Language: UR
تفسیر بیان فرمودہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام
تفسير بیان فرموده حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام جلد ہفتم سورة يس تا سورة الجمعة
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ و على عبده المسيح الموعود عرض حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.میں قرآن شریف کے حقائق معارف بیان کرنے کا نشان دیا گیا ہوں کوئی نہیں کہ جو 66 اس کا مقابلہ کر سکے.‘“ ( ضرورت الامام.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۹۶) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۰ / جولائی ۱۹۰۰ ء کو اپنے مخالفین کو قرآن کریم کی تفسیر لکھنے کا چیلنج دیا مگر کوئی مدمقابل نہ آیا.حضور علیہ السلام نے شرائط کے مطابق تفسیر لکھ کر شائع فرمائی اور فرمایا.وو میں نے اس تفسیر کو اپنی طاقت سے نہیں لکھا.میں تو ایک کمزور بندہ ہوں اور اسی طرح میرا کلام بھی.لیکن یہ سب کچھ اللہ اور اس کے الطاف کریمانہ ہیں کہ اس تفسیر کے خزانوں کی چابیاں مجھے دی گئی ہیں اور پھر اسی جناب سے مجھے اس کے دفینوں کے اسرار عطا کئے گئے ہیں.میں نے اس میں طرح طرح کے معارف جمع کئے اور انہیں ترتیب دیا ہے.“ ( اعجاز امسیح.روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۶،۵۵ - اردو تر جمه ) قرآن کریم کے حقائق و معارف جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائے آپ کی کتب و ملفوظات میں مذکور ہیں ، ان کو یکجا کر کے تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام سے طبع اول کتابی صورت میں ۸ جلدوں میں اشاعت پذیر ہوا تھا.طبع دوم کی اشاعت کے وقت ۸ جلدوں کو ۴ جلدوں میں شائع کیا گیا.یہ جلد میں کتابت سے پرنٹ ہوئی تھیں.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کمپیوٹرائزڈ ورژن کی اشاعت کی ہدایت و اجازت فرمائی ہے.نیز حضور کا منشائے مبارک
کہ چونکہ ۴ جلدوں کی صورت میں ہر کتاب بھاری ہو گئی ہے اور اس کو بسہولت ہاتھ میں سنبھال کر پڑھنا مشکل ہو جاتا ہے اور یہ ۸ جلدوں میں منقسم کر لیا جائے.مسلسل مطالعہ میں رہنے والی ہے، اس لئے اس کو ا.تمام اقتباسات کو حضرت مسیح موعود کی کتب کے اول ایڈیشنز سے از سر نو تقابل کر کے متن کی صحت کو قائم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے.۲.حوالہ میں قبل ازیں کتاب کا نام اور صفحہ درج تھا.اب اس کے ساتھ روحانی خزائن اور ملفوظات کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے.-۳.اس عمل کے دوران بعض اور اقتباسات سامنے آئے ہیں ، ان کو بھی شامل کر لیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے.سو تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو.ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں.(کشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۷) اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضور علیہ السلام کی اس نصیحت کو حرز جان بنا کر اس پر عمل کرنے اور مداومت اختیار کرنے اور معارف قرآنی اور انوار روحانی سے اپنے دلوں کو منور کرنے کی توفیق عطا فرمائے.نیز اس اشاعت کی تیاری میں جن مربیان کرام نے جو حصہ پایا انہیں اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے.آمین !!
iii بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ (طبع اوّل) الْحَمدُ لِلهِ ! حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تفسیر قرآن کریم کی آٹھویں جلد جو اس سلسلہ کی آخری جلد ہے طبع ہو گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب ۲۰ جولائی ۱۹۰۰ ء کو اپنے مخالفین کو تفسیر نویسی کا چیلنج دیا تو آپ نے تحریر فرمایا تھا کہ قرآن شریف سے یہ ثابت ہے کہ جو لوگ در حقیقت خدا تعالیٰ کے راستباز بندے ہیں ان کے ساتھ تین طور سے خدا کی تائید ہوتی ہے.ان میں سے ایک یہ ہے ) کہ ان کو علم معارف قرآن دیا جاتا ہے اور غیر کو 66 نہیں دیا جاتا جیسا کہ آیت لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ اس کی شاہد ہے.“ معارف قرآن کا یہ علم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اُردو، عربی اور فارسی کی انٹی سے زائد تصانیف اور ملفوظات میں جا بجا مذکور ہے.۱۹۹۷ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث، مرزا ناصر احمد ، رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام روح پرور قرآنی معارف اور تفسیری نکات کو یکجا جمع کرنے کا ارشاد فرمایا چنانچہ مولوی سلطان احمد صاحب فاضل ( پیر کوٹی ) نے بہت تھوڑے وقت میں انتہائی محنت اور عرقریزی کے ساتھ یہ کام مکمل کر کے جنوری ۱۹۶۸ء میں مسودہ حضور کی خدمت میں پیش کر دیا.
iv جون ۱۹۶۹ ء میں اس سلسلہ کی پہلی جلد شائع ہوئی تھی اور صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر اس کی آخری جلد پیش ہے.حضرت خلیفتہ امسح الثالث" نے ۷ / مارچ ۱۹۸۰ء کو تحریک فرمائی تھی کہ ہر احمدی گھرانہ میں اس تفسیر کا سیٹ ضرور موجود ہونا چاہئے.
۱۲ 1.= 11 ۹ Y 1 صفح بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم مختصر فہرست مضامین جلد هفتم مضمون قرآن کے لفظ میں ایک زبر دست پیشگوئی ہے مومن کو فوت ہونے کے بعد بلا توقف بہشت میں جگہ ملتی ہے خدا کی طرف سے نشانی ہے کہ ہر ایک نبی سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ سے مسیح موعود کے کے آسمان سے اترنے کے خیال کی تردید مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِرُونَ کے منہاج پر مجھے بھی علماء نے کافر ، دجال، فاسق ، فاجر وغیرہ کے خطاب دیئے.علم ہیئت کے محققین یورپ جس طرز سے آسمانوں کے وجود کی نسبت خیال رکھتے ہیں در حقیقت وہ خیال قرآن کریم کے مخالف نہیں كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ کی تفسیر لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ سے ہستی باری کی دلیل ماضی مضارع کے معنوں پر بھی آجاتا ہے اس کی ایک نظیر آیت وَ مَنْ تُعمرة تنكِسُهُ فِي الْخَلْقِ سے حضرت عیسی کی موت ثابت ہوتی ہے L نمبر شمار ۴
صفحہ ۱۴ ۱۵ لا ۱۹ ۲۱ ۲۱ ۲۳ ۲۴ ۲۶ vi نمبر شمار مضمون عالم آخرت میں تمثلی خلق اور پیدائش کی دلیل اعتراض کہ چھ دن میں زمین و آسمان کی پیدائش ضعف پر دلالت کرتی ہے کیونکہ معا خدا کے ارادہ کے ساتھ ہی سب کچھ ہو جانا لازم ہے جو چیز عمل اور اسباب سے پیدا ہوتی ہے وہ خلق ہے اور جو محض کن سے ہو وہ امر ہے إِلا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَاتْبَعَةُ شِهَابٌ ثَاقِب - کے معنے قرآن کی تعلیم کا اصل مقصد یہی ہے کہ خدا کو اپنی محبت کی رو سے بھی واحد لاشریک ٹھہراؤ مومن اپنی موت کے بعد بلا توقف جنت میں داخل کئے جائیں گے کی دلیل خدا کی کتاب میں نیک و بد کی جزا کے لیے دو مقام پائے جاتے ہیں ایک عالم برزخ اور اس کے بعد ایک اور اعلی تجلی کا دن أَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِينَ إِلَّا مَوْتَتَنَا الأولی میں ہمزہ استفہام تقریری کے لئے ہے اور فاء ایک محذوف پر عطف ہے اور الّا استثناء مفرغ ہے حضرت ابو ہریرة کی آیت فَمَا نَحْنُ بِمَيْتِينَ إِلَّا مَوْتَتَنَا الأولى س رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت استدلال قرآن نے عالم آخرت میں ایمان کے پاک درختوں کو عمدہ میووں سے مشابہت دی اور بے ایمانی کے خبیث درخت کا نام عالم آخرت میں ز قوم رکھا ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ ۱۶ ۱۷ ۱۸ ۱۹
صفحہ ۲۶ ۲۷ ۲۸ ۲۹ { ۳۱ ۳۵ ۳۸ ۳۸ ۳۹ vii مضمون الہام ہونا انسان کی اپنی خوبی نہیں ہے یہ تو اللہ کا فعل ہے مومن کی نظر ہمیشہ اعمال صالحہ پر ہوتی ہے حضرت ابراھیم نے اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے چھری پھیر دی عیسائیوں کو متنبہ کرنے کی خاطر انہیں کی مسلمہ کتابوں سے الزامی جواب دیئے جاتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ بعثت میں حضرت جبرائیل کے توقف نزول کے معنے انبیاء علیہم السلام پر حضرت جبرائیل کے توقف نزول کا عقیدہ رکھنے والے علماء کی غلطی کی وجہ اور اس کا جواب ملائکہ کے نزول کی حقیقت منکرین انبیاء علیہم السلام کی نسبت یہی بدظنی کرتے آئے ہیں کہ ان هذا لشى يُراد یعنی اس دعوے میں تو کوئی نفسانی مطلب ہے استفسار کا جواب که اگر آیت وَ خُذْ بِيَدِكَ ضِعْئًا فَاضْرِبُ بِهِ وَلَا تَحُنَتْ کے وہ معنی کیے جائیں جو عام مفسروں نے کیسے ہیں تو شرع میں حیلوں کا باب کھل جائے گا خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی تعریف میں أُولِي الْأَيْدِي وَالْأَبْصَارِ فرماتا ہے مرنے کے بعد ہر ایک کا رفع ہوتا ہے جَاتِ عَدْنٍ مُفَتَّحَةٌ لَهُمُ الْأَبْوَابُ میں اس رفع کی طرف اشارہ ہے نمبر شمار ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸ ۲۹ ۳۰
صفحہ ۳۹ ۴۰ ۴۲ ۴۳ ۴۳ ۴۴ ۴۷ ۴۸ ۵۱ ۵۲ viii نمبر شمار ۳۱ ۳۳ ۳۴ مضمون کا فر کا رفع نہیں ہوتا لا تُفتَّحُ لَهُمُ ابْوَابُ السَّمَاءِ اس کی طرف اشارہ کرتی ہے مُفَتَحَةً لَهُمُ الْأَبْوَابُ میں لھم کا لفظ اجسام کو چاہتا ہے تو کیا یہ سب کے سب اسی جسم عنصری کے ساتھ جاتے ہیں فَقَعوا له سجدِینَ.سجدہ کے لفظ سے خدائے تعالیٰ نے یہ ظاہر کر دیا کہ ملائکہ انسان کامل سے افضل نہیں خَلَقْتُ بِيَدَى کا مطلب یہ ہے کہ آدم کو جلالی اور جمالی تجلی کا جامع پیدا کیا گیا ہے ۳۵ تکبر شیطان سے آیا ہے اور شیطان بنادیتا ہے کسی طرح سے بھی تکبر ۳۶ نہیں کرنا چاہیے اولیاء اللہ میں تکلفات نہیں ہوتے جبکہ اس وقت کے پیرزادوں اور مشائخوں مشائخوں کا کوئی قول اور فعل تکلف سے خالی نہیں ہے ۳۷ خدا کی اصولی صفات چار ہیں ۳۸ فرقان مجید سے خالقیت باری تعالی پر دلیل قیاس استثنائی ۳۹ ۴۱ لفظ نزول کے معنے قرآن شریف سے تین اندھیروں میں انسان کی پیدائش ہوتی ہے.پیٹ ۲.رحم ۳.جھلی جس کے اندر بچہ پیدا ہوتا ہے وعدہ کی پیشگوئی کسی طرح ٹل نہیں سکتی وعید کی پیشگوئی خوف ، دعا اور صدقہ خیرات سے مل سکتی ہے
ix نمبر شمار ۴۲ ۴۳ مضمون قرآن کریم اخلاقی تعلیم میں قانون قدرت کے قدم بہ قدم چلا ہے.اس کی تعلیمات نہایت درجہ اعتدال پر واقع ہیں والد صاحب مرز اغلام مرتضی مرحوم کی وفات کے وقت الہام ہوا اگنیس اللهُ بِكَافٍ عبده ۴۴ فوت شدہ دوبارہ دنیا کی طرف نہیں آسکتا صفحہ ۵۴ ۵۵ บ บ ۶۷ ۶۸ ۶۸ ۷۴ پادری عیسی کے خدا ہونے کی دلیل بیان کرتے ہیں کہ وہ مردے زندہ کرتا تھا ۴۵ ۴۶ قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمُ الح میں قُلْ يُعِبَادِی کی طرز اختیار کرنے میں بھید ۴۷ اس عالم کے لحاظ سے وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي ۴۸ ۴۹ ۵۰ ۵۱ ۵۲ الْأَرْضِ کے معنے کامل جزا بجر تجلی مالکیت تامہ کے کہ جو ہرم بنیان اسباب کو مستلزم ہے ظہور میں نہیں آسکتی.صادق کی یہ نشانی ہے کہ اس کی بعض پیشگوئیاں پوری ہو جاتی ہیں وانْ يَّكُ صَادِقًا يُصِبُكُمْ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ میں بعض کی شرط لگانے کی وجہ پیشگوئی دو قسم کی ہوتی ہیں ایک وعد کی ، دوسری وعید کی لَخَلْقُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ مفسرین نے لکھا ہے ہے کہ اس جگہ انسانوں سے مراد د جال ہے
✓ نمبر شمار ۵۳ ۵۴ ۵۷ ۵۸ مضمون استجابت دعا کا مسئلہ در حقیقت دعا کے مسئلہ کی ایک فرع ہے دعا کی ماہیت ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ میں اُدْعُو سے مراد معمولی دعا ئیں نہیں ہیں دعا اور استجابت میں رشتہ مقبولوں کی اول علامت مستجابت الدعوات ہوتا ہے یہ خیال کہ مقبولین کی ہر ایک دعا قبول ہو جاتی ہے سراسر غلط ہے دعا اور رعایت اسباب قبولیت دعا کے تین ہی ذریعے ہیں تدابیر اور دعا کا باہمی رشته حکیم مطلق دعاؤں کے بعد دو طور سے نصرت اور امداد کو نازل کرتا ہے دعا کی فرضیت کے چار سبب بعض اوقات کسی دعا میں اجابت بصورت رد ہی ہوتی ہے جو لوگ کہتے ہیں ہماری دعا قبول نہیں ہوتی وہ ان قواعد اور مراتب کا لحاظ نہیں رکھتے جو قبولیت دعا کے واسطے ضروری ہیں قضا و قدر کا دعا کے ساتھ بہت بڑا تعلق ہے دعا کے ساتھ معلق تقدیر ٹل جاتی ہے دعا کے دو پہلو ہیں ایک پہلو میں اللہ تعالیٰ اپنی منوانا چاہتا ہے اور دوسرے پہلو میں بندے کی مان لیتا ہے خدا نے مجھے دعاؤں میں وہ جوش دیا ہے جیسے سمندر میں ایک جوش ہے صفحہ ۷۵ ۷۵ 22 ۷۹ ΔΙ ۸۲ ۸۲ ۸۳ ۸۴ ۸۴ ۸۵ ۸۷ ۸۷ AL ۹۰ ۵۹ ۶۰ ۶۱ ۶۲ ۶۳ ۶۴ ۶۶ ۶۷ ۶۸
۹۱ صفحہ ۹۵ ۹۹ ۱۰۲ ۱۰۳ 1+2 ۱۰۸ ۱۰۸ 1+9 xi مضمون خدا تعالیٰ کے انعامات کی اُمّ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ہے جب تک تدبیر کے ساتھ دعا نہ ہو کچھ نہیں اور دعا کے ساتھ تدبیر نہ ہو تو کچھ فائدہ نہیں مسلمان علماء جب لفظ تو فی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر آتا ہے تو اس کے معنے موت کرتے ہیں اور جب مسیح پر آتا ہے تو زندہ مع جسم آسمان پر اٹھاتے ہیں ان کی غیرت کو کیا ہوا ؟ ہم قرآن شریف کی تعلیم کے موافق دنیا کے ہر ایک نبی کو جو مقبول الا نام گزرے ہیں عزت اور تعظیم کی راہ سے دیکھتے ہیں سوال کا جواب کہ زردشت نبی تھا یا نہیں نص صریح سے اس بات کا ثبوت کہ آدم جمعہ کے آخری حصہ میں پیدا کیا گیا فرشتوں کا جناب الہی میں عرض کرنا کہ کیا تو ایک مفس کو خلیفہ بنانے لگا ہے؟ اس کے کیا معنے ہیں؟ جو شخص کامل انقطاع اور کامل توکل کا مرتبہ پیدا کر لیتا ہے تو فرشتے اس کے خادم کیے جاتے ہیں استقامت کیا ہے جو لوگ خدا پر ایمان لا کر استقامت اختیار کرتے ہیں فرشتے ان کو بشارت کے الہامات سناتے ہیں الہام کیا چیز ہے نمبر شمار ۶۹ اے ۷۲ ۷۳ ۷۴ ۷۵ ۷۶ LL ZA ۷۹
صفحہ 11.۱۱۲ ۱۱۴ ۱۱۴ ۱۱۵ ۱۱۶ ۱۱۸ ۱۲۱ ۱۲۲ ۱۲۳ ۱۲۵ ۱۲۷ xii استقامت سے کیا مراد ہے مضمون اسلام کی حقیت اور حقانیت کی اول نشانی یہی ہے کہ اس میں ہمیشہ ایسے راستباز جن سے خدا ہمکلام ہو پیدا ہوتے ہیں آیت نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ تكذیب میں ان نادانوں کی ہے جنہوں نے اس زندگی میں نزول ملائکہ سے انکار کیا نُزُلاً مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ میں مہمانی کے لفظ سے اس پھل کی طرف اشارہ ہے جو آیت تُؤْتي أكُلَهَا كُل حِينٍ میں فرمایا گیا ہے جو لوگ اللہ کے دوست محب اور محبوب ہیں ان کی نشانیاں ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ کیا تعلیم دیتی ہے اِعْمَلُوا مَا شِئْتُم کا مقام اور اس کے معنے وجودی ( وحدت وجود کا عقیدہ رکھنے والے ) نے جو قدم مارا ہے وہ حد ادب سے بڑھ کر ہے قیامت کی خبر سنا کی تعبیر میرے پر کھولا گیا کہ آیت موصوفہ و كَذلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لتُنذِرَ أُمَّ القُری عربی کے ام الالسنہ ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے خدا کی دو صفتیں ہیں ایک صفت تشبیبی ، دوسری صفت تنزیہی اللہ تعالیٰ نے اول ضرورت فرقان مجید کی نازل ہونے کی بیان کی پھر بطور توضیح جسمانی قانون کا حوالہ دیا نمبر شمار ۸۰ ΔΙ ۸۲ ۸۳ ۸۴ ۸۵ ۸۶ ۸۷ ٨٨ ۸۹ ۹۱
صفحہ ۱۲۹ ۱۲۹ ۱۳۷ ۱۳۸ ۱۴۰ ۱۴۰ ۱۴۱ ۱۴۲ ۱۴۶ ۱۴۷ ۱۴۸ xiii مضمون قرآنی تعلیم یہ ہے کہ دیکھنا چاہیے کہ وہ محل اور موقع گناہ بخشنے کا ہے یا سزا دینے کا ہے وَجَزُوا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا یه اجمالی عبارت توسیع قانون کے لیے بیان فرمائی گئی ہے انتقام میں اسلام، یہود ونصاریٰ کی تعلیمات کا موازنہ انجیل کی تعلیم عفو تفریط کی طرف جھکی ہوئی ہے دوسری طرف توریت کی تعلیم انتقام افراط کی طرف جھکی ہوئی ہے کلام الہی کی تین قسمیں.وحی ، رویا، کشف سواد اعظم علماء الہام کو وحی کا مترادف قرار دینے میں متفق ہیں الہام ایک القاء غیبی ہے کہ جس کا حصول کسی طرح کی سوچ اور تردد اور تفکر اور تدبیر پر موقوف نہیں ہوتا کلام اور الہام میں فرق صاحب کشف ایک دہر یہ بھی ہوسکتا ہے لیکن صاحب وہی سوائے مسلمان کے دوسرا کوئی نہیں ہوسکتا اللہ تعالیٰ نے وحی اور الہام کا مادہ ہر شخص میں رکھ دیا ہے ہر ایک وحی نبی منزل علیہ کی فطرت کے موافق نازل ہوتی ہے بعض اوقات بعض فقروں میں خدا تعالیٰ کی وحی انسانوں کی بنائی ہوئی صرفی نحوی قواعد کی بظاہر اتباع نہیں کرتی نمبر شمار ۹۲ ۹۳ ۹۴ ۹۵ ۹۶ ۹۷ ۹۸ ۹۹ 1++ 1+1 ۱۰۲ ١٠٣
xiv نمبر شمار ۱۰۴ مضمون محض الہام جب تک اس کے ساتھ فعلی شہادت نہ ہو ہر گز کسی کام کا نہیں ۱۰۵ الہام کی ضرورت 1+4 میری جماعت میں اس قسم کے ملہم اس قدر ہیں کہ بعض کے الہامات کی ایک کتاب بنتی ہے ۱۰۷ یہ خیال مت کرو کہ خدا کی وحی آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہے ۱۰ ہر ایک ملہم من اللہ کو تبلیغ و اظہار کے لحاظ سے تین قسم کے الہام ہوتے ہیں 1+9 +11 III ١١٢ ۱۱۳ ۱۱۴ ۱۱۵ ۱۱۶ وجی دو قسم کی ہے وحی الابتلاء اور وحی الاصطفاء الہام کشف یا رویا تین قسم کے ہوتے ہیں اول خدا کی طرف سے دوسرے حدیث النفس تیسرے شیطانی الہام خدا کی طرف سے نازل ہونے والے الہام کی تین علامتیں سچا الہام جو خالص خدا تعالی کی طرف سے ہوتا ہے اس کی دس علامتیں رحمانی الہام کی گیارہ نشانیاں سوال کا جواب کہ وحی کس طرح نازل ہوتی ہے یہ الزام کہ صحابہ کرام سے الہامات ثابت نہیں ہوتے بالکل بے جا اور غلط ہے اگر کل قول و فعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وحی تھا تو پھر اجتہادی غلطی کیوں ہوئی کا جواب ۱۱۷ ہر ایک نبی کو جب تک وحی نہ ہو وہ کچھ نہیں کہہ سکتا ۱۱۸ قرآن کریم کی محکمات اور بینات علم ہے اور مخالف قرآن کے جو کچھ ہے وہ ظن ہے صفحہ ۱۵۲ ۱۵۸ ۱۵۹ 171 ۱۶۳ ۱۶۳ ۱۶۳ ۱۶۷ ۱۶۸ ۱۷۹ ۱۸۱ ۱۸۴ ۱۸۷
صفحہ ۱۸۷ ۱۲۰ ۱۹۰ ۱۹۱ ۱۹۱ ۱۹۳ ۱۹۴ ۱۹۵ ۱۹۷ ۲۰۰ ۲۰۱ ۲۰۲ XV مضمون کفار کے اعتراض کا جواب کہ قرآن مکہ و طائف میں سے کسی رئیس اور دولتمند پر کیوں نازل نہ ہوا تا اس کی رئیسانہ شان، رعب سیاست اور مال کے خرچ سے جلد تر دین پھیل جاتا سنت اللہ کہ برگزیدہ لوگ ورطه عظیمہ میں ڈالے جاتے ہیں اس کاستر قرآن کو دستاویز پکڑو اور اسی کو مقدم رکھو إنَّه لَعِلْمُ لِلسَّاعَةِ کے یہ معنے ہیں کہ یہودیوں کے ادبار اور ذلت کی نشانی مسیح کے آنے کا وقت تھا إنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرنَ بِهَا کو حضرت عیسی کے نزول سے کچھ بھی تعلق نہیں اللہ تعالی نے مسیح کے متعلق وَ إِنَّهُ لَعِلْمُ لِلسَّاعَةِ کہا ہے یہ نہیں کہ اِنَّهُ سَيَكُونُ عِلْمًا لِلسَّاعَةِ آیت إِنَّهُ لَعِلْمُ لِلسَّاعَةِ میں انگہ کی ضمیر قرآن کریم کی طرف راجع ہے ساعۃ سے مراد اس جگہ وہ عذاب ہے جو حضرت عیسی کے بعد طیطوس رومی نمبر شمار 119 ۱۲۱ ۱۲۲ ۱۲۳ ۱۲۴ ۱۲۵ ۱۲۶ کے ہاتھ سے یہود پر نازل ہوا تھا ۱۲۷ اصل قیامت کا علم تو سوائے خدا کے اور کسی کو بھی نہیں ۱۲۸ ۱۲۹ ۱۳۰ سنت اللہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام اور نبی لیلتہ القدر میں نازل ہوتے ہیں إنَّا اَنْزَلْنَهُ في لَيْلَةٍ مُبرَكة میں برکت والی رات سے مراد ١٣٠ فَارْتَقِبُ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍ میں دخان سے مراد
xvi نمبر شمار ۱۳۱ مضمون إِنَّا كَاشِفُوا الْعَذَابِ قَلِيلًا إِنَّكُمْ عَابِدُونَ آیت صریح نص ہے کہ خدا تعالیٰ تضرع کو قبول کر کے عذاب ٹال دیتا ہے ۱۳۲ ذُقُ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْكَرِيمُ یہ کلام نہایت غضب کا ہے ۱۳۳ لا يَذُوقُونَ فِيهَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَةَ الأولى سے حضرت مسیح کی حیات کی تردید ۱۳۴ اگر کوئی حدیث قرآن کریم سے مخالف ہو تو ہر گز نہیں ماننی چاہیے ۱۳۵ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللهِ وَايْتِهِ يُؤْمِنُونَ کے لفظ حدیث میں ایک پیشگوئی ۱۳۶ دو متقابل سلسلوں ، سلسلہ موسویہ اور سلسلہ محمدیہ کا ذکر ۱۳۷ جس شخص کو آنحضرت صلعم کا پاس نہیں وہ بے ایمان ہے ۱۳۸ - مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی دلیل ۱۳۹ ۱۴۰ ۱۴۱ ۱۴۲ محض الہام جب تک اس کے ساتھ فعلی شہادت نہ ہو ہر گز کسی کام کا نہیں پہلی کتابوں سے اجتہاد کرنا حرام نہیں اپنی حالت کی پاک تبدیلی اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی اولا داور بیوی کے واسطے بھی دعا کرتے رہنا چاہیے انبیاء کے دشمنوں کے برخلاف خدا تعالیٰ اپنے مصالح اور سنن کے لحاظ بڑے توقف اور حلم کے ساتھ کام کرتا ہے ۱۴۳ حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَهَا یعنی اس وقت تک لڑائی کرو جب تک کہ مسیح کا وقت آجائے صفحہ ۲۰۳ ۲۰۵ ۲۰۵ ۲۰۷ ۲۰۷ ۲۰۹ ۲۱۰ ۲۱۰ ۲۱۴ ۲۱۴ ۲۱۵ ۲۱۶ ۲۲۰
صفحہ ۲۲۰ ۲۲۱ ۲۲۲ ۲۲۳ ۲۲۴ ۲۲۷ ۲۲۸ ۲۲۹ ۲۳۰ ۲۳۶ ۲۳۷ ۲۳۸ ۲۳۸ xvii نمبر شمار ۱۴۴ مضمون يَأْكُلُونَ كَمَا تَأكُلُ الأَنْعَامُ چارپایوں کی طرح کھانے کے متفرق پہلو ۱۴۵ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت کی شہادت کہ عرب میں يَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ - يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَ قِيَاما کی تبدیلی سے سے ۱۴۶ مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ اس جگہ صاف طور پر فرمایا کہ اس بہشت کو مثالی طور پر یوں سمجھ لو ۱۴۷ لا اله الا اللہ کے معنی لغت عرب کے موارد استعمال کے لحاظ سے کلمہ طیبہ کے معنے اور حقیقت نبیوں کے استغفار کا مطلب ۱۴۸ ۱۴۹ ۱۵۰ ۱۵۱ ۱۵۲ انبیاء علیہم السلام کے گلہ کرنے سے بھی انسان کا فر ہو جاتا ہے اعتراض کا جواب کہ حضرت نوح علیہ السلام نے خلاف منشاء ایزدی اپنے بیٹے کے لئے دعا کی اسلیے وہ گنہگار ہوئے استغفار کے حقیقی اور اصلی معنی ۱۵۳ | لہو ولعب سے مراد ۱۵۴ حدیبیہ کے قصہ کو خدا تعالیٰ نے فتح مبین کے نام سے موسوم کیا ہے ۱۵۵ انا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا لِيَغْفِرَ لَكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تاخر.اس جگہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فتح کو گناہ کے بخشنے سے کیا تعلق ہے ۱۵۶ اللہ تعالیٰ نے بطریق مجاز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کو اپنی ذات اقدس ہی قرار دیا
صفحہ ۲۳۹ ۲۳۹ ۲۴۱ ۲۴۱ ۲۴۳ ۲۴۳ ۲۴۵ ۲۴۶ ۲۴۸ ۲۴۹ ۲۵۰ ۲۵۲ xviii نمبر شمار مضمون ۱۵۷ وَعَدَكُمُ اللهُ مَغَانِمَ كَثِيرَةً تَأْخُذُونَهَا اور وَأُخْرَى لَمْ تَقْدِرُوا عليها میں مذکور مال اور ممالک ۱۵۸ آیت هُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر مسیح کے حق میں پیشگوئی ہے ۱۵۹ ۱۶۰ ۱۶۱ ۱۶۲ ۱۶۳ حضرت موسی نے اشدّاء عَلَى الْكَفَّارِ کہہ کر صحابہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر دی حضرت عیسی نے گزرع اخرج منه کہکر صحابہ مسیح موعود کی خبر دی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بعث ہیں ایک بعث محمدی دوسرا بعث احمدی أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ کے معنی جو شخص اپنی خشک تو حید پر بھروسہ کر کے رسول سے قطع تعلق کرتا ہے وہ خدا کا نافرمان ہے ۱۶۴ صحابہ کو آپس میں جنگ و جدال اور باہمی آویزش کی وجہ سے کا فرقرار نہیں دیا ۱۶۵ تم ایک دوسرے کی چڑ کے نام نہ ڈالو یہ فعل فساق وفجار ہے یہ خوب یا درکھو کہ ساری خرابیاں اور برائیاں بدظنی سے پیدا ہوئی ہیں ۱۶۶ ۱۷ اپنے بھائی کا گلہ کرنا مردہ کھانا ہے ۱۲۸ اولیاء اللہ رسول اور نبی دو قسم کے ہوتے ہیں ایک جو دوسروں کی اصلاح کے لئے مامور ہوتے ہیں انکے لئے ضروری نہیں کہ کسی عالی خاندان ، قوم میں سے ہوں.دوسرے وہ جو رسول یا نبی یا محدث کہلاتے ہیں خدا ان کو اعلیٰ درجہ کی قوم اور خاندان میں سے پیدا کرتا ہے
صفحہ ۲۵۴ ۲۵۶ ۲۵۷ ۲۶۱ ۲۶۲ ۲۶۵ ۲۶۳ ۲۶۶ ۲۶۶ ۲۶۷ ۲۶۸ ۲۷۰ ۲۷۷ ۲۸۲ Xix نمبر شمار ۱۶۹ ۱۷۰ 121 مضمون خدا کے نزدیک بڑا وہ ہے جو متقی ہے یہ جو مختلف ذا تیں ہیں یہ کوئی وجہ شرافت نہیں حضرت ابو بکر اور حضرت یشوع بن نون میں ایک مناسبت مومنوں کی تعریف میں رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ فرمایا جبکہ الناس جن پر ایمان لانے کے بعد ابتلا کے موقعے نہیں آئے وہ اسکمنا میں داخل ہیں ۱۷۲ خدا کے افعال گونا گوں ہیں اس کی قدرت کبھی درماندہ نہیں ہوئی ۱۷۳ سلوک کے خاتمہ کا مقام ۱۷۴ فَالْمُقَسمت آمرا میں سلسلہ عمل روحانیہ کا بیان ۱۷۵ وَ مَا مَسَّنَا مِنْ لُغُوب اس لفظ کا رد ہے کہ خدا نے ساتویں دن آرام کیا 127 قُتِلَ الْخَرَصُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي غَرَةٍ سَاهُونَ میں عمرہ کے معنی ۱۷۷ وَفي اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ میں محروم سے مراد ۱۷۸ مومنوں متقیوں سے خدا تعالی کا رزق دینے کا وعدہ ہے ۱۷۹ ایک طرف تدابیر کی رعایت ہو اور دوسری طرف تو کل بھی پورا ہو آيت وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ کی رو سے انسان کی پیدائش کی علت غائی عبادت ہے 129 ۱۸۰ ۱۸۲ ہستی باری تعالی کی دلیل که وجود تمام اشیاء ممکنہ کا بغیر ذریعہ واجب الوجود کے محالات خمسہ کو مستلزم ہے وَ النَّجْمِ اِذَا هَوى کا مطلب ہے جب کبھی خدا تعالیٰ کا کوئی نشان زمین پر ظاہر ہونے والا ہوتا ہے تو اس سے پہلے آسمان پر کچھ آثار ظاہر ہوتے ہیں
صفحہ XX مضمون نمبر شمار ۱۸۳ اس خیال کارد که روح القدس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر خاص خاص وقتوں پر نازل ہوتا تھا اور دوسرے اوقات میں آپ اس سے بکلی محروم ہوتے تھے ۱۸۴ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بعض دفعہ ساٹھ دن تک وحی نازل نہیں ہوئی اس عدم نزول وحی سے مراد ۲۸۲ ۲۸۲ ۱۸۵ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فعل اور کوئی قول وحی کی آمیزش سے خالی نہیں ۲۸۳ ۱۸۶ اگر کل قول و فعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وحی سے تھا تو پھر اجتہادی غلطی کیوں ہوتی کا جواب ۲۸۴ ۲۸۵ ۲۹۰ ۲۹۰ ۲۹۱ ۲۹۵ ۲۹۸ ۲۹۸ ۳۰۱ ۱۸۷ جبرائیل علیہ السلام کا آسمان سے اتر نا حقیقی طور پر نہیں بلکہ تمثیلی.اتر نا ہے ۱۸۸ مہدی کا نام ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اور مسیح کا نام حضرت عیسی سے خاص ہے ۱۸۹ مهدی اور مسیح کے مفہوم میں ماخوذ معنے 190 ۱۹۱ ۱۹۲ ۱۹۳ اعتراض کا جواب کہ ذُو مِرو شیطان کا نام ہے الهام حضرت مسیح موعود اَرَدْتُ أَنْ أَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ أَدَمَ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةٌ کی تشریح ثُمَّ دَنَا فَتَدَلی کی تفسیر قَابَ قَوْسَيْن کی تشریح ۱۹۴ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم الشان روحانی حسن نے حق اللہ اور حق العباد دونوں حقوق کو ادا کیا
xxi نمبر شمار مضمون ۱۹۵ تدلّی کے معنی کہ شفاعت کے لئے دور افتادہ لوگوں کی طرف بکمال ۱۹۶ ہمدردی و غم خواری توجہ کرنا ثمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَین او ادنی میں آوٹی کا لفظ استعمال کرنے کی وجہ ۱۹۷ عیسائیوں کو جواب دیتے وقت بعض اوقات سخت الفاظ کے استعمال کی غرض ۱۹۸ تزکیہ نفس اور اظہار نعمت کے درمیان فرق ۱۹۹ خدا تعالیٰ کا ابراھیم کو وفاداری ، صدق اور اخلاص پر وَ ابْراهِيمَ الَّذِى وفی کا خطاب ۲۰۰ سوال کا جواب کہ حضرت ابراھیم نے احیائے موتی کی کیفیت کے متعلق ۲۰۱ اطمینان چاہا تھا کیا ان کو پہلے اطمینان نہ تھا یہ کہنا کہ انسانی رنج ومن حوا کے سیب کھانے کی وجہ سے ہیں اسلام کا یہ عقیدہ نہیں ۲۰۲ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلا ما سعی سے مسیح کے کفارہ کی تردید کہ ثمرہ کوشش پر ہی ہے نہ کہ خون مسیح پر ایمان لا کر ۲۰۳ اَنْ لَّيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعی میں اللہ تعالیٰ اپنے فیض کو سعی اور مجاہدہ میں منحصر فرماتا ہے ۲۰۴ وَ اَنَّ إلى رَبِّكَ المُنْتَهى میں دلیل کہ تمام سلسله علل و معلولات کا خدا تعالیٰ پر ختم ہو جاتا ہے ۲۰۵ شق القمر کا معجزہ ایک قدرتی نشان ہے جو تاریخی طور پر کافی ثبوت اپنے ساتھ رکھتا ہے صفحہ ٣٠١ ٣٠٢ ۳۰۳ ۳۰۵ ۳۰۶ ۳۰۸ ۳۰۸ ٣٠٩ ۳۱۱ ۳۱۲ ۳۱۳
صفح ۳۱۴ ۳۱۶ ۳۱۷ ٣٢٠ ۳۲۱ ٣٢٢ ۳۲۳ ۳۲۳ ۳۲۴ ۳۲۷ ۳۲۷ ۳۲۹ xxii نمبر شمار ۲۰۶ مضمون لق القمر قوانین قدرتیہ کے برخلاف ہے کا جواب ۲۰۷ یہ اعتراض کہ کیوں کر چاند دو ٹکڑے ہو کر آستین میں سے نکل گیا یہ سراسر ۲۰۸ بے بنیاد اور باطل ہے سوال کا جواب کہ شق القمر خلاف عقل ہے جس سے انتظام ملکی میں خلل پڑتا ہے ۲۰۹ مسئلہ شق القمر ایک تاریخی واقعہ ہے جو قرآن شریف میں درج ہے العمرایک واقعہ درج مخالفین اسلام کا چپ رہنا شق القمر کے ثبوت کی دلیل ہے کہ وہ ضرور ۲۱۰ ۲۱۱ ۲۱۲ ۲۱۳ ۲۱۴ فق القمر مشاہدہ کر چکے تھے ابھی کچھ ضروری معلوم نہیں ہوتا کہ واقعہ شق القمر جو چند سیکنڈ سے کچھ زیادہ نہیں تھا ہر یک ولایت کے لوگ اطلاع پا جائیں فق القمر کے واقعہ پر ہندوؤں کی معتبر کتابوں میں بھی شہادت پائی جاتی ہے نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں شق القمر کی حکمت یہ جو کہا گیا کہ قیامت کی گھڑی کا کسی کو علم نہیں سوشریعت کا یہ مطلب نہیں لہ قیامت کا وقوع پھر ایک پہلو سے پوشیدہ ہے ۲۱۵ عض نادان شق القمر کے معجزہ پر قانون قدرت کی آڑ میں چھپ کر اعتراض کرتے ہیں نق القمر اور نَارُ كُونِي بَرْدَا وَ سَلما کے معجزات بھی خارج از اسباب نہیں ق القمر دراصل ایک قسم کا خسوف ہی تھا ودرو يُهزم الجمع ويُولُونَ الدُّبُر میں فتح بدر کی پیشگوئی ۲۱۶ ۲۱۷ ۲۱۸
صفحہ ۳۳۳ ۳۳۴ ۳۳۴ ۳۳۵ ۳۳۸ ۳۴۰ ۳۴۰ ۳۴۳ ۳۴۳ ۳۴۷ ۳۴۹ ۳۵۱ ۳۵۴ xxiii نمبر شمار ۲۱۹ ۲۲۰ ۲۲۱ مضمون علم نور ہے وہ حجاب نہیں ہوسکتا بلکہ جہالت حجاب الاکبر ہے عَلَّمَهُ الْبَیان میں بیان کے لفظ کے ساتھ عربی زبان کی بلاغت کی طرف اشاره الرّحمن عَلَمَ الْقُرآن میں مقصود دو باتیں و ۲۲۲ عَلَمَ الْقُرآن و عَلَمَهُ البیان پر مقدم کرنے میں غرض ۲۲۳ اس سوال کا جواب کہ سورہ رحمان میں اعادہ اور تکرار کیوں ہوا ہے ۲۲۴ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَان میں فان کا لفظ اختیار کیا تیفینی کا نہیں اس میں اشارہ ۲۲۵ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَالِ وَالْإِكْرَامِ میں اشارہ کہ خدا تعالیٰ ہر یک چیز کو معدوم کر کے اپنی وحدانیت دکھلائے گا كُلّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ میں اشارہ کہ انسان بھی خدا کے صفات جلالیہ کے پر توہ کے نیچے ہوتا ہے ۲۲۶ ۲۲۷ جنتین سے مراد اول اسی دنیا میں بہشتی زندگی اس کو عطا کی جاوے گی دوسرے مرنے کے بعد جاودانی بہشت اس کو ادا کیا جائے گا ۲۲۸ هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ میں مذہب کی کوئی شرط نہیں لگائی ۲۲۹ بہشتی شراب دنیا کی شرابوں سے کچھ مناسبت اور مشابہت نہیں رکھتی دنیا ۲۳۰ خدا نے امت میں دو گروہ ہی تجویز فرمائے ایک اولین جو جماعت ۲۳۱ نبوی ہے دوسرے آخرین جو جماعت مسیح موعود ہے خدا تعالیٰ کے خاص دوستوں کی علامت کہ ان کو معارف اور حقائق ولطائف قرآن دیئے جاتے ہیں
صفحہ ۳۵۵ ۳۵۸ ۳۶۱ ۳۶۳ ۳۶۷ ۳۷۲ ۳۷۴ ۳۷۵ ۳۷۷ ۳۷۸ XXIV مضمون نمبر شمار ۲۳۲ تفسیر قرآن کریم کا معیار کہ خود اپنا نفس مطہر لے کر قرآن کریم میں غور کرنا ۲۳۳ دنیاوی علوم کی تحصیل کے لئے تقوی وطہارت کی ضرورت نہیں لیکن دینی ۲۳۴ علوم کی تحصیل کے لئے تقوی وطہارت کی ضرورت ہے مسیح اللہ کے اسم آخر کا مظہر ہے جس کی طرف هُوَ الْأخر میں اشارہ ہے ۲۳۵ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ.خدا کے الوہیت کے تخت پر بیٹھنے سے اشارہ ۲۳۶ قرآن شریف نے خود اپنے آنے کی ضرورت پیش کی کہ اعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يخي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۲۳۷ حدید نے اپنا فعل بأس شدید کا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کیا مگر اس کے فعل منافع للناس کا وقت مسیح اور مہدی کا زمانہ ہے ۲۳۸ رہبانیت اگر خدا کا حکم ہوتا اور سب لوگ اس پر عمل کرتے تو اس صورت میں بنی آدم کی قطع نسل ہو کر کبھی کا دنیا کا خاتمہ ہو جاتا ۲۳۹ اعلیٰ درجہ کی کرامت اولیاء اللہ یہی ہے کہ ان کے تمام حواس اور عقل اور فہم اور قیاس میں نور رکھا جاتا ہے ۲۴۰ جو شخص اپنی عورت کو ماں کہہ بیٹھے اور پھر رجوع کرے تو عورت کو چھونے سے پہلے گردن آزاد کرے ۲۴۱ پس ضرور ہے کہ بموجب آیت کریمہ كَتَبَ اللهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَ رُسُلى میری فتح ہو ۲۴۲ كَتَبَ اللهُ لاَغْلِبَنَ آنَا وَرُسُلِی میں غلبہ سے مراد
صفحہ ۳۸۰ ۳۸۲ ۳۸۳ ۳۸۵ ۳۸۶ ۳۸۷ ۳۸۹ ۳۹۱ ۳۹۲ ۳۹۲ ۳۹ XXV مضمون نمبر شمار ۲۴۳ أُولَبِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيْمَانَ.دل میں ایمان کے لکھنے سے مطلب ۲۴۴ آیدَهُم بِرُوحِ مِنْهُ صاف اور کھلے طور پر بتلا رہی ہے کہ روح القدس مومنوں کے ساتھ رہتا تھا ۲۴۵ صحابہ نے یہاں تک ترقی کی کہ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ کا ۲۴۶ سرٹیفکیٹ ان کو دیا گیا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ کا سبب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کا نتیجہ ہے ۲۴۷ مَا الكُمُ الرَّسُولُ کا حکم بغیر کسی قید اور شرط کے نہیں کو اَنْزَلْنَا هَذَا الْقُرْآنَ عَلَى جَبَلٍ لَرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُتَصَدِّعًا مِنْ خَشْيَةِ اللہ کے دو معنی ۲۴۹ خدائے تعالیٰ کی متفرق صفات اور انکے معنی ۲۵۰ ضرورت خالقیت باری تعالی کی دلیل بذریعہ مادہ قیاس اقترانی ۲۵۱ اگر کوئی چوڑھا اچھا کام کرے گا تو بخشا جائے گا اور اگر سید ہو کر کوئی برا کام کرے گا تو وہ دوزخ میں ڈالا جائے گا ۲۵۲ یہود و نصاریٰ سے احسان کرو اور ان کے معاملات میں عدل کیا کرو ۲۵۳ اَن تَوَلَّوهُمْ میں توٹی کے لفظ میں ایک نکتہ ۲۵۴ مومن نصاریٰ اور یہود اور ہنود سے دوستی اور ہمدردی اور خیر خواہی کر سکتا احسان کر سکتا ہے مگر ان سے محبت نہیں کر سکتا
صفح ۳۹۴ ۳۹۴ ۳۹۵ xxvi نمبر شمار مضمون ۲۵۵ یا درکھو صرف لفاظی اور لسانی کام نہیں آسکتی جب تک عمل نہ ہو ۲۵۶ اس وقت قریباً علماء کی یہی حالت ہو رہی ہے لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ کے مصداق اکثر پائے جاتے ہیں ۲۵۷ مقت خدا کے غضب کو کہتے ہیں ۲۵۸ مُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِى اسمه احمد سے حضرت مسیح کی وفات کی دلیل و ۲۵۹ مُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِى اسْمُةُ احمد میں بشارت کے دو پہلو ٢٦٠ يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ منہ کی پھونکوں کے معنے ۲۶۱ آیت هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى E الدين كلهم جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیشگوئی ہے ۳۹۶ ۳۹۷ ۳۹۸ ۳۹۸ ۲۶۲ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو منصب ایک تحمیل ہدایت دوسری تحمیل اشاعت ۴۰۴ ۲۶۳ علماء کرام اور تمام اکا بر ملت اسلام قبول کر چکے کہ تکمیل اشاعت مسیح موعود کے ذریعہ ہوگی ۲۶۴ متقدمین کا اتفاق کہ عالمگیر غلبہ مسیح موعود کے وقت میں ظہور میں آئے گا اس غلبہ کے لیے تین امر کا پایا جانا ضروری ہے ۲۶۵ هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ حلہ میں دو لفظ ھدی اور حق کے رکھنے کی حکمت ۴۰۴ ۴۰۷ ۴۱۱
صفحہ ۴۱۷ ۴۱۸ ۴۱۹ ۴۲۲ ۴۲۳ ۴۲۵ ۴۲۹ ۴۳۳ ۴۳۴ ۴۴۳ ۴۴۳ Xxvii نمبر شمار مضمون ٢٦٦ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ میں آخری زمانہ میں ایک شخص فارسی الاصل کے پیدا ہونے کی طرف اشارہ ۲۶۷ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اور برکات کو مشاہدہ کرنے والے صرف دو گروہ ہیں اول صحابہ آنحضرت دوسرا بالا صحابہ کی مانند مسیح موعود کا گروہ ۲۶۸ آیت وَ أَخَرِيْنَ مِنْهُمُ میں ایک اشارہ ۲۶۹ قرآن کے بڑے دو فائدے ہیں جن کے پہنچانے کے لیے آنحضرت صلعم ایک حکمت فرقان دوسری تا شیر قرآن ۲۷۰ وَآخَرِينَ مِنْهُم كا لفظ مفعول کے محل پر واقع ہے اس کی تفسیر ۲۷۱ زمانے تین ہیں اول صحابہ کا زمانہ اور ایک وسط کا زمانہ اور ایک آخری زمانہ مسیح موعود کا ۲۷۲ جو میری جماعت میں داخل ہوا در حقیقت میرے سردار خیرالمرسلین کے صحابہ میں داخل ہوا ۲۷۳ دلائل کہ آنے والا مسیح اسی امت میں سے ایک شخص ہو گا ۲۷۴ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے بعد ایک ہی زمانہ ہے جس کو مسیح کا زمانہ یا مہدی کا زمانہ کہتے ہیں.احادیث نے اس زمانہ کو تین پیرایوں میں بیان کیا ہے ۲۷۵ عورتوں پر جمعہ کے فرضیت کے متعلق سوال کا جواب ۲۷۶ دیہات میں جمعہ کی نماز ادا کرنے کے متعلق سوال کا جواب
XXIX اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فہرست آیات جن کی تفسیر بیان ہوئی ہے نمبر آیت آیت صفحہ نمبر آیت آیت صفحہ ۳۶ إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمُ لا إله..۲۰ سورة يس ۲۰ ۲۲ ۲۶ ۲۶ ۲۶ ۲۷ ۲۸ ۲۸ ۳۴ ۳۵ ۳۵ ۳۷ ۳۸ ۱۳ ۲۰ وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا أَنْذِرَا بَاؤُهُمْ إِنَّا نَحْنُ نُحْيِ الْمَوْتَى وَنَكْتُبُ قَالُوا طَابِرُكُمْ مَعَكُمْ اَبِنْ ذُكِرْتُمْ ۲۸،۲۷ قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ قَالَ لِلَيتَ.۳۱ يحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِم ۴۱،۲۰ وَالْقَمَرَ قَدَّرُنَهُ مَنَازِلَ حَتَّى عَادَ....۵۵ تا ۵۸ قَالَ هَلْ اَنْتُم مُّطَلِعُونَ.۵۹ تا ۶۱ أَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِينَ.۶۳ تا ۶۶ اذلِكَ خَيْرٌ نُزُاً أَم شَجَرَةُ الزَّقُومِ ۹۷ وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ ١٠۶،۱۰۵ وَنَادَيْنَهُ أَنْ يَا بْراهِيمُ.1+A وَفَدَيْنَهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ.فَاسْتَفْتِهِمُ الرَبِّكَ الْبَنَاتُ وَ لَهُمُ ۱۶۵ ۱۶۶ وَمَا مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقَامُ مَّعْلُومٌ.۱۷۲ تا ۱۷۶ وَلَقَد سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا.سورة ص وَعَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ مُنْذِرُ مِنْهُم.وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا.مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ.....وَخُذُ بِيَدِكَ ضِعْنا فَاضْرِبُ.۱۲ ۱۲ ۴۵ ۱۳ ۴۶ ۱۵ وَاذْكُرُ عِبدَنَا إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَقَ.۵۱،۵۰ ۱۷ هُذَا ذِكرُ وَإِنَّ لِلْمُتَّقِينَ.۶۳ وَقَالُوا مَا لَنَا لَا نَرَى رِجَالًا كُنَّا.۷۲ تا ۷۵ اِذْقَالَ رَبُّكَ لِلْمَليكَةِ إِنِّي خَالِقٌ.۳۸ ۳۹ ۴۱ ۴۱ 2Y ۱۹ قَالَ يَابْلِيسُ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ...۴۳ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَإِذَاهُمْ مِّنَ.سَلامُ " قَوْلًا مِّنْ رَّبٍ رَّحِيمٍ.وَامْتَازُوا الْيَوْمَ أَيُّهَا الْمُجْرِمُونَ.۵۲ ۵۹ ۶۰ ۶۹ و وَمَنْ تُعَمِّرُهُ نُنَكِسُهُ فِي الْخَلْقِ ۷۸ تا ۸۲ أَوَلَمْ يَرَ الْإِنْسَانُ أَنَّا خَلَقْنَهُ.إنما أمرةً إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ.فَسُبُحْنَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ.سورة الصفت إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَأَتْبَعَةُ.۸۳ ۸۴
آیت صفحہ وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِـ ۷۵ ۹۴ ۹۵ ۹۸ هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّنْ تُرَابٍ.فَاصْبِرُ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ.ވ قَلكَ.وَ لَقَدْ أَرْسَلْهَا بِسُلا من قبل.لي سورة حم السجدة XXX صفحہ نمبر آیت ་ ۴۳ ۶۸ ۴۴ ZA ۴۴ ۷۹ ۴۷ ۱۳ ،۱۲ ۴۷ ۲۴ ۵۲ ۲۷ ۵۲ ۲۸ ۵۲ ۳۱ ۵۴ ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانُ...وَذَلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنْتُمُ وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا.فَلَنْذِيُقَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا عَذَابًا.اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ.۳۲، ۳۳ نَحْنُ اَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا.۳۵ ۳۸ ۴۱ ۶۱ ۶۴ وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ.وَمِنْ أَيْتِهِ الَّيْلُ وَالنَّهَارُ.إِنَّ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي ابْتِنَا.۴۲ ۴۳ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالذِكرِ لَمَّا..۴۷ ۶۴ ۵۴ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ.1+1 1+4 1+4 1+7 1+6 ۱۱۴ ۱۱۶ 112 ۱۱۸ ۱۱۹ 119 قُلْ اَروَيْتُمُ اِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللهِ...١١٩ ۱۲۱ ۱۲۱ ۱۲۴ ۱۲۵ ۱۲۵ ۱۲۵ سورة الشورى تَكَادُ السَّموتُ يَتَفَكَّرُنَ مِنْ.وَكَذلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ قُرَانًا.فَاطِرُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ جَعَلَ.شرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَقَى بِه..اللهُ الَّذِى اَنْزَلَ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ.اللهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِه يَرْزُقُ مَنْ.۶۷ ۶۷ ۱۲ ۶۸ ۱۴ ۷۳ ۱۸ ۷۴ آیت قالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ ، خَلَقْتَنِى مِنْ.لَا مُلَيَّنَ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ.قُلْ مَا اسْلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ.سورة الزمر اَلَا لِلهِ الدِّينُ الْخَالِصُ.خَلَقَكُم مِّنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ.نمبر آیت لكِنِ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ لَهُمْ.اَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ اللهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتبًا.اِنَّكَ مَيْتُ وَ إِنَّهُم مَّيْتُونَ.22 ۸۶ AL ۲۱ ۲۲ ۲۴ ۳۱ ۳۷ اليسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَه.۴۰ ۴۱ قُلْ يُقَوْمِ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُم.اللهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا.قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى وَيَوْمَ الْقِيمَةِ تَرَى الَّذِينَ كَذَبُوا....وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقٌّ قَدْرِه.وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ....وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى..سورة المؤمن غَافِرِ الذَّنْبِ وَ قَابِلِ التَّوبِ.يَوْمَ هُمْ برِزُونَ لَا يَخْفى عَلَى.وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ إل.اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا..لخَلْقُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ....۴۳ ۵۴ ۶۲،۶۱ ۶۸ ۶۹ ۷۴ لا ۲۹ ۵۲ ۵۸
صفحہ ۲۰۴ ۲۰۴ ۲۰۵ ۲۰۵ ۲۰۸ ۲۰۸ ۲۱۰ ۲۱۰ XXXI نمبر آیت آیت صفحہ نمبر آیت آیت ۲۵ ۲۶ ۲۹ ۳۱ ۴۱ ۴۲ ۵۲ ۵۳ ام يَقُولُونَ افْتَرَى عَلَى اللهِ كَذِبًا.وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ.۱۷ ۱۲۶ ۱۲۶ يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الكُبرى.۴۴ تا ۵۰ إِنَّ شَجَرَتَ الرَّقُومِ.وَهُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِنْ بَعْدِ...١٢٦ ومَا أَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيبَةٍ فَبِمَا.وَجَزُوا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا.وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ.وَمَا كَانَ لِبَشَرِ أَنْ يُكَلِمَهُ اللهُ.وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا.۵۲ ۱۲۸ ۵۷ ۱۲۸ ۱۳۸ ۱۳۸ ۱۸۴ ۹۰۸ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقَامِ آمِينٍ لَا يَذُوقُونَ فِيهَا الْمَوْتَ إِلَّا.سورة الجاثية تِلْكَ أَيتُ اللهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ.وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَاكِ أَثِيمٍ ۱۷ تا ۱۹ وَلَقَد أَتَيْنَا بَنِي إِسْرَاءِيلَ الكِتب.۲۱۳ ۲۱۴ ۲۱۴ اِنَّهُمْ لَنْ يُغْنُوا عَنْكَ مِنَ اللهِ شَيْئًا...وَقَالُوا مَا هِيَ إِلا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا..مورة الاحقاف قُلْ اَرَوَيْتُم مَّا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ...اَم ط يَقُولُونَ افْتَرَهُ قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُه.قُلْ اَرَعَيْتُمْ إِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ........وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ اِحْسنا.۲۱۴ وَمَنْ لَا يُجِبُ دَاعِيَ اللهِ فَلَيْسَ.۲۱۵ فَاصْبِرُ كَمَا صَبَرَ أُولُوا الْعَزْمِ مِنَ...۲۱۶ سورة محمد وَالَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّلِحَتِ.فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرَبَ.اِنَّ اللهَ يُدخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا.۲۱۹ ۲۱۹ ۲۲۰ ۲۲۲ ۲۲۳ ۲۳۵ ۲۰ ۱۸۷ ۲۵ IAZ ۱۸۹ ۱۹۰ ۶،۵ 190 ۹ ۱۹۱ ۱۹۱ ۱۶ ۱۹۶ ۳۳ ۱۹۶ ۳۶ ۱۹۶ ۱۹۷ مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ.فَاعْلَمُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ.إِنَّمَا الْحَيوةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهُمُ.3 ۱۹۹ ۱۳ Σ ۱۶ ۲۱ سورة الزخرف وَقَالُوا لَوْ شَاءَ الرَّحْمٰنُ مَا.۳۲، ۳۳ وَقَالُوا لَو لَا نُزِّلَ هُذَا الْقُرْآنُ عَلَى..۲۰۱ ۲۰۲ ۲۰ وَزُخْرُفًا ۖ وَإِنْ كُلُّ ذَلِكَ لَمَّا مَتَاعُ.۳۷ ۲۰۳ ۳۶ ۳۷ وَمَنْ يَعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمنِ.۴۴ ۴۵ فَاسْتَمْسِكُ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ.۵۱ فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ.۶۰ تا ۶۲ إِنْ هُوَ إِلا عَبْدُ اَنْعَمُنَا عَلَيْهِ.۶۹ ۸۲ ۸۵ ۸۶ لِعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ قُلْ إِنْ كَانَ لِلرَّحينِ وَلَدٌ.وَهُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ الهُ وَ فِي.وَتَبْرَكَ الَّذِى لَهُ مُلْكُ السَّبُوتِ..سورة الدخان ۲ تا ۷ وَالْكِتَبِ الْمُبِينِ اِنَّا اَنْزَلْنَهُ فِي..۸ تا ۱۰ رَبِّ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَمَا.۱۲،۱۱ فَارْتَقِبُ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ.۱۳ تا ۱۶ رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ.
Xxxii نمبر آیت آیت صفحہ نمبر آیت ۳،۲ 11 ۲۲،۲۱ ۲۹ سورة الفتح اِنا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا.اِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا.وَعَدَكُمُ اللهُ مَغَانِمَ كَثِيرَةً.هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالهُدى....۲۳۹ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ.۲۴۰ سورة الحجرات يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ..۹، وَاعْلَمُوا اَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللهِ.۱۰ تا ۱۳ وَإِنْ طَابِفَتْنِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ۱۴ ۱۵ ۱۶ ۱۲ ۱۶ ۱۷ ۳۶ ۳۹ اَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَكُم مِّن ذَكَرٍ.قَالَتِ الْأَعْرَابُ أَمَنَّا قُلْ لَم اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا.سورة ق رِزْقًا لِلْعِبَادِ ، وَ أَحْيَيْنَا بِهِ.افَعَيْنَا بِالْخَلْقِ الْأَوَّلِ بَلْ هُمُ.وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ.لَهُم مَّا يَشَاءُونَ فِيهَا وَ لَدَيْنَا..وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ...سورة التديت ۲تا۵ وَالثَّرِيتِ ذَرُوا.۱۲،۱۱ قُتِلَ الْخَرَّصُونَ..۲۰ آیت ۲۲ وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ۲۳ ، ۲۴ وَفي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ.صفحہ ۲۶۶ ۲۶۷ ۵۱ ۲۳۷ ۲۳۸ ۲۳۹ ۵۷ فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ إِنِّي لَكُم مِّنْهُ.۵۴،۵۳ كَذلِكَ مَا أَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۲۶۹ ۲۶۹ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ۲۷۰ سورة الطور ۱۹ فكِهِينَ بِمَا الهُم رَبُّهُمْ ۲۷۷ فَذَكَرُ فَمَا أَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبَّكَ..۲۴۵ ۲۴۵ ۴۹ ۲۴۶ ۲۵۱ ۲۵۶ ۲۵۸ ۱۰،۹ ۱۸ ۳۶ تا ۳۸ اَمَ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ اَمْ هُمُ ۲۷۷ وَاصْبِرُ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ.۲۷۹ سورة النجم ۲ تا ۷ وَالنَّجْمِ إِذَا هَوى ۲۸۱ ثُمَّ دَنَا فَتَدَى.۲۹۵ > مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى 99111 ۲۲ ۲۳ الكُمُ الذَّكَرُ وَ لَهُ الْأُنْثَى تِلْكَ إِذَا.....٣٠٣ ۲۶۱ ۲۹ ۲۶۱ ۳۳ ۲۶۱ ۳۸ ۲۶۳ ۳۹ ۲۶۳ ۴۰ ۲۶۵ ۲۶۶ وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ ۲۶۶ ۴۳ وَمَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ.الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبِيرَ الْإِثْمِ وَابْراهِيمَ الَّذِي وَفَّى الا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى وَ أَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى وَ أَنَّ إلى رَبَّكَ الْمُنْتَهى سورة القمر ۲ تا ۴ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ ۳۰۴ ۳۰۴ ۳۰۶ ۳۰۸ ۳۰۹ ۳۱۲ ۳۱۳
صفحہ آیت اِعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ.۳۶۴ اِنَّ الْمُصَّدِقِيْنَ وَالْمُصَدِ قُتِ.۳۶۹ وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَيكَ...۳۶۹ مَا أَصَابَ مِنْ مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ....٣٦٩ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَتِ.ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى أَثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا..۳۷۰ ۳۷۱ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَامِنُوا...۳۷۳ ۳۷۵ ۳۷۹ ۳۸۵ ۳۸۵ ۳۸۶ ۳۸۷ ۳۸۷ ۳۸۹ ۳۹۱ ۳۹۲ ۳۹۲ سورة المجادلة وَالَّذِينَ يُظْهِرُونَ مِنْ نِّسَا بِهِمْ الم تَرَ اَنَّ اللهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَوتِ.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَ أَنَا وَرُسُلِي.لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللهِ.سورة الحشر مَا أَفَاءَ اللهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا الله.لَو اَنْزَلْنَا هُذَا الْقُرْآنَ عَلَى جَبَلٍ.هُوَ اللهُ الَّذِى لا اله الاهو.هُوَ اللهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلا هُوَ.هُوَ اللهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ.سورة الممتحنة قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي.لَا يَنْكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ لَم.إِنَّمَا يَنْكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ.XXXiii صفحہ نمبر آیت ۱۸ ۳۲۸ ۱۹ ۳۲۸ ۳۲۸ ۲۳ ۳۲۹ ۲۶ ۳۳۰ ۲۸ ۲۹ ۳تا۵ ۳۳۳ ۳۳۳ ۳۳۸ ۳۴۰ ۱۲ ۳۴۲ ۲۲ ۳۴۳ ۲۳ ۳۴۳ ۳۴۶ ۱۹ ۳۴۹ ۲۲ ۲۳ ۳۵۲ ۲۴ ۲۵ ۳۵۹ نمبر آیت آیت ۶ حِكْمَةُ بَالِغَةُ فَمَا تُغْنِ النُّذُرُ.فَدَعَا رَبَّةٌ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرُ ۱۸ وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِكرِ.۴۴ تا ۴۶ الْفَارُكُمْ خَيْرٌ مِنْ أو ليكم.۵۶،۵۵ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّتِ وَنَهَرٍ ۳،۲ سورة الرحمن الرَّحْمَنُ عَلَمَ الْقُرْآنَ دو ۴ تا ۶ خَلَقَ الْإِنْسَانَ عَلَمَهُ الْبَيَانَ الشَّمْسُ..۱۴ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِ بنِ ۲۸،۲۷ كُلٌّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ..يَسْتَلُه مَنْ فِي الشّبُوتِ وَالْأَرْضِ....يمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ اِن...وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتِن هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ سورة الواقعة اكواب و آبَارِيقَ وَكَأْسٍ مِّنْ..۳۴ ۴۷ ۶۱ ۲۰،۱۹ ۴۰ ۴۱ تلةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَثُلَةٌ مِّنَ الْآخِرِينَ ۳۵۰ و ۷۶ تا ۸۰ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقع النُّجُومِ.۳۶۱ ۹ ۳۶۳ ۳۶۴ إِنَّ هَذَا لَهُوَ حَقُّ الْيَقِينِ سورة الحديد هُوَ الْاَوَّلُ وَالآخِرُ وَ الظَّاهِرُ.هُوَ الَّذِى خَلَقَ السَّمَوتِ وَالْاَرْضَ.مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا..۹۵
XXXIV نمبر آیت آیت صفحہ نمبر آیت ۴،۳ ۶ سورة الصف أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ.وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يُقَومِ وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِبَنِي.يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ آیت ۱۱ تا ۱۴ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ ۳۹۳ ۳۹۵ ۴،۳ ۳۹۶ 1.۳۹۷ 11 هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى....۳۹۸ سورة الجمعة يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَواتِ وَمَا فِي.هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّينَ رَسُولًا..يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلوةُ فَانْتَشِرُوا..صفحہ ۴۱۲ ۴۱۵ ۴۱۶ ۴۴۳ ۴۴۳
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1 سورة يس بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة يس بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ يس اے سردار ! وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۱۰) قرآن حکمت سے پر ہے.(براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۶۲ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳) میں نے قرآن کے لفظ میں غور کی تب مجھے پر کھلا کہ اس مبارک لفظ میں ایک زبر دست پیشگوئی ہے وہ یہ ہے کہ یہی قرآن یعنی پڑھنے کے لائق کتاب ہے اور ایک زمانہ میں تو اور بھی زیادہ یہی پڑھنے کے قابل کتاب ہوگی جبکہ اور کتابیں بھی پڑھنے میں اس کے ساتھ شریک کی جائیں گی.اس وقت اسلام کی عزت بچانے کے لئے اور بطلان کا استیصال کرنے کے لئے یہی ایک کتاب پڑھنے کے قابل ہوگی اور دیگر کتا بیں قطعا چھوڑ دینے کے لائق ہوں گی.فرقان کے بھی یہی معنے ہیں یعنی یہی ایک کتاب حق و باطل میں فرق کرنے والی ٹھہرے گی اور کوئی حدیث کی یا اور کوئی کتاب اس حیثیت اور پایہ کی نہ ہوگی....اب سب کتا ہیں چھوڑ دو اور رات دن کتاب اللہ ہی کو پڑھو....بڑا بے ایمان ہے وہ شخص جو قرآن کریم کی طرف التفات نہ کرے اور دوسری کتابوں پر ہی رات دن جھکا ر ہے.ہماری جماعت کو چاہیے کہ قرآن کریم کے شغل اور تدبر میں جان ودل سے مصروف ہو جا ئیں اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة يس حدیثوں کے شغل کو ترک کر دیں.بڑے تأسف کا مقام ہے کہ قرآن کریم کا وہ انتنا اور تدارس نہیں کیا جاتا جو احادیث کا کیا جاتا ہے.اس وقت قرآن کریم کا حربہ ہاتھ میں لو تو تمہاری فتح ہے.اس نور کے آگے کوئی ظلمت ٹھہر نہ سکے گی.الحکم جلد ۴ نمبر ۷ ۳ مورخه ۱۷/اکتوبر ۱۹۰۰ء صفحه ۵) انسانی فطرت کا پورا اور کامل عکس صرف قرآن شریف ہی ہے.اگر قرآن نہ بھی آیا ہوتا جب بھی اسی تعلیم کے مطابق انسان سے سوال کیا جاتا کیونکہ یہ ایسی تعلیم ہے جو فطرتوں میں مرکوز اور قانون قدرت کے ہر صفحہ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۱ مورخہ ۱۴؍جولائی ۱۹۰۸ صفحہ ۷ ) میں مشہور ہے.إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ تو خدا کا مرسل ہے.لِتُنذِرَ قَوْمًا مَا انْذِرَا بَاؤُهُمْ فَهُمْ غُفِلُونَ ) تا تو ان لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے بے خبر گزر گئے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۱۰) (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۶۱ ) تجھ کو ہم نے اس لئے بھیجا ہے.....تا تو لوگوں کو کہ غفلت کی حالت میں پڑے ہوئے ہیں حق کی طرف توجہ دلا دے اور ان کو خبر دار کرے.برائن احمد یہ چہار خصص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۵۱) تا تو ان لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادوں کو کسی نے نہیں ڈرایا سووہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں.(برائین احمد یه چهار ص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۶۲ حاشیه در حاشیه نمبر ۴) تا تو ان لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے.تا تو ان کو ڈراوے جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے.(اربعین، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۵۶،۳۵۵) ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۰۹ حاشیه ) تا تو ان لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادے ڈرائے نہیں گئے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۹۳)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبين سورة يس اِنا نَحْنُ نُحْى الْمَوْتَى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَ أَثَارَهُمْ وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَهُ فِي إِمَامٍ ہم قرآن کے ساتھ مردوں کو زندہ کر رہے ہیں.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۲۵) قَالُوا طَابِرُكُمْ مَعَكُمْ اَبِنْ ذُكِرْتُمْ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ ) قِيلَ طَائِرُ كُمْ مَّعَكُمْ أَئِنْ ذُكِّرْتُمْ تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہے کیا اگر تم کو یاد بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ الهدى والتبصرة لمن يزی ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۳۰۳) ولا یا جائے بلکہ تم حد سے نکلنے والے لوگ ہو.( ترجمہ اصل کتاب سے ) قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ قَالَ يَلَيْتَ قَوْهِيَ يَعْلَمُونَ بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ.مقدس بندوں کے لئے وفات پانا اور بہشت میں داخل ہونا ایک ہی حکم میں ہے کیونکہ برطبق آیت قیل ادْخُلِ الْجَنَّةَ وَادْخُلِي جَنَّتِى وه بلا توقف بہشت میں داخل کئے جاتے ہیں.توضیح مرام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۵،۵۴) مومن کو فوت ہونے کے بعد بلا توقف بہشت میں جگہ ملتی ہے جیسا کہ ان آیات سے ظاہر ہو رہا ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۸۱) اس قسم کی آیتیں قرآن شریف میں بکثرت ہیں کہ میجر دموت کے ہر ایک انسان اپنے اعمال کی جزا دیکھ لیتا ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ ایک بہشتی کے بارے میں خبر دیتا ہے اور فرماتا ہے قِیلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ یعنی اس کو کہا گیا کہ تو بہشت میں داخل ہو.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۰۸) وَإِنَّا لَا نَقُولُ أَنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ بَعْدَ ہم یہ نہیں کہتے کہ اہل جنت دنیا سے دار الآخرت کی الْتِقَالِهِمْ إِلَى دَارِ الْآخِرَةِ يُحْمَسُونَ في طرف انتقال کے بعد قیامت تک کے لئے جنت سے ایک
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة يس مَكَانٍ بَعِيدٍ مِنَ الْجَنَّةِ إلى يوم دور کی جگہ میں روک لئے جاتے ہیں اور قیامت سے قبل يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَلَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَبْلَ سوائے شہداء کے کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا یہ بات الْقِيَامَةِ إِلَّا الشُّهَدَاءُ ، كَلَّا بَلِ ہرگز درست نہیں بلکہ ہمارے عقیدہ کے مطابق انبیاء سب الْأَنْبِيَاء عِنْدَنَا أَوَّلُ الدَّاخِلِين سے پہلے جنت میں داخل ہونے والے ہیں.کیا وہ مومن جو أَيْظُنُ الْمُؤْمِنُ الَّذِى يُحِبُّ اللہ اللہ تعالی اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہو یہ گمان کر سکتا ہے وَرَسُولَهُ أَنَّ النَّبِيِّينَ وَالصَّدِيقِينَ کہ نبی اور صدیق یوم بعث تک جنت سے دور رکھے جائیں يُبْعَدُونَ عَنِ الْجَنَّةِ إِلى يَوْمِ الْبَعْثِ گے اور اس کی راحت بخش ہوا کو نہیں پائیں گے لیکن شہداء وَلَا يَجِدُونَ مِنْهَا رَائحةٌ، وَأَمَّا الشُّهَدَاء بلا توقف جنت میں داخل ہوں گے اور ہمیشہ اس میں رہتے فَيَدْخُلُونَهَا مِنْ غَيْرِ مُكْتَ خَالِدِينَ چلے جائیں گے؟ فَاعْلَمُ يَا أَخِي أَنَّ هَذِهِ الْعَقِيدَة اے میرے بھائی ! جان لے کہ یہ عقید و ردی اور فاسد ہے رَدِيقَةٌ فَاسِدَةً وَمَمْلُوْءَةُ مِن سُوءٍ اور بے ادبی سے پر ہے.کیا تو نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم الْأَدَبِ أَمَا قَرَأْتَ مَا قَالَ رَسُولُ کی یہ حدیث نہیں پڑھی کہ جنت میری قبر کے نیچے ہے.نیز اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْجَنَّةَ آپ نے فرمایا کہ مومن کی قبر جنت کے باغیچوں میں سے تَحْتَ قَبْرِى وَقَالَ إِنَّ قَبْرَ الْمُؤْمِن ایک باغیچہ ہے اور خدائے عزوجل نے قرآن کریم میں فرمایا رَوْضَةٌ مِنْ رَوْضَاتِ الْجَنَّةِ وَقَالَ ب يَايَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَينَةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ....الخ يعنى اے نفس مطمعنہ اپنے رب کی طرف لوٹ آ اس حال میں کہ تو اسے پسند کرنے والا بھی ہے اور اس کا پسندیدہ بھی.پھر تیرا رب مجھے کہتا ہے کہ آمیرے خاص بندوں میں داخل ہو جا اور آمیری جنت میں بھی داخل ہو جا.اسی طرح ایک اور جگہ قرآن کریم عَزَّ وَ جَلَّ فِي كِتَابِهِ الْمُحْكَمِ يَايَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبَّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِيدِي وَادْخُلِي لے جَنَّتِي وَقَالَ فِي مَقَامٍ أَخَرَ قِيْلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ (حمامة البشری ، روحانی خزائن جلد۷ صفحه ۲۴۹) میں فرماتا ہے اسے کہا گیا کہ تو بہشت میں داخل ہو جا.(ترجمه از مرتب) ہر ایک شخص جو طیب اور طاہر مومنوں میں سے مرے وہ بھی بلا توقف بہشت میں داخل ہو جائے اور یہی بات حق ہے جیسا کہ قرآن شریف کے دوسرے مقامات میں بھی اس کی تشریح ہے منجملہ ان کے ایک وہ مقام الفجر : ۲۸ تا ۳۱
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہے جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قِیلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ یعنی کہا گیا کہ تو بہشت میں داخل ہو جا.سورة يس (براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۸۸،۳۸۷) يحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ ) اے حسرت بندوں پر کہ ایسا کوئی نبی نہیں آتا جس سے وہ ٹھٹھا نہ کریں.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۴۲) کوئی نبی نہیں جس سے ٹھٹھا نہیں کیا گیا.پس ضرور تھا کہ مسیح موعود سے بھی ٹھٹھا کیا جاتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُ ون پس خدا کی طرف سے یہ نشانی ہے کہ ہر ایک نبی سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے مگر ایسا آدمی جو تمام لوگوں کے رو برو آسمان سے اترے اور فرشتے بھی اس کے ساتھ ہوں اس سے کون ٹھٹھا کرے گا.پس اس دلیل سے بھی منظمند سمجھ سکتا ہے کہ مسیح موعود کا آسمان سے اتر نا محض جھوٹا خیال ہے.(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶۶، ۶۷) اگر مجھ سے ٹھٹھا کیا گیا تو یہ نئی بات نہیں.دنیا میں کوئی رسول نہیں آیا جس سے ٹھٹھا نہیں کیا گیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِعُونَ یعنی بندوں پر افسوس کہ کوئی رسول ان کے پاس ایسا نہیں آیا جس سے انہوں نے ٹھٹھا نہیں کیا.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۳۴) کوئی ایسا رسول نہیں آیا جس سے جاہل آدمیوں نے ٹھٹھا نہیں کیا.دیکھنا تو یہ چاہیے کہ کیا ٹھٹھا کرنے میں وہ حق بجانب تھے یا محض شیطنت اور شرارت تھی.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۵۲) اللہ تعالیٰ نے جو اس میں ما کے ساتھ حصر کیا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جو سچا ہے اس کے ساتھ ہنسی اور ٹھٹھا ضرور کیا جاتا ہے اگر یہ نہ کیا جائے تو خدا کا کلام صادق نہیں ٹھہرتا.صادق کی یہ بھی ایک نشانی ٹھہری.الحکم جلد ۵ نمبر ۳۱ مورخه ۱۷اراگست ۱۹۰۱ صفحه ۶) معاصرت بھی رتبہ کو گھٹا دیتی ہے اس لئے حضرت مسیح کہتے ہیں کہ نبی بے عزت نہیں ہوتا مگر اپنے وطن میں.اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ ان کو اہل وطن سے کیا کیا تکلیفیں اور صدمے اٹھانے پڑے تھے.اور یہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ایک سنت چلی آتی ہے ہم اس سے الگ کیوں کر ہو سکتے ہیں اس لئے ہم کو جو کچھ اپنے مخالفوں سے سننا پڑا یہ اسی سنت کے موافق ہے.يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ ۶ سورة يس الحکم جلد ۶ نمبر ۴۴ مورخه ۱۰ دسمبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۱) مذاق تمسخر صحت نیت میں فرق ڈالتا ہے اور ماموروں کے لئے تو یہ سنت چلی آئی ہے کہ لوگ ان پر جنسی اور ٹھٹھا کرتے ہیں مگر حسرت نہیں کرنے والوں ہی پر رہ جاتی ہے چنانچہ قرآن شریف میں فرمایا ہے یحسرةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِهُونَ - نا واقف انسان نہیں جانتا کہ اصل حقیقت کیا ہے وہ ہنسی اور مذاق میں ایک بات کو اڑانا چاہتا ہے مگر تقویٰ ہے جو اسے راہ حق کی طرف راہنمائی کرتا ہے.الحکم جلدے نمبر ۷ مورخه ۲۱ فروری ۱۹۰۳ صفحہ ۳) گورنمنٹ کا ادنی چپراسی وصول لگان کے واسطے آجاوے کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرتا اور اگر کرے تو گورنمنٹ کا باغی ٹھیرتا ہے اور سزا پاتا ہے مگر خدائی گورنمنٹ کی لوگ پروانہیں کرتے.خدا سے آنے والے لاریب غربت کے لباس میں ہوتے ہیں.لوگ ان کو حقارت اور تمسخر سے دیکھتے ہیں.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِمُونَ.اللہ تعالیٰ سچا ہے وہ جھوٹ نہیں کہتا کہ آدم سے لے کر اخیر تک جتنے بھی نبی آئے ہیں ان تمام سے ہنسی ٹھٹھا کیا گیا ہے مگر جب وقت گزر جاتا ہے پھر لگتے ہیں تعریفیں کرنے....اسی منہاج پر مجھے بھی تمام پنجاب اور ہندوستان کے علماء نے کافر، دجال، فاسق فاجر وغیرہ کے خطاب دیئے ہیں.الحاکم جلد ۱۲ نمبر ۳۳ مورخه ۱۲ رمئی ۱۹۰۸ صفحه ۴) ان لوگوں نے کوئی ہمیں ہی یہ گالیاں نہیں دیں بلکہ یہ معاملہ تمام انبیاء کے ساتھ اسی طرح چلا آیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کذاب ، ساحر، مجنون ، مفتری وغیرہ الفاظ سے یاد کیا گیا تھا اور انجیل کھول کر دیکھو تو معلوم ہوگا کہ حضرت عیسی سے بھی ایسا ہی برتاؤ کیا گیا.حضرت موسیٰ کو بھی گالیاں دی گئی تھیں.اصل میں تَشَابَهَتُ قُلُوبُهُم والی بات ہے.اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ کوئی بھی ایسا سچا نبی نہیں آیا کہ آتے ہی اس کی عزت کی گئی ہو.ہم کیوں کرسنت الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۴ مورخه ۱۸ رمئی ۱۹۰۸ء صفحه ۴) اللہ سے باہر ہو سکتے ہیں.وَالْقَمَرَ قَدَّرْتُهُ مَنَازِلَ حَتَّى عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِى لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ بعض نیم مثلاً میرے پر اعتراض کر کے کہتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ خوشخبری دے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷ سورة يس رکھی ہے کہ تم میں تیس دجال آئیں گے اور ہر ایک ان میں سے نبوت کا دعویٰ کرے گا.اس کا جواب یہی ہے کہ اے نادانوں بدنصیبو.کیا تمہاری قسمت میں تیس دجال ہی لکھے ہوئے تھے.چودھویں صدی کا شمس بھی گزرنے پر ہے اور خلافت کے چاند نے اپنے کمال کی چودہ منزلیں پوری کر لیں جس کی طرف آیت وَالْقَمَرَ قدرتهُ مَنَازِلَ بھی اشارہ کرتی ہے اور دنیا ختم ہونے لگی مگر تم لوگوں کے دجال ابھی ختم ہونے میں نہیں آتے شاید تمہاری موت تک تمہارے ساتھ رہیں گے.و ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۱۵ حاشیه ) نواب صدیق الحسن خان نے لکھا ہے کہ نزول مسیح میں کوئی شخص چودھویں صدی سے آگے نہیں بڑھتا (یعنی جس قدر مکاشفات اور اخبار ہیں وہ تمام چودھویں صدی تک کی خبر دیتی ہیں ) ترقی قمر بھی ۱۴ تک ہی و معلوم ہوتی ہے جیسے قرآن شریف میں ہے وَ الْقَمَرَ قَدَّرُنَهُ مَنَازِلَ حَلَى عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ - (البدر جلد نمبر ۵ ، ۶ مورخه ۲۸ /نومبر و ۵ / دسمبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۳۹) سورج کو یہ طاقت نہیں کہ چاند کی جگہ پہنچ جائے اور نہ رات دن پر سبقت کر سکتی ہے.کوئی ستارہ اپنے فلک مقرری سے آگے پیچھے نہیں ہو سکتا.( براہینِ احمدیہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۲۳ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳) آج کل کے علم ہیئت کے محققین جو یورپ کے فلاسفر ہیں جس طرز سے آسمانوں کے وجود کی نسبت خیال رکھتے ہیں در حقیقت وہ خیال قرآن کریم کے مخالف نہیں کیونکہ قرآن کریم نے اگر چہ آسمانوں کو نرا پول تو نہیں ٹھہرایا لیکن اس سماوی مادہ کا جو پول کے اندر بھرا ہوا ہے صلب اور کثیف اور متعسر الخرق مادہ بھی قرار نہیں دیا بلکہ ہوا یا پانی کی طرح نرم اور کثیف مادہ قرار دیا جس میں ستارے تیرتے ہیں اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ جل شانہ فرماتا ہے كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ ہاں یونانیوں نے آسمانوں کو اجسام کثیفہ تسلیم کیا ہوا ہے اور پیاز کے چھلکوں کی طرح تہ بتہ ان کو مانا ہے اور آخری تہ کا آسمان جو تمام تہوں پر محیط ہورہا ہے جمیع مخلوقات کا انتہا قرار دیا ہے جس کو وہ فلک الافلاک اور محمد دبھی کہتے ہیں جو ان کے زعم میں معہ تین اور آسمانوں کے جن کا نام مدیر اور جوز ہر اور مائل ہے مشرق سے مغرب کی طرف گردش کرتا ہے اور باقی آسمان مغرب سے مشرق کی طرف گھومتے ہیں اور ان کے گمان میں فلک محد د معمورہ عالم کا منتہا ہے جس کے پیچھے خلا ملا نہیں.گویا خدا تعالیٰ نے اپنے ممالک مقبوضہ کی ایک دیوار کھینچی ہوئی ہے جس کا ماورا کچھ بھی نہیں نہ خلا نہ ملا.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام Δ سورة يس یونانیوں کی اس رائے پر جس قدر اعتراض وارد ہوتے ہیں وہ پوشیدہ نہیں نہ صرف قیاسی طور پر بلکہ تجربہ بھی ان کا مکذب ہے جس حالت میں آج کل کے آلات دور بین نہایت دور کے ستاروں کا بھی پتہ لگاتے جاتے ہیں اور چاند اور سورج کو ایسا دکھا دیتے ہیں کہ گویا وہ پانچ چار کوس پر ہیں تو پھر تعجب کا مقام ہے کہ باوجود یکہ آسمان یونانیوں کے زعم میں ایک کثیف جو ہر ہے اور ایسا کثیف جو قابل خرق والتیام نہیں اور اس قدر بڑا کہ گویا چاند اور سورج کو اس کی ضخامت کے ساتھ کچھ بھی نسبت نہیں.پھر بھی وہ ان دور بین آلات سے نظر نہیں آسکا.اگر دور کے آسمان نظر نہیں آتے تھے تو سماء الدنیا جو سب سے قریب ہے ضرور نظر آ جانا چاہئے تھا پس کچھ شک نہیں کہ جو یونانیوں نے عالم بالا کی تصویر دکھائی ہے وہ صحیح نہیں اور اس قدر اس پر اعتراض پیدا ہوتے ہیں کہ جن سے مخلصی حاصل کرنا ممکن ہی نہیں لیکن قرآن کریم نے جو سماوات کی حقیقت بیان کی ہے وہ نہایت صحیح اور درست ہے جس کے ماننے کے بغیر انسان کو کچھ بن نہیں پڑتا اور اس کی مخالفت میں جو کچھ بیان کیا جائے وہ سراسرنا واقعی یا تعصب پر مبنی ہو گا.قرآن کریم نہ آسمانوں کو یونانی حکماء کی طرح طبقات کثیفہ ٹھہراتا ہے اور نہ بعض نادانوں کے خیال کے موافق نرا پول جس میں کچھ بھی نہیں.چنانچہ شق اول کی معقولی طور پر غلطی ظاہر ہے جس کی نسبت ہم ابھی بیان کر چکے ہیں.اور شق دوم یعنی یہ کہ آسمان کچھ بھی وجود مادی نہیں رکھتا نرا پول ہے استقرا کی رو سے سراسر غلط ثابت ہوتا ہے کیونکہ اگر ہم اس فضا کی نسبت جو چمکتے ہوئے ستاروں تک ہمیں نظر آتا ہے بذریعہ اپنے تجارب استقرائیہ کے تحقیقات کرنا چاہیں تو صاف ثابت ہوتا ہے کہ سنت اللہ یا قانون قدرت یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے کسی فضا کو محض خالی نہیں رکھا چنانچہ جو شخص غبارہ میں بیٹھ کر ہوا کے طبقات کو چیرتا چلا جاتا ہے وہ شہادت دے سکتا ہے کہ جس قدر وہ اوپر کو چڑھا اس نے کسی حصہ فضا کو خالی نہیں پایا پس یہ استقر اہمیں اس بات کے سمجھنے کے لئے بہت مدد دے سکتا ہے کہ اگر چہ یونانیوں کی طرح آسمان کی حد بست ناجائز ہے مگر یہ بھی تو درست نہیں ہے کہ آسمانوں سے مراد صرف ایک خالی فضا اور پول ہے جس میں کوئی مخلوق مادہ نہیں ہم جہاں تک ہمارے تجارب رویت رسائی رکھتے ہیں کوئی مجرد پول مشاہدہ نہیں کرتے پھر کیوں کر خلاف اپنی مستمر استقرا کے حکم کر سکتے ہیں کہ ان مملو فضاؤں سے آگے چل کر ایسے فضا بھی ہیں جو بالکل خالی ہیں.کیا بر خلاف ثابت شدہ استقراء کے اس وہم کا کچھ بھی ثبوت ہے ایک ذرا بھی نہیں.پھر کیوں کر ایک بے بنیا دو ہم کو قبول کیا جائے اور مان لیا جائے.ہم کیوں کر ایک قطعی ثبوت کو بغیر کسی مخالفانہ اور غالب ثبوت کے چھوڑ سکتے ہیں اور علاوہ اس کے اللہ جل شانہ کی اس میں کسر شان
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹ سورة يس بھی ہے گویا وہ عام اور کامل خالقیت سے عاجز تھا تبھی تو تھوڑ اسا بنا کر باقی بے انتہا فضا چھوڑ دی اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس استقرائی ثبوت کے انکار میں کہ کوئی فضا کسی جو ہر لطیف سے خالی نہیں کون سی یقینی اور قطعی دلیل ایسے شخصوں کے ہاتھ میں ہے جو مجز دپول کے قائل ہیں یا قائل ہوں.اگر کوئی شخص ایسا ہی اعتقاد اور رائے رکھتا ہے کہ چند مادی کروں کے بعد تمام پول ہی پڑا ہے جو بے انتہا ہے تو وہ ہماری اس حجت استقرائی سے صاف اور صریح طور پر ملزم ٹھہر جاتا ہے ظاہر ہے کہ استقراء وہ استدلال اور حجت کی قسم ہے جو اکثر دنیا کے ثبوتوں کو اسی سے مدد ملی ہے مثلاً ہمارا یہ قول کہ انسان کی دو آنکھیں ہوتی ہیں اور ایک زبان اور دوکان اور وہ عورتوں کی پیشاب گاہ کی راہ سے پیدا ہوتا ہے اور پہلے بچہ پھر جوان اور پھر بڑھا ہوتا ہے اور آخر کسی قدر عمر پا کر مر جاتا ہے اور ایسا ہی ہمارا یہ قول کہ انسان سوتا بھی ہے اور کھاتا بھی اور آنکھوں سے دیکھتا اور ناک سے سونگھتا اور کانوں کے ذریعہ سے سنتا اور پیروں سے چلتا اور ہاتھوں سے کام کرتا اور دوکانوں میں اس کا سر ہے اور ایسا ہی اور صدہا باتیں اور ہر ایک نوع نباتات اور جمادات اور حیوانات کی نسبت جو ہم نے طرح طرح کے خواص دریافت کئے ہیں ان سب کا ذریعہ بجز استقراء کے اور کیا ہے.پھر اگر استقراء میں کسی کو کلام ہو تو یہ تمام علوم درہم برہم ہو جائیں گے اور اگر یہ خلجان ان کے دلوں میں پیدا ہو کہ آسمانوں کا اگر کچھ وجود ہے تو کیوں نظر نہیں آتا.تو اس کا یہ جواب ہے کہ ہر ایک وجود کا مرئی ہونا شرط نہیں جو وجود نہایت لطافت اور بساطت میں پڑا ہے وہ کیوں کر نظر آ جائے اور کیوں کر کوئی دور بین اس کو دریافت کر سکے.غرض سماوی وجود کو خدا تعالیٰ نے نہایت لطیف قرار دیا ہے چنانچہ اسی کی تصریح میں یہ آیت اشارہ کر رہی ہے کہ حلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ یعنی ہر ایک ستارہ اپنے اپنے آسمان میں جو اس کا مبلغ دور ا ہے تیر رہا ہے.اور در حقیقت خدا تعالیٰ نے یونانیوں کے محدّد کی طرح اپنے عرش کو قرار نہیں دیا اور نہ اس کو محدود قرار دیا.ہاں اس کو اعلیٰ سے اعلیٰ ایک طبقہ قرار دیا ہے جس سے باعتبار اس کی کیفیت اور کمیت کے اور کوئی اعلیٰ طبقہ نہیں ہے اور یہ امر ایک مخلوق اور موجود کے لئے ممتنع اور محال نہیں ہوسکتا.بلکہ نہایت قرین قیاس ہے کہ جو طبقہ عرش اللہ کہلاتا ہے وہ اپنی وسعتوں میں خدائے غیر محدود کے مناسب حال اور غیر محدود ہو.اور اگر یہ اعتراض پیش ہو کہ قرآن کریم میں یہ بھی لکھا ہے کہ کسی وقت آسمان پھٹ جائیں گے اور ان میں شگاف ہو جائیں گے اگر وہ لطیف مادہ ہے تو اس کے پھٹنے کے کیا معنے ہیں تو اس کا یہ جواب ہے کہ اکثر قرآن کریم میں سماء سے مراد كُل ما في السَّمَاءِ کو لیا ہے جس میں آفتاب اور ماہتاب اور تمام ستارے داخل
وو، تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة يس ہیں.ماسوا اس کے ہر ایک جرم لطیف ہو یا کثیف قابل خرق ہے بلکہ لطیف تو بہت زیادہ خرق کو قبول کرتا ہے پھر کیا تعجب ہے کہ آسمانوں کے مادہ میں بحکم رب قدیر و حکیم ایک قسم کا فرق پیدا ہو جائے.وَذَلِكَ عَلَى اللهِ یسیڈ.بالآخر یہ بات بھی یادر کھنے کے لائق ہے کہ قرآن کریم کے ہر یک لفظ کو حقیقت پر حمل کرنا بھی بڑی غلطی ہے اللہ جل شانہ کا یہ پاک کلام بوجہ اعلیٰ درجہ کی بلاغت کے استعارات لطیفہ سے بھرا ہوا ہے.سو ہمیں اس فکر میں پڑنا کہ انشقاق اور انفجار آسمانوں کا کیوں کر ہوگا در حقیقت ان الفاظ کے وسیع مفہوم میں ایک دخل بے جا ہے صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تمام الفاظ اور اس قسم کے اور بھی عالم مادی کے فنا کی طرف اشارہ ہے الہی کلام کا مدعا یہ ہے کہ اس عالم کون کے بعد فساد بھی لازم پڑا ہوا ہے ہر یک جو بنایا گیا توڑا جائے گا اور ہر یک ترکیب پاش پاش ہو جائے گی اور ہر یک جسم متفرق اور ذرہ ذرہ ہو جائے گا اور ہر یک جسم اور جسمانی پر عام فنا طاری ہوگی.اور قرآن کریم کے بہت سے مقامات سے ثابت ہوتا ہے کہ انشقاق اور انفجار کے الفاظ جو آسمانوں کی نسبت وارد ہیں ان سے ایسے معنے مراد نہیں ہیں جو کسی جسم صلب اور کثیف کے حق میں مراد لئے جاتے ہیں.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۳۸ تا ۱۵۱ حاشیه در حاشیه ) آفتاب چاند کو نہیں پکڑ سکتا اور نہ رات جو مظہر ماہتاب ہے دن پر جو مظہر آفتاب ہے کچھ تسلط کرسکتی ہے.یعنی کوئی ان میں سے اپنی حدود مقررہ سے باہر نہیں جاتا.اگر ان کا در پردہ کوئی مدبر نہ ہو تو یہ تمام سلسلہ درہم برہم ہو جائے.یہ دلیل ہیئت پر غور کرنے والوں کے لئے نہایت فائدہ بخش ہے کیونکہ اجرام فلکی کے اتنے بڑے عظیم الشان اور بے شمار گولے ہیں جن کے تھوڑے سے بگاڑ سے تمام دنیا تباہ ہوسکتی ہے.یہ کیسی قدرت حق ہے کہ وہ آپس میں نہ ٹکراتے ہیں نہ بال بھر رفتار بدلتے اور نہ اتنی مدت تک کام دینے سے کچھ گھسے اور نہ ان کی کلوں پرزوں میں کچھ فرق آیا.اگر سر پر کوئی محافظ نہیں تو کیوں کر اتنا بڑا کارخانہ بے شمار برسوں سے خود بخود چل رہا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۷۰) ایک اور نکتہ قابل یادداشت ہے اور وہ یہ کہ تیسری قسم کے لوگ بھی جن کا خدا تعالیٰ سے کامل تعلق ہوتا ہے اور کامل اور مصفا الہام پاتے ہیں قبول فیوض الہیہ میں برابر نہیں ہوتے اور ان سب کا دائرہ استعداد فطرت با ہم برابر نہیں ہوتا بلکہ کسی کا دائرہ استعداد فطرت کم درجہ پر وسعت رکھتا ہے اور کسی کا زیادہ وسیع ہوتا ہے اور کسی کا بہت زیادہ اور کسی کا اس قدر جو خیال و گمان سے برتر ہے اور کسی کا خدا تعالیٰ سے رابطہ محبت قوی ہوتا ہے اور کسی کا اقوی.اور کسی کا اِس قدر کہ دنیا اُس کو شناخت نہیں کر سکتی اور کوئی عقل اُس
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة يس کے انتہا تک نہیں پہنچ سکتی.اور وہ اپنے محبوب ازلی کی محبت میں اس قدر محو ہوتے ہیں کہ کوئی رگ وریشہ اُن کی ہستی اور وجود کا باقی نہیں رہتا اور یہ تمام مراتب کے لوگ بموجب آيت كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ اپنے دائرہ استعدا د فطرت سے زیادہ ترقی نہیں کر سکتے.اور کوئی اُن میں سے اپنے دائرہ فطرت سے بڑھ کر کوئی نور حاصل نہیں کر سکتا اور نہ کوئی روحانی تصویر آفتاب نورانی کی اپنی فطرت کے دائرہ سے بڑھ کر اپنے اندر لے سکتا ہے اور خدا تعالیٰ ہر ایک کی استعداد فطرت کے موافق اپنا چہرہ اُس کو دکھا دیتا ہے اور فطرتوں کی کمی بیشی کی وجہ سے وہ چہرہ کہیں چھوٹا ہو جاتا ہے اور کہیں بڑا جیسے مثلاً ایک بڑا چہرہ ایک آرسی کے شیشہ میں نہایت چھوٹا معلوم ہوتا ہے مگر وہی چہرہ ایک بڑے شیشہ میں بڑا دکھائی دیتا ہے مگر شیشہ خواہ چھوٹا ہو خواہ بڑا چہرہ کے تمام اعضاء اور نقوش دکھا دیتا ہے صرف یہ فرق ہے کہ چھوٹا شیشہ پورا مقدار چہرہ کا دکھلا نہیں سکتا.سوجس طرح چھوٹے اور بڑے شیشہ میں یہ کی بیشی پائی جاتی ہے اسی طرح خدا تعالی کی ذات اگر چہ قدیم اور غیر متبدل ہے مگر انسانی استعداد کے لحاظ سے اس میں تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۸،۲۷) وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَإِذَاهُمْ مِّنَ الْأَجَدَاثِ إِلَى رَبِّهِمْ يَنْسِلُونَ.(۵۲) ماضی مضارع کے معنوں پر بھی آجاتی ہے بلکہ ایسے مقامات میں جبکہ آنے والا واقعہ متکلم کی نگاہ میں یقینی الوقوع ہو مضارع کو ماضی کے صیغہ پر لاتے ہیں تا اس امر کا یقینی الوقوع ہونا ظاہر ہو اور قرآن شریف میں اس کی بہت نظیریں ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَإِذَا هُمْ مِّنَ الْأَجَدَاثِ إِلَى رَبِّهِمْ (براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۵۹) يَنْسِلُونَ - قف سَلامٌ * قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِيمٍ) (۵۹) سلام تو وہ ہے جو خدا کی طرف سے ہو.خدا کا سلام وہ ہے جس نے حضرت ابراہیم کو آگ سے سلامت رکھا.جس کو خدا کی طرف سے سلام نہ ہو بندے اس پر ہزار سلام کریں اس کے واسطے کسی کام نہیں آسکتے.قرآن شریف میں آیا ہے سلم " قَوْلاً مِن رَّبٍ رَّحِيمٍ - اخبار بدر جلد ۶ نمبر ۳۱ یکم اگست ۱۹۰۷ صفحه ۶) خدائے رحیم کی طرف سے سلامتی ہے.( تذكرة الشہادتین ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۹) قف
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲ سورة يس تجھے سلامتی ہے یہ رب رحیم نے فرمایا ہے.(حقیقة المهدی، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۴۴۶) تم سب پر اس خدا کا سلام جو رحیم ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۹۴) وَامْتَازُوا الْيَوْمَ أَيُّهَا الْمُجْرِمُونَ ) اے مجر مو آج تم الگ ہو جاؤ.(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۹) وَمَنْ تُعيرُهُ نُنَكِّسُهُ فِي الْخَلْقِ أَفَلَا يَعْقِلُونَ ، جس کو ہم زیادہ عمر دیتے ہیں تو اس کی پیدائش کو الٹا دیتے ہیں یعنی انسانیت کی طاقتیں اور قوتیں اس سے دور ہو جاتی ہیں.حواس میں اس کے فرق آجاتا ہے.عقل اس کی زائل ہو جاتی ہے.اب اگر مسیح ابن مریم کی نسبت فرض کیا جائے کہ اب تک جسم خاکی کے ساتھ زندہ ہیں تو یہ ماننا پڑے گا کہ ایک مدت دراز سے ان کی انسانیت کے قومی میں بکلی فرق آگیا ہوگا اور یہ حالت خود موت کو چاہتی ہے اور یقینی طور پر ماننا پڑتا ہے کہ مدت سے وہ مر گئے ہوں گے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۲۹) آیت وَ مَنْ نُّعَمرُهُ نُنَكِسُهُ فِي الْخَلق سے حضرت عیسی کی موت ثابت ہوتی ہے کیونکہ جبکہ بموجب تصریح اس آیت کے ایک شخص جو نو ۹ے یا سو برس تک پہنچ گیا ہو اس کی پیدائش اس قدر اُلٹا دی جاتی ہے که تمام حواس ظاہری و باطنیہ قریب الفقدان یا مفقود ہو جاتے ہیں تو پھر وہ جو دو ہزار برس سے اب تک جیتا ہے اس کے حواس کا کیا حال ہو گا اور ایسی حالت میں وہ اگر زندہ بھی ہوا تو کون سی خدمت دے گا.اس آیت میں کوئی استثناء موجود نہیں ہے اور ہمیں نہیں چاہیے کہ بغیر خدا تعالیٰ کے بیان کے آپ ہی ایک استثناء فرض کر لیں.ہاں اگر نص صریح سے ثابت ہو کہ حضرت عیسی علیہ السلام باوجود جسمانی حیات کے جسمانی تحلیلوں اور تنزل حالات اور فقدان قوی سے منزہ ہیں تو وہ نص پیش کریں.ایام اصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۸۶) وَ مِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا یعنی تم پر دو ہی حالتیں وارد ہوتی ہیں ایک یہ کہ بعض تم میں سے قبل از پیرانہ سالی فوت ہو جاتے ہیں اور بعض ارزل العمر تک پہنچتے ہیں یہاں تک کہ صاحب علم ہونے کے بعد محض نادان ہو جاتے ہیں.اب اگر خلاف اس نص صریح کے کسی کی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳ سورة يس نسبت یہ دعوی کیا جائے کہ باوجود اس کے عمر طبعی سے صد ہا حصے زیادہ اس پر زمانہ گزر گیا مگر وہ نہ مرا اور نہ ارذل عمر تک پہنچا اور نہ ایک ذرہ امتداد زمانہ نے اس پر اثر کیا تو ظاہر ہے کہ ان تمام امور کا اس شخص کے ذمہ ثبوت ہوگا جو ایسا دعوے کرتا ہے یا ایسا عقیدہ رکھتا ہے کیونکہ قرآن کریم نے تو کسی جگہ انسانوں کے لئے یہ ظاہر نہیں فرمایا کہ بعض انسان ایسے بھی ہیں جو معمولی انسانی عمر سے صد ہا درجہ زیادہ زندگی بسر کرتے ہیں اور زمانہ ان پر اثر کر کے ان کو ارذل عمر تک نہیں پہنچاتا اور تنگسهُ فِي الْخَلْق کا مصداق نہیں ٹھیرتا.پس جبکہ یہ عقیدہ ہمارے آقا و مولیٰ کی عام تعلیم سے صریح مخالف ہے تو صاف ظاہر ہے کہ جو شخص اس کا مدعی ہوثبوت اس کے ذمہ ہے.غرض حسب تعلیم قرآنی عمر طبعی کے اندر اندر مر جانا اور زمانہ کے اثر سے عمر کے مختلف حصوں میں گونا گوں تغیرات کا لحاظ ہونا یہاں تک کہ بشرط زندگی ارذل عمر تک پہنچنا یہ ایک فطرتی اور اصلی امر ہے جو انسان کی فطرت کو لگا ہوا ہے جس کے بیان میں قرآن بھرا ہوا ہے.الحق مباحثہ دہلی ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۶۱،۱۶۰) أوَلَمْ يَرَ الْإِنْسَانُ اَنَا خَلَقْنَهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَ نَسِيَ خَلْقَهُ قَالَ مَنْ يُحْيِ الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِى اَنْشَاهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَ هُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ بِالَّذِي جَعَلَ لَكُم مِّنَ الشَّجَرِ الْأَخْضَرِ نَارًا فَإِذَا أَنْتُمْ مِنْهُ تُوقِدُونَ.اَوَ لَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّبُوتِ وَالْأَرْضَ بِقَدِرٍ عَلَى أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُم بَلَى وَهُوَ الخَلْقُ العَلِيمُ کیا انسان نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اس کو ایک قطرہ پانی سے پیدا کیا جو رحم میں ڈالا گیا تھا پھر وہ ایک جھگڑنے والا آدمی بن گیا.ہمارے لئے باتیں بنانے لگا اور اپنی پیدائش بھول گیا اور کہنے لگا کہ یہ کیوں کر ممکن ہے کہ جبکہ ہڈیاں بھی سلامت نہیں رہیں گی تو پھر انسان نئے سرے سے زندہ ہوگا.ایسی قدرت والا کون ہے جو اس کو زندہ کرے گا ان کو کہہ وہی زندہ کرے گا جس نے پہلے اس کو پیدا کیا تھا اور وہ ہر ایک قسم سے اور ہر ایک راہ سے زندہ کرنا جانتا ہے....سو ان آیات میں اللہ جل شانہ نے فرما دیا ہے کہ خدا کے آگے کوئی چیز انہونی نہیں جس نے ایک قطرہ حقیر سے انسان کو پیدا کیا.کیا وہ دوسری مرتبہ پیدا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴ سورة يس اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۰۷) کرنے سے عاجز ہے.قَالَ مَنْ يُنِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ - قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِى اَنْشَاهَا أَوّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُل خَلْقٍ عَلِيمٌ یعنی انسان کہتا ہے کہ ایسی ہڈیوں کو کون نئے سرے زندہ کرے گا جو سر گل گئی ہوں.ان کو کہہ دے وہی زندہ کرے گا جس نے پہلی دفعہ پیدا کیا تھا اور وہ ہر یک طور سے پیدا کرنا جانتا ہے.ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۳۳) ہم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ خدا خلق اسباب نہیں کرتا مگر بعض اسباب ایسے ہوتے ہیں کہ نظر آتے ہیں اور بعض اسباب نظر نہیں آتے غرض یہ ہے کہ خدا کے افعال گوناگوں ہیں.خدائے تعالیٰ کی قدرت کبھی در ماندہ نہیں ہوتی اور وہ نہیں تھکتا وَ هُوَ بِكُلِ خَلْقٍ عَلِيمٌ - رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۹۰) اپنے ذاتی تجربہ سے دیکھا گیا ہے کہ ایک شیر میں طعام یا کسی قسم کا میوہ یا شربت غیب سے نظر کے سامنے آگیا ہے اور وہ ایک غیبی ہاتھ سے منہ میں پڑتا جاتا ہے اور زبان کی قوت ذائقہ اس کے لذیذ طعم سے لذت اُٹھاتی جاتی ہے اور دوسرے لوگوں سے باتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور حواس ظاہری بخوبی اپنا اپنا کام دے رہے ہیں اور یہ شربت یا میوہ بھی کھایا جارہا ہے اور اس کی لذت اور حلاوت بھی ایسی ہی کھلے کھلے طور پر معلوم ہوتی ہے بلکہ وہ لذت اس لذت سے نہایت الطف ہوتی ہے اور یہ ہر گز نہیں کہ وہ وہم ہوتا ہے یا صرف بے بنیاد تخیلات ہوتے ہیں بلکہ واقعی طور پر وہ خدا جس کی شان بحلِ خَلْقٍ عَلِیمٌ ہے ایک قسم کے خلق کا تماشہ دکھا دیتا ہے.پس جبکہ اس قسم کے خلق اور پیدائش کا دنیا میں ہی نمونہ دکھائی دیتا ہے اور ہر یک زمانہ کے عارف اس کے بارے میں گواہی دیتے چلے آئے ہیں تو پھر وہ تمثلی خلق اور پیدائش جو آخرت میں ہوگی اور میزان اعمال نظر آئے گی اور پل صراط نظر آئے گا اور ایسا ہی بہت سے اور امور روحانی تشکل کے ساتھ نظر آئیں گے اس سے کیوں عقلمند تعجب کرے.کیا جس نے یہ سلسلہ مثلی خلق اور پیدائش کا دنیا میں ہی عارفوں کو دکھا دیا ہے اس کی قدرت سے یہ بعید ہے کہ وہ آخرت میں بھی دکھاوے بلکہ ان کو.تمثلات کو عالم آخرت سے نہایت مناسبت ہے کیونکہ جس حالت میں اس عالم میں جو کمال انقطاع کا تجلی گاہ نہیں ہے تیمثلی پیدائش تزکیہ یافتہ لوگوں پر ظاہر ہو جاتی ہے تو پھر عالم آخرت میں ( جو ) اکمل اور اتم انقطاع کا مقام ہے کیوں نظر نہ آوے.الحکم جلدے نمبر ۲۲ مورخہ ۷ ارجون ۱۹۰۳ صفحه ۱) کیا وہ جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اس بات پر قادر نہیں کہ ان تمام چیزوں کی مانند اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵ سورة يس چیزیں بھی پیدا کرے.بیشک قادر ہے اور وہ خلاق علیم ہے یعنی خالقیت میں وہ کامل ہے اور ہر ایک طور سے پیدا کرنا جانتا ہے.(جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۰۱) إنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ.اگر یہ اعتراض پیش ہو کہ قرآن کریم میں جو خدا تعالیٰ نے کئی بار فرمایا ہے کہ ہم نے چھ دن میں زمین و آسمان کو پیدا کیا تو یہ امر ضعف پر دلالت کرتا ہے کیونکہ معا اس کے ارادہ کے ساتھ ہی سب کچھ ہو جانا لازم ہے جیسا کہ وہ آپ ہی فرماتا ہے اِنَّمَا أَمْرَةً إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ یعنی جب خدا تعالى ایک چیز کے ہونے کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کا امرایسی قوت اور طاقت اور قدرت اپنے اندر رکھتا ہے کہ وہ اس چیز جو اس کے علم میں ایک علمی وجود رکھتا ہے فقط یہ کہتا ہے کہ ہو تو ہو جاتی ہے.اس وہم کا جواب یہ ہے کہ قدرت اور طاقت کا مفہوم اس بات کو مستلزم نہیں کہ وہ چیز خواہ نخواہ بلا توقف ہو جائے اور نہ ارادہ کے مفہوم میں ضروری طور پر یہ بات داخل ہے کہ جس چیز کا ارادہ کیا گیا ہے وہ اسی وقت ہو جائے بلکہ اسی حالت میں ایک قدرت اور ایک ارادہ کو کامل قدرت اور کامل ارادہ کہا جائے گا جبکہ وہ ایک فاعل کے اصل منشاء کے موافق جلد یا دیر کے ساتھ جیسا کہ منشاء ہو ظہور میں آوے مثلاً چلنے میں کامل قدرت اس شخص کی نہیں کہہ سکتے کہ جلد جلد وہ چل سکتا ہے اور آہستہ آہستہ چلنے سے وہ عاجز ہے بلکہ اس شخص کو کامل القدرت کہیں گے کہ جود و نو طور جلد اور دیر میں قدرت رکھتا ہو.یا مثلاً ایک شخص ہمیشہ اپنے ہاتھ کو لمبا ر کھتا ہے اور اکٹھا کرنے کی طاقت نہیں یا کھڑا رہتا ہے اور بیٹھے کی طاقت نہیں تو ان سب صورتوں میں ہم اس کو قومی قرار نہیں دیں گے بلکہ بیمار اور معلول کہیں گے.غرض قدرت اسی وقت کامل طور پر متحقق ہو سکتی ہے کہ جبکہ دونوں شق سرعت اور بطو پر قدرت ہواگر ایک شق پر قدرت ہو تو وہ قدرت نہیں بلکہ عجز اور نا توانی ہے تعجب کہ ہمارے مخالف خدا تعالیٰ کے قانونِ قدرت کو بھی نہیں دیکھتے کہ دنیا میں اپنے قضاء قدر کو جلد بھی نازل کرتا ہے اور دیر سے بھی.ہاں یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صفات قہر یہ اکثر جلدی کے رنگ میں ظہور پذیر ہوتے ہیں اور صفاتِ لطیفہ دیر اور توقف کے پیرایہ میں.مثلاً انسان نو مہینے پیٹ میں رہ کر اپنے کمال وجود کو پہنچتا ہے اور مرنے کے لئے کچھ بھی دیر کی ضرورت نہیں مثلاً انسان اپنے مرنے کے وقت صرف ایک ہی ہیضہ کا دست یا تھوڑا سا پانی قے کے طور پر نکال کر راہی ملک بقا ہو جاتا ہے اور وہ بدن جس کی سالہائے دراز میں ظاہری اور باطنی تکمیل
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 14 سورة يس ہوئی تھی ایک ہی دم میں اس کو چھوڑ کر رخصت ہو جاتا ہے......یہ بات کھول کر یاد دلانا ضروری ہے کہ ارادہ کاملہ بھی قدرت کاملہ کی طرح دونوں شقوں سرعت اور بطور کو چاہتا ہے مثلاً ہم جیسا یہ ارادہ کر سکتے ہیں کہ ابھی یہ بات ہو جائے ایسا ہی یہ بھی ارادہ کر سکتے ہیں کہ دس برس کے بعد ہو.مثلا ریل اور تار اور صد با کلیں جواب نکل رہی ہیں بیشک ابتداء سے خدا تعالیٰ کے ارادہ اور علم میں تھیں لیکن ہرا ہا برس تک ان کا ظہور نہ ہوا اور وہ ارادہ تو ابتداء ہی سے تھا مگر مخفی چلا آیا اور اپنے وقت پر ظاہر ہوا اور جب وقت آیا تو خدا تعالیٰ نے ایک قوم کو ان فکروں اور سوچوں میں لگا دیا اور ان کی مدد کی.یہاں تک کہ وہ اپنی تدبیروں میں کامیاب ہو گئے.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۲۰ تا ۱۷۱ حاشیه در حاشیه ) حکم اس کا اس سے زیادہ نہیں کہ جب کسی چیز کے ہونے کا ارادہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہو پس ساتھ ہی وہ ہو جاتی ہے.جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه (۱۰۱) اس کے حکم کی یہ شان ہے کہ جب کسی چیز کے ہونے کا ارادہ کرتا ہے تو صرف یہی کہتا ہے کہ ہو پس وہ چیز اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۰۷) پیدا ہو جاتی ہے.جب ایک کام کو چاہتا ہے تو کہتا ہے کہ ہو جا تو فی الفور وہ کام ہو جاتا ہے.(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۸) خدا کا حکم اس طرح پر ہوتا ہے کہ جب وہ کسی چیز کو کہتا ہے کہ ہوتو وہ ہوجاتی ہے.اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ فی الفور بلا توقف ہو جاتی ہے کیونکہ آیت میں فی الفور کا لفظ نہیں ہے بلکہ آیت اطلاق پر دلالت کرتی ہے جس سے یہ مطلب ہے کہ چاہے تو خدا تعالیٰ اس امر کو جلدی سے کر دے اور چاہے تو اس میں دیر ڈال دے جیسا کہ خدا تعالیٰ کے قانونِ قدرت میں بھی یہی مشہود محسوس ہے کہ بعض امور جلدی سے ہو جاتے ہیں اور بعض دیر سے ظہور میں آتے ہیں.(چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۲۲) جب وہ ایک بات کو چاہتا ہے تو کہتا ہے کہ ہو پس وہ بات ہو جاتی ہے.( تذكرة الشہادتین ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶) اور جب خدا کسی چیز کو چاہتا ہے کہ ہو جائے تو اسے کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے.(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۲۰۸) انسان ایسی ایسی مصیبتوں اور مشکلات میں گرفتار ہوتا ہے کہ ٹکریں مارتا پھرتا ہے اور ایسا سرگردان ہوتا ہے کہ کچھ پتہ نہیں لگتا.ہزاروں آرزوئیں اور تمنائیں ایسی ہوتی ہیں کہ پوری ہونے میں نہیں آتیں.کیا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۷ سورة يس خدا تعالیٰ کے ارادے بھی اس قسم کے ہوتے ہیں کہ پورے نہ ہوں.اس کی شان تو یہ ہے إِذا أَرَادَ شَيْئًا آن الحکم جلد ۶ نمبر ۲۸ مورخه ۱۰ اگست ۱۹۰۲ صفحه ۸) يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ - ہمارا حکم تو اتنے میں ہی نافذ ہو جاتا ہے کہ جب ہم ایک چیز کا ارادہ کرتے ہیں.تو ہم اس چیز کو کہتے ہیں ہو جا تو وہ چیز ہو جاتی ہے.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۳۳۷) روح کی لذت اس وقت ملتی ہے جب انسان گداز ہو کر پانی کی طرح بہنا شروع ہوتا ہے اور خوف و خشیت سے بہہ نکلتا ہے.اس مقام پر وہ کلمہ بنتا ہے اور اِنَّما أمره إذا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ کا مفہوم اس میں کام کرنے لگتا ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۰ مورخہ ۷ار مارچ ۱۹۰۱ ، صفحہ ۱) جس شخص کا یہ ایمان نہ ہو کہ إِنَّمَا أَمْرَةٌ إِذا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ الحکم جلد ۶ نمبر ۸ مورخه ۲۸ فروری ۱۹۰۲ صفحه ۳) اس نے خدا تعالیٰ کو نہیں پہچانا.خدا تعالیٰ پر کوئی امر مشکل نہیں بلکہ اس کی تو شان ہے انما آمرةٌ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ الحکم جلد ۶ نمبر ۲۹ مورخه ۱۷ راگست ۱۹۰۲ صفحه ۸) ودو فیلون - جو چیز علل اور اسباب سے پیدا ہوتی ہے وہ خلق ہے اور جو محض گن سے ہو وہ امر ہے چنانچہ فرمایا ہے إِنَّمَا أَمْرة إذا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ عالم امر میں کبھی توقف نہیں ہوتا.خلق سلسلہ علل ومعلول کا محتاج ہے جیسے انسان کے بچہ پیدا ہونے کے لئے نطفہ ہو پھر دوسرے مراتب طبعی اور طبابت کے قواعد کے نیچے ہوتا ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۴ مورخه ۱۷۱۷ پریل ۱۹۰۳ صفحه ۱۲) گے.فَسُبْحْنَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ پس وہ ذات پاک ہے جس کے ہاتھ میں ہر ایک چیز کی بادشاہی ہے اور اسی کی طرف تم پھیرے جاؤ جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۰۱) پس وہ ذات پاک ہے جس کی ہر ایک چیز پر بادشاہی ہے اور تم سب اسی کی طرف رجوع کرو گے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۰۷) جو کچھ ہے خدا کے ہاتھ میں ہے جو چاہے کرتا ہے پیدہ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ - ( اخبار بدر جلد ۶ نمبر ۱۷ مورخہ ۲۵ را پریل ۱۹۰۷ صفحه ۸)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۱۹ سورة الصفت بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الصفت بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ الا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَأَتْبَعَةُ شِهَابٌ ثَاقِبٌ.جبکہ ایک مومن سب باتوں پر خدا تعالیٰ کو مقدم کر لیتا ہے تب اس کا خدا کی طرف رفع ہوتا ہے.وہ اسی زندگی میں خدا تعالی کی طرف اُٹھایا جاتا ہے اور ایک خاص نور سے منور کیا جاتا ہے.اس رفع میں وہ شیطان کی زد سے ایسا بلند ہو جاتا ہے کہ پھر شیطان کا ہاتھ اس تک نہیں پہنچ سکتا.ہر ایک چیز کا خدا تعالیٰ نے اس دنیا میں بھی ایک نمونہ رکھا ہے اور یہ اسی امر کی طرف اشارہ ہے کہ شیطان جب آسمان کی طرف چڑھنے لگتا ہے تو ایک شہاب ثاقب اس کے پیچھے پڑتا ہے جو اس کو نیچے گرا دیتا ہے.ثاقب روشن ستارے کو کہتے ہیں.اس چیز کو بھی ثاقب کہتے ہیں جو سوراخ کر دیتی ہے اور اس چیز کو بھی ثاقب کہتے ہیں جو بہت اونچی چلی جاتی ہو.اس میں حالت انسانی کے واسطے ایک مثال بیان کی گئی ہے جو اپنے اندر ایک نہ صرف ظاہری بلکہ ایک مخفی حقیقت بھی رکھتی ہے.جب ایک انسان کو خدا تعالیٰ پر اپنا ایمان حاصل ہو جاتا ہے تو اس کا خدا تعالیٰ کی طرف رفع ہو جاتا ہے اور اس کو ایک خاص قوت اور طاقت اور روشنی عطا کی جاتی ہے جس کے ذریعہ سے وہ شیطان کو نیچے گرادیتا ہے.ثاقب مارنے والے کو بھی کہتے ہیں.ہر ایک مومن کے واسطے لازم ہے کہ وہ اپنے شیطان کو مارنے کی کوشش کرے اور اسے ہلاک کر ڈالے جو لوگ رُوحانیت کی سائنس سے ناواقف ہیں وہ ایسی باتوں پر ہنسی کرتے ہیں مگر دراصل وہ خود ہنسی کے لائق ہیں ایک قانونِ قدرت ظاہری ہے ایسا ہی ایک
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الصفت قانونِ قدرت باطنی بھی ہے.ظاہری قانون باطنی کے واسطے بطور ایک نشان کے ہے.اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی اپنی وحی میں فرمایا ہے کہ انتَ مِنِی بِمَنْزِلَةِ الثَّاقِب یعنی تو مجھ سے بمنزلہ ثاقب ہے.اس کے یہ معنے ہیں کہ میں نے تجھے شیطان کے مارنے کے واسطے پیدا کیا ہے.تیرے ہاتھ سے شیطان ہلاک ہو جائے گا.شیطان بلند نہیں جاسکتا.اگر مومن بلندی پر چڑھ جائے تو شیطان پھر اس پر غالب نہیں آسکتا.مومن کو چاہیے کہ وہ خدا تعالیٰ سے دُعا کرے کہ اس کو ایک ایسی طاقت مل جائے جس سے وہ شیطان کو ہلاک کر سکے جتنے برے خیالات پیدا ہوتے ہیں ان سب کا دُور کرنا شیطان کو ہلاک کرنے پر منحصر ہے.مومن کو چاہیے کہ استقلال سے کام لے ہمت نہ ہارے شیطان کو مارنے کے پیچھے پڑا ر ہے آخر وہ ایک دن کامیاب ہو جائے گا.خدا تعالیٰ رحیم وکریم ہے جو لوگ اس کی راہ میں کوشش کرتے ہیں وہ آخر ان کو کامیابی کا مونہ دکھا دیتا ہے.بڑ اور جہ انسان کا اسی میں ہے کہ وہ اپنے شیطان کو ہلاک کرے.( بدر جلدے نمبر ۲ مورخه ۶ ارجنوری ۱۹۰۸ ء صفحه ۷،۶) إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ يَسْتَكْبِرُونَ.(٣٦) قرآن کی تعلیم کا اصل مقصد یہی ہے کہ خدا جیسا کہ واحد لاشریک ہے ایسا ہی اپنی محبت کے رو سے بھی اس کو واحد لاشریک ٹھہراؤ.جیسا کہ کلمہ لا إله إلا الله جو ہر وقت مسلمانوں کو ورد زبان رہتا ہے اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے.کیونکہ اللہ.ولاہ سے مشتق ہے.اور اس کے معنے ہیں ایسا محبوب اور معشوق جس کی پرستش کی جائے.یہ کلمہ نہ توریت نے سکھلایا اور نہ انجیل نے.صرف قرآن نے سکھلایا.اور یہ کلمہ اسلام سے ایسا تعلق رکھتا ہے کہ گویا اسلام کا تمغہ ہے.یہی کلمہ پانچ وقت مساجد کے مناروں میں بلند آواز سے کہا جاتا ہے جس سے عیسائی اور ہند وسب چڑتے ہیں.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کو محبت کے ساتھ یاد کرنا ان کے نزدیک گناہ ہے.یہ اسلام ہی کا خاصہ ہے کہ صبح ہوتے ہی اسلامی مؤذن بلند آواز سے کہتا ہے کہ اَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا الله یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی ہمارا پیارا اور محبوب اور معبود بجز اللہ کے نہیں.پھر دو پہر کے بعد یہی آواز اسلامی مساجد سے آتی ہے.پھر عصر کو بھی یہی آواز پھر مغرب کو بھی یہی آواز اور پھر عشاء کو بھی یہی آواز گونجتی ہوئی آسمان کی طرف چڑھ جاتی ہے.کیا دنیا میں کسی اور مذہب میں بھی یہ نظارہ دکھائی دیتا ہے؟!! سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۶۶، ۳۶۷) قَالَ هَلْ اَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ فَا طَلَعَ فَرَاهُ فِي سَوَاءِ الْجَحِيمِ قَالَ تَاللهِ اِنْ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱ كِرْتَ لَتُرْدِينِ وَ لَوْلَا نِعْمَةُ رَبِّي لَكْنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِينَ.۵۷ سورة الصفت وَقَصَّ عَلَيْنَا قِصَّةَ رَجُلٍ مَاتَ وَدَخَلَ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس شخص کا حال بتایا ہے جو الْجَنَّةَ، وَكَانَ لَهُ صَاحِبُ فِي الدُّنْيَا فَاسِقٌ مر گیا تھا اور جنت میں داخل ہو گیا تھا.اس کا دُنیا میں فَمَاتَ صَاحِبُةَ أَيْضًا وَدَخَلَ النّار، فَذَكَرَ ایک فاسق دوست تھا سو اس کا وہ دوست بھی مر گیا اور الَّذِي دَخَلَ الْجَنَّةَ قِصَّةَ صَاحِبِهِ عِنْدَ أَصْحَابِ جہنم میں داخل ہو گیا.جنتی نے اپنے اس دوست کا الْجَنَّةِ وَقَالَ هَلْ أَنْتُمْ مُّظْلِعُونَ فَاظَلَعَ فَرَاهُ قصہ اپنے جنتی دوستوں کے پاس بیان کیا اور کہا ھل في سَوَاءِ الْجَحِيمِ هَلْ اَنْتُم مُّطَلِعُونَ - اَنْتُم مُّطَّلِعُونَ - فَاطَّلَعَ فَرَاهُ فِي سَوَاءِ الْجَحِيمِ - فَاطَّلَعَ فَرَاهُ فِي سَوَاءِ الْجَحِيمِ - قَالَ تَاللهِ إِنْ قَالَ تَاللهِ إِنْ كِرْتَ لَتُرْدِيْنِ وَلَوْلَا نِعْمَةُ رَبِّي كِرْتَ لَتُردِيْنِ وَلَوْلَا نِعْمَةُ رَبِّي لَكُنتُ مِنَ تَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِینَ.اور تو جانتا ہے کہ یہ قصہ الْمُحْضَرِينَ - وَأَنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذِهِ الْقِضَةَ صریح طور پر دلالت کرتا ہے کہ مومن اپنی موت کے تدلُّ بِدَلَالَةٍ صَرِيحَةٍ عَلَى أَنَّ الْمُؤْمِنِينَ بعد بلا توقف جنت میں داخل کئے جائیں گے اور پھر يُدخَلُونَ الْجَنَّةَ بَعْدَ مَوْتِهِمْ مِنْ غَيْرِ مُكْرٍ اس سے باہر نہیں نکالے جائیں گے اور اس کی نعمتوں ثُمَّ لَا يُخْرَجُونَ مِنْهَا وَيَتَنَعَمُونَ فِيهَا میں سے یہ ہمیشہ متمتع ہوتے رہیں گے.خَالِدِينَ (ترجمه از مرتب) حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۴۹) خدا کی کتاب میں نیک و بد کی جزا کے لئے دو مقام پائے جاتے ہیں.ایک عالم برزخ جس میں مخفی طور پر ہر ایک شخص اپنی جزا پائے گا.برے لوگ مرنے کے بعد ہی جہنم میں داخل ہوں گے.نیک لوگ مرنے کے بعد ہی جنت میں آرام پائیں گے.چنانچہ اس قسم کی آیتیں قرآن شریف میں بکثرت ہیں کہ بھجر دموت کے ہر ایک انسان اپنے اعمال کی جزا دیکھ لیتا ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ ایک بہشتی کے بارے میں خبر دیتا ہے اور فرماتا ہے قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ حاشیہ نمبر ۱.ترجمہ آیت.کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جو جھانک کر دیکھے کہ اس شخص کا کیا حال ہے.پھر وہ آپ ہی حال معلوم کرنے کی کوشش کرے گا اور اپنے دُنیوی ساتھی کو جہنم میں پڑا ہوا دیکھے گا.پھر اس سے کہے گا کہ خدا کی قسم تو تو مجھے بھی ہلاک کرنے لگا تھا اور اگر میرے رب کا فضل نہ ہوتا تو میں بھی آج دوزخ کے سامنے حاضر کئے جانے والوں میں سے ہوتا.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲ سورة الصفت یعنی اس کو کہا گیا کہ تو بہشت میں داخل ہو اور ایسا ہی ایک دوزخی کی خبر دے کر فرماتا ہے فَرَاهُ فِي سَوَاء الْجَحِيمِ یعنی ایک بہشتی کا ایک دوست دوزخی تھا.جب وہ دونوں مر گئے تو بہشتی حیران تھا کہ میرا دوست کہاں ہے.پس اس کو دکھلایا گیا کہ وہ جہنم کے درمیان ہے.سو جزا سزا کی کارروائی تو بلا توقف شروع ہو جاتی ہے اور دوزخی دوزخ میں اور بہشتی بہشت میں جاتے ہیں.مگر اس کے بعد ایک اور محلی اعلیٰ کا دن ہے جو خدا کی بڑی حکمت نے اس دن کے ظاہر کرنے کا تقاضا کیا ہے کیونکہ اس نے انسان کو پیدا کیا تا وہ اپنی خالقیت کے ساتھ شناخت کیا جائے اور پھر وہ سب کو ہلاک کرے گا تا کہ وہ اپنی قہاریت کے ساتھ شناخت کیا جائے اور پھر ایک دن سب کو کامل زندگی بخش کر ایک میدان میں جمع کرے گا تا کہ وہ اپنی قادریت کے ساتھ پہچانا جائے.اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۰۸) لا اَفَمَا نَحْنُ بِمَيَّتِينَ إِلَّا مَوْتَتَنَا الأولى وَمَا نَحْنُ بِمُعَذِّبِينَ إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ.(۵۹) ، أَلَا تَرَى أَنَّ اللهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَالَ فِي | کیا تمہیں علم نہیں کہ اللہ تبارک و تعالی نے اپنی كِتَابِهِ الْمُحْكَمِ حِكَايَةً عَنْ مُؤْمِنٍ مُغْبِطَاً کتاب محکم میں ایک ایسے مومن کی بات حکایت بیان کی نَفْسَهُ بِمَا أَعْطَاهُ اللهُ مِنَ الْخُلْدِ فِي الْجَنَّةِ ہے جو اپنے نفس کو اس لحاظ سے قابل رشک قرار دے رہا وَالْإِقَامَةِ فِي دَارِ الْكَرَامَةِ بِلَا مَوْتٍ أَفَمَا تھا کہ اللہ نے اسے دائمی جنت عطا کی اور اسے عزت کی نَحْنُ بِمَيِّتِينَ إِلَّا مَوْتَتَنَا الأولى وَ مَا نَحْنُ جگہ میں بلا موت ٹھہرنا نصیب کیا.وہ کہتا تھا أَفَمَا نَحْنُ بمعد بين إن هذا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ فَانْظُرُ بِمَيْتِينَ إِلَّا مَوْتَتَنَا الأولى وَمَا نَحْنُ بِمُعَذِّبِينَ إِنَّ أَيُّهَا الْعَزِيزُ كَيْفَ أَشَارَ اللهُ تَعَالَى إِلى هَذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ - اے عزیز! دیکھ اللہ تعالیٰ نے اِمْتِنَاعِ الْمَوْتِ الثَّانِي بَعْدَ الْمَوْتَةِ الْأُولى اس حکایتاً بیان میں کس طرح پہلی موت کے بعد دوسری وَبَشَرَنَا بِالْخُلُودِ فِي الْعَالَمِ الثَّانِي بَعْدَ موت نہ ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے اور ہمیں پہلی الْمَوْتِ فَلَا تَكُن مِنَ الْمُنْكِرِينَ وَأَنْتَ موت کے بعد عالم ثانی میں ہمیشہ رہنے کی بشارت دی تَعْلَمُ أَنَّ الْهَمْزَةَ فِي جُمْلَةِ أَفَمَا نَحْنُ ہے.پس تو انکار کرنے والوں میں سے نہ ہن.نیز تو بيْتِينَ لِلاِسْتِفْهَامِ التَّقْرِيرِى وَفِيْهَا جانتا ہے کہ آفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِین کے جملہ میں ہمزہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳ سورة الصفت مَعْنَى التَّعَجُبِ وَالْقَاءِ فَهُنَا لِلْعَظفِ استفہام تقریری کے لئے ہے اور اس میں تعجب کے معنے عَلى مَحْذُوفٍ أَن أَنَحْنُ مُخَلَّدُونَ پائے جاتے ہیں اور فاء یہاں ایک محذوف پر عطف کے مُنْعَمُونَ مَعَ قِلَّةِ أَعْمَالِنَا وَمَا نَحْنُ لئے استعمال ہوا ہے اور اس جملہ کا مفہوم یہ ہے کہ کیا ہم اپنے يميتينَ وَاعْلَمُ أَنَّ هَذَا سُؤَالُ مِن تھوڑے سے اعمال کے باوجود جنت کی نعمتوں میں ہمیشہ أَهْلِ الْجَنَّةِ حِينَ يَسْمَعُونَ قَوْلَ اللہ رہیں گے اور ہمیں موت نہیں آئے گی اور تجھے یہ بھی ذہن میں تَعَالَى كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنَيْنا بِمَا كُنتُم رکھنا چاہیے کہ یہ اہل جنت کا اس وقت کا سوال ہے جب تَعْمَلُونَ له كَمَا رُوِيَ عَنِ ابْنِ عَبَّاس وہ اللہ تعالیٰ کا یہ قول سنیں گے كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا ، في تَفْسِيرِ قَوْلِهِ تَعَالَى هَنِيئًا، فَعِنْدَ كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ يعنى ثم دل کو لبھانے والے میوے کھاؤ اور ذلِكَ يَقُولُونَ أَفَمَا نَحْنُ بِنِتِينَ اِلَّا اچھا پانی ہو یہ تمہارے عملوں کی جزا ہے جیسا کہ حضرت ابن مَوْتَتَنَا الأولى وَاعْلَمُ أَنَّ قَوْلَهُمُ هذا عباس سے اللہ تعالیٰ کے قول ھبیٹا کی تفسیر میں مروی ہے.يَكُونُ عَلى طَرِيقَةِ الإِبتهاج پر اس موقع پر جنتی کہیں گے آفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِيْنَ إِلا وَالشَّرُورِ ثُمَّ اعْلَمُ أَنَّ الْإِسْتِغْنَاء مَوْتَتَنَا الأولى - اور جان لے ان کا یہ قول خوشی اور سرور کے هُهُنَا مُفَرَّةٌ وَقِيلَ مُنقَطِع يمغنی طور پر ہوگا.پھر تمہیں یہ بات بھی معلوم ہونی چاہیے کہ یہاں لكن وَفي كُلّ حَالٍ يَعْبُتُ مِنْ هَذِهِ استثناء مفرغ ہے اور بعض کے نزدیک استثناء منقطع بمعنی الْآيَةِ أَنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ يُبَرُونَ لكن ہے اور دونوں صورتوں میں اس آیت سے یہ ثابت ہوتا بِالدَّوَامِ وَالخُلْدِ وَيُبَشِّرُونَ بِأَنَّ لَهُمْ ہے کہ اہلِ جنت جنت میں ہمیشہ رہنے کی بشارت پائیں گے لا مَوْتَ إِلَّا مَوْتَعهُمُ الْأُولى.وَهَذَا اور یہ کہ ان پر سوائے پہلی موت کے اور موت واقع نہیں دَلِيلٌ صَرِيحٌ عَلَى أَنَّ اللهَ مَا جَعَلَ لِأَهْلِ ہوگی.یہ اس بات پر صریح دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل جنت الْجَنَّةِ مَوْتَيْنِ، بَلْ بَرَهُم بِالْحَيَاةِ کے لئے دو موتیں نہیں بنائیں بلکہ اس نے انہیں اس موت الْأَبَدِيَّةِ بَعْدَ الْمَوْتِ الَّذِي قَدْ قُدِرَ کے بعد جو ہر شخص کے لئے مقدر ہے ابدی حیات کی بشارت لِكَلِ رَجُلٍ وَقَالَ فِي آخِرِ هَذِهِ الْآيَةِ دی ہے.پھر اس آیت کے آخر میں فرما یا إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَوْزُ إنَّ هَذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ، فَأَشَارَ إِلَى الْعَظِيمُ.اس حصہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ الطور : ٢٠
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴ سورة الصفت أَنّ دَوَامَ الْحَيَاةِ وَعَدَمَ الْمَوْتِ مَعَ نَعِيمٍ فرمایا ہے کہ نعمتوں اور خوشیوں کے ساتھ بلا موت ہمیشہ کی وَسُرُورٍ وَحُبُوْرٍ مِنَ التَّفَضُّلَاتِ الْعَظِيمَةِ زندگی اللہ تعالی کے بڑے فضلوں میں سے ہے، اور جب فَإِذَا تَقَرَّرَ هَذَا فَكَيْفَ يُتَصَوَّرُ وَيُظَنُّ أَن یہ بات ثابت ہوگئی تو پھر یہ تصور کیسے کیا جاسکتا ہے کہ نَبِيًّا كَمِثْلِ عِيسَى مَعَ كَوْنِهِ مِن حضرت عیسی علیہ السلام جیسا ایک نبی مقرب الہی ہونے الْمُقَرَّبِينَ مَحْرُوم مِنْ هَذَا التَّفَضُّلِ کے باوجود اس فضل عظیم سے محروم ہو.اور یہ تصور کیسے الْعَظِيْمِ: وَكَيْفَ يُتَصَوَّرُ أَنَّ اللهَ يُخلف کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خلاف وعدہ کرے اور اُسے وَعْدَهُ وَيَرُدُّه إلى الدُّنْيَا وَالامِهَا وَآفَاتِهَا دُنیا کی طرف اور اس کے دُکھوں، آفتوں ، مصیبتوں اور وَمَصَائِبِهَا وَشَدَائِدِهَا وَمَرَارَاتِهَا، ثُمَّ تلخیوں کی طرف کو ٹا دے پھر اسے دوسری دفعہ موت يُمِيتُه مَرَّةً ثَانِيَّةٌ سُبْحَانَهُ هذَا بُهْتَان دے.یہ بہت بڑا بہتان ہے اور اللہ کی ذات اس سے عَظِيمٌ وَمَا كَانَ لِأَحَدٍ أَنْ يَعُودَ لِمِثْلِه پاک ہے.اور کسی مومن کے لئے یہ جائز نہیں کہ اپنی بَعْدَمَا اطلع على عطائه إن كان من غلطی پر اطلاع پانے کے بعد دوبارہ اس کا اعادہ خَطَائِهِ الْمُؤْمِنِينَ...کرے.......وَقَدِ اسْتَدَلَّ بِهَا الْخَلِيفَةُ الأَوَّلُ أَبو حضرت خلیفہ اول ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس بكر الصديق رضى اللهُ عَنْهُ إِذَا تُولی آیت سے اُس وقت استدلال کیا جب رسول کریم صلی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور صحابہ نے آپ کی وفات وَاخْتَلَفَ النَّاسُ فِي وَفَاتِهِ، وَقَالَ عُمَرُ ما کے بارہ میں اختلاف کیا.اور حضرت عمر نے تو یہاں مَاتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تک کہ دیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حقیقی موت يمَوْتٍ حَقِيقِي بَلْ يَأْتِي مَرَّةً ثَانِيَةٌ في الدُّنْيَا وارد نہیں ہوئی بلکہ آپ دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں وَيَقْطَعُ أُتُوفَ الْمُنَافِقِينَ وَأَيْدِيَهُمْ گے اور منافقوں کے ناک، ہاتھ اور کان کاٹیں گے.وَاذَاتَهُمْ، فَأَنْكَرَهُ الصِّدِّيقُ وَمَنَعَهُ مِنْ حضرت ابو بکر نے اس بات سے انکار کیا اور ان کو ایسا ذلِكَ، ثُمَّ بَادَرَ إِلَى بَيْتِ عَائِشَةَ رضی الله کہنے سے منع کیا.پھر آپ جلدی سے حضرت عائشہ رضی عَنْهَا وَأَتى رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ اللہ عنہا کے گھر گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وَسَلَّمَ، وَكَانَ مَيْتًا عَلَى الْفِرَاشِ، فَنَزَعَ نعشِ مبارک بستر پر تھی ، انہوں نے آنحضرت کے چہرہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵ سورة الصفت عَنْ وَجْهِهِ الرِّدَاءَ وَقَبَّلَهُ وَبَكَى وَقَالَ إِنَّكَ مبارک سے چادر ہٹائی آپ کا بوسہ لیا اور رو پڑے اور طيب حَيَّاوَمَيْتًا لَن يَجْمَعَ اللهُ عَلَيْكَ کہا یا رسول اللہ آپ زندگی اور موت دونوں حالتوں میں الْمَوْتَيْنِ إِلَّا مَوْتَتَكَ الْأُولى فَرَدَّ بِذلِكَ پاک ہیں اللہ تعالیٰ آپ پر سوائے آپ کی پہلی موت کے الْقَوْلِ قَوْلَ عُمَرَ، وَكَانَ مَأْخَذُ قَوْلِهِ قَوْلَهُ دو موتیں جمع نہیں کرے گا.اور اس طرح آپ نے تَعَالَى إِلَّا مَوْتَتَنَا الأُولى.وَكَانَتْ لأبي حضرت عمر کے قول کی تردید کی اور آپ کے استدلال کا بَكْرِرَضِيَ بكْرِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ مُنَاسَبَةٌ عجيبة مأخذ یہی آیت إِلَّا مَوْتَتَنَا الأُولى ہی تھی اور حضرت يدَقَائِقِ الْقُرْآنِ وَرُمُوزِهِ وَأَسْرَارِه ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قرآن کریم کے دقائق ، رموز ، اسرار وَمَعَارِفِهِ وَكَانَ لَهُ مَلَكَةٌ كَامِلَةٌ في اور معارف سے عجیب مناسبت تھی اور قرآن کریم سے اسْتِنْبَاطِ الْمَسَائِلِ مِنَ الْقُرْآنِ الْكَرِيمِ ، مسائل مستنبط کرنے میں کامل ملکہ حاصل تھا.پس اس فَلِذَلِكَ هُدِى قَلْبُهُ إِلَى الْحَقِّ وَفَهِمَ أَنَّ وجہ سے آپ کا دل حق کی طرف ہدایت پا گیا اور آپ سمجھ الرُّجُوعَ إِلَى الدُّنْيَا مَوْتَةٌ ثَانِيَةٌ، وَهِيَ لَا گئے کہ دُنیا کی طرف رجوع کرنا دوسری موت ہے اور يَجُوزُ عَلَى أَهْلِ الْجَنَّةِ بِدَلِيلِ قَوْلِهِ تَعَالیٰ جنتیوں کے لئے یہ جائز نہیں، اور آپ نے دلیل اس حِكَايَةٌ عَنْ أَهْلِهَا إِلَّا مَوْتَتَنَا الأُولَى وَمَا آیت سے پکڑی جو اللہ تعالیٰ نے اہل جنت سے حکایت نَحْنُ مُعَذِّبِينَ فَإِنَّ رَجُوْعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ کرتے ہوئے بیان کی ہے یعنی إِلَّا مَوْتَتَنَا الأُوْلَى إلَى الدُّنْيَا ثُمَّ مَوْتَهُمْ وَوُرُودَ الَامِ وَمَا نَحْنُ مُعَذِّبِین کیونکہ اہل جنت کا دُنیا کی طرف السَّكَرَاتِ وَالْأَمْرَاضِ عَلَيْهِمْ نَوعٌ من واپس آنا، پھر ان پر موت کا دوبارہ واقع ہونا اور ان پر التَّعْذِيبِ وَقَد نَجى اللهُ إيَّاهُمْ مِنْ كُلِّ سکرات موت اور امراض کا وارد ہونا عذاب ہی کی ایک عَذَابٍ وَأَوَاهُمْ عِندَهُ بِإغطاء كُل حُبُورٍ قسم ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ہر عذاب سے نجات بِأَعْطَاءِ وَسُرُورٍ مِنْ يَوْمِ انْتِقَالِهِمْ إِلَى الدَّارِ دے دی ہے اور دار آخرت کی طرف منتقل کر کے اور ہر الآخِرَةِ، فَكَيْفَ يُمْكِنُ أَنْ يَرْجِعُوا إِلَى دَارِ ایک خوشی اور سرور عطا کر کے اپنے پاس پناہ دی ہے.التَّعْنِيْبَاتِ مَرَّةٌ ثَانِيَةٌ فَهَذَا مَعْلى قَوْلِ پس یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ اس دُنیا دار العذاب کی أَهْلِ الْجَنَّةِ وَمَا نَحْنُ مُعَذِّبِينَ.طرف دوبارہ واپس آئیں.پس اہل جنت کے قول وَمَا (حمامة البشری، روحانی خزائن جلدے صفحہ ۲۴۵۲۲۴۲) نَحْنُ بِمُعَذِّبِین کے یہی معنے ہیں.( ترجمہ از مرتب ) تا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶ سورة الصفت اذلِكَ خَيْرٌ نُزُلاً أَمْ شَجَرَةُ الزَّقُومِ إِنَّا جَعَلْنَهَا فِتْنَةً لِلظَّلِمِينَ إِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِي اَصْلِ الْجَحِيمِ ﴿ طَلْعُهَا كَأَنَّهُ رُءُوسُ الشَّيطِينِ جیسا کہ قرآن شریف نے عالم آخرت میں ایمان کے پاک درختوں کو انگور اور انار اور عمدہ عمدہ میووں سے مشابہت دی ہے اور بیان فرمایا ہے کہ اس روز وہ ان میووں کی صورت میں متمثل ہوں گے اور دکھائی دیں گے.ایسا ہی بے ایمانی کے خبیث درخت کا نام عالم آخرت میں زقوم رکھا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے اذلِكَ خَيْرٌ نُزُلًا اَمَ شَجَرَةُ الزَّقُومِ ۱۰۰۰۰الخ تم بتلاؤ کہ بہشت کے باغ اچھے ہیں یا زقوم کا درخت.جو ظالموں کے لئے ایک بلا ہے.وہ ایک درخت ہے جو جہنم کی جڑھ میں سے نکلتا ہے یعنی تکبر اور خود بینی سے پیدا ہوتا ہے.یہی دوزخ کی جڑھ ہے اس کا شگوفہ ایسا ہے جیسا کہ شیطان کا سر.شیطان کے معنے ہیں ہلاک ہونے والا.یہ لفظ شیط سے نکلا ہے.پس حاصل کلام یہ ہے کہ اس کا کھا نا ہلاک ہونا ہے.وَاللهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ.(94) اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۹۲) میری نصیحت بار بار یہی ہے کہ جہاں تک ہو سکے اپنے نفسوں کا بار بار مطالعہ کرو.بدی کا چھوڑ دینا یہ بھی ایک نشان ہے اور خدا ہی سے چاہو کہ وہ تمہیں توفیق دے کیونکہ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ قوی بھی اس نے ہی پیدا کئے ہیں.الحکم جلد نمبر ۲ مورخہ ۷ ارجنوری ۱۹۰۷ صفحہ ۱۰) بدیوں کو چھوڑ دینا کسی کے اپنے اختیار میں نہیں اس واسطے راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر تہجد میں خدا کے حضور دعائیں کرو.وہی تمہارا پیدا کرنے والا ہے.خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ.پس اور کون ہے جو ان بدیوں کو دُور کر کے نیکیوں کی توفیق تم کو دے.( بدر جلد ۶ نمبر ۱ ، ۲ مورخہ ۱۰/جنوری ۱۹۰۷ ء صفحہ ۱۷) دو لا وَنَادَيْنَهُ أَنْ يَا بُرهِيمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ) ۱۰۵ (١٠٦) صوفیوں نے لکھا ہے کہ اوائل سلوک میں جور د یا یا وحی ہو اس پر توجہ نہیں کرنی چاہیے وہ اکثر اوقات اس راہ میں روک ہو جاتی ہے.انسان کی اپنی خوبی اس میں تو کوئی نہیں کیونکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فعل ہے جو وہ کسی کو کوئی اچھی خواب دکھا دے یا کوئی الہام کرے اس نے کیا کیا؟ دیکھو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بہت وحی ہوا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷ سورة الصفت کرتی تھی لیکن اس کا کہیں ذکر بھی نہیں کیا گیا کہ اس کو یہ الہام ہوا یہ وحی ہوئی بلکہ ذکر کیا گیا ہے تو اس بات کا که ابرهيم الذى وفى (النجم : ۳۸) وہ ابراہیم جس نے وفاداری کا کامل نمونہ دکھایا یا یہ کہ آیا براهِيمُ قَدْ صدقت الرؤْيَا إِنَّا كَذلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ یہ بات ہے جو انسان کو حاصل کرنی چاہیے اگر یہ پیدا نہ ہو تو پھر رؤیا والہام سے کیا فائدہ؟ مومن کی نظر ہمیشہ اعمال صالحہ پر ہوتی ہے اگر اعمالِ صالحہ پر نظر نہ ہو تو اندیشہ ہے کہ وہ مکر اللہ کے نیچے آجائے گا.ہم کو تو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کریں اور اس کے لئے ضرورت ہے اخلاص کی ، صدق و وفا کی.نہ یہ کہ قیل وقال تک ہی ہماری ہمت و کوشش محدود ہو.جب ہم اللہ تعالیٰ کو راضی کرتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ بھی برکت دیتا ہے اور اپنے فیوض و برکات کے دروازے کھول دیتا ہے اور رویا اور وحی کو القاء شیطانی سے پاک کر دیتا ہے اور اضغاث احلام سے بچا لیتا ہے.پس اس بات کو کبھی بھولنا نہیں چاہیے کہ رویا اور الہام پر مدار صلاحیت نہیں رکھنا چاہیے.بہت سے آدمی دیکھے گئے ہیں کہ ان کو رؤیا اور الہام ہوتے رہے لیکن انجام اچھا نہیں ہوا جو اعمال صالحہ کی صلاحیت پر موقوف ہے.اس تنگ دروازہ سے جو صدق وفا کا دروازہ ہے گزرنا آسان نہیں.ہم بھی ان باتوں سے فخر نہیں کر سکتے کہ رویا یا الہام ہونے لگے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ ر ہیں اور مجاہدات سے دستکش ہور ہیں اللہ تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا.وَفَدَيْنَهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ البدر جلد ۳ نمبر ۱۸ ۱۹ مورخه ۸ تا ۱۶ رمئی ۱۹۰۴ ء صفحه ۱۰) انبیاء اور رسل کو جو بڑے بڑے مقام ملتے ہیں وہ ایسی معمولی باتوں سے نہیں مل جاتے جو نرمی سے اور آسانی سے پوری ہو جائیں بلکہ ان پر بھاری ابتلاء اور امتحان وارد ہوئے جن میں وہ صبر اور استقلال کے ساتھ کامیاب ہوئے تب خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کو بڑے بڑے درجات نصیب ہوئے.دیکھو حضرت ابراہیم پر کیسا بڑا ابتلاء آ یا.اس نے اپنے ہاتھ میں چھری لی کہ اپنے بیٹے کو ذبح کرے اور اس چُھری کو اپنے بیٹے کی گردن پر اپنی طرف سے پھیر دیا مگر آگے بکرا تھا.ابراہیم امتحان میں پاس ہوا اور خدا نے بیٹے کو بھی بچا لیا.تب خدا تعالیٰ ابراہیم پر خوش ہوا کہ اُس نے اپنی طرف سے کوئی فرق نہ رکھا.یہ خدا تعالیٰ کا فضل تھا کہ بیٹا بچ گیاور نہ ابراہیم نے اس کو ذبح کر دیا تھا.اس واسطے اس کو صادق کا خطاب ملا.اور توریت میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا اے ابراہیم تو آسمان کے ستاروں کی طرف نظر کر کیا تو ان کو گین سکتا ہے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸ سورة الصفت اسی طرح تیری اولاد بھی نہ گنی جائے گی.تھوڑے سے وقت کی تکلیف تھی وہ تو گزرگئی اس کے نتیجہ میں رکس قدر انعام ملا.آج تمام سادات اور قریش اور یہود اور دیگر اقوام اپنے آپ کو حضرت ابرا ہیم کا فرزند کہتے ہیں.گھڑی دو گھڑی کی بات تھی وہ تو ختم ہو گئی اور اتنا بڑا انعام ان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملا.فَاسْتَفْتِهم الرَبِّكَ الْبَنَاتُ وَ لَهُمُ الْبَنُونَ.وَ (۱۵۰ البدر جلد نمبر ۲ مورخه ۱۶/جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۵) عیسائیوں کو جواب دیتے وقت بعض اوقات سخت الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں تو یہ بات بالکل صاف ہے جب ہمارا دل بہت دُکھایا جاتا ہے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر طرح طرح کے ناجائز حملے کئے جاتے ہیں تو صرف متنبہ کرنے کی خاطر انہیں کی مسلمہ کتابوں سے الزامی جواب دئے جاتے ہیں.ان لوگوں کو چاہیے کہ ہماری کوئی بات ایسی نکالیں جو حضرت عیسی کے متعلق ہم نے بطور الزامی جواب سے لکھی ہو اور وہ انجیل میں موجود نہ ہو.آخر یہ تو ہم سے نہیں ہو سکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تو ہین شن کر چپ رہیں اور اس قسم کے جواب تو خود قرآن مجید میں پائے جاتے ہیں جیسے لکھا ہے الكُمُ الذَّكَرُ وَ لَهُ الأنثى (النجم : ٢٢) فَاسْتَفتهم الريْكَ الْبَنَاتُ وَ لَهُمُ الْبَنُونَ وو لوگ فرشتوں کو خدا تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے تھے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تمہارے بیٹے اور ہماری بیٹیاں؟ غرض الزامی رنگ کے جواب دینا تو طریق مناظرہ ہے ورنہ ہم حضرت عیسی کو خدا تعالیٰ کا رسول اور ایک مقبول اور برگزیدہ انسان سمجھتے ہیں اور جن لوگوں کا دل صاف نہیں اُن کا فیصلہ ہم خدا پر چھوڑتے ہیں.الحکم جلد نمبر ۴۱ مورخہ ۱۷ نومبر ۱۹۰۷ صفحه ۴) وَمَا مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقَامُ مَّعْلُومٌ وَ إِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُونَ.ایک یہ اعتراض ہے کہ قرآن کریم کے بعض اشارات اور ایسا ہی بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض ایام میں جبرائیل کے اترنے میں کسی قدر توقف بھی وقوع میں آئی ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایام بعثت میں یہ بھی اتفاق ہوا ہے کہ بعض اوقات کئی دن تک جبرائیل آ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل نہیں ہوا.اگر حضرت جبرائیل ہمیشہ اور ہر وقت قرین دائگی آنحضرت صلعم تھے اور روح القدس کا اثر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹ سورة الصفت ہمیشہ کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود پر جاری و ساری تھا تو پھر توقف نزول کے کیا معنے ہیں.اما الجواب پس واضح ہو کہ ایسا خیال کرنا کہ روح القدس کبھی انبیاء کو خالی چھوڑ کر آسمان پر چڑھ جاتا ہے صرف ایک دھوکہ ہے کہ جو بوجہ غلط فہمی نزول اور صعود کے معنوں کے دلوں میں متمکن ہو گیا ہے.پوشیدہ نہ رہے کہ نزول کے یہ معنے ہر گز نہیں ہیں کہ کوئی فرشتہ آسمان سے اپنا مقام اور مقتر چھوڑ کر زمین پر نازل ہو جاتا ہے ایسے معنے تو صریح نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کے مخالف ہیں چنانچہ فتح البیان میں ابن جریر سے بروایت عائشہ رضی اللہ عنہا یہ حدیث مروی ہے قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا فِي السَّمَاءِ مَوْضَعُ قَدَمٍ إِلَّا عَلَيْهِ مَلَكَ سَاجِدٌ أوْ قَائِمٌ وَذَالِك قَوْلُ الْمَلائِكَةِ وَ ما مِنَّا إِلَّا له مَقام مَّعْلُوم یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آسمان پر ایک قدم کی بھی ایسی جگہ خالی نہیں جس میں کوئی فرشتہ ساجد یا قائم نہ ہو اور یہی معنے اس آیت کے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک شخص ایک مقام معلوم یعنی ثابت شدہ رکھتا ہے جس سے ایک قدم او پر یا نیچے نہیں آ سکتا.اب دیکھو اس حدیث سے صاف طور پر ثابت ہو گیا کہ فرشتے اپنے مقامات کو نہیں چھوڑتے اور بھی ایسا اتفاق نہیں ہوتا کہ ایک قدم کی جگہ بھی آسمان پر خالی نظر آوے...یہ بات نہایت احتیاط سے اپنے حافظہ میں رکھ لینی چاہیئے کہ مقربوں کا روح القدس کی تاثیر سے علیحدہ ہونا ایک دم کے لئے بھی ممکن نہیں کیونکہ اُن کی نئی زندگی کی روح یہی روح القدس ہے پھر وہ اپنی روح سے کیوں کر علیحدہ ہو سکتے ہیں.اور جس علیحدگی کا ذکر احادیث اور بعض اشارات قرآن کریم میں پایا جاتا ہے اُس سے مراد صرف ایک قسم کی تعالی ہے کہ بعض اوقات بوجہ مصالح الہی اس قسم کی تجلی میں کبھی دیر ہو گئی ہے اور اصطلاح قرآن کریم میں اکثر نزول سے مراد وہی تخلی ہے.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۸۸ تا ۹۱) حال کے اکثر ملا...اس بات کے وہ ہرگز قائل نہیں ہیں کہ ہر یک انسان کو دو قرین دیے گئے ہیں ایک داعی الی الخیر جو روح القدس ہے اور ایک داعی الی الشتر جو شیطان ہے بلکہ اُن کا تو یہ قول ہے کہ صرف ایک ہی قرین دیا گیا ہے جو داعی الی الشر ہے اور انسان کی ایمانی بیخ کنی کے لئے ہر وقت اُس کے ساتھ رہتا ہے اور خدا تعالیٰ کو یہ بات بہت پیاری معلوم ہوئی کہ انسان کا شیطان کو دن رات کا مصاحب بنا کر اور انسان کے خون اور رگ وریشہ میں شیطان کو دخل بخش کر بہت جلد انسان کو تباہی میں ڈال دیوے اور جبرائیل جس کا دوسرا نام روح القدس بھی ہے ہر گز عام انسانوں کے لئے بلکہ اولیاء کے لئے بھی داعی الی الخیر مقرر نہیں کیا.وہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰ سورة الشفت سب لوگ صرف شیطان کے پنجہ میں چھوڑے گئے ہاں انبیاء پر روح القدس نازل ہوتا ہے مگر وہ بھی صرف ایک دم یا بہت ہی تھوڑے عرصہ کے لئے اور پھر آسمان پر جبرائیل چڑھ جاتا ہے اور ان کو خالی چھوڑ دیتا ہے بلکہ بسا اوقات چالیس چالیس روز بلکہ اس سے بھی زیادہ روح القدس یا یوں کہو کہ جبرائیل کی ملاقات سے انبیاء محروم رہتے ہیں مگر دوسرا قرین جو شیطان ہے وہ تو نعوذ باللہ اُن کا ساتھ ایک دم بھی نہیں چھوڑتا گو آخر کو مسلمان ہی ہو جائے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ لوگ مجوب اور حقائق قرآن کریم سے غافل اور بے نصیب ہیں اور کھلے طور پر ان کا یہ عقیدہ بھی نہیں بلکہ نادانی اور قلت تدبر اور پھر اس عاجز کے ساتھ بخل اور کینہ ورزی کی وجہ سے اس بلا میں پڑ گئے ہیں کیونکہ اس عاجز کے مقابل پر جن راہوں پر یہ لوگ چلے اُن راہوں میں یہ آفات موجود تھیں اس لئے نادانستہ اُن میں پھنس گئے جیسا کہ ایک پرندہ نادانستہ کسی دانہ کی طمع سے ایک جال میں پھنس جاتا ہے.بات یہ ہے کہ جب ان لوگوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ ضرور جبرائیل اور ملک الموت اور دوسرے فرشتے اپنے اصلی وجود کے ساتھ ہی زمین پر نازل ہوتے ہیں اور پھر تھوڑی دیر رہ کر آسمان پر چلے جاتے ہیں.جب آسمان سے اُترتے ہیں تو آسمان اُن کے وجود سے خالی رہ جاتا ہے اور پھر جب زمین سے آسمان کی طرف پرواز کرتے ہیں تو زمین اُن کے وجود سے خالی رہ جاتی ہے تو صد با اعتراض قرآن اور حدیث اور عقل کے اُن پر وارد ہوئے چنانچہ منجملہ اُن بلاؤں کے جو ان کے اس عقیدہ کے لازم حال ہو گئیں ایک یہ بھی بلا ہے جو خدا تعالیٰ کے روحانی انتظام کا عدل اور رحم جاتا رہا اور کفار اور تمام مخالفین کو اسلام پر یہ اعتراض کرنے کے لئے موقعہ ملا کہ یہ کیسی سخت دلی اور خلاف رحم بات ہے کہ خدا تعالیٰ شیطان اور اُس کی وریت کو انسان کی اغوا کے لئے ہمیشہ اور ہر دم کے لئے اُس کا قرین اور مصاحب مقرر کرے تا وہ اُس کے ایمان کی بیخ کنی کے فکر میں رہیں اور ہر وقت اُس کے خون اور اُس کے دل اور دماغ اور رگ و ریشہ میں اور آنکھوں اور کانوں میں گھس کر طرح طرح کے وساوس ڈالتے رہیں.اور ہدایت کرنے کا ایسا قرین جو ہر دم انسان کے ساتھ رہ سکے ایک بھی انسان کو نہ دیا جائے.یہ اعتراض در حقیقت اُن کے عقیدہ مذکورہ بالا سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ ایک طرف تو یہ لوگ بموجب آیت وَمَا مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقَامُ مَّعْلُومٌ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت جبرائیل اور عزرائیل یعنی ملک الموت کا مقام آسمان پر مقرر ہے جس مقام سے وہ نہ ایک بالشت نیچے اُتر سکتے ہیں نہ ایک بالشت او پر چڑھ سکتے ہیں اور پھر باوجود اس کے اُن کا زمین پر اپنے اصلی وجود کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱ سورة الصفت ساتھ آنا بھی ضروری خیال کرتے ہیں اور ایسا ہی پھر آسمان پر اُن کا اپنے اصلی وجود کے ساتھ چڑھ جانا بھی اپنے زعم میں یقینی اعتقادر رکھتے ہیں اور اگر کوئی اصلی وجود کے ساتھ اتر نے یا چڑھنے سے انکار کرے تو وہ اُن کے نزدیک کافر ہے ان عجیب مسلمانوں کے عقیدہ کو یہ بلا لازم پڑی ہوئی ہے کہ وہ اعتدالی نظام جس کا ہم ابھی ذکر کر چکے ہیں یعنی بد قرین کے مقابل پر نیک قرین کا دائمی طور پر انسان کے ساتھ رہنا ایسے اعتقاد سے بالکل درہم برہم ہو جاتا ہے اور صرف شیطان ہی دائمی مصاحب انسان کا رہ جاتا ہے کیونکہ اگر فرشتہ روح القدس کسی پر مسافر کی طرح نازل بھی ہوا تو بموجب ان کے عقیدہ کے ایک دم یا کسی اور بہت تھوڑے عرصہ کے لئے آیا اور پھر اپنے اصلی وطن آسمان کی طرف پرواز کر گیا اور انسان کو گو وہ کیسا ہی نیک ہو شیطان کی صحبت میں چھوڑ گیا.کیا یہ ایسا اعتقاد نہیں جس سے اسلام کو سخت دھبہ لگے کیا خداوند کریم و رحیم کی نسبت یہ تجویز کرنا جائز ہے کہ وہ انسان کی تباہی کو بہ نسبت اُس کے ہدایت پانے کے زیادہ چاہتا ہے نعوذ باللہ ہرگز نہیں نابینا آدمی قرآن کریم کی تعلیم کو سمجھتا نہیں اس لئے اپنی نادانی کا الزام اس پر لگا دیتا ہے.یہ تمام بلائیں جن سے نکلنا کسی طور سے ان علماء کے لئے ممکن نہیں اسی وجہ سے ان کو پیش آ گئیں کہ انہوں نے یہ خیال کیا کہ ملا یک اپنے اصلی وجود کے ساتھ زمین پر نازل ہوتے ہیں اور پھر یہ بھی ضروری عقیدہ تھا کہ وہ بلا توقف آسمان پر چڑھ بھی جاتے ہیں.ان دونوں غلط عقیدوں کے لحاظ سے یہ لوگ اس شکنجہ میں آگئے کہ اپنے لئے یہ تیسر اعقیدہ بھی تراش لیا کہ بس القرین کے مقابل پر کوئی ایسا نعم القرین انسان کو نہیں دیا گیا جو ہر وقت اس کے ساتھ ہی رہے.پس اس عقیدہ کے تراشنے سے قرآنی تعلیم پر انہوں نے سخت تہمت لگائی اور بداندیش مخالفوں کو حملہ کرنے کا موقعہ دے دیا.اگر یہ لوگ اس بات کو قبول کر لیتے کہ کوئی فرشتہ بذات خود ہر گز نازل نہیں ہوتا بلکہ اپنے خلی وجود سے نازل ہوتا ہے جس کے تمثل کی اس کو طاقت دی گئی ہے جیسا کہ دحیہ کلبی کی شکل پر حضرت جبرائیل مستقل ہو کر ظاہر ہوتے تھے اور جیسا کہ حضرت مریم کے لئے فرشتہ متمثل ہوا تو کوئی اعتراض پیدا نہ ہوتا اور دوام نغم القرین پر کوئی شخص جرح نہ کر سکتا اور تعجب تو یہ ہے کہ ایسا خیال کرنے میں قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے بالکل یہ لوگ مخالف ہیں قرآن کریم ایک طرف تو ملا یک کے قرار اور ثبات کی جگہ آسمان کو قرار دے رہا ہے اور ایک طرف یہ بھی بڑے زور سے بیان فرما رہا ہے کہ روح القدس کامل مومنوں کو تائید کے لئے دائمی طور پر عطا کیا جاتا ہے اور اُن سے الگ نہیں ہوتا گو ہر ایک شخص اپنے فطرتی نور کی وجہ سے کچھ نہ کچھ روح القدس کی چمک اپنے اندر رکھتا ہے مگر وہ چمک عام لوگوں میں شیطانی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲ سورة الصفت ظلمت کے نیچے آ جاتی اور ایسی دب جاتی ہے کہ گویا اُس کا کچھ بھی وجود نہیں.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۹۰ تا۹۷) محققین اہل اسلام ہر گز اس بات کے قائل نہیں کہ ملائک اپنے شخصی وجود کے ساتھ انسانوں کی طرح پیروں سے چل کر زمین پر اتر تے ہیں اور یہ خیال بہداہت باطل بھی ہے.کیوں کہ اگر یہی ضرور ہوتا کہ ملائک اپنی اپنی خدمات کی بجا آوری کے لئے اپنے اصل وجود کے ساتھ زمین پر اترا کرتے تو پھر ان سے کوئی کام انجام پذیر ہونا بغایت درجہ محال تھا.مثلاً فرشتہ ملک الموت جو ایک سکینڈ میں ہزار ہا ایسے لوگوں کی جانیں نکالتا ہے جو مختلف بلا دو امصار میں ایک دوسرے سے ہزاروں کوسوں کے فاصلہ پر رہتے ہیں.اگر ہریک کے لئے اس بات کا محتاج ہو کر اول پیروں سے چل کر اس کے ملک اور شہر اور گھر میں جاوے اور پھر اتنی مشقت کے بعد جان نکالنے کا اس کو موقع ملے تو ایک سکنڈ کیا اتنی بڑی کارگزاری کے لئے تو کئی مہینے کی مہلت بھی کافی نہیں ہو سکتی کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شخص انسانوں کی طرح حرکت کر کے ایک طرفۃ العین کے یا اس کے کم عرصہ میں تمام جہان گھوم کر چلا آوے ہر گز نہیں بلکہ فرشتے اپنے اصلی مقامات سے جو ان کے لئے خدائے تعالی کی طرف سے مقرر ہیں ایک ذرہ کے برابر بھی آگے پیچھے نہیں ہوتے جیسا کہ خدائے تعالی ان کی طرف سے قرآن شریف میں فرماتا ہے وَمَا مِنَّا إِلا لَهُ مَقَامٌ مَّعْلُومٌ وَ إِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُونَ.پس اصل بات یہ ہے کہ جس طرح آفتاب اپنے مقام پر ہے اور اُس کی گرمی و روشنی زمین پر پھیل کر اپنے خواص کے موافق زمین کی ہر یک چیز کو فائدہ پہنچاتی ہے اسی طرح روحانیات سماویہ خواہ اُن کو یونانیوں کے خیال کے موافق نفوس فلکیہ کہیں یا دساتیر اور وید کی اصطلاحات کے موافق ارواح کواکب سے اُن کو نامزد کریں یا نہایت سید ھے اور موحدانہ طریق سے ملائک اللہ کا ان کو لقب دیں.در حقیقت یہ عجیب مخلوقات اپنے اپنے مقام میں مستقر اور قرار گیر ہے اور یہ حکمت کا ملہ خداوند تعالی زمین کی ہر یک مستعد چیز کو اس کے کمال مطلوب تک پہنچانے کے لئے یہ روحانیات خدمت میں لگی ہوئی ہیں ظاہری خدمات بھی بجالاتے ہیں اور باطنی بھی.جیسے ہمارے اجسام اور ہماری تمام ظاہری قوتوں پر آفتاب اور ماہتاب اور دیگر سیاروں کا اثر ہے ایسا ہی ہمارے دل اور دماغ اور ہماری تمام روحانی قوتوں پر یہ سب ملائک ہماری مختلف استعدادوں کے موافق اپنا اپنا اثر ڈال رہے ہیں.جو چیز کسی عمدہ جو ہر بنے کی اپنے اندر قابلیت رکھتی ہے وہ اگر چہ خاک کا ایک ٹکڑا ہے یا پانی کا وہ قطرہ جو صدف میں داخل ہوتا ہے یا پانی کا وہ قطرہ جو رحم میں پڑتا ہے وہ ان ملائک اللہ کی روحانی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٣ سورة الصفت تربیت سے لعل اور الماس اور یا قوت اور نیلم وغیرہ یا نہایت درجہ کا آبدار اور وزنی موتی یا اعلیٰ درجہ کے دل توضیح مرام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۶ تا ۶۸ ) اور دماغ کا انسان بن جاتا ہے.وَمَقَامَاتُ الْمَلَائِكَةِ فِي السَّمَاوَاتِ | اس میں کوئی شک نہیں کہ آسمانوں میں فرشتوں کے ثَابِتَةٌ لَا رَيْبَ فِيْهَا كَمَا قَالَ عَزَّ وَجَلَّ مقامات ثابت ہیں جیسا کہ اللہ عزوجل نے ان کی طرف حِكَايَةً عَنْهُمْ وَمَا مِنَّا إِلا لَهُ مَقَامُ مَّعْلُومٌ سے حکایتاً بیان فرمایا ہے وَمَا مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقَامُ مَّعْلُومٌ وَمَا نَرَى فِي الْقُرْآنِ ايَةٌ تُشِيرُ إِلى أَنَّهُمْ اور ہم قرآن کریم میں ایک بھی آیت ایسی نہیں پاتے جو يَتْرُكُونَ مَقَامَاتِهِمْ فِي وَقتٍ مِن اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہو کہ فرشتے اپنے مقامات کو الْأَوْقَاتِ، بَلِ الْقُرْآنُ يُشير إلى أنهم لا کسی وقت چھوڑ دیتے ہیں بلکہ قرآن کریم اس بات کی يَتْرُكُونَ مَقَامَاتِهِمُ الَّتِي ثَبَّتَهُمُ اللهُ طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ ان مقامات کو جن پر اللہ تعالیٰ عَلَيْهَا، وَمَعَ ذَلِكَ يَنزِلُوْنَ إِلَى الْأَرْضِ نے ان کو قائم کیا ہے نہیں چھوڑتے اور اس کے باوجود وہ وَيُدْرِكُونَ أَهْلَهَا بِإِذْنِ اللہ تعالی زمین پر اترتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے اذن سے زمین وَيَتَبَرَّزُونَ في بَرَزَاتٍ كَثِيرَةٍ فَتَارَةُ والوں سے ملاقات کرتے ہیں اور مختلف شکلوں میں ظاہر يَتَمَكَّلُونَ لِلانْبِيَاء في صُورِ بنی آدم ہوتے ہیں.کبھی تو وہ انبیاء کے لئے بنی آدم کی شکل میں وَمَرَّةٌ يَتَرَاءُونَ كَالتُورٍ، وَكَرَّةً يَرَاهُمْ أَهْلُ ظاہر ہوتے ہیں اور کبھی وہ نور کی طرح نظر آتے ہیں اور الْكَشفِ كَالأَطفَالِ وَأُخرى كالأَمَارِدِ کبھی ان کو اہل کشف بچوں اور بے ریش نو جوانوں کی وَيَخْلُقُ لَهُمُ اللهُ فِي الْأَرْضِ أَجْسَادًا شکل میں دیکھتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے لئے زمین میں ان جَدِيدَةً غَيْرَ أَجْسَادِهِمُ الْأَصْلِيَّةِ کے اصلی وجودوں کے علاوہ نئے وجود اپنی لطیف اور محیط بقدرتِهِ اللَّطِيفَةِ الْمُحِيْطَةِ، وَمَعَ ذلِك قدرت سے پیدا کر دیتا ہے اور اس کے ساتھ ہی آسمانوں تَكُونُ لَهُمْ أَجْسَادُ فِي السَّمَاءِ ، وَهُمْ لا میں بھی ان کے اجسام ہوتے ہیں اور وہ ان سماوی اجسام يُفَارِقُونَ أَجْسَادَهُمُ السَّمَاوِيَّةَ وَلاً سے علیحدہ نہیں ہوتے اور اپنے مقامات سے نہیں ہٹتے اور يَبْرَحُوْنَ مَقَامَاتِهِمْ، وَيَجِينُونَ الْأَنْبِيَاءَ انبیاء پر اور دوسرے سب لوگوں کی طرف جن کی طرف وہ وَكُلٌّ مَن أُرْسِلُوا إِلَيْهِ مَعَ أَنَّهُمْ لَا بھیجے جاتے ہیں، نازل ہوتے ہیں لیکن وہ اپنے اصل ، يَتْرُكُونَ الْمَقَامَاتِ وَهَذَا سِر من أسرار مقامات کو نہیں چھوڑتے اور یہ بات اللہ تعالی کے بھیدوں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴ سورة الصفت اللهِ فَلَا تَعْجَبْ مِنْهُ، أَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ الله میں سے ایک بھید ہے تو اس سے تعجب نہ کر.کیا تو نہیں عَلى كُلِّ شَيْ قَدِيرُ فَلَا تَكُنْ مِن جانتا کہ اللہ تعالیٰ ہر امر پر قادر ہے.پس تُو جھٹلانے والوں میں سے نہ بن.( ترجمہ از مرتب) الْمُكَذِّبِينَ حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلدے صفحہ ۲۷۳) ص وَ لَقَد سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ إِنَّهُمُ لَهُمُ الْمَنْصُورُونَ وَ إِنَّ جندَنَا لَهُمُ الْغَلِبُونَ فَتَوَلَّ عَنْهُمْ حَتَّى حِينٍ وَ أَبْصِرْهُمْ فَسَوْفَ ود يبصرون اور رسولوں کے حق میں پہلے سے ہماری یہ بات قرار پاچکی ہے کہ ہمیشہ نصرت اور فتح انہیں کے شامل حال رہے گی اور ہمیشہ ہمارا ہی لشکر غالب رہے گا.سو اُس وقت تک کہ وہ وعدہ پورا ہو اُن سے مونہہ پھیرے رہ ، اور ان کو وہ راہ دکھلا.پس عنقریب وہ آپ دیکھ لیں گے.(براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۵۶،۲۵۵ حاشیه )
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ر اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۳۵ سورة ص بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة ص بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ وَعَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ مُنْذِرُ مِنْهُمْ وَقَالَ الْكَفِرُونَ هَذَا سحرُ كَذَّابٌ.اسْحِرٌ انہوں نے اس بات سے تعجب کیا کہ انہیں میں سے ایک شخص ان کی طرف بھیجا گیا اور بے ایمانوں نے کہا کہ یہ تو جادو گر کذاب ہے.ایک عیسائی کے تین سوال اور اُن کے جوابات ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۳۲) وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَ اصْبِرُوا عَلَى الهَتِكُمْ إِنَّ هَذَا لَشَيْءٍ يُرَادُه کہتے ہیں کہ یہ ایک منصوبہ ہے جو روپیہ جمع کرنے کے لئے بنایا گیا ہے اور اس کے معاون تنخواہیں پاتے ہیں.اب وہ شخص جو دل میں کچھ خدا تعالیٰ کا خوف رکھتا ہے سوچ لے کہ کیا یہ وہی بدظنی نہیں جو قدیم سے دلوں کے اندھے انبیاء علیہم السلام پر کرتے آئے ہیں.فرعون نے حضرت موسیٰ پر بھی بدظنی کی اور اپنے لوگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ اس شخص کا اصل مطلب یہ ہے کہ تم لوگوں کو زمین سے بیدخل کر کے خود قابض ہو جائے ایسا ہی یہودیوں نے حضرت عیسی کی نسبت یہی رائے قائم کی کہ یہ شخص مکار ہے اور نبوت کے بہانہ سے ہم لوگوں پر حکومت کرنا چاہتا ہے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کفار قریش نے بھی یہی بدظنی کی جیسا کہ قرآن شریف میں ان کا مقولہ یہ لکھا ہے إِنَّ هَذَا لَشَى يُراد یعنی اس دعوے میں تو کوئی نفسانی مطلب
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶ سورة ص ہے سو ایسے اعتراض کرنے والوں پر ہم کیا افسوس کریں وہ پہلے منکرین کی عادت دکھلا رہے ہیں.طالب حق کی یہ عادت ہونی چاہیے کہ وہ دعوی کو غور سے دیکھے اور دلائل پر دلی انصاف سے نظر ڈالے اور وہ بات منہ پر لاوے جو عقل اور خدا ترسی اور انصاف کا مقتضا ہے نہ یہ کہ قبل از تحقیق یہ کہنا شروع کر دے کہ یہ سب کچھ مال کمانے کے لئے ایک مکر بنایا گیا ہے.براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۶۸) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اس وقت کا فر یہی رائے لگاتے تھے إِنَّ هَذَا لَشَيْءٍ يُرَادُ میاں یہ تو دو کا نداری ہے مخالف جس کو صحبت نصیب نہیں ہوتی اس کو صحیح رائے نہیں ملتی اور ڈور سے رائے لگانا صحیح نہیں ہے کیونکہ جب تک وہ پاس نہیں آتا اور حالات پر اطلاع نہیں پاتا کیوں کر صحیح رائے حاصل کر سکتا ہے.انحام جلد ۵ نمبر ۴ مورخه ۳۱/جنوری ۱۹۰۱ صفحه ۵) انسان کو ہلاک کرنے والی چیزوں میں سے ایک بد صحبت بھی ہے.دیکھوا بوجہل خود تو ہلاک ہوا مگر اور بھی بہت سے لوگوں کو لے مرا جو اس کے پاس جا کر بیٹھا کرتے تھے اس کی صحبت اور مجلس میں بجز استہزا اور جنسی ٹھٹھے کے اور کوئی ذکر ہی نہ تھا یہی کہتے تھے ان هذا لشی یراد میاں یہ دوکانداری ہے.اب دیکھو اور بتلاؤ کہ وہ جس کو دوکاندار اور ٹھگ کہا جاتا تھا.ساری دُنیا میں اسی کا نور ہے یا کسی اور کا بھی.ابو جہل مر گیا اور اس پر لعنت کے سوا کچھ نہ رہا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بلند کو دیکھو کہ شب و روز بلکہ ہر وقت درود پڑھا جاتا ہے اور ۹۹ کروڑ مسلمان اس کے خادم موجود ہیں اگر اب ابو جہل پھر آتا تو آکر دیکھتا کہ جس کو اکیلا مکہ کی گلیوں میں پھرتا دیکھتا تھا اور جس کی ایذاء دہی میں کوئی دقیقہ باقی نہ رکھتا تھا اس کے ساتھ جب ۹۹ کروڑ انسانوں کے مجمع کو دیکھتا حیران رہ جاتا اور یہ نظارہ ہی اس کو ہلاک کر دیتا.یہ ہے ثبوت آپ کی رسالت کی سچائی کا.اگر اللہ تعالی ساتھ نہ ہوتا تو یہ کامیابی نہ ہوتی.کس قدر کوششیں اور منصوبے آپ کی عداوت اور مخالفت کے لئے کئے مگر آخر نا کام اور نامراد ہونا پڑا.اس ابتدائی حالت میں جب چند آدمی آپ کے ساتھ تھے کون دیکھ سکتا تھا کہ یہ عظیم الشان انسان دُنیا میں ہوگا اور ان مخالفوں کی سازشوں سے صحیح و سلامت بیچ کر کامیاب ہو جائے گا.مگر یا درکھو کہ اللہ تعالیٰ کی عادت اسی طرح پر ہے کہ انجام خدا کے بندوں کا ہی ہوتا ہے قتل کی سازشیں، کفر کے فتوے مختلف قسم کی ایذائیں ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی ہیں.الحکم جلد ۵ نمبر ۳ مورخه ۲۴ /جنوری ۱۹۰۱ء صفحه ۳،۲)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷ سورة ص یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ یہ امر مشکل ہے کہ دُنیا کا ایک ہی مذہب ہو جاوے کیونکہ خدا تعالیٰ نے یہ بھی اپنا ایک قانون مقرر فرما دیا ہے کہ قیامت تک دُنیا میں تفرقہ ضرور رہے گا چنانچہ قرآن شریف میں یہ امر بڑی صراحت کے ساتھ موجود ہے.قرآن کریم سے بڑھ کر اور کوئی تعلیم کامل کیا ہوگی.اس میں سب سے بڑھ کر آیات اور برکات رکھے ہوئے ہیں جو ہر زمانہ میں تازہ اور زندہ ہیں.پھر اگر یہ قانونِ الہی نہ ہوتا تو چاہیے تھا کہ دنیا کی کل قو میں اس کو قبول کر لیتیں مگر خاص زمانہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی دوسرا فرقہ موجود تھا.جیسا نبی کامل تھا ویسی ہی کتاب کامل تھی.لیکن ابو جہل اور ابولہب وغیرہ نے کچھ فائدہ نہ اُٹھایا اور وہ یہی کہتے رہے إِنَّ هَذَا لَشَى يُراد میاں یہ تو دوکانداری ہے.الحکام جلد ۵ نمبر ۳۰ مورخه ۱۷اراگست ۱۹۰۱ صفحه ۶) انسان ہمیشہ تجارب سے نتیجہ نکالتا ہے اور عقل انسانی بھی بذریعہ تجارب کے ترقی کرتی رہتی ہے مثلاً انسان جانتا ہے کہ آنب کے درخت کا پھل میٹھا ہوتا ہے اور بعض درخت کے پھل کڑوے ہوتے ہیں تو اس تجر بہ کثیر سے ایک فہم حاصل ہو جاوے گا کہ آنب کے پھل ضرور شیریں ہوتے ہیں اسی طرح چونکہ تجربہ آج کل یہی ہوتا ہے کہ دُنیا میں فسق و فجور اور مکر وفریب کا سلسلہ بڑھا ہوا ہے.اسی لئے اس کا خیال بندھ جاتا ہے کہ ہر ایک فریبی اور مکار ہی ہے.سابقہ تجارب اُسے تعلیم دیتے ہیں کہ ایسا ہی ہونا چاہیے اسی وجہ سے حسن عقیدت کی جگہ بد عقیدگی پیدا ہوتی ہے اور اسی لئے لوگ انبیاء پر بھی سوء ظن رکھتے آئے ہیں.موسیٰ کی وفات کو دو ہزار برس گزر چکے تھے تو آنحضرت صلعم مبعوث ہوئے اور اس زمانہ میں بہت سے چھوٹے معجزے دکھانے والے اور دعویٰ کرنے والے پیدا ہوئے تھے.لوگوں کو اُن کا تجربہ تھا اور اسی حالت میں یک لخت ایک صادق بھی آگیا آخر ان کو اس صادق کو بھی وہی کہنا پڑا جوان جھوٹے مدعیوں کے حق میں کہتے تھے یعنی إِنَّ هذا لَشَيْ يُراد کہ یہ تو دوکانداری ہے.غرضیکہ انسان تجارب کے ذریعہ سے بھول رہے ہیں.خدا تعالیٰ کے بندوں کی معرفت کا ہونا یہ خدا کا خاص فضل ہے.وہی معرفت دے تو پتہ لگتا ہے.دُعا بہت کرے دُعاکےسوا چارہ نہیں.البدرجلد ۲ نمبر ۱۷ مورخه ۱۵ رمئی ۱۹۰۳ ء صفحه ۱) مَا سَعْنَا بِهذَا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هَذَا إِلَّا اخْتِلَاقُ.یہ تو ایک بناوٹ ہے.( برا این احمد یه چهار تصص، روحانی خزائن جلد اصلحه ۲۰۵ حاشیه در حاشیه نمبر (۳)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ تو ضرور تمام افترا ہے.۳۸ سورة ص انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۵) وَخُذُ بِيَدِكَ ضِعْنا فَاضْرِبُ بِهِ وَلَا تَحْنَتْ إِنَّا وَجَدُنْهُ صَابِرًا نِعْمَ الْعَبْدُ انه آواب (۴۴ محترم اکمل صاحب کے اس استفسار پر کہ اگر مذکورہ آیت کے وہ معنی کئے جائیں جو عام مفسروں نے کئے ہیں تو شرع میں جیلوں کا باب کھل جائے گا.حضور نے فرمایا ) چونکہ حضرت ایوب کی بیوی بڑی نیک، خدمت گزار تھی اور آپ بھی متقی صابر تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے تخفیف کر دی اور ایسی تدبیر سمجھا دی جس سے قسم بھی پوری ہو جائے اور ضرر بھی نہ پہنچے.اگر کوئی حیلہ اللہ تعالیٰ سمجھائے تو وہ شرع میں جائز ہے کیونکہ وہ بھی اسی راہ سے آیا جس سے شرع آئی.اس لئے کوئی جرح کی بات نہیں.( بدر جلد ۶ نمبر ۹ مورخه ۲۸ فروری ۱۹۰۷ء صفحه ۶) وَاذْكُرُ عِبدَنَا إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ أُولِي الْأَيْدِي وَالْأَبْصَارِ ۴۵ خدائے تعالیٰ نے مسلمانوں کو صرف عقل ہی کے عطیہ سے مشرف نہیں فرمایا بلکہ الہام کی روشنی اور نور بھی اس کے ساتھ مرحمت فرمایا ہے انہیں ان راہوں پر نہیں چلنا چاہیے جو خشک منطقی اور فلاسفر چلانا چاہتے ہیں.ایسے لوگوں پر لسانی قوت غالب ہوتی ہے اور رُوحانی قومی بہت ضعیف ہوتے ہیں.دیکھو قرآن شریف میں خدائے تعالیٰ اپنے بندوں کی تعریف میں اُولی الابدانی وَ الْأَبْصَارِ فرماتا ہے کہیں أُولِي الْأَلْسِنَةِ نہیں فرمایا.اس سے معلوم ہوا کہ خدائے تعالیٰ کو وہی لوگ پسند ہیں جو بصر اور بصیرت سے خدا کے کام اور کلام کو دیکھتے ہیں اور پھر اُس پر عمل کرتے ہیں اور یہ ساری باتیں بجز تزکیہ نفس اور تطہیر قوائے باطنیہ کے ہرگز حاصل نہیں ہوسکتیں.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۷۳) اگر چہ فیصلہ دعاؤں سے ہی ہونے والا ہے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ دلائل کو چھوڑ دیا جاوے نہیں دلائل کا سلسلہ بھی برابر رکھنا چاہیے اور قلم کو روکنا نہیں چاہیے.نبیوں کو خدا تعالیٰ نے اس لئے أُولي الأبدانی و الابصارِ کہا ہے کیونکہ وہ ہاتھوں سے کام لیتے ہیں.پس چاہیے کہ تمہارے ہاتھ اور قلم نہ رکیں اس سے ثواب ہوتا ہے.جہاں تک بیان اور لسان سے کام لے سکو کام لئے جاؤ اور جو جو باتیں تائید دین کے لئے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹ سورة ص سمجھ میں آتی جاویں انہیں پیش کئے جاؤ وہ کسی نہ کسی کو فائدہ پہنچائیں گی.الحکم جلد ۸ نمبر ۶ مورخه ۱۷ فروری ۱۹۰۴ء صفحه ۶) انبیاء علیہم السلام کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے أولي الأيدنى و الابصار جس کے یہ معنی ہیں کہ وہ کام کرنے والے اور دیکھ بھال کر ان راہوں کی طرف بلاتے تھے جن پر خدا تعالیٰ نے انہیں قائم کیا تھا اور وہ تصورات کے پیچھے لگنے والے اور خیالی آدمی نہ تھے وہ عملی آدمی تھے اور علی وجہ البصیرت حق کی طرف الحکم جلد ۵ نمبر ۳۴ مورخہ ۱۷ ستمبر ۱۹۰۱ء صفحه ۹،۸) بلاتے تھے.هذا ذكر وَ إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ لَحُسْنَ مَابِ جَنْتِ عَدْنٍ مُفَتَحَةٌ لَهُمُ الأبواب ط رفع تمام انبیاء اور رسل اور مومنوں میں عام ہے.مرنے کے بعد ہر ایک مومن کا رفع ہوتا ہے.چنانچہ آیت هَذَا ذِكرَ وَإِنَّ لِلْمُتَّقِينَ لَحُسْنَ مَأْبٍ - جَنْتِ عَدْنٍ مُفَتَحَةٌ لَهُمُ الْأَبْوَابُ میں اس رفع کی - طرف اشارہ ہے لیکن کا فر ک رفع نہیں ہوتا چنانچہ آیت لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ اس کی طرف اشارہ لیکچر سیالکوٹ ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۱۷) کرتی ہے.مُفَتَحَةً لَهُمُ الابواب یعنی مومنوں کے لئے آسمانوں کے دروازے کھولے جائیں گے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۰) حضرت عیسی کے رفع کو رفع جسمانی ٹھہرانا سراسر ہٹ دھرمی اور حماقت ہے بلکہ یہ وہی رفع ہے جو ہر ایک مومن کے لئے وعدہ الہی کے موافق موت کے بعد ہونا ضروری ہے اور کافر کے لئے حکم ہے کہ لا تُفتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ (الاعراف: ۴۱) یعنی ان کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے یعنی ان کا رفع نہیں ہوگا جیسا کہ دوسری جگہ فرماتا ہے مُفَتَحَةٌ لَهُمُ الأبواب.پس سیدھی بات کو الٹا دینا تقویٰ اور طہارت کے برخلاف اور ایک طور سے تحریف کلام الہی ہے.براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۵۵) پاک لوگ دوسرے جسم کے ساتھ آسمان پر جا سکتے ہیں جیسا کہ تمام نبیوں اور رسولوں اور مومنوں کی روحیں وفات کے بعد آسمان پر جاتی ہیں اور انہیں کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مُفَتَّحَةً لَهُمُ الْأَبْوَابُ _ یعنی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰ سورة ص مومنوں کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے.یادر ہے کہ اگر صرف روحیں ہوتیں تو اُن کے لئے لھم کی ضمیر نہ آتی.پس یہ قرینہ قویہ اس بات پر ہے کہ بعد موت جو مومنوں کا رفع ہوتا ہے وہ مع جسم ہوتا ہے مگر یہ جسم خاکی نہیں ہے بلکہ مومن کی روح کو ایک اور جسم ملتا ہے جو پاک اور نورانی ہوتا ہے اور اس دکھ اور عیب سے محفوظ ہوتا ہے جو عنصری جسم کے لوازم میں سے ہے یعنی وہ ارضی غذاؤں کا محتاج نہیں ہوتا.اور نہ زمینی پانی کا حاجت مند ہوتا ہے اور وہ تمام لوگ جن کو خدا تعالیٰ کی ہمسائیگی میں جگہ دی جاتی ہے ایسا ہی جسم پاتے ہیں.اور ہم ایمان رکھتے ہیں کہ حضرت عیسی نے بھی وفات کے بعد ایسا ہی جسم پایا تھا اور اسی جسم کے ساتھ وہ خدا تعالیٰ کی طرف اٹھائے گئے تھے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۱ ۲ صفحه ۴۰۱،۴۰۰) اگر مسیح کے صعود إلى السماء سے یہ فرض تھی کہ وہ اس لعنت سے بیچ رہیں تو اس رفع کے لئے ضروری ہے کہ پہلے موت ہو کیونکہ یہ رفع وہ ہے جو قرب الہی کا مفہوم ہے اور بعد موت ملتا ہے اسی لئے اِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَى (ال عمران :۵۶) کہا گیا اور یہ وہی رفع ہے جو ارجعِي إِلَى رَبَّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً (الفجر :٢٩) میں خدا نے بیان فرمایا ہے اور مفتَحَةٌ لَهُمُ الْأَبْوَابُ سے پایا جاتا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۱ مورخه ۳۱ اگست ۱۹۰۲ صفحه ۵) یہ خوب یادر ہے کہ ہم حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان پر رُوح ہلا جسم ہر گز نہیں مانتے.ہم مانتے ہیں کہ وہ وہاں جسم ہی کے ساتھ ہیں.ہاں فرق اتنا ہے کہ یہ لوگ جسم عنصری کہتے ہیں اور میں کہتا ہوں کہ وہ جسم وہی جسم ہے جو دوسرے رسولوں کو دیا گیا.دوزخیوں کے متعلق اللہ تعالی فرماتا ہے لَا تُفَتَّحُ لَهُمُ ابْوَابُ السَّمَاءِ (الاعراف : ۴۱) یعنی کافروں کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاویں گے اور مومنوں کے لئے فرماتا ہے مُفَتَحَةً لَّهُمُ الْأَبْوَابُ.اب ان آیات میں لَهُم کا لفظ اجسام کو چاہتا ہے تو کیا یہ سب کے سب پھر اسی جسم عصری کے ساتھ جاتے ہیں؟ نہیں.ایسا نہیں.جسم تو ہوتے ہیں مگر وہ وہ جسم ہیں جو کرنے کے بعد دیئے جاتے ہیں.احکام جلد ۹ نمبر ۳۵ مورخه ۱۰ را کتوبر ۱۹۰۵ صفحه ۹۰۸) سچی بات یہی ہے کہ مسلمانوں اور یہود کا متفقہ اور مسلم اعتقاد اس پر ہے کہ خدا کے نیک بندوں کا بعد وفات رفع روحانی ہوا کرتا ہے اور یہی قابل بڑائی بات ہے رفع جسمانی کے یہ نہ قائل ہیں اور نہ کوئی اس میں فضیلت مدنظر ہے چنانچہ قرآن شریف بھی اسی اصولوں کو یوں بیان فرماتا ہے کہ مُفَتَّحَةٌ لَهُمُ الابواب یعنی جو خدا کے نزدیک متقی اور برگزیدہ انسان ہوتے ہیں خدا ان کے لئے آسمانی رحمت کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱ سورة ص دروازے کھول دیتا ہے اور ان کا رفع روحانی بعد الموت کیا جاتا ہے اور ان کے مقابل میں جولوگ بدکار اور خدا سے دُور ہوتے ہیں اور ان کو خدا سے کوئی تعلق صدق و اخلاص نہیں ہوتا ان کے واسطے آسمانی دروازے نہیں کھولے جاتے جیسا کہ فرما یا لا تُفتَّحُ لَهُمُ ابْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ (الاعراف : ٤١) الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۰ مورخه ۲۲ / مارچ ۱۹۰۸ء صفحه ۲) وَقَالُوا مَا لَنَا لَا نَرَى رِجَالًا كُنَّا نَعُدُّهُمْ مِنَ الْأَشْرَارِ ہمیں کیا ہو گیا کہ دوزخ میں ہمیں وہ لوگ نظر نہیں آتے جنہیں ہم شریر سمجھتے تھے.دُنیا نے ہمیشہ خدا کے ماموروں سے دشمنی کی.کیونکہ دُنیا سے پیار کرنا اور خدا کے مرسلوں سے پیار کرنا ہرگز ایک جگہ جمع نہیں لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۱۸) ہو سکتا.دوزخی یا بہشتی ہونے کی اصل حقیقت تو مرنے کے بعد ہر ایک کو معلوم ہوگی جس وقت بعض بصد حسرت دوزخ میں پڑے ہوئے کہیں گے.مَا لَنَا لَا نَى رِجَالًا كُنَّا نَعُتُهُمْ مِّنَ الْأَشْرَارِ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۰۲) إذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَكَةِ إِنِّى خَالِقُ بَشَرًا مِنْ طِينٍ فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ لا مِنْ رُوحي فَقَعُوا لَهُ سَجِدِينَ فَسَجَدَ الْمَلَبِكَةُ كُلُهُم اَجْمَعُونَ ) إِلَّا إِبْلِيسَ اسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَفِرِينَ b فتفكر في آيَةٍ فَقَعُوا لَهُ سَجِدِينَ وَتَدَبَّرُ سو عقلمندوں کی طرح لفظ فَقَعُوا لَهُ سُجِدِينَ كَأُولِي النُّهى، وَفَكِّر في لفظ خَلَقْتُ بِيَدَ میں غور کر اور پھر اس لفظ میں غور کر جو خَلَقْتُ بیدائی اور وَلَفظ سَوَيْتُه وَ نَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحَى وَأَلْفَاطٍ سَوَيْتُه اور نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُوحِی ہے اور دوسرے أُخْرَى لِيَظْهَرَ عَلَيْكَ جَلَالَهُ آدَمَ وَشَانُهُ لفظوں کو بھی سوچ تا کہ تیرے پر حضرت آدم کی شان الأعلى.فَإِنَّ مَنطوقَ الْآيَةِ يَتْلُ عَلى أَنَّ اعلیٰ ظاہر ہو کیونکہ منطوق آیت کا دلالت کرتا ہے کہ رُوحَ الله نَزَلَ فِي آدَمَ بِنُزُولٍ أَجْلى حَتَّى روح الله آدم میں اترا تھا اور وہ اترنا بہت روشن تھا جَعَلَهُ مَسْجُوْدَ الْمَلَائِكَةِ وَمَظهَرَ تَجَلِيَاتٍ یہاں تک کہ آدم ملائکہ کا سجدہ گاہ ٹھہرا اور تجلیات عظمی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲ سورة ص وَأَقْرَبَ إِلى اللهِ الْأَغْلى، وَأَعْلَمَ وَأَفْضَلَ مِنْ کا مظہر بنا اور خدائے غنی سے بہت قریب ہوا اور الْمَلائِكَةِ أَجْمَعِينَ، وَخَلِيفَةَ اللهِ عَلَى الْأَرْضِينَ افضل ٹھہرا.اور خدا تعالیٰ کا خلیفہ بنا.(نور الحق حصہ اوّل، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۱۳۶،۱۳۵) ( ترجمہ اصل کتاب سے ) یاد کر وہ وقت کہ جب تیرے خدا نے (جس کا تو مظہر اتم ہے ) فرشتوں کو کہا کہ میں مٹی سے ایک انسان پیدا کرنے والا ہوں سو جب میں اس کو کمال اعتدال پر پیدا کرلوں اور اپنی روح میں سے اس میں پھونک دوں تو تم اُس کے لئے سجدہ میں گرو یعنی کمال انکسار سے اُس کی خدمت میں مشغول ہو جاؤ اور ایسی خدمت گزاری میں جھک جاؤ کہ گویا تم اسے سجدہ کر رہے ہو پس سارے کے سارے فرشتے انسان مکمل کے آگے سجدہ میں گر پڑے مگر شیطان، جو اس سعادت سے محروم رہ گیا.جاننا چاہیئے کہ یہ سجدہ کا حکم اُس وقت سے متعلق نہیں ہے کہ جب حضرت آدم پیدا کئے گئے بلکہ یہ علیحدہ ملائک کو حکم کیا گیا کہ جب کوئی انسان اپنی.حقیقی انسانیت کے مرتبہ تک پہنچے اور اعتدال انسانی اس کو حاصل ہو جائے اور خدائے تعالیٰ کی روح اس میں سکونت اختیار کرے تو تم اس کامل کے آگے سجدہ میں گرا کر و یعنی آسمانی انوار کے ساتھ اُس پر اتر و اور اُس پر صلوۃ بھیجو سو یہ اس قدیم قانون کی طرف اشارہ ہے جو خدائے تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کے ساتھ ہمیشہ جاری رکھتا ہے جب کوئی شخص کسی زمانہ میں اعتدال روحانی حاصل کر لیتا ہے اور خدائے تعالیٰ کی روح اُس کے اندر آباد ہوتی ہے یعنی اپنے نفس سے فانی ہو کر بقا باللہ کا درجہ حاصل کرتا ہے تو ایک خاص طور پر نزول ملائکہ کا اُس پر شروع ہو جاتا ہے اگر چہ سلوک کے ابتدائی حالات میں بھی ملائک اس کی نصرت اور خدمت میں لگے ہوئے ہوتے ہیں لیکن یہ نزول ایسا اتم اور اکمل ہوتا ہے کہ سجدہ کا حکم رکھتا ہے اور سجدہ کے لفظ سے خدائے تعالیٰ نے یہ ظاہر کر دیا کہ ملائکہ انسان کامل سے افضل نہیں ہیں بلکہ وہ شاہی خادموں کی طرح سجدات تعظیم انسان کامل کے آگے بجالا رہے ہیں.توضیح مرام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۷۷،۷۶) جب میں نے اس کا قالب بنالیا اور تجلیات کے تمام مظاہر درست کر لئے اور اپنی روح اس میں پھونک دی تو تم سب لوگ اس کے لئے زمین پر سجدہ کرتے ہوئے گر جاؤ.سو اس آیت میں یہی اشارہ ہے کہ جب اعمال کا پورا قالب تیار ہو جاتا ہے تو اس قالب میں وہ روح چمک اٹھتی ہے.جس کو خدا تعالیٰ اپنی ذات کی طرف منسوب کرتا ہے.کیونکہ دنیوی زندگی کے فنا کے بعد وہ قالب تیار ہوتا ہے اس لئے الہی روشنی جو پہلے دھیمی تھی یکدفعہ بھڑک اٹھتی ہے.اور واجب ہوتا ہے کہ خدا کی ایسی شان کو دیکھ کر ہر ایک سجدہ کرے اور اس
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳ سورة ص کی طرف کھینچا جائے.سو ہر ایک اس نور کو دیکھ کر سجدہ کرتا ہے.اور طبعاً اس طرف آتا ہے بجز ابلیس کے جو اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۲۲) تاریکی سے دوستی رکھتا ہے.91 قَالَ يَابْلِيسُ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ اَسْتَكْبَرتَ أمْ كُنتَ مِنَ الْعَالِينَ خدا نے آدم کو جمعہ کے دن عصر کے وقت بنایا کیونکہ اس کو منظور تھا کہ آدم کو جلال اور جمال کا جامع بناوے جیسا کہ اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ خَلَقْتُ بیدی یعنی آدم کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا ہے.ظاہر ہے کہ خدا کے ہاتھ انسان کی طرح نہیں ہیں.پس دونوں ہاتھ سے مراد جمالی اور جلالی تحیلی ہے.پس اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ آدم کو جلالی اور جمالی تجلی کا جامع پیدا کیا گیا ہے.(تحفہ گولڑ و بیه، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۸۱، ۲۸۲ حاشیه ) ایک علو تو اس رنگ میں ہوتا ہے جیسے کہ آمَا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثُ ( الضُّحى : ۱۲) اور ایک علو شیطان کا ہوتا ہے جیسے آبی وَاسْتَكْبَر اور اس کے بارہ میں ہے آمر كُنتَ مِنَ الْعَالِینَ یہ اس سے سوال ہے کہ تیرا علق تکبر کے رنگ میں ہے یا واقعی ہے.خدا تعالیٰ کے بندوں کے واسطے بھی اعلیٰ کا لفظ آیا ہے اور ہمیشہ آتا ہے جیسے اِنَّكَ اَنْتَ الأعلى مگر یہ تو انکسار سے ہوتا ہے اور وہ تکبر سے ملا ہوا ہوتا ہے.البدر جلد اوّل نمبر ۱ مورخه ۱/۳۱اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحه ۴) قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ یا درکھو تکبر شیطان سے آیا ہے اور شیطان بنا دیتا ہے جب تک انسان اس سے دُور نہ ہو یہ قبول حق اور فیضانِ الوہیت کی راہ میں روک ہو جاتا ہے کسی طرح سے بھی تکبر نہیں کرنا چاہیے نہ علم کے لحاظ سے نہ دولت کے لحاظ سے نہ وجاہت کے لحاظ سے نہ ذات اور خاندان اور حسب نسب کی وجہ سے کیونکہ زیادہ تر انہی باتوں سے یہ تکبر پیدا ہوتا ہے اور جب تک انسان ان گھمنڈوں سے اپنے آپ کو پاک صاف نہ کرے گا اس وقت تک وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک برگزیدہ نہیں ہو سکتا اور وہ معرفت جو جذبات کے مواد ڈیہ کو جلا دیتی ہے اس کو عطا نہیں ہوتی کیونکہ یہ شیطان کا حصہ ہے اس کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا شیطان نے بھی تکبر کیا تھا اور آدم سے اپنے آپ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴ سورة ص b کو بہتر سمجھا اور کہہ دیا انا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِى مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِینِ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ خدا تعالیٰ کے حضور سے مردود ہو گیا اور آدم لغزش پر (چونکہ اسے معرفت دی گئی تھی ) اپنی کمزوری کا اعتراف کرنے لگا اور خدا تعالیٰ کے فضل کا وارث ہوا.وہ جانتے تھے کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا اس لئے دُعا کی رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرُ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَسِرِينَ (الاعراف : ۲۴) یہی وہ سر ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام کو کہا گیا کہ اے نیک استاد، تو انہوں نے کہا کہ تو مجھے نیک کیوں کہتا ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۳ مورخه ۲۴/جنوری ۱۹۰۵ صفحه ۲) سكتة لَا مُلَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّن تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ.شیطان کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ میں جہنم کو تجھ سے اور اُن لوگوں سے جو تیری پیروی کریں گے بھروں گا.دیکھئے اس آیت سے صاف طور پر کھل گیا اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء نہیں ہے کہ خواہ مخواہ لوگوں کو جبر کے طور پر جہنم میں ڈالے بلکہ جو لوگ اپنی بداعمالیوں سے جہنم کے لائق ٹھہریں ان کو جہنم میں گرایا جاوے گا.جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۳۳) قُلْ مَا اسْلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَفِينَ) اولیاء اللہ کی بھی ایسی ہی حالت ہوتی ہے کہ اُن میں تکلفات نہیں ہوتے بلکہ وہ بہت ہی سادہ اور صاف دل لوگ ہوتے ہیں.ان کے لباس اور دوسرے امور میں کسی قسم کی بناوٹ اور تصنع نہیں ہوتا مگر اس وقت اگر پیرزادوں اور مشائخوں کو دیکھا جاوے تو ان میں بڑے بڑے تکلفات پائے جاتے ہیں ان کا کوئی قول اور فعل ایسا نہ پاؤ گے جو تکلف سے خالی ہو گو یا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ امت محمدیہ ہی میں سے نہیں ہیں ان کی کوئی اور ہی شریعت ہے ان کی پوشاک دیکھو تو اس میں خاص قسم کا تکلف ہوگا نشت برخاست اور ہر قسم کی حرکات میں ایک تکلف یہاں تک کہ لوگوں سے ملنے جلنے اور کلام میں بھی ایک تکلف ہوتا ہے.ان کی خاموشی محض تکلف سے ہوتی ہے گویا ہر قسم کی تاثیرات کو وہ تکلف ہی سے وابستہ سمجھتے ہیں.برخلاف اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شان ہے وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَفِينَ اور ایسا ہی دوسرے تمام انبیاء ورسل جو وقتاً فوقتاً آئے وہ نہایت سادگی سے کلام کرتے اور اپنی زندگی بسر کرتے تھے.اُن کے قول و فعل میں کوئی تکلف
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۵ سورة ص اور بناوٹ نہ ہوتی تھی مگر ان کے چلنے پھرنے اور بولنے میں تکلف ہوتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اپنی شریعت جُدا ہے جو اسلام سے الگ اور مخالف ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۷ ۳ مورخہ ۲۴/اکتوبر ۱۹۰۵ ء صفحه ۵)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۴۷ سورة الزمر بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الزمر بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اَلَا لِلهِ الدِّينُ الْخَالِصُ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاء مَا نَعْبُدُهُم إِلا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللهِ زُلْفَى إِنَّ اللهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيْهِ يَخْتَلِفُونَ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَذِبٌ كَفَّارُه بت پرست قدیم سے یہ بھی خیال کرتے تھے کہ خدا کی اصولی صفات یعنی جو اصل جڑ تمام صفات کی ہیں وہ صرف چار ہیں.پیدا کرنا پھر مناسب حال سامان عطا کر نا پھر ترقی کے لئے عمل کرنے والوں کی مدد کرنا پھر آخر میں جزا سزا دینا اور وہ ان چار صفات کو چار دیوتاؤں کی طرف منسوب کرتے تھے.اسی بنا پر نوح کی قوم کے بھی چار ہی دیوتا تھے اور انہیں صفات کے لحاظ سے عرب کے بت پرستوں نے بھی لات ، منات وعزگی اور اہل بنا رکھے تھے.ان لوگوں کا خیال تھا کہ یہ چار دیوتا بالا را دہ دنیا میں اپنے اپنے رنگوں میں پرورش کر رہے ہیں اور ہمارے شفیع ہیں اور ہمیں خدا تک بھی یہی پہنچاتے ہیں.چنانچہ یہ مطلب آیت لِيُقربُونَا إلى اللهِ زُلفی سے ظاہر ہے.(نسیم دعوت ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۵۹ حاشیه ) خَلَقَكُم مِّنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ أَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ الْأَنْعَامِ ثَنِيَةَ اَزْوَاجِ يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهَتِكُمْ خَلْقًا مِّنْ بَعْدِ خَلْقِ فِي ظُلمتِ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۸ سورة الزمر ثلث ذلِكُمُ اللهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ لَا إِلَهَ إِلا هُوَ فَانّى تُصْرَفُونَ ) فرقان مجید میں خالقیت باری تعالی پر بمادہ قیاس استثنائی قائم کی گئی ہے اور قیاس استثنائی اس قیاس کو کہتے ہیں کہ جس میں میں نتیجہ یا نقیض اس کی بالفعل موجود ہو اور دو مقدموں سے مرکب ہو یعنی ایک شرطیہ اور روو دوسرے وضعیہ سے چنانچہ آیت شریف جو اس قیاس پر ضمن ہے یہ ہے دیکھو سورہ.يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ.أمَّهَتِكُمْ خَلْقًا مِنْ بَعْدِ خَلق في ظُلمت ثَلث ذيكُمُ اللهُ رَبِّكُمْ یعنی وہ تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں - میں تین اندھیرے پردوں میں پیدا کرتا ہے اس حکمت کا ملہ سے کہ ایک پیدائش اور قسم کی اور ایک اور قسم کی بناتا ہے یعنی ہر عضو کو صورت مختلف اور خاصیتیں اور طاقتیں الگ الگ بخشتا ہے.یہاں تک کہ قالب بے جان میں جان ڈال دیتا ہے نہ اس کو اندھیرا کام کرنے سے روکتا ہے اور نہ مختلف قسموں اور خاصیتوں کے اعضا بنانا اس پر مشکل ہوتا ہے اور نہ سلسلہ پیدائش کے ہمیشہ جاری رکھنے میں اس کو کچھ دقت اور حرج واقع ہوتا ہے.ذلِكُمُ اللهُ رَبِّكُم وہی جو ہمیشہ اس سلسلہ قدرت کو بر پا اور قائم رکھتا ہے وہی تمہارا رب ہے یعنی اسی قدرت تامہ سے اس کی ربوبیت تامہ جو عدم سے وجود اور وجود سے کمال وجود بخشنے کو کہتے ہیں ثابت ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ ربّ الاشیاء نہ ہوتا اور اپنی ذات میں ربوبیت تامہ نہ رکھتا اور صرف مثل ایک بڑھئی یا کاریگر کے ادھر اُدھر سے لے کر گزارہ کرتا تو اس کو قدرت تام ہرگز حاصل نہ ہوتی اور ہمیشہ اور ہر وقت کامیاب نہ ہوسکتا بلکہ کبھی نہ کبھی ضرور ٹوٹ آجاتی اور پیدا کرنے سے عاجز رہ جاتا.خلاصہ آیت کا یہ کہ جس شخص کا فعل ربوبیت تامہ سے نہ ہو یعنی از خود پیدا کنندہ نہ ہو اس کو قدرت تامہ بھی حاصل نہیں ہو سکتی لیکن خدا کو قدرت تامہ حاصل ہے کیونکہ قسم قسم کی پیدائش بنانا اور ایک بعد دوسرے کے بلا تخلف ظہور میں لانا اور کام کو ہمیشہ برابر چلانا قدرت تامہ کی کامل نشانی ہے.پس اس سے ثابت ہوا کہ خدائے تعالی کو ربوبیت تامہ حاصل ہے اور در حقیقت وہ رب الا شیاء ہے نہ صرف بڑھئی اور معمار اشیاء کا اور نہ ممکن نہ تھا کہ کارخانہ دنیا کا ہمیشہ بلا حرج چلتا رہتا بلکہ دنیا اور اس کے کارخانہ کا کبھی کا خاتمہ ہو جاتا کیونکہ جس کا فعل اختیار تام سے نہیں وہ ہمیشہ اور ہر وقت اور ہر تعداد پر ہرگز قادر نہیں ہو سکتا.اور شکل اس قیاس کی جو آیت شریف میں درج ہے بقاعدہ منطقیہ اس طرح پر ہے کہ جس شخص کا فعل کسی وجود کے پیدا کرنے میں بطور قدرت تامہ ضروری ہو.اس کے لئے صفت ربوبیت تامہ کی یعنی عدم سے ہست کرنا بھی ضروری ہے لیکن خدا کا فعل مخلوقات کے پیدا کرنے میں بطور قدرت تامہ ضروری ہے.پس
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۹ سورة الزمر نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے لئے صفت ربوبیت تامہ کی بھی ضروری ہے.ثبوت صغریٰ کا یعنی اس بات کا کہ جس صانع کے لئے قدرت تامہ ضروری ہے اس کے لئے صفت ربوبیت تامہ کی بھی ضروری ہے اس طرح پر ہے کہ عقل اس بات کی ضرورت کو واجب ٹھہراتی ہے کہ جب کوئی ایسا صانع کہ جس کی نسبت ہم تسلیم کر چکے ہیں کہ اس کو اپنی کسی صنعت کے بنانے میں حرج واقع نہیں ہوتا کسی چیز کا بنانا شروع کرے تو سب اسباب تکمیل صنعت کے اس کے پاس موجود ہونے چاہئیں اور ہر وقت اور ہر تعداد تک میسر کرنا ان چیزوں کا جو وجود مصنوع کے لئے ضروری ہیں اس کے اختیار میں ہونا چاہئے.اور ایسا اختیار تام بجز اس صورت کے اور کسی صورت میں مکمل نہیں کہ صانع اس مصنوع کا اس کے اجزا پیدا کرنے پر قادر ہو کیونکہ ہر وقت اور ہر تعداد تک ان چیزوں کا میسر ہو جانا کہ جن کا موجود کرنا صانع کے اختیار تام میں نہیں عند العقل ممكن التخلف ہے اور عدم تخلف پر کوئی برہان فلسفی قائم نہیں ہوتی اور اگر ہوسکتی ہے تو کوئی صاحب پیش کرے.وجہ اس کی ظاہر ہے کہ مفہوم اس عبارت کا کہ فلاں امر کا کرنا زید کے اختیار تام میں نہیں اس عبارت کے مفہوم سے مساوی ہے کہ ممکن ہے کہ کسی وقت وہ کام زید سے نہ ہو سکے پس ثابت ہوا کہ صانع تام کا بجز اس کے ہر گز کام نہیں چل سکتا کہ جب تک اس کی قدرت بھی تام نہ ہواسی واسطے کوئی مخلوق اہل حرفہ میں سے اپنے حرفہ میں صانع تام ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا بلکہ کل اہل صنائع کا دستور ہے کہ جب کوئی بار بار ان کی دکان پر جا کر ان کو دق کرے کہ فلاں چیز ابھی مجھے بنادو تو آخر اس کے تقاضے سے تنگ آکر اکثر بول اٹھتے ہیں کہ ”میاں میں کچھ خدا نہیں ہوں کہ صرف حکم سے کام کر دوں فلاں فلاں چیز ملے گی تو پھر بنادوں گا.“ غرض سب جانتے ہیں کہ صانع تمام کے لئے قدرت تام اور ربوبیت شرط ہے.یہ بات نہیں کہ جب تک زید نہ مرلے بکر کے گھر لڑکا پیدا نہ ہو.یا جب تک خالد فوت نہ ہو ولید کے قالب میں جو ابھی پیٹ میں ہے بکر کے گھرلڑ نہ یا نہ میں جان نہ پڑ سکے پس بالضرورت صغری ثابت ہوا.اور کبری شکل کا یعنی یہ کہ خدا مخلوقات کے پیدا کرنے میں بطور قدرت تامہ کے ضروری ہے خود ثبوت صغری سے ثابت ہوتا ہے اور نیز ظاہر ہے کہ اگر خدائے تعالیٰ میں قدرت ضرور یہ تامہ نہ ہو تو پھر قدرت اس کی بعض اتفاقی امور کے حصول پر موقوف ہوگی اور جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں عقل تجویز کر سکتی ہے کہ اتفاقی امور وقت پر خدائے تعالیٰ کو میسر نہ ہو سکیں کیونکہ وہ اتفاقی ہیں.ضروری نہیں.حالانکہ تعلق پکڑ نا روح کا جنین کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الزمر جسم سے بروقت طیاری جسم اس کے کے لازم وملزوم ہے.پس ثابت ہوا کہ فعل خدائے تعالیٰ کا بطور قدرت تامہ کے ضروری ہے اور نیز اس دلیل سے ضرورت قدرت تامہ کی خدائے تعالیٰ کے لئے واجب ٹھہرتی ہے کہ بموجب اصول مقررہ فلسفہ کے ہم کو اختیار ہے کہ یہ فرض کریں کہ مثلاً ایک مدت تک تمام ارواح موجودہ ابدان متناسبہ اپنے سے متعلق ہیں.پس جب ہم نے یہ امر فرض کیا تو یہ فرض ہمارا اس دوسرے فرض کو بھی مستلزم ہوگا کہ اب تا انقضائے اس مدت کے ان جنینوں میں جو رحموں میں طیار ہوئے ہیں کوئی روح داخل نہیں ہوگا.حالانکہ جنیوں کا بغیر تعلق روح کے معطل پڑے رہنا بہ ہداہت عقل باطل ہے.پس جو امر مستلزم باطل ہے وہ بھی باطل.پس ثبوت متقدمین سے یہ نتیجہ ثابت ہو گیا کہ خدائے تعالیٰ کے لئے صفت ربوبیت تامہ کی ضروری ہے اور یہی مطلب تھا.پرانی تحریریں، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۳ تا ۱۶) وَ اَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ الْأَنْعَامِ...اور تمہارے لئے چار پائے اُتارے....ظاہر ہے کہ اُترنے کا لفظ آسمان سے اتر نے پر ہرگز دلالت نہیں کرتا اور اترنے کے ساتھ آسمان کا لفظ زیادہ کر لینا ایسا ہے جیسا کسی بھوکے سے پوچھا جائے کہ دو اور دو کتنے ہوتے ہیں تو وہ جواب دے چار روٹیاں.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۴۵ حاشیه ) فَانظُرُوا إِلَى الْقُرْآنِ الْكَرِيمِ كَيْفَ تم قرآن کریم پر غور کرو اور دیکھو کہ کس يُبَيِّنُ مَعْنَى النُّزُولِ فِي آيَاتِهِ الْعُظمى طرح وہ اپنی جلیل القدر آیات میں لفظ نزول کے وَتَدَبَّرُوا فِي قَوْلِهِ تَعَالَى وَ اَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ وَفي معنے بیان کرتا ہے اور تم اللہ کے قول وَ اَنْزَلْنَا قَوْلِهِ عَزَّ اسْمُهُ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا وَفِي الْحَدِيدَ اور قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا اور وَانْزَلَ قَوْلِهِ جَلَّ شَأْنُهُ وَ اَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ الْأَنْعَامِ تَكُمْ مِنَ الْأَنْعَام پر غور کرو..تم جانتے ہو کہ یہ.....وَ أَنْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ هَذِهِ الْأَشْيَاءَ لَا چیزیں آسمان سے نہیں اتریں بلکہ زمین میں سے تَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ بَلْ تَحْدُثُ وَ تَتَوَلَّد في ظاہر ہوتی اور اس میں سے پیدا ہوتی ہیں اور اگر تم الْأَرْضِ وَفِي طَبْقَاتِ الثَّرَى وَإِنْ أَمَعَنَتُمُ الله تعالیٰ کی کتاب کو نظر غور دیکھو تو تم پر یہ بات النظر في كِتَابِ اللهِ تَعَالَى فَيَكْشِفُ عَلَيْكُمْ واضح ہو جائے گی کہ نزول مسیح کی حقیقت بھی انہی أَنَّ حَقِيقَةً نُزُولِ الْمَسِيحِ مِنْ هَذِهِ الْأَقْسَامِ قسموں میں سے ہے جن کا ہم نے یہاں ذکر کیا الحديد : ٢٦ الاعراف: ۲۷
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۱ سورة الزمر الَّذِى ذَكَرْنَاهُ هُنَا فَتَدَبَّرُوا في قَوْلِنَا وَ ہے.پس تم ہمارے قول میں تدیر کرو اور گہری نظر أَمْعِنُوا نظرًا وَ مَا يَنْبَغِى أَن يَكُونَ ڈالو.یہ نہیں ہوسکتا کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں اخْتِلَافًا في كَلامِ اللهِ تَعَالى وَلَن تَجِدُوا في اختلاف ہو اور اس کے معارف میں تم ہرگز کوئی مَعَارِفِهِ تَناقُضًا.تناقض نہیں پاؤ گے.( ترجمہ از مرتب ) آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۴۲،۴۴۱) خدا نے تم لوگوں کو ایک وجود سے پیدا کیا.پھر اُسی وجود سے اُس کا جوڑا بنایا......وہی تم کو تین اندھیروں میں تمہاری ماؤں کے پیٹ میں پیدا کرتا ہے.ایک قسم کی پیدائش کے بعد دوسری پیدائش سواس آیت میں تو کہیں پسلی اور ہڈی وغیرہ کا ذکر نہیں.صرف اسی قدر لکھا ہے کہ ایک انسان سے دوسرے انسان کو پیدا کیا.ہاں یہ ذکر پایا جاتا ہے کہ خدا نے اپنا پہلا قانون بدلا دیا کیونکہ پہلے انسان نطفہ سے پیدا نہیں ہوا تھا بلکہ ایک وجود سے دوسرا وجود پیدا کیا گیا تھا تا نوعیت میں فرق نہ آوے اور پھر بعد میں یہ دوسرا قانون قدرت شروع ہوا کہ انسان نطفہ سے پیدا ہونے لگے اور یہ محل اعتراض نہیں کہ خدا نے پہلا قانون قدرت کیوں منسوخ کر دیا.کیونکہ خدا اپنے قانون کو اس لئے منسوخ کرتا ہے کہ تا اُس کی انواع و اقسام کی قدرتیں ظاہر ہوں.ممدوحہ بالا آیت کے ایک یہ بھی معنے ہیں کہ کئی قسم کی پیدائش کے بعد رحم کے اندر پورا انسان بنتا ہے اور تین اندھیر میں اس کی پیدائش ہوتی ہے (۱) پیٹ (۲) جم (۳) جھلی جس کے اندر بچہ پیدا ہوتا ہے.اور یادر ہے کہ پہلی اور ہڈی سے خدا کی کتابوں میں قریبی رشتہ بھی مراد لئے گئے ہیں جس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ آدم اور حوا کا رشتہ نہایت قریب تھا مگر چونکہ ہم خدا تعالیٰ کو ہر ایک چیز پر قادر سمجھتے ہیں اس لئے ہم اس امر کو بھی کچھ بعید نہیں سمجھتے کہ حوا آدم کی پہلی سے یا آدم حوا کی پہلی سے پیدا ہو گیا ہو.خدا کا کلام اس جگہ نہایت وسیع معنوں پر مشتمل ہے آیت کے معنے وسیع طور پر یہ ہیں کہ ایک سے ہم نے دوسرے کو پیدا کیا.اگر کسی کو یہ اعتراض ہو کہ پہلی سے پیدا کرنا قانون قدرت کے خلاف ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ نطفہ سے پیدا ہونا بھی اُس قانون قدرت کے برخلاف ہے جو بموجب اصول آریہ کے پہلے ظہور میں آیا.پس جس نے ایک قانون قدرت بدلا کر دوسرا قانون قدرت پیدائش کے لئے مقرر کیا تو پھر کیا اُس کی شان سے کچھ تعجب کی جگہ ہے کہ جس طرح اُس نے بموجب اصول آریہ کے پہلی پیدائش میں کھمبوں کی طرح انسانوں کو پیدا کیا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۲ سورة الزمر ایسا ہی اس نے بموجب اصول اسلام کے پہلی پیدائش میں ایک انسان کی پہلی سے دوسرا انسان پیدا کر دیا چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۲۵،۲۲۴) کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے.ہم نے چار پائے ، گھوڑے، گدھے وغیرہ اُتارے.کیا کوئی ثابت کرسکتا ہے کہ یہ سب آسمان سے ہی اُترے تھے.کیا کوئی حدیث صحیح مرفوع متصل مل سکتی ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ یہ سب در حقیقت آسمان الحق مباحثہ دہلی ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۶۵) سے ہی اُترے ہیں.لكِنِ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِهَا غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهرُ وَعْدَ اللهِ لَا يُخْلِفُ اللهُ الْمِيعَادَة جس پیشگوئی میں وعدہ ہو یعنی کسی انعام اکرام کی نسبت پیشگوئی ہو وہ کسی طرح ٹل نہیں سکتی.خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے إِنَّ اللهَ لَا يُخْلِفُ الميعاد مگر کسی جگہ یہ نہیں فرمایا کہ إِنَّ اللهَ لَا يُخْلِفُ الْوَعِید پس اس میں راز یہی ہے کہ وعید کی پیشگوئی خوف اور دُعا اور صدقہ خیرات سے مل سکتی ہے.تمام پیغمبروں کا اس پر اتفاق ہے کہ صدقہ اور دُعا اور خوف اور خشوع سے وہ بلا جو خدا کے علم میں ہے جو کسی شخص پر آئے گی وہ رڈ ہو سکتی (تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۴) ہے.اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَلَكَهُ يَنَابِيعَ فِي الْأَرْضِ ثُمَّ يُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا مُخْتَلِفًا اَلْوَانُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَابِهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطَامًا إِنَّ فِي ذلِكَ ۖ لذكرى لأولي الألباب ان آیات میں بھی مثال کے طور پر یہ ظاہر کیا ہے کہ انسان کھیتی کی طرح رفتہ رفتہ اپنی عمر کو پورا کر لیتا ہے اور پھر مر جاتا ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۳۰) اللهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَبًا مُتَشَابِهَا مَثَانِي تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَونَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكرِ اللَّهِ ذَلِكَ هُدَى اللهِ ج
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۳ سورة الزمر يَهْدِى بِهِ مَنْ يَشَاءُ ۖ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ يَعْنِى ذَالِكَ الْكِتَابُ كِتَابٌ یعنی یہ کتاب متشابہ ہے جس کی آیتیں اور مضامین مُتَشَابِه يَشْبَهُ بَعْضُهُ بَعْضًا لَيْسَ ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں ان میں کوئی تناقض اور فِيْهِ تَنَاقُضٌ وَلَا اِخْتِلَافُ مَثْنى فيه اختلاف نہیں.ہر ذکر اور وعظ اس میں دو ہرا دو ہرا کر بیان کی كُلُّ ذِكْرٍ لِيَكُونَ بَعْضُ الذِكرِ گئی ہے جس سے غرض یہ ہے کہ ایک مقام کا ذکر دوسرے تَفْسِيرًا لِبَعْضِهِ تَقْشَعِرُ مِنْهُ جُلُودُ مقام کے ذکر کی تفسیر ہو جائے.اس کے پڑھنے سے ان - 1 الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم يَعْنِي يَسْتَوْلِى لوگوں کی کھالوں پر جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں رونگٹے جَلالُهُ وَهَيْبَتُه عَلى قُلُوبِ الْعُشّاقِ کھڑے ہو جاتے ہیں.یعنی اس کا جلال اور اس کی ہیبت لِتَقْشَعِرُّ جُلُودُهُمْ مِنْ كَمَالِ الْخَشْيَةِ عاشقوں کے دلوں پر غالب ہو جاتی ہے اس لئے کہ ان کی وَالْخَوْفِ يُجَاهِدُونَ فِي طَاعَةِ اللهِ لَيْلًا کھالوں پر کمال خوف اور دہشت سے رونگٹے کھڑے ہوجائیں وَنَهَارًا بِتَحْرِيكِ تَأْثِيرَاتٍ جَلَالِيَّةٍ وَ وہ قرآن کی قہری تنبیہات اور جلالی تاثیرات کی تحریک سے تَلْبِيهَاتٍ قَهْرِيَّةٍ مِنَ الْقُرْآنِ ثُمَّ رات دن اللہ تعالی کی اطاعت میں بہ دل و جان کوشش کرتے يُبيّلُ الله العَهُم من الشَّامِ اِلی ہیں پھر ان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس الللُّةِ فَيَصِيرُ الطَّاعَةُ جُزو حالت کو جو پہلے دکھ درد کی حالت ہوتی ہے لذت وسرور سے طَبِيعَتِهِمْ وَ خَاصَّةً فِطْرَتِهِمْ فَتَلِينُ بدل ڈالتا ہے.چنانچہ اس وقت طاعت الہی ان کی جزء بدن جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إلى ذکر اللہ اور خاصہ فطرت ہو جاتی ہے.پھر اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ان يَعْنِي لِيَسِيلَ الذِّكْرُ في قُلُوهِمْ کے دلوں اور بدنوں پر رقت اور لینت طاری ہوتی ہے یعنی ذکر كَسَيَلانِ الْمَاء وَيَصْدُرُ مِنْهُمْ كُلُّ ان کے دلوں میں پانی کی طرح بہنا شروع ہو جاتا ہے اور ہر محل آمرٍ في طَاعَةِ اللهِ بِكَمَالِ السُّهُولَة بات طاعت الہی کی ان لوگوں سے نہایت سہولت اور صفائی وَالصَّفَاءِ لَيْسَ فِيْهِ ثِقُل وَلَا تَكلُّف سے صادر ہوتی ہے نہ یہ کہ اس میں کوئی بوجھ ہو یا ان کے وَلَا ضَيْقَ فِي صُدُورِهِمْ بَلْ يَتَلَذَّذُونَ سینوں میں اس سے کوئی تنگی واقع ہو بلکہ وہ تو اپنے معبود کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۴ سورة الزمر بِاِمْتِقَالِ اَمْرِ الهِهِمْ وَيَجِدُونَ لَنَّةً وَحَلَاوَةً امرکی فرمانبرداری میں لذت حاصل کرتے ہیں اور فِي طَاعَةِ مَوْلَاهُمْ وَهَذَا هُوَ الْمُنْتَهَى الَّذِى اپنے مولیٰ کی طاعت میں انہیں حلاوت آتی ہے پس يَنعَنِى إِلَيْهِ أَمْرُ الْعَابِدِينَ وَالْمُطِيعِيْنَ عابدوں اور مطیعوں کی غایت کار اور معراج یہی ہے کہ اللہ تعالی ان کے دکھوں کو لذتوں سے بدل ڈالے.فَيُبَدِّلُ اللهُ آلَامَهُمْ بِاللَّذَّاتِ (ترجمہ از ایڈیٹر (الحق) الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۸،۳۷) قرآن کریم اخلاقی تعلیم میں قانون قدرت کے قدم بہ قدم چلا ہے.رحم کی جگہ جہاں تک قانون قدرت اجازت دیتا ہے رحم ہے اور قہر اور سزا کی جگہ اسی اصول کے لحاظ سے قہر اور سزا اور اپنی اندرونی اور بیرونی تعلیم میں ہریک پہلو سے کامل ہے اور اس کی تعلیمات نہایت درجہ کے اعتدال پر واقعہ ہیں جو انسانیت کے سارے درخت کی آب پاشی کرتی ہیں نہ کسی ایک شاخ کی.اور تمام قولی کی مربی ہیں نہ کسی ایک قوت کی.اور در حقیقت اسی اعتدال اور موزونیت کی طرف اشارہ ہے جو فرمایا ہے کتبا مُتَشَابِهَا.پھر بعد اس کے مَثَانِي کے لفظ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن کریم کی آیات معقولی اور روحانی دونو طور کی روشنی اپنے اندر رکھتی ہیں.پھر بعد اس کے فرمایا کہ قرآن میں اس قدر عظمت حق کی بھری ہوئی ہے کہ خدا تعالیٰ کی آیتوں کے سننے سے اُن کے دلوں پر قشعریرہ پڑ جاتا ہے اور پھر اُن کی جلد میں اور اُن کے دل یاد الہی کے لئے یہ نکلتے ہیں.کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۵۹،۵۸) اس سے خدا خوف بندوں کی جلد میں کانپتی ہیں پھر ان کی جلد میں اور ان کے دل ذکر الہی کے لئے نرم ہو ایک عیسائی کے تین سوال اور اُن کے جوابات، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۳۰ حاشیه ) جاتے ہیں.إِنَّكَ مَيِّنٌ وَ إِنَّهُمْ مَيْتُونَ.خدا تعالیٰ کی عادت نہیں ہے کہ دوبارہ دُنیا میں لوگوں کو بھیجا کرے ورنہ ہمیں تو عیسی کی نسبت حضرت سید نا محمد مصطفے کے دوبارہ دُنیا میں آنے کی زیادہ ضرورت تھی اور اسی میں ہماری خوشی تھی مگر خدا تعالیٰ نے انك ميت کہہ کر اس امید سے محروم کر دیا.(تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۲)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الزمر اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ وَيُخَوَفُونَكَ بِالَّذِينَ مِنْ دُونِهِ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا - له مِن هَادِه اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عبدی کیا خدا اپنے بندہ کو کافی نہیں.(براہین احمدیہ ہر چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۱۶ حاشیه در حاشیه ۳) میرے والد صاحب مرزا غلام مرتضیٰ مرحوم کی وفات کا جب وقت قریب آیا اور صرف چند پہر باقی رہ گئے تو خدا تعالیٰ نے ان کی وفات سے مجھے ان الفاظ عزا پر سی کے ساتھ خبر دی وَ السَّمَاءِ وَالطارق یعنی قسم ہے آسمان کی اور قسم ہے اُس حادثہ کی جو آفتاب کے غروب کے بعد ظہور میں آئے گا.اور چونکہ ان کی زندگی سے بہت سے وجوہ معاش ہمارے وابستہ تھے اس لئے بشریت کے تقاضا سے یہ خیال دل میں گزرا کہ ان کی وفات ہمارے لئے بہت سے مصائب کا موجب ہوگی.کیونکہ وہ رقم کثیر آمدنی کی ضبط ہو جائے گی جو ان کی زندگی سے وابستہ تھی.اس خیال کے آنے کے ساتھ ہی یہ الہام ہوا.اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَ؛ یعنی کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں ہے.تب وہ خیال یوں اُڑ گیا جیسا کہ روشنی کے نکلنے سے تاریکی اُڑ جاتی ہے.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۹۸) کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۱۹) وہ خود اپنے بندے کے لئے کافی ہے.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۹۶) و يخوفونَكَ بِالَّذِينَ مِن دُونِهِ اور کافر تجھے خدا کے سوا اور چیزوں سے ڈراتے ہیں.( براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۵۰ حاشیہ نمبر۱۱) لا قُلْ يُقَوْمِ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنِّى عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَيَحِلُّ عَلَيْهِ عَذَابٌ مُّقِيمٌ ) کہہ اے میری قوم تم بجائے خود کام کرو اور میں بجائے خود کام کرتا ہوں.سو تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ کس پر اسی دُنیا میں عذاب نازل ہوتا ہے کہ جو اس کو رسوا کرے اور کس پر جاودانی عذاب نزول کرتا ہے یعنی آخرت کا عذاب.( براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۵۳ حاشیہ نمبر ۱۱) اللهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتُ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الزمر قضى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَتٍ لِقَوْمٍ يتفكرون فوت شدہ تو دوبارہ دنیا میں نہیں آسکتا اور نہ خدائے تعالیٰ انبیاء پر دو موتیں وارد کرتا ہے اور اس کا حکم بھی 991 ہے کہ جو شخص اس دُنیا سے گیا وہ گیا جیسا کہ وہ فرماتا ہے فيُنسك الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ یعنی جس پر موت وارد کی گئی وہ پھر کبھی دُنیا میں آنہیں سکتا.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۴۶) یہ قدرت کہ جس کو ایک دفعہ مارد یا پھر خواہ نخواہ دو موتوں کا عذاب اس پر نازل کرے ہر گز اس کے منشاء کے موافق نہیں جیسا کہ وہ خود اس بارہ میں فرماتا ہے فيسسك انتي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ یعنی جس کو ایک دفعہ مارد یا پھر اس کو دُنیا میں نہیں بھیجے گا.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۸۷) آيت فيُمسك التي قضى عَلَيْهَا الْمَوْتَ بينات محکمات میں سے ہے اور نہ صرف ایک آیت بلکہ اس قسم کی بہت سی آیات قرآن شریف میں موجود ہیں کہ جو مر گیا وہ ہر گز پھر دُنیا میں واپس نہیں آئے گا.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۴۶،۴۴۵) جس پر موت وارد ہوگئی خدا تعالیٰ دُنیا میں آنے سے اسے روک دیتا ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۲۰ حاشیه ) إِنَّ آيَاتِ الْقُرْآنِ كُلَّهَا تَدُلُّ عَلَى أَنَّ قرآن مجید کی مذکورہ بالا تمام آیات اس بات پر الْمَيْتَ لَا يَرْجِعُ إِلَى الدُّنْيَا أَصْلًا، سَوَاء دلالت کرتی ہیں کہ فوت شدہ دُنیا کی طرف کبھی نہیں كَانَ فِي الْجَنَّةِ أَوْ فِي جَهَنَّمَ أَوْ خَارِجًا مِنْهُمَا، لوٹے گا خواہ وہ جنت میں ہو یا جہنم میں یا ان دونوں وَقَدْ قَرَأْنَا عَلَيْكَ انفا ايَةَ فَيُسِ الَّتِى سے باہر ہو.اور ابھی ابھی ہم نے تمہارے سامنے یہ لے قى عَلَيْهَا المَوْتَ وَأَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ آیت بیان کی سے منسك التي قضى عَلَيْهَا المَوْتَ - ہے فيُسِلُ الَّتِي وَلَا شَكَ أَنَّ هَذِهِ الْآيَاتِ تَدُلُّ بِدَلَالَة اور اَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ بے شک یہ آیات اس بات پر صَرِيحَةٍ عَلَى أَنَّ النَّاهِبِيْنَ مِنْ هذِهِ الدُّنْيَا صریح دلالت کرتی ہیں کہ اس دُنیا سے جانے والے اس لَا يَرْجِعُونَ إِلَيْهَا أَبَدًا بِالرُّجُوعِ الْحَقِيقي کی طرف حقیقی طور پر کبھی بھی واپس نہیں آئیں گے اور وَأَغْنِى مِنَ الرُّجُوعِ الْحَقِيقِ رُجُوعَ الْمَوْلى رجوع حقیقی سے میری مراد مُردوں کا اس دُنیا میں اپنی الانبیاء : ۹۶
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۷ سورة الزمر إِلَى الدُّنْيَا بِجَمِيعِ شَهَوَاتِهَا وَلَوَازِمِهَا، تمام شہوات اور ان کے لوازم اور اچھے اور بُرے اعمال وَمَعَ كَسْبِ الْأَعْمَالِ مِنْ خَيْرٍ وَشَرِ، وَمَعَ کرنے اور اپنے اعمال پر اجر کے استحقاق کے ساتھ اسْتِحْقَاقِ الْأَجْرِ عَلَى مَا كَسَبُوا، وَمَعَ واپس آنا ہے اور اس کے ساتھ ہی میں رجوع موتی سے ذلِكَ أَغْنِى مِنَ الرُّجُوعِ الْحَقِيقِي لحوق یہ مراد بھی لیتا ہوں کہ وہ واپس آکر ان لوگوں سے ملیں الْمَوْلى بِالَّذِينَ فَارَقُوهُمْ مِنَ الْآبَاءِ جن سے وہ جُدا ہوئے یعنی اپنے باپوں اور بیٹیوں سے نیز وَالْأَبْنَاءِ وَالْإِخْوَانِ وَالأَزْوَاجِ وَالْعَشِيرَةِ اپنے بھائیوں، بیویوں یا خاوندوں اور اپنے قبیلہ کے الذين هُم مَوْجُودُونَ فِي الدُّنْيَا وَكَذلِك دوسرے لوگوں سے جو اس دُنیا میں موجود ہیں، اسی طرح رُجُوعُهُمْ إِلَى أَمْوَالِهِمُ الَّتی كَانُوا وہ دوبارہ اپنے ان اموال پر قبضہ کریں جو انہوں نے اقْتَرَفُواهَا، وَمَسَاكِيهِمُ الَّتى كَانُوا بَنَوْهَا، کمائے اور اپنے ان گھروں پر قبضہ کریں جن کو انہوں نے وَزُرُوعِهِمُ الَّتِي كَانُوا زَرَعُوهَا، وَخَزَائِهِيمُ بنایا تھا اور اپنے ان کھیتوں پر قبضہ کریں جو انہوں نے الَّتى كَانُوا جَمَعُوْهَا ثُمَّ مِنْ شَرَائِط ہوئے.اور اپنے ان خزانوں کو لے لیں جو انہوں نے جمع الرُّجُوعِ الْحَقِيقِي أَن يَعِيْشُوا فِي الدُّنْيَا کئے.پھر رجوع حقیقی کی شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ وہ كَمَا كَانُوا يَعِيُمُونَ مِن قَبْلُ وَيَتَزَوِّجُوْا دُنیا میں ویسے ہی زندگی بسر کریں جیسے پہلے کرتے تھے.إِن كَانُوا إِلَى النِّكَاحِ مُحْتَاجِینَ، وَآن اگر وہ شادی کی ضرورت محسوس کریں تو شادی بھی کریں تُؤْمِنُوا بِاللهِ وَرَسُوْلِهِ فَيُقْبَل إيْمَانُهُمْ اور یہ کہ اگر وہ اللہ اور رسول پر ایمان لائیں تو ان کا ایمان وَلَا يُنظَرُ إِلى كُفْرِهِمُ الَّذِى مَاتُوا عَلَيْهِ قبول کیا جائے اور ان کے اس کفر کا خیال نہ کیا جائے جس بَلْ يَنْفَعُهُمْ إِيْمَانَهُمْ بَعْدَ رَجُوْعِهِمْ إِلَى پر وہ مرے تھے بلکہ دنیا میں واپس آنے کے بعد ان کا الدُّنْيَا وَكَويهم مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّاً ایمان لانا اور مومنوں میں شامل ہونا ان کو فائدہ دے.لا تَجِدُ فِي الْقُرْآنِ شَيْئًا مِنْ هذِهِ لیکن ہم قرآن مجید میں ان وعدوں میں سے کسی کا ذکر الْمَوَاعِيْدِ، وَلاسُوْرَةٌ ذُكِرَتْ فيها هذه نہیں پاتے اور نہ کوئی سورت قرآن کریم کی ایسی پاتے الْمَسَائِلُ، بَلْ نَجِدُ مَا يُخَالِفُهُ ہیں جس میں ان مسائل کا ذکر ہو بلکہ ان امور کے خلاف (حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلد کے صفحہ ۲۴۷) ہی ذکر دیکھتے ہیں.(ترجمہ از مرتب) إنَّ اللَّهَ مَا وَعَدَ بِحَشْرِ الْمَوْتَى فِي الْقُرْآنِ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مردوں کے حشر کا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۸ سورة الزمر إِلَّا وَعْدًا وَاحِدًا وَهُوَ الَّذِي يَظْهَرُ عِنْدَ ایک ہی وعدہ کیا ہے اور وہ وہی وعدہ ہے جس کا ظہور قیامت يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَأَخْبَرَ عَنْ عَدُم رُجُوع کے روز ہوگا، اور اس نے قیامت سے قبل مردوں کے واپس الْمَوْلى قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، فتخن نہ آنے کی خبر ہمیں دی ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے نُؤْمِنُ مَا أَخْبَرَ وَنُنَزِّهُ الْقُرْآنَ عَنِ فیصلہ پر ایمان رکھتے ہیں اور ہم قرآن کریم کو اختلافات اور الاخْتِلَافاتِ وَالتَّناقُضَاتِ، وَنُؤْمِن تناقضات سے پاک سمجھتے ہیں اور ہم اس آیت پر ایمان بايَةِ فَيُمْسِكُ التي قطى عَلَيْهَا لاتے ہیں کہ فيُسِتُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا المَوْتَ ( يعنى جس نفس پر اللہ موت کا حکم دے دیتا ہے اس کو واپس آنے الموت (حمامة البشری ،جلد ۷ صفحہ ۲۴۹،۲۴۸) | نہیں دیتا ) (ترجمه از مرتب) قرآن شریف کے رُو سے مُردہ کا زندہ ہو کر دُنیا میں آکر آباد ہونا بالکل ممتنع ہے اور آیت فيُمسك انتى قضى عَلَيْهَا المَوت اس دوبارہ رُوح کے آنے سے مانع ہے.(کتاب البریه، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۲۳۹ حاشیه ) ہم بموجب نص صریح قرآن شریف کے جو آيت فيمسك التى قضى عَلَيْهَا الْمَوْتَ سے ظاہر ہوتی ہے اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ جو لوگ اس دُنیا سے گزر جاتے ہیں پھر وہ دُنیا میں دوبارہ آباد ہونے کے لئے نہیں بھیجے جاتے.اس لئے خدا نے بھی اُن کے لئے قرآن شریف میں مسائل نہیں لکھے کہ دوبارہ آکر مال تقسیم شدہ ان کا کیوں کر ان کو ملے.ایام اصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۲۴) جو شخص حقیقی طور پر مر جاتا ہے اور اس دُنیا سے گزرجاتا ہے اور ملک الموت اس کی روح کو قبض کر لیتا ہے 991 وہ ہر گز واپس نہیں آتا.دیکھو اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے فَيُمْسِكُ التِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ - (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۴۲) خدا جانوں کو جب اُن کی موت کا وقت آتا ہے اپنے قبضہ میں کر لیتا ہے یعنی وہ جانیں بے خود ہو کر الہی تصرف اور قبضہ میں اپنی موت کے وقت آجاتی ہیں اور زندگی کی خود اختیاری اور خود شناسی اُن سے جاتی رہتی ہے اور موت ان پر وارد ہو جاتی ہے یعنی بگی وہ روحیں نیست کی طرح ہو جاتی ہیں اور صفات حیات زائل ہو جاتی ہیں اور ایسی روح جو دراصل مرتی نہیں مگر مرنے کے مشابہ ہوتی ہے وہ روح کی وہ حالت ہے کہ جب انسان سوتا ہے تب وہ حالت پیدا ہوتی ہے اور ایسی حالت میں بھی روح خدا تعالیٰ کے قبضہ اور تصرف میں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۵۹ سورة الزمر.آجاتی ہے اور ایسا تغییر اس پر وارد ہو جاتا ہے کہ کچھ بھی اس کی دنیوی شعور اور ادراک کی حالت اس کے اندر باقی نہیں رہتی.غرض موت اور خواب دونوں حالتوں میں خدا کا قبضہ اور تصرف رُوح پر ایسا ہو جاتا ہے کہ زندگی کی علامت جو خود اختیاری اور خود شناسی ہے بکلی جاتی رہتی ہے پھر خدا ایسی روح کو جس پر در حقیقت موت وارد کر دی ہے واپس جانے سے روک رکھتا ہے اور وہ رُوح جس پر اس نے در حقیقت موت وارد نہیں کی اس کو پھر ایک مقرر وقت تک دُنیا کی طرف واپس کر دیتا ہے.اس ہمارے کاروبار میں اُن لوگوں کے لئے نشان ہیں جو فکر اور سوچ کرنے والے ہیں.یہ ہے ترجمہ معہ شرح آیت ممدوحہ بالا کا.اور یہ آیت موصوفہ بالا دلالت کر رہی ہے کہ جیسی جسم پر موت ہے روحوں پر بھی موت ہے لیکن قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ ابرار اور اخیار اور برگزیدوں کی روحیں چند روز کے بعد پھر زندہ کی جاتی ہیں.کوئی تین دن کے بعد کوئی ہفتہ کے بعد کوئی چالیس دن کے بعد.اور یہ حیات ثانی نہایت آرام اور آسائش اور لذت کی اُن کو ملتی ہے.یہی حیات ہے جس کو حاصل کرنے کے لئے نیک بندے اپنی پوری قوت اور پوری کوشش اور پورے صدق وصفا کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف جھکتے ہیں اور نفسانی تاریکیوں سے باہر آنے کے لئے پورا زور لگاتے ہیں اور خدا کی رضا جوئی کے لئے تلخ زندگی اختیار کرتے ہیں گو یا مر ہی جاتے ہیں.غرض جیسا کہ آیتہ موصوفہ بالا بیان فرما رہی ہے رُوح کو بھی موت ہے جیسا کہ جسم کو اگر چہ اس عالم کی نہایت مخفی کیفیتیں اس تاریک دنیا میں ظاہر نہیں ہوتیں لیکن بلاشبہ عالم رؤیا یعنی خواب کا عالم اُس عالم کے لئے ایک نمونہ ہے اور جو موت اس عالم میں رُوح پر وارد ہوتی ہے اس موت کا نمونہ عالم خواب میں بھی پایا جاتا ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ معاً آنکھ بند ہونے کے ساتھ ہی ہماری رُوح کی تمام صفات اُلٹ پلٹ ہو جاتی ہیں اور اس بیداری کا تمام سلسلہ فراموش ہو جاتا ہے اور تمام رُوحانی صفات اور تمام علوم جو ہماری روح میں تھے کالعدم ہو جاتے ہیں اور حالت خواب میں وہ نظارے رُوح کے ہمارے پیش نظر آجاتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اب وہ ہماری رُوح کچھ اور ہی ہے اور تمام صفات اس کے جو بیداری میں تھے کھوئے گئے ہیں اور یہ ایک ایسی حالت ہے جو موت سے مشابہ بلکہ ایک قسم کی موت ہے اور یہ قطعی اور یقینی دلیل اس بات پر ہے کہ وہ موت جو جسم کی موت کے ساتھ روح پر وارد ہوتی ہے وہ ایسی موت کے ساتھ مشابہ ہے جو نیند کی حالت میں روح پر وارد ہوتی ہے مگر وہ موت اس موت کی نسبت بہت بھاری ہے.چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۶۲ تا ۱۶۴)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ود ۶۰ سورة الزمر فيسكُ التِي قَضَى عَلَيْهَا المَوت یعنی جس نفس پر موت کا حکم دے دیتا ہے اُس کو واپس آنے نہیں دیتا الحکم جلد ۴ نمبر ۲۶ مورمحه ۱۲؍ جولائی ۱۹۰۰ صفحه ۲) یہ مسئلہ ہی غلط ہے جو کہے کہ فلاں شخص زندہ کرتا ہے.اگر زندہ کرنے کا مفہوم اور مطلب اور نہ ہوتا تو خدا تعالیٰ کیوں فيُمْسِكُ انتى قضى عَلَيْهَا المَوْتَ فرماتا.اس سے معلوم ہوا کہ یہ محاورہ ہی اور ہے ورنہ اس سے تو تناقض لازم آتا ہے کہ ایک طرف کہے کہ زندہ نہیں ہوتا اور دوسری طرف کہہ دے کہ زندہ ہو جاتا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۱۵ مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۲ صفحه ۷۱۶) ہم خدا تعالی کے اس قانون قدرت کو مانتے ہیں جو قرآن شریف میں بیان ہوا ہے جو مردہ ایسے ہیں کہ قبر میں رکھے جاتے ہیں اور ان کے پاس ملائکہ آتے ہیں.اُن کی نسبت قرآن شریف کا یہی فتویٰ ہے فَيُمْسِكُ التي قضى عليها الموت مگر برنگ دیگر غیر حقیقی موت میں احیاء بھی ہوتا ہے چنانچہ اس قسم کے واقعات خود ہمارے ساتھ بھی پیش آئے ہیں چنانچہ مبارک کے متعلق اس قسم کی موتیں فیسكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ سے نہیں اور وہ یہ احیاء ہے جس پر ہم ایمان لاتے ہیں کہ مردہ جی اُٹھتا ہے.(احکام جلد ۶ نمبر ۲۴ مورخه ۰ار جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۲) ہم اس کو خارق عادت نہیں مان سکتے جو قرآن شریف کے بیان کردہ قانونِ قدرت کے خلاف ہو.مثلاً ہم احیاء موتی حقیقی کا کیوں انکار کرتے ہیں اس لئے کہ قرآن شریف نے یہ فیصلہ کر دیا ہے فيُمسِكُ الَّتِى قضى عَلَيْهَا الْمَوْتَ - الکام جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۶) ہمارا یہ عقیدہ نہیں کہ اعجازی طور پر بھی احیاء موتی نہیں ہوتا بلکہ یہ عقیدہ ہے کہ وہ شخص دوبارہ دُنیا کی طرف رجوع نہیں کرتا.مبارک احمد کی حیات اعجازی ہے.اس میں کوئی بحث نہیں کہ جس شخص کی باقاعدہ طور پر فرشتہ جان قبض کر لے اور زمین میں بھی دفن کیا جاوے وہ پھر کبھی زندہ نہیں ہوتا.....خدا تعالیٰ نے بھی فرما یا فيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ - الحکم جلدے نمبر ۱۵ مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۳ صفحه ۱۲) کیا یہ سچ نہیں ہے کہ قرآن شریف نے صاف طور پر فرما دیا ہے کہ حقیقی مردے واپس نہیں آتے فينسك التي قضى عَلَيْهَا المَوت کے کیا معنے ہیں.پھر اگر میں نے یہ کہا کہ وہ مردے جو حضرت مسیح نے زندہ کئے وہ حقیقی مردے نہ تھے جو آیت فی التى قضى عَلَيْهَا المَوت کے موافق واپس نہیں آتے تو کیا برا کیا ؟ اس سے معجزات کا انکار کیوں کر ثابت ہوا.الحام جلد ۹ نمبر ۴۰ مورخه ۷ ارنومبر ۱۹۰۵ صفحه ۹) ہم قطعی طور سے انکار کرتے ہیں کہ کوئی حقیقی مردے بھی زندہ کر سکتا ہے جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام که فيُسِلُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ الحَ 991 บ سورة الزمر الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۶ مورخه ۱۰ را پریل ۱۹۰۸ صفحه ۲) پادری عیسی کے خدا ہونے کی دلیل بیان کرتے ہیں کہ وہ مردے زندہ کرتا تھا حالانکہ خدا تعالیٰ فرماتا ب فَيُنسِلُ الَّتِي قَضى عَلَيْهَا المَوت - اب خدا کے کلام میں تناقض نہیں کہ ایک آیت میں کہے مردے دوبارہ دنیا میں نہیں آتے اور دوسری میں کہے کہ مردہ زندہ ہوتے ہیں.پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اُس کے ہاتھ پر مردے زندہ ہوتے ہیں لِما يُخييكُم (الانفال: ۲۵) اور سب کو معلوم ہے کہ اس سے مرادرُوحانی مُردوں کا زندہ ہوتا ہے.( بدر جلد نمبر ۱۹ ۲۰ مورخه ۲۴ مئی ۱۹۰۸ صفحه ۵) قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ ۖ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ) سرزد ہوا.(۵۴) ان کو کہہ دے کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر اسراف کیا ( یعنی ارتکاب کبائر کیا ) تم خدا کی رحمت سے نومیدمت ہو وہ تمہارے سب گناہ بخش دے گا.اب ظاہر ہے کہ بنی آدم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تو بندے نہیں ہیں بلکہ سب نبی و غیر نبی خدائے تعالیٰ کے بندے ہیں لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مولیٰ کریم سے قرب اتم یعنی تیسرے درجہ کا قرب حاصل تھا سو یہ سخن بھی مقام جمع سے سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۷۶، ۲۷۷ حاشیه ) اے میرے غلامو جنہوں نے اپنے نفسوں پر زیادتی کی ہے کہ تم رحمت الہی سے ناامید مت ہو خدا تعالیٰ سارے گناہ بخش دے گا.اب اس آیت میں بجائے قُلْ يَا عِبَادَ اللہ کے جس کے یہ معنے ہیں کہ کہہ اے خدا تعالیٰ کے بندو یہ فرمایا کہ قُلُ يَا عِبَادِی یعنی کہہ اے میرے غلامو.اس طرز کے اختیار کرنے میں بھید یہی ہے کہ یہ آیت اس لئے نازل ہوئی ہے کہ تا خدا تعالیٰ بے انتہا رحمتوں کی بشارت دیوے اور جو لوگ کثرت گناہوں سے دل شکستہ ہیں ان کو تسکین بخشے سو اللہ جلشانہ نے اس آیت میں چاہا کہ اپنی رحمتوں کا ایک نمونہ پیش کرے اور بندہ کو دکھلا دے کہ میں کہاں تک اپنے وفادار بندوں کو انعامات خاصہ سے مشرف کرتا ہوں سو اس نے قُلْ يَا عِبَادِی کے لفظ سے یہ ظاہر کیا کہ دیکھو یہ میرا پیارا رسول دیکھو یہ برگزیدہ بندہ کہ کمال طاعت سے کس درجہ تک پہنچا کہ اب جو کچھ میرا ہے وہ اس کا ہے.جو شخص نجات چاہتا ہے وہ اس کا غلام ہو جائے یعنی ایسا اس کی طاعت میں محو ہو جاوے کہ گویا اس کا غلام ہے تب وہ گو کیسا ہی پہلے گناہ گار تھا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۲ سورة الزمر بخشا جائے گا جاننا چاہیئے کہ عبد کا لفظ لغت عرب میں غلام کے معنوں پر بھی بولا جاتا ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَلَعَبْدُ مُؤْمِنْ خَيْرٌ مِن مُشْرِكٍ (البقرة : ۲۲۲) اور اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو شخص اپنی نجات چاہتا ہے وہ اس نبی سے غلامی کی نسبت پیدا کرے یعنی اس کے حکم سے باہر نہ جائے اور اس کے دامن طاعت سے اپنے تئیں وابستہ جانے جیسا کہ غلام جانتا ہے تب وہ نجات پائے گا اس مقام میں ان کو ر باطن نام کے موحد وں پر افسوس آتا ہے کہ جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یاں تک بغض رکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ نام که غلام نبی، غلام رسول، غلام مصطفی ، غلام احمد ، غلام محمد شرک میں داخل ہیں اور اس آیت سے معلوم ہوا کہ مدار نجات یہی نام ہیں.اور چونکہ عبد کے مفہوم میں یہ داخل ہے کہ ہر ایک آزادگی اور خودروی سے باہر آ جائے اور پورا متبع اپنے مولی کا ہو.اس لئے حق کے طالبوں کو یہ رغبت دی گئی کہ اگر نجات چاہتے ہیں تو یہ مفہوم اپنے اندر پیدا کریں اور در حقیقت یہ آیت اور یہ دوسری آیت قل تو إن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ (ال عمران : ۳۲) از روئے مفہوم کے ایک ہی ہیں.کیونکہ کمال اتباع اس محویت اور اطاعت تامہ کو مستلزم ہے جو عہد کے مفہوم میں پائی جاتی ہے.یہی سر ہے کہ جیسے پہلی آیت میں مغفرت کا وعدہ بلکہ محبوب الہی بنے کی خوشخبری ہے گویا یہ آیت کہ قُلْ يَا عِبَادِی دوسرے لفظوں میں اس طرح پر ہے کہ قُلْ يَا مُتَّبِعِی یعنی اے میری پیروی کرنے والو جو بکثرت گناہوں میں مبتلا ہور ہے ہو رحمت الہی سے نومیدمت ہو کہ اللہ جل شانہ ہبرکت میری پیروی کے تمام گناہ بخش دے گا.اور اگر عباد سے صرف اللہ تعالیٰ کے بندے ہی مراد لئے جائیں تو معنے خراب ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ ہرگز درست نہیں کہ خدا تعالی بغیر تحقق شرط ایمان اور بغیر تحقق شرط پیروی تمام مشرکوں اور کافروں کو یونہی بخش دیوے ایسے معنے تو نصوص بینہ قرآن سے صریح مخالف ہیں.اس جگہ یہ بھی یادر ہے کہ ماحصل اس آیت کا یہ ہے کہ جو لوگ دل و جان سے تیرے یا رسول اللہ غلام بن جائیں گے ان کو وہ نور ایمان اور محبت اور عشق بخشا جائے گا کہ جو اُن کو غیر اللہ سے رہائی دے دے گا اور وہ گناہوں سے نجات پا جائیں گے اور اسی دنیا میں ایک پاک زندگی ان کو عطا کی جائے گی اور نفسانی جذبات کی تنگ و تاریک قبروں سے وہ نکالے جائیں گے.اس کی طرف یہ حدیث اشارہ کرتی ہے آنا الحاشر الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلى قَدینی یعنی میں وہ مردوں کو اٹھانے والا ہوں جس کے قدموں پر لوگ اٹھائے ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۹۰ تا ۱۹۴) جاتے ہیں.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۳ سورة الزمر اے وہ لو گو جنہوں نے اسراف کیا یعنی گناہ کیا تم خدا کی رحمت سے نو امید مت ہو وہ تمہارے سارے گناہ بخش دے گا یعنی وہ اس بات سے مجبور اور عاجز نہیں کہ گنہگار کو بغیر سزا دینے کے چھوڑ دے کیونکہ وہ اس کا مالک ہے اور مالک کو ہر ایک اختیار ہے.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۶) جب انسان خدا تعالیٰ کی محبت میں ایسا محو ہوتا ہے جو کچھ بھی نہیں رہتا تب اسی فنا کی حالت میں ایسے الفاظ بولے جاتے ہیں کیونکہ اس حالت میں اُن کا وجود درمیان نہیں ہوتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قل يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا یعنی ان لوگوں کو کہہ کہ اے میرے بند و خدا کی رحمت سے نومیدمت ہو خدا تمام گناہ بخش دے گا.اب دیکھو اس جگہ ہوخدا دیکھو يَا عِبَادَ اللہ کی جگہ يَا عِبَادِی کہہ دیا گیا حالانکہ لوگ خدا کے بندے ہیں نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بندے.مگر یہ استعارہ کے رنگ میں بولا گیا.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶۶) اگر....صرف توحید کافی ہے تو پھر مفصلہ ذیل آیت سے یہ ثابت ہوگا کہ شرک وغیرہ سب گناہ بغیر تو به کے بخشے جائیں گے اور وہ آیت یہ ہے قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِيْنَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا حالانکہ ایسا ہر گز نہیں.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۴۵ حاشیه ) انسان تو در اصل بنده یعنی غلام ہے.غلام کا کام یہ ہوتا ہے کہ مالک جو حکم کرے اُسے قبول کرے.اسی طرح اگر تم چاہتے ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض حاصل کرو تو ضرور ہے کہ اس کے غلام ہو جاؤ.قرآن کریم میں خدا فرماتا ہے قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى الْفُهم اس جگہ بندوں سے مراد غلام ہی ہیں نہ کہ مخلوق.رسول کریم کے بندہ ہونے کے واسطے ضروری ہے کہ آپ پر درود پڑھو اور آپ کے کسی حکم کی نافرمانی نہ کر وسب حکموں پر کار بندر ہو.البدر جلد ۲ نمبر ۱۴ مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۱۰۹) ایسے الفاظ جو انبیاء کے حق میں خدا تعالیٰ نے بولے ہیں ان میں سے سب سے زیادہ اور سب سے بڑا عزت کا خطاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرما یا قل بعبادی جس کے معنے ہیں کہ اے میرے بندو.اب ظاہر ہے کہ وہ لوگ خدا تعالیٰ کے بندے تھے نہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بندے.اس فقرہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسے الفاظ کا اطلاق استعارہ کے رنگ میں کہاں تک وسیع ہے.( بدر جلد ۶ نمبر ۴۵ مورخہ ۷ رنومبر ۱۹۰۷ء صفحه ۳)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۴ b.سورة الزمر وَ يَوْمَ الْقِيمَةِ تَرَى الَّذِيْنَ كَذَبُوا عَلَى اللَّهِ وُجُوهُهُمْ مُسْوَدَةٌ ۖ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوَى لِلْمُتَكَبِرِينَ وَيُنَجِّي اللهُ الَّذِينَ اتَّقَوْا بِمَفَازَتِهِمْ لَا يَمَسُّهُمُ السُّوءِ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.وَلَاهُمْ قیامت کے دن تو دیکھے گا کہ جنہوں نے خدا تعالیٰ پر جھوٹ بولا ان کے منہ کالے ہیں.( اور کیوں کالے نہ ہوں ) کیا یہ لائق نہیں کہ متکبر لوگ جہنم میں ہی گرائے جائیں اور اللہ تعالیٰ متقیوں کو نجات دے گا اس طور سے کہ ان کو ان کی مرادات تک پہنچائے گا ان کو برائی نہیں لگے گی اور نہ وہ غمگین ہوں گے.اب یہ آیت اُس پہلی آیت کی گویا تفسیر کرتی ہیں کیونکہ اس میں نجات دینے کی حقیقت یہ کھولی ہے کہ وہ اپنی مرادات کو پہنچ جائیں گے اور یہ بھی ظاہر کر دیا کہ وہ اس دن برائی کی جس سے بالکل محفوظ ہوں گے ایک ذرا تکلیف ان کو چھوٹے گی بھی نہیں اور غم ان کے نزدیک نہیں آئے گا.اور اس آیت وَ إِنْ مِنْكُمْ إِلا وَارِدُهَا ( مریم) (۷۲) کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ در اصل مخاطب وہی لوگ ہوں کہ جو عذاب دوزخ میں گرفتار ہوں.پھر بعض ان میں سے کہ کچھ حصہ تقویٰ کا رکھتے ہیں اس عذاب سے نجات پاویں اور دوسرے دوزخ میں ہی گرے رہیں اور یہ معنے اس حالت میں ہوں گے کہ جب اس خطاب سے ابرار اور اخیار اور تمام مقدس اور مقرب لوگ باہر رکھے جائیں لیکن حق بات یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کی کلام کا منشاء وہی معنی معلوم ہوتے ہیں جو ابھی ہم لکھ چکے ہیں وَاللهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ وَإِلَيْهِ الْمَرْجَعُ وَالْمَابُ ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۵۶، ۱۵۷) وَ مَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبضَتُهُ يَوْمَ الْقِيمَةِ وَالسَّمَوتُ مطويت بِيَمِينِهِ سُبْحْنَهُ وَتَعَلَى عَمَّا يُشْرِكُونَ.وَالسَّمَوتُ مَطْوِيتُ بِيَمِينہ یعنی دنیا کے فنا کے کرنے کے وقت خدا تعالیٰ آسمانوں کو اپنے دہنے ہاتھ سے لپیٹ لے گا اب دیکھو کہ اگر شقُ السَّمَاوَاتِ سے در حقیقت پھاڑ نا مراد لیا جائے تو مطويات کا لفظ اس سے مغائر اور منافی پڑے گا کیونکہ اس میں پھاڑنے کا کہیں ذکر نہیں.صرف پیٹنے کا ذکر ہے.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۵۲ حاشیه در حاشیه )
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الزمر وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّبُوتِ وَ مَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ أُخْرَى فَإِذَاهُمْ قِيَامُ تَنْظُرُونَ نفخ حقیقت میں دو قسم پر ہے ایک نفخ اضلال اور ایک نفخ ہدایت جیسا کہ اس آیت میں اس کی طرف اشارہ ہے وَنُفِخَ فِي الطُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَ مَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أخْرَى فَإِذَا هُمْ قِيَام يَنْظُرُونَ.یہ آیتیں ذوالوجوہ ہیں قیامت سے بھی تعلق رکھتی ہیں اور اس عالم سے بھی.جیسا کہ آیت اعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ( الحديد : ۱۸) اور جیسا کہ آیت فسالت أودية بقدرِهَا (الرعد: ۱۸) اور اس عالم کے لحاظ سے ان آیتوں کے یہ معنی ہیں کہ آخری دنوں میں دوزمانے آئیں گے.ایک ضلالت کا زمانہ اور اس زمانہ میں ہر ایک زمینی اور آسمانی یعنی شقی اور سعید پر غفلت سی طاری ہوگی مگر جس کو خدا محفوظ رکھے اور پھر دوسرا زمانہ ہدایت کا آئے گا.پس ناگاہ لوگ کھڑے ہو جائیں گے اور دیکھتے ہوں گے.یعنی غفلت دُور ہو جائے گی اور دلوں میں معرفت داخل ہو جائے گی اور شقی اپنی شقاوت پر متنبہ ہو جائیں گے گوایمان نہ لاویں.(شهادة القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۲۱) وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا حَتَّى إِذَا جَاءُوهَا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَ قَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَامُ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَلِدِينَ.سَلامُ عَلَيْكُم طبتم تم پر سلامتی ہے تم پاک نفس ہو.تم پر سلام تم پاک ہو.(تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۷ ) (حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۹۷ )
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيطِنِ الرَّحِيمِ ۶۷ سورة المؤمن بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة المؤمن بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ غَافِرِ الذَنْبِ وَ قَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ ذِي القَولِ ، لَا إِلَهَ إِلا هُوَ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ خدا تعالیٰ کا تو بہ سے گناہ بخشا اس آیت سے ثابت ہے.جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۱۰) b يَوْمَ هُمُ برِزُونَ لَا يَخْفَى عَلَى اللهِ مِنْهُمْ شَيْءٍ لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِه کامل جزا بجز تجلی مالکیت تامہ کے کہ جو ہم بنیان اسباب کو مستلزم ہے ظہور میں نہیں آ سکتی.چنانچہ اسی کی طرف دوسری جگہ بھی اشارہ فرما کر کہا ہے لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ اللهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ.یعنی اس دن ربوبیت الہیہ بغیر توسط اسباب عادیہ کے اپنی تجلی آپ دکھائے گی.اور یہی مشہود اور محسوس ہوگا کہ بجز قوت عظمیٰ اور قدرت کاملہ حضرت باری تعالیٰ کے اور سب بیچ ہیں.تب سارا آرام و سرور اور سب جزا اور پاداش بنظر صاف وصریح خدا ہی کی طرف سے دکھلائی دے گا اور کوئی پردہ اور حجاب درمیان نہیں رہے گا اور کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں رہے گی تب جنہوں نے اس کے لئے اپنے تئیں منقطع کر لیا تھا وہ اپنے تئیں ایک
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۶۸ سورة المؤمن کامل سعادت میں دیکھیں گے کہ جو ان کے جسم اور جان اور ظاہر اور باطن پر محیط ہو جائے گی اور کوئی حصہ وجود ان کے کا ایسا نہیں ہو گا کہ جو اس سعادت عظمی کے پانے سے بے نصیب رہا ہو.براتین احمد یه چهار تخصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۵۵،۴۵۴ حاشیہ نمبر ۱۱) خدا تعالیٰ اپنی قہری تجلی سے ہر یک چیز کو معدوم کر کے اپنی وحدانیت اور یگانگت دکھلائے گا.( آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۵۴ حاشیه ) وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ إِلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ اِيْمَانَةَ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولُ رَبِّيَ اللهُ وَقَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَتِ مِن رَّبِّكُمْ وَ إِنْ يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ وَإِنْ يَكُ يك صَادِقًا يُصِبُكُمْ بَعْضُ الَّذِى يَعِدُكُمْ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كذاب b خدا تعالیٰ ایک مفتری کی پیشگوئی کو جو ایک جھوٹے دعوی کے لئے بطور شاہد صدق بیان کی گئی ہرگز سچی نہیں کر سکتا.وجہ یہ کہ اس میں خلق اللہ کو دھو کہ لگتا ہے جیسا کہ اللہ جلشانہ خود مدعی صادق کے لئے یہ علامت قرار دے کر فرماتا ہے وَ اِنْ يَكُ صَادِقًا يُصِبُكُمْ بَعْضُ الَّذِى يَعِدُكُمْ......خدا تعالى صاف فرماتا ہے کہ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفُ كَذَ اب سوچ کر دیکھو کہ اس کے یہی معنی ہیں جو شخص اپنے دعوی میں کا ذب ہو اس کی پیشگوئی ہرگز پوری نہیں ہوتی.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۲۲) اگر یہ صیح ہے کہ خدا صادق کا حامی ہوتا ہے اور اپنے وعدوں کو پورا کرتا ہے نہ افتر اؤں کو تو اس اصول کو مانا ایک منصف کے لئے ضروری ہوگا کہ جو پیشگوئی خدا کے نام پر کی جائے اور وہ پوری ہو جائے تو وہ خدا کی طرف سے اور ہے.اور اگر اس اصول کو نہ مانا جائے تو خدا کی ساری کتابیں بے دلیل رہ جائیں گی اور ان کی سچائی پر یقین کرنے کی راہیں بند ہو جائیں گی.اسی کی طرف خدا تعالیٰ اشارہ فرماتا ہے اور کہتا ہے وَإِنْ يَكُ صَادِقًا يُصِبُكُمُ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُم یعنی صادق کی یہ نشانی ہے کہ اس کی بعض پیشگوئیاں پوری ہو جاتی ہیں.بعض کی شرط اس لئے لگادی کہ وعید کی پیشگوئیوں میں رجوع اور توبہ کی حالت میں عذاب کا تخلف جائز ہے گو کوئی بھی شرط نہ ہو.پس ممکن ہے کہ بعض عذاب کی پیشگوئیاں ملتوی رکھی جائیں اور اپنی میعاد کے اندر پوری نہ ہوں.جیسا کہ یونس
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۶۹ سورة المؤمن کی قوم کے لئے ہوا.غرض خدا کے نام پر جو پیشگوئی پوری ہو جائے اس کی نسبت شک کرنا اور اس کو اتفاق پر محمول کر دینا گویا خدا تعالیٰ کے دینی انتظام پر ایک حملہ ہے اور نبوت کی تمام عمارت کو گرانے کا ارادہ ہے.(استفتاء، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۱۱۲) اگر یہ جھوٹا ہے تو اس کا جھوٹ اس پر پڑے گا اور اگر یہ سچا ہے تو تم اس کی ان بعض پیشگوئیوں سے بیچ کذاب ہو.نہیں سکتے جو تمہاری نسبت وہ وعدہ کرے.خدا ایسے شخص کو فتح اور کامیابی کی راہ نہیں دکھلاتا جو فضول گو اور انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحه ۶۴) اگر یہ نبی جھوٹا ہے تو اپنے جھوٹ سے ہلاک ہو جائے گا اور اگر سچا ہے تو ضرور ہے کہ کچھ عذاب تم بھی چکھو کیونکہ زیادتی کرنے والے خواہ افتر ا کر میں خواہ تکذیب کریں خدا سے مدد نہیں پائیں گے.اب دیکھو اس سے زیادہ تصریح کیا ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں بار بار فرماتا ہے کہ مفتری اسی دنیا میں ہلاک ہوگا بلکہ خدا کے سچے نبیوں اور مامورین کے لئے سب سے پہلی یہی دلیل ہے کہ وہ اپنے کام کی تکمیل کر کے مرتے ہیں.اور ان کو اشاعت دین کے لئے مہلت دی جاتی ہے.اربعین ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۴۳۴) اگر یہ جھوٹا ہوگا تو تمہارے دیکھتے دیکھتے تباہ ہو جائے گا اور اس کا جھوٹ ہی اس کو ہلاک کر دے گا لیکن اگر سچا ہے تو پھر بعض تم میں سے اس کی پیشگوئیوں کا نشانہ بنیں گے اور اس کے دیکھتے دیکھتے اس دار الفنا سے (تحفۃ الندوه، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۹۶) کوچ کریں گے.قرآن شریف نے بغض کے لفظ سے جتلا دیا کہ وعید کی پیشگوئی کے لئے بعض کا نمونہ کافی ہے.تحفہ الندوہ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۹۸) اگر یہ رسول سچا ہے تو اس کی بعض پیشگوئیاں جو تمہارے حق میں ہیں پوری ہوں گی یعنی پیشگوئی کا پورا ہونا نشان آسمانی روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۹۴ حاشیه ) سچائی کی نشانی ہے.اگر یہ رسول جھوٹا ہے تو خود تباہ ہو جائے گا لیکن اگر سچا ہے تو تمہاری نسبت جو عذاب کے بعض وعدے کئے گئے ہیں وہ پورے ہوں گے.(حقیقة الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۶۰) بعض کا لفظ اس لئے اختیار کیا گیا کہ وعید کی پیشگوئیوں میں یہ ضروری نہیں کہ وہ سب کی سب پوری ہو جائیں بلکہ بعض کا انجام معافی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۲۰ حاشیه ) اگر یہ نبی جھوٹا ہے تو خود تباہ ہو جائے گا کیونکہ خدا کذاب کے کام کو انجام تک نہیں پہنچا تا وجہ یہ کہ اس
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة المؤمن سے صادق اور کاذب کا معاملہ باہم مشتبہ ہو جائے گا.اور اگر یہ رسول سچا ہے تو اس کی بعض وعید کی پیشگوئیاں ضرور وقوع میں آئیں گی.پس اس آیت میں جو بعض کا لفظ ہے صریح طور پر اس میں یہ اشارہ ہے کہ سچا رسول جو وعید کی پیشگوئیاں یعنی عذاب کی پیشگوئیاں کرتا ہے تو یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ سب کی سب ظہور میں ', آجا ئیں ہاں یہ ضروری ہے کہ بعض اُن میں سے ظہور میں آجائیں جیسا کہ یہ آیت فرما رہی ہے يُصبكم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ - (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۹۷) یہ مسئلہ مسلم ہے کہ وعید یعنی عذاب کی پیشگوئیوں میں کسی شرط کی بھی ضرورت نہیں وہ ٹل سکتی ہیں کیونکہ وہ مجرم کے لئے ایک عذاب دینے کا وعدہ ہے اور خدا حقیقی بادشاہ ہے وہ کسی کی تو بہ اور استغفار سے اپنے عذاب کو معاف کر سکتا ہے جیسا کہ یونس نبی کی قوم کو معاف کر دیا اسی پر تمام نبیوں کا اتفاق ہے جیسا کہ اللہ تعالی ورود آپ فرماتا ہے وَ اِنْ يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُه وَ إِنْ يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ یعنی اگر یہ نبی جھوٹا ہے تو جھوٹ بولنے کا عذاب اس پر نازل ہوگا اور اگر سچا ہے تو بعض عذاب جن کا وہ وعدہ دیتا ہے تم پر وارد ہو جا ئیں گے.اب دیکھو خدا نے بعض کا لفظ اس جگہ استعمال کیا نہ کل کا جس کے یہ معنی ہیں کہ جس قدر عذاب کی اس نبی نے پیشگوئیاں کی ہیں اُن میں بعض تو ضرور پوری ہو جائیں گی.گو بعض معرض التوا میں رہ جائیں گی.پس نص قرآنی سے یہ ثابت ہے کہ عذاب کی پیشگوئی کا پورا ہونا ضروری نہیں ہاں اس آیت سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ مفتری کسی طرح عذاب سے بچ نہیں سکتا.کیونکہ اس کے لئے یہ قطعی حکم ہے کہ وَ إِنْ يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ گز به پس اگر مفتری کے لئے کوئی عذاب کی پیشگوئی ہو تو وہ ٹل نہیں سکتی.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۶۸،۵۶۷) اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے وَ إِنْ يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ ۚ وَإِن يَكُ صَادِقًا يُصِبُكُمْ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُم یعنی اگر یہ نبی کا ذب ہے تو خود تباہ ہو جائے گا اور اگر صادق ہے تو بعض پیشگوئیاں وعید کی اس کی تم پر پوری ہو جائیں گی اس جگہ یہ نہیں فرمایا کہ کل پوری ہو جائیں گی.پس اس جگہ صاف طور پر خدا نے فرما دیا ہے کہ وعید کی تمام پیشگوئیوں کا پورا ہونا ضروری نہیں بلکہ بعض مل بھی سکتی ہیں اور اگر ایسا ارادہ نہ ہوتا تو خدا تعالیٰ یہ فرما تا وَ إِنْ يَكُ صَادِقًا يُصِبُكُمْ كُلُّ الَّذِي يَعِدُكُمْ مگر ایسا نہیں فرمایا.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۰۳ حاشیه )
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 21 سورة المؤمن یقیناً سمجھو کہ خدا کے مُرسل ان نشانات اور تائیدات سے شناخت کئے جاتے ہیں.جو خدا تعالیٰ ان کے لئے دکھاتا اور اُن کی نصرت کرتا ہے.میں اپنے قول میں سچا ہوں.اور خدا تعالیٰ جو دلوں کو دیکھتا ہے وہ میرے دل کے حالات سے واقف اور خبر دار ہے.کیا تم اتنا بھی نہیں کہہ سکتے جو آل فرعون کے ایک آدمی ج نے کہا تھا اِنْ يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ وَإِنْ يَكُ صَادِقًا يُصِبُكُمُ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ کیا تم یہ یقین نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹوں کا سب سے زیادہ دشمن ہے.تم سب مل کر جو مجھ پر حملہ کرو.خدا کا غضب اس سے کہیں بڑھ کر ہوتا ہے.پھر اس کے غضب سے کون بچا سکتا ہے.یہ آیت جو میں نے پڑھی ہے اس میں یہ نکتہ بھی یادر کھنے کے قابل ہے کہ وعید کی پیشگوئیاں بعض پوری کر دے گا.گل نہیں کہا.اس میں حکمت کیا ہے؟ حکمت یہی ہے کہ وعید کی پیشگوئیاں مشروط ہوتی ہیں.وہ تو بہ، استغفار اور رجوع الی الحق سے ٹل بھی جایا کرتی ہیں.پیشگوئی دو قسم کی ہوتی ہے ایک وعدہ کی.جیسے فرمایا وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمُ (النور :۵۶) اہل سنت مانتے ہیں کہ اس قسم کی پیشگوئیوں میں تخلف نہیں ہوتا کیونکہ خدا تعالیٰ کریم ہے.لیکن وعید کی پیشگوئیوں میں وہ ڈرا کر بخش بھی دیتا ہے اس لئے کہ وہ رحیم ہے.بڑا نادان اور اسلام سے دُور پڑا ہوا ہے وہ شخص جو کہتا ہے وعید کی سب پیشگوئیاں پوری ہوتی ہیں.وہ قرآن کریم کو چھوڑتا ہے.اس لئے کہ قرآن شریف تو کہتا ہے يُصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ - افسوس ہے بہت سے لوگ مولوی کہلاتے ہیں مگر انہیں نہ قرآن کی خبر ہے نہ حدیث کی نہ سنت انبیاء کی.صرف بغض کی جھاگ ہوتی ہے.اس لئے وہ دھوکا دیتے ہیں.یا د رکھو الْكَرِيمُ إِذَا وَعَدَ وَفي رحیم کا تقاضا یہی ہے کہ قابل سز اٹھہرا کر معاف کر دیتا ہے اور یہ تو انسان کی بھی فطرت میں ہے کہ وہ معاف کر دیتا ہے.ایک مرتبہ میرے سامنے ایک شخص نے بناوٹی شہادت دی.اس پر جرم ثابت تھا وہ مقدمہ ایک انگریز کے پاس تھا.اُسے اتفاقا چٹھی آگئی کہ کسی دُور دراز جگہ پر اس کی تبدیلی ہوگئی ہے.وہ غمگین ہوا.جو مجرم تھا وہ بوڑھا آدمی تھا.منشی سے کہا کہ یہ تو قید خانہ ہی میں مرجاوے گا.اُس نے بھی کہا کہ حضور بال بچہ دار ہے.اس پر وہ انگریز بولا کہ اب مثل مرتب ہو چکی ہے.اب ہو کیا سکتا ہے.پھر کہا کہ اچھا اس مثل کو چاک کر دو.اب غور کرو کہ انگریز کو تو رحم آ سکتا ہے خدا کو نہیں آتا؟ پھر اس بات پر بھی غور کرو کہ صدقہ اور خیرات کیوں جاری ہے اور ہر قوم میں اس کا رواج ہے.فطرتاً
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۲ سورة المؤمن انسان مصیبت اور بلا کے وقت صدقہ دینا چاہتا ہے اور خیرات کرتا ہے.اور کہتے ہیں کہ بکرے دو.کپڑے دو.یہ دو وہ دو.اگر اس کے ذریعہ سے رڈ بلا نہیں ہوتا تو پھر اضطراراً انسان کیوں ایسا کرتا ہے؟ نہیں رڈ بلا ہوتا ہے.ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر کے اتفاق سے یہ بات ثابت ہے.اور میں یقیناً جانتا ہوں کہ یہ صرف مسلمانوں ہی کا مذہب نہیں بلکہ یہودیوں.عیسائیوں اور ہندوؤں کا بھی یہ مذہب ہے اور میری سمجھ میں روئے زمین پر کوئی اس امر کا منکر ہی نہیں جبکہ یہ بات ہے تو صاف کھل گیا کہ وہ ارادہ الہی ٹل جاتا ہے.پیشگوئی اور ارادہ الہی میں صرف یہ فرق ہوتا ہے کہ پیشگوئی کی اطلاع نبی کو دی جاتی ہے.اور ارادہ الہی پر کسی کو اطلاع نہیں ہوتی.اور وہ مخفی رہتا ہے.اگر وہی ارادہ الہی نبی کی معرفت ظاہر کر دیا جاتا تو وہ پیشگوئی ہوتی.اگر پیشگوئی نہیں مل سکتی تو پھر ارادہ الہی بھی صدقہ خیرات سے نہیں مل سکتا.لیکن یہ بالکل غلط ہے.چونکہ وعید کی پیشگوئیاں مل جاتی ہیں.اس لئے فرما یا ان يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ اب اللہ تعالیٰ خود گواہی دیتا ہے کہ بعض پیشگوئیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی ٹل گئیں.اگر میری کسی پیشگوئی پر ایسا اعتراض کیا جاتا ہے تو مجھے اس کا جواب دو.اگر اس امر میں میری تکذیب کرو گے تو میری نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی تکذیب کرنے والے ٹھہرو گے.میں بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ یہ کل اہل سنت جماعت اور کل دنیا کا مسلم مسئلہ ہے کہ تضرع سے عذاب کا وعدہ مل جایا کرتا ہے.کیا حضرت یونس علیہ السلام کی نظیر بھی تمہیں بھول گئی ہے؟ حضرت یونس کی قوم سے جو عذاب ٹل گیا تھا اس کی وجہ کیا تھی ؟ درمنثور وغیرہ کو دیکھو اور بائبل میں یو نہ نبی کی کتاب موجود ہے.اس عذاب کا قطعی و عدہ تھا مگر حضرت یونس کی قوم نے عذاب کے آثار دیکھ کر توبہ کی اور اس کی طرف رجوع کیا.خدا تعالیٰ نے اس کو بخش دیا اور عذاب ٹل گیا.ادھر حضرت یونس یوم مقررہ پر عذاب کے منتظر تھے.لوگوں سے خبریں پوچھتے تھے.ایک زمیندار سے پوچھا کہ نیوہ کا کیا حال ہے؟ اُس نے کہا کہ اچھا حال ہے.تو حضرت یونس پر بہت غم طاری ہوا.اور انہوں نے کہا لن أرجع إلى قَوْمِي كَذَابًا یعنی میں اپنی قوم کی طرف کذاب کہلا کر نہیں جاؤں گا.اب اس نظیر کے ہوتے ہوئے اور قرآن شریف کی زبردست شہادت کی موجودگی میں میری کسی ایسی پیشگوئی پر جو پہلے ہی سے شرطی تھی اعتراض کرنا تقویٰ کے خلاف ہے.متقی کی یہ شان نہیں کہ بغیر سوچے سمجھے منہ سے بات نکال دے اور تکذیب کو آمادہ ہو جاوے.حضرت یونس کا قصہ نہایت دردناک اور عبرت بخش ہے.اور وہ کتابوں میں لکھا ہوا ہے اُسے غور سے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة المؤمن پڑھو.یہاں تک کہ وہ دریا میں گرائے گئے.اور مچھلی کے پیٹ میں گئے.تب تو بہ منظور ہوئی.یہ سزا اور عتاب حضرت یونس پر کیوں ہوا؟ اس لئے کہ انہوں نے خدا کو قادر نہ سمجھا کہ وہ وعید کو ٹال دیتا ہے.پھر تم لوگ کیوں میرے متعلق جلدی کرتے ہو؟ اور میری تکذیب کے لئے ساری نبوتوں کو جھٹلاتے ہو؟ لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۷۶ تا ۲۷۹) خدا کے راستبازوں اور ماموروں کے مقابلہ میں ہر قسم کی کوششیں ان کو کمزور کرنے کے لئے کی جاتی ہیں لیکن خدا ان کے ساتھ ہوتا ہے.وہ ساری کوششیں خاک میں مل جاتی ہیں.ایسے موقع پر بعض شریف الطبع اور سعید لوگ بھی ہوتی ہیں جو کہہ دیتے ہیں اِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُه وَ إِنْ يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُم - اور صادق کا صدق خود اس کے لئے زبردست ثبوت اور دلیل ہوتا ہے اور کاذب کا کذب ہی اس کو ہلاک کر دیتا ہے.پس ان لوگوں کو میری مخالفت سے پہلے کم از کم اتنا ہی سوچ لینا چاہیے تھا کہ خدا تعالیٰ کی کتاب میں یہ ایک راہ راست باز کی شناخت کی رکھی ہے مگر افسوس تو یہ ہے کہ یہ لوگ قرآن پڑھتے ہیں مگر ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا.الحکم جلد ۸ نمبر ۱۱ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۲) جو کام نفاق طبعی اور دُنیا کی گندی زندگی کے ساتھ ہوں گے وہ خود ہی اس زہر سے ہلاک ہو جائیں گے.کا ذب کبھی کامیاب ہو سکتا ہے؟ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِى مَنْ هُوَ مُسْرِفُ كَلاب کذاب کی ہلاکت کے واسطے اس کا کہذب ہی کافی ہے.لیکن جو کام اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کے رسول کی برکات کے اظہار اور ثبوت کے لئے ہوں اور خود اللہ تعالیٰ کے اپنے یہ ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہو تو پھر اس کی حفاظت تو خود فرشتے کرتے ہیں.کون ہے؟ جو اس کو تلف کر سکے؟ الحکم جلد ۹ نمبر ۲۵ مورخہ ۱۷؍ جولائی ۱۹۰۵، صفحہ ۱۱) وو إنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ يَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ ہمارا قانونِ قدرت یہی ہے کہ ہم اپنے پیغمبروں اور ایمان داروں کو دُنیا اور آخرت میں مدد دیا (براہین احمدیہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۵۰ حاشیہ نمبر ۱۱) و کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا وعدہ کہ انا لتَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا ایک یقینی اور حتمی وعدہ ہے میں کہتا ہوں کہ بھلا اگر خدا کسی کے دل میں مدد کا خیال نہ ڈالے تو کوئی کیوں کر مدد کر سکتا ہے.اصل بات یہی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۴ سورة المؤمن ہے کہ حقیقی معاون و ناصر وہی پاک ذات ہے جس کی شان ہے نِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ الْوَكِيلُ وَنِعْمَ النَّصِيرُ ریویو آف ریلیجنز جلد ۳ نمبر ا جنوری ۱۹۰۴ء صفحه ۸) لَخَلْقُ السَّبُوتِ وَ الْاَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَ لَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا وروور يعلمون (۵۸) حدیثوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل دجال شیطان کا نام ہے پھر جس گروہ سے شیطان اپنا کام لے گا اُس گروہ کا نام بھی استعارہ کے طور پر وقال رکھا گیا کیونکہ وہ اُس کے اعضاء کی طرح ہے.قرآن شریف میں جو یہ آیت ہے لَخَلْقُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ یعنی انسانوں کی صنعتوں سے خدا کی صنعتیں بہت بڑی ہیں یہ اشارہ ان انسانوں کی طرف ہے جن کی نسبت لکھا گیا تھا کہ وہ آخری زمانہ میں بڑی بڑی صنعتیں ایجاد کریں گے اور خدائی کاموں میں ہاتھ ڈالیں گے.اور مفسرین نے لکھا ہے کہ اس جگہ انسانوں سے مراد دجال ہے اور یہ قول دلیل اس بات پر ہے کہ دجال معہود ایک شخص نہیں ہے ورنہ ناس کا نام اُس پر اطلاق نہ پاتا.اور اس میں کیا شک ہے کہ ناس کا لفظ صرف گروہ پر بولا جاتا ہے سو جو گروہ شیطان کے وساوس کے نیچے چلتا ہے وہ دجال کے نام سے موسوم ہوتا ہے.اسی کی طرف قرآن شریف کی اس ترتیب کا اشارہ ہے کہ وہ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعلمين (الفاتحة : ۲) سے شروع کیا گیا اور الصد اس آیت پر ختم کیا گیا ہے.الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ ( الناس : ۲ ،۷) پس لفظ کاس سے مراد اس جگہ بھی دجال ہے.ایام اصبح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۹۶) واضح رہے کہ قرآن شریف میں الناس کا لفظ بمعنی دجال معہود بھی آتا ہے اور جس جگہ ان معنوں کو قرینہ قویہ متعین کرے تو پھر اور معنے کرنا معصیت ہے چنانچہ قرآن شریف کے ایک اور مقام میں الناس کے معنے دجال ہی لکھا ہے اور وہ یہ ہے لَخَلْقُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ.یعنی جو کچھ آسمانوں اور زمین کی بناوٹ میں اسرار اور عجائبات پر ہیں دجال معہود کی طبائع کی بناوٹ اس کے برابر نہیں.یعنی گووہ لوگ اسرار زمین و آسمان کے معلوم کرنے میں کتنی ہی جانکا ہی کریں اور کیسی ہی طبع و عا دلاویں پھر بھی ان کی طبیعتیں ان اسرار کے انتہا تک پہنچ نہیں سکتیں.یادر ہے کہ اس جگہ بھی مفسرین نے الناس سے مراد دجال معبود ہی لیا ہے دیکھو تفسیر معالم وغیرہ اور قرینہ قویہ اس پر یہ ہے کہ لکھا ہے کہ دجال معہود اپنی ایجادوں اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۵ سورة المؤمن صنعتوں سے خدا تعالیٰ کے کاموں پر ہاتھ ڈالے گا اور اس طرح پر خُدائی کا دعوی کرے گا اور اس بات کا سخت حریص ہوگا کہ خدائی باتیں جیسے بارش برسانا اور پھل لگانا اور انسان وغیرہ حیوانات کی نسل جاری رکھنا اور سفر اور حضر اور صحت کے سامان فوق العادت طور پر انسان کے لئے مہیا کرنا ان تمام باتوں میں قادر مطلق کی طرح کارروائیاں کرے اور سب کچھ اس کے قبضہ قدرت میں ہو جائے اور کوئی بات اس کے آگے انہونی نہ رہے اور اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے اور خلاصہ مطلب آیت یہ ہے کہ زمین آسمان میں جس قدر اسرار رکھے گئے ہیں جن کو دقبال بذریعہ علم طبعی اپنی قدرت میں کرنا چاہتا ہے وہ اسرار اُس کے انداز کو جودت طبع اور مبلغ علم سے بڑھ کر ہیں.اور جیسا کہ آیت ممدوحہ میں الناس کے لفظ سے دجال مراد ہے.ایسا ہی آیت اُخْرِجَتْ لِلنَّاس (ال عمران : ۱) میں بھی الناس کے لفظ سے دجال ہی مراد ہے.کیونکہ تقابل کے قرینہ سے اس آیت کے یہ معنے معلوم ہوتے ہیں کہ كُنتُمْ خَيْرَ النَّاسِ أُخْرِجَتْ لِشَرِ الناس.اور شر الناس سے بلا شبہ گروہ دجال مراد ہے کیونکہ حدیث نبوی سے ثابت ہے کہ آدم سے قیامت تک شر انگیزی میں دجال کی مانند نہ کوئی ہوا اور نہ ہوگا اور یہ ایک ایسی محکم اور قطعی دلیل ہے کہ جس کے دونوں حصے یقینی اور قطعی اور عقائد مسلمہ میں سے ہیں.یعنی جیسا کہ کسی مسلمان کو اس بات سے انکار نہیں کہ یہ امت خیر الامم ہے اسی طرح اس بات سے بھی انکار نہیں کہ گروہ دجال شر الناس ہے.وو b (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۲۱،۱۲۰) وَ قَالَ رَبِّكُمُ ادْعُونِي اَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيِّدُ خُلُونَ جَهَنَّمَ دَخِرِينَ ) استجابت دعا کا مسئلہ در حقیقت دعا کے مسئلہ کی ایک فرع ہے اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس شخص نے اصل کو سمجھا ہوا نہیں ہوتا اس کو فرع کے سمجھنے میں پیچیدگیاں واقع ہوتی ہیں اور دھو کے لگتے ہیں...اور دعا کی ماہیت یہ ہے کہ ایک سعید بندہ اور اس کے رب میں ایک تعلق مجاز بہ ہے یعنی پہلے خدا تعالیٰ کی رحمانیت ایک بہ کی بندہ کو اپنی طرف سینچتی ہے پھر بندہ کے صدق کی کششوں سے خدا تعالیٰ اس سے نزدیک ہو جاتا ہے اور دعا کی حالت میں وہ تعلق ایک خاص مقام پر پہنچ کر اپنے خواص عجیبہ پیدا کرتا ہے سوجس وقت بندہ کسی سخت مشکل میں مبتلا ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف کامل یقین اور کامل امید اور کامل محبت اور کامل وفاداری اور کامل ہمت
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة المؤمن کے ساتھ جھکتا ہے اور نہایت درجہ کا بیدار ہو کر غفلت کے پردوں کو چیرتا ہوا فنا کے میدانوں میں آگے سے آگے نکل جاتا ہے پھر آگے کیا دیکھتا ہے کہ بارگاہ الوہیت ہے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں تب اس کی روح اس آستانہ پر سر رکھ دیتی ہے اور قوت جذب جو اس کے اندر رکھی گئی ہے وہ خدا تعالیٰ کی عنایات کو اپنی طرف کھینچتی ہے تب اللہ جلشانہ اس کام کے پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس دعا کا اثر ان تمام مبادی اسباب پر ڈالتا ہے جن سے ایسے اسباب پیدا ہوتے ہیں جو اس مطلب کے حاصل ہونے کے لئے ضروری ہیں.مثلاً اگر بارش کے لئے دعا ہے تو بعد استجابت دعا کے وہ اسباب طبعیہ جو بارش کے لئے ضروری ہوتے ہیں اس دعا کے اثر سے پیدا کئے جاتے ہیں.اور اگر قحط کے لئے بددعا ہے تو قادر مطلق مخالفانہ اسباب کو پیدا کر دیتا ہے.اس وجہ سے یہ بات ارباب کشف اور کمال کے نزدیک بڑے بڑے تجارب سے ثابت ہو چکی ہے کہ کامل کی دعا میں ایک قوت تکوین پیدا ہو جاتی ہے.یعنی یاذ نہ تعالیٰ وہ دعا عالم سفلی اور علوی میں تصرف کرتی ہے اور عناصر اور اجرام فلکی اور انسانوں کے دلوں کو اس طرف لے آتی ہے جو طرف مؤید مطلوب ہے.خدا تعالیٰ کی پاک کتابوں میں اس کی نظیریں کچھ کم نہیں ہیں بلکہ اعجاز کی بعض اقسام کی حقیقت بھی دراصل استجابت دعا ہی ہے اور جس قدر ہزاروں معجزات انبیا سے ظہور میں آئے ہیں یا جو کچھ کہ اولیائے کرام ان دنوں تک عجائب کرامات دکھلاتے رہے اس کا اصل اور منبع یہی دُعا ہے اور اکثر دعاؤں کے اثر سے ہی طرح طرح کے خوارق قدرت قادر کا تماشا دکھلا رہے ہیں وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الہی رنگ پکڑ گئے.اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے.اور گونگوں کی زبان پر الہی معارف جاری ہوئے.اور دُنیا میں یکدفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا.اور نہ کسی کان نے عنا.کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا ؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دُعائیں ہی تھیں جنہوں نے دُنیا میں شور مچا دیا.اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اُس اُمی بیکس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں.اللّهُمَّ صَلِّ وَسَلّمْ وَبَارِكْ عَلَيْهِ وَالِهِ بِعَدَدِ هَيْهِ وَغَيْهِ وَحُزْنِهِ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ وَ انْزِلْ عَلَيْهِ انْوَارَ رَحْمَتِكَ إِلَى الْأَبَدِ - اور میں اپنے ذاتی تجربہ سے بھی دیکھ رہا ہوں کہ دُعاؤں کی تاثیر آب و آتش کی تاثیر سے بڑھ کر ہے.بلکہ اسباب طبعیہ کے سلسلہ میں کوئی چیز ایسی عظیم التاثیر نہیں جیسی کہ دُعا ہے.اور اگر یہ شبہ ہو کہ بعض دُعا ئیں خطا جاتی ہیں اور اُن کا کچھ اثر معلوم نہیں ہوتا تو میں کہتا ہوں کہ یہی حال
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام LL سورة المؤمن دواؤں کا بھی ہے.کیا دواؤں نے موت کا دروازہ بند کر دیا ہے؟ یا اُن کا خطا جانا غیر ممکن ہے؟ مگر کیا با وجود اس بات کے کوئی اُن کی تاثیر سے انکار کر سکتا ہے؟ یہ سچ ہے کہ ہر ایک امر پر تقدیر محیط ہورہی ہے.مگر تقدیر نے علوم کو ضائع اور بے حرمت نہیں کیا اور نہ اسباب کو بے اعتبار کر کے دکھلایا.بلکہ اگر غور کر کے دیکھو تو یہ جسمانی اور روحانی اسباب بھی تقدیر سے باہر نہیں ہیں.مثلاً اگر ایک بیمار کی تقدیر نیک ہو تو اسباب علاج پورے طور میسر آ جاتے ہیں اور جسم کی حالت بھی ایسے درجہ پر ہوتی ہے کہ وہ ان سے نفع اٹھانے کے لئے مستعد ہوتا ہے.تب دوا نشانہ کی طرح جاکر اثر کرتی ہے.یہی قاعدہ دُعا کا بھی ہے.یعنی دُعا کے لئے بھی تمام اسباب و شرائط قبولیت اُسی جگہ جمع ہوتے ہیں جہاں ارادہ انہی اُس کے قبول کرنے کا ہے.خدا تعالیٰ نے اپنے نظام جسمانی اور روحانی کو ایک ہی سلسلہ مؤثرات اور متاثرات میں باندھ رکھا ہے......یہ دعا جو آيت ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ میں بطور امر کے بجالانے کے لئے فرمائی گئی ہے.اس سے مراد معمولی دُعائیں نہیں ہیں.بلکہ وہ عبادت ہے جو انسان پر فرض کی گئی ہے کیونکہ امر کا صیغہ یہاں فرضیت پر دلالت کرتا ہے.اور ظاہر ہے کہ گل دُعائیں فرض میں داخل نہیں ہیں.بلکہ بعض جگہ اللہ جل شانہ نے صابرین کی تعریف کی ہے جو انا للہ پر ہی کفایت کرتے ہیں.اور اس دُعا کی فرضیت پر بڑا قرینہ یہ ہے کہ صرف امر پر ہی کفایت نہیں کی گئی بلکہ اس کو عبادت کے لفظ سے یاد کر کے بحالت نافرمانی عذاب جہنم کی وعید اس کے ساتھ لگا دی گئی ہے.اور ظاہر ہے کہ دوسری دعاؤں میں یہ وعید نہیں.بلکہ بعض اوقات انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو دُعا مانگنے پر زجر و توبیخ کی گئی ہے چنانچہ ابي أَعِظُكَ اَنْ تَكُونَ مِنَ الْجَهِلِينَ (هود : ۴۷) اس پر شاہد ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ اگر ہر دُعا عبادت ہوتی تو حضرت نوح علیہ السلام کو لا تسئلن (هود : ۴۷) کا تازیانہ کیوں لگایا جاتا ! اور بعض اوقات اولیا اور انبیا دُعا کرنے کو سوء ادب سمجھتے رہے ہیں اور صلحاء نے ایسی دُعاؤں میں استفتاء قلب پر عمل کیا ہے یعنی اگر مصیبت کے وقت دل نے دُعا کرنے کا فتویٰ دیا تو دُعا کی طرف متوجہ ہوئے اور اگر صبر کے لئے فتویٰ دیا تو پھر صبر کیا اور دُعا سے منہ پھیر لیا.ماسوا اس کے اللہ تعالیٰ نے دوسری دُعاؤں میں قبول کرنے کا وعدہ نہیں کیا بلکہ صاف فرما دیا ہے کہ چاہوں تو قبول کروں اور چاہوں تو رڈ کروں جیسا کہ یہ آیت قرآن کی صاف بتلا رہی ہے اور وہ یہ ہے بَلْ إِيَّاهُ تَدْعُونَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَيْهِ إِن شَاءَ (الانعام :۴۲) سورۃ الانعام الجز نمبرے اور اگر ہم تلولا مان بھی لیں کہ اس مقام
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۸ سورة المؤمن میں لفظ اُدْعُو سے عام طور پر دُعا ہی مُراد ہے تو ہم اس بات کے ماننے سے چارہ نہیں دیکھتے کہ یہاں دُعا سے وہ دُعا مراد ہے جو جمیع شرائط ہو.اور تمام شرائط کو جمع کر لینا انسان کے اختیار میں نہیں جب تک توفیق ازلی یا ور نہ ہو اور یہ بھی یادر ہے کہ دُعا کرنے میں صرف تضرع کافی نہیں ہے.بلکہ تقویٰ اور طہارت اور راست گوئی اور کامل یقین اور کامل محبت اور کامل توجہ اور یہ کہ جو شخص اپنے لئے دُعا کرتا ہے یا جس کے لئے دُعا کی گئی ہے اُس کی دنیا اور آخرت کے لئے اس بات کا حاصل ہونا خلاف مصلحت الہی بھی نہ ہو.کیونکہ بسا اوقات دُعا میں اور شرائط تو سب جمع ہو جاتے ہیں.مگر جس چیز کو مانگا گیا ہے وہ عند اللہ سائل کے لئے خلاف مصلحت الہی ہوتی ہے.اور اس کے پورے کرنے میں خیر نہیں ہوتی.مثلاً اگر کسی ماں کا پیارا بچہ بہت الحاج اور رونے سے یہ چاہے کہ وہ آگ کا ٹکڑا یا سانپ کا بچہ اس کے ہاتھ میں پکڑا دے.یا ایک زہر جو بظاہر خوبصورت معلوم ہوتی ہے اس کو کھلا دے تو یہ سوال اس بچہ کا ہر گز اُس کی ماں پورا نہیں کرے گی.اور اگر پورا کر دیوے اور اتفاقاً بچہ کی جان بچ جاوے لیکن کوئی عضو اس کا بے کار ہو جاوے تو بلوغ کے بعد وہ بچہ اپنی اس احمق والدہ کا سخت شا کی ہوگا اور بجز اس کے اور بھی کئی شرائط ہیں کہ جب تک وہ تمام جمع نہ ہوں اُسوقت تک دُعا کو دُعا نہیں کہہ سکتے.اور جب تک کسی دُعا میں پوری روحانیت داخل نہ ہو اور جس کے لئے دعا کی گئی ہے اور جو دُعا کرتا ہے ان میں استعداد قریبہ پیدا نہ ہو تب تک توقع اثر دعا امید موہوم ہے.اور جب تک ارادہ الہی قبولیت دُعا کے متعلق نہیں ہوتا تب تک یہ تمام شرائط جمع نہیں ہوتیں.اور ہمتیں پوری توجہ سے قاصر رہتی ہیں.......بلاشبہ ایک مومن کی دُعائیں اپنے اندر اثر رکھتی ہیں اور آفات کے دُور ہونے اور مرادات کے حاصل ہونے کا موجب ہو جاتی ہیں کیونکہ اگر موجب نہیں ہوسکتیں تو پھر کیا وجہ کہ قیامت میں موجب ہو جائیں گی.سوچو اور خوب سوچو کہ اگر در حقیقت دُعا ایک بے تاثیر چیز تا ہے اور دنیا میں کسی آفت کے دور ہونے کا موجب نہیں ہو سکتی تو کیا وجہ کہ قیامت کو موجب ہو جائے گی ؟ یہ بات تو نہایت صاف ہے کہ اگر ہماری دعاؤں میں آفات سے بچنے کے لئے درحقیت کوئی تاثیر ہے تو وہ تا ثیر اس دُنیا میں بھی ظاہر ہونی چاہئے تا ہمارا یقین بڑھے اور امید بڑھے اور تا آخرت کی نجات کے لئے ہم زیادہ سرگرمی سے دُعائیں کریں.اور اگر در حقیقت دُعا کچھ چیز نہیں صرف پیشانی کا نوشتہ پیش آنا ہے تو جیسا دنیا کی آفات کے لئے.....د عا عبث ہے اسی طرح آخرت کے لئے بھی عبث ہوگی اور اس پر امید رکھنا طمع خام......دعا منجملہ اسباب عادیہ کے ہے.جس پر ایک لاکھ سے زیادہ نبی اور کئی کروڑ ولی گواہی دیتا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۷۹ سورة المؤمن : چلا آیا ہے اور نبیوں کے ہاتھ میں بجز دُعا کے اور کیا تھا.( برکات الدعا، روحانی خزائن جلد نمبر ۶ صفحه ۹ تا ۱۵) چوتھا وسیلہ خدا تعالیٰ نے اصل مقصود کو پانے کے لئے دعا کو ٹھہرایا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے اُدْعُونِي اَسْتَجِبْ لَكُمْ یعنی تم دعا کرو میں قبول کروں گا اور بار بار دعا کے لئے رغبت دلائی ہے تا انسان اپنی طاقت سے نہیں بلکہ خدا کی طاقت سے پاوے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۱۸) تجربہ گواہی دے رہا ہے کہ جس جگہ خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ اتفاق ہو جائے کہ ہمہ شرائط دعا ظہور میں آوے وہ کام ضرور ہو جاتا ہے.اس کی طرف قرآن شریف کی یہ آیت اشارہ فرما رہی ہے ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لکھ یعنی تم میرے حضور میں دعا کرتے رہو آخر میں قبول کرلوں گا.تعجب کہ جس حالت میں باوجود قضا و قدر کے مسئلہ پر یقین رکھنے کے تمام لوگ بیماریوں میں ڈاکٹروں کی طرف رجوع کرتے ہیں تو پھر دعا کا بھی کیوں دوا پر قیاس نہیں کرتے.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۳۲ حاشیه ) دُعا اور استجابت میں ایک رشتہ ہے کہ ابتدا سے اور جب سے کہ انسان پیدا ہوا برابر چلا آتا ہے.جب خدا تعالیٰ کا ارادہ کسی بات کے کرنے کے لئے توجہ فرماتا ہے تو سنت اللہ یہ ہے کہ اُس کا کوئی مخلص بندہ اضطرار اور کرب اور قلق کے ساتھ دُعا کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے اور اپنی تمام ہمت اور تمام توجہ اس امر کے ہو جانے کے لئے مصروف کرتا ہے.تب اُس مرد فانی کی دُعائیں فیوض الہی کو آسمان سے کھینچتی ہیں اور خدا تعالیٰ ایسے نئے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن سے کام بن جائے.یہ دُعا اگر چہ بعالم ظاہر انسان کے ہاتھوں سے ہوتی ہے مگر در حقیقت وہ انسان خدا میں فانی ہوتا ہے اور دُعا کرنے کے وقت میں حضرت احدیت وجلال میں ایسے فنا کے قدم سے آتا ہے کہ اُس وقت وہ ہاتھ اُس کا ہاتھ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا ہاتھ ہوتا ہے.یہی دُعا ہے جس سے خدا پہچانا جاتا ہے اور اُس ذو الجلال کی ہستی کا پتہ لگتا ہے جو ہزاروں پردوں میں مخفی ہے.دُعا کرنے والوں کے لئے آسمان زمین سے نزدیک آ جاتا ہے اور دُعا قبول ہو کر مشکل کشائی کے لئے نئے اسباب پیدا کئے جاتے ہیں اور اُن کا علم پیش از وقت دیا جاتا ہے اور کم سے کم یہ کہ میخ آہنی کی طرح قبولیت دُعا کا یقین غیب سے دل میں بیٹھ جاتا ہے.سچ یہی ہے کہ اگر یہ دُعا نہ ہوتی تو کوئی انسان خداشناسی کے بارے میں حق الیقین تک نہ پہنچ سکتا.دُعا سے الہام ملتا ہے.دُعا سے ہم خدا تعالیٰ کے ساتھ کلام کرتے ہیں.جب انسان اخلاص اور توحید اور محبت اور صدق اور صفا کے قدم سے دُعا کرتا کرتا فنا کی حالت تک پہنچ جاتا ہے تب وہ زندہ خدا اُس پر ظاہر ہوتا ہے جو لوگوں سے پوشیدہ ہے دُعا کی ضرورت نہ صرف اس وجہ سے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۰ سورة المؤمن ہے کہ ہم اپنے دنیوی مطالب کو پاویں بلکہ کوئی انسان بغیر ان قدرتی نشانوں کے ظاہر ہونے کے جو دُعا کے بعد ظاہر ہوتے ہیں اُس بچے ذوالجلال خدا کو پاہی نہیں سکتا جس سے بہت سے دل دور پڑے ہوئے ہیں.نادان خیال کرتا ہے کہ دعا ایک لغو اور بیہودہ امر ہے مگر اُسے معلوم نہیں کہ صرف ایک دُعا ہی ہے جس سے خداوند ذوالجلال ڈھونڈنے والوں پر تجلی کرتا اور آنا القادر کا الہام اُن کے دلوں پر ڈالتا ہے.ہر ایک یقین کا بھوکا اور پیاسا یا در کھے کہ اس زندگی میں رُوحانی روشنی کے طالب کے لئے صرف دعا ہی ایک ذریعہ ہے جو خدا تعالیٰ کی ہستی پر یقین بخشا اور تمام شکوک و شبہات دور کر دیتا ہے.کیونکہ جو مقاصد بغیر دعا کے کسی کو حاصل ہوں وہ نہیں جانتا کہ کیوں کر اور کہاں سے اس کو حاصل ہوئے.بلکہ صرف تدبیروں پر زور مارنے والا اور دعا سے غافل رہنے والا یہ خیال نہیں کر سکتا کہ یقیناً و حقا خدا تعالیٰ کے ہاتھ نے اُس کے مقاصد کو اس کے دامن میں ڈالا ہے یہی وجہ ہے کہ جو شخص دُعا کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر کسی کامیابی کی بشارت دیا جاتا ہے وہ اس کام کے ہو جانے پر خدا تعالیٰ کی شناخت اور معرفت اور محبت میں آگے قدم بڑھاتا ہے اور اس قبولیت دُعا کو اپنے حق میں ایک عظیم الشان نشان دیکھتا ہے اور اسی طرح وقتا فوقتا یقین سے پر ہو کر جذباتِ نفسانی اور ہر ایک قسم کے گناہ سے ایسا مجتنب ہو جاتا ہے کہ گویا صرف ایک رُوح رہ جاتا ہے.لیکن جو شخص دُعا کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کے رحمت آمیز نشانوں کو نہیں دیکھتا وہ باوجود تمام عمر کی کامیابیوں اور بے شمار دولت اور مال اور اسباب تنم کے دولت حق الیقین سے بے بہرہ ہوتا ہے اور وہ کامیابیاں اس کے دل پر کوئی نیک اثر نہیں ڈالتیں بلکہ جیسے جیسے دولت اور اقبال پاتا ہے غرور اور تکبر میں بڑھتا جاتا ہے.خدا تعالیٰ پر اگر اس کو کچھ ایمان بھی ہو تو ایسا مردہ ایمان ہوتا ہے جو اُس کو نفسانی جذبات سے روک نہیں سکتا اور حقیقی پاکیزگی بخش نہیں سکتا.ایام اصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۴۰،۲۳۹) مقبولوں کی اوّل علامت مستجاب الدعوات ہونا ہے خاص کر اس حالت میں جب کہ اُن کا درددل نہایت تک پہنچ جائے پھر اس بات کو سوچیں کہ کیوں کر ممکن ہے کہ باوجود یکہ حضرت مسیح علیہ السلام نے مارے غم کے بے جان اور نا تو ان ہو کر ایک باغ میں جو پھل لانے کی جگہ ہے بکمال در دساری رات دعا کی اور کہا کہ اے میرے باپ اگر ممکن ہو تو یہ پیالہ مجھ سے ٹال دیا جائے مگر پھر بھی با ایں ہمہ سوز و گداز اپنی دعا کا پھل دیکھنے سے نامرادر ہا.یہ بات عارفوں اور ایمانداروں کے نزدیک ایسی جھوٹ ہے جیسا کہ دن کو کہا جائے کہ رات ہے یا اُجالے کو کہا جائے کہ اندھیرا ہے یا چشمہ شیریں کو کہا جائے کہ تلخ اور شور ہے.جس دعا میں رات
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام M سورة المؤمن کے چار پہر برابر سوز و گداز اور گریہ وزاری اور سجدات اور جانکاہی میں گزریں کبھی ممکن نہیں کہ خدائے کریم ورحیم ایسی دعا کو نا منظور کرے.خاص کر وہ دعا جو ایک مقبول کے منہ سے نکلی ہو.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۴۱، ۲۴۲) خدا کسی کام میں عاجز نہیں آتا.ہاں خدا کی کتاب نے دعا کے بارہ میں یہ قانون پیش کیا ہے کہ وہ نہایت رحم سے نیک انسان کے ساتھ دوستوں کی طرح معاملہ کرتا ہے یعنی بھی تو اپنی مرضی کو چھوڑ کر اس کی دعا سنتا ہے جیسا کہ خود فرمایا ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ اور بھی کبھی اپنی مرضی ہی منوانا چاہتا ہے جیسا کہ فرما یا لَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ (البقرۃ : ۱۵۲) ایسا اس لئے کیا کہ تا کبھی انسان کی دعا کے موافق اس سے معاملہ کر کے یقین اور معرفت میں اس کو ترقی دے اور کبھی اپنی مرضی کے موافق کر کے اپنی رضا کی اس کو خلعت بخشے اور اس کا مرتبہ بڑھاوے اور اس سے محبت کر کے ہدایت کی راہوں میں اس کو ترقی دیوے.کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۱ حاشیه ) ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُم دعا کرو میں قبول کروں گا.لیکچر لدھیانه ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۵۴) جابجا قرآن شریف میں دعا کی ترغیب دی ہے اور مجاہدہ کی طرف رغبت دلائی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ یعنی دعا کرو کہ میں تمہاری دعا قبول کروں گا.لیکچر لا ہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۵۹) یہ خیال کہ مقبولین کی ہر ایک دُعا قبول ہو جاتی ہے یہ سراسر غلط ہے بلکہ حق بات یہ ہے کہ مقبولین کے ساتھ خدا تعالیٰ کا دوستانہ معاملہ ہے بھی وہ اُن کی دُعائیں قبول کر لیتا ہے اور کبھی وہ اپنی مشیت اُن سے منوانا چاہتا ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ دوستی میں ایسا ہی ہوتا ہے.بعض وقت ایک دوست اپنے دوست کی بات کو مانتا ہے اور اُس کی مرضی کے موافق کام کرتا ہے اور پھر دوسرا وقت ایسا بھی آتا ہے کہ اپنی بات اُس سے منوانا چاہتا ہے اس کی طرف اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اشارہ فرماتا ہے جیسا کہ ایک جگہ قرآن شریف میں مومنوں کی استجابت دعا کا وعدہ کرتا ہے اور فرماتا ہے اُدْعُونِي اَسْتَجِبْ لَكُمْ یعنی تم مجھ سے دُعا کرو میں تمہاری دُعا قبول کروں گا اور دوسری جگہ اپنی نازل کردہ قضا و قدر پر خوش اور راضی رہنے کی تعلیم کرتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَی ءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصُّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُوْنَ) (البقرة : ۱۵۷) (حقیقة الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۵۷،۱۵۶)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۲ سورة المؤمن یا درکھو کہ غیر اللہ کی طرف جھکنا خدا سے کاٹنا ہے.نماز اور توحید کچھ ہی ہو کیونکہ توحید کے عمل اقرار کا نام ہی نماز ہے اسی وقت بے برکت اور بے خود ہوتی ہے جب اس میں نیستی اور تذلیل کی روح اور حنیف دل نہ ہو.سُنو وہ دعا جس کے لئے اُدْعُونِي اَسْتَجِبْ لَكُمُ فرمایا ہے اس کے لئے یہی سچی روح مطلوب ہے.اگر اس تضرع اور خشوع میں حقیقت کی روح نہیں تو وہ ٹیں ٹیں سے کم نہیں ہے.پھر کوئی کہہ سکتا ہے کہ اسباب کی رعایت ضروری نہیں ہے.یہ ایک غلط نہی ہے.شریعت نے اسباب کو منع نہیں کیا ہے اور سچ پوچھو تو کیا دعا اسباب نہیں ؟ یا اسباب دعا نہیں ؟ تلاش اسباب بجائے خود ایک دعا ہے اور دعا بجائے خود عظیم الشان اسباب کا چشمہ.انسان کی ظاہری بناوٹ اس کے دو ہاتھ دو پاؤں کی ساخت ایک دوسرے کی امداد کا ایک قدرتی راہنما ہے.جب یہ نظارہ خود انسان میں موجود ہے.پھر کس قدر حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ وہ تعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى (المائدة : ۳) کے معنے سمجھنے میں مشکلات کو دیکھے.ہاں میں یہ کہتا ہوں کہ تلاش اسباب بھی بذریعہ دعا کرو.میں نہیں سمجھتا کہ جب میں تمہارے جسم کے اندر اللہ تعالیٰ کا ایک قائم کردہ سلسلہ اور کامل راہنما سلسلہ دکھاتا ہوں تو اس سے انکار کرو.اللہ تعالی نے اس بات کو اور بھی صاف کرنے اور وضاحت سے دنیا پر کھول دینے کے لئے انبیاء علیہم السلام کا ایک سلسلہ دنیا میں قائم کیا.اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ اگر وہ چاہے تو کسی قسم کی امداد کی ضرورت ان رسولوں کو باقی نہ رہنے دے مگر پھر بھی ایک وقت ان پر آتا ہے کہ وہ مَنْ اَنْصَارِی إِلَى اللهِ (الصف: ۱۵) کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں.کیا وہ ایک ٹکڑ گدا فقیر کی طرح بولتے ہیں؟ نہیں ! مَنْ أَنْصَارِی إِلَى اللهِ کہنے کی بھی ایک شان ہوتی ہے وہ دُنیا کو ایک رعایت اسباب سکھانا چاہتے ہیں جو دعا کا ایک شعبہ ہے ورنہ اللہ تعالیٰ پر ان کو کامل ایمان اس کے وعدوں پر پورا یقین ہوتا ہے....دنیا اور دُنیا کی مدد میں ان لوگوں کے سامنے کالمیت ہوتی ہیں اور مردہ کیڑے کے برابر بھی حقیقت نہیں رکھتی ہیں لیکن دنیا کو دعا کا ایک موٹا طریق بتلانے کے لئے وہ یہ راہ بھی اختیار کرتے ہیں.ریویو آف ریلجز جلد ۳ نمبر اصفحہ جنوری ۱۹۰۴ صفحه ۸،۷) قبولیت دعا کے تین ہی ذریعے ہیں اوّل إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونى (ال عمران : ۳۲) دوم يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيمًا ( الاحزاب : ۵۷) تیسر ا موہبت الہی.ریویو آف ریلیجنز جلد ۳ نمبر ۱ جنوری ۱۹۰۴ء صفحه ۱۵) تدبیر کے پیدا ہونے سے پہلا مرتبہ دعا کا ہے جس کو قانون قدرت نے ہر ایک بشر کے لئے ایک امر لا بدی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۳ سورة المؤمن اور ضروری ٹھہرا رکھا ہے اور ہر ایک طالب مقصود کو طبعاً اس پل پر سے گزرنا پڑتا ہے پھر جائے شرم ہے کہ کوئی ایسا خیال کرے کہ دعا اور تدبیر میں کوئی تناقض ہے دعا کرنے سے کیا مطلب ہوتا ہے؟ یہی تو ہوتا ہے کہ وہ عالم الغیب جس کو دقیق در دقیق تدبیریں معلوم ہیں کوئی احسن تدبیر دل میں ڈالے یا بوجہ خالقیت اور قدرت اپنی طرف سے پیدا کرے پھر دعا اور تدابیر میں تناقض کیوں کر ہوا.علاوہ اس کے جیسا کہ تدبیر اور دعا کا باہمی رشتہ قانونِ قدرت کی شہادت سے ثابت ہوتا ہے ایسا ہی صحیفہ فطرت کی گواہی سے بھی یہی ثبوت ملتا ہے جیسا کہ دیکھا جاتا ہے کہ انسانی طبائع کسی مصیبت کے وقت جس طرح تدبیر اور علاج کی طرف مشغول ہوتی ہیں ایسا ہی طبعی جوش سے دعا اورصدقہ اور خیرات کی طرف جھک جاتی ہیں.اگر دُنیا کی تمام قوموں پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اب تک کسی قوم کا کانشنس اس متفق علیہا مسئلہ کے برخلاف ثابت نہیں ہوا.پس یہی ایک روحانی دلیل اس بات پر ہے کہ انسان کی شریعت باطنی نے بھی قدیم سے تمام قوموں کو یہی فتویٰ دیا ہے کہ وہ دُعا کو اسباب اور تدابیر سے الگ نہ کریں بلکہ دعا کے ذریعہ سے تدابیر کو تلاش کریں.غرض دعا اور تدبیر انسانی طبیعت کے دو طبعی تقاضے ہیں کہ جو قدیم سے اور جب سے کہ انسان پیدا ہوا ہے دو حقیقی بھائیوں کی طرح انسانی فطرت کے خادم چلے آئے ہیں اور تدبیر دعا کے لئے بطور نتیجہ ضروریہ کے اور دعا تدبیر کے لئے بطور محرک اور جاذب کے ہے اور انسان کی سعادت اسی میں ہے کہ وہ تد بیر کرنے سے پہلے دعا کے ساتھ مبدء فیض سے مدد طلب کرے تا اُس چشمہ لا زوال سے روشنی یا کر عمدہ تدبیریں میسر آسکیں.ریویو آف ریلیجنز جلد ۳ نمبر ۲ فروری ۱۹۰۴ صفحه ۴۲، ۴۳) بعض لوگ جلدی سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم دعا سے منع نہیں کرتے مگر دعا سے مطلب صرف عبادت ہے جس پر ثواب مترتب ہوتا ہے مگر افسوس کہ یہ لوگ نہیں سوچتے کہ ہر ایک عبادت جس کے اندر خدا تعالیٰ کی طرف سے روحانیت پیدا نہیں ہوتی اور ہر ایک ثواب جس کی محض خیال کے طور پر کسی آئندہ زمانہ پر امید رکھی جاتی ہے وہ سب خیال باطل ہے حقیقی عبادت اور حقیقی ثواب وہی ہے جس کے اسی دُنیا میں انوار اور برکات محسوس بھی ہوں ہماری پرستش کی قبولیت کے آثار یہی ہیں کہ ہم عین دعا کے وقت میں اپنے دل کی آنکھ سے مشاہدہ کریں کہ ایک تریاقی نور خدا سے اترتا اور ہمارے دل کے زہریلے مواد کو کھوتا اور ہمارے پر ایک شعلہ کی طرح گرتا اور فی الفور ہمیں ایک پاک کیفیت انشراح صدر اور یقین اور محبت اور لذت اور اُنس اور ذوق سے پر کر دیتا ہے.اگر یہ امر نہیں ہے تو پھر دعا اور عبادت بھی ایک رسم اور عادت ہے.ہر ایک دعا گو ہماری
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۸۴ سورة المؤمن دنیوی مشکل کشائی کے لئے ہو مگر ہماری ایمانی حالت اور عرفانی مرتبت پرگزر کر آتی ہے یعنی اول ہمیں ایمان اور عرفان میں ترقی بخشتی ہے اور ایک پاک سکینت اور انشراح صدر اور اطمینان اور حقیقی خوشحالی ہمیں عطا کر کے پھر ہماری دنیوی مکروہات پر اپنا اثر ڈالتی ہے اور جس پہلو سے مناسب ہے اس پہلو سے ہمارے غم کو دُور کر دیتی ہے پس اس تمام تحقیقات سے ثابت ہے کہ دعا اسی حالت میں دعا کہلا سکتی ہے کہ جب در حقیقت اس میں ایک قوت کشش ہو اور واقعی طور پر دعا کرنے کے بعد آسمان سے ایک نو را ترے جو ہماری گھبراہٹ کو دور کرے اور ہمیں انشراح صدر بخشے اور سکینت اور اطمینان عطا کرے.ہاں حکیم مطلق ہماری دعاؤں کے بعد دوطور سے نصرت اور امداد کو نازل کرتا ہے (۱) ایک یہ کہ اس بلا کو دور کر دیتا ہے جس کے نیچے ہم دب کر مرنے کو تیار ہیں (۲) دوسرے یہ کہ بلا کی برداشت کے لئے ہمیں فوق العادت قوت عنایت کرتا ہے بلکہ اس میں لذت بخشتا ہے اور انشراح صدر عنایت فرماتا ہے.پس ان دونوں طریقوں سے ثابت ہے کہ دعا سے ضرور نصرت الہی نازل ہوتی ہے.ریویو آف ریلیجنز جلد ۳ نمبر ۲ فروری ۱۹۰۴ صفحه ۴۸) دُعا جو خدا تعالی کی پاک کلام نے مسلمانوں پر فرض کی ہے اس کی فرضیت کے چار سبب ہیں (۱) ایک یہ کہ تاہر ایک وقت اور ہر ایک حالت میں خدا تعالیٰ کی طرف رجوع ہو کر توحید پر پختگی حاصل ہو کیونکہ خدا سے مانگنا اس بات کا اقرار کرنا ہے کہ مرادوں کا دینے والا صرف خدا ہے.(۲) دوسرے یہ کہ تا دُعا کے قبول ہونے اور مراد کے ملنے پر ایمان قوی ہو.(۳) تیسرے یہ کہ اگر کسی اور رنگ میں عنایت الہی شامل حال ہو تو علم اور حکمت زیادت پکڑے.(۴) چوتھے یہ کہ اگر دعا کی قبولیت کا الہام اور رویا کے ساتھ وعدہ دیا جائے اور اسی طرح ظہور میں آوے تو معرفت الہی ترقی کرے اور معرفت سے یقین اور یقین سے محبت اور محبت سے ہر ایک گناہ اور غیر اللہ سے انقطاع حاصل ہو جو حقیقی نجات کا ثمرہ ہے لیکن اگر کسی کو بطور خود مرادیں ملتی جائیں اور خدا تعالیٰ سے دُوری اور محجوبی ہو تو وہ تمام مراد میں انجام کارحسرتیں ہیں اور وہ تمام مقاصد جن پر فخر کیا جاتا ہے آخرالامر جائے افسوس اور تاسف ہیں.دُنیا کے تمام عیش آخر رنج سے بدل جائیں گے اور تمام راحتیں دُکھ اور درد دکھائی دیں گی مگر وہ بصیرت اور معرفت جو انسان کو دعا سے حاصل ہوتی ہے اور وہ نعمت جو دعا کے وقت آسمانی خزانہ سے ملتی ہے وہ کبھی کم نہ ہوگی اور نہ اس پر زوال آئے گا بلکہ روز بروز معرفت اور محبت الہی میں ترقی ہو کر انسان اس زینہ کے ذریعے سے جو دعا ہے فردوس اعلیٰ کی طرف چڑھتا جائے گا.ریویو آف ریلیجنز جلد ۳ نمبر ۲ فروری ۱۹۰۴ ء صفحه ۵۱،۵۰)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۵ سورة المؤمن دعاؤں میں اثر ہوتے ہیں مگر صبر سے ان کا ظہور ضرور ہوتا ہے.میرے نزدیک نہایت ہی خوش قسمت وہ شخص ہے جو ہمیشہ اپنے تئیں دعا کے سلسلہ کے نزدیک رکھتا ہے.اگر تمام جہاں اس قول کے برخلاف ہو جائے تب بھی وہ سب غلطی پر ہیں.دعا سے بڑے بڑے انقلاب پیدا ہو جاتے ہیں.دُعازمین سے لے کر آسمان تک اپنا اثر رکھتی ہے.عجیب کرشمے دکھاتی ہے.ہاں پورے طور پر اس زندہ دعا کا ظہور میں آجانا اور ہو جانا یہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے.( مکتوبات احمد به جلد ۵ حصہ اول صفحه ۲۰ مکتوب نمبر ۵۳ بنام حضرت سیٹھ عبد الرحمان صاحب مدراسی ) میرے خدائے کریم و قدیر کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنے ارادوں کو جو دعاؤں کی قبولیت کے بعد ظاہر کرنا چاہتا ہے اکثر دیر اور آہستگی سے ظاہر کرتا ہے تا جو بد بخت اور شتاب کار ہیں وہ بھاگ جائیں اور اس خاص طور سے فضل کا انہیں کو حصہ ملے جو خدا تعالیٰ عزوجل کے دفتر میں سعید لکھے گئے ہیں.مکتوبات احمدیہ جلد ۵ حصہ اوّل صفحه ۳۴ مکتوب نمبر ۸۳ بنام حضرت سیٹھ عبد الرحمان صاحب مدراسی ) بعض اوقات انسان کسی دعا میں ناکام رہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خدائے تعالیٰ نے دعا رد کر دی حالانکہ خدائے تعالیٰ اُس کی دعا کوشن لیتا ہے اور وہ اجابت بصورت ر ڈ ہی ہوتی ہے کیونکہ اُس کے لئے در پردہ اور حقیقت میں بہتری اور بھلائی اس کے رڈ ہی میں ہوتی ہے.انسان چونکہ کوتاہ بین اور دور اندیش نہیں بلکہ ظاہر پرست ہے اس لئے اس کو مناسب ہے کہ جب اللہ تعالی سے کوئی دعا کرے اور وہ بظاہر اس کے مفید مطلب نتیجہ خیز نہ ہو تو خدا پر بدظن نہ ہو کہ اُس نے میری دعا نہیں سنی.وہ تو ہر ایک کی دُعائنتا ہے.ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ فرماتا ہے.راز اور بھید یہی ہوتا ہے کہ داعی کے لئے خیر اور بھلائی رو دعا ہی میں ہوتی ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۱۳۱) ہماری دعا کا جو تعلق خدائے تعالیٰ سے ہے میں چاہتا ہوں کہ اُسے بھی بیان کر دوں.ایک بچہ جب بھوک سے بیتاب ہو کر دودھ کے لئے چلاتا اور چیختا ہے تو ماں کے پستان میں دودھ جوش مار کر آجاتا ہے.بچہ دعا کا نام بھی نہیں جانتا لیکن اس کی چھینیں دودھ کو کیوں کر کھینچ لاتی ہیں؟ اس کا ہر ایک کو تجربہ ہے.بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ مائیں دودھ کو محسوس بھی نہیں کرتیں مگر بچہ کی چلا ہٹ ہے کہ دُودھ کو کھینچ لاتی ہے.تو کیا ہماری چیچنیں جب اللہ تعالیٰ کے حضور ہوں تو وہ کچھ بھی نہیں کھینچ کر لاسکتیں؟ آتا ہے اور سب کچھ آتا ہے مگر آنکھوں کے اندھے جو فاضل اور فلاسفر بنے بیٹھے ہیں وہ دیکھ نہیں سکتے.بچہ کو جو مناسبت ماں سے ہے اس تعلق اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۶ سورة المؤمن رشتہ کو انسان اپنے ذہن میں رکھ کر اگر دعا کی فلاسفی پر غور کرے تو وہ بہت آسان اور سہل معلوم ہوتی ہے.دوسری قسم کا رحم یہ تعلیم دیتا ہے کہ ایک رحم مانگنے کے بعد پیدا ہوتا ہے مانگتے جاؤ گے ملتا جاوے گا.اُدْعُونِي اَسْتَجِبْ لَكُمْ کوئی لفاظی نہیں بلکہ یہ انسانی سرشت کا ایک لازمہ ہے.مانگنا انسان کا خاصہ ہے اور استجابت اللہ تعالیٰ کا.جو نہیں سمجھتا اور نہیں مانتا وہ جھوٹا ہے.بچہ کی مثال جو میں نے بیان کی ہے وہ دعا کی فلاسفی خوب حل کر کے دکھاتی ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۱۵۰،۱۴۹) قضائے معلق اور مبرم کا ماخذ اور پتہ قرآن کریم سے ملتا ہے.یہ الفاظ کو نہیں مثلاً قرآن کریم میں فرمایا ب ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ.ترجمہ دعا مانگو میں قبول کروں گا.اب یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا قبول ہو سکتی ہے اور دعا سے عذاب ٹل جاتا ہے اور ہزار ہا کیا گل کام دعا سے نکلتے ہیں.یہ بات یادر رکھنے کے قابل ہے کہ اللہ تعالی کا گل چیزوں پر قادر نہ تصرف ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اس کے پوشیدہ تصرفات کی لوگوں کو خواہ خبر ہو یا نہ ہونگر صد ہا تجربہ کاروں کے وسیع تجربے اور ہزار بادردمندوں کی دعا کے صریح نتیجے بتلار ہے ہیں کہ اس کا ایک پوشیدہ اور مخفی تصرف ہے وہ جو چاہتا ہے محو کرتا ہے اور جو چاہتا ہے اثبات کرتا ہے.الحکم جلد ۳ نمبر ۱۳ مورخه ۱۲ را پریل۱۸۹۹ء صفحه ۳) خدا تعالیٰ نے جو اُدعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ فرما یا.یہ نری لفاظی نہیں ہے بلکہ انسانی شرف اسی کا متقاضی ہے مانگنا انسانی خاصہ ہے اور استجابت اللہ تعالیٰ کا.جو نہیں مانتا وہ ظالم ہے.الحکام جلد ۵ نمبر ۳۳ مورخه ۱۰ ستمبر ۱۹۰۱ صفحه ۱) یا درکھو اللہ تعالی بڑا ہی کریم ورحیم اور با مروت ہے.جب کوئی اس کی رضا کو مقدم کر لیتا ہے اور اس کی مرضی پر راضی ہو جاتا ہے تو وہ اس کو اس کا بدلہ دیئے بغیر نہیں چھوڑتا.غرض یہ تو وہ مقام اور مرحلہ ہے جہاں وہ اپنی بات منوانی چاہتا ہے.دوسرا مقام اور مرحلہ وہ ہے جو اس نے اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ میں فرمایا ہے.یہاں وہ اس کی بات ماننے کا وعدہ فرماتا ہے.الخام جلد ۹ نمبر ۱۸ مورخه ۲۴ مئی ۱۹۰۵ صفحه ۸) قرآن شریف پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دُعا ؤں کو سنتا ہے اور وہ بہت ہی قریب ہے.لیکن اگر خدا تعالیٰ کی صفات اور اسماء کا لحاظ نہ کیا جائے اور دُعا کی جائے تو وہ کچھ بھی اثر نہیں رکھتی.صرف اس ایک راز کے معلوم نہ ہونے کہ وجہ سے نہیں بلکہ معلوم نہ کرنے کی وجہ سے دنیا ہلاک ہو رہی ہے.میں نے بہت لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ ہم نے بہت دُعائیں کیں اور ان کا نتیجہ کچھ نہیں ہوا.اور اس نتیجہ نے اُن
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۷ سورة المؤمن کو دہر یہ بنادیا.بات اصل میں یہ ہے کہ ہر امر کے لیے قواعد اور قوانین ہوتے ہیں.ایسا ہی دُعا کے واسطے قواعد وقوانین مقرر ہیں یہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہماری دعا قبول نہیں ہوئی، اس کا باعث یہی ہے کہ وہ ان قواعد اور مراتب کا لحاظ نہیں رکھتے جو قبولیت دُعا کے واسطے ضروری ہیں.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۱ مورخه ۲۴ مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۲) میرا یہ مذہب ہے کہ جب تک دشمن کے لئے دعا نہ کی جاوے پورے طور پر سینہ صاف نہیں ہوتا ہے.ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمر میں اللہ تعالی نے کوئی قید نہیں لگائی کہ دشمن کے لیے دعا کرو تو قبول نہیں کروں گا بلکہ میرا تو یہ مذہب ہے کہ دشمن کے لئے دعا کرنا بھی سنت نبوی ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسی سے مسلمان ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے لئے اکثر دعا کیا کرتے تھے.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۹ مورخه ۱۷اراگست ۱۹۰۲ ء صفحه ۶،۵) بولنے والا خدا صرف ایک ہی ہے جو اسلام کا خدا ہے جو قرآن نے پیش کیا ہے.جس نے کہا اُدعُونِي اسْتَجِبْ لَكُمْ تم مجھے پکارو میں تم کو جواب دوں گا اور یہ بالکل سچی بات ہے.کوئی ہو جو ایک عرصہ تک کچی نیت اور صفائی قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہو.وہ مجاہدہ کرے اور دعاؤں میں لگا ر ہے.آخر اس کی دعاؤں کا جواب اُسے ضرور دیا جاوے گا.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۵ مورخه ۱۷ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۲) یا درکھنا چاہیے کہ قرآن شریف دہریوں کی طرح تمام امور کو اسباب طبیعہ تک محدود رکھنا نہیں چاہتا بلکہ خالص توحید پر پہنچانا چاہتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ لوگوں نے دعا کی حقیقت کو نہیں سمجھا اور نہ قضا و قدر کے تعلقات کو جو دعا کے ساتھ ہیں مدبر کی نگاہ سے دیکھا ہے.جولوگ دعا سے کام لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے لیے راہ کھول دیتا ہے.وہ دعا کو رد نہیں کرتا.ایک طرف دعا ہے.دوسری طرف قضا و قدر.خدا نے ہر ایک کے لیے اپنے رنگ میں اوقات مقرر کر دیئے ہیں.اور ربوبیت کے حصہ کو عبودیت میں دیا گیا ہے اور فرمایا ہے ادْعُونِي اَسْتَجِبْ لَكُم مجھے پکارو میں جواب دوں گا......قضاوقدر کا دعا کے ساتھ بہت بڑا تعلق ہے.دعا کے ساتھ معلق تقدیر ٹل جاتی ہے.جب مشکلات پیدا ہوتے ہیں تو دعا ضرور اثر کرتی ہے.جو لوگ دُعا سے منکر ہیں ، ان کو ایک دھوکہ لگا ہوا ہے.قرآن شریف نے دعا کے دو پہلو بیان کئے ہیں.ایک پہلو میں اللہ تعالیٰ اپنی منوانا چاہتا ہے اور دوسرے پہلو میں بندے کی مان لیتا ہے.وَلَنَبْلُونَكُمْ بِشَيْ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ (البقرة : ۱۵۲) میں تو اپنا حق رکھ کر منوانا چاہے.نون ثقیلہ کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۸ سورة المؤمن ذریعہ سے جواظہار تاکید کیا ہے.اس سے اللہ تعالیٰ کا یہ منشا ہے کہ قضائے مبرم کو ظاہر کریں گے تو اس کا علاج إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ (المطرة : ۱۵۷) ہی ہے.اور دوسرا وقت خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کی امواج کے جوش کا ہے وہ اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ میں ظاہر کیا ہے.پس مومن کو ان دونو مقامات کا پورا علم ہونا چاہیے.صوفی کہتے ہیں کہ فقر کامل نہیں ہوتا، جب تک محل اور دونو موقع کی شناخت حاصل نہ ہو بلکہ کہتے ہیں کہ صوفی دعا نہیں کرتا کہ وقت کو شناخت نہ کرے.سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دعا کے ساتھ شقی سعید کیا جاتا ہے، بلکہ وہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ شدید الاختفا امور مشبه بالمبرم بھی دور کیے جاتے ہیں.الغرض دعا کی اس تقسیم کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ کبھی اللہ تعالیٰ اپنی منوانا چاہتا ہے اور کبھی وہ مان لیتا ہے.یہ معاملہ گویا دوستانہ معاملہ ہے.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جیسی عظیم الشان قبولیت دعاؤں کی ہے.اس کے مقابل رضا اور تسلیم کے بھی آپ اعلیٰ درجہ کے مقام پر ہیں.احکام جلد ۶ نمبر ۸ مورخه ۲۸ فروری ۱۹۰۲ صفحه ۳، ۴) میرے نزدیک خدا تعالیٰ کا خوف اور خشیت ایسی چیز ہے جو انسان کی گناہ کی زندگی پر موت وارد کرتی ہے.جب سچا خوف دل میں پیدا ہوتا ہے تو پھر دعا کے لیے تحریک ہوتی ہے اور دعا وہ چیز ہے جو انسان کی کمزوریوں کا جبر نقصان کرتی ہے.اس لیے دعا کرنی چاہیے.خدا تعالیٰ کا وعدہ بھی ہے اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لکھ لكم بعض وقت انسان کو ایک دھوکا لگتا ہے کہ وہ عرصہ دراز تک ایک مطلب کے لیے دعا کرتا ہے اور وہ مطلب پورانہیں ہو تا تب وہ گھبرا جاتا ہے حالانکہ گھبرانا نہ چاہیے.بلکہ طلبگار باید صبور وحمول.دعا تو قبول ہو جاتی ہے لیکن انسان کو بعض دفعہ پتہ نہیں لگتا کیونکہ وہ اپنی دعا کے انجام اور نتائج سے آگاہ نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ جو عالم الغیب ہے اس کے لیے وہ کرتا ہے جو مفید ہوتا ہے.اس لیے نادان انسان یہ خیال کر لیتا ہے کہ میری دعا قبول نہیں ہوئی حالانکہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے علم میں یہی مفید تھا کہ وہ دعا اس طرح پر قبول نہ ہو بلکہ کسی اور رنگ میں ہو.اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک بچہ اپنی ماں سے آگ کا سرخ انگارہ دیکھ کر مانگے تو کیا دانشمند ماں اُسے دے دے گی؟ کبھی نہیں.اسی طرح پر دعا کے متعلق کبھی ہوتا ہے.غرض دعائیں کرنے سے کبھی جھکنا نہیں چاہیے.دُعاہی ایسی چیز ہے جو خدا تعالی کی طرف سے ایک قوت اور نور عطا کرتی ہے.جس سے انسان بدی پر غالب آجاتا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۱ مورخه ۳۱ اگست ۱۹۰۲ صفحه ۲)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۸۹ سورة المؤمن دعاؤں میں استقلال اور صبر ایک الگ چیز ہے اور اکثر کر مانگنا اور بات ہے.یہ کہنا کہ میرا فلاں کام اگر نہ ہوا تو میں انکار کر دوں گا یا یہ کہہ دوں گا یہ بڑی نادانی اور شرک ہے اور آداب الدعا سے ناواقفیت ہے.ایسے لوگ دعا کی فلاسفی سے ناواقف ہیں.قرآن شریف میں یہ کہیں نہیں لکھا ہے کہ ہر ایک دُعا تمہاری مرضی کے موافق میں قبول کروں گا.بیشک یہ ہم مانتے ہیں کہ قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے اُدْعُونِي اَسْتَجِبْ لَكُمْ لیکن ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ اسی قرآن شریف میں یہ بھی لکھا ہوا ہے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ الآية (البقرة : ۱۵۲) - ادْعُونِ اسْتَجِبْ لَكُمْ میں اگر تمہاری مانتا ہے تو لنبلونکم میں اپنی منوانی چاہتا ہے.یہ خدا تعالیٰ کا احسان اور اس کا کرم ہے کہ وہ اپنے بندہ کی بھی مان لیتا ہے ورنہ اس کی الوہیت اور ربوبیت کی شان کے یہ ہرگز خلاف نہیں کہ اپنی ہی منوائے.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۶ مورخه ۱۰/اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۳) اِيَّاكَ نَعْبُدُ اور اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ اور لَنَبْلُوَنَّكُمْ کو ملایا ہے.نَعْبُدُ تو یہی ہے کہ بھلائی برائی کا خیال نہ رہے.سلب امید دامانی ہو.اور ایاک نستعین میں دُعا کی تعلیم ہے.اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ الحکم جلد ۶ نمبر ۳۶ مورخه ۱۰/اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحه ۱۴) دُعا کرنا اور کرانا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.دُعا کے لئے جب درد سے دل بھر جاتا ہے اور سارے حجابوں کو توڑ دیتا ہے اس وقت سمجھنا چاہیے کہ دُعا قبول ہو گئی.یہ اسم اعظم ہے.اس کے سامنے کوئی ان ہونی چیز نہیں ہے.ایک خبیث کے لئے جب دعا کے ایسے اسباب میسر آجائیں تو یقیناً وہ صالح ہو جاوے اور بغیر دعا کے وہ اپنی تو بہ پر بھی قائم نہیں رہ سکتا.بیمار اور مجوب اپنی دستگیری آپ نہیں کرسکتا.سنت اللہ کے موافق یہی ہوتا ہے کہ جب دُعائیں انتہا تک پہنچتی ہیں تو ایک شعلہ نور کا اس کے دل پر گرتا ہے جو اس کی ساری خباثتوں کو جلا کر تاریکی دُور کرتا اور اندر ایک روشنی پیدا کرتا ہے یہ طریق استجابت دعا کا رکھا ہے.الحکم جلدے نمبر ۸ مورخه ۲۸ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۶،۵ ) خدا تعالیٰ نے تو انسان سے نہایت تنزل کے رنگ میں دوستانہ برتاؤ کیا ہے.دوستانہ تعلق کیا ہوتا ہے یہی کہ کبھی ایک دوست دوسرے دوست کی بات کو مان لیتا ہے اور کبھی دوسرے سے اپنی بات منوانا چاہتا ہے چنانچہ خدا تعالیٰ بھی ایسا ہی کرتا ہے چنانچہ ادْعُونِي اَسْتَجِبْ لَكُمْ اور إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِي فَإِنِّي قَرِيبٌ أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ الآية (البقرة : ۱۸۷) سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ انسان کی بات کو مان لیتا ہے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۰ سورة المؤمن اور اس کی دعا کو قبول فرماتا ہے اور دوسری جگہ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا في الآية اور وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی بات منوانا چاہتا ہے.بعض لوگ اللہ تعالیٰ پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ ہماری دعا کو قبول نہیں کرتا یا اولیاء لوگوں پر طعن کرتے ہیں کہ ان کی فلاں دعا قبول نہیں ہوئی.اصل میں وہ نا دان اس قانون الہی سے نا آشنا محض ہوتے ہیں جس انسان کو خدا سے ایسا معاملہ پڑا ہو گا وہ خوب اس قاعدہ سے آگاہ ہوگا.اللہ تعالیٰ نے مان لینے کے اور منوانے کے دو نمونے پیش کئے ہیں.انہی کو مان لینا ایمان ہے تم ایسے نہ بنو کہ ایک ہی پہلو پر زور دو.ایسا نہ ہو کہ تم خدا کی مخالفت کر کے اس کے مقررہ قانون کو توڑنے کی کوشش کرنے والے بنو.الحکم جلد نمبر ۱۱ مورخه ۲۴ / مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۱۲) جس حالت میں اب اسلام ہے اس کا علاج اب سوائے دعا کے اور کیا ہوسکتا ہے.لوگ جہاد جہاد کہتے ہیں مگر اس وقت تو جہاد حرام ہے.اس لئے خدا نے مجھے دُعاؤں میں وہ جوش دیا ہے.جیسے سمندر میں ایک جوش ہوتا ہے چونکہ توحید کے لئے دُعا کا جوش دل میں ڈالا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ارادہ الہی بھی یہی ہے جیسا کہ اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَکھ اس کا وعدہ ہے.(البدر جلد ۲ نمبر ۱۱ مورخه ۳ را پریل ۱۹۰۳ صفحه ۸۱) لَكُمْ ہر ایک شے کی ایک اُم ہوتی ہے میں نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ کے جو انعامات ہیں ان کی اُم کیا ہے؟ خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ ان کی اُمّ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُھ ہے کوئی انسان بدی سے بچ نہیں سکتا جب تک خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہو پس ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ فرما کر یہ جتلا دیا کہ عاصم وہی ہے اس کی طرف تم ہوپس البدر جلد ۲ نمبر ۲۲ مورخه ۱۹ جون ۱۹۰۳ ء صفحه ۱۶۹) رجوع کرو.انسان کو چاہیے کہ اپنے عیبوں کو شمار کرے اور دُعا کرے پھر اللہ تعالیٰ بچاوے تو بیچ سکتا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مجھ سے دُعا کرو میں مانوں گا.اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (البدر جلد ۲ نمبر ۲۸ مورخه ۳۱ جولائی ۱۹۰۳ ء صفحہ ۲۱۷) اس سے بڑھ کر انسان کے لیے فخر نہیں کہ وہ خدا کا ہو کر رہے جو اس سے تعلق رکھتے ہیں وہ ان سے مساوات بنالیتا ہے.کبھی ان کی مانتا ہے اور کبھی اپنی منواتا ہے ایک طرف فرماتا ہے اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُم دوسری طرف فرماتا ہے وَلَنَبْلُونَكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَونِ (البقرة :۱۵۲) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک مقام دعا کا نہیں ہوتا.نَبْلُوَنَّكُمْ کے موقع پر اِنَّا لِلَّهِ وَ اِنَّا اِلَيْهِ رُجِعُونَ کہنا پڑے گا.یہ مقام صبر اور رضا کے ہوتے ہیں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۱ سورة المؤمن لوگ ایسے موقع پر دھوکا کھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دعا کیوں قبول نہیں ہوتی ان کا خیال ہے کہ خدا ہماری مٹھی میں ہے جب چاہیں گے منوالیویں گے بھلا امام حسین علیہ السلام پر جو ابتلا آیا تو کیا انہوں نے دعانہ مانگی ہوگی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قدر بچے فوت ہوئے تو کیا آپ نے دعانہ کی ہوگی بات یہ ہے کہ یہ مقام صبر اور رضا کے تھے.البدر جلد ۲ نمبر ۴۱، ۴۲ مورخه ۲۹/اکتوبر و ۸ نومبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۲۲،۳۲۱) تقویٰ کا مرحلہ بڑا مشکل ہے اسے وہی طے کر سکتا ہے جو بالکل خدا کی مرضی پر چلے جو وہ چاہے وہ کرے.اپنی مرضی نہ کرے بناوٹ سے کوئی حاصل کرنا چاہے تو ہر گز نہ ہوگا.اس لئے خدا کے فضل کی ضرورت ہے اور وہ اسی طرح سے ہو سکتا ہے کہ ایک طرف تو دعا کرے اور ایک طرف کوشش کرتا رہے خدا تعالیٰ نے دعا اور کوشش دونوں کی تاکید فرمائی ہے.اُدْعُونِي اَسْتَجِبْ لَكُمْ میں تو دعا کی تاکید فرمائی ہے اور وَالَّذِینَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت : ۷۰) میں کوشش کی.وو البدر جلد ۳ نمبر ۲ مورخه ۸ /جنوری ۱۹۰۴ء صفحه ۳) دوستی کا اصول یہ ہے کہ کبھی اپنی اس سے منوائے اور کبھی اس کی آپ مانے اور یہی طریق خدا نے بھی بتلایا ہے.ایک جگہ تو فرماتا ہے اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ کہ تم مانگو تو میں دوں گا یعنی تمہاری بات مانوں گا اور دوسری جگہ اپنی منواتا ہے اور فرماتا ہے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ الخ.البدر جلد ۳ نمبر ۲ مورخه ۸/جنوری ۱۹۰۴ صفحه ۵) اس میں شک نہیں ہے کہ انسان بعض اوقات تدبیر سے فائدہ اٹھا تا ہے لیکن تدبیر پر گھی بھروسہ کر ناسخت نادانی اور جہالت ہے جب تک تدبیر کے ساتھ دعا نہ ہو کچھ نہیں اور دعا کے ساتھ تد بیر نہ ہو تو کچھ فائدہ نہیں.جس کھڑکی کی راہ سے معصیت آتی ہے پہلے ضروری ہے کہ اس کھڑکی کو بند کیا جاوے پھر نفس کی کشاکش کے لیے دعا کرتا رہے.اسی کے واسطے کہا ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت : ٧٠) اس میں کس قدر ہدایت تدابیر کو عمل میں لانے کے واسطے کی گئی ہیں تدابیر میں بھی خدا کو نہ چھوڑے دوسری طرف فرماتا ہے اُدْعُونِي اَسْتَجِبْ لَكُمْ.پس اگر انسان پورے تقویٰ کا طالب ہے تو تد بیر کرے اور دعا کرے.دونوں کو جو بجالانے کا حق ہے بجالائے تو ایسی حالت میں خدا اس پر رحم کرے گا لیکن اگر ایک کرے گا اور دوسری کو چھوڑ دے گا تو محروم رہے گا.الحکم جلد ۸ نمبر ۸ مورخه ۱۰ / مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۷ ) جَاهَدُوا فینا کے یہی معنے ہیں کہ حصول تقویٰ کے لئے حتی الوسع تدابیر کو کام میں لاوے اور پھر دوسری
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۲ سورة المؤمن جگہ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لکھ کہ کر بتلادیا کہ جب تدابیر کر چکو تو پھر خدا سے دعا مانگو وہ قبول ہوگی.البدر جلد ۳ نمبر ۹ مورخہ یکم مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۳) کامل ایمان ہو تو دُعائیں بھی قبول ہوتی ہیں اور اُدْعُونِي اَسْتَجِبْ لَكُم خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے جو خلاف نہیں ہوتا.الحکم جلد ۸ نمبر ۸ مورخہ ۱۰ / مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۷) انسان اپنی شتاب کاری اور جلد بازی کی وجہ سے محروم ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ بالکل سچا ہے ادْعُونِي اَسْتَجِبْ لَكُمْ.پس تم اس مانگو اور پھر مانگو اور پھر مانگو.جو مانگتے ہیں ان کو دیا جاتا ہے ہاں یہ ضروری ہے کہ دُعا ہوتری بک بک نہ ہو اور زبان کی لاف زنی اور چرب زبانی ہی نہ ہو.ایسے لوگ جنہوں نے دُعا کے لیے استقامت اور استقلال سے کام نہیں لیا اور آداب دعا کو ملحوظ نہیں رکھا جب ان کو کچھ ہاتھ نہ آیا تو آخر وہ دعا اور اس کے اثر سے منکر ہو گئے اور پھر رفتہ رفتہ خدا تعالیٰ سے بھی منکر ہو بیٹھے کہ اگر خدا ہوتا تو ہماری دعا کو کیوں نہ سنتا.ان احمقوں کو اتنا معلوم نہیں کہ خدا تو ہے مگر تمہاری دعائیں بھی دعائیں ہوتیں، پنجابی زبان میں ایک ضرب المثل ہے جو دُعا کے مضمون کو خوب ادا کرتی ہے اور وہ یہ ہے جو منگے سوئر رہے مرے سومنگن جا یعنی جو مانگنا چاہتا ہے اس کو ضروری ہے کہ ایک موت اپنے اوپر وار دکرے اور مانگنے کا حق اسی کا ہے جو اول اس موت کو حاصل کر لے حقیقت میں اسی موت کے نیچے دعا کی حقیقت ہے.اصل بات یہ ہے کہ دعا کے اندر قبولیت کا اثر اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ انتہائی درجہ کے اضطرار تک پہنچ جاتی ہے.جب انتہائی درجہ اضطرار کا پیدا ہو جاتا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی قبولیت کے آثار اور سامان بھی پیدا ہو جاتے ہیں پہلے سامان آسمان پر کئے جاتے ہیں اس کے بعد وہ زمین پر اثر دکھاتے ہیں یہ چھوٹی سی بات نہیں بلکہ ایک عظیم الشان حقیقت ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جس کو خدائی کا جلوہ دیکھنا ہواسے چاہیئے کہ دعا کرے.انتقام جلد ۸ نمبر ۱۳ مورخہ ۷ اسرا پریل ۱۹۰۴ صفحه ۶ ) ان آنکھوں سے وہ نظر نہیں آتا بلکہ دعا کی آنکھوں سے نظر آتا ہے کیونکہ اگر دعا کے قبول کرنے والے کا پتہ نہ لگے تو جیسے لکڑی کو گھن لگ کر وہ نکمی ہو جاتی ہے ویسے ہی انسان پکار پکار کر تھک کر آخر د ہر یہ ہوجاتا ہے ایسی دعا چاہیئے کہ اس کے ذریعہ ثابت ہو جاوے کہ اس کی ہستی برحق ہے جب اس کو یہ پتہ لگ جاوے گا تو اس وقت وہ اصل میں صاف ہو گا.یہ بات اگر چہ بہت مشکل نظر آتی ہے لیکن اصل میں مشکل بھی نہیں ہے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بشر طیکہ تدبیر اور دعا دونوں سے کام لیوے.۹۳ سورة المؤمن البدر جلد ۳ نمبر ۱۱ مورخه ۱۶ / مارچ ۱۹۰۴ ء صفحه ۸) ادنی اور اعلیٰ سب حاجتیں بغیر شرم کے خدا سے مانگو کہ اصل معطی وہی ہے.بہت نیک وہی ہے جو بہت دعا کرتا ہے کیونکہ اگر کسی بخیل کے دروازہ پر سوالی ہر روز جا کر سوال کرے گا تو آخر ایک دن اس کو بھی شرم آجاوے گی.پھر خدا تعالیٰ سے مانگنے والا جو بے مثل کریم ہے کیوں نہ پائے؟ پس مانگنے والا کبھی نہ کبھی ضرور پالیتا ہے.نماز کا دوسرا نام دُعا بھی ہے جیسے فرما یا اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ - الحام جلد ۸ نمبر ۳۹٫۳۸ مورخه ۱۰/ نومبر ۱۹۰۴ صفحه ۶) دوسرا طریق حقیقی پاکیزگی کے حاصل کرنے اور خاتمہ بالخیر کے لئے جو خدا تعالیٰ نے سکھایا ہے وہ دُعا ہے اس لئے جس قدر ہو سکے دعا کرو.یہ طریق بھی اعلیٰ درجہ کا مجرب اور مفید ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے خود وعدہ فرمایا ہے اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لکھ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہارے لئے قبول کروں گا.دعا ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے ساتھ مسلمانوں کو فخر کرنا چاہیے.دوسری قوموں کو دعا کی کوئی قدر نہیں اور نہ انہیں اس پاک طریق پر کوئی فخر اور ناز ہو سکتا ہے.بلکہ یہ فخر اور ناز صرف اسلام ہی کو ہے دوسرے مذاہب اس سے بکلی الحکم جلد ۹ نمبر امورخه ۱۰/جنوری ۱۹۰۵ء صفحه ۳) بے بہرہ ہیں.میں یقیناً کہتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ انبیاء علیہم السلام کو اطمینان جب نصیب ہوا ہے تو ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ پر عمل کرنے سے ہی ہوا ہے.مجاہدات عجیب اکسیر ہیں.الحکم جلد ۹ نمبر ۲۴ مورخه ۱۰ر جولائی ۱۹۰۵ صفحه ۹) اس میں شک نہیں کہ جب انسان خدا تعالیٰ سے دُعا کرتا ہے تو اکثر خدا تعالیٰ اپنے بندے کی دُعا قبول کرتا ہے لیکن بعض دفعہ خدا تعالیٰ اپنی بات منواتا ہے.دو دوستوں کی آپس میں دوستی کے قائم رہنے کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ کبھی اس نے اُس کی بات مان لی اور کبھی اُس نے اس کی بات مان لی.ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہمیشہ ایک ہی دوسرے کی بات مانتار ہے اور وہ اپنی بات کبھی نہ منوائے.جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ ہمیشہ اس کی دُعا قبول ہوتی رہے اور اسی کی خواہش پوری ہوتی رہے وہ بڑی غلطی کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کا ملہ سے قرآن شریف میں دو آیتیں نازل فرمائی ہیں.ایک میں فرمایا ہے اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ تم دعا مانگو میں تمہیں جواب دوں گا.دوسری آیت میں فرمایا ہے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ الع (البقرة : ۱۵۶) یعنی ضرور ہے تم پر قسما قسم کے ابتلاء پڑیں اور امتحان آئیں اور آزمائشیں کی جاویں تا کہ تم انعام حاصل کرنے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۴ سورة المؤمن کے مستحق ٹھہرو.خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش کرتا ہے لیکن جو لوگ استقامت اختیار کرتے ہیں خدا ان کو ضائع نہیں ہونے دیتا.دُعا کے بعد کامیابی اپنی خواہش کے مطابق ہو یا مصلحت الہی کوئی دوسری صورت پیدا کر دے ہر حال میں دُعا کا جواب ضرور خدا تعالیٰ کی طرف سے مل جاتا ہے.ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ دُعا کے واسطے اس کی حد تک جو ضروری ہے تضرع کی جاوے اور پھر جواب نہ ملے.البدر جلد ۲ نمبر ۳۲ مورخه ۹ /اگست ۱۹۰۶ ء صفحه ۳) ہماری جماعت کو چاہیئے کہ راتوں کو رو رو کر دعائیں کرو.اس کا وعدہ ہے ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ.عام لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ دُعا سے مراد دُنیا کی دعا ہے.وہ دنیا کے کیڑے ہیں.اس لئے اس سے پرے نہیں جاسکتے.اصل دعا دین ہی کی دعا ہے لیکن یہ مت سمجھو کہ ہم گنہ گار ہیں یہ دعا کیا ہوگی اور ہماری تبدیلی کیسے ہو سکے گی یہ غلطی ہے.بعض وقت انسان خطاؤں کے ساتھ ہی ان پر غالب آ سکتا ہے.اس لیے کہ اصل فطرت میں پاکیزگی ہے.دیکھو پانی خواہ کیسا ہی گرم ہو لیکن جب وہ آگ پر ڈالا جاتا ہے تو وہ بہر حال آگ کو بجھا دیتا ہے اس لئے کہ فطر تا برودت اس میں ہے.ٹھیک اسی طرح پر انسان کی فطرت میں پاکیزگی ہے.ہر ایک میں یہ مادہ موجود ہے وہ پاکیزگی کہیں نہیں گئی.اسی طرح تمہاری طبیعتوں میں خواہ کیسے ہی جذبات ہو رو کر دعا کرو گے تو اللہ تعالیٰ دور کر دے گا.الحکم جلد نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۷ صفحه ۱۵) انسان خدا کے امتحان میں بہت جلد ترقی کر لیتا ہے اور وہ مدارج حاصل کر لیتا ہے جو اپنی محنت اور کوشش سے کبھی حاصل نہیں کر سکتا اسی واسطے اُدْعُونِجَ اسْتَجِبْ لَكُمْ میں اللہ تعالیٰ نے کوئی بشارت نہیں دی مگر وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ....الآیۃ میں بڑی بڑی بشارتیں دی ہیں اور فرمایا ہے کہ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑی بڑی برکتیں اور رحمتیں ہوں گی اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں.غرض یہی طریق ہے جس سے انسان خدا کو راضی کر سکتا ہے.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۴ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۷ صفحه ۵) دو قُلْ اِنّى نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَمَّا جَاءَنِي الْبَيِّنْتُ مِنْ ربى وَأُمِرْتُ أَنْ أَسْلِمَ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ.) ان کو کہہ دے کہ میری راہ یہ ہے کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ اپنا تمام وجود خدا تعالیٰ کو سونپ دوں اور اپنے تئیں رب العالمین کے لئے خالص کرلوں یعنی اس میں فنا ہو کر جیسا کہ وہ رب العالمین ہے میں خادم العالمین
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۵ سورة المؤمن بنوں اور ہمہ تن اُسی کا اور اُسی کی راہ کا ہو جاؤں.سو میں نے اپنا تمام وجود اور جو کچھ میرا تھا خدا تعالیٰ کا کر دیا ہے اب کچھ بھی میرا نہیں.جو کچھ میرا ہے وہ سب اُس کا ہے.آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه (۱۶۵) فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ ، فَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فالينا يُرجَعُونَ انصاف کی آنکھ سے دیکھنا چاہیے کہ جس طرح حضرت مسیح کے حق میں اللہ جل شانہ نے قرآن کریم میں اِنّى مُتَوَفِّيكَ اني متوفيك فرمایا ہے اس طرح ہمارے سید و مولی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا ہے فَاهَا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ یعنی دونوں جگہ مسیح کے حق میں اور ہمارے سید و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں توقی کا لفظ موجود ہے پھر کس قدر نا انصافی کی بات ہے کہ ہمارے سید و مولی کی نسبت جو توفی کا لفظ آیا ہے تو اس جگہ تو ہم وفات کے ہی معنے کریں اور اُسی لفظ کو حضرت عیسی کی نسبت اپنے اصلی اور شائع متعارف معنوں سے پھیر کر اور اُن متفق علیہ معنے سے جو اول سے آخر تک قرآن شریف سے ظاہر ہورہے ہیں انحراف کر کے اپنے دل سے کچھ اور کے اور معنے تراش لیں.اگر یہ الحاد اور تحریف نہیں تو اور پھر الحاد اور تحریف کس کو کہتے ہیں؟ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه (۲۷۴) پوری ترقی دین کی کسی نبی کی حین حیات میں نہیں ہوئی بلکہ انبیاء کا یہ کام تھا کہ انہوں نے ترقی کا کسی قدر نمونہ دکھلا دیا اور پھر بعد ان کے ترقیاں ظہور میں آئیں جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کے لئے اور ہر ایک اسود اور احمر کے لئے مبعوث ہوئے تھے مگر آپ کی حیات میں احمر یعنی یورپ کی قوم کو تو اسلام سے کچھ بھی حصہ نہ ملاء ایک بھی مسلمان نہیں ہوا.اور جو اسود تھے ان میں سے صرف جزیرۂ عرب میں اسلام پھیلا اور مکہ کی فتح کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی.( براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۶۵) یہ مسلمان کہلاتے ہیں موحد کہلاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو افضل الانبیاء اور خیر البشر تسلیم کرتے ہیں.لیکن جب وہی لفظ توفی کا آپ پر آتا ہے تو اس کے معنی موت کرتے ہیں اور جب مسیح پر آتا ہے تو زندہ مع جسم آسمان پر اٹھائے جاتے ہیں.اُن کی غیرت کو کیا ہوا ؟ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی پر اٹھ ہتک کیوں روا ر کھتے ہیں؟ کیا قرآن شریف میں نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۶ سورة المؤمن نہیں آیا ؟ اور وہی لفظ مسیح کے لیے مُتَوَفِيكَ (ال عمران : ۵۶) اور فَلَمَّا تَوَقيْتَنِي (المائدة : ۱۱۸) میں آیا ہے.پھر یہ کیا ہو گیا کہ ایک جگہ کچھ اور معنی اور ایک جگہ کچھ اور.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی کمزور نبی سمجھا ہے !!! جو انہیں زمین میں دفن کرتے ہیں اور مسیح کو آسمان پر چڑھاتے ہیں.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہوتی تو آپ کے جلال اور شوکت کے لیے غیرت ہے تو کیوں نہیں کہہ دیتے کہ وہ بھی زندہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں.تب میں بھی سمجھ لیتا کہ یہ مسیح کی خصوصیت نہیں ٹھہراتے مگر موجودہ حالت میں میرا دل گوارا نہیں کر سکتا کہ میں قرآن شریف کے ایسے معنے کروں جو خود قرآن شریف اور لُغت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر کے خلاف ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک شان کا باعث ہوں.میں سچ کہتا ہوں کہ جس شخص نے یہ لکھا ہے کہ جو شخص یہ کہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نہیں وہ کافر ہے وہ سچ کہتا ہے.اس خصوصیت کے پیدا کرنے کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ تیس لاکھ مرتد ہو گیا.خدا کے واسطے اس قدر ظلم نہ کرو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور رتبہ کو گھٹایا جاوے.جو اس عقیدہ سے برابر گھٹتی ہے کہ وہ تو زمین میں دفن کئے گئے اور مسیح آسمان پر اٹھایا گیا.مسیح ہرگز زندہ نہیں رہا.وہ مر گیا.جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا که يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ (ال عمران : ۵۶ ) اور خود مسیح نے اقرار کر لیا فلما تَوَفَّيْتَنِي (المائدة :۱۱۸) الحکم جلد ۸ نمبر ۳۳ مورخه ۳۰رستمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۳) توفی کے معنے موت بھی قرآن مجید ہی سے ثابت ہے کیونکہ یہی لفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی آیا ہے جیسا کہ فرمایا فَاهَا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فلنا تَوَفَّيْتَنِي (المائدة : ۱۱۸) کہا ہے جس کے معنے موت ہی ہیں.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۳ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۶ ء صفحه ۴) توفی کا لفظ کوئی نرالا اور نیا لفظ نہ تھا اس کے معنے تمام لغت عرب میں خواہ وہ کسی نے لکھی ہوں موت کے کئے ہیں.پھر انہوں نے مع جسم آسمان پر اُٹھانے کے معنے آپ ہی کیوں بنا لئے.ہم کو افسوس نہ ہوتا اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی اس لفظ کے یہی معنے کر لیتے کیونکہ یہی لفظ آپ کے لیے بھی تو قرآن شریف میں آیا ہے جیسا کہ فرمایا ہے فَاهَا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ اب بتاؤ کہ اگر اس لفظ کے معنے مع جسم آسمان پر اُٹھانا ہی ہیں تو کیا ہمارا حق نہیں کہ آپ کے لئے بھی یہی معنے کریں.کیا وجہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۷ سورة المؤمن ہے کہ وہ نبی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہزار ہا درجہ کمتر ہے اس کے لئے جب یہ لفظ بولا جاوے تو اس کے من گھڑت معنے کر کے زندہ آسمان پر لے جاویں.لیکن جب سید الاولین والآخرین کے لیے یہ لفظ آوے تو اس کے معنے بجز موت کے اور کچھ نہ کریں.حالانکہ آپ کی زندگی ایسی ثابت ہے کہ کسی اور نبی کی ثابت نہیں اور اس لئے ہم زور اور دعوئی سے یہ بات پیش کرتے ہیں کہ اگر کوئی نبی زندہ ہے تو وہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۶ مورخه ۱۷/فروری ۱۹۰۶ء صفحه ۳) خدا کی شہادت سب سے پہلے زیادہ معتبر ہے خدا کا پاک کلام قرآن شریف ہمارے پاس موجود ہے.مسائل مختلفہ میں فیصلہ کرنے اور حق پانے کے واسطے مسلمانوں کو اول قرآن شریف ہی کی طرف رجوع کرنا چاہئیے.حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات ابدی کی کوئی دلیل اگر ان کے پاس ہے تو ان کو چاہئیے کہ قرآن کریم کی کوئی آیت پیش کریں.مگر قرآن شریف میں جب ہم اس غرض کے لئے غور کرتے ہیں تو ہمیں تو ان کے حق میں خدا کا یہی کلام ملتا ہے کہ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ (ال عمران : ۵۲ ) - فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي ( المائدة : ۱۱۸) اب جائے غور ہے کہ آیا یہ لفظ قرآن شریف میں کسی اور نبی کے حق میں بھی آیا ہے یا کہ نہیں ؟ سو ہم صاف بتاتے ہیں کہ اور انبیاء اور ہمارے سید و مولی محمد مجتبی احمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بھی یہی لفظ تولی کا استعمال ہوا ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اِما نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ اور پھر حضرت یوسف علیہ السلام کے حق میں بھی یہی لفظ نظر آتا ہے تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَ الْحِقْنِي بِالصَّلِحِينَ (یوسف : ۱۰۲) اب ہم پوچھتے ہیں کہ ہمیں کوئی اس خصوصیت کی وجہ تو بتادے کہ کیوں یہ لفظ اور انبیاء پر تو موت کے معنوں میں وارد ہوتا ہے اور کیوں حضرت عیسی کے حق میں آوے تو اس لفظ کی یہ خاصیت بدل جاتی ہے اور یہ لفظ موت کے معنے نہیں دیتا.ان کو چاہئیے کہ تعصب کو الگ کر کے ایک گھڑی بھر کے لئے حق جو ہو کر اس میں غور کریں.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۶ مورخه ۶ اگست ۱۹۰۸ صفحه ۴) توفی کا لفظ بجز وفات کے جسم عصری سے آسمان پر چڑھ جانے کے ہرگز قرآن شریف سے کوئی ثابت نہ کر سکے گا.دیکھو یہی لفظ تولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں قرآن شریف نے بولا ہے قائما نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُم أوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ اور حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں بھی یہی لفظ توفی ہی آیا ہے تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَ الْحِقْنِي بِالصَّلِحِينَ ( يوسف : ۱۰۲) اب جائے غور ہے کہ آوروں کے واسطے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۸ سورة المؤمن تو یہی لفظ موت پر دلالت کرے مگر حضرت عیسی کے حق میں اگر آجاوے تو اس میں کچھ ایسی تاثیر پیدا ہو جاتی ہے کہ اس کے معنے بجائے موت کے جسم عصری سے آسمان پر چڑھ جانے کے ہو جاتے ہیں.احکم جلد ۱۲ نمبر ۳۳ مورخه ۱۴ مئی ۱۹۰۸ء صفحه ۶) دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں صاف یہ لفظ ہیں ااِمَا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نتو فينك.پھر حضرت یوسف کے متعلق بھی قرآن شریف میں یہی توفی کا لفظ وارد ہے اور اس کے معنے بجز موت اور ہر گز نہیں ہیں.دیکھو تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَ الْحِقْنِي بِالصّلِحِينَ (یوسف : ۱۰۲).یہ حضرت یوسف کی دعا ہے تو کیا اس کے بھی یہی معنی ہیں کہ اے خدا مجھے زندہ مع جسم عنصری آسمان پر اُٹھالے اور پہلے صلحاء کے ساتھ شامل کر دے جو کہ زندہ آسمان پر موجود ہیں.تَعَالَى اللهُ عَمَّا يَصِفُونَ القام جلد ۱۲ نمبر ۷ ۴ مورخہ ۱۴ / اگست ۱۹۰۸ صفحه ۳) قرآن شریف میں صرف لفظ تو فی ہی کو لے کر اس کو دیکھ لو کہ بھلا کسی مقام پر اس کے معنے بجز موت کے کچھ اور بھی ہیں یا مع جسم عصری کے آسمان پر اٹھائے جانے کے ہیں؟ یہی تو فی کا لفظ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.آیت کریمہ اما نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نتو فينك غور کر کے دیکھ لو.پھر یہی توفی کا لفظ ہے جو حضرت یوسف کے حق میں وارد ہے.پھر ہمیں سمجھ نہیں آتا که برخلاف نص قرآنی کے اور تمام انبیاء کے کیوں حضرت عیسیٰ کو یہ خصوصیت دی جاتی ہے.کتب احادیث میں قریباً تین سو مرتبہ یہی لفظ توفی کا آیا ہے مگر کہیں بھی بجسد عنصری آسمان پر اٹھائے جانے کے معنے نہیں ہیں.جہاں دیکھو یہ لفظ موت ہی کے معنوں میں وارد ہوتا ہے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۲ مورخه ۱۸ / جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ ۷) وَ لَقَد أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ مِنْهُمْ مَنْ قَصَصُنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَنْ لَّمْ دو نَقْصُصْ عَلَيْكَ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَنْ يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللهِ فَإِذَا جَاءَ أَمْرُ اللهِ قُضِيَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُونَ.جس قدر دنیا میں نبی گزرے ہیں بعض کا اُن میں سے ہم نے قرآن شریف میں ذکر کیا ہے اور بعض کا ذکر نہیں کیا.اس قول سے مطلب یہ ہے کہ تا مسلمان حسن ظن سے کام لیں اور دُنیا کے ہر ایک حصہ کے نبی کو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۹۹ سورة المؤمن جو گزرچکے ہیں عزبات اور تعظیم سے دیکھیں اور بار بار قرآن شریف میں یہی ذکر کیا گیا ہے.اس سے مقصود مسلمانوں کو یہ سبق دینا ہے کہ وہ دُنیا کے کسی حصہ کے ایسے نبی کی کسرشان نہ کریں جو ایک کثیر قوم نے اُس کو قبول کر لیا تھا.یہ اصول نہایت ہی پیارا اور دلکش اصول ہے اور مسلمان اس کے ساتھ جس قدر فخر کریں وہ بجا ہے کیونکہ دوسری قو میں بوجہ اس کے کہ اس اصول کی پابند نہیں دُنیا کے اور انبیاء کی نسبت جو گزرچکے ہیں جن کی قبولیت کروڑ ہا لوگوں میں پھیل چکی ہے ادنی ادنیٰ اختلاف کی وجہ سے زبان درازی کے لئے طیار ہو جاتی ہیں.خاص کر ہمارے مقدس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تو گندی گالیاں دیتے ہیں وہ صرف زبان سے تو صلح صلح کرتے ہیں مگر اسی زبان کو تلوار کی طرح کھینچ کر ہمارے اُس پیارے نبی پر چلاتے ہیں جس کے قدموں کے نیچے ہماری جانیں ہیں.ہم لوگ عجیب مظلوم ہیں کہ ہم تو قرآن شریف کی تعلیم کے موافق دنیا کے ہر ایک نبی کو جو مقبول الا نام گزرے ہیں عزت اور تعظیم کی راہ سے دیکھتے ہیں اور اُن پر ایمان لاتے ہیں مگر ہمارے نبی اور صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت جو کچھ ہمارے مخالف کہتے ہیں اور لکھتے ہیں اُس کو تمام زمانہ جانتا ہے.ہم اس بات کا اعلان کرنا اور اپنے اس اقرار کو تمام دنیا میں شائع کرنا اپنی ایک سعادت سمجھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام اور دوسرے نبی سب کے سب پاک اور بزرگ اور خدا کے برگزیدہ تھے.ایسا ہی خدا نے جن بزرگوں کے ذریعہ سے پاک ہدایتیں آریہ ورت میں نازل کیں اور نیز بعد میں آنے والے جو آریوں کے مقدس بزرگ تھے جیسا کہ راجہ رامچندر اور کرشن یہ سب کے سب مقدس لوگ تھے اور ان میں سے تھے جن پر خدا کا فضل ہوتا ہے.مگر ہم اس شکایت کے لئے کس کے آگے روویں اور کس سے ہم اس بات کا انصاف طلب کریں کہ دوسری قو میں ہم سے یہ معاملہ نہیں کرتیں.دیکھو یہ کیسی پیاری تعلیم ہے جو دنیا میں صلح کی بنیاد ڈالتی ہے اور تمام قوموں کو ایک قوم کی طرح بنانا چاہتی ہے یعنی یہ کہ دوسری قوموں کے بزرگوں کو عزت سے یاد کرو اور اس بات کو کون نہیں جانتا کہ سخت دشمنی کی جڑھ اُن نبیوں اور رسولوں کی تحقیر ہے جن کو ہر ایک قوم کے کروڑ ہا انسانوں نے قبول کر لیا ہے جو شخص کسی نبی کی تحقیر کرتا ہے یا تحقیر کرنے والے کا دوست اور حامی ہے اور پھر وہ اس قوم سے صلح چاہتا ہے جو اس نبی پر دل وجان سے قربان ہے وہ ایسا مور کچھ اور نادان ہے کہ جہالت اور نادانی میں دنیا میں کوئی اس کی نظیر نہیں ایک شخص جو کسی کے باپ کو گندی گالیاں دیتا ہے اور پھر چاہتا ہے کہ اُس کا بیٹا اس سے خوش ہو یہ کیوں کر ہوسکتا ہے.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۸۲، ۳۸۳)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام سورة المؤمن زردشت نبی تھا یا نہیں؟ اس کے جواب میں فرمایا : ) ہم تو یہی کہیں گے کہ امنْتُ بِاللهِ وَرُسُلِہ خدا کے کل رسولوں پر ہمارا ایمان ہے مگر اللہ کریم نے ان سب کے نام اور حالات سے ہمیں آگاہی نہیں دی جیسے فرمایا وَ لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ مِنْهُمْ مَنْ قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَنْ لَمْ نَقُصُصُ عَلَيْكَ اتنے کروڑ مخلوقات پیدا ہوتی رہی اور کروڑ ہا لوگ مختلف ممالک میں آبا در ہے.یہ تو ہو نہیں سکتا کہ خدا نے ان کو یونہی چھوڑ دیا ہو اور کسی نبی کے ذریعہ سے ان پر اتمام حجت نہ کی ہو.آخر ان میں رسول آتے ہیں رہے ہیں.ممکن ہے کہ یہ بھی انہیں میں سے ایک رسول ہوں مگر ان کی تعلیم کا صحیح صحیح پتہ اب نہیں لگ سکتا.کیونکہ زمانہ دراز گزر جانے سے تحریف لفظی اور معنوی کے سبب بعض باتیں کچھ کا کچھ بن گئی ہیں.حقیقی طور پر محفوظ رہنے کا وعدہ تو صرف قرآن مجید کے لئے ہی ہے مومن کو سوء ظن کی نسبت نیک ظن کی طرف زیادہ جانا چاہئیے قرآن مجید میں وَ اِنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نذیر (فاطر : ۲۵) لکھا ہے.اس لئے ہوسکتا ہے کہ وہ بھی ایک رسول ہوں.انتقام جلد نمبر ۳۹ مورخه ۱۷۳۱ اکتوبر ۱۹۰۷ صفحه ۵) ہر ایک قوم میں نبی آئے ہیں یہ بات الگ ہے کہ ان کے نام ہمیں معلوم نہ ہوں.مِنْهُمْ مَنْ قَصَصْنا عَلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَنْ لَمْ نَقْصُصُ عَليك لمبے زمانے گزر جانے کی وجہ سے لوگ ان تعلیمات کو بھول کر کچھ اور کا اور ہی ان کی طرف منسوب کرنے لگ جاتے ہیں.(الحاکم جلد ۱۲ نمبر ۷ مورخہ ۶ / مارچ ۱۹۰۸ صفحہ ۷ ) سورۃ نور میں بھی ذکر فرمایا گیا ہے کہ سلسلہ محمدیہ موسویہ سلسلہ کا مثیل ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام کے درمیانی انبیاء کا ذکر قرآن شریف نے نہیں کیا تم نقصص کہہ دیا.یہاں بھی سلسلہ محمد یہ میں درمیانی خلفاء کا نام نہیں لیا.جیسے وہاں ابتداء اور انتہا بتائی یہاں بھی یہ بتا دیا کہ ابتداء مثیل موسیٰ سے ہوگی اور انتہاء مثیل عیسی پر.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۴ مورخه ۱۷ را پریل ۱۹۰۱ صفحه ۶)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ 1+1 سورة حم السجدة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسیر سورة حم السجدة بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانُ فَقَالَ لَهَا وَ لِلْاَرْضِ انْتِيَا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا قالتا آتَيْنَا طَابِعِيْنَ.فَقَضْهُنَّ سَبْعَ سَمُوتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَ أَوْحَى فِي كُلِّ سَمَاءِ اَمرَهَا وَ زَيَّنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَ حِفْظًا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ ا فَهَذِهِ الْآيَاتُ كُلُّهَا تَدُلُّ عَلى أَنَّ اللهَ یہ سب آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ خدا الْحَكِيمُ الْعَلِيمَ الرَّحِيمَ الْكَرِيمَ تعالى جو حکیم، علیم، رحیم ، کریم، اور فضل کرنے والا ہے الْمُتَفَطِل خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ اس نے آسمانوں اور زمین کونر و مادہ کی مانند پیدا کیا ہے كَذَكَرٍ وَأُنلى وَاقْتَضَتْ حِكْمَتُه أَن اور اس کی حکمت نے تقاضا کیا کہ ان دونوں کو موثر اور يَجْمَعَهُمَا مِنْ حَيْثُ الْفِعْلِ وَالْاِنْفِعَالِ متاثر حیثیت سے جمع کرے اور ان میں سے بعض کو وَيَجْعَلَ بَعْضَهُمَا مُؤَثِرًا فِي بَعْضٍ، وَهُذَا بعض میں اثر کرنے والا بنائے اور اللہ تعالیٰ کے قول مَعْنَى قَوْلِهِ فَقَالَ لَهَا وَلِلْاَرْضِ انْتِيَا فَقَالَ لَهَا وَ لِلْاَرْضِ اخْتِيَا کے یہی معنی ہیں.حمامة البشرى روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۸۹) (ترجمه از مرتب)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۰۲ سورة حم السجدة ( ان آیات میں ) اس بات کی تصریح ہے کہ خدا نے جمعرات اور جمعہ کے دن سات آسمان بنائے اور ہر ایک آسمان کے ساکن کو جو اس آسمان میں رہتا تھا اس آسمان کے متعلق جو امر تھا وہ اس کو سمجھا دیا اور ورلے آسمان کو ستاروں کی قندیلیوں سے سجایا اور نیز اُن ستاروں کو اس لئے پیدا کیا کہ بہت سے امور حفاظت دنیا کے ان پر موقوف تھے.یہ اندازے اُس خدا کے باندھے ہوئے ہیں جو ز بر دست اور دانا ہے.....ان آیات سے معلوم ہوا کہ آسمانوں کو سات بنانا اور ان کے درمیانی امور کا انتظام کرنا یہ تمام امور باقی ماندہ دوروز میں وقوع میں آئے یعنی جمعرات اور جمعہ میں.اور پہلی آیات جن کو ابھی ہم لکھ چکے ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ آدم کا پیدا کرنا آسمانوں کے سات طبقے بنانے کے بعد اور ہر ایک زمینی آسمانی انتظام کے بعد غرض کل مجموعہ عالم کی طیاری کے بعد ظہور میں آیا اور چونکہ یہ تمام کاروبار صرف جمعرات کو ختم نہیں ہوا بلکہ کچھ حصہ جمعہ کا بھی اُس نے لیا جیسا کہ آیت فَقَضْهُنَّ سَبْعَ سَمُوتٍ فِي يَوْمَيْنِ سے ظاہر ہے.یعنی خدا نے اس آیت میں فی یوم نہیں فرمایا بلکہ یومین فرمایا.اس سے یقینی طور پر سمجھا گیا کہ جمعہ کا پہلا حصہ آسمانوں کے في يَوْمٍ بنانے اور ان کے اندرونی انتظام میں صرف ہوا لہذا بنص صریح اس بات کا فیصلہ ہو گیا کہ آدم جمعہ کے آخری حصہ میں پیدا کیا گیا.اور اگر یہ شبہ دامنگیر ہو کہ ممکن ہے کہ آدم ساتویں دن پیدا کیا گیا ہو تو اس شہر کو یہ آیت دُور فرماتی ہے جو سورۃ حدید کی چوتھی آیت ہے اور وہ یہ ہے هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ ( الحديد : ۵) ( دیکھو سورة الحديد الجز نمبر ۲۷) ترجمہ اس آیت کا یہ ہے کہ خدا وہ ہے جس نے تمام زمین اور آسمانوں کو چھ دن میں پیدا کیا.پھر عرش پر اُس نے استوا کیا.یعنی کل مخلوق کو چھ دن میں پیدا کر کے پھر صفات عدل اور تم کو ظہور میں لانے لگا.خدا کا الوہیت کے تخت پر بیٹھنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مخلوق کے بنانے کے بعد ہر ایک مخلوق سے بمقتضائے عدل اور رحم اور سیاست کارروائی شروع کی یہ محاورہ اس سے لیا گیا ہے کہ جب کل اہل مقدمہ اور ارکان دولت اور لشکر با شوکت حاضر ہو جاتے ہیں اور کچہری گرم ہو جاتی ہے اور ہر ایک حقدار اپنے حق کو عدل شاہی سے مانگتا ہے اور عظمت اور جبروت کے تمام سامان مہیا ہو جاتے ہیں تب بادشاہ سب کے بعد آتا ہے اور تخت عدالت کو اپنے وجود باجود سے زینت بخشتا ہے.غرض ان آیات سے ثابت ہوا کہ آدم جمعہ کے اخیر حصے میں پیدا کیا گیا کیونکہ روز ششم کے بعد سلسلہ پیدائش کا بند کیا گیا.وجہ یہ کہ روز ہفتم تخت شاہی پر بیٹھنے کا دن ہے نہ پیدائش کا.یہودیوں نے ساتویں دن کو آرام کا دن رکھا ہے مگر یہ اُن کی غلط نہی ہے بلکہ یہ ایک محاورہ ہے کہ جب انسان ایک عظیم کام
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۰۳ سورة حم السجدة سے فراغت پالیتا ہے تو پھر گویا اُس وقت اس کے آرام کا وقت ہوتا ہے سوا ایسی عبارتیں تو ریت میں بطور مجاز ہیں نہ یہ کہ در حقیقت خدا تعالیٰ تھک گیا اور بوجه خسته درماندہ ہونے کے اس کو آرام کرنا پڑا.اور ان آیات کے متعلق ایک یہ بھی امر ہے کہ فرشتوں کا جناب انہی میں عرض کرنا کہ کیا تو ایک مفسد کو خلیفہ بنانے لگا ہے؟ اس کے کیا معنے ہیں؟ پس واضح ہو کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے چھٹے دن آسمانوں کے سات طبقے بنائے اور ہر ایک آسمان کے قضاء وقدر کا انتظام فرمایا اور چھٹا دن جوستارہ سعد اکبر کا دن ہے یعنی مشتری کا دن قریب الاختتام ہو گیا اور فرشتے جن کو حسب منطوق آيت و أولى في كُلِّ سَمَاء آمرها سعد و نحس کا علم دیا گیا تھا اور ان کو معلوم ہو چکا تھا کہ سعد اکبر مشتری ہے اور انہوں نے دیکھا کہ بظاہر اس دن کا حصہ آدم کو نہیں ملا کیونکہ دن میں سے بہت ہی تھوڑا وقت باقی ہے سو یہ خیال گزرا کہ اب پیدائش آدم کی زحل کے وقت میں ہوگی اس کی سرشت میں ڈھلی تاثیر میں جو قہر اور عذاب وغیرہ ہے رکھی جائیں گی اس لئے اس کا وجود بڑے فتنوں کا موجب ہوگا سو بناء اعتراض کی ایک فلنی امر تھا نہ یقینی.اس لئے خلفی پیرا یہ میں انہوں نے انکار کیا اور عرض کیا کہ کیا تو ایسے شخص کو پیدا کرتا ہے جو مفسد اور خونریز ہو گا اور خیال کیا کہ ہم زاہد اور عابد اور تقدیس کرنے والے اور ہر ایک بدی سے پاک ہیں اور نیز ہماری پیدائش مشتری کے وقت میں ہے جو سعدا کبر ہے تب ان کو جواب ملا کہ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ (البقرة : ۳۱) یعنی تمہیں خبر نہیں کہ میں آدم کو کس وقت بناؤں گا.میں مشتری کے وقت کے اُس حصے میں اس کو بناؤں گا جو اُس دن کے تمام حصوں میں سے زیادہ مبارک ہے اور اگر چہ جمعہ کا دن سعد اکبر ہے لیکن اس کے عصر کے وقت کی گھڑی ہر ایک اس کی گھڑی سے سعادت اور برکت میں سبقت لے گئی ہے.سو آدم جمعہ کی اخیر گھڑی میں بنایا گیا.یعنی عصر کے وقت پیدا کیا گیا اسی وجہ سے احادیث میں ترغیب دی گئی ہے کہ جمعہ کی عصر اور مغرب کے درمیان بہت دعا کرو کہ اس میں ایک گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے.یہ وہی گھڑی ہے جس کی فرشتوں کو بھی خبر بہ تھی.اس گھڑی میں جو پیدا ہو وہ آسمان پر آدم کہلاتا ہے اور ایک بڑے سلسلہ کی اس سے بنیاد پڑتی ہے.سو آدم اسی گھڑی میں پیدا کیا گیا.اس لئے آدم ثانی یعنی اس عاجز کو یہی گھڑی عطا کی گئی.اسی کی طرف براہین احمدیہ کے اس الہام میں اشارہ ہے کہ يَنْقَطِعُ ابَاؤُكَ وَيُبْدَه مِنك دیکھو برا این احمدیہ صفحہ ۴۹۰.اور یہ اتفاقات عجیبہ میں سے ہے کہ یہ عاجز نہ صرف ہزار ششم کے آخری حصہ میں پیدا ہوا جو مشتری سے وہی تعلق رکھتا ہے جو آدم کا روز ششم یعنی اس کا آخری حصہ تعلق رکھتا تھا بلکہ یہ عاجز بروز جمعہ چاند کی چودھویں تاریخ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۰۴ سورة حم السجدة.میں پیدا ہوا ہے.اس جگہ ایک اور بات بیان کرنے کے لائق ہے کہ اگر یہ سوال ہو کہ جمعہ کی آخری گھڑی جو عصر کے وقت کی ہے جس میں آدم پیدا کیا گیا کیوں ایسی مبارک ہے اور کیوں آدم کی پیدائش کے لئے وہ خاص کی گئی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے تاثیر کو اکب کا نظام ایسا رکھا ہے کہ ایک ستارہ اپنے عمل کے آخری حصہ میں دوسرے ستارے کا کچھ اثر لے لیتا ہے جو اس حصے سے ملحق ہو اور اس کے بعد میں آنے والا ہو.اب چونکہ عصر کے وقت سے جب آدم پیدا کیا گیا رات قریب تھی لہذا وہ وقت زُحل کی تاثیر سے بھی کچھ حصہ رکھتا تھا اور مشتری سے بھی فیضیاب تھا جو جمالی رنگ کی تاثیرات اپنے اندر رکھتا ہے.سوخدا نے آدم کو جمعہ کے دن عصر کے وقت بنایا کیونکہ اس کو منظور تھا کہ آدم کو جلال اور جمال کا جامع بنادے جیسا کہ اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ خَلَقْتُ بیدی (ص: ۷۶) یعنی آدم کو میں نے اپنے دونوں ہاتھ سے پیدا کیا ہے ظاہر ہے کہ خدا کے ہاتھ انسان کی طرح نہیں ہیں.پس دونوں ہاتھ سے مراد جمالی اور جلالی تجلی ہے.پس اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ آدم کو جلالی اور جمالی جلی کا جامع پیدا کیا گیا اور چونکہ اللہ تعالی علمی سلسلہ کو ضائع کرنا نہیں چاہتا اس لئے اُس نے آدم کی پیدائش کے وقت ان ستاروں کی تاثیرات سے بھی کام لیا ہے جن کو اس نے اپنے ہاتھ سے بنایا تھا.اور یہ ستارے فقط زینت کے لئے نہیں ہیں جیسا عوام خیال کرتے ہیں بلکہ ان میں تاثیرات ہیں.جیسا کہ آیت وَزَيَّنَا السَّمَاءِ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا سے یعنی حفظ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے.یعنی نظام دنیا کی محافظت میں ان ستاروں کو دخل ہے اُسی قسم کا دخل جیسا کہ انسانی صحت میں دوا اور غذا کو ہوتا ہے جس کو الوہیت کے اقتدار میں کچھ دخل نہیں بلکہ جبروت ایزدی کے آگے یہ تمام چیزیں بطور مردہ ہیں.یہ چیزیں بجز اذن الہی کچھ نہیں کر سکتیں.ان کی تاثیرات خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں.پس واقعی اور صحیح امر یہی ہے کہ ستاروں میں تاثیرات ہیں جن کا زمین پر اثر ہوتا ہے.لہذا اس انسان سے زیادہ تر کوئی دنیا میں جاہل نہیں کہ جو بنفشہ اور نیلوفر اور تربد اور سقمونیا اور خیارشنبر کی تاثیرات کا تو قائل ہے مگر اُن ستاروں کی تاثیرات کا منکر ہے جو قدرت کے ہاتھ کے اول درجہ پر تحلی گاہ اور مظہر العجائب ہیں جن کی نسبت خود خدا تعالیٰ نے حفظا کا لفظ استعمال کیا ہے.یہ لوگ جو سرا پا جہالت میں غرق ہیں اس علمی سلسلہ کو شرک میں داخل کرتے ہیں.نہیں جانتے جو دنیا میں خدا تعالیٰ کا قانون قدرت یہی ہے جو کوئی چیز اس نے لغو اور بے فائدہ اور بے تاثیر پیدا نہیں کی جبکہ وہ فرماتا ہے کہ ہر ایک چیز انسان کے لئے پیدا کی گئی ہے تو اب بتلاؤ کہ سماء الله نیا کو لاکھوں ستاروں سے پر کر دینا انسان کو اس سے کیا فائدہ ہے؟
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۰۵ سورة حم السجدة اور خدا کا یہ کہنا کہ سب چیزیں انسان کے لئے پیدا کی گئی ہیں ضرور ہمیں اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ ان چیزوں کے اندر خاص وہ تاثیرات ہیں جو انسانی زندگی اور انسانی تمدن پر اپنا اثر ڈالتی ہیں.جیسا کہ متقدمین حکماء نے لکھا ہے کہ زمین ابتدا میں بہت ناہموار تھی خدا نے ستاروں کی تاثیرات کے ساتھ اس کو درست کیا ہے اور یہ ستارے جیسا کہ یہ جاہل لوگ سمجھتے ہیں آسمان دنیا پر ہی نہیں ہیں بلکہ بعض بعض سے بڑے بڑے بُعد پر واقع ہیں اسی آسمان میں مشتری نظر آتا ہے جو چھٹے آسمان پر ہے ایسا ہی زحل بھی دکھائی دیتا ہے جو ہفتم آسمان پر ہے اور اسی وجہ سے اس کا نام زُحل ہے جو اس کا بعد تمام ستاروں سے زیادہ ہے کیونکہ لغت میں زحل بہت دُور ہونے والے کو بھی کہتے ہیں.اور آسمان سے مراد وہ طبقات لطیفہ ہیں جو بعض بعض سے اپنے خواص کے ساتھ متمیز ہیں.یہ کہنا بھی جہالت ہے کہ آسمان کچھ چیز نہیں کیونکہ جہاں تک عالم بالا کی طرف سیر کی جائے محض خلا کا حصہ کسی جگہ نظر نہیں آئے گا.پس کامل استقراء جو مجہولات کی اصلیت دریافت کرنے کے لئے اول درجہ پر ہے صریح اور صاف طور پر سمجھاتا ہے کہ محض خلا کسی جگہ نہیں ہے.اور جیسا کہ پہلا آدم جمالی اور جلالی رنگ میں مشتری اور زحل کی دونوں تاثیریں لے کر پیدا ہوا اسی طرح وہ آدم جو ہزار ششم کے آخر میں پیدا ہوا وہ بھی یہ دونوں تاثیریں اپنے اندر رکھتا ہے.اس کے پہلے قدم پر مردوں کا زندہ ہونا ہے اور دوسرے قدم پر زندوں کا مرنا ہے یعنی قیامت میں.خدا نے اس کے وقت میں رحمت کی نشانیاں بھی رکھی ہیں اور قہر کی بھی تا دونوں رنگ جمالی اور جلالی ثابت ہو جا ئیں.آخری زمانہ کی نسبت خدا تعالی کا یہ فرمانا کہ آفتاب اور ماہتاب ایک ہی وقت میں تاریک ہو جائیں گے زمین پر جا بجا خسف واقع ہوگا.پہاڑ اڑائے جائیں گے.یہ سب قہری اور جلالی نشانیاں ہیں.عیسائیت کے غلبہ کے زمانہ کی نسبت بھی اسی قسم کے اشارات قرآن شریف میں پائے جاتے ہیں.کیونکہ لکھا ہے کہ قریب ہے کہ اس دین کے غلبہ کے وقت آسمان پھٹ جائیں اور زمین میں بذریعہ خسف وغیرہ ہلاکتیں واقع ہوں.غرض وجود آدم ثانی بھی جامع جلال و جمال ہے اور اسی وجہ سے آخر ہزار ششم میں پیدا کیا گیا اور ہزارششم کے حساب سے دنیا کے دنوں کا یہ جمعہ ہے اور جمعہ میں سے یہ عصر کا وقت ہے جس میں یہ آدم پیدا ہوا.اور سورۃ فاتحہ میں اس مقام کے متعلق ایک لطیف اشارہ ہے اور وہ یہ کہ چونکہ سورۃ فاتحہ ایک ایسی سورۃ ہے جس میں مبدء اور معاد کا ذکر ہے یعنی خدا کی ربوبیت سے لے کر یوم الدین تک سلسلہ صفات الہیہ کو پہنچایا ہے اس مناسبت کے لحاظ سے حکیم ازلی نے اس سورۃ کو سات آیتوں پر تقسیم کیا ہے تا دنیا کی عمر میں سات ہزار کی طرف اشارہ ہو.اور چھٹی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام 1+4 سورة حم السجدة آیت اس سورۃ کی اھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ہے.گویا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ چھٹے ہزار کی تاریکی آسمانی ہدایت کو چاہے گی اور انسانی سلیم فطرتیں خدا کی جناب سے ایک بادی کو طلب کریں گی یعنی مسیح موعود کو.اور ضالین پر اس سورۃ کو ختم کیا ہے.یعنی ساتویں آیت پر جو ضالین کے لفظ پر ختم ہوتی ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ضالین پر قیامت آئے گی.(تحفہ گولر ویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۷۸ تا ۲۸۴ حاشیه ) وذلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِى ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ اَرْدِيكُمْ فَاصْبَحْتُم مِنَ الْخَسِرِينَ.انسان کو چاہیے کہ خدا تعالیٰ پر بدظنی کرنے سے بچے کیونکہ اس کا انجام آخر میں تباہی ہوا کرتا ہے.جیسے فرما یا اللہ تعالی نے وَ ذَلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ اَرْدِيكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ مِنَ الْخَسِرِينَ اس لئے سمجھنا چاہئیے کہ خدا تعالیٰ پر بدظنی کرنا اصل میں بے ایمانی کا بیج بونا ہے جس کا نتیجہ آخر کار ہلاکت ہوا کرتا ہے.جب کبھی خدا تعالیٰ کسی کو اپنا رسول بنا کر بھیجتا ہے اور جو اس کی مخالفت کرتا ہے وہ ہلاک ہو جاتا ہے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴ مورخه ۱۴/جنوری ۱۹۰۸ صفحه ۳) وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوافِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ.اور کافروں نے کہا کہ اس قرآن کو مت سنو اور جب تم کو سنایا جائے تو تم بک بک کرنے سے اس میں ایک شور ڈال دیا کرو شاید اسی طرح تم کو غلبہ ہو.( براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۴۷ حاشیہ نمبر۱۱) کافروں نے یہ کہا کہ اس قرآن کو مت سنو اور جب تمہارے سامنے پڑھا جاوے تو تم شور ڈال دیا کروتا (براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۸۶) شاید اسی طرح غالب آ جاؤ.فَلَنُذِيقَنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا عَذَابًا شَدِيدًا وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ اَسْوا الَّذِى كَانُوا اوردور يعملون سو ہم ان کو ایک سخت عذاب چکھائیں گے اور جیسے ان کے بڑے اور بدتر عمل ہیں ویسا ہی ان کو بدلہ ( براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۴۸ حاشیہ نمبر ۱۱) ملے گا.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۰۷ سورة حم السجدة إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيكَةُ اَلا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ ابْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ..حدیثوں اور قرآن کریم سے ثابت ہے کہ جو شخص کامل انقطاع اور کامل توکل کا مرتبہ پیدا کر لیتا ہے تو فرشتے اس کے خادم کئے جاتے ہیں اور ہر یک فرشتہ اپنے منصب کے موافق اس کی خدمت کرتا ہے وَقَالَ اللهُ تَعَالَى إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ اَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ انشرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۷۶) جو لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ جل شانہ ہے پھر اپنی ثابت قدمی دکھلاتے ہیں کہ کسی مصیبت اور آفت اور زلزلہ اور امتحان سے اُن کے صدق میں ذرہ فرق نہیں آتا اُن پر فرشتے اُترتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ تم ذرہ خوف نہ کرو اور نہ غمگین ہو اور اس بہشت کے تصور سے شادان اور فرحان رہو جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے ہم تمہارے متولی اور تمہارے پاس ہر وقت حاضر اور قریب ہیں کیا دُنیا میں اور کیا آخرت میں.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۹۸) جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر استقامت اختیار کی ان کی یہ نشانی ہے کہ ان پر فرشتے اترتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ تم مت ڈرو اور کچھ غم نہ کرو اور خوشخبری سنو اس بہشت کی جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا تھا ہم تمہارے دوست اور متولی اس دنیا کی زندگی میں ہیں اور نیز آخرت میں اور تمہارے لئے اس بہشت میں وہ سب کچھ دیا گیا جو تم مانگو یہ مہمانی ہے غفور رحیم سے.اب دیکھئے اس آیت میں مکالمہ الہیہ اور قبولیت اور خدا تعالیٰ کا متولی اور متکفل ہونا اور اسی دنیا میں بہشتی زندگی کی بنا ڈالنا اور ان کا حامی اور نا صر ہونا بطور نشان کے بیان فرمایا گیا.جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۴۶،۱۴۵) وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور باطل خداؤں سے الگ ہو گئے پھر استقامت اختیار کی یعنی طرح طرح کی آزمائشوں اور بلا کے وقت ثابت قدم رہے.ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ تم مت ڈرو اور مت غمگین ہو اور خوش ہو اور خوشی میں بھر جاؤ کہ تم اس خوشی کے وارث ہو گئے جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے.ہم اس دنیوی زندگی میں اور آخرت میں تمہارے دوست ہیں.اس جگہ ان کلمات سے یہ اشارہ فرمایا کہ استقامت سے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے.یہ بیچ بات ہے کہ استقامت فوق الکرامت ہے.کمال
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۰۸ سورة حم السجدة استقامت یہ ہے کہ چاروں طرف بلاؤں کو محیط دیکھیں اور خدا کی راہ میں جان اور عزت اور آبرو کو معرض خطر میں پاویں اور کوئی تسلی دینے والی بات موجود نہ ہو یہاں تک کہ خدا تعالیٰ بھی امتحان کے طور پر تسلی دینے والے کشف یا خواب یا الہام کو بند کر دے اور ہولناک خوفوں میں چھوڑ دے.اس وقت نامردی نہ دکھلاویں اور بزدلوں کی طرح پیچھے نہ ہٹیں.اور وفاداری کی صفت میں کوئی خلل پیدا نہ کریں.صدق اور ثبات میں کوئی رخنہ نہ ڈالیں.ذلت پر خوش ہو جائیں.موت پر راضی ہو جائیں اور ثابت قدمی کے لئے کسی دوست کا انتظار نہ کریں کہ وہ سہارا دے.نہ اس وقت خدا کی بشارتوں کے طالب ہوں کہ وقت نازک ہے اور باوجود سراسر بے کس اور کمزور ہونے کے اور کسی تسلی کے نہ پانے کے سیدھے کھڑے ہو جائیں اور ہر چہ باداباد کہہ کر گردن کو آگے رکھ دیں اور قضاء و قدر کے آگے دم نہ ماریں اور ہر گز بے قراری اور جزع فزع نہ دکھلاویں جب تک کہ آزمائش کا حق پورا ہو جائے.یہی استقامت ہے جس سے خدا ملتا ہے.یہی وہ چیز ہے جس کی رسولوں اور نبیوں اور صد یقوں اور شہیدوں کی خاک سے اب تک خوشبو آ رہی ہے.، اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۲۰،۴۱۹) جو لوگ خدا پر ایمان لا کر پوری پوری استقامت اختیار کرتے ہیں.ان پر خدائے تعالیٰ کے فرشتے اترتے ہیں.اور یہ الہام ان کو کرتے ہیں کہ تم کچھ خوف اور غم نہ کرو.تمہارے لئے وہ بہشت ہے جس کے بارے میں تمہیں وعدہ دیا گیا ہے.سو اس آیت میں بھی صاف لفظوں میں فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ کے نیک بندے غم اور خوف کے وقت خدا سے الہام پاتے ہیں اور فرشتے اتر کر ان کی تسلی کرتے ہیں...لیکن اس جگہ یادر ہے کہ الہام کے لفظ سے اس جگہ یہ مراد نہیں ہے کہ سوچ اور فکر کی کوئی بات دل میں پڑ جائے جیسا کہ جب شاعر شعر کے بنانے میں کوشش کرتا ہے یا ایک مصرع بنا کر دوسراسوچتا رہتا ہے تو دوسرا مصرع دل میں پڑتا ہے.سو یہ دل میں پڑ جانا الہام نہیں ہے بلکہ یہ خدا کے قانون قدرت کے موافق اپنی فکر اور سوچ کا ایک نتیجہ ہے.جو شخص اچھی باتیں سوچتا ہے یا بری باتوں کے لئے فکر کرتا ہے اس کی تلاش کے موافق کوئی بات ضرور اس کے دل میں پڑ جاتی ہے.ایک شخص مثلاً نیک اور راستباز آدمی ہے جو سچائی کی حمایت میں چند شعر بناتا ہے اور دوسرا شخص جو ایک گندہ اور پلید آدمی ہے اپنے شعروں میں جھوٹ کی حمایت کرتا ہے اور راستبازوں کو گالیاں نکالتا ہے تو بلاشبہ یہ دونوں کچھ نہ کچھ شعر بنا لیں گے بلکہ کچھ تعجب نہیں کہ وہ راستبازوں کا وشمن جو جھوٹ کی حمایت کرتا ہے باعث دائمی مشق کے اس کا شعر عمدہ ہو.سواگر صرف دل میں پڑ جانے کا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1+9 سورة حم السجدة نام الہام ہے تو پھر ایک بدمعاش شاعر جور است بازی اور راست بازوں کا دشمن اور ہمیشہ حق کی مخالفت کے لئے قلم اٹھاتا اور افتراؤں سے کام لیتا ہے خدا کا مہم کہلائے گا.دنیا میں ناولوں وغیرہ میں جادو بیانیاں پائی جاتی ہیں اور تم دیکھتے ہو کہ اس طرح سراسر باطل مگر مسلسل مضمون لوگوں کے دلوں میں پڑتے ہیں.پس کیا ہم ان کو الہام کہہ سکتے ہیں؟ بلکہ اگر الہام صرف دل میں بعض باتیں پڑ جانے کا نام ہے تو ایک چور بھی ملہم کہلا سکتا ہے کیونکہ وہ بسا اوقات فکر کر کے اچھے اچھے طریق نقب زنی کے نکال لیتا ہے اور عمدہ عمدہ تدبیریں ڈا کہ مارنے اور خون ناحق کرنے کی اس کے دل میں گزر جاتی ہیں تو کیا لائق ہے کہ ہم ان تمام نا پاک طریقوں کا نام الہام رکھ دیں؟ ہر گز نہیں.بلکہ یہ ان لوگوں کا خیال ہے جن کو اب تک اس بچے خدا کی خبر نہیں جو آپ خاص مکالمہ سے دلوں کو تسلی دیتا اور نا واقفوں کو روحانی علوم سے معرفت بخشتا ہے.الہام کیا چیز ہے؟ وہ پاک اور قادر خدا کا ایک برگزیدہ بندہ کے ساتھ یا اس کے ساتھ جس کو برگزیدہ کرنا چاہتا ہے ایک زندہ اور با قدرت کلام کے ساتھ مکالمہ اور مخاطبہ ہے.سوجب یہ مکالمہ اور مخاطبہ کافی اور تسلی بخش سلسلہ کے ساتھ شروع ہو جائے اور اس میں خیالات فاسدہ کی تاریکی نہ ہو اور نہ غیر متفی اور چند بے سر و پا لفظ ہوں اور کلام لذیذ اور پر حکمت اور پر شوکت ہو تو وہ خدا کا کلام ہے جس سے وہ اپنے بندہ کو تسلی دینا چاہتا ہے اور اپنے تئیں اس پر ظاہر کرتا ہے.ہاں کبھی ایک کلام محض امتحان کے طور پر ہوتا ہے اور پورا اور بابرکت سامان ساتھ نہیں رکھتا.اس میں خدا تعالیٰ کے بندہ کو اس کی ابتدائی حالت میں آزمایا جاتا ہے تا وہ ایک ذرہ الہام کا مزہ چکھ کر پھر واقعی طور پر اپنا حال و قال سچے مسلموں کی طرح بنا دے یا ٹھوکر کھا دے.پس اگر وہ حقیقی راستبازی صدیقوں کی طرح اختیار نہیں کرتا تو اس نعمت کے کمال سے محروم رہ جاتا ہے اور صرف بیہودہ لاف زنی اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے.کروڑ ہا نیک بندوں کو الہام ہوتا رہا ہے مگر ان کا مرتبہ خدا کے نزدیک ایک درجہ کا نہیں بلکہ خدا کے پاک نبی جو پہلے درجہ پر کمال صفائی سے خدا کا الہام پانے والے ہیں وہ بھی مرتبہ میں برابر نہیں.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۳۷ تا ۴۳۹) جو لوگ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور پھر استقامت اختیار کرتے ہیں فرشتے ان کو بشارت کے الہامات سناتے رہتے ہیں اور ان کو تسلی دیتے رہتے ہیں جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ماں کو بذریعہ الہام تسلی دی گئی.لیکن قرآن ظاہر کر رہا ہے کہ اس قسم کے الہامات یا خوا ہیں عام مومنوں کے لئے ایک روحانی نعمت
+11 سورة حم السجدة تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہے خواہ وہ مرد ہوں یا عورت ہوں اور ان الہامات کے پانے سے وہ لوگ امام وقت سے مستغنی نہیں ہو سکتے اور اکثر یہ الہامات ان کے ذاتیات کے متعلق ہوتے ہیں اور علوم کا افاضہ ان کے ذریعہ سے نہیں ہوتا اور نہ کسی عظیم الشان تحدی کے لائق ہوتے ہیں اور بہت سے بھروسے کے قابل نہیں ہوتے بلکہ بعض وقت ٹھوکر کھانے کا موجب ہو جاتے ہیں.اور جب تک امام کی دستگیری افاضہ علوم نہ کرے تب تک ہرگز ہرگز خطرات سے امن نہیں ہوتا.اس امر کی شہادت صدر اسلام میں ہی موجود ہے.کیونکہ ایک شخص جو قرآن شریف کا کا تب تھا اس کو بسا اوقات نور نبوت کے قرب کی وجہ سے قرآنی آیت کا اس وقت میں الہام ہو جاتا تھا جبکہ امام یعنی نبی علیہ السلام وہ آیت لکھوانا چاہتے تھے.ایک دن اس نے خیال کیا کہ مجھے میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کیا فرق ہے.مجھے بھی الہام ہوتا ہے.اس خیال سے وہ ہلاک کیا گیا.اور لکھا ہے کہ قبر نے بھی اس کو باہر پھینک دیا.جیسا کہ بلغم ہلاک کیا گیا.( ضرورة الامام، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۷۳) جولوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا خدا وہ خدا ہے جو جامع صفات کا ملہ ہے.جس کی ذات اور صفات میں اور کوئی شریک نہیں اور یہ کہہ کر پھر وہ استقامت اختیار کرتے ہیں.اور کتنے ہی زلزلے آویں اور بلائیں نازل ہوں اور موت کا سامنا ہو.ان کے ایمان اور صدق میں فرق نہیں آتا.اُن پر فرشتے اترتے ہیں اور خدا اُن سے ہم کلام ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ تم بلاؤں سے اور خوفناک دشمنوں سے مت ڈرو اور نہ گزشتہ مصیبتوں سے غمگین ہو.میں تمہارے ساتھ ہوں اور میں اسی دنیا میں تمہیں بہشت دیتا ہوں جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا تھا.پس تم اس سے خوش ہو.اب واضح ہو کہ یہ باتیں بغیر شہادت کے نہیں اور یہ ایسے وعدے نہیں کہ جو پورے نہیں ہوئے بلکہ ہزاروں اہلِ دل مذہب اسلام میں اس روحانی بہشت کا مزہ چکھ چکے ہیں.درحقیقت اسلام وہ مذہب ہے جس کے سچے پیروؤں کو خدا تعالیٰ نے تمام گذشتہ راستبازوں کا وارث ٹھہرایا ہے اور ان کی متفرق نعمتیں اس امتِ مرحومہ کو عطا کر دی ہیں.(لیکچر لاہور ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۶۱) جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے نیچے آگئے اور اس کے اسم اعظم استقامت کے نیچے جب بیضہ بشریت رکھا گیا.پھر اس میں اس قسم کی استعداد پیدا ہو جاتی ہے کہ ملائکہ کا نزول اس پر ہوتا ہے اور کسی قسم کا خوف و خون ان کو نہیں رہتا، میں نے کہا ہے کہ استقامت بڑی چیز ہے.استقامت سے کیا مراد ہے؟ ہر ایک چیز جب اپنے عین محل اور مقام پر ہو وہ حکمت اور استقامت سے تعبیر پاتی ہے.مثلاً ڈور بین کے اجزا کو اگر خدا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام سورة حم السجدة جدا کر کے ان کو اصل مقامات سے ہٹا کر دوسرے مقام پر رکھ دیں وہ کام نہ دے گی.غرض وَضْعُ الشّيء في محله کا نام استقامت ہے یا دوسرے الفاظ میں یہ کہو کہ بیت طبعی کا نام استقامت ہے.پس جب تک انسانی بناوٹ کو ٹھیک اسی حالت پر نہ رہنے دیں اور اُسے مستقیم حالت میں نہ رکھیں وہ اپنے اندر کمالات پیدا نہیں کر سکتی.دُعا کا طریق یہی ہے کہ دونوں اسم اعظم جمع ہوں.اور یہ خدا کی طرف جاوے کسی غیر کی طرف رجوع نہ کرے خواہ وہ اس کی ہوا و ہوس ہی کا بت کیوں نہ ہو جب یہ حالت ہو جائے تو اس وقت اُدْعُونِي اسْتَجِبْ لَكُمْ (المؤمن : ۶۱ ) کا مزا آ جاتا ہے.ریویو آف ریلیجنز جلد ۳ نمبر ۱ صفحه ۱۳، ۱۴) مرض کسل اور مخزن.....اگر اسباب روحانی سے ہے تو اس سے بہتر کوئی علاج نہیں جو اللہ جلشانہ نے فرمایا ہے إِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ أَلَا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ ابْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَعُونَ نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ.سوخدا تعالیٰ کو اپنا متولی اور متکفل سمجھنا اور پھر لا زمی امتحانوں اور آزمائشوں سے متزلزل نہ ہونا اور مستقیم الاحوال رہنا بھی خوف اور حزن کا علاج ہے.(مکتوبات احمد جلد دوم صفحه ۲۳، ۲۴) جولوگ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے اور استقامت دکھاتے ہیں الخ یعنی ابتلاء کے وقت ایسا شخص دکھلا دیتا ہے کہ جو میں نے منہ سے وعدہ کیا تھا وہ عملی طور سے پورا کرتا ہوں.کیونکہ ابتلا ضروری ہے.جیسے یہ آیت اشارہ کرتی ہے اَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا أَمَنَا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ ( العنكبوت: ۳) اللہ تعالى فرماتا ہے کہ جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور استقامت کی ، ان پر فرشتے اترتے ہیں.مفسروں کی غلطی ہے کہ فرشتوں کا اتر نا نزع میں ہے.یہ غلط ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ جولوگ دل کو صاف کر تے ہیں اور نجاست اور گندگی سے، جو اللہ سے دور رکھتی ہے، اپنے نفس کو دور رکھتے ہیں ان میں سلسلہ الہام کے لئے ایک مناسبت پیدا ہو جاتی ہے.سلسلہ الہام شروع ہو جاتا ہے.......پھر فرمایا وَ ابْشِرُوا بِالْجَنَّةِ التي كُنتُمْ تُوعَدُونَ یعنی تم اس جنت کے لئے خوش ہو جس کا تم کو وعدہ ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۳۶) جنہوں نے کہا کہ رب ہمارا اللہ ہے اور استقامت دکھلائی اور ہر طرف سے منہ پھیر کر اللہ کو ڈھونڈھا.مطلب یہ کہ کامیابی استقامت پر موقوف ہے اور وہ اللہ کو پہچانا اور کسی ابتلا اور زلازل اور امتحان سے نہ ڈرنا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۱۲ ہے.ضرور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مورد مخاطبہ و مکالمہ الہی انبیاء کی طرح ہوگا.سورة حم السجدة رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۴۲) سچے مذہب کی یہی نشانی ہے کہ اس مذہب کی تعلیم سے ایسے راستہاز پیدا ہوتے ہیں جو محدث کے درجہ تک پہنچ جائیں جن سے خدا تعالیٰ آمنے سامنے کلام کرے اور اسلام کی حقیت اور حقانیت کی اوّل نشانی یہی ہے کہ اس میں ہمیشہ ایسے راستباز جن سے خدا تعالیٰ ہمکلام ہو پیدا ہوتے ہیں.تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيكَةُ اَلا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا سوى معیار حقیقی بچے اور زندہ اور مقبول مذہب کی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ یہ نور صرف صرف اسلام میں ہے دوسرے مذاہب اس روشنی سے بے نصیب ہیں.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۹ مورخه ۲۴ رمئی ۱۹۰۱ صفحه ۴) جو اللہ تعالیٰ کی طرف آجاتے ہیں وہ صرف اللہ تعالیٰ کے ہی راستہ پر نہیں آتے بلکہ اس صراط مستقیم پر استقامت بھی دکھلاتے ہیں.نتیجہ کیا ہوتا ہے کہ تطہیر وتنویر قلوب کی منزلیں طے کر لیتے ہیں اور بعد انشراح صدر کے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کو حاصل ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ان کو اپنی خاص نعمتوں سے متمتع فرماتا ہے.محبت و ذوق الہی ان کی غذا ہو جاتی ہے.مکالمہ الہی ، وحی، الہام و کشف وغیرہ انعامات الہی سے مشرف و بہرمند کئے جاتے ہیں.درگاہ رب العزت سے طمانیت و سکویت ان پر اترتی ہے.خون و مایوسی اُن کے نزدیک تک نہیں پھٹکتی.ہر وقت جذبہ محبت و ولولہ عشق انہی میں سرشار رہتے ہیں گویا لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (الاحقاف : ۱۴) کے پورے مصداق ہو جاتے ہیں.مَا دَر مَا قَالَ کلید ایں ہمہ دولت محبت است ووفا خوشا کسیکه چنیں دولتش عطا باشد غرض استقامت بڑی چیز ہے.استقامت ہی کی بدولت تمام گروہ انبیاء ہمیشہ مظفر ومنصور و با مراد ہوتا چلا آیا ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۴۵ مورخہ یکم دسمبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۵۳) الہام یعنی وحی الہی ایسی شے ہے کہ جب تک خدا سے پوری صلح نہ ہو اور اس کی اطاعت کے لئے اس نے گردن نہ رکھ دی ہو تب تک وہ کسی کو حاصل نہیں ہو سکتی.خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيكَةُ اَلَا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ ابْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنْتُمْ تُوعَدُونَ یه اس امر کی طرف اشارہ ہے.نزول وحی کا صرف ان کے ساتھ وابستہ ہے جو کہ خدا کی راہ میں مستقیم ہیں اور وہ صرف مسلمان ہی ہیں.البدر جلد ۴ نمبر ۸ مورخه ۱۳ / مارچ ۱۹۰۵ء صفحه ۲)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۱۳ سورة حم السجدة یعنی جن لوگوں نے اپنے قول اور فعل سے بتا دیا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر انہوں نے استقامت دکھائی ان پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے.اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ فرشتوں کا نزول ہوا اور مخاطبہ نہ ہو.نہیں بلکہ وہ انہیں بشارتیں دیتے ہیں.یہی تو اسلام کی خوبی اور کمال ہے جو دوسرے مذاہب کو حاصل نہیں ہے.استقامت بہت مشکل چیز ہے یعنی خواہ ان پر زلزلے آئیں، فتنے آئیں.وہ ہر قسم کی مصیبت اور دکھ میں ڈالے جاویں مگر ان کی استقامت میں فرق نہیں آتا.ان کا اخلاص اور وفاداری پہلے سے زیادہ ہوتی ہے.ایسے لوگ اس قابل ہوتے ہیں کہ ان پر خدا کے فرشتے اُتریں اور انہیں بشارت دیں کہ تم کوئی غم نہ کرو.الحاکم جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۳۱ / جنوری ۱۹۰۶ صفحه ۲) جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر انہوں نے سچی استقامت دکھائی یعنی ہر قسم کے مصائب اور مشکلات عسر یسر میں انہوں نے قدم آگے ہی بڑھایا اور ہر قسم کے امتحانوں میں وہ پاس ہو گئے تو پھر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان پر ملائکہ کا نزول ہوتا ہے جو اُن کو خوشخبریاں دیتے ہیں کہ ہم تمہارے ولی ہیں.اس حیات دُنیا میں تمہیں کوئی غم اور حزن نہ ہوگا.الحکام جلد ۱۰ نمبر ۴۲ مورخه ۱۰ ؍دسمبر ۱۹۰۶ صفحه ۳) جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر اس پر انہوں نے استقامت دکھائی اور کوئی مشکل اور مصیبت انہیں اس اقرار سے پھیر نہیں سکی ان پر ملائکہ کا نزول ہوتا ہے.یہ بڑا بھاری طریق ہے خدا کو پہنچانے کا.اس سے وہ یقین پیدا ہوتا ہے جو انسان کو نجات کا وارث بنادیتا ہے کیوں کہ جب اللہ تعالیٰ کے وجود پر کامل یقین پیدا ہو جاوے تو انسان کی زندگی میں ایک معجز نما تبدیلی ہوتی ہے وہ گناہ آلود زندگی سے نکل آتا ہے اور پاکیزگی اور طہارت کا جامہ پہن لیتا ہے اور یہی نجات ہے جو اس کو گناہ سے بچالیتی ہے.اس کے ثمرات اور برکات خدا تعالیٰ پر کامل یقین اور توکل پیدا ہونے لگتے ہیں اور معجزات اور نشانات مشاہدہ کرائے جاتے ہیں.احکام جلد نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۷ صفحه ۶) اس سے بھی مراد متقی ہیں ثُمَّ اسْتَقَامُوا یعنی ان پر زلزلہ آئے.ابتلاء آئے.آندھیاں چلیں مگر ایک عہد جو اس سے کر چکے اس سے نہ پھرے.پھر آگے خدا فرماتا ہے کہ جب انہوں نے ایسا کیا اور صدق اور وفا دکھلایا تو اس کا اجر یہ ملا تتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ یعنی ان پر فرشتے اترے اور کہا کہ خوف اور حزن مت کرو تمہارا خدا متوتی ہے.وَ ابْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ اور بشارت دی کہ تم خوش ہو اس جنت سے.اور اس جنت سے یہاں مراد دنیا کی جنت ہے جیسے ہے وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتْنِ پھر آگے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۱۴ سورة حم السجدة ب نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ دُنیا اور آخرت میں ہم تمہارے ولی اور مستقل ہیں.(البدر جلد نمبر۷ مؤرخہ ۱۲ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۵۱) بچے مذہب کی یہی نشانی ہے کہ اس مذہب کی تعلیم سے ایسے راستباز پیدا ہوتے رہیں جو محدث کے مرتبہ تک پہنچ جائیں جن سے خدا تعالیٰ آمنے سامنے کلام کرے اور اسلام کی حقیت اور حقانیت کی اوّل نشانی یہی ہے کہ اس میں ہمیشہ ایسے راستباز جن سے خدا تعالیٰ ہمکلام ہو پیدا ہوتے ہیں تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَليكة اَلا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا سوى معیار حقیقی بچے اور زندہ اور مقبول مذہب کی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ یہ نور صرف اسلام میں ہے عیسائی مذہب اس روشنی سے بے نصیب ہے..(حجۃ الاسلام، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۴۳) نَحْنُ اَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ ۚ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِيَ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّ عُونَ نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ اللہ تعالیٰ نے یہ جو فر ما یا کہ نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ کہ ہم اس دُنیا میں بھی اور آئندہ بھی متقی کے ولی ہیں.سو یہ آیت بھی تکذیب میں ان نادانوں کی ہے جنہوں نے اس زندگی میں نزول ملائکہ سے انکار کیا.اگر نزع میں نزول ملائکہ تھا تو حیات الڈ نیا میں خدا تعالی کیسے ولی ہوا.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۳۸،۳۷) وہ لوگ جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر انہوں نے استقامت اختیار کی یعنی اپنی بات سے نہ پھرے اور طرح طرح کے زلازل ان پر آئے مگر انہوں نے ثابت قدمی کو ہاتھ سے نہ دیا.ان پر فرشتے اترتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ تم کچھ خوف نہ کرو اور نہ کچھ حزن اور اس بہشت سے خوش ہو جس کا تم وعدہ دیئے گئے تھے یعنی اب وہ بہشت تمہیں مل گیا اور بہشتی زندگی اب شروع ہو گئی.کس طرح شروع ہو گئی نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ الخ اس طرح کہ ہم تمہارے متولی ور متکفل ہو گئے اس دنیا میں اور آخرت میں اور تمہارے لئے اس بہشتی زندگی میں جو کچھ تم مانگو وہی موجود ہے یہ غفور رحیم کی طرف سے مہمانی ہے.مہمانی کے لفظ سے اس پھل کی طرف اشارہ کیا ہے جو آیت تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ (ابراھیم :۲۶) میں فرمایا گیا تھا.( جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۲۶)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۱۵ سورة حم السجدة جو لوگ اللہ (جلشانہ ) کے دوست ہیں یعنی جو لوگ خدائے تعالیٰ سے سچی محبت رکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ ان سے محبت رکھتا ہے تو ان کی یہ نشانیاں ہیں کہ نہ ان پر خوف مستولی ہوتا ہے کہ کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے یا فلاں بلا سے کیوں کر نجات ہوگی کیونکہ وہ تسلی دیئے جاتے ہیں اور نہ گزشتہ کے متعلق کوئی حزن و اندوہ ہوتا ہے کیونکہ وہ صبر دیئے جاتے ہیں.دوسری یہ نشانی ہے کہ وہ ایمان رکھتے ہیں یعنی ایمان میں کامل ہوتے ہیں اور تقوی اختیار کرتے ہیں یعنی خلاف ایمان و خلاف فرمانبرداری جو باتیں ہیں اُن سے بہت دُور رہتے ہیں.تیسری اُن کی یہ نشانی ہے کہ انہیں ( بذریعہ مکالمہ الہیہ ورویائے صالحہ بشارتیں ملتی رہتی ہیں ) اس جہان میں بھی اور دوسرے جہان میں بھی خدا تعالیٰ کا ان کی نسبت یہ عہد ہے جو ٹل نہیں سکتا اور یہی پیارا اور جہ ہے جو انہیں ملا ہوا ہے.یعنی مکالمہ البہیہ اور رویائے صالحہ سے خدا تعالیٰ کے مخصوص بندوں کو جو اس کے ولی ہیں ضرور حصہ ملتا ہے اور ان کی ولایت کا بھاری نشان یہی ہے کہ مکالمات و مخاطبات الہیہ سے مشرف ہوں یہی قانونِ قدرت اللہ جل شانہ کا ہے ) کہ جو لوگ ارباب متفرقہ سے منہ پھیر کر اللہ جلشانہ کو اپنارب سمجھ لیں اور کہیں کہ ہمارا تو ایک اللہ ہی رب ہے یعنی اور کسی کی ربوبیت پر ہماری نظر نہیں ) اور پھر آزمائشوں کے وقت میں مستقیم رہیں ( کیسے ہی زلزلے آویں، آندھیاں چلیں ، تاریکیاں پھیلیں ان میں ذرا تزلزل اور تغیر اور اضطراب پیدا نہ ہو پوری پوری استقامت پر رہیں ) تو ان پر فرشتے اُترتے ہیں ( یعنی الہام یا رویائے صالحہ کے ذریعہ سے انہیں بشارتیں ملتی ہیں ) کہ دنیا اور آخرت میں ہم تمہارے دوست اور متولی اور متکفل ہیں اور آخرت میں جو کچھ تمہارے جی چاہیں گے وہ سب تمہیں ملے گا.یعنی اگر دنیا میں کچھ مکروہات بھی پیش آویں تو کوئی اندیشہ کی بات نہیں کیونکہ آخرت میں تمام غم دور ہو جائیں گے اور سب مراد میں حاصل ہوں گی.اگر کوئی کہے کہ یہ کیوں کر ہو سکتا ہے کہ آخرت میں جو کچھ انسان کا نفس چاہے اس کو ملے میں کہتا ہوں کہ یہ ہونا نہایت ضروری ہے اور اسی بات کا نام نجات ہے ورنہ اگر انسان نجات پا کر بعض چیزوں کو چاہتا رہا اور ان کے غم میں کباب ہوتا اور جلتا رہا مگر وہ چیزیں اس کو نہ ملیں تو پھر نجات کا ہے کی ہوئی.ایک قسم کا عذاب ساتھ ہی رہا.لہذا ضرور ہے کہ جنت یا بهشت یا مکتی خانه یا مرگ جو نام اس مقام کا رکھا جائے جو انتہا سعادت پانے کا گھر ہے وہ ایسا گھر چاہیے کہ انسان کو من کل الوجوہ اس میں مصفا خوشی حاصل ہو اور کوئی ظاہری یا باطنی رنج کی بات درمیان نہ ہو اور کسی نا کامی کی سوزش دل پر غالب نہ ہو.ہاں یہ بات سچ ہے کہ بہشت میں نالائق اور نا مناسب باتیں نہیں ہوں گی مگر مقدس دلوں میں اُن کی خواہش بھی پیدا نہ ہوگی بلکہ ان مقدس اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ١١٦ سورة حم السجدة مطہر دلوں میں جو شیطانی خیالات سے پاک کئے گئے ہیں، انسان کی پاک فطرت اور خالق کی پاک مرضی کے موافق پاک خواہشیں پیدا ہوں گی.تا انسان اپنی ظاہری اور باطنی اور بدنی اور روحانی سعادت کو پورے پورے طور پر پالیوے اور اپنے جمیع قومی کے کامل ظہور سے کامل انسان کہلاوے کیونکہ بہشت میں داخل کرنا انسانی نقش کے مٹا دینے کی غرض سے نہیں جیسا کہ ہمارے مخالف عیسائی و آر یہ خیال کرتے ہیں بلکہ اس غرض سے ہے کہ تا انسانی فطرت کے نقوش ظاہر و باطناً بطور کامل چمکیں اور سب بے اعتدالیاں دور ہو کر ٹھیک ٹھیک وہ امور جلوہ نما ہو جائیں جو انسان کے لئے بلحاظ ظاہری و باطنی خلقت اس کی کے ضروری ہیں.ایک عیسائی کے تین سوال اور اُن کے جوابات ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۷۹ تا ۴۸۱ حاشیه ) وَلَا تَسْتَوَى الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَ بَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ ۳۵ جو شخص شرارت سے کچھ یاوہ گوئی کرے تو تم نیک طریق سے صلح کاری کا اس کو جواب دو تب اس خصلت سے دشمن بھی دوست ہو جائے گا.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۴۹) اگر کوئی تجھ سے نیکی کرے تو تو اس سے زیادہ نیکی کر اور اگر تو ایسا کرے گا تو ما بین تمہارے اگر کوئی عداوت بھی ہوگی تو وہ ایسی دوستی سے بدل جائے گی کہ گویا وہ شخص ایک دوست بھی ہے اور رشتہ دار بھی.لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۵۶) ی تعلیم اس لئے تھی کہ اگر دشمن بھی ہو تو وہ اس نرمی اور حسن سلوک سے دوست بن جاوے اور ان باتوں کو آرام اور سکون کے ساتھ ٹن لے.یکچر لدھیانه، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۷۵) تقویٰ کے بہت سے اجزاء ہیں.تُجب ، خُود پسندی، مال حرام سے پر ہیز اور بداخلاقی سے بچنا بھی تقویٰ ہے.جو شخص اچھے اخلاق ظاہر کرتا ہے.اس کے دشمن بھی دوست ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ادفع بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ اب خیال فرمائیے یہ ہدایت کیا تعلیم دیتی ہے؟ اس ہدایت میں اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ اگر مخالف گالی دے تو اس کا جواب گالی سے نہ دو بلکہ صبر کرو.اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ تمہاری فضیلت کا قائل ہوکر خود ہی نادم اور شرمندہ ہو گا اور یہ سزا اس سزا سے کہیں بڑھ کر ہوگی جو انتقامی طور پر تم اس کو دے سکتے ہو.یوں تو ایک ذرا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 112 سورة حم السجدة سا آدمی اقدام قتل تک نوبت پہنچا سکتا ہے لیکن انسانیت کا تقاضا اور تقویٰ کا منشاء یہ نہیں ہے.خوش اخلاقی ایک ایسا جو ہر ہے کہ موذی سے موذی انسان پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے.کیا اچھا کہا ہے کہ ع لطف کن لطف که بیگانه شود حلقه بگوش رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۸۳) تیرا دشمن جو تجھ سے بدی کرتا ہے اس کا مقابلہ نیکی کے ساتھ کر.اگر تو نے ایسا کیا تو وہ تیرا ایسا دوست ہو چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۹۵) جائے گا کہ گو یا رشتہ دار بھی ہے.بدی کے مقابلہ میں نیکی کرنا جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دوست بن جاتا ہے اور دوست بھی ایسا کہ گانہ ( بدر جلد ۶ نمبر ۱۵ مؤرخہ ۱۱ را پریل ۱۹۰۷ء صفحه ۶) وَلِي حَبِيم - وَمِنْ التِهِ الَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ و اسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِى خَلَقَهُنَّ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ تم سورج اور چاند کو بھی مت سجدہ کرو اور اُس خدا کو سجدہ کرو جس نے ان سب چیزوں کو پیدا کیا ہے اگر حقیقی طور پر خدا کے پرستار ہو تو اسی خالق کی پرستش کرو نہ مخلوق کی.( براہین احمدیہ چہار تصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۲۳ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳) تم نہ سورج کی پرستش کرو اور نہ چاند کی بلکہ فقط اس ذات قدیم کی پرستش کرو جس نے ان تمام علوی و سفلی چیزوں کو وجود بخشا ہے.( شحنه حق ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۶۱) نہ سورج کو سجدہ کرو نہ چاند کو بلکہ اس خدا کو سجدہ کرو جس نے یہ تمام چیزیں سورج ، چاند ، آسمان ، آگ، پانی وغیرہ پیدا کی ہیں.چاند اور سورج کا ذکر کر کے پھر بعد اس کے جمع کا صیغہ بیان کرنا اس غرض سے ہے کہ یکل چیزیں جن کی غیر قو میں پرستش کرتی ہیں تم ہرگز ان کی پرستش مت کرو.(نیم دعوت، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۱۸) نہ سورج کی پرستش کرو اور نہ چاند کی اور نہ کسی اور مخلوق کی.اور اس کی پرستش کر وجس نے تمہیں پیدا کیا.(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۵۴) نہ تم سورج کی پرستش کرو اور نہ چاند کی بلکہ اُس ذات کی پرستش کرو کہ جو ان سب چیزوں کا پیدا کرنے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۱۱۸ سورة حم السجدة والا ہے اگر وید میں اس آیت کے ہم معنے کوئی شرتی ہوتی تو کروڑ ہا آدمی مخلوق پرستی سے ہلاک نہ ہوتے.چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۷۹۷۸) اِنَّ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي ابْتِنَا لَا يَخْفَونَ عَلَيْنَا أَفَمَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ خَيْرُ امْ لا مَنْ يَأت امنا يَوْمَ الْقِيمَةِ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ جب انسان بہت تعلق خدا کے ساتھ پیدا کرتا ہے اور سب طرح سے اس کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اعْمَلُ مَا شِئْتَ فَإِنِّي غَفَرْتُ لَكَ یعنی جو تیری مرضی ہو کئے جا میں نے تجھے سب کچھ بخش دیا.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کی طرف جھانک کر دیکھا اور فرمایا اِعْمَلُوا ما شفتم یعنی جو چاہو سو کئے جاؤ.پس یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ تو بڑا مہربان اور رحیم ہے.اور بہت رحم سے معاملہ کرتا ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۲۹ مورخه ۷ /اگست ۱۹۰۳ء صفحه ۲۲۵) سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ موت انسان پر وارد ہو جاتی ہے تو سب عبادتیں ساقط ہو جاتی ہیں اور پھر خود ہی سوال کرتے ہیں کی کیا انسان اباحتی ہو جاتا ہے اور سب کچھ اس کے لیے جائز ہو جاتا ہے؟ پھر آپ ہی جواب دیا ہے کہ یہ بات نہیں کہ وہ اباحتی ہو جاتا ہے بلکہ بات اصل یہ ہے کہ عبادت کے انتقال اس سے دور ہو جاتے ہیں اور پھر تکلف اور تصنع سے کوئی عبادت وہ نہیں کرتا بلکہ عبادت ایک شیر ہیں اور لذید غذا کی طرح ہو جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کی نافرمانی اور مخالف اس سے ہوسکتی ہی نہیں اور خدا تعالیٰ کا ذکر اس کے لئے لذت بخش اور آرام دہ ہوتا ہے یہی وہ مقام ہے جہاں کہا جاتا ہے اِعْمَلُوا مَا شِغْتُم اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ نواہی کی اجازت ہو جاتی ہے نہیں بلکہ وہ خود ہی نہیں کر سکتا اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ کوئی خصتی ہو اور اس کو کہا جاوے کہ تو جو مرضی ہے کر وہ کیا کر سکتا ہے؟ اس سے فسق و فجور مراد لینا کمال درجہ کی بے حیائی اور حماقت ہے یہ تو اعلیٰ درجہ کا مقام ہے جہاں کشف حقائق ہوتا ہے صوفی کہتے ہیں اسی کے کمال پر الہام ہوتا ہے اس کی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا ہو جاتی ہے اس وقت اسے یہ حکم ملتا ہے.پس انتقال عبادت اس سے دور ہو کر عبادت اس کے لیے غذا شریں کا کام دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ هذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ (البقرة :۲۶) فرمایا گیا ہے.(الحکم جلدے نمبر ۳۱ مورخه ۲۴ /اگست ۱۹۰۳ صفحه ۴)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۱۹ سورة حم السجدة صوفی کہتے ہیں جب تک محبت ذاتی نہ ہو جاوے ایسی محبت کہ بہشت اور دوزخ پر بھی نظر نہ ہو اس وقت تک کامل نہیں ہوتا اس سے پہلے اس کا خدا بہشت اور دوزخ ہوتے ہیں لیکن جب وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو پھر اس کے لئے اِعْمَلُوا ما شفتم کا حکم ہوتا ہے کیونکہ ان کی رضا خدا کی رضا ہوتی ہے جب تک یہ حال نہ ہوا ندیشہ ہوتا ہے کہ نیکی ضائع نہ ہو جاوے.الحاکم جلد ۸ نمبر ۱۴، ۱۵ مورخه ۱٫۳۰ پریل ۱۰ رمئی ۱۹۰۴ صفحه ۲) ج اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالذِكرِ لَمَّا جَاءَهُمْ وَ إِنَّهُ لَكِتُبُ عَزِيزٌ لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَيْدٍ اور وہ ایک ایسی کتاب ہے کہ جو ہمیشہ باطل کی آمیزش سے منزہ رہے گی اور کوئی باطل اس کا مقابلہ نہیں کر سکا اور نہ آئندہ کسی زمانہ میں مقابلہ کرے گا یعنی اس کی کامل صداقتیں کہ جو ہر یک باطل سے منزہ ہیں تمام باطل پرستوں کو کہ جو پہلے اس سے پیدا ہوئے یا آئندہ کبھی پیدا ہوں ملزم اور لاجواب کرتی رہیں گی اور کوئی مخالفانہ خیال اس کے سامنے تاب مقاومت نہیں لائے گا.( براہین احمدیہ چہار تحصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۷ ۲۴ حاشیہ نمبر ۱۱) ایک ذرہ باطل کا اس میں دخل نہیں نہ آگے سے اور نہ پیچھے سے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۵۴) مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِه جو شخص اچھا کام کرے سو اس کے لئے اور جو برا کرے وہ اس کے لئے.جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۳۱) سَرِيهِمُ ابْتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ، اَوَ لَمْ يَكفِ بِرَبِّكَ أَنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (۵۴) عنقریب ہم ان کو معمورہ عالم کے کناروں تک نشان دکھلائیں گے اور خود انہیں میں ہمارے نشان ظاہر ہوں گے یہاں تک کہ حق ان پر گھل جائے گا.(براہین احمدیہ چہار تص، روحانی خزائن جلد اصلحه ۲۴۵ حاشیہ نمبر۱۱)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۰ سورة حم السجدة ہم عنقریب اُن کو اپنے نشان دکھلائیں گے.ان کے ملک کے ارد گرد میں اور خودان میں بھی یہاں تک کہ اُن پر کھل جائے گا کہ یہ نبی سچا ہے.ایک عیسائی کے تین سوال اور اُن کے جوابات، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۴۳)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيطِنِ الرَّحِيمِ ۱۲۱ سورة الشورى بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الشّورى بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تَكَادُ السَّمَوتُ يَتَفَظَرْنَ مِنْ فَوْقِهِنَّ وَالْمَلَيكَةُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَ يَسْتَغْفِرُونَ لِمَنْ فِي الْأَرْضِ ، أَلَا إِنَّ اللهَ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ) يَسْتَغْفِرُونَ لِمَنْ فِي الْأَرْضِ یعنی خدا کے فرشتے گل اہل زمین کے لئے استغفار کرتے ہیں.اب اگر استغفار کے لئے گناہ کا ہونا ضروری ہے تو ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح بھی بے گناہ نہ تھے کیونکہ وہ بھی اہل زمین میں شامل ہیں جن کے لئے فرشتے استغفار کرتے ہیں.ریویو آف ریلجنز جلد ۲ نمبر ۶ صفحه ۲۴۶) وَ كَذلِكَ اَوْحَيْنَا إِلَيْكَ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِتُنْذِرَ أَمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا وَتُنْذِرَ يَوْمَ الْجَمْع لَا رَيْبَ فِيهِ فَرِيقٌ فِى الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِى السّعِيرِ ) جن لوگوں میں تقویٰ اور ادب ہے اور جنہوں نے لا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ پر قدم مارا ہے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ وجودی نے جو قدم مارا ہے وہ حد ادب سے بڑھ کر ہے.بیسیوں کتابیں ان لوگوں نے لکھی ہیں، مگر ہم پوچھتے ہیں کہ کیا کوئی وجودی اس بات کا جواب دے سکتا ہے کہ واقعی وجودی میں خدا ہے یا تصور ہے؟ اگر خدا ہی ہے.تو کیا یہ ضعف اور یہ کمزوریاں جو آئے دن عائد حال رہتی ہیں.یہ خدا تعالیٰ کی صفات
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۲ سورة الشورى ہیں؟ ذرا بچہ یا بیوی بیمار ہو جاوے تو کچھ نہیں بنتا اور سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کیا جاوے.مگر خدا تعالیٰ چاہے تو شفادے سکتا ہے حالانکہ وجودی کے اختیار میں یہ امر نہیں ہے.بعض وقت مالی ضعف اور افلاس ستاتا ہے بعض وقت گناہ اور فسق و فجور بے ذوقی اور بے شوقی کا موجب ہو جاتا ہے تو کیا خدا تعالیٰ کے شامل حال بھی یہ امور ہوتے ہیں؟ اگر خدا ہے تو پھر اس کے سارے کام کُن فیکون سے ہونے چاہیں حالانکہ یہ قدم قدم پر عاجز اور محتاج ٹھوکریں کھاتا ہے.افسوس وجودی کی حالت پر کہ خدا بھی بنا پھر اس سے کچھ نہ ہوا.پھر عجب تر یہ ہے کہ یہ خدائی اس کو دوزخ سے ہیں بچا سکتی.کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًا ترة ( الزلزال : ٩ ) پس جب کوئی گناہ کیا تو اس کا خمیازہ بھگتنے کے لئے جہنم میں جانا پڑا اور ساری خدائی باطل ہو گئی.وجودی بھی اس بات کے قائل ہیں کہ فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ في الشعير جب کہ وہاں بھی انسانیت کے مجسم بنے رہے، تو پھر ایسی فضول بات کی حاجت ہی کیا ہے جس کا کوئی نتیجہ اور اثر ظاہر نہ ہوا.الحکم جلد ۵ نمبر ۳۵ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۱ء صفحه ۳) اگر کوئی کہے کہ دنیا ہمیشہ رہے گی اور یہاں ہی دوزخ بہشت ہوگا ہم نہیں مان سکتے.اس کی صفت ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ (الفاتحة : (۴) کے خلاف ہے اور اس کے خلاف جا ٹھہرتا ہے فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي الحکم جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۶) الشعير قیامت کی خبر سنا" کی تعبیر بیان کرتے ہوئے فرمایا.) اس سے مراد یہ ہے کہ دینداروں کی فتح ہوگی اور دشمنوں کو ذلت کیونکہ قیامت کو بھی یہی ہونا ہے.قرآن شریف میں ہے فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ اسی دن ہوگا.دُنیا کی رنگارنگ کی وبائیں بھی البدر جلد ۲ نمبر ۳ مورخه ۶ رفروری ۱۹۰۳ء صفحه ۱۸) مامور کا زمانہ بھی ایک قیامت ہے.جیسے لوگ یوم جزاء کے دن دو فریقوں میں تقسیم ہو جاویں گے یعنی فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ في السعیر ایسے ہی مامور کی بعثت کے وقت بھی دو فریق ہو جاتے ہیں.قیامت ہی ہیں.الحکم جلدے نمبر ۲۰ مورخه ۲۱ رمئی ۱۹۰۳ صفحه ۱۳) قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِتُنْذِرَ أَم القری ہم نے قرآن کو عربی زبان میں بھیجا تا تو اس شہر کو ڈراوے جو تمام آبادیوں کی ماں ہے اور ان آبادیوں کو جو اس کے گرد ہیں یعنی تمام دنیا کو.(منن الرحمن ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۸۳) و إِنَّ فِيهَا مَدْحَ الْقُرْآنِ وَعَرَبي اس میں قرآن کی مدح اور عربی کی مدح ہے پس وَ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۳ سورة الشورى مُبِينٍ فَتَدَبَّرْهَا كَالْعَاقِلِينَ.وَ لا تمر بها عقلمندوں کی طرح تدبر کر اور غافلوں کی طرح ان پر وَلَا مُرُورٌ الْغَافِلِينَ وَاعْلَمُ أَنَّ هَذِهِ الْآيَةَ سے مت گزر اور جان کہ یہ آیت قرآن اور عربی اور مکہ تُعَظمُ الْقُرْآنَ وَالْعَرَبِيَّةَ وَمَكَّةَ وَفِيهَا نُورٌ کی عظمت ظاہر کرتی ہے اور اس میں ایک نور ہے جس مَزَّقَ الْأَعْدَا وَبَكَّت فاقرنا بتمامها نے دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے اور لاجواب کر دیا.پس تمام وَانْظُرُ إِلى نَظَامِهَا وَ فَتِّش آیت کو پڑھ اور اس کے نظام کی طرف دیکھ اور كَالْمُسْتَبْصِرِينَ وَإِنِّي تَدَتَرْعُهَا فَوَجَدْتُ دانشمندوں کی طرح تحقیق کر اور میں نے ان آیتوں میں فِيهَا أَسْرَارًا ثُمَّ أَمْعَنتُ فَرَأَيْتُ انْوَارًا تدبر کیا پس کئی بھید ان میں پائے پھر ایک گہری غور کی تو ثُمَّ عَلَقْتُ فَشَاهَدتُ مُنَالًا قَهَارًا رَبِّ کئی نور اُن میں پائے پھر ایک بہت ہی عمیق نظر سے الْعَالَمِينَ وَكُشِفَ عَلَى آنَ الْآيَةَ دیکھا تو اتار نے والے قہار کا مجھے مشاہدہ ہوا جو ربّ الْمَوْصُوفَةَ وَالْإِشَارَاتِ الْمَلْفُوفَةٌ تَهْدِى العالمین ہے اور میرے پر کھولا گیا کہ آیت موصوفہ اور إلى فَضَائِلِ الْعَرَبِيَّةِ.وَتُشِيرُ إلى آنها اهم اشارات ملفوفہ عربی کے فضائل کی طرف ہدایت کرتی الْأَلْسِنَةِ وَانَّ الْقُرْآن اُم الكُتُبِ ہیں.اور اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہ اُم الالسنہ السَّابِقَةِ وَإِنَّ مَكَّةَ اُقُ الأَرْضِينَ ہے اور قرآن پہلی کتابوں کا اُم یعنی اصل ہے اور مکہ تمام فَاقْتَادَنِي بُرُوقُ هَذِهِ الْآيَةِ إلى انواع زمین کا اُم ہے.سو مجھے اس آیت کی روشنی نے طرح التّنظسِ وَالنَّدَايَةِ.وَفَهِمْتُ سِر نُزُول طرح کے فہم اور درایت کی طرف کھینچا اور مجھے یہ بھید سمجھ الْقُرْآنِ في هذا اللّسَانِ وَسِر خَتمِ النُّبُوَّةِ آگیا کہ قرآن کیوں عربی زبان میں نازل ہوا اور یہ کہ عَلى خَيْرِ الْبَرِيَّةِ وَ خَتْمِ الْمُرْسَلِينَ ثُمَّ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو نبوت ختم ہوئی اس میں ظَهَرَتْ عَلَى آيَاتٌ أُخْرَى وَ ايّد بَعْضُهَا بھید کیا ہے پھر میرے پر اور آیتیں ظاہر ہوئیں اور بعض بَعْضًا تَثْرًا حَتَّى جَرَّنِي رَبِّي إِلى حَقِ نے بعض کی متواتر مدد کی.یہاں تک کہ میرے خدا نے الْيَقِينِ وَادْخَلَنِي فِي الْمُسْتَيْقِنِينَ حق الیقین تک مجھے کھینچ لیا اور یقین کرنے والوں میں وَظَهَرَ عَلَى أَنَّ الْقُرْآنَ هُوَ أَم الكتب مجھے داخل کیا اور میرے پر ظاہر ہو گیا کہ قرآن ہی پہلی الأولى وَالْعَرَبِيَّةَ أَمَّ الْأَلْسِنَةِ مِن الله تمام کتابوں کی ماں ہے اور ایسا ہی عربی تمام زبانوں کی الأعلى.وأما الْبَاقِيَةُ مِنَ اللُّغَاتِ فَهِيَ ماں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور باقی زبانیں اس
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام لَهَا كَالْبَنِينَ أوِ الْبَنَاتِ.(منن الرحمن ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۸۳، ۱۸۴) ۱۲۴ سورة الشورى کے بیٹے بیٹیوں کی طرح ہیں.( ترجمہ اصل کتاب سے ) وَاِنَّ اللهَ أولى فِي مَقَامَاتِ مِنَ اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کے کئی مقامات الْفُرْقَانِ إلى أنَّ الْعَرَبِيَّةَ هِيَ أُمُّ الْأَلْسِنَةِ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ زبانوں کی ماں وَوَحْرُ الرَّحْمَانِ وَلِأَجْلِ ذَلِكَ سَمَّى مَكَّةَ اور خدا کی وحی صرف عربی ہے.اور اسی واسطے اس نے مَكَّةَ وَأَمَّ الْقُرَى فَإِنَّ النَّاسَ أَرْضَعُوا مکہ کا نام مکہ اور ام القری رکھا کیونکہ لوگوں نے اس سے مِنْهَا لِبَانَ اللَّسَانِ وَالْهُدَى فَهَذِهِ اِشَارَةٌ ہدایت اور زبان کا دودھ پیا.پس یہ اس بات کی طرف إلى أَنَّهَا هِيَ مَنْبَعُ النُّطْقِ وَالنُّهى فَفَكِّر في اشارہ ہے کہ صرف عربی زبان ہی نطق اور عقل کا منبع ہے قَوْلِ رَبِّ الْوَرى قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِتُنذِدَ أَمَّد پس خدا تعالیٰ کے اس قول میں فکر کر کہ یہ قرآن عربی ہے الْقُرى وفى ذلِكَ آيَةٌ لِلَّذِى يَقى الله تا تو مکہ کو کہ جو تمام آبادیوں کی ماں ہے ڈراوے اور اس ويخشى.وَيَطلُبُ الْحَقِّ وَلا يَأْتي وَلَا يَتَّبِعُ میں اس شخص کے لئے نشان ہے جو خدا سے ڈرے اور حق سُبُلَ الْمُعْرِضِينَ کو ڈھونڈے اور انکار نہ کرے اور کنارہ کش لوگوں کا پیرو (متن الرحمن ، روحانی خزائن جلد 9 صفحه (۲۰۷) | نہ ہو.(ترجمہ اصل کتاب سے ) ۹ فَاطِرُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ اَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَ مِنَ الْأَنْعَامِ اَزْوَاجًا ۚ يَذْرَؤُكُمْ فِيْهِ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ کوئی چیز اس کے مانند نہیں.(براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد اصفحه ۵۲۱ حاشیہ نمبر ۴) اس کی مانند کوئی بھی چیز نہیں.( شحنه حق ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۹۸) خدا شناسی کے بارے میں وسط کی شناخت یہ ہے کہ خدا کی صفات بیان کرنے میں نہ تو نفی صفات کے پہلو کی طرف جھک جائے اور نہ خدا کو جسمانی چیزوں کا مشابہ قرار دے.یہی طریق قرآن شریف نے صفات باری تعالیٰ میں اختیار کیا ہے چنانچہ وہ یہ بھی فرماتا ہے کہ خداد یکھتا ، سنتا، جانتا، بولتا، کلام کرتا ہے اور پھر مخلوق کی مشابہت سے بچانے کے لئے یہ بھی فرماتا ہے لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ....یعنی خدا کی ذات اور صفات میں کوئی اس کا شریک نہیں.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۷۷،۳۷۶)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۵ سورة الشورى خدا کی ذات اور صفات کی مانند کوئی چیز نہیں.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۷) کوئی چیزا اپنی ذات اور صفات میں خدا کی شریک نہیں اور وہ سنے والا اور دیکھنے والا ہے.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۷۳) ازل سے اور قدیم سے خدا میں دو صفتیں ہیں ایک صفت تشبیہی دوسری صفت تنزیہی اور چونکہ خدا کے کلام میں دونوں صفات کا بیان کرنا ضروری تھا یعنی ایک تشبیبی صفت اور دوسری تنزیہی صفت اس لئے خدا نے تشیبی صفات کے اظہار کے لئے اپنے ہاتھ ، آنکھ، محبت، غضب وغیرہ صفات قرآن شریف میں بیان فرمائے اور پھر جبکہ احتمال تشبیہ کا پیدا ہوا تو بعض جگہ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ کہہ دیا اور بعض جگہ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى العرش (الاعراف : ۵۵) کہ دیا.(چشمہ معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۷۷) شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصّى بِهِ نُوحًا وَ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ اِبْراهِيمَ وَمُوسى وَعِيسَى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ اللهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِى إِلَيْهِ مَنْ خدا جس کو چاہتا ہے اس کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور جو اس کی طرف جھکتا ہے اس کو وہ راہ دکھا تا ہے.ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۳۰) اللهُ الَّذِى اَنْزَلَ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ ۖ وَ مَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ خداوہ ہے جس نے کتاب یعنی قرآن شریف کو حق اور میزان کے ساتھ اُتارا یعنی وہ ایسی کتاب ہے جوحق اور باطل کے پرکھنے کے لئے بطور میزان کے ہے.جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۸۶) اللهُ لَطِيفُ بِعِبَادِهِ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ اللہ باریک نظر سے اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے.ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۸)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۶ سورة الشورى اَم يَقُولُونَ افْتَرَى عَلَى اللهِ كَذِبًا فَإِن يَشَا اللهُ يَخْتِمُ عَلَى قَلْبِكَ وَيَمُحُ الله ۲۵ الْبَاطِلَ وَيُحِقُّ الْحَقِّ بِكَلِمَتِهِ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ کیا یہ منکر لوگ کہتے ہیں کہ یہ خدا کا کلام نہیں اور خدا پر جھوٹ باندھا ہے اگر خدا چاہے تو اُس کا اُترنا بند کر دے پر وہ بند نہیں کرتا کیونکہ اس کی عادت اسی پر جاری ہے کہ وہ احقاق حق اور ابطال باطل اپنے کلمات سے کرتا ہے اور یہ منصب اُسی کو پہنچتا ہے کیونکہ امراض روحانی پر اُسی کو اطلاع ہے اور ازالہ مرض اور استرداد صحت پر وہی قادر ہے.(براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۶۳، ۶۶۴) وَ هُوَ الَّذِى يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُوا عَنِ السَّيَّاتِ وَ يَعْلَمُ 199 تَفْعَلُونَ ) تمہارا خداوہ خدا ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی بدیاں ان کو معاف کر دیتا ہے کسی کو یہ دھوکا نہ لگے کہ قرآن شریف میں یہ آیت بھی ہے وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَ ا یعنی جو شخص ایک ذرہ بھی شرارت کرے گا وہ اس کی سزا پائے گا.پس یادر ہے کہ اس میں اور دوسری آیات میں کچھ تناقض نہیں کیونکہ اس شر سے وہ شتر مراد ہے جس پر انسان اصرار کرے اور اس کے ارتکاب سے باز نہ آوے اور تو بہ نہ کرے.اسی غرض سے اس جگہ شر کا لفظ استعمال کیا ہے نہ ذنب کا تا معلوم ہو کہ اس جگہ کوئی شرارت کا فعل مراد ہے جس سے شریر آدمی باز آنا نہیں چاہتا.ورنہ سارا قرآن شریف اس بارہ میں بھرا پڑا ہے کہ ندامت اور توبہ اور ترک اصرار اور استغفار سے گناہ بخشے جاتے ہیں بلکہ خدا تعالیٰ تو بہ کرنے والوں سے پیار کرتا ہے.(چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۴) الحميد وَهُوَ الَّذِى يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِنْ بَعْدِ مَا قَنَطُوا وَ يَنْشُرُ رَحْمَتَهُ ۖ وَهُوَ الْوَلِيُّ اللہ وہ ذات کامل الرحمت ہے کہ اُس کا قدیم سے یہی قانون قدرت ہے کہ اس تنگ حالت میں وہ ضرور مینہ برساتا ہے کہ جب لوگ نا امید ہو چکتے ہیں پھر زمین پر اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے اور وہی کارساز حقیقی اور ظاہر و باطنا قابل تعریف ہے یعنی جب سختی اپنی نہایت کو پہنچ جاتی ہے اور کوئی صورت مخلصی کی نظر نہیں آتی تو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۷ سورة الشورى اس صورت میں اس کا یہی قانون قدیم ہے کہ وہ ضرور عاجز بندوں کی خبر لیتا ہے اور اُن کو ہلاکت سے بچاتا ہے اور جیسے وہ جسمانی سختی کے وقت رحم فرماتا ہے اسی طرح جب روحانی سختی یعنی ضلالت اور گمراہی اپنی حد کو پہنچ جاتی ہے اور لوگ راہِ راست پر قائم نہیں رہتے تو اس حالت میں بھی وہ ضرور اپنی طرف سے کسی کو مشرف بوحی کر کے اور اپنے نور خاص کی روشنی عطا فرما کر ضلالت کی مہلک تاریکی کو اس کے ذریعہ سے اٹھاتا ہے اور چونکہ جسمانی رحمتیں عام لوگوں کی نگاہ میں ایک واضح امر ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے آیت مدوحہ میں اول ضرورت فرقان مجید کی نازل ہونے کی بیان کر کے پھر بطور توضیح جسمانی قانون کا حوالہ دیا تا دانشمند آدمی جسمانی قانون کو دیکھ کر کہ ایک واضحہ اور بدیہی امر ہے خدائے تعالیٰ کے روحانی قانون کو بآسانی سمجھ سکے اور اس جگہ یہ بھی واضح رہے کہ جو لوگ بعض کتابوں کا منزل من اللہ ہونا مانتے ہیں اُن کو تو خود اقرار کرنا پڑتا ہے کہ وہ کتابیں ایسے وقتوں میں نازل ہوئی ہیں کہ جب ان کے نزول کی ضرورت تھی.پس اسی اقرار کے ضمن میں ان کو یہ دوسرا اقرار کرنا بھی لازم آیا کہ ضرورت کے وقتوں میں کتابوں کا نازل کرنا خدائے تعالیٰ کی عادت ہے لیکن ایسے لوگ کہ جو ضرورت کتب البہیہ سے منکر ہیں جیسے برہمو سماج والے سوان کے ملزم کرنے کے لئے اگر چہ بہت کچھ ہم لکھ چکے ہیں لیکن اگر ان میں ایک ذرا انصاف ہو تو ان کو وہی ایک دلیل کافی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے آیات گذشتہ بالا میں آپ بیان فرمائی ہے کیونکہ جس حالت میں وہ لوگ مانتے ہیں کہ حیاتِ ظاہری کا تمام انتظام خدائے تعالی کی طرف سے ہے اور وہی اپنی آسمانی روشنی اور بارانی پانی کے ذریعہ سے دنیا کو تاریکی اور ہلاکت سے بچاتا ہے تو پھر وہ اس اقرار سے کہاں بھاگ سکتے ہیں کہ حیات باطنی کے وسائل بھی آسمان ہی سے نازل ہوتے ہیں اور خود یہ نہایت کو نہ اندیشی اور قلت معرفت ہے کہ نا پائیدار حیات کا اہتمام تصرف خاص الہی سے تسلیم کر لیا جاوے لیکن جو حقیقی حیات اور لازوال زندگی ہے یعنی معرفت الہی اور نور باطنی یہ صرف اپنی ہی عقلوں کا نتیجہ قرار دیا جائے.کیا وہ خدا جس نے جسمانی سلسلہ کے بر پارکھنے کے لئے اپنی الوہیت کی قومی طاقتوں کو ظاہر کیا ہے اور بغیر وسیلہ انسانی ہاتھوں کے زبر دست قدرتیں دکھائی ہیں وہ روحانی طور پر اپنی طاقت ظاہر کرنے کے وقت ضعیف اور کمزور خیال کیا جا سکتا ہے کیا ایسا خیال کرنے سے وہ کامل رہ سکتا ہے یا اس کی روحانی طاقتوں کا ثبوت میسر آ سکتا ہے.برا این احمد یہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۶۴ تا ۶۶۹ ) خدا وہ خدا ہے جو بارش کو اس وقت اُتارتا ہے جبکہ لوگ مینہ سے نومید ہو جاتے ہیں تب نومیدی کے بعد
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۸ سورة الشورى اپنی رحمت پھیلاتا ہے اور جس بندہ کو اپنے بندوں میں سے چاہتا ہے رسالت اور نبوت کے لئے چن لیتا ہے.برا این احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن ۲۱ صفحه ۹۶) وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُوا عَنْ كَثِيرٍ انسان کسی اپنی ذاتی لیاقت اور ہنر کی وجہ سے خدا تعالیٰ سے انصاف کا مطالبہ ہرگز نہیں کرسکتا.قرآن شریف کی رُو سے خدا کے کام سب مالکانہ ہیں جس طرح کبھی وہ گناہ کی سزا دیتا ہے ایسا ہی وہ کبھی گناہ کو بخش بھی دیتا ہے یعنی دونوں پہلوؤں پر اس کی قدرت نافذ ہے.جیسا کہ مقتضائے مالکیت ہونا چاہیئے.اور اگر وہ ہمیشہ گناہ کی سزا دے تو پھر انسان کا کیا ٹھکانہ ہے بلکہ اکثر وہ گناہ بخش دیتا ہے اور تنبیہ کی غرض سے کسی گناہ کی سزا بھی دیتا ہے تا غافل انسان متنبہ ہو کر اس کی طرف متوجہ ہو جیسا کہ قرآن شریف میں یہ آیت ہے وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُوا عَنْ کثیر ( ترجمہ ) اور جو کچھ تمہیں کچھ مصیبت پہنچتی ہے پس تمہاری بداعمالی کے سبب سے ہے اور خدا بہت سے گناہ بخش دیتا ہے اور کسی گناہ کی سزا چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۳، ۲۴) دوسری قسم دکھ کی وہ ہے جس میں یہی نہیں کہ دکھ ہوتا ہے بلکہ اس میں صبر و ثبات کھویا جاتا ہے اس میں نہ دیتا ہے.انسان مرتا ہے نہ جیتا ہے اور سخت مصیبت اور بلا میں ہوتا ہے یہ شامت اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے جس کی طرف اس آیت میں ارشاد ہے مَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِ یکم اور اس قسم کے دُکھوں سے بچنے کا یہی طریق اور علاج ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتار ہے کیونکہ دنیا کی زندگی چند روزہ ہے اور اس زندگی میں اور شیطان اس کی تاک میں لگا رہتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اس کو خدا سے دور پھینک دے اور نفس اس کو دھوکا دیتا رہتا ہے کہ ابھی بہت عرصہ تک زندہ رہنا ہے لیکن یہ بڑی بھاری غلطی ہے اگر انسان اس دھو کے میں آکر خدا تعالیٰ سے دور جا پڑے اور نیکیوں سے دستکش ہو جاوے.موت ہر وقت قریب ہے! الحکم جلد نمبر ۱۱ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۲ صفحه ۳) وَجَزْؤُا سَيِّئَةٍ سَيْئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ فَاجْرُهُ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّلِمِينَ بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے جو کی گئی ہو.لیکن جو شخص گناہ کو بخش دے اور ایسے موقع پر بخشے کہ اس سے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۲۹ سورة الشورى کوئی اصلاح ہوتی ہو.کوئی شر پیدا نہ ہوتا ہو.یعنی عین عفو کے محل پر ہو.نہ غیر محل پر تو اس کا وہ بدلہ پائے گا.اس آیت سے ظاہر ہے کہ قرآنی تعلیم یہ نہیں کہ خواہ نخواہ اور ہر جگہ شر کا مقابلہ نہ کیا جائے اور شریروں اور ظالموں کو سزا نہ دی جائے.بلکہ یہ تعلیم ہے کہ دیکھنا چاہئے کہ وہ محل اور موقع گناہ بخشنے کا ہے یا سزا دینے کا ہے.پس مجرم کے حق میں اور نیز عامہ خلائق کے حق میں جو کچھ فی الواقعہ بہتر ہو وہی صورت اختیار کی جائے.بعض وقت ایک مجرم گناہ بخشنے سے تو بہ کرتا ہے.اور بعض وقت ایک مجرم گناہ بخشنے سے اور بھی دلیر ہو جاتا ہے.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اندھوں کی طرح صرف گناہ بخشنے کی عادت مت ڈالو.بلکہ غور سے دیکھ لیا کرو کہ حقیقی نیکی کس بات میں ہے آیا بخشنے میں یا سزا دینے میں.پس جو امر شکل اور موقع کے مناسب ہو وہی کرو.افراد انسانی کے دیکھنے سے صاف ظاہر ہے کہ جیسے بعض لوگ کینہ کشی پر بہت حریص ہوتے ہیں یہاں تک کہ دادوں پر دادوں کے کینوں کو یا در کھتے ہیں.ایسا ہی بعض لوگ عفو اور درگزر کی عادت کو انتہا تک پہنچا دیتے ہیں اور بسا اوقات اس عادت کے افراط سے دیوثی تک نوبت پہنچ جاتی ہے اور ایسے قابل شرم حلم اور عفو اور درگزران سے صادر ہوتے ہیں جو سراسر حمیت اور غیرت اور عفت کے برخلاف ہوتے ہیں بلکہ نیک چلنی پر داغ لگاتے ہیں اور ایسے عفو اور درگزر کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سب لوگ تو بہ توبہ کر اٹھتے ہیں.انہیں خرابیوں کے لحاظ سے قرآن شریف میں ہر ایک خلق کے لئے محل اور موقع کی شرط لگا دی ہے اور ایسے خلق کو منظور نہیں رکھا جو بے محل صادر ہو.اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۵۲،۳۵۱) قرآن شریف میں ایک جگہ تو یہ ہے کہ دانت کے بدلے دانت اور آنکھ کے بدلے آنکھ.یہ تو تفصیل ہے اور دوسری جگہ یہ اجمالی عبارت ہے کہ وَجَزْوُا سَيِّئَةٍ سَيْئَةٌ مِثْلُهَا.پس جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ اجمالی عبارت توسیع قانون کے لئے بیان فرمائی گئی ہے.کیونکہ بعض صورتیں ایسی ہیں کہ ان میں یہ قانون جاری نہیں ہو سکتا.مثلاً ایک ایسا شخص کسی کا دانت توڑے کہ اس کے منہ میں دانت نہیں اور باعث کبرسنی یا کسی اور سبب سے اس کے دانت نکل گئے ہیں تو دندان شکنی کی سزا میں ہم اس کا دانت تو ڑ نہیں سکتے.کیونکہ اس کے تو منہ میں دانت ہی نہیں.ایسا ہی اگر ایک اندھا کسی کی آنکھ پھوڑ دے تو ہم اس کی آنکھ نہیں پھوڑ سکتے کیونکہ اس کی تو آنکھیں ہی نہیں.خلاصہ مطلب یہ کہ قرآن شریف نے ایسی صورتوں کو احکام میں داخل کرنے کے لئے اس قسم کے قواعد کلیہ بیان فرمائے ہیں پس اس کے احکام اور قوانین پر کیوں کر اعتراض ہو سکے.اور اس نے صرف یہی نہیں کہا بلکہ ایسے قواعد کلیہ بیان فرما کر ہر ایک کو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اجتہاد اور استخراج اور استنباط کی ترغیب دی ہے.۱۳۰ سورة الشورى (کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۸۸) فَانظُرُ إلى هذِهِ الرَّقِيقَةِ الرُّوحَانِيَّةِ فَإِنَّهُ اس بار یک روحانی نکتہ پر غور کرو کہ اللہ تعالیٰ أَمَرَ بِالْعَفْوِ عَنِ الْجَرِيمَةِ بِشَرطِ أَنْ يَتَحَقَّقَ فِيْهِ نے جُرم کو معاف کرنے کا اس شرط پر حکم دیا ہے کہ إصْلَاحُ لِنَفْسٍ وَإِلَّا فَجَزَاءُ السَّيِّئَةِ بِالسَّيِّئَةِ اس سے مجرم کے نفس میں اصلاح پیدا ہو ورنہ بدی کا (خطبہ الہامید روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۳۱۶) بدلہ اتنی ہی بدی ہے.( ترجمہ از مرتب) اجر خدا پر ہے.بدی کی پاداش میں اصولِ انصاف تو یہی ہے کہ بدکن آدمی اسی قدر بدی کا سزاوار ہے جس قدر اس نے بدی کی ہے پر جو شخص عفو کر کے کوئی اصلاح کا کام بجالائے یعنی ایسا عفو نہ ہو جس کا نتیجہ کوئی خرابی ہو سو اس کا (براہین احمدیہ چہار تصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۳۳، ۴۳۴ حاشیه در حاشیه ) اصولِ انصاف یہی ہے کہ جس کو دُکھ پہنچایا گیا ہے وہ اُسی قدر دُکھ پہنچانے کا حق رکھتا ہے لیکن اگر کوئی معاف کر دے اور معاف کرنا بے محل نہ ہو بلکہ اس سے اصلاح پیدا ہوتی ہو تو ایسا شخص خدا سے اجر پائے گا.تحفہ قیصریه، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۲۸۲) قانون انصاف کی رُو سے ہر ایک بدی کی سزا اُسی قدر بدی ہے لیکن اگر کوئی شخص اپنے گنہ گار کو معاف کرے بشرطیکہ اُس معاف کرنے میں شخص مجرم کی اصلاح ہو نہ یہ کہ معاف کرنے سے اور بھی زیادہ دلیر ہو اور بیباک ہو جائے تو ایسا شخص خدا تعالیٰ سے بڑا اجر پائے گا.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۶۳) اگر کوئی تمہیں دُکھ پہنچاوے مثلاً دانت توڑ دے یا آنکھ پھوڑ دے تو اس کی سزا اسی قدر بدی ہے جو اس نے کی لیکن اگر تم ایسی صورت میں گناہ معاف کر دو کہ اس معافی کا کوئی نیک نتیجہ پیدا ہو اور اس سے کوئی اصلاح ہو سکے.یعنی مثلاً مجرم آئندہ اس عادت سے باز آجائے تو اس صورت میں معاف کرنا ہی بہتر ہے اور اس معاف کرنے کا خدا سے اجر ملے گا.اب دیکھو اس آیت میں دونوں پہلو کی رعایت رکھی گئی ہے اور عفو اور انتقام کو مصلحت وقت سے وابستہ کر دیا گیا ہے.سو یہی حکیمانہ مسلک ہے جس پر نظام عالم کا چل رہا ہے رعایت محل اور وقت سے گرم اور سرد دونوں کا استعمال کرنا یہی عقلمندی ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ ہم ایک ہی قسم کی غذا پر ہمیشہ زور نہیں ڈال سکتے بلکہ حسب موقع گرم اور سرد غذا ئیں بدلتے رہتے ہیں.اور جاڑے اور گرمی کے وقتوں میں کپڑے بھی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۱ سورة الشورى مناسب حال بدلتے رہتے ہیں.پس اسی طرح ہماری اخلاقی حالت بھی حسب موقع تبدیلی کو چاہتی ہے.ایک وقت رعب دکھلانے کا مقام ہوتا ہے وہاں نرمی اور درگزر سے کام بگڑتا ہے اور دوسرے وقت نرمی اور تواضع کا موقع ہوتا ہے اور وہاں رعب دکھلانا سفلہ پن سمجھا جاتا ہے.غرض ہر ایک وقت اور ہر ایک مقام ایک بات کو چاہتا ہے.پس جو شخص رعایت مصالح اوقات نہیں کرتا وہ حیوان ہے نہ انسان اور وہ وحشی ہے نہ (نسیم دعوت ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۳۸،۴۳۷) مہذب.بدی کا بدلہ اسی قدر بدی ہے.دانت کے عوض دانت اور آنکھ کے عوض آنکھ اور گالی کے عوض گالی اور جو شخص معاف کر دے مگر ایسا معاف کرنا جس کا نتیجہ کوئی اصلاح ہو نہ کوئی خرابی.یعنی جس کو معاف کیا گیا ہے وہ کچھ سدھر جائے اور بدی سے باز آجائے تو اس شرط سے معاف کرنا انتظام سے بہتر ہوگا اور معاف کرنے والے کو اس کا بدلہ ملے گا.یہ نہیں کہ ہر ایک محل بے محل میں ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری بھی پھیر دی جائے.یہ تو دور از حکمت ہے.اور بعض اوقات بدوں سے نیکی کرنا ایسا مضر ہو جاتا ہے کہ گویا نیکوں سے بدی لیکھر لاہور ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۵۶) بدی کی سزا اسی قدر بدی ہے اور جو کوئی معاف کر دے مگر ایسے محل اور مقام پر کہ وہ عفو اصلاح کا موجب ہو.اسلام نے عفو خطا کی تعلیم دی لیکن یہ نہیں کہ اس سے شر بڑھے.کی ہے.لیکچر لدھیانه، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۸۳) جَزْوُا سَيْئَةٍ سَيْئَةٌ مِثْلُها الآیت اس میں عفو کے لئے یہ شرط رکھی ہے کہ اس میں اصلاح ہو.یہودیوں کے مذہب نے تو یہ کیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت.اُن میں انتظامی قوت اس قدر بڑھ گئی تھی اور یہاں یہ عادت اُن میں پختہ ہوگئی تھی کہ اگر باپ نے بدلہ نہیں لیا تو بیٹے اور اس کے پوتے تک کے فرائض میں یہ امر ہوتا تھا کہ وہ بدلہ لے.اس وجہ سے اُن میں کینہ تو زی کی عادت بڑھ گئی تھی.اور وہ بہت سنگدل اور بے درد ہو چکے تھے.عیسائیوں نے اس تعلیم کے مقابل یہ تعلیم دی کہ ایک گال پر کوئی طمانچہ مارے تو دوسری بھی پھیر دو.ایک کوس بیگار لے جاوے تو دوکوس چلے جاؤ.وغیرہ.اس تعلیم میں جو نقص ہے وہ ظاہر ہے کہ اس پر عملدرآمد ہی نہیں ہو سکتا.اور عیسائی گورنمنوں نے عملی طور پر ثابت کر دیا ہے کہ یہ تعلیم ناقص ہے.کیا یہ کسی عیسائی کی جرات ہو سکتی ہے کہ کوئی خبیث طمانچہ مار کر دانت نکال دے تو وہ دوسری گال پھیر دے کہ ہاں اب دوسرا دانت بھی نکال دو.وہ خبیث تو اور بھی دلیر ہو جاوے گا.اور اس سے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۲ سورة الشورى امن عامہ میں خلل واقع ہوگا.پھر کیوں کر ہم تسلیم کریں کہ یہ تعلیم عمدہ ہے یا خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہو سکتی ہے اگر اس پر عمل ہو تو کسی ملک کا بھی انتظام نہ ہو سکے ایک ملک ایک دشمن چھین لے تو دوسرا خود حوالہ کرنا پڑے.ایک افسر گرفتار ہو جاوے تو دس اور دے دیئے جاویں.یہ نقص ہیں جو ان تعلیموں میں ہیں.اور یہ صحیح نہیں.ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ یہ احکام بطور قانون مختص الزمان تھے.جب وہ زمانہ گزر گیا دوسرے لوگوں کے حسب حال وہ تعلیم نہ رہی.یہودیوں کا وہ زمانہ تھا کہ وہ چار سو برس تک غلامی میں رہے اور اس غلامی کی زندگی کی وجہ سے ان میں قساوت قلبی بڑھ گئی اور وہ کینہ کش ہو گئے.اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس بادشاہ کے زمانہ میں کوئی ہوتا ہے اُس کے اخلاق بھی اسی قسم کے ہو جاتے ہیں.سکھوں کے زمانہ میں اکثر لوگ ڈاکو ہو گئے تھے.انگریزوں کے زمانہ میں تہذیب اور تعلیم پھیلتی جاتی ہے اور ہر شخص اس طرف کوشش کر رہا ہے.غرض بنی اسرائیل نے فرعون کی ماتحتی کی تھی اسی وجہ سے اُن میں نظلم بڑھ گیا تھا.اس لئے توریت کے زمانہ میں عدل کی ضرورت مقدم تھی کیونکہ وہ لوگ اس سے بے خبر تھے اور جابرانہ عادت رکھتے تھے.اور انہوں نے یقین کر لیا تھا کہ دانت کے بدلے دانت کا توڑ نا ضروری ہے.اور یہ ہمارا فرض ہے.اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو سکھایا کہ عدل تک ہی بات نہیں رہتی بلکہ احسان بھی ضروری ہے.اس سبب سے مسیح کے ذریعہ انہیں یہ تعلیم دی گئی کہ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیر دو.اور جب اسی پر سارا زور دیا گیا تو آخر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اس تعلیم کو اصل نکتہ پر پہنچادیا.اور وہ یہی تعلیم تھی کہ بدی کا بدلہ اُسی قدر بدی ہے لیکن جو شخص معاف کر دے اور معاف کرنے سے اصلاح ہوتی ہو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور اجر ہے.عضو کی تعلیم دی ہے مگر ساتھ قید لگائی کہ اصلاح ہو بے محل عفو نقصان پہنچاتا ہے.پس اس مقام پر غور کرنا چاہئے کہ جب توقع اصلاح کی ہو تو عفو ہی کرنا چاہئے.جیسے دو خدمتگار ہوں ایک بڑا شریف الاصل اور فرمانبردار اور خیر خواہ ہو لیکن اتفاقاً اس سے کوئی غلطی ہو جاوے اس موقع پر اس کو معاف کرنا ہی مناسب ہے.اگر سزادی جاوے تو ٹھیک نہیں.لیکن ایک بدمعاش اور شریر ہے ہر روز نقصان کرتا ہے اور شرارتوں سے باز نہیں آتا اگر اُسے چھوڑ دیا جاوے تو وہ اور بھی بیباک ہو جائے گا.اُس کو سزا ہی دینی چاہئے.غرض اس طرح پر حل اور موقع شناسی سے کام لو.یہ تعلیم ہے جو اسلام نے دی ہے اور جو کامل تعلیم ہے اس کے بعد اور کوئی نئی تعلیم یا شریعت نہیں آسکتی.لیکھر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۸۵،۲۸۴) بدی کی جزا اسی قدر ہے جس قدر بدی کی گئی.مگر جو کوئی عفو کرے اور اس عفو میں کوئی اصلاح مقصود ہو تو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۳ سورة الشورى اس کا اجر خدا کے پاس ہے یہ تو قرآن شریف کی تعلیم ہے.مگر انجیل میں بغیر کسی شرط کے ہر ایک جگہ عفو اور درگزر کی ترغیب دی گئی ہے اور انسانی دوسرے مصالح کو جن پر تمام سلسلہ تمدن کا چل رہا ہے پامال کر دیا ہے اور انسانی قومی کے درخت کی تمام شاخوں میں سے صرف ایک شاخ کے بڑھنے پر زور دیا ہے اور باقی شاخوں کی رعایت قطعا ترک کر دی گئی ہے.پھر تعجب ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خود اخلاقی تعلیم پر عمل نہیں کیا.انجیر کے درخت کو بغیر پھل کے دیکھ کر اُس پر بددعا کی اور دوسروں کو دُعا کرنا سکھلایا.اور دوسروں کو یہ بھی حکم دیا کہ تم کسی کو احمق مت کہو مگر خود اس قدر بدزبانی میں بڑھ گئے کہ یہودی بزرگوں کو ولد الحرام تک کہہ دیا اور ہر ایک وعظ میں یہودی علماء کو سخت سخت گالیاں دیں اور برے برے اُن کے نام رکھے.اخلاقی معلم کا فرض یہ ہے کہ پہلے آپ اخلاق کریمہ دکھلاوے.پس کیا ایسی تعلیم ناقص جس پر انہوں نے آپ بھی عمل نہ کیا خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو سکتی ہے؟ پاک اور کامل تعلیم قرآن شریف کی ہے جو انسانی درخت کی ہر ایک شاخ کی پرورش کرتی ہے اور قرآن شریف صرف ایک پہلو پر زور نہیں ڈالتا بلکہ کبھی تو عفو اور درگزر کی تعلیم دیتا ہے مگر اس شرط سے کہ عفو کر نا قرین مصلحت ہو اور کبھی مناسب محل اور وقت کے مجرم کو سزا دینے کے لئے فرماتا ہے.پس در حقیقت قرآن شریف خدا تعالیٰ کے اس قانون قدرت کی تصویر ہے جو ہمیشہ ہماری نظر کے سامنے ہے.چشمه سیحی ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۴۶،۳۴۵) قرآن شریف نے بے فائدہ عفو اور درگزر کو جائز نہیں رکھا کیونکہ اس سے انسانی اخلاق بگڑتے ہیں اور شیراز کانظام درہم برہم ہو جاتا ہے بلکہ اس عضو کی اجازت دی ہے جس سے کوئی اصلاح ہو سکے.چشمه مسیحی روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۴۶ حاشیه ) اصل بات تو یہ ہے کہ بدی کا عوض تو اس قدر بدی ہے جو پہنچ گئی ہے لیکن جو شخص عفو کرے اور عفو کا نتیجہ کوئی اصلاح ہو نہ کہ کوئی فساد.یعنی عفو اپنے محل پر ہو نہ غیر محل پر.پس اجر اس کا اللہ پر ہے یعنی یہ نہایت احسن طریق ہے.اب دیکھئے اس سے بہتر اور کون سی تعلیم ہوگی کہ عفو کو عفو کی جگہ اور انتقام کو انتقام کی جگہ رکھا.جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۲۷) بدی کا بدلہ بدی ہے جو کی جائے جیسا کہ توریت کی تعلیم ہے مگر جو شخص عفو کرے جیسا کہ انجیل کی تعلیم ہے تو اس صورت میں وہ عضو مستحسن اور جائز ہوگی جب کہ کوئی نیک نتیجہ اس کا مرتب ہوا اور جس کو معاف کیا گیا کوئی اصلاح اس کی اس عفو سے متصور ہو ورنہ قانون یہی ہے جو توریت میں مذکور ہے.(پیغام صلح ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۷۱)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۴ سورة الشورى.بدی کی سزا اسی قدر بدی ہے لیکن جو شخص عفو کرے اور ایسی عضو ہو کہ اس سے کوئی اصلاح مقصود ہو تو وہ خدا سے اپنا اجر پائے گا یعنی بے محل اور بے موقع عفو نہ ہو جس سے کوئی بد نتیجہ نکلے اور کوئی فساد پیدا ہو بلکہ ایسے موقع پر عفو ہو جس سے کسی صلاحیت کی امید ہو اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بنی آدم کی طبیعتیں یکساں واقع نہیں ہوئیں اور گناہ کرنے والوں کی عادتیں اور استعدادیں ایک طور کی نہیں ہوا کرتیں بلکہ بعض تو سزا کے لائق ہوتے ہیں اور بغیر سزا کے اُن کی اصلاح ممکن نہیں اور بعض عفو اور درگزر سے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور سزا دینے سے چڑ کر اور بھی بدی میں مقام ہو جاتے ہیں.فریق ظالم کو اس بدی کی مانند سزا ہوگی جو اُس نے اپنے فعل سے فریق مظلوم کو پہنچائی.( مجموعہ اشتہارات جلد ا صفحه ۵۶۶) ( مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۲۵۶) جس قسم کی فریق مظلوم کو بدی پہنچائی گئی ہے اسی قسم کی فریق ظالم کو جزا پہنچے گی.( مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۲۶۶) جس فریق ظالم کی طرف سے فریق مظلوم کو کوئی بدی پہنچی ہے اسی قسم کی بدی فریق ظالم کو پہنچے گی.( مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۲۷۵) بدی کی سزا ذلت ہے مگر اس ذلت کی مانند اور مشابہہ جو فریق ظالم نے فریق مظلوم کو پہنچائی ہو.( مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۲۸۵) جس قسم کی ذلّت ان لوگوں نے پہنچائی اسی قسم کی ذلت ان کو پہنچے گی.( مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحه ۳۵۳) بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے لیکن اگر کوئی عفو کرے، مگر وہ عفو بے محل نہ ہو، بلکہ اس عفو سے اصلاح مقصود ہو، تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے.مثلاً اگر چور کو چھوڑ دیا جاوے تو وہ دلیر ہوکر ڈاکہ زنی کرے گا.اس کو سزا ہی دینی چاہیے.لیکن اگر دو نو کر ہوں اور ایک ان میں سے ایسا ہو کہ ذراسی چشم نمائی ہی اس کو شرمندہ کر دیتی اور اس کی اصلاح کا موجب ہوتی ہے تو اس کو سخت سزا منا سب نہیں ، مگر دوسر اعمد ا شرارت کرتا ہے، اس کو عفو کریں تو بگڑتا ہے، اس کو سزا ہی دی جاوے.تو بتا و مناسب حکم وہ ہے جو قرآن مجید نے دیا ہے یا وہ جو انجیل پیش کرتی ہے؟ قانون قدرت کیا چاہتا ہے؟ وہ تقسیم اور رویت محل چاہتا ہے.یہ تعلیم کہ عفو سے اصلاح مد نظر ہو، ایسی تعلیم ہے جس کی نظیر نہیں اور اسی پر آخر متمدن انسان کو چلنا پڑتا ہے اور یہی تعلیم ہے جس پر عمل کرنے سے انسان میں قوت اجتہاد اور تدبر اور فراست بڑھتی ہے.گویا یوں کہا گیا ہے کہ ہر طرح کی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۵ سورة الشورى شہادت سے دیکھو اور فراست سے غور کرو.اگر عضو سے فائدہ ہو تو معاف کرو لیکن اگر خبیث اور شریر ہے تو ه جَزُوا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا پر عمل کرو.اسی طرح پر اسلام کی دوسری پاک تعلیمات ہیں جو ہر زمانہ میں روز روشن کی طرح ظاہر ہیں.الحکم جلد ۴ نمبر ۱۴ مورخه ۱/۱۷اپریل ۱۹۰۰ء صفحه ۶،۵) توریت......ایک بے جا سختی پر زور دے رہی تھی اور انتقامی قوت کو بڑھاتی تھی اور انجیل بالمقابل بے ہودہ عفو پر زور مارتی تھی قرآن شریف نے ان دونوں کو چھوڑ کر حقیقی تعلیم دی جَزُوا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ فَاجْرُهُ عَلَى اللهِ یعنی بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے لیکن جو شخص معاف کر دے اور اس معاف کرنے میں اصلاح مقصود ہو اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۵ مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۳ صفحه ۲) اسلام نے سب سے اول یہ بتایا ہے کہ کوئی قوت اور طاقت جو انسان کو دی گئی ہے فی نفسہ وہ بری نہیں ہے بلکہ اس کی افراط یا تفریط اور برا استعمال اسے اخلاقی ذمیمہ کی ذیل میں داخل کرتا ہے اور اس کا برمل اور اعتدال پر استعمال ہی اخلاق ہے.یہی وہ اصول ہے جو دوسری قوموں نے نہیں سمجھا اور قرآن نے جس کو بیان کیا ہے اب اس اصول کو مد نظر رکھ کر وہ کہتا ہے جَزُوا سَيِّئَةٍ سَيْئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ الآية یعنی بدی کی سزا تو اسی قدر بدی ہے لیکن جس نے عفو کیا اور اس عفو میں اصلاح بھی ہو.عفو کوتو ضرور رکھا ہے مگر یہ نہیں کہ اس عضو پر شریر اپنی شرارت میں بڑھے یا تمدن اور سیاست کے اصولوں اور انتظام میں کوئی خلل واقع ہو بلکہ ایسے موقع پر سزا ضروری ہے.عفو اصلاح ہی کی حالت میں روا رکھا گیا ہے.اب بتاؤ کہ کیا یہ تعلیم انسانی اخلاق کی مستم اور مکمل ہو سکتی ہے یا نرے طمانچے کھانے.قانون قدرت بھی پکار کر اسی کی تائید کرتا ہے.اور عملی طور پر بھی اس کی ہی تائید ہوتی ہے انجیل پر عمل کرنا ہے تو پھر آج ساری عدالتیں بند کر دو اور دو دن کے لیے پولیس اور پہرہ اٹھا دو تو دیکھو کہ انجیل کے ماننے سے کس قدر خون کے دریا بہتے ہیں اور انجیل کی تعلیم اگر ناقص اور ادھوری نہ ہوتی تو سلاطین کو جدید قوانین کیوں بنانے پڑتے.الحکم جلد ۶ نمبر ۵ مورخه ۷ رفروری ۱۹۰۲ ء صفحه ۳، ۴) انسان انسان تب ہی بنتا ہے کہ وہ سارے قویٰ کو استعمال کرے، مگر انجیل کہتی ہے کہ سارے قومی کو بریکار چھوڑ دو اور ایک ہی قوت پر زور دیئے جاؤ بالمتقابل قرآن شریف تمام قوتوں کا مربی ہے اور برمحل ہر قوت کے استعمال کی تعلیم دیتا ہے جیسا کے مسیح کی اس تعلیم کی بجائے قرآن شریف فرماتا ہے جَزْوُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۶ سورة الشورى مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ یعنی بدی کی سزا تو اسی قدر بدی ہے، مگر عفو بھی کرو تو ایسا عفو کہ اس کے نتیجہ میں اصلاح ہو وہ عفو بے محل نہ ہو.مثلاً ایک فرماں بردار خادم ہے اور کبھی کوئی خیانت اور غفلت اپنے فرض ادا کرنے میں نہیں کرتا مگر ایک دن اتفاقا اس کے ہاتھ سے گرم گرم چاء کی پیالی گر جاوے اور نہ صرف پیالی ہی ٹوٹ جاوے بلکہ کسی قدر گرم گرم چائے سر پر بھی پڑ جاوے تو اس وقت یہ ضروری نہیں کہ آقا اس کو سزا دے بلکہ اس کی حسب حال سزا یہی ہے کہ اس کو معاف کر دیا جاوے.ایسے وقت پر موقع شناس آقا تو خود شرمندہ ہو جاتا ہے کہ اس بیچارے نوکر کو شرمندہ ہونا پڑے گا لیکن کوئی شریر نو کر اس قسم کا ہے کہ وہ ہر روز نقصان کرتا ہے اگر اس کو عفو کر دیا جائے تو وہ اور بھی بگڑے گا.اس کو تنبیہ ضروری ہے.غرض اسلام انسانی قومی کو اپنے اپنے موقع اور محل پر استعمال کرنے کی تعلیم دیتا ہے اور انجیل اندھا دھند ایک ہی قوت پر زور دیتی چلی جاتی ہے گر حفظ مراتب نہ گئی زندیقی.غرض حفظ مراتب کا مقام قرآن شریف نے رکھا ہے کہ وہ عدل کی طرف لے جاتا ہے.احکام جلد ۶ نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۲ صفحه ۵،۴) یعنی بدی کی سزا اسی قدر بدی ہے لیکن اگر کوئی معاف کر دے اور اس عفو میں اصلاح مد نظر ہو بگاڑ نہ ہو تو ایسے شخص کو خدا سے اجر ملے گا.دیکھو قرآن شریف نے انجیل کی طرح ایک پہلو پر زور نہیں دیا بلکہ محل اور موقعہ کے موافق عفو یا سزا کی کاروائی کرنے کا حکم دیا ہے.عفو غیر محل نہ ہو.ایسا عفو نہ ہو کہ اس کی وجہ سے کسی مجرم کو زیادہ جرات اور دلیری بڑھ جاوے اور وہ اور بھی گناہ اور شرارت میں ترقی کرے.غرض دونوں پہلوؤں کو مد نظر رکھا ہے.اگر عفو سے اس کی عادت بد جاتی رہے تو عضو کی تعلیم ہے اور اگر اصلاح سزا میں ہو تو سزا دینی چاہیے اور پھر اگر قرآن شریف کی اور باقی تعلیموں کو بھی زمانہ کے ساتھ مطابق کرنا چاہیں تو اور کوئی تعلیم اس کا مقابلہ نہ کر سکے گی.الحکم جلدے نمبر ۱۵ مورخه ۲۴ /اپریل ۱۹۰۳ ء صفحه ۳) بدی کا بدلہ تو اسی قدر بدی ہے لیکن جو شخص اپنے قصور وار کا گناہ بخشے اور اس گناہ کے بخشنے میں وہ شخص جس نے گناہ کیا ہے اصلاح پذیر ہو سکے اور آئندہ اپنی بدی سے باز آ سکے تو معاف کرنا بدلہ لینے سے بہتر ہوگا ورنہ سزا دینا بہتر ہوگا کیونکہ طبائع مختلف ہیں.بعض ایسی ہی ہیں کہ گناہ معاف کرنے سے پھر اس گناہ کا نام نہیں لیتے اور باز آجاتے ہیں.ہاں بعض ایسے بھی ہیں کہ قید سے بھی رہائی یا کر پھر وہی گناہ کرتے ہیں.سوچونکہ انسانوں کی طبیعتیں مختلف ہیں اس لئے یہی تعلیم ان کے مناسب حال ہے جو قرآن شریف نے پیش کی ہے.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۱۳)
۱۳۷ سورة الشورى تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلام میں انتقامی حدود میں جو اعلیٰ درجہ کی تعلیم دی ہے کوئی دوسرا مذ ہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور وہ یہ ہے کہ جَزْؤُا سَيِّئَةٍ سَيْئَةٌ مِثْلَهَا ، فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ الآية يعنی بدی کی سزا اسی قدر بدی ہے اور جو کوئی معاف کر دے مگر ایسے محل اور مقام پر کہ وہ عضو اصلاح کا موجب ہو.اسلام نے عفو خطا کی تعلیم دی لیکن یہ نہیں کہ اس سے شتر بڑھے.الحکام جلد ۱۰ نمبر ۷ ۳ مورخه ۱۷۲۴ کتوبر ۱۹۰۶ صفحه ۳) کامل تعلیم وہ ہے جو اسلام نے پیش کی اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہم کو ملی ہے اور وہ یہ ب جَزُوا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ فَاجْرُهُ عَلَى اللهِ یعنی بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے جو کی گئی ہو.لیکن جو شخص گناہ کو بخش دے اور ایسے موقعہ پر بخش دے کہ اس سے کوئی اصلاح ہوتی ہو، کوئی شر پید انہ ہوتا ہو تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے.اس سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کریم کا ہرگز یہ منشاء نہیں کہ خواہ نخواہ ضرور ہر مقام پر شر کا مقابلہ نہ کیا جاوے اور انتظام نہ لیا جاوے بلکہ منشاء الہی یہ ہے کہ محل اور موقعہ کو دیکھنا چاہیے کہ آیا وہ موقعہ گناہ کے بخش دینے اور معاف کر دینے کا ہے یا سزا دینے کا.اگر اس وقت سزا دینا ہی مصلحت ہو تو اس قدر سزا دی جائے جو سزاوار ہے اور اگر عفو کا محل ہے تو سزا کا خیال چھوڑ دو.یہ خوبی ہے اس تعلیم میں کیونکہ وہ ہر پہلو کالحاظ رکھتی ہے.اگر انجیل پر عمل کر کے ہر شریر اور بدمعاش کو چھوڑ دیا جاوے تو دنیا میں اندھیر چ جاوے.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۱ مورخه ۱۷ جون ۱۹۰۶ صفحه ۴) انجیل میں لکھا ہے کہ تو بدی کا مقابلہ نہ کر.غرض انجیل کی تعلیم تفریط کی طرف جھکی ہوئی ہے اور بجر بعض خاص حالات کے ماتحت ہونے کے انسان اس پر عمل کر ہی نہیں سکتا.دوسری طرف توریت کی تعلیم کو دیکھا جاوے تو وہ افراط کی طرف جھکی ہوئی ہے اور اس میں بھی صرف ایک ہی پہلو پر زور دیا گیا ہے کہ جان کے بدلے جان ، آنکھ کے بدلے آنکھ اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت توڑ دیا جاوے.اس میں عفو اور درگزر کا نام تک بھی نہیں لیا گیا.اصل بات یہ ہے کہ یہ کتا بیں مختص الزمان اور مختص القوم ہی تھیں مگر قرآن شریف نے ہمیں کیا پاک راہ بتائی ہے جو افراط اور تفریط سے پاک اور عین فطرت انسانی کے مطابق ہے مثلاً مثال کے طور پر قرآن شریف میں فرمایا ہے جَزُوا سَيِّئَةٍ سَيْئَةٌ مِثْلُهَا ۚ فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ فَاجْرُهُ عَلَى اللهِ یعنی جتنی بدی کی گئی ہو اسی قدر بدی کرنی جائز ہے مگر اگر کوئی معاف کر دے اور اس معافی میں اصلاح مدنظر ہو.بے محل اور بے موقعہ عفو نہ ہو بلکہ برمحل ہو تو ایسے معاف کرنے والے کے واسطے اس کا اجر ہے جو اسے خدا سے ملے گا.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۸ سورة الشورى دیکھو کیسی پاک تعلیم ہے نہ افراط نہ تفریط - انتقام کی اجازت ہے مگر معافی کی تحریص بھی موجود ہے.بشرط اصلاح یہ ایک تیسر ا مسلک ہے جو قرآن شریف نے دنیا کے سامنے رکھا ہے.اب ایک سلیم الفطرت انسان کا فرض ہے کہ ان میں خود موازنہ اور مقابلہ کر کے دیکھ لے کہ کون سی تعلیم فطرت انسانی کے مطابق ہے اور کون سی تعلیم ایسی ہے کہ فطرت صحیح اور کانشنس اسے دھکے دیتا ہے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱ ۴ مورخہ ۱۴ جولائی ۱۹۰۸ صفحه ۷،۶) وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَبِكَ مَا عَلَيْهِمْ مِنْ سَبِيلٍ جو شخص مظلوم ہونے کے بعد انتقام لے اس پر کوئی الزام نہیں.نور القرآن نمبر ۲ روحانی خزائن جلد ۹ ٹائٹل پیج ) وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ تُكَلِمَهُ اللهُ إِلَّا وَحْيَا أَوْ مِنْ وَرَائِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوْحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلَى حَكِيمُ قبل اس کے کہ اس آیت کے حل کی طرف ہم متوجہ ہوں.ہم عملا دیکھتے ہیں کہ تین ہی طریقے ہیں خدا تعالیٰ کے کلام کرنے کے.چوتھا کوئی نہیں (۱) رویا (۲) مکاشفہ (۳) وہی....من ور آئی حِجاب سے مرا در ویا کا ذریعہ ہے.مِنْ وَرَائِی حِجاب کے معنی یہ ہیں کہ اس پر استعارے غالب رہتے ہیں.جو حجاب کا رنگ رکھتے ہیں.اور یہی رویاء کی ہیئت ہے.يُرسل رَسُولًا سے مراد مکاشفہ ہے.رسول کا تمثیل بھی مکاشفہ میں ہی ہوتا ہے اور مکاشفہ کی حقیقت یہی ہے کہ وہ تمثیلات ہی کا سلسلہ ہوتا ہے.القام جلد ۱۰ نمبر ۳۵ مورخه ۱۰ ۷ اکتوبر ۱۹۰۶ صفحه ۱۰) کلام الہی برسه قسم است وحی، رؤیا، کلام الہی کی تین قسمیں ہیں وہی.رویا.کشف.وحی کشف، وحی آنکه بلا واسطہ شخصے بر قلب مطہرہ وہ ہے جو کسی واسطہ کے بغیر نبی کے پاک اور مطہر دل پر نبوی فرود آید و آن کلام اصلی و روشن سے نازل ہو اور یہ کلام زیادہ صاف اور روشن ہوتا ہے.اس کی.باشد - نظیرش بیان فرمودند که مثلاً حافظ صاحب مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ مثلاً یہ حافظ صاحب نابینا جو نا بینا که پیش مانشسته اند در سماع کلام ما ہرگز ہمارے سامنے بیٹھے ہیں وہ ہمارے کلام کے سلنے میں ہرگز
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۹ سورة الشورى غلطی نمی خورند و نمے دانند کہ آواز مسموع کوئی غلطی نہیں کرتے اور نہیں جانتے کہ سُنی ہوئی آواز کلام غیر ما باشد - اگر چه از چشم ظاہر مارا نے ہمارے غیر کی آواز ہو سکتی ہے.اگر چہ وہ ظاہری آنکھ سے بینند دیگر رو یا ومنام ست کہ آں کلام رنگین ہمیں نہیں دیکھ رہے.دوسری قسم رویا اور خواب ہے کہ یہ ولطیف و کنایہ دارد - وذوی الوجوه است چوں کلام رنگین اور لطیف ہوتا ہے اور اس میں کنا یہ ہوتا ہے اور دیدن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوارین وہ ذوالوجوہ ہوتا ہے جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا در دست مبارک خویش یا معائنه فرمودن یکے اپنے دونوں مبارک ہاتھوں میں دو کنگنوں کا دیکھنا اپنی زوجہ مطہرہ خود را اطول یدین و دیدن بقرہ ایک بیوی کے سب سے زیادہ لمبے ہاتھ دیکھنا یا گائے وغیرہ ایں چنیں کلام الہی تعبیر طلب است سوم وغیرہ کو دیکھنا.اس قسم کا کلام تعبیر طلب ہوتا ہے.تیسری کشف است و آن تمثل است خواہ بصورت قسم کلام کی کشف ہے اور یہ مثل کی صورت میں ہوتا ہے جبرائیل باشد یا فرشتہ یا دیگر اشیاء.پس آیت چاہے وہ بصورت جبرائیل علیہ السلام ہو یا کسی اور فرشتہ یا شریفه خواندند آن يُكَلِمَهُ اللهُ إِلَّا وَحْيا او کسی دوسری چیز کی صورت میں ہو.پس آیت آن يُكلمه و مِنْ وَرَائِي حِجَابٍ اَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا ارشاد اللهُ إِلَّا وَحْيَا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا شد کہ سوائے امور ثلاثہ مذکورہ کلام الہی را میں سوائے مذکورہ بالا تین کے کلامِ الہی کا اور کوئی طریق نہیں بتایا گیا.(ترجمہ از مرتب) طریقے نیست.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۱ مورخه ۲۴ مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۶) وجی وراء الحجاب کی خدا تعالیٰ کی کلام میں ہزاروں مثالیں ہیں اس سے انکار کرنا منصف کا کام نہیں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دو جھوٹے نبیوں کو دو کڑوں کی شکل میں دیکھنا اسی قسم کی وہی تھی.گائیں ذبح ہوتے دیکھنا بھی اسی قسم کی وحی تھی لمبے ہاتھوں والی بیوی کا سب بیویوں سے پہلے فوت ہونا دیکھنا بھی اسی قسم کی وحی تھی اور ملا کی نبی کی وحی میں یہ ظاہر کیا جانا کہ ایلیا نبی دوبارہ آئے گا اور یہود کی بستیوں میں سے فلاں مقام میں نازل ہو گا یہ بھی اسی قسم کی وحی تھی اور مدینہ کی وبا کا عورت پراگندہ شکل کے طور پر نظر آنا یہ بھی اسی قسم کی وہی تھی.اسی طرح دجال بھی جو ایک دجل کرنے والا گروہ ہے ایک شخص مقرر کی طرح نظر آیا یہ بھی اسی قسم کی وحی ہے.نبیوں کی وحیوں میں ہزاروں ایسے نمونے ہیں جن میں روحانی امور جسمانی رنگ میں نظر آئے یا ایک جماعت ایک شخص کی صورت میں نظر آئی.تمام نوع انسان کے لئے جس میں انبیاء علیہم السلام
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۰ سورة الشورى بھی داخل ہیں خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ الہام اور وحی اور رویا اور کشف پر اکثر استعارات غالب ہوتے ہیں.مثلاً دو چار سو آدمی جمع کر کے اُن کی خوا ہیں سنو تو اکثر اُن میں استعارات ہوں گے.کسی نے سانپ دیکھا ہوگا اور کسی نے بھیڑیا اور کسی نے سیلاب اور کسی نے باغ اور کسی نے پھل اور کسی نے آگ اور تمام یہ امور قابل تاویل ہوں گے.حدیثوں میں ہے کہ قبر میں عمل صالح اور غیر صالح انسان کی صورت پر دکھائی دیتے ہیں.سو یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس سے تمام تناقض دور ہوتے ہیں اور حقیقت کھلتی ہے.مبارک وہ جو اس ہے.میں غور کریں.امام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۷۷) جابجا مفسروں نے وحی کے لفظ کو الہام ہی سے تعبیر کیا ہے.کئی احادیث میں بھی یہی معنے ملتے ہیں....سواد اعظم علماء کا الہام کو وحی کا مترادف قرار دینے میں متفق ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کو استعمال کیا ہے تو پھر اس سے انحراف کرنا صریح تحکم ہے...علم شریعت میں اسی طرح صد با عرفی الفاظ ہیں جن کے مفہوم کو لغوی معنوں میں محدود کرنا ایک ضلالت ہے.خود وحی کے لفظ کو دیکھئے کہ اس کے وہ معنے جن کی رُو سے خدا کی کتابیں وحی رسالت کہلاتی ہیں کہاں لغت سے ثابت ہوتے ہیں اور کس کتاب لغت میں وہ کیفیت نزول وحی لکھی ہے جس کیفیت سے خدا اپنے مرسلوں سے کلام کرتا ہے اور ان پر اپنے احکام نازل کرتا ہے.(براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۷۷ حاشیه در حاشیہ نمبر۱) الہام ایک القاء غیبی ہے کہ جس کا حصول کسی طرح کی سوچ اور تردد اور تفکر اور تد بر پر موقوف نہیں ہوتا اور ایک واضح اور منکشف احساس سے کہ جیسے سامع کو متکلم سے یا مضروب کو ضارب سے یا ملموس کو لامس سے ، - ہو محسوس ہوتا ہے اور اس سے نفس کو مشل حرکات فکریہ کے کوئی الم روحانی نہیں پہنچتا بلکہ جیسے عاشق اپنے معشوق کی رویت سے بلا تکلف انشراح اور انبساط پاتا ہے ویسا ہی روح کو الہام سے ایک ازلی اور قدیمی رابطہ ہے کہ جس سے روح لذت اٹھاتا ہے.غرض یہ ایک منجانب اللہ اعلام لذیذ ہے کہ جس کو نفث فی الروع اور وحی بھی کہتے ہیں.پرانی تحریریں، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۰) الہام کیا چیز ہے؟ وہ پاک اور قادر خدا کا ایک برگزیدہ بندہ کے ساتھ یا اس کے ساتھ جس کو برگزیدہ کرنا چاہتا ہے ایک زندہ اور با قدرت کلام کے ساتھ مکالمہ اور مخاطبہ ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۳۹،۴۳۸) الہام کے تو صرف یہ معنی ہیں کہ جو کچھ دل میں ڈالا جاوے نیک ہو یا بد وہ الہام ہے اور اس میں یہ بھی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۱ سورة الشورى ضروری نہیں کہ خدا تعالی کی طرف سے الفاظ ہوں مگر اس جگہ ہماری مراد الہام سے وحی الہی ہے اور وحی اس کو کہتے ہیں کہ خدا کا کلام مع الفاظ کسی پر نازل ہو.چشمه معرفت روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۷۴ حاشیہ ) وجی کی مثال اگر دنیا کی چیزوں میں سے کسی چیز کے ساتھ دی جائے تو شاید کسی قدر تار برقی سے مشابہہ ہے جو اپنے ہر یک تغیر کی آپ خبر دیتا ہے.( بركات الدعا، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۶) کلام اور الہام میں فرق یہ ہے کہ الہام کا چشمہ تو گویا ہر وقت مقرب لوگوں میں بہتا ہے اور وہ روح القدس کے بلائے بولتے اور روح القدس کے دکھائے دیکھتے اور روح القدس کے سنائے سنتے اور ان کے تمام ارادے روح القدس کے نفع سے ہی پیدا ہوتے ہیں اور یہ بات سچ اور بالکل سچ ہے کہ وہ ظلی طور پر اس آیت کا مصداق ہوتے ہیں وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْى يُوحَى (النجم : ۵،۴) لیکن مکالمہ البیہ ایک الگ امر ہے اور وہ یہ ہے کہ وحی متلو کی طرح خدائے تعالیٰ کا کلام ان پر نازل ہوتا ہے اور وہ اپنے سوالات کا خدائے تعالیٰ سے ایسا جواب پاتے ہیں کہ جیسا ایک دوست دوست کو جواب دیتا ہے اور اس کلام کی اگر ہم تعریف کریں تو صرف اس قدر کر سکتے ہیں کہ وہ اللہ جل شانہ کی ایک تجلی خاص کا نام ہے جو بذریعہ اس کے مقرب فرشتہ کے ظہور میں آتی ہے اور اس سے غرض یہ ہوتی ہے کہ تا دعا کے قبول ہونے سے اطلاع دی جائے یا کوئی نئی اور مخفی بات بتائی جائے یا آئندہ کی خبروں پر آگاہی دی جائے یا کسی امر میں خدائے تعالیٰ کی مرضی اور عدم مرضی پر مطلع کیا جائے یا کسی اور قسم کے واقعات میں یقین اور معرفت کے مرتبہ تک پہنچایا جائے.بہر حال یہ وحی ایک الہی آواز ہے جو معرفت اور اطمینان سے رنگین کرنے کے لئے منجانب اللہ پیرایہ مکالمہ ومخاطبہ میں ظہور پذیر ہوتی ہے اور اس سے بڑھ کر اس کی کیفیت بیان کرنا غیر ممکن ہے کہ وہ صرف الہی تحریک اور ربانی نفخ سے بغیر کسی قسم کے فکر اور تدبر اور خوف اور غور اور اپنے نفس کے دخل کے خدائے تعالیٰ کی طرف سے ایک قدرتی ندا ہے جو لذیذ اور پر برکت الفاظ میں محسوس ہوتی ہے اور اپنے اندر ایک ربانی تجلی اور الہی صولت رکھتی ہے.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۳۱ تا ۲۳۳) جب سماع کے ذریعہ سے کوئی خبر دی جاتی ہے تو اسے وحی کہتے ہیں اور جب رویت کے ذریعہ سے کچھ بتلا یا جاوے تو اسے کشف کہتے ہیں.اس طرح میں نے دیکھا ہے کہ بعض وقت ایک ایسا امر ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا تعلق صرف قوت شامہ سے ہوتا ہے مگر اس کا نام نہیں رکھ سکتے جیسے یوسف کی حضرت یعقوب کو خوشبو ہے آئی تھی اِنِّي لَأَجِدُ رِيحَ يُوْسُفَ لَوْلَا أَنْ تُفَتِّدُونِ ( يوسف : ۹۵) اور کبھی ایک امرایسا ہوتا ہے کہ جسم
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۲ اسے محسوس کرتا ہے گویا کہ حواس خمسہ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اپنی باتیں اظہار کرتا ہے.سورة الشورى البدر جلد ۲ نمبر ۱۵ مورخه یکم رمئی ۱۹۰۳ صفحه ۱۱۴) کشف کیا ہے یہ رویا کا ایک اعلیٰ مقام اور مرتبہ ہے.اس کی ابتدائی حالت کہ جس میں غیبت جس ہوتی ہے صرف اس کو خواب ( رؤیا) کہتے ہیں جسم بالکل معطل بر کار ہوتا ہے اور حواس کا ظاہری فعل بالکل ساکت ہوتا ہے لیکن کشف میں دوسرے حواس کی غیبت نہیں ہوتی.بیداری کے عالم میں انسان وہ کچھ دیکھتا ہے جو کہ وہ نیند کی حالت میں جو اس کے معطل ہونے کے عالم میں دیکھتا تھا.کشف اسے کہتے ہیں کہ انسان پر بیداری کے عالم میں ایک ایسی ربودگی طاری ہو کہ وہ سب کچھ جانتا بھی ہو اور حواس خمسہ اس کے کام بھی کر رہے ہوں اور ایک ایسی ہوا چلے کہ نئے حواس اُسے مل جاویں جن سے وہ عالم غیب کے نظارے دیکھ لے.وہ حواس مختلف طور سے ملتے ہیں.کبھی بھر میں کبھی شامہ سونگھنے میں کبھی سمع میں ، شامہ میں اس طرح جیسے کہ حضرت یوسف کے والد نے کہا لاَجِدُ رِيحَ يُوسُفَ لَوْلَا أَنْ تُفَضِّدُونِ ( یوسف : ۹۵) ( کہ مجھے یوسف کی خوشبو آتی ہے اگر تم یہ نہ کہو کہ بوڑھا بہک گیا) اس سے مراد وہی نئے حواس ہیں جو کہ یعقوب کو اس وقت حاصل ہوئے اور انہوں نے معلوم کیا کہ یوسف زندہ موجود ہے اور ملنے والا ہے.اس خوشبو کو دوسرے پاس والے نہ سونگھ سکے کیونکہ اُن کو وہ حواس نہ ملے تھے جو کہ یعقوب کو ملے.جیسے گڑسے شکر بنتی ہے اور شکر سے کھانڈ اور کھانڈ سے اور دوسری شیر بینیاں لطیف در لطیف بنتی ہیں.ایسے ہی رؤیا کی حالت ترقی کرتی کرتی کشف کا رنگ اختیار کرتی ہے اور جب وہ بہت صفائی پر آ جاوے تو اس کا نام کشف ہوتا ہے.لیکن وحی ایسی شئے ہے جو کہ اس سے بدر جہا بڑھ کر صاف ہے اور اس کے حاصل ہونے کے لیے مسلمان ہونا ضروری ہے.کشف تو ایک ہندو کو بھی ہو سکتا ہے بلکہ ایک دہر یہ بھی جو خدا کو نہ مانتا ہو وہ بھی اس میں کچھ نہ کچھ کمال حاصل کر لیتا ہے.لیکن وجی سوائے مسلمان کے دوسرے کو نہیں ہو سکتی.یہ اسی اُمت کا حصہ ہے.کیونکہ کشف تو ایک فطرتی خاصہ انسان کا ہے اور ریاضت سے یہ حاصل ہوسکتا ہے خواہ کوئی کرے کیونکہ فطرتی امر ہے جیسے جیسے کوئی اس میں مشق اور محنت کرے گا.ویسے ویسے اس پر اس کی حالتیں طاری ہوں گی اور ہر ایک نیک و بد کو رؤیا کا ہونا اس امر پر دلیل ہے.دیکھا ہوگا کہ سچی خوا ہیں بعض فاسق و فاجر لوگوں کو بھی آ جاتی ہیں.پس جیسے اُن کو سچی خوابیں آتی ہیں ویسے ہی زیادہ مشق سے کشف بھی ان کو ہو سکتے ہیں.حتی کہ حیوان بھی صاحب کشف ہو سکتا ہے لیکن الہام یعنی وحی الہی ایسی شے ہے کہ جب تک خدا سے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۳ سورة الشورى یوری صلح نہ ہو اور اس کی اطاعت کے لیے اس نے گردن نہ رکھ دی ہو تب تک وہ کسی کو حاصل نہیں ہو سکتی.خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيكَةُ اَلا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ أَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ (لحم السجدة : ۳۱) یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے.نزول وحی کا صرف اُن کے ساتھ وابستہ ہے جو کہ خدا کی راہ میں مستقیم ہیں اور وہ صرف مسلمان ہی ہیں.وحی ہی وہ شئے ہے کہ جس سے انا الموجود کی آواز کان میں آ کر ہر ایک شک اور شبہ سے ایمان کو نجات دیتی ہے اور بغیر جس کے مرتبہ یقین کامل کا انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا.لیکن کشف میں یہ آواز کبھی نہیں سنائی دیتی اور یہی وجہ ہے کہ صاحب کشف ایک دہریہ بھی ہو سکتا ہے.لیکن صاحب وحی بھی دہر یہ نہیں ہو گا.البدر جلد ۴ نمبر ۸ مورخه ۱۳ / مارچ ۱۹۰۵ء صفحه ۲) جس جگہ صفوت و عصمت و تبتل و محبت کامل و تام و خون و در دو شوق و خوف ہے اس جگہ انوار وحی کے کامل تجلیات بغیر آمیزش کسی نوع کی ظلمت کے وارد ہوتے رہتے ہیں اور آفتاب کی طرح چمکتے ہوئے نظر آتے رہتے ہیں اور جس جگہ یہ مرتبہ کمال تام کا نہیں اس جگہ وحی بھی اس عالی مرتبہ سے متنزّل ہوتی ہے.غرض وحی الہی ایک ایسا آئینہ ہے جس میں خدائے تعالیٰ کی صفات کمالیہ کا چہرہ حسب صفائی باطن نبی منزل علیہ کے نظر آتا ہے اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پاک باطنی و انشراح صدری و عصمت و حیا وصدق وصفا و توکل و وفا اور عشق الہی کے تمام لوازم میں سب انبیاء سے بڑھ کر اور سب سے افضل واعلیٰ و اکمل وارفع واحلی واصفا تھے اس لئے خدائے جل شانہ نے ان کو عطر کمالات خاصہ سے سب سے زیادہ معطر کیا اور وہ سینہ اور دل جو تمام اولین و آخرین کے سینہ و دل سے فراخ تر و پاک تر و معصوم تر و روشن تر و عاشق تر تھا وہ اسی لائق ٹھہرا کہ اس پر ایسی وحی نازل ہو کہ جو تمام اولین و آخرین کی وحیوں سے اقومی و اکمل و ارفع واتم ہو کر صفات الہیہ کے دکھلانے کے لئے ایک نہایت صاف اور کشادہ اور وسیع آئینہ ہو.سرمه چشم آری، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ اے حاشیہ ) عقل انسانی اگر ایک ثابت شدہ صداقت کو اپنے فہم اور ادراک سے بالا تر نہ سمجھے تو وہ صداقت صرف اس وجہ سے رو کرنے کے لائق نہیں ٹھہرے گی کہ عقل اس کی حقیقت تک نہیں پہنچتی.دُنیا میں بہتیرے ایسے خواص نباتات و جمادات و حیوانات میں پائے جاتے ہیں کہ وہ تجارب صحیحہ کے ذریعہ سے ثابت ہیں مگر عقل انسان کے مافوق ہیں یعنی عقل اُن کی حقیقت تک پہنچ نہیں سکتی اور ان کی حقیقت بتلا نہیں سکتی.پس ایسا ہی وہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۴ سورة الشورى وحی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی اور پاک دلوں تک وہ علوم پہنچاتی ہے جو بشری طاقتوں سے بلند تر ہیں پھر جبکہ یہ حال ہے کہ عقل بجائے خود کوئی چیز نہیں بلکہ ثابت شدہ صداقتوں کے ذریعہ سے قدر ومنزلت پیدا کرتی ہے تو ہم کہتے ہیں کہ وحی سماوی ایک ثابت شدہ صداقت ہے جو اپنے اندر اعجازی قوت رکھتی ہے اور علوم غیبیہ پر مشتمل ہوتی ہے اور ہم اس دعوی کے ثابت کرنے کے ذمہ وار ہیں.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۳۹،۲۳۸ حاشیه ) خدا کے الہام میں یہ ضروری ہے کہ جس طرح ایک دوست دوسرے دوست سے مل کر باہم ہمکلام ہوتا ہے اسی طرح رب اور اس کے بندہ میں ہمکلامی واقع ہو اور جب یہ کسی امر میں سوال کرے تو اس کے جواب میں ایک کلام لذیذ فصیح خدائے تعالی کی طرف سے کئے جس میں اپنے نفس اور فکر اور غور کا کچھ بھی دخل نہ ہو اور وہ مکالمہ اور مخاطبہ اس کے لئے موہبت ہو جائے تو وہ خدا کا کلام ہے اور ایسا بندہ خدا کی جناب میں عزیز ہے.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۴۰،۴۳۹) کبھی بھی کی اور وحی امر میں کبھی نبی کی وحی خبر واحد کی طرح ہوتی ہے اور مع ذالک مجمل ہوتی ہے اور کبھی وحی ایک امر میں کثرت سے اور واضح ہوتی ہے.پس اگر مجمل وحی میں اجتہاد کے رنگ میں کوئی غلطی بھی ہو جائے تو بینات محکمات کو اس سے کچھ صدمہ نہیں پہنچتا.پس میں اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ کبھی میری وحی بھی خبر واحد کی طرح ہو اور مجمل ہو اور اس کے سمجھنے میں اجتہادی رنگ کی غلطی ہو.اس بات میں تمام انبیاء شریک ہیں.(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۴۵) إنَّ اللهَ تَعَالَى قَد يُوحَى إِلَى أَنْبِيَائِهِ | الله تعالیٰ اپنے انبیاء اور مرسلوں کو کبھی کبھی مجاز، وَرُسُلُه في حُللِ الْمَجازات والاستعارات استعارہ اور تمثیل کے رنگ میں وحی کرتا ہے اور رسول کریم وَالتَّمْلِيلاتِ، وَنَطَائِرُه كَثِيرَةٌ في وَحْي صلى اللہ علیہ وسلم کی وحی میں اس کی بہت سی نظائر موجود خَيْرِ الرُّسُلِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا ہیں.منجملہ ان کے ایک مثال حضرت انس کی حدیث مَا جَاءَ فِي حَدِيثِ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ میں آئی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلعم نے الله صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَيْتُ ذَاتَ فرمایا کہ میں نے ایک رات ایک ایسا ہی خواب دیکھا ليْلَةٍ قِمَا يَرَى النَّائِمُ كَانَا فِي دَارِ عُقْبَةِ بْنِ جیسا ایک سونے والا دیکھتا ہے کہ گویا ہم عقبہ بن رافع کی فَأُتِينَا پرطلب من رطب ابنِ حویلی میں ہیں اور ابن طاب کی کھجوروں میں سے کچھ رافع
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۵ سورة الشورى طَابَ فَأَوْلتُ أَنَّ الرَّفْعَةَ لَنَا فِي الدُّنْيَا کھجوریں ہمارے پاس لائی گئی ہیں.میں نے اس کی وَالْعَافِيَّةَ فِي الْآخِرَةِ وَأَنَّ دِينَنَا قَد طاب تعبیر کی کہ ہمارے لئے دُنیا میں رفعت اور آخرت میں فَانظُرْ كَيْفَ رَأَى رَسُولُ اللہ صَلَّی عافیت ہے اور ہمارا دین مقبول ہو رہا ہے.....سو دیکھو اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكَيْفِيَّاتِ الرُّوْحَانِيّة فى کہ کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روحانی فِي الصُّورِ الْجِسْمَانِيَّةِ وَلَا يخفى عَلَيْكَ أَنَّ كيفيات جسمانی صورتوں میں دیکھیں اور یہ بات آپ رُؤْيَا الْأَنْبِيَاءِ وَحَى فَتَبَتَ مِنْ هُهُنَا أَنَّ پر مخفی نہیں کہ انبیاء کی خواہیں وحی ہوتی ہیں اور اس سے وَى الأَنْبِيَاءِ قَدْ يَكُونُ مِن نَوعِ الْمَجاز بہ ثابت ہوا کہ انبیاء کی وحی بعض اوقات مجاز اور استعارہ وَالْإِسْتِعَارَةِ، وَقَدْ أَوَّلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى کی قسم سے ہوتی ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذلِك الوَخي.نے اس قسم کی وحی کی تاویل کی ہے.(ترجمہ از مرتب) (حمامة البشرى، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۱۹۱،۱۹۰ حاشیہ) الہام خدا تعالیٰ کا فعل ہے.بندہ کی الہام میں فضیلت نہیں بلکہ اعمال صالحہ میں فضیلت ہے اور اس میں کہ خدا تعالی اس سے راضی ہو جائے سو نیک کاموں میں کوشش چاہیے تا کہ موجب نجات ہو.( بدر جلد ۲ نمبر ۲۳ مورخہ ۷ جون ۱۹۰۶ صفحه ۵) اگر چاہتے ہو کہ اس ( خدا تعالی ) کا کلام سنو تو اس کا قرب حاصل کرو.مگر یہ یاد رکھو کہ اصل مقصود تمہارا یہ نہ ہو.ورنہ میرا اپنا ہی مذہب ہے کہ یہ بھی ایک قسم کا شرک ہوگا کیونکہ خدا تعالیٰ کی رضا جوئی اور اس کی محبت کی غرض اصل تو یہ ہوئی کہ الہام ہوں یا کشوف ہوں اور پھر بار یک طور پر اس کے ساتھ نفسانی غرض یہ ملی ہوئی ہوتی ہے کہ اس سے ہماری شہرت ہو.لوگوں میں ہم ممتاز ہوں.ہماری طرف رجوع ہو.یہ باتیں صافی تعلقات میں ایک روک ہو جاتی ہیں اور اکثر اوقات شیطان ایسے وقت پر قابو پالیتا ہے.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۴۲ مورخه ۱۰/ دسمبر ۱۹۰۶ء صفحه ۳، ۴) خوب یا درکھو کہ ان خوابوں اور الہامات پر ہی نہ رہو بلکہ اعمال صالحہ میں لگے رہو بہت سے الہامات اور خواب سیر و پھل کی طرح ہوتے ہیں جو کچھ دنوں کے بعد گر جاتے ہیں اور پھر کچھ باقی نہیں رہتا ہے.اصل مقصد اور غرض اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچا اور بے ریا تعلق ، اخلاص اور وفاداری ہے جونرے خوابوں سے پوری نہیں ہو سکتی مگر اللہ سے بھی بے خوف نہیں ہونا چاہیے جہاں تک ہو سکے صدق و اخلاص و ترک ریا و ترک منہیات
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۶ سورة الشورى میں ترقی کرنی چاہیئے اور مطالعہ کرتے رہو کہ ان باتوں پر کس حد تک قائم ہوا گر یہ باتیں نہیں ہیں تو پھر خوابات اور الہامات بھی کچھ فائدہ نہیں دیں گے بلکہ صوفیوں نے لکھا ہے کہ اوائل سلوک میں جو ر و یا یا وحی ہو اس پر تو جہ نہیں کرنی چاہیئے وہ اکثر اوقات اس راہ میں روک ہو جاتی ہے انسان کی اپنی خوبی اس میں تو کوئی نہیں کیونکہ یہ تواللہ تعالیٰ کا فعل ہے جو وہ کسی کو کوئی اچھی خواب دکھاوے یا کوئی الہام کرے اس نے کیا کیا ؟ البدر جلد ۳ نمبر ۱۹٬۱۸ مورخه ۸ تا ۶ ۱ رمئی ۱۹۰۴ ء صفحه ۱۰) خدائے تعالیٰ نے انسان کو اس کے کمالات مطلوبہ تک پہنچانے کے لئے صرف جو ہر عقل ہی عطا نہیں کیا بلکہ کشف اور الہام پانے کی قوت بھی اُس کی فطرت میں رکھی ہے.سرمه چشم آرمیه، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۸۹).اللہ تعالیٰ نے وحی اور الہام کا مادہ ہر شخص میں رکھ دیا ہے کیونکہ اگر یہ مادہ نہ رکھا ہوتا تو پھر مخت پوری نہ ہو سکتی.اس لیے جو نبی آتا ہے اس کی نبوت اور وحی و الہام کے سمجھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کی فطرت میں ایک ودیعت رکھی ہوئی ہے.اور وہ ودیعت خواب ہے.اگر کسی کو کوئی خواب سچی کبھی نہ آئی ہو تو وہ کیوں کر مان سکتا ہے کہ الہام اور وحی بھی کوئی چیز ہے.اور چونکہ خدا تعالیٰ کی یہ صفت ہے کہ لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة : ۲۸۷) اس لیے یہ مادہ اس نے سب میں رکھ دیا ہے.میرا یہ مذہب ہے کہ ایک بدکار اور فاسق فاجر کو بھی بعض وقت سچی رؤیا آجاتی ہے اور کبھی کبھی کوئی الہام بھی ہو جاتا ہے.گو وہ شخص اس کیفیت سے کوئی فائدہ اُٹھا دے یا نہ اُٹھا دے.جبکہ کافر اور مومن دونوں کو کچی رو یا آ جاتی ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ ان دونوں میں فرق کیا ہے؟ عظیم الشان فرق تو یہ ہے کہ کافر کی رؤیا بہت ہی کم سچی نکلتی ہے اور مومن کی کثرت یہ کہ سے کچی نکلتی ہے.گویا پہلا فرق کثرت اور قلت کا ہے.دوسرے مومن کے لیے بشارت کا حصہ زیادہ ہے.جو کافر کی رؤیا میں نہیں ہوتا.سوم مومن کی رؤیا مصفا اور روشن ہوتی ہے.بحالیکہ کا فر کی رؤیا مصفا نہیں ہوتی.چہارم مومن کی رؤیا اعلیٰ درجہ کی ہوگی.(احکم جلد ۶ نمبر ۳۱ مورخه ۳۱ اگست ۱۹۰۲ صفحه ۶) وحی کئی قسم کی ہے.عادت اللہ ہے کہ جب وہ سماع پر موقوف ہو تو اُسے وحی کہتے ہیں.رؤیت کے متعلق ہو تو اس کو کشف کہتے ہیں ایک قوت شامہ سے ہوتی ہے جیسے اِنِّي لَأَجِدُ رِيحَ يُوسُفَ کبھی قوت حاسہ سے بھی ہوتی.غرض تمام حواس خمسہ سے وحی ہوتی ہے اور مہم کو قبل از وقت بذریعہ وحی ان باتوں کی اطلاع دی جاتی ہے.مثنوی رومی میں ایک حکایت لکھی ہے کہ ایک دفعہ چند قیدی آنحضرت کے پاس پابجولاں آئے ان
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۷ سورة الشورى قیدیوں نے خیال کیا کہ آنحضرت اس حال میں دیکھ کر بہت خوش ہوں گے آپ نے فرمایا کہ نہیں یہ خیال تمہارا غلط ہے جس وقت تم لوگ گھوڑوں پر سوار اور ناز و نعمت میں بآرام چلتے تھے میں تو اس وقت تمہیں پابہ زنجیر دیکھ رہا تھا اب مجھے تمہارے دیکھنے کی کیا خوشی ہے؟ پھر مطلب یہ ہے کہ الہام کے ساتھ عموماً کشوف بھی ہوا کرتے ہیں.الحکم جلدے نمبر ۱۵ مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۱۲) عقل روح کی صفائی سے پیدا ہوتی ہے جس جس قدر انسان روح کی صفائی کرتا ہے اُسی اُسی قدر عقل میں تیزی پیدا ہوتی ہے اور فرشتہ سامنے کھڑا ہو کر اس کی مدد کرتا ہے مگر فاسقانہ زندگی والے کے دماغ میں روشنی نہیں آسکتی.تقویٰ اختیار کرو کہ خدا تمہارے ساتھ ہو.(الحکم جلدے نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۳) مکاشفات اور الہامات کے ابواب کے کھلنے کے واسطے جلدی نہ کرنی چاہیے اگر تمام عمر بھی کشوف اور الہامات نہ ہوں تو گھبرانا نہ چاہیے اگر یہ معلوم کر لو کہ تم میں ایک عاشق صادق کی سی محبت ہے جس طرح وہ اس کے ہجر میں اس کے فراق میں بھوکا مرتا ہے پیاس سہتا ہے نہ کھانے کا ہوش ہے نہ پانی کی پرواہ.نہ اپنے تن بدن کی کچھ خبر اسی طرح تم بھی خدا کی محبت میں ایسے محو ہو جاؤ کہ تمہارا وجود ہی درمیان سے گم ہو جاوے پھر اگر ایسے تعلق میں انسان مر بھی جاوے تو بڑا ہی خوش قسمت ہے.ہمیں تو ذاتی محبت سے کام ہے.نہ کشوف سے غرض نہ الہام کی پرواہ.الحکم جلدے نمبر ۱۰ مورخہ ۱۷/ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۳) ہر یک وحی نبی منزل علیہ کی فطرت کے موافق نازل ہوتی ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مزاج میں جلال اور غضب تھا.توریت بھی موسوی فطرت کے موافق ایک جلالی شریعت نازل ہوئی.حضرت مسیح علیہ السلام کے مزاج میں حلم اور نرمی تھی سو انجیل کی تعلیم بھی حلم اور نرمی پر مشتمل ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج حلم اور بغایت درجہ وضع استقامت پر واقع تھا.نہ ہر جگہ حلم پسند تھا اور نہ ہر مقام غضب مرغوب خاطر تھا بلکہ حکیمانہ طور پر رعایت محل اور موقعہ کی ملحوظ طبیعت مبارک تھی.سو قرآن شریف بھی اسی طر ز موزوں و معتدل پر نازل ہوا که جامع شدت و رحمت و ہیبت و شفقت و نرمی و درشتی ہے.(برائین احمد یہ چہار تصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۹۳ حاشیہ نمبر۱۱) جبکہ خدا نے ظاہری چیزوں کے معلوم کرنے کے لئے ظاہری حواس عطا فرمائے ہیں اور علوم معقولہ کے دریافت کرنے کے لئے جو امور باطنیہ ہیں حواس خمسہ باطنی عطا کئے ہیں پس اس صورت میں صاف طور پر سمجھ آ سکتا ہے کہ ایسے امور جو عقل سے بالا تر ہیں اُن کے دریافت کے لئے بھی خدا نے کوئی ذریعہ رکھا ہو گا سو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۸ سورة الشورى وہ ذریعہ وحی اور کشف ہے اور جیسا کہ انسانی فطرت کے لئے یہ دائمی عطیہ ہے کہ بجز ان لوگوں کے جو بہرے اور اندھے یا دیوانے ہوں ہر ایک انسان کو حواس خمسہ ظاہری اور باطنی اب بھی حسب تفاوت مراتب عطا ہوتے ہیں یہ نہیں کہ صرف پہلے عطا ہوتے تھے اور اب نہیں.ایسا ہی خدا کا قانون قدرت روحانی حواس کے لئے بھی اسی کے مطابق ہے کہ اب بھی وحی اور کشف کے حو اس حسب مراتب ملتے ہیں اور جو اعلیٰ درجہ کی استعدا در کھتے ہیں وہ ان روحانی حواس میں سب سے بڑھ جاتے ہیں اور جو کتاب انسانوں کو یہ تعلیم دے کہ وہ روحانی حواس اب نہیں ملتے بلکہ پہلے کسی زمانہ میں مل چکے وہ کتاب خدا کی طرف سے نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ نہ صرف قانون قدرت کے برخلاف بلکہ مشاہدہ اور تجربہ کے بھی برخلاف ہے.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۱۷) ہر شخص کا کلام اس کی ہمت کے موافق ہوتا ہے جس قدر اس کی ہمت اور عزم اور مقاصد عالی ہوں گے اسی پایہ کا وہ کلام ہوگا اور وحی الہی میں بھی یہی رنگ ہوتا ہے جس شخص کی طرف اس کی وحی آتی ہے جس قدر ہمت بلند رکھنے والا وہ ہو گا اسی پایہ کا کلام اسے ملے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت و استعداد اور عزم کا دائرہ چونکہ بہت ہی وسیع تھا اس لئے آپ کو جو کلام ملا وہ بھی اس پایہ اور رتبہ کا ہے اور دوسرا کوئی شخص اس ہمت اور حوصلہ کا کبھی پیدا نہ ہوگا کیونکہ آپ کی دعوت کسی محدودوقت یا مخصوص قوم کے لئے نہ تھی.جیسے آپ سے پہلے نبیوں کی ہوتی تھی.الحکم جلدے نمبر ۲۰ مورخه ۳۱ مئی ۱۹۰۳ صفحه ۲) اگر کسی کے دل میں یہ وہم گزرے کہ اب جنگلی آدمیوں کو جو بے زبانی کی حالت میں محض اشارات سے گزارہ کرتے ہیں کیوں کر بذریعہ الہام کے کسی بولی سے مطلع نہیں کیا جاتا اور کیوں کوئی بچہ نوزاد جنگل میں رکھنے سے خدا کی طرف سے کوئی الہام نہیں پاتا تو یہ خدا کی صفات کی ایک نام نہی ہے کیونکہ القاء اور الہام ایسا امر نہیں ہے کہ جو ہر جگہ جابے جابلا لحاظ مادہ قابلہ کے ہو جایا کرے بلکہ القاء اور الہام کے لئے مادہ قابلہ کا ہونا نہایت ضروری شرط ہے اور دوسری شرط یہ بھی ہے کہ اس الہام کے لئے ضرورت حقہ بھی پائی جائے.(براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۲۷ تا ۴۳۱) وحی الہی کے انوار قبول کرنے کے لئے فطرت قابلہ شرط ہے جس میں وہ انوار منعکس ہوسکیں جو خدائے تعالیٰ کسی وقت اپنے خاص ارادہ سے نازل کرے.(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۳۷ حاشیه ) عجیب بات ہے کہ بعض اوقات بعض فقروں میں خدا تعالیٰ کی وحی انسانوں کی بنائی ہوئی صرفی نحوی قواعد
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۴۹ سورة الشورى کی بظاہر اتباع نہیں کرتی مگر ادنی توجہ سے تطبیق ہو سکتی ہے اسی وجہ سے بعض نادانوں نے قرآن شریف پر بھی اپنی مصنوعی نحو کو پیش نظر رکھ کر اعتراض کئے ہیں مگر یہ تمام اعتراض بیہودہ ہیں.زبان کا علم وسیع خدا کو ہے نہ کسی اور کو.اور زبان جیسا کہ تغیر مکانی سے کسی قدر بدلتی ہے ایسا ہی تغیر زمانی سے بھی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں.آج کل کی عربی زبان کا اگر محاورہ دیکھا جائے جو مصر اور مکہ اور مد بینہ اور دیا رشام وغیرہ میں بولی جاتی ہے تو گویا وہ محاورہ صرف ونحو کے تمام قواعد کی بیخ کنی کر رہا ہے اور ممکن ہے کہ اس قسم کا محاورہ کسی زمانہ میں پہلے بھی گزر چکا ہو.پس خدا تعالیٰ کی وحی کو اس بات سے کوئی روک نہیں ہے کہ بعض فقرات سے گذشتہ محاورہ یا موجودہ محاورہ کے موافق بیان کرے.( نزول مسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۳۶) مکالمات اور مخاطبات الہیہ سے اس قسم کے کلمات مراد نہیں ہیں جن کی نسبت خود علم متردد ہو کہ آیا وہ شیطانی ہیں یا رحمانی.ایسے بے برکت کلمات جن میں شیطان بھی شریک ہوسکتا ہے شیطانی ہی سمجھنے چاہئیں.کیونکہ خدا تعالیٰ کے روشن اور بابرکت اور لذیذ کلمات شیطان کے کلمات سے مشابہ نہیں ہو سکتے اور جن دلوں میں باعث طہارت کا ملہ شیطان کا کچھ حصہ نہیں رہتا اُن کی وحی میں بھی شیطان کا کچھ حصہ نہیں رہتا اور شیطان انہیں نجس دلوں پر اُترتا ہے جو شیطان کی طرح اپنے اندر ناپاکی رکھتے ہیں.پاک نفسوں پر پاک کا کلام نازل ہوتا ہے اور پلید نفسوں پر پلید کا.اور اگر ایک انسان اپنے الہام میں متحیر ہے اور نہیں جانتا کہ وہ شیطان کی طرف سے ہے یا خدا کی طرف سے.ایسے شخص کا الہام اُس کے لئے آفت جان ہے کیونکہ ممکن ہے کہ وہ اس الہام کی بنا پرکسی نیک کو بد قرار دے حالانکہ وہ الہام شیطان کی طرف سے ہوا اور ممکن ہے کہ کسی بد کونیک قرار دے حالانکہ وہ سراسر شیطانی تعلیم ہو.اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک امر کو جو الہام کے ذریعہ سے اس کو معلوم ہوا ہے خدا کا امر سمجھ کر بجالا وے حالانکہ وہ شیطان نے حکم دیا ہو.اور اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ ایک حکم شیطان کا محکم سمجھ کر ترک کر دے حالانکہ وہ خدا تعالیٰ کا حکم ہو.صاف ظاہر ہے کہ بجز ایک قطعی فیصلہ کے یعنی بجز اس امر کے کہ دل اس یقین سے پر ہو کہ درحقیقت یہ خدا کا حکم ہے اس کے کرنے کے لئے پوری استقامت حاصل نہیں ہو سکتی خصوصاً بعض امور ایسے ہوتے ہیں کہ ظاہر شرع کو اُن پر کچھ اعتراض بھی ہوتا ہے جیسا کہ خضر کے کام پر ظاہر شرع کو سرا پا اعتراض تھا.نبیوں کی تمام شریعتوں میں سے کسی شریعت میں یہ حکم نہیں کہ ایک بے گناہ بچہ کوقتل کر دو.پس اگر خضر کو یہ یقین نہ ہوتا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۰ سورة الشورى کہ یہ وحی خدا کی طرف سے ہے تو وہ کبھی قتل نہ کرتا اور اگر موسیٰ کی ماں کو یقین نہ ہوتا کہ اس کی وحی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے تو کبھی اپنے بچہ کو دریا میں نہ ڈالتی.اب ظاہر ہے کہ ایسا الہام کس طرح فخر کے لائق ہو سکتا اور کس طرح اس کے ضرر سے انسان امن میں رہ سکتا ہے جس کی نسبت کبھی تو اس کا یہ خیال ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور کبھی یہ خیال ہے کہ شیطان کی طرف سے ہے.ایسا الہام تو آفت جان اور آفتِ ایمان ہے بلکہ ایک بلا ہے جس سے کبھی نہ کبھی وہ ہلاک ہو سکتا ہے.خدا تعالیٰ ایسا نہیں ہے کہ اپنے ان بندوں کو جو تعلقات نفس امارہ سے الگ ہو کر محض اس کے ہو جاتے ہیں اور اُس کی محبت کی آگ سے تمام ماسوا اللہ کو جلا دیتے ہیں وہ اپنے ایسے بندوں کو شیطان کے پنجہ میں گرفتار کرے.اور سچ تو یہ ہے کہ جس طرح روشنی اور تاریکی میں فرق ہے اسی طرح شیطانی وساوس اور خدا تعالی کی پاک وحی میں فرق ہے.(براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۱۰،۳۰۹) الہام کچھ شئے نہیں جب تک کہ انسان اپنے تئیں شیطان کے دخل سے پاک نہ کرلے اور بے جا تعصبوں اور کینوں اور حسدوں سے اور ہر ایک خدا کو ناراض کرنے والی بات سے اپنے آپ کو صاف نہ کر لے.(احکم جلد ۵ نمبر ۱۸ مورخه ۱۷ارمئی ۱۹۰۱ء صفحه ۱۳) اس بات کو کبھی بھولنا نہیں چاہیے کہ رویا اور الہام پر مدار صلاحیت نہیں رکھنا چاہیے.بہت سے آدمی دیکھے گئے ہیں کہ ان کو رؤیا اور الہام ہوتے رہے لیکن انجام اچھا نہیں ہوا جو اعمالِ صالحہ کی صلاحیت پر موقوف ہے.اس تنگ دروازہ سے جو صدق و وفا کا دروازہ ہے گزرنا آسان نہیں.ہم بھی ان باتوں سے فخر نہیں کر سکتے کہ رویا یا الہام ہونے لگے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ رہیں اور مجاہدات سے دستکش ہور ہیں.اللہ تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا.( البدر جلد ۳ نمبر ۱۹،۱۸ مورخه ۸ و ۱۶ رمئی ۱۹۰۴ ء صفحه ۱۰) محض الہام جب تک اس کے ساتھ فعلی شہادت نہ ہو ہر گز کسی کام کا نہیں.دیکھو جب کفار کی طرف سے اعتراض ہو لَسْتَ مُرْسَلًا (الرعد: (۴۴) تو جواب دیا گیا کفی بِاللهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمُ (الرعد : ۴۴) یعنی عنقریب خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت میری صداقت کو ثابت کر دے گی پس الہام کے ساتھ فعلی شہادت بھی چاہیے.( بدر جلد ۶ نمبر ۱۷ مورخه ۱/۲۵ پریل ۱۹۰۷ صفحہ ۹) الہام وحی تو خدا تعالیٰ کا فعل ہے کوئی انسانی عمل نہیں.خدا کے فعل پر اپنا فخر جاننا اور خوش ہونا جاہل کا کام ہے.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو کہ آپ بعض دفعہ رات کو اس قدر عبادت میں کھڑے ہوتے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۱ سورة الشورى تھے کہ پاؤں پر ورم ہو جاتا تھا ساتھی نے عرض کی کہ آپ تو گناہوں سے پاک ہیں اس قدر محنت پھر کس لئے فرما یا اقلا اكون عبدًا شُكُورًا کیا میں شکر گزار نہ بنوں.( بدر جلدے نمبر ۲ مورخہ ۱۶/جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۷) جب تک انسان اپنے نفسانی جذبات اور خودی سے فنانہ ہو جاوے جب تک خواہ الہام بھی ہو اور کشوف بھی دکھائے جاویں مگر کسی کام کے نہیں ہیں کیونکہ بجز اس کے کہ خدا میں اپنے آپ کو فنا کر دیا جاوے.یہ امور عارضی ہوتے ہیں اور دیر پا نہیں ہوتے اور ان کی کچھ بھی قدر و قیمت نہیں ہوتی.الحکام جلد ۱۲ نمبر ۲۲ مورخه ۲۶ مارچ ۱۹۰۸ صفحه ۴) یہ دعوئی ہمارا بالکل صحیح اور نہایت صفائی سے ثابت ہے کہ صراط مستقیم پر چلنے سے طالب صادق الہام الہی پاسکتا ہے کیونکہ اول تو اس پر تجربہ ذاتی شاہد ہے ماسوائے اس کے ہر ایک عاقل سمجھ سکتا ہے کہ اس دنیا میں اس سے بڑھ کر اور کوئی معرفت الہی کا اعلیٰ رتبہ نہیں ہے کہ انسان اپنے رب کریم جل شانہ سے ہم کلام ہو جائے.یہی درجہ ہے جس سے روحیں تسلی پاتی ہیں اور سب شکوک وشبہات دور ہو جاتے ہیں اور اسی درجہ صافیہ پر پہنچ کر انسان اس دقیقہ معرفت کو پالیتا ہے جس کی تحصیل کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے اور دراصل نجات کی کنجی اور ہستی موہوم کا عقدہ کشا یہی درجہ ہے جس سے ثابت ہوتا ہے اور کھل جاتا ہے کہ خالق حقیقی کو اپنی مخلوق ضعیف سے کس قدر قرب واقعہ ہے.اس درجہ تک پہنچنے کی خبر ہمیں اسی نور نے دی ہے.جس کا نام قرآن ہے وہ نور صاف عام طور پر بشارت دیتا ہے کہ الہام کا چشمہ کبھی بند نہیں ہوسکتا.جب کوئی مشرق کا رہنے والا یا مغرب کا باشندہ دلی صفائی سے خدائے تعالیٰ کو ڈھونڈھے گا اور اس سے پوری پوری صلح کر لے گا اور درمیان کے حجاب اٹھائے گا تو ضرور اسے پائے گا اور جب واقعی اور سچے اور کامل طور پر پائے گا تو ضرور خدا اس سے ہم کلام ہو گا.سرمه چشم آریہ روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۳۸،۲۳۷) بے شک یہ بات سب کے فہم میں آسکتی ہے کہ انسان اپنی اس غافلانہ زندگی میں جو ہر دم تحت الثریٰ کی طرف کھینچ رہی ہے اور علاوہ اس کے تعلقات زن و فرزند اور ننگ و ناموس کے بوجھل اور بھاری پتھر کی طرح ہر لحظہ نیچے کی طرف لے جارہے ہیں ایک بالائی طاقت کا ضرور محتاج ہے جو اس کو سچی بینائی اور سچا کشف بخش کر خدائے تعالی کے جمال با کمال کا مشتاق بنا دیوے.سو جانا چاہیئے کہ وہ بالائی طاقت الہام ربانی ہے جو عین دُکھ کے وقت میں سرور پہنچاتا ہے اور مصائب کے ٹیلوں اور پہاڑوں کے نیچے بڑے آرام اور لذت
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۲ سورة الشورى کے ساتھ کھڑا کر دیتا ہے.وہ دقیق در دقیق وجود جس نے عقلی طاقتوں کو خیرہ کر رکھا ہے اور تمام حکیموں کی عقل اور دانش کو سکتہ میں ڈال دیا ہے وہ الہام ہی کے ذریعہ سے کچھ اپنا پتہ دیتا ہے اور انا الموجود کہہ کر سالکوں کے دلوں کو تسلی بخشتا ہے اور سکینت نازل کرتا ہے اور انتہائی وصول کی ٹھنڈی ہوا سے جان پڑ مردہ کو تازگی (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۲۷) بخشتا ہے.خدا نے اپنے بدیہی کاموں کو نظری کاموں کے کھولنے کے لئے بطور گواہ کے پیش کیا ہے.گویا وہ فرماتا ہے کہ اگر تم ان خواص سے شک میں ہو جو نفس ناطقہ انسانی میں پائے جاتے ہیں تو چاند اور سورج وغیرہ میں غور کرو کہ ان میں بدیہی طور پر یہ خواص موجود ہیں اور تم جانتے ہو کہ انسان ایک عالم صغیر ہے جس کے نفس میں تمام عالم کا نقشہ اجمالی طور پر مرکوز ہے.پھر جب کہ یہ ثابت ہے کہ عالم کبیر کے بڑے بڑے اجرام یہ خواص اپنے اندر رکھتے ہیں اور اسی طرح پر مخلوقات کو فیض پہنچارہے ہیں تو انسان جو ان سب سے بڑا کہلاتا ہے اور بڑے درجہ کا پیدا کیا گیا ہے وہ کیوں کر ان خواص سے خالی اور بے نصیب ہوگا.نہیں بلکہ اس میں بھی سورج کی طرح ایک علمی اور عقلی روشنی ہے جس کے ذریعہ سے وہ تمام دنیا کو منور کر سکتا ہے اور چاند کی طرح وہ حضرت اعلیٰ سے کشف اور الہام اور وحی کا نور پاتا ہے اور دوسروں تک جنہوں نے انسانی کمال ابھی تک حاصل نہیں کیا اس نور کو پہنچاتا ہے.پھر کیوں کر کہہ سکتے ہیں کہ نبوت باطل ہے اور تمام رسالتیں اور شریعتیں اور کتابیں انسان کی مکاری اور خود غرضی ہے.یہ بھی دیکھتے ہو کہ کیوں کر دن کے روشن ہونے سے تمام راہیں روشن ہو جاتی ہیں.تمام نشیب و فراز نظر آ جاتے ہیں.سو کامل انسان روحانی روشنی کا دن ہے.اس کے چڑھنے سے ہر ایک راہ نمایاں ہو جاتی ہے، وہ کچی راہ کو دکھلا دیتا ہے کہ کہاں اور کدھر ہے کیونکہ راستی اور سچائی کا وہی روز روشن ہے.ایسا ہی یہ بھی مشاہدہ کر رہے ہو کہ رات کیسی تھکوں ماندوں کو جگہ دیتی ہے.تمام دن کے شکستہ کوفتہ مزدور رات کے کنار عاطفت میں بخوشی سوتے ہیں اور محنتوں سے آرام پاتے ہیں اور رات ہر ایک کے لئے پردہ پوش بھی ہے.ایسا ہی خدا کے کامل بندے دنیا کو آرام دینے کے لئے آتے ہیں.خدا سے وحی اور الہام پانے والے تمام عقلمندوں کو جان کا ہی سے آرام دیتے ہیں.ان کے طفیل سے بڑے بڑے معارف آسانی کے ساتھ حل ہو جاتے ہیں.ایسا ہی خدا کی وحی انسانی عقل کی پردہ پوشی کرتی ہے جیسا کہ رات پردہ پوشی کرتی ہے.اس کی ناپاک خطاؤں کو دنیا پر ظاہر ہونے نہیں دیتی.کیونکہ عقلمند وحی کی روشنی کو پاکر اندر ہی اندر اپنی غلطیوں کی اصلاح کر لیتے ہیں اور خدا کے پاک الہام کی برکت سے اپنے تئیں پردہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۳ سورة الشورى دری سے بچا لیتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ افلاطون کی طرح اسلام کے کسی فلاسفر نے کسی بت پر مرغ کی قربانی نہ چڑھائی.چونکہ افلاطون الہام کی روشنی سے بے نصیب تھا.اس لئے دھوکا کھا گیا اور ایسا فلاسفر کہلا کر یہ مکروہ اور احمقانہ حرکت اس سے صادر ہوئی.مگر اسلام کے حکماء کو ایسی ناپاک اور احمقانہ حرکتوں سے ہمارے سید و مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نے بچا لیا.اب دیکھو کیسا ثابت ہوا کہ الہام عقلمندوں کا رات کی طرح پردہ پوش ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۲۶ تا ۴۲۸) وہ نور جس سے انسان کی آنکھ کھل کر اس کو ایقان تام حاصل ہو جاوے وہ صرف الہام ہی پر منحصر ہے.الہام سے انسان کو ایک نور ملتا ہے جس سے وہ ہر تاریکی سے مبرا ہو جاتا ہے اور ایک قسم کا اطمینان اور تسلی اسے ملتی ہے.اس کا نفس اس دن سے خدا میں آرام پانے لگتا ہے اور ہر گناہ فسق و فجور سے اس کا دل ٹھنڈا ہوتا جاتا ہے.اس کا دل امید اور بیم سے بھر جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی حقیقی معرفت کی وجہ سے وہ ہر وقت ترساں لرزاں رہتا ہے اور زندگی کو نا پائیدار جانتا اور سفلی لذات کی ہوس اور خواہش کو ترک کر کے خدا تعالی کی رضا کے حصول میں لگ جاتا ہے اور درحقیقت وہ اسی وقت گناہ کی آلودگی سے علیحدہ ہوتا ہے.جب تک تازہ نور انسان کو آسمان پر سے نہ ملے اور خدا تعالیٰ کا مشاہدہ نہ ہو جاوے تب تک پورا ایمان نہیں ہوتا.جب تک ایمان کمال درجہ تک نہ پہنچا ہو تب تک گناہ کی قید سے رہائی ناممکن ہے.بجز الہام کے ایمان کی تصویر لوگوں کے پاس ہوتی ہے اس کی ماہیت سے لوگ بے بہرہ اور خالی محض ہوتے ہیں.الحکم جلد نمبر ۱۴ مورخه ۱/۱۷ پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۵) اس مسلمان سے کون زیادہ بد نصیب ہے جس کو خدا تعالیٰ وعدہ دیتا ہے کہ میں اپنے کلام سے مشرف کروں گا مگر وہ اس کی طرف توجہ نہ کرے.یہ خدا تعالیٰ کا بڑا فضل ہے اور اسلام سے خاص ہے کسی آریہ سے پوچھو کہ تم وعدہ ہی دکھاؤ وہ یہ بھی نہیں دکھا سکتے.ماتم زدہ اور مردہ وہ مذہب ہے جس کے الہام پر مہر لگ گئی اور ویران اور اُجڑا ہوا وہ باغ ہے جس پر خزاں کا قبضہ ہو چکا لیکن ربیع کا اثر اس پر نہیں ہوسکتا.کیسے افسوس اور تعجب کا مقام ہے کہ انسانی فطرت پر تو مہر نہ لگی.اس میں تو معرفت حقیقی کی وہی بھوک پیاس موجود ہے لیکن الہام پر مہر لگادی گئی جو معرفت الہی کا سر چشمہ تھا.افسوس بھوک میں غذا پھینک دی گئی اور پیاس کی حالت میں پانی لے لیا گیا.احکام جلد ۱۱ نمبر ۳ مورخہ ۲۴ جنوری۱۹۰۷ء صفحہ ۷ )
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۴ سورة الشورى کوئی قانون عاصم ہمارے پاس ایسا نہیں ہے کہ جس کے ذریعہ سے ہم لز و نا غلطی سے بیچ سکیں.یہی باعث ہے کہ جن حکیموں نے قواعد منطق کے بنائے اور مسائل مناظرہ کے ایجاد کئے اور دلائل فلسفہ کے گھڑے وہ بھی غلطیوں میں ڈوبتے رہے.اور صد با طور کے باطل خیال اور جھوٹا فلسفہ اور لکھی باتیں اپنی نادانی کے یادگار میں چھوڑ گئے.پس اس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ اپنی ہی تحقیقات سے جمیع امور حقہ اور عقائد صحیحہ پر پہنچ جانا اور کہیں غلطی نہ کرنا ایک محال عادی ہے.کیونکہ آج تک ہم نے کوئی فرد بشر ایسا نہیں دیکھا اور نہ سنا اور نہ کسی تاریخی کتاب میں لکھا ہوا پایا کہ جو اپنی تمام نظر اور فکر میں سہو اور خطا سے معصوم ہو.پس بذریعہ قیاس استقرائی کے یہ بیج اور سانتیجہ نکلتا ہے کہ وجود ایسے اشخاص کا کہ جنہوں نے صرف قانون قدرت میں فکر اور غور کر کے اور اپنے ذخیرہ کانشنس کو واقعات عالم سے مطابقت دے کر اپنی تحقیقات کو ایسے اعلی پایہ صداقت پر پہنچادیا ہو کہ جس میں غلطی کا نکلنا غیر ممکن ہو.خود عادتاً غیر ممکن ہو.....صاف ظاہر ہے کہ جس حالت میں نہ خود انسان اپنے علم اور واقفیت سے غلطی سے بیچ سکے اور نہ خدا ( جو رحیم اور کریم اور ہر ایک سہود خطا سے مبرا اور ہر امر کی اصل حقیقت پر واقف ہے ) بذریعہ اپنے سچے الہام کے اپنے بندوں کی مدد کرے تو پھر ہم عاجز بندے کیوں کر ظلمات جہل اور خطا سے باہر آویں اور کیوں کر آفات شک وشبہ سے نجات پائیں.لہذا میں مستحکم رائے سے یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ مقتضاء حکمت اور رحمت اور بندہ پروری اس قادر مطلق کا یہی ہے کہ وقتا فوقتا جب مصلحت دیکھے ایسے لوگوں کو پیدا کرتا رہے کہ عقائد حقہ کے جاننے اور اخلاق صحیحہ کے معلوم کرنے میں خدا کی طرف سے الہام پائیں اور تفہیم تعلیم کا ملکہ وہی رکھیں تا کہ نفوس بشر یہ کہ کچی ہدایت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اپنی سعادت مطلوبہ سے محروم نہ رہیں.پرانی تحریریں، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۱،۲۰) انسان ہمیشہ چشم دید ماجرا اور ذاتی بصیرت کا محتاج ہے.مذہب اسی زمانہ تک علم کے رنگ میں رہ سکتا ہے جب تک خدا تعالیٰ کی صفات ہمیشہ تازہ بتازہ تجلی فرماتی رہیں ورنہ کہانیوں کی صورت میں ہو کر جلد مرجاتا ہ ہے.کیا ایسی ناکامی کو کوئی انسانی کانشنس قبول کر سکتا ہے.جب کہ ہم اپنے اندر اس بات کا احساس پاتے ہیں کہ ہم اس معرفت تامہ کے محتاج ہیں جو کسی طرح بغیر مکالمہ الہیہ اور بڑے بڑے نشانوں کے پوری نہیں ہو سکتی تو کس طرح خدا تعالیٰ کی رحمت ہم پر الہامات کا دروازہ بند کر سکتی ہے.کیا اس زمانہ میں ہمارے دل اور ہو گئے ہیں یا خدا اور ہو گیا ہے.یہ تو ہم نے مانا اور قبول کیا کہ ایک زمانہ میں ایک کا الہام لاکھوں کی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الشورى معرفت کو تازہ کر سکتا ہے اور فرد فرد میں ہونا ضروری نہیں.لیکن یہ ہم قبول نہیں کر سکتے کہ الہام کی سرے سے صف ہی الٹ دی جائے.اور ہمارے ہاتھ میں صرف ایسے قصے ہوں جن کو ہم نے بچشم خود دیکھا نہیں.ظاہر ہے کہ جبکہ ایک امرصد ہا سال سے قصے کی صورت میں ہی چلا جائے اور اس کی تصدیق کے لئے کوئی تازہ نمونہ پیدا نہ ہو تو اکثر طبیعتیں جو فلسفی رنگ اپنے اندر رکھتی ہیں.اس قصے کو بغیر قوی دلیل کے قبول نہیں کر سکتیں.خاص کر جبکہ قصے ایسی باتوں پر دلالت کریں کہ جو ہمارے زمانہ میں خلاف قیاس معلوم ہوں.یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد ہمیشہ فلسفی طبع آدمی ایسی کرامتوں پر ٹھٹھا کرتے آئے ہیں اور شبہ کی حد تک بھی نہیں ٹھہرتے.اور یہ ان کا حق بھی ہوتا ہے کیونکہ ان کے دل میں گزرتا ہے کہ جب کہ وہی خدا ہے اور وہی صفات اور وہی ضرورتیں ہمیں پیش ہیں تو پھر الہام کا سلسلہ کیوں بند ہے.حالانکہ تمام روحیں شور ڈال رہی ہیں کہ ہم بھی تازہ معرفت کے محتاج ہیں.اسی وجہ سے ہندوؤں میں لاکھوں انسان دہر یہ ہو گئے.کیونکہ بار بار پنڈتوں نے ان کو یہی تعلیم دی کہ کروڑ ہا سال سے الہام اور کلام کا سلسلہ بند ہے.اب ان کو یہ شبہات دل میں گزرے کہ وید کے زمانہ کی نسبت ہمارا زمانہ پر میشر کے تازہ الہامات کا بہت محتاج تھا.پھر اگر الہام ایک حقیقت حقہ ہے تو وید کے بعد اس کا سلسلہ کیوں قائم نہیں رہا.اسی وجہ سے آریہ ورت میں دہریت پھیل گئی.( ضرورة الامام ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۹۲،۴۹۱) بنی نوع انسان کا ایمان تازہ رکھنے کے لئے تازہ الہامات کی ہمیشہ ضرورت ہے اور وہ الہامات اقتداری قوت سے شناخت کئے جاتے ہیں کیونکہ خدا کے سوا کسی شیطان جن بھوت میں اقتداری قوت نہیں ہے اور امام الزمان کے الہام سے باقی الہامات کی صحت ثابت ہوتی ہے.( ضرورة الامام، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۹۳) وہ خدا جو اس دنیا کا بنانے والا اور آئندہ زندگی کی جاودانی امیدیں اور بشارتیں دینے والا ہے اس کا قدیم سے یہ قانونِ قدرت ہے کہ غافل لوگوں کی معرفت زیادہ کرنے کے لئے بعض اپنے بندوں کو اپنی طرف سے الہام بخشتا ہے اور ان سے کلام کرتا ہے اور اپنے آسمانی نشان اُن پر ظاہر کرتا ہے اور اس طرح وہ خدا کو روحانی آنکھوں سے دیکھ کر اور یقین اور محبت سے معمور ہو کر اس لائق ہو جاتے ہیں کہ وہ دوسروں کو بھی اس زندگی کے چشمہ کی طرف کھینچیں جس سے وہ پیتے ہیں تا غافل لوگ خدا سے پیار کر کے ابدی نجات کے مالک ہوں اور ہر ایک وقت میں جب دنیا میں خدا کی محبت ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور غفلت کی وجہ سے حقیقی پاک
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۶ سورة الشورى باطنی میں فتور آتا ہے تو خدا کسی کو اپنے بندوں میں سے الہام دے کر دلوں کو صاف کرنے کے لئے کھڑا کر دیتا ہے.سواس زمانہ میں اس کام کے لئے جس شخص کو اُس نے اپنے ہاتھ سے صاف کر کے کھڑا کیا ہے وہ یہی عاجز ہے.(کشف الغطاء، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۱۹۱) ہر ایک آدمی چونکہ عقل سے مدارج یقین پر نہیں پہنچ سکتا.اس لئے الہام کی ضرورت پڑتی ہے.جو تاریکی میں عقل کے لئے ایک روشن چراغ ہو کر مدد دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے فلاسفر بھی محض عقل پر بھروسہ کر کے حقیقی خدا کو نہ پاسکے.چنانچہ افلاطون جیسا فلاسفر بھی مرتے وقت کہنے لگا کہ میں ڈرتا ہوں.ایک بت پر میرے لئے ایک مرغا ذبح کرو.اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہوگی.افلاطون کی فلاسفی اس کی دانائی اور دانشمندی اس کو وہ سچی سکینت اور اطمینان نہیں دے سکے جو مومنوں کو حاصل ہے.یہ خوب یاد رکھو کہ الہام کی ضرورت قلبی اطمینان اور دلی استقامت کے لئے اشد ضروری ہے.میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے عقل سے کام لو اور یہ یاد رکھو کہ جو عقل سے کام لے گا.اسلام کا خدا اسے ضرور ہی نظر آ جائے گا.کیونکہ درختوں کے پتے پتے پر اور آسمان کے اجرام پر اس کا نام بڑے جلی حرفوں میں لکھا ہوا ہے.لیکن بالکل عقل ہی کے تابع نہ بن جاؤ تا کہ الہام الہی کی وقعت کو کھو بیٹھو.جس کے بغیر نہ حقیقی تسلی اور نہ اخلاق فاضلہ نصیب ہو سکتے ہیں.ایک شہر میں پہنچ کر انسان پھر بھی خاص جگہ پر پہنچنے کے واسطے کسی رہبر کا محتاج ہوتا ہے تو کیا دین کی راہ معلوم کرنے اور خدا کی مرضی پانے کے واسطے انسانی ڈھکوسلے کام آسکتے ہیں؟ اور کیا صرف سفلی عقل کافی ہو سکتی ہے؟ ہرگز ہر گز نہیں جب تک اللہ تعالیٰ خود اپنی راہ کو نہ بتاوے اور اپنی مرضی کے وسائل کے حصول کے ذریعہ سے مطلع نہ کرے تب تک انسان کچھ کر نہیں سکتا.دیکھو جب تک آسمان سے پانی نازل نہ ہوز مین بھی اپنا سبزہ نہیں نکالتی گو بیچ اس میں موجود ہی کیوں نہ ہو.بلکہ زمین کا پانی بھی دور چلا جاتا ہے تو کیا روحانی بارش کے بغیر ہی رُوحانی زمین سرسبز ہو جاتی اور بار آور ہو سکتی ہے؟ ہر گز نہیں.خدا کے الہام کے سوا کچھ نہیں الحکم جلدے نمبر ۹ مورخہ ۱۰؍ مارچ ۱۹۰۳ ء صفحه ۱۳) ہوسکتا.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۷۲) خدا تعالیٰ ابتداء زمانہ میں بولا کہ میں تیرا خدا ہوں ایسا ہی اخیر زمانہ میں بھی اس نے فرمایا کا الْمَوْجُود.یا درکھو کہ وہ بادی ہے اگر چھوڑ دے تو سب دہریہ بن جائیں.پس وہ اپنی ہستی کا ثبوت دیتا رہتا ہے اور یہ زمانہ تو بالخصوص اس بات کا محتاج ہے.( بدر جلدے نمبر ۶ مورخه ۱۳ فروری ۱۹۰۸ء صفحه ۵،۴)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۷ سورة الشورى یہ انسان میں ایک فطرتی خاصیت ہے کہ اگر اپنے وجود کے تمام زور اور تمام قوت سے ایک چیز کو ڈھونڈے اور طلب کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھے اور پھر بھی وہ چیز میسر نہ آوے تو اس چیز کے وجود کی نسبت اس کا اعتقاد قائم نہیں رہتا بالخصوص اگر کسی ایسے شخص کو ڈھونڈتا ہو جس کی نسبت اس کا یہ اعتقاد بھی ہو کہ وہ میری اس کوشش اور اضطراب سے واقف ہے اور میری اس بیقراری پر مطلع ہے تو پھر اگر اس کی طرف سے کوئی پیغام نہ پہنچے تو بلاشبہ انکار اور نومیدی کا موجب ہوگا.پس اس تحقیق کی رو سے یہ بات ثابت شدہ امر ہے کہ خدا تعالیٰ پر سچا یقین بغیر ذریعہ وحی اور الہام کے ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا.ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۷۶) عظمند لوگ خدائے تعالیٰ کے فیاض مطلق ہونے پر ایمان لا کر الہامی دروازوں کو ہمیشہ گھلا سمجھتے ہیں اور کسی ولائت اور ملک سے اُس کو مخصوص نہیں رکھتے ہاں اس صراط مستقیم سے مخصوص رکھتے ہیں جس پر ٹھیک ٹھیک چلنے سے یہ برکات حاصل ہوتے ہیں کیونکہ ہر یک چیز کے حصول کے لئے یہ لازم پڑا ہوا ہے کہ انہیں قواعد اور طریقوں پر عمل کیا جائے جن کی پابندی سے وہ چیز مل سکتی ہے.سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۷۷،۱۷۶ حاشیہ ) اے غافلو! اس امت مرحومہ میں وحی کی نالیاں قیامت تک جاری ہیں مگر حسب مراتب.ہی کیا.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه (۳۲۱) اسلام کے زندہ ہونے کا ثبوت اور نبوت کی یقینی حقیقت جو ہمیشہ ہر ایک زمانہ میں منکرین وحی کو ساکت کر سکے اُسی حالت میں قائم رہ سکتی ہے کہ سلسلہ وحی برنگ محد ثیت ہمیشہ کے لئے جاری رہے سو اس نے ایسا بركات الدعا، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۳) یقیناً سمجھو کہ خدا تعالیٰ کا اپنے بندوں پر بڑا احسان یہی ہے کہ وہ اسلام کو مردہ مذہب رکھنا نہیں چاہتا بلکہ ہمیشہ یقین اور معرفت اور الزام خصم کے طریقوں کو کھلا رکھنا چاہتا ہے.بھلا تم آپ ہی سوچو کہ اگر کوئی وحی نبوت کا منکر ہو اور یہ کہے کہ ایسا خیال تمہارا اسراسر وہم ہے تو اس کے منہ بند کرنے والی بجز اس کے نمونہ دکھلانے کے اور کون سی دلیل ہوسکتی ہے؟ کیا یہ خوشخبری ہے یا بد خبری که آسمانی برکتیں صرف چند سال اسلام میں رہیں اور پھر وہ خشک اور مُردہ مذہب ہو گیا ؟ اور کیا ایک بچے مذہب کے لئے یہی علامتیں ہونی ( بركات الدعاء روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۵) چاہئیں !!!
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۵۸ سورة الشورى فَتَدَبَّرُ أَيُّهَا الْمُنْصِفُ الْعَاقِلُ كَيْفَ لَا اے عقلمند اور منصف مزاج تو غور کر کہ اس يَجُوزُ مُكَالْمَاتُ اللهِ بِبَعْضِ رِجَالِ هَذِهِ بهترین اُمت کے بعض مردوں کے ساتھ خدا تعالیٰ الْأُمَّةِ الَّتِي هِيَ خَيْرُ الْأُمَمِ وَ قَدْ كَلَّمَ الله کے مکالمات کیوں جائز نہیں.بحالیکہ اللہ تعالیٰ نے نِسَاءَ قَوْمٍ خَلَوْا مِن قَبْلِكُمْ وَ قَدْ آتَاكُمْ پہلی قوموں کی بعض عورتوں سے بھی کلام کیا اور مَثَلُ الْأَوَّلِينَ تمہارے پاس پہلوں کی مثالیں موجود ہیں.(ترجمه از مرتب) (حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلدے صفحہ ۲۹۷) یہ بات ہر گز صحیح نہیں ہے کہ خدا کا کلام کرنا آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گیا ہے ہم اس کے کلام اور مخاطبات پر کسی زمانہ تک مہر نہیں لگاتے.بیشک وہ اب بھی ڈھونڈنے والوں کو الہامی چشمہ سے مالا مال کرنے کو طیار ہے جیسا کہ پہلے تھا اور اب بھی اس کے فیضان کے ایسے دروازے کھلے ہیں جیسے کہ پہلے تھے.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۶۷،۳۶۶) میں سچ سچ کہتا ہوں کہ میری جماعت میں اس قسم کے مظلہم اس قدر ہیں کہ بعض کے الہامات کی ایک کتاب بنتی ہے.سید امیر علی شاہ ہر ایک ہفتہ کے بعد الہامات کا ایک ورق بھیجتے ہیں اور بعض عورتیں میری مصدق ہیں جنہوں نے ایک حرف عربی کا نہیں پڑھا اور عربی میں الہام ہوتا ہے.( ضرورة الامام، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۵۰۱) اگر ایک شخص اپنی نا بینائی سے میری وحی سے منکر ہے تاہم اگر وہ مسلمان کہلاتا ہے اور پوشیدہ وہر یہ نہیں تو اس کے ایمان میں یہ بات داخل ہونی چاہیے کہ یقینی قطعی مکالمہ الہیہ ہوسکتا ہے اور جیسا کہ خدا تعالیٰ کی وحی یقینی پہلی امتوں میں اکثر مردوں اور عورتوں کو ہوتی رہی ہے اور وہ نبی بھی نہ تھے.اس اُمت میں بھی اس یقینی اور قطعی وحی کا وجو دضروری ہے تا یہ امت بجائے افضل الامم ہونے کے احقر الامم نہ ٹھہر جائے.( نزول اسح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۶۷) کوئی چیز اپنی صفات ذاتیہ سے الگ نہیں ہو سکتی پھر خدا کا کلام جو زندہ کلام ہے کیوں کر الگ ہو سکے.پس کیا تم کہہ سکتے ہو کہ آفتاب وحی اگر چہ پہلے زمانوں میں یقینی رنگ میں طلوع کرتا رہا ہے مگر اب وہ صفائی اس کو نصیب نہیں گویا یقینی معرفت تک پہنچنے کا کوئی سامان آگے نہیں رہا بلکہ پیچھے رہ گیا ہے اور گویا خدا کی سلطنت اور حکومت اور فیض رسانی کچھ تھوڑی مدت تک رہ کر ختم ہو چکی ہے لیکن خدا کا کلام اس کے برخلاف گواہی دیتا ہے کیونکہ وہ یہ دعا سکھلاتا ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام عَلَيْهِمُ (الفاتحة : ٧،٦ ).۱۵۹ سورة الشورى ( نزول الصبیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۸۷) قرآن شریف پر شریعت ختم ہو گئی مگر وحی ختم نہیں ہوئی کیونکہ وہ بچے دین کی جان ہے جس دین میں وحی الہی کا سلسلہ جاری نہیں وہ دین مردہ ہے اور خدا اس کے ساتھ نہیں.کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۴ حاشیه ) یہ خیال مت کرو کہ خدا کی وحی آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہے اور روح القدس اب اُتر نہیں سکتا بلکہ پہلے زمانوں میں ہی اُتر چکا.اور میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہر یک دروازہ بند ہو جاتا ہے مگر روح القدس کے اُترنے کا کبھی دروازہ بند نہیں ہوتا تم اپنے دلوں کے دروازے کھول دو تا وہ ان میں داخل ہو تم اُس آفتاب سے خود اپنے تئیں ڈور ڈالتے ہو جبکہ اُس شعاع کے داخل ہونے کی کھڑکی کو بند کرتے ہو.اے نادان اٹھے اور اس کھڑکی کو کھول دے تب آفتاب خود بخود تیرے اندر داخل ہو جائے گا جبکہ خدا نے دنیا کے فیضوں کی راہیں اس زمانہ میں تم پر بند نہیں کیں بلکہ زیادہ کیں تو کیا تمہارا ظن ہے کہ آسمان کے فیوض کی راہیں جن کی اس وقت تمہیں بہت ضرورت تھی وہ تم پر اُس نے بند کر دی ہیں ہر گز نہیں بلکہ بہت صفائی سے وہ دروازہ کھولا گیا کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۵،۲۴) ہے.تم صدق اور راستی اور تقویٰ اور محبت ذاتیہ الہیہ میں ترقی کرو اور اپنا کام یہی سمجھو جب تک زندگی ہے پھر خدا تم میں سے جس کی نسبت چاہے گا اُس کو اپنے مکالمہ مخاطبہ سے بھی مشرف کرے گا.تمہیں ایسی تمنا بھی نہیں چاہیے تا نفسانی تمنا کی وجہ سے سلسلہ شیطانیہ شروع نہ ہو جائے جس سے کئی لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں.کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۸) متابعت نبوی سے نعمت وحی حاصل کرنے کے لئے قیامت تک دروازے کھلے ہیں.وہ وحی جو اتباع کا نتیجہ سے کبھی منقطع نہیں ہوگی مگر بہوت شریعت والی یا موت مستقلہ منقطع ہو چکی ہے.ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۱۳) جبکہ خدا تعالیٰ کا جسمانی قانون قدرت ہمارے لئے اب بھی وہی موجود ہے جو پہلے تھا تو پھر روحانی قانونِ قدرت اس زمانہ میں کیوں بدل گیا ؟ نہیں ہر گز نہیں بدلا.پس وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ وحی الہی پر آئندہ کے لئے مہر لگ گئی ہے وہ سخت غلطی پر ہیں.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۸۰) یا درکھو خدا تعالی ہر گز ایسے شخص کو ضائع نہیں کرتا جو اس کی جستجو میں قدم رکھتا ہے.وہ یقینا ہے اور جیسے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 17.سورة الشورى ہمیشہ سے اس نے آنا الْمَوْجُودُ کہا ہے اب بھی کہتا ہے جس طرح حضرت مسیح پر وحی ہوتی تھی اسی طرح اب بھی ہوتی ہے.میں سچ کہتا ہوں یہ نرا دعوی نہیں اس کے ساتھ روشن دلائل ہیں کہ پہلے کیا تھا جو اب نہیں.اب بھی وہی خدا ہے جو سدا سے کلام کرتا چلا آیا ہے.اس نے اب بھی دُنیا کو اپنے کلام سے منورکیا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۴ مورخه ۳۱/جنوری ۱۹۰۲ء صفحه ۳) سچی معرفت بغیر مخاطبات الہیہ کے حاصل نہیں ہو سکتی.اگر یہ بات اس امت کو حاصل نہیں تو خیر امت کس طرح سے بن گئی.اللہ تعالیٰ نے مخاطبات کا دروازہ بند نہیں کیا ور نہ نجات کا کوئی ذریعہ باقی نہ رہتا.( بدر جلد نمبر ۳۳ مورخه ۶ /نومبر ۱۹۰۵ صفحه ۳) یہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے الہام ووجی کے دروازہ کو بند نہیں کیا.جو لوگ اس امت کو وحی و الہام کے انعامات سے بے بہرہ ٹھہراتے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں اور قرآن شریف کے اصل مقصد کو انہوں نے سمجھا ہی نہیں.ان کے نزدیک یہ امت وحشیوں کی طرح ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاثیرات اور برکات کا معاذ اللہ خاتمہ ہو چکا اور وہ خدا جو ہمیشہ سے متکلم خدا رہا ہے اب اس زمانہ میں آکر خاموش ہو گیا.وہ نہیں جانتے کہ اگر مکالمه مخاطبہ نہیں تو هُدًى لِلْمُتَّقِينَ کا مطلب ہی کیا ہوا ؟ بغیر مکالمه مخاطبہ کے تو اس کی ہستی پر کوئی دلیل قائم نہیں ہو سکتی.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۳۱ / جنوری ۱۹۰۶ صفحه ۲) سب صوفی اس بات کے بھی قائل ہوتے ہیں کہ وحی کا سلسلہ بند نہیں ہوتا بلکہ خلقی طور پر انسان نبی بن سکتا ہے مگر کمزوری کے ساتھ وحی دل کہہ دیتے ہیں.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۹ مورخه ۳۱/اکتوبر ۱۹۰۷ ء صفحه ۶) کبھی نبی کی اس قسم کی وجی جس کو دوسرے لفظوں میں اجتہاد بھی کہتے ہیں مست شیطانی سے مخلوط ہو جاتی ہے اور یہ اُس وقت ہوتا ہے کہ جب نبی کوئی تمنا کرتا ہے کہ یوں ہو جائے تب ایسا ہی خیال اُس کے دل میں گزرتا ہے جس پر نبی مستقل رائے قائم کرنے کے لئے ارادہ کر لیتا ہے تب فی الفور وحی اکبر جو کلام الہی اور وحی متلو اور میمن ہے نبی کو اس غلطی پر متنبہ کر دیتی ہے اور وحی متلو شیطان کے دخل سے بکلی منزہ ہوتی ہے کیونکہ وہ ایک سخت ہیبت اور شوکت اور روشنی اپنے اندر رکھتی ہے اور قول ثقیل اور شدید النزول بھی ہے اور اس کی تیز شعاعیں شیطان کو جلاتی ہیں اس لئے شیطان اس کے نام سے دور بھاگتا ہے اور نزدیک نہیں آسکتا اور نیز ملائک کی کامل محافظت اس کے اردگرد ہوتی ہے لیکن وحی غیر متلوجس میں نبی کا اجتہاد بھی داخل ہے یہ قوت نہیں رکھتی.اس لئے تمنا کے وقت جو کبھی شاذ نادر اجتہاد کے سلسلہ میں پیدا ہو جاتی ہے.شیطان نبی یا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶ سورة الشورى رسول کے اجتہاد میں دخل دیتا ہے پھر وحی متلو اس دخل کو اٹھا دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ انبیاء کے بعض اجتہادات میں غلطی بھی ہو گئی ہے جو بعد میں رفع کی گئی.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۵۳) قرآن کریم وحی متلو ہے اور اس کے جمع کرنے اور محفوظ رکھنے میں وہ اہتمام بلیغ کیا گیا ہے کہ احادیث الحق مباحث الدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۲، ۱۳) کے اہتمام کو اس سے کچھ بھی نسبت نہیں.ہر یک ملہم میں اللہ کو تین قسم کے الہام ہوتے ہیں ایک واجب التبلیغ دوسرے وہ الہام جن کے اظہار اور عدم اظہار میں ملہم لوگ اختیار دیے جاتے ہیں اگر مصلحت اظہار کی سمجھیں تو اظہار کر دیں ورنہ پوشیدہ رکھیں تیسری قسم الہام کی وہ ہے جن کے اظہار سے ملہم لوگ منع کئے جاتے ہیں.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۱۶ حاشیه ) الہام رحمانی بھی ہوتا ہے اور شیطانی بھی.اور جب انسان اپنے نفس اور خیال کو دخل دے کر کسی بات کے انکشاف کے لئے بطور استخارہ و استخبارہ وغیرہ کے توجہ کرتا ہے خاص کر اس حالت میں کہ جب اس کے دل میں یہ تمنا مخفی ہوتی ہے کہ میری مرضی کے موافق کسی کی نسبت کوئی برا یا بھلا کلمہ بطور الہام مجھے معلوم ہو جائے تو شیطان اُس وقت اُس کی آرزو میں دخل دیتا ہے اور کوئی کلمہ اس کی زبان پر جاری ہو جاتا ہے اور دراصل وہ شیطانی کلمہ ہوتا ہے.یہ دخل کبھی انبیاء اور رسولوں کی وحی میں بھی ہو جاتا ہے مگر وہ بلا توقف (ازالہ اوبام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۳۹) نکالا جاتا ہے.إِنَّ الْوَحْيَ كَمَا يَنْزِلُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ كَذلِكَ | وجی جیسے انبیاء پر نازل ہوتی ہے ویسے ہی وہ اولیاء يَنزِلُ عَلَى الْأَوْلِيَاءِ وَلَا فَرْقَ فِي نُزُولِ الْوَخي پر نازل ہوتی ہے اور نبی اور ولی پر وحی کے نزول میں بَيْنَ أَنْ يَكُون إِلى نَبِي أَوْ وَلِي وَلِكُلّ حَظِّ مِن کوئی فرق نہیں ہوتا ان میں سے ہر ایک کو اللہ تعالی کے مُكَالْمَاتِ اللهِ تَعَالَى وَمُخَاطَبَاتَه عَلى حَسَبِ مكالمات اور مخاطبات سے علی حسب المدارج حصہ ملتا الْمَدَارِجِ نَعَمْ لِوَحْيِي الْأَنْبِيَاءِ شَأْنْ أَتَم ہے ہاں انبیاء کی وحی کو ایک شان اتم اور اکمل حاصل ہوتی وَأَكْمَلُ وَأَقْوَى أَقْسَامِ الْوَخي وخی ہے اور وحی کی اقسام میں سے زیادہ قوی وہ وہی ہے جو ہمارے نبی خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل رَسُولِنَا خَاتَمِ النَّبِيِّينَ.(تحفة بغداد، روحانی خزائن جلد ۷ صفحہ ۲۸،۲۷ حاشیہ) ہوئی.(ترجمہ از مرتب)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۲ سورة الشورى اگر الہامات میں کسی نا واقف اور ناخواندہ کے الہامی فقروں میں نحوی صرفی غلطی ہو جائے تو نفس الہام قابل اعتراض نہیں ہوسکتا......یہ ادنی درجہ کا الہام کہلاتا ہے جو خدا تعالیٰ کے نور کی پوری تحلی سے رنگ پذیر نہیں ہوتا کیونکہ الہام تین طبقوں کا ہوتا ہے ادنیٰ اور اوسط اور اعلیٰ.ضرورة الامام، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۹۹) اگر ایک کلام انسان سنے یعنی ایک آواز اُس کے دل پر پہنچے اور اس کی زبان پر جاری ہو اور اس کو شبہ باقی رہ جاوے کہ شاید یہ شیطانی آواز ہے یا حدیث النفس ہے تو درحقیقت وہ شیطانی آواز ہوگی یا حدیث النفس ہوگی کیونکہ خدا کا کلام جس قوت اور برکت اور روشنی اور تاثیر اور لذت اور خدائی طاقت اور چمکتے ہوئے چہرہ کے ساتھ دل پر نازل ہوتا ہے خود یقین دلا دیتا ہے کہ میں خدا کی طرف سے ہوں.نزول مسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۶۴) تمام برکات اور یقین کے حصول کا ذریعہ خدا کا مکالمہ اور مخاطبہ ہے اور انسان کی یہ زندگی جو شکوک اور شبہات سے بھری ہوئی ہے بجز مکالمات الہیہ کے سرچشمہ صافیہ کے یقین تک ہر گز نہیں پہنچ سکتی مگر خدا تعالیٰ کا وہ مکالمہ یقین تک پہنچاتا ہے جو یقینی اور قطعی ہو جس پر ایک ملہم قسم کھا کر کہہ سکتا ہے کہ وہ اسی رنگ کا مکالمہ ہے جس رنگ کا مکالمہ آدم سے ہوا اور پھر شیث سے ہوا اور پھر نوح سے ہوا اور پھر ابراہیم سے اور پھر اسحاق سے اور پھر اسماعیل سے اور پھر یعقوب سے ہوا اور پھر یوسف سے اور پھر چارسو برس کے بعد موسیٰ سے اور پھر یسوع بن نون سے ہوا اور پھر داؤد سے ہوا اور سلیمان سے اور ایسیع نہبی سے اور دانیال سے اور اسرائیلی سلسلہ کے آخر میں عیسی بن مریم سے ہوا اور سب سے اتم اور اکمل طور پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا.لیکن اگر کوئی کلام یقین کے مرتبہ سے کمتر ہو تو وہ شیطانی کلام ہے نہ ربانی.نزول المسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۸۶) یہ نقطہ خوب توجہ سے یا درکھنے کے لائق ہے کہ جو الہامات ایسے کمزور اور ضعیف الاثر ہوں جو ملہم پر مشتبہ رہتے ہیں کہ خدا کی طرف سے ہیں یا شیطان کی طرف سے.وہ در حقیقت شیطان کی طرف سے ہی ہوتے ہیں یا شیطان کی آمیزش سے.اور گمراہ ہے وہ شخص جو ان پر بھروسہ کرتا ہے اور بد بخت ہے وہ شخص جو اس خطرناک ابتلا میں ماخوذ ہے کیونکہ شیطان اس سے بازی کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کو ہلاک کرے.نزول مسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۹۲)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۳ سورة الشورى وجی دو قسم کی ہے وحی الابتلاء اور وحی الاصطفاء.وحی الابتلاء بعض اوقات موجب ہلاکت ہو جاتی ہے جیسا کہ بلعم اسی وجہ سے ہلاک ہوا مگر صاحب وحی الاصطفاء کبھی ہلاک نہیں ہوتا.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۱) وحی کی اقسام ثلاثہ میں سے اکمل اور اتم وہ وحی ہے جو علم کی تیسری قسم میں داخل ہے جس کا پانے والا انوار سبحانی میں سرا پا غرق ہوتا ہے اور وہ تیسری قسم حق الیقین کے نام سے موسوم ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۰) رحمانی الہام اور وحی کے لئے اوّل شرط یہ ہے کہ انسان محض خدا کا ہو جائے اور شیطان کا کوئی حصہ اُس میں نہ رہے کیونکہ جہاں مردار ہے ضرور ہے کہ وہاں کتے بھی جمع ہو جائیں.الهام کشف یا رویا تین قسم کے ہوتے ہیں.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۴۲) (۱) اوّل وہ جو خدا کی طرف سے ہوتے ہیں اور وہ ایسے شخصوں پر نازل ہوتے ہیں جن کا تزکیہ نفس کامل طور پر ہو چکا ہوتا ہے اور وہ بہت سی موتوں اور محویت نفس کے بعد حاصل ہوا کرتا ہے اور ایسا شخص جذبات نفسانیہ سے بکلی الگ ہوتا ہے اور اس پر ایک ایسی موت وارد ہو جاتی ہے جو اس کی تمام اندرونی آلائشوں کو جلا دیتی ہے جس کے ذریعہ سے وہ خدا سے قریب اور شیطان سے دور ہو جاتا ہے.کیونکہ جو شخص جس کے نزدیک ہوتا ہے اس کی آواز سنتا ہے.(۲) دوسرے حدیث النفس ہوتا ہے جس میں انسان کی اپنی تمنا ہوتی ہے اور انسان کے اپنے خیالات اور آرزؤں کا اس میں بہت دخل ہوتا ہے اور جیسے مثل مشہور ہے بلی کو چھیچھڑوں کی خوا ہیں، وہی باتیں دکھائی دیتی ہیں جن کا انسان اپنے دل میں پہلے ہی سے خیال رکھتا ہے اور جیسے بچے جو دن کو کتابیں پڑھتے ہیں تو رات کو بعض اوقات وہی کلمات ان کی زبان پر جاری ہو جاتے یہی حال حدیث النفس کا ہے.(۳) تیسرے شیطانی الہام ہوتے ہیں.ان میں شیطان عجیب طرح کے دھوکے دیتا ہے کبھی سنہری تخت دکھاتا ہے اور کبھی عجیب و غریب نظارے دکھا کر طرح طرح کے خوش گن وعدے دیتا ہے.الحکم جلد نمبر ۴۱ مورخہ ۷ ارنومبر ۱۹۰۷ صفحه ۱۲) جس پر کوئی کلام نازل ہو جب تک تین علامتیں اس میں نہ پائی جائیں اُس کو خدا کا کلام کہنا اپنے تئیں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۴ سورة الشورى ہلاکت میں ڈالنا ہے.اول.وہ کلام قرآن شریف سے مخالف اور معارض نہ ہو مگر یہ علامت بغیر تیسری علامت کے جو ذیل میں لکھی جائے گی ناقص ہے بلکہ اگر تیسری علامت نہ ہو تو محض اس علامت سے کچھ بھی ثابت نہیں ہوسکتا.دوم.وہ کلام ایسے شخص پر نازل ہو جس کا تزکیہ نفس بخوبی ہو چکا ہو اور وہ اُن فانیوں کی جماعت میں داخل ہو جو بکلی جذبات نفسانیہ سے الگ ہو گئے ہیں اور اُن کے نفس پر ایک ایسی موت وارد ہو گئی ہے جس کے ذریعہ سے وہ خدا سے قریب اور شیطان سے دور جا پڑے ہیں کیونکہ جو شخص جس کے قریب ہے اُس کی آواز سنتا ہے پس جو شیطان کے قریب ہے وہ شیطان کی آواز سنتا ہے اور جو خدا سے قریب ہے وہ خدا کی آواز سنتا ہے اور انتہائی کوشش انسان کی تزکیہ نفس ہے اور اُس پر تمام سلوک ختم ہو جاتا ہے اور دوسرے لفظوں میں یہ ایک موت ہے جو تمام اندرونی آلائشوں کو جلا دیتی ہے.پھر جب انسان اپنا سلوک ختم کر چکتا ہے تو تصرفات الہیہ کی نوبت آتی ہے تب خدا اپنے اس بندہ کو جو سلب جذبات نفسانیہ سے فنا کے درجہ تک پہنچ چکا ہے.معرفت اور محبت کی زندگی سے دوبارہ زندہ کرتا ہے اور اپنے فوق العادت نشانوں سے عجائبات روحانیہ کی اُس کو سیر کراتا ہے اور محبت ذاتیہ کی وراء الوراء کشش اُس کے دل میں بھر دیتا ہے جس کو دنیا سمجھ نہیں سکتی اس حالت میں کہا جاتا ہے کہ اُس کو نئی حیات مل گئی جس کے بعد موت نہیں.پس یہ نئی حیات کامل معرفت اور کامل محبت سے ملتی ہے اور کامل معرفت خدا کے فوق العادت نشانوں سے حاصل ہوتی ہے اور جب انسان اس حد تک پہنچ جاتا ہے تب اُس کو خدا کا سچا مکالمہ مخاطبہ نصیب ہوتا ہے.مگر یہ علامت بھی بغیر تیسرے درجہ کی علامت کے قابل اطمینان نہیں کیونکہ کامل تزکیہ ایک امر پوشیدہ ہے اس لئے ہر ایک فضول گو ایسا دعویٰ کر سکتا ہے.تیسری علامت ملہم صادق کی یہ ہے کہ جس کلام کو وہ خدا کی طرف منسوب کرتا ہے خدا کے متواتر افعال اُس پر گواہی دیں یعنی اس قدر اس کی تائید میں نشانات ظاہر ہوں کہ عقلِ سلیم اس بات کو متنع سمجھے کہ باوجود اس قدر نشانوں کے پھر بھی وہ خدا کا کلام نہیں اور یہ علامت در حقیقت تمام علامتوں سے بڑھ کر ہے کیونکہ ممکن ہے کہ ایک کلام جو کسی کی زبان پر جاری ہو یا کسی نے بادعائے الہام پیش کیا ہو وہ اپنے معنوں کی رو سے قرآن شریف کے بیان سے مخالف نہ ہو بلکہ مطابق ہو مگر پھر بھی وہ کسی مفتری کا افترا ہو کیونکہ ایک عقلمند جو مسلمان ہے مگر مفتری ہے ضرور اس بات کا لحاظ رکھ لے گا کہ قرآن شریف کے مخالف کوئی کلام بدعوی الہام
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الشورى پیش نہ کرے ورنہ خواہ مخواہ لوگوں کے اعتراضات کا نشانہ ہو جائے گا.اور نیز یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کلام حدیث النفس ہو یعنی نفس کی طرف سے ایک کلمہ زبان پر جاری ہو جیسے اکثر بچے جو دن کو کتابیں پڑھتے ہیں رات کو بعض اوقات وہی کلمات ان کی زبان پر جاری ہو جاتے ہیں.غرض کسی کلمہ کا جو بدعوی الہام پیش کیا گیا ہے قرآن شریف سے مطابق ہونا اس بات پر قطعی دلیل نہیں ہے کہ وہ ضرور خدا کا کلام ہے.کیا ممکن نہیں کہ ایک کلام اپنے معنوں کی رو سے خدا کے کلام کے مخالف بھی نہ ہو اور پھر وہ کسی مفتری کا افترا بھی ہو کیونکہ ایک مفتری بڑی آسانی سے یہ کارروائی کر سکتا ہے کہ وہ قرآن شریف کی تعلیم کے موافق ایک کلام پیش کرے اور کہے کہ یہ خدا کا کلام ہے جو میرے پر نازل ہوا ہے اور یا ایسا کلام حدیث النفس ٹھہر سکتا ہے یا شیطانی کلام ہو سکتا ہے.ایسا ہی یہ دوسری شرط بھی یعنی یہ کہ جو الہام کا دعویٰ کرے وہ صاحب تزکیہ نفس ہو قابل اطمینان نہیں بلکہ ایک پوشیدہ امر ہے اور بہتیرے نا پاک طبع لوگ اس بات کا دعوی کر سکتے ہیں کہ ہمارا نفس تزکیہ یافتہ ہے اور ہم خدا سے سچی محبت رکھتے ہیں.پس یہ امر بھی کوئی سہل امر نہیں کہ اس میں جلد تر صادق اور کاذب میں فیصلہ کیا جاوے یہی وجہ ہے کہ کئی خبیث النفس لوگوں نے اُن برگزیدوں پر جو صاحب تزکیہ نفس تھے ناپاک تہمتیں لگائی ہیں جیسا کہ آج کل کے پادری ہمارے سید و مولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمتیں لگاتے ہیں اور نعوذ باللہ کہتے ہیں کہ آپ نفسانی شہوات کا اتباع کرتے تھے جیسا کہ اُن کے ہزاروں رسالوں اور اخباروں اور کتابوں میں ایسی تہمتیں پاؤ گے.ایسا ہی یہودی لوگ حضرت عیسی علیہ السلام پر طرح طرح کی تہمتیں لگاتے ہیں.چنانچہ تھوڑی مدت ہوئی ہے کہ میں نے ایک یہودی کی کتاب دیکھی جس میں نہ صرف یہ نا پاک اعتراض تھا کہ نعوذ باللہ حضرت عیسی کی ولادت ناجائز طور پر ہے بلکہ آپ کے چال و چلن پر بھی نہایت گندے اعتراض کئے تھے اور جو آپ کی خدمت میں بعض عورتیں رہتی تھیں بہت بڑے پیرا یہ میں اُن کا ذکر کیا تھا.پس جبکہ پلید طبع دشمنوں نے ایسے پاک فطرت اور مقدس لوگوں کو شہوت پرست لوگ قرار دیا اور تزکیہ نفس سے محض خالی سمجھا تو اس سے ہر ایک شخص معلوم کر سکتا ہے کہ تزکیہ نفس کا مرتبہ دشمنوں پر ظاہر ہو کہ کا جانا کس قدر مشکل ہے چنانچہ آریہ لوگ خدا تعالیٰ کے تمام نبیوں کو محض مکار اور شہوت پرست قرار دیتے ہیں اور اُن کا دور مکر و فریب کا دور ٹھہراتے ہیں.لیکن یہ تیسری علامت کہ الہام اور وحی کے ساتھ جو ایک قول ہے اس کے ساتھ خدا کا ایک فعل بھی ہو.یہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۶ سورة الشورى ایسی کامل علامت ہے جو کوئی اس کو تو ڑ نہیں سکتا.یہی علامت ہے جس سے خدا کے سچے نبی جھوٹوں پر غالب آتے رہے ہیں کیونکہ جو شخص دعوی کرے کہ میرے پر خدا کا کلام نازل ہوتا ہے پھر اس کے ساتھ صد بانشان ظاہر ہوں اور ہزاروں قسم کی تائید اور نصرت الہی شامل حال ہو اور اُس کے دشمنوں پر خدا کے کھلے کھلے حملے ہوں پھر کس کی مجال ہے کہ ایسے شخص کو جھوٹا کہہ سکے.مگر افسوس کہ دنیا میں بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں کہ اس بلا میں پھنس جاتے ہیں کہ کوئی حدیث النفس یا شیطانی وسوسہ اُن کو پیش آجاتا ہے تو اُس کو خدا تعالیٰ کا کلام سمجھ لیتے ہیں اور فعلی شہادت کی کچھ بھی پروا نہیں رکھتے.ہاں یہ بھی ممکن ہے کہ کسی کو بھی شاذ و نادر کے طور پر کوئی سچی خواب آجائے یا سچا الہام ہو جائے مگر وہ صرف اس قدر سے مامور من اللہ نہیں کہلا سکتا اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ نفسانی تاریکیوں سے پاک ہے بلکہ اس قدر رؤیا اور الہام میں قریباً تمام دنیا شریک ہے اور یہ کچھ بھی چیز نہیں اور یہ مادہ کبھی کبھی خواب یا الہام ہونے کا محض اس لئے انسانوں کی فطرت میں رکھا گیا ہے تا ایک عقلمند انسان خدا کے برگزیدہ رسولوں پر بدظنی نہ کر سکے اور سمجھ سکے کہ وحی اور الہام کا ہر ایک انسان کی فطرت میں تخم داخل ہے پھر اس کی کامل ترقی سے انکار کرنا حماقت ہے.لیکن وہ لوگ جو خدا کے نزدیک ملہم اور مکلم کہلاتے ہیں اور مکالمہ اور مخاطبہ کا شرف رکھتے ہیں اور دعوت خلق کے لئے مبعوث ہوتے ہیں ان کی تائید میں خدا تعالیٰ کے نشان بارش کی طرح برستے ہیں اور دنیا اُن کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور فعل الہی اپنی کثرت کے ساتھ گواہی دیتا ہے کہ جو کلام وہ پیش کرتے ہیں وہ کلام الہی ہے.اگر الہام کا دعویٰ کرنے والے اس علامت کو مد نظر رکھتے تو وہ اس فتنہ سے بچ جاتے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۳۵ تا ۵۳۸) سچی وحی کا خدائے تعالی نے یہی نشان دیا ہے کہ جب وہ نازل ہوتی ہے تو ملائک بھی اس کے ساتھ ضرور اُترتے ہیں اور دُنیا دن بدن راستی کی طرف پلٹا کھاتی جاتی ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۳۹) وَ مَنْ تَفَوَّهَ بِكَلِمَةٍ لَيْسَ لَهُ أَصْلُ جو شخص بھی ایسا کلمہ منہ سے نکالتا ہے جس کی حقیقی بنیاد صَحِيحُ فِي الشّرعِ مُلْهَمَّا كَانَ اَوْ مُجْتَهِدًا فَبِهِ شریعت پر نہ ہو خواہ وہ ملہم ہو یا مجتہد اس کے ساتھ شیاطین کھیل رہے ہوتے ہیں.الشَّيَاطِينُ مُتَلَاعِبَةٌ.آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۱) ( ترجمه از مرتب)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۷ سورة الشورى سچا الہام جو خالص خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے مندرجہ ذیل علامتیں اپنے ساتھ رکھتا ہے:.(۱) وہ اس حالت میں ہوتا ہے کہ جب کہ انسان کا دل آتش درد سے گداز ہو کر مصفا پانی کی طرح خدا تعالیٰ کی طرف بہتا ہے.اسی طرف حدیث کا اشارہ ہے کہ قرآن غم کی حالت میں نازل ہوالہذاتم بھی اس کو غمناک دل کے ساتھ پڑھو.(۲) سچا الہام اپنے ساتھ ایک لذت اور سرور کی خاصیت لاتا ہے اور نامعلوم وجہ سے یقین بخشا ہے اور ایک فولادی شیخ کی طرح دل کے اندر دھنس جاتا ہے اور اس کی عبارت فصیح اور غلطی سے پاک ہوتی ہے.(۳) بچے الہام میں ایک شوکت اور بلندی ہوتی ہے اور دل پر اس سے مضبوط ٹھوکر لگتی ہے اور قوت اور رعبناک آواز کے ساتھ دل پر نازل ہوتا ہے.مگر جھوٹے الہام میں چوروں اور مختوں اور عورتوں کی سی دھیمی آواز ہوتی ہے کیونکہ شیطان چور اور محنت اور عورت ہے.(۴) سچا الہام خدا تعالیٰ کی طاقتوں کا اثر اپنے اندر رکھتا ہے اور ضرور ہے کہ اس میں پیشگوئیاں بھی ہوں اور وہ پوری بھی ہو جائیں.(۵) سچا الہام انسان کو دن بدن نیک بناتا جاتا ہے اور اندرونی کثافتیں اور غلاظتیں پاک کرتا ہے اور اخلاقی حالتوں کو ترقی دیتا ہے.(1) بچے الہام پر انسان کی تمام اندرونی قوتیں گواہ ہو جاتی ہیں اور ہر ایک قوت پر ایک نئی اور پاک روشنی پڑتی ہے اور انسان اپنے اندر ایک تبدیلی پاتا ہے اور اس کی پہلی زندگی مرجاتی ہے اور نئی زندگی شروع ہوتی ہے.اور وہ بنی نوع کی ایک عام ہمدردی کا ذریعہ ہوتا ہے.(۷) سچا الہام ایک ہی آواز پر ختم نہیں ہوتا کیونکہ خدا کی آواز ایک سلسلہ رکھتی ہے.وہ نہایت ہی حلیم ہے جس کی طرف توجہ کرتا ہے اس سے مکالمت کرتا ہے اور سوالات کا جواب دیتا ہے اور ایک ہی مکان اور ایک ہی وقت میں انسان اپنے معروضات کا جواب پا سکتا ہے گو اس مکالمہ پر بھی فترت کا زمانہ بھی آجاتا ہے.(۸) بچے الہام کا انسان کبھی بزدل نہیں ہوتا اور کسی مدعی الہام کے مقابلہ سے اگر چہ وہ کیسا ہی مخالف ہو نہیں ڈرتا.جانتا ہے کہ میرے ساتھ خدا ہے اور وہ اس کو ذلت کے ساتھ شکست دے گا.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۸ سورة الشورى (۹) سچا الهام اکثر علوم اور معارف کے جاننے کا ذریعہ ہوتا ہے.کیونکہ خدا اپنے ملہم کو بے علم اور جاہل رکھنا نہیں چاہتا.(۱۰) سچے الہام کے ساتھ اور بھی بہت سی برکتیں ہوتی ہیں اور کلیم اللہ کو غیب سے عزت دی جاتی ہے اور رعب عطا کیا جاتا ہے.( ضرورة الامام ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۹۰،۴۸۹) خدا کا الہام غلطی سے پاک ہوتا ہے مگر انسان کا کلام غلطی کا احتمال رکھتا ہے کیونکہ سہو ونسیان لازمہ مام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۷۲) بشریت ہے.جو لوگ شیطان سے الہام پاتے ہیں ان کے الہاموں کے ساتھ کوئی قادرانہ غیب گوئی کی روشنی نہیں ہوتی جس میں الوہیت کی قدرت اور عظمت اور ہیبت بھری ہوئی ہو.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۵۱۰) خدا کا کلام جس قوت اور برکت اور روشنی اور تاثیر اور لذت اور خدائی طاقت اور چمکتے ہوئے چہرہ کے ساتھ دل پر نازل ہوتا ہے خود یقین دلا دیتا ہے کہ میں خدا کی طرف سے ہوں اور ہرگز مردہ آوازوں سے مشابہت نہیں رکھتا بلکہ اس کے اندر ایک جان ہوتی ہے اور اس کے اندر ایک طاقت ہوتی ہے اور اس کے اندر ایک کشش ہوتی ہے اور اس کے اندر یقین بخشنے کی ایک خاصیت ہوتی ہے اور اس کے اندر ایک لذت ہوتی ہے اور اس کے اندر ایک روشنی ہوتی ہے اور اس کے اندر ایک خارق عادت تجلی ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ذرہ ذرہ وجود پر تصرف کرنے والے ملایک ہوتے ہیں اور علاوہ اس کے اس کے ساتھ خدائی صفات کے اور ( نزول مسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۶۴) بہت سے خوارق ہوتے ہیں.جس دل پر در حقیقت آفتاب وحی الہی محلی فرماتا ہے اس کے ساتھ ظن اور شک کی تاریکی ہرگز نہیں رہتی.کیا خالص نور کے ساتھ ظلمت رہ سکتی ہے.( نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۶۷) اکثر لوگ پوچھا کرتے ہیں کہ پھر رحمانی الہام کی نشانی کیا ہے اس کا جواب یہی ہے کہ اس کی کئی نشانیاں ہیں.(1) اول یہ کہ الہی طاقت اور برکت اس کے ساتھ ایسی ہوتی ہے کہ اگر چہ اور دلائل ابھی ظاہر نہ ہوں وہ طاقت بڑے جوش اور زور سے بتلاتی ہے کہ میں خدا کی طرف سے ہوں اور ملہم کے دل کو ایسا اپنا مسخر بنالیتی ہے کہ اگر اس کو آگ میں کھڑا کر دیا جاوے یا ایک بجلی اس پر پڑنے لگے وہ کبھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ الہام
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۶۹ سورة الشورى شیطانی ہے یا حدیث النفس ہے یا شکی ہے یا ظنی ہے بلکہ ہر دم اس کی روح بولتی ہے کہ یہ یقینی ہے اور خدا کا کلام ہے.(۲) دوسرے خدا کے الہام میں ایک خارق عادت شوکت ہوتی ہے (۳) تیسری وہ پر زور آواز اور قوت سے نازل ہوتا ہے (۴) چوتھی اس میں ایک لذت ہوتی ہے (۵) اکثر اس میں سلسلہ سوال وجواب پیدا ہو جاتا ہے.بندہ سوال کرتا ہے خدا جواب دیتا ہے اور پھر بندہ سوال کرتا خدا جواب دیتا ہے.خدا کا جواب پانے کے وقت بندہ پر ایک غنودگی طاری ہوتی ہے لیکن صرف غنودگی کی حالت میں کوئی کلام زبان پر جاری ہونا وحی الہی کی قطعی دلیل نہیں کیونکہ اس طرح پر شیطانی الہام بھی ہوسکتا ہے (۶) چھٹی وہ الہام کبھی ایسی زبانوں میں بھی ہو جاتا ہے جن کا ملہم کو کچھ بھی علم نہیں.(۷) خدائی الہام میں ایک خدائی کشش ہوتی ہے.اول وہ کشش ملہم کو عالم تفرید اور انقطاع کی طرف کھینچ لے جاتی ہے اور آخر اس کا اثر بڑھتا بڑھتا طبائع سلیمہ مبائعین پر جا پڑتا ہے تب ایک دنیا اس کی طرف کھینچی جاتی ہے اور بہت سی روحیں اس کے رنگ میں بقدر استعداد آجاتی ہیں (۸) آٹھویں سچا الہام غلطیوں سے نجات دیتا اور بطور حکم کے کام کرتا ہے اور قرآن شریف کے کسی کلام بیان میں مخالف نہیں ہوتا.(۹) بچے الہام کی پیشگوئی فی حد ذاتہ سچی ہوتی ہے.گواس کے سمجھنے میں لوگوں کو دھوکا ہو.(۱۰) دسویں سچا الہام تقویٰ کو بڑھا تا اور اخلاقی قوتوں کو زیادہ کرتا اور دنیا سے دل برداشتہ کرتا اور معاصی سے متنفر کر دیتا ہے (۱۱) سچا الہام چونکہ خدا کا قول ہے اس لئے وہ اپنی تائید کے لئے خدا کے فعل کو ساتھ لاتا ہے اور اکثر بزرگ پیشگوئیوں پر مشتمل ہوتا ہے جو سچی نکلتی ہیں اور قول اور فعل دونوں کی آمیزش سے یقین کے دریا جاری ہو جاتے ہیں اور انسان سفلی زندگی سے منقطع ہو کر ملکوتی صفات نزول المسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۹۲، ۴۹۳) بن جاتا ہے.وَإِذَا جَاءَ فِي الْوَحْنُ بِكَمَالِهِ، جب وحی میرے پاس اپنے پورے کمال کے ساتھ آئی وَ كَشَفَ الدُّجى بِجَمَالِهِ، قُلْتُ يَا وَخی اور اس نے اپنے جمال کے ساتھ ہر قسم کی تاریکی کو دور کر دیا تو رَبّى أَهْلًا وَسَهْلًا رَحُبّ وَادِيك میں نے کہا اے میرے رب کی وحی تجھے خوش آمدید کہتا ہوں.وعزّ نَادِيكَ أَنتَ الَّذِي يَهَبُ تیرے فیضان کی وادی وسیع ہو اور تیری مجلس با عزت ہو.تو وہ لِلْعُيِي الْعُيُونَ، وَلِلصُّمِ الْكَلَام ہے جو اندھوں کو آنکھیں بخشتی اور بہروں کو کلام موزوں عطا کرتی الْمَوْزُونَ، وَيُحْيِي الْأَمْوَاتَ، وَيُرِی ہے اور مُردوں کو زندہ کرتی اور نشانات دکھاتی ہے.تو وہ ہے جو الْآيَاتِ.أَنْتَ الَّذِي يُصْبِي الْقُلُوبَ دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے.گھبراہٹوں کو دُور کرتی اور دلوں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 16+ سورة الشورى وَيَزِيلَ الْكُرُوبَ وَيَنْزِلُ السَّكِينَةَ پر سکینت نازل کرتی ہے اور کشتی کے مشابہہ ہے.وَيُشَابِهُ السَّفِينَةَ مواهب الرحمن ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۶۸) (ترجمه از مرتب) کسی الہام کے خدا کی طرف سے ہونے اور دخل شیطان سے پاک ہونے کا......معیار یہی ہے کہ اس کے ساتھ نصرت الہی ہو اور اقتداری علم غیب ہو اور قاہر پیشگوئی اس کے ساتھ ہو ورنہ وہ فضول باتیں ہیں جو نافع الناس نہیں ہوسکتیں.الحکم جلد ۳ نمبر ۲۴ مورخہ ۱۰ جولائی ۱۸۹۹ ء صفحه ۴) خدا کی طرف سے جو بات آتی ہے وہ پر شوکت اور لذیذ ہوتی ہے.دل پر ایک ٹھوکر مارنے والی ہوتی ہے وہ خدا کی انگلیوں سے نکلی ہوئی ہوتی ہے.اس کے ہم وزن کوئی نہیں وہ فولاد کی طرح میر نے والی ہوتی ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۹) جو متقی ہے اسی کے الہامات بھی صحیح ہیں اور اگر تقویٰ نہیں تو الہامات بھی قابل اعتبار نہیں ان میں شیطان کا حصہ ہو سکتا ہے.کسی کے تقویٰ کو اس کے ملہم ہونے سے نہ پہچانو بلکہ اس کے الہاموں کو اس کی حالتِ تقومی سے جانچو اور اندازہ کرو.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۳ مورخه ۲۴ / جون ۱۹۰۱ صفحه ۱۰) ہم ہر آواز کو خدا تعالی کی آواز قرار نہیں دے سکتے جب تک اس کے ساتھ وہ انوار اور برکات نہ ہوں جو اللہ تعالیٰ کے پاک کلام کے ساتھ ہوتے ہیں.الحکم جلد ۶ نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۲ صفحه ۳) الہام میں دخل شیطانی بھی ہوتا ہے جیسے کہ قرآن شریف سے بھی ظاہر ہے مگر جو شخص شیطان کے اثر کے نیچے ہوا سے نصرت نہیں ملا کرتی نصرت اسے ہی ملا کرتی ہے جو رحمان کے زیر سایہ ہو.البدر جلد ۴ نمبر ۶ مورخه ۱۸ / فروری ۱۹۰۵ء صفحه ۴) الہام الہی کی عبارت عموما منتفی ہوتی ہے اور اس میں ایک شوکت ہوتی ہے اور اس میں سے کلام الہی کی بدر جلد ۲ نمبر ۲۳ مورخه ۷ /جون ۱۹۰۶ء صفحه ۳) ایک خوشبو آتی ہے.میرا مذہب تو یہ ہے کہ جب تک درخشاں نشان اس کے ساتھ بار بار نہ لگائے جاویں تب تک الہامات کا نام لینا بھی سخت گناہ اور حرام ہے.پھر یہ بھی دیکھنا ہے کہ قرآن مجید اور میرے الہامات کے خلاف تو نہیں.اگر ہے تو یقیناً خدا کا نہیں بلکہ شیطانی القاء ہے.(البدر جلد ۶ نمبر ۷ مورخہ ۱۴ فروری ۱۹۰۷ء صفحه ۸) جب تک کسی الہام پر خدا کی مہر نہ ہو وہ ماننے کے لائق نہیں ہوتا.دیکھو قرآن شریف کو عربوں جیسے اشد
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 121 سورة الشورى کا فرکب مان سکتے تھے اگر خدا کی مہر اس پر نہ ہوتی.ہمیں بھی اگر کوئی کشف، رؤیا یا الہام ہوتا ہے تو ہمارا دستور ہے کہ اُسے قرآن مجید پر عرض کرتے ہیں اور اسی کے سامنے پیش کرتے ہیں.اور پھر یہ بھی یا درکھو کہ اگر کوئی الہام قرآن مجید کے مطابق بھی ہو لیکن کوئی نشان ساتھ نہ ہو تو وہ قابل قبول نہیں ہوتا.قابل قبول الہام وہی ہوتا ہے جو قرآن مجید کے مطابق بھی ہو اور ساتھ ہی اس کی تائید میں نشان بھی ہوں.الحکم جلد نمبر ۴۱ مورخه ۱۷ نومبر ۱۹۰۷ ء صفحه ۱۲) قرآن مجید میں صاف لکھا ہے کہ شیطان کی طرف سے بھی وحی ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی ہوتی ہے.جو وحی خدا کی طرف سے ہوتی ہے.اس میں ایک تاج عرات پہنایا جاتا ہے اور خدا کے بڑے بڑے نشان اس کی تائید میں گواہ بن کر آتے ہیں.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۴۱ مورخہ ۱۷ نومبر ۱۹۰۷، صفحہ ۱۳) یا د رکھو ایسی باتیں ہرگز زبان پر نہ لاؤ جو قال اللہ اور قال الرسول کے برخلاف ہوں.اس قسم کے الہامات کچھ چیز نہیں.دیکھو بارش کا پانی سب کو خوش کرتا ہے مگر پر نالہ کا پانی لڑائی ڈالتا ہے اور فساد پیدا کرتا ہے.جن الہامات کی تائید میں خدا کا فعل نہیں ہوتا اور نشانات الہیہ گواہی نہیں دیتے وہ ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے پر نالہ کا پانی.الحکم جلد نمبر ۴۱ مورخہ ۷ارنومبر ۱۹۰۷ء صفحه ۱۳) نو روحی کے نازل ہونے کا یہی فلسفہ ہے کہ وہ نور پر ہی وارد ہوتا ہے.تاریکی پر وارد نہیں ہوتا.کیونکہ فیضان کے لئے مناسبت شرط ہے.اور تاریکی کو نور سے کچھ مناسبت نہیں.بلکہ نور کو نور سے مناسبت ہے اور حکیم مطلق بغیر رعایت مناسبت کوئی کام نہیں کرتا.ایسا ہی فیضان نور میں بھی اس کا یہی قانون ہے کہ جس کے پاس کچھ نور ہے اس کو اور نور بھی دیا جاتا ہے.اور جس کے پاس کچھ نہیں اس کو کچھ نہیں دیا جاتا.جو شخص آنکھوں کا نور رکھتا ہے وہی آفتاب کا نور پاتا ہے اور جس کے پاس آنکھوں کا نور نہیں وہ آفتاب کے نور سے بھی بے بہرہ رہتا ہے اور جس کو فطرتی نور کم ملا ہے اس کو دوسرا نور بھی کم ہی ملتا ہے اور جس کو فطرتی نور زیادہ ملا ہے اس کو دوسرا نور بھی زیادہ ہی ملتا ہے.(براہین احمدیہ چہار تخصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۱۹۵ ۱۹۶ حاشیه ) رحمان مطلق جیسا جسم کی غذا کو اس کی حاجت کے وقت عطا فرماتا ہے ایسا ہی وہ اپنی رحمت کا ملہ کے تقاضا سے رُوحانی غذا کو بھی ضرورت حلقہ کے وقت مہیا کر دیتا ہے ہاں یہ بات درست ہے کہ خدا کا کلام انہیں برگزیدہ لوگوں پر نازل ہوتا ہے جن سے خدا راضی ہے اور انہیں سے وہ مکالمات اور مخاطبات کرتا ہے جن سے وہ خوش ہے مگر یہ بات ہرگز درست نہیں کہ جس سے خدا راضی اور خوش ہو اس پر خواہ نخواہ بغیر کسی ضرورت حلقہ کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۲ سورة الشورى کتاب آسمانی نازل ہو جایا کرے یا خدائے تعالیٰ یونہی بلا ضرورت حقہ کسی کی طہارت لازمی کی وجہ سے لازمی اور دائمی طور پر اس سے ہر وقت باتیں کرتا رہے بلکہ خدا کی کتاب اُسی وقت نازل ہوتی ہے جب فی الحقیقت اس کے نزول کی ضرورت پیش آجائے.اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ وحی اللہ کے نزول کا اصل موجب خدائے تعالیٰ کی رحمانیت ہے کسی عامل کا عمل نہیں اور یہ ایک بزرگ صداقت ہے جس سے ہمارے مخالف برہمو وغیرہ بے خبر ہیں.(براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۲۰،۴۱۹ حاشیه ) ذریعہ وحی اور الہامہے جو اسی غرض سے انسان کو دیا گیا ہے تا انسان کو ان معارف اور حقائق تک پہنچا دے کہ جن تک مجزر و عقل پہنچا نہیں سکتی اور وہ اسرار دقیقہ اُس پر کھولے جو عقل کے ذریعہ سے کھل نہیں سکتے.آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۳۰ حاشیه ) اصل حقیقت وحی کی یہ ہے جو نزول وحی کا بغیر کسی موجب کے جو مستدعی نزول وحی ہو ہر گز نہیں ہوتا.بلکہ ضرورت کے پیش آجانے کے بعد ہوتا ہے اور جیسی جیسی ضرورتیں پیش آتی ہیں بمطابق ان کے وحی بھی نازل ہوتی ہے کیونکہ وحی کے باب میں یہی عادت اللہ جاری ہے کہ جب تک باعث محرک وحی پیدا نہ ہولے تب تک وحی نازل نہیں ہوتی.اور خود ظاہر بھی ہے جو بغیر موجودگی کسی باعث کے جوتحریک وحی کی کرتا ہو یونہی بلا موجب وحی کا نازل ہو جانا ایک بے فائدہ کام ہے جو خداوند تعالیٰ کی طرف جو حکیم مطلق ہے اور ہر یک کام برعایت حکمت اور مصلحت اور مقتضاء وقت کے کرتا ہے منسوب نہیں ہوسکتا.ہوتا ہے.برائین احمد یہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۷۵ حاشیہ نمبر ۲) بعض دفعہ وحی اس طرح بھی نازل ہوتی ہے کہ کوئی کاغذ یا پتھر وغیرہ دکھایا جاتا ہے جس پر کچھ لکھا ہوا ( بدر جلد نمبر ۲۳ مورخه ۷ ستمبر ۱۹۰۵ء صفحه ۲) بخاری نے اپنی صحیح میں اور ایسا ہی ابو داؤد اور ترمذی اور ابن ماجہ نے اور ایسا ہی مسلم نے بھی اس پر اتفاق کیا ہے کہ نزول جبرائیل کا وحی کے ساتھ انبیاء پر وقتاً فوقتاً آسمان سے ہوتا ہے.......اور اس کی تائید میں ابن جریر اور ابن کثیر نے یہ حدیث بھی لکھی ہے......نواس بن سمعان سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جس وقت خدا تعالیٰ ارادہ فرماتا ہے کہ کوئی امر وحی اپنی طرف سے نازل کرے تو بطور وحی منتظم ہوتا ہے یعنی ایسا کلام کرتا ہے جو ابھی اجمال پر مشتمل ہوتا ہے اور ایک چادر پوشیدگی کی اُس پر ہوتی ہے تب اُس مجوب المفہوم کلام سے ایک لرزہ آسمانوں پر پڑ جاتا ہے.جس سے وہ ہولناک
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۳ سورة الشورى کلام تمام آسمانوں میں پھر جاتا ہے اور کوئی نہیں سمجھتا کہ اس کے کیا معنی ہیں اور خوف الہی سے ہر یک فرشتہ کانپنے لگتا ہے کہ خدا جانے کیا ہونے والا ہے اور اس ہولناک آواز کو سن کر ہر ایک فرشتہ پر غشی طاری ہو جاتی ہے اور وہ سجدہ میں گر جاتے ہیں.پھر سب سے پہلے جبرائیل علیہ الصلوۃ والسلام سجدہ سے سر اٹھاتا ہے اور خدا تعالیٰ اس وحی کی تمام تفصیلات اُس کو سمجھا دیتا ہے اور اپنی مراد اور منشاء سے مطلع کر دیتا ہے تب جبرائیل اُس وحی کو لے کر تمام فرشتوں کے پاس جاتا ہے جو مختلف آسمانوں میں ہیں اور ہر یک فرشتہ اُس سے پوچھتا ہے کہ یہ آواز ہولناک کیسی تھی اور اس سے کیا مراد تھی تب جبرائیل اُن کو یہ جواب دیتا ہے کہ یہ ایک امرحق ہے اور خدا تعالی بلند اور نہایت بزرگ ہے یعنی یہ وحی اُن حقائق میں سے ہے جن کا ظاہر کرنا اُس العلم الكبير نے قرین مصلحت سمجھا ہے تب وہ سب اُس کے ہم کلام ہو جاتے ہیں.پھر جبرائیل اس وحی کو اس جگہ پہنچا دیتا ہے جس جگہ پہنچانے کے لئے اُس کو حکم تھا خواہ آسمان یا زمین.اب اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نزول وحی کے وقت جبرائیل آسمان پر ہی ہوتا ہے اور پھر جیسا کہ خدا تعالیٰ نے اُس کی آواز میں قوت اور قدرت بخشی ہے اپنے محل میں اُس وحی کو پہنچا دیتا ہے.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۰۶ تا ۱۰۹) جب باری تعالیٰ کا ارادہ اس طرف متوجہ ہوتا ہے کہ اپنا کلام اپنے کسی مہم کے دل تک پہنچا دے تو اس کی اس متکلمانہ حرکت سے معاً جبریلی نور میں القا کے لئے ایک روشنی کی موج یا ہوا کی موج یا ملہم کی تحریک لسان کے لئے ایک حرارت کی موج پیدا ہو جاتی ہے اور اس تموج یا اس حرارت سے بلا توقف وہ کلام ملہم کی آنکھوں کے سامنے لکھا ہوا دکھائی دیتا ہے یا کانوں تک اس کی آواز پہنچتی ہے یا زبان پر وہ الہامی الفاظ جاری ہوتے ہیں اور روحانی حواس اور روحانی روشنی جو قبل از الہام ایک قوت کی طرح ملتی ہے.یہ دونوں قو تیں اس لئے عطا کی جاتی ہیں کہ تا قبل از نزول الہام الہام کے قبول کرنے کی استعداد پیدا ہو جائے کیونکہ اگر الہام ایسی حالت میں نازل کیا جاتا کہ ملہم کا دل حواس روحانی سے محروم ہوتا یا روح القدس کی روشنی دل کی آنکھ کو پہنچی نہ ہوتی تو وہ الہام الہی کو کن آنکھوں کی پاک روشنی سے دیکھ سکتا.سواسی ضرورت کی وجہ سے یہ دونوں پہلے ہی ا سے ملہمین کو عطا کی گئیں.توضیح مرام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۹۳) مجھے اس جل شانہ کی قسم ہے کہ یہ بات واقعی صحیح ہے کہ وحی آسمان سے دل پر ایسی گہرتی ہے جیسے کہ آفتاب کی شعاع دیوار پر.میں ہر روز دیکھتا ہوں کہ جب مکالمہ الہیہ کا وقت آتا ہے تو اول یک دفعہ مجھ پر ایک
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۴ سورة الشورى ر بودگی طاری ہوتی ہے تب میں ایک تبدیل یافتہ چیز کی مانند ہو جاتا ہوں اور میری حس اور میرا ادراک اور ہوش مو بگفتن باقی ہوتا ہے مگر اُس وقت میں پاتا ہوں کہ گویا ایک وجود شدید الطاقت نے میرے تمام وجود کو اپنی مٹھی میں لے لیا ہے اور اُس وقت احساس کرتا ہوں کہ میری ہستی کی تمام رگیں اُس کے ہاتھ میں ہیں اور جو کچھ میرا ہے اب وہ میر انہیں بلکہ اُس کا ہے جب یہ حالت ہو جاتی ہے تو اُس وقت سب سے پہلے خدا تعالیٰ دل کے اُن خیالات کو میری نظر کے سامنے پیش کرتا ہے جن پر اپنے کلام کی شعاع ڈالنا اس کو منظور ہوتا ہے تب ایک عجیب کیفیت سے وہ خیالات یکے بعد دیگرے نظر کے سامنے آتے ہیں اور ایسا ہوتا ہے کہ جب ایک خیال مثلاً زید کی نسبت دل میں آیا کہ وہ فلاں مرض سے صحت یاب ہوگا یا نہ ہو گا تو جھٹ اُس پر ایک ٹکڑا کلام الہی کا ایک شعاع کی طرح گرتا ہے اور بسا اوقات اُس کے گرنے کے ساتھ تمام بدن ہل جاتا ہے پھر وہ مقدمہ طے ہو کر دوسرا خیال سامنے آتا ہے ادھر وہ خیال نظر کے سامنے کھڑا ہوا اور ادھر ساتھ ہی ایک ٹکڑا الہام کا اُس پر گرا جیسا کہ ایک تیرانداز ہر یک شکار کے نکلنے پر تیر مارتا جاتا ہے اور عین اس وقت میں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ خیالات کا ہمارے ملکہ فطرت سے پیدا ہوتا ہے اور کلام جو اُس پر گرتا ہے وہ اوپر سے نازل ہوتا ہے اگر چہ شعراء وغیرہ کو بھی سوچنے کے بعد القا ہوتا ہے مگر اس وحی کو اس سے مناسبت دینا سخت بے تمیزی ہے کیونکہ وہ القاخوض اور فکر کا ایک نتیجہ ہوتا ہے اور ہوش و حواس کی قائمی اور انسانیت کی حد میں ہونے کی حالت میں ظہور کرتا ہے لیکن یہ القا صرف اس وقت ہوتا ہے کہ جب انسان اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا تعالیٰ کے تصرف میں آجاتا ہے اور اپنا ہوش اور اپنا خوض کسی طور سے اُس میں دخل نہیں رکھتا اُس وقت زبان ایسی معلوم ہوتی ہے کہ گویا یہ اپنی زبان نہیں اور ایک دوسری زبر دست طاقت اس سے کام لے بركات الدعا، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۲، ۲۳ حاشیه ) میں نے دیکھا ہے کہ اس وحی کے وقت جو برنگ وحی ولایت میرے پر نازل ہوتی ہے.ایک خارجی اور شدیدالاثر تصرف کا احساس ہوتا ہے.اور بعض دفعہ یہ تصرف ایسا قوی ہوتا ہے کہ مجھ کو اپنے انوار میں ایسا دبا لیتا ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ میں اُس کی طرف ایسا کھینچا گیا ہوں کہ میری کوئی قوت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.اس تصرف میں کھلا اور روشن کلام سنتا ہوں.بعض وقت ملائکہ کو دیکھتا ہوں اور سچائی میں جو اثر اور ہیبت ہوتی ہے مشاہدہ کرتا ہوں اور وہ کلام بسا اوقات غیب کی باتوں پر مشتمل ہوتا ہے.اور ایسا تصرف اور اخذ خارجی ہوتا ہے.جس سے خدا تعالیٰ کا ثبوت ملتا ہے.اب اس سے انکار کرنا ایک کھلی کھلی صداقت کا رہی ہے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام خون کرنا ہے.۱۷۵ سورة الشورى بركات الدعا، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۶) وحی الہی کے نزول کے وقت غنودگی بھی ایک خارق عادت امر ہے.یہ جسم کے طبعی اسباب سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ جہاں تک ضرورتوں کا سامان پیش ہو ہر ایک ضرورت اور دعا کے وقت محض قدرت سے غنودگی پیدا ہو جاتی ہے مادی اسباب کا کچھ بھی اس میں دخل نہیں ہوتا.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۸۰ حاشیه ) الہام کے بارے میں ہمارا تجربہ ہے کہ تھوڑی سی غنودگی ہو کر اور بعض اوقات بغیر غنودگی کے خدا کا کلام ٹکڑہ ٹکڑہ ہو کر زبان پر جاری ہوتا ہے جب ایک ٹکڑہ ختم ہو چکتا ہے تو حالت غنودگی جاتی رہتی ہے پھر ملہم کے کسی سوال سے یا خود بخود خدا تعالیٰ کی طرف سے دوسرا ٹکڑہ الہام ہوتا ہے اور وہ بھی اسی طرح کہ تھوڑی غنودگی وارد ہو کر زبان پر جاری ہو جاتا ہے اسی طرح بسا اوقات ایک ہی وقت میں تسبیح کے دانوں کی طرح نہایت بلیغ فصیح لذیذ فقرے غنودگی کی حالت میں زبان پر جاری ہوتے جاتے ہیں اور ہر ایک فقرہ کے بعد غنودگی دور ہو جاتی ہے اور وہ فقرے یا تو قرآن شریف کی بعض آیات ہوتی ہیں اور یا اُس کے مشابہ ہوتے ہیں.اور اکثر علوم غیبیہ پر مشتمل ہوتے ہیں.اور ان میں ایک شوکت ہوتی ہے اور دل پر اثر کرتے ہیں اور ایک لذت محسوس ہوتی ہے.اس وقت دل نور میں غرق ہوتا ہے.گو یا خدا اُس میں نازل ہے.اور دراصل اس کو الہام نہیں کہنا چاہئے بلکہ یہ خدا کا کلام ہے.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۱۴ حاشیه ) وحی کا قاعدہ ہے کہ اجمالی رنگ میں نازل ہوا کرتی ہے اور اس کے ساتھ ایک تفہیم ہوتی ہے.مثلاً آنحضرت کو نماز پڑھنے کا حکم ہوا تو ساتھ کشفی رنگ میں نماز کا طریق، اس کی رکعات کی تعداد.اوقات نماز وغیرہ بتادیا گیا.علی ھذا القیاس.جو اصطلاح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کی تفصیل اور تشریح کشفی رنگ میں ساتھ ہوتی ہے.جن لوگوں کو وہ اس وحی کے منشاء سے آگاہ کرتا ہے اور اس کو دوسرے کے دلوں میں داخل کرتا ہے.جب سے دُنیا ہے وحی کا یہی طرز چلا آیا ہے اور گل انبیاء کی وحی اسی رنگ کی تھی.وحی کشفی تصویروں یا تفہیم کے سوا کبھی نہیں ہوئی اور نہ وہ اجمال بجز اس کے کسی کی سمجھ میں آسکتا ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۸ مورخہ ۱۷ رمئی ۱۹۰۳ء صفحه ۲) طبیبوں نے نیند کے لئے طبیعی اسباب مقرر کیے ہیں، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جب خدا تعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے کہ ہم سے کلام کرے.اس وقت پوری بیداری میں ہوتے ہیں اور یکدم ربودگی اور غنودگی وارد کر دیتا ہے اور اس
سورة الشورى تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جسمانی عالم سے قطعاً باہر لے جاتا ہے، اس لئے کہ اس عالم سے پوری مناسبت ہو جائے.پھر یوں ہوتا ہے کہ جب ایک مرتبہ کلام کر چکتا ہے.پھر ہوش و حواس واپس دے دیتا ہے.اس لئے کہ مہم اس کلام کو محفوظ کر لے.اس کے بعد پھر ربودگی طاری کرتا ہے.پھر یاد کرنے کے لئے بیداری کر دیتا ہے.غرض اس طرح بھی پچاس دفعہ تک نوبت پہنچ جاتی ہے وہ ایک تصرف الہی ہوتا ہے.اس طبعی نیند سے اس کو کوئی تعلق نہیں اور اطباء اور ڈاکٹر اس کی ماہیت کو سمجھ ہی نہیں سکتے.الحکم جلد ۴ نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۰ صفحه ۱۰) اس سوال کے جواب میں کہ وحی کس طرح ہوتی ہے؟ فرمایا ) کئی طریق ہیں بعض دفعہ دل میں ایک گونج پیدا ہوتی ہے.کوئی آواز نہیں ہوتی.پھر اس کے ساتھ ایک شگفتگی پیدا ہوتی ہے اور بعض دفعہ تیزی اور شوکت کے ساتھ ایک لذیذ کلام زبان پر جاری ہوتا ہے جو کسی فکر ، ( بدر جلد نمبر ۳۳ مورخه ۶ /نومبر ۱۹۰۵ء صفحه ۳) تدبر اور وہم و خیال کا نتیجہ نہیں ہوتا.بعض دفعہ الہام الہی ایسی سرعت کے ساتھ ہوتا ہے جیسا کہ ایک پرندہ پاس سے نکل جاتا ہے اور اگر اسی وقت لکھ نہ لیا جاوے یا اچھی طرح سے یاد نہ کر لیا جاوے تو بھول جانے کا خوف ہوتا ہے.( بدر جلد ۶ نمبر ۸ مورخه ۲۱ فروری ۱۹۰۷ء صفحه ۴) ہم کو تو خدا تعالیٰ کے اس کلام پر جو ہم پر وحی کے ذریعہ نازل ہوتا ہے اس قدر یقین اور علی وجہ البصیرت یقین ہے کہ بیت اللہ میں کھڑا کر کے جس قسم کی چاہو قسم دے دو.بلکہ میرا تو یقین یہاں تک ہے کہ اگر میں اس بات کا انکار کروں یا و ہم بھی کروں کہ یہ خدا کی طرف سے نہیں تو معا کا فر ہو جاؤں.الحکم جلد ۴ نمبر ۴۴ مورخہ ۱۰؍ دسمبر ۱۹۰۰ ء صفحه ۶) میرا تو خدا کی وحی پر ایسا ہی ایمان ہے جیسے اس کی کتابوں پر ہے.(البدر جلد ۳ نمبر ۱۹۷۱۸ مورخه ۱۶۹۸ رمئی ۱۹۰۴ء صفحه ۴) میں تو اپنی وحی پر ویسے ہی ایمان لاتا ہوں جیسے کہ قرآن شریف اور توریت کے کلام الہی ہونے پر.(البدر جلد ۳ نمبر ۲۲، ۲۳ مورخه ۸ و ۱۶ رجون ۱۹۰۴ ء صفحه ۴) ہم تو جو کچھ خدا سے پاتے ہیں خواہ اس کو عقل اور فلسفہ مانے یا نہ مانے ہم اس کو ضرور مانتے اور اس پر ایمان لاتے ہیں.احکم جلد ۸ نمبر ۲۳، ۲۴ مورخه ۷ ار جولائی ۱۹۰۴ صفحه ۱۶) مکہ معظمہ میں داخل ہو کر اگر خدا تعالیٰ کی قسم دی جاوے تو میں کہوں گا کہ میرے الہام خدا تعالیٰ کی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 122 سورة الشورى طرف سے ہیں.لیکن جس شخص نے خیالی طور پر دعوی کیا ہو وہ ہرگز جرات نہیں کرسکتا.کبھی وہ شخص جو کامل یقین رکھتا ہو اور وہ جومشکوک ہے برابر ہو سکتے ہیں.الحکم جلد ۸ نمبر ۱۹ ،۲۰ مورخه ۱۰ و ۷ ارجون ۱۹۰۴ صفحه ۱) خدا تعالیٰ کا وہ کلام جو مجھ پر اُترتا ہے میں اس پر اسی طرح ایمان لاتا ہوں جیسے قرآن شریف پر یعنی جیسے قرآن شریف خدا تعالیٰ ہی کا کلام ہے وہ وحی بھی اسی کی طرف سے ہے.الحکام جلد ۱۱ نمبر ۵ مورخه ۱۰ فروری ۱۹۰۷ صفحه ۲) ید اعتقاد کہ وحی نبوت بجز اپنے ہی فطرت کے ملکہ کے اور کچھ چیز نہیں اور اس میں اور خدا تعالیٰ میں ملائکہ کا واسطہ نہیں.کس قدر خدا تعالیٰ کے قانون قدرت کے مخالف ہے.ہم صریح دیکھتے ہیں کہ ہم اپنے جسمانی قومی کی تکمیل کے لئے آسمانی توسط کے محتاج ہیں.ہمارے اس بدنی سلسلہ کے قیام اور اغراض مطلوبہ تک پہنچانے کے لئے خدا تعالیٰ نے آفتاب اور مہتاب اور ستاروں اور عناصر کو ہمارے لئے مسخر کیا ہے.اور کئی وسائط کے پیرا یہ میں ہو کر اس علت العلل کا فیض ہم تک پہنچتا ہے اور بے واسطہ ہرگز نہیں پہنچتا.( بركات الدعا، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۵) نبیوں کے سوا بھی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کلام کرتا ہے چنانچہ ہاجرہ سے بھی دو مرتبہ مکالمہ ہوا.(رسالہ الانذار صفحہ ۱۷) بعض الہامات کے وقت اگر چہ فرشتہ نظر نہیں آتا تا ہم الفاظ کے معانی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلام فرشتے کے ذریعہ سے نازل ہوا ہے مثلاً الہامات میں ایسے الفاظ کہ قَالَ رَبُّكَ اور مَا نَتَنَزِّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ - ( بدر جلد ۶ نمبر ۴۸ مورخه ۲۸ نومبر ۱۹۰۷ء صفحه ۳) انبیاء اور و ملمین صرف وحی کی سچائی کے ذمہ دار ہوتے ہیں اپنے اجتہاد کے کذب اور خلاف واقعہ نکلنے سے وہ ماخوذ نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ ان کی اپنی رائے ہے نہ خدا کا کلام.( اعجاز احمدی، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۱۵) جس کے ساتھ خدا تعالیٰ کا معاملہ وحی اور الہام کے ساتھ ہو وہ خوب جانتا ہے کہ معلمین کو بھی اجتہادی طور پر بھی اپنے الہام کے معنے کرنے پڑتے ہیں.اس طرح کے الہام بہت ہیں جو مجھے کئی دفعہ ہوئے ہیں اور بعض وقت ایسا الہام ہوتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ اس کے کیا معنی ہیں اور ایک مدت کے بعد اس کے معنے کھلتے ہیں.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۵۰۳ حاشیه )
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 12^ سورة الشورى قضاء و قدر کے اسرار چونکہ عمیق در عمیق ہوتے ہیں اس لئے بعض وقت الہامات اور رؤیا کی تفہیم میں البدر جلد ۴ نمبر ۶ مورخه ۱۸ / فروری ۱۹۰۵ء صفحه ۳) انسان کو غلطی لگ جاتی ہے.شاید ہی کوئی ایسی رات گزرتی ہوگی جس میں کوئی نظارہ آئندہ کے متعلق مجھے نہ دکھایا جاتا ہو لیکن بہت کی باتیں صبح تک بھول جاتی ہیں اور توفیق ہی نہیں ہوتی کہ ان کو ایسے وقت میں لکھ لیا جاوے کہ پھر نہ بھولیں.اس میں حکمت الہی یہ ہے وہ جس بات کو چاہے یا درکھواتا ہے اور جس کو چاہے بھلوا دیتا ہے.( بدر جلد ۶ نمبر ۷ ۴ مورخه ۲۱ نومبر ۱۹۰۷ء صفحه ۱۰) یہ بات تو خود ہر ایک عاقل پر روشن ہے کہ ہر یک نفس اپنی استعداد و قابلیت کے موافق انوار الہیہ کو قبول کرتا ہے.اس سے زیادہ نہیں.اس کے سمجھنے کے لئے آفتاب نہایت روشن مثال ہے.کیونکہ ہر چند آفتاب اپنی کرنیں چاروں طرف چھوڑ رہا ہے.لیکن اس کی روشنی قبول کرنے میں ہر یک مکان برابر نہیں.جس مکان کے دروازے بند ہیں اس میں کچھ روشنی نہیں پڑ سکتی اور جس میں ہمقابل آفتاب ایک چھوٹا سا روز نہ ہے اس میں روشنی تو پڑتی ہے مگر تھوڑی جو بکلی ظلمت کو نہیں اٹھا سکتی.لیکن وہ مکان جس کے دروازے بمقابل آفتاب سب کے سب کھلے ہیں اور دیوار میں بھی کسی کثیف شے سے نہیں بلکہ نہایت مصفی اور روشن شیشہ سے ہیں.اس میں صرف یہی خوبی نہیں ہوگی کہ کامل طور پر روشنی قبول کرے گا.بلکہ اپنی روشنی چاروں طرف پھیلا دے گا اور دوسروں تک پہنچا دے گا.یہی مثال موخر الذکر نفوس صافیہ انبیاء کے مطابق حال ہے.یعنی جن نفوس مقدسہ کو خدا اپنی رسالت کے لئے چن لیتا ہے وہ بھی رفع حجب اور مکمل صفوت میں اس شیش محل کی طرح ہوتے ہیں جس میں نہ کوئی کثافت ہے اور نہ کوئی حجاب باقی ہے.پس ظاہر ہے کہ جن افراد بشریہ میں وہ کمال تام موجود نہیں.ایسے لوگ کسی حالت میں مرتبہ رسالت البہی نہیں پاسکتے.بلکہ یہ مرتبہ قسام ازل سے انہیں کو ملا ہوا ہے جن کے نفوس مقدسہ حجب ظلمانی سے بکلی پاک ہیں.جن کو اغشیہ جسمانی سے بغایت درجہ آزادگی ہے.جن کا تقدس و تنزہ اس درجہ پر ہے جس کے آگے خیال کرنے کی گنجائش ہی نہیں.وہی نفوس تامہ کاملہ وسیلہ ہدایت جمیع مخلوقات ہیں اور جیسے حیات کا فیضان تمام اعضاء کو قلب کے ذریعہ سے ہوتا ہے.ایسا ہی حکیم مطلق نے ہدایت کا فیضان انہیں کے ذریعہ سے مقرر کیا ہے.کیونکہ وہ کامل مناسبت جو مفیض اور مستفیض میں چاہیئے وہ صرف انہیں کو عنایت کی گئی ہے.(براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد اصفحه ۱۸۹،۱۸۸ حاشیہ نمبر ۱۱)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۷۹ سورة الشورى الہام کا بڑا نازک معاملہ ہے.انسان کو اپنے اعمال صاف کرنا چاہیے.الہام کا مہبط صاف ہونا چاہیے.اب جو خدا تعالیٰ کی چلائی ہوئی ہوا چل رہی ہے یہی ہوا بعض انسانوں کے جسموں کے لئے مفید اور بعضوں کے لئے مفسد ہوگی.اگر کسی کا اندر غلیظ ہو.معدہ گندہ ہو اور بیمار ہو تو اس کو اچھی غذا مضر ہوگی ایسا ہی خدا کا کلام ہے.الحکم جلد نمبر ۴ مورخه ۳۱/جنوری ۱۹۰۷ء صفحه ۹) اولیاء اللہ سے ملہم من اللہ ہونے سے انکار کرنا ہر ایک مسلمان سے بعید ہے اور مولوی صاحبوں سے بعید تر.کیا مولوی صاحب کو معلوم نہیں کہ حضرت موسیٰ کی والدہ سے بطور الہام خدا کا کلام کرنا.مریم سے بطور الہام خدا کا کلام کرنا.حواریوں سے بطور الہام خدا کا کلام کرنا خود قرآن شریف میں مندرج اور مرقوم ہے حالانکہ ان سب میں سے نہ کوئی نبی تھا اور نہ کوئی رسول تھا.برا تین احمد یہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۴۲، ۲۴۳ حاشیه در حاشیه نمبر۱) یہ الزام کہ صحابہ کرام سے ایسے الہامات ثابت نہیں ہوئے بالکل بے جا اور غلط ہے کیونکہ احادیث صحیحہ کے رو سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے الہامات اور خوارق بکثرت ثابت ہیں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ساریہ کے لشکر کی خطرناک حالت سے با علام الہی مطلع ہو جانا جس کو بیہقی نے ابن عمر سے روایت کیا ہے اگر الہام نہیں تھا تو اور کیا تھا اور پھر اُن کی یہ آواز کہ يَا سَارِيَةُ الْجَبَلَ الْجَبَل مدینہ میں بیٹھے ہوئے مونہہ سے نکلنا اور وہی آواز قدرتِ غیبی سے ساریہ اور اس کے لشکر کو دور دراز مسافت سے سنائی دینا اگر خارق عادت نہیں تھی تو اور کیا چیز تھی.اسی طرح جناب علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کے بعض الہامات و کشوف مشہور و معروف ہیں.( براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اصفحه ۶۵۳، ۶۵۴ حاشیه در حاشیه نمبر ۴) صاحب وحی محدثیت اپنے نبی متبوع کا پورا ہمرنگ ہوتا ہے اور بغیر نبوت اور تجدید احکام کے وہ سب باتیں اُس کو دی جاتی ہیں جو نبی کو دی جاتی ہیں اور اُس پر یقینی طور پر سچی تعلیم ظاہر کی جاتی ہے اور نہ صرف اسی قدر بلکہ اُس پر سب امور بطور انعام کرام کے وارد ہو جاتے ہیں جو نبی متبوع پر وارد ہوتے ہیں سواس کا بیان محض انکلیں نہیں ہوتیں بلکہ وہ دیکھ کر کہتا ہے اور سُن کر بولتا ہے اور یہ راہ اس اُمت کے لئے کھلی ہے.ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ وارث حقیقی کوئی نہ رہے.بركات الدعا، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۱،۲۰) محدث وہ لوگ ہیں جو شرف مکالمہ الہی سے مشرف ہوتے ہیں اور اُن کا جو ہر نفس انبیاء کے جو ہر نفس سے اشتر مشابہت رکھتا ہے اور وہ خواص عجیبہ نبوت کے لئے بطور آیات باقیہ کے ہوتے ہیں تا یہ دقیق مسئلہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۰ نزول وحی کا کسی زمانہ میں بے ثبوت ہو کر صرف بطور قصہ کے نہ ہو جائے.سورة الشورى بركات الدعا، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۳، ۲۴) الہام محدث کا شیطانی دخل سے منزہ کیا جاتا ہے.(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۲۴) جس طرح پر نبی اور رسول کی وحی محفوظ ہوتی ہے اسی طرح محدث کی وحی بھی محفوظ ہوتی ہے.الحکام جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۶) کیا عام لفظوں میں کسی حدیث میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ بعض گزشتہ رسولوں میں سے پھر اس امت میں آئیں گے جیسا کہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ اُن کے مثیل آئیں گے اور امثل آئیں گے جو فطر تا انبیاء سے بہت اقرب ہیں سوجن کے آنے کا صاف طور پر بلا تعارض وعدہ دیا گیا ہے اُن سے منہ مت پھیرو اور اُن کے الہام سے بھی شہادت کا فائدہ اُٹھاؤ کیونکہ اُن کی گواہی اس بات کو کھولتی ہے جو تم اپنی عقلوں سے کھول نہیں سکتے.آسمانی گواہی کے رڈ کرنے میں جرات نہ کرو کیونکہ یہ بھی اُسی پاک چشمہ سے نکلی ہے جس سے وحی نبوت نکلی ہے.سو یہ وحی کے معنے کی شارح اور صراط مستقیم کو دکھلانے والی ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۸۱،۳۸۰) الہام ولایت یا البام عامه مومنین بجز موافقت و مطابقت قرآن کریم کے ججنت بھی نہیں.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۴۰) الہام اور کشف کا مسئلہ اسلام میں ایسا ضعیف نہیں سمجھا گیا کہ جس کا نورانی شعلہ صرف عوام الناس کے منہ کی پھونکوں سے منطقی ہو سکے یہی ایک صداقت تو اسلام کے لیے وہ اعلیٰ درجہ کا نشان ہے جو قیامت تک بے نظیر شان و شوکت اسلام کی ظاہر کر رہا ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۷۸) میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر رُوحوں میں سچی تلاش پیدا ہو اور دلوں میں سچی پیاس لگ جائے تو لوگ اس طریق کو ڈھونڈیں اور اُس راہ کی تلاش میں لگیں مگر یہ راہ کس طریق سے کھلے گی اور حجاب کس دوا سے اُٹھے گا.میں سب طالبوں کو یقین دلاتا ہوں کہ صرف اسلام ہی ہے جو اس راہ کی خوشخبری دیتا ہے اور دوسری قومیں تو خدا کے الہام پر مدت سے مہر لگا چکی ہیں.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۴۲) یہ یقیناً یا درکھو کہ وحی اور الہام کے سلسلہ کے متعلق خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں اکثر جگہ وعدے کئے ہیں اور یہ اسلام ہی سے مخصوص ہے.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۳۱/جنوری ۱۹۰۶ ء صفحه ۲).
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۱ سورة الشورى خواص اور عام کی خواہیں اور وہ مکاشفات اپنی کیفیت اور کمیت اتصالی وانفصالی میں ہرگز برابر نہیں ہیں.جو لوگ خدائے تعالے کے خاص بندے ہیں وہ خارق عادت کے طور پر نعمت غیبی کا حصہ لیتے ہیں.دُنیا ان نعمتوں میں جو انہیں عطا کی جاتی ہیں صرف ایسے طور کی شریک ہے جیسے شاہ وقت کے خزانہ کے ساتھ ایک گدا در یوزہ گر ایک درم کے حاصل رکھنے کی وجہ سے شریک خیال کیا جائے لیکن ظاہر ہے کہ اس ادنیٰ مشارکت کی وجہ سے نہ بادشاہ کی شان میں کچھ شکست آسکتی ہے اور نہ اس گدا کی کچھ شان بڑھ سکتی ہے.( توضیح مرام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۹۶) وَ كَافِيْكُمْ مِنْ فَخَرٍ أَنَّ اللهَ افْتَتَحَ فخر کے لحاظ سے تمہیں یہ بات کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ وَحْيَهُ مِنْ أَدَمَ وَ خَتَمَ عَلى نَبِي كَانَ نے اپنی وحی کو حضرت آدم علیہ السلام سے شروع کیا اور ایک مِنْكُمْ وَمِنْ أَرْضِكُمْ وَطَنَا وَمَاوی ایسے عظیم الشان نبی پر اُسے ختم کیا جو تم میں سے تھا اور تمہاری زمین اس کا وطن، ملوکی اور جائے پیدائش تھی.وَمَولِدا - آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۲۰) اور (ترجمه از مرتب) اگر یہ کہا جائے کہ اُنہیں احادیث کی کتابوں میں بعض امور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجتہادی غلطی کا بھی ذکر ہے اگر کل قول و فعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجی سے تھا تو پھر وہ غلطی کیوں ہوئی گو آنحضرت اس پر قائم نہیں رکھے گئے.تو اس کا یہ جواب ہے کہ وہ اجتہادی غلطی بھی وحی کی روشنی سے دور نہیں تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے قبضہ سے ایک دم جدا نہیں ہوتے تھے پس اس اجتہادی غلطی کی ایسی ہی مثل ہے جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں چند دفعہ سہو واقع ہوا تا اُس سے دین کے مسائل پیدا ہوں سو اسی طرح بعض اوقات اجتہادی غلطی ہوئی تا اُس سے بھی تکمیل دین ہو.اور بعض بار یک مسائل اُس کے ذریعہ سے پیدا ہوں اور وہ سہو بشریت بھی تمام لوگوں کی طرح سہو نہ تھا بلکہ دراصل ہمرنگ وجی تھا کیونکہ خدا تعالی کی طرف سے ایک خاص تصرف تھا جو نبی کے وجود پر حاوی ہو کر اُس کو کبھی ایسی طرف مائل کر دیتا تھا جس میں خدا تعالیٰ کے بہت مصالح تھے.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۱۳ تا ۱۱۵) قرآن شریف جو تمام کتابوں اور علوم کا خاتمہ کرتا ہے اس لئے وہ بڑی اقومی وحی ہے اور شدت کے ساتھ اس کا نزول تھا.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۶) یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہر ایک الہام کے لئے وہ سنت اللہ بطور امام اور مہیمن اور پیش رو کے ہے جو قرآن
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۲ سورة الشورى کریم میں وارد ہو چکی ہے اور ممکن نہیں کہ کوئی الہام اس سنت کو توڑ کر ظہور میں آوے کیونکہ اس سے پاک نوشتوں کا باطل ہونا لازم آتا ہے.(انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه (۹۱) إِنَّهُ مُعْجِزَةٌ لَا يَأْتِي بِمِثْلِهِ أَحَدٌ مِن قرآن کریم معجزہ ہے جس کی مثل کوئی انس وجن الْإِنْسِ وَالْجَانِ وَإِنَّهُ جَمَعَ مَعَارِفَ نہیں لاسکتا اور اس میں وہ معارف اور خوبیاں جمع ہیں وَمَحَاسِنَ لا يَجْمَعُهَا عِلْمُ الْإِنْسَانِ بَل جنہیں انسانی علم جمع نہیں کر سکتا بلکہ وہ ایسی وحی ہے کہ اس إِنَّهُ وَحْيَّ لَيْسَ كَمِثْلِهِ غَيْرُهُ وَإِنْ كَانَ کی مثل اور کوئی وحی بھی نہیں اگر چہ رحمان کی طرف سے بَعْدُهُ وَحْيا أَخَرَ مِنَ الرَّحْمَانِ فَإِنَّ لِلہ اس کے بعد اور کوئی وحی بھی ہو.اس لئے کہ وحی رسانی میں تَجَليَاتٍ فِي إِلْحَائِهِ وَإِنَّهُ مَا تَجَلَى مِنْ قَبْلُ خدا کی تجلیات ہیں اور یہ یقینی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کی تجلی وَلَا يَتَجَلُّى مِنْ بَعْدُ كَمِثْلِ تَجَلِيهِ لِخَاتَمِ جیسی کہ خاتم الانبیاء پر ہوئی ایسی کسی پر نہ پہلے ہوئی اور نہ أَنْبِيَائِهِ وَلَيْسَ شَأْنُ وَحْيِ الْأَوْلِيَاءِ کبھی پیچھے ہوگی.اور جوشان قرآن کی وحی کی ہے وہ اولیاء كَمِثْلِ شَأْنٍ وَحْيِ الْفُرْقَانِ وَإِنْ أُوحِيَ کی وحی کی شان نہیں.اگر چہ قرآن کے کلمات کی مانند کوئی إِلَيْهِمْ كَلِمَةٌ كَمِثْلِ كَلِمَاتِ الْقُرْآنِ فَإِنَّ کلمہ انہیں وحی کیا جائے.اس لئے کہ قرآن کے معارف کا دَائِرَةً مَعَارِفِ الْقُرْآنِ أَكْبَرُ اللوَائِرِ دائرہ سب دائروں سے بڑا ہے.اور اس میں سارے وَإِنَّهَا أَحَاطَتِ الْعُلُوْمَ كُلِّهَا وَ جَمَعَتْ في علوم اور ہر طرح کی عجیب اور پوشیدہ باتیں جمع ہیں اور اس نَفْسِهَا أَنْوَاعَ الشَّرَائِرِ وَبَلَغَتْ دَقَائِقُهَا کی دقیق باتیں بڑے اعلیٰ درجہ کے گہرے مقام تک پہنچی إِلَى الْمَقَامِ الْعَمِيقِ الْغَائِرِ وَسَبَقَى ہوئی ہیں.اور وہ بیان اور برہان میں سب سے بڑھ کر الْكُلّ بَيَانًا وَبُرْهَانًا وَزَادَ عِرْفَانًا وَإِنَّهُ اور اُس میں سب سے زیادہ عرفان ہے اور وہ خدا کا معجز كَلَامُ اللهِ الْمُعْجِرُ مَا قَرَعَ مِثْلُهُ اذَانًا وَلَا کلام ہے جس کی مثل کانوں نے نہیں سنا اور اس کی شان کو يَبْلُغُهُ قَوْلُ الْجِنَّ وَالْإِنْسِ شَأْنَا.جن و انس کا کلام نہیں پہنچ سکتا.(ترجمہ اصل کتاب سے ) الهدی ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۷۶،۲۷۵) اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے کہ قرآن شریف کو حل کیا جائے اس واسطے اکثر الہامات جو قرآن شریف کے الفاظ میں ہوتے ہیں ان کی ایک عملی تفسیر ہو جاتی ہے.اس سے خدا تعالیٰ یہ دکھانا چاہتا ہے کہ یہی زندہ اور بابرکت زبان ہے اور تاکہ ثابت ہو جائے کہ تیرہ سو سال اس سے قبل ہی اسی طرح یہ خدا کا کلام
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۳ سورة الشورى الحکم جلد ۶ نمبر ۱۵ مورخه ۲۴ اپریل ۱۹۰۲ء صفحه ۸) نازل ہوا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے سوا اگر ہم کسی اور راستہ پر چلتے تو ہماری کثرتِ الہام کسی دوسری زبان میں ہوتی مگر جب کہ ای خدا، اسی کتاب اور اسی نبی کے اتباع پر ہم چلانا چاہتے ہیں تو پھر ہم کیوں عربی زبان میں مثل لانے کی تحدی نہ کریں.الحکم جلدے نمبر ۱۶ مورخه ۱/۳۰ پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۵) وَمَعَ عَلَى ومع ذالك كُنتُ حَرَّجْتُ علی اور باوجود اس کے میں نے اپنے نفس پر یہ تھی کر رکھی تھی نَفْسِى أَن لَّا اتَّبِعَ الْهَامًا أو گُزر مین کہ میں کسی الہام کی پیروی نہ کروں مگر بعد اس کے کہ بار بار اللهِ إِعْلَامًا وَيُوَافِقَ الْقُرْآنَ وَالْحَدِيثَ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کا اعلام ہو اور قرآن اور حدیث مَرَامًا، وَيَنْطَبِقُ انْطِبَاقًا تمامًا ثُمَّ سے بکلی موافق ہو اور پوری پوری مطابقت ہو.پھر اس كَانَ شَرط متى لِهَذَا الْإِيْعَازِ آن کارروائی کے لئے ایک یہ شرط بھی میری طرف سے تھی کہ لا أَقْبَلَه مِنْ غَيْرِ آن انظر إلى میں الہام کے بارے میں اس کے کناروں تک نظر ڈالوں الْأَحْيَازِ، وَمِنْ غَيْرِ أَنْ أَشَاهِدَ بَدَائِعَ اور بغیر مشاہدہ خوارق کے قبول نہ کروں.پس بخدا کہ میں الإنجاز.فَوَاللهِ رَايَتُ فِي الْهَامِي جَمِيعَ نے اپنے الہام میں ان تمام شرطوں کو پایا اور میں نے اس کو هذِهِ الْأَشْرَاطِ، وَوَجَدتُه حَدِيْقَةَ الْحَق سچائی کا باغ دیکھا نہ اس خشک گھاس کی طرح جس میں لا الْحُمَاطِ.سانپ ہو.( ترجمہ اصل کتاب سے ) (نجم الهدی ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۶۰) وَقَدْ ذَكَرْتُ أَنَّ إِلْهَامَاتِ مَمْلُوةٌ مِنْ میرے الہام غیب کی پیشگوئیوں سے بھرے ہوئے انْبَاءِ الْغَيْبِ وَالْغَيْبُ الْبَحْتُ قَدْ ہیں اور غیب اللہ جل شانہ کی ذات سے خاص ہے اور ممکن حُقِّ بِذَاتِ الله مِنْ غَيْرِ الشَّكِ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے غیب پر اس شخص کو پورا غلبہ بخشے جو وَالرَّيْبِ، وَلا يُمكن أن يُظْهِرَ اللهُ عَلی فاسد الخیال اور دنیا کا چاہنے والا ہے.کیا خدا ایسے آدمی کو غَيْبِهِ رَجُلًا فَاسِدَ الرَّوِيَّةِ، وَخَاطِب دوست پکڑ سکتا ہے جس نے ہلاکت کی دام محض فریب کی راہ الدُّنْيَا اللَّذِيَّةِ الحِبُّ الله امرءا بسط سے بچھائی اور لوگوں کو گمراہ کیا اور ہدایت نہ کی اور دین مَكِيدَةً شِبَاكَ الرّدًا، وَأَضَلَّ النَّاسَ اسلام کو دشمنوں کی طرح ضرر پہنچایا اور نور صدق سے اس وَمَا هَدَى وَآخَرَ الْمِلَّةَ كَالْعِدًا، وَمَا کے مطلع کو روشن نہ کیا اور اُس کی غم خواری میں نہ کبھی صبح کی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۴ سورة الشورى جَلَّى مَطلِعَهَا بِنُوْرٍ صِدْقِهِ وَمَا رَاحَ اور نہ شام اور اس کی اصلاح کے لئے کچھ تنگ و دو نہ کی.عِبَيْهَا وَمَا غَدًا، بَلْ زَادَ بِكَذِبِهِ صَدَاءَ بلکہ اپنے جھوٹ کے ساتھ ذہنوں کا زنگ بڑھایا اور اپنے الْأَنْهَانِ وَنَشرَ مُفْتَرَيَاتِهِ هَبَاءَ افترا کی باتوں کے ساتھ امت میں فتنہ کی گرد و غبار پیدا کر الْإِفْتِنَانِ؟ كَلَّا بَلْ إِنَّه يُخْزِي الْمُفْتَرِينَ دی.نہیں ایسا ہر گز نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ مفتریوں کو رسوا وَيَقْطَعُ دَابِرَ الرَّجَالِينَ وَيُلْحِقُهُمْ کرتا اور اُن کی جڑ کاٹ کر ان کے ساتھ ان کو ملا دیتا ہے جو اُن سے پہلے لعنت کئے گئے ہیں.(ترجمہ اصل کتاب سے ) بِالْمَلْعُونِينَ السَّابِقِينَ (نجم الهدی ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۶۱، ۶۲) وَ كَذلِكَ اَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَبُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَكِنْ جَعَلْنَهُ نُورًا نَّهْدِى بِهِ مَنْ نَشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا وَإِنَّكَ لَتَهْدِى إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ مَا الْكِتب الخ ۵۲ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پیشتر دو عظیم الشان نبی گزرے ہیں ایک حضرت موسیٰ علیہ السلام اور دوسرے حضرت عیسی علیہ السلام - مگر ان دونوں کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا.اُن میں سے کسی کی نسبت نبی اُمّی ہونے کا دعوی نہیں کیا گیا یہ تحدی اور دعویٰ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوا چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے مَا كُنتَ تَدْرِى الحکم جلد ۴ نمبر ۱۴ مورخہ ۷ اسرا پریل ۱۹۰۰ صفحه ۳) یا درکھو کہ ہر ایک نبی کو جب تک وحی نہ ہو وہ کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ ہر ایک چیز کی اصل حقیقت تو وحی الہی سے ہی کھلتی ہے یہی وجہ تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد ہوا مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَبُ وَلَا الْإِيمَانُ یعنی تو نہیں جانتا تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا چیز ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ کی وحی آپ پر ہوئی تو پھر قُلْ إِنّى أُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَم (الانعام : ۱۵) آپ کو کہنا پڑا اسی طرح آپ کے زمانہ وحی سے پیشتر مکہ میں بت پرستی اور شرک فسق و فجور ہوتا تھا لیکن کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ وحی الہی کے آنے سے پہلے بھی آپ نے بتوں کے خلاف وعظ کیا اور تبلیغ کی تھی لیکن جب فاضدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ ( الحجر : ۹۵) کا حکم ہوا تو پھر ایک سکنڈ کی بھی دیر نہیں کی اور ہزاروں مشکلات اور مصائب کی بھی پروا نہیں کی بات یہی ہے کہ جب کسی امر کے متعلق وحی الہی آجاتی ہے تو پھر مامور اس کے پہنچانے میں کسی کی پروا نہیں کرتے اور اس کا چھپانا اسی طرح 10:
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۵ سورة الشورى شرک سمجھتے ہیں.جس طرح وحی الہی سے اطلاع پانے کے بغیر کسی امر کی اشاعت شرک سمجھتے ہیں.الحکم جلدے نمبر ۳۱ مورخه ۲۴ /اگست ۱۹۰۳ صفحه ۲) اور اسی طرح ہم نے اپنے امر سے تیری طرف ایک رُوح نازل کی ہے.تجھے معلوم نہ تھا کہ کتاب اور ایمان کسے کہتے ہیں پر ہم نے اُس کو ایک نور بنایا ہے جس کو ہم چاہتے ہیں بذریعہ اُس کے ہدایت دیتے ہیں اور بتحقیق سیدھے راستہ کی طرف تو ہدایت دیتا ہے.(براہین احمدیہ چہار قصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۵۶۸)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ۱۸۷ سورة الزخرف بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الزخرف بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ وقَالُوا لَوْ شَاءَ الرَّحْمَنُ مَا عَبَدُ نَهُمْ مَا لَهُم بِذلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا 19999/ يخرصون قرآن کریم کی محکمات اور مینیات علم ہے اور مخالف قرآن کے جو کچھ ہے وہ لن ہے اور جو شخص علم ہوتے ق ہوئے ظن کا اتباع کرے وہ اس آیت کے نیچے داخل ہے مَا لَهُمْ بِذلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا 179991 یخرصون - الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۹۴) وَ قَالُوا لَوْ لَا نُزِّلَ هَذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ اَهُم يَقْسِبُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ نَحْنُ قَسَمُنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ رَفَعُنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًا سُخْرِيَّا وَ رَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ ممَّا يَجْمَعُونَ کفار کہتے ہیں کہ یہ قرآن مکہ اور طائف کے بڑے بڑے مالداروں اور رئیسوں میں سے کسی بھاری رئیس اور دولتمند پر کیوں نازل نہ ہوا.تا اس کی رئیسانہ شان کے شایان ہوتا اور نیز اس کے رعب اور سیاست
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۸ سورة الزخرف اور مال خرچ کرنے سے جلد تر دین پھیل جاتا.ایک غریب آدمی جس کے پاس دنیا کی جائیداد میں سے کچھ بھی نہیں کیوں اس عہدہ سے ممتاز کیا گیا ( پھر آگے بطور جواب فرمایا ) أَهُم يَقْسِبُونَ رَحْمَتَ رَبَّكَ کیا قسام ازل کی رحمتوں کو تقسیم کرنا ان کا اختیار ہے.یعنی یہ خداوند حکیم مطلق کا فعل ہے کہ بعضوں کی استعداد میں اور ہمتیں پست رکھیں اور وہ زخارف دنیا میں پھنسے رہے اور رئیس اور امیر اور دولتمند کہلانے پر پھولتے رہے اور اصل مقصود کو بھول گئے اور بعض کو فضائل روحانیت اور کمالات قدسیہ عنایت فرمائے اور وہ اس محبوب حقیقی کی محبت میں محو ہو کر مقرب بن گئے اور مقبولانِ حضرت احدیت ہو گئے.(پھر بعد اس کے اس حکمت کی طرف اشارہ فرمایا کہ جو اس اختلاف استعدادات اور تباین خیالات میں مخفی ہیں ) نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم معِيشَتَهُمْ - الخ.یعنی ہم نے اس لئے بعض کو دولت مند اور بعض کو درویش اور بعض کو لطیف طبع اور بعض کو کثیف طبع اور بعض طبیعتوں کو کسی پیشہ کی طرف مائل اور بعض کو کسی پیشہ کی طرف مائل رکھا ہے تا ان کو یہ آسانی پیدا ہو جائے کہ بعض کے لئے بعض کار برار اور خادم ہوں اور صرف ایک پر بھار نہ پڑے اور اس طور پر مہمات بنی آدم بآسانی تمام چلتے رہیں.اور پھر فرمایا کہ اس سلسلہ میں دنیا کے مال و متاع کی نسبت خدا کی کتاب کا وجود زیادہ تر نفع رساں ہے.یہ ایک لطیف اشارہ ہے جو ضرورت الہام کی طرف فرمایا.تفصیل اس کی یہ ہے کہ انسان مدنی الطبع ہے اور بجز ایک دوسرے کی مدد کے کوئی امر اس کا انجام پذیر نہیں ہوسکتا.مثلاً ایک روٹی کو دیکھئے جس پر زندگانی کا مدار ہے.اس کے طیار ہونے کے لئے کس قدر تمدن و تعاون درکار ہے.زراعت کے ترقد سے لے کر اس وقت تک کہ روٹی پک کر کھانے کے لائق ہو جائے بیسیوں پیشہ وروں کی اعانت کی ضرورت ہے.پس اس سے ظاہر ہے کہ عام امور معاشرت میں کس قدر تعاون اور باہمی مدد کی ضرورت ہوگی.اسی ضرورت کے انصرام کے لئے حکیم مطلق نے بنی آدم کو مختلف طبیعتوں اور استعدادوں پر پیدا کیا تا ہر ایک شخص اپنی استعداد اور میل طبع کے موافق کسی کام میں بہ طیب خاطر مصروف ہو.کوئی کھیتی کرے.کوئی آلات زراعت بناوے.کوئی آٹا پیسے.کوئی پانی لاوے.کوئی روٹی پکاوے کوئی سوت کاتے.کوئی کپڑہ بنے.کوئی دوکان کھولے.کوئی تجارت کا اسباب لاوے.کوئی نوکری کرے اور اس طرح پر ایک دوسرے کے معاون بن جائیں اور بعض کو بعض مدد پہنچاتے رہیں.پس جب ایک دوسرے کی معاونت ضروری ہوئی تو ان کا ایک دوسرے سے معاملہ پڑنا بھی ضروری ہو گیا.اور جب معاملہ اور معاوضہ میں پڑ گئے اور اس پر غفلت بھی جو استغراق امور دنیا کا خاصہ ہے عائد حال ہو گئی تو ان کے لئے ایک ایسے قانون
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۹ سورة الزخرف عدل کی ضرورت پڑی جو ان کو ظلم اور تعدی اور بغض اور فساد اور غفلت من اللہ سے روکتار ہے تا نظام عالم میں ابتری واقعہ نہ ہو.کیونکہ معاش و معاد کا تمام مدار انصاف و خداشناسی پر ہے اور التزام انصاف و خدا ترسی ایک قانون پر موقوف ہے جس میں دقائق معدلات و حقائق معرفت الہی بدرستی تمام درج ہوں اور سہو یا عمداً کسی نوع کا ظلم یا کسی نوع کی غلطی نہ پائی جاوے.اور ایسا قانون اسی کی طرف سے صادر ہوسکتا ہے جس کی ذات سہو وخطا وظلم وتعدی سے بکلی پاک ہو اور نیز اپنی ذات میں واجب الانقیا داور واجب التعظیم بھی ہو.کیونکہ گو کوئی قانون عمدہ ہو مگر قانون کا جاری کرنے والا اگر ایسا نہ ہو جس کو باعتبار مرتبہ اپنے کے سب پر فوقیت اور حکمرانی کا حق ہو یا اگر ایسا نہ ہو جس کا وجود لوگوں کی نظر میں ہر ایک طور کے ظلم و خبث اور خطا اور غلطی سے پاک ہو تو ایسا قانون اول تو چل ہی نہیں سکتا اور اگر کچھ دن چلے بھی تو چند ہی روز میں طرح طرح کے مفاسد پیدا ہو جاتے ہیں اور بجائے خیر کے شر کا موجب ہو جاتا ہے.ان تمام وجوہ سے کتاب الہی کی حاجت ہوئی کیونکہ ساری نیک صفتیں اور ہر یک طور کی کمالیت و خوبی صرف خدا ہی کی کتاب میں پائی جاتی ہے وبس.روو (براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۰۴ تا ۲۰۶ حاشیه ) نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيْشَتَهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ......ہم نے تمہارے کھانے پینے اور دوسری حاجات کی چیز میں تم میں تقسیم کر دی ہیں کسی کو تھوڑی اور کسی کو بہت دی ہیں اور بعض کا بعض سے مرتبہ زیادہ کر دیا ہے.ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۶) وَ زُخْرُفًا ۖ وَ اِنْ كُلُّ ذلِكَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَيوةِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ للمتقين ابتداء انبیاء علیہم السلام اور ماموروں کی مخالفت اور اُن کی تعلیم سے بے پروائی ظاہر کی جاتی ہے.آخر ایک وقت آجاتا ہے کہ اس نیکی کے بروز اور کمال کی طرف توجہ ہو جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَالْآخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِينَ.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۰ مورخه ۳۱ مئی ۱۹۰۱ صفحه ۲) قدیم سے برگزیدہ لوگوں کے ساتھ سنت اللہ ہے کہ وہ ورطہ عظیمہ میں ڈالے جاتے ہیں لیکن نہ اس لئے کہ غرق کئے جاویں بلکہ اس لیے کہ ان موتیوں کے وارث ہوں جو دریائے وحدت کی منہ میں ہیں.وہ آگ میں ڈالے جاتے ہیں نہ اس لئے کہ جلائے جائیں بلکہ اس غرض کے لئے کہ خدا تعالیٰ کی قدرت کا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۰ سورة الزخرف تماشہ دکھا یا جاوے.غرض ان سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے اور جنسی کی جاتی ہے.ان پر لعنت کرنا ثواب کا کام سمجھا جاتا ہے.یہاں تک کہ خدا تعالیٰ اپنا جلوہ دکھاتا ہے اور اپنی نصرت کی چمکار دکھاتا ہے.اس وقت دنیا کو ثابت ہو جاتا ہے اور غیرت الہی اس غریب کے لئے جوش مارتی ہے اور ایک ہی تجلی میں اعداء کو پاش پاش کر دیتی ہے.سو اول نوبت دشمنوں کی ہوتی ہے اور آخر میں اس کی باری آتی ہے.اس کی طرف خدا تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے وَ الْآخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِينَ پھر خدا تعالیٰ کے ماموروں پر مصائب اور مشکلات کے آنے کا ایک یہ بھی سر ہوتا ہے ، تا ان کے اخلاق کے نمونے دنیا کو دکھا ئیں جاویں اور اس عظیم الشان بات کو دکھائے جو ایک معجزہ کے طور پر ان میں ہوتی ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۴ مورخه ۳۰/جون ۱۹۰۱ صفحه ۲) وَمَنْ يَعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمَنِ نُقِيضُ لَهُ شَيْطئًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ.(٣ جو شخص قرآن کریم سے اعراض کرے اور جو اس کے صریح مخالف ہے اس کی طرف مائل ہو ہم اس پر شیطان مسلط کر دیتے ہیں کہ ہر وقت اس کے دل میں وساوس ڈالتا ہے اور حق سے اس کو پھیرتا ہے اور نا بینائی کو اس کی نظر میں آراستہ کرتا ہے اور ایک دم اس سے جدا نہیں ہوتا.اب اگر ہم کسی ایسی حدیث کو قبول کر لیں جو صریح قرآن کی مخالف ہے تو گویا ہم چاہتے ہیں کہ شیطان ہمارا دن رات کا رفیق ہو جائے اور اپنے وساوس میں ہمیں گرفتار کرے اور ہم پر نا بینائی طاری ہو اور ہم حق سے بے نصیب رہ جائیں.الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۷) فَاسْتَمْسِكُ بِالَّذِى أُوحِيَ إِلَيْكَ إِنَّكَ عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ وَ إِنَّهُ لَذِكْرُ لَكَ وَ لِقَوْمِكَ وَسَوْفَ تُسْتَلُونَ قرآن کو ہر یک امر میں دستاویز پکڑو.تم سب کا اس میں شرف ہے کہ تم قرآن کو دستاویز پکڑو اور اسی کو مقدم رکھو.اب اگر ہم مخالفت قرآن اور حدیث کے وقت میں قرآن کو دستاویز نہ پکڑیں تو گویا ہماری یہ مرضی ہوگی کہ جس شرف کا ہم کو وعدہ دیا گیا ہے اس شرف سے محروم رہیں.( الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۷)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام 191 سورة الزخرف فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ إِذَا هُمْ يَنْكُثُونَ.اگر وہ اس سنت اللہ سے خبر رکھتے جس کو قرآن کریم نے پیش کیا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الْعَذَابَ إذَا هُمْ يَنكُمُونَ (سورۃ الزخرف) تو جلدی کر کے اپنے تئیں ندامت کے گڑھے میں نہ ڈالتے مگر ضرور تھا کہ جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے اس زمانہ کے لئے پہلے سے فرمایا تھا وہ سب پورا ہوا.(انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۹۰) إن هو إلا عَبْدُ انْعَمُنَا عَلَيْهِ وَجَعَلْنَهُ مَثَلًا لِبَنِي إِسْرَاءِيلَ وَ لَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَا مِنْكُمْ مَلَيْكَةً فِي الْأَرْضِ يَخْلُفُونَ وَ إِنَّهُ لَعِلْمُ لِلسَّاعَةِ فَلَا تَبْتَرُنَ بِهَا وَاتَّبِعُونِ هَذَا صِرَاهُ مُسْتَقِيمُ.إِنه لَعِلْمُ السَّاعَةِ کے یہ معنے ہیں کہ یہودیوں کے ادبار اور ذلت کی نشانی مسیح کے آنے کا وقت تھا اور جَعَلْنَهُ مَثَلًا لِبَنِی اِسْرَاء یک بھی اسی کی تصدیق کرتا ہے.ساعۃ کے معنی آخرت کے بھی ہیں.(البدر جلد نمبر ۳ مورخه ۱۴ نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۱۸) ( إِنَّهُ لَعِلْمُ لِلسَّاعَةِ فَلَا تَهْتَرُنَ بِهَا - ( ظاہر ہے کہ خدائے تعالی اس آیت کو پیش کر کے قیامت کے منکرین کو ملزم کرنا چاہتا ہے کہ تم اس نشان کو دیکھ کر پھر مردوں کے جی اٹھنے سے کیوں شک میں پڑے ہو.سو اس آیت پر غور کر کے ہر یک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اس کو حضرت عیسی کے نزول سے کچھ بھی تعلق نہیں آیت تو یہ بتلا رہی ہے کہ وہ نشان مُردوں کے جی اٹھنے کا اب بھی موجود ہے اور منکرین کو ملزم کر رہی ہے کہ اب بھی تم کیوں شک کرتے ہو.اب ہر یک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اگر خدائے تعالی کا اس آیت میں یہ مطلب ہے کہ جب حضرت مسیح آسمان سے نازل ہوں گے تب اُن کا آسمان سے نازل ہونا مردوں کے جی اُٹھنے کے لئے بطور دلیل یا علامت کے ہوگا تو پھر اس دلیل کے ظہور سے پہلے خدائے تعالیٰ لوگوں کو کیوں کر ملزم کر سکتا ہے کیا اس طرح اتمام حجت ہو سکتا ہے؟ کہ دلیل تو ابھی ظاہر نہیں ہوئی اور کوئی نام ونشان اس کا پیدا نہیں ہوا اور پہلے سے ہی منکرین کو کہا جاتا ہے کہ اب بھی تم کیوں یقین نہیں کرتے کیا اُن کی طرف سے یہ عذر صحیح طور پر نہیں ہو سکتا کہ یا الہی ابھی دلیل یا نشان قیامت کا کہاں ظہور میں آیا جس کی وجہ سے فَلَا تَمتَرنَ بِهَا کی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۲ سورة الزخرف دھمکی ہمیں دی جاتی ہے.کیا یہ اتمام حجت کا طریق ہے؟ کہ دلیل تو ابھی پردہ غیب میں ہو اور یہ سمجھا جائے کہ الزام پورا ہو گیا ہے.ایسے معنے قرآن شریف کی طرف منسوب کرنا گویا اس کی بلاغت اور پر حکمت بیان پر دھبہ لگانا ہے.سچ ہے کہ بعض نے یہی معنے لئے ہیں مگر انہوں نے سخت غلطی کھائی بلکہ حق بات یہ ہے کہ إِنَّهُ کا ضمیر قرآن شریف کی طرف پھرتا ہے اور آیت کے یہ معنے ہیں کہ قرآن شریف مردوں کے جی اُٹھنے کے لئے نشان ہے کیونکہ اس سے مُردہ دل زندہ ہو رہے ہیں.قبروں میں گلے سڑے ہوئے باہر نکلتے آتے ہیں اور خشک ہڈیوں میں جان پڑتی جاتی ہے چنانچہ قرآن شریف میں خود اپنے تئیں قیامت کا نمونہ ظاہر کرتا ہے جیسا کہ اللہ جلشانہ فرماتا ہے وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا لِنخي به بلدة ميتا ( سورة فرقان الجز و نمبر ۱۹) (الفرقان : ۵۰،۴۹ ) یعنی ہم نے آسمان سے پاک پانی اُتار یعنی قرآن تا ہم اس کے ساتھ مردہ زمین کو زندہ کریں پھر فرماتا ہے وَ احْيَيْنَا بِهِ بَلْدَةً مَيْتًا كَذلِكَ الْخُرُوج ( سوروق الجز و نمبر ۲۶) (قی : ۱۲ ) یعنی قرآن کے ساتھ ہم نے زمین مردہ کو زندہ کیا.ایسا ہی حشر اجساد بھی ہوگا.......در حقیقت جب ہم ایک منصفانہ نگاہ سے عرب کی آبادیوں پر نظر ڈالیں کہ اپنی روحانی حالت کی رُو سے وہ کیسے قبرستان کے حکم میں ہو گئے تھے اور کس درجہ تک سچائی اور خدا ترسی کی رُوح اُن کے اندر سے نکل گئی تھی اور کیسے وہ طرح طرح کی خرابیوں کی وجہ سے جو اُن کے اخلاق اور اعمال اور عقائد پر اثر کر گئی تھیں سرگل گئے تھے تو بلا اختیار ہمارے اندر سے یہ شہادت نکلتی ہے کہ اُن کا زندہ کرنا جسمانی طور پر مردوں کے جی اُٹھنے سے بمراتب عجیب تر ہے جس کی عظمت نے بے شمار عقلمندوں کی نگاہوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے.اب خلاصہ کلام یہ کہ آیت موصوفہ بالا کے حقیقی معنے یہ ہیں جو ہم نے ذکر کئے ہیں یعنی خدائے تعالی جسمانی طور پر مردوں کے جی اُٹھنے پر روحانی طور پر مردوں کا جی اُٹھنا بطور بدیہی نشان کے پیش کرتا ہے جو در حقیقت دلوں پر نہایت مؤثر ہوا اور بے شمار کفار اس نشان کے قائل ہو گئے اور ہوتے جاتے ہیں.اور ایک جماعت محققین کی بھی یہی معنے آیت موصوفہ بالا کے لیتی ہے.چنانچہ تفسیر معالم میں زیر تفسیر اس آیت کے یہ معنے لکھے ہیں جیسا کہ تفسیر کی عبارت یہ ہے وَقَالَ الْحَسَنُ وَجَمَاعَةٌ وَإِنَّهُ يَعْنِي وَإِنَّ الْقُرْآنَ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ يُعَلِّمُكُمْ قِيَامَهَا وَيُخْبِرُكُمْ بِأَحْوَالِهَا وَأَهْوَالِهَا فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا يَعْنِي فَلَا تَشُكُنَ فِيْهَا بَعْدَ الْقُرْآنِ یعنی حسن اور ایک جماعت نے اس آیت کے یہی معنے گئے ہیں کہ قرآن قیامت کے لئے نشان ہے اور زبان قال اور حال سے خبر دے رہا ہے کہ قیامت اور اُس کے حالات اور اس کے ہولناک
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۳ سورة الزخرف نشان واقع ہو نیوالے ہیں سو بعد اس کے کہ قرآن قیامت کے آنے پر اپنے اعجازی بیانات اور تاثیرات احیاء موتی سے دلیل محکم قائم کر رہا ہے تم شک مت کرو.(ازالہ او بام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۲۱ تا ۳۲۶) اس آیت کو حضرت مسیح کے دوبارہ نزول سے شکی طور پر بھی کچھ تعلق نہیں بات یہ ہے کہ حضرت مسیح کے وقت میں یہودیوں میں ایک فرقہ صدوقی نام تھا جو قیامت سے منکر تھے پہلی کتابوں میں بطور پیشین گوئی کے لکھا گیا تھا کہ ان کو سمجھانے کے لئے مسیح کی ولادت بغیر باپ کے ہوگی اور یہ ان کے لئے ایک نشان قرار دیا گیا تھا جیسا کہ اللہ جلشانہ دوسری آیت میں فرماتا ہے وَ لِنَجْعَلَةَ ايَةً لِلنَّاسِ ( مریم : ۲۲) اس جگہ الناس سے مراد وہی صدوقی فرقہ ہے جو اس زمانہ میں بکثرت موجود تھا چونکہ توریت میں قیامت کا ذکر بظا ہر کسی جگہ معلوم نہیں ہوتا اس لئے یہ فرقہ مردوں کے جی اٹھنے سے بکلی منکر ہو گیا تھا.اب تک بائیبل کے بعض صحیفوں میں موجود ہے کہ مسیح اپنی ولادت کے رو سے بطور علم الساعۃ کے ان کے لئے آیا تھا.اب دیکھئے اس آیت کو نزول مسیح سے تعلق کیا ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ مفسرین نے کس قدر جدا جدا طور پر اس کے معنے لکھے ہیں ایک جماعت نے قرآن کریم کی طرف ضمیر انه کی پھیر دی ہے کیونکہ قرآن کریم سے روحانی طور پر مردے زندہ ہوتے ہیں اور اگر خواہ نخواہ تحکم کے طور پر اس جگہ نزول مسیح مراد لیا جائے اور وہی نزول ان لوگوں کے لئے جو آنحضرت صلعم کے عہد میں تھے نشان قیامت ٹھہرایا جائے تو یہ استدلال وجود قیامت تک ہنسی کے لائق ہوگا اور جن کو یہ خطاب کیا گیا کہ مسیح آخری زمانہ میں نزول کر کے قیامت کا نشان ٹھہرے گا.اب تم با وجود اتنے بڑے نشان کے قیامت سے کیوں انکاری ہوئے.وہ عذر پیش کر سکتے ہیں کہ دلیل تو ابھی موجود نہیں پھر یہ کہنا کس قدر عبث ہے کہ اب قیامت کے وجود پر ایمان لے آؤ شک مت کرو.ہم نے دلیل قیامت کے آنے کی بیان کر دی.الحق مباحثہ دہلی، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۶۹،۱۶۸) فَاعْلَمْ أَنَّهُ تَعَالَى قَالَ وَ إِنَّهُ لَعِلْمٌ جان لے کہ اللہ تعالیٰ نے مسیح کے متعلق والله للسَّاعَةِ وَمَا قَالَ إِنَّهُ سَيَكُونُ عِلْمًا تعلم للسّاعَةِ کہا ہے یہ نہیں کہا إِنَّهُ سَيَكُونُ دو للسَّاعَةِ، فَالايَةُ تَدُلُّ عَلى أَنَّه عِلْمٌ عِلْمًا لِلسّاعة.پس یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی لِلسَّاعَةِ مِنْ وَجْهِ كَانَ حَاصِل لَهُ بِالْفِعْلِ ہے کہ وہ عِلْمٌ للشاعۃ ایک ایسی وجہ سے تھا جو اُ سے لَا أَنْ يَكُونَ مِنْ بَعْدُ في وَقتٍ مِن بالفعل حاصل تھی بعد میں کسی وقت بھی اسے حاصل نہیں الْأَوْقَاتِ.وَالْوَجْهُ الْحَاصِلُ هُوَ تَوَلّده من ہوگی اور جو وجہ اسے حاصل تھی وہ اس کا بغیر باپ کے پیدا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۴ سورة الزخرف غَيْرِ أَبِ، وَالتَّفْصِيلُ فِي ذلِكَ أَنَّ فِرْقَةً ہونا تھا اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ یہود کا ایک فرقہ جو صدوقی مِنَ الْيَهُودِ أَعْلِى الصَّدُوقِيْنَ كَانُوا كَافِرِينَ کہلاتا تھا وہ قیامت سے منکر تھے پس اللہ تعالیٰ نے انہیں بِوُجُودِ الْقِيَامَةِ، فَأَخْبَرَهُمُ اللهُ عَلى بعض انبیاء کی زبان سے خبر دی کہ ان کی قوم میں ایک لڑکا لِسَانِ بَعْضِ أَنْبِيَائِهِ أَنَّ ابْنَا مِنْ قَوْمِهِمْ بغیر باپ کے پیدا ہوگا اور وہ ان کے لئے قیامت کے وجود پر يُولَدُ مِنْ غَيْرِ أَبٍ، وَهَذَا يَكُونُ ايَةً لَّهُمْ ایک نشان ہوگا اس کی طرف آیت وَ إِنَّهُ لَعِلْمُ لِلسَّاعَةِ عَلى وُجُودِ الْقِيَامَةِ، فَإِلى هَذَا أَشَارَ في آية میں اشارہ کیا گیا ہے اور اسی طرح آیت وَ لِنَجْعَلَكَ آيَةً وَإِنَّهُ لَعِلْمُ لِلسَّاعَةِ وَكَذلِك في آية و للناس میں بھی اس طرف اشارہ ہے کہ ہم اسے صدوقی لِنَجْعَلَةُ آيَةً لِلنَّاس أنى لِلصُّدُوقِين فرقہ کے لوگوں کے لئے ایک نشان بنا ئیں گے.وَقَالَ بَعْضُ الْمُفَسِرِينَ إِنَّهُ ضَمِيرُ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ آیت إِنَّهُ لَعِلْمٌ إِنَّهُ لَعِلْمُ لِلسَّاعَةِ يَرْجِعُ إِلَى الْقُرْآنِ لِلسَّاعَةِ مِیں إِنَّہ کی ضمیر قرآن کریم کی طرف راجع ہے فَإِنَّ الْقُرْآن أَحْيَا خَلْقًا كَثِيرًا وَجَعَلَهُمُ کیونکہ قرآن کریم نے خلق کثیر کو زندہ کیا اور انہیں قبروں مِنَ الْقُبُورِ فَهَذَا الْبَعْثُ الرُّوحَانِي دَلِيلٌ سے نکالا.پس یہ بعث روحانی بعث جسمانی یعنی قیامت عَلَى الْبَعْثِ الْإِسْمَانِي يَعْني عَلَى السَّاعَةِ پر ایک دلیل ہے جیسا کہ تفسیر معالم التنزیل وغیرہ کتب كما في مَعَالَمِ التَّنْزِيْلِ وَغَيْرِہ میں مذکورہ ہے.پس حاصل کلام یہ ہے کہ آیت انگ فَالْحَاصِلُ أَنَّ ايَةَ إِنَّهُ لَعِلْمُ لِلسَّاعَةِ لَا لَعِلْمُ لِلسَّاعَة نزول مسیح پر قطعا دلالت نہیں کرتی بلکہ يَدُلُّ عَلى نُزُولِ الْمَسِيحَ قَط بَلْ يُفْحِمُ منکرین کا منہ ایک ٹھوس اور ثابت شدہ دلیل سے بند الْمُنْكِرِينَ بِدَلِيْلٍ مَوْجُوْدٍ ثَابِتٍ، فَلِهَذَا کر دیتی ہے.پس اسی لئے فرمایا فَلَا تَهْتَرنَ بِهَا کہ تم قَالَ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا، وَلَا يُقَالُ مِثْلُ هَذَا اس میں شک نہ کرو.اور ایسا قول کسی ایسے نشان کے بارے میں نہیں بولا جاتا جس کا وجود ہی ابھی تک ثابت نہ الْقَوْلِ لِآيَةٍ مَا ثَبَتَ وُجُوْدُهَا بَعْدُ، وَمَا ہو اور نہ ہی مخالفین میں سے کسی نے اسے دیکھا ہو.(ترجمه از مرتب) رَاهَا أَحَدٌ مِنَ الْمُخَالِفِيْنَ (حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلد۷ صفحه ۳۱۶) | کہتے ہیں کہ عیسی کی نسبت ہے إِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ جن لوگوں کی یہ قرآن دانی ہے ان سے ڈرنا چاہئے مریم :۲۲
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۵ سورة الزخرف کہ نیم ملا خطرہ ایمان.اے بھلے مانسو! کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عِلم لِلسَّاعَةِ نہیں ہیں جو فرماتے ہیں کہ بُعِثْتُ أنَا وَ السَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ ( القمر : ٢) یہ کیسی بد بودار نادانی ہے جو اس جگہ لفظ ساعۃ سے قیامت سمجھتے ہیں.اب مجھ سے سمجھو کہ ساعۃ سے مراد اس جگہ وہ عذاب ہے جو حضرت عیسی کے بعد طیطوس رُومی کے ہاتھ سے یہودیوں پر نازل ہوا تھا اور خود خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں سورہ بنی اسرائیل میں اس ساعت کی خبر دی ہے.اسی آیت کی تشریح اس آیت میں ہے کہ مَثَلًا لِبَنِى اسراویل یعنی عیسی کے وقت سخت عذاب سے قیامت کا نمونہ یہودیوں کو دیا گیا اور اُن کے لئے وہ ساعت ہو گئی.قرآنی محاورہ کی رُو سے ساعة عذاب ہی کو کہتے ہیں.سو خبر دی گئی تھی کہ یہ ساعة حضرت عیسی کے انکار سے یہودیوں پر نازل ہوگی.پس وہ نشان ظہور میں آگیا اور وہ ساعة یہودیوں پر نازل ہوگئی.اور نیز اُس زمانہ میں طاعون بھی ان پر سخت پڑی اور در حقیقت اُن کے لئے وہ واقعہ قیامت تھا.جس کے وقت لاکھوں یہودی نیست و نابود ہو گئے اور ہزار ہا طاعون سے مر گئے.اور باقی ماندہ بہت ذلت کے ساتھ متفرق ہو گئے.قیامت گبری تو تمام لوگوں کے لئے قیامت ہوگی مگر یہ خاص یہودیوں کے لئے قیامت تھی، اس پر ایک اور قرینہ قرآن شریف میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انہ لَعِلْمُ لِلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا یعنی اے یہود یو ا عیسی کے ساتھ تمہیں پتہ لگ جائے گا کہ قیامت کیا چیز ہے.اُس کے مثل تمہیں دی جائے گی.یعنی مَثَلًا لِبَنِي إِسْرَاویل وہ قیامت تمہارے پر آئے گی اس میں شک نہ کرو.صاف ظاہر ہے کہ قیامت حقیقی جواب تک نہیں آئی اُس کی نسبت غیر موزوں تھا کہ خدا کہتا کہ اس قیامت میں شک نہ کرو اور تم اُس کو دیکھو گے.اُس زمانہ کے یہودی تو سب مر گئے اور آنے والی قیامت اُنہوں نے نہیں دیکھی.کیا خدا نے جھوٹ بولا.ہاں طبی طوس رُومی والی قیامت دیکھی.سو قیامت سے مراد وہی قیامت ہے جو حضرت مسیح کے زمانہ میں طیطوس رومی کے ہاتھ سے یہودیوں کو دیکھنی پڑی اور پھر طاعون کے ذریعہ سے اُس کو دیکھ لیا.یہ خدا کی کتابوں میں پرانا وعدہ عذاب کا چلا آتا تھا جس کا بائیل میں جا بجا کر پایا جاتا ہے.قرآن شریف میں اس کے لئے خاص آیت نازل ہوئی.یہی وعدہ قرآن شریف اور پہلی کتابوں میں موجود ہے اور اسی سے یہودیوں کو تنبیہ ہوئی.ورنہ دُور کی قیامت سے کون ڈرتا ہے.کیا اس وقت کے مولوی اُس قیامت سے ڈرتے ہیں.ہر گز نہیں.اور جیسا کہ ابھی میں نے بیان کیا ہے.یہ لفظ ساعة کا کچھ قیامت سے خاص نہیں اور نہ قرآن نے اس کو قیامت سے خاص رکھا ہے.افسوس کہ نیم ملا جن کی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۶ سورة الزخرف عاقبت خراب ہے اپنی جہالت سے ایسے ایسے معنے کر لیتے ہیں جن سے اصل مطلب فوت ہو جاتا ہے.آخری قیامت سے یہودیوں کو کیا خوف تھا.مگر قریب کے عذاب کی پیشگوئی بیشک اُن کے دلوں پر اثر ڈالتی تھی.افسوس که ساده لوح حجرہ نشین مولویوں کی نظر محدود ہے ان کو معلوم نہیں کہ پہلی کتابوں میں اسی ساعت کا وعدہ تھا جو طیطوس کے وقت یہودیوں پر وارد ہوئی اور قرآن شریف صاف کہتا ہے کہ عیسی کی زبان پر اُن پر لعنت پڑی اور عذاب عظیم کے واقعہ کو ساعتہ کے لفظ سے بیان کرنا نہ صرف قرآن شریف کا محاورہ ہے بلکہ یہی محاورہ پہلی آسمانی کتابوں میں پایا جاتا ہے اور بکثرت پایا جاتا ہے.پس نہ معلوم ان سادہ لوح مولویوں نے کہاں سے اور کس سے ٹن لیا کہ ساعۃ کا لفظ ہمیشہ قیامت پر ہی بولا جاتا ہے.اعجاز احمدی، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۲۹ تا ۱۳۱) يعِبَادِ لا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ وَلَا أَنْتُمْ تَحْزَنُونَ (۶۹) اے میرے بندو آج کے دن کچھ تم کو خوف نہیں اور نہ کوئی غم تمہیں ہوسکتا ہے لیکن جو شخص دُنیا میں صراطِ مستقیم پر نہیں چلا وہ اس وقت بھی چل نہیں سکے گا اور دوزخ میں گرے گا اور جہنم کی آگ کا ہیمہ بن جائے گا.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۴۸) قُلْ اِنْ كَانَ لِلرَّحْمَنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعِبِدِينَ ان کو کہہ دے کہ اگر خدا کا کوئی فرزند ہوتا تو میں سب سے پہلے اس کی پرستش کرتا.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶۱۷ ) وَهُوَ الَّذِى فى السَّمَاءِ الهُ وَ فِي الْأَرْضِ الهُ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْعَلِيمُ.وہی آسمان میں خدا ہے اور وہی زمیں میں خدا.(براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۲۱،۵۲۰ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) وہ آسمان میں ہے یعنی دُور ہے اور زمین میں ہے یعنی نزدیک ہے.ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۳۲) وہی خدا زمین میں ہے اور وہی خدا آسمان میں.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۲۰)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۷ سورة الزخرف زمین میں وہی خدا ہے اور وہی آسمان میں خدا.چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۹۷ ) وَ تَبْرَكَ الَّذِى لَهُ مُلْكُ السَّبُوتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَيْنَهُمَا وَ عِنْدَهُ عِلْمٌ السّاعَةِ ، وَ اِلَيْهِ تُرْجَعُونَ یہ بات واقعی ہے اور قرآن کریم سے بھی ثابت ہے کہ ساعۃ سے اس جگہ مراد یہودیوں کی تباہی کا زمانہ ہے وہ وہی زمانہ تھا اور جس ساعت کے یہ لوگ منتظر ہیں اس کا تو ابھی تک کہیں پتہ بھی نہیں ہے ایک پہلو سے اول مسیح کے وقت یہودیوں نے بدبختی لے لی اور دوسرے وقت میں نصاری نے بدبختی کا حصہ لے لیا مسلمانوں نے بھی پوری مشابہت یہود سے کر لی.اگر ان کی سلطنت یا اختیار ہوتا تو ہمارے ساتھ بھی مسیح والا معاملہ کرتے.البدر جلد نمبر ۲ مورخہ ۷ /نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۱۱) اصل قیامت کا علم تو سوائے خدا کے اور کسی کو بھی نہیں حتی کہ فرشتوں کو بھی نہیں اور وہاں ساعۃ کا لفظ ہے اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے عورتوں کے حمل کی میعاد نو ماہ دس دن ہوتی ہے.جب نو ماہ پورے ہو گئے تو اب باقی دس دنوں میں کسی کو خبر نہیں ہوتی کہ کون سے دن وضع حمل ہو گا گھر کا ہر ایک آدمی بچہ جننے کی گھڑی کا منتظر رہتا ہے اسی لئے قیامت کا نام ساعة رکھا ہے کہ اس ساعة کی خبر نہیں.خدا کی کتابوں میں جو اس کی علامات ہیں ممکن ہے کہ ان سے کوئی آدمی قریب قریب اس زمانہ کا پتہ بھی دے دے مگر اس ساعة کی کسی کو خبر نہیں جیسے وضع حمل کی ساعت کی کسی کو خبر نہیں.ایک ڈاکٹر سے بھی پوچھو وہ بھی کہے گا کہ نو ماہ اور دس دن.مگر جو نہی نو ماہ گزریں پھر فکر رہتا ہے کہ دیکھیے کون سے دن ہو کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ چھ ہزار سال کے بعد قیامت قریب ہے اب چھ ہزار تو گزر گئے ہیں قیامت تو قریب ہوگی مگر اس گھڑی کی خبر نہیں.(الہدر جلد نمبر ۴ مورخه ۲۱ نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۲۷)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۱۹۹ سورة الدخان بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الدُّخان بیان فرموده سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ حمن وَالْكِتَبِ الْمُبِينِ فى إِنَّا اَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَرَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ.ج فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيمٍ اَمْرًا مِنْ عِنْدِنَا إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ كَ رَحْمَةً مِّنْ رَّبَّكَ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ) نائب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزول کے وقت جو لیلتہ القدر مقرر کی گئی ہے وہ در حقیقت اس لیلتہ القدر کی ایک شاخ ہے یا یوں کہو کہ اس کا ایک ظل ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی ہے خدائے تعالیٰ نے اس لیلۃ القدر کی نہایت درجہ کی شان بلند کی ہے جیسا کہ اُس کے حق میں یہ آیت کریمہ ہے کہ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيمٍ یعنی اس لیلۃ القدر کے زمانہ میں جو قیامت تک ممتد ہے ہر یک حکمت اور معرفت کی باتیں دنیا میں شائع کر دی جائیں گی اور انواع اقسام کے علوم غریبہ وفنون نادرہ وصناعات عجیبہ صفحہ عالم میں پھیلا دئے جائیں گے اور انسانی قومی میں موافق اُن کی مختلف استعدادوں اور مختلف قسم کے امکان بسطت علم اور عقل کے جو کچھ لیا قتیں مخفی ہیں یا جہاں تک وہ ترقی کر سکتے ہیں سب کچھ بمنصہ ظہور لایا جائے گا لیکن یہ سب کچھ ان دنوں میں پر زور تحریکوں سے ہوتا رہے گا کہ جب کوئی نائب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں پیدا ہو گا در حقیقت اسی آیت کو سورۃ الزلزال میں مفصل طور پر بیان کیا گیا ہے کیونکہ سورۃ الزلزال سے پہلے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۰ سورة الدخان سورۃ القدر نازل کر کے یہ ظاہر فرمایا گیا ہے کہ سنت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ خدائے تعالیٰ کا کلام لیلۃ القدر میں ہی نازل ہوتا ہے اور اس کا نبی لیلتہ القدر میں ہی دنیا میں نزول فرماتا ہے اور لیلتہ القدر میں ہی وہ فرشتے اترتے ہیں جن کے ذریعہ سے دُنیا میں نیکی کی طرف تحریکیں پیدا ہوتی ہیں اور وہ ضلالت کی پر ظلمت رات سے شروع کر کے طلوع صبح صداقت تک اس کام میں لگے رہتے ہیں کہ مستعد دالوں کو سچائی کی طرف کھینچتے رہیں.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۶۰،۱۵۹) ہم نے قرآن کو ایک ایسی بابرکت رات میں اُتارا ہے جس میں ہر ایک امر پر حکمت تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اس سے مطلب یہ ہے کہ جیسے ایک رات بڑی ظلمت کے ساتھ نمودار ہوئی تھی.اسی کے مقابل پر اس کتاب میں انوار عظیمہ رکھے گئے ہیں جو ہر ایک قسم کے شک اور شبہ کی ظلمت کو ہٹاتے ہیں اور ہر ایک بات کا فیصلہ کرتے ہیں اور ہر ایک قسم کی حکمت کی تعلیم کرتے ہیں.جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۸۷) وَفِي هَذَا إِشَارَةٌ مِنْ رَّبِّ عَلَيْهِ إِلى أَنَّ اس میں رب علیم کی طرف سے اس بات کی طرف كُلَّ مَا يُفْرَقُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ مِنْ أَمْرِ ذی اشارہ ہے کہ لیلتہ القدر میں جو ہرا ہم کام تقسیم کیا جاتا ہے بَالٍ فَهُوَ مَكْتُوبٌ فِي الْقُرْآنِ كِتَابِ اللہ وہ خدائے عز وجل کی عظیم الشان کتاب قرآن مجید میں لکھا ذِي كُلِّ عَظُمَةٍ وَ جَلَالٍ فَإِنَّهُ نَزَلَ في لَيْلَةِ ہوا موجود ہے کیونکہ یہ ( قرآن مجید ) مکمل طور پر لیلتہ الْقَدْرِ بِنُزولِ تَاةٍ فَبُوْرِكَ مِنْهُ اللَّيْلُ القدر میں نازل ہوا ہے پس اس کے اترنے کی وجہ سے بِإِذْنِ رَبِّ عَلَّامٍ فَكُلُّمَا يُوجَدُ مِن رب علیم کے اذن سے یہ رات بابرکت ہوگئی.پس ہر الْعَجَائِبِ في هذِهِ اللَّيْلَةِ يُوجَدُ مِن عجيب بات جو اس رات میں ظاہر ہوئی ہے وہ دراصل بَرَكَاتِ نُزُولِ هَذِهِ الصُّحُفِ الْمُبَارَكَةِ قرآن کریم کے نزول کی برکت ہے.پس قرآن کریم ان فَالْقُرْآنُ اَحَقُّ وَ أَوْلَى بِهَذِهِ الصَّفَاتِ فَإِنَّهُ صفات کا زیادہ حقدار ہے کیونکہ وہ ان برکات کا سر چشمہ مَبْدَأَ أَوَّلُ لِهَذِهِ الْبَرَكَاتِ وَ مَا بُوْرِكَتِ ہے اور اس رات کو بھی صرف اس وجہ سے رب کائنات اللَّيْلَةُ إِلَّا بِهِ مِن رَّبّ الْكَائِنَاتِ وَ لأَجْلِ نے برکت دی ہے اسی لئے قرآن کریم اپنے آپ کو ان ذالِك يَصِفُ الْقُرْآنُ نَفْسَهُ بِأَوْصَافِي اوصاف سے متصف قرار دیتا ہے جو لیلۃ القدر میں تُوجَدُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ بَلْ اللَّيْلَةُ كَالْهِلَالِ پائے جاتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ رات ہلال کی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۱ سورة الدخان وَهُوَ كَالْبَدرِ وَذَلِكَ مَقَامُ الشُّكْرِ وَالْفَخَرِ مانند ہے اور قرآن کریم بدر کی مانند.اور یہ مسلمانوں لِلْمُسْلِمِينَ کے لئے شکر اور فخر کا مقام ہے.( ترجمہ از مرتب) سر الخلافة، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۶۹ حاشیه ) اس روشن اور کھلی کھلی کتاب کی قسم ہے کہ ہم نے اس قرآن کریم کو ایک مبارک رات میں اُتارا ہے کیونکہ ہمیں منظور تھا کہ نافرمانی کے نتائج سے ڈراویں.وہ رات ایک ایسی بابرکت رات ہے کہ تمام حکمت کی باتیں اس میں کھولی جاتی ہیں اور ایسا ہی ہم نے چاہا ہے اور تیرے رب نے رحمت کی راہ سے ایسا ہی ارادہ کیا ہے کہ کل معارف ودقائق الہیہ کا تیری بعثت مبارکہ پر ہی خاتمہ ہو اور وہی کلام کل معارف حکمیہ کا جامع ہو جو تجھ پر نازل ہوا ہے.....اور اس برکت والی رات سے مراد ایک تو وہی معنے ہیں جو مشہور ہیں اور دوسری.....آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ بعثت کی رات ہے اور اس کا دامن قیامت کے دن تک پھیلا ہوا ہے اور آيت فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْر حَکیم میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ تمام زمانہ جو قیامت تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد رسالت کے تحت میں ہے فیوض قرآن کریم سے بہت فائدہ اُٹھائے گا اور وہ تمام معارف الہیہ جو دنیا میں مخفی چلے آتے تھے اس زمانہ میں وقتاً فوقتاً ظہور پذیر ہوتے رہیں گے اور نیز آیت فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ امْرِ حَکیم میں یہ بھی اشارہ ہے کہ اس زمانہ با برکت کے خواص میں سے یہ بھی ہوگا کہ معاش اور معاد کے کل علوم حکمیہ اپنے اعلیٰ درجہ کے کمالات کے ساتھ ظہور پذیر ہوں گے اور کوئی امر حکمت ایسا نہیں رہے گا جس کی تفصیل نہ کی جائے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۷۵،۳۷۴) رَبِّ السموتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا إِنْ كُنْتُم مُوقِنِينَ.لَا إِلَهَ إِلا هُوَ يُخي وَيُمِيتُ رَبُّكُمْ وَرَبُّ أَبَا بِكُمُ الْاَوَّلِينَ ، بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ يَلْعَبُونَ خداوہ خدا ہے جس نے زمین و آسمان کو بنایا اور جو کچھ اس کے درمیان ہے سب اسی نے پیدا کیا تا تم اُسی صانع حقیقی پر یقین لاؤ اور شک کرنے کی کوئی وجہ نہ رہے.کوئی معبود اس کے سوا نہیں.وہ زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے.تمہارا رب ہے اور تمہارے ان باپ دادوں کا جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں.بلکہ وہ تو شکوک وشبہات میں پڑے ہوئے ہیں.ان دلائل کی طرف انہیں کہاں نظر ہے.ازاله اوبام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۷۵)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام دو سورة الدخان فَارتَقِبُ يَوْمَ تَأتي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ لا يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ پس تو اُس دن کا امیدوار رہ جس دن آسمان ایک کھلا کھلا دھواں لائے گا جس کو دیکھ کر کہیں گے کہ یہ عذاب درد ناک ہے....اس جگہ دخان سے مراد قحط عظیم و شدید ہے جو سات برس تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارکہ میں پڑا یہاں تک کہ لوگوں نے مردے اور ہڈیاں کھائی تھیں جیسا کہ ابن مسعود کی حدیث میں مفصل اس کا بیان ہے.لیکن آخری زمانہ کے لئے بھی جو ہمارا زمانہ ہے اس دخان مبین کا وعدہ تھا اس طرح پر که قبل از ظهور مسیح نہایت درجہ کی شدت سے اس کا ظہور ہوگا.اب سمجھنا چاہیئے کہ یہ آخری زمانہ کا قحط جسمانی اور روحانی دونوں طور سے وقوع میں آیا.جسمانی طور سے اس طرح کہ اگر اب سے پچاس برس گذشتہ پر نظر ڈالی جاوے تو معلوم ہوگا کہ جیسے اب غلہ اور ہر یک چیز کا نرخ عام طور پر ہمیشہ کم رہتا ہے اس کی نظیر پہلے زمانوں میں کہیں نہیں پائی جاتی.کبھی خواب خیال کی طرح چند روز گرانی غلہ ہوتی تھی اور پھر وہ دن گزر جاتے تھے لیکن اب تو یہ گرانی لازم غیر منفک کی طرح ہے اور قحط کی شدت اندر ہی اندر ایک عالم کو تباہ کر رہی ہے.اور روحانی طور پر صداقت اور امانت اور دیانت کا قحط ہو گیا ہے اور مکر اور فریب اور علوم وفنون مظلمہ دُخان کی طرح دنیا میں پھیل گئے ہیں اور روز بروز ترقی پر ہیں.اس زمانہ کے مفاسد کی صورت پہلے زمانوں کے مفاسد سے بالکل مختلف ہے.پہلے زمانوں میں اکثر نادانی اور امیت رہزن تھی اس زمانہ میں تحصیل علوم ر ہرن ہورہی ہے.ہمارے زمانہ کی نئی روشنی جس کو دوسرے لفظوں میں دخان سے موسوم کرنا چاہیئے عجیب طور پر ایمان اور دیانت اور اندرونی سادگی کو نقصان پہنچارہی ہے.سوفسطائی تقریروں کے غبار نے صداقت کے آفتاب کو چھپا دیا ہے اور فلسفی مغالطات نے سادہ لوحوں کو طرح طرح کے شبہات میں ڈال دیا ہے.خیالات باطلہ کی تعظیم کی جاتی ہے اور حقیقی صداقتیں اکثر لوگوں کی نظر میں کچھ حقیر سی معلوم ہوتی ہیں.سو خدائے تعالیٰ نے چاہا کہ عقل کے رہر دوں کو عقل سے درست کرے اور فلسفہ کے سرگشتوں کو آسمانی فلسفہ کے زور سے راہ پر لاوے سو یہ کامل درجہ کا دُخان مبین ہے جو اس زمانہ میں ظاہر ہوا ہے.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۷۶،۳۷۵)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الدخان رَبَّنَا اكْشِفُ عَنَا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ انّى لَهُمُ الذِّكرى وَقَدْ جَاءَهُمُ رَسُولٌ مُّبِينٌ ثُمَّ تَوَلَّوا عَنْهُ وَقَالُوا مُعَلَّمْ مَّجْنُونَهُ إِنَّا كَاشِفُوا الْعَذَابِ قَلِيلا إِنَّكُمْ عَابِدُونَ.کہیں گے اے ہمارے خدا یہ عذاب ہم سے اُٹھا ہم ایمان لائے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۷۵) وہ وقت ایسا ہوگا کہ یہ بلاء روئے زمین پر عام ہوگی کوئی شہر یا بستی الا ماشاء اللہ اس سے خالی نہ رہے گی بلکہ دریاؤں اور جنگلوں میں بھی طاعون ہو گا.اس وقت لوگ بھاگنے کی جگہ ڈھونڈیں گے مگر نہ پاویں گے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۲۵،۴۲۴) اے رب ہم سے عذاب کھول دے کہ ہم ایمان لائے اور پھر اس کے جواب میں فرماتا ہے اِنا كَاشِفُوا الْعَذَابِ قَلِيلًا إِنَّكُمْ عَابِدُونَ سوره دخان یعنی ہم تھوڑی مدت تک عذاب کھول دیتے ہیں اور پھر تم عود کر و گے اور کافر بن جاؤ گے.یہ آیت اس بات پر صریح نص ہے کہ خدا تعالیٰ ایک شخص کی تضرع کو قبول کر کے عذاب ٹال دیتا ہے اور جانتا ہے کہ پھر یہ کفر اور فسق کی طرف رجوع کرے گا اور تضرع یا استغفار سے عذاب ٹالنا قدیم عادت اللہ ہے اس سے کون انکار کر سکتا ہے بجز ایسے شخص کے جو کمال تعصب سے اندھا ہو گیا ہو.ماسوا اس کے یہ مسلم اور مشہور امر ہے کہ جب ہیبت الہی اپنا جلوہ دکھاتی ہے تو اس وقت فاسق انسان کی اور صورت ہوتی ہے اور جب ہیبت کا وقت نکل جاتا ہے تو پھر اپنی شقاوت فطرتی سے اصلی صورت کی طرف عود کر آتا ہے.ایسے لوگ بہتیرے تم نے دیکھے ہوں گے کہ جب ان پر کوئی مقدمہ دائر ہو جس سے سخت قید یا پھانسی یا سزائے موت کا خطرہ ہو گو یہ بھی گمان ہو کہ شاید رہا ہو جا ئیں تو وہ ایسی ہیبت کو مشاہدہ کر کے اپنی فاسقانہ چال چلن کو بدلا لیتے ہیں نماز پڑھتے ہیں اور تو بہ کرتے اور لمبی لمبی دعائیں کرتے ہیں.اور پھر جب ان کی اس تضرع کی حالت پر خدا تعالیٰ رحم کر کے ان کو اس بلا سے خلاصی دیتا ہے تو فی الفور ان کے دل میں یہ خیال گزرتا ہے کہ یہ رہائی خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اتفاقی امر ہے تب وہ اپنے فسق میں پہلے سے بھی بدتر ہو جاتے ہیں اور چند روز میں ہی اپنی پہلی عادات کی طرف رجوع کر آتے ہیں.(انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۲) اللہ جل شانہ کفار کا قول ذکر کر کے فرماتا ہے رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ...اور پھر جواب
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۴ سورة الدخان میں فرماتا ہے إِنَّا كَا شِفُوا الْعَذَابِ قَلِيلا إِنَّكُمْ عَابِدُونَ....یعنی کا فر عذاب کے وقت کہیں گے کہ اے خدا ہم سے عذاب دفع کر کہ ہم ایمان لائے اور ہم تھوڑا سا یا تھوڑی مدت تک عذاب دور کر دیں گے مگر تم اسے کا فرو پھر کفر کی طرف عود کرو گے.پس ان آیات سے اور ایسا ہی ان آیتوں سے جن میں قریب الغرق کشتیوں کا ذکر ہے صریح منطوق قرآنی سے ثابت ہوتا ہے کہ عذاب دنیوی ایسے کافروں کے سر پر سے ٹل جاتا ہے جو خوف کے دنوں اور وقتوں میں حق اور توحید کی طرف رجوع کریں گوامن پا کر پھر بے ایمان ہو جائیں.(انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۸۵) یہ قدیم سے سنت اللہ ہے کہ جو شخص خوف کی حالت میں رجوع کر کے اور پھر امن پا کر برگشتہ ہو جائے خدا اس کو تھوڑی مہلت دے کر پھر پکڑ لیتا ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے إِنَّا كَاشِفُوا الْعَذَابِ قَلِيلًا إِنَّكُمْ عابِدُونَ یعنی ہم رجوع کے بعد کچھ تھوڑی مدت عذاب کو موقوف رکھیں گے اور پھر پکڑ لیں گے اور تھوڑی مدت اس لئے کہ پھر تم انکار کی طرف رجوع کرو گے.سو ایسا ہی ہوا.یہ بات مسلمانوں کو بھی یادر کھنے کے لائق ہے کہ گو ایک شخص کا انجام خدائے تعالیٰ کے علم میں کفر ہو مگر عادت اللہ قدیم سے یہی ہے کہ اس کی تضرع اور خوف کے وقت عذاب کو دوسرے وقت پر ڈال دیا جاتا ہے.اسی وجہ سے اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ وعید میں خدا کے ارادہ عذاب کا تخلف جائز ہے مگر بشارت میں جائز نہیں.يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الكبرى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ ) انجام آنهم ، روحانی خزائن جلد ا ا صفحہ کے حاشیہ ) جس دن پکڑیں گے ہم پکڑ ناسخت تحقیق ہم بدلہ لینے والے ہیں.صلے ج (حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۲۲) اِنَّ شَجَرَتَ الرَّقُومِ طَعَامُ الْآثِيْمِ كَالْمُهْلِ يَغْلِى فِي الْبُطُونِ كَغَلِي الْحَمِيمِ خُذُوهُ فَاعْتِلُوهُ إِلى سَوَاءِ الْجَحِيمِ ثُمَّ صُبُوا فَوْقَ رَأْسِهِ مِنْ عَذَابِ الْحَمِيمِن ذُقُ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْكَرِيمُ.زقوم کا درخت ان دوزخیوں کا کھانا ہے جو عمداً گناہ کو اختیار کر لیتے ہیں.وہ کھانا ایسا ہے جیسا کہ تانبا گلا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۵ سورة الدخان ہوا کھولتے ہوئے پانی کی طرح پیٹ میں جوش مارنے والا.پھر دوزخی کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ اس درخت کو چکھے، تو عزت والا اور بزرگ ہے.یہ کلام نہایت غضب کا ہے.اس کا ماحصل یہ ہے کہ اگر تو تکبر نہ کرتا اور اپنی بزرگی اور عزت کا پاس کر کے حق سے منہ نہ پھیر تا تو آج یہ تلخیاں تجھے اٹھانی نہ پڑتیں.یہ آیت اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ دراصل یہ لفظ زقوم کا ذقی اور آمر سے مرکب ہے اور آم - إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْكَرِيمُ کا ملخص ہے.جس میں ایک حرف پہلے کا اور ایک حرف آخر کا موجود ہے اور کثرت استعمال نے ذال کوزا کے ساتھ بدل دیا ہے.اب حاصل کلام یہ ہے کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسی دنیا کے ایمانی کلمات کو بہشت کے ساتھ مشابہت دی ہے.ایسا ہی اسی دنیا کے بے ایمانی کے کلمات کو زقوم کے ساتھ مشابہت دی اور اس کو دوزخ کا درخت ٹھہرایا اور ظاہر فرما دیا کہ بہشت اور دوزخ کی جڑھ اسی دنیا سے شروع (اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۹۲، ۳۹۳) ہوتی ہے.بہشتی زندگی والا انسان خدا کی یاد سے ہر وقت لذت پاتا ہے اور جو بد بخت دوزخی زندگی والا ہے تو وہ ہر وقت اس دُنیا میں زقوم ہی کھا رہا ہے.اس کی زندگی تلخ ہوتی ہے.مَعِيشَةً ضَنعًا بھی اس کا نام ہے جو قیامت کے دن زقوم کی صورت پر متمثل ہو جائے گی.غرض دونوں صورتوں میں باہم رشتے قائم ہیں.الحکم جلدے نمبر ۳۰ مورخه ۱۷ اگست ۱۹۰۳ صفحه ۱۰) إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقَامِ آمِينِ متلقی امن کے مقام میں آگئے.ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۹) لا يَذُوقُونَ فِيهَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَةَ الأولى وَ وَقَهُمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ (۵۷) بہشتیوں پر دوسری موت نہیں آئے گی.ایک موت جو آ چکی سو آ چکی.اب جو لوگ کہتے ہیں کہ مسیح جو مر گیا کیا خدائے تعالیٰ قادر نہیں کہ اس کو پھر زندہ کر کے بھیجے گویا اُن کے نزدیک مسیح بہشتی نہیں جو اس کے لئے دو موتیں تجویز کرتے ہیں.حضرات اپنی بات کی ضد کے لئے مسیح کو بار بار کیوں مارنا چاہتے ہو اس کا کون سا گناہ ہے جو اس پر دو موتیں آویں اور پھر ان دو موتوں کا حدیث اور قرآن کی رُو سے ثبوت کیا ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۴۶)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۶ سورة الدخان جیسا کہ صرف ایک موت کی طرف اشارہ کر کے فرماتا ہے لا يَذُوقُونَ فِيهَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَةَ الأولى سو یہ بات اس کے سچے وعدہ کے برخلاف ہے کہ مردوں کو پھر دنیا میں بھیجنا شروع کر دیوے.اور کیوں کر ممکن تھا کہ خاتم النبیین کے بعد کوئی اور نبی اس مفہوم تام اور کامل کے ساتھ جو نبوت تامہ کی شرائط میں سے ہے آسکتا.کیا یہ ضروری نہیں کہ ایسے نبی کی نبوت تامہ کے لوازم جو وحی اور نزول جبرئیل ہے اس کے وجود کے ساتھ لازم ہونی چاہیئے کیونکہ حسب تصریح قرآن کریم رسول اُسی کو کہتے ہیں جس نے احکام وعقائد دین جبرئیل کے ذریعہ سے حاصل کئے ہوں لیکن وحی نبوت پر تو تیرہ سو برس سے مہر لگ گئی ہے کیا یہ مہر اُس وقت ٹوٹ جائے گی.اور اگر کہو کہ مسیح ابن مریم نبوت تامہ سے معزول کر کے بھیجا جائے گا تو اس سزا کی کوئی وجہ بھی تو ہونی چاہیئے.بعض کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بے استحقاق معبود قرار دیا گیا تھا سو خدائے تعالیٰ نے چاہا کہ اس کی سزا میں نبوت سے اس کو الگ کر دیا جائے اور وہ زمین پر آکر دوسروں کے پیرو بنیں اوروں کے پیچھے نماز پڑھیں اور امام اعظم کی طرح صرف اجتہاد سے کام لیں.اور حفی الطریق ہو کر حنفی مذہب کی تائید کر یں.لیکن یہ جواب معقول نہیں ہے خدائے تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس الزام سے اُن کو بری کر دیا ہے اور ان کی نبوت کو ایک دائمی نبوت قرار دیا ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۸۷) منتقی امن کے مقام میں آگئے.وہ بجز پہلی موت کے جو اُن پر وارد ہوگئی پھر موت کا مزہ نہیں چکھیں گے اور خدا ان کو جہنم کے عذاب سے بچائے گا.اس میں بھید یہ ہے کہ مومن منتقی کا مرنا چار پائیوں اور مویشی کی طرح نہیں ہوتا بلکہ مومن خدا کے لئے ہی جیتے ہیں اور خدا کے لئے مرتے ہیں اس لئے جو چیزیں وہ خدا کے لئے کھوتے ہیں اُن کو وہ واپس دی جاتی ہیں.ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۹)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۲۰۷ سورة الجاثية بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الجاثية بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تِلكَ أَيتُ اللهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ، فَبِأَيِّ حَدِيثِ بَعْدَ اللهِ وَ أَيْتِهِ يُؤْمِنُونَ سوایسی کون کی حدیث ہے جس پر تم اللہ اور اس کی آیات کو چھوڑ کر ایمان لاؤ گے.یعنی اگر کوئی حدیث قرآن کریم سے مخالف ہو تو ہر گز نہیں ماننی چاہیے بلکہ رڈ کردینی چاہیے ہاں اگر کوئی حدیث بذریعہ تاویل قرآن کریم کے بیان سے مطابق آسکے مان لینا چاہیے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۵۴) خدا اور اُس کی آیتوں کے بعد کس حدیث پر ایمان لائیں گے.اس جگہ حدیث کے لفظ کی تنگیر جو فائدہ عموم کا دیتی ہے صاف بتلا رہی ہے کہ جو حدیث قرآن کے معارض اور مخالف پڑے اور کوئی راہ تطبیق کی پیدا نہ ہو.اُس کورڈ کر دو.اور اس حدیث میں ایک پیشگوئی بھی ہے جو بطور اشارۃ النص اس آیت سے مترشح ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ آیتہ ممدوحہ میں اس بات کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ ایک ایسا زمانہ بھی اس اُمت پر آنے والا ہے کہ جب بعض افراد اس امت کے قرآن شریف کو چھوڑ کر ایسی حدیثوں پر بھی عمل کریں گے جن کے بیان کردہ بیان قرآن شریف کے بیانات سے مخالف اور معارض ہوں گے.ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۰۷) تم بعد اللہ اور اس کی آیات کے کس حدیث پر ایمان لاؤ گے.اس آیت میں صریح اس بات کی طرف اشارہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۸ سورة الجاثية ہے کہ اگر قرآن کریم کسی امر کی نسبت قطعی اور یقینی فیصلہ دیوے یہاں تک کہ اس فیصلہ میں کسی طور سے شک باقی نہ رہ جاوے اور منشاء اچھی طرح سے کھل جائے تو پھر بعد اس کے کسی ایسی حدیث پر ایمان لانا جو صریح اس کے مخالف پڑی ہو مومن کا کام نہیں ہے.پھر فرماتا ہے فبای حدیثٍ بَعْدَ ثَايُؤْمِنُونَ ( الاعراف : ١٨٦) - ان دونوں آیتوں کے ایک ہی معنی ہیں اس لئے اس جگہ تصریح کی ضرورت نہیں.سو آیات متذکرہ بالا کے رو سے ہر ایک مومن کا یہ ہی مذہب ہونا چاہئے کہ وہ کتاب اللہ کو بلا شرط اور حدیث کو شرعی طور پر حجت شرعی قرار دیوے اور یہی میرا مذہب ہے.الحق مباحث لد صیانه، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۲ ) بعد اللہ جل شانہ کی آیات کے کس حدیث پر ایمان لاؤ گے؟ اس آیت میں صریح اس بات کی طرف ترغیب ہے کہ ہر ایک قول اور حدیث کتاب اللہ پر عرض کر لینا چاہیے.اگر کتاب اللہ نے ایک امر کی نسبت ایک فیصلہ ناطق اور مؤید دے دیا ہے جو قابل تغیر اور تبدیل نہیں تو پھر ایسی حدیث دائرہ صحت سے خارج ہوگی جو اس کے مخالف ہے لیکن اگر کتاب اللہ فیصلہ مؤیدہ اور ناقابل تبدیل نہیں دیتی تو پھر اگر وہ حدیث قانون روایت کے رو سے صحیح ثابت ہو تو ماننے کے لائق ہے.غرض قرآن ایسی مجمل کتاب نہیں جو کبھی اور کسی صورت میں معیار کا کام نہ دے سکے جس کا ایسا خیال ہے بے شک وہ سخت نادان ہے بلکہ ایمان اس کا خطرہ کی حالت میں ہے.الحق مباحثہ لدھیانہ ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۰۸،۱۰۷) فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللهِ وَالتِهِ يُؤْمِنُونَ یہ ایک قسم کی پیشگوئی ہے جو ان وہابیوں کے متعلق ہے.(البدر جلد نمبر ۵، ۶ مورخه ۲۸ نومبر و ۵/ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۴۶) وَيْلٌ لِكُلّ أَفَاكِ أَثِيمٍ لا يَسْمَعُ أَيْتِ اللهِ تُتْلَى عَلَيْهِ ثُمَّ يُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا ج كَان لَّمْ يَسْمَعُهَا فَبَشِّرُهُ بِعَذَابٍ أَلِيم.لعنت ہے مفتری گنہ گار پر جو خدا کی آیتوں کو سنتا ہے پھر تکبر کی راہ سے انکار پر اصرار کرتا ہے گویا کچھ بھی نہیں عنا.پس اس کو تو درد ناک عذاب کی بشارت دے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۸۹) وَ لَقَد أَتَيْنَا بَنِي إِسْرَاءِيلَ الْكِتَب وَالْحُكْمَ وَالنُّبوَة وَرَزَقْنَهُمْ مِنَ الطيبت و فَضَّلْتُهُمْ عَلَى الْعَلَمِينَ ، وَ أَتَيْنَهُمْ بَيِّنَةٍ مِنَ الْأَمْرِ : فَمَا اخْتَلَفُوا الاَ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ فِيمَا كَانُوا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰۹ سورة الجاثية فِيْهِ يَخْتَلِفُونَ.ثُمَّ جَعَلْنَكَ عَلَى شَرِيعَةٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعُهَا وَلَا تَتَّبِعُ أَهْوَاءَ ) الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ فَانظُرُ كَيْفَ ذَكَرَ اللهُ تَعَالَى دیکھو کس طرح اللہ تعالی نے یہاں دو متقابل سلسلوں کا هُهُنَا سِلْسِلَتَيْنِ مُتَقَابِلَتَيْنِ سِلْسِلَة ذکر کیا ہے یعنی ایک سلسلہ موسیٰ علیہ السلام سے عیسیٰ علیہ السلام مُوسَى إِلى عِيسَى وَسِلْسِلَة نَبِيِّنَا تک اور ایک سلسلہ ہمارے نبی خیر الوریٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ خَيْرِ الْوَرَى إِلَى الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ علیہ وسلم سے اُس مسیح موعود تک ہے جو تمہارے اس زمانہ الَّذِي جَاءَ في زَمَنِكُمْ هَذَا وَإِنَّهُ میں آیا ہے اور وہ قریش کے قبیلہ میں سے نہیں آیا جس طرح مَاجَاء مِنَ الْقُرَيْشِ كَمَا أَنَّ عيسى عیسی علیہ السلام بنی اسرائیل میں سے نہیں آئے تھے.اور مَا جَاءَ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَإِنَّهُ عِلْمٌ مسیح موعود تمام لوگوں کے لئے عِلْمٌ للسَّاعَةِ ہیں جس طرح کہ لِسَاعَةِ كَافَةَ النَّاسِ كَمَا كَانَ عِیسی عیسی علیہ السلام یہود کے لئے عِلم لِلسَّاعَةِ تھے یہ وہ بات عِلْمًا لِسَاعَةِ الْيَهُودِ.هذا ما أشير ہے جس کی طرف سورۃ فاتحہ میں اشارہ کیا گیا ہے اور یہ کوئی إلَيْهِ فِي الْفَاتِحَةِ، وَمَا كَانَ حَدِیث ایسی بات نہیں جو اپنی طرف سے گھٹڑ لی گئی ہو.آسمان نے يُفْتَرى وَقَد شَهِدَتِ السَّمَاء بِآيَاتِهَا اس امر کی صداقت کے لئے اپنے نشانوں کے ساتھ گواہی دی وَقَالَتِ الْأَرْضُ الْوَقْتُ هذا اور زمین نے کہا یہ وقت مسیح موعود کی آمد کا وقت ہے اس لئے الْوَقْتُ فَاتَّقِ اللهَ وَلاتَيْنَسُ مِن تو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کر اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے روح الله وَالسَّلامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ مایوس نہ ہو.اور اس پر اللہ کی سلامتی نازل ہو جو اللہ تعالی کی الْهُدَى فَحَاصِلُ الْكَلَامِ آنَ الْقُرْآنِ ہدایت کی پیروی کرے.پس حاصل کلام یہ ہے کہ قرآن کریم مَلُومِن إِنَّ اللهَ تَعَالَى اخْتَارَ مُوسی اس بات کے ذکر سے بھرا پڑا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت بَعْدَ مَا أَهْلَكَ الْقُرُونَ الأولى وأتاه موسیٰ علیہ السلام کو بعد اس کے کہ اس نے تمام قوموں کو ہلاک التَّوْرَاةِ وَأَرْسَلَ لِتَائِيْدِهِ النَّبِین کر دیا بچنا اور ان کو تو رات دی اور ان کی تائید کے لئے متواتر لثرًا ثُمَّ قَفَا عَلَى أَثَارِهِمْ بِعِیسی کئی رسول بھیجے پھر ان کے پیچھے حضرت عیسی علیہ السلام کو وَاخْتَارَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مبعوث فرمایا.اسی طرح یہود کو ہلاک اور تباہ کرنے کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۰ سورة الجاثية بَعْدَ مَا أَهْلَكَ الْيَهُودَ وَارْدَى وَلَاشَكَ بعد اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منتخب کیا وَلارَيْبَ أَنَّ ولا ريب أن السّلْسِلَةَ الْمُؤسَوِيَّةَ اور بلا شک اور بلا ریب سلسلہ محمد یہ اور سلسلہ موسویہ وَالْمُحَمَّدِيَّةَ قَدْ تَقَابَلَنَا وَكَذَالِك آراد دونوں متقابل سلسلے ہیں اور اس امر کا اللہ تعالیٰ نے اسی طرح ارادہ اور فیصلہ فرمایا تھا.( ترجمہ از مرتب ) اللهُ وَقَضَى (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۸،۷) إِنَّهُمُ لَنْ يُغْنُوا عَنْكَ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَإِنَّ الظَّلِمِينَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَاللهُ وَلِيُّ الْمُتَّقِينَ جس شخص کو آنحضرت صلعم کا پاس نہیں وہ بے ایمان ہے.خدا تعالیٰ تو ایک مومن کا بھی پاس کرتا ہے جیسے فرمایا وَ اللهُ وَلِيُّ الْمُتَّقِينَ - الحکم جلد نمبر ۴۱ مورخہ ۱۷ نومبر ۱۹۰۷ء صفحه ۳) وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَ مَا يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ ۚ وَمَا لَهُم بِذلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمُ الاَ يَظُنُّونَ ® (۲۵ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس قوم میں آئے وہ تو کسی بات کے بھی قائل نہ تھے نہ ان میں کوئی شریعت تھی اور نہ وہ کسی کتاب کے قائل اور پابند بلکہ اکثر تو خدا تعالیٰ کے بھی قائل نہ تھے.وہ کہتے تھے مَا هِيَ إِلا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنا إِلَّا اللَّهُرُ وہ جو کچھ سمجھتے تھے اسی دنیا کو سمجھتے تھے کہ آگے جا کر کسی نے کیا دیکھا ہے.یہی دنیا ہی دنیا ہے.اس آیت میں دَھر کا لفظ اسی لیے بیان کیا ہے تا کہ ظاہر کیا جاوے کہ وہ دہریہ تھے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اس وقت عرب میں قریباً تمام بیہودہ اور باطل مذاہب جمع ہوئے ہوئے تھے.وہ گویا ایک چھوٹا سا نقشہ تھا جو گندے اور افراط تفریط کے طریق تھے.وہ عملی طور پر اس میں دکھائے گئے تھے.جیسے کسی ملک کا نقشہ ہو.اس میں سب مقام موٹے موٹے دکھائے جاتے ہیں.اسی طرح وہاں کی حالت تھی.یہ کیسی بڑی روشن دلیل آپ کی سچائی کی ہے کہ ایسی قوم اور ایسے ملک میں اللہ تعالی نے آپ کو مبعوث فرمایا جو انسانیت کے دائرہ سے نکل چکا تھا.میں بڑے زور سے کہتا ہوں کہ خواہ کیسا ہی پکا دشمن ہو اور خواہ وہ عیسائی ہو یا آریہ جب وہ ان حالات کو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۱ سورة الجاثية ا دیکھے گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عرب کے تھے اور پھر اس تبدیلی پر نظر کرے گا جو آپ کی تعلیم اور تاثیر سے پیدا ہوئی تو اسے بے اختیار آپ کی حقانیت کی شہادت دینی پڑے گی.موٹی سی بات ہے کہ قرآن مجید نے ان کی پہلی حالت کا تو یہ نقشہ کھینچا ہے.يَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ (محمد : ۱۳) به توان کی کفر کی حالت تھی پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تاثیرات نے ان میں تبدیلی پیدا کی تو ان کی یہ حالت ہوگئی يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَ قِيَامًا (الفرقان : (۶۵) یعنی وہ اپنے رب کے حضور سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے راتیں کاٹ دیتے ہیں جو تبدیلی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے وحشیوں میں کی اور جس گڑھے سے نکال کر جس بلندی اور مقام تک انہیں پہنچایا.اس ساری حالت کے نقشہ کو دیکھنے سے بے اختیار ہو کر انسان رو پڑتا ہے کہ کیا عظیم الشان انقلاب ہے جو آپ نے کیا.دنیا کی کسی تاریخ اور کسی قوم میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی.یہ نری کہانی نہیں.یہ واقعات ہیں جن کی سچائی کا ایک زمانہ کو اعتراف الحکم جلد نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۷ صفحه ۵) کرنا پڑا ہے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۲۱۳ سورة الاحقاف بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الاحقاف بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قُلْ اَروَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَرُونِي مَا ذَا خَلَقُوا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَهُمُ شِرْكُ فِي السَّمَوتِ ايْتُونِى بِكِتَبِ مِنْ قَبْلِ هَذَا أَوْ أَثْرَةٍ مِّنْ عِلْمٍ إِنْ كُنْتُم صدِقِينَ وَ مَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَابِهِمْ غُفِلُونَ ) کیا تم نے دیکھا کہ جن لوگوں کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا معبود ٹھہرا رہے ہو انہوں نے زمین میں سے کیا پیدا کیا اور یا ان کو آسمان کی پیدائش میں کوئی شراکت ہے.اگر اس کا کوئی ثبوت تمہارے پاس ہے اور کوئی ایسی کتاب ہے جس میں یہ لکھا ہو کہ فلاں فلاں چیز تمہارے معبود نے پیدا کی ہے تو لاؤ وہ کتاب پیش کرو اگر تم سچے ہو یعنی یہ تو ہو نہیں سکتا کہ یونہی کوئی شخص قادر مطلق کا نام رکھالے اور قدت کا کوئی نمونہ پیش نہ کرے اور خالق کہلائے اور خالقیت کا کوئی نمونہ ظاہر نہ کرے.اور پھر فرماتا ہے کہ اس شخص سے زیادہ تر گمراہ کون شخص ہے کہ ایسے شخص کو خدا کر کے پکارتا ہے جو اس کو قیامت تک جواب نہیں دے سکتا.بلکہ اس کے پکارنے سے بھی غافل ہے چہ جائیکہ اس کو جواب دے سکے.( جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ ۱۳۷ )
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۴ سورة الاحقاف اَم يَقُولُونَ افْتَريهُ قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُه فَلَا تَمْلِكُونَ لِي مِنَ اللهِ شَيْئًا هُوَ اَعْلَمُ b بِمَا تُفِيضُونَ فِيهِ كَفَى بِهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمُ ، وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ابـ محض الہام جب تک اس کے ساتھ فعلی شہادت نہ ہو ہر گز کسی کام کا نہیں.دیکھو جب کفار کی طرف سے اعتراض ہوا لَسْتَ مُرْسَلًا (الرعد: (۴۴) تو جواب دیا گیا گفی بِاللهِ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمُ (الرعد : ۴۴) یعنی عنقریب خدا کی فعلی شہادت میری صداقت کو ثابت کر دے گی.پس الہام کے ساتھ فعلی شہادت بھی چاہیے.دیکھو گورنمنٹ جب کسی کو ملازمت عطا کرتی ہے تو اس کی وجاہت کے سامان بھی مہیا کر دیتی ہے.چنانچہ جو لوگ اس کا مقابلہ کرتے ہیں وہ تو ہین عدالت کے جرم میں گرفتار ہوتے ہیں.اسی طرح جو ماموران الہی کے مقابلہ پر آتے ہیں وہ ہلاک ہو جاتے ہیں آج کل پچاس آدمی کے قریب ایسے ہیں جو اس مرض میں گرفتار ہیں یعنی اپنے قولی الہام پر بھروسہ رکھتے ہیں وہ سب غلطی پر ہیں شیطان انسان کا بڑا دشمن ہے مگر خود مفتری بھی ایک شیطان ہے پس وہ اپنا آپ دشمن ہے اسی لئے جلد ہلاک ہو جاتا ہے.کیسے ناعاقبت اندیش ہیں وہ لوگ جو ایسوں کے دام تزویر میں پھنس جاتے ہیں.جس کے دعوی کے ساتھ عظمت و جلال ربانی کی چمک نہ ہو تو ایسے شخص کو تسلیم کرنا اپنے تئیں آگ میں ڈالنا ہے.( بدر جلد ۶ نمبر ۱۷ مورخه ۱/۲۵ پریل ۱۹۰۷ء صفحه ۹) قُلْ اَرعَيْتُمْ اِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللهِ وَ كَفَرْتُم بِهِ وَ شَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ بَنِى اِسْرَاوِيْلَ عَلَى مِثْلِهِ فَأَمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ پہلی کتابوں.....سے اجتہاد کرنا حرام نہیں ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے شَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ بَني اسراءيل......جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ثبوت کے لئے ان کو پیش کرتا ہے تو ہمارا ان سے اجتہاد کرنا کیوں حرام ہو گیا ؟ الحکم جلد ۱۰ نمبر ۴۱ مورخه ۳۰ نومبر ۱۹۰۶ ء صفحه ۵) وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسُنَا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَ وَضَعَتْهُ كُرْهًا وحملة وَفَضْلُهُ ثَلْثُونَ شَهْرًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَ بَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۵ سورة الاحقاف رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَ أَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرضَهُ وَ اَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی تاکید کی ہے یہ اس وجہ سے کہ مشکل سے اس کی ماں نے اپنے پیٹ میں اس کو رکھا اور مشکل ہی سے اس کو جنا اور یہ مشکلات اس دور دراز مدت تک رہتی ہیں کہ اس کا پیٹ میں رہنا اور اس کے دودھ کا چھوٹنا تیں مہینہ میں جا کر تمام ہوتا ہے یہاں تک کہ جب ایک نیک انسان اپنی پوری قوت کو پہنچتا ہے تو دعا کرتا ہے کہ اے میرے پروردگار مجھ کو اس بات کی توفیق دے کہ تو نے جو مجھ پر اور میرے ماں باپ پر احسانات کئے ہیں تیرے ان احسانات کا شکر یہ ادا کرتا رہوں اور مجھے اس بات کی بھی توفیق دے کہ میں کوئی ایسا نیک عمل کروں جس سے تو راضی ہو جائے اور میرے پر یہ بھی احسان کر کہ میری اولاد نیک بخت ہو اور میرے لئے خوشی کا موجب ہو اور میں اولاد پر بھروسہ نہیں کرتا بلکہ ہر یک حاجت کے وقت تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں ان میں سے ہوں جو تیرے آگے اپنی گردن رکھ دیتے ہیں نہ کسی اور کے آگے.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۰۹ حاشیه ) اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ دعا سکھلائی ہے کہ آصلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِني میرے بیوی بچوں کی بھی اصلاح فرما.سوا اپنی حالت کی پاک تبدیلی اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی اولا د اور بیوی کے واسطے بھی دعا کرتے رہنا چاہیے کیونکہ اکثر فتنے اولاد کی وجہ سے انسان پر پڑ جاتے ہیں.اور اکثر بیوی کی وجہ سے.دیکھو پہلا فتنہ حضرت آدم پر بھی عورت ہی کی وجہ سے آیا تھا.حضرت موسی کے مقابلے میں بلعم کا ایمان جو حبط کیا گیا اصل میں اس کی وجہ بھی توریت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ بلغم کی عورت کو اس بادشاہ نے بعض زیورات دکھا کر طمع دے دیا تھا اور پھر عورت نے بلغم کو حضرت موسیٰ پر بددعا کرنے کے واسطے اُکسایا تھا.غرض ان کی وجہ سے بھی اکثر انسان پر مصائب شدائد آجایا کرتے ہیں تو اُن کی اصلاح کی طرف بھی پوری توجہ کرنی چاہیے اور ان کے واسطے بھی دعائیں کرتے رہنا چاہیے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۶ مورخه ۲ مارچ ۱۹۰۸ء صفحه ۶) وَ مَنْ لا يُجِبُ دَاعِيَ اللهِ فَلَيْسَ بِمُعْجِزِ فِي الْأَرْضِ وَ لَيْسَ لَهُ مِنْ دُونِهِ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَوْلِيَاءَ أُولبِكَ فِي ضَللٍ مُّبِينٍ ۲۱۶ سورة الاحقاف اور جو شخص اس کے قبول کرنے سے انکار کرے وہ خدا کو اپنا غلبہ ظاہر کرنے سے روک نہیں سکے گا اور خدا کے مقابلہ پر اس کا کوئی حمایتی نہیں.(براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۴۷ حاشیہ نمبر ۱۱) ط فاصيرُ كَمَا صَبَرَ أُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّهُمْ كَانَّهُمْ يَوْمَ لا ج يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِّنْ نَّهَارِ بَلعْ ، فَهَلْ يُهْلَكَ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَسَقُونَ.فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُوا الْعَزْمِ - -.سواولو العزم نبیوں کی طرح صبر کر.(براہین احمد یه چهار تص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۶۵ حاشیه در حاشیه نمبر ۴) اللہ تعالیٰ کی عادت ہے کہ ہمیشہ اس کا عتاب ان لوگوں پر ہوتا ہے جن پر اس کے فضل اور عطایات بے شمار ہوں اور جنہیں وہ اپنے نشانات دکھا چکا ہوتا ہے.وہ ان لوگوں کی طرف بھی متوجہ نہیں ہوتا کہ انہیں عتاب یا خطاب یا ملامت کرے جن کے خلاف اس کا آخری فیصلہ نافذ ہونا ہوتا ہے چنانچہ ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے فَاصْبِرُ كَمَا صَبَرَ أُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلُ لَهُمُ اور فرماتا ہے وَلَا تَكُن صَاحِبِ الْحُوتِ ( القلم : ۴۹) اور فَإِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِي نَفَقًا فِي الْأَرْضِ الآية (الانعام :۴۹) یہ حجت آمیز عتاب اس بات پر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت جلد فیصلہ کفار کے حق میں چاہتے تھے ، مگر خدا تعالیٰ اپنے مصالح اور سنن کے لحاظ سے بڑے توقف اور حلم کے ساتھ کام کرتا ہے، لیکن آخر کار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کو ایسا کچلا اور پیسا کہ اُن کا نام ونشان مٹا دیا.اسی طرح پر ممکن ہے کہ ہماری جماعت کے بعض لوگ طرح طرح کی گالیاں، افترا پردازیاں اور بدزبانیاں خدا تعالیٰ کے سچے سلسلے کی نسبت سن کر اضطراب اور استعجال میں پڑیں.مگر انہیں خدا تعالیٰ کی اس سنت کو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ برتی گئی ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے.اس لیے میں پھر اور بار بار بتا کید حکم کرتا ہوں کہ جنگ وجدال کے مجمعوں تحریکوں اور تقریبوں سے کنارہ کشی کرو.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۰ مورخه ۳۱ رمئی ۱۹۰۲ صفحه ۵) جلد بازی اور تقویٰ کبھی دونوں اکٹھے نہیں ہو سکتے.نبیوں کو اللہ تعالی نے یہی کہا فَاصْبِرُ كَمَا صَبَرَ أُولُوا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۱۷ سورة الاحقاف العمر پھر عام لوگوں کو کس قدر ضرورت تھی کہ وہ تقویٰ سے کام لیتے اور خدا سے ڈرتے.الحکم جلدے نمبر ۷ مورخہ ۲۱ رفروری ۱۹۰۳، صفحہ ۳) پس مجھے صبر کرنا چاہیے جیسا کہ اولوا العزم نبی صبر کرتے رہے.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۵۸ حاشیه )
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّجِيمِ ۲۱۹ سورة محمد بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة محمّد بیان فرموده سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ وَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الظَّلِحَتِ وَآمَنُوا بِمَا نُزَلَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَهُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ كَفَرَ عَنْهُمْ سَيَأْتِهِمْ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْن جولوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے اور وہ کلام جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اس پر ایمان لائے اور وہی حق ہے ایسے لوگوں کے خدا گناہ بخش دے گا اور اُن کے دلوں کی اصلاح کرے گا.اب دیکھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی وجہ سے کس قدر خدا تعالیٰ اپنی خوشنودی ظاہر فرماتا ہے کہ اُن کے گناہ بخشتا ہے اور اُن کے تزکیہ نفس کا خود متکفل ہوتا ہے.پھر کیسا بد بخت وہ شخص ہے جو کہتا ہے کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں اور غرور اور تکبر سے اپنے تئیں کچھ سمجھتا ہے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۳۳ ) جو لوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کئے اور اس کتاب پر ایمان لائے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اور وہی حق ہے خدا ان کے گناہ دُور کرے گا اور ان کے حال چال کو درست کر دے گا.نور القرآن، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۳۴) فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ، حَتَّى إِذَا الْخَذْتُمُوهُم فَشُدُّوا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۰ سورة محمد الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنَّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءَ حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ۚ ذَلِكَ وَ لَوْ يَشَاءُ اللهُ لاَنتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَكِنْ لِيَبْلُوا بَعْضَكُم بِبَعْضٍ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ.تیرہ سو برس ہوئے کہ مسیح موعود کی شان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مُنہ سے کلمہ يَضَعُ الْحَرب جاری ہو چکا ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ مسیح موعود جب آئے گا تو لڑائیوں کا خاتمہ کر دے گا اور اسی کی طرف اشارہ اس قرآنی آیت کا ہے حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَهَا یعنی اس وقت تک لڑائی کرو جب تک کہ مسیح کا وقت آ جائے یہی تَضَعَ الْحَرْبُ اوزار کا ہے دیکھو صحیح بخاری موجود ہے جو قرآن شریف کے بعد اصح الکتب مانی گئی ہے.اس کو غور سے پڑھو.گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۸) اِنَّ اللهَ يُدخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّلِحَتِ جَنْتِ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهرُ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَهُم.کھاتے ہیں اور تمتع اُٹھاتے ہیں یعنی اپنے پیٹ کی اور دوسری شہوات میں مبتلا اور اسیر ہیں.b الحکم جلد ۶ نمبر ۱۱ مورخه ۲۴ / مارچ ۱۹۰۲ صفحه ۳) کفار کی زندگی بالکل چوپایوں کی سی زندگی ہوتی ہے جن کو کھانے اور پینے اور شہوانی جذبات کے سوا اور کوئی کام نہیں ہوتا.يَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ - الحام جلد ۵ نمبر ۲۹ مورخه ۱۰ را گست ۱۹۰۱ صفحه ۱) عرب اور دنیا کی حالت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم آئے.کسی سے پوشیدہ نہیں.بالکل وحشی لوگ تھے.کھانے پینے کے سوا کچھ جانتے نہ تھے.نہ حقوق العباد سے آشنا نہ حقوق اللہ سے آگاہ.چنانچہ خدا تعالیٰ نے ایک طرف ان کا نقشہ کھینچ کر بتلایا کہ يَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَام پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیم نے ایسا اثر کیا يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَ قِيَامًا ( الفرقان : ۶۵) کی حالت ہوگئی.یعنی اپنے رب کی یاد میں راتیں سجدے اور قیام میں گزار دیتے ہیں.(الحکم جلد ۲ نمبر ۲۵،۲۴ مورخه ۲۰ و ۲۷ اگست ۱۸۹۸ صفحه ۱۰) چار پایوں کی طرح کھاتے ہیں.اس کے کئی پہلو ہیں.اول چار پا یہ کیفیت اور کمیت میں فرق نہیں کر سکتا اور جو کچھ آگے آتا ہے اور جس قدر آتا ہے، کھاتا ہے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۱ سورة محمد جیسے کتا اس قدر کھاتا ہے کہ آخر قے کرتا ہے.دوسرا یہ کہ انعام حلال اور حرام میں تمیز نہیں کرتے.ایک بیل کبھی یہ تمیز نہیں کرتا کہ یہ ہمسایہ کا کھیت ہے.اس میں نہ جاؤں.ایسا ہی ہر ایک امر جو کھانے کے لحاظ سے ہو.نہیں کرتا.کتے کو ناپا کی ، پاکی کے متعلق ، اندازہ کے متعلق کوئی لحاظ نہیں اور پھر چار پایہ کو اعتدال نہیں.یہ لوگ جو اخلاقی اصولوں کو توڑتے ہیں اور پرواہ نہیں کرتے کہ گویا انسان نہیں.پاک پلید کا تو یہ حال، عرب میں مُردے، کتے کھا لیتے تھے.اب تک اکثر ممالک میں یہ حال ہے کہ چوہوں اور کتوں اور بلیوں کو بڑے لذیذ کھانے سمجھ کر کھایا جاتا ہے.چوہڑے چمار مُردار خور تو میں یہاں بھی موجود ہیں.پھر یتیموں کا مال کھانے میں کوئی تردد و تامل نہیں.جیسے یتیم کا گھاس گائے کے سامنے رکھ دیا جاوے.بلاتر در کھالے گی.ایسا ہی ان لوگوں کا حال ہے.یہی معنے ہیں وَ النَّارُ مَثْوًى لَهُمْ ان کا ٹھکانا دوزخ ہوگا.الحکم جلد ۴ نمبر ۲۵ مورخه ۹ر جولائی ۱۹۰۰ صفحه (۴) وو روحانیت اور پاکیزگی کے بغیر کوئی مذہب چل نہیں سکتا.قرآن شریف نے بتلایا ہے کہ آنحضرت صلعم کی بعثت سے پیشتر دنیا کی کیا حالت تھی.يَأْكُلُونَ كَمَا تَأكُلُ الْأَنْعَامُ پھر جب انہی لوگوں نے اسلام قبول کیا تو فرماتا ہے يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَ قِيَامًا (الفرقان : ۲۵ ) جب تک آسمان سے تریاق نہ ملے تو دل درست نہیں رہتا.انسان آگے قدم رکھتا ہے مگر وہ پیچھے پڑتا ہے.قدسی صفات اور فطرت والا انسان ہوتو وہ مذہب چل سکتا ہے اس کے بغیر کوئی مذہب ترقی نہیں کر سکتا اور اگر کرتا بھی ہے تو پھر قائم نہیں رہ سکتا.(البدر جلد ۲ نمبر ۳۷ مورخه ۱۲/اکتوبر ۱۹۰۳ء صفحه ۲۹۰) میں بڑے زور سے کہتا ہوں کہ خواہ کیسا ہی پکا دشمن ہو اور خواہ وہ عیسائی ہو یا آر یہ جب وہ ان حالات کو دیکھے گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عرب کے تھے اور پھر اس تبدیلی پر نظر کرے گا جو آپ کی تعلیم اور ثاثیر سے پیدا ہوئی تو اسے بے اختیار آپ کی حقانیت کی شہادت دینی پڑے گی.موٹی سی بات ہے کہ قرآن مجید نے ان کی پہلی حالت کا تو یہ نقشہ کھینچا ہے يَأْكُلُونَ كَمَا تَأكُلُ الْأَنْعَامُ یہ تو ان کی کفر کی حالت تھی پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تاثیرات نے ان میں تبدیلی پیدا کی تو ان کی یہ حالت ہوگئی يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَ قِيَاما یعنی وہ اپنے رب کے حضور سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے راتیں کاٹ دیتے ہیں جو تبدیلی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے وحشیوں میں کی اور جس گڑھے سے نکال
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۲ سورة محمد کر جس بلندی اور مقام تک انہیں پہنچایا.اس ساری حالت کے نقشہ کو دیکھنے سے بے اختیار ہو کر انسان رو پڑتا ہے کہ کیا عظیم الشان انقلاب ہے جو آپ نے کیا.دنیا کی کسی تاریخ اور کسی قوم میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی.یہ نری کہانی نہیں.یہ واقعات ہیں جن کی سچائی کا ایک زمانہ کو اعتراف کرنا پڑا ہے.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳ مورخه ۲۴ /جنوری ۱۹۰۷ء صفحه ۵) ایک انسان جو دعا نہیں کرتا اس میں اور چار پائے میں کچھ فرق نہیں.ایسے لوگوں کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے يَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوَى لَّهُمْ یعنی چار یایوں کی زندگی بسر کرتے ہیں اور جہنم التحام جلد ۱۱ نمبر ۳۲ مورخه ۱۰ ستمبر ۱۹۰۷ صفحه ۶) ان کا ٹھکانا ہے.مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِى وُعِدَ الْمُتَتَّقُونَ فِيهَا أَنْهُرُ مِنْ مَاءٍ غَيْرِ أَسِ وَانْهَرُ مِنْ تبَن لَّمْ يَتَخَيَّرُ طَعْمُهُ وَ اَنْهُرُ مِنْ خَيْرٍ لَذَّةٍ لِلشَّرِبِينَ : وَ انْهُرُ مِنْ عَسَلٍ مُصَفّى وَلَهُمْ فِيهَا مِنْ كُلِ الثَّمَرَاتِ وَ مَغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ كَمَنْ هُوَ خَالِدٌ فِي النَّارِ وَسُقُوا مَاء حَمِيمًا فَقَطَعَ امْعَاءَهُمْ.b وہ بہشت جو پرہیز گاروں کو دی جائے گی.اس کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک باغ ہے.اس میں اس پانی کی نہریں ہیں جو بھی متعفن نہیں ہوتا اور نیز اس میں اس دودھ کی نہریں ہیں جس کا کبھی مزہ نہیں بدلتا.اور نیز اس میں اس شراب کی نہریں ہیں جو سراسر سرور بخش ہے جس کے ساتھ خمار نہیں.اور نیز اس میں اس شہد کی نہریں ہیں جو نہایت صاف ہے جس کے ساتھ کوئی کثافت نہیں.اس جگہ صاف طور پر فرمایا کہ اس بہشت کو مثالی طور پر یوں سمجھ لو کہ ان تمام چیزوں کی اس میں نا پیدا کنار نہریں ہیں.وہ زندگی کا پانی جو عارف دنیا میں روحانی طور پر پیتا ہے.اس میں ظاہری طور پر موجود ہے اور وہ روحانی دودھ جس سے وہ شیر خوار بچہ کی طرح روحانی طور پر دنیا میں پرورش پاتا ہے.بہشت میں ظاہر ظاہر دکھائی دے گا اور وہ خدا کی محبت کی شراب جس سے وہ دنیا میں روحانی طور پر ہمیشہ مست رہتا تھا اب بہشت میں ظاہر ظاہر اس کی شہریں نظر آئیں گی.اور وہ حلاوت ایمانی کا شہد جو دنیا میں روحانی طور پر عارف کے منہ میں ڈالا جاتا تھا وہ بہشت میں محسوس اور نمایاں نہروں کی طرح دکھائی دے گا اور ہر ایک بہشتی اپنی نہروں اور اپنے باغوں کے ساتھ اپنی روحانی حالت کا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۳ سورة محمد اندازہ ہر منہ کر کے دکھلا دے گا اور خدا بھی اس دن بہشتیوں کے لئے حجابوں سے باہر آ جائے گا.غرض روحانی حالتیں مخفی نہیں رہیں گی بلکہ جسمانی طور پر نظر آئیں گی.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۱۱، ۴۱۲) فَاعْلَمْ أَنَّهُ لا إله إلا الله وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَت وَاللهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوبِكُم.جیسا تم دیکھتے ہو کہ نور کے آنے سے ظلمت قائم نہیں رہ سکتی ایسا ہی جب لا إِلهَ إِلَّا اللہ کا نورانی پر توہ دل پر پڑتا ہے تو نفسانی ظلمت کے جذبات کا لمعدوم ہو جاتے ہیں گناہ کی حقیقت بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ سرکشی کی ملونی سے نفسانی جذبات کا شور و غوغا ہو جس کی متابعت کی حالت میں ایک شخص کا نام گناہ گار رکھا جاتا ہے اور لا اله الا الله کے معنی جو لغت عرب کے موارد استعمال سے معلوم ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ لا مَطلُوبَ لِي وَلَا تَحْبُوبَ لِي وَلَا مَعْبُودَ لِي وَلَا مُطاعَ لِى إِلَّا الله یعنی بجز اللہ کے اور کوئی میرا مطلوب نہیں اور محبوب نہیں اور معبود نہیں اور مطاع نہیں.اب ظاہر ہے کہ یہ معنی گناہ کی حقیقت اور گناہ کے اصل منبع سے بالکل مخالف پڑے ہیں پس جو شخص ان معنی کو خلوص دل کے ساتھ اپنی جان میں جگہ دے گا تو بالضرورت مفہوم مخالف اس کے دل سے نکل جائے گا کیونکہ ضدین ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں پس جب نفسانی جذبات نکل گئے تو یہی وہ حالت ہے.جس کو سچی پاکیزگی اور حقیقی راست بازی کہتے ہیں اور خدا کے بھیجے ہوئے پر ایمان لانا جو دوسرے جز کلمہ کا مفہوم ہے اس کی ضرورت یہ ہے کہ تا خدا کے کلام پر بھی ایمان حاصل ہو جائے کیونکہ جو شخص یہ اقرار کرتا ہے کہ میں خدا کا فرمانبردار بننا چاہتا ہوں.اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کے فرمانوں پر ایمان بھی لاوے اور فرمان پر ایمان لانا بجز اس کے ممکن نہیں کہ اس پر ایمان لاوے جس کے ذریعہ سے دنیا میں فرمان آیا پس یہ حقیقت کلمہ کی ہے.(نور القرآن نمبر ۲ ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۲۰،۴۱۹) تو حید تب ہی پوری ہوتی ہے کہ کل مرادوں کا معطی اور تمام امراض کا چارہ اور مداوا وہی ذات واحد ہو.لا اله الا اللہ کے معنی یہی ہیں.صوفیوں نے اس میں الہ کے لفظ سے محبوب، مقصود، معبود مراد لی ہے.الحکم جلد ۳ نمبر ۱۳ مورخه ۱/۱۲اپریل ۱۸۹۹ء صفحہ ۷ ) قرآن شریف کی تعلیم کا اصل مقصد اور مدعا یہی ہے کہ خدا تعالیٰ جیسا وحدہ لاشریک ہے، ایسا ہی محبت کی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۴ سورة محمد رُو سے بھی اس کو وحدہ لاشریک یقین کیا جاوے اور کل انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کا اصل منشاء ہمیشہ یہی رہا ہے.چنانچہ لا إله إلا الله جیسے ایک طرف توحید کی تعلیم دیتا ہے ساتھ ہی توحید کی تکمیل محبت کی ہدایت بھی کرتا ہے اور جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے.یہ ایک ایسا پیارا اور پر معنی جملہ ہے کہ اس کی مانند ساری تورات اور انجیل میں نہیں اور نہ دنیا کی کسی اور کتاب نے کامل تعلیم دی ہے.الہ کے معنی ہیں ایسا محبوب اور معشوق جس کی پرستش کی جاوے.گویا اسلام کی یہ اصل محبت کے مفہوم کو پورے اور کامل طور پر ادا کرتی ہے.یاد رکھو کہ جو تو حید بدوں محبت کے ہو وہ ناقص اور ادھوری ہے.(الحکم جلد ۶ نمبر ۱۹ مورخه ۲۴ مئی ۱۹۰۲ صفحه ۵) توحید کے مراتب ہوتے ہیں.بغیر ان کے توحید کی حقیقت معلوم نہیں ہوتی.نرالا إله إلا الله ہی کہہ دینا کافی نہیں.یہ تو شیطان بھی کہہ دیتا ہے.جب تک عملی طور پر لا اله إلا الله کی حقیقت انسان کے وجود میں متحقق نہ ہو.کچھ نہیں.یہودیوں میں یہ بات کہاں ہے؟ آپ ہی بتادیں.توحید کا ابتدائی مرحلہ اور مقام تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قول کے خلاف کوئی امر انسان سے سرزد نہ ہو.اور کوئی فعل اس کا اللہ تعالیٰ کی محبت کے منافی نہ ہو.گو یا اللہ تعالیٰ ہی کی محبت اور اطاعت میں محو اور فنا ہو جاوے.اسی واسطے اس کے معنے یہ ہیں لا مَعْبُودَ لِي وَلَا مَحْبُوبَ لِي وَ لَا مُطَاعَ لِي إِلَّا الله یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی میرا معبود ہے اور نہ کوئی محبوب ہے اور نہ کوئی واجب الاطاعت ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۴۰ مورخہ ۱۷ رنومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۷) کلمہ جو ہم ہر روز پڑھتے ہیں اس کے کیا معنے ہیں؟ کلمہ کے یہ معنے ہیں کہ انسان زبان سے اقرار کرتا ہے اور دل سے تصدیق کہ میرا معبود، محبوب اور مقصود خدا تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں.الہ کا لفظ محبوب اور اصل مقصود اور معبود کے لئے آتا ہے.یہ کلمہ قرآن شریف کی ساری تعلیم کا خلاصہ ہے جو مسلمانوں کو سکھایا گیا ہے.چونکہ ایک بڑی اور مبسوط کتاب کا یاد کرنا آسان نہیں.اس لیے یہ کلمہ سکھا دیا گیا تا کہ ہر وقت انسان اسلامی تعلیم کے مغز کو مدنظر رکھے اور جب تک یہ حقیقت انسان کے اندر پیدا نہ ہو جاوے.بیچ یہی ہے کہ نجات نہیں.اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَدَخَلَ الْجَنَّةَ يعنى جس نے صدق دل سے لا الہ الا الله کو مان لیا وہ جنت میں داخل ہو گیا.لوگ دھو کہ کھاتے ہیں.اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ طوطے کی طرح لفظ کہہ دینے سے انسان جنت میں داخل ہو جاتا ہے.اگر اتنی ہی حقیقت اس کے اندر ہوتی تو پھر سب اعمال بے کار اور نکھے ہو جاتے اور شریعت (معاذ اللہ ) لغو ٹھہرتی نہیں ! بلکہ اس کی حقیقت یہ ہے کہ وہ مفہوم جو اس میں رکھا گیا ہے وہ عملی رنگ میں انسان کے دل میں داخل ہو جاوے.جب
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۵ سورة محمد یہ بات پیدا ہو جاتی ہے تو ایسا انسان فی الحقیقت جنت میں داخل ہو جاتا ہے نہ صرف مرنے کے بعد بلکہ اسی زندگی میں وہ جنت میں ہوتا ہے.یہ سچی بات ہے اور جلد سمجھ میں آجاتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے سوا انسان کا کوئی محبوب اور مقصود نہ رہے تو پھر کوئی دُکھ یا تکلیف اُسے ستاہی نہیں سکتی.یہ وہ مقام ہے جو ابدال اور قطبوں کو ملتا ہے.آپ یہ خیال نہ کریں کہ ہم کب جوں کی پرستش کرتے ہیں.ہم بھی تو اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرتے ہیں.یادرکھو یہ تو ادنی درجہ کی بات ہے کہ انسان بتوں کی پرستش نہ کرے.ہندو لوگ جن کو حقائق کی کوئی خبر نہیں اب بتوں کی پرستش چھوڑ رہے ہیں.معبود کا مفہوم اسی حد تک نہیں کہ انسان پرستی یا بت پرستی تک ہو اور بھی معبود ہیں اور یہی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ ہوائے نفس اور ہوس بھی معبود ہیں جو شخص نفس پرستی کرتا ہے یا اپنی ہوا و ہوس کی اطاعت کر رہا ہے اور اس کے لئے مر رہا ہے وہ بھی بت پرست اور مشرک ہے.یہ لافی جنس ہی نہیں کرتا بلکہ ہر قسم کے معبودوں کی نفی کرتا ہے خواہ وہ انفسی ہوں یا آفاقی.خواہ وہ دل میں چھپے ہوئے بت ہیں یا ظاہری بت ہیں.مثلاً ایک شخص بالکل اسباب ہی پر توکل کرتا ہے تو یہ بھی ایک قسم کا بت ہے.اس قسم کی بت پرستی تپ دق کی طرح ہوتی ہے جو اندر ہی اندر ہلاک کر دیتا ہے.موٹی قسم کے بت تو جھٹ پٹ پہچانے جاتے ہیں اور اُن سے مخلصی حاصل کرنا بھی سہل ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ لاکھوں ہزاروں انسان اُن سے الگ ہو گئے اور ہور ہے ہیں.یہ ملک جو ہندوؤں سے بھرا ہوا تھا کیا سب مسلمان ان میں سے ہی نہیں ہوئے ؟ پھر انہوں نے بت پرستی کو چھوڑا یا نہیں؟ اور خود ہندوؤں میں بھی ایسے فرقے نکلتے آتے ہیں جواب بت پرستی نہیں کرتے.لیکن یہاں تک ہی بت پرستی کا مفہوم نہیں ہے.یہ تو سچ ہے کہ موٹی بت پرستی چھوڑ دی ہے مگر ابھی تو ہزاروں بت انسان بغل میں لیے پھرتا ہے اور وہ لوگ بھی جو فلسفی اور منطقی کہلاتے ہیں.وہ بھی ان کو اندر سے نہیں نکال سکتے.اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے سوا یہ کیڑے اندر سے نکل نہیں سکتے یہ بہت ہی بار یک کیڑے ہیں اور سب سے زیادہ ضرر اور نقصان ان کا ہی ہے.جو لوگ جذبات نفسانی سے متاثر ہو کر اللہ تعالیٰ کے حقوق اور حدود سے باہر ہو جاتے ہیں اور اس طرح پر حقوق العباد کو بھی تلف کرتے ہیں وہ ایسے نہیں کہ پڑھے لکھے نہیں بلکہ ان میں ہزاروں کو مولوی فاضل اور عالم پاؤ گے اور بہت ہوں گے جو فقیہہ اور صوفی کہلاتے ہوں گے مگر باوجود ان باتوں کے وہ بھی ان امراض میں مبتلا نکلیں گے ان بتوں سے پر ہیز کرنا ہی تو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۶ سورة محمد بہادری ہے اور اُن کو شناخت کرنا ہی کمال دانائی اور دانشمندی ہے.یہی بت ہیں جن کی وجہ سے آپس میں نفاق پڑتا ہے اور ہزاروں گشت وخون ہو جاتے ہیں.ایک بھائی دوسرے کا حق مارتا ہے اور اسی طرح ہزاروں ہزار بدیاں اُن کے سبب سے ہوتی ہیں.ہر روز اور ہر آن ہوتی ہیں اور اسباب پر اس قدر بھروسہ کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کو محض ایک عضو معطل قرار دے رکھا ہے.بہت ہی کم لوگ ہیں جنہوں نے توحید کے اصل مفہوم کو سمجھا ہے.اور اگر انہیں کہا جاوے تو جھٹ کہہ دیتے ہیں کیا ہم مسلمان نہیں اور کلمہ نہیں پڑھتے ؟ مگر افسوس تو یہ ہے کہ انہوں نے اتنا ہی سمجھ لیا ہے کہ بس کلمہ منہ سے پڑھ دیا اور یہ کافی ہے.میں یقینا کہتا ہوں کہ اگر انسان کلمہ طیبہ کی حقیقت سے واقف ہو جاوے اور عملی طور پر اس پر کاربند ہو جاوے تو وہ بہت بڑی ترقی کر سکتا ہے اور خدا تعالیٰ کی عجیب در عجیب قدرتوں کا مشاہدہ کر سکتا ہے.یہ امر خوب سمجھ لو کہ میں جو اس مقام پر کھڑا ہوں.میں معمولی واعظ کی حیثیت سے نہیں کھڑا ہوں اور کوئی کہانی عنانے کے لئے نہیں کھڑا ہوں بلکہ میں تو ادائے شہادت کے لئے کھڑا ہوں میں نے وہ پیغام جو اللہ تعالیٰ نے مجھے دیا ہے، پہنچا دینا ہے.اس امر کی مجھے پروا نہیں کہ کوئی اُسے سنتا ہے یا نہیں سنتا اور مانتا ہے یا نہیں مانتا.اس کا جواب تم خود دو گے.میں نے فرض ادا کرنا ہے.میں جانتا ہوں بہت سے لوگ میری جماعت میں داخل تو ہیں اور وہ توحید کا اقرار بھی کرتے ہیں مگر میں افسوس سے کہتا ہوں کہ وہ مانتے نہیں.جو شخص اپنے بھائی کا حق مارتا ہے یا خیانت کرتا ہے یا دوسری قسم کی بدیوں سے باز نہیں آتا.میں یقین نہیں کرتا کہ وہ توحید کا ماننے والا ہے کیونکہ یہ ایک ایسی نعمت ہے کہ اس کو پاتے ہی انسان میں ایک خارق عادت تبدیلی ہو جاتی ہے.اس میں بغض ، کینہ ، حسد، ریا وغیرہ کے بت نہیں رہتے اور خدا تعالیٰ سے اس کا قرب ہوتا ہے.یہ تبدیلی اسی وقت ہوتی ہے اور اسی وقت وہ سچا موحد بنتا ہے.جب یہ اندرونی بت تکبر ، خود پسندی، ریا کاری، کینه و عداوت ، حسد و بخل، نفاق و بدعہدی وغیرہ کے دور ہو جاویں.جب تک یہ بہت اندر ہی ہیں.اس وقت تک لا إله الا اللہ کہنے میں کیوں کر سچا ٹھیر سکتا ہے؟ کیونکہ اس میں تو کل کی نفی مقصود ہے پس یہ پکی بات ہے کہ صرف منہ سے کہہ دینا کہ خدا کو وحدہ لاشریک مانتا ہوں کوئی نفع نہیں دے سکتا.ابھی منہ سے کلمہ پڑھتا ہے اور ابھی کوئی امر ذرا مخالف مزاج ہوا اور غصہ اور غضب کو خدا بنالیا.میں بار بار کہتا ہوں کہ اس امر کو ہمیشہ یادرکھنا چاہیے کہ جب تک یہ مخفی معبود موجود ہوں ہر گز توقع نہ کرو کہ تم اس مقام کو حاصل کر لو گے جو ایک بچے موحد کو ملتا ہے جیسے جب تک چوہے زمین میں ہیں مت خیال کرو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۷ سورة محمد کہ طاعون سے محفوظ ہو.اسی طرح پر جب تک یہ چوہے اندر ہیں اس وقت تک ایمان خطرہ میں ہے.جو کچھ میں کہتا ہوں اس کو خوب غور سے سنو اور اس پر عمل کرنے کے لئے قدم اُٹھاؤ.میں نہیں جانتا کہ اس مجمع میں جولوگ موجود ہیں آئندہ ان میں سے کون ہوگا اور کون نہیں.یہی وجہ ہے کہ میں نے تکلیف اُٹھا کر اس وقت کچھ کہنا ضروری سمجھا ہے تا میں اپنا فرض ادا کر دوں.پس کلمہ کے متعلق خلاصہ تقریر کا یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی تمہارا معبود اور محبوب اور مقصود ہو.اور یہ مقام اسی وقت ملے گا جب ہر قسم کی اندرونی بدیوں سے پاک ہو جاؤ گے اور اُن کو جو تمہارے دل میں ہیں نکال دو الحاکم جلد ۱۱ نمبر ۲ مورخه ۱۷ار جنوری ۱۹۰۷ صفحه ۳ تا ۵ ) اللہ تعالیٰ حکیم ہے اس نے ایک مختصر سا کلمہ سنا دیا ہے.اس کے معنے یہ ہیں کہ جب تک خدا کو مقدم نہ کیا گے.جاوے.جب تک خدا کو معبود نہ بنایا جاوے.جب تک خدا کو مقصود نہ ٹھہرایا جاوے انسان کو نجات حاصل البدر جلد ۶ نمبر ۱، ۲ مورخہ ۱۰ جنوری ۱۹۰۷ ء صفحہ ۱۱) نہیں ہو سکتی.خدا تعالیٰ الفاظ سے تعلق نہیں رکھتا وہ دلوں سے تعلق رکھتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ درحقیقت اس کلمہ کے مفہوم کو اپنے دل میں داخل کر لیتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی عظمت پورے رنگ کے ساتھ اُن کے دلوں میں بیٹھ جاتی ہے وہ جنت میں داخل ہو جاتے ہیں.جب کوئی شخص بچے طور پر کلمہ کا قائل ہو جاتا ہے تو بجز خدا کے اور کوئی اس کا پیارا نہیں رہتا.بجز خدا کے کوئی اس کا معبود نہیں رہتا اور بجز خدا کے کوئی اس کا مطلوب باقی نہیں رہتا.وہ مقام جو ابدال کا مقام ہے اور وہ جو قطب کا مقام ہے اور وہ جو غوث کا مقام ہے وہ یہی ہے کہ کلمہ لا إِلهَ إِلَّا اللہ پر دل سے ایمان ہو اور اس کے سچے مفہوم پر عمل ہو.خدا کے واحد ماننے کے ساتھ یہ لازم ہے کہ اس کی مخلوق کی حق تلفی نہ کی جاوے جو شخص اپنے بھائی کا حق تلف کرتا ہے اور اس کی خیانت کرتا ہے وہ لا إلهَ إِلَّا اللہ کا قائل نہیں.البدر جلد ۶ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۱۰ جنوری ۱۹۰۷ء صفحه ۱۱) البدر جلد ۶ نمبر ۱، ۲ مورخه ۱۰ار جنوری ۱۹۰۷ صفحه ۱۲) نبیوں کے استغفار کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ خدا کے فضل کا ہاتھ اُن پر رہے ورنہ اگر انسان اپنے نفس پر چھوڑا جاوے تو وہ ہرگز معصوم اور محفوظ نہیں ہوسکتا اللهُم بَاعِدُ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ اور دوسری دعائیں بھی استغفار کے اس مطلب کو بتلاتی ہیں.عبودیت کا ستر یہی ہے کہ انسان خدا کی پناہ کے نیچے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۸ سورة محمد اپنے آپ کو لے آوے.جو خدا کی پناہ نہیں چاہتا ہے وہ مغرور اور متکبر ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۲۳ مورخه ۲۶ / جون ۱۹۰۳ء صفحه ۱۷۸) انبیاء علیہم السلام کے جگلہ کرنے سے بھی انسان کا فر ہو جاتا ہے چونکہ وہ ان تعلقات سے محض نا آشنا ہوتا ہے جو انبیاء ورسل اور اللہ تعالی میں ہوتے ہیں اس لیے کسی ایسے امر کو جو ہماری سمجھ اور دانش سے بالا تر اور بالا تر ہے اپنی عقل کے پیمانہ سے نا پنا صریح حماقت ہے مثلاً آدم علیہ السلام کا گلہ کرنے لگے کہ انہوں نے درخت ممنوع کا پھل کھایا یا عبس وتوٹی کو لے بیٹھے ایسی حرکت آداب الرسل کے خلاف ہے اور کفر کی حد تک پہنچا دیتی ہے چونکہ خدا تعالیٰ ان کا محبوب ہوتا ہے بعض اوقات وہ کسی بات پر گو یا روٹھ جاتا ہے وہ باتیں عام قانون جرائم وذنوب سے الگ ہوتی ہیں.۳۰ سال کے قریب کا عرصہ ہوتا ہے کہ ایک مقرب فرشتہ کو میں نے دیکھا جس نے مجھے ایک توت کی چھڑی ماری پھر میں نے اس کو دیکھا کہ کرسی پر بیٹھ کر رونے لگا یہ ایک نسبت بتائی ہے کہ جیسے بعض اوقات والدہ بچہ کو مارتی ہے پھر رقت سے خود ہی رونے لگتی ہے یہ ایک لطیف استعارہ ہے جو مجھ پر ظاہر کیا گیا ہے.میری سمجھ میں بھی نہیں آتا کہ ان تعلقات کو جو انبیاء ورسل اور اللہ تعالیٰ میں ہوتے ہیں کس طرح ظاہر کیا جاوے یہ تعلقات ایسے شدید اور گہرے ہوتے ہیں کہ بجز کامل الایمان ہونے اور اس کو چہ سے آشنا ہونے کے ان کی سمجھ آہی نہیں سکتی اس لیے صوفیوں نے لکھا ہے کہ ان کے افعال اور اعمال عام قانون جرائم و ذنوب سے الگ ہوتے ہیں ان کو اس ضمن ذنوب میں ذکر کرنا بھی سلب ایمان کا موجب ہو جاتا ہے.کیونکہ ان کا حساب تعلقات کا ہے ذنب محمدی کی حقیقت کو کوئی کیا سمجھ سکتا ہے عام طور پر عاشق و معشوق کے تعلقات کو کوئی نہیں سمجھ سکتا اور یہ تعلقات تو اس سے بھی لطیف تر ہیں.احمق حقیقت سے نا آشنا استغفار کے لفظ پر اعتراض کرتے ہیں ان کو معلوم نہیں کہ جس قدر یہ لفظ پیارا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اندرونی پاکیزگی پر دلیل ہے وہ ہمارے وہم و گمان سے بھی پرے ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ عاشق رضا ہیں اور اس میں بڑی بلند پروازی کے ساتھ ترقیات کر رہے ہیں جب اللہ تعالیٰ کے احسانات کا تصور کرتے ہیں اور اظہار شکر سے قاصر پا کر تدارک کرتے ہیں.یہ کیفیت ہم کس طرح ان عقل کے اندھوں اور مجذوم القلب لوگوں کو سمجھائیں ان پر وارد ہو تو وہ سمجھیں جب ایسی حالت ہوتی ہے احسانات الہیہ کی کثرت آکر اپنا غلبہ کرتی ہے تو روح محبت سے پر ہو جاتی ہے اور وہ اچھل اچھل کر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۲۹ سورة محمد استغفار کے ذریعہ اپنے قصور شکر کا تدارک کرتی ہے یہ لوگ خشک منطق کی طرح اتنا ہی نہیں چاہتے کہ وہ قومی جن سے کوئی کمزوری یا غفلت صادر ہو سکتی ہے وہ ظاہر نہ ہوں نہیں وہ ان قومی پر تو فتح حاصل کئے ہوئے ہوتے ہیں وہ تو اللہ تعالیٰ کے احسانات کا تصور کر کے استغفار کرتے ہیں کہ شکر نہیں کر سکتے یہ ایک لطیف اور اعلیٰ مقام ہے جس کی حقیقت سے دوسرے لوگ نا آشنا ہیں اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے حیوانات گدھے وغیرہ انسانیت کی حقیقت سے بے خبر اور نا واقف ہیں اسی طرح پر انبیاء ورسل کے تعلقات اور ان کے مقام کی حقیقت سے دوسرے لوگ کیا اطلاع رکھ سکتے ہیں یہ بڑے ہی لطیف ہوتے ہیں اور جس جس قدر محبت ذاتی بڑھتی جاتی ہے اس قدر یہ اور بھی لطیف ہوتے جاتے ہیں دیکھو حضرت یوسف نے صرف یہی کہا تھا کہ تم بادشاہ سے میرا ذکر بھی کرنا صرف اتنی بات پر ایک عرصہ تک زندان میں رہنا پڑا حالانکہ عام نظر میں یہ ایک معمولی سی بات ہو سکتی ہے مگر نہیں یہ ان تعلقات محبت کے منافی تھی.غرض یہ ایک لطیف سر ہے جس پر ہر ایک مطلع نہیں ہوسکتا.یہی ایک مقام ہے جس کی طلب ہر ایک کو کرنی چاہیئے.بر کریما کا رہا دشوار نیست الحکم جلد ۸ نمبر ۱۴، ۱۵ صفحه ۱، ۲ مورخه ۱٫۳۰ پریل و ۰ ارمئی ۱۹۰۴ صفحه ۲) کسی پادری کا یہ سوال پیش ہوا کہ حضرت نوح علیہ السلام نے خلاف منشاء ایزدی اپنے بیٹے کے لئے دُعا کی اس لئے وہ گنہ گار ہوئے.تو فرمایا ) کیا وجہ ہے کہ اس نے مسیح کا ذکر نہ کیا کہ ایک انجیر کے درخت کی طرف گیا اور جانتا تھا کہ اس میں پھل نہیں ہے پھر وہ جانتا تھا کہ صلیب ملتی ہے اور دعائیں کرتا رہا کہ مجھے نجات ملے.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے ثبوت میں فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُم عمرا کی دلیل پیش کرتے ہیں اس کے مقابلہ کا ایک فقرہ بھی انجیل میں نہیں ہے اور پیغمبر خدا کی تمام عمر کا یہ حوالہ ہے کہ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُبُرا.استغفار کے اصل معنے تو یہ ہیں کہ یہ خواہش کرنا کہ مجھ سے کوئی گناہ نہ ہو یعنی میں معصوم رہوں اور دوسرے معنے جو اس سے نیچے درجے پر ہیں کہ میرے گناہ کے بدنتائج جو مجھے ملنے ہیں میں ان سے محفوظ رہوں.البدر جلد نمبر ا مورخه ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحه ۷) نبی کیوں معصوم ہوتے ہیں؟ تو اس کا یہی جواب ہے کہ وہ استغراق محبت الہی کے باعث معصوم ہوتے ہیں.ٹریکٹ نمبر البعنوان "حضرت اقدس کی ایک تقریر اور مسئلہ وحدۃ الوجود پر ایک خط صفحہ ۱۴ مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۰ سورة محمد عصمت کا مفہوم صرف اس حد تک ہے کہ انسان گناہ سے بچے اور گنہ کی تعریف یہ ہے کہ انسان خدا کے حکم کو عمداً تو ڑ کر لائق سز اکھہرے....تعریف مذکورہ بالا کے رُو سے نابالغ بچے اور پیدائشی مجنون بھی معصوم ہیں وجہ یہ ہے کہ وہ اس لائق نہیں ہیں کہ کوئی گناہ عمداً کریں اور نہ خدا تعالیٰ کے نزدیک کسی فعل کے ارتکاب سے قابل سز ا ٹھہرتے ہیں.پس بلا شبہ وہ حق رکھتے ہیں کہ ان کو معصوم کہا جائے.( عصمت انبیاء علیہم السلام، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۶۶۱، ۶۶۲) استغفار کے حقیقی اور اصلی معنے یہ ہیں کہ خدا سے درخواست کرنا کہ بشریت کی کوئی کمزوری ظاہر نہ ہو اور خدا فطرت کو اپنی طاقت کا سہارا دے اور اپنی حمایت اور نصرت کے حلقہ کے اندر لے لے یہ لفظ غفر سے لیا گیا ہے جو ڈھانکنے کو کہتے ہیں سو اس کے یہ معنے ہیں کہ خدا اپنی قوت کے ساتھ شخص مستغفر کی فطرتی کمزوری کو ڈھانک لے لیکن بعد اس کے عام لوگوں کے لئے اس لفظ کے معنے اور بھی وسیع کئے گئے اور یہ بھی مراد لیا گیا کہ خدا گناہ کو جو صادر ہو چکا ہے ڈھانک لے.لیکن اصل اور حقیقی معنی یہی ہیں کہ خدا اپنی خدائی کی طاقت کے ساتھ مستغفر کو جو استغفار کرتا ہے فطرتی کمزوری سے بچاوے اور اپنی طاقت سے طاقت بخشے اور اپنے علم سے علم عطا کرے اور اپنی روشنی سے روشنی دے کیونکہ خدا انسان کو پیدا کر کے اس سے الگ نہیں ہوا بلکہ وہ جیسا کہ انسان کا خالق ہے اور اس کے تمام قومی اندرونی اور بیرونی کا پیدا کرنے والا ہے ویسا ہی وہ انسان کا قیوم بھی ہے یعنی جو کچھ بنایا ہے اس کو خاص اپنے سہارے سے محفوظ رکھنے والا ہے پس جبکہ خدا کا نام قیوم بھی ہے یعنی اپنے سہارے سے مخلوق کو قائم رکھنے والا اس لئے انسان کے لئے لازم ہے کہ جیسا کہ وہ خدا کی خالقیت سے پیدا ہوا ہے ایسا ہی وہ اپنی پیدائش کے نقش کو خدا کی قیومیت کے ذریعہ سے بگڑنے سے بچاوے کیونکہ خدا کی خالقیت نے انسان پر یہ احسان کیا کہ اس کو خدا کی صورت پر بنایا.پس اسی طرح خدا کی قیومیت نے تقاضا کیا کہ وہ اس پاک نقش انسانی کو جو خدا کے دونوں ہاتھوں سے بنایا گیا ہے پلید اور خراب نہ ہونے دے لہذا انسان کو تعلیم دی گئی کہ وہ استغفار کے ذریعہ سے اُس کی قیومیت سے قوت طلب کرے پس اگر دنیا میں گناہ کا وجود بھی نہ ہوتا تب بھی استغفار ہوتا کیونکہ دراصل استغفار اس لئے ہے کہ جو خدا کی خالقیت نے بشریت کی عمارت بنائی ہے وہ عمارت مسمار نہ ہو اور قائم رہے اور بغیر خدا کے سہارے کے کسی چیز کا قائم رہنا ممکن نہیں.پس انسان کے لئے یہ ایک طبعی ضرورت تھی جس کے لئے استغفار کی ہدایت ہے اسی کی طرف
۲۳۱ درووو سورة محمد تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآن شریف میں یہ اشارہ فرمایا گیا ہے الله لا إله إلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ (البقرة : ۲۵۶) یعنی خدا ہی ہے جو قابل پرستش ہے کیونکہ وہی زندہ کرنے والا ہے اور اسی کے سہارے سے انسان زندہ رہ سکتا ہے.یعنی انسان کا ظہور ایک خالق کو چاہتا تھا اور ایک قیوم کو تا خالق اس کو پیدا کرے اور قیوم اس کو بگڑنے سے محفوظ رکھے سو وہ خدا خالق بھی ہے اور قیوم بھی.اور جب انسان پیدا ہو گیا تو خالقیت کا کام تو پورا ہو گیا مگر قیومیت کا کام ہمیشہ کے لئے ہے اسی لئے دائمی استغفار کی ضرورت پیش آئی غرض خدا کی ہر ایک صفت کے لئے ایک فیض ہے اور استغفار صفت قیومیت کا فیض حاصل کرنے کے لئے ہے اسی کی طرف اشارہ سورۃ فاتحہ کی اس آیت میں ہے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحة : ٥) یعنی ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی اس بات کی مدد چاہتے ہیں کہ تیری قیومیت اور ربوبیت ہمیں مدد دے اور ہمیں ٹھوکر سے بچاوے تا ایسا نہ ہو کہ کمزوری ظہور میں آوے اور ہم عبادت نہ کر سکیں.اس تمام تفصیل سے ظاہر ہے کہ استغفار کی درخواست کے اصل معنی یہی ہیں کہ وہ اس لئے نہیں ہوتی کہ کوئی حق فوت ہو گیا ہے بلکہ اس خواہش سے ہوتی ہے کہ کوئی حق فوت نہ ہو اور انسانی فطرت اپنے تئیں کمزور دیکھ کر طبعاً خدا سے طاقت طلب کرتی ہے جیسا کہ بچہ ماں سے دودھ طلب کرتا ہے پس جیسا کہ خدا نے ابتدا سے انسان کو زبان آنکھ دل کان وغیرہ عطا کئے ہیں ایسا ہی استغفار کی خواہش بھی ابتدا سے ہی عطا کی ہے اور اس کو محسوس کرایا ہے کہ وہ اپنے وجود کے ساتھ خدا سے مدد پانے کا محتاج ہے اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے وَاسْتَغْفِرْ لِذَتَباكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنتِ یعنی خدا سے درخواست کر کہ تیری فطرت کو بشریت کی کمزوری سے محفوظ رکھے اور اپنی طرف سے فطرت کو ایسی قوت دے کہ وہ کمزوری ظاہر نہ ہونے پاوے اور ایسا ہی اُن مردوں اور اُن عورتوں کے لئے جو تیرے پر ایمان لاتے ہیں بطور شفاعت کے دعا کرتارہ کہ تا جو فطرتی کمزوری سے ان سے خطائیں ہوتی ہیں ان کی سزا سے وہ محفوظ رہیں اور آئندہ زندگی ان کی گناہوں سے بھی محفوظ ہو جائے یہ آیت معصومیت اور شفاعت کے اعلیٰ درجہ کی فلاسفی پر مشتمل ہے اور یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ انسان اعلیٰ درجہ کے مقام عصمت پر اور مرتبہ شفاعت پر تبھی پہنچ سکتا ہے کہ جب اپنی کمزوری کے روکنے کے لئے اور نیز دوسروں کو گناہ کے زہر سے نجات دینے کے لئے ہر دم اور ہر آن دعا مانگتا رہتا ہے اور تضرعات سے خدا تعالیٰ کی طاقت کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور پھر چاہتا ہے کہ اس طاقت سے دوسروں کو بھی حصہ ملے جو بوسیلہ ایمان اس سے پیوند کرتے ہیں.معصوم انسان کو خدا سے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۲ سورة محمد طاقت طلب کرنے کی اس لئے ضرورت ہے کہ انسانی فطرت اپنی ذات میں تو کوئی کمال نہیں رکھتی بلکہ ہر دم خدا سے کمال پاتی ہے اور اپنی ذات میں کوئی قوت نہیں رکھتی بلکہ ہر دم خدا سے قوت پاتی ہے اور اپنی ذات میں کوئی کامل روشنی نہیں رکھتی بلکہ خدا سے اُس پر روشنی اترتی ہے.اس میں اصل راز یہ ہے کہ کامل فطرت کو صرف ایک کشش دی جاتی ہے تا وہ طاقت بالا کو اپنی طرف کھینچ سکے مگر طاقت کا خزانہ محض خدا کی ذات ہے اسی خزانہ سے فرشتے بھی اپنے لئے طاقت کھینچتے ہیں اور ایسا ہی انسان کامل بھی اسی سرچشمہ طاقت سے عبودیت کی نالی کے ذریعہ سے عصمت اور فضل کی طاقت کھینچتا ہے لہذا انسانوں میں سے وہی معصوم کامل ہے جو استغفار سے الہی طاقت کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اس کشش کے لئے تضرع اور خشوع کا ہر دم سلسلہ جاری رکھتا ہے تا اس پر روشنی اترتی رہے اور ایسے دل کو اس گھر سے تشبیہ دے سکتے ہیں جس کے شرق اور غرب اور ہر ایک طرف سے تمام دروازے آفتاب کے سامنے ہیں پس ہر وقت آفتاب کی روشنی اس میں پڑتی ہے لیکن جو شخص خدا سے طاقت نہیں مانگتا وہ اس کوٹھڑی کی مانند ہے جس کے چاروں طرف سے دروازے بند ہیں اور جس میں ایک ذرہ روشنی نہیں پڑ سکتی.پس استغفار کیا چیز ہے یہ اس آلہ کی مانند ہے جس کی راہ سے طاقت اترتی ہے تمام را ز تو حید اسی اصول سے وابستہ ہے کہ صفت عصمت کو انسان کی ایک مستقل جائیداد قرار نہ دیا جائے بلکہ اس کے حصول کے لئے محض خدا کو سر چشمہ سمجھا جائے.ذات باری تعالیٰ کو تمثیل کے طور پر دل سے مشابہت ہے جس میں مصفی خون کا ذخیرہ جمع رہتا ہے اور انسان کامل کا استغفار ان شرائین اور عروق کی مانند ہے جو دل کے ساتھ پیوستہ ہیں اور خون صافی اس میں سے کھینچتی ہیں اور تمام اعضا پر تقسیم کرتی ہیں جو خون کے محتاج ہیں.یہ کہنا بالکل غلطی ہے کہ آیت وَاسْتَغْفِرْ لِذتبت میں ذنب کا لفظ موجود ہے جو گناہ کو کہتے ہیں کیونکہ ذنب اور جرم میں فرق ہے جرم کا لفظ تو ہمیشہ اس گناہ کے لئے آتا ہے جو سزا کے لائق ہوتا ہے مگر ڈنب کا لفظ بشریت کی کمزوری کے لئے بھی آجاتا ہے اسی لئے نبیوں پر انسانی کمزوری کی وجہ سے ڈنب کا لفظ اطلاق پایا ہے مگر جرم کا لفظ اطلاق نہیں پایا اور خدا کی کتاب میں کسی نبی کو مجرم کے لفظ سے نہیں پکارا گیا اور نیز خدا کی کتاب میں یعنی قرآن شریف میں مجرم کے لئے تو جہنم کی وعید ہے یعنی خدا کی طرف سے عہد ہے کہ وہ جہنم میں ڈالا جائے گا مگر مذہب کے لئے کوئی وعید نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ يَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَان لَهُ جَهَنَّمَ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَخيلى ( طه : ۷۵) یعنی جو شخص خدا کے پاس مجرم ہو کر آئے گا.اس کی سزا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۳ سورة محمد جہنم ہے نہ اس میں وہ مرے گا اور نہ زندہ رہے گا.سو اس جگہ خدا نے مُجر ما کہا مُذيبا نہیں کہا کیونکہ بعض صورتوں میں معصوم کو بھی مذہب کہہ سکتے ہیں مگر مجرم نہیں کہہ سکتے اس پر ایک اور دلیل ہے اور وہ یہ ہے کہ سورة آل عمران میں یہ آیت ہے وَإِذْ اَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا أتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَب وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقُ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَ لَتَنْصُرُنَّهُ قَالَ ءَ اَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ اِصْرِى قَالُوا اَقْرَرْنَا (ال عمران : ۸۲) اس آیت سے بنص صریح ثابت ہوا کہ تمام انبیاء جن میں حضرت میسیج بھی شامل ہیں مامور تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاویں اور انہوں نے اقرار کیا کہ ہم ایمان لائے اور پھر جب آیت واسْتَغْفِرُ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنتِ کو اس آیت کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے اور ذنب سے مراد نعوذ باللہ جرم لیا جائے تو حضرت عیسیٰ بھی اس آیت کی رو سے مجرم ٹھہریں گے کیونکہ وہ بھی اس آیت کی رو سے ان مومنین میں داخل ہیں جو آنحضرت پر ایمان لائے پس بلا شبہ وہ بھی مذہب ٹھیرے.یہ مقام عیسائیوں کو غور سے دیکھنا چاہئے.پس ان آیات سے بوضاحت تمام ثابت ہوا کہ اس جگہ ذنب بمعنی جرم نہیں ہے بلکہ انسانی کمزوری کا نام ذنب ہے جو قابل الزام نہیں.اور مخلوق کی فطرت کے لئے ضروری ہے کہ یہ کمزوری اس میں موجود ہو اور کمزوری کا نام اس لئے ذنب رکھا ہے کہ انسان کی فطرت میں طبعاً یہ قصور اور کمی واقع ہے تا وہ ہر وقت خدا کا محتاج رہے اور تا اس کمزوری کے دبانے کے لئے ہر وقت خدا سے طاقت مانگتا رہے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ بشری کمزوری ایک ایسی چیز ہے کہ اگر خدا کی طاقت اس کے ساتھ شامل نہ ہو تو نتیجہ اس کا بجز ذنب کے اور کچھ نہیں پس جو چیز موصل إلى الذنب ہے بطور استعارہ اس کا نام ذنب رکھا گیا اور یہ محاورہ شائع متعارف ہے کہ جو اعراض بعض امراض کو پیدا کرتے ہیں کبھی انہیں اعراض کا نام امراض رکھ دیتے ہیں پس کمزوری فطرت بھی ایک مرض ہے جس کا علاج استغفار ہے.غرض خدا کی کتاب نے بشریت کی کمزوری کو ذنب کے محل پر استعمال کیا ہے اور خود گواہی دی ہے کہ انسان میں فطرتی کمزوری ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے خُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا (النساء :۲۹) یعنی انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے یہی کمزوری ہے کہ اگر الہی طاقت اس کے ساتھ شامل نہ ہوتو انواع اقسام کے گناہوں کا موجب ہو جاتی ہے پس استغفار کی حقیقت یہ ہے کہ ہر وقت اور ہر دم اور ہر آن خدا سے مدد مانگی جائے اور اس سے درخواست کی جائے کہ بشریت کی کمزوری جو بشریت کا ایک ذنب ہے جو اس کے ساتھ لگا ہوا ہے ظاہر نہ ہوسو مداومت استغفار دلیل اس بات پر ہے کہ اس ذنب پر فتح پائی اور وہ ظہور میں نہ آسکا اور خدا کا
۲۳۴ سورة محمد تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نور اترا اور اس کو دبا لیا.اس جگہ یہ بات یادرکھنے کے لائق ہے کہ استغفار کا لفظ غفر سے نکلا ہے اور اس کے اصل معنی دبانے اور ڈھانکنے کے ہیں یعنی یہ درخواست کرنا کہ بشریت کی کمزوری ظاہر ہو کر نقصان نہ پہنچاوے اور وہ ڈھکی رہے کیونکہ بشر چونکہ خدا نہیں ہے اور نہ خدا سے مستغنی ہے اس لئے وہ اس بچہ کی طرح ہے جو ہر قدم میں ماں کا محتاج ہوتا ہے تا وہ اس کو گرنے سے بچاوے اور ٹھوکر سے محفوظ رکھے ایسا ہی یہ بھی ہر قدم میں خدا کا محتاج ہوتا ہے تا وہ اس کو ٹھو کر اور لغزش سے بچاوےسواس علاج کے لئے استغفار ہے.اور کبھی یہ لفظ توسع کے طور پر ان لوگوں پر بھی اطلاق پاتا ہے جو اول کسی گناہ کے مرتکب ہو جاتے ہیں اور اس جگہ استغفار کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ جو گناہ صادر ہو چکا ہے اس کی سزا سے خدا بچاوے لیکن یہ دوسرے معنی خدا کے مقرب لوگوں کے حق میں درست اور روانہیں ہیں وجہ یہ کہ خدا نے تو پہلے سے ان پر ظاہر کیا ہوا ہوتا ہے کہ وہ کوئی سزا نہیں پائیں گے اور جنت کے اعلیٰ مقام ان کو ملیں گے اور خدا کی رحمت کی گود میں وہ بٹھائے جائیں گے اور نہ ایک دفعہ بلکہ صد ہا دفعہ ایسے وعدے ان کو دئے جاتے ہیں اور ان کو بہشت دکھایا جاتا ہے پھر اگر وہ ان معنوں کے رو سے استغفار کریں کہ وہ اپنے گناہوں کے سبب سے دوزخ میں نہ پڑیں تو ایسا استغفار تو خود ان کے لئے ایک گناہ ہو گا کہ وہ خدا کے وعدوں پر یقین نہیں کرتے اور خدا کی رحمت سے اپنے تئیں دور سمجھتے ہیں پھر ایسا شخص جس کے حق میں خدا تعالیٰ یہ فرمادے وَ مَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً للعلمين (الانبياء :١٠٨) یعنی تمام دنیا کے لئے تجھے ہم نے رحمت کر کے بھیجا ہے اور تو رحمت مجسم ہے.وہ اگر اپنی نسبت ہی یہ شک کرے کہ خدا کی رحمت میرے شامل ہوگی یا نہیں تو پھر دوسروں کے لئے کیوں کر رحمت کا باعث ہوگا.یہ تمام قرینے ان لوگوں کے لئے جو انصاف سے سوچتے ہیں صریح اس حقیقت کو کھولتے ہیں جو استغفار کے دوسرے معنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا سخت خطا کاری اور شرارت ہے بلکہ معصوم کے لئے اول علامت یہی ہے کہ وہ سب سے زیادہ استغفار میں مشغول رہے اور ہر آن اور ہر حالت میں بشریت کی کمزوری سے محفوظ رہنے کے لئے خدا تعالیٰ سے طاقت طلب کرتا رہے جس کو دوسرے لفظوں میں استغفار کہتے ہیں کیونکہ اگر ایک بچہ ہر وقت ماں کے ہاتھ کے سہارے سے چلتا ہے اور روانہیں رکھتا کہ ایک سیکنڈ بھی ماں سے دور ہو وہ بچہ بلاشبہ ٹھوکر سے بیچ رہے گا لیکن وہ بچہ جو ماں سے علیحدہ ہو کر چلتا ہے اور خود بخود کبھی کسی خوفناک زینہ پر چڑھتا ہے اور کبھی کسی خوفناک زینہ سے اترتا ہے وہ ضرور ایک دن گرے گا اور اس کا گرنا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۵ سورة محمد سخت ہو گا.پس جس طرح خوش قسمت بچہ کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ اپنی پیاری ماں سے ہرگز علیحدگی اختیار نہ کرے اور ہر گز اس کی گود سے جدا نہ ہو اور اس کے دامن کو نہ چھوڑے یہی عادت ان مبارک مقدسوں کی ہوتی ہے کہ وہ خدا کے آستانہ پر ایسے جا پڑتے ہیں جیسا کہ ماں کی گود میں بچے اور جیسا کہ ایک بچہ اپنا تمام کام اپنی ماں کی طاقت سے نکالتا ہے اور ہر ایک دوسرا بچہ جو اس سے مخالفت کرتا ہے یا کوئی کتا اس کے سامنے آتا ہے یا کوئی اور خوف نمودار ہوتا ہے یا کسی لغزش کی جگہ پر اپنے تئیں پاتا ہے تو فی الفور اپنی ماں کو پکارتا ہے تا وہ جلد تر اس کی طرف دوڑے اور اس آفت سے اس کو بچاوے.یہی حال ان روحانی بچوں کا ہوتا ہے کہ بعینہ اپنے رب کو ماں کی طرح سمجھ کر اس کی طاقتوں کو اپنا ذخیرہ سمجھتے ہیں اور ہر وقت اور ہر دم اس کی طاقتوں کو طلب کرتے رہتے ہیں اور جس طرح شیر خوار بچہ جب بھوک کے وقت اپنا منہ اپنی ماں کے پستان پر رکھ دیتا ہے اور اپنی طبعی کشش سے دودھ کو اپنی طرف کھینچنا چاہتا ہے تو جبھی کہ ماں محسوس کرتی ہے کہ گر یہ اور زاری کے ساتھ اس بچہ کے نرم نرم ہونٹ اس کے پستان پر جالگے ہیں تو طبعاً اس کا دودھ جوش مارتا ہے اور اس بچہ کے منہ میں گرتا جاتا ہے پس یہی قانون ان بچوں کے لئے بھی ہے جو روحانی دودھ کے طالب ( عصمت انبیاء علیہم السلام، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۶۷۱ تا ۶۷۸) اور جو یاں ہیں.اِنَّمَا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهُوَ وَإِنْ تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوايُوتِكُمْ أَجُورَكُمْ وَلَا يَسْلُكُمْ أموالكم دنیا اور دنیا کی خوشیوں کی حقیقت لہو ولعب سے زیادہ نہیں.یا تو وہ عارضی اور چند روزہ ہیں اور ایسی ہی ہیں اور ان خوشیوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان خدا سے دور جا پڑتا ہے.مگر خدا کی معرفت میں جو لذت ہے وہ ایک ایسی چیز ہے کہ جو نہ آنکھوں نے دیکھی اور نہ کانوں نے سنی ، نہ کسی اور جس نے اس کو محسوس کیا ہے.وہ ایک چیر کر نکل جانے والی چیز ہے.ہر آن ایک نئی راحت اس سے پیدا ہوتی ہے جو پہلے نہیں دیکھی ہوتی.خدا تعالیٰ کے ساتھ انسان کا ایک خاص تعلق ہے.اہل عرفان لوگوں نے بشریت اور ربوبیت کے جوڑہ پر بہت لطیف بخشیں کی ہیں.اگر بچے کا منہ پتھر سے لگا ئیں تو کیا کوئی دانشمند خیال کر سکتا ہے کہ اس پتھر میں سے دودھ نکل آئے گا اور بچہ سیر ہو جائے گا.ہر گز نہیں.اسی طرح پر جب تک انسان خدا تعالی کے آستانہ پر نہیں گرتا اس کی روح ہمہ نیستی ہو کر ربوبیت سے تعلق پیدا نہیں کرتی اور نہیں کر سکتی جب تک کہ وہ عدم یا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۶ سورة محمد مشابه بالعدم نہ ہو، کیونکہ ربوبیت اسی کو چاہتی ہے.اس وقت تک وہ روحانی دودھ سے پرورش نہیں پاسکتا.تھو میں کھانے پینے کی تمام لذتیں شامل ہیں.ان کا انجام دیکھو کہ بجز کثافت کے اور کیا ہے.زینت، سواری، عمدہ مکانات پر فخر کرنا یا حکومت و خاندان پر فخر کرنا یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ بالآخر اس سے ایک قسم کی حقارت پیدا ہو جاتی ہے.جو رنج دیتی اور طبیعت کو افسردہ اور بے چین کر دیتی ہے.لغب میں عورتوں کی محبت بھی شامل ہے.انسان عورت کے پاس جاتا ہے مگر تھوڑی دیر کے بعد وہ محبت اور لذت کثافت سے بدل جاتی ہے، لیکن اگر یہ سب کچھ محض اللہ تعالی کے ساتھ ایک حقیقی عشق ہونے کے بعد ہو تو پھر راحت پر راحت اور لذت پر لذت ملتی ہے.یہاں تک کہ معرفت حقہ کے دروازے کھل جاتے ہیں اور وہ ایک ابدی اور غیر فانی راحت میں داخل ہو جاتا ہے جہاں پاکیزگی اور طہارت کے سوا کچھ نہیں.وہ خدا میں لذت ہے، اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اسے ہی پاؤ کہ حقیقی لذت وہی ہے.الحکم جلد ۳ نمبر ۲۲ مورخه ۲۳ جون ۱۸۹۹ء صفحه ۱)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۲۳۷ سورة الفتح بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الفتح بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ إنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِيْنَانُ لِيَغْفِرَ لَكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا ہم نے تجھ کو کھلی کھلی فتح عطا فرمائی ہے یعنی عطا فرمائیں گے اور درمیان میں جو بعض مکروہات وشدائد ہیں وہ اس لئے ہیں تا خدائے تعالیٰ تیرے پہلے اور پچھلے گناہ معاف فرما دے یعنی اگر خدائے تعالیٰ چاہتا تو قادر تھا کہ جو کام منظر ہے وہ بغیر پیش آنے کے کسی نوع کی تکلیف کے اپنے انجام کو پہنچ جاتا اور بآسانی فتح عظیم حاصل ہو جاتی لیکن تکالیف اس جہت سے ہیں کہ تا وہ تکالیف موجب ترقی مراتب و مغفرت خطا یا ہوں.(براہین احمدیہ چہار خصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۱۵ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) حدیبیہ کے قصہ کو خدا تعالیٰ نے فتح مبین کے نام سے موسوم کیا ہے اور فرمایا ہے إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مبینا وہ فتح اکثر صحابہ پر بھی مخفی تھی بلکہ بعض منافقین کے ارتداد کا موجب ہوئی مگر دراصل وہ فتح مبین تھی گو اُس کے مقدمات نظری اور عمیق تھے.(انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد 9 صفحه ۹۰) ہم نے ایک فتح عظیم جو ہماری طرف سے ایک عظیم الشان نشان ہے تجھ کو عطا کی ہے تاہم وہ تمام گناہ جو تیری طرف منسوب کئے جاتے ہیں ان پر اس فتح نمایاں کی نورانی چادر ڈال کر نکتہ چینوں کا خطا کار ہونا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۸ سورة الفتح اربعین نمبر ۴ ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۴۵۱) ثابت کریں.خدا تجھے ایک بڑی اور کھلی کھلی فتح دے گا تا کہ وہ تیرے پہلے گناہ بخشے اور پچھلے گناہ بھی.اس جگہ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ فتح کو گناہ کے بخشنے سے کیا تعلق ہے.بظاہر ان دونوں فقروں کو آپس میں کچھ جوڑ نہیں.لیکن در حقیقت ان دونوں فقروں کا باہم نہایت درجہ کا تعلق ہے.پس تشریح اُس وحی الہی کی یہ ہے کہ اس اندھی دنیا میں جس قدر خدا کے ماموروں اور نبیوں اور رسولوں کی نسبت نکتہ چینیاں ہوتی ہیں اور جس قدر اُن کی شان اور اعمال کی نسبت اعتراض ہوتے ہیں اور بدگمانیاں ہوتی ہیں اور طرح طرح کی باتیں کی جاتی ہیں وہ دنیا میں کسی کی نسبت نہیں ہوتیں اور خدا نے ایسا ہی ارادہ کیا ہے تا اُن کو بد بخت لوگوں کی نظر سے مخفی رکھے اور وہ ان کی نظر میں جائے اعتراض ٹھہر جائیں کیونکہ وہ ایک دولت عظمیٰ ہیں اور دولت عظمی کو نا اہلوں سے پوشیدہ رکھنا بہتر ہے.اسی وجہ سے خدائے تعالیٰ اُن کو جو شقی از لی ہیں اُس برگزیدہ گروہ کی نسبت طرح طرح کے شبہات میں ڈال دیتا ہے تا وہ دولت قبول سے محروم رہ جائیں.یہ سنت اللہ ان لوگوں کی نسبت ہے جو خدائے تعالی کی طرف سے امام اور رسول اور نبی ہو کر آتے ہیں.برا این احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۱ ۲ صفحه ۸۹) ہم نے تجھے کھلی کھلی فتح دی ہے یعنی دیں گے.(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۳۱۰) إنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَنْ تَكَتَ فَإِنَّمَا يَنكُتُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أوفى بِمَا عُهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عظيمان جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں.خدا کا ہاتھ ہے جو ان کے ہاتھوں پر ہے.واضح ہو کہ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرتے تھے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کیا کرتے تھے اور مردوں کے لئے یہی طریق بیعت کا ہے سو اس جگہ اللہ تعالیٰ نے بطریق مجاز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کو اپنی ذات اقدس ہی قرار دے دیا اور ان کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا.یہ کلمہ مقام جمع میں ہے جو بوجہ نہایت قرب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بولا سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۷۵ حاشیه ) گیا ہے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۳۹ يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ یہ اس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہے جو ان کے ہاتھوں پر ہے.سورة الفتح اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۹۵) جو لوگ تیری بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت خدا کی بیعت کرتے ہیں.یہ خدا کا ہاتھ ہے جو ان کے ہاتھوں پر ہے اب ان تمام آیات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ٹھہرایا گیا مگر ظاہر ہے کہ وہ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶۶، ۶۷) خدا کا ہاتھ نہیں ہے.ج وَعَدَكُمُ اللهُ مَغَانِمَ كَثِيرَةً تَأْخُذُونَهَا فَعَجَلَ لَكُمْ هَذِهِ وَ كَفَّ أَيْدِيَ النَّاسِ عَنْكُمْ وَ لِتَكُونَ آيَةً لِلْمُؤْمِنِينَ وَيَهْدِيَكُمْ صِرَاطًا مُسْتَقِيمَان وَأَخْرى لَمْ تَقْدِرُوا عَلَيْهَا قَدْ اَحَاطَ اللهُ بِهَا وَ كَانَ اللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قديران خدا نے تم کو بہت سے ملکوں کی غنیمتوں کا عطا کرنا وعدہ کیا تھا سو ان میں سے ایک پہلا امر یہ ہوا کہ خدا نے یہودیوں کے قلعے معہ تمام مال و اسباب تم کو دے دیئے اور مخالفوں کے شر سے تم کو امن بخشا تا مومنین کے لئے یہ ایک نشان ہوا اور خدا تم کو دوسرے ملک بھی یعنی فارس اور روم وغیرہ عطا کرے گا.تمہاری طاقت ان پر قبضہ کرنے سے عاجز ہے پر خدا کی طاقتیں ان پر محیط ہورہی ہیں اور خدا ہر یک چیز پر قادر ہے.( براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۶۳، ۲۶۴ حاشیہ نمبر ۱۱) هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ ۖ وَ كفى بالله شهیدان یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیشگوئی ہے.اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا.اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا لیکن اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ خاکسارا اپنی غربت اور انکسار اور توکل اور ایثار اور آیات اور انوار کے رو سے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۰ سورة الفتح مسیح کی پہلی زندگی کا نمونہ ہے اور اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت با ہم نہایت ہی متشابہ واقع ہوئی ہے گویا ایک ہی جو ہر کے دوٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دو پھل ہیں اور بحدی اتحاد ہے کہ نظر کشفی میں نہایت ہی بار یک امتیاز ہے اور نیز ظاہری طور پر بھی ایک مشابہت ہے اور وہ یوں کہ مسیح ایک کامل اور عظیم الشان نبی یعنی موسیٰ کا تابع اور خادم دین تھا اور اس کی انجیل توریت کی فرع ہے اور یہ عاجز بھی اس جلیل الشان نبی کے احقر خادمین میں سے ہے کہ جو سید الرسل اور سب رسولوں کا سرتاج ہے.اگر وہ حامد ہیں تو وہ احمد ہے.اور اگر وہ محمود ہیں تو وہ محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم.سو چونکہ اس عاجز کو حضرت مسیح سے مشابہت تامہ ہے اس لئے خداوند کریم نے مسیح کی پیشگوئی میں ابتدا سے اس عاجز کو بھی شریک کر رکھا ہے یعنی حضرت مسیح پیشگوئی متذکرہ بالا کا ظاہری اور جسمانی طور پر مصداق ہے اور یہ عاجز روحانی اور معقولی طور پر اُس کا محل اور مورد ہے یعنی روحانی طور پر دین اسلام کا غلبہ جو حج قاطعہ اور براہین ساطعہ پر موقوف ہے اس عاجز کے ذریعہ سے مقدر ہے.گو اس کی زندگی میں یا بعد وفات ہو اور اگر چہ دین اسلام اپنے دلائل حقہ کے رو سے قدیم سے غالب چلا آیا ہے اور ابتدا سے اس کے مخالف رسوا اور ذلیل ہوتے چلے آئے ہیں لیکن اس غلبہ کا مختلف فرقوں اور قوموں پر ظاہر ہونا ایک ایسے زمانہ کے آنے پر موقوف تھا کہ جو باعث کھل جانے راہوں کے تمام دنیا کو مالک متحدہ کی طرح بناتا ہو اور ایک ہی قوم کے حکم میں داخل کرتا ہو اور تمام اسباب اشاعت تعلیم اور تمام وسائل اشاعت دین کے تمام تر سہولت و آسانی پیش کرتا ہو اور اندرونی اور بیرونی طور پر تعلیم حقانی کے لئے نہایت مناسب اور موزوں ہو.( براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۹۴،۵۹۳ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) دو خدا جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا وہ اس دین کو تمام دینوں پر غالب کرے.جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۸۶) مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِيْنَ مَعَةً أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَابِهُمْ رُكَعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَيةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْعَهُ فَازَرَة فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُرَاعَ لِيَغِيظُ بِهِمُ الْكَفَارَ وَعَدَ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۱ سورة الفتح اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّلِحَتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا محمد خدا کا رسول ہے اور جو لوگ اس کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت ہیں یعنی کفار ان کے سامنے لا جواب اور عاجز ہیں اور ان کی حقانیت کی ہیبت کافروں کے دلوں پر مستولی ہے اور وہ لوگ آپس میں رحم کرتے ہیں.(براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۱۶، ۶۱۷ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳) محمد رسول اللہ ہیں اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت اور با ہم رحم کرنے والے ہیں.آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد ۴ ٹائٹل پیج ) ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو نام ہیں (۱) ایک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور یہ نام توریت میں لکھا گیا ہے جو ایک آتشی شریعت ہے جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَةَ أشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ....ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّورِيةِ - اربعین ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۴۴۳) مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَذَ آش آہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی کی طرف اشارہ ہے جب بہت سے مومنین کی معیت ہوئی جنہوں نے کفار کے ساتھ جنگ کئے.الحکم جلد ۵ نمبر ۴ مورخه ۳۱ / جنوری ۱۹۰۱ صفحه ۱۱) مومنوں اور مسلمانوں کے واسطے نرمی اور شفقت کا حکم ہے.رسول اللہ اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بھی ایسی ہی حالت بیان کی گئی جہاں فرمایا ہے کہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِيْنَ مَعَةَ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكَفَارِ 99191 رُحَمَاءُ بينهم.- ط الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۷ مورخہ ۱۴ ۱۷ پریل ۱۹۰۸ صفحه ۳) فَإِنَّ مُوْسٰى أَخْبَرَ عَنْ صَحْبِ كَانُوا موسیٰ علیہ السلام نے اشدّاءُ عَلَى الْكَفَّارِ کہہ کر ان مَظْهَرَ اسْمِ مُحَمَّدٍ نَبِيِّنَا الْمُخْتَارِ وَصُوَرَ اصحاب کی خبر دی جو ہمارے برگزیدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جَلَالِ اللهِ الْقَهَّارِ بِقَوْلِهِ أَشِدَّاءُ عَلَى محمد نام کے مظہر تھے اور خدائے قہار کے جلال کو ظاہر الْكُفَّارِ ".وَإِنَّ عِيسَى أَخْبَرَ عَنْ أَخَرَيْنَ کرنے والے تھے اور عیسی علیہ السلام نے ایک دوسرے مِنْهُمْ وَعَنْ إِمَامٍ تِلْكَ الأَبْرَارِ آغنی گروہ اور ان کے امام مسیح موعود کی خبر دی جو رحم کرنے الْمَسِيحَ الَّذِي هُوَ مَظْهَرُ أَحْمَدَ الرَّاحِم والے اور پردہ پوشی کرنے والے احمد نام کے مظہر اور السَّتّارِ.وَمَنْبَعُ جَمَالِ اللهِ الرَّحِيْمِ خدائے رحیم و غفار کے جمال کا سرچشمہ ہیں ان الفاظ میں "
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۲ سورة الفتح الغَفَّارِ بِقَوْلِهِ كَزَرْعٍ اخْرج شطه کہ وہ گروہ اس پودہ کی مانند ہے جس نے خوبصورت کو نپلیں نکالی الَّذِي هُوَ مُعْجِبُ الكُفَّارِ وَكُلٌّ مِنْهُمَا ہوں اور جو کسانوں کو تعجب میں ڈال رہا ہو اور موسیٰ علیہ السلام أَخْبَرَ بِصِفَاتٍ تُنَاسِبُ صِفَاتِهِ اور عیسی علیہ السلام ہر دو نے ان صفات کی خبر دی جو ان کی الثَّانِيَةِ وَاخْتَارَ جَمَاعَةٌ نقابة ذاتی صفات سے مناسبت رکھتی تھیں اور ہر ایک نے ایک أَخْلاقَهُمْ أَخْلَاقَهُ الْمَرْضِيَّةَ فَأَصَارَ ایسی جماعت کی خبر دی جو ان کے پسندیدہ اخلاق کے مُوْسٰى بِقَوْلِهِ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ إلى مشابه اخلاق رکھتی تھی.پس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے صَحَابَةٍ أَدْرَكُوا صُحْبَةً نَبِيِّنَا الْمُخْتَارِ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ کہہ کر ان اصحاب کی طرف اشارہ کیا وَأَرَوُا شِدَّةً وَغِلْظَةٌ في المضمار جنہوں نے ہمارے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کو وَأَظْهَرُوا جَلالَ الله بِالسَّيْفِ البَقَارِ پایا اور انہوں نے میدانِ جنگ میں کافروں کا نہایت سختی وَصَارُوا ظِلَّ اسْمِ مُحَمَّدٍ رَّسُولِ اللہ سے مقابلہ کیا اور شمشیر بزاں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے جلال الْقَهَّارِ عَلَيْهِ صَلَوَاتُ اللهِ وَأَهْلِ السَّمَاءِ کو ظاہر کیا اور وہ محمد رسول اللہ کے نام کے ظل ہو گئے جو وَأَهْلِ الأَرْضِ مِنَ الْأَبْرَارِ وَالْأَخْيَارِ اللہ تعالیٰ کے اسم قہار کے مظہر ہیں.آپ کو اللہ تعالیٰ کا اور وَأَشَارَ عِيسَى بِقَوْلِهِ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ آسمان و زمین کے برگزیدہ لوگوں کا سلام پہنچے.اور عیسیٰ شَطَهُ إِلَى قَوْمٍ أَخَرَيْنَ مِنْهُمْ علیہ السلام نے ُگزَرع اَخْرَجَ شَطْعَہ کہہ کر بعد میں آنے وَإِمَامِهِمُ الْمَسِيحِ بَلْ ذَكَرَ اسْمَةَ أَحْمَدَ والے ایک گروہ اور ان کے امام مسیح موعود کی طرف اشارہ بالتضريح وَأَشَارَ بِهَذَا الْمَقَلِ الَّذِينی کیا بلکہ آپ نے صراحت سے اس کے نام احمد کا بھی ذکر جَاءَ فِي الْقُرْآنِ الْمَجِيْدِ إِلى أَنَّ الْمَسِيحَ کر دیا اور اس کے ساتھ اس مثال کی طرف بھی اشارہ کیا جو الْمَوْعُوْدَ لَا يَظْهَرُ إِلَّا كَنَبَاتٍ لَّيْن لا قرآن مجید میں مذکور ہے کہ مسیح موعود نرم سبزہ کی طرح ظاہر ہوگا نہ کہ کسی سخت چیز کی مانند.( ترجمه از مرتب) كَالشَّيرِ الْغَلِيظِ الشَّدِيدِ اعجاز مسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۱۲۵ تا ۱۲۷) " ثُمَّ قَالَ عَزَّ وَجَلَّ فِي مَدحِ پھر عز وجلت نے حضرت خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کے صَحَابَةِ خَاتَمِ النَّبِيَّيْن مُحَمَّدٌ رَّسُولُ صحابہ کی مدح میں فرما یا مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَ الَّذِينَ مَعَةَ اللهِ وَ الَّذِينَ مَعَذَ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُم الخ محمد اللہ کے رسول ہیں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام و وو السجودِ ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي گزرعٍ اَخْرَجَ شَطْعَهُ فَازَرَة ۲۴۳ سورة الفتح رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَريهُمْ رُكَعًا سُجَّدًا اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے خلاف بڑا جوش رکھتے ہیں لیکن يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا آپس میں ایک دوسرے سے بہت ملاطفت کرنے والے ہیں.جب تو سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ اثر انہیں دیکھے گا انہیں شرک سے پاک اور اللہ کا مطیع پائے گا.وہ اللہ کے فضل اور رضا کی جستجو میں رہتے ہیں.ان کی شناخت ان کے چہروں پر سجدوں کے نشان کے ذریعہ موجود ہے یہ ان کی حالت تو رات میں بیان ہوئی ہے اور التَّورية : وَمَثَلُهُم في الإنجيل انجیل میں ان کی حالت یوں بیان ہے کہ وہ ایک کھیتی کی طرح ہوں گے جس نے پہلے تو اپنی روئیدگی نکالی پھر اس کو آسمانی اور زمینی غذا کے ذریعہ فَاسْتَغْلَظ فَاسْتَوَی عَلی سُوقه مضبوط کیا اور وہ روئیدگی اور مضبوط ہوگئی پھر اپنی جڑھ پر مضبوطی سے قائم يُعْجِبُ الوَراعَ لِيَغِيظ بهم ہو گئی یہاں تک کہ زمیندار کو پسند آنے لگ گئی.اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ الْكُفَّارَ فَانْظُرُ كَيْفَ سَلمى محل کفار ان کو دیکھ دیکھ کر جلیں گے.دیکھو اس آیت میں کس طرح اللہ تعالیٰ مَنْ عَادَاهُمْ كَافِرًا، وَغَضِبَ نے ہر اس شخص کا نام کا فر رکھا ہے اور اس پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے عَلَيْهِمْ فَاخْشَ الله وَاتَّقِ جس نے صحابہ سے دشمنی کی.پس اللہ سے ڈرو اور ان لوگوں سے بچو الَّذِي يَغِيْظُ بِالصَّحَابَةِ كَافِرِينَ جو صحابہ سے دشمنی کی وجہ سے کافر ہو گئے ہیں.( ترجمہ از مرتب) 99191 (سرّ الخلافة، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۳۰) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بعث ہیں (۱) ایک بعث محمدی جو جلالی رنگ میں ہے جو ستارہ مریخ کی تاثیر کے نیچے ہے جس کی نسبت بحوالہ توریت قرآن شریف میں یہ آیت ہے مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِيْنَ مَعَةَ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكَفَارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ (۲) دوسرا بعث احمدی جو جمالی رنگ میں ہے جو ستارہ مشتری کی تاثیر کے نیچے ہے جس کی نسبت بحوالہ انجیل قرآن شریف میں یہ آیت ہے وَمُبَشِّرًا بِرَسُولِ يَأْتِي مِنْ (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۵۴) مومن مومن کبھی نہیں ہو سکتا جب تک کہ کفر اس سے مایوس نہ ہو جاوے.فتح مسیح کو ایک بار ہم نے رسالہ بھیجا اس پر اس نے لکیریں کھینچ کر واپس بھیج دیا اور لکھا کہ جس قدر دل آپ نے دکھایا ہے کسی اور نے نہیں دکھایا.دیکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن نے خود اقرار کر لیا کہ ہمارا دل دُکھا.پس ایسی مضبوطی ایمان میں پیدا کرو کہ کفر مایوس ہو جاوے کہ میرا قابو نہیں چلتا.اشداء عَلَى الْكَفَارِ کے یہ معنی بھی ہیں.دو بَعْدِى اسْمُهُ أَحْمَدُ (الصف :( القام جلد ۸ نمبر ۱۹ مورخه ۱۰رجون ۱۹۰۴ صفحه ۱)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۴۴ سورة الفتح جو لوگ خدائے تعالیٰ کے نزدیک فی الحقیقت مومن ہیں اور جن کو خدائے تعالیٰ نے خاص اپنے لئے چین لیا ہے اور اپنے ہاتھ سے صاف کیا ہے اور اپنے برگزیدہ گروہ میں جگہ دے دی ہے اور جن کے حق میں فرمایا ب فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ان میں آثار سجود اور عبودیت کے ضرور پائے جانے چاہئیں کیونکہ خدائے تعالیٰ کے وعدوں میں خطا اور تخلف نہیں.آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۲۲،۳۲۱) گزرعٍ اخْرَجَ شَطْعَهُ فَاسْتَغْلَط فَاسْتَوَى عَلى سُوقِه الخ اُس بیچ کی طرح ہے جس نے اپنا سبز و نکالا پھر موٹا ہوتا گیا یہاں تک کہ اپنے ساتوں پر قائم ہو گیا.ان آیات میں خدائے تعالی کی ان تائیدات اور احسانات کی طرف اشارہ ہے اور نیز اُس عروج اور اقبال اور علات اور عظمت کی خبر دی گئی ہے کہ جو آہستہ آہستہ اپنے کمال کو پہنچے گی.(براہین احمدیہ چهار حصص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۱۴ حاشیه ) کفار نے کس دعوے کے ساتھ اپنی رائیں ظاہر کیں کہ یہ دین ضرور معدوم ہو جائے گا اور ہم اس کو کالعدم کر دیں گے اور ان کے مقابل پر یہ پیشگوئی کی گئی جو قرآن شریف میں موجود ہے کہ ہر گز تباہ نہیں ہوگا یہ ایک بڑے درخت کی طرح ہو جائے گا اور پھیل جائے گا اور اس میں بادشاہ ہوں گے جیسا کہ گزرعِ اَخْرَجَ شَطْعَهُ جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۹۱،۲۹۰) میں اشارہ ہے.پہلے ایک بیج ہو گا کہ جو اپنا سبزہ نکالے گا پھر موٹا ہوگا پھر اپنی ساقوں پر قائم ہوگا.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۴۱)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ال اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۲۴۵ سورة الحجرات بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الحجرات بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللهِ وَ رَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ سميع عليم اے ایمان والو خدا اور رسول کے حکم سے بڑھ کر کوئی بات نہ کرو یعنی ٹھیک ٹھیک احکام خدا اور رسول پر چلو اور نا فرمانی میں خدا سے ڈرو.خدائنتا بھی ہے اور جانتا بھی ہے.اب ظاہر ہے کہ جو شخص محض اپنی خشک توحید پر بھروسہ کر کے ( جو دراصل وہ تو حید بھی نہیں ) رسول سے اپنے تئیں مستغنی سمجھتا ہے اور رسول سے قطع تعلق کرتا ہے اور اس سے بالکل اپنے تئیں علیحدہ کر دیتا ہے اور گستاخی سے قدم آگے رکھتا ہے وہ خدا کا نا فرمان ہے اور نجات سے بے نصیب.b (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۲۸) وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيْكُمْ رَسُولَ اللهِ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِّنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُم وَلكِنَّ اللهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيْمَانَ وَ زَيَّنَةَ فِي قُلُوبِكُمْ وَ كَرَّةَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُولَبِكَ هُمُ الرُّشِدُونَ لا فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَنِعْمَةً وَاللهُ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ا سیم حلیم ۲۴۶ سورة الحجرات یعنی خدا نے تمہارا محبوب ایمان کو بنادیا اور اس کو تمہارے دلوں میں آراستہ کر دیا.( نور القرآن نمبر ۲، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۳۶) اس نے اسے مومنو ایمان کو تمہارا محبوب بنادیا اور اس کا حسن و جمال تمہارے دل میں بٹھا دیا اور کفر اور بدکاری اور معصیت سے تمہارے دل کو نفرت دے دی اور بُری راہوں کا مکروہ ہونا تمہارے دل میں جمادیا.یہ سب کچھ خدا کے فضل اور رحمت سے ہوا.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ ۳۷۹) وَكَيْفَ يُنْسَبُ إِلَى الصَّحَابَةِ مَا اور صحابہ کی طرف ایسی بات کیسے منسوب کی جا سکتی يُخَالِفُ التَّقْوَى وَسُبَلَهُ وَيُبَايِنُ الْوَرْعَ ہے جو تقویٰ اور اس کی راہوں کے خلاف ہے اور پر ہیز وَحُلَلَهُ مَعَ أَنَّ الْقُرْآن شَهِدَ بِأَنَّ اللهَ گاری اور اس کی زیبائشوں کے منافی ہے.پھر جبکہ قرآن حَبَّبَ إِلَيْهِمُ الإيْمَانَ وَكَرةَ إِلَيْهِمُ مجید نے یہ گواہی دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کو ان کا الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ وَمَا كَفَرَ محبوب بنادیا تھا اور ان کے دلوں میں کفر، نافرمانی اور أَحَدًا مِّنْهُمْ مَعَ وُقُوعِ الْمُقَاتَلَةِ، فَضْلاً معصیت کی نفرت ڈال دی تھی اور ان کو آپس میں جنگ عَنِ الْمُشَاجَرَةِ، بَلْ سَلمى كُلّ أَحَدٍ مِن وجدال اور باہمی آویزش کی وجہ سے کافر قرار نہیں دیا بلکہ الْفَرِيقَيْنِ مُسْلِمِينَ ان دونوں فریقوں میں سے ہر ایک کا نام مسلمان ہی رکھا.(سرّ الخلافة، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۲۹) (ترجمه از مرتب) خدا نے تم پر پاک روح نازل کر کے ہر ایک نیکی کی تم کو رغبت دی ہے اور کفر اور فسق اور عصیان تمہاری ریویو آف ریلجنز جلد نمبر ۵ صفحه ۱۹۵) نظر میں مکر وہ کر دیا.وَإِنْ طَابِفَتَنِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۚ فَإِن بَغَتْ إِحْدُهُمَا عَلَى الْأخْرى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى اَمرِ اللهِ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَاصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ، يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۷ سورة الحجرات يَسْخَرُ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءِ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى اَنْ يَكُن خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الاسمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الإِيْمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَيكَ هُمُ الظَّلِمُونَ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمَ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا أَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْنًا فَكَرِهْتُمُوهُ.b وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ.فَانْظُرُ إِلَى مَا قَالَ اللَّهُ وَهُوَ أَصْدَقُ تم اس ارشاد پر غور کرو جو اصدق الصادقین خدا نے الصَّادِقِينَ إِنَّكَ تُكَفِرُ الْمُؤْمِنِينَ فرمایا ہے.تم مومنوں کو ان کے آپس کے بعض جھگڑوں پر کافر لِبَعْضِ مُشَاجَرَاتٍ وَهُوَ يُسمّى قرار دیتے ہو اور اللہ تعالیٰ دونوں فریقوں کو باوجود ان کے الْفَرِيقَيْنِ مُؤْمِنِين مَعَ مُقَاتَلَاتٍ جھگڑوں کے مومن قرار دیتا ہے اور باوجود ایک فریق کے وَمُحَارَبَاتٍ، وَيُسَمِّيهِمُ إِخْوَةً مَّعَ بَغْيِ دوسرے فریق پر زیادتی کرنے کے ان کو بھائی بھائی ٹھہراتا الْبَعْضِ عَلَى الْبَعْضِ وَلَا يُسمّى فَرِيقًا ہے اور ان میں سے کسی فریق کا نام کا فرنہیں رکھتا بلکہ وہ ان مِنْهُمْ كَافِرِينَ، بَلْ يَغْضَبُ عَلَى الَّذِينَ لوگوں پر ناراضگی کا اظہار کرتا ہے جو ایک دوسرے کو بڑے يَحْنَابَزُونَ بِالْأَلْقَابِ، وَيَلمزون ناموں سے یاد کرتے ہیں اور اپنے ہی لوگوں پر عیب لگاتے أَنْفُسَهُمْ وَلَا يَسْتَرُونَ كَالأَحْبَابِ ہیں اور دوستوں کی طرح پردہ پوشی سے کام نہیں لیتے بلکہ تمسخر وَيَسْخَرُونَ وَيَغْتَابُونَ وَيَظُنُّونَ ظَ کرتے ہیں اور غیبت کرتے ہیں اور بدظنی سے کام لیتے ہیں السَّوْءِ وَيَمْشُونَ مُتَجَسِيْنَ بَلْ اور اُٹھتے بیٹھتے لوگوں کے عیوب کی تلاش میں لگے رہتے ہیں يُسمّى مُرْتَكِبَ هَذِهِ الْأُمُورِ فَسُوقًا حالانکہ اللہ تعالیٰ ان امور کے مرتکب کو ایمان کے بعد اطاعت بَعْدَ الْإِيْمَانِ، وَيَغْضَبُ عَلَيْهِ كَغَضَبِہ سے نکل جانے والا قرار دیتا ہے اور اس پر اسی طرح اپنے عَلَى أَهْلِ الْعُدْوَانِ، وَلَا يَرْضَى بِعِبَادِهِ غضب کا اظہار کرتا ہے جیسے کہ سرکشی کرنے والوں پر.وہ یہ أَنْ يَسُبُّوا الْمُؤْمِنِينَ الْمُسْلِمِينَ، هذا پسند نہیں کرتا کہ اس کے بندے مومنوں اور مسلمانوں کو مَعَ أَنَّهُ يُسمّى فِي هَذِهِ الْآيَاتِ فَرِيقًا | گالیاں دیں.باوجود اس کے کہ وہ ان آیات میں مومنوں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۸ سورة الحجرات مِنَ الْمُؤْمِنِينَ بَاغِينَ ظَالِمِينَ، وَفَرِيقًا کے ایک فریق کو باغی اور ظالم قرار دیتا ہے اور دوسرے کو مِنَ الْآخَرِينَ مَظْلُومِینَ، وَلكِن لَّا مظلوم کہتا ہے لیکن وہ ان میں سے کسی کو اسلام کا تارک قرار يُسمّى أَحَدًا مِنْهُمَا مُرْتَدِيْنَ وَكَفَاكَ نہیں دیتا.پس اگر تم متقی ہو تو تمہارے لئے یہ نصیحت کافی هذِهِ الْهِدَايَةُ إِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُتَّقِينَ ہے.تم اپنے آپ کو ان آیات کی زد میں نہ لاؤ اور ہلاک فَلَا تُدْخِلْ نَفْسَك تحت هذه الآيات کرنے والے امور کو اختیار کرنے میں جلد بازی سے کام نہ وَلَا تُبَادِرُ إِلَى الْمُهْلِكَاتِ، وَلَا تَفْعُد مع لو اور زیادتی کرنے والوں کے ساتھ نشست برخواست نہ الْمُعْتَدِينَ رکھو.(ترجمہ از مرتب) (سر الخلافة ، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۳۰،۳۲۹) ایک قوم دوسری قوم سے ٹھٹھا نہ کرے ہو سکتا ہے کہ جن سے ٹھٹھا کیا گیا ہے وہی اچھے ہوں.بعض عورتیں بعض عورتوں سے ٹھٹھا نہ کریں ہو سکتا ہے کہ جن سے ٹھٹھا کیا گیا ہے وہی اچھی ہوں اور عیب مت لگاؤ.اپنے لوگوں کے بڑے بڑے نام مت رکھو.بد گمانی کی باتیں مت کرو اور نہ عیبوں کو گریڈ گرید کر پوچھو.ایک دوسرے کا گلہ مت کرو.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۵۰) پلید دل سے پلید با تیں نکلتی ہیں اور پاک دل سے پاک باتیں.انسان اپنی باتوں سے ایسا ہی پہچانا جاتا ہے جیسا کہ درخت اپنے پھلوں سے.جس حالت میں اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں صاف فرما دیا کہ لا تَنَابَزُوا بِالْاَلْقَابِ یعنی لوگوں کے ایسے نام مت رکھو جو ان کو بُرے معلوم ہوں.( تحفه غزنویه، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۵۴۱) تم ایک دوسرے کی چڑ کے نام نہ ڈالو یہ فعل فستاق و فجار کا ہے.جو شخص کسی کو چڑاتا ہے وہ نہ مرے گا جب تک وہ خود اس طرح مبتلا نہ ہوگا.اپنے بھائیوں کو حقیر نہ سمجھو جب گل ایک ہی چشمہ سے پانی پیتے ہو تو کون جانتا ہے کہ کس کی قسمت میں زیادہ پانی پینا ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحه ۵۰،۴۹) چاہیے کہ ایک تمہارا دوسرے کا گلہ مت کرے.کیا تم پسند کرتے ہو کہ مُردے بھائی کا گوشت کھاؤ اور چاہیے کہ ایک قوم دوسری قوم پر بنی نہ کرے کہ ہماری اُونچی ذات اور ان کی کم ہے ممکن ہے کہ وہ تم سے بہتر ہوں.....اور تم بُرے ناموں سے جن سے لوگ چڑتے ہیں یا اپنی ہتک سمجھتے ہیں ان کو مت پکارو ور نہ خدا کے نزدیک تمہارا نام بدکار ہوگا.لیکچر لاہور ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۵۶ ۱۵۷)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۴۹ سورة الحجرات بدظنی ایک ایسا مرض ہے اور ایسی بُری بلا ہے جو انسان کو اندھا کر کے ہلاکت کے تاریک کنوئیں میں گرا دیتی ہے.بدظنی ہی ہے جس نے ایک مردہ انسان کی پرستش کرائی.بدظنی ہی تو ہے جو لوگوں کو خدائے تعالیٰ کی صفات خلق ، رحم، رازقیت وغیرہ سے معطل کر کے نعوذ باللہ ایک فرد معطل اور شے بریکار بنا دیتی ہے.الغرض اسی بدظنی کے باعث جہنم کا بہت بڑا حصہ اگر کہوں کہ سارا حصہ بھر جائے گا تو مبالغہ نہیں.جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ماموروں سے بدظنی کرتے ہیں وہ خدائے تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے فضل کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ صفحه ۹۸،۹۷) یہ خوب یا درکھو کہ ساری خرابیاں اور برائیاں بدظنی سے پیدا ہوتی ہیں.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس سے بہت منع کیا ہے اور فرمایا ان بَعْضَ الظَّلِنِ اِتھ اگر مولوی ہم سے بدظنی نہ کرتے اور صدق اور استقلال کے ساتھ آکر ہماری باتیں سنتے ، ہماری کتابیں پڑھتے اور ہمارے پاس رہ کر ہمارے حالات کا مشاہدہ کرتے ، تو وہ الزام جو ہم پر لگاتے ہیں، نہ لگاتے.لیکن جب انہوں نے خدا تعالیٰ کے اس ارشاد کی عظمت نہ کی اور اس پر کار بند نہ ہوئے ، تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھ پر بدظنی کی اور میری جماعت پر بھی بدظنی کی اور جھوٹے الزام اور اتہام لگانے شروع کر دیئے.یہاں تک کہ بعض نے بڑی بے باکی سے لکھ دیا کہ یہ تو دہریوں کا گروہ ہے نمازیں نہیں پڑھتے.روزے نہیں رکھتے وغیرہ وغیرہ.اب اگر وہ اس بدظنی سے بچتے تو ان کو جھوٹ کی لعنت کے نیچے نہ آنا پڑتا وہ اس سے بچ جاتے.میں سچ کہتا ہوں کہ یہ بدظنی بہت ہی بری بلا ہے انسان کے ایمان کو تباہ کر دیتی ہے اور صدق اور راستی سے دور پھینک دیتی ہے دوستوں کو دشمن بنا دیتی ہے.صدیقوں کے کمال کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان بدظنی سے بہت ہی بچے.اور اگر کسی کی نسبت کوئی سوء ظن پیدا ہو، تو کثرت کے ساتھ استغفار کرے اور خدا تعالیٰ سے دعائیں کرے، تا کہ اس معصیت اور اس کے برے نتیجہ سے بیچ جاوے جو اس بدظنی کے پیچھے آنے والا ہے.اس کو کبھی معمولی چیز نہیں سمجھنا چاہیے.یہ بہت ہی خطرناک بیماری ہے جس سے انسان بہت جلد ہلاک ہو جاتا ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۴ مور محه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۵ صفحه ۲) غرض بدظنی انسان کو تباہ کر دیتی ہے یہاں تک کہ جب دوزخی جہنم میں ڈالے جاویں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو یہی فرمائے گا کہ تمہارا یہ گناہ ہے کہ تم نے اللہ تعالیٰ سے بدظنی کی.بعض لوگ اس قسم کے بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خطا کاروں کو معاف کر دے گا اور نیکو کاروں کو عذاب کرے گا یہ بھی خدا تعالیٰ پر بدظنی ہے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۰ سورة الحجرات اس لئے کہ اُس کی صفت عدل کے خلاف کرنا ہے اور نیکی اور اس کے نتائج کو جو قرآن شریف میں اُس نے مقرر فرمائے ہیں بالکل ضائع کر دینا اور بیسود ٹھہرانا ہے.پس یا درکھو کہ بدظنی کا انجام جہنم ہے اس کو معمولی مرض نہ سمجھو بدظنی سے نا امید کی اور نا امیدی سے جرائم اور جرائم سے جہنم ملتا ہے.اور یہ صدق کی جڑ کاٹنے والی چیز ہے اس لئے تم اس سے بچو اور صدیق کے کمالات کو حاصل کرنے کے لئے دعائیں کرو.الحکام جلد ۹ نمبر ۱۶ مورخه ۱۰ رمئی ۱۹۰۵ صفحه ۲) فساد اس سے شروع ہوتا ہے کہ انسان ظنون فاسدہ اور شکوک سے کام لینا شروع کرے.اگر نیک ظن کرے تو پھر کچھ دینے کی توفیق بھی مل جاتی ہے.جب پہلی ہی منزل پر خطا کی تو پھر منزل مقصود پر پہنچنا مشکل ہے.بدظنی بہت بُری چیز ہے انسان کو بہت سی نیکیوں سے محروم کر دیتی ہے اور پھر بڑھتے بڑھتے یہاں تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ انسان خدا پر بدظنی شروع کر دیتا ہے.الحکم جلد ۴ نمبر ۳۵ مورخه یکم را کتوبر ۱۹۰۰ صفحه ۲) دوسرے کے باطن میں ہم تصرف نہیں کر سکتے اور اس طرح کا تصرف کرنا گناہ ہے.انسان ایک آدمی کو بد خیال کرتا ہے اور پھر آپ اُس سے بدتر ہو جاتا ہے....سوء ظن جلدی سے کرنا اچھا نہیں ہوتا.تصرف فی العباد ایک نازک امر ہے اس نے بہت سی قوموں کو تباہ کر دیا انہوں نے انبیاء اور ان کے اہل بیت پیر بدخلنیاں کیں.البدر جلد نمبر۷ مورخه ۱۲ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۵۴) وَلَا تَجَسَّسُوا یعنی تجسس مت کیا کرو.البدر جلد ۲ نمبر ۱۰ مورخہ ۲۷ / مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۷۶) اپنے بھائی کا گلہ کرنا مردہ کھانا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُمْ بَعْضاء أيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا یعنی ایک مسلمان کو چاہیے کہ دوسرے مسلمان کا گلہ نہ کرے.کیا کوئی مسلمان اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھاوے.و ست بچن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۶۰) ایک صوفی کے دو مرید تھے ایک نے شراب پی اور نالی میں بیہوش ہو کر گرا دوسرے نے صوفی سے شکایت کی.اس نے کہا تو بڑا بے ادب ہے کہ اس کی شکایت کرتا ہے اور جا کر اُٹھا نہیں لاتا.وہ اسی وقت گیا اور اُسے اُٹھا کر لے چلا.کہتے تھے کہ ایک نے تو بہت شراب پی لیکن دوسرے نے کم پی کہ اُسے اُٹھا کر لے جارہا ہے.صوفی کا مطلب یہ تھا کہ تو نے اپنے بھائی کی غیبت کیوں کی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے غیبت کا حال پوچھا تو فرمایا کہ کسی کی سچی بات کا اس کی عدم موجودگی میں اس طرح سے بیان کرنا کہ اگر وہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۱ سورة الحجرات موجود ہے تو اُسے برا لگے غیبت ہے اور اگر وہ بات اس میں نہیں ہے اور تو بیان کرتا ہے تو اس کا نام بہتان ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا اس میں غیبت کرنے کو ایک بھائی کے گوشت کھانے سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس آیت سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ جو آسمانی سلسلہ بنتا ہے ان میں عیب کرنے والے بھی ضرور ہوتے ہیں اور اگر یہ بات نہیں ہے تو پھر یہ آیت بریکار جاتی ہے.اگر مومنوں کو ایسا ہی مطہر ہونا تھا اور ان سے کوئی بدی سرزد نہ ہوتی تو پھر اس آیت کی کیا ضرورت تھی.البدر جلد ۳ نمبر ۲۶ مورخه ۸ / جولائی ۱۹۰۴ ء صفحه ۴) بعض گناہ ایسے باریک ہوتے ہیں کہ انسان ان میں مبتلا ہوتا ہے اور سمجھتا ہی نہیں.جو ان سے بوڑھا ہو جاتا ہے مگر اُسے پتہ نہیں لگتا کہ گناہ کرتا ہے.مثلاً گلہ کرنے کی عادت ہوتی ہے.ایسے لوگ اس کو بالکل ایک معمولی اور چھوٹی سی بات سمجھتے ہیں.حالانکہ قرآن شریف نے اس کو بہت ہی برا قرار دیا ہے.چنانچہ فرمایا اَ يُحِبُّ اَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ خدا تعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے کہ انسان ایسا کلمہ زبان پر لاوے جس سے اس کے بھائی کی تحقیر ہو اور ایسی کارروائی کرے جس سے اس کو حرج پہنچے.ایک بھائی کی نسبت ایسا بیان کرنا جس سے اس کا جاہل و نادان ہونا ثابت ہو یا اس کی عادت کے متعلق خفیہ طور پر بے غیرتی یا دشمنی پیدا ہو.یہ سب برے کام ہیں.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۲ مورخه ۲۴ جون ۱۹۰۶ صفحه ۳) يَايُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَ انْثَى وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَقَبَابِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ إِنَّ اللهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ پہلے نوع انسان صرف ایک قوم کی طرح تھی اور پھر وہ تمام زمین پر پھیل گئے تو خدا نے ان کے سہولت تعارف کے لئے ان کو قوموں پر منقسم کر دیا اور ہر ایک قوم کے لئے اُس کے مناسب حال ایک مذہب مقرر کیا جیسا کہ وہ فرماتا ہے یايُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَكُمُ مِنْ ذَكَرٍ وَ أَنْثَى وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَقَبَابِلَ لِتَعَارَفُوا - چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۴۶) إنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ القَكُم یعنی جس قدر کوئی تقویٰ کی دقیق را ہیں اختیار کرے اُسی قدر خدا تعالی کے نزدیک اس کا زیادہ مرتبہ ہوتا ہے.پس بلا شبہ یہ نہایت اعلیٰ مرتبہ تقویٰ کا ہے کہ قبل از خطرات مخطرات سے محفوظ رہنے کی تدبیر بطور حفظ ماتقدم کی جائے.( نور القرآن نمبر ۲ ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۴۶)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۲ سورة الحجرات اولیاء اللہ اور رسول اور نبی جن پر خدا کا رحم اور فضل ہوتا ہے اور خدا ان کو اپنی طرف کھینچتا ہے وہ دو قسم کے ہوتے ہیں.(۱) ایک وہ جو دوسروں کی اصلاح کے لئے مامور نہیں ہوتے بلکہ اُن کا کاروبار اپنے نفس تک ہی محدود ہوتا ہے.اور اُن کا کام صرف یہی ہوتا ہے کہ وہ ہر دم اپنے نفس کو ہی زہد اور تقویٰ اور اخلاص کا صیقل دیتے رہتے ہیں اور حتی الوسع خدا تعالیٰ کی ادق سے اُدق رضامندی کی راہوں پر چلتے اور اُس کے بار یک وصایا کے پابند رہتے ہیں اور ان کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ وہ کسی ایسے عالی خاندان اور عالی قوم میں سے ہوں جو علونسب اور شرافت اور نجابت اور امارت اور ریاست کا خاندان ہو بلکہ حسب آیت کریمہ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ انفسکم صرف ان کی تقویٰ دیکھی جاتی ہے گو وہ دراصل چوہڑوں میں سے ہوں یا چماروں میں سے یا مثلاً کوئی اُن میں سے ذات کا کنجر ہو جس نے اپنے پیشہ سے تو بہ کر لی ہو یا اُن قوموں میں سے ہو جو اسلام میں دوسری قوموں کے خادم اور نیچی قو میں سمجھی جاتی ہیں.جیسے حجام.موچی.تیلی.ڈوم.میراسی.سقے.قصائی.جولا ہے.کنجری.تنبولی.دھوبی.مچھوے.بھڑ بھونجے.نانبائی وغیرہ یا مثلاً ایسا شخص ہو کہ اس کی ولادت میں ہی شک ہو کہ آیا حلال کا ہے یا حرام کا.یہ تمام لوگ تو بہ نصوح سے اولیاء اللہ میں داخل ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ درگاہ کریم ہے اور فیضان کی موجیں بڑے جوش سے جاری ہیں اور اُس قدوس ابدی کے دریائے محبت میں غرق ہو کر طرح طرح کے میلوں والے اُن تمام میلوں سے پاک ہو سکتے ہیں جو عرف اور عادت کے طور پر اُن پر لگائے جاتے ہیں.اور پھر بعد اس کے کہ وہ اُس خدائے قدوس سے مل گئے.اور اس کی محبت میں محو ہو گئے اور اس کی رضا میں کھوئے گئے سخت بدذاتی ہوتی ہے کہ اُن کی کسی پہنچ ذات کا ذکر بھی کیا جائے کیونکہ اب وہ وہ نہیں رہے اور انہوں نے اپنی شخصیت کو چھوڑ دیا اور خدا میں جاملے اور اس لائق ہو گئے کہ تعظیم سے ان کا نام لیا جائے.اور جو شخص بعد اس تبدیلی کے ان کی تحقیر کرتا ہے یا ایسا خیال دل میں لاتا ہے وہ اندھا ہے اور خدا تعالیٰ کے غضب کے نیچے ہے.اور خدا کا عام قانون یہی ہے کہ اسلام کے بعد قوموں کی تفریق منادی جاتی ہے اور پیچ اورنچ کا خیال دُور کیا جاتا ہے.ہاں قرآن شریف سے یہ بھی مستنبط ہوتا ہے کہ بیاہ اور نکاح میں تمام قو میں اپنے قبائل اور ہم رتبہ قوموں یا ہم رتبہ اشخاص اور گفو کا خیال کر لیا کریں تو بہتر ہے تا اولاد کے لئے کسی داغ اور تحقیر اور جنسی کی جگہ نہ ہو لیکن اس خیال کو حد سے زیادہ نہیں کھینچنا چاہئے کیونکہ قوموں کی تفریق پر خدا کی کلام نے زور نہیں دیا صرف ایک آیت سے گفو اور حسب نسب کے لحاظ کا استنباط ہوتا ہے اور قوموں کی حقیقت یہ ہے کہ ایک مدت دراز کے بعد شریف سے رزیل اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۳ سورة الحجرات رزیل سے شریف بن جاتی ہیں اور ممکن ہے کہ مثلاً بھنگی یعنی چوہڑے یا چمار جو ہمارے ملک میں سب قوموں سے رزیل تر خیال کئے جاتے ہیں کسی زمانہ میں شریف ہوں اور اپنے بندوں کے انقلابات کو خدا ہی جانتا ہے دوسروں کو کیا خبر ہے.سو عام طور پر پنجہ مارنے کے لائق یہی آیت ہے کہ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اتقكم جس کے یہ معنے ہیں کہ تم سب میں سے خدا کے نزدیک بزرگ اور عالی نسب وہ ہے جو سب سے زیادہ اس تقویٰ کے ساتھ جو صدق سے بھری ہوئی ہو خدا تعالیٰ کی طرف جھک گیا ہوا اور خدا سے قطع تعلق کا خوف ہر دم اور ہر لحظہ اور ہر ایک کام اور ہر ایک قول اور ہر ایک حرکت اور ہر ایک سکون اور ہر ایک خلق اور ہر ایک عادت اور ہر ایک جذ بہ ظاہر کرنے کے وقت اُس کے دل پر غالب ہو.وہی ہے جو سب قوموں میں سے شریف تر اور سب خاندانوں میں سے بزرگ تر اور تمام قبائل میں سے بہتر قبیلہ میں سے ہے.اور اس لائق ہے کہ سب اس کی راہ پر فدا ہوں.غرض شریعت اسلامی کا یہ تو عام قانون ہے کہ تمام مدار تقویٰ پر رکھا گیا ہے لیکن نبیوں اور رسولوں اور محدثوں کے بارے میں جو خدا تعالی کی طرف سے مامور ہو کر آتے ہیں اور تمام قوموں کے لئے واجب الاطاعت ٹھہرتے ہیں قدیم سے خدا تعالیٰ کا ایک خاص قانون ہے جو ہم ذیل میں لکھتے ہیں.ہم اس سے پہلے ابھی بیان کر چکے ہیں کہ ایسے اولیاء اللہ جو مامور نہیں ہوتے یعنی نبی یا رسول یا محدث نہیں ہوتے اور اُن میں سے نہیں ہوتے جو دنیا کو خدا کے حکم اور الہام سے خدا کی طرف بلاتے ہیں ایسے ولیوں کو کسی اعلیٰ خاندان یا اعلیٰ قوم کی ضرورت نہیں.کیونکہ ان کا سب معاملہ اپنی ذات تک محدود ہوتا ہے لیکن ان کے مقابل پر ایک دوسری قسم کے ولی ہیں جو رسول یا نبی یا محدث کہلاتے ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک منصب حکومت اور قضا کا لے کر آتے ہیں اور لوگوں کو حکم ہوتا ہے کہ ان کو اپنا امام اور سردار اور پیشوا سمجھ لیں اور جیسا کہ وہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہیں اس کے بعد خدا کے اُن نائبوں کی اطاعت کریں.اس منصب کے بزرگوں کے متعلق قدیم سے خدا تعالی کی یہی عادت ہے کہ ان کو اعلیٰ درجہ کی قوم اور خاندان میں سے پیدا کرتا ہے تا ان کے قبول کرنے اور ان کی اطاعت کا جو ا اُٹھانے میں کسی کو کراہت نہ ہو اور چونکہ خدا نہایت رحیم و کریم ہے اس لئے نہیں چاہتا کہ لوگ ٹھو کر کھاویں اور اُن کو ایسا ابتلا پیش آوے جو ان کو اس سعادت عظمیٰ سے محروم رکھے کہ وہ اُس کے مامور کے قبول کرنے سے اس طرح پر رک جائیں کہ اس شخص کی نیچ قوم کے لحاظ سے ننگ اور عار اُن پر غالب ہو اور وہ وہی نفرت کے ساتھ اس بات سے کراہت
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ا ۲۵۴ سورة الحجرات کریں کہ اس کے تابعدار بنیں اور اس کو اپنا بزرگ قرار دیں اور انسانی جذبات اور تصورات پر نظر کر کے یہ بات خوب ظاہر ہے کہ یہ ٹھوکر طبعاً نوع انسان کو پیش آجاتی ہے.29 تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۷۶ تا ۲۷۹) وو مکرم و معظم کوئی دُنیاوی اصولوں سے نہیں ہو سکتا.خدا کے نزدیک بڑا وہ ہے جو متقی ہے اِنَّ اكْرَمَكُمُ عِنْدَ اللهِ انْقَكُم إِنَّ اللهَ عَلِيمٌ خَبِیر یہ جو مختلف ذاتیں ہیں یہ کوئی وجہ شرافت نہیں خدا تعالیٰ نے محض عرف کے لئے یہ ذاتیں بنائیں اور آج کل تو صرف بعد چار پشتوں کے حقیقی پتہ لگانا ہی مشکل ہے.متقی کی شان نہیں کہ ذاتوں کے جھگڑے میں پڑے.جب اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا کہ میرے نزدیک ذات کوئی سند نہیں حقیقی مکرمت اور عظمت کا باعث فقط تقویٰ ہے.دینی غریب بھائیوں کو کبھی حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھو.مال و دولت یانسی بزرگی پر بے جا فخر کر کے دوسروں کو ذلیل اور حقیر نہ سمجھو.خدا تعالیٰ کے نزدیک مکرم وہی ہے جو متقی ہے چنانچہ فرمایا ہے.انّ و, أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ - رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۵۰) الحکم جلد ۵ نمبر ۲۷ مورخہ ۲۴ جولائی ۱۹۰۱ ، صفحہ ۲) اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی معزز و مکرم ہے جو متقی ہے.اب جو جماعت اتقیاء ہے خدا اس کو ہی رکھے گا اور.دوسری کو ہلاک کرے گا.یہ نازک مقام ہے اور اس جگہ پر دو کھڑے نہیں ہو سکتے کہ متقی بھی وہیں رہے اور شریر اور نا پاک بھی وہیں.ضرور ہے کہ متقی کھڑا ہو اور خبیث ہلاک کیا جاوے اور چونکہ اس کا علم خدا کو ہے کہ کون اُس کے نزدیک متقی ہے.پس یہ بڑے خوف کا مقام ہے.خوش قسمت ہے وہ انسان جو شقی ہے اور بد بخت ہے وہ جو لعنت کے نیچے آیا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۲ء صفحه ۳) خدا تعالیٰ نہ محض جسم سے راضی ہوتا ہے نہ قوم سے.اس کی نظر ہمیشہ تقویٰ پر ہے.اِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ الله انفسکم یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم سے زیادہ بزرگی رکھنے والا وہی ہے جو تم میں سے زیادہ متقی ہے.یہ بالکل جھوٹی باتیں ہیں کہ میں سید ہوں یا مغل ہوں یا پٹھان اور شیخ ہوں.اگر بڑی قومیت پر فخر کرتا ہے تو یہ فخر فضول ہے.مرنے کے بعد سب قو میں جاتی رہتی ہیں.خدا تعالیٰ کے حضور قومیت پر کوئی نظر نہیں اور کوئی شخص محض اعلیٰ خاندان میں سے ہونے کی وجہ سے نجات نہیں پاسکتا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو کہا کہ اے فاطمہ ! تو اس بات پر ناز نہ کر کہ تو پیغمبر زادی ہے.خدا کے نزدیک قومیت کا لحاظ نہیں.وہاں جو مدارج ملتے ہیں وہ تقویٰ کے لحاظ سے ملتے ہیں.یہ قومیں اور قبائل دنیا کا عرف اور انتظام
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۵ سورة الحجرات ہیں.خدا تعالیٰ سے اُن کا کوئی تعلق نہیں ہے.خدا تعالیٰ کی محبت تقوی سے پیدا ہوتی ہے اور تقوی ہی مدارج عالیہ کا باعث ہوتا ہے.اگر کوئی سید ہو اور وہ عیسائی ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے اور خدا کے احکام کی بے حرمتی کرے.کیا کوئی کہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو آل رسول ہونے کی وجہ سے نجات دے گا اور وہ بہشت میں داخل ہو جاوے گا.إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللهِ الْإِسْلَامُ (الِ عمران :۲۰) اللہ تعالیٰ کے نزد یک تو سچا دین جو نجات کا باعث ہوتا ہے.اسلام ہے.اگر کوئی عیسائی ہو جاوے یا یہودی ہو.یا آر یہ ہو وہ خدا کے نزدیک عزت پانے کے لائق نہیں.خدا تعالیٰ نے ذاتوں اور قوموں کو اڑا دیا ہے.یہ دنیا کے انتظام اور عرف کے لئے قبائل ہیں.مگر ہم نے خوب غور کر لیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور جو مدارج ملتے ہیں ان کا اصل باعث تقومی ہی ہے جو متقی ہے وہ جنت میں جائے گا.خدا تعالیٰ اس کے لیے فیصلہ کر چکا ہے.خدا تعالیٰ کے نزدیک معزز متقی ہی ہے یہ بالکل سچی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کا کسی کے ساتھ کوئی جسمانی رشتہ نہیں ہے.خدا تعالیٰ خود انصاف ہے اور انصاف کو دوست رکھتا ہے.وہ خود عدل ہے عدل کو دوست رکھتا ہے.اس لئے ظاہری رشتوں کی پروانہیں کرتا.جو تقویٰ کی رعایت کرتا ہے اسے وہ اپنے فضل سے بچاتا ہے اور اس کا ساتھ دیتا ہے اور اسی لئے اُس نے فرما یا اِن أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ - الحکم جلد ۶ نمبر ۳۷ مورخہ ۱/۱۷ کتوبر ۱۹۰۲ ء صفحہ ۷) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی اکرام متقی ہی کا تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللهِ أَنفسكم یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک معزز و مکرم وہی ہے جو متقی ہے.پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ کے نزدیک جو مکرم ہے وہی ہمارے نزدیک مکرم ہو سکتا ہے اور وہ متقی ہوتا ہے.الحاکم جلد ۶ نمبر ۳۰ مورخه ۲۴ /اگست ۱۹۰۲ صفحه ۱۰) الحکم جلدے نمبر ا مورخہ ۱۰ جنوری ۱۹۰۳ ء صفحه ۱۰) زیادہ بزرگ تم میں سے وہ ہے جو تقویٰ میں زیادہ ہے.(الہدر جلد ۳ نمبر ۳۲ مورمحه ۲۴ اگست ۱۹۰۴ صفحه ۸) اللہ تعالیٰ کے نزدیک مکرم وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے.پس ذاتوں پر ناز اور گھمنڈ نہ کرو کہ یہ نیکی کے لئے روک کا باعث ہو جاتا ہے ہاں ضروری یہ ہے کہ نیکی اور تقویٰ میں ترقی کر و خدا تعالیٰ کے فضل اور برکات اسی راہ سے آتے ہیں.احکام جلد ۸ نمبر ۳۲ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۴ صفحه ۴) نجات نہ قوم پر منحصر ہے نہ مال پر بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے اور اس کو اعمال صالحہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل اتباع اور دعائیں جذب کرتی ہیں.قوم کا ابتلا بھی مال کے ابتلا سے کم نہیں.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۶ سورة الحجرات بعض لوگ دوسری قوموں کو حقیر سمجھتے ہیں.اس ابتلا میں سید سب سے زیادہ مبتلا ہیں ایک عورت گداگر ہمارے ہاں آئی.وہ کہتی تھی کہ میں سیدانی ہوں.اس کو پیاس لگی اور پانی مانگا تو کہا کہ پیالہ دھوکر دینا کسی امتی نے پیا ہوگا.اس قسم کے خیالات ان لوگوں میں پیدا ہوئے ہوئے ہیں.خدا تعالیٰ کے حضور ان باتوں کی کچھ قدر نہیں.اس نے فیصلہ کر دیا ہے إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ.الحکم جلد ۹ نمبر ۳۹ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۵ء صفحه ۶) یا درکھنا چاہیے کہ اسلام میں قوموں کا کچھ بھی لحاظ نہیں صرف تقویٰ اور نیک بختی کا لحاظ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ الله انفسکم یعنی تم میں سے خدا تعالیٰ کے نزدیک زیادہ تر بزرگ وہی ہے جو زیادہ تر پرہیز گار ہے.اخبار بدر جلد ۲ نمبر ۳۱ مورخه ۲ /اگست ۱۹۰۶ ء صفحه ۱۲) قَالَتِ الْأَعْرَابُ أَمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَ لَمَّا يَدُ خُلِ الإِيمَانُ في قُلُوبِكُمْ وَإِنْ تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلتُكُمْ مِنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا دو إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيم ۱۵ عرب کے دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے.اُن سے کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے.ہاں یوں کہو کہ ہم نے اطاعت اختیار کر لی ہے اور ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا.پس جبکہ خدا اطاعت کرنے والوں کا نام مومن نہیں رکھتا.پھر وہ لوگ خدا کے نزدیک کیوں کر مومن ہو سکتے ہیں جو کھلے کھلے طور پر خدا کے کلام کی تکذیب کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے ہزار ہانشان دیکھ کر جو زمین اور آسمان میں ظاہر ہوئے پھر بھی میری تکذیب سے باز نہیں آتے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۶۸) عرب کے دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے.ان کو کہہ دے کہ تم ایمان نہیں لائے.ایمان تو اور ہی چیز ہے سو تم یہ کہو کہ ہم نے اطاعت کے لئے گردن ڈال دی اور ایمان کا ہنوز تمہارے دلوں میں گزرتیک نہیں ہوا.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۳۶،۲۳۵) ایک اور عجیب مناسبت حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو حضرت یشوع بن نون علیہ السلام سے ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت یشوع بن نون کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد ایک ہولناک دریا سے جس کا نام بیردن ہے عبور مع لشکر کرنا پیش آیا تھا اور یر دن میں ایک طوفان تھا اور عبور غیر ممکن تھا اور اگر اس طوفان سے عبور نہ ہوتا تو بنی اسرائیل کی دشمنوں کے ہاتھ سے تباہی متصور تھی اور یہ وہ پہلا امر ہولناک تھا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۷ سورة الحجرات کے بعد یشوع بن نون کو اپنے خلافت کے زمانہ میں پیش آیا اس وقت خدا تعالیٰ نے اس طوفان سے اعجازی طور پر یوشع بن نون اور اس کے لشکر کو بچا لیا اور میر دن میں خشکی پیدا کر دی جس سے وہ بآسانی گزر گیا وہ خشکی بطور جوار بھاٹا تھی یا محض ایک فوق العادت اعجاز تھا.بہر حال اس طرح خدا نے ان کو طوفان اور دشمن کے صدمہ سے بچایا اسی طوفان کی مانند بلکہ اس سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر خلیفتہ الحق کو مع تمام جماعت صحابہ کے جو ایک لاکھ سے زیادہ تھے پیش آیا یعنی ملک میں سخت بغاوت پھیل گئی.اور وہ عرب کے بادیہ شین جن کو خدا نے فرمایا تھا قالَتِ الأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَ لَمَّا يَدُ خُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ ( سورة الحجرات ) ضرور تھا کہ اس پیشگوئی کے مطابق وہ بگڑتے تا یہ پیشگوئی پوری ہوتی.پس ایسا ہی ہوا اور وہ سب لوگ مرتد ہو گئے اور بعض نے زکوۃ سے انکار کیا اور چند شریر لوگوں نے پیغمبری کا دعویٰ کر دیا جن کے ساتھ کئی لاکھ بد بخت انسانوں کی جمعیت ہو گئی اور دشمنوں کا شمار اس قدر بڑھ گیا کہ صحابہ کی جماعت اُن کے آگے کچھ بھی چیز نہ تھی اور ایک سخت طوفان ملک میں بر پا ہوا یہ طوفان اُس خوفناک پانی سے بہت بڑھ کر تھا جس کا سامنا حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کو پیش آیا (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۸۷،۱۸۶) تھا.خدا جو مومنوں کی تعریف کرتا ہے اور رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْہ کہتا ہے اسی لیے کہ اُنہوں نے اپنی فراست سے پہلے رسول اللہ کو مان لیا.لیکن جب کثرت سے لوگ داخل ہونے لگے.اور انکشاف ہو گیا.اس وقت داخل ہونے والے کا نام الناس رکھا ہے.اس حالت میں تو گویا منع کرتا ہے یہ کہہ کر قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوا وَ لكن قُولُوا اَسْلَمْنَا یعنی یہ مت کہو کہ ہم ایمان لائے بلکہ یہ کہو کہ ہم نے اطاعت کی.ایمان اس وقت ہوتا ہے، جب ابتلاء کے موقعے آویں.جن پر ایمان لانے کے بعد ابتلا کے موقعے نہیں آئے.وہ اسلمنا میں داخل ہیں.اُنہوں نے تکلیف کا نشانہ ہو کر نہیں دیکھا، بلکہ وہ اقبال اور نصرت کے زمانہ میں داخل ہوئے.یہی وجہ ہے کہ فخر کا نام اور خطاب ان کو نہ ملا.بلکہ الناس ان کا نام رکھا، کیونکہ وہ ایسے وقت داخل ہوئے جب کام چل پڑا.اور رسول اللہ نے اپنی صداقت کی روشنی دکھلائی.اس وقت دوسرے مذاہب حقیر نظر آئے ، تو سب داخل ہو گئے.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۶ مورخه ۱/۱۰ اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۶) یوں کہو کہ ) ہم نے مقابلہ چھوڑ دیا لیکن ان کے دل میں ابھی ایمان داخل نہیں ہوا.البدر جلد نمبر ۲ مورخہ ۷ /نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۱۵)
۲۵۸ سورة الحجرات تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلمنا ہمیشہ لاٹھی سے ہوتا ہے اور امنا اُس وقت ہوتا ہے جب خدا تعالیٰ دل میں ڈال دے.ایمان کے لوازم اور ہوتے ہیں اور اسلام کے اور.اسی لئے خدا نے اس وقت ایسے لوازم پیدا کئے کہ جن سے ایمان حاصل ہو.البدر جلد ۲ نمبر ۱۹ مورخه ۲۹ رمئی ۱۹۰۳ صفحه ۱۴۷) تم یہ نہ کہو کہ ایماندار ہو گئے بلکہ یہ کہو کہ ہم نے مقابلہ چھوڑ دیا ہے اور اطاعت اختیار کر لی ہے.بہت سے لوگ اس قسم کے ہوتے ہیں.کامل ایماندار بننے کے لیے مجاہدات کی ضرورت ہے اور مختلف ابتلاؤں اور امتحانوں سے ہو کر نکلنا پڑتا ہے.گویند سنگ لعل شود در مقام صبر آرے شود ولیک بخون جگر شود احکام جلد ۸ نمبر ۱۷ مورخه ۲۴ رمئی ۱۹۰۴، صفحه ۳) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر ہزاروں آدمی مرتد ہو گئے حالانکہ آپ کے زمانہ میں تکمیل شریعت ہو چکی تھی یہاں تک اس ارتداد کی نوبت پہنچی کہ صرف دو مسجد میں رہ گئیں جن میں نماز پڑھی جاتی تھی باقی کسی مسجد میں نماز ہی نہیں پڑھی جاتی تھی.یہ وہی لوگ تھے جن کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِن قُولُوا اسلمنا مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ذریعہ دوبارہ اسلام کو قائم کیا اور وہ آدم ثانی ہوئے.احکم جلد ۹ نمبر ۴۳ مورخه ۱۰؍دسمبر ۱۹۰۵ صفحه ۳) مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال ان کے ایمان پر گواہی دیتے ہیں.جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور اس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں اور تقوی کی باریک اور تنگ راہوں کو خدا کے لئے اختیار کرتے اور اس کی محبت میں محو ہو جاتے ہیں اور ہر ایک چیز جو بت کی طرح خدا سے روکتی ہے خواہ وہ اخلاقی حالت ہو یا اعمال فاسقانہ ہوں یا غفلت اور کسل ہو سب سے اپنے تئیں دور تر لے جاتے ہیں.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۶۵۳، ۶۵۴) اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَ جَهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَبِكَ هُمُ الصَّدِقُونَ سوا اس کے نہیں کہ مومن وہ لوگ ہیں جو خدا اور رسول پر ایمان لائے پھر بعد اس کے ایمان پر قائم رہے اور شکوک وشبہات میں نہیں پڑے دیکھو ان آیات میں خدا تعالیٰ نے حصر کر دیا ہے کہ خدا کے نزدیک مومن
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۵۹ سورة الحجرات وہی لوگ ہیں کہ جو صرف خدا پر ایمان نہیں لاتے بلکہ خدا اور رسول دونوں پر ایمان لاتے ہیں پھر بغیر ایمان بالرسول کے نجات کیوں کر ہو سکتی ہے اور بغیر رسول پر ایمان لانے کے صرف تو حید کس کام آسکتی ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۳۲) یہ تمام آیات ( آیت زیر تفسیر اور بعض اور جن کا ذکر اس جگہ کیا گیا ہے.ناقل ) ان لوگوں کے متعلق ہیں جنہوں نے رسول کے وجود پر اطلاع پائی اور رسول کی دعوت ان کو پہنچ گئی اور جولوگ رسول کے وجود سے بالکل بے خبر رہے اور نہ ان کو دعوت پہنچی اُن کی نسبت ہم کچھ نہیں کہہ سکتے.اُن کے حالات کا علم خدا کو ہے اُن سے وہ ، وہ معاملہ کرے گا جو اُس کے رحم اور انصاف کا مقتضاء ہے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۳۲ حاشیه )
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۲۶۱ سورة ق بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة ق بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ رِزْقًا لِلْعِبَادِ وَ أَحْيَيْنَا بِهِ بَلْدَةً مَّيْتًا كَذَلِكَ الْخُرُوج.وَأَحْيَيْنَا بِهِ بَلْدةٌ مَيْتًا كَذلِكَ الْخُرُوج ( سورة ق الجزو نمبر (۲۶) یعنی قرآن کے ساتھ ہم نے زمین مردہ کو زندہ کیا ایسا ہی حشر اجساد بھی ہوگا.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۲۵،۳۲۲) افَعِيْنَا بِالْخَلْقِ الْأَوَّلِ بَلْ هُمْ فِي لَبْسِ مِنْ خَلْقِ جَدِيدِ خدا کے افعال گوناگوں ہیں.خدائے تعالیٰ کی قدرت کبھی درماندہ نہیں ہوتی اور وہ نہیں تھکتا وَ هُوَ بِكُل خَلْقٍ عَلِيمٌ (ليس : ٨٠ ) أَفَحَبِيْنَا بِالْخَلْقِ الْأَوَّلِ اُس کی شان ہے.اللہ تعالیٰ کی بے انتہا قدرتوں اور افعال کا کیساہی صاحب عقل اور علم کیوں نہ ہو اندازہ نہیں کر سکتا بلکہ اس کو اظہار عجز کرنا پڑتا ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۹۰) و لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ یعنی ہم انسان کی جان سے اُس کی رگِ جان سے بھی زیادہ تر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نزدیک ہیں.۲۶۲ سورة ق سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۲۴ حاشیه ) میں انسان سے ایسا نزدیک ہوں کہ ایسی اس کی رگِ جان بھی نہیں.ہم انسان سے اس کی رگِ جان سے بھی زیادہ نزدیک ہیں.(شحنه حق ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۳۹۹) ست بیچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۰۰) ہم انسان سے اس کی رگ جان سے بھی قریب تر ہیں.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جیسا کہ حبل الورید کے خون کے نکلنے سے انسان کی موت ہے ایسا ہی خدا تعالیٰ سے دُور پڑنے میں انسان کی موت ہے بلکہ اس سے زیادہ تر.ہم اس سے اس کی رگ جان سے بھی زیادہ تر نزدیک ہیں.ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۳) اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۹۵) اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ اپنی گردن خدا کے آگے قربانی کے بکرے کی طرح رکھ دینا.اور اپنے تمام ارادوں سے کھوئے جانا اور خدا کے ارادہ اور رضا میں محو ہو جانا.اور خدا میں گم ہو کر ایک موت اپنے پر وار دکر لینا اور اس کی محبت ذاتی سے پورا رنگ حاصل کر کے محض محبت کے جوش سے اس کی اطاعت کرنا نہ کسی اور بنا پر.اور ایسی آنکھیں حاصل کرنا جو محض اس کے ساتھ دیکھتی ہوں.اور ایسے کان حاصل کرنا جو محض اس کے ساتھ سنتے ہوں.اور ایسا دل پیدا کرنا جو سراسر اس کی طرف جھکا ہوا ہو.اور ایسی زبان حاصل کرنا جو اس کے بلائے بولتی ہو.یہ وہ مقام ہے جس پر تمام سلوک ختم ہو جاتے ہیں اور انسانی قومی اپنے ذمہ کا تمام کام کر چکتے ہیں.اور پورے طور پر انسان کی نفسانیت پر موت وارد ہو جاتی ہے تب خدا تعالیٰ کی رحمت اپنے زندہ کلام اور چمکتے ہوئے نوروں کے ساتھ دوبارہ اُس کو زندگی بخشتی ہے اور وہ خدا کے لذیذ کلام سے مشرف ہوتا ہے اور وہ دقیق در دقیق نور جس کو عقلیں دریافت نہیں کر سکتیں اور آنکھیں اُس کی گنہ تک نہیں پہنچتیں.وہ خود انسان کے دل سے نزدیک ہو جاتا ہے.جیسا کہ خدا فرماتا ہے نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ یعنی هم اُس کی شاہ رگ سے بھی زیادہ اُس سے نزدیک ہیں.لیکھر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۶۰) ہم انسان کی شاہ رگ سے بھی زیادہ اس سے نزدیک ہیں.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۹۷ )
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۳ سورة ق ہم انسان کی رگ جان سے بھی اس سے نزدیک تر ہیں.(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۲۰) خدا ہر جگہ حاضر ناظر ہے جیسا کہ فرماتا ہے.....وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ لَهُم مَّا يَشَاءُونَ فِيهَا وَ لَدَيْنَا مَزِيدُ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۱ مورخه ۲۲ / مارچ ۱۹۰۸ء صفحه ۲) خدا کا تجد دبے پایا ہے جو بھی ختم نہیں ہو گا.خدا کے کاموں میں انتہا نہیں.فرماتا ہے وَ لَدَيْنَا مَزيدُ یعنی زیادتی ہوتی رہے گی.البدر جلد اوّل نمبر ۱۲ مورخه ۱۶ جنوری ۱۹۰۳ ء صفحه ۹۱ ) وَ لَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سَنَةِ أَيَّامٍ وَ مَا مَسَّنَا مِنْ ، لغوب ۳۹ رہی یہ بات کہ خدا نے چھ دن میں زمین و آسمان پیدا کیا اور ساتویں دن آرام کیا سواؤل تو واضح ہو کہ آرام کا لفظ قرآن شریف میں کہیں نہیں لکھا.ہاں توریت میں یہ لفظ ہے سو وہ کوئی استعارہ ہوگا لیکن اس دھوکہ کے دُور کرنے کے لئے اس موقع پر قرآن شریف نے ایک اور لفظ اختیار کیا ہے اور وہ یہ ہے وما مَسَّنَا مِن تُغُوبِ یعنی ہم نے چھ دن میں زمین و آسمان کو پیدا کیا اور ہم اس سے تھکے نہیں.یہ لفظ گویا اُس لفظ کا رد ہے کہ خدا نے ساتویں دن آرام کیا.کیونکہ ظاہری معنے اگر لئے جاویں تو اس سے خدا کا تھکنا ہی پایا جاتا ہے وجہ یہ کہ آرام وہی کرتا ہے جو تھکتا ہے لیکن خدا تعالیٰ تھکنے سے پاک ہے.کوئی نقص اُس کی طرف منسوب نہیں ہوسکتا.چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۲۲، ۲۲۳)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ سورة التديت بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الدّريت بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَالثَّارِيتِ ذَرُوا فَالْحَمِلتِ وقَرَّانَ فَالْجَرِيتِ يُسْرًا فَالْمُقَسَمَتِ أَمْران ان ہواؤں کی قسم ہے جو سمندروں اور دوسرے پانیوں سے بخارات کو ایسا جدا کرتی ہیں جو حق جدا کرنے کا ہے.پھر ان ہواؤں کی قسم ہے جو ان گراں بار بخارات کو حمل دار عورتوں کی طرح اپنے اندر لے لیتی ہیں پھر ان ہواؤں کی قسم ہے جو بادلوں کو منزل مقصود تک پہنچانے کے لئے چلتی ہیں.پھر ان فرشتوں کی قسم ہے جو در پردہ ان تمام امور کے منصرم اور انجام دہ ہیں یعنی ہوائیں کیا چیز ہیں اور کیا حقیقت رکھتی ہیں جو خود بخود بخارات کو سمندروں میں سے اٹھاویں اور بادلوں کی صورت بناویں اور عین محل ضرورت پر جا کر برساویں اور مقسم امور بنیں یہ تو در پردہ ملائک کا کام ہے سو خدا تعالیٰ نے ان آیات میں اول حکمائے ظاہر کے طور پر بادلوں کے برسنے کا سبب بتلایا اور بیان فرمایا کہ کیوں کر پانی بخار ہوکر بادل اور ابر ہو جاتا ہے اور پھر آخری فقرہ میں یعنی فالمُقسمتِ امرا میں حقیقت کو کھول دیا اور ظاہر کر دیا کہ کوئی ظاہر بین یہ خیال نہ کرے کہ صرف جسمانی علل اور معلومات کا سلسلہ نظام ربانی کے لئے کافی ہے بلکہ ایک اور سلسال عل روحانیہ کا اس جسمانی سلسلہ کے نیچے ہے جس کے سہارے سے یہ ظاہری سلسلہ جاری ہے.آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۳۶،۱۳۵)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۶ سورة التويت لا قُتِلَ الْخَرَّصُونَ ) الَّذِينَ هُمْ فِي غَيْرَةٍ سَاهُونَ.اللہ تعالیٰ کفار کا حال بیان کرتا کہ ستیا ناس ہو گیا اٹکل بازیاں کرنے والوں کا جن کے نفوس غمر ہ میں پڑے ہوئے ہیں.غمرہ دبانے والی چیز کو کہتے ہیں جو سر اُٹھانے نہ دے.کھیت پر بھی عمرہ پڑتا ہے جیسے کھیتوں پر پڑتا ہے جسے کرنڈ کہتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ الکل بازیاں کرنے والوں کا ستیا ناس ہو گیا.ہنوز ان کے نفوس عمرہ میں پڑے ہوئے ہیں.مومنوں کو اس آیت میں ایک نظیر دے کہ متنبہ کیا جاتا ہے کہ جب تک عمرہ دور نہ ہو تو علی وجہ البصیرت کام نہیں ہو سکتا اور وہ اولوا الابصار نہیں کہلاتے.قتل اس لئے فرمایا کہ وہ رحم کی جگہ ہے گویا وہ فاعل بھی خود ہی ہیں.اپنے آپ کو خود ہلاک کیا.بعض آدمیوں میں خراص ہونے کا مادہ ہوتا ہے.وہ بصیرت اور دور اندیشی سے کام نہیں لیتے بلکہ فنون فاسدہ اور انکلوں سے کام لیتے ہیں اور وہ اسی میں اپنا کمال سمجھتے ہیں.میری غرض یہ تھی کہ حصہ اخلاق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل نمونہ پیش کروں جو ایک فرد اکمل تھے زاں بعد متفرق طور پر آپ کے اخلاق سے حصہ لیا گیا.کسی نے ایک لیا اور دوسرے نے کوئی اور اور ایک کو دوسرے میں عمرہ ہو گیا.جس طرح کسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس عمرہ کو دور کرے ورنہ اُس کا نتیجہ دوسرے پودوں پر اچھا نہیں ہوگا اسی طرح ہر ایک انسان کو ضروری ہے کہ وہ اپنے اندرونی عمرہ کو دور کرے ورنہ اندیشہ ہے کہ دوسری صفات حسنہ کو بھی نہ لے بیٹھے.وفى أمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ.رپورٹ جلسہ سالانه ۱۸۹۷ء صفحه ۱۵۵،۱۵۴) جب روٹی کھاؤ تو سائل کو بھی دو اور کتے کو بھی ڈال دیا کرو اور دوسرے پر ند وغیرہ کو بھی اگر موقع ہو.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۳۷) اور ان کے مالوں میں سوالیوں اور بے زبانوں کا حق بھی ہے.بے زبانوں سے مراد کتے ، بلیاں، چڑیاں ، بیل ، گدھے، بکریاں اور دوسری چیزیں ہیں.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۵۷) وفي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ.کیا تم اپنی جانوں میں غور نہیں کرتے.اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسانی روح میں بڑے بڑے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۷ سورة التويت عجیب و غریب خواص اور تغیرات رکھے گئے ہیں کہ وہ اجسام میں نہیں اور روحوں پر غور کر کے جلد تر انسان اپنے رب کی شناخت کر سکتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں بھی ہے کہ مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ یعنی جس نے اپنے نفس کو شناخت کر لیا اُس نے اپنے رب کو شناخت کرلیا.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۶۶، ۱۶۷) وَ فِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ فَوَ رَبِّ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِنَّهُ لَحَقٌّ مِثْلَ مَا أَنَّكُمْ تَنْطِقُونَ تمہارا رزق آسمان میں ہے ہمیں اپنی ذات کی قسم ہے یہ سچ ہے.زمین پر خدا کے سوا کون ہے جو اس الخام جلد ۵ نمبر ۴۲ مورخه ۷ ارنومبر ۱۹۰۱ صفحه ۱۴) رزق کو بند کر سکے یا کھول سکے.خدا تعالیٰ.....ہرگز پسند نہیں کرتا کہ جائیداد یا اور اسباب و احباب پر اس قدر بھروسہ کیا جاوے کہ خدا تعالیٰ سے بکلی دُور جا پڑے.یہ خطر ناک شرک ہے جو قرآن شریف کی تعلیم کے صریح خلاف ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرما یاد فِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۷ مورخہ ۳۱ جولائی ۱۹۰۲ء صفحہ ۶) وہ انسان بدقسمت ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کے وعدوں پر ایمان لا کر وفاداری اور صبر کے ساتھ اُن کا انتظار نہیں کرتا اور شیطان کے وعدوں کو یقینی سمجھ بیٹھتا ہے اس لئے کبھی بے دل نہ ہو جاؤ اور تنگی اور عسر کی حالت میں گھبراؤ نہیں خدا تعالیٰ خود رزق کے معاملہ میں فرماتا ہے و في السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ.الحکم جلد ۶ نمبر ۱۹ مورخه ۲۴ رمئی ۱۹۰۲ صفحه ۷ ) قبض بسط رزق کا ستر ایسا ہے کہ انسان کی سمجھ میں نہیں آتا.ایک طرف مومنوں سے اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں وعدے کئے ہیں وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ (الطلاق: ۴ ) یعنی جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے اس کے لیے اللہ کافی ہے مَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ (الطلاق : ۴،۳) جو اللہ تعالیٰ کے لیے تقویٰ اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے کہ اس کو معلوم بھی نہیں ہوتا.اور پھر فرماتا ہے فِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ اور پھر اللہ تعالی اپنی ذات کی قسم کھاتا ہے کہ فَوَرَبِّ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ إِنَّهُ لَحَقِّ آسمان و زمین کے رب کی قسم ہے کہ یہ وعدہ سچ ہے.جیسا کہ تم اپنی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۸ سورة النديت زبان سے بول کر انکار نہیں کر سکتے.جب کہ اس قسم کے وعدے اللہ تعالیٰ نے فرمائے ہیں.پھر باوجودان وعدوں کے دیکھا جاتا ہے کہ کئی آدمی ایسے دیکھے جاتے ہیں جو صالح اور متقی نیک بخت ہوتے ہیں اور ان کا شعار اسلام صحیح ہوتا ہے مگر وہ رزق سے تنگ ہیں.رات کو ہے تو دن کو نہیں اور دن کو ہے تو رات کو نہیں....غرض یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس قسم کے واقعات ہوتے ہیں، مگر تجر بہ دلالت کرتا ہے کہ یہ امور خدا کی طرف منسوب نہیں ہو سکتے.ہمارا یہ مذہب کہ وہ وعدے جو خدا تعالیٰ نے کئے ہیں کہ متقیوں کو خود اللہ تعالیٰ رزق دیتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں بیان کیا ہے.یہ سب سچ ہیں اور سلسلہ اہل اللہ کی طرف دیکھا جاوے تو کوئی ابرار میں سے ایسا نہیں ہے کہ بھوکا مرا ہو.مومنوں نے جن پر شہادت دی اور جن کو اتقیامان ا لیا گیا ہے.یہی نہیں کہ وہ فقر و فاقہ سے بچے ہوئے تھے.گو اعلیٰ درجہ کی خوشحالیاں نہ ہوں ، مگر اس قسم کا اضطراری فقر وفاقہ بھی بھی نہیں ہوا کہ عذاب محسوس کریں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقر اختیار کیا ہوا تھا.مگر آپ کی سخاوت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خود آپ نے اختیار کیا ہوا تھا، نہ کہ بطور سز ا تھا.غرض اس راہ میں بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں.بعض ایسے لوگ دیکھے جاتے ہیں کہ بظا ہر متقی اور صالح ہوتے ہیں مگر رزق سے تنگ ہوتے ہیں.ان سب حالات کو دیکھ کر آخر یہی کہنا پڑتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے وعدے تو سب سچ ہیں، لیکن انسانی کمزوری ہی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے.جو کچھ تم کو وعدہ دیا گیا ہے اور تمہارا رزق آسمان پر ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۰ مورخه ۲۴ /اگست ۱۹۰۲ صفحه ۵) البدر جلد ۲ نمبر ۱۲ مورخه ۱۰ را پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۹۲) وَ فِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ سے ایک نادان دھوکا کھاتا ہے اور تدابیر کے سلسلہ کو باطل کرتا ہے.حالانکہ سورہ جمعہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللهِ ( الجمعة : ١١ ) کہ تم زمین میں منتشر ہو جاؤ اور خدا کے فضل کی تلاش کرو.یہ ایک بہت ہی نازک معاملہ ہے کہ ایک طرف تدابیر کی رعایت ہو اور دوسری طرف تو کل بھی پورا ہو.اور اس کے اندر شیطان کو وساوس کا بڑا موقعہ ملتا ہے ( بعض لوگ ٹھوکر کھا کر اسباب پرست ہو جاتے ہیں اور بعض خدا تعالیٰ کے عطا کردہ قومی کو بر کار محض خیال کرنے لگ جاتے ہیں ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب جنگ کو جاتے تو طیاری کرتے.گھوڑے ، ہتھیار بھی ساتھ لیتے بلکہ آپ بعض اوقات دو دو زرہ پہن کر جاتے.تلوار بھی کمر سے لٹکاتے حالانکہ ادھر خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۶۹ سورة النديت تھا وَ اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ بلکہ ایک دفعہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تجویز فرمایا کہ اگر شکست ہو تو آپ کو جلد مدینہ پہنچا دیا جاوے اصل بات یہ ہے کہ قومی الایمان کی نظر استغناء الہی پر ہوتی ہے اور اسے خوف ہوتا ہے کہ خدا کے وعدوں میں کوئی ایسی مخفی شرط نہ ہو جس کا اسے علم نہ ہو جولوگ تدابیر کے سلسلہ کو بالکل بالکل باطل ٹھہراتے ہیں ان میں ایک زہریلا مادہ ہوتا ہے ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ اگر بلا آوے تو دیدہ دانستہ اس کے آگے جاپڑیں اور جس قدر پیشہ والے اور اہل حرفت ہیں وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر البدر جلد ۳ نمبر ۱۱ مورخه ۱۶ مارچ ۱۹۰۴ء صفحه ۵) بیٹھ جاویں.فرمایا ہے کہ فی السَّمَاءِ رِزْقکم جس کا مطلب یہی ہے کہ رزق تمہارا تمہاری اپنی محنتوں اور کوششوں اور منصوبوں سے وابستہ نہیں وہ اس سے بالا تر ہے.(البدرجلد ۳ نمبر ۲۵ مورخہ یکم جولائی ۱۹۰۴ء صفحه ۵) میرے نزدیک سب سے بڑے مشرک کیمیا گر ہیں کہ یہ رزق کی تلاش میں یوں مارے مارے پھرتے ہیں اور ان اسباب سے کام نہیں لیتے جو اللہ تعالیٰ نے جائز طور سے رزق کے حصول کے لئے مقرر کئے ہیں اور نہ پھر تو کل کرتے ہیں حالانکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَفي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ ( اور آسمان میں ہے تمہارا رزق اور جو کچھ تم وعدہ دیئے جاتے ہو.( اخبار بدر جلد ۶ نمبر ۱۷ مورخه ۱/۲۵ پریل ۱۹۰۷ صفحه ۸) اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے اگر ہمارے پاس کبھی کچھ ہو تو دوسرے دن سب خرچ ہو جاتا ہے جو کچھ ہوتا ہے جماعت کا ہوتا ہے اور وہ بھی لنگر خانہ میں خرچ ہو جاتا ہے.بعض اوقات کچھ بھی نہیں رہتا اور ہمیں غم پیدا ہوتا ہے تب خدا تعالیٰ کہیں سے بھیج دیتا ہے.اکثر لوگ خدا تعالیٰ کی پوری پوری قدر نہیں سمجھتے وَمَا قَدَرُوا اللهَ حق قدره (الانعام :۹۲) خدا تعالیٰ تو فرماتا ہے وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ.ہر ایک انسان کو خدا تعالیٰ اپنے پاس سے روزی دیتا ہے.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۴ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحه ۹) الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۰ مورخه ۱۸ مارچ ۱۹۰۸ء صفحه ۷) فَفِرُّوا إِلَى اللهِ إِنِّي لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ مُّبِينٌ.سو تم خدا تعالیٰ کی طرف بھا گو.۵۱ ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۹) كَذلِكَ مَا أَتَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُولٍ إِلَّا قَالُوا سَاحِرُ أَوْ مَجْنُونٌ.۵۳
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۰ سورة التريت اَتَوَاصَوْا بِهِ بَلْ هُمْ قَوْم طَاغُونَ.اسی طرح ان سے پہلے لوگوں کے پاس کوئی ایسا رسول نہیں آیا جس کو انہوں نے ساحر یا مجنون نہیں کہا.کیا انہوں نے ایک دوسرے کو وصیت کر رکھی تھی.نہیں.بلکہ یہ قوم ہی طافی ہے.( براہین احمدیہ چهار تصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۴۳ حاشیہ نمبر ۱۱) وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (۵۷) میں نے جن وانس کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ میری پرستش کریں.یہ بھی اس کی طرف اشارہ ہے کہ پرستش الہی ایک فطرتی امر ہے پس جب توحید الہی اور پرستش الہی سب بنی آدم کے لئے فطرتی امر ہوا اور کوئی آدمی سرکشی اور بے ایمانی کے لئے پیدا نہ کیا گیا تو پھر جو امور بر خلاف خدا دانی و خدا ترسی ہیں کیوں کر فطرتی امر ہو سکتے ہیں.(براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۸۵ حاشیہ نمبر ۱۱) میں نے جن اور انسان کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ مجھے پہچانیں اور میری پرستش کریں.پس اس آیت کی رو سے اصل مدعا انسان کی زندگی کا خدا کی پرستش اور خدا کی معرفت اور خدا کے لئے ہو جانا ہے.یہ تو ظاہر ہے کہ انسان کو یہ تو مرتبہ حاصل نہیں ہے کہ اپنی زندگی کا مدعا اپنے اختیار سے آپ مقرر کرے کیونکہ انسان نہ اپنی مرضی سے آتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے واپس جائے گا.بلکہ وہ ایک مخلوق ہے اور جس نے اسے پیدا کیا اور تمام حیوانات کی نسبت عمدہ اور اعلیٰ قومی اس کو عنایت کئے.اسی نے اس کی زندگی کا ایک مدعا ٹھہرا رکھا ہے.خواہ کوئی انسان اس مدعا کو سمجھے یا نہ سمجھے.مگر انسان کی پیدائش کا مدعا بلاشبہ خدا کی پرستش اور خدا کی معرفت اور خدا میں فانی ہو جانا ہی ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۱۴) خدا انسان کا خالق ہے اس لئے زبان کا معلم بھی وہی ہے اور اس جھگڑے کے فیصلہ کے لئے کہ وہ کس زبان کا معلم ہے ابھی ہم لکھ چکے ہیں کہ اس کی طرف سے وہی زبان ہے جو بموجب منطوق وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ اسى طرح معرفت الہی کی خادم ہو سکتی ہے جیسا کہ انسان کے وجود کی دوسری بناوٹ.من الرحمن ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۴۶ حاشیه ) وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ یعنی جن و انس کی پیدائش اور ان کی تمام قوی کا میں ہی مقصود ہوں.وہ اسی لئے میں نے پیدا کئے ہیں کہ تا مجھے پہچانیں اور میری عبادت کریں سو اس نے اس
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۱ سورة التريت آیت میں اشارہ کیا کہ جن و انس کی خلقت میں اس کی طلب و معرفت اور اطاعت کا مادہ رکھا گیا ہے اگر انسان میں یہ مادہ نہ ہوتا تو نہ دُنیا میں ہوا پرستی ہوتی نہ بت پرستی نہ انسان پرستی.کیونکہ ہر یک خطا صواب کی تلاش میں پیدا ہوا ہے.(منن الرحمن ، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۱۵۳، ۱۵۴ حاشیه ) میں نے پرستش کے لئے ہی جن وانس کو پیدا کیا ہے.ہاں یہ پرستش اور حضرت عزت کے سامنے دائی حضور کے ساتھ کھڑا ہونا بجز محبت ذاتیہ کے ممکن نہیں اور محبت سے مراد یک طرفہ محبت نہیں بلکہ خالق اور مخلوق کی دونوں محبتیں مراد ہیں.تابجلی کی طرح جو مرنے والے انسان پر گرتی ہے اور جو اس وقت اس انسان کے اندر سے نکلتی ہے بشریت کی کمزوریوں کو جلا دیں اور دونوں مل کر تمام روحانی وجود پر قبضہ کر لیں.( براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۱۸،۲۱۷) چونکہ انسان فطرتا خدا ہی کے لئے پیدا ہوا ہے جیسا کہ فرمایا ما خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ اس لئے خدائے تعالیٰ نے اس کی فطرت ہی میں اپنے لئے کچھ نہ کچھ رکھا ہوا ہے اور اپنے پوشیدہ اور مخفی در مخفی اسباب سے اُسے اپنے لئے بنایا ہوا ہے.پس جب انسان جھوٹی اور نمائشی، ہاں عارضی اور رنج پر ختم ہونے والی محبتوں سے الگ ہو جاتا ہے پھر وہ خدا ہی کے لئے ہو جاتا ہے اور طبعاً کوئی بعد نہیں رہتا اور خدا کی طرف دوڑا چلا آتا ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ صفحہ ۱۳۷) اب انسان جبکہ عبادت ہی کے لئے پیدا ہوا ہے.ضروری ہے کہ عبادت میں لذت اور سرور بھی درجہ غایت کا رکھا ہو.اس بات کو ہم اپنے روز مرہ کے مشاہدہ اور تجربے سے خوب سمجھ سکتے ہیں.مثلاً دیکھواناج اور تمام خوردنی اور نوشیدنی اشیاء انسان کے لئے پیدا کئے ہیں، تو کیا اُن سے وہ ایک لذت اور حظ نہیں پاتا ہے؟ کیا اس ذائقہ، مزے اور احساس کے لئے اُس کے منہ میں زبان موجود نہیں.کیا وہ خوبصورت اشیاء دیکھ کر نباتات ہوں یا جمادات ، حیوانات ہوں یا انسان حفظ نہیں پاتا؟ کیا دل خوش گن اور سریلی آوازوں سے اس کے کان محفوظ نہیں ہوتے؟ پھر کیا کوئی دلیل اور بھی اس امر کے اثبات کے لئے مطلوب ہے کہ عبادت میں لذت نہ ہو.الحکم جلد ۳ نمبر ۱۳ مورخه ۱/۱۲ پریل ۱۸۹۹ صفحه ۳) چونکہ انسان فطرتا خدا ہی کے لئے پیدا ہوا.جیسا کہ فرمایا مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ - اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت ہی میں اپنے لئے کچھ نہ کچھ رکھا ہوا ہے اور مخفی در مخفی اسباب سے اُسے اپنے لئے بنایا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمہاری پیدائش کی اصلی غرض یہ رکھی ہے کہ تم
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۲ سورة التديت اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، مگر جو لوگ اپنی اس اصلی اور فطری غرض کو چھوڑ کر حیوانوں کی طرح زندگی کی غرض صرف کھانا پینا اور سور بنا سمجھتے ہیں.وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے دُور جا پڑتے ہیں اور خدا تعالی کی ذمہ داری اُن کے لئے نہیں رہتی.وہ زندگی جو ذمہ داری کی ہے.یہی ہے کہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ پر ایمان لا کر زندگی کا پہلو بدل لے.موت کا اعتبار نہیں ہے...تم اس بات کو سمجھ لو کہ تمہارے پیدا کرنے سے خدا تعالیٰ کی غرض یہ ہے کہ تم اُس کی عبادت کرو اور اس کے لئے بن جاؤ.دُنیا تمہاری مقصود بالذات نہ ہو.میں اس لئے بار بار اس ایک امر کو بیان کرتا ہوں کہ میرے نزدیک یہی ایک بات ہے جس کے لئے انسان آیا ہے اور یہی بات ہے جس سے وہ دُور پڑا ہوا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ تم دنیا کے کاروبار چھوڑ دو.بیوی بچوں سے الگ ہو کر کسی جنگل یا پہاڑ میں جا بیٹھو.اسلام اس کو جائز نہیں رکھتا اور رہبانیت اسلام کا منشاء نہیں.اسلام تو انسان کو چست اور ہوشیار اور مُستعد بنانا چاہتا ہے ، اس لئے میں تو کہتا ہوں کہ تم اپنے کاروبار کو جد و جہد سے کرو.حدیث میں آیا ہے کہ جس کے پاس زمین ہو اور وہ اس کا تردد نہ کرے، تو اس سے مواخذہ ہوگا.پس اگر کوئی اس سے یہ مراد لے کہ دُنیا کے کاروبار سے الگ ہو جاوے وہ غلطی کرتا ہے.نہیں.اصل بات یہ ہے کہ یہ سب کا روبار جو تم کرتے ہو.اس میں دیکھ لو کہ خدا تعالیٰ کی رضا مقصود ہو اور اُس کے ارادہ سے باہر نکل کر اپنی اغراض و جذبات کو مقدم نہ کرو.99991 احکم جلد ۵ نمبر ۲۹ مورخه ۱۰ راگست ۱۹۰۱ صفحه ۲) انسان کی پیدائش کی علت غائی یہی عبادت ہے.جیسے دوسری جگہ فرمایا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ الا لِيَعْبُدُونِ.عبادت اصل میں اس کو کہتے ہیں کہ انسان ہر قسم کی قساوت بھی کوڈ ورکر کے دل کی زمین کو ایسا صاف بنادے، جیسے زمیندار زمین کو صاف کرتا ہے.عرب کہتے ہیں مَوْرٌ مُعبد جیسے سرمہ کو باریک کر کے آنکھوں میں ڈالنے کے قابل بنا لیتے ہیں.اسی طرح جب دل کی زمین میں کوئی کنکر ، پتھر، ناہمواری نہ رہے اور ایسی صاف ہو کہ گویا روح ہی رُوح ہو.اس کا نام عبادت ہے؛ چنانچہ اگر یہ درستی اور صفائی آئینہ کی جاوے تو اس میں شکل نظر آجاتی ہے اور اگر زمین کی کی جاوے، تو اس میں انواع و اقسام کے پھل پیدا ہو جاتے ہیں.پس انسان جو عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے.اگر دل صاف کرے اور اس میں کسی قسم کی کبھی اور ناہمواری، کنکر، پتھر نہ رہنے دے، تو اس میں خدا نظر آئے گا.میں پھر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے درخت اُس میں پیدا ہو کر نشو نما پائیں گے اور وہ اثمار شیر میں وطیب ان میں لگیں گے.جو اكلها دايم
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۳ سورة التريت کے مصداق ہوں گے.یادرکھو کہ یہ وہی مقام ہے، جہاں صوفیوں کے سلوک کا خاتمہ ہے.جب سالک یہاں پہنچتا ہے، تو خدا ہی خدا کا جلوہ دیکھتا ہے.اس کا دل عرش الہی بنتا ہے اور اللہ تعالیٰ اُس پر نزول فرماتا ہے.سلوک کی تمام منزلیں یہاں آکر ختم ہو جاتی ہیں کہ انسان کی حالت تعبد درست ہو، جس میں رُوحانی باغ لگ جاتے ہیں اور آئینہ کی طرح خدا نظر آتا ہے.اسی مقام پر پہنچ کر انسان دُنیا میں جنت کا نمونہ پاتا ہے اور یہاں ہی هُذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ وَأتُوا بِهِ مُتَشَابِها (البقرة : ٢٦) کہنے کا حظ اور لطف اُٹھاتا ہے.غرض حالت تعبد کی درستی کا نام عبادت ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۶ مورخہ ۲۴ جولائی ۱۹۰۲ ، صفحہ ۹) خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے جیسا کہ فرمایا ہے مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا ليَعْبُدُونِ.اب اگر انسان خود مومن اور عبد نہیں بنتا ہے اور اپنی زندگی کے اصل منشاء کو پورانہیں کرتا ہے اور پورا حق عبادت ادا نہیں کرتا بلکہ فسق و فجور میں زندگی بسر کرتا ہے اور گناہ پر گناہ کرتا ہے تو ایسے آدمی کو اولاد کے لئے خواہش کیا نتیجہ رکھے گی؟ صرف یہی کہ گناہ کرنے کے لئے وہ اپنا ایک اور خلیفہ چھوڑنا چاہتا ہے.خود کون سی کمی کی ہے جو اولاد کی خواہش کرتا ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۳۵ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۱ء صفحه ۱۰) قرآن شریف میں انسان کی زندگی کا مقصد یہ بتایا گیا ہے مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ یعنی جن اور انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں.جب انسان کی پیدائش کی علت غائی یہی ہے تو پھر چاہیے کہ خدا کو شناخت کریں جبکہ انسان کی پیدائش کی علت غائی یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی عبادت کرے اور عبادت کے واسطے اوّل معرفت کا ہونا ضروری ہے جب کچی معرفت ہو جاوے تب وہ اس کی خلاف مرضی کو ترک کرتا اور سچا مسلمان ہو جاتا ہے جب تک سچا علم پیدا نہ ہو کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں ہوتا.الحکم جلدے نمبر ۷ مورخه ۲۱ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۶،۵) 99991 خدا نے انسان کے سلسلہ پیدائش کی علت غائی صرف اپنی عبادت رکھی ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ الا ليعبدون پس حصر کر دیا ہے کہ صرف صرف عبادت الہی مقصد ہونا چاہیے اور صرف اسی غرض کے لئے یہ سارا کارخانہ بنایا گیا ہے برخلاف اس کے اور ہی اور ارادے اور اور ہی اور خواہشات ہیں.الحاکم جلدے نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۶) جب خدا کا ارادہ انسانی خلقت سے صرف عبادت ہے تو مومن کی شان نہیں کہ کسی دوسری چیز کو عین مقصود بنالے.حقوق نفس تو جائز ہیں مگر نفس کی بے اعتدالیاں جائز نہیں.حقوق نفس بھی اس لئے جائز ہیں کہ تا وہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۴ سورة التويت در ماندہ ہو کر رہ ہی نہ جاوے تم بھی ان چیزوں کو اسی واسطے کام میں لاؤ.ان سے کام اس واسطے لو کہ یہ تمہیں عبادت کے لائق بنائے رکھیں.نہ اس لئے کہ وہی تمہارا مقصود اصلی ہوں.الحکم جلدے نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۶) عاجزی اختیار کرنی چاہیے.عاجزی کا سیکھنا مشکل نہیں ہے.اس کا سیکھنا ہی کیا ہے انسان تو خود ہی عاجز ہے اور وہ عاجزی کے لئے ہی پیدا کیا گیاہے مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون تكبر وغیرہ سب بناوٹی چیزیں ہیں اگر وہ اس بناوٹ کو اتار دے تو پھر اس کی فطرت میں عاجزی ہی نظر آوے گی.الهدر جلد ۲ نمبر ۱۴ مورخه ۲۴ را پریل ۱۹۰۳ صفحه ۱۰۹) ایک بد کار آدمی کو بھی نیک خواب آجاتی ہے کیونکہ فطرتاً کوئی بد نہیں ہوتا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ تو جب عبادت کے واسطے سب کو پیدا کیا ہے سب کی فطرت میں نیکی بھی رکھی ہے اور خواب نبوت کا حصہ بھی ہے اگر یہ نمونہ ہر ایک کو نہ دیا جاتا تو پھر نبوت کے مفہوم کو سمجھنا تکلیف مالا طاق ہو جا تا اگر کسی کو علم غیب بتلایا جاتا وہ ہر گز نہ سمجھ سکتا.(البدر جلد ۲ نمبر ۱۷ مورخه ۱۵ رمئی ۱۹۰۳ء صفحه ۱۲۹) یہ زمانہ ایسا آگیا ہے کہ انسان کی ہستی کی غرض و غایت کو بالکل بھلا دیا گیا ہے خود خدا انسانی خلقت کی غرض تو یہ بتاتا ہے مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ مگر آج عبودیت سے نکل کر نادان انسان خود خدا بننا چاہتا ہے اور وہ صدق و وفا، راستی اور تقویٰ جس کو خدا چاہتا ہے مفقود ہے.بازار میں کھڑے ہو کر اگر نظر کی جاوے تو صد با آدمی ادھر سے آتے اُدھر چلے جاتے ہیں لیکن ان کی غرض اور مقصد محض دُنیا ہے.اتقام جلد ۸ نمبر ۸ مورخه ۱۰ ر مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۹) بے محل استعمال سے حلال بھی حرام ہو جاتا ہے.مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ سے ظاہر ہے کہ انسان صرف عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے.پس اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے جس قدر اُسے درکار ہے.اگر اُس سے زیادہ لیتا ہے تو گو وہ شئے حلال ہی ہومگر فضول ہونے کی وجہ سے اس کے لیے حرام ہو جاتی.ہے.جو انسان رات دن نفسانی لذات میں مصروف ہے وہ عبادت کا کیا حق ادا کر سکتا ہے.مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک تلخ زندگی بسر کرے لیکن عیش و عشرت میں بسر کرنے سے تو وہ اس زندگی کا عشر عشیر بھی حاصل نہیں کرسکتا.(البدر جلد ۳ نمبر ۲۶ مورخه ۸ جولائی ۱۹۰۴ صفحه ۳) اصل غرض انسان کی خلقت کی یہ ہے کہ وہ اپنے ربّ کو پہچانے اور اس کی فرمانبرداری کرے جیسا کہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۷۵ سورة اللديت اللہ تعالیٰ نے فرما یا مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُونِ میں نے جن اور انس کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں مگر افسوس کی بات ہے کہ اکثر لوگ جو دُنیا میں آتے ہیں بالغ ہونے کے بعد بجائے اس کے کہ اپنے فرض کو سمجھیں اور اپنی زندگی کی غرض اور غایت کو مد نظر رکھیں وہ خدا کو چھوڑ کر دنیا کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور دُنیا کا مال اور اس کی عزتوں کے ایسے دلدادہ ہوتے ہیں کہ خدا کا حصہ بہت ہی تھوڑا ہوتا ہے اور بہت لوگوں کے دل میں تو ہوتا ہی نہیں وہ دُنیا ہی میں منہمک اور فنا ہو ہو جاتے ہیں.انہیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ خدا بھی کوئی ہے ہاں اس وقت پتہ لگتا ہے جب قابض ارواح آکر جان نکال لیتا ہے.الحکم جلد ۸ نمبر ۳۲ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۴ صفحه ۱) خدا تعالیٰ نے انسان کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ اس کی معرفت اور قرب حاصل کرے مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ جو اس اصل غرض کو مدنظر نہیں رکھتا اور رات دن دنیا کے حصول کی فکر میں ڈوبا ہوا ہے کہ فلاں زمین خرید لوں.فلاں مکان بنالوں.فلاں جائیداد پر قبضہ ہو جاوے.تو ایسے شخص سے سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کچھ دن تک مہلت دے کر واپس بلا لے اور کیا سلوک کیا جاوے.انسان کے دل میں خدا کے قرب کے حصول کا ایک درد ہونا چاہیے جس کی وجہ سے اس کے نزدیک وہ ایک قابل قدر شے ہو جاوے گا.اگر یہ درد اس کے دل میں نہیں ہے اور صرف دنیا اور اس کے مافیہا کا ہی درد ہے تو آخر تھوڑی سی مہلت پا کر وہ ہلاک ہو جاوے گا.(البدر جلد ۴ نمبر ۳ مورخه ۲۰/جنوری ۱۹۰۵ء صفحه ۲) خدا تعالیٰ نے انسان کو عبادت کے لئے پیدا کیا ہے جب کہ اس نے فرما یا مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا ليَعْبُدُونِ پھر جب انسان کو عبادت کے لئے پیدا کیا ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ تاریکی ہی میں پڑا رہے ایسے زمانے میں بالطبع اس کی ذات جوش مارتی ہے کہ کوئی مصلح پیدا ہو.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۷ مورخہ ۳۱ جولائی ۱۹۰۶ صفحه ۴) انسان کی پیدائش کی اصل غرض بھی یہی ہے کہ وہ نماز کی حقیقت سیکھے جیسے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مَا خَلَقْتُ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳ مورخه ۱۰/جنوری ۱۹۰۸ صفحه ۴) الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ تمام جن اور انسان صرف اسی واسطے پیدا کئے گئے تھے کہ وہ خدا تعالیٰ کی معرفت میں ترقی کرتے اور اللہ اور اس کے رسول کے حکموں پر چلتے.الحاکم جلد ۱۲ نمبر ۳ مورخه ۱۰ جنوری ۱۹۰۸ صفحه ۵) میں نے جن اور انس کو پرستش داگی کے لئے پیدا کیا ہے.( مکتوبات احمد جلد اول صفحه ۵۹۰ )
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۲۷۷ سورة الطور بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الطور بیان فرموده سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ فَذَاكِر فَمَا أَنتَ بِنِعْمَتِ رَبَّكَ بِكَاهِن وَلَا مَجْنُونِ سو انہیں تو حق کا راستہ یاد دلاتا رہ اور خدا کے فضل سے نہ تو کاہن ہے اور نہ تجھے کسی جن کا آسیب اور دیوانگی ہے.اَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ اَمْ هُمُ الْخَلِقُوْنَ اَم خَلَقُوا السَّبُوتِ وَالْأَرْضَ : ( براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۴۳ حاشیہ نمبر ۱۱) بَل لَا يُوقِنُونَ اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَابِنُ رَبَّكَ اَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ.(٣٨ کیا یہ لوگ جو خالقیت خدائے تعالیٰ سے منکر ہیں بغیر پیدا کرنے کسی خالق کے یونہی پیدا ہو گئے یا اپنے وجود کو آپ ہی پیدا کر لیا یا خود علت العلل ہیں جنہوں نے زمین و آسمان پیدا کیا یا ان کے پاس غیر متناہی خزانے علم اور عقل کے ہیں جن سے انہوں نے معلوم کیا کہ ہم قدیم الوجود ہیں یا وہ آزاد ہیں.اور کسی کے قبضہ قدرت میں مقہور نہیں ہیں تا یہ گمان ہو کہ جبکہ ان پر کوئی غالب اور قہار ہی نہیں تو وہ ان کا خالق کیسے ہو.اس آیت شریف میں یہ استدلال لطیف ہے کہ ہر پنج شقوق قدامت ارواح کو اس طرز مدلل سے بیان فرمایا ہے کہ ہر ایک شق کے بیان سے ابطال اس شق کا فی الفور سمجھا جاتا ہے اور تفصیل ان اشارات لطیفہ کی یوں ہے کہ شق اول یعنی ایک شے معدوم کا بغیر فعل کسی فاعل کے خود بخود پیدا ہوجانا اس طرح پر باطل ہے کہ اس
۲۷۸ سورة الطور تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ترجیح بلا مرشح لازم آتی ہے کیونکہ عدم سے وجود کا لباس پہننا ایک موثر مرتج کو چاہتا ہے جو جانب وجود کو جانب عدم پر ترجیح دے لیکن اس جگہ کوئی مؤثر مرتج موجود نہیں اور بغیر وجود مریخ کے خود بخود ترجیح پیدا ہو جانا محال ہے.اور شق دوم یعنی اپنے وجود کا آپ ہی خالق ہونا اس طرح پر باطل ہے کہ اس سے تقدم شے کا اپنے نفس پر لازم آتا ہے کیونکہ اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ ہر ایک شے کے وجود کی علت موجبہ اس شے کا نفس ہے تو بالضرورت یہ اقرار اس اقرار کو مستلزم ہوگا کہ وہ سب اشیاء اپنے وجود سے پہلے موجود تھیں اور وجود سے پہلے موجود ہونا محال ہے.اور شق سوم یعنی ہر ایک شے کا مثل ذات باری کے علت العلل اور صانع عالم ہونا تعدد خداؤں کو مستلزم ہے اور تعدد خداؤں کا باتفاق محال ہے اور نیز اس سے دور یا تسلسل لازم آتا ہے اور وہ بھی محال ہے.اور شق چہارم یعنی محیط ہونا نفس انسان کا علوم غیر متناہی پر اس دلیل سے محال ہے کہ نفس انسانی با عتبار تعین تشخص خارجی کے متناہی ہے اور متناہی میں غیر متناہی سا نہیں سکتا اس سے تحدید غیر محدود کی لازم آتی ہے.اور شق پنجم یعنی خود مختار ہونا اور کسی کے حکم کے ماتحت نہ ہونا ممتنع الوجود ہے.کیونکہ نفس انسان کا بضرورت استکمال ذات اپنی کے ایک مکمل کا محتاج ہے اور محتاج کا خود مختار ہونا محال ہے اس سے اجتماع نقیضین لازم آتا ہے پس جبکہ بغیر ذریعہ خالق کے موجود ہونا موجودات کا بہر صورت ممتنع اور محال ہوا تو بالضرور یہی ماننا پڑا کہ تمام اشیاء موجودہ محدودہ کا ایک خالق ہے جو ذات باری تعالی ہے اور شکل اس قیاس کی جو تر تیب مقدمات صغری کبری سے بقاعدہ منطقیہ مرتب ہوتی ہے اس طرح پر ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ یہ قضیہ فی نفسہ صادق ہے کہ کوئی شے بجز ذریعہ واجب الوجود کے موجود نہیں ہوسکتی کیونکہ اگر صادق نہیں ہے تو پھر اس کی نقیض صادق ہوگی کہ ہر ایک شے بجز ذریعہ واجب الوجود کے وجود پکڑ سکتی ہے اور یہ دوسرا قضیہ ہماری تحقیقات مندرجہ بالا میں ابھی ثابت ہو چکا ہے کہ وجود تمام اشیاء ممکنہ کا بغیر ذریعہ واجب الوجود کے محالات خمسہ کو مستلزم ہے.پس اگر یہ قضیہ صحیح نہیں ہے کہ کوئی شے بجز ذریعہ واجب الوجود کے موجود نہیں ہو سکتی تو یہ قضیہ صحیح ہوگا کہ وجود تمام اشیاء کو محالات خمسہ لازم ہیں لیکن وجود اشیاء کا باوصف لزوم محالات خمسہ کے ایک امر محال ہے پس نتیجہ نکلا کہ کسی شے کا بغیر واجب الوجود کے موجود ہونا امر محال ہے اور یہی مطلوب تھا.پرانی تحریریں، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۹ تا ۱۱ )
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۷۹ وَاصْبِرُ لِحُكْمِ رَبَّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُ سورة الطور اور اپنے خداوند کے حکم پر صبر کر اور صبر سے اس کے وعدوں کا انتظار کر تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے.(براہین احمد یه چهار صص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۵۰ حاشیہ نمبر ۱۱)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّجِيمِ ۲۸۱ سورة النجم بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة النجم بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَالنَّجْمِ إِذَا هَوى فى مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوى ، وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْى يُوحَى عَلَمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى 3 ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى 3 وَهُوَ بالأفق الاعلى قسم ہے تارے کی جب طلوع کرے یا گرے کہ تمہار ا صاحب بے راہ نہیں ہوا اور نہ بہک گیا اور وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتا بلکہ اُس کی ہر یک کلام تو وحی ہے جو نازل ہو رہی ہے جس کو سخت قوت والے یعنی جبرائیل نے سکھلایا ہے وہ صاحب قوت اس کو پورے طور پر نظر آیا اور وہ کنارہ بلند پر تھا.اس قسم کے کھانے سے مدعا یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا امر کہ کفار کی نظر میں ایک نظری امر ہے ان کے ان مسلمات کی رُو سے ثابت کر کے دکھلایا جاوے جو اُن کی نظر میں بدیہی کا حکم رکھتے تھے.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۰۳ حاشیه ) جہاں تک پتہ لگ سکتا ہے.مفسرین بھی لکھتے ہیں کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوی سے پہلے بہت ستارے ٹوٹے تھے اور یہاں بھی شاید ۱۸۸۵ء میں ہمارے دعوئی سے پہلے بہت سے ستارے ٹوٹے تھے.ایک لشکر کا لشکر اس طرف سے اُس طرف چلا جاتا تھا اور اُس طرف سے اس طرف چلا آتا تھا.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۲ سورة النّجم وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَی کا بھی یہی مطلب ہے.جب بھی خدا تعالیٰ کا کوئی نشان زمین پر ظاہر ہونے والا ہوتا ہے تو اس سے پہلے آسمان پر کچھ آثار ظاہر ہوتے ہیں.بڑے بڑے مفتیر اور اہل کشف بھی یہی بیان کرتے ہیں اور قرآن شریف میں بھی یہی لکھا ہے.مجھے ایک خط آیا تھا کہ ایک ستارہ ٹوٹا جس سے بہت روشنی ہو گئی اور پھر ایسی خطر ناک آواز آئی کہ لوگ دہشت ناک ہو گئے اور بڑا خوف ہوا.اور پھر نہیں معلوم کہ آئندہ ابھی کیا کیا ہونے والا ہے.آئے دن نئے نئے حوادث ہوتے رہتے ہیں.کوئی سال ایسا نہیں گزرتا جس میں کوئی نہ کوئی حادثہ واقع نہ ہو.ستاروں کا ٹوٹنا ظاہر کرتا ہے کہ زمین پر بھی اب کچھ نشانات ظاہر ہونے والے ہیں اور پھر خدا نے بھی مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ میں بہت سے عجیب نشان ظاہر کروں گا کچھ اول میں اور کچھ آخر میں.زلزلہ کی خبر بھی اس نے دی ہے.گذشتہ کی نسبت زیادہ سخت طاعون پڑنے کی بھی اطلاع دی ہے.معلوم نہیں کہ اس سال وہ مخطر ناک طاعون پڑے گی یا آئندہ سال میں مگر وہ خطر ناک بہت ہوگی.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۴ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحه ۴) ذرہ سوچنا چاہیئے کہ جس آفتاب صداقت کے حق میں یہ آیت ہے وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وحی یوحی یعنی اُس کا کوئی نطلق اور کوئی کلمہ اپنے نفس اور ہوا کی طرف سے نہیں وہ تو سراسر وحی ہے جو اُس کے دل پر نازل ہو رہی ہے اس کی نسبت کیا ہم خیال کر سکتے ہیں کہ وہ مدتوں نو روحی سے بکلی خالی ہی رہ جاتا تھا.مثلاً یہ جو منقول ہے کہ بعض دفعہ چالیس دن اور بعض دفعہ میں دن اور بعض دفعہ اس سے زیادہ ساٹھ دن تک بھی وحی نازل نہیں ہوئی.اگر اس عدم نزول سے یہ مراد ہے کہ فرشتہ جبرائیل بکلی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس عرصہ تک چھوڑ کر چلا گیا تو یہ سخت اعتراض پیش آئے گا کہ اس مدت تک جس قدر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باتیں کیں کیا وہ احادیث نبویہ میں داخل نہیں تھیں اور کیا وحی غیر متلو اُن کا نام نہیں تھا اور کیا اس عرصہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی خواب بھی نہیں آتی تھی اور اگر.....یہ بات صحیح ہے کہ ضرور مدتوں جبرائیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر بھی چلا جاتا تھا اور آنحضرت بکلی وحی سے خالی رہ جاتے تھے تو بلا شبہ اُن دنوں کی احادیث...قابلِ اعتبار نہیں ہوں گی کیونکہ وحی کی روشنی سے خالی ہیں...وہ آفتاب صداقت جس کا کوئی دل کا خطرہ بھی بغیر وحی کی تحریک کے نہیں اُس کے بارے میں ان لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ گویا وہ نعوذ باللہ مدتوں ظلمت میں بھی پڑا رہتا تھا اور اُس کے ساتھ کوئی روشنی نہ تھی.اس عاجز کو اپنے ذاتی تجربہ سے یہ معلوم ہے کہ روح القدس کی قدسیت ہر وقت اور ہر دم اور ہر لحظہ بلافصل ملہم کے تمام
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۳ سورة النجم قومی میں کام کرتی رہتی ہے اور وہ بغیر روح القدس اور اس کی تاثیر قدسیت کے ایک دم بھی اپنے تئیں ناپاکی سے بیچا نہیں سکتا اور انوار دائمی اور استقامت دائمی اور محبت دائگی اور عصمت دائمی اور برکات دائمی کا بھی سبب ہوتا ہے کہ روح القدس ہمیشہ اور ہر وقت اُن کے ساتھ ہوتا ہے پھر امام المعصومین اور امام المترکین اور سید المقربین کی نسبت کیوں کر خیال کیا جائے کہ نعوذ باللہ کسی وقت ان تمام برکتوں اور پاکیزگیوں اور روشنیوں سے خالی رہ جاتے تھے افسوس کہ یہ لوگ حضرت عیسی کی نسبت یہ اعتقاد ر کھتے ہیں کہ تینتیس برس روح القدس ایک دم کے لئے بھی اُن سے جدا نہیں ہوا مگر اس جگہ اس قرب سے منکر ہیں.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۹۱ تا ۹۴ تا حاشیه ) اگر صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ اعتقادر کھتے کہ بھی یا مدتوں تک آپ سے روح القدس جدا بھی ہو جاتا تھا تو وہ ہرگز ہر یک وقت اور ہر یک زمانہ کی احادیث کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ نہ کرتے ان کی نظر تو اس آیت پر تھی وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ الا وحي يوحى اگر صحا بہ تمہاری طرح مس شیطان کا اعتقادر کھتے تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سید المعصومین کیوں قرار دیتے خدا تعالیٰ سے ڈرو کیوں افترا پر کمر باندھی ہے.....آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت صحابہ کا بلاشبہ یہ اعتقاد تھا کہ آنجناب کا کوئی فعل اور کوئی قول وحی کی آمیزش سے خالی نہیں گو وہ وحی مجمل ہو یا مفصل.خفی ہو یا جلی.بین ہو یا مشتبہ یہاں تک کہ جو کچھ آنحضرت صلعم کے خاص معاملات و مکالمات خلوت اور ستر میں بیویوں سے تھے یا جس قدر اکل اور شرب اور لباس کے متعلق اور معاشرت کی ضروریات میں روز مرہ کے خانگی امور تھے سب اسی خیال سے احادیث میں داخل کئے گئے کہ وہ تمام کام اور کلام روح القدس کی روشنی سے ہیں چنانچہ ابو داؤد وغیرہ میں یہ حدیث موجود ہے اور امام احمد بچند وسائط عبداللہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ نے کہا کہ میں جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتا تھا لکھ لیتا تھا تا میں اُس کو حفظ کرلوں.پس بعض نے مجھ کو منع کیا کہ ایسا مت کر کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں کبھی غضب سے بھی کلام کرتے ہیں تو میں یہ بات سن کر لکھنے سے دستکش ہو گیا.اور اس بات کا رسول اللہ صلم کے پاس ذکر کیا.تو آپ نے فرمایا کہ اس ذات کی مجھے کو قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ جو مجھ سے صادر ہوتا ہے خواہ قول ہو یا فعل وہ سب خدا تعالی کی طرف سے ہے اگر یہ کہا جائے کہ انہیں احادیث کی کتابوں میں بعض امور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بر ۲۸۴ سورة النجم اجتہادی غلطی کا بھی ذکر ہے اگر کل قول و فعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجی سے تھا تو پھر وہ غلطی کیوں ہوئی گو آنحضرت اس پر قائم نہیں رکھے گئے.تو اس کا یہ جواب ہے کہ وہ اجتہادی غلطی بھی وحی کی روشنی سے دور نہیں تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے قبضہ سے ایک دم جدا نہیں ہوتے تھے پس اس اجتہادی غلطی کی ایسی ہی مثل ہے جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں چند دفعہ سہو واقع ہوا تا اُس سے دین کے مسائل پیدا ہوں سو اسی طرح بعض اوقات اجتہادی غلطی ہوئی تا اُس سے بھی تکمیل دین ہو.اور بعض بار یک مسائل اُس کے ذریعہ سے پیدا ہوں اور وہ سہو بشریت بھی تمام لوگوں کی طرح سہو نہ تھا بلکہ دراصل ہمرنگ وحی تھا کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص تصرف تھا جو نبی کے وجود پر حاوی ہو کر اُس کو کبھی ایسی طرف مائل کر دیتا تھا جس میں خدا تعالیٰ کے بہت مصالح تھے.سو ہم اُس اجتہادی غلطی کو بھی وجی سے علیحدہ نہیں سمجھتے کیونکہ وہ ایک معمولی بات نہ تھی بلکہ خدا تعالی اس وقت اپنے نبی کو اپنے قبضہ میں لے کر مصالح عام کے لئے ایک نور کو سہو کی صورت میں یا غلط اجتہاد کے پیرا یہ میں ظاہر کر دیتا تھا اور پھر ساتھ ہی وحی اپنے جوش میں آجاتی تھی جیسے ایک چلنے والی نہر کا ایک مصلحت کے لئے پانی روک دیں اور پھر چھوڑ دیں پس اس جگہ کوئی عقلمند نہیں کہہ سکتا کہ نہر سے پانی خشک ہو گیا یا اُس میں سے اٹھا لیا گیا.یہی حال انبیاء کی اجتہادی غلطی کا ہے کہ روح القدس تو کبھی اُن سے علیحدہ نہیں ہوتا.مگر بعض اوقات خدا تعالیٰ بعض مصالح کے لئے انبیاء کے فہم اور ادراک کو اپنے قبضہ میں لے لیتا ہے تب کوئی قول یا فعل سہو یا غلطی کی شکل پر اُن سے صادر ہوتا ہے اور وہ حکمت جو ارادہ کی گئی ہے ظاہر ہو جاتی ہے تب پھر وحی کا در یازور سے چلنے لگتا ہے اور غلطی کو درمیان سے اٹھا دیا جاتا ہے گویا اُس کا کبھی وجود نہیں تھا.حضرت مسیح ایک انجیر کی طرف دوڑے گئے تا اُس کا پھل کھائیں اور روح القدس ساتھ ہی تھا مگر روح القدس نے یہ اطلاع نہ دی کہ اس وقت انجیر پر کوئی پھل نہیں.با ایں ہمہ یہ سب لوگ جانتے ہیں کہ شاذ نادر معدوم کے حکم میں ہوتا ہے.پس جس حالت میں ہمارے سید و مولی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دس لاکھ کے قریب قول و فعل میں سراسر خدائی کا ہی جلوہ نظر آتا ہے اور ہر بات میں حرکات میں سکنات میں اقوال میں افعال میں روح القدس کے چمکتے ہوئے انوار نظر آتے ہیں تو پھر اگر ایک آدھ بات میں بشریت کی بھی بُو آوے تو اس سے کیا نقصان.بلکہ ضرور تھا کہ بشریت کے تحقق کے لئے کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تا لوگ شرک کی بلا میں مبتلا نہ ہو جائیں.بالآخر ہم چند اقوال پر اس مضمون کو ختم کرتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سلف صالح کا ہرگز یہ عقیدہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۵ سورة النجم نہ تھا کہ روح القدس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر خاص خاص وقتوں پر نازل ہوتا تھا اور دوسرے اوقات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُس سے نعوذ باللہ بکلی محروم ہوتے تھے از انجملہ وہ قول ہے جو شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اپنی کتاب مدارج النبوۃ کے صفحہ ۴۲ میں لکھا ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ ملائک وحی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دائگی رفیق اور قرین ہیں چنانچہ وہ جامع الاصول اور کتاب الوفا سے نقل کرتے ہیں کہ ابتدائے نبوت سے تین برس برابر حضرت اسرافیل ملازم صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رہے اور پھر حضرت جبرائیل دائمی رفاقت کے لئے آئے اور بعد اس کے صاحب سفر السعادت سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سات سال کے تھے جب حضرت اسرافیل کو اللہ جل شانہ کی طرف سے حکم ہوا کہ آنحضرت صلعم کے ملازم خدمت رہیں پس اسرافیل ہمیشہ اور ہر وقت آنحضرت صلعم کے پاس رہتا تھا اور آنحضرت صلعم کی عمر کا گیارھواں سال پورا ہونے تک یہی حال تھا مگر اسرافیل بجز کلمہ دو کلمہ کے اور کوئی بات وحی کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں نہیں ڈالتا تھا ایسا ہی میکائیل بھی آنحضرت کا قرین رہا.پھر بعد اس کے حضرت جبرائیل کو حکم ہوا اور وہ پورے انتیس سال قبل از وحی ہر وقت قرین اور مصاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے.پھر بعد اس کے وحی نبوت شروع ہوئی.اس بیان سے ہر یک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ جن بزرگوں نے مثلاً حضرت جبرائیل کی نسبت لکھا ہے کہ وہ نبوت سے پہلے بھی انتیس سال تک ہمیشہ اور ہر وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دائگی رفیق تھا اُن کا ہرگز یہ عقیدہ نہیں ہوسکتا تھا کہ جبرائیل کسی وقت آسمان پر بھی چلا جاتا تھا کیونکہ کسی وقت چھوڑ کر چلا جانا دوام قرب اور معیت غیر منقطع کے منافی ہے لیکن جب ان بزرگوں کا دوسرا عقیدہ بھی دیکھا جائے کہ جبرائیل علیہ السلام کا قرار گاہ آسمان ہی ہے اور وہ ہر ایک وحی آسمان سے ہی لاتا ہے تو ان دونوں عقیدوں کے ملانے سے جو تناقض پیدا ہوتا ہے اس سے رہائی پانے کے لئے بجر اس کے اور کوئی راہ نہیں مل سکتی کہ یہ اعتقاد رکھا جائے کہ جبرائیل علیہ السلام کا آسمان سے اتر نا حقیقی طور پر نہیں بلکہ ملی ہے اور جب تمثلی طور پر اتر نا ہو تو اس میں کچھ حرج نہیں کہ جبرائیل علیہ السلام اپنے تمثلی وجود سے ہمیشہ اور ہر وقت اور ہر دم اور ہر طرفہ العین انبیاء علیہم السلام کے ساتھ رہے کیونکہ وہ اپنے اصلی وجود کے ساتھ تو آسمان پر ہی ہے اور اس مذہب کی تصدیق اور تصویب شیخ عبد الحق محدث دہلی نے اپنی کتاب مدارج النبوۃ کے صفحہ ۴۵ میں کی ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ نزول جبرائیل جو بعض اوقات دحیہ کلبی کی صورت میں یا کسی اور انسان کی صورت میں ہوتا تھا اس میں اہل نظر کو اشکال ہے اور یہ اعتراض پیدا ہوتا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۸۶ سورة النجم ہے کہ اگر در حقیقت جبرائیل علیہ السلام ایک نیا جسم اپنے لئے مشابہ جسم دحیہ کلبی حاصل کر کے اس میں اپنا روح داخل کر دیتے تھے تو پھر وہ اصلی جسم ان کا جس کے تین سو جناح ہیں کس حالت میں ہوتا تھا کیا وہ جسد بے روح پڑا رہتا تھا اور حضرت جبرائیل فوت ہو کر پھر بطریق تناسخ دوسرے جسم میں آ جاتے تھے.اس کے جواب میں وہ لکھتے ہیں کہ اہل تحقیق کے نزدیک تیم ملی نزول ہے نہ حقیقی تا حقیقتا ایک جسم کو چھوڑنا اور دوسرے جسم میں داخل ہونا لازم آوے.پھر لکھتے ہیں بات یہ ہے کہ جبرائیل علیہ السلام کے ذہن میں جو دحیہ کلبی کی صورت علمیہ تھی تو حضرت جبرائیل علیہ السلام بوجہ قدرت کاملہ واردات شاملہ اپنی کے اس صورت پر اپنے وجود کا افاضہ مع جمیع صفات کا ملہ اپنی کے کر کے تمثل کے طور پر اس میں اپنے تئیں ظاہر کر دیتے تھے یعنی دحیہ کلبی کی صورت میں بطور تمثل اپنے تئیں دکھلا دیتے تھے اور اس صورت علمیہ کو اپنی صفات سے متلبس کر کے نبی علیہ السلام پر مثلا ظاہر کر دیتے تھے یہ نہیں کہ جبرائیل آپ اپنے اصلی وجود کے ساتھ آسمان سے اتر تا تھا بلکہ جبرائیل علیہ السلام اپنے مقام پر آسمان میں ثابت و قائم رہتا تھا اور یہ جبرائیل اس حقیقی جبرائیل کی ایک مثال تھی یعنی اس کا ایک فلن تھا اس کا مین نہیں تھا کیونکہ مین جبرائیل تو وہ ہے جو اپنی صفات خاصہ کے ساتھ آسمان پر موجود ہے اور اس کی حقیقت اور شان الگ ہے.پھر اس قدر تحریر کے بعد شیخ صاحب موصوف لکھتے ہیں کہ جس طرح جبرائیل علیہ السلام تمثلی صورت میں نہ حقیقی صورت میں نازل ہوتا رہا ہے.یہی مثال روحانیات کی ہے جو بصورت جسمانیات متمثل ہوتی ہیں اور یہی مثال خدا تعالیٰ کے تمثل کی بھی ہے جو اہل کشف کو صورت بشر پر نظر آتا ہے اور یہی مثال مکمل اولیا کی ہے جو مواضع متفرقہ میں بصور متعددہ نظر آ جاتے ہیں.خدا تعالی شیخ بزرگ عبدالحق محدث کو جزاء خیر دیوے کیونکہ انہوں نے بصدق دل قبول کر لیا کہ جبرائیل علیہ السلام بذات خود نازل نہیں ہوتا بلکہ ایک تمثلی وجود انبیاء علیہم السلام کو دکھائی دیتا ہے اور جبرائیل اپنے مقام آسمان میں ثابت و برقرار ہوتا ہے.یہ وہی عقیدہ اس عاجز کا ہے جس پر حال کے کور باطن نام کے علماء کفر کا فتویٰ دے رہے ہیں افسوس کہ یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ اس بات پر تمام مفسرین نے اور نیز صحابہ نے بھی اتفاق کیا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام اپنے حقیقی وجود کے ساتھ صرف دومرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھائی دیا ہے اور ایک بچہ بھی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ اگر وہ اپنے اصلی اور حقیقی وجود کے ساتھ آنحضرت صلحم کے پاس آتے تو خود یہ غیر ممکن تھا کیونکہ ان کا حقیقی وجود تو مشرق مغرب میں پھیلا ہوا ہے اور ان کے بازو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۸۷ سورة النجم آسمانوں کے کناروں تک پہنچے ہوئے ہیں پھر وہ مکہ یا مدینہ میں کیوں کر سما سکتے تھے.جب تم حقیقت اور اصل کی شرط سے جبرائیل کے نزول کا عقیدہ رکھو گے تو ضرور تم پر یہ اعتراض وارد ہو گا کہ وہ اصلی وجود کیوں کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ میں سما گیا اور اگر کہو کہ وہ اصلی وجود نہیں تھا تو پھر ترک اصل کے بعد تمثل ہی ہوا یا کچھ اور ہوا اصل کا نزول تو اس حالت میں ہو کہ جب آسمان میں اس وجود کا نام ونشان نہ رہے اور جب آسمان سے وہ وجود نیچے اتر آیا تو پھر ثابت کرنا چاہیئے کہ کہاں اس کے ٹھہرنے کی گنجائش ہوئی.غرض یہ خیال کہ جبرائیل اپنے اصلی وجود کے ساتھ زمین پر اتر آتا تھا بد یہی البطلان ہے.خاص کر جب دوسری شق کی طرف نظر کریں اور اس فساد کو دیکھیں کہ ایسا عقیدہ رکھنے سے یہ لازم آتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام اکثر اوقات فیض وجی سے محروم اور معطل رہیں تو پھر نہایت بے شرمی ہوگی کہ اس عقیدہ کا خیال بھی دل میں لاویں.شیخ عبد الحق محدث دہلوی مدارج النبوت کے صفحہ ۸۳ میں لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام کلمات و حدیث وحی خفی ہیں باستثناء چند مواضع یعنی قصہ اسا رائے بدر وقصہ ماریہ وعسل و تا بیر نخل جو نادر اور حقیر ہیں.اور پھر اسی صفحہ میں لکھتے ہیں کہ اوزاعی حسان بن عطیہ سے روایت کرتا ہے کہ نزول جبرائیل قرآن سے مخصوص نہیں بلکہ ہر یک سنت نزول جبرائیل سے ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد بھی وحی میں سے ہے.اور پھر صفحہ ۸۷ میں لکھتے ہیں کہ صحابہ آنحضرت صلعم کے ہر یک قول و فعل قلیل و کثیر وصغیر و کبیر کو وحی سمجھتے تھے.اور اُس پر عمل کرنے میں کچھ تو قف اور بحث نہیں کرتے تھے اور حرص رکھتے تھے کہ جو کچھ آنحضرت صلعم سر اور خلوت میں کرتے ہیں وہ بھی معلوم کر لیں.پس کچھ شک نہیں کہ جو شخص احوال صحابہ میں تامل کرے کہ وہ کیوں کر ہر یک امر اور قول اور فعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حجت دین سمجھتے تھے اور کیوں کر وہ آنحضرت کے ہر یک زمانہ اور ہر یک وقت اور ہر یک دم کو وحی میں مستغرق جانتے تھے.تو اس اعتقاد کے رکھنے سے کہ کبھی جبرائیل حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر آسمان پر چلا جاتا تھا خدا تعالیٰ سے شرم کرے گا اور ڈرے گا کہ ایسا وہم بھی اس کے دل میں گزرے مگر افسوس کہ ہمارے یہ علماء جو محدث بھی کہلاتے ہیں کچھ بھی ڈرتے نہیں اگر ان کے ایسے عقیدوں کو ترک کرنا کفر ہے تو ایسا کفر اگر ملے تو زہے سعادت.ہم ان کے ایسے ایمان سے سخت بیزار ہیں اور خدا تعالیٰ کی طرف ان کے ایسے اقوال سے داد خواہ ہیں جن کی وجہ سے سخت اہانت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفوں میں ہو رہی ہے ان لوگوں کے حق میں کیا کہیں اور کیا لکھیں جنہوں نے کفار کونسی اور ٹھٹھہ کا موقع دیا اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ کو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ا ۲۸۸ حضرت عیسی کی نسبت ایسا اور اس قدر گھٹا دیا کہ جس کے تصور سے بدن پر لرزہ پڑتا ہے.سورة النجم ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۱۱ تا ۱۲۶) نبی کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں اور جو کچھ خواطر اس کے نفس میں پیدا ہوتی ہیں در حقیقت وہ تمام وجی ہوتی ہیں جیسا کہ قرآن کریم اس پر شاہد ہے.وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْى يُوحَى لیکن قرآن کریم کی وحی دوسری وجی سے جو صرف معانی منجانب اللہ ہوتی ہیں تمیز کلی رکھتی ہے اور نبی کے اپنے تمام اقوال وحی غیر متلو میں داخل ہوتے ہیں کیونکہ روح القدس کی برکت اور چمک ہمیشہ نبی کے شامل حال رہتی ہے اور ہر یک بات اس کی برکت سے بھری ہوئی ہوتی ہے اور وہ برکت روح القدس سے اس کلام میں رکھی جاتی ہے لہذا ہر ایک بات نبی کی جو نبی کی توجہ تام سے اور اس کے خیال کی پوری مصروفیت سے اس کے منہ سے نکلتی ہے وہ بلا شبہ وحی ہوتی ہے تمام احادیث اسی درجہ کی وحی میں داخل ہیں جن کو غیر متلووحی کہتے ہیں.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۵۲، ۳۵۳) یوں تو کوئی القا الفاظ کے بغیر نہیں ہوتا اور ایسے معانی جو الفاظ سے مجرد ہوں ذہن میں آہی نہیں سکتے لیکن پھر خود قرآن اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی ایک فرق ہے اور اسی فرق کی بنا پر حدیث کے الفاظ کو اس چشمہ سے نکلا ہوا قرار نہیں دیتے جس چشمہ سے قرآن کے الفاظ نکلے ہیں گو عام القا اور الہام کا مفہوم مد نظر رکھ کر حدیث کے الفاظ بھی من جانب اللہ ہیں چنانچہ آیت وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وحي يوحى اس پر شہادت دے رہی ہے.( بركات الدعا، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۱،۲۰ حاشیه ) نبی کی ہر یک بات خدا تعالیٰ کے حکم سے ہوتی ہے.نبی کا زمانہ نزولِ شریعت کا زمانہ ہوتا ہے اور شریعت وہی ٹھہر جاتی ہے جو نبی عمل کرتا ہے.( نور القرآن ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۹۱) خدا تعالیٰ نے....یہ کہہ کر وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ الا وحی یوحی آپ کی تمام کلام کو اپنی (کتاب البریه، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۱۰۵) کلام ٹھہرایا ہے.اس نبی کا قول بشری ہوا و ہوس کے چشمہ سے نہیں نکالتا بلکہ اس کا قول خدا کا قول ہے.اب دیکھو کہ اس آیت کے رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گل اقوال خدا تعالیٰ کے اقوال ثابت ہوتے ہیں.ریویو آف ریلجنز جلد نمبر ۵ صفحه (۲۰۵)
۲۸۹ سورة النجم تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بر قرآن شریف میں جو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ ارشاد ہوا کہ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى یہ اس شدید اور اعلیٰ ترین قرب ہی کی طرف اشارہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمال تزکیہ نفس اور مقرب الہی کی ایک دلیل ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۱۴۱) پیشگوئی کا مقام اللہ تعالیٰ کے اعلیٰ درجہ کے تقرب کے بڑوں ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں وه مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَی کا مصداق ہوتا ہے اور یہ درجہ تب ملتا ہے جب دنا فتدلی کے مقام پر پہنچے.جب تک ظلی طور پر اپنی انسانیت کی چادر کو پھینک کر الوہیت کی چادر کے نیچے اپنے آپ کو نہ چھپائے یہ مقام اُسے کب مل سکتا ہے.یہ وہ مقام ہے جہاں بعض سلوک کی منزلوں سے ناواقف صوفیوں نے آکر ٹھوکر کھائی ہے اور اپنے آپ کو وہ خدا سمجھ بیٹھے ہیں اور ان کی اس ٹھوکر سے ایک خطر ناک غلطی پھیلی ہے جس نے بہتوں کو ہلاک کر ڈالا اور وہ وحدت وجود کا مسئلہ ہے جس کی حقیقت سے یہ لوگ ناواقف محض ہوتے ہیں.میرا مطلب صرف اسی قدر ہے کہ میں تمہیں یہ بتاؤں کہ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَی کے درجہ پر جب تک انسان نہ پہنچے اس وقت تک اُسے پیشگوئی کی قوت نہیں مل سکتی اور یہ درجہ اس وقت حاصل ہوتا ہے جبکہ انسان قرب الہی حاصل کرے.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۰ مورخه ۱۷/ مارچ۱۹۰۱ صفحه ۴) فرماتا ہے کہ اُس کی زبان ہو جاتا ہوں اسی پر اشارہ ہے مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى اس لئے رسول صلعم نے جو فر ما یا وہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد تھا.الحکم جلد ۴ نمبر ۴۴ مورخه ۱۰ر دسمبر ۱۹۰۰ صفحه ۴) الہام کچھ شے نہیں جب تک کہ انسان اپنے تئیں شیطان کے دخل سے پاک نہ کر لے اور بے جا تعصبوں اور کینوں اور حسدوں سے اور ہر ایک خدا کو ناراض کرنے والی بات سے اپنے آپ کو صاف نہ کر لے.دیکھو اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک حوض ہے اور اس میں بہت سی نالیاں پانی کی گرتی ہیں.تو پھر ان نالیوں میں سے ایک کا پانی گندہ ہے تو کیا وہ سارے پانی کو گندہ نہ کر دے گا.یہی راز ہے جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نسبت کہا گیا کہ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْى يُوحَى ہاں انسان کو ان کمزوریوں کے دور کرنے کے واسطے استغفار بہت پڑھنا چاہیے.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۸ مورخه ۷ ارمئی ۱۹۰۱ صفحه ۱۳) جب انسان حجتہ اللہ کے مقام پر ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ہی اس کے جوارح ہو جاتا ہے مَا يَنْطِقُ عَنِ تو انھوی کے یہی معنے ہیں اور یہ اس وقت ہوتا ہے جبکہ انسان کامل طور پر اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار اور اس کا وفادار بندہ ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کی رضا کے ساتھ اسے کامل صلح ہوتی ہے.اس کی کوئی حرکت کوئی سکون اللہ تعالیٰ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۹۰ سورة النجم کے اذن اور امر کی ایک کل ہوتی ہے.ایسی حالت میں اس پر مَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى کا اطلاق ہوتا ہے اور یہ مقام کامل اور اکمل طور پر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھا.الحکم جلد ۹ نمبر ۲۵ مورخہ ۱۷ جولائی ۱۹۰۵ ء صفحه ۱۰) یادر ہے کہ اگر چہ ہر ایک نبی میں مہدی ہونے کی صفت پائی جاتی ہے کیونکہ سب نبی تلامیذ الرحمان ہیں اور نیز اگر چہ ہر ایک نبی میں مؤید بروح القدس ہونے کی صفت بھی پائی جاتی ہے کیونکہ تمام نبی رُوح القدس سے تائید یافتہ ہیں لیکن پھر بھی یہ دو نام دو نبیوں سے کچھ خصوصیت رکھتے ہیں یعنی مہدی کا نام ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص ہے.اور مسیح یعنی مؤید بروح القدس کا نام حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کچھ خصوصیت رکھتا ہے گو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس نام کے رو سے بھی فائق ہیں کیونکہ اُن کو شدید القوی کا دائی انعام دیا گیا ہے لیکن روح القدس کے مرتبہ میں جو شدید القوی سے کم مرتبہ ہے حضرت مسیح کو یہ خصوصیت دی گئی ہے جیسا کہ یہ دونوں خصوصیتیں قرآن شریف سے ظاہر ہیں.آنحضرت کا نام امی مہدی رکھا اور عَلَمَهُ شَدِيدُ القُوای فرمایا.اور حضرت مسیح کو رُوح القدس سے تائید یافتہ قرار دیا جیسا کہ کسی شاعر نے بھی کہا ہے فیض روح القدس ارباز مدد فرمایید ہمہ آں کارکنند آنچه مسیحامے کرد اور نبیوں کی پیشگوئیوں میں یہ تھا کہ امام آخرالزمان میں یہ دونوں صفتیں اکٹھی ہو جائیں گی.یہ اس طرف اشارہ ہے کہ وہ آدھا اسرائیلی ہو گا اور آدھا اسماعیلی (اربعین نمبر ۲، روحانی خزائن جلد ۷ ۱ صفحه ۳۵۹،۳۵۸ حاشیه ) مہدی کے مفہوم میں یہ معنے ماخوذ ہیں کہ وہ کسی انسان کا علم دین میں شاگرد یا مرید نہ ہو اور خدا کی ایک خاص تحلی تعلیم لدنی کے نیچے دائمی طور پر نشوونما پاتا ہو جور وح القدس کے ہر یک تمثل سے بڑھ کر ہے اور ایسی تعلیم پانا صفت محمدی ہے اور اسی کی طرف آیت عَلَمَهُ شَدِيدُ القُوای میں اشارہ ہے اور اس فیض کے دائمی اور غیر منفک ہونے کی طرف آیت وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ الا وحي يوحی میں اشارہ ہے اور مسیح کے مفہوم میں یہ معنے ماخوذ ہیں جو دائمی طور پر وہ رُوح القدس اس کے شامل ہو.جو شدید القوی کے درجہ سے کمتر ہے کیونکہ روح القدس کی تاثیر یہ ہے کہ وہ اپنے منزل علیہ میں ہو کر انسانوں کو راستے کا ملزم بناتا ہے مگر شدید القومی راستے کا اعلیٰ رنگ منزل علیہ میں ہو کر انسانوں کے دلوں میں چڑھتا ہے.اربعین نمبر ۲ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۶۱،۳۶۰ حاشیه )
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۱ سورة النّجم وَأَمَّا قَوْلُ الْمُعْتَرِضِ الْفَتَانِ أَنَّ مگر معترض فتنہ انگیز کا یہ قول کہ ذی مرۃ شیطان کا ذِى مِرَّةٍ اِسْمُ الشَّيْطَانِ وَقَالَ اِنَّ الْمِرَّةَ نام ہے اور جو اس نے کہا کہ مزہ مادہ صفرا کو کہتے ہیں اور اس هِيَ مَادَةُ الصَّفْرَاءِ ، وَبَاطِلُ كُلُّ مَا کے برخلاف ہر ایک رائے باطل ہے پس یہ اس کا تمام يُخَالِفُهُ مِنَ الْأَرَاءِ فَهَذَا كُلُّهُ كِنب و کذب اور دجل اور تلبیس ہے اور دجالوں اور فتنہ انگیزوں دَجُلٌ وَتَلْبِيسُ وَنَعُوذُ بِالله مِن سے خدا کی پناہ.بلکہ وہ امر صیح جس کی نظیریں اہلِ زبان الجَالِينَ الْمُفْتِنِينَ بَلِ الْأَمْرُ کے پلیٹوں اور فصیحوں کے کلمات میں پائی جاتی ہیں یہ ہے الصَّحِيحُ الَّذِي يُوجَدُ نظائره في کہ تا کہ کو جب بٹ دے کر پختہ کرتے ہیں تو اس پختہ كَلِمَاتِ بُلَغَاءِ لِسَانِ الْعَرَبِ وَنَوَايع کرنے کا نام مزہ ہے اور مزہ کے معنوں کا اصل یہ ہے کہ ذَوِى الْأَدَبِ أَنَّ أَصْلَ الْمِرَّةِ إحكام اس قدر تا گہ کو بٹ چڑھایا جائے اور مروڑ ا جائے کہ وہ پختہ الْفَتْلِ وَإِدَارَةُ الْخَيُوطِ عِنْدَ الْوَصْلِ ہو جائے جیسا کہ یہی معنے صاحب تاج العروس شارح كَمَا قَالَ صَاحِبُ تاج العروس القاموس نے کئے ہیں پھر اس لفظ کو مروڑ نے اور بٹ شَارِحُ الْقَامُوسِ ثُمَّ نَقَلُوا هذا چڑھانے سے منتقل کر کے اس کے نتیجہ کی طرف لے آئے الْإِحْكامِ وَالإِدَارَةِ إلى یعنی قوت اور طاقت کی طرف جو بٹ چڑھانے کے بعد پیدا مِنَ لتِيْجَتِهِ أَعْنِي إِلَى الْقُوَّةِ وَالطَّاقَةِ فَإِنَّ ہوتی ہے کیونکہ جب تاگا کو بٹ چڑھایا جاوے پس یہ الْحَبْلُ إِذا أَحْكِمَ فَتْلُهُ فَلا بُدَّ مِن أَن ضروری امر ہے کہ بٹ چڑھانے کے بعد اس میں قوت اور يُتَقَوَى بَعْدَ أَنْ يُشَدَّ وَيُسَوَى، وَيَكُونُ طاقت پیدا ہو جائے اور ایک شے قومی متعین ہو جائے.پھر كَفَنِي قَوِي مَعِينٍ ثُمَّ نُقِلَ مِنْهُ إِلَى یہ لفظ عقل کے معنوں کی طرف منتقل کیا گیا جیسا کہ حقل کا الْعَقْلِ كَنَقْلِ الْحَقْلِ إِلَى الْحَقْلِ لأَنّ لفظ جو بمعنی زمین خوش پاکیزہ ہے حقل یعنی کھیت نوسبزہ کی الْعَقْلَ طَاقَةٌ تُحصَل بَعْدَ إِمْرَارِ طرف منتقل ہو گیا کیونکہ عقل بھی ایک طاقت ہے جو بعد محکم مُقَدَّمَاتٍ وَإِحْكامِ مُشَاهَدَاتٍ تجلبها کرنے مقدمات اور پختہ کرنے مشاہدات کے پیدا ہوتی الْحَشُ الْمُشْتَرِكُ مِنَ الْحَوَاشِ بِإِذْنِ ہے اور حس مشترک ان مشاہدات کو حواس سے باذن رب رَبِّ النَّاسِ وَأَحْسَنِ الْخَالِقِينَ ثُمَّ الناس لیتی ہے.پھر یہ لفظ ہم رتبہ رابعہ ایک بدنی مزاج کی نُقِلَ هَذَا اللفظ في المَرْتَبَةِ الرَّابِعَةِ إلى طرف منتقل کیا گیا یعنی صفرا کی طرف جو طبائع اربعہ میں سے اللفظ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۲ سورة النجم مِزَاجِ مِنَ الْأَمْزِجَةِ أَعْنِي الصَّفْرَاءَ الَّتِي هِيَ ایک ہے کیونکہ صفرا اپنی شدت اور قوت اور لطافت إحْدَى الطَّبَائِعِ الْأَرْبَعَةِ لِشِدَّةِ قُوا وَلَطَافَةِ میں باقی اخلاط سے بڑھ کر ہے اسی واسطے صاحب مَادَيهَا وَلِكُويهَا مَصْدَدَ أَفَعَالٍ قَوِيَّةٍ اس کا مصدرا فعال قویہ اور جری اور شجاع ہوتا ہے اور وَمُوْجِبًا الجُرْأَة وَشُجَاعَةٍ وَكُلُّ أَمْرٍ يُخَالِفُ اس سے ایسے امر صادر ہوتے ہیں جو بزدلی کے عَادَاتِ الْجَبَانِ وَيُوَافِقُ سِيرَ الشُّجَعَانِ مخالف ہیں پس تو فکر کر اگر طالب حق ہے.لیکن اگر تو فَتَفَكَّرُ إِن كُنتَ مِنَ الظَّالِمِينَ.جاہلیت کے نامی شعراء اور فصحاء کے اشعار میں سے وَأَمَّا نَظِيرُهُ في أَشْعَارِ بُلَغَاءِ الْجَاهِلِيَّةِ اس کی نظیر طلب کرے پس تیرے لئے ایک شعر وَنُبَعَاءِ الْأَرْمِنَةِ الْمَاضِيَةِ، فَكَفَاكَ مَا قَالَ امرء القیس کے قصیدہ لامیہ کا کافی ہے کیونکہ اس نے امْرَةُ الْقَيْسِ فِي قَصِيدَتِهِ اللَّامِيَّةِ درير كخُذْرُوفِ الْوَلِيدِ أَمَرَهُ کہا ہے.دَرِيرٍ كَخُذْرُوفِ الْوَلِيدِ أَمَرَهُ تتابعُ كَفَّيْهِ بِخَيْطٍ مُوَصَّلِ تَتابعُ كَفَّيْهِ بِخَيْطٍ مُوَصَّلِ وَ كَذلِك بَيْتُ لِعَمْرِو بْنِ كُلِّقَوْمٍ التَّغْلَي امرہ یعنی بٹ دیا اور مروڑ دیا الَّذِي هُوَ تَابِع في اليَسَانِ الْعَرَبِي، وَقَالَ فِي اور اسی طرح عمرو بن كلثوم تغلبی کا ایک شعر ہے الْقَصِيدَةِ الْخَامِسَةِ مِنَ السَّبْعِ الْمُعَلَّقَةِ وَنَحْنُ اور وہ بھی اپنے وقت کا بدیہہ گوشا عر تھا اور اس نے یہ تكْتُبُه نَظِيرُ المَعْنَى الْإِدَارَةِ، وَهُوَ هذَا.شعر قصیدہ خامسہ سبعہ ! معلقہ میں کہا ہے کہ ترَى التَّحِزَ الشَّحِيْحَ إِذا أُمِرَّتْ تَرَى اللَّحِزَ الشَّحِيْحَ إِذَا أُمِرَّتْ عَلَيْهِ لِمَالِهِ فِيهَا مُهِينًا عَلَيْهِ لِمَالِهِ فِيهَا مُهِينًا أمرت یعنی چکر دیا جائے اور پھر ایا جائے وَمِن عَجَائِبِ لفظ الْمِرَّة اشتراكه في اور لفظ مترہ کے عجائبات میں سے یہ ہے کہ وہ الْعَرَبِيَّةِ وَالْهِنْدِيَّةِ فِي مَعْنَى الإِدَارَةِ وَإِحْكامِ اپنے معنے بٹ دینے اور مروڑ دینے میں عربی اور الْقَتْلِ بِالْمُبَالَغَةِ، فَإِنَّ الْهِنْدِيّينَ يَقُولُونَ ہندی میں مشترک ہے کیونکہ ہندی لوگ امرار کو لِلْإِمْرَارٍ مَرَوْزَنَا كَمَا لا يخفى عَلَى الْهِنْدِيين مروڑنا کہتے ہیں جیسا کہ ہندیوں پر پوشیدہ نہیں.وَهَذَا ثُبُوت صريح مِنْ غَيْرِ شَائِبَةِ الْمَيْنِ اور یہ صریح ثبوت بغیر شائبہ کسی تاریکی کے ہے اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ا ۲۹۳ سورة النجم 60 لِاسْتِخْرَاجِ أَصْلِ حَقِيقَةِ الَّذِي هُوَ دَائِرُ اس اصل حقیقت کا استخراج اس سے ہوتا ہے جو دو بَيْنَ النِّسَانَينِ وَفِيهِ نُكْتَةٌ تُسر زبانوں میں دائر ہے اور اس میں ایک نکتہ ہے جو محققین کو خوش کرتا ہے.الْمُحَقِّقِينَ وَأَمَّا لَفْظُ ذِي مِرَّةٍ بَمَعْنَى الْعَقْلِ لیکن لفظ ذی مرۃ جو بمعنے عقل کے آتا ہے اگر تصحیح فَإِن كُنتَ تطلبُ مِنَّا نَظِيرَهُ مَعَ نقل کے لئے اس کی نظیر معلوم کرنا ہو پس جاننا چاہیے تَصْحِيحِ النَّقْلِ فَاعْلَمُ أَنَّ صَاحِبَ تاج که صاحب تاج العروس نے جو شارح قاموس ہے لفظ الْعُرُوسِ شَارِحَ الْقَامُوسِ فَشَرَ لَفْظَ ڈی مزہ کو بمعنے ذی عقل تفسیر کیا ہے اور تمثیل کے طور ذِي مِرَّةٍ بَمَعْلَى ذِي اللَّهَاءِ ، وَقَالَ يُقَالُ إِنَّهُ لَذُو مِرَّةٍ أَى عَقْلٍ فِي مَثَلِ الْعَرَبِ الْعَرَباءِ وَإِنْ لَّمْ يَكْفِكَ هَذَا الْمَقَلُ مَعَ کہا ہے کہ عرب کے لوگ کہتے ہیں کہ انہ لذو مرۃ اور مراد اس سے انه لذو عقل رکھتے ہیں اور اگر تیرے لئے یہ مثال کافی نہ ہو حالانکہ وہ کافی ہے اور تو ایامِ أَنَّهُ هُوَ الْأَصْلِ، وَتَطْلُبُ مِنَّا نَظِيرًا أَخَرَ من الأيام الْجَاهِلِيَّةِ وَالْأَزْمِنَةِ جاہلیت کا کوئی شعر اس کی تائید میں طلب کرے تو یہ الْمَاضِيَّةِ، فَاقْرَأْ هَذَا الْبَيْتَ مِن صَاحِبِ بیت غور سے پڑھ جو سبعہ معلقہ میں سے چوتھے قصیدہ کا الْقَصِيدَةِ الرَّابِعَةِ مِنَ السَّبْعِ الْمُعَلَّقَةِ شعر ہے جس کا مؤلف ادباء زمان اور فصحاء اقران میں وَكَانَ مِنْ نُبَغَاءِ الزَّمَانِ وَفِي الْبَلاغَةِ سے تھا اور ڈیڑھ سو برس کی عمر تک پہنچا تھا.إمَامَ الْأَقْرَانِ، وَزَادَ عُمُرُهُ عَلَى مِئَةٍ رَجَعَا بِأَمرِهِما إلى ذِي مِرَّةٍ وَخَمْسِينَ، وَهُوَ هُذَا حدٍ وَنُجْحُ قَرِيمَةٍ إِبْرَامُهَا رَجَعَا بِأَمْرِهِما إلى ذِي مِرَّةٍ وہ دونوں ذی مرہ کی طرف یعنی ذی عقل کی طرف حصد ونجح قديمة إبرامها متوجہ ہوئے اور قصد کو پختہ کرنے سے مقاصد حاصل ہو وَاعْلَمْ أَنَّ هَذِهِ الْقَصَائِدَ مَعْرُوفَةٌ جایا کرتے ہیں.بِغَايَةِ الاِشْتِهَارِ كَالشَّمْسِ فِي نِصْفِ اور جاننا چاہیئے کہ یہ قصائد غایت درجہ پر مشہور ہیں النَّهَارِ، وَقَدْ أَجْمَعَ كَافَّةُ الْأُدَبَاءِ وَجَهَابِدُ جیسے سورج دو پہر کے وقت اور تمام جماعت فصیح شعراء نے الشُّعَرَاء عَلى فَضْلِهَا وَكَمَالِ بَرَاعَتِهَا.اس پر اتفاق کیا ہے کہ یہ اشعار فصاحت اور بلاغت کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۴ سورة النجم كَعَمِينَ وَاتَّفَقَ عَامَّةُ الْبُلَغَاء عَلى مُحشيها اعلیٰ درجہ پر ہیں اور اس کے حسن اور خوبی پر شعراء کا اتفاق وَنَبَاهَيهَا، وَاخْتَارَهَا الْحَكُومَةُ الإنكليزية ہے اور گورنمنٹ انگریزی نے اس کتاب کو اپنے مدارس لطلباء مدارسِهَا وَسُبَقَاء كَوَالحِهَا تعلیمیہ میں کالجوں کے پڑھنے والوں اور علوم ادبیہ کے پیالے وَشُرَبَاء كِيَالِجَهَا لِتَكْمِيْلِ الْقَارِئِينَ وَلَا پینے والوں کے لئے ان کی تعمیل تعلیم کی غرض سے داخل کیا يُنْكِرُهَا إِلَّا الَّذِي مِثْلُكَ غَنِيٌّ وَشَقِ ہے اور اس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا بجز اس شخص کے جو تیرے جیسا نجمی اور شقی اور اندھوں کی طرح ہو.هذا ما أوردنا لإلزامك والحامل یہ وہ نظائر شعراء متقدمین ہیں جن سے تیرا الزام اور من نظائِرِ الْمُتَقَدِّمِيْنَ وَكَلَامِ انجام مقصود ہے مگر وہ امر جو کلام الہی کے سیاق سباق اور اس الْمَشْهُورِينَ الْمَقْبُولِينَ وَأَمَّا مَا يَظْهَرُ کے موتیوں کی لڑیوں کے حقہ سے معلوم ہوتا ہے تو وہ طریق مِن سِيَاقٍ كَلَامِ اللهِ وَسِبَاقِهِ وَمِن عِقَدِ ہدایت طلبوں کے لئے بہت قریب ہے.کیونکہ اللہ جل شانہ دُرِ حِقَاقِهِ، فَهُوَ طَرِيقٌ أَقْرَبُ مِنْ ذلِك نے جیسا کہ روح القدس کو ذی مڑۃ کے ساتھ موصوف کیا لِلْمُسْتَرْشِدِيْنَ فَإِنَّهُ تَعَالَى كَمَا وَصَفَ ہے اسی طرح دوسرے مقام میں ذی قول کے ساتھ رُوحَ الْقُدُسِ بِقَوْلِهِ ذُو مِرَّةٍ كَذلِك منسوب کیا ہے اور کہا ہے کہ دنی قوةٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ وَصَفَهُ فِي مَقَامٍ أَخَرَ بِذِي قُوَّةٍ فَقَالَ ذِي مَكِينِ پس خدا تعالیٰ کا ایک مقام میں جبرئیل کو ذو مرّة قوةٍ عِنْدَ ذِى الْعَرْشِ مَكِينٍ فَقَوْلُهُ في کہنا اور دوسرے مقام میں خو مزہ کی جگہ خو قوف کہ دینا مَقَامٍ ذُوْ مِرَّةٍ وَفِي مَقَامٍ ذِی قُوةٍ شرح یہ خومرہ کے معنے کی ایک شرح لطیف ہے جو تبدیل بیان لطيف بِأَفَانِينَ الْبَيَانِ، وَكَذَلِكَ جَرَتْ سے کی گئی ہے اور اسی طرح قرآن کریم میں اللہ جل شانہ سُنَّةُ الله في الْقُرْآنِ فَإِنَّهُ يُفَتِرُ بَعْضَ کی یہی سنت جاری ہے کہ بعض مقامات قرآن اس کے مُقَامَاتِهِ بِبَعْضٍ أَخَرَ لِيَزِيدَ الاطمينان بعض آخر کے لئے بطور تفسیر ہیں تا کہ خدا تعالیٰ اپنی کتاب الْإِطْمِيْنَانُ وَلِيَعْصَمَ كِتَابَهُ مِنْ تَحْرِيفِ الْخَائِنِينَ كو خیانت کرنے والوں کی تحریف سے بچاوے.وَلَقَد ذكر الله تعالى في کتابہ اور خدا تعالیٰ نے اپنی محکم کتاب اور بزرگ صحیفوں الْمُحْكَمِ وَسِفَرِهِ الْمُكَرَمِ صِفَاتٍ أُخْرَى میں روح القدس کے اور صفات بھی بیان کئے ہیں اور اس للزوج الْأَمِينِ، وَبَيْنَ عِبَارَتْهُ وَصِدَقَة کی پاکیزگی اور اس کی سچائی اور اس کی امانت اور اس کے و
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ا ۲۹۵ سورة النجم وَأَمَانَتَهُ وَقُرْبَهُ مِنْ رَّبِّ الْعَالَمِينَ فَلا قرب کا ذکر کیا ہے پس اس کو شیطان وہی سمجھے گا جو يَحْسِبُه شَيْطَانًا إِلَّا الَّذِي هُوَ شَيْطَانٌ لَعِين خودشیطان ہے.( ترجمہ اصل کتاب سے ) (نور الحق حصہ اوّل، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۱۶۵ تا ۱۷۰) تیسرا درجہ محبت کا وہ ہے جس میں ایک نہایت افروختہ شعلہ محبت الہی کا انسانی محبت کے مستعد فتیلہ پر پڑ کر اُس کو افروختہ کر دیتا ہے اور اس کے تمام اجزا اور تمام رگ وریشہ پر استیلا پکڑ کر اپنے وجود کا اتم اور اکمل اور مظہر اس کو بنا دیتا ہے اور اس حالت میں آتشِ محبت الہی اوج قلب انسان کو نہ صرف ایک چمک بخشتی ہے بلکہ معاً اس چمک کے ساتھ تمام وجود بھڑک اٹھتا ہے اور اس کی لوئیں اور شعلے ارد گرد کو روز روشن کی طرح روشن کر دیتے ہیں اور کسی قسم کی تاریکی باقی نہیں رہتی اور پورے طور پر اور تمام صفات کا ملہ کے ساتھ وہ سارا وجود آگ ہی آگ ہو جاتا ہے اور یہ کیفیت جو ایک آتش افروختہ کی صورت پر دونوں محبتوں کے جوڑ سے پیدا ہو جاتی ہے اس کو روح امین کے نام سے بولتے ہیں کیونکہ یہ ہر یک تاریکی سے امن بخشتی ہے اور ہر یک غبار سے خالی ہے اور اس کا نام شدید القوی بھی ہے کیونکہ یہ اعلیٰ درجہ کی طاقت وحی ہے جس سے قومی تروجی متصور نہیں.اور اس کا نام ذو الافق الا علی بھی ہے کیونکہ یہ وحی الہی کے انتہائی درجہ کی تجلی ہے اور اس کو رای مادای کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے کیونکہ اس کیفیت کا اندازہ تمام مخلوقات کے قیاس اور گمان اور و ہم سے باہر ہے اور یہ کیفیت صرف دنیا میں ایک ہی انسان کو ملی ہے جو انسان کامل ہے جس پر تمام سلسلہ انسانیہ کا ختم ہو گیا ہے.اور دائرہ استعدادت بشریہ کا کمال کو پہنچا ہے اور وہ در حقیقت پیدائش الہی کے خط ممتد کی اعلیٰ طرف کا آخری نقطہ ہے جو ارتفاع کے تمام مراتب کا انتہا ہے.حکمت الہی کے ہاتھ نے ادنی سے ادنی خلقت سے اور اسفل سے اسفل مخلوق سے سلسلہ پیدائش کا شروع کر کے اس اعلیٰ درجہ کے نقطہ تک پہنچا دیا ہے جس کا نام دوسرے لفظوں میں محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم جس کے معنے یہ ہیں کہ نہایت تعریف کیا گیا یعنی کمالات تامہ کا مظہر.توضیح مرام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۶۳، ۶۴) ثُمَّ دَنَا فَتَدَى لي فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدنى.( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے الہام اردت ان استَخْلِفَ فَخَلَقْتُ آدَمَ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ یعنی میں نے اپنی طرف سے خلیفہ کرنے کا ارادہ کیا.کی تشریح میں فرماتے ہیں.)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹۶ سورة النجم اس جگہ خلیفہ کے لفظ سے ایسا شخص مراد ہے کہ جو ارشاد اور ہدایت کے لئے بین اللہ و بین الخلق واسطہ ہو.خلافت ظاہری کہ جو سلطنت اور حکمرانی پر اطلاق پاتی ہے مراد نہیں ہے اور نہ وہ بجز قریش کے کسی دوسرے کے لئے خدا کی طرف سے شریعت اسلام میں مسلم ہو سکتی ہے بلکہ یہ محض روحانی مراتب اور روحانی نیابت کا ذکر ہے اور آدم کے لفظ سے بھی وہ آدم جو ابو البشر ہے مراد نہیں بلکہ ایسا شخص مراد ہے جس سے سلسلہ ارشاد اور ہدایت کا قائم ہوکر روحانی پیدائش کی بنیاد ڈالی جائے گویا وہ روحانی زندگی کے رو سے حق کے طالبوں کا باپ ہے.اور یہ ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جس میں روحانی سلسلہ کے قائم ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.ایسے وقت میں جبکہ اس سلسلہ کا نام ونشان نہیں.پھر بعد اس کے اس روحانی آدم کا روحانی مرتبہ بیان فرمایا اور کہا دَنَا فَتَدَ لى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ ادنی جب یہ آیت شریفہ جو قرآن شریف کی آیت ہے الہام ہوئی تو اس کے معنے کی تشخیص اور تعیین میں تامل تھا.اور اسی تامل میں کچھ خفیف سی خواب آگئی اور اس خواب میں اس کے معنے حل کئے گئے.اس کی تفصیل یہ ہے کہ دنو سے مراد قرب الہی ہے اور قرب کسی حرکت مکانی کا نام نہیں بلکہ اس وقت انسان کو مقرب الہی بولا جاتا ہے کہ جب وہ ارادہ اور نفس اور خلق اور تمام اضداد اور اغیار سے بکی الگ ہو کر طاعت اور محبت الہی میں سرا پا محو ہو جاوے اور ہر یک ماسوا اللہ سے پوری دوری حاصل کر لیوے اور محبت الہی کے دریا میں ایسا ڈوبے کہ کچھ اثر وجود اور انانیت کا باقی نہ رہے.اور جب تک اپنی ہستی کے لوٹ سے مبر انہیں اور بقا باللہ کے پیرایہ سے منتقلی نہیں تب تک اس قرب کی لیاقت نہیں رکھتا.اور بقا باللہ کا مرتبہ تب حاصل ہوتا ہے کہ جب خدا کی محبت ہی انسان کی غذا ہو جائے اور ایسی حالت ہو جائے کہ بغیر اس کی یاد کے جی ہی نہیں سکتا اور اس کے غیر کا دل میں سمانا موت کی طرح دکھائی دے اور صریح مشہور ہو کہ وہ اس کے ساتھ جیتا ہے اور ایسا خدا کی طرف کھینچا جاوے جو دل اس کا ہر وقت یاد اہی میں مستغرق اور اس کے درد سے دردمند ر ہے.اور ماسوا سے اس قدر نفرت پیدا ہو جائے کہ گو یا غیر اللہ سے اس کی عداوت ذاتی ہے جن کی طرف میل کرنے سے بالطبع دکھ اٹھاتا ہے.جب یہ حالت متحقق ہوگی تو دل جو مورد انوار الہی ہے خوب صاف ہوگا اور اسماء اور صفات الہی کا اُس میں انعکاس ہوکر ایک دوسرا کمال جو تدلّی ہے عارف کے لئے پیش آئے گا.اور تدلّی سے مراد وہ ہبوط اور نزول ہے کہ جب انسان متخلق با خلاق اللہ حاصل کر کے اس ذات رحمان و رحیم کی طرح شفقنا علی العباد عالم خلق کی طرف رجوع کرے.اور چونکہ کمالات دنو کے کمالات تدلّی سے لازم ملزوم ہیں.پس ترتی اسی قدر ہوگی جس قدر دنو ہے.اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۹۷ سورة النجم دنو کی کمالیت اس میں ہے کہ اسماء اور صفات الہی کے عکوس کا سالک کے قلب میں ظہور ہو.اور محبوب حقیقی بے شائبہ ظلیت اور بے تو اہم حالیت و محلیت اپنے تمام صفات کا ملہ کے ساتھ اس میں ظہور فرمائے اور یہی استخلاف کی حقیقت اور روح اللہ کی نفخ کی ماہیت ہے اور یہی متخلق باخلاق اللہ کی اصل بنیاد ہے.اور جبکہ تدلّی کی حقیقت کو خلق با خلاق اللہ لازم ہوا اور کمالیت فی الخلق اس بات کو چاہتی ہے کہ شفقت علی العباد اور ان کے لئے بمقام نصیحت کھڑے ہونا اور ان کی بھلائی کے لئے بدل و جان مصروف ہو جانا اس حد تک پہنچ جائے جس پر زیادت متصور نہیں اس لئے واصل تام کو مجمع الاضداد ہونا پڑا کہ وہ کامل طور پر رو بخدا بھی ہو اور پھر کامل طور پر رو بخلق بھی پس وہ ان دونوں قوسوں الوہیت و انسانیت میں ایک وتر کی طرح واقعہ ہے جو دونوں سے تعلق کامل رکھتا ہے.اب خلاصہ کلام یہ کہ وصول کامل کے لئے دنو اور تدلی دونوں لازم ہیں دنو اس قرب تام کا نام ہے کہ جب کامل تزکیہ کے ذریعہ سے انسان کامل سیر الی اللہ سے سیر فی اللہ کے ساتھ محقق ہو جائے اور اپنی ہستی ناچیز سے بالکل ناپدید ہو کر اور غرق دریائے بیچون و بیچکون ہوکر ایک جدید ہستی پیدا کرے جس میں بیگانگی اور دوئی اور جہل اور نادانی نہیں ہے اور صبغتہ اللہ کے پاک رنگ سے کامل رعینی میسر ہے اور تدتی انسان کی اس حالت کا نام ہے کہ جب وہ تخلق باخلاق اللہ کے بعد ربانی شفقتوں اور رحمتوں.سے رنگین ہو کر خدا کے بندوں کی طرف اصلاح اور فائدہ رسانی کے لئے رجوع کرے.پس جاننا چاہئے کہ اس جگہ ایک ہی دل میں ایک ہی حالت اور نیت کے ساتھ دو قسم کا رجوع پایا گیا.ایک خدائے تعالیٰ کی طرف جو وجود قدیم ہے اور ایک اس کے بندوں کی طرف جو وجود محدث ہے.اور دونوں قسم کا وجود یعنی قدیم اور حادث ایک دائرہ کی طرح ہے جس کی طرف اعلیٰ وجوب اور طرف اسفل امکان ہے.اب اس دائرہ کے درمیان میں انسان کامل بوجہ دنؤ اور تدلّی کی دونوں طرف سے اتصال محکم کر کے یوں مثالی طور پر صورت پیدا کر لیتا ہے.جیسے ایک وتر دائرہ کے دو قوسوں میں ہوتا ہے یعنی حق اور خلق میں واسطہ ٹھہر جاتا ہے پہلے اس کو دنو اور قرب الہی کی خلعت خاص عطا کی جاتی ہے اور قرب کے اعلیٰ مقام تک صعود کرتا ہے اور پھر خلقت کی طرف اس کو لایا جاتا ہے.پس اس کا وہ صعود اور نزول دو قوس کی صورت میں ظاہر ہو جاتا ہے اور نفس جامع التعلقین انسان کامل کا ان دونوں قوسوں میں قاب قوسین کی طرح ہوتا ہے اور قاب عرب کے محاورہ میں کمان کے چلہ پر اطلاق یاتا ہے.پس آیت کے بطور تحت اللفظ یہ معنے ہوئے کہ نزدیک ہوا یعنی خدا سے ، پھر اترا یعنی خلقت پر پس اپنے اس صعود اور نزول کی وجہ سے دو قوسوں کے لئے ایک ہی وتر ہو گیا.اور
۲۹۸ سورة النجم تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام چونکہ اس کا رُو بخلق ہونا چشمہ صافی مختلق باخلاق اللہ سے ہے اس لئے اس کی توجہ بمخلوق توجہ بخالق کے عین ہے یا یوں سمجھو کہ چونکہ مالک حقیقی اپنی غایت شفقت علی العباد کی وجہ سے اس قدر بندوں کی طرف رجوع رکھتا ہے کہ گویا وہ بندوں کے پاس ہی خیمہ زن ہے.پس جبکہ سالک سیر الی اللہ کرتا کرتا اپنی کمال سیر کو پہنچ گیا تو جہاں خدا تھا وہیں اس کو کوٹ کر آنا پڑا.پس اس وجہ سے کمال دنو یعنی قرب تام اس کی تدلی یعنی ہبوط کا موجب ہو گیا.(براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۸۵ تا ۵۹۰ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) پھر نزدیک ہوا ( یعنی اللہ تعالیٰ سے ) پھر نیچے کی طرف اُترا ( یعنی مخلوق کی طرف تبلیغ احکام کے لئے نزول کیا ) پس اسی جہت سے کہ وہ اوپر کی طرف صعود کر کے انتہائی درجہ قرب تام کو پہنچا اور اس میں اور حق میں کوئی حجاب نہ رہا اور پھر نیچے کی طرف اس نے نزول کیا اور اس میں اور خلق میں کوئی حجاب نہ رہا یعنی چونکہ وہ اپنے صعود اور نزول میں اتم و اکمل ہوا اور کمالات انتہا ئیہ تک پہنچ گیا اس لئے دو قوسوں کے بیچ میں یعنی وتر کی جگہ میں جو طر دائرہ ہے اتم و اکمل طور پر اس کا مقام ہوا بلکہ وہ قوس الوہیت اور قوس عبودیت کی طرف اس سے بھی زیادہ تر جو خیال و گمان و قیاس میں نہیں آسکتا نزدیک ہوا مثلا صورت اُن قوس اعلیٰ وجود قدیم دو قوسوں کی یہ ہے.رقوس اسفل و جود حادث ممکن پر اس شکل میں جو خط مرکز دائرہ کو قطع کرتا ہے یعنی جو قطر دائرہ ہے وہی قاب قوسین یعنی دونوں قوسوں کا وتر ہے.جاننا چاہئے کہ دونوں قسم وجود واجب اور ممکن کے ایک ایسے دائرہ کی طرح ہیں کہ جو خط گذرندہ بر مرکز سے دو قوسوں پر منقسم ہو.وہی خط جو قطر دائرہ ہے جس کو قرآن شریف میں قاب قوسین سے تعبیر کیا ہے اور عام بول چال علم ہندسہ میں اس کو وتر قوسین کہتے ہیں وہ ذات مفیض اور مستفیض میں بطور برزخ واقع ہے کہ جو اپنے اخص کمال میں جو انتہائی درجہ کمالات کا ہے نقطہ مرکز دائرہ سے جو وتر قوس کا درمیانی نقطہ ہے مشابہت رکھتا ہے یہی نقطہ تمام کمالات انسانِ کامل کا دل ہے جو قوس الوہیت وعبودیت کی طرف بخطوط مساویہ نسبت رکھتا ہے اور یہی نقطہ ارفع نقاط ان خطوط عمودیہ کا ہے جو محیط سے قطر دائرہ تک کھینچے جائیں.اگر چہ وتر قوسین اور بہت سے ایسے نقاط سے تالیف یافتہ ہے جو در حقیقت کمالات روحانیہ صاحب وتر کے صور محسوسہ ہیں لیکن بجز ایک نقطہ مرکز کے اور جس قدر نقاط وتر ہیں ان میں دوسرے انبیاء ورسل وارباب صدق وصفا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۲۹۹ سورة النجم بھی شریک ہیں اور نقطہ مرکز اس کمال کی صورت ہے کہ جو صاحب وتر کو بہ نسبت جمیع دوسرے کمالات کے اعلیٰ وارفع واخص و ممتاز طور پر حاصل ہے جس میں حقیقی طور پر مخلوق میں سے کوئی اس کا شریک نہیں ہاں اتباع و پیروی سے ظلی طور پر شریک ہوسکتا ہے.اب جاننا چاہئے کہ دراصل اسی نقطہ وسطی کا نام حقیقت محمد یہ ہے جو اجمالی طور پر جمیع حقائق عالم کا منبع واصل ہے اور درحقیقت اسی ایک نقطہ سے خط وتر انبساط وامتداد پذیر ہوا ہے اور اسی نقطہ کی روحانیت تمام خط وتر میں ایک ہویت ساریہ ہے جس کا فیض اقدس اس سارے خط کو تعین بخش ہو گیا ہے.عالم جس کو متصوفین اسماء اللہ سے تعبیر کرتے ہیں.اس کا اوّل و اعلیٰ مظہر جس سے وہ علی وجہ التفصیل صدور پذیر ہوا ہے یہی نقطہ درمیانی ہے جس کو اصطلاحات اہل اللہ میں نفسی نقطہ احمد مجتبی محمد مصطفی نام رکھتے ہیں اور فلاسفہ کی اصطلاحات میں عقل اول کے نام سے بھی موسوم کیا گیا ہے.اور اس نقطہ کو دوسرے وتری نقاط کی طرف وہی نسبت ہے جو اسم اعظم کو دوسرے اسماء الہیہ کی طرف نسبت واقع ہے.غرض سر چشمہ رموز غیبی و مفتاح کنوز لاریبی اور انسان کامل دکھلانے کا آئینہ یہی نقطہ ہے اور تمام اسرار مبدء و معاد کی علت غائی اور ہر یک زیر و بالا کی پیدائش کی کمیت یہی ہے جس کے تصور بالکنہ اور تصور بکنہ سے تمام عقول و افہام بشریہ عاجز ہیں اور جس طرح ہر یک حیات خدائے تعالیٰ کی حیات سے مستفاض اور ہر یک وجود اس کے وجود سے ظہور پذیر اور ہر یک تعین اس کے تعین سے خلعت پوش ہے ایسا ہی نقطہ محمد یہ جمیع مراتب اکوان اور خطائر امکان میں باذنہ تعالیٰ حسب استعدادات مختلفہ وطبائع متفاوتہ مؤثر ہے اور چونکہ یہ نقطہ جمیع مراتب الہیہ کا ظلی طور پر اور جمیع مراتب کونسیہ کا منبعی و اصلی طور پر جامع بلکہ انہیں دونوں کا مجموعہ ہے اس لئے یہ ہر ایک مرتبہ کو نیہ پر جو عقول و نفوس کلیه و جزئیہ ومراتب طبعیہ الی آخر تنزلات وجود سے مراد ہے اجمالی طور پر احاطہ رکھتا ہے.ایسا ہی ظل الوہیت ہونے کی وجہ سے مرتبہ الہیہ سے اس کو ایسی مشابہت ہے جیسے آئینہ کے عکس کو اپنے اصل سے ہوتی ہے.اور امہات صفات الہیہ یعنی حیوۃ علم، ارادہ قدرت ، سمع ، بصر کلام معہ اپنے جمیع فروع کے اتم و اکمل طور پر اس میں انعکاس پذیر ہیں.اس نقطہ مرکز کو جو برزخ بین اللہ و بین اتعلق ہے یعنی نفسی نقطہ حضرت سید نا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مجر دکلمتہ اللہ کے مفہوم تک محدود نہیں کر سکتے جیسا کہ میسیج کو اس نام سے محدود کیا گیا ہے کیونکہ یہ نقط محمد یہ ظلی طور پر مستجمع جمیع مراتب الوہیت ہے اسی وجہ سے تمثیلی بیان میں حضرت مسیح کو ابن سے تشبیہ دی گئی ہے باعث اس نقصان کے جوان میں باقی رہ گیا ہے کیونکہ حقیقت عیسویہ مظہر اتم صفات الوہیت نہیں ہے بلکہ اس کی شاخوں سے ایک شاخ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة النجم ہے برخلاف حقیقت محمدیہ کے کہ وہ جمیع صفات الہیہ کا اتم و اکمل مظہر ہے جس کا ثبوت عقلی و نقلی طور پر کمال درجہ پر پہنچ گیا ہے سو اسی وجہ سے تمثیلی بیان میں ظلمی طور پر خدائے قادر و ذوالجلال سے آنحضرت کو آسمانی کتابوں میں تشبیہ دی گئی ہے جو ابن کے لئے بجائے اب ہے.اور حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیم کا اضافی طور پر ناقص ہونا اور قرآنی تعلیم کا سب الہامی تعلیموں سے اکمل و اتم ہونا وہ بھی درحقیقت اسی بناء پر ہے کیونکہ ناقص پر ناقص فیضان ہوتا ہے اور اکمل پر اکمل.اور جو تشبیہات قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فتی طور پر خداوند قادر مطلق سے دی گئی ہیں ان میں سے ایک یہی آیت ہے.جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنى یعنی وہ (حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی ترقیات کا ملہ قرب کی وجہ سے دو قوسوں میں بطور وتر کے واقعہ ہے بلکہ اس سے نزدیک تر.اب ظاہر ہے کہ وتر کی طرف اعلیٰ میں قوس الوہیت ہے سو جب کہ نفس پاک محمدی اپنے شدت قرب اور نہایت درجہ کی صفائی کی وجہ سے وتر کی حد سے آگے بڑھا اور دریائے الوہیت سے نزدیک تر ہوا تو اس نا پیدا کنار دریا میں جا پڑا اور الوہیت کے بحر اعظم میں ذرہ بشریت گم ہو گیا.اور یہ بڑھنا نہ مستحدث اور جدید طور پر بلکہ وہ ازل سے بڑھا ہوا تھا اور ظلی اور مستعارطور پر اس بات کے لائق تھا کہ آسمانی صحیفے اور الہامی تحریریں اس کو مظہر اتم الوہیت قراردیں اور آئینہ حق نما اس کو ٹھہر اوہیں.سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۶۴ تا ۲۷۵ حاشیه ) وَلَا رَيْبَ أَنَّ نَبِيَّنَا سُمِّيَ مُحَمَّدًا بلا شک ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمد رکھا لِمَا أَرَادَ اللهُ أَن تَجْعَلَهُ مَحْبُوبًا فِي أَعْيُنِهِ گیا تا کہ آپ کو ( اللہ تعالیٰ اپنی نظر میں ) اور لوگوں کی نظر میں وَأَعْيُنِ الصَّالِحِيْنَ وَكَذَالِكَ سَمادُ محبوب ٹھہرائے.اور اسی طرح آپ کا نام احمد رکھا کیونکہ اللہ تعالیٰ أَحْمَدَ لِمَا أَرَادَ سُبْحَانَهُ أَنْ تَجْعَلَهُ مُحِب نے ارادہ فرمایا تھا کہ آپ کو اپنی ذات اور مومن اور مسلمان ذَاتِهِ وَمُحِبَّ الْمُؤْمِنِينَ الْمُسْلِمِينَ لوگوں کا مُحب قرار دے.پس آپ کی دوشا نہیں ہیں ایک شان فَهُوَ مُحَمَّدٌ بِشَأْنٍ وَأَحْمَدُ بِشَأْنٍ کے لحاظ سے آپ محمد ہیں اور دوسری شان کے لحاظ سے آپ وَاخْتَضَ أَحَدُ هَذَيْنِ الإِسْمَيْنِ بِزَمَانٍ احمد ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے ایک نام کو ایک زمانہ سے وَالْآخَرُ بِزَمَانٍ وَقَدْ أَشَارَ إِلَيْهِ اور دوسرے نام کو دوسرے زمانہ سے خاص کر دیا.اسی کی سُبْحَانَهُ في قَوْلِهِ دَنَا فَتَدَلى وَ فِي قَابَ طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے قول دَنَا فَتَدَلی اور قَابَ قَوْسَيْنِ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام قَوْسَيْنِ او ادنی - انجاز المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۱۰۹،۱۰۸) | او ادنی میں اشارہ کیا ہے.(ترجمہ از مرتب) سورة النجم سید الانبیاء وخیر الوریٰ مولانا وسید نا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم الشان روحانی حسن لے کر آئے جس کی تعریف میں یہی آیت کریمہ کافی ہے دَنَا فَتَدَی فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ ادنی یعنی وہ نبی جناب الہی سے بہت نزدیک چلا گیا.اور پھر مخلوق کی طرف جھکا اور اس طرح پر دونوں حقوں کو جو حق اللہ اور حق العباد ہے ادا کر دیا.اور دونوں قسم کا حسن روحانی ظاہر کیا.اور دونوں قوسوں میں وتر کی طرح ہو گیا.یعنی دونوں قوسوں میں جو ایک درمیانی خط کی طرح ہو اور اس طرح اس کا وجود خالق مخلوق قوس واقع ہوا جیسے یہ.درمانی خط آنحضرت اس حسن کو نا پاک طبع اور اندھے لوگوں نے نہ دیکھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ (الاعراف : 199 ) یعنی تیری طرف وہ دیکھتے ہیں مگر تو انہیں دکھائی نہیں دیتا.آخر وہ سب اندھے (براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۲۱٬۲۲۰) ١٩٩: ہلاک ہو گئے.یادر ہے کہ تدلی کا ثلاثی مجرد دلو ہے اور دلو کہتے ہیں ڈول کو کنوئیں کے اندر ڈبونا تا پانی اس میں بھر جائے اور دوسرے معنے دلو کے یہ ہیں کہ کسی کو اپنا شفیع پکڑنا پس تدلّی کے معنی ہیں کہ شفاعت کے لئے دور افتادہ لوگوں کی طرف بکمال ہمدردی و غم خواری توجہ کرنا اور ان سے بہت نزدیک ہو کر ان کا مکدر پانی اُٹھانا اور پاک پانی ان کو عطا کرنا.ریویو آف ریلجز جلد نمبر ۵ صفحه ۱۸۴) مقام شفاعت کی طرف قرآن شریف میں اشارہ فرما کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انسان کامل ہونے کی شان میں فرمایا ہے دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ او ادنی یعنی یہ رسول خدا کی طرف چڑھا اور جہاں تک امکان میں ہے خدا سے نزدیک ہوا اور قرب کے تمام کمالات کو طے کیا اور لاہوتی مقام سے پورا حصہ لیا اور پھر ناسوت کی طرف کامل رجوع کیا یعنی عبودیت کے انتہائی نقطہ تک اپنے تئیں پہنچایا اور بشریت کے پاک لوازم یعنی بنی نوع کی ہمدردی اور محبت سے جو نا سوتی کمال کہلاتا ہے پورا حصہ لیا لہذا ایک طرف خدا کی محبت میں اور دوسری طرف بنی نوع کی محبت میں کمال تام تک پہنچا.پس چونکہ وہ کامل طور پر خدا سے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٠٢ سورة النجم قریب ہوا اور پھر کامل طور پر بنی نوع سے قریب ہوا اس لئے دونوں طرف کے مساوی قرب کی وجہ سے ایسا ہو گیا جیسا کہ دو قوسوں میں ایک خط ہوتا ہے لہذا وہ شرط جو شفاعت کے لئے ضروری ہے اس میں پائی گئی اور خدا نے اپنے کلام میں اس کے لئے گواہی دی کہ وہ اپنے بنی نوع میں اور اپنے خدا میں ایسے طور سے درمیان ہے جیسا کہ وتر دوقوسوں کے درمیان ہوتا ہے.ریویو آف ریلی جز جلد نمبر ۵ صفحه ۱۸۲) انسان اور خدا کے درمیان بھی ایک برزخ ہے.اور وہ تجلیات ہیں.چنانچہ اس مقام اور مرتبہ کی طرف خدا تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْن او ادنی یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علو مرتبہ کا بیان ہے کیونکہ یہ مرتبہ اس انسان کامل کو مل سکتا ہے جو عبودیت اور الوہیت کے دونوں قوسوں کے درمیان ہوکر ایسا شدید اور قومی تعلق پکڑتا ہے.گویا ان دونوں کا عین ہو جاتا ہے.اور اپنے نفس کو درمیان سے اٹھا کر ایک مصفا آئینہ کا حکم پیدا کر لیتا ہے.اور اس تعلق کی دو جہتیں ہوتی ہیں.ایک جہت سے یعنی اوپر کی طرف سے وہ تمام انوار و فیوض الہیہ کو جذب کرتا ہے اور دوسری طرف سے وہ تمام فیوض بنی نوع کو حسب استعداد پہنچاتا ہے.پس ایک تعلق اس کا الوہیت سے اور دوسرا بنی نوع سے.جیسا کہ اس آیت میں صاف معلوم ہوتا ہے یعنی پھر نزدیک سے ( یعنی اللہ تعالیٰ سے) پھر نیچے کی طرف اترا ( یعنی مخلوق کی طرف اترا یعنی مخلوق کی طرف تبلیغ احکام کے لئے نزول کیا ) پس وہ ان تعلقات قرب کے مراتب تام کی وجہ سے دو قوسوں کے وتر کی طرح کا ہو گیا تھا.بلکہ قوس الوہیت اور عبودیت کی طرف اس سے بھی زیادہ قرب ہو گیا.چونکہ دنو قرب سے ابلغ تر ہے.اس لئے خدا نے اس لفظ کو استعمال فرمایا اور یہی نقطہ جو برزخ بین اللہ و بین الخلق ہے.نفسی نقطہ سید نامحمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے.اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا سے لیتے اور بنی نوع کو پہنچاتے ہیں اس لئے آپ کا نام قاسم بھی ہے.(الحاکم جلد ۵ نمبر ۴۲ مورخه ۷ ارنومبر ۱۹۰۱ صفحه ۳) شفیع کا لفظ شفع سے نکلا ہے جس کے معنی جفت کے ہیں.اس لیے شفیع وہ ہوسکتا ہے جو دو مقامات کا مظہر اتم ہو یعنی مظہر کامل لا ہوت اور ناسوت کا ہو.لاہوتی مقام کا مظہر کامل ہونے سے یہ مراد ہے کہ اس کا خدا کی طر ف صعود ہو.وہ خدا سے حاصل کرے اور نا سوتی مقام کے مظہر کا یہ مفہوم ہے کہ مخلوق کی طرف اس کا نزول ہو جو خدا سے حاصل کرے وہ مخلوق کو پہنچاوے اور مظہر کامل ان مقامات کا ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اسی کی طرف اشارہ ہے دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ آدنی.الحکم جلد ۶ نمبر ۸ مورخه ۲۸ فروری ۱۹۰۲ ء صفحه ۵)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ا ۳۰۳ سورة النجم دنا فتدلى آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں آیا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اوپر کی طرف ہو کر نوع انسان کی طرف جھکا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال اعلیٰ درجہ کا کمال ہے جس کی نظیر نہیں مل سکتی اور اس کمال میں آپ کے دو درجہ بیان فرمائے ہیں.ایک صعود، دوسرا نزول.اللہ تعالیٰ کی طرف تو آپ کا صعود ہوا یعنی خدا تعالیٰ کی محبت اور صدق و وفا میں ایسے کھینچے گئے کہ خود اس ذات اقدس کے دنو کا درجہ آپ کو عطا ہوا.دنو.اقرب سے ابلغ ہے.اس لیے یہاں یہ لفظ اختیار کیا.جب اللہ تعالیٰ کے فیوضات اور برکات سے آپ نے حصہ لیا تو پھر بنی نوع پر رحمت کے لیے نزول فرمایا.یہ وہی رحمت تھی جس کا اشارہ اللہ تعالى نے مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبیاء : ۱۰۸) فرمایا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم قاسم کا بھی یہی سر ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے لیتے ہیں جو کچھ لیتے ہیں اور پھر مخلوق کو پہنچاتے ہیں.بس مخلوق کو پہنچانے کے واسطے آپ کا نزول ہوا.اس دنا فتدلی میں اسی صعود اور نزول کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علومرتبہ کی دلیل ہے.مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى احکام جلد ۹ نمبر ۳۲ مورخه ۱۰ر تمبر ۱۹۰۵ صفحه ۸) انتہائی درجہ (ترقیات کا ملہ ) کا وہ ہے جس کی نسبت لکھا ہے مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى انسان زمانہ سیر سلوک میں اپنے واقعات کشفیہ میں بہت سے عجائبات دیکھتا ہے اور انواع و اقسام کی واردات اُس پر وارد ہوتی ہیں مگر اعلیٰ مقام اس کا عبودیت ہے جس کا لازمہ صحو اور ہوشیاری سے اور شکر اور شطح سے بکلی بیزاری ہے.مکتوبات احمد جلد اوّل صفحه ۵۱۹) حالت تام وہ ہے جس کی طرف اشارہ ہے مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَفی یہ حالت اہل جنت کے نصیب ہوگی.احکم جلد ۹ نمبر ۳۵ مورخه ۱۰/اکتوبر ۱۹۰۵ صفحه (۸) الكُمُ الذَّكَرُ وَ لَهُ الْأُنْثَى تِلْكَ إِذَا قِسْمَةٌ ضِيْزُى عیسائیوں کو جواب دیتے وقت بعض اوقات سخت الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں تو یہ بات بالکل صاف ہے جب ہمارا دل بہت دکھایا جاتا ہے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر طرح طرح کے ناجائز حملے کئے جاتے ہیں تو صرف متنبہ کرنے کی خاطر انہیں کی مسلمہ کتابوں سے الزامی جواب دیئے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۴ سورة النجم جاتے ہیں ان لوگوں کو چاہئیے کہ ہماری کوئی بات ایسی نکالیں جو حضرت عیسی کے متعلق ہم نے بطور الزامی جواب کے لکھی ہو اور وہ انجیل میں موجود نہ ہو.آخر یہ تو ہم سے نہیں ہو سکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تو ہین سن کر چپ رہیں اور اس قسم کے جواب تو خود قرآن مجید میں پائے جاتے ہیں جیسے لکھا ہے انکم الذَّكَرُ وَ لَهُ الْأُنْثَى فَاسْتَفْتِهِمُ الرَبَّكَ الْبَنَاتُ وَ لَهُمُ الْبَنُونَ (الصافات : ۱۵۰ ).وہ لوگ فرشتوں کو خدا تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے تھے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تمہارے بیٹے اور ہماری بیٹیاں؟ غرض الزامی رنگ کے جواب دینا تو طریق مناظرہ ہے.ورنہ ہم حضرت عیسی کو خدا تعالیٰ کا رسول اور ایک مقبول اور برگزیدہ انسان سمجھتے ہیں اور جن لوگوں کا دل صاف نہیں اُن کا فیصلہ ہم خدا پر چھوڑتے ہیں.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۴۱ مورخہ ۱۷ نومبر ۱۹۰۷ ء صفحه ۴) کیا تمہارے لئے بیٹے اور اس کے لئے بیٹیاں.یہ تو ٹھیک ٹھیک تقسیم نہ ہوئی.شَيْئًا براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۲۰ حاشیه ) وَمَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ مراد از علم یقین است - فنون را علم نے علم سے مراد یقین ہے.ظن کو علم نہیں کہتے.یہ گویند - ایناں اتباع خلن میکنند - اِنَّ الظَّنَّ لا لوگ ظن کی پیروی کر رہے ہیں.إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِی مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا - ( ترجمه از مرتب) يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا - الحکم جلدے نمبر ۵ موره ۷ فروری ۱۹۰۳ صفحه (۱۴) | ظاہر ہے کہ ظن کوئی چیز نہیں ہے اور جو شخص محض ظن کو پنجہ مارتا ہے وہ مقام بلند حق سے بہت نیچے گرا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِى مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا - یعنی محض ظن حق الیقین کے مقابلہ پر کچھ چیز نہیں.ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه (۲۰۸) یا درکھو ظن مفید نہیں ہو سکتا.خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے اِنَّ الظَّنَّ لا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا یقین ہی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو با مراد کر سکتی ہے یقین کے بغیر کچھ نہیں ہوتا.القام جلد ۶ نمبر ۴۹ مورخه ۱۰ ؍دسمبر ۱۹۰۲ صفحه ۱) الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبهِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّهَمَ إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۵ سورة النجم الْمَغْفِرَةِ هُوَ اَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ اَنْشَاكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَ إِذْ اَنْتُمْ آجِنَّةٌ فِي بُطُونِ امهتِكُمْ فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى وَأَمَّا مَا قَالَ الله تَعَالى فَلَا تُركو | اللہ تعالی نے قرآن مجید میں جو یہ فرمایا ہے فلا انْفُسَكُمْ فَفَرِّقُ بَيْنَ تَزْكِيَةِ النَّفْسِ تُرَكُوا أَنْفُسَكُم تو اس آیت کا صحیح مطلب جاننے کے لئے وَإِظْهَارِ النَّعْمَةِ، وَإِنْ كَانَا مُشَابِبَيْنِ في تمہیں تزکیہ نفس اور اظہار نعمت کے درمیان واضح فرق معلوم الصُّوْرَةِ.فَإِنَّكَ إِذَا عَزَوْتَ الْكَمَالَ إلى ہونا چاہیے اگر چہ یہ دونوں صورت کے لحاظ سے مشابہ ہیں.نفْسِك وَرَأَيْتَكَ كَأَنَّكَ شَنِيٌّ وَنَسِيتَ پر جب کمال کو اپنے نفس کی طرف منسوب کرو اور تم سمجھو کہ الْخالِقَ الَّذِى مَنْ عَلَيْكَ فَهَذَا تَزْكِيَةُ گویا تم بھی کوئی حیثیت رکھتے ہو اور تم اپنے اس خالق کو بھول النَّفْسِ وَلكِنّكَ إِذَا عَزَوْتَ كَمَالَكَ جاؤ جس نے تم پر احسان کیا تو تمہارا یہ فعل تزکیہ نفس قرار إلى رَبِّكَ، وَرَأَيْتَ كُلَّ نِعْمَةٍ مِنْهُ، وَمَا پائے گا لیکن اگر تم اپنے کمال کو اپنے رب کی طرف منسوب رَأَيْتَ نَفْسَكَ عِندَ رُؤْيَةِ الْكَمَالِ بَل کرو اور تم یہ سمجھو کہ ہر نعمت اللہ کی عطا کردہ ہے اور اپنے کمال اور تم رَأَيْتَ فِي كُلِّ طَرَفٍ حَوْلَ اللهِ وَقُوتَهُ کو دیکھتے وقت تم اپنے نفس کو نہ دیکھو بلکہ تم ہر طرف اللہ تعالیٰ وَمَنَّهُ وَفَضْلَهُ وَوَجَدَتَ نَفْسَكَ کی قوت ، اس کی طاقت ، اس کا احسان اور اس کا فضل دیکھو كَمَيتٍ فِي يَدِ الْغَسَّالِ، وَمَا أَضَفْتَ اور اپنے آپ کو غسال کے ہاتھ میں محض ایک مردہ کی طرح إِلَيْهَا شَيْئًا مِنَ الْكَمَالِ، فَهَذَا هُوَ پاؤ اور اپنے نفس کی طرف کوئی کمال منسوب نہ کرو تو یہ اظہار نعمت ہے.( ترجمہ از مرتب) إظْهَارُ النِعْمَةِ.البدر جلد ۲ نمبر ۲۲ مورخه ۱۹ جون ۱۹۰۳ ء صفحه ۱۶۹) (حمامة البشرى ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۳۲۲٬۳۲۱) فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُم سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ معصوم اور محفوظ ہونا تمہارا کام نہیں ہے خدا کا ہے ہر ایک نور اور طاقت آسمان سے ہی آتی ہے.تزکیہ نفس ایک ایسی شئی ہے کہ وہ خود بخود نہیں ہو سکتا اس لئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَلَا تُزَكُوا أَنْفُسَكُم هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى کہ تم یہ خیال نہ کرو کہ ہم اپنے نفس یا عقل کے ذریعہ سے خود بخو دمز کی بن جاویں گے.یہ بات غلط ہے.وہ خوب جانتا ہے کہ کون متقی ہے.(البدر جلد ۲ نمبر ۳۶ مورخه ۲۵ تمبر ۱۹۰۳ صفحه ۳۸۲)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٠٦ سورة النجم کوئی آدمی کسی کو متقی کیوں کر یقین کر سکتا ہے.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے لَا تُزَكُوا أَنْفُسَكُمْ اور فرماتا ہے هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى اور فرماتا ہے اللہ تعالیٰ ہی عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُور ہے.ہاں مامور من اللہ کے متقی ہونے اور نہ ہونے کے نشانات بین ہوتے ہیں نہ اور وں کے.البدر جلد ۳ نمبر ۲۲، ۲۳ مورخه ۸ تا ۶ ارجون ۱۹۰۴ ء صفحه ۲) کبھی یہ دعویٰ نہ کرو کہ میں پاک صاف ہوں جیسے کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے فَلا تركوا اَنْفُسَكُمْ کہ تم اپنے آپ کو مز کی مت کہو وہ خود جانتا ہے کہ تم میں سے متقی کون ہے.وَابْراهِيمَ الَّذِي وَفي البدر جلد ۳ نمبر ۳۴ مورخه ۸ /ستمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۳) خدا تعالیٰ کے قرب حاصل کرنے کی راہ یہ ہے کہ اس کے لئے صدق دکھایا جائے.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے جو قرب حاصل کیا تو اس کی وجہ یہی تھی.چنانچہ فرمایا ہے إِبْرَاهِيمَ الَّذِى وَفَّى ابراہیم وہ ابراہیم جس نے وفاداری دکھائی.خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری اور صدق اور اخلاص دکھانا ایک موت کو چاہتا ہے جب تک انسان دنیا اور اس کی ساری لذتوں اور شوکتوں پر پانی پھیر دینے کو طیارنہ ہو جاوے.اور اس کی ذلت اور سختی اور تنگی خدا کے لئے گوارا کرنے کو طیار نہ ہو.یہ صفت پیدا نہیں ہوسکتی.بت پرستی یہی نہیں کہ انسان کسی درخت یا پتھر کی پرستش کرے بلکہ ہر ایک چیز جو اللہ تعالیٰ کے قرب سے روکتی اور اس پر مقدم ہوتی ہے.وہ بت ہے اور اس قدربت انسان اپنے اندر رکھتا ہے کہ اس کو پتہ بھی نہیں لگتا کہ میں بت پرستی کر رہا ہوں.پس جب تک خالص خدا تعالیٰ ہی کے لئے نہیں ہو جاتا اور اس کی راہ میں ہر مصیبت کی برداشت کرنے کے لئے طیار نہیں ہوتا.صدق اور اخلاص کا رنگ پیدا ہونا مشکل ہے.ابراہیم علیہ السلام کو جو یہ خطاب ملا.کیا یہ یونہی مل گیا تھا ؟ نہیں.إِبْرَاهِيمَ الَّذِي وَفی کی آواز اس وقت آئی جبکہ وہ بیٹے کی قربانی کے لئے طیار ہو گیا.اللہ تعالیٰ عمل کو چاہتا ہے اور عمل ہی سے راضی ہوتا ہے.اور عمل دکھ سے آتا ہے.لیکن جب انسان خدا کے لئے دکھ اٹھانے کو طیار ہو جاوے تو خد اتعالیٰ اس کو دکھ میں بھی نہیں ڈالتا.دیکھو.ابراہیم علیہ السلام نے جب اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کے لئے اپنے بیٹے کو قربان کر دینا چاہا اور پوری طیاری کرلی تو اللہ تعالیٰ نے اس کے بیٹے کو بچالیا.وہ آگ میں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۰۷ سورة النجم ڈالے گئے لیکن آگ ان پر کوئی اثر نہ کر سکی.اللہ تعالیٰ کی راہ میں تکلیف اٹھانے کو طیار ہو جاوے تو خدا تعالیٰ تکالیف سے بچالیتا ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۰ مورخه ۷ ار مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۱) جب تک انسان صدق وصفا کے ساتھ خدا کا بندہ نہ ہو گا.تب تک کوئی درجہ ملنا مشکل ہے.جب ابراہیم کی نسبت خدا تعالیٰ نے شہادت دی وَ ابْراهِيمَ الَّذِي وَفی کہ ابراہیم وہ شخص ہے جس نے اپنی بات کو پورا کیا.تو اس طرح سے اپنے دل کو غیر سے پاک کرنا اور محبت الہی سے بھرنا ، خدا کی مرضی کے موافق چلنا اور جیسے ظل اصل کا تابع ہوتا ہے ویسے ہی تابع ہونا کہ اس کی اور خدا کی مرضی ایک ہو کوئی فرق نہ ہو.یہ سب باتیں دُعا سے حاصل ہوتی ہیں.(البدر جلد ۲ نمبر ۴۳ مورخه ۱۶ نومبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۳۴) خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں اسی لئے ابراہیم کی تعریف کی ہے جیسے کہ فرمایا ہے ابْراهِيمَ الَّذِي وَفَّى کہ اس نے جو عہد کیا اسے پورا کر کے دکھایا.(البدر جلد ۳ نمبر ۲ مورخه ۸ /جنوری ۱۹۰۴ء صفحه ۱۵) تعلقات الہی ہمیشہ پاک بندوں سے ہوا کرتے ہیں جیسا کہ فرمایا ہے اِبْراهِيمَ الَّذِى وَقَی لوگوں پر جو احسان کرے ہرگز نہ جتلا وے.جو ابراہیم کے صفات رکھتا ہے ابراہیم بن سکتا ہے.الحکم جلد نمبر ۲۴ مورخه ۳۰ جون ۱۹۰۳ صفحه ۱۱) L نامرد، بزدل، بیوفا جو خدا تعالیٰ سے اخلاص اور وفاداری کا تعلق نہیں رکھتا بلکہ دغا دینے والا ہے وہ کس کام کا ہے اس کی کچھ قدر و قیمت نہیں ہے ساری قیمت اور شرف وفا سے ہوتا ہے ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو جو شرف اور درجہ ملا وہ کس بناء پر ملا؟ قرآن شریف نے فیصلہ کر دیا ہے ابْراهِيمَ الَّذِي وَفی ابراہیم وہ جس نے ہمارے ساتھ وفاداری کی آگ میں ڈالے گئے مگر انہوں نے اس کو منظور نہ کیا کہ وہ ان کا فروں کو کہہ دیتے کہ تمہارے ٹھاکروں کی پوجا کرتا ہوں خدا تعالیٰ کے لیے ہر تکلیف اور مصیبت کو برداشت کرنے پر آمادہ ہو گئے خدا تعالیٰ نے کہا کہ اپنی بیوی کو بے آب و دانہ جنگل میں چھوڑ آ.انہوں نے فی الفور اس کو قبول کر لیا ہر ایک ابتلا کو انہوں نے اس طرح پر قبول کر لیا کہ گویا عاشق اللہ تھا.درمیان میں کوئی نفسانی غرض یہ تھی.الحکم جلد ۸ نمبر ۴ مورخه ۳۱/جنوری ۱۹۰۴ ء صفحه ۲،۱) دُنیا میں بھی اگر ایک نوکر خدمت کرے اور حق وفا کا ادا کرے تو جو محبت اس سے ہوگی وہ دوسرے سے کیا ہو سکتی ہے.جو صرف اس بات پر ناز کرتا ہے کہ میں نے کوئی اُچک پٹا نہیں کیا حالانکہ اگر کرتا تو سزا پاتا.اتنی بات سے حقوق قائم نہیں ہو سکتے حقوق تو صرف صدق و وفا سے قائم ہو سکتے ہیں جیسے ابراھیم
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بر ۳۰۸ سورة النجم البدر جلد ۳ نمبر ۸ مورخه ۲۴ فروری ۱۹۰۴ صفحه ۲) الذي وفى - صوفیوں نے لکھا ہے کہ اوائل سلوک میں جو رویا یا وحی ہو اس پر توجہ نہیں کرنی چاہیے وہ اکثر اوقات اس راہ میں روک ہو جاتی ہے انسان کی اپنی خوابی اس میں تو کوئی نہیں کیونکہ یہ تواللہ تعالیٰ کا فعل ہے جو وہ کسی کو کوئی اچھی خواب دکھاوے یا کوئی الہام کرے اس نے کیا کیا؟ دیکھو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بہت وحی ہوا کرتی تھی لیکن اس کا کہیں ذکر بھی نہیں گیا گیا کہ اس کو یہ الہام ہوا یہ وحی ہوئی بلکہ ذکر کیا گیا ہے تو اس بات کا کہ ابْراهِيمَ الَّذى وَفی وہ ابراہیم جس نے وفاداری کا کامل نمونہ دکھایا.(البدر جلد ۳ نمبر ۱۹۷۱۸ مورخه ۸ تا ۱۲ رمئی ۱۹۰۴ ء صفحه ۱۰) اس سوال کے جواب میں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے احیائے موتی کی کیفیت کے متعلق اطمینان چاہا تھا.کیا ان کو پہلے اطمینان نہ تھا.فرمایا.) اصل بات یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اللہ تعالیٰ کے مکتب میں تعلیم پانے والے ہوتے ہیں اور تلامیذ الرحمن کہلاتے ہیں.اُن کی ترقی بھی تدریجی ہوتی ہے.اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قرآن شریف میں آیا ہے كَذلِكَ لِمُتَيَّتَ بِهِ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنَهُ تَرْتِيلاً (الفرقان : (۳۳) پس میں اس بات کو خوب جانتا ہوں کہ انبیاء علیہم السلام کی حالت کیسی ہوتی ہے.جس دن نبی مامور ہوتا ہے اُس دن اور اُس کی نبوت کے آخری دن میں ہزاروں کوس کا فرق ہو جاتا ہے.پس یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایسا کہا.ابراہیم تو وہ شخص ہے.جس کی نسبت قرآن شریف نے خود فیصلہ کر دیا ہے ابراهِيمَ الَّذِى ولى.....پھر یہ اعتراض کس طرح پر ہو سکتا ہے.اللَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۹ مورخه ۱۷ /اگست ۱۹۰۲ صفحه ۱۰) یہ کہنا کہ انسانی رنج ومحن حوا کے سیب کھانے کی وجہ سے ہیں اسلام کا یہ عقیدہ نہیں.ہمیں تو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أَخْرى (الانعام : ۱۶۵) زید کے بدلے بکر کو سزا نہیں مل سکتی اور نہ ہی اس سے کچھ فائدہ متصور ہے.حوا کی سیب خوری ان مشکلات اور رنج وسزا کا باعث نہیں ہے بلکہ ان کی وجوہات قرآن نے کچھ اور ہی بیان فرمائے ہیں.(الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۶ مورخه ۲ ؍جون ۱۹۰۸ صفحه ۷)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٠٩ سورة النجم وَ اَنْ لَّيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى انسان کو وہی ملتا ہے جو سعی کرتا ہے.جو اس نے کوشش کی ہو.یعنی عمل کرنا اجر پانے کے لئے ضروری ہے.جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۳۱) اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ انسان بے دست و پا ہو کر بیٹھ رہے بلکہ اُس نے صرف فرمایا ہے وَ آن نیس لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى اس لیے مومن کو چاہیے کہ وہ جد و جہد سے کام کرے، لیکن جس قدر مرتبہ مجھ سے ممکن ہے یہی کہوں گا کہ دنیا کو مقصود بالذات نہ بنالو.دین کو مقصود بالذات ٹھہراؤ اور دُنیا اس کے لئے بطور خادم اور مرکب کے ہو.الحکم جلد ۴ نمبر ۲۹ مورخه ۱۶ اگست ۱۹۰۰ صفحه ۴) کمالات تو انسان کو مجاہدات سے حاصل ہوتے ہیں مگر جن کو سہل نسخہ مسیح کے خون کامل گیا وہ کیوں مجاہدات کرے گا.اگر مسیح کے خون سے کامیابی ہے تو پھر ان کے لڑکے امتحان پاس کرنے کے واسطے کیوں مدرسوں میں محنتیں اور کوششیں کرتے ہیں چاہئے کہ وہ تو صرف خون پر بھروسہ رکھیں اور اس سے کامیاب ہوں اور کوئی محنت نہ کریں اور مسلمانوں کے بچے محنتیں کر کر کے اور ٹکریں مار مار کر پاس ہوں.اصل بات یہ ہے کیس الإنسان إلا ما سکی.اس دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک انسان جب اپنے نفس کو مطالعہ کرتا ہے تو اسے فسق و فجور وغیر ہ معلوم ہوتے ہیں آخر وہ یقین کی حالت پر پہنچ کر ان کو صیقل کر سکتا ہے لیکن جب خون مسیح پر مدار ہے تو پھر مجاہدات کی کیا ضرورت ہے ان کی جھوٹی تعلیم سچی ترقیات سے روک رہی ہے.سچی تعلیم والا دعائیں کرتا ہے کوششیں کرتا ہے آخر دور تا دوڑتا ہاتھ پاؤں مارتا ہوا منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے.جب یہ بات ان کی سمجھ میں آوے گی کہ یہ سب باتیں (خون صحیح پر بھروسہ ) قصہ کہانی ہیں اور ان سے اب کوئی آثار اور نتائج مرتب نہیں ہوتے اور ادھر سچی تعلیم کی تخم ریزی کے ساتھ برکات ہوں گی تو یہ لوگ خود سمجھ لیویں گے انسان کھیتی کرتا ہے اس میں بھی محنت کرنی پڑتی ہے.اگر ایک ملازم ہے تو اسے بھی محنت کا خیال ہے غرضیکہ ہر ایک اپنے اپنے مقام پر کوشش میں لگا ہے اور سب کا ثمرہ کوشش پر ہی ہے.سارا قرآن کوشش کے مضمون سے بھرا پڑا ہے کلَيْسَ لِلْإِنْسَانِ الا ما سعی.ان لوگوں کو جو ولایت میں خونِ مسیح پر ایمان لا کر بیٹھے ہیں کوئی پوچھے کیا حاصل ہوا.مردوں یا عورتوں نے خون پر ایمان لا کر کیا ترقی حاصل کی.یہ باتیں ہیں جو بار بار ان کے کانوں تک پہنچانی چاہئیں.البدر جلد اوّل نمبر ۱۰ مورخه ۲ جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۷۴)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۰ سورة النجم قرآن کو بہت پڑھنا چاہیئے اور پڑھنے کی توفیق خدا سے طلب کرنی چاہیے کیونکہ محنت کے سوا انسان کو کچھ نہیں ملتا کسان کو دیکھو کہ جب وہ زمین میں ہل چلاتا ہے اور قسم قسم کی محنت اٹھاتا ہے تب پھل حاصل کرتا ہے مگر محنت کے لیے زمین کا اچھا ہونا شرط ہے اسی طرح انسان کا دل بھی اچھا ہو سامان بھی عمدہ ہو سب کچھ کر بھی سکے تب جا کر فائدہ پاوے گا لَيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلا ما سعی.دل کا تعلق اللہ تعالیٰ سے مضبوط باندھنا چاہیے جب یہ ہو گا تو دل خود خدا سے ڈرتا رہے گا اور جب دل ڈرتا رہتا ہے تو خدا کو اپنے بندے پر خود رحم آجا تا ہے اور پھر تمام بلاؤں سے اسے بچاتا ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۱۴ مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۱۰۹) دعا کا اثر ثابت ہے ایک روایت میں ہے کہ اگر میت کی طرف سے حج کیا جاوے تو قبول ہوتا ہے اور روزہ کا ذکر بھی ہے.(ایک شخص نے عرض کیا کہ حضور یہ جو ہے لَيْسَ لِلإِنْسَانِ الا ما سعی.فرمایا کہ ) اگر اس کے یہ معنے ہیں کہ بھائی کے حق میں دعا نہ قبول ہو تو پھر سورہ فاتحہ میں اھدنا کی بجائے اھدائی ہوتا.(البدرجلد ۲ نمبر ۱۵ مورخہ یکم رمئی ۱۹۰۳ء صفحه ۱۱۵) ہم کبھی ان باتوں سے فخر نہیں کر سکتے کہ رؤیا یا الہام ہونے لگے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ رہیں اور مجاہدات سے دستکش ہورہیں اللہ تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا وہ تو فرماتا ہے لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی راہ میں وہ مجاہدہ کرے اور وہ کام کر کے دکھلاوے جو کسی نے نہ کیا ہو اگر اللہ تعالیٰ صبح سے شام تک مکالمہ کرے تو یہ فخر کی بات نہیں ہوگی کیونکہ یہ تو اس کی عطا ہوگی دھیان یہ ہوگا کہ خود ہم نے اس کے لیے کیا کیا.(البدر جلد ۳ نمبر ۱۸ ۱۹ مورخه ۸ تا ۱۶ ارمئی ۱۹۰۴ صفحه ۱۰).اس قسم کے لوگ ہمیشہ گزرے ہیں جو چاہتے ہیں کہ بغیر کسی قسم کی محنت اور تکلیف اور سعی اور مجاہدہ کے وہ کمالات حاصل کر لیں جو مجاہدات سے حاصل ہوتے ہیں.صوفیاء کرام کے حالات میں لکھا ہے کہ بعض لوگوں نے آکر اُن سے کہا کہ کوئی ایسا انتظام ہو کہ ہم پھونک مارنے سے ولی ہو جاویں.ایسے لوگوں کے جواب میں انہوں نے یہی فرمایا ہے کہ پھونک کے واسطے بھی تو قریب ہونے کی ضرورت ہے، کیونکہ پھونک بھی دور سے نہیں لگتی.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَيْسَ لِلإِنسَانِ إلا ما سعی یعنی کوئی انسان بغیر سعی کے کمال حاصل نہیں کر سکتا.یہ خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ قانون ہے.پھر اس کے خلاف اگر کوئی کچھ حاصل کرنا چاہے تو وہ خدا تعالیٰ کے قانون کو توڑتا ہے اور اسے آزماتا ہے.اس لیے محروم رہے گا.دنیا کے عام کا روبار میں بھی تو یہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۱ سورة النجم سلسلہ نہیں ہے کہ پھونک مار کر کچھ حاصل ہو جائے یا بدوں سعی اور مجاہدہ کے کوئی کامیابی مل سکے.دیکھو.آپ شہر سے چلے تو اسٹیشن پر پہنچے.اگر شہر سے ہی نہ چلتے تو کیوں کر پہنچتے.پاؤں کو حرکت دینی پڑی ہے یا نہیں؟ اسی طرح سے جس قدر کاروبار دنیا کے ہیں سب میں اول انسان کو کچھ کرنا پڑتا ہے.جب وہ ہاتھ پاؤں ہلاتا یا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی برکت ڈال دیتا ہے.اسی طرح پر خدا تعالی کی راہ میں وہی لوگ کمال حاصل کرتے ہیں جو مجاہدہ کرتے ہیں.اسی لئے فرمایا ہے وَالَّذِينَ جَهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت :٧٠) پس کوشش کرنی چاہیے کیونکہ مجاہدہ ہی کامیابیوں کی راہ ہے.( الحکم جلد ۸ نمبر ۳۹،۳۸ مورخه ۱۰ تا۷ارنومبر ۱۹۰۴ صفحه ۳) دعا جب کام کرتی ہے جب انسان کی کوشش بھی ساتھ ہو.بعض لوگ جانتے ہیں کہ پھونک مار کر ولی بنا دیا جاوے وہ یہ نہیں جانتے کہ پھونک بھی اس آدمی کو لگتی ہے جو نزدیک آوے.یہ خیال بالکل غلط ہے کہ بغیر انسان کی سعی کے کچھ ہو جاوے قرآن شریف میں ہے لَيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی اور دل کی ہر ایک حالت کے لئے ایک ظاہری عمل کا نشان ضرور ہوتا ہے.جب دل پر غم کا غلبہ ہو تو آنسو نکل آتے ہیں.اسی لئے شریعت نے ثبوت کا مدار ایک شہادت پر نہیں رکھا جب تک دوسرا گواہ بھی نہ ہو.پس جب تک ظاہر و باطن ایک نہ ہو تب تک کچھ نہیں بنتا.(البدر جلد ۳ نمبر ۴۱، ۴۲ مورخه یکم و ۸ /نومبر ۱۹۰۴ء صفحه ۱۰) انسان کے لئے سعی اور مجاہدہ ضروری چیز ہے اور اس کے ساتھ مصائب اور مشکلات بھی ضروری ہیں.لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعى جو لوگ سعی کرتے ہیں وہ اس کے ثمرات سے فائدہ اُٹھاتے ہیں.اسی طرح پر جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں اور نفس کی قربانی کرتے ہیں ان پر الہی قرب وانوار و برکات اور قبولیت کے آثار ظاہر ہوتے ہیں اور بہشت کا نقشہ ان پر کھولا جاتا ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۲۹ مورخه ۱۷ اگست ۱۹۰۵ صفحه (۴) ایک طرف تو اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اپنے کرم، رحم ، لطف اور مہر بانیوں کی صفات بیان کرتا ہے اور رحمان ہونا ظاہر کرتا ہے اور دوسری طرف فرماتا ہے کہ اَنْ نَّيْسَ لِلإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى اور وَالَّذِينَ جَهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا (العنکبوت :۷۰) فرما کر اپنے فیض کو سعی اور مجاہدہ میں منحصر فرماتا ہے نیز اس میں صحابہ رضی اللہ کا طرز عمل ہمارے واسطے ایک اسوہ حسنہ اور عمدہ نمونہ ہے.صحابہ کی زندگی میں غور کر کے دیکھو.بھلا انہوں نے محض معمولی نمازوں سے ہی وہ مدارج حاصل کر لیے تھے ؟ نہیں! بلکہ انہوں نے تو خدا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۲ سورة النجم کی رضا کے حصول کے واسطے اپنی جانوں تک کی پرواہ نہیں کی اور بھیڑ بکریوں کی طرح خدا کی راہ میں قربان ہو گئے جب جا کر کہیں ان کو یہ رتبہ حاصل ہوا تھا.اکثر لوگ ہم نے ایسے دیکھے ہیں وہ یہی چاہتے ہیں کہ ایک پھونک مار کر ان کو وہ درجات دلا دیئے جاویں اور عرش تک ان کی رسائی ہو جاوے.ہمارے رسول اکرم سے بڑھ کر کون ہوگا وہ افضل البشر افضل الرسل والانبیاء تھے جب انہوں نے ہی پھونک سے وہ کام نہیں کئے تو اور کون ہے جو ایسا کر سکے.دیکھو آپ نے غارحرا میں کیسے کیسے ریاضات کئے.خدا جانے کتنی مدت تک تضرعات اور گریہ وزاری کیا گئے.تزکیہ کے لئے کیسی کیسی جانفشانیاں اور سخت سے سخت محنتیں کیا کئے جب جا کر کہیں خدا کی طرف سے فیضان نازل ہوا.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۴ مورخه ۱٫۲ پریل ۱۹۰۸ صفحه ۱) اگر چہ جو کچھ ہوتا ہے وہ خدا کے فضل سے ہی ہوتا ہے مگر کوشش کرنا انسان کا فرض ہے جیسا کہ قرآن شریف نے صراحت سے حکم دیا ہے کہ لَيْسَ لِلْإِنسَانِ الا ما سعی یعنی انسان جتنی جتنی کوشش کرے گا اسی کے فیوض الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۳ مورخه ۱۴ رمئی ۱۹۰۸ ء صفحه ۱) سے مستفیض ہو سکے گا.وَ انَّ إلى رَبَّكَ الْمُنْتَهى تمام سلسله علل و معلولات کا تیرے رب پر ختم ہو جاتا ہے.تفصیل اس دلیل کی یہ ہے کہ نظر عمق سے معلوم ہوگا کہ یہ تمام موجودات علل و معلول کے سلسلہ سے مربوط ہے.اسی وجہ سے دنیا میں طرح طرح کے علوم پیدا ہو گئے ہیں کیونکہ کوئی حصہ مخلوقات کا نظام سے باہر نہیں.بعض بعض کے لئے بطور اصول اور بعض بطور فروع کے ہیں اور یہ تو ظاہر ہے کہ علت یا تو خود اپنی ذات سے قائم ہوگی یا اس کا وجود کسی دوسری علت کے وجود پر منحصر ہو گا.اور پھر یہ دوسری علت کسی اور علت پر، وعلی ہذا القیاس.اور یہ تو جائز نہیں کہ اس محدود دنیا میں علل و معلول کا سلسلہ کہیں جا کر ختم نہ ہو اور غیر متناہی ہو.تو بالضرورت ماننا پڑا کہ یہ سلسلہ ضرور کسی اخیر علت پر جا کر ختم ہو جاتا ہے.پس جس پر اس تمام سلسلہ کا انتہاء ہے وہی خدا ہے.آنکھ کھول کر دیکھ لو کہ آیت و آن إلى رَبِّكَ المُنتهی اپنے مختصر لفظوں میں کس طرح اس دلیل مذکورہ بالا کو بیان فرما رہی ہے.جس کے یہ معنی ہیں کہ انتہاء تمام سلسلہ کی تیرے رب تک ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۶۹)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۳۱۳ سورة القمر بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة القمر بیان فرموده سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ دو، اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ وَ إِن يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَ يَقُولُوا سِحْرُ مُسْتَمِر وَكَذَبُوا وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُمْ وَكُلُّ اَمْرٍ مُّسْتَقِر ) عرب کے محاورہ میں پہلی رات کا چاند قمر بھی نہیں کہلاتا بلکہ تین دن تک اُس کا نام ہلال ہوتا ہے اور بعض کے نزدیک سات دن تک ہلال کہلاتا ہے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۰۳) شق القمر کا معجزہ اہل اسلام کی نظر میں ایسا امر نہیں ہے کہ جو مدار ثبوت اسلام اور دلیل اعظم حقانیت کلام اللہ کا ٹھہرایا گیا ہو بلکہ ہزار ہا شواہد اندرونی و بیرونی وصد با معجزات و نشانوں میں سے یہ بھی ایک قدرتی نشان ہے جو تاریخی طور پر کافی ثبوت اپنے ساتھ رکھتا ہے جس کا ذکر آئندہ عنقریب آئے گا.سو اگر تمام کھلے کھلے ثبوتوں سے چشم پوشی کر کے فرض بھی کر لیں کہ یہ معجزہ ثابت نہیں ہے اور آیت کے اس طور پر معنے قرار دیں جس طور پر حال کے عیسائی و نیچری یا دوسرے منکرین خوارق کرتے ہیں تو اس صورت میں بھی اگر کچھ حرج ہے تو شاید ایسا ہے کہ جیسے ہمیں کروڑ روپیہ کی جائیداد میں سے ایک پیسے کا نقصان ہو جائے.پس اس تقریر سے ظاہر ہے کہ اگر بفرض محال اہلِ اسلام تاریخی طور پر اس معجزہ کو ثابت نہ کر سکیں تو اس عدم ثبوت کا اسلام پر کوئی بداثر نہیں پہنچ سکتا.سچ تو یہ ہے کہ کلام الہی نے مسلمانوں کو دوسرے معجزات سے بکلی بے نیاز کر دیا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۴ سورة القمر ہے وہ نہ صرف اعجاز بلکہ اپنی برکات و تنویرات کے رو سے اعجاز آفرین بھی ہے.فی الحقیقت قرآن شریف اپنی ذات میں ایسی صفات کمالیہ رکھتا ہے جو اس کو خارجیہ معجزات کی کچھ بھی حاجت نہیں.خارجیہ معجزات کے ہونے سے اس میں کچھ زیادتی نہیں ہوتی اور نہ ہونے سے کوئی نقص عائد حال نہیں ہوتا.اس کا بازارحسن معجزات خارجیہ کے زیور سے رونق پذیر نہیں بلکہ وہ اپنی ذات میں آپ ہی ہزار ہا معجزات عجیب وغریبہ کا جامع ہے جن کو ہر یک زمانہ کے لوگ دیکھ سکتے ہیں نہ یہ کہ صرف گزشتہ کا حوالہ دیا جائے.وہ ایسا ملیح الحسن محبوب ہے کہ ہر یک چیز اس سے مل کر آرائش پکڑتی ہے اور وہ اپنی آرائش میں کسی کی آمیزش کا محتاج نہیں.ہمہ خوبان عالم را بزیور با بیا رایند تو سیمیں تن چناں خوبی که زیور با بیا رائی کہ ہا پھر ماسوا اس کے سمجھنا چاہئے کہ جو لوگ شق القمر کے معجزہ پر حملہ کرتے ہیں ان کے پاس صرف یہی ایک ہتھیار ہے اور وہ بھی ٹوٹا پھوٹا کہ شق القمر قوانین قدرتیہ کے برخلاف ہے اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ اول ہم ان کے قانونِ قدرت کی کچھ تفتیش کر کے پھر وہ ثبوت تاریخی پیش کریں جو اس واقعہ کی صحت پر دلالت کرتے ہیں سو جانا چاہئے کہ نیچر کے ماننے والے یعنی قانون قدرت کے پیرو کہلانے والے اس خیال پر زور دیتے ہیں کہ یہ بات بدیہی ہے کہ جہاں تک انسان اپنی عقلی قوتوں سے جان سکتا ہے وہ بجز قدرت اور قانون قدرت کے کچھ نہیں یعنی مصنوعات و موجودات مشہودہ موجودہ پر نظر کرنے سے چاروں طرف یہی نظر آتا ہے کہ ہر یک چیز مادی یا غیر مادی جو ہم میں اور ہمارے ارد گرد یا فوق وتحت میں موجود ہے وہ اپنے وجود اور قیام اور ترتب آثار میں ایک عجیب سلسلہ انتظام سے وابستہ ہے جو ہمیشہ اس کی ذات میں پایا جاتا ہے اور کبھی اس سے جدا نہیں ہوتا.قدرت نے جس طرح پر جس کا ہونا بنا دیا بغیر خطا کے اسی طرح ہوتا ہے اور اُسی طرح پر ہوگا پس وہی سچ ہے اور اصول بھی وہی بچے ہیں جو اس کے مطابق ہیں.میں کہتا ہوں کہ بلا شبہ یہ سب سچ مگر کیا اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ قدرت الہی کے طریقے اور اس کے قانون اسی حد تک ہیں جو ہمارے تجربہ اور مشاہدہ میں آچکے ہیں اس سے زیادہ نہیں.جس حالت میں الہی قدرتوں کو غیر محدود مانا ایک ایسا ضروری مسئلہ ہے جو اسی سے نظامِ کا رخانہ الوہیت وابستہ اور اسی سے ترقیات علمیہ کا ہمیشہ کے لئے دروازہ کھلا ہوا ہے تو پھر کس قدر غلطی کی بات ہے کہ ہم یہ ناکارہ حجت پیش کریں کہ جو امر ہماری سمجھ اور مشاہدہ سے باہر ہے وہ قانون قدرت سے بھی باہر ہے بلکہ جس حالت میں ہم اپنے مونہہ سے اقرار کر چکے کہ قوانین قدرتیہ غیر متناہی اور غیر محدود ہیں تو پھر ہمارا یہ اصول ہونا چاہئے کہ ہر ایک نئی بات جو ظہور میں آوے پہلے ہی اپنی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۵ سورة القمر عقل سے بالا تر دیکھ کر اس کو رد نہ کریں بلکہ خوب متوجہ ہو کر اس کے ثبوت یا عدم ثبوت کا حال جانچ لیں اگر وہ ثابت ہو تو اپنے قانون قدرت کی فہرست میں اس کو بھی داخل کر لیں اور اگر وہ ثابت نہ ہو تو صرف اتنا کہہ دیں کہ ثابت نہیں مگر اس بات کے کہنے کے ہم ہرگز مجاز نہیں ہوں گے کہ وہ امر قانون قدرت سے باہر ہے بلکہ قانون قدرت سے باہر کسی چیز کو سمجھنے کے لئے ہمارے لئے پر ضرور ہے کہ ہم ایک دائرہ کی طرح خدائے تعالیٰ کے تمام قوانین ازلی و ابدی پر محیط ہو جائیں اور بخوبی ہمارا فکر اس بات پر احاطہ تام کر لے کہ خدائے تعالیٰ نے روز ازل سے آج تک کیا کیا قدرتیں ظاہر کیں اور آئندہ اپنے ابدی زمانہ میں کیا کیا قدرتیں ظاہر کرے گا.کیا وہ جدید در جدید قدرتوں کے ظاہر کرنے پر قادر ہوگا یا کو ہلو کے بیل کی طرح انہیں چند قدرتوں میں مقید اور محصور رہے گا جن کو ہم دیکھ چکے ہیں اور جن پر ہمارا بخوبی احاطہ ہے اور اگر انہیں میں مقید اور محصور رہے گا تو باوجود اس کے غیر محدود الوہیت اور قدرت اور طاقت کے یہ مقید اور محصور رہنا کس وجہ سے ہوگا کیا وہ آپ ہی وسیع قدرتوں کے دکھلانے سے عاجز آئے گا یا کسی دوسرے قاسر نے اس پر جبر کیا ہوگا یا اس کی خدائی کو انہیں چند قسم کی قدرتوں سے قوت پہنچتی ہے اور دوسری قدرتوں کے ظاہر کرنے سے اس پر زوال آتا ہے بہر حال اگر ہم خدائے تعالیٰ کی قدرتوں کو غیر محدود مانتے ہیں تو یہ جنون اور دیوانگی ہے کہ اس کی قدرتوں پر احاطہ کرنے کی امید رکھیں کیونکہ اگر وہ ہمارے مشاہدہ کے پیمانہ میں محدود ہو سکیں تو پھر غیر محدود اور غیر متناہی کیوں کر رہیں اور اس صورت میں نہ صرف یہ نقص پیش آتا ہے کہ ہمارا فانی اور ناقص تجربہ خدائے ازلی و ابدی کی تمام قدرتوں کا حد بست کرنے والا ہوگا بلکہ ایک بڑا بھاری نقص یہ بھی ہے کہ اس کی قدرتوں کے محدود ہونے سے وہ خود بھی محدود ہو جائے گا اور پھر یہ کہنا پڑے گا کہ جو کچھ خدائے تعالیٰ کی حقیقت اور کنہ ہے ہم نے سب معلوم کر لی ہے اور اس کے گہراؤ اور تہ تک ہم پہنچ گئے ہیں اور اس کلمہ میں جس قدر کفر اور بے ادبی اور بے ایمانی بھری ہوئی ہے وہ ظاہر ہے حاجت بیان نہیں سو ایک محدود زمانہ کے محدود در محدو د تجارب کو پورا پورا قانونِ قدرت خیال کر لینا اور اس پر غیر متناہی سلسلہ قدرت کو ختم کر دینا اور آئندہ کے نئے اسرار کھلنے سے ناامید ہو جانا ان پست نظروں کا نتیجہ ہے جنہوں نے خدائے ذوالجلال کو جیسا کہ چاہئے شناخت نہیں کیا اور جو اپنی فطرت میں نہایت منقبض واقعہ ہوئے ہیں یاں تک کہ ایک کنوئیں کی مینڈک ہو کر یہ خیال کر رہے ہیں کہ گویا ایک سمندر نا پیدا کنار پر ان کو عبور ہو گیا ہے تمام خوشیاں عارفوں کی اور تمام راحتیں غمزدوں کی اسی میں ہیں کہ خدائے تعالیٰ کی قدرتوں کا کنارہ لا یدرک ہے میں یہ نہیں کہتا کہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣١٦ سورة القمر ہے تحقیق اور بے ثبوت عقلی یا آزمائشی یا تاریخی کسی نئی بات کو مان لو کیونکہ اس عادت سے بہت سے رطب یابس کا ذخیرہ اکٹھا ہو جائے گا بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ خدائے ذوالجلال کی تعظیم کر کے اس کے نئے کاموں کی نسبت ( جو تمہاری محدود نظروں میں نئے دکھائی دیتے ہیں ) بے حاضد بھی مت کرو کیونکہ جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں خدائے تعالی کی عجائب قدرتوں اور دقائق حکمتوں اور پیچ در پیچ اسراروں کے ابھی تک انسان نے بکلی حد بست نہیں کی اور نہ آگے کو اس کی لیاقت و طاقت ایسی نظر آتی ہے کہ اس مالک الملک کے وراء الوراء بھیدوں کے ایک چھوٹے سے رقبہ زمین کی طرح پیمائش کر سکے یا کسی ایک چیز کے جمیع خواص پر احاطہ کرنے کا دم مار سکے.سرمه چشم آریہ روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۶۰ تا ۶۸) یہ اعتراض کہ کیوں کر چاند دو ٹکڑے ہو کر آستین میں سے نکل گیا تھا یہ سراسر بے بنیاد اور باطل ہے کیونکہ ہم لوگوں کا ہرگز یہ اعتقاد نہیں ہے کہ چاند دوٹکڑے ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آستین میں سے نکلا تھا اور نہ یہ ذکر قرآن شریف میں یا حدیث صحیح میں ہے اور اگر کسی جگہ قرآن یا حدیث میں ایسا ذکر آیا ہے تو وہ پیش کرنا چاہیئے.یہ ایسی ہی بات ہے کہ جیسے کوئی آریہ صاحبوں پر یہ اعتراض کرے کہ آپ کے یاں لکھا ہے کہ مہان دیو جی کی لٹوں سے گنگا نگلی ہے.پس جس اعتراض کی ہمارے قرآن یا حدیث میں کچھ بھی اصلیت نہیں اس سے اگر کچھ ثابت ہوتا ہے تو بس یہی کہ ماسٹر صاحب کو اصول اور کتب معتبرہ اسلام سے کچھ بھی واقفیت نہیں.بھلا اگر یہ اعتراض ماسٹر صاحب کا کسی اصل صحیح پر مبنی ہے تو لازم ہے کہ ماسٹر صاحب اسی جلسہ میں وہ آیت قرآن شریف پیش کریں جس میں ایسا مضمون درج ہے یا اگر آیت قرآن نہ ہو تو کوئی حدیث صحیح ہی پیش کریں جس میں ایسا کچھ بیان کیا گیا ہو اور اگر بیان نہ کر سکیں تو ماسٹر صاحب کو ایسا اعتراض کرنے سے متندم ہونا چاہئے کیونکہ منصب بحث ایسے شخص کے لئے زیبا ہے جو فریق ثانی کے مذہب سے کچھ واقفیت رکھتا ہو باقی رہا یہ سوال کہ شق قمر ماسٹر صاحب کے زعم میں خلاف عقل ہے جس سے انتظام ملکی میں خلل پڑتا ہے یہ ماسٹر صاحب کا خیال سراسر قلت تدبر سے ناشی ہے کیونکہ خدائے تعالیٰ جل شانہ جو کام صرف قدرت نمائی کے طور پر کرتا ہے وہ کام سراسر قدرت کاملہ کی ہی وجہ سے ہوتا ہے نہ قدرت نا قصہ کی وجہ سے یعنی جس ذات قادر مطلق کو یہ اختیار اور قدرت حاصل ہے کہ چاند کو دوٹکڑہ کر سکے اس کو یہ بھی تو قدرت حاصل ہے کہ ایسے پر حکمت طور سے یہ فعل ظہور میں لاوے کہ اس کے انتظام میں بھی کوئی خلل عائد نہ ہو اسی وجہ سے تو وہ سرب شکتی مان اور قادر مطلق کہلاتا ہے اور اگر وہ قادر مطلق نہ ہوتا تو اس کا دنیا میں کوئی کام نہ چل سکتا.ہاں یہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۷ سورة القمر شناعت عقلی آریوں کے اکثر عقائد میں جابجا پائی جاتی ہے جس سے ایک طرف تو ان کے اعتقادات سراسر خلاف عقل معلوم ہوتے ہیں اور دوسری طرف خلاف قدرت و عظمت الہی بھی جیسے روحوں اور اجزاء صغار عالم کا غیر مخلوق اور قدیم اور انادی ہونا اصول آریہ سماج کا ہے.اور یہ اصول صریح خلاف عقل ہے اگر ایسا ہو تو پر میشر کی طرح ہر ایک چیز واجب الوجود ٹھہر جاتی ہے اور خدائے تعالیٰ کے وجود پر کوئی دلیل قائم نہیں رہتی بلکہ کاروبار دین کا سب کا سب ابتر اور خلل پذیر ہو جاتا ہے کیونکہ اگر ہم سب کے سب خدائے تعالیٰ کی طرح غیر مخلوق اور انادی ہی ہیں تو پھر خدائے تعالیٰ کا ہم پر کون ساحق ہے اور کیوں وہ ہم سے اپنی عبادت اور پرستش اور شکر گزاری چاہتا ہے اور کیوں گناہ کرنے سے ہم کو سزا دینے کو طیار ہوتا ہے اور جس حالت میں ہماری روحانی بینائی اور روحانی تمام قوتیں خود بخو د قدیم سے ہیں تو پھر ہم کو فانی قوتوں کے پیدا ہونے کے لئے کیوں پر میشر کی حاجت ٹھہری.غرض خلاف عقل بات اگر تلاش کرنی ہو تو اس سے بڑھ کر اور کوئی بات نہیں جو خدائے تعالیٰ کو اول اپنا خدا کہہ کر پھر اس کو خدائی کے کاموں سے الگ رکھا جائے لیکن جو کام خدائے تعالیٰ کا صرف قدرت سے متعلق ہے اس پر وہ شخص اعتراض کر سکتا ہے کہ اول خدائے تعالیٰ کی تمام قدرتوں پر اس نے احاطہ کر لیا ہو.اور اس جگہ یہ بھی واضح رہے کہ مسئلہ شق القمر ایک تاریخی واقعہ ہے جو قرآن شریف میں درج ہے اور ظاہر ہے کہ قرآن شریف ایک ایسی کتاب ہے جو آیت آیت اس کی بر وقت نزول ہزاروں مسلمانوں اور منکروں کو سنائی جاتی تھی اور اس کی تبلیغ ہوتی تھی اور صدہا اس کے حافظ تھے مسلمان لوگ نماز اور خارج نماز میں اس کو پڑھتے تھے پس جس حالت میں صریح قرآن شریف میں وارد ہوا کہ چاند دو ٹکڑے ہو گیا اور جب کافروں نے یہ نشان دیکھا تو کہا کہ جادو ہے جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ دو، 3 الْقَمَرُ وَاِنْ يَرَوْا آيَةً يُعرِضُوا وَ يَقُولُوا سِحر مستمر تو اس صورت میں اس وقت کے منکرین پر لازم تھا کہ مُسْتَمِرٌّ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر جاتے اور کہتے کہ آپ نے کب اور کس وقت چاند کو دوٹکڑے کیا اور کب اس کو ہم نے دیکھا لیکن جس حالت میں بعد مشہور اور شائع ہونے اس آیت کے سب مخالفین چپ رہے اور کسی نے دم بھی نہ مارا تو صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے چاند کو دوٹکڑے ہوتے ضرور دیکھا تھا تب ہی تو ان کو چون و چرا کرنے کی گنجائش نہ رہی غرض یہ بات بہت صاف اور ایک راست طبع محقق کے لئے بہت فائدہ مند ہے کہ قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی جھوٹا معجزہ بحوالہ اپنے مخالفوں کی گواہی کے لکھ نہیں سکتے تھے اور اگر کچھ جھوٹ لکھتے تو ان کے مخالف ہم عصر اور ہم شہر اس زمانہ کے اسے کب پیش جانے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۸ سورة القمر دیتے.علاوہ اس کے سوچنا چاہئے کہ وہ مسلمان لوگ جن کو یہ آیت سنائی گئی اور سنائی جاتی تھی وہ بھی تو ہزاروں آدمی تھے اور ہر ایک شخص اپنے دل سے یہ محکم گواہی پاتا ہے کہ اگر کسی پیر یا مرشد یا پیغمبر سے کوئی ام محض دروغ اور افتر اظہور میں آوے تو سارا اعتقاد ٹوٹ جاتا ہے اور ایسا شخص ہر ایک شخص کی نظر میں برا معلوم ہونے لگتا ہے، اس صورت میں صاف ظاہر ہے کہ اگر یہ معجزہ ظہور میں نہیں آیا تھا اور افتر محض تھا تو چاہئے تھا کہ ہزار ہا مسلمان جو آنحضرت پر ایمان لائے تھے ایسے کذب صریح کو دیکھ کر یکلخت سارے کے سارے مرتد ہو جاتے لیکن ظاہر ہے کہ ان باتوں میں سے کوئی بات بھی ظہور میں نہیں آئی پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ معجزہ شق القمر ضرور وقوع میں آیا تھا.ہر ایک منصف اپنے دل میں سوچ کر دیکھ لے کہ کیا تاریخی طور پر یہ ثبوت کافی نہیں ہے کہ معجزہ شق القمر اسی زمانہ میں بحوالہ شہادت مخالفین قرآن شریف میں لکھا گیا اور شائع کیا گیا اور پھر سب مخالف اس مضمون کو سن کر چپ رہے کسی نے تحریر یا تقریر سے اس کا رڈ نہ کیا اور ہزاروں مسلمان اس زمانہ کی رویت کی گواہی دیتے رہے اور یہ بات ہم مکر رلکھنا چاہتے ہیں کہ قدرت اللہ پر اعتراض کرنا خود ایک وجہ سے انکا ر خدائے تعالیٰ ہے کیونکہ اگر خدائے تعالیٰ کی قدرت مطلقہ کو نہ مانا جائے اور حسب اصول تناسخ آریہ صاحبان یہ اعتقا در کھا جائے کہ جب تک زید نہ مرے بکر ہرگز پیدا نہیں ہوسکتا.اس صورت میں تمام خدائی اس کی باطل ہو جاتی ہے بلکہ اعتقاد صیح اور حق یہی ہے کہ پرمیشر کو سرب شکتی مان اور قادر مطلق تسلیم کیا جائے اور اپنے ناقص ذہن اور نا تمام تجربہ کو قدرت کے بے انتہا اسرار کا محک امتحان نہ بنایا جائے ورنہ ہمہ دانی کے دعوئی پر اس قدر اعتراض وارد ہوں گے اور ایسی خجالتیں اٹھانی پڑیں گی کہ جن کا کچھ ٹھکانا نہیں.انسان کا قاعدہ ہے کہ جو بات اپنی عقل سے بلند تر دیکھتا ہے اس کو خلاف عقل سمجھ لیتا ہے حالانکہ بلند تر از عقل ہونا شے دیگر ہے اور خلاف عقل ہونا شے دیگر.بھلا میں ماسٹر صاحب سے پوچھتا ہوں کہ خدائے تعالیٰ اس بات پر قادر رہتا یا نہیں کہ جس قدر اب جرم قمری مشہود ومحسوس ہے اس سے آدھے سے بھی کام لے سکتا اور اگر قادر نہیں تو اس پر عقلی دلیل جوعند العقل تسلیم ہو سکے کون سی ہے اور کس کتاب میں لکھی ہے تو جس حالت میں معجزہ شق القمر میں یہ بات ماخوذ ہے کہ ایک ٹکڑا اپنی حالت معہودہ پر رہا اور ایک اس سے الگ ہو گیا وہ بھی ایک یا آدھ منٹ تک یا اس سے بھی کم.تو اس میں کون سا استبعاد عقلی ہے اور بفرض محال اگر استبعاد عقلی بھی ہو تو ہم کہتے ہیں کہ عقل ناقص انسان کی ہر یک کام ربانی تک کب پہنچ سکتی ہے.سرمه چشم آرسی، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۰۹ تا ۱۱۲)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۱۹ سورة القمر تصرفات خارجیہ.یہ بیرونی خوارق ہیں جن کو قرآن شریف سے کچھ ذاتی تعلق نہیں.انہیں میں سے معجزہ سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۶۰ حاشیه ) شق القمر بھی ہے.تصرفات خارجیہ کے معجزات قرآن شریف میں کئی نوع پر مندرج ہیں.ایک نوع تو یہی ہے کہ جو دُعائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خدائے تعالیٰ نے آسمان پر اپنا قادرانہ تصرف دکھلایا اور چاند کو دوٹکڑے سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۶۳، ۶۴ حاشیه ) کر دیا.اگر کسی کی خودا اپنی ہی عقل میں فتور نہ ہو تو سمجھ سکتا ہے کہ کسی چیز کے ایک نئے خاصہ کا ظہور میں آنا اس کے پہلے خاصہ کے ابطال کے لئے ایک لازمی امر نہیں ہے سو اسی قاعدہ کے رو سے دانشمند لوگ جو خدائے تعالیٰ کی عظیم الشان قدرتوں سے ہمیشہ ہیبت زدہ رہتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ حکیم مطلق جس کی حکمتوں کا انتہا نہیں اس کی طرف سے قمر وشمس میں ایسی خاصیت مخفی ہونا ممکن ہے کہ باوجود انشقاق کے ان کے فعل میں فرق نہ آوے اسی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ نزدیک آگئی وہ گھڑی اور پھٹ گیا چاند.اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ روز ازل سے حکیم مطلق نے ایک خاصہ مخفی چاند میں رکھا ہوا تھا کہ ایک ساعت مقررہ پر اس کا انشقاق ہوگا اور یہ ظاہر ہے کہ نجوم اور شمس اور قمر کے خواص کا ظہور ساعات مقررہ سے وابستہ ہے اور ساعات کو حدوث عجائبات سماوی وارضی میں بہت کچھ دخل ہے اور حقیقت میں قوانین قدرتیہ کا شیرازہ انہیں ساعات سے باندھا گیا ہے سو کیا عمدہ اور پر حکمت اور فلسفیانہ اشارہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے آیت مندرجہ بالا میں فرمایا کہ چاند کے پھٹنے کی جو ساعت مقرر اور مقدر تھی وہ نزدیک آگئی اور چاند پھٹ گیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ اس آیت کے آگے بھی فرماتا ہے وَ كَذَّبُوا وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُم وَكُلُّ أمرٍ مُسْتَقِر یعنی کفار نے تو چاند پھٹنے کو سحر پر حمل کیا اور تکذیب کی مگر یہ سحر نہیں ہے بلکہ خدائے تعالیٰ کے ان امور یعنی قوانین قدرتیہ میں سے ہے جو اپنے اپنے وقتوں میں قرار پکڑنے والے ہیں اور عقلمند انسان اس نشان قدرت سے کیوں تعجب کرے کیا اللہ تعالیٰ کے کارخانہ قدرت میں یہی ایک بات بالاتر از عقل ہے جو حکیموں اور فلسفیوں کی سمجھ میں نہیں آتی اور باقی تمام اسرار قدرت انہوں نے سمجھ لئے ہیں اور کیا یہ ایک ہی عقد و لاینچل ہے اور باقی سب عقدوں کے حل کرنے سے فراغت ہو چکی ہے اور کیا اللہ تعالیٰ کے عجائب کاموں میں سے یہی ایک عجیب کام ہے اور کوئی نہیں بلکہ اگر غور کر کے دیکھو تو اس قسم کے ہزار ہا عجائب کام اللہ تعالیٰ کے دنیا میں پائے جاتے ہیں زمین پر سخت سخت زلازل آتے رہتے ہیں اور بسا اوقات کئی میل
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲ سورة القمر زمین نہ وبالا ہوگئی ہے مگر پھر بھی انتظام عالم میں فتور واقع نہیں ہوا حالانکہ جیسے چاند کو اس انتظام میں دخل ہے ویسا ہی زمین کو غرض یہ ملحدانہ شکوک انہیں لوگوں کے دلوں میں اٹھتے ہیں کہ جو خدائے تعالیٰ کو اپنے جیسا ایک ضعیف اور کمزور اور محمد ود الطاقت خیال کر لیتے ہیں اگر خدائے تعالیٰ پر اس قسم کے اعتراضات وارد ہو سکتے ہیں تو پھر کسی طور سے عقل تسلی نہیں پکڑ سکتی کہ یہ بڑے بڑے اجرام علوی وسفلی کیوں کر اور کن ہتھیاروں سے اس نے بناڈالے.سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۱۸ تا ۱۲۱) جس حالت میں چاند کے دوٹکڑہ کرنے کا دعوی زور شور سے ہو چکا تھا یاں تک کہ خاص قرآن شریف میں مخالفوں کو الزام دیا گیا کہ انہوں نے چاند کو دوٹکڑے ہوتے دیکھا اور اعراض کر کے کہا کہ یہ پکا جادو ہے.اور پھر یہ دعوی نہ صرف عرب میں بلکہ اسی زمانہ میں تمام ممالک روم و شام و مصر و فارس و غیره دور دراز ممالک میں پھیل گیا تھا تو اس صورت میں یہ بات کچھ تعجب کا محل نہ تھا کہ مختلف قو میں جو مخالف اسلام تھیں وہ دم بخود اور خاموش رہتیں اور بوجہ عناد و بغض و حسد شق القمر کی گواہی دینے سے زبان بند رکھتیں کیونکہ منکر اور مخالف کا دل اپنے کفر اور مخالفت کی حالت میں کب چاہتا ہے کہ وہ مخالف مذہب کی تائید میں کتابیں لکھے یا اس کے معجزات کی گواہی دیوے.ابھی تازہ واقعہ ہے کہ لالہ شرمپت و ملا وامل آریه ساکنان قادیان و چند دیگر آپ کے آریہ بھائیوں نے قریب ۷۰ کے الہامی پیشگوئیاں اس عاجز کی بچشم خود پوری ہوتی دیکھیں جن میں پنڈت دیا نند کی وفات کی خبر بھی تھی.چنانچہ اب تک چند تحریری اقرار بعضوں کے ہمارے پاس موجود پڑے ہیں لیکن آخر قوم کے طعن ملامت سے اور نیز ان کی اس دھمکی سے کہ ان باتوں کی شہادت سے اسلام کو تائید پہنچے گی اور وہ امر ثابت ہوگا کہ جس میں پھر وید کی بھی خیر نہیں ڈر کر مونہ بند کر لیا اور ناراستی سے پیار ا کر کے راستی کی شہادت سے کنارہ کش ہو گئے سو مخالف ہونے کی حالت میں اگر کوئی ادائے شہادت سے خاموش رہے تو کچھ تعجب کی بات نہیں بلکہ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ اگر مخالف کی طرف سے ایک دعویٰ کا جھوٹا ہونا کھل جائے تو پھر جھوٹ کی اشاعت کے لئے قلم نہ اٹھا ئیں اور دروغ گو کو اس کے گھر تک نہ پہنچائیں سو میں پوچھتا ہوں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنہوں نے عام اور علانیہ طور پر یہ دعویٰ مشہور کر دیا تھا کہ میرے ہاتھ سے معجزہ شق القمر وقوع میں آ گیا ہے اور کفار نے اس کو بچشم خود دیکھ بھی لیا ہے مگر اس کو جادو قرار دیا اپنے اس دعوی میں بچے نہیں تھے تو پھر کیوں مخالفین آنحضرت جو اسی زمانہ میں تھے جن کو یہ خبر یں گویا نقارہ کی آواز سے پہنچ چکی تھیں چپ رہے اور کیوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مواخذہ نہ کیا کہ آپ نے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۱ سورة القمر کب چاند کو دوٹکڑے کر کے دکھایا اور کب ہم نے اس کو جادو کہا اور اس کے قبول سے مونہہ پھیرا اور کیوں اپنے مرتے دم تک خاموشی اختیار کی اور مونہہ بند رکھا یاں تک کہ اس عالم سے گزر گئے کیا ان کی یہ خاموشی جو ان کی مخالفانہ حالت اور جوش مقابلہ کے بالکل بر خلاف تھی اس بات کا یقین نہیں دلاتے کہ کوئی ایسی سخت روک تھی جس کی وجہ سے کچھ بول نہیں سکتے تھے مگر بجر ظہور سچائی کے اور کون سی روک تھی یہ مجزہ مکہ میں ظہور میں آیا تھا اور مسلمان ابھی بہت کمزور اور غریب اور عاجز تھے پھر تعجب یہ کہ ان کے بیٹوں یا پوتوں نے بھی انکار میں کچھ زبان کشائی نہ کی حالانکہ ان پر واجب ولازم تھا کہ اتنا بڑا دعویٰ اگر افتر محض تھا اور صد ہا کوسوں میں مشہور ہو گیا تھا اس کی رڈ میں کتابیں لکھتے اور دنیا میں شائع اور مشہور کرتے اور جبکہ ان لاکھوں آدمیوں عیسائیوں، عربوں، یہودیوں ، مجوسیوں وغیرہ میں سے رو لکھنے کی کسی کو جرات نہ ہوئی اور جو لوگ مسلمان تھے وہ علانیہ ہزاروں آدمیوں کے رو برو چشم دید گواہی دیتے رہے جن کی شہادتیں آج تک اس زمانہ کی کتابوں میں مندرج پائی جاتی ہیں تو یہ صریح دلیل اس بات پر ہے کہ مخالفین ضرور شق القمر مشاہدہ کر چکے تھے اور رڈ لکھنے کے لئے کوئی بھی گنجائش باقی نہیں رہی تھی اور یہی بات تھی جس نے ان کو منکرانہ شور و غوغا سے چپ رکھا تھا سو جبکہ اسی زمانہ میں کروڑ ہا مخلوقات میں شق القمر کا معجزہ شیوع پا گیا مگر ان لوگوں نے مجلت زدہ ہوکر اس کے مقابلہ پر دم بھی نہ مارا تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس زمانہ کے مخالفین اسلام کا چپ رہنا شق القمر کے ثبوت کی دلیل ہے نہ کہ اس کے ابطال کی.کیونکہ اس بات کا جواب مخالفین اسلام کے پاس کوئی نہیں کہ جس دعوی کا ردا نہیں ضرور لکھنا چاہئے تھا انہوں نے کیوں نہیں لکھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی معمولی درویش یا گوشہ نشین نہیں تھے تا یہ عذر پیش کیا جائے کہ ایک فقیر صلح مشرب جس نے دوسرے مذاہب پر کچھ حملہ نہیں کیا چشم پوشی کے لائق تھا بلکہ آں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عام مخالفین کا جہنمی ہونا بیان کرتے تھے اس صورت میں مطلق طور پر جوش پیدا ہونے کے موجبات موجود تھے.ماسوا اس کے یہ بھی کچھ ضروری معلوم نہیں ہوتا کہ واقعہ شق القمر پر جو چند سیکنڈ سے کچھ زیادہ نہیں تھا ہر ایک ولایت کے لوگ اطلاع پا جائیں کیونکہ مختلف ملکوں میں دن رات کا قدرتی تفاوت اور کسی جگہ مطلع ناصاف اور پر غبار ہونا اور کسی جگہ ابر ہونا ایسا ہی کئی اور ایک موجبات عدم رویت ہو جاتے ہیں اور نیز بالطبع انسان کی طبیعت اور عادت اس کے برعکس واقع ہوئی ہے کہ ہر وقت آسمان کی طرف نظر لگائے رکھے بالخصوص رات کے وقت جو سونے اور آرام کرنے ا کا اور بعض موسموں میں اندر بیٹھنے کا وقت ہے ایسا التزام بہت بعید ہے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۲ سورة القمر پھر ان سب باتوں کے بعد ہم یہ بھی لکھتے ہیں کہ شق القمر کے واقعہ پر ہندوؤں کی معتبر کتابوں میں بھی شہادت پائی جاتی ہے مہا بھارتہہ کے دھرم پرب میں بیاس جی صاحب لکھتے ہیں کہ ان کے زمانہ میں چاند دو ٹکڑے ہو کر پھر مل گیا تھا.اور وہ اس شق قمر کو اپنے بے ثبوت خیال سے بسو امتر کا معجزہ قرار دیتے ہیں لیکن پنڈت دیانند صاحب کی شہادت اور یوروپ کے محققوں کے بیان سے پایا جاتا ہے کہ مہا بھارتہ وغیرہ پیران کچھ قدیم اور پرانے نہیں ہیں بلکہ بعض پرانوں کی تالیف کو تو صرف آٹھ سو یا نوسو برس ہوا ہے.اب قرین قیاس ہے کہ مہا بھارتہہ یا اس کا واقعہ بعد مشاہدہ واقعہ شق القمر جو معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھا لکھا گیا اور بسوا متر کا نام صرف بے جا طور کی تعریف پر جیسا کہ قدیم سے ہندوؤں کے اپنے بزرگوں کی نسبت عادت ہے درج کیا گیا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ کی شہرت ہندوؤں میں مؤلف تاریخ فرشتہ کے وقت میں بھی بہت کچھ پھیلی ہوئی تھی کیونکہ اس نے اپنی کتاب کے مقالہ یاز دہم میں ہندوؤں سے یہ شہرت یافت نقل لے کر بیان کی ہے کہ شہر د ہار کہ جو متصل دریائے پہنبل صوبہ مالوہ میں واقع ہے اب اس کو شاید د بارانگری کہتے ہیں واں کا راجہ اپنے محل کی چھت پر بیٹھا تھا ایکبارگی اس نے دیکھا کہ چاند دوٹکڑے ہو گیا اور پھر مل گیا اور بعد تفتیش اس راجہ پر کھل گیا کہ یہ نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے تب وہ مسلمان ہو گیا.اس ملک کے لوگ اس کے اسلام کی وجہ یہی بیان کرتے تھے اور اس گرد نواح کے ہندوؤں میں یہ ایک واقعہ مشہور ہ تھا جس بنا پر ایک محقق مؤلف نے اپنی کتاب میں لکھا.بہر حال جب آریہ دیس کے راجوں تک یہ خبر شہرت پا چکی ہے اور آریہ صاحبوں کے مہا بہار تہہ میں درج بھی ہو گئے اور پنڈت دیا نند صاحب پرانوں کے زمانہ کو داخل زمانہ نبوی سمجھتے ہیں اور قانون قدرت کی حقیقت بھی کھل چکی تو اگر اب بھی لالہ مرلید ھر صاحب کو شق القمر میں کچھ تامل باقی ہو تو ان کی سمجھ پر ہمیں بڑے بڑے افسوس رہیں گے.سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۲۱ تا ۱۲۷) درجہ لقا میں بعض اوقات انسان سے ایسے امور صادر ہوتے ہیں کہ جو بشریت کی طاقتوں سے بڑھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور الہی طاقت کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں جیسے...معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جوشق القمر ہے.اسی الہی طاقت سے ظہور میں آیا تھا کوئی دعا اس کے ساتھ شامل نہ تھی کیونکہ وہ صرف انگلی کے اشارہ سے جو الہی طاقت سے بھری ہوئی تھی وقوع میں آگیا تھا.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۵ ،۶۶)
۳۲۳ سورة القمر تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی شق قمر کی یہی حکمت تھی کہ جن کو پہلی کتابوں کے علم کا نور ملا تھا وہ لوگ اس نور پر قائم نہ رہے اور ان کی دیانت اور امانت ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی.سو اس وقت بھی آسمان کے شق القمر نے ظاہر کر دیا کہ زمین میں جو لوگ نور کے وارث تھے انہوں نے تاریکی سے پیار کیا ہے اور اس جگہ یہ بات قابل افسوس ہے کہ مدت ہوئی کہ آسمان کا خسوف کسوف جو رمضان میں ہوا وہ جاتا رہا اور چاند اور سورج دونوں صاف اور روشن ہو گئے مگر ہمارے وہ علماء اور فقراء جو شمس العلماء اور بدر العرفاء کہلاتے ہیں وہ آج تک اپنے کسوف خسوف میں گرفتار ہیں.انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۹۵) تمام علامتیں تحرب قیامت کی ظاہر ہو چکی ہیں اور دُنیا پر ایک انقلاب عظیم آگیا ہے اور جبکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ قرب قیامت کا زمانہ ہے جیسا کہ آیت اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ سمجھا جاتا ہے تو پھر یہ زمانہ جس پر تیرہ سو برس اور گزر گیا اس کے آخری زمانہ ہونے میں کس کو کلام ہو سکتا ہے.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۴۳) یہ جو کہا گیا کہ قیامت کی گھڑی کا کسی کو علم نہیں.اس سے یہ مطلب نہیں کہ کسی وجہ سے بھی علم نہیں.اگر یہی بات ہے تو پھر آثار قیامت جو قرآن شریف اور حدیث صحیح میں کہے گئے ہیں وہ بھی قابل قبول نہیں ہوں گے کیونکہ ان کے ذریعہ سے بھی قرب قیامت کا ایک علم حاصل ہوتا ہے.خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں لکھا تھا کہ آخری زمانہ میں زمین پر بکثرت نہریں جاری ہوں گی.کتابیں بہت شائع ہوں گی جن میں اخبار بھی شامل ہیں اور اونٹ بے کار ہو جائیں گے.سو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سب باتیں ہمارے زمانہ میں پوری ہو گئیں اور اونٹوں کی جگہ ریل کے ذریعہ سے تجارت شروع ہو گئی.سو ہم نے سمجھ لیا کہ قیامت قریب ہے اور خود مدت ہوئی کہ خدا نے آیۃ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ اور دوسری آیتوں میں قرب قیامت کی ہمیں خبر دے رکھی ہے.سوشریعت کا یہ مطلب نہیں کہ قیامت کا وقوع ہر ایک پہلو سے پوشیدہ ہے بلکہ تمام نبی آخری زمانہ کی علامتیں لکھتے آئے ہیں اور انجیل میں بھی لکھی ہیں.پس مطلب یہ ہے کہ اس خاص گھڑی کی کسی کو خبر نہیں.خدا قادر ہے کہ ہزار سال گزرنے کے بعد چند صدیاں اور بھی زیادہ کر دے کیونکہ کسر شمار میں نہیں آتی جیسا کہ حمل کے دن بعض وقت کچھ زیادہ ہو جاتے ہیں.دیکھو! اکثر بچے جو دنیا میں پیدا ہوتے ہیں وہ اکثر نو مہینے اور دس دن کے اندر پیدا ہو جاتے ہیں لیکن پھر بھی کہا جاتا ہے کہ اُس گھڑی کی کسی کو خبر نہیں.جب کہ دردزہ شروع ہوگا.اسی طرح دنیا کے خاتمے پر گواب ہزار سال باقی ہے لیکن اس گھڑی کی خبر نہیں جب قیامت قائم
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۴ سورة القمر ہو جائے گی.جن دلائل کو خدا نے امامت اور نبوت کے ثبوت کے لئے پیش کیا ہے اُن کو ضائع کرنا گویا اپنے ایمان کو ضائع کرنا ہے.ظاہر ہے کہ قرب قیامت پر تمام علامتیں بھی جمع ہو گئی ہیں اور زمانہ میں ایک انقلاب.عظیم مشہور ہو رہا ہے اور وہ علامتیں جو قرب قیامت کے لئے خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں بیان فرمائی ہیں اکثران میں سے ظاہر ہو چکی ہیں.جیسا کہ قرآن شریف سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرب قیامت کے زمانہ میں زمین پر اکثر نہریں جاری ہو جائیں گی اور بکثرت کتابیں شائع ہوں گی.پہاڑ اُڑا دیئے جائیں گے.دریا خشک کر دئیے جائیں گے اور زراعت کے لئے زمین بہت آباد ہو جائے گی اور ملاقاتوں کے لئے راہیں کھل جائیں گی اور قوموں میں مذہبی شور و غوغا بہت پیدا ہو گا اور ایک قوم دوسری قوم کے مذہب پر ایک موج کی طرح ٹوٹ پڑے گی تا ان کو بالکل نابود کر دے.انہی دنوں میں آسمانی کرنا اپنا کام دکھلائے گی اور تمام قو میں ایک ہی مذہب پر جمع کی جائیں گی بجز ان روی طبیعتوں کے جو آسمانی دعوت کے لائق نہیں.دو، بیلچر سیالکوٹ ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۱۰ ۲۱۱) شق القمر......وہ معجزہ ہے کہ جو عرب کے ہزاروں کا فروں کے روبرو بیان کیا گیا ہے پس اگر یہ امر خلاف واقعہ ہوتا تو یہ اُن لوگوں کا حق تھا کہ وہ اعتراض پیش کرتے کہ یہ معجزہ ظہور میں نہیں آیا خاص کر اس حالت میں کہ شق القمر کی آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ کافروں نے یہ معجزہ دیکھا اور کہا کہ یہ پکا جادو ہے جو آسمان تک پہنچ گیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَالشَقَ الْقَمَرُ وَ إِنْ يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَ يَقُولُوا سِحر مستمر یعنی قیامت نزدیک آئی اور چاند پھٹ گیا اور جب یہ لوگ خدا کا کوئی نشان دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ایک پکا جادو ہے.اب ظاہر ہے کہ اگرشق القمر ظہور میں نہ آیا ہوتا تو اُن کا حق تھا کہ وہ کہتے کہ ہم نے تو کوئی نشان نہیں دیکھا اور نہ اس کو جادو کہا.اس سے ظاہر ہے کہ کوئی امر ضرور ظہور میں آیا تھا جس کا نام شق القمر رکھا گیا.بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ ایک عجیب قسم کا خسوف تھا جس کی قرآن شریف نے پہلے خبر دی تھی اور یہ آیتیں بطور پیشگوئیوں کے ہیں اس صورت میں شق کا لفظ محض استعارہ کے رنگ میں ہوگا کیونکہ مخسوف کسوف میں جو حصہ پوشیدہ ہوتا ہے گویا وہ پھٹ کر علیحدہ ہو جاتا ہے ایک استعارہ ہے.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۳۲) شق القمر کا معجزہ جسمانی معجزات کی قسم سے ہے.بعض نادان شق القمر کے معجزہ پر قانون قدرت کی آڑ میں چھپ کر اعتراض کرتے ہیں لیکن ان کو اتنا معلوم نہیں کہ خدائے تعالیٰ کی قدرتوں اور قوانین کا احاطہ اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۵ سورة القمر انداز نہیں کر سکتے.آہ!.ایک وقت تو وہ منہ سے خدا بولتے ہیں لیکن دوسرے وقت چہ جائیکہ ان کے دل ان کی روح خدائے تعالیٰ کی عظیم الشان اور وراء الوریٰ قدرتوں کو دیکھ کر سجدہ میں گر پڑے.اسے مطلق بھول جاتے ہیں.اگر خدا کی ہستی اور بساط یہی ہے کہ اس کی قدرتیں اور طاقتیں ہمارے ہی خیالات اور اندازہ تک محدود ہیں تو پھر دعا کی کیا ضرورت رہی؟ لیکن نہیں.میں تمہیں بتلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور ارادوں کا کوئی احاطہ نہیں کر سکتا.ایسا انسان جو یہ دعویٰ کرے وہ خدا کا منکر ہے.لیکن کس قدر واویلا ہے اس نادان پر جو اللہ تعالیٰ کو لامحدود قدرتوں کا مالک سمجھ کر بھی یہ کہے کہ شق القمر کا معجزہ قانون قدرت کے خلاف ہے.سمجھ لو کہ ایسا آدمی فکر سلیم اور دور اندیش دل سے بہرہ مند نہیں.خوب یاد رکھو کہ کبھی قانون قدرت پر بھروسہ نہ کر لو.یعنی کہیں قانون قدرت کی حد نہ ٹھہرا لو کہ بس خدا کی خدائی کا سارا راز یہی ہے.پھر تو سارا تارو پود کھل گیا.نہیں اس قسم کی دلیری اور جسارت نہ کرنی چاہئے.جو انسان کو عبودیت کے درجہ سے گرا دے.جس کا نتیجہ ہلاکت ہے.ایسی بیوقوفی اور حماقت کرنا کہ خدا کی قدرتوں کو محصور اور محدود کرنا.کسی مومن سے نہیں ہوسکتی.امام فخر الدین رازی کا یہ قول بہت درست ہے کہ جو شخص خدائے تعالیٰ کو عقل کے پیمانہ سے اندازہ کرنے کا ارادہ کرے گاوہ بیوقوف ہے.دیکھو نطفہ سے انسان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا.یہ لفظ کہہ دینے آسان اور بالکل آسان ہیں اور یہ ایک بالکل معمولی سی بات نظر آتی ہے مگر یہ ایک سر اور راز ہے کہ ایک قطرہ آب سے انسان کو پیدا کرتا ہے اور اس میں اس قسم کے قومی رکھ دیتا ہے.کیا کسی عقل کی طاقت ہے کہ وہ اس کی کیفیت اور کنہ تک پہنچے.طبعیوں اور فلاسفروں نے بہتیرا زور مارا لیکن وہ اس کی ماہیت پر اطلاع نہ پاسکے.اسی طرح ایک ایک ذرہ خدائے تعالیٰ کے تابع ہے.اللہ تعالی اس پر قادر ہے کہ یہ ظاہر نظام بھی اسی طرح رہے اور ایک خارق عادت امر بھی ظاہر ہو جاوے.عارف لوگ ان کیفیتوں کو خوب دیکھتے اور ان سے حظ اٹھاتے ہیں.بعض لوگ ایک ادنی ادنیٰ اور معمولی باتوں پر اعتراض کر دیتے ہیں اور شک میں پڑ جاتے ہیں.مثلاً ابراہیم علیہ السلام کو آگ نے نہیں جلایا.یہ امر بھی ایسا ہے جیسا شق القمر کے متعلق.خدا خوب جانتا ہے کہ اس حد تک آگ جلاتی ہے اور ان اسباب کے پیدا ہونے سے فرو ہو جاتی ہے.اگر ایسا مصالحہ ظاہر ہو جاوے یا بتلا دیا جاوے تو فی الفور مان لیں گے.لیکن ایسی صورت میں ایمان بالغیب اور حسن ظن کا لطف اور خوبی کیا ظاہر ہو گی.ہم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ خدا خلق اسباب نہیں کرتا مگر بعض اسباب ایسے ہوتے ہیں کہ نظر آتے ہیں اور بعض اسباب نظر نہیں آتے.غرض یہ ہے کہ خدا کے افعال گونا گوں ہیں.
۳۲۶ 19 سورة القمر تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدائے تعالیٰ کی قدرت کبھی درماندہ نہیں ہوتی اور وہ نہیں تھکتا وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ (ق : ١٢) أَفَعَبِيْنَا بالْخَلْقِ الْأَوَّلِ (يس: ۸۰) اس کی شان ہے اللہ تعالیٰ کی بے انتہا قدرتوں اور افعال کا کیسا ہی صاحب عقل اور علم کیوں نہ ہو اندازہ نہیں کر سکتا.بلکہ اس کو اظہار عجز کرنا پڑتا ہے.مجھے ایک واقعہ یاد ہے.ڈاکٹر خوب جانتے ہیں.عبدالکریم نام ایک شخص میرے پاس آیا.اس کے اندر ایک رسولی تھی.جو پاخانہ کی طرف بڑھتی جاتی تھی.ڈاکٹروں نے اسے کہا کہ اس کا کوئی علاج نہیں ہے اس کو بندوق مار کر مار دینا چاہئے.الغرض بہت سے امراض اس قسم کے ہیں جن کی ماہیت ڈاکٹروں کو بخوبی معلوم نہیں ہو سکتی.مثلاً طاعون یا ہیضہ ایسے امراض ہیں کہ ڈاکٹر کو اگر پلیگ ڈیوٹی پر مقرر کیا جاوے.تو اسے خود ہی دست لگ جاتے ہیں.انسان جہاں تک ممکن ہو علم پڑھے اور فلسفہ کی تحقیقات میں محو ہو جاوے.لیکن بالاخر اس کو معلوم ہو گا کہ اس نے کچھ بھی نہیں کیا.حدیث میں آیا ہے کہ جیسے سمندر کے کنارے ایک چڑیا پانی کی چونچ بھرتی ہو، اسی طرح خدائے تعالیٰ کے کلام اور فعل کے معارف اور اسرار سے حصہ ملتا ہے.پھر کیا عاجز انسان ! ہاں نادان فلسفی اسی حیثیت اور مشینی پر خدائے تعالیٰ کے ایک فعل شق القمر پر اعتراض کرتا اور اسے قانون قدرت کے خلاف ٹھہراتا ہے.ہم یہ نہیں کہتے کہ اعتراض نہ کرو نہیں، کرو اور ضرور کرو.شوق سے اور دل کھول کر کرو.لیکن دو باتیں زیر نظر رکھ لو.اول خدا کا خوف (اور اس کی لامحدود طاقت ) دوسرے (انسان کی نیستی اور محدود علم ) بڑے بڑے فلاسفر بھی آخر یہ اقرار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ ہم جاہل ہیں.انتہائے عقل ہمیشہ انتہائے جہل پر ہوئی ہے.مثلاً ڈاکٹروں سے پوچھو کہ عصبہ مجوفہ کو سب وہ جانتے اور سمجھتے ہیں مگر نور کی ماہیت اور اس کا کنہ تو بتلاؤ کہ کیا ہے؟ آواز کی ماہیت پوچھو تو یہ تو کہہ دیں گے کہ کان کے پردہ پر یوں ہوتا ہے اور ڈوں ہوتا ہے لیکن ماہیت آواز خاک بھی نہ بتلا سکیں گے.آگ کی گرمی اور پانی کی ٹھنڈک پر کیوں کا جواب نہ دے سکیں گے.کنہ اشیاء تک پہنچنا کسی حکیم یا فلاسفر کا کام نہیں ہے.دیکھئے ہماری شکل آئینہ میں منعکس ہوتی ہے لیکن ہمارا سر ٹوٹ کر شیشہ کے اندر نہیں چلا جاتا.ہم بھی سلامت ہیں اور ہمارا چہرہ بھی آئینہ کے اندر نظر آتا ہے.پس یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ چاند شق ہو اور شق ہو کر بھی انتظام دنیا میں خلل نہ آوے.اصل بات یہ ہے کہ یہ اشیاء کے خواص ہیں.کون دم مارسکتا ہے.اس لئے خدائے تعالیٰ کے خوارق اور معجزات کا انکار کرنا اور انکار کے لئے جلدی کرنا شتاب کاروں اور نادانوں کا کام ہے.خدا کی قدرتوں اور عجائبات کو محدود سمجھنا دانش مندی نہیں.وہ اپنی ماہیت نہیں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ر ۳۲۷ سورة القمر جانتا اور سمجھتا اور آسمانی باتوں پر رائے زنی کرتا ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۸۸ تا ۹۱) یہ سچی بات ہے کہ خدائے تعالیٰ غیر معمولی طور پر کوئی کام نہیں کرتا.اصل بات یہ ہے کہ وہ خلق اسباب کرتا ہے خواہ ہم کو ان اسباب پر اطلاع ہو یا نہ ہوا الغرض اسباب ضرور ہوتے ہیں.اس لئے شق القمر یا نَارُ كُوني بردا وسلاما کے منجزات بھی خارج از اسباب نہیں بلکہ وہ بھی بعض مخفی در مخفی اسباب کے نتائج ہیں اور نیچے اور حقیقی سائنس پر مبنی ہیں.کوتاہ اندیش اور تاریک فلسفہ کے دلدادہ اسے نہیں سمجھ سکتے.مجھے تو یہ حیرت آتی ہے کہ جس حال میں یہ ایک امر مسلم ہے کہ عدم علم سے عدم شے لازم نہیں آتا تو نادان فلاسفر کیوں ان اسباب کی بے علمی پر جو ان معجزات کا موجب ہیں اصل معجزات کی نفی کی جرات کرتا ہے.ہاں ہمارا یہ.مذہب ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو اپنے کسی بندے کو ان اسباب مخفیہ پر مطلع کر دے.لیکن یہ کوئی لازم بات نہیں.دیکھو انسان اپنے لئے جب گھر بناتا ہے تو جہاں اور سب آسائش کے سامانوں کا خیال رکھتا ہے سب سے پہلے اس امر کو بھی ملحوظ رکھ لیتا ہے کہ اندر جانے اور باہر نکلنے کے لئے بھی کوئی دروازہ بنالے.اور اگر زیادہ ساز وسامان ہاتھی گھوڑے گاڑیاں بھی پاس ہیں تو علی قدر مراتب ہر ایک چیز اور سامان کے نکلنے اور جانے کے واسطے دروازہ بناتا ہے نہ یہ کہ سانپ کی بانبی کی طرح ایک چھوٹا سا سوراخ اسی طرح پر اللہ تعالیٰ کے فعل یعنی قانون قدرت پر ایک وسیع اور پر غور نظر کرنے سے ہم پتہ لگا سکتے ہیں کہ اس نے اپنی مخلوق کو پیدا کر کے یہ کبھی نہیں چاہا کہ وہ عبودیت سے سرکش ہو کر ربوبیت سے متعلق نہ ہو.ربوبیت نے عبودیت کو دور کرنے کا ارادہ کبھی نہیں کیا.سچا فلسفہ یہی ہے.رپورٹ جلسہ سالانه ۱۸۹۷ء صفحہ ۱۳۸،۱۳۷) بڑا عظیم الشان معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاشق القمر تھا اور شق القمر دراصل ایک قسم کا خسوف ہی تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے سے ہوا.الخام جلدے نمبر ۲۰ مورخه ۳۱ مئی ۱۹۰۳ صفحه ۲) اس سوال کے جواب میں کہ قرب قیامت سے کیا مراد ہے؟ فرمایا ) قرآن میں بھی ہے اقتَرَبَتِ السَّاعَةُ اور ایسی دیگر آیات.پس سمجھ سکتے ہو کہ قرب کے کیا معنے ہیں.قرب الساعة کے جو نشانات تھے وہ تو ظاہر ہو چکے.جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ آخری زمانہ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی ہولناک واقعہ پیش آتا تو فرماتے کہ قیامت آگئی.( بدر جلدے نمبرے مورخہ ۲۰ فروری ۱۹۰۸ء صفحه ۳)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ( شق القمر کے متعلق فرمایا.) ۳۲۸ سورة القمر ہماری رائے میں یہی ہے کہ وہ ایک قسم کا خسوف تھا.(کسوف و خسوف رمضان کی نسبت فرمایا.) دو ( بدر جلد نمبر ۱۹ ۲۰ مورخه ۲۴ رمئی ۱۹۰۸ ء صفحه ۵) یہ ایک پرانا نشان چلا آتا تھا جو کہ اس وقت پورا ہوا ہے.براہین احمدیہ میں اس کا ذکر استعارہ کے طور پر اسی طرح ہے وَ اِنْ يَرَوْا آيَةً تُعْرِضُوا وَ يَقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ یہ میرا الہام بھی ہے اور بعض محدثین کا مذہب یہ بھی ہے کہ شق القمر بھی ایک قسم خسوف میں سے تھا اور شاہ عبدالعزیز بھی یہی کہتے ہیں اور ہمارا اپنا مذہب بھی یہی ہے کہ از قسم خسوف تھا کیونکہ بڑے بڑے علماء اس طرف گئے ہیں.البدر جلد ۲ نمبر ۴ مورخه ۱۳ فروری ۱۹۰۳ ء صفحه ۲۶) جب دیکھیں گے کوئی نشان تو منہ پھیر لیں گے اور کہیں گے کہ یہ ایک مکر ہے....شق القمر کے معجزہ کے بیان میں اس وقت کافروں نے شق القمر کے نشان کو ملاحظہ کر کے جو ایک قسم کا خسوف تھا یہی کہا تھا کہ اس میں کیا انوکھی بات ہے.قدیم سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے.کوئی خارق عادت امر نہیں.حِكْمَةُ بَالِغَةُ فَمَا تُغْنِ النُّذُرُه نزول المسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۰۷۵۰۶) حِكْمَةٌ بالغة قرآن...انتہائی درجہ کی حکمت ہے.(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۸۷،۸۶) فَدَعَا رَبَّةٌ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرُ آئي مَغْلُوبٌ فَانتَصِر........میں مغلوب ہوں میری طرف سے مقابلہ کر.برا این احمد یہ چہار تحص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۱۲، ۶۱۳ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) وَلَقَد يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ بیشک ہم نے یاد کرنے کے لئے قرآن شریف کو آسان کر دیا ہے.احکم جلد ۹ نمبر ۴۰ مور محہ کے ارنومبر ۱۹۰۵ ، صفحہ ۹)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۲۹ سورة القمر الفارُكُمْ خَيْرٌ مِّنْ أُولَبِكُمْ اَم لَكُمْ بَرَاءَةُ فِي الزُّبْرِ اَم يَقُولُونَ نَحْنُ ودرو جَمِيع مُنتَصِرُ سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ کیا تمہارے کا فر فرعونی گروہ سے کچھ بہتر ہیں یا تم خدا کی کتابوں میں معذب اور ماخوذ ہونے سے مستثنیٰ اور بری قرار دیئے گئے ہو.کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری جماعت بڑی قومی جماعت ہے کہ جو زبر دست اور فتح مند ہے.عنقریب یہ ساری جماعت پیٹھ پھیرتے ہوئے بھاگے گی.(براہین احمدیہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۵۵ حاشیہ نمبر ۱۱) کیا کہتے ہیں کہ ہم ایک قومی جماعت ہیں جو جواب دینے پر قادر ہیں.عنقریب یہ ساری جماعت بھاگ جائے گی اور پیٹھ پھیر لیں گے اور جب یہ لوگ کوئی نشان دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ ایک معمولی اور قدیمی سحر ( براہین احمدیہ چہار تصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۹۲ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳) ہے.ودرو معتبر تفسیروں میں لکھا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی سَيُهُزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ کو معلوم نہیں کہ یہ پیشگوئی کس موقع کے متعلق ہے اور پھر جب بدر کی لڑائی میں فتح عظیم ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ اب معلوم ہوا کہ اس فتح عظیم کی یہ پیشگوئی خبر دیتی تھی.91991 ( برا این احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۴۹) آپ نے کس حو صلے اور دلیری کے ساتھ مخالفوں کو مخاطب کر کے کہا کہ فَكَيْدُ ونِي جَمِيعًا (هود :۵۶) یعنی کوئی دقیقہ مکر کا باقی نہ رکھو.سارے فریب مکر استعمال کرو قتل کے منصوبے کرو.اخراج اور قید کی تدبیریں کرو، مگر یا درکھو سَيُهزِّمُ الْجَمْعُ وَ يُولُونَ الدُّبُر آخری فتح میری ہے.تمہارے سارے منصوبے خاک میں مل جاویں گے.تمہاری ساری جماعتیں منتشر اور پراگندہ ہو جاویں گی اور پیٹھ دے نکلیں گی.جیسے وہ عظیم الشان دعوى إنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعاً کسی نے نہیں کیا اور جیسے فکیدُ ونِي جَمِيعًا کہنے کوکسی کی ہمت نہ ہوئی.یہ بھی کسی کے منہ سے نہ نکلا.سَيُهزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ التَّابُر یہ الفاظ اسی کے منہ سے نکلے جو خدا تعالیٰ کے 91991 سائے کے نیچے الوہیت کی چادر میں لپٹا ہوا پڑا تھا.(الحکم جلد ۶ نمبر ۲۶ مورخہ ۲۴ جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۸) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی ساری پیشگوئیوں سے بھری ہوئی ہے ان پر اگر ایک دانشمند آدمی خدا سے خوف کھا کر غور کرے تو اسے معلوم ہوگا کہ کس قدر غیب کی خبریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی ہیں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳ سورة القمر 91991 کیا اس وقت جبکہ ساری قوم آپ کی مخالف تھی اور کوئی ہمدرد اور رفیق نہ تھا یہ کہنا کہ سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُولُونَ الدبر چھوٹی بات ہو سکتی تھی.اسباب کے لحاظ سے تو ایسا فتوی دیا جاتا تھا کہ ان کا خاتمہ ہو جاوے گا مگر آپ ایسی حالت میں اپنی کامیابی اور دشمنوں کی ذلت اور نامرادی کی پیشگوئیاں کر رہے اور آخر اسی طرح وقوع الحکم جلدے نمبر ۱۶ مورخه ۱/۳۰ پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۲) میں آتا ہے.اِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنْبِ وَنَهَرٍ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ ) ۵۶ متقی لوگ جو خدائے تعالیٰ سے ڈر کر ہر ایک قسم کی سرکشی کو چھوڑ دیتے ہیں وہ فوت ہونے کے بعد جنات اور نہر میں ہیں صدق کی نشست گاہ میں با اقتدار بادشاہ کے پاس.اب ان آیات کی رو سے صاف ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے دخول جنت اور مقعد صدق میں تلازم رکھا ہے یعنی خدائے تعالیٰ کے پاس پہنچنا اور جنت میں داخل ہونا ایک دوسرے کا لازم ٹھہرایا گیا ہے.سو اگر رافعك إلى (ال عمران :۵۶) کے یہی معنے ہیں جو سیح خدائے تعالیٰ کی طرف اٹھایا گیا تو بلاشبہ وہ جنت میں بھی داخل ہو گیا جیسا کہ دوسری آیت یعنی ارجعی إلى رَبَّكِ ( الفجر : ٢٩) جو رافِعُكَ اِلی کے ہم معنی ہے بصراحت اس پر دلالت کر رہی ہے.جس سے ثابت ہوتا ہے کہ خدائے تعالیٰ کی طرف اٹھائے جانا اور گزشتہ مقربوں کی جماعت میں شامل ہو جانا اور بہشت میں داخل ہو جانا یہ تینوں مفہوم ایک ہی آن میں یورے ہو جاتے ہیں.پس اس آیت سے بھی مسیح ابن مریم کا فوت ہونا ہی ثابت ہوا.فَالْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِى اَحَقِّ الْحَقِّ وَابْطَلَ الْبَاطِلَ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَأَيَّدَ مَأْمُورَة (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۳۵) آیت وَرَفَعْنَهُ مَكَانًا عَلِيًّا ( مریم : ۵۸) کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.) یہ امر ثابت ہے کہ رفع سے مراد اس جگہ موت ہے مگر ایسی موت جوعزت کے ساتھ ہو.جیسا کہ مقربین کے لئے ہوتی ہے کہ بعد موت ان کی روحیں علیمین تک پہنچائی جاتی ہیں.فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ مَلِياكِ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۲۴) مسیح علیہ السلام کا دُنیا میں دوبارہ آنا کسی طرح موجب وجاہت نہیں بلکہ آپ لوگوں کے عقیدے کے مقْتَدِدٍ - موافق اپنی حالت اور مرتبہ سے متنزّل ہو کر آئیں گے.امتی بن کے امام مہدی کی بیعت کریں گے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٣٣١ سورة القمر مقتدی بن کر ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے.پس یہ کیا وجاہت ہوئی بلکہ یہ تو قضیہ معکوسہ اور نبی اولوا العزم کی ایک ہتک ہے اور یہ کہنا کہ ان سب باتوں کو وہ اپنا فخر سمجھیں گے بالکل بیہودہ خیال ہے لیکن اگر آسمان سے نازل نہ ہوں تو یہ اُن کی وجاہت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيلٍ مُّقْتَدِرٍ - غرض واپس آنے میں کوئی وجاہت نہیں.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۴۱۲، ۴۱۳)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ لا ٣٣٣ سورة الرحمن بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الرّحمن بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام الرّحمن لي عَلَمَ الْقُرآن ) بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ علم القرآن....اس نے تجھے علم قرآن کا دیا.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۰۹ حاشیه ) ( مجموعہ اشتہارات،جلد دوم صفحه ۴۷۵) خدا نے تجھے قرآن سکھلایا.علم نور ہے وہ حجاب نہیں ہو سکتا بلکہ جہالت حجاب الاکبر ہے.خدا کا نام علیم ہے اور پھر قرآن میں آیا ہے الرَّحْمنُ عَلَمَ الْقُرْآنَ اسی لئے ملائکہ نے کہا لا عِلْم لَنَا إِلَّا مَا عَلَيْتَنَا (البقرة : ٣٣) - الحکم جلد ۶ نمبر ۲۵ مورخہ ۷ ارجولائی ۱۹۰۲ صفحہ ۲) خَلَقَ الْإِنْسَانَ فى عَلَمَهُ الْبَيَانَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ.خَلَقَ الْإِنْسَانَ عَلَّمَهُ الْبَيَان.خدا تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اس کو بولنا فَالْمُرَادُ مِن الْبَيَانِ اللُّغَةُ الْعَرَبِيَّةُ سکھایا.سو بیان سے مراد جس کے معنے بولنا ہے زبان عربی كَمَا تُشِيرُ إِلَيْهِ الْآيَةُ الثَّانِيَةُ اغنى ہے جیسا کہ دوسری آیت اسی کی طرف اشارہ کرتی ہے یعنی قَوْلَهُ تَعَالَى عَرَبيٌّ مُّبِينٌ فَجَعَلَ لَفَظَ عَرَبي مُبِين سوخدا نے مبین کے لفظ کو عربی کے لئے ایک ل النحل : ۱۰۴ لے وو،
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۴ سورة الرحمن الْمُبِينِ وَصْفاً خاصاً لِلْعَرَبِيَّةِ وَ أشار إلى خاص صفت ٹھہرایا اور اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ یہ وَأَشَارَ أَنَّهُ مِنْ صِفَاتِهِ النَّاتِيَةِ.وَلَا يَشْتَرِكُ فِيهِ لفظ بیان کا عربی کے صفات خاصہ میں سے ہے اور کوئی اَحَدٌ مِنَ الأَلْسِنَةِ كَمَا لَا يَخفَى عَلَى دوسری زبان اس صفت میں اس کی شریک نہیں جیسا کہ الْمُتَفَكِرِينَ وَأَشَارَ بِلفظ الْبَيَانِ إلى فکر کرنے والوں پر پوشیدہ نہیں اور بیان کے لفظ کے بَلاغَةِ هذا النِّسَانِ وَالى انها هي النِّسَانُ ساتھ اس زبان کی بلاغت کی طرف اشارہ کیا اور نیز اس الْعَامِلَةُ وأنها أحَاطَتْ كُلَّمَا اشْتَدَّتْ بات کی طرف اشارہ کہ یہ زبان کامل اور ہر یک امر إِلَيْهِ الْحَاجَةُ وَ تَصَوَّبَتْ مَطَرُهَا بقدر ما مایحتاج پر محیط ہے اور اس کا مبینہ اس قدر برسا ہے جس اقْتَضَتِ الْبَلَدَةُ وَفَاقَتْ كُلَّ لُغَبِ فِي ابْرَازِ قدر زمین کو ضرورت تھی اور دلوں کے خیال ظاہر کرنے مَا فِي الضَّمَائِرِ وَسَاوَی الْفِطْرَةَ الْبَشَرِيَّةَ کے لئے ہر یک زبان پر فائق ہے اور فطرت بشری سے كَتَسَاوِي الدَّوَائِرِ وَكُلَّ مَا اقْتَضَتْهُ ایسی برابر ہے.جیسا کہ ایک دائرہ دوسرے دائرے الْقُوَى الْإِنْسَانِيَّةُ وَابْتَغَتْهُ التَّصورات سے برابر ہو اور وہ تمام امور جن کو انسانی قویٰ چاہتے ہیں الْإِنْسِيَّةُ وَكُلّ ما طلبه حَوَائِجُ فِطرَةِ اور انسانی تصورات ان کے خواہشمند ہیں اور وہ تمام الْإِنْسَانِ فَيُحَاذِيْنَا مُفْرِدَاتُ هَذِهِ امور جن کو انسانی فطرت کی حاجتیں طلب کرتی ہیں سو اللّسَانِ مَعَ تَبْسِيرِ النُّطْقِ وَالْقَاءِ الْآثر اس زبان کے مفردات ان کے مقابل پر واقع ہیں اور عَلَى الْجَتَانِ فَاتَّبِعْ مَا جَاءَكَ مِنَ الْيَقِينِ ساتھ اس کے یہ خوبی ہے کہ بولنے کے طریق کو آسان ثُمَّ سِيَاقُ هَذِهِ الْآيَةِ يَزِيدُكَ فِي الدَّرَايَةِ کیا گیا ہے ایسا کہ دل پر اثر پڑے پھر اس آیت کا سیاق فَإِنَّهُ يَبُلُّ بِالثَّلَالَةِ الْقَطْعِيَّةِ عَلَى مَا قُلْنَا درایت کو زیادہ کرتا ہے کیونکہ وہ سیاق ان پوشیدہ من الأَسْرَارِ الْخَفِيَّةِ لِتَكُونَ مِن بھیدوں پر دلالت کرتا ہے جو ہم بیان کر چکے ہیں تا کہ تو الْمُوْقِنِينَ.فَتَفَكَّرُ فِي آيَةِ الرَّحْمٰنُ عَلَمَ یقین والوں میں سے ہو جائے پس اس آیت میں غور کر الْقُرْآنَ فَإِنَّ الْغَرَضَ فِيْهَا ذِكْرُ الْفُرْقَانِ يعنى الرَّحْمَنُ عَلَمَ الْقُرْآنَ کیونکہ اس آیت میں مقصود دو وَالْحَقُّ عَلَى الصَّلَاوَةِ وَالْإِمْعَانِ وَلَا يَحْصُلُ باتیں ہیں.قرآن کی فضیلت کا ذکر اور اس کی تلاوت هذَا الْغَرَضُ إِلَّا بَعْدَ تَعَلُّمِ الْعَرَبِيَّةِ اور سوچنے پر ترغیب اور یہ غرض بجز اس کے حاصل نہیں وَالْمَهَارَةِ الثَّامَةِ فِي هَذِهِ اللَّهْجَةِ.فَلأَجْلِ ہو سکتی کہ عربی کو سیکھیں اور اس میں مہارت تامہ حاصل 66
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۵ سورة الرحمن وو هذِهِ الْإِشَارَةِ قَدَّمَ اللهُ آيَةً عَلَّمَ کریں پس اسی اشارت کی غرض سے خدا تعالیٰ نے آیت الْقُرْآن" ثُمَّ قَفَاهُ ايَةَ عَلَّمَهُ الْبَيَان كَانَهُ عَلَّمَ الْقُرْآن کو مقدم کیا پھر بعد اس کے آیت عَلَّمَهُ قَالَ الْمِنَّةُ مِئَتَانِ تَنْزِيلُ الْقُرْآنِ الْبَيَانَ کو لایا پس گویا کہ اس نے یہ کہا کہ احسان دو وَتَخْصِيصُ الْعَرَبِيَّةِ بِأَحْسَنِ الْبَيَانِ احسان ہیں (۱) قرآن کا اتارنا اور عربی کو بلاغت فصاحت وَتَعْلِيمِهَا لِآدَمَ لِيَنْتَفِعَ بِهِ نَوع کے ساتھ مخصوص کرنا اور (۲) آدم کو عربی کی تعلیم دینا تا الْإِنْسَانِ فَإِنَّهَا مَخَزَنَ عُلُوْمٍ عَالِيَّةٍ نوع انسان اس سے منتفع ہو کیونکہ عربی علوم عالیہ کی مختزن وَهِدَايَاتٍ أَبَدِيَّةٍ مِنَ الْمَنَانِ كَمَا لا يخفی ہے اور اس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ابدی ہدایتیں ہیں عَلَى الْمُتَدَبِرِينَ جیسا کہ تدبر کرنے والوں پر پوشیدہ نہیں.فَالْحَاصِل أَنَّهُ ذَكَر أولا نِعْمَةَ پس حاصل کلام یہ ہے کہ اول خدا تعالیٰ نے فرقان کی الْفُرْقَانِ ثُمَّ ذَكَرَ نِعْمَةً أخرى التي هي نعمت کو ذکر کیا ہے پھر اس دوسری نعمت کو ذکر کیا جو اس کے لَهَا كَالْبُنْيَانِ وَأَشَارَ إِلَيْهَا يلفظ لئے بنیاد کی طرح ہے اور اس بات کی طرف بیان کے لفظ الْبَيَانِ لِيُعْلَمَ أَنَّهَا هُوَ الْعَرَبِ الْمُبِينُ کے ساتھ اشارہ کیا تا معلوم ہو کہ اس صفت سے موصوف فَإِنَّ الْقُرْآنَ مَا جَعَلَ الْبَيَانَ صِفَةَ أحدٍ عربی زبان ہے کیونکہ قرآن نے بیان کے لفظ کو بجز عربی من الأَلْسِنَةِ مِنْ دُونِ هَذِهِ اللَّهْجَةِ فَانی کے کسی زبان کی صفت نہیں ٹھہرایا پس کون سا قرینہ اس قَرِينَةٍ أقوى و اكلُّ مِن هَذِهِ الْقَرِينَةُ لَوْ قرینہ سے زیادہ قوی اور زیادہ دلالت کرنے والا ہے اگر كُنتُمْ مُتَفَكِرِينَ أَلا تَرى أَنَّ الْقُرْان تم فکر کرنے والے ہو.کیا تو نہیں جانتا کہ قرآن نے غیر سَمَّى غَيْرَ الْعَرَبِيَّةِ أَعْجَمِيًّا فَمِنَ الْغَبَاوَةِ ان زبانوں کا نام انجمی رکھا ہے پس نادانی ہوگی کہ ان زبانوں تجْعَلَهَا لِلْعَرَبِيَّةِ سَمِيًّا.فَافُهَمُ اِنْ كُنتَ کو عربی کا ہم نام اور ہم رتبہ ٹھہرایا جائے پس اگر تو ز کی زَكِيَّا وَلَا تَكُنْ مِنَ الْمُعْرِضِينَ وَالنَّصُّ ہے تو سمجھ لے اور کنارہ کرنے والوں سے مت ہو اور صريح وَمَا يُنكره إِلَّا وَقِيحُ مِن یہ نص صریح ہے اور کوئی اس سے انکار نہیں کرے گا مگر الْمُعَانِدِينَ.بے حیا جو معاندوں میں سے ہوگا.وَ مِنْهَا مَا قَالَ ذُو الْمَجْدِ وَالْعِزَّةِ في اور ان آیتوں میں سے ایک وہ آیت ہے جو خدائے آيَةٍ بَعْدَ هَذِهِ الْآيَةِ أغلى قول الله ذوالمجد والعزت نے بعد اس آیت کے ذکر فرمائی ہے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۶ سورة الرحمن 66 الْحَتَانِ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ فَانْظُرْ یعنی خدائے بزرگ اور مہربان کا یہ قول کہ الشَّمْسُ إلى مَا قَالَ الرَّحْمَانُ وَفَكِّرُ كَذِى الْعَقْلِ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانِ پس اس مضمون کو سوچ جو خدا تعالیٰ وَالْإِمْعَانِ وَتَذَكَّرُ كَالْمُسْتَرْشِدِينَ فَإِنَّ نے فرمایا اور عقلمندوں اور سوچنے والوں کی طرح غور کر هذِهِ الْآيَةَ تُؤَيَّدُ أَيَةً أَوْلى وَيُفَشِرُ مَعْنَاهَا اور رشد کے طالبوں کی طرح یاد کر کیونکہ یہ آیت پہلی بِتَفْسِيرٍ أجلى كَمَا لَا يَخْفی عَلَی آیت کی تائید کرتی ہے اور ایک کھلی کھلی تفسیر کے ساتھ الْمُفَكِّرِيْنَ وَ بَيَانُه أَنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ اس کے معنی بیان کرتی ہے جیسا کہ سوچنے والوں پر يَجْرِيَانِ مَتَعَاقِبَينِ وَيَحْمِلَانِ نُورًا وَاحِدًا پوشیدہ نہیں اور بیان اس کا یہ ہے کہ آفتاب اور چاند في اللونين.وَكَذَلِكَ الْعَرَبِيَّةُ وَالْقُرْآنُ ایک دوسرے کے متعاقب چلتے ہیں اور ایک ہی نور کو دو فَإِنَّهُمَا تَعَاقَبَا وَاتَّحَدا الْبُرُوقَ وَاللَّمْعَانِ رنگوں میں اٹھائے پھرتے ہیں.اور یہی مثال عربی اور أمَّا الْقُرْآنُ فَهُوَ كَالشَّارِقِ الْمُبِیرِ قرآن کی ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کے بعد چل رہے وَالْعَرَبِيَّةُ كَالْبَدْرِ الْمُسْتَدِيرِ وَمَعْذَلِكَ ہیں اور روشنی اور چمک میں اتحادر رکھتے ہیں سو قرآن تو تَرَى الْعَرَبِيَّةَ أَسْرَعُ فِي الْمَسِيرِ وَاجْرُى مہر تاباں کی طرح ہے اور عربی ماہتاب کی طرح اور عَلَى لِسَانِ الصّالح وَالطَّرِيرِ وَ مَا كَانَتْ باوصف اس کے عربی سیر میں تیز رو ہے اور نیک اور بد کی شمْسُ الْقُرْآنِ آن تُدْرِكَ هَذَا الْقَمَرَ زبان پر زیادہ جاری ہو گئی ہے اور قرآن کا آفتاب اس وكذلك قَدَّر الله هذا الأمر وانما کی حرکت کو نہیں پہنچا اور خدا تعالیٰ نے اس امر کو اسی بُحُسْبَانٍ وَيَجْرِيَانِ كَمَا أَجْرِيَا وَلَا يَبْغِيَانَ.طرح مقدر کیا اور وہ دونوں ایک حساب پر چل رہے بِحِسَابِ مُقَدَّرٍ مِنَ الرَّحْمٰنِ فَتَرَى آن ہیں اور جیسا کہ چلا یا گیا ویسا ہی چل رہے ہیں اور اپنے الْقُرْآنَ يَجْرِى بِرِعَايَةِ أَنْوَاعِ الْاِسْتِعْدَادِ اپنے اندازہ سے کم و بیش نہیں ہوتے.سو قرآن تو وَ يَكْشِفُ عَلَى الطَّالِب اَسْرَارَ الْمَعَادِ استعدادوں کے لحاظ پر چلتا ہے اور طالب پر معاد کے وَيُرَى الْحُكَمَاء كَمَا يُرَى السُّفَهَاء وَيُعَلِّمُ بھید کھولتا ہے اور حکیموں کی پرورش ایسا کرتا ہے جیسا کہ الْعُقَلَاء كَمَا يُعَلِّمُ الْجُهَلَاءَ وَفِيهِ بَلَاغُ بے وقوفوں کی پرورش کرتا ہے اور عقلمندوں کو اسی طرح لِكُلِّ مَرْتَبَةِ الْفَهْمِ.وَتَسْلِيَةٌ لِكُلِّ ارباب سکھلاتا ہے جیسا کہ جاہلوں کو اور اس میں ہر ایک سمجھ أَرْبَابِ النَّهَاءِ وَالْوَهُم وَسَاوَى بجميع انواع کے مرتبہ کے لئے طریق تبلیغ موجود ہے اور ہر یک
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۷ سورة الرحمن الْإِدْرَاكِ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ إِلى أَهْلِ دانش اور وہم کے لئے تسلی کا راہ ہے اور اور اک کی تمام الأفلاكِ وَإِنَّهُ أَحَاطَ دَوَائِرَ فَهُم قسموں سے وہ برابر ہے.گو کتنے قسم زمین سے آسمان تک الْإِنْسَانِ مَعَ الْتِزامِ الْحَقِّ وَإِقَامَةِ ہوں اور وہ انسانی فہم کے تمام دائرہ پر محیط ہے اور وہ حق اور الْبُرْهَانِ وَإِنَّهُ نُورٌ تَام مُبِينٌ وَ اَماً برہان کا التزام اپنے ساتھ رکھتا ہے اور وہ پورا پورا انور اور کھلی اللغة العربية تحسباتها انها تخری کھلی روشنی ہے.رہی عربی زبان سو اس کے چلنے کا طریق الْعَرَبِيَّةُ فَحُسْبَانُهَا أَنَّهَا تَجْرِى راور تَحْتَ مَقَاصِدِ الْقُرْآنِ وَتَتِةُ مُفَرَدَاتِہ یہ ہے کہ قرآن کے مقاصد کے نیچے چلتی ہے اور اپنے جَمِيعُ دَوَائِرٍ دِينِ الرَّحْمَانِ وَ تَخدِمُ مفردات کے ساتھ دین کے تمام دائروں کو پورا کرتی ہے سَائِرَ انْوَاعِ التَّعْلِيمِ وَالتَّلْفِينِ.وَإِنّها اور تعلیم اور تلقین کے تمام قسموں کی خدمت کرتی ہے اور یہ مِنْ أَعْظَمِ تَجَالِي الْقُدْرَةِ الرَّبَّانِيَّةِ بولی قدرت ربانی کی عظیم الشان جلوہ گاہوں میں سے ہے اور وَخَضَهَا اللهُ بِنِظَامٍ فطري من جميع خدا تعالیٰ نے اس کو تمام زبانوں میں سے نظام فطری کے الْأَلْسِنَةِ وَ اوَدَعَهَا مَحاسَن الصَّنَعَةِ ساتھ خاص کیا ہے اور اس میں طرح طرح کی صنعت الہیہ الْإِلَهِيَّةِ فَأَحَاطَتْ جَميعَ لطائف کے محاسن رکھے ہیں پس یہ بولی بیان کے تمام لطائف پر الْبَيَانِ وَأَبْدَى الْجَمَالَ كَأَحْسَنِ اَشْيَاء محیط ہے اور اپنے جمال کو ایسے طور سے ظاہر کیا ہے جو ان صَدرَتْ مِنَ الرَّحْمَانِ وَ هَذَا هُوَ تمام چیزوں سے بہتر ہے جو خدا تعالیٰ سے صادر ہوئی ہیں الدَّلِيلُ عَلى أَنها لَيْسَتْ مِن الْإِنْسَانِ.اور یہی دلیل اس بات پر ہے کہ یہ بولی انسان کی طرف سے وَفِيهَا صِبْغَةٌ حِكْميَّةٌ مِنَ اللهِ الْمَنانِ نہیں اور اس میں خدا تعالی کی طرف سے ایک پر حکمت وَفِيْهَا حُسْنُ وَبَهَاءُ وَ انْوَاعُ اللَّمُعَانِ وَ رنگ ہے اور حسن اور خوبصورتی اور قسم قسم کی چمک ہے اور فِيهَا عَجَائِبُ صانع عَظِيمٍ الشَّانِ صنعت الہی کے عظیم الشان عجائبات ہیں.اس کا منہ کئی تَلْمَعُ وَجْهَهَا بَيْنَ صَفُوفِ السِنَةِ شَفى زبانوں کی صفوں کے اندر چمک رہا ہے گویا یہ ایک چمکتا ہوا كَأَتَها كَوْكَبٌ دُرِى فِي الدُّجى وَ اِنَّهَا موتی اندھیرے میں ہے اور یہ اس پاکیزہ باغ کی طرح كَرَوْضَةٍ طَيِّبَةٍ عَلى نَهْرٍ جَارٍ مُشْرَةٍ ہے جو نہر جاری پر ہو جو پھلوں سے لدا ہوا ہو مگر دوسری بأنواع ثمارٍ وَأَمَّا الْأَلْسُنُ الأخرى زبانوں کا یہ حال ہے کہ احمقوں کے تصرف کے غبار نے فَقَدْ غَيْرَ وَجْهُهَا فَتَرُ تَصَرُّفِ النُّونى بہت سا حصہ ان کا متغیر کر دیا ہے اور اپنی پہلی صورت پر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۸ سورة الرحمن وَمَا بَقِيتُ عَلى صُورَتِها الأولى فهی باقی نہیں رہیں پس وہ ان درختوں کی طرح ہیں جو اپنی كَأَشْجَارٍ أَجْتُنَّتْ مِن مَغَارِسِهَا وَبَعُدَتْ جگہ سے اکھیڑے گئے اور اپنے نگہبان کی آنکھوں سے مِنْ نَوَاظِرٍ حَارِسِهَا وَ نُبِنَتْ فِي مَوْمَاةٍ دور کئے گئے اور ایسے بیابان میں ڈالے گئے جہاں پانی وَقَفْرٍ وَفَلَاةٍ فَاصْفَرَّتْ أَوْرَاقُهَا وَيَبِسَتْ نہیں اور ایسے جنگل میں جہاں کوئی درخت سبز نہیں پس سَاقُهَا وَسَقَطَتْ الْمارُهَا وَذَهَبَتْ ان کے پتے زرد ہو گئے اور ان کے پھل گر گئے اور ان نَضْرَتهَا وَالخَضِرَارُهَا وَتَرَی وَجْهَهَا کی تازگی اور سبزی جاتی رہی اور تو دیکھتا ہے کہ ان کا چہرہ جذامیوں کی طرح ہو گیا.( ترجمہ اصل کتاب سے ) كَالْمَجْذُومِينَ (منن الرحمن ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۱۸۸ تا ۱۹۳) وَقَد سَمِعْتَ أَنَّ اللهَ جَعَلَ لَفْظَ الْبَيَانِ اور تو سن چکا ہے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے صِفَةً لِلْعَرَبِيَّةِ فِي الْقُرْآنِ وَ وَصَفَ بلاغت فصاحت کو عربی کی صفت ٹھہرایا ہے اور عربی کو الْعَرَبِيَّةَ بِعَرَبِي مُبِينٍ فَهْذِهِ إِشَارَةٌ إلى عربی مبین کے لفظ سے موسوم کیا ہے.پس یہ بیان اس فَصَاحَتِ هَذَا اللِّسَانِ وَ عُلُوّ مُقَامِهَا عِنْدَ زبان کی فصاحت کی طرف اشارہ ہے اور نیز اس کے الرَّحْمَنِ وَأَمَّا الأَلْسِنَةُ الأخرى فما مرتبہ عالیہ کی طرف ایما ہے مگر خدا تعالیٰ نے دوسری وَصَفَهَا بِهَذَا الشَّانِ بَلْ مَا عَزَاهَا إلى زبانوں کو اس وصف سے موصوف نہیں فرمایا بلکہ ان کو نَفْسِهِ لِتَعْلِيمِ الْإِنْسَانِ وَسَمًا غَيْرَ اپنی ذات کی طرف منسوب بھی نہیں فرمایا اور ان کا نام الْعَرَبِيَّةِ الجَبِيا فَفَكِّرُ إِن كُنتَ زَكيا - انجمی رکھا پس اگر تو ز کی ہے تو اس بات کو سوچ لے اور مبارک ہیں وہ جو اس بات کو سوچتے ہیں.وَطُوبَى لِلْمُتَفَكِّرِيْنَ (منن الرحمان، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۲۰۸) ( ترجمہ اصل کتاب سے ) فباي الآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِ بنِ (اس سوال کے جواب میں کہ سورۃ رحمان میں اعادہ کیوں ہوا ہے؟ فرمایا.) اس قسم کا التزام اللہ تعالیٰ کے کلام کا ایک ممتاز نشان ہے.انسان کی فطرت میں یہ امر واقع ہوا ہے کہ موزوں کلام اسے جلد یاد ہو جاتا ہے.اس لیے فرمایا وَ لَقَد يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِكرِ ( القمر : ۲۳) یعنی بے شک
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۳۹ سورة الرحمن ہم نے یاد کرنے کے لیے قرآن شریف کو آسان کر دیا ہے.قياتي الاء ربكما تكذبين بار بار توجہ دلانے کے واسطے ہے.اس تکرار پر نہ جاؤ.قرآن شریف میں اور بھی تکرار ہے.میں خود بھی تکرار کو اسی وجہ سے پسند کرتا ہوں.میری تحریروں کو اگر کوئی دیکھتا ہے تو وہ اس تکرار کو بکثرت پائے گا.حقیقت سے ناخبر انسان اس کو منافی بلاغت سمجھ لے گا.اور کہے گا کہ یہ بھول کر لکھا ہے حالانکہ یہ بات نہیں ہے.میں یہ سمجھتا ہوں کہ شاید پڑھنے والا پہلے جو کچھ لکھا ہے اُسے بھول گیا ہو.اس لیے بار بار یاد دلاتا ہوں تا کہ کسی مقام پر تو اس کی آنکھ کھلے.إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالشَّيَاتِ علاوہ بریں تکرار پر اعتراض ہی بے فائدہ ہے.اس لیے کہ یہ بھی تو انسانی فطرت میں ہے کہ جب تک بار بار ایک بات کو دہرائے نہیں وہ یاد نہیں ہوتی.سُبحان ربی الاعلیٰ اور سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ بار بار کیوں کہلوایا ؟ ایک بار ہی کافی تھا.نہیں.اس میں یہی سر ہے کہ کثرت تکرارا اپنا ایک اثر ڈالتی ہے اور غافل سے غافل قوتوں میں بھی ایک بیداری پیدا کر دیتی ہے.اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا.وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ( الجمعة : ١١ ) یعنی اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرو تا کہ تم فلاح پا جاؤ.جس طرح پر ذہنی : تعلق ہوتا ہے اور کثرت تکرار ایک بات کو حافظہ میں محفوظ کر دیتی ہے.اسی طرح ایک روحانی تعلق بھی ہے اس میں بھی تکرار کی حاجت ہے.بدوں تکرار وہ روحانی پیوند اور رشتہ قائم نہیں رہتا....حضرت امام جعفر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک آیت اتنی مرتبہ پڑھتا ہوں کہ وہ آخر وحی ہو جاتی ہے.صوفی بھی اسی طرف گئے ہیں اور واذكروا اللهَ كَثِبُوا کے یہ معنے ہیں کہ اس قدر ذکر کرو کہ گویا اللہ تعالیٰ کا نام کنٹھ ہو جاوے.انبیاء علیہم السلام کے طرز کلام میں یہ بات عام ہوتی ہے کہ وہ ایک امر کو بار بار اور مختلف طریقوں سے بیان کرتے ہیں.ان کی اصل غرض یہی ہوتی ہے کہ تا مخلوق کو نفع پہنچے.میں خود دیکھتا ہوں اور میری کتابیں پڑھنے والے جانتے ہیں کہ اگر چار صفحے میری کسی کتاب کے دیکھے جاویں تو ان میں ایک ہی امر کا ذکر پچاس مرتبہ آئے گا اور میری غرض یہی ہوتی ہے کہ شاید پہلے مقام پر اس نے غور نہ کیا ہو اور یونہی سرسری طور سے گزر گیا ہو.قرآن شریف میں اعادہ اور تکرار کی بھی یہی حکمت ہے.یہ تو احمقوں کی خشک منطق ہے جو کہتے ہیں کہ بار بار تکرار سے بلاغت جاتی رہتی ہے.وہ کہتے رہیں.قرآن شریف کی غرض تو ایک بیمار کا اچھا کرنا ہے.وہ تو ضرور ایک مریض کو بار بار دوا دے گا.اگر یہ قاعدہ صحیح نہیں تو پھر ایسے معترض جب کوئی ان کے ہاں بیمار
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۰ سورة الرحمن ہو جاوے تو اسے بار بار دوا کیوں دیتے ہیں.اور آپ کیوں دن رات کے تکرار میں اپنی غذ الباس وغیرہ امور کا تکرار کرتے ہیں.پچھلے دنوں میں نے کسی اخبار میں پڑھا تھا کہ ایک انگریز نے محض اسی وجہ سے خود کشی کر لی تھی کہ بار بار وہی دن رات اور غذا مقر ر ہے اور میں اس کو برداشت نہیں کر سکتا.الحکم جلد ۹ نمبر ۴۰ مورخہ ۷ ارنومبر ۱۹۰۵ صفحه ۹) كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَإِن وَيَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَالِ وَالْإِكْرَامِ ۲۸ یعنی ہر یک چیز جو زمین میں موجود ہے اور زمین سے نکلتی ہے وہ معرض فنا میں ہے یعنی دمبدم فنا کی طرف میل کر رہی ہے.مطلب یہ کہ ہر یک جسم خاکی کو نابود ہونے کی طرف ایک حرکت ہے اور کوئی وقت اس حرکت سے خالی نہیں.وہی حرکت بچہ کو جو ان کر دیتی ہے اور جو ان کو بڑھا اور بڑھے کو قبر میں ڈال دیتی ہے اور اس قانون قدرت سے کوئی باہر نہیں.خدائے تعالیٰ نے فن کا لفظ اختیار کیا یقینی نہیں کہا تا معلوم ہو کہ فنا ایسی چیز نہیں کہ کسی آئندہ زمانہ میں یکدفعہ واقعہ ہوگی بلکہ سلسلہ فنا کا ساتھ ساتھ جاری ہے لیکن ہمارے مولوی یہ گمان کر رہے ہیں کہ مسیح ابن مریم اسی فانی جسم کے ساتھ جس میں بموجب نص صریح کے ہر دم فنا کام کر رہی ہے بلا تغیر و تبدل آسمان پر بیٹھا ہے اور زمانہ اُس پر اثر نہیں کرتا.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بھی مسیح کو کائنات الارض میں سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۳۴) جیسا کہ اب اسباب ظاہر اور مسبب پوشیدہ ہے اس وقت مسبب ظاہر اور اسباب زاویہ عدم میں چھپ جائیں گے اور ہر یک چیز اس کی طرف رجوع کر کے تجلیات قہر یہ میں مخفی ہو جائے گی.اور ہر یک چیز اپنے مکان اور مرکز کو چھوڑ دے گی اور تجلیات الہیہ اس کی جگہ لیں گی.اور عمل ناقصہ کے فتا اور انعدام کے بعد علت تامہ کاملہ کا چہرہ نمودار ہو جائے گا اس کی طرف اشارہ ہے كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَللِ وَالْإِكْرَامِ - لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ (المؤمن : ۱۷) یعنی خدا تعالیٰ اپنی قبری تجلی سے ہر یک چیز کو معدوم کر کے اپنی وحدانیت اور یگانگت دکھلائے گا.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۵۳، ۱۵۴ حاشیه در حاشیه ) وَأَمَّا قَوْلُهُ تَعَالَى فِي قِصَّةِ إِدْرِيسَ حضرت اور لیس علیہ السلام کے قصہ کے سلسلہ میں وَرَفَعْنَهُ مَكَانًا عَلِيًّا فَاتَّفَقَ الْمُحَقِّقُونَ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے وَرَفَعْنَهُ مَكَانًا عَلِيًّا تو اس ا مریم : ۵۸
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۱ سورة الرحمن مِنَ الْعُلَمَاءِ أَنَّ الْمُرَادَ مِن الرّفع فهُنا بارے میں محقق علماء اس بات پر متفق ہیں کہ یہاں رفع کے هُوَ الْإِمَاتَهُ بِالْإِكْرَامِ وَرَفْعِ الدَّرَجَاتِ معنے عزت کے ساتھ موت دینے اور درجات کو بلند کرنے وَالدَّلِيلُ عَلى ذلِك أَنَّ لِكُلّ إنسانِ کے ہیں اور اس پر دلیل یہ ہے کہ ہر انسان کے لئے موت مَوْتُ مُقَدَّرُ لِقَوْلِهِ تَعَالَى كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا مقدر ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرما یا كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانِ یعنی زمین پر جو بھی ہے فنا ہونے والا ہے.(ترجمہ از مرتب ) فَانٍ (حمامة البشری روحانی خزائن جلدی صفحه ۲۲۰) خدا تعالیٰ نے جو اپنی ذات میں واحد ہے تمام اشیاء کو شے واحد کی طرح پیدا کیا ہے تا وہ موجد واحد کی وحدانیت پر دلالت کریں.سوخدا تعالیٰ نے اسی وحدانیت کے لحاظ سے اور نیز اپنی قدرت غیر محدودہ کے تقاضا سے استحالات کا مادہ اُن میں رکھا ہے اور بجز اُن روحوں کے جو اپنی سعادت اور شقاوت میں خُلِدانین فيها أبدا (النساء : ١٧٠) کے مصداق ٹھہرائے گئے ہیں اور وعدہ الہی نے ہمیشہ کے لئے ایک غیر متبدل خلقت ان کے لئے مقرر کر دی ہے باقی کوئی چیز مخلوقات میں سے استحالات سے بچی ہوئی معلوم نہیں ہوتی بلکہ اگر غور کر کے دیکھو تو ہر وقت ہر یک جسم میں استحالہ اپنا کام کر رہا ہے یہاں تک کہ علم طبعی کی تحقیقاتوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ تین برس تک انسان کا جسم بدل جاتا ہے اور پہلا جسم ذرات ہو کر اڑ جاتا ہے.مثلاً اگر پانی ہے یا آگ ہے تو وہ بھی استحالہ سے خالی نہیں اور دو طور کے استحالے ان پر حکومت کر رہے ہیں ایک یہ کہ بعض اجز انکل جاتے ہیں اور بعض اجزا جدیدہ آ ملتے ہیں.دوسرے یہ کہ جوا جز انکل جاتے ہیں وہ اپنی استعداد کے موافق دوسرا جنم لے لیتے ہیں.غرض اس فانی دنیا کو استحالات کے چرخ پر چڑھائے رکھنا خدا تعالیٰ کی ایک برکات الدعا، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۸ حاشیه ) سنت ہے.ہر یک چیز فنا ہونے والی ہے اور ایک ذات تیرے رب کی رہ جائے گی.ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۳۱) ہر ایک چیز معرضِ زوال میں ہے اور جو باقی رہنے والا ہے وہ خدا ہے جو جلال والا اور بزرگی والا ہے.اب دیکھو کہ اگر ہم فرض کر لیں کہ ایسا ہو کہ زمین ذرہ ذرہ ہو جائے اور اجرام فلکی بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں اور ان پر معدوم کرنے والی ایک ایسی ہوا چلے جو تمام نشان ان چیزوں کے مٹادے.مگر پھر بھی معقل اس بات کو مانتی اور قبول کرتی ہے.بلکہ میچ کا نشنفس اس کو ضروری سمجھتا ہے کہ اس تمام نیستی کے بعد بھی ایک چیز باقی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۲ سورة الرحمن رہ جائے جس پر فنا طاری نہ ہو اور تبدل اور تغیر کو قبول نہ کرے اور اپنی پہلی حالت پر باقی رہے.پس وہ وہی خدا ہے جو تمام فانی صورتوں کو ظہور میں لایا اور خود فنا کی دست برد سے محفوظ رہا.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۷۱،۳۷۰) ہر ایک وجود ہلاک ہونے والا اور تغیر پذیر ہے اور وہ جو باقی رہنے والا ہے وہی خدا ہے یعنی ہر ایک چیز فنا قبول کرتی ہے اور تغیر قبول کرتی ہے مگر انسانی فطرت اس بات کے ماننے کے لئے مجبور ہے کہ اس تمام عالم ارضی اور سماوی میں ایک ایسی ذات بھی ہے کہ جب سب پر فنا اور تغییر وارد ہو اس پر تغییر اور فنا وارد نہیں ہوگی وہ اپنے حال پر باقی رہتا ہے وہی خدا ہے.(چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۹۸،۹۷) كُلٌّ مَنْ عَلَيْهَا فَان یعنی ہر ایک جو زمین پر ہے آخر مرے گا پس......ہر ایک چیز کے لئے بجزا پنی ذات کے موت ضروری ٹھہرادی.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۶۵) خدا تعالیٰ قدیم سے خالق چلا آتا ہے.لیکن اس کی وحدت اس بات کو بھی چاہتی ہے کہ کسی وقت سب کو فنا کر دے.كُلٌّ مَنْ عَلَيْهَا فَان سب جو اس پر ہیں فنا ہو جانے والے ہیں.خواہ کوئی وقت ہو.ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ وقت کب آئے گا.مگر ایسا وقت ضرور آنے والا ہے.یہ اس کے آگے ایک کرشمہ قدرت ہے.وہ چاہے پھر خلق جدید کر سکتا ہے.تمام آسمانی کتابوں سے ظاہر ہے کہ ایسا وقت ضرور آنے والا ہے.( بدر جلد ۶ نمبر ۹ مورخه ۲۱ فروری ۱۹۰۷ ء صفحه ۴) يَسْلُهُ مَنْ فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَانٍ.ہمارا خداوند قادر مطلق ایسا نہیں ہے.وہ تمام ذرات عالم اور ارواح اور جمیع مخلوقات کو پیدا کرنے والا ہے.اس کی قدرت کی نسبت اگر کوئی سوال کیا جائے تو بجز اُن خاص باتوں کے جو اس کی صفات کا ملہ اور مواعید صادقہ کے منافی ہوں.باقی سب امور پر وہ قادر ہے اور یہ بات کہ گو وہ قادر ہومگر کرنا نہیں چاہتا یہ عجیب بے ہودہ الزام ہے جب کہ اس کی صفات میں كُلّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ بھی داخل ہے.اور ایسے تصرفات کہ پانی سے برودت دور کرے.یا آگ سے خاصیت احراق زائل کر دیوے اس کی صفات کا ملہ اور مواعید صادقہ کی منافی نہیں ہیں.( بركات الدعا، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۹٬۲۸) ينقله مَنْ فِي السَّمواتِ وَالْأَرْضِ.اس سے مانگنے والے تمام زمین و آسمان کے باشندے ہیں.ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۳)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۳ سورة الرحمن ہر یک دن وہ ہر ایک کام میں ہے کسی کو بلاوے اور کسی کو ر ڈ کرے اور کسی کو آباد کرے اور کسی کو ویران کرے اور کسی کو عرات دے اور کسی کو ذلت دے.ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۳۰) جس طرح ستارے ہمیشہ نوبت به نوبت طلوع کرتے رہتے ہیں اسی طرح خدا کے صفات بھی طلوع کرتے رہتے ہیں.کبھی انسان خدا کے صفات جلالیہ اور استغنائے ذاتی کے پر توہ کے نیچے ہوتا ہے اور کبھی صفات جمالیہ کا پر توہ اس پر پڑتا ہے.اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ.چشمه مسیحی ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۶۹) وہ ( خدا.ناقل ) اور اس کی صفات قدیم ہی سے ہیں مگر اس پر یہ لازم نہیں ہے کہ ہر ایک صفت کا علم ہم کو دے دے اور نہ اس کے کام اس دنیا میں سما سکتے ہیں.خدا کے کلام میں دقیق نظر کرنے سے پتہ لگتا ہے کہ وہ از لی اور ابدی ہے اور مخلوقات کی ترتیب اس کے ازلی ہونے کی مخالف نہیں.البدر جلد ۲ نمبر ۵ مورخه ۲۰ فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۳۸) يمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ فَانْفُذُوا لَا تَنْفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطن خدا تعالیٰ کے ملک سے جو زمین و آسمان سے تم باہر نہیں جا سکتے.جہاں جاؤ گے خدا کا غلبہ تمہارے ساتھ ہو گا.ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۶) وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتِن جو شخص خدا تعالیٰ سے خائف ہے اور اس کی عظمت و جلال کے مرتبہ سے ہراساں ہے اس کے لئے دو بہشت ہیں ایک یہی دُنیا اور دوسری آخرت.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۸۶) جو شخص خدا تعالیٰ کے مقام اور عرات کا پاس کر کے اور اس بات سے ڈر کر کہ ایک دن خدا کے حضور میں پوچھا جائے گا گنہ کو چھوڑتا ہے اُس کو دو بہشت عطا ہوں گے (۱) اول اسی دنیا میں بہشتی زندگی اس کو عطا کی جاوے گی اور ایک پاک تبدیلی اس میں پیدا ہو جائے گی اور خدا اس کا متوتی اور متکفل ہوگا.دوسرے مرنے کے بعد جاودانی بہشت اس کو عطا کیا جائے گا.یہ اس لئے کہ وہ خدا سے ڈرا اور اس کو دنیا پر اور نفسانی جذبات
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۴ سورة الرحمن لیکھر لا ہو، رروحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۵۸) پر مقدم کرلیا.انسان کے لئے دو جنت ہیں.جو شخص خدا سے پیار کرتا ہے کیا وہ ایک جلنے والی زندگی میں رہ سکتا ہے؟ جب اس جگہ ایک حاکم کا دوست دنیوی تعلقات میں ایک قسم کی بہشتی زندگی میں ہوتا ہے تو کیوں نہ ان کے لئے دروازہ جنت کا کھلے جو اللہ کے دوست ہیں، اگر چہ دنیا پر از تکلیف ومصائب ہے لیکن کسی کو کیا خبر وہ کیسی لذت اٹھاتے ہیں؟ اگر ان کو رنج ہو تو آدھ گھنٹہ تکلیف اٹھانا بھی مشکل ہے، حالانکہ وہ تو تمام عمر تکلیف میں رہتے ہیں.ایک زمانہ کی سلطنت ان کو دے کر ان کو اپنے کام سے روکا جاوے تو وہ کب کسی کی سنتے ہیں؟ اس طرح خواہ مصیبت کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں وہ اپنے ارادہ کو نہیں چھوڑتے.ہمارے ہادی کامل کو یہ دونوں باتیں دیکھنی پڑیں.ایک وقت تو طائف میں پتھر برسائے گئے.ایک کثیر جماعت نے سخت سے سخت جسمانی تکلیف دی لیکن آنحضرت کے استقلال میں فرق نہ آیا.جب قوم نے دیکھا کہ مصائب وشدائد سے ان پر کوئی اثر نہ پڑا تو انہوں نے جمع ہو کر بادشاہت کا وعدہ دیا.اپنا امیر بنانا چاہا.ہر ایک قسم کے سامان آسائش مہیا کر دینے کا وعدہ کیا.حتی کہ عمدہ سے عمدہ بی بی بھی.بدیں شرط کہ حضرت بتوں کی مذمت چھوڑ دیں.لیکن جیسے کہ طائف کی مصیبت کے وقت ویسی ہی اس وعدہ بادشاہت کے وقت حضرت نے کچھ پروانہ کی اور پتھر کھانے کو ترجیح دی.سو جب تک خاص لذت نہ ہو، تو کیا ضرورت تھی کہ آرام چھوڑ کر دکھوں میں پڑتے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۳۶، ۳۷) جو شخص خدا تعالیٰ کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرا.اس کے واسطے دو بہشت ہیں.یعنی ایک بہشت تو اسی دُنیا میں مل جاتا ہے، کیونکہ خدا تعالیٰ کا خوف اُس کو برائیوں سے روکتا ہے اور بدیوں کی طرف دوڑ ناول میں ایک اضطراب اور قلق پیدا کرتا ہے.جو بجائے خود ایک خطرناک جہنم ہے لیکن جو شخص خدا کا خوف کھاتا ہے تو وہ بدیوں سے پر ہیز کر کے اس عذاب اور درد سے تو دم نقد بچ جاتا ہے جو شہوات اور جذبات نفسانی کی غلامی اور اسیری سے پیدا ہوتا ہے اور وہ وفاداری اور خدا کی طرف جھکنے میں ترقی کرتا ہے جس سے ایک لذت اور سرور اُسے دیا جاتا ہے اور یوں بہشتی زندگی اسی دنیا سے اُس کے لیے شروع ہو جاتی ہے اور اسی طرح پر اس کے خلاف کرنے سے جہنمی زندگی شروع ہو جاتی ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۱۱ مورخه ۲۴ / مارچ ۱۹۰۲ء صفحه ۴) انسان بہت بڑی ذمہ داریاں لے کر آتا ہے اس لئے آخرت کی فکر کرنی چاہیے اور اس کی طیاری ضروری
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۵ سورة الرحمن ہے.اس طیاری میں جو تکالیف آتی ہیں وہ رنج اور تکلیف کے رنگ میں نہ سمجھو بلکہ اللہ تعالیٰ اُن پر بھیجتا ہے جن کو دونوں بہشتوں کا مزہ چکھانا چاہتا ہے وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہ جنتن.مصائب آتے ہیں تا کہ ان عارضی امور کو جو تکلف کے رنگ میں ہوتے ہیں نکال دے.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۶ مورخه ۱۲۴ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۲) سب سے بہتر غم غلط کرنے والا اور راحت بخشنے والا سچا ایمان ہے.یہ مومن ہی کے لئے ہے.ولِمَن خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَن.الحکام جلد ۶ نمبر ۲۹ مورخه ۷ اراگست ۱۹۰۲ صفحه ۶) عبد القادر جیلانی علیہ الرحمہ کہتے ہیں کہ جب آدمی عارف ہو جاتا ہے تو اس کی عادت کا ثواب ضائع ہو جاتا ہے کیونکہ جب نفس مطمئنہ ہو گیا امارہ نہ رہا تو ثواب کیسے رہا.نفس کی مخالفت کرنے سے ثواب تھا وہ اب رہی نہیں.قرآن شریف میں ہے وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتن یعنی وہ جنت میں داخل ہو گیا اور اس کا درجہ ثواب کا نہ رہا.(البدر جلد نمبرے مورخہ ۱۲ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۵۰) اَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنتُم تُوعَدُونَ ( حم السجدة : ۳۱) اور بشارت دی کہ تم خوش ہو اس جنت سے.اور اس جنت سے یہاں مراد دُنیا کی جنت ہے.جیسے ہے وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتِن.(البدر جلد نمبر۷ مورخہ ۱۲ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۵۱) بہشت ایک ہی چیز نہیں بلکہ فرمایا وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتن خدا سے ڈرنے والے کے لئے دو الحکم جلدے نمبر ۸ مورخه ۲۸ فروری ۱۹۰۳ ، صفحه ۶) بہشت ہیں.قرآن شریف میں دو جنتوں کا بیان ہے جیسے کہ لکھا ہے وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتِنِ یعنی جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اس کے لئے دو جنتیں ہیں ایک دُنیا میں اور ایک آخرت میں.دنیا والی جنت وہ ہے جو کہ اس درجہ کے بعد انسان کو حاصل ہو جاتی ہے اور اس مقام پر پہنچ کر انسان کی اپنی کوئی مشیت نہیں رہتی بلکہ خدا تعالیٰ کی مشیت اس کی اپنی مشیت ہوتی ہے اور جیسے ایک انسان کو خصی کر کے چھوڑ دیا جاتا ہے تو وہ زناکاری وغیرہ حرکات کا مرتکب ہی نہیں ہو سکتا ویسے ہی یہ شخص خصی کر دیا جاتا ہے اور اس سے کوئی بدی نہیں ہو سکتی.البدر جلد ۲ نمبر ۳۰ مورخه ۱۴ راگست ۱۹۰۴ ء صفحه ۲۳۵) جو شخص خدا تعالیٰ سے خائف ہے اور اس کی عظمت اور جلال کے مرتبہ سے ہراساں ہے اس کے لیے دو بہشت ہیں ایک یہی دنیا اور دوسری آخرت.جو شخص بچے اور خالص دل سے نقش ہستی کو اس کی راہ میں مٹاکر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۶ سورة الرحمن اس کے متلاشی ہوتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں تو اس میں ان کو ایک قسم کی لذت شروع ہو جاتی ہے اور ان کو وہ روحانی غذائیں ملتی ہیں جو روح کو روشن کرتی اور خدا کی معرفت کو بڑھاتی ہیں.ملتے ہیں.البدر جلد ۲ نمبر ۴۳ مورخه ۱۶/ نومبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۳۵) چونکہ اس دنیا میں بھی ایک بہشت ہے جو مومن کو دیا جاتا ہے اس کے موافق ایک تبدیلی بھی یہاں ہوتی ہے اس کو اک خاص قسم کا رعب دیا جاتا ہے جو الہی تجلیات کے پرتو سے ملتا ہے نفس امارہ کے جذبات سے اس کو روک دیا جاتا ہے اور نفس مطمئنہ کی سکینت اور اطمینان اس کو ملتا ہے اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں....اس کے سارے جوشوں کو ٹھنڈا کر دیا جاتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ میں ایک راحت اور اطمینان پالیتا ہے اور ایک تبدیلی اس میں پیدا ہو جاتی ہے.الحکم جلد ۸ نمبر ۸ مورخه ۱۰ / مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۶ ) اس امت پر یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے.اسلام جس بات کو چاہتا ہے وہ اسی جگہ سے اسلام کے ذریعہ سے حاصل ہو جاتی ہے.وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتِن.خدا کے دیدار کے واسطے اسی جگہ سے حواس (البدرجلد ۳ نمبر ۲۵ مورخہ یکم جولائی ۱۹۰۴ء صفحہ ۶) جولوگ اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرتے ہیں ان کو دو جنت ملتے ہیں.ہمارے نزدیک اس کی حقیقت یہ ہے کہ ایک جنت تو وہ ہے جو مرنے کے بعد ملتی ہے دوسری جنت اسی دنیا میں عطا ہوتی ہے اور یہی جنت اس دوسری جنت کے ملنے اور عطا ہونے پر بطور گواہ واقعہ ٹھہر جاتی ہے.ایسا مومن دُنیا میں بہت سے دوزخوں سے رہائی پاتا ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۳۵ مورخه ۱۰ ۷ اکتوبر ۱۹۰۵ صفحه (۸) یا درکھو جو خدا کی طرف صدق اور اخلاص سے قدم اُٹھاتے ہیں وہ کبھی ضائع نہیں کئے جاتے ان کو دونوں جہانوں کی نعمتیں دی جاتی ہیں جیسے فرمایا اللہ تعالیٰ نے وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتِن اور یہ اس واسطے فرمایا کہ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ میری طرف آنے والے دنیا کھو بیٹھے ہیں.بلکہ ان کے لئے دو بہشت ہیں ایک بهشت تو اسی دنیا میں اور ایک جو آگے ہوگا.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴ مورخه ۱۴/جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۳) هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ.نیکی کرنے کی پاداش نیکی ہے.اگر ہم صرف مسلمان نیکی کرنے والے سے نیکی کریں اور غیر مذہب والوں سے نیکی نہ کریں تو ہم خدا تعالی کی تعلیم کو چھوڑتے ہیں کیونکہ اس نے نیکی کی پاداش میں کسی مذہب کی قید نہیں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۷ سورة الرحمن لگائی بلکہ صاف فرمایا ہے کہ اُس شریر پر خدا راضی نہیں کہ جو نیکی کرنے والوں سے بدی کرتا ہے.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۶۷) احسان کا بدلہ بجز احسان کے اور کچھ نہیں.احسان کا بدلہ احسان ہے.( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۴۵۹) البدر جلد ۶ نمبر ۱۹ مورخہ ۹ رمئی ۱۹۰۷ ء صفحه ۶) قرآن میں جہاں جہاں خدا نے محسن کا ذکر فرمایا ہے وہاں کوئی شرط نہیں لگائی کہ وہ مسلمان ہو اور موحد ہو اور فلاں سلسلہ کا ہو بلکہ عام طور پر محسن کی نسبت فرمایا خواہ وہ کوئی مذہب رکھتا ہو.هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الاحسان کہ کیا احسان کا بدلہ احسان کے سوا بھی ہو سکتا ہے.الحکم جلد ۴ نمبر ۵ مورخه ۱۰ رفروری ۱۹۰۰ صفحه ۵) اس سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ مسلمان احسان کرے تو اس کے بدلہ میں احسان کرو اور اگر غریب مذہب والا کرے تو نیش زنی کرو.یہ تو خبیث کا کام ہے.اللہ تعالیٰ کا یہی منشا ہے کہ کوئی ہو جو احسان کرتا ہے.اس کے ساتھ احسان کرنا فرض ہے.احسان کی تو یہ طاقت ہے کہ اگر ایک کتے کو تم ٹکڑا ڈال دو تو وہ بار بار تمہاری طرف آئے گا خواہ تم اُسے مار کر بھی نکالو مگر وہ تمہیں دیکھ کر اس احسان کے شکریہ کے لیے دم ہلا دے گا.پھر وہ انسان تو کتے سے بھی بدتر ہے جو انسان ہو کر احسان شناسی سے کام نہیں لیتا.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۷ء صفحه ۳)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۴۹ سورة الواقعة اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الواقعة بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ بوَابِ وَ آبَارِيقَ وَكَأْسٍ مِنْ مَّعِينٍ لا لا يُصَدَّعُونَ عَنْهَا وَلَا يُنْزِفُونَ ) اور شراب صافی کے پیالے جو آب زلال کی طرح مصفی ہوں گے بہشتیوں کو دیئے جائیں گے.وہ شراب ان سب عیبوں سے پاک ہوگی کہ دردسر پیدا کرے یا بیہوشی اور بدمستی اس سے طاری ہو.بہشت میں کوئی لغو اور بیہودہ بات سننے میں نہیں آئے گی اور نہ کوئی گناہ کی بات سنی جائے گی بلکہ ہر طرف سلام سلام جو رحمت اور محبت اور خوشی کی نشانی ہے سننے میں آئے گا.اس دن مومنوں کے مونہہ تر و تازہ اور خوبصورت ہوں گے اور وہ اپنے رب کو دیکھیں گے اور جو شخص اس جہان میں اندھا ہے وہ اس جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا بلکہ اندھوں سے بھی گیا گزرا.اب ان تمام آیات سے ظاہر ہے کہ وہ بہشتی شراب دنیا کی شرابوں سے کچھ مناسبت اور مشابہت نہیں رکھتی بلکہ وہ اپنی تمام صفات میں ان شرابوں سے مبائن اور مخالف ہے اور کسی جگہ قرآن شریف میں یہ نہیں بتلایا گیا کہ وہ دنیوی شرابوں کی طرح انگور سے یا قند سیاہ اور کیکر کے چھلکوں سے یا ایسا ہی کسی اور دنیوی مادہ سے بنائی جائے گی بلکہ بار بار کلام الہی میں یہی بیان ہوا ہے کہ اصل تخم اس شراب کا محبت اور معرفت الہی ہے جس کو دنیا سے ہی بندہ مومن ساتھ لے جاتا ہے.اور یہ بات کہ وہ روحانی امر کیوں کر شراب کے طور پر نظر آ جائے گا.یہ خدائے تعالیٰ کے بھیدوں میں سے ایک بھید ہے جو عارفوں پر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۵۰ سورة الواقعة مکاشفات کے ذریعہ سے کھلتا ہے اور عظمند لوگ دوسری علامات و آثار سے اس کی حقیقت تک پہنچتے ہیں.سرمه چشم آریہ ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۵۷) تدَّةٌ مِنَ الاَوَّلِينَ وَثُلَةٌ مِنَ الْآخِرِينَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھلے کھلے طور پر اپنی اُمت کے حق میں فرما دیا تھا کہ تم آخری زمانہ میں بگھی یہودیوں کے قدم پر قدم رکھ کر یہودی بن جاؤ گے اور یہ بلائیں آخری زمانہ میں سب سے زیادہ مشرقی ملکوں میں پھیلیں گی یعنی ہندوستان و خراسان وغیرہ میں.تب اس یہودیت کی بیخ کنی کے لئے مسیح ابن مریم نازل ہو گا یعنی مامور ہو کر آئے گا.اور فرمایا کہ جیسا کہ یہ امت یہودی بن جائے گی ایسا ہی ابن مریم بھی اپنی صورت مثالی میں اسی اُمت میں سے پیدا ہوگا نہ یہ کہ یہودی تو یہ امت بنی اور ابن مریم بنی اسرائیل میں سے آوے.ایسا خیال کرنے میں سراسر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسر شان ہے اور نیز آیت تلةٌ من الْأَوَّلِينَ وَثُلَّةٌ مِّنَ الْآخِرِيْنَ کے برخلاف.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۲۰،۴۱۹) کیا تم وہ باتیں یاد نہیں کرتے جو عالم الغیب نے کہیں اور اس نے تمہیں ایک آنے والے امام کی قرآن کریم میں خبر دی ہے اور کہا کہ ایک گروہ پہلوں میں سے اور ایک گروہ پچھلوں میں سے ہوگا اور ہر ایک گروہ کے لئے ایک امام ہوتا ہے سو سوچو کیا اس میں کوئی کلام ہے؟ سوتم امام الآخرین سے کہاں بھاگتے ہو.نور الحق حصہ دوم، روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۲۱۷) وَهُهُنَا نُكْتَةٌ كَشَفِيَّةٌ لَيْسَتْ مِن اس جگہ ایک کشفی نکتہ ہے جو پہلے سننے میں نہیں الْمَسْبُوعِ فَاسْمَعْ مُصْغِيًّا وَ عَلَيْكَ آیا.اسے پوری توجہ سکینت اور وقار سے سنیں.اور وہ بِالْمَوْدُوع.وَهُوَ أَنَّهُ تَعَالَى مَا اخْتَارَ لِنَفْسِهِ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنے لئے چار صفات کو هُهُنَا أَرْبَعَةٌ مِنَ الصَّفَاتِ إِلَّا لِيُرى صرف اس لئے نہیں اختیار کیا ہے کہ وہ ان کا نمونہ اس تموذَجَهَا في هَذِهِ الدُّنْيَا قَبْلَ الْمَمَاتِ دُنیا میں ہماری موت سے پہلے دکھائے.سو اللہ تعالیٰ فَأَشَارَ فِي قَوْلِهِ وَلَهُ الْحَمْدُ في الأولى نے اپنے فرمان لَهُ الْحَمْدُ فِي الْأُولَى وَالْآخِرَةِ میں اس والأخرة إلى أن هذا النَّمُوذَجَ يُعْطى طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ نمونہ پہلے صدر اسلام کو دیا لِصَدْرِ الْإِسْلَامِ ثُمَّ لِلْآخَرِيْنَ مِنَ الأُمَّةِ جائے گا پھر آخری زمانہ میں زوال پذیر امت کو بھی دیا ل القصص : اے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۱ سورة الواقعة ،، و بدو الدَّاخِرَةِ وَكَذَالِكَ قَالَ فِي مَقَامِ اخَرَ جائے گا.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جو سب سے سچا ہے وَهُوَ أَصْدَقُ الْقَائِلِينَ ثُلَّةٌ مِنَ الْاَوَّلِينَ وَ ایک اور مقام میں فرما یا ثُلَّةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ وَثُلَّةٌ مِّن ثُلَّةٌ مِنَ الْآخِرِينَ.فَقَسَمَ زَمَانَ الْهَدَايَةِ الْآخِرِيْنَ پس اس نے ہدایت ، مدد اور نصرت کے زمانہ کو وَالْعَوْنِ وَالنُّصْرَةِ إِلى زَمَانِ نَبِيَّنَا صَلَّى دوحصوں میں تقسیم کر دیا.ایک زمانہ تو نبی اکرم صلی اللہ اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإلى الزَّمَانِ الأتحر علیہ وسلم کا ہے اور ایک زمانہ اس امت کے مسیح کا ہے.الَّذِي هُوَ زَمَانُ مَسِيحِ هَذِهِ الْمِلَّةِ.اسی طرح اس نے یہ بھی فرمایا وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا وَكَذَالِكَ قَالَ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا يَلْحَقُوا بِهِم اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود اور بهِمْ فَأَشَارَ إِلَى الْمَسِيحَ الْمَوْعُوْدِ آپ کی جماعت کی طرف اشارہ کیا اور نیز ان لوگوں کی وَجَمَاعَتِهِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ فَتَبَتَ طرف جو ان کی پیروی کریں گے.پس قرآن مجید کے ينصُوصٍ بَيْنَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ آنَ هَذِهِ واضح نصوص سے ثابت ہوا کہ یہ مذکورہ چار صفات الصَّفَاتِ قَد ظَهَرَتْ فِي زَمَنِ نَبِيَّنَا ثُمَّ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ظاہر ہوئیں پھر آخری زمانہ میں بھی ظاہر ہوں گی.( ترجمہ از مرتب) « لے تَظْهَرُفَ أَخَرِ الزَّمَانِ اعجاز المسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۱۵۳، ۱۵۴) اگر چه زمانہ فیج اعوج میں بھی جماعت کثیر گمراہوں کے مقابل نیک اور اہل اللہ اور ہر صدی کے سر پر محمد د بھی ہوتے رہے ہیں لیکن حسب منطوق آیت فلةٌ منَ الْأَوَّلِينَ وَللَةٌ مِنَ الْآخِرِينَ خالص محمدی گروہ جو ہر ایک پلید ملونی اور آمیزش سے پاک اور تو به نصوح سے غسل دیئے ہوئے ایمان اور دقائق عرفان اور علم اور عمل اور تقویٰ کے لحاظ سے ایک کثیر التعداد جماعت ہے یہ اسلام میں صرف دو گروہ ہیں یعنی گروه اولین و گروه آخرین جو صحابہ اور مسیح موعود کیچماعت سے مراد ہے اور چونکہ حکم کثرت مقدار اور کمال صفائی انوار پر ہوتا ہے اس لئے اس سورۃ میں انعمت علیہم کے فقرہ سے مراد یہی دونوں گروہ ہیں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مع اپنی جماعت کے اور مسیح موعود مع اپنی جماعت کے.خلاصہ کلام یہ کہ خدا نے ابتدا سے اس اُمت میں دو گروہ ہی تجویز فرمائے ہیں اور انہی کی طرف سورہ فاتحہ کے فقرہ انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں اشارہ ہے (۱) ایک اولین جو جماعتِ نبوی ہے (۲) دوسرے آخرین جو جماعت مسیح موعود ہے اور الجمعة : ۴
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۲ سورة الواقعة افراد کاملہ جو درمیانی زمانہ میں ہیں جو نہج اعوج کے نام سے موسوم ہے جو بوجہ اپنی کمی مقدار اور کثرت اشرار و فجار و هجوم افواج بد مذاهب و بد عقائد و بد اعمال شاذ و نادر کے حکم میں سمجھے گئے گو دوسرے فرقوں کی نسبت درمیانی زمانہ کے صلحاء امت محمدیہ بھی باوجود طوفانِ بدعات کے ایک دریائے عظیم کی طرح ہیں.تحفہ گولڑ و یه روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۲۶،۲۲۵) ابرار اخیار کے بڑے گروہ جن کے ساتھ بد مذاہب کی آمیزش نہیں وہ دو ہی ہیں ایک پہلوں کی جماعت یعنی صحابہ کی جماعت جو زیر تربیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہے دوسری پچھلوں کی جماعت جو بوجہ تربیت روحانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جیسا کہ آیت وَالخَرِينَ مِنْہم سے سمجھا جاتا ہے صحابہ کے رنگ میں ہیں.یہی دو جماعتیں اسلام میں حقیقی طور پر منعم علیہم ہیں اور خدا تعالی کا انعام ان پر یہ ہے کہ اُن کو انواع اقسام کی غلطیوں اور بدعات سے نجات دی ہے اور ہر ایک قسم کے شرک سے ان کو پاک کیا ہے اور خالص اور روشن تو حید ان کو عطا فرمائی ہے.(تحفہ گولڑ و یه روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۲۸،۲۲۷) أنظرُ فِي الْبُخَارِي وَغَيْرِه مِن دیکھو بخاری اور دوسری صحاح میں کس طرح ہمارے الصَّحَاحِ كَيْفَ بَشَرَ نَبِيُّنَا وَرَسُولُنَا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بشارت دیتے ہوئے فرمایا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ إِنَّهُ سَيَكُونُ ہے کہ آپ کی امت میں بعض ایسے لوگ بھی ہوں گے جن في أُمَّتِهِ قَوْمٌ يُكَلَّمُونَ مِنْ غَيْرِ أَن يَكُونُوا سے اللہ تعالیٰ کلام کرے گا اور وہ نبی نہیں ہوں گے ان کا أَنْبِيَاءَ وَيُسَمَّوْنَ مُحَدِّثِينَ.وَقَالَ اللهُ جَلَّ نام محدث رکھا جائے گا.اور اللہ جل شانہ نے فرمایا ہے شائه قلةٌ من الأَوَّلِينَ وَثُلَةٌ مِنَ الْآخِرِينَ ثُلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَثُلَةٌ مِنَ الْآخِرِينَ ( ترجمه از مرتب ) وَثُلَّةٌ و بدو (تحفة بغداد، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۱۵) ثُمَّ بَشَّرَ لَنَا وَقَالَ ثُلَّةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ و و بدو پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں بشارت دیتے ہوئے فرمایا ہے محله و ولله مِن الْآخِرِينَ وَفِي هَذِهِ الْآيَةِ أَشَارَ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَ ثُلَّةٌ مِنَ الْآخِرِينَ اور اس آیت میں یہ إلى أَنَّ هَذِهِ الأُمَّةَ تُكَلِّمُ كَمَا كُلِّمت اشارہ ہے کہ اس امت سے بھی اللہ تعالیٰ اسی طرح کلام کرے گا الأُمَمُ مِن قَبْلُ.(تحفة بغداد، روحانی خزائن جلدے صفحہ ۲۲ حاشیہ ) جس طرح وہ پہلی امتوں سے کلام کرتا رہا ہے.(ترجمہ از مرتب) فَلَا أُقْسِمُ بِمَوقع النُّجُومِ وَ إِنَّهُ لَقَسَم لَوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ ﴿ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۵۳ سورة الواقعة كَرِيم لي في كتب مكنون ) لَا يَمَسُّةٌ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ.میں مواقع النجوم کی قسم کھا تا ہوں اور یہ بڑی قسم ہے اگر تمہیں علم ہو.اور قسم اس بات پر ہے کہ یہ قرآن عظیم الشان کتاب ہے اور اس کی تعلیمات سنت اللہ کے مخالف نہیں بلکہ اس کی تمام تعلیمات کتاب مکنون یعنی صحیفہ فطرت میں لکھی ہوئی ہیں اور اس کے دقائق کو وہی لوگ معلوم کرتے ہیں جو پاک کئے گئے ہیں اس جگہ اللہ جل شانہ نے مواقع النجوم کی قسم کھا کر اس طرف اشارہ کیا کہ جیسے ستارے نہایت بلندی کی وجہ سے نقطوں کی طرح نظر آتے ہیں مگر وہ اصل میں نقطوں کی طرح نہیں بلکہ بہت بڑے ہیں ایسا ہی قرآن کریم اپنی نہایت بلندی اور علوشان کی وجہ سے کم نظروں کے آنکھوں سے مخفی ہے اور جن کی غبار دور ہو جاوے وہ اُن کو دیکھتے ہیں اور اس آیت میں اللہ جل شانہ نے قرآن کریم کے دقائق عالیہ کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے جو خدا تعالیٰ کے خاص بندوں سے مخصوص ہیں جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے پاک کرتا ہے اور یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ اگر علم قرآن مخصوص بندوں سے خاص کیا گیا ہے تو دوسروں سے نافرمانی کی حالت میں کیوں کر مواخذہ ہوگا کیونکہ قرآن کریم کی وہ تعلیم جو مدار ایمان ہے وہ عام فہم ہے جس کو ایک کا فر بھی سمجھ سکتا ہے اور ایسی نہیں ہے کہ کسی پڑھنے والے سے مخفی رہ سکے اور اگر وہ عام فہم نہ ہوتی تو کارخانہ تبلیغ ناقص رہ جاتا.مگر حقائق معارف چونکہ مدار ایمان نہیں صرف زیادت عرفان کے موجب ہیں اس لئے صرف خواص کو اُس کو چہ میں راہ دیا کیونکہ وہ دراصل مواہب اور روحانی نعمتیں ہیں جو ایمان کے بعد کامل الایمان لوگوں کو ملا کرتی ہیں.) کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۵۳،۵۲) فَلا أُقْسِمُ يتوقع النُّجُومِ وَأَنْتَ فَلا أُقْسِمُ بموقع النُّجُومِ تو سمجھتا ہے کہ اس تَفْهَمُ أَنَّ فِي هَذَا الْقَوْلِ إِشَارَةٌ إِلى أَن قول میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ستاروں اور للنُّجُومِ وَمَوَاقِعِهَا دَخَلٌ لِتَحَسُّسِ زَمَانِ ان کے مواقع کو زمانِ نبوت اور نزول وحی کے تجسس سے النبوة ونزول الوحي ولأجل ذلِكَ قِيْلَ ایک تعلق ہے.اسی لئے کہا گیا ہے کہ بعض ستارے أَنَّ بَعْضَ النُّجُومِ لَا يَطْلُعُ إِلَّا في وَقْتِ صرف کسی نبی کے وقت میں ہی نکلتے ہیں.پس مبارک ظُهُورِ نَبِي مِن الأَنْبِيَاء.فطوبى لِلَّذِی ہیں وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے اشاروں کو سمجھتے ہیں پھر يَفْهَمُ إِشَارَاتِ اللهِ ثُمَّ يَقْبَلُهَا كَالتُقَاةِ انہیں متقیوں کی طرح قبول کرتے ہیں.( ترجمہ از مرتب ) (حمامة البشری، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۸۹)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۵۴ سورة الواقعة میں قسم کھاتا ہوں مطالع اور مناظر نجوم کی اور یہ قسم ایک بڑی قسم ہے.اگر تمہیں حقیقت پر اطلاع ہو کہ یہ قرآن ایک بزرگ اور عظیم الشان کتاب ہے اور اس کو وہی لوگ چھوتے ہیں جو پاک باطن ہیں.اور اس قسم کی مناسبت اس مقام میں یہ ہے کہ قرآن کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ وہ کریم ہے یعنی روحانی بزرگیوں پر مشتمل ہے اور باعث نہایت بلند اور رفیع دقائق حقائق کے بعض کوتاہ بینوں کی نظروں میں اسی وجہ سے چھوٹا معلوم ہوتا ہے جس وجہ سے ستارہ چھوٹے اور نقطوں سے معلوم ہوتے ہیں اور یہ بات نہیں کہ در حقیقت وہ نقطوں کی مانند ہیں بلکہ چونکہ مقام ان کا نہایت اعلیٰ وارفع ہے اس لئے جو نظریں قاصر ہیں ان کی اصل ضخامت کو معلوم نہیں کر سکتیں.جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۸۷) قسموں کی صورت میں اللہ جل شانہ ایک امر بدیہہ کو نظری کے ثبوت کے لئے پیش کرتا ہے یا ایک امر مسلم کو غیر مسلم کے تسلیم کرنے کے لئے بیان فرماتا ہے اور جس چیز کی قسم کھائی جاتی ہے وہ در حقیقت قائم جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۸۱) مقام شاہد ہوتی ہے.خدا تعالیٰ کے خاص دوستوں کی علامات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.) پندرھویں علامت ان کی علم قرآن کریم ہے.قرآن کریم کے معارف اور حقائق ولطائف جس قدر ان لوگوں کو دیئے جاتے ہیں دوسرے لوگوں کو ہر گز نہیں دیئے جاتے.یہ لوگ وہی مطہر ون ہیں جن کے حق میں اللہ جل شانہ فرماتا ہے لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۳۷) مطہرین کی علامتوں میں سے یہ بھی ایک عظیم الشان علامت ہے کہ علم معارف قرآن حاصل ہو کیونکہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ دینی علم اور پاک معارف کے سمجھنے اور حاصل کرنے کے لئے پہلے سچی پاکیزگی کا حاصل کر لینا اور ناپاکی کی راہوں کا چھوڑ دینا از بس ضروری ہے اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ یعنی خدا کی پاک کتاب کے اسرار کو وہی لوگ سمجھتے ہیں جو پاک دل ہیں اور پاک فطرت اور پاک عمل رکھتے ہیں.دنیوی چالاکیوں سے آسمانی علم ہرگز حاصل نہیں ہو سکتے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۴۳) ست بیگن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۱۲۶) قرآنی حقائق صرف انہی لوگوں پر کھلتے ہیں جن کو خدائے تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف اور پاک کرتا ہے.( براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۶۱۲ حاشیه در حاشیه نمبر ۳)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۵۵ سورة الواقعة ( تفسیر قرآن کریم کے معیار بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.) چوتھا معیار خود اپنا نفس مطہر لے کر قرآن کریم میں غور کرنا ہے.کیونکہ نفسِ مطہرہ سے قرآن کریم کو مناسبت ہے.اللہ جل شانہ فرماتا ہے لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ یعنی قرآن کریم کے حقائق صرف اُن پر کھلتے ہیں جو پاک دل ہوں.کیونکہ مطہر القلب انسان پر قرآن کریم کے پاک معارف بوجہ مناسبت کھل جاتے ہیں اور وہ اُن کو شناخت کر لیتا ہے اور سونگھ لیتا ہے.اور اُس کا دل بول اُٹھتا ہے.کہ ہاں یہی راہ سچی ہے.اور اُس کا نور قلب سچائی کی پر کچھ کے لئے ایک عمدہ معیار ہوتا ہے.پس جب تک انسان صاحب حال نہ ہو اور اس تنگ راہ سے گزرنے والا نہ ہو جس سے انبیاء علیہم السلام گزرے ہیں.تب تک مناسب ہے کہ گستاخی اور تکبر کی جہت سے مفسر القرآن نہ بن بیٹھے ورنہ وہ تفسیر بالرائے ہوگی جس سے نبی علیہ السلام نے منع فرمایا ہے اور کہا ہے کہ مَنْ فَسَّرَ الْقُرْآنَ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَد أَخْطَاً یعنی جس نے صرف اپنی رائے سے قرآن کی تفسیر کی.اور اپنے خیال میں اچھی کی.تب بھی اُس نے بری تفسیر کی.( بركات الدعا، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۱۹،۱۸) میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہی سچ بات ہے کہ خدا کا کلام سمجھنے کے لئے اوّل دل کو ایک نفسانی جوش سے پاک بنانا چاہئے تب خدا کی طرف سے دل پر روشنی اُترے گی.بغیر اندرونی روشنی کے اصل حقیقت نظر نہیں آتی.جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے لا يمشةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ.یعنی یہ پاک کا کلام ہے.جب تک کوئی پاک نہ ہو جائے وہ اس کے بھیدوں تک نہیں پہنچے گا.میں جوان تھا اور اب بوڑھا ہو گیا اور اگر لوگ چاہیں تو گواہی دے سکتے ہیں کہ میں دنیا داری کے کاموں میں نہیں پڑا اور دینی شغل میں ہمیشہ میری دلچپسی رہی.میں نے اس کلام کو جس کا نام قرآن ہے نہایت درجہ تک پاک اور روحانی حکمت سے بھرا ہوا پایا نہ وہ کسی انسان کو خدا بنا تا اور نہ روحوں اور جسموں کو اس کی پیدائش سے باہر رکھ کر اس کی مذمت اور نند یا کرتا ہے اور وہ برکت جس کے لئے مذہب قبول کیا جاتا ہے اُس کو یہ کلام آخر انسان کے دل پر وارد کر دیتا ہے اور خدا کے فضل کا اس کو مالک بنا دیتا ہے.پس کیوں کر ہم روشنی پا کر پھر تاریکی میں آویں اور آنکھیں پا کر پھر اندھے بن جاویں.سناتن دھرم ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۴۷۴،۴۷۳) مسیح موعود اور مہدی کا کام یہی ہے کہ وہ لڑائیوں کے سلسلہ کو بند کرے گا اور قلم.دعا.توجہ سے اسلام کا بول بالا کرے گا اور افسوس ہے کہ لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی اس لئے کہ جس قدر توجہ دنیا کی طرف ہے دین
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۵۶ سورة الواقعة و کی طرف نہیں.دُنیا کی آلودگیوں اور ناپاکیوں میں مبتلا ہو کر یہ امید کیوں کر کر سکتے ہیں کہ ان پر قرآن کریم کے معارف کھلیں وہاں تو صاف لکھا ہے لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ لیکچرلدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۷۹) علم دین آسمانی علوم میں سے ہے اور یہ علوم تقوی اور طہارت اور محبت الہیہ سے وابستہ ہیں اور سنگ دنیا کو مل نہیں سکتے.سو اس میں کچھ شک نہیں کہ قول موجہ سے اتمام حجت کرنا انبیاء اور مردان خدا کا کام ہے اور حقانی فیوض کا مورد ہونا فانیوں کا طریق ہے.اور اللہ جل شانہ فرماتا ہے لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ پس کیوں کر ایک گندہ اور منافق اور دنیا پرست ان آسمانی فیضوں کو پاسکتا ہے جن کے بغیر کوئی فتح نہیں ہو سکتی؟ اور کیوں کر اس دل میں روح القدس بول سکتا ہے جس میں شیطان بولتا ہو.( البلاغ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۳۷۲، ۳۷۳) يَقُولُونَ إِنَّا لَا نَرَى ضَرُورَةً مَسِيحِ وَلَا کہتے ہیں کہ ہم کو صیح اور مہدی کی کوئی ضرورت نہیں مَهْدِي وَكَفَانَا الْقُرْآنُ وَإِنَّا مُهْتَدُونَ بلکہ قرآن ہمارے لئے کافی ہے اور ہم سیدھے رستے پر وَيَعْلَمُونَ أَنَّ الْقُرْآنَ كِتَابُ لَا يَمَسُّةَ إِلَّا ہیں حالانکہ جانتے ہیں کہ قرآن ایسی کتاب ہے کہ سوائے الْمُطَهَّرُونَ فَاشْتَدَّتِ الْحَاجَّةُ إِلى مُفت پاکوں کے اور کسی کی فہم اس تک نہیں پہنچتی.اس وجہ سے ربِّي مِنْ أَيْدِى اللهِ وَأُدْخِلَ فِي الَّذِينَ ایک ایسے مفسر کی حاجت پڑی کہ خدا کے ہاتھ نے اسے پاک کیا ہو اور بینا بنایا ہو.( ترجمہ اصل کتاب سے ) يُبْصِرُونَ (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۱۸۴۱۸۳) قرآن شریف اگر چه عظیم الشان معجزہ ہے مگر ایک کامل کے وجود کو چاہتا ہے کہ جو قرآن کے اعجازی جواہر پر مطلع ہو اور وہ اس تلوار کی طرح ہے جو در حقیقت بے نظیر ہے لیکن اپنا جو ہر دکھلانے میں ایک خاص دست و باز و کی محتاج ہے.اس پر دلیل شاہد یہ آیت ہے کہ لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ پس وہ ناپاکوں کے دلوں پر معجزہ کے طور پر اثر نہیں کر سکتا بجز اس کے کہ اس کا اثر دکھلانے والا بھی قوم میں ایک موجود ہو اور وہ وہی ہوگا جس کو یقینی طور پر نبیوں کی طرح خدا تعالیٰ کا مکالمہ اور مخاطبہ نصیب ہوگا.نزول المسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۸۶) قرآن کے حقائق ودقائق انہیں پر کھلتے ہیں جو پاک کئے گئے ہیں پس ان آیات سے صاف ثابت ہوتا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۷ سورة الواقعة ہے کہ قرآن کے سمجھنے کے لئے ایک ایسے معلم کی ضرورت ہے جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پاک کیا ہو.اگر قرآن کے سیکھنے کے لئے معلم کی حاجت نہ ہوتی تو ابتدائے زمانہ میں بھی نہ ہوتی.(شهادة القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۴۸) علم قرآن سے بلا شبہ باخدا اور راستباز ہونا بھی ثابت ہے کیونکہ بموجب آیت لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ صرف پاک باطن لوگوں کو ہی کتاب عزیز کا علم دیا جاتا ہے.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۴۷۴) یہ سارا صحیفہ قدرت کے مضبوط صندوق میں محفوظ ہے.کیا مطلب کہ یہ قرآن کریم ایک چھپی ہوئی کتاب میں ہے.اس کا وجود کاغذوں تک ہی محدود نہیں بلکہ وہ ایک چھپی ہوئی کتاب میں ہے جس کو صحیفہ فطرت کہتے ہیں یعنی قرآن کی ساری تعلیم کی شہادت قانونِ قدرت کے ذرہ ذرہ کی زبان سے ادا ہوتی ہے اس کی تعلیم اور اس کی برکات کتھا کہانی نہیں جومٹ جائیں.(رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ صفحہ ۷۲) قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے کہ ہر ایک قسم کے معارف اور اسرار اس میں موجود ہیں لیکن ان کے حاصل کرنے کے لئے میں پھر کہتا ہوں کہ اسی قوت قدسیہ کی ضرورت ہے چنانچہ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۸۵) في كتب مكنون یعنی صحیفہ فطرت میں کہ جو چھپی ہوئی کتاب تھی اور جس کو ہر ایک شخص نہ دیکھ سکتا تھا.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۹۴) یہ کتاب مکنون زمین اور آسمان کی چھپی ہوئی کتاب ہے جس کے پڑھنے پر ہر شخص قادر نہیں ہوسکتا اور قرآن کریم اسی کتاب کا آئینہ ہے اور قرآن کریم نے وہی خدا دکھایا ہے جس پر آسمان وزمین شہادت دیتے ہیں.الحکم جلد ۲ نمبر ۲۴، ۲۵ مورخه ۲۰ تا ۲۷ /اگست ۱۸۹۸ ء صفحه ۹) معارف قرآن اس شخص کے سوا اور کسی پر نہیں کھل سکتے جس کی تطہیر ہو چکی ہولَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ.احکام جلد ۲ نمبر ۲۹،۲۸ مورخه ۲۰ تا ۲۷ ستمبر ۱۸۹۸ صفحه ۴) قرآنی حقائق اور معارف کے بیان کرنے کے لئے قلب کو مناسبت اور کشش اور تعلق حق اور صدق سے ہو جاتا ہے اور پھر یہاں تک اس میں ترقی اور کمال ہوتا ہے کہ وہ ما يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى کا مصداق ہو جاتا ہے.اس کی نگاہ جب پڑتی ہے ، صدق پر ہی پڑتی ہے.اس کو ایک خاص قوت اور امتیازی طاقت دی جاتی ہے.جس سے وہ حق و باطل میں فی الفور امتیاز کر لیتا ہے.یہاں تک کہ اس کے دل میں ایک قوت آجاتی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۸ سورة الواقعة ہے.جو ایسی تیز حس ہوتی ہے کہ اسے دور سے ہی باطل کی بو آجاتی ہے.یہی وہ سر ہے جو لا يمشةً إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ میں رکھا گیا ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۳ مورخه ۱۷ را پریل ۱۹۰۵ء صفحه ۵) صدیق کے مرتبہ پر قرآن کریم کی معرفت اور اس سے محبت اور اس کے نکات و حقائق پر اطلاع ملتی ہے کیونکہ کذب کذب کو کھینچتا ہے اس لئے کبھی بھی کاذب قرآنی معارف اور حقائق سے آگاہ نہیں ہو سکتا یہی وجہ ہے کہ لا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ فرمایا گیا ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۱ مورخه ۲۴ / مارچ ۱۹۰۱ء صفحه ۱) جو کچھ قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے قانون قدرت اس کو پوری مدد دیتا ہے گویا جو قرآن میں ہے وہی کتاب مکنون میں ہے.اس کا راز انبیاء علیہم السلام کی پیروی کے بدوں سمجھ میں نہیں آسکتا اور یہی وہ ستر ہے جولا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ میں رکھا گیا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۶ مورخه ۲۴ جولائی ۱۹۰۲ صفحہ ۷ ) دنیاوی علوم کی تحصیل اور ان کی باریکیوں پر واقف ہونے کے لیے تقومی طہارت کی ضرورت نہیں ہے ایک پلید سے پلید انسان خواہ کیسا ہی فاسق و فاجر ہو ، ظالم ہو، وہ ان کو حاصل کر سکتا ہے چوڑھے چہار بھی ڈگریاں پالیتے ہیں لیکن دینی علوم اس قسم کے نہیں ہیں کہ ہر ایک ان کو حاصل کر سکے ان کی تحصیل کے لیے تقویٰ اور طہارت کی ضرورت ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ.پس جس شخص کو دینی علوم حاصل کرنے کی خواہش ہے اسے لازم ہے کہ تقویٰ میں ترقی کرے جس قدر وہ ترقی کرے گا اسی قد را طیف دقائق اور حقائق اس پر کھلیں گے.البدر جلد ۳ نمبر ۲ مورخه ۸ /جنوری ۱۹۰۴ء صفحه ۱۳) دنیوی عقل کے لئے تقویٰ کی ضرورت نہیں ہے مگر دین کے لئے ضرورت ہے اس لئے یہ لوگ دین کی باتوں کو بھی نہیں سمجھتے.خدا تعالیٰ اسی کی طرف اشارہ کر کے فرماتا ہے لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ یعنی اندر گھسنا تو در کنار مس کرنا بھی مشکل ہے جب تک انسان مطہر یعنی منتقی نہ ہوئے.البدر جلد ۳ نمبر ۱۰ مورخه ۸ / مارچ ۱۹۰۴ ء صفحه ۵) سچی بات یہی ہے کہ مسیح موعود اور مہدی کا کام یہی ہے کہ وہ لڑائیوں کے سلسلہ کو بند کرے گا.اور قلم، دعا، تو جہ سے اسلام کا بول بالا کرے گا.اور افسوس ہے لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی اس لیے کہ جس قدر توجہ دنیا کی طرف ہے، دین کی طرف نہیں.دنیا کی آلودگیوں اور نا پاکیوں میں مبتلا ہوکر یہ امید کیوں کر کر سکتے ہیں کہ ان پر قرآن کریم کے معارف کھلیں وہاں تو صاف لکھا ہے لَا يَمَشةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۶ مورخه ۱۷/اکتوبر ۱۹۰۶ ء صفحه ۵)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۵۹ سورة الواقعة خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ جس قدر پاکیزگی بڑھتی ہے اسی قدر معرفت بھی بڑھتی جاتی ہے.(البدر جلد ۲ نمبر ۱۷ مورخه ۲۶ را پریل ۱۹۰۶ء صفحه ۲) دوسرے علوم میں یہ شرط نہیں.ریاضی ، ہندسہ و ہیئت وغیرہ میں اس امر کی شرط نہیں کہ سیکھنے والا ضرور متقی اور پرہیز گار ہو.بلکہ خواہ کیسا ہی فاسق و فاجر ہو وہ بھی سیکھ سکتا ہے مگر علم دین میں خشک منطقی اور فلسفی ترقی نہیں کر سکتا اور اس پر وہ حقائق اور معارف نہیں کھل سکتے جس کا دل خراب ہے اور تقویٰ سے حصہ نہیں رکھتا اور پھر کہتا ہے کہ علوم دین اور حقائق اس کی زبان پر جاری ہوتے ہیں وہ جھوٹ بولتا ہے.ہرگز ہرگز اُسے دین کے حقائق اور معارف سے حصہ نہیں مانتا بلکہ دین کے لطائف اور نکات کے لیے متقی ہونا شرط ہے.ان هذا لَهُوَ حَقُّ الْيَقِين الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳ مورخہ ۲۴ /جنوری۱۹۰۷ء صفحہ ۷ ) قرآن متقیوں کو وہ سارے امور یاد دلاتا ہے جو ان کی فطرت میں مخفی اور مستور تھے اور یہ حق محض ہے جو انسان کو یقین تک پہنچاتا ہے.جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۸۷)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيطِنِ الرَّحِيمِ ۳۶۱ سورة الحديد بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الحديد بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ هُوَ الْاَوَّلُ وَالْآخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ وہی اول ہے اور وہی آخر.وہی ظاہر ہے وہی باطن.(براہین احمدیہ چہار تصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۲۱ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) وہ پہلے بھی ہے اور پیچھے بھی اور ظاہر بھی ہے اور نچھپا ہوا بھی.(ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۳۲) وَإِنَّ الْمَسِيحَ مَظْهَرُ لِاسْمِ اللهِ الَّذِي یقیناً صحیح جو سلسلہ مخلوقات کا خاتم ہے وہ اللہ کے 1999 هُوَ خَاتَمُ سِلْسَلَةِ الْمَخْلُوقَاتِ، اغلی اسم آخر کا مظہر ہے جس کی طرف اللہ تعالی کے قول ھو 66 هو الْآخِرَ الَّذِي أُشِيْرَ إِلَيْهِ في قَوْلِهِ تَعَالَى هُوَ الْآخِرُ میں اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ وہ کائنات کے انتہاء الأخرُ لِمَا هُوَ عَلَامَةُ لِمُنْتَهى الْكَائِنَاتِ کی علامت ہے اس لئے نفس مسیح نے کثرت کے سلسلہ کو فَلِأُجْلِ ذَالِكَ اقْتَضَتْ نَفْسُ الْمَسِيحِ موت کے ذریعہ ختم کرنے کا تقاضا کیا یا مذہب کو ایسے خَتْم سِلْسِلَةِ الْكَثْرَةِ بِالْمَمَاتِ، أَوْ بِرَدِ دین کی طرف لوٹا دینے کے ساتھ جس میں نفس کو ارادوں الْمَذَاهِبِ إِلَى دِيْنٍ فِيْهِ مَوْتُ النُّفُوسِ اور شہوات سے مار دینے کی تعلیم ہے اور ایسی فطری مِنَ الْأَهْوَاءِ وَالْإِرَادَاتِ وَالْإِسْلَاكِ عَلَى شریعت پر چلنے کی تعلیم ہے جو مصالح الہیہ کے ماتحت چلتی الشَّرِيعَةِ الْفِطْرِيَّةِ الَّتِي تَجْرِى تَحْتَ ہے اور جس میں لوگوں کے نفوس کو ان کی خواہشات کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۲ سورة الحديد الْمَصَالِحِ الْإِلَهِيَّةِ وَتَخليص النَّاسِ مِنْ مطابق عفو، انتقام، محبت اور دشمنی کی طرف مائل ہونے مَيْلِ النَّفْسِ بِهَوَاهَا إِلَى الْعَفْوِ وَالْاِنْتِقَامِ سے نجات دلانے کا سامان ہے کیونکہ شریعت فطر یہ جو وَالْمَحَبَّةِ وَالْمَعَادَاةِ.فَإِنَّ الشَّرِيعَةَ الْفِطْرِيَّةَ انسان کی تمام طاقتوں سے کام لیتی ہے وہ نہیں الَّتِي تَسْتَخْدِمُ قُوَى الْإِنْسَانِ كُلِّهَا لَا تَرْضَی چاہتی کہ اس کی تمام طاقتیں صرف ایک قوت کی بِأَن تَكُونَ خَادِمَةٌ لِقُوَّةٍ وَاحِدَةٍ، وَلَا تُقَيدُ خادم بن کر رہ جائیں.اور نہ وہ انسان کے اخلاق أَخْلَاقَ الْإِنْسَانِ فِي دَائِرَةِ الْعَفْوِ فَقَط وَلَا في کو صرف عفو کے دائرہ میں یا انتظام کے دائرہ میں دَائِرَةِ الْإِنْتِقَامِ فَقَط بَلْ تَحْسِبُهُ سَجِيَّةٌ غَيْرَ پابند کرتی ہے.بلکہ وہ اس کو نا پسندیدہ خصلت قرار مَرْضِيَّةٍ، وَتُؤْتِ كُلَّ قُوَّةٍ حَقَّهَا عِنْدَ مَصْلِحَةٍ دیتی ہے.اور ہر قوت کو مصلحت اور ضرورت دَاعِيَةٍ وَضُرُورَةٍ مُقْتَضِيَّةٍ، وَتُغَيْرُ حُكْمَ کے مطابق پورا پورا حق دیتی ہے اور وقتی مصلحتوں الْعَفْوِ وَالْإِنْتِقَامِ وَالْمُصَافَاةِ وَالْمُعَادَاةِ کے تغیرات کے ساتھ ساتھ عفو اور انتقام اور صلح اور بَحَسْبِ تَغَيُّرَاتِ الْمَصَالِحِ الْوَقْتِيَّةِ.وَهَذَا وثمنی کے حکم کو بدلتی ہے اور یہ نفس اور اس کی هُوَ الْمَوْتُ مِن النَّفْسِ وَالْهَوَى وَالْجَنَّبَاتِ خواہشات اور جذبات کی مکمل موت ہے اور یہی النَّفْسَانِيَّةِ وَدَخُولُ فِي الْفَانِينَ.فتا شدہ لوگوں میں داخل ہونا ہے.( ترجمہ از مرتب) (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۳۰۹،۳۰۸) اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ ایک انسان خدا کی اولیت کا مظہر تھا اور ایک انسان خدا کی آخریت کا مظہر ہوگا.اور لازم تھا کہ دونوں انسان ایک صفت میں برعایت خصوصیات متحد ہوں پس جبکہ آدم تر اور مادہ پیدا کیا گیا اور ایسا ہی شیث کو بھی تو چاہئے تھا کہ آخری انسان بھی نر اور مادہ کی شکل پر پیدا ہو.اس لئے قرآن کے حکم کے رُو سے وہ وعدہ کا خلیفہ اور خاتم الخلفاء جس کو دوسرے لفظوں میں مسیح موعود کہنا چاہیئے اسی طور سے پیدا ہونا ضروری تھا کہ وہ تو ام کی طرح تولد پاوے.اس طرح سے کہ پہلے اس سے لڑکی نکلے اور بعد اس کے لڑکا خارج ہو.تا وہ خاتم الولد ہو.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۴۸۵،۴۸۴) خدا سب سے پہلے ہے اور باوجود پہلے ہونے کے پھر سب سے آخر ہے اور وہ سب سے زیادہ ظاہر ہے اور پھر باوجو دسب سے زیادہ ظاہر ہونے کے سب سے پوشیدہ ہے.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۲۰،۱۱۹)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۶۳ سورة الحديد اللہ تعالیٰ کا کلام ایسا ہے کہ اس کی تفصیل بعض آیت کی بعض آیت سے ہوتی ہے.اول کی تفسیر یہ ہے کہ كَانَ اللهُ وَلَمْ يَكُنْ مَعَهُ شَيْ وَاخِرَ کے معنے کے كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَإِنِ ہم تو انہی معنوں کو پسند کریں گے.جو خدا نے بتلائے ہیں.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۸ مورخه ۱/۲۴اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحه ۷) هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَ مَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا دو وَهُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌه وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُم یعنی جہاں تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے.ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۰۰) جہاں کہیں تم ہو اسی جگہ خدا تمہارے ساتھ ہے.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۱۹) هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَی العرش ترجمہ اس آیت کا یہ ہے کہ خدا وہ ہے جس نے تمام زمین اور آسمانوں کو چھ دن میں پیدا کیا.پھر عرش پر اُس نے استوار کیا.یعنی کل مخلوق کو چھ دن میں پیدا کر کے پھر صفات عدل اور رحم کو ظہور میں لانے لگا.خدا کا الوہیت کے تخت پر بیٹھنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مخلوق کے بنانے کے بعد ہر ایک مخلوق سے بمقتضائے عدل اور رحم اور سیاست کارروائی شروع کی یہ محاورہ اس سے لیا گیا ہے کہ جب کل اہل مقدمہ اور ارکان دولت اور لشکر با شوکت حاضر ہو جاتے ہیں اور کچہری گرم ہو جاتی ہے اور ہر ایک حقدار اپنے حق کو عدل شاہی سے مانگتا ہے اور عظمت اور جبروت کے تمام سامان مہیا ہو جاتے ہیں تب بادشاہ سب کے بعد آتا ہے اور تخت عدالت کو اپنے وجود باجود سے زینت بخشتا ہے.غرض ان آیات سے ثابت ہوا کہ آدم جمعہ کے اخیر حصے میں پیدا کیا گیا کیونکہ روز ششم کے بعد سلسلہ پیدائش کا بند کیا گیا.وجہ یہ کہ روز ہفتم تخت شاہی پر بیٹھنے کا دن ہے نہ پیدائش کا.یہودیوں نے ساتویں دن کو آرام کا دن رکھا ہے مگر یہ اُن کی غلط نہی ہے بلکہ یہ ایک محاورہ ہے کہ جب انسان ایک عظیم کام سے فراغت پالیتا ہے تو پھر گویا اُس وقت اس کے آرام کا وقت ہوتا ہے سوایسی عبارتیں تو ریت میں بطور مجاز ہیں نہ یہ کہ در حقیقت خدا تعالیٰ تھک گیا اور بوجہ خستہ در ماندہ ہونے کے اس کو آرام کرنا پڑا.(تحفہ گولار و یه روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۷۹ حاشیہ )
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۴ سورة الحديد يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ يَسْعَى نُورُهُمْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَ بِأَيْمَانِهِمْ يُشْرِيكُمُ الْيَوْمَ جَنْتُ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهُرُ خُلِدِينَ فِيهَا ذَلِكَ هُوَ الْفَوْرُ العظيم اس دن بھی ایمانی نور جو پوشیدہ طور پر مومنوں کو حاصل ہے کھلے کھلے طور پر ان کے آگے اور ان کے داہنے ہاتھ پر دوڑ تا نظر آئے گا.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۰۱) اس روز تو دیکھے گا کہ مومنوں کا یہ نور جو دنیا میں پوشیدہ طور پر ہے ظاہر ظاہر ان کے آگے اور ان کے داہنی اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۱۱) طرف دوڑتا ہو گا.اعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا قَد بَيَّنَا لَكُمُ الْأَيْتِ لَعَلَّكُم تَعْقِلُونَ یہ خدا کی کمال رحمانیت کی ایک بزرگ تجلی تھی کہ جو اس نے ظلمت اور تاریکی کے وقت ایسا عظیم الشان نور نازل کیا جس کا نام فرقان ہے جوحق اور باطل میں فرق کرتا ہے جس نے حق کو موجود اور باطل کو نابود کر کے دکھلا دیا وہ اس وقت زمین پر نازل ہوا جب زمین ایک موت روحانی کے ساتھ مرچکی تھی اور بڑ اور بحر میں ایک بھاری فساد واقعہ ہو چکا تھا پس اس نے نزول فرما کر وہ کام کر دکھایا جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے آپ اشارہ فرما کر کہا ہے اعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا یعنی زمین مرگئی تھی اب خدا اس کو نئے سرے زندہ کرتا ہے.اب اس بات کو بخوبی یا د رکھنا چاہئے کہ یہ نزول قرآن شریف کا کہ جو زمین کے زندہ کرنے کے لئے ہوا یہ صفت رحمانیت کے جوش سے ہوا.وہی صفت ہے کہ جو بھی جسمانی طور پر جوش مار کر قحط زدوں کی خبر لیتی ہے اور باران رحمت خشک زمین پر برساتی ہے اور وہی صفت کبھی روحانی طور پر جوش مار کر ان بھوکوں اور پیاسوں کی حالت پر رحم کرتی ہے کہ جو ضلالت اور گمراہی کی موت تک پہنچ جاتے ہیں اور حق اور صداقت کی غذا کہ جو روحانی زندگی کا موجب ہے ان کے پاس نہیں رہتی پس رحمان مطلق جیسا جسم کی غذا کو اس کی حاجت کے وقت عطا فرماتا ہے ایسا ہی وہ اپنی رحمت کا ملہ کے تقاضا سے روحانی غذا کو بھی ضرورت حقہ کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۵ سورة الحديد وقت مہیا کر دیتا ہے.ہاں یہ بات درست ہے کہ خدا کا کلام انہیں برگزیدہ لوگوں پر نازل ہوتا ہے جن سے خدا راضی ہے اور انہیں سے وہ مکالمات اور مخاطبات کرتا ہے جن سے وہ خوش ہے مگر یہ بات ہرگز درست نہیں کہ جس سے خدا راضی اور خوش ہو اس پر خواہ نخواہ بغیر کسی ضرورت حقہ کے کتاب آسمانی نازل ہو جایا کرے یا خدائے تعالیٰ یونہی بلا ضرورت حقہ کسی کی طہارت لازمی کی وجہ سے لازمی اور دائمی طور پر اس سے ہر وقت باتیں کرتا رہے بلکہ خدا کی کتاب اسی وقت نازل ہوتی ہے جب فی الحقیقت اس کے نزول کی ضرورت پیش آجائے.( براہین احمدیہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۴۲۰،۴۱۹ حاشیہ نمبر۱۱) خدائے تعالی کا یہ قانون قدرت ہے کہ زمین مرجاتی ہے تو وہ نئے سرے زمین کو زندہ کرتا ہے ہم نے کھول کر یہ نشان بتلائے ہیں تا ہو کہ لوگ سوچیں اور سمجھیں.(براہین احمدیہ چهار تصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۵۷، ۶۵۸) عادت اللہ قدیم سے یہی جاری ہے کہ جب زمین مرجاتی ہے تو اسے نئے سرے زندہ کرتا ہے یہ نہیں کہ ایک ہی بارش پر ہمیشہ کے لئے کفایت کرے.خیال کرنا چاہیے کہ یہ کیسی اعلیٰ درجہ کی صداقت ہے جو الہامات تازہ بتازہ کا بھی دروازہ بند نہیں ہوتا.سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۹۳، ۲۹۴) یہ عام محاورہ قرآن شریف کا ہے کہ زمین کے لفظ سے انسانوں کے دل اور ان کی باطنی قومی مراد ہوتی ہیں جیسا کہ اللہ جل شانہ ایک جگہ فرماتا ہے.اِعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا - (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۶۸) اے لوگو جان لو کہ زمین مرگئی تھی اور خدا اب نئے سرے اس کو زندہ کر رہا ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۲۵) واضح ہو کہ قرآن کریم اس محاورہ سے بھرا پڑا ہے کہ دنیا مر چکی تھی اور خدا تعالیٰ نے اپنے اس نبی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج کر نئے سرے دنیا کو زندہ کیا جیسا کہ وہ فرماتا ہے اعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يُخي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا یعنی اس بات کو سن رکھو کہ زمین کو اس کے مرنے کے بعد خدا تعالیٰ زندہ کرتا ہے.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۹۴) یہ بات جان لو کہ اب اللہ تعالیٰ نئے سرے سے زمین کو بعد اس کے مرنے کے زندہ کرنے لگا ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۲۸) یہ بات بھی جانو کہ زمین مرگئی تھی اور اب خدا نئے سرے سے زمین کو زندہ کر رہا ہے یہ قرآن کی ضرورت
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۶ سورة الحديد اور سچائی کے نشان ہیں جو اس لئے بیان کئے گئے تا کہ تم نشانوں کو دریافت کرلو.اب سوچ کر دیکھو کہ یہ دلیل جو تمہارے سامنے پیش کی گئی ہے یہ ہم نے اپنے ذہن سے ایجاد نہیں کی.بلکہ قرآن شریف آپ ہی اس کو پیش کرتا ہے اور دلیل کے دونوں حصے بیان کر کے پھر آپ ہی فرماتا ہے قد بَيَّنَا لَكُمُ الْآيَتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِدُونَ یعنی اس رسول اور اس کتاب کے منجانب اللہ ہونے پر یہ بھی ایک نشان ہے جس کو ہم نے بیان کر دیا تا تم سوچو اور سمجھو اور حقیقت تک پہنچ جاؤ.دوسرا پہلو اس دلیل کا یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے وقت میں دنیا سے اپنے مولی کی طرف بلائے گئے جبکہ وہ اپنے کام کو پورے طور پر انجام دے چکے اور یہ امر قرآن شریف سے بخوبی ثابت ہے.نور القرآن نمبر ا، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۴۰ تا ۳۴۳) ( اس زمانہ کے بعض حق پوش پادریوں نے جب دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے اس قدر عام اصلاح ہوئی کہ اس کو کسی طرح چھپا نہیں سکتے اور اس کے مقابل پر جو سیح نے اپنے وقت میں اصلاح کی وہ بیچ ہے تو ان پادریوں کو فکر پڑی کہ گمراہوں کو رو با صلاح کرنا اور بدکاروں کو نیکی کے رنگ میں لا نا جواصل نشانی سچے نبی کی ہے.وہ جیسا کہ اکمل اور اتم طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ظہور میں آئی مسیح کی اصلاح میں کوئی بھی اس کی نسبت نہیں پائی جاتی تو انہوں نے اپنے دجالی فریبوں کے ساتھ آفتاب پر خاک ڈالنا چاہا تو نا چار جیسا کہ پادری جیمس کیمرن لیس نے اپنے لیکچر میں شائع کیا ہے.جاہلوں کو اس طرح پر دھوکا دیا کہ وہ لوگ پہلے سے صلاحیت پذیر ہونے کے مستعد تھے اور بت پرستی اور شرک ان کی نگاہوں میں حقیر ٹھہر چکا تھا.لیکن اگر ایسی رائے ظاہر کرنے والے اپنے اس خیال میں سچے ہیں تو انہیں لازم ہے کہ اپنے اس خیال کی تائید میں ویسا ہی ثبوت دیں جیسا کہ قرآن کریم ان کے مخالف ثبوت دیتا ہے یعنی فرماتا ہے کہ اعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا اور ان سب کو مردے قرار دے کر ان کا زندہ کیا جانا محض اپنی طرف منسوب کرتا ہے اور جابجا کہتا ہے کہ وہ ضلالت کے زنجیروں میں پھنسے ہوئے تھے ہم نے ہی ان کو رہائی دی وہ اندھے تھے ہم نے ہی ان کو سوجا کھا کیا.وہ تاریکی میں تھے ہم نے ہی نور بخشا اور یہ باتیں پوشیدہ نہیں کہیں بلکہ قرآن ان سب کے کانوں تک پہنچا اور انہوں نے ان بیانات کا انکار نہ کیا اور کبھی یہ ظاہر نہ کیا کہ ہم تو پہلے ہی سے مستعد تھے قرآن کا ہم پر کچھ احسان نہیں..( نور القرآن نمبر ا، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۶۶، ۳۶۷ حاشیه )
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الحديد جان لو کہ خدا نے زمین کو مرنے کے بعد پھر زندہ کیا.ایام اصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۳۶) قرآن نے بڑی صفائی سے اپنی ضرورت ثابت کی ہے.قرآن صاف کہتا ہے اعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يُخي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا یعنی اس بات کو جان لو کہ زمین مرگئی تھی اور اب خدا نئے سرے اس کو زندہ کرنے لگا ہے.(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جواب، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۳۵۵) قرآن شریف نے خود اپنے آنے کی ضرورت یہ پیش کی ہے کہ اس زمانہ میں ہر ایک قسم کی بدچلنی اور بداعتقادی اور بدکاری زمین کے رہنے والوں پر محیط ہو گئی تھی تو اب خدا کا خوف کر کے سوچنا چاہئے کہ کیا باوجود جمع ہونے اتنی ضرورتوں کے پھر بھی خدا نے نہ چاہا کہ اپنے تازہ اور زندہ کلام سے دنیا کو نئے سرے زندہ کرے کیا آپ لوگوں میں سے کوئی شریف اور بھلا مانس اس دلیل پر غور نہیں کرتا کہ قرآن شریف تو خود فرماتا ہے کہ اِعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا یعنی اے انسانو ! تمہیں معلوم ہو کہ زمین مر چکی تھی اور خدا نئے سرے اب اُس کو زندہ کر رہا ہے.پس قرآن شریف کا یہی ایک نور تھا جس کے آنے سے پھر دنیا نے توحید کی طرف پلٹا کھایا اور تمام جزیزہ عرب توحید سے بھر گیا اور ممالک ایران کی آتش پرستی بھی دور ہوگئی.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۶۶ ۲۶۷) پانی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھیلا یا اس کی شان یہ ہے کہ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ (رساله الانذار صفحہ ۱۸) مَوْتِهَا......اس پانی سے دُنیا زندہ ہوئی.خدا تعالیٰ نے قلب کا نام بھی زمین رکھا ہے.اِعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا زمیندار کوکس قدر تردد کرنا پڑتا ہے.بیل خریدتا ہے.ہل چلاتا ہے.تخمریزی کرتا ہے.آب پاشی کرتا ہے غرض یہ کہ بہت بڑی محنت کرتا ہے اور جب تک خود دخل نہ دے کچھ بھی نہیں بنتا.لکھا ہے کہ ایک شخص نے پتھر پر لکھا دیکھا.زرع زرہی زر ہے.کھیتی تو کر نے لگا، مگر نوکروں کے سپر د کر دی.لیکن جب حساب لیا.کچھ وصول ہونا تو در کنار کچھ واجب الادا ہی نکلا.پھر اُس کو اس موقعہ پر شک پیدا ہوا تو کسی دانشمند نے سمجھایا کہ نصیحت تو سچی ہے، لیکن تمہاری بے وقوفی ہے.خود مہتم بنو، تب فائدہ ہوگا.ٹھیک اسی طرح پر ارضِ دل کی خاصیت ہے جو اُس کو بے عزتی کی نگاہ سے دیکھتا ہے.اس کو خدا تعالیٰ کا فضل اور برکت نہیں ملتی.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۶ مورخہ ۲۴؍ جولائی ۱۹۰۲، صفحہ ۱۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسے جسمانی جنگل میں پیدا ہوئے ویسے ہی روحانی جنگل بھی تھا مکہ میں اگر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۶۸ سورة الحديد جسمانی اور روحانی نہریں نہ تھیں تو دوسرے ملک روحانی نہر نہ ہونے کی وجہ سے ہلاک ہو چکے تھے اور زمین مرچکی تھی جیسا کہ قرآن شریف فرماتا ہے اِعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا یعنی یہ بات تمہیں معلوم ہے کہ زمین سب کی سب مرگئی تھی اب خدا تعالیٰ نئے سر سے اس کو زندہ کرتا ہے پس یہ زبردست دلیل ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کی کہ آپ ایسے وقت میں آئے کہ ساری دنیا عام طور پر بدکاریوں اور بداعتقادیوں میں مبتلا ہو چکی تھی اور حق و حقیقت اور تو حید اور پاکیزگی سے خالی ہوگئی تھی.اورا الحام جلد 4 نمبر ۱۰ مورخہ ۷ اس مارچ ۱۹۰۲ صفحه ۴) آسمان اور زمین میں ایسے تعلقات ہیں جیسے نرومادہ میں ہوتے ہیں.زمین میں بھی کنوئیں ہوتے ہیں لیکن زمین پھر بھی آسمانی پانی کی محتاج رہتی ہے.جب تک آسمان سے بارش نہ ہو زمین مردہ سمجھی جاتی ہے اور اس کی زندگی اس پانی پر منحصر ہے جو آسمان سے آتا ہے.اسی واسطے فرمایا ہے اعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يُخي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب آسمان سے پانی برسنے میں دیر ہو اور امساک باراں ہو تو کنوؤں کا پانی بھی خشک ہونے لگتا ہے.اور ان ایام میں دیکھا گیا ہے کہ پانی اتر جاتا ہے.لیکن جب برسات کے دن ہوں اور مینہ برسنے شروع ہوں تو کنووں کا پانی بھی جوش مار کر چڑھتا ہے کیونکہ اوپر کے پانی میں قوت جاز بہ ہوتی ہے اب براہموں سوچیں کہ اگر آسمانی پانی نازل ہونا چھوڑ دے تو سب کنوئیں خشک ہو جائیں اسی طرح پر ہم یہ مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک نور قلب ہر ایک انسان کو دیا ہے.اور اس کے دماغ میں عقل رکھی ہے.جس سے وہ برے بھلے میں تمیز کرنے کے قابل ہوتا ہے.لیکن اگر نبوت کا نور آسمان سے نازل نہ ہو اور یہ سلسلہ بند ہو جاوے تو دماغی عقلوں کا سلسلہ جاتا رہے اور نور قلب پر تار یکی پیدا ہو جاوے اور وہ بالکل کام دینے کے قابل نہ رہے.کیونکہ یہ سلسلہ اسی نور نبوت سے روشنی پاتا ہے.جیسے بارش ہونے پر زمین کی روئید گیاں نکلنی شروع ہو جاتی ہیں.اور ہر تخم پیدا ہونے لگتا ہے.اسی طرح پر نور نبوت کے نزول پر دماغی اور ذہنی عقلوں میں ایک صفائی اور نور فراست میں ایک روشنی پیدا ہوتی ہے.اگر چہ یہ علی قدر مراتب ہوتی ہے اور استعداد کے موافق ہر شخص فائدہ اٹھاتا ہے.خواہ وہ اس امر کو محسوس کرے یا نہ کرے لیکن یہ سب کچھ ہوتا اسی نور نبوت کے طفیل ہے.الحکم جلدے نمبر ۱۴ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۱) خدا کے ساتھ صدق ، وفاداری، اخلاص ، محبت اور خدا پر توکل کالعدم ہو گئے ہیں.اب خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ پھر نئے سر سے ان قوتوں کو زندہ کرے وہ خدا جو ہمیشہ يُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا کرتا رہا ہے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۶۹ سورة الحديد اس نے ارادہ کیا ہے اور اس کے لیے کئی راہیں اختیار کی گئی ہیں.ایک طرف مامور کو بھیج دیا ہے جو نرم الفاظ میں دعوت کرے اور لوگوں کو ہدایت کرے.دوسری طرف علوم وفنون کی ترقی ہے اور عقل آتی جاتی ہے.احکام جلد ۸ نمبر ۸ مورخه ۱۰ر مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۹) انسان کو زمین سے بھی تشبیہ دی گئی ہے جیسا کہ قرآن شریف میں ذکر ہے کہ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا.ارض کے زندہ کرنے سے مراد اہل زمین ہیں.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۷ مورخه ۶ / مارچ ۱۹۰۸ صفحه ۸) إِنَّ الْمُصَدِقِينَ وَ الْمُصَدِقتِ وَ اَقْرَضُوا اللهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضْعَفُ لَهُمُ وَلَهُمْ أَجْرٌ كَرِيم.قرآن کریم میں یہ سنت اللہ ہے کہ بعض الفاظ اپنی اصلی حقیقت سے پھر کر مستعمل ہوتے ہیں جیسا کہ فرماتا ہے وَ اَقْرَضُوا اللهَ قَرْضًا حَسَنًا یعنی قرض دو اللہ کو قرض اچھا.اب ظاہر ہے کہ قرض کی اصل تعریف کے مفہوم میں یہ داخل ہے کہ انسان حاجت اور لا چاری کے وقت دوسرے سے بوقت دیگر ادا کرنے کے عہد پر کچھ مانگتا ہے لیکن اللہ جل شانہ حاجت سے پاک ہے پس اس جگہ قرض کے مفہوم میں سے صرف ایک چیز مراد لی گئی یعنی اس طور سے لینا کہ پھر دوسرے وقت اس کو واپس دے دینا اپنے ذمہ واجب ٹھہرالیا ہو.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۵۵،۱۵۴) ربهم وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَبِكَ هُمُ الصّدِيقُونَ * وَالشُّهَدَاءُ عِندَ رَك لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَ نُورُهُمْ وَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَ كَذَّبُوا بِأَيْتِنَا أُولَبِكَ أَصْحَبُ الْجَحِيمِ جو لوگ خدا اور اس کے رسول پر ایمان لائے وہی ہیں کہ جو خدا کے نزدیک صدیق ہیں.ان کے لئے اجر ہوگا ان کے لئے نور ہوگا.( براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۶۴ حاشیہ نمبر ۱۱) مَا أَصَابَ مِنْ مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَبٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام تَبْرَاهَا إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللهِ يَسِيرُ ۲۳ سورة الحديد کوئی حادثہ نہ زمین پر نازل ہوتا ہے اور نہ تمہاری جانوں پر مگر وہ سب لکھا ہوا ہے یعنی مقدر ہے.ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۳۱) لَقَد اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَتِ وَ اَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَبَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَ اَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللهُ مَنْ يَنْصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ یعنی ہم نے لوہا اتارا....اُترنے کا لفظ آسمان سے اترنے پر ہرگز دلالت نہیں کرتا اور اُترنے کے ساتھ آسمان کا لفظ زیادہ کر لینا ایسا ہے جیسا کسی بھوکے سے پوچھا جائے کہ دو تو دو کتنے ہوتے ہیں تو وہ جواب (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۲۴۵ حاشیه ) دے کہ چار روٹیاں.ہم نے لوہا اتارا.الحق مباحثه دیلی ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه (۱۶۵) فَانظُرُوا إِلَى الْقُرْآنِ الْكَرِيمِ كَيْفَ تم قرآن مجید کو دیکھو کہ وہ اپنی بلندشان آیات يُبَيِّنُ مَعْنَى النُّزُولِ فِي آيَاتِهِ الْعُظمیٰ میں لفظ نزول کے معنے کیسے بیان کرتا ہے.اور تم وَتَدَبَّرُوا فِي قَوْلِهِ تَعَالَى وَ انْزَلْنَا الْحَدِيد....اللہ تعالیٰ کے قول و آنزَلْنَا الْحَدِيد پر بھی غور کرو....وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ هَذِهِ الْأَشْيَاء لَا تَنْزِلُ اور تم اچھی طرح جانتے ہو کہ لوہا اور باقی ایسی ہی اشیاء مِنَ السَّمَاءِ بَلْ تَحْدُثُ وَ تَتَوَلَّدُ فِي الْأَرْضِ وَ آسمان سے نہیں اترتیں بلکہ زمین میں پیدا ہوتی ہیں.فِي طَبَقَاتِ الثَّرَى وَإِنْ اَمَعَنَتُمُ النَّظَرَ فِي اور اگر تم خدا تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید میں غور کرو تو تم كِتَابِ اللهِ تَعَالَى فَيَكْشِفُ عَلَيْكُمْ آن پر یہ بات واضح ہو جائے گی کہ نزول مسیح کی حقیقت بھی حَقِيقَةٌ نُزُوْلِ الْمَسِيحِ مِنْ هَذِهِ الْأَقسام.اسی قسم کی ہے.( ترجمہ از مرتب) ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۴۱) اَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ وَمَعْلُومٌ أَنَّ الْحَدِيدَ لَا انْزَلْنَا الْحَدِيدَ یہ بات سب جانتے ہیں کہ لوہا يَنْزِلُ من السَّمَاء بَلْ يَتَكونُ فِي الْمَعَادِنِ آسمان سے نہیں اتر تا بلکہ زمین میں رب السماوات.....بحُكْمِ رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَلَوِ اجْتَمَعَ کے حکم سے پیدا ہوتا ہے اور اگر سارے زمین والے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۱ سورة الحديد أَهْلُ الْأَرْضِ جَمِيعًا عَلَى أَنْ يَخْلُقُوا هَذِهِ جمع ہو جائیں تا اپنی قوت اور تدبیر سے لوہا اور ایسی ہی الْأَشْيَاءَ بِقُوَّتِهِمُ وَتَدْبِيرِهِمْ لَمْ دیگر اشیاء کو عالم وجود میں لائیں تو وہ اس بات کی ہرگز يَسْتَطِيعُوا أَبَدًا، فَكَأَتَهَا نَزَلَتْ مِنَ السَّمَاء طاقت نہیں پائیں گے.پس گویا کہ یہ سب چیزیں (حمامة البشری ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحہ ۱۹۶) آسمان سے ہی اتری ہیں.( ترجمہ ا مرتب ) ، ( حضرت خلیفہ اول نے عرض کیا کہ لوہا آج تک اس کثرت سے زمین سے نکلا ہے کہ اگر ایک جگہ جمع کیا جاوے تو ایک اور ہمالہ پہاڑ بنتا ہے.لوہے کی کانوں کی آج تک تہ نہیں ملی کہ کہاں تک نیچے نیچے نکلتا ہے.حضرت اقدس نے فرمایا ) خدا تعالیٰ نے بھی سونا اور چاندی کو چھوڑ کر اَنْزَلْنَا الْحَدِید ہی کہا ہے ( یعنی یہی بنی نوع انسان کے لئے زیادہ نفع رساں ہے ).البدر جلد نمبر ۴ مورخه ۲۱ نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۳۰) بیان کیا گیا کہ آیت (زیر تفسیر ).....سے معلوم ہوتا ہے کہ حدید نے اپنا فعل بأس شدید کا تو آنحضرت صلعم کے وقت کیا کہ اس سے سامان جنگ وغیرہ تیار ہو کر کام آتا تھا مگر اس کے فعل مَنَافِعُ لِنَّاسِ کا وقت یہ مسیح اور مہدی کا زمانہ ہے کہ اس وقت تمام دنیا حدید (لوہے ) سے فائدہ اٹھا رہی ہے جیسے کہ ریل، تار، دخانی جہاز ، کارخانوں اور ہر ایک قسم کے سامان لوہے سے ظاہر ہے حضرت اقدس نے اس پر فرمایا کہ ) میں بھی سارے مضمون لوہے کے قلم ہی سے لکھتا ہوں.مجھے بار بار قلم بنانے کی عادت نہیں ہے.اس لئے لوہے کے قلم استعمال کرتا ہوں.آنحضرت نے لوہے سے کام لیا ہم بھی لو ہے ہی سے لے رہے ہیں اور وہی لوہے کی قلم تلوار کا کام دے رہی ہے.البدر جلد اوّل نمبر ۹ مورخه ۲۶/ دسمبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۶۸) ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى أَثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَ قَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَهُ الْإِنْجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأفَةً وَ رَحْمَةً وَرَهْبَانِيَةَ ابْتَدَعُوهَا مَا كتبتها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا فَأَتَيْنَا الَّذِينَ امَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُم وَ كَثِيرٌ مِنْهُمْ فَسِقُونَ ) ۲۸ لوگوں نے یہ بھی طریق نکالے ہیں کہ وہ ہمیشہ عمداً نکاح سے دست بردار رہیں یا خوجے بنیں اور کسی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۲ سورة الحديد طریق سے رہبانیت اختیار کریں.مگر ہم نے انسان پر یہ حکم فرض نہیں کئے اس لئے وہ ان بدعتوں کو پورے طور پر نبھا نہ سکے.خدا کا یہ فرمانا کہ ہمارا یہ حکم نہیں کہ لوگ خوجے نہیں.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ اگر خدا کا حکم ہوتا تو سب لوگ اس حکم پر عمل کرنے کے مجاز بنتے تو اس صورت میں بنی آدم کی قطع نسل ہو کر کبھی کا دنیا کا خاتمہ ہو جاتا.اور نیز اگر اس طرح پر عفت حاصل کرنی ہو کہ عضو مردمی کو کاٹ دیں تو یہ در پردہ اس صانع پر اعتراض ہے جس نے وہ عضو بنایا اور نیز جبکہ ثواب کا تمام مدار اس بات پر ہے کہ ایک قوت موجود ہو اور پھر انسان خدا تعالیٰ کا خوف کر کے اس قوت کے خراب جذبات کا مقابلہ کرتا رہے.اور اس کے منافع سے فائدہ اٹھا کر د وطور کا ثواب حاصل کرے.پس ظاہر ہے کہ ایسے عضو کے ضائع کر دینے میں دونوں ثوابوں سے محروم رہا.ثواب تو جذ بہ مخالفانہ کے وجود اور پھر اس کے مقابلہ سے ملتا ہے.مگر جس میں بچہ کی طرح وہ قوت ہی نہیں رہی اس کو کیا ثواب ملے گا.کیا بچہ کو اپنی عفت کا ثواب مل سکتا ہے؟ اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۴۲) میں یہ نہیں کہتا کہ تم دنیا کے کاروبار چھوڑ دو.بیوی بچوں سے الگ ہو کر کسی جنگل یا پہاڑ میں جا بیٹھو.اسلام اس کو جائز نہیں رکھتا اور رہبانیت اسلام کا منشاء نہیں.اسلام تو انسان کو چست اور ہوشیار اور مستعد بنانا چاہتا ہے اس لئے میں تو کہتا ہوں کہ تم اپنے کاروبار کو جد و جہد سے کرو.(الکام جلد ۵ نمبر ۲۹ مورخه ۱۰ اگست ۱۹۰۱ صفحه ۲) خطرناک ریاضتیں کرنا اور اعضاء اور قومی کو مجاہدات میں بے کار کر دینا محض نکمی بات اور لاحاصل ہے.اسی لئے ہمارے ہادی کامل علیہ الصلوۃ والسلام نے فرما یا لا رَهْبَانِيَّةَ فِي الْإِسْلَامِ یعنی جب انسان کو صفت اسلام ) گردن نهادن بر حکم خدا و مواقفت تامه بمقادیر البہیہ ) میسر آ جائے تو پھر رہبانیت یعنی ایسے مجاہدوں اور ریاضتوں کی کوئی ضرورت نہیں.....یہی وجہ ہے کہ اسلام نے رہبانیت کو نہیں رکھا.اس لئے کہ وہ معرفت تامہ کا ذریعہ نہیں ہے.الحکم جلد ۳ نمبر ۲۸ مورخه ۱۰ اگست ۱۸۹۹ ء صفحه ۵) رہبانیت اور اباحت انسان کو اس صدق اور وفا سے دور رکھتے تھے جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے اس لئے ان سے الگ رکھ کر اطاعت الہی کا حکم دے کر صدق اور وفا کی تعلیم دی جو ساری رُوحانی لذتوں کی جاذب ہیں.الخام جلدے نمبر ۹ مورخه ۱۰ / مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۲) وہ فقیر جو دنیوی کاموں سے گھبرا کر گوشہ نشین بن جاتا ہے وہ ایک کمزوری دکھلاتا ہے.اسلام میں
سورة الحديد تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام رہبانیت نہیں.ہم کبھی نہیں کہتے کہ عورتوں کو اور بال بچوں کو ترک کر دو اور دنیوی کا روبار کو چھوڑ دو.نہیں بلکہ ملازم کو چاہیئے کہ وہ اپنی ملازمت کے فرائض ادا کرے اور تاجر اپنی تجارت کے کاروبار کو پورا کرے لیکن دین کو مقدم رکھے.اس کی مثال خود دنیا میں موجود ہے کہ تاجر اور ملازم لوگ باوجود اس کے کہ وہ اپنی تجارت اور ملازمت کو بہت عمدگی سے پورا کرتے ہیں.پھر بھی بیوی بچے رکھتے ہیں اور ان کے حقوق برابر ادا کرتے ہیں.ایسا ہی ایک انسان ان تمام مشاغل کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حقوق کو ادا کر سکتا ہے اور دین کو دنیا پر مقدم رکھ کر بڑی عمدگی سے اپنی زندگی گزار سکتا ہے.خدا کے ساتھ تو انسان کا فطرتی تعلق ہے کیونکہ اس کی فطرت خدا تعالیٰ کے حضور میں اگست پر پکھ کے جواب میں قانو ابلی کا اقرار کر چکی ہوئی ہے.یا درکھو کہ وہ شخص جو کہتا ہے کہ جنگل میں چلا جائے اور اس طرح دنیوی کدورتوں سے بیچ کر خدا کی عبادت اختیار کرے وہ دنیا سے گھبرا کر بھاگتا ہے اور نامردی اختیار کرتا ہے.دیکھو ریل کا انجمن بے جان ہو کر ہزاروں کو اپنے ساتھ کھینچتا ہے اور منزل مقصود پر پہنچاتا ہے.پھر افسوس ہے اس جاندار پر جو اپنے ساتھ کسی کو بھی کھینچ نہیں سکتا.انسان کو خدا تعالیٰ نے بڑی بڑی طاقتیں بخشی ہیں.اس کے اندر طاقتوں کا ایک خزانہ خدا تعالیٰ نے رکھ دیا ہے لیکن وہ کسل کے ساتھ اپنی طاقت کو ضائع کر دیتا ہے اور عورت سے بھی گیا گزرا ہو جاتا ہے.قاعدہ ہے کہ جن قومی کا استعمال نہ کیا جائے وہ رفتہ رفتہ ضائع ہو جاتے ہیں.اگر چالیس دن تک کوئی شخص تاریکی میں رہے تو اس کی آنکھوں کا نور جاتارہتا ہے.البدر جلد ۶ نمبر ۱۱ مورخہ ۱۴ / مارچ ۱۹۰۷ ء صفحه ۶) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَ آمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَّحْمَتِهِ وَ يَجْعَلْ لَكُمْ نُورًا تَمُشُونَ بِهِ وَيَغْفِرُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيم (۲۹) يَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْمون یه.....تمہارے لئے ایک نور مقرر کر دے گا (یعنی روح القدس ) جو تمہارے ساتھ چلے گا.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۹۷) اے ایمان لانے والو اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کے لئے انتقاء کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خدا تعالیٰ تم میں اور تمہارے غیروں میں فرق رکھ دے گاوہ فرق یہ ہے کہ تم کو ایک نور دیا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۳۷۴ سورة الحديد جائے گا جس نور کے ساتھ تم اپنی تمام راہوں میں چلو گے یعنی وہ نو ر تمہارے تمام افعال اور اقوال اور قومی اور حواس میں آ جائے گا تمہاری عقل میں بھی نور ہوگا اور تمہاری ایک انکل کی بات میں بھی نور ہوگا اور تمہاری آنکھوں میں بھی نور ہوگا اور تمہارے کانوں اور تمہاری زبانوں اور تمہارے بیانوں اور تمہاری ہر ایک حرکت اور سکون میں نو ر ہوگا اور جن راہوں میں تم چلو گے وہ راہ نورانی ہو جائیں گی.غرض جتنی تمہاری راہیں تمہارے ہو جاتا ہے.قومی کی راہیں تمہارے حواس کی راہیں ہیں وہ سب نور سے بھر جائیں گی اور تم سراپا نور میں ہی چلو گے.اب اس آیت سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ تقویٰ سے جاہلیت ہرگز جمع نہیں ہو سکتی ہاں فہم اور ادراک حسب مراتب تقوی کم و بیش ہو سکتا ہے اسی مقام سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بڑی اور اعلیٰ درجہ کی کرامت جو اولیاء اللہ کو دی جاتی ہے جن کو تقویٰ میں کمال ہوتا ہے وہ یہی دی جاتی ہے کہ ان کے تمام حواس اور عقل اور فہم اور قیاس میں نور رکھا جاتا ہے اور ان کی قوت کشفی نور کے پانیوں سے ایسی صفائی حاصل کر لیتی ہے کہ جو دوسروں کو نصیب نہیں ہوتی ان کے حواس نہایت باریک بین ہو جاتے ہیں اور معارف اور دقائق کے پاک چشمے ان پر کھولے جاتے ہیں اور فیض سائغ ربانی ان کے رگ وریشہ میں خون کی طرح جاری ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۷۷ تا ۱۷۹) تمہیں ایک نور عطا کیا جائے گا جو تمہارے غیر میں ہرگز نہیں پایا جائے گا یعنی نورالہام اور نور اجابت دعا اور نور کرامت اصطفاء.وَ يَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ فَالنُّورُ | وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ - وه نور الَّذِى هُوَ الْأَمْرُ الْفَارِقُ بَيْنَ خَوَا عِبَادِ جو اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں اور دوسرے بندوں اللهِ وَبَيْنَ عِبَادِ اخَرِيْنَ هُوَ الْإِلْهَامُ میں فرق کرنے والا ہے وہ الہام اور کشف اور محمد نیت وَالْكَشْفُ وَالتَّحْدِيثُ وَعُلُومٌ غَامِضَةٌ ہے نیز ایسے گہرے اور دقیق مضامین ہیں جو اللہ تعالیٰ دَقِيقَةٌ تَنْزِلُ عَلَى قُلُوبِ الْخَوَاطِ مِنْ عِنْدِ اللہ کی جانب سے خاص بندوں کے دلوں پر نازل (حمامة البشری ، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه (۲۹۸) ہوتے ہیں.(ترجمہ از مرتب) ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۹۶) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَامِنُوا بِرَسُولِه بظاہر تویہ تحصیل حاصل معلوم ہوتی ہوگی لیکن جب حقیقت حال پر غور کی جاوے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ کئی مراتب ہوتے ہیں اس لئے اللہ تعالی تکمیل چاہتا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۲ء صفحہ ۷ )
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۳۷۵ سورة المجادلة بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة المجادلة بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ الَّذِينَ يُظْهِرُونَ مِنْكُمْ مِنْ نِسَا بِهِمْ مَا هُنَّ أُمَّهَتِهِمْ إِنْ أَمَهْتُهُمْ إِلَّا الَّى وَلَد نَهُمْ وَإِنَّهُمْ لَيَقُولُونَ مُنْكَرًا مِنَ الْقَوْلِ وَزُورًا وَ إِنَّ اللهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ وَ - الَّذِينَ يُظهِرُونَ مِنْ نِسَا بِهِمْ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَمَاسًا يتماشا ذَلِكُمْ تُوعَظُونَ بِهِ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَمَاشَا فَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتّينَ مِسْكِينا 609 ذلِكَ لِتُؤْمِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللهِ وَلِلْكَفِرِينَ عَذَابٌ اَلِيم.۵ جو شخص اپنی عورت کو ماں کہہ بیٹھے تو وہ حقیقت میں اس کی ماں نہیں ہو سکتی ان کی مائیں وہی ہیں جن سے وہ پیدا ہوئے سو یہ ان کی بات نا معقول اور سراسر جھوٹ ہے اور خدا معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے اور جو لوگ ماں کہہ بیٹھیں اور پھر رجوع کریں تو اپنی عورت کو چھونے سے پہلے ایک گردن آزاد کر دیں یہی خدائے خبیر کی طرف سے نصیحت ہے اور اگر گردن آزاد نہ کر سکیں تو اپنی عورت کو چھونے سے پہلے دو مہینہ کے روزے رکھیں اور اگر روزے نہ رکھ سکیں تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دیں.) آریہ دھرم ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۵۰)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة المجادلة الم تَرَ اَنَّ اللهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّبُوتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ ، مَا يَكُونُ مِنْ نَجو ثَلثَة الاهُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمُسَةٍ إِلا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلاَ أدنى مِنْ ذلِكَ وَلَا اكثر إلا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيِّمَةِ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِ شَيْءٍ عَلِيمٌ.کسی پوشیدہ مشورہ میں تین آدمی نہیں ہوتے جن کے ساتھ چوتھا خدانہیں ہوتا.(چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۹۷) تین شخص کوئی ایسا پوشیدہ مشورہ نہیں کرتے جس کا چوتھا خدا نہ ہواور نہ پانچ کرتے ہیں جن کا چھٹا خدا نہ ہو.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۹۷ حاشیه ) جب تین آدمی کوئی پوشیدہ باتیں کرتے ہیں تو چوتھا ان کا خدا ہوتا ہے اور جب پانچ کرتے ہیں تو چھٹا ان چشمه معرفت ، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۲۰) کا خدا ہوتا ہے.عرش مقام تنزیہیہ ہے اور اسی لئے خدا ہر جگہ حاضر ناظر ہے جیسا کہ فرماتا ہے...مَا يَكُونُ مِنْ اقام جلد ۱۲ نمبر ۲۰ مورخه ۲۲ مارچ ۱۹۰۸ صفحه ۲) وو تجوى قلقة إِلَّا هُوَ رَابِعُهم.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجْلِسِ فَأَفْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ لا وَإِذَا قِيلَ الشَّرُوا فَانْشُزُوا يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ درجتٍ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ج اگر مجلسوں میں تمہیں کہا جائے کہ کشادہ ہو کر بیٹھو یعنی دوسروں کو جگہ دو تو جلد جگہ کشادہ کر دو تا دوسرے بیٹھیں اور اگر کہا جائے کہ تم اُٹھ جاؤ تو پھر بغیر چون و چرا کے اُٹھ جاؤ.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۳۶) كتب الله لاغلِبنَ أَنَا وَ رُسُلِى إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ خدا نے یہی لکھا ہے کہ میں اور میرے پیغمبر غالب رہیں گے.خدا بڑی طاقت والا اور غالب ہے.(براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۲۵۰ حاشیہ نمبر ۱۱)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۷ سورة المجادلة خدا مقرر کر چکا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب ہوتے رہیں گے یہ آیت بھی ہر ایک زمانہ میں دائر اور عادت مستمرہ النبیہ کا بیان کر رہی ہے.یہ نہیں کہ آئندہ رسول پیدا ہوں گے اور خدا انہیں غالب کرے گا.بلکہ مطلب یہ ہے کہ کوئی زمانہ ہو حال یا استقبال یا گزشتہ سنت اللہ یہی ہے کہ رسول آخر کار غالب ہی الحق مباحثه و علی ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۶۳) ہو جاتے ہیں.خدا کا یہ قدیم نوشتہ ہے کہ میں اور میرے رسول غالب رہیں گے.وو انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۹) إنَّ الَّذِينَ يَكُونُونَ لِله فَيَكُونَ وہ لوگ جو خدا تعالی کے ہو جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کا اللهُ لَهُمْ أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللهِ هُمُ ہو جاتا ہے.تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے اولیا ء ہی الْغَالِبُونَ فِي مَالِ الْأَمْرِ عَلَى آخر کا راپنے مخالفوں پر غالب ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ نے الْمُخَالِفِيْنِ كَتَبَ اللهُ لاغلب انا ابتداء سے یہ لکھ چھوڑا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب وَرُسُلِي إِنَّ اللهَ لَا يُخْزِى عِبَادَةَ ہوتے رہیں گے.یقینا اللہ تعالیٰ اپنے مامور بندوں کو کبھی بے الْمَأْمُورِينَ مدد نہیں چھوڑتا.(ترجمہ از مرتب) انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۶۵) میں خدا سے یقینی علم پا کر کہتا ہوں کہ اگر یہ تمام مولوی اور ان کے سجادہ نشین اور ان کے ملہم اکٹھے ہو کر الہامی امور میں مجھ سے مقابلہ کرنا چاہیں تو خدا ان سب کے مقابل پر میری فتح کرے گا کیونکہ میں خدا کی طرف سے ہوں.پس ضرور ہے کہ بموجب آیت کریمہ كتب اللهُ لَاغْلِبَنَ آنَا وَرُسُلی میری فتح ہو.انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحه ۳۴۱، ۳۴۲) خدا نے ابتدا سے لکھ چھوڑا ہے اور اپنا قانون اور اپنی سنت قرار دے دیا ہے کہ وہ اور اُس کے رسول ہمیشہ غالب رہیں گے.پس چونکہ میں اُس کا رسول یعنی فرستادہ ہوں مگر بغیر کسی نئی شریعت اور نئے دعوے اور نئے نام کے بلکہ اسی نبی کریم خاتم الانبیاء کا نام پاکر اور اُسی میں ہو کر اور اُسی کا مظہر بن کر آیا ہوں.اس لئے میں کہتا ہوں کہ جیسا کہ قدیم سے یعنی آدم کے زمانہ سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک ہمیشہ مفہوم اس آیت کا سچا نکلتا آیا ہے ایسا ہی اب بھی میرے حق میں سچا نکلے گا.( نزول امسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۳۸۱٬۳۸۰) کیا یہ لوگ اپنی روگردانی سے خدا کے بچے ارادہ کو روک دیں گے جو ابتدا سے تمام نبی اس پر گواہی دیتے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۸ سورة المجادلة وو آئے ہیں نہیں بلکہ خدا کی یہ پیشگوئی عنقریب سچی ہونے والی ہے کہ كَتَبَ اللهُ لأَغْلِبَنَ آنَا وَ رُسُلی کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۸) یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اُس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور اُن کو غلبہ دیتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے كتب الله لاغلبنَ آنَا وَ رُسُلی اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اُس کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے اسی طرح خدا تعالیٰ قومی نشانوں کے ساتھ اُن کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اُس کی تخم ریزی انہیں کے ہاتھ سے کر دیتا ہے.(رساله الوصیت ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۴) خدا تعالیٰ کا یہ حتمی وعدہ ہے کہ جو لوگ اس کی طرف سے آتے ہیں وہ فریق مخالف پر غالب ہو جاتے ہیں.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۶۲) مقابلہ کے وقت خدا صادق کی مدد کرتا ہے كَتَبَ اللهُ لأَغْلِبَنَ آنَا وَ رُسُلى - الحکم جلد ۵ نمبر ۹ مورخه ۱۰ / مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۱۰) سچا خدا جس سے پیار کرتا ہے اس کی تائید کرتا ہے کیونکہ وہ خدا فرماتا ہے كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَّ أَنَا الحکم جلدے نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۲) وَرُسُلى - خدا تعالیٰ اپنے بندوں کا حامی ہو جاتا ہے.دشمن چاہتے ہیں کہ ان کو نسیت و نا بود کریں مگر وہ روز بروز ترقی پاتے ہیں اور اپنے دشمنوں پر غالب آتے جاتے ہیں جیسا کہ اس کا وعدہ ہے كتب الله لاغلبنَ أَنا وَرُسُلی یعنی خدا تعالیٰ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ضرور غالب رہیں گے.(البدر جلد ۲ نمبر ۱۴ مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۱۰۷) لفظ كتب سنت اللہ پر دلالت کرتا ہے یعنی یہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ وہ اپنے رسولوں کو ضرور ہی غلبہ دیا کرتا ہے.درمیانی دُشواریاں کچھ شئے نہیں ہوتیں اگر چہ وہ ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ ( التوبة : ۱۱۸ ) كا البدرجلد ۳ نمبر ۹ مورخہ یکم مارچ ۱۹۰۴ء صفحه ۴) وو مصداق ہی کیوں نہ ہوں.یا درکھو خدا کے بندوں کا انجام کبھی بد نہیں ہوا کرتا.اس کا وعدہ كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَ آنَا وَ رُسُلی بالکل سچا ہے اور یہ اسی وقت پورا ہوتا ہے جب لوگ اس کے رسولوں کی مخالفت کریں.البدر جلد ۳ نمبر ۱۱ مورخه ۱۶/ مارچ ۱۹۰۴ء صفحه ۱۱)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۷۹ سورة المجادلة لا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَ اللهَ وَرَسُولَهُ وَ b لَو كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَبِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحِ مِنْهُ وَيُدخِلْهُمْ جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهرُ خَلِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَبِكَ حِزْبُ اللهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ المُفْلِحُونَ اُن مومنوں کے دلوں میں خدا تعالیٰ نے ایمان کو لکھ دیا اور روح القدس سے ان کو مدددی.دل میں ایمان کے لکھنے سے یہ مطلب ہے کہ ایمان فطرتی اور طبعی ارادوں میں داخل ہو گیا اور مجز وطبیعت بن گیا اور کوئی تکلف اور تصنع درمیان نہ رہا.اور یہ مرتبہ کہ ایمان دل کے رگ وریشہ میں داخل ہو جائے اُس وقت انسان کو ملتا ہے کہ جب انسان روح القدس سے مؤید ہو کر ایک نئی زندگی پاوے اور جس طرح جان ہر وقت جسم کی محافظت کے لئے جسم کے اندر رہتی ہے اور اپنی روشنی اُس پر ڈالتی رہتی ہے اسی طرح اس نئی زندگی کی روح القدس بھی اندر آباد ہو جائے اور دل پر ہر وقت اور ہر لحفظہ اپنی روشنی ڈالتی رہے اور جیسے جسم جان کے ساتھ ہر وقت زندہ ہے دل اور تمام روحانی قومی روح القدس کے ساتھ زندہ ہوں اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے بعد بیان کرنے اس بات کے کہ ہم نے اُن کے دلوں میں ایمان کو لکھ دیا یہ بھی بیان فرمایا کہ روح القدس سے ہم نے ان کو تائید دی کیونکہ جبکہ ایمان دلوں میں لکھا گیا اور فطرتی حروف میں داخل ہو گیا تو ایک نئی پیدائش انسان کو حاصل ہوگئی اور یہ نئی پیدائش بجز تائید روح القدس کے ہر گز نہیں مل سکتی.رُوح القدس کا نام اسی لئے روح القدس ہے کہ اُس کے داخل ہونے سے ایک پاک روح انسان کو مل جاتی ہے.قرآن کریم روحانی حیات کے ذکر سے بھرا پڑا ہے اور جابجا کامل مومنوں کا نام احیاء یعنی زندے اور کفار کا نام اموات یعنی مردے رکھتا ہے.یہ اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ کامل مومنوں کو روح القدس کے دخول سے ایک جان مل جاتی ہے اور کفار گو جسمانی طور پر حیات رکھتے ہیں مگر اُس حیات سے بے نصیب ہیں جو دل اور دماغ کو ایمانی زندگی بخشتی ہے.اس جگہ یاد رکھنا چاہیئے کہ اس آیت کریمہ کی تائید میں احادیث نبویہ میں جا بجا بہت کچھ ذکر ہے اور بخاری میں ایک حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے ہے اور وہ یہ ہے.أَنَّ رَسُولَ اللہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَعَ لِحَشَانَ ابْنِ ثَابِتٍ مِنْبَرًا فِي الْمَسْجِدِ فَكَانَ يُنَافِعُ عَنْ رَسُولِ اللهِ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۰ سورة المجادلة صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ أَيْلٌ حَسَّانَ بِرُوحِ الْقُدُسِ كَمَا نَافَحَ عَن نَبِيَّكَ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان بن ثابت کے لئے مسجد میں منبر رکھا اور حستان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کفار سے جھگڑتا تھا اور اُن کی ہجو کا مدح کے ساتھ جواب دیتا تھا پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان کے حق میں دعا کی اور فرمایا کہ یا الہی حستان کو روح القدس کے ساتھ یعنی جبرائیل کے ساتھ مدد کر اور ابو داؤد نے بھی ابن سیرین سے اور ایسا ہی ترمذی نے بھی یہ حدیث لکھی ہے اور اُس کو حسن صحیح کہا ہے.اور بخاری اور مسلم میں بطول الفاظ یہ حدیث بھی موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حستان کو کہا آجِبْ عَلَى اللَّهُمَّ آنِدَهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ یعنی میری طرف سے (اے حسان ) کفار کو جواب دے یا الہی اس کی روح القدس سے مدد فرما.ایسا ہی حسان کے حق میں ایک یہ بھی حدیث ہے هَاجِهِمْ وَجِبْرَائِيلُ مَعَكَ یعنی اے حسان کفار کی بدگوئی کا بدگوئی کے ساتھ جواب دے اور جبرائیل تیرے ساتھ ہے.اب ان احادیث سے ثابت ہوا کہ حضرت جبرائیل حستان کے ساتھ رہتے تھے اور ہر دم اُن کے رفیق تھے اور ایسا ہی یہ آیت کریمہ بھی کہ ایدَهُمْ بِرُوحِ مِنْهُ صاف اور کھلے کھلے طور پر بتلا رہی ہے کہ روح القدس مومنوں کے ساتھ رہتا تھا.کیونکہ اسی قسم کی آیت جو حضرت عیسی کے حق میں آئی ہے یعنی وَ ايَّدُ نَهُ بروح القدس اس کی تفسیر میں تمام مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ روح القدس ہر وقت قرین اور رفیق حضرت عیسی کا تھا اور ایک دم بھی اُن سے جدا نہیں ہوتا تھا دیکھو تفسیر حسینی ، تفسیر مظہری ، تفسیر عزیزی، معالم، ابن کثیر وغیرہ اور مولوی صدیق حسن فتح البیان میں اس آیت کی تفسیر میں یہ عبارت لکھتے ہیں وَ تَكَانَ جِبْرَائِيلُ يَسِيرُ مَعَ عِيسَى حَيْثُ سَارَ فَلَمْ يُفَارِقُهُ حَتَّى صَعِدَ بِهِ إِلَى السَّمَاء یعنی جبرائیل ہمیشہ حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ ہی رہتا تھا ایک طرفۃ العین بھی اُن سے جدا نہیں ہوتا تھا یہاں تک کہ ان کے ساتھ ہی آسمان پر گیا.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۰۰ تا ۱۰۵) خدا نے مومنوں کے دل میں ایمان کو اپنے ہاتھ سے لکھ دیا ہے اور روح القدس کے ساتھ ان کی مدد کی.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۷۹) ايد هُم بِرُوحِ مِنْهُ یعنی خدائے تعالیٰ مومنوں کو روح قدس سے تائید کرتا ہے.سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۸۵ حاشیه )
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۱ سورة المجادلة خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے ابتلاء کے طور پر دو روحانی داعی مقرر کر رکھے ہیں ایک داعی خیر جس کا نام روح القدس ہے اور ایک داعی شتر کا نام ابلیس اور شیطان ہے.یہ دونوں داعی صرف خیر یا شر کی طرف بلاتے رہتے ہیں مگر کسی بات پر جبر نہیں کرتے.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۸۰ ۸۱ حاشیه ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے حق میں فرماتا ہے وَ آيَدَهُمْ بِرُوحِ مِنْهُ یعنی ان کو 9 روح القدس کے ساتھ مدددی اور روح القدس کی مدد یہ ہے کہ دلوں کو زندہ کرتا ہے اور روحانی موت سے نجات بخشتا ہے اور پاکیزہ قو تیں اور پاکیزہ حواس اور پاک علم عطا فرماتا ہے اور علوم یقینیہ اور براہین قطعیہ سے خدا تعالی کے مقام قرب تک پہنچا دیتا ہے.کیونکہ اس کے مقرب وہی ہیں جو یقینی طور پر جانتے ہیں کہ وہ ہے اور یقینی طور پر جانتے ہیں کہ اس کی قدرتیں اور اس کی رحمتیں اور اس کی عقوبتیں اور اس کی عدالتیں سب سچ ہیں اور وہ جمیع فیوض کا مبداء اور تمام نظام عالم کا سر چشمہ اور تمام سلسلہ موثرات اور متاثرات کا علت العلل ہے مگر متصرف بالا رادہ جس کے ہاتھ میں کل ملکوت السموات والارض ہے اور یہ علوم جو مدار نجات ہیں یقینی اور قطعی طور پر بجز اس حیات کے حاصل نہیں ہو سکتے جو بتوسط روح القدس انسان کو ملتی ہے اور قرآن کریم کا بڑے زور شور سے یہ دعوی ہے کہ وہ حیات روحانی صرف متابعت اس رسول کریم سے ملتی ہے اور تمام وہ لوگ جو اس نبی کریم کی متابعت سے سرکش ہیں وہ مردے ہیں جن میں اس حیات کی روح نہیں ہے اور حیات روحانی سے مراد انسان کے وہ علمی اور عملی قومی ہیں جو روح القدس کی تائید سے زندہ ہو جاتے ہیں اور قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ جن احکام پر اللہ جل شانہ انسان کو قائم کرنا چاہتا ہے وہ چھ سو ہیں ایسا ہی اس کے مقابل پر جبرائیل علیہ السلام کے پر بھی چھ سو ہیں اور بیضہ بشریت جب تک چھ سو حکم کو سر پر رکھ کر جبرائیل کے پروں کے نیچے نہ آوے اس میں فنا فی اللہ ہونے کا بچہ پیدا نہیں ہوتا اور انسانی حقیقت اپنے اندر چھ سو بیضہ کی استعداد رکھتی ہے.پس جس شخص کا چھ سو بیضہ استعداد جبرائیل کے چھ سو پر کے نیچے آ گیا وہ انسان کامل اور یہ تولد اس کا تولد کامل اور یہ حیات حیات کامل ہے اور غور کی نظر سے معلوم ہوتا ہے کہ بیضہ بشریت کے روحانی بچے جو روح القدس کی معرفت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت کی برکت سے پیدا ہوئے وہ اپنی کمیت اور کیفیت اور صورت اور نوع اور حالت میں تمام انبیاء کے بچوں سے اتم اور اکمل ہیں.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۹۴ تا ۱۹۷) کلمہ اور روح کا لفظ عام ہے حضرت مسیح کی کوئی خصوصیت اس میں نہیں ہے يُؤْمِنُ بِاللهِ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۲ سورة المجادلة وَكَلِمٰتِه (الاعراف : ۱۵۹) اب اللہ تعالیٰ کے کلمات تو لا انتہا ہیں اور ایسا ہی صحابہ کی تعریف میں آیا ہے ايد هم يروح منہ پھر سیخ کی کیا خصوصیت رہی.الحکم جلد نمبر ۱۶ مورخه ۱/۳۰ پریل ۱۹۰۳ صفحه ۸) جسمانی علوم پر نازاں ہونا حماقت ہے.چاہیے کہ تمہاری طاقت روح کی طاقت ہو.خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے سائنس یا فلسفہ یا منطق پڑھایا اور ان سے مدد دی بلکہ یہ کہ أَيَّدَهُم بِرُوحِ مِنْهُ یعنی اپنی روح سے مدد دی.صحابہ امی تھے.ان کا نبی ( سیدنا محمد علیہ الصلوۃ والسلام ) بھی امی.مگر جو پر حکمت باتیں انہوں نے بیان کیں وہ بڑے بڑے علماء کو نہیں سو جھیں.کیونکہ ان پر خدا کی خاص تائید تھی.تقوی وطہارت و پاکیزگی سے اندرونی طور سے مدد ملتی ہے.یہ جسمانی علوم کے ہتھیار کمزور ہتھیار ہیں ممکن بلکہ اغلب ہے کہ مخالف کے پاس ان سے بھی زیادہ تیز ہتھیار ہوں پس ہتھیار وہ چاہیے جس کا مقابلہ دشمن نہ کر سکے.وہ ہتھیار سچی تبدیلی و دل کا تقدس و تعلیم ہے.البدر جلد نمبر ۱۹ ۲۰ مورخه ۲۴ مئی ۱۹۰۸ء صفحه ۳) دیکھو اللہ تعالیٰ نے بعض کا نام سابق مہاجر اور انصار رکھا ہے اور ان کو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ میں داخل کیا ہے.یہ وہ لوگ تھے جو سب سے پہلے ایمان لائے اور جو بعد میں ایمان لائے ان کا نام صرف ناس رکھا ہے جیسے فرما یا إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَزْوَاجًا ( النصر :٣،٢) یہ لوگ جو اسلام میں داخل ہوئے اگر چہ وہ مسلمان تھے مگر ان کو مراتب نہیں ملے جو پہلے لوگوں کو دیئے گئے.الحاکم جلدے نمبر ۲۶ مورخہ ۷ ارجولائی ۱۹۰۳ صفحہ ۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کو دیکھو کہ انہوں نے بکریوں کی طرح اپنا خون بہا دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ایسے گم ہو گئے تھے کہ وہ اس کے لئے ہر ایک تکلیف اور مصیبت اُٹھانے کو ہر وقت طیار تھے.انہوں نے یہاں تک ترقی کی کہ رضيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ کا سرٹیفیکیٹ ان کو دیا گیا.الحکم جلد ۸ نمبرے مورخه ۲۴ فروری ۱۹۰۴ صفحه ۲) وہ جماعت ( جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں کیا ہے کہ انہوں نے ایسے اعمال صالحہ کیسے کہ خدا تعالیٰ اُن سے راضی ہو گیا اور وہ خدا تعالیٰ سے راضی ہو گئے ) صرف ترک بدی ہی سے نہ بنی تھی.انہوں نے اپنی زندگیوں کو خدا کی رضا حاصل کرنے کے لیے بیج سمجھا.خدا کی مخلوق کو نفع پہنچانے کے واسطے اپنے آرام و آسائش کو ترک کر دیا.تب جا کر وہ ان مدارج اور مراتب پر پہنچے کہ آواز آ گئی رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام وَرَضُوا عَنْهُ - ۳۸۳ سورة المجادلة الحکم جلد ۹ نمبر ۲ مورخه ۱۷ جنوری ۱۹۰۵ء صفحه ۳) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مقابلہ میں حواریوں کو پیش کرتے ہوئے بھی شرم آجاتی ہے.حواریوں کی تعریف میں ساری انجیل میں ایک بھی ایسا فقرہ نظر نہ آئے گا.کہ انہوں نے میری راہ میں جان دے دی.بلکہ برخلاف اس کے ان کے اعمال ایسے ثابت ہوں گے جس سے معلوم ہو کہ وہ حد درجہ کے غیر مستقل مزاج ، غدار اور بے وفا اور دنیا پرست تھے اور صحابہ کرام نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی راہ میں وہ صدق دکھلایا کہ انہیں رضی اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ کی آواز آ گئی.یہ اعلیٰ درجہ کا مقام ہے.جو صحابہ کو حاصل ہوا.یعنی اللہ تعالیٰ اُن سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہو گئے.اس مقام کی خوبیاں اور کمالات الفاظ میں ادا نہیں ہو سکتے.اللہ تعالیٰ سے راضی ہو جانا ہر شخص کا کام نہیں بلکہ یہ توکل ہمبتل اور رضا و تسلیم کا اعلیٰ مقام ہے جہاں پہنچ کر انسان کو کسی قسم کا شکوہ اور شکایت اپنے مولیٰ سے نہیں رہتی اور اللہ تعالیٰ کا اپنے بندہ سے راضی ہونا یہ موقوف ہے بندے کے کمال صدق و وفاداری اور اعلی درجہ کی پاکیزگی اور طہارت اور کامل اطاعت پر جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نے معرفت اور سلوک کے تمام مدارج طے کر لیے تھے.اس کا نمونہ حواریوں میں اگر تلاش کریں تو ہر گز نہیں مل سکتا.پس ترے سلپ امراض پر خوش ہو جانا یہ کوئی دانشمندی نہیں ہے اور روحانی کمالات کا شیدائی ان باتوں پر خوش نہیں ہوسکتا.اس لیے میں تمہارے لیے یہی پسند کرتا ہوں کہ تم اپنے دل کو پاک کرو اور خدا تعالیٰ کے ساتھ ایسے تعلقات پیدا کرو کہ وہ مولیٰ کریم تم سے راضی ہو جاوے اور تم اس سے راضی ہو جاؤ.پھر وہ تمہارے جسم میں تمہاری باتوں میں ایسی برکت رکھ دے گا.جو سلب امراض کرنے والے بھی انہیں دیکھ کر حیران اور شرمندہ ہوں گے.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۹ مورخه ۳۱ رمئی ۱۹۰۵ء صفحه ۹) جو جماعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو میسر آئی تھی اور جس نے آپ کی قوت قدسی سے اثر پایا تھا اس کے لیے قرآن شریف میں آیا ہے رضيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ اس کا سبب کیا ہے؟ یہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کا نتیجہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وجوہ فضیلت میں سے یہ بھی ایک وجہ ہے کہ آپ نے ایسی اعلیٰ درجہ کی جماعت طیار کی.میرا دعویٰ ہے کہ ایسی جماعت آدم سے لے کر آخر تک کسی کو نہیں ملی.الحکم جلد ۱۰ نمبر امورخه ۱۰ر جنوری ۱۹۰۶ صفحه ۳) صحابہ کی جو تکمیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کی وہ اس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ان کی نسبت
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۴ سورة المجادلة فرماتا ہے مِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ ( الاحزاب : ۲۴) الآیۃ اور پھر ان کی نسبت رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْہ فرمایا.الحکم جلد ۱۰ نمبر ۲۷ مورخہ ۳۱؍ جولائی ۱۹۰۶ صفحه ۴) صحابہ کرام کا میابی کے ساتھ تخت خلافت کو مقررہ وقت تک زیب دے کر اپنی اپنی خدمات بجا لا کر بڑی کامیابی اور اللہ تعالیٰ کی رضوان لے کر چل بسے اور جنات و عیون جو آخرت میں ان کے واسطے مقرر تھے اور وعدے تھے وہ ان کو عطا ہو گئے.احکم جلد ۱۲ نمبر ۲۰ مورخه ۲۲ مارچ ۱۹۰۸ صفحه ۳)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ ۳۸۵ سورة الحشر بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الحشر بیان فرموده سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ مَا اَفَاءَ اللهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ اَهْلِ الْقُرَى فَلِلّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُربى و الْيَتَى وَالْمَسْكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَى لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمُ ، وَمَا الكم الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ شَدِيدُ وو العقاب.مَا الكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهُكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا یعنی رسول جو کچھ تمہیں علم ومعرفت عطا کرے وہ لے لو اور جس سے منع کرے وہ چھوڑ دو.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۳۶) مَا الكُمُ الرَّسُولُ کا حکم بغیر کسی قید اور شرط کے نہیں.اول یہ تو دیکھ لینا چاہئے کہ کوئی حدیث فی الواقع ما اشکم میں داخل ہے یا نہیں.ما اتکم میں تو وہ داخل ہو گا جس کو ہم شناخت کرلیں کہ در حقیقت رسول نے اس کو دیا ہے اور جب تک پورے طور پر اطمینان نہ ہو تو کیا یہ جائز ہے کہ حدیث کا نام سننے سے ما الكم میں اس کو داخل کر دیں.و الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۱۰۷) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَ لَتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۶ سورة الحشر و وام اے ایمان والو خدا سے ڈرتے رہو اور ہر یک تم میں سے دیکھتا رہے کہ میں نے اگلے جہان میں کون سا مال بھیجا ہے اور اس خدا سے ڈرو جو خبیر اور علیم ہے اور تمہارے اعمال دیکھ رہا ہے یعنی وہ خوب جاننے والا اور پر کھنے والا ہے اس لئے وہ تمہارے کھوٹے اعمال ہر گز قبول نہیں کرے گا.ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۶،۲۲۵) لَو اَنْزَلْنَا هُذَا الْقُرْآنَ عَلَى جَبَلٍ تَرَاَيْتَهُ خَاشِعًا مُتَصَدِّعًا مِنْ خَشْيَةِ اللهِ وَ تِلْكَ الأمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ یہ قرآن جو تم پر اُتارا گیا اگر کسی پہاڑ پر اُتارا جاتا تو وہ خشوع اور خوف الہی سے ٹکڑہ ٹکڑہ ہو جا تا اور یہ مثالیں ہم اس لیے بیان کرتے ہیں تا لوگ کلام الہی کی عظمت معلوم کرنے کے لئے غور اور فکر کریں.سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۶۳ ) ایک تو اس کے یہ معنے ہیں کہ قرآن شریف کی ایسی تاثیر ہے کہ اگر پہاڑ پر وہ اتر تا تو پہاڑ خوف خدا سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا اور زمین کے ساتھ مل جاتا.جب جمادات پر اس کی ایسی تاثیر ہے تو بڑے ہی بے وقوف وہ لوگ ہیں جو اس کی تاثیر سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور دوسرے اس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص محبت الہی اور رضائے الہی کو حاصل نہیں کر سکتا.جب تک دو صفتیں اس میں پیدا نہ ہو جائیں.اول تکبر کو توڑنا جس طرح کہ کھڑا ہوا پہاڑ جس نے سر اونچا کیا ہوا ہوتا ہے گر کر زمین سے ہموار ا ہو جائے.اسی طرح انسان کو چاہیے کہ تمام تکبر اور بڑائی کے خیالات کو دور کرے.عاجزی اور خاکساری کو اختیار کرے اور دوسرا یہ ہے کہ پہلے تمام تعلقات اس کے ٹوٹ جائیں جیسا کہ پہاڑ گر کر متصدعا ہو جاتا ہے.اینٹ سے اینٹ جدا ہو جاتی ہے.ایسا ہی اس کے پہلے تعلقات جو موجب گندگی اور الہی نارضا مندی کے تھے وہ سب تعلقات ٹوٹ جائیں اور اب اس کی ملاقاتیں اور دوستیاں اور محبتیں اور عداوتیں صرف اللہ تعالی کے لئے رہ جائیں.الحکم جلد ۵ نمبر ۲۱ مورخه ۱۰رجون ۱۹۰۱ صفحه ۹)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۷ سورة الحشر هُوَ اللهُ الَّذِى لَا إِلَهَ إِلا هُوَ عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِيمُ لا اله الاهو.....وہی ایک سب کا رب ہے.ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۳) وہ خدا جو واحد لاشریک ہے جس کے سوا کوئی بھی پرستش اور فرمانبرداری کے لائق نہیں.یہ اس لئے فرمایا کہ اگر وہ لاشریک نہ ہو تو شاید اس کی طاقت پر دشمن کی طاقت غالب آ جائے.اس صورت میں خدائی معرض خطرہ میں رہے گی.اور یہ جو فرمایا کہ اس کے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں اس سے یہ مطلب ہے کہ وہ ایسا کامل خدا ہے جس کی صفات اور خوبیاں اور کمالات ایسے اعلیٰ اور بلند ہیں کہ اگر موجودات میں سے بوجہ صفات کاملہ کے ایک خدا انتخاب کرنا چاہیں یا دل میں عمدہ سے عمدہ اور اعلیٰ سے اعلیٰ خدا کی صفات فرض کریں تو سب سے اعلیٰ جس سے بڑھ کر کوئی اعلیٰ نہیں ہو سکتا.وہی خدا ہے جس کی پرستش میں ادنی کو شریک کرنا ظلم ہے.پھر فرمایا کہ عالم الغیب ہے یعنی اپنی ذات کو آپ ہی جانتا ہے اس کی ذات پر کوئی احاطہ نہیں کر سکتا.ہم آفتاب اور ماہتاب اور ہر ایک مخلوق کا سرا پا دیکھ سکتے ہیں مگر خدا کا سرا پا دیکھنے سے قاصر ہیں.پھر فرمایا کہ وہ عالم الشهادة ہے یعنی کوئی چیز اس کی نظر سے پردہ میں نہیں ہے.یہ جائز نہیں کہ وہ خدا کہلا کر پھر علم اشیاء سے غافل ہو.وہ اس عالم کے ذرہ ذرہ پر اپنی نظر رکھتا ہے لیکن انسان نہیں رکھ سکتا.وہ جانتا ہے کہ کب اس نظام کو توڑ دے گا اور قیامت برپا کر دے گا.اور اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ ایسا کب ہو گا ؟ سو وہی خدا ہے جو ان تمام وقتوں کو جانتا ہے.پھر فرمایا ھو الحمنُ یعنی وہ جانداروں کی ہستی اور ان کے اعمال سے پہلے محض اپنے لطف سے نہ کسی غرض سے اور نہ کسی عمل کی پاداش میں ان کے لئے سامان راحت میسر کرتا ہے.جیسا کہ آفتاب اور زمین اور دوسری تمام چیزوں کو ہمارے وجود اور ہمارے اعمال کے وجود سے پہلے ہمارے لئے بنا دیا.اس عطیہ کا نام خدا کی کتاب میں رحمانیت ہے.اور اس کام کے لحاظ سے خدائے تعالیٰ رحمن کہلاتا ہے.اور پھر فرمایا کہ الرّحیم یعنی وہ خدا نیک عملوں کی نیک تر جزا دیتا ہے اور کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا اور اس کام کے لحاظ سے رحیم کہلاتا ہے.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۷۲، ۳۷۳) ورد هُوَ اللهُ الَّذِى لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبُحْنَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ.الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ یعنی وہ خدا بادشاہ ہے جس پر کوئی داغ عیب نہیں.یہ ظاہر ہے کہ انسانی بادشاہت عیب
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۸ سورة الحشر سے خالی نہیں.اگر مثلاً تمام رعیت جلا وطن ہو کر دوسرے ملک کی طرف بھاگ جاوے تو پھر بادشاہی قائم نہیں رہ سکتی یا اگر مثلاً تمام رعیت قحط زدہ ہو جائے تو پھر خراج شاہی کہاں سے آئے اور اگر رعیت کے لوگ اس سے بحث شروع کر دیں کہ تجھے میں ہم سے زیادہ کیا ہے تو وہ کون سی لیاقت اپنی ثابت کرے.پس خدا تعالیٰ کی بادشاہی ایسی نہیں ہے.وہ ایک دم میں تمام ملک کو فنا کر کے اور مخلوقات پیدا کر سکتا ہے.اگر وہ ایسا خالق اور قادر نہ ہوتا تو پھر بجر ظلم کے اس کی بادشاہت چل نہ سکتی.کیونکہ وہ دنیا کو ایک مرتبہ معافی اور نجات دے کر پھر دوسری دنیا کہاں سے لاتا.کیا نجات یافتہ لوگوں کو دنیا میں بھیجنے کے لئے پھر پکڑتا اور ظلم کی راہ سے اپنی معافی اور نجات دہی کو واپس لیتا ؟ تو اس صورت میں اس کی خدائی میں فرق آتا اور دنیا کے بادشاہوں کی طرح داغدار بادشاہ ہوتا جو دنیا کے لئے قانون بناتے ہیں.بات بات میں بگڑتے ہیں اور اپنی خود غرضی کے وقتوں پر جب دیکھتے ہیں کہ ظلم کے بغیر چارہ نہیں تو ظلم کو شیر مادر سمجھ لیتے ہیں.مثلاً قانون شاہی جائز رکھتا ہے کہ ایک جہاز کو بچانے کے لئے ایک کشتی کے سواروں کو تباہی میں ڈال دیا جائے اور ہلاک کیا جائے مگر خدا کو تو یہ اضطرار پیش نہیں آنا چاہئے.پس اگر خدا پورا قادر اور عدم سے پیدا کرنے والا نہ ہوتا تو یا تو وہ کمز ور راجوں کی طرح قدرت کی جگہ ظلم سے کام لیتا اور یا عادل بن کر خدائی کو ہی الوادع کہتا.بلکہ خدا کا جہاز تمام قدرتوں کے ساتھ بچے انصاف پر چل رہا ہے.پھر فرمایا السّلام یعنی وہ خدا جو تمام عیبوں اور مصائب اور سختیوں سے محفوظ ہے بلکہ سلامتی دینے والا ہے.اس کے معنے بھی ظاہر ہیں کیونکہ اگر وہ آپ ہی مصیبتوں میں پڑتا لوگوں کے ہاتھ سے مارا جاتا اور اپنے ارادوں میں ناکام رہتا تو پھر اس بد نمونہ کو دیکھ کر کس طرح دل تسلی پکڑتے کہ ایسا خدا ہمیں ضرور مصیبتوں سے چھڑا دے گا....اور پھر فرمایا کہ خدا امن کا بخشنے والا اور اپنے کمالات اور توحید پر دلائل قائم کرنے والا ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بچے خدا کا ماننے والا کسی مجلس میں شرمندہ نہیں ہوسکتا اور نہ خدا کے سامنے شرمندہ ہو گا کیونکہ اس کے پاس زبردست دلائل ہوتے ہیں.لیکن بناوٹی خدا کا ماننے والا بڑی مصیبت میں ہوتا ہے.وہ بجائے دلائل بیان کرنے کے ہر ایک بیہودہ بات کو راز میں داخل کرتا ہے تاہنسی نہ ہو اور ثابت شدہ غلطیوں کو چھپانا چاہتا ہے.اور پھر فرمایا کہ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبر یعنی وہ سب کا محافظ ہے اور سب پر غالب اور بگڑے ہوئے کاموں کا بنانے والا ہے.اور اس کی ذات نہایت ہی مستغنی ہے.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۷۴،۳۷۳)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۸۹ سورة الحشر هُوَ اللهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَوتِ وَ الْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ.۲۵ یعنی وہ ایسا خدا ہے کہ جسموں کا بھی پیدا کرنے والا اور روحوں کا بھی پیدا کرنے والا.رحم میں تصویر کھینچنے والا ہے.تمام نیک نام جہاں تک خیال میں آ سکیں سب اُسی کے نام ہیں.اور پھر فرمایا سبحُ لَهُ مَا فِي السَّمواتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ.یعنی آسمان کے لوگ بھی اس کے نام کو پاکی سے یاد کرتے ہیں اور زمین کے لوگ بھی.اس آیت میں اشارہ فرمایا کہ آسمانی اجرام میں آبادی ہے اور وہ لوگ بھی پابند خدا کی ہدایتوں کے ہیں.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۷۵) ضرورت خالقیت باری تعالیٰ کو دلائل قطعیہ سے ثابت کرتے ہوئے فرماتے ہیں.) دلیل چہارم.قرآن مجید میں بذریعہ مادہ قیاس اقترانی قائم کی گئی ہے.جاننا چاہئے کہ قیاس حجت کی تین قسموں میں سے پہلی قسم ہے.اور قیاس اقترانی وہ قیاس ہے کہ جس میں عین نتیجہ کا یا نقیض اس کی بالفعل مذکور نہ ہو بلکہ بالقوہ پائی جائے اور اقترانی اس جہت سے کہتے ہیں کہ حدود اس کے یعنی اصغر اور اوسط اور اکبر مقترن ہوتے ہیں اور بالعموم قیاس حجت کے تمام اقسام سے اعلیٰ اور افضل ہے کیونکہ اس میں کلی کے حال سے جزئیات کے حال پر دلیل پکڑی جاتی ہے کہ جو باعث استیفا تام کے مفید یقین کامل کے ہے.پس وہ قیاس کہ جس کی اتنی تعریف ہے اس آیت شریفہ میں درج ہے اور ثبوت خالقیت باری تعالی میں گواہی دے رہا ہے دیکھو سورہ الحشر جز و ۲۸ - هُوَ اللهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنٰی وہ اللہ خالق ہے یعنی پیدا کنندہ ہے وہ باری ہے یعنی روحوں اور اجسام کو عدم سے وجود بخشنے والا ہے وہ مصور ہے یعنی صورت جسمیہ اور صورت نوعیہ عطا کرنے والا ہے کیونکہ اس کے لئے تمام اسماء حسنہ ثابت ہیں یعنی جمیع صفات کا ملہ جو باعتبار کمال قدرت کے عقل تجویز کر سکتی ہے اس کی ذات میں جمع ہیں.لہذا نیست سے ہست کرنے پر بھی وہ قادر ہے.کیونکہ نیست سے ہست کرنا قدرتی کمالات سے ایک اعلی کمال ہے اور ترتیب مقدمات اس قیاس کی بصورت مشکل اول کے اس طرح پر ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ پیدا کرنا اور محض اپنی قدرت سے وجود بخشا ایک کمال ہے اور سب کمالات ذات کامل واجب الوجود کو حاصل ہیں.پس نتیجہ یہ ہوا کہ نیست سے ہست کرنے کا کمال بھی ذات باری کو حاصل ہے.ثبوت مفہوم صغریٰ کا یعنی اس بات کا کہ محض اپنی قدرت سے پیدا کرنا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۰ سورة الحشر ایک کمال ہے اس طرح پر ہوتا ہے کہ نقیض اس کی یعنی یہ امر کہ محض اپنی قدرت سے پیدا کرنے میں عاجز ہونا جب تک باہر سے کوئی مادہ آکر معاون اور مددگار نہ ہو ایک بھاری نقصان ہے کیونکہ اگر ہم یہ فرض کریں کہ مادہ موجودہ سب جابجا خرچ ہو گیا تو ساتھ ہی یہ فرض کرنا پڑتا ہے کہ اب خدا پیدا کرنے سے قطعا عاجز ہے حالانکہ ایسا نقص اس ذات غیر محدود اور قادر مطلق پر عائد کرنا گویا اس کی الوہیت سے انکار کرنا ہے.سوائے اس کے علم الہیات میں یہ مسئلہ بدلائل ثابت ہو چکا ہے کہ متجمع الکمالات ہونا واجب الوجود کا تحقق الوہیت کے واسطے شرط ہے یعنی یہ لازم ہے کہ کوئی مرتبہ کمال کا مراتب ممکن التصور سے جو ذہن اور خیال میں گزر سکتا ہے اس ذات کامل سے فوت نہ ہو.پس بلا شبہ عقل اس بات کو چاہتی ہے کہ کمال الوہیت باری تعالیٰ کا یہی ہے کہ سب موجودات کا سلسلہ اسی کی قدرت تک منتہی ہو نہ یہ کہ صفت قدامت اور ہستی حقیقی کے بہت سے شریکوں میں بٹی ہوئی ہو اور قطع نظر ان سب دلائل اور براہین کے ہر ایک سلیم الطبع سمجھ سکتا ہے کہ اعلیٰ کام بہ نسبت ادنی کام کے زیادہ تر کمال پر دلالت کرتا ہے پس جس صورت میں تالیف اجزاء عالم کمال الہی میں داخل ہے تو پھر پیدا کرنا عالم کا بغیر احتیاج اسباب کے جو کروڑہا درجہ زیادہ تر قدرت پر دلالت کرتا ہے کس قدر اعلیٰ کمال ہوگا.پس صغریٰ اس شکل کا بوجہ کامل ثابت ہوا.اور ثبوت کبری کا یعنی اس قضیہ کا کہ ہر ایک کمال ذات باری کو حاصل ہے اس طرح پر ہے کہ اگر بعض کمالات ذات باری کو حاصل نہیں تو اس صورت میں یہ سوال ہوگا کہ محرومی ان کمالات سے بخوشی خاطر ہے یا یہ مجبوری ہے.اگر کہو کہ بخوشی خاطر ہے تو یہ جھوٹ ہے کیونکہ کوئی شخص اپنی خوشی سے اپنے کمال میں نقص روا نہیں رکھتا اور نیز جبکہ یہ صفت قدیم سے خدا کی ذات سے قطعاً مفقود ہے تو خوشی خاطر کہاں رہی.اور اگر کہو کہ مجبوری سے تو وجود کسی اور قاسر کا ماننا پڑا جس نے خدا کو مجبور کیا اور نفاذ اختیارات خدائی سے اس کو روکا یا یہ فرض کرنا پڑا کہ وہ قاسر اس کا اپنا ہی ضعف اور نا توانی ہے کوئی خارجی قاسر نہیں.بہر حال وہ مجبور ٹھہرا تو اس صورت میں وہ خدائی کے لائق نہ رہا.پس بالضرورت اس سے ثابت ہوا کہ خداوند تعالی داغ مجبوری سے کہ بطلان الوہیت کو مستلزم ہے پاک اور منزہ ہے اور صفت کا ملہ خالقیت اور عدم سے پیدا کرنے کی اس کو حاصل ہے اور یہی مطلب تھا.پرانی تحریریں روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۱ تا ۱۳ )
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ 92 ۳۹۱ سورة الممتحنة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سُورةُ المُهْتَحِنَةِ بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَءَوا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَ بَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ ، العَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ اَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَةٌ إِلَّا قَولَ إِبْرَهِيمَ لِأَبِيهِ لاسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا اَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللهِ مِنْ شَيْءٍ رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَ إِلَيْكَ (۵ انبنا و إليكَ الْمَصِيرُ چاہیئے کہ تم ہر وقت اپنا کام دیکھ کر کیا کرو.اگر کوئی چوڑھا اچھا کام کرے گا تو وہ بخشا جاوے گا اور اگر سید ہو کر کوئی برا کام کرے گا تو وہ دوزخ میں ڈالا جاوے گا.حضرت ابراہیم نے اپنے باپ کے واسطے دعا کی وہ منظور نہ ہوئی.حدیث میں آیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام قیامت کو کہیں گے کہ اے اللہ تعالیٰ میں اپنے باپ کو اس حالت میں دیکھ نہیں سکتا.مگر اس کو پھر بھی رسہ ڈال کر دوزخ کی طرف گھسیٹ کر ذلت کے ساتھ لے جاویں گے ( یہ عمل نہ ہونے کی وجہ سے ہے کہ پیغمبر کی سفارش بھی کارگر نہ ہوگی ) کیونکہ اس نے تکبر کیا تھا.پیغمبروں نے غریبی کو اختیار کیا.جوشخص غریبی کو اختیار کرے گا وہ سب سے اچھا رہے گا.البدر جلد ۲ نمبر ۲۷ مورخہ ۲۴ / جولائی ۱۹۰۳ ء صفحہ ۲۱۰)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۲ سورة الممتحنة لا يَنْكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُم فِي الدِّينِ وَ لَمْ يُخْرِجُوكُم مِّنْ b دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ نصاری وغیرہ سے جو خدا نے محبت کرنے سے ممانعت فرمائی تو اس سے یہ نہ سمجھو کہ وہ نیکی اور احسان اور ہمدردی کرنے سے تمہیں منع کرتا ہے.نہیں بلکہ جن لوگوں نے تمہارے قتل کرنے کے لئے لڑائیاں نہیں کیں اور تمہیں تمہارے وطنوں سے نہیں نکالا وہ اگر چہ عیسائی ہوں یا یہودی ہوں بے شک ان پر احسان کرو.ان سے ہمدردی کرو.انصاف کرو کہ خدا ایسے لوگوں سے پیار کرتا ہے.(نور القرآن نمبر ۲ ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۳۵) قرآن شریف نے تو اس امر کی بڑی وضاحت کر دی ہے کہ جنہوں نے تلوار سے مقابلہ کیا ان کا مقابلہ تلوار سے کیا جاوے اور جو لوگ الگ رہتے ہیں اور انہوں نے ایسی جنگوں میں کوئی حصہ نہیں لیا ان سے تم بھی جنگ مت کرو بلکہ ان سے بے شک احسان کرو اور ان کے معاملات میں عدل کیا کرو.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۲ مورخه ۲۶ مارچ ۱۹۰۸ء صفحه ۸) اِنَّمَا يَنْهكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ قَتَلُوكُمْ فِى الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَ ظهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَبِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ ) خدا نے جو تمہیں ہمدردی اور دوستی سے منع کیا ہے تو صرف ان لوگوں کی نسبت جنہوں نے دینی لڑائیاں تم سے کیں اور تمہیں تمہارے وطنوں سے نکالا اور بس نہ کیا.جب تک باہم مل کر تمہیں نکال نہ دیا.سو ان کی دوستی حرام ہے.کیونکہ یہ دین کو مٹانا چاہتے ہیں.اس جگہ یا در کھنے کے لائق ایک نکتہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تونی عربی زبان میں دوستی کو کہتے ہیں جس کا دوسرا نام مودت ہے اور اصل حقیقت دوستی اور مودت کی خیر خواہی اور ہمدردی ہے.سومومن نصاری اور یہود اور ہنود سے دوستی اور ہمدردی اور خیر خواہی کرسکتا ہے.احسان کر سکتا ہے مگر ان سے محبت نہیں کر سکتا.یہ ایک بار یک فرق ہے اس کو خوب یا درکھو.( نور القرآن نمبر ۲ ، روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۴۳۵) تولی کی تا اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ تولی میں ایک تکلف ہے جو مغائرت پر دلالت کرتا ہے مگر محبت میں ایک ذرہ مغائرت باقی نہیں رہتی.( نور القرآن نمبر ۲ ، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ ۴۳۵ نوٹ )
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيطِنِ الرَّحِيمِ ۳۹۳ سورة الصف بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الصف بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ ) بہت سے مولوی اور علماء کہلا کر منبروں پر چڑھ کر اپنے تئیں نائب الرسول اور وارث الانبیاء قرار دے کر وعظ کرتے پھرتے ہیں.کہتے ہیں کہ تکبر نہ کرو.بدکاریوں سے بچو.مگر جو ان کے اپنے اعمال ہیں اور جو کر تو تیں وہ خود کرتے ہیں ان کا اندازہ اس سے کر لو کہ ان باتوں کا اثر تمہارے دلوں پر کہاں تک ہوتا ہے.اگر اس قسم کے لوگ عملی طاقت بھی رکھتے اور کہنے سے پہلے خود کرتے تو قرآن میں لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تفعلون کہنے کی کیا ضرورت پڑتی ؟ یہ آیت ہی بتلاتی ہے کہ دنیا میں کہہ کر خود نہ کرنے والے بھی موجود تھے اور ہیں اور ہوں گے.تم میری بات سن رکھو اور خوب یاد کر لو کہ اگر انسان کی گفتگو سچے دل سے نہ ہو اور عملی طاقت اس میں نہ ہو تو وہ اثر پذیر نہیں ہوتی.اسی سے تو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی صداقت ثابت ہوتی ہے.کیونکہ جو کامیابی اور تاثیر فی القلوب ان کے حصہ میں آئی اس کی کوئی نظیر بنی آدم کی تاریخ میں نہیں اور یہ سب اس لئے ہوا کہ آپ کے قول اور فعل میں پوری مطابقت تھی.رپورٹ جلسه سالانه ۱۸۹۷ء صفحه ۷۳، ۷۴)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۴ سورة الصف یا درکھو کہ صرف لفاظی اور لسانی کام نہیں آسکتی.جب تک کہ عمل نہ ہو اور باتیں عند اللہ کچھ بھی وقعت نہیں رکھتیں چنانچہ خدائے تعالیٰ نے فرمایا ہے كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ - رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۸۰) مومن کو دورنگی اختیار نہیں کرنی چاہیے یہ بزدلی اور نفاق اس سے ہمیشہ دور ہوتا ہے.ہمیشہ اپنے قول اور فعل کو درست رکھو اور ان میں مطابقت دکھاؤ جیسا کہ صحابہ نے اپنی زندگیوں میں دکھا یا.تم بھی ان کے نقش قدم پر چل کر اپنے صدق اور وفا کے نمونے دکھاؤ.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۶ مورخه ۱۰ رمئی ۱۹۰۵ء صفحه ۲) میں دیکھتا ہوں اس وقت قریباً علماء کی یہی حالت ہو رہی ہے لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ کے مصداق اکثر پائے جاتے ہیں اور قرآن شریف پر بگفتن ایمان رہ گیا ہے ورنہ قرآن شریف کی حکومت سے لوگ نکلے ہوئے ہیں.احادیث سے پایا جاتا ہے کہ ایک وقت ایسا آنے والا تھا کہ قرآن آسمان پر اُٹھ جائے گا.میں یقیناً جانتا ہوں کہ یہ وہی وقت آ گیا ہے.حقیقی طہارت اور تقویٰ جو قرآن شریف پر عمل کرنے سے پیدا ہوتا ہے آج کہاں ہے؟ اگر ایسی حالت نہ ہو گئی ہوتی تو خدا تعالی اس سلسلہ کو کیوں قائم کرتا.الحکم جلد ۹ نمبر ۲۰ مورخه ۱۰ جون ۱۹۰۵ء صفحه ۲) اسلام کا دعویٰ کرنا اور میرے ہاتھ پر بیعت تو بہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ جب تک ایمان کے ساتھ عمل نہ ہو کچھ نہیں.منہ سے دعوی کرنا اور عمل سے اس کا ثبوت نہ دینا خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑ کا نا ہے اور اس آیت کا مصداق ہو جاتا ہے يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ - كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللهِ اَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ.یعنی اے ایمان والو تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو تم نہیں کرتے ہو.یہ امر کہ تم وہ باتیں کہو جن پر تم عمل نہیں کرتے خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑے غضب کا موجب ہیں.پس وہ انسان جس کو اسلام کا دعویٰ ہے یا جو میرے ہاتھ پر تو بہ کرتا ہے اگر وہ اپنے آپ کو اس دعوی کے موافق نہیں بناتا اور اس کے اندر کھوٹ رہتا ہے تو وہ اللہ تعالی کے بڑے غضب کے نیچے آجاتا ہے اس سے بچنا لازم ہے.الحکم جلدے نمبر ۲۵ مورخہ ۱۰؍ جولائی ۱۹۰۳، صفحہ ۱۵) اصل بات یہ ہے کہ انسان کو اپنی صفائی کرنی چاہیے.صرف زبان سے کہہ دینا کہ میں نے بیعت کر لی ہے کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتا جب تک عملی طور سے کچھ کر کے نہ دکھلایا جاوے.صرف زبان کچھ نہیں بنا سکتی قرآن شریف میں آیا ہے کہ لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ - كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۵ سورة الصف یہ وقت ہے کہ سابقون میں داخل ہو جاؤ یعنی ہر نیکی کے کرنے میں سبقت لے جاؤ اعمال ہی کام آتے ہیں.زبانی لاف و گزاف کسی کام کی نہیں.دیکھو حضرت فاطمہ کو آنحضرت نے کہا کہ فاطمہ اپنی جان کا خود فکر کر لے میں تیرے کسی کام نہیں آسکتا.بھلا خدا کا کسی سے رشتہ تو نہیں.وہاں یہ نہیں پوچھا جاوے گا کہ تیرا باپ کون ہے بلکہ اعمال کی پرسش ہوگی.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۶ مورخه ۲ / مارچ ۱۹۰۸ء صفحه ۵) مقت خدا کے غضب کو کہتے ہیں.یعنی بڑا غضب ان پر ہوتا ہے جو اقرار کرتے ہیں اور پھر کرتے نہیں.ایسے آدمیوں پر خدا کا غضب نازل ہوتا ہے.اس لئے دعائیں کرتے رہو.کوئی ثابت قدم نہیں رہ سکتا جب تک خدا نہ رکھے.اکام جلدے نمبر ۱۱ مورخہ ۲۴ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۸) ( وَ اِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يُقَومِ لِمَ تُؤْذُونَنِي وَقَدْ تَعْلَمُونَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ اِلَيْكُمْ فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ وَاللَّهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْفَسِقِينَ ) خدا تعالیٰ کسی ملہم کی دعا سے اس کو ہدایت کرتا ہے جس کے دل پر زیغ اور کجی کا غلبہ نہیں ہوتا ورنہ بموجب فَلَمَّا زَاغُوا اَزاغَ اللهُ قُلُوبَهُمْ ہدایت پانے سے محروم رہتا ہے.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۱۸ حاشیه ) فَلَمَّا زَاغُوا اَزَاغَ اللهُ قُلُوبَهُم.....پس جب کہ وہ کج ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو سج جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۳۴) کر دیا.جبکہ وہ حق سے پھر گئے تو خدا تعالیٰ نے ان کے دل کو حق کی مناسبت سے ڈور ڈال دیا اور آخر کو معاندانہ جوش کے اثروں سے ایک عجیب کا یا پلٹ ان میں ظہور میں آئی اور ایسے بگڑے کہ گویا وہ وہ نہ رہے اور رفتہ رفتہ نفسانی مخالفت کے زہر نے ان کے انوار فطرت کو دبا لیا.(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۴۸،۴۷) اگر کوئی خدا تعالیٰ سے دور ہوتا جاوے اور گندگی سے نکلنے کی کوشش نہ کرے تو پھر خدا تعالیٰ بھی اس کی پروا نہیں کرتا جیسے فرمایا ہے فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ - احکام جلد 4 نمبر ۱۱ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۵ صفحه ۵) جب انہوں نے کبھی اختیار کی تو خدا نے ان کو سج کر دیا.اسی کا نام مہر ہے لیکن ہمارا خدا ایسا نہیں کہ پھر اس
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۶ سورة الصف مُہر کو دور نہ کر سکے چنانچہ اس نے اگر مہر لگنے کے اسباب بیان کئے ہیں تو ساتھ ہی وہ اسباب بھی بتلا دیئے ہیں جن سے یہ مہر اُٹھ جاتی ہے جیسے کہ یہ فرمایا ہے إِنَّهُ كَانَ لِلْأَوَّابِينَ غَفُورًا (بنی اسرائیل : ٣٦) البدر جلد ۲ نمبر ۳۴ مورخه ۱۱ ستمبر ۱۹۰۳ء صفحه ۳۶۷) وَ إِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِبَنِي إِسْرَاءِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَى مِنَ التَّوَريةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِى اسْبُةَ اَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْبَيِّنَتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ.دو غضب کی بات ہے کہ اللہ جل شانہ تو اپنی پاک کلام میں حضرت مسیح کی وفات ظاہر کرے اور یہ لوگ اب تک اس کو زندہ سمجھ کر ہزار ہا اور بیشمار فتنے اسلام کے لئے برپا کر دیں اور مسیح کو آسمان کا حی و قیوم اور سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو زمین کا مردہ ٹھہر اویں حالانکہ مسیح کی گواہی قرآن کریم میں اس طرح پر لکھی دو ہے کہ مُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِی اسْمه أَحْمَدُ یعنی میں ایک رسول کی بشارت دیتا ہوں جو میرے بعد یعنی میرے مرنے کے بعد آئے گا اور نام اس کا احمد کہو گا.پس اگر مسیح اب تک اس عالم جسمانی سے گزر نہیں گیا تو اس سے لازم آتا ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اب تک اس عالم میں تشریف فرما نہیں ہوئے کیونکہ نص اپنے کھلے کھلے الفاظ سے بتلا رہی ہے کہ جب مسیح اس عالم جسمانی سے رخصت ہو جائے گا تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس عالم جسمانی میں تشریف لائیں گے.وجہ یہ کہ آیت میں آنے کے مقابل پر جانا بیان کیا گیا ہے اور ضرور ہے کہ آنا اور جانا دونوں ایک ہی رنگ کے ہوں.یعنی ایک اُس عالم کی طرف چلا گیا اور ایک اُس عالم کی طرف سے آیا.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴۲) آیت وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِی اسبُهُ أَحْمَدُ میں یہ اشارہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آخر زمانہ میں ایک مظہر ظاہر ہوگا گویا وہ اس کا ایک ہاتھ ہوگا جس کا نام آسمان پر احمد ہوگا اور وہ حضرت مسیح کے رنگ میں جمالی طور پر دین کو پھیلائے گا.اربعین، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۴۲۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بعث ہیں......دوسرا بعث احمدی جو جمالی رنگ میں ہے جو ستارہ مشتری کی تاثیر کے نیچے ہے جس کی نسبت بحوالہ انجیل قرآن شریف میں یہ آیت ہے وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِى اسْمُهُ أَحْمَدُ - (تحفہ گولڑو بیه، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۵۴)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۷ سورة الصف 91916 پھر آپ کا ایک اور نام بھی رکھا گیا.وہ احمد ہے چنانچہ حضرت مسیح نے اسی نام کی پیش گوئی کی تھی مقام بِرَسُولِ يَأْتِي مِنْ بَعْدِى اسْمُهُ احمد یعنی میرے بعد ایک نبی آئے گا.جس کی میں بشارت دیتا ہوں اور اس کا نام احمد ہو گا.یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ جو اللہ تعالی کی حد سے زیادہ تعریف کرنے والا ہو.اس لفظ سے صاف پایا جاتا ہے اور سچی بات بھی یہی ہے کہ کوئی اسی کی تعریف کرتا ہے جس سے کچھ لیتا ہے اور جس قدر زیادہ لیتا ہے اسی قدر زیادہ تعریف کرتا ہے.اگر کسی کو ایک روپیہ دیا جاوے تو وہ اسی قدر تعریف کرے گا اور جس کو ہزار روپیہ دیا جاوے وہ اسی انداز سے کرے گا.غرض اس سے واضح طور پر پایا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلعم نے سب سے زیادہ خدا کا فضل پایا ہے.دراصل اس نام میں ایک پیش گوئی ہے کہ یہ بہت ہی بڑے فضلوں کا وارث اور مالک ہوگا.الحکم جلد ۵ نمبر ۲ مورخه ۱۷/جنوری ۱۹۰۱ صفحه ۴) حضرت رسول کریم کا نام احمد وہ ہے جس کا ذکر حضرت مسیح نے کیا.يَأْتِي مِنْ بَعْدِى اسْمُهُ أَحْمَدُ - مِنْ بعدی کا لفظ ظاہر کرتا ہے کہ وہ نبی میرے بعد بلا فصل آئے گا یعنی میرے اور اس کے درمیان اور کوئی نبی نہ ہوگا.الحاکم جلد ۵ نمبر ۴ مورخه ۳۱ / جنوری ۱۹۰۱ صفحه ۱۱).دو مُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِی اسمه احمد میں بشارت ہے.اس کے دو ہی پہلو ہیں.یعنی ایک تو آپ کا وجود ہی بشارت تھا کیونکہ بنی اسرائیل کے خاندان نبوت کا خاتمہ ہو گیا.دوسرے زبان سے بھی بشارت دی یعنی آپ کی پیدائش میں بھی بشارت تھی اور زبانی بھی.البدر جلد اوّل نمبر ۱۰ مورخه ۲ /جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۷۵) يُريدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَفِرُونَ ) اس آیت میں تصریح سے سمجھایا گیا ہے کہ مسیح موعود چودھویں صدی میں پیدا ہوگا کیونکہ اتمام نور کے لئے (تحفہ گولر و یه، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۲۴) چودھویں رات مقرر ہے.یہ لوگ ارادہ کر رہے ہیں کہ خدا کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھاویں اور خدا تو باز نہیں رہے گا جب تک کہ اپنے نور کو پورا نہ کرے اگر چہ کا فرلوگ کراہت ہی کریں.نزول المسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۳۷۹) مخالف لوگ ارادہ کریں گے کہ خدا کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بچھاویں یعنی بہت سے ملکر کام میں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۸ سورة الصف لاویں گے مگر خدا اپنے نور کو کمال تک پہنچائے گا اگر چہ کا فرلوگ کراہت ہی کریں.( نزول مسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۵۲۶) مخالف لوگ ارادہ کریں گے کہ نور خدا کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں مگر خدا اپنے نور کو پورا کرے گا اگر چہ منکر لوگ کراہت ہی کریں.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۴۱) یہ لوگ اپنے منہ کی لاف و گزاف سے بکتے ہیں کہ اس دین کو کبھی کامیابی نہیں ہوگی.یہ دین ہمارے ہاتھ سے تباہ ہو جاوے گا.لیکن خدا کبھی اس دین کو ضائع نہیں کرے گا اور نہیں چھوڑے گا جب تک اس کو (جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۹۰) پورا نہ کرے.یہ شریر کا فر اپنے منہ کی پھونکوں سے نور اللہ کو بجھانا چاہتے ہیں اور اللہ اپنے نور کو کامل کرنے والا ہے.کافر برا مناتے رہیں.منہ کی پھونکیں کیا ہوتی ہیں؟ یہی کسی نے ٹھگ کہہ دیا.کسی نے دوکاندار اور کا فربے دین کہہ دیا.غرض یہ لوگ ایسی باتوں سے چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نور کو بجھا دیں مگر وہ کامیاب نہیں ہو سکتے.نور اللہ کو بجھاتے بجھاتے خود ہی جل کر ذلیل ہو جاتے ہیں.الحکم جلد ۵ نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۱ صفحه ۳) ناعاقبت اندیش نادان دوستوں نے خدا تعالیٰ کے اس سلسلہ کی قدر نہیں کی بلکہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ یہ و نور نہ چمکے.یہ اس کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ یا درکھیں کہ خدا تعالٰی وعدہ کر چکا ہے والله متم القام جلد ۶ نمبر ۷ مورخہ ۱۰رمئی ۱۹۰۲ صفحہ ۵) نُورِهِ وَ لَوْ كرة الكَفِرُونَ هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَو كرة المشركون & یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیشگوئی ہے.اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا.اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا لیکن اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ خاکسارا اپنی غربت اور انکسار اور توکل اور ایثار اور آیات اور انوار کے رو سے مسیح کی پہلی زندگی کا نمونہ ہے اور اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت با ہم نہایت ہی متشابہ واقع ہوئی ہے گویا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۳۹۹ سورة الصف ایک ہی جو ہر کے دو ٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دو پھل ہیں اور بحدی اتحاد ہے کہ نظر کشفی میں نہایت ہی بار یک امتیاز ہے اور نیز ظاہری طور پر بھی ایک مشابہت ہے اور وہ یوں کہ مسیح ایک کامل اور عظیم الشان نبی یعنی موسیٰ کا تابع اور خادم دین تھا اور اس کی انجیل توریت کی فرع ہے اور یہ عاجز بھی اس جلیل الشان نبی کے احقر خادمین میں سے ہے کہ جو سید الرسل اور سب رسولوں کا سرتاج ہے.اگر وہ حامد ہیں تو وہ احمد ہے.اور اگر وہ محمود ہیں تو وہ محمد سے صلی اللہ علیہ وسلم.سوچونکہ اس عاجز کو حضرت مسیح سے مشابہت تامہ ہے اس لئے ہے خداوند کریم نے مسیح کی پیشگوئی میں ابتدا سے اس عاجز کو بھی شریک کر رکھا ہے یعنی حضرت مسیح پیشگوئی متذکرہ بالا کا ظاہری اور جسمانی طور پر مصداق ہے اور یہ عاجز روحانی اور معقولی طور پر اُس کا محل اور مورد ہے یعنی روحانی طور پر دین اسلام کا غلبہ جونج قاطعہ اور براہین ساطعہ پر موقوف ہے اس عاجز کے ذریعہ سے مقدر ہے.گو اس کی زندگی میں یا بعد وفات ہو اور اگر چہ دین اسلام اپنے دلائل حقہ کے رو سے قدیم سے غالب چلا آیا ہے اور ابتدا سے اس کے مخالف رسوا اور ذلیل ہوتے چلے آئے ہیں لیکن اس غلبہ کا مختلف فرقوں اور قوموں پر ظاہر ہونا ایک ایسے زمانہ کے آنے پر موقوف تھا کہ جو باعث کھل جانے راہوں کے تمام دنیا کو ممالک متحدہ کی طرح بنا تا ہو اور ایک ہی قوم کے حکم میں داخل کرتا ہو اور تمام اسباب اشاعت تعلیم اور تمام وسائل اشاعت دین کے تمام تر سہولت و آسانی پیش کرتا ہو اور اندرونی اور بیرونی طور پر تعلیم حقانی کے لئے نہایت مناسب اور موزوں ہو سو اب وہی زمانہ ہے کیونکہ باعث کھل جانے راستوں اور مطلع ہونے ایک قوم کے دوسری قوم سے اور ایک ملک کے دوسرے ملک سے سامان تبلیغ کا بوجہ احسن میسر آ گیا ہے اور بوجہ انتظام ڈاک دریل و تار و جہاز و وسائل متفرقه اخبار وغیرہ کے دینی تالیفات کی اشاعت کے لئے بہت سی آسانیاں ہوگئی ہیں.غرض بلاشبہ اب وہ وقت پہنچ گیا ہے کہ جس میں تمام دنیا ایک ہی ملک کا حکم پیدا کرتی جاتی ہے.اور باعث شائع اور رائج ہونے کئی زبانوں کے تفہیم تقسیم کے بہت سے ذریعے نکل آئے ہیں اور اور غیریت اور اجنبیت کی مشکلات سے بہت سی سبکدوشی ہو گئی ہے.اور بوجہ میل ملاپ دائگی اور اختلاط شباروزی کی وحشت اور نفرت بھی کہ جو بالطبع ایک قوم کو دوسری قوم سے تھی بہت سی گھٹ گئی ہے چنانچہ اب ہندو بھی جن کی دنیا ہمیشہ ہمالہ پہاڑ کے اندر ہی اندر تھی اور جن کو سمندر کا سفر کرنا مذہب سے خارج کردیتا تھا لنڈن اور امریکہ تک سیر کر آتے ہیں.خلاصہ کلام یہ کہ اس زمانہ میں ہر یک ذریعہ اشاعت دین کا اپنی وسعت تامہ کو پہنچ گیا ہے اور گودنیا پر بہت سی ظلمت اور تاریکی چھا رہی ہے مگر پھر بھی ضلالت کا دورہ اختتام پر
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰ سورة الصف پہنچا ہوا معلوم ہوتا ہے اور گمراہی کا کمال رو بزوال نظر آتا ہے کچھ خدا کی طرف سے ہی طبائع سلیمہ صراط مستقیم کی تلاش میں لگ گئے ہیں اور نیک اور پاکیزہ فطرتیں طریقہ حقہ کے مناسب حال ہوتی جاتی ہیں اور توحید کے قدرتی جوش نے مستعد دلوں کو وحدانیت کے چشمہ صافی کی طرف مائل کر دیا ہے اور مخلوق پرستی کی عمارت کا بودہ ہونا دانشمند لوگوں پر کھلتا جاتا ہے اور مصنوعی خدا پھر دوبارہ نظمندوں کی نظر میں انسانیت کا جامہ پہنتے جاتے ہیں اور با ایں ہمہ آسمانی مدددین حق کی تائید کے لئے ایسے جوش میں ہے کہ وہ نشان اور خوارق جن کی سماعت سے عاجز اور ناقص بندے خدا بنائے گئے تھے اب وہ حضرت سید الرسل کے ادنیٰ خادموں اور چاکروں سے مشہود اور محسوس ہورہے ہیں اور جو پہلے زمانہ کے بعض نبی صرف اپنے حواریوں کو چھپ چھپ کر کچھ نشان دکھلاتے تھے.اب وہ نشان حضرت سید الرسل کے احقر توابع سے دشمنوں کے رو برو ظاہر ہوتے ہیں اور انہیں دشمنوں کی شہادتوں سے حقیت اسلام کا آفتاب تمام عالم کے لئے طلوع کرتا جاتا ہے.ماسوا اس کے یہ زمانہ اشاعت دین کے لئے ایسا مددگار ہے کہ جو امر پہلے زمانوں میں سو سال تک دنیا میں شائع نہیں ہوسکتا تھا.اب اس زمانہ میں وہ صرف ایک سال میں تمام ملکوں میں پھیل سکتا ہے.اس لئے اسلامی ہدایت اور ربانی نشانوں کا نقارہ بجانے کے لئے اس قدر اس زمانہ میں طاقت وقوت پائی جاتی ہے جو کسی زمانہ میں اس کی نظیر نہیں پائی جاتی.صد ہا وسائل جیسے ریل و تار و اخبار وغیرہ اسی خدمت کے لئے ہر وقت طیار ہیں کہ تا ایک ملک کے واقعات دوسرے ملک میں پہنچا ویں.سو بلاشبہ معقولی اور روحانی طور پر دین اسلام کے دلائل حقیت کا تمام دنیا میں پھیلنا ایسے ہی زمانہ پر موقوف تھا اور یہی با سامان زمانہ اس مہمان عزیز کی خدمت کرنے کے لئے من کل الوجوہ اسباب مہیار رکھتا ہے.پس خداوند تعالیٰ نے اس احقر عباد کو اس زمانہ میں پیدا کر کے اور صد بانشان آسمانی اور خوارق نہیں اور معارف و حقائق مرحمت فرما کر اور صد با دلائل عقلیہ قطعیہ پر علم بخش کر یہ ارادہ فرمایا ہے کہ تا تعلیمات حقہ قرآنی کو ہر قوم اور ہر ملک میں شائع اور رائج فرماوے اور اپنی حجت ان پر پوری کرے.اور اس ارادہ کی وجہ سے خداوند کریم نے اس عاجز کو یہ توفیق دی کہ اتماماً للحجة دس ہزار روپیہ کا اشتہار کتاب کے ساتھ شامل کیا گیا اور دشمنوں اور مخالفوں کی شہادت سے آسمانی نشانی پیش کی گئی اور اُن کے معارضہ اور مقابلہ کے لئے تمام مخالفین کو مخاطب کیا گیا تا کوئی دقیقہ اتمام حجت کا باقی نہ رہے اور ہر یک مخالف اپنے مغلوب اور لاجواب ہونے کا آپ گواہ ہو جائے.غرض خداوند کریم نے جو اسباب اور وسائل اشاعت دین کے اور دلائل اور براہین اتمام حجت کے محض اپنے فضل اور کرم سے اس عاجز
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۱ سورة الصف کو عطا فرمائے ہیں وہ اہم سابقہ میں سے آج تک کسی کو عطا نہیں فرمائے اور جو کچھ اس بارے میں تو فیقات غیبیہ اس عاجز کو دی گئی ہیں وہ ان میں سے کسی کو نہیں دی گئیں.وَذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ - سو چونکہ خداوند کریم نے اسباب خاصہ سے اس عاجز کو مخصوص کیا ہے اور ایسے زمانہ میں اس خاکسار کو پیدا کیا ہے کہ جو اتمام خدمت تبلیغ کے لئے نہایت ہی معین و مددگار ہے.اس لئے اس نے اپنے تفضلات و عنایات سے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ روز ازل سے یہی قرار یافتہ ہے کہ آیت کریمہ متذکرہ بالا اور نیز آیت وَاللهُ متم نورہ کا روحانی طور پر مصداق یہ عاجز ہے اور خدائے تعالیٰ ان دلائل و براہین کو اور ان سب باتوں کو کہ جو اس عاجز نے مخالفوں کے لئے لکھی ہیں خود مخالفوں تک پہنچا دے گا اور ان کا عاجز اور لاجواب اور مغلوب ہونا دنیا میں ظاہر کر کے مفہوم آیت متذکرہ بالا کا پورا کر دے گا.براہین احمدیہ چہار تحصص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۹۳ تا ۵۹۷ حاشیه در حاشیه نمبر ۳) قرآن شریف نے جو مسیح کے نکلنے کی چودہ سو برس تک مدت ٹھہرائی ہے بہت سے اولیاء بھی اپنے مکاشفات کی رُو سے اس مدت کو مانتے ہیں اور آیت وَ اِنَّا عَلى ذَهَابِ بِهِ لَقَدِرُونَ (المؤمنون : ١٩) جس کے بحساب جمل ۲۷۴ عدد ہیں.اسلامی چاند کی سطح کی راتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے جس میں نئے چاند کے نکلنے کی اشارت چھپی ہوئی ہے جو غلام احمد قادیانی کے عددوں میں بحساب جمل پائی جاتی ہے اور یہ آیت که هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدّین محله در حقیقت اسی مسیح ابن مریم کے زمانہ سے متعلق ہے کیونکہ تمام ادیان پر روحانی غلبہ بجز اس زمانہ کے کسی اور زمانہ میں ہرگز ممکن نہیں تھا.ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۶۴) رعقلی جس قدر حق کے مقابل پر اب معقول پسندوں کے دلوں میں اوہام باطلہ پیدا ہوئے ہیں اور اعتراضات کا ایک طوفان برپا ہوا ہے اس کی نظیر کسی زمانہ میں پہلے زمانوں میں سے نہیں پائی جاتی.لہذا ابتداء سے اس امر کو بھی کہ ان اعتراضات کا براہین شافیہ و کافیہ سے بحوالہ آیات فرقان مجید بکلی استیصال کر کے تمام ادیان باطلہ پر فوقیت اسلام ظاہر کر دی جائے اسی زمانہ پر چھوڑا گیا تھا کیونکہ پیش از ظهور مفاسدان مفاسد کی اصلاح کا تذکرہ محض بے محل تھا.اسی وجہ سے حکیم مطلق نے ان حقائق اور معارف کو اپنی کلام پاک میں مخفی رکھا اور کسی پر ظاہر نہ کیا جب تک کہ اُن کے اظہار کا وقت آگیا.ہاں اس وقت کی اس نے پہلے سے اپنی کتاب عزیز میں خبر دے رکھی تھی جو آیت هُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالھدی میں صاف اور کھلے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۲ سورة الصف کھلے طور پر مرقوم ہے.سو اب وہی وقت ہے اور ہر یک شخص روحانی روشنی کا محتاج ہورہا ہے سو خدائے تعالیٰ نے اس روشنی کو دے کر ایک شخص دنیا میں بھیجا وہ کون ہے؟ یہی ہے جو بول رہا ہے.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۱۵) الہام میں خدا تعالیٰ نے میرا نام عیسی رکھا اور مجھے اس قرآنی پیشگوئی (هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُله ) کا مصداق ٹھہرایا جو حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے خاص تھی اور آنے والے مسیح موعود کے تمام صفات مجھ میں قائم کئے.ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۲۷۲) احادیث نبویہ میں متواتر آچکا ہے کہ مسیح آنے والا صاحب المنارہ ہوگا یعنی اُس کے زمانہ میں اسلامی سچائی بلندی کے انتہا تک پہنچ جائے گی جو اس منارہ کی مانند ہے جو نہایت اونچا ہو.اور دین اسلام سب دینوں پر غالب آجائے گا اُسی کے مانند جیسا کہ کوئی شخص جب ایک بلند منار پر اذان دیتا ہے تو وہ آواز تمام آوازوں پر غالب آجاتی ہے.سو مقدر تھا کہ ایسا ہی مسیح کے دنوں میں ہوگا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ھو الَّذِى اَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ محلہ یہ آیت مسیح موعود کے حق میں ہے اور اسلامی حجت کی وہ بلند آواز جس کے نیچے تمام آواز میں دب جائیں وہ ازل سے مسیح کے لئے خاص کی گئی ہے اور قدیم سے مسیح موعود کا قدم اس بلند مینار پر قرار دیا گیا ہے جس سے بڑھ کر اور کوئی عمارت اونچی نہیں.(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۱۸) إِنَّ إِظْهَارَ الدِّينِ عَلَى أَدْيَانٍ أُخْرى، لا اظہارِ دین دوسرے ادیان پر صرف بینہ کبرای يَتَحَقَّقُ إِلَّا بِالْبَيِّنَةِ الْكُبْرَى، وَالْحُجَجِ الْقَاطِعَةِ اور حج قاطعہ عظمی اور اہل صلاح اور تقویٰ کی کثرت الْعُظمى وَكَثْرَةِ أَهْلِ الصَّلاحِ وَالتَّقْوَى سے ہی متحقق ہو سکتا ہے.اور اس میں کوئی شک نہیں وَلَا شَكَ أَنَّ الدِّينَ الَّذِي يُعْطِي الثَّلائِلَ الْمُوْصِلَةَ که جو دین یقین تک پہنچانے والے دلائل عطا کرتا إِلَى الْيَقِينِ، وَيُزَلِي النَّفُوسَ حَقَّ التَّركِيَّةِ ہے اور نفوس کو صحیح طور پر پاک کرتا ہے اور ان کو وَيُنَجِّيْهِمْ مِنْ أَيْدِى الشَّيْطَانِ اللَّعِيْنِ هُوَ شيطانِ لعین کے ہاتھوں سے نجات دیتا ہے وہی اللَّيْنُ الظَّاهِرُ الْغَالِبُ عَلَى الْأَدْيَانِ، وَهُوَ دین دوسرے ادیان پر غالب ہوتا ہے اور وہی ہے الَّذِي يَبْعَثُ الْأَمْوَاتَ مِنْ قُبُورِ الشَّاكِ جو مُردوں کو شکوک اور نافرمانی کی قبروں سے اُٹھاتا وَالْعِصْيَانِ، وَيُحْيِيهِمْ عِلْمًا وَ عَمَلًا بِفَضْلِ الله ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہیں علمی اور عملی طور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۳ سورة الصف الْمَنَانِ وَكَانَ اللهُ قَد قَدَّرَ أَنَّ دِينَهُ لَا يَظْهَرُ پر زندہ کرتا ہے.اور اللہ تعالیٰ نے مقدر کر دیا ہے کہ بِظُهُورٍ تَاةٍ عَلَى الْأَدْيَانِ كُلِّهَا وَلَا يُرْزَقُ أَكْثَرُ اس کا دین دوسرے ادیان پر پوری طرح غالب نہیں الْقُلُوبِ دَلَائِلَ الْحَق وَلَا يُعطى تَقْوَى ہوگا اور اکثر قلوب دلائل حقہ نہیں دئے جائیں گے اور الْبَاطِنِ لأَكْثَرِهَا إِلَّا فِي زَمَانِ الْمَسِيحَ نہ ان میں سے اکثر کو باطن کا تقویٰ عطا کیا جائے گا مگر الْمَوْعُودِ وَالْمَهْدِى الْمَعْهُودِ وَأَمَّا الْأَزْمِنَةُ مسیح موعود اور مہدی معہود کے زمانہ میں.اس سے الَّتِي هِيَ قَبْلَهُ فَلَا تَعُمُّ فِيهَا التَّقْوَى وَلا پہلے زمانوں میں تقویٰ اور درایت عام نہیں تھا بلکہ فسق الدّرَايَةُ، بَلْ يَكْثُرُ الْفِسْقُ وَالْغَوَايَةُ اور گمراہی زیادہ تھی.( ترجمہ از مرتب) (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۳۲۱، ۳۲۲) مسیح موعود اسلام کے قمر کا متم نور ہے اس لئے اس کی تجدید چاند کی چودھویں رات سے مشابہت رکھتی ہے اسی کی طرف اشارہ ہے اس آیت میں کہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّینِ حلہ کیونکہ اظہار تام اور اتمام نور ایک ہی چیز ہے.اور یہ قول کہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الْأَدْيَانِ كُلَّ الْإِظْهَارِ مساوی اس قول سے ہے کہ لِيُتِمَّ نُورَهُ كُلَّ الإتمام (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۲۴) مسیح موعود کو چودھویں صدی کے سر پر پیدا کرنا اس طرف اشارہ تھا کہ اس کے وقت میں اسلامی معارف اور برکات کمال تک پہنچ جائیں گی.جیسا کہ آیت ليُظهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِه میں اس کمال نام کی طرف اشارہ ہے.(تحفہ گولر و بیه، روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۰۹ حاشیه ) قرآن شریف جو ذ والوجوہ ہے اُس کا محاورہ اسی طرز پر واقع ہو گیا ہے کہ ایک آیت میں آنحضرت صلی اللہ ہوگا علیہ وسلم مراد اور مصداق ہوتے ہیں اور اسی آیت کا مصداق مسیح موعود بھی ہوتا ہے جیسا کہ آیت هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدی سے ظاہر ہے.اور رسول سے مراد اس جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں اور مسیح بھی مراد ہے.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۲۱۷) ضرور تھا کہ جیسا کہ تکمیل ہدایت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے ہوئی ایسا ہی تکمیل اشاعت ہدایت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہو کیونکہ یہ دونوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منصبی کام تھے لیکن سنت اللہ کے لحاظ سے اس قدر خلود آپ کے لئے غیر ممکن تھا کہ آپ اُس آخری زمانہ کو پاتے اور نیز ایسا خلود شرک کے پھیلنے کا ایک ذریعہ تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خدمت منصبی کو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۴ سورة الصف ایک ایسے امتی کے ہاتھ سے پورا کیا کہ جو اپنی خواور روحانیت کے رُو سے گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کا ایک ٹکڑا تھا یا یوں کہو کہ وہی تھا اور آسمان پر ظلی طور پر آپ کے نام کا شریک تھا اور ہم ابھی لکھ چکے ہیں کہ تحمیل ہدایت کا دن چھٹا دن تھا یعنی جمعہ.اس لئے رعایت تناسب کے لحاظ سے تحمیل اشاعت ہدایت کا دن بھی چھٹا دن ہی مقر رکیا گیا یعنی آخر الف ششم جو خدا کے نزدیک دنیا کا چھٹا دن ہے.جیسا کہ اس وعدہ کی یا آخرالف طرف آیت لِيُظهرة عَلَى الدِّینِ محلہ اشارہ فرما رہی ہے اور اس چھٹے دن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خو اور رنگ پر ایک شخص جو مظہر تجلیات احمدیہ اور محمد یہ تھا مبعوث فرمایا گیا تا تکمیل اشاعت ہدایت فرقانی اس مظہر نام کے ذریعہ سے ہو جائے.(تحفہ گولڑویہ ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۵۹،۲۵۸) خدا تعالی قرآن کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو منصب قائم کرتا ہے (۱) ایک کامل کتاب کو پیش کرنے والا جیسا کہ فرمایا که يَتْلُوا صُحُفًا مُطَهَّرَةٌ فِيهَا كُتُبُ قَيْمَةٌ (البيئة : ۴،۳) (۲) دوسری تمام دنیا میں اس کتاب کی اشاعت کرنے والا جیسا کہ فرماتا ہے لیظهرةُ عَلَى الدِّينِ كُله اور تحمیل ہدایت کے لئے خدا نے چھٹا دن اختیار فرمایا.اس لئے یہ پہلی سنت اللہ ہمیں سمجھاتی ہے کہ تکمیل اشاعت ہدایت کا دن بھی چھٹا ہی ہے اور وہ ہزار ششم ہے اور علماء کرام اور تمام اکا بر ملت اسلام قبول کر چکے ہیں کہ تکمیل اشاعت مسیح موعود کے ذریعہ سے ہوگی.اور اب ثابت ہوا کہ تکمیل اشاعت ہزار ششم میں ہوگی اس لئے نتیجہ یہ نکلا کہ مسیح موعود ہزارششم میں مبعوث ہوگا.(تحفہ گولر و سیه، روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۲۶۱ حاشیه ) وہ خدا جس نے اپنے فرستادہ کو بھیجا اس نے دو امر کے ساتھ اُسے بھیجا ہے ایک تو یہ کہ اس کو نعمت ہدایت سے مشرف فرمایا ہے یعنی اپنی راہ کی شناخت کے لئے روحانی آنکھیں اس کو عطا کی ہیں اور علم لدنی سے ممتاز فرمایا ہے اور کشف اور الہام سے اس کے دل کو روشن کیا ہے اور اس طرح پر الہی معرفت اور محبت اور عبادت کا جو اس پر حق تھا اس حق کی بجا آوری کے لئے آپ اس کی تائید کی ہے اور اس لئے اس کا نام مہدی رکھا.دوسرا امر جس کے ساتھ وہ بھیجا گیا ہے وہ دین الحق کے ساتھ روحانی بیماروں کو اچھا کرنا ہے یعنی شریعت کے صد با مشکلات اور معضلات حل کر کے دلوں سے شبہات کو دور کرنا ہے.پس اس لحاظ سے اس کا نام عیسی رکھا ہے یعنی بیماروں کو چنگا کرنے والا.غرض اس آیت شریف میں جو دو فقرے موجود ہیں ایک بالھدی اور دوسرے دین الحق ان میں سے پہلا فقرہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ فرستادہ مہدی ہے اور خدا کے ہاتھ سے صاف ہوا ہے اور صرف خدا اس کا معلم ہے اور دوسرا فقرہ یعنی دین الحق ظاہر کر رہا ہے کہ وہ فرستادہ عیسی ہے اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۵ سورة الصف بیماروں کے صاف کرنے کے لئے اور ان کو ان کی بیماریوں پر متنبہ کرنے کے لئے علم دیا گیا ہے اور دین الحق عطا کیا گیا ہے تا وہ ہر ایک مذہب کے بیمار کو قائل کر سکے اور پھر اچھا کر سکے اور اسلامی شفاخانہ کی طرف رغبت دے سکے کیونکہ جب کہ اس کو یہ خدمت سپرد ہے کہ وہ اسلام کی خوبی اور فوقیت ہر ایک پہلو سے تمام مذاہب پر ثابت کر دے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ علم محاسن و عیوب مذاہب اس کو دیا جائے اور اقامت حج اور انجام خصم میں ایک ملکہ خارق عادت اس کو عطا ہو.اور ہر ایک پابند مذہب کو اس کے قبائح پر متنبہ کر سکے اور ہر ایک پہلو سے اسلام کی خوبی ثابت کر سکے اور ہر ایک طور سے روحانی بیماروں کا علاج کر سکے.غرض آنے والے مصلح کے لئے جو خاتم المصلحین ہے دو جو ہر عطا کئے گئے ہیں ایک علم الہدی جو مہدی کے اسم کی طرف اشارہ ہے جو مظہر صفت محمدیت ہے یعنی با وجود امیت کے علم دیا جانا اور دوسرے تعلیم دین الحق جو انفاس شفا بخش مسیح کی طرف اشارہ ہے یعنی روحانی بیماریوں کے دُور کرنے کے لئے اور اتمام حجت کے لئے ہر ایک پہلو سے طاقت عطا ہونا.اور صفت علم الہدگی اس فضل پر دلالت کرتی ہے جو بغیر انسانی واسطہ کے خدا تعالیٰ کی طرف سے ملا ہو اور صفت علم دین الحق افادہ اور تسکین قلوب اور روحانی علاج پر دلالت کرتی ہے.اربعین ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۵۷،۳۵۶) علوم اور معارف بھی جمالی طرز میں داخل ہیں اور قرآن شریف کی آیت لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ میں وعدہ تھا کہ یہ علوم اور معارف مسیح موعود کو اکمل طور پر دیے جائیں گے کیونکہ تمام دینوں پر غالب ہونے کا ذریعہ علوم حقہ اور معارف صادقہ اور دلائل مہینہ اور آیات قاہرہ ہیں اور غلبہ دین کا انہیں پر موقوف ہے.(اربعین، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۴۴۴ حاشیه ) تخمیناً عرصہ بیس برس کا گزرا ہے کہ مجھ کو اس قرآنی آیت کا الہام ہوا تھا اور وہ یہ ہے هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُله ( وہ خدا جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور بچے دین کے ساتھ بھیجاتا وہ اپنے دین کو تمام دینوں پر غالب کرے ) اور مجھ کو اس الہام کے یہ معنے سمجھائے گئے تھے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تا میرے ہاتھ سے خدا تعالیٰ اسلام کو تمام دینوں پر غالب کرے.اور اس جگہ یادر ہے کہ یہ قرآن شریف میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جس کی نسبت علماء محققین کا اتفاق ہے کہ یہ مسیح موعود کے ہاتھ پر پوری ہوگی.سو جس قدر اولیاء اور ابدال مجھ سے پہلے گزر گئے ہیں کسی نے ان میں سے اپنے تئیں اس پیشگوئی کا مصداق نہیں ٹھہرایا اور نہ یہ دعوی کیا کہ اس آیت مذکورہ بالا
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۶ سورة الصف کا مجھ کو اپنے حق میں الہام ہوا ہے.لیکن جب میر اوقت آیا تو مجھے کو یہ الہام ہوا اور مجھ کو بتلا یا گیا کہ اس آیت کا مصداق تو ہے اور تیرے ہی ہاتھ سے اور تیرے ہی زمانہ میں دین اسلام کی فوقیت دوسرے دینوں پر تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۳۱، ۲۳۲) ثابت ہوگی.جیسا کہ خدا تعالیٰ نے مسیح موعود کی یہ علامت قرآن شریف میں بیان فرمائی تھی کہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّيْنِ حلے وہ علامت میرے ہاتھ سے پوری ہوگئی.تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۴۶) یہ بات ظاہر ہے کہ زندہ مذہب وہی مذہب ہے جو آسمانی نشان ساتھ رکھتا ہو اور کامل امتیاز کا نور اس کے سر پر چھکتا ہو.سو وہ اسلام ہے.کیا عیسائیوں میں یا سکھوں میں یا ہندوؤں میں کوئی ایسا ہے کہ اس میں میرا مقابلہ کر سکے؟ سومیری سچائی کے لئے یہ کافی حجت ہے کہ میرے مقابل پر کسی قدم کو قرار نہیں.اب جس طرح چاہوا اپنی تسلی کر لو کہ میرے ظہور سے وہ پیشگوئی پوری ہوگئی جو براہین احمدیہ میں قرآنی منشاء کے موافق تھی اور وہ یہ ہے هُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِهِ تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۴۹) مجھے بتلایا گیا تھا کہ تیری خبر قرآن اور حدیث میں موجود ہے اور تو ہی اس آیت کا مصداق ہے کہ هُوَ وب الَّذِى اَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ.اعجاز احمدی، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۱۳) خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو اس لئے بھیجا کہ تا دین اسلام کو سب دینوں پر غالب کر دے.یہ بھی مسیح موعود کے زمانہ کی طرف اشارہ ہے.لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۸۷) وہ خدا جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تا وہ اس دین کو تمام دینوں پر غالب کر دے.جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۸۶) جب تم دیکھو کہ یا جوج ماجوج زمین پر غالب ہو گئے تو سمجھو کہ وعدہ سچا مذہب حق کے پھیلنے کا نزدیک آگیا اور وہ وعدہ یہ ہے هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِه.(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۱۰) زمانہ محمدی کے سر پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اُس کے آخر میں مسیح موعود ہے اور ضرور تھا کہ یہ سلسلہ دُنیا کا منقطع نہ ہو جب تک کہ وہ پیدا نہ ہولے کیونکہ وحدت اقوامی کی خدمت اُسی نائب النبوت کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۷ سورة الصف عہد سے وابستہ کی گئی ہے اور اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے اور وہ یہ ہے هُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُله یعنی خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ایک کامل ہدایت اور بچے دین کے ساتھ بھیجاتا اُس کو ہر ایک قسم کے دین پر غالب کر دے یعنی ایک عالمگیر غلبہ اس کو عطا کرے اور چونکہ وہ عالمگیر غلبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ظہور میں نہیں آیا اور ممکن نہیں کہ خدا کی پیشگوئی میں کچھ تخلف ہو اس لئے اس آیت کی نسبت اُن سب متقدمین کا اتفاق ہے جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں کہ یہ عالمگیر غلبہ مسیح موعود کے وقت میں ظہور میں آئے گا کیونکہ اس عالمگیر غلبہ کے لئے تین امر کا پایا جانا ضروری ہے جو کسی پہلے زمانہ میں وہ پائے نہیں گئے.(۱) اول یہ کہ پورے اور کامل طور پر مختلف قوموں کے میل ملاقات کے لئے آسانی اور سہولت کی راہیں کھل جائیں اور سفر کی ناقابل برداشت مشقتیں دور ہو جائیں اور سفر بہت جلدی طے ہو سکے گو یا سفر سفر ہی نہ رہے اور سفر کو جلد طے کرنے کے لئے فوق العادت اسباب میسر آجائیں کیونکہ جب تک مختلف ممالک کے باشندوں کے لئے ایسے اسباب اور سامان حاصل نہ ہوں کہ وہ فوق العادت کے طور پر ایک دوسرے سے مل سکیں اور بآسانی ایک دوسرے کی ایسے طور سے ملاقات کر سکیں کہ گویا وہ ایک ہی شہر کے باشندے ہیں تب تک ایک قوم کے لئے یہ موقعہ حاصل نہیں ہو سکتا کہ وہ یہ دعوی کریں کہ اُن کا دین تمام دنیا کے دینوں پر غالب ہے کیونکہ غلبہ دکھلانے کے لئے یہ شرط ہے کہ ان تمام مذاہب کا لوگوں کو علم بھی ہو جن پر غالب ہونے کا اظہار بھی کیا گیا ہے اور نیز جن کو مغلوب سمجھا گیا ہے وہ بھی اس بات کا علم رکھتے ہوں کہ ہم اس الزام کے نیچے ہیں.اور یہ تو تبھی ہو سکتا ہے کہ مختلف ممالک کے لوگ ایسے با ہم قریب ہو جائیں کہ گویا وہ ایک ہی محلہ میں رہتے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ امر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ظہور میں نہیں آسکا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کئی قومیں زمین کے دور دراز کناروں پر آباد تھیں اور پیغام پہنچانے اور سفر کرنے اور با ہمی جلد ملاقات کرنے کے وہ سامان موجود نہ تھے کہ جواب اِس وقت ہمارے اس زمانہ میں موجود ہیں.ا (۲) دوسرا امر جو اس بات کے سمجھنے کے لئے شرط ہے کہ ایک دین دوسرے تمام دینوں پر اپنی خوبیوں کے رو سے غالب ہے یہ ہے جو دنیا کی تمام قو میں آزادی سے باہم مباحثات کر سکیں اور ہر ایک قوم اپنے مذہب کی خوبیاں دوسری قوم کے سامنے پیش کر سکے اور نیز تالیفات کے ذریعہ سے اپنے مذہب کی خوبی اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۸ سورة الصف دوسرے مذاہب کا نقص بیان کر سکیں اور مذہبی کشتی کے لئے دنیا کی تمام قوموں کو یہ موقع مل سکے کہ وہ ایک ہی میدان میں اکٹھے ہو کر ایک دوسرے پر مذہبی بحث کے حملے کریں اور جیسا کہ دریا کی ایک لہر دوسری لہر پر پڑتی ہے ایک دوسرے کے تعاقب میں مشغول ہوں اور یہ مذہبی کشتی نہ ایک دو قوم میں بلکہ عالمگیر کشتی ہو جو دُنیا کی قوموں میں سے کوئی قوم اس کشتی سے باہر نہ ہو.سو اس قسم کا غلبہ اسلام کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں میسر نہیں آسکا.کیونکہ اول تو اُس زمانہ میں دُنیا کی تمام قوموں کا اجتماع ناممکن تھا اور پھر ماسوا اس کے جن قوموں سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ پڑا اُن کو مذہبی امور میں دلائل سننے یا دلائل سنانے سے کچھ غرض نہ تھی بلکہ اُنہوں نے اُٹھتے ہی تلوار کے ساتھ اسلام کو نابود کرنا چاہا اور عقلی طور پر اس کے رد کرنے کے لئے قلم نہیں اُٹھائی.یہی وجہ ہے کہ اُس زمانہ کی کوئی ایسی کتاب نہیں پاؤ گے جس میں اسلام کے مقابل پر عقل یا نقل کے رنگ میں کچھ لکھا گیا ہو بلکہ وہ لوگ صرف تلوار سے ہی غالب ہونا چاہتے تھے اس لئے خدا نے تلوار سے ہی اُن کو ہلاک کیا مگر ہمارے اس زمانہ میں اسلام کے دشمنوں نے اپنے طریق کو بدل لیا ہے اور اب کوئی مخالف اسلام کا اپنے مذہب کے لئے تلوار نہیں اُٹھا تا اور یہی حکمت ہے کہ مسیح موعود کے لئے يضع الحرب کا حکم آیا یعنی جنگ کی ممانعت ہوگئی اور تلوار کی لڑائیاں موقوف ہو گئیں اور اب قلمی لڑائیوں کا وقت ہے اور چونکہ ہم قلمی لڑائیوں کے لئے آئے ہیں اس لئے بجائے لوہے کی تلوار کے لوہے کی قلمیں ہمیں ملی ہیں.اور نیز کتابوں کے چھاپنے اور دُور دراز ملکوں تک اُن تالیفات کے شائع کرنے کے ایسے سہل اور آسان سامان ہمیں میسر آگئے ہیں کہ گذشتہ زمانوں میں سے کسی زمانہ میں اُن کی نظیر پائی نہیں جاتی.یہاں تک کہ وہ مضمون جو برسوں تک لکھنے ناممکن تھے وہ دنوں میں لکھے جاتے ہیں.ایسا ہی وہ تالیفات جن کا دور دراز ملکوں میں پہنچا نا مدت ہائے دراز کا کام تھا وہ تھوڑے ہی دنوں میں ہم دنیا کے کناروں تک پہنچا سکتے ہیں اور اپنی حجت بالغہ سے تمام قوموں کو مطلع کر سکتے ہیں.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ اشاعت اور اتمام حجت ناممکن تھی کیونکہ اُس وقت نہ کتابوں کے چھاپنے کے آلات تھے اور نہ دوسرے ممالک میں کتابوں کے پہنچانے کے لئے سہل اور آسان طریق میسر تھے.(۳) تیسرا امر جو اس بات کو تمام دنیا پر واضح کرنے کے لئے شرط ہے کہ فلاں دین بمقابل دنیا کے تمام دینوں کے خاص طور پر خدا سے تائید یافتہ ہے اور خدا کا خاص فضل اور خاص نصرت اپنے ساتھ رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ بمقابل دنیا کی تمام قوموں کے ایسے طور سے تائید الہی کے آسمانی نشان اُس کے شامل ہوں کہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۰۹ سورة الصف دوسرے کسی دین کے شامل حال نہ ہوں اور بغیر ذریعہ انسانی ہاتھوں کے خدا دوسرے دینوں کو تباہ کرتا جائے اور ان کے اندر سے روحانی برکت اُٹھا لے مگر وہ دین دوسرے دینوں کے سامنے خدا کے چمکدار نشانوں سے اپنی ممتاز حالت ثابت کرے اور دُنیا کے اس سرے سے اُس سرے تک کوئی مذہب نشان آسمانی میں اُس کا مقابلہ نہ کر سکے باوجود اس بات کے کہ کوئی حصہ آبادی دُنیا کا اس دعوت مقابلہ سے بے خبر نہ ہو.یہ امر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کامل طور پر ظہور پذیر ہونا ناممکن تھا کیونکہ اس کے لئے یہ شرط تھی کہ دنیا کی تمام قوموں کو جو مشرق اور مغرب اور جنوب اور شمال میں رہتی ہیں یہ موقعہ مل سکے کہ وہ ایک دوسرے کے مقابل پر اپنے مذہب کی تائید میں خدا سے چاہیں جو آسمانی نشانوں سے اس مذہب کی سچائی پر گواہی دے مگر جس حالت میں ایک قوم دوسری قوم سے ایسی مخفی اور مجوب تھی کہ گویا ایک دوسری دنیا میں رہتی تھی تو یہ مقابلہ ممکن نہ تھا اور نیز اس زمانہ میں ابھی اسلام کی تکذیب انتہا تک نہیں پہنچی تھی اور ابھی وہ وقت نہیں آیا تھا کہ خدا کی غیرت تقاضا کرے کہ اسلام کی تائید میں آسمانی نشانوں کی بارش ہو مگر ہمارے زمانہ میں وہ وقت آگیا کیونکہ اس زمانہ میں گندی تحریروں کے ذریعہ سے اس قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی توہین کی گئی ہے کہ کبھی کسی زمانہ میں کسی نبی کی تو ہین نہیں ہوئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تو ثابت نہیں ہوتا کہ کسی عیسائی یا یہودی نے اسلام کے رد اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین میں دو یا تین ورق کا رسالہ بھی لکھا ہو مگر اب اس قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تو ہین اور اسلام کے رد میں کتابیں لکھی گئیں اور اشتہار شائع کئے گئے اور اخبار میں تمام دنیا میں پھیلائی گئیں کہ اگر وہ تمام جمع کی جائیں تو وہ ایک بڑے پہاڑ کے برابر طومار ہوتا ہے بلکہ اس سے زیادہ.ان اندھوں نے اسلام کو ہر ایک برکت سے بے بہرہ قرار دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی آسمانی نشان نہیں دکھلایا اور اس بات پر زور دیا ہے کہ دنیا میں اسلام کا نام ونشان نہ رہے اور ایک عاجز انسان کی خدائی ثابت کرنے کے لئے خدا کے پاک دین اور پاک رسول کی وہ تو ہین کی گئی ہے جو ابتدائے دنیا سے آج تک کسی دین اور کسی رسول کی ایسی تو ہین نہیں ہوئی اور در حقیقت یہ ایسا زمانہ آ گیا ہے کہ شیطان اپنے تمام ذریات کے ساتھ ناخنوں تک زور لگا رہا ہے کہ اسلام کو نابود کر دیا جاوے اور چونکہ بلاشبہ سچائی کا جھوٹ کے ساتھ یہ آخری جنگ ہے اس لئے یہ زمانہ بھی اس بات کا حق رکھتا تھا کہ اس کی اصلاح کے لئے کوئی خدا کا مامور آوے.پس وہ مسیح موعود ہے جو موجود ہے.اور زمانہ حق رکھتا تھا کہ اس نازک وقت میں آسمانی نشانوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی دنیا پر حجت پوری ہو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۰ سورة الصف آمین ثم آمین.سو آسمانی نشان ظاہر ہورہے ہیں.اور آسمان جوش میں ہے کہ اس قدر آسمانی نشان ظاہر کرے کہ اسلام کی فتح کا نقارہ ہر ایک ملک میں اور ہر ایک حصہ دُنیا میں بج جائے.اسے قادر خدا ! تو جلد وہ دن لا کہ جس فیصلہ کا تو نے ارادہ کیا ہے وہ ظاہر ہو جائے اور دُنیا میں تیرا جلال چمکے اور تیرے دین اور تیرے رسول کی فتح ہو.چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۹۱ تا ۹۵) جب ہم اس ترتیب کو دیکھتے ہیں کہ ایک طرف تو رسول اللہ کی زندگی کے دو ہی مقصد بیان فرمائے ہیں.تکمیل ہدایت اور تکمیل اشاعت ہدایت اور اول الذکر کی تکمیل چھٹے دن یعنی جمعہ کے دن ہوئی.جبکہ آیت الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُم نازل ہوئی اور دوسری تکمیل کے لئے بالا تفاق مانا گیا ہے کہ وہ مسیح ابن مریم یعنی مسیح موعود کے زمانہ میں ہوگی.سب مفسروں نے بالا تفاق لکھ دیا ہے کہ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَی کی نسبت لکھتے ہیں کہ یہ مسیح موعود کے زمانہ میں ہوگی اور جبکہ پہلی تکمیل چھٹے دن ہوئی تو دوسری تکمیل بھی چھٹے دن ہی ہونی چاہیے تھی اور قرآنی دن ایک ہزار برس کا ہوتا ہے.گو یا مسیح موعود چھٹے ہزار میں ہوگا.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۴۴ مورخه ۲۶ / جولائی ۱۹۰۸ء صفحه ۳) یہ بھی وعدہ ہے کہ سارے ادیان کو جمع کیا جاوے گا اور ایک دین کو غالب کیا جاوے گا یہ بھی مسیح موعود کے وقت کی ایک جمع ہے کیونکہ لِيُظهِرةُ عَلَى الدِّينِ كُله مفسروں نے مان لیا ہے کہ مسیح موعود ہی کے وقت میں الحکام جلد ۶ نمبر ۴۳ مورخه ۲ /دسمبر ۱۹۰۲ صفحه ۲) ہوگا.خدا تعالیٰ نے جو ا تمام نعمت کی ہے وہ یہی دین ہے، جس کا نام اسلام رکھا ہے.پھر نعمت میں جمعہ کا دن بھی ہے جس روز اتمام نعمت ہوا.یہ اس کی طرف اشارہ تھا کہ پھر ا تمام نعمت جو لِيُظهِرَهُ عَلَى الدِّينِ محله کی صورت میں ہو گا وہ بھی ایک عظیم الشان جمعہ ہوگا.وہ جمعہ اب آ گیا ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ نے وہ جمعہ مسیح موعود کے ساتھ مخصوص رکھا ہے اس لیے کہ اتمام نعمت کی صورتیں دراصل دو ہیں اوّل تکمیل ہدایت.دوم تکمیل اشاعت ہدایت.اب تم غور کر کے دیکھو.تکمیل ہدایت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کامل طور پر ہو چکی لیکن اللہ تعالیٰ نے مقدر کیا تھا کہ تکمیل اشاعت ہدایت کا زمانہ دوسرا زمانہ ہو جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بروزی رنگ میں ظہور فرما دیں اور وہ زمانہ مسیح موعود اور مہدی کا زمانہ ہے.یہی وجہ کہ ليظهرة على الدين محلہ اس شان میں فرمایا گیا ہے.تمام مفسرین نے بالا تفاق اس امر کو تسلیم کر لیا ہے کہ یہ آیت مسیح موعود کے زمانہ سے متعلق ہے.در حقیقت اظہار دین اسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۱ سورة الصف گل مذاہب میدان میں نکل آویں اور اشاعت مذہب کے ہر قسم کے مفید ذریعے پیدا ہو جائیں اور وہ زمانہ خدا کے فضل سے آ گیا ہے؛ چنانچہ اس وقت پریس کی طاقت سے کتابوں کی اشاعت اور طبع میں جو جو سہولتیں میسر آئی ہیں وہ سب کو معلوم ہیں.ڈاکخانوں کے ذریعہ سے کل دنیا میں تبلیغ ہوسکتی ہے.اخباروں کے ذریعہ سے تمام دنیا کے حالات پر اطلاع ملتی ہے.ریلوں کے ذریعہ سفر آسان کر دیئے گئے ہیں.غرض جس قدر آئے دن نئی ایجادیں ہوتی جاتی ہیں اسی قدر عظمت کے ساتھ مسیح موعود کے زمانہ کی تصدیق ہوتی جاتی ہے اور اظہار دین کی صورتیں نکلتی آتی ہیں.اس لیے یہ وقت وہی وقت ہے جس کی پیشگوئی اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ لِيُظهِرةُ عَلَى الدِّينِ كُلِہ کہہ کر فرمائی تھی.یہ وہی زمانہ ہے جو الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَى ( المائدة : ۴) کی شان کو بلند کرنے والا اور تحمیل اشاعت ہدایت کی صورت میں دوبارہ اتمام نعمت کا زمانہ ہے اور پھر یہ وہی وقت اور جمعہ ہے جس میں وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کی پیشگوئی پوری ہوتی ہے.اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور بروزی رنگ میں ہوا ہے اور ایک جماعت صحابہ کی پھر قائم ہوئی ہے.اتمام نعمت کا وقت آ پہنچا ہے.لیکن تھوڑے ہیں جو اس سے آگاہ ہیں اور بہت ہیں جو ہنسی کرتے اور ٹھٹھوں میں اڑاتے ہیں، مگر وہ وقت قریب ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق تجلی فرمائے گا اور اپنے زور آور حملوں سے دکھا دے گا کہ اس کا نذیر سچا ہے.الحاکم جلد ۶ نمبر ۱۸ مورخه ۱۷ارمئی ۱۹۰۲ صفحه ۶۵) هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَة بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى التنين محلہ پر سوچتے سوچتے مجھے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں دولفظ ھدی اور حق کے رکھے ہیں.ھڈی تو یہ ہے کہ اندر روشنی پیدا کرے.معمانہ رہے.یہ گویا ندرونی اصلاح کی طرف اشارہ ہے، جو مہدی کا کام ہے اور حق کا لفظ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ خارجی طور پر باطل کو شکست دیوے چنانچہ دوسری جگہ آیا ہے جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ (بنی اسرائیل : ۸۲) اور خود اس آیت میں بھی فرمایا ہے لیظهرَةُ عَلَى الدِّينِ كُلِهِ.یعنی اس رسول کی آمد کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ حق کو غلبہ دے گا.یہ غلبہ تلوار اور تفنگ سے نہیں ہوگا، بلکہ وجوہ عقیلہ سے ہوگا.یا درکھو کہ پاک صاف عقل کا خاصہ ہے کہ وہ قصوں پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ اسرار کو کھینچ لاتی ہے.اسی واسطے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن کو حکمت دی گئی.اُن کو خیر کثیر دی گئی ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۱۳ مورخه ۱/۱۰ پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۶)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۲ سورة الصف اس امر کی صداقت کو ظاہر کرنے کے لئے اسلام جبر سے نہیں پھیلا.اللہ تعالیٰ نے خاتم الخلفاء کو پیدا کیا اور اس کا کام يَضَعُ الحزب رکھ کر دوسری طرف لِيُظهِرَهُ عَلَى الدِّينِ محلہ قرار دیا.یعنی وہ اسلام کا غلبہ عمل بالکہ پر حجت اور براہین سے قائم کرے گا اور جنگ و جدال کو اُٹھا دے گا.وہ لوگ سخت غلطی کرتے ہیں جو کسی خونی مهدی اور خونی مسیح کا انتظار کرتے ہیں.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۴ مورخہ ۱۰ جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۳) یہ زمانہ اس قسم کا آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے وسائل پیدا کر دیئے ہیں کہ دنیا ایک شہر کا حکم رکھتی ہے اور وَإِذَا النُّفُوسُ زُوجَتْ (التکویر : ۸) کی پیشگوئی پوری ہوگئی ہے.اب سب مذاہب میدان میں نکل آئے ہیں اور یہ ضروری امر ہے کہ ان کا مقابلہ ہو اور ان میں ایک ہی سچا ہو گا اور غالب آئے گا لِيُظْهِرَةً عَلَى الدِّينِ تخلیہ اس کی طرف اشارہ کرتا ہے.یہ مقابلہ مذاہب کا شروع ہو گیا ہے.اور اسی مذہبی گشتی کا سلسلہ نری زبان تک ہی نہیں رہا، بلکہ قلم نے اس میں سے سب سے بڑھ کر حصہ لیا ہے.لاکھوں مذہبی رسالے شائع ہور ہے ہیں.اس وقت مختلف مذاہب خصوصاً نصاری کے جو حملے اسلام پر ہو رہے ہیں.جو شخص ان حالات سے واقفیت رکھتا ہے اور اسے ان پر سوچنے کا موقع ملا ہے تو وہ ان ضرورتوں کو دیکھ کر بے اختیار ہو کر اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ یہ وقت ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے اسلام کی طرف زیادہ توجہ کرے.جو شخص اسلام پر ان حملوں کی رفتار کو دیکھتا ہے، تو وہ اس ضرورت کو محسوس کرتا ہے، لیکن جس کو کوئی خبر ہی نہیں ہے وہ ان نقصانوں کی بابت کیا کہہ سکتا ہے جو اسلام کو پہنچائے گئے ہیں.مسلمانوں نے نادان دوست کے رنگ میں اور غیر مذاہب والوں خصوصا عیسائیوں نے دشمنی کے لباس میں، وہ تو یہی کہتا ہے کہ اسلام کا کیا بگڑا ہے؟ مگر اسے معلوم نہیں کہ اسلام کی ظاہری اور جسمانی صورت میں بھی ضعف آ گیا ہے.وہ قوت اور شوکت اسلامی سلطنت کی نہیں اور دینی طور پر بھی وہ بات جو مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّین میں سکھائی گئی تھی اس کا نمونہ نظر نہیں آتا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخه ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۲،۱) يَااَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِنْ عَذَاب اليمن تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَ رَسُولِهِ وَ تُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُم ذلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ يَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدخلكم جنت جَنَّتِ لا تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهرُ وَمَسْكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنْتِ عَدْنٍ ذَلِكَ الْفَوْزُ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ۴۱۳ سورة الصف الْعَظِيمُ وَأَخْرى تُحِبُّونَهَا نَصُرُ مِنَ اللهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ اے دو لوگو! جو ایمان لائے.کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت کی طرف رہبری کروں کہ جو تم کو عذاب الیم سے نجات بخشے.خدا اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ.اور خدا کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے کوشش کرو کہ یہی تمہارے لئے بہتر ہے.اس سے خدا تمہارے گناہوں کو بخشے گا.اور ان بہشتوں میں داخل کرے گا.جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور وہ محل عطا کرے گا کہ جو پاک اور جاودانی بہشتوں میں ہیں.یہی انسان کے لئے سعادت عظمیٰ ہے دوسری یہ ہے جسے تم اسی دُنیا میں چاہتے ہو کہ خدا کی طرف سے مدد ہے اور فتح قریب ہے.( براہین احمدیہ چہار حصص ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۵۹،۲۵۸ حاشیہ نمبر ۱۱) نمبر۱۱) اے دے لوگو جو ایمان لائے کیا تمہیں میں ایک سوداگری کی خبر دوں جو تمہیں درد ناک عذاب سے نجات دے.یعنی یہ سوداگریاں جو تم کر رہے ہو یہ خساروں سے خالی نہیں اور ان میں آئے دن عذاب بھگتنا پڑتا ہے سو آؤ تمہیں وہ سوداگری بتلاویں جس میں نفع ہی نفع ہے اور خسارہ کا احتمال نہیں اور وہ یہ ہے کہ خدا اور اس کے بھیجے ہوئے پر ایمان لاؤ اور اپنے مال اور جان کے ساتھ خدا کی راہ میں کوششیں کرو اگر تمہیں سمجھ ہو تو یہی سوداگری تمہارے لئے بہتر ہے جس سے تمہارا روحانی مال بہت بڑھ جائے گا.ست بچن، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۲۲۵) مال چونکہ تجارت سے بڑھتا ہے، اس لیے خدا تعالیٰ نے بھی طلب دین اور ترقی دین کی خواہش کو ایک تجارت ہی قرار دیا.چنانچہ فرمایا ہے هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذَاب الیم سب سے عمدہ تجارت دین کی ہے ، جو دردناک عذاب سے نجات دیتی ہے ، اس میں بھی خدا تعالی کے ان ہی الفاظ میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ هَلُ آدُلكُم عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ - الحام جلد ۶ نمبر ۲۵ مورخہ ۱۷ار جولائی ۱۹۰۲ صفحه ۵)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۵ سورة الجمعة اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيطِنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تفسير سورة الجُمُعَةِ بیان فرموده سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُلُوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ 0 قرآن کہتا ہے کہ یہ نہیں کہ زمین تقدیس سے خالی ہے بلکہ زمین پر بھی خدا کی تقدیس ہو رہی ہے نہ صرف آسمان پر جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَ اِنْ مِّنْ شَيْءٍ إِلا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ ( بنی اسرائیل : ۴۵ ) - يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّبُوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ یعنی ذرہ ذرہ زمین کا اور آسمان کا خدا کی تحمید اور تقدیس کر رہا ہے اور جو کچھ ان میں ہے وہ تحمید اور تقدیس میں مشغول ہے پہاڑ اُس کے ذکر میں مشغول ہیں دریا اُس کے ذکر میں مشغول ہیں درخت اُس کے ذکر میں مشغول ہیں اور بہت سے راستباز اُس کے ذکر میں مشغول ہیں اور جو شخص دل اور زبان کے ساتھ اس کے ذکر میں مشغول نہیں اور خدا کے آگے فروتنی نہیں کرتا اس سے طرح طرح کے شکنجوں اور عذابوں سے قضا و قدر الہی فروتنی کرا رہی ہے اور جو کچھ فرشتوں کے بارے میں خدا کی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ نہایت درجہ اطاعت کر رہے ہیں یہی تعریف زمین کے پات پات اور ذرہ ذرہ کی نسبت قرآن شریف میں موجود ہے کہ ہر ایک چیز اُس کی اطاعت کر رہی ہے ایک پتہ بھی بجز اس کے امر کے گر نہیں سکتا اور بجز اس کے حکم کے نہ کوئی دوا شفا دے سکتی ہے اور نہ کوئی غذا موافق ہو سکتی ہے اور ہر ایک چیز غایت درجہ کی تذلیل اور عبودیت سے خدا کے آستانہ پر گری ہوئی ہے اور اُس کی فرمانبرداری میں مستغرق ہے.پہاڑوں اور زمین کا ذرہ ذرہ اور دریاؤں اور سمندروں کا قطرہ قطرہ اور درختوں اور بوٹیوں کا پات پات اور ہر ایک جز ان کا اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الجمعة انسان اور حیوانات کے کل ذرات خدا کو پہچانتے ہیں اور اس کی اطاعت کرتے ہیں اور اس کی تحمید و تقدیس میں مشغول ہیں اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے فرما یا يُسَبِّحُ لِلهِ مَا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ یعنی جیسے آسمان پر ہر یک چیز خدا کی تسبیح و تقدیس کر رہی ہے ویسے زمین پر بھی ہر ایک چیز اُس کی تسبیح و تقدیس کرتی ہے.پس کیا زمین پر خدا کی تحمید و تقدیس نہیں ہوتی ایسا کلمہ ایک کامل عارف کے منہ سے نہیں نکل سکتا بلکہ زمین کی چیزوں میں سے کوئی چیز تو شریعت کے احکام کی اطاعت کر رہی ہے اور کوئی چیز قضا و قدر کے احکام کے تابع ہے اور کوئی دونوں کی اطاعت میں کمر بستہ ہے کیا بادل کیا ہوا کیا آگ کیا زمین سب خدا کی اطاعت اور تقدیس میں محو ہیں اگر کوئی انسان انہی شریعت کے احکام کا سرکش ہے تو الہی قضا و قدر کے حکم کا تابع ہے.ان دونوں حکومتوں سے باہر کوئی نہیں کسی نہ کسی آسمانی حکومت کا جواہر ایک کی گردن پر ہے.ہاں البتہ انسانی دلوں کی صلاح اور فساد کے لحاظ سے غفلت اور ذکر الہی نوبت به نوبت زمین پر اپنا غلبہ کرتے ہیں مگر بغیر خدا کی حکمت اور مصلحت کے یہ مد و جزر خود بخود نہیں خدا نے چاہا کہ زمین میں ایسا ہو سو ہو گیا.(کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۳۳،۳۲) هُوَ الَّذِى بَعَثَ فِي الْأُمِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَلٍ مُّبِيْنٍ وَأَخَرِينَ ق مِنْهُم لَنَا يَلْحَقُوا بهم وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ..وہ خدا ہے جس نے ان پڑھوں میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا.ان پر وہ اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اگر چہ وہ لوگ اس سے پہلے صریح گمراہی میں پھنسے ہوئے تھے.(براہین احمدیہ چهار حصص ، روحانی خزائن جلد ا صفحه ۵۶۳) وہ خداوہ کریم ورحیم ہے جس نے امیوں میں انہیں میں سے ایک ایسا کامل رسول بھیجا ہے کہ جو باوجود امی ہونے کے خدا کی آیات ان پر پڑھتا ہے.اور انہیں پاک کرتا ہے اور کتاب اور حکمت سکھلاتا ہے اگر چہ وہ لوگ اس نبی کے ظہور سے پہلے صریح گمراہی میں پھنسے ہوئے تھے اور ان کے گروہ میں سے اور ملکوں کے لوگ بھی ہیں جن کا اسلام میں داخل ہونا ابتدا سے قرار پا چکا ہے اور ابھی وہ مسلمانوں سے نہیں ملے.اور خدا غالب اور حکیم ہے جس کا فعل حکمت سے خالی نہیں.یعنی جب وہ وقت آ پہنچے گا کہ جو خدا نے اپنی حکمت کاملہ کے لحاظ
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۷ سورة الجمعة سے دوسرے ملکوں کے مسلمان ہونے کے لئے مقرر کر رکھا ہے.تب وہ لوگ دین اسلام میں داخل ہوں گے.بر این احمد یہ چہار صص، روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۶۲ حاشیہ نمبر ۱۱) اس آیت کا ماحصل یہ ہے کہ خداوہ خدا ہے جس نے ایسے وقت میں رسول بھیجا کہ لوگ علم اور حکمت سے بے بہرہ ہو چکے تھے اور علوم حکمیہ دینیہ جن سے تکمیل نفس ہو اور نفوس انسانی علمی اور عملی کمال کو پہنچیں بالکل گم ہو گئی تھی اور لوگ گمراہی میں مبتلا تھے.یعنی خدا اور اس کی صراط مستقیم سے بہت دُور جا پڑے تھے.تب ایسے وقت میں خدا تعالیٰ نے اپنا رسول اُمّی بھیجا اور اُس رسول نے اُن کے نفسوں کو پاک کیا اور علم الکتاب اور حکمت سے اُن کو ملو کیا یعنی نشانوں اور منجزات سے مرتبہ یقین کامل تک پہنچایا اور خدا شناسی کے ٹور سے اُن کے دلوں کو روشن کیا اور پھر فرمایا کہ ایک گروہ اور ہے جو آخری زمانہ میں ظاہر ہوگا وہ بھی اول تاریکی اور گمراہی میں ہوں گے اور علم اور حکمت اور یقین سے دُور ہوں گے تب خدا اُن کو بھی صحابہ کے رنگ میں لائے گا یعنی جو کچھ صحابہ نے دیکھا وہ اُن کو بھی دکھایا جائے گا یہاں تک کہ اُن کا صدق اور یقین بھی صحابہ کے صدق اور یقین کی مانند ہو جائے گا اور حدیث صحیح میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کے وقت سلمان فارسی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا لوكان الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُرَيَّا لَنَالَهُ رَجَلٌ مِنْ فَارِسَ یعنی اگر ایمان ثریا پر یعنی آسمان پر بھی اُٹھ گیا ہو گا تب بھی ایک آدمی فارسی الاصل اُس کو واپس لائے گا.یہ اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ ایک شخص آخری زمانہ میں فارسی الاصل پیدا ہوگا اس زمانہ میں جس کی نسبت لکھا گیا ہے کہ قرآن آسمان پر اٹھایا جائے گا یہی وہ زمانہ ہے جو سیح موعود کا زمانہ ہے.اور یہ فارسی الاصل وہی ہے جس کا نام مسیح موعود ہے کیونکہ صلیبی حملہ جس کے توڑنے کے لئے مسیح موعود کو آنا چاہیئے وہ حملہ ایمان پر ہی ہے اور یہ تمام آثار صلیبی حملہ کے زمانہ کے لئے بیان کئے گئے ہیں اور لکھا ہے کہ اس حملہ کا لوگوں کے ایمان پر بہت برا اثر ہو گا.وہی حملہ ہے جس کو دوسرے لفظوں میں دجالی حملہ کہتے ہیں.آثار میں ہے کہ اُس دنبال کے حملہ کے وقت بہت سے نادان خدائے واحد لاشریک کو چھوڑ دیں گے اور بہت سے لوگوں کی ایمانی محبت ٹھنڈی ہو جائے گی اور مسیح موعود کا بڑا بھاری کام تجدید ایمان ہوگا کیونکہ حملہ ایمان پر ہے اور حدیث لَوْ كَانَ الایمان سے جو شخص فارسی الاصل کی نسبت ہے یہ ثابت ہے کہ وہ فارسی الاصل ایمان کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے آئے گا.پس جس حالت میں مسیح موعود اور فارسی الاصل کا زمانہ بھی ایک ہی ہے اور کام بھی ایک ہی ہے یعنی ایمان کو دوبارہ قائم کرنا اس لئے یقینی طور پر ثابت ہوا کہ مسیح موعود ہی فارسی الاصل
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۸ سورة الجمعة ہے اور اُسی کی جماعت کے حق میں یہ آیت ہے وَ آخَرِيْنَ مِنْهُم لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ کمال ضلالت کے بعد ہدایت اور حکمت پانے والے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اور برکات کو مشاہدہ کرنے والے صرف دوہی گروہ ہیں اوّل صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے سخت تاریکی میں مبتلا تھے اور پھر بعد اس کے خدا تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے زمانہ نبوی پایا اور معجزات اپنی آنکھوں سے دیکھے اور پیشگوئیوں کا مشاہدہ کیا اور یقین نے اُن میں ایک ایسی تبدیلی پیدا کی کہ گویا صرف ایک رُوح رہ گئے.دوسرا گروہ جو بموجب آیت موصوفہ بالا صحابہ کی مانند ہیں مسیح موعود کا گروہ ہے.کیونکہ یہ گروہ بھی صحابہ کی مانند آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کو دیکھنے والا ہے اور تاریکی اور ضلالت کے بعد ہدایت پانے والا.اور آیت الخَرِينَ مِنْهُمُ میں جو اس گروہ کو مِنْهُم کی دولت سے یعنی صحابہ سے مشابہ ہونے کی نعمت سے حصہ دیا گیا ہے.یہ اسی بات کی طرف اشارہ ہے یعنی جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات دیکھے اور پیشگوئیاں مشاہدہ کیں ایسا ہی وہ بھی مشاہدہ کریں گے اور درمیانی زمانہ کو اس نعمت سے کامل طور پر حصہ نہیں ہوگا.چنانچہ آج کل ایسا ہی ہوا کہ تیرہ سو برس بعد پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا دروازہ کھل گیا اور لوگوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا کہ خسوف کسوف رمضان میں موافق حدیث دار قطنی اور فتاوی ابن حجر کے ظہور میں آ گیا یعنی چاند گرہن اور سورج گرہن رمضان میں ہوا.اور جیسا کہ مضمون حدیث تھا.اسی طرح پر چاند گرہن اپنے گرہن کی راتوں میں سے پہلی رات میں اور سورج گرہن اپنے گرہن کے دنوں میں سے بیچ کے دن میں وقوع میں آیا.ایسے وقت میں کہ جب مہدی ہونے کا مدعی موجود تھا اور یہ صورت جب سے کہ زمین اور آسمان پیدا ہوا کبھی وقوع میں نہیں آئی کیونکہ اب تک کوئی شخص نظیر اس کی صفیہ تاریخ میں ثابت نہیں کر سکا.سو یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ تھا جو لوگوں نے آنکھوں سے دیکھ لیا.پھر ذوالسنین ستارہ بھی جس کا نکلنا مہدی اور مسیح موعود کے وقت میں بیان کیا گیا تھا.ہزاروں انسانوں نے نکلتا ہوا دیکھ لیا.ایسا ہی جاوا کی آگ بھی لاکھوں انسانوں نے مشاہدہ کی ایسا ہی طاعون کا پھیلنا اور حج سے روکے جانا بھی سب نے بچشم خود ملاحظہ کر لیا.ملک میں ریل کا طیار ہونا اونٹوں کا بے کار ہونا یہ تمام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات تھے جو اس زمانہ میں اسی طرح دیکھے گئے جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے معجزات کو دیکھا تھا.اس وجہ سے اللہ جل شانہ نے اس آخری گروہ کو مِنْهُمُ کے لفظ سے پکارا تا یہ اشارہ کرے کہ معائنہ معجزات میں وہ ود
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۱۹ سورة الجمعة بھی صحابہ کے رنگ میں ہی ہیں.سوچ کر دیکھو کہ تیرہ سو برس میں ایسا زمانہ منہاج نبوت کا اور کس نے پایا.اس زمانہ میں جس میں ہماری جماعت پیدا کی گئی ہے کئی وجوہ سے اس جماعت کو صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشابہت ہے.وہ معجزات اور نشانوں کو دیکھتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے دیکھا.وہ خدا تعالیٰ کے نشانوں اور تازہ بتازہ تائیدات سے نور اور یقین پاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے پایا.وہ خدا کی راہ میں لوگوں کے ٹھیٹھے اور جنسی اور لعن طعن اور طرح طرح کی دل آزاری اور بد زبانی اور قطع رحم وغیرہ کا صدمہ اُٹھا رہے ہیں جیسا کہ صحابہ نے اٹھایا.وہ خدا کے کھلے کھلے نشانوں اور آسمانی مددوں اور حکمت کی تعلیم سے پاک زندگی حاصل کرتے جاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے حاصل کی.بہتیرے اُن میں سے ہیں کہ نماز میں روتے اور سجدہ گاہوں کو آنسوؤں سے تر کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم روتے تھے.بہتیرے اُن میں ایسے ہیں جن کو سچی خوا ہیں آتی ہیں اور الہام الہی سے مشرف ہوتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم ہوتے تھے.بہتیرے اُن میں ایسے ہیں کہ اپنے محنت سے کمائے ہوئے مالوں کو محض خدا تعالیٰ کی مرضات کے لئے ہمارے سلسلہ میں خرچ کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم خرچ کرتے تھے.اُن میں ایسے لوگ کئی پاؤ گے کہ جو موت کو یا در کھتے اور دلوں کے نرم اور کچی تقویٰ پر قدم مار رہے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی سیرت تھی.وہ خدا کا گروہ ہے جن کو خدا آپ سنبھال رہا ہے اور دن بدن اُن کے دلوں کو پاک کر رہا ہے اور ان کے سینوں کو ایمانی حکمتوں سے بھر رہا ہے.اور آسمانی نشانوں سے اُن کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے.جیسا کہ صحابہ کو کھینچتا تھا.غرض اس جماعت میں وہ ساری علامتیں پائی جاتی ہیں جو اُخَرِينَ مِنْهُمْ کے لفظ سے مفہوم ہو رہی ہیں.اور ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ کا فرمودہ ایک دن پورا ہوتا.!!! اور آیت أَخَرِيْنَ مِنْهُمُ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ جیسا کہ یہ جماعت مسیح موعود کی صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت سے مشابہ ہے ایسا ہی جو شخص اس جماعت کا امام ہے وہ بھی ظلی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتا ہے جیسا کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہدی موعود کی صفت فرمائی کہ وہ آپ سے مشابہ ہوگا اور دومشابہت اُس کے وجود میں ہوں گی.ایک مشابہت حضرت مسیح علیہ السلام سے جس کی وجہ سے وہ مسیح کہلائے گا اور دوسری مشابہت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جس کی وجہ سے وہ مہدی کہلائے گا.اسی راز کی طرف اشارہ کرنے کے لئے لکھا ہے کہ ایک حصہ اس کے بدن کا اسرائیلی وضع اور رنگ پر ہوگا اور دوسرا حصہ عربی وضع اور رنگ پر.حضرت مسیح علیہ السلام ایسے وقت میں آئے تھے جبکہ ملت موسوی یونانی حکماء
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة الجمعة کے حملوں سے خطر ناک حالت میں تھی.اور تعلیم توریت اور اُس کی پیشگوئیوں اور منجزات پر سخت حملہ کیا جاتا تھا اور یونانی خیالات کے موافق خدا تعالیٰ کے وجود کو بھی ایک ایسا وجود سمجھا گیا تھا کہ جو صرف مخلوق میں مخلوط ہے اور مذ بر بالا رادہ نہیں.اور سلسلہ نبوت سے ٹھٹھا کیا جاتا تھا.لہذا حضرت عیسی کے مبعوث کرنے سے جو حضرت موسیٰ سے چودہ سو برس بعد آئے خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ تھا کہ موسوی نبوت کی صحت اور اس سلسلہ کی حقانیت پر تازہ شہادت قائم کرے اور نئی تائیدات اور آسمانی گواہوں سے موسوی عمارت کی دوبارہ مرمت کر دیوے.اسی طرح جو اس اُمت کے لئے مسیح موعود بھی چودھویں صدی کے سر پر بھیجا گیا اُس کی بعثت سے بھی یہی مطلب تھا کہ جو یورپ کے فلسفہ اور یورپ کی دجالیت نے اسلام پر طرح طرح کے حملے کئے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور پیشنگوئیوں اور معجزات سے انکار اور تعلیم قرآنی پر اعتراض اور برکات اور انوار اسلام کو سخت استہزا کی نظر سے دیکھا ہے ان تمام حملوں کو نیست و نابود کرے اور نبوت محمدیہ علی صاحبها الف الف سلام کو تازہ تصدیق اور تائید سے حق کے طالبوں پر چمکا دے اور یہی شہر ہے جو براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۲۲ میں آج سے سترہ برس پہلے ایک الہام اس بارہ میں ہوا وہ الہام خدا تعالیٰ کا لاکھوں انسانوں میں شائع ہو چکا ہے اور وہ یہ ہے.” بخرام کہ وقت تو نز دیک رسید و پائے محمد یاں برمنار بلند تر محکم افتاد.پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کا سردار.خدا تیرے سب کام درست کرے گا اور تیری ساری مُرادیں تجھے دے گا.رب الافواج اس طرف توجہ کرے گا.اس نشان کا مدعا یہ ہے کہ قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے منہ کی باتیں ہیں.دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۵۲۲.اور خوب غور کرو کہ میرے نشانوں سے کیا مدعا ٹھہرایا گیا.ابھی میں بیان کر چکا ہوں کہ اس مطلب کے لئے حضرت عیسی علیہ السلام آئے تھے تا تکذیب کی حالت میں نئے نشانوں کے ساتھ تو ریت کی تصدیق کریں.اور اسی مطلب کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے تا نئے نشانوں کے ساتھ قرآن شریف کی سچائی غافل لوگوں پر ظاہر کی جائے.اسی کی طرف الہام الہی میں اشارہ ہے کہ پائے محمد یاں بر منار بلند تر محکم افتاد.اور یہی اشارہ اس دوسرے الہام براہین احمدیہ میں ہے.الرَّحْمٰنُ عَلَمَ الْقُرْآنَ - لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا أَنْهُمْ مِنْ نَذِيرٍ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ - قُلْ إِنِّي اُمِرْتُ وَ أَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ.اگر کوئی کہے کہ حضرت عیسی نبی اللہ ہو کر توریت کی تصدیق کے لئے آئے.پس اُن کے مقابل پر تمہاری گواہی کیا قدر رکھتی ہے.اس جگہ بھی تصدیق جدید کے لئے کوئی نبی ہی چاہیے تھا سو اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام میں اس نبوت کا دروازہ تو بند ہے جو اپنا سکہ جمائی ہو.اللہ تعالی 66 -
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۱ سورة الجمعة فرماتا ہے وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِينَ (الاحزاب : ۴۱) اور حدیث میں ہے لانبی بعدی.اور با ایں ہمہ حضرت مسیح کی وفات نصوص قطعیہ سے ثابت ہو چکی لہذا دنیا میں اُن کے دوبارہ آنے کی اُمید طمع خام.اور اگر کوئی اور نبی نیا یا پرانا آوے تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیوں کر خاتم الانبیاءر ہیں.ہاں وحی ولایت اور مکالمات الہیہ کا دروازہ بند نہیں ہے جس حالت میں مطلب صرف یہ ہے کہ نئے نشانوں کے ساتھ دین حق کی تصدیق کی جائے اور بچے دین کی شہادت دی جائے تو جو نشان خدا تعالیٰ کے نشان ہیں خواہ وہ نبی کے ذریعہ سے ظاہر ہوں اور خواہ ولی کے ذریعہ سے وہ سب ایک درجہ کے ہیں کیونکہ بھیجنے والا ایک ہی ہے.ایسا خیال کرنا سراسر جہالت اور حمق ہے کہ اگر خدا تعالیٰ نبی کے ہاتھ سے اور نبی کے ذریعہ سے کوئی تائید سماوی کرے تو وہ قوت اور شوکت میں زیادہ ہے.اور اگر ولی کی معرفت وہ تائید ہو تو وہ قوت اور شوکت میں کم ہے بلکہ بعض نشان تو تائید اسلام کے ایسے ظاہر ہوتے ہیں کہ اس وقت نہ کوئی نبی ہوتا ہے اور نہ ولی جیسا کہ اصحاب الفیل کے ہلاک کرنے کا نشان ظاہر ہوا.یہ تو مسلم ہے کہ ولی کی کرامت نبی متبوع کا معجزہ ہے پھر جبکہ کرامت بھی معجزہ ہوئی تو منجزات میں تفریق کرنا ایمانداروں کا کام نہیں.ماسوا اس کے حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ محدث بھی نبیوں اور رسولوں کی طرح خدا کے مرسلوں میں داخل ہے.بخاری میں وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِي وَلَا مُحَذَبٍ کی قراءت غور سے پڑھو.اور نیز ایک دوسری حدیث میں ہے کہ علماء أُمَّتِي كَانْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيل.صوفیا نے اپنے مکاشفات سے بھی اس حدیث کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح کی ہے.یہ بھی یادر ہے کہ مسلم میں مسیح موعود کے حق میں نبی کا لفظ بھی آیا ہے یعنی بطور مجاز اور استعارہ کے.اسی وجہ سے براہین احمدیہ میں بھی ایسے الفاظ خدا تعالی کی طرف سے میرے حق میں ہیں.دیکھو صفحہ ۴۹۸ میں یہ الہام ہے.هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدی.اس جگہ رسول سے مراد یہ عاجز ہے.اور پھر دیکھو صفحہ ۵۰۴ برا این احمدیہ میں یہ الہام جرى اللهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ.جس کا ترجمہ ہے خدا کا رسول نبیوں کے لباس میں.اس الہام میں میرا نام رسول بھی رکھا گیا اور نبی بھی.پس جس شخص کے خود خدا نے یہ نام رکھے ہوں اس کو عوام میں سے سمجھنا کمال درجہ کی شوخی ہے.اور خدا کے نشانوں کی شہادتیں کسی طرح کمزور نہیں ہو سکتیں.خواہ نبی کے ذریعہ سے ہوں یا محدث کے ذریعہ سے.اصل تو یہ ہے کہ خود ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور آپ کا فیض ایک مظہر پیدا کر کے اپنی گواہی آپ دلاتا ہے اور ولی کو مفت کا نام حاصل ہوتا ہے.سو در حقیقت ولی جو مصدق ہے وہ آپ سے زینت پاتا ہے آپ اس سے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۲ سورة الجمعة ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۳۰۴تا۳۱۰) زینت نہیں پاتے.اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کے بڑے فائدے دو ہیں جن کے پہنچانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے.ایک حکمت فرقان یعنی معارف و دقائق قرآن دوسری تا ثیر قرآن جو موجب تزکیہ نفوس ہے اور قرآن کی حفاظت صرف اسی قدر نہیں جو اس کے صحف مکتو بہ کو خوب نگہبانی سے رکھیں کیونکہ ایسے کام تو اوائل حال میں یہود اور نصاری نے بھی کئے یہاں تک کہ توریت کے نقطے بھی گن رکھے تھے بلکہ اس جگہ مع حفاظت ظاہری حفاظت فوائد و تاثیرات قرآنی مراد ہے اور وہ موافق سنت اللہ کے تبھی ہو سکتی ہے کہ جب وقتا فوقتا نائب رسول آویں جن میں ظلی طور پر رسالت کی تمام نعمتیں موجود ہوں اور جن کو وہ تمام برکات دی گئی ہوں جو نبیوں کو دی جاتی ہیں.(شهادة القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۸) قرآن شریف اس ذوالفقار تلوار کی مانند ہے جس کے دو طرف دھاریں ہیں ایک طرف کی دھار مومنوں کی اندرونی غلاظت کو کاٹتی ہے اور دوسری طرف کی دھار دشمنوں کا کام تمام کرتی ہے مگر پھر بھی وہ تلوار اس کام کے لئے ایک بہادر کے دست و بازو کی محتاج ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَلَتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتب پس قرآن سے جو تزکیہ حاصل ہوتا ہے اس کو اکیلا بیان نہیں کیا بلکہ وہ نبی کی صفت میں داخل کر کے بیان کیا یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام یوں ہی آسمان پر سے بھی نازل نہیں ہوا بلکہ اس تلوار کو چلانے والا بہادر ہمیشہ ساتھ آیا ہے جو اس تلوار کا اصل جو ہر شناس ہے لہذا قرآن شریف پر سچا اور تازہ یقین دلانے کے لئے اور اس کے جو ہر دکھلانے کے لئے اور اس کے ذریعہ سے اتمام حجت کرنے کے لئے ایک بہادر کے دست و بازو کی ہمیشہ حاجت ہوتی رہی ہے اور آخری زمانہ میں یہ حاجت سب سے زیادہ پیش آئی کیونکہ دجالی زمانہ ہے اور زمین و آسمان کی باہمی لڑائی ہے.( نزول المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۶۹،۴۶۸) وہ رحیم خدا وہ خدا ہے جس نے اُمیوں میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھلاتا ہے اگر چہ وہ پہلے اس سے صریح گمراہ تھے اور ایسا ہی وہ رسول جو ان کی تربیت کر رہا ہے ایک دوسرے گروہ کی بھی تربیت کرے گا جو انہیں میں سے ہو جائیں گے اور انہیں کے کمالات پیدا کر لیں گے مگر ابھی وہ ان سے ملے نہیں اور خدا غالب ہے اور
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۳ سورة الجمعة حکمت والا.اس جگہ یہ نکتہ یا دور ہے کہ آیت وَآخَرِينَ مِنْهُمُ میں اُخَرِینَ کا لفظ مفعول کے محل پر واقع ہے گویا تمام آیت معہ اپنے الفاظ مقدرہ کے یوں ہے هُوَ الَّذِی بَعَثَ فِي الْأُمِينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُ الْآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ یعنی ہمارے خالص اور کامل بندے بجر صحابہ رضی اللہ عنہم کے اور بھی ہیں جن کا گروہ کثیر آخری زمانہ میں پیدا ہوگا اور جیسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی تربیت فرمائی ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس گروہ کی بھی باطنی طور پر تربیت فرمائیں گے یعنی وہ لوگ ایسے زمانہ میں آئیں گے کہ جس زمانہ میں ظاہری افادہ اور استفادہ کا سلسلہ منقطع ہو جائے گا اور مذہب اسلام بہت سی غلطیوں اور بدعتوں سے پر ہو جائے گا اور فقرا کے دلوں سے بھی باطنی روشنی جاتی رہے گی تب خدا تعالیٰ کسی نفس سعید کو بغیر وسیلہ ظاہری سلسلوں اور طریقوں کے صرف نبی کریم کی روحانیت کی تربیت سے کمال روحانی تک پہنچا دے گا اور اس کو ایک گروہ بنائے گا اور وہ گروہ صحابہ کے گروہ سے نہایت شدید مشابہت پیدا کرے گا کیونکہ وہ تمام و کمال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی زراعت ہوگی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیضان ان میں جاری وساری ہوگا اور صحابہ سے وہ ملیں گے یعنی اپنے کمالات کے رو سے اُن کے مشابہ ہو جائیں گے اور ان کو خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے وہی موقعے ثواب حاصل کرنے کے حاصل ہو جائیں گے جو صحابہ کو حاصل ہوئے تھے اور بباعث تنہائی اور بے کسی اور پھر ثابت قدمی کے اسی طرح خدا تعالیٰ کے نزدیک صادق سمجھے جائیں گے کہ جس طرح صحابہ سمجھے گئے تھے کیونکہ یہ زمانہ بہت سی آفتوں اور فتنوں اور بے ایمانی کے پھیلنے کا زمانہ ہوگا اور راستبازوں کو وہی مشکلات پیش آجائیں گی جو صحابہ رضی اللہ عنہم کو پیش آئی تھیں اس لئے وہ ثابت قدمی دکھلانے کے بعد صحابہ کے مرتبہ پر شمار ہوں گے لیکن درمیانی زمانہ فیج اعوج ہے جس میں بباعث رعب اور شوکت سلاطین اسلام اور کثرت اسباب تھم صحابہ کے قدم پر قدم رکھنے والے اور ان کے مراتب کو ظلی طور پر حاصل کرنے والے بہت ہی کم تھے مگر آخری زمانہ اول زمانہ کے مشابہ ہو گا کیونکہ اس زمانہ کے لوگوں پر غربت طاری ہو جائے گی اور بجز ایمانی قوت کے اور کوئی سہارا بلاؤں کے مقابلہ پر ان کے لئے نہ ہو گا سو ان کا ایمان خدا تعالیٰ کے نزدیک ایسا مضبوط اور ثابت ہوگا کہ اگر ایمان آسمان پر چلا جاتا تب بھی وہ اس کو زمین پر لے آتے یعنی ان پر زلزلے آئیں گے اور وہ آزمائے جائیں گے اور سخت فتنے ان کو گھیر میں گے لیکن وہ ایسے ثابت قدم نکلیں گے کہ اگر ایمان افلاک
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۴ سورة الجمعة پر بھی ہوتا تب بھی اس کو نہ چھوڑتے سو یہ تعریف کہ وہ ایمان کو آسمان پر سے بھی لے آتے اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ وہ ایسے زمانہ میں آئیں گے کہ جب چاروں طرف بے ایمانی پھیلی ہوئی ہوگی اور خدا تعالی کی سچی محبت دلوں سے نکل جائے گی مگر ان کا ایمان ان دلوں میں بڑے زور میں ہوگا اور خدا تعالیٰ کے لئے بلاکشی کی ان میں بہت قوت ہوگی اور صدق اور ثبات بے انتہا ہو گا.نہ کوئی خوف ان کے لئے مانع ہوگا اور نہ کوئی دنیوی امیدان کو سست کرے گی اور ایمانی قوت انہیں باتوں سے آزمائی جاتی ہے کہ ایسی آزمائشوں کے وقت اور بے ایمانی کے زمانہ میں ثابت نکلے.سواس حدیث میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ اس گروہ کا اسی وقت میں آنا ضروی ہے جب کہ اس کی آزمائش کے لئے ایسے ایسے اسباب موجود ہوں اور دنیا حقیقی ایمان سے ایسی دور ہو کہ گویا خالی ہو.خلاصہ کلام یہ کہ اللہ جل شانہ ان کے حق میں فرماتا ہے کہ وہ آخری زمانہ میں آنے والے خالص اور کامل بندے ہوں گے جو اپنے کمال ایمان اور کمال اخلاص اور کمال صدق اور کمال استقامت اور کمال ثابت قدمی اور کمال معرفت اور کمال خدا دانی کی رو سے صحابہ کے ہمرنگ ہوں گے اور اس بات کو بخوبی یا د رکھنا چاہیئے کہ در حقیقت اس آیت میں آخری زمانہ کے کاملین کی طرف اشارہ ہے نہ کسی اور زمانہ کی طرف کیونکہ یہ تو آیت کے ظاہر الفاظ سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ کامل لوگ آخری زمانہ میں پیدا ہوں گے جیسا کہ آیت وَ آخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ صاف بتلا رہی ہے اور زمانے تین ہیں ایک اول جو صحابہ کا زمانہ ہے اور ایک اوسط جو مسیح موعود اور صحابہ کے درمیان ہے اور ایک آخری زمانہ جو مسیح موعود کا زمانہ اور مصداق آیت وَآخَرِينَ مِنْهُم کا ہے وہ وہی زمانہ ہے جس میں ہم ہیں.جیسا کہ مولوی صدیق حسن مرحوم قنوجی تم بھو پالوی جو شیخ بطالوی کے نزدیک مجد دوقت ہیں اپنی کتاب مج الکرامہ کے صفحہ ۱۵۵ میں لکھتے ہیں کہ آخریت ایں امت از بدایت الف ثانی شروع کردیده آثار تقوی از اول گم شده بودند و اکنوں سطوت ظاہری اسلام ہم مفقودہ شدہ.تم کلامہ اور یہ تو ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ہی زمانے نیک قرار دیئے ہیں ایک صحابہ کا زمانہ جس کا امتداد اس حد تک متصور ہے جس میں سب سے آخر کوئی صحابی فوت ہوا ہو اور امتداد اس زمانہ کا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے وقت تک ثابت ہوتا ہے اور دوسرا زمانہ وسط ہے جس کو بلحاظ بدعات کثیرہ ام الخبائث کہنا چاہیئے اور جس کا نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فہیج اعوج رکھا ہے اور اس زمانہ کا آخری حصہ جو مسیح موعود کے زمانہ اقبال سے ملحق ہے اس کا حال احادیث نبویہ کے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۵ سورة الجمعة ؟ رو سے نہایت ہی بدتر معلوم ہوتا ہے.بیہقی نے اس کے بارے میں ایک حدیث لکھی ہے یعنی یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس زمانہ کے مولوی اور فتوی دینے والے ان تمام لوگوں سے بدتر ہوں گے جو اس وقت روئے زمین پر موجود ہوں گے اور حج الکرامہ میں لکھا ہے کہ درحقیقت مہدی اللہ ( مسیح موعود ) پر کفر کا فتویٰ دینے والے یہی لوگ ہوں گے اس بات سے اکثر مسلمان بے خبر ہیں کہ احادیث سے ثابت ہے کہ مسیح موعود پر بھی کفر کا فتویٰ ہوگا چنانچہ وہ پیشگوئی پوری ہوئی غرض وہ زمانہ جو اول زمانہ اور مسیح موعود کے زمانہ کے بیچ میں ہے نہایت فاسد زمانہ ہے چنانچہ اس زمانہ کے لوگوں کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں خَيْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ اوَلُهَا وَاخِرُهَا - أَوَّلُهَا فِيْهِمْ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخِرُهَا فِيْهِمْ عِيسَى بْنُ مَرْيَمَ وَبَيْنَ ذَالِكَ فَيْجُ أَعْوَجُ لَيْسُوا مِثْى وَلَسْتُ مِنْهُمْ یعنی امتیں دو ہی بہتر ہیں ایک اول اور ایک آخر اور درمیانی گروہ ایک لشکر کج ہے جو دیکھنے میں ایک فوج اور روحانیت کے رو سے مردہ ہے نہ وہ مجھ سے اور نہ میں ان میں سے ہوں.حدیث سیح میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ آخَرِينَ مِنْهُم لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان فارسی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا تو تحان الإِيْمَانُ عِنْدَ الثَّرَيَّا لَنَالَهُ رَجَلٌ مِنْ فَارِسَ أَوْ رِجَالٌ مِن فَارِس پس اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آخری زمانہ میں فارسی الاصل لوگوں میں سے ایک آدمی پیدا ہوگا کہ وہ ایمان میں ایسا مضبوط ہوگا کہ اگر ایمان ثریا میں ہوتا تو وہیں سے اس کو لے آتا اور ایک دوسری حدیث میں اسی شخص کو مہدی کے لفظ سے موسوم کیا گیا ہے اور اُس کا ظہور آخری زمانہ میں بلاد مشرقیہ سے قرار دیا گیا ہے اور دجال کا ظہور بھی آخری زمانہ میں بلاد مشرقیہ سے قرار دیا گیا ہے.ان دونوں حدیثوں کے ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص دجال کے مقابل پر آنے والا ہے وہ یہی شخص ہے اور سنت اللہ بھی اسی بات کو چاہتی ہے کہ جس ملک میں دجال جیسا خبیث پیدا ہوا اسی ملک میں وہ طبیب بھی پیدا ہو.کیونکہ طبیب جب آتا ہے تو بیمار کی طرف ہی رخ کرتا ہے اور یہ نہایت تعجب کا مقام ہے کہ بموجب احادیث صحیحہ کے دجال تو ہندوستان میں پیدا ہو اور مسیح دمشق کے میناروں پر جا اترے اس میں شک نہیں کہ مدینہ منورہ سے ہندوستان سمت مشرق میں واقع ہے بلاشبہ حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ مشرق کی طرف سے ہی دجال کا ظہور ہو گا اور مشرق کی طرف سے ہی رایات سود مہدی اللہ کے ظاہر ہوں سے گو یا روز ازل سے یہی مقرر ہے کہ محمل فتن بھی مشرق ہی ہے اور محل اصلاح فتن بھی مشرق ہی ہے.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۶ سورة الجمعة اور اس جگہ ایک نکتہ ہے اور وہ یہ ہے کہ جیسا اللہ جل شانہ نے ظاہر الفاظ آیت میں واخَرِيْنَ مِنْهُم کا لفظ استعمال کر کے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ لوگ جو کمالات میں صحابہ کے رنگ میں ظاہر ہوں گے وہ آخری زمانہ میں آئیں گے ایسا ہی اس آیت میں آخَرِينَ مِنْهُم لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کے تمام حروف کے اعداد سے جو ۱۲۷۵ ہیں اس بات کی طرف اشارہ کر دیا جو اخَرِينَ مِنْهُمُ کا مصداق جو فارسی الاصل ہے اپنے نشاء ظاہر کا بلوغ اس سن میں پورا کر کے صحابہ سے مناسبت پیدا کرلے گا سو یہی سن ۱۲۷۵ ہجری جو آیت وَ آخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِھم کے حروف کے اعداد سے ظاہر ہوتا ہے اس عاجز کی بلوغ اور پیدائش ثانی اور تولد روحانی کی تاریخ ہے جو آج کے دن تک چونتیس برس ہوتے ہیں.اور اگر یہ کہا جائے کہ آخَرِينَ مِنْهُمُ کا لفظ جمع ہے پھر ایک پر کیوں کر اطلاق پاسکتا ہے تو اس کا یہ جواب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کا ایک پر اطلاق کر دیا ہے کیونکہ آپ نے اس آیت کی شرح کے وقت سلمان فارسی کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ فارس کے اصل سے ایک ایسا رجل پیدا ہوگا کہ قریب ہے جو ایمان کو ثریا سے زمین پر لے آوے یعنی وہ ایسے وقت میں پیدا ہوگا کہ جب لوگ باعث شائع ہو جانے فلسفی خیالات اور پھیل جانے دہریت اور ٹھنڈے ہو جانے الہی محبت کے ایمانی حالت میں نہایت ضعیف اور سکتے ہو جائیں گے تب خدا تعالیٰ اس کے ہاتھ سے اور اس کے وجود کی برکت سے دوبارہ حقیقی ایمان لوگوں کے دلوں میں پیدا کرے گا گو یا گم شدہ ایمان آسمان سے پھر نازل ہوگا.اور قرآن کریم میں جمع کا لفظ واحد کے لئے آیا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اُمت کہا گیا ہے حالانکہ وہ ایک فرد تھے ماسوا اس کے اس آیت میں اس تفہیم کی غرض سے بھی یہ لفظ اختیار کیا گیا ہے کہ تا ظاہر کیا جائے کہ وہ آنے والا ایک نہیں رہے گا بلکہ وہ ایک جماعت ہو جائے گی جن کو خدا تعالیٰ پر سچا ایمان ہوگا اور وہ اس ایمان کی رنگ و بو پائے گی جو صحابہ کا ایمان تھا.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۰۸ تا ۲۲۰) امیت رحمانیت کو چاہتی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرما يا هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِينَ رسُولاً - رحمانیت کا منشا اس ضرب المثل سے خوب ظاہر ہے.د کر دے کرا دے اور اُٹھانے والا ساتھ دے“ (لا ددلدادے)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہے.اور یہ ظہور اسلام کے ساتھ ہوا.۴۲۷ سورة الجمعة الحکم جلد ۴ نمبر ۱۴ مورخہ ۱۷ را پریل ۱۹۰۰ء صفحہ ۷) يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ يعنی وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن اور قرآنی حکمت لوگوں کو سکھلاتا شہادت القرآن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۴۸) جیسا کہ عِيسَى عِنْدَ مَنَارَةِ دمشق کے لفظوں سے چودہ سو کا عدد مفہوم ہوتا ہے وہ مسیح موعود چودھویں صدی کے سر پر آیا اور جیسا کہ آخرینَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کے عدد سے ۱۲۷۵ نکلتے ہیں.اسی زمانہ میں وہ اصلاح خلق کے لئے طیار کیا گیا.شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۷۵) وَ اخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِم وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ یعنی نبی کریم صلی الله يَعْنِي يُذي النَّبِيُّ الْكَرِيمُ أَخَرِيْنَ مِنْ عليه وسلم اپنی امت کے آخرین کا اپنی باطنی تو جہات کے ذریعہ أُمَّتِهِ بِتَوَجُهَاتِهِ الْبَاطِنِيَّةِ كَمَا كَانَ اس طرح تزکیہ فرمائیں گے جیسا کہ آپ اپنے صحابہ کا تزکیہ فرمایا کرتے تھے.(ترجمہ از مرتب) يزكى صحابته (حمامة البشری ، روحانی خزائن جلدی صفحه ۲۴۴) اشارات نص قرآنی سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ ہیں اور آپ کا سلسلہ خلافت حضرت موسیٰ کے سلسلہ خلافت سے بالکل مشابہ ہے.اور جس طرح حضرت موسیٰ کو وعدہ دیا گیا تھا کہ آخری زمانہ میں یعنی جبکہ سلسلہ اسرائیلی نبوت کا انتہا تک پہنچ جائے گا اور بنی اسرائیل کئی فرقے ہو جائیں گے اور ایک دوسرے کی تکذیب کرے گا یہاں تک کہ بعض بعض کو کا فرکہیں گے تب اللہ تعالیٰ ایک خلیفہ حامی دین موسیٰ یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کو پیدا کرے گا.اور وہ بنی اسرائیل کی مختلف بھیڑوں کو اپنے پاس اکٹھی کرے گا اور بھیڑ یئے اور بکری کو ایک جگہ جمع کر دے گا اور سب قوموں کے لئے ایک حکم بن کر اندرونی اختلاف کو درمیان سے اٹھا دے گا.اور بغض اور کینوں کو دور کر دے گا یہی وعدہ قرآن میں بھی دیا گیا تھا جس کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ آخَرِينَ مِنْهُم لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ اور حدیثوں میں اس کی بہت تفصیل ہے چنانچہ لکھا ہے کہ یہ اُمت بھی اس قدر فرقے ہو جائیں گے جس قدر کہ یہود کے فرقے ہوئے تھے.اور ایک دوسرے کی تکذیب اور تکفیر کرے گا اور یہ سب لوگ عناد اور بغض با ہمی میں ترقی کریں گے.اس وقت تک که مسیح موعود حکم ہو کر دنیا میں آوے.اور جب وہ حکم ہو کر آئے گا تو بغض اور فحنا ء کو دور کر دے گا اور اس کے زمانہ میں بھیڑ یا اور بکری ایک جگہ جمع ہو جائیں گے.چنانچہ یہ بات تمام تاریخ جانے والوں کو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۸ سورة الجمعة معلوم ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ایسے ہی وقت میں آئے تھے کہ جب اسرائیلی قوموں میں بڑا تفرقہ پیدا ہو گیا تھا اور ایک دوسرے کے مکفر اور مکذب ہو گئے تھے.اسی طرح یہ عاجز بھی ایسے وقت میں آیا ہے کہ جب اندرونی اختلافات انتہا تک پہنچ گئے اور ایک فرقہ دوسرے کو کافر بنانے لگا.اس تفرقہ کے وقت میں امت محمدیہ کو ایک حکم کی ضرورت تھی سوخدا نے مجھے حکم کر کے بھیجا ہے (کتاب البریه، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۲۵۵ تا ۲۵۷ حاشیه ) پیشگوئی کا ماحصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تجھ کو علم قرآن دیا گیا ہے ایسا علم جو باطل کو نیست کرے گا.اور اسی پیشگوئی میں فرمایا کہ دو انسان ہیں جن کو بہت ہی برکت دی گئی.ایک وہ معلم جس کا نام محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور ایک یہ تعلم یعنی اس کتاب کا لکھنے والا.اور یہ اس آیت کی طرف بھی اشارہ ہے جو قرآن شریف میں اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ یعنی اس نبی کے اور شاگرد بھی ہیں جو ہنوز ظاہر نہیں ہوئے اور آخری زمانہ میں ان کا ظہور ہو گا.یہ آیت اسی عاجز کی طرف اشارہ ہے کیونکہ جیسا کہ ابھی الہام میں ذکر ہو چکا ہے یہ عاجز روحانی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگردوں میں سے ہے.اور یہ پیشگوئی جو قرآنی تعلیم کی طرف اشارہ فرماتی ہے اس کی تصدیق کے لئے کتاب کرامات الصادقین لکھی گئی تھی جس کی طرف کسی مخالف نے رخ نہیں کیا.اور مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ مجھے قرآن کے حقائق اور معارف کے سمجھنے میں ہر ایک روح پر غلبہ دیا گیا ہے.اور اگر کوئی مولوی مخالف میرے مقابل پر آتا جیسا کہ میں نے قرآنی تفسیر کے لئے بار بار ان کو بلایا تو خدا اس کو ذلیل اور شرمندہ کرتا.سو فہم قرآن جو مجھ کو عطا کیا گیا یہ اللہ جل شانہ کا ایک نشان ہے.میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ عنقریب دنیا دیکھے گی کہ میں اس بیان میں سچا ہوں.(سراج منیر ، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۴۱،۴۰) وَإِنَّ ادَمَ آخِرِ الزَّمَانِ حَقِيقَةً هُوَ اور آخر زمانہ کا آدم در حقیقت ہمارے نبی کریم ہیں نَبِيُّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالنِّسْبَةُ صلى اللہ علیہ وسلم اور میری نسبت اُس کی جناب کے ساتھ بَيْنِي وَبَيْنَهُ كَنِسْبَةِ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ اُستاد اور شاگرد کی نسبت ہے اور خدا تعالیٰ کا یہ قول کہ و وَإِلَيْهِ أَشَارَ سُبْحَانَهُ في قَوْلِهِ وَ أَخَرِيْنَ آخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهم اسی بات کی طرف اشارہ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ فَفَكِّرُ في قَوْلِهِ کرتا ہے.پس آخرین کے لفظ میں فکر کرو.اور خدا نے مجھے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۲۹ سورة الجمعة آخَرِينَ وَأَنزَلَ اللهُ عَلَى فَيْضَ هذا پر اُس رسول کریم کا فیض نازل فرما یا اور اس کو کامل بنایا الرَّسُوْلِ فَأَتَمهُ وَأَكْمَلَهُ، وَجَذَبَ إِلَى نُطقة اور اس نبی کریم کے لطف اور مجود کو میری طرف کھینچا وَجُوْدَهُ، حَتَّى صَارٌ وُجُوْدِی وُجُودَهُ فَمَن یہاں تک کہ میرا وجود اس کا وجود ہو گیا.پس وہ جو دَخَلَ فِي جَمَاعَتِي دَخَلَ فِي صَحَابَةِ سَيِّدِنى میری جماعت میں داخل ہوا در حقیقت میرے سردار خیر خَيْرِ الْمُرْسَلِينَ.وَهَذَا هُوَ مَعْنَى وَاخَرِيْنَ المرسلین کے صحابہ میں داخل ہوا اور یہی معنی اخرين مِنْهُمْ كَمَا لَا يَخْفَى عَلَى الْمُتَدَبِرِينَ.وَمَن مِنْهُمْ کے لفظ کے بھی ہیں جیسا کہ سوچنے والوں پر فَرَّقَ بَيْنِي وَبَيْنَ الْمُصْطَفى فَمَا عَرَفَنِي وَمَا پوشیدہ نہیں اور جو شخص مجھ میں اور مصطفیٰ میں تفریق کرتا رأى.ہے اُس نے مجھ کو نہیں دیکھا ہے اور نہیں پہچانا ہے.(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۲۵۷ تا۲۵۹) ( ترجمہ اصل کتاب سے ) جَاءَ فِي الْآثَارِ أَنَّهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ بُعِثَ آثار میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم في الْأَلْفِ السَّادِسِ مَعَ أَنَّ بَعْقَهُ كَانَ فی چھٹے ہزار میں مبعوث ہوئے حالانکہ آنجناب کی بعثت الْأَلْفِ الْخَامِس بالقطع وَالْيَقِينِ.فَلا قطعاً اور یقیناً پانچویں ہزار میں تھی پس شک نہیں کہ شَكَ أَنَّ هَذِهِ إِشَارَةٌ إِلى وَقْتِ التَّجَلِی یہ اشارہ ہے بجلی تام کے وقت کی طرف اور استیفاء الثَّامِ وَ اسْتِيْفَاء الْمَرَامِ وَ كَمَالِ ظُهُورٍ مرام کی طرف اور روحانیت کے ظہور کے کمال کی الرُّوحَانِيَّةِ وَ أَيَّامِ تَمَوُّحِ الْفُيُوضِ طرف اور جہان میں محمدی فیوض کے موج مارنے کے الْمُحَمَّدِيَّةِ فِي الْعَالَمِينَ، وَهُوَ آخِرُ الْأَلْفِ دنوں کی طرف.اور یہ چھٹے ہزار کا آخر ہے جو زمانہ السَّادِس الذي هُوَ الزَّمَانُ الْمَعْهُودُ لِنُزُولِ کے مسیح موعود کے اترنے کے لئے مقرر ہے.جیسا کہ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ كَمَا يُفْهَمُ مِن كُتُب انبیاء کی کتابوں سے سمجھا جاتا ہے.اور یہ زمانہ یقیناً النَّبِيِّينَ وَإِنَّ هَذَا الزَّمَانَ هُوَ مَوْطاً خدا تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت کے قدم رکھنے کی جگہ قَدَمِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ مِنَ الْحَضْرَةِ الْأَحَدِيَّةِ ہے جیسا کہ آیت وَاخَرِينَ مِنْهُمْ اور پاک تحریروں كَمَا يُفْهَمُ مِنْ آيَةٍ وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ وَآيَاتٍ کی دوسری آیتوں سے مفہوم ہوتا ہے.پس اگر تو عقلمند أُخْرَى مِنَ الصُّحُفِ الْمُطَهَّرَةِ، فَفَكِّرُ إِن ہے تو فکر کر.اور جان کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم كُنتَ مِنَ الْعَاقِلِينَ وَاعْلَمُ أَنَّ جیسا کہ پانچویں ہزار میں مبعوث ہوئے ایسا ہی مسیح موعود
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳ سورة الجمعة دو نَبِيِّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا بُعِثَ فِي کی بروزی صورت اختیار کر کے چھٹے ہزار کے آخر الْأَلْفِ الْخَامِس كَذَالِكَ بُعِثَ فِي آخِرِ الْأَلْفِ میں مبعوث ہوئے.اور یہ قرآن سے ثابت ہے السادس بالخاذِهِ بُرُورَ الْمَسِيحَ الْمَوْعُوْدِ اس میں انکار کی گنجائش نہیں اور بجز اندھوں کے وَذَالِكَ ثَابِتُ بِنَضِ الْقُرْآنِ فَلَا سَبِيلَ إِلَى کوئی اس معنی سے سر نہیں پھیرتا.کیا واخرين الْجُعُوْدِ، وَلَا يُنْكِرُهُ إِلَّا الَّذِي كَانَ مِنَ مِنْهُمْ کی آیت میں فکر نہیں کرتے.اور کس طرح الْعَمِينَ.أَلَا تُفَكَّرُونَ فِي آيَةِ وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ مِنْهُمُ کے لفظ کا مفہوم متحقق ہو اگر رسول کریم وَكَيْفَ يَتَحَقِّقُ مَفْهُوْمُ لفظ " مِنْهُمُ من آخرین میں موجود نہ ہوں جیسا کہ پہلوں میں غَيْرِ أَن يَكُونَ الرَّسُولُ مَوْجُودًا فِي الْآخِرِينَ موجود تھے پس جو کچھ ہم نے ذکر کیا اُس کی تسلیم كَمَا كَانَ فِي الْأَوَّلِينَ.فَلَا بُدَّ مِنْ تَسْلِيمٍ ما سے چارہ نہیں اور منکروں کے لئے بھاگنے کا رستہ ذَكَرْنَاهُ وَلَا مَفَرَّ لِلْمُنْكِرِينَ.وَ مَنْ أَنْكَرَ مِنْ بند ہے اور جس نے اس بات سے انکار کیا کہ نبی أَنَّ بَعْتَ النّبي عَلَيْهِ السَّلامُ يَتَعَلَّقُ بِالْأَلْفِ علیہ السلام کی بعثت چھٹے ہزار سے تعلق رکھتی ہے السَّادِس كَتَعَلُّقِهِ بِالأَلف الخامس فقد جیسا کہ پانچویں ہزار سے تعلق رکھتی تھی پس اُس الْخَامِسِ، فَقَدْ أَنْكَرَ الْحَقِّ وَنَضَ الْفُرْقَانِ وَصَارَ مِن نے حق کا اور نص قرآن کا انکار کیا.بلکہ حق یہ ہے الظَّالِمِينَ.بَلِ الْحَقُّ أَنَّ رُوحَانِيَّتَهُ عَلَيْهِ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت چھٹے السَّلَامُ كَانَ فِي آخِرِ الْأَلْفِ السَّادِيس أغنى ہزار کے آخر میں یعنی ان دنوں میں بہ نسبت اُن في هَذِهِ الْأَيَّامِ أَشَدَّ وَأَقْوَى وَأَكْمَلَ مِن تِلْكَ سالوں کے اقومی اور اکمل اور اشد ہے.بلکہ چودہویں رات کے چاند کی طرح ہے.الْأَعْوَامِ، بَلْ كَالْبَدْرِ الثَّاقِ ( ترجمہ اصل کتاب سے ) (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۲۶۸ تا ۲۷۲) اعْلَمُوا أَنَّ الْخَتْمِيَّةَ أُعْطِيَتْ مِنَ الْأَزَلِ جان لو کہ ختمیت ازل سے محمد رسول اللہ لِمُحَمَّدٍصَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ أُعْطِيَتْ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی گئی ہے پھر وہ اس شخص کو عطا لِمَنْ عَلَّمَهُ رُوحُهُ وَجَعَلَهُ ظِلَّهُ، فَتَبَارَكَ مَن کی گئی ہے جس کو آپ کی روح نے تعلیم دی اور اسے عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ.فَإِنَّ الْخَتَميَّةَ الْحَقِيقِيَّةُ كَانَتْ آپ کا ظل بنایا.پس مبارک ہے وہ جس نے سکھایا مُقَدَّدَةٌ في الأَلفِ السَّادِسِ الَّذِى هُوَ يَوْم اور وہ بھی جس نے سیکھا.پس یقینا محتمیت حقیقی چھٹے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۱ سورة الجمعة سَادِسُ مِنْ أَيَّامِ الرَّحْمنِ لِيُشَابِة أَبا ہزار میں مقدر تھی جو خدائے رحمان کے دنوں میں سے الْبَشَرِ مَنْ كَانَ هُوَ خَاتِمَ نَوْعِ الإِنْسَانِ.چھٹا دن ہے تا وہ ہستی جو خاتم نوع انسان ہے حضرت وَاقْتَضَتْ مَصالح أُخرى أَن يُبْعَثُ آدم علیہ السلام کے مشابہہ ہو جائے اور دیگر مصلحتوں رَسُولُنَا فِي الْيَوْمِ الْخَامِ.أَغنى في نے بھی تقاضا کیا کہ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الْأَلْفِ الْخَامِس بَعْدَ آدَمَ لِمَا كَانَ الْيَوْمُ آدم کے بعد پانچویں ہزار میں مبعوث ہوں.کیونکہ الْخَامِسُ يَوْمَ اجْتِمَاعِ الْعَالَمِ الْكَبِيرِ، وَهُوَ پانچواں دن عالم کبیر کے اجتماع کا دن ہے اور آپ حضرت ظِلّ لأدَمَ الَّذِي أَعَزَّهُ اللهُ وَأَكْرَمَ، فَإِنَّ آدم علیہ السلام کے ظل ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے عزت اور آدم جَمَعَ في نَفْسِهِ كُلَّ مَا تَفَرَّقَ فِيهِ اکرام سے نوازا پس حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی وَوَصَلَ كُلَّمَا تَجَنَّمَ، فَلَا شَكٍّ أَنَّ الْعَالَم ذات میں ہر متفرق کو جمع کیا اور ہر شکستہ کو جوڑا.پس الْكَبِيرَ قَد نَزَلَ مَنْزِلَةِ خِلْقَةٍ أُولى لآدم في بیشک عالم کبیر حضرت آدم علیہ السلام کی پہلی پیدائش کے طور صُورٍ مُتَتَوَعَةٍ، فَقَد خُلِقَ آدَمُ بِهذَا الْمَعْنى پر مختلف صورتوں میں نازل ہوا اور آدم اس معنی کے لحاظ في الْيَوْمِ الْخَامِسِ مِنْ غَيْرِ شَكٍ وَشُعْبَةٍ سے بلا شک وشبہ پانچویں دن پیدا ہوئے.پھر اللہ تعالٰی ثُمَّ أَرَادَ اللهُ أَنْ يُنْشِأَ نَبِيَّنَا الَّذِي هُوَ آدَمُ نے ارادہ کیا کہ وہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خَلْقًا أَخَرَ فِي الْأَلْفِ السَّادِس بَعْدَ خِلْقَتِهِ آدم میں چھٹے ہزار میں پہلی پیدائش کے بعد دوسری الأولى، كَمَا أَنْهَاً مِن قَبْلُ صَفِيَّهُ آدَمَ فی پیدائش میں پیدا کرے جیسا کہ اس نے ابتدائے فطرت آخِرِ الْيَوْمِ السَّادِس مِنْ أَيَّامِ بَدو الْفِطْرَةِ میں آدم صفی اللہ کو چھٹے دن پیدا کیا تا پہلی خلقت اور لِيُتِمَّ الْمُطَاعِيَّةُ فِي الْأُولى وَالْأُخرى وَهُوَ دوسری خلقت کی مشابہت پوری ہو جائے اور وہ حقیقی يَوْمُ الْجُمُعَةِ الْحَقِيقِيَّةِ، وَكَانَ مُجمعة ادم جمعہ کا دن ہے اور حضرت آدم علیہ السلام کا جمعہ منظمندوں ظلاً له عند أولى اللهَى فَا أَخَذَ عَلی طریقِ کے نزدیک اس کا ظل تھا.پس اس نے بروزی طور پر عِنْدَ الْبُرُوزِ مَظْهَرا لَهُ مِنْ أُمَّتِهِ، وَهُوَ لَهُ كَالْعَيْنِ اس کی امت سے اس کا ایک مظہر پیدا کیا پس وہ نام اور في اسْمِهِ وَمَاهَيَّتِهِ، وَخَلَقَهُ اللهُ في اليَومِ ماہیت کے لحاظ سے اس کا عین ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو السَّادِس بِحِسَابِ أَيَّامِ بَدُونَشأَةِ الدُّنْيَا دُنیا کی پیدائش کے دنوں کے لحاظ سے چھٹے دن میں پیدا کیا لِتَكْمِيْلِ مُماثَلَتِه أغنى في آخِرِ الْأَلْفِ تا مماثلت پوری ہو یعنی چھٹے ہزار کے آخر میں تا وہ اپنی
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۲ سورة الجمعة السَّادِس لِيُشَابِة آدَمَ في يَوْمِ خَلْقَتِهِ، پیدائش کے دن میں آدم کے مشابہہ ہو جائے اور وہ حقیقی وَهُوَ الْجُمُعَةُ حَقِيقَةً لِأَنَّ اللهَ قَدر أَنَّهُ يَجْمَعُ طور پر جمعہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مقدر کیا تھا کہ وہ اپنی الْفِرَقَ الْمُتَفَرْقَةَ في هَذَا الْيَوْمِ جمعاً رحمت کاملہ کی وجہ سے اس دن تمام متفرق فرقوں کو جمع برخمةٍ كاملةٍ، وَيُنْفَعُ في الصُّوْرِ يَعْنِی کرے گا اور بنگل میں پھونک لگائی جائے گی یعنی اللہ تعالی يَتَجَلَّى اللهُ لِجَمْعِهِمْ فَإِذَا هُمْ مُجْتَمِعُونَ عَلَی ان کے جمع کرنے کے لئے تجلی فرمائے گا.پس سوائے مِلَّةٍ وَاحِدَةٍ إِلَّا الَّذِينَ شَقُوا بِمَشِيَّةٍ ان لوگوں کے جو اس کی مشیت کے ماتحت شقی ہوں گے وَحَبَسَهُمْ سِجْنُ شِقْوَة وَإِلَيْهِ أَشَارَ سارے لوگ ایک ملت پر جمع ہو جائیں گے اور اسی کی سُبْحَانَهُ فِي قَوْلِهِ وَ أَخَرِيْنَ مِنْهُمْ فِي سُورَةٍ طرف اللہ تعالیٰ کے قول وَ آخَرِينَ مِنْهُمُ میں اشارہ الْجُمُعَةِ، إِيْمَاء إِلى يَوْمِ الْجُمُعَةِ الْحَقِيقِيَّةِ ہے جو سورۃ جمعہ میں وارد ہوا ہے تا جمعہ حقیقی کے دن کی وَأَرَادَ مِنْ هَذَا الْقَوْلِ أَنَّ الْمَسِيحَ طرف اشارہ ہو.اور اللہ تعالیٰ نے اس قول سے ارادہ کیا الْمَوْعُوْدِ الَّذِى يَأْتِي مِن بَعْدِ عَالم ہے کہ مسیح موعود جو حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم الْأَنْبِيَاءِ هُوَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے بعد آئے گا وہ مشابہت کاملہ کی بنا پر محمد صلی اللہ مِنْ حَيْثُ الْمُضَاهَاةِ التَّامَّةِ، وَ رُفَقَاءُہ علیہ وسلم ہی ہوگا اور اس کے ساتھی صحابہؓ کے مثیل ہوں كَالصَّحَابَةِ، وَأَنَّهُ هُوَ عِيسَى الْمَوْعُودِ لھذہ گے اور وہ اس امت کے لئے عیسی ہوگا جیسا کہ سورۃ الْأُمَّةِ، وَعْدًا من الله ذى الْعِزَّةِ فِي سُورَةٍ تحريم، سورۃ نور اور سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالی نے وعدہ التَّحْرِيمِ وَ التَّوْرِ وَالْفَاتِحَةِ.قَوْلَ الْحَق فرمایا ہے.یہ قول حق ہے جس میں لوگ شک کر رہے الَّذِي فِيْهِ يَمْتَرُونَ مَا كَانَ لِنَبِي أَن يَأْتِي ہیں.حضرت خاتم الانبیاء کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا بَعْدَ خَاتَمِ الْأَنْبِيَاءِ إِلَّا الَّذِى جُعِل سوائے اس کے جو آپ کی امت میں نبی بنایا جائے اور وَارِثَهُ مِنْ أُمَّتِهِ، وَأُعْلِى مِنَ اسْمِهِ وَهُويَّتِهِ، جسے آپ کا نام اور آپ کی ہو یت عطا کی جائے اور اس وَيَعْلَمُهُ الْعَالِمُونَ فَذَالِك مَسيعُكُمُ بات کو عالم لوگ جانتے ہیں اور یہ وہ صحیح ہے جس کا تم الَّذِي تَنظُرُونَ إِلَيْهِ وَلَا تَعْرِفُونَهُ، وَإِلَى انتظار کر رہے ہولیکن اس کی طرف دیکھتے نہیں.تمہاری آنکھیں آسمان کی طرف اُٹھی ہوئی ہیں.السَّمَاءِ أَعْيُنَكُمُ تَرْفَعُوْنَ.(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۳۱۱٬۳۱۰) (ترجمه از مرتب)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۳ سورة الجمعة اِنَّ اللهَ كَانَ أَوْحَى إِلَى وَقَالَ كُلُّ بَرَكَةٍ اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی اور فرمایا حال مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَكَ بَرَكَةٍ مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَكَ ن عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ يَعْنِي أَنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مَنْ عَـ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَّمَكَ مِنْ تَأْثِيرِ رُوحَانِيَّتِهِ تمہیں اپنی روحانیت کی تاثیر کے ذریعہ سکھایا اور اپنی وَآفَاضَ انا قلبك بفيض رخميه رحمت کا فیض تیرے دل کے برتن میں ڈال دیا تا تجھے قَلْبِكَ بِفَيْضِ رَحْمَتِهِ لِيُدخِلَكَ فِي صَحَابَتِهِ وَلِيُشْرِكَكَ فِي بَركَتِهِ اپنے صحابہ میں داخل کریں اور تجھے اپنی برکت میں وَلِيُتِمَّ نَبا اللهِ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ بِفَضْلِهِ شریک کریں اور تا اللہ تعالیٰ کی خبر وَآخَرِينَ مِنْهُمْ اس کے فضل اور اس کے احسان سے پوری ہو.وَمِنتِه ( ترجمه از مرتب) (خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۳۱۰ حاشیه ) منجملہ ان دلائل کے جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں جو آنے والا مسیح جس کا اس اُمت کے لئے وعدہ دیا گیا ہے وہ اسی اُمت میں سے ایک شخص ہوگا بخاری اور مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ اور آمكُم مِنْكُم لکھا ہے.جس کے یہ معنے ہیں کہ وہ تمہارا امام ہوگا اور تم ہی میں سے ہوگا.چونکہ یہ حدیث آنے والے عیسی کی نسبت ہے اور اسی کی تعریف میں اس حدیث میں حکم اور عدل کا لفظ بطور صفت موجود ہے جو اس فقرہ سے پہلے ہے اس لئے امام کا لفظ بھی اسی کے حق میں ہے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ اس جگہ منکم کے لفظ سے صحابہ کو خطاب کیا گیا ہے اور وہی مخاطب تھے.لیکن ظاہر ہے کہ اُن میں سے تو کسی نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اس لئے منکم کے لفظ سے کوئی ایسا شخص مراد ہے جو خدا تعالیٰ کے علم میں قائم مقام صحابہ ہے اور وہ وہی ہے جس کو اس آیت مفصلہ ذیل میں قائم مقام صحابہ کہا گیا ہے یعنی یہ کہ وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِھم کیونکہ اس آیت نے ظاہر کیا ہے کہ وہ رسول کریم کی رُوحانیت سے تربیت یافتہ ہے اور اسی معنے کے رُو سے صحابہ میں داخل ہے اور اس آیت کی تشریح میں یہ حدیث ہے لوگان الإيمَانُ مُعَلَّقًا بِالقُريَّا لَنَالَهُ رَجُلٌ مِن فَارِسَ اور چونکہ اس فارسی شخص کی طرف وہ صفت منسوب کی گئی ہے جو مسیح موعود اور مہدی سے مخصوص ہے یعنی زمین جو ایمان اور توحید سے خالی ہو کر ظلم سے بھر گئی ہے پھر اس کو عدل سے پر کرنا.لہذا یہی شخص مہدی اور مسیح موعود ہے اور وہ میں ہوں اور جس طرح کسی دوسرے مدعی مہدویت کے وقت میں کسوف خسوف رمضان میں آسمان پر نہیں ہوا.ایسا ہی تیرہ سو برس کے عرصہ میں
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۴ سورة الجمعة کسی نے خدا تعالیٰ کے الہام سے علم پاکر یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اس پیشگوئی لَنَالَهُ رَجُلٌ مِنْ فَارِس کا مصداق میں ہوں اور پیشگوئی اپنے الفاظ سے بتلا رہی ہے کہ یہ شخص آخری زمانہ میں ہوگا جبکہ لوگوں کے ایمانوں میں بہت ضعف آجائے گا اور فارسی الاصل ہو گا اور اس کے ذریعہ سے زمین پر دوبارہ ایمان قائم کیا جائے گا اور ظاہر ہے کہ صلیبی زمانہ سے زیادہ تر ایمان کو صدمہ پہنچانے والا اور کوئی زمانہ نہیں.یہی زمانہ ہے جس میں کہہ سکتے ہیں کہ گویا ایمان زمین پر سے اُٹھ گیا جیسا کہ اس وقت لوگوں کی عملی حالتیں اور انقلاب عظیم جو بدی کی طرف ہوا ہے اور قیامت کے علامات صغریٰ جو مدت سے ظہور میں آچکی ہیں صاف بتلا رہی ہیں اور نیز آیت وَ أَخَرِينَ مِنْهُمُ میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ جیسے صحابہ کے زمانہ میں زمین پر شرک پھیلا ہوا تھا ایسا ہی اُس زمانہ میں بھی ہوگا اور اس میں کچھ شک نہیں کہ اس حدیث اور اس آیت کو باہم ملانے سے یقینی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ پیشگوئی مہدی آخر الزمان اور مسیح آخر الزمان کی نسبت ہے کیونکہ مہدی کی تعریف میں یہ لکھا ہے کہ وہ زمین کو عدل سے بھر دے گا جیسا کہ وہ ظلم اور جور سے بھری ہوئی تھی اور مسیح آخر الزمان کی نسبت لکھا ہے کہ وہ دوبارہ ایمان اور امن کو دنیا میں قائم کر دے گا اور شرک کو محو کرے گا اور ملل باطلہ کو ہلاک کر دے گا.پس ان حدیثوں کا مال بھی یہی ہے کہ مہدی اور مسیح کے زمانہ میں وہ ایمان جو زمین پر سے اُٹھ گیا اور ثریا تک پہنچ گیا تھا پھر دوبارہ قائم کیا جائے گا اور ضرور ہے کہ اول زمین ظلم سے پر ہو جائے اور ایمان اُٹھ جائے کیونکہ جبکہ لکھا ہے کہ تمام زمین ظلم سے بھر جائے گی تو ظاہر ہے کہ ظلم اور ایمان ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے ناچار ایمان اپنے اصلی مقر کی طرف جو آسمان ہے چلا جائے گا.غرض تمام زمین کا ظلم سے بھرنا اور ایمان کا زمین پر سے اُٹھ جانا اس قسم کی مصیبتوں کا زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے بعد ایک ہی زمانہ ہے جس کو مسیح کا زمانہ یا مہدی کا زمانہ کہتے ہیں اور احادیث نے اس زمانہ کو تین پیرایوں میں بیان کیا ہے رجل فارسی کا زمانہ.مہدی کا زمانہ مسیح کا زمانہ.اور اکثر لوگوں نے قلت تدبر سے ان تین ناموں کی وجہ سے تین علیحدہ علیحدہ شخص سمجھ لئے ہیں اور تین قومیں اُن کے لئے مقرر کی ہیں.ایک فارسیوں کی قوم.دوسری بنی اسرائیل کی قوم، تیسری بنی فاطمہ کی قوم.مگر یہ تمام غلطیاں ہیں.حقیقت میں یہ تینوں ایک ہی شخص ہے جو تھوڑے تھوڑے تعلق کی وجہ سے کسی قوم کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے.مثلاً ایک حدیث سے جو کنز العمال میں موجود ہے سمجھا جاتا ہے کہ اہل فارس یعنی بنی فارس بنی اسحاق میں سے ہیں.پس اس طرح پر وہ آنے والا مسیح اسرائیلی ہوا اور بنی فاطمہ کے ساتھ امہاتی تعلق رکھنے کی وجہ سے جیسا کہ مجھے حاصل ہے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۵ سورة الجمعة فاطمی بھی ہوا پس گویا وہ نصف اسرائیلی ہوا اور نصف فاطمی ہوا جیسا کہ حدیثوں میں آیا ہے.ہاں میرے پاس فارسی ہونے کے لئے بجز الہام الہی کے اور کچھ ثبوت نہیں لیکن یہ الہام اس زمانہ کا ہے کہ جب اس دعویٰ کا نام و نشان بھی نہیں تھا یعنی آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں لکھا گیا ہے اور وہ یہ ہے خُذُوا التَّوْحِيدَ التَّوْحِيدَ يَا ابْنَاءَ الْفَارِس یعنی توحید کو پکڑ و توحید کو پکڑ والے فارس کے بیٹو! اور پھر دوسری جگہ یہ الہام ہے.اِنَّ الَّذِينَ صَلُّوا عَنْ سَبِيلِ اللهِ رَدَّ عَلَيْهِمْ رَجُلٌ مِنْ فَارِسَ شَكَرَ اللَّهُ سَعْيَهُ یعنی جو لوگ خدا کی راہ سے روکتے تھے ایک شخص فارسی اصل نے اُن کا رڈ لکھا.خدا نے اُس کی کوشش کا شکر یہ کیا.ایسا ہی ایک اور جگہ براہین احمدیہ میں یہ الہام ہے تو نکانَ الْإِيمَانُ مُعَلَّها بِالقُرَيَّا لَنَالَهُ رَجُلٌ من فارس یعنی اگر ایمان ثریا پر اٹھایا جاتا اور زمین سراسر بے ایمانی سے بھر جاتی تب بھی یہ آدمی جو فارسی الاصل ہے اس کو آسمان پر سے لے آتا.اور بنی فاطمہ ہونے میں یہ الہام ہے.الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الصَّهْرَ وَالنَّسَبَ أَشْكُرَ نِعْمَتِي رَبَّيْتَ خَدِيجَتي یعنی تمام حد اور تعریف اس خدا کے لئے جس نے تمہیں فخر دامادی سادات اور فخر علو نسب جو دونوں مماثل و مشابہ ہیں عطا فرمایا یعنی تمہیں سادات کا داماد ہونے کی فضیلت عطا کی اور نیز بنی فاطمہ اُمہات میں سے پیدا کر کے تمہارے نسب کو عزت بخشی اور میری نعمت کا شکر کر کہ تو نے میری خدیجہ کو پایا یعنی بنی اسحاق کی وجہ سے ایک تو آبائی عزت تھی اور دوسری بنی فاطمہ ہونے کی عزت اس کے ساتھ ملحق ہوئی اور سادات کی دامادی کی طرف اس عاجز کی بیوی کی طرف اشارہ ہے جو سیدہ سندی سادات دہلی میں سے ہیں میر درد کے خاندان سے تعلق رکھنے والے.اس فاطمی تعلق کی طرف اس کشف میں اشارہ ہے جو آج سے تیس برس پہلے براہین احمدیہ میں شائع کیا گیا جس میں دیکھا تھا کہ حضرات پنج تن سید الکونین حسنین فاطمتہ الزہراء اور علی رضی اللہ عنہ عین بیداری میں آئے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کمال محبت اور مادرانہ عطوفت کے رنگ میں اس خاکسار کا سر اپنی ران پر رکھ لیا اور عالم خاموشی میں ایک غمگین صورت بنا کر بیٹھے رہے.اُسی روز سے مجھ کو اس خونی آمیزش کے تعلق پر یقین بھی ہوا.فالحمد لله على ذلك.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۱۴ تا ۱۱۸) منعم علیہم کے کامل طور پر مصداق باعتبار کثرت کمیت اور صفائی کیفیت اور نعماء حضرت احدیت از روئے نص صریح قرآنی اور احادیث متواترہ حضرت مرسل یزدانی دو گروہ ہیں.ایک گروہ صحابہ اور دوسرا گروہ جماعت مسیح موعود کیونکہ یہ دونوں گروہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کے تربیت یافتہ ہیں کسی اپنے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۶ سورة الجمعة اجتہاد کے محتاج نہیں وجہ یہ کہ پہلے گروہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے جو خدا سے براہ راست ہدایت پا کر وہی ہدایت نبوت کی پاک توجہ کے ساتھ صحابہ رضی اللہ عنہم کے دل میں ڈالتے تھے اور ان کے لئے مربی بے واسطہ تھے.اور دوسرے گروہ میں مسیح موعود ہے جو خدا سے الہام پا تا اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت سے فیض اٹھاتا ہے لہذا اس کی جماعت بھی اجتہاد خشک کی محتاج نہیں ہے.جیسا کہ آیت وَ آخَرِينَ مِنْهُم لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ سے سمجھا جاتا ہے.(تحفہ گولز و یه روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۲۴) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعث اوّل کا زمانہ ہزار پنجم تھا جو سم محمد کا مظہر تجلی تھا یعنی یہ بعث اول جلالی نشان ظاہر کرنے کے لئے تھا مگر بعث دوم جس کی طرف آیت کریمہ و اخريْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ میں اشارہ ہے وہ مظہر تجلی اسم احمد ہے جو اسم جمالی ہے.تحفه گوار و یه روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۵۳) چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حسب آیت وَ آخَرِينَ مِنْهُم دوبارہ تشریف لا نا بجز صورت بروز غیر ممکن تھا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت نے ایک ایسے شخص کو اپنے لئے منتخب کیا جو لق اور خُو اور ہمت اور ہمدردی خلائق میں اس کے مشابہ تھا اور مجازی طور پر اپنا نام احمد اور محمد اس کو عطا کیا تا یہ سمجھا جائے کہ گویا اس کا ظہور بعینہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور تھا.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۶۳) چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا فرض منصبی جو تکمیل اشاعت ہدایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بوجہ عدم وسائل اشاعت غیر ممکن تھا اس لئے قرآن شریف کی آیت وَ اخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد ثانی کا وعدہ دیا گیا ہے.اس وعدہ کی ضرورت اسی وجہ سے پیدا ہوئی کہ تا دوسرا فرض منصبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یعنی تکمیل اشاعت ہدایت دین جو آپ کے ہاتھ سے پورا ہونا چاہئے تھا اُس وقت بباعث عدم وسائل پورا نہیں ہوا سو اس فرض کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آمد ثانی سے جو بروزی رنگ میں تھی ایسے زمانہ میں پورا کیا جبکہ زمین کی تمام قوموں تک اسلام پہنچانے کے لئے وسائل پیدا ہو گئے تھے.(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۶۳ حاشیه ) یادر ہے کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ کے دو ہاتھ جلالی و جمالی ہیں اسی نمونہ پر چونکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ جل شانہ کے مظہر اتم ہیں لہذا خدا تعالیٰ نے آپ کو بھی وہ دونوں ہاتھ رحمت اور شوکت کے عطا فرمائے..
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۷ سورة الجمعة جمالی ہاتھ کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے کہ قرآن شریف میں ہے وَ مَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً العلمين (الانبياء : ١٠٨) یعنی ہم نے تمام دنیا پر رحمت کر کے مجھے بھیجا ہے اور جلالی ہاتھ کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَى (الانفال: ۱۸) اور چونکہ خدا تعالیٰ کو منہ تھا کہ یہ دونوں صفتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے اپنے وقتوں میں ظہور پذیر ہوں اس لئے خدا تعالیٰ نے صفت جلالی کو صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذریعہ سے ظاہر فرمایا اور صفت جمالی کو مسیح موعود اور اس کے گروہ کے ذریعہ سے کمال تک پہنچایا.اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے.(اربعین، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۱ ۴ حاشیه ) قَالَ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس آیت میں مسیح موعود اور اس کی فَاشَارٌ إِلَى الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ وَ جَمَاعَتِه جماعت کی طرف اشارہ ہے نیز ان لوگوں کی طرف جو وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمُ.اعجاز امسیح ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۱۵۴) ان کی پیروی کریں گے.(ترجمہ از مرتب ) ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جلال اور جمال دونوں کے جامع تھے.مکہ کی زندگی جمالی رنگ میں تھی اور مد.کی زندگی جلالی رنگ میں.اور پھر یہ دونوں صفتیں امت کے لئے اس طرح پر تقسیم کی گئیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو جلالی رنگ کی زندگی عطا ہوئی اور جمالی رنگ کی زندگی کے لئے مسیح موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مظہر ٹھہرایا.یہی وجہ ہے کہ اس کے حق میں فرمایا گیا کہ يَضَعُ الحرب یعنی لڑائی نہیں کرے گا اور یہ خدا تعالیٰ کا قرآن شریف میں وعدہ تھا کہ اس حصے کے پورا کرنے کے لئے مسیح موعود اور اس کی جماعت کو ظاہر کیا جائے گا.جیسا کہ آیت وَ اخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ میں اس کی طرف اشارہ ہے اور آیت حَتَّی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَهَا (محمد : ۵) بھی یہی اشارہ کر رہی ہے.(اربعین ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۴۴۳، ۴۴۴) خدا کے کلام میں یہ امر قرار یافتہ تھا کہ دوسرا حصہ اس اُمت کا وہ ہوگا جو مسیح موعود کی جماعت ہوگی.اسی لئے خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو دوسروں سے علیحدہ کر کے بیان کیا جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَاخَرِيْنَ مِنْهُم لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ یعنی اُمت محمدیہ میں سے ایک اور فرقہ بھی ہے جو بعد میں آخری زمانہ میں آنے والے ہیں اور حدیث صحیح میں ہے کہ اس آیت کے نزول کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہا تھ سلمان فارسی کی پشت پر مارا اور فرمایاتو كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بِالقُرَيَا لَنَالَهُ رَجُلٌ مِن فَارِسَ اور یہ میری نسبت پیشگوئی تھی.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۸ سورة الجمعة جیسا کہ خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں اس پیشگوئی کی تصدیق کے لئے وہی حدیث بطور وحی میرے پر نازل کی اور وحی کی رو سے مجھ سے پہلے اس کا کوئی مصداق معین نہ تھا اور خدا کی وحی نے مجھے معین کر دیا.فالحمد لله (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۰۷ حاشیه ) رجل فارس اور مسیح موعود ایک ہی شخص کے نام ہیں جیسا کہ قرآن شریف میں اسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور وہ یہ ہے وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمُ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ یعنی آنحضرت کے اصحاب میں سے ایک اور فرقہ ہے جو ابھی ظاہر نہیں ہوا.یہ تو ظاہر ہے کہ اصحاب وہی کہلاتے ہیں جو نبی کے وقت میں ہوں اور ایمان کی حالت میں اس کی صحبت سے مشرف ہوں اور اس سے تعلیم اور تربیت پاویں.پس اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنے والی قوم میں ایک نبی ہوگا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز ہو گا اس لئے اس کے اصحاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کہلائیں گے اور جس طرح صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے رنگ میں خدا تعالیٰ کی راہ میں دینی خدمتیں ادا کی تھیں وہ اپنے رنگ میں ادا کریں گے.بہر حال یہ آیت آخری زمانہ میں ایک نبی کے ظاہر ہونے کی نسبت ایک پیشگوئی ہے ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ ایسے لوگوں کا نام اصحاب رسول اللہ رکھا جائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیدا ہونے والے تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا.آیت ممدوحہ بالا میں یہ تو نہیں فرمایا وَآخَرِينَ مِنَ الْأُمة بلکہ یہ فرمایا ہے وَ آخَرِينَ مِنْهُمْ اور ہر ایک جانتا ہے کہ منھم کی ضمیر اصحاب رضی اللہ عنہم کی طرف راجع ہے.لہذا وہی فرقہ مِنْهُمُ میں داخل ہو سکتا ہے جس میں ایسا رسول موجود ہو کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز ہے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۰۲،۵۰۱) روحانی زندگی کے لحاظ سے ہم تمام نبیوں میں سے اعلیٰ درجے پر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ سمجھتے ہیں اور قرآن شریف آیت وَ أَخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ میں اس زندگی کی طرف اشارہ فرماتا ہے کیونکہ اس کا یہی مطلب ہے کہ جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے باطنی فیض پایا ایسا ہی آخری زمانے میں ہوگا کہ مسیح موعود اور اس کی جماعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض پائے گی جیسا کہ اب ظہور میں آرہا ہے.مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۳۸۶، ۳۸۷) یہ ممکن ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ دنیا میں بروزی رنگ میں آجائیں اور بروزی رنگ میں اور کمالات کے ساتھ اپنی نبوت کا اظہار بھی کریں اور یہ بروز خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۳۹ سورة الجمعة قرار یافتہ عہد تھا جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ اور انبیاء کو اپنے بروز پر غیرت نہیں ہوتی کیونکہ وہ انہی کی صورت اور انہی کا نقش ہے لیکن دوسرے پر ضرور غیرت ہوتی ہے.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۵۲۹) جو کچھ اللہ تعالیٰ نے چاہا تھا اس کی تکمیل دو ہی زمانوں میں ہوئی تھی.ایک آپ کا زمانہ اور ایک آخری مسیح و مہدی کا زمانہ.یعنی ایک زمانہ میں تو قرآن اور سچی تعلیم نازل ہوئی لیکن اس تعلیم پر فنج اعوج کے زمانہ نے پردہ ڈال دیا.جس پر وہ کا اٹھایا جانا مسیح کے زمانہ میں مقدر تھا.جیسے کہ فرمایا کہ رسول اکرم نے ایک تو موجودہ جماعت یعنی جماعت صحابہ کرام کا تزکیہ کیا اور ایک آنے والی جماعت کا جس کی شان میں آیا يَلْعَفُوا مهم آیا ہے.سو یہ ظاہر ہے کہ خدا نے بشارت دی کہ ضلالت کے وقت اللہ تعالی اس دین کو ضائع نہ کرے گا.بلکہ آنے والے زمانہ میں خدا حقائق قرآنیہ کو کھول دے گا.آثار میں ہے کہ آنے والے مسیح کی ایک یہ فضیلت ہوگی کہ وہ قرآنی فہم اور معارف کا صاحب ہوگا اور صرف قرآن سے استنباط کر کے لوگوں کو ان غلطیوں سے متنبہ کرے گا جو حقائق قرآن کی نا واقفیت سے لوگوں میں پیدا ہو گئی ہوں.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۵۳،۵۲) تمہارے معاملات خدا اور خلق کے ساتھ ایسے ہونے چاہئیں جس میں رضاء الہی مطلق ہی ہو.پس اس سے تم نے وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ الح کے مصداق بننا ہے.رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ ء صفحہ ۵۷) اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ واثقہ کی رو سے کہ اِنّا لَهُ لَحفِظُونَ ( الحجر :۱۰) اس زمانہ میں بھی آسمان سے ایک معلم آیا جو اخَرِينَ مِنْهُم لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کا مصداق اور موعود ہے.وہ وہی ہے جو تمہارے درمیان رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء صفحہ ۹۵) بول رہا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو جو مسیح موعود کے ساتھ ہے یہ درجہ عطا فرمایا ہے کہ وہ صحابہ کی جماعت سے ملنے والی ہے.وَاخَرِينَ مِنْهُم لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ مفسروں نے مان لیا ہے کہ یہ مسیح موعود والی جماعت ہے.اور یہ گویا صحابہ اسی کی جماعت ہوگی اور وہ مسیح موعود کے ساتھ نہیں.درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی ساتھ ہیں.کیونکہ مسیح موعود آپ ہی کے ایک جمال میں آئے گا اور تکمیل تبلیغ اشاعت کے کام کے لئے الحکم جلد ۴ نمبر ۴۶ مورخه ۲۴ دسمبر ۱۹۰۰ء صفحه ۳) مامور ہو گا.
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴۰ سورة الجمعة دوو صحابہ کی جماعت اتنی ہی نہ سمجھو جو پہلے گزر چکے بلکہ ایک اور گروہ بھی ہے جس کا اللہ تعالی نے قرآن شریف میں ذکر کیا ہے.وہ بھی صحابہ ہی میں داخل ہے جو احمد کے بروز کے ساتھ ہوں گے چنانچہ فرمایا ب وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بهم یعنی صحابہ کی جماعت کو اسی قدر نہ سمجھو بلکہ مسیح موعود کے زمانہ کی جماعت بھی صحابہ ہی ہوگی.اس آیت کے متعلق مفسروں نے مان لیا ہے کہ یہ مسیح موعود کی جماعت ہے.منھم کے لفظ سے پایا جاتا ہے کہ باطنی توجہ اور استفاضہ صحابہ ہی کی طرح ہوگا.صحابہ کی تربیت ظاہری طور پر ہوئی تھی مگر ان کو کوئی دیکھ نہیں سکتا.وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تربیت کے نیچے ہوں گے اس لئے سب علماء نے اس گروہ کا نام صحابہ ہی رکھا ہے جیسے ان صفات اربعہ کا ظہور ان صحابہ میں ہوا تھا ویسے ہی ضروری ہے کہ اخَرِينَ مِنْهُم لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کی مصداق جماعت صحابہ میں بھی ہو.الحکم جلد ۵ نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۱ء صفحه ۴) اس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع کے آثار اور ثمرات ہر وقت پائے جاتے ہیں.اس وقت بھی وہ خدا جو ہمیشہ سے ناطق خدا ہے اپنا لذیذ کلام دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجتا ہے.اور قرآن شریف کے اعجاز کا ثبوت اس وقت بھی دے رہا ہے یہ قرآن شریف ہی کا معجزہ ہے کہ جو ہم تحدی کر رہے ہیں کہ ہمارے بالمقابل قرآن شریف کے حقائق معارف عربی زبان میں لکھو اور کسی کو یہ قدرت نہیں ہوتی کہ مقابلہ کے لئے نکل سکے.ہمارا مقابلہ دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ ہے کیونکہ وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ جو فرمایا گیا ہے.اس وقت جو تعلیم الکتب والحکمت ہو رہی ہے اور ایک قوم کو اس وقت بھی صحابہ کی طرح اللہ تعالیٰ بنانا چاہتا ہے اس کی اصلی غرض یہی ہے کہ تا قرآن شریف کا معجزہ ثابت ہو.الحکم جلد ۷ نمبر ۲۰ مورخه ۳۱ مئی ۱۹۰۳ صفحه ۱) اس زمانہ میں بھی قرآن شریف کے کلام کے اعجاز کے لئے مسیح موعود کو کلام کا معجزہ دیا گیا ہے اسی طرح پر جیسے دوسرے خوارق اور نشانات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانات اور خوارق کے ثبوت کے لئے دیئے گئے ہیں جس جس قسم کے نشانات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملے تھے اسی رنگ پر اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے نشانات کو رکھا ہے.کیونکہ یہ سلسلہ اسی نقش قدم پر ہے اور دراصل وہی سلسلہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بروزی آمد کی پہلے ہی سے پیشگوئی ہوچکی تھی اور اخَرِيْنَ مِنْهُمْ میں یہ وعدہ کیا گیا تھا پس جیسے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴۱ سورة الجمعة آپ کو اس وقت کلام کا معجزہ اور نشان اس وقت دیا گیا تھا اور قرآن شریف جیسی لا نظیر کتاب آپ کو ملی.اسی طرح پر اس رنگ میں آپ کی اس بروزی آمد میں بھی کلام کا نشان دیا گیا.الحکم جلد۷ نمبر ۲۰ مورخه ۳۱ رمئی ۱۹۰۳ صفحه ۲) یہ لوگ جمع بین الصلاتین پر روتے ہیں حالانکہ مسیح کی قسمت میں بہت سے اجتماع رکھے ہیں کسوف و خسوف کا اجتماع ہوا یہ بھی میرا ہی نشان تھا اور وَإِذَا النُّفُوسُ زُوجَت (التکویر (۸) بھی میرے ہی لئے ہیں.اور آخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِھم بھی ایک جمع ہی ہے کیونکہ اول اور آخر کو ملایا گیا ہے اور یہ عظیم الشان جمع ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برکات اور فیوض کی زندگی پر دلیل اور گواہ ہے اور پھر یہ بھی جمع ہے کہ خدا تعالیٰ نے تبلیغ کے سارے سامان جمع کر دیئے ہیں چنانچہ مطبع کے سامان ، کاغذ کی کثرت، ڈاک خانوں ، تار اور ریل اور دخانی جہازوں کے ذریعہ کل دنیا ایک شہر کا حکم رکھتی ہے اور پھر نت نئی ایجادیں اس جمع کو اور بھی بڑھا رہی ہیں کیونکہ اسباب تبلیغ جمع ہو رہے ہیں اب فونوگراف سے بھی تبلیغ کا کام لے سکتے ہیں اور اس سے بہت عجیب کام نکلتا ہے اخباروں اور رسالوں کا اجراء غرض اس قدر سامان تبلیغ جمع ہوئے ہیں کہ اس کی نظیر کسی پہلے زمانہ میں ہم کو نہیں ملتی بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے اغراض میں سے ایک تکمیل دین بھی تھی.جس کے فرمایا گیا تھا الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي (المائدة : ٤) اب اس تکمیل میں دو خو بیاں تھی.ایک تکمیل ہدایت ، دوسری تکمیل اشاعت ہدایت.تکمیل ہدایت کا زمانہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا پہلا زمانہ تھا اور تکمیل اشاعت ہدایت کا زمانہ آپ کا دوسرا زمانہ ہے جبکہ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ كا وقت آنے والا ہے اور وہ وقت اب ہے یعنی میرا زمانہ یعنی مسیح موعود کا زمانہ اس لئے اللہ تعالیٰ نے تحمیل ہدایت اور تکمیل اشاعت ہدایت کے زمانوں کو بھی اس طرح پر ملایا ہے اور ی بھی عظیم الشان جمع ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۳ مورخه ۳۰ / نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۲،۱) اسلام پر تین زمانے گزرے ہیں.ایک قرون ثلاثہ اس کے بعد پیج اعوج کا زمانہ جس کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا کہ لَيْسُوا مِنَى وَلَسْتُ مِنْهُمْ - یعنی نہ وہ مجھ سے ہیں اور نہ میں اُن سے ہوں اور تیسرا زمانہ مسیح موعود کا زمانہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے زمانہ سے ملحق ہے بلکہ حقیقت میں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہے.فیج اعوج کا ذکر اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ بھی فرماتے تو یہی قرآن شریف ہمارے ہاتھ میں ہے اور آخَرِينَ مِنْهُم لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ صاف ظاہر کرتا ہے
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴۲ سورة الجمعة کہ کوئی زمانہ ایسا بھی ہے جو صحابہ کے مشرب کے خلاف ہے اور واقعات بتا رہے ہیں کہ اس ہزار سال کے درمیان اسلام بہت کی مشکلات اور مصائب کا نشانہ رہا ہے.معدودے چند کے سوا سب نے اسلام کو چھوڑ دیا اور بہت سے فرقے معتزلہ اور اباحتی وغیرہ پیدا ہو گئے ہیں.الحکم جلد ۶ نمبر ۲۹ مورخه ۱۷ اگست ۱۹۰۲ صفحه ۵) یہ وہی وقت اور جمعہ ہے جس میں وَاخَرِيْنَ مِنْهُم لَمَّا يَلْحَقُوا بِھم کی پیشگوئی پوری ہوتی ہے اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور بروزی رنگ میں ہوا ہے اور ایک جماعت صحابہ کی پھر قائم ہوئی ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۱۸ مورخه ۷ ارمئی ۱۹۰۲ صفحه ۶) وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بهم جو فرمایا گیا ہے یہ مسیح موعود کے زمانہ کے لئے ہے اور اس کے منھم کے وہی معنی ہیں جو امامُكُمْ مِنْكُمْ میں مِنكُمْ سے مراد ہے.اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ وہ گروہ بھی صحابہؓ ہی کا گروہ ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۶ مورخه ۱۰ / اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۱) أخَرِينَ مِنْهُمْ کہہ کر جو خدا تعالیٰ اس جماعت کو صحابہ سے ملاتا ہے تو صحابہ کا سا اخلاص اور وفاداری اور ارادت ان میں بھی ہونی چاہیے.صحابہ نے کیا کیا.جس طرح پر انہوں نے خدا تعالیٰ کے جلال کے اظہار کو دیکھا اسی طریق کو انہوں نے اختیار کر لیا یہاں تک کہ اس کی راہ میں جانیں دے دیں.وہ جانتے تھے کہ بیویاں بیوہ ہوں گی.بچے یتیم رہ جائیں گے.لوگ ہنسی کریں گے مگر انہوں نے اس امر کی ذرا پرواہ نہ کی.انہوں نے سب کچھ گوارا کیا مگر اس ایمان کے اظہار سے نہ رُکے جو وہ اللہ اور اس کے رسول پر لائے تھے.حقیقت میں ان کا ایمان بڑا قوی تھا.اس کی نظیر نہیں ملتی.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۳) قرآن ہر میدان میں فتحیاب ہے.آپ کو خاتم الانبیاء پھہرایا اور أَخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کہہ کر مسیح موعود کو اپنا بروز بتادیا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۰ مورخه ۱۰ نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۵) أَخَرِيْنَ مِنْهُمُ کے قائم مقام توریت کی ایک آیت تھی جس سے مسیح اسرائیلی کا گروہ مراد تھا اور یہاں اخَرِينَ مِنْهُمُ سے ہمارا گر وہ.(البدر جلد ۲ نمبر ۶ مورخه ۲۷ فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۴۲) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ میں سے ایک اور گروہ بھی ہے مگر ابھی وہ ان سے ملے نہیں.ان کے اخلاق ، عادات ، صدق اور اخلاص صحابہؓ کی طرح ہوگا.احکام جلد ۱۱ نمبر ۳۵ مورخه ۳۰ ستمبر ۱۹۰۷ صفحه (۸)
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴۳ سورة الجمعة يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكرِ اللَّهِ وَ ذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ) عورتوں پر جمعہ کی فرضیت کے متعلق فرمایا.) اس میں تعامل کو دیکھ لیا جاوے اور جو امر سنت اور حدیث سے ثابت ہے اس سے زیادہ ہم اس کی تفسیر کیا کر سکتے ہیں.آنحضرت صلعم نے عورتوں کو جب مستی کر دیا ہے تو پھر یہ حکم صرف مردوں کے لئے ہی رہا.البدر جلد ۲ نمبر ۳۴ مورخه ۱۱ ستمبر ۱۹۰۳ ء صفحه ۲۶۶) (دیہات میں جمعہ کی نماز ادا کرنے کے متعلق سوال ہوا تو فرمایا.) شہر میں اپنے گاؤں سے آنا بجز حرج کے متصور نہیں.چونکہ گاؤں میں مسجد ہے.اگر شہر کے نزدیک بھی ہے تب بھی ایک محلہ کا حکم رکھتا ہے.کسی حدیث میں اس ممانعت کا نام ونشان نہیں.بلا شبہ جمعہ جائز ہے.خدا تعالیٰ کے دین میں حرج نہیں.مکتوبات احمدیہ جلد ۵ جزو ۵ صفحه ۵۴ مکتوب نمبر ۱ ابنام حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب) فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلوةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ) فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللهِ کہ تم زمین میں منتشر ہو جاؤ اور خدا کے فضل کی تلاش کرو.البدر جلد ۳ نمبر ۱۱ مورخه ۱۶ مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۵) واذكروا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَكُمْ تُفْلِحُونَ یعنی اپنے رب کو بہت ہی یاد کرو تا دوزخ کی آگ سے نجات پاؤ.اللہ تعالیٰ کا بہت ذکر کرو تا فلاح پاؤ.ست بچن ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۲۰) الحکم جلد ۸ نمبر ۲۱ مورخه ۲۴ /جون ۱۹۰۴ ء صفحه ۱) اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرو تا کہ تم فلاح پا جاؤ.جس طرح پر ذہنی تعلق ہوتا ہے اور کثرت تکرار ایک بات کو حافظہ میں محفوظ کر دیتی ہے.اسی طرح ایک روحانی تعلق بھی ہے اس میں بھی تکرار کی حاجت ہے.ہروں تکرار وہ روحانی پیوند اور رشتہ قائم نہیں رہتا.اور پھر سچ تو یہ ہے کہ اصل بات نیت پر موقوف ہے.جو
تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۴۴۴ سورة الجمعة شخص صرف حفظ کرنے کی نیت سے پڑھتا ہے وہ تو وہیں تک رہتا ہے.....حضرت امام جعفر" کہتے ہیں کہ میں ایک آیت اتنی مرتبہ پڑھتا ہوں کہ وہ آخروجی ہو جاتی ہے.صوفی بھی اسی طرف گئے ہیں اور واذكروا الله كثيرا کے یہ معنے ہیں کہ اس قدر ذکر کرو کہ گو یا اللہ تعالی کا نام کنٹھ ہو جاوے.انبیاء علیہم السلام کے طرز کلام میں یہ بات عام ہوتی ہے کہ وہ ایک امر کو بار بار اور مختلف طریقوں سے بیان کرتے ہیں.ان کی اصل غرض یہی ہوتی ہے کہ تا مخلوق کو نفع پہنچے.الحکم جلد ۹ نمبر ۴۰ مورخه ۱۷ نومبر ۱۹۰۵ صفحه ۹)