کے خوف و حزن کے مقامات سے نکلا ہوا ہوتا ہے.اگر کوئی شخص ہماری جماعت میں شامل ہو کر پھر اس سے نکل بھی جاتا ہے تو اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ اس کا شیطان اس لباس میں ہنوز اس کے ساتھ ہوتا ہے.لیکن اگر وہ عزم کر لے کہ آئندہ کسی وسوسہ انداز کی بات کوسنوں گا ہی نہیں تو خدا اسے بچا لیتا ہے.ٹھوکر لگنے کا عموما یہی سبب ہوتا ہے کہ دوسرے تعلقات قائم تھے.ان کو پرورش کے لئے ضرورت پڑی کہ ادھر سے ست ہوں سستی سے اجنبیت پیدا ہوئی پھر اس سے تکبر اور پھر انکار تک

Page 128

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1+1 سورة المزمل نوبت پہنچی.قتل کا عملی نمونہ ہمارے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.نہ آپ کو کسی کی مدح کی پروانہ زم کی.کیا کیا آپ کو تکالیف پیش آئیں.مگر کچھ بھی پرواہ نہیں کی.کوئی لالچ اور طمع آپ کو اس کام سے نہ روک سکا جو آپ خدا کی طرف سے کرنے آئے تھے.جب تک انسان اس حالت کو اپنے اندر مشاہدہ نہ کر لے اور امتحان میں پاس نہ ہوئے کبھی بھی بے فکر نہ ہو.پھر یہ بات بھی یادر کھنے کے قابل ہے کہ جو شخص مستقبل ہوگا متوکل بھی وہی ہوگا.گو یا متوکل ہونے کے واسطے متبتل ہونا شرط ہے کیونکہ جب تک اوروں کے ساتھ تعلقات ایسے ہیں کہ ان پر بھروسہ اور تکیہ کرتا ہے اس وقت تک خالصہ اللہ پر توکل کب ہو سکتا ہے.جب خدا کی طرف انقطاع کرتا ہے تو وہ دنیا کی طرف سے توڑتا ہے اور خدا میں پیوند کرتا ہے اور یہ تب ہوتا ہے جبکہ کامل تو کل ہو.جیسے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامل متجبل تھے ویسے ہی کامل متوکل بھی تھے اور یہ وجہ ہے کہ اتنے وجاہت والے اور قوم و قبائل کے سرداروں کی ذرا بھی پرواہ نہیں کی اور ان کی مخالفت سے کچھ بھی متاثر نہ ہوئے.آپ میں ایک فوق العادت یقین خدا تعالیٰ کی ذات پر تھا اسی لئے اس قدر عظیم انشان بو جھ کو آپ نے اٹھا لیا اور ساری دنیا کی مخالفت کی اور ان کی کچھ بھی ہستی نہ سمجھی یہ بڑا نمونہ ہے تو کل کا جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی اس لئے کہ اس میں خدا کو پسند کر کے دنیا کو مخالف بنا لیا جاتا ہے مگر یہ حالت پیدا نہیں ہوتی جب تک گویا خدا کونہ دیکھ لے.جب تک یہ امید نہ ہو کہ اس کے بعد دوسرا دروازہ ضرور کھلنے والا ہے.جب یہ امید اور یقین ہو جاتا ہے تو وہ عزیزوں کو خدا کی راہ میں دشمن بنا لیتا ہے اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ خدا اور دوست بنا دے گا.جائیداد کھو دیتا ہے کہ اس سے بہتر ملنے کا یقین ہوتا ہے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ خدا ہی کی رضا کو مقدم کرنا تو تبتل ہے اور پھر تمبتل اور توکل توام ہیں.سمبل کا راز ہے تو کل اور توکل کی شرط ہے تبتل.یہی ہمارا مذہب اس امر میں ہے.الحکم جلد ۵ نمبر۳۷ مورخہ ۱۰ راکتو بر ۱۹۰۱ صفحه ۱تا۳) تمام طریق جن کا قرآن شریف میں کوئی ذکر نہیں انسانی اختراع اور خیالات ہیں جن کا نتیجہ کبھی کچھ نہیں ہوا.قرآن شریف اگر کچھ بتاتا ہے تو یہ کہ خدا سے یوں محبت کرو.اَشَدُّ حُبًّا لِلہ کے مصداق بنو اور فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله پر عمل کرو اور ایسی فناء اتم تم پر آجاوے کہ تبلُ إِلَيْهِ تَبْتِیلا کے رنگ سے تم رنگین ہو جاؤ اور خدا تعالیٰ کو سب چیزوں پر مقدم کر لو.یہ امور ہیں جن کے حصول کی ضرورت ہے.نادان انسان اپنے عقل اور خیال کے پیمانہ سے خدا کو نا پنا چاہتا ہے اور اپنی اختراع سے چاہتا ہے کہ اس سے تعلق پیدا ود

Page 129

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرے اور یہی ناممکن ہے.سورة المزمل الحکم جلد ۵ نمبر ۴۰ مورخه ۱۷۳۱اکتوبر ۱۹۰۱ صفحه ۲) انسان کو چاہیے کہ ہر ایک کاروبار میں تبتّلُ إِلَيْهِ تبتیلا کا مصداق ہو یعنی ہر ایک کام کو اس طرح سے بجالا وے گویا وہ خود اس میں نفسانی حظ کوئی نہیں رکھتا صرف خدا تعالی کے حکم کی اطاعت کی وجہ سے بجالا رہا ہے اور اسی نیت سے مخلوق کے حقوق کو ادا کرنا دین ہے.ہر ایک بات اور کام کا آخری نقطہ خدا تعالیٰ کی رضامندی ہونی چاہیے.اگر دنیا کے لئے ہے تو خدا کا غضب کماتا ہے.البدر جلد ۳ نمبر ۱۱ مورخه ۱۶/ مارچ ۱۹۰۴ء صفحه ۴) اِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا ) فَعَطى فِرْعَوْنُ الرَّسُولَ فَأَخَذْ نَهُ أَخَذَ ا وبِيلا ہم نے تمہاری طرف یہ رسول اسی رسول کی مانند بھیجا ہے کہ جو فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا سو جب فرعون نے اس رسول کی نافرمانی کی تو ہم نے اس سے ایسا مؤاخذہ کیا کہ جس کا انجام و بال تھا یعنی اسی مؤاخذہ سے فرعون نیست و نابود کیا گیا.سو تم جو بمنزلہ فرعون ہو ہمارے مؤاخذہ سے کیوں کر نا فرمان رہ کر بیچ سکتے ہو.(برائین احمد یہ چہار صص ، روحانی خزائن جلد اصفحه ۲۵۵،۲۵۴ حاشیه ) ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے کہ تمہاری حالت معصیت اور ضلالت پر شاہد ہے اور یہ رسول اسی رسول کی مانند ہے کہ جو فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا.(براہین احمدیہ چہار ص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۴۹) میں وہی ہوں جو وقت پر اصلاح خلق کے لئے بھیجا گیا تا دین کو تازہ طور پر دلوں میں قائم کر دیا جائے.میں اس طرح بھیجا گیا ہوں جس طرح سے وہ شخص بعد کلیم اللہ مرد خدا کے بھیجا گیا تھا جس کی روح ہیروڈلیس کے عہد حکومت میں بہت تکلیفوں کے بعد آسمان کی طرف اُٹھائی گئی.سو جب دوسرا کلیم اللہ جو حقیقت میں سب سے پہلا اور سید الانبیاء ہے دوسرے فرعونوں کی سرکوبی کے لئے آیا جس کے حق میں ہے إِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُم رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلى فِرْعَوْنَ رَسُولًا تو اس کو بھی جو اپنی کارروائیوں میں کلیم اول کا مثیل مگر رتبہ میں اس سے بزرگ تر تھا ایک مثیل المسیح کا وعدہ دیا گیا اور وہ مثیل المسیح قوت اور طبع اور خاصیت مسیح ابن مریم کی پاکر اسی زمانہ کی مانند اور اسی مدت کے قریب قریب جو کلیم اول کے زمانہ سے مسیح ابن مریم

Page 130

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۰۳ سورة المزمل کے زمانہ تک تھی.یعنی چودھویں صدی میں آسمان سے اترا اور وہ اثر نا روحانی طور پر تھا جیسا کہ مکمل لوگوں کا صعود کے بعد خلق اللہ کی اصلاح کے لئے نزول ہوتا ہے اور سب باتوں میں اسی زمانہ کے ہم شکل زمانہ میں اتر ا جو مسیح ابن مریم کے اترنے کا زمانہ تھا تا سمجھنے والوں کے لئے نشان ہو.(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۸) خدائے تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسی قرار دیا ہے جیسا کہ فرماتا ہے اِنَّا اَرْسَلْنَا اليْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلى فِرْعَوْنَ رَسُولًا - اس آیت میں خدائے تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو موسلی کی طرح اور کفار کو فرعون کی طرح ٹھہرایا.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۶۰) ظاہر ہے کہ گیا کے لفظ سے یہ اشارہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ ہیں.چنانچہ توریت باب استثنا میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسیٰ لکھا ہے اور ظاہر ہے کہ مماثلت سے مراد مماثلت تامہ ہے نہ کہ مماثلت ناقصہ.کیونکہ اگر مماثلت ناقصہ مراد ہو تو پھر اس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی خصوصیت باقی نہیں رہتی وجہ یہ کہ ایسی مماثلت والے بہت سے نبی ثابت ہوں گے جنہوں نے خدا تعالیٰ کے حکم سے تلوار بھی اُٹھائی اور حضرت موسیٰ کی طرح جنگ بھی کئے.اور عجیب طور پر فتحیں بھی حاصل کیں مگر کیا وہ اس پیشگوئی کے مصداق ٹھہر سکتے ہیں ہر گز نہیں.غرض ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ جب مماثلت سے مماثلت تامہ مراد ہو.اور مماثلت تامہ کی عظیم الشان جزوں میں سے ایک یہ بھی جزو ہے کہ اللہ جل شانہ نے حضرت موسیٰ کو اپنی رسالت سے مشرف کر کے پھر بطور اکرام و انعام خلافت ظاہری اور باطنی کا ایک لمبا سلسلہ ان کی شریعت میں رکھ دیا جو قریبا چودہ سو برس تک ممتد ہو کر آخر حضرت عیسی علیہ السلام پر اُس کا خاتمہ ہوا اس عرصہ میں صدہا بادشاہ اور صاحب وحی اور الہام شریعت موسوی میں پیدا ہوئے اور ہمیشہ خدا تعالیٰ شریعت موسوی کے حامیوں کی ایسے عجیب طور پر مدد کرتا رہا جو ایک حیرت انگیز یادگار کے طور پر وہ باتیں صفحات تاریخ پر محفوظ رہیں جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے.وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَبَ وَقَفَيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ (البقرة : ۸۸) ثُمَّ قَفَيْنَا عَلَى أَثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَ قَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَهُ الْإِنْجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأفَةً وَرَحْمَةٌ ( الحديد : ۲۸) یعنی ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور بہت سے رُسل اس کے پیچھے آئے پھر سب کے بعد عیسی ابن مریم کو بھیجا اور اُس کو

Page 131

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۰۴ سورة المزمل انجیل دی اور اُس کے تابعین کے دلوں میں رحمت اور شفقت رکھ دی یعنی وہ تلوار سے نہیں بلکہ اپنی تواضع اور فروتنی اور اخلاق سے دعوت دین کرتے تھے اس آیت میں اشارہ یہ ہے کہ موسوی شریعت اگر چہ جلالی تھی اور لاکھوں خون اس شریعت کے حکموں سے ہوئے یہاں تک کہ چار لاکھ کے قریب بچہ شیر خوار بھی مارا گیا لیکن خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اُس سلسلہ کا خاتمہ رحمت پر کرے اور انہیں میں سے ایسی قوم پیدا کرے کہ وہ تلوار سے نہیں بلکہ علم اور خلق سے اور محض اپنی قوت قدسیہ کے زور سے بنی آدم کوراہ راست پر لاویں.آب چونکہ مماثلت فی الانعامات ہونا از بس ضروری ہے اور مماثلت تامہ بھی متفق ہو سکتی تھی کہ جب مماثلت فی الانعامات متحقق ہو.پس اسی لئے یہ ظہور میں آیا کہ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قریبا چودہ سو برس تک ایسے خدام شریعت عطا کئے گئے کہ وہ رسول اور مہم من اللہ تھے اور اختتام اس سلسلہ کا ایک ایسے رسول پر ہوا جس نے تلوار سے نہیں بلکہ فقط رحمت اور خلق سے حق کی طرف دعوت کی.اسی طرح ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو.بھی وہ خدام شریعت عطا کئے گئے جو بر طبق حدیث عُلَماء امتى كَأَنْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ ملہم اور محدث تھے اور جس طرح موسیٰ کی شریعت کے آخری زمانہ میں حضرت مسیح علیہ السلام بھیجے گئے جنہوں نے نہ تلوار سے بلکہ صرف خلق اور رحمت سے دعوت حق کی.اسی طرح خدا تعالیٰ نے اس شریعت کے لئے مسیح موعود کو بھیجا تا وہ بھی صرف خُلق اور رحمت اور انوار آسمانی سے راہ راست کی دعوت کرے اور جس طرح حضرت مسیح حضرت موسیٰ علیہ السلام سے قریبا چودہ سو برس بعد آئے تھے اس مسیح موعود نے بھی چودھویں صدی کے سر پر ظہور کیا اور محمدی سلسلہ موسوی سلسلہ سے انطباق کلی پا گیا.اور اگر یہ کہا جائے کہ موسوی سلسلہ میں تو حمایت دین کے لیے نبی آتے رہے اور حضرت مسیح بھی نبی تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ مرسل ہونے میں نبی اور محدث ایک ہی منصب رکھتے ہیں اور جیسا کہ خدا تعالیٰ نے نبیوں کا نام مرسل رکھا ایسا ہی محدثین کا نام بھی مرسل رکھا.اسی اشارہ کی غرض سے قرآن شریف میں وَقَفَيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ آیا ہے اور یہ نہیں آیا کہ وَقَفَيْنَا مِن بَعْدِهِ بالا نبیاء.پس یہ اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ رسل سے مراد مرسل ہیں خواہ وہ رسول ہوں یا نبی ہوں یا محدث ہوں چونکہ ہمارے سید و رسول صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور بعد آنحضرت صلعم کوئی نبی نہیں آسکتا اس لئے اس شریعت میں نبی کے قائم مقام محدث رکھے گئے اور اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے کہ ثُلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَثُلَةٌ مِنَ الْآخِرِينَ چونکہ ثُلَّه کا لفظ دونوں فقروں میں برابر آیا ہے.اس لئے قطعی طور پر یہاں سے ثابت ہوا کہ اس امت کے محدث اپنی تعداد میں اور اپنے طولانی سلسلہ میں موسوی

Page 132

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام امت کے مرسلوں کے برابر ہیں.۱۰۵ سورة المزمل شہادت القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۲۲ تا ۳۲۴) ایک شخص کا اس امت میں سے مسیح علیہ السلام کے نام پر آنا ضروری ہے.کیوں ضروری ہے تین وجہ سے.اول یہ کہ مماثلت تامہ کاملہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے جو آیت گیا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا سے مفہوم ہوتی ہے اس بات کو چاہتی ہے.وجہ یہ کہ آیت إِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُم رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلى فِرْعَوْنَ رَسُولاً صاف بتلا رہی ہے کہ جیسے حضرت موسیٰ اپنی امت کی نیکی بدی پر شاہد تھے ایسا ہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی شاہد ہیں مگر یہ شہادت دوامی طور پر بجز صورت استخلاف کے حضرت موسیٰ کے لئے ممکن نہیں ہوئی یعنی خدا تعالیٰ نے اسی اتمام حجت کی غرض سے حضرت موسیٰ کے لئے چودہ سو برس تک خلیفوں کا سلسلہ مقرر کیا جو در حقیقت توریت کے خادم اور حضرت موسیٰ کی شریعت کی تائید کے لیے آتے تھے تا خدا تعالی بذریعہ ان خلیفوں کے حضرت موسیٰ کی شہادت کے سلسلہ کو کامل کر دیوے اور وہ اس لائق ٹھہریں کہ قیامت کو تمام بنی اسرائیل کی نسبت خدا تعالیٰ کے سامنے شہادت دے سکیں.ایسا ہی اللہ جل شانہ نے اسلامی امت کے کل لوگوں کے لئے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شاہد ٹھہرایا ہے اور فرمایا إِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ اور فرمایا وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا (النساء : ۴۲) مگر ظاہر ہے کہ ظاہری طور پر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف تئیس برس تک اپنی امت میں رہے پھر یہ سوال کہ دائمی طور پر وہ اپنی امت کے لئے کیوں کر شاہد ٹھہر سکتے ہیں یہی واقعی جواب رکھتا ہے کہ بطور استخلاف کے یعنی موسیٰ علیہ السلام کی مانند خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی قیامت تک خلیفے مقرر کر دیئے اور خلیفوں کی شہادت بعینہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت متصور ہوئی اور اس طرح پر مضمون آیت إِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمُ ہریک پہلو سے درست ہو گیا.غرض شہادت دائی کا عقیدہ جونص قرآنی سے بتواتر ثابت اور تمام مسلمانوں کے نزدیک مسلّم ہے تبھی معقولی اور تحقیقی طور پر ثابت ہوتا ہے جب خلافت دائمی کو قبول کیا جائے.اور یہ امر ہمارے مدعا کو ثابت کرنے والا ہے فتدبر.شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۶۲، ۳۶۳) جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ قرآن شریف میں مسیح موعود کا ذکر نہیں ہے وہ نہایت غلطی پر ہیں.بلکہ حق یہ ہے کہ مسیح موعود کا ذکر نہایت اکمل اور اتم طور پر قرآن شریف میں پایا جاتا ہے.دیکھو اول قرآن شریف نے آيت كما اَرْسَلْنَا إِلى فِرْعَوْنَ رَسُولًا میں صاف طور پر ظاہر کر دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ

Page 133

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1+4 سورة المزمل ہیں.کیونکہ اس آیت کے یہی معنے ہیں کہ ہم نے اس نبی کو اس نبی کی مانند بھیجا ہے جو فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا.اور واقعات نے ظاہر کر دیا کہ یہ بیان اللہ جل شانہ کا بالکل سچا ہے.وجہ یہ کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے موسیٰ کو فرعون کی طرف بھیج کر آخر فرعون کو بنی اسرائیل کی نظر کے سامنے ہلاک کیا اور نہ خیالی اور وہمی طور پر بلکہ واقعی اور مشہود اور محسوس طور پر فرعون کے ظلم سے بنی اسرائیل کو نجات بخشی اسی طرح یعنی بنی اسرائیل کی مانند خدا تعالیٰ کے راستباز بندے مکہ معظمہ میں تیرہ برس تک کفار کے ہاتھ سے سخت تکلیف میں رہے اور یہ تکلیف اُس تکلیف سے بہت زیادہ تھی جو فرعون سے بنی اسرائیل کو پہنچی.آخر یہ راستباز بندے اُس برگزیدہ راستبازوں کے ساتھ اور اس کی ایما سے مکہ سے بھاگ نکلے اُس بھاگنے کی مانند جو بنی اسرائیل مصر سے بھاگے تھے.پھر مکہ والوں نے قتل کرنے کے لئے تعاقب کیا اُسی تعاقب کی مانند جو فرعون کی طرف سے بنی اسرائیل کے قتل کے لئے کیا گیا تھا.آخر وہ اُسی تعاقب کی شامت سے بدر میں اُس طرح پر ہلاک ہوئے جس طرح فرعون اور اس کا لشکر دریائے نیل میں ہلاک ہوا تھا اسی رمز کے کھولنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو جہل کی لاش بدر کے مردوں میں دیکھ کر فرمایا تھا کہ یہ شخص اس اُمت کا فرعون تھا.غرض جس طرح فرعون اور اس کا لشکر دریائے نیل میں ہلاک ہونا امور مشہودہ محسوسہ میں تھا جس کے وقوع میں کسی کو کلام نہیں ہو سکتا اسی طرح ابو جہل اور اُس کے لشکر کا تعاقب کے وقت بدر کی لڑائی میں ہلاک ہونا امور مشہودہ محسوسہ میں سے تھا جس سے انکار کرنا حماقت اور دیوانگی میں داخل ہے.سو یہ دونوں واقعات اپنے تمام سوانح کے لحاظ سے باہم ایسی مشابہت رکھتے ہیں کہ گویا دو توام بھائیوں کی طرح ہیں.اور عیسائیوں کا یہ قول کہ یہ مثیل موسیٰ حضرت عیسی علیہ السلام ہیں بالکل مردود اور قابل شرم ہے کیونکہ مماثلت امور مشهوده محسوسہ یقینیہ قطعیہ میں ہونی چاہئیے نہ ایسے فضول اور وہمی دعوے کے ساتھ جو خود جائے بحث اور سخت انکار کی جگہ ہے.یہ دعویٰ کہ حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کے منبی تھے اور ایسا ہی یسوع بھی عیسائیوں کا منجی تھا کس قدر بودہ اور بے ثبوت خیال ہے.کیونکہ یہ محض اپنے دل کے بے اثر تصورات ہیں جن کے ساتھ کوئی بدیہی اور روشن علامت نہیں ہے.اور اگر نجات دینے کی کوئی علامت ہوتی تو یہود بکمال شکر گزاری اُسی طرح حضرت عیسی کو قبول کرتے اور اُن کے منجی ہونے کا اُسی قدر شکر کے ساتھ اقرار کرتے جیسا کہ دریائے نیل کے واقعہ کے بعد انہوں نے شکر گزاری کے گیت گائے تھے.لیکن ان کے دلوں نے تو کچھ بھی محسوس نہ کیا کہ یہ کیسی نجات ہے کہ یہ شخص ہمیں دیتا ہے.مگر وہ اسرائیلی یعنی خدا کے بندے جن کو

Page 134

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1+2 سورة المزمل ہمارے سید و مولی نے مکہ والوں کے ظلم سے چھڑایا انہوں نے بدر کے واقعہ کے بعد اسی طرح گیت گائے جیسے کہ بنی اسرائیل نے دریائے مصر کے سر پر گائے تھے اور وہ عربی گیت اب تک کتابوں میں محفوظ چلے آتے ہیں جو بدر کے میدان میں گائے گئے.ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ اس پیشگوئی کی رُوح تو یہی مماثلت ہے.پھر اگر یہ مماثلت امور مشہودہ محسوسہ میں سے نہ ہو اور مخالف کی نظر میں ایک امر ثابت شدہ اور بدیہیات اور مسلمات کے رنگ میں نہ ہو تو کیوں کر ایسا بیہودہ دعویٰ ایک طالب حق کے ہدایت پانے کے لئے رہبر ہو سکتا ہے.اس میں کیا شک ہے کہ یسوع کا منجی ہونا عیسائیوں کا صرف ایک دعوی ہے جس کو وہ دلائل عقلیہ کے رُو سے ثابت نہیں کر سکے اور نہ بدیہیات کے رنگ میں دکھلا سکے اور پوچھ کر دیکھ لو کہ وہ لوگ عیسائیت اور دوسری قوموں میں کوئی ما بہ الامتیاز دکھلا نہیں سکتے جس سے معلوم ہو کہ صرف یہ قوم نجات یافتہ اور دوسرے سب لوگ نجات سے محروم ہیں.بلکہ ثابت تو یہ ہے کہ یہ قوم روحانیت اور فیوض سماوی اور نجات کی روحانی علامات اور برکات سے بالکل بے بہرہ ہے.پھر مماثلت کیوں کر اور کس صورت سے ثابت ہو مماثلت تو امور بدیہیہ اور محسوسہ اور مشہودہ میں ہونی چاہئیے تا لوگ اُس کو یقینی طور پر شناخت کر کے اس سے شخص مثیل کو شناخت کریں.کیا اگر آج ایک شخص مثیل موسیٰ ہونے کا دعویٰ کرے اور مماثلت یہ پیش کرے کہ میں رُوحانی طور پر قوم کا منجی ہوں اور نجات دینے کی کوئی محسوس اور مشہود علامت نہ دکھلاوے تو کیا عیسائی صاحبان اُس کو قبول کر لیں گے کہ درحقیقت یہی مثیل موسیٰ ہے؟ پس سچا فیصلہ اور ایمان کا فیصلہ اور انصاف کا فیصلہ یہی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام مثیل موسیٰ ہرگز نہیں ہیں اور خارجی واقعات کا نمونہ کوئی انہوں نے ایسا نہیں دکھلایا جس سے مومنوں کی نجات دہی اور کفار کی سزا دہی میں حضرت موسیٰ سے اُن کی مشابہت ثابت ہو بلکہ برعکس اس کے اُن کے وقت میں مومنوں کو سخت تکالیف پہنچیں جن تکالیف سے خود حضرت عیسیٰ بھی باہر نہ رہے.پس ہم ایمان کو ضائع کریں گے اور خدا تعالیٰ کے نزدیک خائن ٹھہریں گے اگر ہم یہ اقرار نہ کریں کہ وہ مثیل جس کا توریت کتاب استثنا میں ذکر ہے وہ وہی نبی مؤید الہی ہے جو معہ اپنی جماعت کے تیرہ برس برابر دکھ اٹھا کر اور ہر ایک قسم کی تکلیف دیکھ کر آخر معہ اپنی جماعت کے بھاگا.اور اس کا تعاقب کیا گیا آخر بدر کی لڑائی میں چند گھنٹوں میں فیصلہ ہو کر ابو جہل اور اس کا لشکر تلوار کی دھار سے ایسے ہی مارے گئے جیسا کہ دریائے نیل کی دھار سے فرعون اور اس کے لشکر کا کام تمام کیا گیا.دیکھو کیسی صفائی اور کیسے مشہور اور محسوس طور پر یہ دونوں واقعات مصر اور مکہ اور

Page 135

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۰۸ سورة المزمل دریائے نیل اور بدر کے آپس میں مماثلت رکھتے ہیں.غرض جبکہ یہ ثابت ہوا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم در حقیقت مثیل موسیٰ ہیں تو تکمیل مماثلت کا یہ تقاضا تھا کہ اُن کے پیروؤں اور خلفاء میں بھی مماثلت ہو.اور یہ بات ضروری تھی کہ جیسا کہ موسیٰ اور سید نا محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک اشد اور اکمل مشابہت مومنوں کے نجات دینے اور کافروں کو عذاب دینے کے بارے میں پائی گئی ان دونوں بزرگ نبیوں کے آخری خلیفوں میں بھی کوئی مشابہت با ہم پائی جائے.سو جب ہم سوچتے ہیں تو جیسا کہ ابھی میں نے بیان کیا ہے نہ صرف ایک مشابہت بلکہ کئی مشابہتیں ثابت ہوتی ہیں جو مجھ میں اور حضرت عیسی علیہ السلام میں پائی جاتی ہیں.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۹۰ تا ۲۹۳) خدا تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مثیل ٹھہرایا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو مسیح موعود تک سلسلہ خلافت ہے اسی سلسلہ کو خلافت موسویہ کے سلسلہ سے مشابہ قرار دیا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے.اِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولاً یعنی ہم نے یہ پیغمبر اس پیغمبر کی مانند تمہاری طرف بھیجا ہے کہ جو فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا.اور یہ اس بات کا گواہ ہے کہ تم کیسی ایک سرکش اور متکبر قوم ہو جیسے کہ فرعون متکبر اور سرکش تھا.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۸۳) ہم نے اس رسول کو اے عرب کے خونخوار ظالمو اسی رسول کی مانند بھیجا ہے جو تم سے پہلے فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا.اب ظاہر ہے کہ اگر یہ پیشگوئی جو اس شد و مد سے قرآن شریف میں لکھی گئی ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ اس دعوی دروغ کے ساتھ جو اپنے تئیں مثیل موسی کا ٹھہرالیا کبھی اپنے مخالفوں پر فتحیاب نہ ہو سکتے مگر تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ فتح عظیم اپنے مخالفوں پر حاصل ہوئی کہ بجز میں صادق دوسرے کے لئے ہرگز میسر نہیں آسکتی تھی.پس مماثلت اس کا نام ہے جس کی تائید میں دونوں طرف سے تاریخی واقعات اس زور شور سے گواہی دے رہے ہیں کہ وہ دونوں واقعات بدیہی طور پر نظر آتے ہیں اور موسی کے یہ تین کام کہ گروہ مخالف کو جو مضر امن تھا ہلاک کرنا اور پھر اپنے گروہ کو حکومت اور دولت بخشا اور ان کو شریعت عطا کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انہی تین کاموں کے ساتھ ایسے مشابہ ہو گئے کہ گویا وہ دونوں کام ایک ہی ہیں.یہ ایک ایسی مماثلت ہے جس سے ایمان قوی ہوتا ہے اور یقین کرنا پڑتا ہے کہ یہ دونوں کتابیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں.سچ تو یہ ہے کہ

Page 136

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1+9 سورة المزمل اس پیشگوئی سے خدا کے وجود کا پتہ لگتا ہے کہ وہ کیسا قادر اور زبردست خدا ہے کہ کوئی بات اس کے آگے انہونی نہیں.اس جگہ سے طالب حق کے لیے حق الیقین کے درجہ تک یہ معرفت پہنچ جاتی ہے کہ آنے والا مسیح موعود امت محمدیہ میں سے ہے نہ کہ وہی عیسی نبی اللہ دوبارہ دنیا میں آکر رسالت محمدیہ کی ختمیت کے مسئلہ کو مشتبہ کر دے گا.اور نعوذ بالله فلما توفيتنى کا کذب ثابت کرے گا....مثیل موسی کا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جیسا کہ آیت اِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا سے (تحفہ گولر و یه روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۰۶،۳۰۵) ثابت ہے.ہم نے ایک رسول کو جو تم پر گواہ ہے یعنی اس بات کا گواہ کہ تم کیسی خراب حالت میں ہو تمہاری طرف اسی رسول کی مانند بھیجا ہے جو فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا.سو اس آیت میں اللہ جل شانہ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسی ٹھہرایا ہے.(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۲) جبکہ خدا تعالیٰ نے موسوی سلسلہ کو ہلاک کر کے محمدی سلسلہ قائم کیا جیسا کہ نبیوں کے صحیفوں میں وعدہ دیا گیا تھا تو اس حکیم و علیم نے چاہا کہ اس سلسلہ کے اول اور آخر دونوں میں مشابہت تامہ پیدا کرے تو پہلے اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرما کر مثیل موسی قرار دیا جیسا کہ آیت إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا سے ظاہر ہے.حضرت موسیٰ نے کافروں کے مقابل پر تلوار اُٹھائی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس وقت جبکہ مکہ سے نکالے گئے اور تعاقب کیا گیا مسلمانوں کی حفاظت کے لئے تلوار اُٹھائی.ایسا ہی حضرت موسیٰ کی نظر کے سامنے سخت دشمن ان کا جو فرعون تھا غرق کیا گیا.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سخت دشمن آپ کا جو ابو جہل تھا ہلاک کیا گیا.ایسا ہی اور بہت سی مشابہتیں ہیں جن کا ذکر کرنا موجب طول ہے.یہ تو سلسلہ کے اول میں مشابہتیں ہیں مگر ضروری تھا کہ سلسلہ محمدی کے آخری خلیفہ میں بھی سلسلہ موسویہ کے آخری خلیفہ سے مشابہت ہو.تا خدا تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ سلسلہ محمد یہ باعتبار امام سلسلہ اور خلفاء سلسلہ کے سلسلہ موسویہ سے مشابہ ہے ٹھیک ہوا اور ہمیشہ مشابہت اول اور آخر میں دیکھی جاتی ہے اور درمیانی زمانہ جو ایک طویل مدت ہوتی ہے گنجائش نہیں رکھتا کہ پوری پوری نظر سے اس کو جانچا جائے مگر اوّل اور آخر کی مشابہت سے یہ قیاس پیدا ہو جاتا ہے کہ درمیان میں بھی ضرور مشابہت ہوگی گونظر عقلی اس کی پوری پڑتال سے قاصر رہے.(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰)

Page 137

+11 سورة المزمل تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسیح موعود کو اس اُمت میں سے پیدا کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں وعدہ فرمایا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زمانہ نبوت کے اول اور آخر کے لحاظ سے حضرت موسی سے مشابہ ہوں گے.پس وہ مشابہت ایک تو اول زمانہ میں تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا اور ایک آخری زمانہ میں.سواوّل مشابہت یہ ثابت ہوئی کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خدا نے آخر کار فرعون اور اس کے لشکر پر فتح دی تھی اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آخر کار ابو جہل پر جو اس زمانہ کا فرعون تھا اور اس کے لشکر پر فتح دی اور اُن سب کو ہلاک کر کے اسلام کو جزیرہ عرب میں قائم کر دیا اور اس نصرت الہی سے یہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ إِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولاً شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلى فِرْعَوْنَ رَسُولًا اور آخری زمانہ میں یہ مشابہت ہے کہ خدا تعالیٰ نے ملت موسوی کے آخری زمانہ میں ایک ایسا نبی مبعوث فرمایا جو جہاد کا مخالف تھا اور دینی لڑائیوں سے اُسے کچھ سروکار نہ تھا بلکہ عفو اور درگزر اس کی تعلیم تھی.اور وہ ایسے وقت میں آیا تھا جبکہ بنی اسرائیل کی اخلاقی حالتیں بہت بگڑ چکی تھیں اور اُن کے چال چلن میں بہت فتور واقع ہو گیا تھا اور اُن کی سلطنت جاتی رہی تھی اور وہ رومی سلطنت کے ماتحت تھے اور وہ حضرت موسیٰ سے ٹھیک ٹھیک چودھویں صدی پر ظاہر ہوا تھا اور اس پر سلسلہ اسرائیلی نبوت کا ختم ہو گیا تھا اور وہ اسرائیلی نبوت کی آخری اینٹ تھی.ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری زمانہ میں مسیح ابن مریم کے رنگ اور صفت میں اس راقم کو مبعوث فرمایا اور میرے زمانہ میں رسم جہاد کو اُٹھادیا جیسا کہ پہلے سے خبر دی گئی تھی کہ مسیح موعود کے زمانہ میں جہاد کو موقوف کر دیا جائے گا.اسی طرح مجھے عفوا اور درگزر کی تعلیم دی گئی اور میں ایسے وقت میں آیا جب کہ اندرونی حالت اکثر مسلمانوں کی یہودیوں کی طرح خراب ہو چکی تھی اور روحانیت گم ہو کر صرف رسوم اور رسم پرستی اُن میں باقی رہ گئی تھی اور قرآن شریف میں ان امور کی طرف پہلے سے اشارہ کیا گیا تھا.لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۱۲، ۲۱۳) جس طرح صدر زمانہ اسلام میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ ہیں جیسا کہ آیت کیا اَرْسَلْنَا إلى فِرْعَوْنَ رَسُولًا سے ظاہر ہے ایسا ہی آخر زمانہ اسلام میں دونوں سلسلوں موسوی اور محمدی کا اوّل اور آخر میں تطابق پورا کرنے کے لیے مثیل عیسی کی ضرورت تھی جس کی نسبت حدیث بخاری امامُكُمْ مِنْكُمْ اور حديث مسلم آقكُم مِنكُم وضاحت سے خبر دے رہی ہیں.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۱۰،۱۰۹)

Page 138

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة المزمل یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر ایک پہلو سے اس پیشگوئی کی حقیقت ظاہر کی جائے.توریت میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ایک ضروری پیشگوئی محض گول مول ہے کہ ایک نبی موسیٰ کی مانند بنی اسرائیل میں سے اُن کے بھائیوں میں سے آئے گا.اور کہیں کھول کر نہ بتلایا کہ بنی اسماعیل میں سے آئے گا.اور اس کا یہ نام اور اس کے باپ کا یہ نام ہوگا.اور مکہ میں پیدا ہو گا اور اتنی مدت بعد آئے گا.اس لئے یہود کو اس پیشگوئی سے کچھ بھی فائدہ نہ ہوا.اور اسی غلطی سے لاکھوں یہود جہنم میں جا پڑے حالانکہ قرآن شریف نے اسی پیشگوئی کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا ہے اِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فرْعَوْنَ رَسُولًا اور یہود کہتے ہیں کہ مثیل موسیٰ یسوعانبی تھا جو موسیٰ کے فوت ہونے کے بعد اس کا جانشین ہوا.اور عیسائی کہتے ہیں کہ مثیل موسیٰ عیسی ہے کیونکہ وہ بھی موسیٰ کی طرح منتجی ہو کر آیا ہے.اب بتلاؤ کہ توریت کی ایسی پیشگوئی کا جس نے کوئی صاف فیصلہ نہ کیا، کیا فائدہ ہوا؟ جس نبی علیہ السلام کی نسبت پیشگوئی تھی نہ یہود اس کو شناخت کر سکے نہ عیسائی اور دونوں گروہ سعادت قبول سے محروم رہے.( برائن احمد یہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۴۹،۲۴۸) یہ امر کسی پر پوشیدہ نہیں کہ توریت میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت پیشگوئی ہے وہ انہیں الفاظ میں ہے کہ خدا تعالیٰ تمہارے بھائیوں میں سے موسیٰ کی مانند ایک نبی قائم کرے گا اس مقام میں یہ نہیں لکھا کہ خدا موسیٰ کو بھیجے گا.پس ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بارے میں توریت کے مطابق بیان فرماتا تا توریت اور قرآن شریف میں اختلاف پیدا نہ ہوتا.پس اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا یعنی ہم نے اُسی نبی کی مانند تمہاری طرف یہ رسول بھیجا ہے کہ جو فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا.برائین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۴۰۵) قرآن میں رسول اکرم کو مثیل موسی قرار دے کر فرما یا اِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولاً يعنی ہم نے ایک رسول بھیجا جیسے موسیٰ کو فرعون کی طرف بھیجا تھا.ہمارا رسول مثیل موسی ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ صفحه ۵۳) پہلی کتابوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ بنی اسمعیل میں بھی ایک سلسلہ اسی سلسلہ کا ہم رنگ پیدا ہوگا اور اس کے امام و پیشوا اور سردار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے.توریت میں بھی یہ خبر دی

Page 139

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۱۲ سورة المزمل گئی تھی.قرآن شریف نے بھی فرمایا كَمَا اَرْسَلْنَا إِلى فِرْعَوْنَ رَسُولاً جیسے توریت میں مانند کا لفظ تھا قرآن شریف میں کما کا لفظ موجود ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بالاتفاق مثیل موسی ہیں.انتقام جلد ۵ نمبر ۱۴ مورخہ ۷ اسرا پریل ۱۹۰۱ صفحه ۶) ۱۷ قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسی فرمایا گیا ہے جیسے فرمایا ہے اِنَّا اَرْسَلْنَا إلَيْكُمْ رَسُولاً شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلى فِرْعَوْنَ رَسُولًا.اور آپ مثیل موسلی استثناء کی پیشگوئی کے موافق بھی ہیں.پس اس مماثلت میں جیسے کما کا لفظ فرمایا گیا ہے ویسے ہی سورۃ نور میں کھا کا لفظ ہے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ موسوی سلسلہ اور محمدی سلسلہ میں مشابہت اور مماثلت تامہ ہے.الحکم جلدے نمبر ۲ مورخہ ۷ ارجنوری ۱۹۰۳ صفحه ۲) قرآن پر تدبر سے نظر کرنے والے کو معلوم ہوگا کہ دو سلسلوں کا مساوی ذکر ہے اول وہ سلسلہ جو موسیٰ علیہ السلام سے شروع ہو کر مسیح علیہ السلام پر ختم ہوتا ہے اور دوسرا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہوتا ہے یہ اس شخص پر ختم ہونا چاہیے جو مثیل مسیح ہو کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسی ہیں إِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلى فِرْعَوْنَ رَسُولًا.....اور پھر سورۃ نور میں وعدہ استخلاف فرمایا کہ جس طرح پر موسوی سلسلہ ہو گزرا ہے اسی طرح پر محمدی سلسلہ بھی ہوگا تا کہ دونوں سلسلوں میں بموجب آیات قرآنی با ہم مطابقت اور موافقت تامہ ہو چنانچہ جبکہ موسوی سلسلہ آخر عیسی علیہ السلام پر ختم ہوا ضرور تھا کہ محمدی سلسلہ کا خاتم بھی عیسی موعود ہوتا.ان دونوں سلسلوں کا باہم تقابل مرا یا متقابلہ کی طرح ہے یعنی جب دوشیشے ایک دوسرے کے بالمقابل رکھے جاتے ہیں تو ایک شیشہ کا دوسرے میں انعکاس ہوتا ہے.الحکم جلدے نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۸) حضرت موسیٰ علیہ السلام کا سلسلہ چودہ سو برس تک رکھا گیا تھا.جب اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو نابود کرنا چاہا اور اس قوم کو ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذلة (البقرة : ۶۲) کا مصداق بناد یا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کر کے یہ کہا کہ اِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُول ا یعنی یہ سلسلہ موسوی سلسلہ کے بالمقابل ہے اور یہ عمارت موسوی عمارت کے مقابلہ پر ہے جیسے اس میں اختیار ہیں ویسے ہی اس میں بھی اختیار ہیں ایسا ہی اشرار بھی بالمقابل پائے جاتے ہیں یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا کہ اگر کسی یہودی نے ماں سے زنا کیا ہوگا تو تم میں سے بھی ایسے ہوں گے اور اگر کوئی سوسمار کے بل

Page 140

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۱۳ سورة المزمل الحکم جلدے نمبر ۸ مورخه ۲۸ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۴) میں گھسا ہوگا تو مسلمان بھی گھسیں گے.قرآن شریف نے بڑی وضاحت کے ساتھ دو سلسلوں کا ذکر کیا ہے ایک وہ سلسلہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے شروع ہوا اور حضرت مسیح علیہ السلام پر آکر ختم ہوا اور دوسرا سلسلہ جو اس سلسلہ کے مقابل پر واقع ہوا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلسلہ ہے چنانچہ تو رات میں بھی آپ کو مثیل موسیٰ کہا گیا اور قرآن شریف میں بھی آپ کو مثیل موسیٰ ٹھہرایا گیا جیسے فرمایا ہے إِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا پھر جس طرح پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا سلسلہ حضرت مسیح علیہ السلام پر آکر ختم ہو گیا اسی سلسلہ کی مماثلت کے لئے ضروری تھا کہ اسی وقت اور اسی زمانہ پر جب حضرت مسیح حضرت موسیٰ کے بعد آئے تھے مسیح محمدی بھی آتا اور یہ بالکل ظاہر اور صاف بات ہے کہ مسیح موسوی چودھویں صدی میں آیا تھا اس لئے ضروری تھا کہ مسیح محمدی بھی چودھویں صدی میں آتا.اگر کوئی اور نشان اور شہادت نہ بھی ہوتی تب بھی اس سلسلہ کی تکمیل چاہتی تھی کہ اس وقت مسیح محمدی آوے مگر یہاں تو صد با اور نشان اور دلائل ہیں.انجام جلد ۸ نمبر ۱۲ مورخه ۱۰ را پریل ۱۹۰۴ صفحه ۵،۴) اللہ تعالیٰ نے دو سلسلے قائم کئے تھے.پہلا سلسلہ سلسلہ موسوی تھا دوسرا سلسلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلسلہ یعنی محمدی سلسلہ.اور اس دوسرے سلسلہ کو مثیل ٹھہرایا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مثیل موسیٰ کہا گیا تھا.توریت کی کتاب استثناء میں یہی لکھا گیا تھا کہ تیرے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی اُٹھاؤں گا اور قرآن شریف میں یہ فرمایا إِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولاً یعنی بے شک ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا جو تم پر شاہد ہے.اسی طرح یہ رسول بھیجا گیا ہے جس طرح فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا گیا تھا.( یعنی موسیٰ کی طرح) اب غور کرو کہ اس میں کیا کا لفظ صاف طور پر ظاہر کرتا ہے کہ اس سلسلہ میں بھی کمالات و برکات کی کمی نہ ہوگی.الحکم جلد ۹ نمبر ۳۹ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۵ء صفحه ۳) فَكَيْفَ تَتَّقُونَ إِنْ كَفَرْتُمْ يَوْمًا يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيْبَانُ السَّمَاءُ مُنْفَطِرُ 6 به كَانَ وَعْدُهُ مَفْعُولاً یہ ایک اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیشگوئی تھی کہ جس طرح سے پہلے سلسلہ کا آغاز ہوا ویسے ہی اس سلسلہ کا

Page 141

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۱۴ سورة المزمل آغاز ہوگا.یعنی جس طرح موسیٰ نے ابتدا میں جلالی نشان دکھلائے اور فرعون سے چھڑا یا اس طرح آنے والا بی بھی موسی کی طرح ہوگا.فَكَيْفَ تَتَّقُونَ إِنْ كَفَرْتُمْ يَوْمًا يَجْعَلُ الوِلْدَانَ شِيْبَا - السَّمَاءُ مُنْفَطِرُ بِهِ كَانَ وَعْدُهُ مَفْعُولاً - یعنی جس طرح ہم نے موسیٰ کو بھیجا تھا.سورسول اکرم کے وقت کفار عرب بھی فرعونیت سے بھرے ہوئے تھے.وہ بھی فرعون کی طرح باز نہ آئے جب تک انہوں نے جلالی نشان نہ دیکھ لیا.سو آنحضرت کے کام موسیٰ کے کام کے سے تھے.اس موسیٰ کے کام قابل پذیرائی نہ تھے لیکن قرآن نے منوایا.موسی کے زمانہ میں گو فرعون کے ہاتھ سے نجات اسرائیل کو ملی لیکن گناہوں سے نجات نہ پائی.وہ لڑے اور کج دل ہوئے اور موسی" پر حملہ آور ہوئے لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری پوری نجات دی.رسول اکرم صلعم اگر طاقت شوکت سلطنت اسلام کو نہ دیتے تو مسلمان مظلوم رہتے اور نجات کفار کے ہاتھ سے نہ پاتے.واللہ تعالیٰ نے ایک تو یہ نجات دی کہ مستقل اسلامی سلطنت قائم ہوگئی دوسرا یہ کہ گناہوں سے ان کو نجات ملی.خدا وند تعالیٰ نے خود ہر دو نقشے کھینچے ہیں کہ عرب پہلے کیا تھے اور پھر کیا ہوئے.اگر دونو نقشے اکٹھے کئے جاویں تو ان کی پہلی حالت کا اندازہ لگ جاوے گا.سو اللہ تعالی نے دونو نجاتیں دیں.شیطان سے بھی نجات دی اور طاغوت سے بھی.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۵۳)

Page 142

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۱۱۵ سورة المدثر بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة المدثر بیان فرموده سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ يَايُّهَا الْمُدَّثِرُن قُمْ فَانْذِرُ وَرَبَّكَ فَكَبِّرُ وَثِيَابَكَ فَطَهَّرُ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرُ انبیاء کی طبیعت اسی طرح واقعہ ہوتی ہے کہ وہ شہرت کی خواہش نہیں کیا کرتے.کسی نبی نے کبھی شہرت کی خواہش نہیں کی.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی خلوت اور تنہائی کو ہی پسند کرتے تھے.آپ تعبادت کرنے کے لئے لوگوں سے دور تنہائی کی غار میں جو غار حرا تھی چلے جاتے تھے.یہ غار اس قدر خوفناک تھی کہ کوئی انسان اس میں جانے کی جرات نہ کر سکتا تھا.لیکن آپ نے اس کو اس لئے پسند کیا ہوا تھا کہ وہاں کوئی ڈر کے مارے نہیں پہنچے گا.آپ بالکل تنہائی کو چاہتے تھے.شہرت کو ہرگز پسند نہیں کرتے تھے مگر خدا کا حکم وا يَايُّهَا الْمُدَّثِرُ قُمْ فَانْذِرُ.اس حکم میں ایک جبر معلوم ہوتا ہے اور اسی لئے جبر سے حکم دیا گیا کہ آپ تنہائی کو جو آپ کو بہت پسند تھی اب چھوڑ دیں.( البدر جلد ۳ نمبر ۳۲ مورخه ۲۴ اگست ۱۹۰۴ صفحه ۴،۳) / آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک اور کامیاب زندگی کی تصویر یہ ہے کہ آپ ایک کام کے لئے آئے اور اسے پورا کر کے اس وقت دنیا سے رخصت ہوئے جس طرح بند و بست والے پورے کاغذات پانچ برس میں مرتب کر کے آخری رپورٹ کرتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں اسی طرح پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی

Page 143

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ١١٦ سورة المدثر زندگی میں نظر آتا ہے اس دن سے لے کر جب قم فانذر کی آواز آئی.پھر اِذَا جَاءَ نَصْرُ الله (النصر : ۲) اور اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (المائدة : (۴) کے دن تک نظر کریں تو آپ کی لانظیر کامیابی کا پتہ ملتا ہے.ان آیات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آپ خاص طور پر مامور تھے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آپ کی زندگی میں کامیابی نصیب نہ ہوئی جو ان کی رسالت کا منتہا تھی وہ ارضِ مقدس اور موعود سرزمین کو اپنی آنکھ سے نہ دیکھ سکے بلکہ راہ ہی میں فوت ہو گئے.کا فرکب مان سکتا ہے اور ایک بے ایمان آدمی راہ میں فوت ہو جانے اور وعدہ کی زمین میں نہ پہنچ سکنے کی وجوہات کب سننے لگا.وہ تو یہی کہے گا کہ اگر مامور تھے تو وہ وعدے زندگی میں کیوں پورے نہ ہوئے.سچی بات یہی ہے کہ سب نبیوں کی نبوت کی پردہ پوشی ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہوئی.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۶ مورخه ۲۴ جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۸) دریس اشارت است که بر دست او بتاں ان آیات میں اشارہ ہے کہ آپ کے ہاتھ پر بت مقهور خواهند شد و جلال و عظمت الہی ظاہر خواہد مقہور ہوں گے اور جلال اور عظمت الہی ظاہر ہوگی اور شد و از پلیدی با جدا باش.ایں اشارت آپ پلیدی سے الگ ہو جائیں.اس میں اس طرف است سوئے اینکه از ہر قسم پلیدی دور باید ماند اشارہ ہے کہ اس طرف آنے کے لئے ہر قسم کی پلیدی و نیز سوئے ہیں اشارت است که خدا ارادہ دور ہونی چاہیے.نیز اس طرف اشارہ ہے کہ خدا نے فرموده است که از صحبت مشرکاں کہ نجس اند ارادہ فرمایا ہے مشرکوں کی مجلس سے کہ جو نا پاک ہیں ترا جدا کند و شرک را از زمین مکہ بردارد و جامہ تجھے الگ کر دیں گے اور مکہ کی سرزمین سے شرک مٹا ہائے خود را و دل خود را پاک کن (ثوب بمعنی دیا جائے گا اور اپنے لباس اور دل کو پاک کر ( ثوب دل نیز آمده) این اشارت است سوئے اینکہ کے معنے دل کے بھی ہیں ) میں یہ اشارہ ہے کہ خدا خدا اراده فرموده است که دلها را از ہر قسم شرک تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ دلوں کو ہر قسم کے شرک ظلم ظلم والتفات الى ماسوی اللہ پاک کند و نیز اور غیر اللہ کی طرف متوجہ ہونے سے پاک کر دیا جائے ایس ہم دریں آیت با اشاره می کنند که این گا نیز ان آیات میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ شریعت ان تمام اجزاء پر مشتمل ہے.( ترجمہ از مرتب) شریعت بریں ہمرا جز امشتمل است اجزا لجة النور ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۳۹۵،۳۹۴) اپنے کپڑے صاف رکھو.بدن کو اور گھر کو اور کوچہ کو اور ہر ایک جگہ کو جہاں تمہاری نشست ہو پلیدی اور

Page 144

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 112 میل کچیل اور کثافت سے بچاؤ یعنی غسل کرتے رہو اور گھروں کو صاف رکھنے کی عادت پکڑو.سورة المدثر اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۳۷) (رسالہ الانذار صفحہ ۷) وَالرُّجْزَ فَاهْجُرُ.ہر ایک قسم کی پلیدی سے پر ہیز کرو.ہجر دور چلے جانے کو کہتے ہیں اس سے یہ معلوم ہوا کہ روحانی پاکیزگی چاہنے والوں کے لئے ظاہری پاکیزگی اور صفائی بھی ضروری ہے کیونکہ ایک قوت کا اثر دوسری پر اور ایک پہلو کا اثر دوسرے پر ہوتا ہے.دو حالتیں ہیں.جو باطنی حالت تقویٰ اور طہارت پر قائم ہونا چاہتے ہیں وہ ظاہری پاکیزگی بھی چاہتے ہیں....پس یاد رکھو کہ ظاہری پاکیزگی اندرونی طہارت کو مستلزم ہے اس لئے لازم ہے کہ کم از کم جمعہ کو نسل کرو.ہر نماز میں وضو کرو.جماعت کھڑی کرو تو خوشبولگا لو.از ہر لگالو.عیدین میں اور جمعہ میں خوشبو لگانے کا جو حکم ہے وہ اسی بناء پر قائم ہے.اصل وجہ یہ ہے کہ اجتماع کے وقت عفونت کا اندیشہ ہے.پس غسل کرنے اور صاف کپڑے پہنے اور خوشبو لگانے سے سمیت اور عفونت سے روک ہوگی.وَالرُّجْزَ فَاهْجُرُ یعنی " ہر ایک پلیدی سے جدارہ یہ احکام اسی لئے ہیں کہ تا انسان حفظانِ صحت کے اسباب کی رعایت رکھ کر اپنے تئیں جسمانی بلاؤں سے بچاوے.عیسائیوں کا یہ اعتراض ہے کہ یہ کیسے احکام ہیں جو ہمیں سمجھ نہیں آتے کہ قرآن کہتا ہے کہ تم غسل کر کے اپنے بدنوں کو پاک رکھو اور مسواک کرو ،خلال کرو اور ہر ایک جسمانی پلیدی سے اپنے تئیں اور اپنے گھر کو بچاؤ.اور بد بوؤں سے دُور رہو اور مُردار اور گندی چیزوں کو مت کھاؤ.اس کا جواب یہی ہے کہ قرآن نے اُس زمانہ میں عرب کے لوگوں کو ایسا ہی پایا تھا اور وہ لوگ نہ صرف رُوحانی پہلو کے رُو سے خطر ناک حالت میں تھے بلکہ جسمانی پہلو کے رُو سے بھی اُن کی صحت نہایت مخطرہ میں تھی.سو یہ خدا تعالیٰ کا اُن پر اور تمام دنیا پر احسان تھا کہ حفظان صحت کے قواعد مقرر فرمائے.یہاں تک کہ یہ بھی فرما دیا کہ كُلُوا وَاشْرَبُوا وَ لَا تُسْرِفُوا یعنی بے شک کھاؤ پیو مگر کھانے پینے میں بے جاطور پر کوئی زیادت کیفیت یا کمیت کی مت کرو.افسوس پادری اس بات کو نہیں جانتے کہ جو شخص جسمانی پاکیزگی کی رعایت کو بالکل چھوڑ دیتا ہے وہ رفتہ رفتہ وحشیانہ حالت میں گر کر رُوحانی پاکیزگی سے بھی بے نصیب رہ جاتا ہے.مثلاً چند روز دانتوں کا خلال کرنا چھوڑ دو جو ایک ادنیٰ صفائی کے درجہ پر ہے تو وہ فضلات جو دانتوں میں پھنسے رہیں گے اُن میں سے مردار کی بو آئے گی.آخر دانت خراب ہو جائیں گے اور اُن کا زہریلا اثر معدہ پر گر کر معدہ بھی فاسد ہو جائے گا.خود غور کر کے دیکھو کہ جب دانتوں کے اندر

Page 145

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۱۸ سورة المدثر کسی بوٹی کارگ وریشہ یا کوئی بجو پھنسا رہ جاتا ہے اور اُسی وقت خلال کے ساتھ نکالا نہیں جاتا تو ایک رات بھی اگر رہ جائے تو سخت بد بو اُس میں پیدا ہو جاتی ہے اور ایسی بد بو آتی ہے جیسا کہ چوہا مرا ہوا ہوتا ہے.پس یہ کیسی نادانی ہے کہ ظاہری اور جسمانی پاکیزگی پر اعتراض کیا جائے اور یہ تعلیم دی جائے کہ تم جسمانی پاکیزگی کی کچھ پرواہ نہ رکھونہ خلال کرو اور نہ مسواک کرو اور نہ کبھی غسل کر کے بدن پر سے میل اتارو اور نہ پاخانہ پھر کر طہارت کرو اور تمہارے لئے صرف روحانی پاکیزگی کافی ہے.ہمارے ہی تجارب ہمیں بتلا رہے ہیں کہ ہمیں جیسا کہ روحانی پاکیزگی کی روحانی صحت کے لئے ضرورت ہے ایسا ہی ہمیں جسمانی صحت کے لئے جسمانی پاکیزگی کی ضرورت ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہماری جسمانی پاکیزگی کو ہماری روحانی پاکیزگی میں بہت کچھ دخل ہے.کیونکہ جب ہم جسمانی پاکیزگی کو چھوڑ کر اُس کے بدنتائج یعنی خطر ناک بیماریوں کو بھگتنے لگتے ہیں تو اُس وقت ہمارے دینی فرائض میں بھی بہت حرج ہو جاتا ہے اور ہم بیمار ہو کر ایسے لکھے ہو جاتے ہیں کہ کوئی خدمت دینی بجا نہیں لا سکتے.اور یا چند روز دکھ اٹھا کر دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں بلکہ بجائے اس کے کہ بنی نوع کی خدمت کر سکیں اپنی جسمانی ناپاکیوں اور ترک قواعد حفظان صحت سے اوروں کے لئے وبالِ جان ہو جاتے ہیں اور آخر ان ناپاکیوں کا ذخیرہ جس کو ہم اپنے ہاتھ سے اکٹھا کرتے ہیں وبا کی صورت میں مشتعل ہو کر تمام ملک کو کھاتا ہے.اور اس تمام مصیبت کا موجب ہم ہی ہوتے ہیں کیونکہ ہم ظاہری پاکی کے اصولوں کی رعایت نہیں رکھتے پس دیکھو کہ قرآنی اصولوں کو چھوڑ کر اور فرقانی وصایا کو ترک کر کے کیا کچھ بلائیں انسانوں پر وارد ہوتی ہیں اور ایسے بے احتیاط لوگ جو نجاستوں سے پر ہیز نہیں کرتے اور عفونتوں کو اپنے گھروں اور کوچوں اور کپڑوں اور منہ سے دور نہیں کرتے اُن کی بے اعتدالیوں کی وجہ سے نوع انسان کے لئے کیسے خطرناک نتیجے پیدا ہوتے ہیں.اور کیسی یک دفعہ وبائیں پھوٹتی اور موتیں پیدا ہوتیں ہیں اور شور قیامت برپا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ لوگ مرض کی دہشت سے اپنے گھروں اور مال اور املاک اور تمام اس جائیداد سے جو جان کا ہی سے اکٹھی کی تھی دست بردار ہو کر دوسرے ملکوں کی طرف دوڑتے ہیں اور مائیں بچوں سے اور بچے ماؤں سے جدا کئے جاتے ہیں.کیا یہ مصیبت جہنم کی آگ سے کچھ کم ہے؟ ڈاکٹروں سے پوچھو اور طبیبوں سے دریافت کرو کہ کیا ایسی لا پروائی جو جسمانی طہارت کی نسبت عمل میں لائی جائے وبا کے لئے عین موزوں اور مؤید ہے یا نہیں؟ پس قرآن نے کیا برا کیا کہ پہلے جسموں اور گھروں اور کپڑوں کی صفائی پر زور دے کر انسانوں کو اس جہنم سے بچانا چاہا جو اسی دنیا میں

Page 146

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۱۹ سورة المدثر یکدفعہ فالج کی طرح گرتا اور عدم تک پہنچاتا ہے.(ایام اصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۳۲تا۳۳۴) قرآن شریف میں صاف آیا ہے وَالرُّجْزَ فَاهْجُرُ اس لئے ضروری ہے کہ صفائی کا التزام رکھا جاوے.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخه ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۰) قرآن شریف میں آیا ہے وَالرُّجُزَ فَاهْجُرُ پس پاک صاف رہنا ضروری ہے.اقام جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۶) صفائی کا رکھنا تو سنت ہے.قرآن شریف میں بھی لکھا ہے وَالرُّجْزَ فَاهْجُرُ.کنوئیں کو پاک کرنے کے متعلق فرمایا ) (البدر جلد اول نمبر ۹ مورخه ۲۶ دسمبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۶۶) وو میں تمہیں ایک اصل بتا دیتا ہوں کہ قرآن مجید میں آیا ہے وَالرُّجْزَ فَاهْجُرُ.پس جب پانی کی حالت اس قسم کی ہو جائے جس سے صحت کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو تو صاف کر لینا چاہیے.مثلاً پتے پڑ جاویں یا کیڑے وغیرہ (حالانکہ اس پر یہ ملاں نجس ہونے کا فتویٰ نہیں دیتے) باقی یہ کوئی مقدار مقرر نہیں.جب تک رنگ بو ومزہ نجاست سے نہ بدلے وہ پانی پاک ہے.یدر جلد نمبر ۳۱ مورخہ یکم اگست ۱۹۰۷ صفحه (۸) وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَبَ النَّارِ إِلَّا مَلَيْكَةً وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلَّا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا وَلَا يَرْتَابَ الَّذِينَ أوتُوا الْكِتَبَ وَالْمُؤْمِنُونَ وَلِيَقُولَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ وَالْكَفِرُونَ مَاذَا أَرَادَ اللهُ بِهَذَا مَثَلاً كَذلِكَ يُضِلُّ اللهُ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ۖ وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبَّكَ إِلا هُوَ وَمَا هِيَ إِلا ذِكْرَى لِلْبَشَرِ.ط وَ اعْتَقِدُ أَنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةٌ مُقَرَّبِينَ.میں اعتقاد رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے لِكُلِ وَاحِدٍ مِنْهُمْ مَّقَامُ مَّعْلُومٌ لا ہیں جن میں سے ہر ایک کے لئے ایک معلوم مقام ہے.ان يَنْزِلُ اَحَدٌ مِّنْ مَّقَامِهِ وَ لَا يَرقُی و میں سے نہ کوئی اپنے مقام سے نیچے اترتا ہے اور نہ اوپر چڑھتا نُزُولُهُمُ الَّذِى قَد جَاءَ فِي الْقُرْآنِ ہے اور ان کے جس نزول کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے وہ لَيْسَ كَنُزُولِ الْإِنْسَانِ مِن الأغلى انسان کے نزول کی طرح اوپر سے نیچے اتر نا نہیں اور نہ ان کا

Page 147

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲ سورة المدثر إلَى الْأَسْفَلِ وَ لَا صُعُودُهُمْ كَصُعُودِ چڑھنا انسانوں کی طرح نیچے سے اوپر چڑھنا ہے کیونکہ النَّاسِ مِنَ الْأَسْفَلِ إِلَى الْأَغْلى لِاَنَّ في انسان کا نزول اپنی جگہ سے ہٹ جانے کا نام ہے اور نُزُولِ الْإِنْسَانِ تَحَوُّلًا مِّنَ الْمَكَانِ وَرَائِحَةً تھکن وغیرہ سے راحت حاصل کرنا ہے اور فرشتوں کو نہ تو مِنْ شِقَ الْأَنْفُسِ وَاللُّغُوبِ وَلَا يَمَسُّهُمْ ممکن اور مشقت لاحق ہوتی ہے اور نہ ان پر کوئی تغیر آتا لَغُبْ وَ لَا شِقُ وَلَا يَتَطَرِّقُ إِلَيْهِمُ تَغَيُّر ہے.پس تم ان کے نزول اور صعود کو دوسری چیزوں پر فَلَا تَقِيْسُوا نُزُولَهُمْ وَصُعُودَهُمْ بِأَشْيَاء قیاس نہ کرو بلکہ ان کا نزول اور صعود اللہ تعالی کے نزول أُخْرَى بَلْ نُزُولُهُمْ وَ صُعُودُهُمْ بِصِبْغ اور سماء الدنیا سے عرش کی طرف صعود کرنے کا رنگ رکھتا نُزُولِ اللهِ وَ صُعُودِهِ مِنَ الْعَرْشِ إِلَى السَّمَاءِ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے وجود کو ایمانیات الدُّنْيَا لأَنَّ اللهَ أَدْخَلَ وُجُودَهُمْ في میں داخل فرمایا ہے.چنانچہ ارشاد الہی ہے کہ اللہ کے الْإِيْمَانِيَّاتِ وَقَالَ وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا.پس تم الا هُوَ فَآمَنُوا بِنُزُولِهِمْ وَصُعُودِهِمْ وَلَا فرشتوں کے نزول اور صعود پر ایمان لاؤ لیکن اس کی کنہ تَدْخُلُوا فِي كُنْهِهِمَا ذُلِكَ خَيْرٌ وَ اَقْرَبُ میں نہ جاؤ یہ بات بہتر اور تقویٰ کے زیادہ قریب ہے.لِلتَّقْوَى وَ قَد وَصَفَهُمُ اللهُ بِالْقَائِمِينَ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی تعریف یوں بیان کی ہے کہ وہ وَالسَّاجِدِينَ وَ الصَّافِينَ وَالْمُسَبِّحِينَ قائم ہیں.ساجد ہیں.صف بستہ ہیں نیز تسبیح کرنے والے وَالثَّابِتِيْنَ في مَقَامَاتٍ مَّعْلُومَةٍ وَ جَعَلَ ہیں اور اپنے معلوم مقامات میں ٹھہرے ہوئے ہیں اور هذِهِ الصَّفَاتِ لَهُمْ دَائِمَةٌ غَيْرَ مُنقَكَة ان کی ان صفات کو ان کے ساتھ دائمی اور غیر منفک قرار وَخَضَهُمْ بِهَا.فَكَيْفَ يَجُوزُ آن يُغرك دیا ہے اور ان کے وجود کو ان صفات کے ساتھ مخصوص الْمَلَائِكَةُ سُجُوْدَهُمْ وَقِيَامَهُمْ وَيَقْصَبُوا قرار دیا ہے.پس یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ فرشتے اپنے سجود صُفُوفَهُمْ وَيَذَرُوا تَسْبِيحَهُمْ وَ اور قیام کو ترک کر دیں اور اپنی صفوں کو توڑ دیں اور اپنی تَقْدِيسَهُمْ وَ يَتَنَالُوا مِن مَّقَامَاتِهِمْ وَ تسبیح اور تقدیس کو چھوڑ دیں اور اپنے مقامات سے تنزل يهبطوا الْأَرْضَ وَ يَعْلُو السَّمَاوَاتِ الْعُلی اختیار کریں اور زمین پر اتر آئیں اور بلند آسمانوں کو خالی بَلْ هُمْ يَتَحَرِّكُونَ حَال گوییم کردیں.بلکہ ان کی حرکت اس صورت میں ہوتی ہے کہ مُسْتَقِرِيْنَ فِي مَقَامَاتِهِمُ الْمَلِكِ الذى وہ اپنے مقامات پر اس بادشاہ کی طرح قائم رہتے ہیں جو ا

Page 148

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۲۱ سورة المدتّر عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى وَ تَعْلَمُونَ اَنَّ اپنے عرش پر قرار فرما ہو.پھر تم کو یہ بات بھی معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ الله يَنْزِلُ إِلَى السَّمَاء في آخر كُلِّ لَيْلِ ہر رات کے آخری حصہ میں آسمان سے نزول فرماتا ہے اور یہ وَلَا يُقَالُ إِنَّهُ يَتْرُكُ الْعَرْشَ ثُمَّ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ عرش کو چھوڑ دیتا ہے.پھر دوسرے اوقات يَصْعَدُ إِلَيْهِ فِي أَوْقَاتٍ اُخری میں اس کی طرف صعود فرماتا ہے.اسی طرح ملائکہ کا حال ہے فَكَذَلِكَ الْمَلَائِكَةُ الَّذِينَ كَانُوا فِي جو اپنے خدا کی صفات میں اسی طرح رنگین ہیں جس طرح سایہ صِبْغَةِ صِفَاتِ ربم گیفلِ اپنے اصل کا رنگ رکھتا ہے.ہم اس کی حقیقت کو نہیں جانتے الصباغ الظل يصِبْغَةِ أَصْلِهِ لا لیکن اس پر ایمان رکھتے ہیں.پھر ہم ان کے حالات کو کس نَعْرِفُ حَقِيْقَعَهَا وَنُؤْمِنُ بِهَا.كَيْفَ طرح ایسے انسان کے حالات سے مشابہ قرار دے سکتے ہیں نُشَبَّهُ أَحْوَالَهُمْ بِأَحْوَالِ اِنْسَانِ جس کی صفات کی حقیقت کو ہم جانتے ہیں.اس کی خاصیتوں نَعْرِفُ حَقِيْقَةً صِفَاتِهِ وَحُدُودِ کی حدود.سکنات اور حرکات کو جانتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ نے خَوَاتِهِ وَ سَكَنَاتِهِ وَ حَرَكَاتِهِ وَ قَدْ ہمیں فرشتوں کی حقیقت میں جانے سے منع فرمایا ہے اور کہا مَنَعَنَا اللهُ مِنْ هَذَا وَ قَالَ وَمَا يَعْلَمُ ہے مَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا ھو کہ اللہ کے لشکروں کو اس کے جُنُودَ رَبَّكَ إِلَّا هُوَ فَاتَّقُوا الله یا سوا کوئی نہیں جانتا.پس اے عقلمند و! اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو.(ترجمہ از مرتب) أَرْبَاب النُّهى.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۸۴ تا ۳۸۷)

Page 149

Page 150

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيطِنِ الرَّحِيمِ ۱۲۳ سورة القيامة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة القيامة بیان فرموده سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ولا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ الوَامَةِ اخلاقی حالتوں کے دوسرے سرچشمہ کا نام قرآن شریف میں نفس لوامہ ہے جیسا کہ قرآن شریف میں و فرماتا ہے وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْس اللوامة یعنی میں اس نفس کی قسم کھا تا ہوں جو بدی کے کام اور ہر ایک بے اعتدالی پر اپنے تئیں ملامت کرتا ہے.یہ نفس لوامہ انسانی حالتوں کا دوسرا سر چشمہ ہے.جس سے اخلاقی حالتیں پیدا ہوتی ہیں اور اس مرتبہ پر انسان دوسرے حیوانات کی مشابہت سے نجات پاتا ہے.اور اس جگہ نفس لوامہ کی قسم کھانا اس کو عزت دینے کے لئے ہے گویا وہ نفس اتارہ سے نفس لوامہ بن کر بوجہ اس ترقی کے جناب الہی میں عزت پانے کے لائق ہو گیا.اور اس کا نام لوامہ اس لئے رکھا کہ وہ انسان کو بدی پر ملامت کرتا ہے اور اس بات پر راضی نہیں ہوتا کہ انسان اپنے طبعی لوازم میں شتر بے مہار کی طرح چلے اور چار پائیوں کی زندگی بسر کرے بلکہ یہ چاہتا ہے کہ اس سے اچھی حالتیں اور اچھے اخلاق صادر ہوں اور انسانی زندگی کے تمام لوازم میں کوئی بے اعتدالی ظہور میں نہ آوے اور طبعی جذبات اور طبعی خواہشیں عقل کے مشورہ سے ظہور پذیر ہوں.پس چونکہ وہ بری حرکت پر ملامت کرتا ہے.اس لئے اس کا نام نفس لوامہ ہے یعنی بہت ملامت کرنے والا.اور نفس لوامہ اگر چہ طبعی جذبات پسند نہیں کرتا بلکہ اپنے تئیں ملامت کرتا رہتا ہے لیکن نیکیوں کے بجالانے پر پورے طور سے قادر بھی نہیں ہو سکتا اور کبھی نہ کبھی طبیعی جذبات اس پر غلبہ کر جاتے ہیں.تب

Page 151

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۴ سورة القيامة گر جاتا ہے اور ٹھوکر کھاتا ہے.گویا وہ ایک کمزور بچہ کی طرح ہوتا ہے.جوگر نا نہیں چاہتا ہے.مگر کمزوری کی وجہ سے گرتا ہے.پھر اپنی کمزوری پر نادم ہوتا ہے.غرض یہ نفس کی وہ اخلاقی حالت ہے.جب نفس اخلاق فاضلہ کو اپنے اندر جمع کرتا ہے اور سرکشی سے بیزار ہوتا ہے مگر پورے طور پر غالب نہیں آسکتا.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۱۸،۳۱۷) حقیقی طور پر نیک یا بد اخلاق کا زمانہ اس وقت سے شروع ہوتا ہے کہ جب انسان کی عقل خدا داد پختہ ہوکر اس کے ذریعہ سے نیکی اور بدی یا دو بدیوں یا دو نیکیوں کے درجہ میں فرق کر سکے.پھر اچھے راہ کے ترک کرنے سے اپنے دل میں ایک حسرت پاوے اور برے کام کے ارتکاب سے اپنے تئیں نادم اور پشیمان دیکھے.یہ انسان کی زندگی کا دوسرا زمانہ ہے.جس کو خدا کے پاک کلام قرآن شریف میں نفس لوامہ کے نام سے تعبیر کیا ہے.مگر یادر ہے کہ ایک وحشی کو نفس لوامہ کی حالت تک پہنچانے کے لئے صرف سرسری نصائح کافی نہیں ہوتیں بلکہ ضروری ہوتا ہے کہ اس کو خدا شناسی کا اس قدر حصہ ملے جس سے وہ اپنی پیدائش بیہودہ اور عبث خیال نہ کرے تا معرفت الہی سے سچے اخلاق اس میں پیدا ہوں.اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے ساتھ ساتھ بچے خدا کی معرفت کے لئے توجہ دلائی ہے اور یقین دلایا ہے کہ ہر ایک عمل اور خلق ایک نتیجہ رکھتا ہے جو اس زندگی میں روحانی راحت یا روحانی عذاب کا موجب ہوتا ہے اور دوسری زندگی میں کھلے کھلے طور پر اپنا اثر دکھائے گا.غرض نفس لوامہ کے درجہ پر انسان کو عقل اور معرفت اور پاک کانشنس سے اس قدر حصہ حاصل ہوتا ہے کہ وہ برے کام پر اپنے تئیں ملامت کرتا ہے اور نیک کام کا خواہشمند اور حریص رہتا ہے.یہ وہی درجہ ہے کہ جس میں انسان اخلاق فاضلہ حاصل کرتا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۳۱، ۳۳۲) میں اس نفس کی قسم کھاتا ہوں جو بدی کے کاموں اور نیز ہر ایک طرح کی بے اعتدالی پر اپنے تئیں ملامت کرتا ہے.ایسے شخص سے اگر کوئی بدی ظہور میں آجاتی ہے تو پھر وہ اس پر جلدی سے متنبہ ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو اس بری حرکت پر ملامت کرتا ہے اور اسی لئے اس کا نام نفس لوامہ رکھا ہے یعنی بہت ملامت کرنے والا.جو شخص اس نفس کے تابع ہوتا ہے وہ نیکیوں کے بجالانے پر پورے طور پر قادر نہیں ہوتا اور طبعی جذبات اس پر کبھی نہ کبھی غالب آجاتے ہیں لیکن وہ اس حالت سے نکلنا چاہتا ہے اور اپنی کمزوری پر الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴ مورخه ۱۴ جنوری ۱۹۰۸ ء صفحه ۲) نادم ہوتا رہتا ہے.

Page 152

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۲۵ سورة القيامة لوامہ کہتے ہیں ملامت کرنے والے کو.انسان سے ایک وقت بدی ہو جاتی ہے مگر ساتھ ہی اس کا نفس اس کو بدی کی وجہ سے ملامت بھی کرتا اور نادم ہوتا ہے.یہ انسانی فطرت میں رکھا گیا ہے مگر بعض طبائع ایسے بھی ہیں کہ اپنی گندہ حالت اور سیاہ کاریوں کی وجہ سے وہ ایسے محجوب ہو جاتے ہیں کہ ان کی فطرت فطرت سلیم کہلانے کی مستحق نہیں ہوتی.ان کو اس ملامت کا احساس ہی نہیں ہوتا مگر شریف الطبع انسان ضرور اس حالت کا احساس کرتا اور بعض اوقات وہی ملامت نفس اس کے واسطے باعث ہدایت ہو کر موجب نی نجات ہو جاتی ہے مگر یہ حالت ایسی نہیں کہ اس پر اعتبار کیا جاوے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۱ مورخہ ۱۴ / جولائی ۱۹۰۸ء صفحه ۵) يَسْلُ ايَّانَ يَوْمُ الْقِيمَةِ فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ وَخَسَفَ الْقَمَرُ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ يَقُولُ الْإِنْسَانُ يَوْمَ اَيْنَ الْمَفَرُّنَ كَلَّا لَا وَزَرَة إلى 191 رَبَّكَ يَوْمَينِ الْمُسْتَقَرُ فَاعْلَمُوْا يَا أَهْلَ الْإِسْلَامِ وَأَتْبَاعَ پس اے اہلِ اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خَيْرِ الْأَنامِ، أَنَّ الْآيَةَ التي كُنتُمْ کی پیروی کرنے والو تمہیں معلوم ہو کہ وہ نشان جس کا تُوعَدُونَ فِي كِتَابِ الله الْعَلامِ قرآن کریم میں تم وعدہ دیئے گئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ وَتُبَكِّرُونَ مِن سَيْدِ الرُّسُلِ نُورِ الله علیہ وسلم سے جو سید الرسل اور اندھیرے کو روشن کرنے مُزِيْلِ الظَّلَامِ أَغْنِى خُسُوفَ النَّبِرَيْنِ في والا ہے تمہیں بشارت ملی تھی یعنی رمضان شریف میں شَهْرٍ رَمَضَانَ الَّذِى أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ آفتاب اور چاند گرہن ہونا وہ رمضان جس میں قرآن قَدْ ظَهَرَ في بِلادِنَا بِفَضْلِ اللهِ الْمَنَانِ نازل ہوا وہ نشان ہمارے ملک میں بفضل اللہ تعالی ظاہر وَقَدِ الْخَسَفَ الْقَمَرُ وَالشَّمْسُ وَظَهَرَت ہو گیا اور چاند اور سورج کا گرہن ہوا اور دو نشان ظاہر الْأَيْتَانِ فَاشْكُرُوا اللهَ وَخَرُّوا لَه ہوئے پس خدا تعالیٰ کا شکر کرو اور اس کے آگے سجدہ کرتے ہوئے گرو.سَاجِدِينَ وَإِنَّكُمْ قَدْ عَرَفْتُمْ أَنَّ الله تعالى قد اور تمہیں معلوم ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس واقعہ عظیمہ أَخْبَرَ عَنْ هَذَا النَّبَأُ الْعَظِيمِ فی کتابہ کے بارے میں اپنی کتاب کریم میں خبر دی ہے اور كِتَابِهِ

Page 153

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۲۶ سورة القيامة الْكَرِيمِ، وَقَالَ لِلتَّعْلِيمِ وَالتَّفْهِيْمِ فَإِذَا سمجھانے اور جتلانے کے لئے فرمایا ہے پس جس وقت برق الْبَصَرُ وَخَسَفَ القَمَرُ وَ جُمعَ الشَّمْسُ وَ آنکھیں پتھرا جائیں گی اور چاند گرہن ہوگا.اور سورج الْقَمَرُ يَقُولُ الْإِنْسَانُ يَوْمَبِذٍ اَيْنَ الْمَفَرُّ اور چاند ا کٹھے کئے جائیں گے یعنی سورج کو بھی گرہن فَتَفَكَّرُوا فِي هَذِهِ الْآيَةِ بِقَلْبِ أَسْلَمَ لگے گا تب اس روز انسان کہے گا کہ بھاگنے کی جگہ کہاں وَأَظْهَرَ فَإِنَّهُ مِنْ آثَارِ الْقِيَامَةِ لَا مِن ہے.سو اس نشان میں ایک سلیم اور پاک دل کے ساتھ أَخْبَارِ الْقِيَامَةِ كَمَا هُوَ أَجْلى وَأَظْهَرَ عِنْدَ فکر کرو کیونکہ یہ خبر قیامت کے آثار میں سے ہے قیامت الْعَاقِلِينَ.فَإِنَّ الْقِيَامَةَ عِبَارَةٌ عَن فَسَادٍ کے واقعات میں سے نہیں ہو سکتی جیسا کہ عقلمندوں کے نِظَامِ هَذَا الْعَالَمِ الْأَصْغَرِ وَخَلْقٍ الْعَالَمِ نزدیک نہایت صاف اور روشن ہے.وجہ یہ کہ قیامت الْأَكْبَرِ فَكَيْفَ يَقَعُ في حَالَةِ الْقَكِ اس حال سے مراد ہے جبکہ اس عالم اصغر کا نظام توڑ دیا الخسوف الَّذِي تَعْرِفُونَ بِالْيَقِينِ لا جائے اور ایک عالم اکبر پیدا کیا جائے پس کیوں کر فک بالشَّكِ عِلله وَأَسْبَابَهُ وَتَفَهَمُونَ نظام کی حالت میں وہ خسوف کسوف ہو سکتا ہے جس کے مَوَاقِعَهُ وَأَبْوَابَهُ؟ وَكَيْفَ يَظْهَرُ أَمْرُ لَّازِمٌ علل اور اسباب تمہیں معلوم ہیں اور اس کے ظہور کے لِلنَّظَامِ بَعْدَ فَكِ النَّظَامِ وَالْفَسَادِ وقت اور ظہور کے دروازے تم نے سمجھے ہوئے ہیں اور وہ الثَّامِ فَإِنَّكُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ الْخَسُوفَ امرجو نظام عالم کا ایک لازمہ ذاتی ہے کیوں کر بعد فک وَالْكُسُوْفَ يَنْشَانِ مِنْ أَشْكالِ نِظامِيَّة نظام اور فک تام کے ظہور پذیر ہو کیونکہ تم جانتے ہو کہ وَأَوْضَاع مُقَرِّرَةٍ مُنتَظِمَةٍ عَلى أَوقات خسوف اور کسوف اشکال نظامیہ سے پیدا ہوتے ہیں اور مُعَيَّنَةٍ وَأَيَّامٍ مَعْرُوفَةٍ مُبَيَّنَةٍ فَكَيْفَ نیز ان کا پیدا ہونا اوضاع مقررہ منظمہ پر موقوف ہے جو يُعْزَى وُقُوعُهَا إِلى سَاعَةٍ لَا أَنْسَابَ فِيهَا ان اوقات معینہ اور مشہور دنوں پر موقوف ہے جو فن بیت وَلَا أَسْبَابٌ، وَلَا نِظام وَلَا احكام میں بیان کئے گئے ہیں پس کیوں کر اُن کو اس گھڑی کی فَانْظُرُوا إِن كُنْتُمْ نَاظِرِينَ ثُمَّ مِن طرف منسوب کیا جائے جس میں نہ نسب ہیں نہ اسباب نہ لَوَازِمِ الْكُسُوْفِ وَالْخُسُوفِ أَنْ يَرْجِعَ نظام نه ترتیب نه محکم کرنا سوتم سوچوا گر کچھ سوچ سکتے ہو الْقَمَرُ وَالشَّمْسُ إلى وَضْعِهِمَا الْمَعْرُوفِ پھر لوازم خسوف اور کسوف میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وَيَعُودًا إلى سيريهما الأولى، وَفِي هُون بما سورج اور چاند اپنی اصلی وضع کی طرف رجوع کریں اور

Page 154

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۷ سورة القيامة دَاخِل هَذَا الْمَعْلى وَأَمَّا تَكْوِيرُ الشَّمْسِ اپنی پہلی سیرت کی طرف عود کر آویں اور خسوف کسوف کی وَالْقَمَرِ فِي يَوْمِ الْقِيَامَةِ فَهِيَ حَقِيقَةٌ تعریف میں یہ بات داخل ہے کہ اپنی پہلی حالت کی أُخْرَى، وَلَا يُرَدُّ فِيْهِمَا نُورُهُما إِلى حَالَةٍ طرف رجوع کریں مگر تکویر شمس و قمر جو قیامت میں ہوگی وہ أُولى، بَلْ لَّا يَكُونُ وَقُوعُهُ إِلَّا بَعْدَ فَكِ اور حقیقت ہے اور تکویر کے وقت نور شمس و قمر اپنی پہلی النظامِ وَالْفَسَادِ النّامِ وَهَدّم هذا حالت کی طرف نہیں آئے گا بلکہ تکویر کا وقوع فک نظام الْمَقَامِ، وَمَا سَماهُ اللهُ حُسُوفًا وَكُسُوفًا اور فساد تام اور انہدام کلی کے وقت ہو گا اور اس کا نام بَلْ سَماهُ تَكُويرًا أَوْ كَشْطَ الْأَجْرَامِ، كَمَا خدا تعالیٰ نے خسوف کسوف نہیں رکھا بلکہ اس کا نام تکویر أَنْتُمْ تَقْرَءُونَ فِي كَلَامِ اللهِ الْعَلّام اور کشط رکھا ہے جیسا کہ تم خدا تعالیٰ کے کلام میں پڑھتے فَتَبَتَ مِنْ هَذَا الْكَلَامِ عِنْدَ الخواص ہو.پس اس کلام سے خواص اور عوام پر ثابت ہو گیا کہ جو وَالْعَوَامِ، أَنَّ مَا ذُكِرَ مِنَ الْآيَةِ في هذهِ نشان خسوف کسوف قرآن شریف میں یعنی اس آیت میں الْآيَةِ فَهُوَ يَتَعَلَّق بِالدُّنْيَا لَا بِالْآخِرَةِ لکھا ہے وہ دنیا سے تعلق رکھتا ہے نہ آخرت سے اور وَعَزْوُهُ إِلَى الْقِيَامَةِ بِنَاءً عَلَى الرِوَايَةِ قیامت کی طرف اس کو منسوب کرنا اور کسی روایت کو پیش خطأ في الدّرَايَةِ، بَلْ هُوَ خَيْرٌ مِنْ أَخَبَارِ کرنا خطا في الدرایت ہے بلکہ وہ آخر زمانہ اور قرب آخِرِ الزَّمَانِ وَقُرْبِ السَّاعَةِ واقتراب قیامت کی خبروں میں سے ایک خبر ہے جیسا کہ تدبر کرنے الْأَوَانِ كَمَا لَا يخفى عَلَى الْمُتَدَبِرِينَ.والوں پر پوشیدہ نہیں.(ترجمہ اصل کتاب سے ) (نور الحق حصہ دوم، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۱۹۳ تا ۱۹۶) و قد جمع الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ كَمَا ذَكَرَ اور چاند اور سورج جمع کئے گئے جیسا کہ قرآن شریف الْقُرْآنُ وَ كُسِفَا فِي رَمَضَانَ كَشفِ الْقَمَرِ میں ذکر آیا ہے اور دونوں کا رمضان شریف میں في زَمَنِ خَيْر الْوَرى.کسوف و خسوف ہو گیا جیسے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ (۹۴) کے زمانہ میں شق القمر ہوا.( ترجمہ اصل کتاب سے ) إِنَّ عِيسَى كَانَ عِلْمًا لِلسَّاعَةِ الْيَهُودِ تحقیق عیسی علیہ السلام یہودیوں کی تباہی کی گھڑی و انا عِلْمٌ لِلسَّاعَةِ الَّتِى تُخشَرُ النَّاسُ کے لئے ایک دلیل تھے اور میں قیامت کے لئے ایک دلیل فِيهَا وَ تُحْيى كُلُّ نَفْسٍ لِتُجزى.وَقَدْ ظَهَرَ ہوں اور بہت سے اس زمانہ کے علامات قرآن شریف

Page 155

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۸ سورة القيامة اكْثَرُ عَلَامَاتِها وَذَكَرَهَا الْقُرْآن ذكرا میں مرقوم ہیں اور اونٹنیاں بیکار ہو گئیں اور کتا ہیں وَعُقِلَتِ الْعِشَارُ وَنُشِرَتِ الصُّحُفُ وَالْأَسْفَارُ بے شمار شائع ہوئیں اور چاند سورج کو رمضان میں وَ مُجمِيعَ الْقَمَرُ وَالشَّمْسُ فِي رَمَضَانَ گرہن لگا.( ترجمہ اصل کتاب سے ) خطبہ الہامیه، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۱۲۱) ثُمَّ إِذَا كَانَتْ حَقِيقَةُ الكُسُوفِ پھر جب کہ سورج گرہن کی حقیقت مشہور بِالتَّعْرِيفِ الْمَعْرُوفِ أَنَّهُ هَيْئَةٌ حَاصِلَةٌ مِن تعریف کی رو سے یہ ہوئی کہ وہ اس ہیئت حاصلہ کا نام حَوْلِ الْقَمَرِ بَيْنَ الشَّمْسِ وَالْأَرْضِ فِي أَوَاخِرِ ہے کہ جب سورج اور زمین میں چاند حائل ہو جائے أَيَّامِ الشَّهْرِ، فَكَيْفَ يُمْكِنُ أَنْ يَتَكَلَّمَ أَفَصَحُ اور یہ حائل ہو جانا مہینہ کے آخر ایام میں ہوپس کیوں الْعَجَمِ وَالْعَرَبِ يلفظ يُخَالِفُ مُحَاوَرَاتِ کر ممکن ہے کہ وہ جو عجم اور عرب کے تمام لوگوں سے الْقَوْمِ وَاللُّغَةِ وَالْأَدَبِ وَكَيْفَ يَجُوزُ أَن زیادہ تر فصیح ہے اور وہ ایسا لفظ بولے جو محاورات قوم يتَلَفظَ بِلَفْظِ وُضِعَ لِمَعْنَى عِنْدَ أَهْلِ اللَّسَانِ اور لغت اور ادب سے بالکل مخالف ہو اور جائز ہے کہ ثُمَّ يَصْرِفُهُ عَنْ ذلِكَ الْمَعْنَى مِنْ غَيْرِ إِقَامَةِ ایسا لفظ بولا جائے جو اہل زبان کے نزدیک ایک الْقَرِينَةِ وَتَفْصِيْلِ الْبَيَانِ فَإِنَّ صَرفَ خاص معنوں کے لئے موضوع ہے پھر اس کو بغیر اللَّفْظِ عَنِ الْمُحَاوَرَةِ وَمَعَانِيْهِ الْمُرَادَةِ عِنْدَ اقامت کسی قرینہ کے اس معنے سے پھیرا جائے کیونکہ أَهْلِ الْفَنِ وَأَهْلِ اللُّغَةِ لَا يَجُوزُ لِأَحَدٍ إِلَّا کسی لفظ کا محاورہ اور معنی مراد مستعملہ سے پھیر نا اہل بِإِقَامَةِ قَرِيْنَةٍ مُوْصِلَةٍ إِلَى الْجَزْمِ وَالْيَقِينِ فن اور اہل لغت کے نزدیک جائز نہیں مگر اس حالت وَقَدْ ذَكَرْنَا أَنَّ الْقُرْآنَ يُصَدِّى هَذَا الْبَيَان میں کہ کوئی قرینہ یقینی قائم کیا جاوے اور ہم ذکر کر چکے وَلَوْ كَانَ الْخُسُوفُ وَالْكُسُوفُ فِي أَيَّامٍ غَيْرِ ہیں کہ قرآن اس بیان کی تصدیق کرتا ہے.اور اگر الْأَيَّامِ الْمُعْتَادَةِ بِالتَّقْلِيلِ أَوِ الزِّيَادَةِ، لَمَّا كسوف خسوف ایسے ایام میں ہوتا جو اس کے لئے سَلَمَاهُ الْقُرْآنُ حُسُوْفًا وَلَا كُسُوفًا، بَلْ ذَكَرَه سنت قدیمہ میں نہیں ہے تو قرآن اس کا نام خسوف بِلَفْظُ أَخَرَ وَبَيِّنَهُ بِبَيَانٍ أَظْهَرَ، وَلكِن كسوف نہ رکھتا بلکہ دوسرے لفظ سے بیان کرتا لیکن الْقُرْآنَ مَا فَعَلَ كَذَا كَمَا أَنتَ تَرى بَل سکمی قرآن نے ایسا نہیں کیا جیسا کہ تو دیکھتا ہے بلکہ اس کا الْخُسُوفَ خُسُوفًا لِيُفَهِمَ النَّاسَ أَمْرًا نام خوف ہی رکھا تا کہ لوگوں کو سمجھا دے کہ یہ خسوف

Page 156

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۲۹ سورة القيامة مَعْرُوفًا نَعَمْ، مَا ذَكَر الكُسُوفَ باشیم معروف ہے کوئی اور چیز نہیں ہاں قرآن نے کسوف کو الْكُسُوفِ لِيُشِيرَ إلى أَمْرٍ زَائِدٍ عَلَى الْمُعْتَادِ کسوف کے لفظ سے بیان نہیں کیا تا ایک امر زائد کی الْمَعْرُوفِ فَإِنَّ هَذَا الْكُسُوفَ الَّذِى ظَهَرَ طرف اشارہ کرے کیونکہ یہ سورج گرہن جو بعد چاند بَعْدَ خُسُوفِ الْقَمَرِ كَانَ غَرِيبًا وَنَادِرَةَ گرہن کے ہوا یہ ایک غیر معمولی اور نادرة الصور تھا اور الصُّورِ، وَإِنْ كُنْتَ تَطلُبْ عَلى هَذَا شَاهِدًا أَوْ اگر تو اس پر کوئی گواہ طلب کرتا ہے یا مشاہدہ کرنے تَبْغِى مُشَاهِدًا فَقَدْ شَاهَدتْ صُوَرَةُ الْغَرِيْبَةَ والوں کو چاہتا ہے پس اس سورج گرہن کی صور غریبہ وَأَشْعَالَهُ الْعَجِيْبَةَ إِن كُنتَ مِنْ ذَوِى اور اشکال عجیبہ مشاہدہ کر چکا ہے پھر تجھے اس بارہ میں الْعَيْنَيْنِ ثُمَّ كَفَاكَ في شَهَادَتِهِ مَا طبع في وہ خبر کفایت کرتی ہے جو دو مشہور اور مقبول اخبار یعنی الْجَرِيدَتَيْنِ الْمَشْهُورَتَيْنِ الْمَقْبُولَتَيْنِ أَغبى پانیر اور سول ملٹری گزٹ میں لکھی گئی ہے اور وہ الْجَرِيدَةَ الْإِنْكِلِيزِيَّةَ بَادِير ، وَسِوِلُ مِلْتَرى دونوں پرچے مارچ ۱۸۹۴ء کے مہینہ میں شائع كَزَتْ ، الْمُشَاعَتَيْنِ فِي مَارَج سَنَةَ ۱۸۹۴ء ہوئے ہیں.اور ان کی گواہیوں کی تفصیل یہ ہے کہ وَالْمُشْتَهَرَتَيْنِ وَأَمَّا تَفْصِيلُ الشَّهَادَتَيْنِ ان دونوں پرچوں میں لکھا ہے کہ یہ کسوف اپنے فَهُوَ أَنَّ هَذَا الْكُسُوفَ الْوَاقِعَ في 4 إبريل عجائبات میں متفرد اور غیر معمولی ہے یعنی وہ ایک ایسا سَنَةٌ ۱۸۹۴ء مُتَفَزِدْ بِطَرَائِفِهِ، وَلَمْ يُرَ مِثْلُه کسوف ہے جو اس کی نظیر پہلے نہیں دیکھی گئی اور اس مِنْ قَبْلُ في كَوَائِفِهِ، وَأَشْكالُه عجيبة کی شکلیں عجیب ہیں اور اس کی وضعیں غریب ہیں اور وَأَوْضَاعُهُ غَرِيبَةٌ وَهُوَ خَارِقٌ لِلْعَادَةِ وہ خارق عادت اور مخالف معمول اور سنت ہے.پس وَمُخَالِف لِلْمَعْمُولِ وَالسُّنَّةِ، فَقَبَت مَا جَاءَ فِی اس سے وہ غیر معمولی ہونا ثابت ہوا جس کا بیان الْقُرْآنِ وَحَدِيثِ خَاتَمِ النَّبِيِّينَ وَلَا شَكٍّ قرآن کریم اور حدیث خاتم الانبیاء میں موجود ہے أَنَّ اجتماع الْخُسُوفِ وَالْكُسُوفِ فِي شَهْرٍ اور کچھ شک نہیں کہ کسوف خسوف اس مہینہ رمضان رَمَضَانَ مَعَ هَذِهِ الْغَرَابَةِ أَمْرُ خَارِقُ لِلْعَادَةِ میں اس غیر معمولی حالت کے ساتھ جمع ہونا ایک امر وَإِذَا نَظَرْتَ مَعَهُ رَجُلًا يَقُولُ إِلى أَنَا الْمَسِيحُ خارق عادت ہے اور جب کہ اس کے ساتھ تو نے الْمَوْعُودُ وَالْمَهْدِى الْمَسْعُودُ وَالْمُلْهُمُ ایک آدمی کو دیکھا جو کہتا ہے کہ میں مسیح موعود اور مہدی الْمُرْسَلُ مِنَ الْحَضْرَةِ، وَكَانَ ظُهُورُهُ مُقَارِنا ہوں اور خسوف کسوف کے ساتھ اس کا ظہور مقارن

Page 157

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۰ سورة القيامة بِهذِهِ الْآيَةِ، فَلَا شَكَ أَنَّهَا أُمُورٌ مَا سُمِعَ ہے پس کچھ شک نہیں کہ یہ تمام امور ایسے ہیں جو پہلے کسی اجْتِمَاعُهَا فِي أَوَّلِ الزَّمَانِ - زمانہ میں جمع نہیں ہوئے.( ترجمہ اصل کتاب سے ) (نور الحق حصہ دوم ، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۲۱۳ تا ۲۱۵) انسان کا اپنا جسم ہی اس کو حشر نشر پر ایمان لانے کے لئے مجبور کرتا ہے کیونکہ ہر آن اس میں حشر نشر ہو رہا ہے یہاں تک کہ تین سال کے بعد یہ جسم رہتا ہی نہیں اور دوسرا جسم آ جاتا ہے یہی قیامت ہے.اس کے سوا یہ ضروری امر نہیں کہ کل مسائل کو عقلی طور پر ہی سمجھ لے بلکہ انسان کا فرض ہے کہ وہ اس بات پر ایمان لائے کہ اللہ تعالیٰ اپنے افعال اور صفات کے ساتھ موجود ہے اور اس کی صفات میں سے یہ بھی ہے يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ اور عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ.تو اس بات کے ماننے میں کہ قیامت ہوگی کیا شک ہو سکتا ہے خصوصاً ایسی حالت میں کہ ہم اس کا ثبوت یہاں بھی رکھتے اور دیکھتے ہوں.بے شک قیامت حق ہے اور اس کی قدرتوں کا ایک نمونه أَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ( البقرة : ۱۰۷) سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ حشر و نشر پر بھی قادر ہے اور حشر نشر قدرت ہی پر موقوف ہے.احکم جلد ۹ نمبر ۴۰ مورخه ۱۷ رنومبر ۱۹۰۵ء صفحه ۸) إِنَّ الدَّارَ قُطبى قَدْ رَوَى عَنْ مُحَمَّدٍ الْبَاقِرِ مِنِ ابْنِ دار قطنی نے امام محمد باقر سے روایت کی زَيْنِ الْعَابِدِينَ، وَهُوَ مِنْ بَيْتِ التَّطْهِيرِ وَالْعِصْمَةِ وَمِن ہے کہ ہمارے مہدی کے دو نشان ہیں کہ قَوْمٍ مُطَهَّرِينَ، قَالَ قَالَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ وَهُوَ مِن جب سے کہ زمین و آسمان پیدا کئے گئے الْأَسْنَاءِ الصَّادِقِينَ إِنَّ لِمَهْدِينَا ايَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا کبھی ظہور میں نہیں آئے یعنی یہ کہ قمر کی پہلی مُنْذُ خُلِقَ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُونَ يَنكَسِفُ الْقَمَرُ رات میں اس کی تین راتوں میں سے جو لأَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ يَعْنِي فِي أَوَّلِ لَيْلَةٍ مِّنْ لَيَالِي خسوف کے لئے مقرر ہیں خسوف ہوگا.اور خُسُوفِهِ وَلَا يُجَاوِزُ ذَالِكَ الْآوَانَ، وَيَقَعُ فِي الشَّهْرِ الَّذِى سورج کے تین دنوں میں سے جو اس کے أَنْزَلَ اللهُ فِيْهِ الْقُرْآنَ وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِي النِّصْفِ کسوف کے لئے مقرر ہیں.بیچ کے دن مِنْهُ يَعْنِى فِي نِصْفٍ مِنْ أَيَّامٍ كُسُوفِهَا الْمَعْلُومَةِ عِنْدَ میں کسوف ہوگا.اور یہ بھی اسی رمضان میں أَهْلِ الْعِرْفَانِ فِي ذَالِكَ الشَّهْرِ الْمُزَانِ تم ہوگا.اور یہ بھی جاننا چاہیے اعْلَمُ أَنَّ ايَةَ الْخُسُوفِ وَالْكُسُوفِ قَد ذَكَرَهَا الْقُرْآنُ که قرآن شریف نے کسوف خسوف کے في أَنْبَاء قُرْبِ الْقِيَامَةِ، وَإِنْ شِئْتَ فَاقْرَأْ هَذِهِ الْآيَةَ نشان کو قرب قیامت کے نشانوں میں سے

Page 158

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۱ سورة القيامة.وَكَرْرُهَا لِإِدْرَاكِ هَذِهِ الْحَقِيقَةِ فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ لکھا ہے اور اگر تو چاہے تو اس آیت کو پڑھ کہ برق وَخَسَفَ الْقَمَرُ وَ جُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ثُمَّ الْبَصَرُ وَخَسَفَ الْقَمَرُ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ تَدَبَّرُ بِالْخُشُوعِ وَالْخَشِيَّةِ، وَلَا يَذْهَبْ فِكْرُكَ اور یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ نشان قیامت کے إلى أَنه مِن وَقَائِعِ الْقِيَامَةِ، وَإِيَّاكَ وَهَذِهِ الْخطاً واقعات میں سے ہے کیونکہ جس خسوف اور کسوف کا الَّذِي يُبْعِدُكَ مِنَ الْمَحَجَّةِ فَإِنَّ الْخُسُوفَ اس جگہ ذکر ہے وہ اس دنیوی پیدائش پر موقوف ہے الَّذِي ذُكر ههنا هُوَ مَوْقُوفٌ عَلَى وُجُوْدِ هَذه - وجدیده که خسوف کسوف اوضاع مقررہ منتظمہ سے ذُكِرَهُهُنَا النَّشْأَةِ الدُّنْيَوِيَّةِ فَإِنَّهُ يَنْشَأُ مِنْ أَشْكَالِ پیدا ہوتا ہے اور اوقات معینہ اور ایام معلومہ میں نظامِيَّةٍ، وَأَوْضَاع مُقَرَّرَةٍ مُنتَظِمَةٍ وَيَكُونُ في اس کا ظہور ہوتا ہے اور خسوف کسوف میں یہ امر الْأَوْقَاتِ الْمُعَيَّنَةِ وَالْأَيَّامِ الْمَعْلُومَة ضروری ہے کہ آفتاب اور قمر بعد اس کے کہ اس الْمُشْتَهِرَةِ وَلَا بُدَّ فِيْهِ مِن رُّجُوعِ الشَّيرَينِ إلى حالت سے باہر آویں اپنی پہلی حالت کی طرف هَيْتَعِهِمَا السَّابِقَةِ بَعْدَ خُرُوجِهِمَا مِنْ هَذِهِ رجوع کریں مگر وہ نشان جو قیامت کے قائم ہونے الْحَالَةِ.وَأَمَّا الْآيَاتُ الَّتِي تَظهَرُ عِنْدَ وُقُوع کے وقت ظہور میں آئیں گے وہ اس وقت ظاہر ہوں وَاقِعَةِ السَّاعَةِ فَهِيَ تَفْتَصِی فَسَادَ هَذا الكَوْنِ گے جبکہ دنیا کا سلسلہ انگلی درہم برہم ہو جائے گا بِالْكُلِيَّةِ فَإِنَّهَا حَالَاتٌ لَا تَبْقَى الدُّنْيَا بَعْدَهَا کیونکہ وہ ایسی حالتیں ہیں کہ ان کے بعد دنیا نہیں وَلَا أَهْل هذهِ النَّارِ الثَّنِيَّةِ وَالْخُسُوف رہے گی اور نہ اہل دنیا ر ہیں گے اور کسوف خسوف وَالْكُسُوفُ يَتَعَلَّقَانِ بِنِظَامِ هَذِهِ النّفاقِ اس دنیا کے نظام سے تعلق رکھتے ہیں اور ابتدا سے وَيُوْجَدَانٍ فِيْهِ مِنْ بَلْوِ الْفِطْرَةِ، فَقَبَتَ أَنَّ اس میں بنائے گئے ہیں پس ثابت ہوا کہ وہ کسوف الْخُسُوفَ الَّذِي ذَكَرَهُ الْقُرْآنُ في صُحُفِهِ خسوف جس کا ذکر قرآن شریف میں ہے وہ قیامت الْمُطَهَّرَةِ هُوَ مِنَ الْأَثَارِ الْمُتَقَدِّمَةِ عَلَى کے لئے آثار متقدمہ ہیں نہ یہ کہ قیامت کے قائم ہو جانے کی علامتیں ہیں.( ترجمہ اصل کتاب سے ) الْقِيَامَةِ (نجم الهدی، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۱۱۷ تا ۱۲۱) یا درکھنا چاہیے کہ قرآن شریف کی گواہی صحت حدیث کسوف خسوف کی نسبت صرف ایک گواہی نہیں ہے بلکہ دو گواہیاں ہیں ایک تو یہ آیت کہ وَجُمعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ جو پیشگوئی کے طور پر بتلا رہی ہے کہ قیامت

Page 159

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۳۲ سورة القيامة کے قریب جو مہدی آخر الزمان کے ظہور کا وقت ہے چاند اور سورج کا ایک ہی مہینہ میں گرہن ہوگا.دوسری گواہی اس حدیث کے صحیح اور مرفوع متصل ہونے پر آیت لا يُظهرُ عَلَى غَيْبَةٍ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ اور : رَّسُولٍ ( الجن : ۲۸،۲۷) میں ہے کیونکہ یہ آیت علم غیب صحیح اور صاف کا رسولوں پر حصر کرتی ہے جس سے بالضرورت متعین ہوتا ہے کہ اِن لِمَهْدِينَا کی حدیث بلا شبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۳۵ حاشیه ) قرآن شریف میں اور بہت سی پیشگوئیاں ہیں جو اس ہمارے زمانہ میں پوری ہوگئی ہیں جیسے اجتماع کسوف قمر وشس جو آیت مجمع الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ سے معلوم ہوتی ہے.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۳۱،۲۳۰) یہ امر کس کو معلوم نہیں کہ اسلامی سن یعنی تیرہ سو برس میں کئی لوگوں نے محض افترا کے طور پر مہدی موعود ہونے کا دعوی بھی کیا بلکہ لڑائیاں بھی کیں مگر کون ثابت کر سکتا ہے کہ ان کے وقت میں چاند گرہن اور سورج گرہن رمضان کے مہینہ میں دونوں جمع ہوئے تھے اور جب تک یہ ثبوت پیش نہ کیا جائے تب تک بلا شبہ یہ واقعہ خارق عادت ہے کیونکہ خارق عادت اسی کو تو کہتے ہیں کہ اس کی نظیر دنیا میں نہ پائی جائے.اور صرف حدیث ہی نہیں بلکہ قرآن شریف نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے دیکھو آیت وَخَسَفَ الْقَمَرُ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ - (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۰۳، ۲۰۴) خدا تعالیٰ نے مختصر لفظوں میں فرما دیا کہ آخری زمانہ کی نشانی یہ ہے کہ ایک ہی مہینہ میں شمس اور قمر کے کسوف خسوف کا اجتماع ہوگا اور اسی آیت کے اگلے حصہ میں فرمایا کہ اس وقت مکذب کو فرار کی جگہ نہیں رہے گی جس سے ظاہر ہے کہ وہ کسوف خسوف مہدی معہود کے زمانہ میں ہو گا.خلاصہ یہ ہے کہ وہ کسوف خسوف خدا کی پیشگوئی کے مطابق واقع ہوگا.اس لئے مکذبوں پر حجت پوری ہو جائے گی.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۰۴ حاشیه ) قرآن شریف میں آخری زمانہ کی نسبت ایک یہ بھی پیشگوئی تھی کہ جب آخری زمانہ میں دوسرے آثار قیامت ظاہر ہوں گے اسی زمانہ میں ایک خاص وضع کا کسوف خسوف بھی ہو گا جیسا کہ اس آیت میں بھی اشارہ ہے وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ یعنی سورج اور چاند جمع کئے جائیں گے.یہ آیت سورۃ قیامت کی ابتدائی سطروں میں ہے اور اسی وجہ سے اس سورت کا نام سورۃ قیامت رکھا گیا ہے اور یہ کسوف خسوف آثار قیامت

Page 160

۱۳۳ سورة القيامة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں سے ٹھہرایا گیا جیسا کہ مسیح خاتم الخلفاء کو بھی آثار قیامت سے ٹھہرایا گیا اور اس آیت سے پہلے یہ آیت ہے فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ یعنی جس وقت پتھرا جائیں گی آنکھیں یعنی وہ ایسے دن ہوں گے جو دنیا پر ہولناک عذاب نازل ہوں گے.ایک عذاب ختم نہیں ہوگا جو دوسرا موجود ہو جائے گا.پھر بعد کی آیت میں فرمایا يَقُولُ الْإِنْسَانُ يَوْمَيذٍ أَيْنَ الْمَفَرُّ كَلَّا لَا وَزَرَ - یعنی اس دن انسان کہے گا کہ اب ہم ان متواتر عذابوں سے کہاں بھاگ جائیں اور بھا گنا غیر ممکن ہو گا یعنی وہ دن انسان کے لئے بڑی مصیبت کے دن ہوں گے اور ان کا ہولناک نظارہ بے حواس کر دے گا.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۲۱ حاشیه ) إلى رَبِّكَ يَوْمَينِ الْمُسْتَقَرُ.اس آیت کو قیامت پر چسپاں کرنا غلطی ہے کیونکہ اس دن تو خدا کی طرف رجوع کرنا کسی کام نہ آوے گا بلکہ یہ اس زمانہ کی حالت ہے کہ طاعون کے بارے میں کوئی حیلہ حوالہ کریں ہر گز کام نہ آوے گا.آخر مستقر خدا تعالیٰ ہی ہو گا.لوگ جب اس کو مانیں گے تب وہ اس سے رہائی دے گا.اَيْنَ الْمَفَرُّ بھی اسی پر چسپاں ہے کیونکہ دوسری آفات میں تو کوئی نہ کوئی مفر ہوتا ہے مگر طاعون میں کوئی مفر نہیں ہے صرف خدا تعالی کی پناہ ہی کام آوے گی.البدر جلد ۳ نمبر ۲۵ مورخه کیم جولائی ۱۹۰۴ صفحه ۶) وجُوهٌ يَوْمَن نَاضِرَةٌ إِلى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ اس دن مومنوں کے منہ تر و تازہ اور خوبصورت ہوں گے اور وہ اپنے رب کو دیکھیں گے.سرمه چشمه آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۵۷) قیامت کو وہ منہ تر و تازہ ہوں گے جو اپنے رب کو دیکھتے ہوں گے.(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۷۲) إلى رَبَّهَا نَاظِرَةٌ اس سے دیدار ثابت ہوتا ہے.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۴۶۳ حاشیه )

Page 161

Page 162

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۱۳۵ سورة الدهر بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الدهر بیان فرموده سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ هَلْ عَلى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَنْ كُوران کیا انسان پر یعنی تجھ پر وہ وقت نہیں گزرا کہ تیرا دُنیا میں کچھ بھی ذکر و تذکرہ نہ تھا یعنی تجھ کو کوئی نہیں جانتا تھا کہ تو کون ہے اور کیا چیز ہے اور کسی شمار و حساب میں نہ تھا یعنی کچھ بھی نہ تھا.یہ گذشتہ تلطفات اور احسانات کا حوالہ ہے تامحسن حقیقی کے آئندہ فضلوں کے لئے ایک نمونہ ٹھہرے.(براہین احمد یه چهار تصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۸۲ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاحِ نَبْتَلِيْهِ فَجَعَلْنَهُ سَمِيعًا بَصِيرًان ہم انسان کو ملے ہوئے نطفہ سے پیدا کرتے ہیں یعنی مرد اور عورت کے نطفہ سے.إنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَفِرِينَ سَلْسِلَا وَأَغْلَا وَسَعِيدًا (چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۲۴) ہم نے منکروں کے لئے جو سچائی کو قبول کرنا نہیں چاہتے.زنجیر میں تیار کر دی ہیں اور طوق گردن اور ایک افروختہ آگ کی سوزش.اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ سچے دل سے خدا تعالیٰ کو نہیں ڈھونڈتے.ان

Page 163

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۳۶ سورة الدهر پر خدا کی طرف سے رجعت پڑتی ہے وہ دنیا کی گرفتاریوں میں ایسے مبتلا رہتے ہیں کہ گویا پا بز نجیر ہیں.اور زمینی کاموں میں ایسے نگونسار ہوتے ہیں کہ گویا ان کی گردن میں ایک طوق ہے جو ان کو آسمان کی طرف سر نہیں اٹھانے دیتا اور ان کے دلوں میں حرص و ہوا کی ایک سوزش لگی ہوئی ہوتی ہے کہ یہ مال حاصل ہو جائے اور یہ جائیدا دل جائے.اور فلاں ملک ہمارے قبضہ میں آ جائے اور فلاں دشمن پر ہم فتح پا جائیں.اس قدر روپیہ ہو.اتنی دولت ہو.سو چونکہ خدائے تعالیٰ ان کو نالائق دیکھتا ہے.اور برے کاموں میں مشغول پاتا ہے اس لئے یہ تینوں بلائیں ان کو لگا دیتا ہے.اور اس جگہ اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جب انسان سے کوئی فعل صادر ہوتا ہے تو اسی کے مطابق خدا بھی اپنی طرف سے ایک فعل صادر کرتا ہے مثلاً انسان جس وقت اپنی کوٹھڑی کے تمام دروازوں کو بند کر دے تو انسان کے اس فعل کے بعد خدا تعالیٰ کا یہ فعل ہوگا کہ وہ اس کو ٹھٹری میں اندھیرا پیدا کر دے گا.کیونکہ جو امور خدا تعالیٰ کے قانون قدرت میں ہمارے کاموں کے لئے بطور ایک نتیجہ لازمی کے مقدر ہو چکے ہیں وہ سب خدا تعالیٰ کے فعل ہیں.وجہ یہ کہ وہی علت العلل ہے.ایسا ہی اگر مثلاً کوئی شخص زہر قاتل کھالے تو اس کے اس فعل کے بعد خدا تعالیٰ کا یہ فعل صادر ہوگا کہ اسے ہلاک کر دے گا.ایسا ہی اگر کوئی ایسا بیجا فعل کرے جو کسی متعدی بیماری کا موجب ہو.تو اس کے اس فعل کے بعد خدا تعالیٰ کا یہ فعل ہوگا کہ وہ متعدی بیماری اس کو پکڑلے گی.پس جس طرح ہماری دنیوی زندگی میں صریح نظر آتا ہے کہ ہمارے ہر ایک فعل کے لئے ایک ضروری نتیجہ ہے اور وہ نتیجہ خدا تعالی کا فعل ہے.ایسا ہی دین کے متعلق بھی یہی قانون ہے.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۸۹،۳۸۸) ہم نے کافروں کے لئے جو ہماری محبت دل میں نہیں رکھتے اور دنیا کی طرف جھکے ہوئے ہیں.زنجیر اور طوق گردن اور دل کے جلنے کے سامان تیار کر رکھے ہیں اور دنیا کی محبت کی اُن کے پیروں میں زنجیریں ہیں اور گردنوں میں ترک خدا کا ایک طوق ہے جس سے سر اٹھا کر اوپر کو نہیں دیکھ سکتے اور دنیا کی طرف جھکے جاتے ہیں.اور دنیا کی خواہشوں کی ہر وقت ان کے دلوں میں ایک جلن ہے.لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۵۸) کوئی یہ نہ کہے کہ کفار کے پاس بھی مال و دولت اور املاک ہوتے ہیں اور وہ اپنی عیش وعشرت میں منہمک اور مست رہتے ہیں.میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ وہ دنیا کی آنکھ میں بلکہ ذلیل ذلیل دنیا داروں اور ظاہر پرستوں کی آنکھ میں خوش معلوم دیتے ہیں، مگر در حقیقت میں وہ ایک جلن اور دکھ میں مبتلا ہوتے ہیں.تم نے ان کی

Page 164

۱۳۷ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الدهر صورت کو دیکھا ہے مگر میں ایسے لوگوں کے قلب پر نگاہ کرتا ہوں.تو ایک سعیر اور سلاسل واغلال میں جکڑے ہوئے ہیں.جیسے فرمایا ہے اِنَّا اَعْتَدْنَا لِلكَفِرِينَ سَلسلاً وَ اَهْلاً وَ سَعِيرًا وہ نیکی کی طرف آہی نہیں سکتے.اور ایسے اغلال ہیں کہ خدا کی طرف ان اغلال کی وجہ سے ایسے دبے پڑے ہیں کہ حیوانوں اور بہائم سے بھی بدتر ہو جاتے ہیں.ان کی آنکھ ہر وقت دنیا ہی کی طرف لگی رہتی ہے.اور زمین کی طرف جھکتے جاتے ہیں.پھر اندر ہی اندر ایک سوزش اور جلن بھی لگی ہوئی ہوتی ہے.اگر مال میں کمی ہو جائے یا حسب مراد تد بیر میں کامیابی نہ ہو تو کڑھتے اور جلتے ہیں.یہاں تک کے بعض اوقات سودائی اور پاگل ہو جاتے ہیں.یا عدالتوں میں مارے مارے پھرتے ہیں.یہ واقعی بات ہے کہ بے دین آدمی سعیر سے خالی نہیں ہوتا ، اس لئے کہ اس کو قرار اور سکون نصیب نہیں ہوتا ، جو راحت اور تسلی کا لازمی نتیجہ ہے.جیسے شرابی ایک جام شراب پی کر ایک اور مانگتا ہے اور ایک جلن سی لگی رہتی ہے.ایسا ہی دنیا دار بھی سعیر میں ہے.اس کی آتش آز ایک دم بھی بجھ نہیں سکتی.سچی خوشحالی حقیقت میں ایک متقی ہی کے لئے ہے.جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ اس کے لئے دو جنت ہیں.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۱ مورخه ۲۴ / مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۳) اِنَّ الْاَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِنْ كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورَانَ عَيْنَا يَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللهِ يُفَجَّرُونَهَا تَفْجِيران وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبّهِ مِسْكِينَا وَ يَتِيمَا وَ أَسِيرًا إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللهِ لا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاء وَ لَا شُكُورًا وَيُطَافُ عَلَيْهِمْ بِأَنِيَةٍ مِنْ فِضَّةٍ وَ اَلْوَابِ كَانَتْ قَوَارِيرَ القَوَارِيرَاً مِنْ فِضَّةٍ قَدَّرُوهَا تَقْدِيرًا وَيُسْقَوْنَ فِيهَا كَأْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنْجَبِيلًا نَ عَيْنَا فِيهَا تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا وہ جو نیکو کار ہیں وہ اسی دنیا میں ایسا کا فوری شربت پی رہے ہیں جس نے ان کے دلوں میں سے دنیا کی محبت ٹھنڈی کر دی ہے اور دنیا طلبی کی پیاس بجھا دی ہے.کا فوری شربت کا ایک چشمہ ہے جو ان کو عطا کیا جاتا ہے اور وہ اس چشمہ کو پھاڑ پھاڑ کر نہر کی صورت پر کر دیتے ہیں تا وہ نزدیک اور دُور کے پیاسوں کو اس میں

Page 165

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۸ سورة الدهر شریک کر دیں.اور جب وہ چشمہ نہر کی صورت پر آجاتا ہے اور قوت ایمانی بڑھ جاتی ہے اور محبت الہی نشو ونما پانے لگتی ہے تب اُن کو ایک اور شربت پلایا جاتا ہے جو تھیلی شربت کہلاتا ہے.یعنی پہلے تو وہ کا فوری شربت پیتے ہیں جس کا کام صرف اس قدر ہے کہ دنیا کی محبت اُن کے دلوں پر سے ٹھنڈی کر دے لیکن بعد اس کے وہ ایک گرم شربت کے بھی محتاج ہیں تا خدا کی محبت کی گرمی اُن میں بھڑ کے کیونکہ صرف بدی کا ترک کرنا کمال نہیں ہے.پس اسی کا نام زنجیلی شربت ہے.اور اس چشمہ کا نام سلسبیل ہے جس کے معنے ہیں خدا کی راہ پوچھ.لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۵۹،۱۵۸) کافور کا لفظ اس واسطے اس آیت میں اختیار فرمایا گیا ہے کہ لغت عرب میں کفر دبانے کو اور ڈھانکنے کو کہتے ہیں.سو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انہوں نے ایسے خلوص سے انقطاع اور رجوع الی اللہ کا پیالہ پیا ہے کہ دنیا کی محبت بالکل ٹھنڈی ہوگئی ہے.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ تمام جذبات دل کے خیال سے ہی پیدا ہوتے ہیں.اور جب دل نالائق خیالات سے بہت ہی دور چلا جائے اور کچھ تعلقات ان سے باقی نہ رہیں تو وہ جذبات بھی آہستہ آہستہ کم ہونے لگتے ہیں یہاں تک کہ نابود ہو جاتے ہیں.سو اس جگہ خدا تعالیٰ کی یہی غرض ہے اور وہ اس آیت میں یہی سمجھاتا ہے کہ جو اس کی طرف کامل طور سے جھک گئے وہ نفسانی جذبات سے بہت ہی دور نکل گئے ہیں اور ایسے خدا کی طرف جھک گئے ہیں کہ دنیا کی سرگرمیوں سے ان کے دل ٹھنڈے ہو گئے اور ان کے جذبات ایسے دب گئے جیسا کہ کا فورزہریلے مادوں کو دبا دیتا ہے.اور پھر فرمایا کہ وہ لوگ اس کا فوری پیالہ کے بعد وہ پیالے پیتے ہیں جن کی ملونی زنجبیل ہے.اب جاننا چاہئے کہ زنجبیل دولفظوں سے مرکب ہے یعنی زنا اور جہل سے.اور زنا لغت عرب میں اوپر چڑھنے کو کہتے ہیں اور جبل پہاڑ کو.اس کے ترکیبی معنی یہ ہیں کہ پہاڑ پر چڑھ گیا.اب جاننا چاہئے کہ انسان پر ایک زہریلی بیماری کے فرو ہونے کے بعد اعلیٰ درجہ کی صحت تک دو حالتیں آتی ہیں.ایک وہ حالت جبکہ زہریلے مواد کا جوش بکلی جاتا رہتا ہے اور خطرناک مادوں کا جوش رُوبہ اصلاح ہو جاتا ہے اور تمی کیفیات کا حملہ بخیر و عافیت گزرجاتا ہے اور ایک مہلک طوفان جو اٹھا تھا نیچے دب جاتا ہے لیکن ہنوز اعضاء میں کمزوری باقی ہوتی ہے.کوئی طاقت کا کام نہیں ہوسکتا.ابھی مردہ کی طرح افتاں و خیزاں چلتا ہے.اور دوسری وہ حالت ہے کہ جب اصلی صحت عود کر آتی اور بدن میں طاقت بھر جاتی ہے اور قوت کے بحال ہونے سے یہ حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے کہ بلا تکلف پہاڑ کے اوپر چڑھ جائے اور نشاط خاطر سے اونچی گھاٹیوں پر دوڑتا چلا جائے.سوسلوک کے

Page 166

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۳۹ سورة الدهر تیسرے مرتبہ میں یہ حالت میسر آتی ہے ایسی حالت کی نسبت اللہ تعالیٰ آیت موصوفہ میں اشارہ فرماتا ہے کہ انتہائی درجہ کے باخدا لوگ وہ پیالے پیتے ہیں.جن میں زنجبیل کی ہوئی ہے یعنی وہ روحانی حالت کی پوری قوت پا کر بڑی بڑی گھاٹیوں پر چڑھ جاتے ہیں اور بڑے مشکل کام ان کے ہاتھ سے انجام پذیر ہوتے ہیں اور خدا کی راہ میں حیرت ناک جانفشانیاں دکھلاتے ہیں.اس جگہ یہ بھی واضح رہے کہ علم طب کی رو سے زنجبیل وہ دوا ہے جس کو ہندی میں سونٹھ کہتے ہیں.وہ حرارت غریزی کو بہت قوت دیتی ہے اور دستوں کو بند کرتی ہے اور اس کا زنجبیل اسی واسطے نام رکھا گیا ہے کہ گویا وہ کمزور کو ایسا قوی کرتی ہے اور ایسی گرمی پہنچاتی ہے جس سے وہ پہاڑوں پر چڑھ سکے.ان متقابل آیتوں کے پیش کرنے سے جن میں ایک جگہ کا فور کا ذکر ہے اور ایک جگہ زنجبیل کا.خدا تعالیٰ کی یہ غرض ہے کہ تا اپنے بندوں کو سمجھائے کہ جب انسان جذبات نفسانی سے نیکی کی طرف حرکت کرتا ہے تو پہلے پہل اس حرکت کے بعد یہ حالت پیدا ہوتی ہے کہ اس کے زہریلے مواد نیچے دبائے جاتے ہیں.اور نفسانی جذبات رو بھی ہونے لگتے ہیں جیسا کہ کا فورزہریلے مواد کو دبا لیتا ہے اسی لئے وہ ہیضہ اور محرقہ تہوں میں مفید ہے اور پھر جب زہریلے مواد کا جوش بالکل جاتا رہے اور ایک کمزور صحت جو ضعف کے ساتھ ملی ہوئی ہوتی ہے حاصل ہو جائے تو پھر دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ وہ ضعیف بیمار زنجبیل کے شربت سے قوت پاتا ہے.اور زنجبیلی شربت خدا تعالیٰ کے حسن و جمال کی جلی ہے جو روح کی غذا ہے.جب اس تجلی سے انسان قوت پکڑتا ہے تو پھر بلند اور اونچی گھاٹیوں پر چڑھنے کے لائق ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ایسی حیرت ناک سختی کے کام دکھلاتا ہے کہ جب تک یہ عاشقانہ گرمی کسی کے دل میں نہ ہو ہرگز ایسے کام دکھلا نہیں سکتا.سو خدا تعالیٰ نے اس جگہ ان دو حالتوں کے سمجھانے کے لئے عربی زبان کے دو لفظوں سے کام لیا ہے.ایک کافور سے جو نیچے دبانے والے کو کہتے ہیں اور دوسرے زنجبیل سے جواو پر چڑھنے والے کو کہتے ہیں.اور اس راہ میں بھی دو حالتیں سالکوں کے لئے واقع ہیں.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۸۶ تا ۳۸۸) جو لوگ حقیقی نیکی کرنے والے ہیں ان کو وہ جام پلائے جائیں گے جن کی ملونی کافور کی ہوگی یعنی دنیا کی سوزشیں اور حسرتیں اور ناپاک خواہشیں ان کے دل سے دور کر دی جائیں گی.کافور کفر سے مشتق ہے اور کفر لغت عرب میں دبانے اور ڈھانکنے کو کہتے ہیں.مطلب یہ کہ ان کے جذبات ناجائز دبائے جائیں گے

Page 167

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۰ سورة الدهر اور وہ پاک باطن ہو جائیں گے اور معرفت کی خنکی ان کو پہنچے گی.پھر فرماتا ہے کہ وہ لوگ قیامت کو اس چشمہ کا پانی پئیں گے جس کو وہ آج اپنے ہاتھ سے چیر رہے ہیں.اس جگہ بہشت کی فلاسفی کا ایک گہرا راز بتلایا ہے اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۵۶) جس کو سمجھنا ہو سمجھ لے.مومن جو خدا کے نیک بندے ہیں وہ کا فوری پیالے پیتے ہیں کافور کا لفظ اس لئے اختیار کیا گیا ہے کہ کفر ڈھانکنے کو کہتے ہیں.اور کافور مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی بہت ڈھانکنے والا.ایسے ہی طاعون بھی ہے.میں سمجھتا ہوں طاعون اسی لئے نام رکھا ہے کہ یہ اہل حق پر طعن کرنے سے پیدا ہوتی ہے اور طاعون اور دیگر امراض وبائی ہیضہ میں کا فور ایک عمدہ چیز ہے اور مفید ثابت ہوئی ہے غرض کا فوری پیالے کا پہلے ذکر کیا ہے اور یہ اس لئے ہے کہ اول یہ بتایا جائے کہ کامل ہونے کے لئے کا فوری پیالہ پہلے پینا چاہئے تا کہ دنیا کی محبت سرد ہو جائے اور وہ فسق و فجور کے خیالات جو دل سے پیدا ہوتے تھے اور جن کی زہر روح کو ہلاک کرتی تھی دبائے جائیں اور اس طرح پر گناہ کی حالت سے انسان نکل آئے پس چونکہ پہلے میل کچیل کا دور ہونا ضروری تھا اس لئے کا فوری پیالہ پلایا گیا.اس کے بعد دوسرا حصہ زنجبیلی ہے.زنجبیل اصل میں دولفظوں سے مرکب ہے زنا اور جبل سے.اور زنا لغت عرب میں اوپر چڑھنے کو کہتے ہیں اور جبل پہاڑ کو.اور اس مرکب لفظ کے معنے یہ ہوئے کہ پہاڑ پر چڑھ گیا اور یہ صاف بات ہے کہ ایک زہر یلے اور وبائی مرض کے بعد انسان کو اعلیٰ درجہ کی صحت تک پہنچانے کے واسطے دو حالتوں میں سے گزرنا ہوتا ہے پہلی وہ حالت ہوتی ہے جب کہ زہریلے اور خطرناک مادے رک جاتے ہیں اور ان میں اصلاح کی صورت پیدا ہوتی ہے اور زہر یلے حملوں سے نجات ملتی ہے اور وہ مواد دبائے جاتے ہیں مگر اعضاء بدستور کمزور ہوتے ہیں اور ان میں کوئی قوت اور سکت نہیں ہوتی جس سے وہ کام کرنے کے قابل ہو ایک ربودگی کی سی حالت ہوتی ہے یہ وہ حالت ہوتی ہے جس کو کا فوری پیالے پینے سے تعبیر کیا گیا ہے.اس حالت میں گناہ کا ز ہر دبایا جاتا ہے اور اس جوش کو ٹھنڈا کیا جاتا ہے جو نفس کی سرکشی اور جوش کی حالت میں ہوتا ہے مگر ابھی نیکی کرنے کی قوت نہیں آتی.پس دوسری حالت جو تخیلی حالت ہے وہ وہی ہے جب کہ صحت کامل کے بعد توانائی اور طاقت آ جائے یہاں تک کہ پہاڑوں پر بھی چڑھ سکے.اور زنجبیل بجائے خود حرارت غریزی کو بڑھاتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس ذکر سے بتایا کہ پہلے مومنوں کے گناہوں کی حالت پر موت آتی ہے اور پھر انہیں نیکی کی توفیق اور

Page 168

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۴۱ سورة الدهر ) قوت ملتی ہے.گناہ کی حالت میں انسان پستی اور ذلت میں ہوتا ہے اور جوں جوں گناہ کرتا جاتا ہے نیچے ہی نیچے چلا جاتا ہے.لیکن جب گناہوں پر موت آتی ہے تو وہ اس پستی کے گڑھے میں ہی پڑا ہوا ہوتا ہے جب تک او پر چڑھنے کے لئے اسے زنجیلی شربت نہ ملے پس نیکیوں کی توفیق عطا ہونے پر وہ پھر اوپر چڑھنا شروع کرتا ہے اور یہ پہاڑی گھاٹیاں وہی ہیں جو صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں بیان ہوئی ہیں.خدا تعالیٰ کے راست بازوں اور منعم علیہ کی راہ ہی وہ اصل مقصود ہے جو انسان کے لئے خدا تعالیٰ نے رکھی ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۴۵ مورخه ۱۰؍ دسمبر ۱۹۰۱ صفحه ۲) ایسے لوگ جو خدا میں محو ہیں خدا تعالیٰ نے ان کو وہ شربت پلایا ہے جس نے ان کے دل اور خیالات اور ارادات کو پاک کر دیا.نیک بندے وہ شربت پی رہے ہیں جس کی ملونی کافور ہے.وہ اس چشمہ سے پیتے ہیں جس کو وہ آپ ہی چیرتے ہیں.اخبار بدر جلد ۲ نمبر ۲۶، ۲۸،۲۷ مورخه ۲۸ جون و ۵ و ۱۲ ؍جولائی ۱۹۰۶ صفحه ۳) مومن کے نفس کی تکمیل دو شربتوں کے پینے سے ہوتی ہے ایک شربت کا نام کا فوری ہے اور دوسرے کا نام زنجبیلی ہے.کا فوری شربت تو یہ ہے کہ اس کے پینے سے نفس بالکل ٹھنڈا ہو جاوے اور بدیوں کے لیے کسی قسم کی حرارت اس میں محسوس نہ ہو.جس طرح پر کا فور میں یہ خاصہ ہوتا ہے کہ وہ زہریلے مواد کو دبا دیتا ہے.اس لئے اسے کافور کہتے ہیں اسی طرح پر یہ کا فوری شربت گناہ اور بدی کی زہر کو دبا دیتا ہے اور وہ مواد رڈ یہ جو اُٹھ کر انسان کی روح کو ہلاک کرتے ہیں ان کو اُٹھنے نہیں دیتا بلکہ بے اثر کر دیتا ہے.دوسرا شربت زکھیلی ہے جس کے ذریعہ سے انسان میں نیکیوں کے لیے ایک قوت اور طاقت آتی ہے اور پھر حرارت پیدا ہوتی ہے.پس اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيهِم تو اصل مقصد اور غرض ہے یہ گویا ز کھیلی شربت ہے اور غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّايِّينَ کا فوری شربت ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۵ صفحه ۲) قرآن شریف میں ایک جگہ ذکر کیا ہے کہ دو حالتیں ہوتی ہیں ایک حالت تو وہ ہوتی ہے کہ يَشْرَبُونَ مِنْ كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا یعنی ایسا شربت پی لیتے ہیں جس کی ملونی کا فور ہو.اس سے یہ مطلب ہے کہ دنیا کی محبت سے دل ٹھنڈا ہو جاتا ہے.کافور ٹھنڈی چیز ہے اور زہروں کو دبا لیتا ہے، ہیضہ اور وبائی امراض کے لیے مفید ہے.پس پہلا مرحلہ تقویٰ کا وہ ہے جس کو استعارہ کے رنگ میں يَشْرَبُونَ مِنْ كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا

Page 169

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۲ سورة الدهر گا فورا.ایسے لوگ جو کا فوری شربت پی لیتے ہیں.ان کے دل ہر قسم کی خیانت ظلم ، ہر نوع کی بدی اور برے قومی سے دل ٹھنڈے ہوتے ہیں.اور یہ بات ان میں طبعاً اور فطرتا پیدا ہوتی ہے نہ کہ تکلف سے.وہ ہر قسم کی بدیوں سے بیزار ہو جاتے ہیں.یہ سچ ہے کہ یہ معمولی بات نہیں.بدیوں کا چھوڑ دینا آسان نہیں.انجیل کا اکثر حصہ اس سے پر ہے کہ برے کام نہ کر و.مگر یہ پہلا زینہ ہے تکمیل ایمان کا.اسی پر قانع نہیں ہو جانا چاہیے.ہاں اگر انسان اس پر عمل کرے اور بدیوں کو چھوڑ دے تو دوسرے حصہ کے لیے اللہ تعالی آپ ہی مدد دیتا ہے.یہ بات انسان منہ سے تو کہہ سکتا ہے کہ میں بدیوں سے پر ہیز کرتا ہوں لیکن جب مختلف قسم کے برے کام سامنے آتے ہیں.تو بدن کانپ جاتا ہے.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۲ مورخه ۲۴ / جون ۱۹۰۶ صفحه ۳) تقویٰ کیا ہے؟ ہر قسم کی بدی سے اپنے آپ کو بچانا.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابرار کے لیے پہلا انعام شربت کا فوری ہے.اس شربت کے پینے سے دل برے کاموں سے ٹھنڈے ہو جاتے ہیں.اس کے بعد ان کے دلوں میں برائیوں اور بدیوں کے لیے تحریک اور جوش پیدا نہیں ہوتا.ایک شخص کے دل میں یہ خیال تو آ جاتا ہے کہ یہ کام اچھا نہیں یہاں تک کہ چور کے دل میں بھی یہ خیال آ ہی جاتا ہے مگر جذ بہ دل سے وہ چوری بھی کر ہی لیتا ہے.لیکن جن لوگوں کو شربت کا فوری پلا دیا جاتا ہے ان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ ان کے دل میں بدی کی تحریک ہی پیدا نہیں ہوتی بلکہ دل برے کاموں سے بیزار اور متنفر ہو جاتا ہے.گناہ کی تمام تحریکوں کے مواد د بادیئے جاتے ہیں.یہ بات خدا تعالیٰ کے فضل کے سوا میسر نہیں آتی.جب انسان دعا اور عقد ہمت سے خدا تعالیٰ کے فضل کو تلاش کرتا ہے اور اپنے نفس کے جذبات پر غالب آنے کی سعی کرتا ہے تو پھر یہ سب باتیں فضل الہی کو کھینچ لیتی ہیں اور اُسے کا فوری جام پلایا جاتا ہے.جو لوگ اس قسم کی تبدیلی کرتے ہیں اللہ تعالی انہیں زمرہ ابدال میں داخل فرماتا ہے.اور یہی تبدیلی ہے جو ابدال کی حقیقت کو ظاہر کرتی ہے.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۴ مورخه ۱۰ر جولائی ۱۹۰۶ صفحه ۲) انسان کا اتنا ہی کمال نہیں ہے کہ بدیاں چھوڑ دے کیونکہ اس میں اور بھی شریک ہیں یہاں تک کہ حیوانات بھی بعض امور میں شریک ہو سکتے ہیں.بلکہ انسان کامل نیک تب ہی ہوتا ہے کہ نہ صرف بدیوں کو ترک کرے بلکہ اس کے ساتھ نیکیوں کو بھی کامل درجہ تک پہنچا دے.پس جب ترک شر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُسے کا فوری شربت پلاتا ہے.جس سے یہ مراد ہے کہ وہ جوش اور تحریکیں جو بدی کے لیے پیدا ہوتی تھیں سرد

Page 170

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۳ سورة الدهر ہو جاتی ہیں اور بدی کے مواد دب جاتے ہیں.اس کے بعد اس کو دوسرا شربت پلا یا جاتا ہے جو قرآن کریم کی اصطلاح میں شربت بنجیلی ہے جیسا کہ فرما یا يُسْقَوْنَ فِيهَا كَأْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنْجَبِيلًا - زنجبيل مرکب ہے زنا اور جَبَل سے زَنَا الجَبَل کے یہ معنے ہیں کہ ایسی حرارت اور گرمی پیدا ہو جاوے کہ پہاڑ پر چڑھ جاوے.زنجبیل میں حرارت غریزی رکھی گئی ہے اور اس کے ساتھ انسان کی حرارت غریزی کو فائدہ پہنچتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بڑے بڑے کام جو میری راہ میں کئے جاتے ہیں جیسے صحابہ نے کئے.یہاں تک کہ انہوں نے اپنی جانوں سے دریغ نہیں کیا.خدا تعالیٰ کی راہ میں سر کٹوا دینا آسان امر نہیں ہے.جس کے بچے چھوٹے چھوٹے اور بیوی جوان ہو.جب تک کوئی خاص گرمی اس کی روح میں پیدا نہ ہو.کیوں کر انہیں یتیم اور بیوہ چھوڑ کر سر کٹوالے.میں صحابہ سے بڑھ کر کوئی نمونہ پیش نہیں کر سکتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ اعلیٰ درجہ کی قوت قدی اور تزکیہ نفس کی طاقت کا ہے اور صحابہ کا نمونہ اعلیٰ درجہ کی تبدیلی اور فرمانبرداری کا ہے.پس ایسی طاقت اور یہ قوت اس زنجیلی شربت کی تاثیر سے پیدا ہوتی ہے اور حقیقت میں کا فوری شربت کے بعد طاقت کو نشو ونما دینے کے لیے اس زنجیلی شربت کی ضرورت بھی تھی.اولیاء اور ابدال جو خدا تعالیٰ کی راہ میں سرگرمی اور جوش دکھاتے ہیں.اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ زنجیلی جام پیتے رہتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دعویٰ کیا تو غور کرو کہ کس قدر مخالفت کا بازار گرم تھا.ایک طرف مشرک تھے.دوسری طرف عیسائی بے حد جوش دکھا رہے تھے جنہوں نے ایک عاجز انسان کو خدا بنا رکھا تھا اور ایک طرف یہودی سیاہ دل تھے.یہ بھی اندر ہی اندر ریشہ دوانیاں کرتے اور مخالفوں کو اکساتے اور اُبھارتے تھے.غرض جس طرف دیکھو مخالف ہی مخالف نظر آتے تھے.قوم دشمن، پرائے دشمن، جدھر نظر اُٹھاؤ دشمن ہی دشمن تھے.ایسی حالت اور صورت میں وہ زنجیلی شربت ہی تھا جو آپ کو اپنے پیغام رسالت کی تبلیغ کے لیے آگے ہی آگے لے جاتا تھا.کسی قسم کی مخالفت کا ڈر آپ کو باقی نہ رہا تھا.اس راہ میں مرنا سہل اور آسان معلوم ہوتا تھا چنانچہ صحابہ اگر موت کو اس راہ میں آسان اور آرام دہ چیز نہ سمجھ لیتے تو کیوں جانیں دیتے.میں سچ کہتا ہوں کہ جب تک یہ شربت نہیں پیتا ایمان کا ٹھکانا نہیں.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۴ مورخہ ۱۰؍جولائی ۱۹۰۶ ء صفحه ۳) قرآن شریف نے خوب مثال دی ہے اور وہ یہ کہ کوئی مومن کامل نہیں ہوسکتا جب تک وہ دو شربت نہ پی لے.پہلا شربت گناہ کی محبت ٹھنڈی ہونے کا جس کا نام قرآن شریف نے شربت کا فوری رکھا ہے.اور

Page 171

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۴ دوسرا شربت خدا کی محبت دل میں بھرنے کا جس کا نام قرآن شریف نے شربت زنجیلی رکھا ہے.سورة الدهر ) لیکچر سیالکوٹ ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۳۵) صرف ترک ذنوب ہی نیکی کی شرط نہیں بلکہ کسب خیر بھی اعلیٰ جزو ہے.کوئی انسان کامل نہیں ہوسکتا.جب تک دونوں قسم کے شربت نہیں پی لیتا.سورۃ دہر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ایک شربت کا فوری ہوتا ہے اور دوسرا شربت نجیبلی ہوتا.یہ مقربوں اور برگزیدہ لوگوں کو دونوں شربت پلائے جاتے ہیں.کا فوری شربت کے پینے سے انسان کا دل ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور گناہ کے قومی ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں.کافور میں گندے مواد کے دبانے کی تاثیر ہے.پس وہ لوگ جن کو شربت کا فوری پلایا جاتا ہے.ان کے گناہ والے قومی بالکل دب ہی جاتے ہیں اور پھر ان سے گناہ کا ارتکاب ہوتا ہی نہیں اور ایک قسم کی سکینت جس کو شانتی کہتے ہیں میسر آجاتی ہے اور ایک نور پانی کی طرح اترتا ہے جو ان کے سینے میں سارے گندوں کو دھو ڈالتا ہے.اور سفلی زندگی کے تمام تعلقات ان سے الگ کر دیئے جاتے ہیں.اور گناہ کی آگ کی بھڑک ہمیشہ کے واسطے ٹھنڈی پڑ جاتی ہے، مگر یا درکھو صرف یہی امریکی اور خوبی نہیں ہے...ترک ذنوب کو اللہ تعالیٰ نے شربت کا فوری کی ملونی سے تشبیہ دی ہے.اس کے بعد دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ انسان کو شربت زنجیلی پلا یا جاوے.زنجبیل سونٹھ کو کہتے ہیں.زنجبیل مرکب ہے لفظ زنا اور جیل سے زنجبیل کی تاثیر ہے کہ حرارت غریزی کو بڑھاتی ہے.اور لغوی معنے اس کے ہیں پہاڑ پر چڑھنا.اس میں جو نکتہ رکھا گیا ہے.وہ یہ ہے کہ جس طرح پہاڑ پر چڑھنا مشکل کام ہے اور وہ اس مقوی چیز کے استعمال سے آسان ہو جاتا ہے اس طرح روحانی نیکی کے پہاڑ پر چڑھنا بھی سخت دشوار ہے.وہ روحانی شربت زنجبیل سے آسان ہو جاتا ہے.خالص اعمال محض اللہ اخلاص اور ثواب کے ماتحت بجالانا بھی ایک پہاڑ ہے اور سخت دشوار گزار گھائی سے مشابہ ہے.ہر ایک پاؤں کا یہ کام نہیں کہ وہاں پہنچ سکے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۲ مورخه ۱۰رمئی ۱۹۰۸ء صفحه ۳) مسلمان کو مرتے وقت کا فور کا استعمال کرنا سنت ہے.یہ اس لئے کہ کا فور ایسی چیز ہے جو وبائی کیٹروں کو مارتی اور سمیت کو دور کرتی ہے.انسان کے لئے ٹھنڈک پہنچاتی ہے.بہت سی عفونی بیماریوں کو روکتی ہے اس لئے قرآن میں حکم ہے کہ مومنوں کو کا فوری شربت پلا یا جاوے گا اور آج کل کی تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ کا فور جیسا ہیضہ کے لئے مفید ہے.ویسا ہی طاعون کے لئے مفید ہے میں اپنی جماعت کو بتلاتا ہوں کہ یہ

Page 172

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۵ سورة الدهر بہت مفید چیز ہے اور میرا اعتقاد ہے کیونکہ قرآن کریم نے بتلایا ہے کہ یہ جلن کو روکتا ہے اور اس کو سکینت اور تفریح دیتا ہے.(الانذار صفحہ ۸) نیک لوگ وہ جام پئیں گے جس میں کافور کی آمیزش ہے یعنی ان کے دل وہ شراب پی کر غیر کی محبت سے بکلی ٹھنڈے ہو جاویں گے.وہ کا فوری شراب ایک چشمہ ہے جس کو اسی دنیا میں خدا کے بندے پینا شروع کرتے ہیں.وہ اس چشمہ کو ایسا رواں کر دیتے ہیں کہ نہایت آسانی سے بہنے لگتا ہے اور وسیع اور فراخ نہریں ہو جاتی ہیں.یعنی ریاضات عشقیہ سے سب روکیں ان کی دور ہو جاتی ہیں اور نشیب وفراز بشریت کا صاف اور ہموار ہو جاتا ہے اور جناب انہی کی طرف انقطاع کلی میسر آ کر معارف الہیہ میں وسعت تامہ پیدا ہو جاتی ہے.سرمه چشم آریه، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۵۶) بہشت کے انعامات کے متعلق نیک لوگوں کی تعریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يُفَجِرُونَهَا تَفْجِير العني اس جگہ نہریں نکال رہے ہیں.حقیقی نیکی کرنے والوں کی یہ خصلت ہے کہ وہ محض خدا کی محبت کے لئے وہ کھانے جو آپ پسند کرتے ہیں مسکینوں اور قیموں اور قیدیوں کو کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تم پر کوئی احسان نہیں کرتے بلکہ یہ کام صرف اس بات کے لئے کرتے ہیں کہ خدا ہم سے راضی ہو اور اس کے منہ کے لئے یہ خدمت ہے.ہم تم سے نہ تو کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ یہ چاہتے ہیں کہ تم ہمارا شکر کرتے پھرو.یہ اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ایصال خیر کی تیسری قسم جو محض ہمدردی کے جوش سے ہے وہ طریق بجالاتے ہیں.یعنی الحکم جلد نمبر ۱۱ مورخه ۲۴ / مارچ ۱۹۰۲ صفحه ۳) اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۵۷) طعام کہتے ہی پسندیدہ طعام کو ہیں.سڑا ہوا باسی طعام نہیں کہلاتا.الغرض اس رکابی میں سے جس میں ابھی تازہ کھانا لذیذ اور پسندیدہ رکھا ہوا ہے اور کھانا شروع نہیں کیا.فقیر کی صدا پر نکال کر دے تو یہ تو نیکی ہے.بریکار اور لکھی چیزوں کے خرچ سے کوئی آدمی نیکی کرنے کا دعویٰ نہیں کرسکتا.نیکی کا دروازہ تنگ ہے.پس یہ امرذہن نشین کر لو کہ لکھی چیزوں کے خرچ کرنے سے کوئی اس میں داخل نہیں ہو سکتا.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۷۹ ) اخلاق کی درستی کے ساتھ اپنے مقدور کے موافق صدقات کا دینا بھی اختیار کر ويُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبّهِ مِسْكِيْنا وَ يَتِيمَا وَ آسِيرًا الخ یعنی خدا کی رضا کے لئے مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھانا دیتے ہیں و

Page 173

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۴۶ سورة الدهر اور کہتے ہیں کہ خاص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہم دیتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جو نہایت ہی الحکم جلد ۵ نمبر ۷ ۲ مورخہ ۲۴ / جولائی ۱۹۰۱ ، صفحہ ۲) ہولناک ہے.مومن وہ ہیں جو خدا کی محبت سے مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھانا کھلاتے ہیں اور انہیں کہتے ہیں کہ ہم محض خدا کی محبت اور اس کے منہ کے لئے تمہیں دیتے ہیں ہم تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتے اور نہ شکر گزاری ( سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۳۶۸) چاہتے ہیں.کامل راست باز جب غریبوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھانا دیتے ہیں تو محض خدا کی محبت سے دیتے ہیں نہ کسی اور غرض سے دیتے ہیں اور وہ انہیں مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ یہ خدمت خاص خدا کے لئے ہے اس کا ہم کوئی بدلہ نہیں چاہتے اور نہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا شکر کرو.(لیکچھ لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۵۶) املاک و اسباب کا خیال کرنا کہ اس کا وارث کوئی ہو یہ شرکا کے قبضہ میں نہ چلے جاویں فضول اور دیوانگی ہے ایسے خیالات کے ساتھ دین جمع نہیں ہو سکتا ہاں یہ منع نہیں بلکہ جائز ہے کہ اس لحاظ سے اولا داور دوسرے متعلقین کی خبر گیری کرے کہ وہ اس کے زیر دست ہیں تو پھر یہ بھی ثواب اور عبادت ہی ہو گی اور خدا تعالیٰ کے حکم کے نیچے ہو گا جیسے فرمایا ہے وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبّهِ مِسْكِينَا وَ يَتِيما و اسيرا اس آیت میں مسکین سے مراد والدین بھی ہیں کیونکہ وہ بوڑھے اور ضعیف ہو کر بے دست و پا ہو جاتے ہیں اور محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالنے کے قابل نہیں رہتے اس وقت ان کی خدمت ایک مسکین کی خدمت کے رنگ میں ہوتی ہے اور اسی طرح اولاد جو کمزور ہوتی ہے اور کچھ نہیں کر سکتی اگر یہ اس کی تربیت اور پرورش کے سامان نہ کرے تو وہ گویا یتیم ہی ہے پس ان کی خبر گیری اور پرورش کا تہیہ اس اصول پر کرے تو ثواب ہوگا.اور بیوی اسیر کی طرح ہے اگر یہ عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُونِ پر عمل نہ کرے تو وہ ایسا قیدی ہے جس کی کوئی خبر لینے والا نہیں ہے.غرض ان سب کی غورو پرداخت میں اپنے آپ کو بالکل الگ سمجھے اور ان کی پرورش محض رحم کے لحاظ سے کرے نہ کہ جانشین بنانے کے واسطے بلکہ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا کا لحاظ ہو.الحکم جلد ۸ نمبر ۸ مورخه ۱۰ / مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۶) تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو یا درکھو کہ تم ہر شخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو ہمدردی کرو اور بلاتمیز ہر ایک سے نیکی کرو کیونکہ یہی قرآن شریف کی تعلیم ہے وَيُطْعِمُونَ الطَعَامَ عَلَى حُبْهِ مِسْكِينَا وَ يَتِيمًا و اسیرا وہ اسیر اور قیدی جو آتے تھے اکثر کفار ہی ہوتے تھے.اب دیکھ لو کہ اسلام کی ہمدردی کی انتہا کیا

Page 174

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۷ ہے.میری رائے میں کامل اخلاقی تعلیم بجز اسلام کے اور کسی کو نصیب ہی نہیں ہوئی.سورة الدهر الحکم جلد ۹ نمبر ۳ مورخه ۲۴رجنوری ۱۹۰۵ صفحه ۴) اکثر دفعہ ماں باپ بوڑھے ہوتے ہیں اور ان کو اولاد ہوتی ہے تو ان کی کوئی امید بظاہر اولاد سے فائدہ اٹھانے کی نہیں ہوتی لیکن باوجود اس کے پھر بھی وہ اس سے محبت اور پرورش کرتے ہیں.یہ ایک طبعی امر ہوتا ہے جو محبت اس درجہ تک پہنچ جاوے اس کا اشارہ انت و ذی القربی میں کیا گیا ہے کہ اس قسم کی محبت خدا تعالیٰ کے ساتھ ہونی چاہیئے.نہ مراتب کی خواہش نہ ذلت کا ڈر.جیسے آیت لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا سے ظاہر ہے غرضکہ یہ باتیں ہیں جن کو یا درکھنا چاہیے.(البدر جلد ۲ نمبر ۴۳ مورخه ۱۶ نومبر ۱۹۰۳ صفحه ۳۳۵) لا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاء ولا شكورا یعنی خدا رسیدہ اور اعلیٰ ترقیات پر پہنچے ہوئے انسان کا یہ قاعدہ ہے کہ اس کی نیکی خالص اللہ ہوتی ہے اور اس کے دل میں یہ بھی خیال نہیں ہوتا کہ اس کے واسطے دعا کی جاوے یا اس کا شکر یہ ادا کیا جاوے.نیکی محض اس جوش کے تقاضا سے کرتا ہے جو ہمدردی بنی نوع کے واسطے اس کے دل میں رکھا گیا ہے.ایسی پاک تعلیم نہ ہم نے توریت میں دیکھی ہے اور نہ انجیل میں.ورق ورق کر کے ہم نے پڑھا ہے مگر ایسی پاک اور مکمل تعلیم کا نام ونشان نہیں.انتقام جلد ۱۲ نمبر ۴۱ مورخه ۱۴ ؍ جولائی ۱۹۰۸ صفحه ۱) چاندی کے بیچ میں ایک جو ہر محبت ہے اس لئے یہ زیادہ مرغوب ہوتی ہے.اکثر لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ جنت کی نعما میں چاندی کے برتنوں کا ذکر ہے حالانکہ اس سے بیش قیمت سونا ہے.وہ لوگ اس راز کو جو کہ خدا تعالیٰ نے چاندی میں رکھا ہے نہیں سمجھے.جنت میں چونکہ نفل اور کینہ اور بغض وغیر ہ نہیں ہوگا اور آپس میں محبت ہوگی اور چونکہ چاندی میں جو ہر محبت ہے اس لئے اس نسبت باطنی سے جنت میں اس کو پسند کیا گیا ہے.اس میں جو ہر محبت ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ اگر طرفین میں لڑائی ہو تو چاندی دے دینے سے صلح ہو جاتی ہے اور کدورت دور ہو جاتی ہے.کسی کی نظر عنایت حاصل کرنی ہو تو چاندی پیش کی جاتی ہے.علوم یا تو قیاس سے معلوم ہوتے ہیں اور یا تجربہ سے.چاندی کے اس اثر کا پتہ تجربہ سے لگتا ہے.خواب میں اگر کسی مسلمان کو چاندی دے تو اس کی تعبیر یہ ہوتی ہے کہ اسے اسلام سے محبت ہے اور وہ مسلمان ہو جائے گا.(البدر جلد ۲ نمبر ۳۱ مورخه ۲۱ /اگست ۱۹۰۳ء صفحه ۲۴۱) عليهم ثِيَابُ سُنْدُسٍ خُضْرُ وَ إِسْتَبْرَقٌ وَ حُلُوا أَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍ

Page 175

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام وَسَقَهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُورًا ۱۴۸ سورة الدهر وَسَقَهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُورًا یعنی جو لوگ بہشت میں داخل ہوں گے ان کا خدا ان کو ایک ایسی پاک شراب پلائے گا جو ان کو کامل طور پر پاک کر دے گی.سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۵۶)

Page 176

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۱۴۹ سورة المرسلت بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة المرسلت بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ وَ الْمُرْسَلَتِ عُرُفاتٌ فَالْعَصِفْتِ عَصْفَانَ وَ النُّشِرَتِ نَشْرَان فَالْفَرِقْتِ فَرْقَان فَالْمُلْقِيتِ ذِكْرً ا ل عُذرًا أَوْ نُذَرَان قسم ہے ان ہواؤں کی اور ان فرشتوں کی جو نرمی سے چھوڑے گئے ہیں اور قسم ہے ان ہواؤں کی اور ان فرشتوں کی جو زور اور شدت کے ساتھ چلتے ہیں اور قسم ہے ان ہواؤں کی جو بادلوں کو اٹھاتی ہیں اور ان فرشتوں کی جو ان بادلوں پر مؤکل ہیں اور قسم ہے ان ہواؤں کی جو ہر یک چیز کو جو معرض ذکر میں آجائے کانوں تک پہنچاتی ہیں اور قسم ہے ان فرشتوں کی جو الہی کلام کو دلوں تک پہنچاتے ہیں.اورق ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۳۶، ۱۳۷ حاشیه ) اس آیت قرآن کریم میں اس زمانہ اور طاعون کے متعلق پیشگوئی ہے وَالْمُرْسَلَتِ عُرُفًا فَالْعَصِفَتِ عَصْفًا - وَ الثَّشِرْتِ نَشْرًا فَالْفَرِقْتِ فَرْقًا - فَالْمُلْقِيتِ ذِكْرًا.عُدْرًا أَوْ نُذرًا.قسم ہے ان ہواؤں کی جو آہستہ چلتی ہیں.یعنی پہلا وقت ایسا ہو گا کہ کوئی کوئی واقعہ طاعون کا ہو جایا کرے.پھر وہ زور پکڑے اور تیز ہو جاوے.پھر وہ ایسی ہو کہ لوگوں کو پراگندہ کر دے.اور پریشان خاطر کر دے.پھر ایسے واقعات ہوں کہ مومن اور کافر کے درمیان فرق اور تمیز کر دیں.اس وقت لوگوں کو سمجھ آ جائے گی کہ حق کس امر میں ہے.آیا اس امام کی اطاعت میں یا اس کی مخالفت میں.یہ مجھ میں آنا بعض کے لیے صرف حجت کا موجب ہوگا.(عُذرا )

Page 177

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۰ سورة المرسلت یعنی مرتے مرتے اُن کا دل اقرار کر جائے گا کہ ہم غلطی پر تھے اور بعض کے لیے (نذرا ) یعنی ڈرانے کا موجب ہوگا کہ وہ تو بہ کر کے بدیوں سے باز آویں.الحکم جلد ۶ نمبر ۱۵ مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۲ صفحه ۹) وَإِذَا الْجِبَالُ نُسِفَتْ.اور جس وقت پہاڑ اُڑائے جائیں گے اور ان میں سڑکیں پیادوں اور سواروں کے چلنے کی یاریل کے چلنے کے لئے بنائی جائیں گی.شہادت القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۱۸) وَقَدْ ظَهَرَ اكْثَرُ عَلَامَاتِهَا وَذَكَرَهَا بہت سے اس زمانہ کے علامات قرآن شریف الْقُرْآن ذكرًا....وَ إِنَّ الْجِبَالَ نُسِفَتْ اَكْثَرُهَا میں مرقوم ہیں....اور پہاڑ اپنی جگہ سے ہل گئے کہ فَمَا تَرَوْنَ فِيهَا عِوَجًا وَلَا أَمْتًا (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۱۲۱، ۱۲۲) کوئی اونچائی مچائی باقی نہ رہی.( ترجمہ اصل کتاب سے ) وَإِذَا الرُّسُلُ يُقتَتْ اور جب رسول وقت مقرر پر لائے جائیں گے یہ اشارہ در حقیقت مسیح موعود کے آنے کی طرف ہے اور اس بات کا بیان مقصود ہے کہ وہ عین وقت پر آئے گا اور یادر ہے کہ کلام اللہ میں رسل کا لفظ واحد پر بھی اطلاق.پاتا ہے اور غیر رسول پر بھی اطلاق پاتا ہے اور یہ میں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں کہ اکثر قرآن کریم کی آیات کئی وجوہ کی جامع ہیں جیسا کہ یہ احادیث سے ثابت ہے کہ قرآن کے لئے ظہر بھی ہے اور بطن بھی.پس اگر رسول قیامت کے میدان میں بھی شہادت کے لئے جمع ہوں تو امنا و صد فتا لیکن اس مقام میں جو آخری زمانہ کی ابتر علامات بیان فرما کر پھر اخیر پر یہ بھی فرما دیا کہ اس وقت رسول وقت مقرر پر لائے جائیں گے.تو قرآئن ہینہ صاف طور پر شہادت دے رہے ہیں کہ اس ظلمت کے کمال کے بعد خدا تعالیٰ کسی اپنے مرسل کو بھیجے گا.تا مختلف قوموں کا فیصلہ ہواور چونکہ قرآن شریف سے ثابت ہو چکا ہے کہ وہ ظلمت عیسائیوں کی طرف سے ہوگی تو ایسا مامورمن اللہ بلا شبہ انھیں کی دعوت کے لئے اور اُنھیں کے فیصلہ کے لئے آئے گا.پس اسی مناسبت سے اس کا نام عیسی رکھا گیا ہے.کیونکہ وہ عیسائیوں کے لئے ایسا ہی بھیجا گیا جیسا کہ حضرت عیسی علیہ السلام ان کے لئے بھیجے گئے تھے اور آیت وَ اِذَا الرُّسُلُ أَقتَتْ میں الف لام عہد خارجی پر دلالت کرتا ہے یعنی وہ

Page 178

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۱ سورة المرسلت مجد دجس کا بھیجنا بزبان رسول کریم معہود ہو چکا ہے وہ اُس عیسائی تاریکی کے وقت میں بھیجا جائے گا.(شہادت القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۲۰،۳۱۹) وہ آخری زمانہ جس سے رسولوں کے عدد کی تعیین ہو جائے گی یعنی آخری خلیفہ کے ظہور سے قضاء و قدر کا اندازہ جو مرسلین کی تعداد کی نسبت مخفی تھا ظہور میں آجائے گا.یہ آیت بھی اس بات پر نص صریح ہے کہ مسیح موعود اس اُمت میں سے ہوگا کیونکہ اگر بھلا مسیح ہی دوبارہ آجائے تو وہ افادو تعیین عدد نہیں کر سکتا کیونکہ وہ تو بنی اسرائیل کے نبیوں میں سے ایک رسول ہے جو فوت ہو چکا ہے اور اس جگہ خلفائے سلسلہ محمدیہ کی تعین مطلوب ہے اور اگر یہ سوال ہو کہ اقتت کے یہ معنے یعنی معین کرنا اس عدد کا جوارادہ کیا گیا ہے کہاں سے معلوم ہوا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ کتب لغت لسان العرب وغیرہ میں لکھا ہے کہ قَدْ يَجِينُ التَّوْقِيتُ يمَعْنَى تَبْيِينِ الْحَدِ وَالْعَدَدِ وَالْمِقْدَارِ كَمَا جَاءَ فِي حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَمْ يَقِتْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْخَمْرِ حَدًّا أَى لَمْ يُقَدِرُ وَلَمْ يَحْذَهُ بِعَدَدٍ مَخصُوص یعنی لفظ توقیت جس سے اقتَتْ نکلا ہے بھی حد اور شمار اور مقدار کے بیان کرنے کے لئے آتا ہے جیسا کہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خمر کی کچھ توقیت نہیں کی.یعنی خمر کی حد کی کوئی تعداد اور مقدار بیان نہیں کی اور تعیین عدد بیان نہیں فرمائی.پس یہی معنے آیت وَ إِذَا الرُّسُلُ أُقتَتْ کے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر فرمایا اور یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ رسولوں کی آخری میزان ظاہر کرنے والا مسیح موعود ہے اور یہ صاف بات ہے کہ جب ایک سلسلہ کا آخر ظاہر ہو جاتا ہے تو عند العقل اس سلسلہ کی پیمائش ہو جاتی ہے اور جب تک کوئی خط ممتد کسی نقطہ پر ختم نہ ہوا ایسے خط کی پیمائش ہونا غیر ممکن ہے کیونکہ اس کی دوسری طرف غیر معلوم اور غیر معین ہے.پس اس آیت کریمہ کے یہ معنے ہیں کہ مسیح موعود کے ظہور سے دونوں طرف سلسلہ خلافت محمدیہ کے معین اور مشخص ہو جائیں گے گویا یوں فرماتا ہے وَاذَا الْخُلَفَاءِ بُيْنَ تَعْدَادُهُمْ وَحُرِّدَ عَدَدُهُمْ بِخَلِيْفَةٍ هُوَ أَخَرُ الْخُلَفَاءِ الَّذِي هُوَ الْمَسِيحُ الْمَوْعُوْدُ فَإِنَّ أَخَرَ كُلَّ شَيْءٍ يُعَيْنُ مِقْدَارَ ذَالِكَ الشَّيءِ وَتَعْدَادَهُ فَهَذَا هُوَ مَعْنَى وَإِذَا الرُّسُلُ أَقَتَتْ - (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۲۵،۲۲۴) الم نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفَاتَان أَحْيَاء وَ اَمْوَاتًا جسم عنصری کے لئے خود اللہ تعالیٰ منع فرماتا ہے کہ وہ آسمان پر جاوے جیسا کہ وہ فرماتا ہے الم نَجْعَلِ

Page 179

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۲ سورة المرسلت الْأَرْضَ كِفَانَا - اَحْيَاء وَ اَمْوَاتًا.ترجمہ یعنی کیا ہم نے زمین کو ایسے طور سے نہیں بنایا کہ وہ انسانوں کے اجسام کو زندہ اور مردہ ہونے کی حالت میں اپنی طرف کھینچ رہی ہے کسی جسم کو نہیں چھوڑتی کہ وہ آسمان (براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۴۰۰) پر جاوے.آسمان سے نازل ہونا خود غیر معقول اور خلاف نص قرآن ہے......کیا خدا تعالیٰ کو حضرت عیسی کو آسمان پر چڑھانے کے وقت وہ وعدہ یاد نہ رہا کہ الم نَجْعَلِ الْأَرْضَ بِفَاتًا - أَحْيَاء وَ اَمْوَاتًا - (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۷) کیا ہم نے زمین کو ایسے طور سے پیدا نہیں کیا جو اپنے تمام باشندوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے خواہ وہ زندوں میں سے ہوں اور خواہ مردوں میں سے ہوں اور یہ بھی خدا کا وعدہ ہے.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۲۸) ( مخالفین.ناقل ) قرآن شریف پیش کرتے ہیں کہ اس میں آسمان پر اُٹھایا جانا لکھا ہے حالانکہ قرآن شریف تو بڑے زور سے اس کی وفات ثابت کرتا ہے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ اور قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اور الم نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفَاتًا وغیرہ بہت سی آیات سے وفات ثابت ہوتی ہے.(البدر جلد ۳ نمبر ۱۵ مورخه ۱۶ را پریل ۱۹۰۴ صفحه ۴) انسان کے دو جسم ہیں ایک زمینی اور دوسرا آسمانی جسم ہے.زمینی جسم کے متعلق قرآن شریف میں آیا ہے اَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفَا تا پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج جس جسم کے ساتھ ہوا وہ آسمانی جسم الحکم جلد ۹ نمبر ۲۹ مورخه ۱۷ /اگست ۱۹۰۵ء صفحه ۵) تھا.خدا نے وعدہ کیا ہوا تھا اَلَم نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفَانَا - اَحْيَاء وَ اَمْوَاتًا.جس کا یہ مطلب ہے کہ ہم نے زمین کو زندوں اور مردوں کے سمیٹنے کے لئے کافی بنایا ہے اور اس میں ایک کشش ہے جس کی وجہ سے زمین والے کسی اور جگہ زندگی بسر کر ہی نہیں سکتے.اب اگر بشر آسمان پر گیا ہوا مان لیا جاوے تو نعوذ باللہ ماننا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ نے اپنا وعدہ توڑ دیا.الحکم جلد نمبر ۱ ۴ مورخہ ۷ ارنومبر ۱۹۰۷ ، صفحہ ۳) اِنْطَلِقُوا إلى مَا كُنتُم بِهِ تُكَذِبُونَ انْطَلِقُوا إِلى ظِلَّ ذِي ثَلَثِ شُعَبِ لا لا ظَلِيلٍ وَلَا يُغْنِي مِنَ اللَّهَبِ اس جگہ یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ اپنی طرف سے بندہ پر کوئی مصیبت نہیں ڈالتا بلکہ وہ انسان کے

Page 180

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۵۳ سورة المرسلت اپنے ہی برے کام اس کے آگے رکھ دیتا ہے.پھر اسی اپنی سنت کے اظہار میں خدائے تعالیٰ ایک اور جگہ فرماتا ہے انْطَلِقُوا إِلى ظِلَّ ذِى ثَلَثِ شُعَبِ لَا ظَلِيلٍ وَلَا يُغْنِى مِنَ اللَّهَبِ.یعنی اے بدکارو! گھرا ہوا سہ گوشہ سایہ کی طرف چلوجس کی تین شاخیں ہیں.جو سامیہ کا کام نہیں دے سکتیں اور نہ گرمی سے بچا سکتی ہیں.اس آیت میں تین شاخوں سے مراد قوت سبیعی اور بہیمی اور وہمی ہے.جولوگ ان تینوں قوتوں کو اخلاقی رنگ میں نہیں لاتے اور ان کی تعدیل نہیں کرتے.ان کی یہ قوتیں قیامت میں اس طرح پر نمودار کی جائیں گی کہ گویا تین شاخیں بغیر پتوں کے کھڑی ہیں اور گرمی سے بچا نہیں سکتیں.اور وہ گرمی سے جلیں گے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۱۰)

Page 181

Page 182

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۵ سورة النبا اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة التّبا بیان فرموده سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عَنِ النَّبَا الْعَظِيمِ بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ بڑے تعجب کی بات ہے کہ آخری زمانہ کے متعلق جس قدر نشانات تھے ان میں سے بہت پورے ہو چکے مگر پھر بھی لوگ توجہ نہیں کرتے.اللہ تعالی فنی ہے اور اس کو ان لوگوں کی پروا نہیں جو اس سے لا پرواہی اختیار کرتے ہیں.یہ لوگ دنیا کے معمولی کاموں کے لئے کس قدر تکلیفیں برداشت کرتے ہیں اس کا عشر عشیر بھی دین کی تحقیق کے لئے محنت نہیں اٹھاتے بلکہ طرح طرح کے بیہودہ عذر کرتے ہیں حالانکہ جیسے اور معمولی کام دنیا کے کر رہے ہیں ایسے ہی اس اللہ العظیم کی تحقیق بھی یہ کر سکتے ہیں جس پر اخروی زندگی کی بہبودی اخبار بدر جلد نمبر ۲ مورخه ۶ ارجنوری ۱۹۰۸ ء صفحه ۳) کا دارو مدار ہے.يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلبِكَةُ صَفًّا لَا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَ قالَ صَوَابات إِنْ تَأْوِيْلَ الرُّوْحِ بِعِيسَى فِي هَذَا الْمُقَامِ اس مقام میں روح کے لفظ سے عیسی مراد لینا دَجْلٌ وَافْتِرَاءُ ، بَلْ جَاءَ في كُتُبِ التَّفْسِيرِ أَنَّه وجالیت اور افترا ہے بلکہ تفسیروں کی رو سے وہ

Page 183

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ܪܬܙ سورة النبا جِبْرَائِيْلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، أَوْ مَلَكَ آخَرُ جبرائیل علیہ السلام یا کوئی دوسرا فرشتہ ہے اور دونوں قسم کی عَلَى اخْتِلَافِ الرَّوَايَاتِ كَمَا لَا يَخفى روایتیں پائی جاتی ہیں جیسا کہ دیکھنے والوں پر پوشیدہ عَلَى النَّاظِرِينَ ثُمَّ مَنْطوقُ الْآيَةِ نہیں.پھر منطوق آیت کا بتصریح ظاہر کرتا ہے اور تنقیح کے يُبْدِي بِالتَّصْرِيحِ وَيَحْكُمُ بِالتَّنْقِيحِ أَنَّ ساتھ حکم دیتا ہے کہ یہ واقعہ قیامت سے متعلق ہے اور اس هذِهِ الْوَاقِعَةَ مُتَعَلَّقَةٌ بِالْقِيَامَةِ وَلَهَا کے لئے علامت کی طرح ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس قصہ کو كَالْعَلَامَةِ، فَإِنَّ الله تَعَالى ذَكَرَ هذه بہشت کے ذکر کے درمیان لکھا ہے اور اس کی نعمتوں کے الْقِصَّةَ فى ذِكْرِ قِصَّةِ الْجَنَّةِ وَنُعَمَائِها بیان کرنے کے وقت اس کو بیان فرمایا ہے اور پھر اور بھی الْعَامَّةِ، ثُمَّ صَرَّحَ بِتَضريح اخَرَ وَقَالَ تصریح کر کے فرمایا ہے کہ یہ وہی حق کے کھلنے کا دن ہے اور ذلِكَ الْيَوْمُ الْحَقُّ، وَلَفْظُ الْيَوْمِ الْحَقي في اليوم الحق قرآن میں قیامت کا نام ہے چنانچہ واقف کار الْقُرْآنِ يَمَعْنَى الْقِيَامَةِ، وَيَعْلَمُهُ كُلُّ امانت دار اس کو جانتا ہے پس اب غور کر کہ کیوں کر خدا تعالیٰ خَبِيرٍ أَمِينِ.فَانْظُرْ كَيْفَ بَيْنَ أَنهَا نے کھول کر بیان کر دیا کہ یہ واقعہ قیامت سے متعلق ہے وَاقِعَةٌ مِن وَقَائِعِ يَوْمِ الدِّينِ، ثُمَّ انظر پھر تو غور کر کہ وہ لوگ جن کے دل بیمار ہیں اور ان کے دل كَيْفَ يَفْتَرُونَ الَّذِيْنَ في قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ میں خدائے تعالی کا خوف نہیں کیوں کر افترا پردازیاں کر وَلا يَخَافُونَ الله وَمَا كَانُوا مُتَّقِينَ رہے ہیں اور تقویٰ اختیار نہیں کرتے.پس حاصل کلام یہ فَالْحَاصِل أَنَّ الْآيَةَ لَا تُوَيْدُ زَعْمَ هذَا ہے کہ یہ آیت اس نکتہ چین کے زعم کی کچھ مؤید نہیں بلکہ یہ تو الواثنى بَلْ تُمَرِّقُه وَبِهَا يَقَعُ الْقَوْلُ اس کے قول کو ٹکڑے ٹکڑے کرتی ہے اور اس کے ساتھ عَلَيْهِ وَتَجْعَلُهُ الْآيَةُ مِنَ الْكَاذِبِينَ.فَإِنَّهُ بات اس پر پڑتی ہے اور یہ آیت اس کو جھوٹوں میں سے يَقُولُ إِنَّ عِيسَى إِلَهُ وَابْنُ إِلهِ، وَيَقُولُ ٹھہراتی ہے کیونکہ اس نکتہ چین کا یہ قول ہے کہ عیسی خدا اور إنَّ الرُّوحَ هُوَ اللهُ وَعَيْنُه وَالْأَيَّةُ تُبدِینی خدا کا بیٹا ہے اور کہتا ہے کہ روح خدا کو ہی کہتے ہیں اور روح أَنَّ هَذَا مَيْتُهُ، وَتُبْدِى أَنَّ الرُّوحَ الَّذینی اور خدا ایک ہی ہے اور آیت ظاہر کر رہی ہے کہ یہ اس کا ذُكِرَهُهُنَا هُوَ عَبْد عَاجِز تخت حُكْم جھوٹ ہے اور نیز ظاہر کرتی ہے کہ وہ روح جس کا ذکر اس اللهِ وَقَدْرِهِ، وَمَا كَانَ لَهُ خِيَرَةٌ فِي أَمْرِي جگہ ہے وہ ایک بندہ عاجز ہے جس کو خدا کے کسی امر میں وَإِنْ هُوَ إِلَّا مِنَ القَائِعِيْنَ، وَمَا كَانَ لَهُ اختیار نہیں اور کچھ نہیں صرف فرمانبردار ہے اور نیز یہ بھی

Page 184

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۷ سورة النبا لے أَن يُفْقَعَ مِنْ غَيْرِ إذْنِ الله لان الله ظاہر کرتی ہے کہ اس روح کو شفاعت کا اختیار نہیں اور شفیع عَزَّوَجَلَّ قَالَ فِي هَذِهِ الْآيَةِ يَوْمَ يَقُومُ وہی ہوگا جس کو اذن ملے کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس آیت الرُّوحُ وَالْمَليكَةُ صَفًّا لَا يَتَكَلَّمُونَ إلا میں صاف فرما دیا ہے کہ اس روز یعنی قیامت کے دن روح مَنْ آذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَقَالَ صَوَابًا وَأُشير في اور فرشتے کھڑے ہوں گے اور شفاعت کے بارے میں آية عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبِّكَ مَقَاماً کوئی بول نہیں سکے گا مگر وہی جس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے محْمُودًا إلى أَنه تَعَالى لا يُعطى هذا اجازت ملے اور کوئی نالائق شفاعت نہ کرے اور آیت الْمَقَامَ الْمَحْمُودَ إِلَّا نَبِيَّةَ وَصَفِيَّة على ان يبعث میں اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ مُحَمَّدًا الْمُصْطَفَى خَيْرَ الرُّسُلِ وَخَاتَمَ مقام محمود بجز اپنے برگزیدہ نبی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم النَّبِيِّينَ.وَأُلقى فى روعن أَنَّ الْمُرَادَ مِن کے اور کسی کو عنایت نہیں کرے گا اور میرے دل میں ڈالا رَوْعِى لَفْظِ الرُّوحِ فِي آيَةِ يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ گیا کہ اس آیت میں لفظ روح سے مرا د رسولوں اور نبیوں جَمَاعَةُ الرُّسُلِ وَالنَّبِيِّينَ وَالْمُحَتَّثِيْنَ اور محدثوں کی جماعت مراد ہے جن پر روح القدس ڈالا أَجْمَعِينَ الَّذِينَ يُلْقَى الرُّوحُ عَلَيْهِمْ جاتا ہے اور خدا تعالی کے ہم کلام ہوتے ہیں مگر یہ شبہ کہ وَيُجْعَلُونَ مُكَلِّمِينَ.وَأَمَّا ذِكْرُهُمْ يلفظ روح کے لفظ سے ان کو یاد کیا ارواح کے لفظ سے کیوں یاد الرُّوحِ لَا بِلَفْظِ الْأَرْوَاحِ، فَاعْلَمْ أَنَّهُ نہیں کیا.پس جان کہ قرآن کا محاورہ ایسا ہے کہ کبھی وہ قَد يُذْكَرُ الْوَاحِدُ فِي الْقُرْآنِ وَيُرَادُ مِنْهُ واحد کے لفظ سے جمع مراد لے لیتا ہے اور کبھی جمع سے واحد الْجَمْعُ وَبِالْعَكْسِ سُنَةٌ قَدْ جَرَتْ في ارادہ رکھتا ہے یہ قرآن شریف کی ایک عادت مستمرہ ہے.كِتَابٍ مُّبِينٍ وَذَكَرَهُمُ اللهُ يلفظ اور پھر خدا تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو روح کے لفظ سے یاد کیا الرُّوحِ الَّذِي يَدُلُّ عَلَى الْانْقِطَاعِ مِن یعنی ایسے لفظ سے جو انقطاع من الجسم پر دلالت کرتا ہے یہ الْجِسْمِ لِيُشِيْرَ إلى أَن في عِنهِمُ اس لئے کیا کہتا وہ اس بات کی طرف اشارہ کرے کہ وہ أَنَّهُمْ التليوِيَّةِ كانوا قد فَتَوْا بِكُلِ قُوَاهُمْ فی مطہر لوگ اپنی دنیوی زندگی میں اپنی تمام قوتوں کی رو سے مَرْضَاةِ اللهِ وَخَرَجُوا مِنْ أَنْفُسِهِمْ كَمَا مرضات الہی میں فنا ہو گئے تھے اور اپنے نفسوں سے ایسے يَخْرُجُ الْأَرْوَاحُ مِنَ الْأَبْدَانِ، وَمَا بَقى باہر آ گئے تھے جیسے کہ روح بدن سے باہر آتی ہے اور نہ لَهُمُ النَّفْسُ وَأَهْوَاهُهَا وَكَانُوا لَا ان کا نفس اور نہ اس نفس کی خواہشیں باقی رہی تھیں اور ا ا بنی اسرائیل : ۸۰ تاوہ

Page 185

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۸ سورة النبا يَنطِقُونَ مِنَ الْهَوَى بَلْ يوخي يُؤخی وہ روح القدس کے بلائے بولتے تھے نہ اپنی خواہش فَكَأَتَهُمْ صَارُوْا رُوحَ الْقُدُس فقط لا سے اور گویا وہ روح القدس ہی ہو گئے تھے جس کے ساتھ نَفْسَ مَعَهُ وَلَا أَغْرَاضَهَا ثُمَّ اعْلَمُ أَنَّ نفس کی آمیزش نہیں پھر جان کہ انبیاء ایک ہی جان کی الْأَنْبِيَاءَ كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ، لَّا يُقَالُ إِنَّهُمْ طرح ہیں.نہیں کہہ سکتے کہ وہ کئی روح ہیں بلکہ کہنا چاہیئے أَرْوَاحُ بَلْ يُقَالُ إِنَّهُمْ رُوح وذلك کہ وہ ایک ہی روح ہے اور یہ اس لئے کہ ان میں روحانی لِهِدَّةِ الْحَادِهِمُ الرُّوحَانِيَّةِ وَتَنَاسب طور پر نہایت درجہ پر اتحاد واقع ہے اور جو ہر ایمانی کی ان جَوْهَرِهِمُ الْإِيْمَانِيَّةِ، وَمَا أَنَّهُمْ فَنَوْا مِن میں مناسبت غایت مرتبہ پر ہے اور نیز اس لئے کہ وہ اپنے أَنفُسِهِمْ وَحَرَكَاتِهِمْ وَسَكَنَا ہم نفس اور اپنی جنبش اور اپنے سکون اور اپنی خواہشوں اور وَأَهْوَائِهِمْ وَجَنَّبَاتِهِمْ، وَمَا بَقِيَ فِيْهِمْ إِلَّا اپنے جذبات سے بکلی فنا ہو گئے اور ان میں بجز روح رُوحُ الْقُدُسِ وَوَصَلُوا اللهَ مُتَبَتِّلِينَ القدس کے کچھ باقی نہ رہا اور سب چیزوں سے توڑ کے اور مُنقَطِعِينَ، فَأَرَادَ اللهُ أَنْ يُبَيْن في هذهِ قطع تعلق کر کے خدا کو جاملے پس خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اس الْآيَةِ مَقَامَ تَجَرُّدِهِمْ وَمَراتِب آیت میں ان کے تجر داور تقدس کے مقام کو ظاہر کرے اور تَقَدُّسِهِمْ وَتَظهرِهِمْ مِنْ أَدْنائس الجسم بیان کرے کہ وہ جسم اور نفس کے میلوں سے کیسے دور ہیں وَالنَّفْسِ فَسَمَّاهُمْ رُوحًا إِظْهَارًا لِجَلَالَةِ پر ان کا نام اس نے روح یعنی روح القدس رکھا تا کہ شَابِهِمْ وَطَهَارَةِ جَنَانِهِمْ، وَأَنَّهُمْ اس لفظ سے ان کی شان کی بزرگی اور ان کے دل کی سَيُلْقَبُوْنَ بِهَذَا اللَّقَبِ فِي يَوْمِ الْقِيَامَةِ پاکیزگی کھل جائے اور وہ عنقریب قیامت کو اس لقب سے ليرى الله خَلْقَهُ مَقَامَ انْقِطَاعِهِمْ پکارے جائیں گے تا کہ خدا تعالیٰ لوگوں پر ان کا مقام وَلِيُميز بين الخَبِيثِينَ وَالطَّيبين انقطاع ظاہر کرے اور تا کہ خبیثوں اور طیبوں میں فرق وَلَعَمْرُ اللهِ إِنْ هَذَا هُوَ الْحَق فَتَدَبَّرُوا في کر کے دکھلاوے.اور بخدا یہی بات حق ہے پس تم کتاب الله وَلَا تُنكِرُوا مُسْتَعْجِلين.کتاب اللہ میں تدبر کرو اور جلد بازی سے انکار مت کرو.( ترجمہ اصل کتاب سے ) (نور الحق حصہ اول، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۹۶ تا ۹۹)

Page 186

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام اعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۱۵۹ سورة النزعت بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة النزعت بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فَالْمُدَ يَرَاتِ اَمران بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ خدا تعالیٰ نے آیت فَالمُد تراتِ آمرا میں فرشتوں اور ستاروں کو ایک ہی جگہ جمع کر دیا ہے.یعنی اس آیت میں کو اکپ سبع کو ظاہری طور پر مُدَابِر مَا فِي الْأَرْضِ ٹھہرایا ہے.اور ملا یک کو باطنی طور پر ان چیزوں کا مدبر قرار دیا ہے.چنانچہ تفسیر فتح البیان میں معاذ بن جبل اور قشیری سے یہ دونوں روایتیں موجود ہیں اور ابن کثیر نے حسن سے یہ روایت ملایک کی نسبت کی ہے کہ تدَابِرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ یعنی آسمان سے زمین تک جس قدر امور کی تدبیر ہوتی ہے وہ سب ملا یک کے ذریعہ سے ہوتی ہے اور ابن کثیر لکھتا ہے کہ یہ متفق علیہ قول ہے کہ مد برات امر ملا یک ہیں.اور ابن جریر نے بھی آیات فَالْمُد براتِ آمرا کے نیچے یہ شرح کی ہے کہ اس سے مراد ملا یک ہیں جو مد بر عالم ہیں یعنی گو بظاہر نجوم اور شمس و قمر و عناصر وغیرہ اپنے اپنے کام میں مشغول ہیں مگر در حقیقت مدبر ملا یک ہی ہیں.اب جبکہ خدا تعالیٰ کے قانونِ قدرت کے رو سے یہ بات نہایت صفائی سے ثابت ہوگئی کہ نظامِ روحانی کے لئے بھی نظام ظاہری کی طرح مؤثرات خارجیہ ہیں جن کا نام کلام الہی میں ملائکہ رکھا ہے تو اس بات کا

Page 187

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 17.سورة التزعت ثابت کرنا باقی رہا کہ نظام ظاہری میں بھی جو کچھ ہو رہا ہے ان تمام افعال اور تغیرات کا بھی انجام اور انصرام بغیر فرشتوں کی شمولیت کے نہیں ہوتا.سو منقولی طور پر تو اس کا ثبوت ظاہر ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرشتوں کا نام مدبرات اور مقسمات امر رکھا ہے اور ہر یک عرض اور جوہر کے حدوث اور قیام کا وہی موجب ہیں یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کے عرش کو بھی وہی اُٹھائے ہوئے ہیں.و آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۳۸،۱۳۷ حاشیه ) فَإِنَّ لِكُلِّ صِفَةٍ مَلَكَ مُوَكَّلْ قَد خُلِقَ اللہ تعالیٰ کی ہر صفت کے لئے ایک فرشتہ مقرر ہے لِتَوْزِيع تِلْكَ الصَّفَةِ عَلَى وَجْهِ التَّدْبِيرِ جو بڑے منظم طریق سے اس صفت کی برکات کو تقسیم وَوَضْعِهَا في فَحَلْهَا وَإِلَيْهِ إِشَارَةٌ فِي قَوْلِهِ کرنے اور اسے برمحل رکھنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے.تَعَالَى فَالْمُدَبِّرَاتِ اَمْرًا - اسی کی طرف اللہ تعالی کے کلام فَالمُد براتِ أَمْرًا (کرامات الصادقین ، روحانی خزائن جلد ے صفحہ ۱۳۰ ) میں اشارہ ہے.(ترجمہ از مرتب) أَعْلَمُ مِنْ رَّبِّي أَنَّ الْمَلَائِكَةَ مُدَبَّرَاتٌ میں نے اپنے رب سے یہ علم پایا ہے کہ فرشتے سورج لِلشَّمْسِ وَالْقَمَرِ وَالنُّجُومِ وَكُل ما فی ، چاند، ستاروں اور آسمان وزمین کی ہر چیز کا انتظام کرنے السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَقَد قَالَ اللهُ تَعَالَى اِن والے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنْ كُلُّ نَفْسٍ لَمَّا كُلُّ نَفْسٍ لَمَّا عَلَيْهَا حَافِظٌ ، وَقَالَ عَلَيْهَا حَافِظ.اسی طرح فرمایا فَالْمُدَ بِراتِ آمرا.اور اسی فَالْمُدَيَّاتِ اَمْرًا وَمِثْلَ تِلْكَ الْآيَاتِ مضمون کی بہت سی آیات قرآن کریم میں ہیں.پس كَثِيرُ فِي الْقُرْآنِ، فَطُوبَى لِلْمُتَدَبِرِينَ مبارک ہیں وہ جوتد بر کرتے ہیں.( ترجمہ از مرتب) حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلد۷ صفحه ۲۹۶) لے ہماری شریعت میں طلب اسباب حرام نہیں ہے ان پر بھروسہ اور توکل ضرور حرام ہے اس لئے کوشش کو ہاتھ سے نہ چھوڑنا چاہیے.خدا تعالیٰ قرآن شریف میں قسم کھاتا ہے فَالْمُدَ يَرَاتِ أَمْرًا.ماسوا اس کے خدا پر توکل اور دعا کرنے سے برکت حاصل ہوتی ہے.(البدر جلد ۲ نمبر ۴۸ مورخه ۲۴ /دسمبر ۱۹۰۳ صفحه ۳۸۴) دعا کے ساتھ تدابیر کو نہ چھوڑے کیونکہ اللہ تعالیٰ تدبیر کو بھی پسند کرتا ہے اور اسی لئے فَالمُد براتِ أَمْرًا کہہ کر قرآن شریف میں قسم بھی کھائی ہے.جب وہ اس مرحلہ کو طے کرنے کے لئے دعا بھی کرے گا اور تدبیر سے بھی اس طرح کام لے گا کہ جو مجلس اور صحبت اور تعلقات اس کو حارج ہیں ان سب کو ترک کر دے گا اور ل الطارق : ۵

Page 188

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام سورة التزعت رسم عادت اور بناوٹ سے الگ ہو کر دعا میں مصروف ہوگا تو ایک دن قبولیت کے آثار مشاہدہ کر لے گا.البدر جلد ۳ نمبر ۲۴ مورخه ۸ رستمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۵) لوگ جو روپیہ بھیجتے ہیں لنگر خانہ کے لئے یا مدرسہ کے لئے اس میں اگر بے جا خرچ ہوں تو گناہ کا نشانہ ہوگا.اللہ تعالیٰ نے تدبیر کرنے والوں کی قسم کھائی ہے فَالمُد براتِ آمرا.میں تو ایسے آدمیوں کی ضرورت سمجھتا ہوں جو دین کی خدمت کریں.التحام جلد ۱۳ نمبر ا مورخہ ۷ /جنوری ۱۹۰۹ صفحه ۱۲) يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ لا تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ.اپنی تائید میں آسمانی نشانات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ) نواں نشان زلزلوں کا متواتر آنا اور سخت ہونا ہے جیسا کہ آیت يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاحِفَةُ - تَتْبَعُهَا الرّادِفَةُ سے ظاہر ہے.سوغیر معمولی زلزلے دنیا میں آرہے ہیں.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۰۶) اس دن زمین ایک سخت اضطرابی حرکت کرے گی اور زمین میں ایک سخت اور شدید اضطراب پیدا ہوگا اور اس کے بعد ایک اور اضطراب زمین میں پیدا ہو گا جو پہلے کے بعد ظہور میں آئے گا.ان آیتوں کے ظاہر الفاظ میں زلزلہ کا کوئی ذکر نہیں کیونکہ لغت میں رجفان اضطراب شدید کو کہتے ہیں چنانچہ بولا جاتا ہے رجف اللى يعنى اضْطَرَبَ اضْطِرَ ابا شدید امگر چونکہ زمین کا انضطراب اکثر کر کے زلزلہ سے ہی ہوتا ہے اس لئے ہم نے اس جگہ ظن غالب کے طور پر زلزلہ کے معنی کئے ہیں ورنہ ممکن ہے کہ یہ اضطراب کسی اور حادثہ کی وجہ سے ہو زلزلہ کی وجہ سے نہ ہو یا اس اضطراب سے کوئی اور آفت مراد ہو.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۵۷،۲۵۶) اس دن زمین سخت حرکت اضطرابی کرے گی اور اس کے بعد ایک اور حرکت اضطرابی ہوگی یعنی قیامت کے نزدیک دو سخت زلزلے آئیں گے.پہلے کے بعد دوسرا زلزلہ آئے گا.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۶۰ حاشیه ) قرآن شریف میں اس نشان زلزلے کی نسبت ایک صاف پیشگوئی سورۃ النازعات میں درج ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی قسم کھا کر جو ایسے امور کے انتظام کے واسطے مامور ہوتے ہیں فرمایا ہے کہ يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاحِفَةُ - تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ - کیا معنے.اس وقت زمین کانپنے لگے گی اور ایسی کانپے گی کہ

Page 189

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۲ سورة التزعت گو یا اس کا نام را جفہ رکھ دیا جائے گا یعنی متواتر زلزلے آتے رہیں گے اور اس کے بعد پھر ایک اور بڑا زلزلہ آئے گا.اس میں آئندہ زلزلے کے واسطے ایک پیشگوئی ہے اور جو زلزلہ ہو چکا ہے اس کی بھی پیشگوئی درج ہے.یہ قرآن شریف کی صداقت کا ایک بڑا بھاری نشان ہے.(مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۷ ۶۳ حاشیه ) فَأَمَّا مَنْ طَغَى وَأَثَرَ الْحَيَوةَ الدُّنْيَات فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأْوَى وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عمل والے کو میں کس طرح جزاء دوں گا فَامَّا مَنْ طَغَى - وَاثَرَ الْحَيوةَ الدُّنْيَا - فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْبَاوی.جو شخص میرے حکموں کو نہیں مانے گا میں اس کو بہت بری طرح سے جہنم میں ڈالوں گا اور ایسا ہو گا کہ آخر جہنم تمہاری جگہ ہوگی.وَ آمَا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْبَاوی اور جو شخص میری عدالت کے تخت کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرے گا اور خیال رکھے گا تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس کا ٹھکانہ جنت میں کروں گا.البدر جلد ۲ نمبر ۷ ۲ مورخہ ۲۴ / جولائی ۱۹۰۳ء صفحه ۲۱۱،۲۱۰) ا وَ أَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى.یعنی جو شخص اپنے پروردگار سے ڈر کر تزکیہ نفس کرے اور ماسوائے اللہ سے منہ پھیر کر خدائے تعالیٰ کی طرف رجوع لے آئے تو وہ جنت میں ہے اور جنت اس کی جگہ ہے یعنی خود ایک روحانی جنت باعث قوت ایمانی و حالت عرفانی اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے جو اس کے ساتھ رہتی ہے اور وہ اس میں رہتا ہے.سرمه چشمه آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۴۳) مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى - فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَاوی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہشتی زندگی اسی دنیا سے شروع ہو جاتی ہے.اگر ہوا ، نفس کو روک دیں.صوفیوں نے جو فناء وغیرہ الفاظ سے جس مقام کو تعبیر کیا ہے وہ یہی ہے کہ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى کے نیچے ہو.الحکم جلد ۹ نمبر ۲۸ مورخه ۱۰ اگست ۱۹۰۵ ء صفحه ۳) جو کوئی اپنے رب کے آگے کھڑا ہونے سے ڈرتا ہے اور اپنے نفس کی خواہشوں کو روکتا ہے تو جنت اس کا مقام ہے.ہوائے نفس کو روکنا یہی فنافی اللہ ہونا ہے اور اس سے انسان خدا کی رضا کو حاصل کر کے اسی جہان

Page 190

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام میں مقام جنت کو پہنچ سکتا ہے.۱۶۳ سورة التزعت ( بدر جلد نمبر ۱۸ مورخه ۳ /اگست ۱۹۰۵ء صفحه ۲) جب تک انسان سچا مجاہدہ اور محنت نہیں کرتا وہ معرفت کا خزانہ جو اسلام میں رکھا ہوا ہے اور جس کے حاصل ہونے پر گناہ اور آلو د زندگی پر موت وارد ہوتی ہے انسان خدا تعالیٰ کو دیکھتا ہے اور اس کی آواز میں سنتا ہے اسے نہیں مل سکتا.چنانچہ صاف طور پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ أَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى - فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْبَاوی.یہ تو سہل بات ہے کہ ایک شخص متکبرانہ طور پر کہہ دے کہ میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہوں اور باوجود اس دعوئی کے اس ایمان کے آثار اور ثمرات کچھ بھی پیدا نہ ہوں یہ نری لاف زنی ہوگی.ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی کچھ پروا نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ بھی ان کی پروا نہیں کرتا.الحکم جلد ۹ نمبر ۲۹ مورخه ۱۷ /اگست ۱۹۰۵ء صفحه ۶) جو شخص خدا سے ڈرے اور اپنے نفس کو اس کی نفسانی خواہشوں سے روک لیوےسواس کا مقام جنت ہوگا جو آرام اور دیدار الہی کا گھر ہے.ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۳۰) جو خواہش جائز اپنے مقام اعتدال سے بڑھ جاوے اس کا نام ھوئی ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۳ مورخه ۶ فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۱۸)

Page 191

Page 192

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام اعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ سورة عبس بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة عبس بیان فرموده سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ عَبَسَ وَ تَوَلَّى أَنْ جَاءَهُ الْأَغْنى وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَكى لى اَوْ يَذَكَر فَتَنْفَعَهُ الذِكرى لى اس سورۃ کے نازل ہونے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت کے پاس چند قریش کے بڑے بڑے آدمی بیٹھے تھے.آپ ان کو نصیحت کر رہے تھے کہ ایک اندھا آگیا اس نے کہا کہ مجھ کو دین کے مسائل بتلا دو.حضرت نے فرمایا کہ صبر کرو.اس پر خدا نے بہت غصہ کیا.آخر آپ اس کے گھر گئے اور اسے بلا کر لائے اور چادر بچھا دی اور کہا کہ تو بیٹھ.اس اندھے نے کہا کہ میں آپ کی چادر پر کیسے بیٹھوں؟ آپ نے وہ چادر کیوں بچھائی تھی ؟ اس واسطے کہ خدا کو راضی کریں.تکبر اور شرارت بری بات ہے.ایک ذراسی بات سے ستر برس کے عمل ضائع ہو جاتے ہیں.البدر جلد ۲ نمبر ۲۷ مورخہ ۲۴ ؍ جولائی ۱۹۰۳ صفحه ۲۱۱) ( محمد یوسف صاحب اپیل نویس نے بیان کیا کہ حضور موضع مد کے مباحثہ میں ایک اعتراض یہ بھی کیا گیا تھا کہ مرزا صاحب تمہاری آنکھ کیوں نہیں اچھی کر دیتے.حضرت اقدس نے فرمایا ) جواب دینا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اندھا تھا جیسے لکھا ہے عَبَسَ وَ تَوَلَّی.آن جَاءَة الأعلى.وہ کیوں نہ اچھا ہوا حالانکہ آپ تو افضل الرسل تھے.اور بھی اندھے تھے ایک دفعہ سب نے

Page 193

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۶ سورة عبس کہا کہ یا حضرت ہمیں جماعت میں شامل ہونے کی بہت تکلیف ہوتی ہے.آپ نے حکم دیا کہ جہاں تک اذان کی آواز پہنچتی ہے وہاں تک کے لوگوں کو ضرور آنا چاہیے.(البدر جلد نمبر ۳ مورخه ۱۴/ نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۲۲) وجُودُ يَوْمَةٍ مُّسْفِرَةٌ ضَاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ ، وَ وُجُودُ يَوْمَيدٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌ من تَرْهَقُهَا فَتَرَةٌ ن أولَيكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ.ایک اور درجہ دخول جنت دخول جہنم ہے جس کو درمیانی درجہ کہنا چاہیے اور وہ حشر اجساد کے بعد اور جنت عظمی یا جہنم کبری میں داخل ہونے سے پہلے حاصل ہوتا ہے اور بوجہ تعلق جسد کامل قومی میں ایک اعلیٰ درجہ کی تیزی پیدا ہو کر اور خدا تعالیٰ کی تجلی رحم یا تجلی قہر کا حسب حالت اپنے کامل طور پر مشاہدہ ہو کر اور جنت عظمیٰ کو بہت قریب یا کریا جہنم کبری کو بہت ہی قریب دیکھ کر وہ لذات یا عقوبات ترقی پذیر ہو جاتی ہیں جیسا کہ اللہ جل شانہ آپ فرماتا ہے....وُجُوهٌ يَوْمَبِن مُسْفِرَةٌ - ضَاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ - وَ وُجُوهٌ يَوْمَينٍ - - عَلَيْهَا غَبَرَةٌ - تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ - أوتيكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ - - (ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۸۴)

Page 194

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ ۱۶۷ سورة التكوير بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة التكوير بیان فرموده سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ إِذَا الشَّمْسُ كُورَتْ وَإِذَا النُّجُومُ الكَدَرَتْ وَإِذَا الْجِبَالُ سُيّرَتْ وَإِذَا الْعِشَارُ عُقِلَتْ وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ قُ وَإِذَا النُّفُوسُ ، کیا.زُوجَتْ وَإِذَا الْمَوْعدَةُ سُبِلَتْ بِاَتِي ذَنْبٍ قُتِلَتْ وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ.دجالی زمانہ....کی علامات میں جبکہ ارضی علوم وفنون زمین سے نکالے جائیں گے بعض ایجادات اور صناعات کو بطور نمونہ کے بیان فرمایا ہے وہ یہ ہے....وَ إِذَا الْعِشَارُ عُظَلَتْ یعنی اس وقت اپنی بیکار ہو جائے گی اور اس کا کچھ قدر و منزلت نہیں رہے گا.عقار حمل دار اونٹنی کو کہتے ہیں جو عربوں کی نگاہ میں بہت عزیز ہے اور ظاہر ہے کہ قیامت سے اس آیت کو کچھ بھی تعلق نہیں کیونکہ قیامت ایسی جگہ نہیں جس میں اونٹ اونٹنی کو ملے اور حمل ٹھہرے بلکہ یہ ریل کے نکلنے کی طرف اشار ہے اور حمل دار ہونے کی اس لئے قید لگادی کہ تا یہ قید دنیا کے واقعہ پر قرینہ تو یہ ہو اور آخرت کی طرف ذرہ بھی و ہم نہ جائے....وَإِذَا النُّفُوسُ زُوجَت اور جس وقت جانیں باہم ملائی جائیں گی.یہ تعلقات اقوام اور بلاد کی طرف اشارہ ہے.مطلب یہ ہے کہ آخری زمانہ میں بباعث راستوں کے کھلنے اور انتظام ڈاک اور تار برقی کے تعلقات بنی آدم کے بڑھ جائیں گے اور ایک قوم دوسری قوم کو ملے گی اور دور دور کے رشتے اور تجارتی اتحاد ہوں گے اور بلاد بعیدہ کے دوستانہ تعلقات بڑھ

Page 195

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۸ سورة التكوير جائیں گے وَإِذَا الْوُحُوش حُشرت اور جس وقت وحشی آدمیوں کے ساتھ اکٹھے کئے جائیں گے.مطلب یہ ہے کہ وحشی قو میں تہذیب کی طرف رجوع کریں گی اور ان میں انسانیت اور تمیز آئے گی اور اراذل دنیوی مراتب اور عزت سے ممتاز ہو جائیں گے اور بباعث دنیوی علوم و فنون پھیلنے کے شریفوں اور رزیلوں میں کچھ فرق نہیں رہے گا بلکہ رذیل غالب آجائیں گے یہاں تک کہ کلید دولت اور عنان حکومت ان کے ہاتھ میں ہوگی اور مضمون اس آیت کا ایک حدیث کے مضمون سے بھی ملتا ہے.....اور فرمایا إذا الشمس كورت جس وقت سورج لپیٹا جاوے گا یعنی سخت ظلمت جہالت اور معصیت کی دنیا پر طاری ہو جائے گی.و إذا النجوم الكدرت اور جس وقت تارے گدلے ہو جاویں گے یعنی علماء کا نو را خلاص جاتا رہے گا.(شہادت القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۱۷ تا ۳۱۹) اس بات کے ثبوت کے لئے کہ در حقیقت یہ آخری زمانہ ہے جس میں مسیح ظاہر ہو جانا چاہیے دو طور کے دلائل موجود ہیں (۱) اول وہ آیات قرآنیہ اور آثار نبویہ جو قیامت کے قرب پر دلالت کرتے ہیں اور پورے ہو گئے ہیں جیسا کہ......اونٹوں کی سواری کا موقوف ہو جانا جس کی تشریح آیت وَ إِذَا الْعِشَارُ عُظِلَتُ سے ظاہر ہے.....اور سخت قسم کا کسوف شمس واقع ہونا جس سے تاریکی پھیل جائے جیسا کہ آیت اذا الشَّمْسُ كورت سے ظاہر ہے اور پہاڑوں کو اپنی جگہ سے اُٹھا دینا جیسا کہ آیت وَ إِذَا الْجِبَالُ سُيْرَت سے سمجھا جاتا ہے اور جو لوگ وحشی اور اراذل اور اسلامی شرافت سے بے بہرہ ہیں ان کا اقبال چمک اُٹھنا جیسا کہ آیت وَإِذَا الْوُحُوش حیرت سے مترشح ہو رہا ہے اور تمام دنیا میں تعلقات اور ملاقاتوں کا سلسلہ گرم ہو اور اور ہو جانا اور سفر کے ذریعہ سے ایک کا دوسرے کو ملنا سہل ہو جانا جیسا کہ بدیہی طور پر آیت وَ إِذَا النُّفُوسُ زُوجَتْ سے سمجھا جاتا ہے اور کتابوں اور رسالوں اور مخطوط کا ملکوں میں شائع ہو جانا جیسا کہ آیت وَإِذَا الصُّحُفُ نشرت سے ظاہر ہو رہا ہے اور علماء کی باطنی حالت کا جو نجوم اسلام ہیں مکدر ہو جانا جیسا کہ وَإِذَا النُّجوم انگدارت سے صاف معلوم ہوتا ہے.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۴۲، ۲۴۳) منجملہ ان دلائل کے جو میرے مسیح موعود ہونے پر دلالت کرتے ہیں خدا تعالیٰ کے وہ دونشان ہیں جو دنیا کو کبھی نہیں بھولیں گے یعنی ایک وہ نشان جو آسمان میں ظاہر ہوا اور دوسرا وہ نشان جوز مین نے ظاہر کیا.....زمین کا نشان وہ ہے جس کی طرف یہ آیت کریمہ قرآن شریف کی یعنی وَ إِذَا الْعِشَارُ عُظَلَتْ اشارہ کرتی ہے جس کی تصدیق میں مسلم میں یہ حدیث موجود ہے وَيُغرك القِلاصُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْهَا - خسوف کسوف کا ووو

Page 196

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۹ سورة التكوير نشان تو کئی سال ہوئے جو دو مرتبہ ظہور میں آگیا.اور اونٹوں کے چھوڑے جانے اور نئی سواری کا استعمال اگر چہ بلا داسلامیہ میں قریباً سو برس سے عمل میں آرہا ہے لیکن یہ پیشگوئی اب خاص طور پر مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی ریل طیار ہونے سے پوری ہو جائے گی کیونکہ وہ ریل جو دمشق سے شروع ہو کر مدینہ میں آئے گی وہی مکہ معظمہ میں آئے گی اور اُمید ہے کہ بہت جلد اور صرف چند سال تک یہ کام تمام ہو جائے گا.تب وہ اونٹ جو تیرہ سو برس سے حاجیوں کو لے کر مکہ سے مدینہ کی طرف جاتے تھے یکدفعہ بے کار ہو جائیں گے اور ایک انقلاب عظیم عرب اور بلا دشام کے سفروں میں آجائے گا.چنانچہ یہ کام بڑی سرعت سے ہو رہا ہے اور تعجب نہیں کہ تین سال کے اندر اندر یہ ٹکڑہ مکہ اور مدینہ کی راہ کا طیار ہو جائے اور حاجی لوگ بجائے بکروں کے پتھر کھانے کے طرح طرح کے میوے کھاتے ہوئے مدینہ منورہ میں پہنچا کریں.بلکہ غالباً معلوم ہوتا ہے کہ کچھ تھوڑی ہی مدت میں اونٹ کی سواری تمام دنیا میں سے اُٹھ جائے گی.اور یہ پیشگوئی ایک چمکتی ہوئی بجلی کی طرح تمام دنیا کو اپنا نظارہ دکھائے گی اور تمام دنیا اس کو بچشم خود دیکھے گی.اور سچ تو یہ ہے کہ مکہ اور مدینہ کی ریل کا طیار ہو جانا گویا تمام اسلامی دنیا میں ریل کا پھر جاتا ہے.کیونکہ اسلام کا مرکز مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ ہے.اگر سوچ کر دیکھا جائے تو اپنی کیفیت کی رُو سے خسوف کسوف کی پیشگوئی اور اونٹوں کے متروک ہونے کی پیشگوئی ایک ہی درجہ پر معلوم ہوتی ہیں.کیونکہ جیسا کہ خسوف کسوف کا نظارہ کروڑ ہا انسانوں کو اپنا گواہ بنا گیا ہے ایسا ہی اونٹوں کے متروک ہونے کا نظارہ بھی ہے بلکہ یہ نظارہ کسوف خسوف سے بڑھ کر ہے کیونکہ خسوف کسوف صرف دو مرتبہ ہو کر اور صرف چند گھنٹہ تک رہ کر دُنیا سے گزر گیا.مگر اس نئی سواری کا نظارہ جس کا نام ریل ہے ہمیشہ یاد دلاتا رہے گا کہ پہلے اونٹ ہوا کرتے تھے.ذرا اُس وقت کو سوچو کہ جب مکہ معظمہ سے کئی لاکھ آدمی ریل کی سواری میں ایک ہیئت مجموعی میں مدینہ کی طرف جائے گا یا مدینہ سے مکہ کی طرف آئے گا تو اس نئی طرز کے قافلہ میں عین اس حالت میں جس وقت کوئی اہل عرب یہ آیت پڑھے گا کہ وَإِذَا الْعِشَارُ عُظلت یعنی یاد کروہ زمانہ جب کہ اونٹیاں بیکار کی جائیں گی اور ایک حمل دار اونٹنی کا بھی قدر نہ رہے گا جو اہل عرب کے نزدیک بڑی قیمتی تھی اور یا جب کوئی حاجی ریل پر سوار ہو کر مدینہ کی طرف جاتا ہوا یہ حدیث پڑھے گا کہ وَيُتْرَكُ القِلَاصُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْهَا یعنی مسیح موعود کے زمانہ میں اونٹنیاں بے کار ہو جائیں گی اور اُن پر کوئی سوار نہیں ہو گا تو سننے والے اس پیشگوئی کوشن کر کس قدر وجد میں آئیں گے اور کس قدر ان کا ایمان قوی ہو گا.جس شخص کو عرب کی پرانی تاریخ سے کچھ واقفیت ہے وہ خوب

Page 197

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۰ سورة التكوير جانتا ہے کہ اونٹ اہل عرب کا بہت پرانا رفیق ہے اور عربی زبان میں ہزار کے قریب اونٹ کا نام ہے اور اونٹ سے اس قدر قدیم تعلقات اہل عرب کے پائے جاتے ہیں کہ میرے خیال میں ہیں ہزار کے قریب عربی زبان میں ایسا شعر ہو گا جس میں اونٹ کا ذکر ہے اور خدا تعالیٰ خوب جانتا تھا کہ کسی پیشگوئی میں اونٹوں کے ایسے انقلاب عظیم کا ذکر کرنا اس سے بڑھ کر اہل عرب کے دلوں پر اثر ڈالنے کے لئے اور پیشگوئی کی عظمت اُن کی طبیعتوں میں بٹھانے کے لئے اور کوئی راہ نہیں.اسی وجہ سے یہ عظیم الشان پیشگوئی قرآن شریف میں ذکر کی گئی ہے جس سے ہر ایک مومن کو خوشی سے اُچھلنا چاہئے کہ خدا نے قرآن شریف میں آخری زمانہ کی نسبت جو مسیح موعود اور یا جوج ماجوج اور دجال کا زمانہ ہے یہ خبر دی ہے کہ اُس زمانہ میں یہ رفیق قدیم عرب کا یعنی اونٹ جس پر وہ مکہ سے مدینہ کی طرف جاتے تھے اور بلاد شام کی طرف تجارت کرتے تھے ہمیشہ کے لئے اُن سے الگ ہو جائے گا.سبحان اللہ ! کس قدر روشن پیشگوئی ہے یہاں تک کہ دل چاہتا ہے کہ خوشی سے نعرے ماریں کیونکہ ہماری پیاری کتاب اللہ قرآن شریف کی سچائی اور منجانب اللہ ہونے کے لئے یہ ایک ایسا نشان دنیا میں ظاہر ہو گیا ہے کہ نہ توریت میں ایسی بزرگ اور کھلی کھلی پیشگوئی پائی جاتی ہے اور نہ انجیل میں اور نہ دنیا کی کسی اور کتاب میں.ہندؤوں کے ایک پنڈت دیانند نام نے ناحق فضولی کے طور پر کہا تھا کہ وید میں ریل کا ذکر ہے.یعنی پہلے زمانہ میں آریہ ورت (ملک ہند) میں ریل جاری تھی مگر جب ثبوت مانگا گیا تو بجز بیہودہ باتوں کے اور کچھ جواب نہ تھا.اور دیا نند کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وید میں پیشگوئی کے طور پر ریل کا ذکر ہے کیونکہ دیا نند اس بات کا معترف ہے کہ وید میں کوئی پیشگوئی نہیں بلکہ اس کا صرف یہ مطلب تھا کہ ہندؤوں کے عہد سلطنت میں بھی یورپ کے فلاسفروں کی طرح ایسے کاریگر موجود تھے اور اُس زمانہ میں بھی ریل موجود تھی یعنی ہمارے بزرگ بھی انگریزوں کی طرح کئی صنعتیں ایجاد کرتے تھے لیکن قرآن شریف یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ کسی زمانہ میں ملک عرب میں ریل موجود تھی بلکہ آخری زمانہ کے لئے ایک عظیم الشان پیشگوئی کرتا ہے کہ اُن دنوں میں ایک بڑا انقلاب ظہور میں آئے گا اور اونٹوں کی سواری بیکار ہو جائے گی اور ایک نئی سواری دنیا میں پیدا ہو جائیگی جو اونٹوں سے مستغنی کر دے گی.یہ پیشگوئی جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں حدیث مسلم میں بھی موجود ہے جو مسیح موعود کے زمانہ کی علامت بیان کی گئی ہے.مگر معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پیشگوئی کو قرآن شریف کی اس آیت سے ہی استنباط کیا ہے یعنی وَإِذَا الْعِشَارُ عُقِلَتْ سے.یادر ہے کہ قرآن شریف میں دو قسم کی پیشگوئیاں ہیں ایک قیامت کی اور ایک

Page 198

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 121 سورة التكوير زمانہ آخری کی.مثلاً جیسے یا جوج ماجوج کا پیدا ہونا اور اُن کا تمام ریاستوں پر فائق ہونا.یہ پیشگوئی آخری زمانہ کے متعلق ہے.اور حدیث مسلم نے پیشگوئی يُترك القلاص میں صاف تشریح کر دی ہے اور کھول کر بیان کر دیا ہے کہ مسیح کے وقت میں اونٹ کی سواری ترک کر دی جائے گی.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۹۴ تا ۱۹۸) و وَ مِنْ عَلَامَاتِ آخِرِ الزَّمَانِ الَّتِي آخری زمانہ کی علامات سے جن کی خبر اللہ تعالیٰ نے الحبرَ اللهُ تَعَالَى مِنْهَا فِي الْقُرْآنِ وَاقِعَات قرآن مجید میں دی ہے.وہ وہ واقعات نادرہ ہیں جن کا تم كَادِرَةٌ تُشَاهِدُوْنَهَا في هَذَا الزَّمَانِ اس زمانہ میں مشاہدہ کر رہے ہو اور جن کو تم موجود پاتے وَتَجِدُونَ.وَقَدْ بَيَّنَ لَنَا عَلَامَاتِهِ وَقَالَ ہو.اللہ تعالی نے آخری زمانہ کی علامات ہمارے لئے إذَا الْجِبَالُ سُبْرَتْ وَإِذَا الْحَارُ سُچوت کھول کر بیان کی ہیں چنانچہ فرما یا اذَا الْجِبَالُ سُيْرَت.وَإِذَا الْعِشَارُ عُقِلَتْ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوجَتْ وَإِذَا الْبِحَارُ سُجْرَتْ - وَإِذَا الْعِشَارُ عُقِلَتْ - وَإِذَا وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ النُّفُوسُ زُوجَتْ - وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ - إِذَا زُلْزِلَتِ الآية.وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتُ وَ الْقَتْ مَا فِيهَا الْأَرْضُ الآية - وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّت - وَ الْقَتْ مَا فِيهَا وَ وَ تَخَلَّتُ وَ إِذَا الْكَوَاكِبُ انْتَثَرَتْ وَ إِذَا تَخَلَّتْ وَ إِذَا الْكَوَاكِبُ انْتَثَرَتْ وَ إِذَا الْوُحُوش الوحوش حُشِرَتْ.وَ فى كُل ذَالِكَ انْباء اخر حُشِرَتْ - ان تمام آیات میں غور کرنے والے لوگوں کے الزَّمَانِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ أَمَّا تَسْبِيرُ لئے آخری زمانہ کی علامات بیان ہوئی ہیں.تسییر الْجِبَالِ فَقَد رَأَيْتُمْ بِأَعْيُنِكُمْ أَنَّ الْجِبَالَ الْجِبَالِ کو تو تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ کس كَيْفَ سُيِّرَتْ وَ أُزِيلَتْ مِنْ مَوَاضِعِهَا وَ طرح سے پہاڑ چلائے گئے اور انہیں ان کی جگہوں سے خِيَامُهَا هُدِّمَتْ وَقُنُونَهَا لَا قَتِ الْوِهَادَ بنا دیا گیا.اور ان کے خیمے گرا دیئے گئے.اور ان کی وَ صُفُوفُهَا تَقَوَّضَتْ تنهون علی چوٹیاں پست ہو گئیں اور ان کے سلسلے ایسے ہموار ہو گئے تَمْشُونَ مَنَاكِبِهَا وَ تَأْفَدُونَ....وَ أَمَّا تَعْطِيلُ کہ تم ان کے اطراف میں چلتے پھرتے اور وہاں آتے الْعِشَارِ فَهُوَ إِشَارَةٌ إِلى وَابُوَرِ الْبَرِ الَّذِئ جاتے ہو....اونٹیاں بیکار ہو جانے سے ریل گاڑی کی عقل الْعِشَارَ وَالْقِلَاصَ فَلَا يُسْغِى عَلَيْهَا طرف اشارہ ہے جس نے اونٹنیوں کو بریکار کر دیا ہے ان پر وَالْخَلْقُ عَلَى الْوَابُوَرِ يَرْكَبُونَ وَ يَحْمَلُوْنَ اب تیز رفتاری سے سفر نہیں کیا جا تاریل گاڑی پر ہی لوگ

Page 199

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۲ سورة التكوير ا عَلَيْهِ أَوْزَارَهُمْ وَ أَثْقَالَهُمْ وَ كَتَنِ سوار ہوتے ہیں اور اس پر اپنا اسباب اور بوجھ لادتے ہیں الْأَرْضِ مِنْ مُّلْكٍ إِلى مُلْكٍ يَصِلُونَ اور زمین کے اطراف کو لپیٹنے کی مانند وہ ایک ملک سے ذَالِك مِن فَضْلِ الله عَلَيْنَا وَ عَلَی دوسرے ملک میں پہنچتے ہیں.یہ اللہ تعالی کا ہم پر اور النَّاسِ وَلكِن اكثر الناس لا دوسرے لوگوں پر بڑا فضل ہے لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں يَشْكُرُونَ جَعَلَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمُ کرتے.اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر پردہ ڈال کر انہیں أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوا أَسْرَارَهُ وَ فی اذانیم اس بات کے اسرار کو سمجھنے سے روک دیا ہے اور ان کے وَقْرًا فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ.وَإِذَا وَجَدُوا کانوں میں بہرہ پن پیدا کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ سن صَنْعَةٌ مِنْ صَنَائِعِ النَّاسِ وَلَوْ مِن نہیں سکتے.اور جب وہ لوگوں کی کسی صنعت کو دیکھتے ہیں خواہ أَيْدِي الْكَفَرَةِ يَأْخُذُونَهَا لِيَنْتَفِعُوْا بِهَا وہ کافروں کے ہاتھ کی بنی ہوئی ہو وہ اسے لے لیتے ہیں تا وَ إِذَا رَأَوْا صَنْعَةً رَحْمَةٍ مِّنَ اللہ اس سے فائدہ اُٹھائیں.لیکن جب اللہ تعالیٰ کی رحمت کی فَيَرُدُّونَ.وَأَمَّا تَزويج النُّفُوسِ فَهُوَ کوئی صنعت دیکھتے ہیں تو وہ اسے ٹھکرا دیتے ہیں.اور نفوس عَلى أَنحَاءِ مِنْهَا إِشَارَةٌ إِلَى التَّلْعِرَافِ کے ملانے کی علامت کئی طریق سے پوری ہوئی ہے.ان الَّذِي يَمدُّ النَّاسَ فِي كُلّ سَاعَةِ میں سے ایک تو ٹیلیگراف ( تار برقی ) کی طرف اشارہ ہے جو الْعُسْرَةِ وَ يَأْتِي بِأَخْبَارِ أَعِزَّةٍ كَانُوا ہر تنگی کے وقت میں لوگوں کی مدد کرتا ہے اور زمین کے دور بِأَقْصَى الْأَرْضِ فَيُنَهِ عَنْ حَالا هم افتادہ حصوں میں رہنے والے عزیزوں کی خبر لاتا ہے اور قبیل حَالَاتِهِمْ قَبْلَ أَنْ يَقُوْمَ الْمُسْتَفْسِرُ مِن مَّقَامِہ اس کے کہ دریافت کرنے والا اپنی جگہ سے اُٹھے تار برقی وَيُدِيرُ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِي سُوَالًا اس کے عزیزوں کی خبر دے دیتی ہے اور مغربی اور مشرقی و جَوَابًا كَأَنَّهُمْ مُلاقُونَ وَ يُخيرُ شخص کے درمیان سوال و جواب کا سلسلہ چلا دیتی ہے، گویا الْمُضْطَرِينَ بِأَسْرَعَ سَاعَةٍ مِّمَنْ اَحْوَالِ کہ وہ آپس میں ملاقات کر رہے ہیں.پھر وہ ان پریشان و اشْخَاصِ هُمْ فِي أَمْرِهِمْ مُشْفِقُونَ مضطر لوگوں کو ان لوگوں کے حالات سے بہت جلد اطلاع فَلا شَكَ أَنَّهُ يُزَوْجُ نَفْسَين من پہنچا دیتی ہے جن کے متعلق وہ فکر مند ہوتے ہیں.پس اس مكَانَيْنٍ بَعِيدَيْنِ فَيُكَلِّمُ بَعْضُهُمُ میں کوئی شک نہیں کہ وہ دور بیٹھے ہوئے اشخاص کو ملا دیتی ہے بِالْبَعْضِ كَأَنَّهُ لَا حِجَابَ بَيْنَهُمْ اور ان میں سے ایک دوسرے کے ساتھ یوں بات کرتا ہے

Page 200

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة التكوير وَكَاتَهُمْ مُتَقَارِبُونَ وَ مِنْهَا إِشَارَةٌ که گویا ان کے درمیان کوئی روک نہ ہو اور وہ ایک دوسرے إِلى أَمَنِ طُرُقِ الْبَحْرِ وَ الْبَرِّ وَ رَفع کے بالکل قریب ہوں.اور لوگوں کے آپس میں ملانے سے الْحَرج فَيَسِيرُ النَّاسُ مِن بلاد الى اس طرف اشارہ ہے کہ بحری اور بری راستوں پر امن ہوگا اور بِلادٍ وَلَا يَخَافُونَ وَلَا شَكٍّ أن في سفر کی مشکلات دور ہو جائیں گی اور لوگ ایک ملک سے هذَا الزَّمَانِ زَادَتْت تعلقات البلادِ دوسرے ملک تک بغیر کسی خوف وخطر کے سفر کر سکیں گے اور بِالْبِلَادِ وَ تَعَارُفُ النَّاسِ بِالنَّاسِ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس زمانہ میں ملکوں کے ملکوں کے فَهُمْ فِي كُلِّ يَوْمٍ يُزَوْجُوْنَ وَ زَوج ساتھ تعلقات زیادہ ہو گئے ہیں اور لوگوں کا ایک دوسرے الله التجار بالتجار وأَهْلَ الشُّعُور سے تعارف بڑھ گیا ہے.پس گویا کہ وہ ہر روز ایک دوسرے بِأَهْلِ الشُّغُورِ وَ أَهْلَ الْحَرْفَةِ بِأَهْل سے ملائے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے تاجروں کو تاجروں الْحَرْفَةِ فَهُمْ فِي جَلْبِ التَّفْعِ وَ دَفع سے اور ایک سرحد کے رہنے والوں کو دوسری سرحد کے رہنے الضَّرَرِ مُتَشَارِكُونَ.وَفِي كُلّ نِعْمَةٍ و والوں کے ساتھ اور ایک حرفہ والوں کو دوسرے حرفہ والوں سُرُورٍ و لِبَاس وَ طَعَامٍ وَ حُبُورٍ کے ساتھ ملا دیا ہے اور وہ نفع حاصل کرنے اور نقصان کو دور متَعَاوِنُونَ.وَ يُجْلَبُ كُلُّ شَيْءٍ ممن کرنے میں باہم شریک ہو گئے ہیں اور وہ ہر نعمت ،سرور ، خِظَةٍ إلى خِظَةٍ فَانْظُرْ كَيْفَ زَوج لباس ، کھانے اور سامان آسائش میں ایک دوسرے کے النَّاسَ كَأْتَهُمْ فى قَارِبِ وَاحِدٍ معاون بن گئے ہیں اور ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ میں ہر فِي جَالِسُونَ وَ مِنْ أَسْبَابِ هذا چیز لائی جاتی ہے.پس دیکھو کس طرح اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو التزويج سيرُ النَّاس في وابور ملا دیا ہے گویا کہ وہ ایک ہی کشتی میں سوار ہیں.نیز آپس میں الروالْبَحْرِ فَهُمْ في تلك الْأَسْفَار ملانے کے ان سامانوں میں سے خشکی اور ترکی کی گاڑیوں يَتَعَارَفُونَ.وَ مِنْ أَسْبَابِه مَكْتُوبَات میں لوگوں کا سفر کرنا ہے وہ ان سفروں کے دوران ایک قد أُحسِنَتُ طُرُقُ اِرُسَالِهَا فَتَری دوسرے سے متعارف ہوتے ہیں.اور ملائے جانے کے ان أَنَّهَا تُرْسَلُ إِلَى أَقَاصِي الْأَرْضِ وَ اسباب میں ایک خطوط کا سلسلہ بھی ہے جس کے بھجوانے کے ارْجَاءَهَا وَ إِنْ أَمْعَنْتَ النظر وسائل بہت عمدہ بنادیئے گئے ہیں تم دیکھ رہے ہو کہ خطوط کیسے دنیا فَتُعْجِبُكَ كَثْرَةُ السَالِهَا وَ لَن تجد کے کناروں تک بھیجے جاسکتے ہیں اور اگر تم اس بارے میں غور

Page 201

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۴ سورة التكوير نَظِيرَهَا في أَوَّلِ الزَّمَانِ وَ كَذَالِكَ کرو تو تمہیں ان کی کثرت ترسیل تعجب میں ڈالے گی اور تم تُعْجِبُكَ كَثْرَةُ الْمُسَافِرِینَ وَ التَّجَارِينَ اس کی پہلے زمانوں میں نظیر نہیں پاؤ گے اور اسی طرح تم کو فَتِلْكَ وَسَائِلُ تَزويج النَّاسِ وَ مسافروں اور تاجروں کی کثرت بھی تعجب میں ڈالے گی.سو تَعَارُفِهِمْ مَا كَانَ مِنْهَا أَثر مِن قَبْلُ وَ یہ سب لوگوں کے آپس میں ملانے اور ان کے آپس میں إِنِّي انْشَدُتُكُمُ اللهَ أَرَأَيْتُمْ مِثْلَهَا قَبْلَ تعارف کے اسباب و ذرائع ہیں جن کا اس سے قبل نام ونشان هذَا أَوَ كُنْتُمْ فِي كُتُبِ تَقْرَءُونَ وَأَمَّا تک بھی نہ تھا.اور میں تمہیں اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر کہتا نَفرُ الصُّحُفِ فَهُوَ إشَارَةٌ إلى وَسَائِلِهَا ہوں کہ کیا تم نے اس سے قبل کبھی ایساد دیکھا یا کیا تم نے اس تم التى هى الْمَطابِعُ كَمَا تَرى أن الله سے قبل کتابوں میں یہ سب باتیں پڑھی ہیں.اور نشر صحف بعد قَوْمًا أوجدوا الاتِ الطَّبع سے اس کے ان وسائل یعنی پریس وغیرہ کی طرف اشارہ ہے فَكَأَيْنَ مِنْ مَّطْبَع يُوجَدُ فِي الْهِنْدِ جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی قوم کو پیدا کیا جس وَغَيْرِهِ مِنَ الْبِلادِ ذَالِكَ فَعَلَ الله نے آلات طبع ایجاد کئے.دیکھو کس قدر پریس ہیں جو ہندوستان لِيَنصُرَنَا فِي أَمْرِنَا وَلِيُشِیعَ دِينَنَا وَ اور دوسرے ملکوں میں پائے جاتے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا فعل كُتُبَنَا وَ يُبَلِّغَ مَعَارِفَنَا إلى كل قوم ہے تا وہ ہمارے کام میں ہماری مدد کرے اور ہمارے دین لَّعَلَّهُمْ يَسْتَبِعُوْنَ إِلَيْهِ وَلَعَلَّهُمْ اور ہماری کتابوں کو پھیلائے اور ہمارے معارف کو ہر قوم يَرْشُدُونَ.....وَ أَمَّا حَشْرُ الْوُحُوش تک پہنچائے تا وہ ان کی طرف کان دھریں اور ہدایت فَهُوَ إِشَارَةٌ إلى كَثْرَةِ الْجاهلين پائیں....وحشیوں کے اکٹھا کئے جانے سے اس طرف الْفَاسِقِينَ وَذِهَابِ الرِّيَانَةِ وَالتَّقْوَی اشارہ ہے کہ جاہلوں اور فاسقوں کی کثرت ہو جائے گی اور فَتَرَوْنَ بِأَعْيُنِكُمْ كَيْفَ نُزع پر دیانت اور تقویٰ ختم ہو جائے گا.سو تم اپنی آنکھوں سے دیکھے الصَّلَاحِ وَ أَصْبَحَ مَاءَهُ غَوْرًا وَ اَكْثَرُ رہے ہو کہ کس طرح نیکی کا کنواں خشک ہو گیا ہے اور اس کا الْخَلْقِ يَسْعَوْنَ إِلى اللير وَ فی اُمور پانی نیچے چلا گیا ہے اور اکثر لوگ شر کی طرف دوڑے چلے الدِّينِ يُدْهِنُونَ إِذَا رَأَوُا شَرًّا جاتے ہیں لیکن امور دین میں مداہنت سے کام لیتے ہیں.فَيَأْخُذُونَهُ وَإِذَا رَأَوْا خَيْرًا فَهُمْ عَلی جب وہ کوئی بری بات دیکھتے ہیں تو اسے اختیار کر لیتے ہیں أَعْقَابِهِمْ يَنْقَلِبُونَ يَنْظُرُونَ إِلى اور جب کوئی نیکی دیکھتے ہیں تو اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاتے

Page 202

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۵ سورة التكوير صَنَائِحِ الْكَفَرَةِ بِنَظرِ الْحُبّ وَ عَن صُنع ہیں.وہ کافروں کی بنی ہوئی چیزوں کو محبت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی صنعتوں سے اعراض کرتے ہیں.اللهِ يُعْرِضُونَ (ترجمه از مرتب) آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۶۸ تا ۴۷۴) قرآن شریف میں آخری زمانہ کے بعض جدید حالات کی نسبت ایسی خبر میں دی گئی ہیں جو ہمارے اس زمانہ میں بہت صفائی سے پوری ہوگئی ہیں جیسا کہ اس میں ایک یہ پیشگوئی کہ آخری زمانہ میں اونٹ بیکار ہو جائیں گے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان دنوں میں ایک نئی سواری پیدا ہو جائے گی چنانچہ قرآن شریف کی پیشگوئی کے الفاظ یہ ہیں وَ إِذَا الْعِشَارُ عُظلت یعنی وہ آخری زمانہ جب اونٹنیاں بیکار ہو جائیں گی اور بیکار ہونا تبھی ہوتا ہے کہ جب ان پر سوار ہونے کی حاجت نہ ہو اور اس سے صریح طور پر نکلتا ہے کہ اونٹنیوں کی جگہ کوئی اور سواری پیدا ہو جائے گی اس آیت کی تشریح کتاب صحیح مسلم میں موجود ہے.اس میں یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لکھی ہے وَيُتْرَكَ الْقِلاصُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْهَا یعنی مسیح موعود کے زمانہ میں اونٹنیاں ترک کی جائیں گی اور کسی منزل تک جلدی پہنچنے کے اور دوڑ کر جانے کے لئے وہ کام نہیں آئیں گی یعنی کوئی ایسی سواری پیدا ہو جائے گی کہ بہ نسبت اونٹنیوں کے بہت جلد منزلِ مقصود تک پہنچائے گی.غرض یسٹی کا لفظ جو حدیث میں ہے اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ دوڑنے کے کام میں اونٹ سے بہتر کوئی اور سواری نکل آوے گی.یہ عجیب بات ہے کہ صحیح مسلم میں جس جگہ مسیح موعود کے زمانہ کا ذکر ہے اسی جگہ یہ حدیث اونٹنیوں کے ترک کرنے کے بارہ میں ہے اور یہ پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے تیرہ سو برس بعد پوری ہوئی چنانچہ ان دنوں میں یہ کوشش بھی ہو رہی ہے کہ ایک سال تک مکہ اور مدینہ میں ریل جاری کر دی جائے پس اس وقت جب ریل جاری ہو جائے گی یہ نظارہ ہر ایک مومن کے لئے ایمان کو زیادہ کرنے والا ہوگا اور جس وقت ہزار ہا اونٹ بیکار ہو کر بجائے ان کے ریل گاڑیاں مکہ سے مدینہ تک جائیں گی اور دمشق اور دوسری اطراف شام وغیرہ کے حج کرنے والے کئی لاکھ انسان ریل گاڑیوں میں سوار ہو کر مکہ معظمہ میں پہنچیں گے تب کوئی لعنتی آدمی ہو گا کہ اس نظارہ کو دیکھ کر اپنے سچے دل سے اس بات کی تصدیق نہیں کرے گا کہ وہ پیشگوئی جو قرآن شریف اور حدیث صحیح مسلم میں موجود ہے آج پوری ہوگئی.یادر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کے لئے یہ ایک عظیم الشان نشان ہے کہ آپ نے تیرہ سو برس پہلے ایک نئی سواری کی خبر دی ہے اور اس خبر کو قرآن شریف اور حدیث صحیح دونوں مل کر پیش کرتے ہیں.

Page 203

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 127 سورة التكوير اگر قرآن شریف خدا کا کلام نہ ہوتا تو انسانی طاقت میں یہ بات ہر گز داخل نہ تھی کہ ایسی پیشگوئی کی جاتی کہ جس چیز کا وجود ہی ابھی دنیا میں نہ تھا اس کے ظہور کا حال بتایا جاتا جبکہ خدا کو منظور تھا کہ اس پیشگوئی کو ظہور میں لاوے.تب اس نے ایک انسان کے دل میں یہ خیال ڈال دیا کہ وہ ایسی سواری ایجاد کرے جو آگ کے ذریعہ سے ہزاروں کو سوں تک پہنچا دے.ایسا ہی قرآن شریف میں آخری زمانہ کی نسبت اور بھی پیشگوئیاں ہیں ان میں سے ایک یہ پیشگوئی بھی ہے وَ اِذَا الصُّحُفُ نَشِرَت یعنی آخری زمانہ وہ ہوگا جبکہ کتابوں اور صحیفوں کی اشاعت بہت ہوگی گویا اس سے پہلے کبھی ایسی اشاعت نہیں ہوئی تھی.یہ ان کلوں کی طرف اشارہ ہے جن کے ذریعہ سے آج کل کتا بیں چھپتی ہیں اور پھر ریل گاڑی کے ذریعہ سے ہزاروں کوسوں تک پہنچائی جاتی ہیں.ایسا ہی قرآن شریف میں آخری زمانہ کی نسبت یہ پیشگوئی ہے کہ اِذَا النُّفُوسُ زُوجَتْ یعنی آخری زمانہ میں ایک یہ واقعہ ہو گا کہ بعض نفوس بعض سے ملائے جاویں گے یعنی ملاقاتوں کے لئے آسانیاں نکل آئیں گی اور لوگ ہزاروں کوسوں سے آئیں گے اور ایک دوسرے سے ملیں گے سو ہمارے زمانہ میں یہ پیشگوئی بھی پوری ہوگئی.....اسی طرح قرآن شریف میں ایک یہ پیشگوئی ہے وَإِذَا الْجِبَالُ سُپرت یعنی وہ آخری زمانہ ہوگا جبکہ پہاڑ چلائے جائیں گے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پہاڑ اڑائے جائیں گے جیسا کہ اس زمانہ میں توپوں کے ساتھ پہاڑوں کو اڑا کر ان میں راستے بنائے گئے ہیں.سو یہ تمام پیشگوئیاں قرآن شریف میں موجود ہیں.مگر اس جگہ یہ نکتہ یا درکھنا چاہیے کہ عشاران اونٹنیوں کو کہتے ہیں جو حمل دار ہوں اور اگر چہ حدیث میں قلاص کا لفظ ہے مگر قرآن شریف میں اس لئے عشار کا لفظ استعمال کیا گیا تا یہ پیشگوئی قیامت کی طرف منسوب نہ کی جائے اور حمل کے قرینہ سے یہ دنیا کا واقعہ سمجھا جائے کیونکہ قیامت کو حمل نہیں ہوں گے.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۲۰ تا ۳۲۳) خدا نے اس آخری زمانہ کے بارے میں جس میں تمام قو میں ایک ہی مذہب پر جمع کی جائیں گی صرف ایک ہی نشان بیان نہیں فرمایا بلکہ قرآن شریف میں اور بھی کئی نشان لکھے ہیں منجملہ ان کے ایک یہ کہ.....ایسے اسباب پیدا ہو جا ئیں گے جس کے ذریعہ سے کتابیں بکثرت ہو جائیں گی ( یہ چھاپنے کے آلات کی طرف اشارہ ہے اور ایک یہ کہ ان دنوں میں ایسی سواری پیدا ہو جائے گی کہ اونٹوں کو بیکار کر دے گی اور اس کے ذریعہ سے ملاقاتوں کے طریق سہل ہو جائیں گے اور ایک یہ کہ دنیا کے باہمی تعلقات آسان ہو جا ئیں گے اور ایک

Page 204

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 162 سورة التكوير دوسرے کو بآسانی خبریں پہنچا سکیں گے....یہ سب علامتیں اس زمانہ میں جس میں ہم ہیں پوری ہوگئیں.عقلمند کے لئے یہ صاف اور روشن راہ ہے کہ ایسے وقت میں خدا نے مجھے مبعوث فرمایا جب کہ قرآن شریف کی لکھی ہوئی تمام علامتیں میرے ظہور کے لئے ظاہر ہو چکی ہیں.لیکھر لاہور ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۸۳، ۱۸۴) اسی زمانہ کی نسبت مسیح موعود کے ضمن بیان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی خبر دی جو صحیح مسلم میں درج ہے اور فرمایا وَيُترك الْقِلاصُ فَلا يُسْخى عَلَيْهَا یعنی مسیح موعود کے زمانہ میں اونٹنی کی سواری موقوف ہو جائے گی پس کوئی ان پر سوار ہو کر ان کو نہیں دوڑائے گا اور یہ ریل کی طرف اشارہ تھا کہ اس کے نکلنے سے اونٹوں کے دوڑانے کی حاجت نہیں رہے گی اور اونٹ کو اس لئے ذکر کیا کہ عرب کی سواریوں میں سے بڑی سواری اونٹ ہی ہے جس پر وہ اپنے مختصر گھر کا تمام اسباب رکھ کر پھر سوار بھی ہو سکتے ہیں اور بڑے کے ذکر میں چھوٹا خود ضمنا آجاتا ہے.پس حاصل مطلب یہ تھا کہ اس زمانہ میں ایسی سواری نکلے گی کہ اونٹ پر بھی غالب آجائے گی جیسا کہ دیکھتے ہو کہ ریل کے نکلنے سے قریبا وہ تمام کام جو اونٹ کرتے تھے اب ریلیں کر رہی ہیں.پس اس سے زیادہ تر صاف اور منکشف اور کیا پیشگوئی ہوگی چنانچہ اس زمانہ کی قرآن شریف نے بھی خبر دی ہے جیسا کہ فرماتا ہے وَإِذَا الْعِشَارُ عُظِلت یعنی آخری زمانہ وہ ہے کہ جب اونٹنی بریکار ہو جائے گی.یہ بھی صریح ریل کی طرف اشارہ ہے اور وہ حدیث اور یہ آیت ایک ہی خبر دے رہی ہیں اور چونکہ حدیث میں صریح مسیح موعود کے بارے میں یہ بیان ہے اس سے یقینا یہ استدلال کرنا چاہیے کہ یہ آیت بھی مسیح موعود کے زمانہ کا حال بتلا رہی ہے اور اجمالاً مسیح موعود کی طرف اشارہ کرتی ہے.و (شهادة القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۰۹،۳۰۸) عام دعوت کا زمانہ جو مسیح موعود کا زمانہ ہے وہ ہے جب کہ اونٹ بریکار ہو جائیں گے یعنی کوئی ایسی نئی سواری پیدا ہو جائے گی جو اونٹوں کی حاجت نہیں پڑے گی اور حدیث میں بھی ہے کہ يُتْرَكُ الْقِلَاصُ فَلَا يُسْعَى علیقا یعنی اس زمانہ میں اونٹ بیکار ہو جائیں گے اور یہ علامت کسی اور نبی کے زمانہ کو نہیں دی گئی.سو شکر کرو کہ آسمان پر نور پھیلانے کے لئے طیاریاں ہیں.زمین میں زمینی برکات کا ایک جوش ہے.یعنی سفر اور حضر میں.اور ہر ایک بات میں وہ آرام تم دیکھ رہے ہو جو تمہارے باپ دادوں نے نہیں دیکھے.گویا د نیا نئی ہوگئی ہے.بے بہار کے میوے ایک ہی وقت میں مل سکتے ہیں.چھ مہینے کا سفر چند روز میں ہو سکتا ہے ہزاروں کوسوں کی خبریں ایک ساعت میں آسکتی ہیں.ہر ایک کام کی سہولت کے لئے مشینیں اور کلیں موجود ہیں اگر

Page 205

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 12A سورة التكوير چاہو تو ریل میں یوں سفر کر سکتے ہو جیسے گھر کے ایک بستان سرائے میں.پس کیا زمین پر ایک انقلاب نہیں آیا.پس جبکہ زمین میں ایک انجو بہ نما انقلاب پیدا ہو گیا اس لئے خدائے قادر چاہتا ہے کہ آسمان میں بھی ایک انجو بہ نما انقلاب پیدا ہو جائے اور یہ دونوں مسیح کے زمانہ کی نشانیاں ہیں.گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۶، ۱۷) چونکہ ریل کا وجود اور اونٹوں کا بیکار ہونا مسیح موعود کے زمانہ کی نشانی ہے اور مسیح کے ایک یہ بھی معنے ہیں کہ بہت سیاحت کرنے والا.تو گویا خدا نے مسیح کے لئے اور اس کے نام کے معنے تحقیق کرنے کے لئے اور نیز اس کی جماعت کے لئے جو اسی کے حکم میں ہیں ریل کو ایک سیاحت کا وسیلہ پیدا کیا ہے تا وہ سیاحتیں جو پہلے مسیح نے ایک سو میں برس تک بصد محنت پوری کی تھیں اس مسیح کے لئے صرف چند ماہ میں وہ تمام سیر و سیاحت میسر آجائے اور یہ یقینی امر ہے کہ جیسے اس زمانہ کا ایک مامور من اللہ ریل کی سواری کے ذریعہ سے خوشی اور آرام سے ایک بڑے حصہ دنیا کا چکر لگا کر اور سیاحت کر کے اپنے وطن میں آ سکتا ہے.یہ سامان پہلے نبیوں کے لئے میسر نہیں تھا اس لئے مسیح کا مفہوم جیسے اس زمانہ میں جلد پورا ہوسکتا ہے کسی دوسرے زمانہ میں اس کی نظیر نہیں.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۹۵ حاشیہ) قرآن شریف میں اور بہت سی پیشگوئیاں ہیں جو اس ہمارے زمانہ میں پوری ہو گئی ہیں جیسے....اونٹوں کے بیکار ہونے اور مکہ اور مدینہ میں ریل جاری ہونے کی پیشگوئی جو آیت وَ إِذَا الْعِشَارُ عُقِلَتْ سے صاف طور پر سمجھی جاتی ہے.تخفه گوار و سیہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۳۱،۲۳۰) ابھی مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے لوگوں کے لئے ایک بھاری نشان ظاہر ہوا ہے اور وہ یہ کہ تیرہ سو برس سے مکہ سے مدینہ میں جانے کے لئے اونٹوں کی سواری چلی آتی تھی اور ہر ایک سال کئی لاکھ اونٹ مکہ سے مدینہ کو اور مدینہ سے مکہ کو جاتا تھا اور ان اونٹوں کے متعلق قرآن اور حدیث میں بالاتفاق یہ پیشگوئی تھی کہ ایک وہ زمانہ آتا ہے کہ یہ اونٹ بیکار کئے جائیں گے اور کوئی ان پر سوار نہیں ہوگا چنانچہ آیت وَ إِذَا الْعِشَارُ عُظِلتْ اور حديث يُغْرَكُ الْقِلَاصُ فَلا يُسعى عَلَيْهَا اس کی گواہ ہے.پس یہ کس قدر بھاری پیشگوئی ہے جو مسیح کے زمانہ کے لئے اور مسیح موعود کے ظہور کے لئے بطور علامت تھی جو ریل کی طیاری سے پوری ہو گئی.اربعین ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۷۵ حاشیہ) یہ بھی احادیث میں آیا تھا کہ مسیح کے وقت میں اونٹ ترک کئے جائیں گے اور قرآن شریف میں بھی وارد

Page 206

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۹ سورة التكوير تھا کہ وَإِذَا الْعِشَارُ عُقِلَتْ اب یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ مکہ اور مدینہ میں بڑی سرگرمی سے ریل طیار ہو رہی ہے اور اونٹوں کے الوداع کا وقت آگیا.اور پھر اس نشان سے کچھ فائدہ نہیں اُٹھاتے.(اربعین، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۹۹،۳۹۸) آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ان دنوں میں اونٹ بریکار ہو جائیں گے اور یہ ریل کی طرف اشارہ تھا جیسا کہ قرآن شریف میں بھی ہے وَإِذَا الْعِشَارُ عُقِلَتْ.ایام اصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۴۰۰) میں وہی ہوں جس کے وقت میں اونٹ بیکار ہو گئے اور پیشگوئی آیت کریمہ وَ إِذَا الْعِشَارُ عُظلت پوری ہوئی اور پیشگوئی حدیث وَلَيُتْرَكَنَ الْقِلَاصُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْهَا نے اپنی پوری پوری چمک دکھلا دی یہاں تک کہ عرب اور مجسم کے اڈیٹر ان اخبار اور جرائد والے بھی اپنے پر چوں میں بول اُٹھے کہ مدینہ اور مکہ کے درمیان جو ریل طیار ہو رہی ہے.یہی اس پیشگوئی کا ظہور ہے جو قرآن اور حدیث میں ان لفظوں سے کی گئی تھی جو مسیح موعود کے وقت کا یہ نشان ہے.اعجاز احمدی، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۰۸) قرآن اور حدیث دونوں بتلارہے ہیں کہ مسیح کے زمانہ میں اونٹ بریکار ہو جائیں گے یعنی ان کے قائم مقام کوئی اور سواری پیدا ہو جائے گی.یہ حدیث مسلم میں موجود ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں وَلَيُتركن الْقِلاصُ فَلا يُسْعَى عَلَيْهَا اور قرآن کے الفاظ یہ ہیں وَإِذَا الْعِشَارُ عُظلت.شیعوں کی کتابوں میں بھی یہ حدیث موجود ہے مگر کیا کسی نے اس نشان کی کچھ پروا کی.ابھی عنقریب اس پیشگوئی کا دلکش نظارہ مکہ اور مدینہ کے درمیان نمایاں ہونے والا ہے جبکہ اونٹوں کی ایک لمبی قطار کی جگہ ریل کی گاڑیاں نظر آئیں گی اور تیرہ سو برس کی سواریوں میں انقلاب ہو کر ایک نئی سواری پیدا ہو جائے گی اس وقت ان مسافروں کے سر پر جب یہ آیت وَإِذَا الْعِشَارُ عُقِلَتْ اور یہ حدیث وَلَيُتْرَكَنَ الْقِلَاصُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْهَا پڑھی جائے گی تو کیسے انشراح صدر سے ان کو ماننا پڑے گا کہ یہ در حقیقت آج کے دن کے لئے ایک نشان تھا اور ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی جو ہمارے نبی کریم کے مبارک لبوں سے نکلی اور آج پوری ہوئی.( نزول المسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۰۶) میں وہ شخص ہوں جس کے زمانہ میں اس ملک میں ریل جاری ہو کر اونٹ بیکار کئے گئے اور عنقریب وہ وقت آتا ہے بلکہ بہت نزدیک ہے جبکہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ریل جاری ہو کر وہ تمام اونٹ بریکار ہو جائیں گے جو تیرہ سو برس سے یہ سفر مبارک کرتے تھے تب اس وقت ان اونٹوں کی نسبت وہ حدیث جو صحیح مسلم میں

Page 207

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۰ سورة التكوير موجود ہے صادق آئے گی یعنی یہ کہ لَی تَرَكَنَ الْقِلَاصُ فَلَا يُسْعَی عَلَيْهَا یعنی مسیح کے وقت میں اونٹ بریکار کئے جائیں گے اور کوئی ان پر سفر نہیں کرے گا.( تذكرة الشهادتين ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۶) ایک نئی سواری جس کی طرف قرآن شریف اور حدیثوں میں اشارہ تھا وہ بھی ظہور میں آگئی یعنی سواری ریل جو اونٹوں کے قائم مقام ہو گئی جیسا کہ قرآن شریف میں ہے وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِلَت یعنی وہ آخری زمانہ جب اونٹنیاں بیکار کی جائیں گی اور جیسا کہ حدیث مسلم میں مسیح موعود کے ظہور کے علامات میں سے ہے وَلَيُتْرَكَنَ الْقِلَاصُ فَلَا يُسْغى عَلَيْهَا یعنی تب اونٹنیاں بیکا ر ہو جائیں گی اور ان پر کوئی سوار نہ ہوگا سو ظا ہر ہے کہ وہ زمانہ آ گیا.(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۵۸) چوتھا نشان ایک نئی سواری کا نکلنا ہے جو مسیح موعود کے ظہور کی خاص نشانی ہے جیسا کہ قرآن شریف میں لکھا ہے وَ إِذَا الْعِشَارُ عُطلت یعنی آخری زمانہ وہ ہے جب اونٹیاں بیکار ہو جائیں گی اور ایسا ہی حدیث مسلم میں ہے وَلَيُتْرَكَنَ الْقِلَاصُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْهَا یعنی اس زمانہ میں اونٹنیاں بیکار ہو جائیں گی اور کوئی ان پر سفر نہیں کرے گا.ایام حج میں مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف اونٹنیوں پر سفر ہوتا ہے.اب وہ دن بہت قریب ہے کہ اس سفر کے لیے ریل طیار ہو جائے گی تب اس سفر پر یہ صادق آئے گا کہ لیتر گن الْقِلاصُ فَلا يُسْعَى عَلَيْهَا....چھٹا نشان کتابوں اور نوشتوں کا بکثرت شائع ہونا جیسا کہ آیت وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَت سے معلوم ہوتا ہے کیونکہ بباعث چھاپہ کی کلوں کے جس قدر اس زمانہ میں کثرت اشاعت کتابوں کی ہوئی ہے اس کے بیان کی ضرورت نہیں....آٹھواں نشان نوع انسان کے باہمی تعلقات کا بڑھنا اور ملاقاتوں کا طریق سہل ہو جانا ہے جیسا کہ آیت وَاِذَا النُّفُوسُ زُوجَتُ سے ظاہر ہے سو بذریعہ ریل اور تار کے یہ امر ایسا ظہور میں آیا کہ گویا دنیا بدل گئی ہے.(حقیقة الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۰۶) حقیقت میں یہ ریلوے مسیح موعود کا ایک نشان ہے.قرآن شریف میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے واذا الْعِشَارُ عُطِلَتُ......یہ لوگ اگر غور کریں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ لیتر كن الخلاص میں ریل کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اگر اس سے ریل مراد نہیں تو پھر ان کا فرض ہے کہ وہ حادثہ بتائیں جس سے اونٹ ترک کئے جاویں

Page 208

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۱ سورة التكوير گے.پہلی کتابوں میں بھی اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اس وقت آمد ورفت سہل ہو جاوے گی.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخه ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحه ۴) (ریل وغیرہ کے ذکر پر فرمایا.) اس زمانہ میں خدا نے ہماری جماعت کو فائدہ پہنچایا ہے کہ سفر کو بہت آرام ہے ورنہ کہاں سے کہاں ٹھوکریں کھاتا ہوا انسان ایک سے دوسرے مقام پر پہنچتا تھا.مدر اس جہاں سیٹھ عبد الرحمن ہیں اگر کوئی جانتا تو گرمیوں میں روانہ ہوتا تو سردیوں میں پہنچتا تھا.اس زمانہ کی نسبت خدا نے خبر دی ہے وَ اِذَا النُّفُوسُ زوجت کہ جب ایک اقلیم کے لوگ دوسرے اقلیم والوں کے ساتھ ملیں گے.البدر جلد ۲ نمبر ۳ مورخه ۶ فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۲۱) وَإِذَا الصُّحُفُ نُشرت یعنی اس وقت خط و کتابت کے ذریعے عام ہوں گے اور کتب کثرت سے دستیاب ہو سکیں گی.وَ إِذَا الْعِشَارُ عُظَلَتْ اس وقت اونٹنیاں بیکا ر ہوں گی.ایک زمانہ تھا کہ یہاں ہزار ہا اونٹ آیا کرتے مگر اب نام ونشان بھی نہیں ہے اور مکہ میں بھی اب نہ رہیں گے.ریل کے جاری ہونے کی دیر ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۴ مورخه ۱۳ / فروری ۱۹۰۳ ء صفحه ۲۶) اس وقت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اور خرابیوں کے علاوہ اسلام کو بھی مردہ مذہب بتایا جاتا ہے حالانکہ نہ وہ کبھی مردہ ہو گا.خدا تعالیٰ نے اس کی زندگی کے ثبوت میں آسمان سے نشان دکھائے....وَ إِذَا الْعِشَارُ عطلت کے موافق ریلیں بھی جاری ہوئیں.غرض وہ نشان جو اس زمانہ کے لئے رکھے تھے پورے ہوئے مگر یہ کہتے ہیں کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا.الحکم جلدے نمبر۷ مورخه ۲۱ فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۴) وَإِذَا الْعِشَارُ عُظَلَت کے موافق اونٹنیاں بیکار ہو گئیں جو اس آخری زمانہ کا ایک نشان ٹھہرایا گیا تھا.عشار حاملہ اونٹنیوں کو کہتے ہیں.یہ لفظ اس لئے اختیار کیا گیا ہے تا یہ وہم نہ رہے جیسا بعض لوگ کہتے ہیں کہ قیامت کے متعلق ہے.قیامت میں تو حمل نہ ہوگا.اور بیکار ہونا یہاں تو الگ رہا مکہ مدینہ کے درمیان بھی ریل طیار ہو رہی ہے.اخبارات نے بھی اس آیت اور مسلم کی حدیث سے استنباط کر کے مضامین لکھے ہیں.پس یہ اور دوسرے نشان تو پورے ہو گئے ہیں.میں اگر صادق نہیں ہوں تو دوسرے مدعی کا نشان بتاؤ اور اس کا ثبوت دیکھو.الحکم جلدے نمبر ۸ مورخه ۲۸ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۵،۴) انسانی صنعتوں کا انحصار خدا تعالیٰ کے فضل پر ہے.ریل کے واسطے قرآن شریف میں دو اشارے ہیں.اول اِذَا النُّفُوسُ زُوجَت - دوم اِذَا الْعِشَارُ عُقِلَتْ - عشار حمل دار اونٹنی کو کہتے ہیں.حمل کا ذکر اس لئے کیا

Page 209

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۲ سورة التكوير تا کہ معلوم ہو جاوے کہ یہ قیامت کا ذکر نہیں ہے صرف قرینہ کے واسطے یہ لفظ لکھا ہے ورنہ ضرورت نہ تھی.اگر پیشگوئیوں کا صدق اس دنیا میں نہ کھلے تو پھر اس کا فائدہ کیا ہوسکتا ہے اور ایمان کو کیا ترقی ہو؟ بیوقوف لوگ ہر ایک پیشگوئی کو صرف قیامت پر لگاتے ہیں.اور جب پوچھو تو کہتے ہیں کہ اس دنیا کی نسبت کوئی پیشگوئی قرآن شریف میں نہیں ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۲۴ مورخه ۳/ جولائی ۱۹۰۳ء صفحه ۱۸۵) ایک اور نشان اس زمانہ کا وہ نئی سواری تھی جس نے اونٹوں کو بریکار کر دینا تھا قرآن نے وَ إِذَا الْعِشَارُ عطلت ( جب اونٹیاں بیکار ہو جاویں گی ) کہہ کر اس زمانہ کا پتہ بتلایا.حدیث نے مسیح کے نشان میں یوں کہا لَيُترَكَنَ الْقِلَاصُ فَلَا يُسْخى عَلَيْهَا پھر یہ نشان کیا پورا نہ ہوا ؟ حتی کہ اس سرزمین میں بھی جہاں آج تک اوٹنی کی سواری تھی اور بغیر اونٹنیوں کے گزارہ نہ تھا وہاں بھی اس سواری کا انتظام ہو گیا ہے اور چند سالوں میں اونٹوں کی سواری کا نام ونشان نہیں ملے گا.اونٹنیاں بیکار ہو گئیں.مقرر کردہ نشان پورے ہو گئے لیکن جس کا یہ نشان تھا وہ پہچانا نہ گیا.کیا یہ امور بھی میرے اختیار میں تھے کہ ایک طرف تو میں دعوی کروں اور دوسری طرف یہ نشان پورے ہوتے جاویں.البدر جلد ۳ نمبر ۳۰ مورخه ۸ / اگست ۱۹۰۴ ء صفحه ۴) قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے اور احادیث صحیحہ اس کی تصدیق کرتی ہیں کہ مسیح موعود کے زمانہ میں ایک نئی سواری پیدا ہوگی جس سے اونٹ بیکار ہو جا ئیں گے جب کہ قرآن شریف میں ہے وَإِذَا الْعِشَارُ عطلت اور حدیث صحیحہ میں ہے وَيُتْرَكُ الْقِلَاصُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْهَا.اب آپ لوگ جانتے ہیں کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان بھی ریل طیار ہورہی ہے.اس عظیم الشان پیشگوئی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک اخبار والے نے لکھا ہے کہ مکہ مدینہ والے بھی یہ نظارہ دیکھ لیں گے کہ اونٹوں کی قطاروں کی بجائے ریل گاڑی وہاں چلے گی.قرآن شریف میں جو یہ فرما یاوَ إِذَا الْعِشَارُ عُطّلت اس کے متعلق نواب صدیق حسن خاں نے لکھا ہے کہ عشار حاملہ اونٹنی کو کہتے ہیں اس لئے یہ لفظ اللہ تعالیٰ نے اختیار فرمایا تا کہ یہ سمجھ آجاوے کہ اسی دنیا کے متعلق ہے کیونکہ حاملہ ہونا تو اسی دنیا میں ہوتا ہے.اسی طرح نہروں کا نکالے جانا، چھاپے خانوں کی کثرت اور اشاعت کتب کے ذریعوں کا عام ہونا ، اسی قسم کے بہت سے نشان ہیں جو اس زمانہ سے مخصوص تھے اور وہ پورے ہو گئے ہیں.الحکم جلد ۸ نمبر ۳۱ مورخه ۱۷ارستمبر ۱۹۰۴ صفحه ۶) اس آخری زمانے کے نشانات میں بتایا گیا تھا کہ نہریں نکالی جاویں گی اور نئی آبادیاں ہوں گی.پہاڑ

Page 210

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۳ سورة التكوير چیرے جاویں گے.کتابوں اور اخباروں کی اشاعت ہوگی.اور یہ بھی لکھا تھا وَ إِذَا الْعِشَارُ عُظلت یعنی ایک ایسی سواری نکلے گی جس کی وجہ سے اونٹنیاں بریکار ہو جائیں گی.اور ایسا ہی حدیث میں بھی فرمایا گیا تھا يُتْرَكُ الْقِلَاصُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْقا.اب دیکھ لو کہ ریل کے اجراء سے یہ پیشگوئی کیسی صاف صاف پوری ہوگئی اور عنقریب جب مکہ تک ریل آئے گی تو اور بھی اس کا نظارہ قابلِ دید ہوگا جب وہاں کے اونٹ بیکار ہو جائیں گے.مگر میں افسوس سے ظاہر کرتا ہوں کہ انہوں نے محض میرے ساتھ بخل کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک پر بھی حملہ کیا اور آپ کی پیشگوئیوں کی تکذیب کی.وہ امر جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت ثابت ہوتی تھی میری عداوت کی وجہ سے اسے مٹانا چاہا ہے.مجھ سے عداوت ہی سہی لیکن آپ کی پیشگوئی کو کیوں پامال کر دیا.الحکم جلد نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۷ صفحه ۹۰۸) سول اخبار میں لکھا ہے کہ روز بروز اب اونٹ بیکار ہوتے جاتے ہیں.کیسی بین طور پر قرآن شریف اور حدیث کی تصدیق ہوتی جاتی ہے.حدیث میں لکھا ہے وَلَيُترَكَنَ الْقِلَاصُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْهَا اور قرآن شریف میں وَ اِذَا الْعِشَارُ عُظِلت لکھا ہے.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب دنیا میں کوئی مامور من اللہ مبعوث ہوتا ہے تو زمانہ میں جتنی بڑی بڑی کارروائیاں ہوں اور بڑے بڑے انقلاب ظہور میں آویں تو وہ سب اسی کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۳ مورخه ۷ار تمبر ۱۹۰۷ ، صفحہ ۱۰) 11 سورۃ تکویر میں سب نشانات آخری زمانے کے ہیں.انہی میں سے ایک نشان ہے وَ إِذَا الْعِشَارُ عطلت یعنی جب اونٹنیاں بریکار چھوڑی جائیں گی.اس کی تفسیر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وَلَيُتْرَكَنَ الْقِلَاصُ فَلَا يُسعى عَلَيْهَا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعود بھی اسی زمانہ میں ہوگا بلکہ اس کے ابتدائی زمانے کے یہ نشان ہیں.پھر فرما یا وَ اِذَا النُّفُوسُ زُوجَتْ یعنی ایسے اسباب سفر مہیا ہو جائیں گے کہ قو میں باوجود اتنی دور ہونے کے آپس میں مل جائیں گی حتی کہ نئی دنیا پرانی سے تعلقات پیدا کر لے گی......نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سفر کی تمام راہیں نہ کھلی تھیں.تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ بعض ایسے مقامات بھی ہیں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت نہیں پہنچی مگر اب تو ڈاک تار، ریل سے زمین کے اس سرے سے اس سرے تک خبر پہنچ سکتی ہے.یہ حجاز ریلوے جو بن رہی ہے یہ بھی اسی پیشگوئی کے ماتحت ہے عرب کے کئی

Page 211

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۴ سورة التكوير لوگ کہنے لگ گئے ہیں کہ وَإِذَا الْعِشَارُ عُظَلَتْ کا زمانہ آ گیا.عِشَار ( گیا بھن اونٹنیاں ) کا لفظ خود ظاہر کرتا ہے کہ یہ سب قیامت سے پہلے ہوگا کیونکہ اس دن کی نسبت تو لکھا ہے کہ ہر حمل والی اپنی حمل گرا دے گی اور پھر اس دن تو ہر چیز معطل ہو جائے.اونٹنیوں کی خصوصیت کیا ہے.مطلب یہ تھا کہ اب تجارت کا دارو مدار اونٹنیوں پر ہے پھر ریل پر ہوگا اور چونکہ حدیث میں یہی زمانہ مسیح موعود کا لکھا ہے اس لئے اب عرب والوں کو مسیح موعود کی تلاش کرنی چاہیے.دیکھو اب تو ان کے گھر میں ریل بن رہی ہے اور خود ہمارے دشمن اس میں سر توڑ کوشش کر رہے ہیں.یہ بھی ایک نشان ہے کہ ہمارے دشمنوں کو خدا نے ہمارے کام میں لگا دیا ہے.چندہ تو دے رہے ہیں وہ اور صداقت ہماری ثابت ہوگی.( بدر جلدے نمبر ۳ مورخه ۲۳ جنوری ۱۹۰۸ صفحه ۳) مسلم نے.....آخری زمانہ کے علامات کا ذکر کرتے ہوئے ایک نئی سواری کا ذکر کر کے یہ کہا کہ لَيُتْرَكَنَ الْقِلَاصُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْها اور قرآن شریف نے اس مضمون کو عبارت ذیل میں بیان فرما کر اور بھی صراحت کر دی کہ اِذَا الْعِشَارُ عُطلت.قرآن وحدیث کا تطابق اور پھر عملی رنگ میں اس دور دراز زمانہ میں جبکہ ان پیشگوئیوں کو ۱۳ سو برس سے بھی زائد عرصہ گزر چکا ہے ان کا پورا ہونا ایمان کو کیسا تازہ اور مضبوط کرتا ہے.چنانچہ ایک اخبار میں ہم نے دیکھا ہے کہ شاہ روم نے تاکیدی حکم دیا ہے کہ ایک سال کے اندر حجاز ریلوے تیار ہو جاوے.سبحان اللہ کیسا عجیب نظارہ ہوگا اور ایمان کیسے تازہ ہوں گے کہ جب پیشگوئی کے بالکل مطابق بجائے اونٹوں کی لمبی لمبی قطاروں کے ریل کی لمبی قطار میں دوڑتی ہوئی نظر آئیں گی.پس جب یہ پیشگوئی جو آثار قرب قیامت اور مسیح موعود کی آمد کے نشان میں سے ایک زبر دست اور اقتداری پیشگوئی ہے پوری ہو رہی ہے تو ایمان لانا چاہیے کہ مسیح موعود بھی موجود ہے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۰ مورخه ۲۲ مارچ ۱۹۰۸ء صفحه ۳) منجملہ اور علامات کے جو ہمارے آنے کے واسطے اللہ اور رسول کی کتابوں میں مندرج ہیں ایک اونٹوں کی سواریوں کا معطل ہو جانا بھی ہے چنانچہ اس مضمون کو قرآن شریف نے بالفاظ ذیل تعبیر کیا ہے واذا الْعِشَارُ عُظلت اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس مضمون کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ لیترگن الْقِلَاصُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْهَا.اب سوچنے والے کو چاہیے کہ ان امور میں جو آج سے تیرہ سو برس پیشتر خدا اور اس کے رسول کے منہ سے نکلے اور اس وقت وہ الفاظ بڑی شان اور شوکت سے پورے ہو کر اپنے کہنے والوں کے جلال کا اظہار کر رہے ہیں.دیکھئے اب اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے کیسے کیسے سامان پیدا ا

Page 212

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۵ سورة التكوير ہورہے ہیں حتی کہ حجاز ریلوے کے تیار ہو جانے پر مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے سفر بھی بجائے اونٹ کے ریل کے ذریعہ ہوا کریں گے اور اونٹنیاں بیکار ہو جاویں گی.(الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۱ مورخه ۶ رمئی ۱۹۰۸ صفحه ۴) بطور پیشگوئی بیان فرمایا ہے کہ ایک ایسا زمانہ بھی آتا ہے کہ جب سفر کرنے کے سامان سہل طور پر میسر آجائیں گے اور اونٹنیوں کی سواری کی حاجت نہیں رہے گی اور سفر میں بہت آرام اور سہولت میسر آجائے گی اور ایک ایسی نئی سواری پیدا ہو جائے گی کہ ایک حصہ دنیا کو دوسرے حصہ سے ملا دے گی اور ایک ملک کے لوگوں کو دوسرے ملک کے لوگوں سے اکٹھے کر دے گی جیسا کہ یہ دو آیتیں اسی پیشگوئی پر مشتمل ہیں اور وہ یہ ہیں وَإِذَا الْعِشَارُ عُقِلَتْ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوجَتْ یعنی وہ زمانہ آتا ہے کہ اونٹیاں بیکار کر دی جائیں گی.جاننا چاہیے کہ عرب کی تجارت اور سفر کا مدار تمام اونٹنیوں پر ہے اس لئے اونٹوں کا ہی ذکر کیا.یہ تو ہر ایک شخص جانتا ہے کہ مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک حاجیوں کے پہنچانے کے لئے تیرہ سو برس سے صرف اونٹنیوں کی سواری چلی آتی ہے.پس اس جگہ خدا تعالیٰ یہ خبر دیتا ہے کہ وہ زمانہ آتا ہے کہ وہ سواری موقوف کر دی جائے گی اور بجائے اس کے ایک نئی سواری ہوگی جو آرام اور جلدی کی ہوگی اور یہ بات اس سے نکلتی ہے کہ جو بدل اختیار کیا جاتا ہے وہ مبدل منہ سے بہتر ہوتا ہے.دوسری آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ زمانہ آتا ہے کہ جب کہ بچھڑے ہوئے لوگ باہم ملا دیئے جائیں گے اور اس قدر باہمی ملاقاتوں کے لئے سہولتیں میسر آجائیں گی اور اس کثرت سے ان کی ملاقاتیں ہوں گی کہ گو یا مختلف ملکوں کے لوگ ایک ہی ملک کے باشندے ہیں.سو یہ پیشگوئی ہمارے اس زمانہ میں پوری ہو گئی جس سے ایک عالم گیر انقلاب ظہور میں آیا گویا دنیا بدل گئی کیونکہ دخانی جہازوں اور ریلوں کے ذریعہ سے وہ روکیں جو پہاڑوں کی مانند حائل تھیں سب اُٹھ گئیں اور ایک دنیا مشرق سے مغرب کو اور مغرب سے مشرقی بلا د کو آتی ہے.چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۸۱ تا ۸۳ ) قیامت کے قرب اور مسیح موعود کے آنے کا وہ زمانہ ہے جبکہ اونٹنیاں بیکار ہو جائیں گی یہ آیت صحیح مسلم کی اس حدیث کی مصدق ہے جہاں لکھا ہے کہ وَيُتْرَكُ الْقِلَاصُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْهَا یعنی مسیح موعود کے زمانہ میں اونٹنیاں بریکار چھوڑ دی جائیں گی اور ان پر کوئی سوار نہیں ہوگا.یہ ریل گاڑی پیدا ہونے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ جب کوئی اعلیٰ سواری میسر آتی ہے تبھی ادنی سواری کو چھوڑتے ہیں.اور دوسری آیت گویا اس کا نتیجہ ہے اور ترجمہ اس کا یہ ہے کہ اس زمانہ میں بعض آدمی بعض سے ملائے جائیں گے اور ظاہری تفرقہ قوموں کا دور ہو

Page 213

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۶ سورة التكوير جائے گا اور چونکہ صحیح مسلم میں کھول کر بیان کیا گیا ہے کہ اونٹنیوں کے بیکار ہونے کا مسیح موعود کا زمانہ ہے اس لئے قرآن شریف کی آیت وَ إِذَا الْعِشَارُ عُقِلَتْ جو حديث يُتْرَكَ الْقِلاص کے ہم معنی ہے بدیہی طور پر دلالت کرتی ہے کہ یہ واقعہ ریل جاری ہونے کا مسیح موعود کے زمانہ میں ظہور میں آئے گا.اسی لئے میں نے إذَا الْعِشَارُ عُظِلت کے یہی معنی کئے ہیں کہ وہ مسیح موعود کا زمانہ ہے کیونکہ حدیث نے اس آیت کی شرح کر دی ہے اور چونکہ ریل کے جاری ہونے پر ایک مدت گزر چکی ہے جو مسیح موعود کی علامت ہے اس لئے ایک مومن کو ماننا پڑتا ہے کہ مسیح موعود ظاہر ہو چکا ہے اور جب کہ ایک واقعہ نے ممدوحہ بالا آیت اور حدیث کے معنے کھول دیئے ہیں تو اب ظاہر شدہ معنوں کو قبول نہ کرنا صریح الحادا اور بے ایمانی ہے.سوچ کر دیکھو کہ جب مکہ اور مدینہ میں اونٹ چھوڑ کر ریل کی سواری شروع ہو جائے گی تو کیا وہ روز اس آیت اور حدیث کا مصداق نہ ہو گا ؟ ضرور ہوگا اور تمام دل اس دن بول اٹھیں گے کہ آج وہ پیشگوئی مکہ اور مدینہ کی راہ میں کھلے کھلے طور پر پوری ہوگئی.ہائے افسوس ان نام کے مسلمانوں پر کہ جو نہیں چاہتے کہ (میرے بغض کی وجہ سے ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی پیشگوئی پوری ہو.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۸۱، ۸۲ حاشیه ) اس زمانہ میں اونٹنیاں بریکار ہو جاویں گی.اعلیٰ درجہ کی سواری اور بار برداری جن سے ایام سابقہ میں ہوا کرتی تھی.یعنی اس زمانہ میں سواری کا انتظام کوئی ایسا پیدا ہوگا کہ یہ سواریاں بیکار ہو جاویں گی.اس سے ریل کا زمانہ مراد تھا.وہ لوگ جو خیال کرتے ہیں کہ ان آیات کو تعلق قیامت سے ہے وہ نہیں سوچتے کہ قیامت میں اونٹنیاں حمل دار کیسے رہ سکتی ہیں کیونکہ عشار سے مراد حمل دار اونٹنیاں ہیں.پھر لکھا ہے کہ اس زمانہ میں چاروں طرف نہریں پھیل جاویں گی اور کتا بیں کثرت سے اشاعت پاویں گی.غرض کہ یہ سب نشان اسی زمانہ کے متعلق تھے.(رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۶۰) وَإِذَا النُّفُوسُ زُوجَت بھی میرے ہی لئے ہے...پھر یہ بھی جمع ہے کہ خدا تعالیٰ نے تبلیغ کے سارے سامان جمع کر دیئے ہیں.چنانچہ مطبع کے سامان ، کاغذ کی کثرت ، ڈاکخانوں ، تار اور ریل ، اور دُخانی جہازوں کے ذریعے کل دنیا ایک شہر کا حکم رکھتی ہے اور پھر نت نئی ایجاد یں اس جمع کو اور بھی بڑھا رہے ہیں کیونکہ اسباب تبلیغ جمع ہورہے ہیں.اب فونوگراف سے بھی تبلیغ کا کام لے سکتے ہیں اور اس سے بہت عجیب کام نکلتا ہے.اخباروں اور رسالوں کا اجراء.غرض اس قدر سامان تبلیغ کے جمع ہوئے ہیں کہ اس کی نظیر کسی پہلے زمانہ میں ہم کو نہیں ملتی.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۳ مورخه ۳۰/نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۲،۱)

Page 214

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام IAZ سورة التكوير یہ زمانہ اس قسم کا آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے وسائل پیدا کر دیئے ہیں کہ دنیا ایک شہر کا حکم رکھتی ہے اور وَاِذَا النُّفُوسُ زُوجَت کی پیشگوئی پوری ہو گئی ہے.اب سب مذاہب میدان میں نکل آئے ہیں اور یہ ضروری امر ہے کہ ان کا مقابلہ ہو اور ان میں ایک ہی سچا ہوگا اور غالب آئے گا.وَإِذَا السَّمَاءُ كُشِطَتُ.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخه ۳۱/اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۱) إِنَّكُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ الْمَسِيحَ يَأْتِي فِي آخِرِ تمہیں بخوبی علم ہے کہ مسیح موعود کا ظہور آخری زمانہ الزَّمَانِ وَ قَد رَأَيْتُمْ بِأَعْيُنِكُمْ عَلامَاتِہ میں ہوگا اور تم نے اس کی علامات کو اپنی آنکھوں سے پورا وَشَاهَدتُمُ التَّوَادِرَ الْأَرْضِيَّةَ الَّتِى جَعَلَهَا ہوتے دیکھ لیا ہے.نیز تم نے ان ارضی ایجادات کا بھی الْقُرْآنُ الكَرِيمُ مِنْ آثَارِ الزَّمَنِ الْمُتَأَخَر مشاہدہ کر لیا ہے جن کو قرآن کریم نے آخری زمانہ کے وَ انْتُمْ مِنْهَا تَنْتَفِعُوْنَ.فَمَا لَكُمْ لا نشانات قرار دیا ہے اور تم ان ایجادات سے فائدہ اُٹھا تُؤْمِنُوْنَ بِالنَّوَادِرِ السَّمَاوِيَّةِ الَّتِي تَدُلُّ رہے ہو.پس تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ ان آسمانی نشانات پر عَلَيْهَا الْآيَةُ الْكَرِيمَةُ اَغنِى بِذَالِكَ قَوْلَهُ ایمان نہیں لاتے جن کو آیہ کریمہ إِذَا السَّمَاءُ كُشَطَتُ تعالى.إذا السماء كشطَتُ وَ تَخَلُدُونَ إِلَى بیان کر رہی ہے.تم زمین کی طرف جھکتے جارہے ہولیکن الْأَرْضِ وَمِنْ الَآءِ السَّمَاءِ تَبْعُدُونَ آسمانی نعمتوں سے دور ہو.(ترجمہ از مرتب) آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۷۸) وَاليْلِ إِذَا عَسْعَسَ وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَسَ) 19 وَلِكُلِّ كَمَالٍ زَوَالٌ.وَلِكُلِّ تَرَغْرُعٍ ہر کمال کو آخر زوال دیکھنا پڑتا ہے.اسی طرح ہر ترقی اضْمِحْلَال كَمَا تَرَى أَنَّ الشَّيْلَ إِذَا کے بعد تنزل کا دور آتا ہے.جیسا کہ تم دنیا میں مشاہدہ وَصَلَ إلَى الْجَبَلِ الرَّاسِي وَقَفَ وَ کرتے ہو کہ جب سیلاب بلند پہاڑوں تک پہنچتا ہے تو رک اللَّيْلُ إِذَا بَلَغَ إِلَى الصُّبْحِ الْمُسْفِرِ جاتا ہے.اور رات جب روشن صبح تک پہنچتی ہے تو اس کی انْكَشَفَ كَمَا قَالَ اللهُ تَعَالَی وَاليْلِ تاریکی ختم ہو جاتی ہے چنانچہ اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا

Page 215

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۸ سورة التكوير إِذَا عَسْعَسَ وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَس ہے وَالَّيْلِ إِذَا عَسْعَسَ وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَس یعنی ہم رات کو شہادت فَجَعَلَ تَنفُسَ الصُّبْحِ كَأَمْرِ کے طور پر پیش کرتے ہیں جب وہ خاتمہ کو پہنچ جاتی ہے اور صبح کو جب لازم بَعْدَ كَمَالِ ظُلُمَاتِ وہ سانس لینے لگتی ہے.اس آیہ کریمہ میں رات کے اندھیروں کے کمال اللَّيْلِ.....فَأَرَادَ اللهُ أَنْ يَرُدَّ تک پہنچنے کے بعد صبح کے ظاہر ہونے کو لازم قرار دیا ہے....پس اللہ إِلَى الْمُؤْمِنِينَ أَيَّامَهُمُ الْأُولى تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ وہ مومنوں پر پہلے ترقی کے زمانہ کو لوٹا دے وَأَنْ يُرِيَهُمْ أَنَّهُ رَبُّهُمْ وَأَنَّهُ اور ان کو دکھا دے کہ ان کا ایک قادر رب ہے جو رحمن اور رحیم ہے اور الرَّحْمنُ وَالرَّحِيمُ وَمَالِك يوم اس دن کا مالک ہے جب سب لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا فِيْهِ يُجْزَى وَيُبْعَثُ فِيْهِ الْمَوٹی جائے گا اور جس میں مردے زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے.اعجاز اسی ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۱۵۸) (ترجمه از مرتب) وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينِ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَيْطَنٍ رَّجِيمٍ.قرآن...غیب کے عطا کرنے میں بخیل نہیں ہے یعنی بخیلوں کی طرح اس کا یہ کام نہیں کہ صرف آپ ہی غیب بیان کرے اور دوسرے کو غیبی قوت نہ دے سکے بلکہ آپ بھی غیب پر مشتمل ہے اور پیروی کرنے والے پر بھی فیضانِ غیب کرتا ہے.قرآن ہر یک قسم کے امور غیبیہ پرمشتمل ہے اور اس قدر جتلانا جنات کا کام نہیں.لا (جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۸۷) (براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۸۵) إنْ هُوَ الَّا ذكر للعلمين ) لِمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ قرآن....ذكر العلمین ہے یعنی ہر ایک قسم کی فطرت کو اس کے کمالات مطلوبہ یاد دلاتا ہے اور ہر یک رتبہ کا آدمی اس سے فائدہ اٹھاتا ہے.جیسے ایک عامی ویسا ہی ایک فلسفی.یہ اس شخص کے لئے اترا ہے جو انسانی استقامت کو اپنے اندر حاصل کرنا چاہتا ہے یعنی انسانی درخت کی جس قدر شاخیں ہیں یہ کلام ان سب شاخوں کا پرورش کرنے والا اور حد اعتدال پر لانے والا ہے اور انسانی قومی کے ہریک پہلو پر اپنی تربیت کا اثر ڈالتا ہے.(کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۵۲)

Page 216

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۱۸۹ سورة الانفطار بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الانفطار بیان فرموده سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ إذَا السَّمَاءُ انْفَطَرَتْ ) وَإِذَا الْكَوَاكِبُ انْتَثَرَتْ وَإِذَا الْبِحَارُ فُجْرَتُ ) اسی زمانہ کی علامات میں جبکہ ارضی علوم وفنون زمین سے نکالے جائیں گے بعض ایجادات اور صناعات کو بطور نمونہ کے بیان فرمایا ہے اور وہ یہ ہے.....و إذا البحار فجرت اور جس وقت دریا چیرے جاویں گے یعنی زمین پر نہریں پھیل جائیں گی.اور کاشتکاری کثرت سے ہوگی......وَ إِذَا الْكَوَاكِبُ انْتَثَرَتْ اور جس وقت تارے جھڑ جاویں گے یعنی ربانی علماء فوت ہو جائیں گے کیونکہ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ زمین پر تارے گریں اور پھر زمین پر لوگ آبادرہ سکیں.یادر ہے کہ مسیح موعود کے آنے کے لیے اس قسم کی پیشگوئی انجیل میں بھی ہے کہ وہ اس وقت آئے گا کہ جب زمین پر تارے گر جائیں گے اور سُورج اور چاند کا نور جاتا رہے گا.اور ان پیشگوئیوں کو ظاہر پر حمل کرنا اس قدر خلاف قیاس ہے کہ کوئی دانا ہر گز یہ تجویز نہیں کرے گا کہ در حقیقت سورج کی روشنی جاتی رہے اور ستارے تمام زمین پر گر پڑیں اور پھر زمین بدستور آدمیوں سے آباد ہو اور اُس حالت میں مسیح موعود آوے......ایسا ہی فرمایا.إذا السماء الفطرت اور انجیل میں بھی اسی کے مطابق مسیح موعود کے آنے کی خبر دی ہے مگر ان آیتوں سے یہ مراد نہیں ہے کہ در حقیقت اُس وقت آسمان پھٹ جائے گا یا اُس کی قوتیں سست ہو جائیں گی بلکہ مدعا یہ ہے کہ جیسے پھٹی ہوئی چیز بیکار ہو جاتی ہے ایسا ہی آسمان بھی بریکارسا

Page 217

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۰ ہوگا.آسمان سے فیوض نازل نہیں ہوں گے اور دُنیا ظلمت اور تاریکی سے بھر جائے گی.سورة الانفطار (شهادة القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۱۷ تا ۳۱۹) اس بات کے ثبوت کے لئے کہ در حقیقت یہ آخری زمانہ ہے جس میں مسیح ظاہر ہو جانا چاہیے دو طور کے ولائل موجود ہیں (۱) اول وہ آیات قرآنیہ اور آثار نبویہ جو قیامت کے قرب پر دلالت کرتے ہیں اور پورے ہو گئے ہیں جیسا کہ....ملک میں نہروں کا بکثرت نکلنا جیسا کہ آیت وَ إِذَا الْبِحَارُ فُجْرَت سے ظاہر ہے اور ستاروں کا متواتر ٹوٹنا جیسا کہ آیت وَ إِذَا الكَواكِبُ انْتَثَرَتْ سے ظاہر ہے اور قحط پڑنا اور و با پڑنا اور امساک باراں ہونا جیسا کہ آیت اِذَا السَّمَاءُ انْفَطَرَتْ سے منکشف ہے.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۴۲ حاشیه ) قرآن شریف میں سماء کا لفظ نہ صرف آسمان پر بولا جاتا ہے جیسا کہ عوام کا خیال ہے بلکہ کئی معنوں پر سماء کا لفظ قرآن شریف میں آیا ہے.چنانچہ مینہ کا نام بھی قرآن شریف میں سماء ہے اور اہلِ عرب مینہ کو سماء کہتے ہیں اور کتب تعبیر میں سماء سے مراد بادشاہ بھی ہوتا ہے اور آسمان کے پھٹنے سے بدعتیں اور ضلالتیں اور ہر ایک قسم کا جور اور ظلم مراد لیا جاتا ہے اور نیز ہر قسم کے فتنوں کا ظہور مراد لیا جاتا ہے.کتاب تعطیر الا نام میں لکھا ہے فَإِنْ رَأَى السَّمَاءِ انْشَقَّتْ دَلَّ عَلَى الْبِدْعَةِ وَ الضَّلَالَةِ - ( دیکھو صفحہ ۳۰۵ تعطیر الانام ).تحفہ گولر و بیه، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۴۲ حاشیه ) ممکن ہے کہ ان آیات میں سے بعض قیامت سے بھی تعلق رکھتی ہوں مگر اول مصداق ان آیات کا یہی دنیا ہے کیونکہ یہ آخری زمانہ کی نشانیاں ہیں اور جب دنیا کا سلسلہ ہی لپیٹا گیا تو پھر کس بات کی یہ نشانیاں ہوں گی.غالباً اسلام میں ایسے جاہل بھی ہوں گے جو اس راز کو نہیں سمجھے ہوں گے اور خدا تعالیٰ کی پیشگوئیاں جن سے ایمان قوی ہوتا ہے ان کی نظر میں تمام وہ امور بعد الدنیا ہیں.یہ تمام قرآنی پیشگوئیاں پہلی کتابوں میں مسیح موعود کے وقت کی نشانیاں ٹھہرائی گئی ہیں.دیکھو دانی ایل باب نمبر ۱۲.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۴۳ حاشیه ) وَأَمَّا تَفْجِيرُ الْبِحَارِ فَقَدْ ربا دریاؤں کو چیر نا.سو تم نے دیکھا ہے کہ اللہ تعالی نے ایک رَأَيْتُمُ الله بَعَكَ قَوْمًا فَجَّرُوا ایسی قوم کو برپا کیا ہے جس نے دریاؤں کو چیر دیا ہے اور ان الْبِحَارَ وَ أَجْرَوُا الْأَنْهَارَ وَ هُمْ عَلی سے نہریں نکال دیں اور پھر وہ اور نہریں نکالتے جارہے ہیں اور

Page 218

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۱ سورة الانفطار تَفْجِيْرِهَا مُدَاوِمُوْنَ.وَ أَحَاطُوْا عَلَى دَقَائِقِ انہوں نے تیر انہار کے علم کی بار یک باتوں پر بھی احاطہ عِلْمٍ تَفْجِيرِ الْانهَارِ وَ أَفَاضُوهَا عَلى كُلِ کر لیا ہوا ہے اور انہوں نے نہروں کو ہر غیر آباد وادی وَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ لِيَعْمُرُوا الْأَرْضَ وَيَدْفَعُوا میں جاری کر دیا ہے تا وہ زمین کو آباد کریں اور اس کے بَلَايَا الْقَعْطِ مِنْ اَهْلِهَا وَ كَذَالِكَ يَعْمَلُونَ رہنے والوں سے قحط کی بلاؤں کو دور کریں اور اس طرح لِيَنْتَفِعُوا مِنَ الْأَرْضِ حَقِّ الْاِنْتِفَاعِ فَهُمْ وہ یہ کام اس لئے کرتے ہیں تا وہ زمین سے پورا نفع حاصل کریں چنانچہ وہ نفع حاصل کر رہے ہیں مُنْتَفِعُونَ (ترجمه از مرتب) آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۷۰،۴۶۹) خدا نے اس آخری زمانہ کے بارہ میں جس میں تمام تو میں ایک ہی مذہب پر جمع کی جائیں گی صرف ایک ہی نشان بیان نہیں فرمایا بلکہ قرآن شریف میں اور بھی کئی نشان لکھتے ہیں منجملہ ان کے ایک یہ کہ اس زمانہ میں دریاؤں میں سے بہت سی نہریں نکلیں گی.لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۸۳) اپنی تائید میں نشانات آسمانی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ) (ساتواں ) نشان کثرت سے نہریں جاری کئے جانا جیسا کہ آیت وَ إِذَا الْبِحَارُ فُجْرَتْ سے ظاہر ہوتا ہے پس اس میں کیا شک ہے کہ اس زمانہ میں اس کثرت سے نہریں جاری ہوئی ہیں جن کی کثرت سے دریا خشک ہوئے جاتے ہیں.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۰۶) ایک اور پیشگوئی قرآن شریف میں آخری زمانہ کی نسبت ہے اور وہ یہ ہے کہ وَ إِذَا الْبِحَارُ فُجْرَت یعنی آخری زمانہ میں دریاؤں میں سے بہت سی نہریں جاری کی جائیں گی چنانچہ یہ پیشگوئی بھی ہمارے زمانہ میں ظہور میں آگئی.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۲۳) وَأَمَّا انْتِثَارُ الْكَوَاكِبِ فَهُوَ إِشَارَةٌ ستاروں کے گرنے سے علماء کے فتنوں اور ان میں سے إلى فِتَنِ الْعُلَمَاء وَ ذِهَابِ الْمُتَّقِينَ متقی لوگوں کے ختم ہو جانے کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ تم مِنْهُمْ كَمَا أَنَّكُمْ تَرَوْنَ أَنَّ أَثَارَ الْعِلْمِ دیکھتے ہو کہ علم کے آثار محو ہو گئے ہیں اور مٹ گئے ہیں اور قَدِ امْتَحَتْ وَ عَقَتْ وَ الَّذِينَ كَانُوا أُوتُوا جن لوگوں کو علم عطا کیا گیا تھا ان میں سے بعض تو مر گئے الْعِلْمَ فَبَعْضُهُمْ مَالُوْا وَ بَعْضُهُمْ عَممُوا ہیں اور بعض ان میں سے اندھے اور بہرے ہو گئے ہیں وَصَمُوا ثُمَّ تَابَ اللهُ عَلَيْهِمْ ثُمَّ عَمُوا وَ پھر اللہ تعالی ان پر رجوع برحمت ہوالیکن پھر وہ اندھے و،

Page 219

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۲ سورة الانفطار صمُوا وَ كَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ وَالله اور بہرے ہو گئے اور اکثر ان میں سے فاسق ہیں اور اللہ تعالٰی بَصِيرُ مَا يَعْمَلُونَ اس کو جو وہ کر رہے ہیں دیکھنے والا ہے.( ترجمہ از مرتب ) ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۷۳، ۴۷۴) الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوكَ فَعَدَ لَكَ ( خوش خطی پر ذکر ہوا فر مایا کہ ) محسن تناسب اعضاء کا نام ہے.جب تک یہ نہ ہو ملاحت نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ نے اسی لئے اپنی صفت فسونك فعدلك فرمائی ہے.عدلك كے معنے تناسب کے ہیں کہ نسبتی اعتدال ہر جگہ ملحوظ رہے.وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحفِظِينَ ) البدر جلد ۲ نمبر ۱۲ مورخه ۱/۱۰ پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۹۱) قرآن کریم میں اور بہت سی آیتیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی تربیت اور حفاظت ظاہری و باطنی کے لئے اور نیز اس کے اعمال کے لکھنے کے لئے ایسے فرشتے مقرر ہیں کہ جو دائمی طور پر انسانوں کے پاس رہتے ہیں.چنانچہ منجملہ ان کے یہ آیات ہیں وَ اِنَّ عَلَيْكُم لحفظين....کہ تم پر حفاظت کرنے والے مقرر ہیں.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۷۹،۷۸) وَ إِنَّ الْفُجَارَ لَفِي جَحِيمٍ يَصْلَوْنَهَا يَوْمَ الدِّينِ جَحِيمِن جولوگ نافرمان اور بدکار ہیں اور نفس اور ہوا کے تابع ہیں وہ جہنم میں داخل ہوں گے اور وہاں جلیں گے.ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۰)

Page 220

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۱۹۳ سورة الطفّفين بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ سكتة تفسير سورة المطفّفين بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ كَلَّا إِنَّهُم عَنْ رَّبِّهِم يَوْمَينِ المَحْجُوبُونَ.وہ تمہارے کھوٹے اعمال ہرگز قبول نہیں کرے گا اور جنہوں نے کھوٹے کام کئے انہیں کاموں نے ان کے دل پر زنگار چڑھادیا سو وہ خدا کو ہرگز نہیں دیکھیں گے.ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۵) اِنَّ الْأَبْرَارَ لَفَى نَعِيمٍ ﴿ عَلَى الْأَرَابِكِ يَنْظُرُونَ نیکو کار آدمی یعنی جو خدا سے دل لگاتے ہیں وہ آخرت میں نعمتوں میں ہوں گے اور تختوں پر بیٹھے ہوئے خدا تعالیٰ کو دیکھیں گے.ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۴)

Page 221

Page 222

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۱۹۵ سورة الانشقاق بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الانشقاق بیان فرموده سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام إذَا السَّمَاءُ الْشَقَتْ.بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اور اگر یہ اعتراض پیش ہو کہ قرآن کریم میں یہ بھی لکھا ہے کہ کسی وقت آسمان پھٹ جائیں گے اور ان میں شگاف ہو جائیں گے اگر وہ لطیف مادہ ہے تو اس کے پھٹنے کے کیا معنے ہیں تو اس کا یہ جواب ہے کہ اکثر قرآن کریم میں سماء سے مراد کل ما فی السماء کو لیا ہے جس میں آفتاب اور ماہتاب اور تمام ستارے داخل ہیں.ماسوا اس کے ہر یک جرم لطیف ہو یا کثیف قابل فرق ہے بلکہ لطیف تو بہت زیادہ فرق کو قبول کرتا ہے پھر کیا تعجب ہے کہ آسمانوں کے مادہ میں بحکم رب قدیر و حکیم ایک قسم کا فرق پیدا ہو جائے.وَ ذَلِكَ عَلَى اللهِ یسیر.بالآخر یہ بات بھی یادر کھنے کے لائق ہے کہ قرآن کریم کے ہر یک لفظ کو حقیقت پر حمل کرنا بھی بڑی غلطی ہے اللہ جل شانہ کا یہ پاک کلام بوجہ اعلیٰ درجہ کی بلاغت کے استعارات لطیفہ سے بھرا ہوا ہے.سو ہمیں اس فکر میں پڑنا کہ انشقاق اور انفجار آسمانوں کا کیوں کر ہوگا در حقیقت ان الفاظ کے وسیع مفہوم میں ایک دخل بے جا ہے صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تمام الفاظ اور اس قسم کے اور بھی عالم مادی کے فنا کی طرف اشارہ ہے الہی کلام کا مدعا یہ ہے کہ اس عالم کون کے بعد فساد بھی لازم پڑا ہوا ہے ہر یک جو بنایا گیا توڑا جائے گا اور ہر یک ترکیب پاش پاش ہو جائے گی اور ہر ایک جسم متفرق اور ذرہ ذرہ ہو جائے گا اور ہر یک جسم اور جسمانی

Page 223

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۶ سورة الانشقاق پر عام فنا طاری ہوگی.اور قرآن کریم کے بہت سے مقامات سے ثابت ہوتا ہے کہ انشقاق اور انفجار کے الفاظ جو آسمانوں کی نسبت وارد ہیں ان سے ایسے معنے مراد نہیں ہیں جو کسی جسم صلب اور کثیف کے حق میں مراد لئے جاتے ہیں.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۴۹ تا ۱۵۱ حاشیه در حاشیه) جس وقت آسمان پھٹ جاوے....یہ مراد نہیں ہے کہ در حقیقت اس وقت آسمان پھٹ جائے گا یا اس کی قوتیں سست ہو جائیں گی بلکہ مدعا یہ ہے کہ جیسے پھٹی ہوئی چیز بیکار ہو جاتی ہے ایسا ہی آسمان بھی بریکارسا ہو گا.آسمان سے فیوض نازل نہیں ہوں گے اور دنیا ظلمت اور تاریکی سے بھر جائے گی.(شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۱۹) وہ آیات قرآنیہ اور آثار نبویہ جو قیامت کے قرب پر دلالت کرتے ہیں اور پورے ہو گئے ہیں جیسا کہ....بدعتوں اور ضلالتوں اور ہر قسم کے فسق و فجور کا پھیل جانا جیسا کہ آیت إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتُ سے مفہوم ہوتا ہے.(تحفہ گولڑویہ ، روحانی خزائن جلد ۷ ۱ صفحه ۲۴۲، ۲۴۳) وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّت ) وَالْقَتْ مَا فِيهَا وَ تَخَلَّتْ.ى اسی زمانہ کی علامات میں جبکہ ارضی علوم وفنون زمین سے نکالے جائیں گے.بعض ایجادات اور صناعات کو بطور نمونہ کے بیان فرمایا ہے اور وہ یہ ہے وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتُ وَ الْقَتْ مَا فِيهَا وَ تَخَلَّتْ.جبکہ زمین کھینچی جاوے گی یعنی زمین صاف کی جائے گی اور آبادی بڑھ جاوے گی اور جو کچھ زمین میں ہے اس کو زمین باہر ڈال دے گی اور خالی ہو جائے گی یعنی تمام ارضی استعداد میں ظہور و بروز میں آجائیں گی.(شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۱۸،۳۱۷) أَمَّا زَلْزَلَهُ الْأَرْضِ وَالْقَاءَهَا زمین کے زلزلہ اور اس کے اپنے اندر کی سب چیزوں کو باہر نکال مَا فِيْهَا فَهِيَ إِشَارَةٌ إِلَى انْقِلاب پھینکنے سے اس انقلاب عظیم کی طرف اشارہ ہے جسے تم اپنی آنکھوں عَظِيمٍ تَرَوْنَهُ بِأَعْيُنِكُمْ وَاِیما سے رونما ہوتے دیکھ رہے ہو.نیز زمینی علوم اور نئی ایجادات اور صنائع إلى ظُهُورِ عُلُومِ الْأَرْضِ وَ کے ظاہر ہونے اور اہلِ ارض کے خلاف شریعت اعمال کرنے اور بَدَايِعِهَا وَ صَنَابِعِهَا وَ بِدُعَاتِها منکرات ، شر انگیزی اور دھوکہ بازی میں مشغول ہونے کی طرف و مكابدها اشارہ ہے.اسی طرح ان برائیوں میں مشغول ہونے کی طرف وَسَيِّئَاتِها

Page 224

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۷ سورة الانشقاق وَخَدَعَاتِهَا وَكُلِّ مَا يَصْنَعُونَ اشارہ ہے جن کا ارتکاب لوگ کر رہے ہیں.( ترجمہ از مرتب ) آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۷۳)

Page 225

Page 226

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۱۹۹ سورة البروج بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة البروج بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيد بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ قرآن شریف سے پتہ لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے عرش کو اپنی صفات میں داخل کیا ہے جیسے ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيْدُ گویا خدا تعالیٰ کے کمال علو کو دوسرے معنوں میں عرش سے بیان کیا ہے اور وہ کوئی مادی اور جسمانی شے نہیں ہے ور نہ زمین اور آسمان وغیرہ کی طرح عرش کی پیدائش کا ذکر بھی ہوتا اس لئے شبہ گزرتا ہے کہ ہے تو شے مگر غیر مخلوق.اور یہاں سے دھوکا کھا کر آریوں کی طرف انسان چلا جاتا ہے کہ جیسے وہ خدا کے وجود کے علاوہ اور اشیاء کوغیر مخلوق مانتے ہیں ویسے ہی یہ عرش کو ایک شے غیر مخلوق جز از خدا ماننے لگتا ہے.یہ گمراہی ہے.اصل میں یہ کوئی شے خدا کے وجود سے باہر نہیں ہے.جنہوں نے اسے ایک شے غیر مخلوق قرار دیا وہ اسے اتم اور اکمل نہیں مانتے اور جنہوں نے مادی مانا وہ گمراہی پر ہیں کہ خدا کو ایک مجسم شے کا محتاج مانتے ہیں کہ ایک ڈولہ کی طرح البدر جلد ۲ نمبر ۵ مورخه ۲۰ فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۳۸) فرشتوں نے اسے اُٹھایا ہوا ہے.فَقَالُ لِمَا يُرِيدُه تیرا رب وہ قادر ہے جو کچھ چاہے وہی ہو جاتا ہے.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۱۳۷)

Page 227

Page 228

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۲۰۱ سورة الطارق بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الطارق بیان فرموده سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَالسَّمَاءِ وَالظَّارِقِ في وَمَا أَدْرِيكَ مَا الظَّارِقُ فُ النَّجْمُ النَّاقِبُ إِنْ كُلُّ نَفْسٍ لنَا عَلَيْهَا حَافِظه اور اگر یہ سوال ہو کہ قرآن کریم میں اس بات کی کہاں تشریح یا اشارہ ہے کہ روح القدس مقتربوں میں ہمیشہ رہتا ہے اور ان سے جدا نہیں ہوتا تو اس کا یہ جواب ہے کہ سارا قرآن کریم ان تصریحات اور اشارات سے بھرا پڑا ہے بلکہ وہ ہر یک مومن کو روح القدس ملنے کا وعدہ دیتا ہے چنانچہ منجملہ ان آیات کے جو اس بارہ میں کھلے کھلے بیان سے ناطق ہیں.سورۃ الطارق کی پہلی دو آیتیں ہیں اور وہ یہ ہیں وَ السَّمَاءِ وَالطَارِقِ.وَمَا ادريكَ مَا الطَّارِقُ - النَّجْمُ الثَّاقِبُ - اِنْ كُلُّ نَفْسٍ لَمَّا عَلَيْهَا حَافِظ.یہ آخری آیت یعنی اِنْ كُلُّ نَفْسٍ لَمَّا عَلَيْهَا حَافِظ جس کے یہ معنی ہیں کہ ہر ایک نفس پر ایک فرشتہ نگہبان ہے یہ صاف دلالت کر رہی ہے کہ جیسا کہ انسان کے ظاہر وجود کے لیے فرشتہ مقرر ہے جو اُس سے جدا نہیں ہوتا ویسا ہی اس کے باطن کی حفاظت کے لیے بھی مقرر ہے جو باطن کو شیطان سے روکتا ہے اور گمراہی کی ظلمت سے بچاتا ہے اور وہ رُوح القدس ہے جو خدا تعالیٰ کے خاص بندوں پر شیطان کا تسلط ہونے نہیں دیتا اور اسی کی طرف یہ آیت بھی اشارہ کرتی ہے کہ إِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطن.اب دیکھو کہ یہ آیت کیسے صریح طور پر بتلا رہی ہے

Page 229

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٢٠٢ سورة الطارق کہ خدا تعالیٰ کا فرشتہ انسان کی حفاظت کے لیے ہمیشہ اور ہر دم اس کے ساتھ رہتا ہے اور ایک دم بھی اس سے جدا نہیں ہوتا.کیا اس جگہ یہ خیال آ سکتا ہے کہ انسان کے ظاہر کی نگہبانی کے لیے تو دائی طور پر فرشتہ مقرر ہے لیکن اس کی باطن کی نگہبانی کے لیے کوئی فرشتہ دائمی طور پر مقرر نہیں بلکہ متعصب سے متعصب انسان سمجھ سکتا ہے کہ باطن کی حفاظت اور روح کی نگہبانی جسم کی حفاظت سے بھی زیادہ ضروری ہے کیونکہ جسم کی آفت تو اسی جہان کا ایک دکھ ہے لیکن روح اور نفس کی آفت جہنم ابدی میں ڈالنے والی چیز ہے سوجس خدائے رحیم و کریم کو انسان کے اس جسم پر بھی رحم ہے جو آج ہے اور کل خاک ہو جائے گا اس کی نسبت کیوں کر گمان کر سکتے ہیں کہ اس کو انسان کی روح پر رحم نہیں.پس اس نص قطعی اور یقینی سے ثابت ہے کہ روح القدس یا یوں کہو کہ اندرونی نگہبانی کا فرشتہ ہمیشہ نیک انسان کے ساتھ ایسا ہی رہتا ہے جیسا کہ اس کی بیرونی حفاظت کے لئے رہتا ہے.اس آیت کے ہم مضمون قرآن کریم میں اور بہت سی آیتیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی تربیت اور حفاظت ظاہری و باطنی کے لیے اور نیز اس کے اعمال کے لکھنے کے لیے ایسے فرشتے مقرر ہیں کہ جو دائمی طور پر انسانوں کے پاس رہتے ہیں چنانچہ منجملہ ان کے یہ آیات ہیں.وَ اِنَّ عَلَيْكُمْ لَحفِظِينَ (الانفطار : 1) - وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً (الانفال : ۶۲ - لَهُ مُعَقِبتَ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ آمر الله (الرعد : ۱۲ ).ترجمہ ان آیات کا یہ ہے کہ تم پر حفاظت کرنے والے مقرر ہیں خدا تعالیٰ ان کو بھیجتا ہے.اور خدا تعالیٰ کی طرف سے چوکیدار مقرر ہیں جو اس کے بندوں کی ہر طرف سے یعنی کیا ظاہری طور پر اور کیا باطنی طور پر حفاظت کرتے ہیں.اس مقام میں صاحب معالم نے یہ حدیث لکھی ہے کہ ہر ایک بندہ کے لیے ایک فرشتہ موکل ہے جو اس کے ساتھ ہی رہتا ہے.اور اس کی نیند اور بیداری میں شیاطین اور دوسری بلاؤں سے اس کی حفاظت کرتا رہتا ہے اور اسی مضمون کی ایک اور حدیث کعب الاحبار سے بیان کی ہے اور ابن جریر اس آیت کی تائید میں یہ حدیث لکھتا ہے اِن مَعَكُمْ مَنْ لَّا يُفَارِقُكُمْ إِلَّا عِنْدَ الْخَلَاءِ وَ عِنْدَ الْجَمَاعِ فَاسْتَحْيُوهُمْ وَ اكْرِ مُوْهُمْ.یعنی تمہارے ساتھ وہ فرشتے ہیں کہ بجز جماع اور پاخانہ کی حاجت کے تم سے جدا نہیں ہوتے.سو تم ان سے شرم کرو اور ان کی تعظیم کرو اور اس جگہ عکرمہ سے یہ حدیث لکھی ہے کہ ملائکہ ہر یک شر سے بچانے کے لیے انسان کے ساتھ رہتے ہیں اور جب تقدیر مبرم نازل ہو تو الگ ہو جاتے ہیں.اور پھر مجاہد سے نقل کیا ہے کہ کوئی ایسا انسان نہیں جس کی حفاظت کے لیے دائمی طور پر ایک فرشتہ مقرر نہ ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶ ۷ تا ۸۰) ہو.

Page 230

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الطارق ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ قسم ہے آسمان کی اور اس کی جو رات کو آنے والا ہے اور تجھے کیا خبر ہے کہ رات کو آنے والی کیا چیز ہے؟ وہ ایک چمکتا ہوا ستارا ہے.اور قسم اس بات کے لیے ہے کہ ایک بھی ایسا جی نہیں کہ جو اس پر نگہبان نہ ہو یعنی ہر ایک نفس پر نفوس مخلوقات میں سے ایک فرشتہ موکل ہے جو اس کی نگہبانی کرتا ہے اور ہمیشہ اس کے ساتھ رہتا ہے.خدا تعالیٰ نے جو اس آیت کو کلی طور پر یعنی گن کے لفظ سے مقید کر کے بیان فرمایا ہے اس سے یہ بات بخوبی ثابت ہو گئی کہ ہر یک چیز جس پر نفس کا نام اطلاق پاسکتا ہے اس کی فرشتے حفاظت کرتے ہیں پس بموجب اس آیت کے نفوس کو اکب کی نسبت بھی یہ عقیدہ رکھنا پڑا کہ کل ستارے کیا سورج کیا چاند کیا زحل کیا مشتری ملائک کی زیر حفاظت ہیں یعنی ہر ایک کے لیے سورج اور چاند وغیرہ میں ح سے ایک ایک فرشتہ مقرر ہے جو اس کی حفاظت کرتا ہے اور اس کے کاموں کو احسن طور پر چلاتا ہے.اس جگہ کئی اعتراض پیدا ہوتے ہیں جن کا دفع کرنا ہمارے ذمہ ہے.از انجملہ ایک یہ کہ جس حالت میں روح القدس صرف ان مقربوں کو ملتا ہے کہ جو بقا اور لقا کے مرتبہ تک پہنچتے ہیں تو پھر ہر ایک کا نگہبان کیوں کر ہوسکتا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ روح القدس کا کامل طور پر نزول مقر بوں پر ہی ہوتا ہے مگر اس کی فی الجملہ تائید حسب مراتب محبت و اخلاص دوسروں کو بھی ہوتی ہے.ہماری تقریر مندرجہ بالا کا صرف یہ مطلب ہے کہ روح القدس کی اعلیٰ تجلی کی یہ کیفیت ہے کہ جب بقا اور لقا کے مرتبہ پر محبت الہی انسان کی محبت پر نازل ہوتی ہے تو یہ اعلیٰ تجلی روح القدس کی ان دونوں محبتوں کے ملنے سے پیدا ہوتی ہے جس کے مقابل پر دوسری تجلیات کا لعدم ہیں مگر یہ تو نہیں کہ دوسری تجلیات کا وجود ہی نہیں خدا تعالیٰ ایک ذرہ محبت خالصہ کو بھی ضائع نہیں کرتا.انسان کی محبت پر اس کی محبت نازل ہوتی ہے اور اسی مقدار پر روح القدس کی چمک پیدا ہوتی ہے.یہ خدا تعالیٰ کا ایک بندھا ہوا قانون ہے کہ ہر یک محبت کے اندازہ پر الہی محبت نزول کرتی رہتی ہے اور جب انسانی محبت کا ایک دریا بہ نکلتا ہے تو اس طرف سے بھی ایک دریا نازل ہوتا ہے اور جب و ہ دونوں دریا ملتے ہیں تو ایک عظیم الشان نور ان میں سے پیدا ہوتا ہے جو ہماری اصطلاح میں روح القدس سے موسوم ہے لیکن جیسے تم دیکھتے ہو کہ اگر ہیں سیر پانی میں ایک ماشہ مصری ڈال دی جائے تو کچھ بھی مصری کا ذائقہ معلوم نہیں ہو گا اور پانی پھیکے کا پھیکا ہی ہوگا.مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ مصری اس میں نہیں ڈالی گئی اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ پانی میٹھا ہے.یہی حال اس روح القدس کا ہے جو ناقص طور پر ناقص لوگوں پر اترتا ہے اس کے اترنے میں تو شک نہیں ہوسکتا کیونکہ ادنیٰ سے ادنی آدمی کو بھی نیکی کا خیال روح القدس سے پیدا ہوتا ہے.کبھی فاسق اور فاجر

Page 231

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۴ سورة الطارق اور بدکار بھی سچی خواب دیکھ لیتا ہے اور یہ سب روح القدس کا اثر ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ نبویہ سے ثابت ہے مگر وہ تعلق عظیم جو مقدسوں اور مقربوں کے ساتھ ہے اس کے مقابل پر یہ کچھ چیز نہیں گو یا کالعدم ہے.از انجملہ ایک یہ سوال ہے کہ جس حالت میں روح القدس انسان کو بدیوں سے روکنے کے لیے مقرر ہے تو پھر اس سے گناہ کیوں سرزد ہوتا ہے اور انسان کفر اور فسق اور فجور میں کیوں مبتلا ہو جاتا ہے.اس کا یہ جواب ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کے لیے ابتلا کے طور پر دور وحانی داعی مقرر کر رکھے ہیں.ایک داعی خیر جس کا نام روح القدس ہے اور ایک داعی شر جس کا نام ابلیس اور شیطان ہے.یہ دونوں داعی صرف خیر یا شر کی طرف بلاتے رہتے ہیں مگر کسی بات پر جبر نہیں کرتے جیسا کہ اس آیت کریمہ میں اسی امر کی طرف اشارہ ہے فَالْهَمَهَا فُجُورَهَا وَ تَقْويهَا (الشمس : ۹).یعنی خدا بدی کا بھی الہام کرتا ہے اور نیکی کا بھی.بدی کے الہام کا ذریعہ شیطان ہے جو شرارتوں کے خیالات دلوں میں ڈالتا ہے اور نیکی کے الہام کا ذریعہ روح القدس ہے جو پاک خیالات دل میں ڈالتا ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ علت العلل ہے اس لئے یہ دونوں الہام خدا تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کر لئے کیونکہ اسی کی طرف سے یہ سارا انتظام ہے ورنہ شیطان کیا حقیقت رکھتا ہے جو کسی کے دل میں وسوسہ ڈالے اور روح القدس کیا چیز جو کسی کو تقومی کی راہوں کی ہدایت کرے.ہمارے مخالف آریہ اور برہمو اور عیسائی اپنی کوتاہ بینی کی وجہ سے قرآن کریم کی تعلیم پر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اس تعلیم کی رو سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے دانستہ انسان کے پیچھے شیطان کو لگا رکھا ہے گویا اس کو آپ ہی خلق اللہ کا گمراہ کرنا منظور ہے مگر یہ ہمارے شتاب باز مخالفوں کی غلطی ہے ان کو معلوم کرنا چاہئے کہ قرآن کریم کی ی تعلیم نہیں ہے کہ شیطان گمراہ کرنے کے لیے جبر کر سکتا ہے اور نہ یہ تعلیم ہے کہ صرف بدی کی طرف بلانے کے لیے شیطان کو مقرر کر رکھا ہے بلکہ یہ تعلیم ہے کہ آزمائش اور امتحان کی غرض سے لمہ ملک اور لمہ ابلیس برابر طور پر انسان کو دیئے گئے ہیں یعنی ایک داعی خیر اور ایک داعی شر تا انسان اس ابتلا میں پڑ کر مستحق ثواب یا عقاب کا ٹھہر سکے کیونکہ اگر اس کے لیے ایک ہی طور کے اسباب پیدا کئے جاتے مثلاً اگر اس کے بیرونی اور اندرونی اسباب جذبات فقط نیکی کی طرف ہی اس کو کھینچتے یا اس کی فطرت ہی ایسی واقعہ ہوتی کہ وہ بجز نیکی کے کاموں کے اور کچھ کر ہی نہ سکتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ نیک کاموں کے کرنے سے اس کو کوئی مرتبہ قرب کامل سکے کیونکہ اس کے لیے تو تمام اسباب و جذبات نیک کام کرنے کے ہی موجود ہیں یا یہ کہ بدی کی خواہش تو ابتدا

Page 232

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۵ سورة الطارق سے ہی اس کی فطرت سے مسلوب ہے تو پھر بدی سے بچنے کا اس کو ثواب کس استحقاق سے ملے مثلاً ایک شخص ابتدا سے ہی نامرد ہے جو عورت کی کچھ خواہش نہیں رکھتا اب اگر وہ ایک مجلس میں یہ بیان کرے کہ میں فلاں وقت جو ان عورتوں کے ایک گروہ میں رہا جو خوبصورت بھی تھیں مگر میں ایسا پر ہیز گار ہوں کہ میں نے ان کو شہوت کی نظر سے ایک دفعہ بھی نہیں دیکھا اور خدا تعالیٰ سے ڈرتا رہا تو کچھ شک نہیں کہ سب لوگ اس کے اس بیان پر ہنسیں گے اور طنز سے کہیں گے کہ اے نادان کب اور کس وقت تجھ میں یہ قوت موجود تھی تا اس کے روکنے پر تو فخر کر سکتا یا کسی ثواب کی امید رکھتا.پس جاننا چاہئے کہ سالک کو اپنے ابتدائی اور درمیانی حالات میں تمام امید میں ثواب کی مخالفانہ جذبات سے پیدا ہوتی ہیں اور ان منازل سلوک میں جن امور میں فطرت امیدیں ہی سالک کی ایسی واقع ہو کہ اس قسم کی بدی وہ کر ہی نہیں سکتا تو اس قسم کے ثواب کا بھی وہ مستحق نہیں ہو سکتا.مثلاً ہم بچھو اور سانپ کی طرح اپنے وجود میں ایک ایسی زہر نہیں رکھتے جس کے ذریعہ سے ہم کسی کو اس قسم کی ایذا پہنچاسکیں جو کہ سانپ اور بچھو پہنچاتے ہیں.سو ہم اس قسم کی ترک بدی میں عند اللہ کسی ثواب کے مستحق بھی نہیں.اب اس تحقیق سے ظاہر ہوا کہ مخالفانہ جذبات جو انسان میں پیدا ہو کر انسان کو بدی کی طرف کھینچتے ہیں درحقیقت وہی انسان کے ثواب کا بھی موجب ہیں کیونکہ جب وہ خدا تعالیٰ سے ڈر کر ان مخالفانہ جذبات کو چھوڑ دیتا ہے تو عند اللہ بلاشبہ تعریف کے لائق ٹھہر جاتا ہے اور اپنے رب کو راضی کر لیتا ہے.لیکن جو شخص انتہائی مقام کو پہنچ گیا ہے اُس میں مخالفانہ جذبات نہیں رہتے گویا اُس کا جن مسلمان ہو جاتا ہے مگر ثواب باقی رہ جاتا ہے کیونکہ وہ ابتلا کے منازل کو بڑی مردانگی کے ساتھ طے کر چکا ہے جیسے ایک صالح آدمی جس نے بڑے بڑے نیک کام اپنی جوانی میں کئے ہیں اپنی پیرانہ سالی میں بھی اُن کا ثواب پاتا ہے.از انجملہ ایک یہ اعتراض ہے کہ خدا تعالیٰ کو فرشتوں سے کام لینے کی کیا حاجت ہے کیا اس کی بادشاہی بھی انسانی سلطنتوں کی طرح عملہ کی محتاج ہے اور اس کو بھی فوجوں کی حاجت تھی جیسے انسان کو حاجت ہے.اما الجواب پس واضح ہو کہ خدا تعالیٰ کو کسی چیز کی حاجت نہیں نہ فرشتوں کی نہ آفتاب کی نہ ماہتاب کی نہ ستاروں کی لیکن اسی طرح اس نے چاہا کہ تا اس کی قدرتیں اسباب کے توسط سے ظاہر ہوں اور تا اس طرز سے انسانوں میں حکمت اور علم پھیلے.اگر اسباب کا توسط درمیان نہ ہوتا تو نہ دنیا میں علم ہیئت ہوتا نہ نجوم نہ طبعی نہ طبابت نہ علم نباتات یہ اسباب ہی ہیں جن سے علم پیدا ہوئے.تم سوچ کر دیکھو کہ اگر فرشتوں سے خدمت نہ.

Page 233

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۶ سورة الطارق لینے سے کچھ اعتراض ہے تو وہی اعتراض.سورج اور چاند اور کواکب اور نباتات اور جمادات اور عناصر سے خدمت لینے میں پیدا ہوتا ہے.جو شخص معرفت کا کچھ حصہ رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ ہر یک ذرہ خدا تعالیٰ کے ارادہ کے موافق کام کر رہا ہے اور ایک قطرہ پانی کا جو ہمارے اندر جاتا ہے وہ بھی بغیر اذنِ الہی کے کوئی تاثیر موافق یا مخالف ہمارے بدن پر ڈال نہیں سکتا پس تمام ذرات اور سیارات وغیرہ در حقیقت ایک قسم کے فرشتے ہیں جو دن رات خدمت میں مشغول ہیں کوئی انسان کے جسم کی خدمت میں مشغول ہے اور کوئی روح کی خدمت میں اور جس حکیم مطلق نے انسان کی جسمانی تربیت کے لیے بہت سے اسباب کا توسط پسند کیا اور اپنی طرف سے بہت سے جسمانی مؤثرات پیدا کئے تا انسان کے جسم پر انواع اقسام کے طریقوں سے تاثیر ڈالیں.اسی وحدہ لاشریک نے جس کے کاموں میں وحدت اور تناسب ہے یہ بھی پسند کیا کہ انسان کی روحانی تربیت بھی اسی نظام اور طریق سے ہو کہ جو جسم کی تربیت میں اختیار کیا گیا تا وہ دونوں نظام ظاہری و باطنی اور روحانی اور جسمانی اپنے تناسب اور یک رنگی کی وجہ سے صانع واحد مد تبر بالا رادہ پر دلالت کریں.پس یہی وجہ ہے کہ انسان کی روحانی تربیت بلکہ جسمانی تربیت کے لیے بھی فرشتے وسائکا مقرر کئے گئے مگر یہ تمام وسائط خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں مجبور اور ایک گل کی طرح ہیں جس کو اس کا پاک ہاتھ چلا رہا ہے اپنی طرف سے نہ کوئی ارادہ رکھتے ہیں نہ کوئی تصرف.جس طرح ہوا خدا تعالیٰ کے حکم سے ہمارے اندر چلی جاتی ہے اور اسی کے حکم سے باہر آتی ہے اور اسی کے حکم سے تاثیر کرتی ہے یہی صورت اور بتمامہ یہی حال فرشتوں کا ہے يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ.پنڈت دیانند نے جو فرشتوں کے اس نظام پر اعتراض کیا ہے کاش پنڈت صاحب کو خدا تعالیٰ کے نظام جسمانی اور روحانی کا علم ہوتا.تا بجائے اعتراض کرنے کے کمالات تعلیم قرآنی کے قائل ہو جاتے کہ کیسی قانون قدرت کی صحیح اور سچی تصویر اس میں موجود ہے.از انجملہ ایک یہ اعتراض ہے کہ قرآن کریم کے بعض اشارات اور ایسا ہی بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض ایام میں جبرائیل کے اترنے میں کسی قدر توقف بھی وقوع میں آئی ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایام بعثت میں یہ بھی اتفاق ہوا ہے کہ بعض اوقات کئی دن تک جبرائیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل نہیں ہوا.اگر حضرت جبرائیل ہمیشہ اور ہر وقت قرین دائمی آنحضرت صلعم تھے اور روح القدس کا اثر ہمیشہ کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود پر جاری و ساری تھا تو پھر توقف نزول کے کیا معنی ہیں اما الجواب پس واضح ہو کہ ایسا خیال کرنا کہ روح القدس بھی انبیاء کو خالی چھوڑ کر آسمان پر چڑھ جاتا ہے صرف

Page 234

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۷ سورة الطارق ایک دھوکہ ہے کہ جو بوجہ غلط نہی نزول اور صعود کے معنوں کے دلوں میں متمکن ہو گیا ہے.پوشیدہ نہ رہے کہ نزول کے یہ معنے ہرگز نہیں ہیں کہ کوئی فرشتہ آسمان سے اپنا مقام اور مقتز چھوڑ کر زمین پر نازل ہو جاتا ہے ایسے معنے تو صریح نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کے مخالف ہیں چنانچہ فتح البیان میں ابن جریر سے بروایت عائشہ رضی اللہ عنہا یہ حدیث مروی ہے.قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا فِي السَّمَاءِ مَوْضِعُ قَدَمٍ إِلَّا عَلَيْهِ مَلَكَ سَاجِدٌ أوْ قَائِمٌ وَ ذَالِكَ قَوْلُ الْمَلائِكَةِ وَ ما مِنَّا إِلَّا له مقام مَّعْلُومٌ - یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا کہ آسمان پر ایک قدم کی بھی ایسی جگہ خالی نہیں جس میں کوئی فرشتہ ساجد یا قائم نہ ہو اور یہی معنے اس آیت کے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک شخص ایک مقام معلوم یعنی ثابت شدہ رکھتا ہے جس سے ایک قدم او پر یا نیچے نہیں آسکتا.اب دیکھواس حدیث سے صاف طور پر ثابت ہو گیا کہ فرشتے اپنے مقامات کو نہیں چھوڑتے اور کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوتا کہ ایک قدم کی جگہ بھی آسمان پر خالی نظر آوے مگر افسوس کہ بطالوی صاحب اور دہلوی شیخ صاحب بھی اب تک اس زمانہ میں بھی کہ علوم حسیہ طبعیہ کا فروغ ہے یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ آسمان کا صرف باندازہ ایک قدم خالی رہنا کیا مشکل بات ہے بعض اوقات تو بڑے بڑے فرشتوں کے نزول سے ہزار ہا کوس تنک آسمان خالی ویران سنسان پڑا رہ جاتا ہے جس میں ایک فرشتہ بھی نہیں ہوتا کیونکہ جب چھ سو موتیوں کے پروں والا فرشتہ جس کا طول مشرق سے مغرب تک ہے یعنی جبرائیل زمین پر اپنا سارا وجود لے کر اتر آیا تو پھر سوچنا چاہئے کہ ایسے جسیم فرشتہ کے اُترنے سے ہزار ہا کوس تک آسمان خالی رہ جائے گا یا اس سے کم ہو گا شیخ الکل کہلانا اور احادیث نبویہ کو نہ سمجھنا جائے افسوس اور جائے شرم.الغرض جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں یہ بات نہایت احتیاط سے اپنے حافظہ میں رکھ لینی چاہیئے کہ مقربوں کا روح القدس کی تاثیر سے علیحدہ ہونا ایک دم کے لئے بھی ممکن نہیں کیونکہ اُن کی نئی زندگی کی روح یہی روح القدس ہے پھر وہ اپنی روح سے کیوں کر علیحدہ ہو سکتے ہیں.اور جس علیحدگی کا ذکر احادیث اور بعض اشارات قرآن کریم میں پایا جاتا ہے اس سے مراد صرف ایک قسم کی بجلی ہے کہ بعض اوقات بوجہ مصالح الہی اُس قسم کی تجلی میں کبھی دیر ہو گئی ہے اور اصطلاح قرآن کریم میں اکثر نزول سے مراد وہی تجلی ہے.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۷۶ تا ۹۱ حاشیہ ) از انجملہ ایک یہ اعتراض ہے کہ سورۃ والطارق میں خدا تعالیٰ نے غیر اللہ کی قسم کیوں کھائی حالانکہ آپ ہی

Page 235

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۸ سورة الطارق فرماتا ہے کہ بجز اس کے کسی دوسرے کی قسم نہ کھائی جائے نہ انسان نہ آسمان کی نہ زمین نہ کسی ستارہ کی نہ کسی اور کی اور پھر غیر کی قسم کھانے میں خاص ستاروں اور آسمان کی قسم کی خدا تعالیٰ کو اس جگہ کیا ضرورت آپڑی سو در حقیقت یہ دو اعتراض ہیں جو ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں اور بوجہ ان کے باہمی تعلقات کے ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ ان کے جوابات ایک ہی جگہ بیان کئے جائیں.سو اول قسم کے بارے میں خوب یادرکھنا چاہیئے کہ اللہ جل شانہ کی قسموں کا انسانوں کی قسموں پر قیاس کر لینا قیاس مع الفارق ہے خدا تعالیٰ نے جو انسان کو غیر اللہ کی قسم کھانے سے منع کیا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ انسان جب قسم کھاتا ہے تو اس کا مدعا یہ ہوتا ہے کہ جس چیز کی قسم کھائی ہے اس کو ایک ایسے گواہ رویت کا قائم مقام ٹھہر اوے کہ جو اپنے ذاتی علم سے اس کے بیان کی تصدیق یا تکذیب کر سکتا ہے کیونکہ اگر سوچ کر دیکھو تو قسم کا اصل مفہوم شہادت ہی ہے.جب انسان معمولی شاہدوں کے پیش کرنے سے عاجز آ جاتا ہے تو پھر قسم کا محتاج ہوتا ہے تا اُس سے وہ فائدہ اٹھا دے جو ایک شاہد رویت کی شہادت سے اٹھانا چاہیئے لیکن یہ تجویز کرنا یا اعتقاد رکھنا کہ بجز خدا تعالیٰ کے اور بھی حاضر ناظر ہے اور تصدیق یا تکذیب یا سزا دہی یا کسی اور امر پر قادر ہے صریح کلمہ کفر ہے اس لئے خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں میں انسان کے لیے یہی تعلیم ہے کہ غیر اللہ کی ہرگز فتسم نہ کھاوے.اب ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی قسموں کا انسان کی قسموں کے ساتھ قیاس درست نہیں ہوسکتا کیونکہ خدا تعالیٰ کو انسان کی طرح کوئی ایسی مشکل پیش نہیں آتی کہ جو انسان کو قسم کے وقت پیش آتی ہے بلکہ اُس کا قسم کھانا ایک اور رنگ کا ہے جو اُس کی شان کے لائق اور اُس کے قانونِ قدرت کے مطابق ہے اور غرض اُس سے یہ ہے کہ تا صحیفہ قدرت کے بدیہات کو شریعت کے اسرار دقیقہ کے حل کرنے کے لئے بطور شاہد کے پیش کرے اور چونکہ اس مدعا کو قسم سے ایک مناسبت تھی اور وہ یہ کہ جیسا ایک قسم کھانے والا جب مثلاً خدا تعالیٰ کی قسم کھاتا ہے تو اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ میرے اس واقعہ پر گواہ ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کے بعض گھلے گھلے افعال بعض چھپے ہوئے افعال پر گواہ ہیں اس لئے اس نے قسم کے رنگ میں اپنے افعال بدیہیہ کو اپنے افعال نظریہ کے ثبوت میں جا بجا قرآن کریم میں پیش کیا اور اس کی نسبت یہ نہیں کہہ سکتے کہ اُس نے غیر اللہ کی قسم کھائی.کیونکہ وہ در حقیقت اپنے افعال کی قسم کھاتا ہے نہ کسی غیر کی اور اُس کے افعال اُس کے غیر نہیں ہیں مثلاً اُس کا آسمان یا

Page 236

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۹ سورة الطارق ستارہ کی قسم کھانا اس قصد سے نہیں ہے کہ وہ کسی غیر کی قسم ہے بلکہ اس نیت سے ہے کہ جو کچھ اُس کے ہاتھوں کی صنعت اور حکمت آسمان اور ستاروں میں موجود ہے اس کی شہادت بعض اپنے افعال مخفیہ کے سمجھانے کے لئے پیش کرے.سو در حقیقت خدا تعالیٰ کی اس قسم کی قسمیں جو قرآن کریم میں موجود ہیں بہت سے اسرار معرفت سے بھری ہوئی ہیں اور جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں.قسم کی طرز پر ان اسرار کا بیان کرنا محض اس غرض سے ہے کہ قسم در حقیقت ایک قسم کی شہادت ہے جو شاہد رویت کے قائم مقام ہو جاتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کے بعض افعال بھی بعض دوسرے افعال کے لئے بطور شاہد کے واقعہ ہوئے ہیں سو اللہ تعالیٰ قسم کے لباس میں اپنے قانونِ قدرت کے بدیہات کی شہادت اپنی شریعت کے بعض دقائق حل کرنے کے لئے پیش کرتا ہے.تا قانون قدرت جو خدا تعالیٰ کی ایک فعلی کتاب ہے اس کی قولی کتاب پر شاہد ہو جائے اور تا اس کے قول اور فعل کی باہم مطابقت ہو کر طالب صادق کے لئے مزید معرفت اور سکینت اور یقین کا موجب ہو اور یہ ایک عام طریق اللہ جل شانہ کا قرآن کریم میں ہے کہ اپنے افعال قدرتیہ کو جو اُس کی مخلوقات میں باقاعدہ منضبط اور مترتب پائے جاتے ہیں اقوال شرعیہ کے حل کرنے کے لئے جا بجا پیش کرتا ہے تا اس بات کی طرف لوگوں کو توجہ دلاوے کہ یہ شریعت اور یہ تعلیم اُسی ذات واحد لاشریک کی طرف سے ہے جس کے ایسے افعال موجود ہیں جو اُس کے ان اقوال سے مطابقت کلّی رکھتے ہیں کیونکہ اقوال کا افعال سے مطابق آجانا بلاشبہ اس بات کا ایک ثبوت ہے کہ جس کے یہ افعال ہیں اُسی کے یہ اقوال ہیں.اب ہم نمونہ کے طور پر اُن چند قسموں کی تفسیر لکھتے ہیں جو قرآن کریم میں وارد ہیں.چنانچہ منجملہ ان کے ایک یہی قسم ہے کہ وَ السَّمَاءِ وَالفَارِقِ وَمَا أَدْراكَ مَا الكَارِقُ النَّجْمُ الثَّاقِبُ إِن كُلُّ نَفْسٍ لَمَّا عَلَيْهَا حافظ.ان آیات میں اصل مدعا اور مقصد یہ ہے کہ ہر یک نفس کی روحانی حفاظت کے لئے ملائک مقرر ہیں جو ہر دم اور ہر وقت ساتھ رہتے ہیں اور جو حفاظت کا طالب ہو اُس کی حفاظت کرتے ہیں.لیکن یہ بیان ایک باریک اور نظری ہے.فرشتوں کا وجود ہی غیر مرئی ہے.پھر اُن کی حفاظت پر کیوں کر یقین آوے اس لئے خداوند کریم وحکیم نے اپنے قانون قدرت کو جو اجرام سماوی میں پایا جاتا ہے.اس جگہ قسم کے پیرا یہ میں بطور شاہد کے پیش کیا اور وہ یہ ہے کہ قانونِ قدرت خدا تعالیٰ کا صاف اور صریح طور پر نظر آتا ہے کہ آسمان اور جو کچھ کو اکب اور شمس اور قمر اور جو کچھ اُس کے پول میں ہوا وغیرہ موجود ہے یہ سب انسان کے لئے جسمانی

Page 237

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۰ سورة الطارق خدمات میں لگے ہوئے ہیں اور طرح طرح کے جسمانی نقصانوں اور حرجوں اور تکلیفوں اور تنگیوں سے بچاتے ہیں اور اُس کے جسم اور جسمانی قومی کے کل مایحتاج کو طیار کرتے ہیں خاص کر رات کے وقت جو ستارے پیدا ہوتے ہیں جنگلوں اور بیابانوں میں چلنے والے اور سمندروں کی سیر کرنے والے اُن چمکدار ستاروں سے بڑا ہی فائدہ اٹھاتے ہیں اور اندھیری رات کے وقت میں ہر یک نجم ثاقب رہنمائی کر کے جان کی حفاظت کرتا ہے اور اگر یہ محافظ نہ ہوں جو اپنے اپنے وقت میں شرط حفاظت بجالا رہے ہیں تو انسان ایک طرفه العین کے لئے بھی زندہ نہ رہ سکے سوچ کر جواب دینا چاہئے کہ کیا ہم بغیر ان تمام محافظوں کے کہ کوئی ہمارے لئے حرارت مطلوبہ طیار رکھتا ہے اور کوئی اناج اور پھل پکاتا ہے اور کوئی ہمارے پینے کے لئے پانیوں کو برساتا ہے اور کوئی ہمیں روشنی بخشتا ہے اور کوئی ہمارے تنفس کے سلسلہ کو قائم رکھتا ہے اور کوئی ہماری قوت شنوائی کو مدد دیتا ہے اور کوئی ہماری حرارت غریزی پر صحت کا اثر ڈالتا ہے زندہ رہ سکتے ہیں.اب اسی سے انسان سمجھ سکتا ہے کہ جس خداوند کریم و حکیم نے یہ ہزار ہا اجرام سماوی و عناصر وغیرہ ہمارے اجسام کی درستی اور قائمی کے لئے پیدا کئے اور دن رات بلکہ ہر دم اُن کو خدمت میں لگا دیا ہے کیا وہ ہماری روحانی حفاظت کے انتظام سے غافل رہ سکتا تھا.اور کیوں کر ہم اُس کریم و رحیم کی نسبت قطن کر سکتے ہیں کہ ہمارے جسم کی حفاظت کے لئے تو اُس نے اس قدر سامان پیدا کر دیا کہ ایک جہان ہمارے لئے خادم بنا دیا لیکن ہماری روحانی حفاظت کے لئے کچھ بندوبست نہ فرمایا.اب اگر ہم انصاف سے سوچنے والے ہوں تو اسی سے ایک محکم دلیل مل سکتی ہے کہ بیشک روحانی حفاظت کے لئے بھی حکیم مطلق نے کوئی ایسا انتظام مقرر کیا ہو گا کہ جو جسمانی انتظام سے مشابہ ہو گا سو وہ ملا یک کا حفاظت کے لئے مقرر کرنا ہے.سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے یہ قسم آسمان اور ستاروں کی کھائی تاملا یک کی حفاظت کے مسئلہ کو جو ایک مخفی اور نظری مسئلہ ہے نجوم وغیرہ کی حفاظت کے انتظام سے جو ایک بدیہی امر ہے بخوبی کھول دیوے اور ملا یک کے وجود کے ماننے کے لئے غور کرنے والوں کے آگے اپنے ظاہر انتظام کو رکھ دیوے جو جسمانی انتظام ہے تا عقلِ سلیم جسمانی انتظام کو دیکھ کر اسی نمونہ پر روحانی انتظام کو بھی سمجھ لیوے.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۹۴ تا۱۰۲) اگر چہ ملائک جسمانی آفات سے بھی بچاتے ہیں لیکن اُن کا بچانا روحانی طور پر ہی ہے مثلا ایک شخص ایک

Page 238

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۱ سورة الطارق گرنے والی دیوار کے نیچے کھڑا ہے تو یہ تو نہیں کہ فرشتہ اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر اُس کو دور لے جائے گا بلکہ اگر اُس شخص کا اُس دیوار سے بچنا مقدر ہے تو فرشتہ اس کے دل میں الہام کر دے گا کہ یہاں سے جلد کھسکنا چاہیئے.لیکن ستاروں اور عناصر وغیرہ کی حفاظت جسمانی ہے.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۹۹ نوٹ ) إنَّ الله تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَال في كتابه اللہ تعالیٰ نے اپنی محکم کتاب میں فرمایا ہے کہ ان الْمُحْكَمِ إِن كُلُّ نَفْس لَمَّا عَلَيْهَا حَافِظٌ كُلُّ نَفْسٍ لَمَّا عَلَيْهَا حَافِظ یعنی خدا کی طرف سے ہر فَلَمَّا كَانَتِ الْمَلائِكَةُ حَافِظِينَ لِنفوس نفس پر ایک محافظ مقرر ہے اور جب فرشتے ستاروں ، النُّجُومِ وَالشَّمْسِ وَالْقَمَرِ وَالْأَفَلَاكِ سورج، چاند ، افلاک اور عرش اور جو کچھ زمین میں ہے وَالْعَرْشِ وَكُلّ مَا فِي الْأَرْضِ لَزِمَ أَنْ لا ان کے محافظ ہیں تو یہ بات لازم آئی کہ وہ جن چیزوں کی يُفَارِقُوا مَا يَحْفَظُوْنَهُ طَرْفَةَ عَيْنٍ فَانظُرُ حفاظت کر رہے ہیں ان سے وہ ایک لمحہ کے لئے بھی كَيْفَ ظَهَرَ مِنْ هَذَا الْأَمْرِ الْحَقِّقُ وَبَطَلَ مَا علیحدہ نہ ہوں.پس دیکھو کہ کس طرح اس آیت سے حق زَعَمَ الزَّاعِمُونَ مِنْ نُزُولِهِمْ وَصُعُودِهِمْ واضح ہو گیا ہے اور ان لوگوں کا خیال جو فرشتوں کے بِأَجْسَامِهِمُ الْأَصْلِيَّةِ.فَلَا مَفَرَّ إِلى سَبِيلٍ نزول اور صعود کو ان کے اصلی وجود کے ساتھ قرار دیتے من قُبُوْلِ دَقِيقَةِ الْمَعْرِفَةِ الَّتِي كَتَبْنَاهَا ہیں غلط ثابت ہو گیا.پس اس دقیقہ معرفت کو قبول کرنے أَعْنِي أَنَّ الْمَلَائِكَةَ لَا يَنْزِلُونَ بلاول کے بغیر کوئی چارہ نہیں جسے ہم نے لکھا ہے یعنی یہ کہ ملائکہ حَقِيقي، وَلَا يَرَوْنَ وَعَشَاءَ السَّفَرِ، بَلْ إِذَا حقیقی طور پر زمین پر نہیں اتر تے اور نہ وہ سفر کی مشقت کو أَرَادَ اللهُ إِرَاءَتِهِم فِي النَّاسُوتِ فَيَخْلُقُ برداشت کرتے ہیں بلکہ جب اللہ تعالیٰ عالم انسانیت لَهُمْ وُجُودًا تَمْثِيْلِيَّا فِي الْأَرْضِ فَتَرَاهُمُ میں ان کو دکھانے کا ارادہ کرتا ہے تو ان کے لئے ایک الْعَيْنُ الَّتِي تَسْرَحُ فِي رَوْضَاتِ الْكَشْفِ تمثیلی وجود زمین میں پیدا کر دیتا ہے تب ان کو وہ آنکھ وَلَوْ لَمْ يَكُن كَذلِك تلزم أن ترى ہی دیکھ پاتی ہے جو کشف کے باغات میں پھرتی رہتی الْمَلَائِكَةَ النَّاسُ كُلُّهُمْ عِنْدَ نُزُولِهِمْ إِلَی ہے.اور اگر ایسا نہ ہوتا تو لازم آتا کہ تمام لوگ ملائکہ کو الْأَرْضِ لِقَبْضِ الْأَرْوَاحِ وَغَيْرِهَا مِنَ ان کے نزول کے وقت دیکھتے جب وہ زمین پر قبض الْمُهِمَّاتِ، وَلَلَزِمَ أَنْ تَرى مَلَكَ الْمَوْتِ ارواح کے لئے اور دوسری مہمات کو سر کرنے کے لئے

Page 239

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۲ سورة الطارق مَثَلاً كُلُّ مَنْ تُوُفِّيَ أَحَدٌ مِنْ أَقَارِبِهِ وَمَن آتے ہیں.پھر اس سے یہ بات بھی لازم آتی ہے کہ مثلاً يُؤَاخِيْهِ وَمِنْ عَشِيرَتِهِ وَعَقِبِهِ وَقَوْمِهِ جب ملک الموت کسی کو وفات دینے کے لئے آتا ہے تو وَأصْدِقَائِهِ أَمَامَ عَيْنِهِ فَإِنَّ جِسْم متولی کے اقارب ، بھائی بند اور اولاد اور اس کی قوم کے الْمَلَائِكَةِ جِسْمُ كَأَجْسَامٍ أُخْرى، فَلا لوگ اور اس کے دوست اسے اپنی آنکھوں کے سامنے وَجْهَ لِعَدُم رُؤْيَ مَعَ نُزُولِهِمْ دیکھتے کیونکہ ان کے نزدیک فرشتوں کے اجسام دوسرے بِأَجْسَامِهِمُ الْأَصْلِيَّةِ.وَأَنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ اجسام کی طرح ہی ہیں اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنے خَلْقًا كَثِيرًا يَمُوْتُوْنَ أَمَامَ أَعْيُنِنَا فَلَا اصلی اجسام کے ساتھ نزول کے وقت دکھائی نہ دیں.پھر تم ترى عِنْدَ نَزْعِهِمْ وَغَمْرَةِ مَوْتِهِمُ یہ بھی جانتے ہو کہ بہت سے لوگ ہمارے سامنے مرتے الْمَلائِكَةَ الَّتى تَوَفَّهُمْ وَمَا نَسْمَعُ مَا ہیں لیکن ان کی نزع کے وقت ہم ان ملائکہ کو نہیں دیکھتے جو يَسْأَلُونَ الْمَوْلَى وَمَا يُكَلِّمُونَهُم.ان کو وفات دیتے ہیں اور نہ ہی ہم اس سوال و جواب کو (حمامة البشری ، روحانی خزائن جلد ے صفحہ ۲۷۸،۲۷۷) سنتے ہیں جو وہ مردوں سے کرتے ہیں.(ترجمہ از مرتب) و لا وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجُعِل وَالْأَرْضِ ذَاتِ الصَّدْع لى إِنَّهُ لَقَولُ فَضْل لى وَمَا هُوَ بِالْهَزْلِ إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا وَ أَكِيدُ كَيْدًا لى وَالْقَوْلُ الْجَامِعُ الْمُهَيْمِنُ الَّذِى بالکل صحیح اور جامع بات جو حق کا پتہ دیتی ہے اور يَهْدِى إِلَى الْحَقِ وَ يَحْكُمُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان جھگڑے کا فیصلہ کر دیتی ہے قَوْمِنَا ايَةٌ جَلِيْلَةٌ مِنْ سُوْرَةِ الطَّارِقِ قرآن مجید کی سورۃ طارق کی وہ آیت جلیلہ ہے جو اس بھید کو تُذَكَّرُ سِرًّا غَفَلُوا مِنْهُ أَهْلُ الْهَوَا بتاتی ہے جس سے اپنی خواہشات کے تابع لوگ غافل ہیں.أَغْنِي قَوْلَهُ تَعَالَى وَ السَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجُع میری مراد خدا تعالیٰ کے قول وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجْعِ وَالْأَرْضِ وَالْأَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعَ إِنَّهُ لَقَولُ فَصَلُّ وَ ذَاتِ الصَّدِعِ إِنَّهُ لَقَوْلُ فَضْلُ وَ مَا هُوَ بِالْهَزْلِ إِنَّهُمُ مَا هُوَ بِالْهَزْلِ إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا وَ يَكِيدُونَ كيدا و اكيد كیدا سے ہے پس اے عزیز و تمہیں اَكِيْدُ كَيْدًا فَاعْلَمُوا أَيُّهَا الْأَعِزَّةُ آن معلوم ہونا چاہیے کہ یہ آیت ان اسرار کا موجیں مارتا ہوا ایک هذِهِ الْآيَةَ بَحْرُ مَوَاجُ من تلك سمندر ہے جس کا کسی کی سوچ نے احاطہ نہیں کیا اور نہ ہی مخلوق

Page 240

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۳ سورة الطارق الْأَسْرَارِ مَا أَحَاطَعُها فِكْر من الأفكارِ وَمَا کی عقل نے ان کو چھوا ہے.اللہ تعالیٰ نے مجھے اس مَشَتَهَا مُدْرِكَةُ الْوَرَى وَ فَهَمَنِى رَبِّي اسرار آیت کے اسرار سمجھائے ہیں اور ان کے ساتھ مجھے هذِهِ الْآيَةِ وَاخْتَصَّنِي بِهَا وَ تَفْصِيلُهُ آن ہی مخصوص کیا ہے اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ الله تَعَالَى أَشَارَ فِي هَذِهِ الْآيَةِ إلى أنَّ السَّمَاء نے اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے مَجْمُوعَةُ مُوَتِرَاتٍ وَالْأَرْضُ مَجْمُوعَةُ کہ آسمان مؤثرات کا مجموعہ ہے اور زمین متأثرات کا مُتَأَثِرَاتٍ وَ يَنْزِلُ الْأَمْرُ مِنَ السَّمَاءِ إِلى مجموعہ.اور امر الہی آسمان سے زمین پر نازل ہوتا الْأَرْضِ فَتَلَقَّتْهُ الْأَرْضُ بِالْقُبُولِ وَ لا ہے اور زمین اس کو قبول کر لیتی ہے اور انکار نہیں کرتی تأني.و في هَذَا إِشَارَةٌ إِلى أَنَّ كُلَّ مَا فِی اور اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو کچھ بھی السَّمَاءِ مِنَ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ وَالنُّجُومِ آسمانوں میں ہے یعنی سورج ، چاند، ستارے، ملائکہ وَالْمَلَائِكَةِ وَ اَروَاحِ الْمُقَدِّسِينَ مِنَ اور پاک انبیاء ورسول اور صدیق اور ان کے علاوہ الرُّسُلِ وَالنَّبِيِّينَ وَالصِّدِيقِينَ وَ غَيْرِهِمْ دوسرے مومنوں کی ارواح ان مناسبات کے ساتھ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ يُلْقِي أَثَرَةُ عَلَى مَا في کہ جن کی رعایت حکمت قدسیہ تقاضا کرتی ہے.الْأَرْضِ بِمُنَاسَبَاتٍ قَضَتْ حِكْمَةُ زمین پر موجود اشیاء پر اثر ڈالتی ہیں.سو آسمان نزول الْقُدُسِ رِعَايَعَهَا.فَالسَّمَاءُ تَتَوَجَّهُ إِلَى اور رجمع کی بے شمار اقسام کے ساتھ زمین کی طرف الْأَرْضِ بِأَقْسَامٍ غَيْرِ مُتَنَاهِيَةٍ مِن النُّزُولِ توجہ کرتا ہے اور زمین اسے اپنے اندر لینے اور اسے وَالرَّجُعِ وَالْأَرْضُ تَتَقَبَّلُهَا بِالْإِنْصِداع نشو و نمادینے کی ان گنت اقسام کے ساتھ اسے قبول وَالْإِبْوَاءِ بِأَقْسَامٍ لَا تُعَدُّ وَ لَا تُخص فمن کرتی ہے.اس رجع اور صدع کے عمل کے نتیجے میں أَقْسَامِ نتائج هذا الرَّجُعِ وَالصَّدْعِ أَشْيَاء بہت سی چیزیں طبقات الارض میں پیدا ہوتی ہیں.تَحْدُثُ فِي طَبَقَاتِ الْأَرْضِ كَالْفِضَّةِ مثلاً چاندی ، سونا ، لوہا، جواہرات نفیسہ اور ایسی ہی اور وَالذَّهَبِ وَالْحَدِيدِ وَ جَوَاهِرَاتٍ نَفِيسَةٍ و اشیاء.اور اس کی اقسام میں سے کھیتیاں ، درخت، أَشْيَاءٍ أُخْرَى وَ مِنْ أَقْسَامِهِ الزُّرُوعُ وَ نباتات، پھل، چشمے اور دریا وغیرہ ہیں.نیز جملہ وہ الاشجار والنباتات والعمارُ وَالْعُيُونُ اشیاء جن کے ظاہر کرنے کے لئے زمین پھٹتی ہے اور وَالْأَنْهَارُ وَ كُلُّ مَا تَتَصَدَّعُ عَنْهُ الثَّرَى.پھر اس کی اقسام میں سے اونٹ، گدھے، گھوڑے

Page 241

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۴ سورة الطارق وَمِنْ أَقْسَامِهِ جِمَالٌ وَ حَمِيرٌ وَ أَفَرَاسُ وَكُلٌّ اور اسی قسم کے دوسرے تمام چار پائے ہیں جو زمین پر دَآبَّةٍ تَدُبُّ عَلَى الْأَرْضِ وَ كُلُّ طَيْرِ يَطِيرُ چلتے ہیں اور ہوا میں اڑنے والے تمام پرندے ہیں اور فِي الْهَوَاءِ وَ مِنْ أَقْسَامِهِ الْإِنْسَانُ الَّذِى اس کی اقسام میں سے انسان ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے خُلِقَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ وَ فُضِّلَ عَلى كُلِ احسنِ تقویم میں پیدا کیا ہے اور ہر رینگنے اور چلنے والے مَنْ دَبَّ وَ مَشَى وَ مِنْ أَقْسَامِهِ الْوَحْى حیوان پر اس کو فضیلت دی گئی ہے اور اسی کی اقسام میں وَالنُّبُوَّةُ وَالرِّسَالَةُ وَالْعَقْلُ وَ القطانة سے وحی اور نبوت ورسالت اور عقل ، فطانت، شرافت، وَالطَّرَافَةُ وَالتَّجَابةُ وَالسَّفَاهَةُ وَالْجَهْلُ نجابت، بيوقوفى، جہالت ، حماقت ، رذالت اور وَالْحُمْقُ وَالزَّذَالَهُ وَ تَرْك الْحَياءِ وَ مِن بے حیائی ہیں اور اسی کی اقسام میں سے انبیاء اور أَقْسَامِهِ نُزُولُ أَرْوَاحِ الْأَنْبِيَاءِ وَالرُّسُلِ رسولوں کی ارواح کا ہر اس وجود پر انعکاسی طور پر نزول نُزُولًا الْعِكَاسِيًّا عَلى كُلِّ مَن يُنَاسِبُ کرنا ہے جو ان کی فطرت کے مشابہ ہو اور جو ہر اور فِطْرَتَهُمْ وَيُشَابِهُ جَوْهَرَهُمْ وَ خِلْقَتَهُمْ خلقت اور صدق وصفا میں ان کے مشابہ ہو.اس سے في الْخَلْقِ وَالصِّدْقِ وَ الصَّفَاء وَ مِنْ هُنَا یہ بات واضح ہو گئی کہ نجوم کی تاثیرات ثابت شدہ متحقق ظَهَرَ أَنَّ تَأْثِيرَاتِ النُّجُومِ ثَابِتَةٌ مُتَحَقِّقَةٌ اور مسلمہ ہیں اور اس میں صرف جاہل ، کند ذہن جو مَنصُوصَةٌ وَلا يَهُكُ فِيهَا إِلَّا الْجَاهِلُ قرآن کریم میں غور و فکر نہیں کرتا اور اندھوں کی طرح الغَ البَلِيْدُ الَّذى لا يَنظُرُ فِي الْقُرْآنِ جھگڑتا ہے وہی شک کر سکتا ہے اور یہ رجع اور صدع کا وَيُجَادِلُ كَالأعمى وَهذَا الرَّجُعُ وَالصَّدْعُ عمل آسمانوں اور زمین میں اس دن سے جاری ہے جَارٌ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مِن يَوْمٍ جب سے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو پیدا کیا ہے اور ان خَلَقَهُمَا اللهُ وَقَالَ إِثْتِيَا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا کو کہا اِثْتِيَا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا تو انہوں نے کہا آتَيْنَا قَالَتَا أَتَيْنَا طَابِعِينَ فَمَالَتِ السَّمَاءُ إِلَى طَابِعِینَ.پس آسمان زمین کی طرف اس طرح مائل الْأَرْضِ كَالذَّكَرِ إِلَى الأُنفى، وَلاَخل ہوا جس طرح فر مادہ کی طرف مائل ہوتا ہے.اسی لئے ذالِك الخَتَارَ الرَّبُّ الْكَرِيمُ لَفَظَ الرَّجُع رب کریم نے آسمان کے لئے لفظ رجمع اختیار کیا اور لِلسَّمَاءِ وَلَفَظَ الصَّدْعِ لِلْأَرْضِ إِشَارَةُ زمین کے لئے لفظ صدع.اور اس میں اس بات کی إلى أَنَّهُمَا تَجْتَمِعَانِ دَائما اجتماع طرف اشارہ کیا کہ یہ دونوں ہمیشہ نر و مادہ کی طرح جمع

Page 242

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۵ سورة الطارق الذُّكُورِ وَالْإِنَاتِ وَلَا تَأْني إحْدَاهُمَا مِن ہوتے چلے جائیں گے اور ان میں سے نہ کوئی دوسرے الأخرى و لا تطفى.فَتَائِبُرَاتُ السَّمَاءِ سے نفرت کرے گا اور نہ سرکشی.پس آسمان کی تاثیرات تَنْزِلُ ثُمَّ تَنْزِلُ وَالْاَرْضُ تَقْبَلُهَا ثُمَّ متواتر نازل ہوتی رہتی ہیں اور زمین اس کو بار بار قبول تقبلُ وَلَا تَنقَطِعُ هذه السلسلة کرتی ہے اور یہ عمل ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں رکتا اور اگر الثَّوْرِيَّةُ طَرْفَةَ عَيْنٍ وَ لَوْ لا ذَالِك ایسا نہ ہوتا تو زمین اور اس میں موجود مخلوقات سب کا لَفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَمَا فِيْهَا.وَقَالَ اللهُ نظام بگڑ جاتا.اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے شروع میں تعالى في أوَّلِ هَذِهِ الْآيَةِ إِنَّه عَلَى رَجْعِهِ ہی فرمایا تھا اِنَّكَ عَلَى رَجْعِهِ لَقَادِر اور اس کے بعد فرمایا لَقَادِرُ وَقَالَ بَعْدَ ذَالِكَ وَالسَّمَاءِ ذَاتِ وَ السَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجيع اور تمہیں کیوں کر علم ہو کہ ان الرّجع فَمَا أَدْرَاكَ انه في مجمع ذكر دونوں رجع کے ذکر کو ایک جگہ بیان کرنے سے اللہ تعالیٰ نے الرَّجْعَيْنِ إِلى مَا أَوْلى فَاعْلَمُ أَنَّهُ أَشَارَ کس طرف اشارہ کیا ہے، سو جانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے إلى أَن عَوْدَ الْإِنْسَانِ بِالْبَعْثِ بَعْد اس میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ انسان کا بعث بعد الموت الْمَوْتِ فِي قُدْرَةِ اللهِ تَعَالَى كَمَا انّه يُعِید کے ذریعہ دوبارہ زندہ کیا جانا اللہ کی قدرت میں أَرْوَاحَ الْمُقَدَّسِيْنَ بِإِعَادَاتِ انعكاسية ہے.جس طرح وہ مقدسین کی ارواح کو بروزمی طور پر ين السَّمَاءِ الَّتِي هِيَ ذَاتُ الرّجع إلى آسمان سے (جو ذَاتِ الرّجع ہے ) زمین کی طرف (جو الْأَرْضِ الَّتِي هِيَ ذَاتُ الصَّدْعَ وَمَوْلِد كُلِ ذَاتُ الصدع ہے اور ہر زندہ کا مولد ہے ) لوٹاتا ہے اور مَن تَحْيَا وَهَذِهِ نُكَتَةٌ عَظِيمَةٌ لَطِيفَةٌ - - یہ بڑا لطیف اور عظیم نکتہ ہے.( ترجمہ از مرتب ) آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۴۲ تا ۴۴۶) وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرّجع.اس جگہ آسمان سے مراد وہ کرہ زمہریر ہے جس سے پانی برستا ہے اور اس آیت میں اس کرہ زمہریر کی قسم کھائی گئی جو مینہ برساتا ہے اور رجع کے معنی مینہ ہے اور خلاصہ معنی آیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں وحی کا ثبوت دینے کے لئے آسمان کو گواہ لاتا ہوں جس سے پانی برستا ہے یعنی تمہاری روحانی حالت بھی ایک پانی کی محتاج ہے اور وہ آسمان سے ہی آتا ہے جیسا کہ تمہارا جسمانی پانی آسمان سے آتا ہے اگر وہ پانی نہ ہو تو تمہاری عقلوں کے پانی بھی خشک ہو جائیں.عقل بھی اُسی آسمانی پانی یعنی وحی الہی سے تازگی اور روشنی پاتی ہے.غرض جس خدمت میں آسمان لگا ہوا ہے یعنی پانی برسانے کی خدمت یہ کام

Page 243

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۶ سورة الطارق آسمان کا خدا تعالی کی پہلی صفت کا ایک ظل ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ ابتدا ہر ایک چیز کا پانی سے ہے.انسان بھی پانی سے ہی پیدا ہوتا ہے اور وید کی رُو سے پانی کا دیوتا اکاش ہے جس کو وید کی اصطلاح میں اندر کہتے ہیں مگر یہ سمجھنا غلطی ہے کہ یہ اندر کچھ چیز ہے بلکہ وہی پوشیدہ اور نہاں در نہاں طاقت عظمیٰ جس کا نام خدا ہے اس میں کام کر رہی ہے.(نسیم دعوت، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۱۲، ۴۱۳) قرآن شریف کی اصطلاح کی رُو سے جو فضا یعنی پول او پر کی طرف ہے جس میں بادل جمع ہو کر مینہ برستا ہے اس کا نام بھی آسمان ہے جس کو ہندی میں اکاش کہتے ہیں.(نسیم دعوت ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۱۲ حاشیه ) قرآن شریف نے وحی اور الہام کی سنت قدیمہ پر قانون قدرت سے گواہی لانے کے لئے ایک اور مقام میں بھی اسی قسم کی قسم کھائی ہے اور وہ یہ ہے.وَ السَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجْعِ وَالْأَرْضِ ذَاتِ الصَّبْحَ إِنَّهُ لقَوْلُ فَصل وَمَا هُوَ بِالْهَزْلِ یعنی اس آسمان کی قسم ہے جس کی طرف سے بارش آتی ہے اور اس زمین کی قسم ہے جو بارش سے طرح طرح کی سبزیاں نکالتی ہے کہ یہ قرآن خدا کا کلام ہے.اور اس کی وحی ہے اور وہ باطل اور حق میں فیصلہ کرنے والا ہے اور عبث اور بیہودہ نہیں.یعنی بے وقت نہیں آیا موسم کے مینہ کی طرح آیا ہے.اب خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کے ثبوت کے لئے جو اس کی وحی ہے ایک کھلے کھلے قانون قدرت کو قسم کے رنگ میں پیش کیا یعنی قانون قدرت میں ہمیشہ یہ بات مشہور اور مرتی ہے کہ ضرورتوں کے وقت آسمان سے بارش ہوتی ہے اور تمام مدار زمین کی سرسبزی کا آسمان کی بارش پر ہے.اگر آسمان سے بارش نہ ہو تو رفتہ رفتہ کنویں بھی خشک ہو جاتے ہیں.پس در اصل زمین کے پانی کا وجود بھی آسمان کی بارش پر موقوف ہے.اسی وجہ سے جب کبھی آسمان سے پانی برستا ہے تو زمین کے کنوؤں کا پانی چڑھ آتا ہے.کیوں چڑھ آتا ہے؟ اس کا یہی سبب ہے کہ آسمانی پانی زمین کے پانی کو اوپر کی طرف کھینچتا ہے.یہی رشتہ وحی اللہ اور عقل میں ہے.وحی اللہ یعنی الہام الہی آسمانی پانی ہے اور عقل زمینی پانی ہے اور یہ پانی ہمیشہ آسمانی پانی سے جو الہام ہے تربیت پاتا ہے اور اگر آسمانی پانی یعنی وحی ہونا بند ہو جائے تو یہ زمینی پانی بھی رفتہ رفتہ خشک ہو جاتا ہے.کیا اس کے واسطے یہ دلیل کافی نہیں کہ جب ایک زمانہ دراز گزر جاتا ہے اور کوئی الہام یافتہ زمین پر پیدا نہیں ہوتا تو عقلمندوں کی معقلیں نہایت گندی اور خراب ہو جاتی ہیں.جیسے زمینی پانی خشک ہو جا تا اور سڑ جاتا ہے.

Page 244

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۷ سورة الطارق اس کے سمجھنے کے لئے اس زمانہ پر ایک نظر ڈالنا کافی ہے جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے سے پہلے اپنا رنگ تمام دنیا میں دکھلا رہا تھا.چونکہ اس وقت حضرت مسیح کے زمانہ کو چھ سو برس گزر گئے تھے اور اس عرصہ میں کوئی الہام یافتہ پیدا نہیں ہوا تھا اس لئے تمام دنیا نے اپنی حالت کو خراب کر دیا تھا.ہر ایک ملک کی تاریخیں پکار پکار کر کہتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مگر آپ کے ظہور سے پہلے تمام دنیا میں خیالات فاسدہ پھیل گئے تھے.ایسا کیوں ہوا تھا اور اس کا کیا سبب تھا ؟ یہی تو تھا کہ الہام کا سلسلہ مدتوں تک بند ہو گیا تھا.آسمانی سلطنت صرف عقل کے ہاتھ میں تھی.پس اس ناقص عقل نے کن کن خرابیوں میں لوگوں کو ڈالا، کیا اس سے کوئی نا واقف بھی ہے.دیکھو الہام کا پانی جب مدت تک نہ برسا تو تمام عقلوں کا پانی کیسا خشک ہو گیا.سوان قسموں میں یہی قانون قدرت اللہ تعالی پیش کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ تم غور کر کے دیکھو کہ کیا خدا کا یہ محکم اور دائمی قانون قدرت نہیں کہ زمین کی تمام سرسبزی کا مدار آسمان کا پانی ہے.سو اس پوشیدہ قانون قدرت کے لئے جو الہام الہی کا سلسلہ ہے.یہ کھلا کھلا قانون قدرت بطور گواہ کے ہے.سواس گواہ سے فائدہ اٹھاؤ اور صرف عقل کو اپنا رہبر مت بناؤ کہ وہ ایسا پانی نہیں جو آسمانی پانی کے سوا موجودرہ سکے.جس طرح آسمانی پانی کا یہ خاصہ ہے کہ خواہ کسی کنویں میں اس کا پانی پڑے یا نہ پڑے وہ اپنی طبعی خاصیت سے تمام کنوؤں کے پانی کو اوپر چڑھا دیتا ہے.ایسا ہی جب خدا کا ایک الہام یافتہ دنیا میں ظہور فرماتا ہے خواہ کوئی عقلمند اس کی پیروی کرے یا نہ کرے.مگر اس الہام یافتہ کے زمانہ میں خود عقلوں میں ایسی روشنی اور صفائی آجاتی ہے کہ پہلے اس سے موجود نہ تھی.لوگ خواہ نخواہ حق کی تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں اور غیب سے ایک حرکت ان کی قوت متفکرہ میں پیدا ہو جاتی ہے.سو یہ تمام عقلی ترقی اور دلی جوش اس الہام یافتہ کے قدم مبارک سے پیدا ہو جاتا ہے اور بالخاصیت زمین کے پانیوں کو اوپر اٹھاتا ہے جب تم دیکھو کہ مذاہب کی جستجو میں ہر ایک شخص کھڑا ہو گیا ہے اور زمینی پانی کو کچھ ابال آیا ہے تو اٹھو اور خبر دار ہو جاؤ اور یقینا سمجھو کہ آسمان سے زور کا مینہ برسا ہے اور کسی دل پر الہامی بارش ہو گئی ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۲۸ تا ۴۳۰) قسم ہے آسمان کی جس سے مینہ نازل ہوتا ہے اور قسم ہے زمین کی جو پھوٹ کر اناج نکالتی ہے.یہ کلام یعنی قرآن شریف حق اور باطل میں فیصلہ کرنے والا ہے اور بے فائدہ نہیں یعنی اس کلام کی ایسی ہی ضرورت

Page 245

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۸ سورة الطارق ثابت ہے جیسا کہ جسمانی نظام میں مینہ کی ضرورت ثابت ہے.اگر مینہ نہ ہو تو آخر کا ر کنویں بھی خشک ہو جاتے ہیں اور دریا بھی اور پھر نہ پینے کے لئے پانی رہتا ہے اور نہ کھانے کے لئے اناج.کیونکہ ہر ایک برکت زمین کی آسمان سے ہی نازل ہوتی ہے.اس دلیل سے خدا نے ثابت کیا ہے کہ جیسا کہ پانی اور اناج کی ہمیشہ ضرورت ہے ایسا ہی خدا کی کلام اور اس کے تسلی دینے والے معجزات کی ہمیشہ ضرورت ہے.کیونکہ محض گزشتہ قصوں سے تسلی نہیں ہو سکتی.پس آریہ صاحبوں کو سمجھنا چاہیے کہ محض دید کے ورق چاٹنے سے نہ روحانی پیاس دور ہوسکتی ہے اور نہ وہ تسلی مل سکتی ہے جو خدا کے تازہ بتازہ معجزات سے ملتی ہے اور آیت ممدوحہ بالا میں جو خدا نے قسم کھائی پس جانا چاہیئے کہ خدا کی قسمیں انسان کی قسموں کی طرح نہیں ہیں بلکہ عادت اللہ اس طرح واقعہ ہوئی ہے کہ وہ قرآن شریف میں قسم کھا کر جسمانی نظام کو روحانی نظام کی تصدیق میں پیش کرتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ قسم شہادت کی قائم مقام وضع کی گئی ہے.پس اس جگہ خدا کی کلام میں جسمانی امور کی قسم کھانے سے اشارہ یہ ہے کہ جو قسم کے بعد روحانی امور بیان کئے گئے ہیں جسمانی امور ان کی سچائی کے گواہ ہیں.پس جس جگہ تم قرآن شریف میں اس طور کی قسمیں پاؤ گے ہر ایک جگہ ان قسموں سے یہی مراد ہے کہ خدا تعالیٰ اول جسمانی امور پیش کر کے ان امور کو روحانی امور کے لئے جو بعد میں لکھتا ہے بطور گواہ کے پیش کرتا ہے.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۰۲) قرآن شریف کی قسموں پر جو اعتراض کیا جاتا ہے وہ بھی اسی قسم کا ہے.بڑے غور اور فکر کے بعد یہ راز ہم پر کھلا ہے کہ قرآن شریف کے جس جس مقام پر کوتاہ اندیشوں نے اعتراض کئے ہیں اسی مقام پر اعلیٰ درجہ کی صداقتوں اور معارف کا ایک ذخیرہ موجود ہے جس پر ان کو اس وجہ سے اطلاع نہیں ملی کہ وہ حق کے ساتھ عداوت رکھتے ہیں اور قرآن شریف کو محض اس لئے پڑھتے ہیں کہ اس پر نکتہ چینی اور اعتراض کریں.یادرکھو قرآن شریف کے دو حصے ہیں بلکہ تین.ایک تو وہ حصہ ہے جس کو ادنی درجہ کے لوگ بھی جوامی ہوتے ہیں سمجھ سکتے ہیں اور دوسرا وہ حصہ ہے جو اوسط درجہ کے لوگوں پر کھلتا ہے.اگر چہ وہ پورے طور پر امی نہیں ہوتے لیکن بہت بڑی استعداد علوم کی بھی نہیں رکھتے.اور تیسر ا حصہ ان لوگوں کے لئے ہے جو اعلیٰ درجہ کے علوم سے بہرہ ور ہیں اور فلاسفر کہلاتے ہیں.یہ قرآن شریف ہی کا خاصہ ہے کہ وہ تینوں قسم کے آدمیوں کو یکساں تعلیم دیتا ہے.ایک ہی بات ہے جو امی اور اوسط درجہ کے آدمی اور اعلیٰ درجہ کے فلاسفر کو تعلیم دی جاتی ہے.قرآن شریف کا

Page 246

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۹ سورة الطارق ہی فخر ہے کہ ہر طبقہ اپنی استعداد اور درجہ کے موافق فیض پاتا ہے.الغرض یہ جو قرآن شریف کی قسم پر اعتراض کیا جاتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ قسم ایک ایسی شے ہے جس کو ایک شاہد کے مفقود ہونے کے بجائے دوسرا شاہد قرار دیا جاتا ہے.قانونا ، شرعاً، عرفایہ عام مسلم بات ہے کہ جب گواہ مفقود ہو اور موجود نہ ہو تو صرف قسم پر اکتفا کی جاتی ہے اور وہ قسم گواہی کے قائم مقام ہوتی ہے اسی طرح پر اللہ تعالیٰ کی سنت قرآن کریم میں اس طرح پر جاری ہے کہ نظریات کو ثابت کرنے واسطے بدیہیات کو بطور شاہد پیش کرتا ہے تا کہ نظری امور ثابت ہوں.تو یا درکھنا چاہیے کہ قرآن شریف میں یہ طرز اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے کہ نظری امور کے اثبات کے لئے امور بدیہی کو بطور شواہد پیش کرتا ہے اور یہ پیش کرنا قسموں کے رنگ میں ہے.اس بات کو بھی ہرگز بھولنا نہ چاہیے کہ اللہ جل شانہ کی قسموں کو انسانی قسموں پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے اللہ تعالیٰ نے جو انسان کو غیر اللہ کی قسم کھانے سے منع کیا تو اس کا سبب یہ ہے کہ انسان جب قسم کھاتا ہے تو اس کا مدعا یہ ہوتا ہے کہ جس چیز کی قسم کھائی ہے اس کو ایک ایسے گواہ رویت کا مقام ٹھہر اوے کہ جو اپنے ذاتی علم سے اس کے بیان کی تصدیق یا تکذیب کر سکتا ہے کیونکہ اگر سوچ کر دیکھا جاوے تو قسم کا اصل مفہوم جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا تھا شہادت ہی ہوتا ہے.جب انسان معمولی شاہدوں کے پیش کرنے سے عاجز آ جاتا ہے تو پھر قسم کا محتاج ہوتا ہے تا اس سے وہ فائدہ اٹھا دے جو ایک شاہد رویت کی شہادت سے اٹھانا چاہتا ہے لیکن ایسا تجویز کرنا یا اعتقاد رکھنا کہ بجز خدا تعالیٰ کے کوئی اور بھی حاضر ناظر ہے اور تصدیق یا تکذیب یا سزا دہی یا کسی اور امر پر قادر ہے صریح کلمہ کفر ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام کتابوں میں انسان کو یہی ہدایت فرمائی ہے کہ غیر اللہ کی ہرگز قسم نہ کھاوے.اب اس بیان سے صاف معلوم ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کا قسم کھانا کوئی اور رنگ اور شان رکھتا ہے اور غرض اس سے یہی ہے کہ تا صحیفہ قدرت کے بدیہات کو شریعت کے اسرار دقیقہ کے حل و انکشاف کے لئے بطور شاہد پیش کرے اور چونکہ اس مدعا کو قسم سے ایک مناسبت تھی اور وہ یہ کہ جیسا ایک قسم کھانے والا جب مثلاً خدا تعالیٰ کی قسم کھاتا ہے تو اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے اس واقعہ پر گواہ ہے.اسی طرح اور ٹھیک اسی رنگ میں اللہ تعالیٰ کے بعض ظاہر در ظاہر افعال نہاں در نہاں اسرار اور افعال پر بطور گواہ ہیں اس لئے اس نے قسم کے رنگ میں اپنے افعال بدیہیہ کو اپنے افعال نظریہ کے ثبوت میں جابجا قرآن شریف میں پیش کیا اور یہ کہنا سراسر نادانی اور جہالت ہے کہ اللہ تعالی نے غیر اللہ کی قسم کھائی کیونکہ اللہ تعالی در حقیقت اپنے

Page 247

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۰ سورة الطارق افعال کی قسم کھاتا ہے نہ کسی غیر کی.اور اس کے افعال اس کے غیر نہیں ہیں مثلاً اس کا آسمان یا ستارہ کی قسم کھانا اس قصد سے نہیں ہے کہ وہ کسی غیر کی قسم ہے بلکہ اس منشاء سے ہے کہ جو کچھ اس کے ہاتھوں کی صنعت اور حکمت آسمان اور ستاروں میں موجود ہے اس کی شہادت بعض اپنے افعال مخفیہ کے سمجھانے کے لئے پیش کرے.غرض خدا تعالیٰ کی قسمیں اپنے اندر لامحدود اسرار معرفت کے رکھتی ہیں جن کو اہلِ بصیرت ہی دیکھ سکتے ہیں.پس خدا تعالیٰ کی قسم کے لباس میں اپنے قانونِ قدرت کے بدیہات کی شہادت اپنی شریعت کے بعض دقائق حل کرنے کے لئے پیش کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی فعلی کتاب ( قانونِ قدرت ) اس کی قولی کتاب ( قرآن شریف ) پر شاہد ہو جاوے اور اس کے قول اور فعل میں باہم مطابقت ہو کر طالب صادق کے لئے مزید معرفت اور سکونت اور یقین کا موجب ہو اور یہ طریق قرآن شریف میں عام ہے.مثلاً خدا تعالیٰ بر ہموؤں اور الہام کے منکروں پر یوں اتمام حجت کرتا ہے.وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجع قسم ہے بادلوں کی جن سے مینہ برستا ہے.رجع بارش کو بھی کہتے ہیں.بارش کا بھی ایک مستقل نظام ہے.جیسا نظام شمسی ہے.رات اور دن کا ، اور کسوف خسوف کا بجائے خود ایک ایک نظام ہے.مرض کا بھی ایک نظام ہوتا ہے طبیب اس نظام کے موافق کہہ سکتا ہے کہ فلاں دن بحران ہوگا.غرض یہ نظام ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قانونِ قدرت اپنے اندر ایک ترتیب اور کامل نظام رکھتا ہے اور کوئی فعل اس کا ایسا نہیں ہے جو نظام اور ترتیب سے باہر ہو.اللہ تعالیٰ جیسے یہ چاہتا ہے کہ لوگ اس سے ڈریں ویسے ہی یہ بھی چاہتا ہے کہ لوگوں میں علوم کی روشنی پیدا ہو دے اور اس سے وہ معرفت کی منزلوں کو طے کر جاویں کیونکہ علوم حقہ سے واقفیت جہاں ایک طرف سچی خشیت پیدا کرتی ہے وہاں دوسری طرف ان علوم سے خدا پرستی پیدا ہوتی ہے بعض بد قسمت ایسے بھی ہیں جو علوم میں منہمک ہو کر قضاء وقدر سے دور جا پڑتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے وجود پر ہی شکوک پیدا کر بیٹھتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو قضا و قدر کے قائل ہو کر علوم ہی سے دستبردار ہو جاتے ہیں.مگر قرآن شریف نے دونوں تعلیمیں دی ہیں اور کامل طور پر دی ہیں.قرآن شریف علوم حقہ سے اس لئے واقف کرنا چاہتا ہے اور اس لئے ادھر انسان کو متوجہ کرتا ہے کہ اس سے خشیت الہی پیدا ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کی معرفت میں جوں جوں ترقی ہوتی ہے اس قدر خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس سے محبت پیدا ہوتی جاتی ہے اور انسان کو قضا و قدر کے نیچے رہنے کی اس لئے تعلیم دیتا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل اور بھروسہ کی صفت پیدا ہو اور وہ راضی بہ رضا ر ہنے

Page 248

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۱ سورة الطارق کی حقیقت سے آشنا ہو کر ایک سچی سکینت اور اطمینان جو نجات کا اصل مقصد اور منشاء ہے حاصل کرے.ابھی جو مثال میں نے قرآن شریف سے قسم کے متعلق دی ہے کہ وَ السَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجُعِ یعنی قسم ہے آسمان کی جس میں اللہ تعالیٰ نے رجع کو رکھا ہے.سماء کا لفظ فضا اور جو اور بارش اور بلندی کے معنوں میں بولا جاتا ہے.رجع بار بار وقت پر آنے والی چیز کو کہتے ہیں.بارش برسات میں بار بار آتی ہے اس لئے اس کا نام بھی رجمع ہے.اسی طرح پر آسمانی بارش بھی اپنے وقتوں پر آتی ہے.وَالْأَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ اور قسم ہے زمین کی کہ وہ ان وقتوں میں پھوٹ نکلتی ہے اور سبزہ نکالتی ہے.بارش کی جڑھ زمین ہے.زمین کا پانی جو بخارات بن کر او پر اُڑ جاتا ہے وہ کرہ زمہریر میں پہنچ کر بارش بن کر واپس آتا ہے اور اس صورت میں چونکہ وہ آسمان سے آتا ہے اس لئے آسمانی کہلاتا ہے.پھر بارش کی ضرورت کے لئے ایک اور وقت خاص ہے.جب مزار عین کو ضرورت ہوتی ہے.اگر بیائی کے بعد پڑے تو کچھ بھی نہ رہے اور پھر بعض اوقات نشو و نما کے لئے ضرورت ہوتی ہے.غرض بارش اور مینہ کی ضرورت اور اس کے مفاد اور اس کے آسمان سے آنے کا نظارہ بالکل بدیہی ہے اور ایک ادنیٰ درجہ کی عقل رکھنے والا گنوار دہقان بھی جانتا ہے.علاوہ ازیں یہ بات بھی یادرکھنے کے قابل ہے کہ اگر آسمانی بارش نہ ہو تو زمینی پانی بھی خشک ہونے لگتے ہیں.چنانچہ امساک باراں کے دنوں میں بہت سے کنوئیں خشک ہو جاتے ہیں اور اکثروں میں پانی بہت ہی کم رہ جاتا ہے لیکن جب آسمان سے بارش آتی ہے تو زمینی پانیوں میں بھی ایک جوش اور تموج پیدا ہونے لگتا ہے.میرا مطلب اس مقام پر اس مثال کے بیان کرنے سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان قسموں کو ایک اور امر کے لئے بطور شاہد قرار دیا ہے کیونکہ ان نظاروں سے تو ایک معمولی زمیندار بھی واقف ہی ہے اور وہ امر جوان کے ذریعہ ثابت کیا ہے وہ یہ ہے.اِنَّكَ لَقَولُ فَضْلُ وَمَا هُوَ بِالْهَزْلِ.بیشک یہ خدا کا کلام ہے اور قول فصل ہے اور وہ عین وقت پر ضرورت حقہ کے ساتھ اور حق و حکمت کے ساتھ آیا ہے بیہودہ طور پر نہیں آیا.اب دیکھ لو کہ قرآن شریف جس وقت نازل ہوا ہے کیا اس وقت نظام روحانی یہ نہیں چاہتا تھا کہ خدا کا کلام نازل ہو اور کوئی مرد آسمانی آوے جو اس گمشدہ متاع کو واپس دلائے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہء بعثت کی تاریخ پڑھو تو معلوم ہو جاوے گا کہ دنیا کی کیا حالت تھی خدا تعالیٰ کی پرستش دنیا سے اٹھ گئی تھی اور توحید کا نقشِ پامٹ چکا تھا باطل پرستی اور معبودان باطلہ کی پرستش نے اللہ جل شانہ کی جگہ لے رکھی تھی.دنیا پر جہالت اور ظلمت کا ایک خوفناک پردہ چھایا ہوا تھا.دنیا کے تختہ پر کوئی ملک کوئی قطعہ کوئی سرزمین ایسی نہ رہ

Page 249

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۲ سورة الطارق گئی تھی جہاں خدائے واحد ہاں جی و قیوم خدا کی پرستش ہوتی ہو.عیسائیوں کی مردہ پرست قوم تثلیث کے چکر میں پھنسی ہوئی تھی اور ویدوں میں توحید کا بے جا دعوی کرنے والے ہندوستان کے رہنے والے ۳۳ کروڑ دیوتاؤں کے پوجاری تھے.غرض خود خدا تعالیٰ نے جو نقشہ اس وقت کی حالت کا ان الفاظ میں کھینچا ہے ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم :۴۲) یہ بالکل سچا ہے اور اس سے بہتر انسانی زبان اور قلم اس حالت کو بیان نہیں کر سکتی.اب دیکھو کہ جیسے خدا تعالیٰ کا قانون عام ہے کہ عین امساک بارش کے وقت آخر اس کا فضل ہوتا ہے اور بارانِ رحمت برس کر شادابی بخشتا ہے اسی طرح پر ایسے وقت میں ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ کا کلام آسمان سے نازل ہوتا.گویا ان جسمانی بارش کے نظام کو دکھا کر روحانی بارش کے نظام کی طرف رہبری کی ہے.اب اس سے کون انکار کرے گا کہ بارش ہمارے مقاصد کے موافق ہوتی ہے.اس سے مطلب یہ ہے کہ جیسے وہ نظام رکھا ہے اسی طرح دوسری بارشوں کے لئے وقت رکھے ہیں.اب دیکھ لو کہ کیا یہ بارش روحانی کا ذکر نہ تھا.کس قدر جھگڑے تم لوگوں میں بپا تھے.اعمال گندے اور ایمان بھی گندے تھے اور دنیا ہلاکت کے گڑھے میں گرنے والی تھی پھر وہ کیوں کر اپنے فضل کا مینہ نہ برساتا.جس نے جسم فانی کی حفاظت کے لئے ایک خاص نظام رکھا ہے پھر روحانی نظام کو کیوں کر چھوڑتا اس لئے بارش کے نظام کو بطور شاہد پیش کر کے قسم کے رنگ میں استعمال کیا کیونکہ امر نبوت ایک روحانی اور نظری امر تھا اور کفار عرب اس نظام کو نہ سمجھ سکتے تھے اس لئے وہ پہلا نظام پیش کر کے ان کو سمجھا دیا.غرض یہ ایک سر ہے جس کو جاہلوں نے سمجھا نہیں اور اپنی نادانی اور عداوت حق کی بنا پر اعتراض کر دیا ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۰ مورخه ۳۱ مئی ۱۹۰۱ صفحه ۴ و احکام جلد ۵ نمبر ۲۱ مورخه ۱۰ر جون ۱۹۰۱ صفحه ۱ تا ۳) آریہ اور عیسائی اعتراض کر دیتے ہیں کہ قرآن شریف میں قسمیں کیوں کھائی ہیں؟ اور پھر اپنی طرف سے حاشیہ چڑھا کر اس کو عجیب عجیب اعتراضوں کے پیرایہ میں پیش کرتے ہیں حالانکہ اگر ذرا بھی نیک نیتی اور فہم سے کام لیا جاوے تو ایسا اعتراض بیہودہ اور بے سود معلوم دیتا ہے کیونکہ قسموں کے متعلق دیکھنا یہ ضروری ہوتا ہے کہ قسم کھانے کا اصل مفہوم اور مقصد کیا ہوتا ہے؟ جب اس کی فلاسفی پر غور کر لیا جاوے تو پھر یہ خود بخودسوال حل ہو جاتا ہے اور زیادہ رنج اٹھانے کی نوبت ہی نہیں آتی.عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ قسم کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ قسم بطور قائم مقام گواہ کے ہوتی ہے اور یہ مسلم بات ہے عدالت جب گواہ پر فیصلہ کرتی ہے تو کیا اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ جھوٹ پر فیصلہ کرتی ہے یا قسم کھانے والے کی قسم کو ایک شاہد صادق

Page 250

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۳ سورة الطارق تصور کرتی ہے یہ روز مرہ کی بات ہے.جہالت اور تعصب سے اعتراض کرنا اور بات ہے لیکن حقیقت کو مدنظر رکھ کر کوئی بات کہنا اور.اب جبکہ یہ عام طریق ہے کہ قسم بطور گواہ کے ہوتی ہے پھر یہ کیسی سیدھی بات ہے کہ اسی اصول پر قرآن شریف کی قسموں کو دیکھ لیا جاوے کہ وہاں اس سے کیا مطلب ہے؟ اللہ تعالیٰ نے جہاں کوئی قسم کھائی ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ نظری امور کے اثبات کے لئے بدیہی کو گواہ ٹھہراتا ہے جیسے فرمایا وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجُعِ وَالْأَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ إِنَّهُ لَقَولُ فَصل.اب یہ بھی ایک قسم کا محل ہے.نادان قرآن شریف کے حقائق سے ناواقف اور نابلد اپنی جہالت سے یہ اعتراض کر دیتا ہے کہ دیکھوز مین کی یا آسمان کی قسم کھائی لیکن اس کو نہیں معلوم کہ اس قسم کے نیچے کیسے کیسے معارف موجود ہیں.اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ وحی الہی کے دلائل اور قرآن شریف کی حقانیت کی شہادت پیش کرنی چاہتا ہے اور اس کو اس طرز پر پیش کیا ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۱ مورخه ۲۴ / مارچ ۱۹۰۳ ء صفحه ۳) اب اس قسم کی قسم پر اعتراض کرنا بجز نا پاک فطرت یا بلید اطبع انسان کے دوسرے کا کام نہیں کیونکہ اس میں تو عظیم الشان صداقت موجود ہے صحیفہ فطرت کی عام شہادت کے ذریعہ اللہ تعالی کلام الہی اور نزول وحی کی حقیقت بتانی چاہتا ہے.سماء کے معنی بادل کے بھی ہیں جس سے مینہ برستا ہے.آسمان اور زمین میں ایسے تعلقات ہیں جیسے نر و مادہ میں ہوتے ہیں.زمین میں بھی کنوئیں ہوتے ہیں لیکن زمین پھر بھی آسمانی پانی کی محتاج رہتی ہے جب تک آسمان سے بارش نہ ہو زمین مردہ بھی جاتی ہے اور اس کی زندگی اس پانی پر منحصر ہے جو آسمان سے آتا ہے.اسی واسطے فرمایا ہے اِعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا - (الحديد : ۱۸) اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب آسمان سے پانی برسنے میں دیر ہو اور امساک براں ہو تو کنوؤں کا پانی بھی خشک ہونے لگتا ہے اور ان ایام میں دیکھا گیا ہے کہ پانی اتر جاتا ہے لیکن جب برسات کے دن ہوں اور مینہ بر سنے شروع ہوں تو کنوؤں کا پانی بھی جوش مار کر چڑھتا ہے کیونکہ اوپر کے پانی میں قوت جاذ بہ ہوتی ہے.اب براہموں سوچیں کہ اگر آسمانی پانی نازل ہونا چھوڑ دے تو سب کنوئیں خشک ہو جا ئیں.اسی طرح پر ہم یہ مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک نور قلب ہر ایک انسان کو دیا ہے اور اس کے دماغ میں عقل رکھی ہے جس سے وہ برے بھلے میں تمیز کرنے کے قابل ہوتا ہے.لیکن اگر نبوت کا نور آسمان سے نازل نہ ہو اور یہ سلسلہ بند ہو جاوے تو دماغی عقلوں کا سلسلہ جاتا رہے اور نور قلب پر تار یکی پیدا ہو جاوے اور وہ بالکل کام دینے کے قابل نہ رہے کیونکہ یہ سلسلہ اسی نور نبوت سے روشنی پاتا ہے.جیسے بارش ہونے پر زمین کی روئید گیاں نکلنی

Page 251

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۴ سورة الطارق شروع ہو جاتی ہیں اور ہر تخم پیدا ہونے لگتا ہے اسی طرح پر نور نبوت کے نزول پر دماغی اور ذہنی عقلوں میں ایک صفائی اور نور فراست میں ایک روشنی پیدا ہوتی ہے اگر چہ یہ علی قدر مراتب ہوتی ہے اور استعداد کے موافق ہر شخص فائدہ اُٹھاتا ہے خواہ وہ اس امر کو محسوس کرے یا نہ کرے لیکن یہ سب کچھ ہوتا اس نور نبوت کے طفیل ہے.غرض اس قسم میں نزول وحی کی ضرورت کو ایک عام مشاہدہ کی رو سے ثابت کیا ہے کہ جیسے آسمانی پانی کے نہ برسنے کی وجہ سے زمین مرجاتی اور کنوؤں کا پانی خشک ہونے لگتا ہے یہی قانون نزول وحی کے متعلق ہے.رجع پانی کو کہتے ہیں.حالانکہ پانی زمین پر بھی ہوتا ہے لیکن آسمان کو ذاتِ الرّجع کہا ہے.اس میں یہ فلسفہ بتایا ہے کہ اصلی آسمانی پانی ہی ہے.چنانچہ کہا ہے ؎ باران که در لطافت طبعش خلاف نیست در باغ لاله روید و در شوره بوم خس کہ جو کیفیت بارش کے وقت ہوتی ہے وہی نزول وحی کے وقت.دو قسم کی طبیعتیں موجود ہوتی ہیں ایک تو مستعد ہوتی ہیں اور دوسری بلید مستعد طبیعت والے فوراً سمجھ لیتے ہیں اور صادق کا ساتھ دے دیتے ہیں لیکن بلید الطبع نہیں سمجھ سکتے اور وہ مخالفت پر اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں.دیکھو کہ معظمہ میں جب وحی کا نزول ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر خدا تعالیٰ کا کلام اتر نے لگا تو ابو بکر رضی اللہ عنہ اور ابو جہل ایک ہی سرزمین کے دو شخص تھے.ابوبکر نے تو کوئی نشان بھی نہ مانگا اور مجرد دعویٰ سنتے ہی امنا کہہ کر ساتھ ہولیا.مگر ابو جہل نے نشان پر نشان دیکھے مگر تکذیب سے باز نہ آیا اور آخر خدا تعالیٰ کے قہر کے نیچے آکر ذلت کے ساتھ ہلاک ہوا.غرض خدا تعالیٰ کی وحی ہر قسم کی طبیعتوں کو باہر نکال دیتی ہے.طیب اور خبیث میں امتیاز کر کے دکھا دیتی ہے.وہ بہار کا موسم ہوتا ہے اس وقت ممکن نہیں کہ کوئی تخم شگفتگی کے لئے نہ نکلے لیکن جو کچھ ہوگا وہی برآمد ہوگا.نیک اور سعید الفطرت اپنی جگہ پر نمودار ہوتے ہیں اور خبیث الگ.اور اس سے پہلے وہ ملے جلے ہوئے ہوتے ہیں.جیسے گندم اور بھگھاٹ کے دانے ملے ہوئے تو رہتے ہیں لیکن جب زمین سے نکلتے ہیں تو دونوں الگ نظر آتے ہیں مالک گندم کی حفاظت کرتا اور بھاگھاٹ کو نکال کر باہر پھینکتا ہے.پس نزول وحی کے ثبوت کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ مشاہدہ پیش کیا ہے جس کو نادان اپنی نادانی اور جہالت سے اعتراض کے رنگ میں پیش کرتا ہے حالانکہ اس میں ایک عظیم الشان فلسفہ رکھا ہوا ہے اسی لئے وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجُعِ وَالْأَرْضِ

Page 252

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۵ سورة الطارق - ذَاتِ الصدع کہ کر فرما یا انه لقول فصل.جو کلام الہی کے لئے بولا گیا ہے.یہ ایک نظری امر تھا اس کے ثبوت کے لئے بدیہی امر کو پیش کیا ہے جیسے امساک باراں کے وقت ضرورت ہوتی ہے مینہ کی.اسی طرح پر اس وقت لوگ روحانی پانی کو چاہتے ہیں.زمین بالکل مر چکی ہے.یہ زمانہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ کا ہو گیا ہے جنگل اور سمندر بگڑ چکے ہیں.جنگل سے مراد مشرک لوگ اور بحر سے مراد اہلِ کتاب ہیں.جاہل وعالم بھی مراد ہو سکتے ہیں.غرض انسانوں کے ہر طبقہ میں فساد واقع ہو گیا ہے.جس پہلو اور جس رنگ میں دیکھو دنیا کی حالت بدل گئی ہے روحانیت باقی نہیں رہی اور نہ اس کی تاثیر میں نظر آتی ہیں.اخلاقی اور عملی کمزوریوں میں ہر چھوٹا بڑا امتلا ہے.خدا پرستی اور خداشناسی کا نام و نشان مٹا ہوا نظر آتا ہے اس لئے اس وقت ضرورت ہے کہ آسمانی پانی اور نور نبوت کا نزول ہو اور مستعد دلوں کو روشنی بخشے.خدا تعالیٰ کا شکر کرو.اس نے اپنے فضل سے اس وقت اس نور کو نازل کیا ہے مگر تھوڑے ہیں جو اس نور سے فائدہ اُٹھاتے ہیں.الحکم جلد نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۳، صفحه ۲،۱) بعض لوگ یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن شریف گردش آسمان کا قائل ہے جیسے فرمایا وَ السَّمَاءِ ذَاتِ الجميع حالانکہ آج کل کے بچے بھی جانتے ہیں کہ زمین گردش کرتی ہے.غرض اسی قسم کے بیسیوں اعتراض کر دیتے ہیں اور تا وقتیکہ ان علوم میں کچھ مہارت اور واقفیت نہ ہو جواب دینے میں مشکل پیدا ہوتی ہے.یہ امر یا درکھنا چاہیے کہ زمین یا آسمان کی گردش ظنی امور ہیں ان کو یقینیات میں داخل نہیں کر سکتے.ایک زمانہ تک گردش آسمان کے قائل رہے پھر زمین کی گردش کے قائل ہو گئے.سب سے زیادہ ان لوگوں کی طبابت پر مشق ہے لیکن اس میں بھی دیکھ لو کہ آئے دن تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے.مثلاً پہلے ذیا بیطس کے لئے یہ کہتے تھے کہ اس کے مریض کو میٹھی چیز نہیں کھانی چاہیے مگر اب جو تحقیقات ہوئی ہے تو کہتے ہیں کچھ ہرج نہیں اگر سنگترہ بھی مریض کھالے یا چاه پی لے.غرض یہ سب علوم فلنی ہیں.اس موقع پر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ وَ السَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجُع کے معنے بتا دیئے جاویں کیونکہ اس کا ذکر آ گیا ہے.سو یا درکھنا چاہیے کہ سماء کے معنے آسمان ہی کے نہیں ہیں بلکہ سماء مینہ کو بھی کہتے ہیں.گویا اس آیت میں اس مینہ کی جو زمین کی طرف رجوع کرتا ہے قسم کھائی ہے اور پھر وہ زمین جس سے شگوفے نکلتے ہیں.اکیلی زمین اور اکیلا آسمان کچھ نہیں کر سکتا.اس آیت کو اللہ تعالی ضرورت وحی پر بطور مثال پیش کرتا ہے کہ ہر چند زمین میں جو جو ہر قابل ہوں اور اس کی فطرت میں نشو ونما کا مادہ ہولیکن وہ

Page 253

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۶ سورة الطارق ماده نشو ونما نہیں پاسکتا اور وہ فطرت بار آور نہیں ہوسکتی جب تک آسمان سے مینہ نہ برسے باران که در لطافت طبعش خلاف نیست در باغ لاله روید و در شوره بوم خس اس غرض کے لئے کہ عمدہ عمدہ پھل اور پھول پیدا ہوں عمدہ زمین اور اس کے لئے بارش کی ضرورت ہے جب تک یہ بات نہ ہو کچھ نہیں ہو سکتا.اب اس نظارہ فطرت کو اللہ تعالیٰ ضرورت وحی کے لئے پیش کرتا ہے اور توجہ دلاتا ہے کہ دیکھو جب مینہ نہ برسے تو قحط کا اندیشہ ہوتا ہے یہاں تک کہ زمینی پانی جو کنوؤں اور چشموں میں ہوتا ہے وہ بھی کم ہونے لگتا ہے.پھر جبکہ دنیوی اور جسمانی ضرورتوں کے لئے آسمانی بارش کی ضرورت ہے تو کیا روحانی اور ابدی ضرورتوں کے لئے روحانی بارش کی ضرورت نہیں ؟ اور وہ وحی الہی ہے.جیسے مینہ کے نہ برسنے سے قحط پڑتا اور کنوئیں اور چشمے خشک ہو جاتے ہیں اسی طرح پر اگر انبیاء ورسل دنیا میں نہ آئیں تو فلسفیوں کا وجود بھی نہ ہو کیونکہ قومی عقلیہ کا نشو و نما وحی الہی ہی سے ہوتا ہے اور زمینی عقلیں اس سے پرورش پاتی ہیں.پس اس آیت وَ السَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجُعِ وَالْأَرْضِ ذَاتِ الصَّدْع میں وحی الہی کی ضرورت پر عقلی اور فطرتی دلائل پیش کئے ہیں.جو شخص اس امر کو سمجھ لے گا وہ بول اٹھے گا کہ بیشک وحی الہی کی ضرورت ہے اور یہ وہ طریق ہے جو آدم سے چلا آتا ہے اور ہر شخص نے اپنی استعداد اور فطرت کے موافق اس سے فائدہ اٹھایا ہے.ہاں جو جاہل اور ناقص تھے یا جن میں تکبر اور خود سری تھی وہ محروم رہ گئے اور انہوں نے کچھ بھی حصہ نہ لیا.یہی اصل اور کچی بات ہے اور تم یقینا یاد رکھو کہ آسمانی بارش کی سخت ضرورت ہے اس لئے کہ عملی قوت بجز اس بارش کے پیدا ہی نہیں ہو سکتی.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲ مورخہ ۷ ارجنوری ۱۹۰۶ صفحه ۵،۴) ہم نظام جسمانی میں دیکھتے ہیں کہ جسمانی کاشت کار باوجود ہر قسم کی باقاعدہ محنت ومشقت کے بھی پھر با ہر آسمانی پانی کا محتاج ہے.اور اگر اس کی محنتوں اور کوششوں کے ساتھ آسمانی پانی اس کی فصل پر نہ پڑے تو فصل تباہ ، محنت برباد ہو جاتی ہے.پس یہی حال روحانی رنگ میں ہے.انسان کو خشک ایمان کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتا جب تک کہ روحانی بارش نازل ہو کر بڑے زور کے نشانات سے اس کے اندرونی گند دھو کر اس کو صاف نہ کرے.چنانچہ قرآن شریف میں اسی کی طرف اشارہ کر کے فرماتا ہے وَ السَّمَاءِ ذَاتِ الرّجع وَالْأَرْضِ ذَاتِ الصَّدْع - یعنی قسم ہے آسمان کی جس سے بارش نازل ہوتی ہے اور قسم ہے زمین کی جس سے شگوفہ نکلتا ہے.بعض لوگ اپنی نادانی کی وجہ سے کہتے ہیں کہ خدا کو قسم کی کیا ضرورت تھی.مگر ایسے لوگ

Page 254

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۷ سورة الطارق آخر کار اپنی جلد بازی کی وجہ سے ندامت اٹھاتے ہیں.قسم کا مفہوم اصل میں قائم مقام ہوتا ہے شہادت کے.ہم دنیوی گورنمنٹ میں بھی دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات مقدمات کے فیصلوں کا حصر ہی قسم پر رکھا جاتا ہے پس اسی طرح سے خدا تعالیٰ بھی بارش آسمانی کی قسم کھا کر نظامِ جسمانی کی طرح نظامِ روحانی میں اس بات کو بطور ایک شہادت کے پیش کرتا ہے کہ جس طرح سے زمین کی سرسبزی اور کھیتوں کا ہرا بھرا ہونا آسمانی بارش پر موقوف ہے اور اگر آسمانی بارش نہ ہو تو زمین پر کوئی سبزی نہیں رہ سکتی اور زمین مردہ ہو جاتی ہے بلکہ کنوؤں کا پانی بھی خشک ہو جاتا ہے اور دنیا زیر و زبر ہوکر ہلاکت کا باعث ہو جاتا ہے اور لوگ بھوکوں پیاسوں مرتے ہیں.قحط کی وجہ سے انسان وحیوان اور پھر چرند و پرند اور درند وغیرہ پر بھی اس کا اثر ہوتا ہے بعینہ اسی طرح سے ایک روحانی سلسلہ بھی ہے.یا درکھو کہ خشک ایمان بجز آسمانی بارش کے جو مکالمہ مخاطبہ کے رنگ میں نازل ہوتی ہے ہرگز ہرگز باعث نجات یا حقیقی راحت کا نہیں ہو سکتا.جو لوگ روحانی بارش کے بغیر اور کسی مامورمن اللہ کے بغیر نجات پاسکتے ہیں اور ان کو کسی مز کی اور مامور من اللہ کی ضرورت نہیں سب کچھ ان کے پاس موجود ہے ان کو چاہیے کہ پانی بھی اپنے گھروں میں ہی پیدا کر لیا کریں ان کو آسمانی بارش کی کیا احتیاج.آنکھوں کے سامنے موجود ہے کہ جسمانی چیزوں کا مدار کن چیزوں پر ہے.پس اس سے سمجھ لو کہ بعینہ اسی کے مطابق روحانی زندگی کے واسطے بھی لازمی اور لا بد اور ضروری ہے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۴ مورخہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۰۸ صفحه ۶) إنه لَقَولُ فَصل وَمَا هُوَ بِالهَولِ یعنی علم معاد میں جس قدر تنازعات اُنھیں سب کا فیصلہ یہ کتاب کرتی (براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۲۴ حاشیہ نمبر ۱۱) ہے بے سود اور بیکار نہیں ہے.یہ کلام حکم ہے اور قول فصل ہے.قرآن قول فصل ہے جو ہر ایک امر میں سچا فیصلہ دیتا ہے.الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۲) (جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۸۷،۸۶) یا درکھنا چاہیے کہ قرآن شریف نے پہلی کتابوں اور نبیوں پر احسان کیا ہے جو ان کی تعلیموں کو جو قصہ کے رنگ میں تھیں علمی رنگ دے دیا ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ کوئی شخص ان قصوں اور کہانیوں سے نجات نہیں پاسکتا جب تک وہ قرآن شریف کو نہ پڑھے کیونکہ قرآن شریف ہی کہ یہ شان ہے کہ وہ إِنَّهُ لَقَولُ فَصِّلُ وَمَا الحکم جلد ۶ نمبر ۱۱ مورخه ۲۴ / مارچ ۱۹۰۲ صفحه ۳، ۴) هُوَ بِالْهَزْلِ ہے.

Page 255

Page 256

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۲۲۹ سورة الاعلى بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الاعلى بیان فرموده سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قَد أَفْلَحَ مَنْ تَزَكى بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ فلاح وہ شخص پاوے گا جو اپنے نفس میں پوری پاکیزگی اور تقویٰ طہارت پیدا کر لے اور گناہ اور معاصی کے ارتکاب کا کبھی بھی اس میں دورہ نہ ہو اور ترک شر اور کسب خیر کے دونوں مراتب پورے طور سے یہ شخص طے کر لے تب جا کر کہیں اسے فلاح نصیب ہوتی ہے.ایمان کوئی آسان سی بات نہیں جب تک انسان مر ہی نہ جاوے جب تک کہاں ہوسکتا ہے کہ سچا ایمان حاصل ہو.(احکم جلد ۱۲ نمبر ۳۲ مورخه ۱۰ مئی ۱۹۰۸ صفحه ۳) وو إن هذا لفِى الصُّحُفِ الأولى في صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسى.خدا تعالیٰ جو اصدق الصادقین ہے اُس نے اپنی کلام میں صدق کو دو قسم قرار دیا ہے ایک صدق باعتبار ظاہر الاقوال دوسرے صدق باعتبار التاویل و المال.پہلی قسم صدق کی مثال یہ ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عیسی مریم کا بیٹا تھا اور ابراہیم کے دو بیٹے تھے اسمعیل و اسحاق کیونکہ ظاہر واقعات بغیر تاویل کے یہی ہیں.دوسری قسم صدق کی مثال یہ ہے کہ جیسے قرآن شریف میں کفار یا گذشتہ مومنوں کے کلمات کچھ تصرف کر کے بیان فرمائے گئے ہیں اور پھر کہا گیا کہ یہ انہی کے کلمات ہیں اور یا جو قصے توریت کے ذکر کئے گئے

Page 257

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۰ سورة الاعلى ہیں اور اُن میں بہت سا تصرف ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ جس اعجازی طرز اور طریق اور فصیح فقروں اور دلچسپ استعارات میں قرآنی عبارات ہیں اس قسم کے فصیح فقرے کافروں کے منہ سے ہر گز نہیں نکلے تھے اور نہ یہ ترتیب تھی بلکہ یہ ترتیب قصوں کی جو قرآن میں ہے توریت میں بھی بالالتزام ہرگز نہیں ہے.حالانکہ فرمایا ہے إنَّ هَذَا لَفِى الصُّحُفِ الأولى صُحُفِ ابْراهِيمَ وَمُوسی اور اگر یہ کلمات اپنی صورت اور ترتیب اور صیغوں کے رُو سے وہی ہیں جو مثلاً کافروں کے منہ سے نکلے تھے تو اس سے اعجاز قرآنی باطل ہوتا ہے کیونکہ اس صورت میں وہ فصاحت کفار کی ہوئی نہ قرآن کی اور اگر وہی نہیں تو بقول تمہارے کذب لازم آتا ہے کیونکہ اُن لوگوں نے تو اور اور لفظ اور اور ترتیب اور اور صیغے اختیار کئے تھے اور جس طرح متوفيك اور توفیتنی دومختلف صیغے ہیں.اسی طرح صدہا جگہ ان کے صیغے اور قرآنی صیغے باہم اختلاف رکھتے تھے مثلاً توریت میں ایک قصہ یوسف ہے نکال کر دیکھ لو اور پھر قرآن شریف کی سورہ یوسف سے اس کا مقابلہ کرو تو دیکھو کہ کس قدر صیغوں میں اختلاف اور بیان میں کمی بیشی ہے بلکہ بعض جگہ بظاہر معنوں میں بھی اختلاف ہے ایسا ہی قرآن نے بیان کیا ہے کہ ابراہیم کا باپ آزر تھا لیکن اکثر مفسر لکھتے ہیں کہ اس کا باپ کوئی اور تھا نہ آزر.b.( تحفه غزنویہ، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۵۶۹،۵۶۸) شریعت کیا چیز ہے جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امر اور نہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب الشریعت ہو گیا.پس اس تعریف کے رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی.مثلاً یہ الہام قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ - یہ براہین احمدیہ میں درج ہے اور اس میں امر بھی ہے اور نہی بھی اور اس پر تئیس برس کی مدت بھی گذرگئی اور ایسا ہی اب تک میری وحی میں امر بھی ہوتے ہیں اور نہی بھی اور اگر کہو کہ شریعت سے وہ شریعت مراد ہے جس میں نئے احکام ہوں تو یہ باطل ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ هذا لفی الصُّحُفِ الأولى صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَ مُوسی - یعنی قرآنی تعلیم توریت میں بھی موجود ہے.اور اگر یہ کہو کہ شریعت وہ ہے جس میں باستیفاء امر اور نہی کا ذکر ہو تو یہ بھی باطل ہے کیونکہ اگر توریت یا قرآن شریف میں باستيفاء احکام شریعت کا ذکر ہوتا تو پھر اجتہاد کی گنجائش نہ رہتی.غرض یہ سب خیالات فضول اور کو نہ اندیشیاں ہیں.ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں.اور قرآن ربانی کتابوں کا خاتم ہے تا ہم خدا تعالیٰ نے اپنے نفس پر یہ حرام نہیں کیا کہ تجدید کے طور پر کسی اور مامور کے ذریعہ سے یہ احکام صادر کرے وو

Page 258

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۱ سورة الاعلى کہ جھوٹ نہ بولو.جھوٹی گواہی نہ دو، زنانہ کرو ، خون نہ کرو اور ظاہر ہے کہ ایسا بیان کرنا بیان شریعت ہے جو سیح موعود کا بھی کام ہے.اربعین نمبر ۴ ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۴۳۶،۴۳۵)

Page 259

Page 260

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۲۳۳ سورة الغاشية بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الغاشية بیان فرموده سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ أفَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ ) میرے دعویٰ کا فہم کلید ہے نبوت اور قرآن شریف کی.جو شخص میرے دعوئی کو سمجھ لے گا نبوت کی حقیقت اور قرآن شریف کے فہم پر اس کو اطلاع دی جاوے گی اور جو میرے دعوی کو نہیں سمجھتا اس کو قرآن شریف پر اور رسالت پر پورا یقین نہیں ہوسکتا.پھر فرمایا قرآن شریف میں جو یہ آیت آئی ہے اَفَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِيلِ كَيْفَ خُلِقَتْ یہ آیت نبوت اور امامت کے مسئلہ کو حل کرنے کے واسطے بڑی معاون ہے.اونٹ کے عربی زبان میں ہزار کے قریب نام ہیں اور پھر ان ناموں میں سے ابل کے لفظ کو جو لیا گیا ہے اس میں کیا سر ہے؟ کیوں اتی الجمل بھی تو ہو سکتا تھا ؟ اصل بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جمل ایک اونٹ کو کہتے اور اہل اسم جمع ہے.یہاں اللہ تعالی کو چونکہ تمدنی اور اجماعی حالت کا دکھانا مقصود تھا اور جمل میں جو ایک اونٹ پر بولا جاتا ہے یہ فائدہ حاصل نہ ہوتا تھا اس لئے اہل کے لفظ کو پسند فرمایا.اونٹوں میں ایک دوسرے کی پیروی اور اطاعت کی قوت رکھی ہے.دیکھو اونٹوں کی ایک لمبی قطار ہوتی ہے اور وہ کس طرح پر اس اونٹ کے پیچھے ایک خاص انداز اور رفتار سے چلتے ہیں اور وہ اونٹ جو سب سے پہلے بطور امام اور پیش رو کے ہوتا ہے وہ ہوتا ہے جو بڑا تجربہ کار اور راستہ سے

Page 261

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۴ سورة الغاشية واقف ہو.پھر سب اونٹ ایک دوسرے کے پیچھے برابر رفتار سے چلتے ہیں اور ان میں سے کسی کے دل میں برابر چلنے کی ہوس پیدا نہیں ہوتی جو دوسرے جانوروں میں ہے جیسے گھوڑے وغیرہ میں.گویا اونٹ کی سرشت میں اتباع امام کا مسئلہ ایک مانا ہوا مسئلہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے أَفَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِيلِ کہہ کر اس مجموعی حالت کی طرف اشارہ کیا ہے جبکہ اونٹ ایک قطار میں جا رہے ہوں اسی طرح پر ضروری ہے کہ تمدنی اور اتحادی حالت کو قائم رکھنے کے واسطے ایک امام ہو.پھر یہ بھی یادر ہے کہ یہ قطار سفر کے وقت ہوتی ہے.پس دنیا کے سفر کو قطع کرنے کے واسطے جب تک ایک امام نہ ہو انسان بھٹک بھٹک کر ہلاک ہو جاوے.پھر اونٹ زیادہ بارکش اور زیادہ چلنے والا ہے اس سے صبر و برداشت کا سبق ملتا ہے.پھر اونٹ کا خاصہ ہے کہ وہ لمبے سفروں میں کئی کئی دنوں کا پانی جمع رکھتا ہے.غافل نہیں ہوتا.پس مومن کو بھی ہر وقت اپنے سفر کے لئے طیار اور محتاط رہنا چاہیے اور بہترین زاد راہ تقویٰ ہے.فَإِن خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوى أَفَلَا يَنْظُرُونَ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دیکھنا بچوں کی طرح دیکھنا نہیں ہے بلکہ اس سے اتباع کا سبق ملتا ہے کہ جس طرح پر اونٹ میں تمدنی اور اتحادی حالت کو دکھایا گیا ہے اور ان میں اتباع امام کی قوت ہے اسی طرح پر انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اتباع امام اپنا شعار بناوے کیونکہ اونٹ جو اس کے خادم ہیں ان میں بھی یہ مادہ موجود ہے.كَيْفَ خُلِقَت میں ان فوائد جامع کی طرف اشارہ ہے جو ابل کی مجموعی حالت سے پہنچتے ہیں.الحکم جلد ۴ نمبر ۴۲ مورخه ۲۴ نومبر ۱۹۰۰ء صفحه ۵،۴) وس فذكر إِنَّمَا انْتَ مُذَكِرْن لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرٍ فقد توصرف نصیحت دہندہ ہے ان پر داروغہ نہیں.0 ( براہینِ احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۰۸ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳)

Page 262

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۲۳۵ سورة الفجر بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الفجر بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ وجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلكُ صَفًّا صَفات الْقُرْآنُ الْكَرِيمُ يُبَيِّنُ أَنَّ قرآن کریم یہ بیان فرماتا ہے کہ ملائکہ اپنی صفات الْمَلَائِكَةَ يُشَاءَبُونَ بِصِفَاتِہم میں اللہ تعالیٰ کی صفات سے مشابہت رکھتے ہیں جیسا کہ اللہ صِفَاتِ اللهِ تَعَالَى كَمَا قَالَ عَزَّ وَ جَلَّ عزوجل نے فرمایا ہے وَ جَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا.یعنی وَ جَاءَ رَبُّكَ وَ الْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا، فَانْظُرُ تیرا رب اس شان میں آئے گا کہ فرشتے صفیں باندھے رَزَقَكَ اللهُ دَقَائِقَ الْمَعْرِفَةِ أَنَّهُ تَعَالٰی کھڑے ہوں گے.اللہ تعالیٰ تمہیں دقائق معرفت عطا كَيْفَ أَشَارَ فِي هَذِهِ الْآيَةِ إِلى أَنَّ کرے.تم غور کرو کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کس طرح مَجِيْتَهُ وَمَجِينَ الْمَلَائِكَةِ وَنُزُولَهُ اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس کا آنا اور فرشتوں کا آنا وَنُزُولَ الْمَلَائِكَةِ مُتَحِدٌ فِي الْحَقِيقة اور اس کا اترنا اور فرشتوں کا اترنا.حقیقت اور کیفیت میں وَالْكَيْفِيَّةِ (حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلدے صفحہ ۲۷۲) متحد ہے.(ترجمہ از مرتب) يَايَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْنَةُ ارْجِعِى إِلى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي

Page 263

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۶ سورة الفجر عِبْدِي وَادْخُلِي جَنَّتِي قرآن شریف میں صاف طور پر لکھا گیا ہے کہ ہر ایک مومن جو فوت ہوتا ہے تو اس کی روح خدائے تعالیٰ کی طرف اُٹھائی جاتی ہے اور بہشت میں داخل کی جاتی ہے جیسا کہ اللہ جلَّشَاءُہ فرماتا ہے يَايَتُهَا النَّفْسُ المُطْمَينَةُ ارْجِعِى إِلى رَبّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةٌ فَادْخُلَى فِي عَبْدِي وَادْخُلی جنتی اے نفس جو خدائے تعالی سے آرام یافتہ ہے اپنے رب کی طرف چلا آ.تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی پس میرے بندوں میں داخل ہو جا اور میرے بہشت میں اندر آ.اس جگہ صاحب تفسیر معالم اس آیت کی تفسیر کر کے اپنی کتاب کے صفحہ ۹۷۵ میں لکھتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب بندہ مومن وفات پانے پر ہوتا ہے تو اس کی طرف اللہ جل شانہ دوفرشتے بھیجتا ہے اور اُن کے ساتھ کچھ بہشت کا تحفہ بھی بھیجتا ہے اور وہ فرشتے آکر اس کی روح کو کہتے ہیں کہ اے نفس مطمئنہ تو روح اور ریحان اور اپنے رب کی طرف جو تجھے سے راضی ہے نکل آ.تب وہ روح مشک کی اس خوشبو کی طرح جو بہت لطیف اور خوش کرنے والی ہو جو ناک میں پہنچ کر دماغ کو معطر کر دیتی ہو باہر نکل آتی ہے اور فرشتے آسمان کے کناروں پر کہتے ہیں کہ ایک روح چلی آتی ہے جو بہت پاکیزہ اور خوشبودار ہے.تب آسمان کا کوئی دروازہ ایسا نہیں ہوتا جو اس کے لئے کھولا نہ جائے اور کوئی فرشتہ آسمان کا نہیں ہوتا کہ اُس کے لئے دعا نہ کرے یہاں تک کہ وہ روح پایۂ عرش الہی تک پہنچ جاتی ہے تب خدائے تعالی کو سجدہ کرتی ہے پھر میکائیل کو حکم ہوتا ہے کہ جہاں اور روحیں ہیں وہیں اس کو بھی لے جا.اب قرآن شریف کی اس آیت اور حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت سے بخوبی ثابت ہو گیا کہ روح مومن کی اُس کے فوت ہونے کے بعد بلا توقف آسمان پر پہنچائی جاتی ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۳۳، ۲۳۴) خدائے تعالی نے مسیح کو موت دے کر پھر اپنی طرف اٹھا لیا جیسا کہ یہ عام محاورہ ہے کہ نیک بندوں کی نسبت جب وہ مرجاتے ہیں یہی کہا کرتے ہیں کہ فلاں بزرگ کو خدائے تعالیٰ نے اپنی طرف اُٹھا لیا ہے جیسا کہ آیت ارجعي إلى ربّك اسی کی طرف اشارہ کر رہی ہے.خدائے تعالیٰ تو ہر جگہ موجود ہے اور حاضر ناظر ہے اور جسم اور جسمانی نہیں اور کوئی جہت نہیں رکھتا پھر کیوں کر کہا جائے کہ جو شخص خدائے تعالیٰ کی طرف

Page 264

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۷ سورة الفجر اُٹھایا گیا ضرور اس کا جسم آسمان میں پہنچ گیا ہو گا.یہ بات کس قدر صداقت سے بعید ہے راستباز لوگ روح اور روحانیت کی رو سے خدائے تعالیٰ کی طرف اُٹھائے جاتے ہیں نہ یہ کہ اُن کا گوشت اور پوست اور اُن کی ہڈیاں خدائے تعالیٰ تک پہنچ جاتی ہیں.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۴۶ ۲۴۷) واضح ہو کہ خدائے تعالیٰ کی طرف اُٹھائے جانے کے یہی معنے ہیں کہ فوت ہو جانا.خدائے تعالیٰ کا یہ کہنا کہ ارجعي إلى ربك اور یہ کہنا کہ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ (ال عمران : ۵۶) ایک ہی معنے رکھتا ہے.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۶۴) حضرت مسیح ابن مریم جس کی روح اُٹھائی گئی برطبق آیت کریمہ ايَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَينَةُ ارْجِعِي إِلى رَيْكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبدِي وَادْخُلِي جَنّتی بہشت میں داخل ہو چکی.اب کیوں کر پھر اس غمکدہ میں آجائیں گو اس کو ہم نے مانا کہ وہ کامل درجہ دخول بہشت کا جو جسمانی اور روحانی دونوں طور پر ہوگا وہ حشر اجساد کے بعد ہر یک مستحق کو عطا کیا جائے گا مگر اب بھی جس قدر بہشت کی لذات عطا ہو چکیں اس سے مقرب لوگ باہر نہیں کئے جاتے اور قیامت کے دن میں بحضور رب العالمین اُن کا حاضر ہونا اُن کو بہشت سے نہیں نکالتا کیونکہ یہ تو نہیں کہ بہشت سے باہر کوئی لکڑی یا لوہے یا چاندی کا تخت بچھایا جائے گا اور خدائے تعالیٰ مجازی حکام اور سلاطین کی طرح اس پر بیٹھے گا اور کسی قدر مسافت طے کر کے اُس کے حضور میں حاضر ہونا ہو گا.تا یہ اعتراض لازم آوے کہ اگر بہشتی لوگ بہشت میں داخل شدہ تجویز کئے جائیں تو طلبی کے وقت انہیں بہشت سے نکلنا پڑے گا اور اس لق و دق جنگل میں جہاں تخت ربّ العالمین بچھایا گیا ہے حاضر ہونا پڑے گا.ایسا خیال تو سراسر جسمانی اور یہودیت کی سرشت سے نکلا ہوا ہے اور حق یہی ہے کہ ہم عدالت کے دن پر ایمان تو لاتے ہیں اور تخت رب العالمین کے قائل ہیں لیکن جسمانی طور پر اس کا خاکہ نہیں کھینچتے اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جو کچھ اللہ اور رسول نے فرمایا ہے وہ سب کچھ ہو گا لیکن ایسے پاک طور پر کہ جو خدائے تعالیٰ کے تقدس اور تنزہ اور اس کی تمام صفات کا ملہ کے منافی ومغائر نہ ہو.بہشت تجلی کا حق ہے یہ کیوں کر کہ سکیں کہ اُس دن خدائے تعالیٰ ایک مجسم شخص کی طرح بہشت سے باہر اپنا خیمہ یا یوں کہو کہ اپنا تخت بچھوا دے گا بلکہ حق یہ ہے کہ اس دن بھی بہشتی بہشت میں ہوں گے اور دوزخی دوزخ میں لیکن رحم الہی کی تجلی عظمی راستبازوں اور ایمانداروں پر ایک جدید طور سے لذات کاملہ کی بارش کر کے اور تمام سامان بہشتی زندگی کارتی اور جسمانی طور پر ان کو دکھلا کر اُس نئے طور پر کے دار السلام میں ان کو داخل کر دے گی.ایسا ہی

Page 265

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۸ سورة الفجر خدائے تعالی کی قہری تجلی جہنم کو بھی بعد از حساب اور الزام صریح کے نئے رنگ میں دکھلا کر گویا جہنمی لوگوں کو نئے سرے جہنم میں داخل کرے گی.روحانی طور پر بہشتیوں کا بلا توقف بعد موت کے بہشت میں داخل ہو جانا اور دوزخیوں کا دوزخ میں گرایا جانا بتواتر قرآن شریف اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۷۹،۲۷۸) مومن کو فوت ہونے کے بعد بلا توقف بہشت میں جگہ ملتی ہے جیسا کہ ان آیات سے ظاہر ہو رہا ہے قیل ادْخُلِ الْجَنَّةَ قَالَ يَلَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ ( يس : ۲۸،۲۷) اور دوسری یہ آیت فَادْخُلِي فِي عَبْدِي وَادْخُلِي جَنَّتِي - (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۸۱) اے نفس بحق آرام یافتہ اپنے رب کی طرف واپس چلا آ.تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی.پھر اس کے بعد میرے اُن بندوں میں داخل ہو جا جو دنیا کو چھوڑ گئے ہیں اور میرے بہشت کے اندر آ.اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ انسان جب تک فوت نہ ہو جائے گزشتہ لوگوں کی جماعت میں ہرگز داخل نہیں ہوسکتا.لیکن معراج کی حدیث جس کو بخاری نے بھی مبسوط طور پر اپنی بیج میں لکھا ہے ثابت ہو گیا ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم فوت شدہ نبیوں کی جماعت میں داخل ہے لہذا حسب دلالت صریحہ اس نص کے مسیح ابن مریم کا فوت ہو جانا ضروری طور پر ماننا پڑا.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۳۳) جبکہ انہوں نے فوت شدہ لوگوں کی طرح عالم ثانی کی زندگی کے تمام لوازم اختیار کر لئے جو فوت شدہ لوگوں کی علامات میں سے ہیں اور نہ صرف اختیار ہی کئے بلکہ اس جماعت میں جاملے اور فرمان ارجعی الی رَيْكِ کا قبول کر کے فَادْخُلی فی عبدی کا مصداق ہو گئے.تو اب بھی اگر اُن کو فوت شدہ نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جاوے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۰۰) طرفہ تر یہ کہ قرآن کریم میں آسمان کی طرف اٹھا لینے کا کہیں ذکر بھی نہیں بلکہ وفات دینے کے بعد اپنی طرف اٹھا لینے کا ذکر ہے جیسا کہ عام طور پر تمام فوت شدہ راستبازوں کے لئے ارجعي إلى رتك کا خطاب ہے سو وہی رفع الی اللہ اور رجوع الی اللہ جس کے لئے پہلے موت شرط ہے حضرت مسیح کے بھی نصیب ہو گیا کہاں یہ رفع الی اللہ اور کہاں یہ رفع الی السماء آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۱۷) وَمَا مَعْلَى قَوْلُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ إِلَّا اللہ تعالیٰ کے قول ارجعی الی رتك کا وہی مفہوم الْمَعْلَى الَّذِي يُفْهَمُ مِنْ قَوْلِ رَافِعُكَ إِلَى ہے جو رَافِعُكَ اِلَى کا ہے کیونکہ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً ہونے

Page 266

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۳۹ سورة الفجر فَإِنَّ الرُّجُوعَ إِلَى اللهِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةٌ کی شکل میں اللہ تعالی کی طرف رجوع اور رفع الی اللہ والرَّفْعُ إِلَى اللهِ أَمْرٌ وَاحِدٌ، وَقَدْ جَرَتْ دونوں ایک ہی امر ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ سے یہ سنت عَادَةُ اللهِ تَعَالَى أَنَّهُ يَرْفَعُ إِلَيْهِ عِبَادَهُ جاری ہے کہ وہ اپنے صالح بندوں کے درجات ان کی الصَّالِحِينَ بَعْدَ مَوْتِهِمْ، وَيُؤْويهم في موت کے بعد بلند کرتا ہے اور ان کے مراتب کے مطابق آسمان میں انہیں مقام عطا فرماتا ہے.(ترجمه از مرتب) السَّمَاوَاتِ بِحَسْبِ مَرَاتِبِهِمْ ، (حمامة البشری ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۲۱) اے نفس آرام یافتہ جو خدا سے آرام پا گیا اپنے خدا کی طرف واپس چلا آ.تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی.پس میرے بندوں میں مل جا اور میرے بہشت کے اندر آجا.یہ وہ مرتبہ ہے جس میں نفس تمام کمزوریوں سے نجات پا کر روحانی قوتوں سے بھر جاتا ہے اور خدائے تعالیٰ سے ایسا پیوند کر لیتا ہے کہ بغیر اس کے جی بھی نہیں سکتا اور جس طرح پانی اوپر سے نیچے کی طرف بہتا ہے اور بسبب اپنی کثرت اور نیز روکوں کے دور ہونے سے بڑے زور سے چلتا ہے اسی طرح وہ خدا کی طرف بہتا چلا جاتا ہے.اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے وہ نفس جو خدا سے آرام پا گیا اس کی طرف واپس چلا آ.پس وہ اسی زندگی میں نہ موت کے بعد ایک عظیم الشان تبدیلی پیدا کرتا ہے اور اسی دنیا میں نہ دوسری جگہ ایک بہشت اس کو ملتا ہے اور جیسا کہ اس آیت میں لکھا ہے کہ اپنے رب کی طرف یعنی پرورش کرنے والے کی طرف واپس آ.ایسا ہی اس وقت یہ خدا سے پرورش پاتا اور خدا کی محبت اس کی غذا ہوتی ہے اور اسی زندگی بخش چشمہ سے پانی پیتا ہے اس لئے موت سے نجات پاتا ہے.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۱۸) اے نفس خدا کے ساتھ آرام یافتہ اپنے رب کی طرف واپس چلا آ.وہ تجھ سے راضی اور تو اس سے راضی.پس میرے بندوں میں داخل ہو جا اور میری بہشت کے اندر آجا....یا درکھنا چاہیے کہ اعلیٰ درجہ کی روحانی حالت انسان کی اس دنیوی زندگی میں یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ آرام پا جائے اور تمام اطمینان اور سرور اور لذت اس کی خدا میں ہی ہو جائے.یہی وہ حالت ہے جس کو دوسرے لفظوں میں بہشتی زندگی کہا جاتا ہے.اس حالت میں انسان اپنے کامل صدق اور صفا اور وفا کے بدلہ میں ایک نقد بہشت پالیتا ہے اور دوسرے لوگوں کی بہشت موعود پر نظر ہوتی ہے اور یہ بہشت موجود میں داخل ہوتا ہے اسی درجہ پر پہنچ کر انسان سمجھتا ہے کہ وہ عبادت جس کا بوجھ اس کے سر پر ڈالا گیا ہے درحقیقت وہی ایک ایسی غذا ہے جس سے

Page 267

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۰ سورة الفجر اس کی روح نشو و نما پاتی ہے اور جس پر اس کی روحانی زندگی کا بڑا بھاری مدار ہے اور اس کے نتیجہ کا حصول کسی دوسرے جہان پر موقوف نہیں ہے اسی مقام پر یہ بات حاصل ہوتی ہے کہ وہ ساری ملامتیں جو نفس لوامہ انسان کا اس کی ناپاک زندگی پر کرتا ہے اور پھر بھی نیک خواہشوں کو اچھی طرح ابھار نہیں سکتا اور بری خواہشوں سے حقیقی نفرت نہیں دلا سکتا اور نہ نیکی پر ٹھہرنے کی پوری قوت بخش سکتا ہے اس پاک تحریک سے بدل جاتی ہے جو نفسِ مطمئنہ کے نشو نما کا آغاز ہوتی ہے اور اس درجہ پر پہنچ کر وقت آجاتا ہے کہ انسان پوری فلاح حاصل کرے اور اب تمام نفسانی جذبات خود بخود افسردہ ہونے لگتے ہیں اور روح پر ایک ایسی طاقت افزا ہوا چلنے لگتی ہے جس سے انسان پہلی کمزوریوں کو ندامت کی نظر سے دیکھتا ہے.اس وقت انسانی سرشت پر ایک بھاری انقلاب آتا ہے اور عادات میں ایک تبدل عظیم پیدا ہوتا ہے اور انسان اپنی پہلی حالتوں سے بہت ہی دور جا پڑتا ہے، دھویا جاتا ہے اور صاف کیا جاتا ہے اور خدا نیکی کی محبت کو اپنے ہاتھ سے اس کے دل میں لکھ دیتا ہے اور بدی کا گندا اپنے ہاتھ سے اس کے دل سے باہر پھینک دیتا ہے.سچائی کی فوج سب کی سب دل کے شہرستان میں آجاتی ہے اور فطرت کے تمام برجوں پر راست بازی کا قبضہ ہو جاتا ہے اور حق کی فتح ہوتی ہے اور باطل بھاگ جاتا ہے اور اپنے ہتھیار پھینک دیتا ہے.اس شخص کے دل پر خدا کا ہاتھ ہوتا ہے اور ہر ایک قدم خدا کے زیر سایہ چلتا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۷۹٬۳۷۸) اے نفس بحق آرام یافتہ اپنے رب کی طرف واپس چلا آ.وہ تجھ سے راضی اور تو اس پر راضی.پھر میرے بندوں میں داخل ہو اور میری بہشت میں اندر آجا.(براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۲۳ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) جو لوگ موت کے ذریعہ سے اس کی طرف اٹھائے جاتے ہیں.اس قسم کے لفظ ان کے حق میں بولے جاتے ہیں کہ وہ خدا تعالی کی طرف اٹھائے گئے یا خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرگئے جیسا کہ اس آیت میں بھی ب يَايَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْبِينَةُ ارْجِعِى إِلى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عَبْدِي وَادْخُلِي جَنَّتِي اور جیسا کہ اس آیت میں اشارہ ہے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ.(البقرة : ۱۵۷) الحق مباحثہ دہلی ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۶۸) چونکہ گناہ کی خشکی بے تعلقی سے پیدا ہوتی ہے اس لئے اس خشکی کو دور کرنے کے لئے سیدھا علاج مستحکم تعلق ہے جس پر قانونِ قدرت گواہی دیتا ہے.اسی کی طرف اللہ جل شانہ اشارہ کر کے فرماتا ہے یایھا

Page 268

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۱ سورة الفجر النَّفْسُ الْمُطْمَينَةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةٌ فَادْخُلِي فِي عِبدِي وَادْخُلی جنتی یعنی اے وہ نفس جو خدا سے آرام یافتہ ہے اپنے رب کی طرف چلا آ.وہ تجھ سے راضی اور تو اس سے راضی پس میرے بندوں میں داخل ہو جا اور میرے بہشت کے اندر آ.( سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۳۰،۳۲۹) تمام قرآن میں یہی محاورہ ہے کہ خدا کی طرف اٹھائے جانے یا رجوع کرنے سے موت مراد ہوتی ہے جیسا کہ آیت ارْجِعِي إِلى رَبَّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً سے بھی موت ہی مراد ہے.ایام اصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۸۵) یہ تینوں شریعتوں کا متفق علیہ مسئلہ ہے کہ مومن مرکز خدا کی طرف جاتا ہے اور اس کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں جیسا کہ آیت ارجعی الی رنكِ اس کی شاہد ہے اور کا فرنیچے کی طرف جو شیطان کی طرف ہے جاتا ہے جیسا کہ آیت لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَاءِ (الاعراف : ۴۱) اس کی گواہ ہے.خدا کی طرف جانے کا نام رفع ہے اور شیطان کی طرف جانے کا نام لعنت ہے.ان دونوں لفظوں میں تقابل اضداد ہے.نادان لوگ اس حقیقت کو نہیں سمجھے یہ بھی نہ سوچا کہ اگر رفع کے معنی مع جسم اٹھانا ہے تو اس کے مقابل کا لفظ کیا ہوا جیسا کہ رفع روحانی کے مقابل پر لعنت ہے.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۰۹،۱۰۸) یہود حضرت عیسی علیہ السلام کے اس رفع سے منکر تھے جو ہر یک مؤمن کے لئے مدار نجات ہے کیونکہ مسلمانوں کی طرح ان کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ جان نکلنے کے بعد ہر یک مومن کی روح کو آسمان کی طرف لے جاتے ہیں اور اس کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں مگر کافر پر آسمان کے دروازے بند ہوتے ہیں اس لئے اس کی روح نیچے شیطان کی طرف پھینک دی جاتی ہے جیسا کہ وہ اپنی زندگی میں بھی شیطان کی طرف ہی جاتا تھا لیکن مومن اپنی زندگی میں اوپر کی طرف جاتا ہے اس لئے مرنے کے بعد بھی خدا کی طرف اس کا رفع ہوتا ہے اور ارجعی الی ربک کی آواز آتی ہے.(تحفہ گولڑ و یه روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۱۳ حاشیه ) تمام قرآن شریف میں یہی محاورہ ہے کہ جب کسی کی نسبت فرمایا جاتا ہے کہ خدا کی طرف وہ گیا یا خدا کی طرف اس کا رفع ہوا تو اس کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ روحانی طور پر اس کا رفع ہوا جیسا کہ اس آیت میں بھی یہی معنے ہیں جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَآيَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَينَةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ الے کہ اے نفس مطمعنہ اپنے

Page 269

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۲ سورة الفجر رب کی طرف واپس آجا.پس کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ مع جسم عنصری آجا.برائین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۵۵) ہر ایک ذی علم جانتا ہے کہ قرآن شریف اور احادیث سے ثابت ہے کہ جب مومن فوت ہوتا ہے اس کی روح خدا کی طرف جاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبدِي وَادْخُلِي جَنَّتی یعنی اے روحِ اطمینان یافتہ اپنے رب کی طرف واپس چلی آ.وہ مجھے سے راضی اور تو اس سے راضی.اور میرے بندوں میں داخل ہو جا اور میرے بہشت میں داخل برائین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۴۱ حاشیه ) ہو جا.قرآن شریف اور احادیث کی تنتبع سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رفع الی اللہ جورَ فَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ (النساء :۱۵۹) کے فقرہ سے ظاہر ہے بجز موت کی حالت کے کسی حالت کی نسبت بولا نہیں جاتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے يَايَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَينَةُ ارْجِعِي إِلَى رَبَّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبْدِي وَادْخُلِي جَنَّتِی جلتی.یعنی اے نفس مطمئنہ جو خدا سے آرام یافتہ ہے اپنے خدا کی طرف واپس چلا آ اس حالت میں کہ خدا تجھ سے راضی اور تو خدا سے راضی اور میرے بندوں میں داخل ہو جا اور میرے بہشت میں داخل ہو جا.اب ظاہر ہے کہ یہ مقولہ اللہ جل شانہ کا کہ خدا کی طرف واپس چلا آ.کوئی اہل اسلام میں سے اس کے یہ معنے نہیں کرتا کہ زندہ مع جسم عصری آسمان پر جابیٹے بلکہ آیت ارجعی الی ربک کے معنے موت ہی لئے جاتے ہیں.پس جب کہ خدا تعالیٰ کی طرف واپس جانا بموجب نص صریح قرآن شریف کے موت ہے تو پھر خدا کی طرف اُٹھائے جانا جیسا کہ آیت بَلْ زَفَعَهُ اللهُ الَیهِ سے ظاہر ہوتا ہے.کیوں موت نہیں.یہ تو انصاف اور عقل اور تقومی کے برخلاف ہے کہ جو معنے نصوص قرآنیہ سے ثابت اور متحقق ہوتے ہیں ان کو ترک کیا جائے اور جن معنوں اور جس محاورہ کی اپنے پاس کوئی بھی دلیل نہیں اس پہلو کو اختیار کیا جائے.کیا کوئی بتلا سکتا ہے کہ رفع الی اللہ کے زبان عرب اور محاورہ عرب میں بجز وفات دیئے جانے سے کوئی اور بھی معنے ہیں.ہاں اس وفات سے ایسی وفات مراد ہے جس کے بعد روح خدا تعالیٰ کی طرف اُٹھائی جاتی ہے جیسے مومنوں کی وفات ہوتی ہے.یہی محاورہ خدا تعالیٰ کی پہلی کتابوں میں موجود ہے.اور آیت ممدوحہ بالا میں جو فرمایا ہے فَادْخُلی فی عبدی جس کے معنے پہلے فقرہ کے ساتھ ملانے سے یہ ہیں کہ خدا کی طرف واپس آجا اور پھر خدا کے بندوں میں داخل ہوجا.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی شخص

Page 270

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۳ سورة الفجر گذشتہ ارواح میں داخل نہیں ہو سکتا جب تک وفات نہ پالے.پس جبکہ ہمو جب نص قرآن شریف کے گذشتہ ارواح میں داخل ہونا.بجز مرنے کے ممتنع اور محال ہے تو پھر کیوں کر حضرت عیسی علیہ السلام بغیر فوت ہونے کے حضرت یحیی کے پاس دوسرے آسمان میں جا بیٹھے.اس جگہ یہ نکتہ بھی یادر ہے کہ آیت ممدوحہ بالا میں خدا تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے وَادْخُلِی جَنَّتِی جس کے معنے اس فقرہ کو تمام آیت کے ساتھ ملانے سے یہ ہوتے ہیں کہ اے نفس آرام یافتہ اپنے خدا کی طرف واپس آجا تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی اور میرے بندوں میں داخل ہوجا اور میرے بہشت میں داخل ہو جا.پس جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مشاہدہ سے جو معراج کی رات میں آپ کو ہوا یہ ثابت ہے کہ قرآن شریف کی اس آیت کے مطابق نبیوں اور رسولوں کی روحیں جو دنیا سے گزرچکی ہیں وہ عالم ثانی میں ایک ایسی جماعت کی طرح ہیں جو بلا توقف پچھلی فوت ہونے والے پہلوں کے گروہ میں جاملتی ہیں اور ان میں داخل ہو جاتی ہیں جیسا کہ آیت فَادْخُلی فی عبدی کا منشا ہے پھر آخری فقرہ ان آیات کا یعنی وَادْخُلِي جَنَّتِی بھی یہی چاہتا ہے کہ وہ تمام عباداللہ بلا توقف بہشت میں داخل ہوں اور جیسا کہ آیت فی عبدی کا مفہوم کوئی مترقب امر نہیں جو دور دراز زمانہ کے بعد ظہور میں آوے بلکہ راست بازوں کے مرنے کے ساتھ ہی بلا توقف اس کا ظہور ہوتا ہے یعنی ایک جماعت جو بعد میں مرتی ہے پہلوں میں بلا توقف جاملتی ہے.پس اس طرح لازم آتا ہے کہ دوسرا فقرہ آیت کا یعنی وَادْخُلِي جَنَّتی وہ بھی بلا توقف ظہور میں آتا ہو یعنی ہر ایک شخص جو طیب اور طاہر مومنوں میں سے مرے وہ بھی بلا توقف بہشت میں داخل ہو جائے اور یہی بات حق ہے جیسا کہ قرآن شریف کے دوسرے مقامات میں بھی اس کی تشریح ہے...پس جب کہ ارواح طیبین مطہرین کا بہشت میں داخل ہونا ثابت ہے اور ظاہر ہے کہ بہشت وہ مقام ہے جس میں انواع اقسام کی جسمانی نعماء بھی ہوں گی اور طرح طرح کے میوے ہوں گے اور بہشت میں داخل ہونے کے یہی معنے ہیں کہ وہ نعمتیں کھاوے اس صورت میں صرف روح کا بہشت میں داخل ہونا بے معنی اور بے سود ہے کیا وہ بہشت میں داخل ہو کر ایک محروم کی طرح بیٹھی رہے گی اور بہشت کی نعمتوں سے فائدہ نہیں اٹھائے گی پس آیت وَادْخُلِی جَنَّتِي صاف بتلا رہی ہے کہ مومن کو مرنے کے بعد ایک جسم ملتا ہے اسی وجہ سے تمام آئمہ اور اکابر متصوفین اس بات کے قائل ہیں کہ مومن جو طیب اور مطہر ہوتے ہیں وہ بمجرد فوت ہونے کے ایک پاک اور نورانی جسم پاتے ہیں جس کے ذریعہ سے وہ نعماء جنت سے لذت اٹھاتے ہیں اور بہشت کو صرف

Page 271

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۴ سورة الفجر شہیدوں کے لئے مخصوص کرنا ایک ظلم ہے بلکہ ایک کفر ہے.کیا کوئی سچا مومن یہ گستاخی کا کلمہ زبان پر لاسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو ابھی تک بہشت سے باہر ہیں جن کے روضہ کے نیچے بہشت ہے مگر وہ لوگ جنہوں نے آپ کے ذریعہ سے ایمان اور تقویٰ کا مرتبہ حاصل کیا وہ شہید ہونے کی وجہ سے بہشت میں داخل ہیں اور بہشتی میوے کھا رہے ہیں بلکہ حق یہ ہے کہ جس نے خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان کو وقف کر دیا وہ شہید ہو چکا لپس اس صورت میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اول الشہداء ہیں.سو جب کہ یہ ثابت ہے تو ہم بھی کہتے ہیں کہ مسیح بھی مع جسم آسمان پر اٹھایا گیا مگر اس جسم کے ساتھ جو اس عصری جسم سے الگ ہے) اور پھر خدا تعالیٰ کے بندوں میں داخل ہوا اور بہشت میں داخل ہوا.اس صورت میں ہماری اور ہمارے مخالفوں کی نزاع صرف لفظی نزاع نکلی.( براہینِ احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۸۴ تا ۳۹۰) ہم اس بات سے منکر نہیں ہو سکتے کہ بعد موت حضرت عیسی کو جلالی جسم ملا جو خا کی جسم نہیں ہے کیونکہ وہ ہر ایک مومن راستباز کو بعد موت ملتا ہے جیسا کہ آیت وَادْخُلی جنتی اس پر شاہد ہے کیونکہ مجرد روح بہشت میں داخل ہونے کے لائق نہیں.پس اس میں حضرت عیسی کی کوئی خصوصیت نہیں.( براتب احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۸۹ حاشیه ) ایسا سمجھنا غلطی ہے کہ پہلے انبیاء علیہم السلام جو اس دنیا سے گزر چکے ہیں ان کی صرف آسمان پر روحیں ہیں بلکہ ان کے ساتھ نورانی اور جلالی اجسام ہیں جن اجسام کے ساتھ وہ مرنے کے بعد دنیا میں سے اُٹھائے گئے جیسا کہ آیت وَادْخُلِي جَنَّتی اس بات پر نص صریح ہے کیونکہ بہشت میں داخل ہونے کے لئے جسم کی ضرورت ہے اور قرآن شریف جابجا تصریح سے فرماتا ہے کہ جو لوگ بہشت میں داخل ہوں گے ان کے ساتھ جسم بھی ہوں گے کوئی مجرد روح بہشت میں داخل نہیں ہوگی.پس آیت وَ ادْخُلِي جَنَّتِی اس بات کے لئے نص صریح ہے کہ ہر ایک راستباز جو مرنے کے بعد بہشت میں داخل ہوتا ہے اس کو مرنے کے بعد ضرور ایک جسم ملتا ہے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۹۹) اس آیت ( بَلْ تَفَعَهُ اللهُ الیه - ناقل ) کے مشابہ دوسری آیت بھی قرآن شریف میں موجود ہے اور وہ یہ کہ يَايَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَينَةُ ارْجِعِى إِلى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّة پس کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ اے نفس مطمئنہ مع جسم عنصری دوسرے آسمان پر چلا جا ؟ (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۸) نور اور روشنی سے بہرہ ور انسان اعلیٰ درجہ کی راحت اور عزت پاتا ہے چنانچہ خدائے تعالیٰ نے خود فرمایا

Page 272

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۵ سورة الفجر ب يَايَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَينَةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيّة يعنی اے وہ نفس جو اطمینان یافتہ ہے اور پھر یہ اطمینان خدا کے ساتھ پایا ہے.بعض لوگ حکومت سے بظاہر اطمینان اور سیری حاصل کرتے ، بعض کی تسکین اور سیری کا موجب ان کا مال اور عزت ہو جاتی ہے اور بعض اپنی خوبصورت اور ہوشیار اولا د و احفاد کو دیکھ دیکھ کر بظاہر مطمئن کہلاتے ہیں مگر یہ لذت اور انواع و اقسام کی لذات دنیا انسان کو سچا اطمینان اور سچی تسلی نہیں دے سکتیں بلکہ ایک قسم کی ناپاک حرص کو پیدا کر کے طلب اور پیاس کو پیدا کرتی ہیں.استسقاء کے مریض کی طرح ان کی پیاس نہیں بجھتی یہاں تک کہ ان کو ہلاک کر دیتی ہے مگر یہاں خدائے تعالیٰ فرماتا ہے وہ نفس جس نے اپنا اطمینان خدائے تعالیٰ میں حاصل کیا ہے یہ درجہ بندے کے لئے ممکن ہے.اس وقت اس کی خوشحالی با وجود مال منال کے دنیاوی حشمت اور جاہ وجلال کے ہوتے ہوئے بھی خدا ہی میں ہوتی ہے.یہ زر و جواہر.یہ دنیا اور اس کے دھندے اس کی سچی راحت کا موجب نہیں ہوتے.پس جب تک انسان خدائے تعالیٰ ہی میں راحت اور اطمینان نہیں پاتا وہ نجات نہیں پاسکتا کیونکہ نجات اطمینان ہی کا ایک مترادف لفظ ہے.میں نے بعض آدمیوں کو دیکھا اور اکثروں کے حالات پڑھے ہیں جو دنیا میں مال و دولت اور دنیا کی جھوٹی لذتیں اور ہر ایک قسم کی نعمتیں اولا د احفادر کھتے تھے جب مرنے لگے اور ان کو اس دنیا کے چھوڑ جانے اور ساتھ ہی ان اشیاء سے الگ ہونے اور دوسرے عالم میں جانے کا علم ہوا تو ان پر حسرتوں اور بے جا آرزوؤں کی آگ بھڑ کی اور سرد آہیں مارنے لگے.بس یہ بھی ایک قسم کا جہنم ہے جو انسان کے دل کو راحت اور قرار نہیں دے سکتا بلکہ اس کو گھبراہٹ اور بیقراری کے عالم میں ڈال دیتا ہے اس لیے یہ امر بھی میرے دوستوں کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہنا چاہیے کہ اکثر اوقات انسان اہل وعیال اور اموال کی محبت ہاں ناجائز اور بے جا محبت میں ایسا محو ہو جاتا ہے اور اکثر اوقات اسی محبت کے جوش اور نشہ میں ایسے ناجائز کام کر گزرتا ہے جو اس میں اور خدائے تعالیٰ میں ایک حجاب پیدا کر دیتے ہیں اور اس کے لئے ایک دوزخ تیار کر دیتے ہیں.اس کو اس بات کا علم نہیں ہوتا.جب وہ ان سب سے یکا یک علیحدہ کیا جاتا ہے اس گھڑی کی اسے خبر نہیں ہوتی.تب وہ ایک سخت بے چینی میں مبتلا ہو جاتا ہے.یہ بات بڑی آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ کسی چیز سے جب محبت ہو تو اس سے جدائی اور علیحدگی پر ایک رنج اور دردناک غم پیدا ہو جاتا ہے.یہ مسئلہ اب منقولی ہی نہیں بلکہ معقولی رنگ رکھتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نارُ اللَّهِ الْمُوْقَدَةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الأفيدو پس یہ وہی غیر اللہ کی محبت کی آگ ہے جو انسانی دل کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے اور ایک حیرت ناک

Page 273

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۶ سورة الفجر عذاب اور درد میں مبتلا کر دیتی ہے.میں پھر کہتا ہوں کہ یہ بالکل سچی اور یقینی بات ہے کہ نفس مطمئنہ کے بدوں انسان نجات نہیں پاسکتا.جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے نفس امارہ کی حالت میں انسان شیطان کا غلام ہوتا ہے اور لوامہ میں اسے شیطان سے ایک مجاہدہ اور جنگ کرنا ہوتا ہے.کبھی وہ غالب آجاتا ہے اور کبھی شیطان.مگر مطمعنہ کی حالت ایک امن اور آرام کی حالت ہوتی ہے کہ وہ آرام سے بیٹھ جاتا ہے اس لئے اس آیت میں کہ پایتها النَّفْسُ الْمُطْمِينَةُ یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس آخری حالت میں کس قدر استراحت ہوتی ہے چنانچہ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے نفس مطمئنہ اللہ کی طرف چلا آ.ظاہر کے لحاظ سے تو یہ مطلب ہے کہ جان کندن کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز آتی ہے کہ اے مطمئن نفس اپنے رب کی طرف چلا آ.وہ تجھ سے خوش ہے اور تو اس سے راضی.چونکہ قرآن کے لئے ظاہر اور بطن دونوں ہیں اس لئے بطن کے لحاظ سے یہ مطلب ہے کہ اے اطمینان پر پہنچے ہوئے نفس اپنے رب کی طرف چلا آ.یعنی تیری طبعاً یہ حالت ہو چکی ہے کہ تو اطمینان اور سکینت کے مرتبہ پر پہنچ گیا ہے اور تجھ میں اور اللہ تعالیٰ میں کوئی بعد نہیں ہے.لوامہ کی حالت میں تو تکلیف ہوتی ہے مگر مطمعنہ کی حالت میں ایسا ہوتا ہے کہ جیسے پانی اوپر سے گرتا ہے اسی طرح پر خدائے تعالیٰ کی محبت انسان کے رگ وریشہ میں سرایت کر جاتی ہے اور وہ خدا ہی کی محبت سے جیتا ہے غیر اللہ کی محبت جو اس کے لئے ایک جلانے اور جہنم کی پیدا کرنے والی ہوتی ہے جل جاتی ہے اور اس کی جگہ ایک روشنی اور نور بھر دیا جاتا ہے.اس کی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا اور اللہ تعالیٰ کی رضا اس کا منشا ہو جاتا ہے.خدائے تعالیٰ کی محبت ایسی حالت میں اس کے لئے بطور جان ہوتی ہے.جس طرح زندگی کے لئے لوازم زندگی ضروری ہیں اس کی زندگی کے لئے خدا اور صرف خدا ہی کی ضرورت ہوتی ہے.دوسرے لفظوں میں اس کا یہ مطلب ہے کہ خدا تعالی ہی اس کی سچی خوشی اور پوری راحت ہوتا ہے.نفس مطمعنہ کی یہ نشانی ہے کہ کسی خارجی تحریک کے بدوں ہی وہ ایسی صورت پکڑ جاتا ہے کہ خدا کے بدوں رہ نہیں سکتا اور یہی انسانی ہستی کا مدعا ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیے.فارغ انسان شکار ، شطرنج، گنجفہ وغیرہ اشغال اپنے لئے پیدا کر لیتے ہیں.مگر مطمئنہ جب کہ ناجائز اور عارضی اور بسا اوقات رنج اور کرب پیدا کرنے والے اشغال سے الگ ہو گیا.اب الگ ہو کر منقطع عالم اسے کیوں یاد آوے.اس لئے خدا ہی سے محبت ہو جاتی ہے.یہ امر بھی دل سے محو نہیں ہونا چاہیے کہ محبت دو قسم کی ہوتی ہے ایک ذاتی محبت ہوتی ہے اور ایک محبت اغراض سے وابستہ ہوتی ہے.یا یہ کہو

Page 274

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۷ سورة الفجر کہ اس کا باعث صرف چند عارضی باتیں ہوتی ہیں جن کے دور ہوتے ہی وہ محبت سرد ہو کر رنج اور غم کا باعث ہو جاتی ہے مگر ذاتی محبت کچی راحت پیدا کرتی ہے.چونکہ انسان فطرتا خدا ہی کے لئے پیدا ہوا ہے جیسا کہ فرما يا مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات : ۵۷) اس لئے خدائے تعالیٰ نے اس کی فطرت ہی میں اپنے لئے کچھ نہ کچھ رکھا ہوا ہے اور اپنے پوشیدہ اور مخفی در مخفی اسباب سے اسے اپنے لئے بنایا ہوا ہے.پس جب انسان جھوٹی اور نمائشی ہاں عارضی اور رنج پر ختم ہونے والی محبتوں سے الگ ہوجاتا ہے.پھر وہ خدا ہی کے لئے ہو جاتا ہے اور طبعاً کوئی بعد نہیں رہتا اور خدا کی طرف دوڑا چلا آتا ہے.پس اس آیت یا یتھا النَّفْسُ الْمُطْنَةُ میں اس کی طرف اشارہ ہے.خدائے تعالیٰ کا آواز دینا یہی ہے کہ درمیانی حجاب اُٹھ گیا اور بعد نہیں رہا.یہ ترقی کا انتہائی درجہ ہوتا ہے جب وہ اطمینان اور راحت پاتا ہے.دوسرے مقام پر قرآن شریف نے اس اطمینان کا نام فلاح اور استقامت بھی رکھا ہے اور اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحة :٢) میں اسی استقامت یا اطمینان یا فلاح کی طرف لطیف اشارہ ہے اور خود مستقیم کا لفظ بتلارہا ہے.رپورٹ جلسہ سالانه ۱۸۹۷ء صفحه ۱۳۴ تا ۱۳۷) اگر مسیح کے صعود الی السماء سے یہ غرض تھی کہ وہ اس لعنت سے بچ رہیں تو اس رفع کے لئے ضروری ہے کہ پہلے موت ہو کیونکہ یہ رفع وہ ہے جو قرب الہی کا مفہوم ہے اور بعد موت ملتا ہے اس لئے اِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى ( ال عمران : ۵۲ ) کہا گیا اور یہ وہی رفع ہے جو ارجعی اإِلى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةٌ میں خدا نے بیان فرمایا ہے اور مُفَتَحَةٌ لَهُمُ الأبواب (ص:۵۱) سے پایا جاتا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۱ مورخه ۳۱/اگست ۱۹۰۲ صفحه ۵) تو میری جنت میں داخل ہو جا اور اسی وقت ہو جا اور مومن کا جنت خود خدا ہے یعنی جب وہ خدا کے بندوں میں داخل ہوا تو خدا تو انہیں میں ہے اور وہ اس کے عباد میں آ گیا تو اب اس حالت میں وہ بجن کہاں رہا؟ ایک مرتبہ ہوتا ہے کہ اس وقت تک وہ تکالیف میں ہوتا ہے جیسے جب کنواں کھودا جاوے تو اس سے مقصد یہ ہوتا.ہوتا ہے کہ پانی نکل آوے.مطمئنہ ہونا اصل میں پانی نکالنا ہے جب پانی نکل آیا اب کھودنے کی ضرورت نہیں ہے.السدر جلد اول نمبر ۷ مورخہ ۱۲ دسمبر ۱۹۰۲ ، صفحہ ۵۱) اصل مدعا تو یہ ہونا چاہیے کہ انسان نفسِ مطمئنہ حاصل کرے.نفس تین قسم کے ہیں.امارہ ، لوامہ ، مطمئنہ.بہت بڑا حصہ دنیا کا نفس امارہ کے نیچے ہے اور بعض جن پر خدا کا فضل ہوا ہے وہ لوامہ کے نیچے

Page 275

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۸ سورة الفجر ہیں.یہ لوگ بھی سعادت سے حصہ رکھتے ہیں.بڑا بد بخت وہ ہے جو بدی کو محسوس ہی نہیں کرتا یعنی جو امارہ کے ماتحت ہیں اور بڑا ہی سعید اور بامراد وہ ہے جو نفس مطمئنہ کی حالت میں ہے.نفس مطمعنہ ہی کو خدا نے فرمایا يَا يَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةٌ یعنی اے وہ نفس جو اطمینان یافتہ ہے اس حالت میں شیطان کے ساتھ جو جنگ ہوتی ہے اس کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور خطاب کے لائق تو مطمئنہ ہی ٹھہرایا ہے اور اس آیت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ معلمونہ کی حالت میں مکالمہ الہی کے لائق ہو جاتا ہے.خدا کی طرف واپس آ کے معنے یہی نہیں کہ مرجا بلکہ تو امہ اور اتارہ کی حالت میں جو خدا تعالیٰ سے ایک بعد ہوتا ہے مطمئنہ کی حالت میں وہ مہجوری نہیں رہتی اور کوئی غبار باقی نہ رہ کر غیب کی آواز اس کو بلاتی ہے.تو مجھ سے راضی اور میں تجھ سے راضی.یہ رضا کا انتہائی مقام ہوتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اب میرے بندوں میں داخل ہو جا.اللہ تعالیٰ کے بندے دنیا ہی پر ہوتے ہیں مگر دنیا ان کو نہیں پہنچانتی.دنیا نے آسمانی بندوں سے دوستی نہیں کی وہ ان سے ہنسی کرتی ہے.وہ الگ ہی ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی رداء کے نیچے ہوتے ہیں.غرض جب ایسی حالت اطمینان میں پہنچتا ہے تو الہی اکسیر سے تانبا سونا ہو جاتا ہے.وَادْخُلِی جَنَّتی اور تو میرے بہشت میں داخل ہو جا.بہشت ایک ہی چیز نہیں بلکہ فرمایا وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتن (الرحمن : ۴۷) خدا سے ڈرنے والے کے لئے دو بہشت انتقام جلدے نمبر ۸ مورخه ۲۸ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۶) بڑی بشارت مؤمن کو ہے.يَايَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةٌ النفس جو کہ خدا سے آرام یافتہ ہے تو اپنے رب کی طرف راضی خوشی واپس آ.اس خوشی میں ایک کافر ہرگز شریک نہیں ہے.راضِيَةً کے معنے یہ ہیں کہ وہ اپنی مرادات کوئی نہیں رکھتا کیونکہ اگر وہ دنیا سے خلاف مرادات جاوے تو پھر راضی تو نہ گیا اسی لئے اس کی تمام مراد خدا ہی خدا ہوتا ہے اس کے مصداق صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں کہ آپ کو یہ بشارت ملی - إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ (النصر : ٢) اور الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمُ (المائدة : ٣) بلکہ مومن کی خلاف مرضی تو اس کی نزع (جان کنی ) بھی نہیں ہوا کرتی.ایک شخص کا قصہ لکھا ہے کہ وہ دعا کیا کرتا تھا کہ میں طوس میں مروں لیکن ایک دفعہ وہ ایک اور مقام پر تھا کہ سخت بیمار ہوا اور کوئی امید زیست کی نہ رہی تو اس نے وصیت کی کہ اگر میں یہاں مرجاؤں تو مجھے یہودیوں کے قبرستان میں دفن کرنا.اسی وقت سے وہ رو بصحت ہونا شروع ہو گیا حتی کہ بالکل تندرست ہو گیا.لوگوں نے اس کی وصیت کی وجہ پوچھی تو کہا کہ ہیں.

Page 276

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۹ سورة الفجر مومن کی علامت ایک یہ بھی ہے کہ اس کی دعا قبول ہو.ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن : ۶۱ ) کا وعدہ ہے.میری دعا تھی کہ طوس میں مروں جب دیکھا کہ موت تو یہاں آتی ہے تو اپنے مومن ہونے پر مجھ کو شک ہوا اس لئے میں نے یہ وصیت کی کہ اہل اسلام کو دھوکا نہ دوں.غرضیکہ راضِيَةً مَرْضِيَّةٌ صرف مومنوں کے لئے ہے دنیا میں بڑے بڑے مالداروں کی موت سخت نامرادی سے ہوتی ہے.دنیا دار کی موت کے وقت ایک خواہش پیدا ہوتی ہے اور اسی وقت اسے نزع ہوتی ہے.یہ اس لئے ہوتا ہے کہ خدا کا ارادہ ہوتا ہے کہ اس وقت بھی اسے عذاب دیوے اور اس کی حسرت کے اسباب پیدا ہو جاتے ہیں تا کہ انبیاء کی موت جو کہ رَاضِيَةً مَرْضِيّةً کی مصداق ہوتی ہے اس میں اور دنیا دار کی موت میں ایک بین فرق ہو.دنیا دار کتنی ہی کوشش کرے مگر اس کی موت کے وقت حسرت کے اسباب ضرور پیش ہو جاتے ہیں.غرضیکہ راضِيَةً مَرْضِيّةٌ کی موت مقبولین کی دولت ہے.اس وقت ہر ایک قسم کی حسرت دور ہو کر ان کی جان نکلتی ہے.راضی کا لفظ بہت عمدہ ہے اور ایک مومن کی مرادیں اصل میں دین کے لئے ہوا کرتی ہیں.خدا کی کامیابی اور اس کے دین کی کامیابی اس کا اصل مدعا ہوا کرتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بہت ہی اعلیٰ ہے کہ جن کو اس قسم کی موت نصیب ہوئی.البدر جلد ۲ نمبر ۲۸ مورخه ۳۱ جولائی ۱۹۰۳ء صفحه ۲۱۸) تیسری حالت جو نفس مطمئنہ کی حالت ہے یہ وہ حالت ہے جب ساری لڑائیوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور کامل فتح ہو جاتی ہے اسی لئے اس کا نام نفس مطمئنہ رکھا ہے یعنی اطمینان یافتہ.اس وقت وہ اللہ تعالیٰ کے وجود پر سچا ایمان لاتا ہے اور یقین کرتا ہے کہ واقعی خدا ہے.نفس مطمئنہ کی انتہائی حد خدا پر ایمان ہوتا ہے کیونکہ کامل اطمینان اور تسلی اسی وقت ملتی ہے جب اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان ہو.یقیناً سمجھو کہ ہر ایک پاکبازی اور نیکی کی اصل جڑ خدا پر ایمان لانا ہے جس قدر انسان کا ایمان باللہ کمزور ہوتا ہے اسی قدر ایمان صالحہ میں کمزوری اور ستی پائی جاتی ہے لیکن جب ایمان قوی ہو اور اللہ تعالیٰ کو اس کی تمام صفات کا ملہ کے ساتھ یقین کر لیا جائے اس قدر عجیب رنگ کی تبدیلی انسان کے اعمال میں پیدا ہو جاتی ہے.خدا پر ایمان رکھنے والا گناہ پر قادر نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ ایمان اس کی نفسانی قوتوں اور گناہ کے اعضاء کو کاٹ دیتا ہے.دیکھو اگرکسی کی آنکھیں نکال دی جاویں تو وہ آنکھوں سے بد نظری کیوں کر کر سکتا ہے اور آنکھوں کا گناہ کیسے کرے گا اور اگر ایسا ہی ہاتھ کاٹ دیئے جاویں یا شہوانی قومی کاٹ دیئے جاویں پھر وہ گناہ جو ان اعضاء سے متعلق ہیں کیسے کر سکتا ہے؟ ٹھیک اسی طرح پر جب ایک انسان نفس مطمئنہ کی حالت میں ہوتا ہے تو نفس مطمعنہ

Page 277

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۵۰ سورة الفجر اسے اندھا کر دیتا ہے اور اس کی آنکھوں میں گناہ کی قوت نہیں رہتی.وہ دیکھتا ہے پر نہیں دیکھتا کیونکہ آنکھوں کے گناہ کی نظر سلب ہو جاتی ہے.وہ کان رکھتا ہے مگر بہرہ ہوتا ہے اور وہ باتیں جو گناہ کی ہیں نہیں سن سکتا.اسی طرح پر اس کی تمام نفسانی اور شہوانی قوتیں اور اندرونی اعضاء کاٹ دیئے جاتے ہیں.اس کی ان ساری طاقتوں پر جن سے گناہ صادر ہوسکتا تھا ایک موت واقعہ ہو جاتی ہے اور وہ بالکل ایک میت کی طرح ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ ہی کی مرضی کے تابع ہوتا ہے وہ اس کے سوا ایک قدم نہیں اٹھا سکتا یہ وہ حالت ہوتی ہے جب خدا تعالیٰ پر سچا ایمان ہو اور جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کامل اطمینان اسے دیا جاتا ہے یہی وہ مقام ہے جو انسان کا اصل مقصود ہونا چاہیے اور ہماری جماعت کو اسی کی ضرورت ہے اور اطمینان کامل کے حاصل کرنے کے واسطے ایمان کامل کی ضرورت ہے.پس ہماری جماعت کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان حاصل الحکم جلد ۸ نمبر امور محه ۱۰ر جنوری ۱۹۰۴ صفحه ۳) کریں.یں تاشوں میں سے بھی ے کہ اطمینان یافت کی میں پاتے ہیں.نفس مطمئنہ کی تا شیروں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ اطمینان یافتہ لوگوں کی صحبت میں اطمینان پاتے ہیں.امارہ والے میں نفس امارہ کی تاثیریں ہوتی ہیں اور جو شخص نفس مطمئنہ والے کی صحبت میں بیٹھتا ہے اس پر بھی اطمینان اور سکینت کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں اور اندر ہی اندر اسے تسلی ملنے لگتی ہے.مطمئنہ والے کو پہلی نعمت یہ دی جاتی ہے کہ وہ خدا سے آرام پاتا ہے جیسے فرمایا ہے یايَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْنَةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةٌ یعنی اے خدا تعالیٰ میں آرام یافتہ نفس اپنے رب کی طرف آجا.وہ تجھ سے راضی اور تو اس سے راضی.اس میں ایک بار یک نکتہ معرفت ہے جو یہ کہا کہ خدا تجھ سے راضی تو خدا سے راضی.بات یہ ہے کہ جب تک انسان اس مرحلہ پر نہیں پہنچتا اور لوامہ کی حالت میں ہوتا ہے اس وقت تک خدا تعالیٰ سے ایک قسم کی لڑائی رہتی ہے یعنی کبھی کبھی وہ نفس کی تحریک سے نافرمانی بھی کر بیٹھتا ہے لیکن جب مطمعنہ کی حالت پر پہنچتا ہے تو اس جنگ کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور اللہ تعالی سے صلح ہو جاتی ہے.اس وقت وہ خدا سے راضی ہوتا ہے اور خدا اس سے راضی ہو جاتا ہے کیونکہ وہ لڑائی بھڑائی بالکل جاتی رہتی ہے.یہ بات خوب یاد رکھنی چاہیے کہ ہر شخص خدا تعالیٰ سے لڑائی رکھتا ہے بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتا ہے اور بہت ساری امانی اور امیدیں رکھتا ہے لیکن اس کی وہ دعا ئیں نہیں سنی جاتی ہیں یا خلاف امید کوئی بات ظاہر ہوتی ہے تو دل کے اندر اللہ تعالیٰ سے ایک لڑائی شروع کر دیتا ہے.خدا تعالیٰ پر بدظنی اور اس سے ناراضگی کا اظہار کرتا ہے لیکن صالحین اور عباد الرحمن کی کبھی اللہ تعالیٰ سے جنگ نہیں ہوتی

Page 278

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۱ سورة الفجر لو کیونکہ وہ رضا بالقضاء کے مقام پر ہوتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ حقیقی ایمان اس وقت تک پیدا ہو ہی نہیں سکتا جب تک انسان اس درجہ کو حاصل نہ کرے کہ خدا کی مرضی اس کی مرضی ہو جائے دل میں کوئی کدورت اور تنگی محسوس نہ ہو بلکہ شرح صدر کے ساتھ اس کی ہر تقدیر اور قضا کے سامنے کو طیار ہو.اس آیت میں راضِيَةً مَرْضِيّةٌ کا لفظ اس کی طرف اشارہ کر رہا ہے.یہ رضا کا اعلیٰ مقام ہے جہاں کوئی ابتلا باقی نہیں رہتا.دوسرے جس قدر مقامات ہیں وہاں ابتلا کا اندیشہ رہتا ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ سے بالکل راضی ہو جاوے اور کوئی شکوہ شکایت نہ رہے اس وقت محبت ذاتی پیدا ہو جاتی ہے اور جب تک اللہ تعالیٰ سے محبت ذاتی پیدا نہ ہو تو ایمان بڑے خطرہ کی حالت میں ہے لیکن جب ذاتی محبت ہو جاتی ہے تو انسان شیطان کے حملوں سے امن میں آجاتا ہے.اس ذاتی محبت کو دعا سے حاصل کرنا چاہیے.جب تک یہ محبت پیدا نہ ہو انسان نفس امارہ کے نیچے رہتا ہے اور اس کے پنجہ میں گرفتار رہتا ہے اور ایسے لوگ جو نفس امارہ کے نیچے ہیں ان کا قول ہے ایہہ جہان مٹھا تو اگلا کن ڈٹھا.یہ لوگ بڑی خطرناک حالت میں ہوتے ہیں.اور لوامہ والے ایک گھڑی میں ولی اور ایک گھڑی میں شیطان ہو جاتے ہیں ان کا ایک رنگ نہیں رہتا کیونکہ ان کی لڑائی نفس کے ساتھ شروع ہوتی ہے جس میں کبھی وہ غالب اور کبھی مغلوب ہوتے ہیں تاہم یہ لوگ محل مدح میں ہوتے ہیں کیونکہ ان سے نیکیاں بھی سرزد ہوتی ہیں اور خوف خدا بھی ان کے دل میں ہوتا ہے لیکن نفسِ مطمئنہ والے بالکل فتحمند ہوتے ہیں اور وہ سارے خطروں اور خوفوں سے نکل کر امن کی جگہ میں جا پہنچتے ہیں وہ اس دارالامان میں ہوتے ہیں جہاں شیطان نہیں پہنچ سکتا.لوامہ والا جیسا کہ میں نے کہا ہے دارالامان کی ڈیوڑھی میں ہوتا ہے اور کبھی کبھی دشمن بھی اپنا وار کر جاتا ہے اور کوئی لاٹھی مار جاتا ہے اس لئے مطمعنہ والے کو کہا ہے فَادْخُلى في عِبْدِي وَادْخُلِي جَنَّتِي.یہ آواز اس وقت آتی ہے جب وہ اپنے تقویٰ کو انتہائی مرتبہ پر پہنچا دیتا ہے.تقویٰ کے دو درجے ہیں بدیوں سے بچنا اور نیکیوں میں سرگرم ہونا یہ دوسرا مرتبہ محسنین کا ہے.اس درجہ کے حصول کے بغیر اللہ تعالی خوش نہیں ہو سکتا اور یہ مقام اور درجہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل ہی نہیں ہو سکتا.جب انسان بدی سے پر ہیز کرتا ہے اور نیکیوں کے لئے اس کا دل تڑپتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ سے دعا ئیں کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کی دستگیری کرتا ہے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے دارالامان میں پہنچادیتا ہے اور فادخلی فی عبدی کی آواز اسے آجاتی ہے یعنی تیری جنگ اب ختم ہو چکی ہے اور میرے ساتھ تیری صلح اور آشتی ہو چکی ہے.اب آمیرے بندوں میں داخل ہو جا جو صِرَاطَ الَّذِيْنَ انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے مصداق

Page 279

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۲ سورة الفجر ہیں اور روحانی وراثت سے جن کو حصہ ملتا ہے.میری بہشت میں داخل ہو جا.یہ آیت جیسا کہ ظاہر بین سمجھتے ہیں کہ مرنے کے بعد اسے آواز آتی ہے آخرت پر ہی موقوف نہیں بلکہ اسی دنیا میں اسی زندگی میں یہ آواز آتی ہے.اہلِ سلوک کے مراتب رکھے ہوئے ہیں.ان کے سلوک کا انتہائی نقطہ یہی مقام ہے جہاں ان کا سلوک ختم ہو جاتا ہے اور وہ مقام یہی نفسِ مطمئنہ کا مقام ہے.اہلِ سلوک کی مشکلات کو اللہ تعالیٰ اُٹھا دیتا ہے اور ان کو صالحین میں داخل کر دیتا ہے.انتقام جلد ۸ نمبر ۲ مورخه ۷ ارجنوری ۱۹۰۴ صفحه ۲،۱) تیسر انفسِ مطمئنہ ہے جو کہ اس جنگ میں غالب آجاتا ہے اور نفس اور شیطان پر فتح حاصل کرتا ہے.اس کا نام مطمئنہ اس لئے ہے کہ یہ اطمینان یافتہ ہو جاتا ہے.انسان کے ہر ایک قومی پر اس کا قابو ہو جاتا ہے اور طبیعی طور پر اس سے نیکی کے کام سرزد ہوتے ہیں.البدر جلد ۳ نمبر ۳ مورخه ۱۶ جنوری ۱۹۰۴ء صفحه ۳) مطمئنہ میں کوئی زنجیر باقی نہیں رہتی سب کی سب اتر جاتی ہیں اور وہی زمانہ انسان کا خدا کی طرف پکے رجوع کا ہوتا ہے اور وہی خدا کے کامل بندے ہوتے ہیں جو کہ نفسِ مطمئنہ کے ساتھ دنیا سے علیحدہ ہو دیں اور جب تک وہ اسے حاصل نہ کر لے تب تک اسے مطلق علم نہیں ہوتا کہ جنت میں جاوے گا یا دوزخ میں.البدر جلد ۳ نمبر ۳۴ مورخه ۸ ستمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۷) مطمعنہ وہ ہے جو بکلی صلح کر لیتا ہے.آخری حد انسان کی ترقیات کی یہی ہے.اس وقت خدا کی رضا اس کی رضا ہو جاتی ہے.اس کا ارادہ وہی ہوتا ہے جو خدا کا ارادہ ہوتا ہے.( البدر جلدے نمبر ۲۵ مورخه ۲۵ /جون ۱۹۰۸ء صفحه ۵) نفس کی تین حالتیں ہیں یا یہ کہو کہ نفس تین رنگ بدلتا ہے.بچپن کی حالت میں نفس زکیہ ہوتا ہے یعنی بالکل سادہ ہوتا ہے.اس عمر کے طے کرنے کے بعد پھر نفس پر تین حالتیں آتی ہیں.سب سے اول جو حالت ہوتی ہے اس کا نام نفس امارہ ہے.اس حالت میں انسان کی تمام طبعی قو تیں جوش زن ہوتی ہیں اور اس کی ایسی مثال ہوتی ہے جیسے دریا کا سیلاب آجاوے اس وقت قریب ہے کہ غرق ہو جاوے.یہ جوش نفس ہر قسم کی بے اعتدالیوں کی طرف لے جاتا ہے لیکن پھر اس پر ایک حالت اور بھی آجاتی ہے جس کا نام نفس لوامہ ہے.اس کا نام لوامہ اس لئے رکھا گیا ہے کہ وہ بدی پر ملامت کرتا ہے اور یہ حالت نفس کی روا نہیں رکھتی کہ انسان ہر

Page 280

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۳ سورة الفجر قسم کی بے اعتدالیوں اور جوشوں کا شکار ہوتا چلا جاوے جیسا کہ نفس امارہ کی صورت میں تھا بلکہ نفس لوامہ اسے بدیوں پر ملامت کرتا ہے یہ سچ ہے کہ نفس لوامہ کی حالت میں انسان بالکل گناہ سے پاک اور بری نہیں ہوتا مگر اس میں بھی کوئی کلام نہیں کہ اس حالت میں انسان کی شیطان اور گناہ کے ساتھ ایک جنگ ہوتی رہتی ہے کبھی شیطان غالب آجاتا ہے اور کبھی وہ غالب آتا ہے مگر نفس لوامہ والا خدا تعالیٰ کے رحم کا مستحق ہوتا ہے اس لئے کہ وہ بدیوں کے خلاف اپنے نفس سے جنگ کرتا رہتا ہے اور آخر اسی کشمکش اور جنگ وجدل میں اللہ تعالیٰ اس پر رحم کر دیتا ہے اور اسے وہ نفس کی حالت عطا ہوتی ہے جس کا نام مطمئنہ ہے یعنی اس حالت میں مع انسان شیطان اور نفس کی لڑائی میں فتح پا کر انسانیت اور نیکی کے قلعہ کے اندر آکر داخل ہو جاتا ہے اور اس قلعہ کو فتح کر کے مطمئن ہو جاتا ہے.اس وقت یہ خدا پر راضی ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ اس پر راضی ہوتا ہے کیونکہ یہ پورے طور پر اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت میں فنا اور محو ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی مقادیر کے ساتھ اس کو پوری صلح اور رضا حاصل ہوتی ہے چنانچہ فرمایا یا تهَا النَّفْسُ الْمُطْمَينَةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عَبْدِي وَادْخُلِی جَنَّتی یعنی اے نفس آرام یافتہ جو خدا سے آرام پا گیا ہے اپنے خدا کی طرف واپس چلا آ.تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی.پس میرے بندوں میں مل جا اور میرے بہشت کے اندر آ جا.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ سچار جوع اس وقت ہوتا ہے جبکہ خدا تعالیٰ کی رضا سے رضائے انسان مل جاوے.یہ وہ حالت ہے جہاں انسان اولیاء اور ابدال اور مقربین کا درجہ پاتا ہے.یہی وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ سے مکالمہ کا شرف ملتا ہے اور وحی کی جاتی ہے.اور چونکہ وہ ہر قسم کی تاریکی اور شیطانی شرارت سے محفوظ ہوتا ہے.ہر وقت اللہ تعالیٰ کی رضا میں زندہ ہوتا ہے اس لئے وہ ایک ابدی بہشت اور سرور میں ہوتا ہے.انسانی ہستی کا مقصد اعلیٰ اور غرض اسی مقام کا حاصل کرنا ہے اور یہی وہ مقصد ہے جو اسلام کے لفظ میں اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے کیونکہ اسلام سے سچی مراد یہی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع اپنی رضا کرلے مگر سچ یہ ہے کہ یہ مقام انسان کی اپنی قوت سے نہیں مل سکتا ہاں اس میں کلام نہیں کہ انسان کا فرض ہے کہ وہ مجاہدات کرے لیکن اس مقام کے حصول کا اصل اور سچا ذریعہ دعا ہے.انسان کمزور ہے جب تک دعا سے قوت اور تائید نہیں پاتا اس دشوار گزار منزل کو طے نہیں کرسکتا..الحکم جلد ۸ نمبر ۳۲ مورخه ۲۴ رستمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۴) تیسری قسم نفس کی نفس مطمعنہ ہے جیسے فرمایا اللہ تعالیٰ نے يايَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَينَةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ....

Page 281

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۴ سورة الفجر رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبْدِي وَادْخُلِي جَنَّتی یعنی اے وہ نفس جو خدا سے آرام پا گیا ہے اپنے رب کی طرف واپس چلا آ.تو خدا سے راضی ہے اور خدا تجھ پر راضی ہے.پس میرے بندوں میں مل جا اور میرے بہشت کے اندر داخل ہو جا.غرض یہ وہ حالت ہوتی ہے کہ جب انسان خدا سے پوری تسلی پالیتا ہے اور اس کو کسی قسم کا اضطراب باقی نہیں رہتا اور خدا تعالیٰ سے ایسا پیوند کر لیتا ہے کہ بغیر اس کے جی بھی نہیں سکتا.نفس لوامہ والا تو ابھی بہت خطرے کی حالت میں ہوتا ہے کیونکہ اندیشہ ہوتا ہے کہ لوٹ کر وہ کہیں پھر نفس امارہ نہ بن جاوے لیکن نفس مطمئنہ کا وہ مرتبہ ہے کہ جس میں نفس تمام کمزوریوں سے نجات پا کر روحانی قوتوں سے بھر جاتا ہے.غرض یا درکھنا چاہیے کہ جب تک انسان اس مقام تک نہیں پہنچتا اس وقت تک وہ خطرہ کی حالت میں ہوتا ہے.اس لئے چاہیے کہ جب تک انسان اس مرتبہ کو حاصل نہ کر لے مجاہدے اور ریاضات میں لگار ہے.احکام جلد ۱۲ نمبر ۴ مورخه ۱۴ ؍ جنوری ۱۹۰۸ صفحه ۲) وَإِنَّا لَا نَقُولُ أَنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ بَعْدَ ہم اس بات کے قائل نہیں کہ جنتی لوگ اس جہان سے انْتِقَالِهِمْ إِلى دَارِ الْآخِرَةِ يُخبَسُونَ في دوسرے جہان میں منتقل ہونے کے بعد قیامت تک کے مَكَانٍ بَعِيدٍ مِنَ الْجَنَّةِ إِلى يَوْمِ لئے جنت سے دور ایک مکان میں روک دیئے جائیں گے الْقِيَامَةِ، وَلَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَبْلَ اور قیامت سے قبل سوائے شہداء کے کوئی شخص جنت میں الْقِيَامَةِ إِلَّا الشُّهَدَا ، كلاً بَل داخل نہیں ہو گا.ایسی بات ہرگز نہیں بلکہ ہمارے عقیدہ الْأَنْبِيَاء عِنْدَنَا أَوَّلُ الدَّاخِلِينَ.أَيَظُنُ کے مطابق انبیاء سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے الْمُؤمن الذى يُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ أَنَّ والے ہیں.کیا کوئی ایسا مومن جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول النَّبِيِّينَ وَالصَّدِّيقِينَ يُبْعَدُونَ عَنِ سے محبت رکھتا ہے یہ گمان کر سکتا ہے کہ نبی اور صدیق یومِ الْجَنَّةِ إِلى يَوْمِ الْبَعْثِ وَلَا يَجِدُونَ مِنْهَا بعث تک جنت سے دور رکھے جائیں گے.اور اس کی رَائِحَةً، وَأَمَّا الشُّهَدَاء فَيَدْخُلُونَهَا مِنْ راحت بخش ہوا کو نہیں پائیں گے لیکن شہداء فوری طور پر غَيْرِ مُكْبٍ خَالِدِينَ ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل کیے جائیں گے.فَاعْلَمُ يَا أَخِي أَنَّ هَذِهِ الْعَقِيدَةُ اے میرے بھائی ! جان لے کہ یہ عقیدہ ردی ، فاسد اور رَدِيَّةٌ فَاسِدَةً وَمَمْلُوةٌ مِن سُوءِ الْأَدَبِ بے ادبی سے پر ہے.کیا تو نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا

Page 282

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۵ سورة الفجر أَمَا قَرَأْتَ مَا قَالَ رَسُولُ اللہ یہ قول احادیث میں نہیں پڑھا کہ جنت میری قبر کے نیچے ہے نیز آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْجَنَّةَ نے فرمایا کہ مومن کی قبر جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے تَحتَ قَبْرِى وَقَالَ إِنَّ قَبْر اور خدائے عزوجل نے اپنی محکم کتاب ( قرآن کریم ) میں فرمایا ہے الْمُؤْمِنِ رَوْضَةٌ مِنْ رَوْضَاتِ يَآيَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً الْجَنَّةِ، وَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ فِي كِتَابِهِ فَادْخُلِي فِي عِبْدِي وَادْخُلِی جَنَّتِی اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی الْمُحْكَمِ يَآيَّتُهَا النَّفْسُ المُمينَةُ طرف لوٹ آ اس حال میں کہ تو اسے پسند کرنے والا بھی ہے اور اس ارْجِعِى إِلى رَبَّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّة کا پسندیدہ بھی.اور پھر تیرا رب مجھے کہتا ہے کہ آمیرے خاص فَادْخُلِي فِي عِبدِي وَادْخُلَى جَنَّتی بندوں میں داخل ہو جا اور میری جنت میں بھی داخل ہو جا.حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلد۷ صفحه ۲۴۹) فَادْخُلِى فِي عِبدِي وَادْخُلی جنتی بھی اجسام کو چاہتا ہے....سچی اور بالکل سچی اور صاف بات یہی ہے کہ اجسام ضرور ملتے ہیں لیکن یہ عصری اجسام یہاں ہی رہ جاتے ہیں یہ اوپر نہیں جا سکتے.دود (ترجمه از مرتب) احکام جلد ۹ نمبر ۳۵ مورخه ۱۰ / اکتوبر ۱۹۰۵ صفحه ۹) اے نفس بحق آرام یافتہ اپنے رب کی طرف واپس چلا آ.تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی.سو میرے بندوں میں داخل ہو اور میرے بہشت میں اندر آجا.ان دونوں آیات جامع البرکات سے ظاہر ہورہا ہے کہ انسان کی روح کے لئے بندگی اور عبودیت دائمی اور لازمی ہے اور اسی عبودیت کی غرض سے وہ پیدا کیا گیا ہے بلکہ آیت مؤخر الذکر میں یہ بھی فرما دیا ہے کہ جو انسان اپنی سعادت کاملہ کو پہنچ جاتا ہے اور اپنے تمام کمالات فطرتی کو پالیتا ہے اور اپنی جمیع استعدادات کو انتہائی درجہ تک پہنچادیتا ہے اس کو اپنی آخری حالت پر عبودیت کا ہی خطاب ملتا ہے اور فَادْخُلی فی عبدی کے خطاب سے پکارا جاتا ہے.سو اب دیکھئے اس آیت سے کس قدر بصراحت ثابت ہوتا ہے کہ انسان کا کمال مطلوب عبودیت ہی ہے اور سالک کا انتہائی مرتبہ عبودیت تک ہی ختم ہو جاتا ہے.اگر عبودیت انسان کے لئے ایک عارضی جامہ ہوتا اور اصل حقیقت اس کی الوہیت ہوتی تو چاہیے تھا کہ بعد طے کرنے تمام مراتب سلوک کے الوہیت کے نام سے پکارا جاتالیکن فَادْخُلِي فِي عِبدِی کے لفظ سے ظاہر ہے کہ عبودیت اس جہان میں بھی دائمی ہے جو ابد الآبادر ہے گی اور یہ آیت بآواز بلند پکار رہی ہے کہ انسان کو کیسے ہی کمالات حاصل کرے مگر وہ کسی حالت میں عبودیت سے باہر

Page 283

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۶ سورة الفجر ہو ہی نہیں سکتا اور ظاہر ہے کہ جس کیفیت سے کوئی شے کسی حالت میں باہر نہ ہو سکے وہ کیفیت اس کی حقیقت اور ماہیت ہوتی ہے.پس چونکہ از روئے بیان واضح قرآن شریف کے انسان کے نفس کے لئے عبودیت ایسی لازمی چیز ہے کہ نہ نبی بن کر اور نہ رسول بن کر اور نہ صدیق بن کر اور نہ شہید بن کر اور نہ اس جہان میں اور نہ اس جہان میں الگ ہو سکے.جو مہتر اور بہتر انبیاء تھے انہوں نے عبدہ و رسولہ ہونا اپنا فخر سمجھا.تو اس سے ثابت ہے کہ انسان کی اصل حقیقت و ماہیت عبودیت ہی ہے الوہیت نہیں اور اگر کوئی الوہیت کا مدعی ہے تو بمقابلہ اس محکم اور بین آیت کے کہ جو فادخلی فی عبدِئی ہے کوئی دوسری آیت ایسی پیش کرے کہ جس کا مفہوم فَادْخُلِي في ذاتي ہو اور خود قرآن شریف جابجا اپنے نزول کی علت غائی بھی یہی ٹھہراتا ہے کہ تا عبودیت پر لوگوں کو قائم کرے اور خدا نے اپنی کتاب عزیز میں ان لوگوں پر لعنت کی ہے جنہوں نے مسیح اور بعض دوسرے نبیوں کو خدا سمجھا تھا.(مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۵۹۱،۵۹۰) اس بات کو روحانی لوگ جانتے ہیں کہ موت کے بعد جسمانی قرب کچھ حقیقت نہیں رکھتا بلکہ ہر ایک جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روحانی قرب رکھتا ہے اس کی روح آپ کی روح سے نزدیک کی جاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَادْخُلِي فِي عِبْدِي وَادْخُلِي جَنَّتِي - (حقیقة الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۲۶)

Page 284

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۷ سورة البلد اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة البلد بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ ) مومن وہی ہیں جو ایک دوسرے کو صبر اور مرحمت کی نصیحت کرتے ہیں یعنی یہ کہتے ہیں کہ شدائد پر صبر کرو.اور خدا کے بندوں پر شفقت کرو.اس جگہ بھی مرحمت سے مراد شفقت ہے کیونکہ مرحمت کا لفظ زبان عرب میں شفقت کے معنوں پر مستعمل ہوتا ہے.پس قرآنی تعلیم کا اصل مطلب یہ ہے کہ محبت جس کی حقیقت محبوب کے رنگ سے رنگین ہو جانا ہے بجز خدا تعالیٰ اور صلحاء اور کسی سے جائز نہیں بلکہ سخت حرام ہے.( نور القرآن نمبر ۲ ، روحانی خزائن جلد ۹ جلد ۲ صفحه ۴۳۳، ۴۳۴) مومن وہ ہیں جو حق اور رحم کی وصیت کرتے ہیں.(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۳۶۹) قرآن تمہیں انجیل کی طرح فقط یہ نہیں کہتا کہ اپنے بھائی پر بے سبب غصہ مت ہو بلکہ وہ کہتا ہے کہ نہ صرف اپنے ہی غصہ کو تھام بلکہ تواصوا بالمرحمة پر عمل بھی کر اور دوسروں کو بھی کہتارہ کہ وہ ایسا کریں اور نہ صرف خود رحم کر بلکہ رحم کے لئے اپنے تمام بھائیوں کو وصیت بھی کر.کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۹) قرآن کریم کی یہ تعلیم ہر گز نہیں ہے کہ عیب دیکھ کر اسے پھیلاؤ اور دوسروں سے تذکرہ کرتے پھرو بلکہ وہ فرماتا ہے تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَ تَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ کہ وہ صبر اور رحم سے نصیحت کرتے ہیں.مرحمہ یہی ہے کہ

Page 285

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۸ دوسرے کے عیب کو دیکھ کر اسے نصیحت کی جاوے اور اس کے لئے دعا بھی کی جاوے.سورة البلد البدر جلد ۳ نمبر ۲۶ مورخه ۸ / جولائی ۱۹۰۴ ء صفحه ۴) اس شکایت پر کہ جماعت میں طاعون سے کوئی مرجاوے تو جنازہ اُٹھانے والا کوئی نہیں ملتا فرمایا ) یا درکھو تم میں اس وقت دو اخوتیں جمع ہو چکی ہیں ایک تو اسلامی اخوت اور دوسری اس سلسلہ کی اخوت ہے.پھر ان دو اخوتوں کے ہوتے ہوئے گریز اور سرد مہری ہو تو یہ سخت قابل اعتراض امر ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایسے مسافر اپنے گھروں میں ہوتے تو وہ جو خارج از مذہب سمجھتے ہیں اور کافر کہتے ہیں ان میں بھی اس قسم کی سرد مہری نہ ہوتی.لیکن یہ سرد مہری کیوں ہوتی ہے.دو باتوں کا لحاظ نہیں رکھا جاتا افراط اور تفریط کا.اگر افراط اور تفریط کو چھوڑ کر اعتدال سے کام لیا جاوے تو ایسی شکایت پیدا نہ ہو جبکہ تواصَوْا بِالْحَقِّ.وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ کا حکم ہے تو پھر ایسے مردوں سے گریز کیوں کیا جاوے ؟ اگر کسی کے مکان کو آگ لگ جاوے اور وہ پکار فریاد کرے تو جیسے یہ گناہ ہے کہ محض اس خیال سے کہ میں جل نہ جاؤں اس مکان کو اور اس میں رہنے والوں کو جلنے دے اور جا کر آگ بجھانے میں مدد نہ دے ویسے ہی یہ بھی معصیت ہے کہ ایسی بے احتیاطی سے اس میں کود پڑے کہ خود جل جاوے.ایسے موقع پر احتیاط مناسب کے ساتھ ضروری ہے کہ آگ بجھانے میں اس کی مدد کرے.پس اسی طریق پر یہاں بھی سلوک ہونا چاہیے اللہ تعالیٰ نے جا بجرم کی تعلیم دی ہے.یہی اخوت اسلامی کا منشاء ہے.اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر فرمایا ہے کہ تمام مسلمان مومن آپس میں بھائی ہیں.ایسی صورت میں کہ تم میں اسلامی اخوت قائم ہو اور پھر اس سلسلہ میں ہونے کی وجہ سے دوسری اخوت بھی ساتھ ہو یہ بڑی غلطی ہوگی کہ کوئی شخص مصیبت میں گرفتار ہو اور قضاء و قدر سے اسے ماتم پیش آجاوے تو دوسرا تجہیز و تکفین میں بھی اس کا شریک نہ ہو.ہرگز ہرگز اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء نہیں ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ جنگ میں شہید ہوتے یا مجروح ہو جاتے تو میں یقین نہیں رکھتا کہ صحابہ انہیں چھوڑ کر چلے جاتے ہوں یا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اس بات پر راضی ہو جاتے کہ وہ ان کو چھوڑ کر چلے جاویں.میں سمجھتا ہوں کہ ایسی وارداتوں کے وقت ہمدردی بھی ہوسکتی ہے اور احتیاط مناسب بھی عمل میں لائی جاسکتی ہے.اول تو کتاب اللہ سے یہ مسئلہ ملتا ہی نہیں کہ کوئی مرض لازمی طور پر دوسرے کو لگ بھی جاتی ہے.ہاں جس قدر تجارب سے معلوم ہوتا ہے اس کے لئے بھی نص قرآنی سے احتیاط مناسب کا پتہ لگتا ہے جہاں ایسا مرکز وہا کا ہو کہ وہ شدت سے

Page 286

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۹ سورة البلد پھیلی ہوئی ہو وہاں احتیاط کرے لیکن اس کے بھی یہ معنی نہیں کہ انسان ایک میت سے اس قدر بعد اختیار کرے کہ میت کی ذلت ہو اور پھر اس کے ساتھ ساری جماعت کی ذلت ہو آئندہ خوب یاد رکھو کہ ہرگز اس بات کو نہیں کرنا چاہیے جبکہ خدا تعالیٰ نے تمہیں باہم بھائی بنا دیا ہے پھر نفرت اور بعد کیوں ہے؟ اگر وہ بھی مرے گا تو اس کی بھی کوئی خبر نہ لے گا اور اس طرح پر اخوت کے حقوق تلف ہو جائیں گے.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۵ مورخه ۱٫۳۰ پریل ۱۹۰۵ صفحه ۲)

Page 287

Page 288

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ ۲۶۱ سورة الشمس بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الشمس بیان فرموده سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَالشَّمْسِ وَضُحْهَا وَالْقَمَرِ إِذَا تَلهَا وَالنَّهَارِ إِذَا جَلْهَاقُ وَالَّيْلِ إِذَا يَغْشَهَانَ وَالسَّمَاءِ وَ مَا بَنْهَاتٌ وَالْأَرْضِ وَمَا طَحيهَاتٌ وَنَفْسٍ وَمَا سويهَا فَالْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْويهَا قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَتهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَشْهَاهُ كَذَبَتْ ثَمُودُ بِطَغُوبِهَا إِذا نَبَعَثَ اشْقَهَاقُ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ نَاقَةَ اللهِ وَسُقيهَا فَكَذَّبُوهُ فَعَقَرُوهَا فَدَمُدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُمْ بِذَنْبِهِمْ فَسَوهَا وَلَا يَخَافُ عُقْبُهَا قسم ہے سورج کی اور اس کی دھوپ کی اور قسم ہے چاند کی جب وہ سورج کی پیروی کرے اور قسم ہے دن کی جب اپنی روشنی کو ظاہر کرے اور قسم ہے اس رات کی جو بالکل تاریک ہو اور قسم ہے زمین کی اور اُس کی جس نے اسے بچھایا اور قسم ہے انسان کے نفس کی اور اس کی جس نے اسے اعتدال کامل اور وضع استقامت کے جمیع کمالات متفرقہ عنایت کئے اور کسی کمال سے محروم نہ رکھا بلکہ سب کمالات متفرقہ جو پہلی قسموں کے نیچے ذکر کئے گئے ہیں اس میں جمع کر دی اس طرح پر کہ انسان کامل کا نفس آفتاب اور اس کی دھوپ کا بھی کمال اپنے اندر رکھتا ہے اور چاند کے خواص بھی اس میں پائے جاتے ہیں کہ وہ اکتساب فیض دوسرے سے کر سکتا ہے اور ایک

Page 289

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۲ سورة الشمس نور سے بطور استفادہ اپنے اندر بھی نور لے سکتا ہے اور اُس میں روز روشن کے بھی خواص موجود ہیں کہ جیسے محنت اور مزدوری کرنے والے لوگ دن کی روشنی میں کما حقہ اپنے کاروبار کو انجام دے سکتے ہیں ایسا ہی حق کے طالب اور سلوک کی راہوں کو اختیار کرنے والے انسان کامل کے نمونہ پر چل کر بہت آسانی اور صفائی سے اپنی مہمات دینیہ کو انجام دیتے ہیں سو وہ دن کی طرح اپنے تئیں بکمال صفائی ظاہر کر سکتا ہے اور ساری خاصیتیں دن کی اپنے اندر رکھتا ہے.اندھیری رات سے بھی انسان کامل کو ایک مشابہت ہے کہ وہ باوجود غایت درجہ کے انقطاع اور تجمل کے جو اُس کو منجانب اللہ حاصل ہے یہ حکمت و مصلحت الہی اپنے نفس کی ظلمانی خواہشوں کی طرف بھی کبھی کبھی متوجہ ہو جاتا ہے یعنی جو جو نفس کے حقوق انسان پر رکھے گئے ہیں جو بظاہر نورانیت کے مخالف اور مزاحم معلوم ہوتے ہیں جیسے کھانا پینا سونا اور بیوی کے حقوق ادا کرنا یا بچوں کی طرف التفات کرنا یہ سب حقوق بجالاتا ہے اور کچھ تھوڑی دیر کے لئے اس تاریکی کو اپنے لئے پسند کر لیتا ہے نہ اس وجہ سے کہ اس کو حقیقی طور پر تاریکی کی طرف میلان ہے بلکہ اس وجہ سے کہ خود خداوند علیم و حکیم اس کو اس طرف توجہ بخشتا ہے تا روحانی تعب و مشقت سے کسی قدر آرام پا کر پھر ان مجاہدات شاقہ کے اٹھانے کے لئے تیار ہو جائے جیسا کہ کسی کا شعر ہے چشم شہباز کاردانانِ شکار از بهر کشادن ست گردوخته اند سواسی طرح یہ کامل لوگ جب غایت درجہ کی کوفت خاطر اور گدازش اور ہم و غم کے نعلبہ کے وقت کسی قدر حظوظ نفسانیہ سے تمتع حاصل کر لیتے ہیں تو پھر جسم نا تواں ان کا روح کی رفاقت کے لئے از سر نو قوی اور توانا ہو جاتا ہے اور اس تھوڑی سی مجو بیت کی وجہ سے بڑے بڑے مراحل نورانی طے کر جاتا ہے اور ماسوا اس سے نفس انسان میں رات کے اور دوسرے خواص دقیقہ بھی پائے جاتے ہیں جن کو علم ہیئت اور نجوم اور طبعی کی باریک نظر نے دریافت کیا ہے ایسا ہی انسان کامل کے نفس کو آسمان سے بھی مشابہت ہے مثلاً جیسے آسمان کا پول اس قدر وسیع اور کشادہ ہے کہ کسی چیز سے پر نہیں ہو سکتا ایسا ہی ان بزرگوں کا نفس ناطقہ غایت درجہ کی وسعتیں اپنے اندر رکھتا ہے اور باوجود ہزار ہا معارف و حقائق کے حاصل کرنے کے پھر بھی ماعرفناك کا نعرہ مارتا ہی رہتا ہے اور جیسے آسمان کا پول روشن ستاروں سے پر ہے ایسا ہی نہایت روشن قومی اس میں بھی رکھے گئے ہیں کہ جو آسمان کے ستاروں کی طرح چمکتے ہوئے نظر آتے ہیں.ایسا ہی انسان کامل کے نفس کو زمین سے بھی کامل مشابہت ہے یعنی جیسا کہ عمدہ اور اول درجہ کی زمین یہ خاصیت رکھتی ہے کہ جب اُس میں تخم ریزی کی جائے اور پھر خوب قلبہ رانی

Page 290

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۳ سورة الشمس اور آبپاشی ہو اور تمام مراتب محنت کشاورزی کے اس پر پورے کر دیئے جائیں تو وہ دوسری زمینوں کی نسبت ہزار گونہ زیادہ پھل لاتی ہے اور نیز اس کا پھل بہ نسبت اور پھلوں کے نہایت لطیف اور شیریں ولذیذ اور اپنی کمیت و کیفیت میں انتہائی درجہ تک بڑھا ہوا ہوتا ہے اسی طرح انسان کامل کے نفس کا حال ہے کہ احکام الہی کی تخم ریزی سے عجیب سرسبزی لے کر اس کے اعمال صالحہ کے پودے نکلتے ہیں اور ایسے عمدہ اور غایت درجہ کے لذیذ اس کے پھل ہوتے ہیں کہ ہر یک دیکھنے والے کو خدائے تعالیٰ کی پاک قدرت یاد آ کر سبحان اللہ سبحان اللہ کہنا پڑتا ہے سو یہ آیت وَ نَفْس وَمَا سَوبھا.صاف طور پر بتلا رہی ہے کہ انسان کامل اپنے معنے اور کیفیت کے رو سے ایک عالم ہے اور عالم کبیر کے تمام شیون وصفات و خواص اجمالی طور پر اپنے اندر جمع رکھتا ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ نے شمس کی صفات سے شروع کر کے زمین تک جو ہماری سکونت کی جگہ ہے سب چیزوں کے خواص اشارہ کے طور پر بیان فرمائے یعنی بطور قسموں کے ان کا ذکر کیا بعد اس کے انسان کامل کے نفس کا ذکر فرمایا تا معلوم ہو کہ انسان کامل کا نفس ان تمام کمالات متفرقہ کا جامع ہے جو پہلی چیزوں میں جن کی قسمیں کھائی گئیں الگ الگ طور پر پائی جاتی ہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ خدائے تعالیٰ نے ان اپنی مخلوق چیزوں کی جو اس کے وجود کے مقابل پر بے بنیاد و بیچ ہیں کیوں قسمیں کھا ئیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ تمام قرآن شریف میں یہ ایک عام عادت وسنت الہی ہے کہ وہ بعض نظری امور کے اثبات و احقاق کے لئے ایسے امور کا حوالہ دیتا ہے جو اپنے خواص کا عام طور پر بنین اور کھلا کھلا اور بدیہی ثبوت رکھتے ہیں جیسا کہ اس میں کسی کو بھی شک نہیں ہو سکتا کہ سورج موجود ہے اور اس کی دھوپ بھی ہے اور چاند موجود ہے اور وہ نور آفتاب سے حاصل کرتا ہے اور روز روشن بھی سب کو نظر آتا ہے اور رات بھی سب کو دکھائی دیتی ہے اور آسمان کا پول بھی سب کی نظر کے سامنے ہے اور زمین تو خود انسانوں کی سکونت کی جگہ ہے اب چونکہ یہ تمام چیزیں اپنا اپنا کھلا کھلا وجود اور کھلے کھلے خواص رکھتی ہیں جن میں کسی کو کلام نہیں ہو سکتا اور نفس انسان کا ایسی چھپی ہوئی اور نظری چیز ہے کہ خود اُس کے وجود میں ہی صد ہا جھگڑے بر پا ہو رہے ہیں.بہت سے فرقے ایسے ہیں کہ وہ اس بات کو مانتے ہی نہیں کہ نفس یعنی روح انسان بھی کوئی مستقل اور قائم بالذات چیز ہے جو بدن کی مفارقت کے بعد ہمیشہ کے لئے قائم رہ سکتی ہے اور جو بعض لوگ نفس کے وجود اور اس کی بقا اور ثبات کے قائل ہیں وہ بھی اُس کی باطنی استعدادات کا وہ قدر نہیں کرتے جو کرنا چاہیے تھا بلکہ بعض تو اتنا ہی سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم صرف اسی غرض کے لئے دنیا میں آئے ہیں کہ

Page 291

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۴ سورة الشمس حیوانات کی طرح کھانے پینے اور حظوظ نفسانی میں عمر بسر کریں وہ اس بات کو جانتے بھی نہیں کہ نفس انسانی کس قدر اعلیٰ درجہ کی طاقتیں اور قوتیں اپنے اندر رکھتا ہے اور اگر وہ کسب کمالات کی طرف متوجہ ہو تو کیسے تھوڑے ہی عرصہ میں تمام عالم کے متفرق کمالات و فضائل و انواع پر ایک دائرہ کی طرح محیط ہو سکتا ہے.سو اللہ جل شانہ نے اس سورہ مبارکہ میں نفس انسان اور پھر اس کے بے نہایت خواص فاضلہ کا ثبوت دینا چاہا ہے پس اول اس نے خیالات کو رجوع دلانے کے لئے شمس اور قمر وغیرہ چیزوں کے متفرق خواص بیان کر کے پھر نفس انسان کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ جامع ان تمام کمالات متفرقہ کا ہے اور جس حالت میں نفس انسان میں ایسے اعلیٰ درجہ کے کمالات و خاصیات یہ تمامہا موجود ہیں جو اجرام سماویہ اور ارضیہ میں متفرق طور پر پائے جاتے ہیں تو کمال درجہ کی نادانی ہوگی کہ ایسے عظیم الشان اور ستجمع کمالات متفرقہ کی نسبت یہ وہم کیا جائے کہ وہ کچھ بھی چیز نہیں جو موت کے بعد باقی رہ سکے یعنی جب کہ یہ تمام خواص جوان مشهود ومحسوس چیزوں میں ہیں جن کا مستقل وجود ماننے میں تمہیں کچھ کلام نہیں یہاں تک کہ ایک اندھا بھی دھوپ کا احساس کر کے آفتاب کے وجود کا یقین رکھتا ہے.نفس انسان میں سب کے سب یکجائی طور پر موجود ہیں تو نفس کے مستقل اور قائم بالذات وجود میں تمہیں کیا کلام باقی ہے کیا ممکن ہے کہ جو چیز اپنی ذات میں کچھ بھی نہیں وہ تمام موجود بالذات چیزوں کے خواص جمع رکھتی ہو اور اس جگہ قسم کھانے کی طرز کو اس وجہ سے اللہ جل شانہ نے پسند کیا ہے کہ قسم قائم مقام شہادت کے ہوتی ہے.اسی وجہ سے حکام مجازی بھی جب دوسرے گواہ موجود نہ ہوں تو قسم پر انحصار کر دیتے ہیں اور ایک مرتبہ کی قسم سے وہ فائدہ اٹھا لیتے ہیں جو کم سے کم دو گواہوں سے اٹھا سکتے ہیں سوچونکہ عقلاً وعرفا وقانونا وشر عاقسم شاہد کے قائم مقام کبھی جاتی ہے لہذا اسی بنا پر خدائے تعالیٰ نے اس جگہ شاہد کے طور پر اس کو قرار دے دیا ہے پس خدائے تعالیٰ کا یہ کہنا ہے کہ قسم ہے سورج کی اور اس کی دھوپ کی در حقیقت اپنے مرادی معنے یہ رکھتا ہے کہ سورج اور اس کی دھوپ یہ دونوں نفس انسان کے موجود بالذات اور قائم بالذات ہونے کے شاہد حال ہیں کیونکہ سورج میں جو جو خواص گرمی اور روشنی وغیرہ پائے جاتے ہیں یہی خواص معہ شے زائد انسان کے نفس میں بھی موجود ہیں.مکاشفات کی روشنی اور توجہ کی گرمی جو نفوس کا ملہ میں پائی جاتی ہے اس کے عجائبات سورج کی گرمی اور روشنی سے کہیں بڑھ کر ہیں سو جب کہ سورج موجود بالذات ہے تو جو خواص میں اس کا ہم مثل اور ہم پلہ ہے بلکہ اس سے بڑھ کر یعنی نفس انسان وہ کیوں کر موجود بالذات نہ ہو گا.اسی طرح خدائے تعالیٰ کا یہ کہنا کہ قسم ہے چاند

Page 292

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۵ سورة الشمس کی جب وہ سورج کی پیروی کرے.اس کے مرادی معنے یہ ہیں کہ چاند اپنی اس خاصیت کے ساتھ کہ وہ سورج سے بطور استفادہ نور حاصل کرتا ہے نفس انسان کے موجود بالذات اور قائم بالذات ہونے پر شاہد حال ہے کیونکہ جس طرح چاند سورج سے اکتساب نور کرتا ہے اسی طرح نفس انسان کا جو مستعد اور طالب حق ہے ایک دوسرے انسان کامل کی پیروی کر کے اس کے نور میں سے لے لیتا ہے اور اس کے باطنی فیض سے فیضیاب ہو جاتا ہے بلکہ چاند سے بڑھ کر استفادہ نور کرتا ہے کیونکہ چاند تو نور کو حاصل کر کے پھر چھوڑ بھی دیتا ہے مگر یہ کبھی نہیں چھوڑتا.پس جبکہ استفادہ نور میں یہ چاند کا شریک غالب ہے اور دوسری تمام صفات اور خواص چاند کے اپنے اندر رکھتا ہے تو پھر کیا وجہ کہ چاند کو تو موجود بالذات اور قائم بالذات مانا جائے مگر نفس انسان کے مستقل طور پر موجود ہونے سے بکلی انکار کر دیا جائے.غرض اسی طرح خدائے تعالی نے ان تمام چیزوں کو جن کا ذکر نفس انسان کی پہلے قسم کھا کر کیا گیا ہے اپنے خواص کے رو سے شواہد اور ناطق گواہ قرار دے کر اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ نفس انسان واقعی طور پر موجود ہے اور اسی طرح ہر یک جگہ جو قرآن شریف میں بعض بعض چیزوں کی قسمیں کھائی ہیں ان قسموں سے ہر جگہ یہی مدعا اور مقصد ہے کہ تا امر بدیہہ کو اسرار مخفیہ کے لئے جو ان کے ہم رنگ ہیں بطور شواہد کے پیش کیا جائے لیکن اس جگہ یہ سوال ہوگا کہ جو نفس انسان کے موجود بالذات ہونے کے لئے قسموں کے پیرا یہ میں شواہد پیش کئے گئے ہیں ان شواہد کے خواص بدیہی طور پر نفس انسان میں کہاں پائے جاتے ہیں اور اس کا ثبوت کیا ہے کہ پائے جاتے ہیں.اس وہم کے رفع کرنے کے لئے اللہ جل شانہ اس کے بعد فرماتا ہے فَالْهَمَهَا فُجُورَهَا وَ تَقُويهَا قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَتهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَشْهَا - يعنی خدائے تعالیٰ نے نفس انسان کو پیدا کر کے ظلمت اور نورانیت اور ویرانی اور سرسبزی کی دونوں راہیں اس کے لئے کھول دی ہیں جو شخص ظلمت اور فجور یعنی بدکاری کی راہیں اختیار کرے تو اس کو ان راہوں میں ترقی کے کمال درجہ تک پہنچایا جاتا ہے یہاں تک کہ اندھیری رات سے اس کی سخت مشابہت ہو جاتی ہے اور بجر معصیت اور بدکاری اور پر ظلمت خیالات کے اور کسی چیز میں اس کو مزہ نہیں آتا.ایسے ہی ہم صحبت اس کو اچھے معلوم ہوتے ہیں اور ایسے ہی شغل اس کے جی کو خوش کرتے ہیں اور اس کی بدطبیعت کے مناسب حال بدکاری کے الہامات اس کو ہوتے رہتے ہیں یعنی ہر وقت بدچلنی اور بدمعاشی کے ہی خیالات اس کو سوجھتے ہیں کبھی اچھے خیالات اس کے دل میں پیدا ہی نہیں ہوتے اور اگر پرہیز گاری کا نورانی راستہ اختیار کرتا ہے تو اس نور کو مدد دینے والے الہام اس کو ہوتے

Page 293

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۶ سورة الشمس رہتے ہیں یعنی خدائے تعالی اس کے دلی نور کو جو تم کی طرح اس کے دل میں موجود ہے اپنے الہامات خاصہ سے کمال تک پہنچا دیتا ہے اور اس کے روشن مکاشفات کی آگ کو افروختہ کر دیتا ہے تب وہ اپنے چمکتے ہوئے نور کو دیکھ کر اور اس کے افاضہ اور استفاضہ کی خاصیت کو آزما کر پورے یقین سے سمجھ لیتا ہے کہ آفتاب اور ماہتاب کی نورانیت مجھ میں بھی موجود ہے اور آسمان کے وسیع اور بلند اور پر کواکب ہونے کے موافق میرے سینہ میں بھی انشراح صدر اور عالی ہمتی اور دل اور دماغ میں ذخیرہ روشن قوی کا موجود ہے جو ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں تب اسے اس بات کے سمجھنے کے لئے اور کسی خارجی ثبوت کی کچھ بھی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس کے اندر سے ہی ایک کامل ثبوت کا چشمہ ہر وقت جوش مارتا ہے اور اس کے پیاسے دل کو سیراب کرتا رہتا ہے اور اگر یہ سوال پیش ہو کہ سلوک کے طور پر کیوں کر ان نفسانی خواص کا مشاہدہ ہو سکے تو اس کے جواب میں اللہ جل شانہ فرماتا ہے.قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكْهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دشها یعنی جس شخص نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا اور بکلی رذائل اور اخلاق ذمیمہ سے دست بردار ہو کر خدائے تعالیٰ کے حکموں کے نیچے اپنے تئیں ڈال دیا وہ اس مراد کو پہنچے گا اور اپنا نفس اس کو عالم صغیر کی طرح کمالات متفرقہ کا مجمع نظر آئے گا لیکن جس شخص نے اپنے نفس کو پاک نہیں کیا بلکہ بے جا خواہشوں کے اندر گاڑ دیا وہ اس مطلب کے پانے سے نامرادر ہے گا ماحصل اس تقریر کا یہ ہے کہ بلاشبہ نفس انسان میں وہ متفرق کمالات موجود ہیں جو تمام عالم میں پائے جاتے ہیں اور ان پر یقین لانے کے لئے یہ ایک سیدھی راہ ہے کہ انسان حسب منشائے قانون الہی تزکیہ نفس کی طرف متوجہ ہو.کیوں کہ تزکیہ نفس کی حالت میں نہ صرف علم الیقین بلکہ حق الیقین کے طور پر ان کمالات مخفیہ کی سچائی کھل جائے گی.پھر بعد اس کے اللہ جل شانہ ایک مثال کے طور پر شمود کی قوم کا ذکر کر کے فرماتا ہے کہ انہوں نے باعث اپنی جبلی سرکشی کے اپنے وقت کے نبی کو جھٹلایا اور اس تکذیب کے لئے ایک بڑا بد بخت ان میں سے پیش قدم ہوا.اس وقت کے رسول نے انہیں نصیحت کے طور پر کہا کہ ناقۃ اللہ یعنی خدائے تعالیٰ کی اونٹنی اور اُس کے پانی پینے کی جگہ کا تعرض مت کرو مگر انہوں نے نہ مانا اور اونٹنی کے پاؤں کاٹے.سو اس جرم کی شامت سے اللہ تعالیٰ نے ان پر موت کی مار ڈالی اور انہیں خاک سے ملا دیا اور خدائے تعالیٰ نے اس بات کی کچھ بھی پرواہ نہ کی کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں اور بے کس عیال کا کیا حال ہو گا.یہ ایک نہایت لطیف مثال ہے جو خدائے تعالیٰ نے انسان کے نفس کو ناقہ اللہ سے مشابہت دینے کے لئے اس جگہ لکھی ہے.مطلب یہ ہے کہ

Page 294

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۷ سورة الشمس انسان کا نفس بھی در حقیقت اسی غرض کے لئے پیدا کیا گیا ہے کہ تا وہ ناقتہ اللہ کا کام دیوے.اس کے فنافی اللہ ہونے کی حالت میں خدائے تعالیٰ اپنی پاک تجلی کے ساتھ اس پر سوار ہو جیسے کوئی اونٹنی پر سوار ہوتا ہے.سونفس پرست لوگوں کو جو حق سے منہ پھیر رہے ہیں تہدید اور انذار کے طور پر فرمایا کہ تم لوگ بھی قوم ثمود کی طرح ناقتہ اللہ کا سُفیا یعنی اس کے پانی پینے کی جگہ جو یاد الہی اور معارف الہی کا چشمہ ہے جس پر اس ناقہ کی زندگی موقوف ہے اُس پر بند کر رہے ہو اور نہ صرف بند بلکہ اس کے پیر کاٹنے کی فکر میں ہوتا وہ خدائے تعالیٰ کی راہوں پر چلنے سے بالکل رہ جائے سو اگر تم اپنی خیر مانگتے ہو تو وہ زندگی کا پانی اُس پر بند مت کر دو اور اپنی بے جا خواہشوں کے تیر و تبر سے اس کے پیر مت کاٹو اگر تم ایسا کرو گے اور وہ ناقہ جو خدائے تعالی کی سواری کے لئے تم کو دی گئی ہے مجروح ہو کر مر جائے گی تو تم بالکل سکتے اور خشک لکڑی کی طرح متصور ہو کر کاٹ دیئے جاؤ گے اور پھر آگ میں ڈالے جاؤ گے اور تمہارے مرنے کے بعد خدائے تعالیٰ تمہارے پس ماندوں پر ہرگز رحم نہیں کرے گا بلکہ تمہاری معصیت اور بدکاری کا وبال ان کے بھی آگے آئے گا اور نہ صرف تم اپنی شامت اعمال سے مرو گے بلکہ اپنے عیال و اطفال کو بھی اسی تباہی میں ڈالو گے.ان آیات بینات سے صاف صاف ثابت ہو گیا کہ خداوند کریم نے انسان کو سب مخلوقات سے بہتر اور افضل بنایا ہے اور ملائک اور کواکب اور عناصر وغیرہ جو کچھ انسان میں اور خدائے تعالیٰ میں بطور وسائط کے دخیل ہو کر کام کر رہے ہیں وہ اُن کا درمیانی واسطہ ہونا ان کی افضلیت پر دلالت نہیں کرتا اور وہ اپنے درمیانی ہونے کی وجہ سے انسان کو کوئی عزت نہیں بخشتے بلکہ خود ان کو عزت حاصل ہوتی ہے کہ وہ ایسی شریف مخلوق کی خدمت میں لگائے گئے ہیں سو در حقیقت وہ تمام خادم ہیں نہ مخدوم.توضیح مرام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۷۷ تا ۸۵) سورج بحکمت کاملہ الہی سات سو تیس تعینات میں اپنے تئیں متشکل کر کے دنیا پر مختلف قسموں کی تاثیرات ڈالتا ہے اور ہر یک متشکل کی وجہ سے ایک خاص نام اُس کو حاصل ہے اور یکشنبه دوشنبہ سہ شنبہ وغیرہ در حقیقت باعتبار خاص خاص تعینات و لوازم و تاثیرات کے سورج کے ہی نام ہیں جب یہ لوازم خاصہ بولنے کے وقت ذہن میں ملحوظ نہ رکھے جائیں اور صرف مجرد اور اطلاقی حالت میں نام لیا جائے تو اس وقت سورج کہیں گے لیکن جب اسی سورج کے خاص خاص لوازم اور تاثیرات اور مقامات ذہن میں ملحوظ رکھ کر بولیں گے تو اس کو کبھی دن کہیں گے اور کبھی رات کبھی اس کا نام اتوار رکھیں گے اور کبھی پیر اور کبھی سانوں اور کبھی بھادوں کبھی

Page 295

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۸ سورة الشمس اسوج کبھی کا تک.غرض یہ سب سورج کے ہی نام ہیں اور نفس انسان بھی باعتبار مختلف تعینات اور مختلف اوقات و مقامات و حالات مختلف ناموں سے موسوم ہو جاتا ہے کبھی نفس زکیہ کہلاتا ہے اور کبھی انارہ کبھی تو امہ تا ہے اور کبھی مطمعنہ.غرض اس کے بھی اتنے ہی نام ہیں جس قدر سورج کے مگر بخوف طول اسی قدر بیان کرنا کافی سمجھا گیا.توضیح مرام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۷۷ ۷۸ حاشیہ ) قسم ہے سورج کی اور اس کی روشنی کی اور قسم ہے چاند کی جب پیروی کرے سورج کی یعنی سورج سے نور حاصل کرے اور پھر سورج کی طرح اس نور کو دوسروں تک پہنچا دے اور قسم ہے دن کی جب سورج کی صفائی دکھاوے اور راہوں کو نمایاں کرے اور قسم ہے رات کی جب اندھیرا کرے اور اپنے پر دہ تاریکی میں سب کو پردہ لے لے اور قسم ہے آسمان کی اور اس علت غائی کی جو آسمان کی اس بنا کا موجب ہوئی اور قسم ہے زمین کی اور اس علت غائی کی جوزمین کے اس قسم کے فرش کا موجب ہوئی اور قسم ہے نفس کی اور نفس کے اس کمال کی جس نے ان سب چیزوں کے ساتھ اس کو برابر کر دیا.یعنی وہ کمالات جو متفرق طور پر ان چیزوں میں پائے جاتے ہیں کامل انسان کا نفس ان سب کو اپنے اندر جمع رکھتا ہے اور جیسے یہ تمام چیزیں علیحدہ علیحدہ نوع انسان کی خدمت کر رہی ہیں.کامل انسان ان تمام خدمات کو اکیلا بجالاتا ہے.جیسا کہ میں ابھی لکھ چکا ہوں.اور پھر فرماتا ہے کہ وہ شخص نجات پا گیا اور موت سے بچ گیا جس نے اس طرح پر نفس کو پاک کیا یعنی سورج اور چاند اور زمین وغیرہ کی طرح خدا میں محو ہو کر خلق اللہ کا خادم بنا.یادر ہے کہ حیات سے مراد حیات جاودانی ہے جو آئندہ کامل انسان کو حاصل ہوگی.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عملی شریعت کا پھل آئندہ زندگی میں حیات جاودانی ہے جو خدا کے دیدار کی غذا سے ہمیشہ قائم رہے گی اور پھر فرمایا کہ وہ شخص ہلاک ہو گیا اور زندگی سے نا امید ہو گیا جس نے اپنے نفس کو خاک میں ملا دیا اور جن کمالات کی اس کو استعداد میں دی گئی تھیں ان کمالات کو حاصل نہ کیا اور گندی زندگی بسر کر کے واپس گیا.اور پھر مثال کے طور پر فرمایا کہ شمود کا قصہ اس بدبخت کے قصہ سے مشابہ ہے.انہوں نے اس اونٹنی کو زخمی کیا جو خدا کی اوٹنی کہلاتی تھی اور اپنے چشمہ سے پانی پینے سے اس کو روکا.سواس شخص نے درحقیقت خدا کی اونٹنی کو زخمی کیا اور اس کو اس چشمہ سے محروم رکھا.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کا نفس خدا کی اونٹنی ہے جس پر وہ سوار ہوتا ہے یعنی انسان کا دل انہی تجلیات کی جگہ ہے اور اس اونٹنی کا پانی خدا کی محبت اور معرفت ہے جس سے وہ جیتی ہے اور پھر فرمایا کہ حمود نے جب اونٹنی کو زخمی کیا اور اس کو اس کے پانی سے روکا تو ان پر

Page 296

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۹ سورة الشمس عذاب نازل ہوا.اور خدا تعالیٰ نے اس بات کی کچھ بھی پرواہ نہ کی کہ ان کے مرنے کے بعد ان کے بچوں اور بیواؤں کا کیا حال ہوگا.سو ایسا ہی جو شخص اس اونٹنی یعنی نفس کو زخمی کرتا ہے اور اس کو کمال تک پہنچانا نہیں چاہتا اور پانی پینے سے روکتا ہے وہ بھی ہلاک ہوگا.اس جگہ یہ بھی یادر ہے کہ خدا کا سورج اور چاند وغیرہ کی قسم کھانا ایک نہایت دقیق حکمت پر مشتمل ہے جس سے ہمارے اکثر مخالف ناواقف ہونے کی وجہ سے اعتراض کر بیٹھتے ہیں کہ خدا کو قسموں کی کیا ضرورت پڑی اور اس نے مخلوق کی کیوں قسمیں کھا ئیں.لیکن چونکہ ان کی سمجھ زمینی ہے نہ آسمانی اس لئے وہ معارف حقہ کو سمجھ نہیں سکتے.سو واضح ہو کہ قسم کھانے سے اصل مدعا یہ ہوتا ہے کہ قسم کھانے والا اپنے دعوے کے لئے ایک گواہی پیش کرنا چاہتا ہے کیونکہ جس کے دعوے پر اور کوئی گواہ نہیں ہوتا وہ بجائے گواہ کے خدا تعالیٰ کی قسم کھاتا ہے اس لئے کہ خدا عالم الغیب ہے اور ہر ایک مقدمہ میں وہ پہلا گواہ ہے.گویا وہ خدا کی گواہی اس طرح پیش کرتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ اس قسم کے بعد خاموش رہا اور اس پر عذاب نازل نہ کیا تو گویا اس نے اس شخص کے بیان پر گواہوں کی طرح مہر لگا دی.اس لئے مخلوق کو نہیں چاہئے کہ دوسری مخلوق کی قسم کھاوے.کیونکہ مخلوق عالم الغیب نہیں اور نہ جھوٹی قسم پر سزادینے پر قادر ہے.مگر خدا کی قسم ان آیات میں ان معنوں سے نہیں جیسا کہ مخلوق کی قسم میں مراد لی جاتی ہے بلکہ اس میں یہ سنت اللہ ہے کہ خدا کے دو قسم کے کام ہیں، ایک بدیہی جوسب کی سمجھ میں آسکتے ہیں اور ان میں کسی کو اختلاف نہیں اور دوسرے وہ کام جو نظری ہیں جن میں دنیا غلطیاں کھاتی ہے اور باہم اختلاف رکھتی ہے سو خدا تعالیٰ نے چاہا کہ بدیہی کاموں کی شہادت سے نظری کاموں کو لوگوں کی نظر میں ثابت کرے.پس یہ تو ظاہر ہے کہ سورج اور چاند اور دن اور رات اور آسمان اور زمین میں وہ خواص درحقیقت پائے جاتے ہیں جن کو ہم ذکر کر چکے ہیں.مگر جو اس قسم کے خواص انسان کے نفس ناطقہ میں موجود ہیں ان سے ہر ایک شخص آگاہ نہیں.سوخدا نے اپنے بدیہی کاموں کو نظری کاموں کے کھولنے کے لئے بطور گواہ کے پیش کیا ہے.گویا وہ فرماتا ہے کہ اگر تم ان خواص سے شک میں ہو جو نفس ناطقہ انسانی میں پائے جاتے ہیں تو چاند اور سورج وغیرہ میں غور کرو کہ ان میں بدیہی طور پر یہ خواص موجود ہیں اور تم جانتے ہو کہ انسان ایک عالم صغیر ہے جس کے نفس میں تمام عالم کا نقشہ اجمالی طور پر مرکوز ہے.پھر جب کہ یہ ثابت ہے کہ عالم کبیر کے بڑے بڑے اجرام یہ خواص اپنے اندر رکھتے ہیں اور اسی طرح پر مخلوقات کو فیض پہنچا رہے ہیں تو انسان جو ان سب

Page 297

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۰ سورة الشمس سے بڑا کہلاتا ہے اور بڑے درجہ کا پیدا کیا گیا ہے وہ کیوں کر ان خواص سے خالی اور بے نصیب ہوگا.نہیں بلکہ اس میں بھی سورج کی طرح ایک علمی اور عقلی روشنی ہے جس کے ذریعہ سے وہ تمام دنیا کو منور کر سکتا ہے اور چاند کی طرح وہ حضرت اعلیٰ سے کشف اور الہام اور وحی کا نور پاتا ہے اور دوسروں تک جنہوں نے انسانی کمال ابھی تک حاصل نہیں کیا اس نور کو پہنچاتا ہے.پھر کیوں کر کہہ سکتے ہیں کہ نبوت باطل ہے اور تمام رسالتیں اور شریعتیں اور کتابیں انسان کی مکاری اور خود غرضی ہے.یہ بھی دیکھتے ہو کہ کیوں کر دن کے روشن ہونے سے تمام راہیں روشن ہو جاتی ہیں.تمام نشیب و فراز نظر آ جاتے ہیں.سو کامل انسان روحانی روشنی کا دن ہے.اس کے چڑھنے سے ہر ایک راہ نمایاں ہو جاتی ہے، وہ کچی راہ کو دکھلا دیتا ہے کہ کہاں اور کدھر ہے کیونکہ راستی اور سچائی کا وہی روز روشن ہے.ایسا ہی یہ بھی مشاہدہ کر رہے ہو کہ رات کیسی تھکوں ماندوں کو جگہ دیتی ہے.تمام دن کے شکستہ کوفتہ مزدور رات کے کنار عاطفت میں بخوشی سوتے ہیں اور محنتوں سے آرام پاتے ہیں اور رات ہر ایک کے لئے پردہ پوش بھی ہے.ایسا ہی خدا کے کامل بندے دنیا کو آرام دینے کے لئے آتے ہیں.خدا سے وحی اور الہام پانے والے تمام عقلمندوں کو جانکا ہی سے آرام دیتے ہیں.ان کے طفیل سے بڑے بڑے معارف آسانی کے ساتھ حل ہو جاتے ہیں.ایسا ہی خدا کی وحی انسانی عقل کی پردہ پوشی کرتی ہے جیسا کہ رات پردہ پوشی کرتی ہے.اس کی ناپاک خطاؤں کو دنیا پر ظاہر ہونے نہیں دیتی.کیونکہ منظمند وحی کی روشنی کو پا کر اندر ہی اندر اپنی غلطیوں کی اصلاح کر لیتے ہیں اور خدا کے پاک الہام کی برکت سے اپنے تئیں پردہ دری سے بچالیتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ افلاطون کی طرح اسلام کے کسی فلاسفر نے کسی بت پر مرغ کی قربانی نہ چڑھائی.چونکہ افلاطون الہام کی روشنی سے بے نصیب تھا.اس لئے دھوکا کھا گیا اور ایسا فلاسفر کہلا کر یہ مکروہ اور احمقانہ حرکت اس سے صادر ہوئی.مگر اسلام کے حکماء کو ایسی ناپاک اور احمقانہ حرکتوں سے ہمارے سید و مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نے بچالیا.اب دیکھو کیسا ثابت ہوا کہ الہام عقلمندوں کا رات کی طرح پردہ پوش ہے.یہ بھی آپ لوگ جانتے ہیں کہ خدا کے کامل بندے آسمان کی طرح ہر ایک درماندہ کو اپنے سایہ میں لے لیتے ہیں.خاص کر اس ذات پاک کے انبیاء اور الہام پانے والے عام طور پر آسمان کی طرح فیض کی بارشیں برساتے ہیں.ایسا ہی زمین کی خاصیت بھی اپنے اندر رکھتے ہیں.ان کے نفس نفیس سے طرح طرح کے علوم عالیہ کے درخت نکلتے ہیں.جن کے سایہ اور پھل اور پھول سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں.سو یہ کھلا کھلا.

Page 298

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۱ سورة الشمس قانون قدرت جو ہماری نظر کے سامنے ہے اس چھپے ہوئے قانون کا ایک گواہ ہے.جس کی گواہی کو قسموں کے پیرا یہ میں خدا تعالیٰ نے ان آیات میں پیش کیا ہے.سود دیکھو کہ یہ کس قدر پر حکمت کلام ہے جو قرآن شریف میں پایا جاتا ہے.یہ اس کے منہ سے نکلا ہے جو ایک امی اور بیابان کا رہنے والا تھا.اگر یہ خدا کا کلام نہ ہوتا تو اس طرح عام عقلیں اور وہ تمام لوگ جو تعلیم یافتہ کہلاتے ہیں اس کے اس دقیق نکتہ معرفت سے عاجز آ کر اعتراض کی صورت میں اس کو نہ دیکھتے.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ انسان جب ایک بات کو کسی پہلو سے بھی اپنی مختصر عقل کے ساتھ نہیں سمجھ سکتا تب ایک حکمت کی بات کو جائے اعتراض ٹھہرا لیتا ہے اور اس کا اعتراض اس بات کا گواہ ہو جاتا ہے کہ وہ دقیقہ حکمت عام عقلوں سے برتر و اعلیٰ تھا.تب ہی تو نظمندوں نے عقلمند کہلا کر پھر بھی اس پر اعتراض کر دیا.مگر اب جو یہ راز کھل گیا تو اب اس کے بعد کوئی عقلمند اس پر اعتراض نہیں کرے گا بلکہ اس سے لذت اٹھائے گا.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۲۴ تا ۴۲۸) چونکہ خدا تعالیٰ نے ابتداء سے یہی چاہا کہ اس کی مخلوقات یعنی نباتات جمادات حیوانات یہاں تک کہ اجرام علوی میں بھی تفاوت مراتب پایا جائے اور بعض مفیض اور بعض مستفیض ہوں اس لئے اس نے نوع انسان میں بھی یہی قانون رکھا اور اسی لحاظ سے دو طبقہ کے انسان پیدا کئے.اول وہ جو اعلیٰ استعداد کے لوگ ہیں جن کو آفتاب کی طرح بلا واسطہ ذاتی روشنی عطا کی گئی ہے.دوسرے وہ جو درجہ دوم کے آدمی ہیں جو اس آفتاب کے واسطہ سے نور حاصل کرتے ہیں اور خود بخود حاصل نہیں کر سکتے.ان دونوں طبقوں کے لئے آفتاب اور ماہتاب نہایت عمدہ نمونے ہیں جس کی طرف قرآن شریف میں ان لفظوں میں اشارہ فرمایا گیا ہے کہ وَالشَّمْسِ وَضُحَهَا وَالْقَمَر إذا تليها جیسا کہ اگر آفتاب نہ ہو تو ماہتاب کا وجود بھی ناممکن ہے.اسی طرح اگر انبیاء علیہم السلام نہ ہوں جو نفوس کا ملہ ہیں تو اولیاء کا وجود بھی حیرز امکان سے خارج ہے اور یہ قانون قدرت ہے جو آنکھوں کے سامنے نظر آ رہا ہے چونکہ خدا واحد ہے اس لئے اس نے اپنے کاموں میں بھی وحدت سے محبت کی اور کیا جسمانی اور کیا روحانی طور پر ایک وجود سے ہزاروں کو وجود بخشا ر ہا.سو انبیاء جو افراد کاملہ ہیں وہ اولیاء اور صلحاء کے روحانی باپ ٹھہرے جیسا کہ دوسرے لوگ ان کے جسمانی باپ ہوتے ہیں.اور اسی انتظام سے خدا تعالیٰ نے اپنے تئیں مخلوق پر ظاہر کیا تا اس کے کام وحدت سے باہر نہ جائیں اور انبیاء کو آپ ہدایت دے کر اپنی معرفت کا آپ موجب ہوا اور کسی نے اس پر یہ احسان نہیں کیا کہ اپنی عقل اور فہم سے اس کا پتہ لگا کر اس کو شہرت دی ہو بلکہ اس کا خود یہ احسان ہے کہ اس نے نبیوں کو بھیج کر آپ سوئی ہوئی خلقت

Page 299

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۲ سورة الشمس کو جگایا اور ہر ایک نے اس وراء الوراء اور لطف اور ادق ذات کا نام صرف نبیوں کے پاک الہام سے سنا اگر خدا تعالیٰ کے پاک نبی دنیا میں نہ آئے ہوتے تو فلاسفر اور جاہل جہل میں برابر ہوتے دانا کو دانائی میں ترقی کرنے کا موقعہ صرف نبیوں کی پاک تعلیم نے دیا.ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۱۹۰،۱۸۹) ہے سورج کی اور اس کی روشنی کی اور قسم ہے چاند کی جب سورج کی پیروی کرے یعنی چاند بہ پیروی کے کچھ بھی چیز نہیں اور اس کا نور سورج کے نور سے مستفاض ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کو کیسا ہی اپنے اندر استعداد رکھتا ہے مگر جب تک وہ کامل طور پر خدا کی اطاعت نہ کرے اُس کو کوئی نور نہیں ملتا.مگر افسوس ! کہ وید کو یہ بھی خبر نہیں کہ چاند اپنی روشنی سورج سے لیتا ہے اور اسی وجہ سے اُس نے برابر طور پر دونوں سورج اور چاند کو معبود ٹھہرایا ہے.(چشمہ معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۹۱،۲۹۰) جان کی قسم ہے اور اس ذات کی جس نے جان کو اپنی عبادت کے لئے ٹھیک ٹھیک بنایا.ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۳) یعنی ہر یک انسان کو ایک قسم کا خدا نے الہام عطا کر رکھا ہے جس کو نو ر قلب کہتے ہیں اور وہ یہ کہ نیک اور بد کام میں فرق کر لینا.جیسے کوئی چور یا خونی چوری یا خون کرتا ہے تو خدا اس کے دل میں اسی وقت ڈال دیتا ہے کہ تو نے یہ کام برا کیا اچھا نہیں کیا لیکن وہ ایسی القاء کی کچھ پرواہ نہیں رکھتا کیونکہ اس کا نور قلب نہایت ضعیف ہوتا ہے اور عقل بھی ضعیف اور قوت بہیمیہ غالب اور نفس طالب.( براہین احمد یہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۱۸۶ حاشیہ نمبر ۱۱) قرآن کریم میں اس کیفیت کے بیان کرنے کے لئے جو مکالمہ الہی سے تعبیر کی جاتی ہے الہام کا لفظ اختیار نہیں کیا گیا محض لغوی طور پر ایک جگہ الہام کا لفظ آیا ہے جیسا کہ فرماتا ہے فَالْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْويها - سواس کو مانحن فیه سے کچھ تعلق نہیں.اس کے تو صرف اس قدر معنی ہیں کہ خدائے تعالی بوجہ علت العلل ہونے کے بدوں کو اُن کے مناسب حال اور نیکوں کو اُن کے مناسب حال اُن کے جذبات نفسانی یا متقیانہ جوشوں کے موافق اپنے قانون قدرت کے حکم سے خیالات و تدابیر وحیل مطلوبہ کے ساتھ تائید دیتا ہے یعنی نئے نئے خیالات و جیل مطلوبہ اُن کو سوجھا دیتا ہے یا یہ کہ اُن کے ان جوشوں اور جذبوں کو بڑھاتا ہے اور یا یہ کہ اُن کے تختم مخفی کو ظہور میں لاتا ہے.مثلاً ایک چور اس خیال میں لگا رہتا ہے کہ کوئی عمدہ طریقہ نقب زنی کا اس کو معلوم ہو جائے تو اُس کو سوجھایا جاتا ہے.یا ایک متقی چاہتا ہے کہ وجہ حلال کی قوت کے لئے کوئی سبیل

Page 300

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۳ سورة الشمس مجھے حاصل ہو تو اس بارہ میں اس کو بھی کوئی طریق بتلایا جاتا ہے.سو عام طور پر اس کا نام الہام ہے جو کسی نیک بخت یا بد بخت سے خاص نہیں بلکہ تمام نوع انسان اور جمیع افراد بشر اس علیہ العلل سے مناسب حال اپنے اس الہام سے مستفیض ہورہے ہیں.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۹۸،۵۹۷) ایک یہ سوال ہے کہ جس حالت میں روح القدس انسان کو بدیوں سے روکنے کے لئے مقرر ہے تو پھر اس سے گناہ کیوں سرزد ہوتا ہے اور انسان کفر اور فسق اور فجور میں کیوں مبتلا ہو جاتا ہے.اس کا یہ جواب ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے ابتلا کے طور پر دو روحانی داعی مقرر کر رکھے ہیں.ایک داعی خیر جس کا نام روح القدس ہے اور ایک داعی شر جس کا نام ابلیس اور شیطان ہے.یہ دونوں داعی صرف خیر یا شر کی طرف بلاتے رہتے ہیں مگر کسی بات پر جبر نہیں کرتے جیسا کہ اس آیت کریمہ میں اسی امر کی طرف اشارہ ہے فَالْهَمَهَا فُجُورَهَا وَ تَقُوبِهَا - یعنی خدا بدی کا بھی الہام کرتا ہے اور نیکی کا بھی.بدی کے الہام کا ذریعہ شیطان ہے جو شرارتوں کے خیالات دلوں میں ڈالتا ہے اور نیکی کے الہام کا ذریعہ روح القدس ہے جو پاک خیالات دل میں ڈالتا ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ علت العلل ہے اس لئے یہ دونوں الہام خدا تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کر لئے کیونکہ اسی کی طرف سے یہ سارا انتظام ہے ورنہ شیطان کیا حقیقت رکھتا ہے جو کسی کے دل میں وسوسہ ڈالے اور روح القدس کیا چیز جو کسی کو تقویٰ کی راہوں کی ہدایت کرے.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۸۱٬۸۰ حاشیه ) بلاشبہ وہ تمام عمدہ باتیں جن سے انسانوں کو نفع پہنچتا ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے دل میں ڈالی جاتی ہیں جیسا کہ اللہ جل شانہ بھی در حقیقت اسی کی طرف اشارہ فرما کر کہتا ہے فَالْهَمَهَا فُجُورَهَا وَ تَقُوبِهَا یعنی بُری باتیں اور نیک باتیں جو انسانوں کے دلوں میں پڑتی ہیں وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی الہام ہوتی ہیں اچھا آدمی اپنی اچھی طبیعت کی وجہ سے اس لائق ہوتا ہے کہ اچھی باتیں اس کے دل میں پڑیں اور بڑا آدمی اپنی بُری طبیعت کی وجہ سے اس لائق ٹھہرتا ہے کہ بُرے خیالات اور بداندیشی کی تجویزیں اُس کے دل میں پیدا لائق ہوتی رہیں اور در حقیقت نیک انسان اس قسم کے الہامات کے حاصل کرنے کے لئے فطرتا ایک نیک ملکہ اپنے اندر رکھتا ہے اور بُرا انسان فطرتا ایک بڑا ملکہ رکھتا ہے چنانچہ اسی ملکہ فطرتی کی وجہ سے بہت سے لوگ اچھی اور بری تالیفیں اور پاک اور نا پاک ملفوظات اپنی یادگار چھوڑ گئے ہیں.بركات الدعا، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۰)

Page 301

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۴ سورة الشمس و شخص نجات پا گیا جس نے اپنی جان کو غیر کے خیال سے پاک کیا.اس آیت میں یہ نہیں کہا کہ جس نے اس محبوب کو اپنے اندر آباد کیا....حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ تو اندر میں خود آباد ہے صرف انسان کی طرف سے بوجہ التفات الى الغیر دوری ہے پس جس وقت غیر کی طرف سے التفات کو ہٹالیا تو خود اپنے اندر نورالہی کو مشاہدہ کر لے گا خدا دور نہیں ہے کہ کوئی اس طرف جاوے یا وہ اس طرف آوے بلکہ انسان اپنے حجاب سے آپ ہی اس سے دور ہے پس خدا فرماتا ہے کہ جس نے آئینہ دل کو صاف کر لیا وہ دیکھ لے گا کہ خدا اس کے پاس ہی ہے.ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۳) مذہب اُس زندگی کے حاصل کرنے کے لئے ہے جو خدا میں ہے اور وہ زندگی نہ کسی کو حاصل ہوئی اور نہ آئندہ ہوگی بجز اس کے کہ خدائی صفات انسان کے اندر داخل ہو جائیں.خدا کے لئے سب پر رحم کروتا آسمان سے تم پر رحم ہو.آؤ میں تمہیں ایک ایسی راہ سکھاتا ہوں جس سے تمہارا نو ر تمام نوروں پر غالب رہے اور وہ یہ ہے کہ تم تمام سفلی کینوں اور حسدوں کو چھوڑ دو اور ہمدر دنوع انسان ہو جاؤ اور خدا میں کھوئے جاؤ اور اس کے ساتھ اعلیٰ درجہ کی صفائی حاصل کرو کہ یہی وہ طریق ہے جس سے کرامتیں صادر ہوتی ہیں اور دعائیں قبول ہوتی ہیں اور فرشتے مدد کے لئے اُترتے ہیں.مگر یہ ایک دن کا کام نہیں ترقی کر و تر قی کرو.اُس دھوبی سے سبق سیکھو جو کپڑوں کو اول بھٹی میں جوش دیتا ہے اور دیئے جاتا ہے یہاں تک کہ آخر آگ کی تاثیریں تمام میل اور چرک کو کپڑوں سے علیحدہ کر دیتی ہیں.تب صبح اٹھتا ہے اور پانی پر پہنچتا ہے اور پانی میں کپڑوں کو تر کرتا ہے اور بار بار پتھروں پر مارتا ہے تب وہ میل جو کپڑوں کے اندر تھی اور اُن کا جز بن گئی تھی کچھ آگ سے صدمات اٹھا کر اور کچھ پانی میں دھوبی کے بازو سے مارکھا کر یکدفعہ جدا ہونی شروع ہو جاتی ہے یہاں تک کہ کپڑے ایسے سفید ہو جاتے ہیں جیسے ابتدا میں تھے.یہی انسانی نفس کے سفید ہونے کی تدبیر ہے اور تمہاری ساری نجات اس سفیدی پر موقوف ہے.یہی وہ بات ہے جو قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے قد أفلح من زكتها یعنی وہ نفس نجات پا گیا جو طرح طرح کے میلوں اور چرکوں سے پاک کیا گیا.گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۶،۱۵) قرآن شریف میں آیا ہے قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكتها اس نے نجات پائی جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا.تزکیہ نفس کے واسطے صحبت صالحین اور نیکوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنا بہت مفید ہے.جھوٹ وغیرہ اخلاق رذیلہ دور کرنے چاہئیں اور جو راہ پر چل رہا ہے اس سے راستہ پوچھنا چاہیے.اپنی غلطیوں کو ساتھ ساتھ درست کرنا

Page 302

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۵ سورة الشمس چاہیے جیسا کہ غلطیاں نکالنے کے بغیر املا درست نہیں ہوتا ویسا ہی غلطیاں نکالنے کے بغیر اخلاق بھی درست نہیں ہوتے آدمی ایسا جانور ہے کہ اس کا تزکیہ ساتھ ساتھ ہوتا رہے تو سیدھی راہ پر چلتا ہے ورنہ بہک جاتا ہے.( بدر جلد ۱۰ نمبر ۴۵،۴۴ مورخه ۵/اکتوبر ۱۹۱۱ء صفحه ۹) دنیا میں انسان کو جو بہشت حاصل ہوتا ہے وہ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ ذكتها پر عمل کرنے سے ملتا ہے.جب انسان عبادت کا اصل مفہوم اور مغز حاصل کر لیتا ہے تو خدا تعالیٰ کے انعام واکرام کا پاک سلسلہ جاری ہو جاتا ہے اور جو نعمتیں آئندہ بعد مردن ظاہری ، مرئی اور محسوس طور پر ملیں گی وہ اب روحانی طور پر پاتا ہے.الحام جلد ۶ نمبر ۲۶ مورخہ ۲۴ / جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۹) کپڑا جب تک سارا نہ دھویا جاوے وہ پاک نہیں ہو سکتا.اسی طرح پر انسان کے سارے جوارح اس قابل ہیں کہ وہ دھوئے جاویں کسی ایک کے دھونے سے کچھ نہیں ہوتا.الحکم جلد ۵ نمبر ۴۰ مورخه ۳۱/اکتوبر ۱۹۰۱ صفحه۱) یا د رکھو کہ اصل صفائی وہی ہے جو فرمایا ہے قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَ تھا.ہر شخص اپنا فرض سمجھ لے کہ وہ اپنی حالت میں تبدیلی کرے.الحکم جلد ۶ نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۲ صفحه ۶) سلب امراض سے جن لوگوں کو مسیح نے عیسائیوں کے قول کے موافق زندہ کیا وہ آخر مر گئے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قد أَفْلَحَ مَنْ زَكتها کے نیچے لا کر جن کو زندہ کیا وہ ابد الآباد تک زندہ رہے.صحابہ کا مقابلہ حواریوں سے ہو ہی نہیں سکتا.ساری انجیل میں ایک بھی فقرہ ایسا نہیں جو صحابہ کی اس حالت کا جو قرآن نے بیان کی ہے کہ خدا کی راہ میں انہوں نے جان و مال سے دریغ نہ کیا، مقابلہ کر سکے.انہوں نے خدا اور اس کے رسول کی راہ میں جو صدق دکھا یا وہ لا نظیر ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۴) اصل تقومی جس سے انسان دھویا جاتا ہے اور صاف ہوتا ہے اور جس کے لئے انبیاء آتے ہیں وہ دنیا سے اُٹھ گیا ہے.کوئی ہوگا جو قد افلح من زكتها کا مصداق ہوگا.پاکیزگی اور طہارت عمدہ شے ہے.انسان پاک اور مطہر ہو تو فرشتے اس سے مصافحہ کرتے ہیں لوگوں میں اس کی قدر نہیں ہے ورنہ ان کی لذات کی ہر ایک شے حلال ذرائع سے ان کو ملے.چور چوری کرتا ہے کہ مال ملے لیکن اگر صبر کرے تو خدا تعالیٰ اسے اور راہ سے مالدار کر دے.اسی طرح زانی زنا کرتا ہے اگر صبر کرے تو خدا اس کی خواہش کو اور راہ سے پوری کر

Page 303

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الشمس دے.جس میں اس کی رضا حاصل ہو.حدیث میں ہے کہ کوئی چور چوری نہیں کرتا مگر اس حالت میں کہ وہ مومن نہیں ہوتا اور کوئی زانی زنا نہیں کرتا مگر اس حالت میں کہ وہ مومن نہیں ہوتا.جسے بکری کے سر پر شیر کھڑا ہو تو وہ گھاس بھی نہیں کھا سکتی.تو بکری جتنا ایمان بھی لوگوں کا نہیں ہے.اصل جڑ اور مقصود تقویٰ ہے جسے وہ عطا ہو تو سب کچھ پاسکتا ہے بغیر اس کے ممکن نہیں ہے کہ انسان صغائر اور کبائر سے بیچ سکے.(البدر جلد نمبر۷ مورخہ ۱۲ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۵۱) مجاہدات پر اللہ تعالی کی راہیں کھلتی ہیں اور نفس کا تزکیہ ہوتا ہے جیسے فرمایا ہے قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَهَا.احکام جلد ۶ نمبر ۴۶ مورخه ۲۴ / دسمبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۰) اسلام کسی سہارے پر رکھنا نہیں چاہتا کیونکہ سہارے پر رکھنے سے ابطال اعمال لازم آجاتا ہے لیکن جب انسان سہارے کے بغیر زندگی بسر کرتا ہے اور اپنے آپ کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے اس وقت اس کو اعمال کی ضرورت پڑتی ہے اور کچھ کرنا پڑتا ہے اسی لئے قرآن شریف نے فرمایا ہے قَد أَفْلَحَ مَنْ زَكَّهَا فلاح وہی پاتا ہے جو اپنا تزکیہ کرتا ہے خود اگر انسان ہاتھ پاؤں نہ ہلائے تو بات نہیں بنتی.الحکم جلدے نمبر ۹ مورخہ ۱۰/ مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ کو اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ بڑے سیدھے سادے تھے جیسے کہ ایک برتن قلعی کرا کر صاف اور ستھرا ہو جاتا ہے ایسے ہی ان لوگوں کے دل تھے جو کلام الہی کے انوار سے روشن اور کدورت نفسانی کے رنگ سے بالکل صاف تھے گویا قد أَفْلَحَ مَن التهَا کے بچے مصداق تھے.الحکم جلد نمبر ۲۴ مورخه ۳۰/ جون ۱۹۰۳ صفحه ۱۰) آنحضرت اور صحابہ کرام کے زمانہ کو دیکھا جاوے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ بڑے سیدھے سادے ہوتے تھے.جب ایک برتن کو مانج کر صاف کر دیا جاتا ہے پھر اس پر قلعی ہوتی ہے اور پھر نفیس اور مصفا کھانا اس میں ڈالا جاتا ہے.یہی حالت ان کی تھی اگر انسان اسی طرح صاف ہو اور اپنے آپ کو قلعی دار برتن کی طرح منور کرے تو خدا تعالیٰ کے انعامات کا کھانا اس میں ڈال دیا جاوے لیکن اب کس قدر انسان ہیں جو ایسے ہیں اور آیت قد أَفْلَحَ مَنْ زَكَّهَا کے مصداق ہیں.ย البدر جلد ۲ نمبر ۲۳ مورخه ۲۶ / جون ۱۹۰۳ء صفحه ۱۷۷) خدا یابی اور خدا شناسی کے لئے ضروری امر یہی ہے کہ انسان دعاؤں میں لگا رہے.زنانہ حالت اور

Page 304

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۷ سورة الشمس بزدلی سے کچھ نہیں ہوتا اس راہ میں مردانہ قدم اُٹھانا چاہیے.ہر قسم کی تکلیفوں کے برداشت کرنے کو طیار ہونا چاہیے خدا تعالیٰ کو مقدم کر لے اور گھبرائے نہیں.پھر امید کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل دستگیری کرے گا اور اطمینان عطا فرمائے گا.ان باتوں کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان تزکیہ نفس کرے.جیسا کہ فرمایا ب قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَنهَا - القام جلد 4 نمبر ۲۴ مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۰۵ صفحه ۹) ایک مسلمان کا کشف جس قدر صاف ہوگا اس قدر غیر مسلم کا ہرگز صاف نہ ہوگا کیونکہ خدا تعالیٰ ایک مسلم اور غیر مسلم میں تمیز رکھتا ہے اور فرماتا ہے قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكتها - البدر جلد ۴ نمبر ۸ مورخه ۱۳ / مارچ ۱۹۰۵ء صفحه ۲) فلاح نہیں ہوتی جب تک نفس کو پاک نہ کرے اور نفس تب ہی پاک ہوتا ہے جب اللہ تعالی کے احکام کی عزت اور ادب کرے اور ان راہوں سے بچے جو دوسرے کے آزار اور دکھ کا موجب ہوتی ہیں.الحکم جلد ۹ نمبر ۳۳ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۵ صفحه ۹) وہ روحانی کمالات جو اسلام سکھاتا ہے ان کے لئے ضروری ہے کہ اعمال میں پاکیزگی اور صدق اور وفاداری ہو بغیر اس کے وہ باتیں حاصل ہی نہیں ہو سکتی ہیں یہی وجہ ہے کہ سلب امراض والے میچ کے اچھے کئے ہوئے مر گئے لیکن قد افلح من زلتها کی تعلیم دینے والے کے زندہ کئے ہوئے آج تک بھی زندہ ہیں اور ان پر کبھی فنا آہی نہیں سکتی.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۹ مورخه ۳۱ رمئی ۱۹۰۵ صفحه ۹) یہ تو سیح ہے کہ دین سہل ہے مگر ہر نعمت مشقت کو چاہتی ہے.بایں اسلام نے تو ایسی مشقت بھی نہیں رکھی.ہندوؤں میں دیکھو کہ ان کے جوگیوں اور سنیاسیوں کو کیا کیا کرنا پڑتا ہے.کہیں ان کی کمریں ماری جاتی ہیں.کوئی ناخن بڑھاتا ہے.ایسا ہی عیسائیوں میں رہبانیت تھی.اسلام نے ان باتوں کو نہیں رکھا بلکہ اس نے یہ تعلیم دی قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكتها یعنی نجات پا گیا وہ شخص جس نے تزکیہ نفس کیا یعنی جس نے ہر قسم کی بدعت، فسق و فجور، نفسانی جذبات سے خدا تعالیٰ کے لئے الگ کر لیا اور ہر قسم کی نفسانی لذات کو چھوڑ کر خدا کی راہ میں تکالیف کو مقدم کر لیا.ایسا شخص فی الحقیقت نجات یافتہ ہے جو کرا خدا تعالیٰ کو مقدم کرتا ہے اور دنیا اور اس کے تکلفات کو چھوڑتا ہے.اور پھر فرما یا قَدْ خَابَ مَنْ دَشَهَا مٹی کے برابر ہو گیا وہ شخص جس نے نفس کو آلودہ کر لیا یعنی جو زمین کی طرف جھک گیا.گویا یہ ایک ہی فقرہ قرآن کریم کی ساری تعلیمات کا خلاصہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کس طرح خدا تعالیٰ تک

Page 305

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۸ سورة الشمس پہنچتا ہے.یہ بالکل سچی اور پکی بات ہے کہ جب تک انسان قومی بشریہ کے برے طریق کو نہیں چھوڑتا اس وقت تک خدا نہیں ملتا دنیا کی گندگیوں سے نکلنا چاہتے ہو اور خدا تعالیٰ کو ملنا چاہتے ہو تو ان لذات کو ترک کرو ورنہ ہم خدا خوا ہی و ہم دنیائے دوں اس خیال است و محال است و جنوں الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۱ مورخه ۱۷ارجون ۱۹۰۶ صفحه ۳) نہایت امن کی راہ یہی ہے کہ انسان اپنی غرض کو صاف کرے اور خالصتا رو بخدا ہو.اس کے ساتھ اپنے تعلقات کو صاف کرے اور بڑھائے اور وجہ اللہ کی طرف دوڑے.وہی اس کا مقصود اور محبوب ہو اور تقویٰ پر قدم رکھ کر اعمال صالحہ بجالا وے پھر سنت اللہ اپنا کام آپ کرے گی.اس کی نظر نتائج پر نہ ہو بلکہ نظر تو اسی ایک نقطہ پر ہو.اس حد تک پہنچے کے لئے اگر یہ شرط ہو کہ وہاں پہنچ کر سب سے زیادہ سزا ملے گی تب بھی اسی کی طرف جاوے.یعنی کوئی ثواب یا عذاب اس کی طرف جانے کا اصل مقصد نہ ہو محض خدا تعالیٰ ہی اصل مقصد ہو.جب وفاداری اور اخلاص کے ساتھ اس کی طرف آئے گا اور اس کا قرب حاصل ہوگا تو یہ وہ کچھ دیکھے گا جو اس کے وہم و گماں میں بھی نہ گزرا ہوگا اور کشوف اور خواب تو کچھ چیز ہی نہ ہوں گے.پس میں تو اس راہ پر چلانا چاہتا ہوں اور یہی اصل غرض ہے.اسی کو قرآن شریف میں فلاح کہا ہے.قَدْ أَفْلَحَ مَنْ ركتها - الحکم جلد ۱۰ نمبر ۴۲ مورخه ۱۰ار دسمبر ۱۹۰۶ صفحه ۴) قرآن شریف میں آیا ہے قد افلح من زكتا اس نے نجات پائی جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا.لیکن تزکیہ نفس بھی ایک موت ہے.جب تک کہ کل اخلاق رذیلہ کو ترک نہ کیا جاوے تزکیہ نفس کہاں حاصل ہو سکتا ہے.ہر ایک شخص میں کسی نہ کسی شرکا مادہ ہوتا ہے وہ اس کا شیطان ہوتا ہے جب تک کہ اس کو قتل نہ کرے کام نہیں بن سکتا.اخبار بدر جلد ۶ نمبر ۱۸ مورخه ۲ رمئی ۱۹۰۷ ء صفحه ۲) اللہ تعالیٰ نے ایک ہی راہ رکھا ہے جیسے فرمایا ہے قَد أَفْلَحَ مَنْ زَكها اور یہ اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان خدا کی رضا کے ساتھ راضی ہو جاوے.کوئی دوئی نہ رہے.خدا کے ساتھ کسی اور کی ملونی نہ رہے اور کسی قسم کی دوری یا جدائی نہ رہے.یہ تھوڑی سی بات نہیں.یہی وہ مشکل گھائی ہے جو بڑے بڑے مصائب اور امتحانوں کے بعد طے ہوا کرتی ہے.الحکام جلد نمبر ۳۶ مورخه ۱۰/اکتوبر ۱۹۰۷ صفحه ۱۱) آیت قرآنی قد أَفْلَحَ مَنْ زَكْتْهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَشها كا ترجمہ اردو میں ایک دفعہ سوچتا تھا تو یہ شعر

Page 306

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام لکھا گیا.۲۷۹ سورة الشمس کوئی اس پاک سے جو دل لگا وے کرے پاک آپ کو تب اس کو پاوے ( بدر جلد ۶ نمبر ۷ ۴ مورخه ۲۱ نومبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۰) یا درکھو کہ خدا کا یہ ہرگز منشاء نہیں کہ تم دنیا کو بالکل ترک کر دو بلکہ اس کا جو منشاء ہے وہ یہ ہے کہ قد افلح من زكتها - تجارت کرو، زراعت کرو، ملازمت کرو اور حرفت کرو، جو چاہو کر و مگر نفس کو خدائی نافرمانی سے روکتے رہو اور ایسا تزکیہ کرو کہ یہ امور تمہیں خدا سے غافل نہ کر دیں.پھر جو تمہاری دنیا ہے وہ بھی دین کے حکم میں آجاوے گی.(احکم جلد ۱۲ نمبر ۴۹، ۵۰ مورخه ۲۶ و۳۰ راگست ۱۹۰۸ صفحه ۴) تزکیہ نفس بڑا مشکل مرحلہ ہے اور مدار نجات تزکیہ نفس پر موقوف ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قَدْ أَفْلَحَ مَنْ رکھا اور تزکیہ نفس بجر فضلِ خدا میسر نہیں آسکتا.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۳ مورخه ۱۴ رمئی ۱۹۰۸ء صفحه ۴) جو شخص خدا کو خوش کرنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کی دنیا ٹھیک ہو جاوے.خود پاک دل ہو جاوے.نیک بن جاوے اور اس کی تمام مشکلات حل اور دکھ دور ہو جاویں اور اس کو ہر طرح کی کامیابی اور فتح و نصرت عطا ہو تو اس کے واسطے اللہ تعالیٰ نے ایک اصول بتایا ہے اور وہ یہ ہے کہ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّهَا کامیاب ہوگیا، بامراد ہو گیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا.تزکیہ نفس میں ہی تمام برکات اور فیوض اور کامیابیوں کا راز نہاں ہے.فلاح صرف امور دینی ہی میں نہیں بلکہ دنیا و دین میں کامیابی ہوگی.نفس کی ناپاکی سے بچنے والا انسان بھی نہیں ہوسکتا کہ وہ دنیا میں ذلیل ہو.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۱ مورخہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۰۸ صفحه ۴) نجات پا گیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کر لیا اور خائب اور خاسر ہو گیا وہ شخص جو اس سے محروم رہا.اس لئے اب تم لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ تزکیہ نفس کس کو کہا جاتا ہے.سو یا د رکھو کہ ایک مسلمان کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پورا کرنے کے واسطے ہمہ تن تیار رہنا چاہیے اور جیسے زبان سے خدا تعالیٰ کو اس کی ذات اور صفات میں وحدہ لاشریک سمجھتا ہے ویسے ہی عملی طور پر اس کو دکھانا چاہیے اور اس کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی اور ملائمت سے پیش آنا چاہیے اور اپنے بھائیوں سے کسی قسم کا بھی بغض، حسد اور کینہ نہیں رکھنا چاہیے اور ، اور دوسروں کی غیبت کرنے سے بالکل الگ ہو جانا چاہیے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ یہ معاملہ تو ابھی دور ہے کہ تم لوگ خدا کے ساتھ ایسے از خود رفتہ اور محو ہو جاؤ کہ بس اس کے ہو جاؤ اور جیسے زبان سے اس کا اقرار کرتے ہو

Page 307

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۰ سورة الشمس عمل سے بھی کر کے دکھاؤ.ابھی تو تم لوگ مخلوق کے حقوق کو بھی کما حقہ ادا نہیں کرتے.بہت سے ایسے ہیں جو آپس میں فساد اور دشمنی رکھتے ہیں اور اپنے سے کمزور اور غریب شخصوں کو نظر حقارت سے دیکھتے ہیں اور بدسلوکی سے پیش آتے ہیں اور ایک دوسرے کی غنیمتیں کرتے اور اپنے دلوں میں بغض اور کینہ رکھتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم آپس میں ایک وجود کی طرح بن جاؤ اور جب تم ایک وجود کی طرح ہو جاؤ گے اس وقت کہہ سکیں گے کہ اب تم نے اپنے نفسوں کا تزکیہ کر لیا کیونکہ جب تک تمہارا آپس میں معاملہ صاف نہیں ہو گا اس وقت تک خدا تعالیٰ سے بھی معاملہ صاف نہیں ہو سکتا گوان دونوں قسم کے حقوقوں میں بڑا حق خدا تعالی کا ہے مگر اس کی مخلوق کے ساتھ معاملہ کرنا یہ بطور آئینہ کے ہے.جو شخص اپنے بھائیوں سے صاف صاف معاملہ نہیں کرتا وہ خدا کے حقوق بھی ادا نہیں کر سکتا.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳ مورخہ ۱۰ جنوری ۱۹۰۸ ء صفحه ۵ ، والحکم جلد ۱۲ نمبر ۴ مورخه ۱۴/جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۲) اس آیت کریمہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نیکی اور خوبی کا مدار ہی دونوں پہلوؤں پر ہے جس کو ایک ہی قوت دی گئی ہے اور دوسری قوت ہی اس کو عطا نہیں ہوئی.وہ تو ایک نقش ہے جو مٹ نہیں سکتا.جو شخص ملک اور شیطان کا انکار کرتا ہے وہ تو گویا بدیہات اور امور محسوسہ مشہورہ کا انکاری ہے.ہم ہر روز دیکھتے ہیں کہ لوگ نیکی بھی کرتے ہیں اور ارتکاب جرائم بھی دنیا میں ہوتا ہے اور دونوں قو تیں دنیا میں برابرا پنا کام کر رہی ہیں اور ان کا تو کوئی فرد بشر بھی انکار نہیں کر سکتا.کون ہے جو ان دونوں کا احساس اور اثر اپنے اندر نہیں پاتا.یہاں کوئی فلسفہ اور منطق پیش نہیں جاتی جبکہ دونوں قو تیں موجود ہیں اور اپنی اپنی جگہ اپنا اپنا کام کر رہی ہیں.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۶ مورخه ۲ ؍جون ۱۹۰۸ صفحه ۸) جب انسان محض اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے جذبات کو روک لیتا ہے تو اس کا نتیجہ دین و دنیا میں کامیابی اور عزت ہے.فلاح دو قسم کی ہے.تزکیہ نفس حسب ہدایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کرنے سے آخرت میں بھی نجات ملتی ہے اور دنیا میں بھی آرام ہوتا ہے.گناہ خود ایک دکھ ہے.وہ بیمار ہیں جو گناہ میں لذت پاتے ہیں.بدی کا نتیجہ بھی اچھا نہیں نکلتا.بعض شرابیوں کو میں نے دیکھا ہے کہ انہیں نزول الماء ہو گیا.مفلوج ہو گئے.رعشہ ہو گیا، سکتہ سے مر گئے.خدا تعالیٰ جو ایسی بدیوں سے روکتا ہے تو لوگوں کے بھلے کے لئے جیسے ڈاکٹر اگر کسی بیمار کو پر ہیز بتاتا ہے تو اس میں بیمار کا فائدہ ہے نہ کہ ڈاکٹر کا.لپس فلاح جسمانی و روحانی پانی ہے تم ان تمام آفات و منہیات سے پر ہیز کر و نفس کو بے قید نہ کرو کہ تم پر

Page 308

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۱ سورة الشمس عذاب نہ آجائے.اللہ تعالیٰ نے کمال رحمت سے سب دکھوں سے بچنے کی راہ بتادی اب کوئی اگر ان دکھوں سے، ان گناہوں سے نہ بچے تو اسلام پر اعتراض نہیں ہو سکتا.اخبار بدر جلد نمبر ۱۹ ۲۰ مورخه ۲۴ مئی ۱۹۰۸ صفحه ۶،۵) جس نے ارضی جذبات سے اپنے نفس کو پاک کیا وہ بچ گیا اور نہیں ہلاک ہو گا مگر جس نے ارضی جذبات میں جو طبعی جذبات ہیں اپنے تئیں چھپادیاوہ زندگی سے ناامید ہو گیا.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۱۹) إنَّ الدُّنْيَا شَاجِبَةٌ، وَأَسودُهَا دنیا درختوں سے پر جنگل ہے اور اس کے شیر پھاڑ کھانے مُفتَرِسَةٌ فَلَا تَجُولُوا في بويها والے ہیں پس تم ان جنگلوں میں مت پھرو.اور اپنے نفوس کو ان وَامْنَعُوا نُفُوسَكُمْ مِنْ جُزاتها کی بیا کی اور جرات سے روکو.اور ان کو پاک کرو.اور چاندی وَجوْنِهَا وَزَلُوهَا وَبَيْضُوهَا کی طرح صاف و شفاف کرو.اور ان کو اس وقت تک مت كَاللُّجَيْنِ، وَلَا تَترُكُوهَا حَتَّى نَصِیر چھوڑو جب تک کہ وہ میل اور عیب سے پاک نہ ہو جائیں.اور نَقِيَّةٌ مِنَ اللَّدَنِ وَالشَّيْنِ.وَقَدْ و شخص نجات پا گیا جس نے ارضی جذبات سے اپنے نفس کو أَفْلَحَ مَنْ زَكَاهَا، وَقَدْ خَابَ مَنْ پاک کیا اور وہ ناکام و نامرادرہا جس نے جو ہر نفس کو خاک میں پوشیدہ کر دیا.( ترجمه از مرتب ) دَسَّاهَا وہ (مواهب الرحمٰن ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۹۹) نفسانی گرفتاریوں سے وہ شخص نجات پا گیا اور بہشتی زندگی کا مالک ہو گیا جس نے اپنے نفس کو پاک بنالیا اور نا کام اور نا مرا در باوہ شخص جس نے اپنے نفس کو زمین میں دھنسایا اور آسمان کی طرف رخ نہ کیا.اور چونکہ نا یہ مقامات صرف انسانی سعی سے حاصل نہیں ہو سکتے اس لئے جابجا قرآن شریف میں دعا کی ترغیب دی ہے اور مجاہدہ کی طرف رغبت دلائی ہے.لیکھر لاہور ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۳) ہدایت الہی تو یہ ہے کہ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَتهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَشَهَا.نجات پائے گا وہ شخص جس نے تزکیہ نفس کیا اور ہلاک ہو گیا وہ آدمی جس نے نفس کو بگاڑا.فلح چیرنے کو کہتے ہیں.فلاحت زراعت کو جانتے ہو.تزکیہ نفس میں بھی فلاحت ہے.مجاہدہ انسانی نفس کو اس کی خرابیوں اور سختیوں سے صاف کر کے اس قابل بنادیتا ہے کہ اس میں ایمان صحیحہ کی تخم ریزی کی جاوے.پھر وہ شجر ایمان بارور ہونے کے لائق بن

Page 309

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۲ سورة الشمس جاتا ہے.چونکہ ابتدائی مراحل اور منازل میں منتقی کو بڑی بڑی مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۱۵۴) لئے فلاح سے تعبیر کیا ہے.اس کو فتح دی جاتی ہے جو تزکیہ کرتا ہے چنانچہ قرآن شریف میں فرمایا گیا ہے قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَتهَا.الحکم جلد ۵ نمبر ۳۰ مورخه ۱۷ اگست ۱۹۰۱ صفحه (۲) قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَ تھا.یعنی وہ شخص جس نے تزکیہ نفس کا کیا نجات پا گیا.سونجات سے حصول معرفتِ تامہ مراد ہے کیونکہ تمام عذاب اور ہر یک قسم کے عقوبات جہل اور ضلالت پر ہی مرتب ہوں گے.مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۶۰،۵۹ مکتوب نمبر ۲۹ بنام میر عباس علی شاه ) وہ انسان بہت ہی بڑی ذمہ داری کے نیچے ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کی آیات اور نشانات کو دیکھ چکا ہو.پس کیا تم میں سے کوئی ہے جو یہ کہے کہ میں نے کوئی نشان نہیں دیکھا.بعض نشان اس قسم کے ہیں کہ لاکھوں کروڑوں انسان ان کے گواہ ہیں.جوان نشانوں کی قدر نہیں کرتا اور ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے وہ اپنی جان پر ظلم کرتا ہے.خدا تعالی اس کو دشمن سے پہلے ہلاک کرے گا کیونکہ وہ شدید العقاب بھی ہے.جو اپنے آپ کو درست نہیں کرتا وہ نہ صرف اپنی جان پر ظلم کرتا ہے بلکہ اپنے بیوی بچوں پر بھی ظلم کرتا ہے کیونکہ جب وہ خود تباہ ہو جاوے گا تو اس کے بیوی بچے بھی ہلاک اور خوار ہوں گے.خدا تعالیٰ اس کی طرف اشارہ کر کے فرماتا ہے وَلَا يَخَافُ عُقبها - الحکم جلد ۶ نمبر ۱۹ مورخه ۲۴ مئی ۱۹۰۲ صفحه ۷ ) بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کی بدکاریاں اور شوخیاں اس حد تک پہنچی ہوئی ہوتی ہیں کہ جب وہ خدا کے غضب سے ہلاک ہوتا ہے تو اس لعنت اور غضب کا اثر اس کی اولاد تک بھی پہنچتا ہے.اسی لئے قرآن شریف میں فرمایا گیا ہے وَلَا يَخَافُ عُقْبُهَا - عُقبها سے اولا داور پسماندگان مراد ہیں.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۱ مورخه ۱۰رجون ۱۹۰۲ ء صفحه ۸) خدا کی شان ہوتی ہے.پلیدوں کے عذاب پر وہ پرواہ نہیں کرتا کہ ان کی بیوی بچوں کا کیا حال ہوگا اور صادقوں اور راستبازوں کے لئے گانَ ابُوهُمَا صَالِحًا کی رعایت کرتا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۳ مورخه ۲۴ جون ۱۹۰۲ء صفحه ۴) حدیث شریف اور قرآن مجید سے ثابت ہے اور ایسا ہی پہلی کتابوں سے بھی پایا جاتا ہے کہ والدین کی بدکاریاں بچوں پر بھی بعض وقت آفت لاتی ہیں.اسی کی طرف اشارہ ہے وَ لَا يَخَافُ عُقْبُهَا جولوگ لا ابالی زندگی بسر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی طرف سے بے پرواہ ہو جاتا ہے.دیکھو دنیا میں جو اپنے آقا کو

Page 310

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۳ سورة الشمس چند روز سلام نہ کرے تو اس کی نظر بگڑ جاتی ہے تو جو خدا سے قطع کرے پھر خدا اس کی پرواہ کیوں کرے گا اسی پر وہ فرماتا ہے کہ وہ ان کو ہلاک کر کے ان کی اولاد کی بھی پرواہ نہیں کرتا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو متقی صالح مر جاوے اس کی اولاد کی پرواہ کرتا ہے.احکم جلد ۶ نمبر ۳ مورخه ۲۴ /اگست ۱۹۰۲ ء صفحه ۷ ) دیکھو جب کوئی بادشاہ کے کسی امر کے متعلق سمجھا دے کہ تم اس سے رک جاؤ تمہارا بھلا ہوگا تو اگر وہ شخص رک جاوے تو بہتر ورنہ پھر اس کا عذاب کیسا سخت ہوتا ہے.اسی طرح پہلے چھوٹے چھوٹے عذابوں سے خدا تعالیٰ لوگوں کو سمجھوتیاں دیتا ہے کہ باز آجاؤ موقع ہے ورنہ پچھتاؤ گے مگر جیسا وہ نہیں سمجھتے اور اس کی نافرمانی سے نہیں رکتے تو پھر اس کا عذاب ایسا ہوتا ہے.لَا يَخَافُ عُقبها - الحکم جلدے نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۱۰) بعض لوگ گناہ کرتے ہیں اور پھر اس کی پرواہ نہیں کرتے گو یا گناہ کو ایک شیر میں شربت کی مثال خیال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے کوئی نقصان نہ ہو گا مگر یا درکھیں کہ جیسے خدا تعالی بڑا غفور اور رحیم ہے ویسے ہی وہ بڑا بے نیاز بھی ہے.جب وہ غضب میں آتا ہے تو کسی کی پرواہ نہیں کرتا وہ فرماتا ہے وَلَا يَخَافُ عُقبها - یعنی کسی کی اولاد کی بھی اسے پرواہ نہیں ہوتی کہ اگر فلاں شخص ہلاک ہو گا تو اس کے یتیم بے کس بچے کیا کریں گے.البدر جلد ۲ نمبر ۱۴ مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۳ ء صفحه ۱۰۸) انسان کی خوش قسمتی ہے کہ قبل از نزول بلا وہ تبدیلی کر لے لیکن اگر کوئی تبدیلی نہیں کرتا اور اس کی نظر اسباب اور مکر و حیلہ پر ہے تو سوائے اس کے کہ وہ اپنے ساتھ گھر بھر کو تباہ کر دے اور کیا انجام بھوگ سکتا ہے کیونکہ مرد گھر کا کشتی بان ہوتا ہے اگر وہ ڈوبے گا تو کشتی بھی ساتھ ہی ڈوبے گی.اسی لئے کہا ہے الرجال قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاء - (النساء : ۳۵) اسی کی رستگاری کے ساتھ اس کے اہل وعیال کی رستگاری ہے اور لا يَخَافُ عُقبها سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کو ان کے پسماندوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے.اس وقت اس کی بے نیازی کا م کرتی ہے.البدر جلد ۳ نمبر ۲۷ مورخہ ۱۶ / جولائی ۱۹۰۴ ء صفحه ۴) وہ آدمی جو احکام الہی کی پرواہ نہیں کرتا خدا بھی اس کی پرواہ نہیں کرتا جیسا کہ آیت کریمہ وَلَا يَخَافُ عقبها سے ظاہر ہے.یعنی نافرمانوں پر جب وہ عذاب کرنے پر آتا ہے تو ایسی لا ابالی سے عذاب کرتا ہے کہ عذاب کی ہلاکت سے ان کے بال بچوں کی بھی پرواہ نہیں کرتا کہ ان کا حال ان کے نافرمان والدین کے الحام جلد ۹ نمبر ۵ موخه ۱۰ فروری ۱۹۰۵ صفحه ۴) بعد کیا ہوگا.

Page 311

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۴ سورة الشمس خدا تعالیٰ کی عظمت کو دل میں رکھنا چاہیے اور اس سے ہمیشہ ڈرنا چاہیے اس کی گرفت خطر ناک ہوتی ہے.وہ چشم پوشی کرتا ہے اور در گذر فرماتا ہے لیکن جب کسی کو پکڑتا ہے تو پھر بہت سخت پکڑتا ہے یہاں تک کہ لا يَخَافُ عُقبها پھر وہ اس امر کی بھی پرواہ نہیں کرتا کہ اس کے پچھلوں کا کیا حال ہوگا.برخلاف اس کے جو لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے اور اس کی عظمت کو دل میں جگہ دیتے ہیں خدا تعالیٰ ان کو عزت دیتا اور خودان کے لئے ایک سپر ہوجاتا ہے.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۱ مورخه ۱۷ جون ۱۹۰۶ صفحه ۳) جو لوگ انبیاء کی زندگی میں فسق و فجور میں مبتلا رہتے ہیں اور عاقبت کی کچھ فکر نہیں کرتے اور راستبازوں پر حملے کرتے ہیں ایسوں ہی کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا يَخَافُ عُقبها اس سے مراد یہ ہے کہ جب ایک موذی بے ایمان کو اللہ کریم مارتا ہے تو پھر کچھ پروا نہیں رکھتا کہ اس کے عیال اطفال کا گزارہ کس طرح ہوگا اور اس کے پسماندہ کیسی حالت میں بسر کریں گے.الحکم جلد نمبر ۳۴ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحه ۴)

Page 312

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۲۸۵ سورة الضحى بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الضحى بیان فرموده سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ وَالضُّحى لى وَالَّيْلِ إِذَا سَجي لا مَا وَدَعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى.قرآن شریف میں ایک مقام پر رات کی قسم کھائی ہے.کہتے ہیں کہ یہ اس وقت کی قسم ہے جب وحی کا سلسلہ بند تھا.یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ایک مقام ہے جو ان لوگوں کے لئے جو سلسلہ وحی سے افاضہ حاصل کرتے ہیں آتا ہے.وجی کے سلسلہ سے شوق اور محبت بڑھتی ہے لیکن مفارقت میں بھی ایک کشش ہوتی ہے جو محبت کے مدارج عالیہ پر پہنچاتی ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی ایک ذریعہ قرار دیا ہے کیونکہ اس سے قلق اور کرب میں ترقی ہوتی ہے اور روح میں ایک بیقراری اور اضطراب پیدا ہوتا ہے جس سے وہ دعاؤں کی روح اس میں نفخ کی جاتی ہے.کہ وہ آستانہ الوہیت پر یارب یارب کہہ کر اور بڑے جوش اور شوق اور جذبہ کے ساتھ دوڑتی ہے جیسا کہ ایک بچہ جو تھوڑی دیر کے لئے ماں کی چھاتیوں سے الگ رکھا گیا ہو بے اختیار ہو ہو کر ماں کی طرف دوڑتا اور چلاتا ہے اسی طرح پر بلکہ اس سے بھی بیحد اضطراب کے ساتھ روح اللہ کی طرف دوڑتی ہے اور اس دوڑ دھوپ اور قلق و کرب میں وہ لذت اور سرور ہوتا ہے جس کو ہم بیان نہیں کر سکتے.یادر کھوروح میں جس قدر اضطراب اور بیقراری خدا تعالیٰ کے لئے ہوگی اسی قدر دعاؤں کی توفیق ملے گی اور ان میں قبولیت کا نفخ ہو گا.غرض یہ ایک زمانہ ماموروں اور مرسلوں اور ان لوگوں پر جن کے ساتھ مکالمات الہیہ کا

Page 313

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۶ سورة الضحى ایک تعلق ہوتا ہے آتا ہے اور اس سے غرض اللہ تعالیٰ کی یہ ہوتی ہے کہ تا ان کو محبت کی چاشنی اور قبولیت دعا کے ذوق سے حصہ دے اور ان کو اعلیٰ مدارج پر پہنچا دے.تو یہاں جو ٹی اور کیل کی قسم کھائی اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدارج عالیہ اور مراتب محبت کا اظہار ہے اور آگے پیغمبر خدا کا ابراء کیا کہ دیکھو دن اور رات جو بنائے ہیں ان میں کس قدر وقفہ ایک دوسرے میں ڈال دیا ہے.ٹیلٹی کا وقت بھی دیکھو اور تاریکی کا وقت بھی خیال کرو.مَا وَدَعَكَ رَبِّكَ - خدا تعالیٰ نے تجھے رخصت نہیں کر دیا.اس نے تجھ سے کینہ نہیں کیا بلکہ ہمارا یہ ایک قانون ہے جیسے رات اور دن کو بنایا ہے اسی طرح انبیاء علیہم السلام کے ساتھ بھی ایک قانون ہے کہ بعض وقت وحی کو بند کر دیا جاتا ہے تاکہ ان میں دعاؤں کے لئے زیادہ جوش پیدا ہو.اور فیٹی اور کیل کو اس لئے بطور شاہد بیان فرمایا تا آپ کی امید وسیع ہو اور تسلی اور اطمینان پیدا ہو.مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان قسموں کے بیان کرنے سے اصل مدعا یہ رکھا ہے کہ تا بدیہیات کو نظریات کے ذریعہ سمجھاوے.اب سوچ کر دیکھو کہ یہ کیسا پر حکمت مسئلہ تھا مگر ان بدبختوں نے اس پر بھی اعتراض کیا.چشم بد اندیش که بر کنده باد عیب نماید هنرش در نظر ان قسموں میں ایسا فلسفہ بھرا ہوا ہے کہ حکمت کے ابواب کھلتے ہیں.احکم جلد ۵ نمبر ۲۱ مورخه ۱۰رجون ۱۹۰۱ء صفحه ۴ واحکم جلد ۵ نمبر ۲۲ مورخه ۱۷ارجون ۱۹۰۱ صفحه ۱) وحی الہی کا یہ قاعدہ ہے کہ بعض دنوں میں تو بڑے زور سے بار بار الہام پر الہام ہوتے ہیں اور الہاموں کا ایک سلسلہ بندھ جاتا ہے اور بعض دنوں میں ایسی خاموشی ہوتی ہے کہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس قدر خاموشی کیوں ہے اور نادان لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اب خدا تعالیٰ نے ان سے کلام کرنا ہی چھوڑ دیا ہے.نبی کریم پر بھی ایک زمانہ ایسا ہی آیا تھا کہ لوگوں نے سمجھا کہ اب وحی بند ہو گئی چنانچہ کافروں نے ہنسی شروع کی کہ اب خدا انعوذ باللہ ہمارے رسول کریم سے ناراض ہو گیا ہے اور اب وہ کلام نہیں کرے گا لیکن خدا تعالیٰ نے اس کا جواب قرآن شریف میں اس طرح دیا ہے کہ وَالضُّحى وَالَّيْلِ إِذَا سَجَى مَا وَقَعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى یعنی قسم ہے دھوپ چڑھنے کے وقت کی اور رات کی.نہ تو تیرے رب نے تجھ کو چھوڑ دیا اور نہ تجھ سے ناراض ہوا.اس کا یہ مطلب ہے کہ جیسے دن چڑھتا ہے اور اس کے بعد رات خود بخود آ جاتی ہے اور پھر اس کے بعد دن کی روشنی نمودار ہوتی ہے اور اس میں خدا تعالیٰ کی خوشی یا ناراضگی کی کوئی بات نہیں.یعنی دن چڑھنے سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ اس وقت اپنے بندوں پر خوش ہے اور نہ رات پڑنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت

Page 314

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۷ سورة الضحى خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر ناراض ہے.بلکہ اس اختلاف کو دیکھ کر ہر ایک عظمند خوب سمجھ سکتا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قوانین کے مطابق ہو رہا ہے اور یہ اس کی سنت ہے کہ دن کے بعد رات اور رات کے بعد دن ہوتا ہے.پس اس سلسلہ کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا کہ اس وقت خدا خوش ہے اور اس وقت ناراض ہے غلط ہے.اسی طرح سے آج کل جو وحی الہی کا سلسلہ کسی قدر بند رہا ہے تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ تجھے سے ناراض ہو گیا ہے یا یہ کہ اس نے تجھ کو چھوڑ دیا ہے بلکہ یہ اس کی سنت ہے کہ کچھ مدت تک وحی الہی بڑے زور سے اور پے در پے ہوتی ہے اور کچھ دنوں تک اس کا سلسلہ بند رہتا ہے اور پھر شروع ہو جاتا ہے اور اس کی بھی وہی مثال ہے جو دن اور رات کے آگے پیچھے آنے کی ہے.بدر جلد ۶ نمبر ۵۲ مورخه ۲۶ دسمبر ۱۹۰۷ء صفحه ۳) مَا وَدَعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلَى.......- خدا نے تجھ کو ترک نہیں کیا اور نہ وہ تجھ پر ناراض ہے.( براہینِ احمد یہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۶۶ حاشیه در حاشیہ نمبر ۴) اَلَمْ يَجِدُكَ يَتِيمًا فَأَوَى وَوَجَدَكَ ضَالَّا فَهَدَى وَوَجَدَكَ عَابِلًا فَاغْنى فَلَمَّا اليَتِيمَ فَلَا تَقْهَرُ وَأَمَّا السَّابِلَ فَلَا تَنْهَرْقُ وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثُ أوى کا لفظ زبان عرب میں ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے کہ جب کسی شخص کو کسی قدر مصیبت یا اجتلا کے بعد اپنی پناہ میں لیا جائے اور کثرت مصائب اور تلف ہونے سے بچایا جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آلم يَجِدُكَ يَتِيماً فأولى - اسی طرح تمام قرآن شریف میں اوی اور آؤی کا لفظ ایسے ہی موقعوں پر استعمال ہوا ہے کہ جہاں کسی شخص یا کسی قوم کو کسی قدر تکالیف کے بعد پھر آرام دیا گیا.(تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۹ حاشیه ) ادی کے معنے تمام لغت کی کتابوں میں یہی لکھے ہیں کہ کسی مصیبت کے بعد پناہ دینا.قرآن مجید میں بھی انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے.اَلَمْ يَجِدُكَ يَتِيمًا فَاوى - اخبار بدر جلد ۶ نمبر ۹ مورخه ۲۸ فروری ۱۹۰۸ صفحه ۶) جو شخص قرآن کریم کی اسالیب کلام کو بخوبی جانتا ہے اُس پر یہ پوشیدہ نہیں کہ بعض اوقات وہ کریم ورحیم جل شانہ اپنے خواص عباد کے لئے ایسا لفظ استعمال کر دیتا ہے کہ بظاہر بدنما ہوتا ہے مگر معنا نہایت محمود اور تعریف کا کلمہ ہوتا ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ نے اپنے نبی کریم کے حق میں فرمایا وَ وَجَدَكَ ضَالاً فَهَدَى اب

Page 315

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۸ سورة الضحى ظاہر ہے کہ ضال کے معنے مشہور اور متعارف جو اہل لغت کے منہ پر چڑھے ہوئے ہیں گمراہ کے ہیں جس کے اعتبار سے آیت کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے (اے رسول اللہ) تجھ کو گمراہ پایا اور ہدایت دی.حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی گمراہ نہیں ہوئے اور جو شخص مسلمان ہو کر یہ اعتقاد رکھے کہ کبھی آنحضرت صلعم نے اپنی عمر میں ضلالت کا عمل کیا تھا تو وہ کا فر بے دین اور حد شرعی کے لائق ہے بلکہ آیت کے اس جگہ وہ معنی لینے چاہیے جو آیت کے سیاق اور سباق سے ملتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اللہ جل شانہ نے پہلے آنحضرت صلعم کی نسبت فرمایا اَلَمْ يَجِدُكَ يَتِيماً فَأوَى وَوَجَدَكَ ضَالاً فَهَدَى وَوَجَدَكَ عَايلا فاطنی.یعنی خدا تعالیٰ نے تجھے یتیم اور بیکس پایا اور اپنے پاس جگہ دی اور تجھ کو ضال ( یعنی عاشق وجہ اللہ ) پایا پس اپنی طرف کھینچ لایا اور تجھے درویش یا یا پس فغنی کر دیا.ان معنوں کی صحت پر یہ ڈیل کی آیتیں قرینہ ہیں جو ان کے بعد آتی ہیں یعنی یہ کہ فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرُ وَأَمَّا السَّابِلَ فَلَا تَنْهَرُ وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِثُ - کیونکہ یہ تمام آیتیں لف نشر مرتب کے طور پر ہیں اور پہلی آیتوں میں جو مدعا مخفی ہے دوسری آیتیں اس کی تفصیل اور تصریح کرتی ہیں مثلاً پہلے فرمایا اَلَم يَجِدُكَ يَتِيمًا فَأَوى اس کے مقابل پر یہ فرما یا فَامَّا الْيَتِيم فلا تقهر یعنی یاد کر کہ تو بھی یتیم تھا اور ہم نے تجھ کو پناہ دی ایسا ہی تو بھی یتیموں کو پناہ دے.پھر بعد اس آیت کے فرمایا وَ وَجَدَكَ ضَالاً فَصلی اِس کے مقابل پر یہ فرمایا وَ اَمَّا السَّابِلَ فَلَا تَنْهَرُ یعنی یاد کر کہ تو بھی ہمارے وصال اور جمال کا سائل اور ہمارے حقائق اور معارف کا طالب تھا سو جیسا کہ ہم نے باپ کی جگہ ہو کر تیری جسمانی پرورش کی ایسا ہی ہم نے استاد کی جگہ ہو کر تمام دروازے علوم کے تجھ پر کھول دیئے اور اپنے لقا کا شربت سب سے زیادہ عطا فرمایا اور جو تو نے مانگا سب ہم نے تجھ کو دیا سو تو بھی مانگنے والوں کو ر دمت کر اور ان کو مت جھڑک اور یاد کر کہ تو عائل تھا اور تیری معیشت کے ظاہری اسباب بکلی منقطع تھے سوخدا خود تیرا متوئی ہوا اور غیروں کی طرف حاجت لے جانے سے تجھے غنی کر دیا.نہ تو والد کا محتاج ہوا نہ والدہ کا نہ استاد کا اور نہ کسی غیر کی طرف حاجت لے جانے کا بلکہ یہ سارے کام تیرے خدا تعالیٰ نے آپ ہی کر دیئے اور پیدا ہوتے ہی اس نے تجھ کو آپ سنبھال لیا.سو اس کا شکر بجالا اور حاجت مندوں سے تو بھی ایسا ہی معاملہ کر.اب ان تمام آیات کا مقابلہ کر کے صاف طور پر کھلتا ہے کہ اس جگہ ضال کے معنے گمراہ نہیں ہے بلکہ انتہائی درجہ کے تعشق کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ حضرت یعقوب کی نسبت اس کے مناسب یہ آیت ہے إِنَّكَ لَفِی ضَلِكَ القديم - (یوسف :۹۲) سو یہ دونوں لفظ ظلم اور ضلالت اگر چہ ان معنوں پر بھی آتے ہیں کہ کوئی شخص

Page 316

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۹ سورة الضحى جادہ اعتدال اور انصاف کو چھوڑ کر اپنے شہوات غضبیہ یا بہیمیہ کا تابع ہو جاوے.لیکن قرآن کریم میں عشاق کے حق میں بھی آئے ہیں جو خدا تعالیٰ کے راہ میں عشق کی مستی میں اپنے نفس اور اس کے جذبات کو پیروں کے نیچے پھل دیتے ہیں.اسی کے مطابق حافظ شیرازی کا یہ شعر ہے.آسمان بار امانت نتوانست کشید قرعہ فال بنام من دیوانه زدند اس دیوانگی سے حافظ صاحب حالت تعشق اور شدت حرص اطاعت مراد لیتے ہیں.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۷۰ تا ۱۷۳) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی مہدی تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَوَجَدَكَ ضَالاً فَهَدَی.اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اور نبیوں کی طرح ظاہری علم کسی استاد سے نہیں پڑھا تھا مگر حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ مکتبوں میں بیٹھے تھے اور حضرت عیسی نے ایک یہودی استاد سے تمام توریت پڑھی تھی.غرض اس لحاظ سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی استاد سے نہیں پڑھا خدا آپ ہی استاد ہوا اور پہلے پہل خدا نے ہی آپ کو اقرا کہا یعنی پڑھ اور کسی نے نہیں کہا.اس لئے آپ نے خاص خدا کے زیر تربیت تمام دینی ہدایت پائی اور دوسرے نبیوں کے دینی معلومات انسانوں کے ذریعہ سے بھی ہوئے.ایام الصلح، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۹۳، ۳۹۴) الْقَدِيمِ - ضلالت کے یہ بھی معنے ہیں کہ افراط محبت سے ایک شخص کو ایسا اختیار کیا جائے کہ دوسرے کا عزت کے ساتھ نام سننے کی بھی برداشت نہ رہے جیسا کہ اس آیت میں بھی یہی معنے مراد ہیں کہ إِنَّكَ لَفِي ضَلكَ (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۶۹ حاشیہ) بعض آدمیوں کی عادت ہوتی ہے کہ سائل کو دیکھ کر چڑ جاتے ہیں اور اگر کچھ مولویت کی رگ ہوتو اس کو بجائے کچھ دینے کے سوال کے مسائل سمجھانا شروع کر دیتے ہیں اور اس پر اپنی مولویت کا رعب بٹھا کر بعض اوقات سخت ست بھی کہہ بیٹھتے ہیں.افسوس ان لوگوں کو عقل نہیں اور سوچنے کا مادہ نہیں رکھتے جو ایک نیک دل اور سلیم الفطرت انسان کو ملتا ہے.اتنا نہیں سوچتے کہ سائل اگر باوجود صحت کے سوال کرتا ہے تو وہ خود گناہ کرتا ہے.اس کو کچھ دینے میں تو گناہ لازم نہیں آتا بلکہ حدیث شریف میں لَوْ آتَاكَ رَا کیا کے الفاظ آئے ہیں یعنی خواہ سائل سوار ہو کر بھی آوے تو بھی کچھ دے دینا چاہیے.اور قرآن شریف میں وأَما السَّابِلَ فَلَا تنھر کا ارشاد آیا ہے کہ سائل کو مت جھڑک.اس میں یہ کوئی صراحت نہیں کی گئی کہ فلاں قسم کے سائل کو مت

Page 317

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۰ سورة الضحى جھڑک اور فلاں قسم کے سائل کو جھڑک.پس یا درکھو کہ سائل کو نہ جھڑ کو کیونکہ اس سے ایک قسم کی بداخلاقی کا بیج بویا جاتا ہے.اخلاق یہی چاہتا ہے کہ سائل پر جلدی ناراض نہ ہو.یہ شیطان کی خواہش ہے کہ وہ اس طریق سے تم کو نیکی سے محروم رکھے اور بدی کا وارث بناوے.غور کر کہ ایک نیکی کرنے سے دوسری نیکی پیدا ہوتی ہے اور اسی طرح پر ایک بدی دوسری بدی کا موجب ہو جاتی ہے.جیسے ایک چیز دوسرے کو جذب کرتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ نے یہ تجاذب کا مسئلہ ہر فعل میں رکھا ہوا ہے.پس جب سائل سے نرمی کے ساتھ پیش آئے گا اور اس طرح پر اخلاقی صدقہ دے دے گا تو قبض دور ہو کر دوسری نیکی بھی کرلے گا اور اس کو کچھ دے بھی دے گا.الحکم جلد ۴ نمبر ۲۵ مورخہ ۹؍ جولائی ۱۹۰۰ صفحه ۲) کیا تمہیں خبر نہیں کہ تمہیں تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وَ أَما السَّابِلَ فَلَا تَنْهَر اور سائل خواہ گھوڑے پر ہی سوار ہو کر آیا ہے پھر بھی واجب نہیں کہ اس کو رد کیا جاوے.تیرے لئے یہ حکم ہے کہ تو اس کو جھڑک نہیں ہاں خدا نے اس کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ سوال نہ کرے.وہ اپنی خلاف ورزی کی خود سزا پالے گا لیکن تمہیں یہ مناسب نہیں کہ تم خدا تعالیٰ کے ایک واجب العزت حکم کی نافرمانی کرو.غرض اس کو کچھ دے دینا چاہیے اگر پاس ہو اور اگر پاس کچھ نہیں تو نرم الفاظ سے اس کو سمجھا دو.الحکم جلد ۴ نمبر ۳۴ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۰ صفحه ۵) يه عاجز بحكم و أما بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِت اس بات کے اظہار میں کچھ مضائقہ نہیں دیکھتا کہ خداوند کریم ورحیم نے فضل و کرم سے ان تمام امور سے اس عاجز کو حصہ وافرہ دیا ہے اور اس ناکارہ کو خالی ہاتھ نہیں بھیجا اور نہ بغیر نشانوں کے مامور کیا بلکہ یہ تمام نشان دیئے ہیں جو ظاہر ہو رہے ہیں اور ہوں گے اور خدائے تعالیٰ جب تک کھلے طور پر حجت قائم نہ کر لے تب تک ان نشانوں کو ظاہر کرتا جائے گا.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۳۹،۳۳۸) ہر ایک نعمت جو خدا سے تجھے پہنچے اس کا ذکر لوگوں کے پاس کر.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۶۶،۳۶۵) عجز و نیاز اور انکسار...ضروری شرط عبودیت کی ہے لیکن بحکم آية كريمه وَ أَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَيَّاتُ نعماء الہی کا اظہار بھی از بس ضروری ہے.( مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۶۶) یا د رکھو کہ انسان کو چاہیے کہ ہر وقت اور ہر حالت میں دعا کا طالب رہے اور دوسرے أَما بِنِعْمَةِ رَبِّكَ

Page 318

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۱ سورة الضحى فَحَدّت پر عمل کرے.خدا تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کی تحدیث کرنی چاہیے اس سے خدا تعالیٰ کی محبت بڑھتی ہے اور اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کے لئے ایک جوش پیدا ہوتا ہے.تحدیث کے یہی معنے نہیں ہیں کہ انسان صرف زبان سے ذکر کرتا رہے بلکہ جسم پر بھی اس کا اثر ہونا چاہیے.مثلاً ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے تو فیق دی ہے کہ وہ عمدہ کپڑے پہن سکتا ہے لیکن وہ ہمیشہ میلے کچیلے کپڑے پہنتا ہے اس خیال سے کہ وہ واجب الرحم وہ سمجھا جاوے یا اس کی آسودہ حالی کا حال کسی پر ظاہر نہ ہو ایسا شخص گناہ کرتا ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم کو چھپانا چاہتا ہے اور نفاق سے کام لیتا ہے.دھوکہ دیتا ہے اور مغالطہ میں ڈالنا چاہتا ہے یہ مومن کی شان سے بعید ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مذہب مشترک تھا.آپ کو جو ملتا تھا پہن لیتے تھے.اعراض نہ کرتے تھے.جو کپڑا پیش کیا جاوے اسے قبول کر لیتے تھے لیکن آپ کے بعد بعض لوگوں نے اسی میں تو اضع دیکھی کہ رہبانیت کی جزو ملا دی بعض درویشوں کو دیکھا گیا کہ گوشت میں خاک ڈال کر کھاتے تھے.ایک درویش کے پاس کوئی شخص گیا اس نے کہا کہ اس کو کھانا کھلا دو.اس شخص نے اصرار کیا کہ میں تو آپ کے ساتھ ہی کھاؤں گا آخر جب وہ اس درویش کے ساتھ کھانے بیٹھا تو اس کے لئے نیم کے گولے طیار کر کے آگے رکھے گئے.اس قسم کے امور بعض لوگ اختیار کرتے ہیں اور غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کو اپنے باکمال ہونے کا یقین دلائیں مگر اسلام ایسی باتوں کو کمال میں داخل نہیں کرتا.اسلام کا کمال تو تقویٰ ہے جس سے ولایت ملتی ہے.جس سے فرشتے کلام کرتے ہیں.خدا تعالیٰ بشارتیں دیتا ہے.ہم اس قسم کی تعلیم نہیں دیتے کیونکہ اسلام کی تعلیم کے منشاء کے خلاف ہے.قرآن شریف تو كُلُوا مِنَ الطَّيِّبت کی تعلیم دے اور یہ لوگ طیب عمدہ چیز میں خاک ڈال کر غیر طیب بنا دیں.اس قسم کے مذاہب اسلام کے بہت عرصہ بعد پیدا ہوئے ہیں.یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اضافہ کرتے ہیں ان کو اسلام سے اور قرآن کریم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا یہ خود اپنی شریعت الگ قائم کرتے ہیں میں اس کو سخت حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں.ہمارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسوۂ حسنہ ہیں.ہماری بھلائی اور خوبی یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو آپ کے نقش قدم پر چلیں اور اس کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھا ئیں.احکام جلدے نمبر ۱۳ مورخه ۱۰ را پریل ۱۹۰۳ ، صفحه ۲،۱) جہاں انسان واضح طور پر قرآن شریف یا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی کمزوری کی وجہ سے کوئی بات نہ پاسکے تو اس کو اجتہاد سے کام لینا چاہیے.مثلاً شادیوں میں جو بھاجی دی جاتی ہے.اگر اس کی

Page 319

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۲ سورة الضحى غرض صرف یہی ہے کہ تا دوسروں پر اپنی شیخی اور بڑائی کا اظہار کیا جاوے تو بی ریا کاری اور تکبر کے لئے ہوگی اس لئے حرام ہے لیکن اگر کوئی شخص محض اس نیت سے کہ آهَا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَيّت کا عملی اظہار کرے اور مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ پر عمل کرنے کے لئے ، دوسرے لوگوں سے سلوک کرنے کے لئے دے تو یہ حرام نہیں.پس جب کوئی شخص اس نیت سے تقریب پیدا کرتا ہے اور اس میں معاوضہ ملحوظ نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا غرض ہوتی ہے تو پھر وہ ایک سونہیں خواہ ایک لاکھ کو کھا نا دے منع نہیں.اصل مدعا نیت پر ہے نیست اگر خراب اور فاسد ہو تو ایک جائز اور حلال فعل کو بھی حرام بنا دیتی ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۳ مورخہ ۱۰ را پریل ۱۹۰۳ صفحه ۲)

Page 320

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۲۹۳ سورۃ الم نشرح بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسیر سورۃ الم نشرح بیان فرموده سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ الَم نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ فى وَ وَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ ) الَّذِي انْقَضَ ظَهْرَكَ 3 وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ کیا ہم نے تیرا سینہ نہیں کھولا.(برائین احمدیہ چہار ص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۶۶ حاشیه در حاشیه نمبر ۴) ہم نے تیر اوہ بوجھ جس نے تیری کمر توڑ دی اتار دیا ہے اور تیرے ذکر کو اونچا کر دیا ہے.براہینِ احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۱۸ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳) رفته رفته صالح انسان ترقی کرتا ہوا مطمعنہ کے مقام پر پہنچ جاتا ہے اور یہاں ہی اس کا انشراح صدر ہوتا ہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرما یا الم نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ ہم انشراح صدر کی کیفیت کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے.الحکم جلد ۵ نمبر ۳۰ مورخه ۱۷ اگست ۱۹۰۱ء صفحه ۲) بغیر امتحان کے تو بات بنتی ہی نہیں اور پھر امتحان بھی ایسا جو کہ کمر توڑنے والا ہو.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑھ کر مشکل امتحان ہوا تھا جیسے فرمایا اللہ تعالی نے وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِي الْقَضَ ظهرك.جب سخت ابتلاء آئیں اور انسان خدا کے لئے صبر کرے تو پھر وہ ابتلاء فرشتوں سے جاملاتے ہیں.انبیاء اسی واسطے زیادہ محبوب ہوتے ہیں کہ ان پر بڑے بڑے سخت ابتلاء آتے ہیں اور وہ خود ہی ان کو

Page 321

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا سے جا ملاتے ہیں.۲۹۴ سورة الم نشرح الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۴ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحه ۹،۸) فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْران إن في ذلِك لَبُشْرَى لِكُلِّ مَنْ اس میں ہر تزکیہ اختیار کرنے والے کے لئے بشارت تَزَلَى وَإِشَارَةٌ إِلى أَنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا ہے اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جب لوگ ایک زمانہ في زَمَانٍ ضَرًّا وَضَيْرًا، فَيَرَوْنَ في آخر میں دکھ اور تکلیف دیکھیں گے تو بعد میں وہ نفع اور بھلائی بھی نَفْعًا وَخَيْرًا، وَيَرَوْنَ رُخَاءً بَعْدَ بَلاء في دیکھیں گے اور دین و دنیا میں ابتلاء دیکھنے کے بعد خوشحالی کا الدِّينِ وَالدُّنْيَا.زمانہ بھی دیکھیں گے.( ترجمہ از مرتب) دود (سر الخلافة ، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۶۱) خدا تعالیٰ ہمارے مخالف علماء کے حال پر رحم فرمادے کہ وہ جو کار روائی کر رہے ہیں وہ دین کے لئے اچھی نہیں بلکہ نہایت خطرناک ہے.وہ زمانہ ان کو بھول گیا جب وہ منبروں پر چڑھ چڑھ کر تیرھویں صدی کی مذمت کرتے تھے کہ اس صدی میں اسلام کو سخت نقصان پہنچا ہے اور آیت فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً پڑھ کر اس سے استدلال کیا کرتے تھے کہ اس عسر کے مقابل پر چودھویں صدی یسر کی آئے گی لیکن جب انتظار کرتے کرتے چودھویں صدی آگئی اور معین صدی کے سر پر خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک شخص بدعویٰ مسیح موعود پیدا ہو گیا اور نشان ظاہر ہوئے اور زمین اور آسمان نے گواہی دی تب اول المنکرین یہی علماء (تحفہ گولر و میه، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۲۷) ( احباب میں سے ایک کو مخالفین کی طرف سے بہت تکالیف پہنچی ہیں.اس نے اپنا حال عرض کیا.فرمایا ) آپ نے بہت تکالیف اُٹھائی ہیں یہ بات آپ میں قابل تعریف ہے.جس قدر ابتلاء ہوا ہے اسی قدر انعام بھی ہوگا.اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا - الحکم جلد ۵ نمبر ۶ مورخه ۱۷/فروری ۱۹۰۱ء صفحه ۱۳) ہو گئے.دود ود قرآن شریف میں جب کہ یہ صاف فرما دیا ہے کہ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يسرا تو کیا ضروری نہ تھا کہ ان تنگیوں کی جن میں آج اسلام مبتلا ہے انتہا ہوتی ؟ اور یسر کی حالت پیدا ہوتی.بے شک ضرور تھا چنانچہ اس نے ایسا ہی احکم جلد ۵ نمبر ۳۵ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۱ صفحه ۱) کیا.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس قدر انسان اعلیٰ مراتب اور مدارج کو حاصل کرنا چاہتا ہے اس قدر اس کو زیادہ

Page 322

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۹۵ سورۃ الم نشرح محنت اور وقت کی ضرورت ہوتی ہے.پس استقلال اور ہمت ایک ایسی عمدہ چیز ہے کہ اگر یہ نہ ہو تو انسان کامیابی کی منزلوں کو طے نہیں کر سکتا.اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ پہلے مشکلات میں ڈالا جاوے.إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا اسی لئے فرمایا ہے.انتقام جلد ۶ نمبر ۴۵ مورخه ۷ اردسمبر ۱۹۰۲ صفحه ۲) ساری لذت اور راحت دکھ کے بعد آتی ہے.اسی لئے قرآن شریف میں یہ قاعدہ بتایا ہے اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا - اگر کسی راحت سے پہلے تکلیف نہیں تو وہ راحت راحت ہی نہیں رہتی.اسی طرح پر جولوگ کہتے ہیں کہ ہم کو عبادت میں لذت نہیں آتی ان کو پہلے اپنی جگہ سوچ لینا ضروری ہے کہ وہ عبادت کے لئے کس قدر دکھ اور تکالیف اُٹھاتے ہیں.جس جس قدر دکھ اور تکالیف انسان اُٹھائے گا وہی تبدیل صورت کے بعد لذت ہو جاتا ہے.میری مراد ان دکھوں سے نہیں کہ انسان اپنے آپ کو بیجا مشقتوں میں ڈالے اور مالا یطاق تکالیف اُٹھانے کا دعویٰ کرے؟ ہر گز نہیں.(الحکم جلدے نمبر ۹ مورخہ ۱۰ / مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۱) انسان کی زندگی کے ساتھ مکروہات کا سلسلہ بھی لگا ہوا ہے.اگر انسان چاہے کہ میری ساری عمر خوشی میں گزرے تو یہ ہو نہیں سکتا.فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا.یہ زندگی کا چکر ہے جب تنگی آوے تو سمجھنا چاہیے کہ اس کے بعد فراخی بھی ضرور آئے گی.( بدر جلد نمبر ۳۱ مورخه ۳۱/اکتوبر ۱۹۰۵ صفحه ۱) اسلام نے بڑے بڑے مصائب کے دن گزارے ہیں.اب اس کا خزاں گزر چکا ہے اور اب اس کے واسطے موسم بہار ہے.اِنَّ مَعَ الْعُسر يسرا تنگی کے بعد فراخی آیا کرتی ہے مگر ملاں لوگ نہیں چاہتے کہ اسلام اب بھی سرسبزی اختیار کرے.دود ود ( بدر جلد ۶ نمبر ۱۳ مورخه ۲۸ / مارچ ۱۹۰۷ء صفحه ۸)

Page 323

Page 324

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۲۹۷ سورة التين بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة التين بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ثُمَّ رَدَدْنَهُ أَسْفَلَ سَفِلِينَ شجرۂ فطرت انسانی اصل میں توسط اور اعتدال پر واقعہ ہے اور ہر یک افراط و تفریط سے جو قوی حیوانیہ تقويم - میں پایا جاتا ہے منزہ ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ (براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۹۵،۱۹۴ حاشیه ) یہ تو ظاہر ہے کہ عائم صغیر اور عالم کبیر میں نہایت شدید تشابہ ہے اور قرآن سے انسان کا عالم صغیر ہونا ثابت ہے اور آیت لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ اسی کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ تقویم عالم کی متفرق خوبیوں اور حسنوں کا ایک ایک حصہ انسان کو دے کر بوجہ جامعیت جمیع شمائل و شیون عالم اس کو احسن ٹھہرایا گیا ہے.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۸۲، ۱۸۳ حاشیه در حاشیه ) عربی میں آدمی کو انسان کہتے ہیں یعنی جس میں دو انس ہیں ایک اُنس خدا کی اور ایک اُنس بنی نوع کی.اور اسی طرح ہندی میں اس کا نام مانس ہے جو مانوس کا مخفف ہے.اس سے ظاہر ہے کہ انسان اپنے خدا سے طبعی اُنس رکھتا ہے اور مشر کا نہ غلطی بھی دراصل اسی بچے خدا کی تلاش کی وجہ سے ہے.(نسیم دعوت، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۸۷)

Page 325

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۸ سورة التين آدم کامل بننے کے لئے ضروری ہے کہ انسان کا خدا سے سچا اور پکا تعلق ہو.جب انسان ہر ایک حرکت اور سکون حکم الہی کے نیچے ہو کر کرتا ہے تو انسان خدا کا ہو جاتا ہے تب خدا انسان کا والی وارث ہو جاتا ہے اور پھر اس پر کوئی مخالفت سے دست اندازی نہیں کر سکتا لیکن وہ آدمی جو احکام الہی کی پرواہ نہیں کرتا خدا بھی اس کی پرواہ نہیں کرتا.الحکم جلد ۹ نمبر ۵ مورخه ۱۰ فروری ۱۹۰۵ صفحه ۴) جب ہم انسان کو مہذب دیکھتے ہیں تو کیوں اس کی جڑ تہذیب نہ بتائیں.قرآن شریف سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ - ثُمَّ رَدَدْنَهُ أَسْفَلَ سَفِلِينَ.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پیچھے وحشی بن گئے.میں کہتا ہوں کیا خدا تعالیٰ کو پہلا عمدہ نمونہ دکھانا چاہیے تھا یا خراب.اور اول الدن درد کا مصداق.خدا نے برا بنایا تھا اور پھر گھس گھس کر خود عمدہ بن گیا.یہ خدا تعالیٰ کی شان میں گستاخی اور توہین ہے.(احکام جلد 4 نمبر ۷ ۳ مورخه ۱۷ اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۲) خدا نے چاہا ہے کہ انسان خدا کے اخلاق پر چلے.جیسے وہ ہر ایک عیب اور بدی سے پاک ہے یہ بھی پاک ہو.جیسے اس میں عدل ، انصاف اور علم کی صفت ہے وہی اس میں ہو اس لئے اس خلق کو احسنِ تقویم کہا ہے لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَن تَقویم جو انسان خدائی اخلاق اختیار کرتے ہیں وہ اس آیت سے مراد ہیں اور اگر کفر کرے تو پھر اسفل السافلین اس کی جگہ ہے.(البدر جلد ۲ نمبر ۷ مورخه ۶ / مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۴۹) انسان اگر اللہ تعالیٰ کے لئے اپنی زندگی وقف نہ کرے اور اس کی مخلوق کے لئے نفع رساں نہ ہو تو یہ ایک برکار اور کھی ہستی ہو جاتی ہے.بھیڑ بکری بھی پھر اس سے اچھی ہے جو انسان کے کام تو آتی ہے لیکن یہ جب اشرف المخلوقات ہو کر اپنی نوع انسان کے کام نہیں آتا تو پھر بدترین مخلوق ہو جاتا ہے اسی کی طرف اشارہ کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ - ثُمَّ رَدَدْنَهُ أَسْفَلَ سَفِلِينَ میں گرایا جاتا ہے.پس یہ سچی بات ہے کہ اگر انسان میں یہ نہیں ہے کہ وہ خدا کے اوامر کی اطاعت کرے اور مخلوق کو نفع پہنچا وے تو وہ جانوروں سے بھی گیا گزرا ہے اور بدترین مخلوق ہے.الحکم جلدے نمبر ۳۱ مورخه ۲۴ /اگست ۱۹۰۳ صفحه ۳) جب خدا تعالیٰ کسی ایسے دل کو دیکھتا ہے جس نے مخلوق کے لئے فائدہ رسانی کا مصمم ارادہ کر لیا ہے تو وہ اسے کبھی ضائع نہیں کرتا.قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ - ثمَّ رَدَدْنَهُ أَسْفَلَ سَفِدین کیہ بھی اس کی طرف اشارہ کرتی ہے.مخلوق کو فائدہ رسانی کے بعد اور خدا تعالیٰ 91911

Page 326

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۹ سورة التين کی فرمانبرداری کرنے سے انسان پر یہ کلمہ کہ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ صادق آتا ہے اور اگر وہ یہ نہیں کرتا ہے تو اسفل سفلین ہی میں رد کیا جاتا ہے.اگر انسان میں یہ باتیں نہیں ہیں کہ وہ خدا کے اوامر کی اطاعت کرے اور مخلوق کو فائدہ پہنچا وے تو پھر کتے ، بھیڑ ، بکری وغیرہ جانوروں میں اور اس میں کیا فرق ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۳۰ مورخه ۱۴ اگست ۱۹۰۳ء صفحه ۲۳۴) انسان کو ہم نے نہایت درجہ کے اعتدال پر پیدا کیا ہے اور وہ اس صفت اعتدال میں تمام مخلوقات سے توضیح مرام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۷۵) احسن وافضل ہے.

Page 327

Page 328

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة العلق اعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة العلق بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ كَلاَ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى اَنْ رَّاهُ اسْتَغْنى ہم نے جو کیمیا کو شرک قرار دیا تھا تو اس کا یہ مطلب تھا کہ خدا تعالیٰ نہیں چاہتا کہ انسان مستغنی ہو.اسی لئے فرما یا ان الإِنسَانَ ليطفى آن رادُ اسْتَغفی.وہ فرماتا ہے انسان سرکشی کرتا ہے جبکہ اپنے تئیں غنی دیکھتا ہے.عبودیت کا الوہیت سے ایسا تعلق ہے کہ عبد اپنے مولی کا ذرہ ذرہ کے لئے محتاج ہے اور ایک دم خدا کے سوا نہیں گزار سکتا.پس جو شخص ایسے اسباب تلاش کرتا ہے جن سے خدا کی طرف توجہ نہ رہے ( اور توجہ مبنی ہے احتیاج پر ) تو گویا شرک میں پڑتا ہے کیونکہ اپنا قبلہ مقصود ایک کے سوا دوسرا بھی بناتا ہے.مومن تو وہ ہے جو ایسے امور کا نام تک نہ لے جن سے توحید میں رخنہ اندازی ہوتی ہے.اس بات کو خوب سمجھ لینا چاہیے کہ بیمار اس وقت تک طبیب کے پاس رہتا ہے جب تک کہ بیمار رہے.پس عبد بھی اسی وقت تک متوجہ رہے گا جب تک عبودیت کی حالت باقی رہے.( بدر جلد ۶ نمبر ۲۲ مورخه ۳۰ رمئی ۱۹۰۷ ء صفحه ۳) ارَعَيْتَ الَّذِي يَنْهَى عَبْدًا إِذَا صَلَّى ( قضاء عمری کے متعلق فرمایا ) میرے نزدیک یہ فضول باتیں ہیں.ان کی نسبت وہی جواب ٹھیک ہے جو کہ حضرت علی نے ایک شخص کو

Page 329

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٠٢ سورة العلق دیا تھا جبکہ ایک شخص ایک ایسے وقت نماز ادا کر رہا تھا جس وقت میں نماز جائز نہیں اس کی شکایت حضرت علی کے پاس ہوئی تو آپ نے اسے جواب دیا کہ میں اس آیت کا مصداق نہیں بننا چاہتا أَرَوَيْتَ الَّذِي يَنْعَى عَبد ا اِذَا صَلَّی یعنی تو نے دیکھا اس کو جو ایک نماز پڑھتے بندے کو منع کرتا ہے.نماز جورہ جاوے اس کا تدارک نہیں ہوسکتا ہاں روزہ کا ہوسکتا ہے.اور جو شخص عمد أسال بھر اس لئے نماز کو ترک کرتا ہے کہ قضاء عمری والے دن ادا کرلوں گا وہ تو گنہگار ہے اور جو شخص نادم ہو کرتو بہ کرتا ہے اور اس نیت سے پڑھتا ہے کہ آئندہ نماز ترک نہ کروں گا تو اس کے لئے حرج نہیں.ہم تو اس معاملہ میں حضرت علی ہی کا جواب دیتے ہیں.البدر جلد ۲ نمبر ۱۵ مورخہ یکم مئی ۱۹۰۳ء صفحه ۱۱۴) ( قضاء عمری پر سوال ہوا کہ جمعتہ الوداع کے دن لوگ تمام نمازیں پڑھتے ہیں کہ گذشتہ نمازیں جو ادا نہیں کیں ان کی تلافی ہو جاوے اس کا کچھ وجود ہے یا کہ نہیں ؟ فرمایا) ایک فضول امر ہے.مگر ایک دفعہ ایک شخص بے وقت نماز پڑھ رہا تھا کہ کسی شخص نے حضرت علی کو کہا کہ آپ خلیفہ وقت ہیں اسے منع کیوں نہیں کرتے.فرمایا کہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں اس آیت کے نیچے ملزم نہ بنایا جاؤں.ارَوَيْتَ الَّذِي يَنْفِى عَبْدًا إِذَا صَلی.ہاں اگر کسی شخص نے عمد نماز اس لئے ترک کی ہے کہ قضاء عمری کے دن پڑھ لوں گا تو اس نے ناجائز کیا ہے اور اگر ندامت کے طور پر تدارک مافات کرتا ہے تو پڑھنے دو کیوں منع کرتے ہو آخر دعا ہی کرتا ہے ہاں اس میں پست ہمتی ضرور ہے.پھر دیکھو منع کرنے سے کہیں تم بھی اس آیت کے نیچے نہ آ جاؤ.الحکم جلدے نمبر ۱۵ مورخه ۱٫۲۴ پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۱۲) ایک شخص نے دریافت کیا کہ آج کل طاعون کی کثرت کے وقت اکثر سکھوں اور ہندوؤں کے گاؤں میں یہ علاج کیا جاتا ہے کہ اذانِ نماز بڑے زور اور کثرت سے ہر ایک گھر میں دلائی جاتی ہے.یہ فعل کیسا ہے؟ فرمایا ) اذان سراسر اللہ تعالیٰ کا پاک نام ہے.ہمیں تو علی کا جواب یاد آتا ہے کہ آپ نے کہا تھا کہ میں اس اَرَيْتَ الَّذِى يَنْهى عَبْدًا اِذا صلی کا مصداق ہونا نہیں چاہتا.ہمارے نزدیک بانگ میں بڑی شوکت ہے اور اس کے دلوانے میں حرج نہیں.( حدیث میں آیا ہے کہ اس سے شیطان بھاگتا ہے ).البدرجلد ۲ نمبر ۱۵ مورخہ یکم مئی ۱۹۰۳ صفحه ۱۱۶)

Page 330

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ سورة القدر بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة القدر بیان فرموده سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ) اِنَّا اَنْزَلْنَهُ في لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَمَا أَدْرِيكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ تَنَزَّلُ الْمَلبِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ امْرِفُ قف سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ یہ لیلۃ القدر اگر چہ اپنے مشہور معنوں کے رو سے ایک بزرگ رات ہے لیکن قرآنی اشارات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی ظلمانی حالت بھی اپنی پوشیدہ خوبیوں میں لیلتہ القدر کا ہی حکم رکھتی ہے اور اس ظلمانی حالت کے دنوں میں صدق اور صبر اور زہد اور عبادت خدا کے نزدیک بڑا قدر رکھتا ہے اور وہی ظلمانی حالت تھی کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت تک اپنے کمال کو پہنچ کر ایک عظیم الشان نور کے نزول کو چاہتی تھی اور اُسی ظلمانی حالت کو دیکھ کر اور ظلمت زدہ بندوں پر رحم کر کے صفت رحمانیت نے جوش مارا اور آسمانی برکتیں زمین کی طرف متوجہ ہوئیں.سو وہ ظلمانی حالت دنیا کے لئے مبارک ہوگئی اور دنیا نے اس سے ایک عظیم الشان رحمت کا حصہ پایا کہ ایک کامل انسان اور سید الرسل کہ جس سا کوئی پیدا نہ ہوا اور نہ ہوگا دنیا کی ہدایت کے لئے آیا اور دنیا کے لئے اس روشن کتاب کو لایا جس کی نظیر کسی آنکھ نے نہیں دیکھی پس یہ خدا کی کمال رحمانیت کی ایک بزرگ تجلی تھی کہ جو اس نے ظلمت اور تاریکی کے وقت ایسا عظیم الشان نور نازل

Page 331

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۴ سورة القدر کیا جس کا نام فرقان ہے جو حق اور باطل میں فرق کرتا ہے جس نے حق کو موجود اور باطل کو نابود کر کے دکھلا دیا وہ اس وقت زمین پر نازل ہوا جب زمین ایک موت روحانی کے ساتھ مر چکی تھی اور بڑ اور بحر میں ایک بھاری فساد واقع ہو چکا تھا پس اس نے نزول فرما کر وہ کام کر دکھایا جس کی طرف اللہ تعالی نے آپ اشارہ فرما کر کہا ہے.اعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ( الحديد : ۱۸ ).یعنی زمین مرگئی تھی اب خدا اس کو نئے سرے زندہ کرتا ہے.(براہین احمد یہ روحانی چهار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۱۹،۴۱۸ حاشیہ نمبر ۱۱) اس سورۃ کا حقیقی مطلب جو ایک بھاری صداقت پر مشتمل ہے جیسا کہ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں اس قاعدہ سختی کا بیان فرمانا ہے کہ دنیا میں کب اور کس وقت میں کوئی کتاب اور پیغمبر بھیجا جاتا ہے.سو وہ قاعدہ یہ ہے کہ جب دلوں پر ایک ایسی غلیظ ظلمت طاری ہو جاتی ہے کہ یکبارگی تمام دل رو بدنیا ہو جاتے ہیں اور پھر رو بدنیا ہونے کی شامت سے ان کے تمام عقائد و اعمال و افعال و اخلاق و آداب اور نیتوں اور ہمتوں میں اختلال کلی راہ پا جاتا ہے اور محبت الہیہ دلوں سے بکلی اٹھ جاتی ہے اور یہ عام و با ایسا پھیلتا ہے کہ تمام زمانہ پر رات کی طرح اندھیرا چھا جاتا ہے تو ایسے وقت میں یعنی جب وہ اندھیرا اپنے کمال کو پہنچ جاتا ہے رحمت الہبیہ اس طرف متوجہ ہوتی ہے کہ لوگوں کو اس اندھیری سے خلاصی بخشے اور جن طریقوں سے ان کی اصلاح قرین مصلحت ہے ان طریقوں کو اپنے کلام میں بیان فرمادے سو اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے آیت ممدوحہ میں اشارہ فرمایا کہ ہم نے قرآن کو ایک ایسی رات میں نازل کیا ہے جس میں بندوں کی اصلاح اور بھلائی کے لئے صراط مستقیم کی کیفیت بیان کرنا اور شریعت اور دین کی حدود کو بتلانا از بس ضروری تھا یعنی جب گمراہی کی تاریکی اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ جیسی سخت اندھیری رات ہوتی ہے تو اس وقت رحمت الہی اس طرف متوجہ ہوئی کہ اس سخت اندھیری کے اٹھانے کے لئے ایسا قوی نور نازل کیا جائے کہ جو اس اندھیری کو دور کر سکے.سوخدا نے قرآن شریف کو نازل کر کے اپنے بندوں کو وہ عظیم الشان نور عطا کیا کہ جو شکوک اور شبہات کی اندھیری کو دور کرتا ہے اور روشنی کو پھیلاتا ہے.اس جگہ جانا چاہئے کہ اس باطنی لیلتہ القدر کو ظاہری لیلتہ القدر سے کہ جو عند العوام مشہور ہے کچھ منافات نہیں بلکہ عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ وہ ہر ایک کام مناسبت سے کرتا ہے اور حقیقت باطنی کے لئے جو ظاہری صورت مناسب ہو وہ اس کو عطا فرماتا ہے.سو چونکہ لیلتہ القدر کی حقیقت باطنی وہ کمال ضلالت کا وقت ہے جس میں عنایت الہیہ اصلاح عالم کی طرف متوجہ ہوتی ہے سوخدائے تعالیٰ نے بغرض تحقق مناسبت اس زمانہ ضلالت کی آخری جز کو جس میں ضلالت اپنے نکتہ کمال تک

Page 332

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۵ سورة القدر پہنچ گئی تھی خارجی طور پر ایک رات میں مقرر کیا اور یہ رات وہ رات تھی جس میں خداوند تعالیٰ نے دنیا کو کمال ضلالت میں پا کر اپنے پاک کلام کو اپنے نبی پر اتارنا ارادہ فرمایا.سو اس جہت سے نہایت درجہ کی برکات اس رات میں پیدا ہو گئیں یا یوں کہو کہ قدیم سے اسی ارادہ قدیم کے رو سے پیدا تھی اور پھر اُس خاص رات میں وہ قبولیت اور برکت ہمیشہ کے لئے باقی رہی اور پھر بعد اس کے فرمایا کہ وہ ظلمت کا وقت کہ جو اندھیری رات سے مشابہ تھا جس کی تنویر کے لئے کلام الہی کا نورا ترا اُس میں بباعث نزولِ قرآن کی ایک رات ہزار مہینہ سے بہتر بنائی گئی.اور اگر معقولی طور پر نظر کریں تب بھی ظاہر ہے کہ ضلالت کا زمانہ عبادت اور طاعت الہی کے لئے دوسرے زمانہ سے زیادہ تر موجب قربت و ثواب ہے پس وہ دوسرے زمانوں سے زیادہ تر افضل ہے اور اس کی عبادتیں باعث شدت وصعوبت اپنی قبولیت سے قریب ہیں اور اس زمانہ کے عابد رحمت الہی کے زیادہ تر مستحق ہیں کیونکہ بچے عابدوں اور ایمانداروں کا مرتبہ ایسے ہی وقت میں عند اللہ تحقیق ہوتا ہے کہ جب تمام زمانہ پر دنیا پرستی کی ظلمت طاری ہو اور بیچ کی طرف نظر ڈالنے سے جان جانے کا اندیشہ ہو اور یہ بات خود ظاہر ہے کہ جب دل افسردہ اور مردہ ہو جا ئیں اور سب کسی کو جیفہ دنیا ہی پیارا دکھائی دیتا ہو اور ہر طرف اس روحانی موت کی زہرناک ہوا چل رہی ہو اور محبت الہیہ یک لخت دلوں سے اٹھ گئی ہو اور رو بحق ہونے میں اور وفادار بندہ بننے میں کئی نوع کے ضرر متصورہوں نہ کوئی اس راہ کار فیق نظر آوے اور نہ کوئی اس طریق کا ہمدم ملے بلکہ اس راہ کی خواہش کرنے والے پر موت تک پہنچانے والی مصیبتیں دکھائی دیں اور لوگوں کی نظر میں ذلیل اور حقیر ٹھہرتا ہو تو ایسے وقت میں ثابت قدم ہو کر اپنے محبوب حقیقی کی طرف رخ کر لینا اور ناہموار عزیزوں اور دوستوں اور خویشوں اور اقارب کی رفاقت چھوڑ دینا اور غربت اور بے کسی اور تنہائی کی تکلیفوں کو اپنے سر پر قبول کر لینا اور دکھ پانے اور ذلیل ہونے اور مرنے کی کچھ پرواہ نہ کرنا حقیقت میں ایسا کام ہے کہ بجز اولو العزم مرسلوں اور نبیوں اور صدیقوں کے جن پر فضل احدیت کی بارشیں ہوتی ہیں اور جو اپنے محبوب کی طرف بلا اختیار کھینچے جاتے ہیں اور کسی سے انجام پذیر نہیں ہوسکتا اور حقیقت میں ایسے وقت کی ثابت قدمی اور صبر اور عبادت الہی کا ثواب بھی وہ ملتا ہے کہ جو کسی دوسرے وقت میں ہر گز نہیں مل سکتا.سواسی جہت سے لیلۃ القدر کی ایسے ہی زمانہ میں بناڈالی گئی کہ جس میں بباعث سخت ضلالت کے نیکی پر قائم ہونا کسی بڑے جوانمرد کا کام تھا یہی زمانہ ہے جس میں جوانمردوں کی قدر و منزلت ظاہر ہوتی ہے اور نا مردوں کی ذلت بہ پایہ ثبوت پہنچتی ہے یہی پر ظلمت زمانہ ہے جو اندھیری رات کی طرح ایک خوفناک صورت میں ظاہر ہوتا

Page 333

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۶ سورة القدر ہے.سو اس طغیانی کی حالت میں کہ جو بڑے ابتلا کا وقت ہے وہی لوگ ہلاکت سے بچتے ہیں جن پر عنایات الہیہ کا ایک خاص سایہ ہوتا ہے پس انہیں موجبات سے خدائے تعالیٰ نے اسی زمانہ کی ایک جز کو جس میں ضلالت کی تاریکی غایت درجہ تک پہنچ چکی تھی لیلۃ القدر مقرر کیا اور پھر بعد اس کے جس سماوی برکات سے اس ضلالت کا تدارک کیا جاتا ہے اس کی کیفیت ظاہر فرمائی اور بیان فرمایا کہ اس ارحم الراحمین کی یوں عادت ہے کہ جب ظلمت اپنے کمال تک پہنچ جاتی ہے اور خط تاریکی کا اپنے انتہائی نقطہ پر جا ٹھہرتا ہے یعنی اس غایت درجہ پر جس کا نام باطنی طور پر لیلۃ القدر ہے.تب خداوند تعالی رات کے وقت میں کہ جس کی ظلمت باطنی ظلمت سے مشابہ ہے عالم ظلمانی کی طرف توجہ فرماتا ہے اور اس کے اذن خاص سے ملائکہ اور روح القدس زمین پر اترتے ہیں اور خلق اللہ کی اصلاح کے لئے خدا تعالیٰ کا نبی ظہور فرماتا ہے تب وہ نبی آسمانی نور پا کر خلق اللہ کو ظلمت سے باہر نکالتا ہے اور جب تک وہ نور اپنے کمال تک نہ پہنچ جائے تب تک ترقی پر ترقی کرتا جاتا ہے اور اسی قانون کے مطابق وہ اولیاء بھی پیدا ہوتے ہیں کہ جو ارشاد اور ہدایت خلق کے لئے بھیجے جاتے ہیں کیونکہ وہ انبیا کے وارث ہیں سوان کے نقش قدم پر چلائے جاتے ہیں.اب جاننا چاہئے کہ خدائے تعالیٰ نے اس بات کو بڑے پر زور الفاظ سے قرآن شریف میں بیان کیا ہے کہ دنیا کی حالت میں قدیم سے ایک مدوجزر واقعہ ہے اور اسی کی طرف اشارہ ہے جو فرمایا ہے تو پیج اليْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارِ فِي اليل ( آل عمران : ۲۸).یعنی اے خدا کبھی تو رات کو دن میں اور کبھی دن کو رات میں داخل کرتا ہے یعنی ضلالت کے غلبہ پر ہدایت اور ہدایت کے غلبہ پر ضلالت کو پیدا کرتا ہے.اور حقیقت اس مدوجزر کی یہ ہے کہ کبھی بامر اللہ تعالیٰ انسانوں کے دلوں میں ایک صورت انقباض اور محجوبیت کی پیدا ہو جاتی ہے اور دنیا کی آرائشیں ان کو عزیز معلوم ہونے لگتی ہیں اور تمام ہمتیں ان کی اپنی دنیا کے درست کرنے میں اور اس کے عیش حاصل کرنے کی طرف مشغول ہو جاتی ہیں.یہ ظلمت کا زمانہ ہے جس کے انتہائی نقطہ کی رات لیلتہ القدر کہلاتی ہے اور وہ لیلتہ القدر ہمیشہ آتی ہے مگر کامل طور پر اس وقت آئی تھی کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کا دن آ پہنچا تھا کیونکہ اس وقت تمام دنیا پر ایسی کامل گمراہی کی تاریکی پھیل چکی تھی جس کی مانند کبھی نہیں پھیلی تھی اور نہ آئندہ کبھی پھیلے گی جب تک قیامت نہ آوے.غرض جب یہ ظلمت اپنے اس انتہائی نقطہ تک پہنچ جاتی ہے کہ جو اس کے لئے مقدر ہے تو عنایت الہیہ تنویر عالم کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور کوئی صاحب نور دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا جاتا ہے اور جب وہ آتا ہے تو اس کی طرف مستعد روحیں کھینچی چلی آتی ہیں اور پاک

Page 334

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة القدر فطرتیں خود بخود رو بحق ہوتی چلی جاتی ہیں اور جیسا کہ ہرگز ممکن نہیں کہ شمع کے روشن ہونے سے پروانہ اس طرف رخ نہ کرے ایسا ہی یہ بھی غیر ممکن ہے کہ بروقت ظہور کسی صاحب نور کے صاحب فطرت سلیمہ کا اس کی طرف بارادت متوجہ نہ ہو.ان آیات میں جو خدائے تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے جو بنیاد دعویٰ ہے اُس کا خلاصہ یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت ایک ایسی ظلمانی حالت پر زمانہ آچکا تھا کہ جو آفتاب صداقت کے ظاہر ہونے کے متقاضی تھے اسی جہت سے خدائے تعالیٰ نے قرآن شریف میں اپنے رسول کا بار بار یہی کام بیان کیا ہے کہ اس نے زمانہ کو سخت ظلمت میں پایا اور پھر ظلمت سے ان کو باہر نکالا.قف (برائین احمد یہ چہار صص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۷ ۶۳ تا ۷ ۶۴) عادت اللہ اس طرح پر جاری ہے کہ جب کوئی رسول یا نبی یا محدث اصلاح خلق اللہ کے لئے آسمان سے اُترتا ہے تو ضرور اس کے ساتھ اور اس کے ہمرکاب ایسے فرشتے اترا کرتے ہیں کہ جو مستعد دلوں میں ہدایت ڈالتے ہیں اور نیکی کی رغبت دلاتے ہیں اور برابر اترتے رہتے ہیں جب تک کفر اور ضلالت کی ظلمت دُور ہو کر ایمان اور راستبازی کی صبح صادق نمودار ہو جیسا کہ اللہ جلشانہ فرماتا ہے تَنَزَّلُ الْمَلَئِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ اَمْرٍ سَلَمُ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ سو ملائکہ اور روح القدس کا تنزل یعنی آسمان سے اتر نا اُسی وقت ہوتا ہے جب ایک عظیم الشان آدمی خلعت خلافت پہن کر اور کلامِ الہی سے شرف پا کر زمین پر نزول فرماتا ہے روح القدس خاص طور اس خلیفہ کو ملتی ہے اور جو اس کے ساتھ ملائکہ ہیں وہ تمام دنیا کے مستعد دلوں پر نازل کئے جاتے ہیں.تب دنیا میں جہاں جہاں جو ہر قابل پائے جاتے ہیں سب پر اُس نور کا پر توہ پڑتا ہے اور تمام عالم میں ایک نورانیت پھیل جاتی ہے اور فرشتوں کی پاک تاثیر سے خود بخو دلوں میں نیک خیال پیدا ہونے لگتے ہیں اور توحید پیاری معلوم ہونے لگتی ہے اور سید ھے دلوں میں راست پسندی اور حق جوئی کی ایک روح پھونک دی جاتی ہے اور کمزوروں کو طاقت عطا کی جاتی ہے اور ہر طرف ایسی ہوا چلنی شروع ہو جاتی ہے کہ جو اس مصلح کے مدعا اور مقصد کو مدد دیتی ہے ایک پوشیدہ ہاتھ کی تحریک سے خود بخود لوگ صلاحیت کی طرف کھسکتے چلے آتے ہیں اور قوموں میں ایک جنبش سی شروع ہو جاتی ہے.تب ناسمجھ لوگ گمان کرتے ہیں کہ دنیا کے خیالات نے خود بخو د راستی کی طرف پلٹا کھایا ہے لیکن درحقیقت یہ کام اُن فرشتوں کا ہوتا ہے کہ جو خلیفۃ اللہ کے ساتھ آسمان سے اُترتے ہیں اور حق کے قبول کرنے اور سمجھنے کے لئے غیر معمولی طاقتیں بخشتے ہیں.سوئے ہوئے لوگوں کو جگا دیتے ہیں اور مستوں کو ہشیار کرتے ہیں اور بہروں

Page 335

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٠٨ سورة القدر کے کان کھولتے ہیں اور مردوں میں زندگی کی رُوح پھونکتے ہیں اور اُن کو جو قبروں میں ہیں باہر نکال لاتے ہیں.تب لوگ یکدفعہ آنکھیں کھولنے لگتے ہیں اور اُن کے دلوں پر وہ باتیں کھلنے لگتی ہیں جو پہلے مخفی تھیں.اور در حقیقت یہ فرشتے اس خلیفہ اللہ سے الگ نہیں ہوتے اُسی کے چہرہ کا نور اور اُسی کی ہمت کے آثار جلیہ ہوتے ہیں جو اپنی قوت مقناطیسی سے ہر ایک مناسبت رکھنے والے کو اپنی طرف کھینچتے ہیں خواہ وہ جسمانی طور پر نزدیک ہو یا دُور ہو اور خواہ آشنا ہو یا بکلی بیگانہ اور نام تک بے خبر ہو.غرض اُس زمانہ میں جو کچھ نیکی کی طرف حرکتیں ہوتی ہیں اور راستی کے قبول کرنے کے لئے جوش پیدا ہوتے ہیں خواوہ جوش ایشیائی لوگوں میں پیدا ہوں یا یورپ کے باشندوں میں یا امریکہ کے رہنے والوں میں وہ در حقیقت انہیں فرشتوں کی تحریک سے جو اس خلیفہ اللہ کے ساتھ اُترتے ہیں ظہور پذیر ہوتے ہیں.یہ الہی قانون ہے جس میں کبھی تبدیلی نہیں پاؤ گے.(فتح اسلام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۲، ۱۳ حاشیه ) خدا تعالیٰ سورۃ القدر میں بیان فرماتا ہے بلکہ مومنین کو بشارت دیتا ہے کہ اُس کا کلام اور اس کا نبی لیلتہ القدر میں آسمان سے اُتارا گیا ہے اور ہر ایک مصلح اور مجد د جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے وہ لیلتہ القدر میں ہی اُترتا وہ ہے.تم سمجھتے ہو کہ لیلۃ القدر کیا چیز ہے؟ لیلتہ القدر اُس ظلمانی زمانہ کا نام ہے جس کی ظلمت کمال کی حد تک پہنچ جاتی ہے اس لئے وہ زمانہ بالطبع تقاضا کرتا ہے کہ ایک نور نازل ہو جو اس ظلمت کو دُور کرے.اس زمانہ کا نام بطور استعارہ کے لیلتہ القدر رکھا گیا ہے.مگر در حقیقت یہ رات نہیں ہے.یہ ایک زمانہ ہے جو بوجہ ظلمت رات کا ہمرنگ ہے.نبی کی وفات یا اُس کے روحانی قائم مقام کی وفات کے بعد جب ہزار مہینہ جو بشری عمر کے دور کو قریب الاختتام کرنے والا اور انسانی حواس کے الوداع کی خبر دینے والا ہے گزر جاتا ہے تو یہ رات اپنا رنگ جمانے لگتی ہے.تب آسمانی کارروائی سے ایک یا کئی مصلحوں کی پوشیدہ طور پر تخم ریزی ہو جاتی ہے جو نئی صدی کے سر پر ظاہر ہونے کے لئے اندر ہی اندر طیار ہو رہتے ہیں اسی کی طرف اللہ جلشانہ اشارہ فرماتا ہے کہ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَہیر.یعنی اس لیلتہ القدر کے نور کو دیکھنے والا اور وقت کے مصلح کی صحبت سے شرف حاصل کرنے والا اس اسی برس کے بڑھے سے اچھا ہے جس نے اس نورانی وقت کو نہیں پایا اور اگر ایک ساعت بھی اس وقت کو پا لیا ہے تو یہ ایک ساعت اس ہزار مہینے سے بہتر ہے جو پہلے گزر چکے.کیوں بہتر ہے؟ اس لئے کہ اس لیلتہ القدر میں خدا تعالیٰ کے فرشتے اور روح القدس اس مصلح کے ساتھ رب جلیل کے اذن سے آسمان سے اترتے ہیں نہ عبث طور پر بلکہ اس لئے کہ تا مستعد دلوں پر نازل ہوں اور سلامتی کی

Page 336

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۹ سورة القدر راہیں کھولیں.سو وہ تمام راہوں کے کھولنے اور تمام پردوں کے اٹھانے میں مشغول رہتے ہیں یہاں تک کہ ظلمت غفلت دور ہو کر صبح ہدایت نمودار ہو جاتی ہے.فتح اسلام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۲،۳۱) ایک نہایت لطیف نکتہ جو سورۃ القدر کے معانی پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ نے اس سورۃ میں صاف اور صریح لفظوں میں فرما دیا ہے کہ جس وقت کوئی آسمانی مصلح زمین پر آتا ہے تو اس کے ساتھ فرشتے آسمان سے اتر کر مستعد لوگوں کو حق کی طرف کھینچتے ہیں پس ان آیات کے مفہوم سے یہ جدید فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ اگر سخت ضلالت اور غفلت کے زمانہ میں ایک دفعہ ایک خارق عادت طور پر انسانوں کے قومی میں خود بخود مذہب کی تفتیش کی طرف حرکت پیدا ہونی شروع ہو جائے تو وہ اس بات کی علامت ہوگی کہ کوئی آسمانی مصلح پیدا ہو گیا ہے کیونکہ بغیر روح القدس کے نزول کے وہ حرکت پیدا ہونا ممکن نہیں اور وہ ، حرکت حسب استعداد و طبائع دو قسم کی ہوتی ہے حرکت تامہ اور حرکت ناقصہ.حرکت تامہ وہ حرکت ہے جو روح میں صفائی اور سادگی بخش کر اور عقل اور فہم کو کافی طور پر تیز کر کے رو بحق کر دیتی ہے.اور حرکت نا قصہ وہ ہے جو روح القدس کی تحریک سے عقل اور فہم تو کسی قدر تیز ہو جاتا ہے مگر باعث عدم سلامت استعداد کے وہ رو بحق نہیں ہوسکتا بلکہ مصداق اس آیت کا ہو جاتا ہے کہ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا ( البقرة : ١١ ) یعنی عقل اور فہم کے جنبش میں آنے سے پچھلی حالت اُس شخص کی پہلی حالت سے بدتر ہو جاتی ہے جیسا کہ تمام نبیوں کے وقت میں یہی ہوتا رہا کہ جب اُن کے نزول کے ساتھ ملائک کا نزول ہوا تو ملائکہ کی اندرونی تحریک سے ہر یک طبیعت عام طور پر جنبش میں آگئی تب جو لوگ راستی کے فرزند تھے وہ اُن راستبازوں کی طرف کھنچے چلے آئے اور جو شرارت اور شیطان کی ذریت تھے وہ اس تحریک سے خواب غفلت سے جاگ تو اُٹھے اور دینیات کی طرف متوجہ بھی ہو گئے لیکن باعث نقصان استعداد حق کی طرف رُخ نہ کر سکے سوفعل ملائک کا جور بانی مصلح کے ساتھ اُترتے ہیں ہر یک انسان پر ہوتا ہے لیکن اس فعل کا نیکوں پر نیک اثر اور بدوں پر بداثر پڑتا ہے.باران که در لطافت طبعش خلاف نیست در باغ لاله روید درشوره بوم و خس اور جیسا کہ ہم ابھی اوپر بیان کر چکے ہیں یہ آیت کریمہ فی قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًارَى مختلف طور کے اثر کی طرف اشارہ کرتی ہے.یہ بات یادرکھنے کے لائق ہے کہ ہر نبی کے نزول کے وقت ایک لیلۃ القدر ہوتی ہے جس میں وہ نبی اور

Page 337

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۰ سورة القدر ، وہ کتاب جو اس کو دی گئی ہے آسمان سے نازل ہوتی ہے اور فرشتے آسمان سے اترتے ہیں لیکن سب سے بڑی لیلتہ القدر وہ ہے جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی گئی ہے درحقیقت اس لیلۃ القدر کا دامن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے قیامت تک پھیلا ہوا ہے اور جو کچھ انسانوں میں دلی اور دماغی قومی کی جنبش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے آج تک ہو رہی ہے وہ لیلتہ القدر کی تاثیریں ہیں صرف اتنا فرق ہے کہ سعیدوں کے عقلی قومی میں کامل اور مستقیم طور پر وہ جنبشیں ہوتیں ہیں اور اشقیا کے عقلی قوی ایک سمج اور غیر مستقیم طور سے جنبش میں آتے ہیں اور جس زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی نائب دنیا میں پیدا ہوتا ہے تو یہ تحریکیں ایک بڑی تیزی سے اپنا کام کرتی ہیں بلکہ اُسی زمانہ سے کہ وہ نائب رحم مادر میں آوے پوشیدہ طور پر انسانی قومی کچھ کچھ جنبش شروع کرتے ہیں اور حسب استعداد اُن میں ایک حرکت پیدا ہو جاتی ہے اور اس نائب کو نیابت کے اختیارات ملنے کے وقت تو وہ جنبش نہایت تیز ہو جاتی ہے پس نائب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزول کے وقت جو لیلتہ القدر مقرر کی گئی ہے وہ در حقیقت اس لیلتہ القدر کی ایک شاخ ہے یا یوں کہو کہ اس کا ظل ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی ہے خدائے تعالیٰ نے اس لیلۃ القدر کی نہایت درجہ کی شان بلند کی ہے جیسا کہ اُس کے حق میں یہ آیت کریمہ ہے کہ فِيْهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيمٍ ( الدخان : ۵ ) یعنی اس لیلتہ القدر کے زمانہ میں جو قیامت تک مند ہے ہر یک حکمت اور معرفت کی باتیں دنیا میں شائع کر دی جائیں گی اور انواع اقسام کے علوم غریبه وفنون نادره وصناعات عجیبه صفحه عالم میں پھیلا دئے جائیں گے اور انسانی قولی میں موافق اُن کی مختلف استعدادوں اور مختلف قسم کے امکان بسطت علم اور عقل کے جو کچھ لیا قتیں مخفی ہیں یا جہاں تک وہ ترقی کر سکتے ہیں سب کچھ بمنصہ ظہور لایا جائے گا لیکن یہ سب کچھ ان دنوں میں پر زور تحریکوں سے ہوتا رہے گا کہ جب کوئی نائب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں پیدا ہو گا در حقیقت اسی آیت کو سورۃ الزلزال میں مفصل طور پر بیان کیا گیا ہے کیونکہ سورۃ الزلزال سے پہلے سورۃ القدر نازل کر کے یہ ظاہر فرمایا گیا ہے کہ سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ خدائے تعالی کا کلام لیلۃ القدر میں ہی نازل ہوتا ہے اور اس کا نبی لیلۃ القدر میں ہی دنیا میں نزول فرماتا ہے اور لیلتہ القدر میں ہی وہ فرشتے اُترتے ہیں جن کے ذریعہ سے دُنیا میں نیکی کی طرف تحریکیں پیدا ہوتی ہیں اور وہ ضلالت کی پر ظلمت رات سے شروع کر کے طلوع صبح صداقت تک اس کام میں لگے رہتے ہیں کہ مستعد دلوں کو سچائی کی طرف کھینچتے رہیں.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۵۵ تا ۱۶۰)

Page 338

۳۱۱ سورة القدر تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدائے تعالیٰ نے میرے پر یہ نکتہ معارف قرآنیہ کا ظاہر کیا کہ انا انزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ کے صرف یہی معنے نہیں کہ ایک بابرکت رات ہے جس میں قرآن شریف اُترا بلکہ باوجود ان معنوں کے جو بجائے خود صحیح ہیں اس آیت کے بطن میں دوسرے معنے بھی ہیں جو رسالہ فتح اسلام میں درج کئے گئے ہیں.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۵۹) خدائے تعالیٰ نے اس عاجز پر ظاہر کیا ہے کہ پہلے معنے لیلتہ القدر کے جو علماء کرتے ہیں وہ بھی مسلّم اور بجا ہیں اور ساتھ اُن کے یہ بھی معنے ہیں.اور ان دونوں میں کچھ منافات نہیں.قرآن شریف ظہر بھی رکھتا اور بطن بھی اور صدہا معارف اس کے اندر پوشیدہ ہیں.پس اگر اس عاجز نے تفہیم الہی سے لیلتہ القدر کے یہ معنے کئے تو کہاں سے سمجھا گیا کہ پہلے معنوں سے انکار کیا ہے کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ خیر القرون نہیں اللہ کہلاتا؟ کیا اس زمانہ کی عبادات ثواب میں بڑھ کر نہیں تھیں ؟ کیا اُس زمانہ میں نصرت دین کے لئے فرشتے نازل نہیں ہوتے تھے؟ کیا روح الامین نازل نہیں ہوتا تھا ؟ پس ظاہر ہے کہ لیلۃ القدر کے تمام آثار و انوار و برکات اُس زمانہ میں موجود تھے ایک ظلمت بھی موجود تھی جس کے دُور کرنے کے لئے یہ انوار وملائک اور روح الامین اور طرح طرح کی روشنی نازل ہو رہی تھی.پھر اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مقدس زمانہ کا نام بھی الہام الہی سے لیلتہ القدر ظاہر کیا گیا تو اس سے کون سی قباحت لازم آ گئی ؟ جو شخص قرآن شریف کے ایک معنی کو مسلم رکھ کر ایک دوسرا لطیف نکتہ اس کا بیان کرتا ہے تو کیا اس کا محمد نام رکھنا چاہیئے ؟ اس خیال کے آدمی بلا شبہ قرآن شریف کے دشمن اور اس کے اعجاز کے منکر ہیں.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۲۰،۳۱۹) زمانہ کے فساد کے وقت جب کوئی مصلح آتا ہے اس کے ظہور کے وقت پر آسمان سے ایک انتشار نورانیت ہوتا ہے.یعنی اس کے اترنے کے ساتھ زمین پر ایک نور بھی اترتا ہے اور مستعد دلوں پر نازل ہوتا ہے تب دنیا خود بخود بشرط استعداد نیکی اور سعادت کے طریقوں کی طرف رغبت کرتی ہے اور ہر یک دل تحقیق اور تدقیق کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور نا معلوم اسباب سے طلب حق کے لئے ہر یک طبیعت مستعدہ میں ایک حرکت پیدا ہو جاتی ہے غرض ایک ایسی ہوا چلتی ہے جو مستعد دلوں کو آخرت کی طرف ہلا دیتی ہے اور سوئی ہوئی قوتوں کو جگا دیتی ہے اور زمانہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا ایک انقلاب عظیم کی طرف حرکت کر رہا ہے سو یہ علامتیں اس بات پر شاہد ہوتی ہیں کہ وہ مصلح دنیا میں پیدا ہو گیا پھر جس قدر آنے والا مصلح عظیم الشان ہو یہ غیبی

Page 339

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣١٢ سورة القدر قف है تحریکات قوت سے مستعد دلوں میں اپنا کام کرتی ہیں.ہر یک سعید الفطرت جاگ اٹھتا ہے اور نہیں جانتا ہے کہ اس کو کس نے جگایا.ہر ایک صحیح الجبلت اپنے اندر ایک تبدیلی پاتا ہے اور نہیں معلوم کر سکتا کہ یہ تبدیلی کیوں کر پیدا ہوئی.غرض ایک جنبش سی دلوں میں شروع ہو جاتی ہے اور نادان خیال کرتے ہیں کہ یہ جنبش خود بخود پیدا ہوگئی لیکن در پردہ ایک رسول یا مجدد کے ساتھ یہ انوار نازل ہوتے ہیں چنانچہ قرآن کریم اور احادیث کی رو سے یہ امر نہایت انکشاف کے ساتھ ثابت ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے إِنَّا أَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَمَا أَدْراكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ تَنَزَّلُ الْمَلَيكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ اَمْرٍ سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ یعنی ہم نے اس کتاب اور اس نبی کولیلۃ القدر میں اتار ہے اور تو جانتا ہے کہ لیلۃ القدر کیا چیز ہے لیلتہ القدر ہزار مہینہ سے بہتر ہے اس میں فرشتے اور روح القدس اپنے رب کے اذن سے اترتے ہیں.اور وہ ہر یک امر میں سلامتی کا وقت ہوتا ہے یہاں تک کہ فجر ہو.اب اگر چہ مسلمانوں کے ظاہری عقیدہ کے موافق لیلتہ القدر ایک متبرک رات کا نام ہے مگر جس حقیقت پر خدا تعالیٰ نے مجھ کو مطلع کیا ہے وہ یہ ہے کہ علاوہ ان معنوں کے جو مسلم قوم ہیں لیلتہ القدر وہ زمانہ بھی ہے جب دنیا میں ظلمت پھیل جاتی ہے اور ہر طرف تاریکی ہی تاریکی ہوتی ہے تب وہ تاریکی بالطبع تقاضا کرتی ہے کہ آسمان سے کوئی نور نازل ہو.سو خدا تعالیٰ اس وقت اپنے نو رانی ملائکہ اور روح القدس کو زمین پر نازل کرتا ہے.اسی طور کے نزول کے ساتھ جو فرشتوں کی شان کے ساتھ مناسب حال ہے تب روح القدس تو اس مجد داور مصلح سے تعلق پکڑتا ہے جو اجتہا اور اصطفا کی خلعت سے مشرف ہو کر دعوت حق کے لئے مامور ہوتا ہے اور فرشتے ان تمام لوگوں سے تعلق پکڑتے ہیں جو سعید اور رشید اور مستعد ہیں اور ان کو نیکی کی طرف کھینچتے ہیں اور نیک توفیقیں ان کے سامنے رکھتے ہیں تب دنیا میں سلامتی اور سعادت کی راہیں پھیلتی ہیں اور ایسا ہی ہوتا رہتا ہے جب تک دین اپنے اس کمال کو پہنچ جائے جو اس کے لئے مقدر کیا گیا ہے.اب دیکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے اس سورہ مبارکہ میں صاف اور صریح لفظوں میں فرما دیا کہ جب کوئی مصلح خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے تو ضرور دلوں کو حرکت دینے والے ملائکہ زمین پر نازل ہوتے ہیں تب ان کے نزول سے ایک حرکت اور تموج دلوں میں نیکی اور راہ حق کی طرف پیدا ہوجاتا ہے.پس ایسا خیال کرنا کہ یہ حرکت اور یہ تموج بغیر ظہور صلح کے خود بخود پیدا ہو جاتا ہے.خدا تعالی کی پاک کلام اور اس کے قدیم قانون قدرت کے مخالف ہے اور ایسے اقوال صرف ان لوگوں کے منہ سے نکلتے ہیں جو الہی اسرار سے بے خبر محض اور

Page 340

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۳ سورة القدر صرف اپنے بے بنیاد اوہام کے تابع ہیں بلکہ یہ تو آسمانی مصلح کے پیدا ہونے کی علامات خاصہ ہیں اور اس آفتاب کے گرد ذرات کی مانند ہیں.ہاں اس حقیقت کو دریافت کرنا ہر ایک کا کام نہیں.ایک دنیا دار کی دود آمیز نظر اس نور کو دریافت نہیں کر سکتی دینی صداقتیں اس کی نظر میں ایک ہنسی کی بات ہے اور معارف الہی اس کے خیال میں بیوقوفیاں ہیں.(شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۱۲، ۳۱۴) فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ فِي هَذِهِ السُّوْرَةِ اس صورت میں اللہ عز وجل فرماتا ہے کہ ملائکہ أَنَّ الْمَلَائِكَةَ وَالرُّوحَ تَنَزَّلُونَ فِي تِلْكَ اور روح ليلة القدر میں اپنے رب کے اذن سے اللَّيْلَةِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ، وَيَمْكُتُونَ فِي الْأَرْضِ اترتے ہیں اور طلوع فجر تک زمین میں ہی ٹھہرتے ہیں إلى مطلع الْفَجْرِ، فَإِذَا نَزَلَتِ الْمَلائِكَةُ اور جب اس رات تمام کے تمام فرشتے زمین پر اتر گئے كُلُّهُمْ فى تلك اللَّيْلَةِ إلَى الْأَرْضِ فَلَزِمَ تو تمہارے اعتقاد کے مطابق یہ لازم آیا کہ سارے کا بِنَاءً عَلَى اعْتِقَادِكَ أَنَّ تَبْقَى السَّمَاءِ كُلَّهَا سارا آسمان ان کے نزول کے بعد خالی ہو جائے.....خَالِيَةً بَعْدَ نُزُولِهِمْ ، وَ أَنْتَ تَعْلَمُ اور تمہیں معلوم ہے کہ ہدایت گمراہی سے الگ ہوگئی أَنَّ الرُّشْد قَدْ تَبَيِّنَ مِنَ الْغَيْ.وَلَنْ تَسْتَطِيعَ ہے اور تم اس بات پر طاقت نہیں رکھتے کہ کوئی ایسی أَن تُخْرِجَ لَنَا حَدِيثًا دَالَّا عَلى أَنَّ السَّمَاء حدیث پیش کر سکو جو اس بات پر دلالت کرے کہ زمین تَبْقَى خَالِيَةً بَعْدَ نُزُولِ الْمَلَائِكَةِ إِلَى پر فرشتوں کے نزول کے بعد آسمان خالی ہوجاتا الْأَرْضِ ہے.(ترجمہ از مرتب) (حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۷۶) وَالْحَقُ أَنَّ لِلْمَلَكِ لِمَّةً بِقَلْبِ بَنِي آدَمَ حق بات یہ ہے کہ فرشتے بنی آدم کے دلوں پر وَلِلشَّيَاطِيْن لِمَّةٌ، فَإِذَا أَرَادَ الله أَن يُبْعَثُ اترتے ہیں اور اسی طرح شیاطین بھی.پس جب مُصْلِحًا مِنْ رَّسُولٍ أَوْ نَبِي أَوْ مُحَدَّبِ اللہ تعالیٰ کسی مصلح یعنی رسول، نبی یا محدث کو دنیا میں فَيُقَوَى لِمَّةَ الْمَلَكِ وَيَجْعَل استعدادات مبعوث کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو وہ فرشتوں کے نزول النَّاسِ قَرِيبَةٌ لِقُبُولِ الْحَقِّ وَيُعْطِيهِمُ کو قوت دیتا ہے اور لوگوں کی استعدادوں کو قبول حق لَهُمْ عَقْلًا وَفَهَبًا وَهِمَةٌ وَقُوَّةَ تَحَملِ کے قریب کر دیتا ہے اور انہیں عقل ، فہم ، ہمت اور الْمَصَائِبِ وَنُورَ فَهُمِ الْقُرْآنِ مَا كَانَتْ مصائب کو برداشت کرنے والی قوت عطا کرتا ہے اور

Page 341

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۴ سورة القدر وطبيعتهم، لَّهُمْ قَبْلَ ظُهُورِ ذلِكَ الْمُصْلِح فَتَضفى فہم قرآن کا وہ نور بخشتا ہے جو اس مصلح کے ظہور سے قبل انہیں الْأَنْهَانُ وَتَتَقَوَى الْعُقُولُ وَتَعْلُو حاصل نہیں تھا.پس ذہن صاف ہو جاتے ہیں اور عقلیں الْهِمَمُ، وَيَجِدُ كُلُّ أَحَدٍ كَأَنَّهُ أُوقظ من تقویت پکڑتی ہیں اور ہمتیں بلند ہو جاتی ہیں اور ہر شخص یوں تَوْمِهِ، وَكَانَ نُورًا يَنزِلُ مِنْ غَيْبِ عَلی محسوس کرتا ہے کہ گویا اسے نیند سے جدا کر دیا گیا ہے اور یہ کہ قَلْبِهِ وَكَأَنَّ مُعَلَّمًا قَامَ بِبَاطِنِهِ غیب سے ایک نور اس کے قلب پر نازل ہو رہا ہے اور کوئی وَيَكُونُ النَّاسُ كَأَنَّ اللهَ بَلَّلَ مِزَاجَهُمُ معلم اس کے خود اندر سے کھڑا ہو گیا ہے اور لوگوں کی حالت وشل أَذْهَاتَهُمُ ایسی ہو جاتی ہے کہ گویا اللہ تعالیٰ نے ان کے مزاج اور ان کی وَأَفَكَارَهُمْ فَإِذَا ظَهَرَتْ وَاجْتَمَعَتْ طبیعت کو بدل دیا ہے اور ان کے اذہان اور افکار کو تیز کر دیا هذِهِ الْعَلَامَاتُ كُلُهَا فَتَبَلُ بدَلالة ہے.پس جب یہ علامات ظاہر ہو جائیں اور سب کی سب جمع قطعِيَّةٍ عَلَى أَنَّ الْمُجَيْدَ الْأَعْظَمَ قَد ہو جائیں تو وہ اس بات پر قطعی دلالت کریں گی کہ مجدد اعظم ظَهَرَ، وَالتَّوْرَ النَّازِلَ قَد نَزَلَ وَإلى هذا ظاہر ہو گیا ہے اور نازل ہونے والا نو ر اتر آیا ہے چنانچہ اسی أَشَارَ سُبْحَانَهُ في سُوْرَةِ الْقَدْرِ وَقَالَ إِنَّا کی طرف اللہ سبحانہ نے سورۃ القدر میں اشارہ فرمایا ہے اور انْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَ مَا ادريكَ مَا لَيْلَةُ کہا ہے إِنَّا اَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَ مَا أَدْراكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ الْفِ شَهْرٍ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ تَنَزَّلُ الْمَلَيكَةُ تَنَزَّلُ الْمَلبِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ سَلَمُ هِيَ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ سَلِمٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ.اور یہ بات آپ کو معلوم ہے کہ ملائکہ الفجرِ.وَأَنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ الْمَلَائِكَةَ اور روح حق لے کر ہی نازل ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی وَالرُّوحَ لَا يَنْزِلُونَ إِلَّا بِالْحَق وَتَعَالَی ذات اس سے پاک ہے کہ وہ فرشتوں کو عبث اور باطل طور الله عَن أَن يُرْسِلَهُمْ عَبَفًا وَبَاطِلًا پر بھیجے.پس ارسال روح سے اس مقام پر کسی نبی کے فَإِرْسَالُ الرُّوحِ فَهُنَا إِشَارَةٌ إلى بَعْث مبعوث ہونے یا کسی مرسل اور محدث کے بھیجے جانے کی نبي أو مُرْسَلٍ أَوْ مُحَتَبِ يُلفى ذلِك طرف اشارہ ہے.یہ روح اس پر ڈالی جاتی ہے اور ارسال الرُّوحُ عَلَيْهِ وَإِرْسَالُ الْمَلائِكَةِ ملائکہ سے نزول ملائکہ کی طرف اشارہ ہے جو لوگوں کو حق ، إِشَارَةٌ إِلى نُزُولِ مَلَائِكَةٍ يَجْذِبُونَ ہدایت اور ثابت قدمی کی طرف لاتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ النَّاسَ إِلَى الْحَقِ وَالْهِدَايَةِ وَالثَّبَاتِ قرآن مجید میں ایک اور مقام پر فرماتا ہے اِذْ يُوحَى رَبُّكَ قف

Page 342

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۵ سورة القدر وَالْإِسْتِقَامَةِ، كَمَا قَالَ الله تَعَالى فى إِلَى الْمَليكَةِ إِلى مَعَكُمْ فَثَبْتُوا الَّذِينَ آمَنُوا یعنی جب تيرا مَقَامِ اخَرَ اذْ يُوحَى رَبُّكَ إِلَى الْمَليكة آبی رب فرشتوں کو وحی کر رہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں پس مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِينَ آمَنُوا أَنى هَاتُوا تم مومنوں کو ثابت قدم بناؤ.یہاں فَشَبتُوا سے مراد یہ ہے کہ قُلُوبَهُمْ وَحَيْبُوا إِلَيْهِمُ الْإِيْمَانَ فرشتوں کو حکم تھا کہ مومنوں کے دلوں کو مضبوط بناؤ اور ان کے وَالثَّبَات وَالْاِسْتِقَامَةَ، فَهَذَا فِعْلُ دلوں میں ایمان ، ثبات قدم اور استقامت محبوب بنا دو.یہ الْمَلَائِكَةِ إِذًا نَزَلُوا فَفِي سُورَةِ الْقَدْرِ کام فرشتوں کا ہے جب وہ نازل ہوتے ہیں.پس سورۃ القدر إشَارَةٌ إلى أَنَّ الله تعالى قَدْ وَعَدَ لِهَذِهِ میں اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت الْأُمَّةِ أَنَّهُ لَا يُضَيعُهُمْ أَبَدًا بَلْ إِذَا مَا کے لوگوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ انہیں کبھی ضائع نہیں ضَلُّوا وَسَقَطوا في ظُلُمَاتٍ يَأْتِي عَلَيْهِمُ کرے گا بلکہ جب وہ گمراہ ہو جائیں گے اور اندھیروں میں لَيْلَةُ الْقَدْرِ، وَيَنْزِلُ الرُّوحُ إلى الْأَرْضِ گر جائیں گے تو ان پر لیلتہ القدر کا زمانہ آئے گا اور روح يَعْنِي يُلْقِيهِ اللهُ عَلى مَنْ يَشَاءُ مِن زمین پر نازل ہوگا.یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے عِبَادِهِ وَيَبْعَثُهُ مُجَدّدًا، وَيَنزِلُ مَعَ جس پر چاہے گا اسے اتارے گا اور اسے مجدد بنا کر مبعوث الرُّوحِ مَلائِكَةُ تَجْذِبُونَ قُلُوبَ النّاس فرمائے گا اور روح کے ساتھ ملائکہ بھی نازل ہوں گے جو إلَى الْحَقِّ وَالْهِدَايَةِ، فَلا تنقطع هذه لوگوں کے دلوں کو حق اور ہدایت کی طرف کھینچ کر لائیں گے السّلْسِلَة إِلى يَوْمِ الْقِيَامَةِ.اور یہ سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.( ترجمہ از مرتب) (حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلد۷ صفحه ۳۲۰،۳۱۹) جب مامور مامور ہو کر آتا ہے تو بے شمار فرشتے اس کے ساتھ نازل ہوتے ہیں اور دلوں میں اس کی طرح نیک اور پاک خیالات کو پیدا کرتے ہیں (جیسے اس سے پہلے شیاطین برے خیالات پیدا کیا کرتے ہیں ) اور یہ سب مامور کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے آنے سے یہ تحریکیں پیدا ہوتی ہیں.اسی طرح فرما با إِنَّا اَنْزَلْنَهُ في لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَمَا ادريكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ الأية خدا تعالیٰ نے مقدر کیا ہوا ہوتا ہے کہ مامور کے زمانہ میں ملائک نازل ہوں کیا یہ کام بغیر امداد الہی کہیں ہو سکتا ہے؟ کیا یہ سمجھ میں آسکتا ہے کہ ایک کیا شخص خود بخوداُٹھے اور کسر صلیب کر ڈالے نہیں.ہاں اگر خدا اسے اٹھا وے تو وہ سب کچھ کر سکتا ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۵ مورخه ۲۴ / ا پریل ۱۹۰۳ صفحه ۶) الانفال : ۱۳

Page 343

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة القدر ایک لیلتہ القدر تو وہ ہے جو پچھلے حصہ رات میں ہوتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ تجلی فرماتا ہے اور ہاتھ پھیلاتا ہے کہ کوئی دعا کرنے والا اور استغفار کرنے والا ہے جو میں اس کو قبول کروں لیکن ایک معنے اس کے اور ہیں جس سے بدقسمتی سے علماء مخالف اور منکر ہیں اور وہ یہ ہیں کہ ہم نے قرآن کو ایسی رات میں اتارا ہے کہ تاریک و تار تھی اور وہ ایک مستعد مصلح کی خواہاں تھی.خدا تعالیٰ نے انسان کو عبادت کے لئے پیدا کیا ہے جبکہ اس نے فرما يا وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات : ۵۷ ) پھر جب انسان کو عبادت کے لئے پیدا کیا ہے یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ تاریکی ہی میں پڑا رہے.ایسے زمانے میں بالطبع اس کی ذات جوش مارتی ہے کہ کوئی مصلح پیدا ہو.پس انا اَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ اس زمانہ ضرورت بعثت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور دلیل ہے.احکام جلد ۱۰ نمبر ۲۷ مورخہ ۳۱ جولائی ۱۹۰۶ صفحہ ۴) ہم لیلۃ القدر کے دونوں معنوں کو مانتے ہیں ایک وہ جو عرف عام میں ہے کہ بعض راتیں ایسی ہوتی ہیں کہ خدا تعالیٰ ان میں دعائیں قبول کرتا ہے اور ایک اس سے مراد تاریکی کے زمانہ کی ہے جس میں عام ظلمت پھیل جاتی ہے.حقیقی دین کا نام ونشان نہیں رہتا.اس میں جو شخص خدا کے بچے متلاشی ہوتے ہیں اور اس کی اطاعت کرتے ہیں وہ بڑے قابل قدر ہوتے ہیں.ان کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک بادشاہ ہو اور اس کا ایک بڑ الشکر ہو دشمن کے مقابلہ کے وقت سب لشکر بھاگ جاوے اور صرف ایک یا دو آدمی وفادار اس کے ساتھ رہ جاویں اور انہیں کے ذریعہ سے اسے فتح حاصل ہو تو اب دیکھ لو کہ ان ایک یا دو کی بادشاہ کی نظر میں کیا قدر ہوگی.پس اس وقت جبکہ ہر طرف دہریت پھیلی ہوئی ہے کوئی تو قول سے اور کوئی عمل سے خدا کا انکار کر رہا ہے ایسے وقت میں جو خدا کا حقیقی پرستار ہو گا وہ بڑا قابل قدر ہوگا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ بھی لیلتہ القدر کا زمانہ تھا.اس وقت کی تاریکی اور ظلمت کی بھی کوئی انتہا ی تھی.ایک طرف یہود گمراہ.ایک طرف عیسائی گمراہ ادھر ہندوستان میں دیوتا پرستی ، آتش پرستی وغیرہ.گویا سب دنیا میں بگاڑ پھیلا ہوا تھا.اس وقت بھی جبکہ ظلمت انتہاء تک پہنچ گئی تھی تو اس نے تقاضا کیا تھا کہ ایک نور آسمان سے نازل ہو سو وہ نور جو نازل ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات تھی قاعدہ کی بات ہے کہ جب ظلمت اپنے کمال کو پہنچتی ہے تو وہ نور کو اپنی طرف کھینچتی ہے جیسے کہ جب چاند کی ۲۹ تاریخ ہو جاتی ہے اور رات بالکل اندھیری ہوتی ہے تو نئے چاند کے نکلنے کا وقت ہوتا ہے تو اس زمانہ کو بھی خدا تعالیٰ نے لیلۃ القدر کے نام سے موسوم کیا ہے جیسا کہ فرماتا ہے إِنَّا انزلنهُ في لَيْلَةِ الْقَدْرِ اسی طرح جب نور اپنے

Page 344

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۷ سورة القدر کمال کو پہنچتا ہے تو پھر وہ گھٹنا شروع ہوتا ہے جیسے کہ چاند کو دیکھتے ہو اور اسی طرح سے یہ قیامت تک رہے گا کہ ایک وقت نور کا غلبہ ہوگا اور ایک وقت ظلمت کا.(البدر جلد ۳ نمبر ۲ مورخه ۸ /جنوری ۱۹۰۴ء صفحه ۳، ۴) قرآن شریف میں جو لیلتہ القدر کا ذکر آیا ہے کہ وہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے یہاں لیلتہ القدر کے تین معنی ہیں اول تو یہ کہ رمضان میں ایک رات لیلتہ القدر کی ہوتی ہے دوم یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ بھی ایک لیلتہ القدر تھا یعنی سخت جہالت اور بے ایمانی کی تاریکی کے زمانہ میں وہ آیا جبکہ ملائکہ کا نزول ہوا کیونکہ نبی دنیا میں اکیلا نہیں آتا بلکہ وہ بادشاہ ہوتا ہے اور اس کے ساتھ لاکھوں کروڑوں ملائکہ کا لشکر ہوتا ہے جو ملائک اپنے اپنے کام میں لگ جاتے ہیں اور لوگوں کے دلوں کو نیکی کی طرف کھینچتے ہیں.سوم لیلتہ القدر انسان کے لئے اس کا وقت اصفی ہے.تمام وقت یکساں نہیں ہوتے.بعض وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ کو کہتے کہ ارخنَا يَا عَائِشَةُ یعنی اے عائشہ مجھے کو راحت و خوشی پہنچا اور بعض وقت آپ بالکل دعا میں مصروف ہوتے جیسا کہ سعدی نے کہا ہے ؎ وقتے چنیں بودے کہ بجبرائیل و میکائیل پرداخته و دیگر وقت با حفصه و زینب در ساختے جنتنا جتنا انسان خدا کے قریب آتا ہے یہ وقت اسے زیادہ میسر آتا ہے.(احکم جلد ۵ نمبر ۳۲ مورخه ۳۱/اگست ۱۹۰۱ء صفحه ۱۳، ۱۴) جب آسمان سے مقرر ہو کر ایک نبی یا رسول آتا ہے تو اس نبی کی برکت سے عام طور پر ایک نور حسب مراتب استعدادات آسمان سے نازل ہوتا ہے اور انتشار روحانیت ظہور میں آتا ہے تب ہر ایک شخص خوابوں کے دیکھنے میں ترقی کرتا ہے اور الہام کی استعداد رکھنے والے الہام پاتے ہیں اور روحانی امور میں عقلیں بھی تیز ہو جاتی ہیں کیونکہ جیسا کہ جب بارش ہوتی ہے ہر ایک زمین کچھ نہ کچھ اس سے حصہ لیتی ہے ایسا ہی اس وقت ہوتا ہے جب رسول کے بھیجنے سے بہار کا زمانہ آتا ہے تب ان ساری برکتوں کا موجب دراصل وہ رسول ہوتا ہے اور جس قدر لوگوں کو خوا ہیں یا الہام ہوتے ہیں دراصل ان کے کھلنے کا دروازہ وہ رسول ہی ہوتا ہے کیونکہ اس کے ساتھ دنیا میں ایک تبدیلی واقع ہوتی ہے اور آسمان سے عام طور پر ایک روشنی اترتی ہے جس سے ہر ایک شخص حسب استعداد حصہ لیتا ہے وہی روشنی خواب اور الہام کا موجب ہو جاتی ہر می لیتا اور ہے اور نادان خیال کرتا ہے کہ میرے ہنر سے ایسا ہوا ہے مگر وہ چشمہ الہام اور خواب کا صرف اس نبی کی برکت سے دنیا پر کھولا جاتا ہے اور اس کا زمانہ ایک لیلتہ القدر کا زمانہ ہوتا ہے جس میں فرشتے اترتے ہیں

Page 345

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۸ سورة القدر جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تَنَزَّلُ الْمَلبِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ سَلَمٌ جب سے خدا نے دنیا پیدا کی ہے یہی قانون قدرت ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶۹ حاشیه )

Page 346

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۳۱۹ سورة البينة بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة البينة بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ اَهْلِ الْكِتَب وَالْمُشْرِكِينَ مُنْفَيِّينَ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ لا رَسُولٌ مِنَ اللهِ يَتْلُوا صُحُفًا مُطَهَّرَةً كُ فِيهَا كُتُبُ قَيْمَةٌ.جو لوگ اہل کتاب اور مشرکوں میں سے کا فر ہو گئے ہیں یعنی کفر پر سخت اصرار اختیار کر لیا ہے وہ اپنے کفر سے بجز اس کے باز آنے والے نہیں تھے کہ ان کو کھلی نشانی دکھلائی جاتی.( براہینِ احمد یہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۰۳ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) جولوگ اہلِ کتاب اور مشرکین میں سے کافر ہو گئے ان کا راہ راست پر آنا بجز اس کے ہرگز ممکن نہ تھا کہ ان کی طرف ایسا عظیم الشان نبی بھیجا جاوے جو ایسی عظیم الشان کتاب لایا ہے کہ جو سب الہی کتابوں کے معارف اور صداقتوں پر محیط اور ہر یک غلطی اور نقصان سے پاک اور منزہ ہے.اب اس دلیل کا ثبوت دو مقدموں کے ثبوت پر موقوف ہے اول یہ کہ خدائے تعالیٰ کا یہی قانونِ قدیم ہے کہ وہ جسمانی یا روحانی حاجتوں کے وقت مددفرماتا ہے یعنی جسمانی صعوبتوں کے وقت بارش وغیرہ سے اور روحانی صعوبتوں کے وقت اپنا شفا بخش کلام نازل کرنے سے عاجز بندوں کی دستگیری کرتا ہے.سو یہ مقدمہ بدیہی الصداقت ہے کیونکہ کسی عاقل کو اس سے انکار نہیں کہ یہ دونوں سلسلے روحانی اور جسمانی

Page 347

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة البينة ہو جاتا.اسی وجہ سے اب تک صحیح و سالم چلے آتے ہیں کہ خداوند کریم نیست و نابود ہونے سے ان کو محفوظ رکھتا ہے مثلاً اگر خدائے تعالیٰ جسمانی سلسلہ کی حفاظت نہ کرتا اور سخت سخت مخطوں کے وقت میں باران رحمت سے دستگیری نہ فرماتا تو بالآخر نتیجہ اس کا یہ ہوتا کہ لوگ پہلی فصلوں کی جس قدر پیداوار تھی سب کی سب کھا لیتے اور پھر آگے اناج کے نہ ہونے سے تڑپ تڑپ کر مر جاتے اور نوع انسان کا خاتمہ ہوجاتا یا اگر خدائے تعالیٰ عین وقتوں پر رات اور دن اور سورج اور چاند اور ہوا اور بادل کو خدمات مقررہ میں نہ لگا تا تو تمام سلسلہ عالم کا درہم برہم (برائین احمد یہ چہار صص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۶۱ تا ۶۶۳) جن سخت بلاؤں میں اہل کتاب اور مشرکین مبتلا تھے ان سے نجات پانے کی کوئی سبیل نہ تھی بجز اس سبیل کے کہ خدائے تعالیٰ نے آپ پیدا کر دی کہ وہ زبر دست رسول بھیجا جس کے ساتھ زبر دست تحریک دینے والے ملائک نازل کئے تھے اور زبردست کلام بھیجا گیا تھا.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۶۱،۱۶۰) يَتْلُوا صُحُفًا مُطَهَّرَةٌ - فِيهَا كُتُبُ قَيْمَةٌ ـ یعنی خدا کا رسول پاک صحیفے پڑھتا ہے جن میں تمام کامل صداقتیں اور علوم اولین و آخرین درج ہیں.(براہین احمدیہ چہار تخصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۲۳ حاشیہ نمبر۱۱) قرآن کل دنیا کی صداقتوں کا مجموعہ ہے اور سب دین کی کتابوں کا فخر ہے جیسے فرمایا ہے فِيهَا كُتب قَيْمَةٌ اور يَتْلُوا صُحُفًا مُطَهَّرَةٌ.پس قرآن کریم کے معنی کرتے وقت خارجی قصوں کو نہ لیں بلکہ واقعات کو مد نظر رکھنا چاہیے.الحاکم جلد ۴ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۰ صفحه ۴) قرآن لانے والا وہ شان رکھتا ہے کہ يَتْلُوا صُحُفًا مُطَهَّرَةٌ فِيهَا كُتُبُ قَيْمَةٌ ایسی کتاب جس میں ساری کتابیں اور ساری صداقتیں موجود ہیں.کتاب سے مراد اور عام مفہوم وہ عمدہ باتیں ہیں جو بالطبع انسان قابل تقلید سمجھتا ہے.قرآن شریف ایسی حکمتوں اور معارف کا جامع ہے اور رطب و یابس کا ذخیرہ اس کے اندر نہیں.ہر ایک چیز کی تفسیر وہ خود کرتا ہے اور ہر ایک قسم کی ضرورتوں کا سامان اس کے اندر موجود ہے.وہ ہر پہلو سے نشان اور آیت ہے.اگر کوئی انکار کرے تو ہم ہر پہلو سے اس کا اعجاز ثابت کرنے اور دکھلانے کو تیار ہیں.آج کل توحید اور ہستی الہی پر بہت زور آور حملے ہو رہے ہیں.عیسائیوں نے بھی بہت کچھ زور مارا اور لکھا لیکن جو کچھ کہا اور لکھاوہ اسلام کے خدا کی بابت ہی لکھا نہ کہ ایک مردہ مصلوب اور عاجز خدا کی بابت.ہم دعوے سے کہتے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ہستی اور وجود پر قلم اُٹھائے گا اس کو آخر کار اسی خد کی طرف آنا پڑے گا جو اسلام نے پیش کیا ہے کیونکہ صحیفہ فطرت کے ایک ایک پتہ میں اس کا پتا ملتا ہے اور بالطبع انسان

Page 348

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۱ سورة البينة ای خدا کا نقش اپنے اندر رکھتا ہے.غرض ایسے آدمیوں کا قدم جب اُٹھے گا وہ اسلام ہی کے میدان کی طرف اُٹھے گا.یہ بھی تو ایک عظیم الشان اعجاز ہے.اگر کوئی قرآن کریم کے اس معجزہ کا انکار کرے تو ایک ہی پہلو میں ہم لوگوں کو آزما لیتے ہیں.یعنی اگر قرآن کو خدا کا کلام نہیں مانتا تو اس روشنی اور سائنس کے زمانہ میں ایسا مدعی خدائے تعالیٰ کی ہستی پر دلائل لکھے.ہم وہ تمام دلائل قرآن کریم ہی سے نکال کر دکھا دیں گے.اور اگر توحید الہی کی نسبت دلائل قلمبند کرے تو وہ سب دلائل بھی قرآن کریم ہی سے نکال کر دکھا دیں گے اور وہ ویسے دلائل کا دعوی کر کے لکھیں کہ یہ دلائل قرآن میں نہیں یا ان صداقتوں اور پاک تعلیموں پر لکھے جن کی نسبت ان کا خیال ہو کہ وہ قرآن کریم میں نہیں تو ہم اس کو واضح طور پر دکھلاویں گے کہ قرآن کا دعوی فیها كتب قيمة کیسا سچا اور صاف ہے اور یا اصل اور فطرتی مذہب کی بابت دلائل لکھنا چاہے تو ہم ہر پہلو سے قرآن کریم کا اعجاز ثابت کر کے دکھا ئیں گے اور بتلا دیں گے کہ تمام صداقتیں اور پاک تعلیمیں اسی میں موجود ہیں.الغرض قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے کہ ہر ایک قسم کے معارف اور اسرار اس میں موجود ہیں لیکن ان کو حاصل کرنے کے لئے میں پھر کہتا ہوں کہ اسی قوت قدسیہ کی ضرورت ہے چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ.رپورٹ جلسه سالانه ۱۸۹۷ء صفحه ۸۵،۸۴) قرآن شریف کی فصاحت بلاغت ایسی نہیں ہے کہ اس میں صرف الفاظ کا تتبع کیا جاوے اور معانی اور مطالب کی پروا نہ کی جاوے بلکہ جیسا اعلیٰ درجہ کے الفاظ ایک عجیب ترتیب کے ساتھ رکھے گئے ہیں اسی طرح پر حقائق اور معارف کو ان میں بیان کیا گیا ہے اور یہ رعایت انسان کا کام نہیں کہ وہ حقائق اور معارف کو بیان کرے اور فصاحت و بلاغت کے مراتب کو بھی ملحوظ رکھے.ایک جگہ فرماتا ہے يَتْلُوا صُحُفًا مُطَهَّرَةٌ - فيهَا كُتُب قيمة یعنی ان پر ایسے صحیفے پڑھتا ہے کہ جن میں حقائق و معارف ہیں.انشاء والے جانتے ہیں کہ انشاء پردازی میں پاکیزہ تعلیم اور اخلاق فاضلہ کو ملحوظ رکھنا بہت ہی مشکل ہے اور پھر ایسی مؤثر اور جاذب تعلیم دینا جو صفات رذیلہ کو دور کر کے بھی دکھا دے اور ان کی جگہ اعلیٰ درجہ کی خوبیاں پیدا کر دے.عربوں کی جو حالت تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں وہ سارے عیبوں اور برائیوں کا مجموعہ بنے ہوئے تھے اور صدیوں سے ان کی یہ حالت بگڑی ہوئی تھی مگر کس قدر آپ کے فیوضات اور برکات میں قوت تھی کہ تیس برس کے اندر کل ملک کی کایا پلٹ دی یہ تعلیم ہی کا اثر تھا.ایک چھوٹی سے چھوٹی سورت بھی اگر قرآن شریف کی لے کر دیکھی جاوے تو معلوم ہوگا کہ اس میں

Page 349

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۲ سورة البينة فصاحت و بلاغت کے مراتب کے علاوہ تعلیم کی ذاتی خوبیوں اور کمالات کو اس میں بھر دیا ہے.سورہ اخلاص ہی کو دیکھو کہ توحید کے کل مراتب کو بیان فرمایا ہے اور ہر قسم کے شرکوں کا رد کر دیا ہے.اسی طرح سورہ فاتحہ کو دیکھو کہ کس قدر اعجاز ہے.چھوٹی سی سورہ جس کی سات آیتیں ہیں لیکن دراصل سارے قرآن شریف کا فن اور خلاصہ اور فہرست ہے اور پھر اس میں خدا تعالیٰ کی ہستی، اس کے صفات ، دعا کی ضرورت ، اس کی قبولیت کے اسباب اور ذرائع ، مفید اور سودمند دعاؤں کا طریق ، نقصان رساں راہوں سے بچنے کی ہدایت سکھائی ہے وہاں دنیا کے کل مذاہب باطلہ کا رداس میں موجود ہے.اکثر کتابوں اور اہل مذہب کو دیکھو گے کہ وہ دوسرے مذاہب کی برائیاں اور نقص بیان کرتے ہیں اور دوسری تعلیموں پر نکتہ چینی کرتے ہیں مگر ان نکتہ چینیوں کو پیش کرتے ہوئے یہ کوئی اہل مذہب نہیں کرتا کہ اس کے بالمقابل کوئی عمدہ تعلیم پیش بھی کرے اور دکھائے کہ اگر میں فلاں بری بات سے بچانا چاہتا ہوں تو اس کی بجائے یہ اچھی تعلیم دیتا ہوں.یہ کسی مذہب میں نہیں.یہ فخر قرآن شریف ہی کو ہے کہ جہاں وہ دوسرے مذاہب باطلہ کا رد کرتا ہے اور ان کی غلط تعلیموں کو کھولتا ہے وہاں اصلی اور حقیقی تعلیم بھی پیش کرتا ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۷ مورخہ ۱۰ رمئی ۱۹۰۳ ء صفحہ ۲،۱) یہ کتاب جو قرآن شریف ہے یہ مجموعہ ان تمام کتابوں کا ہے جو پہلے بھیجی گئی تھیں اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے پہلے متفرق طور پر ہر ایک امت کو جدا جدا دستور العمل بھیجا اور پھر چاہا کہ جیسا کہ ایک خدا ہے وہ بھی ایک ہو جا ئیں تب سب کو اکٹھا کرنے کے لئے قرآن کو بھیجا اور خبر دی کہ ایک زمانہ آنے والا ہے کہ خدا تمام قوموں کو ایک قوم بنا دے گا اور تمام ملکوں کو ایک ملک کر دے گا اور تمام زبانوں کو ایک زبان بنا دے گا.سو ہم دیکھتے ہیں کہ دن بدن دنیا اس صورت کے قریب آتی جاتی ہے اور مختلف ملکوں کے تعلقات بڑھتے جاتے ہیں.سیاحت کے لئے وہ سامان میسر آگئے ہیں جو پہلے نہیں تھے.خیالات کے مبادلہ کے لئے بڑی بڑی آسانیاں ہو گئی ہیں ایک قوم دوسری قوم میں ایسی دھنس گئی ہے کہ گویا وہ دونوں ایک ہونا چاہتی ہیں.بڑے اور مشکل سفر بہت سہل اور آسان ہو گئے ہیں اب روس کی طرف سے ایک ریل طیار ہو رہی ہے کہ جو چالیس دن میں تمام دنیا کا دورہ ختم کر لے گی اور خبر رسانی کے خارق عادت ذریعے پیدا ہو گئے ہیں.اس سے پایا جاتا ہے خدا تعالیٰ ان مختلف قوموں کو جو کسی وقت ایک تھیں پھر ایک ہی بنانا چاہتا ہے تا پیدائش کا دائرہ پورا ہو جائے اور تا ایک ہی خدا اور ایک ہی نبی ہو اور ایک ہی دین ہو.یہ بات نہایت معقول ہے کہ

Page 350

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۳ سورة البينة ا تفرقہ کے زمانہ میں خدا نے جدا جدا ہر ایک ملک میں نبی بھیجے اور کسی ملک سے بخل نہیں کیا لیکن آخری زمانہ میں جب تمام ملکوں میں ایک قوم بننے کی استعداد پیدا ہو گئی تب سب ہدایتوں کو اکٹھا کر کے ایک ایسی زبان میں جمع کر دیا جو وہ ام الالسنہ ہے یعنی زبان عربی.(نسیم دعوت ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۲۹،۴۲۸) یہ قرآن شریف وہ پاک اوراق ہیں جن میں تمام آسمانی کتابوں کا مغز اور لب لباب بھرا ہوا ہے.اور لیہ سرمه چشم آرید، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۶۱، ۶۲ حاشیه ) وہ تمام صداقتوں پر مشتمل ہے.الحق لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۰) چونکہ حضرت عیسی علیہ السلام کی ہمت اور توجہ دنیوی برکات کی طرف زیادہ مصروف تھی اس لئے ان کی امت میں یہ اثر ہوا کہ رفتہ رفتہ دین سے تو وہ انکی بے بہرہ ہو گئے مگر دنیا کی برکتیں جیسا کہ علم طبعی ، علم ڈاکٹری، علم تجارت، علم فلاحت ، علم جہاز رانی اور ریل رانی وغیرہ اس میں بے نظیر ہو گئے برخلاف اس کے دینی عمیق اسرار مسلمانوں کے حصے میں آئے اور دنیا میں پیچھے رہے.روحانی برکات کی یادگار کے لئے قرآن شریف بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دائی معجزہ دیا گیا جو بموجب منطوق آيت فِيهَا كُتُب قيمة تمام دینی معارف کا جامع ہے.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۴۰۴ حاشیه ) ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن اصلاح کامل اور تزکیہ اتم اور اکمل کے لئے آیا ہے اور وہ خود دعوی کرتا ہے کہ تمام کامل سچائیاں اس کے اندر ہیں جیسا کہ فرماتا ہے فِيهَا كُتب قيمة تو اس صورت میں ضرور ہے کہ جہاں تک سلسلہ معارف اور علوم الہیہ کا مند ہو سکے وہاں تک قرآنی تعلیم کا بھی دامن پہنچا ہوا ہو اور یہ بات صرف میں نہیں کہتا بلکہ قر آن خود اس صفت کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے اور اپنا نام اکمل الکتب رکھتا ہے.پس ظاہر ہے کہ اگر معارف الہیہ کے بارے میں کوئی حالت منتظرہ باقی ہوتی جس کا قرآن شریف نے ذکر نہیں کیا تو قرآن شریف کا حق نہیں تھا کہ وہ اپنا نام اکمل الکتب رکھتا.(سراج منیر ، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۴۱) قرآن نے جس قدر تقویٰ کی راہیں اختیار کیں اور ہر طرح کے انسانوں اور مختلف عقل والوں کی پرورش کرنے کے طریق سکھلائے.ایک جاہل ، عالم اور فلسفی کی پرورش کے راستہ ، ہر طبقہ کے سوالات کے جوابات غرضیکہ کوئی فرقہ نہ چھوڑا جس کی اصلاح کے طریق نہ بتائے.یہ ایک دقیقہ وقت تھا جیسے کہ فرمایا فيهَا كُتُب قيمة یعنی یہ وہ صحیفہ ہے جس میں کل سچائیاں ہیں سو یہ کیسی کتاب مبارک ہے کہ اس میں سب سامان اعلیٰ درجہ تک پہنچنے کے موجود ہیں.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۵۲)

Page 351

۳۲۴ سورة البينة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سب انبیاء کے وصفی نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے گئے کیونکہ آپ تمام انبیاء کے کمالات متفرقہ اور فضائل مختلفہ کے جامع تھے اور اسی طرح جیسے تمام انبیاء کے کمالات آپ کو ملے قرآن شریف بھی جمیع کتب کی خوبیوں کا جامع ہے چنانچہ فرمایا فِيهَا كُتُب قيمة اور مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتب (الانعام :٣٩).الحکم جلدے نمبر ۸ مورخه ۲۸ رفروری ۱۹۰۳ء صفحه ۳) اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ اَهْلِ الْكِتَب وَالْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَلِدِينَ فِيهَا أولبِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّلِحَتِ أُولبِكَ هُمُ خَيْرُ البَرِيَّةِ جب یہ آیتیں اتریں کہ مشرکین رجس ہیں پلید ہیں شر البریہ ہیں سفہاء ہیں اور ذریت شیطان ہیں اور ان کے معبود وقود النار اور حصب جہنم ہیں تو ابو طالب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا کر کہا کہ اے میرے بھتیجے اب تیری دشنام دہی سے قوم سخت مشتعل ہوگئی ہے اور قریب ہے کہ تجھ کو ہلاک کریں اور ساتھ ہی مجھ کو بھی.تو نے ان کے عقل مندوں کو سفیہ قرار دیا اور ان کے بزرگوں کو شتر البر یہ کہا اور ان کے قابل تعظیم معبودوں کا نام ہیزم جہنم اور وقو دالتا ررکھا اور عام طور پر ان سب کو رجس اور ذریت شیطان اور پلید ٹھہرایا میں تجھے خیر خواہی کی راہ سے کہتا ہوں کہ اپنی زبان کو تھام اور دشنام دہی سے باز آجاور نہ میں قوم کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں کہا کہ اے چا یہ دشنام دہی نہیں ہے بلکہ اظہار واقعہ اور نفس الامر کا عین محل پر بیان ہے اور یہی تو کام ہے جس کے لئے میں بھیجا گیا ہوں اگر اس سے مجھے مرنا در پیش ہے تو میں بخوشی اپنے لئے اس موت کو قبول کرتا ہوں میری زندگی اسی راہ میں وقف ہے میں موت کے ڈر سے اظہار حق سے رک نہیں سکتا اور اسے چھا اگر تجھے اپنی کمزوری اور اپنی تکلیف کا خیال ہے تو تو مجھے پناہ میں رکھنے سے دست بردار ہو جا بخدا مجھے تیری کچھ بھی حاجت نہیں میں احکام الہی کے پہنچانے سے کبھی نہیں رکوں گا مجھے اپنے مولیٰ کے احکام جان سے زیادہ عزیز ہیں بخدا اگر میں اس راہ میں مارا جاؤں تو چاہتا ہوں کہ پھر بار بار زندہ ہو کر ہمیشہ اسی راہ میں مرتا رہوں.یہ خوف کی جگہ نہیں بلکہ مجھے اس میں بے انتہاء لذت ہے کہ اس کی راہ میں دکھ اٹھاؤں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ تقریر کر رہے تھے اور چہرہ پر سچائی اور نورائیت سے بھری ہوئی رقت نمایاں ہورہی تھی اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ ولم یہ تقریر ختم کر چکے تو حق کی روشنی دیکھ کر

Page 352

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۵ سورة البينة بے اختیار ابو طالب کے آنسو جاری ہو گئے اور کہا کہ میں تیری اس اعلیٰ حالت سے بے خبر تھا تو اور ہی رنگ میں اور اور ہی شان میں ہے جا اپنے کام میں لگارہ جب تک میں زندہ ہوں جہاں تک میری طاقت ہے میں تیرا ساتھ دوں گا.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۱۱) دیکھو اس آیت کے رو سے ایک ایسے گروہ کو شر البر یہ کہا گیا ہے جس میں سے گروہ دجال ہے اور ایسے گروہ کو خیر البریہ کہا گیا ہے جو امت محمدیہ ہے.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۲۱) انسان کو چاہیے کہ اپنا فرض ادا کرے اور اعمال صالحہ میں ترقی کرے.الہام کرنا اور رویا دکھانا یہ تو خدا کا فعل ہے اس پر ناز نہیں کرنا چاہیے.اپنے اعمال کو درست کرنا چاہیے.خدا فرماتا ہے إِنَّ الَّذِينَ دو امَنُوا وَ عَمِلُوا الظَّلِحَتِ أُولَيكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ یہ نہیں کہا کہ جن کو کشوف اور الہامات ہوتے ہیں وہ خَیرُ الحکم جلد نمبر ۱ ۴ مورخہ ۷ ۱نومبر ۱۹۰۷ ، صفحہ ۱۳) الْبَرِيَّةِ ہیں.

Page 353

Page 354

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ ۳۲۷ سورة الزلزال بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الزلزال بیان فرموده سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ الصلواۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ إذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا وَاَخْرَجَتِ الْأَرْضُ الْقَالَهَا وَقَالَ الْإِنْسَانُ مَا لَهَانَ يَوْمَبِذٍ تُحَدِثُ أَخْبَارَهَا بِاَنَ رَبِّكَ أَوْلى لَهَانُ يَوْمَبِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتًا لِيرُوا أَعْمَالَهُمْ ، فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَةَ وَ مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرَا يَرَهُ اذا زلزلت کے لفظ سے اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جب تم یہ نشانیاں دیکھو تو سمجھ لو کہ وہ لیلتہ القدر اپنے تمام تر زور کے ساتھ پھر ظاہر ہوئی ہے اور کوئی ربانی مصلح خدائے تعالی کی طرف سے مع ہدایت پھیلانے والے فرشتوں کے نازل ہو گیا ہے جیسا کہ فرماتا ہے اِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا وَ اَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا وَقَالَ الْإِنْسَانُ مَا لَهَا يَوْمَين تُحدّثُ اخْبَارَهَا بِاَنَّ رَبَّكَ أوحى لَهَا يَوْمَين يَصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاناً ليروا أعْمَالَهُمْ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًا يَرَةُ - یعنی اُن دنوں کا جب آخری زمانہ میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے کوئی عظیم الشان مصلح آئے گا اور فرشتے نازل ہوں گے یہ نشان ہے کہ زمین جہاں تک اُس کا ہلا ناممکن ہے ہلائی جائے گی یعنی طبیعتوں اور دلوں اور دماغوں کو غایت درجہ پر جنبش دی جائے گی اور خیالات عقلی اور فکری اور سبھی اور بہیمی پورے پورے جوش 9196

Page 355

۳۲۸ تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام سورة الزلزال کے ساتھ حرکت میں آجائیں گے اور زمین اپنے تمام بوجھوں کو باہر نکال دے گی یعنی انسانوں کے دل اپنی تمام استعدادات مخفیہ کو منصہ ظہور لائیں گے اور جو کچھ اُن کے اندر علوم وفنون کا ذخیرہ ہے یا جو کچھ عمدہ عمدہ ولی و دماغی طاقتیں ولیاقتیں اُن میں مخفی ہیں سب کی سب ظاہر ہو جائیں گی اور انسانی قوتوں کا آخری نچوڑ نکل آئے گا اور جو جو ملکات انسان کے اندر ہیں یا جو جو جذبات اس کی فطرت میں مودع ہیں وہ تمام کن قوت سے حیر فعل میں آجائیں گے اور انسانی حواس کی ہر یک نوع کی تیزیاں اور بشری عقل کی ہر قسم کی باریک بینیاں نمودار ہو جائیں گی اور تمام دفائن و خزائن علوم مخفیہ و فنون مستورہ کے جو چھپے ہوئے چلے آتے تھے اُن سب پر انسان فتحیاب ہو جائے گا اور اپنی فکری اور عقلی تدبیروں کو ہر یک باب میں انتہا تک پہنچا دے گا اور انسان کی تمام قوتیں جو نشاء انسانی میں تعمیر ہیں صد با طرح کی تحریکوں کی وجہ سے حرکت میں آجا ئیں گی اور فرشتے جو اس لیلتہ القدر میں مر و صلح کے ساتھ آسمان سے اترے ہوں گے ہر ایک شخص پر اس پراس کی استعداد کے موافق خارق عادت اثر ڈالیں گے یعنی نیک لوگ اپنے نیک خیال میں ترقی کریں گے اور جن کی نگاہیں دنیا تک محدود ہیں وہ اُن فرشتوں کی تحریک سے دنیوی عقلوں اور معاشرت کی تدبیروں میں وہ ید بیضا دکھلائیں گے کہ ایک مرد عارف متحیر ہو کر اپنے دل میں کہے گا کہ یہ عقلی اور فکری طاقتیں ان لوگوں کو کہاں سے ملیں ؟ تب اُس روز ہر یک استعداد انسانی بزبان حال باتیں کرے گی کہ یہ اعلیٰ درجہ کی طاقتیں میری طرف سے نہیں بلکہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے یہ ایک وحی ہے جو ہر یک استعداد پر بحسب اُس کی حالت کے اُتر رہی ہے یعنی صاف نظر آئے گا کہ جو کچھ انسانوں کے دل و دماغ کام کر رہے ہیں یہ ان کی طرف سے نہیں بلکہ ایک غیبی تحریک ہے کہ اُن سے یہ کام کرا رہی ہے سو اُس دن ہر ایک قسم کی قوتیں جوش میں دکھائی دیں گی دنیا پرستوں کی قوتیں فرشتوں کی تحریک سے جوش میں آکر اگر چہ باعث نقصان استعداد کے سچائی کی طرف رُخ نہیں کریں گی لیکن ایک قسم کا اُبال ان میں پیدا ہو کر اور انجماد اور افسردگی دور ہو کر اپنی معاشرت کے طریقوں میں عجیب قسم کی تدبیریں اور صنعتیں اور نکلیں ایجاد کر لیں گے اور نیکوں کی قوتوں میں خارق عادت طور پر الہامات اور مکاشفات کا چشمہ صاف صاف طور پر بہتا نظر آئے گا اور یہ بات شاذ و نادر ہوگی کہ مومن کی خواب جھوٹی نکلے تب انسانی قومی کے ظہور و بروز کا دائرہ پورا ہو جائے گا اور جو کچھ انسان کے نوع میں پوشیدہ طور پر ودیعت رکھا گیا تھا وہ سب خارج میں جلوہ گر ہو جائے گا تب خدائے تعالیٰ کے فرشتے ان تمام راستبازوں کو جو زمین کی چاروں طرفوں میں پوشیدہ طور پر زندگی بسر کرتے تھے ایک گروہ

Page 356

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۲۹ سورة الزلزال کی طرح اکٹھا کر دیں گے اور دنیا پرستوں کا بھی کھلا کھلا ایک گروہ نظر آئے گا تا ہر ایک گروہ اپنی کوششوں کے ثمرات کو دیکھ لیویں تب آخر ہو جائے گی یہ آخری لیلتہ القدر کا نشان ہے جس کی بنا ابھی سے ڈالی گئی ہے جس کی تکمیل کے لئے سب سے پہلے خدائے تعالیٰ نے اس عاجز کو بھیجا ہے اور مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ انت اَشَدُّ مُنَاسَبَةً بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَاشْبَهُ النَّاسِ بِهِ خُلْقًا وَ خَلْقًا وَ زَمَانًا مگر یہ تاثیرات اس لیلتہ القدر کی اب بعد اس کے کم نہیں ہوں گی بلکہ بالا تصال کام کرتی رہیں گی جب تک وہ سب کچھ پورا نہ ہو لے جو خدائے تعالیٰ آسمان پر مقرر کر چکا ہے.اور حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنے اترنے کے لئے جو زمانہ انجیل میں بیان فرمایا ہے یعنی یہ کہ وہ حضرت نوح کے زمانہ کی طرح امن اور آرام کا زمانہ ہو گا در حقیقت اسی مضمون پر سورۃ الزلزال جس کی تفسیر ابھی کی گئی ہے دلالت التزامی کے طور پر شہادت دے رہی ہے کیونکہ علوم وفنون کے پھیلنے اور انسانی عقول کی ترقیات کا زمانہ در حقیقت ایسا ہی چاہیئے جس میں غایت درجہ کا امن و آرام ہو کیونکہ لڑائیوں اور فسادوں اور خوف جان اور خلاف امن زمانہ میں ہر گز ممکن نہیں کہ لوگ عقلی و عملی امور میں ترقیات کر سکیں یہ باتیں تو کامل طور پر تبھی سوجھتی ہیں کہ جب کامل طور پر امن حاصل ہو.ہمارے علماء نے جوظاہری طور پر اس سورۃ الزلزال کی یہ تفسیر کی ہے کہ در حقیقت زمین کو آخری دنوں میں سخت زلزلہ آئے گا اور وہ ایسا زلزلہ ہوگا کہ تمام زمین اُس سے زیروزبر ہو جائے گی اور جو زمین کے اندر چیزیں ہیں وہ سب باہر آجائیں گی اور انسان یعنی کا فرلوگ زمین کو پوچھیں گے کہ تجھے کیا ہوا تب اُس روز زمین باتیں کرے گی اور اپنا حال بتائے گی.یہ سراسر غلط تفسیر ہے کہ جو قرآن شریف کے سیاق و سباق سے مخالف ہے.اگر قرآن شریف کے اس مقام پر بنظر غور تدبر کرو تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دونوں سورتیں یعنی سورۃ البینہ اور سورۃ الزلزال ، سورۃ لیلتہ القدر کے متعلق ہیں اور آخری زمانہ تک اس کا کل حال بتلا رہی ہیں ما سوا اس کے ہر یک عقل سلیم سوچ سکتی ہے کہ ایسے بڑے زلزلہ کے وقت میں کہ جب ساری زمین تہ و بالا ہو جائے گی ایسے کافر کہاں زندہ رہیں گے.جو زمین سے اُس کے حالات استفسار کریں گے کیا ممکن ہے کہ زمین تو ساری زیروز بر ہو جائے یہاں تک کہ اوپر کا طبقہ اندر اور اندر کا طبقہ باہر آ جائے اور پھر لوگ زندہ بیچ رہیں بلکہ اس جگہ زمین سے مراد زمین کے رہنے والے ہیں اور یہ عام محاورہ قرآن شریف کا ہے کہ زمین کے لفظ سے انسانوں کے دل اور ان کے باطنی قومی مراد ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ جل شانہ ایک جگہ فرماتا ہے اعْلَمُوا

Page 357

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۳۰ سورة الزلزال اَنَّ اللهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ( الحديد : ۱۸).اور جیسا کہ فرماتا ہے الْبَلدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُه بِإِذْنِ رَيْهِ وَالَّذِى خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلا نَكِدا (الاعراف : ۵۹).ایسا ہی قرآن شریف میں بیسوں نظیر میں موجود ہیں جو پڑھنے والوں پر پوشیدہ نہیں ماسوا اس کے روحانی واعظوں کا ظاہر ہونا اور ان کے ساتھ فرشتوں کا آنا ایک روحانی قیامت کا نمونہ ہوتا ہے جس سے مردوں میں حرکت پیدا ہو جاتی ہے اور جو قبروں کے اندر ہیں وہ باہر آ جاتے ہیں اور نیک اور بدلوگ اپنی سزا جزا پالیتے ہیں سواگر سورۃ الزلزال کو قیامت کے آثار میں سے قرار دیا جائے تو اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ ایسا وقت روحانی طور پر ایک قسم کی قیامت ہی ہوتی ہے خدائے تعالیٰ کے تائید یافتہ بندے قیامت کا ہی رُوپ بن کر آتے ہیں اور انہیں کا وجود قیامت کے نام سے موسوم ہوسکتا ہے جن کے آنے سے روحانی مردے زندہ ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور نیز اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ جب ایسا زمانہ آجائے گا کہ تمام انسانی طاقتیں اپنے کمالات کو ظاہر کر دکھا ئیں گی اور جس حد تک بشری عقول اور افکار کا پرواز ممکن ہے اُس حد تک وہ پہنچ جائیں گی اور جن مخفی حقیقتوں کو ابتدا سے ظاہر کرنا مقدر وہ ہے وہ سب ظاہر ہو جائیں گی تب اس عالم کا دائرہ پورا ہو کر یک دفعہ اس کی صف لپیٹ دی جائے گی.محمد مَنْ عَلَيْهَا فَان - وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَالِ وَالْإِكْرَامِ - (الرحمن : ۲۸/۲۷) (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۶۱ تا ۱۶۹) اس وقت زمین پر سخت زلزلہ آئے گا اور زمین اپنے تمام خزائن اور دفائن باہر نکال دے گی یعنی علوم ارضیہ کی خوب ترقی ہو گی مگر آسمانی علوم کی نہیں.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۶۹) وہ آیات جن میں اول ارضی تاریکی زور کے ساتھ پھیلنے کی خبر دی گئی ہے اور پھر آسمانی روشنی کے نازل ہونے کی علامتیں بتلائی گئی ہیں وہ یہ ہیں.یہ سورت اِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا وَ اَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا * وَقَالَ الْإِنْسَانُ مَا لَهَا يَوْمَبِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا بِاَنَّ رَبَّكَ اَوْحَى لَهَا یعنی آخری زمانہ اس وقت آئے گا کہ جس وقت زمین ایک ہولناک جنبش کے ساتھ جو اس کی مقدار کے مناسب حال ہے ہلائی جائے گی یعنی اہل الارض میں ایک تغیر عظیم آئے گا اور نفس اور دنیا پرستی کی طرف لوگ جھک جائیں گے اور پھر فرمایا کہ زمین اپنے تمام بوجھ نکال ڈالے گی یعنی زمینی علوم اور زمینی مکر اور زمینی چالاکیاں اور زمینی کمالات جو کچھ انسان کی فطرت میں مودع ہیں سب کی سب ظہور میں آجائیں گی اور نیز زمین جس پر انسان رہتے ہیں اپنے تمام خواص ظاہر کر دے گی اور علم طبعی اور فلاحت کے ذریعہ سے بہت سی خاصیتیں اس کی معلوم ہو جائیں گی

Page 358

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٣١ سورة الزلزال اور کا نہیں نمودار ہوں گی اور کاشتکاری کی کثرت ہو جائے گی.غرض زمین زرخیز ہو جائے گی اور انواع اقسام کی کلیں ایجاد ہوں گی یہاں تک کہ انسان کہے گا کہ یہ کیا ماجرا ہے اور یہ نئے نئے علوم اور نئے نئے فنون اور نئی نئی صنعتیں کیوں کر ظہور میں آتی جاتی ہیں تب زمین یعنی انسانوں کے دل زبان حال سے اپنے قصے سنائیں گے کہ یہ نئی باتیں جو ظہور میں آ رہی ہیں یہ ہماری طرف سے نہیں یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک قسم کی وحی ہے کیونکہ ممکن نہیں کہ انسان اپنی کوششوں سے اس قدر علوم عجیبہ پیدا کر سکے.اور یادر ہے کہ ان آیات کے ساتھ جو قرآن کریم میں بعض دوسری آیات جو آخرت کے متعلق ہیں شامل کی گئی ہیں وہ در حقیقت اُسی سنت اللہ کے موافق شامل فرمائی گئی ہیں جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے ورنہ اس میں کچھ شک نہیں کہ حقیقی اور مقدم معنی ان آیات کے یہی ہیں جو ہم نے بیان کئے اور اُس پر قرینہ جو نہایت قوی اور فیصلہ کرنے والا ہے یہ ہے کہ اگر ان آیات کے حسب ظاہر معنے کئے جائیں تو ایک فساد عظیم لازم آتا ہے.یعنی اگر ہم اس طور سے معنے کریں کہ کسی وقت با وجود قائم رہنے اس آبادی کے جو دنیا میں موجود ہے.ایسے سخت زلزلے زمین پر آئیں گے جو تمام زمین کے اُوپر کا طبقہ نیچے اور نیچے کا اوپر ہو جائے گا.تو یہ بالکل غیر ممکن اورممتنعات میں سے ہے.آیت موصوفہ میں صاف لکھا ہے کہ انسان کہیں گے کہ زمین کو کیا ہو گیا.پھر اگر حقیقتا یہی بات سچ ہے کہ زمین نہایت شدید زلزلوں کے ساتھ زیروز بر ہو جائے گی تو انسان کہاں ہوگا جو زمین سے سوال کرے گا وہ تو پہلے ہی زلزلہ کے ساتھ زاویہ عدم میں مخفی ہو جائے گا.علوم حسیہ کا تو کسی طرح سے انکار نہیں ہو سکتا پس ایسے معنی کرنا جو ہداہت باطل اور قرائن موجودہ کے مخالف ہوں گویا اسلام سے ہنسی کرانا اور مخالفین کو اعتراض کے لئے موقعہ دینا ہے پس واقعی اور حقیقی معنی یہی ہیں جو ابھی ہم نے بیان کئے.اب ظاہر ہے کہ یہ تغیرات اور فتن اور زلازل ہمارے زمانہ میں قوم نصاری سے ہی ظہور میں آئے ہیں جن کی نظیر دُنیا میں کبھی نہیں پائی گئی.پس یہ ایک دوسری دلیل اس بات پر ہے کہ یہی قوم وہ آخری قوم ہے جس کے ہاتھ سے طرح طرح کے فتنوں کا پھیلنا مقدر تھا جس نے دُنیا میں طرح طرح کے ساحرانہ کام دکھلائے اور جیسا کہ لکھا ہے کہ دجال نبوت کا دعوی کرے گا اور نیز خدائی کا دعوی بھی اس سے ظہور میں آئے گا وہ دونوں باتیں اس قوم سے ظہور میں آگئیں.نبوت کا دعوی اس طرح پر کہ اس قوم کے پادریوں نے نبیوں کی کتابوں میں بڑی گستاخی سے دخل بے جا کیا اور ایسی بے باکانہ مداخلت کی کہ گویا وہ آپ ہی نبی ہیں جس طرف چاہا اُن کی عبارات کو پھیر لیا اور اپنے مدعا کے موافق شرحیں لکھیں اور بیا کی سے ہر یک جگہ مفتر یا نہ دخل دیا.

Page 359

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۳۲ سورة الزلزال موجود کو چھپایا اور معدوم کو ظاہر کیا اور دعوئی کے ساتھ ایسے محرف طور پر معنے کئے کہ گویا اُن پر وحی نازل ہوئی اور وہ نبی ہیں.چنانچہ ہمیشہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ مناظرات اور مباحثات کے وقت ایسے بیہودہ اور دور از صدق جواب عمداً دیتے ہیں کہ گویا وہ ایک نئی انجیل بنا رہے ہیں.ایسا ہی اُن کی تالیفات بھی کسی نے عیسی اور نئی انجیل کی طرف رہبری کر رہی ہیں اور وہ جھوٹ بولنے کے وقت ذرہ ڈرتے نہیں اور چالا کی کی راہ سے کروڑہا کتا بیں اپنے اس کا ذبانہ دعوے کے متعلق بنا ڈالیں گویا وہ دیکھ آئے ہیں کہ حضرت عیسی خدائی کی کرسی پر بیٹھے ہیں اور خُدائی کا اس طرح پر دعوی کیا کہ خدائی کاموں میں حد سے زیادہ دخل دے دیا اور چاہا کہ زمین و آسمان میں کوئی بھی ایسا بھید مخفی نہ رہے جو وہ اُس کی تہ تک نہ پہنچ جائیں اور ارادہ کیا کہ خدا تعالیٰ کے سارے کاموں کو اپنی مٹھی میں لے لیں اور ایسے طور سے خدائی کی گل اُن کے ہاتھ میں آجائے کہ اگر ممکن ہو تو سورج کا غروب اور طلوع بھی انہیں کے اختیار میں ہی ہو اور بارش کا ہونا نہ ہونا بھی ان کے اپنے ہاتھ کی کارستانی پر موقوف ہو اور کوئی بات ان کے آگے انہونی نہ رہے اور دعوی خدائی اور کیا ہوتا ہے یہی تو ہے کہ خدائی کاموں میں اور خدا تعالیٰ کی خاص قدرتوں میں ہی دست اندازی کریں اور یہ شوق پیدا ہو کہ کسی طرح اس کی جگہ بھی ہم ہی لے لیں.وہ لوگ جو احادیث مسیح موعود اور احادیث متعلقہ دجال پر حرف زنی کرتے ہیں اُن کو اس مقام میں بھی غور کرنی چاہیئے کہ اگر یہ پیشگوئیاں خدائے تعالی کی طرف سے نہ ہوتیں اور صرف انسان کا کاروبار ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ ایسی صفائی اور عمدگی سے پوری ہوتیں کیا یہ بھی کبھی کسی کے گمان میں تھا کہ یہ قوم نصاری کسی زمانہ میں انسان کے خدا بنانے میں اس قدر کوششیں اور جعلسازیاں کریں گے اور فلسفی تحقیقاتوں میں خدا کے لئے کوئی مرتبہ خصوصیت نہیں چھوڑیں گے.دیکھو خر دجال جس کے مابین اذنین کا نتر باع کا فاصلہ لکھا ہے ریلوں کی گاڑیوں سے بطور اغلب اکثر بالکل مطابق آتا ہے اور جیسا کہ قرآن اور حدیث میں آیا ہے کہ اس زمانہ میں اونٹ کی سواریاں موقوف ہو جائیں گی ایسا ہی ہم دیکھتے ہیں کہ ریل کی سواری نے ان تمام سواریوں کو مات کر دیا اور اب ان کی بہت ہی کم ضرورت باقی رہی ہے اور شائد تھوڑے ہی عرصہ میں اس قدر ضرورت بھی باقی نہ رہے ایسا ہی ہم نے بچشم دیکھا کہ در حقیقت اس قوم کے علماء و حکماء نے دین کے متعلق وہ فتنے ظاہر کئے کہ جن کی نظیر حضرت آدم سے لے کرتا ایں دم پائی نہیں جاتی.پس بلاشبہ نبوت میں بھی انہوں نے مداخلت کی اور خدائی میں بھی.اب اس سے زیادہ ان احادیث کی صحت کا کیا ثبوت ہو کہ ان کی پیشگوئی پوری ہو گئی اور قرآن کریم کی ان آیات میں یعنی إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ

Page 360

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٣٣ سورة الزلزال زلزالھا میں حقیقت میں اسی دجالی زمانہ کی طرف اشارہ ہے جس کو ذرا بھی عقل ہوتو وہ سمجھ سکتا ہے اور یہ آیت صاف بتلا رہی ہے کہ وہ قوم ارضی علوم میں کہاں تک ترقی کرے گی.(شهادة القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۱۴ تا ۳۱۷) خدا تعالیٰ کی وحی میں زلزلہ کا بار بار لفظ ہے اور فرمایا کہ ایسا زلزلہ ہوگا.جو نمونہ قیامت کا ہوگا بلکہ قیامت کا زلزلہ اس کو کہنا چاہیے جس کی طرف سورت اِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا اشارہ کرتی ہے.برائین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۵۱ حاشیه ) سورہ اِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ میں زلزلہ کے واسطے صاف پیشگوئی ہے کہ زمین پر سخت زلزلہ آئے گا اور زمین اندر کی چیزیں باہر نکال پھینکے گی....قرآن شریف میں آیا ہے کہ پہاڑ زمین کی میخیں ہیں ، نادان اعتراض کرتے ہیں کہ یہ کیا بات ہے.اس زلزلہ نے اس اعتراض کو بھی صاف کیا ہے.ان آتش فشانیوں اور زلزلوں کا موجب یہ پہاڑ ہی ہوا کرتے ہیں.جب پہاڑوں پر تباہی پڑتی ہے تو سب پر تباہی پڑتی ہے.پہاڑ امن یا بے امنی کا مرکز بنا ہوا ہے.( بدر جلد نمبر ۷ مورخہ ۱۸ رمئی ۱۹۰۵ ء صفحہ ۷) یا جوج ماجوج کی سرشت میں ارضی جو ہر کا کمال تام ہے جیسا کہ معدنی جواہرات اور فلذات میں کمال تام ہوتا ہے اور یہ دلیل اس بات پر ہے کہ زمین نے اپنے انتہائی خواص ظاہر کر دیے اور بموجب آیت اَخْرَجَتِ الْأَرْضُ الْقَالَهَا اپنے اعلیٰ سے اعلیٰ جو ہر کو ظاہر کر دیا اور یہ امر استدارت زمانہ پر ایک دلیل ہے.یعنی جب یا جوج ماجوج کی کثرت ہوگی تو سمجھا جائے گا کہ زمانہ نے اپنا پورا دائرہ دکھلا دیا اور پورے دائرہ کور جعت بروزی لازم ہے اور یا جوج ماجوج پر ارضی کمال کا ختم ہونا اس بات پر دلیل ہے کہ گویا آدم کی خلقت الف سے شروع ہو کر جو آدم کے لفظ کے حرفوں میں سے پہلا حرف ہے اس یاء کے حرف پر ختم ہوگئی کہ جو یا جوج کے لفظ کے سر پر آتا ہے جو حروف کے سلسلہ کا آخری حرف ہے گویا اس طرح پر یہ سلسلہ الف سے شروع ہو کر اور پھر حرف یاء پر ختم ہو کر اپنے طبعی کمال کو پہنچ گیا.خلاصہ کلام یہ کہ آیت ممدوحہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ بروز می رجوع جو استدارت دائرہ خلقت بنی آدم کے لئے ضروری ہے.اس کی نشانی یہ ہے کہ یا جوج ماجوج کا ظہور اور خروج اقوئی اور اتم طور پر ہو جائے اور ان کے ساتھ کسی غیر کو طاقت مقابلہ نہ رہے کیونکہ دائرہ کے کمال کو یہ لازم ہے کہ اخرجت الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا کا مفہوم کامل طور پر پورا ہو جائے اور تمام ارضی قوتوں کا ظہور اور بروز ہوجائے اور یاجوج

Page 361

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۴ سورة الزلزال ماجوج کا وجود اس بات پر کامل دلیل ہے کہ جو کچھ ارضی قو تیں اور طاقتیں انسان کے وجود میں ودیعت ہیں وہ سب ظہور میں آگئی ہیں کیونکہ اس قوم کی فطرتی اینٹ ارضی کمالات کے پڑاوہ میں ایسے طور سے پختہ ہوئی ہے کہ اس میں کسی کو بھی کلام نہیں.اسی سر کی وجہ سے خدا نے ان کا نام یا جوج ماجوج رکھا کیونکہ ان کی فطرت کی مٹی ترقی کرتے کرتے کانی جواہرات کی طرح آتشی مادہ کی پوری وارث ہوگئی اور ظاہر ہے کہ مٹی کی ترقیات آخر جواہرات اور فلذات معدنی پر ختم ہو جاتی ہیں تب معمولی مٹی کی نسبت ان جواہرات اور فلذات میں بہت سا مادہ آگ کا آجاتا ہے گویا مٹی کا انتہائی کمال نے کمال یافتہ کو آگ کے قریب لے آتا ہے اور پھر جنسیت کی کشش کی وجہ سے دوسرے آتشی لوازم اور کمالات بھی اسی مخلوق کو دیئے جاتے ہیں.تحفہ گولر و سید، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۲۲ حاشیه ) آج جو اخْرَجَتِ الْأَرْضُ القَالها کا زمانہ ہے یہ مسیح موعود ہی کے وقت کے لئے مخصوص تھا چنانچہ اب دیکھو کہ کس قدر ایجادیں اور نئی کا نہیں نکل رہی ہیں.ان کی نظیر پہلے کسی زمانہ میں نہیں ملتی ہے.میرے نزدیک طاعون بھی اسی میں داخل ہے.اس کی جڑ زمین میں ہے.پہلا اثر چوہوں پر ہوتا ہے.غرض اس وقت جبکہ زمینی علوم کمال تک پہنچ رہے ہیں تو ہین اسلام کی حد ہو چکی ہے.کون کہہ سکتا ہے کہ اس پچاس ساٹھ سال میں جس قدر کتابیں ، اخبار ، رسالے تو ہین اسلام میں شائع ہوئے ہیں کبھی ہوئے تھے.پس جب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے تو کوئی مومن نہیں بنتا جب تک کہ اس کے دل میں غیرت نہ ہو.بے غیرت آدمی دیوث الحکم جلد ۵ نمبر ۱۴ مورخہ ۱۷ را پریل ۱۹۰۱ صفحہ ۷) یوں تو زمین سے ہمیشہ کا نہیں نکلتی رہتی ہیں اور آتش فشاں پہاڑ پھٹتے رہتے ہیں مگر اب خصوصیت سے ان زلزلوں کا آنا اور زمین کا الٹنا یہ آخری زمانہ کی علامتوں سے ہے اور اَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَھا اسی کی طرف اشارہ ہے.زمانہ بتلا رہا ہے کہ وہ ایک نئی صورت اختیار کر رہا ہے اور اللہ تعالیٰ خاص تصرفات زمین پر کرنا البدر جلد اول نمبر ۴ مورخه ۲۱ نومبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۳۰) ہوتا ہے.چاہتا ہے.جو شخص ایک ذرہ بھر بھی نیک کام کرے وہ بھی ضائع نہیں ہوگا اور ضرور اس کا اجر پائے گا.(انوارالاسلام،روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۵۶) اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا...مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَةً - رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۱۶۲)

Page 362

.۳۳۵ سورة الزلزال تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم تو اصول ہی کو دیکھیں گے.ہمارے اصول میں تو یہ لکھا ہے کہ مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ اب اس کا اثر تم خود سوچ لو گے کیا پڑے گا.یہی کہ انسان اعمال کی ضرورت کو محسوس کرے گا اور نیک عمل کرنے کی سعی کرے گا.برخلاف اس کے جب یہ کہا جاوے گا کہ انسان اعمال سے نجات نہیں پاسکتا تو یہ اصول انسان کی ہمت اور سعی کو پست کر دے گا اور اس کو بالکل مایوس کر کے بے دست و پا بنا دے گا.اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کفارہ کا اصول انسانی قومی کی بھی بے حرمتی کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانی قوی میں ایک ترقی کا مادہ رکھا ہے لیکن کفارہ اس کو ترقی سے روکتا ہے.ابھی میں نے کہا ہے کہ کفارہ کا اعتقا در کھنے والوں کے حالات آزادی اور بے قیدی کو جو دیکھتے ہیں تو یہ اس اصول کی وجہ سے ہے کہ کتے اور کتیوں کی طرح بدکاریاں ہوتی ہیں.لنڈن کے ہائیڈ پارک میں علانیہ بدکاریاں ہوتی ہیں اور حرامی بچے پیدا ہوتے ہیں پس ہم کو صرف قیل و قال تک ہی محدود نہ رکھنا چاہیے بلکہ اعمال ساتھ ہونے چاہئیں.جو اعمال کی ضرورت نہیں سمجھتا وہ سخت ناعاقبت اندیش اور نادان ہے.قانونِ قدرت میں اعمال اور ان کے نتائج کی نظیریں تو موجود ہیں کفارہ کی نظیر کوئی موجود نہیں.مثلاً بھوک لگتی ہے تو کھانا کھا لینے کے بعد وہ فرو ہو جاتی ہے یا پیاس لگتی ہے پانی سے جاتی رہتی ہے تو معلوم ہوا کہ کھانا کھانے یا پانی پینے کا نتیجہ بھوک کا جاتے رہنا یا پیاس کا بجھ جانا ہوا مگر یہ تو نہیں ہوتا کہ بھوک لگے زید کو اور بکر روٹی کھائے اور زید کی بھوک جاتی رہے.اگر قانون قدرت میں اس کی کوئی نظیر موجود ہوتی تو شاید کفارہ کا مسئلہ مان لینے کی گنجائش رکھتا لیکن جب قانونِ قدرت میں اس کی کوئی نظیر ہی نہیں ہے تو انسان جو نظیر دیکھ کر ماننے کا عادی ہے اسے کیوں کر تسلیم کر سکتا ہے.عام قانونِ انسانی میں بھی تو اس کی نظیر نہیں ملتی.کبھی نہیں دیکھا گیا کہ زید نے خون کیا ہو اور خالد کو پھانسی ملی ہو.غرض یہ ایک ایسا اصول ہے جس کی کوئی نظیر ہرگز موجود نہیں.میں اپنی جماعت کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ ضرورت ہے اعمال صالحہ کی.خدا تعالیٰ کے حضور اگر کوئی چیز جاسکتی ہے تو وہ یہی اعمال صالحہ ہیں.الکام جلد ۵ نمبر ۲۸ مورخہ ۳۱؍ جولائی ۱۹۰۱ ، صفحہ ۲) خدا تعالیٰ بدوں کسی نیکی ، دعا اور التجا اور بدوں تفرقہ کا فرو مومن کے ہر ایک کی پرورش فرما رہا ہے اور اپنی ربوبیت اور رحمانیت کے فیض سے سب کو فیض پہنچارہا ہے پھر وہ کسی کی نیکیوں کو کب ضائع کرے گا.اس کی شان تو یہ ہے مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا ير ا جو ذرہ بھی نیکی کرے اس کا بھی اجر دیتا ہے اور جو ذرہ بدی کرے گا اس کی پاداش بھی ملے گی.یہ ہے قرض کا اصل مفہوم جو اس آیت سے پایا جاتا ہے چونکہ اصل مفہوم

Page 363

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۳۶ سورة الزلزال قرض کا اس سے پایا جاتا تھا اس لئے یہی کہہ دیا مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا (البقرة : ۲۴۶) اور اس کی تفسیر اس آیت میں موجود ہے مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَةُ - الحکم جلد ۵ نمبر ۲۱ مورخه ۱۰/جون ۱۹۰۱ء صفحه ۳) اس وقت ثواب کے لئے مستعد ہو جاؤ اور یہ بھی مت سمجھو کہ اگر اس راہ میں خرچ کریں گے تو کچھ کم ہو جاوے گا خدا تعالیٰ کی بارش کی طرح سب کمیاں پر ہو جائیں گی.مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَةُ - احکم جلد ۵ نمبر ۱۴ مورخہ ۱۷ را پریل ۱۹۰۱ ، صفحہ ۷ ) یہ سچ ہے کہ جب ایک شخص محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کسی قسم کی نفسانی اغراض کے بغیر ایک قوم سے قطع تعلق کرتا ہے اور خدا ہی کو راضی کرنے کے لئے دوسری قوم میں داخل ہوتا ہے تو ان تعلقات قومی کے توڑنے میں سخت تکلیف اور دکھ ہوتا ہے مگر یہ بات خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑی قابل قدر ہے اور یہ ایک شہادت ہے جس کا بہت بڑا اجر اللہ تعالیٰ کے حضور ملتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَةٍ خَيْرًا يَرَة یعنی جو شخص ایک ذرہ برابر بھی نیکی کرتا ہے اسے بھی ضائع نہیں کرتا بلکہ اجر دیتا ہے تو پھر جوشخص اتنی بڑی نیکی کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ایک موت اپنے لئے روا رکھتا ہے اسے اجر کیوں نہ ملے؟ الحکم جلد 4 نمبر ۲۹ مورخه ۱۷ اگست ۱۹۰۵ صفحه ۲) اگر اخلاص ہو تو اللہ تعالی تو ایک ذرہ بھی کسی نیکی کو ضائع نہیں کرتا.اس نے تو خود فرمایا ہے مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَةُ اس لئے اگر ذرہ بھر بھی نیکی ہو تو اللہ تعالیٰ سے اس کا اجر پائے گا.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۷ ۱ مورخہ ۷ ارمئی ۱۹۰۶ صفحه ۵) کیا وجہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر تقول علی اللہ کریں تو ان کو تو گرفت کی جاوے اور اگر کوئی اور کرے تو اس کی پرواہ نہ کی جاوے.نعوذ باللہ اس طرح سے تو امان اُٹھ جاتی ہے.صادق اور مفتری میں مابہ الامتیاز ہی نہیں رہتا.إِنَّهُ مَنْ يَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ ( طه : ۵) - مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يرة - وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَةُ، إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّلِمُونَ (الانعام :۲۲).ان آیات سے صاف طور سے عموم ظاہر ہو رہا ہے کوئی خصوصیت نہیں.نہ معلوم تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر افتر اعلی اللہ کریں تو خدا برا مناتا ہے مگر اگر کوئی اور یہی جرم کر دے تو خیر چنداں ہرج کی بات نہیں.معاذ اللہ.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۸ مورخه ۱۰ مارچ ۱۹۰۸ صفحه ۵) وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُوا عَنِ السَّيَاتِ (الشوری : ۲۶ ) یعنی تمہارا خدا وہ خدا

Page 364

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۷ سورة الزلزال ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی بدیاں ان کو معاف کر دیتا ہے.کسی کو یہ دھوکہ نہ لگے کہ قرآن شریف میں یہ آیت بھی ہے وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَراً ير ا یعنی جو شخص ایک ذرہ بھی شرارت کرے گا وہ اس کی سزا پائے گا پس یادر ہے کہ اس میں اور دوسری آیات میں کچھ تناقض نہیں کیونکہ اس شر سے وہ شر مراد ہے جس پر انسان اصرار کرے اور اس کے ارتکاب سے باز نہ آوے اور توبہ نہ کرے.اسی غرض سے اس جگہ شر کا لفظ استعمال کیا ہے نہ ذنب کا.تا معلوم ہو کہ اس جگہ کوئی شرارت کا فعل مراد ہے جس سے شریر آدمی باز آنا نہیں چاہتا ورنہ سارا قرآن شریف اس بارہ میں بھرا پڑا ہے کہ ندامت اور تو بہ اور ترک اصرار اور استغفار سے گناہ بخشے جاتے ہیں بلکہ خدا تعالیٰ تو بہ کرنے والوں سے پیار کرتا ہے.چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه (۲۴) بعض لوگوں پر دکھ کی مار ہوتی ہے اور وہ ان کی اپنی ہی کرتوتوں کا نتیجہ ہے مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًا یرہ.پس آدمی کو لازم ہے کہ توبہ و استغفار میں لگا رہے اور دیکھتا رہے کہ ایسا نہ ہو بداعمالیاں حد سے گزر جاویں اور خدا تعالیٰ کے غضب کو کھینچ لاویں جب خدا تعالی کسی پر فضل کے ساتھ نگاہ کرتا ہے تو عام طور پر دلوں میں اس کی محبت کا القا کر دیتا ہے لیکن جس وقت انسان کا شر حد سے گزر جاتا ہے اس وقت آسمان پر اس کی مخالفت کا ارادہ ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کے منشاء کے موافق لوگوں کے دل سخت ہو جاتے ہیں مگر جونہی وہ توبہ و استغفار کے ساتھ خدا کے آستانہ پر گر کر پناہ لیتا ہے.تو اندر ہی اندر ایک رحم پیدا ہو جاتا ہے اور کسی کو پتہ بھی نہیں لگتا کہ اس کی محبت کا پیچ لوگوں کے دلوں میں بو دیا جاتا ہے.غرض تو بہ واستغفار کا ایسا مجرب نسخہ ہے کہ خطا نہیں جاتا.الحکم جلد ۳ نمبر ۷ امورخه ۱۲ مئی ۱۸۹۹ صفحه ۵) افسوس وجودی کی حالت پر کہ خدا بھی بنا پھر اس سے کچھ نہ ہوا.پھر عجب تر یہ ہے کہ یہ خدائی اس کو دوزخ سے نہیں بچاسکتی کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَراً تیرہ.پس جب کوئی گناہ کیا تو اس کا خمیازہ بھگتنے کے لئے جہنم میں جانا پڑا اور ساری خدائی باطل ہو گئی.الحکم جلد ۵ نمبر ۳۵ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۱ صفحه ۳) ضروری اور واقعی طور پر یہ سزا ئیں نہیں ہیں جو یہاں دی جاتی ہیں بلکہ یہ ایک ظل ہے اصل سزاؤں کا اور ان کی غرض ہے عبرت.دوسرے عالم کے مقاصد اور ہیں اور وہ بالا تر اور بالاتر ہیں.وہاں تو مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَةُ کا

Page 365

۳۳۸ سورة الزلزال تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام انعکاس نمونہ لوگ دیکھ لیں گے اور انسان کو اپنے مخفی و مخفی گناہوں اور عزیمتوں کی سزا بھگتنی پڑے گی.دنیا اور آخرت کی سزاؤں میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ دنیا کی سزائیں امن قائم کرنے اور عبرت کے لئے ہیں اور آخرت کی سزائیں افعال انسانی کے آخری اور انتہائی نتائج ہیں.وہاں اسے سزا ضرور ملنی ٹھہری کیونکہ اس نے زہر کھائی ہوئی ہے اور یہ ممکن نہیں کہ بدوں تریاق وہ اس زہر کے اثر سے محفوظ رہ سکے.الحاکم جلد ۶ نمبر امورخه ۱۰ جنوری ۱۹۰۲ صفحه ۴) (معرفت سے.ناقل ) اول گناہ کا علم عطا ہوتا ہے.پھر وہ خدا جس نے مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا یر کا فرمایا ہے اس کو عرفان بخشتا ہے تب وہ بندہ خدا کے خوف میں ترقی کرتا اور اس پاکیزگی کو پالیتا ہے جو اس کی پیدائش کا مقصد ہے.الحکم جلدے نمبر ۷ مورخہ ۲۱ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۶) خدا تعالیٰ سے جو ذرہ بھر بھی تعلق رکھتا ہے وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا.مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَةُ - البدر جلد ۲ نمبر ۱۴ مورخه ۲۴ را پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۱۰۷) اللہ تعالیٰ کسی کے اجر کو ضائع نہیں کرتا جو کوئی ذرہ سی بھی بھلائی کرتا ہے وہ اس کا بدلہ پالیتا ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۲۴ مورخه ۳ جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۸۶) مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَةٍ شَراً ترہ کوئی برا عمل کرے خواہ کتنا ہی کیوں نہ کرے اس کی پاداش اس کو ملے گی.یہاں کوئی تخصیص ذات اور قوم کی نہیں.الحکم جلد ۸ نمبر ۳۲ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۴ صفحه ۴)

Page 366

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۳۳۹ سورة التكاثر بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة التكاثر بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ الْهُكُمُ التَّكَاثُرُ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَة كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ ) ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ ، لَتَرَوْنَ الْجَحِيمَ لا ثُمَّ لَتَرَوْنَهَا عَيْنَ لا الْيَقِينِ ثُمَّ لَتُسُلُنَ يَوْمَيذٍ عَنِ النَّعِيمِ دنیا کی کثرت حرص و ہوا نے تمہیں آخرت کی تلاش سے روک رکھا یہاں تک کہ تم قبروں میں جا پڑے.دنیا سے دل مت لگاؤ.تم عنقریب جان لو گے کہ دنیا سے دل لگانا اچھا نہیں.پھر میں کہتا ہوں کہ عنقریب تم جان لو گے کہ دنیا سے دل لگانا اچھا نہیں.اگر تمہیں یقینی علم حاصل ہو تو تم دوزخ کو اسی دنیا میں دیکھ لو گے پھر برزخ کے عالم میں یقین کی آنکھوں کے ساتھ دیکھو گے پھر عالم حشر اجساد میں پورے مؤاخذہ میں آجاؤ گے اور وہ عذاب تم پر کامل طور پر وارد ہو جائے گا اور صرف قال سے نہیں بلکہ حال سے تمہیں دوزخ کا علم حاصل ہو جائے گا.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ اسی جہان میں بدکاروں کے لئے جہنمی زندگی پوشیدہ طور پر ہوتی ہے اور اگر غور کریں تو اپنی دوزخ کو اسی دنیا میں دیکھ لیں گے اور اس جگہ اللہ تعالی نے علم کو تین درجوں پر منقسم کیا ہے یعنی علم الیقین، عین الیقین حق الیقین.اور عام کے سمجھنے کے لئے ان تینوں علموں کی یہ

Page 367

۳۴۰ سورة التكاثر تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مثالیں ہیں کہ اگر مثلاً ایک شخص دور سے کسی جگہ بہت سادھواں دیکھے اور دھوئیں سے ذہن منتقل ہو کر آگ کی طرف چلا جائے اور آگ کے وجود کو یقین کرے اور اس خیال سے کہ دھوئیں اور آگ میں ایک تعلق لا ینفک اور ملا زمت تامہ ہے.جہاں دھواں ہو گا ضرور ہے کہ آگ بھی ہو.پس اس علم کا نام علم الیقین ہے اور پھر جب آگ کے شعلے دیکھ لے تو اس کا نام عین الیقین ہے اور جب اس آگ میں آپ ہی داخل ہو جائے تو اس علم کا نام حق الیقین ہے.اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جہنم کے وجود کا علم الیقین تو اسی دنیا میں ہوسکتا ہے.پھر عالم برزخ میں عین الیقین حاصل ہوگا اور عالم حشر اجساد میں وہی علم حق الیقین کے کامل مرتبہ تک پہنچے گا.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۰۲) اے دےلوگو جو خدا سے غافل ہو! د نیا طلبی نے تمہیں غافل کیا یہاں تک کہ تم قبروں میں داخل ہو جاتے ہو اور غفلت سے باز نہیں آتے یہ تمہاری غلطی ہے اور عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا.پھر میں کہتا ہوں کہ عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا.اگر تمہیں یقینی علم حاصل ہو جائے تو تم علم کے ذریعہ سے سوچ کر کے اپنے جہنم کو دیکھ لو اور تمہیں معلوم ہو جائے کہ تمہاری زندگی جہنمی ہے پھر اگر اس سے بڑھ کر تمہیں معرفت ہو جائے تو تم یقین کامل کی آنکھ سے دیکھ لو کہ تمہاری زندگی جہنمی ہے.پھر وہ وقت بھی آتا ہے کہ تم جہنم میں ڈالے جاؤ گے اور ہر ایک عیاشی اور بے اعتدالی سے پوچھے جاؤ گے.یعنی عذاب میں ماخوذ ہو کر حق الیقین تک پہنچ جاؤ گے.ان آیات میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یقین تین قسم کا ہوتا ہے.ایک یہ کہ محض علم اور قیاس سے حاصل ہوتا ہے جیسا کہ کوئی دُور سے دھواں دیکھے اور قیاس اور عقل کو دخل دے کر سمجھ لے کہ اس جگہ ضرور آگ ہوگی.اور پھر دوسری قسم یقین کی یہ ہے کہ اس آگ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے.پھر تیسری قسم یقین کی یہ ہے کہ مثلاً اس آگ میں ہاتھ ڈال دے اور اس کی قوت احتراق سے مزہ چکھ لے.پس یہ تین قسمیں ہوئیں.علم الیقین'.عین الیقین حق الیقین.اس آیت میں خدا تعالیٰ نے سمجھایا کہ تمام راحت انسان کی خدا تعالیٰ کے قرب اور محبت میں ہے اور جب اس سے علاقہ توڑ کر دنیا کی طرف جھکے تو یہ جہنمی زندگی ہے.اور اس جہنمی زندگی پر آخر کار ہر یک شخص اطلاع پالیتا ہے اور اگر چہ اس وقت اطلاع پاوے جب کہ یکدفعه مال و متاع اور دنیا کے تعلقات کو چھوڑ کر مرنے لگے.لیکچر لاہور ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۷ ۱۵۸،۱۵) الهكُمُ التَّكَاثُرُ حَتَّى زُرتُه المقابر کہ اے لوگو جو تم خدا سے غافل ہو دنیا طلبی نے تم کو غافل کر دیا ہے یہاں تک کہ تم قبروں میں داخل ہو جاتے ہو مگر غفلت سے باز نہیں آتے گلا سَوفَ تَعْلَمُونَ مگر اس غلطی کا تم وووو

Page 368

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۱ سورة التكاثر ناکارہ ہیں.کو عنقریب علم ہو جائے گا تم كَلاَ سَوْفَ تَعْلَمُونَ پھر تم کو اطلاع دی جاتی ہے کہ عنقریب تم کو علم ہو جاوے گا کہ جن خواہشات کے پیچھے تم پڑے ہو وہ ہر گز تمہارے کام نہ آویں گی اور حسرت کا موجب ہوں گی گلا کو تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ اگر تم کو یقینی علم حاصل ہو جاوے تو تم علم کے ذریعہ سے سوچ کر اپنے جہنم کو دیکھ لو اور تم کو پتہ لگ جاوے کہ تمہاری زندگی جہنمی زندگی ہے اور جن خیالات میں تم رات دن لگے ہوئے ہو وہ بالکل البدر جلد ۴ نمبر ۳ مورخه ۲۰ /جنوری ۱۹۰۵ء صفحه ۲) جاننا چاہیے کہ قرآن شریف نے علم تین قسم پر قرار دیا ہے.(۱) علم الیقین، (۲) عین الیقین، (۳) حق الیقین جیسا کہ ہم پہلے اس سے سورہ الفكم التكاثر کی تفسیر میں ذکر کر چکے ہیں اور بیان کر چکے ہیں کہ علم الیقین وہ ہے کہ شے مقصود کا کسی واسطہ کے ذریعہ سے نہ بلا واسطہ پتہ لگایا جاوے جیسا کہ ہم دھوئیں سے آگ کے وجود پر استدلال کرتے ہیں ہم نے آگ کو دیکھا نہیں مگر دھوئیں کو دیکھا ہے کہ جس سے ہمیں آگ کے وجود پر یقین آیا.سویہ علم الیقین ہے.اور اگر ہم نے آگ کو ہی دیکھ لیا ہے تو یہ بموجب بیان قرآن شریف یعنی سوره الهكم التكاثر کے علم کے مراتب میں عین الیقین کے نام سے موسوم ہے اور اگر ہم اس آگ میں داخل بھی ہو گئے ہیں تو اس علم کے مرتبہ کا نام قرآن شریف کے بیان کی رو سے حق الیقین ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۳۱) ایمان اس اقرار لسانی و تصدیق قلبی سے مراد ہے جو تبلیغ و پیغام کسی نبی کی نسبت محض تقویٰ اور دوراندیشی کے لحاظ سے صرف نیک فلنی کی بنیاد پر یعنی بعض وجوہ کو معتبر سمجھ کر اور اس طرف غلبہ اور رجحان پا کر بغیر انتظار کامل اور قطعی اور واشگاف ثبوت کے دلی انشراح سے قبولیت و تسلیم ظاہر کی جائے لیکن جب ایک خبر کی صحت پر وجوہ کا ملہ قیاسیہ اور دلائل کا فیہ عقلیہ مل جائیں تو اس بات کا نام ایقان ہے جس کو دوسرے لفظوں میں علم الیقین بھی کہتے ہیں اور جب خدائے تعالیٰ خود اپنے خاص جذبہ اور موہبت سے خارق عادت کے طور پر انوار ہدایت کھولے اور اپنے آلاء و نعماء سے آشنا کرے اور لڈنی طور پر عقل اور علم عطا فرما دے اور ساتھ اس کے ابواب کشف اور الہام بھی منکشف کر کے عجائبات الوہیت کا سیر کراوے اور اپنے محبوبانہ حسن و جمال پر اطلاع بخشے تو اس مرتبہ کا نام عرفان ہے جس کو دوسرے لفظوں میں عین الیقین اور ہدایت اور بصیرت کے نام سے بھی موسوم کیا گیا ہے.اور جب ان تمام مراتب کی شدت اثر سے عارف کے دل میں ایک ایسی کیفیت حالی عشق اور محبت کے باز نہ تعالیٰ پیدا ہو جائے کہ تمام وجود عارف کا اس کی لذت سے بھر جائے اور آسمانی انوار :

Page 369

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۲ سورة التكاثر اس کے دل پر بکلی احاطہ کر کے ہر ایک ظلمت و قبض و تنگی کو درمیان سے اٹھادیں یہاں تک کہ بوجہ کمال رابطہ عشق و محبت و باعث انتہائی جوش صدق و صفا کی بلا اور مصیبت بھی محسوس اللذت و مدرک الحلاوت ہو تو اس درجہ کا نام اطمینان ہے جس کو دوسرے لفظوں میں حق الیقین اور فلاح اور نجات سے بھی تعبیر کرتے ہیں مگر یہ سب مراتب ایمانی مرتبہ کے بعد ملتے ہیں اور اس پر مترتب ہوتے ہیں.جو شخص اپنے ایمان میں قوی ہوتا ہے وہ رفتہ رفتہ ان سب مراتب کو پالیتا ہے لیکن جو شخص ایمانی طریق کو اختیار نہیں کرتا اور ہر یک صداقت کے قبول کرنے سے اول قطعی اور یقینی اور نہایت واشگاف ثبوت مانگتا ہے اس کی طبیعت کو اس راہ سے کچھ مناسبت نہیں اور وہ اس لائق ہر گز نہیں ہو سکتا کہ اس قادر غنی بے نیاز کے فیوض حاصل کرے.سرمه چشم آریده، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۷۳ تا ۷۹ ) علم تین قسم پر ہوتا ہے (۱) ایک علم الیقین جیسا کہ کوئی دور سے دھواں دیکھ کر یہ قیاس کرے کہ اس جگہ ضرور آگ ہوگی (۲) دوسرا عین الیقین جیسا کہ کوئی اُس آگ کو اپنی آنکھ سے دیکھ لے(۳) تیسر احق الیقین جیسا کہ کوئی اُس آگ میں ہاتھ ڈال کر اُس کی گرمی محسوس کر لے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۰ حاشیه ) آسمانی نشانوں سے حصہ لینے والے تین قسم کے آدمی ہوتے ہیں.اوّل وہ جو کوئی ہنرا اپنے اندر نہیں رکھتے اور کوئی تعلق خدا تعالیٰ سے اُن کا نہیں ہوتا صرف دماغی مناسبت کی وجہ سے اُن کو بعض سچی خوا ہیں آجاتی ہیں اور بچے کشف ظاہر ہو جاتے ہیں جن میں کوئی مقبولیت اور محبوبیت کے آثار ظاہر نہیں ہوتے اور اُن سے کوئی فائدہ اُن کی ذات کو نہیں ہوتا اور ہزاروں شریر اور بد چلن اور فاسق و فاجر ایسی بد بو دار خوابوں اور الہاموں میں اُن کے شریک ہوتے ہیں اور اکثر دیکھا جاتا ہے کہ باوجود ان خوابوں اور کشفوں کے اُن کا چال چلن قابل تعریف نہیں ہو تا کم سے کم یہ کہ اُن کی ایمانی حالت نہایت کمزور ہوتی ہے اس قدر کہ ایک سچی گواہی بھی نہیں دے سکتے اور جس قدر دنیا سے ڈرتے ہیں خدا سے نہیں ڈرتے اور شریر آدمیوں سے قطع تعلق نہیں کر سکتے اور کوئی ایسی سچی گواہی نہیں دے سکتے جس سے بڑے آدمی کے ناراض ہو جانے کا اندیشہ ہوا اور دینی امور میں نہایت درجہ کسل اور شستی ان میں پائی جاتی ہے اور دنیا کے ہموم و عموم میں دن رات غرق رہتے ہیں اور دانستہ جھوٹ کی حمایت کرتے اور بیچ کو چھوڑتے ہیں اور ہر ایک قدم میں خیانت پائی جاتی ہے اور بعض میں اس سے بڑھ کر یہ عادت بھی پائی گئی ہے کہ وہ فسق و فجور سے بھی پر ہیز نہیں کرتے اور دنیا کمانے

Page 370

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۳ سورة التكاثر کے لئے ہر ایک ناجائز کام کر لیتے ہیں اور بعض کی اخلاقی حالت بھی نہایت خراب ہوتی ہے اور حسد اور بخل اور عجب اور تکبر اور غرور کے پہلے ہوتے ہیں اور ہر ایک کمینگی کے کام اُن سے صادر ہوتے ہیں اور طرح طرح کی قابل شرم خباثتیں اُن میں پائی جاتی ہیں.اور عجیب بات یہ ہے کہ بعض اُن میں ایسے ہیں کہ ہمیشہ بدخواہیں ہی اُن کو آتی ہیں اور وہ سچی بھی ہو جاتی ہیں.گویا اُن کے دماغ کی بناوٹ صرف بد اور منحوس خوابوں کے لئے مخلوق ہے نہ اپنے لئے کوئی بہتری کے خواب دیکھ سکتے ہیں جس سے اُن کی دنیا درست ہو اور اُن کی مرادیں حاصل ہوں اور نہ اوروں کے لئے کوئی بشارت کی خواب دیکھتے ہیں.ان لوگوں کے خوابوں کی حالت اقسام ثلاثہ میں سے اُس جسمانی نظارہ سے مشابہ ہے جب کہ ایک شخص دور سے صرف ایک دھواں آگ کا دیکھتا ہے مگر آگ کی روشنی نہیں دیکھتا اور نہ آگ کی گرمی محسوس کرتا ہے کیونکہ یہ لوگ خدا سے بالکل بے تعلق - ہیں اور روحانی امور سے صرف ایک دھواں اُن کی قسمت میں ہے جس سے کوئی روشنی حاصل نہیں ہوتی.پھر دوسری قسم کے خواب بین یا ملہم وہ لوگ ہیں جن کو خدا تعالیٰ سے کسی قدر تعلق ہے مگر کامل تعلق نہیں ان لوگوں کی خوابوں یا الہاموں کی حالت اُس جسمانی نظارہ سے مشابہ ہے جبکہ ایک شخص اندھیری رات اور - شدید البرد رات میں دور سے ایک آگ کی روشنی دیکھتا ہے.اس دیکھنے سے اتنا فائدہ تو اُسے حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ ایسی راہ پر چلنے سے پر ہیز کرتا ہے جس میں بہت سے گڑھے اور کانٹے اور پتھر اور سانپ اور درندے ہیں مگر اس قدر روشنی اس کو سردی اور ہلاکت سے بچا نہیں سکتی.پس اگر وہ آگ کے گرم حلقہ تک پہنچ نہ سکے تو وہ بھی ایسا ہی ہلاک ہو جاتا ہے جیسا کہ اندھیرے میں چلنے والا ہلاک ہو جاتا ہے.پھر تیسری قسم کے ملہم اور خواب بین وہ لوگ ہیں جن کے خوابوں اور الہاموں کی حالت اُس جسمانی نظارہ سے مشابہ ہے جب کہ ایک شخص اندھیری اور شدید البرد رات میں نہ صرف آگ کی کامل روشنی ہی پاتا ہے اور اُس میں چلتا ہے بلکہ اُس کے گرم حلقہ میں داخل ہو کر بکلی سردی کے ضرر سے محفوظ ہو جاتا ہے.اس مرتبہ تک وہ لوگ پہنچتے ہیں جو شہوات نفسانیہ کا چولہ آتشِ محبت الہی میں جلا دیتے ہیں اور خدا کے لئے تلخی کی زندگی اختیار کر لیتے ہیں وہ دیکھتے ہیں جو آگے موت ہے اور دوڑ کر اُس موت کو اپنے لئے پسند کر لیتے ہیں وہ ہر ایک در دکو خدا کی راہ میں قبول کرتے ہیں اور خدا کے لئے اپنے نفس کے دشمن ہو کر اور اس کے برخلاف قدم رکھ کر ایسی طاقت ایمانی دکھلاتے ہیں کہ فرشتے بھی اُن کے اس ایمان سے حیرت اور تعجب میں پڑ جاتے ہیں.وہ روحانی پہلوان ہوتے ہیں اور شیطان کے تمام حملے اُن کی روحانی قوت کے آگے بیچ ٹھہرتے ہیں وہ w

Page 371

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۴ سورة التكاثر بچے وفادار اور صادق مرد ہوتے ہیں کہ نہ دنیا کے لذات کے نظارے انہیں گمراہ کر سکتے ہیں اور نہ اولاد کی محبت اور نہ بیوی کا تعلق اُن کو اپنے محبوب حقیقی سے برگشتہ کر سکتا ہے.غرض کوئی تلخی اُن کو ڈرا نہیں سکتی اور کوئی نفسانی لذت اُن کو خدا سے روک نہیں سکتی اور کوئی تعلق خدا کے تعلق میں رخنہ انداز نہیں ہوسکتا.یہ تین روحانی مراتب کی حالتیں ہیں جن میں سے پہلی حالت علم الیقین کے نام سے موسوم ہے اور دوسری حالت عین الیقین کے نام سے نامزد ہے اور تیسری مبارک اور کامل حالت حق الیقین کہلاتی ہے.اور انسانی معرفت کامل نہیں ہوسکتی اور نہ کدورتوں سے پاک ہو سکتی ہے جب تک حق الیقین تک نہیں پہنچتی.کیونکہ حق الیقین کی حالت صرف مشاہدات پر موقوف نہیں بلکہ یہ بطور حال کے انسان کے دل پر وارد ہو جاتی ہے اور انسان محبت الہی کی بھڑکتی ہوئی آگ میں پڑ کر اپنے نفسانی وجود سے بالکل نیست ہو جاتا ہے اور اس مرتبہ پر انسانی معرفت پہنچ کر قال سے حال کی طرف انتقال کرتی ہے اور سفلی زندگی بالکل جل کر خاک ہو جاتی ہے اور ایسا انسان خدا تعالیٰ کی گود میں بیٹھ جاتا ہے اور جیسا کہ ایک لوہا آگ میں پڑ کر بالکل آگ کی رنگ میں آجاتا ہے اور آگ کی صفات اُس سے ظاہر ہونی شروع ہو جاتی ہیں ایسا ہی اس درجہ کا آدمی صفات الہیہ سے خلقی طور پر متصف ہو جاتا ہے.اور اس قدر طبعاً مرضات الہیہ میں فنا ہو جاتا ہے کہ خدا میں ہوکر بولتا ہے اور خدا میں ہو کر دیکھتا ہے اور خدا میں ہو کر سنتا ہے اور خدا میں ہو کر چلتا ہے گویا اُس کے جبہ میں خدا ہی ہوتا ہے.اور انسانیت اُس کی تجلیات الہیہ کے نیچے مغلوب ہو جاتی ہے چونکہ یہ مضمون نازک ہے اور عام فہم نہیں اس لئے ہم اس کو اسی جگہ چھوڑتے ہیں.اور ایک دوسرے پیرایہ میں ہم اس مرتبہ ثالثہ کی جو علی اور اکمل مرتبہ ہے اس طرح پر تصویر کھینچتے ہیں کہ وہ وحی کامل جو اقسام ثلاثہ میں سے تیسری قسم کی وحی ہے جو کامل فرد پر نازل ہوتی ہے اُس کی یہ مثال ہے کہ جیسے سورج کی دھوپ اور شعاع ایک مصلی آئینہ پر پڑتی ہے جو عین اس کے مقابل پر پڑا ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ اگرچہ سورج کی دھوپ ایک ہی چیز ہے لیکن بوجہ اختلاف مظاہر کے اس کے ظہور کی کیفیت میں فرق پیدا ہو جاتا ہے.پس جب سورج کی شعاع زمین کے کسی ایسے کثیف حصہ میں پڑتی ہے جس کی سطح پر ایک شفاف اور مصفی پانی موجود نہیں بلکہ سیاہ اور تار یک خاک ہے اور سطح بھی مستوی نہیں تب شعاع نہایت کمزور ہوتی ہے خاص کر اس حالت میں جبکہ سورج اور زمین میں کوئی بادل بھی حائل ہو.لیکن جب وہی شعاع جس کے آگے کوئی بادل حائل نہیں ایک شفاف پانی پر پڑتی ہے جو ایک مصفا آئینہ کی طرح چہکتا ہے تب وہی شعاع

Page 372

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۵ سورة التكاثر ایک سے دہ چند ہو کر ظاہر ہوتی ہے جسے آنکھ بھی برداشت نہیں کر سکتی.پس اسی طرح جب نفس تزکیہ یافتہ پر جو تمام کدورتوں سے پاک ہو جاتا ہے وحی نازل ہوتی ہے تو اُس کا ٹور فوق العادت نمایاں ہوتا ہے.اور اُس نفس پر صفات الہیہ کا انعکاس پورے طور پر ہو جاتا ہے اور پورے طور پر چہرہ حضرت احدیت ظاہر ہوتا ہے.اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ جیسے آفتاب جب نکلتا ہے تو ہر ایک پاک نا پاک جگہ پر اس کی روشنی پڑتی ہے یہاں تک کہ ایک پاخانہ کی جگہ بھی جو نجاست سے پر ہے اُس سے حصہ لیتی ہے.تاہم پورا فیض اُس روشنی کا اُس آئینہ صافی یا آپ صافی کو حاصل ہوتا ہے جو اپنی کمال صفائی سے خود سورج کی تصویر کو اپنے اندر دکھلا سکتا ہے.اسی طرح بوجہ اس کے کہ خدا تعالی بخیل نہیں ہے اُس کی روشنی سے ہر ایک فیضیاب ہے مگر تا ہم وہ لوگ جو اپنی نفسانی حیات سے مرکز خدا تعالیٰ کی ذات کا مظہر اتم ہو جاتے ہیں اور فلمی طور پر خدا تعالیٰ اُن کے اندر داخل ہو جاتا ہے اُن کی حالت سب سے الگ ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ اگر چہ سورج آسمان پر ہے لیکن تاہم جب وہ ایک نہایت شفاف پانی یا مصفا آئینہ کے مقابل پر پڑتا ہے تو یوں دکھائی دیتا ہے کہ وہ اس پانی یا آئینہ کے اندر ہے لیکن دراصل وہ اُس پانی یا آئینہ کے اندر نہیں ہے بلکہ پانی یا آئینہ نے اپنی کمال صفائی اور آب و تاب کی وجہ سے لوگوں کو یہ دکھلا دیا ہے کہ گویاوہ پانی یا آئینہ کے اندر ہے.غرض وحی الہی کے انوار اکمل اور اتم طور پر وہی نفس قبول کرتا ہے جو اکمل اور اتم طور پر تزکیہ حاصل کر لیتا ہے اور صرف الہام اور خواب کا پانا کسی خوبی اور کمال پر دلالت نہیں کرتا.جب تک کسی نفس کو بوجہ تزکیہ نام کے یہ انعکاسی حالت نصیب نہ ہو اور محبوب حقیقی کا چہرہ اُس کے نفس میں نمودار نہ ہو جائے.کیونکہ جس طرح فیض عام حضرت احدیت نے ہر ایک کو بجز شاذ و نادر لوگوں کے جسمانی صورت میں آنکھ اور ناک اور کان اور قوت شامہ اور دوسری تمام قوتیں عطا فرمائی ہیں اور کسی قوم سے بخل نہیں کیا.اسی طرح روحانی طور پر بھی اُس نے کسی زمانہ اور کسی قوم کے لوگوں کو روحانی قومی کی تخم ریزی سے محروم نہیں رکھا اور جس طرح تم دیکھتے ہو کہ سورج کی روشنی ہر ایک جگہ پڑتی ہے اور کوئی لطیف یا کثیف جگہ اس سے باہر نہیں ہے.یہی قانونِ قدرت روحانی آفتاب کی روشنی کے متعلق ہے کہ نہ کثیف جگہ اس روشنی سے محروم رہ سکتی ہے اور نہ لطیف جگہ ہاں مصفی اور شفاف دلوں پر وہ نور عاشق ہے جب وہ آفتاب روحانی منصفی چیزوں پر اپنا نور ڈالتا ہے تو اپنا گل نوران میں ظاہر کر دیتا ہے یہاں تک کہ اپنے چہرہ کی تصویر اُن میں کھینچ دیتا ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ ایک مصلی پانی یا مصلی آئینہ کے مقابل پر جب سورج آتا ہے.تو اپنی تمام صورت اُس میں ظاہر کر دیتا ہے

Page 373

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۶ سورة التكاثر یہاں تک کہ جیسا کہ آسمان پر سُورج نظر آتا ہے ویسا ہی بغیر کسی فرق کے اس مصلی پانی یا آئینہ میں نظر آتا ہے.پس روحانی طور پر انسان کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی کمال نہیں کہ وہ اس قدر صفائی حاصل کرے کہ خدا تعالی کی تصویر اُس میں کھینچی جائے.اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے اِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً (البقرة : ۳۱) یعنی میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں.یہ ظاہر ہے کہ تصویر ایک چیز کی اصل صورت کی خلیفہ ہوتی ہے یعنی جانشین.اور یہی وجہ ہے کہ جس جس موقعہ پر اصل صورت میں اعضا واقع ہوتے ہیں اور خط و خال ہوتے ہیں اُس اُسی موقعہ پر تصویر میں بھی ہوتے ہیں اور حدیث شریف اور نیز توریت میں بھی ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنی صورت پر بنایا.پس صورت سے مراد یہی روحانی تشابہ ہے.اور پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ جب مثلاً ایک نہایت صاف آئینہ پر آفتاب کی روشنی پڑتی ہے تو صرف اسی قدر نہیں ہوتا کہ آفتاب اس کے اندر دکھائی دیتا ہے بلکہ وہ شیشہ آفتاب کی صفات بھی ظاہر کرتا ہے اور وہ یہ کہ اُس کی روشنی انعکاسی طور پر دوسرے پر بھی پڑ جاتی ہے.پس یہی حال روحانی آفتاب کی تصویر کا ہوتا ہے کہ جب ایک قلب صافی اُس سے ایک انعکاسی شکل قبول کر لیتا ہے تو آفتاب کی طرح اُس میں سے بھی شعائیں نکل کر دوسری چیزوں کو منور کرتی ہیں گویا تمام آفتاب اپنی پوری شوکت کے ساتھ اُس میں داخل ہو جاتا ہے.اور پھر اس جگہ ایک اور نکتہ قابل یادداشت ہے اور وہ یہ کہ تیسری قسم کے لوگ بھی جن کا خدا تعالیٰ سے کامل تعلق ہوتا ہے اور کامل اور مصفی الہام پاتے ہیں قبول فیوض الہیہ میں برابر نہیں ہوتے اور ان سب کا دائرہ استعداد فطرت باہم برابر نہیں ہوتا بلکہ کسی کا دائرہ استعداد فطرت کم درجہ پر وسعت رکھتا ہے اور کسی کا زیادہ وسیع ہوتا ہے اور کسی کا بہت زیادہ اور کسی کا اس قدر جو خیال و گمان سے برتر ہے اور کسی کا خدا تعالیٰ سے رابطہ محبت قوی ہوتا ہے اور کسی کا اقومی اور کسی کا اس قدر کہ دنیا اُس کو شناخت نہیں کر سکتی اور کوئی عقل اُس کے انتہا تک نہیں پہنچ سکتی.اور وہ اپنے محبوب از لی کی محبت میں اس قدر محو ہوتے ہیں کہ کوئی رگ وریشہ اُن کی ہستی اور وجود کا باقی نہیں رہتا اور یہ تمام مراتب کے لوگ بموجب آیت حلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ (الانبياء : ٣٣) اپنے دائرہ استعداد فطرت سے زیادہ ترقی نہیں کر سکتے.اور کوئی اُن میں سے اپنے دائر کہ فطرت سے بڑھ کر کوئی نور حاصل نہیں کر سکتا اور نہ کوئی روحانی تصویر آفتاب نورانی کی اپنی فطرت کے دائرہ سے بڑھ کر اپنے اندر لے سکتا ہے اور خدا تعالیٰ ہر ایک کی استعداد فطرت کے موافق اپنا چہرہ اُس کو دکھا دیتا ہے اور فطرتوں کی کمی بیشی کی وجہ سے وہ چہرہ کہیں چھوٹا ہو جاتا ہے اور کہیں بڑا جیسے مثلاً ایک بڑا چہرہ ایک آرسی کے شیشہ میں ا

Page 374

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۷ سورة التكاثر نہایت چھوٹا معلوم ہوتا ہے مگر وہی چہرہ ایک بڑے شیشہ میں بڑا دکھائی دیتا ہے مگر شیشہ خواہ چھوٹا ہو خواہ بڑا چہرہ کے تمام اعضاء اور نقوش دکھا دیتا ہے صرف یہ فرق ہے کہ چھوٹا شیشہ پورا مقدار چہرہ کا دکھلانہیں سکتا.سو جس طرح چھوٹے اور بڑے شیشہ میں یہ کمی بیشی پائی جاتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کی ذات اگر چہ قدیم اور غیر متبدل ہے مگر انسانی استعداد کے لحاظ سے اس میں تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں اور اس قدر فرق نمودار ہو جاتے ہیں کہ گو یا اظہار صفات کے لحاظ سے جو زید کا خدا ہے اُس سے بڑھ کر وہ خدا ہے جو بکر کا خدا ہے اور اس سے بڑھ کر وہ جو خالد کا خدا ہے مگر خدا تین نہیں خدا ایک ہی ہے صرف تجلیات مختلفہ کی وجہ سے اس کی شانیں مختلف طور پر ظاہر ہوتی ہیں جیسا کہ موسیٰ اور عیسیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا ایک ہی ہے تین خدا نہیں ہیں مگر مختلف تجلیات کی رو سے اُسی ایک خدا میں تین شانیں ظاہر ہو گئیں چونکہ موسیٰ کی ہمت صرف بنی اسرائیل اور فرعون تک ہی محدود تھی اس لئے موسیٰ پر تجلی قدرت الہی اُسی حد تک محدودر ہی اور اگر موسیٰ کی نظر اُس زمانہ اور آئندہ زمانوں کے تمام بنی آدم پر ہوتی تو توریت کی تعلیم بھی ایسی محدود اور ناقص نہ ہوتی جواب ہے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۲ تا ۲۹) خدا نے پہلے سے ارادہ کر رکھا ہے کہ جو متقی ہو اور خدا کی منشاء کے مطابق ہے تو وہ ان مراتب کو حاصل کر سکے جو انبیاء اور اصفیاء کو حاصل ہوتے ہیں.اس سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ انسان کو بہت سے قومی ملے ہیں جنہوں نے نشو و نما پانا ہے اور بہت ترقی کرنا ہے.ہاں ایک بکرا چونکہ انسان نہیں اس کے قومی ترقی نہیں کر سکتے.عالی ہمت انسان جب رسولوں اور انبیاء کے حالات سنتا ہے تو چاہتا ہے کہ وہ انعامات جو اس پاک جماعت کو حاصل ہوئے اس پر نہ صرف ایمان ہی ہو بلکہ اسے بتدریج ان نعماء کاعلم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین ہو جاوے.علم کے تین مدارج ہیں علم الیقین، عین الیقین حق الیقین.مثلاً ایک جگہ دھواں نکلتا دیکھ کر آگ کا یقین کر لین علم الیقین ہے لیکن خود آنکھ سے آگ کا دیکھنا عین الیقین ہے.ان سے بڑھ کر درجہ حق الیقین کا ہے یعنی آگ میں ہاتھ ڈال کر جلن اور حرقت سے یقین کر لینا کہ آگ موجود ہے.پس کیسا وہ شخص بدقسمت ہے جس کو تینوں میں سے کوئی درجہ حاصل نہیں.(رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۳۸) وہ لوگ بڑی غلطی پر ہیں جو ایک ہی دن میں حق الیقین کے درجے پر پہنچنا چاہتے ہیں.یا درکھو کہ ایک ظن ہوتا ہے اور ایک یقین.ظن صرف خیالی بات ہوتی ہے اس کی صحت اور سچائی پر کوئی حکم نہیں ہوتا بلکہ اس

Page 375

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۸ سورة التكاثر میں احتمال کذب کا ہوتا ہے لیکن یقین میں ایک سچائی کی روشنی ہوتی ہے.یہ سچ ہے کہ یقین کے بھی مدارج ہیں.ایک علم الیقین ہوتا ہے پھر عین الیقین اور تیسرا حق الیقین.جیسے دور سے کوئی آدمی دھواں دیکھتا ہے تو وہ - تو آگ کا یقین کرتا ہے اور یہ علم الیقین ہے اور جب جا کر دیکھتا ہے تو وہ عین الیقین ہے اور جب ہاتھ ڈال کر دیکھتا ہے کہ وہ جلاتی ہے تو وہ حق الیقین ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۴ مورخه ۱۰ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۲) وہ علم جو کہ نبیوں سے ملتا ہے اس کی تین اقسام ہیں.علم الیقین ، عین الیقین حق الیقین اس کی مثال یہ ہے جیسے ایک شخص دور سے دھواں دیکھے تو اسے علم ہوگا کہ وہاں آگ ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جہاں آگ ہوتی ہے وہاں دھواں بھی ہوتا ہے اور ہر ایک دوسرے کے لئے لازم ملزوم ہیں یہ بھی ایک قسم کا علم ہے جس کا نام لازم علم الیقین ہے مگر اور نزدیک جا کر وہ اس آگ کو آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے تو اسے عین الیقین کہتے ہیں.پھر اگر اپنا ہاتھ اس آگ پر رکھ کر اس کی حرارت وغیرہ کو بھی دیکھ لیوے تو اسے کوئی شبہ اس کے بارے میں نہ رہے گا اور اس طرح سے جو علم اسے حاصل ہو گا اس کا نام حق الیقین ہوگا.البدر جلد ۲ نمبر ۱۸ مورخه ۲۲ رمئی ۱۹۰۳ ء صفحه ۱۳۷)

Page 376

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۳۴۹ سورة العصر بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة العصر بیان فرموده سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرِ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّلِحَتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ) وَإِنَّ الْقُرْآنَ أَشَارَ فِي أَعْدَادِ سُوْرَةِ اور قرآن سورہ عصر کے اعداد میں قمری حساب العضر إلى وقتٍ مطى من ادم إلى نبينا سے اس وقت کی طرف اشارہ کرتا ہے جو آدم سے بِحِسَابِ الْقَمَرِ، فَعُدُّوا إِنْ كُنْتُمْ تَشُكُونَ.ہمارے نبی تک گزرا ہے پس اگر شک ہے تو گن لو.وَإِذَا تَقَرَّرَ هَذَا فَاعْلَمُوا أَنَّى خُلِفتُ في اور جب تحقیق ہو گیا تو جان لو کہ میں چھٹے ہزار کے الْأَلْفِ السَّادِس فِي آخِرِ أَوْقَاتِه كَمَا خُلِقَ آخر اوقات میں پیدا کیا گیا ہوں جیسا کہ آدم چھٹے دن ادَمُ فِي الْيَوْمِ السَّادِسِ فِي آخِرِ سَاعَاتِہ میں اس کی آخری ساعت میں پیدا کیا گیا پس میرے فَلَيْسَ لِمَسِيحِ مِن دُونِي مَوْضِعُ قَدَمٍ بَعْدَ سوا دوسرے مسیح کے لئے میرے زمانہ کے بعد قدم زَمَانِي إِنْ كُنْتُمْ تَفَكَّرُونَ رکھنے کی جگہ نہیں اگر فکر کرو.( ترجمہ اصل کتاب سے ) (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۲۴۲، ۲۴۳) أَلا تَقْرَءُونَ سُورَةَ الْعَصْرِ وَ قَدْ بُيِّن في کیا تم سورہ عصر نہیں پڑھتے.اس کے اعداد

Page 377

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۰ سورة العصر أَعْدَادِهَا عُمَرُ الدُّنْيَا مِنْ آدم إلى نبينا میں دین کی سمجھ رکھنے والوں کے لئے آدم سے لے کر لِقَوْمٍ يَتَفَقَّهُونَ.وَهُذَا هُوَ الْعُمُرُ الَّذِى ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت تک دنیا کی يَعْلَمُهُ أَهْلُ الْكِتَابِ فَاسْأَلُوهُمْ إِنْ عمر بیان کی گئی ہے اور یہ وہ عمر ہے جس کو اہلِ کتاب بھی كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ.وَلَا فَرْقَ بَيْنَ عِدَّةٍ جانتے ہیں.اگر تم نہیں جانتے تو تم ان سے پوچھ لو اور سورہ سُوْرَةِ الْعَصْرِ وَعِدَّتِهِمْ إِلَّا الْفَرْقُ بَيْنَ عصر کی بیان کردہ گنتی اور اہلِ کتاب کی گنتی میں کوئی فرق أَيَّامِ الشَّمْسِ وَأَيَّامِ الْقَمَرِ، فَعُدُّوهَا إِن نہیں سوائے اس کے جو سورج کے دنوں کے حساب اور كُنتُمْ تَشكُونَ وَإِذَا تَقَرّر هذا چاند کے دنوں کے حساب میں ہوتا ہے.اگر تمہیں کچھ شک فَاعْلَمُوا أَبي وُلِدتُ في اخر الأَلف ہو توتم گنتی کر کے دیکھ لو.اور جب یہ بات متحقق ہو گئی تو تمہیں السادس بهذا الْحِسَابِ وَإِنَّهُ يَوْمُ علم ہونا چاہیے کہ اس حساب سے میں چھٹے ہزار کے آخر میں خَلْقِ ادَمَ ، وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّنَا كَالْفِ پیدا کیا گیا ہوں اور یہ حضرت آدم کی پیدائش کا دن ہے.اور سَنَةٍ مَا تَعُدُّونَ وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ اور ہمارے رب کا ایک دن انسانی گنتی کے لحاظ سے ایک مَا كَتَبْنَا مِنْ أَنَّهُ مِنْ أَيَّامٍ سلسلة ہزار سال کے برابر ہوتا ہے.جو کچھ ہم نے لکھا ہے اس کے أدَمَ ما بَقى إلى يَوْمِنَا هَذَا إِلَّا أَلف بارے میں اگر تمہیں کوئی شک ہو کہ آدم علیہ السلام کے سَنَةٍ أَوْ مَعَهُ قَلِيْلٌ مِنْ سِنين فتعالوا سلسلہ کے وقت سے لے کر ہمارے آج کے دن تک صرف تقيتُه لَكُم مِن كِتَابِ اللهِ وَمِنَ ایک ہزار سال یا اس کے ساتھ چند اور سال عمر دنیا میں سے الحَدِيث وَمِن كُتُبِ النَّبِيِّين باقی رہ گئے ہیں.تو آؤ ہم تمہیں یہ بات خدا کی کتاب السَّابِقِينَ.فَإِنَّ أَعْدَادَ سُورَةِ الْعَضر (قرآن مجید) اور حدیث اور پہلے انبیاء کے صحیفوں سے بِحِسَابِ الْجُمَلِ، كَمَا كُشِفَ عَلَى مِنَ الله ثابت کر دیتے ہیں جیسا کہ وہاب خدا نے مجھ پر انکشاف الْوَهَّابِ وَكَمَا هُوَ مُتَوَاتِرٌ عِنْدَ أَهْلِ فرمایا ہے کہ سورہ عصر کے اعداد بحساب جمل نیز اہل کتاب الْكِتَابِ يَهْدِى إِلى أَنَّ الزَّمَانَ إلى عَهْدِ کے ہاں جو روایت تواتر کے ساتھ چلتی آرہی ہے وہ اس طرف خَاتَمِ الْأَنْبِيَاءِ كَانَ مُنْقَضِبًا إلى خَمْسَةِ راہنمائی کرتی ہے کہ اول النبیین حضرت آدم علیہ السلام الافٍ مِنْ أَدَمَ أَوَّلِ النَّبِيِّينَ.وَمَا كَانَ سے لے کر خاتم الانبیاء کے زمانہ تک سوائے چند سو سال کے بَاقِيًا مِنَ الْخَامِ إِلَّا قَلِيلٌ مِنْ مِقَيْنِ پانچ ہزار سال گزر چکے تھے.اور اسی قسم کا مفہوم سات درجوں

Page 378

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۵۱ سورة العصر ،، ،،، وو وو وَكَمِثْلِهِ يُفْهَمُ مِنْ حَدِيثِ مِنْبَرِ ذی والے منبر والی حدیث کا ہے جس کے معنے ہم نے اس کے سَبْع دَرَجَاتٍ مَغنِّى بَيِّنَاهُ فِی مَوْضِعِهِ مقام پر ہماری تحریرات پر نظر رکھنے والوں کے لئے بیان لِلنَّاظِرِينَ.وَلَمَّا ثَبَتَ أَنَّ هَذَا الْقَند کئے ہیں.اور جب یہ ثابت ہو گیا کہ خیر الوریٰ رسول اللہ مِن عُمرِ الدُّنْيَا كَانَ مُنْقَضِبًا إلى عَهْدِ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک دنیا کی عمر سے اتنا ہی عرصہ رَسُولِ اللهِ خَيْر الْوَرى ثَبَتَ مَعَهُ أَنَّ گزرا تھا تو اس کے ساتھ یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ عمر دنیا الْقَدْدَ الْبَاقِي مَا كَانَ إِلَّا أَقَلُ مِقْدَارًا میں سے باقی ماندہ عرصہ گذشتہ عرصہ کی نسبت بہت کم رہ گیا نِسْبَةً إِلى مَا مَطَى فَإِنَّ الْقُرْآنَ ہے.چنانچہ قرآن کریم نے کئی مرتبہ اس بات کو وضاحت الْكَرِيمَ طَرحَ مِرَارًا بِأَنَّ السَّاعَةَ سے بیان کیا ہے کہ قیامت کی گھڑی اب قریب ہے اور اس قَرِيبَةٌ لَا رَيْبَ فِيهَا وَقَالَ اقْتَرَبَ امر میں کسی شہر کی گنجائش نہیں.پھر ایک مقام پر فرمایا کہ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَقَالَ اقْتَرَبَتِ لوگوں کے حساب کا وقت قریب آن پہنچا ہے پھر کہا کہ الساعة ٢٠ وَقَالَ فَقَدُ جاءَ قیامت کی گھڑی بالکل قریب ہے اور اس کے ساتھ ہی کہا اَشْرَاطِهَا.وَكَذَالِكَ تُوْجَدُ فِيهِ في کہ اس کی علامات بھی ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں.اس هذَا الْبَابِ ايَاتٌ أُخْرَى، فَعَلِمَ مِنْهَا مضمون سے متعلق قرآن مجید میں کئی اور آیات بھی پائی جاتی بالقطع وَالْيَقِينِ يَا أُولى اللهى آن ہیں.اے عقلمندو! ان آیات سے یہ بات قطعی اور یقینی طور الحصَّةَ الْبَاقِيَةَ مِن الدُّنْيَا أُقل من پر معلوم ہوتی ہے کہ دنیا کی عمر کا باقی حصہ اس وقت سے زَمَانِ انقطى حَتَّى إِنَّ أَشراط السَّاعَةِ بہت کم ہے جو گزر چکا یہاں تک کہ علامات قیامت ظاہر ظَهَرَتْ وَيَوْمُ الْوَعْدِ دَلى، وَقَرُبَ الآتي ہوئیں اور وعدے کا دن قریب آگیا اور آنے والا وقت وَبَعُد مَا مَطَى فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَڑی قریب آ گیا اور گزرا ہوا وقت دور چلا گیا پس تو اپنی نظر اس مِن كِلْبٍ فِيْهِ وَالسّلامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ پر بار بار ڈال کیا تو اس امر میں کوئی خلاف واقعہ بات دیکھتا الْهُدَى وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ الْمُدَّةَ ہے.اور اس شخص پر اللہ کی سلامتی نازل ہو جو ہدایت کی الْمُنقَضِيَّةَ مِنْ وَقْتِ آدَمَ إِلى عَهْدِ پیروی کرے اور تم یہ معلوم کر چکے ہو کہ آدم علیہ السلام کے نبِيْنَا الْمُصْطفى كانَتْ فَرِيْبَةٌ من زمانہ سے ہمارے نبی مصطفییٰ تک پانچ ہزار سال کے قریب خَمْسَةِ الابِ، وَقَدْ شَهِدَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ مدت گزر چکی ہے اور اس کی صداقت پر قرآن مجید نے الانبیاء : ٢ - القمر : ۲ ۳ محمد : ۱۹

Page 379

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۵۲ سورة العصر وَاتَّفَقَ عَلَيْهِ أَهْلُ الْكِتَابِ مِنْ غَيْرِ گواہی دی ہے اور اہلِ کتاب بھی بغیر اختلاف کے اس خِلَافٍ، فَمَا الْمِقْدَارُ الَّذِي هُوَ أَقَلُّ مِن بات پر متفق ہیں.پس وہ مقدار کون سی ہے جو اس مقدار هذَا الْمِقْدَارٍ أَلَيْسَ هُوَ آخِرُ وَقتِ سے کم ہو.تم انصاف سے ہمیں بتاؤ کیا یہ عصر کا آخری وقت الْعَصْرِ أَجِبْنَا بِالْإِنْصَافِ وَلَوْ نہیں ہے.اگر تم اس امر کو قبول کرنے میں گریز سے کام لوتو تَعَشَفتَ كُلَّ التَّعَسُّفِ ثُمَّ مَعَ ذَلِكَ لا اس کے باوجود تمہیں اس اقرار سے کوئی چارہ نہیں کہ باقی بُنَّ لَك أَن تُقِرّ بِأَنَّهُ أَقَلُّ مِنَ النِّصْفِ رہنے والی مدت بغیر اختلاف کے نصف سے بھی کم ہے.بِغَيْرِ الْإخْتِلافِ فَقَدِ اعْتَرَفت پس صحیح طریق سے ہٹ جانے کے باوجود تم نے اپنی اس يدَعْوَانَا بِقَوْلِكَ هذا مع هذا بات کے ساتھ ہمارے دعوی کو تسلیم کر لیا.اس بات سے تم سرلیا الاعْتِسَافِ فَلَوْمَ لَكَ أَنْ تُقِرّ أَنَّ مِن پر یہ لازم آتا ہے کہ تم اس بات کا بھی اقرار کرو کہ آدم علیہ مدَّةٍ عَهْدِ ادَمَ مَا كَانَتْ بَاقِيَةً إِلى عَهْدِ السلام کے زمانہ میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رَسُوْلِ اللهِ إِلَّا أَلْفَيْنِ وَعِدَّةً مِّن مِّتَيْنِ زمانہ تک دنیا کی عمر صرف دو ہزار اور چند سو سال باقی رہ گئی وَهَذَا هُوَ دَعْوَانَا فَالْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ تھی اور یہی ہمارا دعوی ہے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الْعَالَمِينَ، فَإِذَا تَقُولُ إِنَّا بُعِنَا عَلَی ہم کہتے ہیں کہ ابو البشر آدم علیہ السلام کے سلسلہ کے رأس ألف أخر من أُلُوفِ سِلْسِلَةِ أَبِي ہزاروں برسوں کے آخری سال کے سرے پر ہم مبعوث البَشَرِ وَخَالَمَةِ الْأَلْفِ السَّادِیس پائن کئے گئے ہیں یعنی اللہ ارحم الراحمین کے حکم سے چھٹے ہزار اللهِ أَرْحَم الرَّاحِمِينَ.وَهُذَا هُوَ زَمَانُ سال کے خاتمہ پر.اور یہ اس مسیح کا زمانہ ہے جو آخری الْمَسِيحِ الَّذِى هُوَ ادَهُ آخِرِ الزَّمَانِ زمانہ کا آدم ہے اے زیادتی سے کام لینے والے یہی وہ وَهَذِهِ هِى تحمى التي أَقْرَرْتَ بِهَا يَا أَبَا میری دلیل ہے جس کے صحیح ہونے کا تم نے اقرار کر لیا ہے.الْعُدْوَانِ فَانْظُرْ أَنَّكَ صُفنت حَقٌّ پس دیکھو تم کس طرح مکمل طور پر جکڑ دیئے گئے ہو.اور ہر التَّصْفِيدِ وَكَذَالِكَ يُصَقَدُ كُلُّ مَن و شخص جو اہل عرفان سے اعراض کرے اسے اسی طرح جکڑ أَعْرَضَ عَنْ أَهْلِ الْعِرْفَانِ وَاللهِ مَا نَتَأَنَا دیا جاتا ہے.اللہ کی قسم ! اس نے ہمیں قیامت کے وقت بِالسَّاعَةِ، وَنَبَّأَنَا بِالأَلْفِ الَّذِي تَقَعُ کے متعلق کچھ نہیں بتلایا ہاں ہمیں اس ہزار سال کی خبر دی السَّاعَةُ فِيْهَا، وَعَزَّفَ بَعْضَ الْحَالاتِ ہے جس میں قیامت برپا ہوگی.اور اس نے ہمیں بعض

Page 380

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۳ سورة العصر وَأَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ فَلَا نَعْلَمُ وَقت حالات کا علم دیا ہے اور بعض کا نہیں دیا.پس نہ تو ہم السَّاعَةِ وَلَا مَلَكَ فِي السَّمَاءِ ، وَمَا نَعْلَمُ قیامت کے وقت کا علم رکھتے ہیں اور نہ کوئی آسمان میں حَقِيقَةَ السَّاعَةِ، وَنَعْلَمُ أَنَّهَا انْقِلاب فرشتہ اس کا علم رکھتا ہے اور ہم قیامت کی حقیقت کا علم نہیں عَظِيمٌ وَيَوْمُ الْجَزَاءِ، وَنُفَوِّضُ تَفَاصِيْلَهَا رکھتے.ہاں میں اتنا علم ہے کہ وہ ایک انقلاب عظیم اور إلى عَلِيْمٍ يَعْلَمُ حَقِيقَةُ الابْتِدَاءِ روز جزا ہوگا اور اس کی تفاصیل ہم خدائے علیم کے سپرد وَالْإِنْعِبَاءِ ثُمَّ نُعِيْدُ الْكَلَامَ وَنَقُولُ إِنَّ کرتے ہیں جو ابتداء اور انتہاء کی حقیقت کو جانتا ہے.الله شَبَّهَ زَمَانَ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ پھر ہم بات کو دہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے وَسَلَّمَ بِوَقْتِ الْعَضرِ، وَإِنْ شِئْتَ فَاقْرَأ في رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو عصر کے وقت کے ساتھ الْقُرْآنِ سُوْرَةَ الْعَصْرِ ، وَكَذَالِكَ جَاءَ ذِكرُ تشبیہ دی ہے اور اگر آپ چاہیں تو قرآن مجید میں سورۃ عصر الْعَصْرِ فِي الْأَحَادِيثِ الصَّحِيحَةِ پڑھ لیں اور اسی طرح احادیث صحیحہ اور پختہ متواتر خبروں وَالْأَخْبَارِ الْمُوَثَقَةِ الْمُتَوَاتِرَةِ حَتَّى إِنَّهُ میں عصر کا ذکر آیا ہے یہاں تک کہ یہ ذکر بخاری ، موطا اور تُوجَدُ فِي الْبُغَارِي وَالْمُؤظَا وَغَيْرِهَا مِن دیگر معتبر کتابوں میں پایا جاتا ہے اور اس تشبیہ میں یہ راز الْكُتُبِ الْمُعْتَبِرَةِ وَالسّير في هذا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی کو قرونِ اولیٰ کے ہلاک التَّشْبِيْهِ أَنَّ اللهَ بَعَكَ مُوسى بَعْدَ إِهْلَاكِ کرنے کے بعد مبعوث فرمایا اور انہیں نئی امت کا آدم الْقُرُونِ الْأُولى، وَجَعَلَهُ آدَمَ لِلْأُمَّةِ بنایا اور ان کی طرف عظیم الشان وحی کی اور ان کے دین کا الْجَدِيدَةِ وَأَوْحَى إِلَيْهِ مَا أَوْحَى وَانْقَطعَ سلسله تقريباً تیرہ سو سال بعد ختم ہو گیا.اور اللہ تعالیٰ نے سلْسِلَة دِينِهِ إِلى ثَلَاثِ مِائَةٍ بَعْد الْأَلْفِ یوں ہی ارادہ اور فیصلہ کیا تھا.پھر اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام وَنَيْفٍ وَكَذَالِكَ أَرَادَ اللهُ وَقَطى.ثُمَّ کو مبعوث فرمایا تا وہ بنی اسرائیل کو تو رات کی اس تعلیم کو بَعَثَ عِيسَى لِيُذكر بني إسرائيل ما یاد دلائیں جسے وہ بھول چکے تھے اور انہیں اخلاق عظیمہ نَسُوهُ مِنَ التَّوْرَاةِ وَيُرَغْبَهُمْ فِي أَخْلَاقٍ پر قائم ہونے کی رغبت دلائیں.آپ کے دین کا سلسلہ ایک عُظمى، وَانْقَطعَتْ سلسله دییه إلى مُدَّةٍ ایسے زمانہ تک پہنچ کر ختم ہو گیا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام هِيَ قَرِيبٌ مِنْ نِصْفِ مُدَّةٍ سلسلة کے سلسلہ کے زمانہ کا نصف تھا.پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے مُوسَى ثُمَّ بَعَد نَبِيَّةَ مُحَمَّدًا خَيْرَ الْوَرى نبی اور رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا جو

Page 381

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۵۴ سورة العصر وَرَسُولَهُ الْمُصْطَفى، عَلَيْهِ صَلَوَاتُ الله افضل الخلوقات ہیں ( آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اس کی وَسَلامُهُ وَبَرَكَاتُهُ الْكُبْرَى وَجَعَلَ سلامتی اور بڑی برکتیں نازل ہوں ) اور آپ کے بہترین سلْسِلَةَ الْأَخْيَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ إلى مُدَّةٍ متبعین کے سلسلہ کو اس مدت تک لے گیا جو اس نصف هي نِصْفُ التَّصْفِ الَّذِي أُعْطِي لِعِيسى مدت کا نصف ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام کو دی گئی یعنی أَغْنِي الْقُرُونَ الثَّلَاثَةَ الَّتِي الْقَرَضَتْ إلى تین صدیوں تک جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ثَلَاثِ مِائَةٍ مِنْ سَيِّدِنَا الْمُجْتَبى.فَكَانَ گزریں.پس موسیٰ علیہ السلام کی امت کا زمانہ کامل اور عَهْدُ أُمَّةٍ مُوسَى يُضَاهِي نَهَارًا كَامِلاً تمام دن کے مشابہ ہے اس کے سینکڑوں کی تعداد دن کی تماما، وَيُضَاهِي عَدَدُ مِئَاتِهِ عَدَدَ ساعات کی تعداد کے برابر ہے.اور عیسی علیہ السلام کی سَاعَاتِهِ، وَعَهْدُ أُمَّةِ عِيسَى يُضَاهِي نِصْفَ امت کا زمانہ حقیقتہ اس دن کا نصف ہے.لیکن خیر الرسل النَّهَارِ فِي حَتِ ذَاتِهِ، وَأَمَّا عَهْدُ أَخْيَارِ أُمَّةٍ صلى اللہ علیہ وسلم کے اخیار امت کا زمانہ جو تین صدیوں خَيْرِ الرُّسُلِ الَّذِينَ كَانُوا إِلَى الْقُرُونِ تک تھے نصف دن کے نصف کے مشابہ ہے یعنی عصر الثَّلَاثَةِ فَهُوَ يُضَاهِي يَصْف نصف النہار کے وقت تک جو اوسط دنوں کے وقت کا ایک تہائی بنتا نِصْفِ النَّهَارِ أَغْنِي وَقتَ الْعَصْرِ الَّذِي هُوَ قُلتُ سَاعَةٍ ہے.پھر اس کے بعد اللہ کی تقدیر اور اس کی حکمت کے مِنَ الْأَيَّامِ الْمُتَوَشِطَةِ.ثُمَّ بَعْدَ ذَالِك مطابق تاریک رات آگئی جو ظلم اور جور سے بھری ہوئی ليْلَةٌ لَيْلاءُ بِقَدر من اللہ وَحِكْمَةٍ وَھی تھی اور وہ ایک ہزار سال تک چلتی چلی گئی.پھر اس کے وَهِيَ مملوءةٌ مِن الظُّلْمِ وَالْجَوْرِ إِلى أَلْفِ سَنَةٍ.بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسیح موعود کا سورج چڑھنا مقدر ثُمَّ بَعْدَ ذَالِكَ تَطْلُعُ شَمْسُ الْمَسِيحِ تھا.پس یہ معنی اس عصر کے ہیں جو قرآن مجید میں مذکور الْمَوْعُوْدِ مِن فَضْلِ الرَّحْمٰنِ فَهَذَا مَعْنَى ہے اور یہی وقت عصر کی حقیقت ہے جو ہم پر ظاہر ہوئی الْعَصْرِ الَّذِي جَاءَ فِي الْقُرْآنِ هَذَا مَا ظَهَرَ ہے.لیکن اس کے ساتھ ہی قرب قیامت بالکل صحیح بات عَلَيْنَا مِنْ حَقِيقَةِ وَقْتِ الْعَصْرِ، وَلكِن ہے جو قرآن کریم سے ثابت ہے اور اہلِ عرفان مَّعَ ذَالِكَ قُرْبُ الْقِيَامَةِ حَقٌّ صَحِيحٌ ثَابِتُ ( عارفوں) کے نزدیک قرآن مجید کی مختلف تو جیہات ہو مِنَ الْفُرْقَانِ وَلِلْقُرانِ وُجُوهٌ عِنْدَ أَهْلِ سکتی ہیں پس یہ بھی ایک توجیہ ہے جو ہم نے لکھی ہے اور الْعِرْفَانِ، فَهَذَا وَجْهُ وَذَلِكَ وَجْهُ وكلاهما وہ بھی ایک توجیہ ہے جو پہلوں نے لکھی ہے اور غور کرنے

Page 382

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۵۵ سورة العصر صَادِقَانِ عِنْدَ الْإِمْعَانِ، وَلَا يُنْكِرُهُ إِلَّا پر دونوں تو جیہات درست معلوم ہوتی ہیں اور اس کا جَاهِلٌ طَرِيرُ أَوْ مُتَعَضِبٌ أَسير في مُجَب انكار جاہل، اندھے اور سرکشی کے پردوں میں اسیر الْعُدْوَانِ، لِأَنَّ الْمَعْنَى الَّذِي قَدَّمْنَاهُ في متعصب کے سوا کوئی نہیں کر سکتا لیکن بات یہ ہے کہ جو الْبَيَانِ يَحْصُلُ بِهِ التَّفَصّى مِنْ بَعْضِ معنے اپنے بیان میں ہم نے پہلے ذکر کئے ہیں ان سے الْإِشْكَالِ الَّتِي تَخْتَلِجُ فِي جَنَانِ بَعْضِ ان بعض اشکال سے نجات ملتی ہے جو عرفان کے پیاسے عطافِي الْعِرْفَانِ مِنْ تَتابع وساوس دلوں میں شیطان کے بار بار کے وساوس سے پیدا الشَّيْطَانِ، ثُمَّ إِنَّ هَذَا الْمَعْنى يُنجى ہوتے ہیں.علاوہ ازیں یہ معنے بخاری اور مؤطا کی حَدِيثَ الْبُخَارِي وَالْمُؤظا مِنْ طَعْن حديث كو معترضین کے اعتراض سے بچاتے ہیں اور اس الطَّعَانِ، وَمِنِ اعْتِرَاضِ مُعْتَرِضِ يَتَقَلَّد معترض کے اعتراض سے بھی بچاتے ہیں جو تنقید کی أَسْلِحَةُ لِلطَّعْتَانِ.وَتَقْرِيرُ الْاعْتِرَاضِ أَنَّه خاطر ہر وقت اسلحہ لٹکائے پھرتا ہے.معترض کا اعتراض كَيْفَ يُمكن أن يُشَبَّةَ زَمَانُ الْإِسْلَامِ یہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلام کے زمانہ کو عصر کے بِوَقْتِ الْعَصْرِ وَقَدْ سَاوَى زَمَانُ هذا وقت سے تشبیہ دی جائے جبکہ دینِ اسلام کا زمانہ موسیٰ الدِّينِ زَمَانَ مُوسَى وَزَادَ عَلى زَمَانِ دِینِ علیہ السلام کے زمانہ کے برابر ہے اور عیسی علیہ السلام عِيسَى بَلْ جَاوَزَ ضِعْفُهُ إلى هذا العضر کے دین کے زمانہ سے زیادہ ہے بلکہ اس عصر کے وقت فَما مَعْنَى الْعَصْرِ نِسْبَةُ إِلَى الزَّمَانِ تک اس کے دگنے زمانہ سے بھی بڑھ گیا ہے.پس اس الْمَذْكُورِ : بَلْ لَّيْسَ هَذَا الْبَيَانُ إِلَّا كذبا زمانہ کی نسبت سے عصر کے بیان شدہ معنے کیسے درست فَاحِشًا وَمِنْ أَشْنَع أَنْوَاعِ النُّوُرِ بَل ذَیل ہوں گے بلکہ یہ بیان کھلا کھلا خلاف واقعہ اور جھوٹ کی الْإِعْتِرَاضِ أَظوّلُ مِنْ هَذَا الْمَحْذُورٍ فَإِنَّ قسموں میں سے بدترین ہے اور اعتراض کی لمبائی تو تباً نُزُولِ عِيسَى وَخُرُوجِ الدَّجَالِ ممنوع حد سے بھی آگے بڑھ گئی ہے کیونکہ نزول عیسی ، وَيَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ الَّذِي يَنْتَظِرُهُ كَثِيرٌ خروج دجال اور یا جوج و ماجوج کے نکلنے کی خبر جس کا مِنَ الْعَامَّةِ قَد ثَبَتَ كِذَّبُهُ بِهَذَا الْإِيرَادِ اکثر عوام الناس انتظار کر رہے ہیں.بالبداہت اس کا بِالْبَدَاهَةِ وَبِالضُّرُورَةِ فَإِنَّ وَقتَ الْعَصْرِ قَد جھوٹ اس ذکر سے ثابت ہو جاتا ہے کیونکہ عصر کا وقت مطى بَلِ القطى ضِعْفَاهُ مِنْ غَيْرِ الشَّاكِ گزر چکا ہے بلکہ ملت موسویہ کے زمانہ کو دیکھتے ہوئے

Page 383

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۵۶ سورة العصر وَالشُّبْهَةِ نَظرًا إلى زَمَانِ الْمِلَّةِ الْمُوْسَوِيَّةِ بغیر کسی شک وشبہ کے اس سے چار گنا وقت گزر چکا ہے.فَمَا بَقِيَ لِظُهُورِ هَذِهِ الْأَنْبَاءِ وَقُتُ، وَاضْطَرَ پس نزول عیسی اور دیگر اخبار کے ظہور کے لئے اب کوئی الْمُنْتَظِرُونَ إِلى أَن يَقُولُوا إِنَّهَا بَاطِلَةٌ في وقت باقی نہیں رہ گیا اور ان خبروں کے منتظر یہ کہنے پر الْحَقِيقَةِ.وَ مَا بَقِيَ سَبِيلٌ لِتَصْدِيقِهَا إِلَّا مجبور ہو گئے ہیں کہ یہ سب خبریں بالکل جھوٹ ہیں اور أَن يُقَالَ إِنَّ هَذِهِ الْأَخْبَارٌ قَدْ وَقَعَتْ وَقَدْ ان کی تصدیق کا کوئی راستہ باقی نہیں رہا سوائے اس کے نَزَلَ عِيسَى النَّازِلُ وَ خَرَجَ الدَّجَّالُ کہ یہ کہا جائے کہ یہ پیشگوئیاں پوری ہو چکی ہیں اور نازل الْخَارِجُ وَظَهَرَ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَتَحَقِّقَ ہونے والا عیسی نازل ہو چکا نیز دجال کا خروج بھی ہو چکا النَّسْلُ وَالْعُرُوجُ وَتَمَتِ الْأَخْبَارُ التنى اور یا جوج و ماجوج بھی ظاہر ہو گئے اور ان کے دنیا میں قيّرَتْ وَالرُّسُلُ أُقِتَتْ فَلَمَّا قُلْنَا إِنَّ پھیل جانے اور اسلام کے آسمان پر چڑ جانے کی خبر بھی زَمَانَ أُمَّةٍ مُوسَى كَانَ بَيْنَ هَذِهِ الْأُمَمِ پوری ہوگئی اور وہ تمام خبر میں پوری ہو گئیں جو مقدر تھیں الثَّلَاثِ أَظوّلَ الْأَزْمِنَةِ، وَكَانَ زَمَانُ أُمّة اور رسول جمع کر دیئے گئے.اور جب ہم قرون ثلاثہ کی عِيسَى نِصْفَهُ، وَكَانَ نِصْفُ هَذَا النَّصْفِ حد بندی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امتِ موسیٰ کا زمانہ زَمَانَ أَخْيَارِ هَذِهِ الْأُمَّةِ نَظرًا إلى تَحْدِيدِ ان تینوں امتوں کے درمیان سب سے لمبا زمانہ تھا اور الْقُرُونِ الثَّلَاثَةِ، بطل هَذَا الْاِغْتِرَاضُ عیسی علیه السلام کی امت کا زمانہ اس سے نصف تھا اور وَالْكَشَفَ الْأَمْرُ عَلَى الَّذِي يَطلب الحق اس امت کے بہتری لوگوں کا زمانہ مذکورہ نصف کا نصف بِسَلامَةِ الطَّوِيَّةِ وَصمَةِ النِّيَّةِ وَثَبَتَ تھا تو مذکورہ اعتراض باطل ہو جاتا ہے اور اس شخص پر بالقطع وَالْيَقِينِ أَنَّ زَمَانَ الْأُمَّةِ حقیقت کھل جاتی ہے جو صاف دلی اور صحت نیت سے الْمَرْحُوْمَةِ الْمُحَمَّدِيَّةِ قَلِيْلٌ فِي الْحَقِيقَةِ حق کو معلوم کرنا چاہتا ہے اور قطعی طور پر یہ ثابت ہو جاتا مِنْ زَمَانِ الْأُمَّةِ الْمُوْسَوِيَّةِ وَالْعِيْسَوِيَّةِ ہے کہ امت محمدیہ کا زمانہ امت موسیٰ اور امت عیسی کے وَهَذِهِ مِنَةٌ مِنَا عَلَى الْمُخَالِفِينَ مِنَ الْفِرقِ زمانہ سے کم ہے اور فرقہائے اسلام میں سے مخالفین پر یہ الْإِسْلَامِيَّةِ، وَلَمْ يَبْقَ لِعَاقِلِ ارْتِيَاب في ہمارا احسان ہے اور کسی عقل مند کے لئے اس بیان کے هَذَا الْبَيَانِ، بَلْ هُوَ مُوَجِبْ لِتَلْجِ الصَّدْرِ بعد شک کی گنجائش نہیں رہتی بلکہ یہ دل کے اطمینان اور وَالْإِطْمِفْنَانِ وَبَطَلَ مَعَهُ اغْتِرَاضٌ يَرِدُ تسلی کا موجب ہے اور اس کے ساتھ وہ اعتراض باطل

Page 384

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۷ سورة العصر عَلى حَدِيْثِ عُمرِ الْأَنْبِيَاءِ ، فَإِنَّ عُمر ہو جاتا ہے جو انبیاء کی عمر والی حدیث پر وارد ہوتا ہے عِيسَى مِنْ جِهَةِ بَقَاء دِيْيه نضف محمد کیونکہ بغیر کسی تاویل کے حضرت عیسی کی عمر آپ کے دین مُوسَى كَمَا ظَهَرَ مِنْ غَيْرِ الْخِفَاءِ وَعُمر کے بقاء کے لحاظ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عمر کا ستينا خير الرُّسُلِ بِالنَّظرِ إِلَى الْقُرُونِ نصف بنتی ہے اور سید نا خیر الرسل کی عمر آپ کی پہلی تین الثَّلَاثَةِ يَصْفُ عُمرِ عِیسَی ابْنِ مَرْيَمَ صدیوں کو دیکھتے ہوئے بالکل واضح طور پر عیسی ابن مریم بِالْبَدَاهَةِ.ثُمَّ بَعْدَ ذلِك أَيام مَوْتِ کی عمر کا نصف بنتی ہے.اس کے بعد ایک ہزار سال تک الْإِسْلَامِ إِلى أَلْفِ سَنَةٍ.ثُمَّ بَعْدَ مَوْتِ اسلام پر موت کا زمانہ ہے پھر ان معنی کے رو سے رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بهذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے بعد مسیح موعود الْمَعْلى زَمَانُ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ الَّذِي کا زمانہ ہے جو شیطان مردود کے قتل کرنے کے سلسلہ يُقابِهُ أَبَا بَكْرٍ في قَتْلِ الشَّيْطَانِ الْمَرْدُودِ میں حضرت ابوبکر کے زمانہ کے مشابہ ہے کیونکہ مسیح موعود فَإِنَّ الْمَسِيحَ الْمَوْعُوْدَ قَدِ اسْتُخْلِفَ بَعْدَ کو دین کے لحاظ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مَوْتِ النَّبِي الكَرِيمِ مِنْ حَيْثُ دِینِهِ من موت کے بعد بلافصل بلکہ تدفین سے بھی پہلے خلیفہ بنایا غَيْرِ فَاصِلَةٍ قَبْلَ تَنْفِقِيهِ، وَأَشْرَكَهُ رَبُّه في گیا ہے اور اللہ تعالی نے اسے حضرت ابو بکر کی خلافت تبأ خلافة أبي بَكْرٍ أَعْلِى النَّبَأُ الَّذِي ذُكِرَ کی اس خبر میں شریک کر دیا ہے جو قرآن مجید میں مذکور في صُحُفٍ مُطَهَّرَةٍ وَوُفِّقَ كَمَا وُفِّقَ أَبُو بَكْرِ ہے اور اس کو بھی حضرت ابو بکر کی طرح توفیق دی گئی اور وَأُعْطِيَ لَهُ الْعَزْمُ گیفلِهِ لِمَنْ سَيْلِ مہلک گمراہی کے سیلاب کو روکنے کے لئے ان جیسا عزم كَمِثْلِهِ لِمَنْعِ ضَلَالَةٍ مُهْلِكَةٍ.وَإِلَيْهِ أَشَارَ سُبحانَهُ تعالی دیا گیا.اس کی طرف اللہ تعالی نے اپنے قول لَيْلَةُ الْقَدْرِ في قَوْلِهِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ الْفِ شَهْرٍ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ میں اشارہ فرمایا ہے.اَلْفِ شَهْرٍ ،، او يَعْنِى مِنْ أَلْفِ سَنَةٍ، وَكَثُرَتِ الْإِسْتِعَارَاتُ سے مراد یہاں اَلْفِ سَنَةٍ ہے اور ایسے استعارات كيفيه في كتب سابقةٍ ثُمَّ بَعْدَ ذَلِكَ کتب سابقہ میں کثرت سے آئے ہیں.(اسلام پر ) الْأَلْفِ زَمَانُ الْبَعْثِ بَعْد الْمَوْتِ وَزَمَانُ اس ہزار سالہ موت کے بعد بعثت بعد الموت اور مسیح موعود الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ، فَقَدْ تَمَّ الْيَوْمَ أَلْفُ کا زمانہ ہے، بس آج ضلالت اور موت کا ہزار سال پورا الضَّلَالَةِ وَالْمَوْتِ، وَجَاءَ وَقْتُ بَعْدَ ہو گیا اور زندہ در گور اسلام کے بعد کا وقت آگیا.اور القدر : ٢

Page 385

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۸ سورة العصر الْإِسْلَامِ الْمَوْءُوْدِ.وَتَمَّتْ مُحجَّةُ اللهِ عَلَيْكُمْ اے منکر و! تم پر اللہ کی حجت پوری ہوگئی.پس تم اللہ أَيُّهَا الْمُنْكِرُونَ، فَلَا تَكُونُوا مِنَ الظَّانِيْنَ پر بد گمانی کرنے والے نہ بنو.اور اے گننے والو! بِاللهِ ظَنّ السَّوْءِ ، وَ عُدُّوا أَيَّامَ اللهِ أَيُّهَا اللہ تعالیٰ کے دنوں کو گنو.اور اللہ کا وعدہ یقینا سچا ہے.الْعَادُونَ.وَإِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ پس تمہیں یہ دنیوی زندگی اور شیطان لعین دھوکہ نہ دے.الْحَيَاةُ الدُّنْيَا، وَلَا يَغُرَّنَّكُمُ الشَّيْطَانُ اے خطا کار مجاہدو! یہ زمانہ بڑی جنگ کا زمانہ ہے اور الْمَلْعُونُ وَإِنَّ هَذِهِ الْأَيَّامَ أَيَّامُ مَلْحَمَةٍ نزول مسیح اور شیطان کے سخت غضب کے ساتھ نکلنے کا عُظمى أَيُّهَا الْمُجَاهِدُونَ الْخَاطِمُونَ، وَأَيَّامُ زمانہ ہے جسے پہلوں نے نہیں دیکھا شیطان نے دیکھ نُزُولِ الْمَسِيحِ وَخُرُوجِ الشَّيْطَانِ بِغَضَبِ لیا ہے کہ اس کا زمانہ ختم ہو گیا اور اس کو دی گئی مہلت کی مَّا رَاهُ السَّابِقُونَ.فَإِنَّ الشَّيْطَانَ رَأَى میعاد پوری ہوگئی اور یوم بعث آ گیا اور اس کو دی گئی الزَّمَانَ قَدِ انْقَضَى، وَإِنَّ وَقْتَ الْمُهْلَةِ مَطى، مهلت صرف اس دن تک تھی جبکہ مردوں نے اٹھائے وَيَوْمُ الْبَعْثِ أَلَى، وَمَا كَانَتِ الْمُهْلَةُ إِلَّا إِلى جانا تھا.یہ خدائے رحمن کا وعدہ تھا.اور مرسلوں نے جو يَوْمٍ يُبْعَثُونَ.هَذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمنُ وَصَدَقَ کہا تھا وہ سچ ثابت ہو گیا.اور وہ لوگ جو قرآن مجید کی الْمُرْسَلُونَ.وَ إِنَّ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِيهِ شہادت آجانے کے بعد بھی اس کے بارے میں جھگڑا بَعْدَمَا أَتَتْهُمْ شَهَادَةٌ مِنَ الْفُرْقَانِ إِن في کرتے ہیں ان کے سینوں میں کبر ہے اور انہیں اس صُدُورِهِمْ إِلَّا كِبْرُ، وَمَا بَقِيَ لَهُمْ حَقٌّ دلیل سے انکار کرنے کا کوئی حق نہیں جو خدائے رحمن کی لِيَكْفُرُوا بِسُلْطَانٍ نَزَلَ مِنَ الرَّحْمَنِ، وتمت طرف سے آئی ہے.ان پر فیصلہ کرنے والے خدا کی عَلَيْهِمْ حُبَّةُ اللهِ الشَّيَانِ.لَا يُرِيدُونَ الْحَقِّ حجت پوری ہو گئی.وہ حق اور ہدایت کو قبول کرنا نہیں وَلَا الْهُدَى، وَيُنْفِدُونَ الْأَعْمَارَ فَرِحِينَ چاہتے.اور وہ اپنی عمریں اس دنیا کی نعمتوں پر خوش مُسْتَبْشِرِيْنَ بِهذِهِ الدُّنْيَا أَلَمْ يَأْتِهِمْ مَا أَتَى ہو کر ختم کر رہے ہیں.کیا ان کے پاس وہ بات نہیں آئی الْأُمَمَ الْأُوْلى أَلَمْ يَرَوْا آيَاتٍ كُبرى؟ أَمَا جو پہلی امتوں کے پاس آئی تھی.کیا انہوں نے عظیم جَاءَ رَأْسُ الْمَائَةِ وَفَسَادُ الْأُمَّةِ، وَالْفِتَنُ الشان نشانات نہیں دیکھے.کیا انہوں نے صدی کا سر الْعُظمى مِنْ أَعْدَاءِ الْمِلَّةِ، وَالْكُسُوفُ اور فساد امت اور اعدائے ملت کی طرف سے بڑے وَالْخُسُوفُ فِي رَمَضَانَ وَمَعَالِمُ أُخْرَى فَإِن بڑے فتنے اور رمضان کے مہینہ میں خسوف و کسوف

Page 386

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۵۹ سورة العصر كُنْتُمْ صَالِحِينَ فَأَيْنَ التَّقْوَى؟ اور دوسری علامتیں پوری ہوتی نہیں دیکھیں.اگر تم صالح تو أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ عَلِمْتُمْ مِمَّا ذَكَرْنَا تقویٰ کہاں گیا.مِنْ قَبْلُ أَنَّ أَعْدَادَ سُورَةِ الْعَصْرِ اے لوگو! تم معلوم کر چکے ہو جو ہم نے پہلے ذکر کیا ہے بِحِسَابِ الْجُمَلِ تَدُلُّ عَلَى أَنَّ الزَّمَانَ که حساب جمل کے لحاظ سے سورہ عصر کے اعداد اس بات الْمَاضِي مِنْ وَقْتِ أَدَمَ إِلى نُزُولِ هذه پر دلالت کرتے ہیں کہ آدم علیہ السلام سے اس سورۃ کے السُّورَةِ كَانَ سَبْعُ مِائَةِ سَنَةٍ بَعْدَ أَربع نزول کے زمانہ تک کا وقت چار ہزار سات سو سال کے الاف.هَذَا مَا كَشَفَ عَلَى رَبِّي فَعَلِمْتُ قریب بنتا ہے یہ وہ بات ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بَعْدَ الْكِشَافٍ وَشَهِدَ عَلَيْهِ تَارِیخ اتفق انکشاف کیا.سو میں نے اس انکشاف کے بعد حقیقت کو عَلَيْهِ جَمْهُورُ أَهْلِ الْكِتَابِ مِنْ غَيْرِ جان لیا اور تاریخ نے بھی اس کے درست ہونے کی شہادت خِلَافٍ، وَقَد زَادَ عَلى تِلْكَ الْمُدَّةِ إلى دے دی اور بغیر اختلاف کے جمہور اہلِ کتاب بھی اس يَوْمِنَا هَذَا ثَلَاثُ مِائَةٍ بَعْدَ الْأَلْفِ وَإِذَا سے متفق ہیں اور اس مدت پر ہمارے اس دن تک تیرہ سو جَمَعْنَاهُمَا فَهُوَ سِتَّةُ الافٍ كَمَا هُوَ سال مزید گزر چکے ہیں.اور جب ہم ان دونوں مدتوں مَذْهَبُ الْمُحَقِّقِيْنَ مِنَ السَّلَفِ کو جمع کریں تو یہ چھ ہزار سال بن جاتے ہیں جیسا کہ خطبہ الہامی روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۳۰۳۳۲۵) سابق محققین کا مذہب ہے.( ترجمہ از مرتب) دوسری دلیل زمانہ کے آخری ہونے پر یہ ہے کہ قرآن شریف کی سورہ عصر سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا یہ زمانہ حضرت آدم علیہ السلام سے ہزار ششم پر واقع ہے.یعنی حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے یہ چھٹا ہزار جاتا ہے.اور ایسا ہی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ آدم سے لے کر اخیر تک دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے.لہذا آخر ہزار ششم وہ آخری حصہ اس دنیا کا ہوا جس سے ہر ایک جسمانی اور روحانی تکمیل وابستہ ہے.کیونکہ خدائی کارخانہ قدرت میں چھٹے دن اور چھٹے ہزار کو الہی فعل کی تکمیل کے لئے قدیم سے مقرر فرمایا گیا ہے.مثلاً حضرت آدم علیہ السلام چھٹے دن میں یعنی بروز جمعہ دن کے اخیر حصے میں پیدا ہوئے یعنی آپ کے وجود کا تمام و کمال پیرا یہ چھٹے دن ظاہر ہوا گو خمیر آدم کا آہستہ آہستہ طیار ہورہا تھا اور تمام جمادی نباتی حیوانی پیدائشوں کے ساتھ بھی شریک تھا لیکن کمال خلقت کا دن چھٹا دن تھا.اور قرآن شریف بھی گو آہستہ آہستہ پہلے سے نازل ہو رہا تھا مگر اس کا کامل وجود بھی چھٹے دن ہی بروز جمعہ اپنے کمال کو پہنچا اور آیت اليوم

Page 387

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۰ سورة العصر المَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ ( المائدة : (۴) نازل ہوئی اور انسانی نطفہ بھی اپنے تغیرات کے چھٹے مرتبہ ہی خلقت بشری سے پورا حصہ پاتا ہے جس کی طرف آیت ثُمَّ انْشَانَهُ خَلْقًا أَخَرَ (المؤمنون : ۱۵) میں اشارہ ہے.اور مراتب ستہ یہ ہیں (۱) نطفہ (۲) علقہ (۳) مضغہ (۴) عظام (۵) لحم محیط العظام (۶) خلق آخر، اس قانون قدرت سے جو روز ششم اور مرتبہ ششم کی نسبت معلوم ہو چکا ہے ماننا پڑتا ہے کہ دنیا کی عمر کا ہزارششم بھی یعنی اس کا آخری حصہ بھی جس میں ہم ہیں کسی آدم کے پیدا ہونے کا وقت اور کسی دینی تکمیل کے ظہور کا زمانہ ہے جیسا کہ براہین احمدیہ کا یہ الہام که اردتُ أنْ اسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ ادم اور یہ الہام کہ لِيُظهرة على الدين محل اس پر دلالت کر رہا ہے.اور یادر ہے کہ اگر چہ قرآن شریف کے ظاہر الفاظ میں عمر دنیا کی نسبت کچھ ذکر نہیں.لیکن قرآن میں بہت سے ایسے اشارات بھرے پڑے ہیں جن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ عمر دنیا یعنی دور آدم کا زمانہ سات ہزار سال ہے.چنانچہ منجملہ ان اشارات قرآنی کے ایک یہ بھی ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے ایک کشف کے ذریعہ سے اطلاع دی ہے کہ سورۃ العصر کے اعداد سے بحساب ابجد معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک عصر تک جو عہد نبوت ہے یعنی تئیس برس کا تمام و کامل زمانہ یہ کل مدت گذشتہ زمانہ کے ساتھ ملا کر ۴۷۳۹ برس ابتدائے دنیا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روز وفات تک قمری حساب سے ہیں.پس اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم الف خامس میں جو مریخ کی طرف منسوب ہے مبعوث ہوئے ہیں اور شمسی حساب سے یہ مدت ۴۵۹۸ ہوتی ہے اور عیسائیوں کے حساب سے جس پر تمام مدار بائبل کا رکھا گیا ہے ۴۶۳۶ برس ہیں.یعنی حضرت آدم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اخیر زمانہ تک ۴۶۳۶ برس ہوتے ہیں اس سے ظاہر ہوا کہ قرآنی حساب جو سورۃ العصر کے اعداد سے معلوم ہوتا ہے اور عیسائیوں کی بائبل کے حساب میں جس کے رُو سے بائبل کے حاشیہ پر جا بجا تاریخیں لکھتے ہیں صرف اٹھتیں برس کا فرق ہے.اور یہ قرآن شریف کے علمی معجزات میں سے ایک عظیم الشان معجزہ ہے جس پر تمام افرادِ امت محمدیہ میں سے خاص مجھ کو جو میں مہدی آخرالزمان ہوں اطلاع دی گئی ہے تا قرآن کا یہ علمی معجزہ اور نیز اس سے اپنے دعوے کا ثبوت لوگوں پر ظاہر کروں.اور ان دونوں حسابوں کے رُو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ جس کی خدا تعالیٰ نے سورۃ والعصر میں قسم کھائی الف خامس ہے یعنی ہزار پنجم جو مریخ کے اثر کے ماتحت ہے.اور یہی ستر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان مفسدین کے قتل اور خونریزی کے لئے حکم فرمایا گیا جنہوں نے مسلمانوں کو قتل

Page 388

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۱ سورة العصر کیا اور قتل کرنا چاہا اور اُن کے استیصال کے درپے ہوئے اور یہی خدا تعالیٰ کے حکم اور اذن سے مریخ کا اثر ہے.غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعث اوّل کا زمانہ ہزار پنجم تھا جو اسم محمد کا مظہر تجلی تھا یعنی یہ بعث اول جلالی نشان ظاہر کرنے کے لئے تھا.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۴۵ تا ۲۵۳) حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ فرمایا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ عمر د نیا سات ہزار سال ہے.اور انس بن مالک سے روایت ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی راہ میں ایک مسلمان کی حاجت براری کرے اس کے لئے عمر دنیا کے اندازہ پر دن کو روزہ رکھنا اور رات کو عبادت کرنا لکھا جاتا ہے اور عمر دنیا سات ہزار سال ہے.دیکھو تاریخ ابن عساکر اور نیز وہی مؤلف انس سے مرفوعاً روایت کرتا ہے کہ عمر دنیا آخرت کے دنوں میں سے سات دن یعنی حسب منطوق إِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ ممَّا تَعُدُّونَ (الحج : ۴۸) سات ہزار سال ہے.اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ تمہارا ہزار سال خدا کا ایک دن ہے.ایسا ہی طبرانی نے اور نیز بیہقی نے دلائل میں اور شبلی نے روض الف میں عمر د نیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہزار سال روایت کی ہے.ایسا ہی بطریق صحیح ابن عباس سے منقول ہے کہ دنیا سات دن ہیں اور ہر ایک دن ہزار سال کا ہے اور بعثت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخر ہزار ہفتم میں ہے مگر یہ حدیث دو پہلو سے مورد اعتراض ہے جس کا دفع کرنا ضروری ہے.اوّل یہ کہ اس حدیث کو بعض دوسری حدیثوں سے تناقض ہے کیونکہ دوسری احادیث میں یوں لکھا ہے کہ بعثت نبوی آخر ہزار ششم میں ہے اور اس حدیث میں ہے کہ ہزار ہفتم میں ہے پس یہ تناقض تطبیق کو چاہتا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ امر واقعی اور صحیح یہی ہے کہ بعثت نبوی ہزار ششم کے آخر میں ہے جیسا کہ نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ بالاتفاق گواہی دے رہی ہیں.لیکن چونکہ آخر صدی کا یا مثلاً آخر ہزار کا اُس صدی یا ہزار کا سر کہلاتا ہے جو اس کے بعد شروع ہونے والا ہے اور اس کے ساتھ پیوستہ ہے اس لئے یہ محاورہ ہر ایک قوم کا ہے کہ مثلاً وہ کسی صدی کے آخری حصے کو جس پر گویا صدی ختم ہونے کے حکم میں ہے دوسری صدی پر جو اس کے بعد شروع ہونے والی ہے اطلاق کر دیتے ہیں مثلاً کہہ دیتے ہیں کہ فلاں مجدد بارھویں صدی کے سر پر ظاہر ہوا تھا گو وہ گیارھویں صدی کے اخیر پر ظاہر ہوا ہو یعنی گیارھویں صدی کے چند سال رہتے اس نے ظہور کیا ہو اور پھر بسا اوقات باعث تسامح کلام یا قصور فہم راویوں کی وجہ سے یا بوجہ عدم ضبط کلمات نبویہ اور ذہول کے جو لازم نشأ بشریت ہے کسی قدر اور بھی تغیر ہو جاتا ہے.سو اس قسم کا تعارض قابل التفات نہیں بلکہ در حقیقت یہ کچھ تعارض ہی نہیں یہ سب باتیں عادت اور

Page 389

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام علیہ ۳۶۲ محاورہ میں داخل ہیں کوئی عقلمند اس کو تعارض نہیں سمجھے گا.سورة العصر (۲) دوسرا پہلو جس کے رو سے اعتراض ہوتا ہے یہ ہے کہ ہمو جب اس حساب کے جو یہود اور نصاری میں محفوظ اور متواتر چلا آتا ہے جس کی شہادت اعجازی طور پر کلام معجز نظام قرآن شریف میں بکمال لطافت بیان موجود ہے جیسا کہ ہم نے متن میں مفصل بیان کر دیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت آدم علیہ السلام سے قمری حساب کے رُو سے ۴۷۳۹ برس بعد میں مبعوث ہوئے ہیں اور شمسی حساب کے رُو سے ۴۵۹۸ برس بعد آدم صفی اللہ حضرت نبینا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہوئے.پس اس سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہزار پنجم میں یعنی الف خامس میں ظہور فرما ہوئے نہ کہ ہزار ششم میں اور یہ حساب بہت صحیح ہے کیونکہ یہود اور نصاریٰ کے علماء کا تواتر اسی پر ہے اور قرآن شریف اس کا مصدق ہے اور کئی اور وجوہ اور دلائل عقلیہ جن کی تفصیل موجب تطویل ہے قطعی طور پر اس بات پر جزم کرتی ہیں کہ مابین سیدنا محمد مصطفیٰ اور آدم صفی اللہ میں یہی فاصلہ ہے اس سے زیادہ نہیں گو آسمانوں اور زمینوں کے پیدا کرنے کی تاریخ لاکھوں برس ہوں یا کروڑ با برس ہوں جس کا علم خدا تعالیٰ کے پاس ہے لیکن ہمارے ابو النوع آدم صفی اللہ کی پیدائش کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تک یہی مدت گزری تھی یعنی ۴۷۳۹ برس بحساب قمری اور ۴۵۹۸ برس بحساب شمسی اور جبکہ قرآن اور حدیث اور تو اتر اہل کتاب سے یہی مدت ثابت ہوتی ہے تو یہ بات بدیہی البطلان ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہزار ششم کے آخر پر مبعوث ہوئے تھے کیونکہ اگر وہ آخر ہزار ششم تھا تو اب تیرہ سوسترہ اور اس کے ساتھ ملا کر سات ہزار تین سوسترہ ہوں گے حالانکہ بالا تفاق تمام احادیث کے رو سے عمر دنیا گل سات ہزار برس قرار پایا تھا تو گویا اب ہم دنیا کے باہر زندگی بسر کر رہے ہیں اور گویا اب دنیا کو ختم ہوئے تین سوسترہ برس گزر گئے یہ کس قدر لغو اور بیہودہ خیال ہے جس کی طرف ہمارے علماء نے بھی تو جہ نہیں کی ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ جبکہ احادیث صحیحہ متواترہ کے رُو سے عمر دنیا یعنی حضرت آدم سے لے کر اخیر تک سات ہزار برس قرار پائی تھی اور قرآن شریف میں بھی آیت إِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ (الحج : ۴۸) میں اسی کی طرف اشارہ فرمایا اور اہل کتاب یہود اور نصاریٰ کا بھی یہی مذہب ہوا اور خدا تعالیٰ کا سات دن مقرر کرنا اور اُن کے متعلق سات ستارے مقرر کرنا اور سات آسمان اور سات زمین کے طبقے جن کو ہفت اقلیم کہتے ہیں قرار دینا یہ سب اسی طرف اشارات ہیں تو پھر وہ کون سا حساب ہے جس کے رُو سے آنحضرت صلعم کے زمانہ

Page 390

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۳ سورة العصر کو الف سادس یعنی ہزار ششم قرار دیا جائے.ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو آج کی تاریخ تک تیرہ سوسترہ برس اور چھ مہینے اوپر گزر گئے تو پھر اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ چھٹا ہزار تھا تو یہ ہمارا زمانہ کہ جو تیرہ سو برس بعد آیا دنیا کی عمر کے اندر کیوں کر رہ سکتا ہے ذرہ چھ ہزار اور تیرہ سو برس کی میزان تو کرو.غرض یہ اعتراض ہے جو اس حدیث پر ہوتا ہے جس میں لکھا ہے کہ عمر دنیا کی سات ہزار برس ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخر ہزار ششم میں مبعوث ہوئے.اور اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ہر ایک نبی کا ایک بعث ہے.مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بعث ہیں اور اس پر نص قطعی آیت کریمہ وَ اخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعه : ۴) ہے.تمام اکابر مفسرین اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس امت کا آخری گروہ یعنی مسیح موعود کی جماعت صحابہ کے رنگ میں ہوں گے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح بغیر کسی فرق کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض اور ہدایت پائیں گے پس جبکہ یہ امرنص صریح قرآن شریف سے ثابت ہوا کہ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض صحابہ پر جاری ہوا ایسا ہی بغیر کسی امتیاز اور تفریق کے مسیح موعود کی جماعت پر فیض ہو گا تو اس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور بعث ماننا پڑا جو آخری زمانہ میں مسیح موعود کے وقت میں ہزار ششم میں ہوگا اور اس تقریر سے یہ بات بپایہ ثبوت پہنچ گئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بعث ہیں یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک بروزی رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دوبارہ آنا دنیا میں وعدہ دیا گیا تھا جو مسیح موعود اور مہدی معہود کے ظہور سے پورا ہوا.غرض جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بعث ہوئے تو جو بعض حدیثوں میں یہ ذکر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہزار ششم کے اخیر میں مبعوث ہوئے تھے اس سے بعث دوم مراد ہے جو نص قطعی آیت كريم وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِھم سے سمجھا جاتا ہے.یہ عجیب بات ہے کہ نادان مولوی جن کے ہاتھ میں صرف پوست ہی پوست ہے حضرت مسیح کے دوبارہ آنے کی انتظار کر رہے ہیں.مگر قرآن شریف ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دوبارہ آنے کی بشارت دیتا ہے کیونکہ افاضہ بغیر بعث غیر ممکن ہے اور بعث بغیر زندگی کے غیر ممکن ہے اور حاصل اس آیت کریمہ یعنی وَ اخَرِينَ مِنْهُمْ کا یہی ہے کہ دنیا میں زندہ رسول ایک ہی ہے یعنی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جو ہزار ششم میں بھی مبعوث ہو کر ایسا ہی افاضہ کرے گا جیسا کہ وہ ہزار پنجم میں افاضہ کرتا تھا اور مبعوث ہونے کے اس جگہ یہی معنی ہیں کہ جب ہزار ششم آئے گا اور مہدی موعود اس کے آخر میں ظاہر ہوگا تو گو بظاہر مہدی موعود کے توسط سے دنیا کو ہدایت ہوگی لیکن دراصل

Page 391

۳۶۴ سورة العصر تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام علیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی نئے سرے اصلاح عالم کی طرف ایسی سرگرمی سے توجہ کرے گی کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ مبعوث ہو کر دنیا میں آگئے ہیں.یہی معنے اس آیت کے ہیں کہ وَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بهم پس یہ خبر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعث دوم کے متعلق ہے جس کے ساتھ یہ شرط ہے کہ وہ بعث ہزارششم کے اخیر پر ہوگا.اسی حدیث سے اس بات کا قطعی فیصلہ ہوتا ہے کہ ضرور ہے کہ مہدی معہود اور مسیح موعود جو مظہر تجلیات محمد یہ ہے جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بعث دوم موقوف ہے وہ چودھویں صدی کے سر پر ظاہر ہو کیونکہ یہی صدی ہزار ششم کے آخری حصہ میں پڑتی ہے اور بعض علماء کا اس جگہ یہ تاویل کرنا کہ عمر دنیا سے مراد گذشتہ عمر ہے یہ درست نہیں ہے کیونکہ یہ تمام حدیثیں بہ حیثیت پیشگوئی کرنے کے ہیں اور حدیث ہفت پایہ ہمبر خواب میں دیکھنے کی بھی اسی کی مؤید ہے اور اس بارے میں جو عقیدہ مقبولۃ الاجماع یہود و نصاری ہے وہ بھی اسی کی تائید کرتا ہے اور گزشتہ نبیوں کے سلسلہ پر نظر کرنے سے.یہی تخمینہ قیاسا سمجھ میں آتا ہے.اور یہ کہنا کہ آئندہ کی تو خدا نے کسی کو خبر نہیں دی کہ کب قیامت آئے گی یہ بے شک صحیح ہے مگر عمر دنیا کی سات ہزار برس قرار دینے سے اس امر کے بارے میں کہ کس گھڑی قیامت برپا ہوگی کوئی دلیل قطعی معلوم نہیں ہوتی کیونکہ سات ہزار کے لفظ سے یہ مستنبط نہیں ہوتا کہ ضرور سات ہزار برس پورا کر کے قیامت آجائے گی.وجہ یہ کہ اول تو یہ امر مشتبہ رہے گا کہ اس جگہ خدا تعالیٰ نے سات ہزار سے شمسی حساب کی مدت مراد لی ہے یا قمری حساب کی اور شمسی حساب سے اگر سات ہز ارسال ہو تو قمری حساب سے قریباً دو سو برس اور اوپر چاہئے اور ماسوا اس کے چونکہ عرب کی عادت میں یہ داخل ہے کہ وہ کسور کو حساب سے ساقط رکھتے ہیں اور مخل مطلب نہیں سمجھتے اس لئے ممکن ہے کہ سات ہزار سے اس قدر زیادہ بھی ہو جائے جو آٹھ ہزار تک نہ پہنچے.مثلاً دو تین سو برس اور زیادہ ہو جائیں تو اس صورت میں باوجود بیان اس مدت کے وہ خاص ساعت تو مخفی کی مخفی ہی رہی اور یہ مدت بطور ایک علامت کے ہوئی جیسا کہ انسان کی موت کی گھڑی جو قیامت صغریٰ ہے مخفی ہے مگر یہ علامت ظاہر ہے کہ ایک سو بیس برس تک انسان کی زندگی ختم ہو جاتی ہے اور پیرانہ سالی بھی اس کی موت کی ایک علامت ہے ایسا ہی امراض مہلکہ بھی علامت موت ہیں اور نیز اس میں کیا شک ہے کہ قرآن شریف میں قرب قیامت کی بہت سی علامتیں بیان فرمائی گئی ہیں اور ایسا ہی احادیث میں بھی.پس منجملہ ان کے سات ہزار سال بھی ایک علامت ہے.یہ بھی یادر ہے کہ قیامت بھی کئی قسم پر منقسم ہے اور ممکن ہے کہ سات ہزار سال کے بعد کوئی قیامت صغری ہو جس سے دنیا کی ایک

Page 392

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام علیہ ۳۶۵ سورة العصر بڑی تبدیلی مراد ہو نہ قیامت کبری.(تحفہ گولڑویہ ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۴۵ تا ۲۵۱ حاشیه ) میری پیدائش اس وقت ہوئی جب چھ ہزار میں سے گیارہ برس رہتے تھے سوجیسا کہ آدم علیہ السلام اخیر حصہ میں پیدا ہوا ایسا ہی میری پیدائش ہوئی خدا نے منکروں کے عذروں کو توڑنے کے لئے یہ خوب بندو بست کیا ہے کہ مسیح موعود کے لئے چار ضروری علامتیں رکھ دی ہیں (۱) ایک یہ کہ اس کی پیدائش حضرت آدم کی پیدائش کے رنگ میں آخر ہزار ششم میں ہو.(۲) دوسری یہ کہ اس کا ظہور و بروز صدی کے سر پر ہو (۳) تیسری یہ کہ اس کے دعوئی کے وقت آسمان پر رمضان کے مہینہ میں خسوف کسوف ہو (۴) چوتھی یہ کہ اس کے دعوے کے وقت میں بجائے اونٹوں کے ایک اور سواری دنیا میں پیدا ہو جائے.اب ظاہر ہے کہ چاروں علامتیں ظہور میں آچکی ہیں.چنانچہ مدت ہوئی کہ ہزار ششم گزر گیا اور اب قریباً پچاسواں سال اس پر زیادہ جا رہا ہے.اور اب دنیا ہزار ہفتم کو بسر کر رہی ہے اور صدی کے سر پر سے بھی ستر کو برس گزر گئے اور خسوف کسوف پر بھی کئی سال گزر چکے اور اونٹوں کی جگہ ریل کی سواری بھی نکل آئی پس اب قیامت تک کوئی دعوی نہیں کر سکتا کہ میں مسیح موعود ہوں کیونکہ اب مسیح موعود کی پیدائش اور اُس کے ظہور کا وقت گزر گیا.(تحفہ گولڑویہ ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۵۲ حاشیه در حاشیه ) یہ باریک بھید یا در رکھنے کے لائق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعث دوم میں تجلی اعظم جو اکمل اور اتم ہے وہ صرف اسم احمد کی تجلی ہے کیونکہ بعث دوم آخر ہزار ششم میں ہے اور ہزار ششم کا تعلق ستارہ مشتری کے ساتھ ہے جو کو کب ششم معجملہ مخنس گنس ہے اور اس ستارہ کی یہ تاثیر ہے کہ مامورین کو خونریزی سے منع کرتا اور عقل اور دانش اور مواد استدلال کو بڑھاتا ہے.اس لئے اگر چہ یہ بات حق ہے کہ اس بحث دوم میں بھی اسم محمد کی تجلی سے جو جلالی تجلی ہے اور جمالی تجلی کے ساتھ شامل ہے مگر وہ جلالی تجلی بھی رُوحانی طور پر ہو کر جمالی رنگ کے مشابہ ہوگئی ہے کیونکہ اس وقت جلالی تجلی کی تاثیر قہر سیفی نہیں بلکہ قہر استدلالی ہے.وجہ یہ کہ اس وقت کے مبعوث پر پر تو ستارہ مشتری ہے نہ پر تو مریخ.اسی وجہ سے بار بار اس کتاب میں کہا گیا ہے کہ ہزار ششم فقط اسم احمد کا مظہر ائم ہے جو جمالی تجلی کو چاہتا ہے.(تحفہ گولز و سید روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۵۳ حاشیه ) قرآن شریف کے حروف اور اُن کے اعداد بھی معارف مخفیہ سے خالی نہیں ہوتے مثلاً سورۃ والعصر کی طرف دیکھو کہ ظاہری معنوں کی رُو سے یہ بتلاتی ہے کہ یہ دنیوی زندگی جس کو انسان اس قدر غفلت سے گزار

Page 393

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۶۶ سورة العصر رہا ہے آخر یہی زندگی ابدی نخسران اور وبال کا موجب ہو جاتی ہے اور اس خسر ان سے وہی بچتے ہیں جو خدائے واحد پر سچے دل سے ایمان لے آتے ہیں کہ وہ موجود ہے اور پھر ایمان کے بعد کوشش کرتے ہیں کہ اچھے اچھے عملوں سے اس کو راضی کریں اور پھر اسی پر کفایت نہیں کرتے بلکہ چاہتے ہیں کہ اس راہ میں ہمارے جیسے اور بھی ہوں جو سچائی کو زمین پر پھیلا دیں اور خدا کے حقوق پر کار بند ہوں اور بنی نوع پر بھی رحم کریں.لیکن اس سورۃ کے ساتھ یہ ایک عجیب معجزہ ہے کہ اس میں آدم کے زمانہ سے لے کر آنحضرت کے زمانہ تک دنیا کی تاریخ ابجد کے حساب سے یعنی حساب جمل سے بتلائی گئی ہے.غرض قرآن شریف میں ہزار ہا معارف و حقائق ہیں اور در حقیقت شمار سے باہر ہیں.( نزول امسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۲۲) ہمارا عقیدہ جو قرآن شریف نے ہمیں سکھلایا ہے یہ ہے کہ خدا ہمیشہ سے خالق ہے اگر چاہے تو کروڑوں مرتبہ زمین و آسمان کو فنا کر کے پھر ایسے ہی بنادے اور اُس نے ہمیں خبر دی ہے کہ وہ آدم جو پہلی امتوں کے بعد آیا جو ہم سب کا باپ تھا اس کے دنیا میں آنے کے وقت سے یہ سلسلہ انسانی شروع ہوا ہے.اور اس سلسلہ کی عمر کا پورا دور سات ہزار برس تک ہے.یہ سات ہزار خدا کے نزدیک ایسے ہیں جیسے انسانوں کے سات دن.یادر ہے کہ قانون الہی نے مقرر کیا ہے کہ ہر ایک امت کے لئے سات ہزار برس کا دور ہوتا ہے.اسی دور کی طرف اشارہ کرنے کے لئے انسانوں میں سات دن مقرر کئے گئے ہیں.غرض بنی آدم کی عمر کا دور سات ہزار برس مقرر ہے.اور اس میں سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں پانچ ہزار برس کے قریب گزر چکا تھا.یا یہ تبدیل الفاظ یوں کہو کہ خدا کے دنوں میں سے پانچ دن کے قریب گزر چکے تھے جیسا کہ سورۃ والعصر میں یعنی اس کے حروف میں ابجد کے لحاظ سے قرآن شریف میں اشارہ فرما دیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں جب وہ سورۃ نازل ہوئی تب آدم کے زمانہ پر اسی قدر مدت گزر چکی تھی جو سورہ موصوفہ کے عددوں سے ظاہر ہے.اس حساب سے انسانی نوع کی عمر میں سے اب اس زمانہ میں چھ ہزار برس گزر چکے ہیں اور ایک ہزار برس باقی ہیں.قرآن شریف میں بلکہ اکثر پہلی کتابوں میں بھی یہ نوشتہ موجود ہے کہ وہ آخری مرسل جو آدم کی صورت پر آئے گا اور مسیح کے نام سے پکارا جائے گا ضرور ہے کہ وہ چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو جیسا کہ آدم چھٹے دن کے آخر میں پیدا ہوا.یہ تمام نشان ایسے ہیں کہ تدبر کرنے والے کے لئے کافی ہیں.اور ان سات ہزار برس کی قرآن شریف اور دوسری خدا کی کتابوں کے رو سے تقسیم یہ ہے کہ پہلا ہزار نیکی اور ہدایت کے پھیلنے کا زمانہ ہے اور دوسرا ہزار شیطان کے تسلط کا زمانہ ہے اور پھر

Page 394

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۷ سورة العصر تیسرا ہزار نیکی اور ہدایت کے پھیلنے کا اور چوتھا ہزار شیطان کے تسلط کا اور پھر پانچواں ہزار نیکی اور ہدایت کے پھیلنے کا ( یہی وہ ہزار ہے جس میں ہمارے سید و مولی ختمی پناہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث ہوئے اور شیطان قید کیا گیا ہے ) اور پھر چھٹا ہزار شیطان کے کھلنے اور مسلط ہونے کا زمانہ ہے جو قرونِ ثلاثہ کے بعد شروع ہوتا اور چودھویں صدی کے سر پر ختم ہو جاتا ہے.اور پھر ساتواں ہزار خدا اور اس کے مسیح کا اور ہر ایک خیر و برکت اور ایمان اور صلاح اور تقویٰ اور توحید اور خدا پرستی اور ہر ایک قسم کی نیکی اور ہدایت کا زمانہ ہے.اب ہم ساتویں ہزار کے سر پر ہیں.اس کے بعد کسی دوسرے مسیح کو قدم رکھنے کی جگہ نہیں کیونکہ زمانے سات ہی ہیں جو نیکی اور بدی میں تقسیم کئے گئے ہیں.اس تقسیم کو تمام انبیاء نے بیان کیا ہے.کسی نے اجمال کے طور پر اور کسی نے مفصل طور پر اور یہ تفصیل قرآن شریف میں موجود ہے جس سے مسیح موعود کی نسبت قرآن شریف میں سے صاف طور پر پیشگوئی نکلتی ہے.لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۸۴ تا ۱۸۶) تمام نبیوں کی کتابوں سے اور ایسا ہی قرآن شریف سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے آدم سے لے کر اخیر تک دنیا کی عمر سات ہزار برس رکھی ہے اور ہدایت اور گمراہی کے لئے ہزار ہزار سال کے دور مقرر کئے ہیں.یعنی ایک وہ دور ہے جس میں ہدایت کا غلبہ ہوتا ہے اور دوسرا وہ دور ہے جس میں ضلالت اور گمراہی کا غلبہ ہوتا ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا خدا تعالیٰ کی کتابوں میں یہ دونوں دور ہزار ہزار برس پر تقسیم کئے گئے ہیں.اول دور ہدایت کے غلبہ کا تھا.اس میں بت پرستی کا نام ونشان نہ تھا.جب یہ ہزار سال ختم ہوا تب دوسرے دور میں جو ہزار سال کا تھا طرح طرح کی بت پرستیاں دنیا میں شروع ہو گئیں اور شرک کا بازار گرم ہو گیا اور ہر ایک ملک میں بت پرستی نے جگہ لے لی.پھر تیسرا دور جو ہزار سال کا تھا اس میں توحید کی بنیاد ڈالی گئی اور جس قدر خدا نے چاہا دنیا میں توحید پھیل گئی.پھر ہزار چہارم کے دور میں ضلالت نمودار ہوئی اور اسی ہزار چہارم میں سخت درجہ پر بنی اسرائیل بگڑ گئے اور عیسائی مذہب تخم ریزی کے ساتھ ہی خشک ہو گیا اور اُس کا پیدا ہونا اور مرنا گویا ایک ہی وقت میں ہوا.پھر ہزار پنجم کا دور آیا جو ہدایت کا دور تھا.یہ وہ ہزار ہے جس میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر تو حید کو دوبارہ دنیا میں قائم کیا.پس آپ کے منجانب اللہ ہونے پر یہی ایک نہایت زبردست دلیل ہے کہ آپ کا ظہور اُس سال کے اندر ہوا جو روز ازل سے ہدایت کے لئے مقرر تھا اور یہ میں اپنی طرف سے نہیں

Page 395

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۸ سورة العصر کہتا بلکہ خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں سے یہی نکلتا ہے اور اسی دلیل سے میرا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا بھی ثابت ہوتا ہے.کیونکہ اس تقسیم کی رُو سے ہزار ششم ضلالت کا ہزار ہے اور وہ ہزار ہجرت کی تیسری صدی کے بعد شروع ہوتا ہے اور چودہویں صدی کے سر تک ختم ہوتا ہے.اس ششم ہزار کے لوگوں کا نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فیج اعوج رکھا ہے اور ساتواں ہزار ہدایت کا ہے جس میں ہم موجود ہیں.چونکہ یہ آخری ہزار ہے اس لئے ضرور تھا کہ امام آخرالزمان اس کے سر پر پیدا ہو اور اس کے بعد کوئی امام نہیں اور نہ کوئی مسیح.مگر وہ جو اس کے لئے بطور ظل کے ہو.کیونکہ اس ہزار میں اب دنیا کی عمر کا خاتمہ ہے جس پر تمام نبیوں نے شہادت دی ہے اور یہ امام جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کہلاتا ہے وہ مسجد دصدی بھی ہے اور مجددالف آخر بھی.اس بات میں نصاری اور یہود کو بھی اختلاف نہیں کہ آدم سے یہ زمانہ ساتواں ہزار ہے.اور خدا نے جو سورہ والعصر کے اعداد سے تاریخ آدم میرے پر ظاہر کی اس سے بھی یہ زمانہ جس میں ہم ہیں ساتواں ہزار ہی ثابت ہوتا ہے.اور نبیوں کا اس پر اتفاق تھا کہ مسیح موعود ساتویں ہزار کے سر پر ظاہر ہوگا اور چھٹے ہزار کے اخیر میں پیدا ہوگا کیونکہ وہ سب سے آخر ہے جیسا کہ آدم سب سے اول تھا.اور آدم چھٹے دن جمعہ کی اخیر ساعت میں پیدا ہوا اور چونکہ خدا کا ایک دن دنیا کے ہزار سال کے برابر ہے اس مشابہت سے خدا نے مسیح موعود کو ششم ہزار کے اخیر میں پیدا کیا.گویا وہ بھی دن کی آخری گھڑی ہے.لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۰۷ تا ۲۰۹) یہ صحیح نہیں ہے جو بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قیامت کا کسی کو علم نہیں.پھر آدم سے اخیر تک سات ہزار سال کیوں کر مقرر کر دیئے جائیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کبھی خدا تعالیٰ کی کتابوں میں صحیح طور پر فکر نہیں کیا.میں نے آج یہ حساب مقرر نہیں کیا یہ تو قدیم سے محققین اہل کتاب میں مسلم چلا آیا ہے.یہاں تک کہ یہودی فاضل بھی اس کے قائل رہے ہیں اور قرآن شریف سے بھی صاف طور پر یہی نکلتا ہے کہ آدم سے اخیر تک عمر بنی آدم کی سات ہزار سال ہے اور ایسا ہی پہلی تمام کتابیں بھی با تفاق یہی کہتی ہیں اور آیت اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ (الحج : ۴۸) سے بھی یہی نکلتا ہے اور تمام نبی واضح طور پر بھی خبر دیتے آئے ہیں اور جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں سورۃ والعصر کے اعداد سے بھی یہی صاف معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آدم سے الف پنجم میں ظاہر ہوئے تھے اور اس حساب سے یہ زمانہ جس میں ہم ہیں ہزار ہفتم ہے.جس بات کو خدا نے اپنی وحی سے ہم پر ظاہر کیا اس سے ہم انکار نہیں کر سکتے اور نہ ہم

Page 396

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۹ سورة العصر کوئی وجہ دیکھتے ہیں کہ خدا کے پاک نبیوں کے متفق علیہ کلمہ سے انکار کریں.پھر جبکہ اس قدر ثبوت موجود ہے اور بلاشبہ احادیث اور قرآن شریف کے رو سے یہ آخری زمانہ ہے.پھر آخری ہزار ہونے میں کیا شک رہا اور آخری ہزار کے سر پر مسیح موعود کا آنا ضروری ہے.(لیکچر سیالکوٹ ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۱۰،۲۰۹) خدا تعالیٰ نے اس دنیا کو ایک دن مقرر کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو عصر کے وقت سے ۱۳۲۴ تشبیہ دی ہے.پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ عصر ہوا تو پھر اب تیرہ سو چو ہمیں برس کے بعد اس زمانہ کا کیا نام رکھنا چاہیئے ؟ کیا یہ وقت قریب غروب نہیں اور پھر جب قریب غروب ہوا تو مسیح کے نازل ہونے کا اگر یہ وقت نہیں تو پھر اس کے بعد تو کوئی وقت نہیں.اسی طرح احادیث صحیحہ میں جو بعض ان کی صحیح بخاری میں پائی جاتی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو عصر سے تشبیہ دی ہے.پس اس سے ماننا پڑتا ہے کہ ہمارا زمانہ قیامت کے قرب کا زمانہ ہے اور پھر دوسری حدیثوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عمر دُنیا کی سات ہزار سال ہے.اور قرآن شریف کی اس آیت سے بھی یہی مفہوم ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ (الحج: ۴۸) یعنی ایک دن خدا کے نزدیک تمہارے ہزار سال کے برابر ہے.پس جبکہ خدا تعالیٰ کی کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ دن سات ہیں.پس اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ انسانی نسل کی عمر سات ہزار سال ہے جیسا کہ خدا نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ سورۃ العصر کے عدد جس قدر حساب جمل کی رو سے معلوم ہوتے ہیں اسی قدر زمانہ نسل انسان کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک تک بحساب قمری گزر چکا تھا کیونکہ خدا نے حساب قمری رکھا ہے اور اس حساب سے ہماری اس وقت تک نسل انسان کی عمر چھ ہزار برس تک ختم ہو چکی ہے اور اب ہم ساتویں ہزار میں ہیں اور یہ ضرور تھا کہ مثیل آدم جس کو دوسرے لفظوں میں مسیح موعود کہتے ہیں چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو جو جمعہ کے دن کے قائم مقام ہے جس میں آدم پیدا ہوا.اور ایسا ہی خدا نے مجھے پیدا کیا.پس اس کے مطابق چھٹے ہزار میں میری پیدائش ہوئی.اور یہ عجیب اتفاق ہوا کہ میں معمولی دنوں کی رو سے بھی جمعہ کے دن پیدا ہوا تھا.اور جیسا کہ آدم نر اور مادہ پیدا ہوئے تھے میں بھی تو ام کی شکل پر پیدا ہوا تھا.ایک میرے ساتھ لڑکی تھی جو پہلے پیدا ہوئی اور بعد میں اس کے میں پیدا ہوا.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۵۸،۲۵۷) سورۃ والعصر میں دوسلسلوں کا ذکر فرمایا ہے ایک ابرار و اخیار کا سلسلہ ہے اور دوسرا کفار اور فجار کا.کفار اور

Page 397

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٧٠ سورة العصر فجار کے سلسلہ کا ذکر یوں فرمایا اِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِی خُسر اور دوسرے سلسلہ کو اس طرح پر الگ کیا إِلَّا الَّذِينَ امَنُوا وَ عَمِلُوا الصّلِحَتِ یعنی ایک وہ ہیں جو خسران میں ہیں مگر خسران میں مومن اور عمل صالح کرنے والے نہیں ہیں.اس سے معلوم ہوا کہ خسران میں وہ ہیں جو مومن اور عمل صالح کرنے والے نہیں.یاد رکھو کہ صلاح کا لفظ وہاں آتا ہے جہاں فساد کا بالکل نام ونشان نہ رہے.انسان کبھی صالح نہیں کہلا سکتا.جب تک وہ عقا مدرد یہ اور فاسدہ سے خالی نہ ہو اور پھر اعمال بھی فساد سے خالی ہو جا ئیں.الخام جلد ۵ نمبر ۳۰ مورخه ۱۷ راگست ۱۹۰۱ صفحه ۲۰۱) اصلاح تب ہوتی ہے کہ تحمیل عملی کے مراتب حاصل ہو جائیں پس سورة العصر میں جو إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصلحت فرمایا ہے اس میں امنوا سے تکمیل علمی کی طرف اشارہ فرمایا اور عملوا الصلحت سے تکمیل عملی کی طرف رہبری کی.حکمت کے بھی دو ہی حصے ہیں ایک علم اکمل اور اتم ہو دوسرے عمل اتم اور اکمل ہو.پس اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جو لوگ خسر سے محفوظ رہتے ہیں اول وہ تکمیل علمی کرتے ہیں اور پھر عمل بھی گندے نہیں کرتے بلکہ علمی تکمیل کو عملی تکمیل تک پہنچاتے ہیں اور پھر یہ کہ جب انہیں کامل بصیرت حاصل ہو جاتی ہے اور ان کے کمال علم کا ثبوت کمال عمل سے ملتا ہے تو پھر وہ بخل نہیں کرتے بلکہ تواصوا بالحق پر عمل کرتے ہیں.لوگوں کو بھی اس حق کی دعوت کرتے ہیں جو انہوں نے پایا ہے.اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ اعمال کی روشنی سے بھی دکھاتے ہیں.واعظ اگر خود عمل نہیں کرتا تو اس کی باتوں کا کچھ بھی اثر نہیں پڑ سکتا.یہ بھی قاعدہ کی بات ہے کہ اگر خود آدمی کہے اور کرے نہیں تو اس کا بہت برا اثر پڑتا ہے اگر زنا کار زنا سے منع کرے تو اس کی اس حالت کے ثابت ہو جانے پر سننے والوں کے دہر یہ ہو جانے کا اندیشہ ہے کیونکہ وہ خیال کریں گے کہ اگر زنا کاری واقعی خطرناک چیز ہوتی اور خدا تعالیٰ کے حضور اس ناپاکی پر سزا ملتی ہے اور خدا واقعی ہوتا تو پھر یہ جو منع کرتا تھا خود کیوں اس سے پرہیز نہ کرتا.مجھے معلوم ہے کہ ایک شخص ایک مولوی کی صحبت کے باعث مسلمان ہونے لگا.ایک روز اس نے دیکھا کہ وہی مولوی شراب پی رہا تھا تو اس کا دل سخت ہو گیا اور وہ رک گیا.غرض تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ میں یہ فرمایا کہ وہ اپنے اعمال کی روشنی سے دوسروں کو نصیحت کرتے ہیں اور پھر ان کا یہ شیوہ ہوتا ہے تواصوا بالصبر یعنی صبر کے ساتھ وعظ ونصیحت کا شیوہ اختیار کرتے ہیں جلدی جھاگ منہ پر نہیں لاتے.اگر کوئی مولوی اور پیش رو

Page 398

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام سورة العصر ہوکر ، امام اور راہنما بن کر جلدی بھڑک اٹھتا ہے اور اس میں برداشت اور صبر کی طاقت نہیں تو وہ لوگوں کو کیوں نقصان پہنچاتا ہے.دوسرے یہ بھی مطلب ہے کہ جو باتیں سنے والا صبر سے نہ سنے وہ فائدہ نہیں اُٹھاتا.ہمارے مخالف برد باری کا دل لے کر نہیں آتے اور صبر سے اپنی مشکلات پیش نہیں کرتے بلکہ انکا تو یہ حال ہے کہ وہ کتاب تک تو دیکھنا نہیں چاہتے اور شور مچا کر حق کو ملبس کرنے کی سعی کرتے ہیں پھر وہ فائدہ اٹھائیں تو کیوں کر اُٹھا ئیں.ابوجہل اور ابولہب میں کیا تھا ؟ یہی بے صبری اور بیقراری تو تھی کہتے تھے کہ تو خدا کی طرف سے آیا ہے تو کوئی نہر لے آ.ان کم بختوں نے صبر نہ کیا اور ہلاک ہو گئے ورنہ زبیدہ والی نہر تو آہی گئی.اسی طرح پر ہمارے مخالف بھی کہتے ہیں کہ ہمارے لئے دعا کرو اور وہ معا قبول ہو جائے اور پھر اس کو حق و باطل کا معیار ٹھہراتے ہیں اور اپنی طرف سے بعض امور پیش کر کے کہتے ہیں کہ یہ ہو جائے اور ہو جائے تو مان لیں لیکن آپ کسی شرط کے نیچے نہیں آتے.افسوس یہی لوگ ہیں جو لَا يَخَافُ عُقْبُهَا کے مصداق ہیں.یاد رکھو صبر ہی شرح صدر کا رتبہ پاتا ہے جو صبر نہیں کرتا وہ گویا خدا پر حکومت کرتا ہے خود اس کی حکومت میں رہنا نہیں چاہتا.ایسا گستاخ اور دلیر جو خدا تعالیٰ کے جلال اور عظمت سے نہیں ڈرتا وہ محروم کر دیا جاتا ہے اور اسے کاٹ دیا جاتا ہے پھر یہ بات بھی یادرکھنی چاہیے کہ صبر کی حقیقت میں سے یہ بھی ضروری بات ہے گونوا مع الصدِقِينَ صادقوں کی صحبت میں رہنا ضروری ہے.بہت سے لوگ ہیں جو دور بیٹھ رہتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ کبھی آئیں گے اس وقت فرصت نہیں ہے.بھلا تیرہ سوسال کے موعود سلسلہ کو جولوگ پالیس اور اس کی نصرت میں شامل نہ ہوں اور خدا اور رسول کے موعود کے پاس نہ بیٹھیں وہ فلاح پاسکتے ہیں؟ ہر گز نہیں.ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دوں این خیال است و محال است و جنوں الحکم جلد ۵ نمبر ۳۱ مورخه ۲۴ /اگست ۱۹۰۱ صفحه ۲، ۳).قسم ہے اس زمانہ کی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی.آج کل ہمارے زمانہ کے کوتاہ اندیش مخالف یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن شریف میں مخلوق کی قسمیں کیوں کھائی گئی ہیں حالانکہ دوسروں کو منع کیا ہے اور کہیں انجیر کی قسم ہے کہیں دن اور رات کی اور کہیں زمین کی اور کہیں نفس کی ؟ اس قسم کے اعتراضوں کا بہت برا اثر پڑتا ہے.یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تمام قرآن شریف میں یہ ایک عام سنت اور عادت الہی ہے کہ وہ بعض نظری امور کے اثبات و احقاق کے لئے کسی ایسے امور کا حوالہ دیتا ہے جو اپنے خواص کا عام طور پر بین اور کھلا کھلا اور بدیہی ثبوت رکھتے ہیں.پس ان کی قسم کھانا ان کو بطور دلیل اور نظیر

Page 399

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۷۲ سورة العصر کے پیش کرنا ہوتا ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۰ مورخه ۳۱ رمئی ۱۹۰۱ صفحه ۲) سورۃ العصر میں دنیا کی تاریخ موجود ہے جس پر خدا تعالیٰ نے اپنے الہام سے مجھ کو اطلاع دی ہے اور یہ اصلی اور کچی تاریخ ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک کس قدر زمانہ گزرا ہے.پس اس حساب سے اب ساتویں ہزار سے کچھ سال گزر گئے اور خاتم الخلفاء چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہوا تا که اول را بآخر نسبتی دارد کا مصداق ہو.آدم بھی چھٹے دن پیدا ہوا تھا.اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک دن ایک ہزار سال کا ہوتا ہے اس چھ دن کے چھ ہزار ہوئے اور پھر آدم کی پیدائش چھٹے دن کے آخر میں ہوئی تھی اس لئے خاتم الخلفاء بھی چھٹے ہزار کے آخر میں ہوا اور ساتویں میں جنگ ہے.اس جنگ سے توپ و تفنگ کی لڑائی مراد نہیں بلکہ یہ عیسائیت اور الہی دین کی آخری جنگ ہے.عیسائیت نے زمینی خدا بنالیا ہے اور یہ وہی خدایا خیالی خدا ہے جیسے بہت سی عورتیں ایک وہمی حمل رجا کا کر لیتی ہیں یہاں تک کہ پیٹ میں وہمی طور پر حرکت بھی معلوم ہوتی ہے اور پیٹ بڑھتا بھی ہے.اسی طرح پر فرضی مسیح بنالیا گیا ہے جسے خدا سمجھا گیا ہے.غرض سچے مسیح کے مقابل وہ کھڑا ہے.اب یہ لڑائی ان دونوں میں شروع ہے اور خدا اس میں اپنا چمکتا ہوا ہاتھ الحکم جلد ۶ نمبر ۲۵ مورخہ ۱۷ جولائی ۱۹۰۲ء صفحہ ۶) دکھلائے گا.وَتَوَاصَوْا بِالْحَق.....ان کی عادت ہے کہ اور وں کو بھی بیچ کی نصیحت دیتے ہیں.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۶۱) انسان کا فرض ہے کہ دوسروں کو نفع پہنچائے اور اس کی صورت یہ ہے ان کو خدا کی محبت پیدا کرنے اور اس کی توحید پر قائم ہونے کی ہدایت کرے جیسا کہ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَی سے پایا جاتا ہے.انسان بعض وقت خود ایک امر کو سمجھ لیتا ہے لیکن دوسروں کو سمجھانے پر قادر نہیں ہوتا اس لئے اس کو چاہیے کہ محنت اور کوشش کر کے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاوے.ہمدردی خلائق یہی ہے کہ محنت کر کے دماغ خرچ کر کے ایسی راہ نکالے کہ دوسروں کو فائدہ پہنچا سکے تاکہ عمر دراز ہو.احکام جلد ۶ نمبر ۲۴ مورخه ۱۰ر جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۴)

Page 400

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۳۷۳ سورة الهمزة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الهمزة بیان فرموده سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَارُ اللهِ الْمُوقَدَةُ ةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَنْدَةِ دوزخی ہونے کی حالت میں اعلیٰ درجہ کے کفار ہوتے ہیں کہ قبل اس کے جو کامل طور پر دوزخ میں پڑیں ان کے دلوں پر دوزخ کی آگ بھڑکائی جاتی ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے نَارُ اللَّهِ الْمُوْقَدَةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَنْدَةِ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۸۴) جہنم کیا چیز ہے؟ وہ خدا کے غضب کی آگ ہے جو دلوں پر پڑے گی یعنی وہ دل جو بد اعمالی اور بداعتقادی کی آگ اپنے اندر رکھتے ہیں وہ غضب الہی کی آگ سے اپنے آگ کے شعلوں کو مشتعل کریں گے تب یہ دونوں قسم کی آگ باہم مل کر ایسا ہی ان کو بھسم کرے گی جیسا کہ صاعقہ گرنے سے انسان بھسم ہو جاتا ہے.پس نجات وہی پائے گا جو بد اعتقادی اور بد عملی کی آگ سے دور رہے گا.ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۶۷) دوزخ وہ آگ ہے جو خدا کا غضب اس کا منبع ہے اور گناہ سے بھڑکتی ہے اور پہلے دل پر غالب ہوتی ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس آگ کی اصل جڑھ وہ غم اور حسرتیں اور درد ہیں جو دل کو پکڑتے ہیں کیونکہ تمام روحانی عذاب پہلے دل سے ہی شروع ہوتے ہیں اور پھر تمام بدن پر محیط ہو جاتے ہیں.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۹۳)

Page 401

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۴ سورة الهمزة خدا کا عذاب ایک عذاب ہے جس کو خدا بھڑ کاتا ہے اور پہلا شعلہ اس کا انسان کے اپنے دل پر سے ہی اُٹھتا ہے.یعنی جڑ اس کی انسان کا اپنا ہی دل ہے اور دل کے ناپاک خیالات اس جہنم کے ہیزم ہیں.پس جبکہ عذاب کا اصل تخم اپنے وجود کی ہی ناپاکی ہے جو عذاب کی صورت پر متمثل ہوتی ہے تو اس سے ماننا پڑتا ہے کہ وہ چیز جو اس عذاب کو دور کرتی ہے وہ راستبازی اور پاکیزگی ہے.(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۸۲) دوزخ کیا چیز ہے.دوزخ وہ آگ ہے جو دلوں پر بھڑکائی جاتی ہے یعنی انسان جب فاسد خیال اپنے دل میں پیدا کرتا ہے اور وہ ایسا خیال ہوتا ہے کہ جس کمال کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے وہ اس کے مخالف ہوتا ہے تو جیسا کہ ایک بھوکا یا پیاسا بوجہ نہ ملنے غذا اور پانی کے آخر مر جاتا ہے ایسا ہی وہ شخص بھی جو فساد میں مشغول رہا اور خدا تعالیٰ کی محبت اور اطاعت کی غذا اور پانی کو نہ پایا وہ بھی مرجاتا ہے.پس بموجب تعلیم قرآن شریف کے بندہ ہلاکت کا سامان اپنے لئے آپ تیار کرتا ہے خدا اس پر کوئی جبر نہیں کرتا.اس کی ایسی مثال ہے کہ جیسے کوئی اپنے حجرہ کے تمام دروازے بند کر دے اور روشنی داخل ہونے کے لئے کوئی کھڑ کی کھلی نہ رکھے تو اس میں شک نہیں کہ اس کے حجرہ کے اندر اندھیرا ہو جائے گا.سوکھڑکیوں کا بند کر نا تو اس شخص کا فعل ہے مگر اندھیرا کر دینا یہ خدا تعالیٰ کا فعل اس کے قانونِ قدرت کے موافق ہے.پس اسی طرح جب کوئی شخص خرابی اور گناہ کا کام کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اپنے قانونِ قدرت کی رو سے اس کے اس فعل کے بعد کوئی اپنا فعل ظاہر کر دیتا ہے جو اس کی سزا ہو جاتا ہے لیکن بایں ہمہ تو بہ کا دروازہ بند نہیں کرتا.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۶۲) میں نے بعض آدمیوں کو دیکھا اور اکثروں کے حالات پڑھے ہیں جو دنیا میں مال و دولت اور دنیا کی جھوٹی لذتیں اور ہر ایک قسم کی نعمتیں اولاد احفاد رکھتے تھے.جب مرنے لگے اور ان کو اس دنیا کے چھوڑ جانے اور ساتھ ہی ان اشیاء سے الگ ہونے اور دوسرے عالم میں جانے کا علم ہوا تو ان پر حسرتوں اور بے جا آرزوؤں کی آگ بھڑ کی اور سرد آہیں مارنے لگے.بس یہ بھی ایک قسم کا جہنم ہے جو انسان کے دل کو راحت اور قرار نہیں دے سکتا بلکہ اس کو گھبراہٹ اور بیقراری کے عالم میں ڈال دیتا ہے اس لئے یہ امر بھی میرے دوستوں کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہنا چاہیے کہ اکثر اوقات انسان اہل وعیال اور اموال کی محبت ہاں ناجائز اور بے جا محبت میں ایسا محو ہو جاتا ہے اور اکثر اوقات اسی محبت کے جوش اور نشہ میں ایسے ناجائز کام کرگزرتا ہے

Page 402

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۵ سورة الهمزة جو اس میں اور خدائے تعالیٰ میں ایک حجاب پیدا کر دیتے ہیں اور اس کے لئے ایک دوزخ تیار کر دیتے ہیں.اس کو اس بات کا علم نہیں ہوتا جب وہ ان سب سے یکا یک علیحدہ کیا جاتا ہے.اس گھڑی کی اسے خبر نہیں ہوتی.تب وہ ایک سخت بے چینی میں مبتلا ہو جاتا ہے یہ بات بڑی آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ کسی چیز سے جب محبت ہو تو اس سے جدائی اور علیحدگی پر ایک رنج اور دردناک غم پیدا ہو جاتا ہے.یہ مسئلہ اب منقولی ہی نہیں بلکہ معقولی رنگ رکھتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نَارُ اللهِ الْمُوْقَدَةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَنْدَةِ - پس یہ وہی غیر اللہ کی محبت کی آگ ہے جو انسانی دل کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے اور ایک حیرت ناک عذاب اور درد میں مبتلا کر دیتی ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ ء صفحہ ۱۳۵) میرے دوستوں کی نظر سے یہ امر ہرگز پوشیدہ نہ رہے کہ انسان مال و دولت یا زن و فرزند کی محبت کے جوش اور نشہ میں ایسا دیوانہ اور از خود رفتہ نہ ہو جاوے کہ اس میں اور خدا تعالیٰ میں ایک حجاب پیدا ہو جاوے مال اور اولاد اسی لئے تو فتنہ کہلاتی ہے ان سے بھی انسان کے لئے ایک دوزخ طیار ہوتا ہے اور جب وہ ان سے الگ کیا جاتا ہے تو سخت بے چینی اور گھبراہٹ ظاہر کرتا ہے اور اس طرح پر یہ بات کہ نارُ الله الْمُوْقَدَةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَنْدَةِ - منقولی رنگ میں نہیں رہتا بلکہ معقولی شکل اختیار کر لیتا ہے.پس یہ آگ جو انسانی دل کو جلا کر کباب کر دیتی اور ایک جلے ہوئے کوئلہ سے بھی سیاہ اور تاریک بنادیتی ہے یہ وہی غیر اللہ کی محبت ہے.دو چیزوں کے باہم تعلق اور رگڑ سے ایک حرارت پیدا ہوتی ہے اسی طرح پر انسان کی محبت اور دنیا اور دنیا کی چیزوں کی محبت کے رگڑ سے الہی محبت جل جاتی ہے اور دل تاریک ہوکر خدا سے دور ہو جاتا اور ہر قسم کی بیقراری کا شکار ہو جاتا ہے.الحکم جلد ۴ نمبر ۳۳ مورخه ۱۶ ستمبر ۱۹۰۰ ء صفحه ۶) جیسے بہشتی زندگی اسی دنیا سے شروع ہوتی ہے اسی طرح پر دوزخ کی زندگی بھی یہاں ہی سے انسان لے جاتا ہے جیسا کہ دوزخ کے باب میں فرمایا ہے نَارُ اللهِ الْمُوقدَةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَنْدَةِ _ یعنی دوزخ وہ آگ ہے جو خدا کا غضب اس کا منبع ہے اور وہ گناہ سے پیدا ہوتی اور پہلے دل پر غالب ہوتی ہے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس آگ کی جڑ وہ ہموم عموم اور حسرتیں ہیں جو انسان کو آگھیرتی ہیں کیونکہ تمام روحانی عذاب پہلے دل سے ہی شروع ہوتے ہیں جیسے تمام روحانی سروروں کا منبع بھی دل ہے اور دل ہی سے شروع ہونے بھی چاہئیں کیونکہ دل ہی ایمان یا بے ایمانی کا منبع ہے.ایمان یا بے ایمانی کا شگوفہ بھی پہلے دل ہی سے نکلتا ہے اور پھر تمام بدن اور اعضاء پر اس کا عمل ہوتا ہے اور سارے جسم پر محیط ہو جاتا ہے پس یا درکھو

Page 403

سورة الهمزة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کہ بہشت اور دوزخ اسی دنیا سے انسان ساتھ لے جاتا ہے اور یہ بات بھولنی نہ چاہیے کہ بہشت اور دوزخ اس جسمانی دنیا کی طرح نہیں ہے بلکہ ان دونوں کا مبدء اور منبع روحانی امور ہیں.ہاں یہ سچی بات ہے کہ عالم معاد میں وہ جسمانی شکل پر ضرور متشکل ہو کر نظر آئیں گے.(الحکم جلد ۵ نمبر ۴۲ مورخه ۷ ارنومبر ۱۹۰۱ صفحه ۲) کوئی عذاب باہر سے نہیں آتا بلکہ خود انسان کے اندر ہی سے نکلتا ہے.ہم کو اس سے انکار نہیں کہ عذاب خدا کا فعل ہے.بے شک اسی کا فعل ہے مگر اسی طرح جیسے کوئی زہر کھائے تو خدا اسے ہلاک کر دے.پس خدا کا فعل انسان کے اپنے فعل کے بعد ہوتا ہے.اس کی طرف اللہ جل شانہ اشارہ فرماتا ہے نَارُ الله الْمُوْقَدَةُ - الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْآفدَةِ.یعنی خدا کا عذاب وہ آگ ہے جس کو خدا بھڑ کاتا ہے اور اس کا شعلہ انسان کے دل سے ہی اٹھتا ہے.اس کا مطلب صاف لفظوں میں یہی ہے کہ عذاب کا اصل پیج اپنے وجود ہی کی ناپا کی ہے جو عذاب کی صورت اختیار کر لیتی ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ا مورخه ۱۰ جنوری ۱۹۰۲ صفحه ۵) اللہ تعالیٰ کا عذاب ایک آگ ہے جس کو وہ بھڑکاتا ہے اور انسان کے دل ہی پر اس کا شعلہ بھڑکتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ عذاب الہی اور جہنم کی اصل جڑ انسان کا اپنا ہی دل ہے اور دل کے نا پاک خیالات اور گندےارادے اور عزم اس جہنم کا ایندھن ہیں.الحکم جلد ۶ نمبر ۱۱ مورخه ۲۴ / مارچ ۱۹۰۲ صفحه ۳) دعا کی حقیقت سے ناواقف رہنے کی صورت میں ذرا ذراسی نامرادی بھی آتش جہنم کی ایک لپٹ ہو کر دل پر مستولی ہو جاتی ہے.اور گھبرا گھبرا کر بیقرار کیے دیتی ہے اسی کی طرف ہی اشارہ ہے نَارُ الله الْمُوْقَدَةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الأفدة.بلکہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بھی نار جہنم کا ایک نمونہ ہے.ریویو آف ریلیجنز جلد ۳ نمبر ۱ صفحه ۱۴)

Page 404

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۳۷۷ سورة الفيل بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الفيل بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحِبِ الْفِيلِ O اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک سورت بھیج کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قدر اور مرتبہ ظاہر کیا ہے اور وہ سورت ہے اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاصْحِبِ الْفِيلِ.یہ سورت اس حالت کی ہے کہ جب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم مصائب اور دکھ اٹھا رہے تھے.اللہ تعالیٰ اس حالت میں آپ کو تسلی دیتا ہے کہ میں تیرا مؤید وناصر ہوں.اس میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے کہ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے اصحاب الفیل کے ساتھ کیا کیا.یعنی ان کا مکر الٹا کر ان پر ہی مارا اور چھوٹے چھوٹے جانور ان کے مارنے کے لئے بھیج دیئے.ان جانوروں کے ہاتھوں میں کوئی بندوقیں نہ تھیں بلکہ مٹی تھی.جیل بھیگی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں.اس سورہ شریف میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ قرار دیا ہے اور اصحاب الفیل کے واقعہ کو پیش کر کے آپ کی کامیابی اور تائید اور نصرت کی پیشگوئی کی ہے.یعنی آپ کی ساری کارروائی کو برباد کرنے کے لئے جو سامان کرتے ہیں اور جو تدابیر عمل میں لاتے ہیں ان کے تباہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ ان کی ہی تدبیروں کو اور کوششوں کو الٹا کر دیتا ہے کسی بڑے سامان کی ضرورت نہیں ہوتی.جیسے ہاتھی والوں کو چڑیوں نے تباہ کر دیا ایسا ہی یہ پیشگوئی قیامت تک جائے گی.جب

Page 405

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۸ سورة الفيل کبھی اصحاب الفیل پیدا ہو گا تب ہی اللہ تعالیٰ ان کے تباہ کرنے کے لئے ان کی کوششوں کو خاک میں ملا دینے کے سامان کر دیتا ہے.پادریوں کا اصول یہی ہے ان کی چھاتی پر اسلام ہی پتھر ہے ورنہ باقی تمام مذاہب ان کے نزدیک نامرد ہیں ہندو بھی عیسائی ہو کر اسلام کے ہی رو میں کتابیں لکھتے ہیں.رام چندر اور ٹھا کر داس نے اسلام کی تردید میں اپنا سارا زور لگا کر کتابیں لکھی ہیں.بات یہ ہے کہ ان کا کانشنس کہتا ہے کہ ان کی ہلاکت اسلام ہی سے ہے.طبعی طور پر خوف ان کا ہی پڑتا ہے جن کے ذریعہ ہلاکت ہوتی ہے.ایک مرغی کا بچہ بلی کو دیکھتے ہی چلانے لگتا ہے اسی طرح پر مختلف مذاہب کے پیرو عموماً اور پادری خصوصاً جو اسلام کی تردید میں زور لگارہے ہیں یہ اسی لئے ہے کہ ان کو یقین ہے اندر ہی اندر ان کا دل ان کو بتاتا ہے کہ اسلام ہی ایک مذہب ہے جو ملل باطلہ کو نہیں ڈالے گا.اس وقت اصحاب الفیل کی شکل میں اسلام پر حملہ کیا گیا ہے.مسلمانوں کی حالت میں بہت کمزوریاں ہیں.اسلام غریب ہے.اور اصحاب الفیل زور میں ہیں مگر اللہ تعالیٰ وہی نمونہ پھر دکھانا چاہتا ہے.چڑیوں سے وہی کام لے گا.ہماری جماعت ان کے مقابلہ میں کیا ہے ان کے اتفاق اور طاقت اور دولت کے سامنے نام بھی نہیں رکھتے.لیکن ہم اصحاب الفیل کا سا واقعہ سامنے دیکھتے ہیں کہ کیسی تسلی کی آیات نازل فرمائی ہیں.مجھے بھی یہی الہام ہوا ہے جس سے صاف صاف پایا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی نصرت اور تائید اپنا کام کر کے رہے گی ہاں اس پر وہی یقین رکھتے ہیں جن کو قرآن سے محبت ہے اگر قرآن سے محبت نہیں ، اسلام سے الفت نہیں وہ ان باتوں کی کب پر واہ کر سکتا ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۶ مورخہ ۷ ارجولائی ۱۹۰۱ صفحه ۲) تو نے دیکھ لیا یعنی تو ضرور دیکھے گا کہ اصحاب الفیل یعنی وہ جو بڑے حملے والے ہیں اور جو آئے دن تیرے پر حملہ کرتے ہیں اور جیسا کہ اصحاب الفیل نے خانہ کعبہ کونا بود کرنا چاہا تھا وہ تجھے نابود کرنا چاہتے ہیں ان کا انجام کیا ہو گا ؟ یعنی ان کا وہی انجام ہو گا جو اصحاب الفیل کا ہوا.(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ ۷۱۹) ہوگا ایک دوست نے حج کے موقع پر نا قابل برداشت تکالیف کا ذکر فرمایا اور بتایا کہ اس سال حاجیوں کو اس قدر تکالیف کا سامنا کرنا پڑا کہ معلوم ہوتا تھا شاید حج بالکل بند ہو جائے.رستہ میں پرلے درجہ کی بدامنی تھی اور طامع حریص کارکنوں نے اپنے فائدہ کی خاطر ہزاروں افراد کی پرواہ نہ کی.فرمایا ) ہم آپ کو ایک نصیحت کرتے ہیں.ایسا ہو کہ ان تمام امور تکالیف سے آپ کی قوت ایمانی میں کسی قسم کا

Page 406

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۹ سورة الفيل فرق اور تزلزل نہ آوے.یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ابتلا ہے.اس سے پاک عقائد پر اثر نہیں پڑنا چاہیے.ان باتوں سے اس متبرک مقام کی عظمت دلوں میں کم نہ ہونی چاہیے کیونکہ اس سے بدتر ایک زمانہ گزرا ہے کہ یہی مقدس مقام نجس مشرکوں کے قبضہ میں تھا اور انہوں نے اسے بت خانہ بنا رکھا تھا بلکہ یہ تمام مشکلات اور مصائب خوش آئند زمانے اور زندگی کے درجات ہیں دیکھو آنحضرت کے مبعوث ہونے سے پہلے بھی زمانہ کی حالت خطرناک ہوگئی تھی اور کفر وشرک اور فساد اور ناپا کی حد سے بڑھ گئے تھے تو اس ظلمت کے بعد بھی ایک نور دنیا میں ظاہر ہوا تھا اسی طرح اب بھی امید کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان مشکلات کے بعد کوئی بہتری کے سامان بھی پیدا کر دے گا اور خدا کوئی سامان اصلاح پیدا کر دے گا بلکہ اسی متبرک اور مقدس مقام پر ایک اور بھی ایسا ہی خطرناک اور نازک وقت گزر چکا تھا جس کی طرف آنحضرت کو اللہ تعالی نے توجہ دلائی.اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحِبِ الْفِيلِ الحَ - غرض یہ اب تیسرا واقعہ ہے اس کی طرف بھی اللہ تعالیٰ ضرور توجہ کرے گا اور خدا کا توجہ کرنا تو پھر قہری الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۹ مورخه ۲۲ را پریل ۱۹۰۸ صفحه ۱) رنگ میں ہی ہوگا.

Page 407

Page 408

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۳۸۱ سورة القريش بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة القريش بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ لايُلفِ قُرَيْشِ لا يلف قريش فى الفِهِمُ رِحْلَةَ الشَّتَاءِ وَ الصَّيْفِ فَليَعْبُدُوا رَبَّ هذا الْبَيْتِ الَّذِى اَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ وَأَمَنَهُمْ مِنْ خَوْفٍ.( عرب صاحب نے ادھر ادھر غیر آبادی کو دیکھ کر عرض کی کہ یہ صرف حضور ہی کا دم ہے کہ جس کی خاطر اس قدر انبوہ ہے ورنہ اس غیر آبا دجگہ میں کون اور کب آتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سن کر فرمایا کہ ) اس کی مثال مکہ کی ہے کہ وہاں بھی عرب لوگ دور دراز جگہوں سے جا کر مال وغیرہ لاتے ہیں اور وہاں بیٹھ کر کھاتے ہیں اسی کی طرف اشارہ ہے اس سورۃ میں لا يُلفِ قریش 0 الفهم رحلَةَ الشَّتَاءِ وَالضَّيْفِ الخ البدر جلد ۲ نمبر ۴ مورخه ۱۳ فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۲۶)

Page 409

Page 410

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۳۸۳ سورة الماعون بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الماعون بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ في الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ) کیا وجہ ہے کہ بعض لوگ تیس تیس برس تک برابر نماز پڑھتے ہیں پھر کورے کے کورے ہی رہتے ہیں کوئی اثر روحانیت اور خشوع و خضوع کا ان میں پیدا نہیں ہوتا.اس کا یہی سبب ہے کہ وہ وہ نماز پڑھتے ہیں جس پر خدا تعالیٰ لعنت بھیجتا ہے.ایسی نمازوں کے لئے ویل آیا ہے.دیکھو جس کے پاس اعلیٰ درجہ کا جو ہر ہو تو کیا کوڑیوں اور پیسوں کے لئے اسے اس کو پھینک دینا چاہیے.ہر گز نہیں.اول اس جو ہر کی حفاظت کا اہتمام کرے اور پھر پیسوں کو بھی سنبھالے.اس لئے نماز کو سنوار سنوار کر اور سمجھ سمجھ کر پڑھے.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۸ مورخه ۲۴/اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۱) بعض نمازیوں پر خدا نے لعنت بھیجی ہے جیسے فرماتا ہے فَوَيْلٌ لِلْمُصَدِّينَ.ویل کے معنے لعنت کے بھی ہوتے ہیں.پس چاہیے کہ ادا ئیگی نماز میں انسان سست نہ ہو اور نہ غافل ہو.(البدر جلد ۲ نمبر ۴۳ مورخه ۱۶ نومبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۳۴) جو خدا کے لئے نماز نہیں پڑھتے ان کو وَيْلٌ لِلْمُصلين فرمایا....امر کی بجا آوری سے ثواب ہوتا ہے لیکن اگر ریا کاری سے نماز بھی ادا کرے تو پھر اس کے لئے ویل ہے.الحام جلد ۸ نمبر ۸ مورخه ۱۰؍ مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۹)

Page 411

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۴ سورة الماعون جس نماز میں دل کہیں ہے اور خیال کسی طرف ہے اور منہ سے کچھ نکلتا ہے وہ ایک لعنت ہے جو آدمی کے منہ پر واپس ماری جاتی ہے اور قبول نہیں ہوتی.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَيْلٌ لِلْمُصَلِينَ - الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلاتِهِمْ سَاهُونَ - لعنت ہے ان پر جو اپنی نماز کی حقیقت سے ناواقف ہیں.نماز وہی اصلی ہے جس میں مزا آجاوے.ایسی ہی نماز کے ذریعہ سے گناہ سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور یہی وہ نماز ہے جس کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ نماز مومن کا معراج ہے.نماز مومن کے واسطے ترقی کا ذریعہ ہے.( بدر جلد ۲ نمبر ۳۰ مورخه ۲۶ ؍جولائی ۱۹۰۶ء صفحه ۳) وہ لوگ جو نمازوں کی حقیقت سے ہی بے خبر ہوتے ہیں ان کی نمازیں نری ٹکریں ہوتی ہیں.ایسے لوگ ایک سجدہ اگر خدا کو کرتے ہیں تو دوسرا دنیا کو کرتے ہیں.جب تک انسان خدا کے لئے تکالیف اور مصائب کو برداشت نہیں کرتا تب تک مقبول حضرت احدیت نہیں ہوتا.احکام جلد نمبر ۳۶ مورخہ ۱۰ اکتوبر ۱۹۰۷ ، صفحہ ۱۱) نماز ایسی چیز ہے کہ اس سے دنیا بھی سنور جاتی ہے اور دین بھی لیکن اکثر لوگ جو نماز پڑھتے ہیں تو وہ نماز ان پر لعنت بھیجتی ہے جیسے فرما یا فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ یعنی لعنت ہے ان نمازیوں پر جو نماز کی حقیقت سے ہی بے خبر ہوتے ہیں.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳ مورخه ۱۰/جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۴) خدا کا یہی منشاء ہے کہ لفظی اور زبانی مسلمانوں کو حقیقی مسلمان بنایا جاوے.یہودی کیا تو ریت پر ایمان نہیں لاتے تھے؟ قربانیاں نہ کرتے تھے ؟ مگر خدا نے ان پر لعنت بھیجی اور کہا کہ تم مومن نہیں ہو.بلکہ بعض نمازیوں کی نمازوں پر بھی لعنت بھیجی ہے.جہاں فرمایا ہے کہ ویل لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ الع یعنی لعنت ہے ایسے نمازیوں پر جو نماز کی حقیقت سے بے خبر ہیں.صلوۃ اصل میں آگ میں پڑنے اور محبت الہی اور خوف الہی کی آگ میں پڑ کر اپنے آپ سے جل جانے اور ماسوی اللہ کو جلا دینے کا نام ہے اور اس حالت کا نام ہے کہ صرف خدا ہی خدا اس کی نظر میں رہ جاوے اور انسان اس حالت تک ترقی کر جاوے کہ خدا کے بلانے سے بولے اور خدا کے چلانے سے چلے.اس کے کل حرکات اور سکنات اس کا فعل اور ترک فعل سب اللہ ہی کی مرضی کے مطابق ہو جاوے خودی دور ہو جاوے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۹ مورخه ۱۸ جون ۱۹۰۸ء صفحه ۷ )

Page 412

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۵ سورة الماعون نماز کو رسم اور عادت کے رنگ میں پڑھنا مفید نہیں بلکہ ایسے نمازیوں پر تو خود خدا نے لعنت اور ویل بھیجا دور ہے چہ جائیکہ ان کی نماز کو قبولیت کا شرف حاصل ہو.وَيْلٌ لِلْمُصلين خود خدا نے فرمایا ہے یہ ان نمازیوں کے حق میں ہے جو نماز کی حقیقت سے اور اس کے مطالب سے بے خبر ہیں.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۱ مورخہ ۱۴ / جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۰) لعنت ہے ان نمازیوں پر جو اپنی صلوۃ کی حقیقت سے بے خبر ہیں.پس فلاح وہی پاتا ہے اور وہی سچا مومن کہلاتا ہے جو نیکی کو اس کے لوازم کے ساتھ کرتا ہے.یہ بات اس زمانہ میں بہت کم لوگوں میں (اخبار بدر جلدے نمبر ۲۳ مورخه ۱۱/جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۷) موجود ہے.ان نمازیوں کی تباہی جو نماز کی حقیقت سے بے خبر ہیں.پس نماز کے ماثورہ کلام کا سمجھنا نہایت ضروری ہے صحابہ تو عرب کے رہنے والے تھے ان کو ضرورت نہ تھی مگر ہمارے لئے ضروری ہے کہ اسے سمجھ کر نمازوں میں حلاوت پیدا کریں.اخبار بدر جلدے نمبر ۲۵ مورخه ۲۵ جون ۱۹۰۸ء صفحه ۷) مفہوم لا إله إلا الله سننے کے بعد نماز کی طرف توجہ کرو جس کی پابندی کے واسطے بار بار قرآن شریف میں تاکید کی گئی ہے لیکن ساتھ ہی اس کے یہ فرمایا گیا ہے کہ فَوَيْلٌ لِلْمُصَدِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُون - ویل ہے ان نمازیوں کے واسطے جو کہ نماز کی حقیقت سے بے خبر ہیں سو سمجھنا چاہیے کہ نماز ایک سوال ہے جو کہ انسان جدائی کے وقت درد اور حرقت کے ساتھ اپنے خدا کے حضور کرتا ہے کہ اس کو لقا اور وصال ہو کیونکہ جب تک خدا کسی کو پاک نہ کرے کوئی پاک نہیں ہوسکتا اور جب تک وہ خود وصال عطا نہ کرے کوئی وصال کو حاصل نہیں کر سکتا.طرح طرح کے طوق اور قسما قسم کے زنجیر انسان کی گردن میں پڑے ہوئے ہیں اور وہ بہتیرا چاہتا ہے کہ یہ دور ہو جاویں پر وہ دور نہیں ہوتے.باوجود انسان کی خواہش کے کہ وہ پاک ہو جاوے نفس لوامہ کی لغزشیں ہو ہی جاتی ہیں.گناہوں سے پاک کرنا خدا کا کام ہے اس کے سوائے کوئی طاقت نہیں جو زور کے ساتھ تمہیں پاک کر دے.پاک جذبات کے پیدا کرنے کے واسطے خدا تعالیٰ نے نماز رکھی ہے.نماز کیا ہے ایک دعا جو درد، سوزش اور حرقت کے ساتھ خدا تعالیٰ سے طلب کی جاتی ہے تا کہ یہ بد خیالات اور برے ارادے دفع ہو جاویں اور پاک محبت اور پاک تعلق حاصل ہو جائے اور خدا تعالیٰ کے احکام کے ماتحت چلنا نصیب ہو.صلوٰۃ کا لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ دعا صرف زبان سے نہیں بلکہ اس کے ساتھ سوزش اور جلن اور حرقت کا ہونا بھی ضروری ہے.اخبار بدر جلد ۶ نمبر ۱، ۲ مورخہ ۱۰؍ جنوری ۱۹۰۷ صفحه ۱۲)

Page 413

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۸۶ سورة الماعون الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ.عجب اور ریا بہت مہلک چیزیں ہیں ان سے انسان کو بچنا چاہیے.انسان ایک عمل کر کے لوگوں کی مدح کا خواہاں ہوتا ہے.بظاہر وہ عمل عبادت وغیرہ کی صورت میں ہوتا ہے جس سے خدا راضی ہو مگر نفس کے اندر ایک خواہش پنہاں ہوتی ہے کہ فلاں فلاں لوگ مجھے اچھا کہیں.اس کا نام ریا ہے.البدر جلد ۳ نمبر ۹ مورخہ یکم مارچ ۱۹۰۴ء صفحه ۲)

Page 414

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيطِنِ الرَّحِيمِ ۳۸۷ سورة الكوثر بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الكوثر بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ انا اعطينكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْن إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ ہم نے تجھ کو معارف کثیرہ عطا فرمائے ہیں سو اس کے شکر میں نماز پڑھ اور قربانی دے.برائین احمد یہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۱۸ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) یہ جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو فر ما یا انا اعطينكَ الكوثر یہ اس وقت کی بات ہے کہ کافر نے کہا کہ آپ کی اولاد نہیں ہے.معلوم نہیں اس نے ابتر کا لفظ بولا تھا جو اللہ تعالیٰ نے فرما یا اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ تیرا دشمن ہی بے اولا در ہے گا.روحانی طور پر جو لوگ آئیں گے وہ آپ ہی کی اولاد سمجھے جائیں گے اور وہ آپ کے علوم و برکات کے وارث ہوں گے اور اس سے حصہ پائیں گے.اس آیت کو مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِينَ (الاحزاب : ۴۱) کے ساتھ ملا کر پڑھو تو حقیقت معلوم ہوجاتی ہے.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی اولاد بھی نہیں تھی تو پھر معاذ اللہ آپ ابتر ٹھہرتے ہیں جو آپ کے اعداء کے لئے ہے اور انا اعطينك الكوثر سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو روحانی اولاد کثیر دی گئی ہے.پس اگر ہم یہ اعتقاد نہ رکھیں کہ کثرت کے ساتھ آپ کی روحانی اولاد ہوئی ہے تو اس پیشگوئی کے بھی منکر ٹھہریں گے.

Page 415

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۸ سورة الكوثر اس لئے ہر حالت میں ایک سچے مسلمان کو یہ ماننا پڑے گا اور ماننا چاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاثیرات قدسی ابدالآباد کے لئے ویسی ہی ہیں جیسی تیرہ سو برس پہلے تھیں چنانچہ ان تا شیرات کے ثبوت کے لئے ہی خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اب وہی آیات و برکات ظاہر ہورہے ہیں جو اس وقت ہو رہے تھے.الحکم جلدے نمبر ۱۹ مورخہ ۲۴ مئی ۱۹۰۳ء صفحه ۲) اگر یہ مانا جائے جیسا کہ ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ آپ کا نہ کوئی جسمانی بیٹا تھا نہ روحانی.تو پھر اس طرح پر معاذ اللہ یہ لوگ آپ کو ابتر تھہراتے ہیں مگر ایسا نہیں.آپ کی شان تو یہ ہے کہ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ - فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ - إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ - الحکم جلد 4 نمبر ۳۷ مورخہ ۷ ارا کتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۰) اگر آپ کا سلسلہ آپ سے ہی شروع ہو کر آپ ہی پر ختم ہو گیا تو آپ ابتر ٹھہریں گے (معاذ اللہ ) حالانکہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ یعنی تجھے تو ہم نے کثرت کے ساتھ روحانی اولا د عطا کی ہے جو تجھے بے اولا د کہتا ہے وہی ابتر ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جسمانی فرزند تو کوئی تھا نہیں.اگر روحانی طور پر بھی آپ کی اولاد کوئی نہیں تو ایسا شخص خود بتاؤ کیا کہلاوے گا؟ میں تو اس کو سب سے بڑھ کر بے ایمانی اور کفر سمجھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اس قسم کا خیال بھی کیا جاوے.انا اعطينك الكوثر کسی دوسرے نبی کو نہیں کہا گیا یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا اَعْطَيْنَكَ خاصہ ہے.آپ کو اس قدر روحانی اولاد عطا کی گئی جس کا شمار بھی نہیں ہو سکتا اس لئے کہ قیامت تک یہ سلسلہ بدستور جاری ہے.روحانی اولاد ہی کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نبی ہیں کیونکہ آپ کے انوار و برکات کا سلسلہ برابر جاری ہے اور جیسے اولاد میں والدین کے نقوش ہوتے ہیں اسی طرح روحانی اولاد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات اور فیوض کے آثار اور نشانات موجود ہیں.الْوَلَدُ سِر لِأَبِيهِ - الحاکم جلد ۹ نمبر ۳۹ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۵ صفحه ۳) فَلا شك أنَّهُ ادَهُ آخِرِ الزَّمَانِ وَالْأُمَّةُ پس شک نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخر زمانہ شَكَ كَالنُّرِيَّةِ لِهَذَا النّبِيِّ الْمَحْمُودِ وَإِلَيْهِ أَشَارَ کے آدم ہیں اور امت اس نبی محمود کی ذریت کی بجا ہے في قَوْلِهِ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ فَأَمْعِن فِيْه اور اس کی طرف خدا تعالیٰ کے اس قول کا اشارہ ہے انا وَتَفَكَّرُ وَلَا تَكُن مِّنَ الْغَافِلَيْنَ.اعطينكَ الْكَوْثَرَ پس ان معنوں میں غور اور فکر کر اور (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۲۶۱، ۲۶۲) غافلوں میں سے مت ہو.( ترجمہ اصل کتاب سے )

Page 416

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۹ سورة الكوثر اِنَّا اَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ میں ایک بروزی وجود کا وعدہ دیا گیا جس کے زمانہ میں کوثر ظہور میں آئے گا یعنی دینی برکات کے چشمے بہ نکلیں گے اور بکثرت دنیا میں بچے اہل اسلام ہو جا ئیں گے.اس آیت میں بھی ظاہری اولاد کی ضرورت کو نظر تحقیر سے دیکھا اور بروزی اولاد کی پیشگوئی کی گئی.مجموعه اشتہارات جلد دوم صفحه ۵۳۰) محاورات عرب کو بالاستقصاء دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ ابتر کے لفظ میں یہ شرط نہیں ہے کہ کوئی شخص صاحب اولاد اس حالت میں مرے کہ جب اس کی زندگی میں اس کی اولا د فوت ہو جائے بلکہ نسل کی جڑھ کٹ جانا شرط ہے جیسا کہ بہتر کے معنے لغت عرب میں یہ لکھے کہ الْبِثْرُ اسْتِبْصَالُ الشَّيْء قَطعا یعنی بتر کہتے ہیں کسی چیز کو جڑھ سے کاٹ دینے کو....اس پیشگوئی کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اس کی زندگی میں ہی وہ تمام نسل مرجائے کیونکہ اگر یہی شرط ہو تو پھر ایسی صورت میں ایسی قطع نسل کا کیا نام رکھنا چاہیے کہ ایک انسان ایک یا دو ولد چھوڑ کر مر جائے اور بعد اس کے کسی وقت وہ لڑ کے بھی مر جائیں اور کچھ نسل باقی نہ رہے.کیا عرب کے محاورات میں بجز آبتر کے لفظ کے ایسی صورت میں کوئی اور لفظ بھی موجود ہے اور کیا یہ کہنا جائز ہوگا کہ ایسا شخص منقطع النسل نہیں اور لفظ استیصالُ الشَّيء قطعا اس پر لازم نہیں آتا.پس ظاہر ہے کہ ایسا خیال حماقت اور دیوانگی ہے اور زبان عرب میں اس قسم کے قطع نسل کے لئے بجز لفظ آبتر کے اور کوئی لفظ مقرر نہیں اہل عرب اس شخص کو بہر حال ابتر ہی کہتے ہیں جس کی اولاد اس کی زندگی میں یا بعد اس کے اپنی موت کی وجہ سے اس کو لا ولد کے نام سے موسوم کرے بلکہ ہر ایک ملک میں ایسے شخص کا نام بہر حال ابتر ہی ہے جس کی نسل باقی نہ رہے اور منقطع النسل کر کے پکارا جائے اور ائمہ لغت عرب میں سے کسی نے یہ بیان نہیں کیا کہ ابتر ہونے کے لئے لازمی طور پر یہ شرط ہے کہ ایک شخص کے اولاد ہو کر اس کی زندگی میں ہی مر جائے اور اگر کسی کی اولا د اس کی زندگی میں فوت نہ ہو مگر اس کے مرنے کے بعد فوت ہو کر قطع نسل کر دے تو کیا عرب کی زبان میں ایسے شخص کو کسی اور نام سے موسوم کرتے ہیں بلکہ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں اس لفظ کے اصل مادہ میں بہت وسعت ہے کیونکہ عربی میں بتر صرف جڑ کاٹ دینے کو کہتے ہیں.واضح ہو کہ عرب کی زبان میں ابتر کا لفظ ایک وسیع لفظ ہے.لسان العرب میں لکھا ہے....بتر کہتے ہیں ایک چیز کا جڑھ سے کاٹ دینا.دوسرے معنی بستر کے یہ ہیں کہ دم وغیرہ کو کاٹ دینا.(۱) آبتر اس کو کہتے ہیں جس کی دم کائی گئی ہو (۲) سانپوں کی اقسام میں سے ایک قسم کے سانپوں کا نام ابتر ہے.اس قسم

Page 417

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۰ سورة الكوثر کے سانپ کو شیطان کہتے ہیں اگر حاملہ عورت اس کو دیکھے تو اس کا حمل ساقط ہو جاتا ہے.(۳) اور حدیث میں ہے کہ ہر ایک امر شاندار جس کو حمد الہی سے شروع نہ کیا جاوے وہ ابتر ہے(۴) اور آبتر اس کو بھی کہتے کہ جو عقب نہ رکھتا ہو یعنی اس کا کوئی بیٹا نہ ہو یا بیٹے کا بیٹا نہ ہو.لسان العرب میں لکھا گیا ہے کہ عقب ولد کو بھی کہتے ہیں اور ولد الولد کو بھی کہتے ہیں.پس ان معنوں کی رو سے جس کا بیٹا نہیں وہ بھی ابتر ہے اور جس کے بیٹے کے آگے بیٹا نہیں وہ بھی ابتر ہے.مگر جس کے کئی بیٹوں میں کسی بیٹے کی نسل چل جائے اس کو آبتر نہیں کہہ سکتے.پس جو شخص مرجائے اور ایسا کوئی بچہ نہ چھوڑے اس کا نام بھی ابتر ہے اور اس کے موافق خدا تعالیٰ کے اس قول ابتر تفسیر کی گئی ہے کہ انا اعطينكَ الْكَوْثَرَ - یہ آیت عاص بن وائل کے حق میں نازل ہوئی تھی.وہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ بیٹھے ہوئے تھے.پس عاص بن وائل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ ابتر ہے یعنی اس کا کوئی لڑکا نہیں ہے اور نہ لڑکے کا لڑکا.تب خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلعم کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے محمد ! جو تیرا بد گو ہے وہی ابتر ہے یعنی مقدر یوں ہے کہ جس اولاد پر وہ ناز کرتا ہے آخر اس کی اولا دفنا ہو جائے گی.گو اس کی زندگی میں یا بعد اس کے.اور سلسلہ نسل ختم ہو جائے گا.یہ تو ظاہر ہے کہ عاص ابن وائل اولا در کھتا تھا کیونکہ اگر وہ ابتر یعنی بے اولاد ہوتا تو یہ غیر معقول بات تھی کہ باوجود آپ ابتر ہونے کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ابتر رکھتا.پس خدائے تعالی کی طرف سے یہ پیشگوئی تھی کہ انجام کا راس کی نسل قطع ہو جائے گی گو اس کی زندگی میں ہو یا بعد اس کے چنا نچہ ایسا ہی ہوا مگر معلوم ہوتا ہے کہ وہ اولا د چھوڑ کر مر گیا تھا لیکن بعد اس کے اس کی اولاد کا بھی خاتمہ ہو گیا.کیونکہ اگر اولاد اس کے رو برومرتی تو ضرور اس کا ذکر کیا جاتا اور باقی ترجمہ یہ ہے کہ اس جگہ ابتر کے یہ معنی بھی جائز ہیں کہ ابتر اس کو کہتے کہ کہ ہر ایک خیر سے محروم اور بے نصیب ہو.اور ابنِ عباس کی حدیث میں ہے کہ جب ابن اشرف مکہ میں آیا تو اس کو قریش نے کہا کہ تو سب مدینہ والوں سے بہتر اور ان کا سردار ہے.اس نے کہا کہ ہاں میں ایسا ہی ہوں.تب قریش نے کہا کہ کیا تو اس شخص کی طرف نہیں دیکھتا ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ) یہ ایک کمزور اور ضعیف اور گمنام شخص ہے نہ اس کا کوئی بیٹا اور نہ کوئی بھائی اور نہ کوئی دوستوں کی جماعت اس کے ساتھ ہے بلکہ ایک فرد واحد کیلی جان ہے اور قوم میں سے کاٹا ہوا ہے یعنی قوم نے باعث مخالفت مذہب اپنی جماعت میں سے اس کو خارج کر دیا ہے اور فتویٰ دے دیا ہے کہ کوئی اس کے ساتھ میل ملاپ نہ کرے اور نہ کوئی اس کی ہمدردی کرے اور باوجود اس بات کے کہ یہ شخص کچھ بھی عزت نہیں رکھتا اور

Page 418

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۱ سورة الكوثر اس کو کوئی جانتا نہیں کہ کون ہے پھر یہ گمان کرتا ہے کہ ہم سے بہتر ہے لیکن ہم ایک معزز جماعت ہیں تمام حج کرنے والے ہم میں سے ہیں اور ہم ان کے سردار ہیں اور خانہ کعبہ کے متولی اور خادم بھی ہم ہی ہیں اور حاجیوں کو پانی پلانے کا شرف بھی ہمیں ہی حاصل ہے مگر یہ شخص تو کسی شمار میں نہیں.جب یہ تمام باتیں ابن الاشرف نے سنیں تو اس بدبخت نے جواب دیا کہ در حقیقت تم اس شخص سے جو پیغمبری کا دعوی کرتا ہے بہتر ہو.تب خدا تعالیٰ نے اس کے حق میں اور قریش کی اس تمام جماعت کے حق میں جو آہستہ کہتی تھی فرمایا کہ انا اعطيتك الكوثر يعنى ابن الاشرف نے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آہتر کہا ہے اور قریش کے کفار نے بھی ابتر کہا یہ خود ابتر ہیں یعنی ان کی اولاد کا سلسلہ منقطع ہو جائے گا اور ہر ایک خیر و برکت سے محروم مریں گے.اس بات کو تو آج تک کوئی ثابت نہیں کر سکا کہ وہ تمام قریش کے لوگ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آبتر کہتے تھے ان کی زندگی میں ہی ان کے تمام لڑکے مر گئے تھے یا ان کی اولاد نہیں تھی کیونکہ اگر ان کی اولاد نہ ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرگز وہ لوگ آبتر نہ کہتے.یہ بات کوئی عظمند قبول نہیں کرسکتا کہ ایک شخص خود آبتر ہو کر دوسرے کو ابتر کہے.پس ماننا پڑتا ہے کہ ان کی اولاد موجود تھی.اور یہ دوسرا امر کہ پیشگوئی کے مطابق ان لوگوں کی اولاد ان کی زندگی میں ہی مرگئی تھی یہ امر بھی قرین قیاس نہیں اور عقل اس کو ہرگز باور نہیں کر سکتی کیونکہ ایسا کہنے والے نہ ایک نہ دو بلکہ صد ہا شریر النفس اور خبیث الطبع آدمی تھے جن کی اولاد کی ہزار ہا تک نوبت پہنچی تھی.پس اگر ان کی زندگی میں ہی ان کی تمام اولا د مر جاتی تو ملک میں ایک کہرام مچ جاتا کیونکہ معجزہ کے طور پر ہزار ہا بچوں کا مرجانا اور پھر لا ولد ہونے کی حالت میں ان کے باپوں کا مرنا یہ ایسا معجزہ نہیں تھا جو مخفی رہ سکتا اور ضرور تھا کہ احادیث اور تاریخوں کی کتابوں میں اس کا ذکر ہوتا.پس اس سے یقینی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اکثر ان کے اولاد چھوڑ کر مر گئے تھے اور بعد میں پیشگوئی کے مطابق آہستہ آہستہ ان کی نسل منقطع ہوگئی....بقیہ تر جمہ لسان العرب کا یہ ہے کہ ابتر مفلس کو بھی کہتے ہیں اور اس شخص کو بھی جو خسارہ میں ہو اور ان چیزوں کو آبتر کہتے ہیں جو مشکیزہ اور بوکا وغیرہ میں سے قبضہ نہ رکھتے ہوں.اس تمام تحقیق سے ظاہر ہے کہ اول تو ابتر کا لفظ بے فرزند ہونے کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر ایک بدنصیب اور نامراد جو نا کام اور زیاں کار ہے.اس کو بھی ابتر کہتے ہیں...علاوہ اس کے تحقیق متذکرہ بالا کی روسے ثابت ہو گیا کہ ابتر ہونے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ انسان ایسی حالت میں مرے جبکہ کوئی اس کی اولا د نہ ہو بلکہ اگر بعد میں بھی اس اولاد کا سلسلہ منقطع ہو جائے اور پوتے سے آگے نہ چلے تب بھی وہ آبتر کہلاتا

Page 419

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۲ سورة الكوثر ہے جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ قریش کے صدہا خبیث طبع لوگوں نے آنحضرت صلعم کا نام آبتر رکھا تھا اور وہ لوگ صاحب اولاد تھے اور اسلامی تاریخ میں ثابت نہیں کیا گیا کہ ان کی حیات میں ہی ان کے بیٹے اور پوتے ہلاک ہو گئے تھے بلکہ بعد میں آہستہ آہستہ ان کا قطع نسل ہو گیا تھا.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۳۸ تا ۴۴۲) یہ کمبخت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جسمانی اور روحانی طور پر ہر دو طرح ابتر قرار دیتے ہیں حالانکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّا اَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ - یہاں کوثر کا قرینہ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ ہے.نحر اولاد کے لئے بھی ہوتا ہے کہ جب عقیقہ ہوتا ہے تو قربانیاں دیتے ہیں.پس اگر نبی کریم کی اولاد نہ روحانی ہوئی نہ جسمانی تو نحس (البدر جلد نمبر۷ مورخہ ۱۲ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۵۰) کے لئے آیا.

Page 420

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۳۹۳ سورة الكافرون بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الكافرون بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قُلْ يَايُّهَا الكَفِرُونَ لاَ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ ) وَ لَا اَنْتُم عبدُونَ مَا اعْبُدُ وَلَا أَنَا عَابِدُ مَا عَبَد تُم ل وَلاَ أَنْتُمْ عِيدُونَ مَا أَعْبُدُهُ لَكُمْ دِينَكُمْ ولى دِينِ کہ اے کا فرو.میں اس چیز کی پرستش نہیں کرتا جس کی تم کرتے ہو.( براتب احمد یہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۰۷ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳) استخارہ اہل اسلام میں بجائے مہورت کے ہے.چونکہ ہندو شرک وغیرہ کے مرتکب ہو کر شگن وغیرہ کرتے ہیں اس لئے اہل اسلام نے ان کو منع کر کے استخارہ رکھا.اس کا طریق یہ ہے کہ انسان دور کعت نماز نفل پڑھے اول رکعت میں سورۃ قُلْ يَايُّهَا الكَفِرُونَ پڑھ لے اور دوسری میں قُلْ هُوَ اللهُ - التحیات میں یہ دعا کرے.وو یا الہی میں تیرے علم کے ذریعے سے خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت سے قدرت مانگتا ہوں کیونکہ تجھی کو سب قدرت ہے مجھے کوئی قدرت نہیں اور تجھے سب علم ہے مجھے کوئی علم نہیں اور تو ہی چھپی باتوں کو جاننے والا ہے.الہی اگر تو جانتا ہے یہ امر میرے حق میں بہتر ہے بلحاظ دین اور دنیا کے تو تو اسے میرے لئے

Page 421

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۴ سورة الكافرون مقدر کر دے اور اسے آسان کر دے اور اس میں برکت دے اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ امر میرے لئے دین 6 اور دنیا میں شر ہے تو مجھ کو اس سے باز رکھ.“ اگر وہ امر اس کے لئے بہتر ہوگا تو خدا تعالیٰ اس کے لئے اس کے دل کو کھول دے گا ورنہ طبیعت میں قبض (البدر جلد اول نمبر ۱۰ مورخه ۲ جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۷۸) ہو جائے گا.

Page 422

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۳۹۵ سورة النصر بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة النصر بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ إذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَ الْفَتْحُ وَ رَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًان فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبَّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَابَّان حضرت مسیح کی نسبت یہ گمان کرنا کہ انہوں نے روحانی مردوں کے زندہ کرنے میں قیامت کا نمونہ دکھلایا سراسر خیال محال اور دعویٰ بے دلیل ہے بلکہ یہ قیامت کا نمونہ روحانی حیات کے بخشنے میں اس ذات کامل الصفات نے دکھلایا جس کا نام نامی محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم سارا قرآن اول سے آخر تک یہ شہادت دے رہا ہے کہ یہ رسول اس وقت بھیجا گیا تھا کہ جب تمام قومیں دنیا کی روح میں مر چکی تھیں اور فساد روحانی نے بر و بحر کو ہلاک کر دیا تھا تب اس رسول نے آ کر نئے سرے سے دنیا کو زندہ کیا اور زمین پر توحید کا دریا جاری کردیا اگر کوئی منصف فکر کرے کہ جزیرہ عرب کے لوگ اول کیا تھے اور پھر اس رسول کی پیروی کے بعد کیا ہو گئے اور کیسی ان کی وحشیانہ حالت اعلیٰ درجہ کی انسانیت تک پہنچ گئی اور کس صدق وصفا سے انہوں نے ہو.اپنے ایمان کو اپنے خونوں کے بہانے سے اور اپنی جانوں کے فدا کرنے اور اپنے عزیزوں کو چھوڑنے اور اپنے مالوں اور عزتوں اور آراموں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں لگانے سے ثابت کر دکھلا یا تو بلاشبہ ان کی ثابت قدمی اور ان کا صدق اپنے پیارے رسول کی راہ میں ان کی جانفشانی ایک اعلیٰ درجہ کی کرامت کے رنگ میں اس کو نظر آئے گی وہ پاک نظر ان کے وجودوں پر کچھ ایسا کام کر گئی کہ وہ اپنے آپ سے کھوئے گئے اور انہوں

Page 423

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۶ سورة النصر نے فنافی اللہ ہو کر صدق اور راست بازی کے وہ کام دکھلائے جس کی نظیر کسی قوم میں ملنا مشکل ہے اور جو کچھ انہوں نے عقائد کے طور پر حاصل کیا تھا وہ یہ تعلیم یہ تھی کہ کسی عاجز انسان کو خدا مانا جائے یا خدا تعالیٰ کو بچوں کا محتاج ٹھہرایا جائے بلکہ انہوں نے حقیقی خدائے ذوالجلال جو ہمیشہ سے غیر متبدل اور جی قیوم اور ابن اور اب ہونے کی حاجات سے منزہ اور موت اور پیدائش سے پاک ہے بذریعہ اپنے رسول کریم کے شناخت کر لیا تھا اور وہ لوگ سچ مچ موت کے گڑھے سے نکل کر پاک حیات کے بلند مینار پر کھڑے ہو گئے تھے اور ہر یک نے ایک تازہ زندگی پالی تھی اور اپنے ایمانوں میں ستاروں کی طرح چمک اٹھے تھے سو در حقیقت ایک ہی کامل انسان دنیا میں آیا جس نے ایسے اتم اور اکمل طور پر یہ روحانی قیامت دکھلائی اور ایک زمانہ دراز کے مردوں اور ہزاروں برسوں کے عظیم رمیم کو زندہ کر دکھلایا اس کے آنے سے قبریں کھل گئیں اور بوسیدہ ہڈیوں میں جان پڑ گئی اور اس نے ثابت کر دکھلایا کہ وہی حاشر اور وہی روحانی قیامت ہے جس کے قدموں پر ایک عالم قبروں میں سے نکل آیا اور بشارت وَ رَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا تمام جزیرہ عرب پر اثر انداز ہوگئی اور پھر اس قیامت کا نمونہ صحابہ تک ہی محدود نہ رہا بلکہ اس خداوند قادر قدیر نے جس نے ہر قوم اور ہر زمانہ اور ہر ملک کے لئے اس بشیر و نذیر کو مبعوث کیا تھا ہمیشہ کے لئے جاودانی برکتیں اُس کے سچے تابعداروں میں رکھ دیں اور وعدہ کیا کہ وہ نور اور وہ روح القدس جو اس کامل انسان کے صحابہ کو دیا گیا تھا آنے والے متبعین اور صادق الاخلاص لوگوں کو بھی ملے گا.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۰۴ تا ۲۰۸) جبکہ آنے والی مدد اور فتح آگئی جس کا وعدہ دیا گیا تھا اور تو نے دیکھ لیا کہ لوگ فوج در فوج دین اسلام میں داخل ہوتے جاتے ہیں.پس خدا کی حمد اور تسبیح کر یعنی یہ کہہ کہ یہ جو ہوا وہ مجھ سے نہیں بلکہ اس کے فضل اور کرم اور تائید سے ہے اور الوداعی استغفار کر کیونکہ وہ رحمت کے ساتھ بہت ہی رجوع کرنے والا ہے.استغفار کی تعلیم جونبیوں کو دی جاتی ہے اس کو عام لوگوں کے گناہ میں داخل کرنا عین حماقت ہے.بلکہ دوسرے لفظوں میں یہ لفظ اپنی نیستی اور تذلل اور کمزوری کا اقرار اور مدد طلب کرنے کا متواضعانہ طریق ہے چونکہ اس سورۃ میں فرمایا گیا ہے کہ جس کام کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے وہ پورا ہو گیا یعنی یہ کہ ہزار ہا لوگوں نے دین اسلام قبول کر لیا.اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی طرف بھی اشارہ ہے.چنانچہ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک برس کے اندر فوت ہو گئے پس ضرور تھا کہ

Page 424

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۷ سورة النصر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کے نزول سے جیسا کہ خوش ہوئے تھے غمگین بھی ہوں کیونکہ باغ تو لگایا گیا مگر ہمیشہ کی آب پاشی کا کیا انتظام ہوا سو خدا تعالیٰ نے اس غم کے دور کرنے کے لئے استغفار کا حکم دیا.کیونکہ لغت میں ایسے ڈھانکنے کو کہتے ہیں جس سے انسان آفات سے محفوظ رہے.اسی وجہ سے مغفر جوخود کے معنی رکھتا ہے اسی میں سے نکالا گیا ہے اور مغفرت مانگنے سے یہ مطلب ہوتا ہے کہ جس بلا کا خوف ہے یا جس گناہ کا اندیشہ ہے خدا تعالیٰ اس بلا یا اس گناہ کو ظاہر ہونے سے روک دے اور ڈھانکے رکھے سواس استغفار کے ضمن میں یہ وعدہ دیا گیا کہ اس دین کے لئے غم مت کھا.خدا تعالیٰ اس کو ضائع نہیں کرے گا اور ہمیشہ رحمت کے ساتھ اس کی طرف رجوع کرتا رہے گا اور ان بلاؤں کو روک دے گا جو کسی ضعف کے وقت عائد حال ہو سکتی ہیں.اکثر نادان عیسائی مغفرت کی سچی حقیقت نہ دریافت کرنے کی وجہ سے یہ خیال کر لیتے ہیں کہ جو شخص مغفرت مانگے وہ فاسق اور گنہ گار ہوتا ہے مگر مغفرت کے لفظ پر خوب غور کرنے کے بعد صاف طور پر سمجھ آ جاتا ہے کہ فاسق اور بدکار وہی ہے جو خدا تعالیٰ سے مغفرت نہیں مانگتا.کیونکہ جبکہ ہر ایک سچی پاکیزگی اسی کی طرف سے ملتی ہے اور وہی نفسانی جذبات کے طوفان سے محفوظ اور معصوم رکھتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کے راستباز بندوں کا ہر ایک طرفۃ العین میں یہی کام ہونا چاہیے کہ وہ اس حافظ اور عاصم حقیقی سے مغفرت مانگا کریں.اگر ہم جسمانی عالم میں مغفرت کا کوئی نمونہ تلاش کریں.تو ہمیں اس سے بڑھ کر اور کوئی مثال نہیں مل سکتی کہ مغفرت اس مضبوط اور نا قابل بند کی طرح ہے جو ایک طوفان اور سیلاب کے روکنے کے لئے بنایا جاتا ہے پس چونکہ تمام زور تمام طاقتیں خدا تعالیٰ کے لئے مسلّم ہیں اور انسان جیسا کہ جسم کے رو سے کمزور ہے روح کے رو سے بھی ناتوان ہے اور اپنے شجرہ پیدائش کے لئے ہر یک وقت اس لازوال ہستی سے آب پاشی چاہتا ہے جس کے فیض کے بغیر یہ جی ہی نہیں سکتا اس لئے استغفار مذکورہ معافی کے رو سے اس کے لازم حال پڑا ہے اور جیسا کہ چاروں طرف درخت اپنی ٹہنیاں چھوڑتا ہے گویا اردگرد کے چشمہ کی طرف اپنے ہاتھوں کو پھیلاتا ہے کہ اے چشمہ میری مدد کر اور میری سرسبزی میں کمی نہ ہونے دے اور میرے پھلوں کا وقت ضائع ہونے سے بچا یہی حال راستبازوں کا ہے.روحانی سرسبزی کے محفوظ اور سلامت رہنے کے لئے یا اس سرسبزی کی ترقیات کی غرض سے حقیقی زندگی کے چشمہ سے سلامتی کا پانی مانگنا بھی وہ امر ہے جس کو قرآن کریم دوسرے لفظوں میں استغفار کے نام سے موسوم کرتا ہے قرآن شریف کو سوچو اور غور سے پڑھو استغفار کی اعلیٰ

Page 425

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۸ سورة النصر حقیقت پاؤ گے اور ہم ابھی بیان کر چکے ہیں کہ مغفرت لغت کی رو سے ایسے ڈھانکنے کو کہتے ہیں جس سے کسی آفت سے بچنا مقصود ہے.مثلاً پانی درختوں کے حق میں ایک مغفرت کرنے والا عنصر ہے یعنی ان کے عیبوں کو ڈھانکتا ہے.یہ بات سوچ لو کہ اگر کسی باغ کو برس دو برس بالکل پانی نہ ملے تو اس کی کیا شکل نکل آئے گی کیا یہ سچ نہیں کہ اس کی خوبصورتی بالکل دور ہو جائے گی اور سرسبزی اور خوشنمائی کا نام ونشان نہیں رہے گا اور وہ وقت پر کبھی پھل نہیں لائے گا اور اندر ہی اندر جل جائے گا.اور پھول بھی نہیں آئیں گے بلکہ اس کے سبز سبز اور نرم نرم لہلہاتے ہوئے پتے چند روز ہی میں خشک ہو کر گر جائیں گے اور خشکی غالب ہو کر مجذوم کی طرح آہستہ آہستہ اس کے تمام اعضاء گرنے شروع ہو جائیں گے یہ تمام بلائیں کیوں اس پر نازل ہوں گی ؟ اس وجہ سے کہ وہ پانی جو اس کی زندگی کا مدار تھا اس نے اس کو سیراب نہیں کیا اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ جل شانہ فرماتا ہے كَلِمَةً طَيْبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ ( ابراهيم : ۲۵) یعنی پاک کلمہ پاک درخت کی مانند : ہے پس جیسا کہ کوئی عمدہ اور شریف درخت بغیر پانی کے نشو ونما نہیں کر سکتا.اسی طرح راستباز انسان کے کلمات طیبہ جو اس کے منہ سے نکلتے ہیں اپنی پوری سرسبزی دکھلا نہیں سکتے اور نہ نشو ونما کر سکتے ہیں جب تک وہ پاک چشمہ ان کی جڑوں کو استغفار کے نالے میں بہہ کر تر نہ کرے سوانسان کی روحانی زندگی استغفار سے ہے جس کے نالے میں ہو کر حقیقی چشمہ انسانیت کی جڑوں تک پہنچتا ہے اور خشک ہونے اور مرنے سے بچا لیتا ہے.جس مذہب میں اس فلسفہ کا ذکر نہیں وہ مذہب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہر گز نہیں.اور جس شخص نے نبی یا رسول یا راستباز یا پاک فطرت کہلا کر اس چشمہ سے منہ پھیرا ہے.وہ ہرگز خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور ایسا آدمی خدا تعالیٰ سے نہیں بلکہ شیطان سے نکلا ہے کیونکہ شیط مرنے کو کہتے ہیں پس جس نے اپنے روحانی باغ کو سر سبز کرنے کے لئے اس حقیقی چشمہ کو اپنی طرف کھینچنا نہیں چاہا اور استغفار کے نالے کو اس چشمہ سے لبالب نہیں کیا وہ شیطان ہے یعنی مرنے والا ہے کیونکہ ممکن نہیں کہ کوئی سرسبز درخت بغیر پانی کے زندہ رہ سکے.ہر یک متکبر جو اس زندگی کے چشمہ سے اپنے روحانی درخت کو سرسبز کرنا نہیں چاہتا وہ شیطان ہے اور شیطان کی طرح ہلاک ہو گا.کوئی راستباز نبی دنیا میں نہیں آیا جس نے استغفار کی حقیقت سے منہ پھیرا اور اس حقیقی چشمہ سے سرسبز ہونا نہ چاہا.ہاں سب سے زیادہ اس سرسبزی کو ہمارے سید و مولی ختم المرسلین فخر الاولین والآخرین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے مانگا اس لئے خدا نے اس کو اس کے تمام ہم منصبوں سے نور القرآن نمبر ا ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۵۵ تا ۳۵۸) زیادہ سر سبز اور معطر کیا.

Page 426

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۹ سورة النصر اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں نہایت درجہ کا یہ جوش تھا کہ میں اپنی زندگی میں اسلام کا زمین پر پھیلنا دیکھ لوں اور یہ بات بہت ہی نا گوار تھی کہ حق کو زمین پر قائم کرنے سے پہلے سفر آخرت پیش آوے سو خدا تعالیٰ اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشخبری دیتا ہے کہ دیکھ میں نے تیری مراد پوری کر دی اور کم و بیش اس مراد کا ہر ایک نبی کو خیال تھا مگر چونکہ اس درجہ کا جوش نہیں تھا اس لئے نہ مسیح کو اور نہ موسیٰ کو یہ خوشخبری ملی بلکہ اسی کو ملی جس کے حق میں قرآن میں فرمایا لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنينَ (الشعراء : ۴) یعنی کیا تو اس غم سے ہلاک ہو جاوے گا کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے.نور القرآن نمبر او روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۵۵،۳۵۴ حاشیه ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم در حقیقت ایسے وقت میں آئے تھے جس وقت میں ایک بچے اور کامل نبی کو آنا چاہیئے.پھر جب ہم دوسرا پہلو دیکھتے ہیں کہ آنجناب صلعم کس وقت واپس بلائے گئے تو قرآن صاف اور صریح طور پر ہمیں خبر دیتا ہے کہ ایسے وقت میں بلانے کا حکم ہوا کہ جب اپنا کام پورا کر چکے تھے یعنی اس وقت کے بعد بلائے گئے جبکہ یہ آیت نازل ہو چکی کہ مسلمانوں کے لئے تعلیم کا مجموعہ کامل ہو گیا اور جو کچھ ضروریات دین میں نازل ہونا تھا وہ سب نازل ہو چکا اور نہ صرف یہی بلکہ یہ بھی خبر دی گئی کہ خدا تعالیٰ کی تائید میں بھی کمال کو پہنچ گئیں اور جوق در جوق لوگ دین اسلام میں داخل ہو گئے.اور یہ آیتیں بھی نازل ہوگئیں کہ خدا تعالیٰ نے ایمان اور تقویٰ کو ان کے دلوں میں لکھ دیا اور فسق اور فجور سے انہیں بیزار کر دیا اور پاک اور نیک اخلاق سے وہ متصف ہو گئے اور ایک بھاری تبدیلی ان کے اخلاق اور چلن اور روح میں واقع ہو گئی تب ان تمام باتوں کے بعد سورۃ النصر نازل ہوئی جس کا ماحصل یہی ہے کہ نبوت کے تمام اغراض پورے ہو گئے اور اسلام دلوں پر فتح یاب ہو گیا.تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عام طور پر اعلان دے دیا کہ یہ سورت میری وفات کی طرف اشارہ کرتی ہے بلکہ اس کے بعد حج کیا اور اس کا نام حجتہ الوداع رکھا اور ہزار ہا لوگوں کی حاضری میں ایک اونٹنی پر سوار ہو کر ایک لمبی تقریر کی اور کہا کہ سنو ! اے خدا کے بندو! مجھے میرے رب کی طرف سے یہ حکم ملے تھے کہ تا میں یہ سب احکام تمہیں پہنچا دوں پس کیا تم گواہی دے سکتے ہو کہ یہ سب باتیں میں نے تمہیں پہنچا دیں.تب ساری قوم نے بآواز بلند تصدیق کی کہ ہم تک یہ سب پیغام پہنچائے گئے تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ آسمان کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اے خدا ان باتوں کا گواہ رہ اور پھر فرمایا کہ یہ تمام تبلیغ اس لئے مقرر کی گئی کہ شاید آئندہ سال میں تمہارے ساتھ نہیں ہوں

Page 427

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۰ سورة النصر گا.اور پھر دوسری مرتبہ تم مجھے اس جگہ نہیں پاؤ گے.تب مدینہ میں جا کر دوسرے سال میں فوت ہو گئے اللهم صل علیه و بارک وسلم - ( نور القرآن نمبر ا، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۶۱ تا ۳۶۷) یہ سورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب زمانہ وفات میں نازل ہوئی تھی اور اس میں اللہ تعالیٰ زور دے کر اپنی نصرت اور تائید اور تکمیل مقاصد دین کی خبر دیتا ہے کہ اب تو اے نبی خدا کی تسبیح کر اور تمجید کر اور خدا سے مغفرت چاہ.وہ تو اب ہے.اس موقع پر مغفرت کا ذکر کرنا یہ اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ اب کام تبلیغ ختم ہو گیا.خدا سے دعا کر کہ اگر خدمت تبلیغ کے دقائق میں کوئی فروگذاشت ہوئی ہو تو خدا اس کو بخش دے.موسیٰ بھی تو ریت میں اپنے قصوروں کو یاد کر کے روتا ہے اور جس کو عیسائیوں نے خدا بنا رکھا ہے کسی نے اس کو کہا کہ اے نیک استادی تو اس نے جواب دیا کہ تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے نیک کوئی نہیں مگر خدا.یہی تمام اولیاء کا شعار رہا ہے.سب نے استغفار کو اپنا شعار قرار دیا ہے.بجز شیطان کے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۷۱) اس میں اس امر کی طرف صریح اشارہ ہے کہ آپ اس وقت دنیا میں آئے جب دین اللہ کو کوئی جانتا بھی نہ تھا اور عالمگیر تاریکی پھیلی ہوئی تھی اور گئے اس وقت کہ جبکہ اس نظارہ کو دیکھ لیا کہ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ افواجا جب تک اس کو پورا نہ کر لیا نہ تھکے نہ ماندہ ہوئے.مخالفوں کی مخالفتیں ، اعداء کی سازشیں اور منصوبے، قتل کرنے کے مشورے، قوم کی تکلیفیں آپ کے حوصلہ اور ہمت کے سامنے سب پیچ اور بیکار تھیں اور کوئی ایسی چیز نہ تھی جو اپنے کام سے ایک لمحہ کے لئے بھی روک سکتی.اللہ تعالی نے آپ کو اس وقت تک زندہ رکھا جب تک کہ آپ نے وہ کام نہ کر لیا جس کے واسطے آئے.یہ بھی ایک سر ہے کہ خدا کی طرف سے آنے والے جھوٹوں کی طرح نہیں آتے.الحکم جلد ۵ نمبر ۲ مورخه ۷ ارجنوری ۱۹۰۱ صفحه ۳) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہ فتح عظیم جس کا آپ کے ساتھ وعدہ تھا حاصل کر چکے تھے.رایت النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا دیکھ چکے تھے.(احکام جلد ۵ نمبر ۱۴ مورخہ ۷ اسرا پریل ۱۹۰۱ صفحہ ۷ ) نبی بہت بڑی ذمہ داریاں لے کر آتا ہے اس لئے جب وہ اپنے کام کو کر چکتا ہے اور تبلیغ کر کے رخصت ہونے کو ہوتا ہے تو وہ وقت اس کا گویا خدا تعالیٰ کو چارج دینے کا ہوتا ہے.ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ جس پر اپنا فضل کرتا ہے اس پر استغفار کا لفظ بولتا ہے اس طریق کے موافق رسول اللہ کو بھی ارشاد الہی اسی طرح ہوتا ب فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّكَ كَانَ تَوَا با خدا تعالیٰ ہر ایک نقص سے پاک ہے اس کی تسبیح کر اور جو

Page 428

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۱ سورة النصر کچھ سہو بشریت کی رو سے اس ذمہ داری کے کام میں ہوا ہے تو اس سے استغفار چاہو جس کے سپر د ہزاروں کام ہوں اس کے لئے ضروری ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو مقاصد عظیم الشان لے کر آئے تھے.غرض یہ ایک چارج تھا جو آپ نے اللہ تعالیٰ کو دیا اور جس میں آپ کی پوری کامیابی کی طرف پہلے اشارہ کر دیا.اور یہ سورۃ گویا آنحضرت کی وفات کا ایک پروانہ تھا.یہ بھی یادرکھو کہ انبیاء کی زندگی اسی وقت تک ہوتی ہے جب تک مصائب کا زمانہ رہے اس کے بعد جب فتح و نصرت کا وقت آتا ہے تو وہ گو یا ان کی وفات کا پروانہ ہوتا ہے کیونکہ وہ اس کام کو کر چکے ہوتے ہیں جس کے لئے بھیجے جاتے ہیں اور اصل تو یہ ہے کہ کام تو اللہ کے فضل سے ہوتے ہیں مفت میں ثواب لینا ہوتا ہے.جو شخص اس میں بھی خود غرضی ،شستی ، ریا کی آمیزش کرے وہ اصل ثواب سے محروم رہ جاتا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۶ مورد ۱۰ را کتوبر ۱۹۰۲ ، صفحه ۱۶) مخالف مامور کی عمر کو بڑھاتے ہیں اور وہ گو یا سلسلہ نبوت کی رونق کا باعث ہوتے ہیں ان کی مخالفت سے تحریک پیدا ہوتی اور خدا تعالیٰ کی غیرت جوش میں آتی ہے.جب مخالفت اُٹھ جاتی ہے تو گویا مامور بھی اپنا کام کر چکتا ہے اور وہ فتحیاب ہو کر اُٹھایا جاتا ہے.دیکھو جب تک کفار مکہ کی مخالفت کا زور شور رہا اس وقت تک بڑے بڑے اعجاز ظاہر ہوئے لیکن جب إذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَ الْفَتْحُ کا وقت آیا اور یہ سورۃ اتری تو گویا آپ کے انتقال کا وقت قریب آگیا.فتح مکہ کیا تھی آپ کے انتقال کا ایک مقدمہ تھی.غرض ان مخالفانہ تحریکوں سے بڑے بڑے فائدے ہوتے ہیں اور ہماری جماعت ان مخالفوں ہی میں سے نکل کر آئی ہے اور اگر یہ مخالفت نہ ہوتی تو اس زور شور سے تحریک اور تبلیغ نہ ہوتی.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۴ مورخه ۱۰ دسمبر ۱۹۰۲ صفحه ۷) دیکھو اللہ تعالیٰ نے بعض کا نام سابق مہاجر اور انصار رکھا ہے اور ان کو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ میں داخل کیا ہے یہ وہ لوگ تھے جو سب سے پہلے ایمان لائے اور جو بعد میں ایمان لائے ان کا نام صرف ناس رکھا ہے جیسا فرما یا اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ - وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا.یہ لوگ جو اسلام میں داخل ہوئے اگر چہ وہ مسلمان تھے مگر ان کو مراتب نہیں ملے جو پہلے لوگوں کو دیئے گئے اور پھر مہاجرین کی عزت سب سے زیادہ تھی کیونکہ وہ لوگ اس وقت ایمان لائے جب ان کو کچھ معلوم نہ تھا کہ کامیابی ہوگی یا نہیں بلکہ ہر طرف سے مصائب اور مشکلات کا ایک طوفان آیا ہوا تھا اور کفر کا ایک دریا بہتا تھا خاص مکہ میں مخالفت کی آگ بھڑک رہی تھی اور مسلمان ہونے والوں کو سخت اذیتیں اور تکلیفیں دی جاتی تھیں

Page 429

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۲ سورة النصر مگر انہوں نے ایسے وقت میں قبول کیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی بڑی بڑی تعریفیں کیں اور بڑے بڑے انعامات اور فضلوں کا وارث ان کو بنایا پس ہر ایک کو یاد رکھنا چاہیے کہ جو اس بات کا انتظار کرتا ہے کہ فلاں وقت آئے گا اور انکشاف ہوگا.تو مان لیں گے وہ کسی ثواب کی امید نہ رکھے.ایسا تو ضرور ہوگا کہ اللہ تعالیٰ سب حجاب دور کر دے گا اور اس معاملہ کو آفتاب کی طرح کھول کر دکھا دے گا مگر اس وقت ماننے والوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا.پیغمبروں کو ماننے والوں میں ثواب اولوں کو سب سے بڑھ کر ملا ہے اور انکشاف کا زمانہ تو ضرور آتا ہے لیکن آخر ان کا نام ناس ہی ہوتا ہے.الحکم جلدے نمبر ۲۶ مورخہ ۱۷ار جولائی ۱۹۰۳، صفحہ ۳،۲) قاعدہ کی بات ہے کہ محبت اور ایمان کے لئے اسباب ہوتے ہیں.مسیح کی زندگی پر نظر کرو تو معلوم ہو گا کہ ساری عمر دھکے کھاتے رہے.صلیب پر چڑھنا بھی مشتبہ رہا.ادھر ایک لمبا سلسلہ عمر اور سوانح کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دیکھو کہ کیسے نصرت الہی شامل رہی.ہر ایک میدان میں آپ کو فتح ہوئی.کوئی گھڑی یاس کی آپ پر گزری ہی نہیں یہاں تک کہ اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ کا وقت آگیا.ان تمام نصرتوں میں کوئی حصہ بھی حضرت مسیح کا نظر نہیں آتا اس سے صاف ثابت ہے کہ محبت آنحضرت کی خدا سے زیادہ ہو نہ کہ مسیح کی کیونکہ آنحضرت پر اللہ تعالیٰ کے انعامات بکثرت ہیں اور اس لئے صرف آنحضرت کی یہ شان ہو سکتی ہے کہ وہ آسمان پر زندہ ہوں.جو شخص نظارۂ قدرت زیادہ دیکھتا ہے وہی زیادہ فریفتہ ہوا البدر جلد ۲ نمبر ۱۹ مورخه ۲۹ رمئی ۱۹۰۳ صفحه ۱۴۶) کرتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دنیا میں آنا اور پھر وہاں سے رخصت ہونا قطعی دلیل آپ کی نبوت پر ہے.آئے آپ اس وقت جبکہ زمانہ ظهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم :۴۲) کا مصداق تھا اور ضرورت ایک نبی کی تھی.ضرورت پر آنا بھی ایک دلیل ہے اور آپ اس وقت دنیا سے رخصت ہوئے جب إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللہ کا آوازہ دیا گیا.اس میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ آپ کس قدر عظیم الشان کامیابی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو نے اپنی آنکھ سے دیکھ لیا کہ فوج در فوج لوگ داخل ہو رہے ہیں فَسَيحُ بِحَمْدِ رَبِّكَ یعنی وہ رب جس نے اس قدر کامیابی دکھلائی اس کی تسبیح و تحمید کر اور انبیاء پر جو انعامات پوشیدہ رہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کھول دیئے گئے اور رحمت کے تمام امور اجلی کر دیئے کوئی بھی مخفی نہ رکھا.اس حمد کا ثبوت اس آخری وقت پر آ کر دیا.احمد کے معنے بھی حمد کرنے والا.

Page 430

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۳ سورة النصر دنیا میں کوئی آدمی بھی ایسا نہیں آیا جو اتنی بڑی کامیابی اپنے ساتھ رکھتا ہو.لذت وسرور کی موت اگر ہوئی ہے تو فقط آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی ہوئی ہے اور دوسرے کسی نبی کو بھی میسر نہیں ہوئی.یہ خدا کا فضل ہے اس لئے آپ کی عصمت کا یہ ایک بڑا ثبوت ملتا ہے جیسے طبیب اسے کہتے ہیں جو علاج کر کے مریض کو اچھا کر کے دکھلا دیوے ویسے ہی لا إله إلا الله سے ہر ایک روحانی مرض کا علاج کر کے آپ نے دکھلایا اور اس لئے دوسری تمام نبوتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ ہی معلوم ہوتی ہیں.الحکم جلدے نمبر ۲۶ مورخہ ۷ ارجولائی ۱۹۰۳ صفحہ ۱۰) اسی حمد کا ثبوت اب اس آخری وقت میں آکر دیا ہے کہ ایک احمد آیا احمد کے معنے ہیں حمد کرنے والا.کوئی بھی ایسا آدمی نہیں ہے جو ثابت کرے کہ اس قدر کامیابی کسی اور کو ہوئی ہو.خوشی ، پوری مراد مندی اور لذت کی موت اگر حاصل ہوئی ہے تو صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی ہے اور کسی نبی کو ہر گز نہیں ہوئی یہ خدا کا فضل ہے.اس سے پتہ لگتا ہے کہ نفس ایسا پاک تھا کہ خدا کا اس قدر فضل ہوا اور آپ کی عصمت کا یہ ایک بڑا ثبوت ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۲۶ مورخہ ۱۷؍جولائی ۱۹۰۳ ء صفحه ۲۰۳) آنحضرت کی آمد اس وقت ہوئی کہ زمانہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم : ۴۲) کا مصداق تھا.اور گئے اس وقت جبکہ اِذا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَ الْفَتْحُ کی سند آپ کو مل گئی.پس اگر آپ کو کامیابی نہ ہوتی لیکن آپ کسی کے ہاتھ سے قتل بھی نہ ہوتے تو اس سے کیا فائدہ تھا؟ اور یہ کون سا مقام فخر کا ہے.ہاں جب ایک شخص سلطنت قائم کرتا ہے اور اپنے قائمقام مظفر ومنصور چھوڑتا ہے تو کیا پھر دشمن کی خوشی کا موجب ہوسکتا ہے ؟ بڑی سے بڑی ذلت یہ ہے کہ ناکامی اور نامرادی کی موت آوے.پس اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کامیابی کی حالت میں اگر قتل کئے جاتے تو اس سے آپ کی شان میں کیا حرف آ سکتا تھا؟ یہ بھی لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دی گئی تھی آپ کی موت میں اس زہر کا بھی دخل تھا.مگر ہم کہتے ہیں کہ جب آپ کی موت ایسی حالت میں ہوئی کہ کافر اس بات سے نا امید ہو گئے کہ ان کا دین پھر عود کرے گا تو ایسی حالت میں اگر آپ زہر یا قتل سے مرتے تو کون سی قابل اعتراض بات تھی ؟ دین تو تباہ نہیں ہوسکتا تھا.(البدر جلد ۲ نمبر ۳۳ مورخه ۴ ستمبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۵۸،۳۵۷) تم خود ہی سوچو اور مکہ کے اس انقلاب کو دیکھو کہ جہاں بت پرستی کا اس قدر چر چا تھا کہ ہر ایک گھر میں بت رکھا ہوا تھا.آپ کی زندگی ہی میں سارا مکہ مسلمان ہو گیا اور ان بتوں کے پجاریوں ہی نے ان کو توڑا اور

Page 431

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۴ سورة النصر ان کی مذمت کی.یہ حیرت انگیز کامیابی ، یہ عظیم الشان انقلاب کسی نبی کی زندگی میں نظر نہیں آتا جو ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے کر کے دکھایا.یہ کامیابی آپ کی اعلیٰ درجہ کی قوت قدی اور اللہ تعالیٰ سے شدید تعلقات کا نتیجہ تھا.ایک وقت وہ تھا کہ آپ مکہ کی گلیوں میں تنہا پھرا کرتے تھے اور کوئی آپ کی بات نہ سنتا تھا اور پھر ایک وقت وہ تھا کہ جب آپ کے انقطاع کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو یاد دلا یا إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ - وَ رَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ اَفَوَاجًا - آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ فوج در فوج لوگ اسلام میں داخل ہوتے ہیں.جب یہ آیت اتری تو آپ نے فرمایا کہ اس سے وفات کی بو آتی ہے کیونکہ وہ کام جو میں چاہتا تھا وہ تو ہو گیا ہے اور اصل قاعدہ یہی ہے کہ انبیاء علیہم السلام اسی وقت تک دنیا میں رہتے ہیں جب تک وہ کام جس کے لئے وہ بھیجے جاتے ہیں نہ ہولے.جب وہ کام ہو چکتا ہے تو ان کی رحلت کا زمانہ آجاتا ہے جیسے بندوبست والوں کا جب کام ختم ہو جاتا ہے تو وہ اس ضلع سے رخصت الحکم جلد ۸ نمبر ۵ مورخه ۱۰ فروری ۱۹۰۴ صفحه ۳) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ماننے والوں کا نام سابقین رکھا ہے لیکن جب بہت سے مسلمان فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے تو ان کا نام صرف ناس رکھا گیا جیسے فرما یا إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ - وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ اَفَوَاجًا.حقیقت یہی ہے کہ جب حق کھل جاتا ہے پھر انکار کی گنجائش نہیں رہتی جیسے جب دن چڑھا ہوا ہے تو پھر بجر بشیرک کے کون انکار کرے گا.ہو جاتے ہیں.(احکام جلد ۸ نمبر ۱۱ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۲) کھانسی جب شدت سے ہوتی ہے تو بعض وقت دم رکنے لگتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جان کندن کی سی حالت ہے.چنانچہ اس شدت کھانسی میں مجھے اللہ تعالیٰ کی غناء ذاتی کا خیال گزرا اور میں سمجھتا تھا کہ اب گویا موت کا وقت قریب ہے.اس وقت الہام ہوا.إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ - وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فی دِینِ اللهِ أَفْوَاجًا.اس کے یہ معنے سمجھائے گئے کہ ایسا خیال اس وقت غلط ہے بلکہ اس وقت جب إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ کا نظارہ دیکھ لو اس وقت تو کوچ ضروری ہو جاتا ہے.سب کے لئے یہی اصول ہے کہ جب وہ کام کہ جس کے لئے اس کو بھیجا جاتا ہے ختم ہو جاتا ہے تو پھر وہ رخصت ہوتا ہے.احکام جلد ۸ نمبر ۶ مورخہ ۷ ار فروری ۱۹۰۴ صفحه ۶) طاعون ہمارے لئے کام کر رہی ہے.اگر اس گروہ میں ایک شہید ہو جاتا ہے تو اس کے قائم مقام ہزار

Page 432

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النصر آتے ہیں.یہ نادانوں کا شبہ فضول ہے کہ کیوں مرتے ہیں.ہم کہتے ہیں.صحابہ جنگ میں کیوں شہید ہوتے تھے؟ کسی مولوی سے پوچھو کہ وہ جنگ عذاب تھی یا نہیں.ہر ایک کو کہنا پڑے گا کہ عذاب تھی.پھر ایسا اعتراض کیوں کرتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جا پڑتا ہے لیکن اگر کوئی کہے کہ پھر نشان مشتبہ ہو جاتا ہے ہم کہتے ہیں کہ نہیں نشان مشتبہ نہیں ہوتا.اس واسطے کہ انجام کار کفار کا ستیا ناس ہو گیا اور ان میں سے کوئی بھی باقی نہ رہا اور اسلام ہی اسلام نظر آتا تھا چنانچہ آخر اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ - وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا کا نظارہ نظر آ گیا اسی طرح پر طاعون کا حال ہے.اس وقت لوگوں کو تعجب معلوم ہوتا ہے اور وہ اعتراض کرتے ہیں لیکن ایک وقت آتا ہے جب طاعون اپنا کام کر کے چلی جائے گی اس وقت معلوم ہو گا کہ اس نے کس کو نفع پہنچایا اور کون خسارہ میں رہے گا.الحکم جلد ۸ نمبر ۱۸ مورخه ۳۱ مئی ۱۹۰۴ء صفحه ۳) چونکہ ان ( انبیاء ) کی معرفت بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جبروت کے مقام کو شناخت کرتے ہیں اس لئے نہایت انکسار اور عاجزی کا اظہار کرتے ہیں.نادان جن کو اس مقام کی خبر نہیں ہے وہ اس پر اعتراض کرتے ہیں حالانکہ یہ ان کی کمال معرفت کا نشان ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ - وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا - فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبَّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَاباً آیا ہے.اس میں صاف فرمایا ہے تو استغفار کر.اس سے کیا مراد ہے اس سے یہی مراد ہے کہ تبلیغ کا جو عظیم الشان کام تیرے سپرد تھا دقائق تبلیغ کا پورا پورا علم تو اللہ تعالیٰ ہی کو ہے اس لئے اگر اس میں کوئی کمی رہی ہو تو اللہ تعالی اسے معاف کر دے.یہ استغفار تو نبیوں اور راست بازوں کی جاں بخش اور عزیز چیز ہے.اب اس پر نادان اور کوتاہ اندیش عیسائی اعتراض کرتے ہیں.جہاں استغفار کا لفظ انہوں نے سن لیا جھٹ اعتراض کر دیا حالانکہ اپنے گھر میں دیکھیں تو مسیح کہتا ہے مجھے نیک مت کہہ.اس کی تاویل عیسائی یہ کرتے ہیں کہ مسیح کا منشاء یہ تھا کہ مجھے خدا کہے.یہ کیسے تعجب کی بات ہے.کیا مسیح کو ان کی والدہ مریم یا ان کے بھائی خدا کہتے تھے جو وہ یہی آرزو اس شخص سے رکھتے تھے کہ وہ بھی خدا کہے.انہوں نے یہ لفظ تو اپنے عزیزوں اور شاگردوں سے بھی نہیں سنا تھا.وہ بھی استاد استاد ہی کہا کرتے تھے پھر یہ آرزو اس غریب سے کیوں کر ان کو ہوئی.کیا وہ خوش ہوتے تھے کہ کوئی انہیں خدا کہے یہ بالکل غلط ہے ان کو نہ کسی نے خدا کہا اور نہ انہوں نے کہلوایا.الحکم جلد ۹ نمبر ۲۸ مورخه ۱۰ راگست ۱۹۰۵ صفحه ۲) نمب

Page 433

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۶ سورة النصر ہم کو وہ مشکلات پیش نہیں آئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش آئے باوجود اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے جب تک پورے کامیاب نہیں ہو گئے اور آپ نے اِذَا جَاءَ نَصْرُ الله وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا کا نظارہ دیکھ نہیں لیا.الحکم جلد ۹ نمبر ۳۳ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۵ء صفحه ۱۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کروڑ معجزوں سے بڑھ کر معجزہ تو یہ تھا کہ جس غرض کے لئے آئے تھے اسے پورا کر گئے.یہ ایسی بے نظیر کامیابی ہے کہ اس کی نظیر کسی دوسرے نبی میں کامل طور سے نہیں پائی جاتی.حضرت موسیٰ بھی رستے ہی میں مر گئے اور حضرت مسیح کی کامیابی تو ان کے حواریوں کے سلوک سے ہویدا ہے.ہاں آپ کو ہی یہ شان حاصل ہوئی کہ جب گئے تو رآیت النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا یعنی دین اللہ میں فوجوں کی فوجیں داخل ہوتے دیکھ کر.اخبار بدر جلد ۶ نمبر ۱۹ مورخه ۹ رمئی ۱۹۰۷ ء صفحه ۴) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مبعوث ہوئے تھے جب فسق و فجور ، شرک اور بت پرستی اپنے انتہاء کو پہنچ چکی تھی اور ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم : ۴۲) والا معاملہ ہورہا تھا اور گئے اس وقت تھے جب وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا والا نظارہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لیا تھا اور ایک ایسی بات ہے جس کی نظیر تمام دنیا میں نہیں پائی جاتی اور یہی تو کاملیت ہے کہ جس مقصود کے لئے آئے تھے اس کو پورا کر کے دکھا دیا.حضرت عیسی علیہ السلام تو صلیب کا ہی منہ دیکھتے پھرے اور یہودیوں سے رہائی نہ پا سکے مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غالب ہو کر وہ اخلاق دکھائے جن کی نظیر نہیں.الحکم جلد نمبر ۳۹ مورخه ۳۱ ۱۷ اکتوبر ۱۹۰۷ صفحه ۶) شیعہ لوگ جس راہ کو اختیار کئے ہوئے ہیں اس راہ سے تو نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سارا مذہب ہی برباد ہو جاتا ہے.دیکھو إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ افواجا.اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ دینِ الہبی یعنی اسلام میں بہت کثرت اور بہتات سے لوگ شامل ہوں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حسین حیات میں ہی ایسا ظہور میں آوے گا.بھلا ان لوگوں سے کوئی پوچھے کہ کیا دو چار آدمیوں کا نام ہی افواج ہے اور کیا یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی لمبی محنت اور جانگاہ کوششوں کا نتیجہ تھا.افسوس.دیکھو فوج ہی کچھ کم نہیں ہوتی یہاں تو اللہ تعالیٰ نے فوج کی بھی جمع کا لفظ بولا ہے اور افواجا کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں فوجوں کی فوجیں داخل اسلام

Page 434

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۷ سورة النصر ہو جاویں گی.ان لوگوں کے عقائد کے لحاظ سے تو قرآن شریف ہی کی تکذیب لازم آتی ہے.انہوں نے قرآن شریف کو تو محرف مبدل کا الزام دے کر چھوڑ دیا.رہے قرآن شریف کے پہنچانے والے جن کی نسبت الله تعالى نے رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ فرمایا اور ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تخت کا وارث بنایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلی ہوئی پیشگوئیوں کی تصدیق کرنے والے اور پورا کرنے والے بنایا.انہی کے ہاتھ سے بڑے بڑے قرآنی وعدے پورے کئے.قیصر وکسریٰ کے تخت اور خزانے انہی کے ذریعہ اسلام کا ورثہ بنائے.سو ان کو غدار، ظالم، منافق اور غاصب کا لقب دے کر چھوڑ دیا.ان کا تو وہ حال ہے کہ جس طرح ایک عورت کو جب اس کے دن حمل کے پورے ہو چکتے ہیں.تو دردزہ شروع ہوتی ہے جس کی تکلیف سے وہ اور اس کے عزیز و اقارب اور خویش روتے ہیں اور دردمند ہوتے ہیں کیونکہ وہ ایک نازک حالت ہوتی ہے.نتیجہ کی کسی کو خبر نہیں ہوتی.مگر جب اس کے ہاں لڑکا پیدا ہو جاوے اور وہ چلہ پورا کر کے غسل صحت بھی کرلے اور بچہ بھی اس کا صحیح سالم جیتا جاگتا ہو اس وقت لگے کوئی آدمی رو نے تو رونا کیا بے محل اور بے موقع ہوگا.سو یہی حال ہے ان کا.وقت گزر چکا.صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا میابی کے ساتھ تخت خلافت کو مقررہ وقت تک زیب دے کر اپنی اپنی خدمات بجالا کر بڑی کامیابی اور اللہ کی رضوان لے کر چل بسے اور جنات و عیون جو آخرت میں ان کے واسطے مقرر تھے اور وعدے تھے و وان کو عطا ہو گئے اب سیہ روتے ہیں اور چلاتے ہیں کہ وہ نعوذ باللہ ایسے تھے اور ایسے تھے.اقام جلد ۱۲ نمبر ۲۱ مورخه ۲۲ مارچ ۱۹۰۸ صفحه ۳)

Page 435

Page 436

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيطِنِ الرَّحِيمِ ۴۰۹ سورة اللهب بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة اللهب بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تبت يدا أبي لَهَبٍ وَ تَبَّ ابولہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہو گئے اور وہ بھی بلاک ہوا.براتین احمد یه چهار حص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۰۹ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) ابولہب کے ہاتھ ہلاک ہو گئے اور وہ بھی ہلاک ہو گیا.....ابولہب سے مراد وہ شخص ہے جس نے فتنہ کی آگ کو مسلمانوں میں بھٹڑ کا یا اور اہل اسلام کو کافر قرار دیا اور عیسائیوں کی تائید کی.پس چونکہ اس کا کام آگ بھر کا نا اور مسلمانوں کو دھوکا میں ڈالنا تھا اسی لئے اس کا نام ابولہب ہوا.کیونکہ لھب زبانہ آتش کو کہتے ہیں اور لسان عرب میں ایک چیز کے موجد کو اس کا باپ قرار دے دیتے ہیں.پس چونکہ فتنہ کی آتش کا زبانہ اس شخص سے پیدا ہوا ہے جس کا پیشگوئی میں ذکر ہے اس لئے وہ اس زبانہ آتش کا باپ ہوا اور ابولہب کہلایا اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس جگہ ابولہب سے مراد شیخ محمد حسین بٹالوی ہے واللہ اعلم.کیونکہ اس نے کوشش کی کہ فتنہ کو بھڑکا دے.ضیاء الحق ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۲۹۳، ۲۹۴) ہلاک ہو گئے دونوں ہاتھ ابی لہب کے (جبکہ اس نے یہ فتویٰ لکھا) اور وہ آپ بھی ہلاک ہو گیا......اس الہام میں سورۃ تبت کی پہلی آیت کا مصداق اس شخص کو ٹھہرایا ہے جس نے سب سے پہلے خدا کے مسیح موعود پر تکفیر اور توہین کے ساتھ حملہ کیا.اور یہ دلیل اس بات پر ہے کہ قرآن شریف نے بھی اسی سورت میں ابولہب

Page 437

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۰ سورة اللهب کے ذکر میں علاوہ دشمن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مسیح موعود کے دشمن کو بھی مرا دلیا ہے اور یہ تفسیر اس الہام کے ذریعہ سے کھلی ہے......اس لئے یہ تفسیر سراسر حقانی ہے اور تکلف اور تصنع سے پاک ہے......غرض آیت تبت يدا أبي لهب و تب جو قرآن شریف کے آخر سپارہ میں چار آخری سورتوں میں سے پہلی سورت ہے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے موذی دشمنوں پر دلالت کرتی ہے ایسا ہی بطور اشارۃ النص اسلام کے مسیح موعود کے ایزاد ہندہ دشمنوں پر اس کی دلالت ہے.........خلاصہ کلام یہ ہے کہ تبت يدا انی کهپ جو قرآن شریف کے آخر میں ہے آیت مغضوب علیہم کی ایک شرح ہے جو قرآن شریف کے اول میں ہے کیونکہ قرآن شریف کے بعض حصے بعض کی تشریح ہیں.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۱۵ تا ۲۱۷) سورۃ تبت کی پہلی آیت یعنی تبت یدا ابی لَهَبٍ و تب اس موذی کی طرف اشارہ کرتی ہے جو مظہر جمال احمدی یعنی احمد مہدی کا مُکفّر اور مکذب اور مہین ہوگا.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۱۴، ۲۱۵) دعاغَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ ہے جس سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسیح موعود کو دیکھ دیں گے اور اس دعا کے مقابل پر قرآن شریف کے اخیر میں سورۃ تبت يدآ أبِي لَهَبٍ ہے.گرا.(تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۱۸) ہلاک ہو گئے دونوں ہاتھ ابی لہب کے یعنی بیکار ہو گئے اور وہ بھی ہلاک ہو گیا یعنی ضلالت کے گڑھے میں ( نزول المسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۳۱) ماضی مضارع کے معنوں پر بھی آجاتی ہے بلکہ ایسے مقامات میں جب کہ آنے والا واقعہ متکلم کی نگاہ میں یقینی الوقوع ہو مضارع کو ماضی کے صیغہ پر لاتے ہیں تا اس امر کا یقینی الوقوع ہونا ظاہر ہو اور قرآن شریف میں اس کی بہت نظیریں ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے....تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَ.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۵۹) خدا تعالیٰ نے جابجا قرآن شریف میں عظیم الشان پیشگوئیوں کو ماضی کے لفظ سے بیان کیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تبت يدا أبي لَهَبٍ وتَب.(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۷۰) ابولہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہو گئے اور وہ آپ بھی ہلاک ہو گیا.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۵۸ حاشیه )

Page 438

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۱ سورة اللهب سورة تبت میں غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کے فتنہ کی طرف اشارہ ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۸ مورخه ۲۸ رفروری ۱۹۰۲ صفحه ۴) تبت يدا أبي لهب خواب میں پڑھنے کی تعبیر کے متعلق فرمایا ) کسی دشمن پر فتح ہوگی البدر جلد اول نمبر ۱۱ مورخه ۹ جنوری ۱۹۰۳ ء صفحه ۸۴) وَامَرَاتُه حَمَّالَةَ الْحَطَبِ.ابولہب قرآن کریم میں عام ہے نہ خاص.مراد وہ شخص ہے جس میں التہاب و اشتعال کا مادہ ہو.اس طرح حمالة الحطب - هیزم کش عورت سے مراد ہے جو سخن چین ہو، آگ لگانے والی.چغل خور عورت آدمیوں میں شرارت کو بڑھاتی ہے.سعدی کہتا ہے.سخن چین بدبخت هیزم کش است الحکم جلد ۲ نمبر ۲ مورخه ۶ / مارچ ۱۸۹۸ء صفحه ۲)

Page 439

Page 440

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطنِ الرَّجِيمِ و احد ) ۴۱۳ سورة الاخلاص بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الاخلاص بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وج قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدُنَ اللهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدُ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوا اس اقل عبارت کو جو بقدر ایک سطر بھی نہیں، دیکھنا چاہیے کہ کس لطافت اور عمدگی سے ہر یک قسم کی شراکت سے وجو دحضرت باری کا منزہ ہونا بیان فرمایا ہے.اس کی تفصیل یہ ہے کہ شرکت از روئے حصر عقلی چار قسم پر ہے.کبھی شرکت عدد میں ہوتی ہے اور کبھی مرتبہ میں اور کبھی نسب میں اور کبھی فعل اور تاثیر میں.سو اس سورہ میں ان چاروں قسموں کی شرکت سے خدا کا پاک ہونا بیان فرمایا اور کھول کر بتلا دیا کہ وہ اپنے عدد میں ایک ہے دو یا تین نہیں اور وہ صمد ہے یعنی اپنے مرتبہ وجوب اور محتاج الیہ ہونے میں منفرد اور یگانہ ہے اور بجز اس کے تمام چیزیں ممکن الوجود اور بالک الذات ہیں جو اس کی طرف ہر دم محتاج ہیں اور وہ لم یلد ہے یعنی اس کا کوئی بیٹا نہیں تا بوجہ بیٹا ہونے کے اس کا شریک ٹھہر جائے اور وہ لم یولد ہے یعنی اس کا کوئی باپ نہیں تا بوجہ باپ ہونے کے اس کا شریک بن جائے اور وہ لم یکن له کفوا ہے یعنی اس کے کاموں میں کوئی اس سے برابری کرنے والا نہیں تا باعتبار فعل کے اس کا شریک قرار پاوے.سو اس طور سے ظاہر فرما دیا کہ خدائے تعالیٰ چاروں قسم کی شرکت سے پاک اور منزہ ہے اور وحدہ لاشریک ہے.برائین احمد یہ چہار تحصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۱۸ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳)

Page 441

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۴ سورة الاخلاص قرآن کریم کی صاف تعلیم یہ ہے کہ وہ خداوند وحید و حمید جو بالذات تو حید کو چاہتا ہے اس نے اپنی مخلوق کو متشارک الصفات رکھا ہے اور بعض کو بعض کا مثیل اور شبیہ قرار دیا ہے تا کسی فرد خاص کی کوئی خصوصیت جو ذات وافعال و اقوال اور صفات کے متعلق ہے اس دھو کہ میں نہ ڈالے کہ وہ فرد خاص اپنے بنی نوع سے بڑھ کر ایک ایسی خاصیت اپنے اندر رکھتا ہے کہ کوئی دوسرا شخص نہ اصلا و نہ ظلا اس کا شریک نہیں اور خدا تعالیٰ کی طرح کسی اپنی صفت میں واحد لاشریک ہے چنانچہ قرآن کریم میں سورۃ اخلاص اسی بھید کو بیان کر رہی ہے کہ احد بیت ذات وصفات خدا تعالیٰ کا خاصہ ہے.دیکھو اللہ جل شانہ فرماتا ہے قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۵،۴۴) کہ خدا وہ عظیم الشان خدا ہے جو اس سے پاک ہے جو کسی عورت کے پیٹ سے نکلے اور جنایا جائے اور ہر یک چیز اس کی طرف محتاج ہے اور وہ کسی کی طرف محتاج نہیں اور اس کا کوئی قرایتی اور اور ہم جنس نہیں نہ باپ نہ ماں نہ بھائی نہ بہن اور نہ کوئی ہم مرتبہ اور پھر یہ کمال کیا ہے کہ لم یکن کا لفظ جس کے یہ معنی ہیں کہ خدا کسی کا بیٹا نہیں.کسی کا جنا یا ہوا نہیں.ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۶۳، ۲۶۴) وہ خدا اکیلا خدا ہے نہ وہ کسی کا بیٹا اور نہ کوئی اس کا بیٹا.اور نہ کوئی اس کے برابر اور نہ کوئی اس کا ہم جنس.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۷۶) حسن ایک ایسی چیز ہے جو بالطبع دل کی طرف کھینچا جاتا ہے اور اس کے مشاہدہ سے طبعاً محبت پیدا ہوتی ہے تو حسنِ باری تعالی اس کی وحدانیت اور اس کی عظمت اور بزرگی اور صفات ہیں جیسا کہ قرآن شریف نے یہ فرمایا ہے قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ - اللهُ الصَّمَدُ - لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ - وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا اَحَدٌ یعنی خدا اپنی ذات اور صفات اور جلال میں ایک ہے کوئی اس کا شریک نہیں سب اس کے حاجت مند ہیں.ذرہ ذرہ اس سے زندگی پاتا ہے.وہ کل چیزوں کے لئے مبداء فیض ہے اور آپ کسی سے فیض یاب نہیں.وہ نہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ کسی کا باپ.اور کیوں کر ہو کہ اس کا کوئی ہم ذات نہیں.قرآن نے بار بار خدا کا کمال پیش کر کے اور اس کی عظمت دکھلا کے لوگوں کو توجہ دلائی ہے کہ دیکھو ایسا خدا دلوں کا مرغوب ہے نہ کہ مردہ اور کمزور اور کم رحم اور کم قدرت.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۱۷) توریت میں خدا تعالیٰ کی صفات کا ملہ کا کہیں پورے طور پر ذکر نہیں.اگر توریت میں کوئی ایسی سورت ہوتی جیسا کہ قرآن شریف میں قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ - اللهُ الصَّمَدُ - لَمْ يَلِدُ وَلَمْ يُولَدْ - وَلَمْ يَكُن لَّهُ

Page 442

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۵ سورة الاخلاص كفوا احد ہے تو شاید عیسائی اس مخلوق پرستی کی بلا سے رک جاتے.(کتاب البریه، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۸۴) ان کو کہہ دے کہ وہ سچا خدا ایک خدا ہے جو کسی کا باپ نہیں اور نہ کسی کا بیٹا اور نہ اس کا کوئی ہم جنس ہے.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۳۵۵) تیسری دعا وَلَا الضَّائِین ہے اور اس کے مقابل پر قرآن شریف کے اخیر میں سورۃ اخلاص ہے یعنی قل هُوَ اللهُ اَحَدٌ - اللهُ الصَّمَدُ - لَمْ يَلِدُ وَلَمْ يُولَدُ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوا احد.....وہ اہم مقصد جو قرآن میں مفصل بیان کیا گیا ہے سورہ فاتحہ میں بطور اجمال اس کا افتتاح کیا ہے اور پھر سورۃ تبت اور سورۃ اخلاص اور سورۃ فلق اور سورۃ الناس میں ختم قرآن کے وقت میں انہی دونوں بلاؤں سے خدا تعالی کی پناہ مانگی گئی ہے.پس افتاح کتاب اللہ بھی انہی دونوں دعاؤں سے ہوا اور پھر اختتام کتاب اللہ بھی انہی دونوں دعاؤں پر کیا گیا.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۱۸) تم اے مسلمانو.نصاری سے کہو کہ وہ اللہ ایک ہے.اللہ بے نیاز ہے نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی ا سے پیدا ہوا اور نہ کوئی اس کے برابر کا ہے.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۲۰) قرآن نے اپنے اول میں بھی مغضوب علیہم اور ضالین کا ذکر فرمایا ہے اور اپنے آخر میں بھی جیسا کہ آیت لَمْ يَلِدُ وَلَمْ يُولَدُ بصراحت اس پر دلالت کر رہی ہے اور یہ تمام اہتمام تاکید کے لئے کیا گیا اور نیز اس لئے کہ تاسیح موعود اور غلبہ نصرانیت کی پیشگوئی نظری نہ رہے اور آفتاب کی طرح چمک اُٹھے.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۲۲) آخری مظہر شیطان کے اسم دجال کا جو مظہر اتم اور اکمل اور خاتم المظاہر ہے وہ قوم ہے جس کا قرآن کے اول میں بھی ذکر ہے اور قرآن کے آخر میں بھی یعنی وہ ضالین کا فرقہ جس کے ذکر پر سورۃ فاتحہ ختم ہوتی ہے اور پھر قرآن شریف کی آخری تین سورتوں میں بھی اس کا ذکر ہے یعنی سورہ اخلاص اور سورہ فلق اور سورہ ناس میں صرف یہ فرق ہے کہ سورہ اخلاص میں تو اس قوم کی اعتقادی حالت کا بیان ہے جیسا کہ فرما یا قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ - اللهُ الصَّمَدُ - لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ - وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا اَحَد یعنی خدا ایک ہے اور احد ہے یعنی اس میں کوئی ترکیب نہیں.نہ کوئی اس کا بیٹا اور نہ وہ کسی کا بیٹا اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے.پس اس سورت میں تو اس قوم کے عقائد بتلائے گئے.(تحفہ گولر و سیه، روحانی خزائن جلد ۷ ۱ صفحه ۲۷۰،۲۶۹ حاشیه )

Page 443

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۶ سورة الاخلاص قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ - اللهُ الصَّمَدُ - کہ وہ معبود حقیقی جس کی طرف سب چیزیں عبودیت تامہ کی فنا کے بعد یا قہری فنا کے بعد رجوع کرتی ہیں ایک ہے باقی سب مخلوقات دو قسم فنا میں سے کسی فنا کے نیچے ہیں اور سب چیزیں اس کی محتاج ہیں وہ کسی کا محتاج نہیں.لَمْ يَلِدُ وَلَمْ يُولَدُ وہ ایسا ہے کہ نہ تو اس کا کوئی بیٹا ہے اور نہ وہ کسی کا بیٹا ہے.وَلَمْ يَكُن له كفوا احد اور ازل سے اس کا کوئی نظیر اور مثیل نہیں.یعنی وہ اپنی ذات میں نظیر اور مثیل سے پاک اور منزہ ہے.....دونوں سورتوں (اخلاص اور فلق ) میں ایک ہی فرقہ کا ذکر ہے صرف فرق یہ ہے کہ سورہ اخلاص میں اس فرقہ کی اعتقادی حالت کا بیان ہے اور سورۃ الفلق میں اس فرقہ کی عملی حالت کا ذکر ہے.(تحفہ گولڑ و یه، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۷۰ ۲۷۱ حاشیه ) قُلْ هُوَ الله احد.....میں وہ عقیدہ جو قبول کرنے کے لائق ہے پیش کیا گیا اور پھر لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولد سکھا کر وہ عقیدہ جو رد کرنے کے لائق ہے وہ بیان کیا گیا ہے.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۸۵ حاشیه ) و قرآن کے آخر میں بھی عیسائیوں کا رد ہے جیسا کہ سورت قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ - اللهُ الصَّمَدُ - لَمْ يَلِدُ وَلَمْ يُولد سے سمجھا جاتا ہے.کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۸۴) قرآن میں ہمارا خدا اپنی خوبیوں کے بارے میں فرماتا ہے قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ - اللهُ الصَّمَدُ - لَمْ يَلِدُ وَلَمْ يُولَدُ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا اَحَدٌ یعنی تمہارا خدا وہ خدا ہے جو اپنی ذات اور صفات میں واحد ہے.نہ کوئی ذات اس کی ذات جیسی از لی اور ابدی یعنی انا دی اور اکال ہے نہ کسی چیز کے صفات اس کی صفات کی مانند ہیں.انسان کا علم کسی معلم کا محتاج ہے اور پھر محدود ہے مگر اس کا علم کسی معلم کا محتاج نہیں اور بائیں ہمہ غیر محدود ہے انسان کی شنوائی ہوا کی محتاج ہے اور محدود ہے مگر خدا کی شنوائی ذاتی طاقت سے ہے اور محدود نہیں.اور انسان کی بینائی سورج یا کسی دوسری روشنی کی محتاج ہے اور پھر محدود ہے مگر خدا کی بینائی ذاتی روشنی سے ہے اور غیر محدود ہے.ایسا ہی انسان کی پیدا کرنے کی قدرت کسی مادہ کی محتاج ہے اور نیز وقت کی محتاج اور پھر محدود سے لیکن خدا کی پیدا کرنے کی قدرت نہ کسی مادہ کی محتاج ہے نہ کسی وقت کی محتاج اور غیر محدود ہے کیونکہ اس کی تمام صفات بے مثل و مانند ہیں اور جیسے کہ اس کی کوئی مثل نہیں اس کی صفات کی بھی کوئی مثل نہیں.اگر ایک صفت میں وہ ناقص ہو تو پھر تمام صفات میں ناقص ہوگا.اس لئے اس کی توحید قائم نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ اپنی ذات کی طرح اپنے تمام صفات میں بے مثل و مانند نہ ہو.پھر اس سے آگے آیت ممدوحہ بالا کے

Page 444

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۷ سورة الاخلاص یہ معنے ہیں کہ خدا نہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ کوئی اس کا بیٹا ہے کیونکہ وہ منی بالذات ہے.اس کو نہ باپ کی حاجت ہے اور نہ بیٹے کی.یہ تو حید ہے جو قرآن شریف نے سکھلائی ہے جو مدار ایمان ہے.اس کا ہم کفو.لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۵۵،۱۵۴) ان کو کہہ دے کہ خدا وہی ہے جو ایک ہے اور بے نیاز ہے.نہ اس کا کوئی بیٹا اور نہ وہ کسی کا باپ اور نہ کوئی مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۵۹،۵۸) اگر آنحضرت تشریف نہ لاتے تو نبوت تو در کنار خدائی کا ثبوت بھی اس طرح نہ ملتا.آپ کی تعلیم سے پتہ قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ - اللهُ الصَّمَدُ - لَمْ يَلِدُ وَلَمْ يُولَدْ - وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا اَحَدٌ کا لگا.اگر توریت میں کوئی ایسی تعلیم ہوتی اور قرآن صرف اس کی تصریح ہی کرتا تو نصاریٰ کا وجود ہی کیوں ہوتا.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۵۲،۵۱) زمین و آسمان کی شہادتیں کسی مصنوعی اور بناوٹی خدا کی ہستی کا ثبوت نہیں دیتیں بلکہ اس خدائے آحد.الصَّمَدُ - لَمْ يَلِدُ وَ لم یولد کی ہستی کو دکھاتی ہیں جو زندہ اور قائم خدا ہے اور جسے اسلام پیش کرتا ہے چنانچہ پادری فنڈر جس نے پہلے پہل ہندوستان میں آکر مذہبی مناظروں میں قدم رکھا ور اسلام پر نکتہ چینیاں کیں.اپنی کتاب میزان الحق میں خود ہی سوال کے طور پر لکھتا ہے کہ اگر کوئی ایسا جزیرہ ہو جہاں تثلیث کی تعلیم نہ دی گئی ہو تو کیا وہاں کے رہنے والوں پر آخرت میں مؤاخذہ تثلیث کے عقیدہ کی بناء پر ہوگا ؟ پھر خود ہی جواب دیتا ہے کہ ان سے توحید کا مؤاخذہ ہوگا.اس سے سمجھ لو کہ اگر تو حید کا نقش ہر ایک شے میں نہ پایا جاتا اور تثلیث ایک بناوٹی اور مصنوعی تصور نہ ہوتی تو عقیدہ توحید کی بنا پر مواخذہ کیوں ہوتا.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۷۱ ) نصاری کا فتنہ سب سے بڑا ہے اس واسطے اللہ تعالیٰ نے ایک سورت قرآن شریف کی تو ساری کی ساری صرف ان کے متعلق خاص کر دی ہے یعنی سورۃ اخلاص اور کوئی سورت ساری کی ساری کسی قوم کے واسطے خاص نہیں ہے.احد خدا کا اسم ہے اور احد کا مفہوم واحد سے بڑھ کر ہے.حمد کے معنی ہیں ازل سے نفنی بالذات جو بالکل محتاج نہ ہو.اقنوم ثلھ کے ماننے سے وہ محتاج پڑتا ہے.احکم جلد ۵ نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ۱۹۰۱ صفحه ۹) کہہ دو کہ وہ خدا ایک ہے.ھو خدا کا نام ہے.وہ ایک.وہ بے نیاز ہے.نہ کھانے پینے کی اس کو ضرورت نہ زمان یا مکان کی حاجت نہ کسی کا باپ نہ بیٹا اور نہ کوئی اس کا ہمسر اور بے تغیر ہے.یہ چھوٹی سی

Page 445

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۸ سورة الاخلاص سورت قرآن شریف کی ہے جو ایک سطر میں آجاتی ہے لیکن دیکھو کس خوبی اور عمدگی کے ساتھ ہر قسم کے شرک سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہہ کی گئی ہے.حصر عقلی میں شرک کے جس قدر قسم ہو سکتے ہیں ان سے اس کو پاک بیان کیا ہے.جو چیز آسمان اور زمین کے اندر ہے وہ ایک تغیر کے نیچے ہے مگر خدا تعالیٰ نہیں ہے.اب یہ کیسی صاف اور ثابت شدہ صداقت ہے.دماغ اسی کی طرف متوجہ ہوتا ہے.نور قلب جس کی شریعت دل میں ہے اس پر شہادت دیتا ہے.قانون قدرت اسی کا مؤید و مصدق ہے یہاں تک کہ ایک ایک پتہ اس پر گواہی دیتا ہے.پس اس کو شناخت کرنا ہی عظیم الشان بات ہے.خدا تعالیٰ نے جو قرآن شریف میں یہ چھوٹی سی سورت نازل کی یہ ایسی ہے کہ اگر توریت کے سارے دفتر کی بجائے اس میں اس قدر ہوتا تو یہود تباہ نہ ہوتے اور انجیل کے اتنے بڑے مجموعہ کو چھوڑ کر اگر یہی تعلیم ان کو دی جاتی تو آج دنیا کا ایک بڑا حصہ ایک مردہ پرست قوم نہ بن جاتا.الحکم جلد ۶ نمبر ۱۹ مورخه ۲۴ مئی ۱۹۰۲ صفحه ۵) الضالین کے مقابل آخر کی تین سورتیں ہیں.اصل تو قُلْ هُوَ اللہ ہے اور باقی دو نو سورتیں اس کی شرح ہیں.قُلْ هُوَ اللہ کا ترجمہ یہ ہے کہ نصاری سے کہہ دو کہ اللہ ایک ہے.اللہ بے نیاز ہے.نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ کوئی اس کے برابر ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۸ مورخه ۲۸ فروری ۱۹۰۲ صفحه ۵) قصیدوں میں واقعات کا نبھانا مشکل امر ہوا کرتا ہے.شاعر اسے نہیں کر سکتے.ان کو قافیہ اور ردیف کے لئے بالکل بے جوڑ باتیں اور الفاظ لانے پڑتے ہیں........اس کے مقابل پر قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ.الله الصمد کو دیکھو.(البدر جلد نمبر ۴ مورخه ۲۱ /نومبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۲۸) ہمارا خدا لم يلد ہے اور کس قدر خوشی اور شکر کا مقام ہے کہ جس خدا کو ہم نے مانا اور اسلام نے پیش کیا ہے وہ ہر طرح کامل اور قدوس ہے اور کوئی نقص اس میں نہیں.یہ دو خو بیاں کامل طور پر اللہ تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں اور ساری صفات ان کو بیان کرتی ہیں چنانچہ اول یہ کہ اس میں ذاتی حسن ہے اور اس کے متعلق کیس كَمِثْلِهِ شَيْءٍ فرما ياقُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ فرمایا اور کہا کہ وہ الصمد ہے، بے نیاز ہے، نہ وہ کسی کا بیٹا ہے نہ اس کا کوئی بیٹا ہے.نہ کوئی اس کا ہمتا اور ہمسر ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۲)

Page 446

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۴۱۹ سورة الفلق بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الفلق بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قُل اَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ وَ مِنْ شَرِّ النَّفْتَتِ فِي الْعُقَدِنْ وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَه کہہ میں شریر مخلوقات کی شرارتوں سے خدا کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں اور اندھیری رات سے خدا کی پناہ میں آتا ہوں یعنی یہ زمانہ اپنے فساد تنظیم کے رو سے اندھیری رات کی مانند ہے سوالہبی قوتیں اور طاقتیں اس زمانہ کی تنویر کے لئے درکار ہیں انسانی طاقتوں سے یہ کام انجام ہونا محال ہے.برائن احمد یہ چہار تخصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۰۴ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) سورۃ الفلق اور سورۃ الناس یہ دونوں سورتیں سورہ تبت اور سورہ اخلاص کے لئے بطور شرح کے ہیں اور ان دونوں سورتوں میں اس تاریک زمانہ سے خدا کی پناہ مانگی گئی ہے جب کہ لوگ خدا کے مسیح کو دکھ دیں گے اور جب کہ عیسائیت کی ضلالت تمام دنیا میں پھیلے گی.تحفه گولار و بیه، روحانی خزائن جلد ۷ ۱ صفحه (۲۱۸) تم جو نصاری کا فتنہ دیکھو گے اور مسیح موعود کے دشمنوں کا نشانہ بنو گے یوں دعا مانگا کرو کہ میں تمام مخلوق کے شر سے جو اندرونی اور بیرونی دشمن ہیں اس خدا کی پناہ مانگتا ہوں جو صبح کا مالک ہے یعنی روشنی کا ظاہر کرنا اس کے اختیار میں ہے اور میں اس اندھیری رات کے شر سے جو عیسائیت کے فتنہ اور انکار مسیح موعود کے فتنہ کی رات ہے خدا کی پناہ مانگتا ہوں اُس وقت کے لئے یہ دُعا ہے جبکہ تاریکی اپنے کمال

Page 447

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۰ سورة الفلق کو پہنچ جائے اور میں خدا کی پناہ اُن زن مزاج لوگوں کی شرارت سے مانگتا ہوں جو گنڈوں پر پڑھ پڑھ کر پھونکتے ہیں یعنی جو عقدے شریعت محمدیہ میں قابل حل ہیں اور جو ایسے مشکلات اور معضلات ہیں جن پر جاہل مخالف اعتراض کرتے ہیں اور ذریعہ تکذیب دین ٹھہراتے ہیں اُن پر اور بھی عناد کی وجہ سے چھونکیں مارتے ہیں یعنی شریر لوگ اسلامی دقیق مسائل کو جو ایک عقدہ کی شکل پر ہیں دھوکہ دہی کے طور پر ایک پیچیدہ اعتراض کی صورت پر بنا دیتے ہیں تا لوگوں کو گمراہ کریں اُن نظری اُمور پر اپنی طرف سے کچھ حاشیے لگا دیتے ہیں اور یہ لوگ دو قسم کے ہیں ایک تو صریح مخالف اور دشمن دین ہیں جیسے پادری جو ایسی تراش خراش سے اعتراض بناتے رہتے ہیں اور دوسرے وہ علمائے اسلام ہیں جو اپنی غلطی کو چھوڑ نا نہیں چاہتے اور نفسانی پھونکوں سے خدا کے فطری دین میں عقد سے پیدا کر دیتے ہیں اور زنانہ خصلت رکھتے ہیں کہ کسی مرد خدا کے سامنے میدان میں نہیں آسکتے صرف اپنے اعتراضات کو تحریف تبدیل کی پھونکوں سے عقدہ لا یخل کرنا چاہتے ہیں اور اس طرح پر زیادہ تر مشکلات خدا کے مصلح کی راہ میں ڈال دیتے ہیں.وہ قرآن کے مکذب ہیں کہ اس کی منشاء کے برخلاف اصرار کرتے ہیں اور اپنے ایسے افعال سے جو مخالف قرآن ہیں اور دشمنوں کے عقائد سے ہمرنگ ہیں دشمنوں کو مدد دیتے ہیں.پس اس طرح اُن عقدوں میں پھونک مار کر ان کو لا یخل بنانا چاہتے ہیں پس ہم ان کی شرارتوں سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں اور نیز ہم ان لوگوں کی شرارتوں سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں جوحسد کرتے اور حسد کے طریقے سوچتے ہیں اور ہم اس وقت سے پناہ مانگتے ہیں جب وہ حسد کرنے لگیں.تحفہ گولڑو یه روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۲۰ ۲۲۱) آخری مظہر شیطان کے اسم دجال کا جو مظہر اتم اور اکمل اور خاتم المظاہر ہے وہ قوم ہے جس کا قرآن کے اول میں بھی ذکر ہے اور قرآن کے آخر میں بھی یعنی وہ ضالین کا فرقہ جس کے ذکر پر سورہ فاتحہ ختم ہوتی ہے.اور پھر قرآن شریف کی آخری تین سورتوں میں بھی اس کا ذکر ہے یعنی سورہ اخلاص اور سورہ فلق اور سورہ ناس میں.....سورۃ فلق میں یہ اشارہ کیا گیا کہ یہ قوم اسلام کے لئے خطرناک ہے اور اس کے ذریعہ سے آخری زمانہ میں سخت تاریکی پھیلے گی اور اس زمانہ میں اسلام کو ایک بڑے شر کا سامنا ہوگا.اور یہ لوگ معضلات اور دقائق دین میں گرہ در گرہ دے کر مکار عورتوں کی طرح لوگوں کو دھوکا دیں گے اور یہ تمام کاروبار محض حسد کے باعث ہوگا جیسا کہ قابیل کا کاروبار حسد کے باعث تھا.فرق صرف یہ ہے کہ

Page 448

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۱ سورة الفلق قابیل نے اپنے بھائی کا خون زمین پر گرایا مگر یہ لوگ بباعث جوش حسد سچائی کا خون کریں گے.غرض سورة قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ میں ان لوگوں کے عقائد کا بیان ہے اور سورہ فلق میں ان لوگوں کے ان اعمال کی تشریح ہے جو قوت اور طاقت کے وقت ان سے ظاہر ہوں گے.چنانچہ دونوں سورتوں کو بالمقابل رکھنے سے صاف سمجھ آتا ہے کہ پہلی سورۃ یعنی سورۃ اخلاص میں قوم نصاری کے اعتقادی حالات کا بیان ہے اور دوسری سورۃ میں عملی حالات کا ذکر ہے.اور سخت تاریکی سے آخری زمانہ کی طرف اشارہ ہے جبکہ یہ لوگ اس رُوح کے مظہر اتم ہوں گے جو خدا کی طرف سے مضل ہے اور ان دونوں سورتوں کے بالمقابل لکھنے سے جلد تران لطیف اشارات کا علم ہو سکتا ہے.....قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ کہہ میں پناہ مانگتا ہوں اُس رب کی جس نے تمام مخلوقات پیدا کی اس طرح پر کہ ایک کو پھاڑ کر اس میں سے دوسرا پیدا کیا یعنی بعض کو بعض کا محتاج بنایا اور جو تاریکی کے بعد صبح کو پیدا کرنے والا ہے.مِن شَرِّ مَا خَلَقَ ہم خدا کی پناہ مانگتے ہیں ایسی مخلوق کی شر سے جو تمام شریروں سے شر میں بڑھی ہوئی ہے اور شرارتوں میں اُس کی نظیر ابتداء دنیا سے اخیر تک اور کوئی نہیں جن کا عقیدہ امر حق لَم يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُ کے برخلاف ہے یعنی وہ خدا کے لئے ایک بیٹا تجویز کرتے ہیں.وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ وَمِن شَرِّ النَّفْتُتِ فِي الْعُقَدِ وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ - اور ہم پناہ مانگتے ہیں خدا تعالیٰ کی اس زمانہ سے جبکہ تثلیت اور شرک کی تاریکی تمام دنیا پر پھیل جائے گی.اور نیز اُن لوگوں کے شر سے کہ جو پھونکیں مار کر گر ہیں دیں گے یعنی دھوکا دہی میں جادو کا کام دکھا ئیں گے اور راہ راست کی معرفت کو مشکلات میں ڈال دیں گے اور نیز اس بڑے حاسد کے حسد سے پناہ مانگتا ہوں جبکہ وہ گروہ سرا سرحد کی راہ سے حق پوشی کرے گا یہ تمام اشارات عیسائی پادریوں کی طرف ہیں کہ ایک زمانہ آنے والا ہے جو وہ دنیا میں شر پھیلائیں گے اور دنیا کو تاریکی سے بھر دیں گے اور جادو کی طرح ان کا دھوکا ہوگا اور وہ سخت حاسد ہوں گے اور اسلام کو حسد کی راہ سے بنظر تحقیر دیکھیں گے اور لفظ رَبِّ الْفَلَقِ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس تاریکی کے بعد پھر صبح کا زمانہ بھی آئے گا جو مسیح موعود کا زمانہ ہے......ان دونوں سورتوں (اخلاص اور فلق ) میں ایک ہی فرقہ کا ذکر ہے صرف یہ فرق ہے کہ سورۃ اخلاص میں اس فرقہ کی اعتقادی حالت کا بیان ہے اور سورۃ الفلق میں اس فرقہ کی عملی حالت کا ذکر ہے اور اس فرقہ کا نام سورۃ الفلق میں شَرِ مَا خَلَقَ رکھا گیا ہے یعنی شَرُّ الْبَرِيَّةِ اور احادیث پر نظر

Page 449

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۲ سورة الفلق ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دجال معہود کا نام بھی شر البرية ہے کیونکہ آدم کے وقت سے اخیر تک شر میں اُس کے برابر کوئی نہیں.سورۃ فلق میں یعنی آیت وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ میں آنے والی ایک سخت تاریکی سے ڈرایا گیا اور فقرہ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ میں آنے والی ایک صبح صادق کی بشارت دی گئی اور اس مطلب کے حصول کے لئے سورۃ الناس میں صبر اور ثبات کے ساتھ وساوس سے بچنے کے لئے تاکید کی گئی.(تحفہ گولڑ و یه روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۶۹ تا۲ ۲۷ حاشیه ) وہ تخفه گولر و سیه روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۸۵ حاشیه ) الضالین کے مقابل آخر کی تین سورتیں ہیں.اصل تو قُلْ هُوَ الله ہے اور باقی دونو سورتیں اس کی شرح ہیں....سورۃ الفلق میں اس فتنہ سے بچنے کے لئے یہ دعا سکھائی قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ یعنی تمام مخلوق کے شر سے اس خدا کی پناہ مانگتا ہوں جو رب الفلق ہے یعنی صبح کا مالک ہے یا روشنی ظاہر کرنا اسی کے قبضہ واقتدار میں ہے.ربّ الفلق کا لفظ بتاتا ہے کہ اس وقت عیسائیت کے فتنہ اور مسیح موعود کی تکفیر اور توہین کے فتنہ کی اندھیری رات احاطہ کر لے گی اور پھر کھول کر کہا کہ شَرِ غَاسِقٍ إِذَا وَقَب اور میں اس اندھیری رات کے شر سے جو عیسائیت کے فتنہ اور مسیح موعود کے انکار کے فتنہ کی شب تار ہے، پناہ مانگتا ہوں پھر لکھا وَ مِنْ شَر النفثتِ فِي الْعُقَدِ اور ان زنانہ سیرت لوگوں کی شرارت سے پناہ مانگتا ہوں جو گنڈوں پر پھونکیں مارتے ہیں.گرہوں سے مراد وہ معضلات اور مشکلات شریعت محمدیہ ہیں جن پر جاہل مخالف اعتراض کرتے ہیں اور ان کو ایک پیچیدہ صورت میں پیش کر کے لوگوں کو دھو کہ میں ڈالتے ہیں اور یہ دو قسم کے لوگ ہیں.ایک تو پادری اور ان کے دوسرے پس خوردہ کھانے والے اور دوسرے وہ ناواقف اور ضدی ملاں ہیں جو اپنی غلطی کو تو چھوڑتے نہیں اور اپنی نفسانی پھونکوں سے اس صاف دین میں اور بھی مشکلات پیدا کر دیتے ہیں اور زنانہ خصلت رکھتے ہیں کہ خدا کے مامور ومرسل کے سامنے آتے نہیں.پس ان لوگوں کی شرارتوں سے پناہ مانگتے ہیں.اور ایسا ہی ان حاسدوں کے حسد سے پناہ مانگتے ہیں اور اس وقت سے پناہ مانگتے ہیں جب وہ حسد کرنے لگیں.الحکم جلد ۶ نمبر ۸ مورخه ۲۸ فروری ۱۹۰۲ ، صفحه ۵) بعض لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے سوا اوروں پر بھروسہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں اگر فلاں نہ ہوتا تو میں ہلاک ہو جاتا.میرے ساتھ فلاں نے احسان کیا.وہ نہیں جانتا کہ یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ میں اس خدا تعالی کی پناہ مانگتا ہوں جس کی تمام

Page 450

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۳ سورة الفلق پرورشیں ہیں.رب یعنی پرورش کنندہ وہی ہے.اس کے سوا کسی کا رحم اور کسی کی پرورش نہیں ہوتی حتی کہ جو ماں باپ بچے پر رحمت کرتے ہیں.دراصل وہ بھی اسی خدا کی پرورشیں ہیں اور بادشاہ جو رعایا پر انصاف کرتا ہے اور اس کی پرورش کرتا ہے وہ سب بھی اصل میں خدا تعالیٰ کی مہربانی ہے.ان تمام باتوں سے اللہ تعالیٰ یہ سکھلاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے برابر کوئی نہیں.سب کی پرورشیں اسی کی ہی پرورشیں ہیں.بعض لوگ بادشاہوں پر بھروسہ کرتے ہیں اور کہتے کہ فلاں نہ ہوتا تو میں تباہ ہو جاتا اور میرا فلاں کام فلاں بادشاہ نے کر دیا.وغیرہ وغیرہ.یا د رکھو ایسا کہنے والے کا فر ہوتے ہیں.انسان کو چاہیے کہ کا فرنہ بنے.اور مومن نہیں ہوتا جب تک کہ دل سے ایمان نہ رکھے کہ سب پرورشیں اور رحمتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں.انسان کو اس کا دوست ذرہ بھی فائدہ نہیں دے سکتا جب تک کہ خدا تعالیٰ کا رحم نہ ہو.اسی طرح بچے اور تمام رشتہ داروں کا حال ہے.اللہ تعالیٰ کا رحم ہونا ضروری ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ دراصل میں ہی تمہاری پرورش کرتا ہوں.جب تک خدا تعالیٰ کی پرورش نہ تو کوئی پرورش نہیں کر سکتا.دیکھو جب خدا تعالیٰ کسی کو بیمار ڈال دیتا ہے تو بعض دفعہ طبیب کتنا ہی زور لگاتے ہیں مگر وہ ہلاک ہو جاتا ہے.طاعون کے مرض کی طرف غور کروسب ڈاکٹر زور لگا چکے مگر یہ مرض دفع نہ ہوا.اصل یہ ہے کہ سب بھلائیاں اس کی طرف سے ہیں اور وہی ہے کہ جو تمام بدیوں کو دور کرتا ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۴۴ مورخه ۳/ جولائی ۱۹۰۳ ء صفحہ ۱۸۶،۱۸۵) غاسق عربی میں تاریکی کو کہتے ہیں جو کہ بعد زوال شفق اول رات چاند کو ہوتی ہے اور اسی لئے یہ لفظ قمر پر بھی اس کی آخری راتوں میں بولا جاتا ہے جبکہ اس کا نور جاتا رہتا ہے اور خسوف کی حالت میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے.قرآن شریف میں مِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ کے یہ معنے ہیں مِنْ شَرِ ظُلْمَةٍ إِذَا دَخَلَ یعنی ظلمت کی برائی سے جب وہ داخل ہو.البدر جلد ۲ نمبر ۶ مورخه ۲۷ فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۴۳) مِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ.اصل میں صفات کل نیک ہوتے ہیں جب ان کو بے موقع اور ناجائز طور پر استعمال کیا جاوے تو وہ برے ہو جاتے ہیں اور ان کو گندہ کر دیا جاتا ہے لیکن جب ان ہی صفات کو افراط تفریط سے بچا کر محل اور موقع پر استعمال کیا جاوے تو ثواب کے موجب ہو جاتے ہیں.قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا ہے مِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ اور دوسری جگہ الشقون الأولون.اب سبقت لے جانا بھی تو ایک قسم کا حسد ہی ہے.سبقت لے جانے والا کب چاہتا ہے کہ اس سے اور کوئی آگے بڑھ جاوے.یہ

Page 451

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۴ سورة الفلق صفت بچپن ہی سے انسان میں پائی جاتی ہے.اگر بچوں کو آگے بڑھنے کی خواہش نہ ہو تو وہ محنت نہیں کرتے اور کوشش کرنے والے کی استعداد بڑھ جاتی ہے.سابقون گویا حاسد ہی ہوتے ہیں لیکن اس جگہ حسد کا مادہ مصفی ہو کر سابق ہو جاتا ہے.اسی طرح حاسد ہی بہشت میں سبقت لے جاویں گے.البدر جلد ۲ نمبر ۱۲ مورخه ۱۰ را پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۸۹)

Page 452

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۴۲۵ سورة الناس بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة النّاس بیان فرموده سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ في مَلِكِ النَّاسِ في الهِ النَّاسِ ) مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ 19 الْخَنَّاسِ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ لي مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ دجال معہود ایک شخص نہیں ہے ورنہ ناس کا نام اُس پر اطلاق نہ پاتا.اور اس میں کیا شک ہے کہ ناس کا لفظ صرف گروہ پر بولا جاتا ہے سو جو گروہ شیطان کے وساوس کے نیچے چلتا ہے وہ دجال کے نام سے موسوم ہوتا ہے.اسی کی طرف قرآن شریف کی اس ترتیب کا اشارہ ہے کہ وہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ سے شروع کیا گیا اور اس آیت پر ختم کیا گیا ہے.الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ.پس لفظ ناس سے مراد اس جگہ بھی دجال ہے.ماحصل اس سورۃ کا یہ ہے کہ تم دجال کے فتنہ سے خدا تعالی کی پناہ پکڑو.اس سورۃ سے پہلے سورہ اخلاص ہے جو عیسائیت کے اصول کے رڈ میں ہے.بعد اس کے سورہ فلق ہے جو ایک تاریک زمانہ اور عورتوں کی مکاری کی خبر دے رہی ہے اور پھر آخر ایسے گروہ سے پناہ مانگنے کا حکم ہے جو شیطان کے زیر سایہ چلتا ہے اس ترتیب سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہی گروہ ہے جس کو دوسرے لفظوں میں شیطان کہا ہے اور اخیر میں اس گروہ کے ذکر سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آخری زمانہ میں اس گروہ کا غلبہ ہو گا جن کے ساتھ نظفت في العقد ہوں گی.یعنی ایسی عیسائی عورتیں جو گھروں میں پھر کر کوشش کریں گی کہ عورتوں کو خاوندوں سے علیحدہ کریں اور عقد نکاح کو توڑیں.خوب یا درکھنا چاہئیے کہ یہ تینوں

Page 453

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۶ سورة النّاس سورتیں قرآن شریف کی دجالی زمانہ کی خبر دے رہی ہیں اور حکم ہے کہ اس زمانہ سے خدا کی پناہ مانگو تا اس شر سے محفوظ رہو.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ شرور صرف آسمانی انوار اور برکات سے دور ہوں گے جن کو آسمانی مسیح اپنے ساتھ لائے گا.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۹۷،۲۹۶) اس میں اللہ تعالیٰ نے حقیقی مستحق حمد کے ساتھ عارضی مستحق حمد کا بھی اشار تا ذکر فرمایا ہے اور یہ اس لئے ہے کہ اخلاق فاضلہ کی تکمیل ہو.چنانچہ اس سورہ میں تین قسم کے حق بیان فرمائے ہیں.اوّل فرمایا کہ تم پناہ مانگو اللہ کے پاس جو جامع جمیع صفات کا ملہ ہے.اور جو رب ہے لوگوں کا.اور ملک بھی ہے اور معبود ومطلوب حقیقی بھی ہے.یہ سورہ اس قسم کی ہے کہ اس میں اصل توحید کو تو قائم رکھا ہے مگر معا یہ بھی اشارہ کیا ہے کہ دوسرے لوگوں کے حقوق بھی ضائع نہ کریں جو ان اسماء کے مظہر ظلمی طور پر ہیں.رب کے لفظ میں اشارہ ہے که گوحقیقی طور پر خدا ہی پرورش کرنے والا اور تکمیل تک پہنچانے والا ہے لیکن عارضی اور ظلی طور پر دو اور بھی وجود ہیں جور بوبیت کے مظہر ہیں.ایک جسمانی طور پر دوسرار وحانی طور پر.جسمانی طور پر والدین ہیں اور رُوحانی طور پر مرشد اور بادی ہے.روئیداد جلسه دعا، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۶۰۲، ۶۰۳) خدا تعالیٰ نے تکمیل اخلاق فاضلہ کے لئے رَبِّ النّاس کے لفظ میں والدین اور مرشد کی طرف ایما فرمایا ہے تا کہ اس مجازی اور مشہود سلسلہ شکر گزاری سے حقیقی رب و ہادی کی شکر گزاری میں قدم اُٹھا ئیں.اسی راز کے حل کی یہ کلید ہے کہ اس سورہ شریفہ کو ربّ الناس سے شروع فرمایا ہے.الہ الناس سے آغا ز نہیں کیا.چونکہ مرشد روحانی خدا تعالیٰ کے منشاء کے موافق اس کی توفیق و ہدایت سے تربیت کرتا ہے اس لئے وہ بھی اسی میں شامل ہے پھر دُوسرا ٹکڑا اس میں مَلِكِ النَّاسِ ہے یعنی تم پناہ مانگو خدا کے پاس جو تمہارا بادشاہ ہے.یہ ایک اور اشارہ ہے تا لوگوں کو متمدن دنیا کے اصول سے واقف کیا جاوے اور مہذب بنایا جاوے.حقیقی طور پر تو اللہ تعالیٰ ہی بادشاہ ہے.مگر اس میں اشارہ ہے کہ ظلی طور پر بادشاہ ہوتے ہیں اور اسی لئے اس میں اشارہ ملک وقت کے حقوق کی نگہداشت کی طرف بھی ایما ہے.یہاں کا فر اور مشرک اور موحد بادشاہ یعنی کسی قسم کی قید نہیں بلکہ عام طور پر ہے خواہ کسی مذہب کا بادشاہ ہو، مذہب اور اعتقاد کے حصے جدا ہیں.قرآن میں جہاں جہاں خدا نے محسن کا ذکر فرمایا ہے وہاں کوئی شرط نہیں لگائی کہ وہ مسلمان ہو اور موحد ہو اور فلاں سلسلہ کا ہو بلکہ عام طور پر حسن کی نسبت ذکر ہے.خواہ وہ کوئی مذہب رکھتا ہو اور پھر خدا تعالیٰ اپنے کلام پاک میں محسن کے ساتھ احسان کرنے کی سخت تاکید فرماتا ہے جیسے آیت ذیل سے ہویدا ہے هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ

Page 454

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۷ سورة الناس إلا الْإِحْسَانُ (الرحمن : ۶۱) کیا احسان کا بدلہ احسان کے سوا بھی ہو سکتا ہے.روئیداد جلسه دعا، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۶۰۳، ۶۰۴) پہلے اس سورۃ میں خدا تعالیٰ نے رَبِّ النَّاسِ فرمایا پھر مَلِكِ الناس.آخر میں الہ الناس فرمایا جو اصلی مقصود اور مطلوب انسان ہے.الہ کہتے ہیں معبود، مقصود، مطلوب کو ، لا اله الا الله کے معنی یہی ہیں کہ لَا مَعْبُودَ لِي وَلَا مَقْصُودَ لِي وَلَا مَطْلُوبَ لِي إِلَّا اللهُ یہی سچی توحید ہے کہ ہر مدح و ستائش کا مستحق اللہ تعالیٰ ہی کو ٹھہرایا جاوے.پھر فرما یا مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ یعنی وسوسہ ڈالنے والے خناس کے شر سے پناہ مانگو.خناس عربی میں سانپ کو کہتے ہیں جسے عبرانی میں فحاش کہتے ہیں اس لئے کہ اس نے پہلے بھی بدی کی تھی.یہاں ابلیس یا شیطان نہیں فرمایا تا کہ انسان کو اپنی ابتدا کی ابتلا یاد آوے کہ کس طرح شیطان نے اُن کے آبونین کو دھوکا دیا تھا اس وقت اس کا نام خناس ہی رکھا گیا تھا یہ ترتیب خدا نے اس لئے اختیار فرمائی ہے تا کہ انسان کو پہلے واقعات پر آگاہ کرے کہ جس طرح شیطان نے خدا کی اطاعت سے انسان کو فریب دے کر رُوگرداں کیا ویسے ہی وہ کسی وقت ملک وقت کی اطاعت سے بھی عاصی اور رُوگرداں نہ کرا دے.یوں انسان ہر وقت اپنے نفس کے ارادوں اور منصوبوں کی جانچ پڑتال کرتا رہے کہ مجھ میں ملک وقت کی اطاعت کس قدر ہے اور کوشش کرتا رہے اور خدا تعالیٰ سے دعا مانگتا ر ہے کہ کسی مدخل سے شیطان اُس میں داخل نہ ہو جائے.اب اس سورۃ میں جو اطاعت کا حکم ہے وہ خدا تعالی ہی کی اطاعت کا حکم ہے کیونکہ اصلی اطاعت اُسی کی ہے مگر والدین مُرشد و بادی اور بادشاہ وقت کی اطاعت کا حکم بھی خدا ہی نے دیا ہے اور اطاعت کا فائدہ یہ ہوگا کہ خناس کے قابو سے بچ جاؤ گے.پس پناہ مانگو کہ خناس کی وسوسہ اندازی کے شر سے محفوظ رہو کیونکہ مومن ایک ہی سوراخ سے دو مرتبہ نہیں کاٹا جاتا.ایک بار جس راہ سے مصیبت آئے دوبارہ اُس میں نہ پھنسو.پس اس سورۃ میں صریح اشارہ ہے کہ بادشاہ وقت کی اطاعت کرو.خناس میں خواص اسی طرح ودیعت رکھے گئے ہیں جیسے خدا تعالیٰ نے درخت اور پانی اور آگ وغیرہ چیزوں اور عناصر میں خواص رکھے ہیں.عصر کا لفظ اصل میں عَن بہتر ہے.عربی میں ص اور اس کا بدل ہو جاتا ہے.یعنی یہ چیز اسرار الہی میں سے ہے در حقیقت یہاں آکر انسان کی تحقیقات رُک جاتی ہے.غرض ہر ایک چیز خدا ہی کی طرف سے ہے خواہ وہ بسالک کی قسم سے ہو خواہ مرکبات کی قسم سے.جبکہ یہ بات ہے کہ ایسے بادشاہوں کو بھیج کر اُس نے ہزار ہا مشکلات سے ہم کو چھڑایا اور ایسی تبدیلی بخشی کہ ایک آتشی تنور سے نکال کر ایسے باغ میں پہنچادیا جہاں

Page 455

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۸ سورة النّاس فرحت افزا پودے ہیں اور ہر طرف ندیاں جاری ہیں اور ٹھنڈی خوشگوار ہوائیں چل رہی ہیں پھر کس قدر ناشکری ہوگی اگر کوئی اس کے احسانات کو فراموش کر دے.روئیداد جلسه، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۶۱۹،۶۱۸ ) جب انسان امانت سے بات نہیں کرتا تو اس وقت شیطان کا محکوم ہوتا ہے.گو یا خود وہی ہوتا ہے چنانچہ آیت مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اس کی شاہد ہے.(تحفه غزنوی، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۵۶۱) کہو کہ تم یوں دُعا مانگا کرو کہ ہم وسوسہ انداز شیطان کے وسوسوں سے جولوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے اور اُن کو دین سے برگشتہ کرنا چاہتا ہے کبھی بطور خود اور کبھی کسی انسان میں ہو کر خدا کی پناہ مانگتے ہیں وہ خدا جو انسانوں کا پرورندہ ہے انسانوں کا بادشاہ ہے انسانوں کا خدا ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایک زمانہ آنے والا ہے جو اُس میں نہ ہمدردی انسانی رہے گی جو پرورش کی جڑ ہے اور نہ سچا انصاف رہے گا جو بادشاہت کی شرط ہے تب اُس زمانہ میں خدا ہی خدا ہو گا جو مصیبت زدوں کا مرجع ہوگا.یہ تمام کلمات آخری زمانہ کی طرف اشارات ہیں جبکہ امان اور امانت دنیا پر سے اُٹھ جائے گی.(تحفہ گولڑ و بیه، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۲۲،۲۲۱) وہ جو انسانوں کا پروردگار اور انسانوں کا بادشاہ اور انسانوں کا خدا ہے میں وسوسہ انداز خناس کے وسوسوں سے اس کی پناہ مانگتا ہوں.وہ خناس جو انسانوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے جو جنوں اور آدمیوں میں سے ہے.اس آیت میں یہ اشارہ ہے کہ اس خناس کی وسوسہ اندازی کا وہ زمانہ ہوگا کہ جب اسلام کے لئے نہ کوئی مربی اور عالم ربانی زمین پر موجود ہوگا اور نہ اسلام میں کوئی حامی دین بادشاہ ہو گا تب مسلمانوں کے لئے ہر ایک موقع پر خدا ہی پناہ ہوگا وہی خدا وہی مربی وہی بادشاہ وبس.اب واضح ہو کہ خناس شیطان کے ناموں میں سے ایک نام ہے یعنی جب شیطان سانپ کی سیرت پر قدم مارتا ہے اور کھلے کھلے اکراہ اور جبر سے کام نہیں لیتا اور سراسر مکر اور فریب اور وسوسہ اندازی سے کام لیتا ہے اور اپنی نیش زنی کے لئے نہایت پوشیدہ راہ اختیار کرتا ہے تب اُس کو خناس کہتے ہیں عبرانی میں اس کا نام نحاش ہے.چنانچہ توریت کے ابتداء میں لکھا ہے کہ نحاش نے حوا کو بہکایا اور حوا نے اس کے بہکانے سے وہ پھل کھایا جس کا کھانا منع کیا گیا تھا.تب آدم نے بھی کھایا.سو اس سورۃ الناس سے واضح ہوتا ہے کہ یہی نحاش آخری زمانہ میں پھر ظاہر ہو گا اسی معاش کا دوسرا نام دجال ہے.یہی تھا جو آج سے چھ ہزار برس پہلے

Page 456

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۹ سورة الناس - حضرت آدم کے ٹھو کر کھانے کا موجب ہوا تھا اور اس وقت یہ اپنے اس فریب میں کامیاب ہو گیا تھا اور آدم مغلوب ہو گیا تھا لیکن خدا نے چاہا کہ اسی طرح چھٹے دن کے آخری حصے میں آدم کو پھر پیدا کر کے یعنی آخر ہزار ششم میں جیسا کہ پہلے وہ چھٹے دن میں پیدا ہوا تھا تاش کے مقابل پر اس کو کھڑا کرے اور اب کی دفعہ نتاش مغلوب ہو اور آدم غالب.سوخدا نے آدم کی مانند اس عاجز کو پیدا کیا اور اس عاجز کا نام آدم رکھا.جیسا کہ براہین احمدیہ میں یہ الہام ہے اَرَدْتُ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ آدَمَ.اور نیز یہ الہام خَلَقَ آدَمَ فاكرمہ اور نیز یہ الہام که يَا آدَمُ اسْكُنْ أنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنگ اور آدم کی نسبت توریت کے پہلے باب میں یہ آیت ہے تب خدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صورت اور اپنی مانند بناویں.دیکھو تو ریت باب اوّل آیت ۲۶.اور پھر کتاب دانی ایل باب نمبر ۱۲ میں لکھا ہے اور اُس وقت میکائیل (جس کا ترجمہ ہے خدا کی مانند ) وہ بڑا سردار جو تیری قوم کے فرزندوں کی حمایت کے لئے کھڑا ہے اُٹھے گا.(یعنی مسیح موعود آخری زمانہ میں ظاہر ہوگا ) پس میکائیل یعنی خدا کی مانند.در حقیقت توریت میں آدم کا نام ہے اور حدیث نبوی میں بھی اسی کی طرف اشارہ ہے کہ خدا نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا.پس اس سے معلوم ہوا کہ مسیح موعود آدم کے رنگ پر ظاہر ہوگا اسی وجہ سے آخری ہزار ششم اس کے لئے خاص کیا گیا کیونکہ وہ بجائے روز ششم ہے یعنی جیسا کہ روز ششم کے آخری حصے میں آدم پیدا ہوا اسی طرح ہزار ششم کے آخری حصہ میں مسیح موعود کا پیدا ہونا مقدر کیا گیا.اور جیسا کہ آدم نخاش کے ساتھ آزمایا گیا جس کو عربی میں خناس کہتے ہیں جس کا دوسرا نام دجال ہے ایسا ہی اس آخری آدم کے مقابل پرخاش پیدا کیا گیا تا وہ زن مزاج لوگوں کو حیات ابدی کی طمع دے جیسا کہ حوا کو اس سانپ نے دی تھی جس کا نام توریت میں خفاش اور قرآن میں خناس ہے لیکن اب کی دفعہ مقدر کیا گیا کہ یہ آدم اُس نحاش پر غالب آئے گا.غرض اب چھ ہزار برس کے اخیر پر آدم اور نقاش کا پھر مقابلہ آپڑا ہے اور اب وہ پرانا سانپ کاٹنے پر قدرت نہیں پائے گا جیسا کہ اوّل اُس نے حوا کو کاٹا اور پھر آدم نے اس زہر سے حصہ لیا بلکہ وہ وقت آتا ہے کہ اس سانپ سے بچے کھیلیں گے اور وہ ضرر رسانی پر قادر نہیں ہوگا.قرآن شریف میں یہ لطیف اشارہ ہے کہ اس نے سورہ فاتحہ کو الضالین پر ختم کیا اور قرآن کو خنناس پر.تا دانشمند انسان سمجھ سکے کہ حقیقت اور روحانیت میں یہ دونوں نام ایک ہی ہیں.تحفہ گولڑ و بید، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۷۲ تا ۲۷۵ حاشیه ) قرآن شریف میں چار سورتیں ہیں جو بہت پڑھی جاتی ہیں.ان میں مسیح موعود اور اس کی جماعت کا ذکر

Page 457

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۰ سورة الناس ہے (۱) سورہ فاتحہ جو ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے.اس میں ہمارے دعوئی کا ثبوت ہے....(۲) سورہ جمعہ جس میں وَ اخَرِينَ مِنْهُم مسیح موعود کی جماعت کے متعلق ہے.یہ ہر جمعہ میں پڑھی جاتی ہے (۳) سورۃ کہف جس کے پڑھنے کے واسطے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی ہے.اس کی پہلی اور پچھلی دس آیتوں میں دجال کا ذکر ہے (۴) آخری سورت قرآن کی جس میں دجال کا نام خناس رکھا ہے.یہ وہی لفظ ہے جو عبرانی توریت میں دجال کے واسطے آیا ہے یعنی نحاش....ایسا ہی قرآن شریف کے اور مقامات میں بھی بہت ذکر ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۱ء صفحه ۱۱) فرشتہ نیکی میں ترغیب اور مدد دیتا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہے اندَهُمْ بِرُوجِ مِنْهُ اور شیطان بدی کی ترغیب دیتا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہے یوسیوس.ان دونوں کا انکار نہیں ہو سکتا.ظلمت اور نور ہر دو ساتھ لگے ہوئے ہیں.عدم علم سے عدم شے ثابت نہیں ہوسکتا.ماسوائے اس عالم کے اور ہزاروں عجائبات ہیں.گویایڈرک ہوں.قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ میں شیطان کے ان وساوس کا ذکر ہے جو کہ وہ لوگوں کے درمیان ان دنوں ڈال رہا ہے.بڑا وسوسہ یہ ہے کہ ربوبیت کے متعلق غلطیاں ڈالی جائیں جیسا کہ امیر لوگوں کے پاس بہت مال و دولت دیکھ کر انسان کہے کہ یہی پرورش کرنے والے ہیں.اس واسطے حقیقی رب الناس کی پناہ چاہنے کے واسطے فرمایا پھر د نیوی بادشاہوں اور حاکموں کو انسان مختارِ مطلق کہنے لگ جاتا ہے.اس پر فرمایا کہ ملك النکی اللہ ہی ہے.پھر لوگوں کے وساوس کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ مخلوق کو خدا کے برابر ماننے لگ پڑتے ہیں اور ان سے خوف و رجا ر کھتے ہیں اس واسطے الو الناس فرمایا.یہ تین وساوس ہیں ان کے دور کرنے کے واسطے یہ تین تعویذ ہیں اور ان وساوس کے ڈالنے والا وہی خناس ہے جس کا نام توریت میں زبانِ عبرانی کے اندر ناحاش آیا ہے جو حوا کے پاس آیا تھا چھپ کر حملہ کرنے والا.اس سورت میں اسی کا ذکر ہے.اس سے معلوم ہوا کہ دجال بھی جبر نہیں کرے گا بلکہ چھپ کر حملہ کرے گا تاکہ کسی کو خبر نہ ہو.جیسا کہ پادریوں کا حملہ ہوتا ہے.یہ غلط ہے کہ شیطان خود حوا کے پاس گیا ہو بلکہ جیسا کہ اب چھپ کر آتا ہے ویسا ہی تب بھی چھپ کر گیا تھا.کسی آدمی کے اندر وہ اپنا خیال بھر دیتا ہے اور وہ اس کا قائم مقام ہو جاتا ہے.کسی ایسے مخالف دین کے دل میں شیطان نے یہ بات ڈال دی تھی اور وہ بہشت جس میں حضرت آدم رہتے تھے وہ بھی زمین پر ہی تھا کسی بد نے ان کے دل میں وسوسہ ڈال دیا.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ / مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۱۰)

Page 458

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۱ سورة الناس جن وہ ہے جو چھپ کر وار کرے اور پیار کے رنگ میں دشمنی کرتے ہیں.وہی پیار جو حوا سے آ کر فحاش نے کیا تھا.اس پیار کا انجام وہی ہونا چاہیے جو ابتداء میں ہوا.آدم پر اسی سے مصیبت آئی.اس وقت وہ گویا خدا سے بڑھ کر خیر خواہ ہو گیا.اسی طرح پر یہ بھی وہی حیات ابدی پیش کرتے ہیں جو شیطان نے کی تھی.اس لئے قرآن شریف نے اول اور آخر کو اسی پر ختم کیا.اس میں یہ سر تھا کہ تا بتا یا جاوے کہ ایک آدم آخر میں بھی آنے ولا ہے.قرآن شریف کے اول یعنی سورت فاتحہ کو ولا الضالین پر ختم کیا.یہ امر تمام مفسر با تفاق مانتے ہیں کہ ضالین سے عیسائی مراد ہیں اور آخر جس پر ختم ہوا وہ یہ ہے قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ - إِلَهِ النَّاسِ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ - الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ سورۃ الناس سے پہلے قُلْ هُوَ اللہ میں خدا تعالیٰ کی توحید بیان فرمائی اور اس طرح پر گویا تثلیث کی تردید کی.اس کے بعد سورۃ الناس کا بیان کرنا صاف ظاہر کرتا ہے کہ عیسائیوں کی طرف اشارہ ہے.پس آخری وصیت یہ کی کہ شیطان سے بچتے رہو.یہ شیطان وہی نحاش ہے جس کو اس سورت میں خناس کہا ہے.جس سے بچنے کی ہدایت کی.اور یہ جو فر مایا کہ رب کی پناہ میں آؤ اس سے معلوم ہوا کہ یہ جسمانی امور نہیں ہیں بلکہ روحانی ہیں.خدا کی معرفت ، معارف اور حقائق پر پکے ہو جاؤ تو اس سے بچ جاؤ گے.اس آخری زمانہ میں شیطان اور آدم کی آخری جنگ کا خاص ذکر ہے.شیطان کی لڑائی خدا اور اس کے فرشتوں سے آدم کے ساتھ ہو کر ہوتی ہے.اور خدا تعالیٰ اس کے ہلاک کرنے کو پورے سامان کے ساتھ اترے گا اور خدا کا مسیح اس کا مقابلہ کرے گا.یہ لفظ صیح ہے جس کے معنے خلیفہ کے ہیں عربی اور عبرانی میں.حدیثوں میں مسیح لکھا ہے اور قرآن شریف میں خلیفہ لکھا ہے.غرض اس کے لئے مقدر تھا کہ اس آخری جنگ میں خاتم الخلفاء جو چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو، کامیاب ہو.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۵ مورخہ ۱۷ جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۶) غرض سورة تبت میں غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کے فتنہ کی طرف اشارہ ہے اور وَلَا الضَّالین کے مقابل قرآن شریف کے آخر میں سورہ اخلاص ہے اور اس کے بعد کی دونوں سورتیں سورۃ الفلق اور سورۃ الناس ان دونو کی تفسیر ہیں.ان دونوں سورتوں میں اس تیرہ و تار زمانہ سے پناہ مانگی گئی ہے جبکہ مسیح موعود پر کفر کا فتویٰ لگا کر مغضوب علیہم کا فتنہ پیدا ہوگا اور عیسائیت کی ضلالت اور ظلمت دنیا پر محیط ہونے لگے گی.پس جیسے سورت فاتحہ میں جو ابتدائے قرآن ہے ان دونو بلاؤں سے محفوظ رہنے کی دعا سکھائی گئی ہے.اسی طرح قرآن شریف کے آخر میں بھی ان فتنوں سے محفوظ رہنے کی دعا تعلیم کی تا کہ یہ بات ثابت ہو جاوے کہ

Page 459

تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۴۳۲ سورة الناس الحکم جلد ۶ نمبر ۸ مورخه ۲۸ فروری ۱۹۰۲ صفحه ۵،۴) اول بآخر نسبتی دارد.آخر سورت میں شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہنے کی دعا تعلیم فرمائی ہے جیسے سورت فاتحہ کو الضالین پر ختم کیا تھا ویسے آخری سورت میں خناس کے ذکر پر ختم کیا تا کہ خناس اور الضالین کا تعلق معلوم ہو اور آدم کے وقت میں بھی خناس جس کو عبرانی زبان میں نحاش کہتے ہیں جنگ کے لئے آیا تھا.اس وقت بھی مسیح موعود کے زمانہ میں جو آدم کا مثیل بھی ہے ضروری تھا کہ وہی نحاش ایک دوسرے لباس میں آتا اور اسی لئے عیسائیوں اور مسلمانوں نے با تفاق یہ بات تسلیم کی ہے کہ آخری زمانہ میں آدم اور شیطان کی ایک عظیم الشان لڑائی ہوگی جس میں شیطان ہلاک کیا جاوے گا.اب ان تمام امور کو دیکھ کر ایک خدا ترس آدمی ڈر جاتا ہے.کیا یہ میرے اپنے بنائے ہوئے امور ہیں جو خدا نے جمع کر دیئے ہیں.کس طرح پر ایک دائرہ کی طرح خدا نے اس سلسلہ کو رکھا ہوا ہے.وَلَا الضَّالِّينَ پر سورت فاتحہ کو جو قرآن کا آغاز سے ختم کیا اور پھر قرآن شریف کے آخر میں وہ سورتیں رکھیں جن کا تعلق سورت فاتحہ کے انجام سے ہے.ادھر مسیح اور آدم کی مماثلت ٹھہرائی اور مجھے مسیح موعود بنایا تو ساتھ ہی آدم بھی میرا نام رکھا.یہ باتیں معمولی باتیں نہیں ہیں یہ ایک علمی سلسلہ ہے جس کو کوئی رد نہیں کر سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے اس کی بنیاد رکھی ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۸ مورخه ۲۸ فروری ۱۹۰۲، صفحه ۵) بڑی غور طلب بات یہ ہے کہ قرآن شریف نے ابتداء میں بھی ان ( عیسائیوں) کا ہی ذکر کیا جیسے کہ ولا الضالین پر سورہ فاتحہ کو ختم کیا اور پھر قرآن شریف کو بھی اسی پر تمام کیا کہ قُلْ هُوَ الله سے لے کر قُلْ اَعُوذُ برب الناس تک غور کرو اور وسط قرآن میں بھی ان کا ہی ذکر کیا اور تگادُ السَّمُوتُ يَتَفَكَّرُنَ مِنْهُ کہا.بتاؤ اس دجال کا بھی کہیں ذکر کیا جس کا ایک خیالی نقشہ اپنے دلوں میں بنائے بیٹھے ہیں.پھر حدیث میں آیا ہے کہ دجال کے لئے سورہ کہف کی ابتدائی آیتیں پڑھو اس میں بھی ان کا ہی ذکر ہے.اور احادیث میں ریل کا بھی ذکر ہے.غرض جہاں تک غور کیا جاوے بڑی وضاحت کے ساتھ یہ امر ذہن میں آجاتا ہے کہ دجال سے مراد یہی نصاری کا گروہ ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخه ۳۱/اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۳) جب ماں کی تولیت سے نکل آئے تو انسان کو بالطبع ایک متولی کی ضرورت پڑتی ہے.طرح طرح سے اپنے متولی اور لوگوں کو بناتا ہے جو خود کمزور ہوتے ہیں اور اپنی ضروریات میں غلطان ایسے ہوتے ہیں کہ دوسرے کی خبر نہیں لے سکتے لیکن جو لوگ ان سب سے منقطع ہو کر اس قسم کا تقومی اور اصلاح اختیار کرتے

Page 460

تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۳ سورة الناس ہیں ان کا وہ خود متولی ہو جاتا ہے اور ان کی ضروریات اور حاجات کا خود ہی کفیل ہو جاتا ہے.انہیں کسی بناوٹ کی ضرورت ہی نہیں رہتی.وہ اس کی ضروریات کو ایسے طور سے سمجھتا ہے کہ یہ خود بھی اس طرح نہیں سمجھ سکتا اور اس پر اس طرح فضل کرتا ہے کہ انسان خود حیران رہتا ہے.گرند ستانی به ستم مے رسد والی نوبت ہوتی ہے لیکن انسان بہت سے زمانے پالیتا ہے.جب اس پر ایسا زمانہ آتا ہے کہ خدا اس کا متولی ہو جائے یعنی اس کو خدا کی تولیت حاصل کرنے سے پہلے کئی متولیوں کی تولیت سے گزرنا پڑتا ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ - الهِ النَّاسِ - مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ - الَّذِي يوسوس في صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ - پہلے حاجت ماں باپ کی پڑتی ہے پھر جب بڑا ہوتا ہے تو بادشاہوں اور حاکموں کی حاجت پڑتی ہے.پھر جب اس سے آگے قدم بڑھاتا ہے اور اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ جن کو میں نے متولی سمجھا ہوا تھا وہ خود ایسے کمزور تھے کہ ان کو متولی سمجھنا میری غلطی تھی کیونکہ انہیں متولی بنانے میں نہ تو میری ضروریات ہی حاصل ہو سکتی تھیں اور نہ ہی وہ میرے لئے کافی ہو سکتے تھے.پھر وہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے اور ثابت قدمی دکھانے سے خدا کو اپنا متولی پاتا ہے.اس وقت اس کو بڑی راحت حاصل ہوتی ہے اور ایک عجیب طمانیت کی زندگی میں داخل ہو جاتا ہے.خصوصاً جب خدا کسی کو خود کہے کہ میں تیرا متولی ہوا تو اس وقت جو راحت اور طمانیت اس کو حاصل ہوتی ہے وہ ایسی حالت پیدا کرتی ہے کہ جس کو بیان نہیں کیا جاسکتا.یہ حالت تمام تلخیوں سے پاک ہوتی ہے.(البدرجلد ۳ نمبر ۲۵ مورخہ یکم جولائی ۱۹۰۴ ء صفحه ۴) تبت وَالْحَمْدُ لله

Page 460

← Previous Book